Maktaba Wahhabi

آیت نمبرترجمہسورہ نام
1 سورۃ فاتحہ کے اسمائے گرامی اور ان کی وجۂ تسمیہ مقام نزول : مکہ معظمہ، ایک رکوع، آیات سات، الفاظ پچیس اور حروف ایک سو تینتیس ہیں۔ رسول مکرّم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سورۃ فاتحہ کے کئی نام منقول ہیں جن میں سے مشہور نام یہ ہیں : ١۔ فاتحۃ الکتاب : قرآن حکیم کا آغاز اور دنیا وآخرت کے حقائق کے انکشاف کا سر چشمہ۔ (بخاری ومسلم) ٢۔ اُمّ القرآن : قرآن مجید کے عناوین ومضامین کا مرقع۔ (مسلم، سنن نسائی) ٣۔ الشفاء : جسمانی بیماریوں کا علاج، روحانی پریشانیوں کا تریاق۔ (الاتقان) ٤۔ السبع المثانی : نماز میں باربار پڑھی جانے والی سات آیات مقدّسات۔ (القرآن) (بخاری : کتاب التفسیر) فاتحہ اور قرآن مجید کے مضامین قرآن مجید کے مضامین میں پہلا مرکزی مضمون توحید ہے اور فاتحہ کی ابتدا ہی توحید سے ہوتی ہے۔ توحید میں سب سے پہلے اللہ کی ذات، اس کی صفات کا ادراک اور اقرار ہے۔ اللہ تعالیٰ کی ہمہ جہت اور ہمہ گیر صفات میں سب سے بڑی صفت یہ ہے کہ وہ کائنات کا رب ہے جس کے معانی خالق، رازق، مالک اور بادشاہ کے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی صفات میں سب سے بڑی صفت یہ ہے کہ وہ بڑا ہی مہربان نہایت ہی رحم کرنے والا ہے۔ قرآن حکیم کا دوسرا مضمون یہ ہے کہ اس جہاں کے علاوہ اور بھی جہاں ہیں۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ اس دنیا میں تمہارا خالق، مالک، رازق اور بادشاہ ہے اور وہ تمہیں مارنے کے بعد آخرت میں زندہ کرکے اپنی عدالت عظمیٰ میں طلب کرے گا۔ اس دن ہر ایک کو اس کے اعمال کے مطابق جزا اور سزا دے گا۔ وہ عادل ومنصف اور حاکم مطلق ہے اور اس کا سارانظام عدل وانصاف پر مبنی ہے۔ قرآن مجید میں دنیا وآخرت کے بارے میں عدل وانصاف اور جزاء وسزا کے اصول بیان کیے گئے ہیں۔ تیسرا مضمون : جس کو قرآن عبادت کا نام دے کر اس کی فضیلت بیان کرتے ہوئے تقاضا کرتا ہے کہ بندے کا اپنے رب کے ساتھ تعلق طالب و مطلوب، عابد و معبود اور مخلوق وخالق، محکوم وحاکم کا ہونا چاہیے۔ اس کے بغیر زندگی گزارنے کا کوئی دوسراطریقہ ٹھیک نہیں۔ یہی انسان کی زندگی کا مقصد ہے۔ اس لیے اپنے رب کی عبادت کرنا اور اسی سے ہی مدد طلب کرنا چاہیے کیونکہ اس کے اذن اور امر کے بغیر کوئی کسی کی مدد نہیں کرسکتا۔ چوتھا مضمون صراط مستقیم ہے۔ جس کا مفہوم یہ ہے کہ بندے کو اپنے رب کے احکام وارشادات کے مطابق زندگی گزارنا چاہیے۔ صراط مستقیم کا تعیّن فرماتے ہوئے قرآن مجید اس کی تشریح اور تقاضے بیان کرتے ہوئے وضاحت کرتا ہے کہ یہ انعام یافتہ انبیاء، شہداء، صدیقین اور صالحین کا راستہ ہے۔ حضرت آدم (علیہ السلام) سے لے کر نبی آخر الزماں (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تک تمام انبیاء ( علیہ السلام) اسی راستے کی دعوت دیتے رہے۔ اس کے بغیر نہ کوئی صراط مستقیم ہے اور نہ ہی کوئی طریقۂ حیات قابل قبول ہوگا۔ اس سے نبوت کی ضرورت واہمیت از خود عیاں ہوجاتی ہے۔ کیونکہ محمد مصطفی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اسوہ میں ہی عبادات، معاملات کا طریقہ اور اخلاقیات کے تمام تقاضے پورے ہوتے ہیں اور یہی صراط مستقیم ہے۔ پانچواں مضمون : قرآن مجید سورۃ فاتحہ کی زبان میں انعام یافتہ، مغضوب اور گمراہ لوگوں کے حوالے سے قوموں کے عروج وزوال بیان کرتا ہے تاکہ سمع واطاعت اور تسلیم ورضاکا رویّہ اختیار کرنے والوں کو بہترین انجام اور ان کا مرتبہ و مقام بتلایا جائے، باغیوں اور نافرمانوں کو ان کے انجام سے ڈرایاجائے۔ قرآن مجید کے باقی ارشادات واحکامات انہی مضامین کی تفصیلات اور تقاضے ہیں اور یہی قرآن کا پیغام ہے۔ اسی بنیاد پر سورۃ الحمد کو فاتحہ اور ام الکتاب کا نام دے کر اس کو کتاب مبین کی ابتداء میں رکھا گیا ہے۔ ادبی زبان میں ہم اس طرح کہہ سکتے ہیں : * فاتحہ ابتدا ہے * قرآن اس کی تکمیل * فاتحہ دعا ہے * قرآن اس کا جواب * فاتحہ عنوان ہے * قرآن اس کا مضمون * فاتحہ خلاصہ ہے * قرآن اس کی تفصیل * فاتحہ پھول ہے * قرآن اس کی خوشبو ہے * فاتحہ دروازہ ہے * قرآن اس کا محل ہے فاتحہ کی فضیلت ( عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ (رض) قالَ بَیْنَمَا جِبْرِیْلُ قَاعِدٌ عِنْدَ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سَمِعَ نَقِیْضًا مِّنْ فَوْقِہٖ فَرَفَعَ رَأْسَہٗ فَقَالَ ہٰذَا بَابٌ مِّنَ السَّمَآءِ فُتِحَ الْیَوْمَ لَمْ یُفْتَحْ قَطُّ إِلَّا الْیَوْمَ فَنَزَلَ مِنْہُ مَلَکٌ فَقَالَ ہٰذَا مَلَکٌ نَزَلَ إِلَی الْأَرْضِ لَمْ یَنْزِلْ قَطُّ إِلَّا الْیَوْمَ فَسَلَّمَ فَقَالَ أَبْشِرْ بِنُوْرَیْنِ أُوْتِیْتَھُمَا لَمْ یُؤْتَھُمَا نَبِیٌّ قَبْلَکَ فَاتِحَۃِ الْکِتَابِ وَخَوَاتِیْمِ سُوْرَۃِ الْبَقَرَۃِ لَنْ تَقْرَأَ بِحَرْفٍ مِّنْھُمَا إِلَّا أُعْطِیْتَہٗ) (رواہ مسلم : کتاب صلاۃ المسافرین وقصرھا، باب فضل الفاتحۃ) ” حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک دن حضرت جبرئیل (علیہ السلام) رسول اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس بیٹھے ہوئے تھے۔ اس دوران انہوں نے اوپر سے ایک زور دار آواز سنی اور اپنا سر اٹھا کر فرمایا کہ آسمان کا جو دروازہ آج کھولا گیا ہے یہ اس سے پہلے کبھی نہیں کھولا گیا۔ اس دروازے سے ایک فرشتہ نازل ہوا یہ ایسا فرشتہ ہے جو آج ہی زمین پر نازل ہوا ہے اس سے پہلے کبھی نہیں اترا۔ پھر اس فرشتے نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سلام کیا اور کہا دو نوروں کی خوشخبری سنیے ! یہ دونوں نور آپ ہی کو عطا کیے گئے ہیں اور آپ سے پہلے کسی نبی کو عطا نہیں ہوئے۔ ایک فاتحۃ الکتاب اور دوسراسورۃ البقرۃ کی آخری آیات۔ آپ ان دونوں میں سے کوئی کلمہ تلاوت کریں گے تو آپ کی مانگی مراد پوری ہوجائے گی۔“ فاتحہ کی فرضیت (قَال اللّٰہُ تَعَالٰی قَسَمْتُ الصَّلٰوۃَ بَیْنِیْ وَبَیْنَ عَبْدِیْ نِصْفَیْنِ وَلِعَبْدِیْ مَاسَأَلَ فَإِذَا قَالَ الْعَبْدُ أَ لْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ قَال اللّٰہُ تَعَالٰی حَمِدَنِیْ عَبْدِیْ وَإِذَا قَال الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ قَال اللّٰہُ أَثْنٰی عَلَیَّ عَبْدِیْ وَإِذَا قَالَ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ قَالَ مَجَّدَنِیْ عَبْدِیْ وَقَالَ مَرَّۃً فَوَّضَ إِلَیَّ عَبْدِیْ فَإِذَا قَالَ إِیَّاکَ نَعْبُدُ وَإِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ قَالَ ہٰذَا بَیْنِیْ وَبَیْنَ عَبْدِیْ وَلِعَبْدِیْ مَاسَأَلَ فَإِذَا قَالَ إِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ صِرَاطَ الَّذِیْنَ أَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِ الْمََغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ قَالَ ہٰذَا لِعَبْدِیْ وَلِعَبْدِیْ مَا سَأَلَ) (رواہ مسلم : کتاب الصلوۃ، باب وجوب قراء ۃ الفاتحۃ) ” اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ نماز کو میں نے اپنے اور اپنے بندے کے درمیان نصف نصف تقسیم کرلیا ہے۔ میرے بندے کے لیے وہ کچھ ہے جو اس نے مانگا۔ جب بندہ کہتا ہے ” أَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ“ اللہ فرماتا ہے میرے بندے نے میری تعریف کی۔ جب بندہ کہتا ہے ” اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ“ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میرے بندے نے میری حمد وستائش کی۔ جب بندہ کہتا ہے۔ ” مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ“ تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میرے بندے نے میری بزرگی کا اقرار کیا۔ ایک مرتبہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ بھی فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے میرے بندے نے اپنے کام کو میرے سپرد کردیا۔ جب بندہ عرض کرتا ہے :” إِیَّاکَ نَعْبُدُ وَإِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ“ تو اللہ فرماتا ہے یہ میرے اور میرے بندے کا معاملہ ہے۔ میں نے اپنے بندے کو عطا کیا جو اس نے مانگا۔ جب بندہ درخواست کرتا ہے۔”إِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ صِرَاطَ الَّذِیْنَ أَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِ الْمََغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ“ تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یہ میرے بندے کے لیے ہے اور میرے بندے کو وہ چیز مل جائے گی جس کا اس نے سوال کیا۔“ فاتحہ کی عظمت (قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہٖ مَآ أُنْزِلَتْ فِی التَّوْرَاۃِ وَلَا فِی الْإِنْجِیْلِ وَلَا فِی الزَّبُوْرِ وَلَا فِی الْفُرْقَانِ مِثْلَھَا وَإِنَّھَا سَبْعٌ مِّنَ الْمَثَانِیْ وَالْقُرْاٰنُ الَّذِیْ أُعْطِیْتُہٗ)[ رواہ الترمذی : فضائل القرآن، باب ماجاء فی فضل فاتحۃ الکتاب] ” رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے۔ اس سورت جیسی کوئی سورۃ تورات، انجیل، زبور اور قرآن مجید میں نازل نہیں ہوئی۔ یقینًا یہ بار بار پڑھی جانے والی سات آیات ہیں اور قرآن عظیم ہے جو مجھے عطا کیا گیا ہے۔“ فاتحہ اور نماز (قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لَاصَلٰوۃَ لِمَنْ لَّمْ یَقْرَأْ بِفَاتِحَۃِ الْکِتَابِ) (رواہ البخاری : کتاب الأذان، باب وجوب القرأۃ للإمام والمأموم فی الصلوات کلھا) ” رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اس شخص کی نماز نہیں ہوتی جس نے فاتحہ نہیں پڑھی۔“ x رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : (کُلُّ اَمْرٍ ذِیْ بَالٍ لَایُفْتَحُ بِذِکْرِ اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ فَہُوَ اَبْتَرُ اَوْقَالَ اَقْطَعُ) [ مسند احمد : کتاب باقی مسند المکثرین، باب باقی المسند السابق] ” جس کام کی ابتدا اللہ کے ذکر سے نہ کی جائے وہ بے برکت اور نامکمل ہے۔“ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حکم کے مطابق ہر کام کی ابتدا بسم اللہ یعنی اللہ کے اسم مبارک سے کرنا چاہیے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سنت مبارکہ اور ارشاد ات سے ثابت ہوتا ہے کہ ہر کام کی ابتدا بسم اللہ سے کرنے سے مراد بسم اللہ کے الفاظ پڑھنا نہیں بلکہ کام اور موقع کی مناسبت سے اللہ تعالیٰ کو یاد کرنا اور اس کا نام لینا ہے تاکہ اس اسم مبارک سے ابتدا کرتے ہوئے کام اور موقع کا احساس آدمی کو رب کریم کے قریب کردے جیسا کہ سونے اور نیند سے بیدار ہونے کے وقت دعا کے الفاظ احساس دلاتے ہیں کہ نیند اور بیداری، موت اور زندگی کی طرح آپس میں جڑے ہوئے ہیں۔ ہر آدمی کو ایسے ہی مرنا اور اٹھنا ہوگا۔ جانور ذبح کرتے وقت اللہ کا نام لینے سے تصور ابھرتا ہے کہ بڑائی اور کبریائی اللہ کی ذات کو زیبا ہے۔ یہ اللہ کا مال ہے اس پر کسی غیر کا نام لینے کی بجائے صرف مالک حقیقی کا نام ہی لینا چاہیے۔ قرآن مجید میں یہی حکم دیا گیا ہے کہ ذبح کرتے وقت جانور پر اللہ تعالیٰ کا نام لیا کرو۔ سواری پر برا جمان ہوتے ہوئے لفظ ” سُبْحَانَ الَّذِیْ“ سے دعا کا آغاز کرتے ہوئے یہ خیال آنا چاہیے کہ جس مالک نے اس کو میرے تابع کیا ہے مجھے بھی اس ذات کبریا کا تابع فرمان ہونا چاہیے۔ سواری کو حاصل اور مطیع کرنا میرے بس کا روگ نہیں تھا۔ قرآن مجید کی تلاوت سے پہلے بسم اللہ پڑھنے کی بجائے اللہ تعالیٰ کا حکم ہے : (فَإِذَا قَرَأْتَ الْقُرْآنَ فَاسْتَعِذْ باللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ۔ )[ النحل : ٩٨] ” جب قرآن مجید کی تلاوت شروع کرو توشیطان مردود سے اللہ کی پناہ مانگو۔“ ثابت ہے کہ موقع کی مناسبت سے ہر کام کا آغاز رب کریم کے مبارک نام سے ہونا چاہیے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشاد میں یہ فلسفہ پایا جاتا ہے کہ جب کوئی کام شروع کیا جائے تو اس پر اللہ کا نام لیتے ہوئے احساس پیدا ہو کہ جو کام کرنا چاہتاہوں وہ میرے لیے جائز بھی ہے یا نہیں۔ اگر کام حرام اور ناجائز ہو تو مومن کو اللہ کے نام کی لاج رکھتے ہوئے اس کام سے باز آنا چاہیے۔ جائز کام کی ابتدا میں بسم اللہ پڑھنے سے آدمی کا عقیدہ تازہ اور پختہ ہوجائے گا کہ اس کام کی ابتدا رحمن ورحیم کی مہربانی کا نتیجہ ہے اور اس کی تکمیل بھی اس کے کرم کا صلہ ہے۔ ” بسم اللہ“ ہر سورۃ کا حصہ ہونے یانہ ہونے کے بارے میں میرا رجحان ان دلائل کی طرف ہے جن سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ ہر سورت کا حصہ نہیں اس سے سورت کی ابتدا ہونے کے ساتھ دوسورتوں میں فرق کا پتہ چلتا ہے البتہ سورۃ فاتحہ اور سورۃ النمل کی آیت ٩٨ ہونے کے حوالے سے یہ قرآن مجید کا جز وہے۔ (عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ (رض) قالَ کَان النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لَایَعْرِفُ فَصْلَ السُّوْرَۃِ حَتّٰی تُنْزَلَ عَلَیْہِ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ) (رواہ ابوداؤد : کتاب الصلاۃ، باب من جھر بھا) ” حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سورت کے فرق کو نہیں سمجھ سکتے تھے یہاں تک کہ ” بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ“ نازل ہوئی۔“ (إذا قرأتم الحمد للہ فاقرء وابسم اللہ الرحمن الرحیم إنہا أمالقرآن و أم الکتاب و السبع المثانی وبسم اللہ الرحمن الرحیم إحداہا) (السلسۃ الصحیحۃ : ١١٨٣) ” جب تم سورۃ فاتحہ کی قراءت کرو تو اس کا آغاز بسم اللہ الرحمن الرحیم سے کرو یہ ام القرآن اور ام الکتاب اور باربار پڑھی جانے والی ہے، اور بسم اللہ الرحمن الرحیم اس کی آیات میں سے ایک ہے۔“ ۔۔ نماز میں فاتحہ سے لکھنا ہے اسم ” اللہ“ کی خصوصیت ” اللہ“ کا نام صرف اور صرف خالق کائنات کی ذات کو زیبا اور اس کے لیے مختص ہے۔ یہ اس کا ذاتی نام ہے اس اسم مبارک کے اوصاف اور خواص میں سے ایک خاصہ یہ بھی ہے کہ کائنات میں انتہادرجے کے کافر، مشرک اور بدترین باغی انسان گزرے ہیں اور ہوں گے۔ جن میں اپنے آپ کو داتا، مشکل کشا، موت وحیات کا مالک کہنے والے حتی کہ اَنَا رَبُّکُمُ الْاَعْلٰٰیکہلوانے والا بھی ہوا ہے۔ مگر اس نام کی جلالت وہیبت کی وجہ سے اپنے آپ کو ” اللہ“ کہلوانے کی کوئی جرأت نہیں کرسکا اور نہ کرسکے گا۔ مکے کے مشرک اپنے بتوں کو سب کچھ مانتے اور کہتے تھے لیکن وہ بتوں کو ” اللہ“ کہنے کی جرأت نہیں کرسکے تھے۔ ” اللہ“ ہی انسان کا ازلی اقرار اور اس کی فطری آواز ہے جس بنا پر ہر کام ” بِسْمِ اللّٰہ“ سے شروع کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ یہ اسم مبارک اپنے آپ میں خالقیت، مالکیت، جلالت وصمدیت، رحمن ورحیمیت کا ابدی اور سرمدی تصور لیے ہوئے ہے۔ قرآن مجید میں اللہ کا نام 2697 مرتبہ آیا ہے۔ ایمان کی تازگی کے لیے چند مقامات تلاوت کیجیے۔ 1۔ اللہ ہی خالق ہے : (اَللّٰہُ خَالِقُ کُلِّ شَیْءٍ) (الزمر : ٦٢) 2۔ اللہ ہی رازق ہے : (إِنَّ اللّٰہَ ھُوَ الرَّزَّاقُ ذو الْقُوَّۃِ الْمَتِیْنُ) (الذاریات : ٥٨) 3۔ اللہ ہی معبود حقیقی ہے : (شَھِدَ اللّٰہُ أَنَّہٗ لَآاِلٰہَ إِلَّا ھُوَ) (آل عمران : ١٨) 4۔ اللہ ہی اقتدار، زوال اور عزت وذلّت کا مالک ہے : (قُلِ اللّٰھُمَّ مَالِکَ الْمُلْکِ تُؤْتِی الْمُلْکَ مَنْ تَشَآءُ وَتَنْزِعُ الْمُلْکَ مِمَّنْ تَشَاءُ وَتُعِزُّ مَنْ تَشَآءُ وَتُضِلُّ مَنْ تَشَآءُ) (آل عمران : ٢٦) 5۔ اللہ ہی حاکم مطلق اور خالق کل ہے : (اَلَا لَہُ الْخَلْقُ وَالْاَمْرُ) (الأعراف : ٥٤) 6۔ اللہ ہی مالک اور ہر چیز پر قادر ہے : (تَبَارَکَ الَّذِیْ بِیَدِہِ الْمُلْکُ وَھُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ۔) (الملک : ١) 7۔ اللہ ہی مشکل کشا اور حاجت روا ہے : (أَمَّنْ یُّجِیْبُ الْمُضْطَرَّ إِذَا دَعَاہُ وَیَکْشِفُ السُّوْ ءَ) (النمل : ٦٢) 8۔ اللہ ہی اول وآخر اور ظاہر وباطن ہے : (ھُوَ الْاَوَّلُ وَالْاٰخِرُ وَالظَّاھِرُ وَالْبَاطِنُ) (الحدید : ٣) 9۔ اللہ ہی غیب اور ظاہر کو جانتا ہے : (عَالِمُ الْغَیْبِ وَالشَّھَادَۃِ) (الحشر : ٢٢) 0۔ اللہ ہی موت وحیات پر اختیار رکھنے والا ہے : (اَلَّذِیْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَیَاۃَ) (الملک : ٢) !۔ اللہ ہی زمین و آسمان کا نور ہے : (اَللّٰہُ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَالْأَرْضِ) (النور : ٣٥) @۔ اللہ ہی ہدایت دینے والا ہے : (وَاللّٰہُ یَھْدِیْ مَنْ یَّشَآءُ إِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْم۔) (البقرۃ: ٢١٣) #۔ اللہ ہی مومنوں کا دوست ہے : (اَللّٰہُ وَلِیُّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا) (البقرۃ: ٢٥٧) $۔ اللہ ہی کفار کو گھیرنے والا ہے : (وَاللّٰہُ مُحِیْطٌ م بالْکَافِرِیْنَ) (البقرۃ: ١٩) %۔ اللہ ہی قیامت کے دن کا مالک ہے : (مَالِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ) (الفاتحۃ: ٣) الفاتحة
2 فہم القرآن اللہ کائنات کے رب نے اپنی مخلوق کی پرورش کا بندوبست ایسے مضبوط نظام کے ساتھ فرمایا ہے کہ ہر چیز کو زندگی اور اس کی بقا کے لیے جو کچھ اور جس قد رچاہیے اسے اسی حالت اور مقام پر پہنچایا جارہا ہے۔ پتھر کا کیڑا چاروں طرف بند چٹان کے اندر اپنی خوراک لے رہا ہے، مرغی کا بچہ انڈے میں پل رہا ہے، مچھلیاں دریا میں، پرندے فضا میں اور درندے صحرا میں اپنی اپنی خوراک لے رہے ہیں اور اپنے ماحول میں مطمئن اور خوش وخرم دکھائی دیتے ہیں۔ ہر دانہ اپنی آغوش میں زندگی اور ہر بیج اپنے سینے میں نشوونما کا سامان لیے ہوئے ہے۔ یہاں تک کہ پھول کی کلی کو جس ہوا اور فضا کی ضرورت ہے اسے مہیا کی جارہی ہے۔ زندگی کے لیے ہوا اور پانی اس قدر لازمی جزہیں کہ ان کے بغیر زندگی لمحوں کی مہمان ہوتی ہے۔ یہ اتنے ارزاں اور وافر ہیں کہ اس کا اندازہ ہی نہیں کیا جاسکتا۔ اس لیے قرآن نے اللہ کی ہستی کا تعارف رب اور اس کے نظام ربوبیت سے بات کا آغاز کیا ہے تاکہ انسان کا وجدان پکار اٹھے کہ مجھے اس ہستی کا شکر ادا کرنا اور تابع فرمان رہنا ہے جس نے مجھے پیدا کیا ہے۔ اور یہ نظام اس بات کی دلیل ہے کہ یہ کسی منتظم کے بغیر جاری اور قائم نہیں رہ سکتا ایک زندہ ضمیر شخص جب اپنے چاروں طرف رب کی ربوبیت کے اثرات ونشانات دیکھتا ہے تو اس کے دل کا ایک ایک گوشہ پکار اٹھتا ہے۔ (فَتَبَارَکَ اللّٰہُ أَحْسَنُ الْخَالِقِیْنَ۔) [ المؤمنون : ١٤] ” اللہ تعالیٰ برکت والا اور بہترین پیدا کرنے والا ہے۔“ مانگنے کا صحیح طریقہ اور اسلامی تہذیب کا جزو لازم ہے کہ انسان ہر حال میں اپنے رب کا حمد خواں اور شکر گزار رہے۔ حمدگوئی سے یہ بات خود بخود ثابت ہوتی ہے کہ یہ سب کچھ اللہ ہی کی عطا اور ملکیت ہے۔ اور انسان انتہائی ناتواں اور بے بس ہے۔ اس سے انسان کے دل میں یہ عقیدہ بھی جڑ پکڑتا ہے کہ جمال وکمال کسی کا اپنا نہیں بلکہ اللہ ہی کا عطا کردہ ہے۔ اس لیے حقیقی اور ہمہ وقتی حمد وستائش اسی مالک کو زیبا ہے۔ پھر مالک بھی ایسا جو صرف انسانوں اور جنّات کا ہی نہیں وہ تو حیوانات، جمادات، نباتات حتی کہ ارض وسمٰوٰت کا رب ہے۔ جو ابتدا سے انتہا تک ہر چیز کی ضرورت کو کمال رحمت اور ربوبیت سے پورا کررہا ہے۔ حمد میں دوسرے کی ذات کی بڑائی اور اس کے احسانات کا احساس و اعتراف پایا جاتا ہے۔ قرآن مجید ابتداہی میں انسان کو یہ باور کرواتا ہے کہ کائنات کا ذرّہ ذرّہ اپنے رب کی تعریف وتوصیف اور حمد وشکر بیان کرنے میں لگا ہوا ہے۔ (سَبَّحَ لِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْأَرْضِ وَہُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ )[ الحشر : ١] ” زمین و آسمان میں موجود ہر چیز اللہ کی تسبیح بیان کرتی ہے اور وہ غالب حکمت والاہے۔“ اے انسان! اشرف المخلوقات ہونے کی حیثیت سے تجھے مانگنے سے پہلے اپنے رب کی حمد وشکر اور اس کی عنایت و عطا کا اعتراف کرتے ہوئے پہلے اپنے رب کا شکر ادا کرنا چاہیے۔ کیونکہ شکر گزار ہی تابع فرمان ہوا کرتے ہیں۔ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا یوں بیان کیا کرتے تھے : (أَللّٰھُمَّ أَعُوْذُ بِرِضَاکَ مِنْ سَخَطِکَ وَبِمُعَافَاتِکَ مِنْ عُقُوْبَتِکَ وَأَعُوْذُ بِکَ مِنْکَ لَآأُحْصِیْ ثَنَاءً عَلَیْکَ أَنْتَ کَمَآ أَثْنَیْتَ عَلٰی نَفْسِکَ) [ رواہ مسلم : کتاب الصلاۃ، باب مایقال فی الرکوع والسجود] ” اے اللہ! میں تیری رضا مندی کے ذریعے تیری ناراضی سے اور تیری معافی کے ذریعے تیری سزا سے پناہ مانگتاہوں اور میں تجھ سے تیری پناہ مانگتاہوں میں اس طرح تیری تعریف نہیں کرسکتا جس طرح تیری شایان شان ہے۔“ (سُبْحَان اللّٰہِ وَبِحَمْدِہٖ عَدَدَ خَلْقِہٖ وَرِضَانَفْسِہٖ وَزِنَۃَ عَرْشِہٖ وَمِدَادَ کَلِمَاتِہٖ) [ رواہ مسلم : کتاب الذکر والدعاء والتوبۃ والإستغفار، باب التسبیح أول النھار وعند النوم ] ” اللہ کی پاکی اس کی تعریف کے ساتھ اس کی مخلوق کی تعداد، اس کے نفس کی رضا، اس کے عرش کے وزن اور اس کے کلمات کی مقدار کے برابر۔“ حدیث الحمد کی فضیلت۔۔ مسائل ١۔ تمام تعریفات اللہ کے لیے ہیں اور کائنات کا ذرّہ ذرّہ اس کی حمد وستائش کرتا ہے۔ تفسیر بالقرآن حمد اللہ تعالیٰ کے لیے ہے : ١۔ تمام تعریفیں جہانوں کو پالنے والے کے لیے ہیں۔ (الانعام : ٤٥) ٢۔ اللہ کی حمدوثنا بیان کرنا مومنوں کی صفت ہے۔ ( التوبۃ: ١١٢) ٣۔ صبح وشام اللہ کی حمد بیان کرنے کا حکم ہے۔ ( فاطر : ٥٥) ٤۔ بجلی کی کڑک اور فرشتے بھی اللہ کی حمد بیان کرتے ہیں۔ ( الرعد : ١٣) ٥۔ کائنات کی ہر چیز اللہ کی ثنا خواں ہے۔ (بنی اسرائیل : ٤٤) الفاتحة
3 فہم القرآن رحمن فعلان کے وزن پر مبالغے یعنی سپر ڈگری (Super Degree) اور رحیم فعیل کے وزن پر اسم صفت مشبہ (۔۔ لکھنا ہے) کے صیغے ہیں۔ اہل علم کے نزدیک رحمن کی صفت سب کے لیے ہے اور اللہ تعالیٰ کا رحیم ہونا صرف مومنوں کے لیے خاص ہے۔ الرحمن : لامتناہی اور رحمت مجسم کا ترجمان ہے اور لفظ ” الرحیم“ کائنات پر نازل ہونے والی مسلسل اور دائمی رحمت کی ترجمانی کرتا ہے۔ اس لحاظ سے معنٰی یہ ہوا کہ وہ ” اللہ“ بے انتہا مہربان‘ ہمہ وقت اور ہر حال میں رحم فرمانے والا ہے۔ فرق یہ ہے کہ رحیم کسی مشفق شخصیت کو کہا جاسکتا ہے مگر کسی کو اللہ تعالیٰ کے علاوہ ” الرحمن“ کہنا بہت بڑا گناہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کی ربوبیت اور رحیمیت کسی اضطرار اور مجبوری کی وجہ سے نہیں بلکہ یہ اس کی رحمانیت کا عین تقاضا ہے۔ اس صفت کا تذکرہ قرآن مجید میں مختلف الفاظ اور انداز میں پایا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انسان جس قدر سرکشی اور بغاوت پر اتر آئے لیکن جب اللہ کے حضور یہ کہتے ہوئے آب دیدہ ہوتا ہے کہ الٰہی! میرے جرائم اور خطاؤں کی آندھیوں نے میرے گلشن حیات کو برباد کردیا ہے۔ جس طرح تو ویران وادیوں، تپتے ہوئے صحراؤں اور اجڑے ہوئے باغوں کو اپنے کرم کی بارش سے سرسبز وشاداب بنا دیتا ہے اسی طرح مجھے بھی حیات نو سے ہمکنار کردے۔ بندۂ مومن کی عاجزی اور سرافگندگی پر رحمن ورحیم کی رحمت کے سمندر میں ایک تلاطم برپا ہوجاتا ہے۔ جس کی وسعتوں کا تذکرہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یوں فرمایا کرتے تھے کہ اللہ کی رحمت اس قدر وسیع وعریض ہے جیسے بحر بیکراں میں سوئی ڈبو کر نکال لی جائے تو اس سے سمندر کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ایسے ہی کائنات کے تمام جن وانس کی حاجات اور تمناؤں کو پورا کردیا جائے تو اللہ تعالیٰ کی رحمت کے سمندر میں سوئی ڈبو کر باہر نکال لینے کے برابربھی کمی واقع نہیں ہوتی۔ [ رواہ مسلم : کتاب البر والصلۃ و الآداب، باب تحریم الظلم] اللہ تعالیٰ معافی اور درگزر سے کام لیتا ہے کیونکہ اس نے ابتدائے آفرینش سے لکھ رکھا ہے کہ میری رحمت میرے غضب پر غالب رہے گی۔ [ رواہ البخاری : کتاب التوحید، باب قول اللہ تعالیٰ ویحذرکم اللہ نفسہ] مومنوں کے لیے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ میری رحمت وشفقت ہر آن ان کے قریب رہتی ہے۔ (رَحْمَتِیْ وَسِعَتْ کُلَّ شَیْءٍ) [ الأعراف : ١٥٦] ” میری رحمت تمام اشیاء پر محیط ہے۔“ (کَتَبَ رَبُّکُمْ عَلٰٰی نَفْسِہِ الرَّحْمَۃَ) [ الأنعام : ٥٤] ” تمہارے رب نے اپنے اوپر رحمت کو لازم کرلیا ہے۔“ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَقُوْلُ لَنْ یُّدْخِِلَ أَحَدًا عَمَلُہُ الْجَنَّۃَ قَالُوْا وَلَآ أَنْتَ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ قَالَ لَا وَلَآ أَنَا إِلَّا أَنْ یَّتَغَمَّدَنِیَ اللّٰہُ بِفَضْلٍ وَّرَحْمَۃٍ فَسَدِّدُوْا وَقَارِبُوْا وَلَا یَتَمَنَّیَنَّ أَحَدُکُمُ الْمَوْتَ إِمَّامُحْسِنًا فَلَعَلَّہٗ أَنْ یَّزْدَادَ خَیْرًا وَإِمَّا مُسِیْءًا فَلَعَلَّہٗ أَنْ یَّسْتَعْتِبَ) [ رواہ البخاری : کتاب المرضٰی، باب تمنی المریض الموت] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا آپ فرماتے تھے کہ کسی کو اس کے عمل جنت میں داخل نہیں کریں گے۔ صحابہ کرام (رض) نے عرض کیا اے اللہ کے پاک نبی! آپ بھی نہیں ؟ آپ نے فرمایا ہاں ! میں بھی نہیں سواۓ اس کے کہ اللہ اپنے فضل و رحمت سے مجھے نوازدے۔ اس لیے میانہ روی اختیار کرو اور قریب قریب چلو۔ تم میں کوئی شخص موت کی تمنا نہ کرے کیونکہ وہ نیک ہوگا تو اس کے اعمال میں اضافہ ہوجائے گا۔ اگر وہ برا ہے تو ممکن ہے وہ توبہ کرلے۔“ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعا : (اَللّٰھُمَّ رَحْمَتَکَ أَرْجُو فَلَا تَکِلْنِیْ إِلٰی نَفْسِیْ طَرْفَۃَ عَیْنٍ وَّأَصْلِحْ لِیْ شَأْنِیْ کُلَّہٗ لَآإِلٰہَ إِلَّآ أَنْتَ) [ رواہ ابوداؤد : کتاب الأدب، باب مایقول إذا أصبح ] ” اے اللہ! میں تیری رحمت کا طلب گار ہوں مجھے آنکھ جھپکنے کے برابر بھی میرے نفس کے سپرد نہ کرنا اور میرے سب کاموں کی اصلاح فرما تیرے سوا کوئی معبود نہیں۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نہایت ہی مہربان اور رحم کرنے والا ہے۔ ٢۔ اللہ کی شفقت ومہربانی نے زمین و آسمان کا احاطہ کر رکھا ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ کی رحمت کی وسعتیں : ١۔ اللہ ایک ہے‘ بڑا مہربان اور رحم کرنے والا ہے۔ ( البقرۃ: ١٦٣) ٢۔ سب کچھ جاننے کے باوجود نہایت ہی مہربان اور رحم کرنے والا ہے۔ (الحشر : ٢٢) ٣۔ اس کی رحمت ہر چیز کو گھیرے ہوئے ہے۔ (الاعراف : ١٥٦) ٤۔ اللہ تعالیٰ نے لوگوں پر مہربانی کرنا از خود اپنے آپ پر لازم قرار دے لیا ہے۔ (الانعام : ٥٤) ٥۔ اس کی رحمت سے مایوس نہیں ہونا چاہیے۔ (الزمر : ٥٣) ٦۔ اللہ کی رحمت نیک لوگوں کے قریب ہوا کرتی ہے۔ (الاعراف : ٥٦) حوالہ۔۔ اللہ کی رحمت نے ہر چیز کا احاطہ کر رکھا ہے۔ الفاتحة
4 فہم القرآن اس سورۃ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ کی چوتھی صفت جو بیان ہورہی ہے وہ قرآن مجید کا تیسرا مرکزی مضمون ہے۔ اللہ جزاء وسزا کے دن کا مالک ہے۔ قیامت کے دن پر ایمان لانا اسلام کے بنیادی عقائد اور اس کی ابتدائی تعلیم میں شامل ہے۔ اللہ تعالیٰ کی ربوبیت یعنی اس کی ان گنت نعمتوں اور بے پایاں رحمتوں کے تذکرے کے بعد ” مَالِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ“ کا ذکر اس لیے کیا گیا ہے کہ کہیں انسان اس کی رحمت و شفقت دیکھ کر اس غلط فہمی میں مبتلا نہ ہوجائے کہ مجھے میرے کیے دھرے پر پوچھا ہی نہیں جائے گا اور انسان کو دنیا میں ہمیشہ رہنا ہے۔ اس فرمان میں یہ بتلایا گیا ہے کہ اے انسان! ناصرف تجھے موت آنی ہے بلکہ موت کے بعد تو اٹھایا اور اللہ کے حضور پیش کیا جائے گا پھر تجھے اپنی ایک ایک حرکت اور عمل کا پورا پورا حساب دینا ہے اور جزا یا سزا سے تیرا واسطہ پڑنا ہے۔ قرآن مجید کے عظیم مفسر اور نکتہ دان حضرت امام فخر الدین رازی (رح) لکھتے ہیں کہ سورۃ الفاتحہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنے اسم اعظم کے ساتھ چار صفات کا ذکر فرمایا ہے۔ جس میں یہ واضح کیا ہے کہ اے انسان! میں ہی وہ اللہ ہوں جس نے تجھے پیدا کیا اور میں ہی اپنی آغوش نعمت میں تیری پرورش کرتا ہوں۔ تجھ سے کوئی خطا ہوجائے تو بے پایاں رحمت کے ساتھ تیری پردہ پوشی کرتا ہوں۔ جب تو میری بارگاہ میں معذرت پیش کرتا ہے تو میں ہی تیری خطاؤں کو معاف کرنے والا ہوں۔” مَالِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ“ کی صفت میں یہ اشارہ دیا ہے کہ نیک اعمال کے بدلے قیامت کے دن تجھے پوری پوری جزائے خیر سے نوازا جائے گا۔ مالک کا لفظ استعمال فرما کر یہ واضح کردیا گیا کہ اس دن کا برپا ہونا بدیہی امر ہے۔ اس دن نیک وبد کو سزا دلوانے یا معاف کروانے کا کسی کو اختیار نہیں ہوگا۔ بڑے بڑے سرکش اور نافرمان خمیدہ کمر اور سر جھکائے رب کبریا کی عدالت میں ذلت ورسوائی کی حالت میں پیش کئے جائیں گے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کا دوسرا عکس ہے کیونکہ اس کے بغیر نیکوں کو پوری پوری جزا اور نافرمانوں کو ٹھیک ٹھیک سزا نہیں مل سکتی۔ اس لیے عقیدۂ آخرت ایمان کا اہم جزقرار پایا ہے۔ اس دن انبیائے کرام (علیہ السلام) بھی نفسا نفسی کے عالم میں ہوں گے اور رب ذوالجلال دنیا کے سفّاک، ظالم اور متکبر حکمرانوں اور انسانوں کو اس طرح خطاب کرے گا۔ حضرت عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ زمینوں اور آسمانوں کو یکجا کرکے اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے فرمائیں گے کہ میں ہی بادشاہ ہوں۔ ظالم وسفّاک اور نخوت وغرور رکھنے والے آج کہاں ہیں ؟ (یَقُوْلُ اَنَا الْمَلِکُ اَیْنَ الْجَبَّارُوْنَ أَیْنَ الْمُتَکَبِّرُوْنَ.) (رواہ مسلم : کتاب صفۃ القیامۃ والجنۃ والنار ) دین کے معانی : اطاعت وبندگی۔ (الزمر : ١١) شریعت : (یونس : ١٠٤) قانون : (یوسف : ٧٦) حکمرانی : (المومن : ٥٦) جزاء وسزا (بدلہ): (الذاریات : ٦) مسائل ١۔ قیامت کے برپا ہونے میں کوئی شک نہیں اس دن نیکوں کو جزا اور بروں کو سزا ملے گی۔ ٢۔ قیامت کے دن پر ایمان لانا فرض ہے۔ تفسیر بالقرآن قیامت برپا ہو کر رہے گی : ١۔ قیامت قریب ہے۔ (الحج : ١) ٢۔ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ سوال کرے گا کہ آج کس کی بادشاہی ہے؟۔ (المومن : ١٦) ٣۔ قیامت کے دن کوئی کسی کو فائدہ نہیں دے سکے گا۔ (الانفطار : ١٩) ٤۔ قیامت کے دن ” اللہ“ ہی کی بادشاہی ہوگی۔ (الفرقان : ٢٦) ٥۔ قیامت کے دن ” اللہ“ ہی فیصلے صادر فرمائے گا۔ (الحج : ٥٦) مختلف مراحل کے حوالے سے قیامت کے اہم ترین نام : ١۔ اَلسَّاعَۃُ (الاعراف : ١٨٧) گھڑی ( مقرر وقت) ٢۔ یَوْمُ الْقِیَامَۃِ (البقرۃ: ١١٣) کھڑے ہونے کا دن (مُردوں کے کھڑے ہونے کا دن) ٣۔ اَلْیَوْمُ الْحَقُّ (النباء : ٣٩) سچا دن (جس کے آنے میں نہ کوئی شک ہے اور نہ اس دن کسی فیصلہ میں کوئی غلطی ہوگی) ٤۔ یَوْمٌ مَّعْلُوْمٌ (الشعراء : ٣٨) جانا ہوا دن یا مقررہ دن) ٥۔ اَلْوَقْتُ الْمَعْلُوْمُ (الحجر : ٣٨) جانا ہوا وقت یا مقررہ وقت) ٦۔ اَلْیَوْمُ الْمَوْعُوْدُ (البروج : ٢) وعدے کا دن) ٧۔ اَلْیَوْمُ الْاٰخِرُ (النساء : ٣٨) پچھلا دن) ٨۔ یَوْمُ الْاٰزِفَۃِ (المومن : ١٨) قریب آنے والی مصیبت کا دن) ٩۔ یَوْمٌ عَسِیْرٌ (المدثر : ٩) سخت دن) ١٠۔ یَوْمٌ عَظِیْمٌ (الانعام : ١٥) بڑا دن) ١١۔ یَوْمٌ عَصِیْبٌ (ہود : ٧٧) سخت دن) ١٢۔ یَوْمُ الْبَعْثِ (الروم : ٥٦) جی اٹھنے کا دن) ١٣۔ یَوْمُ التَّلَاقِ (المومن : ١٥) ( افسوس کا دن) ١٤۔ یَوْمُ التَّلَاقِ (المومن : ١٥) باہم ملنے کا دن) ١٥۔ یَوْمُ التَّنَادِ (المومن : ٣٢) پکار کا دن) ١٦۔ یَوْمُ الْجَمْعِ (الشوری : ٧) اکٹھا ہونے کا دن) ١٧۔ یَوْمُ الْحِسَابِ (ص : ١٦) حساب کا دن ١٨۔ یَوْمُ الْحَسْرَۃِ (مریم : ٣٩) حسرت کا دن ( ١٩۔ یَوْمُ الْخُرُوْجِ (ق : ٤٢) قبروں سے) نکلنے کا دن ) ٢٠۔ یَوْمُ الْفَصْلِ (الدخان : ٤) فیصلے کا دن) ٢١۔ اَلْقَارِعَۃُ (القارعۃ: ١) کھڑکھڑانے والی) ٢٢۔ اَلْغَاشِیَۃُ (الغاشیۃ: ١) چھا جانے والی) ٢٣۔ اَلطَّآمَّۃُ الْکُبْریٰ (النازعات : ٣٤) بڑی مصیبت) ٢٤۔ اَلنَّبَأُ الْعَظِیْمُ (النباء : ٢) بڑی خبر) ٢٥۔ اَلْحَآقَّۃُ (الحاقۃ: ١) ضرور آنے والی گھڑی) ٢٦۔ اَلْوَعْدُ (الانبیاء : ٣٨) وعدہ) ٢٧۔ اَلْوَاقِعَۃُ (الواقعۃ: ١) وقوع پذیرہونے والا) ٢٨۔ اَمْرُ اللّٰہِ (الحدید : ١٤) اللہ کا حکم) ٢٩۔ اَلصَّآخَّۃُ (عبس : ٣٤) بہرہ کرنے والی گھڑی) ٣٠۔ یَوْمُ الدِّیْنِ (الفاتحۃ: ٣) بدلے کا دن) ٣١۔ یَوْمٌ کَبِیْرٌ (ہود : ٣) بڑا دن) ٣٢۔ یَوْمٌ اَلِیْمٌ (ہود : ٢٦) دردناک دن) ٣٣۔ یَوْمٌ مُّحِیْطٌ (ہود : ٨٤) گھیرنے والا دن) ٣٤۔ یَوْمٌ مَّشْہُوْدٌ (ہود : ١٠٣) حاضری کا دن) الفاتحة
5 فہم القرآن ” اللہ“ کے حضور نمازی غلامانہ انداز میں ہاتھ باندھ کر اور سراپا عجزو انکساری کے ساتھ اس بات کا اقرار اور اس حقیقت کا اعتراف کرتا ہے کہ اے اللہ ! تو ہی میرا معبود ہے اس لیے میں تیری ہی عبادت کرتاہوں۔ اس میں نہ کسی کو سہیم سمجھتا ہوں اور نہ کسی کو آپ کے ساتھ شریک کرتا ہوں۔ نمازی یہ عہد واقرار ابتداءً قیام کی حالت میں اور آخر میں تشہد میں بیٹھ کر کرتا ہے۔ فرق یہ ہے کہ ابتدا میں اس نے جامع الفاظ میں اقرار کیا تھا اور تشہد میں فقیروں کی طرح دامن پھیلا کر عرض کرتا ہے کہ میری تمام مناجات وعبادات اور نذرو نیاز اللہ وحدہ لا شریک کے لیے ہیں۔ (اَلتَّحِیَّاتُ لِلّٰہِ وَالصَّلَوٰتُ وَالطَّیِّبٰتُ) [ رواہ البخاری : باب التَّشَہُّدِ فِی الآخِرَۃِ] ” ہمہ قسم کی لسانی‘ بدنی اور مالی عبادات اللہ ہی کے لیے ہیں“۔ یہی وہ مطالبہ ہے جو رسالت مآب (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان اطہر سے کروایا گیا ہے۔ اس میں یہ تقاضا بھی کیا گیا ہے کہ اللہ کی عبادت نہایت اخلاص اور بلا شرکت غیرے ہونی چاہیے۔ (قُلْ إِنَّ صَلٰوتِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۔ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَبِذٰلِکَ أُمِرْتُ وَاَنَا أَوَّلُ الْمُسْلِمِیْنَ۔) (الانعام : ١٦٣۔ ١٦٤) ” آپ اعلان کریں! یقیناً میری نماز، میری قربانی، میری زندگی اور میری موت اللہ رب العالمین کے لیے ہے اس کا کوئی شریک نہیں اسی بات کا مجھے حکم دیا گیا ہے اور میں سب سے پہلے سر تسلیم خم کرنے والا ہوں۔“ اس کے بعد مومن دل کی اتھاہ گہرائیوں اور انتہائی عاجزی کے ساتھ عرض گزار ہوتا ہے کہ الٰہی ! یہ حاضری اور عاجزی تیری توفیق اور عنایت کا نتیجہ ہے کیونکہ کتنے ہی انسان ہیں جو صحت، فرصت اور تونگری کے باوجود تیری بارگاہ میں حاضر ہونے کی سعادت نہیں پاتے۔ اے اللہ! تیری مدد ہمیشہ میرے شامل حال رہے۔ میرا ایمان ہے کہ تیرے بغیر کوئی میری مدد نہیں کرسکتا۔ لہٰذا میں ہر دم تجھ سے مدد کا طلبگار اور تیری دستگیری کا خواستگار ہوں۔ میرا تیرے حضور یہ عہد ہے کہ میں تجھے مشکل کشا اور حاجت روا سمجھتے ہوئے تجھ ہی سے نصرت وحمایت کا طلبگارر ہوں گا کیونکہ تو داتا ہے میں محتاج، تو غنی ہے میں تیرے در کا فقیر، تو بے نیاز ہے میں نیاز مند، تو بادشاہ ہے میں فقیر بے نوا۔ اس لیے میری مدد فرما۔ میں تیری دستگیری اور مدد کے بغیر نہ اپنا ایمان سلامت رکھ سکتاہوں اور نہ اپنی عزت وجان کی حفاظت کرسکتاہوں۔ یہی عقیدہ رسول گرامی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سکھلایا اور اسی عقیدہ کو نماز کے بعد دعا کی صورت میں دہراتے اور مانگتے تھے۔ (اَللّٰھُمَّ لَامَانِعَ لِمَآ أَعْطَیْتَ وَلَامُعْطِیَ لِمَا مَنَعْتَ۔۔) (بخاری : کتاب الأذان، باب الذکر بعد الصلوۃ) ” اے اللہ! جو چیز تو دے اسے کوئی روکنے والا نہیں اور جو چیز تو نہ دے اسے کوئی دینے والا نہیں۔“ (عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ (رض) قالَ کُنْتُ خَلْفَ رَسُوْلِ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَوْمًا فَقَالَ یَاغُلَامُ إِنِّیْ أُعَلِّمُکَ کَلِمَاتٍ احْفَظِ اللّٰہَ یَحْفَظْکَ احْفَظِ اللّٰہَ تَجِدْہُ تُجَاھَکَ إِذَ ا سَأَلْتَ فَاسْأَلِ اللّٰہَ وَإِذَا اسْتَعَنْتَ فَاسْتَعِنْ باللّٰہِ وَاعْلَمْ أَنَّ الْأُمَّۃَ لَوِ اجْتَمَعَتْ عَلآی أَنْ یَنْفَعُوْکَ بِشَیْءٍ لَمْ یَنْفَعُوْکَ إِلَّا بِشَیْءٍ قَدْ کَتَبَہُ اللّٰہُ لَکَ وَلَوِ اجْتَمَعُوْا عَلٰی أَنْ یَّضُرُّوْکَ بِشَیْءٍ لَمْ یَضُرُّوْکَ إِلَّا بِشَیْءٍ قَدْ کَتَبَہُ اللّٰہُ عَلَیْکَ رُفِعَتِ الْأَقْلَامُ وَجَفَّتِ الصُّحُفُ.) (رواہ الترمذی : کتاب صفۃ القیامۃ و الرقائق والورع، باب منہ) ” حضرت عبداللہ بن عباس (رض) بیان کرتے ہیں ایک دن میں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پیچھے سوار تھا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : بچے! میں تجھے چند کلمات سکھاتا ہوں۔ اللہ کو یاد رکھنا وہ تجھے یاد رکھے گا، تو اللہ تعالیٰ کو یادرکھے گا تو اسے اپنے سامنے پائے گا، جب تو سوال کرے تو اللہ ہی سے سوال کر، جب تو مدد طلب کرے تو اللہ تعالیٰ ہی سے مدد طلب کر اور یقین رکھ کہ اگر پوری مخلوق تجھے کچھ نفع دینے کے لیے جمع ہوجائے تو وہ اتنا ہی نفع دے سکتی ہے جتنا اللہ تعالیٰ نے تیرے لیے لکھ رکھا ہے اور اگر وہ تجھے نقصان پہنچانے پر تل جائے تو تجھے اتنا ہی نقصان پہنچے گا جتنا تیرے حق میں لکھا گیا ہے، قلمیں اٹھالی گئیں ہیں اور صحیفے خشک ہوگئے ہیں۔“ مسائل ١۔ ہر شخص کو صرف اللہ کی عبادت کرنا اور اس سے مدد کا طلب گار ہونا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن عبادت صرف اللہ کی ہونی چاہیے : ١۔ جنوں اور انسانوں کو اللہ نے صرف اپنی عبادت کے لیے پیدا فرمایا ہے۔ (الذّاریات : ٥٦) ٢۔ ہر رسول، اللہ کی عبادت کی دعوت دیتا تھا۔ (النحل : ٣٦) ٣۔ اللہ ہی کے لیے رکوع و سجود اور ہر عبادت ہونی چاہیے۔ (الحج : ٧٧) ٤۔ اللہ کی عبادت میں کسی کو شریک نہ کیا جائے۔ (النساء : ٣٦) ٥۔ اللہ کی عبادت اخلاص کے ساتھ کرنی چاہیے۔ (الزمر : ٢) ٦۔ اللہ کے سوا کوئی مدد نہیں کرسکتا۔ (الانفال : ١٠) ٧۔ اللہ ہی سے مدد مانگنا چاہیے۔ (البقرۃ : ٤٥) ٨۔ اللہ تعالیٰ غنی اور کائنات کے سارے انسان اس کے در کے فقیر ہیں۔ (فاطر : ١٥) الفاتحة
6 فہم القرآن اہل علم نے ہدایت کے مدارج کی بہت سی قسمیں بیان فرمائی ہیں لیکن بنیادی طور پر اس کی چار اقسام ہیں : 1 طبعی اور فطری ہدایت 2 الہامی ہدایت 3 توفیقی ہدایت 4 ہدایت وحی۔ طبعی اور فطری ہدایت : چاند، سورج اور سیارے طبعی رہنمائی کے مطابق اپنے مدار میں رواں دواں ہیں۔ ہوائیں اسی اصول کی روشنی میں رخ بدلتی اور چلتی ہیں۔ بادل فطری رہنمائی سے ہی راستے تبدیل کرتے اور برستے ہیں حتیٰ کہ اسی اصول کے تحت درخت روشنی کی تلاش میں ایک دوسرے سے اوپر نکلتے ہیں۔ فطری ہدایت کے مطابق ہی مرغی کا بچہ انڈے سے نکلتے ہی ماں کے قدموں میں پڑجاتا ہے، بطخ کا بچہ خود بخود پانی کی طرف چلتا اور انسان کا نومولود ماں کی چھاتی کے ساتھ چمٹتا ہے۔ اس طبعی اور فطری ہدایت کی قرآن نے اس طرح رہنمائی فرمائی ہے : (وَھَدَیْنَاہ النَّجْدَیْنِ۔)[ البلد : ١٠] ” ہم نے اسے دو واضح راستے دکھا دیئے۔“ الہامی ہدایت : الہام وحی کی ایک قسم ہے لیکن وحی اور الہام میں فرق یہ ہے کہ وحی صرف انبیاء کے ساتھ خاص ہے جب کہ الہام انبیاء کے علاوہ نیک اور عام آدمی حتی کہ قرآن مجید نے شہد کی مکھیوں کے لیے بھی وحی یعنی الہام کا لفظ استعمال فرمایا ہے جس کا معنٰی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی کے دل میں کوئی بات القا فرما دیتا ہے۔ اسے ہدایت وہبی بھی کہا جاتا ہے۔ ہدایت بمعنٰی توفیق اور استقامت : ہدایت کی تیسری قسم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی عنایت اور توفیق سے اپنے بندے کی رہنمائی کرتے ہوئے اسے صراط مستقیم پر گامزن رہنے کی توفیق عطا فرما دے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اکثر یہ دعا کرتے تھے۔ (یَا مُقَلِّبَ الْقُلُوْبِ ثَبِّتْ قَلْبِیْ عَلٰی دِیْنِکَ) (رواہ الترمذی : کتاب الدعوات) ” اے دلوں کو پھیرنے والے! میرے دل کو اپنے دین پر ثابت رکھنا۔“ (اَللّٰھُمَّ اَلْھِمْنِیْ رُشْدِیْ وَأَعِذْنِیْ مِنْ شَرِّ نَفْسِیْ) (رواہ الترمذی : کتاب الدعوات، باب ماء فی جامع الدعوات) ” اے اللہ! میری راہنمائی فرما اور مجھے میرے نفس کے شر سے محفوظ فرما۔“ وحی اور حقیقی ہدایت : یہ بات اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ اس ہدایت کی دو شکلیں ہیں اور دونوں آپس میں لازم وملزوم اور ضروری ہیں۔ ایک ہدایت ہے ہر نیکی کی ظاہری حالت اور اس کی ادائیگی کا طریقہ جو ہر حال میں سنت نبوی کے مطابق ہونا چاہیے۔ دوسری اس کی روح اور اصل۔ اسے قرآن نے اخلاص سے تعبیر فرمایا ہے۔ اخلاص کے اثرات دل پر اثرا نداز ہوں گے تو اللہ تعالیٰ کی قربت حاصل ہوگی جس کا بدلہ جنّت ہے۔ کردار پر مرتب ہوں گے تو نفس اور معاشرے میں پاکیزگی پیدا ہوگی جس سے آدمی کو دنیا میں نیک نامی اور کامیابی حاصل ہوگی۔ بندہ اللہ کے حضور ہاتھ باندھے، نظریں جھکائے، نہایت عاجزی اور بے بسی کے عالم میں عرض کرتا ہے۔ میرے خالق ومالک ! میں تیری بارگاہ میں عرض گزارہوں کہ میں دنیا کی رزم گاہ میں کمزور اور ناتواں ہوں۔ میرا دشمن بڑا ذلیل، طاقت ور، عیّار اور چالاک ہے جو چاروں طرف سے اپنے لشکروں کے ساتھ ہر آن مجھ پر حملہ آور ہو رہا ہے۔ اور میں اسے دیکھ بھی نہیں سکتا۔ وہ ہر دم مجھے پھسلانے کے درپے ہے۔ تیری دست گیری اور رہنمائی کے بغیر نہ میں اس کا مقابلہ کرسکتاہوں اور نہ ہی سیدھی راہ پر گامزن رہ سکتاہوں۔ دنیا کے گھٹا ٹوپ اندھیروں، مسائل کے طوفانوں اور مشکلات کے جھکڑوں میں میری عاجزانہ درخواست ہے کہ مجھے لمحہ لمحہ اور قدم قدم پر صراط مستقیم کی رہنمائی اور اس پر ثابت قدمی کی توفیق نصیب فرما۔ مومن اپنے ساتھ دوسروں کے لیے بھی ہدایت اور مدد کا طالب ہوتا ہے تاکہ ایک فرد کی بجائے ہدایت یافتہ لوگوں کا ایک قافلہ اور کارواں ہوتاکہ شیطانی لشکروں کا مقابلہ کرنا اور غلبۂ دین آسان ہوجائے۔ اللہ تعالیٰ نے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو گفتگو کا ملکہ اور ایسامعجزانہ اسلوب عنایت فرمایا تھا جو بنی نوع انسان میں کسی کو نہ حاصل ہوا نہ ہوگا۔ آپ نے بڑے بڑے پیچیدہ مسائل چند الفاظ اور انتہائی سادہ انداز میں بیان فرمادیے ہیں۔ لیکن صراط مستقیم کی اہمیت اور افادیت کے پیش نظراس مسئلہ کو ایک نقشہ کے ذریعے سمجھانے کا طریقہ اختیار فرمایا تاکہ کوئی ابہام باقی نہ رہے۔ (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ (رض) قَالَ خَطَّ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خَطًّا بِیَدِہٖ ثُمَّ قَالَ ھٰذَا سَبِیْلُ اللّٰہِ مُسْتَقِیْمًا قَالَ ثُمَّ خَطَّ عَنْ یَّمِیْنِہٖ وَشِمَالِہٖ ثُمَّ قَالَ ھٰذِہِ السُّبُلُ وَلَیْسَ مِنْھَا سَبِیْلٌ إِلَّا عَلَیْہِ شَیْطَانٌ یَدْعُوْ إِلَیْہِ ثُمَّ قَرَأَ (وَاََنَّ ھٰذَا صِرَاطِیْ مُسْتَقِیْمًا فَاتَّبِعُوْہُ وَلَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ) (مسند احمد : کتاب مسند المکثرین من الصحابۃ، باب مسند عبدا اللہ بن مسعود) ” حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے ہاتھ سے ایک لکیر کھینچی پھر فرمایا یہ اللہ کا سیدھا راستہ ہے پھر اس کے دائیں اور بائیں خط کھینچ کر فرمایا یہ راستے ہیں۔ ان میں ہر ایک پر شیطان کھڑا ہے اور وہ اس کی طرف بلاتا ہے پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس آیت کی تلاوت کی (بے شک یہ میرا سیدھا راستہ ہے اسی پر چلتے رہنا اور پگڈنڈیوں پر نہ چلنا۔“ قرآن مجید نے اس راستے کو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا راستہ قرار دیا اور اسے بصیرت سے تعبیر کیا ہے۔ (قُلْ ھٰذِہٖ سَبِیْلِیْ أَدْعُو إِلَی اللّٰہِ عَلٰی بَصِیْرَۃٍ أَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِیْ) (یوسف : ١٠٨) ” آپ فرمادیجئے یہ میرا راستہ ہے میں اور میرے پیرو کار بصیرت کی بنیاد پر اللہ کی طرف بلاتے ہیں۔“ (عَنِ الْعِرْبَاضِ بْنِ سَارِیَۃَ (رض) یَقُوْلُ وَعَظَنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَوْعِظَۃً ذَرَفَتْ مِنْھَا الْعُیُوْنُ وَوَجِلَتْ مِنْھَا الْقُلُوْبُ فَقُلْنَا یَارَسُوْلَ اللّٰہِ إِنَّ ھٰذِہٖ لَمَوْعِظَۃُ مُوَدِّعٍ فَمَاذَا تَعْھَدُ إِلَیْنَا قَالَ قَدْ تَرَکْتُکُمْ عَلَی الْبَیْضَآءِ لَیْلُھَا کَنَھَارِھَا لَایَزِیْغُ عَنْھَا بَعْدِیْ إِلَّاھَالِکٌ مَنْ یَّعِشْ مِنْکُمْ فَسَیَرٰی اخْتِلَافًا کَثِیْرًا فَعَلَیْکُمْ بِمَا عَرَفْتُمْ مِنْ سُنَّتِیْ وَسُنَّۃِ الْخُلَفَاء الرَّاشِدِیْنَ الْمَھْدِیِّیْنَ عَضُّوْا عَلَیْھَا بالنَّوَاجِذِ وَعَلَیْکُمْ بالطَّاعَۃِ وَإِنْ عَبْدًا حَبَشِیًّا فَإِنَّمَا الْمُؤْمِنُ کَالْجَمَلِ الْأَنِفِ حَیْثُمَا قِیْدَانْقَادَ) [ رواہ ابن ماجۃ: کتاب المقدمۃ، باب اتباع سنۃ الخلفاء الراشدین المھدیین] ” حضرت عرباض بن ساریہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ ہمیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایسا وعظ فرمایا جس سے آ نکھیں بہہ پڑیں اور دل ڈر گئے ہم نے کہا اللہ کے رسول یقیناً یہ تو الوداعی وعظ لگتا ہے لہٰذا آپ ہمیں کیا حکم دیتے ہیں؟ آپ نے فرمایا میں تمہیں واضح دین پر چھوڑ کر جارہا ہوں جس کی رات بھی دن کی مانند ہے ہلاک ہونے والے کے علاوہ کوئی اس سے نہیں ہٹے گا تم میں سے جو زندہ رہے گا عنقریب وہ بہت سے اختلاف دیکھے گا۔ تم پر جو میرا اور میرے صحابہ کا طریقہ پر چلنا لازم ہے اسے داڑھوں کے ساتھ مضبوطی سے پکڑنا اور امیر کی اطاعت کرتے رہنا اگرچہ وہ حبشی ہی کیوں نہ ہو۔ مومن نکیل والے اونٹ کی طرح ہوتا ہے اسے جہاں بھی لے جایا جائے وہ جاتا ہے۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ سے ہر لمحہ اور ہر قدم پر صراط مستقیم کی درخواست کرتے رہنا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن صراط مستقیم : ١۔ صراط مستقیم کی بنیاد۔ (آل عمران : ١٠١) ٢۔ اللہ تعالیٰ کو ایک ماننا صراط مستقیم ہے۔ (آل عمران : ٥١) ٣۔ صراط مستقیم کے سنگ میل۔ (الانعام : ١٥١ تا ١٥٣) ٤۔ ہر کسی کو صراط مستقیم کی ہی دعوت دینا چاہیے۔ ( الانعام : ١٥٣) ٥۔ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے والا صراط مستقیم پر ہے۔ (یٰس : ٦١) الفاتحة
7 فہم القرآن اب انعام یافتہ اور ہدایت یافتہ جماعت کا راستہ، ان کے ساتھ محبت اور ان کی معیت کی درخواست کی جاتی ہے جب کہ دوسرے گروہ سے اجتناب اور نفرت کا اظہار کیا جاتا ہے۔ جس کارواں کے راستہ کی دعا کی جارہی ہے وہ محض عقیدت کی بنیاد پر ہی نہیں بلکہ ان کے کردار اور اعلیٰ مقام کی وجہ سے ہے۔ جو خدا کے فرستادہ، پسندیدہ اور انعام یافتہ انبیائے کرام علیہم السلام ہیں ان پر سب سے بڑا انعام یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنے پیغام اور کام کے لیے منتخب فرمایا تاکہ وہ لوگوں کو سیدھا راستہ بتلائیں اور اس پر چل کر دکھائیں۔ اس قافلۂ قدسیہ کے معزز افراد ایک مشن کے داعی، خاندان نبوت کے افراد اور رشتۂ رسالت کے حوالے سے ایک دوسرے کے بھائی ہیں۔ رسالت مآب (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : (اَنَا اَوْلَی النَّاسِ بِعِیْسَی ابْنِ مَرْیَمَ فِی الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃِ وَالْأَنْبِیَآءُ إِخْوَۃٌ لِعَلَّاتٍ اُمَّھَاتُھُمْ شَتّٰی وَدِیْنُھُمْ وَاحِدٌ) (رواہ البخاری : کتاب أحادیث الأنبیاء، باب قول اللہ واذکر فی الکتاب مریم) ” لوگو! میں عیسیٰ بن مریم ( علیہ السلام) کے دنیا وآخرت میں سب سے زیادہ قریب ہوں اور انبیاء کی جماعت علاتی بھائی ہیں ان کی مائیں جدا جدا ہیں لیکن دین ایک ہے۔“ انعام یافتہ لوگوں کا تذکرہ : (فَأُولٰٓءِکَ مَعَ الَّذِیْنَ أَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیْھِمْ مِّنَ النَّبِیِّیْنَ وَالصِّدِّیْقِیْنَ وَالشُّھَدَآءِ وَالصّٰلِحِیْنَ وَحَسُنَ أُولٰءِٓکَ رَفِیْقًا۔) (النساء : ٦٩) ” تو وہ لوگ ان لوگوں کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے انعام کیا ہے یعنی انبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین کے ساتھ۔ رفیق ہونے کے لحاظ سے یہ لوگ کتنے اچھے ہیں۔“ پہلے انبیاء کی نبّوتوں اور شخصیتوں کی تائید کرنا ہمارے لیے ضروری اور ہمارے ایمان کا حصہ ہے لیکن سمع وطاعت صرف نبی آخر الزمان محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی کرنا ہوگی۔ اس سے اس نظریہ کی از خود نفی ہوجاتی ہے جو رسالت مآب (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشادات کے مقابلہ میں کسی نبی یا شخصیت کے اقوال پیش کرتے ہیں۔ فاتحہ کے آخر میں جس گروہ سے نفرت کا اظہار اور جن کی عادات اور رسومات سے بچنے کی دعا کی جارہی ہے وہ صرف گروہ بندی کی بنیاد پر نہیں بلکہ ان سے اس لیے الگ رہنا ہے کہ وہ اپنی بے اعتدالیوں اور بد اعمالیوں کی وجہ سے اللہ کے غضب کے سزا وار ٹھہرے ہیں۔ ” آمین“ : (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) أَنَّ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ إِذَا أَمَّنَ الْإِمَامُ فَأَمِّنُوْا فَإِنَّہٗ مَنْ وَّافَقَ تَأْمِیْنُہٗ تَامِیْنَ الْمَلآءِکَۃِ غُفِرَ لَہٗ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِہٖ) (رواہ البخاری : کتاب الأذان، باب جھر الإمام بالتأمین) ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جب امام آمین کہے تو تم بھی آمین کہو کیونکہ جس کی آمین فرشتوں کی آمین سے ہم آہنگ ہوگئی اس کے پہلے تمام گناہ معاف کردیے گئے۔“ آمین کی فضیلت واہمیت : (عَنْ أَبِیْ مُصَبِّحِ الْمَقْرَاءِیِّ قَالَ کُنَّا نَجْلِسُ إِلٰی أَبِی زُھَیْرٍ النُّمَیْرِیِّ وَکَانَ مِنَ الصَّحَابَۃِ فَیَتَحَدَّثُ أَحْسَنَ الْحَدِیْثِ فَإِذَا دَعَا الرَّجُلُ مِنَّا بِدُعَاءٍ قَالَ اخْتِمْہُ بآمِیْنَ فَإِنَّ آمِیْنَ مِثْلُ الطَّابِعِ عَلَی الصَّحِیْفَۃِ ) [ رواہ ابوداوٗد : کتاب الصلاۃ، باب التأمین وراء الإمام] ” حضرت ابو مصبح المقرائی (رض) فرماتے ہیں ہم ابو زہیر نمیری (رض) کے ہاں بیٹھے تھے جو صحابی تھے وہ اچھی اچھی باتیں بیان کرتے تھے۔ ہم میں سے ایک آدمی نے دعاشروع کی تو صحابی نے فرمایا دعا ” آمین“ کے ساتھ ختم کرو کیونکہ دعا کو آمین کے ساتھ ختم کرنا ایسے ہی ہے جیسے خط پر مہر لگادی جائے۔“ سورہ فاتحہ کی آیات کے متعلق اختلاف پایا جاتا ہے امام شافعی کے نزدیک بسم اللہ سورۃ فاتحہ کا حصہ ہے اور یہی ساتویں آیت ہے اور اس کا پڑھناواجب ہے۔ لیکن راجح قول کے مطابق بسم اللہ سورۃ فاتحہ کا حصہ نہیں بلکہ صراط الذین انعمت علیھم الگ آیت ہے اور غیر المغضوب علیھم والضالین الگ آیت ہے۔ (دیکھیے ایسر التفاسیرجلد ١ صفحہ نمبر ١٠) مسائل ١۔ صراط مستقیم کے ساتھ دنیا اور آخرت میں انعام یافتہ لوگوں کی رفاقت کی دعا کرنا چاہیے۔ ٢۔ مغضوب لوگوں کے طریقے سے اجتناب کرنا اور اللہ تعالیٰ کے غضب سے پناہ مانگنا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن انعام یافتہ اور مغضوب لوگ : ١۔ انبیاء، صدیق، شہداء اور صالحین انعام یافتہ لوگ ہیں۔ (النساء : ٦٩) ٢۔ حضرت آدم، نوح، ابراہیم اور یعقوب (علیہ السلام) انعام یافتہ حضرات تھے۔ (مریم : ٥٨) ٣۔ مشرکوں پر اللہ کا غضب ہوتا ہے۔ (الاعراف : ١٥٢) ٤۔ بنی اسرائیل مغضوب لوگ ہیں۔ (البقرۃ: ٦١) ٥۔ مغضوب لوگوں پر اللہ تعالیٰ کی لعنت برستی ہے۔ (۔۔ حوالہ) گمراہ اور مغضوب کو دلی دوست نہیں بنانا چاہیے۔ (الممتحنۃ : ١٣) الفاتحة
0 سورۃ البقرۃ کا تعارف ” سورۃ البقرۃ“ کے چالیس رکوع اور دو سو چھیاسی آیات، چھ ہزار اکتیس الفاظ اور بیس ہزار حروف بنتے ہیں۔ اس سورۃ مبارکہ کی چند آیات کے سوا باقی تمام آیات مدینہ طیبہ میں نازل ہوئیں۔ اس میں بنی اسرائیل کے ایک مقتول کو دوسرے مقتول یعنی ذبیحہ گائے کے ذریعہ زندہ کیا گیا۔ جس سے بنی اسرائیل کے اندھے قتل کا فیصلہ سنایا گیا ہے اس لیے اس سورۃ کا نام ” البقرۃ“ قرار پایا۔ اس میں شرک کی نفی اور موت کے بعد جی اٹھنے کے عملی ثبوت پیش کیے گئے ہیں۔ اس سورۃ مبارکہ کے آغاز میں اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کے بارے میں دوٹوک الفاظ میں بتایا ہے کہ اس کے من جانب اللہ ہونے، رشد وہدایت اور اس کی رہنمائی میں کسی قسم کے شبہ کی گنجائش اور نقصان کا اندیشہ نہیں لیکن اس سے وہی لوگ مستفید ہو پائیں گے جو اپنے رب کی رہنمائی کی چاہت، پیروی اور اس کی ممنوع کردہ چیزوں کو مسترد کریں گے۔ اس کے بعد ایمان اور اسلام کے بنیادی ارکان اور ان پر عمل کرنے والوں کو دنیا و آخرت کی کامیابی کا مژدہ سنایا گیا ہے۔ قرآن مجید کا انکار کرنے والوں کو ان کے انجام سے ڈرایا اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرمایا ہے کہ خدا کے منکروں کو جس طرح چاہیں سمجھائیں یہ ایمان نہیں لائیں گے۔ بعد ازاں متذبذب اور دو غلے کردار کے حامل اور مفاد پرست لوگوں کی نشان دہی اور ان کے انجام کے بارے میں واضح فرمایا ہے کہ یہ خطرناک‘ کذاب اور مسلمانوں کی آستینوں کے سانپ ہیں۔ ان سے بچ کر رہنا اور یہ دھوکہ باز اور ابن الوقت اللہ کی پکڑ سے نہیں بچ سکیں گے۔ اس کے بعد قرآن مجید اور انبیاء کی دعوت یعنی اللہ کی توحید اور اس کے ایسے آفاقی اور ٹھوس دلائل دیئے ہیں۔ جن سے شہری‘ دیہاتی‘ ان پڑھ‘ تعلیم یافتہ غرض کہ ہر انسان کو واسطہ پڑتا ہے اور وہ ان سے استفادہ کرتا ہے اور ہر کوئی جانتا ہے کہ زمین و آسمان اور دنیا و مافیہا کی چیزوں کو بنانے اور سجانے والا اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں ہے۔ ان دلائل کے بعد ہر انسان سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ اسے صرف ایک رب کی عبادت کرنا چاہیے پھر قرآن مجید کے بارے میں چیلنج دیا ہے کہ اگر تمہیں اس کے من جانب اللہ ہونے میں شک ہے تو اللہ تعالیٰ کے سوا سب مل کر کوئی ایک سورۃ بنا لاؤ۔ چوتھے رکوع میں آدم (علیہ السلام) کا مقام ومرتبہ بیان کے بعد شیطان کی شرارتوں اور سازشوں اور حضرت آدم (علیہ السلام) کے ساتھ اس کی عداوت اور کش مکش کا ذکر کرتے ہوئے آدم (علیہ السلام) کے پھسلنے اور ان کو زمین پر بھیجنے کا مقصد واضح فرمایا ہے کہ اگر شیطان کی شیطنت اور دنیا وآخرت کے خوف وخطر سے بچنا اور اپنا کھویا ہوا مقام جنت حاصل کرنا چاہتے ہو تو صرف اور صرف اللہ کی ہدایات کی پیروی کرتے رہنا۔ جس سے تمہیں دنیا میں امن نصیب ہوگا اور آخرت کے خوف و غم سے مامون ہوجاؤ گے۔ پھر دنیا کی اقوام میں ایک معزز اور منفرد قوم کے عروج وزوال کے اسباب کا نہایت ہی تنقیدی جائزہ پیش کرتے ہوئے اس پر ناصحانہ انداز میں تبصرہ کیا گیا ہے۔ بنی اسرائیل کے سیاسی، جہادی اور مذہبی پیشواؤں کے کردار پر روشنی ڈالی گئی کہ وہ اس قدر دین کی حقیقت اور اخلاق کی دولت سے تہی دامن ہوئے کہ انہوں نے دین واخلاق کو دنیا کے حصول کا ذریعہ بنا لیا۔ پھر بنی اسرائیل کی مذہبی، اخلاقی اور سیاسی پستیوں کی نشاندہی فرمائی کہ جس وقت بنی اسرائیل پستیوں کا شکار ہوئے اور جب کبھی انہیں اپنی عزت رفتہ کا احساس ہو اتو انہوں نے اپنے کردار کو سنوارنے اور جدو جہد کا راستہ اپنا نے کے بجائے جادو ٹونے کے ذریعے عزت وعظمت کو پانے کی کوشش کی اور پھر اس سارے دھندے کو اللہ کے عظیم پیغمبرحضرت سلیمان (علیہ السلام) کے ذمہ لگایا۔ حالانکہ جادو کفر ہے اور حضرت سلیمان (علیہ السلام) ہرگز کفر نہیں کرتے تھے۔ کبھی اپنے بوسیدہ اور پراگندہ خیالات کی تائید کے لیے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا سہارا لینے کی کوشش کی اور مقدس شخصیات کو اپنے ہم عقیدہ ثابت کرنے کی مذموم کوششیں کیں یہاں تک کہ ان زمینی حقائق کا بھی انکار کیا جو دنیا کے سینے پر بیت اللہ، صفا ومروہ اور زمزم کی شکل میں خاندان ابراہیم (علیہ السلام) کی خدمات کا منہ بولتا ثبوت اور ان کی قبلہ گاہ ہے۔ بنی اسرائیل کے کردار پر تبصرہ کرتے ہوئے مسلمانوں کو سمجھایا گیا کہ اگر دنیا وآخرت کی بلندیوں کے طلب گار ہو تو پھر ابتلاء اور آزمائشوں کے لیے اپنے آپ کو تیار کرو کیونکہ آزمائش ایمان کی بلندی اور دنیا کی ترقی کا پیش خیمہ ہے جو لوگ حق و باطل کی رزم گاہ میں شہیدہوں انہیں مردہ مت کہو کیونکہ انہوں نے عظیم مقصد کے لیے قربانی دی ہے لہٰذا وہ زندہ ہیں لیکن ان کی زندگی کے بارے میں رائے زنی کرنے کی اجازت نہیں ہے اور تمہارے لیے بنی اسرائیل کے جرائم سے بچنا لازم ہے۔ اس کے بعد اس سورۃ مبارکہ میں انسانی زندگی کے مسائل کا احاطہ کیا گیا ہے۔ جس میں معاشی، سماجی، جہادی، معاشرتی، اخلاقی، خاندانی اور انفرادی مسائل کے ساتھ ساتھ زندگی کے ہر شعبے کے لیے اصولوں کی نشاندہی کی گئی ہے۔ معاشی مسائل کے حل اور ان میں ناہمواری ختم کرنے کے لیے صدقہ و خیرات کی ترغیب مؤثر اور مدلل انداز میں دیتے ہوئے فرمایا کہ غریبوں‘ مسکینوں اور اعزاء و اقربا کی مالی خدمت کرنا اللہ تعالیٰ کو قرض دینے کے مترادف ہے۔ جسے اللہ تعالیٰ سات سو گنا سے بھی زیادہ کر کے قیامت کے دن واپس لوٹائے گا۔ جس دن نیکی کے علاوہ کوئی چیز کار آمد نہ ہوگی۔ صدقہ کی تحریک دینے کے بعد سود کو نہ صرف حرام قرار دیا بلکہ اسے اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ جنگ قرار دیا ہے۔ جس سے ثابت ہوا کہ اسلام سے بڑھ کر کوئی دین غریبوں اور مستحقین کا ہمدرد اور خیر خواہ نہیں ہو سکتا۔ سود کے خاتمہ کے ساتھ صدقات اور تجارت کو فروغ دینے کی ترغیب دیتے ہوئے لین دین کے معاملات کو احاطۂ تحریر میں لانے کا حکم دیا۔ اس سورۃ کی ابتدا اسلام کے ارکان اور ایمان کے مدارج سے ہوئی اس کا اختتام بھی دین و ایمان کے بنیادی اصولوں پر کیا گیا ہے۔ آخر میں مومنوں کو ایک دعا سکھلائی گئی ہے کہ اپنے رب کے حضور یہ درخواست کرتے رہو کہ اے مولائے کریم! ہمارے عمل میں دانستہ و غیر دانستہ طور پر جو کوتاہی سرزد ہو تو اسے معاف اور صرف نظر فرماتے ہوئے کفار پر ہمیں غلبہ عطا فرما۔ یہی مسلمان کی زندگی کا مقصد ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں سرخروہوجائے اور دنیا میں اسلام کا پرچم سر بلند رکھتے ہوئے کامیاب انسان کے طور پر زندگی بسر کرئے۔ اللہ تعالیٰ ایسا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یاربّ العالمین۔ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ (رض) أَنَّ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ لاَ تَجْعَلُوا بُیُوتَکُمْ مَقَابِرَ إِنَّ الشَّیْطَانَ یَنْفِرُ مِنَ الْبَیْتِ الَّذِی تُقْرَأُ فیہِ سُورَۃُ الْبَقَرَۃِ) (رواہ مسلم : باب استحباب صلوۃ النافلۃ) ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اپنے گھروں کو قبریں نہ بناؤ۔ بیشک اس گھر سے شیطان بھاگ جاتا ہے جس میں سورۃ بقرۃ کی تلاوت کی جاتی ہے۔“ البقرة
1 فہم القرآن ربط سورۃ: فاتحہ دعا ہے اور قرآن اس کا جواب، فاتحہ خلاصہ ہے اور قرآن اس کی تفصیل۔ اپنے حجم اور مضامین کے لحاظ سے یہ فرقان حمید کی سب سے بڑی سورت ہے۔ اآآ حروف مقطعات ہیں جن کے مفسرین نے اپنی اپنی فہم و دانش کے مطابق کئی معانی لکھے اور بتلائے ہیں جن کی تفصیل مختلف تفاسیر میں موجود ہے۔ جن میں سے چند ایک یہ ہیں۔ عبدالرحمن بن زید بن اسلم (رض) فرماتے ہیں یہ سورتوں کے نام ہیں۔ حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں یہ اللہ تعالیٰ کی قسموں میں سے قسمیں ہیں۔ دوسری جگہ فرماتے ہیں ” ا آمآ“ اللہ تعالیٰ کے اسمائے اعظم میں سے ہے۔ جب کہ کچھ لوگ کہتے ہیں یہ قرآن کے اعجازکا نمونہ ہیں۔ لیکن اس بات پر تمام اہل علم متفق ہیں کہ یہ حروف مقطعات ہیں ان کا کوئی معنٰی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ثابت نہیں البتہ جو مفہوم عقل کے قریب تر نظر آتا ہے وہ یہ ہے کہ اس زمانے میں اہل زبان حروف مقطعات کا استعمال کرنے کے بعد اپنی فصیح اللسانی اور شستہ کلامی کا مظاہرہ کرتے اور سامعین ان حروف کا معنٰی پوچھنے کی ضرورت نہیں سمجھتے تھے۔ گویا کہ صاحب زبان ایسے الفاظ طرح مصرعہ کے طور پر استعمال کرتے تھے۔ اسی وجہ سے صحابہ کرام (رض) نے نبی محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ان حروف کا معنٰی پوچھنے کی ضرورت نہیں سمجھی۔ کیونکہ ان کا شریعت کے مسائل اور معاملات سے کوئی تعلق نہیں لہٰذا امت کا اتفاق ہے کہ ان حروف کا معنٰی اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ البتہ یہ قرآن مجید کا حصہ ہیں۔ (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَسْعُوْدٍ (رض) یَقُوْلُ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَنْ قَرَأَ حَرْفًا مِّنْ کِتَاب اللّٰہِ فَلَہٗ بِہٖ حَسَنَۃٌ وَالْحَسَنَۃُ بِعَشْرِ أَمْثَالِھَا لَآ أَقُوْلُ الم حَرْفٌ وَلٰکِنْ أَلْفٌ حَرْفٌ وَلَامٌ حَرْفٌ وَمِیْمٌ حَرْفٌ) (رواہ الترمذی : کتاب فضائل القرآن، باب ماجاء فیمن قرأ حرفا من القرآن مالہ من الأجر) ” حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس نے اللہ کی کتاب کا ایک حرف پڑھا اسے اس کے بدلے ایک نیکی ملے گی اور ہر نیکی دس نیکیوں کے برابر ہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں کہ میں یہ نہیں کہتا کہ ” الم“ ایک حرف ہے بلکہ ” الف“ ایک حرف ہے اور ” لام“ ایک حرف ہے ” اور ” میم“ ایک حرف ہے۔“ ” اآآ“ چھ سورتوں کی ابتدا میں استعمال ہوا ہے۔ البقرۃ، آل عمران، العنکبوت، الروم، لقمان، السجدۃ۔ البقرة
2 فہم القرآن یہ عظیم سورت مدینہ طیبہ میں نازل ہوئی۔ یہاں یہود ونصارٰی آپ کے مخاطبین تھے۔ اس لیے ” ہٰذَا“ کی بجائے اسم اشارہ بعید ” ذَالِکَ“ استعمال کیا گیا ہے کہ یہ وہی کتاب ہے جس کا بیان اور تذکرہ تم توراۃ اور انجیل میں پاتے ہو۔ ” ذَالِکَ“ کا استعمال اس لیے بھی کیا گیا ہے کہ اس زمانے میں اہل عرب کسی عظیم چیز کی طرف توجہ دلاتے وقت دور کا اشارہ قریب کے لیے استعمال کیا کرتے تھے۔ اس دور میں اہل فارس بھی اپنی زبان میں قریب چیز کے لیے دور کے اشارات استعمال کرتے تھے اور انہی سے متاثر ہو کر اردو میں بھی آں جناب کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ پہلی امتوں بالخصوص یہود و نصارٰی نے آسمانی کتابوں میں اپنے رجحانات اور مفادات کی خاطر کئی قسم کے اضافے‘ التباسات اور مغالطے پیدا کردیے تھے۔ اس وجہ سے ان کتابوں پر لوگوں کا اعتماد ختم ہوچکا تھا۔ اس لیے آغاز ہی میں قرآن مجید کے بارے میں دو ٹوک الفاظ میں یہ وضاحت فرما دی گئی ہے کہ اس کے منزل من اللہ ہونے اور اس کے احکامات اور ارشادات میں کسی قسم کا شک اور تردّد کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اس کے نفاذ اور اس پر عمل کرنے سے کسی نقصان کا اندیشہ نہیں ہے بلکہ اس پر عمل کرنے سے یقینا تمہیں دنیا و آخرت میں بہترین نتائج اور ثمرات حاصل ہوں گے۔ یہ کتاب ہر لحاظ سے قیامت تک قابل اعتماد اور اس پر عمل کرنا فرض ہے۔ قرآن مجید کے من جانب اللہ اور مستند ہونے کے بارے میں جرمنی کی بین الاقوامی یونیورسٹی کی رپورٹ۔ ” یونانی زبان میں انجیل کے جتنے نسخے دنیا میں پائے جاتے تھے کامل ہوں یا جزئی ان سب کو جمع کرکے ان کے ایک ایک لفظ کا باہم مقابلہ (۔۔ غور) (Collation) کیا گیا۔ اس کی جو رپورٹ شائع ہوئی اس کے الفاظ یہ ہیں ” کوئی دو لاکھ اختلافی روایات ملتی ہیں“ اس کے بعد یہ جملہ ملتا ہے ” یہ ہے انجیل کا قصہ“ اس رپورٹ کی اشاعت کے بعد کچھ لوگوں کو قرآن کے متعلق حسد پیدا ہوا۔ اس لیے جرمنی کی میونخ یونیورسٹی میں ایک ادارہ قائم کیا گیا ” قرآن مجید کی تحقیقات کا ادارہ“ اس کا مقصد یہ تھا کہ ساری دنیا سے قرآن مجید کے قدیم ترین دستیاب نسخے خرید کر یا اس کے فوٹو لے کر جس طرح بھی ممکن ہو جمع کیے جائیں۔ جمع کرنے کا یہ سلسلہ کئی سال تک جاری رہا۔ جب ١٩٣٣ ء میں پیرس یونیورسٹی میں تھا تو اس کا تیسرا ڈائریکٹر پریتسل (Pretzl) پیرس آیا تھا کہ پیرس کی پبلک لائبریری میں قرآن مجید کے جو قدیم نسخے پائے جاتے ہیں ان کے فوٹو حاصل کرے۔ اس پروفیسر نے بیان کیا کہ اس وقت ہمارے انسٹی ٹیوٹ میں قرآن مجید کے بیالیس ہزار نسخوں کے فوٹو موجود ہیں اور مقابلے (Collection) کا کام جاری ہے۔ بعد ازاں اس ادارہ نے رپورٹ شائع کی جس کے الفاظ یہ ہیں کہ ” قرآن مجید کے نسخوں میں مقابلے کا جو کام ہم نے شروع کیا تھا اس کا اب تک جو نتیجہ نکلا ہے وہ یہ ہے کہ ان نسخوں میں کہیں کہیں کتابت کی غلطیاں تو ملتی ہیں لیکن اختلاف روایت ایک بھی نہیں۔ گویا کہ قرآن مجید ہر قسم کے ردّ وبدل سے مبرّا ہے۔“ (ماخوذ : خطبات بہاولپور از ڈاکٹر حمیداللہ) بلاشبہ قرآن مجید عظیم اور شک وشبہ سے بالا، انسانوں کی راہنمائی اور خیر خواہی کے لیے آخری آسمانی کتاب ہے لیکن اس سے ہدایت پانے کے لیے تقو ٰی لازم قرار پایا ہے۔ تقویٰ کے بارے میں امیر المومنین حضرت عمر فاروق (رض) نے جناب ابی بن کعب (رض) سے استفسار فرمایا کہ تقویٰ کیا ہے؟ حضرت ابی بن کعب (رض) نے اس سوال کا جواب دینے کی بجائے امیر المومنین سے عرض کی کہ جب آپ کسی ایسی پکڈنڈی پر گزرنے کا موقع پائیں جس کے چاروں طرف خار دار جھاڑیاں ہوں تو اس پر آپ کس طرح گزریں گے؟ امیر المومنین نے فرمایا اس راستے کا راہی دامن بچا کر ہی گزرے گا۔ ابی بن کعب (رض) فرمانے لگے کہ اسی کا نام تقو ٰی ہے۔ اور ایسے شخص کو متقی کہا جائے گا جو گناہوں کی آلائشوں سے بچ کر صراط مستقیم پر ثابت قدمی سے چل کر اپنی منزل پر پہنچ جاتا ہے۔ (تفسیر ابن کثیر) بعض لوگ یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ اگر یہ کتاب پرہیزگاروں کے لیے ہے تو پھر اس کا کیا کمال ہے؟ شاید ان کا مقصد یہ ہے کہ کتاب تو ایسی ہونی چاہیے تھی جو فاسقوں‘ فاجروں اور مجرموں کو کھینچ کر صراط مستقیم پر گامزن کر دے۔ دراصل یہ لوگ اس حقیقت کو فراموش کردیتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو عقل و شعور کی صلاحیتوں سے ہمکنار فرما کر یہ اختیار دیا ہے کہ وہ نیکی اور بدی، نفع اور نقصان، دائمی اور عارضی فوائد میں جس کا چاہے انتخاب کرے۔ برائی سے اجتناب نہ کرنے والے کی مثال اس مریض کی طرح ہے جس کو ایک خیر خواہ حکیم اور مہربان والدین بار بار دوائی کھلانے کی کوشش کریں لیکن مریض دوائی کھانے کی بجائے اپنا منہ بند کرلے اور اس کے مرض میں اضافہ ہی ہوتا چلا جائے۔ ایسے حضرات سے پوچھنا چاہیے کہ اس میں حکیم کی حکمت، ماں کی مامتا اور والد کی شفقت کا کیا قصور ہے؟ اس لیے جاننا چاہیے کہ انسان کے لیے ہدایت کو جبری کی بجائے اختیاری بنایا گیا ہے۔ اگر ہدایت آدمی پر مسلط کردی جاتی تو اس کو قبول کرنے میں انسان کا کیا کمال ہوتا؟ پھر حیوان اور انسان میں امتیاز چہ معنی دارد؟ لہٰذا یہ کتاب انہی کے لیے ہدایت ہے جو ہدایت کے طالب اور گناہوں سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مسائل ١۔ قرآن مجید میں کوئی عیب اور نقص نہیں اور اس کے منجانب اللہ ہونے میں کسی شک کی گنجائش نہیں۔ ٢۔ اللہ سے ڈرنے اور گناہوں سے بچنے والوں کے لیے قرآن مجید سر چشمۂ ہدایت ہے۔ تفسیر بالقرآن تقویٰ کیا ہے؟ ١۔ اللہ کی ذات، احکام اور اس کے شعائرکے احترام کرنے کا نام تقویٰ ہے۔ (الحج : ٣٢) ٢۔ تقویٰ نام ہے اللہ کے احکام پر عمل پیرا ہونے اور اس کی نافرمانیوں سے بچنے کا۔ (النور : ٥٢) ٣۔ تقویٰ نام ہے سمع و اطاعت کے باوجود اپنے رب سے ڈرتے رہنے کا۔ (التغابن : ١٦) قرآن مجید کی عظمت وصداقت : ١۔ قرآن مجید سراپا رحمت اور کتاب ہدایت ہے۔ ( لقمان : ٣) ٢۔ یہ بابرکت اور پہلی کتابوں کی تصدیق کرنے والی ہے۔ ( الانعام : ٩٢) ٣۔ اس میں ہدایت کے متعلقہ ہر چیز واضح کی گئی ہے۔ ( النحل : ٨٩) ٤۔ یہ روشن اور بین کتاب ہے۔ ( المائدۃ: ١٥) ٥۔ پہلی کتابوں کی حقیقی تعلیم کی نگہبان ہے۔ (المائدۃ: ٤٨) قرآن مجید کے اسمائے گرامی : ١۔ القرآن (الاسراء : ٨٨) ٢۔ الفرقان (الفرقان : ١) ٣۔ الذکر (الانبیاء : ٥٠) ٤۔ التنزیل (الشعراء : ١٩٢) ٥۔ الحدیث (الزمر : ٢٣) ٦۔ الموعظۃ (یونس : ٥٧) ٧۔ الحکمۃ (القمر : ٥) ٨۔ الحکم (الرعد : ٣٧) ٩۔ الحکیم (یٰس : ٢) ١٠۔ المحکم (ھود : ١) ١١۔ الشفاء (الاسراء : ٨٢) ١٢۔ الھدیٰ (البقرۃ: ٢) ١٣۔ الھادی (الاسراء : ٩) ١٤۔ الصراط المستقیم (المائدۃ: ١٦) ١٥۔ الحبل (آل عمران : ١٠٣) ١٦۔ الرحمۃ (الاسراء : ٨٢) ١٧۔ الروح (الشوریٰ: ٥٢) ١٨۔ القصص (یوسف : ٣) ١٩۔ البیان (آل عمران : ١٣٨) ٢٠۔ التبیان (النحل : ٨٩) ٢١۔ المبین (یوسف : ١) ٢٢۔ البصائر (الاعراف : ٢٠٣) ٢٣۔ قول الفصل (الطارق : ١٣) ٢٤۔ المثانی (الزمر : ٢٣) ٢٥۔ النعمۃ (الضحی : ١١) ٢٦۔ البرہان (النساء : ١٧٤) ٢٧۔ البشیر (فصلت : ٤) ٢٨۔ النذیر (فصلت : ٤) ٢٩۔ القیم (الکھف : ٢) ٣٠۔ المھیمن (المائدۃ: ٤٨) ٣١۔ النور (الاعراف : ١٥٧) ٣٢۔ العزیز (فصلت : ٤١) ٣٣۔ الکریم (الواقعہ : ٧٧) ٣٤۔ العظیم (الحجر : ٨٧) ٣٥۔ المبارک (الانبیاء : ٥٠) (بحوالہ تفسیررازی ) البقرة
3 فہم القرآن ربط کلام : کتاب حق کے تعارف کے بعد اس کے پیغام کا بیان اور ہدایت پانے والوں کے چھ جامع اور مرکزی اوصاف کا تذکرہ۔ ایمان کا اولیّن تقاضا یہ ہے کہ انسان ان دیکھی حقیقتوں کا اقرار کرے۔ جس میں اللہ تعالیٰ کی ذات پر ایمان لانا اور اس کے حکم کے مطابق ہر بات کو ماننا شرط اول ہے۔ یہی انسانیت کا شرف اور اللہ تعالیٰ سے کیے ہوئے عہد کی پاسداری ہے۔ ان حقیقتوں پر ان دیکھے ایمان لانا اس لیے بھی ضروری ہے کہ آدمی میں یہ استعداد اور طاقت نہیں کہ وہ اپنی آنکھوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی زیارت کرسکے اور نہ ہی اس میں ملائکہ اور قبر کے عذاب کو دیکھنے کی ہمت ہے حتی کہ انسان تو ان آنکھوں کے ساتھ جنت کے حسن و جمال کی جھلک بھی برداشت نہیں کرسکتا۔ رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں حدیث میں آیا ہے کہ جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جبرئیل امین (علیہ السلام) کو اصلی حالت میں ملاحظہ فرمایا تو آپ کا جسم اطہر تھر تھرانے لگا، رونگٹے کھڑے ہوگئے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے آپ میں شدید خطرہ محسوس کرتے ہوئے گھر آ کر شدید گرمی کے موسم کے باوجود کمبل لے کرلیٹ گئے اور کچھ سکون کے بعد اپنی زوجہ مکرمہ سے اظہار فرمایا کہ میں اپنے بارے میں شدید اندیشہ محسوس کر رہا ہوں۔ (رواہ البخاری : کتاب بدء الوحی) قبر کے عذاب کے بارے میں فرمایا : ” اگر انسان اور جن قبر کا عذاب سن لیں تو بے ہوش ہوجائیں۔“ (رواہ البخاری : کتاب الجنائز، باب المیت) جنت کی حور کے بارے میں ارشاد ہوا : ” اگر وہ آسمان سے نیچے جھانکے تو ہر چیز منور ہوجائے۔“ (رواہ البخاری : کتاب الجہاد، باب الحور العین) گویا کہ انسان اپنی ہمت سے بڑھ کر نہ حسن و جمال دیکھ سکتا ہے اور نہ ہیبت ناک منظر برداشت کرسکتا ہے اس بنا پر غیب پر ایمان لانا ایمان کی اولین شرط ہے۔ یہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کا بندہ اور غلام ہے۔ غلام کا کام اپنے آقا کا حکم ماننا ہے، ہر حکم کی حقیقت جاننا نہیں۔ اقامت صلوٰۃ اللہ تعالیٰ نے جنوں اور انسانوں کو اپنی عبادت کے لیے پیدا فرمایا ہے۔ عبادت کا لفظ بڑا جامع ہے عبادت کی سب سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کے نزدیک پسندیدہ صورت نماز ہے۔ اسی لیے پہلے انبیاء اور امتوں کو نماز قائم کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔ اور امت محمدیہ کو بھی یہی حکم ہوا ہے کہ وہ نماز قائم کریں۔ دین اجتماعیت کا سبق دیتا ہے اور نماز اس کا عملی نمونہ پیش کرتی ہے۔ تاکہ مسلمانوں میں وحدت اور اجتماعیت کا شعور پیدا ہو۔ اقامت صلوٰۃ سے مراد اس کے ظاہری آداب و شرائط بجا لانے کے ساتھ ساتھ معاشرتی اور روحانی فوائد کا حصول ہے۔ اس لیے یہاں ” اقرء وا الصلوٰۃ“ یا صرف ” صلوا“ کا لفظ استعمال نہیں کیا بلکہ ” اقیموا الصلوٰۃ“ کا جامع لفظ استعمال فرما کر واضح کیا گیا ہے کہ نماز پڑھنے اور ادا کرنے کے لحاظ سے جامع اور مکمل ہونی چاہیے۔ اس میں طہارت، ارکان کی صحیح ادائیگی، اخلاص اور جماعت کے ساتھ پڑھنے کا حکم شامل ہے۔ اس طرح یہ پانچ وقت کا اجتماعی عمل ہے۔ ” اَقِیْمُوا الدِّیْنَ“ (الشوریٰ: ١٣) کا لفظ پورے دین کے لیے بھی استعمال ہوا۔ جس طرح دین کا تقاضا صرف اس کے احکامات پڑھ لینے سے پورا نہیں ہوتا جب تک اسے پورے طور پر نافذ نہ کیا جائے ایسے ہی نماز پوری جامعیت کے ساتھ اس وقت قائم ہوگی جب اس کے تقاضے پورے کیے جائیں گے۔ نمازی کو حکم ہے کہ نماز میں نظر کو ادھر ادھر نہ اٹھائے۔ یہی حکم نماز کے بعد ہے کہ غیر محرم عورتیں سامنے آئیں تو مرد اپنی نگاہوں کو نیچے رکھا کریں۔ تشہد میں نمازی درود اور التحیات میں سب کی سلامتی کی دعائیں مانگتا ہے۔ یہی جذبہ اسے نماز کے بعد بھی اختیار کرنا چاہیے۔ اسی طرح نماز کے اور بھی تقاضے ہیں جن کا خیال رکھنا ضروری ہے۔ نماز میں اس قدر انہماک اور تعلق باللہ قائم ہونا چاہیے جیسے بندہ اپنے رب کی زیارت کر رہا ہو۔ (أَنْ تَعْبُدَ اللّٰہَ کَأَنَّکَ تَرَاہُ فَإِنْ لَّمْ تَکُنْ تَرَاہُ فَإِنَّہٗ یَرَاکَ) (رواہ البخاری : کتاب الایمان، باب سؤال جبریل النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عن الإیمان والإسلام والإحسان) ” اپنے رب کی عبادت اس تصور کے ساتھ کرو گویا کہ تم اسے دیکھ رہے ہو۔ اگر یہ تصور پیدا نہیں ہوسکتا تو کم از کم یہ خیال کرو کہ وہ تمہیں دیکھ رہا ہے۔“ زکوٰۃ کی فرضیت قرآن نے لوگوں کو نماز با جماعت کی شکل میں مسجد میں پانچ وقت اکٹھا ہونے کا حکم دیا ہے تو یہ بات کس طرح گوارا ہوسکتی تھی کہ ایک شخص خوشحال زندگی بسر کر رہا ہو اور اس کے ساتھ کھڑا ہونے والا جسم پر چیتھڑے لپیٹے ہوئے زندگی کے تھپیڑے کھاتا رہے اور صاحب ثروت اس کی پرواہ نہ کرے۔ اسلام کا اجتماعی نظام دو بنیادوں پر قائم کیا گیا ہے ایک روحانی اور دوسری مادی معاشرے کی تطہیر، تزکیۂ نفس اور تعلق باللہ کے لیے پانچ وقت نماز قائم کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ باہمی ہمدردی، قرابت اور معاشی استحکام کے لیے زکوٰۃ فرض قرار دی گئی تاکہ معاشرتی اونچ نیچ اور معاشی افراط و تفریط کو توازن کے پیمانے کے قریب رکھتے ہوئے باہمی محبت و اخوت کی فضاء قائم کی جائے۔ قرآن مجید نے بار بار صدقہ کرنے کی ترغیب دی ہے۔ اس تحریک کو محض لوگوں کی مرضی پر نہیں چھوڑا کہ جس کا دل چاہے خرچ کرے ورنہ مال پر مست ہو کر پھرتا رہے۔ زکوٰۃ کو فرض قرار دیتے ہوئے اسے ایمان کی مبادیات میں شامل فرمایا۔ قرآن مجید میں زکوٰۃ اور نماز کا چھبیس مرتبہ اکٹھا ذکر ہوا ہے۔ نماز حقوق اللہ کی ترجمان ہے اور زکوٰۃ حقوق العباد کی پاسبان۔ یہاں لفظ زکوٰۃ کی بجائے ” رَزَقْنٰھُمْ“ استعمال فرما کر اشارہ دیا کہ اجتماعی زندگی کا میابی کے ساتھ گزارنے کے لیے زکوٰۃ ہی نہیں بلکہ جو کچھ اللہ تعالیٰ نے اسے عطا فرمایا ہے اس میں سے دوسروں پر خرچ اور صرف کرتا رہے۔ جسمانی قوت ہے تو نحیف اور ناتواں بندوں کی خدمت کرے، مالی استعداد ہے تو غریبوں اور ناداروں پر خرچ کرے، علم و بصیرت ہے تو لوگوں کی راہنمائی کرے، اقتدار اور اختیار ہے تو مجبوروں اور کمزوروں کی مدد کرتارہے۔ حضرت ابوبکر (رض) کا زکوٰۃ نہ دینے والوں کے متعلق حکم : (فَقَالَ وَاللَّہِ لأُقَاتِلَنَّ مَنْ فَرَّقَ بَیْنَ الصَّلاَۃِ وَالزَّکَاۃِ، فَإِنَّ الزَّکَاۃَ حَقُّ الْمَالِ، وَاللَّہِ لَوْ مَنَعُونِی عَنَاقًا کَانُوا یُؤَدُّونَہَا إِلَی رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لَقَاتَلْتُہُمْ عَلَی مَنْعِہَا ) (رواہ البخاری : باب وجوب الزکٰوۃ) ” حضرت ابو بکر صدیق نے کہا اللہ کی قسم ! میں ان لوگوں سے ضرور لڑائی کروں گا جو نماز اور زکوٰۃ میں فرق کریں گے۔ یقیناً زکوٰۃ مال کا حق ہے۔ اللہ کی قسم ! اگر لوگوں نے بکری کا بچہ دینے سے انکار کیا جو وہ اللہ کے رسول کے عہد میں دیا کرتے تھے۔ میں اس کے روکے جانے پہ لڑائی کروں گا۔“ مسائل ١۔ غائب پر ایمان لاناضروری ہے۔ ٢۔ نماز قائم کرنافرض ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ کے دیے ہوئے رزق سے خرچ کرنا چاہیے۔ ٤۔ قرآن مجید اور پہلی کتابوں پر ایمان لانا اور آخرت کو یقینی جاننا ایمان کے بنیادی ارکان ہیں۔ ٥۔ ارکان اسلام کے تقاضے پورے کرنے والے لوگ ہدایت یافتہ اور کامیاب ہوں گے۔ تفسیر بالقرآن نماز کی اہمیت : یہاں نماز اور زکوٰۃ کی فرضیت واہمیت کے چند دلائل پیش کیے جاتے ہیں۔ انشاء اللہ تفصیلی مسائل مرحلہ وار موقعہ بموقعہ بیان ہوں گے۔ ١۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نماز کا حکم۔ (العنکبوت : ٤٥) ٢۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور نماز۔ (ابراہیم : ٣٧) ٣۔ حضرت موسیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نماز کا حکم۔ (یونس : ٨٧) ٤۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور نماز۔ (مریم : ٣١) ٥۔ بنی اسرائیل کو نماز کا حکم۔ (البقرۃ: ٨٣) ٦۔ تمام امتوں کو اقامت صلوٰۃ کا حکم۔ (البینۃ: ٥) ٧۔ نماز کا نظام قائم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ (الحج : ٤٤) البقرة
4 فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ ایمان کے مرکزی ارکان کا ذکر کرنے کے بعد لفظ ” ما“ استعمال فرما کر ایمان کی ان تمام مبادیات وشروعات کا احاطہ کیا گیا ہے جو ایمان کی تکمیل کے لیے ضروری ہیں۔ اس کی تفصیلات کے لیے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ملاحظہ فرمائیں جس میں آپ نے یہی لفظ ” مَا“ استعمال فرما کر اس بات کا واضح اشارہ دیا ہے کہ ایمان کی تکمیل اس جامع تصور کے بغیر ممکن نہیں۔ ( لَا یُؤْمِنُ أَحَدُکُمْ حَتّٰی یَکُوْنَ ھَوَاہُ تَبَعًا لِّمَا جِءْتُ بِہٖ) (مشکوٰۃ : کتاب العلم : فصل ثالث) ” تم میں سے کوئی مؤمن نہیں ہوسکتا جب تک وہ اپنی خواہشات کو میرے لائے ہوئے دین کے تابع نہ کر دے۔“ اسلام کی وسعت تعلیم کا اندازہ لگائیں کہ وہ صرف قرآن مجید پر ہی نہیں بلکہ پہلی تمام آسمانی کتابوں پر ایمان لانا ضروری سمجھتا ہے۔ حالانکہ نزول قرآن کے بعد وہ منسوخ ہوچکی ہیں۔ اس کے باوجود قرآن مجید ان کی حقیقی تعلیمات اور پہلے انبیاء کی تائید کرتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی تمام انبیاء کی شان اور مقام کے اعتراف و احترام کا حکم دیتا ہے کیونکہ پہلے انبیاء اللہ تعالیٰ کے فرستادہ تھے‘ ان پر نازل ہونے والی کتابیں من جانب اللہ تھیں اور دین کے بنیادی ارکان ہمیشہ سے ایک ہی رہے ہیں لیکن ہدایت کے لیے اب قرآن اور اس پر کماحقہ عمل کرنے کے لیے جناب محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات گرامی واجب الاتباع قرار پائی ہے۔ ایمان کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جبریل امین (علیہ السلام) کے سوال کے جواب میں فرمایا : (اَنْ تُؤْمِنَ باللّٰہِ وَمَلٰءِکَتِہٖ وَکُتُبِہٖ وَ رُسُلِہٖ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ وَتُؤْمِنَ بالْقَدْرِ خَیْرِہٖ وَشَرِّہٖ) (رواہ مسلم : کتاب الایمان، باب بیان الإیمان والإسلام والإحسان) ” تو اللہ، اس کے فرشتوں، اس کی کتابوں، اس کے رسولوں، قیامت کے دن، اچھی اور بری تقدیر پر ایمان لائے۔“ دوسرے مقام پر رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : (اَلْإِیْمَانُ بِضْعٌ وَسَبْعُوْنَ شُعْبَۃً فَأَفْضَلُھَا قَوْلُ لَاإِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَأَدْنَاھَا إِمَاطَۃُ الْأَذٰی عَنِ الطَّرِیْقِ وَالْحَیَاءُ شُعْبَۃٌ مِّنَ الْإِیْمَانِ) (رواہ مسلم : باب بیان عدد شعب الإیمان وأفضلھا وأدناھاوفضیلتُہُ) ” ایمان کے ستر سے کچھ اوپر اجزاء ہیں۔ ان میں افضل ترین ” لَا اِلٰہَ اِلَّااﷲُ“ کا اقرار ہے اور سب سے ادنیٰ تکلیف دہ چیز کو راستے سے ہٹانا ہے اور حیا بھی ایمان میں شامل ہے۔“ ایمان کا معنٰی : ایمان کا معنٰی ہے دل سے تصدیق کرنا، زبان سے اس کا اظہار کرنے کے ساتھ اس پر عمل پیرا ہونا۔ ایقان کا معنٰی : کسی سچائی کو دل کی اتھاہ گہرائیوں کے ساتھ اس طرح تسلیم کرنا کہ اس میں شک اور تردد کی کوئی گنجائش باقی نہ رہے۔ یہ ایقان کا درجہ ہے جو لوگ اللہ تعالیٰ کے احکامات کو اس طرح مانتے اور عمل پیرا ہوتے ہیں وہی ایمان دارہیں۔ جب تک آدمی آخرت پر سچا ایمان نہ لائے اس وقت تک اس کی زندگی پر قرآن و سنت کے پورے اثرات مرتب نہیں ہو سکتے۔ قرآن مجید نے اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کے بعد سب سے زیادہ عقیدۂ آخرت پر زور دیا ہے کیونکہ اس کے بغیر نیکو کاروں کو پورا پورا اجر اور نافرمانوں کو ٹھیک ٹھیک سزا نہیں مل سکتی۔ آخرت کی جواب دہی کا تصور ہی انسان کو درست رکھ سکتا ہے۔ مسائل ١۔ قرآن مجید‘ پہلی آسمانی کتب اور آخرت پر ایمان لانا فرض ہے۔ تفسیر بالقرآن آخرت پر یقین محکم ہونا چاہیے : ١۔ آخرت برحق اور اس کے برپا ہونے میں کوئی شک نہیں۔ (الکہف : ٢١) ٢۔ ایمانداروں کی نشانی یہ ہے کہ وہ آخرت پر یقین رکھتے ہیں۔ (البقرہ : ٣) ٣۔ اللہ تعالیٰ کی آیات اور آخرت کو جھٹلانے والوں کے اعمال ضائع ہوجائیں گے۔ (الاعراف :147) ٤۔ آخرت کے منکروں کی خواہشات کے پیچھے نہیں لگنا چاہیے۔ ( الانعام : ١٥١) ٥۔ اصل زندگی آخرت کی زندگی ہے۔ (العنکبوت : ٦٤) البقرة
5 فہم القرآن ربط کلام : ایمان کے چھ اوصاف اپنانے اور ان کے تقاضے پورے کرنے والوں کو کامیابی کا مژدہ سنایا جاتا ہے۔ کتاب مبین کے الفاظ اور اس کی ہدایت پر کسی شک وتردد کے بغیر یقین کرنا، قرآن مجید کے بتلائے ہوئے ان دیکھے حقائق پر ایمان لانا، نماز کی شرائط کے مطابق اس کی ادائیگی اور اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ نعمتوں کا انفاق، قرآن و حدیث کی صورت میں جو کچھ جناب محمد کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل ہوا ہے اسے اعتقاداً، قولًا اور عملًاتسلیم کرنا، انبیاء کرام (علیہ السلام) اور پہلی کتب آسمانی کی تصدیق کرتے ہوئے آخرت کی جواب دہی پر یقین کامل رکھنے والوں کے بارے میں فرمایا جا رہا ہے کہ یہی وہ خوش نصیب ہیں جو اپنے رب کی ہدایت پر ہیں اور یہی فلاح و کامیابی سے سر فراز ہونے والے ہیں۔ فلاح کسی ادھوری اور جزوی کامیابی کو نہیں کہتے بلکہ فلاح اس مکمل کامیابی کو کہا جاتا ہے جس کے دامن میں دنیا و آخرت کی سعادتیں اور برکتیں سمٹ آئی ہوں۔ ” لیس فی کلام العرب کلہ اجمع من لفظۃ الفلاح لخیری الدنیا و الاخرۃ کما قالہ ائمۃ اللغۃ.“ [ تاج العروس] ” ائمہ لغت نے تصریح کی ہے کہ عربی زبان میں فلاح کے لفظ سے زیادہ اور کوئی جامع لفظ نہیں جو دنیا وآخرت دونوں کی خیرات و برکات پر دلالت کرتا ہو۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ اور غائب پر ایمان لانا، نماز قائم کرنا۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ کے دیے ہوئے رزق سے خرچ کرنا۔ ٣۔ قرآن مجید، پہلی کتابوں اور انبیاء کرام پر ایمان لانا۔ ٤۔ آخرت کو یقینی جاننا ایمان کے بنیادی ارکان ہیں۔ تفسیر بالقرآن کامیاب کون؟ ١۔ ایمان کے تقاضے پورے کرنے والے کامیاب ہوں گے۔ ( الاعراف : ١٥٧) ٢۔ رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لانے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عزت و تکریم کرنے والے کامیاب ہوں گے (الاعراف : ١٥٧) ٣۔ اللہ کے راستے میں مال و جان کے ساتھ جہاد کرنے والے کامیاب ہوں گے۔ (التوبۃ: ٨٨) ٤۔ غریبوں اور مسکینوں کی مدد کرنے والے کامیاب ہوں گے۔ (الروم : ٣٨) البقرة
6 فہم القرآن ربط کلام : لوگوں کی دوسری قسم جنہوں نے حق کا انکار کیا ان کے مزاج اور انجام کا بیان۔ لغت میں کفر کا معنٰی ہے کسی شے کو چھپانا۔ جو شخص نعمت کو چھپائے اور اس کا شکرا ادا نہ کرے اس کے فعل کو کفر اور کفران نعمت کہتے ہیں۔ سب سے بڑا کفر اللہ کی وحدانیت اور شریعت، نبوت کا انکار ہے۔ قرآن مجید میں کفر کا لفظ کفران نعمت اور کفر باللہ دونوں کے لیے استعمال ہوا ہے۔ (اَلْکُفْرُ عَدَمُ تَصْدِیْقِ الرَّسُوْلِ فِیْمَا عُلِمَ بالضَّرُوْرَۃِ مَجِیْءُہٗ بِہٖ) (تفسیر رازی : ص ٣٠٦، ج ١) ” کفر کے معنٰی یہ ہیں کہ رسول اور پیغمبر کی اس بات میں تصدیق نہ کرنا جس کا بدیہی اور قطعی طور پر دین سے ہونا معلوم ہوچکا ہے۔“ حقائق کا مسلسل انکار اور ہٹ دھرمی پر قائم رہنے والوں کی یہ حالت ہوچکی ہوتی ہے کہ ان کے لیے سمجھانا اور نہ سمجھانا یکساں ہوجاتا ہے۔ ان آیات میں ایک طرف نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دی جا رہی ہے کہ آپ کا کام ” اللہ“ کا پیغام پہنچانا اور لوگوں کو سمجھانا ہے۔ اگر یہ لوگ حق کا مسلسل انکار کئے جا رہے ہیں تو آپ کو دل گرفتہ نہیں ہونا چاہیے۔ اور نہ ہی ایسے ہٹ دھرم لوگوں پر مزید صلاحیتوں کو صرف کرنا چاہیے کیونکہ ان کے سچ اور حق کو قبول کرنے والے اعضاء بے کار کردیے گئے ہیں۔ بعض لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ اگر اللہ نے ہی ان کی قوت فہم و سماعت ختم کردی ہے اور ان کی بصارت پر پردے ڈال دیے ہیں تو ان کا کیا قصورہے ؟ در حقیقت یہ لوگ آیات کے سیاق و سباق سے ہٹ کر یہ معنٰی نکال کر اپنی کم فہمی یا منفی سوچ کا اظہار کرتے ہیں۔ جبکہ ان آیات کا مفہوم سمجھنے کے لیے ایک مشفق و مہربان حکیم کی مثال سامنے رکھنی چاہیے جو کسی مریض کو مرض کے نقصانات بتلا اور دوائی کے فائدے سمجھا کر بار بار دوائی کھلانے کی کوشش کرتا ہے لیکن مریض نہ صرف اپنا منہ بند کرلیتا ہے بلکہ ہر قسم کی بد پرہیزی اور حکیم کے ساتھ بد تمیزی کرنے میں آگے ہی بڑھتا جاتا ہے۔ مریض کی بد تمیزی اور ہٹ دھرمی دیکھ کر اگر حکیم یہ کہہ دے کہ مریض اپنی موت کو دعوت دے رہا ہے لہٰذا اسے مرنے ہی دینا چاہیے تو اس میں حکیم کا قصور سمجھا جائے گا یا مریض کا؟ البقرة
7 دوسرے مقام پر قرآن مجید نے واضح فرمایا ہے کہ ان کے گناہوں اور کفر کی وجہ سے ان کے کان بہرے، آنکھیں اندھی اور دلوں پر مہریں لگ چکی ہیں۔ (الاعراف : ١٧٩) ان آیات میں کفر و شرک کے مریض کی حالت اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بھر پورکوششوں کا نقشہ پیش فرما کر رب کریم نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دی ہے اور انکار کرنے والوں پر ہمیشہ کی ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ ان کو اس قدر ہولناک اور اذیت ناک عذاب ہوگا کہ وہ دنیا کی سب نعمتوں اور سہولتوں کو بھول جائیں گے۔ (عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یُؤْتٰی بِأَنْعَمِ أَھْلِ الدُّنْیَا مِنْ أَھْلِ النَّارِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ فَیُصْبَغُ فِی النَّارِ صَبْغَۃً ثُمَّ یُقَالُ یَاابْنَ آدَمَ ھَلْ رَأَیْتَ خَیْرًا قَطُّ ھَلْ مَرَّبِکَ نَعِیْمٌ قَطُّ فَیَقُوْلُ لَاوَاللّٰہِ یَارَبِّ وَیُؤْتٰی بِأَشَدِّ النَّاسِ بُؤْسًا فِی الدُّنْیَا مِنْ أَھْلِ الْجَنَّۃِ فَیُصْبَغُ صَبْغَۃً فِی الْجَنَّۃِ فَیُقَالُ لَہٗ یَا ابْنَ آدَمَ ھَلْ رَأَیْتَ بُؤْسًا قَطُّ ھَلْ مَرَّ بِکَ شِدَّۃٌ قَطُّ فَیَقُوْلُ لَا وَاللّٰہِ یَارَبِّ مَا مَرَّ بِیْ بُؤْسٌ قَطُّ وَلَا رَأَیْتُ شِدَّۃً قَطُّ) (رواہ مسلم : کتاب صفۃ القیامۃ والجنۃ والنار، باب صبغ أنعم أھل الدنیا فی النار.....) ” حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : روز قیامت دنیا میں سب سے زیادہ ناز و نعمت میں پلنے والے جہنمی کو لا کر آگ میں غوطہ دیا جائے گا پھر اس سے پوچھا جائے گا کہ کیا تو نے کبھی کوئی بہتری دیکھی؟ کیا تجھے کوئی نعمت ملی؟ تو وہ کہے گا : اللہ کی قسم! اے میرے رب میں نے کوئی نعمت نہیں دیکھی۔ پھر ایک جنتی کو لایا جائے گا جو دنیا میں سب سے زیادہ تکلیفوں میں رہا اسے جنت میں داخل کر کے پوچھا جائے گا اے ابن آدم! کیا تو نے کبھی کوئی تکلیف اور سختی دیکھی؟ وہ عرض کرے گا نہیں اللہ کی قسم! مجھے کبھی کوئی تکلیف اور مصیبت نہیں آئی۔“ مسائل ١۔ کفر پر پکے لوگوں کو سمجھانا یا نہ سمجھانا ایک جیسا ہوتا ہے۔ تفسیر بالقرآن جن لوگوں کے دلوں پر اللہ نے مہریں لگائی ہیں : ١۔ کفار۔ (الأعراف : ١٠١) ٢۔ خواہشات کا بندہ۔ (الجاثیۃ: ٢٣) ٣۔ مجرم۔ (یٰس : ٦٥) ٤۔ یہودی۔ ( النساء : ١٥٥) ٥۔ منافقین۔ (التوبۃ: ٨٧، ٩٣) ٦۔ جاہل بے علم۔ ( الروم : ٥٩) ٨۔ حد سے تجاوز کرنے والا۔ ( یونس : ٧٤) ٩۔ دنیا کی زندگی کو آخرت پر ترجیح دینے والا۔ ( النحل : ١٠٨) البقرة
8 فہم القرآن ربط کلام : ایمان کی مبادیات تسلیم کرنے سے انکار کرنے والوں کے بیان کے بعد تیرہ آیات میں منافقوں یعنی دوغلے لوگوں کے کردار کا ذکر کیا گیا ہے تاکہ معلوم ہو کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ہر داعی حق کو تین قسم کے لوگوں سے سابقہ پیش آئے گا۔ لہٰذا گھبرانے اور حوصلہ ہارنے کی ضرورت نہیں بلکہ اس میدان کے غازی کو اپنا کام جاری رکھنا چاہیے۔ نفاق : دل میں کفر اور ظاہر میں اسلام کا اظہار کرنا نفاق کہلاتا ہے۔ نفاق کی دو قسمیں ہیں، اعتقادی نفاق اور عملی نفاق دونوں احکام کے لحاظ سے مختلف ہیں۔ تین قسم کے لوگ : نظریاتی اعتبار سے دنیا میں تین قسم کے لوگ ہوا کرتے ہیں۔ (١) حق اور سچ قبول کرنے والے۔ (٢) حق کا انکار کرنے والے (٣) ذاتی مفاد یا فکری انتشار کی وجہ سے ہمیشہ تذبذب کا شکار اور دنیوی مفاد کی خاطر اعراض کرنے والے لوگ جنہیں قرآن مجید نے منافق قرار دیا ہے۔ یہ ڈبل چہرے اور دوہرے کردار کے لوگ ہوتے ہیں۔ ایسا شخص نہ قول کا سچا اور نہ کردار کا پختہ ہوتا ہے۔ اسے ہر بات میں دنیا کا مفاد عزیزہوتا ہے۔ جس کی وجہ سے وہ اللہ تعالیٰ کے مقدّس نام اور دین کے پاکیزہ کام کو بھی اپنی ذات اور مفاد کے لیے استعمال کرتا ہے۔ حتی کہ آخرت کے عقیدے کو ڈھال کے طور پر استعمال کرنے میں کوئی باق محسوس نہیں کرتا۔ منافق، مومنوں کی آستینوں میں گھسے ہوئے سانپ ہیں جو ہر وقت اسلام اور مسلمانوں کے خلاف سازشوں اور شرارتوں میں مصروف رہتے ہیں۔ یہ مومنوں کو دھوکہ دیتے ہیں۔ البقرة
9 درحقیقت یہ اپنے آپ کو دھوکہ دیتے ہیں۔ کتنا برا اور بد بخت ہے وہ آدمی جو اپنی ذات کو دھوکے میں مبتلا رکھے۔ کیونکہ منافق اللہ کے رسول کو دھوکہ دیتے، دین اور دین داروں کو مذاق کرتے ہیں۔ دین اللہ تعالیٰ نے بھیجا اور رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھی اسی نے مبعوث فرمایا ہے اور مومنوں کو بھی دین کی وجہ سے استہزا کا نشانہ بنایا جاتا ہے جس وجہ سے اللہ تعالیٰ نے منافقوں کے دھوکہ کو اپنی ذات کے ساتھ دھوکہ اور مذاق قرار دیا ہے۔ رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے منافق کے کردار کو اس طرح بیان فرمایا ہے : (عَنِ ابْنِ عُمَرَ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ مَثَلُ الْمُنَافِقِ کَمَثَلِ الشَّاۃِ الْعَاءِرَۃِ بَیْنَ الْغَنَمَیْنِ تَعِیْرُإِ لٰی ھٰذِہٖ مَرَّۃً وَ إِلٰی ھٰذِہٖ مَرَّۃً) (رواہ مسلم : کتاب صفات المنافقین وأَحکامھم) ” حضرت عبداللہ بن عمر (رض) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں آپ نے فرمایا منافق کی مثال اس بکری کی طرح ہے جو دو ریوڑوں کے درمیان پھرتی ہے کبھی ایک ریوڑکی طرف جاتی ہے کبھی دوسرے کی طرف۔“ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)۔۔ قَالَ مَنْ غَشَّ فَلَیْسَ مِنِّیْ) (رواہ مسلم : کتاب الإیمان باب قول النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) من غشنا فلیس منا) ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس نے دھوکہ دیا وہ مجھ سے نہیں۔“ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ آیَۃُ الْمُنَافِقِ ثَلاَثٌ إِذَا حَدَّثَ کَذَبَ، وَإِذَا وَعَدَ أَخْلَفَ، وَإِذَا اؤْتُمِنَ خَانَ) (رواہ البخاری : باب علامۃ المنافق) ” حضرت ابوہریرہ (رض) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں۔ آپ نے فرمایا منافق کی تین نشانیاں ہیں، جب بات کرتا ہے تو جھوٹ بولتا ہے، جب وعدہ کرتا ہے وعدہ خلافی کرتا ہے اور جب اس کے پاس امانت رکھی جاتی ہے تو خیانت کرتا ہے۔“ مسائل ١۔ منافق اللہ اور آخرت پر ایمان رکھنے کا دعویٰ کرتا ہے لیکن حقیقتاً وہ ایمان دار نہیں ہوتا۔ ٢۔ منافق اللہ تعالیٰ اور ایمان داروں کو دھوکا دیتا ہے۔ ٣۔ منافق حقیقی فہم و شعور سے عاری ہوتا ہے۔ تفسیر بالقرآن منافق کا جھوٹا دعویٰ : ١۔ منافق دعوی ایمان کے باوجود ایمان دار نہیں۔ ( البقرۃ: ٨) ٢۔ اللہ گواہی دیتا ہے کہ منافق دعویٰ ایمانی میں جھوٹے ہیں۔ ( المنافقون : ١) ٣۔ منافقین نے ایمان کے بعد کفر اختیار کیا ہوا ہے۔ ( المنافقون : ٣) ٤۔ منافق ایمان کے دعویٰ کی جھوٹی قسمیں اٹھاتے ہیں۔ ( التوبۃ: ٥٦) منافق کی دھوکہ بازیاں : ١۔ منافق اللہ اور مومنوں کو دھوکہ دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ ( البقرۃ: ٩) ٢۔ منافق رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دھوکہ دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ ( المنافقون : ١) ٣۔ منافق نماز بھی دھوکہ دینے کی خاطر پڑھتے ہیں۔ ( النساء : ١٤٢) البقرة
10 فہم القرآن ربط کلام : منافقت ایک روحانی بیماری ہے جس سے کئی جرائم جنم لیتے ہیں۔ منافق جھوٹ بولنے کا عادی ہوتا ہے۔ اس لیے اس کی روحانی اور اخلاقی بیماریوں میں اضافہ ہی ہوا جاتا ہے بالکل اس مریض کی طرح جس کے لیے بہترین خوراک بھی بیماری میں اضافے کا سبب بنتی ہو۔ یہاں یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ انسان جسمانی طور پر ہی بیمار نہیں ہوتا اس کی روح بھی بیمار ہوتی ہے جسم مادی عناصر سے بنا ہے۔ اس کا علاج مادی عوامل سے ہوتا ہے۔ روح اللہ تعالیٰ کا حکم اور ملکوتی ہے۔ اس کا علاج روحانی یعنی اللہ تعالیٰ کے کلام اور اس کے نبی کی تابعداری سے ہوتا ہے۔ (إِنَّ الْحَلَالَ بَیِّنٌ وَإِنَّ الْحَرَامَ بَیِّنٌ وَبَیْنَھُمَا مُشْتَبِھَاتٌ لَایَعْلَمُھُنَّ کَثِیْرٌ مِّنَ النَّاسِ فَمَنِ اتَّقَی الشُّبُھَاتِ اسْتَبْرَأَ لِدِیْنِہٖ وَعِرْضِہٖ وَمَنْ وَقَعَ فِی الشُّبُھَاتِ وَقَعَ فِی الْحَرَامِ کَالرَّاعِیْ یَرْعٰی حَوْلَ الْحِمٰٰی یُوْشِکُ أَنْ یَّرْتَعَ فِیْہِ أَلَا وَإِنَّ لِکُلِّ مَلِکٍ حِمًی أَلَا وَإِنَّ حِمَی اللّٰہِ مَحَارِمُہٗ أَلَا وَإِنَّ فِی الْجَسَدِ مُضْغَۃً إِذَا صَلَحَتْ صَلَحَ الْجَسَدُ کُلُّہٗ وَإِذَ فَسَدَتْ فَسَدَ الْجَسَدُ کُلُّہٗ أَلَا وَھِیَ الْقَلْبُ) (رواہ مسلم : کتاب المساقاۃ، باب أخذ الحَلال وترک الشبھات) ” یقیناً حلال بھی واضح ہے اور حرام بھی۔ ان کے درمیان کچھ متشابہات ہیں جنہیں اکثر لوگ نہیں جانتے جو شبہات سے بچ گیا اس نے اپنے دین اور عزت کو بچا لیا اور جو شبہات میں پڑگیا وہ حرام میں مبتلا ہوگیا۔ یہ اس چرواہے کی طرح ہے جو چراگاہ کے قریب جانور چراتا ہے ہوسکتا ہے وہ جانور چراگاہ میں چرنا شروع ہوجائیں۔ خبردار! ہر بادشاہ کی چراگاہ ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ کی چراگاہ اس کی حرام کردہ چیزیں ہیں۔ سنو! یقیناً جسم میں ایک ٹکڑا ہے وہ ٹھیک ہو تو سارا جسم درست ہوتا ہے اور وہ فاسد ہو تو سارا جسم خراب ہوجاتا ہے یاد رکھو! وہ دل ہے۔“ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے استفسار کیا گیا کہ کیا مومن جھوٹ بول سکتا ہے؟ آپ نے فرمایا ہرگز نہیں۔ (مؤطا امام مالک : کتاب الجامع، باب أن عبداللہ بن مسعود کان یقول علیکم بالصدق ) (إِیَّاکُمْ وَ الْکَذِبَ فَإِنَّ الْکَذِبَ یَھْدِیْ إِلَی الْفُجُوْرِ وَإِنَّ الْفُجُوْرَ یَھْدِیْ إِلَی النَّارِ وَمَایَزَال الرَّجُلُ یَکْذِبُ وَیَتَحَرَّی الْکَذِبَ حَتّٰی یُکْتَبَ عِنْدَ اللّٰہِ کَذَّابًا) (رواہ مسلم : کتاب البر والصلۃ والآداب) ” تم جھوٹ سے کنارہ کش رہو۔ اس لیے کہ جھوٹ گناہ کی طرف لے جاتا ہے اور گناہ دوزخ میں پہنچا دیتا ہے۔ جب ایک شخص ہمیشہ جھوٹ بولتا اور جھوٹ کا عادی ہوجاتا ہے تو وہ اللہ کے نزدیک جھوٹا لکھ دیا جاتا ہے۔“ دل کی حالت : (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ إِنَّ الْعَبْدَ إِذَا أَخْطَأَ خَطِیْءَۃً نُکِتَتْ فِیْ قَلْبِہٖ نُکْتَۃٌ سَوْدَآءُ فَإِذَا ھُوَ نَزَعَ وَاسْتَغْفَرَ وَتَابَ سُقِلَ قَلْبُہٗ وَإِنْ عَادَ زِیْدَ فِیْھَا حَتّٰی تَعْلُوَ قَلْبَہٗ وَھُوَ الرَّانُ الَّذِیْ ذَکَرَ اللّٰہُ (کَلَّا بَلْ رَانَ عَلٰی قُلُوْبِھِمْ مَّاکَانُوْا یَکْسِبُوْنَ) (رواہ الترمذی : کتاب تفسیر القرآن) ” حضرت ابوہریرہ (رض) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : جب بندہ کوئی غلطی کرتا ہے تو اس کے دل پرسیاہ نکتہ پڑجاتا ہے جب وہ گناہ چھوڑ دے اور توبہ و استغفار کرے تو اس کا دل پالش ہوجاتا ہے۔ اگر وہ دوبارہ گناہ کی طرف پلٹے تو سیاہی اس کے دل پر چڑھ جاتی ہے یہی وہ زنگ ہے جس کا تذکرہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں کیا ہے کہ (ہرگز نہیں بلکہ ان کے دلوں پر ان کے گناہوں کی وجہ سے زنگ چڑھ چکا ہے۔) “ مسائل ١۔ منافقت دل کی بیماری ہے۔ ٢۔ منافق جھوٹا ہوتا ہے۔ ٣۔ منافقت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ منافق کی بیماری کو بڑھا دیتا ہے۔ ٤۔ منافق کو اذیت ناک عذاب ہوگا۔ تفسیر بالقرآن روحانی بیماریاں : ١۔ ریاکاری۔ ( البقرۃ: ٢٦٤، النساء : ١٤٢، الأنفال : ٤٧، الماعون : ٤ تا ٦) ٢۔ قساوت قلب۔ (المائدۃ: ١٣، الزمر : ٢٢) ٣۔ کفر۔ (البقرۃ: ١٠) ٤۔ تکبر۔ (النحل : ٢٢، لقمان : ١٨، النساء : ١٧٢) ٥۔ کجی۔ ( التوبۃ: ١١٧، آل عمران : ٧، الصف : ٥) ٦۔ دل کا زنگ آلود ہونا۔ ( المطففین : ١٤) ٧۔ حسد۔ ( البقرۃ: ١٠٩، النساء : ٥٤) ٨۔ سرکشی۔ ( البقرۃ: ٩٠، ٢١٣، یونس : ٩٠) ٩۔ بغض۔ (آل عمران : ١١٨، المائدۃ: ٩١، الممتحنۃ: ٤) البقرة
11 فہم القرآن ربط کلام : منافقت کی بیماری کی وجہ سے منافق کو اصلاح اور بگاڑ کے درمیان شعور نہیں رہتا۔ اصلاح و فساد کی ابتدا انسان کے ضمیر سے ہوتی ہے۔ ضمیر بگڑتا ہے تو طبیعت میں برائی کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ جو آدمی کے کردار پر منفی اثرات مرتب کرتا ہے۔ جس سے اکثر اوقات سوچ کے زاویے اس قدر بگڑ جاتے ہیں کہ آدمی کو اصلاح اور بگاڑ میں فرق محسوس نہیں ہوتا۔ خاص کر ایسا شخص جو اپنے مفاد کے لیے اللہ تعالیٰ کے مقدس نام اور آخرت کے عقیدہ کو ڈھال کے طور پر استعمال کرتے ہوئے جھوٹ بولتا ہے۔ اس کا ضمیر اس حد تک پستی کا شکار ہوجاتا ہے کہ اس سے ہر گناہ اور جرم کی توقع کی جا سکتی ہے۔ ایسے لوگوں پر جتنے نگران مقرر کردیے جائیں اور انہیں لاکھ سمجھائیں۔ اصلاح کی بجائے ان کے بگاڑ میں اضافہ ہی ہوا کرتا ہے۔ جیسا کہ ہم دیکھتے ہیں کہ رشوت کے خاتمہ کے لیے انسداد رشوت ستانی کے محکمہ سے رشوت کے ریٹ بڑھ جاتے ہیں۔ فروغ تعلیم کے نام پر جہالت، معلومات عامہ کے نام پر گندہ لٹریچر، کلچر کے نام پر بے حیائی، عدل و انصاف کے نام پر ججز اور وکلاء کی قانونی موشگافیاں، شیطان کی آنت کی طرح پھیلا ہوا عدالتی نظام بگڑتاہی چلا جاتا ہے۔ ملک و ملت کے وسیع تر مفاد کے نام پر وسیع تر فساد کا جال بچھا دیا جاتا ہے۔ امن و امان قائم کرنے کے نام پر بے گناہوں کا قتل عام، یہ سب اصلاح اور فلاح کے نام پر ہی تو کیا جاتا ہے۔ ایسی حکومتوں، افسروں اور اداروں کے ذمہ داران کو سمجھا کر دیکھ لیجئے۔ جواب یہی ملے گا کہ ہم تو اصلاح احوال اور فلاح عوام کے لیے سب کچھ کر رہے ہیں۔ ایسا اس لیے ہے کہ یہ لوگ فسادی ہیں مگر حقیقی شعور سے محروم ہونے کی وجہ سے اصلاح اور فساد میں فرق نہیں سمجھتے جس وجہ سے اپنے آپ کو مصلح سمجھتے ہیں۔ ایسے لوگوں سے مسلمانوں کو خبردار اور ہوشیار رہنے کا حکم دیا گیا کہ ان منافقوں اور فسادیوں سے بچتے رہنا۔ مسائل ١۔ منافق فسادی ہونے کے باوجود اپنے آپ کو مصلح سمجھتا ہے۔ ٢۔ منافق حقیقی سمجھ سے تہی دامن ہوتا ہے۔ البقرة
12 تفسیر بالقرآن فسادی کون؟ ١۔ منافقین (البقرۃ: ١١) ٢۔ زمین میں فساد لوگوں کے اعمال کا نتیجہ ہے (الروم : ٤١) ٣۔ یاجوج و ماجوج (الکہف : ٩٤) ٤۔ فرعون (یونس : ٩١) ٥۔ یہودی (المائدۃ: ٦٤) ٦۔ بچوں کے قاتل (القصص : ٤) البقرة
13 فہم القرآن ربط کلام : منافق دوغلا، جھوٹا اور فسادی ہی نہیں ہوتا بلکہ اپنی منافقت کے کھوٹ کی وجہ سے مخلص مسلمانوں کو بیوقوف کہتا اور سمجھتا ہے۔ منافق ابن الوقت اور مفاد پرست ہوتا ہے۔ اسی لیے مخلص، ایثار پیشہ اور با اصول شخص کو پسند نہیں کرتا۔ صحابہ کرام (رض) ایثار کے پیکر اور قربانی کے خوگر تھے۔ انہوں نے اللہ اور اس کے رسول کی محبت اور اسلام کی سر بلندی کی خاطر ہر چیز قربان کرنے کی بے مثال اور لا زوال مثالیں قائم کیں تھیں۔ منافقین ایسے مخلص حضرات کو کس طرح پسند کرسکتے تھے؟ ربِّ کریم نے جب منافقوں کو حکم دیا کہ تم بھی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اصحاب کی طرح مخلصانہ ایمان اور فدا کاری کا رویہ اختیار کرو۔ منافقین نے تسلیم و رضا کا روّیہ اپنانے کی بجائے کہا : کیا ہم ان بے وقوفوں کی طرح کاروبار تباہ کرلیں اور اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈال دیں؟ یہ تو سراسر حماقت کا راستہ ہے۔ اس کے جواب میں فرمایا گیا ہے کہ اپنے خالق و مالک کا فرمان تسلیم کرنا اور اس کے حکم پر سب کچھ قربان کردینا بے وقوفی نہیں۔ حماقت اور بے وقوفی تو یہ ہے کہ آدمی اپنے رب کا نافرمان اور اس کے ساتھ عدم اخلاص کا رویّہ اور فانی دنیا کے لیے ہمیشہ کی زندگی کو برباد کرلے۔ اس فرمان میں رہتی دنیا تک صحابہ کرام (رض) کے ایمان کو جہان والوں کے لیے معیار قرار دیتے ہوئے صحابہ کو برا کہنے والوں کو احمق، منافق اور علم و آگہی سے نا بلد قرار دیا گیا ہے۔ مسائل ١۔ منافق صحابہ کرام (رض) کو بیوقوف سمجھتے ہیں۔ ٢۔ حقیقتاً منافق بے وقوف ہوتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن بیوقوف کون؟ ١۔ ملت ابراہیم سے اعراض کرنے والابیوقوف ہے۔ (البقرۃ: ١٣٠) ٢۔ صحابہ کو برا کہنے والابیوقوف ہے۔ (البقرۃ: ١٢) ٣۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے طریقہ سے انحراف کرنے والابیوقوف ہے۔ (البقرۃ: ١٣) ٤۔ قبلہ پر اعتراض کرنے والے بیوقوف ہے۔ (البقرۃ: ١٤٢) البقرة
