مقدمۃ المترجم اِنَّ الْحَمْدَ لِلّٰہِ نَحْمَدُہُ وَالصَّلوٰۃُ وَالسَّلَامُ عَلَی مَنْ لَا نَبِیَّ بَعْدَہُ: بلاشبہ انسان ساری عمر دوسروں سے سیکھ‘ جان کر اور دُوسروں کی راہنمأی کے ذریعے زندگی گزارتا ہے۔ چنانچہ عالم طفولیت کے لا شعور والی عمر میں مدرسہ حجر و مہد(گود و گہوارہ)سے لے کر بچپن و لڑکپن کے کچے شعور اور پھرپختہ عمر تک کے تمام تعلیمی، تدریسی اور تربیتی مراحل تک جسے جس طرح کے مربی و معلم اور ارد گرد کے ماحول میسر آتے ہیں، اس کی زندگی کے تمام شعبہ جات یعنی اس کی طرزِ بودوباش، اندازِ گفتگو، دوسروں سے معاملات، دینی و مذہبی اُمور میں اس کے عقائد و طریقہ ہائے عبادات و اخلاقیات، اجتماعی، جماعتی، اُسروی، ملکی و سیاسی اور معاشرتی احساساتِ ذمہ داری،قوم و ملت اور اپنے دین، دھرم، ازم اور مذہب کے لیے کچھ سر انجام دینے کے لیے افکار و نظریات، معاشی ترقی و محنت وغیرہ وغیرہ… میں اسی طرح سے اُس کی شخصیت پر چڑھا ہوا رنگ نظر آتا ہے۔ جہاں ایک طرف یہ حقیقت ہے کہ انسان کی زندگی میں مذکورہ بالا اُمورِ تکونیہ نہایت مؤثر ثابت ہوتے ہیں وہاں یہ بھی سو فیصد سچ اور حق ہے کہ:﴿اِنَّا خَلَقْنَا الْاِنسَانَ مِنْ نُّطْفَۃٍ اَمْشَاجٍ نَّبْتَلِیْہِ فَجَعَلْنٰہُ سَمِیْعًام بَصِیْرًاo اِنَّا ہَدَیْنٰـہُ السَّبِیْلَ اِمَّا شَاکِرًا وَّاِمَّا کَفُوْرًاo﴾(الدھر:۲،۳)’’ہم نے آدمی کو(عورت مرد کے)ملے ہوئے نطفے سے پیدا کیا اُس کو آزمانے کے لیے اور اس کو سنتا دیکھتا بنایا۔ ہم ہی نے اُس کو رستہ دکھلایا یا تو وہ شکر گزار ہے(مومن)یا ناشکرا(کافر)۔‘‘ یعنی انسان کے خالق و مالک اللہ رب العالمین نے عقل و شعور اور فہم و ادراک والی عظیم نعمت |