14 فہم القرآن ربط کلام : منافقت کے سبب اور حقیقی شعور سے تہی دامن ہونے کی وجہ سے کردار میں کھوکھلہ پن پیدا ہوجاتا ہے۔ جس وجہ سے منافق ایسی گفتگو کرتا ہے۔ منافق جب ایمان داروں سے ملتے ہیں تو ان سے کہتے ہیں کہ ہم تمہارے ساتھ ہیں اور اسلام کی خوبیاں، رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اوصاف اور مومنوں کے حسن کردار کا ذکر کرتے ہوئے ایمان کے دعویدار بنتے ہیں۔ لیکن جب اپنے لیڈروں کی طرف پلٹتے ہیں تو ان کو تسلی دیتے ہیں کہ ہمارے بارے میں فکر نہ کرنا ہم تمہارے ہی ہیں ہم تو مسلمانوں کے ساتھ شغل اور دکھاوے کے لیے ہم آہنگی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ یہاں قرآن مجید نے ان کے بڑوں کو شیطان قرار دیا ہے کیونکہ ان کے بڑے شیطان کی طرح نہ صرف خود گمراہ ہیں بلکہ دوسروں کو بھی گمراہ کر رہے ہیں۔ منافق اخلاقی لحاظ سے اس قدر سفلہ مزاجی کا شکار ہوتا ہے کہ وہ ایمان جیسے گراں قدر اور حساس معاملے کو بھی مذاق سمجھتا ہے۔ ایسے لوگوں کو ان کے گناہ کی طرف توجہ دلائی جائے تو وہ اپنی خفت مٹانے اور شرمندگی چھپانے کے لیے کہتے ہیں کہ تم تو خواہ مخواہ سنجیدہ ہو رہے ہو ہم تو خوش طبعی کے طور ایسا کر رہے تھے۔ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَال النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تَجِدُ مِنْ شَرِّ النَّاسِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ عِنْدَ اللَّہِ ذَا الْوَجْہَیْنِ، الَّذِی یَأْتِی ہَؤُلاَءِ بِوَجْہٍ وَہَؤُلاَءِ بِوَجْہٍ) (رواہ البخاری : باب ما قیل فی ذی الوجہین) ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا قیامت کے دن اللہ کے نزدیک لوگوں میں سے بدترین شخص دوچہروں والا (منافق) ہوگا۔ جو اس طرف ایک چہرے کے ساتھ آتا ہے اور دوسری طرف دوسرے چہرے سے۔“ مسائل ١۔ منافق دوغلی پالیسی اختیار کرتے ہیں۔ ٢۔ بڑے منافق شیطان کے قائم مقام ہوتے ہیں۔ ٣۔ منافق اللہ اور اہل ایمان کو مذاق کرتے ہیں۔ البقرة
15 فہم القرآن ربط کلام : منافقت اللہ تعالیٰ کو دھوکہ دینے کے مترادف ہے۔ یہاں منافقین کے کردار کے بارے میں لفظ طغیان استعمال کیا ہے جو ایک محاورہ بھی ہے کہ دریا میں طغیانی ہے۔ یعنی دریا اپنی حد سے آگے بڑھ گیا ہے۔ یہی حالت گناہ کے وقت انسان کی ہوتی ہے۔ اس لیے کہ وہ اپنی فطرت سلیم سے آگے بڑھ کر گناہ کرتا ہے۔ مذاق کرنا اللہ تعالیٰ کی شان کے خلاف ہے لیکن منافقوں پر ناراضگی اور مومنوں سے مذاق کرنے کی وجہ سے منافقوں کے مذاق کو اللہ تعالیٰ اپنی طرف منسوب فرما رہا ہے۔ کیونکہ مومنوں کو اللہ پر ایمان لانے کی وجہ سے مذاق نشانہ بنایا جاتا ہے۔ جس کو اللہ تعالیٰ اپنے ساتھ مذاق کرنے کے مترادف سمجھتا ہے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس بات کو وسیع ترین تناظر میں یوں بیان فرمایا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا اعلان جنگ : (عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) إنَّّ اللّٰہَ قَالَ مَنْ عَادٰی لِیْ وَلِیًّا فَقَدْ آذَنْتُہٗ بالْحَرْبِ وَمَا تَقَرَّبَ إِلَیَّ عَبْدِیْ بِشَیْءٍ أَحَبَّ إِلیَّ مِمَّا افْتَرَضْتُ عَلَیْہِ وَمَا یَزَالُ عَبْدِیْ یَتَقَرَّبُ إِلَیَّ بالنَّوَافِلِ حَتّٰی أُحِبَّہٗ فَإِذَا أَحْبَبْتُہٗ کُنْتُ سَمْعَہُ الَّذِیْ یَسْمَعُ بِہٖ وَبَصَرَہُ الَّذِیْ یَبْصُرُبِہٖ وَیَدَہُ الَّتِیْ یَبْطِشُ بِھَا وَرِجْلَہُ الَّتِیْ یَمْشِیْ بِھَا وَإِنْ سَأَلَنِیْ لَأُعْطِیَنَّہٗ وَلَءِنِ اسْتَعَاذَنِیْ لَأُعِیْذَنَّہٗ وَمَا تَرَدَّدْتُّ عَنْ شَیْءٍ أَنَا فَاعِلُہٗ تَرَدُّدِیْ عَنْ نَّفْسِ المُؤْمِنِ یَکْرَہُ الْمَوْتَ وَأَنَا أَکْرَہُ مَسَاءَ تَہٗ) (رواہ البخاری : کتاب الرقاق، باب التواضع ) ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جس نے میرے دوست سے دشمنی کی میں اس سے اعلان جنگ کرتا ہوں۔ میں نے جو چیزبندے پر فرض کی اس سے زیادہ مجھے کوئی چیز محبوب نہیں جس سے وہ میرا قرب حاصل کرے۔ بندہ نوافل کے ذریعے میرا قرب حاصل کرتا رہتا ہے حتیٰ کہ میں اس سے محبت کرتا ہوں۔ جب میں اس کے ساتھ محبت کرتا ہوں تو میں اس کے کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے، اس کی آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے، اس کے ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے اور اس کے پاؤں بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے۔ سوال کرے تو میں اسے ضرور عطا کرتاہوں‘ اگر مجھ سے پناہ طلب کرے تو میں اسے پناہ دیتاہوں۔ میں اپنے کسی کام میں اتنا تردُّد نہیں کرتاجتنا ایک مومن کی جان قبض کرنے میں کرتا ہوں کیونکہ بندہ موت کو ناپسند کرتا ہے اور مجھے اس کی تکلیف اچھی نہیں لگتی جس نے ولی کو تکلیف دی۔“ کوئی مجرم اللہ تعالیٰ کی دسترس سے باہر نہیں ہوسکتا اس کے باوجود اس نے منافق کو دین اور دین داروں کے ساتھ مذاق کرنے کی مہلت دے رکھی ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی حکمت کے مطابق ہے۔ سخت ناراضگی کے اظہار کے طور پر مذاق کا لفظ ذات کبریا نے اپنی طرف منسوب کیا ہے جب ان کے لیڈر سازشوں کے بے نقاب ہونے کے خوف سے ان کو روکتے ہیں۔ تو ان کے چیلے چانٹے یہ کہہ کر ان کو مطمئن کرتے ہیں کہ ہم تو مسلمانوں کو مذاق کے طور پر ایسی باتیں کرتے ہیں۔ اس عیاری اور چالاکی کی وجہ سے ان کی عقل پر پردہ پڑچکا ہے۔ یہ جھوٹ، سازش اور منافقت کے پردہ چاک ہونے کے خوف سے دل ہی دل میں پریشان رہتے ہیں اور ایسی باتوں اور ساتھیوں پر خوش ہوتے ہیں۔ یاد رکھیے! گناہ کا نقصان صرف یہی نہیں کہ دنیا میں ذلّت اور آخرت میں سزا ہوگی بلکہ گناہ کا پہلا نقصان یہ ہوتا ہے کہ انسان کا دل گناہ کی وجہ سے پریشان رہتا اور گناہ سے آدمی کی طبیعت پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ گناہ گار ضمیر کا چور اور بزدل ہوجاتا ہے۔ جبکہ نیکی میں اطمینان ہے اور گناہ میں پریشانی۔ کبھی جرائم پیشہ اور بد کا رکو ٹٹول کر دیکھو بظاہر ہشاش بشاش نظر آنے کے باوجودوہ کس طرح پریشان ہوتا ہے۔ قرآن مجید اسی قلبی اضطراب کا ذکر کر رہا ہے کہ وہ اپنے نفس کی طغیانیوں اور نافرمانیوں میں پریشان رہتے ہیں۔ نفسیات کے معلّم اعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے گناہ کی تعریف اس طرح فرمائی ہے : (اَلْإِثْمُ مَا حَاکَ فِیْ صَدْرِکَ وَکَرِھْتَ أَنْ یَّطَّلِعَ عَلَیْہِ النَّاسُ) (رواہ مسلم : کتاب البر والصلۃ، باب تفسیر البر والإثم) ” گناہ وہ ہے جو تیرے دل میں کھٹکے اور لوگوں کو اس کا علم ہونا تجھے ناگوار محسوس ہو۔“ مسائل ١۔ منافق کو روز قیامت استہزا کی سزا دی جائے گی۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ منافق اور کافر کو دنیا میں ڈھیل دیتا ہے۔ تفسیر بالقرآن استہزا اور اس کی سزا : ١۔ انبیاء کے ساتھ استہزا کیا گیا۔ (الزخرف : ٧) ٢۔ اللہ اور اس کی آیات سے مذاق کیا گیا۔ (التوبۃ: ٦٥) ٣۔ نماز کے ساتھ استہزا کیا گیا۔ ( المائدۃ: ٥٨) ٤۔ کفار نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے استہزا کیا۔ ( الأنبیاء : ٣٦) ٥۔ استہزا کرنے والوں کو رسوا کن عذاب ہوگا۔ ( الجاثیۃ: ٩) ٦۔ اللہ کی آیات کو مذاق نہ بناؤ۔ ( البقرۃ: ٢٣١) ٧۔ اللہ کی آیات اور انبیاء سے مذاق کی سزا جہنم ہے۔ ( الکہف : ١٠٦) ٨۔ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم آپ سے مذاق کرنے والوں سے نمٹ لیں گے۔ ٩۔ جہاں اللہ کی آیات سے مذاق کیا جائے وہاں نہ بیٹھو۔ ( النساء : ١٤٠) البقرة
16 فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ نے سورۃ الصف میں ایمان، نیک اعمال اور جہاد کو اپنے ساتھ تجارت کرنے کے مترادف قرار دیا ہے منافق ایمان اور اعمال میں مخلص نہیں ہوتے اس لیے وہ اس تجارت میں ہدایت کے بدلے گمراہی کے خریدار بن جاتے ہیں اور دھوکہ باز کی تجارت دینی ہو یا دنیوی اس کا انجام آخر خسارہ ہوتا ہے۔ ایمان کے جھوٹے دعوے اور اس جھوٹ کے ذریعے مومنوں کو دھوکہ دینے کی بنا پر منافقوں کے دل ایمان کی روشنی اور صحیح فیصلہ کرنے کی بصیرت سے محروم ہوچکے ہیں۔ منافق کی حالت اس شخص جیسی ہوچکی ہے جو نقص بصر کی وجہ سے ہر چیز کو ٹیڑھا دیکھتا ہے۔ اسی بنا پر منافق ایمان اور بصیرت سے محروم ہونے کی وجہ سے فساد کو اصلاح اور صحابہ کے ایمان کو غیر دانشمندانہ اقدام اور بے وقوفی قرار دیتے ہیں۔ مزید برآں کہ اللہ کی طرف سے ان کی رسی دراز ہوچکی ہے۔ جس بنا پر یہ عقل و دانش سے اندھے حقیقی اور دائمی نفع ونقصان میں فرق کرنے کی صلاحیت سے تہی دامن ہوچکے ہیں۔ اس وجہ سے نفع کی بجائے نقصان پانے والے سوداگر بن چکے ہیں۔ حالانکہ کم سے کم عقل رکھنے والا انسان بھی وہ کام کرتا ہے جس میں اسے زیادہ سے زیادہ فائدہ دکھائی دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو نفع و نقصان کا اس قدر شعور بخشا ہے کہ ایک گنوار اور اَن پڑھ ریڑھی لگانے والے محنت کش کو معلوم ہوجائے کہ اس کے مال کی قیمت فلاں بازار یا شہر میں زیادہ ہے۔ تو وہ وہاں جانے کے لیے تیار ہوجاتا ہے۔ لیکن اللہ اور اس کے بندوں کو دھوکہ دینے والے منافق اس قدر کوتاہ چشمی کا شکار ہوچکے ہوتے ہیں کہ انہیں ایمان وایقان اور کفر و نفاق، آخرت اور دنیا کی نعمتوں میں فرق دکھائی نہیں دیتا۔ جب کہ دنیا آخرت کی کھیتی اور نیک اعمال آخرت کی نعمتوں کی قیمت ہیں۔ دنیا دارالعمل اور تجارت گاہ ہے اس بنا پر فطری طور پر انسان کے ہر عمل کے پیچھے نفع اور نقصان کی سوچ کار فرما ہوتی ہے۔ اچھی سوچ کے بدلے ہدایت نصیب ہوتی ہے ہدایت اور نیک عمل کے بدلے جنت عطا ہوگی۔ قرآن مجید نے اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانا اور مال و جان کے ساتھ دین کی سر بلندی کے لیے کوشش کرنے کو بہترین نیکی اور تجارت قرار دیا ہے۔ (الصف : ١١ تا ١٣) قتال فی سبیل کے بیان میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مومنوں سے ان کی جانوں کے بدلے جنت کا سودا کرلیا ہے۔ (التوبۃ: ١١١) مومن اپنے رب کی تابعداری کرکے اس کی رضا کا طلب گار اور جنت کا خریدار بن جاتا ہے۔ منافق اپنی منافقت اور کافر اپنے کفر کی وجہ سے اس سودا گری میں دنیا کی ذلت اور آخرت کی سزا کا مستحق ٹھہرتا ہے۔ منافق جس عارضی عزت اور منفعت کے لیے جو کچھ کرتا ہے وہ حقیقت میں نقصان اور ہدایت سے محرومی کا نتیجہ ہے۔ جب کوئی شخص جان بوجھ کر خسارے کی تجارت کرنے سے باز نہ آئے تو اسے نفع کیونکر ہوسکتا ہے؟ یہی ہدایت کا معاملہ ہے لہٰذا گمراہی کا طالب ہدایت کس طرح پاسکتا ہے؟ اللہ تعالیٰ سے ہدایت طلب کرتے رہنا چاہیے : (عَنْ عَبْدِ اللَّہِ عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) أَنَّہُ کَانَ یَقُول اللَّہُمَّ إِنِّی أَسْأَلُکَ الْہُدَی وَالتُّقَی وَالْعَفَافَ وَالْغِنَی) (رواہ البخاری : باب التَّعَوُّذِ مِنْ شَرِّ مَا عَمِلَ وَمِنْ شَرِّ مَا لَمْ یَعْمَلْ) ” حضرت عبداللہ (رض) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ دعا کیا کرتے تھے۔ اے اللہ ! میں تجھ سے ہدایت، پرہیزگاری، تندرستی اور خوشحالی کا سوال کرتا ہوں۔“ سابقہ آیات میں منافقین کی نشانیاں : ١۔ منافق دعوی ایمان میں جھوٹا ہوتا ہے۔ ٢۔ منافق شعور سے تہی دامن ہونے کی وجہ سے اپنے آپ کو دھوکہ دیتا ہے۔ ٣۔ منافقت دل کی بیماری ہے۔ ٤۔ منافق اصلاح کے نام پر فساد پھیلاتا ہے۔ ٥۔ منافق احمق ہونے کے باوجود مومنوں کو بے عقل سمجھتا ہے۔ ٦۔ منافق ایمان جیسی گراں قدر نعمت کو مذاق سمجھتا ہے۔ ٧۔ منافق ہدایت کی بجائے گمراہی کا طلب گار ہوتا ہے۔ مسائل ١۔ منافقین ہدایت کے بدلے گمراہی کے خریدار ہیں۔ ٢۔ منافقین کی یہ تجارت سود مند نہ ہوگی۔ تفسیر بالقرآن منافق کا کردار اور انجام : ١۔ منافق دغا باز، ریا کار اور بے توجہگی کے ساتھ نماز پڑھتا ہے۔ (النساء : ١٤٢) ٢۔ منافق کے کلمہ پر اعتبار نہیں کیونکہ وہ جھوٹا ہوتا ہے۔ (المنافقون : ١) ٣۔ منافق کی قسم پر اعتبار نہیں کیونکہ وہ اسے ڈھال کے طور پر استعمال کرتا ہے۔ (المنافقون : ٢) ٤۔ منافق جہنم کے نچلے طبقہ میں ہوں گے۔ (النساء : ١٤٥) البقرة
17 فہم القرآن ربط کلام : گزشتہ سے پیوستہ منافق کے کردار کی مثال اس مثال کے ذریعے اسلام اور نفاق، منافقین اور سرور گرامی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے درمیان فرق بیان کیا گیا ہے۔ آپ نے دن رات کی جدوجہد سے اسلام کے چہرۂ تاباں کو ایسے پیش فرمایا جس سے کفر اور اسلام، گمراہی اور ہدایت کے درمیان اس طرح امتیاز پیدا ہوا جس طرح روشنی اور اندھیرے کے درمیان فرق ہوا کرتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود منافقوں کے لیے ان کے کفر و نفاق کی تاریکیاں اسلام کی روشن تعلیمات اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی درخشاں سیرت کے درمیان حائل ہوگئیں یہ سب کچھ اس طرح ہوا جیسے ایک آدمی نے آگ جلا کر گھٹا ٹوپ راستے کو منور کردیا ہو۔ تاکہ اس راستے پر چلنے والے کو نشیب و فراز کا پتہ چل جائے۔ جونہی مسافر اس راستے پر چلنے کے لیے آمادہ ہوا تو اس کے خبث باطن کی وجہ سے اچانک راستہ خطرناک اندھیروں میں چھپ گیا۔ ذرا سوچیے اس مسافر کی کیا حالت ہوگی ؟ بالکل یہی کیفیت منافقوں کے ساتھ پیش آئی کہ نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات اور آپ کی تعلیمات کو سچ جاننے کے باوجود ان کا کفرو نفاق اور دنیاوی مفاد اس طرح حائل ہواکہ اسلام کا راستہ روشن ہونے کے باوجود ان کو تاریک نظر آیا۔ اس کی وجہ ان کی منافقت اور گھناؤنا کردار تھا۔ جس بنا پر اللہ تعالیٰ نے انہیں اندھیروں میں چھوڑ دیا۔ اب صراط مستقیم کو دیکھنا اور اس پر چلنا ان کے بس کی بات نہیں کیونکہ اندھیروں میں کوئی چیز دکھائی نہیں دیا کرتی۔ یاد رہے کہ روشنی یعنی ہدایت ایک ہی ہے لیکن کفروضلالت کے اندھیرے کئی قسم کے ہوتے ہیں اس لیے اندھیرے کے لیے جمع کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ منافق کا محشر کے دن حال : قرآن مجید نے دوسرے مقام پر اس کی یوں وضاحت فرمائی ہے کہ جن لوگوں نے دنیا میں نور ہدایت سے منہ موڑ لیا۔ ان کا محشر میں اس طرح حشر ہوگا کہ (یَوْمَ یَقُوْلُ الْمُنَافِقُوْنَ وَالْمُنَافِقَاتُ لِلَّذِیْنَ آَمَنُوْا انْظُرُوْنَا نَقْتَبِسْ مِنْ نُوْرِکُمْ قِیْلَ ارْجِعُوْا وَرَاءَ کُمْ فَالْتَمِسُوْا نُوْرًا فَضُرِبَ بَیْنَہُمْ بِسُورٍ لَہُ بَابٌ بَاطِنُہُ فِیْہِ الرَّحْمَۃُ وَظَاہِرُہُ مِنْ قِبَلِہِ الْعَذَابُ) (الحدید : ١٣) ” اس دن منافق مرد اور منافق عورتیں مومنوں سے کہیں گے کہ ہماری طرف دیکھو ہم بھی تمہارے نور سے روشنی حاصل کریں۔ تو ان سے کہا جائے گا کہ پیچھے کو لوٹ جاؤ اور وہاں نور تلاش کرو۔ پھر ان کے بیچ میں ایک دیوار کھڑی کردی جائے گی جس میں ایک دروازہ ہوگا اس کی اندرونی جانب تو رحمت ہے اور بیرونی جانب عذاب۔“ (عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَثَلِیْ کَمَثَلِ رَجُلٍ اسْتَوْقَدَ نَاراً فَلَمَّا اَضَآءَ تْ مَا حَوْلَھَا جَعَلَ الْفِرَاشُ وَھٰذِہِ الدَّوَآبُّ الَّتِی تَقَعُ فِی النَّارِ یَقَعْنَ فِیْھَا وَجَعَلَ یَحْجُزُھُنَّ وَیَغْلِبْنَہٗ فَیَتَقَحَّمْنَ فِیْھَا فَاَنَا اٰخِذٌ بِحُجَزِکُمْ عَنِ النَّارِ وَأَ نْتُمْ تَقَحَّمُوْنَ فِیْھَا ھٰذِہٖ رِوَایَۃُ الْبُخَارِیِّ وَلِمُسْلِمٍ نَحْوُھَا وَقَالَ فِیْ اٰخِرِھَا قَالَ فَذَالِکَ مَثَلِیْ وَمَثَلُکُمْ اَنَا اٰخِذٌ بِحُجَزِکُمْ عَنِ النَّارِ ہَلُّمَ عَنِ النَّارِ ھَلُمَّ عَنِ النَّارِ فَتَغْلِبُوْنِیْ تَقَحَّمُوْنَ فِیْھَا) (رواہ البخاری : کتاب الرقاق، رواہ مسلم : کتاب الفضائل) ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : میری مثال آگ روشن کرنے والے شخص کی طرح ہے۔ جب آگ سے اس کا آس پاس روشن ہوگیا تو پروانے اس میں گرنے لگے۔ آگ جلانے والے نے انہیں بچانے کی سر توڑ کوشش کی لیکن وہ اس سے بے قابو ہو کر گرتے رہے۔ بس میں تمہیں آگ سے بچانے کے لیے پیچھے سے پکڑتا ہوں لیکن تم ہو کہ اس میں گرتے جا رہے ہو۔ یہ بخاری کے الفاظ ہیں اور مسلم میں اس طرح ہے کہ میری اور تمہاری مثال ایسے ہے کہ میں تمہیں پیچھے سے پکڑ کر آگ سے بچانے کی کوشش کرتے ہوئے کہہ رہا ہوں کہ میری طرف آؤ اور آگ سے بچو، لوگو! آگ کی بجائے میری طرف آؤ۔ لیکن تم مجھ سے بے قابو ہو کر آگ میں گرے جا رہے ہو۔“ مسائل ١۔ اسلام ایک روشنی ہے۔ ٢۔ نفاق اور کفر اندھیرے ہیں۔ ٣۔ نور ایمان کے بغیر ہدایت نصیب نہیں ہوتی۔ تفسیر بالقرآن دین ایک روشنی ہے : ١۔ اسلام ایک روشنی ہے۔ (الصف : ٧) ٢۔ ایمان اور دین نور ہے۔ (التغابن : ٨) ٣۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) روشنی کی دعوت دیتے تھے۔ (ابراہیم : ٥) ٤۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت روشنی اور نور ہے۔ (ابراہیم : ١) ٥۔ اللہ تعالیٰ مومنوں کو کفر کے اندھیروں سے نکال کر روشنی کی طرف لاتا ہے۔ (البقرۃ: ٢٥٧) ٦۔ اللہ تعالیٰ کی ذات زمین و آسمان کانورہے (النور : ٣٥) البقرة
18 فہم القرآن ربط کلام : منافقوں کا تذکرہ جاری ہے۔ منافقت کی بیماری کے ظاہری اعضا پر منفی اثرات۔ جو لوگ رسالت مآب (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات اقدس کو پہچاننے اور دین اسلام کے اوصاف کو جاننے کے باوجود کفر و نفاق پر ڈٹے ہوئے ہیں وہ تو اس شخص کی طرح ہیں جو آنکھوں سے اندھا، کانوں سے بہرا اور زبان سے گونگا ہے۔ یعنی ایسے لوگ نہ عبرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں نہ نصیحت کی زبان سنتے ہیں اور نہ ہی سبق آموزی کے لیے سوچنے پر تیار ہیں۔ یہ تو چلتے پھرتے انسانی ڈھانچے اور لکڑی یا پتھر کے ستون کی طرح ہیں اس کے سوا کچھ نہیں۔ لکڑی اور پتھر تو نہیں سنا کرتے ہدایت پائیں تو کس طرح؟ کان، آنکھ اور لمس ہدایت پانے اور راہنمائی حاصل کرنے کے انسان کے جسمانی ذرائع ہیں یہ مفلوج ہوجائیں تو ایسے شخص کو کوئی بھی ہدایت نہیں دے سکتا۔ گونگا، بہرہ اور اندھا شخص کسی کا ہاتھ پکڑے بغیر تو کہیں جا نہیں سکتا۔ یہی حالت منافق کی ہوچکی ہوتی ہے۔ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) عَنْ رَّسُوْلِ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ إِنَّ الْعَبْدَ إِذَا أَخْطَأَ خَطِیْءَۃً نُکِتَتْ فِیْ قَلْبِہٖ نُکْتَۃٌ سَوْدَآءُ فَإِذَا ھُوَ نَزَعَ وَاسْتَغْفَرَ وَتَابَ سُقِلَ قَلْبُہٗ وَإِنْ عَادَ زِیْدَ فِیْھَا حَتّٰی تَعْلُوَ قَلْبَہٗ وَھُوَ الرَّانُ الَّذِیْ ذَکَرَ اللّٰہُ (کَلَّا بَلْ رَانَ عَلٰی قُلُوْبِھِمْ مَا کَانُوْا یَکْسِبُوْنَ)) (رواہ الترمذی : باب ومن سورۃ ویل للمطففین) ” حضرت ابوہریرہ (رض) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں آپ نے فرمایا : آدمی جب بھی کوئی گناہ کرتا ہے تو اس کے دل پر ایک کالا نکتہ لگادیا جاتا ہے جب وہ بے چین ہو کر توبہ واستغفار کرتا ہے تو اس کے دل کو پالش کردیا جاتا ہے اور اگر پھر وہ گناہ کرتا ہے تو وہ نکتہ بڑھادیا جاتا ہے حتی کہ وہ پورے دل پر غالب آجاتا ہے اور یہی وہ زنگ ہے جس کا اللہ تعالیٰ نے ذکر کیا ہے کہ (ہرگز نہیں بلکہ جو وہ کماتے تھے اس کے سبب ان کے دلوں پر زنگ چڑھ گیا ہے)۔“ مسائل ١۔ کافر اور منافق اندھے، بہرے، گُونگے ہونے کی وجہ سے اسلام کی روشنی سے مستفید نہیں ہو سکتے۔ تفسیر بالقرآن کان، آنکھ اور دل سے کام نہ لینے والے لوگ : ١۔ کفار کان، آنکھ اور دل کو استعمال نہیں کرتے۔ (الاعراف : ١٧٩) ٢۔ دل، آنکھ اور کان سے استفادہ نہ کرنے والے جانوروں سے بدتر ہیں۔ (الاعراف : ١٧٩) ٣۔ جہنمی سماعت وبصیرت استعمال نہ کرنے پر افسوس کا اظہار کریں گے۔ (الملک : ١٠) البقرة
19 فہم القرآن ربط کلام : دین کے بارے میں دوسری مثال، دین اسلام ایک ابر باراں ہے مگر اس میں منافق کی حالت زار بیان کی گئی ہے۔ بارش کی تمثیل کے ساتھ اسلام کی روشنی اور نفاق کی تاریکیوں کا فرق واضح کیا جا رہا ہے۔ جس طرح بارش اوپر سے نازل ہوتی ہے اللہ کا دین بھی آسمانوں سے نازل ہوا ہے۔ اس سے نہایت لطیف انداز میں کفار کے الزام کی تردید ہو رہی ہے کہ دین کسی شخص کے ذہن کی اختراع اور زمین کی پیداوار نہیں یہ تو اللہ تعالیٰ کا نازل کردہ ہے۔ بارش سے بیک وقت ہر چیز تر و تازہ ہوجاتی ہے ایسے ہی دین اسلام سے دل شاداب‘ کردار میں نکھار اور دنیا میں برکات نازل ہوتی ہیں جیسے بارش میں بسا اوقات اندھیرا اور گرج وچمک بھی ہوتی ہے۔ بالکل اسی طرح ہی دین اسلام اختیار کرنے، اس کے نفاذ سے اس کے متبعین کو دنیا میں فوائد بھی ملتے ہیں اور انہیں امتحانات اور کچھ دینوی نقصانات کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ لیکن سچے اور پکے مسلمان ان مشکلات کو قبول کرتے ہوئے آگے ہی بڑھا کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ دنیا و آخرت میں اپنی منزل مراد کو پہنچ جاتے ہیں۔ اس کے برعکس منافق بارش میں چلنے والے اس مسافر کی طرح ہوتا ہے جو بادل کی گرج اور بجلی کی چمک کی وجہ سے کانوں میں انگلیاں ڈال کر اپنے آپ کو بجلی کی چکا چوند روشنی سے چھپانے کی کوشش کرتا ہے۔ حالانکہ ایسا کرنے سے نہ روشنی اس سے دور ہو سکتی ہے اور نہ وہ آسمانی بجلی کی چمک کڑک سے بچ سکتا ہے۔ جس طرح ساری دنیا مل کر بھی بارش کو نہیں روک سکتی ایسے ہی منافق اور کفار جتنی چاہیں کوشش کریں نہ یہ اسلام کی روشنی مٹا سکتے ہیں اور نہ ہی غلبۂ اسلام میں ان کی کوششیں اور سازشیں رکاوٹ بن سکتی ہیں۔ البقرة
20 منافق کا کردار یہ ہوتا ہے کہ اسلام اور مسلمانوں سے فائدہ حاصل ہونے کی توقع ہو تو منافق مسلمانوں کے ساتھ ہوتا ہے بلکہ مخلص مسلمانوں سے بھی چار قدم آگے بڑھنے کی کوشش کرتا ہے لیکن جوں ہی اس کے مفاد کو ٹھیس پہنچنے کا خدشہ ہو تو اس کے قدم جم جاتے ہیں۔ منافقوں کی حرکات اور منافقت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان کی سمع و بصر کی حقیقی صلاحیتیں سلب کرلی ہیں۔ اگر ربِّ ذوالجلال چاہے تو ان کے کان اور آنکھوں کی جسمانی صلاحیتوں کو بھی مسخ کر دے کیونکہ قادر مطلق کی طاقت سے کوئی چیز بھی باہر نہیں ہے۔ (عَنْ أَبِیْ مُوْسٰی (رض) عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ مَثَلُ مَابَعَثَنِیَ اللّٰہُ بِہٖ مِنَ الْھُدٰی وَالْعِلْمِ کَمَثَلِ الْغَیْثِ الْکَثِیْرِ أَصَابَ أَرْضًا فَکَانَ مِنْھَا نَقِیَّۃٌ قَبِلَتِ الْمَآءَ فَأَنْبَتَتِ الْکَلَأَ وَالْعُشْبَ الْکَثِیْرَ وَکَانَتْ مِنْھَآ أَجَادِبُ أَمْسَکَتِ الْمَآءَ فَنَفَعَ اللّٰہُ بِھَا النَّاسَ فَشَرِبُوْا وَسَقَوْا وَزَرَعُوْا وَأَصَابَتْ مِنْھَا طَاءِفَۃٌ أُخْرٰی إِنَّمَا ھِیَ قِیْعَانٌ لَاتُمْسِکُ مَاءً وَلَاتُنْبِتُ کَلَأً فَذٰلِکَ مَثَلُ مَنْ فَقُہَ فِیْ دِیْنِ اللّٰہِ وَنَفَعَہٗ مَابَعَثَنِیَ اللّٰہُ بِہٖ فَعَلِمَ وَعَلَّمَ وَمَثَلُ مَنْ لَّمْ یَرْفَعْ بِذٰلِکَ رَأْسًا وَلَمْ یَقْبَلْ ھُدَی اللّٰہِ الَّذِیآ أُرْسِلْتُ بِہٖ) (رواہ البخاری : کتاب العلم، باب فضل من علم) ” حضرت ابوموسیٰ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے جس علم اور ہدایت کے ساتھ مجھے بھیجا ہے اس کی مثال زمین پر مسلسل برسنے والی بارش کی طرح ہے۔ زمین کا جو قطعہ اچھا تھا اس نے اسے قبول کیا۔ اس نے گھاس اور سبزے کو خوب اگایا۔ دوسری زمین سخت تھی پانی جذب ہونے کی بجائے اس پر کھڑارہا۔ اللہ تعالیٰ نے اس سے لوگوں کو فائدہ پہنچایا۔ لوگوں نے خود پانی پیا اور جانوروں کو پلایا اور پھر اس سے کھیتی باڑی کی جبکہ تیسرا زمین کاٹکڑا چٹیل میدان تھا نہ اس نے پانی جذب کیا اور نہ ہی پانی اس کے اوپر ٹھہرا۔ اللہ تعالیٰ نے جو دین دے کر مجھے مبعوث فرمایا اس دین کی فہم حاصل کرنے والے اور اس سے نفع اٹھانے والے کی مثال ایسے ہے کہ اس نے علم سے فائدہ اٹھایا خود سیکھا اور لوگوں کو بھی تعلیم دی۔ دوسری مثال اس شخص کی طرح ہے جس نے بے پرواہی سے علم کی طرف توجہ نہ کی اور نہ ہی اس بات کو قبول کیا جس کے ساتھ مجھے بھیجا گیا۔“ مسائل ١۔ دین اسلام باران رحمت ہے۔ ٢۔ ا سلام پر عمل پیرا ہونے میں آزمائشیں بھی آتی ہیں۔ ٣۔ منافق صرف فائدے کی بنیاد پر اسلام پر عمل کرتا ہے۔ ٤۔ منافق کسی آزمائش میں پورا نہیں اترتا۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ چاہے تو منافقین کے سمع وبصر ختم کردے۔ ٦۔ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قدرت وسطوت رکھنے والاہے۔ ٧۔ اللہ تعالیٰ کافروں کی گرفت کرنے والاہے۔ البقرة
21 فہم القرآن ربط کلام : ایمانداروں، کفار اور منافقین کے ذکر کے بعد توحید اور عبادت کا بیان ہوتا ہے۔ قرآن مجید کا مرکزی پیغام ” اللہ“ کی توحید اور اس کی ربوبیت کا اقرار ہے جس کا منطقی نتیجہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنا ہے۔ اکثر مفسرین نے عبادت کا معنی تذلّل یعنی نہایت عاجزی کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی پرستش کرنا بیان کیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ عبادت میں عاجزی اور انتہا درجے کی انکساری ضروری ہے کہ آدمی اللہ کے حضور قیام کرے تو نا صرف زبان سے اقرار کرنے کے ساتھ اس کا پورا جسم خاموش گواہی دے کہ میرے جسم کا ایک ایک ریشہ تیرے حضور عاجز و بے بس ہے۔ جبین نیاز جھکائے تو اپنے آپ کو عجز و انکساری کی انتہا تک لے جائے گویا کہ وہ پستیوں کے سمندر میں ڈوب چکا ہے۔ زبان جنبش کرے تو اس کی حمد و ثنا کے گیت گائے، دست سوال دراز کرے تو سراپا التجا بن جائے۔ مال خرچ کرے تو اس عاجزی کے ساتھ کہ میں تو مالک کی ملکیت ہی واپس لوٹا رہا ہوں نہ میرا مال ہے اور نہ اس میں میرا کمال ہے۔ اس عہد کو نمازی پانچ وقت تشہد کی زبان میں دہراتا ہے کیوں کہ عبادت تین ہی طریقوں سے ہو سکتی ہے۔ (اَلتَّحَیَاتُ لِلّٰہِ وَالصَّلَوٰاتُ وَالطَّیِّبَاتُ) (رواہ البخاری : باب التَّشَہُّدِ فِی الآخِرَۃِ ) ” تمام قسم کی قولی، فعلی اور مالی عبادات اللہ کے لیے ہیں۔“ (قُلْ اِنَّ صَلَاتِیْ وَ نُسُکِیْ وَ مَحْیَایَ وَ مَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۔ لَا شَرِیْکَ لَہٗ ج وَ بِذٰلِکَ اُمِرْتُ وَ اَنَا اَوَّلُ الْمُسْلِمِیْنَ) (الانعام : ١٦٢ تا ١٦٣) ” کہہ دیجیے! یقیناً میری نماز‘ میری قربانی‘ میری زندگی اور میری موت اللہ رب العالمین کے لیے ہے‘ اس کا کوئی شریک نہیں اسی بات کا مجھے حکم دیا گیا ہے اور میں پہلا اسلام لانے والا ہوں۔“ اس تصور کے ساتھ قرآن مجید نے عبادت کا وسیع تر تخیل پیش کیا ہے کہ آدمی منڈی اور بازار میں ہو تو امانت و دیانت کا نمونہبن جائے، کسی کے ہاں مزدور اور خدمت گزار ہو تو وفاداری کا پیکر ہوجائے، حکمران ہو یا کوئی ذمہ داری اٹھائے تو قوم کا خادم اور مالک حقیقی کا غلام بن کر رہے۔ غرضیکہ زندگی کا ایک ایک لمحہ اور شعبہ رب کی غلامی اور سرافگندگی کے لیے وقف کرنے کا نام ہی عبادت ہے۔ یہی انسان کی تخلیق کا مقصد اور اسی کے لیے انسان کا ہر عمل وقف ہونا چاہیے۔ انبیائے عظام ( علیہ السلام) اپنی دعوت کا آغاز اسی سے کیا کرتے تھے۔ البقرة
22 اس تصور عبادت سے ہٹنا مقصد حیات کی نفی اور غیر اللہ کی عبادت کرنے کے مترادف ہے۔ جس کا آدمی کو کسی حال میں بھی حق نہیں پہنچتا۔ ایمان، کفر اور نفاق کی بڑی بڑی نشانیاں ذکر کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے بلا امتیاز تمام طبقات انسانی کو عبادت کا حکم دیتے ہوئے اپنی عبادت کے استحقاق کی یہ دلیل دی ہے کہ اس رب کی عبادت کرو جس نے تمہیں، تمہارے آباؤ اجداد اور سب لوگوں کو پیدا فرمایا۔ اسی نے تمہارے لیے زمین کو فرش بنایا اور آسمان کو سائبان، پھر آسمان سے پانی نازل کیا جس سے تمہارے رزق کا بندوبست فرمایا۔ یہ سب کچھ ایک رب نے پیدا کیا اور وہی تمہارا خالق و مالک ہے۔ یہ حقائق تم بھی جانتے ہو کہ تخلیقِ کائنات اور ان امور میں اللہ تعالیٰ کا دوسرا کوئی شریک اور سہیم نہیں ہے پھر ایسے رب کے ساتھ دوسروں کو شریک بنانے کی کس طرح جرأت کرتے ہو ؟ جس کی تمہارے پاس کوئی دلیل نہیں لہٰذا تمہیں صرف ایک اللہ کی ہی عبادت کرنا چاہیے۔ توحید ربوبیت اور خالقیت کا شعور دلا کر انسان کے ضمیر کو جھنجھوڑا ہے کہ انسان یہ سمجھے کہ کسی غیر کی نہیں بلکہ میں اپنے خالق، رازق اور مالک کی ہی عبادت کر رہا ہوں۔ ابتدا میں توحید کے طبعی‘ فطری اور آفاقی دلائل دئیے گئے ہیں تاکہ انسان کو توحید سمجھنے میں آسانی ہو۔ اسی سے قرآن مجید کا آغاز ہوا ہے کیونکہ توحید فطرت کی آواز اور انسان کے ضمیر کی ترجمان ہے۔ (إِقْرَأْ باسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ) (العلق : ١) ” اپنے پیدا کرنے والے رب کے نام سے پڑھیے۔“ ایک مبلغ کا فرض بنتا ہے کہ وہ اپنے سامع کے سامنے او لاً ایسی دلیل پیش کرے جس کو سمجھنے اور تسلیم کرنے میں سننے والے کو آسانی ہو۔ لہٰذا یہاں پانچ دلائل ایسے بیان ہوئے ہیں جن کا بدترین منکر بھی انکار نہیں کرسکتا۔ یہاں تخلیق انسانی کے مختلف دلائل دیے جاتے ہیں باقی دلائل کی تفصیل اپنے اپنے مقام پر بیان ہوگی۔ ” اور ہم نے انسان کو مٹی کے خلاصے سے پیدا کیا۔ پھر اس کو ایک محفوظ جگہ میں نطفہ بنا کر رکھا۔ پھر نطفے کا لوتھڑا بنایا۔ پھر لوتھڑے کی بوٹی بنائی، پھر بوٹی کی ہڈیاں بنائیں، پھر ہڈیوں پر گوشت چڑھایا پھر اس کو نئی صورت بنا دیا۔ اللہ جو سب سے بہترین بنانے والا بڑا بابرکت ہے۔“ [ المومنون : ١٢ تا ١٤] اَنْدَادًا ” ند“ کی جمع ہے جس کا معنٰی ہے ہمسر اور شریک۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کا سدِّ باب کرنے کے لیے ہر ایسے قول وفعل سے منع فرمایا ہے جس میں شرک کا شائبہ بھی پایا جاتاہو۔ ایک آدمی نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا :” مَاشَآء اللّٰہُ وَشِءْتَ“” جس طرح اللہ اور آپ چاہیں۔“ اس پر آپ نے فرمایا : ” جَعَلْتَ لِلّٰہِ نِدًّا“ ” تو نے مجھے اللہ کا شریک ٹھہرادیا ہے کہو ” مَا شَآء اللّٰہُ وَحْدَہٗ“ ” جو اللہ اکیلا چاہے۔“ (مسند احمد) مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ ہی تمام انسانوں کا خالق اور پالنے والا ہے۔ سب کو اپنے رب کی عبادت کرنا چاہیے۔ ٢۔ اللہ ہی نے زمین کو فرش، آسمان کو چھت بنایا اور وہی آسمان سے بارش نازل کرتا اور ہمارے لیے رزق پیدا کرتا ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرنا چاہیے۔ ٤۔ ہر کوئی جانتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا کوئی شریک نہیں۔ تفسیر بالقرآن عبادت اور انبیاء ( علیہ السلام) کی دعوت : ١۔ جن اور انسان اللہ کی عبادت کے لیے پیدا کیے گئے ہیں۔ (الذّاریات : ٥٦) ٢۔ تمام انبیاء اللہ تعالیٰ کی عبادت کی دعوت دیتے اور شیطان کی عبادت سے روکتے تھے۔ (الاعراف : ٥٩، ٦٥، ٧٣) ٣۔ عبادت کا مفہوم۔ (انعام : ١٦٣) ٤۔ اللہ کی عبادت کرنے میں کامیابی ہے۔ (الحج : ٧٧) تخلیق انسانی کے مراحل : ١۔ حضرت آدم (علیہ السلام) مٹی سے پیدا کیے گئے۔ (آل عمران : ٥٩) ٢۔ حضرت حوا، حضرت آدم ( علیہ السلام) سے پیدا ہوئی۔ (النساء : ١) ٣۔ انسان کی تخلیق کے مختلف مراحل۔ (المؤمنون : ١٢ تا ١٤) ٤۔ یقیناً ہم نے انسان کو کھنکھناتی ہوئی مٹی سے پیدا کیا۔ (الحجر : ٢٦) ٥۔ اللہ نے انسان کو مخلوط نطفہ سے پیدا کیا۔ (الدھر : ٢) ٦۔ اللہ نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا، پھر اسے نطفہ بنایا، پھر اس سے خون کا لوتھڑا، پھر اس سے بوٹی بنا کر۔ (الحج : ٥) ٧۔ اللہ نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا، پھر نطفہ، پھر لوتھڑا بنا کر تمہیں پیدا کرتا ہے کہ تم بچے ہوتے ہو۔ (المومن : ٦٧) ٨۔ کیا تو اس ذات کا کفر کرتا ہے جس نے تجھے مٹی سے پیدا فرمایا۔ (الکہف : ٣٧) البقرة
23 فہم القرآن ربط کلام : توحید کے بیان کے بعد قرآن مجید کے بارے میں چیلنج دیا گیا ہے کیونکہ قرآن نے ہی توحید کے دلائل اور دیگر مسائل بتلائے ہیں اس لیے ابتدا میں قرآن کی حقانیت کے بارے میں شک کرنے والوں کو چیلنج دیا گیا ہے کہ یہ قرآن من جانب اللہ ہے کسی انسان کی ذہنی اختراع نہیں ہے اگر پھر بھی تمہیں یقین نہیں آتا تو تم ایسا کلام بنا کر دکھاؤ۔ اہل مکہ جناب رسالت مآب (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کے انکار کے لیے مختلف بہانے بنایا کرتے تھے۔ کبھی کہتے کہ نبوت کے منصب جلیلہ کے لیے معاشی اعتبار سے خوشحال، سیاسی لحاظ سے طاقتور اور خاندانی اعتبار سے کسی بڑے قبیلے کا سردار ہونا چاہیے تھا۔ پھر مکہ میں ابو الحکم بن ہشام یعنی ابوجہل اور کبھی طائف کے مختلف سرداروں کے نام لیتے تھے حالانکہ لوگوں کی نظروں میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مقابلہ میں کسی دوسرے کا نام جچتاہی نہیں تھا۔ کیونکہ سیرت و صورت کے حوالے سے آپ کا پلہ سب پر بھاری تھا۔ جب اس میں ناکامی کا منہ دیکھتے تو یہ پروپیگنڈہ کرتے کہ روم کے فلاں شخص سے خفیہ پیغام رسانی کے ذریعہ یہ کلام پیش کیا جا رہا ہے۔ قرآن مجید نے پہلے اور دوسرے اعتراض کا یہ جواب دیا کہ نبوت تو سراسر اللہ تعالیٰ کی رحمت کا انتخاب ہوا کرتا ہے۔ وہی بہتر جانتا ہے کہ کون سا دل نور الٰہی کا اہل، کونسی زبان اس کے بیان کرنے پر قادر، اور کون سے کندھے اس بار گراں کو اٹھانے کے متحمل ہو سکتے ہیں۔[ الانعام : ١٢٤] دوسرے اعتراض کا جواب فقط اتنا دیا کہ جس شخص کو تم محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا معلم و مرشد کہتے ہو وہ تو عربی کے حروف ابجد سے بھی واقف نہیں جبکہ قرآن مجید فصاحت و بلاغت کا سر چشمہ، حقائق و ہدایت کا بے مثل منبع اور عربی ادب کا شاہکار ہے۔[ النحل : ١٠٣] ان دلائل کے باوجود کفار کو کئی کھلے چیلنج دیے جن میں یہ زور دار چیلنج مدینہ طیبہ میں دیا گیا کہ ہم نے اپنے محبوب بندے پر قرآن نازل کیا ہے اگر اس کے من جانب اللہ ہونے پر تمہیں شک ہے اور تم اپنے دعوی میں سچے ہو تو اللہ تعالیٰ کے سوا دنیا جہاں کے جن و انس اور جس کو چاہو اور جب چاہو اپنے ساتھ ملا کر انفرادی یا اجتماعی طور پر ایک ہی سورت بنا کرلے آؤ لیکن یاد رکھنا اب تک یہ نہ ہوا اور نہ قیامت تک ایسا ہو سکے گا۔ کیونکہ جس طرح اللہ تعالیٰ اپنی ذات و صفات کے لحاظ سے اعلیٰ و ارفع، لازوال اور بے مثال ہے اسی طرح اس کا کلام اعلیٰ، ارفع، لازوال اور بے مثال ہے۔ انسانوں کی اصلاح اور فلاح کے لیے اللہ کریم کی طرف سے نبی محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو قرآن مجید کی شکل میں ایسا معجزہ عطا کیا گیا ہے جس کی طاقت سے نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دنیا کے سخن وروں، قانون دانوں، شاعروں اور ادیبوں کو لا جواب کردیا ہے۔ اس کے باوجود ہر دور کے کافر قرآن مجید‘ فرقان حمید کی مخالفت کرتے آرہے ہیں لیکن بالآخر انہیں اپنی ناکامیوں کا اعتراف کرنا پڑا ہے۔ جس کی چند مثالیں پیش کی جا رہی ہیں تاکہ قرآن کے طالب علم کو معلوم ہوجائے کہ منکرین قرآن کس طرح اپنی نا کامی کا اعتراف کرتے آئے ہیں اور کرتے رہیں گے۔ اس لیے ارشاد ہوا کہ قرآن کا مقابلہ کرنا تمہارے بس کا روگ نہیں تو اس آگ سے بچو جس میں پتھروں اور انسانوں کو جھونکا جائے گا جو کفار کے لیے تیار کی گئی ہے۔ فرانس کا مشہور مستشرق ڈاکٹر مارڈریس جس کو حکومت فرانس کی وزارت معارف نے قرآن حکیم کی باسٹھ سورتوں کا ترجمہ فرانسیسی زبان میں کرنے پر مامور کیا تھا اس نے اعتراف کیا : ” بے شک قرآن کا طرز بیان اللہ تعالیٰ کا طرز بیان ہے، بلا شبہ جن حقائق ومعارف پر یہ کلام حاوی ہے وہ کلام الٰہی ہی ہوسکتا ہے، اور واقعہ یہ ہے کہ اس میں شک وشبہ کرنے والے بھی جب اس کی عظیم تاثیر کو دیکھتے ہیں تو تسلیم واعتراف پر مجبور ہوجاتے ہیں، پچاس کروڑ مسلمان (اس تحریر کے وقت مسلمانوں کی تعداد اتنی ہی تھی 2005 میں یہ تعداد سوا ارب سے زائد ہے) جو سطح زمین کے ہر حصہ پر پھیلے ہوئے ہیں۔ ان میں قرآن کی خاص تاثیر کو دیکھ کر مسیح مشن میں کام کرنے والے بالاجماع اس کا اعتراف کرتے ہیں کہ یہ اللہ تعالیٰ کی کتاب ہے۔“ [ معارف القرآن مفتی محمد شفیع ] ڈاکٹر گستادلی بان نے اپنی کتاب ” تمدن عرب“ میں قرآن کی حیرت انگیزی کا اعتراف کیا، ان کے الفاظ یہ ہیں : ” پیغمبر نبی اُمّی اسلام کی ایک حیرت انگیز سر گزشت ہے، جس کی آواز نے ایک قوم ناہنجار کو جو اس وقت تک کسی ملک کے زیر حکومت نہ آئی تھی رام کیا، اور اس درجہ پر پہنچا دیا کہ اس نے عالم کی بڑی بڑی سلطنتوں کو زیر و زبر کر ڈالا۔“ مسٹر وڈول جس نے قرآن مجید کا ترجمہ اپنی زبان میں کیا لکھتے ہیں : ” جتنا بھی ہم اس کتاب یعنی قرآن کو الٹ پلٹ کر دیکھیں اسی قدر پہلے مطالعہ میں اس کی مرغوبیت نئے نئے پہلوؤں سے اپنا رنگ جماتی ہے، فوراً ہمیں مسخر اور متحیر کردیتی ہے، اور آخر میں ہم سے تعظیم کرا کر چھوڑتی ہے، اس کا طرز بیان با عتبار اس کے مضامین کے، عفیف، عالی شان اور تہدید آمیز ہے اور جا بجا اس کے مضامین سخن کی غایت رفعت تک پہنچ جاتے ہیں، غرض یہ کتاب ہر زمانہ میں اپنا پر زور اثر دکھاتی رہے گی۔“ (شہادۃ الاقوام، ص ١٣) مصر کے مشہور مصنف احمد فتحی بک زا غلول نے ١٨٩٨ ء میں مسٹرکونٹ ہنروی کی کتاب الاسلام کا ترجمہ عربی میں شائع کیا تھا، اصل کتاب فرنچ زبان میں تھی۔ اس میں مسٹر کونٹ نے قرآن کے متعلق اپنے تأثرات ان الفاظ میں بیان کئے ہیں : ” عقل حیران ہے کہ اس قسم کا کلام ایسے شخص کی زبان سے کیونکرادا ہوا جو بالکل ان پڑھ تھا، تمام مشرق نے اقرار کرلیا ہے کہ نوع انسانی لفظاً و معناً ہر لحاظ سے اس کی نظیر پیش کرنے سے عاجز ہے۔ یہ وہی کلام ہے جس کی بلند انشاء پردازی نے عمر بن خطاب (رض) کو مطمئن کیا اور ان کو خدا کا معترف ہونا پڑا۔ یہ وہی کلام ہے کہ جب عیسیٰ ( علیہ السلام) کی ولادت کے متعلق اس کے جملے جعفر بن ابی طالب (رض) نے حبشہ کے بادشاہ کے دربار میں پڑھے تو اس کی آنکھوں سے بے ساختہ آنسو جاری ہوگئے، اور بشپ چلّااٹھا کہ یہ کلام اسی سر چشمہ سے نکلا ہے جس سے عیسیٰ (علیہ السلام) کا کلام نکلا تھا۔“ (شہادۃ الاقوام ص ١٤) انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا، جلد ١٦ میں تحریر ہے : ” قرآن کے مختلف حصص کے مطالب ایک دوسرے سے بالکل موافق ہیں، بہت سی آیات دینی و اخلاقی خیالات پر مشتمل ہیں، مظاہر قدرت، تاریخ، الہامات، انبیاء کے ذریعہ اس میں خدا کی عظمت، مہربانی اور صداقت کی یاد دلائی گئی ہے، بالخصوص حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے واسطہ سے خدا کو واحد اور قادر مطلق ظاہر کیا گیا ہے، بت پرستی کو بلا لحاظ ناجائز قرار دیا گیا ہے، قرآن کی نسبت یہ بالکل بجا کہا جاتا ہے کہ وہ دنیا بھر کی موجودہ کتابوں میں سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتاب ہے۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندے حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر قرآن نازل فرمایا۔ ٢۔ ساری مخلوق مل کر بھی قرآن کی ایک سورت جیسی سورت نہیں بنا سکتی۔ ٣۔ جہنم میں پتھر اور ” اللہ“ کے نافرمان جھونکے جائیں گے۔ ٤۔ رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بشر تھے۔ ٥۔ قرآن کے منکر جہنم کا ایندھن بنیں گے۔ تفسیر بالقرآن قرآن کا چیلنج : ١۔ جن اور انسان مل کر اس جیسا قرآن بنا لاؤ۔ (بنی اسرائیل : ٨٨) ٢۔ کوئی دس سورتیں بنا لاؤ۔ (ھود : ١٣) ٣۔ کوئی اس جیسی ایک سورت بنا لاؤ۔ (یونس : ٣٨) ٤۔ قیامت تک نہیں بنا سکتے۔ (البقرۃ: ٢٣) البقرة
24 البقرة
25 فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک، قرآن مجید اور نبوت کے بارے میں شک و انکار کرنے والوں کو سخت ترین عذاب کا انتباہ کرنے کے بعد اب ان لوگوں کو کامیابی کی نوید اور پیغام مسرت دیا جا رہا ہے جو ایمان خالص کے ساتھ نیک عمل کرتے ہیں۔ یاد رہے نیکی میں ایمان باللہ کے بعد تین چیزیں لازم ہیں : (١)۔ اخلاصِ نیّت (٢)۔ سنت کی اتباع (٣)۔ فرائض کی ہمیشہ ادائیگی نوافل میں پہلی دو شرائط لازمی ہیں اور تیسری شرط افضل ہے ضروری نہیں۔ جنت کے پھل شکل و صورت کے اعتبار سے دنیا کے پھلوں سے ہم رنگ اور ہم شکل ہوں گے۔ جنہیں دیکھتے ہی اہل جنت پکار اٹھیں گے کہ ان جیسے پھل تو دنیا میں بھی ہمیں دیے گئے تھے۔ شاید یہ اس لیے ہوگا کہ جنتیوں کو اتنی بھی زحمت اور پریشانی نہ اٹھانا پڑے کہ وہ جنت کے باغات اور پھلوں کے بارے میں ملائکہ یا ایک دوسرے سے پوچھنے کی زحمت اٹھائیں۔ یہ کیا ہے؟ اور وہ کونسا پھل ہے اور اسے کس طرح کھانا ہے؟ لہٰذا پہلے سے ہی ان کی شکلوں اور ناموں سے متعارف اور مانوس ہوں گے تاکہ انہیں ایک ناواقف کی طرح شرمندگی نہ اٹھانا پڑے۔ تاہم جنت کے پھل رنگت، حجم، لذت اور خوشبو کے اعتبار سے دنیا کے پھلوں سے ہمارے تصورات سے کہیں بڑھ کر مختلف ہوں گے۔ اسی طرح جنت کی عورتیں جسمانی آلائشوں اور بیماریوں سے پاک، خاوندوں کی نافرمانی سے محفوظ اور سوتنوں کے باہم حسدو رشک سے مبرا ہوں گی۔ ان کے حسن و جمال کے بارے میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس طرح فرمایا کرتے تھے : (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَال اللّٰہُ تَعَالٰی اَعْدَدْتُّ لِعِبَادِیَ الصَّالِحِیْنَ مَالَا عَیْنٌ رَأَتْ وَلَآ اُذُنٌ سَمِعَتْ وَلَا خَطَرَ عَلٰی قَلْبِ بَشَرٍ وَّاقْرَءُ وْٓا إِنْ شِءْتُمْ (فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّآاُخْفِیَ لَھُمْ مِّنْ قُرَّۃِ اَعْیُنٍ) (رواہ البخاری : کتاب بدء الخلق، باب ماجاء فی صفۃ الجنۃ وأنھا مخلوقۃ ) ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں میں نے اپنے نیک بندوں کے لیے وہ نعمتیں تیار کی ہیں، جن کو نہ کسی آنکھ نے دیکھا اور نہ ہی ان کے متعلق کسی کان نے سنا اور نہ کسی انسان کے دل میں ان کا خیال پیدا ہوا۔ اگر چاہو تو اس آیت کی تلاوت کرو۔ (کوئی نہیں جانتا کہ ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک کے لیے کیا چیز چھپا کے رکھی گئی ہے)۔“ (وَلَوْ اَنَّ اِمْرَاَۃً مِّنْ نِّسَآءِ أَھْلِ الْجَنَّۃِ اطَّلَعَتْ اِلَی الْاَرْضِ لَاَضَآءَ تْ مَا بَیْنَھُمَا وَلَمَلَاَتْ مَا بَیْنَھُمَا رِیْحًا وَلَنَصِیْفُھَا یَعْنِی الْخِمَارَ خَیْرٌ مِّنَ الدُّنْیَا وَمَا فِیْھَا) (رواہ البخاری : کتاب الرقاق، باب صفۃ الجنۃ والنار) ” اگر اہل جنت کی عورتوں سے کوئی زمین کی طرف جھانک لے تو مشرق و مغرب اور جو کچھ اس میں ہے روشن اور معطر ہوجائے۔ نیز اس کے سر کا دوپٹہ دنیا اور جو کچھ دنیا میں ہے اس سے قیمتی ہے۔“ قرآن مجید نے ” ازواج“ کا لفظ استعمال فرمایا ہے جس کا معنٰی ہے جوڑا۔ جو اس طرح ہوگا کہ اگر نیک خاتون کا خاوند جہنم رسید ہوا تو اسے دوسرے جنتی کی زوجہ بنا دیا جائے گا اور جس کی بیوی جہنمی ہوگی اسے دنیا کی نیک خاتون عطا کی جائے گی۔ قرآن مجید نے عورتوں کی حیا کے پیش نظر یہ نہیں فرمایا کہ ان کے لیے خوبصورت مرد ہوں گے۔ ایسا کہنا قرآن کے اسلوب بیان کے خلاف تھا۔ مرد طبعی طور پر عورت سے نسبتاً کم حیا رکھتا ہے اس لیے فرمایا گیا کہ جنت میں ان کے لیے پاک بیویاں ہوں گی۔ یہ اس لیے بھی ہوگا کہ اللہ تعالیٰ نے مردوں کودنیا میں نگران بنایا ہے اور جنت میں بھی ان کو عورتوں پر سردار بنائے گا۔ جنتیوں کو یہ خوشخبری بھی دی جا رہی ہے کہ جنت اور اس کی نعمتیں ان کے لیے ہمیشہ اور جنتیوں کو حیات جاوداں حاصل ہوگی۔ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ إِنَّ فِی الْجَنَّۃِ لَشَجَرَۃً یَسِیْرُ الرَّاکِبُ فِیْ ظِلِّھَا ماءَۃَ سَنَۃٍ وَاقْرَءُ وْٓا إِنْ شِءْتُمْ (وَظِلٍّ مَّمْدُوْدٍ) (رواہ البخاری : کتاب بدء الخلق، باب ماجاء فی صفۃ الجنۃ وأنھا مخلوقۃ) ” حضرت ابوہریرہ (رض) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں آپ نے فرمایا : جنت میں ایک ایسا درخت ہے کہ گھوڑے پر سوار شخص اس کے سائے میں سو سال تک چل سکتا ہے۔ اگر تم چاہو تو یہ آیت پڑھو : اور سائے ہیں لمبے لمبے۔“ (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ قَیْسٍ (رض) عَنْ أَبِیْہِ عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ إِنَّ لِلْمُؤْمِنِ فِی الْجَنَّۃِ لَخَیْمَۃً مِنْ لُؤْلُؤَۃٍ وَاحِدَۃٍ مُجَوَّفَۃٍ طُوْلُھَا سِتُّوْنَ مِیْلًا لِلْمُؤْمِنِ فِیْھَا أَھْلُوْنَ یَطُوْفُ عَلَیْھِمُ الْمُؤْمِنُ فَلَا یَرٰی بَعْضُھُمْ بَعْضًا) (رواہ مسلم : باب فی صفۃ خیام الجنۃ ....) ” حضرت عبداللہ بن قیس (رض) اپنے باپ سے اور وہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان ہے کہ جنت میں مومن کے لیے موتی کا ایک ایسا خیمہ ہوگا جس کی لمبائی ساٹھ میل ہوگی وہاں مومن کے گھر والے ہوں گے جن کے ہاں وہی جائے گا۔ کوئی کسی کو نہ دیکھ سکے گا۔“ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) أَوَّلُ زُمْرَۃٍ تَدْخُلُ الْجَنَّۃَ عَلٰی صُوْرَۃِ الْقَمَرِ لَیْلَۃَ الْبَدْرِ وَالَّذِیْنَ عَلٰی آثَارِھِمْ کَأَحْسَنِ کَوْکَبٍ دُرِّیٍّ فِی السَّمَآءِ إِضَآءَ ۃً قُلُوْبُھُمْ عَلٰی قَلْبِ رَجُلٍ وَاحِدٍلَاتَبَاغُضَ بَیْنَھُمْ وَلَاتَحَاسُدَ لِکُلِّ امْرِیءٍ زَوْجَتَانِ مِنَ الْحُوْرِ الْعِیْنِ یُرٰی مُخُّ سُوْقِھِنَّ مِنْ وَرَآءِ الْعَظْمِ وَاللَّحْمِ) (رواہ البخاری : باب ماجاء فی صفۃ الجنۃ وأنھامخلوقۃ) ” حضرت ابوہریرہ (رض) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں پہلا گروہ جنت میں چودھویں رات کے چاند کی صورت میں داخل ہوگا ان کے بعد کے لوگ آسمان میں چمکدار اور حسین ستارے کی مانند ہوں گے ان کے دل ایک ہی آدمی کے دل کی طرح ہوں گے ان کے درمیان نہ کوئی بغض ہوگا اور نہ ہی حسد۔ ہر ایک جنتی کے لیے حور العین میں سے دو بیویاں ہوں گی جن کی ہڈیوں کا گودا، گوشت اور ہڈیوں کے درمیان سے نظر آئے گا۔“ مسائل ١۔ صاحب ایمان اور نیک اعمال کرنے والوں کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے جنت، ہرقسم کے پھل، پاکیزہ بیویاں اور جنت میں ہمیشہ رہنے کی خوشخبری ہے۔ تفسیر بالقرآن جنت کی ازواج : ا۔ حوریں نوجوان، کنواریاں اور ہم عمرہوں گی۔ (الواقعہ : ٢٥ تا ٣٨) ٢۔ یا قوت و مرجان کی مانند ہوں گی۔ (الرحمن : ٥٨) ٣۔ خوبصورت اور خوب سیرت ہوں گی۔ (الرحمن : ٧٠) ٤۔ خیموں میں چھپی ہوئی ہوں گی۔ (الرحمن : ٧٢) ٥۔ شرم و حیا کی پیکر اور انہیں کسی نے چھوا نہیں ہوگا۔ (الرحمن : ٥٦) البقرة
26 فہم القرآن ربط کلام : قرآن مجید کی ابتدا میں مرکزی اور بنیادی باتوں کا تذکرہ ہوا یہاں قرآن مجید میں بیان ہونے والی امثال کی وضاحت اور ان کے ردِّ عمل کا بیان ہوتا ہے۔ انسانی فطرت شروع سے اس بات کی متقاضی رہی ہے کہ جو بات مشکل یا لطیف ہو وہ مثال کے ذریعے سمجھائی جائے تو نہ صرف بات اس کی سمجھ میں آ جاتی ہے بلکہ وہ آدمی کو مدت تک یاد رہتی ہے۔ فطرت کے اس تقاضے اور فہم کی آسانی کے لیے قرآن مجید میں کئی مسائل کو امثال کے ذریعے سمجھایا گیا ہے۔ بالخصوص توحید کی حقانیت اور شرک کی ناپائیداری اور بے بضاعتی سمجھانے کے لیے جب یہ مثال دی گئی کہ شرک کا عقیدہ اور اس کے متعلقات مکڑی کے جالے کی طرح نا پائیدار اور کمزور ہیں جیسے مضبوط چھت کے ہوتے ہوئے مکڑی کا تانہ بانہ کمزور ہوتا ہے۔[ العنکبوت : ٤١] جو نہ ہوا کو روکتا ہے اور نہ ہی مکڑی کا سردی اور گرمی میں دفاع کرتا ہے۔ بلکہ معمولی ہوا بھی جالے سمیت مکڑی کو اٹھا کر دور پھینک دیتی ہے۔ یہی مشرک کے عقیدے کی مثال ہے کہ اللہ تعالیٰ کا مضبوط سہارا چھوڑ کر کبھی مردوں کو پکارتا ہے اور کبھی بے جان شجر و حجر کو وسیلہ بناتا ہے۔ حالانکہ معبود ان باطل سے مکھی کوئی چیز اٹھا کرلے جائے تو وہ اس سے واپس نہیں لے سکتے۔ کس قدر طالب و مطلوب کمزور ہیں۔[ الحج : ٧٣] مکھی کی مثال سے یہ بھی واضح ہوا کہ جس طرح عام مکھی پھول اور گندگی پر بیٹھنے سے پرہیز نہیں کرتی۔ ایسے ہی مشرک توحید اور شرک میں فرق نہیں کرتا اور جگہ جگہ ٹکریں مارتا پھرتا ہے۔ چاہیے تو یہ تھا کہ مشرک اور کافر ان مثالوں پر غور کرتے ہوئے اپنے باطل نظریہ پر نظر ثانی کرتے۔ اُلٹا انہوں نے یہ کہا کہ ربِّ جلیل کو اتنی حقیر چیزوں کی مثال نہیں دینا چاہیے تھی یہ امثال ذات کبریا کو زیبانہ تھیں۔ اس کے جواب میں فرمایا جا رہا ہے کہ مخلوق ہونے کے ناطے تم سب یکساں ہو۔ اللہ تعالیٰ چھوٹی بڑی مخلوق کا واحد خالق ہے۔ اس فرق کو سمجھنے کے لیے ذرا اپنی طرف غور کیجئے کہ ایک باپ کے بچے حسن و جمال‘ طاقت و صلاحیت اور اخلاق و کردار کے اعتبار سے ایک جیسے نہیں ہوتے اس کے باوجود باپ ہونے کے ناطے وہ سب سے ایک جیسا پیار کرتا ہے۔ بلکہ فطرتاً کمزور اولاد کے ساتھ زیادہ شفقت کرتا ہے۔ جب فطرت تمہیں ایسا کرنے پر مجبور کرتی ہے تو خالق اپنی مخلوق کو کیوں حقیر سمجھے وہ تو سب سے زیادہ رحیم وکریم ہے۔ قرآن نے مچھر کی مثال بیان نہیں کی صرف اشارہ فرما کر کفار کو چوکنّا اور ذلیل کیا ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی مرضی ہے کہ کسی چیز کی مثال بیان کرے یا اس کی طرف اشارہ فرمائے بہر حال ساری کی ساری مخلوق اسی کی ہے۔ خالق اپنی مخلوق کے تذکرہ میں عار نہیں سمجھتا۔ فرق صرف اتنا ہے کہ ایمان داروں کے ایمان میں اضافہ ہوتا ہے اور انکار کرنے والوں کا کفر و تمرد اور زیادہ ہوجاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہر چیز کا مالک ہے وہ چیز مادی ہو یا روحانی انسان کو نظر آئے یا اس کی آنکھیں اسے دیکھنے سے قاصر ہوں۔ سب کی سب اللہ تعالیٰ کی ملکیت اور اس کے اختیار میں ہے اسی لیے وہ ہدایت اور گمراہی کو اپنی ملکیت قرار دے کر اسے اپنی طرف منسوب کرتا ہے کہ میں جس کو چاہوں ہدایت دوں اور جس کو چاہوں گمراہ کروں لیکن اللہ تعالیٰ لوگوں کی ہدایت کا طلبگار ہے۔ اسی لیے اس نے انبیاء بھیجے اور کتابیں نازل فرمائیں تاکہ لوگ ہدایت پاجائیں لیکن لوگوں کی اکثریت ہمیشہ گمراہی کو پسند کرتی رہی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ہدایت کو اختیاری قرار دیا ہے وہ جبرًا کسی کو ہدایت دیتا ہے اور نہ گمراہ کرتا ہے اس لحاظ سے ” یُضِلُّ“ کا معنٰی ہوگا کہ جو گمراہ ہونا چاہتا ہے۔ اسے وہ گمراہی میں آگے بڑھنے دیتا ہے۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق میں سے کوئی مثال دینے میں عار محسوس نہیں کرتا۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ کی بیان کردہ مثال پر ایمان والوں کا ایمان بڑھتا ہے اور کافر مزید گمراہ ہوجاتے ہیں۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ کے ارشاد پر اعتراض کرنے والا فاسق ہوتا ہے۔ ٤۔ فاسق ہدایت پانے کی بجائے مزید گمراہ ہوجاتا ہے۔ تفسیر بالقرآن توحید و شرک کے بارے میں چند امثال : ١۔ ایک غلام کے دو مالک ہوں تو؟۔ (الزمر : ٢٩) ٢۔ ناکارہ اور کار آمد غلام کی مثال۔ (النحل : ٧٦) ٣۔ مشرک کی تباہی کی مثال۔ (الحج : ٣١) ٤۔ باطل معبودوں اور مکھی کی مثال۔ (الحج : ٧٣ ٥۔ دھوپ اور سایہ کی مثال۔ (فاطر : ٢١) ٦۔ اندھیرے اور روشنی کی مثال۔ (فاطر : ٢٠) ٧۔ اندھے بہرے، دیدے اور سننے والے کی مثال۔ (ھود : ٢٤) البقرة
27 فہم القرآن ربط کلام : جیسا کہ پہلے ذکر کیا جاچکا ہے کہ قرآن مجید کی ابتدا اور البقرۃ کے آغاز میں ابتدائی‘ بنیادی اور مرکزی باتوں کا بیان ہوا ہے یہاں اس عہد کا ذکر ہورہا ہے جس کی پاسداری کا حکم ہے جو روز اول ہی سے بنی نوع انسان سے لیا گیا تھا۔ تمام مفسرین نے اللہ کے عہد سے مراد وہی عہد لیا ہے جس کا تفصیلی تذکرہ سورۃ الاعراف : ١٧٢ میں آیا ہے۔ جس کا خلاصہ یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم (علیہ السلام) کو پیدا فرمایا تو آدم (علیہ السلام) اور اس کی پوری اولاد سے عہد لیا کہ کیا میں تمہارا رب ہوں؟ سب نے عہد کیا کہ تو ہی ہمارا رب ہے۔ اسی عہد کی یاد اور وفا داری کے لیے انبیاء عظام مبعوث فرمائے گئے۔ جنہوں نے ہر انداز سے تجدید عہد اور اس کے تقاضے پورے کرنے کے لیے لوگوں کو آمادہ کرنے کی کوششیں فرمائیں۔ لیکن ہر دور کی اکثریت نے اس عہد کی پاسداری کرنے کی بجائے کفر و شرک اور نافرمانی وسرکشی کو اختیار کیا۔ حالانکہ یہ عہد انسان کی جبلت میں اس حد تک رچا بسا ہے کہ انتہا درجہ کے مشرک، کافر کو بھی شرک اور اس کے کفر کی نشاندہی کی جائے تو وہ چونک اٹھتا ہے اور اس سے انکار کرتا ہے کیونکہ شرک وکفر فطرت کے خلاف ہے اور توحید فطرت کی آواز ہے۔ قرآن مجید نے عہد کے ساتھ میثاق کا لفظ استعمال فرمایا ہے۔ جس کا معنٰی ہے انتہائی پختہ عہد، لہٰذا توحید سے بڑھ کر پختہ عہد کوئی نہیں ہو سکتا۔ فطرت کے خلاف کرنا، رشتہ داریوں کو توڑنا، باہمی محبتوں کو قطع کرنا اور عہد شکنی کرنا۔ یہ امور فساد کی جڑ ہیں اور دنیا میں انہی کی وجہ سے فساد برپا ہوتا ہے ایسے لوگ دنیا اور آخرت میں ناقابل تلافی نقصان پائیں گے۔ (عَنْ أَنَسٍ (رض) قَالَ قَلَّمَا خَطَبَنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) إِلَّا قَالَ لَاإِیْمَانَ لِمَنْ لَّآ أَمَانَۃَ لَہٗ وَلَادِیْنَ لِمَنْ لَّا عَھْدَ لَہٗ) (مسند احمد : کتاب باقی مسند المکثرین، باب مسند أنس بن مالک] ” حضرت انس (رض) فرماتے ہیں ہمیں جب بھی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خطبہ ارشاد فرماتے تو کہتے کہ جو امانت دار نہیں وہ ایمان دار نہیں اور جو بدعہد ہے وہ دین دار نہیں۔“ (عَنْ عَاءِشَۃَ (رض) قَالَتْ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) الرَّحِمُ مُعَلَّقَۃٌ بالْعَرْشِ تَقُوْلُ مَنْ وَصَلَنِیْ وَصَلَہُ اللّٰہُ وَمَنْ قَطَعَنِیْ قَطَعَہُ اللّٰہُ) (رواہ مسلم : باب صلۃ الرحم وتحریم قطیعتھا) ” حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں رحم عرش کے ساتھ لپٹ کر کہتا ہے جو مجھے ملائے ” اللہ“ اسے ملائے اور جو مجھے کاٹے ” اللہ“ اسے کاٹ ڈالے۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ کے عہد اور رشتہ داریوں کو توڑنے والے فسادی ہیں۔ ٢۔ فساد کرنے والے دنیا و آخرت میں نقصان پائیں گے۔ تفسیر بالقرآن نقصان پانے والے لوگ : ١۔ اسلام کا انکار کرنے والے نقصان پائیں گے۔ (البقرۃ : ١٢١) ٢۔ اسلام کے بغیر دین تلاش کرنے والے نقصان پائیں گے۔ (آل عمران : ٨٥) ٣۔ شیطان کی تابعداری کرنے والے نقصان پائیں گے۔ (المجادلۃ: ١٩) ٤۔ مشرک نقصان پائیں گے۔ (الزمر : ٦٥) ٥۔ کافر نقصان پائیں گے۔ (النحل : ١٠٩) فسادی لوگ : ١۔ فساد کرنے سے رک جاؤ۔ (الاعراف : ٨٥) ٢۔ حق کو خواہشات کے مطابق کرنا فساد کرنے کے مترادف ہے۔ (المومنون : ٧١) ٣۔ منافق فسادی ہوتے ہیں۔ (البقرۃ: ١١) ٤۔ خدا کے نافرمان فسادی ہیں۔ (الروم : ٤١) ٥۔ یاجوج و ماجوج فسادی ہیں۔ (الکہف : ٩٤) ٦۔ فرعون فساد کرنے والا تھا۔ (یونس : ٩١) ٧۔ یہودی فساد پھیلانے والے ہیں۔ (المائدۃ: ٦٤) ٨۔ بچوں کا قتل فساد ہے۔ (القصص : ٤) ٩۔ فسادیوں کی سزا۔ (المائدۃ: ٣٣) البقرة
28 فہم القرآن ربط کلام : بنی آدم کا اللہ تعالیٰ سے کیا ہوا عہد توڑنے یعنی توحید کا انکار کرنے کا کوئی جواز نہیں اس پر سوا لیہ انداز میں انتباہ کیا گیا ہے کہ تمہارے پاس اس سے انکار کی کوئی عقلی، نقلی اور فطری دلیل نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کفروشرک، رسالت مآب (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا انکار، اللہ تعالیٰ کے ساتھ کیے ہوئے ابدی اور ازلی عہد کو توڑنا، باہمی تعلقات کو قطع کرنا اور زمین پر دنگا فساد کرنا یہ ایسے کام ہیں جن میں اعتقادی اور عملی طور پر اللہ تعالیٰ کی نافرمانی اور انکار پایا جاتا ہے۔ جس کا انسان کو کسی اعتبار سے حق نہیں پہنچتا۔ کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو عدم سے وجود بخشا اور اس کے بعد موت سے ہمکنار کرکے دوبارہ زندہ کرنے کے بعد ابدی زندگی کے لیے اٹھائے گا یہ سوائے اللہ تعالیٰ کے کسی کے اختیار میں نہیں۔ انسان اپنے خالق کے سامنے بے بس ہے جب انسان اپنی موت و حیات اور وجود پر اختیار نہیں رکھتا تو اسے اتنی جرأت کیونکر کہ وہ قادر مطلق کا انکار کرے۔ حالانکہ اس کا اپنے اعمال سمیت رب ذو الجلال کے حضور پیش ہونا یقینی امر ہے جس میں ذرہ برابر شک کی گنجائش نہیں ہو سکتی۔ بے شک انسان کا جسم راکھ کی شکل اختیار کر کے ہواؤں کی نذر ہوجائے یا پانی میں حل ہوجائے۔ اللہ تعالیٰ ان ذرّات کو مجتمع فرما کر انسانی جسم کو روح سمیت اپنے حضور پیش ہونے کا حکم صادر فرمائے گا۔ اس حقیقت کو قرآن اور رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان الفاظ میں بیان فرمایا : (قُلْ کُوْنُوْاحِجَارَۃً أَوْ حَدِیْدًا۔ أَوْ خَلْقًا مِّمَّا یَکْبُرُ فِیْ صُدُوْرِکُمْ) (بنی اسرائیل : ٥٠) ” آپ فرمائیے تم پتھر بن جاؤ یا لوہا۔ یا اس سے بڑی مخلوق جو تمہارے دل میں آئے۔“ (مِنْھَا خَلَقْنٰکُمْ وَ فِیْھَا نُعِیْدُکُمْ وَ مِنْھَا نُخْرِجُکُمْ تَارَۃً اُخْرٰی) (طٰہٰ: ٥٥) ” اس زمین سے ہی ہم نے تمہیں پیدا کیا اس میں لوٹائیں گے اور اسی سے دوبارہ نکالیں گے۔“ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ کَانَ رَجُلٌ یُسْرِفُ عَلٰی نَفْسِہٖ فَلَمَّا حَضَرَہُ الْمَوْتُ قَالَ لِبَنِیْہِ إِذَا أَنَا مُتُّ فَأَحْرِ قُوْنِی ثُمَّ اطْحَنُوْنِی ثُمَّ ذَرُوْنِی فِی الرِّیْحِ فَوَ اللّٰہِ لَءِنْ قَدَرَ عَلَیَّ رَبِّی لَیُعَذِّبَنِّی عَذَابًا مَا عَذَّبَہُ أَحَدًا فَلَمَّا مَاتَ فُعِلَ بِہٖ ذٰلِکَ فَأَمَرَ اللّٰہُ الْأَرْضَ فَقَالَ اجْمَعِی مَا فِیْکِ مِنْہُ فَفَعَلَتْ فَإِذَا ھُوَ قَآءِمٌ فَقَالَ مَا حَمَلَکَ عَلٰی مَا صَنَعْتَ قَالَ یَا رَبِّ خَشْیَتُکَ فَغَفَرَ لَہُ) (رواہ البخاری : کتاب أحادیث الأنبیاء) ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ ایک آدمی اپنے آپ پر بڑا ظلم و ستم کرتا تھا۔ موت کے قریب اس نے اپنے بیٹوں کو کہا جب میں فوت ہوجاؤں تو میری لاش کو جلا کر راکھ ہواؤں میں اڑا دینا۔ اللہ کی قسم ! اگر مجھ پر میرے رب نے قابو پالیا تو مجھے ایسا عذاب دے گا کہ اس سے پہلے اس نے کسی کو عذاب نہ دیا ہوگا۔ چنانچہ اس کی موت پر اس کے ساتھ ایسے ہی کیا گیا اللہ تعالیٰ نے زمین کو حکم دیا کہ تیرے پاس جو کچھ ہے سب جمع کر دے۔ جمع کرنے کے بعد اس آدمی سے پوچھاکہ تو نے اس طرح کیوں کیا؟ جواباً اس نے عرض کی۔ اے اللہ! تیرے ڈر کی وجہ سے میں نے ایسا کیا تو اللہ تعالیٰ نے اسے معاف فرما دیا۔“ جہنمیوں کا اعتراف : (قَالُوْارَبَّنَآ أَمَتَّنَا اثْنَتَیْنِ وَأَحْیَیْتَنَا اثْنَتَیْنِ فَاعْتَرَفْنَا بِذُنُوْبِنَا فَھَلْ إِلٰی خُرُوْجٍ مِّنْ سَبِیْلٍ) (المؤمن : ١١) ” کہیں گے اے ہمارے رب! تو نے ہمیں دو مرتبہ موت دی اور دو مرتبہ زندہ کیا ہم اپنے گناہوں کا اعتراف کرتے ہیں تو کیا یہاں سے نکلنے کی کوئی راہ ہے؟۔“ تمام مفسرین نے دو اموات سے مراد ایک وہ موت لی ہے جب انسان عدم کی حالت میں ہوتا ہے، دوسری موت انسانی زندگی کا خاتمہ ہے اسی طرح دنیوی زندگی اور دوسری جنت یا جہنم کی زندگی ہے۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ کو ہی موت و حیات پر اختیار ہے اور اسی کی طرف سب نے جمع ہونا ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کے اقتدار اور اختیار کا انکار کرنا کفر ہے۔ ٣۔ انسان کو حق نہیں پہنچتا کہ وہ اپنے رب کی ذات اور صفات کا انکار کرے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ کے ساتھ کفر کرنے کا کوئی جواز نہیں : ١۔ ” اللہ“ ہی خالق ہے اس کے ساتھ کفر کیوں؟ (البقرہ : ٢٨) ٢۔ ” اللہ“ کی آیات پڑھی جانے کے باوجود کفر کا کیا معنی؟ (آل عمران : ١٠١) ٣۔ زمین و آسمان بنانے اور بارش اتارنے والا ” اللہ“ ہے اس کے ساتھ دوسرا الٰہ کیوں؟ (النمل : ٦٠) ٤۔ بحرو بر میں رہنمائی کرنے والا ” اللہ“ ہے اس کا انکار کیوں؟ (النمل : ٦٣) ٥۔ زندہ کرنے والے اور رزق عطا فرمانے والے ” اللہ“ کے ساتھ کفر چہ معنی دارد؟ (النمل : ٦٤) ٦۔ پریشانیوں کا مداوا کرنے والا صرف ” اللہ“ ہے اس کا انکار کیوں؟ (النمل : ٦٢) البقرة
29 فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ موت وحیات کا مالک ہے اس نے انسان کو بے اختیار خلیفہ نہیں بنایا بلکہ سب کو اس کے لیے پیدا کیا اور ایک حد تک زمین کا نظام انسان کے حوالے کیا تاکہ اس کی آزمائش کرے۔ اس رکوع کی ابتدا توحید اور انسانی تخلیق کے تذکرے سے ہوئی تھی اب اس خطاب کا اختتام اللہ کی توحید پر کرتے ہوئے فرمایا جا رہا ہے کہ وہی تمہاری موت و حیات اور فناو بقا کا مالک ہے اور اسی کے سامنے تم نے پیش ہونا ہے۔ اس نے فقط تمہیں ہی پید انہیں فرمایا بلکہ زمین کی ہر چیز تمہارے لیے پیدا فرمائی۔ اس کے بعد عرش معلّٰی پر متمکن ہوا۔ جس طرح اس کی شایان شان ہے۔ حضرت آدم (علیہ السلام) کے احترام و مقام کے پیش نظر یہ چیزیں پہلے اس لیے بنائی اور سجائی گئیں تاکہ مکیں سے پہلے مکاں، مہمان سے پہلے دسترخواں، مخدوم سے پہلے خدام، حاکم سے پہلے اس کی ریاست تشکیل پائے۔ نہ صرف ان کو آدم (علیہ السلام) کے لیے بنایا گیا بلکہ ان کو بنا کر بنی نوع انسان کے لیے مسخر بھی کردیا گیا ہے۔ (الجاثیۃ: ١٣) استواء کا معنٰی اللہ تعالیٰ کا آسمانوں پر متمکن ہونا ہے۔ جس کی یہ وضاحت فرمائی کہ اللہ تعالیٰ کا عرش پہلے پانی پر تھا۔ پھر جس طرح اس کی شایان شان ہے عرش پر مستوی ہوا۔ آیت کے آخر میں واضح کردیا گیا کہ اے انسان! اللہ تعالیٰ کا آسمانوں کے اوپر عرش پر استوا ہونے کا یہ معنی نہیں کہ اب وہ زمین اور اس کے ما فیہا سے بے خبر ہے۔ نہیں! کان کھول کر سن لو! اللہ تعالیٰ پل پل کی خبر اور ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے زمین اور آسمان کی ہر چیز انسان کے لیے پیدا فرمائی ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ عرش پر متمکن ہے جس طرح اس کی شان کے لائق ہے۔ ٣۔ اللہ ہی نے سات آسمان بنائے وہی ہر چیز کو جاننے والا ہے۔ تفسیر بالقرآن ١۔ سورج اور چاند کو تمہارے لیے مسخر کیا۔ (ابراہیم : ٣٣) ٢۔ رات دن کو تمہارے لیے مسخر کیا۔ (النحل : ١٢) ٣۔ نہروں اور کشتیوں کو مسخر فرمایا۔ (ابراہیم : ٣٣) ٤۔ اللہ نے زمین و آسمان کی ہر چیز کو مسخر کردیا۔ (الحج : ٦٥) ٥۔ زمین کی ہر چیز انسان کے لیے پیدا کی گئی ہے۔ (البقرۃ: ٢٩) البقرة
30 فہم القرآن ربط کلام : جس مکین کے لیے ہر چیز بنائی اور سجائی گئی اس کی تخلیق کا مقصد بیان کیا گیا ہے۔ زمین و آسمان کو بنانے اور سجانے کے بعد کائنات کی اعلیٰ ترین مخلوق ملائکہ کے پر شکوہ اجتماع میں پورے جلال و کمال کے ساتھ رب کائنات نے حضرت آدم (علیہ السلام) کی تخلیق اور خلافت کا اعلان فرمایا۔ اللہ اللہ کیا احترام و مقام ہے جناب آدم (علیہ السلام) کا! اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنے ہاتھ سے پیدا کیا۔ اس کو بہترین سانچے میں استوار فرمایا۔ اپنی روح کو اس میں القاء کیا اور پھر خلافت کے منصب پر فائزفرماکراعلیٰ ترین مخلوق سے سجدہ کروایا اور اس کی خلافت کا اعلان فرمایا خلافت کا اعلان سنتے ہی ملائکہ نے اللہ کے حضور اس خدشہ کا اظہار کیا کہ یہ تو ایسی مخلوق ہے کہ جو زمین میں قتل و غارت اور دنگا فساد کرے گی جب کہ ہم تیری حمد وستائش کرتے ہیں۔ خلافت سے مراد اللہ تعالیٰ کی خلافت نہیں بلکہ زمین میں حضرت آدم (علیہ السلام) کی حکمرانی ہے یا پھر حضرت آدم جنات کے خلیفہ ہیں کیونکہ حضرت آدم (علیہ السلام) سے پہلے زمین کا نظام جنات کے سپرد تھا۔ ملائکہ کی تشویش کی تین وجوہات ہو سکتی ہیں : (١) آدم کا متضاد عناصر سے تخلیق پانا۔ (٢) قبل ازیں جنّات کی قتل و غارت گری اور نافرمانیوں کا مشاہدہ کرنا۔ (٣) آدم کا اعلیٰ منصب پر فائز ہونا اور اس کو وسیع اختیارات ملنا۔ بعض مفسرین نے ملائکہ کے اس خدشہ سے یہ استدلال کیا ہے کہ وہ خود خلافت کے منصب کے امیدوار تھے جس کی وجہ سے انہوں نے جناب آدم (علیہ السلام) کی تخلیق اور تقرری پر اعتراض کیا تھا۔ ملائکہ حرص وہوس اور رشک و حسد سے پاک پیدا کیے گئے ہیں۔ اس لیے یہ کہنا غلط اور ایسا کہنے کی ان کے پاس کوئی دلیل بھی نہیں۔ پھر کسی کی کیا مجال ہے کہ وہ اللہ کے کسی کام پر معترضانہ گفتگو کرسکے : (لَایُسْءَلُ عَمَّا یَفْعَلُ وَھُمْ یُسْءَلُوْنَ) (الانبیاء : ٢٣) ” اللہ تعالیٰ کے کسی کام پر سوال نہیں ہوتا البتہ مخلوق سے سوال کیا جاتا ہے“ (وَکُنْتُمْ تَکْتُمُوْنَ) کا مفہوم جاننے کے لیے ہر ذی شعور سمجھتا ہے کہ جب چھوٹا آدمی کسی بڑے کے سامنے اس کے فرمان یا کام پر اظہار خیال کرتا ہے۔ بے شک اس ہستی نے ہی اظہار خیال یا تبصرہ کا موقعہ فراہم کیا ہو تو پھر بھی چھوٹا آدمی نہایت ادب اور دبی زبان بلکہ اکثر دفعہ اشارے، کنائے سے بات کرتا ہے۔ یہاں بھی سلسلۂ کلام سے اندازہ ہوتا ہے کہ ملائکہ نے ذات کبریا کے حضور چند الفاظ اور معمولی جذبات کا اظہار کیا تھا۔ جس کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ جو تم نے چھپایا میں اسے بھی جانتا ہوں۔ کچھ لوگوں نے ملائکہ کے سامنے تخلیق آدم کے تذکرے کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے مشاورت کا رنگ دینے کی کوشش کی ہے۔ ذات کبریا کے متعلق مشورہ کے لفظ استعمال کرنا کئی لحاظ سے محل نظر اور اس سے گستاخی کا پہلو نکلتا ہے۔ کیونکہ مشورہ کرنے میں کسی نہ کسی سطح پر حاجت اور کمزوری پائی جاتی ہے۔ اگر مشورہ لینے والے میں کسی قسم کی کمزوری نہ بھی ہو اور وہ دل جوئی کے لیے دوسرے سے مشورہ لے رہا ہو تو اس دل جوئی کے پیچھے بھی مروت قائم رکھنے کی محتاجی پائی جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ان تمام حاجتوں اور احتیاطوں سے مبرّاہے۔ میرے نقطہء نگاہ سے تخلیق آدم کے تذکرہ کو ایک اطلاع یا شاہانہ سرکاری اعلان کہنا چاہیے۔ اس بنا پر ہی ملائکہ کے اظہار تشویش پر فرمایا گیا کہ تمہیں کیا معلوم میں سب کچھ اور بہتر جانتا ہوں۔ مسائل ١۔ انسان زمین میں اللہ تعالیٰ کا کی طرف سے حکمران ہے اسے دنگا فساد کرنے کی بجائے خلافت کا حق ادا کرنا چاہیے۔ ٢۔ ملائکہ ہر دم اللہ تعالیٰ کی تسبیح و تہلیل کرتے ہیں۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے۔ تفسیر بالقرآن خلافت اور اس کی ذمہ داریاں : ١۔ خلافت نیک لوگوں کا استحقاق ہے۔ (النور : ٥٥) ٢۔ خلافت آزمائش ہے۔ (الانعام : ١٦٥) ٣۔ خلافت اللہ ہی عطا کرتا ہے۔ (الانعام : ١٣٣، الاعراف : ١٢٩) ٤۔ اللہ ہی لوگوں کو ایک دوسرے کا خلیفہ بناتا ہے۔ (فاطر : ٣٩) ٥۔ خلافت کی ذمہ داریاں۔ (ص : ٢٦‘ الحج : ٤١) البقرة
31 فہم القرآن ربط کلام : گزشتہ سے پیوستہ۔ خلیفہ کی علمی برتری اور فضیلت کا بیان۔ جناب آدم (علیہ السلام) کو ان تمام چیزوں کے ناموں سے آگاہ کردیا گیا جن سے انہیں واسطہ پڑناتھا۔ پھر ان اشیاکو ملائکہ کے سامنے پیش کرکے حکم دیا کہ اگر تم سچے ہو تو مجھے ان کے نام بتلاؤ۔ ملائکہ نے نام بتلانے سے معذوری ظاہر کی اور عرض کی کہ بار الٰہا! تیری ذات، احکام اور کام ہر کمزوری اور نقص سے پاک ہے ہم تو فقط اتنا ہی جانتے ہیں جو کچھ آپ نے ہمیں بتلایا ہے بلاشبہ تو ہر چیز کا علم بھی رکھنے والا ہے۔ ثابت ہوا کہ ملائکہ بھی غیب نہیں جانتے۔ اس کے بعد آدم (علیہ السلام) کو حکم فرمایا کہ ملائکہ کو ان چیزوں کے نام بتلاؤ حکم پاتے ہی حضرت آدم (علیہ السلام) نے بلا تأمّل ان کے نام بتلا دئیے۔ اس کے بعد ارشاد ہوا کیا میرا پہلے سے یہ فرمان نہیں تھا کہ میں زمین و آسمان کے ظاہر اور باطن کو جانتا ہوں؟ اور وہ کچھ بھی مجھے معلوم ہے جو تم ظاہر کر رہے تھے اور جو تم چھپائے ہوئے ہو۔ اس میں واضح طور پر ملائکہ کے لیے اشارہ ہے کہ یہ چیزیں تمہارے سامنے ہونے کے باوجود تم ان کے نام نہیں بتلا سکے تو تم آدم (علیہ السلام) کی چھپی ہوئی صلاحیتوں کو کیسے جان سکتے ہو اور جس طرح آدم (علیہ السلام) نے میرے عطا کردہ علم کے ذریعے تم پر برتری حاصل کرلی ہے اسی طرح ہی میری ہدایت کی روشنی میں خیر و شر اور نیکی و بدی میں امتیاز کرکے برتری حاصل کرے گا۔ بعض مفسرین غیر مستند روایات اور دیگر ذرائع سے حاصل ہونے والی معلومات کی بنیاد پر لکھتے ہیں کہ آدم (علیہ السلام) کو ان چیزوں کے نام ملائکہ سے الگ کرکے اور بعض کا خیال ہے کہ ملائکہ کی موجودگی میں ہی بتلائے گئے تھے۔ فرشتے اہلیت نہ ہونے کی وجہ سے یہ نام بھول گئے جبکہ آدم (علیہ السلام) اپنی لیاقت کی بنیاد پر ان چیزوں کے نام یاد رکھنے اور بتلانے میں کامیاب رہے۔ قرآن مجید لا حاصل موشگافیوں کی طرف متوجہ نہیں ہوتا کیونکہ اس طرح انسان اصل مقصود اور عملی زندگی سے نکل کر قیل و قال کا ہو کررہ جاتا ہے۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم (علیہ السلام) کو تمام چیزوں کے نام بتلائے۔ ٢۔ ملائکہ وہی کچھ جانتے ہیں جو اللہ تعالیٰ انہیں بتلاتا ہے۔ ٣۔ حضرت آدم (علیہ السلام) نے ملائکہ کو تمام چیزوں کے نام بتلادیے۔ ٤۔ جس بات کا علم نہ ہو اس کے بارے میں عدم علم کا اعتراف کرنا ملکوتی صفت ہے۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ ہر چیز جاننے والا ہے اور اس کا ہر کام اور حکم پُر حکمت ہے۔ ٦۔ اللہ تعالیٰ ظاہر اور پوشیدہ سب کچھ جانتا ہے۔ تفسیر بالقرآن مخلوق کے علم کا ماخذ : ١۔ اللہ تعالیٰ نے تمام انبیاء ( علیہ السلام) کی طرف وحی بھیجی۔ (۔۔ حوالہ) ٢۔ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پڑھنا سکھایا۔ (العلق : ١) ٣۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو وہ کچھ بتلایا جو یہ نہیں جانتا تھا۔ (العلق : ٥) ٤۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو لکھنا سکھایا۔ (العلق : ٤) ٥۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو بولنا اور بیان کرنا سکھلایا۔ (الرحمن : ٤) ٦۔ انسان کو رحمٰن نے قرآن سکھایا۔ (الرحمن : ٢) ٧۔ آدم (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے علم دیا۔ (البقرۃ: ٣١) ٨۔ فرشتوں نے بھی سب کچھ اللہ تعالیٰ سے سیکھا۔ (البقرۃ: ٣٢) ٩۔ سدھائے ہوئے جانوروں کا علم اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے۔ (المائدۃ: ٤) البقرة
32 البقرة
33 البقرة
34 فہم القرآن ربط کلام : خلیفہ کی علمی برتری اور شان کے سامنے کائنات کی اعلیٰ اور مقدس ترین مخلوق ملائکہ کو جھکنے کا حکم۔ سجدہ کا حکم ہوتے ہی تمام ملائکہ آدم (علیہ السلام) کے حضور سر بسجود ہوئے لیکن شیطان نے حضرت آدم (علیہ السلام) کا احترام و مقام دیکھ کر حسد اور تکبر کی وجہ سے سجدہ ریز ہونے سے نہ صرف انکار کیا بلکہ وہ جرم پر جرم اور گستاخی پر گستاخی کرتا چلا گیا۔ اس جگہ اجمال ہے جبکہ دوسرے مقامات پر شیطان کے انکار کی تفصیلات یوں بیان کی گئی ہیں۔ ( وَ اِذْ قُلْنَا لِلْمَلآءِکَۃِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوْٓا اِلَّآ اِبْلِیْسَ ط قَالَ ءَ اَسْجُدُ لِمَنْ خَلَقْتَ طِیْنًا۔) (الاسراء : ٦١) ” اور جب ہم نے فرشتوں سے کہا آدم کو سجدہ کرو ابلیس کے علاوہ سب نے سجدہ کیا اور اس نے کہا کہ کیا میں اسے سجدہ کروں جسے تو نے مٹی سے پیدا کیا ہے۔“ ( اَنَا خَیْرٌ مِّنْہُ ج خَلَقْتَنِیْ مِنْ نَّارٍ وَّ خَلَقْتَہٗ مِنْ طِیْنٍ) (الاعراف : ١٢) ” میں آدم سے بہتر ہوں تو نے مجھے آگ سے اور اسے مٹی سے پیدا کیا ہے۔“ ( قَالَ لَمْ اَکُنْ لِّاَسْجُدَ لِبَشَرٍ خَلَقْتَہ‘ مِنْ صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَاٍ مَّسْنُوْنٍ) (الحجر : ٣٣) ” شیطان نے کہا میں ایسا نہیں کہ انسان کو سجدہ کروں جسے تو نے کالی اور سڑی ہوئی کھنکھناتی مٹی سے پیدا کیا ہے۔“ ( قَالَ اَرَءَ یْتَکَ ھٰذَا الَّذِیْ کَرَّمْتَ عَلَیَّ ز لَءِنْ اَخَّرْتَنِ اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ لَاَحْتَنِکَنَّ ذُرِّیَّتَہ‘ ٓ اِلَّا قَلِیْلًا۔) (الاسراء : ٦٢) ” شیطان کہنے لگایہی وہ ہے جسے تو نے مجھ پر فضیلت دی ہے۔ اگر تو مجھے قیامت کے دن تک مہلت دے تو میں تھوڑے شخصوں کے سوا اس (آدم (علیہ السلام) کی تمام اولاد کی جڑ کاٹتا رہوں گا۔“ (قَالَ فَبِعِزَّتِکَ لَأُغْوِیَنَّہُمْ اَجْمَعِیْنَ) (ص : ٨٢) ” کہنے لگا تیری عزت کی قسم! میں ان سب کو بہکا دوں گا۔“ حسد اور تکبر وہ بری چیز ہے کہ جس سے انسان کے تمام اعمال غارت اور بسا اوقات دنیا ہی میں ذلت و رسوائی سے دو چار ہونا پڑتا ہے۔ سرور دو عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تکبر کا مفہوم اور اس کے نقصانات یوں ذکر فرمائے ہیں : (اَلْکِبْرُ بَطَرُ الْحَقِّ وَغَمْطُ النَّاسِ) (رواہ مسلم : کتاب الایمان، باب تحریم الکبر وبیانہ) ” تکبر حق بات کو چھپانا اور لوگوں کو حقیر جاننے کا نام ہے۔“ (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ لَا یَدْخُلُ الْجَنَّۃَ مَنْ کَانَ فِیْ قَلْبِہٖ مِثْقَالُ ذَرَّۃٍ مِّنْ کِبْرٍ) (رواہ مسلم : کتاب الایمان، باب تحریم الکبر وبیانہ) ” حضرت عبداللہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی تکبرہوا وہ جنت میں داخل نہیں ہوگا۔“ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) أَنَّ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ إِیَّاکُمْ وَالْحَسَدَ فَإِنَّ الْحَسَدَ یَأْکُلُ الْحَسَنَاتِ کَمَا تَأْکُلُ النَّارُ الْحَطَبَ) (رواہ ابوداؤد : کتاب الادب، باب فی الحسد) ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : حسد سے بچو کیونکہ حسد نیکیوں کو اس طرح کھا جاتا ہے جس طرح آگ سوکھی لکڑیوں کو کھا جاتی ہے۔“ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَقُوْلُ اللّٰہُ سُبْحَانَہٗ الْکِبْرِیَاءُ رِدَاءِیْ وَالْعَظْمَۃُ إِزَارِیْ مَنْ نَازَعَنِیْ وَاحِدًا مِّنْھُمَا أَلْقَیْتُہٗ فِیْ جَھَنَّمَ) (رواہ ابن ماجۃ: کتاب الزھد، باب البراء ۃ من الکبر والتواضع ) ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تکبر میری چادر ہے اور عظمت میرا ازار ہے جو ان میں سے کوئی ایک مجھ سے چھیننے کی کوشش کرے گا میں اس کو جہنم میں پھینک دوں گا۔“ غیر اللہ کو سجدہ کرنا جائز نہیں : (عَنْ قَیْسِ بْنِ سَعْدٍ (رض) قَالَ أَتَیْتُ الْحِیْرَۃَ فَرَأَیْتُھُمْ یَسْجُدُوْنَ لِمَرْزُبَانٍ لَّھُمْ فَقُلْتُ رَسُوْلُ اللّٰہِ أَحَقُّ أَنْ یُّسْجَدَ لَہٗ قَالَ فَأَتَیْتُ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَقُلْتُ إِنّیآ أَتَیْتُ الْحِیْرَۃَ فَرَأَیْتُھُمْ یَسْجُدُوْنَ لِمَرْزُبَانٍ لَّھُمْ فَأَنْتَ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ أَحَقُّ أَنْ نَسْجُدَ لَکَ قَالَ أَرَأَیْتَ لَوْ مَرَرْتَ بِقَبْرِیْ أَکُنْتَ تَسْجُدُ لَہٗ قَالَ قُلْتُ لَا قَالَ فَلَا تَفْعَلُوْا لَوْ کُنْتُ آمِرًا أَحَدًا أَنْ یَّسْجُدَ لِأَحَدٍ لَأَمَرْتُ النِّسَآءَ أَنْ یَسْجُدْنَ لِأَزْوَاجِھِنَّ لِمَا جَعَلَ اللّٰہُ لَھُمْ عَلَیْھِنَّ مِنَ الْحَقِّ) (رواہ أبوداوٗد : کتاب النکاح، باب فی حق الزوج علی المرأۃ) ” حضرت قیس بن سعد (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں حیرہ گیا تو میں نے وہاں کے لوگوں کو بادشاہ کو سجدہ کرتے ہوئے دیکھا۔ میں نے سوچا کہ اللہ کے رسول سجدے کے زیادہ لائق ہیں۔ میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا تو میں نے عرض کی : میں نے حیرہ میں دیکھا کہ وہ اپنے بادشاہ کو سجدہ کرتے ہیں۔ اللہ کے رسول ! آپ زیادہ حقدار ہیں کہ ہم آپ کو سجدہ کریں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : بتلائیے! اگر تم میری قبر کے پاس سے گزرو تو کیا اسے سجدہ کرو گے؟ میں نے کہا : نہیں۔ آپ نے فرمایا : ایسے نہ کرو اگر میں نے کسی کو کسی کے سامنے سجدہ ریز ہونے کا حکم دینا ہوتا تو اللہ تعالیٰ نے مردوں کا عورتوں پر جو حق رکھا اس وجہ سے عورتوں کو حکم دیتاکہ وہ اپنے خاوندوں کے سامنے سجدہ ریز ہوں۔“ بریلوی مکتبہ فکر کے 3 عالم پیر محمد کرم شاہ صاحب الأزھری کی نظر میں تعظیمی سجدہ حرام ہے : ” جب فرشتوں نے آدم (علیہ السلام) کی وسعت علم اور اپنے عجز کا اعتراف کرلیا تو پروردگار عالم نے انہیں حکم دیا کہ آدم کو سجدہ کرو۔ سجدہ کا لغوی معنی ہے تذلّل اور خضوع اور شریعت میں اس کا معنٰی ہے۔ ” وضع الجبھۃ علی الأرض“ پیشانی کا زمین پر رکھنا۔ بعض علماء کے نزدیک یہاں سجدہ کا لغوی معنٰی مراد ہے کہ فرشتوں کو ادب واحترام کرنے کا حکم دیا گیا لیکن جمہور علماء کے نزدیک شرعی معنیٰ مراد ہے۔ یعنی فرشتوں کو حکم دیا گیا کہ آدم (علیہ السلام) کے سامنے پیشانی رکھ دیں۔ اب اس سجدہ کی دو صورتیں ہیں ایک تو یہ کہ پیشانی جھکانے والا یہ اعتقاد کرے کہ جس کے سامنے میں پیشانی جھکا رہا ہوں وہ خدا ہے تو یہ عبادت ہے اور یہ بھی کسی نبی کی شریعت میں جائز نہیں بلکہ انبیاء کی بعثت کا مقصد اولین تھا ہی یہی کہ وہ انسانوں کو صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت کا حکم دیں اور دوسروں کی عبادت سے منع کریں تو یہ کیونکر ہوسکتا ہے کہ جس چیز سے روکنے کے لیے انبیاء تشریف لائے اس فعل کا ارتکاب خود کریں یا کسی کو اجازت دیں۔ دوسری صورت یہ ہے کہ جس کے سامنے سجدہ کیا جارہا ہے اس کی عزت واحترام کے لیے ہو عبادت کے لیے نہ ہو تو اس کو سجدہ تحیہ کہتے ہیں۔ یہ پہلے انبیاء کرام کی شریعتوں میں جائز تھا لیکن حضور کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے بھی منع فرمادیا۔ اب تعظیمی سجدہ بھی ہماری شریعت میں حرام ہے۔“ [ ضیاء القرآن، جلد اول‘ البقرہ : ٣٤] مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ کے حکم سے ملائکہ نے حضرت آدم (علیہ السلام) کو سجدہ کیا۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ کے حکم سے انکار اور تکبر کرنے والا کافر ہوجاتا ہے۔ تفسیر بالقرآن متکبرین : ١۔ سب سے پہلے شیطان نے تکبر کیا۔ (ص : ٧٤) ٢۔ تکبر کرنا فرعون اور اللہ کے باغیوں کا طریقہ ہے۔ (القصص : ٣٩) ٣۔ تکبر کرنے والے کے دل پر اللہ مہر لگا دیتا ہے۔ (المؤمن : ٣٥) ٤۔ متکبر کو اللہ تعالیٰ پسند نہیں کرتا۔ (النحل : ٢٣) ٥۔ تکبر کرنے والے جہنم میں جائیں گے۔ (المومن : ٧٦) البقرة
35 فہم القرآن ربط کلام : مسجود ملائکہ بننے کے بعد آدم (علیہ السلام) کے جنت میں قیام و طعام کا انتظام و انصرام اور خاص درخت سے احتیاط کا حکم۔ ارشاد ہوا کہ اے آدم! تو اور تیری بیوی جنت میں قیام کرو اور اس درخت کے سوا تم جو چاہو کھا پی سکتے ہو۔ ہاں اگر تم اس کے قریب چلے گئے تو ظالموں کی صف میں شامل ہوجاؤ گے۔1 جنت میں رکھنے کی یہ حکمت معلوم ہوتی ہے کہ حضرت آدم (علیہ السلام) اور ان کی زوجہ جنت کی سہولتوں، بہاروں اور نعمتوں کو اچھی طرح دیکھ لیں اور ان سے لطف اندوز ہولیں۔ تاکہ دنیا کی عارضی نعمتوں کو جنت کے مقابلے میں خاطر میں نہ لائیں اور دوبارہ یہاں آنے کی کوشش کریں۔ 2 شاید یہ اس لیے بھی موقع دیا گیا کہ وہ آسمانی نظام کا براہ راست مشاہدہ کرسکیں تاکہ بحیثیت خلیفہ زمین کے انتظامات کرنے میں انہیں سہولت رہے۔ 3 بطور آزمائش اس درخت سے اس لیے منع کیا گیا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے منع کردہ امور سے بچنے کی تربیت پائیں اور غلطی ہونے کی صورت میں معذرت کا رویہ اختیار کریں۔ 4 اس میں یہ حکمت بھی ہو سکتی ہے کہ انہیں شیطان کی عداوت اور دشمنی کا مزید مشاہدہ ہو۔ تاکہ دنیا میں جا کر شیطانی اثرات وحرکات سے بچنے کی ہر وقت کوشش کرتے رہیں۔ مسائل ١۔ آدم (علیہ السلام) اور ان کی بیوی دنیا میں آنے سے پہلے جنت میں رہائش پذیر ہوئے۔ ٢۔ اللہ کی نافرمانی کرکے انسان ظالم ہوجاتا ہے۔ تفسیر بالقر آن ظالم کون؟ ١۔ اللہ تعالیٰ کی آیات کو جھٹلانے والا ظالم ہے۔ (الانعام : ٢١) ٢۔ شرک کرنے والا ظالم ہے۔ (لقمان : ١٣) ٣۔ اللہ کی مسجدوں سے روکنے اور ان میں خرابی پیدا کرنے والا ظالم ہے۔ (البقرۃ: ١١٤) ٤۔ اللہ تعالیٰ پر جھوٹ بولنے والا ظالم ہے۔ (الزمر : ٣٢) ٥۔ اللہ ظالموں کو پسند نہیں کرتا۔ (آل عمران : ٥٧) ٦۔ ظالم کبھی کامیاب نہیں ہو سکتا۔ (الانعام : ٢١) ٧۔ ظالم کی سزا جہنم ہوگی۔ (الانبیاء : ٢٩) البقرة
36 فہم القرآن ربط کلام : حضرت آدم (علیہ السلام) سے شیطان کا پہلا انتقام۔ حکم تھا کہ اے آدم! تم میاں، بیوی نے اس درخت کے قریب نہیں جانا۔ اس کے باوجود دونوں نے درخت کا پھل کھالیا۔ اس طرح آدم (علیہ السلام) اور ان کی زوجہ کو بالآخر شیطان پھسلانے میں کامیاب ہوا۔ جس کی پاداش میں حضرت آدم (علیہ السلام) اور حضرت حوا کو جنت سے نکل جانے کا حکم صادر ہوا۔ ان کے ساتھ ہی شیطان کو بھی زمین پر دھتکار دیا گیا۔ خروج کا حکم دیتے ہوئے پھر فرمایا تم ایک دوسرے کے دشمن ہو لہٰذا ایک مدت کے لیے اب زمین ہی تمہارے لیے جائے قرار ہوگی۔ سورۃ الاعراف کی آیت ١٨٩ میں اس بات کی وضاحت کی گئی ہے کہ حضرت حوا ( علیہ السلام) کو آدم (علیہ السلام) سے ہی پیدا کیا گیا تھا۔ حضرت آدم (علیہ السلام) شیطان کے پھسلاوے میں آ کر اللہ تعالیٰ کا حکم بھول گئے اور اس درخت سے نہ بچ سکے۔ یہ واقعہ بیان فرما کر شیطان کے ہتھکنڈوں اور اس کے خوشنما مغالطوں سے بچنے کا حکم دیا گیا ہے۔ لیکن اس کے باوجود آدم (علیہ السلام) کے بیٹے اور بیٹیاں شیطان کی فریب کاریوں میں مبتلا ہوتے رہیں گے۔ ان سے وہی خوش نصیب بچ سکیں گے جنہوں نے اپنے باپ حضرت آدم (علیہ السلام) اور اپنی والدہ حضرت حوا [ کے واقعہ کو پوری غیرت کے ساتھ ذہن میں رکھا اور شیطان کو اپنا دشمن سمجھا : (وَنَسِیَ اٰدَمُ فَنَسِیَتْ ذُرِّیَتُہٗ وَخَطِئَ اٰدَمُ فَخَطِءَتْ ذُرِّیَتُہٗ) (رواہ الترمذی : تفسیر القرآن، باب ومن سورۃ الأعراف) ” آدم (علیہ السلام) بھول گئے ان کی اولاد بھی بھولتی رہے گی آدم (علیہ السلام) سے خطا ہوئی اس کی اولاد بھی خطا کرے گی۔“ (عَنْ عَلِیِّ بْنِ حُسَیْنٍ (رض) أَنَ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ۔۔إِنَّ الشَّیْطَانَ یَجْرِیْ مِنَ الْإِنْسَانِ مَجْرَی الدَّمِ۔۔) (رواہ البخاری : کتاب الإعتکاف، باب زیارۃ المرأۃ زوجھا فی اعتکافہ ] ” حضرت علی بن حسین (رض) بیان کرتے ہیں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا یقیناً شیطان انسان کے جسم میں خون کی طرح گردش کرتا ہے۔“ بعض مفسرین نے علمی موشگافیوں کا اظہار کرتے ہوئے لکھا ہے چونکہ شیطان کا جنت میں داخلہ ممنوع تھا اس لیے وہ سانپ کی شکل اختیار کرکے جنت میں داخل ہوا اور اس نے حضرت آدم (علیہ السلام) اور حضرت حواء [ کو ورغلایا۔ حالانکہ سانپ بننے کا حقیقت کے ساتھ کوئی تعلق نہیں کیونکہ شیطان کو اللہ تعالیٰ نے یہ قوت دی ہے کہ وہ انسان کے جسم میں داخل ہوئے بغیر اس پر منفی اثرات مرتب کرسکتا ہے اس لیے شیطان کا سانپ بننا ضروری نہیں اور نہ ہی کسی حدیث میں اس کا ثبوت ملتا ہے۔ (عَنْ أَنَسٍ (رض) أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ لَمَّا صَوَّرَ اللّٰہُ اٰدَمَ فِی الْجَنَّۃِ تَرَکَہٗ مَاشَآء اللّٰہ أَنْ یَّتْرُکَہٗ فَجَعَلَ إِبْلِیْسُ یُطِیْفُ بِہٖ یَنْظُرُ مَاھُوَ فَلَمَّا رَآہُ أَجْوَفَ عَرَفَ أَنَّہٗ خُلِقَ خَلْقًا لَایَتَمَالَکُ) (رواہ مسلم : کتاب البر والصلۃ والآداب، باب خلق الانسان خلقا لایتمالک) ” حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جب اللہ تعالیٰ نے جنت میں آدم (علیہ السلام) کی صورت گری کی تو اس کے بعد جتنی دیر اللہ تعالیٰ نے چاہا اس کو چھوڑے رکھا۔ شیطان ان کے ارد گرد چکر لگانے لگا اور دیکھنے لگا کہ یہ کیا ہے؟ جب اس نے آدم (علیہ السلام) کا پیٹ دیکھا تو اس نے پہچان لیا کہ یہ ایسی مخلوق ہے جو اپنے آپ پر کنڑول نہیں رکھ سکے گی۔“ مسائل ١۔ حضرت آدم (علیہ السلام) اور حوا [ کو شیطان نے پھسلادیا تھا۔ ٢۔ درخت کا پھل چکھنے کی وجہ سے انہیں جنت سے نکال دیا گیا۔ ٣۔ شیطان بنی نوع انسان کا ازلی دشمن ہے۔ ٤۔ زمین میں انسان نے ہمیشہ نہیں رہنا۔ تفسیر بالقرآن آدم (علیہ السلام) کو جنت سے نکالنے کے شیطانی ہتھکنڈے : ١۔ شیطان نے حضرت آدم (علیہ السلام) کے دل میں وسوسہ ڈالا اور انہیں پھسلا دیا۔ (الاعراف : ٢٠) ٢۔ شیطان نے آدم (علیہ السلام) کی غلط رہنمائی کی۔ (الاعراف : ٢٢) ٣۔ آدم (علیہ السلام) کو ورغلانے کے لیے شیطان نے قسمیں اٹھائیں۔ (الاعراف : ٢١) ٤۔ شیطان نے اپنے آپ کو آدم (علیہ السلام) کا خیر خواہ ثابت کیا۔ (الأعراف : ٢١) ٥۔ جنت میں ہمیشہ رہنے کا جھانسہ دیا۔ (طہ : ١٢٠) البقرة
37 فہم القرآن ربط کلام : حضرت آدم (علیہ السلام) کا سنبھلنا اور اپنے رب سے معافی کا خواستگار ہونا اور رب کریم کا انہیں معاف فرما دینا۔ جب آدم (علیہ السلام) کو اپنی غلطی کا احساس ہوا تو نہ صرف وہ اپنے رب کے حضور معافی کے خوستگار ہوئے بلکہ معافی کا طریقہ، انداز اور الفاظ کی درخواست بھی کر رہے تھے تاکہ اللہ تعالیٰ ان کی خطا کو اپنے بے پایاں کرم سے معاف کر دے۔ اس مقام پر تینوں بڑی مخلوقات کی فطرت کا فرق نمایاں ہوتا ہے۔ ملائکہ نے معمولی لغزش پر لفظ ” سبحان“ کے ذریعے معذرت کی اور انہیں اسی طرح تقرب حاصل رہا۔ شیطان اپنے جرم پر ڈٹا رہا تو ہمیشہ کے لیے پھٹکار کا مستحق اور راندۂ درگاہ ہوا۔ آدم (علیہ السلام) اپنی غلطی پر معذرت خواہ ہوئے تو ان کی معذرت نے شرف قبولیت پایا۔ کیونکہ ربِّ کریم ہمیشہ سے توبہ قبول کرنے والا رحم کرنے والا ہے۔ اس کا وعدہ ہے کہ جب بھی میری بارگاہ میں کوئی معذرت کا دامن پھیلائے گا تو میں اسے معاف ہی کرتا رہوں گا۔ (مَنْ تَابَ قَبْلَ أَنْ تَطْلُعَ الشَّمْسُ مِنْ مَّغْرِبِھَا تَاب اللّٰہُ عَلَیْہِ) (رواہ مسلم : کتاب الذکر والدعاء، باب إستحباب الإستغفار والإستکثار منہ) ” جس نے مغرب سے سورج طلوع ہونے سے پہلے تو بہ کرلی اللہ اس کی توبہ قبول کرے گا۔“ (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ إِِنَّ اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ لَیَقْبَلُ تَوْبَۃَ الْعَبْدِ مَالَمْ یُغَرْغِرْ) (رواہ ابن ماجۃ: کتاب الزھد، باب ذکرا لتوبۃ) ” حضرت عبداللہ بن عمر (رض) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا یقینًا اللہ عزوجل بندے کی توبہ قبول کرتارہتا ہے جب تک جان حلق تک نہ پہنچ جائے۔“ بعض لوگوں نے اپنا من گھڑت عقیدہ ثابت کرنے کے لیے لکھا ہے کہ حضرت آدم (علیہ السلام) کی توبہ نبی محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے وسیلہ سے قبول ہوئی تھی۔ حالانکہ قرآن و حدیث میں اس کا بالکل کوئی ثبوت نہیں ملتا۔ قرآن مجید نے سورۃ الاعراف : ٢٢، ٢٣ میں یہاں تک بیان فرمایا ہے کہ درخت کا پھل چکھنے کے بعد حضرت آدم (علیہ السلام) اور حضرت حوّا [ کا لباس اتر گیا، برہنہ ہوجانے کی بنا پر وہ اپنی شرم گاہوں کو جنت کے پتوں سے ڈھانپ رہے تھے۔ اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے آدم ! کیا میں نے تمہیں اس درخت کے قریب جانے سے نہیں روکا تھا؟ اگر حضرت آدم (علیہ السلام) نے نبی محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا وسیلہ پیش کیا ہوتا تو قرآن مجید اس کا ضرور تذکرہ کرتا۔ کیا اللہ تعالیٰ نے اصل حقیقت کو اپنے بندوں سے چھپا لیا ہے ؟ (نعوذ باللہ من ذالک) یہ ایسا الزام اور بہتان ہے جس کا ایک مومن تصور بھی نہیں کرسکتا۔ جن کلمات کے ذریعے توبہ قبول ہوئی ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرمارہا ہے کہ آدم (علیہ السلام) نے وہ کلمات اپنے رب سے سیکھ لیے جو یہ تھے : (رَبَّنَا ظَلَمْنَآ أَنْفُسَنَا وَاِنْ لَّمْ تَغْفِرْلَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَکُوْنَنَّ مِنَ الْخَاسِرِیْنَ) (الأعراف : ٢٣) ” اے ہمارے رب ہم نے اپنے آپ پر ظلم کیا ہے اگر تو نے ہمیں معاف نہ فرمایا اور رحم نہ کیا تو ہم گھاٹا پانے والوں میں سے ہوجائیں گے۔“ اللہ کا اپنے بندوں کو معاف کرنے کے لیے قسمیں اٹھانا : (فَأَقُولُ یَا رَبِّ اءْذَنْ لِی فیمَنْ قَالَ لاَ إِلَہَ إِلاَّ اللَّہُ فَیَقُولُ وَعِزَّتِی وَجَلاَلِی وَکِبْرِیَاءِی وَعَظَمَتِی لأُخْرِجَنَّ مِنْہَا مَنْ قَالَ لاَ إِلَہَ إِلاَّ اللَّہُ) (رواہ البخاری : باب کلاَمِ الرَّبِّ عَزَّ وَجَلَّ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ مَعَ الأَنْبِیَاءِ وَغَیْرِہِمْ ) ” آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں میں عرض کروں گا اے میرے پروردگار ! مجھے توحید پرست لوگوں کے متعلق سفارش کی اجازت دیجیے۔ اللہ فرمائیں گے مجھے میری عزت، جلال، کبریائی اور عظمت کی قسم ! میں توحید پرستوں کو خود جہنم سے نکالوں گا۔“ مسائل ١۔ انسان کو اپنے رب کے حضور توبہ کرنی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ توبہ قبول کرنے والا نہایت مہربان ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ رحم کرنے اور توبہ قبول کرنے والا ہے : ١۔ اللہ تعالیٰ غفور ہے۔ (الحجر : ٤٩) ٢۔ اللہ تعالیٰ رحیم ہے۔ (الزمر : ٥٣) ٣۔ اللہ تعالیٰ رحمن ہے۔ (الفاتحہ : ٢) ٤۔ اللہ ہی بندوں کی توبہ قبول کرتا ہے۔ (الشورٰی : ٢٥) ٥۔ اللہ بخشنے اور رحمت کرنے والا ہے۔ (الکہف : ٥٨) ٦۔ اللہ کی رحمت ہر چیز سے وسیع ہے۔ (الاعراف : ١٥٦) ٧۔ کشتیوں کا غرق ہونے سے بچنا اللہ کی رحمت کا نتیجہ ہے۔ (یٰس : ٤٣) ٨۔ اللہ کی رحمت سے گمراہ ہی مایوس ہوتے ہیں۔ (الحجر : ٥٦) ٩۔ اللہ کی رحمت سے مایوس نہیں ہونا چاہیے۔ (الزمر : ٥٣) ١٠۔ اللہ تعالیٰ کی مومنوں پر خاص رحمت ہوتی ہے۔ (الاحزاب : ٤٣) البقرة
38 فہم القرآن ربط کلام : خلافت کے قیام کے لیے آدم (علیہ السلام) کو زمین پراُترنے کا حکم اور خلافت کی ذمہ داریاں پوری کرنے پر بے خوف اور تابناک مستقبل کی ضمانت۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تمہاری توبہ قبول ہوئی لیکن آسمان سے اترنا تمہارا یقینی ہے لہٰذا جنت سے نکل جاؤ اور تم زمین پر جا کر شیطان کی سازشوں کا مقابلہ کرتے ہوئے اپنی ذمہ داریاں احسن طریقہ سے نبھانے کی کوشش کرو۔ یاد رکھنا تمہارا زمین پر جانے کا یہ معنٰی نہیں کہ تم شتر بے مہار کی طرح جدھر چاہو نکل کھڑے ہو بلکہ تمہیں مسلسل ہدایات اور ایک دستور حیات دیا جائے گا جس کے مطابق تم نے انفرادی، اجتماعی، سماجی، معاشرتی، معاشی، سیاسی زندگی کا ہر گوشہ اور زاویہ اس کے مطابق ڈھالنا ہوگا یہی خلافت کا تقاضا اور تمہاری زندگی کا مقصد ہے۔ جس نے اس ہدایت نامے کی پابندی کی اسے دنیا کی زندگانی میں امن و سکون ملے گا اور آخرت میں کوئی خوف اور کسی قسم کی پریشانی نہیں ہوگی۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ کی ہدایت کے مطابق زندگی گزارنے والا خوف و غم سے محفوظ رہے گا۔ ٢۔ انسان اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ دستور حیات کا پابند ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ ہدایت ہی کامل اور حقیقی ہدایت ہے۔ تفسیر بالقرآن بے خوف کون؟ ١۔ اللہ کی ہدایت پر عمل کرنے والا بے خوف ہوگا۔ (البقرۃ: ٣٨) ٢۔ ا ولیاء اللہ کو کوئی خوف نہیں ہوگا۔ (یونس : ٦٢) ٣۔ اللہ اور آخرت پر یقین رکھنے والے کو کوئی ڈر نہیں ہوگا۔ (المائدۃ: ٦٩) ٤۔ ایمان لانے کے بعد استقامت دکھلانے والوں پر کوئی خوف نہیں ہوگا۔ (الاحقاف : ١٣) ٥۔ رب کے سامنے اپنے آپ کو مطیع کردینے والا بے خوف ہوگا۔ (البقرۃ: ١١٢) البقرة
39 فہم القرآن ربط کلام : جنہوں نے اللہ تعالیٰ کے احکام کی پیروی نہ کی ان کا انجام۔ قرآن مجید کا یہ انداز فکر اور اسلوب بیان ہے کہ جب انعام و اکرام کا تذکرہ کرتا ہے تو ساتھ ہی برائی کے مضمرات وعواقب کے انجام کے بارے میں بھی انتباہ کرتا ہے تاکہ قرآن کا مطالعہ کرنے والا بیک وقت یہ سمجھ جائے کہ نیکی کے کیا فوائد اور برائی کے نقصانات کیا ہیں؟ یہاں اللہ تعالیٰ کے احکام و ارشادات کا انکار اور ان کی تکذیب کرنے والوں کو خبردار کیا جا رہا ہے کہ اگر تم اللہ تعالیٰ کی ذات کے منکر اور اس کے احکامات کا انکارو تکذیب کرتے رہے تو تمہیں جہنم کی آگ میں ہمیشہ رہنا ہوگا۔ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ نَارُکُمْ جُزْءٌ مِّنْ سَبْعِیْنَ جُزْءً ا مِّنَ نَّارِ جَھَنَّمَ قِیْلَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ إِنْ کَانَتْ لَکَافِیَۃً قَالَ فُضِّلَتْ عَلَیْھِنَّ بِتِسْعَۃٍ وَّتِسْعِیْنَ جُزْءً ا کُلُّھُنَّ مِثْلُ حَرِّھَا) (رواہ البخاری : کتاب بدء الخلق، باب صفۃ النار وأنھا مخلوقۃ) ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں یقیناً اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تمہاری یہ آگ جہنم کی آگ کا سترواں حصہ ہے۔ عرض کیا گیا اللہ کے رسول! یہی آگ جلانے کے لیے کافی تھی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اس آگ سے وہ انہتر حصے زیادہ ہے ان میں سے ہر حصے کی گرمی اس جیسی ہے۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کے احکامات کا انکار اور تکذیب کرنے والے ہمیشہ جہنم میں رہیں گے۔ تفسیر بالقرآن جہنم میں ہمیشہ رہنے والے لوگ : ١۔ مشرک جہنم میں ہمیشہ رہیں گے۔ (البقرۃ: ٣٩) ٢۔ کافر اور تکذیب کرنے والے جہنم میں ہمیشہ رہیں گے۔ (الزخرف : ٧٤) ٣۔ منافق ہمیشہ جہنم میں رہیں گے۔ (التوبہ : ٦٨) ٤۔ اللہ و رسول کی نافرمانی جہنم میں ہمیشگی کا سبب ہوگی۔ (الجن : ٢٣) ٥۔ اللہ کے دشمن جہنم میں ہمیشہ جلتے رہیں گے۔ (فصّلت : ٢٨) البقرة
40 فہم القرآن ربط کلام : حضرت آدم (علیہ السلام) کی نسل میں حضرت یعقوب (علیہ السلام) کی اولاد یعنی بنی اسرائیل کو امت محمدیہ سے پہلے دنیا میں سب سے زیادہ عزت و عظمت اور اقتدارو اختیار ملا مگر انہوں نے اس کی ناقدری اور ناشکری کی جس کی وجہ سے وہ ذلیل و خوار ہوئے ان کی ذلت و رسوائی کے اسباب کی تفصیل سورۃ البقرۃ کی سو آیات میں بیان ہوئی ہے۔ (عہد کی تفصیل دیکھیں البقرۃ : ٨٣) ہر دور میں اہل علم کا اس بات پر اتفاق رہا ہے کہ اسرائیل حضرت یعقوب (علیہ السلام) کا لقب ہے جس کا عبرانی زبان میں معنٰی ہے۔ ” اللہ کا بندہ“ لہٰذا بنی اسرائیل کا معنٰی ہوا کہ اللہ کے بندے کی اولاد۔ تاریخ کے اوراق سے پتہ چلتا ہے کہ حضرت یعقوب (علیہ السلام) اور ان کی اولاد کا اصلی وطن کنعان، فلسطین تھا۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) کے زمانے میں یہ لوگ مصر میں آباد ہوئے۔ ان کے آنے کے بعد ان کے آبائی وطن کنعان، فلسطین اور پورے شام پر عمالقہ نامی قوم نے قبضہ کرلیا۔ جناب یعقوب (علیہ السلام) کے بارہ بیٹے تھے جن میں چوتھے بیٹے کا نام یہودہ تھا۔ اسی نسبت سے بنی اسرائیل کو یہودی بھی کہا جاتا ہے۔ یہ اپنے دور میں بڑی معزز اور محترم قوم تھی ان میں ہزاروں جلیل القدر انبیاء ہوئے ہیں جن میں سب سے نمایاں حضرت موسیٰ اور آخر میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) ہوئے ہیں۔ مصر میں جب بنی اسرائیل پر فرعون نے مظالم ڈھانے شروع کیے تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے انتھک اور بے مثال جدو جہدکرکے ان کو فرعون کے جور وستم سے نجات دلوائی۔ فرعون دریا میں غرق ہوا تو اس کے بعد بنی اسرائیل کو عمالقہ سے جہاد کا حکم ہوا۔ بنی اسرائیل فلسطین کی طرف چلے تو قریب جا کر جب انہیں عمالقہ کی طاقت کا علم ہوا تو انہوں نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے صاف کہہ دیا کہ اے موسیٰ تم اور تمہارا خدا لڑو ہم تو یہیں ٹھہریں گے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے بہت سمجھایا مگر انہوں نے جہاد سے انکار کردیا۔ جس کی پاداش میں انہیں چالیس سال تیہ کے صحرا میں بطور سزا رہنا پڑا۔ یہاں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت ہارون (علیہ السلام) فوت ہوئے پھر انہوں نے یوشع بن نون کی زیر کمان جہاد کیا اور فاتحانہ انداز میں فلسطین داخل ہوئے۔ بنی اسرائیل میں مجموعی طور پر یہودی اور عیسائی دونوں شامل ہیں۔ لیکن بعض مقامات پر بنی اسرائیل سے مراد صرف یہودی ہوتے ہیں۔ جس کا علم قرآن مجید کے سیاق وسباق سے ہوتا ہے۔ اس کے سیاسی ومذہبی راہنماؤں‘ حکمرانوں اور عوام کے گھناؤنے کردار کا قرآن مجید کی ابتدا میں بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ نزول قرآن کے وقت دنیا میں یہ دو بڑے مذاہب تھے۔ باقی مذاہب ان کی بگڑی ہوئی شکلیں تھیں۔ ہندوستان میں جسے قدیم تاریخ میں بلادالہند کہا جاتا ہے ہندو اپنے مذہب کو تین ہزار سال پرانا مذہب ثابت کرتے ہیں اس مذہب کی اکثر رسومات اور گائے پرستی کا تصور یہودی مذہب سے ہی لیا گیا ہے۔ ہندو مذہب کی اصلاح کے لیے بدھ مت کی تحریک چلی جو اپنی عادات و رسومات کے لحاظ سے عیسائیت کے زیادہ قریب ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ انہی وجوہات کی بنیاد پر سورۃ بقرۃ کو قرآن مجید کی ابتدا میں رکھا گیا ہے۔ تاکہ قرآن مجید کا مطالعہ کرنے والے شخص کے ذہن میں شروع ہی سے بنیادی امور اور یہ بات منقش ہوجائے کہ پہلی اقوام بالخصوص بنی اسرائیل کے عروج و زوال کے اسباب کیا تھے؟ وہ کیوں ذلت و رسوائی کے اندھے کنویں میں الٹے ہو کر گرے؟ اس کے پیچھے ان کے علماء اور سیاسی راہنماؤں کا کیا کردار تھا؟ بنی اسرائیل کے حوالے سے امت مسلمہ کو سمجھایا جا رہا ہے کہ اس عظیم قوم کا کردار سامنے رکھو کہ بزرگوں کی گدی نشینی‘ صاحب زادگی، مذہبی امتیازات‘ ابناء اللہ کے بھاری بھرکم دعوے، اقتدار اور وسیع اختیار ات بھی اس قوم کو ذلت سے نہ بچا سکے۔ اس خدشے کے پیش نظر رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تھا : ( لَتَتَّبِعُنَّ سُنَنَ مَنْ کَانَ قَبْلَکُمْ شِبْرًا شِبْرًا وَذِرَاعًا بِذِرَاعٍ حَتّٰی لَوْ دَخَلُوْا جُحْرَ ضَبٍّ تَبِعْتُمُوْھُمْ قُلْنَا یَارَسُوْلَ اللّٰہِ الْیَھُوْدُ وَالنَّصَارٰی قَالَ فَمَنْ) (رواہ البخاری : کتاب الإعتصام بالکتاب والسنۃ، باب قول النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لتتبعن سنن من کان قبلکم) ” تم ضرور اپنے سے پہلے لوگوں کی ہاتھوں ہاتھ اور قدم با قدم اتباع کرو گے حتی کہ اگر وہ گوہ کے سوراخ میں داخل ہوئے ہوں گے تو تم بھی ان کی اتباع کرو گے۔ صحابہ کرام (رض) کہتے ہیں ہم نے پوچھا : اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وہ یہودی اور عیسائی ہیں ؟ آپ نے فرمایا تو اور کون؟۔“ (غور کرنا ہے۔۔ اس کے ساتھ ہی یہ بتلانا مقصود ہے کہ مدینہ اور اس کے گرد و پیش جتنے قبائل اور قومیں آباد تھیں وہ یہودیوں کو بزرگوں کی اولاد اور انبیاء کے وارث تصور کرتے تھے۔ جس کی وجہ سے یہ قبائل یہودیوں کے نظریات کو سچ اور حق کی کسوٹی سمجھتے تھے۔ ان اسباب کی بنیاد پر اللہ تعالیٰ نے انہیں بڑے دلربا انداز میں سمجھاتے ہوئے یہ احساس دلانے کی کوشش کی ہے کہ اے میرے بندے یعقوب کی اولاد! میری عطا کردہ نعمتوں، فضیلتوں اور رفعتوں کا احساس کرتے ہوئے تمہارا اولین فرض بنتا ہے کہ نبی آخر الزماں (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مخالفت کرنے کی بجائے ان کی نصرت و حمایت کرتے ہوئے حلقۂ اسلام میں داخل ہو کر اس عہد سے وفا کرو جو تم سے توحید اور خاتم النبیین کے بارے میں لیا گیا ہے۔ میں بھی ایفائے عہد کے بدلے تمہیں دوبارہ نعمتوں اور عزتوں سے سرفراز کروں گا۔ یاد رکھنا اگر سابقہ مقام کی بحالی اور عزت رفتہ کے خواہش مند ہو تو تمہیں نبی آخر الزماں (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی قیادت میں آئے بغیر یہ شرف نہیں مل سکتا۔ اس کے لیے درج ذیل امور کو بجا لانا ہوگا۔ چنانچہ بنی اسرائیل کو پہلے خطاب میں ابتدائی سبق اور تورات و انجیل کی بنیادی تعلیمات کی یاد دہانی کے طور پر سولہ باتیں ارشاد فرمائی گئی ہیں۔ ١۔ میری نعمتوں کو ہر دم یاد رکھا کرو۔ ٢۔ تم عہد وفا کرو گے تو تمہارے ساتھ بھی ایفائے عہد ہوگا۔ ٣۔ ہمیشہ اللہ ہی سے ڈرتے رہو۔ ٤۔ قرآن مجید پر ایمان لاؤ۔ کیونکہ یہ تورات و انجیل کی تصدیق کرتا ہے۔ ٥۔ سب سے پہلے تم ہی کفر کرنے والے نہ بنو۔ ٦۔ دنیا کے معمولی مفاد کے بدلے اللہ کی آیات کو فروخت نہ کرو۔ ٧۔ حق اور باطل کے التباس سے اجتناب کرو۔ ٨۔ جانتے بوجھتے حق کو چھپانے کی کوشش نہ کرو۔ ٩۔ نماز ادا کرو۔ ١٠۔ زکوٰۃ کی ادائیگی کا اہتمام کرتے رہو۔ ١١۔ رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کیا کرو۔ یاد رہے کہ یہودیوں نے رکوع کو نماز سے نکال رکھا ہے۔ جس کی وجہ سے رکوع کا خاص طور پر حکم دیا گیا ہے۔ ١٢۔ لوگوں کو نیکی کا حکم کرو مگر اپنے آپ کو بھول جانے سے بچو۔ ١٣۔ اللہ کی دی ہوئی عقل کا صحیح استعمال کرتے رہو۔ ١٤۔ مصائب پر صبر کرو۔ ١٥۔ اللہ تعالیٰ سے صبر اور نماز کے ذریعے مدد طلب کیا کرو۔ ١٦۔ اللہ تعالیٰ سے ملاقات اور اس کی بارگاہ میں پیش ہونے کا عقیدہ پختہ اور اس کے تقاضے پورے کرو۔ ان میں سے ہر فرمان ایک مضمون کا حامل اور اصلاح ذات اور فلاح جماعت کا جامع پروگرام پیش کر رہا ہے۔ پہلی آسمانی کتابوں پر ایمان کے دعوے دار کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ ایسی بات کا انکار کرے جو اس کے نظریہ کی تائید کر رہی ہو گویا کہ اہل علم کی یہ شان نہیں کہ وہ کفر کے امام بنیں انہیں تو ہدایت کا پیش رو ہونا چاہیے۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو یاد رکھنا چاہیے۔ ٢۔ اللہ سے کیے ہوئے وعدوں کی پاسداری کرنی چاہیے۔ ٣۔ اس کا خوف دل و جان میں بسائے رکھنا چاہیے۔ البقرة
41 فہم القرآن ربط کلام : بنی اسرائیل کو عظمت رفتہ کی یاد دہانی اور اللہ کا خوف دلانے کے بعد نصیحت فرمائی کہ اللہ تعالیٰ کے احکام کو بلا چون و چرا تسلیم کرو اور دنیا کے مفاد کی خاطر ان سے روگردانی نہ کرو۔ سچائی کو قبول کرنے میں سب سے پہلے جو رکاوٹ پیش آیا کرتی ہے وہ دنیاوی مفاد، گروہی تعصبات اور آدمی کا قدیم رسومات ونظریات پر قائم رہنا ہے جنہیں چھوڑنا نہایت ہی مشکل ہوتا ہے۔ اس میں انسان کو وقتی مفادات، ماضی کے نظریات، آباء واجداد کی روایات اور معاشرے کی فرسودہ رسومات کو چھوڑنا پڑتا ہے۔ ان کو چھوڑنے سے کئی قسم کے الزامات برداشت کرنا پڑتے ہیں۔ آدمی ہمیشہ سے انہی زنجیروں میں جکڑا رہتا ہے۔ ان جکڑ بندیوں سے نجات پانا اور حقیقت کو قبول کرنا بڑی جرأت و جوا نمردی کا کام ہے۔ اہل کتاب کو دعوت دی جا رہی ہے کہ تمہیں سب لوگوں سے پہلے قرآن مجید پر ایمان لانا چاہیے کیونکہ قرآن کوئی نیا دین پیش نہیں کرتا یہ تو تمہاری بنیادی تعلیمات کی تائید کرتا ہے۔ لہٰذا رکاوٹ بننے کی بجائے ہر اول دستے کا کردار ادا کرتے ہوئے آگے بڑھ کر قرآن کا پیغام سینے سے لگاؤ اور پرچم اسلام کو تھام لو۔ تمہیں وہ سب کچھ عزت کے ساتھ مل جائے گا جس کے چھن جانے کا تمہیں خوف ہے۔ لہٰذا دونوں آیات کے آخر میں تلقین کی گئی ہے کہ مفادات کے چھن جانے کا ڈر، لوگوں کا خوف اور مستقبل کے خدشات سے ڈرنے کی بجائے اللہ تعالیٰ سے ڈرو کیونکہ دنیا کے مفادات وتحفظات اللہ تعالیٰ کی پکڑ کے مقابلے میں نہایت ہی معمولی چیزہیں۔ ” اس کا یہ مطلب نہیں کہ اللہ تعالیٰ کی آیات کو تھوڑے داموں میں فروخت نہ کرو اور اگر منہ مانگے دام ملیں تو بیچ دو بلکہ مقصد یہ ہے کہ کسی قیمت پر حق کو نہ بیچو۔ کیونکہ ساری دنیا کے خزانے بھی اس کے مقابلے میں حقیر ترین معاوضہ ہیں۔“ [ ضیاء القرآن] بنی اسرائیل کو یہ کہہ کر سمجھایا جا رہا ہے کہ تمہیں میرے سوا کسی سے ڈرنے کی ضرورت نہیں اور تمہیں اس لیے بھی خوفزدہ نہیں ہونا چاہیے۔ کیونکہ قرآن تمہاری بنیادی اور صحیح باتوں کی تصدیق کرتا ہے اور اسے میں نے ہی اپنے بندے محمد عربی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل کیا ہے لہٰذا تمہارے لیے اس سے انکار کرنے کا کوئی علمی واخلاقی جواز نہیں بنتا۔ اس کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کی بجائے آگے بڑھ کر اسے قبول کرو دنیا کے معمولی مفاد اور عارضی وقار کی خاطر میری آیات کے ساتھ سودے بازی نہ کرو کیونکہ میرے ارشادات کے مقابلے میں دنیا کی حیثیت ذرہ کے برابر بھی نہیں ہے۔ اس حقیقت کو نبی محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک موقعہ پریوں بیان فرمایا ہے : (عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ (رض) أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَرَّ بالسُّوْقِ دَاخِلًا مِّنْ بَعْضِ الْعَالِیَۃِ وَالنَّاسُ کَنَفَتُہٗ فَمَرَّ بِجَدْیٍ أَسَکَّ مَیِّتٍ فَتَنَاوَلَہٗ فَأَخَذَ بِأُذُنِہٖ ثُمَّ قَالَ أَیُّکُمْ یُحِبُّ أَنَّ ھٰذَا لَہٗ بِدِرْھَمٍ فَقَالُوْا مَانُحِبُّ أَنَّہٗ لَنَا بِشَیْءٍ وَمَا نَصْنَعُ بِہٖ قَالَ أَتُحِبُّوْنَ أَنَّہٗ لَکُمْ قَالُوْا وَاللّٰہِ لَوْکَانَ حَیًّاکَانَ عَیْبًا فِیْہِ لِأَنَّہٗ أَسَکَّ فَکَیْفَ وَھُوَ مَیِّتٌ فَقَالَ فَوَاللّٰہِ لَلدُّنْیَا أَھْوَنُ عَلَی اللّٰہِ مِنْ ھٰذَا عَلَیْکُمْ) (رواہ مسلم : کتاب الزھد والرقائق، باب ) ” حضرت جابر بن عبداللہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بازار کی ایک جانب سے داخل ہوئے آپ کے ساتھ لوگ بھی تھے آپ ایک مردہ بکری کے بچے کے پاس سے گزرے آپ نے اس کے ایک کان کو پکڑ کر پوچھا کون اسے ایک درہم کے بدلے لینا پسند کرے گا؟ صحابہ کرام (رض) نے کہا : ہم تو اسے کسی چیز کے بدلے بھی لینا نہیں چاہتے اور ہم اس کا کیا کریں گے؟ آپ نے فرمایا : کیا تم اسے پسند کرتے ہو کہ یہ بکری کا بچہ تمہارا ہوتا؟ صحابہ کرام (رض) نے کہا : اللہ کی قسم ! اگر یہ زندہ بھی ہوتا تو کان چھوٹے ہونے کی وجہ سے اسے قبول نہ کیا جاتا۔ اب یہ مرا ہوا ہے تو ہم کیسے اسے پسند کریں گے۔ آپ نے فرمایا : جیسے تمہارے نزدیک یہ بکری کا مردہ بچہ بڑا ہی حقیر ہے۔ اللہ کی قسم! دنیا اللہ کے نزدیک اس سے بھی زیادہ حقیر اور ذلیل ہے۔“ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ إِنَّہٗ لَیَأْتِی الرَّجُلُ الْعَظِیْمُ السَّمِیْنُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ لَایَزِنُ عِنْدَ اللّٰہِ جَنَاحَ بَعُوْضَۃٍ وَقَالَ اقْرَءُ وْا (فَلَا نُقِیْمُ لَھُمْ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ وَزْنًا۔) (رواہ البخاری : کتاب تفسیر القرآن، باب أولئک الذین کفروا بآیات ربھم ولقاۂ) ” حضرت ابوہریرہ (رض) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں آپ نے فرمایا : یقینًا روز قیامت ایک بڑا اور موٹا آدمی لایا جائے گا اللہ کے ہاں اس کا مچھر کے پر کے برا بر بھی وزن نہ ہوگا اور فرمایا : یہ آیت پڑھو ( قیامت کے دن ہم ان کافروں کے لیے ترازوقائم نہیں کریں گے)۔“ پادریوں کی دنیا پرستی : جس تورات و انجیل کی قرآن نے تصدیق کی وہ وہی تھیں جو موسیٰ و عیسیٰ ( علیہ السلام) پر نازل ہوئیں۔ مگر نزول قرآن تک ان کتابوں کے کچھ حصے آمیزش اور تحریف و تناقص کا شکار ہوچکے تھے جبکہ بعض حصے بالکل ناپید ہوگئے تھے۔ لہٰذا قرآن نے جہاں ان کتابوں کی مجمل تصدیق کی‘ وہاں یہ بھی بتایا کہ وہ تحریف اور تبدل کا شکار ہوچکی ہیں۔ گویا قرآن کے اپنے الفاظ میں اگر وہ ان کتابوں کا ” مصدق“ ہے تو وہ ان کا ” مہیمن“ بھی ہے۔ یعنی ان کی اصلی تعلیم کا محافظ و نگران اور اسے درست طور پر پیش کرنے والا (وَمُصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیْہِ مِنَ الْکِتَابِ وَمُہَیْمِنًا عَلَیْہِ) ” قرآن کی عظمت یہ ہے کہ اس نے ان حقائق کا اعلان اس وقت کیا جب یہودی اور عیسائی انہیں کسی قیمت پر ماننے کو تیار نہ تھے۔“ پاپاؤں اور کارڈینلوں کی ہوس زر‘ دنیا طلبی اور عیش پرستیوں پر تبصرہ کرتے ہوئے تاریخ پاپائیت کا مستند مورخ کریٹن پوپ بونی فیس نہم کے بارے میں لکھتا ہے : His ends were purely temporal and had no care for the higher intrests of the Church. (M.Creighton: History of the Papacy, vol. 1, p. 182,183) ” اس کے مقاصد سراسر دنیاوی تھے اور اسے کلیسا کے اعلیٰ مفادات کی کوئی پرواہ نہ تھی۔“ حتیٰ کہ جب اس کے آخری وقت (last hour) پوچھا گیا کہ وہ کیسا ہے تو اس نے جواب دیا : If I had more money I should be wellenough. (M.Crieghton: History of the Papacy, vol. 1, p. 182,183) ” اگر مجھے مزید دولت مل جائے تو میں (اب بھی) ٹھیک ٹھاک ہوسکتا ہوں۔“ صلیبی جنگوں کا ایک اہم محرک بھی جلب زر اور حصول جاہ تھا۔ پوپ اربن دوم (١٠٨٨) ء نے پہلی صلیبی جنگ پر ابھارتے ہوئے مسیحی شہزادوں اور بہادروں کو کہا تھا : The wealth of our enemies will be yours and you will despoil them of their treasures. ” ہمارے دشمنوں کی دولت تمہاری ہوجائے گی‘ اور تم انہیں ان کے خزانوں سے محروم کر دو گے۔“ [ عیسائیت تجزیہ ومطالعہ از پروفیسر ساجد میر ] مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ کے احکامات کو چھوڑ کر دنیا کمانا اس کی آیات کو معمولی قیمت پر فروخت کرنے کے مترادف ہے۔ ٢۔ اللہ کی کتابوں پر پورا یقین رکھنا چاہیے۔ ٣۔ اللہ سے ہی ڈرتے رہنا چاہیے۔ البقرة
42 فہم القرآن ربط کلام : بنی اسرائیل کو خطاب جا ری ہے۔ دنیا کے فائدے کی خاطر حق و باطل کا التباس نہ کرو۔ بلکہ نماز کی صورت میں حقوق اللہ اور زکوٰۃ کی شکل میں حقوق العباد کا اہتمام کرتے ہوئے نماز میں رکوع کرتے ہوئے اسے جماعت کے ساتھ پڑھا کرو۔ بنی اسرائیل کے علماء اور سیاسی رہنما نہ صرف اپنے مفادات پر شریعت کے احکامات قربان کرتے بلکہ جو احکامات ان کی ” انا“ گروہی مفادات اور سیاسی سوچ کے خلاف ہوتے ان کو ہر ممکن چھپانے کی کوشش کرتے تھے۔ بصورت دیگر اپنے دھڑے کی حمایت کی خاطر ان کی تاویلات کرتے ہوئے اس طرح اپنے عقیدے کے سانچے میں ڈھالتے اور اس طرح التباسِ حق و باطل کرتے کہ پڑھنے اور سننے والا آسمانی کتاب اور علماء کی فقہ‘ فتاو ٰی جات، ذاتی نظریات کے بارے میں فرق نہیں کرسکتا تھا کہ ان میں تورات و انجیل کی اصل عبارت کونسی ہے۔ بلکہ وہ ان کے فروعی مسائل‘ فقہی تاویلات اور اصطلاحات کو بنیادی اور اصل دین تصور کرتا تھا۔ ان کے منصف مزاج لوگ اس بات کا کھلا اعتراف کرتے ہیں۔ عبداللہ بن سلام اور تورات۔۔ حدیث چنانچہ ایک مسیحی فاضل لکھتا ہے : Careful comparison of the Bibles published recently with the first and other early versions will show great differences; but by whose authority the sechanges havebeen made, no one seems to know. (J.R. Dore: op.cit., p.98) ” حال میں (یہ بات ١٨٧٦ میں کہی گئی تھی) شائع ہونے والے بائبل کے نسخوں کا اگر پہلے اور ابتدائی نسخوں سے مقابلہ کیا جائے، تو ان میں بہت زیادہ اختلافات ظاہر ہوں گے۔ لیکن یہ بات کوئی نہیں جانتا کہ یہ تبدیلیاں کس سند اور اختیار کی رو سے کی گئی ہیں۔“ برنارڈ ایلن (Bernard M.Allen) نے درج ذیل تبصرہ اناجیل اربعہ پر کیا تھا‘ مگر یہی بات عہد عتیق اور بائبل کے دوسرے حصوں پر بھی صادق آتی ہے : We have, therefore, no security that the narratives and sayings as given in the Gospels necessarily represent what actually happened or what was actually said. (B.M. Allen: op. cit., p.9) ” ہمارے پاس اس بات کی کوئی ضمانت نہیں کہ اناجیل میں دیے ہوئے واقعات و اقوال لازماً وہی کچھ پیش کرتے ہیں جو حقیقت میں واقع ہوا اور جو کہا گیا تھا۔“ [ عیسائیت تجزیہ ومطالعہ] حق چھپانے کے بارے میں اللہ تعالیٰ بیان فرماتا ہے : (إِنَّ الَّذِیْنَ یَکْتُمُوْنَ مَآ أَنْزَلْنَا مِنَ الْبَیِّنٰتِ وَالْھُدٰی مِنْ م بَعْدِ مَا بَیَّنّٰہُ للنَّاسِ فِی الْکِتَابِ أُولٰٓءِکَ یَلْعَنُھُمُ اللّٰہُ وَیَلْعَنُھُمُ اللّٰعِنُوْنَ) [ البقرۃ: ١٥٩] ” یقینا جو ہم نے واضح دلائل اور ہدایت نازل کرنے کے بعد اسے لوگوں کے سامنے بیان کردیا جو لوگ اسے چھپاتے ہیں ان پر اللہ بھی لعنت کرتا ہے اور لعنت کرنے والے بھی لعنت کرتے ہیں۔“ صحابہ کرام (رض) کی خدا خوفی یہ تھی کہ حضرت ابوہریرہ (رض) بیان فرماتے ہیں لوگ کہتے ہیں کہ ابوہریرہ بہت زیادہ حدیثیں بیان کرتا ہے یقین جانیے کہ اگر قرآن مجید میں یہ دو آیات (البقرۃ: ١٥٩ و ١٧٤) نہ ہوتیں تو میں تمہیں کبھی کچھ بیان نہ کرتا۔ (رواہ البخاری : کتاب العلم، باب حفظ العلم) البقرة
43 یہاں نماز کی تلقین اور زکوٰۃ کی ادائیگی کا حکم دے کر انہیں سبق دیا جا رہا ہے۔ تمہیں اپنے مفادات کے سامنے جھکنے کی بجائے اللہ کے حضور سر نگوں ہونا چاہیے اور لوگوں سے مال بٹورنے کی بجائے زکوٰۃ کی صورت میں خرچ کرنے کی عادت اپنانی چاہیے۔ کیونکہ اللہ کی رضا کی خاطر پوری زکوٰۃ ادا کرنے والا نہ بخیل ہوتا اور نہ لوگوں کا مال بٹورتا ہے۔ تنہا نماز پڑھنے کے بجائے مسلمانوں کے ساتھ مل کر رکوع کیا کرو۔ یہودیوں نے اپنی نماز میں رکوع کو خارج کردیا تھا۔ اس لیے رکوع کی ادائیگی کا بالخصوص ذکر فرما کر جماعت کی اہمیت کا احساس دلایا جارہا ہے کہ دین میں صرف نماز پڑھ لینا ہی کافی نہیں بلکہ نماز با جماعت ادا کرنے کو لازم قرار دیا گیا ہے۔ نماز باجماعت : (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَ (رض) أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ صَلَاۃُ الْجَمَاعَۃِ تَفْضُلُ صَلَاۃَ الْفَذِّ بِسَبْعٍ وَّعِشْرِیْنَ دَرَجَۃً) (رواہ البخاری : کتاب الأذان، باب فضل صلاۃ الجماعۃ) ” حضرت عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جماعت کے ساتھ نماز پڑھنا اکیلے نماز پڑھنے سے ستائیس گنا زیادہ افضل ہے۔“ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جماعت کے ساتھ نماز نہ پڑھنے والوں کے بارے میں اپنے ارادے کا یوں بھی اظہار فرمایا : (وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہٖ لَقَدْ ھَمَمْتُ أَنْ آمُرَ بِحَطَبٍ فَیُحْطَبَ ثُمَّ آمُرَ بالصَّلَاۃِ فَیُؤَذَّنَ لَھَا ثُمَّ آمُرَ رَجُلًا فَیَؤُمَّ النَّاسَ ثُمَّ أُخَالِفَ إِلٰی رِجَالٍ فَأُحَرِّقَ عَلَیْھِمْ بُیُوْتَھُمْ وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہٖ لَوْ یَعْلَمُ أَحَدُھُمْ أَنَّہٗ یَجِدُ عَرْقًا سَمِیْنًا أَوْ مِرْمَاتَیْنِ حَسَنَتَیْنِ لَشَھِدَ الْعِشَآءَ) (رواہ البخاری : کتاب الاذان، باب وجوب صلاۃ الجماعۃ) ” اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! یقیناً میں نے ارادہ کیا ہے کہ میں لکڑیاں اکٹھی کرنے کا حکم دوں جب اکٹھی ہوجائیں تو میں نماز کا حکم دوں نماز کے لیے اذان دی جائے پھر میں کسی آدمی کو حکم دوں کہ وہ لوگوں کی امامت کروائے اور میں نماز سے پیچھے رہ جانے والے لوگوں کے پاس جاؤں۔ ان پر ان کے گھروں کو جلا کر راکھ کردوں۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! اگر ان میں سے کوئی یہ جانتا کہ اسے نماز کے بدلے موٹی ہڈی یا دو پائے ملیں گے تو وہ عشاء کی نماز میں ضرور حاضر ہوتے۔“ مسائل ١۔ سچ اور جھوٹ کو خلط ملط کرنا بڑا گناہ ہے اور یہ یہودیوں کی عادت ہے۔ ٢۔ حق جاننے کے باوجود حق بات کو چھپانابڑا گناہ ہے۔ ٣۔ زکوٰۃ کی ادائیگی اور نماز باجماعت پڑھنے کا اہتمام کرنا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن اقامت صلوٰۃ کے تقاضے : ١۔ پہلے وضو کیا جائے۔ (المائدۃ: ٦) ٢۔ نماز مقررہ اوقات پر ادا کی جائے۔ (النساء : ١٠٣) ٣۔ نشے کی حالت میں نماز نہ پڑھو۔ ( النساء : ٤٣) ٤۔ نماز میں غفلت اور ریا کاری نہیں ہونی چاہیے۔ ( الماعون : ٥، ٦) ٥۔ نماز جماعت کے ساتھ پڑھی جائے۔ ( البقرۃ: ٤٣) ٦۔ نماز میں عاجزی ہونی چاہیے۔ ( البقرۃ: ٢٣٨) ٧۔ نماز خشوع کے ساتھ پڑھنی چاہیے۔ ( المؤمنون : ٢) ٨۔ اقامت صلوٰۃ کا صلہ۔ (العنکبوت : ٤٥) البقرة
44 فہم القرآن ربط کلام : بنی اسرائیل کے مذہبی راہنماؤں کا کردار کہ وہ لوگوں کو نیکی کا حکم کرتے مگر اپنے آپ کو بھول جاتے تھے جو دانشمندی کے خلاف ہے۔ بنی اسرائیل کے علماء نے دین اور اس کی تبلیغ کو پیشہ کے طور پر اختیار کر رکھا تھا۔ بظاہر ان کا اوڑھنا بچھونا دین ہی تھا۔ لیکن دین کو محض ڈیوٹی اور پیشہ کے طور پر اختیار کئے ہوئے تھے۔ دینی فرائض کی بظاہرادائیگی اور نیکی کی نمائش کرنے کے علاوہ کچھ بھی نہیں تھا۔ ایسے لوگوں کو سمجھایا جا رہا ہے کہ دینی مشغلے سے تمہیں وقتی مفاد تو حاصل ہوجائے گا۔ لیکن حقیقی اور دائمی فائدے سے محروم رہو گے۔ کتاب اللہ کا علم جاننے اور منصب امامت سنبھالنے کے باوجود ایسا کرنا عقل مندی کا تقاضا نہیں۔ اہل کتاب کے مذہبی پیشواؤں کا کردار : ” تاریخ اخلاق یورپ“ کے فاضل مؤلف نے اس شرمناک اور وحشت ناک صورت حال کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا ہے : ... that inveterate prevalanceof incest among theclergy, which rendered it necessary angain and again to issue the most stringent enactments that priests should not be permitted to livewith their mothers and sisters. (W.Lecky: op.cit., p.231 -- H.C.Lea:op.cit., p.138) ” اہل کلیسا میں محرمات سے مباشرت کا چلن اتنا پختہ ہوچکا تھا کہ پادریوں کو اپنی ماؤں اور بہنوں کے ساتھ رہنے سے روکنے کی خاطر بار بار انتہائی سخت قوانین جاری کرنے کی ضرورت پیش آئی۔“ گریگوری دہم نے لے اونر (Lyons) کی دوسری کونسل میں شریک ہونے والے معزز ترین پادریوں کو خطاب کرتے ہوئے کہا تھا : You are the ruin of the world. (Ibid., p.353) ” تم دنیا کی اخلاقی تباہی کے باعث ہو۔“ The History of Christian monasticism ...... during the1,000 years of the Church's complete domination of europe, is the most sordid chapter in the history of civilized religions ....... at least four-fiths of themonasteries of europe during the1,000 years were corrupt ..... a monastery was generally a nursery of sloth, sensuality and vice. (Rationalist encyclopaedia pp.398-399) ” مسیحی رہبانیت کی ان ہزار سالوں کی تاریخ جب یورپ پر کلیسا کا مکمل تسلط تھا‘ مہذب مذاہب کی تاریخ کا تاریک ترین باب ہے۔۔ ان ہزار سالوں کے دوران کم از کم ٥/٤ راہب خانے بدمعاشی کے اڈے تھے۔ ایک راہب خانہ عموماً کاہلی‘ شہوت پرستی اور اخلاقی خرابی کا گہوارہ ہوتا تھا۔“ [ عیسائیت تجزیہ ومطالعہ : مؤلف پروفیسر ساجد میر] بد عمل علماء کے بارے میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان : (یُجَآء بالرَّجُلِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ فَیُلْقٰی فِی النَّارِ فَتَنْدَلِقُ أَقْتَابُہٗ فِی النَّارِ فَیَدُوْرُ کَمَا یَدُوْرُ الْحِمَارُ بِرَحَاہُ فَیَجْتَمِعُ أَھْلُ النَّارِ عَلَیْہِ فَیَقُوْلُوْنَ أَیْ فُلَانُ مَاشَأْنُکَ أَلَیْسَ کُنْتَ تَأْمُرُنَا بالْمَعْرُوْفِ وَتَنْھَانَا عَنِ الْمُنْکَرِ قَالَ کُنْتُ آمُرُکُمْ بالْمَعْرُوْفِ وَلَآ اٰتِیْہِ وَأَنْھَاکُمْ عَنِ الْمُنْکَرِ وَآتِیْہِ) (رواہ البخاری : کتاب بدء الخلق، باب صفۃ النار...) ” قیامت کے دن ایک آدمی کو لا کر آگ میں ڈالا جائے گا اس کی انتڑیاں آگ میں باہر نکل آئیں گی وہ ان کے گرد ایسے چکر کاٹے گا جیسے گدھا چکی کے گرد چکر کاٹتا ہے جہنمی اس کے پاس جمع ہو کر پوچھیں گے اے فلاں! تجھے کیا ہوا کیا تو ہمیں اچھی باتوں کا حکم اور برے کاموں سے منع نہیں کرتا تھا؟ وہ کہے گا میں تمہیں اچھی باتوں کا حکم دیتا تھا لیکن خود نیکی نہیں کرتا تھا اور میں تمہیں برے کاموں سے روکتا تھا لیکن خود نہیں رکتا تھا۔“ مسائل ١۔ لوگوں کو نیکی کا حکم دینا خود اس پر عمل نہ کرنا بے عقلی کی دلیل ہے۔ ٢۔ مبلغ کو سب سے پہلے نیکی کے کام پر عمل کرنا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن قول وفعل کے تضاد کی ممانعت : ١۔ ایمان داروں کے قول وفعل میں تضاد کیوں؟۔ (الصف : ٢) ٢۔ عمل نہ کرنے والوں کی مثال گدھوں جیسی ہے۔ ( الجمعۃ: ٥) ٣۔ کیا تم لوگوں کو نیکی کا حکم دیتے ہو اور اپنے آپ کو بھول جاتے ہو۔ (البقرۃ: ٤٤) البقرة
45 فہم القرآن ربط کلام : دوغلا پن اختیار کرنے کی بجائے، عُسرویُسر میں دین پر قائم رہو اور نماز اور صبر کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی مدد کے طالب بنو۔ اے بنی اسرائیل ! تمہیں اپنے آپ کو شریعت کا پابند صبر و شکر کا خوگر اور نماز قائم کرنے والا بننا چاہیے لیکن یاد رکھو یہ کام نسبتاً مشکل ہیں۔ اس پر عمل کرنا ہر کسی کے بس کا روگ نہیں۔ صبر و شکر اور نماز کی ادائیگی وہی لوگ کیا کرتے ہیں جن کے دل ” اللہ“ کے خوف سے لرزاں و ترساں رہتے ہیں اور انہیں یقین ہوتا ہے کہ ہم نے دنیا میں ہمیشہ نہیں بیٹھ رہنا بلکہ آخر کار ہمیں اپنے رب کے حضور پیش ہونا ہے۔ یاد رہے کہ اللہ تعالیٰ کے خوف اور فکر آخرت کے نتیجہ میں آدمی سے نیک اعمال کا ظہور ہوتا ہے۔ اس فکرکے بغیر دینی کام اچھی عادت اور پیشہ توہو سکتے ہیں مگر توشۂ آخرت نہیں ہو سکتے اور نہ ہی کردار میں اچھی تبدیلی کا باعث بن سکتے ہیں۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا نماز کے ذریعے مدد طلب کرنا : (إِذْ أَتٰی عَلٰی جَبَّارٍ مِّنَ الْجَبَابِرَۃِ فَقِیلَ لَہٗٓ إِنَّ ہَا ہُنَا رَجُلًا مَعَہُ امْرَأَۃٌ مِنْ أَحْسَنِ النَّاسِ فَأَرْسَلَ إِلَیْہِ فَسَأَلَہٗ عَنْہَا فَقَالَ مَنْ ہٰذِہٖ قَالَ أُخْتِیْ فَأَتٰی سَارَۃَ قَالَ یَا سَارَۃُ لَیْسَ عَلٰی وَجْہِ الْأَرْضِ مُؤْمِنٌ غَیْرِی وَغَیْرَکِ وَإِنَّ ھٰذَا سَأَلَنِی فَأَخْبَرْتُہُ أَنَّکِ أُخْتِیْ فَلَا تُکَذِّبِیْنِیْ فَأَرْسَلَ إِلَیْہَا فَلَمَّا دَخَلَتْ عَلَیْہِ ذَہَبَ یَتَنَاوَلُہَا بِیَدِہٖ فَأُخِذَ فَقَالَ ادْعِی اللّٰہَ لِیْ وَلَا أَضُرُّکِ فَدَعَتِ اللّٰہَ فَأُطْلِقَ ثُمَّ تَنَاوَلَہَا الثَّانِیَۃَ فَأُخِذَ مِثْلَہَا أَوْ أَشَدَّ فَقَالَ ادْعِی اللّٰہَ لِیْ وَلَآ أَضُرُّکِ فَدَعَتْ فَأُطْلِقَ فَدَعَا بَعْضَ حَجَبَتِہٖ فَقَالَ إِنَّکُمْ لَمْ تَأْتُونِی بِإِنْسَانٍ إِنَّمَآ أَتَیْتُمُونِی بِشَیْطَانٍ فَأَخْدَمَہَا ہَاجَرَ فَأَتَتْہُ وَہُوَ قَآءِمٌ یُّصَلِّیْ فَأَوْمَأَ بِیَدِہٖ مَہْیَا قَالَتْ رَدَّ اللّٰہُ کَیْدَ الْکَافِرِ أَوِ الْفَاجِرِ فِیْ نَحْرِہٖ وَأَخْدَمَ ہَاجَرَ قَالَ أَبُو ہُرَیْرَۃَ تِلْکَ أُمُّکُمْ یَا بَنِیْ مَاء السَّمَاءِ) (رواہ البخاری :، باب قول اللہ تعالیٰ واتخذ اللّٰہ ابراھیم خلیلا) ” جب ( حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور بی بی سارہ) ایک ظالم حکمران کے ملک سے گزرے تو اس کے نوکر چاکروں نے بادشاہ کو کہا کہ ہمارے شہر میں ایک مسافر آیا ہے جس کی عورت بہت ہی زیادہ خوبصورت ہے۔ ظالم بادشاہ نے حکم دیا۔ ابراہیم کو فوراً میرے سامنے پیش کرو۔ ان سے پوچھا یہ عورت کون ہے؟ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا یہ میری بہن ہے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) بادشاہ سے فارغ ہو کر حضرت سارہ کے پاس آئے اور کہا اے سارہ! اس سرزمین میں میرے اور تیرے سوا کوئی مومن نہیں۔ اس ظالم بادشاہ نے مجھے پوچھا ہے کہ یہ تیرے ساتھ عورت کون ہے؟ تو میں نے تجھے اپنی بہن کہا ہے کیونکہ دینی رشتہ کے اعتبار سے تو میری بہن ہے، تجھے اس کے سامنے یہی کہنا چاہیے۔ ایسا نہ ہو میں جھوٹا ثابت ہوجاؤں۔ اس ظالم بادشاہ نے حضرت سارہ کو جبراً منگوایا جب وہ اس کے پاس پہنچائی گئی تو ظالم نے دست اندازی کی کوشش کی لیکن دھڑام نیچے گرا اور فریاد کرنے لگا اے نیک خاتون! اپنے رب سے میری عافیت کی دعا کر میں تجھے کچھ نہیں کہوں گا۔ حضرت سارہ کی دعا سے وہ اچھا ہوگیا پھر دوسری مرتبہ زیادتی کی کوشش کی دوبارہ پہلے کی طرح یا اس سے بھی زیادہ اللہ کی گرفت میں آیا۔ اب پھر التجا کی کہ اے نیک عورت ! اب کے بار پھر دعا کر میں اچھا ہوجاؤں تو میں تجھے کچھ نہیں کہوں گا۔ حضرت سارہ نے دعا کی تو اللہ کے فضل وکرم سے وہ پھر صحیح ہوگیا۔ اس بار اس نے اپنے نوکر کو بلا کر کہا تم کیسی عورت میرے پاس لائے ہو یہ عورت ہے یا شیطان ؟ ( بے شرم اپنی بے شرمی کو مٹانے کے لیے ایسا کہہ رہا تھا۔ (حالانکہ شیطان خودتھا) اس نے ہاجرہ کو حضرت سارہ کی خدمت میں دے دیا۔ جب حضرت سارہ جناب ابراہیم ( علیہ السلام) کی خدمت میں آئیں تو آپ ” اللہ“ کے حضور نماز میں مصروف تھے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نماز کی حالت میں اشارہ سے پوچھتے ہیں کیا معاملہ ہوا؟ حضرت سارہ نے عرض کیا : اللہ ذوالجلال نے کافرو فاجر کی شرارت کو اس پر الٹ دیا ہے پھر سارا ماجرا ذکر کیا اور کہا بالآخر اس نے اپنی اس بیٹی کو خادمہ کے طور پر میرے حوالے کردیا ہے۔ جناب حضرت ابوہریرہ (رض) نے یہ حدیث مبارکہ ذکر کرنے کے بعد کہا اے بارش پر پلنے والو۔ (یعنی اے عرب قوم!) یہی تو تمہاری والدہ ہاجرہ ہیں۔“ مسائل ١۔ مشکل کے وقت حوصلہ اور نماز کے ذریعے اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کرنی چاہیے۔ ٢۔ مشکل کے وقت صبر کرنا اور نماز پڑھنا بھاری کام ہیں مگر اللہ سے ڈرنے والوں کے لیے آسان ہیں۔ ٣۔ ہر شخص کی اللہ تعالیٰ کے حضور حاضری یقینی ہے۔ البقرة
46 البقرة
47 فہم القرآن ربط کلام : بنی اسرائیل کو دوسراخطاب۔ بنی اسرائیل سے پہلے خطاب میں کچھ باتوں کا حکم دیا اور کچھ کاموں سے منع کیا تھا۔ اب دوسرے خطاب کا آغاز بھی نہایت دل کش انداز میں کرتے ہوئے نعمتوں کی یاد دہانی کروانے کے بعد قیامت کے دن کی ہولناکیوں سے ڈراتے ہوئے بتلایا ہے کہ دنیا کی عدالتوں میں اثر ورسوخ، سفارش، رشوت یا جرمانہ دے کر تم چھوٹ جاتے ہو۔ رب کبریا کی عدالت میں مجرموں کا چھوٹنا محال اور ناممکن ہے وہاں سچا ایمان اور نیک اعمال کے علاوہ کچھ بھی کام نہیں آئے گا۔ یہاں سے بنی اسرائیل کے عدالتی نظام کا اندازہ ہوتا ہے کہ انہوں نے کس قدر اسے تباہی کے گھاٹ اتار دیا تھا۔ آدمی کے ضمیر کو راغب کرنے اور جھنجھوڑنے کے لیے انعامات کا وعدہ اور خوف نہایت مؤثر ثابت ہوتے ہیں۔ یہاں خوف دلانے کے بعد احسانات کا ذکر کیا گیا ہے۔ کیونکہ پچھلے خطاب میں فرمایا تھا اگر تم عہد کی پاسداری کرو گے تو ہم تمہیں دوبارہ نعمتیں عطا کریں گے تاکہ ان کے ضمیر میں احساس اور حیا پیدا ہوجس بنا پر وہ اسلام کی مخالفت سے باز آجائیں۔ بنی اسرائیل پر عظیم الشان احسانات 1۔ جور و استبداد سے نجات : (وَلَقَدْ نَجَّیْنَا بَنِیْٓ اِسْرَاءِیْلَ مِنَ الْعَذَابِ الْمُہِیْنِ) ( الدخان : ٣٠) ” ہم نے بنی اسرائیل کو ذلت آمیز عذاب سے نجات دی۔“ 2۔ دریا میں راستہ بنانا : (وَ اِذْ فَرَقْنَا بِکُمُ الْبَحْرَ فَاَنْجَیْنٰٰکُمْ) (البقرۃ: ٥٠) ” جب ہم نے تمہارے لیے دریا کو پھاڑا اور تمہیں نجات دی۔“ 3۔ بچھڑے کی پرستش کے بعد توبہ قبول کی : (ثُمَّ عَفَوْنَا عَنْکُمْ) (البقرۃ: ٥٢) ” پھر ہم نے تمہیں معاف کردیا۔“ 4۔ دوبارہ زندگی عطا کرنا : (ثُمَّ بَعَثْنٰکُمْ م مِّنْ بَعْدِ مَوْتِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ۔) (البقرۃ: ٥٦) ” پھر ہم نے تمہاری موت کے بعد تم کو زندہ کیا تاکہ تم شکر ادا کرو۔“ 5۔ بادلوں کا سایہ کیا : (وَ ظَلَّلْنَا عَلَیْکُمُ الْغَمَامَ) (البقرۃ: ٥١) ” اور ہم نے تم پر بادلوں کا سایہ کیا۔“ 6۔ من و سلویٰ اتارا : (وَ اَنْزَلْنَا عَلَیْکُمُ الْمَنَّ وَ السَّلْوٰی۔) (البقرۃ: ٥٧) ” اور ہم نے تم پر من و سلویٰ نازل کیا۔“ 7۔ بارہ چشمے جاری کیے : (فَانْفَجَرَتْ مِنْہُ اثْنَتَا عَشْرَۃَ عَیْنًا۔) (البقرۃ: ٦٠) ” پتھر سے بارہ چشمے پھوٹ نکلے۔“ 8۔ دنیا میں حکمران بنایا : (وَ جَعََلَکُمْ مُّلُوْکًا) (المائدۃ: ٢٠) ” اور تمہیں بادشاہ بنایا“ 9۔ اقوام عالم پر عزت عطا فرمائی : (وَ اَنِّیْ فَضَّلْتُکُمْ عَلَی الْعٰلَمِیْنَ) (البقرۃ: ٤٧) ” میں نے تمہیں اقوام عالم پر فضیلت دی۔“ 0۔ جو کچھ بنی اسرائیل کو دیاوہ کسی اور کو نہ دیا : (وَ اٰتٰکُمْ مَا لَمْ یُؤْتِ اَحَدًا مِّنَ الْعٰلَمِیْنَ) (المائدۃ: ٢٠) ” اور جو کچھ تمہیں دیا سارے عالم میں سے کسی کو نہیں دیا۔“ !۔ تواتر کے ساتھ انبیاء (علیہ السلام) بھیجے گئے : (وَ قَفَّیْنَا مِنْ بَعْدِہٖ بالرُّسُلِ) (البقرۃ: ٨٧) ” ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد بہت سے رسول بھیجے۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ انسان کو نعمت اور فضل سے نوازے تو اس کا شکر ادا کرنا چاہیے۔ البقرة
48 فہم القرآن ربط کلام : بنی اسرائیل سے دوسرا خطاب جاری ہے۔ دنیا کی عدالتوں میں مجرم جن طریقوں سے بچ نکلتے ہیں وہ چار ہیں۔ (١)۔ حقیقی مجرم کی جگہ دوسرے کو پھنسا دینا۔ (٢)۔ شخصی سفارش کے ذریعے مجرم کو بچا لینا۔ (٣)۔ رشوت کے ذریعے بچ نکلنے میں کامیاب ہونا۔ (٤)۔ سیاسی دباؤ کے ذریعے مجرم کا رہائی پانا۔ یہاں بنی اسرائیل کو مخاطب کرتے ہوئے ہر فرد کو باور کرایا جا رہا ہے کہ یہ ہتھکنڈے دنیا کی بے انصاف عدالتوں‘ رشوت خورججوں، کمزور اور غلط عدالتی نظام میں تو چل سکتے ہیں۔ جس وجہ سے مظلوم سر چھپاتے اور ظالم دندناتے پھرتے ہیں۔ لیکن اللہ کی عدالت میں ان باتوں کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ محشر کے میدان میں کسی مجرم کو دم مارنے اور آنکھ اٹھا کر دیکھنے اور بلا اجازت بولنے کی بھی جرأت نہ ہوگی۔ اس دن کوئی نفس اور کوئی متاع کام نہ آئے گا۔ قرآن مجید نے ان اصولوں کو مختلف مقامات اور انداز میں بڑی تفصیل کے ساتھ بیان فرمایا ہے تاکہ کسی مجرم کے دل میں چھوٹ جانے کا تصور بھی پیدا نہ ہوسکے۔ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَامَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حِیْنَ أَنْزَلَ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ (وَأَنْذِرْ عَشِیْرَتَکَ الْأَقْرَبِیْنَ) قَالَ یَامَعْشَرَ قُرَیْشٍ أَوْ کَلِمَۃً نَحْوَھَا اشْتَرُوْٓا أَنْفُسَکُمْ لَآأُغْنِیْ عَنْکُمْ مِنَ اللّٰہِ شَیْءًا یَابَنِیْ عَبْدِ مَنَافٍ لَآأُغْنِیْ عَنْکُمْ مِنَ اللّٰہِ شَیْءًا یَاعَبَّاسَ بْنَ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ لَآأُغْنِیْ عَنْکَ مِنَ اللّٰہِ شَیْءًا وَیَاصَفِیَّۃُ عَمَّۃُ رَسُوْلِ اللّٰہِ لَآأُغْنِیْ عَنْکِ مِنَ اللّٰہِ شَیْءًا وَیَافَاطِمَۃُ بِنْتُ مُحَمَّدٍ سَلِیْنِیْ مَاشِءْتِ مِنْ مَالِیْ لَآأُغْنِیْ عَنْکِ مِنَ اللّٰہِ شَیْءًا) (رواہ البخاری : کتاب الوصایا، باب ھل یدخل النساء والولد فی الأقارب) ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں جب یہ آیت (اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈرائیے) نازل ہوئی تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کھڑے ہوئے اور فرمایا : اے قریش کے لوگو! اپنے لیے کچھ کر لومیں تمہیں اللہ کے عذاب سے کوئی فائدہ نہیں دے سکوں گا، اے بنی عبد منا ف میں تمہیں اللہ کے عذاب سے بچا نہیں سکوں گا‘ اے عباس بن عبدالمطلب ! میں تمہیں اللہ کے عذاب سے کچھ فائدہ نہیں دے سکوں گا، اور اے صفیہ ! رسول کی پھوپھی! میں تمہیں اللہ کے عذاب سے کچھ فائدہ نہیں دے سکوں گا اور اے فاطمہ بنت محمد! میرے مال سے جو چاہتی ہے مانگ لے میں تجھے اللہ کے عذاب سے نہیں بچا سکوں گا۔“ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لِکُلِّ نَبِیٍّ دَعْوَۃٌ مُسْتَجَابَۃٌ فَتَعَجَّلَ کُلُّ نَبِیٍّ دَعْوَتَہٗ وَإِنِّی اخْتَبَأْتُ دَعْوَتِیْ شَفَاعَۃً لِأُمَّتِیْ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ فَھِیَ نَآءِلَۃٌ إِنْ شَآء اللّٰہُ مَنْ مَاتَ مِنْ أُمَّتِیْ لَایُشْرِکُ باللّٰہِ شَیْءًا) (رواہ مسلم : کتاب الإیمان، باب اختباء النبی دعوۃ الشفاعۃ لأمتہ ) ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ہر نبی کی ایک مقبول دعا ہوتی ہے ہر نبی نے اپنی دعا کرنے میں جلدی کی میں نے اپنی دعا کو قیامت کے دن اپنی امت کی سفارش کے لیے بچا کر رکھا ہوا ہے وہ میری امت کے ہر اس شخص کو فائدہ دے گی جو اس حال میں مرا کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراتا تھا۔“ مسائل ١۔ قیامت کے دن رشتہ دار، غلط سفارش اور مال مجرم کو کوئی فائدہ نہیں دیں گے۔ تفسیر بالقرآن سفارش کی گنجائش نہیں : ١۔ کون ہے جو اللہ کی اجازت کے بغیر سفارش کرسکے۔ (البقرۃ: ٢٥٥) ٢۔ دوستی اور سفارش کام نہ آئے گی۔ (البقرۃ: ٢٥٤) ٣۔ مجرموں کو سفارش کوئی فائدہ نہیں پہنچائے گی۔ (المدثر : ٤٨) ٤۔ ظالموں کا کوئی دوست ہوگا اور نہ سفارشی۔ (المؤمن : ١٨) ٥۔ کافروں کا کوئی سفارشی نہیں ہوگا۔ (انعام : ٥١) ٦۔ بزرگ اور سرداربھی سفارش نہ کریں گے۔ (الروم : ١٣) نوٹ : فدیہ کے بارے میں البقرۃ:123 دیکھیے۔ البقرة
49 فہم القرآن ربط کلام : بنی اسرائیل سے خطاب جاری ہے اس میں دو احسانات کا تذکرہ فرما کرنصیحت کی گئی ہے۔ اہل تاریخ بنی اسرائیل پر فرعون کے بد ترین مظالم کی دو وجوہات تحریر کرتے ہیں۔ ایک جماعت کا نقطۂ نگاہ یہ ہے کہ اس وقت کے نجومیوں نے فرعون کو اس بات کی خبر دی کہ بنی اسرائیل میں ایک ایسا بچہ پیدا ہونے والا ہے جو بڑا ہو کر تیرے اقتدار کو چیلنج کرے گا۔ دوسرے لوگوں کا خیال ہے کہ بنی اسرائیل کی بڑھتی ہوئی افرادی قوت کے خوف سے فرعون نے ان کے بچوں کو قتل کرنے اور عورتوں کو باقی رکھنے کا حکم جاری کیا تھا۔ یاد رہے بنی اسرائیل کے جوانوں کا قتل عام اور ان کی بیٹیوں کو باقی رکھنے کا معاملہ دو ادوار میں ہوا ایک مرتبہ موسیٰ ( علیہ السلام) کی پیدائش کے وقت اور دوسری مرتبہ موسیٰ (علیہ السلام) کی نبوت کے بعد۔ (المؤمن : ٢٣) یہاں اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو اپنی نعمتوں کا احساس‘ آخرت کا خوف اور ان کے ماضی کے الم ناک دور کا حوالہ دیتے ہوئے سمجھایا ہے کہ آج تم کمزور اور بے خانماں مسلمانوں پر ظلم کررہے ہو تمہیں وہ وقت بھی یاد رکھنا چاہیے جب فرعون تمہارے جوانوں اور نونہالوں کو سر عام ذبح کرتا تھا اور تمہاری ماؤں اور بہو‘ بیٹیوں کو باقی رہنے دیتا تھا۔ قرآن مجید نے اسے بلائے عظیم قرار دے کر ان تمام مضمرات کی طرف اشارہ کیا ہے جو مظلوم اور غلام قوم کو پیش آیا کرتے ہیں اور ظالم مظلوم کی بہو بیٹیوں کے ساتھ وہ سلوک کیا کرتے ہیں جس کے تصور سے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ اے بنی اسرائیل ! پھر اللہ تعالیٰ نے تم پر احسان عظیم کرتے ہوئے ان مظالم سے تمہیں نجات دلائی اور تمہاری آنکھوں کے سامنے تمہارے بد ترین دشمن کو ذلت کی موت دیتے ہوئے اسے ہمیشہ کے لیے نشان عبرت بنا دیا۔ اس سے دنیا میں تمہاری عظمت و سچائی اور بزرگی کی دھوم مچ گئی کہ بنی اسرئیل کے لیے دریا رک گیا اور ان کی آنکھوں کے سامنے دنیا کا بد ترین مغروروسفّاک، خدائی اور مشکل کشائی کا دعوی کرنے والاڈبکیاں لیتے ہوئے دہائی دیتا رہا کہ لوگو! میں موسیٰ (علیہ السلام) اور اس کے رب پر ایمان لاتا ہوں لیکن آواز آئی کہ تیرا ایمان ہرگز قبول نہیں ہوگا اب تجھے آئندہ نسلوں کے لیے نشان عبرت بنا دیا جائے گا۔[ یونس : ٩١] قیامت کے دن مظلوم بچیاں اس طرح سوال کریں گی : (وَإِذَا الْمَوْءٗ دَۃُ سُءِلَتْ۔ بِأَیِّ ذَنْبٍ قُتِلَتْ۔) (التکویر : ٨، ٩) ” اور زندہ در گورلڑکی سے پوچھا جائے گا کہ وہ کس جرم میں ماری گئی تھی؟۔“ یہاں انتباہ کیا گیا ہے کہ جو بچوں کو قتل کرتے ہیں قیامت کے دن وہ بچہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں فریاد کرے گا کہ مولائے کریم ! آج اس ظالم سے پوچھا جائے کہ مجھے کس جرم کی پاداش میں قتل کیا گیا تھا بے شک قاتل والدین ہی کیوں نہ ہوں۔ ظلم کے بارے میں رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے : (اَلظُّلْمُ ظُلُمَاتٌ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ) (رواہ البخاری : کتاب المظالم والغصب، باب الظلم ...) ” ظلم قیامت کے دن اندھیرے ہوں گے۔“ مسائل ١۔ فرعون بنی اسرائیل پر ظلم کرتا تھا۔ ٢۔ فرعون بنی اسرائیل کے لڑکوں کو قتل اور لڑکیوں کو زندہ رکھتا تھا۔ ٣۔ ظلم مظلوم پر بھاری آزمائش ہوتی ہے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ نے فرعون کو ڈبویا اور بنی اسرائیل کو بچایا لیا۔ تفسیر بالقرآن فرعون کے مظالم : ١۔ فرعون نے اپنی قوم میں طبقاتی کشمکش پیدا کی۔ (القصص : ٤) ٢۔ بنی اسرائیل قتل وغارت کے عذاب میں دو مرتبہ مبتلا کئے گئے۔ (الاعراف : ١٢٧ تا ١٢٩) ٣۔ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو اقتدار بخشا تاکہ فرعون کو اپنی قدرت دکھلائے۔ (القصص : ٥، ٦) ٤۔ فرعون نے ظلم کرنے کے لیے میخیں تیار کی ہوئی تھیں۔ (الفجر : ١٠) ٥۔ فرعون نے اپنی بیوی پر اس لیے ظلم کیا کہ وہ موسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لے آئی تھی۔ (التحریم : ١١) البقرة
50 البقرة
51 فہم القرآن ربط کلام : بنی اسرائیل پر تیسرا اور چوتھا احسان۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو مدین کے علاقہ سے واپسی کے وقت سفر کے دوران نبوت سے سرفراز فرمایا اور دو معجزے عطا فرمائے۔ لاٹھی کا اژدہا بن جانا اور ہاتھ کا روشن ہونا۔ ان معجزات کے ساتھ موقع بموقع حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو ہدایات ملتی رہیں۔ جن میں حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون ( علیہ السلام) کو فرعون کے پاس جا کر نہایت نرمی کے ساتھ سمجھانے کی ہدایت‘ توحید کے دلائل‘ بنی اسرائیل کی آزادی کا مطالبہ مظلوم بنی اسرائیل کو صبر اور نماز کی تلقین اور ہر قسم کی راہنمائی کا بندوبست، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور فرعون کے مجادلہ کے نتیجہ میں جادوگروں سے مقابلہ‘ اللہ تعالیٰ کی طرف سے عظیم کامیابی کا حصول جس کے نتیجے میں جادوگروں کا موقعہ پرہی اللہ تعالیٰ کے حضور سجدہ ریز ہونا اور برملا موسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لانے کا اعلان۔ جس کی تفصیل اپنے مقام پر بیان ہوگی۔ بالآخر فرعون اور اس کے لشکروں کا غرقاب ہونا۔ اس کے بعد موسیٰ (علیہ السلام) کو حکم ہوا کہ فلسطین پر حملہ آور ہوجاؤ۔ اللہ اسے تمہارے ہاتھوں فتح کرے گا لیکن بزدل قوم نے کہا کہ اے موسیٰ (علیہ السلام) تم اور تمہارا خدا لڑو ہم تو اتنے طاقت وروں کے ساتھ نہیں لڑ سکتے اس کی پاداش میں انہیں سینا کے ریگستان میں چالیس سال کے لیے انہیں مقید کردیا گیا۔ اب موسیٰ (علیہ السلام) کو حکم ہوا کہ آپ کوہ طور پر تیس دن کے لیے حاضری دیں تاکہ آپ کو تحریری طور پر تختیوں کی شکل میں تورات عنایت کی جائے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) طور سینا پر فرو کش ہوئے تو تیس دن کی مدت کو چالیس دن میں تبدیل کردیا گیا۔ بنی اسرائیل اس قدر احسان فراموش اور سنگ دل قوم تھی کہ جوں ہی ان کا دشمن غرقاب ہوا۔ یہ دریا عبور کر کے ابھی تھوڑی ہی دیر چلے تھے کہ راستہ میں انہوں نے ایسے لوگوں کو دیکھا جو بتوں کے سامنے مراقبہ‘ اعتکاف اور طواف کر رہے تھے۔ بنی اسرائیل اللہ تعالیٰ کے احسانات کو فراموش کرتے ہوئے بنی اسرائیل موسیٰ (علیہ السلام) سے مطالبہ کرنے لگے کہ ہمیں بھی ایساہی معبود بنادیجیے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے شرک کے نقصانات بتاتے ہوئے فرمایا کہ یہ قوم تو ہلاکت اور بربادی کے کنارے پر کھڑی ہے۔ جن کی یہ پوجا کر رہے ہیں وہ باطل اور ان کا یہ عمل شرک ہے۔ کیا تم اللہ کے بغیر کسی اور کو معبود مانتے ہو؟ جبکہ اس نے تمہارے دشمن کو غرق کرکے پوری دنیا میں تمہیں ممتاز کردیا ہے۔ اس وقت تو یہ لوگ باز آئے لیکن غلامانہ ذہن رکھنے والی قوم شرک سے کس طرح باز آ سکتی تھی؟ جوں ہی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) چالیس دن کے لیے کوہ طور پر تشریف لے گئے تو سامری نام کے ایک آدمی نے سونے کا ایک بچھڑا بنا کر انہیں کہا کہ یہی وہ خدا ہے جس کی تلاش میں موسیٰ (علیہ السلام) کوہ طور پر بیٹھے ہیں۔ انہوں نے سب کچھ فراموش کرتے ہوئے بچھڑے کی عبادت شروع کردی۔[ طٰہٰ: ٨٧، ٨٨] مسائل ١۔ غیر اللہ کی پوجا یعنی شرک بہت بڑا ظلم ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ آدمی کو ڈھیل دے تو اسے توبہ اور شکر کرنا چاہیے۔ ٣۔ تورات موسیٰ (علیہ السلام) پر نازل ہوئی جو بنی اسرائیل کے لیے ہدایت کا سرچشمہ تھی۔ ٤۔ حضرت موسیٰ کو بڑے بڑے معجزات عنایت کیے گئے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ کا موسیٰ (علیہ السلام) سے وعدہ : ١۔ موسیٰ (علیہ السلام) سے پہلے تیس راتوں کا وعدہ ہوا پھر مزید دس راتوں کا اضافہ کردیا گیا۔ (الاعراف : ١٤٢) ٢۔ اسی مدت میں انہیں تختیوں کی شکل میں تورات عنایت کی گئی۔ (الاعراف : ١٤٣ تا ١٤٥) فرقان کیا ہے؟ ١۔ فرقان سے مراد معجزات۔ (البقرۃ : ٥٣) ٢۔ قرآن مجید فرقان ہے۔ (الفرقان : ١) ٣۔ یوم بدر یوم فرقان ہے۔ (الانفال : ٤١) ٤۔ تقو یٰ فرقان کا ذریعہ ہے۔ (الانفال : ٢٩) البقرة
52 البقرة
53 البقرة
54 فہم القرآن ربط کلام : سنگین جرم معاف کرتے ہوئے پانچواں احسان۔ جب موسیٰ (علیہ السلام) کوہ طور سے اتر کر اپنی قوم کی طرف آئے تو انہوں نے بچھڑے کو جلا کر دریا میں پھینک دیا اور فرمایا اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ جن لوگوں نے شرک کا ارتکاب کیا ہے ان کے رشتہ داروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ انہیں اپنے ہاتھوں سے قتل کردیں۔ یہی تمہاری توبہ ہے اور یہی توبہ کا طریقہ تمہارے رب کے ہاں مقبول ہے۔ جب مشرک ہزاروں کی تعداد میں قتل ہوچکے تو اللہ کی بار گاہ میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے ان کی معافی کی درخواست پیش کی جس کو قبول کرتے ہوئے رب کریم نے باقی ماندہ لوگوں کی توبہ قبول فرمائی کیونکہ اللہ تائب ہونے والوں کی توبہ قبول کرتا ہے۔ بنی اسرائیل کے مشرکوں کو ختم کرنے اور ایمانداروں کے ایمان کو پرکھنے کے لیے توبہ کا یہ طریقہ اس لیے مقرر کیا گیا تاکہ لوگ شرک کے بدترین گناہ اور اس کی سنگینی سے آگاہ ہوں اور آئندہ شرک کرنے کا تصور بھی ان کے دل میں پیدا نہ ہو سکے۔ توبہ کے متعلق نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشادات : ١۔ (عَنْ أَبِیْ مُوْسٰی (رض) عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ إِنَّ اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ یَبْسُطُ یَدَہٗ باللَّیْلِ لِیَتُوْبَ مُسِیْءُ النَّھَارِ وَیَبْسُطُ یَدَہٗ بالنَّھَارِ لِیَتُوْبَ مُسِیْءُ اللَّیْلِ حَتّٰی تَطْلُعَ الشَّمْسُ مِنْ مَغْرِبِھَا) (رواہ مسلم : کتاب التوبۃ، باب قبول التوبۃ من الذنوب وإن تکررت الذنوب والتوبۃ) ” حضرت ابوموسیٰ (رض) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : یقیناً اللہ عزوجل رات کو اپنا ہاتھ بڑھاتے ہیں تاکہ دن کو خطائیں کرنے والا توبہ کرلے اور دن کو ہاتھ پھیلاتے ہیں تاکہ رات کو گناہ کرنے والا توبہ کرلے یہ سلسلہ سورج کے مغرب سے طلوع ہونے تک جاری رہے گا۔“ ٢۔ (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) التَّاءِبُ مِنَ الذَّنْبِ کَمَنْ لَا ذَنْبَ لَہٗ) (رواہ ابن ماجۃ: کتاب الزھد، باب ذکرا لتوبۃ) ” حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا گناہ سے توبہ کرنے والا ایسے ہی پاک ہوجاتا ہے جیسے اس نے کوئی گناہ نہیں کیا۔“ ٣۔ (قَالَ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اَللّٰہُ أَشَدُّ فَرَحًا بِتَوْبَۃِ عَبْدِہٖ حینَ یَتُوبُ إِلَیْہِ مِنْ أَحَدِکُمْ کَانَ عَلٰی رَاحِلَتِہٖ بِأَرْضِ فَلَاۃٍ فَانْفَلَتَتْ مِنْہُ وَعَلَیْہَا طَعَامُہٗ وَشَرَابُہٗ فَأَیِسَ مِنْہَا فَأَتٰی شَجَرَۃً فَاضْطَجَعَ فِی ظِلِّہَا قَدْ أَیِسَ مِنْ رَاحِلَتِہٖ فَبَیْنَا ہُوَکَذَلِکَ إِذَا ہُوَ بِہَا قَاءِمَۃً عِنْدَہٗ فَأَخَذَ بِخِطَامِہَا ثُمَّ قَالَ مِنْ شِدَّۃِ الْفَرَحِ اللّٰہُمَّ أَنْتَ عَبْدِیْ وَأَنَا رَبُّکَ أَخْطَأَ مِنْ شِدَّۃِ الْفَرَحِ) (رواہ مسلم : کتاب التوبۃ، باب فی الحض علی التوبۃ والفرح بھا) ” رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جب بندہ اللہ تعالیٰ کے حضور توبہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے توبہ کرنے پر اس بندے سے بھی زیادہ خوش ہوتے ہیں جو چٹیل میدان میں اپنی سواری پر تھا اور اس کی سواری گم ہوگئی جس پر اس کا کھانا، پینا تھا۔ وہ سواری اور زندگی سے ناامید ہو کر ایک درخت کے نیچے لیٹ گیا۔ اچانک اس کی سواری مل گئی وہ خوشی میں آکر غلطی سے یہ بات کہہ دیتا ہے کہ : اے اللہ! تو میرا بندہ ہے اور میں تیرا رب ہوں۔“ مسائل ١۔ شرک کرنے والا اپنے اپ پر ظلم کرتا ہے۔ ٢۔ ہر دم اللہ تعالیٰ کے حضور توبہ کرنی چاہیے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ توبہ قبول کرنے والا نہایت مہربان ہے۔ تفسیر بالقرآن توبہ کی اہمیت : ١۔ توبہ کرنا مومن کا شیوہ ہے۔ (التوبۃ: ١١٢) ٢۔ توبہ کرنے والوں سے اللہ تعالیٰ محبت کرتا ہے۔ (البقرۃ: ٢٢٢) ٣۔ توبہ قبول کرنا اللہ تعالیٰ کی صفت ہے۔ (البقرۃ: ١٦٠) ٤۔ توبہ کرنے والوں کے لیے فرشتے مغفرت کی دعا کرتے ہیں۔ (المؤمن : ٧ تا ٩) ٥۔ توبہ کرنے والے کے گناہ نیکیوں میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔ (الفرقان : ٧٠) ٦۔ توبہ کرنے والے کا میاب ہوں گے۔ (القصص : ٦٧) البقرة
55 فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کی بدترین گستاخی معاف کرتے ہوئے ان پر چھٹا احسان فرمایا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی قوم نے آسمانی دستاویزات یعنی تورات کو یہ کہہ کر تسلیم کرنے سے انکار کردیا کہ جب تک ہم اللہ کے ساتھ ہم کلام اور اس کو خود نہیں دیکھ لیتے اس وقت تک ہم اس کتاب کی تصدیق نہیں کریں گے۔ اس نازک صورت حال کے پیش نظر موسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ کے حضور فریاد کی کہ اے رب کریم! انہیں اپنی ہم کلامی اور زیارت سے مشرف فرما۔ اس کے جواب میں موسیٰ (علیہ السلام) کو حکم ہوا کہ آپ اپنی قوم کے ستر نمائندہ لوگوں کو کوہ طور پر لے آئیں۔ جب یہ لوگ طور سینا پر پہنچے تو زور دار آسمانی دھماکے سے مرگئے۔ تب موسیٰ (علیہ السلام) نے ” اللہ“ کے حضور عجز و انکساری سے فریاد کی کہ اے رب جلیل! ان لوگوں کی حماقت کی وجہ سے آپ نے انہیں تباہ کردیا ؟ اگر ایسا ہی کرنا تھا تو پہلے مار دیا ہوتا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی دعا قبول ہوئی اور انہیں دوبارہ زندہ کردیا گیا۔ اس سے یہ ثابت ہوا کہ اس طرح اللہ تعالیٰ لوگوں کو دوبارہ زندہ فرمائیں گے۔ اللہ تعالیٰ کی زیارت کے بارے میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد : (عَنْ أَبِیْ ذَرٍّ (رض) قَالَ سَأَلْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ھَلْ رَأَیْتَ رَبَّکَ قَالَ نُوْرٌ أَنّٰی أَرَاہُ) (رواہ مسلم : کتاب الإیمان، باب فی قولہ نور أنی أراہ وفی قولہ رأیت نورا) ” حضرت ابوذر (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے استفسار کیا کہ کیا آپ اللہ تعالیٰ کے دیدار سے مشرف ہوئے ہیں؟ جواباً آپ نے فرمایا وہ تو نور ہے میں اسے کیسے دیکھ سکتاہوں۔“ شکر کا جامع مفہوم یہ ہے کہ آدمی کو جو کچھ میسّر ہو اس کی قدر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرے۔ یہ ایسی صفت ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات والا صفات کی طرف منسوب فرمایا ہے۔ سورۃ النساءآیت ١٤٧ میں ارشاد ہوا کہ لوگو! تمہیں عذاب کرنے سے اللہ تعالیٰ کو کچھ حاصل نہیں ہوتا اگر تم اس پر ایمان لاؤ اور اس کا شکریہ ادا کرو تو اللہ تعالیٰ تمہارا قدر دان ہوگا۔ یہاں شاکر کا لفظ استعمال فرما کر شکر کی اہمیت کو دو چند کردیا ہے۔ سورۃ ابراہیم آیت ٧ میں یہ خوشخبری عطا فرمائی کہ اگر تم اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرو گے تو وہ تمہیں مزید عنایات سے نوازے گا۔ سورۃ ابراہیم میں شکر کے بالمقابل کفر کا لفظ استعمال کیا ہے جس کے معانی ناقدری اور احسان فراموشی کے ہیں اس لیے ہر زبان میں ناشکری کو کفران نعمت سے تعبیر کیا گیا ہے۔ ابلیس لعین کو جب اس کے جرم کی پاداش میں ہمیشہ کے لیے راندہ درگاہ قرار دیا گیا تو اس نے بنی نوع انسان کے بارے میں ان الفاظ میں اپنے خبث باطن کا اظہار کیا تھا : ” جس وجہ سے مجھے راندہ درگاہ قرار دیا گیا ہے میں اس کے لیے صراط مستقیم میں رکاوٹ بنوں گا اور میں ان کے آگے، پیچھے، دائیں اور بائیں سے حملہ آور ہوں گا۔ اے اللہ! تو ان کی اکثریت کو شکر گزار نہیں پائے گا۔“ (الاعراف : ١٦، ١٧) بنی آدم کو ناشکری کے گناہ سے بچانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے بار بار اپنی نعمتوں کی قدر کرنے اور ہر دم شکر گزار رہنے کا حکم دیا ہے۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ تعالیٰ کی شکر گزاری کا اس قدر خیال رکھتے کہ آپ تہجد کی نماز میں اس قدر قیام کرتے کہ آپ کے قدم مبارک پر ورم آجایا کرتا تھا جنہیں دیکھ کر آپ کے اہل خانہ نے عرض کی کہ جب اللہ تعالیٰ نے آپ کے اگلے پچھلے گناہ معاف کردیے ہیں تو آپ اس قدر کیوں مشقت اٹھاتے ہیں جس کے جواب میں آپ نے فرمایا کیا میں ان نعمتوں پر اللہ کا شکر گزار بندہ نہ بنوں؟[ رواہ البخاری : کتاب الجمعۃ، باب قیام النبی اللیل] اسی بنا پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرض نماز کے بعد اس دعا کا اہتمام کیا کرتے تھے : (أَللّٰھُمَّ أَعِنِّیْ عَلٰی ذِکْرِکَ وَشُکْرِکَ وَحُسْنِ عِبَادَتِکَ) (رواہ أبوداوٗد : کتاب الصلاۃ، باب فی الإستغفار) ” الٰہی ! اپنے ذکر، شکر اور بہترین طریقے سے عبادت کرنے پر میری مدد فرما۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ موت دے کر زندہ کرنے پر قادر ہے۔ ٢۔ ہر دم اللہ کا شکر گزار رہنا چاہیے۔ ٣۔ کسی کی عظمت اور احسان مندی کا تقاضا یہ ہے کہ انسان اس کا شکر ادا کرے۔ تفسیر بالقرآن شکر کی اہمیت : ١۔ اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ رزق پر اس کا شکریہ ادا کرو۔ (الانفال : ٢٦) ٢۔ اللہ تعالیٰ نے سمندر کو تمہارے تابع کیا جس سے تازہ مچھلی، زیبائش کا سامان نکلتا ہے اس پر اللہ کا شکریہ ادا کرو۔ (النحل : ١٤) ٣۔ اللہ تعالیٰ نے رات کو باعث سکون اور دن کو کسب معاش کا ذریعہ بنایا ہے تاکہ اس کا شکر ادا کرو۔ (القصص : ٧٣) ٤۔ شکر کے بارے میں حضرت داؤد اور سلیمان (علیہ السلام) کی دعائیں۔ (صٓ: ٣٥، النمل : ١٩) ٥۔ اللہ تعالیٰ شکر گزار لوگوں کو زیادہ دیتا ہے۔ (ابراہیم : ٧) البقرة
56 البقرة
57 فہم القرآن ربط کلام : بنی اسرائیل پر من و سلویٰ کی شکل میں ساتواں اور آٹھواں احسان۔ بنی اسرائیل کا آزادی کے بعدشکر کی بجائے شرک کرنا، جناب موسیٰ (علیہ السلام) پر عدم اعتماد کا اظہار اور اللہ تعالیٰ کو خود دیکھنے کا گستاخانہ مطالبہ، وطن کی آزادی کے لیے جہاد فی سبیل اللہ سے انکار جیسے پے در پے سنگین جرائم کرنے کے بعد چاہیے تو یہ تھا کہ ان کو صحرائے سینا میں تڑپ تڑپ کر بھوک سے مرنے دیا جاتا۔ لیکن اس کے باوجود رحیم و کریم رب نے انہیں پہلے سے زیادہ عمدہ و لذیذ کھانا‘ گھنے بادلوں کا سایہ، پینے کے لیے میٹھے اور صاف و شفاف چشموں کا پانی عنایت کرتے ہوئے فرمایا کہ انہوں نے ہم پر زیادتی نہیں کی وہ خود اپنے آپ پر ظلم کرنے والے تھے۔ یعنی جو کچھ وہ کرتے تھے اللہ تعالیٰ کی ذات پر اس کا کوئی اثر نہیں پڑا۔ وہ اپنے جرائم کے بدلے خود ہی ذلیل وخوار ہوتے رہے۔ چنانچہ حکم دیا کہ بس میری عبادت کرو، امن سے رہو اور دشمن کے مقابلے میں اپنے آپ کو جہاد کے لیے تیار کرو۔ اس میں یہ حکمت پنہاں تھی کہ فرعون کی غلامی میں پلنے والی نسل ختم ہو اور نئی نسل کھلی فضا اور آزاد ماحول میں پروان چڑھے جو جسمانی لحاظ سے تنو مند و کڑیل جوان اور فکری طور پر آزادی کے متوالے، اعتقاد و کردار کے اعتبار سے انتہائی پختہ ہوں اور جو قابض قوم عمالقہ سے نبرد آزما ہو کر اپنا آبائی وطن ملک فلسطین آزاد کروانے کی ہمت اور جرأت رکھتے ہوں۔ صحرائے سینا کا حدود اربعہ : یہ مثلث نما جزیرہ ہے جو بحر الکاہل (بحیرہ روم) (شمال کی طرف) اور ریڈسی (جنوب کی طرف) کے درمیان مصر میں واقع ہے اور اس کا رقبہ ساٹھ ہزار مربع کلومیٹر ہے۔ اس کی زمینی سرحدیں سویز نہر مغرب کی طرف اور اسرائیل۔ مصر سرحد‘ شمال مشرق کی طرف ہیں۔ سینائی جزیرہ نما جنوب مغربی ایشیا میں واقعہ ہے۔ اسے مغربی ایشیا بھی کہتے ہیں یہ زیادہ درست جغرافیائی اصطلاح ہے جبکہ مصر کا باقی حصہ شمالی افریقہ میں واقعہ ہے جغرافیائی و سیاسی مقاصد کے لیے سینائی کو اکثر افریقہ کا حصہ سمجھا جاتا ہے۔ سینائی تقریباً مکمل طور پر صحرا ہے اور تبا (Taba) میں سباہ ساحل (Sabah Coast) کے ساتھ ساتھ واقعہ ہے۔ (موجودہ اسرائیل قصبہ ایلٹ ( eilat) کے نزدیک) جہاں ایک ہوٹل اور رقص گاہ (Casino) ہے جب ساحل کے ساتھ ساتھ جنوب کی طرف حرکت کی جائے تو وہاں نیو ویبا (Nuweiba) داھاب (Dahab) اور شرم الشیخ (Sharmel Sheikh) و اقع ہیں سینائی العریش (el Arish) میں غزہ پٹی کے نزدیک شمالی ساحل پر بھی واقع ہے۔ جبل موسیٰ جسے جبل سینائی بھی کہتے ہیں۔ تورات میں اہمیت کا حامل ہے۔ اس جگہ جہاں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے خدائی احکام وصول کیے جنوبی سینائی جزیرہ نما میں واقع ہے۔ جس کے لیے دعویٰ ہے کہ یہ تورات کے سینائی پہاڑکی جگہ ہے۔ اس قصے کی تفصیلات بائبل کی کتاب‘ گنتی استثناء اور یشعو میں ملیں گی۔ خلاصہ اس کا یہ ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے دشت فاران سے بنی اسرائیل کے بارہ سرداروں کو فلسطین کا دورہ کرنے کے لیے بھیجا تاکہ وہاں کے حالات معلوم کر کے آئیں۔ یہ لوگ چالیس دن دورہ کر کے وہاں سے واپس آئے اور انہوں نے قوم کے مجمع عام میں بیان کیا کہ واقعی وہاں دودھ اور شہد کی نہریں بہتی ہیں۔ لیکن جو لوگ وہاں بسے ہوئے ہیں وہ زور آور ہیں۔ ہم اس لائق نہیں ہیں کہ ان لوگوں پر حملہ کریں وہاں جتنے آدمی ہم نے دیکھے وہ سب بڑے قد آور ہیں اور ہم نے وہاں بنی عناق کو بھی دیکھا جو جبار ہیں اور جباروں کی نسل سے ہیں اور ہم تو اپنی ہی نگاہ میں ایسے تھے جیسے ٹڈے ہوتے ہیں اور ایسے ہی ان کی نگاہ میں تھے۔ یہ بیان سن کر سارا مجمع چیخ اٹھا کہ ” اے کاش ہم مصر ہی میں مر جاتے یا کاش اس بیابان میں ہی مرتے۔ خداوند کیوں ہمیں اس ملک میں لے جا کر تلوار سے قتل کرانا چاہتا ہے؟ پھر تو ہماری بیویاں اور بال بچے لوٹ کا مال ٹھہریں گے۔ کیا ہمارے لیے بہتر نہ ہوگا کہ ہم مصر واپس چلے جائیں؟ پھر وہ آپس میں کہنے لگے کہ آؤ ہم کسی کو اپنا سردار بنا لیں اور مصر لوٹ چلیں۔ اس پر ان بارہ سرداروں میں سے جو فلسطین کے دورے پر بھیجے گئے تھے۔ دو سردار یوشع اور کالب اٹھے اور انہوں نے اس بزدلی پر قوم کو ملامت کی۔ کالب نے کہا ” چلو ہم یک دم جا کر اس ملک پر قبضہ کرلیں کیونکہ ہم اس قابل ہیں کہ اس پر تصرف کریں۔“ پھر دونوں نے یک زبان ہو کر کہا ” اگر خداوند ہم سے راضی رہے تو وہ ہمیں اس ملک میں پہنچائے گا فقط اتنا ہو کہ تم خداوند سے بغاوت نہ کرو اور نہ اس ملک کے لوگوں سے ڈرو اور ہمارے ساتھ خداوند ہے سو ان کا خوف نہ کرو۔“ مگر قوم نے جواب یہ دیا کہ ” انہیں سنگسار کردو۔“ آخر کار اللہ تعالیٰ کا غضب بھڑکا اور اس نے فیصلہ فرمایا کہ اچھا اب یوشع اور کالب کے سوا اس قوم کے بالغ مردوں میں سے کوئی بھی اس سر زمین میں داخل نہ ہونے پائے گا۔ یہ قوم چالیس برس تک بے خانماں پھرتی رہے گی یہاں تک کہ جب ان میں سے بیس برس سے لے کر اوپر کی عمر تک کے سب مرد مر جائیں گے اور نئی نسل جوان ہو کر اٹھے گی تب انہیں فلسطین فتح کرنے کا موقع دیا جائے گا۔ اس دوران وہ سب لوگ مر کھپ گئے جو جوانی کی عمر میں مصر سے نکلے تھے۔ شرق اردن فتح کرنے کے بعد حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا بھی انتقال ہوگیا۔ اس کے بعد یوشع بن نون کے عہد خلافت میں بنی اسرائیل اس قابل ہوئے کہ فلسطین فتح کرسکیں۔ ” من“ کے بارے میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد : (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) الْعَجْوَۃُ مِنَ الْجَنَّۃِ وَفِیہَا شِفَاءٌ مِّنَ السُّمِّ وَالْکَمْأَۃُ مِنَ الْمَنِّ وَمَاؤُہَا شِفَاءٌ لِلْعَیْنِ) (رواہ الترمذی : باب ماجاء فی الکمأۃ والعجوۃ) ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : عجوہ (کھجور کی ایک خاص قسم) جنت سے ہے اور اس میں زہر کے لیے شفا ہے اور کھنبی ” مَنْ“ سے ہے اور اس کا پانی آنکھوں کے لیے شفا کا باعث ہے۔“ مسائل ١۔ صحرائے سینا میں بنی اسرائیل پر بادل سایہ فگن رہتا تھا۔ ٢۔ اللہ نے حلال اور طیب چیزیں کھانے کا حکم دیا ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ کسی پر زیادتی نہیں کرتا۔ ٤۔ لوگ اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں۔ ٥۔ من کا معنٰی ہے میٹھی چیز، سلو ٰی نمکین تھا۔ ٦۔ اللہ ہی رزق دینے والا ہے۔ تفسیر بالقرآن ظالم کی سزا : ١۔ اللہ تعالیٰ کسی پر ظلم نہیں کرتا۔ (الحج : ١٠) ٢۔ اللہ تعالیٰ ظالموں سے محبت نہیں کرتا۔ (آل عمران : ١٤٠) ٣۔ ظالموں پر اللہ تعالیٰ کی پھٹکار ہوتی ہے۔ ( الاعراف : ٤٤) ٤۔ ظالم کامیاب نہیں ہوں گے۔ (الانعام : ٢١) ٥۔ قیامت کو ظالموں کا کوئی عذر قبول نہیں ہوگا۔ (المؤمن : ٥٢) البقرة
58 فہم القرآن ربط کلام : نواں احسان : دشمن پر غلبہ عطا فرمایا لیکن بنی اسرائیل نے اللہ تعالیٰ کا شکریہ ادا کرنے کی بجائے ناشکری کی اور ظلم وزیادتی کا بازار گرم رکھا۔ بیت المقدس میں بنی اسرائیل کے داخل ہونے کے واقعہ کے بارے میں مفسرین کے دو نقطہ نگاہ ہیں۔ ایک مکتب فکر کا خیال ہے کہ ان کا داخلہ جناب موسیٰ (علیہ السلام) کی وفات کے بعد ہوا تھا اور دوسروں کا نقطہ نظر یہ ہے کہ بنی اسرائیل حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی قیادت میں بیت المقدس میں داخل ہوئے تھے لیکن ٹھوس حقائق کی بنیاد پر اکثریت کا خیال یہ ہے کہ بنی اسرائیل حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد بیت المقدس میں داخل ہوئے تھے۔ ” حطۃ“ کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حضور سر جھکائے اس سے معافی مانگتے ہوئے اور لوگوں کے ساتھ در گزر کا رویہ اختیار کرتے ہوئے داخل ہونا لیکن انہوں نے اللہ تعالیٰ کے حکم کو یکسر تبدیل کردیا اور خدا فراموشی اور تکبر کا رویہ اختیار کر کے دنیا دار فاتحین کی طرح قتل و غارت اور لوٹ کھسوٹ کا مظاہرہ کیا جس کے بدلے میں ان پر طاعون کی بیماری مسلط کی گئی جس سے ان کی فتح کی خوشیاں غارت ہوئیں اور یہ ہزاروں کی تعداد میں موت کے گھاٹ اتر گئے۔ اللہ تعالیٰ ظالموں اور نافرمانوں کو ایسے بھی سزا دیا کرتا ہے۔ بظاہر بنی اسرائیل کا واقعہ بیان ہوا ہے لیکن اس میں ہر طاقت ور اور فاتح کے لیے ہدایت ہے کہ وہ متکبر اور ظالم بننے کے بجائے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہوئے مفتوحہ قوم کے ساتھ زیادہ سے زیادہ درگزر کا مظاہرہ کرے۔ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ قِیْلَ لِبَنِیْ إِسْرَاءِیْلَ (ادْخُلُوا الْبَابَ سُجَّدًا وَّقُوْلُوْا حِطَّۃٌ) فَدَخَلُوْا یَزْحَفُوْنَ عَلٰی أَسْتَاھِھِمْ فَبَدَّلُوْا وَقَالُوْا حِطَّۃٌ حَبَّۃٌ فِیْ شَعَرَۃٍ) (رواہ البخاری : کتاب تفسیر القرآن، باب وإذقلنا ادخلوا ھذہ القریۃ۔۔) ” حضرت ابوہریرہ (رض) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان فرماتے ہیں کہ بنی اسرائیل کو کہا گیا : (دروازے میں سجدہ کرتے ہوئے داخل ہونا اور بخشش مانگنا) تو وہ اپنی پیٹھوں کے بل گھسٹتے ہوئے داخل ہوئے اور ” حطۃ“ کی جگہ ” حَبَّۃٌ فِیْ شَعَرَۃٍ“ کہتے ہوئے داخل ہوئے۔“ (عَنْ أُسَامَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) إِنَّ ہٰذَا الطَّاعُونَ رِجْزٌ سُلِّطَ عَلٰی مَنْ کَانَ قَبْلَکُمْ أَوْ عَلٰی بَنِیْ إِسْرَاءِیلَ فَإِذَاکَانَ بِأَرْضٍ فَلَا تَخْرُجُوْا مِنْہَا فِرَارًا مِّنْہُ وَإِذَاکَانَ بِأَرْضٍ فَلَا تَدْخُلُوہَا) (رواہ مسلم : کتاب السلام، باب الطاعون والطیرۃ والکھانۃ ونحوھا) ” حضرت اسامہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : طاعون کی بیماری وہ عذاب ہے جسے تم سے پہلے کسی قوم یا بنی اسرائیل پر مسلط کیا گیا تھا۔ جب طاعون کی بیماری کسی علاقے میں پھیلی ہوئی ہو تو اس بیماری کی وجہ سے وہاں سے نہ نکلو اور جب کسی علاقے میں طاعون پھیلا ہوا ہو تو وہاں مت جاؤ۔“ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام (رض) کا کردار فتح مکہ کے موقع پر ملاحظہ فرمائیں کہ جب آپ نے مکہ فتح کیا تو اتنی عاجزی اور انکساری کے ساتھ شہر میں داخل ہوئے کہ آپ کا سر مبارک اس حد تک جھکا جا رہا تھا کہ آپ کی مبارک داڑھی سواری کے پلان کے ساتھ لگ رہی تھی اور آپ کی زبان اطہر سے اللہ تعالیٰ کے شکرانے کے الفاظ جاری تھے۔ اس موقع پر مجاہدین کو حکم صادر فرمایا کہ جو مخالف بیت اللہ یا ابو سفیان کے گھر میں داخل ہو یا اپنے گھر کے کواڑ بند کرلے اس پر کسی قسم کی دست درازی نہیں کرتا یہاں تک کہ مکہ سے نکل جانے والوں کا بھی پیچھا کرنے سے منع فرمایا۔ (ابن ہشام) مسائل ١۔ نیکی کرنے والوں کو اللہ زیادہ دیتا ہے۔ ٢۔ ظالم اللہ کے احکام تبدیل کردیتے ہیں۔ ٣۔ نافرمانوں پر اللہ کا عذاب نازل ہوتا ہے۔ ٤۔ فتح حاصل ہونے پر اللہ کا شکرادا کرنا چاہیے۔ ٥۔ فتح حاصل ہونے پر اپنے گناہوں کی معافی مانگنی چاہیے۔ ٦۔ فاتح کو مفتوح قوم کے ساتھ زیادہ سے زیادہ درگزر کرنی چاہیے۔ البقرة
59 البقرة
60 فہم القرآن ربط کلام : گزشتہ سے پیوستہ۔ سواں احسان : قبائل کی تعداد کا لحاظ رکھتے ہوئے ٹھنڈے، میٹھے پانی کے بارہ چشمے جاری فرمائے لیکن اس قوم نے صبح وشام من وسلوی اور ٹھنڈا پانی ملنے کے باوجود اللہ تعالیٰ کے احکام کی نافرمانی کی۔ قرآن مجید کا اسلوب بیان ہے کہ وہ کسی واقعہ کو زیب داستان اور حکایت گوئی کے لیے بیان نہیں کرتا یہی وجہ ہے کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) کے واقعہ کے سوا باقی تمام واقعات کو مختلف اجزاء کی صورت میں موقع محل کے مطابق بیان کیا گیا ہے اور کبھی یوں ہوتا ہے کہ کسی واقعہ کی کڑیوں اور اجزا کو تقدم و تاخر کے ساتھ بیان کرتے ہوئے ایک خاص نصیحت اور کیفیت پیدا کردی جاتی ہے۔ یہاں بھی ایسا ہی کیا گیا ہے تاکہ اس واقعہ میں یہودیوں کے مظالم اور نافرمانیوں کی فہرست یکجا بیان کی جائے قرآن کی تلاوت کرنے والا شخص فاسقوں اور نافرمانوں کی سرشت سے مکمل طور پر آگاہ ہو سکے۔ چنانچہ صحرائے سینا میں جب موسیٰ (علیہ السلام) سے پانی کا مطالبہ کیا گیا تو بنی اسرائیل کے قبائل کی تعداد کے مطابق بارہ چشمے جاری کیے گئے اس لیے کہ یہ پانی پینے پلانے پر جھگڑا کرنے کی بجائے پر امن طریقے سے اپنی اصلاح کی طرف متوجہ ہوں اور دشمن کے خلاف بھرپور انداز میں جہاد کی تیاری کرسکیں لہٰذا حکم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ اکل و شرب سے لطف اندوزی حاصل کرولیکن دنگا فساد سے بچو۔ اس حکم کے باوجود ناہنجار قوم نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے مطالبہ کر ڈالا کہ ایک ہی قسم کے کھانے پر اکتفا کرنا ہمارے لیے ہرگز ممکن نہیں ہمیں تو زمین کی پیدوار، ساگ، ترکاری، کھیرا، ککڑی، گیہوں، لہسن، پیاز اور دال چاہیے۔ جناب موسیٰ (علیہ السلام) نے بہت سمجھایا کہ تم ادنیٰ کو اعلیٰ اور بہتر کو کم تر کے ساتھ بدلنا چاہتے ہو؟ اس مطالبہ سے باز آجاؤ اور اللہ تعالیٰ کی ناشکری سے بچو لیکن بنی اسرائیل اپنے مطالبہ پر مصر رہے جس کے نتیجے میں انہیں حکم ہوا کہ شہر میں داخل ہوجاؤ جو کچھ تم نے چاہا ہے وہ تمہیں مل جائے گا۔ لیکن یاد رکھنا اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی ناقدری اور ناشکری کی وجہ سے تم پر ذلت اور غربت مسلط کردی گئی ہے اس طرح وہ اللہ کے غضب اور مسکینی کے مستحق ٹھہرے۔ کیونکہ یہ بار بار اللہ تعالیٰ کے احکام کا انکار کرنے والے اور انبیا کو قتل کرنے والے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ یہودی ارب پتی ہونے کے باوجود نہ سیر چشم ہوتا ہے اور نہ ہی اس کی ہوس کی آگ ماند پڑتی ہے اور دنیا میں اس قوم کو کبھی قرار نہیں حاصل ہوا۔ کبھی بخت نصر نے دربدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور کیا اور کبھی اہل روم نے انہیں اپنے ملک سے نکال دیا۔ سورۃ آل عمران آیت : ١١٢ میں وضاحت فرمائی ہے کہ انہیں دنیا میں قرار دو ہی وجہ سے حاصل ہوسکتا ہے اللہ کے ہو کر رہیں یا پھر دوسروں کے دست نگر ہو کر زندگی بسر کریں۔ یہی وجہ ہے کہ بڑی مدت کے بعد یہودی اسرائیل کے نام پر امریکہ اور یورپ کے سیاسی گداگر بلا کر اسرائیل کی ریاست قائم کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ خوردونوش کی فراوانی عطا فرمائے تو دنگا فساد کرنے کی بجائے اس کا شکریہ ادا کرنا چاہیے۔ ٢۔ اعلیٰ کی بجائے ادنیٰ چیز کی طلب کرنا مغضوب قوم کا طریقہ ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی ناقدری کرنے والے لوگ دنیا میں ذلیل اور آخرت کو سخت عذاب میں مبتلا ہوں گے۔ البقرة
61 البقرة
62 فہم القرآن ربط کلام : انعام واحسان کا ادراک اور ذلت و رسوائی کا احساس دلانے کے بعد حقیقی ایمان اور عمل صالح کا صلہ بتلایا گیا ہے۔ اس فرمان میں اس بات کی دو ٹوک انداز میں وضاحت کی گئی ہے کہ خالی خولی ایمان‘ حضرت یعقوب (علیہ السلام) کی اولاد ہونے کے حوالے سے یہودی کہلوانا‘ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ نسبت جوڑنا یا اپنے آپ کو صابی کہلوانے سے نجات نہیں ہوگی۔ نجات اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانے اور صالح اعمال سے ہوگی۔ مفسرین نے صابی کے دو معنیٰ کیے ہیں۔ آتش پرست یا بےدین یعنی سیکولر۔ بعض لوگوں نے زرتشت مراد لیے ہیں جو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت سے پہلے کا فرقہ ہے اور ایران میں پایا جاتا ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ زرتشت بھی اللہ کے نبی تھے۔ اللہ تعالیٰ کے نزدیک ایسے دعوؤں اور حسب ونسب کی کوئی حقیقت نہیں۔ اس کے حضور قابل قدر‘ اور لائقِ اجر بات اللہ تعالیٰ پر ایمان لانا اور آخرت کی جواب دہی کی تیاری ہے۔ یہاں رسالت مآب (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لانے کا اس لیے تذکرہ نہیں کیا کہ ایک تو ایمان باللہ مکمل ہی ایمان بالرسالت اور اس کے تقاضوں سے ہوتا ہے۔ دوسرا اس سے پہلے بنی اسرائیل کو یہی تو دعوت دی گئی ہے کہ جو کچھ ہم نے اپنے بندے پر نازل کیا اس پر ایمان لاؤ۔ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ آدمی یہودی ہو یا عیسائی یا کسی اور عقیدے پرہو اس کے لیے صرف اللہ پر ایمان لانا اور نیک اعمال ہی کافی ہیں۔ ان کی غلط فہمی دور کرنے کے لیے قرآن مجید نے کئی مقامات پر اس بات کو کھول کر بیان کیا ہے کہ جب تک نبی آخر الزماں (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان اور اس کی اطاعت نہیں کرو گے تمہارا ایمان قابل قبول نہیں ہوگا۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی محبت کو نبی آخر الزماں کی اطاعت کے ساتھ مشروط فرما دیا ہے۔ سورۃ آل عمران کی آیت ٣١ میں فرمایا کہ اگر تم میری محبت کے طلب گار ہو تو میرے رسول محمد مصطفی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اتباع کرو۔ اس سے نہ صرف تمہیں میری محبت حاصل ہوگی بلکہ تمہارے گناہ معاف اور تم پر رحم کیا جائے گا کیونکہ اللہ تعالیٰ معاف کرنے والا نہایت مہربان ہے۔ (یَٓأَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا أَطِیْعُوا اللّٰہَ وَأَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَلَا تُبْطِلُوْا أَعْمَالَکُمْ) (محمد : ٣٣) ” اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور اپنے اعمال برباد نہ کرو۔“ (عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ (رض) أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ (رض) أَتَی النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بِکِتَابٍ أَصَابَہٗ مِنْ بَعْضِ أَھْلِ الْکُتُبِ فَقَرَأَ ہُ النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَغَضِبَ فَقَالَ أَمُتَھَوَّکُوْنَ فِیْھَا یَاابْنَ الْخَطَّابِ وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہٖ لَقَدْ جِءْتُکُمْ بِھَا بَیْضَاءَ نَقِیَّۃً لَاتَسْأَلُوْھُمْ عَنْ شَیْءٍ فَیُخْبِرُوْکُمْ بِحَقٍّ فَتُکَذِّبُوْہُ بِہٖ أَوْ بِبَاطِلٍ فَتُصَدِّقُوْا بِہٖ وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہٖ لَوْ أَنَّ مُوسٰی ( علیہ السلام) کَانَ حَیًّا مَاوَسِعَہٗ إِلَّا أَنْ یَّتَّبِعَنِیْ) (مسند احمد : کتاب باقی مسند المکثرین، باب باقی المسند السابق) ” حضرت جابر بن عبداللہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) کے پاس اہل کتاب میں سے کچھ لوگ ایک کتابچہ لے کر آئے۔ حضرت عمر (رض) وہ کتابچہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس لائے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے پڑھا اور جس پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے غضب ناک ہو کر فرمایا : ابن خطاب ! کیا تم اس میں ذوق وشوق اور رغبت رکھتے ہو ؟ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! یقیناً میں تمہارے پاس صاف اور واضح شریعت لے کر آیا ہوں تم اہل کتاب سے جس چیز کے بارے میں بھی سوال کرو گے وہ تمہیں سچ بتائیں تم اس اسلام کو ان کی سچی خبر کی وجہ سے جھٹلادو یا ان کی جھوٹی خبر کی وجہ سے تصدیق کربیٹھو۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! اگر موسیٰ (علیہ السلام) بھی زندہ ہوجائیں تو انہیں بھی میری اتباع کے بغیر کوئی چارہ کار نہ ہوگا۔ مسائل ١۔ قیامت کے دن نجات کا دارومدار خالی خولی ایمان یا کسی مذہبی نسبت پر نہیں بلکہ نجات کا انحصار سچے ایمان اور صالح اعمال پر ہے، ایسے لوگ ہی خوف و غم سے آزاد ہوں گے۔ تفسیر بالقرآن ہدایت یافتہ لوگ پریشانیوں سے محفوظ ہوں گے : ١۔ ہدایت کی پیروی کرنے والے کو کوئی خوف نہیں۔ (البقرۃ : ٣٨) ٢۔ اللہ کے لیے خرچ کرنے والے کو کوئی خوف نہیں۔ (البقرۃ : ٢٦٢) ٣۔ نماز اور زکوٰۃ ادا کرنے والے کو کوئی خوف نہیں۔ (البقرۃ : ٢٧٧) ٤۔ اللہ کے دوستوں کو کوئی خوف نہیں۔ (یونس : ٦٢) ٥۔ ایمان پر استقامت دکھلانے والوں کو کوئی خوف نہیں۔ (الاحقاف : ١٣) ٦۔ متقی اور مصلح کو کوئی خوف نہیں۔ (الاعراف : ٣٥) البقرة
63 فہم القرآن ربط کلام : گیا رھواں احسان۔ بار بار جرائم کرنے کے باوجود اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو معافی دی اور اللہ تعالیٰ کا انہیں اپنے فضل و کرم سے نوازنا۔ بعض لوگوں کا نقطۂ نگاہ ہے کہ اللہ تعالیٰ انسان کو جبراً ہدایت کیوں نہیں دیتا ؟ حالانکہ وہ جانتے ہیں کہ انسان کو عقل و شعور کی دولت سے اس لیے مالا مال کیا گیا ہے کہ وہ حیوانوں اور جانوروں کے مقابلے میں اپنے نفع و نقصان کا خود فیصلہ کرسکے۔ تاکہ انسان اور حیوان کا فرق نمایاں رہے۔ اس لیے جبراً ہدایت دینے کا طریقہ اللہ تعالیٰ نے پسند نہیں فرمایا۔ لیکن پھر بھی ربِّ کریم نے لوگوں کی غلط فہمی دور کرنے کے لیے بنی اسرائیل کا واقعہ پیش فرمایا ہے۔ کیونکہ جبری ہدایت دیرپا نہیں ہوتی یہ اسی وقت تک رہتی ہے جب تک جبر کا ماحول قائم رہتا ہے۔ جونہی جبر کا خاتمہ ہوگا ہدایت کو دل سے قبول نہ کرنے والا انسان پھر گمراہی کی طرف پلٹ جائے گا۔ دائمی اور دیر پاہدایت وہی ہوتی ہے جو دل کی گہرائی اور عقل و شعور کی رسائی سے حاصل ہو۔ جبری ہدایت کا مطالبہ کرنے والوں کے لیے بنی اسرائیل کے واقعات نظر کشائی کے لیے کافی ہیں۔ یہاں اس واقعہ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ بنی اسرائیل کی مسلسل نا فرمانیوں اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے ان کے سروں پر کوہ طورمنڈلا کر حکم دیا گیا کہ مانتے ہو یا پہاڑ گرا کر تمہیں زمین کے ساتھ چپکا دیا جائے۔ اس موقعہ پر حکم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی نصیحت یاد کرو اور اللہ کا خوف اختیار کرتے ہوئے گناہوں سے بچ جاؤ۔ یہ لوگ اس وقت تو ایمان لے آئے لیکن جونہی ان کے سروں سے پہاڑ ٹل گیا وہ پہلے کی طرح سر کشی پر اتر آئے۔ اس عہد شکنی کے باوجود اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و رحمت سے انہیں مہلت عطا فرمائی تاکہ وہ از خود اپنی اصلاح کی طرف پلٹ آئیں۔ اگر اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم نہ ہوتا اور اے بنی اسرائیل ! تمہیں مہلت نہ دی جاتی تو تمہارا انجام تو اسی وقت ہی بدترین ہوتا اور تم ہمیشہ کے لیے نقصان پانے والوں میں سے ہوجاتے۔ یہاں واقعہ تو ماضی کا بیان کیا جا رہا ہے لیکن ضمائر مخاطب کی استعمال کی گئی ہیں۔ جس کا معنی یہ ہے کہ تمہارے اور تم سے پہلے لوگوں کے اعمال ایک جیسے ہوچکے ہیں۔ اور تم اپنے آپ کو انہی کا جانشین سمجھتے اور ان کا دفاع کرتے ہو۔ اگر ان کے سروں پر پہاڑ رکھا جا سکتا ہے تو تم پر عذاب نازل کرنا اللہ تعالیٰ کی قوت و سطوت سے کس طرح باہر ہو سکتا ہے۔ اس واقعہ سے یہ مسئلہ بھی واضح ہوا کہ ایمان کا دعویٰ کرنے والوں کو مسلم اتھارٹی جبراً اسلام کے احکام پر عمل کر وا سکتی ہے۔ اس لیے اسلامی حکومت پر حدود اللہ کا نفاذ فرض قرار دیا گیا ہے۔ جو حکمران اس کا نفاذ نہیں کرتے انہیں ظالم‘ فاسق اور کافر شمار کیا گیا ہے۔ [ المائدۃ: ٤٤ تا ٤٧] بچوں کو جبراً نماز پڑھانا چاہیے : (عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَیْبٍ عَنْ أَبِیْہِ عَنْ جَدِّہٖ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مُرُوْا أَوْلَادَکُمْ بالصَّلَاۃِ وَھُمْ أَبْنَاءُ سَبْعِ سِنِیْنَ وَاضْرِبُوْھُمْ عَلَیْھَا وَھُمْ أَبْنَاءُ عَشْرٍ وَفَرِّقُوْا بَیْنَھُمْ فِی الْمَضَاجِعِ) (رواہ ابوداوٗد : کتاب الصلاۃ، باب متی یؤمر الغلام بالصلاۃ) ” حضرت عمر و بن شعیب اپنے باپ سے وہ اپنے دادا (رض) سے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اپنی اولاد کو سات سال کی عمر میں نماز کا حکم دو اور دس سال کی عمر میں انہیں نماز کی وجہ سے سزا دو اور ان کے بستر جدا کر دو۔“ مسائل ١۔ ایمان کے دعوے دار کو جبراً عمل کروانا چاہیے۔ ٢۔ اللہ کے احکام پر عمل کرنے سے پرہیزگاری پیدا ہوتی ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ کے فضل کے بغیر ہر انسان گھاٹے میں ہے۔ تفسیر بالقرآن بنی اسرائیل کے منحرف ہونے کے واقعات : ١۔ اللہ کے احکام پر عمل کرنے کا وعدہ کرنے کے بعد انحراف کیا۔ (البقرۃ: ٦٤) ٢۔ اللہ کی عبادت، والدین، قریبی رشتہ داروں، یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ اچھا سلوک کرنے، لوگوں کو اچھی بات کہنے اور صوم و صلاۃ کی پابندی کا عہد کرنے کے بعد انحراف کیا۔ (البقرۃ: ٨٣) ٣۔ اپنوں کا خون بہانے اور قتل نہ کرنے کے عہد کے بعد منحرف ہوگئے۔ (البقرۃ: ٨٥) ٤۔ قیدیوں کو رشوت دے کر چھڑانے کی ممانعت کے باوجود باز نہ آئے۔ (البقرۃ: ٨٥) ٥۔ ہفتہ کے دن مچھلیاں پکڑنے کی ممانعت کے باوجود مچھلیاں پکڑنا۔ (البقرۃ: ٦٥) البقرة
64 البقرة
65 فہم القرآن ربط کلام : بنی اسرائیل کے انحراف کا مشہور واقعہ شکر گزاری کی بجائے بد عہدی کرتے ہوئے ہفتہ کے دن کی بے حرمتی کی اور اس کی سزا۔ بنی اسرائیل میں یہ واقعہ نسل در نسل زبان زدعام اور تورات وانجیل کے کئی صفحات پر پھیلا ہو اہے۔ اس لیے اس کی یاد دہانی کے لیے تفصیلات ذکر کرنے کے بجائے ایک اشارہ ہی کافی سمجھا گیا ہے۔ تاہم سورۃ الاعراف میں اس کی کچھ تفصیل بیان ہوئی ہے کہ تم وہ لوگ ہو کہ جب تمہاری ہی خواہش کے مطابق تمہارے لیے عبادت کا دن ” ہفتہ“ مقرر کیا گیا کہ اس دن تمہیں عبادت کرنے کے سوا کچھ نہیں کرنا چاہیے۔ تم نے اس دن میں بھی سر کشی اور تمرّد کے کئی راستے نکال لیے۔ ہوا یہ کہ مچھلیاں دوسرے دنوں کے بجائے ہفتہ کے روز کثرت کے ساتھ سمندر کی تہ پر تیرتی ہوئی دکھائی دیتی تھیں۔ انہوں نے ہفتہ کے دن مچھلی کا شکار نہ کیا لیکن سمندر کے متصل اس طرح کے بڑے بڑے گھاٹ تیار کیے کہ مچھلیاں خود بخود تالابوں میں بھر جاتیں اگلے دن انہیں پکڑ لیا جاتا۔ اس طرح انہوں نے ہفتہ کے دن کی بے حرمتی اور اللہ تعالیٰ کے قانون کی روح کو پامال کیا۔ جس کی پاداش میں ان کے چہروں کو تبدیل کر کے بندر کی شکل میں تبدیل کردیا تاکہ ان کے جیسے ذہن ہیں شکلیں بھی ویسی ہوجائیں۔ ان کے چہروں کو مسخ کر کے بستی کے گرد و جوار اور بعد میں آنے والے لوگوں کے لیے نشان عبرت بنا دیا گیا۔ اتنی ذلّت و رسوائی کے باوجودان کی اولادیں گناہوں سے بچنے کی بجائے اللہ کی نافرمانی میں آگے ہی بڑھتی چلی گئیں۔ نصیحت تو اللہ سے ڈرنے اور گناہوں سے بچنے والے ہی حاصل کرتے ہیں۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ بندروں کی نسل انہی لوگوں سے ہے۔ حالانکہ حدیث میں وضاحت پائی جاتی ہے کہ وہ بندر بننے کے تین دن بعد مر گئے۔ (رواہ مسلم : کتاب الجمعۃ) (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) أَنَّہٗ سَمِعَ رَسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَقُوْلُ نَحْنُ الْآخِرُوْنَ السَّابِقُوْنَ یَوْمَ القِیَامَۃِ بَیْدَ أَنَّھُمْ أُوْتُوا الْکِتَابَ مِنْ قَبْلِنَا ثُمَّ ھٰذَا یَوْمُھُمُ الَّذِیْ فُرِضَ عَلَیْھِمْ فَاخْتَلَفُوْا فِیْہِ فَھَدَانَا اللّٰہُ فَالنَّاسُ لَنَا فِیْہِ تَبَعٌ الْیَھُوْدُ غَدًا وَالنَّصَارٰی بَعْدَ غَدٍ) (رواہ البخاری : کتاب الجمعۃ، باب فرض الجمعۃ) ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے ہوئے سنا کہ ہم آخر میں آنے والے قیامت کے دن پہلے ہوں گے بے شک یہود ونصارٰی ہم سے پہلے کتاب دیئے گئے ہیں پھر ہفتہ اور اتوار کے دن کی عبادت ان پر فرض کی گئی انہوں نے اس میں اختلاف کیا تو اللہ تعالیٰ نے ہمیں ہدایت سے نواز دیا یہودی اور عیسائی ایام کے معاملہ میں ہمارے تابع ہیں یعنی شمار کرنے میں جمعہ کا دن پہلے ہفتہ اور اتوارکے دن بعد میں آتے ہیں۔ یہود ہفتہ اور عیسائی اتوار کے روز عبادت کرتے ہیں اور ہمارے لیے جمعہ افضل قرار دیا گیا ہے۔“ جمعہ کی فضیلت واہمیت : (عَنْ أَبِی الْجَعْدِ الضَّمْرِیِّوَکَانَتْ لَہٗ صُحْبَۃٌ عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ مَنْ تَرَکَ ثَلَاثَ جُمَعٍ تَھَاوُنًا بِھَا طَبَعَ اللّٰہُ عَلٰی قَلْبِہٖ) (رواہ النسائی : باب التشدید فی التخلف عن الجمعۃ) ” حضرت ابو الجعد الضمری کو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رفاقت حاصل رہی وہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : جو آدمی تین جمعے سستی کی وجہ سے چھوڑ دیتا ہے اللہ رب العزت اس کے دل پر مہر لگا دیتا ہے۔“ (عَنْ سَلْمَانَ الْفَارِسِیِّ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَنِ اغْتَسَلَ یَوْمَ الْجُمُعَۃِ وَتَطَھَّرَ بِمَا اسْتَطَاعَ مِنْ طُھْرٍ ثُمَّ ادَّھَنَ أَوْ مَسَّ مِنْ طِیْبٍ ثُمَّ رَاحَ فَلَمْ یُفَرِّقْ بَیْنَ اثْنَیْنِ فَصَلّٰی مَاکُتِبَ لَہٗ ثُمَّ إِذَاخَرَجَ الْإِمَامُ أَنْصَتَ غُفِرَ لَہٗ مَابَیْنَہٗ وَبَیْنَ الْجُمُعَۃِ الْأُخْرٰی) (رواہ البخاری : کتاب الجمعۃ، باب لایفرق بین اثنین یوم الجمعۃ) ” حضرت سلمان فارسی (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس نے جمعہ کے دن غسل کیا اور حسب توفیق صفائی کی پھر اس نے تیل یا خوشبو لگائی پھر وہ مسجد آیا اس نے دو آدمیوں کے درمیان جدائی نہ ڈالی اور اس نے جو اس کے لیے لکھی گئی نماز ادا کی پھر جب امام نکلا خاموش رہا تو اس کے ایک جمعہ سے لے کر دوسرے جمعہ تک کے گناہ معاف کردیے جائیں گے۔“ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَال الصَّلَوَاۃُ الْخَمْسُ وَالْجُمْعَۃُ إِلَی الْجُمْعَۃِ کَفَّارَۃٌ لِّمَا بَیْنَھُنَّ مَالَمْ تُغْشَ الْکَبَاءِرُ) (رواہ مسلم : باب الصلواۃ الخمس والجمعۃ إلی الجمعۃ۔۔) ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب کبیرہ گناہ کا ارتکاب نہ کیا جائے تو پانچ نمازیں اور جمعہ۔ جمعہ تک کے گناہوں کا کفارہ ہوتا ہے۔“ مسائل ١۔ یہودیوں کے لیے ہفتے کے دن مچھلیاں پکڑنا ممنوع تھا۔ ٢۔ یہودیوں نے ہفتہ کے دن کا احترام نہیں کیا۔ ٣۔ شعائر اللہ کا احترام نہ کرنے سے قومیں ذلیل ہوجاتی ہیں۔ البقرة
66 البقرة
67 فہم القرآن ربط کلام : بنی اسرائیل کے جرائم کی فہرست کا تسلسل جاری ہے۔ اللہ تعالیٰ کے احکام کو توڑنا اور تعمیل حکم سے روگردانی کرنے بنانے والوں نے حضرت موسیٰ کو غیر سنجیدہ ہونے کا الزام دیا۔ حضرت موسیٰ نے ایک اندھے قتل (Blind Murder) کا فیصلہ کرنے کے لیے قوم کے مشکوک افراد کو فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا تمہیں حکم ہے کہ کوئی ایک گائے ذبح کر کے اس کے گوشت کا کوئی ٹکڑا مقتول کی لاش کے ساتھ لگاؤ تو مردہ زندہ ہو کر اپنے قاتل کا پتہ بتلادے گا۔ لیکن موسیٰ (علیہ السلام) کی قوم بڑی گستاخ اور بہانہ ساز تھی۔ انہوں نے قتل چھپانے اور قاتلوں کو بچانے کے لیے الٹا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو کہا کہ آپ تو سراسر مذاق کر رہے ہیں۔ کبھی اس طرح بھی قتل کے مقدمہ کا فیصلہ ہوا ہے اور مردے زندہ ہوا کرتے ہیں ان کے انکار کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ وہ پہلے گائے پرستی کا شرک کرچکے تھے۔ جس کے اثرات باقی ہونے کی وجہ سے بہانے تراشنے لگے۔ مسائل ١۔ شرعی اور سنجیدہ مسئلہ یا پریشان حال کو مذاق کرنا پرلے درجے کی جہالت ہے۔ ٢۔ جہالت سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتے رہنا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن جاہل کون؟ ١۔ اللہ تعالیٰ کے علاوہ الٰہ بنانے والے جاہل ہیں۔ (الاعراف : ١٣٨) ٢۔ اللہ تعالیٰ کے احکام کے ساتھ مذاق کرنا جہالت ہے۔ (البقرۃ: ٦٧) ٣۔ اغلام بازی کرنے والے جاہل ہیں۔ (النمل : ٥٥) ٤۔ نبی محترم کو جاہلوں سے اعراض کی ہدایت تھی۔ (اعراف : ١٩٩) ٥۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے جہالت سے پناہ مانگی۔ (البقرۃ: ٦٧) ٦۔ حضرت نوح کو جہالت سے بچنے کا حکم۔ (ہود : ٤٦) ٧۔ جاہلوں سے بحث کی بجائے اجتناب اور اعراض کرنا چاہیے۔ (الفرقان : ٦٣) البقرة
68 فہم القرآن ربط کلام : گزشتہ سے پیوستہ۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا کہ میں اللہ تعالیٰ کی پناہ چاہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے نام پر آپ کے ساتھ غلط بیانی اور مذاق کروں۔ کیونکہ پریشانی کے وقت مذاق کرنا اور قتل جیسے مقدمے کو غیر سنجیدہ طور پر لینا سراسر جہالت ہے۔ پیغمبر کی شان تو انتہائی اعلیٰ اور ارفع ہوتی ہے۔ ایک ادنیٰ درجے کے معقول آدمی سے بھی توقع نہیں کی جا سکتی کہ وہ پریشانی کے موقعہ پر اس قسم کا مذاق کرے۔ لیکن حیلہ ساز اور مشرکانہ عقائد رکھنے والی قوم نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے کہا کہ تم ہمارے ساتھ مذاق کر رہے ہو۔ مکمل حکم آنے کے باوجود اپنا جرم چھپانے کے لیے۔ وہ سوال پر سوال کرتے چلے گئے۔ جن کے جواب میں یہ کہہ کر گائے کا تعین کیا گیا کہ وہ بوڑھی ہو نہ بچی بلکہ بھر پور جوان ہونی چاہیے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا کہ اگر تم مجرموں کا سراغ لگانے میں سنجیدہ ہو تو تمہیں اس حکم پر عمل کرنا چاہیے۔ لیکن انہوں نے گائے کی رنگت کے بارے میں سوال کر ڈالا۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا کہ اس کا رنگ گہرا زرد ہونا چاہیے تاکہ دیکھنے والوں کو بھلی اور خوبصورت لگے۔ رنگ اور عمرپوچھ لینے کے باوجود کہنے لگے یہ اوصاف تو کئی گائیوں میں پائے جاتے ہیں۔ اس کی مزید وضاحت ہونی چاہیے۔ بار بار کے حیلوں اور بہانوں کی وجہ سے ان کے ضمیر پر ایک بوجھ تھا۔ ضمیر کا بوجھ ہلکا کرنے، اپنی شرمندگی مٹانے اور گھمبیر صورت حال سے بچنے کے لیے انہوں نے کہا انشاء اللہ اس سوال کے بعد ہم اس حکم پر عمل کر گزریں گے۔ اب موسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے پھر وضاحت فرمائی کہ اس گائے کو آج تک ہل جوتنے اور کنواں چلانے میں استعمال نہ کیا گیا ہو۔ مزید یہ کہ اس کے پورے جسم پر کسی قسم کا کوئی داغ نہیں ہونا چاہیے۔ اس قدر بحث و تکرار اور سوالات واستفسارات کے بعد گائے ذبح کی۔ جس کے گوشت کا ایک ٹکڑا انہوں نے مقتول کی لاش کو لگایا تو اللہ تعالیٰ نے اس مردہ کو زندہ کیا۔ قتل کا گناہ : (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لَاتُقْتَلُ نَفْسٌ ظُلْمًا إِلَّا کَانَ عَلَی ابْنِ آدَمَ الْأَوَّلِ کِفْلٌ مِّنْ دَمِھَا لِأَنَّہٗ أَوَّلُ مَنْ سَنَّ الْقَتْلَ) (رواہ البخاری : باب خلق آدم وذریتہ ) ” حضرت عبداللہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جو بھی نفس ظلماً قتل کیا جاتا ہے اس کے خون کا گناہ آدم (علیہ السلام) کے پہلے بیٹے کو بھی ہوتا ہے کیونکہ اسی نے سب سے پہلا قتل کیا تھا۔“ (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ (رض) قَالَ قَال النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) أَوَّلُ مَایُقْضٰی بَیْنَ النَّاسِ فِی الدِّمَاءِ) (رواہ البخاری : باب قول اللہ تعالیٰ ومن یقتل مؤمنا متعمدا فجزاءہ جھنم ) ” حضرت عبداللہ (رض) بیان کرتے ہیں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : قیامت کے دن لوگوں کے درمیان سب سے پہلے خون کا فیصلہ کیا جائے گا۔“ مسائل ١۔ شریعت کے احکام میں قیل و قال اور بہانے تلاش کرنا یہودیوں کا طریقہ ہے جس سے اجتناب کرنا لازم ہے۔ البقرة
69 البقرة
70 البقرة
71 البقرة
72 فہم القرآن ربط کلام : بنی اسرائیل کی شریعت کے بارے میں عادات اور حیلہ سازیوں کے ذکر کے بعداصل واقعہ کا ذکر۔ چچاکی دولت پر قبضہ کرنے کے لیے رات کی تاریکیوں میں بھتیجوں نے چچا کو قتل کرکے اس کی لاش اپنے مخالفوں کے محلہ میں پھینک دی۔ جب صبح ہوئی تو خود ہی مدعی بن کر بے گناہوں کو اس قتل کا ذمہ دار ٹھہرانے لگے۔ قریب تھا کہ اس کے رد عمل میں مزید قتل و غارت شروع ہوجاتی لیکن حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے قاتلوں کا سراغ لگانے کے لیے ان کے سامنے اللہ تعالیٰ کا حکم رکھا کہ ایک گائے ذبح کرکے اس کے گوشت کا ایک ٹکڑا مقتول کی لاش کو لگایا جائے اس طرح مردہ زندہ ہو کر اپنے قاتلوں کی نشاندہی کردے گا۔ متعدد سوالات کے جواب میں مجبورًاانہوں نے اس حکم پر عمل کرتے ہوئے گائے ذبح کر کے اس کے گوشت کا ٹکڑا مقتول کی لاش کو لگایا۔ مقتول نے زندہ ہو کر اپنے قاتل کا نام بتلایا جس سے یہ لوگ مزید قتل و غارت سے محفوظ ہوئے اور مجرموں کو سزا ہوئی۔ اس حکم کی تعمیل پر ان کے گائے پرستی کے تصور کو کاری ضرب لگی جس سے اس بات کا مشاہدہ کر وایا گیا کہ گائے مشکل کشا اور معبود نہیں ہے جو اپنی جان نہیں بچا سکتی وہ مشکل کشا کس طرح ہو سکتی ہے اور یہ بھی واضح ہوا کہ جس طرح اس مقتول نے زندہ ہو کر قتل کی واردات اور اپنے قاتل کا نام بتلایا ہے ایسے ہی سب انسان قبروں سے زندہ ہو کر اپنے اپنے اعمال کا اقرار کریں گے اور بالآخر ہر کسی کو اس کے عمل کے مطابق جزاء وسزا ملے گی۔ مسائل مقتول کا زندہ ہونا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا معجزہ ہے جو مرنے کے بعد زندہ ہونے پر واضح دلیل ہے۔ نوٹ : موت کے بعد زندہ ہونے کے ثبوت ” البقرۃ آیت ٢٥٩“ کے تحت تفسیر بالقرآن میں ملاحظہ فرمائیں۔ البقرة
73 البقرة
74 فہم القرآن ربط کلام : احکام الٰہی کے مقابلہ میں حیلے بہانے کرنے سے دل پتھروں سے بھی زیادہ سخت ہوجاتے ہیں۔ انسان جب اللہ کے احکام سے سر تابی، مسلسل نافرمانیوں کا ارتکاب اور مسائل کی کھال اتارنے کی عادت اختیار کرلیتا ہے تو اس کا دل سخت سے سخت ہوجاتا ہے بالآخر مستقل طور پر گمراہی کے راستے پر چل نکلتا ہے۔ دل کی سختی اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کی علامت ہے۔ دل سخت ہوجائے تو ایمان کا بیج جسے آگے چل کر اعمال کی صورت میں پھل پھول لانے ہوتے ہیں وہ ابتدا ہی میں مردہ ہوجاتا ہے۔ جس طرح پتھروں کی کئی اقسام ہیں اسی طرح انسانوں کے دلوں کا حال ہے۔ پتھروں سے نہریں نکلتی، چشمے پھوٹتے اور خوف خدا سے ٹنوں وزنی پہاڑ سر کے بل زمین پر آ گرتے ہیں۔ لیکن افسوس انسانی دل گوشت کا ایک ٹکڑا ہونے کے باوجود پتھر سے سخت، پتھر سے سخت تر خوف خدا سے عاری ہوجاتا ہے جو اللہ تعالیٰ کے سامنے جھکنے اور اس کے حکم کے سامنے سرنگوں ہونے کے لیے تیار نہیں ہوتا اور اس پر کوئی نصیحت اثر نہیں کرتی۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک گرنے والے پتھروں اور بہنے والے چشموں کی وہ قدرو منزلت نہیں جو انسان کے دل سے نکلنے والی آہوں، اس کی آنکھوں سے بہنے والے آنسوؤں اور اس کے حضور جھکنے والی پیشانیوں کی ہے۔ آخر میں یہ اشارہ فرمایا کہ اے انسان ! جو اللہ فلک بوس پہاڑوں کی اقسام، میلوں تک پھیلی غاروں، چٹانوں اور ان میں سے پھوٹنے والے چشموں‘ چلنے والی آبشاروں اور بہنے والے پانی کے قطرات کو جانتا ہے وہ تیرے دل اور اعمال سے کس طرح بے خبر ہوسکتا ہے ؟ دل نرم کرنے کا طریقہ : ١۔ یتیم کے سر پر ہاتھ پھیرنا : (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) أَنَّ رَجُلًا شَکَا إِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَسْوَۃَ قَلْبِہٖ فَقَالَ لَہٗ إِنْ أَرَدْتَّ تَلْیِیْنَ قَلْبِکَ فَأَطْعِمِ الْمِسْکِیْنَ وَامْسَحْ رَأْسَ الْیَتِیْمِ) (مسند احمد : باب مسند أبی ھریرۃ) ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اپنے دل کی سختی کے متعلق شکایت کی تو آپ نے فرمایا : اگر تو اپنے دل کو نرم کرنا چاہتا ہے تو مسکین کو کھانا کھلا اور یتیم کے سر پر ہاتھ پھیر۔“ ٢۔ اللہ کا ذکر کرنا : (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَمْرٍو (رض) عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) أَنَّہٗ کَانَ یَقُوْلُ إِنَّ لِکُلِّ شَیْءٍ صِقَالَۃٌ وَإِنَّ صِقَالَۃَ الْقُلُوْبِ ذِکْرُ اللّٰہِ وَمَا مِنْ شَیْءٍ أَنْجٰی مِنْ عَذَاب اللّٰہِ مِنْ ذِکْرِ اللّٰہِ۔۔) (صحیح الترغیب للألبانی : ١٤٩٥) ” حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں آپ فرمایا کرتے تھے ہر چیز کی پالش ہوتی ہے دلوں کی پالش اللہ کا ذکر ہے اور اللہ کے ذکر سے زیادہ کوئی چیز اللہ کے عذاب سے نجات دینے والی نہیں ہے۔“ ٣۔ قرآن کی تلاوت کرنا : (إِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ إِذَا ذُکِرَ اللّٰہُ وَجِلَتْ قُلُوْبُھُمْ وَإِذَا تُلِیَتْ عَلَیْھِمْ اٰیٰتُہٗ زَادَتْھُمْ إِیْمَانًا وَّعَلٰی رَبِّھِمْ یَتَوَکَّلُوْنَ) (الأنفال : ٢) ” مومن تو وہ ہیں کہ جب ان کے سامنے اللہ کا ذکر کیا جائے تو ان کے دل کانپ اٹھتے ہیں اور جب انہیں اللہ کی آیات سنائی جائیں تو ان کا ایمان بڑھ جاتا ہے اور وہ اپنے رب پر توکل کرتے ہیں۔“ مسائل ١۔ گناہوں سے دل سخت ہوجاتے ہیں۔ ٢۔ اللہ کے ذکر سے دل نرم ہوتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن دل کی سختی کے اسباب : ١۔ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرنے سے دل سخت ہوتا ہے۔ (البقرۃ: ٧٤) ٢۔ عہد شکنی کی وجہ سے دل سخت ہوتا ہے۔ (المائدۃ: ١٣) ٣۔ اللہ کی یاد سے غافل ہونے والے دلوں کے لیے جہنم ہے۔ ( الزمر : ٢٢) ٤۔ برے اعمال کی وجہ سے دل زنگ آلود ہوجاتے ہیں۔ (المطففین : ١٤) البقرة
75 فہم القرآن ربط کلام : جن کے دلوں پر مہر قساوت لگ چکی ہو ان سے ایمان لانے کی توقع کرنا عبث ہے۔ اے امت محمدیہ کے لوگو! کیا تم اب بھی بہانہ باز، پتھر دل اور کلام اللہ کی تحریف کرنے والے لوگوں سے ایمان لانے کی امید باندھے ہوئے ہو ؟ حالانکہ ان کے جرائم اور عادات کا تفصیلی ریکارڈ تمہارے سامنے رکھ دیا گیا ہے۔ ایسے لوگوں سے ایمان اور خیر کی توقع رکھنا فضول ہے جو جان بوجھ کر قرآن مجید کا مفہوم ہی نہیں بدلتے بلکہ انہوں نے تورات و انجیل کے الفاظ تک بدل ڈالے ہیں۔ جس سے تورات و انجیل کے نزول کا مقصد فوت ہوگیا۔ یہودیوں نے تورات میں قطع و بریدکر کے بیت اللہ کے ساتھ اس کے بانی حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا تعلق منقطع کیا۔ حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کی جگہ جناب اسحاق (علیہ السلام) کو ذبیح اللہ ثابت کرنے کے لیے تاریخ کا ریکارڈ بدل ڈالا پھر اس سے بڑھ کر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے یہودی اور عیسائی ہونے کے جھوٹے دعوے کیے۔ حالانکہ ابراہیم (علیہ السلام) تورات اور انجیل کے نزول سے سینکڑوں سال پہلے رحلت فرما چکے تھے۔ ایسا وہ کسی غفلت یا لاعلمی کی بنا پر نہیں کرتے بلکہ جان بوجھ کر کرتے ہیں۔ مسائل ١۔ کلام اللہ کی تحریف کرنے والے سے خیر کی توقع رکھنا فضول ہے۔ ٢۔ پتھر دل، بہانہ ساز انسان کو اللہ تعالیٰ ہدایت نہیں دیتا۔ تفسیر بالقرآن کلام اللہ میں اہل کتاب کی تحریف کے مختلف طریقے : ١۔ آیات کو ان کے محل سے آگے پیچھے کردینا۔ (النساء : ٤٦) ٢۔ اپنی طرف سے کچھ باتیں گھڑ کر شامل کرنا۔ (البقرۃ: ٧٩) ٣۔ زبان مروڑ کر مفہوم بدل ڈالنا۔ (آل عمران : ٧٨) ٤۔ بنیادی باتیں چھوڑ کر مشتبہات کے پیچھے لگنا۔ (آل عمران : ٧) البقرة
76 فہم القرآن ربط کلام : جس طرح یہودی بہانہ ساز اور متلوّن مزاج ہیں، منافقوں کی بھی یہی عادات ہیں۔ منافقوں کی عادات کا ذکر کرتے ہوئے آیت ١٣ میں یہ بتلایا گیا تھا کہ یہ لوگ ایمان والوں کو ملتے ہیں تو ان کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے ایمان کے دعویدار بنتے ہیں اور جب اپنے مذہبی پیشواؤں اور لیڈروں کے پاس جاتے ہیں تو انہیں یقین دہانیاں کرواتے ہیں کہ ہم تمہارے ہی ساتھی ہیں۔ یہاں اہل کتاب کے اندرون خانہ کا انکشاف کرتے ہوئے بتلایا جارہا ہے کہ ان کے مذہبی رہنما ان سے کہتے ہیں کہ تورات و انجیل میں بیان ہونے والے حقائق جن میں نبی آخر الزماں (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن مجید کی تصدیق پائی جاتی ہے۔ ان کا مسلمانوں کے سامنے ذکر کرنا دانشمندی کے خلاف ہے۔ پھر یہ کہہ کر انہیں خوفزدہ کرتے ہیں کہ اس طرح دنیا میں مسلمانوں کے سامنے لا جواب اور آخرت میں تمہارے رب کے ہاں مسلمان تمہارے خلاف گواہی دیں گے۔ اپنی بات کو مؤثر بنانے کے لیے ان کے خطبا اور پیشوا بڑے معصوم بن کر اپنے تقو ٰی کی دھاک بٹھاتے ہوئے فکر آخرت کا تصوردے کر لوگوں کو حقائق کے انکشاف سے روکتے تھے۔ کیا وہ سمجھتے ہیں کہ اگر یہ لوگ ان حقائق کا انکشاف نہ کریں تو اللہ تعالیٰ سے یہ حقیقت چھپی رہ جائے گی؟ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے ہی تورات‘ انجیل نازل فرمائی ہیں۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ دلوں کے بھید، لوگوں کی اعلانیہ اور پوشیدہ حرکات و افعال کو جانتا ہے۔ انہیں معلوم نہیں کہ اللہ تعالیٰ سب کچھ جانتا ہے جو وہ چھپاتے اور جو کچھ ظاہر کرتے ہیں۔ آخرت میں ان کے ظاہر اور باطن کو طشت ازبام کردیا جائے گا۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ انسان کے باطن اور ظاہر سے واقف ہے۔ یہ عقیدہ انسان کو گناہوں سے بچاتا ہے۔ البقرة
77 البقرة
78 فہم القرآن ربط کلام : اہل کتاب کے علماء کی دیکھا دیکھی ان کا ان پڑھ طبقہ یعنی عوام الناس بھی بے بنیاداُمیدیں لگائے ہوئے ہے۔ یاد رہے کہ مذہبی پیشواؤں اور سیاسی راہنماؤں کے منفی اور مثبت اثرات عوام پر ضرور اثر انداز ہوا کرتے ہیں۔ علمائے یہود نے حسب ونسب، مصنوعی تقدُّس اور مذہب کا نام لے کر خود ساختہ رسومات کو عوام کے ذہن پر اس طرح مسلط کردیا تھا جس سے عوام سمجھنے لگے کہ فقط بزرگوں کا احترام‘ علماء کی خدمت اور مذہبی رسومات ہی اصل دین ہے۔ حالانکہ ان تصورات کی کوئی بنیاد نہیں تھی کہ جس اساس پر وہ اپنے آپ کو جنت کا ٹکٹ ہولڈر سمجھتے اور یہ امید لگابیٹھے تھے کہ بخشش کے لیے بزرگوں سے محبت اور ان کے دامن کے ساتھ وابستہ ہونا ہی کافی ہے۔ یہاں ان کے بے بنیاد نظریات کی نفی کرتے ہوئے واضح کیا گیا ہے کہ دین صرف جذبات اور خوش کن تصورات کا نام نہیں ہے۔ اس کے لیے تو باطل نظریات کو چھوڑنا‘ بے بنیاد تصورات سے نجات پانا اور جان و مال کی قربانی دینا پڑتی ہے۔ ( عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ أَبِیْ قِرَادٍ (رض) أَنَّ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تَوَضَّأَ یَوْمًا فَجَعَلَ أَصْحَابُہٗ یَتَمَسَّحُوْنَ بِوَضُوْءِہٖ فَقَالَ لَھُمُ النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وَمَاحَمَلَکُمْ عَلٰی ھٰذَا قَالُوْا حُبُّ اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ فَقَال النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَنْ سَرَّہٗ أَنْ یُّحِبَّ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ أَوْ یُحِبُّہُ اللّٰہُ وَرَسُوْلُہٗ فَلْیَصْدُقْ حَدِیْثَہٗ إِذَا حَدَّثَ وَلْیُؤَدِّ أَمَانَتَہٗ إِذَا اءْتُمِنَ وَلْیُحْسِنْ جَوَارَ مَنْ جَاوَرَہٗ) (بیھقی فی شعب الإیمان۔ ١٥٣٣) ” حضرت عبدالرحمن بن ابی قراد (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک دن وضو کیا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اصحاب آپ کے وضو کے پانی کو اپنے جسموں پر ملنے لگے۔ نبی محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے استفسار فرمایا تم اس طرح کیوں کررہے ہو؟ انہوں نے عرض کی، اللہ اور اس کے رسول کی محبت کی بنا پر۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس شخص کو یہ بات اچھی لگتی ہو کہ وہ اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرے یا اللہ اور اس کا رسول اس سے محبت کریں تو اسے چاہیے کہ جب بات کرے تو سچ بولے اور جب اس کے پاس امانت رکھی جائے تو امانت کا حق ادا کرے اور اپنے ہمسائیوں سے اچھا برتاؤ کرے۔“ مسائل ١۔ بے بنیاد خواہشات نجات کا ذریعہ نہیں بن سکتیں۔ البقرة
79 فہم القرآن ربط کلام : اہل کتاب کا حال یہ ہے کہ ایک طرف اپنے نیک اور جنتی ہونے کے بلند و بالا دعوے کرتے ہیں اور دوسری طرف خود ساختہ تصورات اور ذاتی خیالات کو تورات و انجیل کی زبان میں ڈھال بنا کر لوگوں کا مال بٹورتے اور سیاسی مفادات حاصل کرتے ہیں۔ یہودونصاریٰ کے علماء اور ان کے حکام نے اپنی کتابوں کی صرف تاویلات و تحریفات اور ان کے الفاظ میں تغیر و تبدل ہی نہیں کیا بلکہ اس سے آگے بڑھ کر اپنی تاویلات اور نظریات کو وحی الٰہی کا رنگ دے کر تورات وانجیل میں اس کا اندراج کردیا تھا۔ قرآن مجید کی حفاظت کا اللہ تعالیٰ نے ذمہ لیا ہے جس کی وجہ سے امت محمدیہ کے پیشہ ورعلماء اور مفاد پرست حکمران قرآن مجید میں کمی بیشی اور تبدیلی تو نہیں کرسکے البتہ تشریح و تفسیر کے پردے میں قرآن مجید کے معانی ومفاہیم میں تبدیلی کرنے سے گریز نہیں کرتے اور اپنے اپنے گروہی نظریات اور شخصی تفردات کو قرآن وسنت بنا کر پیش کرتے ہیں۔ ذاتی اور جماعتی مفادات اٹھاتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی کمائی اور ان کے اعمال جہنم میں داخلے کا باعث ہوں گے۔ تورات و انجیل میں ترمیم و اضافے : One story tells that man was created before the animals, while another tells us that the animals were created before man. (George Barcaly: The Making and Meaningof the Bible, p.48) ” ایک کہانی یہ بیان کرتی ہے کہ انسان جانوروں سے پہلے پیدا کیا گیا جبکہ دوسری ہمیں یہ بتاتی ہے کہ جانور انسانوں سے پہلے بنائے گئے۔“ کتاب پیدائش کے دوسرے باب کے پہلے باب سے اس فرق کے بارے میں کیتھولک بائبل میں نوٹ لکھا ہے : This account ...... comes from a different source and is composed in a very differnt style. (Catholic Bible (RSV) p.995) ” یہ بیان کسی دوسرے ذریعے سے آیا ہے اور پہلے باب سے بالکل مختلف طرز تحریر میں لکھا ہوا ہے۔“ ایک اور مسیحی مصنف لکھتا ہے : So many different minds are represented in the pages of the New testament, so many writ ers with differing personalities and points of view. (William Neil: The Bible Story, London, 1975, p.215 --- Also see" Interprentation" --- A Journal of Bible The ecology, Viginia vol. 37 (July 1983) p.20) ” عہد جدید (اور بائبل کے دوسرے حصوں) کے صفحات بہت سے مختلف دماغوں اور بہت سے لکھنے والوں (کی کاوش) کا نتیجہ ہیں‘ جن کی شخصیات اور نقطہ ہائے نظر آپس میں مختلف ہیں۔“ ول ڈیورنٹ نے لکھا : It is clear that there are many contradictions between one Gospel and another, many dubious statements of history............ (Will Dusrant : The story of Civilisation, New York, 1957, vol. 3) ” یہ بات واضح ہے کہ ایک انجیل کے دوسری انجیل سے بہت تضادات ہیں‘ اور ان کے بہت سے بیانات تاریخی طور پر مشکوک ہیں۔“ [ عیسائیت تجزیہ ومطالعہ از ساجد میر] (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ أَنَّ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَرَّ بِسَخْلَۃٍ جَرْبَاءَ قَدْ أَخْرَجَہَا أَہْلُہَا قَالَ تُرَوْنَ ہَذِہِ ہَیِّنَۃً عَلَی أَہْلِہَا؟ قَالُوا نَعَمْ قَالَ وَاللَّہِ لَلدُّنْیَا أَہْوَنُ عَلَی اللَّہِ مِنْ ہَذِہِ عَلَی أَہْلِہَا) (سنن دارمی : باب فی ہو ان الدنیا علی اللہ) ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا گزر بکری کے مردہ بچے کے پاس سے ہوا۔ جس کو اسکے اہل والوں نے باہر پھینک دیا تھا۔ آپ نے فرمایا کہ تم ا سے اس کے اہل والوں پر بے فائدہ تصور کرتے ہو ؟ انہوں نے کہا ہاں! آپ نے فرمایا اللہ کی قسم! دنیا اللہ کے نزدیک اس مردہ بکری کے بچے سے بھی کم تر ہے۔“ مسائل ١۔ دین کی غلط تشریح کرکے دنیا کمانے والوں کے لیے جہنم اور ہلاکت ہے۔ تفسیر بالقرآن آخرت کے مقابلے میں دنیا کی حیثیت : ١۔ آخرت بہتر اور باقی رہنے والی ہے۔ (الاعلیٰ: ١٧) ٢۔ دنیا کھیل اور تماشا ہے۔ (الانعام : ٣٢) ٣۔ آخرت کے مقابلے میں دنیا کی زندگی عارضی ہے۔ (الرعد : ٢٦) ٤۔ دنیا کی زندگی محض دھوکے کا سامان ہے۔ (الحدید : ٢٠) ٥۔ دنیا عارضی اور آخرت پائیدار ہے۔ (المؤمن : ٣٩) البقرة
80 فہم القرآن ربط کلام : نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے میں اہل کتاب خود ساختہ عقائد کی بنیاد پر یہ دعویٰ کرتے تھے اور آج ان کا دعوٰی ہے کہ ہم گنتی کے چند دن جہنم میں ڈالے جائیں گے۔ اس کے بعد جنت ہماری اور ہم جنت کے وارث ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک‘ نبی آخر الزماں (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کا انکار اور بھاری جرائم میں ملوث ہونے کے باوجود یہودیوں کی خوش فہمیوں کی انتہا یہ تھی اور ہے کہ وہ بڑی بے باکی کے ساتھ تورات کے حوالے سے دعویٰ کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی اولاد ہونے کے ناطے سے ہم جہنم میں نہیں جا سکتے۔ سوائے ان چند دنوں کے جن دنوں میں ہمارے بزرگوں نے بچھڑا پوجنے کی غلطی کی تھی۔ اس دعویٰ کی قلعی کھولنے کے لیے ان سے سوال کیا جا رہا ہے کہ کیا تم نے اللہ تعالیٰ سے یہ عہد لے رکھا ہے کہ جس کی خلاف ورزی کی اللہ تعالیٰ سے توقع نہیں کی جا سکتی؟ اگر تم اس دعویٰ میں سچے ہو تو تمہیں کوئی ثبوت پیش کرنا چاہیے۔ درحقیقت یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے بارے میں بے بنیاد اور جہالت کی بات کرتے ہیں۔ فرقہ پرستی کے مضمرات میں سے ایک یہ بات بھی ہے کہ ہمارے بعض علماء اور مشائخ نے اس سے دو قدم آگے بڑھ کر اپنے عقیدت مندوں اور مریدوں میں یہ تاثر پیدا کر رکھا ہے کہ جنت میں جانے کے لیے ضروری ہے کہ آدمی کسی پیر کا مرید یا کسی امام کا مقلد ہوجائے۔ حالانکہ اس نظریہ کی دلیل قرآن وسنت میں نہیں پائی جاتی۔ مسائل ١۔ یہودیوں کا عقیدہ شرعی حقائق کے منافی اور عدل و انصاف کے اصولوں کے خلاف ہے۔ ٢۔ من گھڑت دینی مسائل اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھنے کے مترادف ہیں۔ تفسیر بالقرآن قیامت کے دن کا معاملہ : ١۔ ہر ایک کو اس کے اپنے اعمال کام آئیں گے۔ (البقرۃ: ١٣٤) ٢۔ کوئی کسی کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔ (الانعام : ١٦٤) ٣۔ کوئی کسی کے اعمال کا ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جائے گا۔ (فاطر : ٤٣) ٤۔ کسی کے گناہ کے متعلق کسی دوسرے سے نہیں پوچھا جائے گا۔ ( الرحمن : ٣٩) البقرة
81 فہم القرآن ربط کلام : من گھڑت تصورات اور بد اعمالیاں آدمی کو جہنم میں لے جائیں گی جبکہ جنت کے وارث تو صاحب ایمان اور صالح اعمال کرنے والے لوگ ہی ہوں گے۔ اہل کتاب اور ہر فرد کو یہ باور کروایا جا رہا ہے کہ بلند بانگ دعوے، دل کش نعرے، حسب ونسب کے امتیازات اور بزرگوں کے ساتھ نسبت اس شخص کو کچھ فائدہ نہیں دے سکتے جو ایمان سے عاری اور تادم مرگ شرک وبدعت میں ملوث رہا ہو اسے ہر حال میں جہنم کے دہکتے ہوئے انگاروں میں جانا ہے اور ان میں ہمیشہ رہنا ہوگا۔ اس کے برعکس کوئی شخص اعلیٰ حسب و نسب اور بڑے بڑے امتیازات و القابات سے محروم‘ مگر صاحب ایمان وکردار ہو۔ ایسے لوگ جہاں کہیں کے رہنے والے اور جو بھی ہوں اگر ان کا دامن ایمان کی نعمت اور کردار کی دولت سے مالا مال ہے تو وہ جنت میں ضرور جائیں گے اور وہاں انہیں حیات جاوِداں حاصل ہوگی۔ یاد رہے کہ یہاں زندگی بھر گناہوں میں گھرے ہوئے سے مراد کفر و شرک اور بدعات میں ملوّث ہونے والا شخص ہے۔ (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لَایَدْخُلُ الْجَنَّۃَ مَنْ کَانَ فِیْ قَلْبِہٖ مِثْقَالُ حَبَّۃٍ مِّنْ خَرْدَلٍ مِّنْ کِبْرٍ وَّلَا یَدْخُلُ النَّارََ مَنْ کَانَ فِیْ قَلْبِہٖ مِثْقَالُ حَبَّۃٍ مِّنْ إِیْمَانٍ ) (رواہ الترمذی : کتاب البر والصلۃ، باب ماجاء فی الکبر) ” حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر تکبر ہوگا وہ جنت میں داخل نہیں ہوگا اور جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر ایمان ہوگا جہنم میں داخل نہیں ہوگا۔“ مسائل ١۔ کفرو شرک اور کبیرہ گناہ کا مرتکب اگر توبہ کے بغیر مرجائے تو وہ جہنم میں ہمیشہ ہمیشہ رہے گا۔ ٢۔ ایمان خالص اور عمل صالح اپنانے والے لوگ ہمیشہ ہمیشہ جنت میں رہیں گے۔ البقرة
82 البقرة
83 فہم القرآن ربط کلام : یہودی دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم نے اللہ تعالیٰ سے وعدہ لیا حالانکہ یہود نے اللہ تعالیٰ سے کوئی وعدہ نہیں لیا البتہ اللہ تعالیٰ نے ضرور ان سے ان باتوں کا وعدہ لیا ہوا ہے۔ ہر دور میں دین کے بنیادی ارکان اور احکام ایک ہیں اور ان کی ترتیب بھی ایک جیسی ہی رہی ہے۔ سب سے پہلے خالص اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنا جسے حقوق اللہ کہا جاتا ہے۔ حقوق اللہ کے بعد والدین کی تابعداری اور ان کے ساتھ احسان کرنا ہے۔ اور ان کے ساتھ قریبی رشتہ داروں، یتیموں، مسکینوں کے ساتھ اچھا سلوک کرنا، لوگوں سے اچھی بات کہنا، نماز کا اہتمام کرنا اور زکوٰۃ ادا کرنا ہے۔ بے شک اللہ تعالیٰ رب اور خالق ہے لیکن اس نے اپنی تخلیق اور ربوبیت کا ذریعہ والدین کو بنایا ہے اس لیے اپنی ذات کے بعد اس نے اس مقدس رشتہ کو تقدیس و تکریم دیتے ہوئے ہدایات فرمائیں کہ اولاد کو چاہیے کہ اپنے والدین کے ساتھ ہر دم اچھا سلوک کرتی رہے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قرآن مجید کی اسی ترتیب کا خیال رکھتے ہوئے ارشادات فرمائے : (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَسْعُوْدٍ (رض) قَالَ سَأَلْتُ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) أَیُّ الْعَمَلِ أَحَبُّ إِلَی اللّٰہِ قَال الصَّلَاۃُ عَلٰی وَقْتِہَا قَالَ ثُمَّ اَیٌّ قَالَ ثُمَّ بِرُّ الْوَالِدَیْنِ قَالَ ثُمَّ اَیٌّ قَالَ الْجِہَادُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ) (رواہ البخاری : کتاب مواقیت الصلوۃ ) ” حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں سب سے زیادہ پسندیدہ عمل کون سا ہے؟ آپ نے فرمایا : نمازوقت پر ادا کرنا۔ پھر پوچھا تو فرمایا والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرنا۔ اس کے بعد پوچھنے پر آپ نے فرمایا اللہ کی راہ میں جہاد کرنا۔“ (عَنْ بَھْزِ بْنِ حَکِیْمٍ عَنْ أَبِیْہِ عَنْ جَدِّہٖ قَالَ قُلْتُ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَنْ أَبَرُّّ قَالَ أُمَّکَ ثُمَّ أُمَّکَ ثُمَّ أُمَّکَ ثُمَّ أَبَاکَ ثُمَّ الْأَقْرَبَ فَالْأَقْرَبَ) (رواہ ابو داؤد : باب فی بر الوالدین) ” بہز بن حکیم اپنے باپ سے اور وہ اپنے والد سے بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا : میں نے پوچھا اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! میں کس سے اچھا سلوک کروں؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اپنی ماں سے پھر اپنی ماں سے پھر اپنی ماں سے پھر اپنے باپ سے اور پھر قریبی رشتہ داروں سے۔“ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کَافِلُ الْیَتِیْمِ لَہٗ أَوْلِغَیْرِہٖ أَنَا وَھُوَ کَھَاتَیْنِ فِی الْجَنَّۃِ وَأَشَارَ مَالِکٌ بالسَّبَابَۃِ وَالْوُسْطٰی) (رواہ مسلم : باب الإحسان إلی الأرملۃ۔۔) ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اپنے رشتہ دار یا کسی دوسرے یتیم کی پرورش کرنے والا اور میں جنت میں ایسے ہوں گے۔ راوی نے درمیانی اور انگشت شہادت سے اشارہ کیا۔“ (عَنْ عَاءِشَۃَ (رض) أَنَّ الْیَھُوْدَ دَخَلُوْا عَلَی النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَقَالُوْا أَلسَّامُ عَلَیْکَ فَلَعَنَتْھُمْ فَقَالَ مَالَکِ قُلْتُ أَوَلَمْ تَسْمَعْ مَاقَالُوْا قَالَ فَلَمْ تَسْمَعِیْ مَاقُلْتُ وَعَلَیْکُمْ) (رواہ البخاری : باب الدعاء علی۔۔ ) اچھی بات کا حکم : ” حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ یہودیوں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آکر کہا : السّام علیک کہ تجھ پر ہلاکت ہو۔ حضرت عائشہ (رض) نے ان پر لعنت کی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا : عائشہ ! تجھے کیا ہوا ؟ حضرت عائشہ (رض) نے عرض کیا کہ آپ نے ان کی بات نہیں سنی۔ فرمایا تو نے میری بات نہیں سنی میں نے وعلیکم کہا کہ تم پر بھی ہو۔“ بیوہ اور مسکین کے ساتھ حسن سلوک کی فضیلت : (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَال النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) السَّاعِیْ عَلَی الْأَرْمَلَۃِ وَالْمِسْکِیْنِ کَالْمُجَاھِدِ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ أَوِ الْقَاءِمِ اللَّیْلَ الصَّاءِمِ النَّھَارَ) (رواہ البخاری : باب فضل النفقۃ علی الأھل] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بیوہ اور مسکین پر نگران اللہ کی راہ میں مجاہد کی طرح ہے یا رات کو قیام اور دن کو روزہ رکھنے والے کی طرح ہے۔“ مسائل ١۔ صرف ایک اللہ کی عبادت کرنا، والدین سے حسن سلوک کرنا، رشتہ داروں، یتیموں اور مسکینوں سے اچھا برتاؤ کرنا اور ہمیشہ اچھی بات کہنا، نماز اور زکوٰۃ کی ادائیگی کا اہتمام کرنا اللہ تعالیٰ سے عہد نبھانے کے مترادف ہے۔ تفسیر بالقرآن مقام والدین : ١۔ بنی اسرائیل سے والدین کے ساتھ احسان کا عہدلیا گیا۔ (البقرۃ: ٨٣) ٢۔ والدین سے نیکی کرنے کا حکم۔ (بنی اسرائیل : ٢٣) ٣۔ والدین کو اف کہنا اور جھڑکناجائز نہیں۔ (بنی اسرائیل : ٢٣) ٤۔ والدین کے سامنے عاجزی سے رہنا اور ان کے لیے دعا کرنی چاہیے۔ (بنی اسرائیل : ٢٤) ٥۔ غیر مسلم والدین کے ساتھ بھی اچھا سلوک کرنا چاہیے۔ (لقمان : ١٥) (دیگر احکام کے بارے میں اگلے مقامات پر وضاحت ہوگی) البقرة
84 فہم القرآن ربط کلام : گزشتہ عہد کا حصہ۔ اللہ تعالیٰ نے جس طرح بنی اسرائیل سے اپنی بندگی اور والدین کے ساتھ حسن سلوک، یتامٰی و مساکین کے ساتھ تعاون اور لوگوں سے خوش اخلاقی و خوش گفتاری کے ساتھ پیش آنے، نماز اور زکوٰۃ کا عہد لیا تھا۔ اسی طرح ان سے یہ عہد بھی لیا تھا کہ آپس میں دنگا فساد کرنے کے بجائے ایک دوسرے کے حقوق کا خیال رکھتے ہوئے صلح وآشتی کے ساتھ رہنا۔ لیکن انہوں نے نہ صرف اس عہد کی مخالفت کی بلکہ قتل و غارت اور ظلم و زیادتی کا بازار گرم کیا۔ طاقت ور کمزور کے لیے وحشی درندے کی شکل اختیار کر گیا۔ ماضی میں جو کچھ فرعون ان کے ساتھ کیا کرتا تھا انہوں نے اس سے بڑھ کر اپنے لوگوں پر ظلم ڈھائے کہ کمزور طبقات کو ان کے گھروں سے نکلنے پر مجبور کردیا۔ طاقتور قبائل اپنی برتری قائم رکھنے کے لیے ایک دوسرے کو لڑایا کرتے اور پھر لوگوں کے سامنے سچا ہونے اور اپنے آپ کو مظلوموں کا خیر خواہ ثابت کرنے کے لیے حقوق انسانیت کے علمبردار بن جاتے اور مغلوب قبیلے کے قیدیوں کو رہائی دلانے کے لیے فدیے کا بندوبست کرتے تاکہ یہ لوگ ہمیشہ کے لیے ان کے ممنون رہیں۔ جس طرح امریکہ، برطانیہ اور دیگر اتحادیوں نے پہلے 2001 ء میں افغانستان اور عراق کے لاکھوں بے گناہ لوگوں کو شہید کیا اور پھر انسانیت اور تعمیر نو کے نام پر اپنے مفاد کے لیے کروڑوں ڈالر خرچ کیے اور لوگوں کو خوراک اور ادویات مہیا کیں تاکہ دنیا کو باور کرایا جائے کہ ہم ظالم نہیں خیر خواہ اور انسان دوست لوگ ہیں۔ مسائل ١۔ بنی اسرائیل سے کشت و خون نہ کرنے کا عہد لیا گیا۔ ٢۔ بنی اسرائیل سے اپنے لوگوں کو دربدر نہ کرنے کا عہد لیا گیا۔ البقرة
85 فہم القرآن ربط کلام : بنی اسرائیل نے نہ صرف اللہ تعالیٰ سے کیے ہوئے عہد کو توڑا بلکہ اس حد تک عہد شکن ثابت ہوئے کہ انہوں نے باہمی تعلقات کو توڑتے ہوئے اپنوں میں سے کمزور لوگوں کو ان کے گھروں سے نکال باہر کیا۔ اس بات پر یہودیوں کو سمجھایا گیا ہے کہ مظلوموں کی حالت زار تمہاری سیاست اور مذموم منصوبہ بندی کا نتیجہ ہے جبکہ تورات میں تمہیں اس بات سے منع کیا اور تم سے عہد لیا گیا تھا کہ اپنوں کو قتل کرنا اور کمزوروں کو ان کے گھروں سے نکالنا سنگین اخلاقی اور معاشرتی جرم ہے۔ یہاں بار بار مخاطب کی ضمیر لا کر انہیں شرم دلائی جارہی ہے کہ یہ تمہارے ہی ہم نسب اور ہم وطن ہیں۔ جن میں سے کچھ کو تم قتل کردیتے ہو اور کچھ کو ان کے گھروں سے نکال کر باہر پھینکتے ہو۔ تمہاری سازشوں کی وجہ سے وہ غلامی کی زنجیروں میں جکڑے جاتے ہیں۔ اس کے بعد فدیہ دے کر چھڑاتے ہو۔ ایسا کرنا نہ صرف اخلاقی جرم ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کی کتاب کا مذاق اڑانے کے مترادف ہے کہ کلام اللہ کے جس حصہ پر چاہا عمل کرلیا اور جس سے دنیا کے نقصان کا اندیشہ ہوا اسے چھوڑ دیا۔ اس طرح نہ صرف شریعت بازیچۂ ا طفال بن جاتی ہے بلکہ آدمی کی طبیعت میں مستقل طور پر منافقت اور مفاد پرستی پیدا ہوجاتی ہے۔ جس کی سزا دنیا میں ذلت و رسوائی اور آخرت میں شدید ترین عذاب ہے۔ جو لوگ دین کے مقابلے میں دنیا کو ترجیح دیتے ہیں اور خیر خواہی کرنے کی بجائے ایک دوسرے پر ظلم کرتے ہیں ان پر نہ آخرت کا عذاب ہلکا ہوگا اور نہ ہی کوئی ان کی مدد کرنے والا ہوگا۔ ” نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ میں انصار ( جو اسلام سے قبل مشرک تھے) کے دو قبیلے تھے۔ اوس اور خزرج، ان کی آپس میں آئے دن جنگ رہتی تھی، اسی طرح یہود مدینہ کے تین قبیلے تھے۔۔ بنو قینقاع، بنو نضیر اور بنو قریظہ۔ یہ بھی آپس میں لڑتے رہتے تھے، بنو قریظہ اوس کے حلیف تھے اور بنو قینقاع اور بنو نضیر خزرج کے حلیف تھے، جنگ میں یہ اپنے اپنے حلیفوں کی مدد کرتے اور اپنے ہی ہم مذہب یہودیوں کو قتل کرتے، ان کے گھروں کو لوٹتے اور انہیں جلاوطن کردیتے۔ حالانکہ تورات کے مطابق ایسا کرنا ان کے لیے حرام تھا، پھر جو لوگ مغلوب ہونے کی وجہ سے قیدی بن جاتے تو انہیں فدیہ دے کر چھڑاتے اور کہتے کہ ہمیں تورات میں یہی حکم دیا گیا ہے۔ ان آیات میں یہودیوں کے اسی کردار کو بیان کیا گیا ہے کہ انہوں نے شریعت کو موم کی ناک بنالیا تھا، مرضی سے حکم پر عمل کرلیتے اور مرضی کے خلاف حکم کو کوئی اہمیت نہ دیتے۔ قتل، لوگوں کو ان کے گھروں سے نکالنا اور ایک دوسرے کی ظلم پر مدد کرنا، ان کی شریعت میں حرام تھا، ان جرائم کا انہوں نے کھلم کھلا ارتکاب کیا اور جو فدیہ دے کر چھڑا لینے کا حکم تھا اس پر عمل کیا۔ حالانکہ اگر وہ پہلے تین امور کا لحاظ رکھتے (قتل وغارت گری سے باز رہتے، دوسروں کو جلاوطن نہ کرتے، ظلم وستم سے رک جاتے) تو فدیہ دے کر چھڑانے کی نوبت ہی نہ آتی۔“ (ماخوذ از ” تفسیر احسن البیان“ ) اہل کتاب کے ایک دوسرے پر مظالم : ہربرٹ ملر نے لکھا ہے : ” رومی بادشاہ تھیوڈو سیس نے دوسرے مذاہب کی عبادت گاہیں حکماً بند کردیں اور کیتھولک عیسائیت کو ملک کا واحد قانونی مذہب قرار دیتے ہوئے ان سب ” دیوانوں“ (madmen) سے ہر قسم کے شہری حقوق چھین لیے جو کیتھولک عیسائیت سے متفق نہ تھے۔“ When The odosius deprived heretics of civil rights, religious orthodoxy became the price of citizenship for the first time in history. (Herbert Muller: op.cit pp.86-87; Cambridge Modern History (1907) vol.10 p.152) ” جب تھیوڈو سیس نے ملحدین کو شہری حقوق سے محروم کیا‘ تو عقیدہ کی تبدیلی شہریت کی قیمت قرار پائی۔“ اور پوپ لیو دواز دہم نے تو رواداری (Toleration) کو صاف الفاظ میں سچے مذہب سے بے پروائی (Indifference) سے تعبیر کرتے ہوئے بتا دیا کہ عیسائیت میں نقطۂ نظر کے اختلاف کو برداشت کرنے کی قوت و صلاحیت کہاں تک ہے۔ عملاً بھی اس نے تنخواہ دار مخبرین (Informers) کی مدد سے مسلمہ عقائد سے ہٹے ہوئے افراد سے اپنی جیلیں بھر دیں۔ ” مشرکین“ (pagans) اور ” ملحدین“ (heretics) کے بعد جو طبقہ مسیحی عدم رواداری اور تشدد کا پہلا نشانہ بنا‘ وہ یہودی تھے۔ یہودیوں سے مسیح کے ” خون کا بدلہ“ لینے کے لیے انجیل کی اس آیت کا حوالہ استعمال کیا گیا جس میں مسیح کے وقت کے یہودیوں نے رومی حاکم پیلاطس کی مسیح کو مصلوب کرنے پر ہچکچاہٹ دیکھتے ہوئے کہا تھا ” اس کا خون ہماری اور ہماری اولاد کی گردن پر!“ (متی ٢٧: ٢٥) : With the triumph of Christianity, the children of Israel had to repay his duffering a million fold. (Herbert Muller : op.cit., p.91) ” عیسائیت کے غلبہ کے بعد بنی اسرائیل کو مسیح کی تکالیف کا کئی لاکھ گنا بدلہ چکانا پڑا۔“ ملحدین‘ مشرکین اور یہود وغیرہ پر ظلم وتشدد اور ان کے قتل و غارت پر عیسائی حکمرانوں اور امراء کو اکساتے ہوئے ایک مشہور پوپ ہلڈر برینڈ (Hilderbrand) نے کہا تھا : Cursed be he that refraineth his sword from blood. (H.C.Lea: A history of the Inquisition in spain (New York 1906) vol. 1, pp.81, 115) ” جو اپنی تلوار کو (ان لوگوں کا) خون کرنے سے روک رکھے وہ لعنتی ہے۔“ (عیسائیت تجزیہ ومطالعہ) مسائل ١۔ بنی اسرائیل عہد توڑنے والی قوم ہے۔ ٢۔ بنی اسرائیل پر رشوت لینا حرام تھا۔ ٣۔ دین کے کچھ ارکان پر عمل کرنا اور کچھ کو چھوڑ دینادنیا میں ذلت اور آخرت میں عذاب جہنم کا سبب ہوگا۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ لوگوں کے اعمال سے بے خبر نہیں ہے۔ البقرة
86 فہم القرآن ربط کلام : یہود و نصاریٰ کی یہ عہد شکنیاں اس لیے تھیں کہ انہوں نے آخرت کو فراموش کر کے دنیا کو مقدم کرلیا تھا۔ دنیا کے لیے وہ تمام اخلاقی اور دینی حدیں پھاندنے کے لیے تیار رہتے تھے۔ کفار اور مشرکین کے بارے میں قرآن مجید بار بار اس بات کا اعلان کرتا ہے کہ ان لوگوں پر نہ عذاب ہلکا ہوگا اور نہ ہی انہیں جہنم سے نجات ملے گی۔ جس شخص کے بارے میں عذاب ہلکا ہونے کا امکان ہے وہ جناب ابو طالب ہیں۔ ان کے بارے میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس امید کا اظہار کیا ہے۔ (عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ (رض) أَنَّہُ سَمِعَ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وَذُکِرَ عِنْدَہُ عَمُّہُ فَقَالَ لَعَلَّہُ تَنْفَعُہُ شَفَاعَتِی یَوْمَ الْقِیَامَۃِ، فَیُجْعَلُ فِی ضَحْضَاحٍ مِنَ النَّارِ، یَبْلُغُ کَعْبَیْہِ، یَغْلِی مِنْہُ دِمَاغُہُ) (رواہ البخاری : کتاب المناقب، باب قصۃ ابی طالب) ” حضرت ابو سعید خدری (رض) بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آپ کے چچا ابو طالب کا تذکرہ کیا گیا تو آپ نے فرمایا شاید اسے میری شفاعت قیامت کے دن فائدہ دے۔ اسے آگ پر کھڑا کیا جائے گا۔ وہ آگ اس کے ٹخنوں تک پہنچتی ہوگی جس سے اس کا دماغ کھولے گا۔“ ” جن لوگوں نے ہماری آیات کا انکار کیا یقیناً ہم انہیں جہنم واصل کریں گے جب ان کے جسموں کی کھال گل جائے گی تو ہم دوسری کھال سے بدل دیں گے تاکہ عذاب کا مزا چکھتے رہیں اللہ تعالیٰ یقینًا زبردست اور حکمت والا ہے۔“ (النساء : ٥٦) مسائل ١۔ آخرت کی زندگی پر دنیا کو ترجیح دینے والوں پر جہنم کا عذاب ہلکا نہیں ہوگا۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ کے احکام کے بدلے مال اور منصب حاصل کرناحرام ہے۔ ٣۔ دوزخیوں کی کوئی کچھ بھی مدد نہیں کرسکے گا۔ البقرة
87 فہم القرآن ربط کلام : بنی اسرائیل سے عہد لینے کے بعد اس کی یاد دہانی کے لیے مسلسل انبیاء مبعوث کیے گئے مگر یہ لوگ تکبر اور ظلم میں آگے ہی بڑھتے گئے۔ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کیے ہوئے پختہ عہد سے انحراف، قومی جرائم اور اجتماعی ذلت کا احساس دلا کر بنی اسرائیل کو یاد کروایا گیا ہے کہ اپنی تاریخ کا ریکارڈ ذہن میں لاؤ۔ جب ہم نے تمہاری رہنمائی کے لیے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو تورات عنایت کی اور ان کے بعد اس عہد کی یاد دہانی اور ایفا کے لیے متواتر انبیائے کرام مبعوث فرمائے۔ یہاں تک کہ عیسیٰ ( علیہ السلام) ایسے معجزات کے ساتھ مبعوث ہوئے کہ جن کے سامنے حاذق اطبا، معروف دانشور اور بڑے بڑے اہل علم طفل مکتب دکھائی دیتے تھے۔ لیکن اے اہل کتاب! تم نے ہر اس بات کا انکار کیا جو تمہارے رواج اور مزاج کے خلاف تھی۔ تم نے نا صرف روشن معجزات اور ٹھوس دلائل کا متکّبرانہ جواب دیا بلکہ انبیاء کی کثیر تعداد کی تکذیب کرتے ہوئے انہیں ماننے سے انکار کردیا اور کچھ انبیاء کو شہید ہی کر ڈالا۔ اب تم گناہوں اور اپنے استکبار کو چھپانے کے لیے کہتے ہو کہ ہم قرآن اور اس نبی کی رسالت کو اس لیے تسلیم نہیں کرتے کہ ہمارے دل علم و دانش کے گہوارے ہیں اور کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ ہمیں اس نبی کی باتوں کی سمجھ ہی نہیں آتی۔ ہمارے اور اس کے درمیان پردہ حائل ہوچکا ہے۔ یہی وہ بہانے ہیں جو ہر دور میں نام نہاد دانشور اور متعصب مذہبی لوگ کرتے آئے ہیں۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ دلائل سمجھنے اور حقائق کو جاننے کے باوجود یہ لوگ ایمان نہیں لاتے تو اس کی وجہ یہ نہیں کہ وہ علم و معرفت رکھتے ہیں بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کی بد اعمالیوں کی وجہ سے ان پر خدا کی پھٹکار پڑچکی ہے۔ تکبر کا معنٰی اور انجام : (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَسْعُوْدٍ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ لَایَدْخُلُ الْجَنَّۃَ مَنْ کَانَ فِیْ قَلْبِہٖ مِثْقَالُ ذَرَّۃٍ مِّنْ کِبْرٍ قَالَ رَجُلٌ إِنَّ الرَّجُلَ یُحِبُّ أَنْ یَّکُوْنَ ثَوْبُہٗ حَسَنًا وَّنَعْلُہٗ حَسَنَۃً قَالَ إِنَّ اللّٰہَ جَمِیْلٌ یُّحِبُّ الْجَمَالَ الْکِبْرُ بَطَرُ الْحَقِّ وَغَمْطُ النَّاسِ) (رواہ مسلم : باب تحریم الکبر وبیانہ] ” حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی تکبر ہوا وہ جنت میں داخل نہیں ہوگا۔ ایک آدمی نے کہا کہ آدمی یہ پسند کرتا ہے کہ اس کے کپڑے اور اس کے جوتے اچھے ہوں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اللہ تعالیٰ خوبصورت ہے اور خوبصورتی کو پسند کرتا ہے۔ تکبر حق کو جھٹلانا اور لوگوں کو حقیر جاننا ہے۔“ (عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَیْبٍ عَنْ أَبِیْہِ عَنْ جَدِّہٖ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ یُحْشَرُ الْمُتَکَبِّرُوْنَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ أَمْثَال الذَّرِّ فِیْ صُوَرِ الرِّجَالِ یَغْشَاھُمُ الذُّلُّ مِنْ کُلِّ مَکَانٍ فَیُسَاقُوْنَ إِلٰی سِجْنٍ فِیْ جَھَنَّمَ یُسَمّٰی بُوْلَسَ تَعْلُوْھُمْ نَارُ الْأَنْیَارِ یُسْقَوْنَ مِنْ عُصَارَۃِ أَھْلِ النَّارِ طِیْنَۃَ الْخَبَالِ) (رواہ الترمذی : کتاب صفۃ القیامۃ والرقائق والورع، باب منہ ) ” حضرت عمرو بن شعیب اپنے باپ سے وہ اپنے دادا (رض) سے وہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : قیامت کے دن متکبر لوگ چیونٹیوں کی صورت میں لائے جائیں گے انہیں ہر طرف سے ذلت ڈھانپے ہوئے ہوگی اور انہیں بولس نامی جہنم کی جیل میں لے جایا جائے گا۔ ان پر آگ کے شعلے بلند ہورہے ہوں گے اور انہیں جہنمیوں کی زخموں کی پیپ پلائی جائے گی۔“ مسائل ١۔ بنی اسرائیل نے کچھ انبیاء کو شہید کیا اور اکثر کو جھٹلا دیا۔ ٢۔ منکرین حق بات ماننے کی بجائے یہ کہتے ہیں کہ ہمارے دل پردہ میں ہیں۔ تفسیر بالقرآن لعنتی کون؟ ١۔ شیطان لعنتی ہے۔ (النساء : ١١٨) ٢۔ کافر لعنتی ہیں۔ (الاحزاب : ٦٤) ٣۔ اصحاب السبت لعنتی ہیں۔ ( النساء : ٤٧) ٤۔ یہودی لعنتی ہیں۔ (المائدۃ: ٦٤) ٥۔ جھوٹے لعنتی ہیں۔ (آل عمران : ٦١) ٦۔ ظالم پر لعنت ہوتی ہے۔ (ھود : ١٨) ٧۔ حق چھپانے والے لعنتی ہیں۔ (البقرۃ : ١٥٩) ٨۔ اللہ اور رسول کو تکلیف دینے والے لعنتی ہیں۔ (الاحزاب : ٥٧) البقرة
88 البقرة
89 فہم القرآن ربط کلام : گزشتہ سے پیوستہ۔ اہل کتاب ہمیشہ سے حق پہچاننے کے باوجود اس کے انکاری رہے ہیں اسی کا سبب ہے کہ ان پر اللہ کی پھٹکار برستی ہے۔ یہود اہل ثروت ہونے اور سماجی اثر و رسوخ رکھنے کے باوجود عرب میں سیاسی اقتدار سے محروم تھے۔ اس وجہ سے وہ عیسائیوں، مشرکوں اور دوسرے مذاہب والوں کے ساتھ بحث و تکرار کرتے ہوئے کہا کرتے کہ عنقریب نبی آخر الزماں (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لانے والے ہیں ہم اس کی رہنمائی اور قیادت میں تم سب پر غلبہ پائیں گے۔ اس کے لیے وہ اللہ تعالیٰ کے حضور ہاتھ اٹھا کر نہایت آہ و زاری سے دعائیں کیا کرتے تھے اور لوگوں کے سامنے حلف دیتے کہ ہمارے پاس آخری نبی تشریف لائے تو ہم اس کی نصرت و حمایت کریں گے۔ [ البقرۃ: ٨٩] اسی اثناء میں محمد عربی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مدینہ طیبہ تشریف لائے اور آپ نے انہیں کتاب الٰہی کا پیغام دیتے ہوئے اپنے آپ پر ایمان لانے کی دعوت دی تو انہوں نے آپ کو اس طرح پہچان لیا جس طرح اپنے بیٹوں کو پہچانتے تھے۔ علامہ ابن کثیر ان آیات کی تفسیر میں حضرت ابن عباس (رض) کے حوالے سے لکھتے ہیں : ” رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مبعوث ہونے سے پہلے یہودی اوس اور خزرج پر فتح کی دعائیں مانگا کرتے تھے۔ جب اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نبوت سے سرفراز فرمایا تو یہودیوں نے اپنی بات کا انکار کردیا۔ معاذ (رض) اور بشر بن براء (رض) نے کہا اے یہودیو! اللہ سے ڈرو اور مسلمان ہوجاؤکیونکہ جب ہم مشرک تھے تو تم ہمیں نبی آخر الزماں (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا حوالہ دے کر فتح کی دعائیں کرتے تھے۔ اور تم ہمیں مبعوث ہونے والے نبی اور اس کی صفات کے متعلق بتلاتے رہتے تھے۔ سلام بن مشکم کہنے لگا : ہمارے پاس تو کوئی ایسی چیز نہیں آئی کہ جسے ہم پہچانتے ہوں۔ وہ کون سی چیز ہے جس کے متعلق ہم تمہیں بتلاتے تھے؟ تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت (ولما جاء ھم) نازل فرمادی۔“ مولانا صفی الرحمن مبارکپوری ” الرحیق المختوم“ میں لکھتے ہیں : ” رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) شرف وعظمت اور فضل وکمال کی سب سے بلند چوٹی پر جلوہ فگن تھے۔ عفت وامانت، صدق وصفا اور جملہ امور خیر میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا وہ امتیازی مقام تھا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دشمنوں کو بھی آپ کی یکتائی وانفرادیت پر کبھی شک نہ گزرا۔ آپ کی زبان سے جو بات نکلی دشمنوں کو یقین ہوگیا کہ وہ سچی ہے اور ہو کررہے گی۔ واقعات اس کی شہادت دیتے ہیں۔ ایک بار قریش کے ایسے تین آدمی اکٹھے ہوئے جن میں سے ہر ایک نے اپنے بقیہ دوساتھیوں سے چھپ چھپا کر تن تنہا قرآن مجید سنا۔ لیکن بعد میں ہر ایک کا راز دوسرے پر فاش ہوگیا۔ ان تینوں میں سے ایک ابو جہل بھی تھا۔ تینوں اکٹھے ہوئے تو ایک نے ابوجہل سے دریافت کیا کہ بتاؤ تم نے جو کچھ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا ہے اس کے بارے میں تمہاری رائے کیا ہے؟ ابوجہل نے کہا : میں نے کیا سنا ہے؟ بات دراصل یہ ہے کہ ہم نے اور بنو عبدِمناف نے شرف وعظمت میں ایک دوسرے کا مقابلہ کیا۔ انہوں نے غرباء ومساکین کو کھلایا تو ہم نے بھی کھانا کھلایا، انہوں نے دادو دہش میں سواریاں عطا کیں تو ہم نے بھی دیں، انہوں نے لوگوں کو عطیات سے نوازا تو ہم نے بھی ایسا کیا، یہاں تک کہ جب ہم اور وہ ایک دوسرے کے ہم پلہ ہوگئے اور ہماری اور ان کی حیثیت ریس کے دو مدِّ مقابل گھوڑوں کی ہوگئی تو اب بنو عبد مناف کہتے ہیں کہ ہم میں ایک نبی ہے جس کے پاس آسمان سے وحی آتی ہے۔ بھلا بتائیے ہم اسے کب پاسکتے ہیں؟ خدا کی قسم! ہم اس شخص پر کبھی ایمان نہ لائیں گے اور اس کی ہرگز تصدیق نہ کریں گے۔“ مسائل ١۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ حسد و بغض کی وجہ سے بنی اسرائیل پر اللہ تعالیٰ کا غضب، اور عذاب مسلّط ہوا۔ ٢۔ حق کا انکار کرنے والے پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہوتی ہے۔ تفسیر بالقرآن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تشریف آوری کا انتظار! ١۔ بنی اسرائیل رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت کے منتظر تھے۔ (فاطر : ٤٢) ٢۔ یہود و نصاریٰ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنے بیٹوں کی طرح پہچانتے ہیں۔ (البقرۃ : ١٤٦) ٣۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آمد کی بنیاد پر لوگوں پر فتح یاب ہونے کی خواہش رکھتے تھے۔ (البقرۃ : ٨٩) البقرة
90 فہم القرآن ربط کلام : یہود کے گھناؤنے کردار کے پیچھے دنیا کے مفاد کے ساتھ حسدو بغض بھی شامل ہے جس کی بنا پر نبی آخر الزماں (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لانے کے لیے تیار نہ ہوئے۔ ” بغیًا“ کا معنٰی ہے کسی کام یا بات پر خواہ مخواہ اڑ جانا۔ یہ لفظ حقیقت کے برعکس کام کرنے کے لیے زیادہ استعمال ہوتا ہے۔ یہود نے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت و حمایت کرنے کی بجائے اس بنا پر تمرّد اور انکار کا راستہ اختیار کیا کہ نبی تو ہم میں سے ہونا چاہیے تھا۔ کیونکہ نبوت صرف بنی اسرائیل کا استحقاق ہے۔ اس کے جواب میں فرمایا گیا ہے کہ نبوت کسی خاندان یا قوم اور علاقے کا استحقاق نہیں یہ تو سراسر اللہ تعالیٰ کا اپنا انتخاب اور فضل ہے۔ وہ اپنے پیغام اور کام کے لیے جس کو چاہے پسند کرتا ہے۔ اہل کتاب دنیا کی حشمت اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بغض کی بنا پر کفر کا راستہ اختیار کرکے ہمیشہ کے لیے خدا کی پھٹکار اور ذلت کے مستحق قرار پائے۔ ایسے منکروں کے لیے ذلّت ناک عذاب تیار ہوچکا ہے۔ تورات کے منکر، انبیاء کے قاتل اور مزید یہ کہ سرور گرامی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ عداوت اور کتاب مبین کے ساتھ حسد کر کے ” غَضَبٌ عَلٰی غَضَبٍ“ کے کٹہرے میں کھڑے ہوئے یہ لوگ دنیا کی ذلت اور آخرت کے ذلیل ترین عذاب میں مبتلا ہوں گے۔ مسائل ١۔ یہودی دنیا میں بھی ذلیل ہو کر رہیں گے۔ ٢۔ ضد انسان کو کفر تک پہنچا دیتی ہے۔ ٣۔ نبوت کسی کا استحقاق نہیں یہ تو صرف اللہ تعالیٰ کا اپنا انتخاب ہوتا ہے۔ ٤۔ حق کا انکار کرنیوالوں کے لیے رسوا کن عذاب ہوگا۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ نے آخری انتخاب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمایا۔ البقرة
91 فہم القرآن ربط کلام : اہل کتاب اپنے گھناؤنے کردار اور بغض کو چھپانے کے لیے یہ بہانہ بناتے ہیں کہ ہم اسی بات کو مانیں گے جو ہم پر نازل ہوئی اس کا جواب یہ دیا گیا کہ پھر تم نے پہلے انبیاء کو کیوں قتل کیا تھا؟ یہودیوں کو جب بھی دعوت دی گئی کہ اس کتاب پر ایمان لاؤ جو اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل فرمائی ہے تو انہوں نے مذہبی عصبیت اور خود ساختہ علمی مقام کی بنا پر اعلان کیا کہ ہم تورات کے سوا ہر چیز کا انکار کرتے رہیں گے۔ بے شک اس میں ہماری تائید ہی کیوں نہ پائی جاتی ہو۔ اس انکار پر ان سے پوچھا جا رہا ہے اگر تم تورات پر فی الحقیقت ایمان رکھتے ہو تو تمہیں ان سوالات کا جواب دینا چاہیے۔ کیونکہ یہ باتیں تو سراسر تمہارے عقیدے کے مطابق اور تورات میں پائی جاتی ہیں ان سے انحراف کا تمہارے پاس کیا جواز ہے؟ جس بات میں تمہاری تائید ہوتی ہو اس کے انکار کا کیا جواز ہے؟ تم نے انبیاء کرام کو کیوں قتل کیا جب کہ وہ تمام کے تمام بنی اسرائیل میں سے تھے؟ حضرت موسیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی چالیس دن کی غیر حاضری میں بچھڑے کی پرستش کیوں کی اور اب تک گائے پرستی کے کیوں قائل ہو جب کہ تورات میں واضح طور پر گائے پرستی سے منع کیا گیا ہے؟ در اصل تم حقیقی ایمان سے تہی دامن ہوچکے ہو اور تم نے باطل نظریات کو ایمان کا درجہ دے دیا ہے جس میں گائے پرستی کا گھٹیا عقیدہ بھی شامل ہے۔ حالانکہ شرک تمام گناہوں کا منبع اور سب سے بڑا ظلم ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا : (وَإِذْ قَالَ لُقْمٰنُ لابْنِہٖ وَھُوَ یَعِظُہٗ یٰبُنَیَّ لَاتُشْرِکْ باللّٰہِ إِنَّ الشِّرْکَ لَظُلْمٌ عَظِیْمٌ) (لقمان : ١٣) ” اور جب لقمان اپنے بیٹے کو نصیحت کررہا تھا کہ پیارے بیٹے! اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ بنانا کیونکہ شرک بہت بڑا ظلم ہے۔“ ۔۔ حدیث شرک کے بارے میں (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ (رض) أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ أَشَدُّ النَّاسِ عَذَابًا یَوْمَ الْقِیَامَۃِ رَجُلٌ قَتَلَہٗ نَبِیٌّ أَوْ قَتَلَ نَبِیًّا وَإِمَامُ ضَلَالَۃٍ وَمُمَثِّلٌ مِّنَ الْمُمَثِّلِیْنَ) (مسندا حمد : کتاب مسند المکثرین من الصحابۃ، باب مسند عبداللہ بن مسعود) ” حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : قیامت کے دن سخت ترین عذاب اس شخص کو ہوگا جس کو نبی نے قتل کیا یا اس نے نبی کو قتل کیا اور گمراہ امام اور تصویریں بنانے والے کو عذاب ہوگا۔“ مسائل ١۔ یہودی تورات، قرآن اور کسی آسمانی کتاب کو نہیں مانتے وہ صرف اپنے خود ساختہ نظریات کو مانتے ہیں۔ ٢۔ قرآن مجید پہلی کتب سماوی کی تصدیق کرتا ہے۔ ٣۔ گائے پرستی شرک اور ظلم ہے۔ تفسیر بالقرآن قتل انبیاء بد ترین جرم : ١۔ یہود انبیاء کے قاتل ہیں۔ (آل عمران : ١١٢) ٢۔ فرعون نے موسیٰ (علیہ السلام) کو قتل کی دھمکی دی۔ ( المؤمن : ٢٦) ٣۔ یہودیوں نے عیسیٰ (علیہ السلام) کو پھانسی چڑھانے کی کوشش کی۔ (النساء : ١٥٧) ٤۔ کفار نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو قتل کرنے کی سازش کی۔ (الانفال : ٣٠) بنی اسرائیل کے بچھڑے کا انجام : ١۔ بچھڑا کس نے بنایا ؟ (طٰہٰ: ٩٥، ٩٦) ٢۔ بچھڑا کس چیز سے بنایا گیا؟ (طٰہٰ: ٩٦) ٣۔ بچھڑا آواز نکالتا تھا۔ (طٰہٰ: ٨٨) ٤۔ بچھڑے کا انجام کیا ہوا۔ (طٰہٰ: ٩٧) ٥۔ بچھڑا پوجنے والوں پر ” اللہ“ کی لعنت برستی ہے۔ (طٰہٰ: ٨٧) البقرة
92 البقرة
93 فہم القرآن ربط کلام : یہود کہتے ہیں کہ ہم تو وہی مانیں گے جو ہم پر نازل ہوا یہ اس بات میں بھی سچے نہیں کیونکہ ان پر طور پہاڑ بلند کرکے عہد لیا گیا تھا اس کے باوجود انہوں نے انکار کردیا تھا۔ ان کے شرک اور دنیا کی ہوس کا نتیجہ ہے۔ اس آیت کی تفسیر آیت ٦٣ کے ساتھ ملا کر پڑھیے جس میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کے لیے جبری ہدایت کی بجائے اختیاری ہدایت کا طریقہ پسند فرمایا ہے۔ جبری ہدایت کے نظریے کی تردید کے لیے بنی اسرائیل کا عملی تجربہ پیش فرمایا ہے جس میں یہ ثابت کیا ہے کہ جبری ہدایت دیر پا نہیں ہوا کرتی جب تک انسان اخلاص اور دل کی صفائی کے ساتھ حقیقت قبول نہ کرے۔ یہودیوں کے سر پر کوہ طور اٹھانے اور ان کے سننے اور سمجھنے کے باوجود انہوں نے ” اللہ“ کی نافرمانی کا اعلان کیا۔ جس کا بنیادی سبب شرک بیان کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں بیان فرمایا ہے کہ میں نے ہر انسان کے سینے میں دو کی بجائے ایک دل رکھا ہے۔ ظاہر ہے کہ ایک دل میں توحید اور شرک، اللہ کی محبت اور غیر کی محبت بیک وقت نہیں رہ سکتی۔ اللہ کی محبت غالب ہوگی تو انسان توحید کا اقرار کرتے ہوئے اللہ کی غلامی میں لذت محسوس کرے گا اور تابعداری میں آگے ہی بڑھتا جائے گا اگر غیر اللہ کی محبت غالب ہوگی تو انسان اللہ تعالیٰ سے دور اور اس کی نافرمانی کا راستہ اختیار کرے گا کیونکہ شرک توحید کے متوازی نظریے کا نام ہے اسی بنا پر یہودیوں نے بار بار اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی کیونکہ ان کے دلوں میں گائے پرستی کا نظریہ گھر کرچکا تھا۔ انسان کی ہر حرکت وعمل کے پیچھے نظریہ کی قوت ہی کارفرما ہوتی ہے اور انسان ویسا ہی عمل کرتا ہے جیسے اس کی فکری قوت اس کی راہنمائی کرتی ہے۔ اس لیے فرمایا ہے کہ جس طرح تمہارے عقائد ہیں جنہیں تم نے ایمان کا درجہ دے رکھا ہے ویسے ہی تمہارے اعمال برے ہوچکے ہیں۔ جس وجہ سے تم حقیقی ایمان سے تہی دامن ہوچکے ہو۔ کیونکہ ایمان ایک ایسی چیز ہے اگر وہ مضبوط ہو تو آدمی کے کردار میں نکھار پیدا ہوتا ہے آدمی کے اعمال اچھے ہوں تو ایمان میں تازگی اور احساس بڑھتا ہے۔ آدمی کا کردار اچھانہ ہو تو اس سے اس کا ایمان بھی متاثر ہوتا ہے مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل سے پختہ عہد لینے کے لیے ان پر طور پہاڑ کو بلند کیا۔ ٢۔ کفر کی وجہ سے بنی اسرائیل کے دلوں میں بچھڑے کی محبت جاگزیں ہوچکی۔ ٣۔ اسلام قبول کرنے کے بعد شرک کرنا برے عقیدہ کی نشانی ہے۔ تفسیر بالقرآن یہودیوں کے جرائم : ١۔ یہودی اپنی جانوں پر ظلم کرنے والے ہیں۔ (آل عمران : ١١٧) ٢۔ اللہ کی کتاب میں تحریف کرنا ظلم ہے۔ (البقرۃ: ٧٥) ٣۔ دیہودیوں کا مریم صدیقہ پر الزام لگانا ظلم ہے۔ (النساء : ١٥٦) ٤۔ یہودیوں کا عیسیٰ (علیہ السلام) کو قتل کرنے کا دعویٰ کرنا ظلم ہے۔ (النساء : ١٥٧) ٥۔ آیات اللہ کا انکار کرناظلم ہے۔ (النساء : ١٥٣ ) ٦۔ یہودیوں کا انبیاء کو بغیر حق کے قتل کرنا ظلم ہے۔ (النساء : ١٥٥) ٧۔ یہودیوں کا ہفتہ کے دن میں زیادتی کرنا ظلم ہے۔ (النساء : ١٥٤) ٨۔ اللہ کی حرام کردہ چیزوں کو حلال کرنا ظلم ہے۔ (النساء : ١٦٠) البقرة
94 فہم القرآن ربط کلام : یہود یوں کے من گھڑت عقیدہ اور خود ساختہ دعویٰ کا جواب اور دنیا کے بارے میں ان کی حرص۔ یہودیوں کا یہ عقیدہ ہے کہ ہم اللہ کے محبوب اور انبیاء کی اولاد ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے جنت کو ہمارے لیے ہی بنایا اور سجایا ہے بالفرض اگر ہمیں جہنم میں جانا بھی پڑا تو یہ چند دنوں کے لیے جانا ہوگا بالآخرہم جنت کے لیے اور جنت ہمارے ہی لیے ہے۔ ہم ہی اس کے وارث ہوں گے۔ وہ یہ بات اتنی شدّو مد کے ساتھ کہتے تھے اور کہتے ہیں کہ جس کی وجہ سے عوام الناس یہ سمجھ بیٹھے کہ جنت میں جانے کے لیے یہودی ہونا از حد ضروری ہے۔ اس کے بغیر کسی کو جنت کا خیال بھی دل میں نہیں لانا چاہیے۔ یہ یہودیوں کے باطل عقیدہ کے اثرات ہیں کہ جس بنا پر مسلمانوں میں ایک ایسا طبقہ پیدا ہوچکا ہے جس کا خیال ہے کہ آدمی کے عمل جیسے بھی ہوں جنت میں جانے کے لیے بزرگوں سے نسبت اور محبت ہی جنت میں داخلے کی ضمانت ہے۔ لوگوں کی غلط فہمی دور کرنے کے لیے یہود کو مخاطب کرتے ہوئے چیلنج دیا گیا ہے کہ بزعم خود اگر تم جنت کے وارث اور اللہ کے پیارے ہو تو پھر تمہیں موت سے ڈرنے کی بجائے اس کا آرزو مند ہونا چاہیے تاکہ تم اپنے رب سے ملاقات کا شرف اور جنت کی ابدی نعمتوں سے لطف اندوز ہو سکو۔ مگر تمہاری حالت یہ ہے کہ تم موت کے تصور سے کانپتے اور دنیا کی لذّت کی خاطر ہر ذلت برداشت کرنے کے لیے آمادہ رہتے ہو۔ تم اپنے نظریے اور جنت کی خاطر کوئی قربانی دینے کے لیے تیار نہیں ہو حالانکہ جس آدمی کے سامنے ایک مقصد اور منزل ہوتی ہے وہ تو اس کے لیے سب کچھ قربان کرنے کے لیے تیار ہوتا ہے۔ تم تو موت کے بارے میں مشرکوں سے بھی زیادہ ڈرتے ہوحالانکہ زندگی ہزار سال ہو یا اس سے زیادہ۔ وہ مجرم کو خدا کے عذاب سے نہیں بچا سکتی اور نہ ہی زندگی کے طویل ہونے سے انسان کا کوئی گوشہ حیات خدائے علیم و بصیر سے اوجھل ہوسکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ پل پل کی خبر رکھنے والا اور تمہاری جلوت و خلوت سے خوب واقف ہے۔ (عَنْ ثَوْبَانَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یُوْشِکُ الْأُمَمُ أَنْ تَدَاعٰی عَلَیْکُمْ کَمَا تَدَاعَی الْأَکَلَۃُ إِلٰی قَصْعَتِھَا فَقَالَ قَاءِلٌ وَمِنْ قِلَّۃٍ نَحْنُ یَوْمَءِذٍ قَالَ بَلْ أَنْتُمْ یَوْمَءِذٍ کَثِیْرٌ وَلٰکِنَّکُمْ غُثَاءٌ کَغُثَاء السَّیْلِ وَلَیَنْزَعَنَّ اللّٰہُ مِنْ صُدُوْرِ عَدُوِّکُمُ الْمَھَابَۃَ مِنْکُمْ وَلَیَقْذِفَنَّ اللّٰہُ فِیْ قُلُوْبِکُمُ الْوَھْنَ فَقَالَ قَاءِلٌ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ وَمَا الْوَھْنُ قَالَ حُبُّ الدُّنْیَا وَکَرَاھِیَۃُ الْمَوْتِ) (رواہ ابوداوٗد : کتاب الملاح، باب فی تداعی الأمم علی الإسلام) ” حضرت ثوبان (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : قریب ہے کہ قومیں تمہارے خلاف ایک دوسرے کو ایسے دعوت دیں جیسے میزبان کھانے کی طرف دعوت دیتا ہے۔ پوچھنے والے نے عرض کی : کیا اس وقت ہماری تعداد کم ہوگی آپ نے فرمایا : بلکہ تم اس وقت بہت زیادہ ہوگے لیکن تمہاری حیثیت سیلاب کے تنکوں جیسی ہوگی۔ اللہ تعالیٰ تمہارا رعب تمہارے دشمن کے دلوں سے نکال دے گا۔ اللہ تعالیٰ تمہارے دلوں میں وہن ڈال دے گا۔ پوچھنے والے نے پوچھا : اللہ کے رسول وہن کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا : دنیا کی محبت اور موت سے نفرت۔“ (عَنْ عُبَادَۃَ بْنِ الصَّامِتِ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ مَنْ أَحَبَّ لِقَاء اللّٰہِ أَحَبَّ اللّٰہُ لِقَاءَ ہٗ وَمَنْ کَرِہَ لِقَاء اللّٰہِ کَرِہَ اللّٰہُ لِقَاءَ ہٗ قَالَتْ عَاءِشَۃُ أَوْ بَعْضُ أَزْوَاجِہٖ إِنَّا لَنَکْرَہُ الْمَوْتَ قَالَ لَیْسَ ذَاکِ وَلٰکِنَّ الْمُؤْمِنَ إِذَا حَضَرَہُ الْمَوْتُ بُشِّرَ بِرِضْوَان اللّٰہِ وَکَرَامَتِہِ فَلَیْسَ شَیْءٌ أَحَبَّ إِلَیْہِ مِمَّا أَمَامَہٗ فَأَحَبَّ لِقَاء اللّٰہِ وَأَحَبَّ اللّٰہُ لِقَاءَ ہٗ وَإِنَّ الْکَافِرَ إِذَا حُضِرَ بُشِّرَ بِعَذَاب اللّٰہِ وَعُقُوبَتِہٖ فَلَیْسَ شَیْءٌ أَکْرَہَ إِلَیْہِ مِمَّا أَمَامَہٗ کَرِہَ لِقَاء اللّٰہِ وَکَرِہَ اللّٰہُ لِقَاءَ ہٗ) (رواہ البخاری : کتاب الرقاق، باب، من أحب لقاء اللّٰہ أحَب اللّٰہ لقاء ہ) ” حضرت عبادہ بن صامت (رض) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : جو اللہ کی ملاقات کو پسند کرتا ہے اللہ اس کی ملاقات کو پسند کرتا ہے اور جو اللہ کی ملاقات کو ناپسند کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی ملاقات کو ناپسند کرتا ہے۔ حضرت عائشہ (رض) یا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بیویوں میں سے کسی نے کہا کہ ہم تو موت کو ناپسند کرتے ہیں۔ آپ نے فرمایا بات یہ نہیں حقیقت یہ ہے کہ جب مومن کی موت کا وقت ہوتا ہے تو اس کو اللہ کی رضامندی اور انعام و اکرام کی بشارت دی جاتی ہے۔ اس بشارت کی وجہ سے موت اسے تمام چیزوں سے زیادہ محبوب ہوتی ہے اس وجہ سے وہ اللہ کی ملاقات کو پسند کرتا ہے اور اللہ اس کی ملاقات کو پسند کرتا ہے۔ جب کافر کی موت کا وقت آتا ہے تو اسے اللہ کے عذاب اور گرفت کی وعید سنائی جاتی ہے۔ یہ وعید اسے اپنے سامنے چیزوں سے سب سے زیادہ ناپسند ہوتی ہے اسی وجہ سے وہ اللہ کی ملاقات کو ناپسند کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ اس کی ملاقات کو ناپسند کرتا ہے۔ جہاں تک بزرگوں سے نسبت اور محبت کا تعلق ہے اگر ان کے صالح اعمال وتعلیمات کو نہ اپنایا جائے تو یہ نسبتیں اور محبتیں کوئی کام نہ آئیں گی۔ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَامَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حِیْنَ أَنْزَلَ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ (وَأَنْذِرْ عَشِیْرَتَکَ الْأَقْرَبِیْنَ) قَالَ یَامَعْشَرَ قُرَیْشٍ أَوْ کَلِمَۃً نَحْوَھَا اشْتَرُوْٓا أَنْفُسَکُمْ لَآأُغْنِیْ عَنْکُمْ مِنَ اللّٰہِ شَیْءًا یَابَنِیْ عَبْدِ مَنَافٍ لَآأُغْنِیْ عَنْکُمْ مِنَ اللّٰہِ شَیْءًا یَاعَبَّاسَ بْنَ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ لَآأُغْنِیْ عَنْکَ مِنَ اللّٰہِ شَیْءًا وَیَاصَفِیَّۃُ عَمَّۃُ رَسُوْلِ اللّٰہِ لَآأُغْنِیْ عَنْکِ مِنَ اللّٰہِ شَیْءًا وَیَافَاطِمَۃُ بِنْتُ مُحَمَّدٍ سَلِیْنِیْ مَاشِءْتِ مِنْ مَالِیْ لَآأُغْنِیْ عَنْکِ مِنَ اللّٰہِ شَیْءًا) (رواہ البخاری : باب ھل یدخل النساء والولد فی الأقارب) ” حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں جب یہ آیت (اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈرائیے) نازل ہوئی تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کھڑے ہوئے اور فرمایا : اے قریش کے لوگو! اپنے لیے کچھ کر لومیں تمہیں اللہ کے عذاب سے کوئی فائدہ نہیں دے سکوں گا، اے بنی عبد منا ف میں تمہیں اللہ کے عذاب سے بچا نہیں سکوں گا‘ اے عباس بن عبدالمطلب میں تمہیں اللہ کے عذاب سے کچھ فائدہ نہیں دے سکوں گا، اور اے صفیہ رسول کی پھوپھی! میں تمہیں اللہ کے عذاب سے کچھ فائدہ نہیں دے سکوں گا اور اے فاطمہ بنت محمد! میرے مال سے جو چاہتی ہے مانگ لے میں تجھے اللہ کے عذاب سے نہیں بچا سکوں گا۔“ مسائل ١۔ شرک اور دنیا کی بے جا محبت آدمی کو بزدل بنادیتی ہے۔ ٢۔ مشرک اور یہودی دنیا کے بارے میں سب سے زیادہ حریص ہوتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن موت یقینی ہے : ١۔ ہر شے فنا ہوجائے گی۔ (الرحمن : ٢٦، القصص : ٨٨) ٢۔ قلعہ بند ہونے کے باوجود موت نہیں چھوڑتی۔ (النساء : ٧٨) ٣۔ موت کی جگہ اور وقت مقرر ہے۔ (الاعراف : ٣٤) ٤۔ پہلے انبیاء فوت ہوئے۔ (آل عمران : ١٤٤) ٥۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی موت سے ہمکنار ہوں گے۔ (الزمر : ٣٠) البقرة
95 البقرة
96 البقرة
97 فہم القرآن ربط کلام : اہل کتاب کے دیگر حیلوں کے ساتھ یہ حیلہ اور بہانہ بھی تھا کہ جبریل ہمارے ذاتی دشمن ہیں جس کی وجہ سے ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلیم کرنے کے لیے اپنے آپ کو آمادہ نہیں پاتے۔ یہاں اس بات کا جواب دیا گیا ہے۔ بیّن حقائق اور ٹھوس دلائل کا مسلسل انکار کرنے کی وجہ سے یہود اس قدر بد حواس ہوچکے تھے کہ وہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھتے ہیں اچھا یہ بتائیں کہ آپ پر کون سا فرشتہ وحی لاتا ہے؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جبرائیل (علیہ السلام) جو ملائکہ کا سردار، امانت دار اور اللہ تعالیٰ کا سب سے زیادہ پسندیدہ اور مقرب فرشتہ ہے۔ یہی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر تورات لایا اور اسی نے ہی اللہ تعالیٰ کے حکم سے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) پر انجیل اتاری۔ یہودی جبریل امین (علیہ السلام) کا نام سنتے ہی کہنے لگے اب تو آپ پر ایمان لانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کیونکہ جبرائیل تو ہمارا ازلی دشمن ہے۔ اس نے ہمارے بزرگوں کے سروں پر کوہ طور رکھا تھا اور یہی ہمیں مشکلات اور عذاب میں مبتلا کرتا رہا ہے۔ ہاں اگر میکائیل ہوتے تو کچھ غور کیا جاسکتا تھا۔ اس کے جواب میں فرمایا گیا ہے کہ جبرئیل امین ہو یا میکائیل پیغام رسانی کا سلسلہ ہو یا قہر الٰہی کا معاملہ۔ جو کچھ بھی جبرائیل امین نے کیا ہے یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے حکم سے ہوا ہے۔ جبرائیل امین سے دشمنی دراصل اللہ تعالیٰ اور اس کے تمام ملائکہ سے دشمنی رکھنے کے مترادف ہے کیونکہ حضرت جبرائیل اور ملائکہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے بغیر کچھ نہیں کرتے۔ اگر تمہارے آباء واجداد پر عذاب نازل ہوا تو یہ ان کے اعمال کا نتیجہ تھا اور تم اسی روش پر چلتے رہے تو تمہارا انجام ان سے مختلف نہیں ہوگا۔ یہودی اپنے خبث باطن کی وجہ سے حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کی اس لیے مخالفت کرتے ہیں کہ جب جبرائیل امین کو مشکوک ثابت کردیں گے تو محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کا معاملہ از خود ختم ہوجائے گا۔ ہمارے ہاں بھی یہودیوں کی طرح کچھ نام نہاد مسلمان اہل بیت کا نام لے کر مختلف بہانے بنا کر خلفائے راشدین اور اکابر صحابہ کرام کی تحقیر کرتے ہیں تاکہ اسلام کی پوری تاریخ کو مسخ کردیا جائے۔ کچھ لوگ حدیث کے ذخیرہ کو مشکوک بنانے کی سعی لاحا صل میں لگے ہوئے ہیں۔ بعض حضرات یہ کہتے سنائی دیتے ہیں کہ قرآن کے ہوتے ہوئے ہمیں حدیث کی ضرورت نہیں۔ قرآن ہی کافی ہے۔ اسی سازش کا تسلسل ہے کہ اسلام دشمن لوگ چند علماء کو نشانہ بنا کر علمائے حق کو بدنام کرتے ہیں تاکہ دین کے سپوتوں کو لوگوں کی نظروں میں حقیر اور مشکوک کردیا جائے جس بنا پر لوگ از خود اسلام سے دور ہوجائیں گے۔ اس آیت کے آخر میں فرمایا جارہا ہے کہ جبریل (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے یہ قرآن آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قلب اطہر پر اتارا ہے۔ جو پہلی کتابوں کی تصدیق کرتا ہے اور تسلیم و رضا اختیار کرنے والوں کو ہدایت اور خوشیوں کا پیغام دیتا ہے۔ کیونکہ جبریل (علیہ السلام) اللہ تعالیٰ کا پیغام رساں اور نمائندہ ہے کسی کے نمائندہ کے ساتھ دشمنی اصل اتھارٹی کے ساتھ دشمنی کرنے کے مترادف ہوتی ہے جس کا دفاع یا بدلہ لینا اتھارٹی کی ذمہ داری بنتی ہے اسی بنیاد پر نبی محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صلح حدیبیہ کے موقع پر حضرت عثمان (رض) کے لیے بیعت لی تھی اور اسی وجہ سے آپ نے اردن میں موتہ کے مقام پر تین ہزار کا لشکر جرار حضرت زید بن حارثہ (رض) کی زیر کمان بھیجا۔ کیونکہ شرجیل بن عمرو غسانی نے آپ کے نمائندے حارث بن عمیر ازدی (رض) کو شہید کردیا تھا جو اس زمانے میں اعلان جنگ سے بڑھ کر اقدام تصور کیا جاتا تھا لہٰذا اس کا بدلہ لینا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی ذمہ داری سمجھی۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید حضرت جبریل کے ذریعے جناب محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قلب اطہر پر نازل کیا۔ ٢۔ قرآن مجید مومنوں کو دنیا و آخرت میں خوشخبری کا پیغام دیتا ہے۔ ٣۔ انبیاء، ملائکہ، میکائیل اور حضرت جبریل امین سے دشمنی رکھنا اللہ تعالیٰ سے دشمنی رکھنے کے مترادف ہے۔ ٤۔ جبریل امین ملائکہ کے سردار ہیں۔ تفسیر بالقرآن جبریل امین (علیہ السلام) کا مرتبہ ومقام : ١۔ جبریل (علیہ السلام) ملائکہ کے سردار ہیں۔ (التکویر : ٢١) ٢۔ جبریل (علیہ السلام) مقرب ترین فرشتہ ہے۔ (النجم : ٨) ٣۔ جبریل (علیہ السلام) طاقتور فرشتہ ہے۔ (النجم : ٥) ٤۔ جبریل (علیہ السلام) دیانت دار ہیں۔ (الشعراء : ١٩٣) ٥۔ جبرائیل (علیہ السلام) نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قلب اطہر پر قرآن اتارا ہے۔ (البقرۃ : ٩٧) ٣۔ شب قدر کی رات فرشتے اور جبریل اپنے پروردگار کے حکم سے اترتے ہیں۔ (القدر : ٤) ٣۔ حضرت جبریل امین (علیہ السلام) ملائکہ کے سردار ہیں۔ (نبا : ٣٨) البقرة
98 البقرة
99 فہم القرآن ربط کلام : گزشتہ مضمون کا تسلسل جس میں یہودیوں کا کردار پیش کیا جا رہا ہے۔ اے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ہم نے آپ کی طرف واضح ہدایت اور احکامات نازل فرمائے۔ اس کے باوجود یہ لوگ ہدایت کا راستہ اختیار کرنے کے لیے تیار نہیں ہو رہے تو اس کی وجہ یہ نہیں کہ ” اللہ“ کی ہدایات میں کوئی الجھاؤ اور پیچیدگی پائی جاتی ہے ایسا ہرگز نہیں ہماری ہدایات تو بدر منیر کی طرح روشن اور اس کے دلائل ناقابل تردید ہیں۔ ایسی ہدایات اور بیّن دلائل کا انکار تو وہی لوگ کرتے ہیں جنہوں نے دانستہ طور پر نافرمانی کا وطیرہ اپنا لیا ہو۔ ان کی تاریخ یہ ہے کہ جب بھی ان سے عہد لیا گیا تو ان کی اکثریت نے اس عہد کو توڑدیا۔ جب بھی اس وعدے کی یاد دہانی اور تجدید عہد کے لیے اللہ کے برگزیدہ رسول ان کے پاس آئے تو ان کے ایک طبقہ نے حقائق جاننے کے باوجود اللہ تعالیٰ کے احکام سے اس طرح روگردانی اور ایسی لاپرواہی کے ساتھ اسے پس پشت ڈالا جیسا کہ ان کے پاس کوئی ہدایت پہنچی ہینہیں۔ انسان کی اخلاقی پستی کی اس وقت انتہا ہوجاتی ہے جب اسے اپنے منہ سے نکلی ہوئی بات کا پاس اور کئے ہوئے وعدہ کا احترام نہ رہے۔ (عَنْ أَنَسٍ (رض) قَالَ قَلَّمَا خَطَبَنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) إِلَّاقَالَ لَاإِیْمَانَ لِمَنْ لَّاأَمَانَۃَ لَہٗ وَلَا دِیْنَ لِمَنْ لَّا عَھْدَ لَہٗ) (مسند احمد : کتاب باقی مسند المکثرین، باب مسند أنس بن مالک) ” حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ اللہ کے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں جب بھی خطبہ ارشاد فرمایا آپ نے یہ کلمات ضرور ارشاد فرمائے جو امانت دار نہیں وہ ایماندار نہیں اور جو عہد کا پاسدار نہیں وہ دیندار نہیں۔“ عہد شکن کی سزا : (عَنِ ابْنِ عُمَرَ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ لِکُلِّ غَادِرٍ لِوَاءٌ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ یُعْرَفُ بِہٖ) (رواہ البخاری : باب إذا غصب جاریۃ فزعم أنھاماتت فقضی بقیمۃ) ” حضرت عبداللہ بن عمر (رض) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا ہر غدار کے لیے قیامت کے دن ایک جھنڈا ہوگا جس سے وہ پہچانا جائے گا۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ کے احکامات کا انکار کرنا پرلے درجے کی نافرمانی ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ کے احکام بڑے واضح اور بیّن ہیں۔ ٣۔ یہودی پرلے درجے کے عہد شکن اور کتاب اللہ سے پیٹھ پھیرنے والے ہیں۔ ٤۔ یہود و نصاریٰ نے تورات و انجیل کو یکسر فراموش کردیا ہے۔ ٥۔ لوگوں کی اکثریت ہمیشہ ایمان سے تہی دامن ہوا کرتی ہے۔ ٦۔ یہود ونصار یٰ اپنے تصدیق کرنے والے کو بھی تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ تفسیر بالقرآن عہد شکن کون اور اس کی سزا ؟ ١۔ کافر عہد کی پروا نہیں کرتا۔ (الانفال : ٥٦) ٢۔ بنی اسرائیل عہد شکن تھے۔ (النساء : ١٥٥) ٣۔ فاسق عہد شکن ہوتا ہے۔ (البقرۃ: ٢٧) ٤۔ عہد شکنی کے باعث آدمی ملعون اور اس کا دل سخت ہوجاتا ہے۔ (المائدۃ: ١٣) ٥۔ عہد شکن کو آخرت میں عذاب ہوگا۔ (الرعد : ٢٥) البقرة
100 البقرة
101 البقرة
102 فہم القرآن ربط کلام : اہل کتاب اپنے باطل نظریات کو ہی انبیاء کی طرف منسوب نہیں کرتے تھے بلکہ اپنی بد اعمالیاں بھی انبیاء کے ذمہ لگاتے ہیں جیسے کہ انہوں نے جادو کو حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے ذمہ لگا رکھا ہے۔ آیت کے پہلے حصے کے بارے میں بنی اسرائیل کی روایات کی بنا پر بعض مفسرین نے بڑی بے ہودہ باتیں درج کی ہیں جن کا عقل و نقل کے ساتھ دور کا بھی واسطہ دکھائی نہیں دیتا البتہ بنیادی اختلاف اہل علم کا یہ ہے کہ جو لوگ دوسرے ” ما“ کو نافیہ بناتے ہیں ان کے نزدیک معنٰی یہ بنتا ہے کہ ہاروت اور ماروت فرشتے ہونے کی بجائے شیطان تھے۔ جن کے ہاں لفظ ” ما“ موصولہ ہے وہ سمجھتے ہیں کہ جادو فرشتوں پر نازل کیا گیا تھا۔ ہم دونوں تفاسیر پیش کررہے ہیں تاکہ قارئین کو دونوں کا نقطۂ نگاہ سمجھنے میں آ سانی ہو۔ ہمارے نزدیک قرآن مجید کا یہ مقام بھی مشتبہات میں سے ہے۔ تفہیم القرآن : اس آیت کی تاویل میں مختلف اقوال ہیں مگر جو کچھ میں نے سمجھا ہے وہ یہ ہے کہ جس زمانے میں بنی اسرائیل کی پوری قوم بابل میں قیدی اور غلام بنی ہوئی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے دو فرشتوں کو انسانی شکل میں ان کی آزمائش کے لیے بھیجا ہوگا۔ جس طرح قوم لوط کے پاس فرشتے خوبصورت لڑکوں کی شکل میں گئے تھے‘ اسی طرح ان اسرائیلیوں کے پاس وہ پیروں اور فقیروں کی شکل میں گئے ہوں گے۔ وہاں ایک طرف انہوں نے بازار ساحری میں اپنی دکان لگائی ہوگی اور دوسری طرف وہ اتمام حجت کے لیے ہر ایک کو خبردار بھی کرتے ہوں گے کہ دیکھو‘ ہم تمہارے لیے آزمائش کی حیثیت رکھتے ہیں‘ تم اپنی عاقبت خراب نہ کرو۔ مگر اس کے باوجود لوگ ان کے پیش کردہ عملیات اور نقوش و تعویذات پر ٹوٹ پڑتے ہوں گے۔ فرشتوں کے انسانی شکل میں آ کر کام کرنے پر کسی کو حیرت نہ ہو۔ وہ سلطنتِ الٰہی کے کار پرداز ہیں۔ اپنے فرائضِ منصبی کے سلسلے میں جس وقت جو صورت اختیار کرنے کی ضرورت ہوتی ہے وہ اسے اختیار کرسکتے ہیں۔ ہمیں کیا خبر کہ اس وقت بھی ہمارے گردو پیش کتنے فرشتے انسانی شکل میں آ کر کام کر جاتے ہوں گے۔ رہا فرشتوں کا ایک ایسی چیز سکھانا جو بجائے خود بری تھی‘ تو اس کی مثال ایسی ہے جیسے پولیس کے بے وردی سپاہی کسی رشوت خوار حاکم کو نشان زدہ سِکّے اور نوٹ رشوت کے طور پر دیتے ہیں تاکہ اسے عین حالت ارتکاب جرم میں پکڑیں اور اس کے لیے بے گناہی کے عذر کی گنجائش باقی نہ رہنے دیں۔ تفسیر ثنائی : جو ترجمہ میں نے اختیار کیا ہے وہی قرطبی نے پسند کیا ہے۔ چنانچہ تفسیر ابن کثیر اور فتح البیان وغیرہ میں مذکور ہے مولانا نواب محمد صدیق حسن خان صاحب مرحوم نے بھی نقل کیا ہے بلکہ ترجیح دی ہے کہ ہاروت وماروت شیاطین سے بدل ہے جس کو دوسرے لفظوں میں یوں کہنا چاہیے کہ شیاطین سے دو شخص ہاروت وماروت مراد ہیں۔ اگر قرآن مجید کی آیات پر غور کریں تو یہی معلوم ہوتا ہے کیونکہ پہلی آیات میں خدا نے شیاطین کا فعل تعلیم سحر فرمایا ہے ” یُعَلِّمُوْنَ النَّاس السِّحْرَ“ دوسری میں اسی تعلیم سحر کی کیفیت بتلائی ہے یعنی ” وَمَا یُعَلِّمٰنِ مِنْ اَحَدٍ حَتّٰی یَقُوْلَآ“ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ دونوں تعلیمات کے معلم ایک ہی ہے یعنی شیاطین، کیونکہ یہ نہایت قبیح اور فصاحت کے خلاف ہے کہ مجمل فعل کے ذکر کے موقع پر تو ایک کو فاعل بتلایا جائے اور تفصیل کے موقع پر کسی اور کو بتلایا جائے۔ رہا یہ سوال کہ یہ مبدل منہ جمع ہے یعنی شیاطین اور بدل تثنیہ ہے یعنی ہاروت ماروت سو اس کا جواب یہ ہے کہ مبدل میں جمعیت با عتبار اتباع کے ہیں اور بدل تثنیہ با عتبار ذات کے ہے۔ ضیاء القرآن : اس آیت میں دو احتمال ہیں پہلا یہ کہ اس میں ” ما“ نا فیہ ہے اور یہ جملہ معترضہ ہے۔ اس صورت میں اس کا مطلب یہ ہوگا کہ یہود کا یہ کہنا کہ جادو بھی آسمان سے فرشتوں پر نازل ہوا اور فرشتوں نے ہی ہمیں یہ سکھایا۔ اس لیے یہ بھی صحائف آسمانی کی طرح آسمانی چیز ہے اور مقدس ہے۔ یہود کا یہ کہنا سراسر باطل ہے ”َوَمَا اُنْزِلَ عَلَی الْمَلَکَیْنِ“ فرشتوں پر ہرگز کوئی جادو نازل نہیں کیا گیا۔ ہاروت اور ماروت بدل بعض ہوگا شیاطین سے یعنی شیاطین جن کے دو سر کردوں کے نام ہاروت اور ماروت ہیں وہ جادو سکھایا کرتے تھے۔ علامہ قرطبی (رض) نے لکھا ہے ” ہٰذَا أَوْلٰی مَاحَمِلَتْ عَلَیْہِ الْاٰیَۃِ مِنَ التَّاْوِیْلِ وَ اَصَحَّ مَا قِیْلَ فِیْہَا وَلاَ یَلْتَفِتُ اِلٰی سِوَاہٍ“ یعنی آیت کی یہی تاویل کرنا چاہیے۔ یہی سب سے زیادہ صحیح قول ہے اور اس کے علاوہ کسی قول کی طرف التفات نہ کرنا چاہیے۔ واقعی اس تاویل سے کئی شبہات کا ازالہ ہوجاتا ہے۔ لیکن جمہور علماء کا قول یہ ہے کہ ” مَا اُنْزِلَ“ میں ما موصولہ ہے اور اس کا عطف اتِبَّعُوْا کے تحت ہے یعنی یہودی فلسطین میں مروج جادو پر بھی عمل پیرا تھے اور جب بخت نصربیت المقدس کو تاخت وتاراج کرنے کے بعد بنی اسرائیل کو جنگی قیدی بنا کر بابل لے گیا تو بجائے اس کے کہ اس کفر و الحاد کی بجائے دنیا میں وہ توحید کی تبلیغ کرتے الٹا وہاں کے لوگوں سے انہوں نے جادو سیکھا اور اس پر بھی عمل پیرا ہوئے۔ اب یہاں یہ خدشہ ہوتا ہے کہ ہاروت و ماروت جو معصوم فرشتے تھے انہیں کیونکر جادو کی تعلیم دینے کے لیے بابل میں اتارا گیا۔ تو اس کی حکمت یہ بیان کی گئی ہے کہ اس وقت ساری دنیا میں خصوصاً بابل کی مملکت میں جادو کا بہت رواج تھا۔ جادو کے زور سے لوگ طرح طرح کے کرشمے دکھاتے جس سے سادہ لوح لوگ دنگ رہ جاتے تھے۔ ان کے نزدیک جادو اور معجزہ میں کوئی فرق نہیں رہ گیا تھا۔ بلکہ وہ جادو کو علم کی ایک مفید ترین شاخ تصور کرنے لگے تھے اور جادو گروں کو مقدس ماننے لگے تھے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے دو فرشتے نازل کیے جو لوگوں کو جادو کی اصلیت سے آگاہ کریں تاکہ وہ آسانی سے جادو کی فریب کاری اور معجزہ کی حقیقت میں تمیز کرسکیں اور اگر انہوں نے جادو سیکھ کر اس پر عمل کرنا شروع کردیا تو یہ ان کی اپنی غلطی تھی۔ فرشتے تو انہیں صاف طور پر بتا دیتے کہ ہمیں تو فقط تمہاری آزمائش کے لیے بھیجا گیا ہے۔ اگر تم نے جادو پر عمل شروع کردیا تو خوب سن لو کہ ایمان رخصت ہوجائے گا اور کافر ہوجاؤ گے۔ فہم القرآن : قرآن مجید یہودیوں کی تاریخ کا تذکرہ کرتے ہوئے بتلاتا ہے کہ یہودی اس قدر دولت انصاف سے تہی دامن ہوگئے کہ اپنی حمایت میں آنے والے پیغمبروں کی تائید بھی ان کی طبیعتوں پر گراں اور ناگوار ثابت ہوئی اور انہوں نے اللہ تعالیٰ کی کتاب کو اس طرح پس پشت ڈالا اور اس حد تک لا پرواہی کا مظاہرہ کیا جیسا کہ کتاب ہدایت کے ساتھ ان کی کبھی نسبت ہی نہیں تھی۔ آسمانی ہدایت سے محروم ہونے کا منطقی نتیجہ یہ نکلا کہ وہ جادو اور کفریہ وظائف کرنے لگے اور پھر اس کو عظیم پیغمبر اور منصف ترین حکمران جناب سلیمان (علیہ السلام) کے دامن پاک پر یہ کہہ کر داغ لگانے کی کوشش کی کہ وہ بھی تو جادو کے ذریعے ہی ہواؤں اور فضاؤں پر حکومت کیا کرتے تھے۔ جس کی وضاحت کرتے ہوئے اس کتاب عظیم میں حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی صفائی پیش کرنے کے ساتھ جادو کی حقیقت بتلائی جارہی ہے کہ جادو تو کفر ہے اور سلیمان (علیہ السلام) ہرگز ایسا نہیں کرسکتے تھے۔ جادو کی تاریخ : اہل لغت‘ مفسرین اور محدثین نے تحریر فرمایا ہے کہ جادو ایسا عجیب و غریب علم اور فن ہے جس سے سب سے پہلے لوگوں کی فکر ونظر کو متاثر کیا جاتا ہے اسی بناء پر انبیاء کرام (علیہ السلام) پر لگنے والے الزامات میں ایک سنگین الزام یہ بھی ہوا کرتا تھا کہ یہ رسول نہیں بلکہ جادو گر ہے۔ انبیاء کے مخالف اسی الزام کی بنیاد پر بہت سے لوگوں کو ان سے دور رکھنے میں کامیاب ہوا کرتے تھے کیونکہ ہر نبی کی گفتگو اس قدر مؤثر اور مدلّل ہوا کرتی تھی جس سے لوگوں کی سوچ کے زاویے تبدیل ہوجایا کرتے تھے اس لیے مخالف یہ کہہ کر لوگوں میں پروپیگنڈا کرتے کہ اس نبی کے قریب ہونے کی کوشش نہ کرنا کیونکہ اس کی زبان میں جادو ہے۔ جادو کا معنٰی : عربی ڈکشنری کے حوالے سے اہل لغت نے سحر کے کئی معانی بیان کیے ہیں۔ سحر ایسا عمل جس کے ذریعے شیطان کی قربت یا اس کی مدد طلب کی جائے۔ الازھری کا خیال ہے کسی چیز کو اس کی اصلیت سے بدل دینے کا نام سحر ہے (تہذیب اللغتہ) صاحب المعجم الوسیط سحرکا مطلب بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ایسا علم جس کی بنیاد انتہائی لطیف ہو۔ محیط المحیط کے مصنف لکھتے ہیں کہ سحر ایسا فن ہے جس سے کسی چیز کو اس طرح پیش کیا جائے جس سے لوگ ششدر رہ جائیں۔ شریعت کے حوالے سے علماء نے جادو کی مختلف تشریحات کی ہیں جن کا خلاصہ یہ ہے : ( اَلسِّحْرُ ہُوَ عَقْدٌ وَرُقیً وَکَلَامٌ یُتَکَلَّمُ بِہٖ اَوْ یَکْتُبُہُ اَوْیَعْمَلُ شَیْءًا یُؤَ ثَّرُ فِیْ بَدَنِ الْمَسْحُوْرِ اَوْ قَلْبِہٖ اَوْ عَقْلِہٖ) (المغنی لابن قدامہ ) ” جادو! گرہ، دم اور ایسی تحریر یا حرکات پر مشتمل ہوتا ہے جس کے ذریعے دوسرے کے وجود اور دل و دماغ پر اثر انداز ہوا جاتا ہے۔“ علامہ ابن قیم (رض) جادو کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ( وَالسِّحْرُہُوَ مُرَکَّبُ ٗ مِّنْ تَأْ ثِیْرَاتِ الْاَرْوَاحِ الْخَبِیْثَۃِ وَانْفِعَالِ الْقُوَی الطَّبِیْعِیَّۃِ عَنْھَا) (زادالمعاد) ” جادو خبیث جنات کے ذریعے کیا جاتا ہے یعنی اللہ تعالیٰ کے علاوہ خبیث جنات سے مدد طلب کی جاتی ہے۔ جس سے لوگوں پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔“ جادو کی اقسام : مشہور مفسر امام رازی (رض) نے جادو کو آٹھ قسموں میں تقسیم کیا ہے۔ ان کی تقسیم سے معلوم ہوتا ہے کہ اس زمانے میں جادوگروں نے اپنے فن کے لیے کون کون سے طریقے ایجاد کر رکھے تھے۔ جادو کوئی مستقل اور مستند علم نہیں کہ جس کو کرنے کے لیے کوئی خاص طریقہ متعین کیا گیا ہو کیونکہ جادو تصنّع بازی کا نام ہے اس لیے ہر دور میں اس کی کرشمہ سازی اور اثر انگیزی میں اضافہ کرنے کے لیے نئے نئے طریقے ایجاد کیے گئے۔ مندرجہ بالا بحث کا خلاصہ : ١۔ کفر یہ، شرکیہ الفاظ کے ہیر پھیر کے ذریعے جادو کرنا۔ ٢۔ برے لوگوں، خبیث جنّات اور شیاطین کے ذریعے کسی پر اثر انداز ہونا۔ ٣۔ علم نجوم کے ذریعے غیب کی خبریں دینا اور دوسرے کو متاثر کرنا۔ ٤۔ توجہ سمریزم کی مخصوص حرکات، (ہیپناٹزم) کے ساتھ حواس خمسہ کو قابو کرنا۔ جادو کے انگلش میں نام : کالا جادو Black Magic سفید جادو White Magic قوت ارادی Will Power توجہ مرکوز کرنا Concentrate Pay heed, Pay attention مسمریزم Spell pound Force to concentrate by magic توجہ دینا‘ توجہ دلانا Concentrate= Focus = جادوگر بننے کے گھٹیا طریقے : غلط و ظائف، بھرپور شعبدہ بازی اور فنی مہارت کے باوجود جادوگر اس وقت تک کامیاب نہیں ہوسکتا جب تک جادوگر اللہ تعالیٰ کی کسی حلال کردہ چیز کو اپنے لیے حرام قرار نہ دے۔ اس کے ساتھ ہی اسے خاص قسم کی غلاظت اور بدترین قسم کا گناہ کرنا پڑتا ہے۔ اسی وجہ سے جادوگرمرد ہو یا عورت اس سے خاص قسم کی بو آیا کرتی ہے۔ یہ لوگ جسمانی طور پر جس قدر گندے ہوں گے اسی رفتار سے ان کے شیطانی عمل دوسروں پر اثرانداز ہوں گے یہی وجہ ہے کہ ایک جادوگر اپنے شاگرد کو اپنا پیشاب پینے کا سبق دیتا ہے اور دوسرا پاخانہ کھانے کا حکم دیتا ہے اور کوئی غسل واجب سے منع کرتا ہے۔ گویا کہ کوئی نہ کوئی غلاظت اختیار کرنا جادوگر کے لیے ضروری ہے۔ البتہ آج کل لوگوں کو دھوکہ دینے کے لیے اس قسم کی باتیں چھپاتے ہیں جب کہ حقیقت یہ ہے کہ اس کے بغیر جادو اثرانداز نہیں ہوتا۔ بے شک جادہ کتنا اچھا لباس پہنے ہوئے ہو۔ اس طرح ہی جادو کفریہ اور شرکیہ وظائف کے بغیر اثر انداز نہیں ہوتا۔ جادو کی فتنہ انگیزیاں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) جادو سے خوف زدہ ہوگئے : (وَجَآء السَّحَرَۃُ فِرْعَوْنَ قَالُوْا اِنَّ لَنَا لَاَجْرًا اِنْ کُنَّا نَحْنُ الْغٰلِبِیْنَ قَالَ نَعَمْ وَاِنَّکُمْ لَمِنَ الْمُقَرَّبِیْنَ۔ قَالُوْ ا یَامُوْسٰٓی اِمَّا اَنْ تُلْقِیَ وَاِمَّا اَنْ نَّکُوْنَ نَحْنُ الْمُلْقِیْنَ۔ قَالَ اَلْقُوْا فَلَمَّا اَلْقَوْا سَحَرُوْا اَعْیُنَ النَّاسِ وَاسْتَرْہَبُوْ ھُمْ وَجَآءُ وْا بِسِحْرٍ عَظِیْمٍ) (الاعراف : ١١٣ تا ١١٦) ” جادوگر فرعون کے پاس آکر کہنے لگے اگر ہم غالب آگئے تو کیا ہمیں صلہ بھی ملے گا؟ فرعون نے کہا ہاں میرے دربار میں منصب ملیں گے۔ پھر جادو گر کہنے لگے موسیٰ تم پھینکتے ہو یا ہم پھینکیں؟ موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا تم ہی ڈالو۔ پھر انہوں نے اپنی رسیاں وغیرہ پھینکیں تو انہوں نے لوگوں کی آنکھوں پر جادو کردیا اور لوگ ان سے دہشت زدہ ہوگئے کیونکہ وہ زبردست جادو کے ساتھ آئے تھے۔“ (فَاَجْمِعُوْاکَیْدَ کُمْ ثُمَّ اءْتُوْا صَفًّا وَقَدْ اَفْلَحَ الْیَوْمَ مَنِ اسْتَعْلٰی . قَالُوْا یٰمُوْسٰٓی اِمَّا اَنْ تُلْقِیَ وَاِمَّا اَنْ نَّکُوْنَ اَوَّلَ مَنْ اَلْقٰٰی۔ قَالَ بَلْ اَلْقُوْا فَاِذَا حِبَالُھُم وَعِصِیُّھُمْ یُخَیَّلُ اِلَیْہِ مِنْ سِحْرِہِمْ اَنَّھَا تَسْعٰی۔ فَاَوْجَسَ فِیْ نَفْسِہٖ خِیْفَۃً مُّوْسٰی۔ قُلْنَا لَاتَخَفْ اِنَّّکَ اَنْتَ الْاَعْلٰی) ( طٰہٰ: ٦٤ تا ٦٨) ” اپنی سب تدبیریں جمع کرو اور متحد ہو کر مقابلہ میں آؤ اور سمجھ لو کہ آج جو غالب رہا وہ جیت گیا۔ کہنے لگے موسیٰ تم ڈالتے ہو یا پہلے ہم ڈالیں؟ موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا تم ہی ڈالو“ پھر ان کے جادو کے اثر سے ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ان کی رسیاں اور لاٹھیاں یک دم دوڑنے لگی ہیں۔ یہ دیکھ کر موسیٰ (علیہ السلام) اپنے دل میں خوف زدہ ہوگئے ہم نے موسیٰ سے کہا ڈرو نہیں تم ہی غالب رہو گے۔“ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر جادو کے اثرات : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عمر مبارک تقریباً ٦٠ سال ہوچکی تھی یہود و نصاریٰ اور اہل مکہ ہر طرف سے ناکام و نامراد ہوگئے۔ تب اہل یہود نے آپ کی ذات پر جادو کے ذریعے اثر انداز ہونے کی کوشش کی جس کے لیے لبیدبن اعصم نے اپنی بہنوں یا بیٹیوں سے مل کر کسی طریقے سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سر مبارک کے بال حاصل کیے اور ان میں گرہیں ڈالتے ہوئے کھجور کے گابے کا ایک پتلا بنا کر ہر گرہ میں ایک ایک سوئی داخل کردی اور ان پر جادو کیا۔ اس جادو کے اثرات کی وجہ سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طبیعت ایک مہینہ تک مضمحل رہی۔ اس تکلیف کے آخری ایام میں آپ رات کو بھی بے سکونی محسوس کرتے تھے۔ اس کیفیت کو حضرت عائشہ صدیقہ (رض) اس طرح بیان کرتی ہیں کہ جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صلح حدیبیہ سے واپس لوٹے تو آپ پر جادو کا شدید ترین حملہ ہوا جس کا آپ کے ذہن پر یہ اثرہواکہ آپ خیال کرتے کہ میں یہ کام کرچکا ہوں جبکہ آپ نے وہ کام کیا نہیں ہوتا تھا۔ اس صورت حال میں آپ اللہ کے حضور اٹھتے بیٹھتے دعائیں کرتے، بالآخر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو وحی کے ذریعے اس کربناک صورت حال سے آگاہ کردیا گیا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں : عائشہ ! اللہ تعالیٰ نے مجھے اس تکلیف سے نکلنے کی تدبیر بتا دی ہے۔ اب میں اس سے شفایاب ہوجاؤں گا وہ اس طرح کہ میرے پاس خواب میں دو فرشتے آئے ان میں ایک میرے سر کی طرف اور دوسرا پاؤں کی طرف کھڑا ہوا۔ ایک نے دوسرے سے میری تکلیف کے بارے میں پوچھا۔ وہ جواب دیتا ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جادو ہوگیا ہے۔ پہلے نے پوچھا جادو کس نے کیا ؟ دوسرے نے جواب دیا لبید بن اعصم یہودی نے۔ وہ پوچھتا ہے کہ کس چیز سے جادو کیا گیا ہے؟ دوسرے نے کہا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بالوں اور نرکھجور کے خوشے میں کیا گیا ہے۔ یہ کہاں رکھا گیا ہے؟ فلاں ویران کنویں میں رکھا ہوا ہے۔ اس خواب کے بعد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) چند صحابہ کے ساتھ اس کنویں پر تشریف لے گئے۔ حضرت عائشہ (رض) کا فرمان ہے کہ اس کنویں کے درختوں سے بھی خوف محسوس ہوتا تھا۔ جب وہ پتلا وہاں سے نکالا گیا توحضرت جبرائیل امین تشریف لائے انہوں نے بالوں کی گرہیں کھولنے اور جادو کے اثرات ختم کرنے کے لیے فرمایا آپ سورۃ الفلق اور سورۃ الناس کی ایک ایک آیت پڑھتے جائیں یہ گیارہ آیات ہیں اس طرح گیارہ گرہیں کھولتے ہوئے سوئیاں نکال دی جائیں۔ آپ کی نگرانی میں صحابہ کرام (رض) نے ایسا کیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طبیعت اس طرح ہشاش بشاش ہوگئی جس طرح کسی جکڑے ہوئے انسان کو کھول دیا جائے۔ اس کے بعدآپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا معمول تھا کہ رات سوتے وقت ان سورتوں کی تلاوت کر کے جہاں تک آپ کے ہاتھ پہنچتے اپنے آپ کو دم کیا کرتے تھے جس کی تفصیل معوّذات کے باب میں بیان کی جائے گی۔ (رواہ البخاری : کتاب الطب، باب السحر) اس واقعہ پر ہونے والے اعتراضات اور ان کے جوابات : غیرمسلم اور منکرین حدیث اس واقعہ پر اعتراضات کرتے ہوئے درج ذیل سوالات اور شبہات پیدا کرتے ہیں : اعتراض : آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر جادو کے اثرات تسلیم کرلیے جائیں تو کفار کے اس اعتراض کا جواب دینا مشکل ہوگا۔ ( وَقَال الظّٰلِمُوْنَ اِنْ تَتَّبِعُوْنَ اِلَّا رَجُلاً مَّسْحُوْرًا۔) (الفرقان : ٨) ” اور ظالموں نے کہا کہ تم صرف ایک جادو کے مارے ہوئے آدمی کی پیروی کرتے ہو۔“ جواب : ١۔ اہل مکہ نے آپ پر جادو ہونے کا الزام نبوت کے ابتدائی دور میں لگایا تھا اور یہ واقعہ مدینہ طیبہ میں صلح حدیبیہ کے بعد نبوت کے بیسویں سال پیش آیا یہی وجہ ہے کہ آج تک کسی شخص نے اپنی تائید کے لیے اوپر دلیل کو پیش نہیں کیا۔ ٢۔ نبی پر جادو ہونا ناممکن نہیں کیونکہ آپ زندگی میں بیمار بھی ہوئے اور غزوہ احد میں زخمی بھی ہوئے تھے بحیثیت انسان زندگی میں آپ کو متعدد بار روحانی پریشانیاں اور جسمانی تکالیف بھی اٹھانی پڑی تھیں۔ لہٰذا آپ پر جادو کا اثر انداز ہوناعقل وفکر اور فطرت کے خلاف نہیں۔ ٣۔ جادو کے اثرات نبوت کے امور پر اثر انداز نہیں ہوئے تھے۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے کار نبوت کی ادائیگی کا ذمّہ لیا ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس تکلیف کے دوران کبھی ایسا نہیں ہوا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کوئی مسئلہ پہلے سے الٹ بیان کردیا ہو۔ جادو، ٹونے کا شرعی علاج جو شخص جادو یا جنات کے اثرات محسوس کرے اسے درج ذیل اقدامات کرنے چاہییں۔ کیونکہ دین نے ایسا کرنے کی رہنمائی فرمائی ہے۔ طہارت کا اہتمام : طہارت اور صفائی کا خصوصی اہتمام کیا جائے اور ہر وقت باوضو رہنا سنّت بھی ہے اور مفید بھی۔ خوشبو کا استعمال : خوشبو سنت سمجھ کر لگائیں گے تو دنیا میں شفا اور آخرت میں جزا ملے گی۔ تلاوت قرآن مجید اور کثرت ذکر : ہر وقت اللہ کا ذکر کرتے رہنا چاہیے خاص کر گھر میں قرآن مجید کی تلاوت اور نوافل پڑھنا۔ یاد رکھیے کہ قرآن مجید کی تلاوت کم از کم اتنی آواز میں ہونی چاہیے کہ پڑھنے والے کو قرآن مجید کے الفاظ سنائی دیں۔ دَم : سورۃ البقرۃ، آیت الکرسی اور آخری تین سورتیں یعنی معوذات کے ساتھ صبح‘ شام تین تین مرتبہ پڑھ کر اپنے آپ کو دم کرنا سنت ہے۔ مسلسل دعا : حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر جب جادو ہوا تو آپ بار بار اللہ تعالیٰ سے جاد و کے اثرات کو ختم کرنے کی دعا کرتے تھے۔ لہٰذا ایسی صورت حال میں مریض کو اٹھتے بیٹھتے ہر وقت دل اور زبان سے اللہ کے حضور اس مصیبت سے نجات کی التجائیں کرنی چاہیں۔ اذان دینا : اثرات زدہ گھر میں اذان کہنی چاہیے کیونکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان ہے کہ اذان سن کر شیطان دور بھاگ جاتا ہے۔ (۔۔ حوالہ لعنت بھیجنا : جادو کرنے، کروانے والے اور شیطان کو ذہن میں رکھتے ہوئے کثرت کے ساتھ درج ذیل الفاظ پڑھنا چاہییں کیونکہ جب نماز کی حالت میں ایک جن نے آگ کا بگولہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے چہرہ مبارک کے قریب کیا تھا تو آپ نے اس پر یہ الفاظ کہے تھے (الفاظ حوالہ۔۔) آپ کا ارشاد ہے کہ جب کوئی لعنت کرنے والا لعنت کرتا ہے اگر واقعتا مظلوم ہے تو اس کی لعنت ظالم پر ضرور اثر انداز ہوگی۔ ” عَلَیْھِمْ لَعْنَۃُ اللّٰہِ وَالْمَلَآ ءِکَۃِ وَالنَّاسِ اَجْمَعِیْنَ“ تفصیل کے لیے دیکھیے میری کتاب جادو کی تباہ کاریاں (عَنِ الْقَعْقَاعِ اَنَّ کَعْبَ الْاَحْبَارِ قَالَ لَوْلَاکَلِمَاتٌاَقُوْلُہُنَ لَجَعَلَتْنِیْ یَہُوْدُ حِمَارًافَقِیْلَ لَہٗ مَاہُنَّ قَالَ اَعُوْذُ بِوَجْہِ اللّٰہِ الْعَظَیْمِ الَّذِیْ لَیْسَ شَیْءٌ اَعْظَمَ مَنْہُ وَبِکَلِمَات اللّٰہِ التَّامَاتِ الَّتِیْ لَایُجَاوِزُہُنَّ بَرٌّ وَلَافَاجِرٌ وَبِاَسْمَاء اللّٰہِ الْحُسْنیٰ مَا عَلِمْتُ مِنْہَاوَمَالَمْ اَعْلَمُ مِنْ شَرِّ مَاخَلَقَ وَذَرَاءَ وَبَرَاءَ) (رواہ مالک۔۔) ” حضرت قعقاع (رض) بیان کرتے ہیں کہ حضرت کعب احبار (رض) نے فرمایا اگر میں یہ دعا نہ پڑھتا ہوتا تو یہودی مجھے گدھا بنادیتے۔ حضرت کعب سے ان کلمات کے متعلق دریافت کیا گیا تو انہوں نے کہا وہ کلمات یہ ہیں : میں پناہ چاہتا ہوں تیرے عظیم چہرے کی بدولت جس سے بڑھ کر کوئی عظیم چیز نہیں اور اللہ کے ان کامل کلمات کے ساتھ جن سے کوئی نیک وفاجر سبقت نہیں لے جاسکتا اور اللہ کے اسمائے حسنیٰ کے ساتھ جو میں جانتا ہوں اور جو میں نہیں جانتا ہر اس چیز کی شر سے جسے اس نے پیدا کیا اور پھیلایا یا جس کے پاس سے میرا گزر ہوتا ہے۔“ مسائل ١۔ جادو کرنا اور سیکھنا کفر ہے۔ ٢۔ جادو گر شیطان سے مدد طلب کرتا ہے۔ ٣۔ جادو بذات خود کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ ٤۔ جادوگرقیامت کے دن عذاب سے دوچار ہوگا۔ تفسیر بالقرآن جادو کیا ہے ؟: ١۔ جادوکفر ہے۔ (البقرۃ: ٢١٠٢۔ جادو کی اصلیت نہیں ہوتی۔ (الاعراف : ١١٦) ٣۔ جادو شیاطین کے ذریعے ہوتا ہے۔ (البقرۃ : ١٠٢) ٤۔ جادوگر کامیاب نہیں ہوتا۔ (طٰہٰ: ٦٩) البقرة
103 البقرة
104 فہم القرآن ربط کلام : یہودی جبریل امین، حضرت سلیمان (علیہ السلام) اور پہلے انبیاء کے بدترین گستاخ تھے اور ہیں اسی عادت خبیثہ کی وجہ سے نبی آخر الزماں (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی گستاخیاں کیا کرتے ہیں جس کی سزا جہنم قرار دی گئی ہے۔ ہر زبان میں کچھ الفاظ ایسے ہوتے ہیں جو دوسری زبان سے ملتے جلتے اور ہم آواز ہوتے ہیں۔ عربی کے جو الفاظ عبرانی زبان سے مشابہت اور مماثلت رکھتے ہیں ان میں ایک لفظ ” راعنا“ ہے۔ جس کو ذرا کھینچ کر ادا کیا جائے تو اس کے معانی بنتے ہیں احمق‘ اجڈ اور چرواہا۔ مسلمانوں کی عزت، اسلام کی عظمت ورفعت اور نبی محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے احترام واکرام میں روز افزوں اضافہ دیکھ کر یہودی اپنے دلوں میں کڑھتے اور جلتے رہتے اور اپنے دل کی بھڑاس نکالنے کے لیے وہ کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے تھے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے میں آپ کی مجلس میں آتے تو آپ کی گفتگو کے دوران ” راعنا“ کا لفظ استعمال کر کے یہ تأثر دینے کی کوشش کرتے کہ ہم آپ کی بات کو سمجھ نہیں سکے۔ بسا اوقات فہم کلام کے لیے مسلمان بھی آپ کی خدمت میں ” رَاعِنَا“ عرض کرتے لیکن دونوں کی ادائیگی اور نیت میں زمین و آسمان کا فرق تھا۔ صحابہ کا مقصد یہ تھا کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تھوڑاسا توقف فرمائیں تاکہ آپ کا ارشاد سمجھنے میں آسانی ہو۔ یہودی گستاخی کے انداز میں بولتے اور بعد ازاں اپنی مجلسوں میں مسلمانوں کا مذاق اڑاتے کہ دیکھو ان کا نبی اور یہ لوگ کس قدر نادان اور بیوقوف ہیں کہ انہیں اس لفظ کا مفہوم سمجھ نہیں آتا۔ اس موقع پر ارشاد خداوندی نازل ہوا کہ اے مسلمانو! اب کے بعد اس ذو معنیٰ لفظ کو ہمیشہ کے لیے چھوڑ دو۔ اس کی بجائے ” انظرنا“ کا لفظ استعمال کیا کرو جس کا معنٰی ہے اے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہماری طرف نظر التفات فرمائیں۔ پھر جو کچھ آپ کی زبان اقدس سے الفاظ جاری ہوں انہیں پوری توجہ اور اخلاص کے ساتھ سنا کرو۔ ” وَاسْمَعُوْا“ کا لفظ استعمال فرما کر یہ اشارہ بھی دیا کہ دوران خطاب متکلم کو ٹوکنا سننے والے کی عدم توجہ کی دلیل ہوا کرتا ہے۔ لہٰذا سامع کا فرض ہے کہ وہ دوسرے کے کلام کو ایسے انہماک کے ساتھ سنے کہ حتی الوسع اسے استفسار کرنے کی حاجت پیش نہ آئے۔ اس آیت میں فرمایا ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کے کلام کو عدم توجہ اور بد نیتی کے ساتھ سننے کی بجائے ہمہ تن گوش ہو کر سننا اور ماننا چاہیے۔ یہ بھی انتباہ فرمایا کہ رسول خدا کی گستاخی کرنا کفر ہے۔ یہودی انبیاء کے گستاخ نوح (علیہ السلام) اور شراب : بائبل میں لکھا ہے کہ ” اس نے مے پی اور اسے نشہ آیا اور وہ اپنے ڈیرے میں برہنہ ہوگیا۔“ اس کے بیٹے حام نے انہیں اس حالت میں دیکھا۔ (پیدائش ٦: ٩‘ ٩ : ٢٠۔ ٢٢) لوط (علیہ السلام) اور ان کی بیٹیاں : بائبل کے بیان کے مطابق‘ لوط (علیہ السلام) کی دو سگی بیٹیوں نے انہیں شراب پلائی اور پھر باری باری ان سے ہم آغوش ہوئیں۔ (نعوذ باللہ) حتی کہ لوط (علیہ السلام) کی یہ دونوں بیٹیاں اپنے باپ سے حاملہ ہوئیں اور ان سے ایک ایک بیٹا پیدا ہوا۔ (پیدائش ١٩: ٣٠۔ ٣٨) حضرت داؤد (علیہ السلام) کے بیٹوں پر الزام : بائبل کے بیان کے مطابق‘ داؤد کا بیٹا امنون بھی عشق اور زناکاری کے مرحلہ سے گزرا‘ اور اس نے یہ کام اپنی سوتیلی بہن تمر سے کیا۔ اس نے مقصد برآوری کے لیے فریب اور جھوٹ سے کام لیا اور دھوکہ سے بہن کو الگ کمرہ میں بلا کر اس سے زبردستی کی۔ داؤد نے یہ سب سنا تو ” نہایت غصہ ہوا“ مگر امنون کو پورے دو سال تک کوئی سزا نہ ملی۔ یہاں تک کہ داؤد کے ایک دوسرے بیٹے اور تمر کے سگے بھائی ابی سلوم نے دھوکہ سے امنون کو مروا کر اپنی بہن کا بدلہ لے لیا۔ (سموئیل۔ باب ١٣) حضرت سلیمان (علیہ السلام) پر شرک کا الزام : ” اور سلیمان بادشاہ فرعون کی بیٹی کے علاوہ بہت سی اجنبی عورتوں سے۔۔ محبت کرنے لگا۔۔ اور اس کے پاس سات سو شہزادیاں اور تین سو حر میں تھیں۔ اس کی بیویوں نے اس کے دل کو غیر معبودوں کی طرف مائل کرلیا اور اس کا دل خداوند کے ساتھ کامل نہ رہا، جیسا کہ اس کے باپ داؤد کا دل تھا۔۔ سلیمان نے خداوند کے آگے بدی کی اور اس نے خداوند کی پوری پیروی نہ کی جیسی اس کے باپ داؤد نے کی تھی۔ (سلاطین ١: ١۔ ٤) گستاخ اور شاتم رسول کی سزا نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عظمت و تکریم مسلمان کے ایمان کا بنیادی جزو ہے۔ آپ کی شان اقدس میں گستاخی کرنے والا آخرت میں سخت ترین عذاب میں مبتلا ہوگا اور دنیا میں واجب القتل ہے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے اور اسلام کے بے شمار دشمنوں کو معاف فرما دیا لیکن چند بدبختوں کے بارے میں فرمایا کہ اگر وہ کعبہ کے پردوں سے چمٹ جائیں تو بھی انہیں قتل کردیا جائے۔ یہ فرمان ذاتی انتقام پسندی کی وجہ سے نہ تھا کیونکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں حضرت عائشہ (رض) اور صحابہ کرام (رض) کی گواہی ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کبھی کسی سے ذاتی انتقام نہیں لیا۔ یہ اس وجہ سے تھا کہ شاتم رسول دوسروں کے دلوں سے عظمت و احترام رسول گھٹانے کی کوشش کرتا اور ان میں کفر و نفاق کے بیج بوتا ہے۔ اس لیے توہین رسول کو برداشت کرلینا، ایمان سے ہاتھ دھونے اور دوسروں کے ایمان چھن جانے کا راستہ کھولنے کرنے کے مترادف ہے۔ نیز رسالت مآب (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) چونکہ ہر زمانے کے مسلمانوں کی محبت عقیدت کا مرکز و محور ہے اور اس کے بغیر مسلمان کا ایمان اللہ کی بارگاہ میں قبول نہیں ہے اس لیے جو زباں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر طعن کے لیے کھلتی ہے۔ اگر اسے کاٹا نہ جائے اور جو قلم آپ کی گستاخی کے لیے اٹھتا ہے اگر اسے توڑا نہ جائے تو اسلامی معاشرہ اعتقادی و عملی فساد کا شکار ہو کر رہ جائے گا۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نازیبا الفاظ کہنے والا امام ابن تیمیہ (رض) کے الفاظ میں ساری امت کو گالی دیتا ہے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مسلمانوں کے ایمان اور غیرت کی خاطر گستاخی کرنے والے کو قتل کرنے کا حکم دیا۔ امام ابن تیمیہ (رض) اپنی کتاب ” الصارم المسلول علی شاتم الرسول“ میں فرماتے ہیں کہ ائمہ اہلحدیث امام احمد (رض) اور امام مالک (رض) کے نزدیک شاتم رسول کی توبہ اسے قتل کی سزا سے نہیں بچا سکتی جبکہ امام شافعی (رض) سے اس سلسلہ میں توبہ کے قبول و عدم قبول کے دونوں قول منقول ہیں۔ البتہ امام ابو جعفر (رض) کے نزدیک اگر وہ سزا سے پہلے توبہ کرے تو سزا سے بچ سکتا ہے۔ امام ابن تیمیہ (رض) اکثر محدثین اور فقہا کی طرح اس بات کے قائل ہیں کہ شاتم رسول توبہ کے باوجود قتل کی سزا کا مستحق ہے۔ انہوں نے اس سلسلہ میں اپنی کتاب کے مختلف مقامات پر جو دلائل دیے ہیں ان کا خلاصہ حسب ذیل ہے۔ (١)۔ شاتم رسول فساد فی الارض کا مرتکب ہوتا ہے اور اس کی توبہ سے اس بگاڑ کی تلافی نہیں ہوسکتی جو اس نے لوگوں کے دلوں میں پیدا کیا ہے۔ (٢)۔ اگر توبہ کی وجہ سے سزا نہ دی جائے تو اس سے دوسرے بدبختوں کو جرأت ہوگی کہ وہ جب چاہیں توہین رسول کا ارتکاب کریں اور جب چاہیں توبہ کر کے سزا سے بچ جائیں۔ اس طرح غیروں کو موقع ملے گا کہ وہ مسلمانوں کی غیرت ایمانی کو بازیچۂ طفلاں بنا لیں گے۔ (٣)۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اہانت وتحقیر کے جرم کا تعلق حقوق اللہ سے بھی ہے اور حقوق العباد سے بھی۔ حقوق اللہ اللہ تعالیٰ چاہے معاف کر دے مگر حقوق العباد میں زیادتی اس وقت تک معاف نہیں ہوتی جب تک متعلقہ مظلوم اسے معاف نہ کرے۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی حیات مبارکہ میں اگر کسی کا یہ جرم معاف کرنا چاہتے تو کرسکتے تھے۔ مگر اب اس کی کوئی گنجائش نہیں۔ امت مسلمہ یا مسلمان حاکم آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے نیابۃً اس جرم کو معاف کرنے کا حق نہیں رکھتے۔ (٤)۔ قتل، زنا، سرقہ جیسے جرائم کے بارے میں بھی اصول یہی ہے کہ ان کا مجرم سچی توبہ کرنے سے آخرت کی سزا سے بچ سکتا ہے‘ مگر دنیاوی سزا سے نہیں۔ یہ ممکن نہیں کہ قاتل‘ زانی یا چور گرفتار ہوجائے اور کہے کہ میں نے جرم تو کیا ہے مگر اب توبہ کرتا ہوں تو اسے چھوڑ دیا جائے اسے ہر صورت سزا دی جائے گی۔ اسی طرح شاتم رسول کا مرتکب بھی جرم کے بعد توبہ کا اظہار کرے تو دنیاوی سزا سے نہیں بچ سکتا اور اس کا جرم مذکورہ جرائم سے زیادہ سنگین ہے۔ گستاخ رسول کے بارے میں احکامات (اِنَّ الَّذِیْنَ یُؤْذُوْنَ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ لَعَنَہُمُ اللّٰہُ فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃِ وَاَعدَّلَہُمْ عَذَابًا مُہِیْنًا) (الأحزاب : ٥٧) ” بے شک جو لوگ اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تکلیف دیتے ہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے دنیا و آخرت میں ان پر لعنت ہے اور ان کے لیے ذلیل کرنے والا عذاب تیار کر رکھا ہے۔“ گستاخ رسول کا قتل : ( اِنَّ أعْمٰی کَانَتْ لَہٗ اُمُّ وَلَدٍ تَشْتُمُ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وَ تَقَعُ فِیْہِ فَیَنْہَا ہَا فَلَا تَنْتَہِیْ وَیَزْجُرُہَا فَلَا تَنْزَجِرُ فَلَمَّا کَانَتْ ذَاتَ لَیْلَۃٍ جَعَلَتْ تَقَعُ فِی النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وَتَشْتُمُہٗ فَاخَذَا لْمِغْوَلَ فَوَ ضَعَہٗ فِیْ بَطْنِہَا وَتَّکَأَ عَلَیْہَا فَقَتَلَہَا فَلَمَّا أَصْبَحَ ذُکِرَ ذَلِکَ للنَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَجَمَعَ النَّاسَ فَقَالَ اُنْشِدُ رَجُلًا فَعَل مَا فَعَلَ لِیْ عَلَیْہِ حَقُّٗ اِلَّا قَامَ قَالَ فَقَامَ الْاَعْمٰی یَتَخَطَّی النَّاسَ وَہُوَ یَتَدَلْدَلُ حَتّٰی قَعَدَبَیْنَ یَدَیِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَقَالَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ اَنَا صَاحِبُہَا کَانَتْ تَشْتُمُکَ وَتَقَعُ فِیْکَ فَاَنْہَاہَا فَلَا تَنْتَہِیْ وَأَزْجُرُہَا فَلاَ تَنْزَجِرُ وَلِیَ مِنْہَا اِبْنَانِ مِثْلُ الْلُؤلُؤَتَیْنِ وَکَانَتْ بِیْ رَفِیْقَۃً فَلَمَّا کَانَ الْبَارِحَۃُ جَعَلَتْ تَشْتُمُکَ وَتَقَعُ فِیْکَ فَاخَذْتُ الْمِغْوَلَ فَوَضَعْتُہُ فِیْ بَطْنِہَا وَاتَّکَأْتُ عَلَیْہِ حَتّٰی قَتَلْتُہَا فَقَال النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) أَلَا أَشْہِدُوْا أَنَّ دَمَہَا ہَدَرٌ) (رواہ ابوداؤد : کتاب الحدود باب الحکم فیمن سب النبی) ” ایک اندھے شخص کی ایک ام ولد لونڈی تھی جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو گالیاں دیا کرتی تھی وہ اسے منع کرتا۔ وہ گالیاں دینے سے باز نہیں آتی تھی وہ اسے جھڑکتا تھا۔ مگر وہ نہ رکتی تھی۔ ایک رات اس لونڈی نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو گالیاں دینا شروع کیں تو نابینا صحابی نے ایک چھرا لے کر اس کے پیٹ میں پیوست کرتے ہوئے اسے زور سے دبایا جس سے وہ مر گئی۔ صبح اس کا ذکر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس ہوا تو آپ نے لوگوں کو جمع کر کے فرمایا۔ میں اس آدمی کو قسم دیتا ہوں جس نے کیا‘ جو کچھ کیا۔ میرا اس پر حق ہے کہ وہ کھڑا ہوجائے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی یہ بات سن کر ایک نابینا صحابی کھڑا ہوا۔ اضطراب کی کیفیت میں لوگوں کی گردنیں پھلانگتا ہوا نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے بیٹھ گیا۔ اس نے عرض کی کہ اے اللہ کے رسول ! میں اسے منع کرتا تھا مگر وہ اس کی پروا نہیں کرتی تھی۔ اس کے بطن سے میرے دو ہیروں جیسے بیٹے ہیں اور وہ میری رفیقۂ حیات تھی۔ گزشتہ رات جب وہ آپ کو گالیاں دینے لگی تو میں نے چھرا لے کر اس کے پیٹ میں پیوست کرتے ہوئے اسے زور سے دبایا یہاں تک کہ وہ مر گئی۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے گفتگو سننے کے بعد فرمایا تم گواہ رہنا کہ اس عورت کا خون رائیگاں ہوا۔“ حضرت علی (رض) فرماتے ہیں : (قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَنْ سَبَّ نَبِّیًا قُتِلَ وَمَنْ سَبَّ اَصْحَابَہٗ جُلِدَ) (رواہ الطبرانی فی الصغیر صفحہ 236 جلد 1) ” رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو گالی دی اسے قتل کیا جائے اور جس نے اس کے صحابہ کو گالی دی اسے کوڑے مارے جائیں۔“ مشرک گستاخ رسول کا قتل : (اِنَّ رَجُلًا مِّنَ الْمُشْرِکِیْنَ شَتَمَ رَسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَنْ یَّکْفِیْنِیْ عَدُوِّی فَقَام الزُّبَیْرُ بْنُ الْعَوَّامِ فَقَالَ اَنَا فَبَارَزَہٗ فَاَعْطَاہٗ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سَلَبَہٗ) (الصارم المسلول ١٧٧) ” مشرکین میں سے ایک آدمی نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو گالی دی تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میرے اس دشمن کی کون خبر لے گا؟ تو حضرت زبیر بن عوام کھڑے ہو کر عرض کرنے لگے یا رسول اللہ ! میں حاضر ہوں۔ حضرت زبیر (رض) نے اسے قتل کردیا۔ تو رسول اللہْ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کا سامان زبیر کو دے دیا۔“ ابو لہب کا عبرت ناک انجام : سورۃ لہب کے نزول پر ابھی آٹھ سال ہی گزرے تھے کہ جنگ بدر میں بڑے بڑے سرداران قریش مارے گئے۔ مکہ میں بدر کی شکست کی اطلاع پہنچی تو سب سے زیادہ دکھ اور رنج ابولہب کو ہوا۔ یہ اسی صدمے اور رنج میں بیمار پڑگیا۔ ساتویں روز بیماری کوڑھ کی شکل اختیار کرگئی۔ جس وجہ سے اس کے گھر والوں نے اسے چھوڑ دیا اور اس کے بیٹوں نے اس کے ساتھ کھانا پینا ترک کردیا۔ بالآخر وہ نہایت بے کسی کی موت مرا۔ مرنے کے بعد بھی اس کے بیٹے اس کے قریب نہ گئے یہاں تک کہ اس کی لاش سے بو پھیلنے لگی۔ تب لوگوں نے اس کے بیٹوں کو طعنے دیے تو انہوں نے ایک حبشی کو مزدوری دی۔ جس نے گڑھا کھودا اور لکڑی سے لاش کو دھکیل کر گڑھے میں پھینکا اور مٹی ڈال دی۔ گستاخ رسول کو قبر نے باہر پھینک دیا : حضرت انس (رض) فرماتے ہیں : (کَانَ رَجُلٌ نَصْرانِیًّا فَأسْلَمَ وَقَرَأَ الْبَقَرَۃَ وَآلَ عِمْرَانَ فَکَانَ یَکْتُبُ للنَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَعَادَ نَصْرَانِیًّا فَکَانَ یَقُوْلُ مَایَدْرِی مُحَمَّدٌ الاَّ مَا کَتَبْتُ لَہٗ فَأَمَاتَہُ اللّٰہُ فَدَ فَنُوْہُ فَأَصْبَحَ وَقَدْ لَفَظَتْہُ الْاَرْضُ فَقَالُوْ ہَذَا فِعْلُ مُحَمَّدٍ وَ اَصْحَابِہٖ لَمَّا ہَرَبَ مِنْہُمْ نَبَشُوْا عَنْ صَاحِبِنَا فَأَلْقَوْہُ فَحَفَرُوْا لَہٗ فَأَعْمَقُوْا فَأَصْبَحَ وَقَدْ لَفَظَتْہُ الْاَرْضُ فَقَالُوْا ہَذَا فِعْلُ مُحَمَّدٍ وَاَصْحَابِہٖ نَبَشُوْا عَنْ صَاحِبِنَا لَمَّا ہَرَبَ مِنْہُمْ فَأَلْقَوْہُ فَحَفَرُوْا لَہٗ وَأَعْمَقُوْا لَہٗ فِی الْاَرْضِ مَاسْتَطَاعُوْا فَأَصْبَحَ وَقَدْ لَفَظَتْہُ الْاَرْضُ فَعَلِمُوْا اَنَّہُ لَیْسَ مِنَ النَّاسِ فَالْقَوْہُ) (رواہ البخاری : کتاب المناقب، باب علامات النبوۃ فی الاسلام) ” ایک شخص عیسائی تھا وہ مسلمان ہوگیا سورۃ بقرۃ اور آل عمران پڑھ چکا تھا وہ کاتب وحی تھا۔ پھر وہ مرتد ہو کر عیسائی ہوگیا اور کہنے لگا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے جو کچھ میں نے لکھ دیا ہے اس کے سوا اسے کچھ معلوم نہیں۔ اس کی موت واقع ہوگئی تو اس کے ساتھیوں نے اسے دفن کیا۔ جب صبح ہوئی تو انہوں نے دیکھا کہ اس کی لاش قبر کی بجائے زمین کے اوپر پڑی ہے۔ عیسائیوں نے کہا کہ یہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ان کے ساتھیوں کا کام ہے چونکہ ان کا دین اس نے چھوڑ دیا تھا۔ اس لیے انہوں نے قبر کھود کر لاش کو باہر پھینک دیا ہے۔ چنانچہ دوسری قبر کھودی جو بہت گہری تھی لیکن جب صبح ہوئی تو پھر لاش باہر تھی۔ اس مرتبہ بھی انہوں نے یہی کہا کہ یہ محمد اور ان کے ساتھیوں کا کام ہے چونکہ ان کا دین اس نے چھوڑ دیا تھا اس لیے اس کی قبر کھود کر انہوں نے لاش باہر پھینک دی ہے۔ پھر انہوں نے قبر کھودی جتنی گہری ان کے بس میں تھی اور اس میں ڈال دیا لیکن جب صبح ہوئی تو پھر لاش باہر پڑی تھی۔ اب انہیں یقین ہوگیا کہ یہ کسی انسان کا کام نہیں بلکہ یہ آدمی عذاب خداوندی میں گرفتار ہے۔ چنانچہ انہوں نے اسے یونہی زمین پر پھینک دیا۔“ امام احمد بن حنبل a: (کُلُّ مَنْ شَتَمَ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اَوْ تَنَقَّصَہٗ مُسْلِمًا کَانَ اَوْ کَافِرًا فَعَلَیْہِ الْقَتْلُ وَأَرٰی اَنْ یُقْتَلَ وَلَا یُسْتَتَابَ) (الصارم المسلول : ٣٣) ” جو آدمی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو گالی دیتا ہے یا آپ کی شان میں گستاخی کرتا ہے وہ مسلمان ہو یا کافر اس کا قتل کرنا واجب ہے اور میری رائے یہ ہے کہ اسے توبہ کرنے کی مہلت نہ دی جائے بلکہ فوراً قتل کردیا جائے۔“ امام مالک (رح) : خلیفہ ہارون الرشید نے امام مالک (رض) سے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شان اقدس میں گستاخی کرنے والے کے بارے میں پوچھا۔ امام مالک (رح) نے فرمایا : (مَابَقَاءَ الْاُمَّۃِ بَعْدَ شَتْمِ نَبِیِّہَا) (الشفاء للقاضی عیاض : ٢/٢٣٣) ” اس امت کو زندہ رہنے کا کوئی حق نہیں جس کے نبی کو گالیاں دی جائیں۔“ امام ابن تیمیہ (رح) : (اِنَّ مَنْ سَبَّ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مِنْ مُسْلِمٍ اَوْ کَافِرٍ فَاِنَّہ یَجِبُ قَتْلُہُ ہَذَا مَذْہَبُ عَامَۃِ اَہْلِ الْعِلْمِ) (الصارم المسلول : ٣١) ” جو آدمی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو گالی دے خواہ مسلمان ہو یا کافر اس کو قتل کرنا واجب ہے۔“ ستمبر ٢٠٠٥ ء میں ڈنمارک کے بدنام زمانہ صحافی نے رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خاکے شائع کیے جس سے تو پورے عالم اسلام میں ایسا اضطراب پیدا ہوا کہ مسلمان تڑپ اٹھے اور پوری دنیا میں جلوس، ہڑتالیں اور بے مثال مظاہرے ہوئے اس میں سعودی عرب نے ہر اول دستے کا کردار ادا کیا۔ ڈنمارک کے گستاخانہ عمل کی وجہ سے سعودی عرب نے عالم اسلام کی ترجمانی کرتے ہوئے ٢٦ جنوری کو ڈنمارک سے اپنا سفیر واپس بلا لیا اور سعودی عرب سے ڈنمارک کی اشیاء کے بائیکاٹ کا آغاز ہوگیا جو تمام عرب ریاستوں‘ مصر‘ لیبیا‘ ایران اور دوسرے مسلمان ممالک تک پھیل گیا۔ ٤ فروری کو پاکستان نے ڈنمارک‘ ناروے‘ فرانس‘ جرمنی‘ اٹلی‘ سپین‘ سوئٹزر لینڈ‘ ہینگری‘ ہالینڈ اور جمہوریہ چیک ری پبلک کے سفیروں کو طلب کر کے گستاخانہ خاکوں کے خلاف شدید احتجاج کیا۔ پاکستان نے خاکوں کے شائع کرنے والے ممالک سے ادویات درآمد کرنے پر پابندی لگا دی‘ فرانس اور ڈنمارک کی چار میڈیسن کمپنیوں کی تقریباً ایک سو گیارہ ادویات پاکستانی میڈیکل سٹورز پر فروخت کی جاتی تھیں۔ ڈاکٹرز صاحبان نے ان ادویات کے بجائے متبادل ادویات تجویز کردیں۔ شام، لبنان اور لیبیا میں ڈنمارک کے سفارت خانوں کو آگ لگا دی گئی۔ مسلم ممالک نے ڈنمارک کی مصنوعات کا بائیکاٹ کردیا۔ بس جس ملک سے جو بن پڑا اور جس دینی‘ سیاسی اور رفاہی تنظیم سے جو ہوسکا اس نے اپنی اسلامی غیرت کا ثبوت فراہم کرکے اپنے اپنے جذبات کا اظہار کیا۔ جس کو دیکھ کر عالم کفر کے بعض حکمرانوں اور اخبارات کے ایڈیٹرز اور مالکان نے معذرت کا رویہ اپنایا جن میں چند ایک یہ ہیں : ناروے کے اخبار کے ایڈیٹر انچیف ” ویجیو ان سیلبک“ نے معافی مانگی جس کو ناروے کی اسلامی کونسل نے قبول کرلیا۔ فرانس کے اخبار کے مالک نے ایڈیٹر کو نوکری سے برطرف کردیا۔ ٣١ جنوری کو ڈنمارک کے اخبار نے معافی نامہ جاری کیا اور دنیا بھر کے مسلمانوں سے معافی مانگی۔ مسائل ١۔ ذو معنٰی لفظ استعمال نہیں کرنا چاہیے۔ ٢۔ کلام اللہ اور حدیث رسول توجہ کے ساتھ سننی چاہیے۔ ٣۔ رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا گستاخ کافر اور واجب القتل ہے۔ البقرة
105 فہم القرآن ربط کلام : اہل کتاب کی ساری خرابیوں کی جڑ یہ ہے کہ وہ کسی طرح بھی مسلمانوں کو ملنے والی بھلائی کو پسند نہیں کرتے اس کے لیے وہ ہر جرم کرنے کے لیے تیار رہتے ہیں۔ یہاں تک کہ نبی آخر الزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شان میں گستاخیاں بھی کرتے رہتے ہیں۔ قرآن مجید مسلمانوں کو باربار باور کرواتا ہے کہ اہل کتاب اور مشرکوں کو اپنا خیر خواہ اور دوست نہ سمجھو کیونکہ ان کی سر توڑ کوشش اور دلی خواہش ہے کہ مسلمانوں کو کوئی بھلائی حاصل نہ ہوسکے۔ اسی منفی سوچ کے پیش نظر وہ اس فکر میں رہتے ہیں کہ جہاں تک ہوسکے مسلمانوں کو نقصان پہنچایا جائے۔ حالانکہ چاہیے تو یہ تھا کہ اہل کتاب مذہب کے دعوے دار ہونے کے پیش نظر مسلمانوں کے ہمدرد اور ان کے قریب ہوتے لیکن ان کی تاریخ اس بات پر گواہ ہے کہ یہ لوگ ہر آڑے وقت میں مسلمانوں کا ساتھ دینے کی بجائے کفار اور مشرکوں کا ساتھ دیا کرتے ہیں۔ تاریخ عالم اٹھا کر دیکھیں کہ اہل کتاب نے ہمیشہ مسلمانوں کے مقابلے میں کفار اور مشرکین کا ساتھ دیا ہے۔ پاکستان کی تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ ہندوستان کے مقابلے میں پاکستان امریکہ کے زیادہ قریب رہا ہے۔ اور ہر آڑے وقت میں امریکہ کی حمایت کی لیکن پاکستان پر جب مشکل وقت آیا تو امریکہ نے ہمیشہ ہندوستان کا ساتھ دیا ہے۔ اس سے ارباب سیاست کو قرآنی حقائق کا اندازہ کرنا چاہیے۔ لہٰذا امت مسلمہ کو آگاہ کیا جارہا ہے کہ تمہیں ایسے لوگوں سے چوکس اور چوکنا رہنا چاہیے جو تمہیں ہر وقت نقصان پہنچانے کے درپے رہتے ہیں۔ اس فرمان میں یہ اشارہ بھی موجود ہے کہ اللہ تعالیٰ نے صحابہ کو اپنی رحمت کے ساتھ مخصوص فرمالیا تھا۔ اس لیے اب اہل کتاب کی سازشیں، کفار اور مشرکوں کی شرارتیں مسلمانوں کو چنداں نقصان نہیں پہنچا سکتیں کیونکہ جس پر اللہ تعالیٰ فضل فرمانے کا فیصلہ فرما لیتا ہے دنیا کی کوئی طاقت اس کے فضل اور فیصلے کے درمیان رکاوٹ نہیں بن سکتی۔ رحمت سے مراد بعض اہل علم نے نبوت لی ہے کہ اہل کتاب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا نبی ہونا پسند نہیں کرتے حالانکہ نبوت کا انتخاب اللہ تعالیٰ کی رحمت کا اختصاص ہے وہ جسے چاہے نبوت کے لیے منتخب فرمائے۔ اب سلسلہ نبوت حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر قیامت تک ختم ہوچکا ہے۔ مسائل ١۔ یہود و نصاریٰ اور مشرک نہیں چاہتے کہ مسلمانوں پر خیر نازل ہو۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ صاحب فضل وکرم ہے جسے چاہتا ہے، اپنی رحمت سے نوازتا ہے۔ البقرة
106 فہم القرآن ربط کلام : اہل کتاب اس قدر بے باک اور مسلمانوں کی دشمنی میں آگے جا چکے ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کے اختیارات میں مداخلت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کو کوئی اختیار نہیں کہ وہ اپنی کتاب میں ترمیم و اضافہ کرے۔ اس بہانے وہ کتاب اللہ پر اعتراض اور نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت پر تنقید کرتے ہیں۔ کیونکہ ان کے دلوں میں حسد ہے جس بنا پر ایسی باتیں کرتے ہیں۔ نسخ کا معنٰی ہے کسی بات کو مٹانا یا اس کا ازالہ کرنا ہے۔ اس کی تین صورتیں ہو سکتی ہیں : (١) ایک حکم خاص مدت کے لیے ہو، دوسری مدت کے لیے دوسرا حکم نازل ہوجائے۔ (٢) تربیت اور خاص مصلحت کی خاطر پہلے حکم میں نرمی اور کچھ گنجائش رکھی گئی ہو بعد ازاں مکمل اور دائمی حکم نازل کردیا جائے۔ جس طرح شراب کی حرمت، قبلہ کی تبدیلی اور دوسرے معاملات کے بارے میں تدریجاً احکامات نازل ہوئے۔ قرآن مجید میں اس کے برعکس بھی مثال موجود ہے کہ قتال کے سلسلہ میں پہلا حکم سخت تھا لیکن اس کے بعد اس میں نرمی کردی گئی۔ (٣) پہلا حکم لوگوں کی خاص حالت کے بارے میں ہوبعدازاں حالات کی تبدیلی کی وجہ سے اسے کلیۃً منسوخ کردیا جائے اور اس کی جگہ اس سے ملتا جلتا یا اس سے جامع اور کثیر المقاصد حکم نازل ہو۔ قرآن مجید میں تینوں اقسام کی امثال موجود ہیں۔ جن علماء نے ان تینوں اقسام کو ناسخ اور منسوخ میں شامل کیا ہے انہوں نے درجنوں آیات کو اس زمرہ میں شامل کردیا حالانکہ ناسخ‘ منسوخ کو حقیقی اور کلی معنوں میں لیا جائے تو ان کی تعداد چند آیات سے زیادہ نہیں ہے۔ اس بنا پر شاہ ولی اللہ (رض) نے صرف پانچ آیات کو منسوخ شمار کیا ہے۔ ناسخ اور منسوخ کے حوالے سے اہل کتاب اور مشرک دو قسم کے اعتراض کیا کرتے ہیں تاکہ مسلمانوں کو فکری الجھاؤ میں مبتلا کر کے ان کے ایمان وا یقان میں تذبذب پیدا کیا جا سکے۔ پہلا اعتراض یہ ہے کہ تورات اور انجیل اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ ہیں اور یہ قرآن ان کی تائید کرتا ہے تو پھر انہیں منسوخ کرنے اور الگ کتاب نازل کرناچہ معنی دارد؟ دوسرا اعتراض یہ تھا اور ہے کہ قرآن مجید میں فلاں مقام پر یہ مسئلہ پہلے اس طرح تھا اور اب اس میں ترمیم و اضافہ کیوں کیا گیا ہے؟ ان اعتراضات کا جواب دینے سے پہلے یہاں بنیادی بات یہ ارشادفرمائی کہ یہ حاکم مطلق کی مرضی اور اس کی مشیّت ہے کہ شریعت کے جس حکم کو چاہے معطل یا منسوخ کرے۔ اس میں مخلوق کا نہ تو عمل دخل ہے اور نہ ہی کسی کو اعتراض کرنے کی گنجائش ہے۔ اللہ تعالیٰ کے احکام کو منسوخ کرنا کسی شخص کا اختیار نہیں۔ یہاں تک کہ جس شخصیت گرامی پر اللہ کی کتاب نازل ہوئی ہے حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی اس میں زیروزبر کی تبدیلی کا اختیار نہیں رکھتے۔ یہ تو اس قادر مطلق اور شہنشاہ عالم کا اختیار ہے کہ وہ اپنے حکم کو جس طرح چاہے جب چاہے اور جس قدر چاہے اس میں تبدیلی کرے۔ لوگوں کو اللہ تعالیٰ کے احکامات اور اختیارات پر اعتراض کرنے کا کوئی حق نہیں۔ اس لیے ان آیات کے آخر میں پر جلال اور حاکمانہ انداز میں فرمایا ہے کہ اللہ ہی قادر مطلق با اختیار اور زمین و آسمان کا مالک ہے وہ تمہاری خیر خواہی کے لیے اپنے ضابطوں میں تبدیلی کرتا ہے۔ اس کے بغیر کوئی تمہارا خیر خواہ نہیں ہو سکتا۔ یہود و نصاریٰ اور مشرکین ومنکرین کسی خیر خواہی کی بنیاد پر نہیں بلکہ یہ بد نیتی وبددیانتی کی بنا پر اس قسم کے اعتراضات اٹھاتے ہیں۔ متعدد مقامات پر قرآن مجید نے پہلے سوال کا جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ اے اہل کتاب تم نے اپنی کتابوں میں اس قدر تحریف کی کہ ان کا حلیہ ہی بگاڑ کر رکھ دیا اور یہ بھی یاد رکھو کہ وہ مخصوص مدت کے لیے ہی نازل کی گئیں تھیں۔ جس طرح حکومتوں کے بدلنے سے قانون بدلتے ہیں اس طرح ایک رسول کے بعد دوسرے رسول کے آنے پر شریعت میں تبدیلی لائی جاتی رہی ہے۔ یہ تو محمد عربی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اعزازوا کرام ہے کہ آپ قیامت تک کے لیے رسول ہیں اور آپ پر نازل کردہ قرآن بھی قیامت تک رہے گا۔ اس میں ترمیم و اضافہ کرنے کا کوئی مجاز نہیں اور اللہ تعالیٰ نے تا قیام قیامت اس کی حفاظت کا ذمہ لے لیا ہے۔ دوسرے سوال کا جواب یہ عنایت فرمایا کہ تمہارے لیے بہت سی چیزیں حرام تھیں اب انہیں حلال کردیا گیا ہے۔ یہ سب کچھ تمہاری بہتری کے لیے ہی کیا گیا ہے۔ لہٰذا یہ اعتراض بھی تمہیں زیب نہیں دیتا۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ کو اپنے احکام منسوخ کرنے یا ان میں ردّ وبدل کرنے کا پورا حق ہے۔ ٢۔ زمین و آسمان کی ہر چیز اللہ تعالیٰ کی ملک ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ کے اذن کے بغیر کوئی کسی کی مدد نہیں کرسکتا۔ البقرة
107 البقرة
108 فہم القرآن ربط کلام : ایک طرح نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مسلمانوں کو تسلی دی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے احکام پر اعتراض یہودیوں کے لیے معمول کی بات ہے کیونکہ انہوں نے موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کی کتاب پر اس سے زیادہ نامناسب اعتراضات وسوالات کیے تھے۔ حصول علم اور طلب ہدایت کے لیے سوال کرنا‘ ناصرف جائز ہے بلکہ شریعت نے اس کی ترغیب دیتے ہوئے فرض قرار دیا ہے۔ البتہ خواہ مخواہ اور حیلہ سازی کے لیے سوال کرنا ناجائز قرار دیا ہے۔ یہودیوں کی یہ عادت تھی کہ وہ تعمیل حکم سے بچنے کے لیے مختلف بہانے تراشا کرتے تھے۔ ان کا ایک انداز یہ بھی تھا کہ وہ پے در پے بے مقصد سوال پر سوال کیے جاتے تھے تاکہ کسی طرح اس مسئلے سے ان کی جان چھوٹ جائے۔ ایک قتل کی تفتیش کے دوران جب انہیں گائے ذبح کرنے کا حکم صادر ہوا تو انہوں نے گائے ذبح کرنے کی بجائے کئی قسم کے سوال کر ڈالے بالآخر مجبور ہو کر گائے ذبح کرنے کے لیے تیار ہوئے۔ سوال کرنے کی عادت میں یہودی اس قدر عادی مجرم تھے کہ انہوں نے جناب موسیٰ (علیہ السلام) کو یہ سوال بھی کیا کہ آپ اس قدر حیاکیوں اختیار کرتے ہیں؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ آپ کو جنسی مرض لاحق ہوچکا ہو اور اس بات کو اس قدر اچھالا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی برأت فرمائی۔ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ کَانَتْ بَنُوْ إِسْرَاءِیْلَ یَغْتَسِلُوْنَ عُرَاۃً یَنْظُرُ بَعْضُھُمْ إِلٰی بَعْضٍ وَکَانَ مُوْسٰی یَغْتَسِلُ وَحْدَہٗ فَقَالُوْا وَاللّٰہِ مَایَمْنَعُ مُوْسٰی أَنْ یَّغْتَسِلَ مَعَنَا إِلَّا أَنَّہٗ آدَرُ فَذَھَبَ مَرَّۃً یَغْتَسِلُ فَوَضَعَ ثَوْبَہٗ عَلٰی حَجَرٍ فَفَرَّ الْحَجَرُ بِثَوْبِہٖ فَخَرَجَ مُوْسٰی فِیْ إِثْرِہٖ یَقُوْلُ ثَوْبِیْ یَاحَجَرُ حَتّٰی نَظَرَتْ بَنُوْ إِسْرَاءِیْلَ إِلٰی مُوْسٰی فَقَالُوْا وَاللّٰہِ مَابِمُوْسٰی مِنْ بَأْسٍ وَأَخَذَ ثَوْبَہٗ فَطَفِقَ بالْحَجَرِ ضَرْبًا) (رواہ البخاری : باب من اغتسل عریاناوحدہ ) ” حضرت ابوہریرہ (رض) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا بنی اسرائیل کے لوگ ننگے نہایا کرتے اور ایک دوسرے کو دیکھا کرتے تھے لیکن موسیٰ (علیہ السلام) اکیلے ہی غسل کرتے تھے۔ یہودیوں نے کہا اللہ کی قسم ہمارے ساتھ موسیٰ (علیہ السلام) اس وجہ سے غسل نہیں کرتے کہ ان کے خصیتین میں بیماری ہے۔ ایک مرتبہ موسیٰ (علیہ السلام) اپنے کپڑے پتھر پر رکھ کر غسل کررہے تھے تو پتھر کپڑے لے کر بھاگ کھڑا ہواچنانچہ موسیٰ (علیہ السلام) پتھر کے پیچھے یہ کہتے ہوئے بھاگے کہ اے پتھر ! میرے کپڑے دے دے۔ یہاں تک کہ بنی اسرائیل کے لوگوں نے موسیٰ (علیہ السلام) کو برہنہ حالت میں دیکھ کر کہا : اللہ کی قسم ! موسیٰ (علیہ السلام) کو کوئی تکلیف نہیں اور موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے کپڑے پکڑ کر پتھر کو مارنا شروع کردیا۔“ بہانہ سازی کی عادت خبیثہ سے مسلمانوں کو محفوظ و مامون رکھنے کے لیے موسیٰ (علیہ السلام) کا حوالہ دے کر منع کیا جارہا ہے کہ کیا تم رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ایسے ہی سوالات کرنا چاہتے ہوجس طرح بے مقصد اور بے ہودہ سوال یہودیوں نے موسیٰ (علیہ السلام) سے کیے تھے؟ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مسلمانوں کو بے جا سوال کرنے سے منع فرمایا ہے : (ذَرُوْنِیْ مَاتَرَکْتُکُمْ فَإِنَّمَا ھَلَکَ مَنْ کَانَ قَبْلَکُمْ بِکَثْرَۃِ سُؤَالِھِمْ وَاخْتِلَافِھِمْ عَلٰی أَنْبِیَاءِھِمْ فَإِذَا أَمَرْتُکُمْ بِشَیْءٍ فَأْتُوْا مِنْہُ مَااسْتَطَعْتُمْ وَإِذَا نَھَیْتُکُمْ عَنْ شَیْءٍ فَدَعُوْہُ) (رواہ مسلم : کتاب الحج، باب فرض الحج مرۃ ] ” مجھے چھوڑے رکھو جب تک میں تمہیں چھوڑے رکھوں یقیناتم سے پہلے لوگ زیادہ سوال کرنے کی وجہ اور انبیاء سے اختلاف کرنے کی بنا پر تباہ وبرباد ہوگئے۔ جب میں تمہیں کسی چیز کا حکم دوں تو اپنی طاقت کے مطابق اس پر عمل کرو اور جب میں تمہیں کسی چیز سے منع کروں تو اس کو چھوڑ دو۔“ مسائل ١۔ یہودیوں کی طرح شریعت میں قیل و قال اور اعتراض وسوال نہیں کرنے چاہئیں۔ ٢۔ شریعت کو بدلنے والا پرلے درجے کا گمراہ ہوتا ہے۔ تفسیر بالقرآن یہودیوں کے بے ہودہ سوالات : ١۔ گائے کے متعلق موسیٰ (علیہ السلام) سے سوالات۔ (البقرۃ: ٦٧ تا ٧١) ٢۔ موسیٰ (علیہ السلام) سے مطالبہ کہ اللہ ہمیں سامنے دکھایا جائے۔ (النساء : ١٥٣) ٣۔ ہمارے لیے بھی مشرکوں کی طرح معبود بنائے جائیں۔ (الاعراف : ١٣٨) ٤۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا اپنی قوم کے لیے پانی طلب کرنا۔ (البقرۃ: ٦٠) ٥۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے مقتول کے بارے میں سوال کرنا۔ (البقرۃ: ٧٢) البقرة
109 فہم القرآن ربط کلام : تمام اعتراضات کے پیچھے یہود ونصاریٰ کا ایک ہی مقصد ہے کہ تم سچے دین سے مرتد ہوجاؤ اور اس کے پیچھے دنیاوی مفادات کے ساتھ ان کا حسد بھی کار فرما ہے ان سے درگزر کرتے ہوئے اپنا کام جاری رکھو۔ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت سے یہود و نصاریٰ کے انکار کابنیادی سبب یہ تھا کہ وہ سمجھتے تھے نبوت ہماری وراثت ہے کیونکہ نبوت کا سلسلہ صدیوں سے ہماری نسل میں چلا آ رہا ہے اب ہماری وراثت بنی اسماعیل کو کیوں منتقل کردی گئی ہے؟ اس صورت میں چاہیے تو یہ تھا کہ اہل مکہ یہود و نصاریٰ کے حسد و بغض کا ادراک کرتے ہوئے سرور دو عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہم رکاب اور ہم زبان ہوجاتے لیکن وہ شرک و کفر کے مرض میں مبتلا ہو کر کہنے لگے منصب رسالت تو کسی سرمایہ دار، وڈیرے اور نواب کو ملنا چاہیے تھا اتنا بڑا منصب ایسے شخص کو کیونکر مل سکتا ہے؟ جو مالی لحاظ سے کنگال اور سماجی اعتبار سے یتیم ہے۔ اس سوچ کے پیش نظر اہل مکہ اور اہل کتاب سر توڑ کوشش میں لگ گئے کہ کسی طرح مسلمانوں کو رسالت مآب (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے برگشتہ اور ایمان کی متاع گراں مایہ سے محروم کردیا جائے۔ یہاں مسلمانوں کو یہ بتلایا اور سمجھایا جا رہا ہے کہ تمہارے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے یہ کسی غلط فہمی کی بنیاد پر نہیں بلکہ حق تو بالکل نمایاں ہوچکا ہے۔ اہل کتاب محض حسد کی بنیاد پر تمہاری مخالفت کے در پے ہیں لہٰذا انہیں معاف یا ان سے صرف نظر کرو یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اپنے دین کو غالب کر دے۔ اس فرمان کا مقصد یہ ہے اے مسلمانوں ابھی تم کمزور ہو اس لیے صبر کرو اور وقت کا انتظار کرو۔ حسد ایسی مہلک اور منفی قوت ہے اس میں جو بھی مبتلا ہوتا ہے وہ کسی کی بھی عزت وعظمت کو برداشت نہیں کرپاتا۔ مزید یہ کہ وہ کسی بڑی سے بڑی حقیقت کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ بسا اوقات یہ بیماری اس قدر خطرناک صورت اختیار کرلیتی ہے کہ حاسد کو اپنی عزت کا خیال بھی نہیں رہتا۔ یہی حالت آپ کے مخالفوں کی تھی۔ اس لیے قرآن مجید کے اختتام سے پہلے سورۃ الفلق میں حاسد اور اس کے حسد سے پناہ مانگنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے امت کو حسد سے بچنے کی تلقین اور اس کے مضرات سے متنبہ فرمایا۔ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) أَنَّ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ إِیَّاکُمْ وَالْحَسَدَ فَإِنَّ الْحَسَدَ یَأْکُلُ الْحَسَنَاتِ کَمَا تَأْکُلُ النَّارُ الْحَطَبَ) (رواہ ابو داؤد : کتاب الادب، باب فی الحسد) ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : حسد سے بچو کیونکہ وہ نیکیوں کو اس طرح کھا جاتا ہے جیسے سوکھی لکڑیوں کو آگ بھسم کردیتی ہے۔“ حضرت ابوہریرہ (رض) بیمار ہوئے تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کی عیادت کے وقت فرمایا : ابوہریرہ! میں تجھے وہی دم کروں جو مجھے جبریل (علیہ السلام) نے کیا تھا؟ انہوں نے عرض کی کیوں نہیں میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ دم تین مرتبہ کیا : (بِسْمِ اللّٰہِ أَرْقِیْکَ وَاللّٰہُ یَشْفِیْکَ مِنْ کُلِّ دَاءٍ فِیْکَ مِنْ شَرِّ النَّفَّاثَاتِ فِی الْعُقَدِ وَمِنْ شَرِّ حَاسِدٍ إِذَا حَسَدَ) (رواہ ابن ماجۃ: کتاب الطب، باب ماعوذ بہ النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وماعوذ بہ) ” اللہ کے نام سے تجھے دم کرتاہوں اللہ تجھے ہر بیماری سے شفادے جو تجھے لاحق ہے اور گرہوں میں پھونک مارنے والیوں کے شر سے اور حاسد کے شر سے جب وہ حسد کرے۔“ مسائل ١۔ یہود و نصاریٰ حسد و بغض کی وجہ سے مسلمانوں کو مرتد کرنے کے درپے رہتے ہیں۔ ٢۔ یہود و نصاریٰ اچھی طرح دین اسلام اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات کو پہچانتے ہیں۔ ٣۔ اہل کتاب سے بحث و تکرار کرنے کی بجائے انہیں صرف نظر کردینا چاہیے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ کا حکم غالب ہو کر رہتا ہے۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔ تفسیر بالقرآن حسد وبغض اور اس کا علاج : ١۔ اہل کتاب کی مذموم سوچ اور حاسدانہ کردار۔ (البقرۃ: ١٢٠) ٢۔ کسی سے حسد کرنے کی بجائے اللہ سے مانگنا چاہیے۔ (النساء : ٣٢) ٣۔ حسد سے پناہ مانگنی چاہیے۔ (الفلق : ٥) ٤۔ شیطان چاہتا ہے کہ تمھارے درمیان عداوت اور بغض ڈال دے۔ (المائدۃ: ٩١) ٥۔ اللہ نے یہود و نصاریٰ کے درمیان بغض اور دشمنی قیامت تک کے لیے ڈال دی ہے۔ (المائدۃ: ١٤) البقرة
110 فہم القرآن ربط کلام : اہل کتاب کے پیچھے پڑ کر وقت اور صلاحیتیں ضائع کرنے کی بجائے اپنے دین کی طرف توجہ دو اور نماز کے ذریعے اللہ تعالیٰ سے تعلق جوڑو اور زکوٰۃ ادا کر کے اپنے بھائیوں کی مدد کرو۔ پچھلی آیت میں فرمایا گیا ہے کہ ایسے لوگوں سے الجھنے کی بجائے اللہ تعالیٰ کی نصرت و حمایت کا انتظار کرو۔ اللہ ہر بات اور ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے۔ لیکن یاد رکھنا اللہ کی مدد کی اولین شرائط میں سچے ایمان کے بعد نماز اور زکوٰۃ ادا کرنا ہے کیونکہ نماز اللہ تعالیٰ کے قرب اور باہمی اتحاد کا ذریعہ ہے۔ زکوٰۃ ایک دوسرے سے تعاون اور اللہ تعالیٰ کی محبت کا زینہ ہے۔ جن لوگوں میں یہ اوصاف ہوں گے وہ دنیا میں اللہ تعالیٰ کی نصرت کے حقدار اور آخرت میں سرخرو ہوں گے۔ جو کچھ بھی تم اپنے لیے آگے بھیجو گے اسے اللہ کے ہاں محفوظ پاؤ گے۔ محکم یقین رکھو کہ جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اسے دیکھ رہا ہے۔ تیسویں پارے میں فرمایا کہ جس نے ذرہ برابر نیکی کی وہ اسے پا لے گا۔ اور جس نے ذرہ برابر برائی کی وہ بھی اسے اپنے سامنے پائے گا۔[ زلزال : ٧، ٨] نماز اللہ تعالیٰ کی قربت کا ذریعہ ہے : (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) إِنَّ اللّٰہَ قَالَ مَنْ عَادٰ ی لِیْ وَلِیًّا فَقَدْ آذَنْتُہٗ بالْحَرْبِ وَمَا تَقَرَّبَ إِلَیَّ عَبْدِیْ بِشَیْءٍ أَحَبَّ إِلَیَّ مِمَّا افْتَرَضْتُہٗ عَلَیْہِ وَمَا یَزَالُ عَبْدِیْ یَتَقَرَّبُ إِلَیَّ بالنَّوَافِلِ۔۔) (رواہ البخاری : کتاب الرقاق، باب التواضع) ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : بے شک اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جس نے میرے ولی سے دشمنی کی میں اس کے ساتھ اعلان جنگ کرتاہوں اور میرا بندہ کسی چیز کے ساتھ بھی میرا قرب حاصل نہیں کرسکتا جو مجھے اس سے زیادہ محبوب ہوں جو میں نے اس پر فرض کی ہیں اور میرا بندہ نوافل کے ذریعے میرا قرب حاصل کرتا ہے۔۔“ زکوٰۃ تعاون کا ذریعہ ہے : ” عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ (رض) أَنَّ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بَعَثَ مُعَاذًا (رض) إِلَی الْیَمَنِ فَقَالَ ادْعُھُمْ إِلٰی شَھَادَۃِ أَنْ لَّاإِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَأَنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ فَإِنْ ھُمْ أَطَاعُوْا لِذٰلِکَ فَأَعْلِمْھُمْ أَنَّ اللّٰہَ قَدِ افْتَرَضَ عَلَیْھِمْ خَمْسَ صَلَوَاتٍ فِیْ کُلِّ یَوْمٍ وَّلَیْلَۃٍ فَإِنْ ھُمْ أَطَاعُوْا لِذٰلِکَ فَأَعْلِمْھُمْ أَنَّ اللّٰہَ افْتَرَضَ عَلَیْھِمْ صَدَقَۃً فِیْ أَمْوَالِھِمْ تُؤْخَذُ مِنْ أَغْنِیَاءِھِمْ وَتُرَدُّ عَلٰی فُقَرَاءِھِمْ) (رواہ البخاری : کتاب الزکوٰۃ، باب وجوب الزکوٰۃ) ” حضرت عبداللہ بن عباس (رض) بیان کرتے ہیں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت معاذ (رض) کو یمن کی طرف بھیجتے ہوئے فرمایا انہیں دعوت دو کہ وہ گواہی دیں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں اور یقینًا میں اللہ کا رسول ہوں اگر وہ تیری بات مان لیں تو انہیں بتلائیے کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر دن رات میں پانچ نمازیں فرض کی ہیں اگر وہ تیری اس بات میں اطاعت کریں تو انہیں بتائیے کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر ان کے اموال میں زکوٰۃ فرض کی ہے جو ان کے امیروں سے لے کر ان کے غریبوں کو دی جائے گی۔“ مسائل ١۔ مسلمانوں کو دین، نماز اور زکوٰۃ کی ادائیگی پر کاربند رہنا چاہیے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو دنیا اور آخرت میں اجرو ثواب سے نوازیں گے۔ تفسیر بالقرآن نماز کا حکم : ١۔ (البقرۃ: ٤٣، ٨٣، ١١٠) ٢۔ (النساء : ٧٧، ١٠٣) ٣۔ (الانعام : ٧٢) ٤۔ (یونس : ٨٧) ٥۔ (الحج : ٧٨) ٦۔ (النور : ٥٦) ٧۔ (الروم : ٣١) ٨۔ (المجادلۃ : ١٣) ٩۔ (المزمل : ٢٠) زکوٰۃ کی اہمیت : ١۔ حضرت ابراہیم، لوط، اسحاق و یعقوب (علیہ السلام) کو زکوٰۃ کا حکم۔ (الانبیاء : ٧٣) ٢۔ حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کا اپنے اہل خانہ کو زکوٰۃ کا حکم۔ (مریم : ٥٥) ٣۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو زکوٰۃ کا حکم۔ (مریم : ٣١) ٤۔ بنی اسرائیل کو زکوٰۃ کا حکم۔ ( البقرۃ: ٨٣) ٥۔ تمام امتوں کو زکوٰۃ کا حکم۔ (البینۃ: ٥) ٦۔ زکوٰۃ مال کا تزکیہ کرتی ہے۔ (التوبۃ: ١٠٣) البقرة
111 البقرة
112 فہم القرآن ربط کلام : اہل کتاب قرآن کے منکر‘ مسلمانوں کے دشمن اور ایک دوسرے کو کافر کہنے کے باوجود جنت کے ٹھیکیدار بنتے تھے۔ یہاں ان کے دعوے کی قلعی کھولتے ہوئے ایک اصول بیان کیا گیا ہے کہ نیک اور جنت کا وارث وہ ہے جس نے اپنے آپ کو اللہ کے حکم کے تابع کردیا۔ انبیاء کے نافرمان اور نبی آخر الزماں (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے گستاخ اللہ تعالیٰ کے اختیارات پر اعتراضات کرنے والے حسد و بغض کے پیکر یہود و نصاریٰ مسلمانوں کو دولت ایمان سے محروم کرنے کی سازشیں کرنے اور صلوٰۃ و زکوٰۃ سے عملاً انحراف کرنے کے باوجود سمجھتے ہیں کہ ہم ہی جنت کے مالک ہوں گے۔ حالانکہ ” اللہ“ کی جنت اتنی ارزاں اور کم حیثیت نہیں کہ جو چاہے اپنے من ساختہ تصورات، دعوؤں اور نعروں کی بنیاد پر اسے حاصل کرلے یہ تو ایمان، اخلاص کی دولت اور اعمال کی گراں قدر قیمت پیش کرنے سے ہی مل سکے گی۔ لہٰذا اگر تم جنت کے حقدار ہو تو اس کے لیے کوئی ثبوت اور سرمایۂ عمل پیش کرو۔ ہاں جنت میں وہ شخص ضرور جائے گا جس نے اپنے چہرے اور عمل کو اپنے رب کے لیے حوالے کردیا ہے۔ چہرہ حوالے کرنے سے مراد کلی طور پر تابع فرمان ہونا ہے۔ جس میں یہ امر بھی لازم ہے کہ اس کے عمل پر خاتم النبیین (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سنت کی مہر لگی ہوئی ہو۔ یہودی عیسائی گٹھ جوڑ : 1492 ء تک سارے مغرب میں یہودیوں کا داخلہ بند تھا۔ یہودیوں کے بارے میں عیسائی یہ یقین رکھتے تھے کہ اللہ کی پیدا کردہ مخلوقات میں سب سے بدترین اور شریر ترین مخلوق یہودی ہیں۔ یہودیوں پر سب سے زیادہ تشدد اور ظلم عیسائیوں ہی نے کیا ہے عیسائی انہیں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا قاتل سمجھتے تھے یہ دور یہودیوں پر عیسائیوں کے بدترین تشدد کا دور تھا۔ ان کے لیے دنیا میں کوئی جائے پناہ نہ تھی۔ لیکن عجیب اتفاق ہے کہ 1948 ء میں اسرائیل کے قیام کے بعد عیسائیوں کی یہود دشمنی آہستہ آہستہ ختم ہونے لگی۔ بلکہ اس سے آگے بڑھ کر وہ یہودیوں سے بھی زیادہ اسرائیل کی توسیع اور استحکام کے وکیل بنے ہوئے ہیں۔ ان کے بڑے بڑے مبلّغین مثلاً جیری فال ویل اور جمی سوا گراٹ جنہیں امریکہ کی بہت بڑی اکثریت انتہائی انہماک سے سنتی ہے امریکی اسے اپنا مذہبی راہنما قرار دیتے ہیں۔ یہودیوں کی وکالت کر رہے ہیں سابق صدر جمی کارٹر کا کہنا ہے کہ ” اسرائیل کا قیام بائبل کی پیشین گوئی کی تکمیل ہے۔“ اسی طرح سابق صدر رونالڈ ریگن نے بھی کہا تھا کہ ” عنقریب دنیا فنا ہوجائے گی۔“ (صرف عیسائی اور یہودی زندہ رہیں گے) حالانکہ حیرت انگیز طور پر صدر کینیڈی تک امریکہ کے بیشتر صدور اسرائیل اور یہودیوں کے سخت ترین مخالف تھے۔ صدر آئزن ہاور یہودیوں کی توسیع پسندی کے سخت دشمن تھے۔ امریکہ کے ایک صدر جارج بش واشنگٹن نے اپنے عوام کو متنبہ کیا تھا کہ ” یہودی خون چوسنے والی چمگادڑیں ہیں اور اگر تم نے انہیں امریکہ بدر نہ کیا تو دس سال سے بھی کم عرصہ میں یہ تمہارے ملک پر حکمرانی کرنے لگیں گے اور تمہاری آزادی کو سلب کرلیں گے۔“ (بیان ایمسٹرڈم چیمبر 22-9-1654) خوش قسمتی سے اسی زمانے میں کو لمبس نے امریکہ دریافت کیا تھا۔ چنانچہ یہودیوں نے خود کو محفوظ رکھنے کی خاطر امریکہ کو اپنا وطن بنانے کا فیصلہ کرلیا۔ انہوں نے دور اندیشی کی بنیاد پر نیویارک کی بندرگاہوں کو اپنے لیے منتخب کیا تاکہ سمندری و تجارتی راستے سے وہ پہلے امریکہ اور پھر ساری دنیا پر قبضہ کرسکیں۔ ان کے اسی فیصلے کے بعد آج نیو یارک کو جیویارک بھی کہا جاتا ہے۔ دوسری طرف پروٹسٹنٹ عیسائی بھی امریکہ چلے گئے۔ اس طرح امریکہ میں آج تک یہی فرقہ اکثریت میں موجود رہا۔ یہ پروٹسٹنٹ عیسائی ہی تھے جنہوں نے یہودیوں کے لیے عیسائیوں کے دلوں میں نرم گوشہ پیدا کیا اور ان کی حمایت کی۔ ان کے اثرات ہی کی وجہ سے عیسائیوں کی بڑی آبادی اس بات کی قائل ہوئی کہ فلسطین کو یہودیوں کی سرزمین قرار دیا جائے۔ یہودیوں کے ساتھ ان کی ہمدردی کا یہ حال تھا کہ صیہونی (اسرائیلی) تحریک سے پہلے قیام اسرائیل کا مطالبہ کرنے والے یہودی نہیں بلکہ خود عیسائی تھے۔ عیسائیوں کا کہنا تھا کہ ارض مقدس میں یہودیوں کی واپسی نزول مسیح کا پیش خیمہ ہے۔ عیسائیوں کو یہودیوں سے اس لیے بھی ہمدردی ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی آمد کے بعد تمام یہودی آخر کار عیسائیت اختیار کرلیں گے۔ مسائل ١۔ یہود و نصاریٰ ایمان و عمل کے بغیر جنت میں جانے کے دعوے دار بنتے ہیں۔ ٢۔ جنت میں جانے کے لیے نبی آخرالزماں (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان اور عمل صالح کی ضرورت ہے۔ تفسیر بالقرآن جنت کے تقاضے : ا۔ جنت دعووں اور نعروں کی بنیاد پر نہیں ملے گی۔ (البقرۃ: ١١١) ٢۔ جنت مشکلات برداشت کئے بغیر نہیں ملے گی۔ (البقرۃ : ٢١٤) ٣۔ ایمان اور عمل صالح کی بنیاد پر جنت الفردوس حاصل ہوگی۔ (الکہف : ١٠٧) ٤۔ جنت آزمائش میں گزرے بغیر حاصل نہیں ہوگی۔ (العنکبوت : ٣) البقرة
113 فہم القرآن ربط کلام : اہل کتاب مسلمانوں کے خلاف شروع سے ہی متحد ہیں حالانکہ ان کی باہمی منافرت اور فرقہ واریت کا عالم یہ ہے کہ ایک دوسرے کو کافر گردانتے ہیں۔ مسلمانوں کے مقابلے میں یہود و نصاریٰ اکٹھے ہو کر کہا کرتے تھے کہ ہماری جماعتوں کے علاوہ کوئی شخص جنت میں داخل نہیں ہو پائے گا۔ حالانکہ مسلمانوں کے خلاف اتحاد کے باوجود ان کی باہمی منافرت اور فرقہ وارانہ کشیدگی کا عالم یہ تھا کہ وہ آپس کے جنگ وجدال میں اس حد تک آگے بڑھ چکے تھے کہ یہودیوں نے انجیل کے بارے میں کہا یہ تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہی نہیں ہوئی۔ پھر تعصب میں اس قدر اندھے ہوئے کہ جناب عیسیٰ (علیہ السلام) اور ان کی والدہ ماجدہ پر رقیق حملے کیے۔ عیسائیوں نے دو ہاتھ آگے بڑھتے ہوئے نہ صرف تورات کا منزل من اللہ ہونے کا انکار کیا بلکہ حضرت موسیٰ کلیم اللہ کی ذات گرامی پر بھی تہمتیں لگائیں۔ ان کی دیکھا دیکھی مشرکین بھی کہنے لگے کہ جب تک یہ لوگ ہمارے معبودوں کو مشکل کشا اور اللہ تعالیٰ کے ہاں انہیں وسیلہ قرار نہیں دیں گے اس وقت تک ان کی نجات مشکل ہوگی۔ اس صورت حال پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا جا رہا ہے کہ یہ تو اللہ ہی فیصلہ کرے گا کہ کس کے پلے میں کیا ہے؟ اور حق و باطل کے حوالے سے کوئی کس مقام پر کھڑا تھا؟ اس فرمان میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ امّتِ محمدیہ کے خلاف ابتداء ہی سے کفر کے حامی یکجارہے ہیں۔ تفسیر ابن کثیر میں عبداللہ بن عباس (رض) سے مروی ہے : ” جب نجران کے عیسائی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے تو ان کے پاس یہودیوں کے علماء بھی آئے اور انہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس جھگڑا کیا۔ رافع بن حریملہ نے کہا : تم کسی دین پر نہیں ہو اور ساتھ ہی عیسیٰ (علیہ السلام) اور انجیل کے ساتھ کفر کردیا اور اہل نجران کے عیسائیوں میں سے ایک شخص نے یہودیوں کو کہا : تم کسی دین پر نہیں اور اس کے ساتھ ہی موسیٰ (علیہ السلام) اور تورات کے ساتھ کفر کا اظہار کیا۔ اللہ تعالیٰ نے انہی باتوں کے متعلق فرمایا اور یہ آیت نازل فرمائی کہ ( یہود کہتے ہیں کہ نصاریٰ حق پر نہیں اور نصاریٰ کہتے ہیں کہ یہودی حق پر نہیں حالانکہ یہ لوگ تورات پڑھتے ہیں)۔“ عیسائیوں اور یہودیوں کی باہم ہرزہ سرائی یہودیوں اور عیسائیوں کی دشمنی ہزاروں سال پرانی ہے۔ یہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے دور سے شروع ہوئی تھی اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت سے تقریباً سو سال پہلے شدو مد سے جاری تھی عیسائیوں کے نزدیک یہودیوں کے درج ذیل بڑے بڑے یہ جرائم تھے اور جن کی بنیاد پریہودی قابل گردن زدنی سمجھے جاتے تھے۔ ١۔ یہودی حضرت مریم [ پر (نعوذ باللہ) بدکاری کا الزام لگاتے ہیں۔ ٢۔ یہودی حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو تختۂ دار پر لٹکانے کا دعو ٰی کرتے ہیں۔ ٣۔ یہودی عیسیٰ (علیہ السلام) کو (نعوذ باللہ) (خاکم بدہن) ناجائز بچہ قرار دیتے ہیں۔ ٤۔ قرب قیامت یہودی عیسیٰ (علیہ السلام) کی آمد کو (نعوذ باللہ) دجال کی آمد تصور کرتے ہیں۔ ٥۔ یہودی عیسائیت کا انکار کرتے ہیں۔ ٦۔ عیسائیوں کے خیال کے مطابق یہودی حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے قاتل ہیں۔ چنانچہ انہی جرائم کی بنیاد پر عیسائیوں کے نزدیک یہودی قوم انتہائی قابل نفرت قوم رہی ہے۔ عیسائی انہیں روئے زمین پر سب سے شریر اور خبیث مخلوق قرار دیتے تھے اور جہاں پاتے تھے قتل کردیتے تھے۔ حال یہ تھا کہ ابتدائی دور میں جب یورپ میں طاعون (یا کالی وبا) پھیلی جس کے باعث لاتعداد ہلاکتیں ہوئیں تو عیسائیوں نے اس کا سبب یہودیوں کو ٹھہرایا حالانکہ خود عیسائی بھی اس مرض میں ہلاک ہو رہے تھے۔ یہودیوں کی جلاوطنی : 586 ء میں شاہ بابل نے یروشلم پر قبضہ کیا اور عبادت خانے کو تباہ کردیا۔ 472 ق م میں یونانی بادشاہ انہولنس نے یروشلم پر حملہ کر کے سلیمانی ہیکل کا نام و نشان مٹا دیا اور اسے بت خانے میں تبدیل کردیا۔ 135 میں رومی بادشاہ ہیڈریان نے یروشلم کو ایک بار پھر تباہ و برباد کردیا۔ 1228 ء اسپین میں یہودیوں کو قانونی طور پر لباس کے اوپر نمایاں نشان آویزاں کرنے کا حکم دیا گیا۔ 1266 ء پولینڈ کے گرجاؤں نے فیصلے صادر کئے کہ یہودی عیسائیوں کے ساتھ اکٹھے نہیں رہ سکتے۔ 1321 ء فرانس میں ایک گڑھے میں 160 یہودی دفن کئے گئے۔ 1355 ء اسپین میں ایک مشتعل ہجوم نے بارہ ہزار یہودیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ 1391 ء میجور کا جزیرے میں پچاس ہزار یہودی تہ تیغ کئے گئے۔ 1391 ء سسلی میں بڑے پیمانے پر یہودیوں کا قتل عام کیا گیا۔ 1422 ء ” کیسٹائل“ میں یہودیوں کو علیحدہ علاقے میں رہنے اور امتیازی پٹی پہننے پر مجبور کیا گیا۔ 1420 ء لیؤن : فرانس سے یہودیوں کو نکال باہر کیا گیا۔ 1492 ء اسپین میں ایک لاکھ ساٹھ ہزار یہودی ملک بدر کئے گئے۔ 1492 ء سسلی اور مالٹا سے یہودیوں کو نکال باہر کیا گیا۔ پولینڈ نے پہلی مرتبہ یہودی حد بندی کا آغاز کیا۔ (یہودیوں کو ایک مخصوص علاقہ میں محدود کرنے کو یورپ میں Ghe tto کی اصطلاح سے پکارا جاتا ہے۔) 1498 ء پرتگال میں ایک بھی یہودی باقی نہ رہنے دیا گیا۔ 1935 ء تا 1941 ء۔ ہٹلر نے ہزاروں یہودیوں کو انسانیت سوز سلوک سے دو چار کر کے عظیم تباہی مچائی۔ (یہودی اس سانحے کو ہولو کاسٹ Holocaust کہہ کر پکارتے اور بے حد مبالغے سے کام لے کر دنیا کی ہمدردیاں سمیٹتے ہیں۔ (حوالہ کتاب : عرب اور اسرائیل‘ ازرون ڈیوڈ صفحہ 75 اور صفحہ 108) مسائل ١۔ یہود و نصاریٰ اپنے آپ کو جنت کا وارث سمجھنے کے باوجود ایک دوسرے کو کافر گردانتے ہیں۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ روز قیامت ہر قسم کے اختلافات کا فیصلہ فرمائیں گے۔ تفسیر بالقرآن یہود ونصاریٰ کے باہمی اختلافات : ١۔ مسلمان یہودیوں اور عیسائیوں کو متحد سمجھتے ہیں۔ حالانکہ وہ باہم ایک دوسرے کے خلاف ہیں۔ (البقرۃ: ١١٣) ٢۔ یہود و نصاری قیامت تک باہم اختلاف کرتے رہیں گے۔ (المائدۃ: ١٤) ٣۔ یہودیوں کا حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور ان کی والدہ پر الزام۔ (النساء : ١٥٦) ٤۔ یہودی حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو قتل کرنے کے دعویدار ہیں۔ (النساء : ١٥٧) البقرة
114 فہم القرآن ربط کلام : نیا خطاب شروع ہوا ہے جس میں اہل کتاب کے ساتھ مشرکین مکہ کو مخاطب کیا گیا ہے۔ یہود و نصاریٰ نے نا صرف ایک دوسرے کی آسمانی کتابوں کی نفی کی بلکہ اس سے آگے بڑھ کرانبیاء کرام (علیہ السلام) کی عظیم شخصیات کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا۔ یہاں تک کہ عبادت گاہوں کو فرقہ واریت کی بھینٹ چڑھاتے ہوئے مذہبی منافرت کے مورچے بنا لیا اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ ایک دوسرے کے معبد خانوں پر حملہ آور ہوئے اور طاقتوروں نے عبادت گاہوں کے تقدس و احترام کو پامال کیا۔ بسا اوقات ان کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی جیسا کہ بیت المقدس کی تاریخ اس بات پر گواہ ہے۔ ایسا ہی کردار مشرکین مکہ کا تھا۔ بیت اللہ جس کی تعمیر کا مقصد ہی اس میں اللہ کی عبادت کرنا اور اسے زیارت گاہ قرار دیتے ہوئے مرکزِتوحید ٹھہرایا گیا ہے۔ ایک عرصہ تک نبی محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مسلمانوں کو اس کی زیارت سے محروم رکھا اور اس میں عبادت کرنے سے منع کردیا گیا۔ یہ تو اسلام کی خصوصیت ہے کہ جس نے نظریاتی اختلافات کے باوجود ہر عبادت گاہ کو احترام کی نظر سے دیکھنے کا حکم دیا ہے۔ جس کی آپ نے اس وقت عملاً اعلیٰ مثال قائم فرمائی جب نجران کے عیسائی آپ سے اسلام کے بارے میں مذاکرات کرنے لیے مسجد نبوی میں حاضر ہوئے گفتگو کے دوران ظہر کی نماز کا وقت ہوا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ کہہ کر اٹھ کھڑے ہوئے کہ ہمیں اب نماز پڑھنا ہے۔ یہ سنتے ہی وفد کہنے لگا کہ اگر اجازت ہو تو ہم بھی اپنے طریقے اور قبلہ کے مطابق آپ کی مسجد میں نماز ادا کرلیں؟ آپ نے بڑی خوشی کے ساتھ انہیں نماز پڑھنے کی اجازت دے کر عملًا یہ ثابت کیا کہ واقعتا مسجدیں اللہ کا گھر ہیں اور ان میں ہر کسی کو اللہ کی عبادت کرنے کا حق ہے اور ملنا چاہیے۔ [ تفسیر ابن کثیر : آل عمران : ٦١] بشرطیکہ باطل نظریات کا پرچار اور اس میں بد نظمی نہ کی جائے کیونکہ کسی شخص کو دوسرے کی عبات گاہ میں جا کر اپنے نظریات پھیلانے کا حق نہیں پہنچتا۔ مسلمانوں کی چودہ سو سالہ تاریخ میں اس کا کوئی ثبوت نہیں ملتاکہ انہوں نے کسی علاقے میں بھی اپنے دور حکومت میں دوسروں کے معبد خانوں میں جا کر تبلیغ کی ہو بلکہ مسلم حکمرانوں نے ان کو ہر قسم کا تحفظ فراہم کیا۔ البتہ کسی کو مسجدوں میں شور و غل اور بدنظمی پیدا کرنے کا حق نہیں دیا جا سکتا۔ مسجد بالخصوص بیت اللہ کا ماحول خراب کرنے والے کو اللہ تعالیٰ دنیا میں ذلیل اور آخرت میں شدید عذاب میں مبتلا کرے گا۔ مسجدوں کا ماحول اتنا سنجیدہ اور عبادت گزاری کا ہونا چاہیے کہ کوئی بد تمیزی اور شر پسندی کی کوشش کرے تو اپنے آپ میں خفّت اور ذلّت محسوس کیے بغیر نہ رہ سکے جو لوگ مسجدوں میں بحث و تکرار اور لڑائی جھگڑا کرتے ہیں ایسے لوگ بالآخر لوگوں کی نظروں میں ذلیل ہوجاتے ہیں۔ آپ نے مسجد اور بازار کا فرق بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ مسجدوں میں اس طرح بلند آواز سے گفتگو نہیں کرنا چاہیے جس طرح منڈی اور بازار میں کی جاتی ہے۔ یہاں تک کہ قرآن مجید کی تلاوت مناسب آواز سے کرنا چاہیے تاکہ ہر آدمی یکسوئی اور پورے انہماک کے ساتھ ذکر و فکر اور اللہ کی عبادت کرسکے۔ (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَسْعُوْدٍ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لِیَلِیَنِیْ مِنْکُمْ أُولُوا الْأَحْلَامِ وَالنُّھٰی ثُمَّ 8 الَّذِیْنَ یَلُوْنَھُمْ ثَلَاثًا وَّإِیَّاکُمْ وَھَیْشَاتِ الْأَسْوَاقِ) [ رواہ مسلم : کتاب الصلوۃ، باب تسویۃ الصفوف وإقامتھا] ” حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میرے قریب عقلمند لوگ کھڑے ہوا کریں۔ پھر ان سے کم۔ یہ کلمات آپ نے تین دفعہ دہرائے اور فرمایا مسجدوں میں بازاروں کی طرح شور و غوغا نہ کیا کرو۔“ مسائل ١۔ اللہ کے گھروں سے لوگوں کو روکنے والا ظالم ہے وہ دنیا و آخرت میں ذلیل ہوگا۔ ٢۔ شرارتی لوگوں پر کڑی نظر رکھنی چاہیے۔ تفسیر بالقرآن مسجد کا مقام واحترام : ١۔ مسجدیں صرف اللہ کی عبادات کے لیے ہیں۔ (الجن : ١٨) ٢۔ مسجدیں شرک سے پاک ہونی چاہییں۔ (الحج : ٢٦) ٣۔ مسجدوں کی صفائی کا خیال رکھنا چاہیے۔ (الحج : ٢٦) ٤۔ مسجدیں نماز اور اعتکاف کے لیے ہوتی ہیں۔ (البقرۃ: ١٢٥) ٥۔ مسجدیں آباد کرنا صرف ایمانداروں کا حق ہے۔ (التوبۃ: ١٨) ٦۔ مشرک کو بیت اللہ میں داخل ہونے کا حق نہیں ہے۔ (التوبۃ: ٢٨) البقرة
115 فہم القرآن ربط کلام : سابقہ آیات میں مساجد کے احترام و اکرام اور ان کا مقصد بیان فرمایا کہ ان میں اللہ تعالیٰ کا ذکر ہونا چاہیے۔ یہاں اس بات کی وضاحت فرمائی گئی کہ اللہ تعالیٰ کی توجہ صرف مسجدوں تک محدود نہیں بلکہ پوری زمین مشرق سے لے کر مغرب تک اللہ تعالیٰ کی ملکیت ہے۔ اس کی توجہ زمین کے چپیّ چپیّ اور ذرّے ذرّے پر ہے۔ اسلام حقیقت پسندی کا مذہب ہے اور اس کی تعلیم یہ ہے کہ شعائر کا احترام اور خیال رکھنے کے باوجود آدمی کی نظر ہمیشہ حقائق اور اصلیت پر رہنی چاہیے۔ کیونکہ قومیں جب ظاہر پرستی میں مبتلا ہوجائیں تو ان میں حقیقی روح اور جذبہ ختم ہوجایا کرتا ہے۔ یہی صورت حال عیسائیوں اور یہودیوں میں پیدا ہوئی جس کی وجہ سے عیسائیوں نے بیت المقدس میں اس جگہ کو زیادہ افضل قرار دیا جس مشرقی کونے میں حضرت مریم [ نے اپنے آپ کو عبادت کے لیے وقف کیا تھا اور جہاں عیسیٰ (علیہ السلام) کی پیدائش ہوئی تھی جسے بیت اللحم کہا جاتا ہے۔ اس کے مقابلے میں یہودیوں نے مغربی جانب کو اپنے لیے زیادہ محترم قرار دیا کہ ہیکل سلیمان یہاں واقع ہے۔ مسلمانوں پر بھی ایسا دور گزرا ہے کہ جب بیت اللہ کو فکری اور جغرافیائی طور پر تقسیم کردیا گیا۔ ملک عبد العزیز آل سعود کی حکومت سے پہلے ترکوں کی طرف سے مکہ کے گورنر جسے شریف مکہ کہا جاتا ہے اس کے دور میں بد قسمتی سے اتحاد کے نام پر بیت اللہ میں چار مصلے بچھا دیے گئے۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ حطیم کی طرف کھڑے ہونے والے اس لیے دوسرے امام کے پیچھے نماز نہیں پڑھتے تھے کہ ہم فلاں ہیں اور ہماری جائے نماز زیادہ افضل ہے۔ ان کے مقابلے میں رکن یمانی کی جانب کھڑے ہونے والے اپنے آپ کو زیادہ حق پر سمجھتے کہ ہماری جانب حجر اسود کی طرف ہے۔ علی ھٰذا القیاس افسوس ! مرکز توحید و اتحاد میں بھی ملت تقسیم ہو کر رہ گئی۔ یہاں وضاحت فرمائی گئی ہے کہ بے شک تمہارے لیے ایک قبلہ مقرر کردیا گیا ہے جو تمہارے لیے یکسوئی اور اتحاد کی علامت بنایا گیا ہے لیکن اللہ تعالیٰ کی توجہ اس میں محدود نہیں ہوگی۔ اس کی توجہ ہر جانب یکساں اور متواتر ہوا کرتی ہے۔ انسان کوتاہ نظر اور کم ظرف ہے۔ ورنہ اللہ کے فضل وعطاکی وسعتیں اور عفو ودرگزر کی جہتیں بے مثال ولا محدود ہیں۔ مسائل ١۔ انسان جدھر بھی منہ کرے اللہ تعالیٰ کی اس طرف توجہ ہوتی ہے۔ ٢۔ اللہ مشرق و مغرب کا مالک اور ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے۔ نوٹ : قبلہ کے بارے میں بحث دوسرے پارے کی ابتدا میں ملاحظہ فرمائیں۔ البقرة
116 فہم القرآن ربط کلام : جب زمین و آسمان کا مالک اللہ تعالیٰ ہے۔ تو اسے اولاد کی کیا ضرورت وہ تو کن کہتا ہے اور ہر چیز اس کی مرضی کے مطابق معرض وجود میں آجاتی اور اس کی غلامی میں لگ جاتی ہے۔ اولاد کی حاجت انسان کو ہے اللہ تعالیٰ ان حاجات اور کمزوریوں سے پاک ہے۔ سلسلۂ کلام سے یہ ثابت ہو رہا ہے کہ یہود و نصاریٰ انبیاء کے گستاخ، دین کے لیے ننگ و عار‘ عبادت خانوں کی بے رونقی کا باعث اور اللہ تعالیٰ کی توہین کرنے والے ہیں۔ جس کی بنا پر یہودیوں نے جناب عزیر (علیہ السلام) کو اللہ کا بیٹا کہا اور عیسائیوں نے اس میں اضافہ کرتے ہوئے حضرت مریم کو خدا کی بیوی اور عیسیٰ (علیہ السلام) کو ان کا بیٹا ٹھہرایا۔ مشرکین مکہ نے بتوں کو خدا کا اوتار تصور کیا اور کچھ اقوام نے ملائکہ کو اللہ کی بیٹیاں قرار دیا۔ یہاں اس بات کی سختی کے ساتھ تردید کی جا رہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی کوئی اولاد نہیں وہ اس کمزوری سے بالکل مبرّا اور پاک ہے کیونکہ اولاد سلسلۂ نسب کے تسلسل کے لیے ضروری‘ انسان کی ضرورت اور اس کی طبعی محبت کا تقاضا ہے۔ آدمی کی اولاد نہ ہو تو وہ اپنے گھر ہی میں ویرانی، بے رونقی اور تنہائی محسوس کرتا ہے اور اپنے آپ کو کمزور اور بے سہارا سمجھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ تو ان تمام کمزوریوں سے مبرّا ہے۔ اسے کسی لحاظ سے بھی نہ سہارے کی ضرورت ہے اور نہ ہی اسے تنہائی اور کمزوری کا احساس ہوتا ہے اور نہ ہی وہ کسی کی محبت میں مبتلا ہے۔ حاکم کل اور قادر مطلق ہے۔ کیونکہ جو کچھ زمین و آسمانوں میں ہے ہر چیز اس کی غلام اور تابع فرمان ہے۔ اس نے زمین و آسمان کو بغیر نقشے اور میٹریل کے پیدا کیا وہ تو صرف اتنا حکم دیتا ہے کہ ہو جاوہ چیز ٹھیک ٹھیک اس کے حکم کے مطابق معرض وجود میں آ جاتی ہے۔ اس سے ان اقوام اور سائنسدانوں کے نظریے کی تردید ہوتی ہے جن کا کہنا ہے کہ روح اور مادہ تو پہلے ہی موجود چلا آ رہا ہے۔ خدا تو صرف اسے ایک شکل اور وجود دینے والا ہے۔ (قَال النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَال اللّٰہُ کَذَّبَنِی ابْنُ آدَمَ وَلَمْ یَکُنْ لَہٗ ذٰلِکَ وَشَتَمَنِیْ وَلَمْ یَکُنْ لَہٗ ذٰلِکَ فَأَمَّا تَکْذِیْبُہٗ إِیَّایَ فَقَوْلُہٗ لَنْ یُعِیْدَنِیْ کَمَا بَدَأَنِیْ وَلَیْسَ أَوَّلُ الْخَلْقِ بِأَھْوَنَ عَلَیَّ مِنْ إِعَادَتِہٖ وَأَمَّا شَتْمُہٗ إِیَّایَ فَقَوْلُہُ اتَّخَذَ اللّٰہُ وَلَدًا وَأَنَاالْأَحَدُ الصَّمَدُ لَمْ أَلِدْ وَلَمْ أُوْلَدْوَلَمْ یَکُنْ لِیْ کُفْءًا أَحَدٌ) [ رواہ البخاری : کتاب تفسیرا لقرآن، باب یقال لاینون أحد أی واحد] ” نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے مجھے ابن آدم جھٹلاتا ہے یہ اس کے لیے جائز نہیں۔ وہ مجھے برا کہتا ہے اسے یہ بھی زیب نہیں دیتا۔ اس کا یہ کہنا کہ جس طرح اللہ نے مجھے پیدا کیا ہے دوبارہ ہرگز نہیں لوٹائے گا مجھے جھٹلانے کے مترادف ہے حالانکہ پہلی بار پیدا کرنا دوسری بار لوٹانے سے مجھ پر بھاری نہیں۔ ابن آدم کا یہ کہنا کہ اللہ کی اولاد ہے مجھے برا کہنا ہے حالانکہ میں ایک اور بے نیاز ہوں نہ میں والد ہوں اور نہ ہی مولود اور نہ ہی کوئی میرا ہمسر ہے۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ کو اولاد کی ضرورت نہیں کیونکہ زمین و آسمان کی ہر چیز اس کی ملک اور تابعدار ہے۔ ٢۔ ہر کام اس کے ” کن“ کہنے سے ہوجاتا ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ ایک ہے : ١۔ اللہ اولاد سے پاک ہے۔ (الانعام : ١٠١) ٢۔ عیسیٰ (علیہ السلام) اور مریم [ اِلٰہ نہیں اللہ کے بندے تھے۔ (المائدۃ: ٧٥) ٣۔ اللہ کی اولاد قرار دینا سنگین ترین جرم ہے۔ (مریم : ٩١، ٩٢) ٤۔ اللہ تعالیٰ کو کسی نے جنم نہیں دیا نہ اس نے کسی کو جنم دیا ہے۔ (الاخلاص : ٣) زمین و آسمان کی تخلیق : ١۔ اللہ تعالیٰ نے بغیر نمونے کے زمین و آسمان بنائے۔ (البقرۃ : ١١٧) ٢۔ اللہ تعالیٰ نے سات آسمان اور سات زمینیں بنائیں۔ (البقرۃ: ٢٩) ٣۔ اس نے آسمان و زمین کو برابر کیا۔ (البقرۃ: ٢٩) ٤۔ آسمان کو چھت اور زمین کو فرش بنایا۔ (البقرۃ : ٢٢) ٥۔ زمین اور آسمانوں کو چھ دنوں میں بنایا۔ (الاعراف : ٥٤) البقرة
117 البقرة
118 فہم القرآن ربط کلام : جس طرح لوگوں کا اللہ تعالیٰ کی اولاد ٹھہرانا غلط ہے۔ اسی طرح ان کا براہ راست اللہ تعالیٰ کو دیکھنے یا اس سے براہ راست بات کرنے کا مطالبہ بھی غلط ہے۔ اللہ تعالیٰ کی زیارت دنیا کی آنکھوں سے کرنا نا ممکنات میں سے ہے۔ اہل کفر کی ہمیشہ سے یہ عادت رہی ہے کہ جب بھی وہ انبیاء کے مقابلے میں لا جواب ہوئے تو یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ آخر کیا وجہ ہے کہ جس خدا نے آپ کو نبی بنایا ہے وہ براہ راست ہمیں اپنے آپ پر ایمان لانے کا حکم کیوں نہیں دیتا؟ یا پھر ہمارے پاس ایسے دلائل و معجزات کیوں نہیں آتے؟ جن کو دیکھتے ہی ہم آپ کی رسالت اور خدا کی خدائی پر ایمان لانے کے لیے مجبور ہوجائیں۔ یہاں اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہم کلامی کے مطالبہ کو اس لیے در خور اعتناء نہیں سمجھا گیا کیونکہ اس سے زیادہ جہالت پر مبنی کوئی مطالبہ نہیں ہو سکتا۔ مشرکین مکہ سے پہلے بنی اسرائیل نے مطالبہ کیا تھا۔ انہوں نے کوہ طور پر خدا کے نور کی ایک جھلک دیکھی تو سارے کے سارے بے ہوش ہوگئے۔ قرآن مجید صاف‘ صاف بتلاتا ہے کہ دنیا کی زندگی میں انسان کی آنکھ ربِّ کبریا کو نہیں دیکھ سکتی جب کہ اللہ تعالیٰ سب کو دیکھ رہا ہے۔ (الانعام : ١٠٣) اگر اللہ تعالیٰ نے ہر شخص کو براہ راست حکم دینا اور بات کرنی ہے اور ہر کوئی انبیاء کی طرح پاکباز اور با صلاحیت ہو تو پھر پیغمبروں کی آمد کا مقصد ہی باقی نہیں رہتا۔ اس بے ہودہ سوال کا جواب دینے کی بجائے فقط اتنا فرمایا کہ ان کی زبان اور دل ان لوگوں کی طرح ہوچکے ہیں جنہوں نے ہمیشہ انکار اور تمرّد کا راستہ اختیار کرتے ہوئے ایسا مطالبہ کیا ہے۔ جہاں تک کھلے اور واضح دلائل اور معجزات کا تعلق ہے وہ اس سے زیادہ کیا ہو سکتے ہیں کہ ان کے سامنے چاند کا دو ٹکڑے ہونا‘ آپ کا آسمانوں کی رفعتوں سے بلند سدرۃ المنتہیٰ تک پہنچنا، قرآن مجید کی ایک ایک پیش گوئی کا حرف بحرف سچ ہونا، معجزات اور آیات کا نازل ہونا۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات گرامی کی شکل میں ایک چلتا پھرتا معجزۂ مجسم بھی ان کے سامنے تھا۔ جس کی نظیر و مثال قیامت تک کوئی پیش نہیں کرسکتا اتنے واضح و بیّن براہین ودلائل پر ایمان تو وہی لوگ لاتے ہیں جو یقین و اعتماد کی صلاحیتوں سے بہرہ مند ہوتے ہیں۔ بلا شبہ ہم نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایسی سچائی کے ساتھ جلوہ گر کیا ہے کہ جس پر ایمان لانے والوں کے لیے دنیا و آخرت کی بشارتیں اور منکروں کے لیے دنیا میں پریشانیاں اور آخرت میں پشیمانیاں ہوں گی۔ میرے نبی! آپ اپنا کام کرتے جائیں۔ آپ برے کاموں پر انتباہ کرنے اور اچھے کاموں کی اچھی خوشخبری دینے والے ہیں۔ ہم قیامت کے دن یہ سوال نہیں کریں گے کہ آپ کے ہوتے ہوئے یہ جہنم کے سزا وار کیوں ٹھہرے؟ (عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ (رض) أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ أُعْطِیْتُ خَمْسًا لَمْ یُعْطَھُنَّ نَبِیٌّ قَبْلِیْ وَلَا أَقُوْلُھُنَّ فَخْرًا بُعِثْتُ إِلَی النَّاسِ کَافَّۃً الْأَحْمَرِ وَالْأَسْوَدِ وَنُصِرْتُ بالرُّعْبِ مَسِیْرَۃَ شَھْرٍ وَأُحِلَّتْ لِیَ الْغَنَاءِمُ وَلَمْ تَحِلَّ لِأَحَدٍ قَبْلِیْ وَجُعِلَتْ لِیَ الْأَرْضُ مَسْجِدًا وَطَھُوْرًا وَّأُعْطِیْتُ الشَّفَاعَۃَ فَأَخَّرْتُھَا لِأُمَّتِیْ فَھِیَ لِمَنْ لَّایُشْرِکُ باللّٰہِ شَیْءًا) [ مسند احمد : کتاب ومن مسند بنی ھاشم، باب بدایۃ مسند عبداللہ بن العباس] ” حضرت عبداللہ بن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا مجھے ایسی پانچ چیزیں عطا کی گئی ہیں جو مجھ سے پہلے کسی نبی کو نہیں دی گئیں اور میں ان کے بارے میں فخر سے بات نہیں کرتا میں تمام سرخ وسیاہ لوگوں کی طرف مبعوث کیا گیا ہوں اور ایک مہینے کی مسافت تک میری رعب کے ساتھ مدد کی گئی ہے اور میرے لیے غنیمت کا مال حلال قرار دیا گیا ہے جب کہ مجھ سے پہلے کسی امت کے لیے حلال نہ تھا اور میرے لیے زمین مسجد اور طہارت کا ذریعہ بنادی گئی ہے اور مجھے شفاعت عطا کی گئی میں نے اسے اپنی امت کے لیے مؤخر کردیا ہے اور وہ ہر اس شخص کی نجات کا ذریعہ بنے گی جو اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراتا تھا۔“ مسائل ١۔ جاہل اور کافر لوگ اللہ تعالیٰ کو براہ راست دیکھنے کا مطالبہ کرتے رہے ہیں۔ ٢۔ انبیاء کا کام لوگوں کو جہنم سے کھینچنا نہیں بلکہ ان کو اچھے، برے سے آگاہ کرنا ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خوشخبری دینے اور انتباہ کرنے والا بنا کر بھیجا ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ کا کلام کرنا : ١۔ بنی اسرائیل نے اللہ کو دیکھنے اور اس سے ہم کلامی کا مطالبہ کیا۔ (النساء : ١٥٣) ٢۔ اللہ تعالیٰ براہ راست کسی سے کلام نہیں فرماتا۔ (الشورٰی : ٥١) ٣۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے اللہ تعالیٰ پر دے میں بات کرتا تھا۔ ( الشورٰی : ٥١) البقرة
119 البقرة
120 فہم القرآن ربط کلام : اہل کفر اور یہود و نصاریٰ کے تمام کے تمام مطالبات بھی مان لیے جائیں تب بھی یہ ایمان نہیں لائیں گے لہٰذا اے رسول ! آپ اپنا کام کرتے رہیں کیونکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ان کا ہر مطالبہ پورا کرنے اور ہر حال میں انہیں راضی کرنے کے لیے نہیں بھیجا گیا۔ آپ حق کی شہادت اور ان کے برے کاموں کے انجام سے ڈراتے ہیں۔ ہدایت تو وہی لوگ پائیں گے جو کتاب اللہ کو اخلاص نیت کے ساتھ پڑھتے ہیں۔ صحابہ کرام (رض) کو رہ رہ کر یہ خیال آتا تھا کہ اہل کتاب پڑھے لکھے اور اپنے دین پر قائم ہونے کے دعویدار ہونے کے باوجود رسالت مآب (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان کیوں نہیں لاتے؟ انہی کو تسلی دینے کے لیے براہ راست رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خطاب کرتے ہوئے یہود و نصاریٰ کی فطرت خبیثہ کے بارے میں آگاہ کیا جا رہا ہے کہ یہ لوگ اس وقت تک آپ سے خوش نہیں ہو سکتے جب تک آپ لوگ اپنا دین چھوڑ کر ان کے دین کو قبول نہ کرلیں۔ کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ ہدایت تو وہی ہے جس پر وہ قائم ہیں۔ اے نبی! ان سے فرما دیجیے جسے تم ہدایت سمجھتے ہو وہ ہرگز ہدایت نہیں۔ ہدایت تو وہ ہے جس کی رہنمائی اور توفیق اللہ تعالیٰ عطا کرتا ہے۔ یہاں ہمیشہ کے لیے یہ اصول بیان کردیا کہ ہدایت وہ نہیں جس کو کوئی انسان‘ قوم یا کوئی پارلیمنٹ متعین کرے بلکہ حقیقی ہدایت وہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کی صورت میں آپ پر نازل فرمایا ہے۔ اگر علم و معرفت کے باوجود آپ ان کی طرف جھک گئے تو یاد رکھیں کہ جن لوگوں کی حمایت اور خوشی کے لیے آپ ایسا کریں گے وہ تو در کنار کوئی بھی ذات کبریا کے سوا آپ کا خیر خواہ اور مددگار ثابت نہیں ہوگا۔ اس فرمان کا خلاصہ یہ ہے کہ مسلمانوں کو ہر حال میں اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ ہدایت اور اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کو پیش نگاہ رکھنا چاہیے۔ اگر مسلمان دوسروں کو خوش کرنے کے لیے اپنا دین اور تہذیب چھوڑدیں گے تو اس طرح یہود و نصاریٰ تو وقتی طور پر خوش ہوں گے لیکن مسلمان اللہ تعالیٰ کی نصرت و حمایت سے محروم ہوجائیں گے۔ جو اللہ تعالیٰ کی نصرت وحمایت سے محروم ہوا اس کی کوئی مدد نہیں کرسکتا۔ اس کے ساتھ ہی اس بات کی وضاحت فرمائی جا رہی ہے کہ اہل کتاب میں وہی لوگ محمد عربی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت اور قرآن کی صداقت پر ایمان لائیں گے جو ذہنی تحفظات اور گروہی تعصبات سے بالا تر ہو کر تورات‘ انجیل اور قرآن مجید پر ایمان لاتے ہیں۔ حصول ہدایت کا یہی وہ بنیادی اصول ہے جس کے لیے قرآن بار بار اس بات کی دعوت دیتا ہے۔ کہ اے دنیا جہاں کے لوگو ! کتاب ہدایت میں تدبر وتفکر کرو تاکہ تمہارے لیے ہدایت کا راستہ واضح اور آسان ہوجائے۔ جنہوں نے کتاب اللہ میں تدبر و تفکر سے اجتناب اور اس کے حقائق کا انکار کیا وہ بالآخر نقصان پائیں گئے۔ البقرة
121 (عَنْ أَبِی ذَرٍ (رض) قَالَ قَالَ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) إِنَّ بَعْدِی مِنْ أُمَّتِی أَوْ سَیَکُونُ بَعْدِیْ مِنْ أُمَّتِی قَوْمٌ یَقْرَءُ وْنَ الْقُرْآنَ لَا یُجَاوِزُ حَلَاقِیمَہُمْ یَخْرُجُونَ مِنْ الدِّینِ کَمَا یَخْرُجُ السَّہْمُ مِنَ الرَّمِیَّۃِ ثُمَّ لَا یَعُوْدُوْنَ فیہِ ہُمْ شَرُّ الْخَلْقِ وَالْخَلِیقَۃِ) [ رواہ مسلم : کتاب الزکوۃ، باب الخوارج شر الخلق والخلیقۃ] ” حضرت ابوذر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : میرے بعد ایک قوم آئے گی وہ قرآن پڑھیں گے لیکن قرآن ان کے حلقوں سے تجاوز نہیں کرے گا۔ وہ دین سے اس طرح نکل جائیں گے جس طرح تیر اپنے ہدف سے نکل جاتا ہے۔ پھر وہ دین کی طرف نہیں لوٹ سکیں گے۔ وہ انسانوں اور جانوروں میں سے بدترین ہوں گے۔“ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ مَا أَذِنَ اللّٰہُ لِشَیْءٍ مَا أَذِنَ للنَّبِیِّ أَنْ یَّتَغَنّٰی بالْقُرْآنِ) [ رواہ البخاری : کتاب، فضائل القرآن، باب من لم یتغن بالقرآن] ” حضرت ابوہریرہ (رض) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان فرماتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے کسی اور چیز کی نبی کو اتنی اجازت نہیں دی جتنی کہ قرآن کو خوبصورت آواز کے ساتھ پڑھنے کی اجازت دی ہے۔“ (عَنِ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ (رض) قَالَ قَالَ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) زَیِّنُوا الْقُرْآنَ بِأَصْوَاتِکُمْ) [ رواہ ابوداوٗد : کتاب الصلاۃ، باب استحباب الترتیل فی القراء ۃ ] ” حضرت براء بن عازب (رض) بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : قرآن کو اپنی آوازوں کے ساتھ مزین کرو۔“ مسائل ١۔ جب تک مسلمان یہودی یا عیسائی نہ ہوجائیں یہود ونصاریٰ راضی نہیں ہو سکتے۔ ٢۔ کتاب و سنت کی اتباع کے بغیر اللہ تعالیٰ کی ہدایت نصیب نہیں ہوسکتی۔ ٣۔ قرآن و سنت کی اتباع کیے بغیر خدا کی نصرت و حمایت حاصل نہیں ہوتی۔ ٤۔ قرآن مجید کی تلاوت اس کے تقاضے پورے کرتے ہوئے کرنی چاہیے۔ ٥۔ قرآن کی راہنمائی کا انکار کرنے والے دنیا و آخرت میں نقصان اٹھائیں گے۔ تفسیر بالقرآن خواہشات کی پیروی کرنا جرم ہے : ١۔ اللہ کی راہنمائی آجانے کے بعد اپنی خواہشات کی پیروی نہیں کرنا چاہیے۔ (ص : ٢٦) ٢۔ فیصلہ کرتے وقت خواہشات کے پیچھے نہیں لگنا چاہیے۔ (المائدۃ: ٤٩) ٣۔ علم کے باوجود خواہشات کی پیروی کرنے والا اللہ کی ضمانت سے نکل جاتا ہے۔ (الرعد : ٣٧) ٤۔ اپنی خواہش کی پیروی کرنا اپنے نفس کو رب بنانا ہے۔ (الفرقان : ٤٣) ٥۔ حق کو خواہشات کے تابع کرنے سے نظام کائنات درہم برہم ہوجائے گا۔ (المؤمنون : ٧١) ٦۔ نبی کی بات نہ ماننا اپنی خواہش کی پیروی کی علامت ہے۔ (القصص : ٥٠) تلاوت قرآن کے آدا ب : ١۔ قرآن کی تلاوت کا حق ادا کرنا چاہیے۔ (البقرۃ: ١٢١) ٢۔ قرآن کی تلاوت کے وقت تدبر کرنا چاہیے۔ (النساء : ٨٢) ٣۔ سحری کے وقت تلاوت کرنا افضل ہے۔ (الاسراء : ٧٨) البقرة
122 فہم القرآن ربط کلام : سورۃ البقرۃ میں اہل کتاب بنی اسرائیل کو تیسری بار خطاب کیا جار ہا ہے۔ جس میں بیت اللہ کی تاریخ‘ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی دعاؤں کا ذکر خاص کر اس دعا کا ذکر ہے جس میں انہوں نے مکہ میں مبعوث ہونے والے آخری پیغمبر کے لیے اللہ کے حضور کی تھی۔ اللہ تعالیٰ بنی اسرائیل کو تیسری مرتبہ اپنی عطا کردہ نعمتیں اور فضیلتیں یاد کرواکر احساس دلا رہا ہے کہ تم جس عزت رفتہ کے حصول کے خواہش مند ہو وہ نبی آخر الزماں (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مخالفت کے راستے پر چل کر حاصل نہیں ہوسکتی۔ آج تم مسلمانوں کے خلاف ایک دوسرے کے معاون اور مددگار بن رہے ہو اس دن کی ہولناکیاں اپنے احاطۂ خیال میں لاؤ جس دن تم رائی کے دانے کے برابر بھی ایک دوسرے کی مدد نہیں کر سکوگے۔ تمہارے لیے یہ بات کہیں بہتر ہے کہ تم خواہ مخواہ مخالفت اور نا شکری کا راستہ اختیار کرنے کی بجائے اپنے جدِّ امجد کا راستہ اختیار کرو اور خاتم المرسلین (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اتباع کروتاکہ تمہیں پہلے کی طرح عزت وعظمت سے نوازا جائے۔ چنانچہ ارشاد ہوتا ہے کہ میرے بندے یعقوب (علیہ السلام) کے فرزندو اور میرے خلیل ابراہیم (علیہ السلام) کے خانوادے کے ساتھ تعلق رکھنے والو ! سنو، غور کرو اور میری نعمتوں کو ایک دفعہ پھر اپنے ذہن میں تازہ کرو جو میں نے دنیا کے تمام لوگوں سے بڑھ کر تمہیں عنایت فرمائی تھیں۔ اگر تم عزت رفتہ اور انعامات گزشتہ کا اعادہ اور حصول چاہو تو پھر یوم احتساب سے پہلے اپنے کردار پر نظر ثانی کرو۔ چہ جائے کہ وہ دن وارد ہوجائے جب عزیز اپنے عزیز‘ ماں اپنے جگر گوشے اور باپ اپنے لخت جگر کو کوئی فائدہ نہ پہنچا سکے گا اور نہ ہی دولت مند کی دولت اس کے کام آئے گی اور نہ کسی کی سفارش اور اثر و رسوخ دوسرے کا معاون اور مددگار ثابت ہو سکے گا۔ اسی کے پیش نظر رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے جگر گوشہ بتول حضرت فاطمہ (رض) کو مخاطب کرتے ہوئے نصیحت فرمائی تھی : (یَافَاطِمَۃَ بِنْتَ مُحَمَّدٍ یَاصَفِیَّۃَ بِنْتَ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ یَابَنِیْ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ لَاأَمْلِکُ لَکُمْ مِنَ اللّٰہِ شَیْءًا سَلُوْنِیْ مِنْ مَّالِیْ مَا شِءْتُمْ) [ رواہ مسلم : کتاب الإیمان، باب فی قولہ وأنذر عشیرتک الأقربین] ” اے محمد کی بیٹی فاطمہ اور عبدالمطلب کی بیٹی صفیہ اور اے عبدلمطلب کی اولاد میں تمہارے لیے اللہ کے ہاں کسی چیز کا مالک نہیں ہوں گا البتہ میرے مال میں سے جتنا چاہو مطالبہ کرسکتے ہو۔“ (یَوَدُّ الْمُجْرِمُ لَوْ یَفْتَدِیْ مِنْ عَذَابِ یَوْمِءِذٍ م بِبَنِیْہِ۔ وَصَاحِبَتِہٖ وَأَخِیْہِ۔ وَفَصِیْلَتِہِ الَّتِیْ تُؤِْیْہِ وَمَنْ فِی الْأَرْضِ جَمِیْعًا ثُمَّ یُنْجِیْہِ۔ کَلَّا) [ المعارج : ١١ تا ١٥] ” مجرم چاہے گا کہ اس دن بیٹوں کا فدیہ دے کر عذاب سے بچ جائے اور اپنی بیوی، اپنے بھائی اور اپنے اس کنبہ کا جو اسے پناہ دیا کرتے تھے اور جو کچھ بھی زمین میں ہے سب کچھ دے کر نجات پالے ہرگز ایسا نہیں ہوگا۔“ (اَلْأَخِلَّآءُ یَوْمَءِذٍ م بَعْضُھُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ إِلَّا الْمُتَّقِیْنَ) [ الزخرف : ٦٧] ” اس دن متقین کے علاوہ سب دوست ایک دوسرے کے دشمن ہوجائیں گے۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو دنیا کی نعمتوں اور عظمتوں سے سرفراز فرمایا تھا۔ ٢۔ قیامت کے دن مجرموں کی کوئی کسی لحاظ سے مدد نہیں کرسکے گا۔ ٣۔ انسان کو ہر وقت اپنے دل میں قیامت کا ڈر رکھنا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن قیامت کے دن فدیہ اور سفارش قبول نہ ہوگا : ١۔ کسی جان سے قیامت کے دن فدیہ قبول نہ ہوگا۔ (البقرہ : ٤٨) ٢۔ کفار سے عذاب کے بدلے زمین بھر سونا بھی قبول نہ ہوگا۔ (آل عمران : ٩١) ٣۔ ہر جان اپنا بوجھ خود اٹھائے گی۔ (النجم : ٣٨) ٤۔ قیامت کے دن کسی کی چالیں کفایت نہ کریں گی۔ (الطور : ٤٦) البقرة
123 البقرة
124 فہم القرآن ربط کلام : بنی اسرائیل کے جد امجد ابراہیم (علیہ السلام) کا کردار اور ان کا اللہ تعالیٰ کی آزمائشوں میں پورا اترنے کے بعد مقام ومرتبہ۔ اے بنی اسرائیل آج تم اپنے فرسودہ نظریات‘ مذہبی تعصبات اور معمولی مفادات کو چھوڑنے کے لیے تیار نہیں۔ تمہارے جد امجد ابراہیم (علیہ السلام) کی شان تو یہ تھی کہ جب اس کے رب نے اسے امتحانات کے ذریعے آزمایا تو اس نے اولاد‘ وطن‘ عزت و اقبال گویا کہ ہر چیز اللہ کے راستے میں قربان کردی۔ اس طرح وہ آزمائشوں سے گزر کر اپنے رب کے ہاں سرخرو ہوئے۔ یہاں اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی بھاری آزمائشوں کے لیے چند کلمات کا لفظ استعمال فرما کر اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کے مقابلے میں یہ بڑے مختصر اور معمولی امتحانات تھے۔ چند کلمات کے الفاظ میں یہ راز بھی مضمر ہے کہ اللہ تعالیٰ چاہے تو انسان کو ایک ایک نعمت کے بدلے آزما لے تاکہ دنیا میں ہی فیصلہ ہوجائے کے کون سا انسان کس نعمت کا قدر دان اور کس کی ناقدری کرتا ہے۔ آزمائش کا مقصد بندے کو تکلیف دینا نہیں ہوتا بلکہ اسے اور اس کے حوالے سے دوسروں کو نعمتوں کا احساس دلانا، اس کی صلاحیتوں کو اجاگر کرنا اور آزمائشوں کی گزر گاہ سے گزار کردنیا اور آخرت کی ترقیوں سے سرفراز کرنا ہوتا ہے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) جب ابتلا کی دشوار گزار گھاٹیوں کو عبور کرچکے تو ان کو رہتی دنیا تک کے لوگوں کا قائد اور امام بنا دیا گیا۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے پدری اور فطری جذبے کا اظہار کرتے ہوئے اپنے رب کے حضور عرض کی کہ یہ اعزازواکرام اور منصب و مقام میری اولاد کو بھی ملنا چاہیے۔ جواباً ارشاد ہوا کہ منصب امامت اور حقیقی عزت ظالموں کو نہیں ملا کرتی۔ لہٰذا فاسق و فاجر لوگوں کے ساتھ ہمارا وعدہ نہیں ہے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے بعد جس قدر شریعتیں نازل ہوئیں اور جتنے انبیاء مبعوث ہوئے وہ سب کے سب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے طریقے کے پابند کردیئے گئے۔ یہاں تک کہ حضرت محمد مصطفی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھی یہی حکم ہوا کہ آپ بھی ابراہیم (علیہ السلام) کے طریقے کو اپنے اور اپنی امت کے لیے لازم ٹھہرائیں۔ (ثُمَّ اَوْحَیْنَآ اِلَیْکَ اَنِ اتَّبِعْ مِلَّۃَ اِبْرٰھِیْمَ حَنِیْفًاوَّمَا کَانَ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ) [ النحل : ١٢٣] ” پھر ہم نے تیری طرف وحی کی کہ یکسو رہنے والے ابراہیم کی ملت کی اتباع کرو اور وہ مشرک نہ تھا۔“ (قُلْ صَدَقَ اللّٰہُ فَاتَّبِعُوْا مِلَّۃَ اِبْرٰھِیْمَ حَنِیْفًا وَّ مَا کَانَ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ) [ آل عمران : ٩٥] ” فرمادیں اللہ نے سچ فرمایا ہے لہٰذا تمہیں ابراہیم کے طریقہ کی اتباع کرنی چاہیے جو اللہ ہی کے ہوگئے تھے اور مشرک نہیں تھے۔“ مسائل ١۔ ابراہیم (علیہ السلام) تمام امتحانات میں کامیاب ہوئے۔ ٢۔ ابراہیم (علیہ السلام) کو آزمائشوں میں سرخروئی کے بدلے دنیا کی امامت عطا ہوئی۔ ٣۔ حقیقی عزت و سرفرازی ظالم لوگوں کو نصیب نہیں ہوا کرتی۔ تفسیر بالقرآن حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے امتحانات اور ان کا مقام ومنزلت : ١۔ ( ابرہیم (علیہ السلام) کا اسماعیل (علیہ السلام) کو قربانی کے لیے پیش کرنا) بہت بڑا امتحان تھا۔ (الصٰفٰت : ١٠٦) ٢۔ ابراہیم (علیہ السلام) کو توحید کی خاطر آگ میں پھینکا جانابہت بڑی آزمائش تھا۔ (الانبیاء : ٦٨) ٣۔ ابراہیم (علیہ السلام) کا اپنی بیوی اور نو مولود بچے کو بے آب وگیاہ وادی میں چھوڑ کر آنا بہت بڑی آزمائش تھا۔ (ابرہیم : ٣٧) ٤۔ ابراہیم (علیہ السلام) امت محمدیہ کے لیے نمونہ ہیں۔ (الممتحنۃ: ٤) ٥۔ ابراہیم (علیہ السلام) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مقتدٰی ہیں۔ (النحل : ١٢٣) ٦۔ ابراہیم (علیہ السلام) امت کے مقتدٰی ہیں۔ (آل عمران : ٩٥) ٧۔ ابراہیم (علیہ السلام) اکیلے ہی ایک جماعت تھے۔ (النحل : ١٢٠) ٨۔ ابراہیم (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے دوست بنایا۔ (النساء : ١٢٥) ٩۔ ابراہیم (علیہ السلام) یہودی تھے نہ عیسائی۔ (آل عمران : ٦٧) ١٠۔ ابراہیم (علیہ السلام) اور اسماعیل (علیہ السلام) بیت اللہ کے بانی ہیں۔ (البقرۃ: ١٢٧) ١١۔ ابراہیم (علیہ السلام) پر مصحف نازل کیے گئے۔ (الاعلیٰ: ١٩) ١٢۔ ابراہیم (علیہ السلام) بردبار اور نرم خو تھے۔ ( التوبۃ: ١١٤) البقرة
125 فہم القرآن ربط کلام : گزشتہ سے پیوستہ اس میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور اسماعیل (علیہ السلام) کے بیت اللہ کا متولی ہونے کا ثبوت فراہم کیا گیا۔ اس جہان رنگ و بو میں بے شمار خوبصورت سے خوبصورت ترین عمارات و محلات موجود ہیں۔ جن کے حسن و جمال میں اضافہ کرنے کے لیے لاکھوں، کروڑوں، اربوں روپے خرچ ہوئے اور کیے جا رہے ہیں۔ ان کو دیکھو تو عقل دنگ رہ جاتی ہے لیکن کوئی ایسی جگہ یا عمارت نہیں جس کے دیدار کو اہل جہاں کے لیے لازم قرار دیا گیا ہو اور جس کے لیے اتنی دنیا کے دل تڑپتے ہوں یہ اکرام و اعزازصرف ایک عمارت کو نصیب ہوا جس کو عام پتھروں سے اٹھایا گیا ہے۔ اللہ رب العزت نے اس کو بیت اللہ قرار دیا یعنی اللہ کا گھر۔ (وَلِلّٰہِ عَلٰی النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَیْہِ سَبِیْلًا۔) [ آل عمران : ٩٧] ” اور اللہ کے لیے ان لوگوں پر بیت اللہ کا حج کرنا فرض ہے جو اس تک پہنچنے کی طاقت رکھتے ہوں۔“ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے دین حنیف کی تبلیغ کے لیے اردن‘ شام اور حجاز مقدس کو مرکز قرار دیا تھا اردن میں حضرت لوط، حجاز میں حضرت اسماعیل اور شام فلسطین میں بذات خود اور حضرت اسحاق (علیہ السلام) دین حنیف کی خدمت کررہے تھے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) گاہے گاہے ان مراکز کا دورہ کرتے اور ہدایات فرماتے رہتے تھے۔ اس طرح آپ حسب معمول حکم خداوندی حضرت ہاجرہ[ اور جناب اسماعیل (علیہ السلام) کی خبر گیری کے لیے تشریف لے جایا کرتے تھے اسی اثنا میں تعمیر کعبہ کا حکم ہوا جس کی نبی رحمت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان اطہر سے بخاری شریف میں ان الفاظ میں تفصیل موجود ہے : (ثُمَّ لَبِثَ عَنْہُمْ مَّاشَآء اللّٰہُ ثُمَّ بَعْدَ ذَلِکَ وَ إسْمٰعِیْلُ یُبْرِیْ نَبْلًا لَّہٗ تَحْتَ دَوْحَۃٍ قَرِیْبًا مِّنْ زَمْزَمَ فَلَمَّا رَاٰہٗ قَامَ إلَیْہِ فَصَنَعَا کَمَا یَصْنَعُ الْوَالِدُ بالْوَلَدِ ثُمَّ قَالَ یَا إسْمَاعِیْلُ إِنَّ اللّٰہَ أَمَرَنِیْ أَنْ اَبْنِیَ ہٰہُنَا بَیْتًا وَأَشَارَ إلٰی اَکْمَۃٍ مُرْتَفِعَۃٍ عَلٰی مَا حَوْلَہَا قَالَ فَعِنْدَ ذٰلِکَ رَفَعَا الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَیْتِ فَجَعَلَ إسْمَاعِیْلُ یَأْتِیْ بالْحِجَارَۃِ وَ اِبْرَاہِیْمُ یَبْنِیْ حَتّٰی اِذَا ارْتَفَعَ الْبِنَاءُ جَآءَ بِہٰذَا الْحَجَرِ فَوَضَعَہٗ لَہٗ فَقَامَ عَلَیْہِ وَہُوَ یَبْنِیْ وَ إسْمَاعِیْلُ یُنَاوِلُہُ الْحِجَارَۃَ) [ رواہ البخاری : کتاب أحادیث الأنبیاء، باب قول اللہ تعالیٰ واتخذ اللہ ابراہیم خلیلا] ” پھر جب تک اللہ تعالیٰ کو منظور ہوا حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اپنے ملک (فلسطین) میں ٹھہرے رہے اس کے بعد جب اسماعیل (علیہ السلام) کے پاس تشریف لائے تو اسماعیل (علیہ السلام) زمزم کے پاس ایک درخت کے نیچے بیٹھ کر تیر ٹھیک کر رہے تھے۔ جب اسماعیل (علیہ السلام) نے اپنے والد مکرم کو دیکھا تو اٹھ کر استقبال کیا چنانچہ دونوں اس طرح ملے جس طرح باپ اپنے بیٹے سے ملتا ہے پھر فرمانے لگے : بیٹا اسماعیل! مجھے اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ اس اونچی جگہ پر بیت اللہ کو تعمیر کروں۔ اسماعیل (علیہ السلام) نے عرض کی میں حاضر خدمت ہوں۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ارشاد فرماتے ہیں اسی جگہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور اسماعیل (علیہ السلام) نے بیت اللہ کی بنیادیں اٹھائیں۔ اسماعیل (علیہ السلام) پتھر لائے جا رہے تھے اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) تعمیر فرما رہے تھے جب دیواریں اونچی ہوگئیں اور زمین پر کھڑے ہو کر پتھر لگانا مشکل ہوگیا تو جبرائیل (علیہ السلام) یہ پتھر لے کر آئے جس کو مقام ابراہیم کہا جاتا ہے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اس پتھر پر چڑھ کر کعبہ کی تکمیل فرمائی اور اسماعیل (علیہ السلام) معاونت کرتے رہے۔“ (وَإذْ یَرْفَعُ إبْرَاہِیْمُ الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَیْتِ وَ إسْمٰعِیْلُ رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا إِنَّکَ أَنْتَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ) [ ابراہیم : ٣٧] اور یاد کرو جب ابراہیم اور اسماعیل ( علیہ السلام) بیت اللہ کی دیواریں اٹھا رہے تھے تو دعا کرتے جاتے اے ہمارے پروردگار ! ہماری یہ خدمت قبول فرما تو سب کی سننے اور جاننے والا ہے۔“ پاک صاف رکھنے کا معنٰی صرف یہی نہیں کہ اس کو کوڑے کرکٹ سے پاک صاف رکھا جائے بلکہ اس کے ساتھ اس کو شرک وبدعات کی روحانی گندگی اور فتنہ فساد سے بھی محفوظ رکھا جائے جیسا کہ قرآن مجید کے دوسرے مقام میں واضح ارشاد موجود ہے کہ مشرک کو حرم میں داخل نہ ہونے دیا جائے کیونکہ مشرک روحانی طور پر گندہ اور پلید ہوتا ہے۔ (یٰٓاََیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا إِنَّمَا الْمُشْرِکُوْنَ نَجَسٌ فَلَا یَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ بَعْدَ عَامِھِمْ ھٰذَا۔۔) [ التوبۃ: ٢٨] ” اے ایمان والو! مشرکین ناپاک ہیں اس سال کے بعد یہ مسجد حرام کے قریب نہ پھٹکنے پائیں۔“ (مَاکَانَ لِلْمُشْرِکِیْنَ أَنْ یَّعْمُرُوْا مَسٰجِدَ اللّٰہِ شٰھِدِیْنَ عَلٰٓی أَنْفُسِھِمْ بالْکُفْرِ أُولٰٓءِکَ حَبِطَتْ أَعْمَالُھُمْ وَفِی النَّارِ ھُمْ خَالِدُوْنَ) [ التوبۃ: ١٨] ” مشرکین کو کوئی حق نہیں کہ وہ اللہ کی مسجدوں کے معمار بنیں درآں حالیکہ وہ اپنے اوپر خود کفر کی شہادت دے رہے ہیں۔ ان کے تو سارے اعمال ضائع ہوگئے اور جہنم میں ان کو ہمیشہ رہنا ہوگا۔“ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے دعا مانگی تھی خدایا مجھے اور میری اولاد کو بتوں کی عبادت سے بچائے رکھنا۔ (وَإِذْ قَالَ إِبْرَاھِیْمُ رَبِّ اجْعَلْ ھٰذَا الْبَلَدَ اٰمِنًا وَّاجْنُبْنِیْ وَبَنِیَّ أَنْ نَّعْبُدَ الْأَصْنَامَ۔ رَبِّ إِنَّھُنَّ أَضْلَلْنَ کَثِیْرًا مِّنَ النَّاسِ۔۔)[ ابراہیم : ٣٥، ٣٦] ” اور جب ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے رب کے حضور دعا کی کہ پروردگار اس شہر کو امن کا شہر بنا اور مجھے اور میری اولاد کو بت پرستی سے بچا۔ یارب ! اس لیے کہ ان بتوں نے بہت سے لوگوں کو گمراہ کردیا ہے۔“ اس لیے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جب مکہ فتح کیا تو تمام بتوں کو مسمار کردیا اور کعبہ میں داخل ہو کر ان تصویروں کو بھی مٹایا جو مشرکین نے دیواروں پر ابراہیم (علیہ السلام) اور اسماعیل (علیہ السلام) کی بنائی ہوئی تھیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فتح مکہ کے موقع پر ارشاد فرمایا : ” یقینا اللہ تعالیٰ نے مکہ کو حرمت والا بنایا ہے جب سے اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان کو پیدا فرمایا ہے یہ اللہ کی حرمت کی وجہ سے قیامت تک محترم ہے نہ مجھ سے پہلے کسی کے لیے حلال ہوا نہ ہی بعد میں کسی کے لیے حلال ہوگا میرے لیے بھی تھوڑی دیر کے علاوہ کبھی حلال نہ ہوگا۔ نہ اس کا شکار بھگایا جائے نہ اس کا کانٹا اکھاڑا جائے اور نہ ہی گھاس کاٹی جائے اور وہاں کسی کی گری ہوئی چیز اعلان کرنے والے کے علاوہ کوئی نہ اٹھائے۔ حضرت عباس بن عبدالمطلب (رض) کہنے لگے اللہ کے رسول! اذخر نامی گھاس مستثنیٰ کریں کیونکہ وہ لوہاروں اور گھروں کے لیے ضروری ہے آپ خاموش رہے پھر فرمایا ہاں اذخر گھاس حلال ہے۔“ [ رواہ البخاری : کتاب الجزیۃ، باب إثم الغادر] مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے خانہ کعبہ کو مرکز خلائق اور جائے امن بنایا ہے۔ ٢۔ مقام ابراہیم کو جائے نماز بنانا چاہیے۔ ٣۔ بیت اللہ کو ہر آلائش سے پاک صاف رکھنا لازم ہے۔ تفسیر بالقرآن بیت اللہ کا مقام ومرتبہ : ١۔ بیت اللہ ہدایت کا مرکز ہے۔ (آل عمران : ٩٦) ٢۔ اہل مکہ کو بیت اللہ کی وجہ سے امن، رزق اور احترام ملاہے۔ (قریش : ٣، ٤) ٣۔ بیت اللہ جائے امن ہے۔ (آل عمران : ٩٧) ٤۔ بیت اللہ جائے ثواب ہے۔ (البقرۃ: ١٢٥) ٥۔ بیت اللہ قبلہ ہے۔ (البقرۃ: ١٤٤) البقرة
126 فہم القرآن ربط کلام : حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی دعا اور مکہ کے مرکز ہونے کا ثبوت اور ان کی اہل مکہ کے لیے خصوصی دعائیں۔ سورۃ ابراہیم آیت ٣٧ میں بیان ہوا ہے کہ جب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اپنے اہل خانہ کو بیت اللہ کے پڑوس میں چھوڑ کر جا رہے تھے۔ تو انہوں نے دوسری دعاؤں کے ساتھ یہ بھی التجا اور دعا کی تھی کہ بار الہٰا ! میں اپنی رفیقۂ حیات اور لخت جگر کو ایسی سر زمین پر چھوڑ رہا ہوں جو بنجر اور غیر آباد ہے۔ اس لیے ان کی روزی کا انتظام فرما۔ ساکنین مکہ کے لیے رزق کی دعا کرتے ہوئے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے تخصیص کے ساتھ عرض کی کہ الٰہی! رزق صرف ان لوگوں کو ملنا چاہیے جو تیری ذات کبریا اور آخرت کی جزا و سزا پر یقین رکھتے ہوں۔ اس تخصیص کی دو وجوہات ہو سکتی ہیں۔ پہلی غیرت ایمانی کی بنا پر جس کی وجہ سے بسا اوقات خدا کے منکروں کی عیش و عشرت دیکھ کر مومن محسوس کرتا ہے کہ ان وسائل سے یہ لوگ اور زیادہ نافرمان ہوئے جا رہے ہیں۔ انہیں تو رزق ملنے کی بجائے بھوکا مرنا چاہیے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ جب جناب ابرہیم (علیہ السلام) کو امامت کے منصب سے نوازا گیا تھا تو انہوں نے یہ اعزاز اپنی اولاد کے لیے بھی مانگا تھا۔ جس کی وضاحت میں ارشاد ہوا تھا کہ ظالموں کو یہ اعزاز حاصل نہیں ہو پائے گا۔ تب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے سوچا کہ شاید رزق کا معاملہ بھی ایساہی ہو لہٰذا انہوں نے مومنوں کے لیے ہی رزق کی دعا کی۔ جس کے جواب میں فرمایا گیا ہے کہ رزق تو سب کو دیا جائے گا لیکن ناشکروں اور نافرمانوں کو قیامت کے دن ان کے کفر و شرک کی وجہ سے جہنم میں دھکیل دیا جائے گا۔ یہاں جہنمی کو جہنم میں داخل کرنے کے لیے اضطرار کا لفظ استعمال فرمایا ہے کیونکہ جہنم کو دیکھ کر جہنمی چیخیں چلائیں گے کہ ہمیں جہنم میں داخل نہ کیا جائے لیکن یہ چیخ و پکار انہیں جہنم سے نہیں بچا سکے گی۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اہل مکہ کے لیے رزق کی دعا کرتے ہوئے ثمرات کا لفظ استعمال کیا ہے اس کا معنٰی صرف میوہ جات وثمرات نہیں بلکہ ہر قسم کی آمدنی ہے۔ جیسا کہ ہر زبان میں محاورہ ہے کہ یہ اجر فلاں محنت کا نتیجہ و ثمرہ ہے۔ اس کی وضاحت سورۃ قصص آیت ٥٧ میں فرمائی گئی ہے : (وَقَالُوْا إِنْ نَتَّبِعِ الْہُدٰی مَعَکَ نُتَخَطَّفْ مِنْ أَرْضِنَا أَوَلَمْ نُمَکِّنْ لَہُمْ حَرَمًا آَمِنًا یُجْبَی إِلَیْہِ ثَمَرَاتُ کُلِّ شَیْءٍ رِزْقًا مِنْ لَدُنَّا وَلٰکِنَّ أَکْثَرَہُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ)[ القصص : ٥٧] ” اور کہتے ہیں اگر ہم تمہارے ساتھ ہدایت کی پیروی کریں تو اپنے ملک سے اچک لیے جائیں۔ کیا ہم نے ان کو حرم میں جو امن کا مقام ہے، جگہ نہیں دی۔ جہاں ہر قسم کے میوے پہنچائیں جاتے ہیں اور رزق ہماری طرف سے ہے۔ لیکن ان میں سے اکثر نہیں جانتے۔“ یاد رہے پھل کے لیے قرآن میں ” فَاکِھَۃ“ کا لفظ استعمال ہوا ہے جس کی جمع عربی میں ” فَوَاکِھَۃ“ آتی ہے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنی رفیقۂ حیات حضرت ہاجرہ اور لخت جگر کو مکہ میں چھوڑتے وقت سب سے پہلے جو دعا کی وہ امن وا مان کے بارے میں تھی۔ کیونکہ اس وقت حضرت ہاجرہ اور ان کے لخت جگر اسماعیل کے سوا کوئی اور یہاں آباد نہ تھا۔ اتنے لق ودق صحرا اور سنگلاخ بیابان میں بس ماں بیٹا ہی تو تھے۔ اس لیے ان کے حفظ و امان کی فکر ایک فطری بات تھی۔ اس دعا میں یہ بات بھی عیاں ہوتی ہے کہ جس مقام پر امن و امان نہ ہو وہاں بسنے والے زیادہ دیر نہیں ٹھہر سکتے۔ لہٰذا کسی جگہ پر ٹھہرنے کے لیے پہلی ضرورت یہی ہوا کرتی ہے کہ وہاں کے باسیوں کو ہر قسم کا سکون میسر ہو۔ اس کے بغیر کوئی علاقہ ترقی نہیں کرسکتا۔ اس لیے چادر اور چار دیواری کی حفاظت حکومت کی اوّلین ترجیح ہونا چاہیے۔ اس دعا کے جواب میں ارشاد ہوا کہ رزق اور دنیا کے فائدے تو ان لوگوں کو بھی عطا کروں گا جو سرے سے میری ذات کے انکاری ہوں گے کیونکہ میں خالق و رازق ہوں۔ البتہ آخرت میں کفر و الحاد اور انکار واعراض کی وجہ سے انہیں سخت عذاب میں دھکیل دیا جائے گا۔ مسائل ١۔ اہل مکہ کو ہر قسم کے پھل ملنا حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی دعاؤں کا نتیجہ ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ رزق عطا کرنے میں کافرو مسلمان کے درمیان کوئی فرق نہیں کرتا کیونکہ وہ سب کا رازق ہے۔ ٣۔ آخرت کے مقابلے میں پوری دنیا متاع قلیل ہے۔ ٤۔ قیامت کے دن کافر جہنم میں دھکیلے جائیں گے۔ تفسیر بالقرآن حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی دعائیں : ١۔ نیک اولاد کے لیے دعا۔ (الصفت : ١٠٠) ٢۔ اللہ تعالیٰ سے قوت‘ حکم اور جنت کی دعا۔ (الشعراء : ٨٢ تا ٨٥) ٣۔ باپ کے لیے بخشش کی دعا جو قبول نہیں ہوئی۔ (الشعراء : ٨٦) البقرة
127 فہم القرآن ربط کلام : حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کا بانی کعبہ ہونے کا مزید ثبوت کیونکہ باقاعدہ بیت اللہ کا حج انہی کے زمانے سے شروع ہوا اور انہی پر مناسک حج اتارے گئے تھے۔ تاریخ عالم میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو یہ بھی اعزاز حاصل ہے کہ وہ بانئ کعبہ کے نام سے مشہور ہیں اس اعزاز پر فخر کرنے کی بجائے اپنے رب کے سامنے حضور قلب اور عجز کے ساتھ فریاد کر رہے ہیں اے رب کریم! تیرے گھر کی تولیّت اور تعمیر محض تیرے فضل و کرم کا نتیجہ ہے۔ ورنہ ہماری کیا حیثیت کہ ہم تیرے گھر کی تعمیر اور خدمت کا اعزاز پائیں۔ ہماری التجا ہے کہ اسے دنیا میں سکون کا گہوارہ‘ مرکزہدایت اور لوگوں کی عقیدت و احترام کا مرجع بنادے اور ہماری طرف سے دنیا و آخرت میں یہ معمولی اور ناچیز محنت تیرے حضور شرف قبولیت پائے۔ نیکی کا حقیقی معیار اور مقام یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے حضور منظور ہوجائے۔ تکمیل کعبہ کے بعد عظیم باپ اور اس کے کریم بیٹے نے مل کر یہ دعائیں بھی کیں کہ بارِ الٰہا! ہمیں ہمیشہ اپنا تابع فرمان رکھنا اور ہماری اولادبھی آپ کی تابع فرمان رہے تاکہ ہمارے بعد اس مشن کی پشتیبانی کرتے رہیں اور یہ سلسلۂ ہدایت قیامت تک قائم و دائم رہے۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے بیت اللہ کی حاضری کے آداب اور حج کے مناسک کی راہنمائی کے لیے درخواست پیش کرتے ہوئے یہ بھی فریاد کی کہ اے ہمارے خالق و مالک ! ہم پر ہمیشہ اپنے کرم کی توجہ فرماناکیونکہ تیری نظر کرم اور مہربانی سے ہی ہماری خطائیں معاف اور دنیاوآخرت میں سرخروئی حاصل ہوگی۔ بے شک آپ توبہ قبول کرنے والے اور نہایت مہربان ہیں۔ تاریخ کعبۃ اللہ : (إِنَّ اَوَّلَ بَیْتٍ وُّضِعَ للنَّاسِ لَلَّذِیْ بِبَکَّۃَ مُبٰرَکًاوَّ ھُدًی لِّلْعٰلَمِیْنَ) [ آل عمران : ٩٦] ” بے شک سب سے پہلی عبادت گاہ جو انسانوں کے لیے تعمیر ہوئی۔ وہ مکہ مکرمہ میں ہے اس کو خیر وبرکت دی گئی ہے اور اہل دنیا کے لیے مرکز ہدایت بنایا گیا ہے۔“ حافظ ابن حجر عسقلانی (رض) نے فتح الباری شرح جامع صحیح بخاری میں ایک روایت ذکر کی ہے جس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ بیت اللہ کی سب سے پہلی اساس حضرت آدم (علیہ السلام) کے ہاتھوں رکھی گئی اور اللہ کے فرشتوں نے ان کو اس جگہ کی نشاندہی کی پھر طوفان نوح اور ہزاروں سال کے حوادث نے اس کو بے نشان کر دیاتھا۔ (عَنْ عَبْد اللَّہ بن عَمْرو (رض) مَرْفُوعًا : بَعَثَ اللَّہ جِبْرِیل إِلَی آدَم فَأَمَرَہُ بِبِنَاءِ الْبَیْت فَبَنَاہُ آدَم، ثُمَّ أَمَرَہُ بالطَّوَافِ بِہِ وَقِیلَ لَہُ أَنْتَ أَوَّل النَّاس وَہَذَا أَوَّل بَیْت وُضِعَ للنَّاسِ ) [ شرح فتح الباری : ج ١٠، ص ١٤٦] ” حضرت عبداللہ بن عمرو بیان مرفوع روایت بیان کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کو آدم (علیہ السلام) کے پاس بھیجا اور انہیں بیت اللہ بنانے کا حکم دیا۔ حضرت آدم (علیہ السلام) نے بیت اللہ کی تعمیر کی، پھر انہیں طواف کا حکم ہوا اور ان سے کہا گیا تو لوگوں میں سے سب سے پہلا ہے اور یہ پہلا گھر ہے جو لوگوں کے لیے تعمیر کیا گیا ہے۔“ مسائل ١۔ نیکی قبول ہونے کی دعا کرنا چاہیے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نیتوں کو جانتا اور ہر بات کو سننے والا ہے۔ ٣۔ اپنے اور اولاد کے لیے مسلمان رہنے کی دعا کرتے رہنا چاہیے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ سے حج کی توفیق مانگنا چاہیے۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ تو بہ قبول کرنے والا، نہایت ہی شفیق و رحیم ہے۔ تفسیر بالقرآن بیت اللہ کی فضیلت : ١۔ بیت اللہ کی نشاندہی اللہ تعالیٰ نے فرمائی۔ (الحج : ٢٦) ٢۔ دنیا میں سب سے پہلے تعمیر ہونے والا گھر بیت اللہ ہے۔ (آل عمران : ٩٦) ٣۔ بیت اللہ کو ابراہیم و اسماعیل ( علیہ السلام) نے تعمیر کیا۔ (البقرۃ: ١٢٧) ٤۔ بیت اللہ کی زیارت ہر صاحب استطاعت پر فرض ہے۔ (آل عمران : ٩٧) البقرة
128 البقرة
129 فہم القرآن ربط کلام : گزشتہ سے پیوستہ۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی نبی آخر الزماں جناب محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کے لیے خصوصی دعا جس میں واضح ثبوت ہے کہ آخری نبی بنی اسماعیل میں سے مکہ میں ہوگا۔ قرآن مجید کے الفاظ سے ثابت ہورہا ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے پہلی دعا اس وقت کی جب انہوں نے اپنی رفیقۂ حیات اور لخت جگر کو بیت اللہ کے قریب ٹھہرایا تھا۔ کچھ دعائیں تعمیر کعبہ کے دوران اور باقی تکمیل کے بعد اللہ کے حضور کی گئیں۔ آخری دعا میں ایک ایسے نبی کی ضرورت کا تذکرہ ہے جو نا صرف اسی قوم سے ہو بلکہ اس کی پیدائش بھی مکہ معظمہ میں ہونے کی درخواست کی گئی ہے۔ اس دعا میں نبوت کی غرض و غایت اور اس کے چار بنیادی فرائض کا ذکر ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے دوسری دعاؤں کے ساتھ اس دعا کو بھی شرف قبولیت بخشتے ہوئے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو نبی آخر الزماں کی بشارت سے نوازا۔ (قَدْ أُسْتُجِیْبَ لَکَ وَہُوَ کَاءِنٌ فِیْ آخِرِ الزَّمَانِ) [ تفسیر ابن کثیر ] ” کہ تیری دعا مقبول ہے اور وہ نبی آخر زمانہ میں ہوگا۔“ (عَنْ أَبِیْ أُمَامَۃَ (رض) قَالَ قُلْتُ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ مَا کَانَ أَوَّلُ اَمْرِکَ قَالَ دَعْوَۃُ أَبِیْ إِبْرَاہِیْمَ وَبُشْرٰی عِیْسٰی وَرَأَتْ أُمِّیْ أَنَّہٗ یَخْرُجُ مِنْھَا نُوْرٌ أَضَاءَ تْ مِنْھَا قُصُوْرُ الشَّامِ) [ مسند احمد : کتاب باقی مسند الانصار، باب حدیث أبی امامۃ الباہلی الصدی بن عجلان] ” حضرت ابو امامہ (رض) بیان کرتے ہیں میں نے رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا کہ آپ کی نبوت کی ابتدا کس چیز سے ہوئی؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : میرے باپ ابراہیم (علیہ السلام) کی دعا‘ عیسیٰ (علیہ السلام) کی بشارت اور میری ماں نے دیکھا کہ ان سے ایک نور نکلا جس سے شام کے محل روشن ہوگئے۔“ مسائل ١۔ کتاب اللہ کی تبلیغ، تعلیم، لوگوں کو دانش سکھلانا اور تربیت کرنا نبوت کے بنیادی کام ہیں۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر غالب اور اس کے ہر کام اور حکم میں حکمت ہوتی ہے۔ البقرة
130 فہم القرآن ربط کلام : سابقہ آیات میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے عقیدے کی وضاحت ان کو بیت اللہ کا بانی ثابت کرنا ان کا اہل مکہ سے خصوصی تعلق اور نبی کریم کی نبوت کے بارے میں واضح ثبوت دیتے ہوئے یہ وضاحت کی جارہی ہے کہ ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنی اولاد کو بھی اسی عقیدے کی وصیت فرمائی تھی جس کی دعوت نبی آخر الزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پیش کررہے ہیں۔ جو شخص ابراہیم (علیہ السلام) کے عقیدہ اور ان حقائق کو نہیں مانتا اس کی حماقت میں کیا شک ہوسکتا ہے؟ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی اپنے رب کے حضور اطاعت گزاریاں‘ قربانیاں‘ دعائیں بالخصوص یہ ا لتجا جس میں نبی آخر الزماں کی بعثت کی آرزو کی گئی ہے ان سے وہی شخص اعراض و انحراف کرسکتا ہے جس نے اپنے آپ کے لیے حماقت اور نقصان کا راستہ پسند کرلیا ہو۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے ابراہیم (علیہ السلام) کی خدمات اور امتحانات کی وجہ سے انہیں دنیا میں نیک نامی‘ عظمت اور رہتی دنیا تک امامت کے منصب سے سرفراز فرمایا ہے اور آخرت میں یقیناً وہ خدا کے پسندیدہ اور برگزیدہ لوگوں میں ہوں گے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی اطاعت شعاری کا یہ حال تھا کہ جب بھی ان کے رب نے انہیں حکم فرمایا کہ تابعدار ہوجاؤ۔ وہ یہ کہتے ہوئے پورے اخلاص اور مکمل انہماک کے ساتھ اپنے رب کے فرمانبردار ہوئے کہ فرمانبرداری میرا کمال اور احسان نہیں میں تو اس رب کی فرمانبرداری کر رہا ہوں جس کی سب کو فرمانبرداری کرنا چاہیے۔ کیونکہ وہ تو سب کو پالنے والا اور تمام جہانوں کا مالک ہے۔ یہ فرمانبرداریاں ان کی ذات اور بیٹوں تک محدود نہیں تھیں بلکہ ان کے پوتے حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے بھی اپنی نسل کو اسی طریقے اور دین پر مر مٹنے کی ہدایت کی تھی۔ لیکن اے اہل کتاب ! تمہاری حالت یہ ہے کہ حضرت یعقوب (علیہ السلام) کی اولاد اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی وراثت کے دعویدار ہونے کے باوجود حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے بنائے ہوئے گھر کو تسلیم نہیں کرتے ہو اور نہ ہی ان کی دعا کے صلہ میں مبعوث ہونے والے محمد عربی خاتم النبیین (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ماننے کے لیے تیار ہو۔ تم ہی بتاؤ اس سے زیادہ حماقت اور کیا ہو سکتی ہے؟ آدمی کے انجام کا دارومدار اس کے خاتمہ پر ہے لہٰذا آدمی کو اپنے انجام کی فکر کرنی چاہیے۔ جس کے بارے میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یوں فرمایا کرتے تھے : (عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ (رض) أَنَّ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ إِنَّ الرَّجُلَ لَیَعْمَلُ الزَّمَنَ الطَّوِیلَ بِعَمَلِ أَہْلِ الْجَنَّۃِ ثُمَّ یُخْتَمُ لَہٗ عَمَلُہٗ بِعَمَلِ أَہْلِ النَّارِ وَإِنَّ الرَّجُلَ لَیَعْمَلُ الزَّمَنَ الطَّوِیلَ بِعَمَلِ أَہْلِ النَّارِثُمَّ یُخْتَمُ لَہٗ عَمَلُہٗ بِعَمَلِ أَہْلِ الْجَنَّۃِ) [ رواہ مسلم : کتاب القدر، باب کیفیۃ خلق الآدمی فی بطن امہ۔۔] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : آدمی طویل عرصہ جنتیوں والے اعمال کرتارہتا ہے پھر اس کا خاتمہ جہنمیوں والے اعمال پر ہوجاتا ہے اور ایک آدمی لمبا عرصہ جہنمیوں والے اعمال کرتارہتا ہے پھر اس کا خاتمہ جنتیوں والے اعمال پر ہوجاتا ہے۔“ مسائل ١۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی طرز حیات سے منہ پھیرنے والا احمق ہوگا۔ ٢۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) دنیا میں معزز ترین اور آخرت میں صالحین میں سے ہیں۔ ٣۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) زندگی بھر اپنے رب کے تابع فرمان رہے۔ ٤۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور ان کے پوتے حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے اپنی اولاد کو مرتے دم تک مسلمان رہنے کی وصیت فرمائی۔ تفسیر بالقرآن حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سب کے پیشواہیں : ١۔ ابراہیم (علیہ السلام) سب کے پیشوا ہیں۔ (البقرۃ : ١٢٤) ٢۔ ابراہیم (علیہ السلام) سب کے لیے اسوہ ہیں۔ (الممتحنۃ: ٤) ٣۔ نبی آخر الزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ابراہیم (علیہ السلام) کی اتباع کا حکم ہوا ہے۔ (النحل : ١٢٣) ٤۔ ملت ابراہیم (علیہ السلام) کی اتباع کا سب کو حکم ہے۔ ( آل عمران : ٩٥) البقرة
131 البقرة
132 البقرة
133 فہم القرآن ربط کلام : پہلی آیات میں حضرت یعقوب (علیہ السلام) اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی وصیتکا بیان تھا۔ جس کا اہل کتاب انکار کرتے ہیں۔ لہٰذا ان سے سوال کیا گیا ہے کہ کیا تم ان کی وفات کے وقت موجود تھے کہ انہوں نے یہ نصیحت نہیں کی تھی؟ انبیائے عظام کے ذمہ قوموں کی رہنمائی کا فریضہ ہوا کرتا ہے۔ اس جان کٹھن اور ہمہ وقت بھاری ذمہ داری کے باوجود انبیاء اپنے اہل خانہ کی ذمہ داریوں سے لمحہ بھر کے لیے غافل نہیں ہوا کرتے تھے۔ ان کی کوشش ہوتی کہ ان کی ذات اہل خانہ اور لوگوں کے لیے بہترین نمونہ ثابت ہوں۔ اس بارے میں وہ اس قدر فکر مند ہوتے تھے کہ جب موت کا فرشتہ سرہانے کھڑا جان قبض کرنے کی اجازت لے رہا ہوتا۔ جن نازک لمحات میں انسان کی نگاہیں دنیا کی بجائے اگلی منزل پر مرکوز ہوتی ہیں دوسری کوئی چیز سوجھائی نہیں دیتی۔ انبیاء اس وقت بھی اپنی ذمہ داری کے بارے میں فکر مند ہوتے تھے۔ حضرت یعقوب (علیہ السلام) اسی فکر مندی میں اپنے بیٹوں کو وصیت کرتے ہوئے ایک عہد لے رہے ہیں کہ جان پدر! میرے چل چلاؤ کا وقت آن پہنچا ہے۔ لیکن میں اس اطمینان اور تسلی کے ساتھ دنیا سے رخصت ہونا چاہتا ہوں وعدہ کیجیے کہ میرے بعد تم کس کی عبادت کرو گے؟ حضرت یعقوب (علیہ السلام) کی دعاؤں اور کوششوں کا نتیجہ تھا کہ ان کی اولاد بیک زبان عرض کرتی ہے ہم آپ کے معبود اور اپنے عظیم آباء حضرت ابراہیم، اسماعیل اور اسحاق (علیہ السلام) کے معبود کی عبادت کیا کریں گے۔ ان سب کا ایک ہی معبود تھا لہٰذا ہم ایک ہی الٰہ کے تابع فرمان اور اس کی عبادت کریں گے۔ اس واقعہ میں بتلایا جا رہا ہے کہ والدین کو اپنی ذمہ داریوں کا کس قدر خیال رکھنا چاہیے۔ ساتھ ہی اہل کتاب کو باور کروایا گیا ہے کہ اگر تم واقعی اپنے آپ کو اس عظیم خاندان کا وارث سمجھتے ہو تو تمہیں صالح اولاد کا کردار ادا کرتے ہوئے اپنے باپ حضرت یعقوب (علیہ السلام) کی وصیت اور عہد کا خیال رکھنا چاہیے۔ ان کا عقیدہ توحید پر مبنی اور کردار اللہ تعالیٰ کے فرمان کے تابع تھا۔ اگر تم نے اپنے عقیدہ اور کردار کو ان جیسا بنانے کی کوشش نہ کی اور آخرالزمان نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان نہ لائے تو قیامت کے دن محض عقیدت اور نسبت کچھ کام نہ آسکے گی اور دنیا میں بھی کوئی قوم صرف حسب ونسب کی بنیاد پر عزت و رفعت حاصل نہیں کرسکتی۔ نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس اصول کا اس طرح تذکرہ فرمایا ہے۔ (۔۔ مَنْ بَطَّأَ بِہٖ عَمَلُہٗ لَمْ یُسْرِعْ بِہٖ نَسَبُہٗ) [ رواہ مسلم : کتاب الذکر والدعاء ] ” جو اعمال کی وجہ سے پیچھے رہ گیا اسے حسب ونسب کام نہیں دے گا۔“ اس کے ساتھ یہ اصول بھی بیان فرما دیا گیا کہ کوئی کسی کے اعمال کی وجہ سے نہ پکڑا جائے گا اور نہ بخشا جائے گا اور یہی اصول اسلامی حکومت کے لیے لازم قرار پایا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے : ” باپ کے بدلے بیٹا نہیں پکڑا جا سکتا۔“ [ مسند احمد : کتاب مسند العشرۃ المبشرین بالجنۃ ] مسائل ١۔ ماں باپ کو اپنی اولاد سے توحید اور خدا کی عبادت کا عہد لینا چاہیے۔ ٢۔ تمام انبیاء ایک اللہ کی عبادت کیا کرتے تھے۔ ٣۔ لوگوں کو قیامت کے دن ان کے اپنے اپنے اعمال کے بارے میں سوال ہوگا۔ تفسیر بالقرآن اللہ کا پسندیدہ دین اسلام ہے : ١۔ اللہ تعالیٰ نے دین اسلام کو پسند فرمایا ہے۔ (المائدۃ: ٣) ٢۔ اللہ تعالیٰ اسلام کی دعوت دیتا ہے۔ (یونس : ٢٥) ٣۔ اسلام فرمانبرداری کا نام ہے۔ (آل عمران : ٨٣) ٤۔ اسلام میں پورے کے پورے داخل ہونا چاہیے۔ (البقرۃ: ٢٠٨) ٥۔ اسلام پر ہی مرمٹنا چاہیے۔ (آل عمران : ١٠٢) ٦۔ یوسف (علیہ السلام) بھی یہی دعا کرتے تھے۔ ( یوسف : ١٠١) البقرة
134 البقرة
135 فہم القرآن ربط کلام : اہل کتاب لوگوں کو یہودی اور عیسائی ہونے کی دعوت دیتے ہیں حالانکہ لوگوں کو ملت ابراہیم (علیہ السلام) کی دعوت دینا چاہیے۔ لہٰذا اے نبی آخر الزماں حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ لوگوں کو وہی دعوت دیں جو ابراہیم (علیہ السلام) اور ان کی اولاد عالی دیا کرتی تھی۔ وہ دعوت توحید خالص اور دین اسلام کی دعوت تھی۔ فکر و عمل کے لحاظ سے کمزور جماعتیں لوگوں کو اپنی طرف راغب رکھنے اور اپنے بوسیدہ نظریات کو منوانے کے لیے ہمیشہ سے بزرگوں کا نام ناجائز استعمال کرتی آئی ہیں۔ ایسے لوگ فکری دولت سے اس قدر محروم ہوتے ہیں کہ وہ صدیوں پہلے فوت شد گان بزرگوں کو بھی اپنے بوسیدہ نظریات کا حامل ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہود و نصاریٰ بھی اسی فکری بیچارگی کا شکار تھے اور ہیں۔ لہٰذا جب بھی انہیں دین اسلام کی دعوت پیش کی جاتی ہے تو وہ اپنے آپ کو مطمئن کرنے کے لیے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور جناب یعقوب (علیہ السلام) کو یہودی ثابت کرنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں۔ یہاں ایک بار پھر واضح کیا جا رہا ہے کہ جن بزرگوں کو تم اپنے نظریات کا حامل ثابت کر رہے ہو ان کا تو تمہارے نظریات کے ساتھ دور کا بھی واسطہ نہیں تھا اور نہ ہی مشرکین کے ساتھ ان کا تعلق جوڑا جا سکتا ہے لہٰذا سرور گرامی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیا جا رہا ہے کہ آپ دو ٹوک انداز میں اس بات کا اظہار فرمائیں کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور ان کے بعد آنے والے انبیاء کا نظریہ یہود و نصاریٰ اور اہل مکہ کے نظریات سے یکسر مختلف تھا۔ وہ تو ایک رب کی توحید کو ماننے والے اور زندگی بھر اسی کے تابع فرمان رہنے والے تھے۔ اسی دعوت کا اقرار اور اظہار مسلمانوں سے کروایا جا رہا ہے کہ ہم اسی عقیدے کے حامل اور اسی دعوت کے داعی ہیں جو عظیم المرتبت ہستیاں اور ان کی نیک اولاد پھر انہی کی پیروی کرنے والے جلیل القدر پیغمبر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) دیا کرتے تھے۔ ہم بلا تفریق ان کی پیغمبرانہ حیثیت کو تسلیم اور ان کی شریعتوں کی تائید کرتے ہیں۔ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ کَانَ أَہْلُ الْکِتَابِ یَقْرَءُ وْنَ التَّوْرَاۃَ بالْعِبْرَانِیَّۃِ وَیُفَسِّرُونَہَا بالْعَرَبِیَّۃِ لِأَہْلِ الْإِسْلَامِ فَقَالَ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لَا تُصَدِّقُوا أَہْلَ الْکِتَابِ وَلَا تُکَذِّبُوْہُمْ وَقُوْلُوْا آمَنَّا باللّٰہِ وَمَا أُنْزِلَ إِلَیْنَا الْآیَۃَ) [ رواہ البخاری : کتاب تفسیر القرآن، باب قولوا آمنا باللّٰہ وماأنزل علینا] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ اہل کتاب تورات کو عبرانی زبان میں پڑھتے اور مسلمانوں کے لیے اس کی تفسیر عربی زبان میں کرتے تھے تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : نہ تم اہل کتاب کی تصدیق کرو اور نہ ان کو جھٹلاؤ بلکہ تم کہو کہ ہم اللہ پر اور جو ہماری طرف اتارا گیا اس پر ایمان لے آئے ہیں۔“ مسائل ١۔ ہدایت کا سرچشمہ صرف ملت ابراہیم ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ اور قرآن مجید، پہلی آسمانی کتابوں پر ایمان لانا اور تمام انبیاء کو بلا تفریق تسلیم کرنا ہی اسلام ہے۔ ٣۔ انبیاء کے درمیان فرق کرنا کفر ہے۔ ٤۔ انبیاء میں سے کسی کی گستاخی کرناجائز نہیں۔ تفسیر بالقرآن انبیاء کا مقام اور کتب آسمانی کا احترام : ١۔ تمام انبیاء پر ایمان لانا فرض ہے۔ (البقرۃ: ١٣٦) ٢۔ پہلی کتب آسمانی پر ایمان لانا لازم ہے۔ (البقرۃ: ٤) ٣۔ اللہ تعالیٰ اور انبیاء کے درمیان فرق کرنا کفر ہے۔ (النساء : ١٥٠) البقرة
136 البقرة
137 فہم القرآن ربط کلام : صحابہ کرام (رض) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت کے وارث اور اللہ تعالیٰ کے رنگ میں رنگے ہوئے تھے جس وجہ سے ان کے ایمان کو ایمان کی کسوٹی قرار دیا گیا ہے۔ اے یہود و نصاریٰ اور دنیا کے لوگو! اگر تم صحابہ کرام (رض) کی طرح ایمان اور تسلیم و رضا کا رویہ اختیار کرلو تو ہدایت پا جاؤ گے۔ اگر لوگ نبی کی دعوت اور صحابہ کے طریقہ کا انکار کریں تو پھر سمجھ جائیے کہ یہ لوگ مخالفت برائے مخالفت کی روش کو اختیار کیے ہوئے ہیں۔ مسلمانو! بے پرواہ ہوجاؤ کفار کا حسد و بغض اور اختلاف تم کو حقیقی اور دائمی نقصان نہیں پہنچا سکے گا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان کی شرارتوں سے تمہیں محفوظ رکھنے کا ذمہ لے رکھا ہے۔ اللہ ان کی زبان درازیوں اور سازشوں کو جاننے اور سننے والا ہے۔ دنیا کے مختلف مذاہب نے اپنی پہچان کے لیے اپنے طور پر کچھ شعار اور نشان مقرر کر رکھے ہیں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دور میں غیر یہودی یہودیت میں داخل ہوتا تو یہودی اسے خاص طریقے سے غسل دیتے اور عیسائی اپنے مذہب میں داخل ہونے والے کو رنگ دار پانی کے ساتھ نہانے کا حکم دیتے۔ جسے اصطباع کا نام دیا گیا تھا۔ بعدازاں یہودیوں نے مذہبی اجارہ داری قائم کرنے کے لیے آہستہ آہستہ یہ عقیدہ بنا لیا کہنسلی یہودی کے علاوہ غیر مذہب کا کوئی شخص یہودی مذہب قبول نہیں کرسکتا عیسائیوں نے بپتسمہ کی رسم ایجاد کی ان کی دیکھا دیکھی ہندوؤں نے تلک ایجاد کیا کہ جب کوئی ہندو مذہب قبول کرے تو باقی رسومات کے ساتھ اس کے ماتھے پر صنوبر کا نشان لگایا جائے جسے وہ تلک کا نام دیتے ہیں۔ ہندوؤں اور دوسرے مذاہب سے منفرد ہونے کے لیے سکھوں نے اپنے لیے پانچ نشان مقرر کیے۔ کیس‘ کرپان‘ کلائی میں کڑا‘ جیب میں کنگھا اور کچھا اپنا مذہبی نشان قرار دیا ہے۔ زرتشت جو ایران میں پائے جاتے ہیں چین‘ جاپان‘ ہندوستان‘ سری لنکا اور دیگر ممالک میں بسنے والے بدھ مت کے پیرو کاروں نے اپنے لیے ایک عہد تیار کیا ہے۔ ان کے مذاہب میں داخل ہونے والا۔ مخصوص الفاظ میں ایک عہد کا اظہار کرتا ہے۔ لیکن اسلام ایسا دین ہے جس نے مسلمان ہونے کے لیے کلمہ پڑھنا لازم قرار دیا ہے۔ جس کا مختصر مفہوم یہ ہے کہ مسلمان ہونے والا اقرار کرتا ہے کہ میں اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو اپنا معبود‘ خالق‘ مالک‘ رازق‘ حاکم‘ حاجت روا اور مشکل کشا نہیں سمجھتا اور میرے راہنما‘ مرشد اور قائد حضرت محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں جو میرے لیے کامل واکمل نمونہ ہیں اور میں اسی کو دنیاوآخرت کی فوزوفلاح کا ذریعہ سمجھتاہوں اور اسی طریقہ پر زندگی بسر کروں گا جب اس عقیدے کا رنگ انسان کے کردار پر چڑھ جائے تو اسے کوئی خوف اور لالچ اپنے مقصد سے نہیں ہٹا سکتا۔ اس عقیدہ کو ” صِبْغَۃَاللّٰہِ“ کا نام دیا گیا ہے۔ جس کے مختلف شیڈ (Shade) ہیں جن کا تذکرہ سورۃ الاحزاب کی آیت ٢٢ اور سورۃ التوبہ کی آیات ٢٠ تا ٢٢ میں کیا گیا ہے۔ زرتشت اور بدھ کا عہد : بپتسمہ عیسائیوں کی وہ رسم ہے جو عیسائی مذہب میں شامل ہونے کے وقت ادا کی جاتی ہے اور اس رسم کی ادائیگی کے بغیر کوئی عیسائیت میں داخل نہیں ہوسکتا اور اس رسم کا تعلق ایک طرح سے عقیدہ کفارہ سے ہے۔ ان کے خیال میں اس رسم کی ادائیگی کے بعد انسان گناہوں سے بالکل پاک ہوجاتا ہے اسے مختلف انداز سے سر انجام دیا جاتا ہے۔ عام طور پر ایسے شخص کو جسے بپتسمہ دیا جائے ایک کمرے میں لٹا کر اس کے پورے جسم پر تیل کی مالش کی جاتی ہے جس کے بعد اسے غسل دیا جاتا ہے اور اس سے پوچھا جاتا ہے۔ کیا تم باپ بیٹے اور روح القدس پر مکمل ایمان رکھتے ہو؟ اس کے اقرار کرنے کے بعد اسے سفید کپڑے پہنائے جاتے ہیں اور پھر وہ تمام اشخاص جو بپتسمہ لے چکے ہیں اجتماعی طور پر کلیسا میں جاتے ہیں اور عشائے ربانی میں شرکت کرتے ہیں۔ بپتسمہ کا ذکر انجیل مارک میں ملتا ہے۔ ” یوحنا لوگوں کو بپتسمہ دیتا اور لوگوں کو ان کے گناہوں سے پاک کرتا تھا۔ یروشلم کے بہت سے لوگ اس کے پاس آئے اور اپنے گناہوں کا اقرار کرکے بپتسمہ لیا اور یوحنا اس بات کا اقرار کرتا تھا کہ میرے بعد وہ شخص آئے گا جو مجھ سے زیادہ طاقت والا ہوگا اور تمہیں روح القدس سے بپتسمہ دے گا۔“ اس انجیل میں بھی اس بات کا ذکر ہے کہ حضرت مسیح نے یوحنا سے بپتسمہ لیا۔ عشائے ربانی : عیسائی عقیدہ میں اس رسم کی بڑی اہمیت ہے کیونکہ بقول عیسائی حضرات اس رسم کے بعد حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) بنفس نفیس محفل میں تشریف لاتے ہیں۔ اس کی ادائیگی کا طریقہ یہ ہے کہ اتوار کو گرجا میں سروس اور پھر دعا وغیرہ کے بعد پادری باپ بیٹے اور روح القدس کی برکت سے دعا کرتا ہے اور روٹی شراب میں بھگو کر تقسیم کی جاتی ہے۔ تاکہ عقیدہ کفارہ کی یاد تازہ کی جائے اور یہ روٹی اور شراب عیسائی حضرات کے عقیدہ کے مطابق حضرت مسیح کا گوشت اور خون بنتے ہیں۔ یہ عبادت اس یاد میں کی جاتی ہے کہ جب گرفتاری سے قبل یسوع مسیح نے حواریوں کے ساتھ کھانا کھایا تھا اور ان سے کہا کہ : And as they were eating, Jesus took bread, and blessed it, and brake it, and gave it to the discibles, and said Take, eat; this is my body. And he took the cup, and gave thanks, and gave it to them, saying, Drink ye all of it: For this is my blood of the new testament, which is shed for many for the remission of sins. ” جب وہ کھا رہے تھے تو یسوع نے روٹی لی اور برکت دے کر توڑی اور شاگردوں کو دے کر کہا لو کھاؤ یہ میرا بدن ہے پھر پیالہ لے کر شکر کیا اور ان کو دے کر کہا کہ تم سب اس میں سے پیو کیونکہ یہ میرا وہ عہد کا خون ہے جو بہتیروں کے لیے گناہوں کی معافی کے واسطے بہایا جاتا ہے۔“ (ادیان ومذاہب کا تقابلی مطالعہ، ڈاکٹر عبدالرشید، کراچی یونیورسٹی) مسائل ١۔ ہدایت کا سرچشمہ صرف ملت ابراہیم ہے۔ ٢۔ صحابہ کرام کا ایمان امت کے لیے کسوٹی ہے۔ صحابہ کے ساتھ حسد، بغض اور اختلاف رکھنے والا دین کا دشمن ہے۔ ٣۔ صحابہ کے دشمنوں سے ڈرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ حفاظت کرنے والا ہے۔ ٤۔ خدا کی عبادت اور توحید کا رنگ دنیا کے ہر رنگ اور نشان سے خوبصورت ہے، پورے اخلاص کے ساتھ اسے اختیار کرنا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن شان صحابہ (رض) : ١۔ اللہ نے صحابہ کے ایمان کو آزمالیا۔ (الحجرات : ٣) ٢۔ صحابہ ایمان کا معیار ہیں۔ (البقرۃ : ١٣٧) ٣۔ صحابہ اللہ کی جماعت ہیں۔ (المجادلۃ: ٢٢) ٤۔ صحابہ (رض) کو براکہنے والے بیوقوف ہیں۔ (البقرۃ : ١٣) ٥۔ صحابہ (رض) دنیا و آخرت میں کامیاب ہوئے۔ (المجادلۃ: ٢٢) ٥۔ صحابہ (رض) کو اللہ نے اپنی رضا کی ضمانت دی ہے۔ (البینۃ: ٨) ٦۔ صحابہ (رض) بھی اللہ پر راضی ہوگئے۔ (البینۃ: ٨) البقرة
138 البقرة
139 فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ کی عبادت سے انحراف اور اس کے احکام کا انکار کرنے والا عملًا اللہ تعالیٰ سے جھگڑا کرتا ہے۔ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! اب ان سے پوچھیے کیا تم ہمارے ساتھ اللہ تعالیٰ کے بارے میں جھگڑتے ہو جس کی توحید اور اطاعت کا رنگ ہم نے اختیار کرلیا ہے جو ہمارا مالک‘ ہمیں پالنے والا اور تمہارا مالک اور تمہیں بھی روزی مہیا کرنے والا ہے۔ جب ہم ایک ہی مالک کی مخلوق اور ایک ہی رازق کے در کے سوالی اور محتاج ہیں تو پھر اس ذات کبریا کے بارے میں ہمارے ساتھ کیوں جھگڑتے ہو؟ ایک مالک‘ خالق اور ایک ہی رازق ماننے والوں کو ایک ہی امت ہونا چاہیے اگر تم دنیا وآخرت کی سب سے بڑی سچائی توحید کو ماننے کے لیے آمادہ نہیں اور اللہ تعالیٰ کی غلامی میں آنے کے لیے تیار نہیں تو پھر ہم نے اپنے اعمال کا جواب دینا ہے اور تم اپنے کردار کے بارے میں جواب دہ ہو گے۔ ہاں ہم تمہاری طرح اپنے فکر و عمل میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کی شراکت اور عقیدۂ توحید میں کوئی ملاوٹ گوارا نہیں کرتے۔ ہمارا عمل اور عقیدہ اسی ذات کے لیے خالص اور بلا شرکت غیرے ہے جو سب کا رب ہے۔ یہی وہ جھگڑا ہے جس بنا پر ہر زمانے میں کافر اور مشرک اللہ کے مخلص بندوں سے ٹکراتے آ رہے ہیں۔ اس فرمان میں ایک مخصوص انداز میں مسلمانوں کو تسلی دی جا رہی ہے کہ ان سے الجھنے کی بجائے ان کو انہی کے حال پر چھوڑ دو کیونکہ ہر شخص اپنے ہی اعمال کا جواب دہ ہے۔ مسائل ١۔ سب کا رب ایک اللہ ہے۔ ٢۔ ہر کوئی اپنے اعمال کا جواب دہ ہے۔ ٣۔ سچا مسلمان وہ ہے جو اپنے رب کے لیے مخلص ہوجائے۔ تفسیر بالقرآن اخلاص کی اہمیت : ١۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اخلاص کا حکم۔ (الزمر : ١١) ٢۔ تمام امتوں کو اخلاص کا حکم۔ (الاعراف : ٢٩) ٣۔ اخلاص والے مومن ہیں۔ (النساء : ١٤٦) ٤۔ مخلص بندوں پر شیطان قابو نہ پاسکے گا۔ (ص : ٨٣) البقرة
140 فہم القرآن ربط کلام : انبیائے کرام فرقہ واریت سے مبرّا حضرات تھے اور ان کو فرقہ واریت میں گھسیٹنا اللہ تعالیٰ کی شہادت کو ٹھکرانے اور چھپانے کے مترادف ہے۔ یہود ونصاریٰ انتہائی ہٹ دھرم لوگ ہیں جو جغرافیائی حقائق‘ تاریخی شواہد اور الہامی دلائل سننے کے باوجود بھی رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے سے لے کر آج تک اپنی ضد پر قائم اور جھوٹا دعو ٰی کیے جا رہے ہیں کہ ہدایت کا راستہ یہودی اور عیسائی ہونے میں ہے اپنے آپ کو سچا ثابت کرنے کے لیے حضرت ابراہیم‘ حضرت اسماعیل‘ حضرت اسحاق‘ حضرت یعقوب ( علیہ السلام) اور ان کے بعد آنے والے انبیاء کو یہودی اور عیسائی ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ لہٰذا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیا جارہا ہے کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ ان سے استفسار فرمائیں کہ ان پیغمبروں کے متعلق اور ان کے عقائد کے بارے میں تم زیادہ جانتے ہو یا اللہ علیم و خبیر اور علّام الغیوب زیادہ جانتا ہے؟ یہ اللہ کی وہ شہادت ہے جس پر تورات‘ انجیل اور قرآن گواہی دے رہے ہیں۔ وہ شخص انتہا درجے کا ظالم ہے جو اللہ تعالیٰ کی اس عظیم شہادت کو چھپانے کی کوشش کرتا ہے جو ہر اعتبار سے کامل اور اکمل ہے۔ یاد رکھو اللہ تعالیٰ تمہارے کسی قول و فعل سے غافل وبے خبر نہیں ہے۔ جن ہستیوں کو تم اپنے کھاتہ میں ڈالنے کی کوشش کرتے ہو وہ اللہ تعالیٰ کی ایک برگزیدہ جماعت تھی جو گزر چکی۔ ان کے اعمال کا صلہ انہی کے لیے ہے اور تمہارے اعمال کا نتیجہ تمہارے سامنے ہوگا۔ تمہیں ان کے اعمال کی بجائے اپنے اعمال کی فکر کرنا چاہیے۔ کیونکہ تمہیں ہرگز ان کے اعمال کے بارے میں سوال نہیں کیا جائے گا۔ یہ اللہ تعالیٰ کی عدالت کا ایسا اصول ہے جس سے ہر انسان میں احساس ذمہ داری پیدا کرنے کے ساتھ ان تمام سہاروں کو کاٹ دیتا ہے جن سے افراد اور قوموں میں بد عملی پیدا ہوا کرتی ہے۔ ( مَا کَانَ إِبْرَاہِیمُ یَہُودِیًّا وَلَا نَصْرَانِیًّا وَلَکِنْ کَانَ حَنِیفًا مُسْلِمًا وَمَا کَانَ مِنَ الْمُشْرِکِینَ ) [ آل عمران : ٦٧] ” ابراہیم یہودی اور عیسائی نہ تھے۔ لیکن وہ توحید پرست مسلمان تھے اور وہ مشرکوں میں سے نہ تھے۔“ مسائل ١۔ حضرت ابراہیم، حضرت اسماعیل، حضرت اسحاق، حضرت یعقوب (علیہ السلام) اور ان کی اولاد یہودی اور عیسائی نہیں تھے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ کی قائم کی ہوئی شہادت کو چھپانا بڑا گناہ اور ظلم ہے۔ ٣۔ فوت شدگان کے بارے میں ہمیں اور ہمارے بارے میں انہیں نہیں پوچھا جائے گا۔ ٤۔ ہر شخص اپنے اعمال کا جواب دہ ہوگا۔ تفسیر بالقرآن بڑا ظالم کون؟ ١۔ اللہ کی مساجد کو ویران کرنے والا۔ (البقرۃ: ١١٤) ٢۔ اللہ کی گواہی کو چھپانے والا۔ (البقرۃ: ١٤٠) ٣۔ اللہ پر جھوٹ باندھنے والا۔ (الانعام : ١٢) ٤۔ نبوت کا دعو ٰی کرنے والا۔ (الانعام : ٩٣) ٥۔ اللہ کی آیات کو جھٹلانے والا۔ (الاعراف : ٣٧) ٦۔ اللہ کی آیات سن کر اعراض کرنے والا۔ (الکہف : ٥٧) ٧۔ حق بات کو جھٹلانے والا۔ (العنکبوت : ٦٨) ٨۔ سچ بات کو جھٹلانے والا۔ (الزمر : ٣٢) ٩۔ نوح (علیہ السلام) کی قوم ظالم تھی۔ (النجم : ٥٢) ١٠۔ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی سے مانگنے والا۔ (یونس : ١٠٦) ١١۔ قرآن کی نصیحت سے منہ موڑنے والا۔ (الکہف : ٥٧) البقرة
141 البقرة
142 فہم القرآن ربط کلام : پہلے پارہ کے اختتامی رکوعات میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور ان کے خاندان کی خدمات کا تذکرہ کرتے ہوئے وضاحت فرمائی تھی کہ بیت اللہ ابراہیم (علیہ السلام) اور ان کے صاحبزادے نے تعمیر کیا تھا۔ پھر یہود و نصارٰی کو ملت ابراہیم پر متفق ہوجانے کی دعوت دی تھی۔ پارہ کی آخری آیت میں ارشاد ہوا کہ یہ ایک امت تھی جن کے عقائد و نظریات ایک ہی تھے اور وہ اس دنیا سے جہان آخرت کی طرف رخت سفر باندھ چکے لہٰذا اب ان کی شریعت کے حوالہ سے کوئی ثبوت دینا، اس پر مصر ہونا اور بیت المقدس کے قبلہ ہونے پر اصرار کرنا بڑی بے وقوفی کی علامت ہے جس کا یہ لوگ عنقریب برملا اظہار کریں گے۔ لیکن اے مسلمانو! گھبرانے کی بجائے اس سچائی پر قائم رہنا۔ یہاں یہود و نصارٰی کے پروپیگنڈہ کے مقابلہ کے لیے رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام (رض) کو ذہنی طور پر تیار کیا گیا ہے۔ قبلہ کا لفظی معنی جانب اور سمت ہے۔ شرعی اصطلاح میں نماز کے وقت مسجد حرام کی جانب منہ کرنے کی سمت کو قبلہ کہا گیا ہے۔ اب بیت اللہ کو مسلمانوں کا قبلہ قرار دیا گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح مسلمان اعتقادی طور پر ایک رب کی عبادت کرنے والے ہیں اسی طرح عبادت کے وقت بھی ان کا رخ ایک ہی طرف ہونا چاہیے تاکہ فکری اور عملی طور پر امت میں وحدت ویگانگت پیدا ہوسکے۔ تحویل قبلہ کے وقت دنیا کے دو بڑے مذہب عیسائی اور یہودی عبادت کے وقت بیت المقدس کی طرف رخ کرتے تھے اور مدینہ منورہ تشریف لانے کے بعد نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی سترہ مہینے بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے رہے۔ لیکن آپ کی خواہش اور تمنا یہ تھی کہ جس طرح ہمیں ملت ابراہیم کی اتباع کا پابند کیا گیا ہے اسی طرح ہمارا قبلہ بھی بیت اللہ ہونا چاہیے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اسے مرکز ہدایت اور مرجع خلائق بنایا ہے۔ اس خواہش کی تکمیل سے پہلے آپ اور مسلمانوں کو اتنی بڑی تبدیلی کے لیے ذہنی طور پر تیار کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ عنقریب نادان لوگ کہرام مچائیں گے کہ تبدیلئ قبلہ کی کیا ضرورت تھی؟ پہلے قبلہ میں کونسی خرابی واقع ہوئی ہے؟ یہ تو محض مخالفت برائے مخالفت کا نتیجہ ہے۔ اس کے جواب میں اعتراض کرنے والوں کو سمجھایا کہ مشرق ومغرب اللہ تعالیٰ کی ملکیت اور اسی کے اختیار میں ہے وہ جس طرف چاہے رخ پھیرنے کا حکم صادر فرمائے۔ وہ بھی ایک سمت تھی اور یہ بھی ایک جانب اور سمت ہے۔ لیکن فرق اتنا بڑا ہے کہ پہلے آپ اپنی مرضی سے بیت المقدس کی طرف رخ کرتے تھے اب اللہ تعالیٰ کا حکم سمجھتے ہوئے بیت اللہ کی طرف رخ پھیرلیں۔ ہدایت رسم ورواج، پرانی اور غیر مستند روایات کوا پنا نے کا نام نہیں۔ ہدایت تو وہ ہے جس کی اللہ تعالیٰ نشاندہی اور رہنمائی فرماتا ہے۔ یہ انہی لوگوں کو حاصل ہوتی ہے جو اللہ تعالیٰ کے تابع فرمان اور ہدایت کے طالب ہوا کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے حکم پر اعتراض کرنے والے بیوقوف ہوتے ہیں اور جان بوجھ کر بے وقوف بننے والوں کو ہدایت نصیب نہیں ہوا کرتی۔ مسائل ١۔ اللہ ہی کے لیے مشرق ومغرب ہے۔ ٢۔ اللہ کے حکم پر اعتراض کرنا بے وقوفی ہے۔ ٣۔ اللہ جسے چاہتا ہے صراط مستقیم کی ہدایت دیتا ہے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہی صراط مستقیم ہے۔ تفسیر بالقرآن ہدایت اللہ کے اختیار میں ہے : ١۔ ہدایت وہی ہے جسے اللہ تعالیٰ ہدایت قرار دے۔ (البقرۃ: ١٢٠) ٢۔ ہدایت اللہ کے اختیار میں ہے۔ (القصص : ٥٦) ٣۔ وہ جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے۔ (البقرۃ : ٢١٣) ٤۔ اللہ تعالیٰ کی راہنمائی کے بغیر کوئی ہدایت نہیں پا سکتا۔ (الاعراف : ٤٣) ٥۔ ہدایت جبری نہیں اختیاری چیز ہے۔ (الدھر : ٣) ٦۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی کسی کو ہدایت نہیں دے سکتے۔ (القصص : ٥٦) ٧۔ ہدایت پانا اللہ تعالیٰ کا احسان ہے۔ (الحجرات : ١٧) ٨۔ رسولِاکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تابعداری انسان کی ہدایت کی ضمانت ہے۔ (النور : ٥٤) ٩۔ صحابہ کرام (رض) کا ایمان ہدایت کی کسوٹی ہے۔ (البقرۃ: ١٣٧) ١٠۔ ہدایت پر استقامت کی دعا کرنا چاہیے۔ (آل عمران : ٨) البقرة
143 فہم القرآن ربط کلام : گزشتہ سے پیوستہ۔ مستقبل قریب میں تحویل قبلہ کی طرف اشارہ فرما تے ہوئے لفظ ” کَذٰلِکَ‘ ا ستعمال کیا ہے۔ اصل لفظ ” ذَالِکَ“ ہے جس میں حرف ” ک“ کا اضافہ فرمایا گیا ہے۔ اسے عربی زبان میں حرف تشبیہ کہا جاتا ہے‘ جس کا معنی‘ مانند‘ جیسے ہے۔ یہاں اشارتاً یہ بات سمجھائی گئی ہے کہ جس طرح جغرافیائی لحاظ سے تمہارا قبلہ زمین کے وسط میں واقع ہے اسی طرح ہی ہدایت اور فکر وعمل کے اعتبار سے تمہیں امت عدل اور وسط بنایا گیا ہے۔ محشر کے دن جب پہلی امتوں سے ان کے انبیاء کے بارے میں سوال ہوگا کہ انبیاء نے میرا پیغام آپ تک پہنچایا تھا یا نہیں؟ بعض اُمّتیں واضح طور پر اپنے نبیوں کی جدوجہد کی نفی کردیں گی۔ اس کے بعد انبیاء (علیہ السلام) کو اپنی تائید کے لیے گواہ لانے کا حکم ہوگا۔ وہ اللہ تعالیٰ کے حضور عرض کریں گے کہ ہماری گواہی امّتِ محمد یہ کے لوگ دیں گے۔ تب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی امت کے لوگ عرض کریں گے کہ یا الٰہی! یہ لوگ غلط بیانی کررہے ہیں ان کے انبیاء نے توتیرا پیغام ٹھیک ٹھیک ان تک پہنچایا تھا۔ (عَنْ أَبِیْ سَعِیْدِنِ الْخُدْرِیِّ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یُدْعٰی نُوْحٌ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ فَیُقَالُ لَہٗ ھَلْ بَلَّغْتَ فَیَقُوْلُ نَعَمْ فَیُدْعٰی قَوْمُہٗ فَیُقَالُ لَھُمْ ھَلْ بَلَّغَکُمْ فَیَقُوْلُوْنَ مَا اَتَانَا مِنْ نَّذِیْرٍ أَوْ مَآ أَتَانَا مِنْ أَحَدٍ قَالَ فَیُقَالُ لِنُوْحٍ مَنْ یَّشْھَدُ لَکَ فَیَقُوْلُ مُحَمَّدٌ وَأُمَّتُہٗ قَالَ فَذٰلِکَ قَوْلُہٗ (وَکَذٰلِکَ جَعَلْنَاکُمْ أُمَّۃً وَّسَطًا) [ مسند أحمد : کتاب باقی مسند المکثرین، باب : مسند أبی سعید الخدری] ” حضرت ابو سعید خدری (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا روز قیامت نوح (علیہ السلام) کو بلا کر پوچھا جائے گا کہ کیا تو نے میرا پیغام پہنچا دیا تھا؟ وہ جواب دیں گے ہاں پھر ان کی قوم کو بلا کر پوچھا جائے گا کیا نوح (علیہ السلام) نے تمہیں تبلیغ کی اور میرا پیغام پہنچایاتھا۔ وہ کہیں گے ہمارے پاس تو ڈرانے والا کوئی بھی نہیں آیا۔ حضرت نوح (علیہ السلام) سے کہا جائے گا آپ کی گواہی کون دے گا؟ وہ کہیں گے، محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور اس کی امّت۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا یہی اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ (اسی طرح ہم نے تمہیں امّتِ وسط بنایا ہے)۔“ اسی لیے اس امت کو عدل کا لقب عطا کیا گیا۔ کیونکہ عدالت میں عادل کی گواہی معتبر ہوا کرتی ہے۔ اللہ تعالیٰ چاہتا تو ہجرت مدینہ کے ابتدائی ایام میں تحویل قبلہ کا حکم دے سکتا تھا۔ لیکن ایسا اس لیے نہیں کیا گیا تاکہ تحویل قبلہ کے ذریعے لوگوں کو آزمایا جائے کہ کون اللہ کا حکم سمجھ کر اپنا قبلہ تبدیل کرتا ہے کیونکہ ہدایت یافتہ لوگ اللہ تعالیٰ کے حکم کے مقابلے میں حالات اور سمت نہیں دیکھا کرتے۔ تحویل قبلہ بہت بڑی آزمائش اور اقدام تھا۔ اللہ تعالیٰ کا کرم وفضل دیکھیے کہ بیت اللہ قبلہ مقرر فرمانے کے باوجود اسے سمت مقرر نہیں کیا گیا بلکہ مسجد حرام کی جانب چہرے کرنے کا حکم دیا تاکہ قبلہ کی سمت متعین کرنے میں دقّت نہ اٹھانی پڑے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس میں اور وسعت کرتے ہوئے فرمایا : (بَیْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ قِبْلَۃٌ) [ رواہ الترمذی : کتاب الصلوۃ] ” قبلہ مشرق ومغرب کے درمیان ہے۔“ تحویل قبلہ کے بارے میں فرمایا جارہا ہے کہ بے شک یہ بڑا مشکل مسئلہ اور مرحلہ ہے لیکن ان کے لیے معمولی کام ہے جن کو اللہ تعالیٰ نے ہدایت سے سرفراز فرمایا ہے۔ جہاں تک شہادت کا حق ادا کرنے کا معاملہ ہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے اس طرح ذمہ داری اور شاندار طریقہ سے ادا کیا کہ امّتکا ایک ایک فرد پکار اٹھا کہ اے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ نے کمال طریقے سے یہ حق ادا فرمادیا ہے۔ لہٰذا اب امّتکا فرض ہے کہ وہ اس ذمہ داری میں کوتاہی نہ کرے۔ (عَنْ أَبِیْ بَکْرَۃَ (رض) قَالَ خَطَبَنَا النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَوْمَ النَّحْرِ فَإِنَّ دِمَآءَ کُمْ وَأَمْوَالَکُمْ عَلَیْکُمْ حَرَامٌ کَحُرْمَۃِ یَوْمِکُمْ ھٰذَا فِیْ شَھْرِکُمْ ھٰذَا فِیْ بَلَدِکُمْ ھٰذَا إِلٰی یَوْمِ تَلْقَوْنَ رَبَّکُمْ أَلَا ھَلْ بَلَّغْتُ قَالُوْا نَعَمْ۔۔) [ رواہ البخاری : کتاب الحج، باب الخطبۃ أیام منی] ” حضرت ابو بکرہ (رض) بیان کرتے ہیں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حج کا خطبہ دیتے ہوئے فرمایا یقیناً تمہارے خون اور تمہارے مال تم پر ایسے ہی حرام ہیں جیساکہ تمہارے لیے آج کا دن، مہینہ اور یہ شہر قیامت تک کے لیے حرام ہے۔ پھر آپ نے فرمایا کیا میں نے اللہ تعالیٰ کا پیغام تم تک پہنچا دیا ہے؟ تو لوگوں نے جواب دیا ہاں۔“ آیت کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے صفت رؤف کا ذکر فرما کر مخلص اور تابعدار بندوں کو تسلی دی ہے کہ مخالف جس قدر چاہیں پروپیگنڈہ کریں تمہاری پہلی نمازیں ہرگز ضائع نہیں ہوں گی۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے ساتھ انتہائی رحم اور شفقت فرمانے والا ہے۔ اَلرَّءُ وْفَ: کہتے ہیں جو کسی کو نقصان سے بچا کر مزید نوازنے والا ہو۔ یہاں نماز اور ایمان کو باہم مترادف قرار دیا گیا ہے۔ نماز کی اہمیت سمجھنے کے لیے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ملاحظہ فرمائیں : (بَیْنَ الرَّجُلِ وَبَیْنَ الشِّرْکِ وَالْکُفْرِ تَرْکُ الصَّلٰوۃِ) [ رواہ مسلم : کتاب الایمان، باب بیان إطلاق إسم الکفر علی من ترک الصلاۃ] ” مسلمان اور کفر و شرک کے درمیان ترک نماز کا فرق ہے۔“ مسائل ١۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی امت معزز اور عدل کرنے والی ہے۔ ٢۔ یہ امت فکر و عمل کے لحاظ سے معتدل قرار پائی ہے۔ ٣۔ امّتِ محمدیہ پہلی امتوں پر اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس امت پر گواہ ہوں گے۔ ٤۔ تحویل قبلہ بہت بڑی آزمائش اور اتباع رسول کی کسوٹی ہے۔ ٥۔ نماز اور ایمان باہم مترادف ہیں۔ ٦۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو بخشنے والے اور انتہائی مہربان ہیں۔ تفسیر بالقرآن شہادتِ حق امت محمدیہ کا اعزاز : ١۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی امت تمام امتوں میں امّتِ خیر قرارپائی۔ (آل عمران : ١١٠) ٢۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی امت نے امّتِ وسط کا اعزاز پایا۔ (البقرۃ: ١٤٣) ٣۔ آپ کی امت کو داعی الی الخیر کا منصب ملا۔ (آل عمران : ١٠٤) ٤۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو شاہد، مبشر اور نذیر بنا کر بھیجا ہے۔ (الفتح : ٨) ٥۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا منصب لوگوں پر شہادت قائم کرنا ہے۔ (المزمل : ١٥) ٦۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور دوسرے انبیاء ( علیہ السلام) اپنی اپنی امت کے بارے میں گواہی دیں گے۔ (النساء : ٤١) ٧۔ امت محمدیہ لوگوں پر گواہی دے گی۔ (البقرۃ: ١٤٣) البقرة
144 فہم القرآن ربط کلام : گزشتہ سے پیوستہ۔ بیت اللہ میں رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نماز کے لیے اس طرح کھڑے ہوتے کہ بیک وقت آپ کا رخ بیت اللہ اور بیت المقدس کی جانب ہوا کرتا تھا۔ جب ہجرت فرما کر مدینہ تشریف لائے تو وہاں متضاد جوانب کے ساتھ واسطہ پڑا۔ اگر آپ بیت اللہ کی طرف رخ کرتے تو بیت المقدّس پیٹھ کی طرف ہوتا اور اگر بیت المقدّس کی طرف رخ کرتے تو بیت اللہ پیچھے کی جانب ہوتا تھا۔ اس صورت حال میں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تمنّا تھی کہ ہمارا قبلہ مرکز ابراہیمی یعنی بیت اللہ ہونا چاہیے۔ اسی انتظار میں سولہ سترہ ماہ گزر گئے۔ اس دوران آپ کے اشتیاق اور اضطراب میں اضافہ ہی ہوتا رہا جس کی وجہ سے بسا اوقات آپ کا چہرہ بے ساختہ آسمان کی طرف اٹھ جایا کرتا تھا۔ آپ دل ہی دل میں اللہ تعالیٰ سے تبدیلئ قبلہ کی آرزو کرتے۔ یہ اشتیاق ربِّ رحیم کو اس قدر بھلا لگا کہ قیامت تک اس کا منظر قرآن مجید میں محفوظ فرما دیا۔ جو نہی تحویل قبلہ کا حکم نازل ہوا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کی امت کے لوگ نماز میں اپنے چہرے بیت اللہ کی طرف کیا کریں۔ تو اہل کتاب نے پروپیگنڈہ کا طوفان برپا کردیا جس کا ذکر پارے کی ابتدا میں کیا گیا ہے۔ اس صورت حال پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا جارہا ہے کہ اہل کتاب یہ جانتے ہیں کہ نبئآخر الزماں (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا قبلہ بیت المقدس کی بجائے بیت اللہ ہوگا۔ یہ سب کچھ وہ تورات وانجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں۔ یہ حقیقت جاننے کے باوجود ان کا اعتراض کرناحق چھپانے اور اظہار حسد کا بہانہ ہے جو اللہ تعالیٰ سے کسی صورت بھی چھپا نہیں سکتے۔ اب فیصلہ ہوچکا ہے لہٰذا میرے پیغمبر! آپ جتنے بھی دلائل دیں اور انہیں جس انداز سے سمجھائیں یہ مسجد حرام کو قبلہ نہیں مانیں گے۔ بیت المقدس کو قبلہ تسلیم کرنے کے باوجود ان کی حالت یہ ہے کہ یہودی بیت المقدس میں کھڑے ہوتے وقت اپنا منہ دیوار گریہ کی طرف کرتے ہیں جس کے بارے میں ان کا خیال ہے کہ یہ ہیکل سلیمانی کی بنیاد ہے۔ عیسائی عبادت کے دوران اپنے چہرے اس جانب کرتے ہیں جہاں عیسیٰ (علیہ السلام) پیدا ہوئے تھے۔ گویا کہ ایک قبلہ ہونے کے باوجود یہ ایک دوسرے سے متضاد ہیں۔ جب یہ اپنے قبلہ پر متفق نہیں ہیں تو آپ ان سے یہ کیسے توقع کرسکتے ہیں کہ یہ آپ کے قبلہ پر اتفاق کریں گے لہٰذاقیامت تک آپ بھی ان کے قبلہ کو تسلیم کرنے کے مجاز نہیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا حکم معلوم ہوجانے کے بعد اگر آپ خوش کرنے کے لیے ان کی خواہشات کے پیچھے لگیں گے تو یاد رکھیں آپ اس وقت ظالموں میں شمار ہوں گے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات اقدس کے بارے میں یہ تصور بھی نہیں کیا جاسکتا کہ آپ اللہ تعالیٰ کا حکم جاننے کے باوجود اس کے برعکس کوئی قدم اٹھا سکتے ہیں۔ کیونکہ رسول براہ راست اللہ تعالیٰ کی نگرانی میں زندگی گزارتا ہے۔ یہاں مسئلہ کی اہمیت اور بنیادی اصول کی وضاحت کے پیش نظر آپ کو مخاطب کیا گیا ہے کہ حق کے مقابلے میں اپنی خواہشات کی پیروی کرنا، اپنے آپ پر ظلم کرنے کے مترادف ہے۔ یہ ایسا بنیادی مسئلہ ہے جس کے بارے میں رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرمایا کرتے تھے : (لَا یُؤْمِنُ اَحَدُکُمْ حَتّٰی یَکُوْنَ ھَوَاہُ تَبَعًا لِّمَا جِءْتُ بِہٖ) [ مشکوٰۃ : باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ] ” تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک ایماندار نہیں ہوسکتا جب تک وہ اپنی خواہشات میری لائی ہوئی شریعت کے تابع نہ کردے۔“ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ تعالیٰ کے حضور فریاد کیا کرتے تھے : (اَللّٰھُمَّ انِّیْ أَعُوْذُبِکَ مِنْ مُّنْکَرَاتِ الْأَخْلَاقِ وَالْأَعْمَالِ وَالْأَھْوَآءِ) [ رواہ الترمذی : کتاب الدعوات، باب الدعوات] ” الٰہی میں برے اخلاق، اعمال اور خواہشات کی پیروی سے تیری پناہ چاہتاہوں۔“ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اہل کتاب کے بہتر فرقے تھے اور میری امت تہتر فرقوں میں تقسیم ہوگی۔ (وَإِنَّہٗ سَیَخْرُجُ مِنْ أُمَّتِیْ أَقْوَامٌ تَتَجَارٰی بِھِمْ تِلْکَ الْأَہْوآءُ کَمَا یَتَجَارَی الْکَلْبُ بِصَاحِبِہٖ لَا یَبْقٰی مِنْہُ عِرْقٌ وَلَا مَفْصِلٌ إِلَّا دَخَلَہٗ) [ رواہ أبوداوٗد : کتاب السنۃ، باب شرح السنۃ] ” عنقریب میری امت میں ایسی قومیں ظہور پذیر ہوں گی کہ خواہشات ان میں ایسے سماجائیں گی جیسے باؤلے کتے کے کاٹنے سے لاحق ہونے والی بیماری رگ رگ اور ہر جوڑ میں سرایت کر جاتی ہے۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پسند کے مطابق قبلہ تبدیل فرمادیا۔ ٢۔ مسلمان جہاں کہیں بھی ہوں‘ نماز میں مسجد الحرام کی طرف ہی منہ کیا کریں۔ ٣۔ اہل کتاب علمی طور پر مانتے ہیں کہ خانہ کعبہ ہی قبلۂ حق ہے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ یہود و نصارٰی اور کسی شخص کے کردار سے غافل نہیں ہے۔ ٥۔ حق اور سچ ہونے کے باوجود یہود و نصارٰی بیت اللہ کو قبلہ تسلیم نہیں کرتے۔ ٦۔ حقیقت کا علم ہونے کے باوجود اپنی خواہشات کی پیروی کرنے والا ظالم ہے۔ تفسیر بالقرآن خواہشات کی پیروی کرنے کے نقصانات : ١۔ علم ہونے کے باوجود دوسروں کے خیالات کی پیروی کرنیوالا اللہ کی نصرت سے محروم ہوجاتا ہے۔ (البقرۃ: ١٢٠) ٢۔ علم ہونے کے باوجود کفار کے خیالات کو اپنانا ظالموں میں شامل ہونا ہے۔ (البقرۃ: ١٤٥) ٣۔ کتاب اللہ کے مقابلے میں لوگوں کی خواہشات پر عمل نہیں کرنا چاہیے۔ (المائدۃ: ٤٨) ٤۔ خواہشات کی اتباع کے بجائے کتاب اللہ کے مطابق فیصلے ہونے چاہییں۔ (المائدۃ: ٤٩) ٥۔ لوگوں کی خواہشات کے پیچھے لگنے والا گمراہ ہوجاتا ہے۔ (صٓ: ٢٦) ٦۔ اپنی خواہشات کی پیروی کرنے والا تباہ ہوجاتا ہے۔ (طٰہٰ: ١٦) ٧۔ سب سے بڑا گمراہ اپنی خواہشات کی پیروی کرنے والا ہے۔ (القصص : ٥٠) ٨۔ خواہشات کی پیروی کرنے والا خواہشات کو الٰہ بنا لیتا ہے۔ (الفرقان : ٤٣) ٩۔ حق کو چھوڑ کر خواہشات کی پیروی کرنے سے زمین و آسمان میں فساد پیدا ہوتا ہے۔ (المؤمنون : ٧١) البقرة
145 البقرة
146 فہم القرآن ربط کلام : یہاں معنوی ربط ہے کہ اہل کتاب جس طرح رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کو پہچانتے ہیں اسی طرح بیت اللہ کو قلبی طور پر قبلہ تسلیم کرتے ہیں۔ جہاں تورات و انجیل میں آپ کی نبوت کے ثبوت ہیں وہاں بیت اللہ کے قبلہ ہونے کا ثبوت بھی موجود ہے۔ اظہارِ حق اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اطمینان اور مسلمانوں کی تسلی کے لیے مزید فرمایا جا رہا ہے کہ اہل کتاب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات اور حیثیت کو اس طرح پہچانتے ہیں جیسے کوئی باپ اپنے بیٹے کو پہچاننے میں ذرّہ برابر شک نہیں کرتا، جب انہوں نے آپ کو اچھی طرح پہچان لیا ہے تو پھر آپ کی نبوت سے انحراف اور قبلہ کے انکار کا کیا معنیٰ ؟ لیکن اس کے باوجود کتمانِ حق کا جرم ہمیشہ سے ان میں سے ایک فریق کرتا آرہا ہے۔ لہٰذا قبلہ کی تبدیلی اور سلسلۂ وحی آپ کے رب کی طرف سے ہے اس لیے آپ کو رائی کے دانے کے برابر بھی اس میں شک نہیں کرنا چاہیے۔ (عَنْ صَفْوَانَ بْنِ عَسَّالٍ (رض) قَالَ قَالَ یَھُوْدِیٌّ لِصَاحِبِہِ اذْھَبْ بِنَآ إِلٰی ھٰذَا النَّبِیِّفَقَالَ صَاحِبُہٗ لَا تَقُلْ نَبِیٌّ إِنَّہٗ لَوْ سَمِعَکَ کَانَ لَہٗ أَرْبَعَۃُ أَعْیُنٍ فَأَتَیَارَسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَسَاَلَاہُ عَنْ تِسْعِ آیَاتٍ بَیِّنَاتٍ فَقَالَ لَھُمْ لَا تُشْرِکُوْا باللّٰہِ شَیْءًا وَلَا تَسْرِقُوْا وَلَا تَزْنُوْا وَلَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّٰہُ إِلَّا بالْحَقِّ وَلَا تَمْشُوْابِبَرِیءٍ إِلٰی ذِیْ سُلْطَانٍ لِیَقْتُلَہٗ وَلَا تَسْحَرُوْا وَلَا تَأْکُلُوا الرِّبَا وَلَا تَقْذِفُوْا مُحْصَنَۃً وَلَا تُوَلُّوا الْفِرَارَ یَوْمَ الزَّحْفِ وَعَلَیْکُمْ خَآصَّۃَ الْیَھُوْدَ أَنْ لَّاتَعْتَدُوْا فِی السَّبْتِ قَالَ فَقَبَّلُوْا یَدَہٗ وَرِجْلَہٗ فَقَالَا نَشْھَدُ أَنَّکَ نَبِیٌّ قَالَ فَمَا یَمْنَعُکُمْ أَنْ تَتَّبِعُوْنِیْ قَالُوْا إِنَّ دَاوٗدَ دَعَا رَبَّہٗ أَنْ لاَّ یَزَالَ فِیْ ذُرِّیَتِہٖ نَبِیٌّ وَإِنَّا نَخَافُ إنْ تَبِعْنَاکَ أَنْ تَقْتُلَنَا الْیَھُوْدُ) [ رواہ الترمذی : کتاب الإستئذان، باب ماجاء فی قبلۃ الید والرجل] ” حضرت صفوان بن عسال (رض) کہتے ہیں ایک یہودی نے اپنے ساتھی سے کہا کہ مجھے اس نبی کے پاس لے چلو اس نے کہا تو اسے نبی نہ کہہ اس لیے کہ اگر اس نے سن لیا تو اس کی چار آنکھیں ہوجائیں گی یعنی بہت خوش ہوگا۔ ان دونوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آکرنو آیات بیّنات کے متعلق سوال کیے تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تم اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ، چوری نہ کرو، زنانہ کرو اور قتل ناحق نہ کرو، کسی بے گناہ کو حاکم کے ہاں اسے قتل کرانے کے لیے نہ لے جاؤ، جادونہ کرو، سود نہ کھاؤ، پاکدامن عورت پر تہمت نہ لگاؤ، میدان جنگ سے پیٹھ پھیر کر نہ بھاگو ” اور یہودیو! تم پر خصوصی طور پر لازم ہے کہ ہفتے کے دن زیادتی نہ کرو۔“ راوی کہتے ہیں دونوں نے آپ کے ہاتھ اور پاؤں کو بوسہ دیا اور کہا ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ نبی ہیں۔ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : پھر میری اتباع کرنے سے کونسی چیز مانع ہے؟ انہوں نے جواب دیاحضرت داود (علیہ السلام) نے اپنے رب سے دعا کی تھی کہ نبوت انہی کے خاندان میں رہے اور ہمیں خطرہ ہے کہ اگر ہم نے آپ کی اتباع کرلی تو یہودی ہمیں قتل کردیں گے۔“ حضرت صفیہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ میرے والد حیی بن اخطب اور چچا ابو یاسر صبح کے وقت رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں پہنچ کر اسلام کے بارے میں مذاکرات کرتے ہیں اور انہیں یقین ہوگیا کہ حقیقتًا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نبی آخر الزماں ہیں۔ جب آپ سے گفتگو کرنے کے بعد مغرب کے وقت واپس آئے تو نہایت تھکے ماندے دکھائی دے رہے تھے۔ چچا ابو یاسر میرے والد سے پوچھتے ہیں :أَھُوَ ھُوَ ؟ ” کیا یہی وہ نبی ہے جس کا تذکرہ تورات وانجیل میں پایا جاتا ہے؟“ والد کہتے ہیں کیوں نہیں یہ وہی رسول ہے۔ پھر وہ پوچھتے ہیں :أَتَعْرِفُہٗ وَتُثَبِّتُہٗ ؟ ” کیا واقعی تو اسے پہچانتا ہے؟“ تو انہوں نے کہا : ہاں میں اچھی طرح پہچانتاہوں۔ چچا ابویاسر کہتے ہیں : فَمَافِیْ نَفْسِکَ مِنْہُ ؟ ” پھر آپ کا کیا ارادہ ہے؟“ تو میرے والد جواب دیتے ہیں : عَدَاوَۃٌ وَاللّٰہِ مَابَقِیْتُ ” کہ اللہ کی قسم! جب تک زندہ ہوں مخالفت کرتا رہوں گا“۔ [ ابن ہشام : شہادۃ عن صفیۃ] یہی حالت اہل مکہ کی تھی کہ وہ اچھی طرح پہچان چکے تھے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) واقعی ہی اللہ تعالیٰ کے فرستادہ ہیں لیکن اپنی انا اور باطل عقیدہ کو چھوڑنے کے لیے تیار نہیں تھے۔ بدر کے معرکہ کے موقعہ پر ابو جہل سے کسی نے یہ سوال کیا کہ کیا محمدنے زندگی میں ہم سے جھوٹ بولاہے؟ اس نے کہا : ہرگز نہیں اس شخص نے پھر کہا کہ جو شخص لوگوں کے ساتھ جھوٹ نہیں بولتا وہ اللہ تعالیٰ کے بارے میں کس طرح غلط بیانی کرسکتا ہے ؟ خصوصًا جب اس کی کنپٹیوں کے بال بھی سفید ہوچکے۔ اس پر ابوجہل نے کہا کہ دراصل ہمارے اور ان کے قبیلے کی آپس میں ہر معاملے میں مقابلہ بازی رہی ہے اس لیے یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ہم اس کی سربراہی قبول کرلیں۔ مسائل ١۔ یہود ونصارٰی رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات اور رسالت کو اپنے بیٹوں کی طرح پہچانتے ہیں۔ ٢۔ اہل کتاب جان بوجھ کر حق چھپالیتے ہیں۔ ٣۔ قرآن مجید اور بیت اللہ کے قبلہ ہونے پر شک نہیں کرنا چاہیے۔ البقرة
147 البقرة
148 فہم القرآن ربط کلام : گزشتہ سے پیوستہ ہر مذہب کے لوگوں نے عبادت کے لیے ایک جہت مقرر کر رکھی ہے۔ وہ اسی طرف ہی راغب اور رخ کیے ہوئے ہیں۔ ہندو اپنے عبادت خانوں میں مورتی (بت) کی طرف اور اگر مورتی یعنی بت نہ ہو تو سورج کی طرف منہ کرتے ہیں۔ سکھ اپنی کتاب گرنتھ کی جانب منہ کرتے ہیں۔ کتاب موجود نہ ہونے کی صورت میں جس طرف چاہیں چہرہ کرلیتے ہیں۔ بدھ مت بدھا کی مورتی کی طرف، یہودی بیت المقدس میں بھی دیوار گریہ کی طرف اور عیسائی مسجد اقصیٰ کی اس جانب منہ کرتے ہیں جہاں عیسیٰ (علیہ السلام) نے جنم لیا تھا۔ یہ تو مسلمانوں کا امتیاز ہے کہ وہ جہاں کہیں بھی ہوں بیت اللہ کی طرف منہ کرتے ہیں۔ اس لیے ارشاد ہورہا ہے کہ تمہارے رب نے تمہارے چہروں کو اپنے گھر کی طرف پھیرنے کا حکم دیا ہے بس تم اسے قبول کرنے میں سبقت حاصل کرو۔ کیونکہ کا رِ خیر میں سبقت اختیار کرنے سے ایک ولولۂ تازہ پیدا ہوتا ہے۔ یاد رہے کہ امّتِ مسلمہ کو صرف نیکی کرنے کا حکم نہیں دیا گیا بلکہ نیکیوں میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کا ارشاد ہوا ہے۔ کیونکہ دنیا میں کوئی شعبہ اس وقت تک ترقی نہیں کرسکتا جب تک اس میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کا صحت مند رجحان پیدا نہ ہو۔ سبقت کے جذبہ کے بغیر قوموں کی زندگی میں مردگی پیدا ہوجاتی ہے۔ بالآخر زندگی مردہ ہو کر رہ جاتی ہے۔ زندہ اور بیدار قومیں اسی لیے مختلف شعبوں میں مقابلے کروا یا کرتی ہیں۔ قرآن مجید نے جذبۂ مسابقت کو پروان چڑھانے کے لیے ” سَابِقُوْا اور سارِعُوْا“ کے الفاظ استعمال فرمائے ہیں۔ نیکیوں میں سب سے بڑی نیکی نماز ہے‘ جس کے بارے میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا گیا : (أَیُّ الْعَمَلِ أَحَبُّ إِلَی اللّٰہِ) ” کونسا عمل اللہ کے ہاں زیادہ پسندیدہ ہے ؟“ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اَلصَّلَاۃُ عَلٰی وَقْتِھَا :” وقت پر نماز ادا کرنا اللہ کو بہت محبوب ہے۔“ [ رواہ البخاری : کتاب مواقیت الصلوۃ] یہاں ہر قسم کی نیکی میں سبقت اور سورۃ الحدید آیت ٢١ میں مغفرت اور جنت کے لیے یہ الفاظ استعمال کیے گئے۔ جب کہ سورۃ آل عمران : آیت ١٣٣ میں رب تعالیٰ کی مغفرت اور جنت کے حصول کے لیے تیزروی اختیار کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ پھر سورۃ الواقعہ : آیت ١٠ تا ١٢ میں اس کا نتیجہ بیان کرتے ہوئے فرمایا : نیکیوں میں سبقت کرنے والے ہی قیامت کے دن سب سے آگے ہوں گے۔ جس طرح آج تمہیں اللہ تعالیٰ کے گھر کی طرف رخ کرنے کا حکم دیا جارہا ہے، قیامت کے روز تمہیں اسی گھر کے مالک کے حضور پیش ہونے کا حکم ہوگا اور تم سب کے سب اس کی بارگاہ میں سر جھکائے حاضر ہوگے۔ اب تو تبدیلی قبلہ کا حکم آنے کے باوجود لوگ مختلف سمتوں کی طرف چہرے کیے ہوئے ہیں لیکن وہاں ہر حال میں سب کو ایک ہی بار گاہ اور ایک ہی عدالت میں جمع ہونا ہوگا۔ بلا شک اللہ تعالیٰ تمہیں اور تمہارے اعمال کو اپنے حضور پیش کرنے پر قادر ہے کیونکہ وہ قطرے قطرے، پتّے پتّے اور ذرّے ذرّے پر قدرت رکھتا ہے۔ تحویل قبلہ کا حکم آتے ہی صحابۂ کرام (رض) نے سمع واطاعت کا وہ نمونہ پیش کیا کہ جس کی دنیا کی تاریخ میں مثال ملنا مشکل ہے۔ ” حضرت عبداللہ بن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ لوگ مسجد قبا میں صبح کی نماز ادا کررہے تھے کہ ان کے پاس ایک آدمی نے آکرکہاکہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر آج رات قرآن نازل ہوا۔ اس میں حکم دیا گیا ہے کہ وہ کعبہ کی طرف منہ کریں لہٰذا تمہیں بھی کعبہ کی طرف رخ کرنا چاہیے۔ لوگوں کے چہرے شام کی طرف تھے۔ اسی وقت انہوں نے اپنے چہروں کو کعبہ کی طرف پھیرلیا۔“ [ رواہ البخاری : کتاب الصلاۃ، باب ماجاء فی القبلۃ .....] مسائل ١۔ نیکی کے کاموں میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنا چاہیے۔ ٢۔ لوگ جہاں کہیں بھی ہوں گے اللہ تعالیٰ انہیں اپنے پاس جمع کرلے گا۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ ذرّے ذرّے اور چپّے چپّے پر قادر ہے۔ تفسیر بالقرآن ہر امت کا قبلہ : ١۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھی قبلہ کی طرف منہ کرنے کا حکم ہے۔ (البقرۃ: ١٤٩) ٢۔ ہر امّت نے اپنے لیے ایک جہت مقرر کرلی ہے۔ (البقرۃ : ١٤٨) ٣۔ آدمی مسجد حرام میں ہو یا باہر اسے حالت نماز میں قبلہ کی طرف ہی منہ کرنا چاہیے۔ (البقرۃ: ١٤٤) البقرة
149 البقرة
150 فہم القرآن ربط کلام : گزشتہ سے پیوستہ : پہلے بھی بیان ہوا ہے کہ تحویل قبلہ معمولی اقدام نہیں تھا۔ اس لیے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تیسری مرتبہ اور صحابہ (رض) کو دوسری بار مخاطب کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے کہ تم نماز کے وقت جہاں کہیں ہوبہر حال اپنے چہروں کو مسجد حرام کی طرف پھیرلو۔ قرآن مجید میں صرف یہی ایسا مسئلہ ہے جس پر عمل درآمد کروانے کے لیے آپ کو تین بار حکم دیا گیا ہے۔ اس تاکید کے باوجود فرمان کے آخر میں مزید حکم دیا ہے کہ لوگوں سے ڈرنے کے بجائے صرف مجھ سے ڈرو۔ کیونکہ آدمی جب اللہ کا ڈر اپنے آپ میں پید اکرلیتا ہے تو پھر کسی کا خوف اس پر غلبہ نہیں پاسکتا۔ قبول حق اور اس کے ابلاغ کے لیے یہ بات شرط اول کی حیثیت رکھتی ہے کہ انسان صرف اپنے رب سے ڈرتا رہے۔ مسائل ١۔ اللہ ہی سے ڈرنا چاہیے۔ ٢۔ اللہ سے ڈرنے کی وجہ سے نعمتوں کا اتمام اور ہدایت نصیب ہوتی ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ سے ڈرنے کا حکم اور اس کا صلہ : ١۔ لوگ اللہ سے ڈرنے کے بجائے لوگوں سے زیادہ ڈرتے ہیں۔ (النساء : ٧٧) ٢۔ اللہ سے خلوت میں ڈرنے والے کے لیے جنت کی خوشخبری ہے۔ (یٰس : ١١) ٣۔ لوگوں سے ڈرنے کے بجائے اللہ سے ہی ڈرنا چاہیے۔ (آل عمران : ١٧٥) البقرة
151 فہم القرآن ربط کلام : خوف خدا کے بغیر آدمی نعمت ہدایت نہیں پاسکتا اور ہدایت کے لیے سنت رسول اور تعلیم نبوت لازم ہے۔ یہ فرد کی اصلاح اور قوموں کی فلاح کا راستہ ہے۔ اور یہی رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کا مقصد ہے۔ نبوّت کے مرکزی فرائض (1) تلاوت آیات : تلاوت سے مراد اللہ تعالیٰ کے ارشادات واحکامات سے لوگوں کو آگاہ کرنا ہے‘ قرآن مجید کے ظاہری و باطنی آداب بتلانا، اس پر عمل کرنے اور اس کا حکم دینے کے ساتھ ساتھ اس کی تلاوت کرنا اور تحفیظ القرآن کی ترغیب دینا ہے۔ (2) تعلیم : تعلیم سے مراد باقاعدہ قرآن مجید کے اسراروعلوم سمجھنا ہے۔ کیونکہ آدمی کسی علم میں مہارت اور اس کے حقیقی مطالب حاصل نہیں کرسکتا جب تک متعلقہ علم کے ماہر کے سامنے زانوئے تلمذ طے نہ کرے۔ یہ تو صرف اور صرف رسول کی شان ہوا کرتی ہے کہ وہ کسی آدمی سے علم سیکھنے کے بجائے اللہ تعالیٰ سے براہ راست علم اور معرفت حاصل کرتا ہے۔ لہٰذا نبی کے علاوہ ہر انسان اس بات کا محتاج ہے کہ وہ جو سیکھنا چاہتا ہے اس کے لیے متعلقہ استاد سے استفادہ کرے۔ جیسا کہ قرآن مجید نے وضاحت فرمائی ہے کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے براہ راست اپنے رب سے تعلیم پائی ورنہ آپ اس سے پہلے کچھ نہیں جانتے تھے۔ اسی کے بارے میں فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو وہ کچھ سکھلاتا ہے جو آپ پہلے نہیں جانتے تھے۔ جن لوگوں کا یہ دعو ٰی ہے کہ قرآن مجید کے بعد حدیث کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ وہ ایسی بات کہتے ہیں جس کی کسی زمانے میں بھی اہل عقل و فکر نے تائید نہیں فرمائی۔ کیونکہ محض کتاب کسی کے ہاتھ میں تھما دینے سے کوئی شخص ٹھیک ٹھیک اس سے استفادہ نہیں کرسکتا بے شک وہ اس کتاب کی زبان سے کتنا ہی واقف کیوں نہ ہو؟ اس حقیقت کو جاننے کے لیے آج بھی کسی انگریزی دان کو انجینئرنگ یا طبّ کے متعلق کوئی کتاب دے کر اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اس نے استاد کے بغیر طب اور انجینئرنگ میں کیا دسترس حاصل کی ہے اس لیے نبوت کے کار منصبی میں یہ فرض شامل ہے کہ نبی لوگوں کو باضابطہ طور پر کتاب اللہ کی تعلیم سے ہمکنار کرے تاکہ نبوت کا کام نسل در نسل چلتا رہے۔ لہٰذا رسول مقبول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تلاوت قرآن اور وعظ وخطاب کے ساتھ باقاعدہ طور پر مردوں کے لیے مسجد نبوی میں صفہ کے مقام پر اور خواتین کے لیے الگ تعلیم کا سلسلہ جاری فرمایا۔ ” ابو سعید خدری (رض) بیان کرتے ہیں ایک عورت نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے آکر کہا کہ مرد ہم سے تعلیم کی وجہ سے آگے بڑھ گئے ہیں‘ آپ ہمارے لیے بھی کوئی دن مقرر کریں جس میں آپ ہمیں وہ کچھ سکھائیں جو اللہ نے آپ کو سکھایا آپ نے فرمایا فلاں فلاں دن جمع ہوجایا کرو۔ آپ تشریف لا کر انہیں اللہ تعالیٰ کا بتلایا ہوا علم سکھلاتے۔“ [ رواہ البخاری : کتاب العلم، باب : ھل یجعل للنساء یوم علی حدۃ فی العلم] ” عَنْ اَنَسٍ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) طَلَبُ الْعِلْمِ فَرِیْضَۃُ ٗ عَلٰی کُلِّ مُسْلِمٍ“ [ مشکوۃ کتاب العلم] ” حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا علم حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے“ علم کی عظمت وفضیلت : علم وہ نعمت ہے جس سے ایک انسان ہی نہیں بلکہ حیوان بھی اپنی جنس میں ممتاز ہوجاتا ہے جیسا کہ کتے کی مثال ہے کہ اگر برتن چاٹ جائے تو اسے سات دفعہ دھونا ضروری قرار دیا گیا ہے لیکن اگر کتا سدھایا ہوا ہو تو اس کا پکڑا ہوا شکار حلال ہوتا ہے۔ (المائدۃ: ٤) بے شک انسان اشرف المخلوقات ہے لیکن تعلیم کے بغیر اندھا ہے۔ حضرت آدم (علیہ السلام) کا پہلا شرف علم ہی تھا جس کی وجہ سے انہوں نے ملائکہ پر برتری حاصل کی تھی۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کا آغاز ہی ” اِقْرَأ“ سے ہوا ہے۔ اس لیے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی امت کو زیور علم سے آراستہ کرنے کے لیے خصوصی توجہ فرمائی اور ان پڑھ قوم میں وہ علمی تحریک پیدا فرمائی کہ صحابہ کرام (رض) میں ایک شخص بھی ایسا نہ تھا جو اپنے بنیادی فرائض سے غافل اور ناواقف ہو۔ بے شک علوم میں سب سے اعلی اور دنیا وآخرت میں مفید ترین علم قرآن وسنت کا علم ہے لیکن قرآن و حدیث میں ہر اس علم کی حوصلہ افزائی پائی جاتی ہے جس سے انسانیت کو فائدہ پہنچے اس لیے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) علم میں اضافے کے لیے دعا کیا کرتے تھے ” رَبِّ زِدْنِیْ عِلْماً“ ” اے رب! میرے علم میں اضافہ فرما“ اور امت کو ہدایت فرمائی کہ اگر کسی کو قرآن وسنت کا ایک فرمان بھی یاد ہو تو اس کا فرض ہے کہ وہ اسے آگے پہنچائے گویا کہ قیامت تک یہ تحریک جاری رہے اور اس طرح دیے سے دیا جلتا رہنا چاہیے۔ (عَنْ مُّعَاوِےَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَنْ یُّرِدِ اللّٰہُ بِہٖ خَےْرًا یُّفَقِّھْہُ فِی الدِّےْنِ وَاِنَّمَا اَنَا قَاسِمٌ وَّاللّٰہُ ےُعْطِیْ) [ رواہ البخاری : کتاب العلم، باب من یرد اللہ بہ خیرا یفقہ فی الدین] ” حضرت معاویہ (رض) رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں کہ رسول مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ تعالیٰ جس شخص کے ساتھ خیر خواہی کرنا چاہتے ہیں اسے دین کی سمجھ عنا یت فرماتے ہیں میں تقسیم کرنے والاہوں اور اللہ مجھے عنایت فرمانے والا ہے۔“ (عَنِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لَا حَسَدَ اِلَّا فِی اثْنَےْنِ رَجُلٌ اٰتَاہ اللّٰہُ مَالًا فَسَلَّطَہُ عَلٰی ھَلَکَتِہٖ فِی الْحَقِّ وَرَجُلٌ اَتَاہ اللّٰہُ الْحِکْمَۃَ فَھُوَ ےَقْضِیْ بِھَا وَےُعَلِّمُھَا) [ رواہ البخاری : کتاب الزکوۃ، باب انفاق المال فی حقہ] ” حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں رسول مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا صرف دو آدمیوں پر رشک کرنا جائز ہے ایک وہ آدمی جسے اللہ تعالیٰ نے مال عنایت فرمایا اور اسے نیکی کے کاموں پر خرچ کرنے کی توفیق دی، دوسرا جس کو اللہ تعالیٰ نے دانشمندی عطاکی وہ اس کی روشنی میں فیصلے کرتا ہے اور لوگوں کو اس کی تعلیم دیتا ہے۔“ سلسلہ تعلیم کو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اصحاب نے وقت کے ساتھ ساتھ اس قدر وسعت سے ہمکنار کیا کہ امیر المومنین حضرت عمر فاروق (رض) نے مدارس ومساجد قائم کرنے کے ساتھ مملکت کے سول اور فوجی عہدے داران کو حکم دیا کہ وہ عوام اور فوج میں قرآن وسنت کی تعلیم کو عام کرنے کے لیے خصوصی اقدامات کریں۔ اس کوشش اور توجہ کا ثمرہ تھا کہ حضرت عمر (رض) نے جب فوجی افسروں کو خط لکھا کہ حفاظ کرام کی فہرست میرے پاس بھیجو تو حضرت سعد بن ابی وقاص (رض) نے جواب میں لکھا کہ صرف میری چھاؤنی میں تین سو حفاظ کرام موجود ہیں۔ (الفاروق) (3) تزکیۂ نفس : نفس مضمون اور علم کتنا ہی اہم اور اعلیٰ کیوں نہ ہو اس وقت تک اس کے مقاصد حاصل نہیں کیے جاسکتے جب تک اس کے مطابق تربیت کا انتظام نہ کیا جائے۔ تربیت کے لیے انفرادی اور اجتماعی ماحول کا ہونا ضروری ہے۔ فرد کی اصلاح کیے بغیر قوم کی اصلاح کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ تزکیہ نفس کے لیے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لوگوں کی انفرادی اصلاح بھی فرماتے اور اجتماعی بھی۔ تب جا کر ایک ایسی جمعیت معرض وجود میں آئی۔ جس کی مثال تاریخ میں پیش کرنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔ (4) حکمت : اہل لغت اور مفسرین نے حکمت کے معانی‘ فہم وفراست‘ علم وحلم‘ عدل وانصاف‘ حقیقت اور سچائی تک پہنچنا اور دین کی سمجھ حاصل کرنا بیان کیے ہیں۔ جب کہ اکثر اہل علم نے حکمت سے مراد رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سنت اور حدیث لی ہے۔ کیونکہ آپ کی ذات اطہر پر قرآن نازل ہوا اور آپ اللہ تعالیٰ کی منشاء کے مطابق اس کی تفسیر بیان کرنے والے ہیں۔ سنت سے واضح ہوتا ہے کہ قرآن کے اس لفظ کا کیا معنی ہے کیونکہ آپ نے اپنے ارشاد اور عمل سے قرآن کے احکامات کا حقیقی مفہوم واضح فرمایا ہے۔ پھر آپ کی سنت اور حدیث ہی سے ثابت ہوتا ہے کہ ایک فردا ورمعاشرے پر قرآن کا نفاذ کس طرح کرنا چاہیے؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہی دنیا کو عقل ودانش سے ہمکنار فرمایا۔ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا صرف یہی فرض نہیں تھا کہ آپ قرآن کی تلاوت، تبلیغ، تعلیم اور اللہ تعالیٰ کے ارشاد کی حکمت کا تعیّن فرمائیں بلکہ آپ نے قرآن مجید کی روشنی میں اپنے اسوۂ مبارکہ کے ذریعے قرآن مجید کے مقصود کو لوگوں کی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں اس طرح راسخ فرمایا جس سے لوگوں کے نظریات کی تطہیر ہوئی۔ اخلاق میں نکھار اور کردار میں سنوار پیدا ہوا۔ کل کے جاہل آج قوموں کے معلّم اور راہبر بنے، ماضی میں لوٹ مار کرنے والے لوگوں کی عزت ومال کے محافظ ہوئے۔ لہٰذا کسی بھی حقیقی انقلاب اور طریقۂ حکومت کے یہی چار بنیادی اصول ہیں‘ جن کے بغیر فرد اور معاشرے میں صحت مند اور جامع تبدیلی کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔ یہی اسلام کا وہ نظام تعلیم اور تزکیۂ نفس کا پروگرام ہے جس کو اختیار کرکے ہر شخص روحانی منازل طے کرسکتا ہے‘ اس میں نہ تصور شیخ کی گنجائش ہے اور نہ قبروں کے سامنے مراقبہ کرنے اور نہ غاروں میں چلّہ کشی کی ہی ضرورت ہے۔ جن لوگوں نے تزکیۂ نفس کے مختلف طریقے ایجاد اور اختیار کیے ہیں انہوں نے سنت کے خلاف راستہ اختیار کیا ہے۔ لہٰذا کتاب وسنت میں ایسے طریقوں اور تصوف کا کوئی تصور موجود نہیں ہے۔ مسائل ١۔ رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) انسانوں میں سے ہی ایک انسان تھے۔ ٢۔ رسول لوگوں کو اللہ تعالیٰ کے احکامات سناتا ہے۔ ٣۔ رسول لوگوں کی تربیت و تزکیہ نفس کرتا ہے۔ ٤۔ رسول تعلیم اور دانش مندی سکھاتا ہے۔ تفسیربالقرآن نبوت کے اغراض ومقاصد : ١۔ نبوت کے منصبی فرائض۔ (البقرۃ: ١٥١) ٢۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کتاب وحکمت کی تعلیم دینے کے لیے بھیجا گیا۔ (الجمعۃ: ٢) ٣۔ ابراہیم (علیہ السلام) کی دعاؤں میں ان فرائض کا تذکرہ موجود ہے۔ (البقرۃ: ١٢٩) ٤۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لوگوں کے بوجھ اتارنے اور غلامی سے چھڑانے کے لیے تشریف لائے۔ (الاعراف : ١٥٧) ٥۔ نبوت اللہ تعالیٰ کا مومنوں پر احسان عظیم ہے۔ (آل عمران : ١٦٤) ٦۔ آپ لوگوں کو خوشخبری دینے والے اور ڈرانے والے تھے (الاحزاب : ٤٥) ٧۔ آپ کو ہدایت کا سورج بنایا گیا۔ (الاحزاب : ٤٦) البقرة
152 فہم القرآن ربط کلام : نعمتوں کے بدلے اللہ تعالیٰ کا ذکر اور شکر کرنا چاہیے۔ بیت اللہ کو مرکز بنانا‘ امّتِ مسلمہ کو پیشوائی کے منصب پر فائز کرنا، تبدیلی سے قبل کی نمازوں کا اجر عطا فرمانا، بیت اللہ کی طرف رخ کرنے کا حکم دینے کے بجائے صرف اس سمت رخ کرنے کی سہولت عنایت فرمانا، نبی آخر الزماں (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صورت میں مہربان مربیّ اور عظیم قائد عطا فرما کر حکم دیا جارہا ہے کہ ہمیشہ مجھے یاد رکھنا اور میرے شکر گزار رہتے ہوئے میرے احکام کی بجاآوری کرتے رہنا کسی کا خیال اور خوف دل میں ہرگز نہ لانا تاکہ تمہیں ہدایت کے راستے پر استقامت اور مزید رہنمائی سے نوازا جائے۔ ذکر کی اہمیّت ذکر کی جامع تعریف یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے احکامات کی بجا آوری کے ساتھ اس کی ذات اور صفات پر کامل یقین رکھتے ہوئے اسے دل اور زبان کے ساتھ یاد رکھا جائے۔ تمام عبادات ذکر ہی کی مختلف شکلیں ہیں۔ لیکن ان کی ادائیگی کے بعد بھی حکم دیا گیا ہے کہ اپنے رب کو کثرت کے ساتھ یاد رکھاکرو‘ جب تم نماز پوری کرلو تو اٹھتے‘ بیٹھتے اور لیٹتے وقت اللہ کو یاد کیا کرو۔ (فَإِذَا قَضَیْتُمُ الصَّلٰوۃَ فَاذْکُرُوا اللّٰہَ قِیَامًا وَّقُعُوْدًا وَّعَلٰی جُنُوْبِکُمْج) [ النساء : ١٠٣] ” جب تم نماز ادا کر چکو تو کھڑے بیٹھے اور پہلوؤں پر اللہ کا ذکر کرو۔“ ذکر کی مختلف صورتیں : (اِنَّمَا جُعِلَ الطَّوَاف بالْبَیْتِ وَبَیْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَۃِ وَرَمْیُ الْجِمَارِ لِاِقَامَۃِ ذِکْرِ اللّٰہِ) [ رواہ أبو داوٗد : کتاب المناسک‘ باب فی الرمل] ” یقیناً ! بیت اللہ کا طواف‘ صفا ومروہ کی سعی اور شیاطین کو کنکریاں مارنا اللہ کا ذکر بلند کرنے کے لیے مقرر کیے گئے۔“ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَال اللّٰہُ تَعَالٰی أَنَا مَعَ عَبْدِیْ حَیْثُمَا ذَکَرَنِیْ وَتَحَرَّکَتْ بِیْ شَفَتَاہُ) [ رواہ البخاری : کتاب التوحید، باب قول اللہ تعالیٰ لاتحرک بہ لسانک الخ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں میں اپنے بندے کے ساتھ ہوتاہوں‘ وہ جہاں کہیں بھی میرا ذکر کرے اور اس کے ہونٹ میرے ذکر میں حرکت کریں۔“ فضیلت شکر یہاں شکر کے مقابلے میں کفر کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ جس کا معنیٰ ہے ناشکری اور ناقدری کرنا۔ گویا اللہ تعالیٰ کے احسانات اور نعمتوں کی ناقدری کرنے والا بالفعل کفر ہی کا ارتکاب کرتا ہے۔ شرف انسانیت کا تقاضا ہے کہ آدمی ہر حال میں اپنے رب کا شکر گزار بننے کی کوشش کرے۔ شکر رب سے مانگنے کا سلیقہ اور زوال نعمت سے محفوظ رہنے کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی مزید عنایات کا دروازہ کھولتا ہے۔ انسان شکر تبھی ادا کرتا ہے جب اس کے دل میں اپنے رب کی نعمتوں اور احسانات کا شعور اور احساس پیدا ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے دین کے کسی عمل کے بارے میں بیک وقت یہ نہیں فرمایا کہ اس کے کرنے سے تم عذاب سے محفوظ اور مزیدملنے کے حق دار بن جاؤ گے۔ صرف شکر ہی ایک ایسا عمل ہے جس کے بارے میں واضح طور پر فرمایا ہے : کہ تمہیں عذاب سے محفوظ رکھنے کے ساتھ مزید عنایات سے نوازا جائے گا۔ اس دوہرے انعام کی وجہ سے شیطان نے سر کشی اور بغاوت کی حدود پھاندتے ہوئے کہا تھا : (وَلَا تَجِدُ اَکْثَرَھُمْ شَاکِرِیْنَ) [ الأعراف : ١٧] ” اے رب تو ان میں سے اکثر کو شکر گزار نہیں پائے گا۔“ رسول گرامی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے معاذ بن جبل (رض) کو یہ دعا سکھلائی کہ اسے ہر نماز کے بعد پڑھا جائے۔ (أَللّٰھُمَّ أَعِنِّیْ عَلٰی ذِکْرِکَ وَشُکْرِکَ وَحُسْنِ عِبَادَتِکَ ) [ رواہ أبوداوٗد : کتاب الصلاۃ، باب فی الإستغفار] ” الٰہی ! اپنے ذکر، شکر اور بہترین طریقے سے عبادت پر میری مدد فرما۔“ مسائل ١۔ ذکر کرنے والے کو اللہ تعالیٰ ہر حال میں یاد رکھتا ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ کا ہر دم شکریہ ادا کرتے رہنا چاہئے۔ ٣۔ ناشکری کفر کے مترادف ہے۔ تفسیر بالقرآن شکر کی فضیلت : ١۔ اللہ تعالیٰ شکر گزار بندوں کا قدر دان ہے۔ (النساء : ١٤٧) ٢۔ شیطان کا مقصد انسان کو ناشکر ا بنانا ہے۔ (الاعراف : ١٧) ٣۔ اللہ تعالیٰ کے شکر گزار بندے تھوڑے ہی ہوا کرتے ہیں۔ (سبا : ١٣) ٤۔ اللہ تعالیٰ نے آنکھ‘ کان اور دل اس لیے دیئے ہیں کہ اس کا شکر ادا کیا جائے۔ (السجدۃ: ٩) ٥۔ شکر ادا کرنے والے کو مزید عطا کیا جاتا ہے۔ (ابراہیم : ٧) البقرة
153 فہم القرآن ربط کلام : ذکر اور شکر کی بہترین صورت نماز ہے۔ شکر سے اعراض اور نماز کا انکار کفر ہے۔ اگلی آیات میں شہادت اور مختلف قسم کی آزمائشوں کا آنا یقینی فرمایا ہے۔ لہٰذا آزمائشوں اور کفار کے پروپیگنڈہ سے گھبرانے کے بجائے پہلے نماز اور صبر کے ذریعے مدد مانگنے کا حکم دیا گیا ہے۔ صبر ایک ایسی اخلاقی قدر اور قوت ہے جو انسان کی منفی قوتوں پر کنٹرول اور مثبت صلاحیتوں کو جلا بخشنے کے ساتھ ان صلاحیتوں میں اضافہ بھی کرتی ہے۔ قرآن مجید نے صبر کا یہی معنی متعین فرمایا ہے۔ جناب موسیٰ (علیہ السلام) کی حضرت خضر (علیہ السلام) کے ساتھ گفتگو کے ضمن میں کئی بار یہ لفظ انہی معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ جب اللہ تعالیٰ کے حکم سے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) حضرت خضر (علیہ السلام) کے ساتھ کچھ معاملات کی حکمت جاننے کے لیے ان کے ہمسفر ہوئے تو انہوں نے کئی بار فرمایا کہ جناب موسیٰ ! آپ میرے معاملات پر حوصلہ نہیں کر پائیں گے۔ کلیم اللہ نے کہا کہ میں ہر ممکن کوشش کروں گا کہ میرے صبرکے بندھن ٹوٹنے نہ پائیں۔ گویا کہ صبر کا معنیٰ ہے اپنے آپ پر قابورکھنا اور مشکل کے وقت استقامت اختیار کرنا۔ تو اس طرح صبر اور استقامت کا تعلق آپس میں چولی دامن کا تعلق بنتا ہے۔ غریب آدمی صبر کا دامن چھوڑ دے تو وہ خود کشی کے لیے تیار ہوجاتا ہے۔ جو ان کے اندر صبر کی قوت کمزور ہوجائے تو اس سے بے حیائی کی ایسی حرکات ثابت ہوتی ہیں کہ ساری زندگی اسے پچھتاوا رہتا ہے۔ صاحب اقتدار آدمی صبر سے تہی دامن ہو تو وہ اپنے وقت کا فرعون ثابت ہوتا ہے۔ اس کے برعکس یہی لوگ صبر وحوصلہ کا مظاہرہ کریں تو زندگی ان کے لیے آسان ہوجاتی ہے۔ بہادر اور بااختیار شخص حوصلہ سے کام لے تو کمزوروں کے لیے اللہ کی رحمت ثابت ہوتا ہے۔ قرآن مجید نے زندگی کے ہر موڑ پر صبر وحوصلے کا حکم دیا اور اللہ تعالیٰ نے اپنی دستگیری کی خوشخبری دی ہے۔ صبر کے لیے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یوں مخاطب کیا گیا : (وَاصْبِرْ عَلٰی مَا یَقُوْلُوْنَ وَاھْجُرْھُمْ ھَجْرًا جَمِیْلًا) [ المزمل : ١٠] ” لوگوں کی دل آزار باتوں پر صبر کرتے ہوئے انہیں اچھے انداز سے چھوڑ دیجیے۔“ (وَلَءِنْ صَبَرْتُمْ لَھُوَ خَیْرٌ لِّلصَّابِرِیْنَ) [ النحل : ١٢٦] ” صبر کا رویّہ اختیار کرو یہ بہترین انجام کی ضمانت ہے۔“ (اِنَّمَا یُوَفَّی الصّٰبِرُوْنَ اَجْرَہُمْ بِغَیْرِ حِسَابٍ) [ الزمر : ١٠] ” صبر کرنے والوں کو ہی بغیر حساب کے پورا پورا اجر دیا جائے گا۔“ یہاں اللہ تعالیٰ کی نصرت وحمایت کے حصول کے لیے دوسرا مؤثر ذریعہ نماز قرار دی گئی ہے۔ اگر آدمی نماز کو صحیح انداز میں ادا کرتے ہوئے یہ تصور قائم کرلے کہ میں مشفق ومہربان آقا کے حضور درخواست گزارہوں اور وہی میری روح کے کرب کو جانتا اور میرے دکھوں کا مداوا کرسکتا ہے تو انسان کا غم فوری طور پر ہلکا ہوجاتا ہے۔ اسی بنا پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرمایا کرتے تھے : مجھے نماز میں سکون ملتا ہے اور آپ ہر مشکل وقت مصلّے کی طرف لوٹا کرتے تھے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) بھی زندگی کے نازک مراحل میں نماز کے ذریعے ہی اللہ تعالیٰ کی نصرت وحمایت طلب کیا کرتے تھے۔ (1) (جُعِلَتْ قُرَّۃُ عَیْنِیْ فِی الصَّلٰوۃِ )[ رواہ النسائی : کتاب عشرۃ النساء، باب حب النساء] ” نماز میں میری آنکھوں کے لیے ٹھنڈک ہے۔“ (2) (یَابِلَالُ ! اَرِحْنَا بالصَّلَاۃِ) [ مسند أحمد : کتاب باقی مسند الانصار، باب أحادیث رجال من أصحاب النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ] ” اے بلال ! نماز کے ذریعے ہمیں سکون پہنچاؤ۔“ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور نماز (3) (فَلَمَّا دَخَلَ أَرْضَہٗ رَاٰھَا بَعْضُ أَھْلِ الْجَبَّارِ أَتَاہُ فَقَالَ لَہٗ لَقَدْ قَدِمَتْ أَرْضَکَ امْرَأَۃٌ لَا یَنْبَغِیْ لَھَا أَنْ تَکُوْنَ إِلَّا لَکَ فَأَرْسَلَ إِلَیْھَا فَأُتِیَ بِھَا فَقَامَ إِبْرَاھِیْمُ إِلَی الصَّلَاۃِ فَلَمَّا دَخَلَتْ عَلَیْہِ لَمْ یَتَمَالَکْ أَنْ بَسَطَ یَدَہٗ إِلَیْھَا قُبِضَتْ یَدُہٗ قَبْضَۃً شَدِیْدَۃً فَقَالَ لَھَا ادْعِی اللّٰہَ أَنْ یُطْلِقَ یَدِیْ وَلَا اَضُرُّکِ فَفَعَلَتْ فَعَادَ فُقُبِضَتْ أَشَدَّ مِنَ الْقَبْضَۃِ الْأُوْلٰٰی فَقَالَ لَھَا مِثْلَ ذٰلِکَ فَفَعَلَتْ فَعَادَ فَقُبِضَتْ أَشَدَّ مِنَ الْقَبْضَتَیْنِ الْأُوْلَیَیْنِ فَقَالَ ادْعِی اللّٰہَ أَنْ یُطْلِقَ یَدِیْ فَلَکِ اللّٰہُ أَنْ لَّاأَضُرَّکِ فَفَعَلَتْ وَأُطْلِقَتْ یَدُہٗ وَدَعَا الَّذِیْ جَاءَ بِھَا فَقَالَ لَہٗ إِنَّکَ إِنَّمَا أَتَیْتَنِیْ بِشَیْطَانٍ وَلَمْ تَأْتِنِیْ بِإِنْسَانٍ فَأَخْرِجْھَا مِنْ أَرْضِیْ وَأَعْطِھَا ھَاجَرَ قَالَ فَأَقْبَلَتْ تَمْشِیْ فَلَمَّا رَاٰھَا إِبْرَاہِیْمُ ( علیہ السلام) انْصَرَفَ فَقَالَ لَھَا مَیْھَمْ قَالَتْ خَیْرًا کَفَّ اللّٰہُ یَدَ الْفَاجِرِوَأَخْدَمَ خَادِمًا) [ رواہ مسلم : کتاب الفضائل، باب من فضائل إبراھیم الخلیل (علیہ السلام) ] ” جب ابراہیم اس جابر بادشاہ کی سرزمین میں داخل ہوئے تو بادشاہ کے کارندے نے انہیں دیکھ کر بادشاہ سے کہا کہ آپ کے علاقے میں ایک عورت آئی ہے جو صرف آپ کے پاس ہی ہونی چاہیے۔ بادشاہ نے اپنا اہلکار بھیج کر اسے منگوایاتو ابراہیم (علیہ السلام) نے نماز شروع کردی۔ حضرت سارہ[ جب اس کے پاس گئیں تو اس نے ان کی طرف اپنا ہاتھ بڑھایا لیکن بادشاہ کا ہاتھ سختی سے پکڑ لیا گیا۔ اس نے حضرت سارہ[ سے کہا کہ : اللہ تعالیٰ سے دعا کرو کہ میرا ہاتھ چھوڑ دیا جائے۔ میں دوبارہ یہ حرکت نہیں کروں گا۔ ہاتھ چھوڑدیا گیا تو اس نے دوبارہ دست درازی کی کوشش کی لیکن ہاتھ پہلے سے زیادہ سختی سے پکڑ لیا گیا۔ پھر اس نے ہاتھ چھڑانے کے لیے اللہ سے دعا کروائی اور وعدہ کیا کہ اب ایسے نہ کروں گا تو ہاتھ چھوڑ دیا گیا۔ تیسری دفعہ پھر اس نے ہاتھ بڑھایا تو ہاتھ پہلے سے زیادہ مضبوطی کے ساتھ پکڑ لیا گیا۔ اب پھر اس نے حضرت سارہ[ سے دعا کے لیے کہا کہ اللہ کی قسم! میرا ہاتھ چھوٹ جائے تو میں تیرے ساتھ زیادتی نہیں کروں گا۔ حضرت سارہ[ کی دعا پر ہاتھ چھوڑ دیا گیا۔ بادشاہ نے اس اہلکار کو بلاکر کہا کہ : تو میرے پاس انسان کے بجائے کوئی شیطان لے آیا ہے۔ اسے میری سرزمین سے جانے دیجیے اور اسے ہاجرہ بھی ساتھ دے دیجیے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے جب سارہ[ کو آتے ہوئے دیکھا تو نماز کے بعد خیریت پوچھی۔ انہوں نے جواب دیا کہ اللہ تعالیٰ نے اس فاجر کے ہاتھوں کو روک لیا اور میں سلامت رہی، اس نے ایک خادمہ خدمت کے لیے مجھے دی ہے۔“ (عَنِ ابْنِ عُمَرَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) الْمُؤْمِنُ الَّذِیْ یُخَالِطُ النَّاسَ وَیَصْبِرُ عَلٰی أَذَاھُمْ أَعْظَمُ أَجْرًا مِّنَ الْمُؤْمِنِ الَّذِیْ لَایُخَالِطُ النَّاسَ وَلَا یَصْبِرُ عَلٰی أَذَاھُمْ) [ رواہ ابن ماجۃ: کتاب الفتن، باب الصبر علی البلاء] ” حضرت عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جو مومن لوگوں کے ساتھ مل جل کر رہتا ہے اور ان کی طرف سے پہنچنے والی تکلیفوں پر صبر کرتا ہے وہ اس مومن سے زیادہ اجر والا ہے جو نہ لوگوں میں گھل مل کررہتا ہے اور نہ ان کی دی ہوئی تکلیفوں پر صبر کرتا ہے۔“ مسائل ١۔ صبر اور نماز کے ذریعے اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کرنا چاہیے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ مستقل مزاج اور صبر کرنے والوں کی دستگیری فرماتا ہے۔ تفسیربالقرآن صبر کی اہمیت اور اجر : ا۔ صبر اہم کاموں میں اہم ترین کام ہے۔ (الاحقاف : ٣٥) ٢۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو صبر کا حکم دیا گیا۔ (المعارج : ٥) ٣۔ اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ (البقرۃ : ١٥٣) ٤۔ صبر کا انجام اچھا ہوتا ہے۔ (الحجرات : ٥) ٥۔ صبر کرنے والے کامیاب ہوں گے۔ (المومنون : ١١١) ٦۔ مسلمان صابر کی آخرت اچھی ہوگی۔ (الرعد : ٢٤) ٧۔ صبر کرنے والوں کو جنت میں سلامتی کی دعائیں دی جائیں گی۔ (الفرقان : ٧٥) ٨۔ صابر بغیر حساب کے جنت میں جائیں گے۔ (الزمر : ١٠) البقرة
154 فہم القرآن ربط کلام : شہادت کے وقت صبر کرنا کیونکہ یہ فوت ہونے والے اور لواحقین کے لیے بہت بڑی آزمائش ہوتی ہے۔ شہداء کے مرتبہ ومقام، ان کے عظیم اور مقدس مشن کی بنا پر اللہ تعالیٰ نے ان کے نام کو عزت وتکریم دیتے ہوئے حکم دیا ہے کہ جن لوگوں نے میرے راستے میں اپنے جسم کے ٹکڑے کروائے اور اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا ان کو مردہ شمار کرنے کے بجائے زندہ وجاوید تصور کیا جائے۔ بظاہر ان کے گرامی قدر وجود دنیاۓ فانی سے دار جاودانی میں منتقل ہوچکے ہیں۔ لیکن وہ اپنی بے مثال غیرت ایمانی اور قربانی کی وجہ سے اپنی قوم اور معاشرے میں یاد رکھے جائیں گے۔ کیونکہ ان کی موت سے قوم میں زندگی کا نیا جذبہ، جوش اور ولولۂ ایمان پیدا ہوتا ہے۔ جس سے یہ محاورہ زبان زد عام ہوا ” شہید کی جو موت ہے وہ قوم کی حیات ہے“ یہ جوانمرد اپنی جانیں نچھاور کرکے قوم کی عزت، بہوبیٹیوں کی عفت، ملک کی حفاظت اور اسلام کی عظمت کے رکھوالے ثابت ہوئے ہیں۔ ایسے جانفروشوں، فداکاروں اور جرأت وبہادری کی داستانیں رقم کرنے والوں کو غیرت خدا وندی گوارا نہیں کرتی کہ انہیں مردہ کے لفظ سے پکارا جائے۔ بلکہ ان کا نام اور کام نسلوں تک باقی رہتا ہے۔ تاریخ کے اوراق میں ان کے نام اور کام کی ہر وقت زیارت کی جاسکتی ہے۔ شہدائے بدر و احد سے لے کر آج تک شہید ہونے والے خوش بختوں کے جب بھی نام لیے جاتے ہیں تو دل میں احترام ومقام تازہ ہونے کے ساتھ ان کی عظیم شہادت کی وجہ سے آدمی کا خون کھول اٹھتا ہے۔ مسلمان چشم تصور میں تاریخ کا مطالعہ کرتا ہے تو رات کی تاریکی میں بستر پر لیٹے ہونے کے باوجود اس کا دل میدان کارزار میں پہنچنے کے لیے تڑپ اٹھتا ہے۔ یہی وہ سرمایۂ حیات ہے جس بنا پر انہیں مردہ کہنے کی بجائے شہید کے عظیم اور مقدس لقب سے ملقب فرمایا گیا ہے۔ جہاں تک دنیاوی زندگی کا معاملہ ہے وہ اس طرح ہی اس دنیا سے رخصت ہوچکے ہیں جس طرح طبعی موت سے آدمی اس دنیا سے دار آخرت کی طرف رخت سفر باندھتا ہے۔ اسی وجہ سے شہداء کی بیوگان کو آگے نکاح کرنے کی اجازت اور ان کی وراثت اسلامی قانون وراثت کے تحت ہی تقسیم ہوا کرتی ہے۔ اس بنیاد پر اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں واضح کیا ہے کہ ان کی زندگی کے بارے میں خود ساختہ تصورات اور کسی قسم کی قیل وقال سے پرہیز کرنا چاہیے۔ جہاں تک عالم برزخ میں جسد خاکی کی بقا کا معاملہ ہے تو انبیائے عظام کے اجسام مطہرہ کے بارے میں گارنٹی موجود ہے‘ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشادِگرامی ہے : (إِنَّ اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ حَرَّ مَ عَلَی الْأَرْضِ أَنْ تَأْکُلَ أَجْسَادَ الْأَنْبِیَاءِ) [ رواہ أبو داوٗد : کتاب الصلوۃ، باب فصل یوم الجمعۃ ولیلۃ الجمعۃ]” یقینًا اللہ عزوجل نے زمین پر انبیاء کا جسم کھانا حرام کردیا ہے۔“ شہداء کے جسد خاکی کے بارے میں قرآن و حدیث میں کوئی مستقل ضابطہ موجود نہیں۔ البتہ جس کے لیے اللہ چاہے اس کے وجود کو سلامت رکھتا ہے۔ جس کی تاریخ میں کئی مثالیں موجود ہیں۔ اس حقیقت کے باوجود بعض لوگوں نے اپنے فرسودہ عقائد کو تقویت اور دنیاوی مفادات کے تحفظ کے لیے ان کی حیات اخروی کو دنیا کی زندگانی سے مماثل کرنے کی بے معنی کوشش کی ہے۔ جن میں عصر حاضر کے ایک مفسر تفسیر مظہری کے حوالے سے یوں رقمطراز ہیں : قلت بل معیۃ غیر متکیفۃ یتضح علی العارفین۔ یعنی اس سنگت سے وہ خاص سنگت مراد ہے جس کی کیفیت بیان نہیں ہوسکتی۔ صرف عارف ہی اس کو سمجھ سکتے ہیں۔ (ضیاء القرآن) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے شہید کی زندگی کے بارے میں یوں فرمایا : (عَنْ عَاءِشَۃَ (رض) قَالَتْ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لِجَابِرٍ یَاجَابِرُ أَلَاأُبَشِّرُکَ قَالَ بَلٰی بَشِّرْنِیْ بَشَّرَکَ اللّٰہُ بالْخَیْرِ قَالَ أَشَعَرْتَ أَنَّ اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ أَحْیَاأَبَاکَ فَأَقْعَدَہٗ بَیْنَ یَدَیْہِ فَقَالَ تَمَنَّ عَلَیَّ عَبْدِیْ مَاشِءْتَ أُعْطِکَہٗ فَقَالَ یَارَبِّ مَاعَبَدْتُّکَ حَقَّ عِبَادَتِکَ أَتَمَنّٰیْ عَلَیْکَ أَنْ تَرُدَّنِیْ إِلَی الدُّنْیَا فَأُقَاتِلُ مَعَ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَرَّۃً أُخْرٰی فَقَالَ سَبَقَ مِنِّیْ إِنَّکَ إِلَیْھَا لَاتَرْجِعُ) [ المستدرک علی الصحیحین : ٣/٢٢٣] ” حضرت عائشہ (رض) بیان کرتیہیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت جابر (رض) سے فرمایا جابر! کیا میں تجھے بشارت نہ دوں؟ انہوں نے عرض کی کیوں نہیں! اللہ آپ کو بہتری اور خیر کی بشارت دے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تجھے معلوم ہے کہ اللہ نے تمہارے والد کو زندہ کرکے اپنے سامنے بٹھاکر فرمایا کہ میرے بندے تو جو چاہتا ہے مجھ سے تمنا کر میں تجھے عطا کروں گا۔ انہوں نے عرض کی : اے میرے پروردگار ! میں نے تیری عبادت کا حق ادا نہیں کیا میں تمنا کرتاہوں کہ آپ مجھے دنیا میں بھیج دیں تاکہ میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ مل کر قتال کروں اور پھر تیری راہ میں شہید ہوں اللہ تعالیٰ نے جوابًا فرمایا : میرا فیصلہ ہوچکا ہے کہ تودنیا میں دوبارہ نہیں جائے گا۔“ مسائل ١۔ شہداء کو مردہ نہیں کہنا چاہیے۔ ٢۔ شہداء کی زندگی ہمارے علم سے باہر ہے۔ تفسیربالقرآن شہداء کا مقام وزندگی : ١۔ اللہ کے راستے میں شہید ہونے والے زندہ ہیں۔ (البقرۃ: ١٥٤) ٢۔ شہداء اللہ کے ہاں رزق پاتے ہیں۔ (آل عمران : ١٦٩) ٣۔ شہداء اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ نعمتوں پر راضی ہیں۔ (آل عمران : ١٧٠) ٤۔ شہداء اپنے لواحقین کو خوشخبری کا پیغام دیتے ہیں۔ (آل عمران : ١٧٠) البقرة
155 فہم القرآن ربط کلام : غم اور آزمائش کی مختلف صورتیں۔ اسلام کے اوصاف حمیدہ میں یہ وصف بھی شامل ہے کہ وہ اپنے ماننے والوں کو کسی مبالغہ آمیزی اور خوش فہمی کا شکار نہیں ہونے دیتا کہ جو نہی تم اپنی زبان سے کلمہ ادا کرو گے تو بہاریں لوٹنے کے ساتھ ہر قسم کی کامیابیاں تمہارے دامن میں سمٹ آئیں گی۔ اسلام اور کسی نظریے کی تاریخ بھی اس بات کی تائید نہیں کرتی کہ جو نہی کسی نے اسے قبول کیا تو ان کے لیے نعمتوں اور سہولتوں کے دروازے کھل گئے ہوں۔ اس کے برعکس یہ ہوا کرتا ہے کہ تحریک کے ابتدائی معاون بیش بہا قربانیاں پیش کیا کرتے ہیں۔ اگر یہ لوگ اپنے اصولوں پر قائم رہتے ہوئے صبر واستقامت کا مظاہرہ کریں تو ایک وقت آیا کرتا ہے کہ اسی یا آئندہ نسل کے لیے دنیا میں آسانیوں کے راستے ہموار ہوجایا کرتے ہیں۔ شدید کشمکش اور قربانیوں سے پہلے ان سہولتوں کا تصور کرنا خوش فہمیوں کی جنت میں رہنے کے مترادف ہے۔ ایسی ہی صورت حال کے پیش نظر یہاں تحویل قبلہ کے احکامات کے دوران شہادتوں اور آزمائشوں کا ذکر کیا گیا ہے کہ ترک وطن اور جانی قربانیوں کے ساتھ دشمن کا خوف، غربت وافلاس، مال ودولت کی کمی، اعزاء و اقرباء کی جدائی، موت کی صورت میں ہو یا ہجرت کی شکل میں اور اناج کی کمی سے تمہیں آزمایا جائے گا۔ یہاں پہلے شہادت کا ذکر فرما کر یہ تصوّر دیا کہ اللہ کے بندے جان کی پروا نہیں کرتے لہٰذا ان کے لیے دنیا کا مال ومتاع کیا حیثیت رکھتا ہے گویا کہ بڑی آزمائشوں سے گزرنے والے چھوٹی چھوٹی آزمائشوں سے نہیں گھبرایا کرتے۔ صحابہ کرام (رض) کو فتح مکہ تک پے درپے تمام امتحانات اور آزمائشوں سے گزارا گیا اور وہ ہر امتحان میں سرخرو ہوئے تب جا کر ان کے لیے کامیابیوں کے دروازے کھول دیئے گئے۔ آزمائش زندگی کا جز ولاینفک ہے‘ بالخصوص دین اسلام کی سر بلندی کے لیے یہ اس قدر اہم اور ضروری ہے کہ اس کے لیے دو حرف تاکید استعمال کیے گئے ہیں۔ عربی کے طلبہ جانتے ہیں کہ جب بیک وقت لام مفتوح اور تشدید کے ساتھ نون آئے تو یہ تاکید مزید کا پتہ دیتے ہیں۔ جس کا مفہوم یہ ہوا کہ آزمائش کے کربناک مراحل سے تمہیں ہر حال میں گزرنا ہوگا۔ اسی بات کو قرآن مجید نے دوسرے انداز اور الفاظ میں یوں بیان فرمایا ہے : ” کیا لوگوں نے یہ سمجھ لیا ہے کہ ” اٰمَنَّا“ کہہ کر انہیں چھوڑ دیا جائے گا اور آزمائش میں مبتلا نہ کیے جائیں گے؟ ہم نے ان سے پہلوں کو بھی آزمایا تھا۔ اللہ تعالیٰ سچوں اور جھوٹوں کو ضرور دیکھ لے گا۔“ [ العنکبوت : ٢، ٣] یاد رکھیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے آزمائش مومن کو ذلیل کرنے کے لیے نہیں آتی بلکہ آزمائش انسان کی خوابیدہ صلاحیتیں ابھارنے اور آخرت میں اس کے مراتب میں اضافہ کرنے کے لیے ہوتی ہے۔ دنیا میں مجرموں کے لیے مثال بنتی ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کی نعمتوں سے لطف اندوز ہو کر بھی اپنے رب کے احسان مند اور شکر گزار بننے کے لیے تیار نہیں ہو جب کہ اس کے بندے نعمتیں چھنوا کر بھی اس کے حضور صبروشکر کا مظاہرہ کیے ہوئے ہیں۔ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرمایا گیا ہے کہ آپ ایسے صبر و حوصلہ کرنے والوں کو دنیا اور آخرت میں مسرت وشادمانی کا پیغام دیجیے۔ کیونکہ یہ آزمائش کے وقت سر پیٹنے اور واویلا کرنے کے بجائے یہ کہہ کر اپنے آپ کو مطمئن اور حوصلہ دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ چھننے والی نعمت کیا چیز ہے ہماری جان عزیز بھی رب کریم کی امانت ہے۔ یہ نعمت تو آج مجھ سے رخصت ہورہی ہے جب کہ مقررہ وقت پر میں نے بھی اسی کے حضور لوٹنا ہے۔ صبر وہ نیکی ہے کہ آدمی کو جب بھی سابقہ تکلیف یاد آئے اور اس پر ” اِنَّا لِلّٰہِ“ کے الفاظ ادا کرے۔ اس کو پہلے کی طرح اجرِعظیم سے نوازاجائے گا۔ [ رواہ مسلم : کتاب الجنائز، باب مایقال عند المصیبۃ] مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ لوگوں کو خوف، غربت، مال کی کمی، پیاروں کی موت اور رزق کی قلّت کے ساتھ آزماتا ہے۔ ٢۔ مصائب پر صبر کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ خوشخبری کا پیغام دیتا ہے۔ ٣۔ مصیبت کے وقت ” اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ“ پڑھنا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن آزمائش : ١۔ ایمان کے لیے آزمائش شرط ہے۔ (العنکبوت : ٢) ٢۔ اللہ نے پہلے لوگوں کو بھی آزمایا۔ (البقرۃ : ٢١٤) ٣۔ آزمائش میں ثابت قدمی کے بعد اللہ کی مدد یقینی اور قریب ہوا کرتی ہے۔ (البقرۃ: ٢١٤) ٤۔ جنت میں داخلے کے لیے آزمائش ضرور ہوتی ہے۔ (آل عمران : ١٤٢) البقرة
156 البقرة
157 فہم القرآن ربط کلام : صبروشکر اور ہر حال میں اللہ تعالیٰ کو یاد کرنے‘ مشکل وقت میں اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کرنیوالے اور مصائب میں جزع‘ فزع کرنے کی بجائے اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ پڑھنے والے اللہ تعالیٰ کی رحمتوں اور ہدایت کے حق دار ٹھہرتے ہیں۔ صبر کا معنی ہے کہ آدمی مصیبت کے وقت اپنے آپ پر قابو پائے اور ہر حال میں اپنے آپ کو شریعت کا پابند رکھے۔ جب کوئی اپنے آپ کو رب کی رضا اور اس کے احکام کے تابع رکھ کر آزمائش میں ثابت قدم رہتا ہے تو اس کے صلہ میں وہ رب کی رحمت اور عنایات کا حق دار ٹھہرتا ہے۔ اللہ کی رحمت وعنایات کے مستحق لوگ ہی ہدایت یافتہ قرار پاتے ہیں۔ کیونکہ اس فرمان سے قبل نعمتوں کا چھن جانا، جگر گوشوں کی جدائی اور آزمائشوں سے دوچار ہونا یقینی امر قرار دیا ہے۔ ان کی تلافی اور مومنوں کی تسلی کے لیے صلوات اور رحمت کے نزول کا اطمینان دلایا جارہا ہے۔ عنایات سے مرادیہاں چھن جانے والی نعمتوں اور سہولتوں کی تلافی ہوگی اور رحمت سے نعمتوں میں استقرار اور ان کی وسعتوں میں اضافہ ہوگا۔ رب کریم کی رحمت سے سوکھی ہوئی کھیتیاں سرسبز وشاداب، ویران بستیاں آباد و بارونق، پریشان و پشیمان دل ایقان واطمینان کا گہوارہ اور گناہوں سے آلودہ دامن پاک وشفاف ہوجاتے ہیں۔ یہ اس کی رحمت ہی تو تھی جس نے حضرت ایوب (علیہ السلام) کو دوبارہ اولاد، مال اور صحت وتندرستی سے نوازا تھا۔ اس بے پایاں رحمت وعنایات کا ہی صلہ تھا کہ صحابہ کرام (رض) نے جھونپڑیاں چھوڑیں اور مکانات کے مالک بنے، معمولی مال چھوڑا تو اس کے بدلے میں دولت کے انبار نصیب ہوئے، دین کی خاطر دنیا کی نظر میں عارضی طور پر خفت اٹھانی پڑی تو اس کے بدلے میں عزت وعظمت کے اعلیٰ مقام پر فائز ہوئے۔ مکہ چھوڑا تو دنیا کے حکمران قرار پائے۔ دنیا و آخرت کی نعمتیں، سہولتیں، عزتیں اور رفعتیں اللہ کی رحمت کا پر تو ہیں۔ اسی بنا پر سرور دوعالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ دعا کیا کرتے تھے : (اَللّٰھُمَّ رَحْمَتَکَ اَرْجُوْ فَلَا تَکِلْنِیْ اِلٰی نَفْسِیْ طَرْفَۃَ عَیْنٍ وَّاَصْلِحْ لِیْ شَأْنِیْ کُلَّہٗ لَآ اِلٰہَ اِلَّآ اَنْتَ) [ رواہ أبوداوٗد : کتاب الأدب، باب مایقول إذا أصبح] ” اے اللہ! میں تیری رحمت کا امید وار ہوں مجھے لمحہ بھر بھی میرے نفس کے سپرد نہ کرنا، میرے تمام کاموں کو سنوارنا‘ تیرے سوا کوئی معبودِ حق نہیں۔“ مسائل ١۔ صاحب ایمان، مستقل مزاج اور صابر لوگوں پر اللہ کا فضل و کرم اور ان کو مزید ہدایت سے نوازا جاتا ہے۔ البقرة
158 فہم القرآن ربط کلام : پارے کی ابتدا سے تحویل قبلہ کا بیان ہورہا ہے۔ اس دوران زندگی میں پیش آنے والی مشکلات پر ثابت قدم رہنے والوں کو خوشخبری سنائی گئی۔ اب صفا ومروہ کی سعی کے حوالے سے گذشتہ مضمون سے پیوستہ کردیا گیا ہے۔ اسلام سے قبل اہل مکہ کے چار بڑے بت تھے جنّ میں سے ہبل کو بیت اللہ میں رکھا گیا اور مناۃ بحر احمر کے کنارے اور لات کو شہر طائف میں رکھا گیا۔ جب کہ عزی کو وادئ نخلہ میں نصب کیا گیا تھا۔ صفا اور مروہ کی دو مقدس پہاڑیوں پر اسا ف اور نائلہ کے بت رکھے گئے تھے۔ اہل مکہ چونکہ اساف اور نائلہ کو خدائی اوتار تسلیم نہیں کرتے تھے‘ جس کی وجہ سے مناۃ کے ماننے والے صفا اور مروہ کی سعی سے گریز کرتے تھے۔ دین اسلام کی آمد پر مسلمانوں کے دلوں میں یہ وہم پیدا ہوا کہ کہیں صفا اور مروہ کی سعی شرک کے زمرہ میں تو نہیں آتی؟ اس تصور کی نفی کرتے ہوئے فرمایا گیا کہ اے مسلمانو! انشراح صدر کے ساتھ صفا اور مروہ کی سعی کیا کرو کیونکہ یہ دونوں شعائر اللہ میں شامل ہیں۔ ان کے درمیان کی جانے والی سعی کا شرکیہ اعمال کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ یہ تو تمہاری والدۂ ماجدہ حضرت ہاجرہ کے توَکل عَلَی اللّٰہِ اور بے بسی کے عالم میں ان کے گھومنے کا مقام اور ترجمان ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے شرف قبولیت سے نوازتے ہوئے شعائر اللہ میں سے شمار فرمایا ہے۔ ” شَعَاءِرْ“ شعار کی جمع ہے جس کا معنی ہے کہ ایسی جگہ یا نشانی جس سے اللہ تعالیٰ کی طرف انسان کی راہنمائی ہوتی ہو۔ اس لیے شعائر اللہ کی تعظیم کرنا درحقیقت اللہ تعالیٰ کی ذات کا احترام کرنا اور اس کا تقو ٰی قرار پایا ہے۔ لہٰذا ان کی سعی میں کوئی حرج کی بات نہیں۔ یا در کھیے! جو شخص بھی دل کی گہرائی کے ساتھ نیکی کرے گا‘ اللہ تعالیٰ اس کی نیکی کو جاننے اور اس کی قدر افزائی فرمانے والاہے۔ دنیا میں بڑے بڑے پہاڑ اپنی بلندی اور فلک بوسی کے اعتبار سے مشہور ہیں‘ ان میں مر مر اور یاقوت وعقیق بھی پائے جاتے ہیں‘ صفا اور مروہ بظاہر معمولی پہاڑیاں ہیں مگر احترام واکرام اور نیکی کے اعتبار سے اپنے دامن میں ایک تاریخی پس منظر اور شعائر اللہ کا تقدس لیے ہوئے ہیں۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اللہ کے حکم سے حضرت ہاجرہ [ کو یہاں چھوڑ کر جانے لگے تو انہوں نے عرض کیا کہ میرے سرتاج مجھ سے کوئی گستاخی ہوئی ہے یا اللہ کا حکم اس طرح ہے؟ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمایا : کہ اللہ کا حکم سمجھ کر اسے تسلیم کیجیے۔ تب حضرت ہاجرہ [ عرض کرتی ہیں کہ آپ مطمئن ہو کر تشریف لے جائیں : اِذًا لَا یُضَیِّعَنَا اللّٰہُ ” پھر ہمیں اللہ تعالیٰ ضائع نہیں ہونے دے گا۔“ [ رواہ البخاری : کتاب أحادیث الأنبیاء، باب قول اللّٰہِ تعالیٰ واتخذ اللّٰہُ إبراھیم خلیلا] غور فرمائیں! میلوں پھیلے ہوئے فلک بوس پہاڑ، بے آب وگیاہ سنگلاخ زمین اور دوردور تک انسانی زندگی کے لیے ضروری اسباب ووسائل کا فقدان ہونے کے باوجود کائنات کی عظیم ترین خاتون نے ایک ایسا جملہ ادا فرمایا جو اپنے اندر زمین و آسمان کی وسعتیں اور پہاڑوں سے زیادہ وزن لیے ہوئے ہے۔ اسی عقیدہ کی یاد دہانی اور مشکل ترین حالات میں اللہ پر توکل کرنے اور آزمائش میں ثابت قدمی کا سبق یاد دلانے کے لیے صفا ومروہ کی سعی کا حکم دیا گیا ہے۔ قرآن مجید نے صفا اور مروہ کے درمیان دوڑنے کو طواف سے تعبیر فرمایا ہے۔ لیکن حدیث رسول میں اس کے لیے سعی کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ تاکہ طواف سے لوگوں کو یہ غلط فہمی نہ پید اہو جائے کہ صفا سے صفا تک ایک چکر بنتا ہے۔ بلکہ آپ نے صفا سے مروہ تک ایک جانب کو ایک چکر شمار کیا ہے اس طرح یہ سعی مروہ پر مکمل ہوتی ہے۔ آپ صفا پر چڑھ کر یہ کلمات ادا کیا کرتے تھے۔ (إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَۃَ مِنْ شَعَآءِرِ اللّٰہِ فَمَنْ حَجَّ الْبَیْتَ أَوِاعْتَمَرَ فَلَا جُنَاحَ عَلَیْہِ أَنْ یَّطَّوَّفَ بِھِمَا وَمَنْ تَطَوَّعَ خَیْرًا فَإِنَّ اللّٰہَ شَاکِرٌ عَلِیْمٌ) [ البقرۃ: ١٥٨] ” بلاشبہ صفا اور مروہ اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ہیں چنانچہ جو شخص بیت اللہ کا حج یا عمرہ کرے اس پر صفا مروہ کا طواف کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ اور جو شخص خوشی سے نیکی کرے تو بلاشبہ اللہ تعالیٰ قدر دان اور سب کچھ جاننے والا ہے۔“ (لَاإِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ یُحْیِیْ وَیُمِیْتُ وَھُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ لَاإِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ أَنْجَزَ وَعْدَہٗ وَنَصَرَ عَبْدَہٗ وَھَزَمَ الْأَحْزَابَ وَحْدَہٗ)[ رواہ مسلم : کتاب الحج] مسائل ١۔ صفا اور مروہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کے نشانات ہیں۔ ٢۔ صفا اور مروہ کا طواف نیکی سمجھ کر کرنا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن شعائر اللہ کی تعریف : ١۔ صفا اور مروہ اللہ کے شعائر میں سے ہیں۔ (البقرۃ : ١٥٨) ٢۔ قربانی کا جانور اللہ کے شعائر میں سے ہے۔ (الحج : ٣٦) ٣۔ اللہ کے شعائر کا احترام کرنے کا حکم ہے۔ (المائدۃ: ٢) ٤۔ شعائر اللہ کی تعظیم کرنا تقو ٰی کی نشانی ہے۔ (الحج : ٣٢) البقرة
159 فہم القرآن ربط کلام : اہل کتاب نے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت کے اوصاف اور بیت اللہ کے قبلۂ حق ہونے کو لوگوں سے چھپا رکھا تھا‘ جس پر حق چھپانے کی سزا بیان کی جارہی ہے۔ اہل کتاب نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت کا ہی انکار نہیں کیا بلکہ ہر اس نشانی کو چھپانے اور مٹانے کی کوشش کی جس سے آپ کی رسالت کی نشاندہی ہوتی تھی۔ ان میں سے ایک نشانی یہ بھی ہے کہ حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کی والدہ ماجدہ نے بے قراری کے عالم میں صفا اور مروہ کے درمیان چکر لگائے تھے لیکن یہود و نصارٰی نے تاریخ کے اس اہم ترین حصّہ کو اپنی کتابوں سے نکال باہر کیا حالانکہ اللہ تعالیٰ نے ان مقامات کو شعائر اللہ قرار دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ حقائق اور احکامات کو چھپانا اتنا سنگین جرم ہے کہ اس جرم کی وجہ سے لا تعداد بلکہ بعض دفعہ تو نسل در نسل لوگ قبول حق سے محروم ہوجاتے ہیں لہٰذا ایسامجرم عالم ہو یا غیر عالم اس پر اللہ تعالیٰ اور کائنات کے ایک ایک ذرّہ کی لعنت ہوتی ہے۔ یہاں قرآن مجید نے لعنت کرنے والے افراد کو متعین نہیں فرمایا کہ یہ لعنت کرنے والے کون ہیں اس وجہ سے حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کے شاگرد رشید اور مشہور مفسرِقرآن حضرت مجاہد اور عکرمہ (رض) فرمایا کرتے تھے کہ عدم تعین میں یہ واضح اشارہ ہے کہ دنیا کی ہر چیز کتمانِ حق کرنے والوں پر پھٹکار کرتی ہے۔ یہاں حق چھپانے سے مراد صرف قرآن مجید کے ارشادات ہی نہیں بلکہ جو لوگ اپنے مذموم مقاصد کے لیے صحیح اسناد کے ساتھ امت تک پہنچنے والی احادیث کو جھٹلاتے یا چھپاتے ہیں ان پر بھی اللہ تعالیٰ کی پھٹکار ہوگی کیونکہ صحابہ کرام (رض) رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشادات چھپانے کو بھی اس جرم میں شمار کرتے تھے۔ جیسا کہ حضرت معاذ (رض) نے یہی بات کہہ کر ایک حدیث اس وقت بیان فرمائی جب وہ اس دنیائے فانی سے کوچ کررہے تھے۔ حَدَّثَنَا اَنَسُ بْنُ مَالِکٍ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ وَمُعَاذُ ٗ رَدِیْفَہٗ............قَالَ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ اَفَلاَ اُخْبِرُبِہِ النَّاسَ فَیَسْتَبْشِرُوْا قَال اذاً یَّتَّکِلُوْا وَاَخْبَرَبِہَا مُعَاذُ ٗ عِنْدَ مَوْتِہٖ تَأَثُّمًا [ رواہ البخاری : کتاب العلم، باب من خص بالعلم قوما الخ] حدیث معاذ (رض) سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ دینی مصلحت کی خاطر کسی بات کو کچھ عرصہ کے لیے بیان نہ کیا جائے تو اس میں کوئی جرم نہیں البتہ ایسے موقع پر حق بات چھپانا جس سے حق والوں کی ہزیمت ہو اور غلط بات حق کا درجہ اختیار کر جائے یا حق کے ہمیشہ دب جانے کا اندیشہ ہو تو حق چھپانا بہت بڑا گناہ ہے۔ اس گناہ سے بچنے اور اعلان حق کے لیے صحابہ کرام‘ ائمہ عظام اور علمائے حق نے بڑی بڑی قربانیاں پیش کیں۔ لیکن جو آدمی دنیوی مفاد کی خاطر حق چھپاتا ہے اس شخص پر اللہ تعالیٰ اور اس کی مخلوق پھٹکار کرتی ہے۔ البتہ ان لوگوں کو معاف کردیا جائے گا جنہوں نے اخفائے حق سے توبہ کی اور سابقہ اخفائے حق کی تلافی کے لیے حق بات کو کھول کر بیان کیا۔ یعنی جہاں جہاں اس جرم کے اثرات پہنچے ان کی تلافی میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی تاکہ حق واضح ہوجائے اور اس میں کوئی ابہام باقی رہنے نہ پائے۔ مسائل ١۔ حق چھپانے والوں پر اللہ اور اس کی تمام مخلوق لعنت کرتی ہے۔ ٢۔ توبہ کرنے والے کو اپنی سابقہ غلطیوں کے اثرات بھی ختم کرنے کی کوشش کرنا چاہیے۔ ٣۔ توبہ کرنے اور حقائق بیان کرنے والوں کو معاف کردیا جائے گا۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ توبہ قبول کرنے والا، نہایت مہربان ہے۔ تفسیربالقرآن توبہ اور اس کی قبولیت کی شرائط : ١۔ اعتراف جرم کے باعث توبہ قبول ہوتی ہے۔ (البقرۃ : ٣٧) ٢۔ ظلم سے اجتناب اور اصلاح احوال کے بعد توبہ قبول ہوتی ہے۔ (المائدۃ: ٣٩) ٣۔ جہالت کے سبب گناہ ہوجائے تو اس کی اصلاح کرنے پر توبہ قبول ہوتی ہے۔ (الانعام : ٥٤) ٤۔ اللہ تعالیٰ توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے۔ (البقرۃ: ١٦٠) ٤۔ اللہ جس کی چاہتا ہے توبہ قبول کرتا ہے۔ (التوبۃ: ٢٧) ٥۔ اللہ تعالیٰ مومن مردوں اور عورتوں کی توبہ قبول کرتا ہے۔ (الاحزاب : ٧٣) ٦۔ توبہ کرنے والوں کی برائیاں نیکیوں میں تبدیل کردی جاتی ہیں۔ (الفرقان : ٧٠) البقرة
160 البقرة
161 فہم القرآن ربط کلام : جن لوگوں نے حق قبول کرنے، اخفائے حق کے گناہ کو ترک کرنے اور حق کھول کر بیان کرنے سے انکار کیا پھر اسی حالت میں مر گئے ایسے مجرموں پر اللہ تعالیٰ اور سب کی طرف سے پھٹکار ہوگی اور حق چھپانے والے ہمیشہ جہنم میں رہیں گے۔ یہودو نصارٰی کے علماء کی اکثریت کا یہ حال تھا کہ وہ دنیاوی مفادات کے حصول، علمی برتری اور ظاہری تقدس کے تحفظ کی خاطر کتاب الٰہی کو اپنے تک ہی محدود رکھتے تھے۔ جس طرح ہندو مذہب میں شودر کو مذہبی کتاب اور مندروں سے دور رکھا جاتا ہے۔ اہل کتاب کے علماء حکمرانوں اور بڑے لوگوں کے سامنے کلمۂ حق کہنے کے بجائے ان کی چاپلوسی اور مدح سرائی کیا کرتے تھے تاکہ ان سے بڑے بڑے مناصب اور مفادات حاصل کرسکیں۔ نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کی اخلاقی پستی کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا ہے : (إِنَّ أَوَّلَ مَا دَخَلَ النَّقْصُ عَلٰی بَنِیْ إِسْرَاءِیْلَ کَان الرَّجُلُ یَلْقَی الرَّجُلَ فَیَقُوْلُ یَاھٰذَا اتَّقِ اللّٰہَ وَدَعْ مَا تَصْنَعُ فَإِنَّہٗ لَایَحِلُّ لَکَ ثُمَّ یَلْقَاہُ مِنَ الْغَدِ فَلَا یَمْنَعُہٗ ذٰلِکَ أَنْ یَکُوْنَ أَکِیْلَہٗ وَشَرِیْبَہٗ وَقَعِیْدَہٗ فَلَمَّا فَعَلُوْا ذٰلِکَ ضَرَبَ اللّٰہُ قُلُوْبَ بَعْضِھِمْ بِبَعْضٍ ثُمَّ قَالَ (لُعِنَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْم بَنِیْ إِسْرَآءِیْلَ عَلٰی لِسَانِ دَاوٗدَ وَعِیْسَی ابْنِ مَرْیَمَ) إِلٰی قَوْلِہٖ (فَاسِقُوْنَ) ثُمَّ قَالَ کَلَّا وَاللّٰہِ لَتَأْمُرُنَّ بالْمَعْرُوْفِ وَلَتَنْھَوُنَّ عَنِ الْمُنْکَرِ وَلَتَأْخُذُنَّ عَلٰی یَدَیِ الظَّالِمِ وَلَتَأْطُرُنَّہٗ عَلَی الْحَقِّ أَطْرًا وَلَتَقْصُرُنَّہٗ عَلَی الْحَقِّ قَصْرًا) [ رواہ أبوداوٗد : کتاب الملاحم، باب الأمر والنھی] ” پہلی خرابی بنی اسرائیل میں یہ آئی تھی کہ ایک شخص دوسرے شخص سے ملتا اور اس سے کہتا اللہ سے ڈر اور اپنی حرکات سے باز آجا ؤیہ کام تیرے لیے درست نہیں ہے۔ جب دوسرے دن اس سے ملتا تو یہ کام اسے اس کے ساتھ کھانے پینے اور بیٹھنے سے نہ روکتا۔ جب انہوں نے ایسا کیا تو اللہ تعالیٰ نے انکے ایک دوسرے کے ساتھ دل ملا دیے۔ مزید فرمایا : بنی اسرائیل میں سے جن لوگوں نے کفر کیا تو اللہ تعالیٰ نے ان پر داوٗد اور عیسیٰ ( علیہ السلام) کی زبان سے لعنت کی۔۔۔ پھر فرمایا : ہرگز نہیں‘ اللہ کی قسم! تم ضرور نیکی کا حکم دو اور برے کاموں سے منع کرو اور ظالم کے ہاتھ پکڑ کر اس کو حق کی طرف اس طرح جھکاؤ گے جیسا اسے جھکانے کا حق ہے اور اس کو حق پر ٹھہراؤ جیساکہ حق پر ٹھہرانے کا حق ہے۔“ نیکی قائم کرو جس طرح قائم کرنا چاہیے۔ اور حق پر اس کی مدد کرو جب جنّتی جنت میں جلوہ افروز ہوں گے تو ایک دن جہنم کے کنارے جاکر ایسے علماء سے پوچھیں گے کہ تم کس جرم کی پاداش میں یہاں ذلیل ہورہے ہو ؟ جہنمی اپنے بیٹوں، بیٹیوں، رشتے داروں اور مقتدیوں کے سامنے زارو قطار روتے ہوئے کہیں گے کہ ہم حق چھپایا کرتے تھے۔ جنّتی ترس کھانے کے بجائے ان کو کہیں گے کہ پھر تم پر رب ذوالجلال کی مزید پھٹکار ہونی چاہیے۔ اف! یہ کتنا ذلت آمیز اور ہیبت ناک منظرہو گا۔ انہیں ان خوفناک اور درد ناک سزاؤں میں نہ صرف ہمیشہ رہنا ہے بلکہ ان کی سزاؤں میں ذرہ برابر بھی تخفیف نہیں کی جائے گی۔ یہ مجبور ہو کر باربار جہنم کے نگران فرشتے سے آرزو کریں گے کہ ہمیں موت ہی آجائے جوابًا کہا جائیگا کہ اب تمہیں ہمیشہ یہاں ہی رہنا پڑے گا اور کوئی کسی اعتبار سے بھی تمہاری مدد نہیں کرسکے گا۔ (وَنَادَوْا یٰمٰلِکُ لِیَقْضِ عَلَیْنَا رَبُّکَ قَالَ إِنَّکُمْ مَّاکِثُوْنَ) [ الزخرف : ٧٧] ” اور جہنمی پکاریں گے کہ اے فرشتے تیرا رب ہمیں موت ہی دے دے وہ جواب دے گا یقیناً تم یہیں رہنے والے ہو۔“ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : (مَنْ سُءِلَ عَنْ عِلْمٍ فَکَتَمَہٗ اُلْجِمَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ بِلِجَامٍ مِنْ نَّارٍ) [ رواہ ابن ماجۃ: المقدمۃ، باب من سئل عن علم فکتمہ] ” جس سے کوئی مسئلہ پوچھا گیا لیکن اس نے اسے چھپا لیا ایسے عالم کو جہنم میں آگ کی لگام ڈالی جائے گی۔“ مسائل ١۔ کفر کی حالت پر مرنے والوں پر اللہ تعالیٰ، اس کے ملائکہ اور سب کی لعنت ہوتی ہے۔ ٢۔ حق چھپانے اور کفر پر مرنے والوں پر عذاب ہلکا نہیں کیا جائے گا اور نہ ہی انہیں مہلت دی جائے گی۔ تفسیربالقرآن ظالم کو مہلت میسر نہیں آئے گی : ١۔ نبی سے کیا جانے والا مطالبہ منظور ہونے کے بعد مہلت نہیں دی جاتی۔ (الانعام : ٨) ٢۔ کتمانِ حق کرنے والوں کو عذاب سے مہلت نہ دی جائے گی۔ (البقرۃ: ١٦٢) ٣۔ مرتدین کو مہلت نہ دی جائے گی۔ (آل عمران : ٨٨) ٤۔ ظالموں کو مہلت نہ دی جائے گی۔ (النحل : ٨٥) البقرة
162 البقرة
163 فہم القرآن ربط کلام : جس طرح تمہارا رسول، قرآن، قبلہ اور دین ابراہیم ایک ہے اسی طرح تمہارا معبودِ بر حق بھی ایک ہی ہے۔ اب اس کی الوہیت کے دلائل سنو اور ان پر غور کرو! وہ ایک ہی الٰہ ہے‘ حاکم مطلق، معبود اور مسجود وہی بحروبرّ، زمین و آسمان‘ اور فضاؤں پر کلی اختیار رکھنے والا ہے۔ وہ ہر چیز کا خالق اور واحد مالک ہونے کے باوجود اپنے اختیارات ظلم وزیادتی کی بنیاد پر نہیں بلکہ نہایت ہی رحم وکرم کی اساس پر استعمال کرتا ہے۔ کائنات کے ذرّے ذرّے پر اس کی شفقت ومہربانی کی گھٹائیں برس رہی ہیں۔ اس کی ذات اور شان کی جھلک دیکھنا چاہتے ہو تو غور کرو کہ اس نے زمین و آسمان کو کس طرح پیدا کیا بظاہر زمین ایک ہی دکھائی دیتی ہے لیکن یہ تہ بہ تہ سات طبقات پر بچھائی گئی ہے۔ پھر جس زمین پر تمہارا ٹھکانہ اور بسیرا ہے‘ اس کی ہزاروں اقسام اور قطعات ہیں۔ کہیں یہ زمین ہزاروں میلوں تک ریت کی شکل میں حد نظر تک سراب کا نقشہ پیش کررہی ہے۔ کہیں سیم و تھور کی وجہ سے پانی کا منظر پیش کرتی ہے۔ پھر کسی مقام پر زمین پوٹھو ہار کا روپ دھار لیتی ہے اور اس کے سینہ پر اربوں سنگلاخ ریزے دکھائی دیتے ہیں‘ کہیں ٹیلوں اور پہاڑوں کا سلسلہ جاری ہے‘ اور کہیں ڈھلوان کی صورت میں درجنوں فٹ نیچے ہی نیچے چلی جاتی ہے۔ ایک طرف اس کی چھاتی پر سر سبز وشاداب باغات ہیں اور دوسری طرف صحراء وبیابان کا لامتناہی سلسلہ ہے۔ اس کا ایک حصّہ ایک بیج کو اپنی گود میں لے کر اس کی نشوونما کرتا ہے‘ دوسراحصّہ اسی بیج کو تلف کردیتا ہے۔ زمین کے ایک حصہ پر ایک فصل لہلہا رہی ہوتی ہے‘ جب کہ اس کے ساتھ ہی دوسرا رقبہ اس فصل کو اگانے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ یہی صورت زمین کی تہوں کے اندر پائی جاتی ہے۔ ایک علاقے میں کوئلے کے ذخائر ہیں تو اس کے ساتھ والی زمین سونے اور چاندی کے خزانے لیے ہوئے ہے۔ ایک جگہ پانی اتنا کڑواہے کہ زبان کاٹ رہا ہے اور اس کے ساتھ ہی زیر زمین میٹھے پانی کا دریا بہہ رہا ہے۔ یہ زمین اپنے اوپر پہاڑوں، دریاؤں کھربوں انسانوں، حیوانات اور دیگر اشیاء کا بوجھ اٹھانے کے باوجود نہ جھکتی ہے نہ تھکتی ہے۔ اَب آسمان کو دیکھو کہ وہ لاکھوں کروڑوں سالوں سے بغیر ستونوں کے سائبان بنا ہوا ہے۔ کیا مجال ہے کہ ایک انچ بھی اوپر نیچے ہوپائے۔ اس میں غور کے ساتھ دیکھنے سے بھی کوئی جھول نظر نہیں آتا۔ یہاں تک کہ نہ اس کا رنگ بدلا ہے اور نہ اس میں کوئی دراڑ واقع ہوئی ہے‘ جب کہ اس کا بنیادی مادہ دھواں قرار دیا گیا ہے ( الدخان : ١٠) حالانکہ ایک آسمان کی موٹائی اور ایک سے دوسرے تک کا فاصلہ پانچ سو سال کی مسافت بیان کیا گیا ہے۔[ مسند احمد : کتاب باقی مسند المکثرین، باب مسند السابق] رات اور دن کے فرق کو دیکھا جائے تو رات ٹھنڈی اور دن گرم ہے۔ رات سر شام ہی تاریکی کا نقاب اوڑھ لیتی ہے جب کہ دن ہر جگہ روشن دکھائی دیتا ہے۔ رات کو اکثر فصلیں نمو پاتی ہیں جب کہ دن کی گرمی اور روشنی پھلوں کے پکنے میں مدد دیتی ہے۔ کبھی رات اپنے دامن کو طویل کردیتی ہے اور کبھی دن اس کی چادر کو لپیٹ کر اسے مختصر کرتے ہوئے خود طوالت اختیار کرلیتا ہے۔ پھر سال میں ایسے اوقات بھی آتے ہیں کہ دونوں اپنی طوالت کے لحاظ سے یکساں ہوجاتے ہیں۔ اس کے بعد مسلسل ان کے درمیان گھٹنے اور بڑھنے کا سلسلہ شروع ہوتا ہے کبھی دن صبح کے وقت بڑھنا شروع ہوتا اور کبھی دونوں جانب سے سکڑنا شروع ہوتا ہے۔ سمندر کے سینے پر چلنے والی کشتیوں اور بڑے بڑے جہازوں کی طرف توجہ کی جائے تو دیکھ کر عقل دنگ رہ جاتی ہے کہ جو پانی اپنے اوپر ایک سوئی کو برداشت نہیں کرسکتا اسی پانی کی لہریں کشتیوں اور جہازوں کو ساحل مراد تک پہنچانے میں خدّام بنی ہوئی ہیں جو ٹنوں کے حساب سے بوجھ اٹھائے ہوئے ہیں‘ اور نقل وحمل کا یہ سب سے بڑا اور مفید ترین ذریعہ ہیں۔ اس طرح ابتدائے آفرینش سے ہی دنیا کی سب سے بڑی تجارت بحری راستوں کے ذریعے ہی ہورہی ہے اور قیامت تک یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ اب اس اللہ تعالیٰ کی قدرت کا اندازہ کیجیے جو آسمان سے بارش کی صورت میں خاص مقدار اور رفتار سے پانی نازل کرتا ہے جس سے پھول کی نازک ترین پتی بھی غسل کرتی اور پیاس بجھاتی ہے۔ اس طرح جو زمین موت کی ویرانی کا ہولناک منظر پیش کررہی تھی چند لمحوں میں اس میں جل تھل کا سماں دکھائی دیتا ہے۔ جس سے انسان ہی نہیں بلکہ زمین پر رینگنے والے حشرات الارض بھی برابر مستفید ہوتے ہیں۔ پھر ہوا اور اس کی رفتار پر غور کیجیے اگر اللہ تعالیٰ ایک لمحہ کے لیے ہوا کو رنگ دار بنادے تو آنکھیں ہونے کے باوجود دیدہ ور اندھے کی طرح ٹھوکریں کھاتا پھرے۔ یہ ہوا ہی تو ہے جو سمندر کے کڑوے کسیلے پانی کو جراثیم اور مہلک گیسوں سے پاک کر کے بلندیوں کی مخصوص سطح تک لے جاتی ہے۔ پھر ان بادلوں کو دھکیل کر وہاں پہنچادیتی ہے جہاں اللہ تعالیٰ بادلوں کو برسنے کا حکم دیتا ہے۔ بسا اوقات وہ برسنے کے قریب ہوتے ہیں لیکن چند لمحوں میں ہوا بھاری بھر کم بادلوں کو کہیں اور ہانک کرلے جاتی ہے یہ قدرت کے وہ عظیم الشان آٹھ نشانات ہیں‘ جن میں کوئی بھی اس اِلٰہِ بر حق کا شریک وسہیم نہیں ہے۔ اگر تم عقل ودانش کا معمولی استعمال بھی کرو تو ان چیزوں کے پیدا کرنے والے خالق کو ہر اعتبار سے ایک مانے اور یہ کہے بغیر نہ رہ سکو۔ ( فَتَبَارَکَ اللّٰہُ اَحْسَنُ الْخَالِقِیْنَ) ” اللہ جو سب سے بہتر بنانے والا ہے بڑا ہی بابرکت ہے“ [ المومنون : ١٤] مسائل ١۔ اللہ ہی معبودِ بر حق ہے۔ ٢۔ اس کے سوا کوئی معبود نہیں وہ بڑا مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے۔ ٣۔ آسمانوں و زمین کی پیدائش اور ہر چیز کی تخلیق میں دانش مندوں کے لیے عبرت کے دلائل ہیں۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ ہی الٰہ اور رب ہے : ١۔ اللہ کے سوا کوئی معبود بر حق نہیں۔ (النساء : ٨٧) ٢۔ معبود حقیقی صرف اللہ ہے۔ (النساء : ١٧١) ٣۔ اللہ کے علاوہ کوئی خالق نہیں۔ (فاطر : ٣ ) ٤۔ اللہ رحمٰن ورحیم ہے۔ (الفاتحۃ: ٣) ٥۔ اللہ ہی رزّاق ہے۔ (الذاریات : ٥٨) ٦۔ اللہ ہی مشکل کشا ہے۔ (الانعام : ١٧) ٧۔ اللہ ہی حاجت رواہے۔ (الانبیاء : ٨٧) لیل ونہار کی گردشیں : ١۔ رات دن ایک دوسرے کے پیچھے آنے والے ہیں۔ (الاعراف : ٥٤) ٢۔ رات دن کو اور دن رات کو ڈھانپ لیتا ہے۔ (الزمر : ٥) ٣۔ رات اور دن کا بڑھنا، گھٹنا۔ (الحدید : ٦) ٤۔ رات آرام اور دن کام کے لیے ہے۔ (الفرقان : ٤٧) البقرة
164 البقرة
165 فہم القرآن ربط کلام : زمین و آسمانوں کا خالق اور انسانوں کو آفاقی اسباب کے ذریعے روزی اور فوائد پہنچانے والا اللہ ہے تو پھر محبت اسی سے ہونی چاہیے نہ کہ دوسرے سے۔ سابقہ آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنی ربوبیت کے آٹھ ایسے آفاقی دلائل دیئے ہیں۔ جن سے ایک دیہاتی، شہری، جاہل اور تعلیم یافتہ، موٹی عقل والا آدمی یا انتہائی دانشور، سیاست دان یا سائنس دان سب کے سب اپنی اپنی لیاقت اور صلاحیت کے مطابق ان سے اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل کرسکتے ہیں۔ یہ ایسے ہمہ گیر اور ٹھوس دلائل ہیں جن سے ہر آدمی کا واسطہ پڑتا ہے اور وہ ان سے استفادہ کرتا ہے۔ یہ بھی بتلایا گیا ہے کہ آفاق کے تمام عناصر ایک ہی ہستی کے پیدا کردہ اور اسی کے تابع فرمان ہیں۔ جب ان تمام آفاقی عناصر کی پیدائش اور انہیں مسخر اور مقید رکھنے میں زندہ اور مردہ باطل خداؤں، نیک و بد، حکمرانوں اور سائنس دانوں کا عمل دخل نہیں بلکہ پورے کا پورا نظام ایک ہی ہستی کے زیر اقتدار ہے تو پھر اسی مالک کو الٰہ مانو اور اسی سے محبت کا رشتہ جوڑو جو پورے نظام کو سنبھالے ہوئے ہے۔ لیکن مشرک حقیقی عقل سے عاری ہوتا ہے۔ چاہے وہ کتنا ہی پڑھا لکھا کیوں نہ ہو۔ وہ کائنات کے خالق ومالک سے محبت وتعلق قائم کرنے کے بجائے اپنے رب سے بڑھ کر دوسروں سے محبت اور تعلق قائم کرتا ہے‘ حالانکہ حقیقی اور دائمی محبت سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہونی چاہیے۔ باقی تمام محبتیں اس کی محبت کے تابع ہوناضروری ہیں۔ لیکن مشرک ایسی محبت کے لیے کبھی تیار نہیں ہوتا۔ بلکہ اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کی محبت کے مقابلے میں دوسروں کو ترجیح دیتا ہے۔ اس کے برعکس موحّد کا دل اللہ تعالیٰ کی محبت سے اس طرح لبریز ہوتا ہے کہ وہ اس کے مقابلے میں دنیا کی کسی چیز کی محبت کو ترجیح نہیں دیتا۔ یہاں تک کہ وہ اپنی اولاد اور جان سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کی محبت کو عزیز سمجھتا ہے اور اس کی ہر سوچ اور کام کے پیچھے اللہ تعالیٰ کی محبت اور اس کا حکم ہی مقدم ہوتا ہے۔ رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اسی بات کی راہنمائی اور دعا کیا کرتے تھے۔ محبت وہ فطری جذبہ ہے جو ہر انسان اور حیوان میں پایا جاتا ہے۔ محبت کرنے کے کچھ اسباب اور وجوہات ہوا کرتی ہیں جن کی وجہ سے دوسروں کے ساتھ محبت کرنے سے منع نہیں کیا گیا۔ مطالبہ صرف یہ ہے کہ تم اپنے رب سے سب سے زیادہ محبت کرنے کی کوشش کرو۔ اگر تم کسی کے احسان کی وجہ سے محبت کرتے ہو تو اللہ تعالیٰ سب سے زیادہ تمہارا محسن ہے۔ تم کسی سے قرابت داری کی وجہ سے محبت کرتے ہو تو وہ سب سے بڑھ کر تمہارے قریب ہے، اگر تم جمال وکمال کی وجہ سے کسی سے محبت کرتے ہو تو کائنات کا سار اجمال وکمال اسی کی وجہ سے ہے اور اللہ تعالیٰ سب سے زیادہ اجمل واکمل ہے۔ اگر تم کسی کے اقتدار اور اختیار کی بنا پر اس سے الفت کرتے ہو تو اس سے بڑھ کر کسی کے پاس اختیار اور اقتدار نہیں ہے۔ غرضیکہ کسی سے صحیح محبت کرنے کے جو بھی محرکات اور اسباب ہو سکتے ہیں ان سب کا مالک تمہارا اللہ ہے‘ پھر اسی کے ساتھ سب سے زیادہ محبت کیوں نہ کی جائے؟ اللہ تعالیٰ کی محبت کے ساتھ اس کے رسول محمد مصطفی‘ احمد مجتبیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ بھی محبت ساری مخلوق سے بڑھ کر ہونی چاہیے تب جا کر آدمی کا ایمان مکمل ہوتا ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : (لَا یُؤْمِنُ أَحَدُکُمْ حَتّٰی أَکُوْنَ أَحَبَّ إِلَیْہِ مِنْ وَّالِدِہٖ وَوَلَدِہٖ وَالنَّاسِ أَجْمَعِیْنَ) [ رواہ البخاری : کتاب الایمان، باب حب الرسول من الإیمان] ” تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتاجب تک میں اسے اپنے والدین‘ اولاد اور تمام لوگوں سے بڑھ کر محبوب نہ ہوجاؤں۔“ مسائل ١۔ مشرک باطل معبودوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ جیسی محبت کرتے ہیں۔ ٢۔ صاحب ایمان لوگ اللہ تعالیٰ کی محبت میں متشدّد ہوتے ہیں۔ ٣۔ قیامت کے دن مشرک عذاب دیکھ کر اللہ تعالیٰ کی قوت و سطوت کا اعتراف کریں گے۔ تفسیربالقرآن اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو معبود ماننا اور اس کی عبادت کرناحرام ہے : ١۔ حضرت عیسیٰ اور مریم (علیہ السلام) کو عیسائیوں نے اللہ کا شریک ٹھہرایا۔ (النساء : ١٧١) ٢۔ یہودیوں نے حضرت عزیر (علیہ السلام) کو اللہ کا بیٹا ٹھہرایا۔ (التوبہ : ٣٠) ٣۔ یہودیوں نے بچھڑے کو معبود بنایا۔ (الاعراف : ١٥٢) ٤۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کی قوم نے بتوں کو معبود بنایا۔ (نوح : ٢٣) ٥۔ مکے کے مشرک بتوں کی تعظیم اور عبادت کرتے تھے۔ (الانعام : ١٣٦) ٦۔ مشرک غیر اللہ کو خدا کے قرب کا ذریعہ بناتے ہیں۔ (الزمر : ٢) البقرة
166 فہم القرآن ربط کلام : مشرک سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ سے محبت کرنے اور دنیا میں غیر اللہ کو چھوڑنے کے لیے تیار نہیں لیکن قیامت کے دن ایک دوسرے پر پھٹکار کرتے ہوئے ایک دوسرے سے بیزار ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ ہی واحد معبود ہے اور وہی کائنات کا خالق ومالک اور کائنات کے نظام کو چلائے ہوئے ہے۔ اس کے نظام میں کوئی ذرّہ برابر بھی دخل ڈالنے کی طاقت نہیں رکھتا۔ اس نے نظام کائنات میں کسی کو اپناہمسر اور شریک کار نہیں بنایا اور آخرت میں بھی کوئی اس کے اختیارات اور نظام میں کوئی دم مارنے کی ہمت نہیں پائے گا۔ جو لوگ دنیا میں پیروں، فقیروں، حکمرانوں اور باطل معبودوں یہاں تک کہ دنیاوی مفادات کی خاطر اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کی بات سے بڑھ کر دوسروں سے محبت کرتے اور تعلق جوڑتے ہیں قیامت کے دن یہ ظالم اور مشرک رب ذوالجلال کی جلالت وجبروت اور عذاب کو دیکھیں گے تو ان کے تمام واسطے اور رابطے کٹ جائیں گے۔ یہاں تک کہ پیرمُرید سے، طالب مطلوب سے، حاکم محکوم سے بیزاری کا اظہار کریں گے۔ جو مذہبی پیشوا اور سیاسی رہنما اپنی ذات اور مفاد کی خاطر لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کے فرمان سے ہٹایا کرتے تھے جب وہ پوری طرح جان جائیں گے کہ آج اللہ تعالیٰ کی قوت وطاقت کے سوا کسی کی کوئی طاقت نہیں اور نہ کوئی وسیلہ کار گر ثابت ہوسکتا ہے تو وہ ایک دوسرے پر پھٹکار بھیجیں گے۔ ور کر اور مرید اللہ تعالیٰ سے آرزو کریں گے کہ اِلٰہی! ہمیں دنیا میں جانے کا موقع دے تاکہ ہم ان ظالم رہنماؤں اور مشرک پیروں سے اسی طرح نفرت کا اظہار کریں جس طرح آج وہ ہم سے بیزاری کا اظہار کررہے ہیں۔ حکم ہوگا کہ اب تم نے ہمیشہ یہیں رہنا ہے۔ اس دن سے ان کی پریشانیوں اور حسرتوں میں اضافہ ہوتا رہے گا اور ان کو عذاب سے کوئی نکالنے والا نہیں ہوگا۔ دنیا کے تمام اعمال ضائع، رہنماؤں کے وعدے اور سہارے جھوٹے ثابت ہوئے ہوں گے۔ واپسی کے تمام راستے بند اور ہر قسم کی آہ و زاریاں بے کارثابت ہوں گی، یہ مایوس ہو کر دوسری درخواست پیش کریں گے کہ اے رب ذوالجلال! پھر ظالم سیاسی اور مذہبی رہنماؤں کودُگنے عذاب میں مبتلا کیجیے۔ (الاحزاب : ٦٧) جواب آئے گا سب کو دوگنا عذاب دیا جارہا ہے۔ (الاعراف : ٣٨) مسائل ١۔ عذاب دیکھ کر پیر اپنے مریدوں اور لیڈر اپنے ور کروں سے براءت کا اظہار کریں گے۔ ٢۔ جہنم کا عذاب دیکھ کر جہنمیوں کی تمام امیدیں ختم ہوجائیں گی۔ ٣۔ جہنمی دنیا میں واپس آنے اور اپنے پیروں، لیڈروں سے قطع تعلق کرنے کی تمنا کریں گے۔ ٤۔ جہنمی اپنے اعمال پر ہمیشہ حسرت و افسوس کا اظہار کرتے رہیں گے۔ ٥۔ مشرک اور کافر جہنم سے کبھی نہیں نکل سکیں گے۔ تفسیربالقرآن قیامت کے دن باطل عابد و معبود میں نفرتیں اور بیزاریاں : ١۔ عابد و معبود ایک دوسرے سے بیزار ہوں گے۔ (یونس : ٢٨ تا ٣٠) ٢۔ جب مشرک شریکوں کو دیکھیں گے کہیں گے یہی ہیں وہ جنہیں ہم تیرے سو اپکارتے تھے۔ تو وہ ان سے کہیں گے کہ تم جھوٹے ہو۔ (النحل : ٨٦) ٣۔ اگر تم انہیں پکارو وہ تمہاری پکار نہیں سنتے۔ اگر سن بھی لیں تو جواب نہیں دے سکتے۔ قیامت کے دن وہ تمہارے شرک کا انکار کردیں گے۔ (فاطر : ١٤) ٤۔ جب لوگ جمع کیے جائیں گے تو وہ ان کی دشمن ہوں گے اور اپنی پرستش سے انکار کریں گے۔ (الاحقاف : ٦) ٥۔ ان کے شریکوں میں سے کوئی ان کا سفارشی نہ ہوگا اور وہ اپنے شریکوں کے انکاری ہوجائیں گے۔ (الروم : ١٣) ٦۔ جن کو وہ پکارا کرتے تھے۔ وہ سب ان سے غائب ہوں گے۔ (حٰمٰ السجدہ : ٤٨) البقرة
167 البقرة
168 فہم القرآن ربط کلام : یہاں پہلی آیات کے ساتھ معنوی ربط پایا جارہا ہے۔ قرآن مجید میں اکثر مقامات پر شرک اور حرام وحلال کا مسئلہ ایک ہی جگہ بیان کیا گیا ہے۔ [ الانعام : ١٣٧ تا ١٤٠۔ النحل : ٣٥] آیات ملاحظہ فرمائیں۔ حلال وطیب کھانے کے بارے میں قرآن مجید نے بنی نوع انسان کے تینوں طبقات کو مخاطب کرتے ہوئے ایک جیسے الفاظ استعمال فرمائے ہیں۔ آغاز میں عوام الناس کو مخاطب کیا جارہا ہے اور اس کے بعد ٹھیک چوتھی آیت میں مومنوں کو مخاطب کیا گیا ہے۔ سورۃ المومنون آیت ٥١ میں انبیاء کی مقدس جماعت کو خطاب کرتے ہوئے حلال کھانے کی طرف توجہ دلائی ہے۔ یہ مسئلہ اتنا اہم ہے کہ جب تک اس پر اپنے اپنے مقام پر سب لوگ عمل نہیں کرتے توحید کے تقاضے پورے نہیں ہوسکتے اور نہ معیشت کرپشن سے محفوظ رہ سکتی ہے۔ اس مسئلے کا تعلق بیک وقت حقوق اللہ اور حقوق العباد کے ساتھ ہے۔ حقوق اللہ کے ساتھ اس لیے ہے کہ اللہ تعالیٰ پاک ہے اور وہ پاک جسم کی عبادت ہی قبول کرتا ہے۔ حلال، طیب کھانے والا اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور بندگی میں لذت محسوس کرتا ہے‘ اس کے دل میں سرور، طبیعت میں استغناء، دوسروں کے ساتھ ہمدردی اور ان کے حقوق کا خیال رکھنے کے ساتھ سخاوت کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ حقوق العباد کے ساتھ تو اس کا اتنا گہرا تعلق ہے کہ جب معاشرے میں حلال وحرام کی تمیز اٹھ جائے تو معاشی استحاصل‘ ڈاکہ‘ چوری‘ دھوکہ دہی‘ فریب کاری کی وارداتیں عام ہوجاتی ہیں۔ جس سے معاشی ناہمواری کے ساتھ سماجی زندگی تباہی کے راستے پر چل پڑتی ہے۔ اس لیے تمام لوگوں کو بیک وقت حلال، طیب کھانے کی تلقین کی جارہی ہے۔ خوراک ظاہری گندگی سے پاک نہ ہو تو جسمانی بیماریاں پیدا ہوں گی۔ کھانے اور کمانے میں شریعت کا لحاظ نہ رکھا جائے تو روحانی زندگی اور اخلاقی قدریں اس قدر کمزور ہوجاتی ہیں بالآخر آدمی زندہ ہونے کے باوجوداس کے روح کی موت اور اجتماعیت بکھر کررہ جائے گی اور یہی شیطان کا مقصد ہے۔ لہٰذا حرام کھانے والا شیطان کے قدم بقدم چلتا ہوا دنیا میں ذلیل اور حریص کہلوائے گا اور آخرت میں جہنم کا ایندھن بنے گا۔ اس لیے متنبہ کیا جارہا ہے کہ شیطان تمہارا ابدی دشمن ہے اس سے ہر صورت بچ کر رہنے کی کوشش کرتے رہنا اور کوئی غیرت مند آدمی اپنے دشمن کی چال میں نہیں آیا کرتا۔ حرام خوری کے نقصانات رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : (لَایَدْخُلُ الْجَنَّۃَ لَحْمٌ نَبَتَ مِنْ سُحْتٍ‘ اَلنَّارُ أَوْلٰی بِہٖ) [ مسند احمد : کتاب باقی مسند المکثرین، باب مسند جابر بن عبد اللّٰہ] ” حرام سے پلنے والا جسم جنت میں داخل نہ ہوگا بلکہ اسے آگ زیادہ لائق ہے۔“ حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے : ” لوگو! یقیناً اللہ پاک ہے اور پاک ہی قبول کرتا ہے اور اللہ نے مومنوں کو اسی چیز کا حکم دیا جس کا رسولوں کو حکم دیا ہے۔ فرمایا : اے رسولو! پاک چیزیں کھاؤ اور نیک عمل کرو جو کچھ تم کرتے ہو یقیناً میں اسے جاننے والا ہوں۔ اور فرمایا : اے مومنو! ہم نے جو تمہیں رزق دیا اس میں سے پاک کھاؤ۔“ (ثُمَّ ذَکَرَ الرَّجُلَ یُطِیْلُ السَّفَرَ أَشْعَثَ أَغْبَرَ یَمُدُّ یَدَیْہِ إِلَی السَّمَاءِ یَارَبِّ یَا رَبِّ وَمَطْعَمُہٗ حَرَامٌ وَمَشْرَبُہٗ حَرَامٌ وَمَلْبَسُہٗ حَرَامٌ وَغُذِیَ بالْحَرَامِ فَأَنّٰی یُسْتَجَابُ لِذَلِکَ) [ رواہ مسلم : کتاب الزکوٰۃ، باب قبول الصدقۃ من الکسب الطیب وتربیتھا] پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک آدمی کا تذکرہ کیا جو لمبا سفر کرتا ہے‘ اس کے بال پراگندہ اور پاؤں خاک آلود ہیں، وہ آسمان کی طرف اپنے ہاتھ پھیلائے یارب! یارب! کی صدائیں بلند کرتا ہے اس کی حالت یہ ہے کہ اس کا کھانا حرام، پینا حرام، لباس حرام اور وہ حرام سے پرورش پایا ہے ایسے آدمی کی دعا کیسے قبول کی جائے گی؟“ مسائل ١۔ ہر شخص کو حلال اور پاک کھانا چاہیے۔ ٢۔ حرام کھانا شیطان کی پیروی کرنا ہے۔ ٣۔ شیطان انسان کا واضح دشمن ہے، اس کے پیچھے نہیں لگنا چاہیے۔ تفسیربالقرآن اکل حلال کی اہمیت : ١۔ ایمان داروں کو حلال کھانے کا حکم ہے۔ (البقرۃ : ١٧٢) ٢۔ رسولوں کو اکل حلال کی تلقین۔ (المومنون : ٥١) ٣۔ تمام لوگوں کو اکل حلال کا حکم ہے۔ (البقرۃ : ١٦٨) البقرة
169 فہم القرآن ربط کلام : حلال کے فوائد کے بعد حرام خوری کے نقصانات بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے حرام کھانے والا بالفعل شیطان کا حکم مانتا ہے۔ شیطان تو انسان کو بے حیائی اور اللہ تعالیٰ کے بارے میں بے اعتقادی اور بدگمانی پیدا کرتا ہے۔ حرام سے اجتناب نہ کرنا اور اپنی مرضی سے حلال کو حرام اور حرام کو حلال کرلینا درحقیقت شیطان کی پیروی کرنے کے مترادف ہے جس سے منع کیا گیا ہے۔ حرام کھانے پر آمادہ کرنے کے بعد شیطان کے لیے یہ کام نہایت ہی آسان ہوجاتا ہے کہ وہ حرام خور کو برائی اور بے حیائی کی طرف مائل کرسکے۔ یہی وجہ ہے کہ ایسا آدمی اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرتے ہوئے اپنے ضمیر میں حیا محسوس نہیں کرتا۔ جب ضمیر حیا سے خالی ہوجائے تو ظلم کرنا، کاروبار میں ہیرا پھیری، اشیاء میں ملاوٹ‘ جھوٹ بول کرسودا بیچنا اور دوسرے کا حق مارنا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کی قسمیں کھا کر گاہک کو دھوکہ دینے میں بھی یہ شخص باک محسوس نہیں کرتا۔ رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بے حیائی کا نقصان ذکر کرتے ہوئے فرمایا کرتے تھے : (اِنَّ مِمَّا اَدْرَکَ النَّاسُ مِنْ کَلَام النُّبُوَّۃِ الْاُؤلٰی إِذَا لَمْ تَسْتَحْیِ فَاصْنَعْ مَاشِءْتَ) [ رواہ البخاری : کتاب الادب، باب إذا لم تستحی فاصنع ماشئت ] ” جو کچھ لوگوں نے پہلے انبیاء کی تعلیم سے پایا وہ یہ ہے کہ جب تجھ سے حیا ختم ہوجائے تو جو چاہے کر گزر۔“ حرام کی دولت جب کسی گھر میں داخل ہوتی ہے تو اس میں بے حیائی کا ماحول پیدا ہوجاتا ہے۔ پردہ نشین عورتوں کے نقاب اترنا شروع ہوجاتے ہیں‘ بچیوں کے سروں سے دوپٹے سرکتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں، نوجوان اچھی روایات کو چھوڑ کر بری عادات کو فیشن کے طور اپنانے میں فخر اور شرافت کے ماحول میں گھٹن محسوس کرتے ہیں۔ ایسے شخص کے پاس اگر مال کی فراوانی اور جوانی ہو تو وہ برائی اور بدکاری میں آگے ہی بڑھتا چلا جاتا ہے۔ اگر ان لوگوں کو سمجھایاجائے تو کچھ لوگ حد سے آگے بڑھ کر کہتے ہیں کہ ہم اللہ تعالیٰ کی مرضی کے مطابق ہی سب کچھ کھاپی رہے ہیں۔ اس طرح وہ اپنی حرام خوری کو اللہ رب العزّت کے ذمہ لگاتے ہیں۔ جس کو قرآن مجید نے سورۃ النحلکی آیت ٣٥ میں مشرکوں کا کردار بتاتے ہوئے یوں بیان فرمایا ہے کہ :” مشرک کہتے ہیں اگر اللہ چاہتا تو ہم اور ہمارے آباء و اجداد اللہ کے علاوہ نہ کسی کی عبادت کرتے اور نہ کسی چیز کو حرام ہی قرار دیتے۔“ مسائل ١۔ شیطان انسان کو برائی، بے حیائی اور اللہ تعالیٰ کے متعلق غلط باتیں سکھلاتا ہے۔ البقرة
170 فہم القرآن ربط کلام : تقلید آباء بھی شیطان کی پیروی کا نتیجہ ہے۔ جس طرح شیطان بے حیائی اور انسان کو اللہ تعالیٰ کے بارے میں لایعنی گفتگو کا حکم دیتا ہے اسی طرح وہ یہ بات بھی دلیل کے طور پر آدمی کو سمجھاتا ہے کہ آخر پہلے لوگ اور بزرگ کوئی غلط اور گمراہ تھے؟ حالانکہ یہ سوچ عقل کے خلاف اور جانوروں کا طریقہ ہے۔ جب انہیں حرام وحلال اور دیگر مسائل کے حوالے سے کتاب اللہ کی طرف رجوع کرنے کے لیے کہا جائے تو جواب دیتے ہیں کہ ہم تو انہی روایات پر چلیں گے جن پر ہمارے آباء و اجداد چلا کرتے تھے۔ وہ یہ بھی نہیں سوچتے کہ ان کے بزرگ دین کی سمجھ نہیں رکھتے تھے اور نہ ہی ہدایت یافتہ تھے۔ اس ارشاد سے یہ بات بڑی واضح ہوتی ہے کہ بزرگوں کی روایات کو اس وقت اپنایا جائے گا جب وہ کتاب الٰہی کے مطابق ہوں گی۔ بصورت دیگر ہر فرد پر انہیں مسترد کرنا فرض ٹھہرے گا۔ اگر رسومات اور بزرگوں کی روایات کو من و عن قبول کرلیا جائے تو پھر شریعت کی کیا حیثیت باقی رہ جاتی ہے ؟ درحقیقت یہ وہ اندھی تقلید ہے جسے بہانہ بنا کر لوگ گمراہی کے راستہ پر چلنا اپنے لیے فخرسمجھتے ہیں۔ دین کے راستے میں یہی وہ رکاوٹ ہے جو انبیاء کرام کے سامنے سب سے پہلے پیش کی جاتی تھی۔ تقلید خاندانی روایات کی صورت میں ہو یا ائمہ کرام کے حوالے سے، مقلدین ہمیشہ سے جذباتی فضاپیدا کرتے ہوئے دوہی جواز پیش کرتے ہیں۔ ایک جوازجو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے خطاب کے جواب میں فرعون نے پیش کیا تھا کہ اے موسیٰ ! جو ہمارے بزرگ پہلے فوت ہوچکے ہیں کیا وہ سب کے سب گمراہ اور جہنمی تھے؟ جس کا جواب پیغمبرانہ شان کے مطابق دیتے ہوئے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا تھا کہ پہلوں کے بارے میں خدا ہی بہتر جانتا ہے۔ وہ نا بھٹکا ہے اور نا بھولتا ہے۔ [ طٰہٰ: ٥١، ٥٢] دوسرا جواز یہ بیان کیا جاتا ہے کہ کیا ائمہ کرام اور بڑے بڑے علماء کو اس مسئلہ کا علم نہیں تھا ؟ اگر تقلید جامد کے مؤ یّدین کے نزدیک قرآن وسنت ہی معیار ہو تو انہیں یہ انداز گفتگو کس طرح زیب دیتا ہے ؟ بسا اوقات اس کا جواب اس قدرحساس صورت حال پیدا کردیتا ہے کہ اعتراض کرنے والا اپنے گریبان میں جھانکے بغیر نہیں رہ سکتا۔ کیونکہ اگر یہ بزرگ واقعتًا اس اختلافی مسئلہ میں کتاب و سنت کا علم رکھتے تھے تو وہ قرآن وسنت کے واضح دلائل کے خلاف کس طرح عمل کرسکتے تھے ؟ اگر اس مسئلہ کے بارے میں قرآن وسنت کے دلائل سامنے ہونے کے باوجود انہوں نے اسے تسلیم نہیں کیا تو ان کی عظیم شخصیات کو کس نظر سے دیکھنا چاہیے؟ اس نازک صورت حال میں سلامتی کا یہی راستہ ہے کہ ہم قرآن وسنت کو معیار ٹھہراتے ہوئے ان کے بارے میں یہ نقطۂ نگاہ قائم کریں کہ علم کی اشاعت کم ہونے کی وجہ سے مطلوبہ دلائل ان کی نگاہ سے اوجھل رہے۔ جس کی وجہ سے ان کی طرف منسوب موقف نظر ثانی کے لائق ہے۔ لیکن مقلدانہ ذہن رکھنے والے حضرات اہمیتِ مسئلہ اور ان کی شخصیات کا لحاظ رکھے بغیر تقلید پر اصرار کرنا دین کا حصّہ تصور کرتے ہیں۔ قرآن مجید اس طرز فکر کو عقل وہدایت کا راستہ تصور نہیں کرتا۔ اس لیے اندھے مقلدین کے بارے میں یہ تبصرہ فرمایا کہ ان کی مثال تو جانوروں کی طرح ہے جو عقل وفکر اور کسی اصول کی پیروی کیے بغیر محض اپنے سے پہلے جانور کی اتباع میں چلے جا رہے ہیں اور مقلد بھی جانوروں کی طرح بات کا مفہوم سمجھے بغیر محض ایک پکار‘ دعو ٰی اور ایک عادت کے طور چلتے ہیں۔ اب یہ سننے، بولنے اور دیکھنے کی صلاحیت سے محروم ہوچکے ہیں۔ جس کی وجہ سے عقل وفہم کے دروازے ان پر بند ہیں اور یہ حقیقی عقل سے عاری ہوچکے ہیں۔ جب عقل ہی اپنے ٹھکانے نہ رہی تو ہدایت کس طرح پاسکتے ہیں ؟۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ کے احکامات کے مقابلے میں آباء و اجداد کی اتّباع نہیں کرنا چاہیے۔ ٢۔ کافر لوگ جانوروں کی طرح بلانے والے کی صرف آواز سنتے ہیں غور و فکر نہیں کرتے۔ ٣۔ کافر جانوروں سے بھی زیادہ بھٹکے ہوئے ہیں۔ تفسیربالقرآن اندھی تقلید کا انجام : ١۔ مشرک اپنے آباؤ اجداد کی اندھی تقلید کرتے ہیں۔ (البقرۃ: ١٧٠) ٢۔ المائدۃ: ١٠٤ ٣۔ الاعراف : ٢٨ ٤۔ یونس : ٧٨ ٥۔ الانبیاء : ٥٣ ٦۔ الشعراء : ٧٤ ٧۔ لقمان : ٢١ ٨۔ الصافات : ٦٩، ٧٠ ٩۔ الزخرف : ٢٢ تا ٢٥ البقرة
171 البقرة
172 فہم القرآن ربط کلام : پہلے تمام لوگوں کو حلال کھانے کا حکم دیا تھا اب خاص کر مومنوں کو یہ کہہ کر حلال کھانے کا حکم دیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی خالص عبادت کرنے کا تقاضا ہے کہ حلال کھانے کا اہتمام کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ حرام خور کی عبادت قبول نہیں کرتا۔ قبل ازیں بنی نوع انسان کو حلال وطیب کھانے کا حکم دیتے ہوئے فرمایا گیا کہ حلال وطیب کا اہتمام نہ کرنے والا درحقیقت شیطان کی پیروی کرتا ہے۔ شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے۔ وہ حرام خوری کے ذریعے نہ صرف تمہیں تمہارے خالق سے دور رکھ کر تمہارے ساتھ دشمنی کا مظاہرہ کرتا ہے بلکہ وہ حرام کھانے اور کمانے کے ذرائع کے ذریعے بھی تمہارے درمیان نفرتیں اور عداوتیں پیدا کرتا ہے۔ کیونکہ حرام ذرائع کے ساتھ دولت کمانے سے لامحالہ دوسرے کے مالی حقوق کو نقصان پہنچتا ہے جس سے لوگوں کے درمیان نفرتیں پروان چڑھتی ہیں۔ ان نقصانات سے محفوظ رکھنے کے لیے ایمان داروں کو خصوصی خطاب کرتے ہوئے حکم دیا ہے کہ اے ایمان وایقان رکھنے والو! تمہیں پاک چیزیں کھانی چاہییں جو ہم نے تمہیں عطا فرمائی ہیں۔ اِدھر ادھر ہاتھ مارنے کے بجائے انہی پر صابر و شاکر رہنے کی کوشش کرو۔ حلال پر صبر وشکر تب ہی کر پاؤ گے جب تم اپنے آپ کو ہماری غلامی اور عبادت کے لیے خالص کرلو گے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ طیبات کھانے والوں کی ہی عبادت قبول کرتا ہے۔ (عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِیْرٍ (رض) قَالَ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَقُوْلُ الْحَلَالُ بَیِّنٌ وَالْحَرَامُ بَیِّنٌ وَبَیْنَھُمَا مُشْتَبِھَاتٌ لَایَعْلَمُھُنَّ کَثِیْرٌ مِّنَ النَّاسِ فَمَنِ اتَّقَی الشُّبُھَاتِِ اِسْتَبْرَأَ لِدِیْنِہٖ وَعِرْضِہٖ وَمَنْ وَقَعَ فِی الشُّبُھَاتِ وَقَعَ فِی الْحَرَامِ کَالرَّاعِیْ یَرْعٰی حَوْلَ الْحِمٰی یُوْشِکُ أَنْ یَّرْتَعَ فِیْہِ أَلَا وَإِنَّ لِکُلِّ مَلِکٍ حِمًی أَلَا وَإِنَّ حِمَی اللّٰہِ مَحَارِمُہٗ أَلَا وَإِنَّ فِیالْجَسَدِ مُضْغَۃً إِذَا صَلَحَتْ صَلَحَ الْجَسَدُ کُلُّہٗ وَإِذَا فَسَدَتْ فَسَدَ الْجَسَدُ کُلُّہٗ أَلَا وَھِیَ الْقَلْبُ) [ رواہ مسلم : کتاب المساقاۃ، باب أخذ الحلال وترک الشبھات] ” حضرت نعمان بن بشیر (رض) بیان کرتے ہیں میں نے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ حلال بھی واضح ہے اور حرام بھی مگر ان دونوں کے درمیان کچھ مشتبہات ہیں۔ جن سے اکثر لوگ واقف نہیں۔ جو شخص ان مشکوک چیزوں سے بچا رہا اس نے اپنے دین اور عزت کو محفوظ رکھا۔ اور جو ان میں ملوث ہوگیا اس کی مثال ایسے چرواہے کی ہے جو اپنے جانوروں کو سرکاری چراگاہ کے قریب لے جاتا ہے۔ بہت ممکن ہے وہ جانور اس چراگاہ میں گھس جائیں۔ اچھی طرح سن لو! ہر بادشاہ کی ایک چراگاہ ہوتی ہے اللہ تعالیٰ کی چراگاہ اس کی حرام کردہ چیزیں ہیں۔ خبردار جسم میں ایک ٹکڑا ہے اگر وہ درست ہو تو پورا جسم درست رہتا ہے اگر وہ خراب ہوجائے تو سارا جسم ہی خراب ہوجاتا ہے۔ سنو! وہ دل ہے۔“ حلال کے بارے میں احادیث (عَنِ الْمِقْدَامِ بْنِ مَعْدِ یْکرِبَ الزُّبَیْدِیِّ (رض) عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ مَا کَسَبَ الرَّجُلُ کَسْبًا أَطْیَبَ مِنْ عَمَلِ یَدِہٖ وَمَا أَنْفَقَ الرَّجُلُ عَلٰی نَفْسِہٖ وَ أَہْلِہٖ وَوَلَدِہٖ وَخاَدِمِہٖ فَہُوَ صَدَقَۃٌ) [ رواہ ابن ماجۃ: کتاب التجارات، باب الحث علی المکاسب] ” حضرت مقدام بن معدیکرب (رض) رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں آپ نے فرمایا : آدمی کے ہاتھ کی کمائی سے بڑھ کر اور کوئی کمائی پاکیزہ نہیں آدمی اپنے نفس، اہل، اولاد اور خادم پر جو کچھ خرچ کرتا ہے وہ صدقہ ہے۔“ (عَنْ عَاءِشَۃَ قَالَتْ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) إِنَّ مِنْ أَطْیَبِ مَآ أَکَلَ الرَّجُلُ مِنْ کَسْبِہٖ وَوَلَدُہٗ مِنْ کَسْبِہٖ) [ رواہ أبوداوٗد : کتاب البیوع، باب فی الرجل یأکل من مال ولدہ] ” حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : بہترین اور پاکیزہ مال وہ ہے جو آدمی اپنی کمائی سے کھاتا ہے اس کی اولادبھی اس کی کمائی ہے۔“ (لَایَدْخُلُ الْجَنَّۃَ لَحْمٌ وَ دَمٌ نَبْتَا عَلٰی سُحْتٍ فَالنَّارُ اَولٰی بِہٖ) [ رواہ الترمذی : کتاب الصلاۃ، باب ما ذکر فی فضل الصلٰوۃ] ” جنت میں وہ گوشت اور خون داخل نہیں ہوگا جو حرام سے پلا ہوگا اس کے لیے دوزخ ہی مناسب ہے۔“ مسائل ١۔ صاحب ایمان لوگوں کو پاک روزی کھانا چاہیے۔ ٢۔ ہر دم اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہیے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ ہی رزق دینے والا ہے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ کی عبادت کا تقاضا ہے کہ ہمیشہ حلال کمایا اور کھایاجائے۔ تفسیربالقرآن اکل حلال کی اہمیت : ١۔ ایمان داروں کو حلال کھانے کا حکم۔ (البقرۃ : ١٧٢) ٢۔ رسولوں کو اکل حلال کی تلقین۔ (المومنون : ٥١) ٣۔ تمام لوگوں کو اکل حلال کا حکم۔ (البقرۃ : ١٦٨) البقرة
173 فہم القرآن ربط کلام : جس طرح حلال کھانا لازم ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ کی حرام کردہ چیزوں کو حرام سمجھنا اور ان سے پوری طرح اجتناب کرنا بھی ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جن چیزوں کے کھانے کا حکم دیا ہے وہ انسان کے لیے ہر اعتبار سے مفید ہیں اور جن سے منع فرمایا ہے وہ روحانی اور جسمانی لحاظ سے انتہائی نقصان دہ ہیں۔ بعض لوگ اللہ تعالیٰ کی حرام کردہ چیزوں کی حرمت کی وجوہات معلوم کرنے بیٹھ جاتے ہیں۔ اگر کوئی غیر مسلم کو مطمئن کرنے کے لیے ایسا کرتا ہے تو اس میں حرج کی بات نہیں۔ اگر یہ کاوش اس لیے کی جائے کہ حرمت کی حکمت سمجھے بغیر وہ اس سے رکنے کے لیے تیار نہیں تو ایسے شخص کو اپنے ایمان پر غور کرنا چاہیے۔ بھلا کون سی حکومت ہے جو اپنے تمام قوانین کی توجیہ بیان کرتی ہو؟ اس طرح تو قانون کا حجم پھیلتا ہی چلا جائے گا۔ اگر حکم کی حکمت جاننے کے بعد اس پر عمل کرتا ہے تو پھر اتھارٹی کی کیا حیثیت رہ جائے گی؟ حکمت جانے اور اطمینان کیے بغیر حکم نہ ماننے والے شخص نے تو اپنی عقل اور اطمینان کو خدا کا درجہ دے دیا ہے۔ اکل حلال کا حکم دینے کے بعد یہاں چار بڑے محرمات کا ذکر کیا گیا ہے : (1) ہرقسم کے مردار کھانے سے منع کیا گیا ہے سوائے دوچیزوں کے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرمایا کرتے تھے : (اُحِلَّتْ لَنَا مَیْتَتَانِ اَلْحُوْتُ وَالْجَرَادُ) [ رواہ ابن ماجہ : کتاب الصید، باب صید الحیتان والجراد] ” ہمارے لیے دو مردار حلال کیے گئے ہیں۔ مچھلی اور ٹڈی۔“ (2) نزول قرآن کے وقت وحشی قبائل نہ صرف مردار کھایا کرتے بلکہ وہ جانوروں کا خون بھی پی جاتے تھے۔ جس طرح آج بھی افریقہ کے کئی وحشی قبائل جانوروں کا ہی نہیں بلکہ انسانوں کا بھی خون پینے سے گریز نہیں کرتے۔ جدید تحقیق کے مطابق خون میں کئی ایسے جراثیم ہوتے ہیں جن سے پیدا ہونے والی بیماریوں کا علاج ممکن نہیں ہوتا۔ تبھی تو اللہ تعالیٰ نے مردہ یا زندہ جانور کا خون پینے سے منع فرما دیا ہے البتہ کسی کی زندگی بچانے کے لیے خون کا میڈیکل استعمال جائز ہے۔ (3) خنزیر کا گوشت کھانا بھی حرام ہے۔ اس کے بارے میں جدید اور قدیم اطباء کا اتفاق ہے کہ اس کا گوشت کھانے سے انسان کے جسم میں نہ صرف مہلک بیماریاں پیدا ہوتی ہیں بلکہ آدمی میں بے حیائی اور بے شرمی کے جذبات ابھرتے ہیں۔ کیونکہ خنزیر جانوروں میں سب سے زیادہ بے غیرت جانور ہے۔ کوئی بھی جانور اپنی جنم دینے والی مادہ کے ساتھ اختلاط کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتا جب کہ خنزیر کی طبیعت میں اس کام میں کوئی جھجک نہیں پائی جاتی۔ (4) غیر اللہ کے نام پر ذبح کی یا پکائی ہوئی چیز اس لیے حرام کی گئی کہ اس سے روح، عزت اور ایمان کی موت واقع ہوتی ہے۔ ایک غیرت مند ایماندار سے یہ کس طرح توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ گردانے گئے شریک کے نام پر چڑھائی گئی چیز کھانے یا اسے استعمال کرنے پر آمادہ ہوجائے ؟ یہ نہ صرف غیرت ایمانی کے منافی ہے بلکہ فطرت بھی اس بات کو گوارا نہیں کرتی بشرطیکہ کسی کی فطرت مسخ نہ ہوچکی ہو۔ فطرت سلیم کا ثبوت اس فرمان کے نازل ہونے سے پہلے مکہ میں پایا گیا ہے۔ (عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) أَ نَّہٗ لَقِیَ زَیْدَ بْنَ عَمْرِ و بْنِ نُفَیْلٍ بِأَسْفَلَ بَلْدَحٍ وَذَاکَ قَبْلَ أَنْ یُّنْزَلَ عَلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) الْوَحْیُ فَقُدِّمَتْ إِلَی النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سُفْرَۃٌ فَأَبٰی أَنْ یَّأْکُلَ مِنْھَا ثُمَّ قَالَ زَیْدٌ إِنِّیْ لَسْتُ آکُلُ مِمَّا تَذْبَحُوْنَ عََلٰی أَنْصَابِکُمْ وَلَا آکُلُ إِلَّا مِمَّا ذُکِرَ اسْمُ اللّٰہِ عَلَیْہِ) [ رواہ البخاری : کتاب الذبائح والصید] ” وحی نازل ہونے سے پہلے بلدح کے نشیبی علاقے میں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ملاقات زید بن عمر وبن نفیل سے ہوئی۔ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے ایک دستر خوان لایا گیا جس پر غیر اللہ کے نام کی کوئی چیز تھی۔ آپ نے کھانے سے انکار کردیا۔ اسکے ساتھ ہی جناب زید نے کہا کہ میں بھی ان ذبیحوں کا گوشت نہیں کھاتا جو تم اپنے آستانوں پر ذبح کرتے ہو اور نہ ان جیسی کوئی اور چیز کھاتاہوں سوائے اس چیز کے جس پر اللہ کا نام لیا گیا ہو۔“ ابو قلابہ کہتے ہیں : (حَدَّثَنِیْ ثَابِتُ بْنُ الضَّحَاکِ (رض) قَالَ نذَرَ رَجُلٌ عَلٰی عَھْدِ رَسُوْلِ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) أَنْ یَنْحَرَ إِبِلًا بِبُوَانَۃَ فَأَتَیالنَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَقَالَ إِنِّیْ نَذَرْتُ أَنْ أَنْحَرَ إِبِلًا بِبُوَانَۃَ فَقَال النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ھَلْ کَانَ فِیْھَا وَثَنٌ مِنْ أَوْثَانِ الْجَاھِلِیَّۃِ یُعْبَدُ قَالُوْا لَا قَالَ ھَلْ کَانَ فِیْھَا عِیْدٌ مِنْ أَعْیَادِھِمْ قَالُوْا لَا قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) أَوْفِ بِنَذْرِکَ فَإِنَّہٗ لَاوَفَاءَ لِنَذْرٍ فِیْ مَعْصِیَۃِ اللّٰہِ وَلَا فِیْمَا لَا یَمْلِکُ ابْنُ آدَمَ) [ رواہ أبوداوٗد : کتاب الأیمان والنذور باب مایؤمربہ من وفاء النذر] ” مجھے ثابت بن ضحاک (رض) نے بتایا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دور میں ایک آدمی نے بوانہ نامی جگہ پر اونٹ ذبح کرنے کی نذر مانی۔ اس نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آکر عرض کی میں نے نذر مانی ہے کہ میں بوانہ نامی جگہ پر اونٹ ذبح کروں گا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : کیا وہاں جاہلیت کے بتوں میں سے کوئی بت تھا جس کی عبادت کی جاتی تھی؟ صحابہ نے عرض کیا نہیں۔ آپ نے پھر پوچھا : کیا وہاں کوئی ان کا میلہ لگتا تھا؟ صحابہ نے نفی میں جواب دیا تو آپ نے فرمایا : اپنی نذر پوری کرو کیونکہ اللہ کی نافرمانی والی نذر پوری نہیں کرنا چاہیے اور نہ ہی وہ نذر پوری کرنالازم ہے جس کی انسان طاقت نہیں رکھتا۔“ اللہ تعالیٰ کا رحم وکرم تو دیکھیے کہ ان چار چیزوں سے سختی کے ساتھ منع کرنے کے باوجود ایسے شخص کے لیے ان کو کھانے کی اجازت دی ہے جسے زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھنے کا شدید خطرہ لاحق ہوگیا ہو۔ لیکن اس کے ساتھ یہ شرط رکھی کہ نہ وہ پہلے سے ان چیزوں کے کھانے کا عادی ہو اور نہ ہی حرام خوری کی طرف اس کا دل مائل ہو۔ عمومًا یہ سمجھا جاتا ہے کہ جس جانور پر ذبح کرتے وقت اللہ کے سوا کسی دوسرے کا نام لیا جائے، صرف وہی حرام ہوتا ہے۔ یہ تصور بالکل غلط ہے، کیونکہ قرآن کے الفاظ میں نہ جانور کا ذکر ہے نہ ذبح کا بلکہ ” ما“ کا لفظ ہے جس میں عمومیت پائی جاتی ہے۔ لہٰذا اس کا معنی یہ ہوگا کہ جو چیز کسی بزرگ‘ دیوی، دیوتا کا تقرب حاصل کرنے اور اس کے نام پر مشہور کردی جائے جیسے امام جعفر کے کو نڈے، بی بی کی صحنک، مزار کے لیے بکرا وغیرہ یہ سب چیزیں حرام ہیں۔ بعض علماء لوگوں کو دھوکہ دینے کے لیے کہتے ہیں دودھ، چاول حلال ہیں اگر کوئی چیز کسی کے نام پر پکائی جائے یہ حرام کس طرح ہوگئی بے شک وہ چیزجو فی نفسہٖ حلال ہو اور اس پر ذبح کے وقت اللہ کا نام ہی کیوں نہ لیا جائے وہ حرام ہی رہے گی۔ کیونکہ غیر اللہ کے نام کی نیت رکھنے سے ہی وہ چیز حرام ہوجائے گی۔ اس لیے کہ اللہ کی عطا کردہ چیزوں کی قربانی یا نذر ونیاز صرف اسی کے نام کی ہونا چاہیے اس میں کسی کو شریک نہ بنایا جائے۔ ہاں اگر کوئی شخص صدقہ وخیرات یا قربانی کرتا ہے اور اس سے اس کی نیت یہ ہو کہ اس کا ثواب میرے فوت شدہ والدین یا فلاں رشتہ دار یا فلاں بزرگ کو پہنچے تو اس میں کوئی حرج نہیں، یہ نیک عمل ہے اور سنت سے ثابت ہے۔ مسائل ١۔ مردار کھانا، خون پینا، خنزیر کا گوشت اور غیر اللہ کے نام کی چیز کھانا ہمیشہ کے لیے حرام ہے۔ ٢۔ بھوک کی حالت میں مرنے کے خوف سے یہ چیزیں معمولی مقدار میں کھانے پر کوئی گناہ نہیں۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ مجبوری کے عالم میں حرام کھانے والوں کو معاف کرنے والا‘ مہربان ہے۔ تفسیربالقرآن اللہ تعالیٰ کی حرام کردہ اشیاء : ١۔ مردار‘ خون‘ خنزیر کا گوشت‘ غیر اللہ کے نام پر مشہور کی ہوئی چیز‘ گلا گھٹنے سے مرا ہوا جانور کسی چوٹ سے مرا ہوا‘ اونچی جگہ سے گر کر مرا ہوا‘ سینگ لگنے سے مرا ہوا‘ جسے درندوں نے پھاڑ کھایا ہو اور جو آستانوں پر ذبح کیا جائے حرام ہیں۔ (المائدۃ: ٣) ٢۔ جس کو ذبح کرتے وقت اللہ کا نام نہ لیا گیا ہو وہ بھی حرام ہے۔ (الانعام : ١٢١) البقرة
174 فہم القرآن ربط کلام : اہل کتاب نے حرام و حلال کی فہرست میں تبدیلی کرنے کے ساتھ بے شمار حقائق کو پیٹ کے دھندے کی خاطر چھپا لیا تھا جس پر انہیں جہنم کی وعید سنائی گئی ہے۔ اہل ایمان کو ان سے بچنے کی تلقین کی جا رہی ہے۔ اہل کتاب کے علماء نے صرف رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اوصاف حمیدہ ہی نہیں چھپائے بلکہ اپنی شکم پروری اور بڑے لوگوں کی عیاشی اور مفادات کی خاطر اللہ تعالیٰ کے احکام بھی چھپانے کے جرم میں ملوّث ہوئے۔ جن میں حلال وحرام کی وضاحت کی گئی تھی۔ اس طرح بے شمارامور کو اپنے لیے جائز اور حرام کردہ چیزوں کو حلال کرنے کی جسارت کے مرتکب ہوئے۔ انہوں نے شکم پروری، سیاسی مفاد، مذہبی مقام اور آخرت کی عظیم اور لامحدود نعمتوں کے بدلے دنیا کی معمولی اور عارضی چیزوں کو حاصل کرنے کے لیے فتویٰ فروشی کی۔ ایسے انواع واقسام کے نوالے کھانے والے ضمیر اور ایمان فروشوں کے ساتھ قیامت کے دن رب کبریا کلام نہیں کرے گا اور نہ ہی انہیں معاف کیا جائے گا‘ انہیں اذیت ناک اور ذلت آمیز عذاب ہوگا کیونکہ یہ لوگ جانتے بوجھتے ہدایت کے بدلے گمراہی اور اللہ کی شفقت ومغفرت کے عوض اس کے قہرو غضب اور ہمیشہ کی زندگی کے مقابلے میں قلیل اور حقیر دنیا کا انتخاب کرنے والے ہیں۔ مزید انتباہ فرمایا کہ آج تو یہ دین کے بدلے درہم ودینار کی شکل میں جہنم کے انگارے جمع کر اور نگل رہے ہیں لیکن قیامت کے دن جب یہ مال حقیقتاً آگ کے شعلے بن چکا ہوگا تب یہ اسے کس طرح برداشت اور اس پر صبر کرسکیں گے؟۔ ذرا غور کیجیے ! کہ جو رحیم وکریم مالک دنیا میں ندامت کے ایک آنسو سے ریت کے ذرّات کے برابر گناہوں کو معاف کردیتا ہے‘ جو توبہ کی غرض سے اٹھنے والے ہاتھوں کی لاج رکھتے ہوئے پہاڑوں سے بڑی بلاؤں کو ٹال دیتا ہے۔ جو اپنے حضور افسردہ چہروں اور کانپتے ہوئے ہونٹوں کی اس حد تک قدر کرتا ہے کہ جو نہی گناہ گار بندوں سے رَبَّنَا ظَلَمْنَا اَنْفُسَنَا سنتا تو اس کی رحمتوں، بخششوں اور مہربانیوں کے سمندر میں تلاطم پید اہو جایا کرتا۔ لیکن آج حق چھپانے کے جرم کی پاداش میں رب ذوالجلال اس حد تک غضب ناک ہوچکے ہیں کہ نظر کرم سے دیکھنے، شفقت سے التفات کرنے اور ایسے لوگوں کو گناہوں سے پاک کرنے کے بجائے سخت ترین عذاب میں مبتلا کیے جارہا ہے۔ درحقیقت یہ لوگ اختلاف وعصبیت اور مفاد پرستی و خود غرضی میں اس قدر آگے بڑھ چکے ہیں کہ انہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کردہ حق میں سچائی نظر ہی نہیں آتی۔ یہ اختلاف اور تعصب بالآخر انہیں جہنم میں لے جائے گا۔ یہ ہے پڑھے لکھے بالخصوص ایسے مذہبی پیشواؤں کی سزا جنہوں نے اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ حق کو چھپایا اور بات بات میں شریعت کا مفہوم بگاڑا اور اس میں اختلافات پیدا کیے۔ مسائل ١۔ حق بات چھپانے کے بدلے میں دنیا کمانے والے اپنے پیٹوں میں آگ ڈالتے ہیں۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن ان کو درد ناک عذاب سے نجات نہیں دیں گے۔ ٣۔ ہدایت کے بدلے گمراہی اور بخشش کے مقابلے میں عذاب کو ترجیح دینے والوں کے لیے جہنم کی آگ ہے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ کی آیات میں اختلاف کرنے والا پرلے درجے کا ضدی ہوتا ہے۔ تفسیربالقرآن دنیا کی حیثیت : ١۔ اللہ کی آیات کے مقابلے میں پوری دنیا قلیل ہے۔ (البقرۃ : ١٧٤) ٢۔ دنیا کا فائدہ قلیل ہے۔ (النساء : ٧٧) ٣۔ آخرت کے مقابلے میں دنیا قلیل ہے۔ (التوبۃ: ٣٨) ٤۔ آخرت کے مقابلے میں دنیا کی مدت کم اور قلیل ہے۔ (الاسراء : ٥٢) البقرة
175 البقرة
176 البقرة
177 فہم القرآن ربط کلام : پہلی آیت میں حق چھپانے اور اللہ تعالیٰ کی آیات کے بدلے دنیا کمانے کی سزا بیان کرتے ہوئے اشارہ دیا ہے کہ بیت اللہ کو قبلہ نہ ماننا، رسالت مآب کی نبوت‘ ایک خدا کا انکار کرنا اور مسائل کو چھپانے کا بنیادی سبب باہمی اختلاف کا نتیجہ ہے۔ یہ رویہ اور سوچ سراسر نیکی کے خلاف ہے۔ حقیقی نیکی کے اعمال یہ ہیں۔ یہودونصارٰی وقفے وقفے کے بعد قبلہ کی بحث چھیڑتے تاکہ مسلمانوں کو رسمی اور لفظی بحث میں الجھایا جائے۔ حالانکہ تحویل قبلہ کے ابتدائی احکامات میں واضح کردیا گیا تھا کہ اس پر اعتراض کرنا اور اس بحث میں الجھنا بیوقوفوں کا کام ہے۔ کیونکہ مشرق و مغرب اللہ ہی کی ملکیت ہیں اور اسے اختیار ہے کہ وہ جس طرف چاہے تمہیں رخ کرنے کا حکم صادر فرمائے۔ اب اس بحث کو سمیٹتے ہوئے فرمایا جارہا ہے کہ نیکی کی روح اور حقیقت صرف یہ نہیں کہ آدمی اپنا منہ مشرق یا مغرب کی طرف کرلے۔ یہ تو نیکی کی روح تک پہنچنے کے ذرائع میں سے ایک ذریعہ ہے۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ نے جو طریقہ اور راستہ تمہارے لیے منتخب کیا ہے اسے اختیار کرو اور یاد رکھو کبھی راستے اور طریقے منزل نہیں ہوا کرتے۔ اصل نیکی تو یہ ہے کہ ان راستوں اور طریقوں کو اختیار کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی رضا تلاش کی جائے۔ الفاظ کے گورکھ دھندوں میں الجھنے اور ظاہری طریقوں پر اکتفا کرلینے سے مقصود حاصل نہیں ہوا کرتا۔ اسی فلسفہ کو رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس طرح بیان فرمایا کہ ایک وقت آئے گا اسلام کے ظاہری ارکان باقی رہ جائیں گے۔ (عَنْ عَلِیٍّ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَأْتِیْ عَلَی النَّاسِ زَمَانٌلَایَبْقٰی مِنَ الْاِسْلَامِ اِلَّاإِسْمُہٗ وَلَا یَبْقٰی مِنَ الْقُرْاٰنِ إِلَّا رَسْمُہٗ مَسَاجِدُھُمْ عَامِرَۃٌ وَھِیَ خَرَابٌ مِنَ الْھُدٰی عُلَمَاءُ ھُمْ شَرُّ مَنْ تَحْتَ أَدِیْمِ السَّمَآءِ مِنْ عِنْدِ ھِمْ تَخْرُجُ الْفِتْنَۃُ وَفِیْھِمْ تَعُوْدُ) [ سنن البہیقی، شعب الایمان باب یوشک ان یاتی علی الناس زمان] ” حضرت علی (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : لوگوں پر ایک دور آئے گا کہ اسلام کا صرف نام رہ جائے گا‘ قرآن کی تلاوت رسم کے طور پر کی جائے گی‘ ان کی مساجد تو آباد ہوں گی لیکن ہدایت سے خالی ہوں گی‘ ان کے علماء آسمان کی چھت تلے شریر ترین لوگ ہوں گے‘ انہی سے فتنہ ظہور پذیر ہوگا اور انہی کی طرف لوٹ جائے گا۔“ اس آیت میں وضاحت کی جارہی ہے کہ مشرق ومغرب کی طرف منہ کرنا ہی نیکی نہیں بلکہ نیکی کی روح یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کے فرمان پر ایمان لا کر اس کے تقاضے پورے کیے جائیں۔ اس عقیدے کے ساتھ کہ آخرت میں ان کے بارے میں جواب طلبی ہونے والی ہے اور بالآخر یہ دِن برپا ہو کر رہے گا۔ ملائکہ پر اس طرح ایمان لایا جائے کہ وہ خدائی نظام حکومت کے تابع فرمان، اہلکار، ہمارے نگران اور صبح وشام ہماری زندگی کے ایک ایک لمحے کی رپورٹ لکھ کر اللہ کے حضور پیش کر رہے ہیں۔ انبیاء کی ذات اور خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے ان پر ایمان لایا جائے، مال کی محبت کے باوجود اسے اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر رشتے داروں، یتیموں، مسکینوں، مسافروں، سوالیوں اور غلاموں کی آزادی پر خرچ کیا جائے۔ اس کے ساتھ ہی نماز کا اہتمام اور زکوٰۃ کی ادائیگی کی جائے۔ چاہے تم امن اور خوشحالی میں ہو یا بدحالی اور حالت جنگ میں گویا کہ ہر حال میں اللہ تعالیٰ کے احکامات پر صبرو استقامت کا مظاہرہ کرنے والے ہی قول کے سچے سمجھے جائیں گے۔ یہی لوگ در حقیقت نیکو کار اور پرہیزگار ہیں۔ اس فرمان میں کتاب مبین کی ابتدا سے لے کر اب تک جو احکامات بیان ہوئے ہیں اعتقادات، عبادات اور معاملات کا خلاصہ بیان کیا گیا ہے۔ ان احکامات کی تفصیل اپنے اپنے مقام پر بیان ہوگی یہاں قرآن کے اتّباع میں اجمال پر ہی اکتفا کرنا چاہیے۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ، آخرت، ملائکہ، آسمانی کتابوں اور انبیاء پر ایمان لانا، اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ مقامات پر خرچ کرنا، نماز کی پابندی، زکوٰۃ کی ادائیگی، عہد کی پاسداری، جہاد اور مخدوش حالات میں صبر کرنے والے سچے، نیک اور متقی لوگ ہیں۔ البقرة
178 فہم القرآن ربط کلام : متقین کی صفات میں یہ بات بھی شامل ہے اور ہونی چاہیے کہ معاشرے کو جرائم سے بچانے کے لیے وہ اسلام کا حدود و قصاص کانظام نافذ کریں یہی سمجھ داری، تقو ٰی کا تقاضا اور اس طرح ہی جرائم سے بچا جاسکتا ہے۔ اسلام کے نظام عدل سے پہلے دنیا میں قانون کے وجود اور اس کے نفاذ میں کئی قسم کے اختلافات، تضادات اور امتیازات پائے جاتے تھے۔ یہودیوں کا نقطۂ نگاہ یہ تھا اور ہے کہ اینٹ کا جواب پتھر سے دینا چاہیے۔ ان کے ہاں کمزور کے لیے معافی کی کوئی صورت نہیں۔ ان کے برعکس انجیل کی تعلیم یہ ہے کہ اگر کوئی زیادتی کرے تو اس سے بدلہ لینے کی بجائے اپنے چہرے کا دوسرا رخ پیش کردینا چاہیے۔ اس طرح یہود میں سختی ہی سختی اور عیسائیت میں نرمی ہی نرمی کو آگے بڑھایا گیا ہے۔ اسلام نے دونوں قسم کی فلاسفی کے درمیان راستہ اختیار کیا ہے۔ اگر کوئی شخص کسی کو عمدًا قتل کرتا ہے تو مقتول کے وارثوں کو تین باتوں میں سے کسی ایک کو اختیار کرنے کا حق دیا گیا ہے۔ اس کے لیے حکومت وقت کافرض ہے کہ وہ مقتول کے ورثاء کو ایسا ماحول فراہم کرے۔ جس میں وہ تینوں میں سے کوئی ایک بات اختیار کرتے ہوئے اپنے آپ پر کوئی دباؤ محسوس نہ کریں۔ (1) قتل کے بدلے قتل (2) قتل کے بدلے دیت (3) قاتل کو معاف کرنا۔ یہ بات ذہن میں راسخ ہونی چاہیے کہ یہ کام عدالت یا ذمہ دار اتھارٹی کے ذریعے ہونا ضروری ہے۔ ورنہ اچھے ثمرات کی بجائے مضرّات کا زیادہ خدشہ ہے۔ حکومت کی یہ ذمہ داری ” کُتِبَ عَلَیْکُمْ“ کے الفاظ میں مضمر ہے۔ جس کی روشنی میں نبی محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ورثاء کے لیے مجرم کو از خود سزا دینے کی اجازت نہیں دی۔ (عَنْ سَھْلِ بْنِ سَعْدٍ (رض) أَنَّ رَجُلًا أَتٰی رَسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَقَالَ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ أَرَأَیْتَ رَجُلًا رَأٰی مَعَ امْرَأَتِہٖ رَجُلًا أَیَقْتُلُہٗ فَتَقْتُلُوْنَہٗ أَمْ کَیْفَ یَفْعَلُ فَأَنْزَلَ اللّٰہُ مَا ذُکِرَ فِی الْقُرْآنِ مِنَ التَّلَاعُنِ فَقَالَ لَہٗ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَدْ قُضِیَ فِیْکَ وَفِی امْرَأَتِکَ قَالَ فَتَلَاعَنَا وَأَنَا شَاھِدٌ عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَفَارَقَھَا فَکَانَتْ سُنَّۃً أَنْ یُفَرَّقَ بَیْنَ الْمُتَلَاعِنِیْنَ وَکَانَتْ حَامِلًا فَأَنْکَرَ حَمْلَھَا وَکاَنَ ابْنُھَا یُدْعٰی إِلَیْھَا ثُمَّ جَرَتِ السُّنَّۃُ فِی الْمِیْرَاثِ أَنْ یَرِثَھَا وَتَرِثُ مِنْہُ مَا فَرَضَ اللّٰہُ لَھَا) [ رواہ البخاری : کتاب التفسیر، باب والخامسۃ أن لعنۃ اللّٰہ الخ] ” حضرت سھل بن سعد (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آکرکہنے لگا۔ اے اللہ کے رسول ! ایسے آدمی کے متعلق کیا خیال ہے جو اپنی بیوی کے ساتھ کسی آدمی کو پاتا ہے کیا وہ اسے قتل کردے تو آپ اسے قتل کردیں گے یا وہ کیا کرے ؟ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں لعان کے متعلق آیات نازل فرمائیں۔ اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے فرمایا : تیرے اور تیری بیوی کے متعلق فیصلہ ہوچکا ہے سہل (رض) کہتے ہیں پھر ان دونوں نے لعان کیا اور میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس موجود تھا۔ سنت طریقہ یہ ہے کہ لعان کرنے والوں کے درمیان علیحدگی کردی جائے۔ وہ عورت حاملہ تھی اس کے خاوند نے اس کے حمل کا انکار کیا پھر اس کا بیٹا اس عورت کی طرف منسوب کیا جاتا تھا۔ پھر میراث میں یہ طریقہ جاری کیا گیا کہ وہ اس کا وارث بنے گا اور وہ اس کی وارث بنے گی جو اللہ نے اس کے لیے مقرر کیا ہے۔“ جہاں تک پہلی اقوام کے قانون کی تنفیذ کا تعلق ہے۔ انہوں نے قانون کو موم کی ناک بنا رکھا تھا کہ حسب ضرورت جس طرف چاہا اس کا رخ موڑ دیا۔ اگر بڑے آدمی سے جرم سر زد ہوتا تو ان کی کوشش ہوتی کہ اس پر قانون کا اطلاق نہ ہونے پائے یا اس کے بدلے اس کے غلام کو سزا وار ٹھہرایا جائے۔ کوئی غیر مؤثر آدمی جرم کرتا تو اس پر قانون کا شکنجہ اس طرح کس دیا جاتا کہ نکلنے نہ پائے کی فضا پید اکر دی جاتی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس عملی تضاد کے بھیانک نتائج کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ پہلی اقوام اس وجہ سے تباہ ہوئیں کہ وہ عدل نہیں کرتی تھیں : ( عَنْ عَاءِشَۃَ (رض) أَنَّ قُرَیْشًا أَھَمَّھُمْ شَأْنُ الْمَرْأَۃِ الْمَخْزُوْمِیَّۃِ الَّتِیْ سَرَقَتْ فَقَالُوْا وَمَنْ یُکَلِّمُ فِیْھَا رَسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالُوْا وَمَنْ یَجْتَرِ ئُ عَلَیْہِ إِلَّا أُسَامَۃُ بْنُ زَیْدٍ حِبُّ رَسُوْلِ اللّٰہِ فَکَلَّمَہٗ أُسَامَۃُ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) أَتَشْفَعُ فِیْ حَدٍّ مِنْ حُدُوْدِ اللّٰہِ ثُمَّ قَامَ فَاخْتَطَبَ ثُمَّ قَالَ إِنَّمَا أَھْلَکَ الَّذِیْنَ قَبْلَکُمْ کَانُوْا إِذَا سَرَقَ فِیْھِمُ الشَّرِیْفُ تَرَکُوْہُ وَإِذَا سَرَقَ فِیْھِمُ الضَّعِیْفُ أَقَامُوْاعَلَیْہِ الْحَدَّ وََأَیْمُ اللّٰہِ لَوْ أَنَّ فَاطِمَۃَ بِنْتَ مُحَمَّدٍ سَرَقَتْ لَقَطَعْتُ یَدَھَا) [ رواہ البخا ری : کتاب أحادیث الأنبیاء، باب حدیث الغار] ” حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ قریش اس مخزومی عورت کے متعلق بڑے فکر مند ہوئے جس نے چوری کی تھی انہوں نے سوچا کہ اس معاملے میں اللہ کے رسول سے کون بات کرسکتا ہے؟ انہوں نے کہا یہ کام اسامہ بن زید (رض) کے سوا اور کوئی نہیں کرسکتا وہ اللہ کے رسول کا محبوب ہے۔ چنانچہ اسامہ (رض) نے اللہ کے رسول سے عرض کی تو آپ نے فرمایا : کیا تم اللہ کی حدود میں سے ایک حد کے متعلق سفارش کرتے ہو؟ پھر آپ نے کھڑے ہو کر خطبہ دیا اور ارشاد فرمایا : یقیناً تم سے پہلے لوگ اسی وجہ سے تباہ ہوئے کہ جب ان میں کوئی بڑاچوری کرتا تو اسے چھوڑ دیتے اگر کمزور چوری کرتا تو اس پر حد نافذ کرتے۔ اللہ کی قسم ! اگر فاطمہ بنت محمد بھی چوری کرتی تو میں اس کا بھی ہاتھ کاٹ دیتا۔“ قرآن مجید دو ٹوک انداز میں قانون کے نفاذ میں بے انصافی کا تدارک کررہا ہے چنانچہ آزاد کے بدلے آزاد، غلام کے بدلے غلام اور عورت کے بدلے عورت ہی قتل کی جائے گی اس کے بر خلاف کرنے کی ہرگز اجازت نہ ہوگی۔ قاتل کی جو بھی حیثیت ہو بدلے میں اسے ہی قتل کیا جائے گا۔ آپ نے اس امتیاز کو ختم کرنے کے اقدامات کے ساتھ قانون کے نفاذ کو یقینی بنایا تاکہ قرآن کی منشا کے مطابق زندگی عدل وانصاف کے اصولوں پر استوار ہوسکے۔ اس سے مجرموں کے حوصلے پست اور مظلوموں میں احساس زندگی پیدا ہونے کے ساتھ معاشرہ جرم درجرم کے بدترین عمل سے محفوظ ہوجاتا ہے۔ یہی معاشرے کی بقا اور زندگی کی روح ہے۔ مظلوموں کو معاف کردینے کا حق دے کر اس طرف اشارہ فرمایا ہے کہ اسلام صرف سزاؤں کے ذریعے جرائم کی بیخ کنی کا تصور پیش نہیں کرتا۔ بلکہ اس نے غیرعادی مجرموں کے لیے معافی کا راستہ کھول رکھا ہے کہ سہواً یا غیر ارادی طور پر کسی سے جرم سر زد ہو تو اسے معاف کردینے کے نتائج بدلہ لینے سے بہترہوا کرتے ہیں۔ معافی کا اختیار حکومت کو نہیں بلکہ یہ بھی مظلوم کے ورثاء کا حق ہے۔ اگر وہ معاف کردیں تو فریق ثانی کو حتی المقدور مظلوموں کے ساتھ بھر پور طریقے سے مالی اور اخلاقی تعاون کرنا چاہیے تاکہ ان کا زخم جلد از جلد مندمل ہوسکے۔ یہاں رحمت اور تخفیف کے الفاظ بیان فرما کر اشارہ کیا ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ چاہتے تو ” کُتِبَ“ کے حکم کی فرضیت کو مِنْ وَعَنْ قائم رکھتے۔ لیکن یہ اس کی طرف سے رحمت اور نرمی کا مظاہرہ ہے کہ اس نے تمہیں معاف کردینے کا اختیار دے کر حالات کی سنگینی کو حسن سلوک کے ذریعے سد ھارنے کا اختیار عطا کیا ہے۔ البتہ جو اس کے بعد بھی زیادتی کرے گا اس کے لیے ہولناک عذاب ہوگا۔ مسائل ١۔ مقتول کے ورثاء معاف کردیں تو ان کے ساتھ پھر بھی احسان کرنا ہے۔ ٢۔ آزاد کے بدلے آزاد، غلام کے بدلے غلام اور عورت کے بدلے عورت قتل کی جائے گی۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ اپنے احکام میں آسانی پیدا کرتا ہے۔ ٤۔ جو قصاص اور دیت لینے دینے کے بعد زیادتی کرے اس کے لیے درد ناک عذاب ہے۔ ٥۔ قتل کا قصاص لینے میں زندگی کی بقاء ہے۔ البقرة
179 البقرة
180 فہم القران ربط کلام : حرمت جان کے بعد حرمت مال اور پسماند گان کے حقوق کے احترام کا حکم۔ قرآن مجید کا مال کے بارے میں عمومی نقطۂ فگاہ یہ ہے کہ مال اگرچہ حلال اور جائز طریقے سے کمایا گیا ہو تب بھی آدمی کے لیے ایک بھاری آزمائش ہے۔ البتہ آزمائش ہونے کے باوجود مال آدمی کی زندگی کے لیے استحکام اور احترام کا باعث بنایا گیا ہے۔ اس لیے قرآن مجید نے اسے خیر، فضل، رحمت اور نعمت سے تعبیر فرمایا ہے۔ جمع شدہ مال کے بارے میں جو احکامات اور ہدایات جاری فرمائیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ جب آدمی قریب المرگ ہو تو اسے مال کے متعلق اپنے والدین اور وراثت میں حق دار رشتے داروں کے بارے میں وصیّت کرنی چاہیے۔ یہاں وصیّت اور وراثت کے بارے میں اصلاحات سے لوگوں کو آگاہ فرمایا جارہا ہے کہ وصیّت کرتے ہوئے اپنوں کو چھوڑ کر دوسروں کے لیے وصیّت کرنا جائز نہیں۔ عرب کے لوگ مرتے وقت والدین اور دوسرے حق دار حضرات کو محروم کر کے وراثت صرف اپنی بیوی اور اولاد میں تقسیم کردیا کرتے تھے۔ بسا اوقات اپنے دوست کے حق میں وصیّت کردیتے۔ اس میں اس بات کی طرف بھی اشارہ فرمایا ہے کہ موت کے وقت لواحقین کو اس قسم کی وصیت پر عمل کے لیے نہ کہا جائے کہ جس سے کچھ حق داروں کو محروم کرکے چند اقرباء میں پورے کا پورا مال تقسیم کردیا جائے۔ بعد ازاں اس حکم کی وضاحت میں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ بھی اصلاح فرمائی کہ فوت ہونے والا تیسرے حصّہ سے زیادہ وصیّت نہیں کرسکتا : (عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِیْ وَقَّاصٍ (رض) قَالَ جَاء النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَعُوْدُنِیْ وَأَنَا بِمَکَّۃَ وَھُوَ یَکْرَہُ أَنْ یَّمُوْتَ بالْأَرْضِ الَّتِیْ ھَاجَرَ مِنْھَا قَالَ یَرْحَمُ اللّٰہُ ابْنَ عَفْرَاءَ قُلْتُ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ أُوْصِیْ بِمَالِیْ کُلِّہٖ قَالَ لَا قُلْتُ فَالشَّطْرُ قَالَ لَا قُلْتُ الثُّلُثُ قَالَ فَالثُّلُثُ وَالثُّلُثُ کَثِیْرٌ إِنَّکَ أَنْ تَدَعَ وَرَثَتَکَ أَغْنِیَاءَ خَیْرٌ مِّنْ أَنْ تَدَعَھُمْ عَالَۃً یَتَکَفَّفُوْنَ النَّاسَ فِیْ أَیْدِیْھِمْ)[ رواہ البخاری : کتاب الوصایا، باب أن یُترک ورثتہٗ أغنیاء خیر من أن یتکففو ا] ” سعد بن ابی وقاص (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں مکہ میں تھا۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میری تیمار داری کے لیے تشریف لائے۔ میں مکہ میں موت کو اس لیے ناپسند کرتا تھا کہیہاں سے میں ہجرت کرچکا تھا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اللہ ابن عفراء پر رحم کرے۔ میں نے کہا : اے اللہ کے رسول ! میں اپنے سارے مال کے متعلق وصیت کرتاہوں۔ آپ نے فرمایا : نہیں میں نے کہا : آدھے کی۔ آپ نے فرمایا : نہیں میں نے کہا : تیسرے حصے کی۔ آپ نے فرمایا : تیسرا حصہ بھی زیادہ ہے۔ اگر تو اپنے ورثاء کو مال دار چھوڑ کر جائے تو یہ اس بات سے کہیں بہتر ہے کہ تو ان کو ایسی حالت میں چھوڑ کر جائے کہ وہ کنگال ہوں اور لوگوں کے آگے ہاتھ پھیلاتے پھریں۔“ وصیّت کرتے وقت وراثت میں حق داروں کی اجازت کے بغیر وراثت میں شریک کسی ایک کے لیے وصیت کرنا جائز قرار نہیں دیا گیا۔ کیونکہ اس سے دوسروں سے بے انصافی ہونے کے ساتھ فوت ہونے والے کے بارے میں ہمیشہ کے لیے نفرت پیدا ہونے کا اندیشہ ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : (لَا وَصِیَّۃَ لِوَارِثٍ) ” وارث کے لیے وصیت کرنا جائز نہیں۔“ [ رواہ النسائی : کتاب الوصایا باب إبطال الوصیۃ للوارث] تاہم اس بات کی مکمل گنجائش رکھی گئی کہ اگر فوت ہونے والا کسی وجہ سے غلط وصیّت کرتا ہے تو اس کی وصیّت کو شریعت کے مطابق درست کرنا لواحقین پر ایک اہم فرض ہے۔ ایسی صورت میں اصلاح کنند گان پر کوئی گناہ نہیں۔ البتہ شریعت کے مطابق کی گئی وصیت کو تبدیل کرنے والا سخت گناہ گار ہوگا۔ ایسے لوگوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ وہ لوگوں سے تو جرم چھپا سکتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ سے نہیں چھپا سکتے کیونکہ اللہ تعالیٰ ہر بات سننے اور ہر چیز کو جاننے والا ہے۔ یہاں اللہ تعالیٰ اپنی دو صفات کا ذکر فرما کر اس طرف اشارہ کررہے ہیں کہ اگر تم غلط وصیّت کی اصلاح کرو گے تو یقینًا غَفُوْرٌ رَّحِیْم اصلاح کے اس عمل کے باعث فوت شدہ آدمی سے سر زد ہونے والی سہوًا یا عمدًاغلطی کو معاف فرمادیں گے۔ اس طرح تم ناانصافی اور باہمی اختلافات سے بھی بچ جاؤ گے۔ مسائل ١۔ فوت ہونے والے کو شریعت کی حدود میں رہ کر اپنے مال کے بارے میں وصیّت کرنی چاہیے۔ ٢۔ وصیّت کو بدلنا بڑا گناہ ہے۔ ٣۔ غلط وصیّت کی اصلاح کرنے والے پر کوئی گناہ نہیں۔ البقرة
181 البقرة
182 البقرة
183 فہم القرآن ربط کلام : روزہ دار اللہ تعالیٰ کا حکم مانتے ہوئے حلال چیزیں چھوڑدیتا ہے اس بناء پر اسے حرام چھوڑنا مشکل نہیں رہتا تزکیۂ نفس اور حقیقی تقو ٰی روزے سے حاصل ہوتا ہے بشرطیکہ روزے کے تقاضے پورے کیے جائیں۔ سال کے گیارہ مہینے مسلمان کو حلال کھانے کی کھلی چھٹی تھی کہ وہ جو چاہے اور جس وقت چاہے کھاپی سکتا ہے۔ لیکن جونہی رمضان کا چاند نمودار ہوا یکدم اس پر پابندی لاگو کردی گئی کہ صبح صادق سے لے کر غروب آفتاب تک کھانے پینے کی کسی چیز کو خوردو نوش کی نیت سے ہاتھ نہ لگائے اور نہ بیوی سے جماع کرے۔ حرام کھانے پر تو دائرہ اسلام میں داخل ہوتے ہی قدغن لگ چکی تھی اب تو حلال پر بھی دن بھر کے لیے پابندی عائد کردی گئی۔ گیارہ مہینے کی آزاد طبیعت کو اس پابندی کا خوگر بنانے کے لیے اس کے نفسیاتی پہلو کو پیش نظر رکھتے ہوئے فرمایا ہے کہ روزے تم پر ہی نہیں بلکہ تم سے پہلی امّتوں اور ملّتوں پر بھی فرض کیے گئے تھے۔ بس یہ گنتی کے چنددن ہیں حوصلہ کیجیے یہ دیکھتے ہی دیکھتے گزر جائیں گے۔ ہاں اگر کوئی تم میں سے ان دنوں میں بیمار ہویا اسے سفر درپیش ہو تو وہ اتنے دن کے روزے بعد میں پورے کرے۔ یہاں مریض کو یہ اختیار دیا جارہا ہے کہ رمضان کے مہینے میں تکلیف کی وجہ سے اس سے جتنے روزے چھوٹ جائیں وہ سال کے گیارہ مہینوں میں جب چاہے ان کی گنتی پوری کرسکتا ہے۔ اس میں وہ خواتین بھی شامل ہیں جو بچے کی پیدائش یا اس کے دودھ پینے کی صورت میں روزہ نہ رکھ سکتی ہوں۔ حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں : (کَانَ یَکُوْنُ عَلَیَّ الصَّوْمُ مِنْ رَمَضَانَ فَمَا أَسْتَطِیْعُ أَنْ أَقْضِیَ إِلَّا فِیْ شَعْبَانَ) [ رواہ البخاری : کتاب الصوم، باب متی یقضی قضاء رمضان] ” میرے ذمّہ رمضان کے کچھ روزے ہوتے جنہیں میں شعبان کے علاوہ کسی مہینے میں نہیں رکھ سکتی تھی۔“ البتہ دائمی مریض جسے بظاہر بیماری سے نجات پانے کی کوئی امید نہ ہو تو وہ کسی مستحق کو رمضان کے چھوڑے ہوئے روزوں کی گنتی کے مطابق فدیہ دے گا۔ سفر میں روزے کے حوالے سے رسول رحمت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس قدر نرمی اور آسانی کا ماحول پیدا فرمایا کہ فتح مکہ کے سفر میں جہاد اور موسم کی شدت کے پیش نظر آپ نے نہ صرف لوگوں کو روزہ توڑنے کا حکم دیا بلکہ نماز عصر کے بعد اپنی سواری پر جلوہ افروز ہو کر لوگوں کو دکھا کر پانی نوش فرمایا۔ حالانکہ سورج غروب ہونے میں تھوڑا ہی وقت باقی تھا۔[ رواہ البخاری : کتاب المغازی، باب غزوۃ الفتح فی رمضان] اسی سنّتِ مبارکہ کا نتیجہ تھا کہ صحابہ کرام (رض) سفر میں روزہ چھوڑنے کو قابل اعتراض نہیں سمجھتے تھے اور نہ ہی سفر میں روزہ رکھنے کو غیرمعمولی نیکی تصور کرتے تھے۔ جہاں تک سفر کی مسافت کا تعلق ہے آپ کے مختلف اسفار کو سامنے رکھتے ہوئے سفر کی مسافت کے تعیّن کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ امام بخاری (رح)، امام احمد بن حنبل (رح) اور امام ابو حنیفہ (رض) 48 میل سے کم مسافت کو سفر شمار نہیں کرتے۔ جب کہ دوسرے علماء اپنے شہر کی حدود کے باہر 13 میل تقریبًا 23 کلو میٹر کو سفر تصور کرتے ہیں۔ آیت کے آخر میں تدریجی حکمت عملی کا خیال رکھتے ہوئے پہلے اجازت دی گئی کہ جو روزہ نہیں رکھنا چاہتا وہ کسی مسکین کو فدیہ دے تاہم روزہ رکھنا بہتر ہے۔ بعد ازاں اگلی آیت میں اس حکم کو منسوخ فرما کر معذورین کے سوا سب پر روزہ فرض کردیا گیا۔ روزہ فارسی کا لفظ ہے عربی میں اسے صوم کہا جاتا ہے۔ عربی ڈکشنری کے لحاظ سے روزہ کا لغوی معنی ہے کسی کام سے رک جانا‘ شرعی اصطلاح میں صبح صادق سے لے کر غروب آفتاب تک کھانے پینے‘ جماع کرنے سے رک جانے اور فسق وفجور سے بچنے کا نام روزہ ہے۔ برکات رمضان (عَنْ اَبِیْ ھُرَےْرَۃَ (رض) عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ إذَا کَانَتْ اَوَّلُ لَےْلَۃٍ مِّنْ رَمَضَانَ صُفِّدَتِ الشَّےَاطِےْنُ وَمَرَدَۃُ الْجِنِّ وَغُلِّقَتْ اَبْوَاب النَّارِ فَلَمْ ےُفْتَحْ مِنْھَا بَابٌ وَفُتِحَتْ اَبْوَابُ الْجَنَّۃِ فَلَمْ ےُغْلَقْ مِنْھَا بَابٌ وَنَادٰی مُنَادٍ ےَا بَاغِیَ الْخَےْرِ اَقْبِلْ وَ ےَا بَاغِیَ الشَّرِّاَقْصِرْ وَلِلّٰہِ عُتَقَاءٌ مِّنَ النَّارِ وَذٰلِکَ فِیْ کُلِّ لَےْلَۃٍ) [ رواہ ابن ماجۃ، کتاب الصیام، باب ماجاء فی فضل شہر رمضان] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا رمضان کی پہلی رات شیاطین اور سرکش جن گرفتار کرلیے جاتے ہیں اس کے ساتھ ہی جہنم کے تمام دروازے بند کردیے جاتے ہیں ان میں کوئی ایک دروازہ بھی کھلا نہیں رہنے دیا جاتا پھر جنت کے تمام دروازے کھول دیے جاتے ہیں۔ ان میں سے کوئی ایک دروازہ بھی بند نہیں رہنے دیا جاتا اور ایک منادی کرنے والافرشتہ اعلان کرتا ہے اے بھلائی کے چاہنے والے! آگے بڑھ اور اے شر کے خوگر! رک جا۔ اور اللہ تعالیٰ دوزخ سے لوگوں کو آزاد کرتے ہیں اور یہ آزادی رمضان کی ہر رات ہوتی ہے۔“ فضیلت صوم (عَنْ اَبِیْ ھُرَےْرَۃَ (رض) یَقُوْلُ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَال اللّٰہُ کُلُّ عَمَلِ ابْنِ اٰدَمَ لَہُ إِلَّا الصِّےَامَ فَإِنَّہُ لِیْ وَأَنَا أَجْزِیْ بِہِ وَالصِّےَامُ جُنَّۃٌ فَإِذَا کَانَ ےَوْمُ صَوْمِ أَحَدِکُمْ فَلَا ےَرْفُثْ وَلَا ےَصْخَبْ فَإِنْ سَابَّہُ اَحَدٌ اَوْقَاتَلَہُ فَلْےَقُلْ إِ نِّی امْرُؤٌ صَاءِمٌ وَالَّذِیْ نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِےَدِہٖ لَخَلُوْفُ فَمِ الصَّاءِمِ أَطْےَبُ عِنْدَاللّٰہِ مِنْ رِےْحِ الْمِسْکِ للصَّاءِمِ فَرْحَتَانِ ےَفْرَحُھُمَا اِذَا اَفْطَرَ فَرِحَٖ وَاِذَا لَقِیَ رَبَّہُ فَرِحَ بِصَوْمِہٖ) [ رواہ البخاری : کتاب الصوم، باب ھل یقول إنی صائم ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد گرامی ہے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ابن آدم کا ہر عمل اس کی ذات کے لیے ہے مگر روزہ میرے لیے ہے اس لیے میں ہی اس کی جزا دوں گا۔ روزہ ڈھال ہے جب تم میں کوئی روزہ دار ہو تو وہ فحش گوئی اور بد کلامی سے اجتناب کرے۔ اگر کوئی اس سے گالی گلوچ یا لڑنے کی کوشش کرے تو وہ فقط اسے اتنا کہے کہ میں روزہ دار ہوں۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جان ہے روزہ دار کے منہ کی بو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے نزدیک کستوری کی خوشبو سے بھی زیادہ پسندیدہ ہوگی۔ روزہ دار کے لیے خوشی کے دو مواقع ہیں جن سے وہ مسرت وانبساط حاصل کرتا ہے اولاً جب وہ روزہ افطار کرتا ہے۔ ثانیاً جب قیامت کے دن اپنے رب سے روزہ کے بدلے میں انعام پائے گا تو انتہائی خوش ہوگا۔“ ثواب کی حدہی نہیں (عَنْ اَبِیْ ھُرَےْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کُلُّ عَمَلِ ابْنِ آَدَمَ ےُضَاعَفُ الْحَسَنَۃُ بِعَشْرِ اَمْثَالِھَا إِلٰی سَبْعِمِاءَۃِ ضِعْفٍ قَال اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ إِلَّا الصَّوْمَ فَإِنَّہُ لِیْ وَاَنَا أُجْزٰیْ بِہٖ) [ رواہ مسلم : کتاب الصیام، باب فضل الصیام ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ آدمی کے ہر اچھے عمل کا اجر دس سے سات سو گنا تک بڑھا دیا جاتا ہے۔ لیکن روزے کے بارے میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ روزہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کی جزا دوں گا۔“ دومقبول ترین سفارشی (عَنْ عَبْدِاللّٰہِ بْنِ عَمْرٍ و (رض) اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَال الصِّےَامُ وَالْقُرْاٰنُ ےَشْفَعَانِ لِلْعَبْدِ ےَوْمَ الْقِےَامَۃِ ےَقُوْلُ الصِّےَامُ اَیْ رَبِّ مَنَعْتُہُ الطَّعَامَ وَالشَّھْوَات بالنَّھَارِ فَشَفِّعْنِیْ فِےْہِ وَےَقُوْلُ الْقُرْاٰنُ مَنَعْتُہُ النَّوْمَ بالَّلے ْلِ فَشَفِّعْنِیْ فِےْہِ قَالَ فَےُشَفَّعَانِ) [ مسند أحمد : کتاب مسند المکثرین من الصحابۃ، باب مسند عبدا اللہ ] ” حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) ذکر کرتے ہیں کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا روزہ اور قرآن قیامت کے دن بندے کے لیے سفارش کریں گے۔ روزہ کہے گا اے میرے رب ! میں نے اس بندے کو کھانے پینے اور خواہشات سے روکے رکھا لہٰذا اس کے حق میں میری سفارش قبول فرما۔ قرآن کہے گا اے میرے رب! میں نے اس بندے کو تلاوت کی وجہ سے سونے سے روکے رکھا لہٰذا اس کے بارے میں میری گذارش قبول فرما۔ اللہ تعالیٰ دونوں کی سفارش قبول فرما لیں گے۔“ (عَنْ سَھْلِ بْنِ سَعْد (رض) عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ اِنَّ فِی الْجَنَّۃِ بَابًا ےُقَالُ لَہُ الرَّیَّانُ ےَدْخُلُ مِنْہُ الصَّآءِمُوْنَ ےَوْمَ الْقِےَامَۃِ لَا ےَدْخُلُ مِنْہُ اَحَدٌ غَےْرُھُمْ) [ رواہ البخاری : کتاب الصوم، باب الریان للصائمین] ” حضرت سہل بن سعد (رض) کہتے ہیں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا! جنت کے ایک دروازے کا نام ہی ” الریان“ رکھ دیا گیا ہے۔ جس سے قیامت کے دن روزہ دار گزر کر جنت میں داخل ہوں گے۔ ان کے علاوہ اس دروازے سے کوئی دوسرا داخل نہیں ہو سکے گا۔“ مسلمان پر ارکان اسلام فرض ہیں اور ہر مسلمان ان کی ادائیگی کا پابند ہے۔ حدیث میں ارشاد ہواکہ جنت کے دروازے کا نام یہ اور یہ رکھا گیا ہے۔ آدمی کو اس نیکی کی بناء پر خصوصی طور پر مخصوص دروازے سے بلایا جائے گا اس کا مقصد یہ ہے کہ وہ باقی ارکان اور نیکیاں کرنے کے ساتھ اس نیکی میں زیادہ رغبت اور لذّت محسوس کرتا ہے اس فرمان کے ساتھ جذبہ اور ترغیب پیدا کرنا مقصودبھی ہے کہ مومن کو ہر نیکی پوری توجہ اور للہیت سے ادا کرنی چاہیے۔ جو لوگ ہر نیکی رغبت سے کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو جنت کے تمام دروازوں سے بلایا جائے گا۔ جیساکہ حضرت ابوبکر (رض) کے ایک سوال کے جواب میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ ابو بکر تو انہی حضرات میں شامل ہے جنہیں جنت کے ہر دروازے سے پکارا جائے گا۔ [ رواہ البخاری : کتاب الصوم، باب الریان للصائمین] روزے کا مقصد گناہوں سے بچنا ہے۔ اگر سنّت کے مطابق کچھ بھوک رکھ کر روزہ رکھا جائے تو آدمی گناہوں کی معافی کے ساتھ کئی بیماریوں سے بچ سکتا ہے۔ (تفصیل کے لیے دیکھیں میری کتاب : برکات رمضان) مسائل ١۔ روزے ہر امت پر فرض تھے۔ ٢۔ روزے کا مقصد تقو ٰی میں اضافہ کرنا ہے۔ ٣۔ بیماری اور سفر کی وجہ سے چھوڑے ہوئے روزے بعد میں پورے کرنا فرض ہے۔ ٤۔ روزہ رکھنا ہر لحاظ سے بہتر ہے۔ (تفصیل کے لیے دیکھیں میری کتاب ” برکات رمضان“ ) ٥۔ تقویٰ نام ہے اللہ تعالیٰ سے ڈرنے اور گناہوں سے بچنے کا۔ البقرة
184 البقرة
185 فہم القرآن ربط کلام : روزہ اور قرآن مجید کا باہمی تعلق بیان کرتے ہوئے روزے داروں کو تسلی دی جارہی ہے کہ روزے تمہیں تنگ کرنے کے لیے فرض نہیں کیے بلکہ ان سے تقویٰ، خدا کی کبریائی کا تصور اور شکریہ کا جذبہ پیدا کرنا مقصود ہے۔ ماہ رمضان کی عظمت وفضیلت کی سب سے بڑی دلیل رب جلیل نے یہ دی ہے کہ اس مہینے میں قرآن نازل کیا گیا ہے۔ جس میں قوموں کی رشدو ہدایت اور ان کی اصلاح اور فلاح کا نہایت ہی جامع پروگرام دیا گیا ہے۔ یہ ہدایت اتنی واضح اور اس کے دلائل اس قدر روشن ہیں کہ اس سے بہتر راہنمائی کوئی اور نہیں کرسکتا اور نہ ہی کسی صحیح فلسفۂ حیات کی تائید کے لیے اس سے قوی دلائل پیش کیے جاسکتے ہیں۔ جونہی قرآن مجید کے دلائل فکری اور عملی میدان میں پیش کیے جاتے ہیں تو کوئی بھی ذی شعور اور سلیم الفطرت انسان قرآنی ہدایت اور اس کے دلائل کے سامنے سرجھکائے بغیر نہیں رہ سکتا۔ اس لیے قرآن کو ” اَلْفُرْقَانَ“ بھی کہا گیا ہے۔ یعنی ایسی کتاب جو حق وباطل اور کھرے کھوٹے میں امتیاز پیدا کردے۔ قرآن مجید سے مستفید ہونے کے لیے اس کی پہلی آیت میں تقو ٰی کو شرط لازم قرار دیا گیا ہے۔ اس تقو ٰی کے حصول کے لیے رمضان کے روزے مقرر کیے گئے ہیں۔ لہٰذا روزے کا مقصد تقو ٰی کا حصول ہے۔ تقویٰ کا مفہوم یہ ہے کہ انسان ہر حال میں اللہ تعالیٰ سے ڈرے اور گناہوں سے بچے۔ اس لحاظ سے رمضان اور قرآن کا آپس میں چولی دامن کا تعلق ہے۔ سلسلۂ کلام کو جاری رکھتے ہوئے فرمایا جارہا ہے کہ تمہیں اس غلطی میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے کہ تمہارے رب نے پہلے حکم میں مریضوں اور مسافروں کو روزہ نہ رکھنے کی جو رخصت عنایت فرمائی تھی۔ اس فرمان میں وہ رعایت واپس لے لی گئی ہے۔ یہاں پھر مریضوں اور مسافروں کے لیے من وعن وہی الفاظ دہرا کر اس رعایت کو بحال رکھا گیا ہے تاکہ انہیں مزید اطمینان ہو کہ اگر ہم تکلیف میں مبتلا ہوئے ہیں تو ہمیں آسانی بھی دی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے ساتھ نرمی اور آسانی کرتا ہے۔ اسی لیے اس نے لوگوں کی مجبوریوں اور معذوریوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے اپنے ضابطوں میں نرمی اور ترمیم فرمائی ہے۔ اسلام کے پانچ بنیادی ارکان کا عملی پہلو سامنے رکھیں تو یہ حقیقت روز روشن کی طرح نمایاں ہوجائے گی کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو تکلیف مالا یطاق سے بچانے کے لیے اسلام کے تمام احکام اور مسائل میں نرمی اور آسانی کے پہلو کو سامنے رکھا ہے۔ نماز ہی کو لے لیجیے جو ہر بالغ مسلمان پر فرض ہے لیکن اس میں کتنی رعائتیں دی گئی ہیں تاکہ آدمی فرض ادا کرنا چاہے تو کوئی رکاوٹ بھی اس کے سامنے حائل نہ ہوسکے گی۔ کھڑا ہو کر نہیں پڑھ سکتا تو بیٹھ کر نماز ادا کرلے۔ اگر بیٹھنا دشوار معلوم ہو تو لیٹ کر ادا کرسکتا ہے۔ لیٹنے کی حالت میں چہرہ قبلہ کی جانب نہیں ہوسکتا تو ارشاد ہوتا ہے کہ میرے بندے ! تجھے افسردہ ہونے کی ضرورت نہیں تیرا چہرہ جس جانب بھی ہوگا۔ میری نظر کرم اسی طرف اس کے استقبال میں ہوگی۔ اسی طرح حج کے مناسک کو لے لیجیے ایک دو کو چھوڑ کر معذوری کی حالت میں باقی تمام مناسک کوئی دوسرا ادا کرے تو یہ ادائیگی معذور آدمی کی طرف سے ہی تصور ہوگی۔ یہاں تک کہ اگر کسی پر حج فرض ہو لیکن وہ جسمانی یا اور کسی شرعی مجبوری کی وجہ سے بیت اللہ میں حاضری نہیں دے سکتا تو وہ حج بدل کے ذریعے یہ فریضہ سرانجام دے سکتا ہے۔ یہ آسانیاں اور مہربانیاں اس لیے ہیں تاکہ مسلمان حتی المقدور خدا کے احکام پورے کرسکیں۔ فرائض کی ادائیگی کا یہ احساس اس وقت تک پیدا نہیں ہوسکتا جب تک اللہ تعالیٰ کی کبریائی کا تصور دل ودماغ میں جاگزیں نہ ہوجائے۔ اس لیے روزے کے مسائل کے بیان میں اللہ تعالیٰ اپنی کبریائی کا احساس یاد دلا رہے ہیں کہ جس نے خدا کی کبریائی کا تصور پختہ کرلیا اس کے لیے روزہ رکھنا اور اپنے رب کے احکامات پر عمل کرنا آسان ہوجائے گا۔ خدا کے احکامات کی بجاآوری ہی حقیقی شکریہ ہے اور شکر گزار بندے ہی ہدایت پایا کرتے ہیں۔ مسائل ١۔ قرآن مجید رمضان المبارک میں نازل ہوا۔ ٢۔ قرآن مجید لوگوں کے لیے ہدایت ہے، اس میں ہدایت کے بڑے بڑے دلائل ہیں۔ ٣۔ یہ حق و باطل میں امتیاز کرنے والا ہے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ لوگوں کے ساتھ سختی کرنے کے بجائے نرمی اختیار کرتا ہے۔ ٥۔ ہدایت نصیب ہونے پر اللہ تعالیٰ کا شکریہ ادا کرنا چاہیے۔ البقرة
186 فہم القرآن ربط کلام : رمضان کی راتوں اور روزہ کی حالت میں دعا جلد قبول اور اللہ تعالیٰ کی قربت نصیب ہوتی ہے۔ اس لیے دعا سے متعلق سوال کا جواب دینا یہاں مناسب سمجھا گیا تاکہ مومن دل کھول کر اپنے رب سے مانگیں۔ دعا کا معنٰی ومفہوم : دعا عبادات کا خلاصہ، انسانی حاجات اور جذبات کا مرقّع، بندے اور اس کے رب کے درمیان لطیف مگر مضبوط واسطہ، اللہ تعالیٰ کے مزید انعامات کا حصول اور نقصانات سے بچنے کا ذریعہ ہے۔ اس سے ضمیر کا بوجھ ہلکا اور پریشانیوں سے چھٹکارا حاصل ہوتا ہے۔ اس لیے دعا مکمل یکسوئی، خلوص نیت اور انتہائی توجہ، اصرار اور تکرار کے ساتھ کرنی چاہیے۔ ارض و سماء کے مالک کی خوشی اور اس کا حکم ہے کہ اس سے براہ راست مانگا جائے۔ اللہ تعالیٰ سے نہ مانگنا تکبر ہے۔ فوت شدگان کے واسطے، حرمت، طفیل اور وسیلے سے دعا کرنا شرک ہے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دعا کے مقصدو مفہوم کو نہایت ہی مختصر مگر جامع کلمات میں بیان فرمایا ہے : ( اَلدُّعَاءُ ہُوَ الْْعِبَادَۃُ) [ رواہ أبوداوٗد : کتاب الصلوۃ، باب الدعاء] ” دعا عبادت ہے۔“ دعا بمعنٰی عبادت : تمہارے رب کا ارشاد ہے کہ مجھے پکارو میں تمہاری دعا قبول کروں گا جو لوگ میری عبادت سے بے پروائی کرتے ہیں انہیں ذلیل وخوار کرکے جہنم میں داخل کیا جائے گا۔[ المؤمن : ٦٠] دعا بمعنٰی مدد طلب کرنا : اللہ کے سوا اپنے مدد گاروں سے مدد مانگواگر تم اپنے دعوے میں سچے ہو۔[ البقرۃ: ٢٣] دعا بمعنٰی پکار : اللہ کو چھوڑ کر کسی ایسی ہستی کو نہ پکا رو جو تجھے نہ فائدہ پہنچا سکتی ہے اور نہ نقصان اگر تو ایسا کرے گا تو ظالموں میں سے ہوگا۔ [ یونس : ١٠٦] دعا کی اہمیت : (عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ (رض) عَنْ رَّسُوْلِ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ لَنْ یَّنْفَعَ حَذْرٌ مِنْ قَدْرٍ وَلٰکِنَّ الدُّعَاءَ ےَنْفَعُ مِمَّا نُزِّلَ وَمِمَّا لَمْ ےُنْزَلْ فَعَلَےْکُمْ بالدُّعَاءِ عِبَاد اللّٰہِ) [ مسند أحمد : کتاب مسند الأنصار، باب حدیث معاذ بن جبل] ” حضرت معاذ بن جبل (رض) آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں آپ نے فرمایا کوئی بھی احتیاط اور پرہیز تقدیر سے نہیں بچا سکتی، لیکن دعا نازل شدہ اور آئندہ نازل ہونے والے مصائب وتکالیف سے فائدہ پہنچاتی ہے۔ پس اے بندگان خدا دعا ضرور کیا کرو۔“ دعا کے آداب درود، توبہ، استغفار : اخلاقیات کے حوالے سے اس بات کو کبھی بھی پسندیدہ قرار نہیں دیا گیا کہ کمزور آدمی اور حاجت مند کسی بڑے سے سوال کرے تو وہ آداب واکرام کو بالائے طاق رکھ کر سوال پر سوال ڈالتا چلا جائے۔ اس انداز سے نہ صرف مانگنے والا محروم رہ سکتا ہے بلکہ اس بات کا قوی امکان ہے کہ دینے والا اس طرح مانگنے پر ناراض ہوجائے۔ لہٰذا جب رب کی بارگاہ میں دست سوال دراز کیا جائے تو پہلے حمد وستائش اور اس کی عنایات کا اعتراف واقرار کیا جائے۔ اس کے بعد نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات اطہر پر درود پڑھا جائے جو بذات خود بہترین دعا ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے کہ ” جس نے مجھ پر ایک مرتبہ درود پڑھا اللہ تعالیٰ اس پر دس بار رحمتیں نازل فرماتا ہے۔“ [ رواہ مسلم : کتاب الصلٰوۃ، باب الصلٰوۃ علی النبی] آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ابی بن کعب (رض) کو سمجھاتے ہوئے فرمایا کہ اگر تو اپنی دعا میں تمام وقت درود پڑھنے پر صرف کرے تو تیرے سارے دکھوں کے لیے کافی اور گناہوں کی بخشش کا باعث ہوگا۔[ رواہ الترمذی : کتاب صفۃ القیامۃ والرقائق، باب منہ] درود کے بعد اللہ تعالیٰ کی بارگاہ کا احترام ومقام اور انسانیت کا شرف یہ ہے کہ کچھ مانگنے سے پہلے اس کے حضور اپنے گناہوں کی معافی اور بخشش طلب کی جائے۔ عاجزی، درماندگی : (اُدْعُوْا رَبَّکُمْ تَضَرُّعًا وَّخُفْیَۃً) [ الاعراف : ٥٥] ” اپنے رب کو عاجزی اور خوف کے ساتھ پکارو۔“ دعا کے آداب میں شکر، حمد، درود اور توبہ و استغفار کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی جلالت ومنزلت کا تقاضا اور فقیرکا کام یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سے مانگتے وقت غایت درجے کی انکساری اور در ما ندگی کے ساتھ اس کے سامنے دست سوال دراز کیا جائے۔ اللہ تعالیٰ کو انکساری اس قدر پسند ہے کہ جب انسان پریشانیوں کے ہجوم، مسائل کے گرداب اور مصائب کے بھنور میں پھنس جائے اعزہ واقرباء اور رفقاء واحباب منہ پھیر جائیں، حالات کے تھپیڑوں نے زمین کی پستیوں پر دے مارا ہو، تمام وابستگیاں ختم اور ہر قسم کی امیدیں دم توڑ گئی ہوں‘ نہ اٹھنے کی ہمت ہو نہ بیٹھنے کی سکت اور آدمی اندر سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوچکا ہو تو اس وقت یہ اپنے رب کے سامنے ہاتھ پھیلا کر التجا کرے کہ اے اللہ! میں نے اپنے گلشن حیات کو اپنی خطاؤں اور گناہوں کے جھکڑوں، غلطیوں اور جرائم کی آندھیوں سے برباد کرلیا ہے۔ میری وادئ حیات کو تیرے بغیر کوئی سیراب نہیں کرسکتا۔ مجھے تیرے ہی در کی امید اور تیری ہی رحمتوں کا سہار ا ہے۔ جس طرح تو ویران وادیوں، تپتے صحراؤں اور اجڑے ہوئے باغوں کو اپنے کرم کی بارش سے سر سبز وشاداب بنا دیتا ہے اسی طرح مجھے حیات نو سے ہمکنار کر دے۔ جب یہ کہتے ہوئے اس کا دل موم اور آنکھیں پر نم ہوجاتی ہیں۔ تو اسی لمحے رحمت خداوندی اس کی روح کو تھپکیاں اور دل کو تسلیاں دیتے ہوئے ان الفاظ میں اسے حیات نو کی امید دلا رہی ہوتی ہے۔ (قُلْ ےَا عِبَادِیَ الَّذِےْنَ اَسْرَفُوْا عَلآی اَنْفُسِھِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَۃِ اللّٰہِ إِنَّ اللّٰہَ ےَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِےْعًا إِنَّہٗ ھُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِےْمُ) [ الزمر : ٥٣] ” اے نبی! کہہ دو کہ اے میرے بندو جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہوجاؤ۔ یقیناً اللہ سارے گناہ معاف کرنے والا ہے‘ وہ غفور الرحیم ہے۔“ شاہ ولی اللہ (رح) فرماتے ہیں : (رُوْحُ الدُّعَاءِ اَنْ یَّرٰی کُلَّ حَوْلٍ وَقُوَّۃٍ مِنَ اللّٰہِ وَےَصِےْرُ کَالْمَےِّتِ فِیْ ےَدِ الْغُسَّالِ) [ حجۃ اللّٰہ] ” دعا کی روح یہ ہے کہ دعا کرنے والا ہر قسم کی طاقت وقوت کا سر چشمہ اللہ تعالیٰ کی ذات کو تصور کرے اور اس کی قوت وعظمت کے سامنے اپنے آپ کو اس میت کی طرح سمجھے جو نہلانے والے کے ہاتھوں میں ہوتی ہے۔“ ہاتھ آگے بڑھائیے! انسان کی عزت وشرف اور غیرت و حمیّت کا تحفظ کرتے ہوئے دین کی تعلیم یہ ہے کہ آدمی دوسرے کے سامنے ہاتھ نہ پھیلائے۔ مگر بارگاہ ایزدی میں ہاتھ پھیلانے کا حکم ہی نہیں یہ تو انسانیت کا شرف ہونے کے ساتھ دعا کے آداب میں سے ہے۔ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرمایا کرتے تھے جب دعا مانگنے والا اللہ تعالیٰ کی بارگاہ اقدس میں ہاتھ اٹھاتا ہے تو اللہ تعالیٰ بندے کے ہاتھ خالی لوٹاتے ہوئے حیا محسوس کرتا ہے۔ (عَنْ سَلْمَانَ الْفَارِسِیِّ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) إِنَّ رَبَّکُمْ حَیِیٌّ کَرِےْمٌ ےَسْتَحْیِیْ مِنْ عَبْدِہٖ إِذَارَفَعَ ےَدَےْہِ اَنْ یَّرُدَّھُمَا صِفْرًا) [ رواہ أبوداوٗد : کتاب الصلاۃ، باب الدعاء] ” حضرت سلمان فارسی (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تمہارا رب نہایت ہی مہربان اور بڑا ہی حیا والا ہے۔ بندہ جب اس کی بارگاہ میں ہاتھ اٹھاتا ہے تو خالی ہاتھ لوٹاتے ہوئے اسے شرم آتی ہے۔“ یقین کے ساتھ مانگیے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ارشاد فرمایا کرتے تھے دعا مانگنے والے کو اللہ تعالیٰ کی ذات پر مکمل بھروسہ اور یقین ہونا چاہیے کہ میری دعا اللہ تعالیٰ ضرور قبول فرمائے گا۔ کیونکہ آدمی جس طرح اللہ کے بارے میں گمان کرے گا اللہ تعالیٰ اس کے ساتھ اسی طرح کا سلوک فرمائے گا۔ لہٰذا دعا کرتے ہوئے یقین محکم ہونا چاہیے کہ میری دعا ضرور قبول ہوگی۔ ہر دعا قبول ہونے کی گارنٹی 1۔ دعا کا فی الفور قبول ہوجانا۔ 2۔ زندگی کے کسی حصّہ میں مستجاب ہونا۔ 3۔ مقصود حاصل ہونے کے بجائے اس کے بدلے میں کسی ناگہانی مصیبت کا ٹل جانا۔ 4۔ زندگی میں دعا قبول نہیں ہوئی تو اس کا آخرت میں پورا پورا بدلہ چکا دیا جائے گا۔ رِفعتیں اور قربتیں اپنے گناہوں اور غلطیوں کی وجہ اور اللہ تعالیٰ کے عرش پر متمکن ہونے کے عقیدے سے انسان یہ بات سمجھتا رہا ہے کہ جس طرح میرا اللہ تک پہنچنا مشکل ہے اس طرح میری فریاد بھی اس تک نہیں پہنچ سکتی۔ اس لیے مجھے ایسے طریقے اور وسائل بروئے کار لانے چاہییں جس سے میری آواز خالق حق تک پہنچ سکے۔ ابتداءً ایسا ہی خیال رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے رفقائے کرام کے دل میں پیدا ہوا وہ اس فکری الجھن کی وجہ سے آپ سے سوال کرتے ہیں کہ اے ذات اقدس! ہمیں بتایا جائے کہ ہمارا رب ہم سے کتنی دوری اور مسافت پر جلوہ افروز ہے تاکہ ہم اپنی آواز کو اسی قدر بلند کرنے کی کوشش کریں۔ اس محدود سوچ اور فکری الجھن کو دور کرنے کے لیے فرمایا گیا کہ میرے بندے میرے بارے میں آپ سے سوال کرتے ہیں کہ میں ان سے کتنا دور ہوں۔ اے نبی! آپ ان کو اطمینان اور یقین دلائیں کہ میں قدرت وسطوت اور اپنے فضل وکرم کے لحاظ سے ہر وقت ان کے ساتھ ہی ہوا کرتا ہوں۔ میری رفاقت اس قدر پکّی اور ان کے قریب ہے کہ میں انسان کی شہ رگ سے بھی قریب تر ہوں۔ یہاں تک کہ انسان کے دل میں پیدا ہونے والے جذبات اور اس کے ذہن میں ابھرنے والے خیالات سے ہر لمحہ مجھے آگاہی حاصل رہتی ہے۔ (وَإِذَا سَأَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَإِنِّیْ قَرِےْب۔) [ البقرۃ: ١٨٦] ” جب آپ سے میرے بندے میرے بارے میں پوچھیں تو انہیں فرمائیے کہ میں ان کے بالکل قریب ہوں۔“ (وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ وَنَعْلَمُ مَا تُوَسْوِسُ بِہٖ نَفْسُہٗ وَنَحْنُ اَقْرَبُ إِلَےْہِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِےْدِ ) [ قٓ: ١٦] ” ہم نے انسان کو پیدا کیا اور اس کے دل میں پیدا ہونے والے خیالات تک کو ہم جانتے ہیں ہم اس کی شاہ رگ سے بھی زیادہ اس کے قریب ہیں۔“ (اِنَّہُ عَلِےْمٌم بِذَات الصُّدُوْرِ) [ الملک : ١٣] ” یقیناً وہ سینے کے رازوں کو جانتا ہے۔“ وسیلہ کی بحث المائدۃ آیت :35 میں آئے گی انشاء اللہ۔ نوٹ : مزید تفصیل میری کتاب ” انبیاء کا طریقۂ دعاء“ میں ملاحظہ فرمائیں۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ بندے کے قریب اور اس کی دعاؤں کو قبول کرنے والا ہے۔ ٢۔ بندوں کو بھی اللہ تعالیٰ پر ایمان لاتے ہوئے اس کا حکم ماننا چاہیے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے اور اس کا حکم ماننے سے رشدو ہدایت حاصل ہوتی ہے۔ ٤۔ دعا بندے اور اللہ تعالیٰ کے درمیان قریب ترین واسطہ ہے۔ ٥۔ مواحد کی ہر دعا قبول ہوتی ہے۔ تفسیربالقرآن دعا کا مفہوم قرآن مجید میں : ١۔ اپنے پروردگار سے دعا کیجئے کہ وہ ہمارے لیے زمین میں سے نباتات پیدا فرمائے۔ (البقرۃ: ٦١) ٢۔ مساجد اللہ کے لیے ہیں، اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی اور کی عبادت نہ کرو۔ (الجن : ١٨) ٣۔ اور ان کا آخری قول اللہ تعالیٰ کی حمدو تعریف ہوگی۔ (یونس : ١٠) ٤۔ مشرک دوزخ کی طرف بلاتے ہیں اور اللہ جنت اور مغفرت کی طرف بلاتا ہے۔ (البقرۃ: ٢٢١) ٥۔ اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول کے حکم کو قبول کرو جب وہ تم کو بلائیں۔ (الانفال : ٢٤) ٦۔ اگر تم کہتے ہو کہ آپ نے اس قرآن کو ازخود بنا لیا ہے تو تم بھی ایسی دس سورتیں لے آؤ اور جن کو تم بلا سکتے ہو بلالو۔ (ہود : ١٣) البقرة
187 فہم القرآن ربط کلام : روزہ کے اوقات کا تعین، ماہ رمضان کی راتوں میں بیویوں سے جماع اور رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف کرنے کے مسائل۔ یہودیوں کے ہاں یہ دستور تھا کہ روزہ افطار کرنے کے وقت اگر کوئی شخص سو جائے تو اسے اگلے دن کی مغرب سے پہلے کھانے پینے کی اجازت نہ تھی۔ اسی طرح روزہ کی راتوں میں عورتوں سے مباشرت کے بارے میں ان پر پابندی تھی۔ فرضیت رمضان کے ابتدائی دور میں صحابہ (رض) نے یہودیوں کے روزے پر قیاس کرتے ہوئے اپنے آپ پر یہ پابندیاں عائد کرلی تھیں۔ جن کی وجہ سے انہیں بڑی مشکلات کا سامنا کرناپڑتا تھا۔ بعض دفعہ ان پابندیوں کے برعکس عمل کر بیٹھتے تو اپنے ضمیر میں ایک خلش محسوس کرتے۔ ان خود ساختہ پابندیوں کو اٹھاتے ہوئے ” اُحِلَّ لَکُمْ“ کے الفاظ استعمال فرما کر یہ اعلان کیا جارہا ہے کہ ہماری طرف سے یہ پابندیاں نہ تھیں۔ بعض مفسرین نے ” اُحِلَّ لَکُمْ“ کے بارے میں لکھا ہے کہ پہلے یہ پابندی تھی لیکن اس ارشاد کے بعد اٹھا لی گئی۔ لہٰذا تم رمضان کی راتوں میں اپنی بیویوں کے ساتھ مباشرت کرسکتے ہو، اللہ تعالیٰ کو معلوم ہے کہ تم اپنے طور پر پابندی سمجھنے کے باوجود اس کی خلاف ورزی کررہے تھے۔ مباشرت کی اجازت دیتے ہوئے اس کے لیے نہایت ہی جامع اور خوبصورت الفاظ استعمال فرمائے کہ میاں بیوی آپس میں لباس کی طرح ہیں۔ اس سے میاں بیوی کے درمیان اپنائیت کے جذبات کی نشاندہی ہوتی ہے۔ جس طرح لباس آدمی کے لیے زینت، حفاظت اور وقار کا باعث ہوتا ہے اسی طرح میاں بیوی کے ایک دوسرے کے ساتھ تعلقات، جذبات اور احساسات ہونے چاہییں۔ لباس جسم کے نشیب وفراز ڈھانپتا ہے اور دنیا کی کوئی چیز لباس سے زیادہ آدمی کے قریب تر نہیں ہوتی۔ میاں بیوی کی قربت بھی اسی انداز کی ہونی چاہیے۔ پھر ازدواجی زندگی کا مقصد بیان فرمایا کہ یہ تعلقات حیوانی لذّت کی بنیاد پر نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے فضل کے طالب کے طور پر ہونے چاہییں۔ تاکہ نسل انسانی کی بقاء کے ساتھ ساتھ اولاد ماں باپ کی آنکھوں کی ٹھنڈک، دل کا سکون، زندگی کا سہارا اور اللہ تعالیٰ کی تابع فرمان ثابت ہو۔ اس کے بعد روزے کے اوقات متعین فرماتے ہوئے صبح کا ذب اور صبح صادق کافرق واضح کرنے کے لیے سفیدوسیاہ دھاگے کی اصطلاح استعمال فرمائی کیونکہ رات کی تاریکی چھٹنے کے وقت صبح کی ابتدا افق پر باریک اور سفیددھاگے کی طرح طویل ہوتی ہے۔ لہٰذا طلوع فجر سے لے کر غروب آفتاب تک روزے کے تحفظات کا خیال رکھنا چاہیے۔ یہاں اس بات کی خصوصی طور پر وضاحت کردی گئی کہ جب تم مساجد میں اعتکاف کی حالت میں ہو تو پھر اپنی بیویوں کے ساتھ ازدواجی تعلقات سے مکمل اجتناب کرو۔ یہ اللہ تعالیٰ کی حدود ہیں۔ ان کے قریب جانے سے ہر حال میں بچنا چاہیے، کیونکہ ارشاد الٰہی کا مقصد ہی اس کا احترام کرنا ہے سحری اور افطاری کے بارے میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے امت کی خیر خواہی کے لیے ہدایات جاری فرمائیں : (عَنْ اَنَسِ بْنِ مَالِکٍ (رض) قَالَ قَال النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تَسَحَّرُوْا فَإِنَّ فِی السُّحُوْرِ بَرَکَۃً) [ رواہ البخاری : کتاب الصوم، باب برکۃ السحور من غیرِ إیجاب] ” سحری کرو! کیونکہ سحری کھانے میں برکت ہے۔“ (عَنْ سَھْلِ بْنِ سَعْدٍ (رض) أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ : لاَایَزَال النَّاسُ بِخَیْرٍ مَا عَجَّلُوا الْفِطْرَ) [ رواہ البخاری : کتاب الصوم، باب تعجیل الإفطار] ” جب تک لوگ افطار میں جلدی کریں گے اس وقت تک لوگ بھلائی پر رہیں گے۔“ جلدی افطار سے مراد یہ نہیں کہ ابھی سورج نظرآرہا ہو تو افطار کرلیا جائے اس کا مطلب یہ ہے کہ سورج غروب ہونے کے فورًا بعد ہی روزہ افطار کردینا چاہیے۔ مسائل ١۔ رمضان کی راتوں میں بیوی سے مباشرت جائز ہے۔ ٢۔ میاں بیوی ایک دوسرے کے لیے لباس کا درجہ رکھتے ہیں۔ ٣۔ مباشرت کا مقصد نیک اولاد کا حصول ہونا چاہیے۔ ٤۔ روزے کی ابتدا صبح صادق اور انتہا غروب آفتاب ہے۔ ٥۔ اعتکاف مساجد میں ہونا چاہیے اور معتکف اپنی بیوی سے مباشرت اور بوس وکنار نہیں کرسکتا۔ ٦۔ اللہ تعالیٰ کی حدود کی حفاظت کرنا ہی تقو ٰی ہے۔ تفسیربالقرآن روزوں کے مسائل : ١۔ روزے پہلی امتوں پر بھی فرض تھے۔ (البقرۃ: ١٨٣) ٢۔ مریض اور مسافر روزہ نہ رکھ سکے تو بعد میں قضا دے۔ (البقرۃ: ١٨٤) ٣۔ جو روزہ نہ رکھ سکتے ہوں وہ فدیۃً ایک مسکین کو کھانا کھلائیں۔ (البقرۃ: ١٨٤) ٤۔ رمضان پانے والے کو روزے رکھنے چاہییں۔ (البقرۃ: ١٨٥) ٥۔ رمضان کی راتوں میں عورتوں کے پاس جانا اور صبح تک کھانا پینا درست ہے۔ (البقرۃ: ١٨٧) ٦۔ روزہ صبح صادق سے غروب آفتاب تک رکھنا چاہیے۔ (البقرۃ: ١٨٧) ٧۔ دوران اعتکاف عورتوں سے مباشرت نہیں کرنا۔ (البقرۃ: ١٨٧) ٨۔ روزوں کا مقصد تقو ٰی کا حصول ہے۔ (البقرۃ: ١٨٣) ٩۔ رمضان اور قرآن کا گہرا تعلق ہے۔ (البقرۃ: ١٨٥) ١٠۔ لیلۃ القدر رمضان المبارک میں آتی ہے۔ (القدر) ١١۔ لیلۃ القدر ہزار مہینے سے بہتر ہے یہ رات طلوع فجر تک بابرکت ہے۔ (القدر) تفصیل جاننے کے لیے میری کتاب پڑھیں ” برکات رمضان“ البقرة
188 فہم القرآن ربط کلام : جب تم اللہ تعالیٰ کا حکم سمجھ کر دن کے وقت روزہ میں کھانے پینے، عورتوں سے مباشرت اور اعتکاف کی حالت میں رات کے وقت بھی اپنی بیویوں سے جماع نہیں کرتے تو اللہ تعالیٰ کا حکم جانتے ہوئے ہمیشہ کے لیے حرام خوری اور ناجائز ذرائع سے بچ جاؤ۔ حرام کے بارے میں حکم امتناعی جاری کرنے سے پہلے آیت ١٤٨ میں ارشاد فرمایا تھا کہ ” لوگوجو کچھ اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے حلال اور طیّب پیدا کیا ہے اسے کھاؤ اور شیطان کے قدم بہ قدم نہ چلو وہ تمہار اکھلا اور واضح دشمن ہے۔“ یہاں دو ٹوک انداز میں ایک دوسرے کا مال ناجائز طریقے سے کھانے اور ہتھیانے سے منع کیا جارہا ہے اور یہ امتناعی حکم روزے کے احکام، آداب اور اوقات کا تعین فرماتے ہوئے دیا جارہا ہے جس میں یہ فلاسفی پائی جاتی ہے کہ روزہ کا مقصد گناہوں سے بچنا اور پرہیزگاری ہے۔ جب تم اللہ تعالیٰ کا حکم سمجھ کر صبح سے شام تک اپنے جائز حقوق اور حلال چیزوں سے ہاتھ اٹھالیتے ہو تو اسی مالک کا حکم جان کر تمہیں حرام مال سے ہاتھ اٹھا لینا چاہیے۔ حرام مال کے لیے باطل کا لفظ استعمال فرما کر واضح کیا جارہا ہے کہ ناجائز طریقے سے کمایا ہوا مال بے شک وہ عُرْفِ عام میں حلال کی فہرست میں شامل کیوں نہ ہو تین غلط ذرائع سے حاصل ہونے کی وجہ سے حرام ہوجاتا ہے۔ پھر جذبۂ اخوّت کو بیدار کرنے کے لیے ” آپس کے مال کی“ اصطلاح استعمال فرمائی تاکہ باہمی ہمدردی کا احساس ایک دوسرے کا مال ہڑپ اور ضبط کرنے سے لوگوں کو روک سکے۔ اس کے ساتھ ہی اس طریقے کی نفی کی گئی جس کے ذریعے مقدّمہ باز اور حرام خور دوسرے کے مال کو اپنے لیے جائز سمجھتے ہیں۔ حالانکہ ایسے لوگوں کا ضمیر اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ قانونی جنگ جیتنے کے باوجود یہ مال میرے لیے جائز نہیں۔ ضمیر کی اس خلش کا یہ کہہ کر ذکر فرمایا ہے کہ تم خود بھی اس حرام کام اور حرام خوری سے واقف ہو۔ کاش! ایسا دھندہ کرنے والے مسلمان اس قسم کی مقدمہ بازی کے مضمرات اور اس سے پیدا ہونے والی نفرتوں سے آگاہ ہوجائیں۔ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس برے دھندے اور اس سے حاصل شدہ مال کے بارے میں اس طرح ارشاد فرمایا ہے : (إِنَّکُمْ تَخْتَصِمُوْنَ إِلَیَّ وَلَعَلَّ بَعْضَکُمْ أَنْ یَّکُوْنَ أَلْحَنَ بِحُجَّتِہٖ مِنْ بَعْضٍ فَأَقْضِیَ لَہٗ عَلٰی نَحْوِ مِمَّا أَسْمَعُ مِنْہُ فَمَنْ قَطَعْتُ لَہٗ مِنْ حَقِّ أَخِیْہِ شَیْءًا فَلَا یَأْخُذْ ہُ فَإِنَّمَاأَقْطَعُ لَہٗ بِہٖ قِطْعَۃً مِّنَ النَّارِ) [ رواہ مسلم : کتاب الأقضیۃ] ” تم میرے پاس فیصلے لاتے ہو شاید تم میں سے کچھ لوگ دوسروں کی نسبت اپنی دلیل پیش کرنے میں زیادہ فصیح ہوں اور میں اس کی بات سن کر اس کے حق میں فیصلہ کردوں۔ فیصلہ کرتے ہوئے میں جس شخص کو اس کے بھائی کے حق میں سے کچھ دوں تو وہ اسے نہ لے بلا شبہ میں اسے آگ کا ایک ٹکڑا دے رہا ہوں۔“ کمائی کے حرام طریقے (عَنْ أَبِیْ أُمَامَۃَ (رض) أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ مَنِ اقْتَطَعَ حَقَّ امْرِیءٍ مُّسْلِمٍ بِیَمِیْنِہٖ فَقَدْ أَوْجَبَ اللّٰہُ لَہُ النَّارَوَحَرَّمَ عَلَیْہِ الْجَنَّۃَ فَقَالَ لَہٗ رَجُلٌ وَإِنْ کَانَ یَسِیْرًا یَارَسُوْلَ اللّٰہِ قَا لَ وَإِنْ کَانَ قَضِیْبًا مِّنْ أَرَاکٍ) [ رواہ مسلم : کتاب الإیمان : باب : وعید من اقتطع حق امری مسلم بیمین فاجرۃ بالنار] ” حضرت ابوامامہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جو شخص قسم کھا کر کسی مسلمان کا حق مارتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے لیے دوزخ واجب کردیتا ہے اور جنت اس پر حرام کردیتا ہے۔“ کسی نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا اگرچہ یہ حق تلفی معمولی قسم کی ہو؟ ” فرمایا : اگرچہ وہ پیلوں کے درخت کی شاخ ہی کیوں نہ ہو۔“ (عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لِأَصْحَابِ الْمِکْیَالِ وَالْمِیْزَانِ إِنَّکُمْ قَدْ وُلِّیْتُمْ أَمْرَیْنِ ھَلَکَتْ فِیْہِ الْأُمَمُ السَّالِفَۃُ قَبْلَکُمْ) [ رواہ الترمذی : کتاب البیوع، باب فی المکیال والمیزان] ” حضرت عبداللہ بن عباس (رض) بیان کرتیہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ماپ تول کرنے والوں کو فرمایا : بلاشبہ تم دو ایسے کاموں کے ذمہ دار بنائے گئے ہو کہ تم سے پہلی قومیں اسی جرم کی پاداش میں ہلاک ہوئیں۔“ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَرَّ عَلٰی صَبُرَۃِ طَعَامٍ فَأَدْخَلَ یَدَہٗ فِیْھَا فَنَالَتْ أَصَابِعُہٗ بَلَلًا فَقَالَ مَاھٰذَا یَا صَاحِبَ الطَّعَامِ قَالَ أَصَابَتْہُ السَّمَاءُ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ قَالَ أَفَلَا جَعَلْتَہٗ فَوْقَ الطَّعَامِ کَیْ یَرَاہ النَّاسُ مَنْ غَشَّ فَلَیْسَ مِنِّیْ) [ رواہ مسلم : کتاب الایمان : باب : قول النبی من غشنا فلیس منا] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ایک غلہ کے ڈھیر پر گزر ہوا۔ آپ نے اپنا ہاتھ اس میں داخل کیا تو انگلیوں کو نمی محسوس ہوئی۔ آپ نے پوچھا : اے اناج والے ! یہ کیا ہے؟ وہ کہنے لگا : یارسول اللہ! اس پر بارش ہوئی تھی۔ آپ نے فرمایا : تو نے اس نمدار غلے کو ڈھیر کے اوپر کیوں نہ رکھا تاکہ لوگ اسے دیکھ سکتے۔ پھر فرمایا : جس نے دھوکا دیا اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں۔“ مسائل ١۔ ایک دوسرے کا مال ناجائز طریقے سے نہیں کھانا چاہیے۔ ٢۔ جھوٹی مقدّمہ بازی سے اجتناب کرنا چاہیے ٣۔ ناجائز طریقہ سے کمایا ہوا مال حرام ہوجاتا ہے۔ ٤۔ کسی کا مال ناجائز طریقے سے کھانا حرام ہے۔ البقرة
189 فہم القرآن ربط کلام : روزے کا چاند سے تعلق ہے لہٰذا ضمناً چاند کے بارے میں ایک سوال کا جواب عنایت فرما دیا گیا ہے۔ کارخانۂ کائنات میں چاند مظاہر فطرت و قدرت میں سے ایک ہے جس کا انسانی زندگی اور ذہن پر خاص اثر پڑتا ہے۔ چاند کا جمال وکمال انسان کے لیے ہمیشہ سے دلرُبا رہا ہے۔ ماں کی مامتا بے ساختگی کے عالم میں اپنے لخت جگر کو چاند کہہ کر پکارتی ہے‘ شاعروں نے اسے اپنے کلام کا موضوع بنایا اور غلط ذہن لوگ اپنے محبوب کو چاند سے تشبیہ دیتے آئے ہیں چاندکی حسن صورت کو دیکھ کر انسان اس کے سامنے سرنگوں ہوتے رہے۔ یہاں تک کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا قبیلہ اور قوم چاند کو اپنا معبود تصور کرنے لگی۔ اسی لیے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنی تبلیغ کے دوران چاند، سورج اور ستارہ پرستوں کو خطاب کرتے ہوئے سمجھایا تھا کہ غائب اور غروب ہونے والے کبھی مشکل کشا اور خدا نہیں ہوسکتے ” الانعام : ٧٧ اور حٰم السجدۃ: آیت ٣٧“ میں فرمایا گیا کہ کائنات کی بڑی سے بڑی اور خوب تر سے خوب صورت ترین چیز بھی سجدہ کے لائق نہیں ہوسکتی۔ یہ تو تمہارے خدمت گار اور تابع دار کردیے گئے ہیں۔ قرآن مجید نے اپنے مخصوص اسلوب بیان کے پیش نظر چاند کے گھٹنے اور بڑھنے کے عوامل کا ذکر نہیں کیا بلکہ سوال کا رخ موڑتے ہوئے یہ بتلایا ہے کہ چاند کا گھٹنا اور بڑھنا‘ اس کا طلوع اور غروب ہونا تمہارے لیے کھلے کیلنڈر کی حیثیت رکھتا ہے۔ جس سے تم اپنی زندگی کے ادوار، عبادت کے اوقات اور حج کے ایّام معلوم کرسکتے ہو۔ مسلمانوں کے لیے حج، روزہ، عید اور دیگر عبادات کا شمار شمسی حساب کے بجائے قمری حساب پر رکھا گیا ہے۔ قمری مہینے کی تاریخ طلوع چاند کے ساتھ شروع ہوتی ہے۔ جس کی وجہ سے قمری مہینہ انتیس یا تیس دن کا قرار پاتا ہے۔ اس کے مقابلے میں شمسی مہینوں میں فرق زیادہ ہے۔ حتی کہ کچھ سالوں کے بعد ایک سال کو لیپ کا سال قرار دینا پڑتا ہے۔ شمسی حساب کا آغاز دن کی ابتداء کے بجائے رات 12 بجے شروع کیا جاتا ہے جو بذات خود عجیب محسوس ہوتا ہے۔ لیکن افسوس ! ملت کو اس کا احساس بھی جاتا رہا اور آج مسلمانوں کی غالب اکثریت کو قمری مہینوں کے نام تک یاد نہیں۔ چاند کے فوائد کا ذکر کرنے کے ساتھ ہی عربوں کی خود ساختہ رسم کی نفی کی گئی ہے کہ ضرورت کے وقت حج کے دوران اپنے گھروں میں آنا پڑے تو ان کے پچھواڑے سے دیواریں پھلانگ کر آنے کے بجائے دروازوں کے راستے آیا جایا کرو۔ کیونکہ تمہارا رب تمہاری خود ساختہ عبادات اور رسومات پر راضی نہیں ہوتا‘ نہ ہی دین کی بنیاد رسومات اور توہّمات پر رکھی گئی ہے۔ اس کی بنیاد تو حقیقی خوفِ الٰہی پر رکھی گئی ہے۔ یہی کامیابی کا زینہ اور وسیلہ ہے۔ لہٰذا تم ہر حال میں اپنے آپ پر اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کے احکام کا خوف واحترام قائم رکھو، تاکہ تم دنیا وآخرت میں کامیاب ہوجاؤ۔ چاند کے بارے میں جدید تحقیق بُعد قمر : (١) زمین سے چاند کا بعد اوسط 240000 میل ہے، قطر 2160 میل‘ اس کا حجم زمین کے حجم کا ٤٩/١ حصہ ہے اور وزن زمین کے وزن کا ٨١/١ حصہ‘ اس کی سطحی کشش زمین کی سطحی کشش کا تقریبًا ٦/١ حصہ ہے۔ لہٰذا جس چیز کا وزن سطح زمین پر ٦ پونڈ ہے سطح قمر پر اس کا وزن ایک پونڈ ہوگا۔ (٢) چاند زمین کے ارد گرد 27 دن 7 گھنٹے 34 منٹ میں دورہ پورا کرتا ہے۔ (٣) البتہ زمین کی سالانہ حرکت کے سبب ایک نئے چاند سے دوسرے نئے چاند تک ساڑھے انتیس دن لگتے ہیں۔ ٹھیک ٹھیک حساب کریں تو یہ مدت 29 دن 12 گھنٹے 14 منٹ اور 2.8 سیکنڈ میں ختم ہوتی ہے۔ اس مدت کو ایک قمری مہینہ کہتے ہیں۔ مظاہر قمر : (١) چاند روشن کرہ نہیں بلکہ اس کی روشنی سورج کی روشنی کے انعکاس کا نتیجہ ہے۔ اس کا نصف حصہ سورج کے سامنے ہونے کی وجہ سے ہمیشہ منوّر ہوتا ہے لیکن ہمیں اس کے مختلف مظاہر نظر آتے ہیں۔ (٢) 28،29 تاریخ کو روشن حصہ آفتاب کی طرف اور تاریک پہلو زمین کی جانب ہوتا ہے اور وہ بالکل نظر سے غائب ہوجاتا ہے۔ اس حالت کو محاق کہتے ہیں۔ حالت محاق میں شمس وقمر ایک سمت میں ہوتے ہیں۔ (٣) پھر چاند آہستہ آہستہ سورج سے مشرق کی جانب ہوتا جاتا ہے۔ یکم کو اس کے چمکتے ہوئے چہرے کا صرف ایک باریک کنارہ ہمیں نظر آتا ہے۔ یہ ہلال کہلاتا ہے۔ (ماخوذ از فلکیات جدیدہ) مسائل ١۔ چاند کے ذریعے لوگوں کو حج اور دوسرے معاملات طے کرنے کے لیے اوقات معلوم ہوتے ہیں۔ ٢۔ ہر دم اللہ تعالیٰ سے ڈرنا چاہیے۔ ٣۔ گناہوں سے بچنے اور تقو ٰی اختیار کرنے والے ہی کامیاب ہوں گے۔ ٤۔ رسومات سے بچنا کامیابی کی ضمانت ہے۔ البقرة
190 البقرة
191 فہم القرآن ربط کلام : حرمت کے مہینوں کا تعلق بھی چاند سے ہے۔ اس لیے حرمت کے مہینوں کے بیان میں ان سے متعلقہ مسائل کا بیان ضروری سمجھا گیا۔ رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مسلمانوں کو کفار کے ظلم وستم سہتے ہوئے اٹھارہ سال گزر چکے تھے۔ اس دوران مسلمانوں پر یکے بعد دیگرے بدر، احد اور خندق کی جنگیں بھی مسلط کی گئیں۔ لیکن آپ اور مسلمانوں نے ہمت نہیں ہاری۔ نبوت کے اٹھارہویں سال ایک غیبی اشارے کی بنیاد پر عمرہ کی نیت سے آپ عازم مکہ ہوئے۔ لیکن اہل مکہ نے قومی اخلاق اور حرم کی دینی اقدار کی پرواہ کیے بغیر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو عمرہ کرنے سے روک دیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ عمرہ کی نیت سے مکہ کی طرف چلے تھے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اس میں اہل مکہ کے لیے یہ پیغام تھا کہ مسلمان اخلاقی اور عسکری لحاظ سے اس قابل ہوچکے ہیں کہ وہ جب چاہیں مرکز ملت بیت اللہ کو کفار سے واگزار کرواسکتے ہیں۔ اہل مکہ نے اس حقیقت کو محسوس کرتے ہوئے اس شرط پر خصوصی طور پر اصرار کیا کہ اس سال تو بہر حال تمہیں واپس ہی جانا پڑے گا۔ کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ حرم کی تولیّت ہمارا قومی اور دینی حق ہے اگر ہم نے اس حال میں مسلمانوں کو مکے میں داخلہ کی اجازت دے دی تو ہمارے قومی اور ملی وقار کو شدید دھچکا لگے گا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تصادم سے بچنے کے لیے اپنا ارادہ ملتوی فرمایا اور اگلے سال آنے کی شرط قبول فرمائی۔ جب اگلے سال مسلمان مکہ جانے لگے تو ان کے دل میں یہ خیال پیدا ہونا فطری امر تھا کہ اگر اس سال بھی ہم روک دیے گئے تو کیا ہوگا؟ اس کے جواب میں جہاد کا حکم دیتے ہوئے بارہ ہدایات جاری فرمائی گئی ہیں : ١۔ لڑائی کرنے والوں سے جنگ کرو۔ ٢۔ زیادتی نہ کرو۔ ٣۔ زیادتی کرنے والوں کو جہاں پاؤ قتل کردو۔ ٤۔ جہاں سے انہوں نے تمہیں نکالا وہاں سے انہیں بھی نکال دو۔ ٥۔ فتنہ قتل سے زیادہ سخت ہے۔ ٦۔ مسجد حرام کے نزدیک جب تک وہ نہ لڑیں تم بھی نہ لڑو۔ ٧۔ اگر وہ تم سے مسجد حرام میں قتال کریں تو تم بھی مسجد حرام میں قتال کرو۔ ٨۔ اگر باز آجائیں تو اللہ معاف کرنے والا ہے۔ ٩۔ فتنہ ختم ہونے تک قتال کرو۔ ١٠۔ حرمت والے مہینے حرمت والے مہینوں کے بدلے میں ہیں۔ ١١۔ حرمت میں قصاص ہے۔ ١٢۔ جتنی وہ زیادتی کریں تم بھی اتنی ہی کرو۔ عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃ َ أَنَّ خُزَاعَۃَ قَتَلُوا رَجُلاً مِنْ بَنِی لَیْثٍ عَامَ فَتْحِ مَکَّۃَ بِقَتِیلٍ مِنْہُمْ قَتَلُوہُ، فَأُخْبِرَ بِذَلِکَ النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَرَکِبَ رَاحِلَتَہُ، فَخَطَبَ فَقَالَ إِنَّ اللَّہَ حَبَسَ عَنْ مَکَّۃَ الْقَتْلَ أَوِ الْفِیلَ شَکَّ أَبُو عَبْدِ اللَّہِ وَسَلَّطَ عَلَیْہِمْ رَسُول اللَّہِ وَالْمُؤْمِنِینَ، أَلاَ وَإِنَّہَا لَمْ تَحِلَّ لأَحَدٍ قَبْلِی، وَلاَ تَحِلُّ لأَحَدٍ بَعْدِی أَلاَ وَإِنَّہَا حَلَّتْ لِی سَاعَۃً مِنْ نَہَارَ.........)ٍ[ رواہ البخاری : باب کِتَابَۃِ الْعِلْمِ] حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں بیشک خزاعہ قبیلے کے لوگوں نے فتح مکہ والے سال بنی لیث کا ایک آدمی قتل کردیا۔ اس واقعہ کی اطلاع نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دی گئی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سواری پر سوار ہوئے اور خطبہ ارشاد فرمایا یقینا اللہ نے مکہ میں قتل وغارت کو ممنوع قرار دیا ہے۔ یا آپ نے فیل کے لفظ استعمال فرمائے راوی کو شک ہے۔ اللہ تعالیٰ نے کفار پر اپنے رسول اور مومنوں کو مسلط فرمایا خبردارمیرے سے پہلے بھی کسی کے لیے مکہ کی حرمت کو پامال کرنا جائز تھا اور نہ میرے بعد کسی کے لیے جائز ہوگا۔ اور میرے لیے کچھ وقت کے لیے اس میں لڑائی کو حلال قرار دیا گیا تھا۔“ مسائل ١۔ مسلمانوں کے خلاف لڑنے والوں کے ساتھ جہاد کرنا چاہیے۔ ٢۔ کسی پر زیادتی کرنا جائز نہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ زیادتی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ ٣۔ کفار حدود حرم میں مسلمانوں پر حملہ آور ہوں تو حرم میں ان کے ساتھ لڑنا جائز ہے۔ ٤۔ مسلمانوں کے ساتھ لڑنے والے کفار کی سزا یہ ہے کہ انہیں قتل کردیا جائے۔ ٥۔ اگر کافر لڑنے سے اجتناب کریں تو مسلمانوں کو بھی اجتناب کرنا چاہیے۔ ٦۔ اللہ تعالیٰ ہر حال میں معاف کرنے والا‘ مہربان ہے۔ ٧۔ غلبہ دین ہونے تک کفار کے ساتھ لڑنا چاہیے۔ البقرة
192 البقرة
193 البقرة
194 فہم القرآن ربط کلام : گزشتہ سے پیوستہ ان بارہ ہدایات میں سے ایک یہ ہے کہ اگر کفار حرمتوں کی آڑ میں تم پر حملہ آور ہونے کی کوشش کریں تو تم بھی کسی حرمت کی پروا کیے بغیر ان کے خلاف برسر پیکار ہوجاؤ۔ کفار کے مقابلے میں حرمت کے بدلے ہی عزت وحرمت کا خیال رکھاجاسکتا ہے کیونکہ اللہ کے بندوں کو اس کی بندگی سے روکنا، کفر کو دین حق پر مسلط کرنا، کمزوروں پر ظلم ڈھانا اور مشرکوں کا بیت اللہ پر قبضہ جمانے سے بڑھ کر کوئی فتنہ نہیں ہوسکتا اگر کفار مزاحم ہونے اور لوگوں پر ظلم کرنے سے باز آجائیں تو انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیا جائے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ کفار نے اٹھارہ سال تمہارے اوپر ظلم کیے ہیں لیکن یاد رکھنا کسی لمحہ بھی تمہیں زیادتی کرنے کی اجازت نہیں ہوگی۔ پچھلی آیات میں اللہ تعالیٰ نے غفور رحیم صفت بیان فرما کر اشارہ دیا ہے کہ اگر تم معاف کردو تو زیادہ بہتر ہوگا۔ اس حکم سے واضح ہواکہ اسلام کسی صورت میں بھی کسی پر زیادتی کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) غزوات میں ہدایات جاری فرماتے کہ کسی بوڑھے، بچے اور عورت یہاں تک کہ معبد خانوں میں عبادت کرنے والے اور اپنے گھروں کے کواڑ بند کرنے والوں پر زیادتی نہ کیجائے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے معاہدات میں اس بات کا مکمل خیال اور غیر مسلموں کو پورا پورا تحفظ عنایت فرمایا۔ نجران کے عیسائیوں سے جو معاہدہ کیا اس سے اسلام کی امن وسلامتی اور لوگوں کے حقوق کی رعایت کھل کر واضح ہوجاتی ہے وہ معاہدہ یہ ہے : ” نجران اور اس کے رہنے والوں کی جانیں، ان کا مذہب، ان کی زمینیں، ان کا مال، ان کے حاضرو غائب، ان کی مورتیاں، ان کے قافلے اور قاصد، اللہ کی امان اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ضمانت میں ہوں گے، ان کی موجودہ حالت میں کوئی تبدیلی نہیں کی جائے گی ان کے حقوق میں سے کسی حق میں مداخلت نہیں کی جائے گی، کوئی اسقف اپنی اسقفیت سے، کوئی راہب اپنی رہبانیت سے، کنیسہ کا کوئی منتظم اپنے عہدہ سے ہٹایانہ جائے گا، اور جو کچھ بھی ان کے قبضے میں ہے اسی طرح رہے گا ان کے زمانۂ جاہلیت کے کسی جرم یا خون کا بدلہ نہ لیا جائے گا، نہ ان سے فوجی خدمت لی جائے گی اور نہ ان پر عشر لگایا جائے گا اور نہ اسلامی فوج ان کے علا قے کو پامال کرے گی۔ ان میں سے جو شخص اپنے کسی حق کا مطالبہ کرے گا تو اس کے ساتھ انصاف کیا جائے گا۔ نہ ان کو ظلم کرنے دیا جائے گا اور نہ ان پر ظلم ہوگا۔ ان میں سے جو شخص سود کھائے گا وہ میری ضمانت سے بری ہے۔ اس صحیفہ میں جو لکھا گیا ہے اس کے ایفا کے بارے میں اللہ کی امان اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذمہ داری ہے یہاں تک کہ اس بارے میں اللہ تعالیٰ کا کوئی دوسرا حکم نازل نہ ہو۔ جب تک یہ لوگ مسلمانوں کے خیر خواہ رہیں گے ان کے ساتھ کئے ہوئے معاہدہ کی پابندی کریں گے ان کو جبرًاکسی بات پر مجبور نہ کیا جائیگا۔“ ان ہدایات کا مسلمانوں نے ہر دور اور ہر حال میں خیال رکھا۔ اسلام میں جہاد کا تصوّر یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی زمین پر اس کے باغیوں کے بجائے صرف اس کے تابع فرماں بندوں کا قبضہ ہونا چاہیے۔ کیونکہ کوئی بھی حکومت ملک، قوم اور ملی نظریے سے بغاوت کرنے والوں کو گوارا نہیں کرسکتی۔ لہٰذا جہاد ذاتی اغراض اور کشور کشائی کے لیے نہیں بلکہ صرف اعلائے کلمۃ اللہ کے لیے ہوتا ہے۔ یہاں آخری حکم میں فرمایا جارہا ہے کہ جہاد فرض ہونے کی صورت میں اپنے آپ کو بچانا اور مال محفوظ رکھنا خودکشی کے مترادف ہوگا۔ کیونکہ جب دشمن سر پر چڑھ آئے تو نہ مال و منال بچا کرتا ہے اور نہ عزّت وجان سلامت رہتی ہے۔ نازک حالات میں ہر چیز قربان کرنے کے جذبے سے ہی قومیں اپنا وقار اور وجود قائم رکھ سکتی ہیں۔ غزوات نبوی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور پہلی اور دوسری جنگ عظیم کے درمیان نقصان کا تقابل نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دور میں کل مسلمان شہداء 387 اور مخالف 732 تھے۔ ( رحمۃ للعلمین از قاضی سلیمان منصورپوری) لیکن افسوس غیر مسلموں کی تاریخ میں ان قدروں کا کبھی بھی خیال نہیں رکھا گیا۔ مہذب دنیا کے راہنماؤں نے اپنے ہم مذہب اور دوسرے ممالک کا پہلی جنگ عظیم 1914 تا 1919 میں اور دوسری جنگ عظیم 1939 تا 1945 میں جو قیامت برپا کی اس کی ایک جھلک ملاحظہ فرمائیں۔ پہلی جنگ عظیم میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد کی تفصیل اس طرح ہے۔ جرمنی کے سب سے زیادہ 18 لاکھ افراد ہلاک ہوئے۔ اس کے بعد سوویت یونین کے 17 لاکھ، فرانس کے 13 لاکھ 85 ہزار، آسٹریلیا کے 12 لاکھ اور برطانیہ کے 9 لاکھ 47 ہزار افراد مارے گئے۔ جاپان کے 8 لاکھ، رومانیہ کے 7 لاکھ 50 ہزار، سربیان کے 7 لاکھ 8 ہزار، اٹلی کے 4 لاکھ 80 ہزار، ترکی 3 لاکھ 25 ہزار، بیلجئیم کے 2 لاکھ 27 ہزار، یونان کے 2 لاکھ 30 ہزار، امریکہ کے 1 لاکھ 37 ہزار، پرتگال کے 1 لاکھ، کینیڈا کے 69 ہزار، بلغاریہ کے 88 ہزار اور مونٹے نیگرو کے 50 ہزار مارے گئے۔ دوسری جنگ عظیم میں سپر پاور بننے کے لیے سوویت یونین کو سب سے بھاری جانی ومالی قیمت چکانا پڑی۔ اس کے 3 کروڑ 55 لاکھ 68 ہزارفوجی اور سویلین ہلاک ہوئے۔ اس کے بعد چین کا نمبر آتا ہے جس کے 1 کروڑ 13 لاکھ 24 ہزار مارے گئے، پولینڈ کے 68 لاکھ 50 ہزار، جاپان کے 18 لاکھ 6 ہزار، یوگو سلاویہ کے 17 لاکھ، رومانیہ کے 9 لاکھ 85 ہزار، فرانس 8 لاکھ 10 ہزار، یونان 5 لاکھ 20 ہزار، امریکہ 4 لاکھ 95 ہزار، آسٹریا 4 لاکھ 80 ہزار، اٹلی 4 لاکھ 10 ہزار، برطانیہ 3 لاکھ 88 ہزار، ہالینڈ 2 لاکھ 50 ہزار اور بیلجئیم کے 85 ہزار مارے گئے۔ اس کے علاوہ فن لینڈ کے 79 ہزار، کینیڈا 42 ہزار، ہندوستان 36 ہزار، آسٹریلیا 29 ہزار، البانیہ 28 ہزار، سپین 22 ہزار، بلغاریہ 21 ہزار، نیوزی لینڈ 12 ہزار، ناروے 10 ہزار، جنوبی افریقہ 9 ہزار، لکسمبرگ 5 ہزار اور ڈنمارک کے 4 ہزار مارے گئے جب کہ حالیہ عراق اور افغانستان جنگ میں مرنے والوں کی تعداد 65 ہزارسے اوپر پہنچ چکی ہے۔ ان جنگوں پر اخراجات بھی کم نہیں ہوئے۔ 1990 میں ڈالر کی قیمت کے مطابق پہلی عالمی جنگ میں 196 ارب 50 کروڑ ڈالر خرچ ہوئے جبکہ دوسری عالمگیر جنگ میں 2091 ارب 30 کروڑ ڈالر خرچ ہوئے تھے۔ تیسری جاری عالمی جنگ میں اب تک 1 کھرب 79 ارب 19 کروڑ 51 لاکھ 11 ہزار ڈالر خرچ ہوچکے ہیں اور ابھی یہ سلسلہ جاری ہے۔ حال ہی (2004) میں امریکہ جو دنیا میں تہذیب وتمدن کا علمبردار بنا ہوا ہے۔ اس نے عراق کے تاریخی مقامات اور تمام شہروں بالخصوص نجف، بغداد اور فلوجہ میں جس طرح مساجدومدارس اور خواتین کی بے حرمتی کی اور قبرستانوں پر بلڈوزر چلائے ان مظالم کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ یہاں تک کہ ابو غریب جیل میں قیدیوں کو پاخانہ کھانے اور اپنا پیشاب پینے پر مجبور کیا گیا جس پر امریکہ کے حلیف اور دیگر ممالک میں اس کے خلاف کہرام برپا ہوا جس کے رد عمل میں امریکہ کے صدر بش کو دنیا کے سامنے معافی مانگنی پڑی پھر بھی ان کے رویّے میں کوئی تبدیلی رونما نہ ہوسکی۔ مسائل ١۔ حرمت والے مہینوں اور حرمات میں قصاص ہے۔ ٢۔ زیادتی کے بدلے میں اتنی ہی زیادتی کرنا جائز ہے۔ ٣۔ ہر حال میں اللہ تعالیٰ سے ڈرنا چاہیے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ نہ کرنا اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنا ہے۔ ٥۔ ہر حال میں نیکی کرنا چاہیے۔ ٦۔ اللہ تعالیٰ نیکی کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔ البقرة
195 البقرة
196 فہم القرآن ربط کلام : چاند کے ساتھ روزے اور حج کا خصوصی تعلق ہے۔ لہٰذا حج کے مسائل کی تفصیل اور ان کے درمیان دور جہالت کی بدعات اور رسومات کا بیان ہوگا۔ حج عبادات کا مرقع ہے۔ اسلام کے پانچویں رکن کی ادائیگی مقررہ ایّام میں متعیّن اور مقدّس مقامات پر ادا ہوتی ہے۔ یہ مسلمانوں کی اجتماعی تربیت، عبادت اور ملت کے معاملات کا ہمہ گیر جائزہ لینے کا وسیع وعریض پلیٹ فارم ہے۔ شریعت نے امت مسلمہ کو اپنے اور دنیا بھر کے تعلقات ومعاملات کا جائزہ لینے کے لیے سالانہ بین الاقوامی سٹیج مہیا کیا ہے تاکہ مسلمان حقوق اللہ اور حقوق العباد کے معاملہ میں اپنی کمی وبیشی کا احساس کرتے ہوئے توبہ و استغفار اور حالات کی درستگی کے لیے عملی اقدامات اٹھائیں۔ جہاں اپنے کردار و گفتار کا جائزہ لینا ہے وہاں ملّتِ کفر کے حالات و واقعات اور ان کے فکرو عمل پر کڑی نظر رکھنا نہایت ضروری ہے۔ یہ احتساب و عمل کی ایسی تربیت گاہ ہے جس سے مسلمانوں کو بھرپور فائدہ اٹھانا چاہیے۔ یہی وہ سوچ و حکمت تھی کہ جس کے لیے سّیدنا عمر فاروق (رض) حج کے موقع پر مملکت کے گورنروں اور اعلیٰ حکام کا اجلاس منعقد کرتے اور ان علاقوں کے عمائدین سے وہاں کے حالات و واقعات اور حکام و رعایا کے طرز عمل کے بارے میں استفسار فرماتے ہوئے موقع پر ہدایات جاری کرتے تھے۔ (سیرت فاروق) دین حنیف میں ہر کام اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے کرنے کا حکم ہوا ہے۔ پھر حج اور عمرہ کے لیے یہ خصوصی حکم کیوں دیا گیا کہ حج اور عمرہ اللہ ہی کے لیے ہونے چاہییں؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ مشرکین نے نہ صرف حج کے تمام مناسک میں اپنے بتوں کو شریک کرلیا تھا بلکہ انہوں نے بیت اللہ‘ صفا و مروہ اور عرفات میں بھی بت سجا رکھے تھے۔ جن کی حرمت ووسیلہ سے اللہ تعالیٰ سے مناجات کرتے۔ یہاں تک کہ وہ احرام باندھتے تو ان الفاظ میں تلبیہ کہتے۔ (لَبَّیْکَ لَاشَرِیْکَ لَکَ اِلَّا شَرِیْکًاھُوَ لَکَ تَمْلِکُہٗ وَمَامَلَکَ) [ رواہ مسلم : کتاب الحج، باب التلبیۃ ...] ” میں حاضرہوں ! اللہ تیرا کوئی شریک نہیں سوائے اس شریک کے جس کو تو نے اپنا ساتھی بنا لیا ہے۔ تو اس کا بھی اور اس چیز کا بھی مالک ہے جس کا وہ مالک ہے۔“ یہاں مشرکین کو نہایت لطیف پیرائے میں شرک سے منع کرتے ہوئے فرمایا کہ حج اور عمرہ میں کسی کو اللہ کا شریک بنانے کے بجائے صرف اور صرف اللہ کے لیے حج اور عمرہ کرو۔ یہاں اس بات کی طرف بھی اشارہ ہے کہ حج محض ایک رسم اور نیکی کی شکل میں مال کی نمائش کا نام نہیں۔ یہ تو اللہ کے گھر میں اس عقیدے کے ساتھ حاضری دینا ہے کہ میں صرف تیرے ہی در کا فقیر ہوں۔ جس طرح آج میں اپنا گھر بار چھوڑ کر حاضر ہوں اسی طرح مرنے کے بعد تیری جناب میں مجھے پیش ہونا ہے۔ لہٰذا میں معافی کا خواست گار ہوں‘ تیرے بغیر کوئی بھی میرے گناہوں کو معاف نہیں کرسکتا۔ یہاں اس بات کی اجازت دی گئی ہے کہ حج اور عمرہ اکٹھے کرسکتے ہو جبکہ دور جہالت میں لوگ حج اور عمرہ اکٹھا کرنا ٹھیک نہیں سمجھتے تھے۔ اس آیت کی ابتدا میں حکم ہے کہ حج اور عمرہ کو پورا کرنا چاہیے۔ تاہم اگر کسی وجہ سے راستے میں رکاوٹ پیدا ہوجائے یا کوئی بیماری لاحق ہو تو عمرہ اور حج کرنے والے کو کیا کرنا چاہیے؟ فرمایا کہ اگر راستے میں رکاوٹ پیش آجائے تو قربانیاں کسی دوسرے ذرائع کے ذریعے مکہ روانہ کردی جائیں۔ اس وقت تک سرنہ منڈوایا جائے جب تک قربانی مکہ پہنچ جانے کا یقین نہ ہو۔ البتہ اگر قربانی مکہ پہنچانے کا کوئی انتظام نہ ہو تو اسی مقام پر قربانی ذبح کرکے آدمی حلال ہوجائے گا۔ جیسا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ (رض) نے صلح حدیبیہ کے موقع پر کیا تھا۔ اگر کسی کو ایسی تکلیف لاحق ہو یاسر منڈوانا تکلیف کی وجہ سے ناگزیر ہو تو اسے تین روزے یاچھ مساکین کا کھانا یا پھر ایک جانور ذبح کرنا ہوگا۔ اگر حج اور عمرہ اکٹھا کرنے والا اگر قربانی نہیں پاتا تو اسے حج کے دوران تین روزے رکھنے چاہییں اور جب وطن واپس پہنچے تو سات روزے رکھے۔ گویا کہ قربانی نہ کرنے کی وجہ سے دس روزے رکھنے پڑیں گے۔ اسے حدیث میں حج قرآن کہا گیا ہے حج تمتع ان لوگوں کو کرنے کی اجازت ہے جو حرم کی حدود میں رہنے والے نہ ہوں۔ کیونکہ انہیں حج کے لیے دور سے آنا پڑتا ہے۔ حرم میں رہنے والوں کو اس کی اجازت نہیں۔ شاید اس کا فلسفہ یہ ہے کہ بیت اللہ کی رونق ہر حال میں روز افزوں رہے۔ تمتع سے مراد حج اور عمرہ اکٹھا کرنا ہے۔ آیت کے آخر میں یہ انتباہ کیا جارہا ہے کہ اللہ تعالیٰ سے ڈر کر حج اور عمرہ میں افراط وتفریط، خود ساختہ رسومات اور شرک کی آمیزش ترک کردو ورنہ یادرکھو کہ اللہ تعالیٰ سخت ترین گرفت کرنے والا ہے اور اس کی گرفت اور عذاب سے تمہیں بچانے والا کوئی نہیں ہوگا۔ مسائل ١۔ اللہ ہی کے لیے حج اور عمرہ کے مناسک پورے کرنے چاہییں۔ ٢۔ محصور ہوجانے کی صورت میں قربانیاں مکہ بھیج دی جائیں۔ ٣۔ قربانی سے پہلے سر نہ منڈوایا جائے۔ ٤۔ تکلیف کے باعث سر منڈواناپڑے تو تین روزے یا چھ آدمیوں کو کھانا کھلانا یا جانور ذبح کرنا چاہیے۔ ٥۔ حج اور عمرہ اکٹھے کیے جاسکتے ہیں۔ ٦۔ حج تمتع میں قربانی نہ کرنے والا تین روزے حج کے دوران اور سات واپسی پر رکھے گا۔ ٧۔ حدود حرم کے اندر رہنے والوں کو حج تمتع کی اجازت نہیں ہے۔ ٨۔ ہر دم اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہنا چاہیے وہ سخت عذاب والا ہے۔ تفسیر بالقرآن بیت اللہ کا حج : ١۔ لوگوں میں حج کے لیے نداء کر دو کہ تمہاری طرف پیدل اور دبلے دبلے اونٹوں پر جودور دراز رستوں سے چلے آتے ہوں (سوار ہو کر) چلے آئیں۔ (الحج : ٢٧) ٢۔ لوگوں پر خدا کا حق ہے کہ جو اس گھر تک جانے کا مقدور رکھے وہ اس کا حج کرے۔ (آل عمران : ٩٧) ٣۔ حج کے مہینے معلوم ہیں تو جو شخص ان مہینوں میں حج کی نیت کرلے تو حج میں نہ عورتوں سے اختلاط کرے، نہ کوئی برا کام کرے، نہ کسی سے جھگڑے اور جو نیک کام تم کرو گے وہ خدا کو معلوم ہے اور زاد راہ ساتھ لے جاؤ کیونکہ بہتر زاد راہ پرہیزگاری ہے اور اے عقل والو! مجھ سے ڈرتے رہو۔ (البقرہ : ١٩٧) ٤۔ تمہارے لیے دریا کا شکار اور ان کا کھانا حلال کردیا گیا ہے یعنی تمہارے اور مسافروں کے فائدہ کے لیے اور جنگل کا شکار جب تک تم احرام کی حالت میں ہو تم پر حرام ہے اور اللہ سے جس کے پاس تم جمع کیے جاؤ گے، ڈرتے رہو۔ (المائدۃ: ٩٦) ٥۔ تاکہ اپنے فائدے کے کاموں کے لیے حاضر ہوں اور قربانی کے ایام میں چہار پایان مویشی، جو اللہ نے ان کو دیئے ہیں۔ ان پر اللہ کا نام لیں۔ اس میں تم بھی کھاؤ اور فقیر درماندہ کو بھی کھلاؤپھر چاہیے کہ لوگ اپنا میل کچیل دور کریں اور نذریں پوری کریں اور بیت اللہ کا طوا ف کریں۔ (الحج : ٢٨، ٢٩) البقرة
197 فہم القرآن ربط کلام : گزشتہ سے پیوستہ۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے زمانے سے حج کے مہینے ایک ہی چلے آرہے تھے۔ جنہیں ہر دور کے ہزاروں‘ لاکھوں اور ان کی وساطت سے نسل درنسل کروڑوں لوگ جانتے ہیں۔ اتنی عظیم الشان اور مسلسل ہونے والی عبادت کے مہینے بتلانے کی ضرورت نہیں سمجھی گئی۔ البتہ حدیث میں ان کی وضاحت موجود ہے۔ یہ ایام یکم شوال، ذی القعدہ اور ذی الحجہ کی دس تاریخ تک ہیں۔ (قَالَ ابْنُ عُمَرَ (رض) أَشْھُرُ الْحَجِِّ شَوَّالٌ وَذُو الْقَعْدَۃِ وَعَشْرٌ مِّنْ ذِی الْحَجَّۃِ) [ رواہ البخاری : کتاب الحج، باب قول اللّٰہِ تعالیٰ الحج أشھر معلومات] ” عبدا للہ بن عمر (رض) نے فرمایا : حج کے مہینے شوال، ذو القعدہ اور ذو الحجہ کے دس دن ہیں۔“ اس حدیث میں 10 ذی الحجہ ایام حج قرار دیے گئے۔ اس سے مراد ہے کہ حج 10 ذوالحجہ کے بعد نہیں ہوسکتا۔ حج کرنے والا انہی ایام میں احرام باندھے گا۔ اگر اس سے پہلے وہ حج کا سفر کرے تو احرام نہیں باندھ سکتا۔ البتہ دوردراز علاقے کے رہنے والے لوگ ذرائع آمد ورفت سست رفتار یا کم ہونے کی بنا پر حج کے لیے پہلے بھی سفر کا آغاز کرسکتے ہیں۔ جس طرح آج سے اسّی سال پہلے لوگ پیدل حج کے لیے جایا کرتے تھے۔ طوالت سفر کی وجہ سے وہ شوال سے پہلے ہی اپنے سفر کا آغاز کرتے اس طرح حج کے لیے چھ سے آٹھ ماہ لگ جاتے۔ ایسے حالات میں حج کے مہینوں سے پہلے سفر شروع کیا جاسکتا ہے۔ تاہم ہر شخص احرام یکم شوال سے باندھے گا اور میقات پر پہنچ کر احرام کی پابندیاں شروع ہوں گی۔ عمرہ کے لیے کوئی دن اور مہینہ مقرر نہیں۔ آدمی جب چاہے عمرہ کرسکتا ہے۔ یہاں حج کی فرضیت سے مراد اس کی ادائیگی ہے کیونکہ مفسرین کا اتفاق ہے کہ حج تین ہجری آل عمران کی آیت 97 کے نزول کے وقت فرض ہوا تھا۔ جب کہ یہ آیات چھ ہجری صلح حدیبیہ کے موقع پر نازل ہوئیں۔ اس فرمان میں حج کے آداب بتائے جارہے ہیں کہ حج میں تین کاموں سے سختی کے ساتھ پرہیز کیا جائے۔ اس موقع پر اجتناب اور احتیاط کے باوجود مرد و زن کا ایک ہی وقت اور ایک ہی مقام پر مناسک حج ادا کرنے سے لامحالہ کچھ نہ کچھ اختلاط پید اہوسکتا ہے۔ مختلف ممالک کے متفرق مزاج لوگوں کا جذبۂ شوق کے عالم میں اکٹھا ہو کر نیکی اور خیر کے کام میں ایک دوسرے سے مسابقت کرنے کی وجہ سے مزاج میں تیزی اور مستعدی پیدا ہونا فطری بات ہے جس کی وجہ سے باہم تصادم کے خطرہ کا امکان ہوسکتا ہے۔ اس لیے خصوصی طور پر حکم صادر فرمایا کہ اللہ کے حضور حج کے احکام بجا لاتے ہوئے بیوی سے شہوانی باتیں اور حرکات، فسق وفجور اور جنگ وجدال سے مکمل اجتناب کیا جائے۔ اللہ ! اللہ ! مسلمانوں کی اطاعت شعاری ملاحظہ فرمائیں کہ صدیوں سے یہ اجتماع منعقد ہو رہا ہے۔ جس میں بوڑھے، جوان، شاہ و گدا، کالے، گورے اور مرد و زن موجود ہوتے ہیں۔ سفر کی صعوبتوں اور دیگر مشکلات کے باوجود مسلمان ایسی سنجید گی اور جذبۂ عبادت کے ساتھ فریضۂ حج ادا کرتے ہیں کہ غیر مسلم دیکھ کر دنگ رہ جاتے ہیں۔ یہاں یہ بھی حکم ہوا ہے کہ حج کے دوران زاد راہ لے لیا کرو۔ کیونکہ کچھ لوگ خاص کریمن کے رہنے والے اس غرض سے سفر کا خرچ نہیں لیتے تھے کہ ہم اللہ کے گھر میں حاضری دینے جارہے ہیں وہی ہمارے لیے اسباب مہیا کرے گا‘ ہمیں وسائل لینے کی ضرورت نہیں کیونکہ وسائل لینا توکل اور تقو ٰی کے خلاف ہے۔ اس پر حکم ہوا کہ ادھر ادھر سے مانگنے اور جھانکنے کے بجائے اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ وسائل کو بروئے کار لاؤ۔ دوسرے کی طرف جھانکنے سے بہتر ہے کہ زاد راہ ساتھ لیاجائے لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلانے سے پرہیز کرنا اور گناہوں سے بچنا ہی تقو ٰی ہے۔ یہی عقل مندی کا تقاضا اور صاحب دانش لوگوں کا وطیرہ ہونا چاہیے۔ انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے کہا : اے اللہ کے رسول ! (أَعْقِلُھَا وَأَتَوَکَّلُ أَوْ أُطْلِقُھَا وَأَتَوَکَّلُ قَالَ اعْقِلْھَا وَتَوَکَّلْ) [ رواہ الترمذی : کتاب صفۃ القیامۃ والرقائق] ” میں اونٹ کو باندھ کر توکل کروں یا اسے چھوڑ دوں اور توکل کروں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اونٹ کو باندھو اور توکل کرو۔“ مسائل ١۔ شوال، ذی قعدہ، اور دس ذی الحجہ تک حج کے مہینے اور ایام ہیں۔ ٢۔ حج میں بیوی سے شہوانی باتیں‘ فسق و فجور اور لوگوں سے جھگڑا نہیں کرنا چاہیے۔ ٣۔ حج کے لیے زاد راہ لینا ضروری ہے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ سے ڈرنا ہی دانشمندی ہے۔ البقرة
198 فہم القرآن ربط کلام : حج کے مناسک کا بیان جاری ہے۔ اسلام کے ورود مسعود سے پہلے لوگوں نے حج جیسے باوقار اور عبادات کے مجموعہ کو ایک میلہ اور تجارتی منڈی میں تبدیل کردیا تھا۔ لیکن جب یہ لوگ دائرہ اسلام میں داخل ہوئے تو ان کی سوچ کے زاویے یکسر تبدیل ہوگئے۔ صحابہ کرام (رض) نے سب کچھ اپنے رب کی رضا کے لیے قربان کردیا تھا۔ لہٰذا اب وہ حج کی ادائیگی کے دوران تجارت کرنے کے بارے میں کس طرح سوچ سکتے تھے؟ وہ یہاں تک محتاط ہوئے کہ ایک مزدوری کرنے والا صحابی حضرت عبداللہ بن عمر (رض) کے پاس آیا اور یہ سوال کیا کہ ہمارا پہلے سے یہ پیشہ ہے کہ ہم اونٹوں کے ذریعے سواری اور باربرداری کا کام کرتے ہیں کچھ لوگ ہمارے اونٹ حج کے لیے کرایہ پر لے جاتے ہیں ہم ان کے ساتھ جاتے ہیں اور حج کرتے ہیں کیا ہمارا حج ہوگا؟ حضرت عبداللہ بن عمر (رض) نے فرمایا : کہ ایک شخص رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا تھا، اور اس نے آپ سے یہی سوال کیا تھا جو تم مجھ سے کررہے ہو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو اس وقت کوئی جواب نہ دیا یہاں تک کہ یہ آیت نازل ہوئی : (لَیْسَ عَلَیْکُمْ جُنَاحٌ أَنْ تَبْتَغُوْا فَضْلًا مِنْ رَبِّکُمْ) اس وقت رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس شخص کو بلوایا اور فرمایا کہ ہاں تمہارا حج صحیح ہے۔ [ معارف القرآن] اسی طرح ہی حج سے فراغت کے بعد آپس میں لین دین اور تجارت کرلی جائے تو اس میں کوئی حرج کی بات نہیں۔ بلکہ رزق حلال کا حصول اللہ تعالیٰ کا فضل ہے۔ جسے حاصل کرنے کی کوشش کرتے رہو۔ جب تم عرفات سے مشعر حرام کی طرف پلٹو۔ تو تمہیں اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنا چاہیے۔ کیونکہ اس کی توفیق اور رہنمائی سے تم اس کے گھر کے مہمان بنے اور ہدایت پائے اس رہنمائی سے پہلے تم گمراہی کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں بھٹک رہے تھے۔ لہٰذا رب کی راہنمائی کے مطابق اس کا شکریہ ادا کرتے رہو۔ یاد رہے کہ مشعر حرام مزدلفہ میں ایک پہاڑی ہے جسے اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی قرار دیا گیا ہے۔ مزدلفہ میں قیام کا طریقہ عرفات میں غروب آفتاب کے فوراً بعد نماز مغرب ادا کیے بغیر مزدلفہ روانہ ہونے کا حکم ہے۔ اب بے خانماں قافلہ رات کے اندھیروں میں ٹھوکریں کھاتا ہوا مزدلفہ کی سنگلاخ زمین پر آن پہنچا ہے۔ جسم تھکن سے چور، طبیعت نڈھال، نیند کا غلبہ اور آرام کی حاجت کے باوجود لوگ اٹھ کھڑے ہوتے ہیں تاکہ نماز مغرب وعشاء کی نماز ادا کرتے ہوئے اللہ کے حضور سرافگندگی کا اظہار کیا جائے۔ اس کے بعد آرام اور قیام کی ضرورت تھی جس بنا پر نبی محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی امت پر شفقت ومہربانی کرتے ہوئے نہ خود اس رات تہجد پڑھی اور نہ ہی لوگوں کو تلقین فرمائی تاکہ سفر کی صعوبتوں اور تھکاوٹوں کی بنا پر لوگوں کو آرام کا موقع میسر آجائے۔ اور ١٠ ذوالحجہ کے لیے تازہ دم ہوجائیں کیونکہ ١٠ ذوالحجہ کا دن مناسک حج کے اعتبار سے بہت مشکل ترین دن ہے۔ (عَنِ ابْنِ عَبَّاسِ (رض) یَقُوْلُ أَنَا مِمَّنْ قَدَّمَ النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لَیْلَۃَ الْمُزْدَلِفَۃِ فِیْ ضَعْفَۃِ أَھْلِہٖ) [ رواہ البخاری : کتاب الحج، باب من قدم ضعفۃ أھلہ بلیل الخ] ” حضرت عبداللہ بن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ میں ان لوگوں میں تھا جن کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مزدلفہ کی رات اپنے گھروالوں کے ساتھ پہلے روانہ کردیا تھا۔“ (عَنْ جَابِرٍ (رض) قَالَ أَفَاضَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وَعَلَیْہِ السَّکِیْنَۃُ وَأَمَرَھُمْ أَنْ یَرْمُوْا بِمِثْلِ حَصَی الْخَذْفِ وَأَوْضَعَ فِیْ وَادِیْ مُحَسَّرٍ) [ رواہ أبوداوٗد : کتاب المناسک، باب التعجیل من جمع] ” حضرت جابر (رض) فرماتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مزدلفہ سے واپس پلٹے تو آپ پر سکینت طاری تھی اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ کرام (رض) کو حکم دیا کہ چنے کے برابر کنکریاں ماریں اور آپ وادی محسّر سے تیزی کے ساتھ گزرے۔“ کیونکہ یہاں ابرہہ کے لشکر کو ابابیل کے ذریعے تہس نہس کردیا گیا تھا۔ جو یمن کا حکمران تھا اور اس نے بیت اللہ کے مقابلے میں ایک گھر تعمیر کیا اور لوگوں کو حکم دیا تھا کہ بیت اللہ کے بجائے اس کے بنائے ہوئے گھر کا طواف اور زیارت کیا کریں۔ جب لوگوں نے ایسا کرنے سے انکار کیا تو اس نے حسد میں آکر بیت اللہ کو شہید کرنے کے لیے لشکر کشی کی جب لشکر ہاتھیوں پر سوار مزدلفہ کے قریب وادی محسّر میں پہنچا تو اللہ تعالیٰ نے ابابیل کے جھنڈ بھیج کر انہیں کھائے ہوئے بھس کی طرح کردیا اور یہ پرندے اپنی چونچ اور پروں میں کنکریاں اٹھا اٹھا کر ان کے اوپر پھینکتے تھے جس کا تذکرہ سورۃ الفیل میں کیا گیا ہے۔ مسائل ١۔ حج میں لین دین اور تجارت کی جا سکتی ہے۔ ٢۔ مشعرالحرام مزدلفہ میں ایک پہاڑی کا نام ہے۔ ٣۔ مزدلفہ میں اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنا چاہیے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ کی ہدایت کے بغیر آدمی گمراہ ہوتا ہے۔ البقرة
199 فہم القرآن ربط کلام : حج کے مناسک میں قریش کے خود ساختہ امتیاز اور بدعت کا خاتمہ کیا گیا ہے۔ یہاں لوٹنے سے مراد عرفات پہنچ کر مزدلفہ واپس آنا ہے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے بتلائے ہوئے طریقہ کے مطابق حج کرنے والے نسل در نسل نو ذو الحجہ کو منٰی سے عرفات جاتے اور عرفات سے واپس مزدلفہ ٹھہرتے۔ مگر قریش نے اپنے مذہبی تقدس اور قومی تفاخر کے باعث یہ عقیدہ بنایا اور لوگوں میں پھیلایا ہوا تھا کہ ہم بیت اللہ کے متولّی اور مجاور ہیں اس لیے ہمارا مقام لوگوں سے ممتاز ہے لہٰذا ہمیں حدود حرم سے باہر جانے کی ضرورت نہیں۔ یاد رہے کہ عرفات حدود حرم سے باہر ہے۔ وہ مزدلفہ ہی میں قیام کرتے جب کہ لوگ عرفات سے ہو کر مزدلفہ آیا کرتے تھے۔ قریش کی دیکھا دیکھی ان کے حلیف قبائل نے بھی اپنے لیے یہ امتیاز قائم کرلیا۔ اس خود ساختہ تقدس کی نفی اور رسم کے خاتمہ کے لیے یہ حکم نازل ہواکہ ہر کسی کے لیے عرفات جانا لازم اور حج کا حصہ ہے۔ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عرفات کو حج کارکن اعظم قرار دیا ہے۔ جو شخص دسویں ذوالحجہ کی صبح تک بھی عرفات نہیں پہنچ سکا باقی مناسک ادا کرنے کے باوجود اس کا حج اد انہیں ہوگا اور اسے دوبارہ حج کرنا پڑے گا۔ [ رواہ أبوداوٗد : کتاب المناسک، باب من لم یدرک عرفۃ] عرفات میں سمع واطاعت کا نقطۂ عروج عرفات میں حاضری حج کارکن اعظم ہونے کے باوجود حکم یہ ہے کہ یہاں غروب آفتاب کے فورًا بعد نماز مغرب ادا کیے بغیر مزدلفہ روانہ ہوا جائے۔ مسلمان کی سمع واطاعت کا اندازہ کیجئے کہ وہ مومن جو نماز کے وقت کا انتظار کیا کرتا تھا اور نماز کا وقت ہوتے ہی ہر تعلق سے لا تعلق ہو کر اس کے قدم مسجد کی طرف اٹھ جایا کرتے تھے‘ وہ نماز جس کی پابندئ وقت کا حکم ہے : (إِنَّ الصَّلٰوۃَ کَانَتْ عَلَی الْمُؤْمِنِےْنَ کِتَابًا مَّوْقُوْتًا۔) [ النساء : ١٠٣] ” مومنوں کے لیے نماز کے اوقات مقرر کردیے گئے ہیں۔“ لیکن مغرب کا وقت ہونے کے باوجود حکم ہوا ہے کہ یہاں نماز پڑھنے کے بجائے یونہی آگے چل دیجئے اور مزدلفہ میں دونوں نمازوں کو ادا کیا جائے۔ ایک لمحہ ٹھہر کے ذرا سوچئے ! کہ بندہ اپنے رب کے حکم کے سامنے کس طرح بے اختیار وبے بس ہے؟ کہ پہلے بیماری یا کسی مجبوری کے بغیر اس نے ظہر اور عصر جمع کی۔ اور اب مغرب کی نماز پڑھنا تو درکنار یہاں ٹھہرنے کی بھی اجازت نہیں۔ عرفات وہی مقام مقدس ہے کہ جہاں رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انسانیت کو دونوں جہاں کی کامیابی کی گارنٹی دیتے ہوئے ایک عالمگیر چارٹر سے متعارف کروایا تھا۔ جس کے چند نکات یہ ہیں : (1) جب تک قرآن وسنت کو تھامے رکھو گے دنیا کی کوئی سازش اور طاقت تمہیں گمراہ نہیں کرسکے گی۔ (2) میں آج کے بعد ہر قسم کی عصبیتوں کو اپنے پاؤں تلے روند تاہوں۔ (3) معاشی استحاصل کو ختم کرتے ہوئے ہمیشہ کے لیے سود کو حرام قرار دیا اور فرمایا کہ سب سے پہلے میں اپنے چچا کا سود معاف کرتا ہوں۔ وہ اس کے بعد اصل رقم کے بغیر کسی سے ایک دمڑی بھی سود وصول نہیں کرسکتے۔ (4) سابقہ تمام قتل و غارت معاف ہے اور سب سے پہلے اپنے قبیلے کا قتل معاف کرتاہوں۔ (5) سب انسان برابر ہیں مگر تقو ٰی و کردار کے لحاظ سے فرق برقرار رہے گا۔ اللہ کی قربتیں اسی کو حاصل ہوں گی جو اس کا تقو ٰی اختیار کرے گا۔ مسائل ١۔ اہل حرم اور سب کو عرفات پہنچنا لازم ہے۔ ٢۔ مناسک حج اخلاص اور سنت کے مطابق ادا کرنے چاہییں۔ ٣۔ مانگ کر حج کرنا جائز نہیں۔ ٤۔ اللہ سے معافی مانگنی چاہیے۔ یقیناً اللہ تعالیٰ معاف کرنے والا نہایت رحیم ہے۔ ٥۔ حج میں تجارت کی جاسکتی ہے۔ حج کا مختصر طریقہ میقات : نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مکہ کے چاروں جانب سمندر میں میقات مقرر فرمائے ہیں : ١۔ یلملم (سعدیہ) یہ مکہ سے ٤٥ کلو میٹر کے فاصلے پر جنو بی ایشیاء کے ممالک : پاکستان، افغانستان، بھارت بنگلہ دیش اور چین وغیرہ کا میقات ہے۔ ٢۔ قرن منا زل : مکہ سے عرفات کی طرف ٩٤ کلومیٹر پر اہل نجد اور دوسرے ممالک کے لیے ہے۔ ٣۔ جحفہ : مکہ سے شمال مغرب کی طرف ١٨٧ کلومیٹر کے فاصلے پر شام اور مصر وغیرہ کے لیے ہے۔ ٤۔ ذوالحلیفہ : مکہ معظمہ سے مدینہ کی طرف ٤٥٠ کلومیٹر پر ہے۔ یہ اہل مدینہ کا میقات ہے۔ ٥۔ ذات عرق : مکہ سے شمال مشرق کی طرف ٩٤ کلومیٹر دور ہے اسے ایران‘ عراق اور شمال مشرق کے مما لک کے لیے مقرر فرمایا ہے۔ احرام باندھنے کا طریقہ حج یا عمرہ کرنے والے کو میقات پر پہنچ کر احرام باندھنا چاہیے۔ لیکن پاکستان کا میقات یلملم سمندر میں ہے۔ ہوائی جہاز میں احرام باندھنے میں دقّت پیش آتی ہے۔ اس لیے اپنے گھر یا ایئر پورٹ سے احرام باندھ لیا جائے۔ البتہ احرام کی پابندیاں اور تلبیہ میقات پر پہنچ کر شروع کرنا ہوگا۔ احرام سے پہلے ضرورت ہو تو حجامت کروائے ورنہ غسل کے بعد خوشبو لگا کر احرام باندھنا چاہیے احرام کے دو نفل رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ثابت نہیں کیونکہ جب آپ نے احرام باندھا تھا تو فرض نماز کا وقت تھا۔ اس لیے آپ نے مدینہ سے باہر میقات پر احرام کے بعد دو فرض ادا کیے تھے۔ تاہم احرام کے بعداکثر علماء دو نفل جائز سمجھتے ہیں۔ آدمی دو سفید چادروں میں احرام باندھے ایک تہبند اور دوسری کو سر ننگا رکھتے ہوئے اوپر لے۔ دایاں کندھا صرف پہلے طواف کے پہلے تین چکروں میں ننگا رکھنا ہے۔ یہ پہلا طواف عمرہ کا ہو یا حج کا اس سے پہلے یا بعد میں کندھا ننگا رکھنا جائز نہیں۔ کچھ علماء نے جدہ میں پہنچ کر احرام باندھنے کی اجازت دی ہے جس کا حدیث میں کوئی ثبوت نہیں۔ عورت کا احرام اور مخصوص ایّام عورت اپنے روایتی لباس میں ہی احرام کی نیت کرے گی تاہم اس کے ہاتھ اور چہرہ ننگا ہونا چاہیے۔ مرد ہو یا عورت اسے ایسا جوتا پہننا چاہیے جو ٹخنوں سے نیچے ہو۔ عورت کو غیر محرم کے سامنے آنے پر چہرہ ڈھانپنا چاہیے۔ لیکن نقاب چہرے سے ہٹاہو نا چاہیے۔ اگر عورت کو مخصوص حالت پیش آ جائے تو احرام باندھ کر نماز پڑھے بغیر حج کے مناسک ادا کرے۔ اگر یہی حالت رہے تو بیت اللہ کا طواف بھی بعد میں کرنا ہوگا۔ بعض ملکوں میں قومی شناخت کے طور پر عورت کو خصوصی احرام کا پابند کیا گیا ہے یہ پابندی شریعت میں موجود نہیں۔ احرام میں جائز اور ناجائزکام * احرام سے پہلے غسل اور خوشبو لگانا سنت ہے * احرام باندھ لینے کے بعد خوشبو لگانا جائز نہیں * مرد کا احرام دو سفید چادریں ہیں * عورت جس رنگ کا چاہے لباس پہن سکتی ہے مگر شوخ نہ ہو* مرد کا سر 249 چہرہ 249 ہاتھ اور پاؤں ننگے ہونے چاہییں* عورت غیر محرم کے سامنے آنے پر چہرہ ڈھانپے گی* احرام میں چپل پہننے کا رواج پڑگیا ہے ورنہ ایسا جوتا پہنا جا سکتا ہے جو ٹخنوں سے نیچے ہو* احرام میں نہانا، احرام بدلنا یا دھونا جسم یا سر کو کھجلانا بالکل جائز ہے* احرام کی حالت میں مرد کو نفل یا فرض نماز میں سر ڈھانپنے پر دم دینا پڑے گا۔* جان بوجھ کر مکھی، چیونٹی حتیٰ کہ جوئیں تک مارنا حرام ہے۔ ایسے ہی مباشرت اور نکاح جائز نہیں * البتہ سانپ اور بچھو مارا جاسکتا ہے * احرام میں چھتری استعمال کی جاسکتی ہے۔ اقسامِ حج ١۔ حجِ اَفراد : صرف حج کی نیت سے احرام باندھا جائے جس میں عمرہ شامل نہ ہو۔ ٢۔ حج قران : جس میں یہ نیت ہو کہ حج اور عمرہ اکٹھے ادا کیے جائیں گے۔ یہ شخص عمرہ مکمل ہونے کے باوجود احرام نہیں اتار سکتا اسے عمرے والے احرام کے ساتھ ہی حج کرنا ہوگا۔ چاہے حج اور عمرے کے درمیان کتنے دن کیوں نہ ہو۔ ٣۔ حجِ تَمَتُّعْ: تمتع کا معنٰی ہے فائدہ اٹھانا۔ اس میں حج اور عمرہ اکٹھے کیے جاتے ہیں۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ احرام باندھنے کے مقام (میقات) پر پہنچ کر یہ نیت کی جائے کہ میں صرف عمرہ کا احرام باندھ رہا ہوں۔ عمرہ کرنے کے بعد احرام کھول دوں گا۔ اب یہ شخص آٹھ ذوالحجہ کو دوبارہ مکہ میں جہاں رہ رہا ہے۔ وہاں سے ہی حج کے لیے احرام باندھے گا اسے میقات پر جانے کی ضرورت نہیں۔ حج تمتع اہل حرم کے لیے جائز نہیں۔ حج ایک نظر میں ١۔ میقات پر احرام باندھنا اور تلبیہ کہنا۔ ٢۔ ٨ ذوالحجہ کو منٰی پہنچنا۔ ٣۔ ٩ ذوالحجہ کو عرفات میں قیام کرنا۔ اور ظہر، عصر اکٹھی پڑھنا اور قصد کرنا۔ ٤۔ مغرب و عشاء مزدلفہ میں جمع کرنا اور قصرپڑھنا‘ رات گزارنا اور ١٠ ذوالحجہ کی صبح طلوع آفتاب کے قریب منٰی روانہ ہونا۔ ٥۔ ١٠ ذوالحجہ کو کنکریاں مارنا قربانی کرنا‘ حجامت کروانا‘ اور بیت اللہ کا طواف کر کے واپس منٰی پہنچنا۔ ٦۔ ایّام تشریق میں کنکریاں مارنا۔ ٧۔ ایام تشریق کے دو یا تینوں دن منیٰ میں گزارنا۔ مذکورہ 10 ذو الحجہ کے مناسک کی ادائیگی میں تقدیم وتاخیر ہوجائے تو کوئی گناہ نہیں۔ البقرة
200 فہم القرآن ربط کلام : حج کو عام اجتماع اور میلہ کا رنگ دینے کے بجائے اس میں عبادت اور ذکر و اذکار کا ماحول ہونا چاہیے۔ کفار اور مشرکین نے حج کے مقدس اجتماع کو دنیا کے فائدے اور خود غرضی کا ذریعہ بنا لیا تھا۔ یہاں تک کہ دعا کرتے ہوئے رب کے حضور دنیا ہی کے طلبگار ہوتے تھے۔ گویا کہ دین اور عبادت بھی ان کی نظروں میں دنیا کا ہی مقصود ٹھہری تھی۔ جیسے آج کل بعض لوگ کسی کو کھانا کھلائیں تو فقط دعا اور نمائش کی خاطر‘ مسجد میں اعتکاف کریں تو صرف دنیا کے مصائب سے چھٹکارا پانے کے لیے‘ مساجد ومدارس کے ساتھ تعاون کرتے ہیں تو نمائش اور شہرت کے لیے‘ حج دنیاوی مشکلات سے نجات پانے اور دولت کی نمائش کے لیے کرتے ہیں۔ ایسے لوگ جب مصائب سے نجات پاتے ہیں تو نہ وہ زہد وتقو ٰی رہتا ہے اور نہ ہی علماء کا احترام واکرام بلکہ نماز اور روزے سے بھی غافل ہوجاتے ہیں۔ ان کے بارے میں سورۃ حج آیت ١١ میں فرمایا گیا ہے کہ کچھ لوگ تو بس کنارے پر بیٹھ کرہی اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے ہیں اگر انہیں فائدہ پہنچے تو مطمئن ہوجاتے ہیں۔ اگر آزمائش میں مبتلا ہوں تو پیٹھ پھیر جاتے ہیں۔ ان کو دنیا اور آخرت میں بڑا نقصان اٹھانا پڑے گا۔ یہاں بنیادی طور پر دو قسم کی سوچ بیان کی جارہی ہے ایک ان لوگوں کی جن کے صبح وشام اور لیل ونہار دنیا ہی کے حصول کے لیے وقف ہیں۔ دنیا کے علاوہ ان کے احاطۂ خیال میں کوئی چیز نہیں آتی۔ انہیں دنیا تو اپنے حصہ کے مطابق مل جائے گی مگر آخرت میں وہ یکسر طور پر تہی دامن ہوں گے۔ کیونکہ انہوں نے آخرت کے لیے کچھ نہیں کیا ہوگا اور نہ ہی وہ آخرت کے طلب گار تھے۔ ان کے مقابلے میں ان لوگوں کی تعریف کی جارہی ہے جو دنیا میں رہ کر آخرت پرنظر رکھے ہوئے ہیں۔ مومن اور دنیا دار کی سوچ کافرق سمجھنے کے لیے حضرت عبداللہ بن عمروبن العاص (رض) کے فرمان سے بہتر کسی امتی کا اس بات کے حوالے سے ارشاد نہیں ہوسکتا : (إِحْرِزْلِدُنْیَاکَ کَأَنَّکَ تَعِیْشُ أَبَدًا وَاعْمَلْ لآخِرَتِکَ کَأَنَّکَ تَمُوْتُ غَدًا) [ مسند الحارث] ” دنیا اس طرح کماؤ گویا تو نے دنیا میں ہمیشہ رہنا ہے اور آخرت کے لیے ایسے اعمال کرو جیسے تو نے کل فوت ہوجانا ہے۔“ یہی فرق ہے ایک کافر اور دنیا دارمومن کی جدوجہد کے درمیان۔ کیونکہ بے شمار کام ایسے ہیں جو کافر اور مومن کو فطری طور پر ایک جیسے کرنے پڑتے ہیں۔ جن کو سمجھنے کے لیے معمولی درجے کی چند مثالیں ذہن میں تازہ فرمائیں۔ کافر بھی کھانا کھاتا ہے اور مومن بھی کھانے کے بغیر نہیں رہ سکتا۔ دنیا دار بھی کپڑے پہنتا ہے اور مسلمان کا بھی لباس کے بغیر گزارہ نہیں۔ ایمان سے تہی دامن انسان بھی سوتا ہے جب کہ ایمان دار کو بھی نیند پوری کرنا ہوتی ہے۔ لیکن ان کے کرنے کے انداز اور ان کے پیچھے کار فرما جذبات کا زمین و آسمان سے زیادہ فرق ہے۔ مومن کا سونا بھی عبادت ہے جب کہ کافر کی عبادت بھی خدا کے ہاں عبادت کا درجہ نہیں رکھتی۔ کیونکہ اس کے پیچھے نہ ایمان کا تصور ہے اور نہ کرنے کا انداز سنت نبوی کے مطابق ہے۔ یہاں دونوں قسم کے لوگوں کو بتلایا گیا ہے کہ جو کمائے گا وہی پائے گا۔ اللہ تعالیٰ عنقریب ایک ایک لمحہ کا حساب لے گا۔ لہٰذا دعا کی صورت میں یہ فکر دی جارہی ہے کہ کامل اور بہتر سوچ یہ ہے کہ دنیا اور آخرت کو سنوارنے کے لیے نہ صرف بیک وقت بھر پور کوشش کی جائے بلکہ رب کے حضور دعا بھی ہونی چاہیے کہ ” اے ہمارے رب! ہماری دنیا بھی بہتر فرما اور آخرت بھی اور ہمیں جہنم کی ہولناکیوں سے محفوظ فرما۔“ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اکثر یہ دعامانگتے اور طواف کے دوران رکن یمانی سے لے کر حجر اسود تک اس دعا کا التزام کرتے تھے۔ (رواہ البخاری، کتاب الحج) مسائل ١۔ مناسک حج پورے کرنے کے بعد منٰی میں اللہ کا ذکر کثرت سے کرنا چاہیے۔ ٢۔ دنیا دار لوگ آخرت کے بجائے صرف دنیا ہی کے طلب گار ہوتے ہیں۔ ٣۔ صرف دنیا کے طلب کرنے والے کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہوگا۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ سے دنیا و آخرت دونوں کی بھلائی طلب کرنا چاہیے۔ ٥۔ ہمیشہ جہنم کے عذاب سے پناہ مانگنا چاہیے۔ ٧۔ اللہ سے بڑھ کر کوئی جلد حساب لینے والا نہیں۔ البقرة
201 البقرة
202 البقرة
203 فہم القرآن ربط کلام : گزشتہ سے پیوستہ۔ کفّار نے منٰی کو تفریح کامیدان اور اس کے اجتماع کو ایک اجتماع عام کارنگ دے کر تفاخر کاذریعہ بنالیا تھا۔ شاعر اپنا اپنا کلام پیش کرتے جس میں عشق وعاشقی کی داستانیں اور اپنے آباء واجداد کے کارناموں کو اس طرح بڑھا چڑھا کر بیان کرتے جس میں دوسرے قبائل کی توہین پائی جاتی۔ بسا اوقات لوگوں میں تصادم کی صورت پید اہوجاتی۔ اللہ تعالیٰ نے چند دن کا لفظ استعمال فرما کر یہ احساس دلایا ہے کہ ان قیمتی ایام میں اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنا چاہیے تھا۔ تم نے انہیں بھی فخروغرور کاذریعہ بنا لیا ہے۔ حالانکہ تمہیں اپنے رب کا شکر گزار اور اسے کثرت کے ساتھ یاد کرنا چاہیے۔ جس کی توفیق سے تمہیں حج کی سعادت اور اس کے گھر کی حاضری کا شرف نصیب ہوا۔ یہاں اس فکری اختلاف کو بھی ختم کردیا گیا ہے جو منٰی میں قیام کے بارے میں پایا جاتا تھا۔ کچھ لوگ دو کے بجائے تین دن ٹھہرنا ضروری سمجھتے تھے اور وہ منٰی میں دو دن قیام کرنے والوں سے مجادلہ اور تکرار کرتے کہ ہم تم سے بہتر ہیں۔ اس طرح دویوم قیام کرنے والے تین دن ٹھہرنے کو برا سمجھتے۔ یہاں یہ اختیار دیا جارہا ہے کہ تم چاہو تو تین دن ٹھہرو نہیں تو دو دن۔ دونوں میں سے کوئی ایک مدت ٹھہرنے والوں پر کوئی گناہ نہیں۔ یہ اجر تو اس شخص کے لیے ہے جو فخر و غرور اور دنیاوی رسومات سے پرہیز کرتا ہے اور اس کے دل میں اللہ تعالیٰ کا خوف پایا جاتا ہے۔ یاد رکھو جس طرح تم یہاں اکٹھے ہوئے ہو ایک دن ایسا بھی آنے والا ہے جب تمام کے تمام رب کبریا کی عدالت میں دست بستہ جمع کیے جاؤ گے۔ وہاں تقو ٰی اور رب کی یاد ہی کام آئے گی۔ مسائل ١۔ ایام تشریق میں اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنا چاہیے۔ ٢۔ منٰی میں دو یا تین دن ٹھہرنا چاہیے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ سے ڈرنا چاہیے وہ سب کو اکٹھا کرنے والا ہے۔ البقرة
204 فہم القرآن ربط کلام : پہلے دو قسم کی سوچ اور فکر کے درمیان فرق بیان ہوا تھا اب مخلص‘ اور غیر مخلص‘ مصلح اور فساد کرنے والے کے درمیان فرق بتلایا گیا ہے۔ درمیان میں اللہ تعالیٰ کے ذکر کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔ کیونکہ جب تک انسان دنگہ فساد سے پرہیز نہیں کرتا۔ منیٰ میں قیام اور ایّام تشریق کا مسئلہ بیان کرنے سے پہلے لوگوں کی دو قسم پر مبنی سوچ کا ذکر ہورہا تھا۔ اب دو کرداروں کو بیان کیا جارہا ہے، پہلا کردار دنیا پرست کا ہے جس کے قول وفعل میں اس قدر تضاد ہوتا ہے کہ اس کی زبان میٹھی ہے اور وہ اپنے کردار کی کھوٹ اور گفتگو کی چوری کو چھپانے کے لیے ہر بات پر اللہ تعالیٰ کے مقدّس نام کو استعمال کرتا ہے۔ اس کا کسی سے الجھاؤ ہوجائے تو وہ پرلے درجے کا جھگڑالو ثابت ہوتا ہے اور جب بھی اسے وسائل اور کچھ اقتدار حاصل ہوتا ہے تو اس کی پالیسیاں اور کردار لوگوں کے لیے تباہ کن اور آئندہ نسلوں کے لیے مہلک ثابت ہوتا ہے۔ اس شخص کو جب اللہ تعالیٰ کا خوف اور اس کی غلطی کا احساس دلایاجائے تو اصلاح کی بجائے اسے اپنی توہین تصور کرتا ہے۔ ایسے شخص کے فکر وعمل میں خیر کی تبدیلی آنے کا کوئی امکان نہیں ہوتا۔ یہ گناہ چھوڑنے اور اپنی اصلاح کرنے کے بجائے دنگا فساد کرنے پر اتر آتا ہے۔ اس کے جھوٹے وقار اور تکبر کے خاتمہ کے لیے جہنم کی سزا ہی ہوسکتی ہے۔ اس کا ٹھکانہ دنیا کے بجائے جہنم ہی ہونا چاہیے۔ جس میں اس کے فکرو عمل کی ٹھیک ٹھیک سزا دی جائے گی۔ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے کہ جب فاسق وفاجر شخص دنیا سے کوچ کرتا ہے تو روئے زمین پر تمام مخلوق اس کے جانے پر خوشی کا اظہار کرتی ہے یہاں تک کہ زمین اسے دبوچ کر اپنا بوجھ ہلکا کرتی ہے۔ [ رواہ البخاری : کتاب الرقاق‘ باب سکرات الموت] مفسرین نے اس آیت کی تشریح میں اخنس بن شریک منافق کے کردار کی نشاندہی کی ہے جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس حاضر ہوتا تو چکنی چپڑی باتیں کرتے ہوئے اسلام کی تائید کرتا جب اپنے ساتھیوں میں جاتا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور اسلام کے خلاف ہرزہ سرائی کرتے ہوئے دوسروں کو سازشوں کے لیے آمادہ کرتا تھا۔ اس کے برعکس ایک مومن کا کردار یہ ہوا کرتا ہے کہ وہ گفتارکے بجائے کردار کا غازی ہوتا ہے۔ وہ اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے نہ صرف اپنی انا کی قربانی دیتا ہے بلکہ وقت آنے پر سب کچھ اللہ تعالیٰ کی راہ میں لٹا کراس کی رضا کا طالب ہوتا ہے۔ اس آیت کے شان نزول میں حضرت ابویحییٰ صہیب رومی (رض) کا واقعہ بیان ہوا ہے۔ جب وہ مدینہ طیبہ کے لیے نکلے ابھی مکہ معظمہ سے تھوڑی دور ہی گئے تھے کہ کفار نے انہیں آگھیرا۔ حضرت صہیب (رض) نے انہیں مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ تم جانتے ہو کہ میں تم سے بہتر تیر انداز ہوں اور میرا نشانہ کم ہی خطا ہوا کرتا ہے۔ اگر میری طرف بڑھوگے تو میں تمہیں ایک ایک کرکے نشانہ بناؤں گا۔ جب میرے ترکش سے تیر ختم ہوجائیں گے تو تلوار سے مقابلہ ہوگا۔ لہٰذا میرے راستے میں حائل ہونے کی کوشش نہ کرو۔ اگر تم مال لے کر میرا پیچھا چھوڑنا چاہو تو میرا اتنا سرمایہ میرے مکان کے فلاں کونے میں دفن ہے۔ تم جاکر اسے حاصل کرسکتے ہو۔ کفار خزانے کے لالچ میں واپس پلٹے اور جناب صہیب رومی (رض) کے مدینہ پہنچنے پر یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی جس میں ایثاروقربانی سے بھر پور کردار کی تعریف کے ساتھ یہ خوشخبری دی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ ایسے کردار کے لوگوں کے ساتھ نہایت ہی شفقت فرماتا ہے۔ مسائل ١۔ چکنی چپڑی باتوں سے پرہیز کرنا چاہیے۔ ٢۔ جھوٹی بات پر اللہ تعالیٰ کو گواہ بنانا بڑا گناہ ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ فساد کو پسند نہیں کرتا۔ ٤۔ گناہ کو عزت کا باعث سمجھنا جہنم کو ٹھکانہ بنانا ہے۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے ساتھ نہایت ہی مشفق و مہربان ہے۔ البقرة
205 البقرة
206 البقرة
207 البقرة
208 فہم القرآن ربط کلام : منافق اور سب لوگوں کو حکم دیا جارہا ہے کہ اپنی سوچ اور کردار کو کلی طور پر دائرہ اسلام میں داخل کرو یہی سلامتی کا راستہ اور شیطان کی پیروی سے محفوظ رہنے کا طریقہ ہے۔ اس کے سوا گمراہی ہے۔ اس آیت کا پس منظر یہ ہے کہ حضرت عبداللہ بن سلام (رض) جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ہجرت مدینہ کے معًا بعد مسلمان ہوئے تھے۔ انہوں نے ایک مجلس میں ان خیالات کا اظہار کیا کہ کیا حرج ہے اگر ہم ہفتہ کے دن کی تعظیم کریں اور اونٹ کا گوشت کھانا چھوڑ دیں؟ اس طرح ہمارے اور یہودیوں کے درمیان مفاہمت کی فضا پید اہوسکتی ہے۔ اس صورت حال پر یہ حکم نازل ہوا کہ اے مسلمانو! لوگوں کے دباؤ یا مفاہمت کے جذبہ کی خاطر باطل نظریات کی پاسداری کرنے کے بجائے دین اسلام میں کامل اور مکمل طور پر داخل ہوجاؤ۔ یہ تمہاری زندگی کے تمام تقاضے پورے کرنے کی صلاحیت سے بہرہ ور اور تمہارے لیے مکمل ضابطۂ حیات ہے۔ لہٰذا تمہاری معاشرت، معیشت، سیاست‘ جلوت و خلوت اور انفرادی اجتماعی زندگی کا ماحول اسلامی نظریۂ حیات کے مطابق ہونا چاہیے۔ اگر تم اسلام میں داخل ہو کر من مرضی اور خود غرضی کا مظاہرہ کرو اور اسلام کے ساتھ باطل نظریات کی پیوند کاری کا سوچو گے تو یہ اللہ کی تابعداری نہیں بلکہ شیطان کی اتباع تصور ہوگی۔ شیطان تمہارا ابدی، ازلی اور کھلا دشمن ہے۔ ایسے دشمن سے خیر کی توقع رکھنے والا کبھی خیر نہیں پاسکتا۔ تمہاری ہر قسم کی سلامتی اور دنیا وآخرت کی بھلائی اسلام میں مضمر ہے۔ کیونکہ اسلام کا نام اور پیغام ہر قسم کی سلامتی کا ضامن ہے۔ اگر تم واضح ہدایات کے باوجود سلامتی کے اس راستے سے ہٹ گئے تو یاد رکھو اللہ تعالیٰ اپنے دین کو غالب کرنے والا ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو اپنی قوت اور طاقت کے ذریعے منکروں کو حلقۂ اسلام میں داخل کرسکتا تھا۔ لیکن اس کے ہر کام میں حکمت اور دانائی پنہاں ہے۔ اس کی حکمت یہ ہے کہ ہدایت کا معاملہ جبر کی بجائے لوگوں کے فہم و شعور اور مرضی پر چھوڑ دیا جائے۔ جن لوگوں کو تم راضی کرنے کے درپے ہو ان کے پاس ہر قسم کے دلائل آچکے ہیں۔ اب تو یہ اس بات کے منتظر ہیں کہ اللہ تعالیٰ بذات خود ملائکہ کا لشکر لے کر بادلوں کے سایہ میں ان کے سامنے جلوہ گر ہو اور انہیں اسلام کی دعوت دے۔ ان کو معلوم ہونا چاہیے کہ جب اللہ تعالیٰ فرشتوں کو کسی کام کے فیصلے کے لیے بھیجتے ہیں تو پھر نہ اس میں تاخیر ہوتی ہے اور نہ ہی اس کے فیصلے کے سامنے کوئی دم مار سکتا ہے۔ قوم نوح‘ قوم لوط اور قوم عادو ثمود کی بستیاں اور علاقے زبان حال سے بول بول کر اس حقیقت کی گواہی دے رہے ہیں کہ اللہ کی نافرمانی کرنے والو ہمیں نگاہ عبرت سے دیکھو کہ ہمارا انجام کیا ہوا؟ ایسے لوگوں کو جلد بازی کے بجائے انتظار کرنا چاہیے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کے اقتدار اختیار سے کوئی چیز باہر نہیں ہے۔ بالآخر سب کچھ اسی کے حضور پیش ہونے والا ہے۔ مسائل ١۔ اسلام میں کامل طور پرداخل ہونا چاہیے۔ ٢۔ اسلام سے باہر اٹھنے والا قدم شیطان کی اتباع تصور ہوگا۔ ٣۔ شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ غالب اور اس کے کاموں میں حکمت پنہاں ہوتی ہے۔ ٥۔ ہدایت کے بعد گمراہ ہونے والوں کا انجام اچھا نہیں ہوتا۔ ٦۔ فیصلے کا اختیار اللہ تعالیٰ کے پاس ہے اور سب کچھ اسکے حضور پیش ہونے والا ہے۔ ٧۔ ملائکہ اللہ کے حکم کے مطابق کاروائی کرتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن اللہ ہی مختار کل ہے : ١۔ ہر کام اللہ کے سپرد کرنا چاہیے۔ (البقرۃ: ٢١٠) ٢۔ ہر کام کا انجام اللہ کے اختیار میں ہے۔ (الحج : ٤١) ٣۔ اللہ تعالیٰ جو چاہتا ہے کرتا ہے۔ (البروج : ١٦) ٤۔ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے۔ (البقرہ : ٢٠) البقرة
209 البقرة
210 البقرة
211 فہم القرآن ربط کلام : بنی اسرائیل کے مطالبات کے بعد ان سے سوال کیا گیا کہ تم مزید معجزات اور دلائل کا مطالبہ کرتے ہو یہ بتاؤ کہ تم نے پہلے دلائل اور معجزات کا کیا مثبت جواب دیا ہے؟ دراصل تم دنیا پر فریفتہ ہونے کی وجہ سے حق سے جی چراتے ہودنیا تو عارضی ہے جب کہ آخرت ہمیشہ کے لیے ہے۔ مکہ والوں کے سامنے بے شمار حقائق اور دلائل واضح ہوچکے تھے لیکن اس کے باوجودوہ مزید براہین کا مطالبہ کرتے رہتے تھے۔ ان کے جواب میں فرمایا گیا ہے کہ اگر انہیں مزید دلائل کی ضرورت ہے تو بنی اسرائیل کے منصف مزاج لوگوں کو خاص کر ان میں جو مسلمان ہوچکے ہیں ان سے پوچھیں کہ جب ان کے آباء و اجداد کو لاتعداد نعمتوں سے نوازا گیا اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے یکے بعد دیگرے ایک سے بڑھ کر ایک معجزات پیش کیے تو کیا اس کے بعد انہوں نے حق قبول کرلیا تھا؟ نہیں! بلکہ انہوں نے حق قبول کرنے کے بجائے نعمتوں کی ناقدری اور دین کو تبدیل کرنے کی مذموم کوششیں کیں‘ انہیں فرعون کے مظالم سے نجات ملی تو برسر اقتدار آکر وہی ظلم روا رکھے‘ فرعون کے غرق ہونے کے بعد دریا عبور کرکے ابھی راستے ہی میں تھے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے بتوں کے سامنے اعتکاف کرنے اور ان کی عبادت کی اجازت مانگنے لگے۔ جناب موسیٰ (علیہ السلام) طورپرگئے تو بچھڑے کو معبود بنالیا، بیت المقدس میں فتح کی ضمانت ملنے کے باوجود داخلے سے انکار کردیا، وادئ تیہ میں چالیس سال کی سزا بھگتنے کے بعد جب بیت المقدس میں داخل ہوئے تو عاجزی اور استغفار کرنے کے بجائے حِطَّۃٌ کو حِنْطَۃٌ میں تبدیل کرکے اللہ سے بخشش مانگنے کے بجائے گندم کا مطالبہ شروع کردیا۔ اس طرح اللہ تعالیٰ کے حکم اور دین کی شکل بگاڑنے کی کوششیں کی۔ یہاں بنی اسرائیل کی تاریخ کا حوالہ دے کر منافقوں‘ مشرکوں اور اہل کتاب کو سمجھایا جارہا ہے کہ جو بھی اللہ تعالیٰ کی نعمت کی ناقدری اور اس کو تبدیل کرے گا‘ دنیا میں رسوائی اور آخرت میں اس کے لیے بربادی ہوگی۔ یہاں نعمت سے مراد دین حق کی نعمت ہے۔ دین حق کی بے حرمتی اور ناقدری کے بنیادی اسباب میں سب سے بڑا سبب دنیا کی زیب وزینت پر منکرین آخرت کافریفتہ ہونا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ دنیا سب کے لیے حسین اور پر کشش ہے۔ لیکن فرق یہ ہے کہ مومن نعمتوں کو اللہ کی رضا کے حصول کا ذریعہ بناتا ہے اور بےدین انسان اسی پر قانع ہو کر اپنی آخرت تباہ کرلیتا ہے۔ مومن ایمان کی دولت کے بدلے دنیا کی دولت کو ترجیح نہیں دیتا‘ چاہے دنیا کی نظر میں اسے کروڑوں کا نقصان برداشت کرنا پڑے اور اپنے ہم عصروں اور برادری سے کتنا ہی پیچھے رہنا پڑے۔ جب کہ کافر دنیا کی زیب وزینت پرنظر جمائے ہوتا ہے۔ وہ چند دمڑیوں کی خاطر ایمان اور جاہ و حشمت کے لیے اپنی غیرت وضمیر کا سودا کرنے سے باز نہیں آتا۔ ایسے دنیا پرست کی نظر میں مومن کا کردار کس طرح معیاری اور قابل رشک ہوسکتا ہے ؟ اسی بنا پر وہ مومنوں کو بے وقوفی اور تمسخر کا نشانہ بناتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہم ان احمقوں اور رذیلوں کی پیروی کریں ؟ کیا یہی لوگ انقلاب برپا کریں گے ؟ اس فرمان میں واضح کیا جا رہا ہے کہ ایمان کے بغیر دنیا کی نعمتوں اور برتری میں اللہ تعالیٰ کی رضا نہیں ہے۔ وہاں تو ایمان کی نعمت اور خوفِ الٰہی کی دولت ہی کام آئے گی۔ اسی کی بدولت مومن آخرت میں کفار سے ممتاز اور بلند وبالا ہوں گے۔ دنیا میں مومن پر حرام کمانے اور کھانے کی پابندی تھی۔ جس کی وجہ سے کفار اور حرام خور لوگ مومنوں سے دنیاوی ترقی میں آگے نکل گئے لیکن قیامت میں مومنوں کو بے انتہا رفعت وعظمت اور بے حساب رزق سے نواز اجائے گا اور منکرین کو ذلت ورسوائی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ مسائل ١۔ دین کو تبدیل کرنے والا سخت عذاب کا مستحق ہوگا۔ ٢۔ کفار کے لیے دنیا دلفریب بنادی گئی ہے۔ ٣۔ صاحب تقو ٰی ایمان دار قیامت کے دن کافروں سے بلند ہوں گے۔ ٤۔ رزق اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے جتنا اور جسے چاہے عطا فرماتا ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ کی نعمت کو بدلنے کی سزا : ١۔ نعمت تبدیل کرنے والے کو سخت ترین عذاب ہوگا۔ (البقرۃ : ٢١١) ٢۔ نعمت تبدیل کرنے والا دنیا وآخرت میں ذلیل ہوگا۔ (البقرۃ: ٦١) ٣۔ دین اسلام کے سوا دوسرا دین تلاش کرنے والے سے دوسرا دین قبول نہ ہوگا۔ (آل عمران : ٨٥) البقرة
212 البقرة
213 فہم القرآن ربط کلام : دنیاوی فوائد، سماجی، سیاسی، اور مذہبی اختلافات کی وجہ سے امت کی وحدت ختم ہوگئی۔ وحدت اور دین حق کے احیاء کے لیے اللہ تعالیٰ نے انبیاء مبعوث فرمائے۔ لوگوں نے ان سے بھی اختلاف کیا حالانکہ انبیاء‘ اختلافات مٹانے کے لیے آئے تھے۔ قرآن و حدیث کے علم سے بے بہرہ دین دشمن مستشرقین اور نام نہاد دانش مندوں نے کئی نسلوں سے یہ پروپیگنڈہ کر رکھا ہے کہ انسان تخلیقی طور پر تاریکی اور شرک کے ماحول میں پیدا ہوا ہے۔ اسی لیے انسان نے نسل در نسل ارتقاء کے بعد آہستہ آہستہ اپنے خالق کو پہچانا ہے۔ یہ باطل نظریات انگلش لٹریچر میں منظم طریقے کے ساتھ پھیلائے گئے ہیں اسی نظریے کی بنیاد پر عیسائیوں کا یہ عقیدہ ہے کہ انسان تخلیقی طور پر گناہگار پیدا ہوا ہے۔ قرآن مجید ایسے نظریے اور معلومات کی نفی کرتے ہوئے اس بات کی وضاحت کرتا ہے کہ انسان اپنی تخلیق کے وقت ہی توحید کے تصور سے اس قدر آشنا ہوچکا تھا کہ اسے اپنے خالق کا اعتراف کرتے ہوئے ذرّہ برابر بھی تأمّل نہ ہوا۔ اس کی گرہ کشائی کے لیے سورۃ الاعراف : آیت ١٧٢ تا ١٧٤ کا ترجمہ ملاحظہ فرمائیں۔ ” اور جب آپ کے رب نے اولاد آدم کی پشت سے ان کی اولاد کو نکالا اور ان سے ان ہی کے متعلق اقرار لیا کہ کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟ سب نے جواب دیا کیوں نہیں ! ہم سب گواہ ہیں۔ تاکہ تم لوگ قیامت کے روز یوں نہ کہو کہ ہم تو اس سے بے خبر تھے۔ یا یوں کہو کہ پہلے شرک تو ہمارے بڑوں نے کیا اور ہم ان کے بعد ان کی نسل میں ہوئے، سو کیا ان غلط راہ والوں کے فعل پر تو ہم کو ہلاکت میں ڈال دے گا؟ ہم اسی طرح آیات کو صاف صاف بیان کرتے ہیں تاکہ وہ باز آجائیں۔“ یہاں اسی نقطہ کی وضاحت کی جارہی ہے کہ انسان فطری وبنیادی طور پر ایک نظریے کے حامل ہونے کی بنا پر ایک ہی جماعت تھے اور ان کی فطرت میں دین اسلام سمودیا گیا ہے۔ لیکن بعد ازاں وہ توحید کے نظریے سے دور ہوئے اور ان کی وحدت بھی پارہ پارہ ہوتی چلی گئی۔ رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے مخصوص الفاظ میں انسانی فطرت کی اس طرح ترجمانی فرمائی ہے : (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَال النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کُلُّ مَوْلُوْدٍ یُوْلَدُ عَلَی الْفِطْرَۃِ فَاَبَوَاہُ یُھَوِّدَانِہٖ أَوْیُنَصِّرَانِہٖ أَوْیُمَجِّسَانِہٖ کَمَثَلِ الْبَھِیْمَۃِ تُنْتِجُ الْبَھِیْمَۃَ ھَلْ تَرٰی فِیْھَا جَدْعَاءَ) [ رواہ البخاری : کتاب الجنائز‘ باب ماقیل فی أولاد المشرکین] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ہر بچہ فطرت اسلام پر پیدا ہوتا ہے پھر اس کے والدین اسے یہودی، یا عیسائی، یا مجوسی بنا دیتے ہیں۔ چوپائے کی طرح جب جانور جنم لیتا ہے تو کیا تم اس میں کوئی کان کٹا ہوا پاتے ہو؟“ چنانچہ آدم (علیہ السلام) سے لے کر حضرت ادریس (علیہ السلام) کی وفات تک پوری انسانیت نظریۂ توحید پر قائم رہتے ہوئے ایک جماعت اور کنبے کے طور پر زندگی بسر کر رہی تھی۔ اس کے بعد حضرت نوح (علیہ السلام) سے قبل لوگوں میں پہلی دفعہ شرک پھیلنے لگا۔ شرک کے پھیلاؤ کے ساتھ ہی لوگ ایک دوسرے سے دور اور منتشر ہوتے چلے گئے کیونکہ توحید وحدت کا سبق دیتی ہے اور شرک انتشار کاسبب ہوتا ہے۔ تب اللہ تعالیٰ نے لوگوں کی ہدایت اور انہیں یکجا رکھنے کے لیے حضرت نوح ( علیہ السلام) سے لے کر حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تک سلسلۂ نبوت جاری فرمایا۔ ان میں سے کئی انبیاء کو ضخیم کتابیں اور کچھ نبیوں کو صحائف اور باقی کو ایک دوسرے کی تائید کے لیے مبعوث فرمایا تاکہ وہ پیش آمدہ مسائل اور اختلافات میں لوگوں کو حق اور سچ کی طرف بلائیں اور ان کے باہمی اختلافات کو دور کرنے کی کوشش کریں۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ وہ لوگ اختلاف پیدا کرنے میں پیش پیش رہے جن کے پاس پہلے سے آسمانی ہدایت اور دلائل آچکے تھے۔ ایسا کیوں ہوا؟ اس کی بنیادی وجہ حسد وبغض، اور ایک دوسرے پر مذہبی، معاشی، سیاسی اور شخصی بالا دستی حاصل کرنے کی کوشش تھی۔ جسے ” بَغْیًا بَیْنَھُمْ“ سے تعبیر کیا گیا۔ ایسے نام نہاد تعلیم یافتہ لوگوں نے اختلافات کو اس قدر ہوادی کہ جس میں حقیقت کو پہچاننا عام انسان کے لیے مشکل سے مشکل تر ہوتا چلا گیا۔ تاہم وہ لوگ اللہ تعالیٰ کی توفیق سے ہر دور میں ہدایت پاتے رہے جنہوں نے اخلاصِ نیّت کے ساتھ ہدایت کی جستجو کی۔ قرآن مجید میں کئی مقامات پر یہ الفاظ استعمال ہوئے ہیں کہ اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے ہدایت سے سرفراز کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے گمراہی سے دوچار کرتا ہے۔ اگر ان الفاظ کا وہی معنی لیا جائے جو حیلہ سازلوگ لیتے ہیں کہ ہدایت اور گمراہی اللہ کے اختیار میں ہے تو ہدایت نہ پانے میں ہمارا کیا قصور ہے؟ ایسے لوگوں کی بات تسلیم کرلی جائے تو انبیاء کی تشریف آوری، ان کی لازوال جدوجہد اور قیامت کے دن جزاء وسزا کا تصور ہی ختم ہوجاتا ہے۔ اس حقیقت کو جاننے کے لیے عقیدہ کے اس بنیادی اصول کو سامنے رکھیے جس میں انسان کو یہ تعلیم دی گئی ہے کہ جس طرح کائنات کی ہر چیز اللہ تعالیٰ کی ملک ہے۔ اسی طرح ہدایت اور گمراہی بھی اللہ کی ملک اور اس کے اختیار میں ہے۔ کائنات میں سب سے گراں قدر نعمت ہدایت ہے۔ یہ انہی لوگوں کو نصیب ہوتی ہے جو اس کے طالب اور متلاشی ہوا کرتے ہیں۔ جوہدایت سے انحراف کرتے ہیں ان کے لیے گمراہی کاراستہ آسان ہوتا ہے۔ اس مفہوم کو قرآن مجید (یُضِلُّ مَنْ یَّشَآءُ وَیَھْدِیْ مَنْ یَّشَآءُ) [ النحل : ٩٣] کے الفاظ سے بیان کرتا ہے۔ مسائل ١۔ ہر انسان فطرت سلیم اور عقیدۂ توحید پر پیدا ہوتا ہے۔ ٢۔ حق پہنچانے اور اختلافات مٹانے کے لیے انبیاء مبعوث ہوئے۔ ٣۔ اختلافات کی بنیادی وجہ توحید سے بغاوت اور ایک دوسرے پر برتری حاصل کرنا ہے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ ایمانداروں کی رہنمائی کرتا ہے۔ ٥۔ ہدایت اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے وہ جسے چاہے دے دیتا ہے۔ تفسیر بالقرآن نبوت کے مقاصد : ١۔ بعثت انبیاء کے مقاصد۔ (البقرہ : ٢١٣، المزمل : ١٥، الجمعۃ: ٢) ٢۔ انبیاء تاریکیوں سے نکال کر روشنی کی طرف لاتے ہیں۔ (ابراہیم : ١، ٥) ٣۔ انبیاء کا مقصد لوگوں میں عدل وانصاف قائم کرنا۔ (النساء : ١٠٥) ٤۔ نبی کو حق کے ساتھ فیصلہ کرنے کا حکم ہوتا ہے۔ (صٓ: ٢٦) ٥۔ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حق کے ساتھ فیصلہ کرنے والے ہیں۔ (المائدۃ: ٤٢) ٦۔ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) شاہد اور مبشر بنا کر بھیجے گئے ہیں۔ (الأحزاب : ٤٥) ٧۔ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رحمۃ للعالمین بنا کر مبعوث کیے گئے۔ (الأنبیاء : ١٠٧) ٨۔ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) شفیق ومہربان بناۓ گئے ہیں۔ (آل عمران : ١٥٩) البقرة
214 فہم القرآن ربط کلام : مومن دنیا کی لذات اور باہمی اختلافات سے بچنے کے لیے اکثر اوقات نقصان اٹھاتے ہیں۔ اس سے انہیں تسلی دی جارہی ہے کہ جنت کی بیش بہا نعمتوں کے لیے یہ نقصان اٹھانا ہی پڑے گا۔ اس کے لیے اپنے سے پہلے ایمان والوں کا کردار سامنے رکھو کہ انہوں نے کیا کچھ نہیں کیا تب جا کر اللہ تعالیٰ کی مدد کے مستحق قرار پائے۔ مکہ میں مسلمانوں کا ہر طرف سے حلقۂ حیات تنگ کردیا گیا، معاشی بائیکاٹ اور کمزوروں کو ہر قسم کے مظالم کا تختۂ مشق بنایا گیا۔ یہاں تک کہ معصوم خواتین پر جور واستبداد سر عام ہورہا تھا۔ ان حالات میں مجبوروں اور مظلوموں کے دلوں کا غم سے چور چور ہونا اور ان کا رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں فریاد کرنا ایک فطری عمل تھا۔ جب آپ کے حضور یہ رودادِ غم پیش کی جارہی تھی تو آپ بیت اللہ کے ساتھ ٹیک چھوڑ کر سیدھے بیٹھتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اے ساتھیو! کیا تم ابھی سے حوصلہ پست کربیٹھے ہو؟ جب کہ ہم سے پہلے ایمان داروں پر اس قدر ظلم کیے گئے کہ انہیں آرے سے چیر کر دو ٹکڑے کردیا گیا اور لوہے کی کنگھیوں سے ان کے جسم تارتار کردیے گئے لیکن پھر بھی وہ دین حق پر قائم رہے۔ [ رواہ البخاری : کتاب المناقب، باب مالقی النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وأَصحابہ من المشرکین بمکۃ] اس پس منظر کے ساتھ مسلمانوں کو سمجھایا جارہا ہے کہ کیا تم امتحانات سے گزرے اور آزمائشوں میں مبتلا ہوئے بغیر نعمتوں اور عزتوں سے بھر پور جنت میں داخل ہوجاؤ گے؟ ایسا نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ جتنی منزل اہم اور مقصد عظیم ہوتا ہے اس کے لیے اتنی ہی جدوجہد اور قربانیاں دیناپڑتی ہیں۔ کیا تم نے پہلے لوگوں کی بے پناہ مشکلات اور لازوال جدوجہد پر غور نہیں کیا کہ جب ان کو جنگ وجدل‘ غربت وافلاس اور امتحانات ومشکلات کے ساتھ اس قدر آزمایا گیا کہ ان کے عزم واستقلال سے بھر پور قدم بھی ڈگمگانے لگے۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ وقت کارسول اور اس کے عظیم ساتھی شدت غم سے بہ تقاضائے بشریت بے ساختہ پکار اٹھے کہ اے اللہ تعالیٰ تیری مدد کب آئے گی؟ جونہی وہ کربناک حالات میں سرخرو ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنے دامن رحمت میں لیتے ہوئے تشفی دی کہ یقین رکھو! گھبرانے نہ پاؤ میری رحمت تمہارے سروں پر سایہ فگن ہوچکی ہے۔ اس میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے متّبعین کے لیے یہ پیغام تسلی ہے کہ اے نبی! تم عظیم ترین انسان اور رسول ہو آپ کی امت بھی امتوں میں عظیم تر ہے۔ تمہیں اپنے قدموں میں کمزوری لانے کے بجائے مضبوط اور بھر پور طریقے کے ساتھ حالات کا مقابلہ کرنا چاہیے۔ تمہاری بے مثال جدو جہد تمہارے رب کے سامنے ہے۔ وہ قادر مطلق تمہاری اس طرح مدد فرمائے گا کہ تمہارا نام اور کام ہمیشہ جگمگاتا رہے گا۔ چنانچہ کائنات کا ذرّہ ذرّہ اس حقیقت پر گواہ ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اللہ کی رحمت ونصرت اس طرح نازل ہوئی کہ مکہ اور جزیرہ نمائے عرب ہی نہیں بلکہ قیصرو کسریٰ بھی آپ کے سامنے سر نگوں ہوئے اور قرآن مجید میں بارہا یہ اعلان ہوا کہ اللہ تعالیٰ ان پر راضی ہوا اور وہ اپنے رب پہ راضی ہوگئے۔ (عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَ ۃَ (رض) أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ : حُجِبَتِ النَّار بالشَّھَوَاتِ وَحُجِبَتِ الْجَنَّۃُ بالْمَکَارِہِ ) [ رواہ البخاری : کتاب الرقاق، باب حجبت النار بالشھوات ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جہنم کی آگ کو شہوات سے اور جنت کو مشکلات سے ڈھانپ دیا گیا ہے۔“ (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ أَبِیْ اَوْفٰی (رض) أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ : وَاعْلَمُوْآ أَنَّ الْجَنَّۃَ تَحْتَ ظِلَال السُّیُوْفِ) [ رواہ البخاری : کتاب الجہاد والسیر، باب الجنۃ تحت بارقۃ السیوف] ” عبداللہ بن ابی اوفی (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جان لو ! یقینًا جنت تلواروں کے سائے کے نیچے ہے۔“ مسائل ١۔ جنت آزمائشوں کے بغیر نہیں ملتی۔ ٢۔ حق پر قائم رہنے والے کی اللہ تعالیٰ ضرور مدد کرتا ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ کی مدد ہمیشہ بندے کے قریب ہوا کرتی ہے۔ تفسیر بالقرآن آزمائش شرط ہے : ١۔ جنت میں داخلہ کے لیے آزمائش شرط ہے۔ (العنکبوت : ٢) ٢۔ پہلے لوگوں کو بھی آزمایا گیا۔ (العنکبوت : ٣) ٣۔ ڈر سے آزمائش۔ (البقرۃ: ١٥٥) ٤۔ فاقوں سے آزمائش۔ (البقرۃ: ١٥٥) ٥۔ مال و جان کی کمی کے ساتھ آزمائش۔ (البقرۃ: ١٥٥) البقرة
215 فہم القرآن ربط کلام : اس سوال کا جواب یہاں اس لیے دیا گیا ہے کہ لوگو! مشکلات اور مصائب میں اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرو۔ کیونکہ صدقہ رد بلا ہوتا ہے۔ اللہ کی رضا کے طالب عسر و یسر میں خرچ کرتے ہیں۔ یہ مومنوں کی صفت ہے۔ یہاں پے در پے چھ سوالات کے جواب دیئے جارہے ہیں۔ جب کہ دوسوالوں کے جواب دعا اور چاند کے متعلق دیئے جاچکے ہیں۔ قرآن مجیدنے زیادہ سوالات کرنے کی حوصلہ شکنی کی ہے لیکن اس کا یہ معنی نہیں کہ ضرورت کے تحت بھی سوال نہ کیا جائے۔ بعض سوال اس قدر ناگزیرہوتے ہیں جن کے بغیر سامعین حقیقت حال کو پوری طرح سمجھ نہیں سکتے۔ لہٰذا جائز سوال کرنے کی اجازت ہی نہیں بلکہ حوصلہ افزائی کرتے ہوئے ان کا تفصیل کے ساتھ جواب دیتے ہوئے ضمنی وضاحتیں بھی کردی گئیں۔ چنانچہ آیت ٢١٥ سے ٢٢٣ تک یہی اسلوب اختیار کیا گیا ہے۔ پہلا سوال یہ تھا کہ کیا خرچ کریں؟ فرمایا : اپنے مال سے خرچ کرو۔ یہاں مال کو خیر قرار دیتے ہوئے فرمایا تم جو بھی کروگے اللہ تعالیٰ اسے اچھی طرح جانتا ہے پھر اس کی مدّات کی تفصیل پیش فرمائی کہ سب سے پہلے والدین کی خدمت، دلجوئی اور ان کے ساتھ احسان سے پیش آیاجائے۔ کیونکہ ہر والدین حسب استطاعت پہلے اپنی اولاد پر خرچ کرتے ہیں لہٰذا جب اولاد اس قابل ہو تو انہیں بھی والدین کو اولیّت دینی چاہیے۔ ان کے بعد مستحق رشتہ داروں کی باری آتی ہے۔ پھر معاشرہ کے نہایت ہی پسماندہ طبقہ یتیموں کا حق ہے اور ان کے بعد مساکین اور غریب الوطن لوگوں کا استحقاق بنتا ہے۔ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس ضمن میں سوال ہوا تو ارشاد فرمایا : والدین میں ماں کی خدمت کیجیے ! تین دفعہ یہی ارشاد فرمانے کے بعد والد کا نام لیا اور پھر فرمایا کہ (ثم الاقرب فالأقرب) پھر جو ان کے قریبی رشتہ دار ہیں۔ [ رواہ أبو داوٗد : کتاب الأدب، باب فی بر الوالدین] یہ ترتیب ایسی ہے جس کے لیے بڑے بڑے رجسٹروں اور دفاتر کی ضرورت نہیں۔ شہری ہو یا دیہاتی ہر کوئی اپنے رشتہ داروں کو جانتا ہے۔ کون ان میں ضرورت مند اور کون سا شخص صدقات سے مستغنی ہے؟ پھر دنیا میں شاید ہی کوئی بد قسمت ہوگا جس کا کوئی بھی قریبی نہ ہو۔ خدانخواستہ اگر کوئی بالکل لاوارث ہے تو بیت المال اس کی کفالت کرے گا۔ یہ ایسا فطری اور جانا پہچانا نظم ہے کہ جس سے کوئی بھی غریب اور مسکین محروم نہیں رہ سکتا لیکن افسوس! مسلمانوں نے جس طرح شریعت کے دوسرے احکامات کا حلیہ بگاڑ ا ہے۔ ایسے ہی اس فطری فہرست اور نظم کو توڑ کر گدا گری میں اضافہ کیا ہے۔ جس سے گداگر تو کئی جگہوں سے تعاون حاصل کرلیتے ہیں لیکن سفید پوش حضرات غربت کی چکّی میں اسی طرح پستے رہتے ہیں۔ اگر مسلمان مالدار منہ ملاحظوں اور خوشامدوں سے پرہیز کرتے تو نظم قائم رہنے کے ساتھ باہمی محبتیں بھی برقرار رہتیں۔ یہاں صدقہ سے مراد فرضی صدقات نہیں۔ کیونکہ زکوٰۃ والدین پر خرچ کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ یاد رہے کہ عام صدقات انفرادی طور پر خرچ کرنا بہتر ہیں اور زکوٰۃ اجتماعی طور پر صرف کرنا افضل ہے۔ ابن السبیل : جہاں تک مسافر کے ساتھ تعاون کا تعلق ہے۔ آپ نے مسافر کی پریشانی کو اس قدر اہمیت دی اور ارشاد فرمایا : (لِلسَّاءِلِ حَقٌّ وَإِنْ جَاءَ عَلٰی فَرَسٍ) [ رواہ أبو داوٗد : کتاب الزکوٰۃ، باب حق السائل ] ” اگر سائل گھوڑے پر سوار ہو کر کسی کے ہاں آکر سوال کرے تو اس کے ساتھ تعاون کرنا چاہیے۔“ نامعلوم وہ کس حادثے کا شکار ہوا ہے۔ جس کی وجہ سے بظاہر خوشحال دکھائی دیتے ہوئے بھی سوال کرنے پر مجبور ہے۔ مسائل ١۔ رزق خیر ہے۔ ٢۔ تعاون کے پہلے مستحق والدین ہیں۔ ٣۔ والدین کے بعد رشتہ دار‘ یتیم‘ مسکین اور ضرورت مند مسافر۔ ٤۔ صدقہ کرنا بہت بڑی نیکی ہے۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ ہر نیکی کو جاننے والا ہے۔ تفسیربالقرآن انفاق فی سبیل اللہ کانظام : ١۔ وہ آپ سے سوال کرتے ہیں کہ کس طرح مال خرچ کریں؟ کہہ دو جو مال خرچ کرنا چاہووہ والدین، قریبی رشتہ داروں یتیم، مساکین اور مسافروں پر خرچ کرو۔ (البقرۃ: ٢١٥) ٢۔ صدقات مفلسوں، محتاجوں، عاملین، تالیف قلب، غلاموں کی آزادی، قرض داروں، اللہ کی راہ اور مسافروں کے لیے ہیں۔ (التوبۃ: ٦٠) ٣۔ اپنے صدقات ان فقرأ پر خرچ کرو جو اللہ کی راہ میں محبوس کردیے گئے ہیں۔ (البقرہ : ٢٧٣) البقرة
216 فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنا اور جان قربان کرنا دونوں مشکل ترین کام ہیں۔ اس لیے انہیں ایک دوسرے کے بعد ذکر کیا ہے جہاد میں دونوں لازم وملزوم ہوتے ہیں۔ ہرمعاشرے اور قوم میں ایسے لوگ بھی ہوا کرتے ہیں جو مشکل حالات میں جذباتی ہو کر لڑنے مرنے کے لیے تیار ہوجایا کرتے ہیں۔ لیکن کفار کے ساتھ باضابطہ مقابلے کے وقت آگے بڑھنے سے ہچکچاہٹ محسوس کرتے ہیں۔ میدان کارزار میں اترنا ہر کسی کے دل گردہ کی بات نہیں۔ لہٰذا لوگوں کو انگیخت دینا اور تیار کرنا پڑتا ہے۔ اس فرمان میں ایسی ہی صورت حال کی طرف اشارات پائے جارہے ہیں۔ جس سے اس الزام کی از خود نفی ہورہی ہے جو غیر مسلم مسلمانوں پر لگایا کرتے ہیں کہ مسلمان بنیادی طور پرجنگجو اور جارح قوم ہے۔ یہاں تو عیاں ہورہا ہے کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے میں بھی کچھ مسلمان ابتداءً جنگ سے کتراتے تھے۔ لیکن جب مسلمانوں پر ایسے حالات ٹھونس دیے جائیں کہ جنگ کے بغیر چارہ کار نہ ہو تو پھر لڑنے مرنے کا فیصلہ کرنا مسلمانوں کا اختیار نہیں رہتا ان حالات میں آسمانی حکم ہے۔ ایسی صورت حال میں لڑائی سے جی چرانا اپنے آپ کو دشمن کے کے حوالے کرنا ہے۔ اللہ عالم الغیب جانتا ہے کہ بہتری اور خیر کس کام میں زیادہ ہے۔ کیا کوئی شخص یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہے کہ اس کام میں خیر زیادہ اور دوسرے میں بہتری کم ہے ؟ فرمایا ہرگز نہیں! خیر اور نقصان کے بارے میں اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے۔ تمہاری خیر اللہ کے حکم ماننے میں ہے۔ لہٰذا مال بھی خرچ کرو اور جان بھی لڑاؤ۔ اس سے دوسرا مسئلہ یہ ثابت ہوا کہ اللہ تعالیٰ کے احکام کی حکمت سمجھ میں آئے یا نہ آئے ہر صورت اس پر عمل کرنا مسلمان پر فرض ہے۔ مسائل ١۔ خیر وشر کا علم اللہ تعالیٰ کے پاس ہے۔ ٢۔ انسان کسی چیز کو اپنے لیے بہتر سمجھتا ہو تو ضروری نہیں وہ بہتر ہو۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ ہر کام کی حکمت جانتا ہے انسان نہیں جانتا۔ البقرة
217 فہم القرآن ربط کلام : سوال و جواب کا سلسلہ جاری ہے۔ جس میں قتال فی سبیل اللہ کے بارے میں یہ وضاحت کردی گئی ہے کہ حرمت کے مہینوں میں قتال کرنے میں ابتدا نہیں کرنا چاہیے۔ البتہ مسلمانوں پر جنگ مسلط کردی جائے تو پھر حرمت والے مہینوں میں لڑائی کرنے کی مکمل طور پر اجازت ہے۔ سورۃ التوبۃ کی آیت ٣٦ میں اس بات کی وضاحت کی گئی ہے کہ جب سے اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان کی تخلیق فرمائی اسی وقت سے سال کے بارہ مہینے مقرر کیے اور ان میں چار مہینوں کو حرمت والے قرار دیا جن کے نام حدیث میں ذی قعدہ‘ ذوالحجہ‘ محرم اور رجب ہیں۔ اسی وقت سے لے کر لوگوں میں ان کا احترام پایا جاتا ہے۔ اہل عرب اپنی خود غرضی کی بنا پر ان مہینوں کی جگہ دوسرے مہینے شمار کرکے حرمت کے مہینوں میں لوٹ کھسوٹ اور جنگ وجدال کرلیا کرتے تھے لیکن بنیادی طور پر ان مہینوں کے احترام کے قائل تھے۔ ہوایہ کہ اہل مکہ کی سرگرمیوں کا جائزہ لینے کے لیے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عبداللہ بن جحش (رض) کی سر کردگی میں آٹھ آدمیوں کا ایک دستہ نخلہ کے مقام پر بھیجا۔ جو طائف اور مکہ کے درمیان ایک علاقہ ہے۔ یونٹ کے سربراہ کو ایک بند لفافہ دیا کہ دو دن کا سفر طے کرنے کے بعد اسے کھول کر میری ہدایات کے مطابق عمل کرنا۔ چنانچہ دو دن کے بعد حضرت عبداللہ (رض) نے تحریر دیکھی تو اس میں یہ درج تھا ” جب میری یہ تحریرپڑھوتواس کے مطابق آگے بڑھتے جاؤ یہاں تک کہ مکہ اور طائف کے درمیان نخلہ میں اترو۔ وہاں قریش کے ایک قافلے کی گھات میں لگ جاؤ اور ہمارے لیے ان کی خبروں کا پتہ لگاؤ۔“ انہوں نے سمع وطاعت کی اور اپنے رفقاء کو اس کی اطلاع دیتے ہوئے فرمایا کہ میں کسی پر جبر نہیں کرتا۔ (مَنْ کَانَ لَہُ رَغْبَۃًفِیْ الشَّھَادَۃَ فَلْیَنْطَلِقْ مَعِیَ فَاِنِیْ مَاضٍ لِاَمْرِ رسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وَمَنْ کَرِہ فَلْیَرْجِعْ فَاِنَّ رَسُوْلُ اللّٰہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَدْ نَہَا نِیْ اَنْ اُسْتُکْرَہُ مِنْکُمْ اَحَدا فَمَضٰی مَعَہُ الْقَوْمٌُ ) [ سنن البیہقی : باب قسمۃ الغنیمۃ فی دار الحرب] ” جسے شہادت محبوب ہو وہ اٹھ کھڑا ہو اور جسے موت ناگوار ہو وہ واپس چلاجائے۔ باقی رہا میں ! تو میں بہر حال آگے جاؤں گا۔ اس پر سارے رفقاء اٹھ کھڑے ہوئے اور منزل مقصود کے لیے چل پڑے۔“ البتہ راستے میں سعد بن ابی وقاص اور عتبہ بن غزوان (رض) کا اونٹ غائب ہوگیا جس پر یہ دونوں بزرگ باری باری سفر کررہے تھے۔ اس لیے یہ دونوں پیچھے رہ گئے۔ حضرت عبداللہ بن جحش (رض) نے طویل مسافت طے کر کے نخلہ میں نزول فرمایا۔ وہاں سے قریش کا ایک قافلہ گزرا جو کشمش، چمڑا اور دیگرسامان تجارت لیے ہوئے تھا۔ قافلہ میں عبداللہ بن مغیرہ کے دو بیٹے عثمان اور نوفل اور ان کے ساتھ عمرو بن حضرمی اور حکیم بن کیسان مولیٰ مغیرہ تھے۔ مسلمانوں نے باہم مشورہ کیا کہ آخر کیا کریں؟ آج رجب کا آخری دن ہے اگر ہم لڑائی کرتے ہیں تو اس حرام مہینے کی بے حرمتی ہوتی ہے اور رات بھر رک جاتے ہیں تو یہ لوگ حدود حرم میں داخل ہوجائیں گے۔ اس کے بعد سب کی یہی رائے ہوئی کہ حملہ کردینا چاہیے۔ چنانچہ ایک شخص نے عمرو بن حضرمی کو تیر مارا اور اس کا کام تمام کردیا۔ باقی لوگوں نے عثمان اور حکیم کو گرفتار کرلیا البتہ نوفل بھاگ نکلا۔ اس کے بعد یہ لوگ دونوں قیدیوں اور سامان لیے ہوئے مدینہ پہنچے۔ انہوں نے مال غنیمت سے خمس بھی نکال لیا تھا اور یہ اسلامی تاریخ کا پہلا خمس، پہلا مقتول اور پہلے قیدی تھے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کی اس حرکت پر باز پرس کی اور فرمایا کہ میں نے تمہیں حرام مہینے میں جنگ کرنے کا حکم نہیں دیا تھا ؛ اور سامان قافلہ اور قیدیوں کے سلسلے میں کسی بھی طرح کے تصرف سے ہاتھ روک لیا۔ اس کے باوجودمکہ والوں کو اس واقعہ کی خبر ہوئی تو انہوں نے اس ہنگامی اور اتفاقی واقعہ کو مذہبی رنگ دے کر مسلمانوں کے خلاف پروپیگنڈہ کا طوفان برپا کردیا کہ مسلمان ایسے لوگ ہیں جو اللہ تعالیٰ کی حرمتوں کا خیال نہیں رکھتے اور ملّتِ ابراہیم (علیہ السلام) کے شعار کو پامال کرتے ہیں۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ مسلمانوں کا کوئی مذہب نہیں۔ ان الزامات کا جواب دینے سے پہلے وضاحت فرمائی کہ یہ حرمت والے مہینے ہیں اور ان میں قتال کرنا واقعی گناہ ہے۔ لیکن یہاں کفار کو بھی ان کے اعمال کا آئینہ دکھاتے ہوئے ان کے مظالم کی ایک فہرست سامنے رکھ دی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے راستے میں رکاوٹ بننا، دین حق کا انکار کرنا، بیت اللہ سے صحابہ کو روکنا اور مکہ سے مسلمانوں کو نکالنا اللہ تعالیٰ کے نزدیک حرمت والے مہینوں میں قتال کرنے سے کئی گنا بڑے جرائم ہیں۔ پھر اسلام اور مسلمانوں کے خلاف سازشیں کرنا قتل سے بدتر جرم ہے۔ اس وضاحت اور تنبیہ کے بعد مسلمانوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کفار کے عزائم سے آگاہ رہوکہ اگر ان کا بس چلے تو ان کی اوّل وآخر کوشش ہوگی اور ہے کہ تمہیں تمہارے سچے دین سے پھیر دیں۔ یاد رکھو جو کوئی دین حق سے مرتد ہوگیا اور کفر کی حالت میں اسے موت آگئی تو ایسے لوگوں کے تمام اعمال دنیا وآخرت میں ضائع کردیے جائیں گے۔ دنیا میں اعمال ضائع ہونے کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ اپنے نظریہ اور صحیح موقف سے پھرجانے والے پر کوئی اعتماد نہیں کیا کرتا۔ دنیا میں اس کا نام ذلّت ورسوائی کا نشان بن کے رہ جاتا ہے۔ آخرت میں یہ لوگ آگ میں جھونک دیے جائیں گے۔ جس میں ان کو ہمیشہ رہنا ہوگا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : (مَنْ بَدَّل دِیْنَہٗ فَاقْتُلُوْہُ) [ رواہ البخاری : کتاب الجھادوالسیر] ” جس نے اپنے دین کو تبدیل کرلیا اسے قتل کردو۔“ مسائل ١۔ حرمت کے مہینوں میں جنگ کرنا گناہ ہے۔ ٢۔ اللہ کے راستے میں رکاوٹ بننا، دین کا انکار کرنا، بیت اللہ سے لوگوں کو منع کرنا، کمزوروں کو ہجرت پر مجبور کرنا اور دین و مسلمانوں کے خلاف سازشیں کرنا قتل اور لڑائی سے بڑا گناہ ہے۔ ٣۔ مرتد کے دنیا اور آخرت میں تمام اعمال ضائع ہوجاتے ہیں اور وہ واجب القتل ہے۔ ٤۔ ارتداد اور کفر کی حالت میں مرنے والے ہمیشہ جہنم میں رہیں گے۔ تفسیربالقرآن مرتد کی سزا : ١۔ مرتد ہونے والے کی توبہ قبول نہ کی جائے گی۔ (آل عمران : ٩٠) ٢۔ ارتداد میں مرنے والوں کو عذاب ہوگا۔ (البقرۃ : ٢١٧) ٣۔ مرتد ہونے والا اللہ تعالیٰ کو کچھ نقصان نہیں پہنچا سکتا۔ (آل عمران : ١٤٤) البقرة
218 فہم القرآن ربط کلام : کفار کی جدّو جہد دین اور مسلمانوں کے خلاف ہے۔ لہٰذا ان کا ٹھکانہ جہنم ہے جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ مسلمانوں کی کوشش وکاوش اللہ تعالیٰ کی رضا کا حصول ہے۔ جس کا بدلہ اللہ تعالیٰ کی رحمت اور ہمیشہ کی جنت ہے۔ جس میں انہیں حیات جاوداں نصیب ہوگی۔ بعض لوگ سچے ایمان اور صالح کردار کے بغیر جنت کے وارث بننے کا دعو ٰی کرتے ہیں۔ حالانکہ قرآن کا فرمان ہے کہ جب تک مسلمان مخلص ہو کر اللہ تعالیٰ کی رضا اور جنت کے حصول کے لیے مال و جان کی قربانی پیش نہیں کرو گے۔ اس وقت تک تمہیں اللہ تعالیٰ کی رضا اور جنت نصیب نہیں ہوسکتی۔ اسی نظریہ کی دو ٹوک وضاحت کی جارہی ہے کہ بلا شک جو لوگ خلوص دل کے ساتھ ایمان لائے، عزم واستقامت کا مظاہرہ کیا اور ایمان و ایقان کی خاطر انہیں باغ وبہار‘ کاروبار اور مکان ومقام بھی چھوڑنے پڑے تو وہ بے پروا ہو کر نکل پڑے۔ اللہ تعالیٰ کے دین کی سر بلندی کے لیے میدان جنگ وجدال میں اترنا پڑا تو قربانیوں کی ایسی داستانیں رقم کرتے چلے گئے کہ رہتی دنیا تک ان کی جرأت وبہادری کو شہسوارِجنگ خراج تحسین پیش کرتے رہیں گے۔ یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے آپ کو اپنے رب کی رحمتوں اور نعمتوں کا حق دار ٹھہرا لیا ہے۔ اگر ان سے بتقاضائے بشریت خطائیں سرزد ہوگئیں تو انہیں پورا یقین رکھنا چاہیے کہ ان کا رب ان کو ضرور معاف کرے گا۔ وہ تو ہمیشہ سے معاف فرمانے والا اور نہایت ہی شفیق ومہربان ہے۔ یاد رہے کہ علمی، مالی، جانی اور ذاتی صلاحیتوں کو اعلائے کلمۃ اللہ کے لیے وقف کرنے کا نام جہاد ہے۔ تفسیربالقرآن خدا کی رحمت کے مستحق کون؟ ١۔ رب کریم کی رحمت کے امیدوار اور ان کی صفات۔ (البقرۃ : ٢١٨، الاعراف : ١٥٦) ٢۔ گناہ گار کو رحمتِ الٰہی سے مایوس نہیں ہونا چاہیے۔ (الزمر : ٥٣) ٣۔ اللہ کی رحمت محسنین کے قریب ہوا کرتی ہے۔ (الاعراف : ٥٦) ٤۔ اللہ کی رحمت کی وسعت وکشادگی ہر چیز سے بڑھ کر ہے۔ (المؤمن : ٧) البقرة
219 فہم القرآن ربط کلام : درمیان میں مومنوں کا کردار ذکر کرنے کے بعد اب پھر ایک سوال کا جواب دیا گیا ہے۔ خمر کا معنی : عربی میں ہراس چیز کو خمر کہتے ہیں جو پردہ ڈال دے، اسی مناسبت سے عورتوں کی اوڑھنیوں کو بھی قرآن مجید میں خمر کہا گیا ہے۔[ النور : ٣١] کیونکہ عورت اس سے اپنا سر، چہرہ اور جسم ڈھانپتی ہے۔ شراب کو خمر اس لیے کہا جاتا ہے کہ وہ آدمی کی عقل وفکر پر پردہ ڈال دیتی ہے۔ اسلام کے دوسرے ضابطوں اور قوانین کی طرح شراب کے حکم امتناعی کی تکمیل بھی تدریجًا نازل ہوئی۔ یہاں حرمت شراب کا پہلا حکم جاری کرتے ہوئے لوگوں کو نفع اور نقصان کی بنیاد پر سمجھایا جارہا ہے کہ شراب اور جوئے میں عارضی اور معمولی فائدے بھی ہیں لیکن دوررس نتائج کے اعتبار سے ان کے نقصانات ان کے فوائد سے کہیں زیادہ ہیں۔ اگر شراب پینے سے عارضی طور پر جسم میں قوت وحرکت اور دلیری پیدا ہوتی ہے تو شراب کانشہ ختم ہونے کے بعد آدمی اتنی ہی کمزوری محسوس کرتا ہے۔ شراب کا عادی شخص اپنی عمر سے کہیں پہلے بوڑھا ہوجاتا ہے۔ آدمی شراب پی کر ایسی حرکات کرتا اور خرافات بکتا ہے کہ جس کا صحیح حالت میں تصور بھی نہیں کرسکتا۔ اس لیے شراب کسی مذہب میں بھی جائز قرار نہیں دی گئی۔ شراب کے بارے میں دور حاضر کے ڈاکٹر بھی اس بات پر متفق ہیں کہ اس کے فائدے نہایت ہی عارضی اور معمولی ہیں لیکن جسمانی اور معاشرتی نقصان اور مضمرات لامحدود اور ناقابل تلافی ہیں۔ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے شراب کو علاج کے طور پر استعمال کرنے سے منع ہی نہیں فرمایا ہے بلکہ اسے بیماری قرار دیتے ہوئے ابتداءً اس میں استعمال ہونے والے برتنوں سے بھی منع فرمادیا۔ (أَنَّ طَارِقَ بْنَ سُوَیْدِ الْجُعْفِیَّ (رض) سَأَلَ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عَنِ الْخَمْرِ فَنَھَاہُ أَوْکَرِہَ أَنْ یَّصْنَعَھَافَقَالَ إِنَّمَا أَصْنَعُھَا للدَّوَآءِ فَقَالَ إِنَّہٗ لَیْسَ بِدَوَاءٍ وَلٰکِنَّہٗ دَاءٌ) [ رواہ مسلم : کتاب الأشربہ، باب تحریم التداوی بالخمر] ” طارق بن سوید جعفی (رض) نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے شراب کے متعلق سوال کیا آپ نے اسے استعمال کرنے سے منع کیا یا ناپسند کیا تو اس نے کہا میں اسے بطور دوا استعمال کرتا ہوں۔ آپ نے فرمایا دوا نہیں یہ تو بیماری ہے۔“ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فرمان کی تائید میں حضرت عثمان (رض) نے تاریخ کا ایک واقعہ اس طرح بیان فرمایا ہے کہ شراب سے بچو ! کیونکہ یہ ام الخبائث ہے۔ تم سے پہلے ایک آدمی بڑا عبادت گزار گزرا ہے۔ اس سے ایک بدکار عورت کو محبت ہوگئی اس نے اپنی لونڈی کو یہ کہہ کر اس آدمی کی طرف بھیجا کہ ہمیں کسی معاملہ میں آپ کی گواہی چاہیے۔ وہ آدمی اس کی لونڈی کے ساتھ چل پڑا۔ جس دروازے سے داخل ہوتا اسے بند کردیا جاتا یہاں تک کہ وہ ایک خوبصورت عورت تک جا پہنچا۔ جس کے پاس ایک بچہ اور شراب کا پیالہ تھا۔ اس عورت نے کہا : اللہ کی قسم! میں نے تجھے شہادت دینے کے بجائے اپنے ساتھ بدکاری کرنے یاشراب کا پیالہ پینے یا بچہ قتل کرنے کے لیے بلایا ہے۔ اس نے کہا مجھے شراب پلادوجب اس نے شراب پی لی تو نشہ کی حالت میں اس نے عورت کے ساتھ زنا بھی کیا اور بچہ بھی قتل کردیا۔[ رواہ النسائی : کتاب الأشربۃ‘ باب ذکر الآثام المتولدۃ عن شرب الخمرالخ] (عَنِ السَّاءِبِ بْنِ یَزِیْدَ (رض) قَالَ کُنَّا نُؤْتٰی بالشَّارِبِ عَلٰی عَھْدِ رَسُوْلِ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وَإِمْرَۃِ أَبِیْ بَکْرٍوَصَدْرًا مِنْ خِلَافَۃِ عُمَرَفَنَقُوْمُ إِلَیْہِ بِأَیْدِیْنَا وَنِعَالِنَا وَأَرْدِیَتِنَا حَتّٰی کَانَ آخِرُإِمْرَۃِ عُمَرَ فَجَلَدَ أَرْبَعِیْنَ حَتّٰی إِذَا عَتَوْا وَفَسَقُوْا جَلَدَ ثَمَانِیْنَ) [ رواہ البخاری : کتاب الحدود، باب الضرب بالجرید والنعال] ” حضرت سائب بن یزید (رض) بیان کرتے ہیں کہ ہمیں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے اور ابو بکر و عمر (رض) کے ابتدائی دور میں شرابی پکڑا دیا جاتاہم اسے اپنے ہاتھوں، جوتوں اور چادروں کے ساتھ مارتے اور جب عمر (رض) کی خلافت کا آخری دور آیا تو انہوں نے چالیس کوڑے مارے اور جب لوگ شرب نوشی میں بڑھ گئے تو پھر عمر (رض) نے اسی کوڑے مارے۔“ جوئے کو میسر کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے میسر کالفظی معنی آسان ہے۔ اس کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ جوا کھیلنے والا بغیر کسی جسمانی اور ذہنی محنت کے مال حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ عرب کے لوگ بسا اوقات اس لیے بھی جوا کھیلتے تھے کہ اس سے حاصل شدہ رقم غریبوں میں تقسیم کردی جائے۔ جس طرح آج کل کئی فن کار ملکی اور بین الاقوامی سطح پر اپنے فن کا مظاہرہ کرتے ہیں اور اس سے حاصل ہونے والی رقم قحط زدہ یا معذور اور بیمار لوگوں پر خرچ کردیتے ہیں۔ جوئے کے بارے میں بھی اس قسم کے منافع کی طرف اشارہ کیا گیا ہے لیکن اس میں بھی نقصانات اس کے فوائد سے زیادہ ہوتے ہیں۔ کاروبار میں رقم لگاتے وقت آدمی کے ذہن میں نفع اور نقصان دونوں ہوتے ہیں۔ پھر کاروبار میں تاجر سوچ وبچار کرتے ہوئے نقصان سے بچنے کے لیے محنت بھی کرتا ہے اگر اسے ایک کاروبار میں مسلسل نقصان ہورہا ہو تو وہ اسے چھوڑنے کے لیے تیار ہوجاتا ہے۔ محنت ومشقت سے حاصل ہونے والی رقم آدمی سمجھ سوچ کر خرچ کرتا ہے۔ جب کہ جوئے میں یہ تمام صورتیں مفقود ہوتی ہیں۔ جوئے پر رقم لگانے والا جواری نقصان کے بجائے فائدے کے بارے میں بڑا جذباتی ہوتا ہے۔ جوئے سے حاصل شدہ رقم اکثر اللّے تللّوں پر خرچ ہوتی ہے۔ جوا کھیلنے والا ہارنے کے باوجود مسلسل قسمت آزمائی کرتا چلا جاتا ہے۔ کاروبار میں نقصان یا مندا ہونے میں آدمی جذباتی ہونے کے بجائے سوچ وبچار کرتا ہے اور بسا اوقات فیکٹری یا کاروبار کو کچھ عرصہ کے لیے بند کردیتا ہے۔ جوئے میں یہ صورت نہیں ہوتی۔ جوّے باز جیتنے کے لالچ سے چند لمحوں میں ہر چیز سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔ کاروبار میں حاصل ہونے والا منافع مزید تجارت کے لیے استعمال ہوتا ہے جب کہ جوئے سے حاصل ہونے والی رقم سے کبھی بھی لوگ کاروبار کرتے نہیں دیکھے گئے۔ اکثر جوا باز جیت جائیں تو عیاشی کے طور پر اور اگر ہار جائیں تو غم دور کرنے کے لیے شراب پیتے ہیں۔ اس وجہ اور دیگر وجوہات کی بنا پر جوئے اور شراب کا ذکر اکٹھا کیا گیا ہے۔ پھر شراب اور جوئے کی وجہ سے باہم نفرتیں اور لڑائی جھگڑے پید اہوتے ہیں ان اسباب کی بنا پر مسلمانوں کو شراب نوشی اور جوا بازی سے بچنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اسی سورت کی آیت ٢١٥ میں سوال یہ تھا کہ کیا اور کہاں خرچ کریں ؟ اب سوال کیا جارہا ہے کہ کتنا خرچ کیا جائے ؟ جوابًا ارشاد ہوتا ہے کہ اپنی ضرورت سے زائد۔ اس فرمان سے اشتراکی نظام جس کی تعریف یہ ہے کہ ہر چیز کی مالک حکومت ہوتی ہے۔ اشتراکی نظام حکومت میں انفرادی ملکیت کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا اس کے حاملین نے اسلام کے معاشی نظام کی غلط توجیہ کرتے ہوئے اشتراکی نظام کو صحیح ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ لیکن ان کی توجیہ اسلام اور نظام فطرت کے خلاف تھی۔ جس کی وجہ سے چند ہی سالوں میں وہ نظام نہ صرف اپنے انجام کو پہنچا بلکہ روس جیسی عظیم مملکت اس نظام کی کمزوریوں کی وجہ سے تباہی کے گھاٹ اتر گئی۔ سوویت یونین جو دنیا میں دوسری سپر پاور سمجھی جاتی تھی آج اپناوجود سلامت رکھنے کے لیے اپنے مخالفوں سے قرض کی بھیک مانگنے پر مجبو رہے۔ دراصل ” قُلِ الْعَفْوَ“ کا حکم ایک جنگ کے دوران نازل ہوا تھا اور اسی کی روشنی میں دوران سفر رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لوگوں کو توجہ دلائی کہ جس کے پاس اپنی ضرورت سے زائد اسباب ہوں۔ وہ دوسرے بھائی کو عنایت کردے۔ (عَنْ أَبِیْ سَعِیْدِ نِ الْخُدْرِیِّ (رض) قَالَ بَیْنَمَا نَحْنُ فِیْ سَفَرٍ مَعَ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) إِذْ جَآءَ رَجُلٌ عَلٰی رَاحِلَۃٍلَہٗ قَالَ فَجَعَلَ یَصْرِفُ بَصَرَہٗ یَمِیْنًا وَشِمَالًا فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَنْ کَانَ مَعَہٗ فَضْلَ ظَھْرٍ فَلْیُعِدْبِہٖ عَلٰی مَنْ لاَّ ظَھْرَ لَہٗ وَمَنْ کَانَ لَہٗ فَضْلٌ مِنْ زَادٍفَلْیُعِدْ بِہٖ عَلٰی مَنْ لَا زَادَ لَہٗ قَالَ فَذَکَرَ مِنْ أَصْنَافِ الْمَالِ مَا ذَکَرَ حتّٰی رَأَیْنَآ أَنَّہٗ لَا حَقَّ لِأَحَدٍ مِّنَّا فِیْ فَضْلٍ) [ رواہ مسلم : کتاب اللقطہ، باب استحباب المؤساۃ بفضول المال] ” حضرت ابوسعید خدری (رض) بیان کرتے ہیں کہ ہم ایک سفر میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ تھے کہ اچانک ایک آدمی اپنی سواری لے کر آیا اور دائیں بائیں دیکھنے لگا۔ اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جس کے پاس ضرورت سے زائد سواری ہو وہ اس شخص کو دے دے جس کے پاس سواری نہیں مگر اس کے پاس سفر کا زائد خرچ ہو وہ اس کو دے دے جس کے پاس زاد راہ نہیں۔ راوی کہتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مال کی اور بھی کئی اقسام کا تذکرہ کیا یہاں تک کہ ہم نے سمجھ لیا کہ ضرورت سے زائد مال میں ہمارا کوئی حق نہیں ہے۔“ ہنگامی حالات میں ذمہ دار قومیں ایسا ہی رویّہ اختیار کرتی ہیں۔ کیونکہ دشمن کے مقابلے میں جب تک تن من دھن اور ہر چیز نہ جھونک دی جائے کامل اور مکمل فتح حاصل نہیں ہوا کرتی۔ ” عَفْو“ کا معنی جن لوگوں نے من مرضی سے سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش کی ہے۔ ان کے پاس کوئی ایسی دلیل نہیں جس سے فرد کی ضروریات کا تعین کیا جاسکے۔ کیونکہ اپنی ضروریات کو جو آدمی خود سمجھتا ہے کوئی دوسراشخص یا حکومت نہیں سمجھ سکتی۔ ایک آدمی کا آنا جانا اس قدر کم ہے کہ اسے سائیکل کی بھی ضرورت نہیں۔ اس کے مقابلے میں ایسا شخص ہے جس کے گھر کے ایک ایک فرد کو سواری کی ضرورت ہے۔ اسی طرح ایک آدمی کپڑوں کے دو جوڑوں میں گزارا کرسکتا ہے جب کہ دوسرے کو ہر روز لباس تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ اس لیے کسی کی ضرورت کا تعین کوئی دوسرا نہیں کرسکتا۔ البتہ اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ مسلمان کو سادگی اختیار کرتے ہوئے اپنے اعزاء و اقرباء اور پڑوسیوں کے حقوق کا خیال رکھنا چاہیے۔ عفو سے جن لوگوں نے اجتماعی معیشت کا تصور لیا ہے وہ ہر لحاظ سے اسلام کے معاشی نظام کے متصادم ہے۔ کیونکہ اگر ضرورت سے زائد چیزیں حکومت کی ملکیت قرار دے دی جائیں تو قرآن و حدیث میں زکوٰۃ اور وراثت کے احکامات کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے ؟ اللہ تعالیٰ اپنے احکام کو اس لیے کھول کر بیان کرتا ہے تاکہ ان پر غوروفکر کیا جائے۔ مسائل ١۔ شراب اور جوئے میں فائدے کی نسبت نقصانات زیادہ ہیں۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ کے ارشادات پر غور و فکر کرنا چاہیے۔ تفسیربالقرآن شراب وجوا کے نقصانات : ١۔ شراب، جوئے کے فائدے کم اور نقصانات زیادہ ہیں۔ (البقرۃ : ٢١٩) ٢۔ نشہ کی حالت میں نماز کے قریب نہیں جانا چاہیے۔ (النساء : ٤٣) ٣۔ شراب اور جوا حرام ہیں۔ (المائدہ : ٩٠) ٤۔ شراب وجوا دشمنی کا سبب اور اللہ کے ذکر میں رکاوٹ بنتے ہیں۔ (المائدۃ: ٩١) البقرة
220 فہم القرآن ربط کلام : گزشتہ سے پیوستہ۔ کلام کا تسلسل اور سوال وجواب کاسلسلہ جاری ہے۔ لہٰذا اب یتیموں کی اصلاح اور ان کے ساتھ معاشرت کے اصول بیان کیے جارہے ہیں۔ کیونکہ اس سے پہلے یتیموں کے بارے میں یہ احکامات نازل ہوچکے تھے کہ یتیموں کا مال کھانا پیٹ میں جہنم کے انگارے بھرنے کے مترادف ہے۔ اس انتباہ کی وجہ سے صحابہ کرام (رض) اس قدر خوف زدہ اور محتاط ہوئے کہ انہوں نے یتیموں کا کھانا پینا اور ان کے معاملات یکسر طور پر اپنے سے الگ کردیے۔ لیکن اس صورت حال سے نئے مسائل پیدا ہونے شروع ہوئے۔ جس کے لیے یتیموں کے بارے میں مزید وضاحت کی ضرورت پیش آئی۔ چنانچہ وضاحت کی جارہی ہے کہ دراصل اللہ تعالیٰ کے احکام کا منشاء یہ ہے کہ یتیموں کے مال اور ذات کی اصلاح اور خیر خواہی ہونی چاہیے لہٰذا ان کے ساتھ مل جل کر رہنا، ایک ہی جگہ مل کر کھانا، پینا اور ترقی کے نقطۂ نظر سے ان کے مال کو اپنے کاروبار میں شامل کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ کیونکہ پسماندہ اور والدین کی سرپرستی سے محروم ہونے اور اخوت اسلامی کی بنا پر وہ تمہارے بھائی ہیں۔ ان کے ساتھ ایک بھائی جیسی ہی خیر خواہی ہونی چاہیے۔ یہ وضاحت اور آسانی اللہ تعالیٰ کی عنایت ہے ورنہ اللہ تعالیٰ چاہتا تو تم پر سخت احکامات نازل کرسکتا تھا۔ لیکن یاد رکھنا اللہ تعالیٰ تمہاری نیّتوں اور طرز عمل کو جانتا ہے۔ اسے خوب معلوم ہے کہ کون زیادتی اور خرابی اور کون اصلاح کے ارادے سے یتیموں کے مال کو اپنے مال کے ساتھ شامل کررہا ہے۔ بے شک تم عارضی اور وقتی طور پر کمزوروں اور یتیموں پر بالا دست ہو۔ مگر زیادتی نہ کرنا اللہ تعالیٰ سب سے زیادہ بالا دست اور حکمت والا ہے۔ یتیموں اور بیواؤں کی کفالت کے بارے میں رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فرمودات : (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَ ۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کَافِلُ الْیَتِیْمِ لَہٗ أَوْلِغَیْرِہٖ أَنَا وَھُوَ کَھَاتَیْنِ فِی الْجَنَّۃِ وَأَشَارَ مَالِکٌ بالسَّبَابَۃِ وَالْوُسْطیٰ) [ رواہ مسلم : کتاب الزھد، باب الإحسان إلی الأرملۃِ والمسکین والیتیم] ” حضرت ابوہریرہ (رض) رسول گرامی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں۔ آپ نے فرمایا : قریبی یا کسی دوسرے یتیم کی کفالت کرنے والا اور میں جنت میں ان دوانگلیوں کی طرح ہوں گے۔ راوی نے انگشت شہادت اور درمیانی انگلی کا اشارہ کیا۔“ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) أَنَّ رَجُلًا شَکَا إِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَسْوَۃَ قَلْبِہٖ فَقَالَ لَہٗ إِنْ أَرَدْتَ تَلْیِیْنَ قَلْبِکَ فَأَطْعِمِ الْمِسْکِیْنَ وَامْسَحْ رَأْسَ الْیَتِیْمِ) [ مسند أحمد : کتاب باقی مسند المکثرین، باب مسند أبی ھریرۃ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دل کے سخت ہونے کی شکایت کی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اگر چاہتا ہے کہ تیرا دل نرم ہوجائے تو پھر مسکین کو کھانا کھلا اور یتیم کے سر پر ہاتھ پھیر۔“ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَ ۃَ (رض) قَالَ قَال النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اَلسَّاعِیْ عَلَی الْأَرْمَلَۃِ وَالْمِسْکِیْنِ کَالْمُجَاھِدِ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ أَوِالْقَاءِمِ اللَّیْلَ الصَّاءِمِ النَّھَارَ) [ رواہ البخاری : کتاب النفقات بابفضل النفقۃ علی الأھل] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : بیوگان اور مساکین کی کفالت کرنے والا اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے یا دن کو روزہ اور رات بھر قیام کرنے والے کی طرح ہے۔“ مسائل ١۔ یتیموں کی اصلاح کرنا نیکی کا کام ہے۔ ٢۔ ان کے ساتھ مل جل کر رہنے اور کھانے میں کوئی حرج نہیں۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ فساد کرنے والے اور اصلاح کرنے والے کو جانتا ہے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر غالب اور حکمت والا ہے۔ تفسیربالقرآن یتیموں کے حقوق کا تحفظ : ١۔ یتیم تمہارے بھائی ہیں۔ (البقرۃ : ٢٢٠) ٢۔ یتیموں کی اصلاح میں ہی بہتری ہے۔ (البقرۃ : ٢٢٠) ٣۔ یتیم کو جھڑکنے کی ممانعت ہے۔ (الضحیٰ : ٩) ٤۔ یتیموں کے سمجھ دار ہونے پر ان کا مال ان کے حوالے کرنا چاہیے۔ (النساء : ٦) ٥۔ مال حوالے کرتے وقت گواہ بنانے چاہییں۔ (النساء : ٦) ٦۔ یتیم کا مال کھانا بہت بڑا گناہ ہے۔ (النساء : ٢) البقرة
221 فہم القرآن ربط کلام : سورۃ کے مرکزی مضمون سے وابستہ احکام۔ معاشرتی اور عائلی مسائل کے سلسلہ میں اب ایک اہم اور بنیادی مسئلے کی طرف توجہ دلائی جارہی ہے۔ کیونکہ جوں جوں اسلام پھیل رہا تھا اس کے ساتھ ہی معاشرہ میں نئے نئے مسائل پیدا ہورہے تھے۔ ان میں سے اہم ترین مسئلہ یہ تھا کہ ایک آدمی مسلمان ہوجاتا ہے اور اس کی بیوی کفر و شرک کی حالت پر قائم رہتی ہے۔ اسی طرح اس کے برعکس صورت بھی پیدا ہوسکتی ہے۔ یا دوسری صورت میں ایک مسلمان کو ازدواجی زندگی اپناتے ہوئے کون سے بنیادی اصولوں کا خیال رکھنا چاہیے ؟ اس کے بارے میں بنیادی اصول یہ قرار پایا کہ ” آج کے بعد کوئی مرد کافرہ اور مشرکہ کے ساتھ اور کوئی مومن خاتون کسی کافر اور مشرک کے ساتھ نکاح نہیں کرسکتی۔ چاہے جمال وکمال کے اعتبار سے وہ مرد اور عورت کتنے ہی اچھے کیوں نہ ہوں ؟ یہاں تک کہ وہ حلقۂ اسلام میں داخل ہوجائیں۔ ان کے مقابلے میں ایک غلام مسلمان عورت ہو یا مرد کہیں بہتر ہیں۔ حالانکہ معاشرتی طور پر آزاد کے مقابلے میں غلام مرد ہو یا عورت اس کی حیثیت آزاد کے برابر نہیں ہوسکتی۔ خاص کر عرب معاشرے میں غلاموں کی حیثیت ایک زرخرید جانور سے زیادہ نہیں تھی۔ لیکن شرک اور کفر ایسے جرم ہیں جن سے آدمی کی حیثیت حقیقی طور پر ایک غلام سے بھی زیادہ ابتر ہوجاتی ہے۔ اس کے نقصانات دینی اور سماجی اعتبار سے اتنے زیادہ ہیں جن پر کنٹرول کرنا کسی کے بس کا روگ نہیں رہتا۔ کفریہ اور شرکیہ عقیدہ رکھنے والا مردہویاعورت درحقیقت وہ اللہ تعالیٰ کی ذات کا انکار اور اس کے ساتھ شرک کرکے عملًا اس سے بغاوت کا اقرار کرتا ہے۔ کوئی ایمانی غیرت رکھنے والا شخص ایسے باغی کے ساتھ زندگی کابندھن قائم کرنے کے لیے تیار نہیں ہوسکتا۔ سماجی لحاظ سے وہ ایک ایسی ذہنی کش مکش میں مبتلا ہوتا ہے جس سے چھٹکارا پانا ناممکنات میں سے ہے۔ کیونکہ ایماندار خاوند اپنی اولاد کو ایمان اور جنت کی ہی دعوت دے گا۔ جب کہ اس کی مشرک بیوی اولاد کو اپنے عقیدے کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرے گی جو سراسر خدا سے بغاوت اور جہنم کے راستے پرچلنے، چلانے کے مترادف ہے۔ یہی صورت ایک مومنہ بیوی کی مشرک اور کافر خاوند کے ساتھ پیدا ہوگی۔ ایسی صورت میں اولاد، خاندان اور معاشرے پر کس قدر منفی اور باہمی کش مکش کے اثرات مرتب ہوں گے ؟ اگر مسلمانوں کو کفرو شرک کے اختلاط سے منع نہ کیا جائے تو امت کا اپنا تشخص کس طرح قائم ہوسکتا ہے ؟ اس لیے ارشاد ہوتا ہے کہ یہ لوگ تمہیں جہنم کی آگ کی دعوت دیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے یہ قانون بنا کر تمہیں اپنی بخشش اور جنت کے راستے کی رہنمائی کی ہے تاکہ ان حقائق کو سامنے رکھ کر تم نصیحت حاصل کرو۔ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ تُنْکَحُ الْمَرْأَۃُ لِأَرْبَعٍ لِمَالِھَا وَلِحَسَبِھَا وَلِجَمَالِھَا وَلِدِیْنِھَا فَاظْفُرْ بِذَات الدِّیْنِ تَرِبَتْ یَدَاکَ) [ رواہ البخاری : کتاب النکاح، باب الأکفاء فی الدین] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : عورت سے چار وجوہات کی بنیاد پر شادی کی جاتی ہے۔ مال کی وجہ سے، حسب ونسب کی بناء پر، اس کی خوبصورتی کی وجہ سے اور اس کے دین کی بنیاد پر۔ پس تم دین دار کو پسند کرو تاکہ تم کامیاب اور تروتازہ رہو۔“ اہل کتاب کے ساتھ نکاح کرنے کا مسئلہ (المائدہ :5) چھٹے پارے میں بیان ہوگا۔ ان شاء اللہ مسائل ١۔ مشرک مرد اور عورت سے نکاح جائز نہیں۔ ٢۔ مومن غلام اور کنیز آزاد مشرک مردوزن سے بہتر ہیں۔ ٣۔ مشرک جہنم کی طرف بلانے والے ہیں جبکہ اللہ تعالیٰ اپنی بخشش اور جنت کی دعوت دیتا ہے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ کے احکام نصیحت حاصل کرنے کے لیے ہیں۔ تفسیربالقرآن کن عورتوں سے نکاح جائز نہیں ؟ ١۔ مشرکہ اور کفار عورتوں سے نکاح جائز نہیں۔ (البقرۃ : ٢٢١۔ الممتحنۃ : ١٠) ٢۔ زانیہ سے نکاح جائز نہیں۔ (النور : ٣) ٣۔ محرمات سے نکاح جائز نہیں۔ (النساء : ٢٣، ٢٤) البقرة
222 فہم القرآن ربط کلام : عورتوں کے متعلقہ مسائل کا بیان جاری ہے۔ سوال وجواب کے حوالے سے سلسلۂ کلام جاری ہے۔ یہاں ازدواجی زندگی کے ایک اہم اور فطری مسئلے کے متعلق پھر ایک سوال کا جواب دیا جارہا ہے کہ حیض کی حالت میں میاں بیوی کے تعلقات کی کیا نوعیت ہونی چاہیے ؟ کیونکہ اس بارے میں لوگ افراط وتفریط کا شکار تھے۔ عیسائی حیض کے ایام میں اپنی بیویوں سے مجامعت جاری رکھتے اور یہودی ان سے اس قدر دور رہتے اور نفرت کرتے کہ بیویوں کے قریب بیٹھنا اور ان کے ساتھ کھانا پینا تو در کنار ان کے برتن اور رہائش بھی الگ کردیتے تھے۔ یہاں تک کہ وہ بے چاری مخصوص ایام میں اپنے معصوم بچوں سے پیار بھی نہ کرسکتی تھی۔ مسئلے کی وضاحت کرنے سے پہلے فرمایا کہ حیض عورت کے لیے ایک تکلیف دہ امر ہے اس سے عورت کے اندرونی نظام میں کچھ منفی اور مثبت تبدیلیاں ہوتی ہیں۔ میڈیکل کی زبان میں عورت کے جسم کا مخصوص حصہ فلٹرائز ہورہا ہوتا ہے لہٰذا ان ایام میں عورت کے ساتھ مباشرت کرنا مرد اور بیوی کے لیے نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے اس لیے تمہیں اس وقت تک صحبت کی غرض سے عورتوں کے قریب نہیں جانا چاہیے یہاں تک کہ وہ پاک ہوجائیں۔ پاک ہونے سے مراد عورت کا غسل کرنا ہے اور عورت کے غسل کرنے سے پہلے مجامعت جائز نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ پاک باز اور توبہ کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے۔ یہاں قرآن مجید نے ” لَا تَقْرَبُوْھُنَّ“ کے الفاظ استعمال فرمائے ” کہ ان کے قریب نہ جاؤ۔“ جس سے مراد مجامعت کرنا ہے۔ سوال کا جواب دیتے ہوئے آخر میں فرمایا کہ اپنی عورتوں کے پاس جاؤ جس طریقے اور حالت میں اللہ تعالیٰ نے تمہیں اجازت عطا فرمائی ہے۔ یاد رکھو اللہ تعالیٰ گناہوں سے بچنے اور پاک صاف رہنے والوں کو پسند کرتا ہے۔ نبی محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عورتوں کے ساتھ کی جانے والی افراط وتفریط کو ختم کرنے کے لیے اپنی خلوت کو بیان کرنے کی اجازت دی تاکہ لوگ سمجھ جائیں کہ حیض کی حالت میں خاوند کس حد تک تعلقات قائم کرسکتا ہے۔ 1 (عَنْ عَاءِشَۃَ (رض) قَالَتْ کُنْتُ أَغْتَسِلُ أَنَا وَالنَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مِنْ إِنَآءٍ وَاحِدٍ وَّکِلَانَا جُنُبٌ وَکَانَ یَأْمُرُنِیْ فَأَتَّزِرُ فُیُبَاشِرُنِیْ وَأَنَآ حَآءِضٌ وَکَانَ یُخْرِجُ رَأْسَہٗ إِلَیَّ وَھُوَ مُعْتَکِفٌ فَأَغْسِلُہٗ وَأَنَا حَآءِضٌ) [ روا البخاری : کتاب الحیض، باب مباشرۃ الحیض] ” حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ میں اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک ہی برتن میں بحالت جنابت غسل کرلیا کرتے۔ آپ مجھے ازار باندھنے کا حکم دیتے ازار باندھنے کے بعد وہ مجھ سے مباشرت کرتے یعنی صرف میرے ساتھ لیٹتے اور میں حائضہ ہوتی۔ آپ اعتکاف کی حالت میں اپنا سر باہر نکالتے اور میں حیض کی حالت میں آپ کا سر مبارک دھو دیتی۔“ 2 (عَنْ عَاءِشَۃَ (رض) قَالَتْ کُنْتُ أَشْرَبُ وَأَنَا حَآءِضٌ ثُمَّ أُنَاوِلُہُ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَیَضَعُ فَاہُ عَلٰی مَوْضِعِ فِیَّ فَیَشْرَبُ وَأَتَعَرَّقُ الْعَرْقَ وَأَنَا حَآءِضٌ ثُمَّ أُنَاوِلُہُ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَیَضَعُ فَاہُ عَلیٰ مَوْضِعِ فِیَّ) [ رواہ مسلم : کتاب الحیض، باب جواز غسل الحائض رأس زوجھاوترجیلہ وطھارۃ] ” حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ میں بحالت حیض کوئی چیز پیتی پھر اسی برتن میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیتی تو آپ اسی جگہ منہ رکھ کر پیتے جہاں سے میں نے پیا ہوتا۔ اور میں حیض کی حالت میں ہڈی سے گوشت نوچتی پھر وہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیتی تو آپ بھی وہاں ہی منہ لگا لیتے۔“ 3 (عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فِی الَّذِیْ یَأْتِی امْرَأَتَہٗ وَھِیَ حَآءِضٌ قَالَ یَتَصَدَّقُ بِدِیْنَارٍ أَوْ نِصْفِ دِیْنَارٍ)[ رواہ أبو داوٗد : کتاب الطہارۃ، باب فی إتیان الحائض] ” حضرت عبداللہ بن عباس (رض) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس شخص کے متعلق بیان فرماتے ہیں جو اپنی بیوی سے حیض کی حالت میں جماع کرتا ہے فرمایا وہ ایک دینا ریا آدھا دینار صدقہ کرے۔“ آج کے حساب سے ایک دینار کی قیمت 158 روپے 85 پیسے ہے۔ مسائل ١۔ حیض پلیدی اور تکلیف ہے اس میں عورتوں سے الگ رہنا چاہیے۔ ٢۔ بیویوں سے مجامعت پاک حالت میں کرنی چاہیے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ گناہ اور گندگی سے پاک رہنے والوں کو پسند کرتا ہے۔ تفسیربالقرآن صفائی اور پاکی کی فضیلت : ١۔ اللہ تعالیٰ پاک لوگوں کو پسند کرتا ہے۔ (البقرۃ : ٢٢٢) ٢۔ نیک لوگ پاک صاف رہنا پسند کرتے ہیں۔ (التوبۃ : ١٠٨) البقرة
223 فہم القرآن ربط کلام : گزشتہ سے پیوستہ۔ چونکہ پہلے حکم میں مخصوص ایّام کے دوران عورتوں سے صحبت کرنے سے روک دیا گیا تھا۔ اس لیے یہاں طبیعتوں کی گھٹن دور کرنے اور ازدواجی زندگی کے بنیادی مقصد کی طرف توجہ دلائی جارہی ہے۔ ارشاد ہوتا ہے کہ بیویاں تمہاری کھیتیاں ہیں۔ جس طرح کھیتی باڑی کے کچھ اصول اور ہر فصل کے مخصوص ایّام ہوتے ہیں اسی طرح ازدواجی زندگی کے مقاصد اور خلوت کے بھی کچھ اصول ہیں۔ تاہم جس طرح زمیند ار کو اپنی زمین اور کھیتی باڑی میں کھلا اختیار ہوتا ہے ایسے ہی تمہیں اپنی بیویوں کے بارے میں اختیارات حاصل ہیں کہ جب اور جس طرح چاہو مجامعت کرسکتے ہو۔ یہاں ازدواجی زندگی کو کھیتی کے ساتھ تشبیہ دے کر واضح کیا جارہا ہے کہ جس طرح کوئی زمیندار بے مقصد ہل نہیں چلایا کرتا بلکہ اس کے پیش نظر اناج کی شکل میں اپنی محنت کا صلہ ہوتا ہے اسی طرح محض شہوت رانی کی غرض سے یہ کام نہیں ہونا چاہیے۔ میاں بیوی کے اس عمل اور جذبات میں اپنے آپ کو گناہوں سے پاک رکھنا، اللہ تعالیٰ کی رضا مطلوب ہونا اور نیک اولاد کی تمنا شامل ہونی چاہیے تاکہ دنیاوی فوائد کے ساتھ آخرت میں اس چیز کا اجر ملے۔ جیسے زمیندار اپنے اور قوم کے لیے غلہ مہیا کرتا ہے ایسے ہی ازدواجی تعلقات کے ذریعے نسل کا تسلسل، قوم کی بقاء اور دین اسلام کے لیے اچھے مسلمان تیار کرنا ہے۔ جس طرح زمیندار اپنی زمین اور فصل کا خیال اور خدمت کرتا ہے۔ تمہیں اپنی بیویوں اور اولاد کا اس سے بڑھ کر خیال اور ان کی خدمت کرنا چاہیے۔ اس میں بیوی کی صحت، گھریلو مصروفیات، عبادات اور بچے کا پورے دو سال دودھ پلانے کا اشارہ بھی شامل ہے۔ اگر میاں بیوی ان امور کا خیال کریں تو انہیں تولید میں وقفہ کے لیے کسی غیر شرعی طریقہ کی حاجت نہیں رہتی۔ آج کے مصنوعی طریقے صحت کے لیے مضر ہیں۔ یہ بات ذہن میں ہر دم تازہ رکھو کہ تم اپنے رب سے ملاقات کرنے والے ہو اور وہ تمہاری جلوتوں اور خلوتوں کو جانتا ہے۔ تمہاری پوشیدہ اور ظاہری زندگی اس طرح ہونی چاہیے کہ اپنے رب کے ہاں تمہیں شرمندگی نہ اٹھانی پڑے۔ جو جلوت اور خلوت میں اس بات کا خیال رکھے گا ایسے صاحب ایمان لوگوں کے لیے مسرّت وشادمانی کا پیغام ہے۔ ازدواجی زندگی کے بارے میں رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشادات : (عَنْ مَعْقَلِ بْنِ یَسَارٍ (رض) قَالَ جَاءَ رَجُلٌ إِلَی النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَقَالَ إِنِّیْ أَصَبْتُ امْرَأَۃً ذَاتَ حَسْبٍ وَّجَمَالٍ وَّإِنَّھَالَاتَلِدُ أَفَأَتَزَوَّجُھَا قَالَ لَا ثُمَّ اَتَاہ الثَّانِیَۃَ فَنَھَاہُ ثُمَّ اَتَاہ الثَّالِثَۃَ فَقَالَ تَزَوَّجُوا الْوَدُوْدَ الْوَلُوْدَ فَإِنِّیْ مُکَاثِرٌ بِکُمُ الْاُمَمَ) [ رواہ أبوداوٗد : کتاب النکاح، باب النھی عن تزویج من لم یلد من النساء] ” حضرت معقل بن یسار (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس ایک آدمی نے آکر پوچھا ایک عورت حسب ونسب اور حسن و جمال والی ہے لیکن ہے وہ بانجھ۔ کیا میں اس سے شادی کرلوں ؟ آپ نے اسے روک دیا۔ دوسری اور تیسری مرتبہ آنے پر بھی منع کرتے ہوئے فرمایا محبت کرنے اور زیادہ بچے جننے والی عورت سے شادی کرو کیونکہ میں تمہاری کثرت تعداد کی وجہ سے دوسری امتوں پر فخر کروں گا۔“ (عَنْ عُتْبَۃَ بْنِ عَبْدِ السُّلَمِیِّ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) إِذَا أَتٰی أَحَدُکُمْ أَھْلَہٗ فَلْیَسْتَتِرْ وَلَا یَتَجَرَّدْ تَجَرُّدَ الْعَیْرَیْنِ) [ رواہ ابن ماجۃ: کتاب النکاح، باب التستر عند الجماع] ” حضرت عتبہ بن عبدالسلمی (رض) بیان کرتے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جب تم میں سے کوئی اپنی بیوی کے ساتھ مباشرت کرے تو وہ پردہ کرے اور گدھوں کی طرح ننگا نہ ہو۔“ ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : وہ شخص لعنتی ہے جو اپنی بیوی سے اس کی دبر کی جگہ جماع کرتا ہے۔“ [ رواہ أبو داوٗد : کتاب النکاح، باب فی جامع النکاح ] (عَنْ أَبِیْ سَعِیْدنٍ الْخُدْرِیّ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) إِنَّ مِنْ أَشَرِّ النَّاسِ عِنْدَ اللّٰہِ مَنْزِلَۃً یَوْمَ الْقِیَامَۃِ الرَّجُلُ یُفْضِیْ إِلَی امْرَأَتِہٖ وَتُفْضِیْ إِلَیْہِ ثُمَّ یَنْشُرُ سِرَّھَا)[ رواہ مسلم : کتاب النکاح، باب تحریم إفشاء سر] ” حضرت ابوسعید خدری (رض) سے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اللہ تعالیٰ کے ہاں قیامت کے دن بدترین شخص وہ ہوگا جو اپنی بیوی سے ملتا ہے اور بیوی اپنے خاوند سے ملتی ہے اور پھر وہ اس کے راز فاش کرتا ہے۔“ مسائل ١۔ بیویاں خاوندوں کے لیے کھیتیوں کی مانند ہیں۔ ٢۔ اللہ سے ڈرتے رہنا چاہیے کیونکہ بالآ خر اس سے ملاقات ہونا ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ کا حکم ماننے والوں کے لیے دنیا اور آخرت میں خوشخبریاں ہیں۔ تفسیر بالقرآن بیوی کی حیثیت : ١۔ بیوی لباس ہے۔ (البقرۃ: ١٨٧) ٢۔ بیوی نسل انسانی کا ذریعہ ہے۔ (النساء : ١) ٣۔ بیوی سکون کا باعث ہے۔ (الروم : ٢١) ٤۔ بیوی خاوند کی نائب ہے۔ (النساء : ٣٤) البقرة
224 فہم القرآن ربط کلام : میاں بیوی کے درمیان کسی مسئلہ میں تکرار ہوجائے تو بسا اوقات معاملہ بحث وتکرار سے بڑھ کر قسم تک پہنچ جاتا ہے لہٰذا جذباتی قسم کے بارے میں رعایت دی گئی ہے۔ ازدواجی وعائلی مسائل کے دوران قسم کے مسئلہ کی وضاحت اس لیے ضروری سمجھی گئی کہ اس زمانے میں اور آج بھی باہمی مخالفت یا طیش میں آکر لوگ قسم اٹھا لیتے ہیں کہ میں اپنی بیوی کے ساتھ اتنے دن کلام سے اجتناب، بائیکاٹ یا فلاں کام نہیں کروں گا۔ حالانکہ اس موقع پر قسم اٹھانا مناسب بات نہیں ہوتی۔ جہاں تک بیوی سے ایلاء یعنی بائیکاٹ کا معاملہ ہے اس فرمان میں ایلاء کی آخری مدت چار ماہ مقرر کردی گئی۔ خاوند کو اس کے بعد رجوع کرنا یا پھر طلاق دینا ہوگی۔ مسلمان کو ایسی قسم اٹھانے سے روک دیا گیا ہے جو نیکی اور خیر کے کام میں رکاوٹ بنتی ہو۔ یہ قسم اس لحاظ سے عجیب اور غیر دانش مندی کا مظہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کا نام لے کر آدمی کسی نیک کام سے رک جائے حالانکہ اللہ تعالیٰ نیکی کا حکم دیتا اور ہر قسم کی برائی سے منع کرتا ہے۔ یہ کیسے جائز ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا بابرکت اور عظیم نام ہی نیکی میں رکاوٹ بنادیا جائے۔ اس لیے یہاں حکم دیا جارہا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نام کو نیکی اور اصلاح بین الناس کے درمیان رکاوٹ نہ بناؤ اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ تم کس نیت اور غرض سے اس کے عظیم نام کو استعمال کررہے ہو؟ (عَنْ زَھْدَمَ قَالَ کُنَّا عِنْدَ أَبِیْ مُوْسَی الأَشْعَرِیِّ (رض) قَالَ أَتَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فِیْ نَفَرٍ مِنَ الْأَشْعَرِیِّیْنَ فَوَافَقْتُہٗ وَھُوَ غَضْبَانُ فَاسْتَحْمَلْنَاہُ فَحَلَفَ أَنْ لاَّ یَحْمِلَنَا ثُمَّ قَالَ وَاللّٰہِ إِنْ شَآء اللّٰہُ لَآ أَحْلِفُ عَلٰی یَمِیْنٍ فَأَرٰی غَیْرَھَا خَیْرًا مِّنْھَآ إِلَّآ أَتَیْتُ الَّذِیْ ھُوَ خَیْرٌ وَتَحَلَّلْتُھَا) [ رواہ البخاری : کتاب الأیمان والنذور، باب الیمین فیما لایملک الخ] ” حضرت زھدم (رض) بیان کرتے ہیں کہ ہم ابو موسیٰ اشعری (رض) کے پاس تھے وہ فرماتے ہیں میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس اشعری قبیلہ کے کچھ افراد کے ہمراہ اس وقت حاضر ہوا جب آپ غصہ میں تھے۔ ہم نے سواری کا مطالبہ کیا تو آپ نے قسم اٹھادی کہ میں تمہیں کچھ نہیں دوں گا۔ پھر آپ نے فرمایا : اللہ کی قسم! اگر اللہ کی مشیت شامل حال ہو تو جس کام پر میں قسم کھاتا ہوں اگر میں اس کے بجائے دوسرے کام کو بہتر سمجھوں تو میں افضل کام کرکے قسم کا کفارہ ادا کردیتا ہوں۔“ یہاں اس بات کی بھی وضاحت فرمادی گئی کہ اللہ تعالیٰ تمہارا انہی قسموں پر مؤاخذہ کرے گا جو تم نے نیتًا اٹھائی ہوں گی کیونکہ اللہ تعالیٰ اعلیٰ ظرف ہونے اور اپنی بخشش کی وجہ سے تمہاری لغو قسموں پر مؤاخذہ نہیں کرتا۔ حالانکہ تم اس کا پاک اور عظیم نام کو بے مقصد کام کے لیے استعمال کرتے ہو۔ لغو کے بارے میں سورۃ المؤمنون آیت : ٣ کی تلاوت کیجئے : (وَالَّذِیْنَ ھُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَ )[ المومنون : ٣] ” مؤمن وہ ہیں جو لغو اور بے مقصد کام اور کلام سے پرہیز کرتے ہیں۔“ رسول مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرمایا کرتے تھے : (مِنْ حُسْنِ اِسْلَامِ الْمَرْءِ تَرْکُہٗ مَالَا یَعْنِیْہِ) [ رواہ الترمذی : کتاب الزھد] ” آدمی کے اسلام کی خوبی یہ ہے کہ وہ بے مقصد کام چھوڑ دے“۔ البتہ جس نے عزم کے ساتھ قسم اٹھائی اور پھر اس قسم کو پورا نہ کیا اس کی سزا ساتویں پارے میں یوں بیان کی گئی ہے۔ (لَا یُؤَاخِذُکُمُ اللّٰہُ باللَّغْوِ فِیْٓ اَیْمَانِکُمْ وَ لٰکِنْ یُّؤَاخِذُکُمْ بِمَا عَقَدْتُّمُ الْاَیْمَانَ ج فَکَفَّارَتُہ‘ ٓ اِطْعَامُ عَشَرَۃِ مَسٰکِیْنَ مِنْ اَوْسَطِ مَا تُطْعِمُوْنَ اَھْلِیْکُمْ اَوْکِسْوَتُھُمْ اَوْ تَحْرِیْرُ رَقَبَۃٍ ط فَمَنْ لَّمْ یَجِدْ فَصِیَامُ ثَلٰثَۃِ اَیَّامٍ ط ذٰلِکَ کَفَّارَۃُ اَیْمَانِکُمْ اِذَا حَلَفْتُمْط وَ احْفَظُوْٓا اَیْمَانَکُمْط کَذٰلِکَ یُبَیِّنُ اللّٰہُ لَکُمْ اٰیَاتِہٖ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ) [ المائدۃ: ٨٩] ” اللہ تعالیٰ تمہاری قسموں میں لغو قسم پر تم سے مؤاخذہ نہیں فرماتا لیکن مؤاخذہ اس پر فرماتا ہے کہ تم جن قسموں کو مضبوط کردو۔ اس کا کفارہ دس محتاجوں کو کھانا کھلانا ہے اوسط درجے کا جو اپنے گھروالوں کو کھلاتے ہویا ان کو کپڑا پہنچانایا ایک غلام یا لونڈی آزاد کرنا ہے اور جس کو مقدور نہ ہوتوتین دن کے روزے رکھے۔ یہ تمہاری قسموں کا کفارہ ہے جب تم قسم کھالو اور اپنی قسموں کا خیال رکھو۔ اللہ تعالیٰ تمہاریلیے اپنے احکام اس لیے بیان فرماتا ہے تاکہ تم شکر کرو۔“ مسائل ١۔ نیکی اور اصلاح بین الناس سے رکنے یا روکنے کے لیے قسم اٹھانا جائز نہیں۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ سب کچھ سنتا اور جانتا ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ بے ارادہ قسموں پر مؤاخذہ نہیں کرتا۔ ٤۔ عزم کے ساتھ اٹھائی ہوئی قسم پر مؤاخذہ ہوگا۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ نہایت ہی حوصلے اور معاف کرنے والا ہے۔ ٦۔ بیوی سے ایلاء کی مدت چار ماہ ہے۔ ٧۔ ایلاء کا معنی ہے بیوی سے بائیکاٹ کرنا۔ تفسیربالقرآن جھوٹی قسم کا گناہ : ١۔ قسم کو ڈھال نہ بنائیں۔ (البقرۃ: ٢٢٤) ٢۔ قسموں کو پورا کرنا چاہیے۔ (النمل : ٩١) ٣۔ ناجائز قسموں پر عمل نہ کیا جائے۔ (التحریم : ١، ٢) ٤۔ صدقہ نہ دینے کی قسم ممنوع ہے۔ (النور : ٢٢) ٥۔ غلط قسموں کے ذریعے مال بٹورنے والوں کا انجام کیا ہوگا؟ (آل عمران : ٧٧) ٦۔ جھوٹی قسمیں کھانے والوں کا انجام۔ (التوبۃ: ٩٥) ٧۔ بلا قصد قسموں پر مؤاخذہ نہیں۔ (المائدۃ: ٨٩) قسم کی وجہ سے بیوی سے علیحدگی کی عدّت : ١۔ عورتوں سے علیحدگی کی قسم کی مدت چارماہ ہے۔ (البقرۃ: ٢٢٦) ٢۔ چار ماہ کے بعد رجوع ہے یا طلاق دینا ہوگی۔ (البقرۃ: ٢٢٦، ٢٢٧) البقرة
225 البقرة
226 البقرة
227 البقرة
228 فہم القرآن ربط کلام : عورتوں کے متعلقہ مسائل کا بیان جاری ہے۔ اگر ایلاء کرنے والے نے طلاق دینے کا حتمی فیصلہ کرلیا ہے تو مطلقہ عورت کو تین حیض انتظار کرنا چاہیے۔ یہاں اللہ تعالیٰ نے سمیع وعلیم کی صفات کا تذکرہ فرماکر ایک قسم کی تنبیہ کی ہے کہ اللہ تعالیٰ کو معلوم ہے کہ طلاق تک نوبت پہنچنے میں خاوند‘ بیوی اور خاندان کے کس کس آدمی کا کتنا ہاتھ ہے لہٰذا تمہیں خوب سمجھ سوچ کر فیصلہ کرنا چاہیے۔ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے : (ثَلَاثٌ جِدُّھُنَّ جِدٌّ وَھَزْلُھُنَّ جِدٌّ النَّکِاحُ وَالطَّلَاقُ وَالرَّجْعَۃُ) [ رواہ الترمذی : کتاب الطلاق، باب ماجاء فی الجد والھزل فی الطلاق] ” تین کام ایسے ہیں جو حقیقتاً اور بطور مذاق بھی ثابت ہوجاتے ہیں۔ نکاح، طلاق اور رجوع۔“ یہاں مطلقہ عورت سے مراد وہ عورت ہے جسے طلاق رجعی ہو۔ رجعی کا معنٰی ہے جس میں میاں بیوی کو آپس میں رجوع کرنے کا حق حاصل ہوتا ہے۔ ایسی مطلقہ کو تین حیض انتظار کرنا چاہیے۔ یہاں عورت کو بالخصوص یہ ہدایت کی جارہی ہے کہ اگر وہ اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتی ہے تو جو کچھ اس کے رحم میں ہے اسے ہرگز نہیں چھپانا چاہیے۔ کیونکہ عورت کے حاملہ ہونے کا صرف اسی کو علم ہوسکتا ہے۔ خاص کر ابتدائی ایام میں اس کے علاوہ کسی کو معلوم نہیں ہوتاکہ وہ خالی الرحم ہے یا صاحب امید ہے۔ اسے اللہ اور آخرت کا واسطہ دے کر احساس دلایا جارہا ہے کہ اسے آگے نکاح کرنے کے لیے یہ خیانت نہیں کرنا چاہیے۔ اس طرح کرنا نہ صرف اللہ تعالیٰ کے حکم کی خلاف ورزی ہے بلکہ رحم کی کیفیت کو چھپاتے ہوئے کسی دوسرے سے نکاح کرتی ہے تو وہ اس حرکت کے ساتھ کئی بھاری جرائم کا ارتکاب کرے گی۔ پہلا جرم تو یہ ہے کہ اس طرح اس کا دوسرے شخص سے نکاح کرنا ہی ناجائز ہے۔ دوسرا جرم یہ ہے کہ اس کے رحم میں جو بچہ ہے اس کی ولدیت کا معاملہ بھی خلط ملط ہوجائے گا۔ کیونکہ ایسے بچے کی ولدیت کا حقیقی علم ہوجائے تو وہ دونوں طرف سے وراثت سے محروم ہوجائے گا۔ بیوی کا پہلاخاوند اس لیے اس بچے کو اپنا وارث نہیں بنائے گا کہ اس کی ماں نے طلاق کے وقت اسے بتلانے سے انکار کردیا تھا عورت کا موجودہ خاوند انکار کرنے میں اس لیے حق بجانب ہوگا کہ حقیقتًا وہ اس کا بچہ ہی نہیں۔ اسی طرح آگے چل کریہ فیصلہ کرنابھی مشکل ہوگا کہ یہ بچہ یا بچی کس کے لیے محرم ہے ؟ اگر حاملہ ہونے کے باوجودعورت اپنا رحم خالی بتلاتی ہے تاکہ وہ کسی دوسرے سے نکاح کرسکے جب کہ اس کی عدّت وضع حمل ہے تو غلط بیانی سے کام لے کر اپنے خاوند کو رجوع کے حق سے محروم کرتی ہے اور بچے کے نسب کو خلط ملط کرتی ہے۔ جو شرعی طور پر خاوند اور اس کے خاندان کے ساتھ خیانت کے مترادف ہے۔ اس لیے اللہ اور آخرت کے نام سے اسے تاکید کی جارہی ہے کہ اسے اس معاملے کو چھپانا نہیں چاہیے۔ اگر اس کا خاوند طلاق رجعی کی مدت میں عدت گزرنے کے بعد نکاح کی خواہش کرے تو اس کو عقد ثانی کرنے کا زیادہ حق پہنچتا ہے بشرطیکہ وہ باہمی طور پر اپنی اصلاح کا ارادہ رکھتے ہوں۔ یہ اس لیے ہے کہ اللہ تعالیٰ نے میاں بیوی کے ایک دوسرے پر حقوق ٹھہرائے ہیں تاہم مردوں کو عورتوں پر ایک درجہ فضیلت حاصل ہے کیونکہ مرد خاندان کی اکائی اور کنبے کا کفیل ہوتا ہے۔ رسول معظم کا ارشاد ہے کہ جان بوجھ کر نسب کو خلط ملط کرنا حرام ہے۔ (عَنْ رُوَیْفِعِ بْنِ ثَابِتِ الْاَنْصَارِیِّ (رض) قَالَ کُنْتُ مَعَ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حِیْنَ افْتَتَحَ حُنَیْنًا فَقَامَ فِیْنَا خَطِیْبًا فَقَالَ: لَا یَحِلُّ لِإمْرِی ءٍ یُّؤْمِنُ باللّٰہِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ أَنْ یَّسْقِیَ مَاءَ ہٗ زَرْعَ غَیْرِہٖ الخ) [ رواہ أبوداوٗد : کتاب النکاح، باب فی وطء السبایا] ” حضرت رویفع بن ثابت (رض) بیان کرتے ہیں کہ فتح حنین کے موقعہ پر میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ تھا۔ آپ نے خطبہ دیتے ہوئے فرمایا : اللہ تعالیٰ اور آخرت پر ایمان رکھنے والے کے لیے یہ بات حلال اور جائز نہیں کہ وہ اپنے پانی سے کسی اور کی کھیتی سیراب کرتا پھرے۔“ (عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ (رض) قَالَ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَقُوْلُ مَنِ ادَّعٰی إِلٰی غَیْرِ أَبِیْہِ أَوِ انْتَمیٰ إِلٰی غَیْرِ مَوَالِیْہِ فَعَلَیْہِ لَعْنَۃُ اللّٰہِ الْمُتَتَابِعَۃُ إِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ) [ رواہ أبوداوٗد : کتاب الأدب، باب فی الرجل ینتمی الخ] ” حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا آپ فرماتے تھے جس نے اپنے باپ کے علاوہ کسی اور کے باپ کو اپنا باپ بنانے کا دعو ٰی کیا یا کسی نے اپنے آقا کے علاوہ کسی اور کے آقا کی طرف اپنے آپ کو منسوب کیا تو اس پر قیامت کے دن تک لگا تار ” اللہ“ کی لعنت ہوتی رہے گی۔“ مسائل ١۔ مطلقہ عورت کی عدّت تین حیض ہے۔ ٢۔ مطلقہ عورت کو اپنے رحم کی حالت نہیں چھپانا چاہیے۔ ٣۔ طلاق رجعی کی عدّت گزرنے کے بعد پہلا خاوندنکاح کرنے کا زیادہ حق دارہے۔ ٤۔ میاں بیوی کے ایک دوسرے پر حقوق ہیں۔ ٥۔ خاوندوں کا بیویوں پر درجہ بلند ہے۔ ٦۔ اللہ تعالیٰ غالب حکمت والا ہے۔ تفسیربالقرآن عدّت کے مسائل : ١۔ مطلقہ کی عدّت تین حیض ہے۔ (البقرۃ : ٢٢٨) ٢۔ حیض نہ آنے کی صورت میں عدّت تین ماہ ہے۔ (الطلاق : ٤، ٥) ٣۔ بیوہ کی عدت چار ماہ دس دن ہے۔ (البقرۃ : ٢٣٤) ٤۔ حاملہ کی عدّت وضع حمل ہے۔ (الطلاق : ٤) ٥۔ عدّت کے دن گننے چاہئیں۔ (الطلاق : ١) ٦۔ عورت شوہر کے گھر عدّت گزارسکتی ہے۔ (الطلاق : ١) ٧۔ خاوند کے ہاتھ لگائے بغیر طلاق دینے کی صورت میں عدّت نہیں۔ (الاحزا ب : ٤٩) ٨۔ عدّت والی حاملہ ہو تو بچہ جنم دینے تک مکان اور نفقہ کی حق دار ہے۔ (الطلاق : ٦) ٩۔ عدّت والی حمل نہ چھپائے۔ (البقرۃ: ٢٢٨) ١٠۔ عدّت میں منگنی کا اشارہ کرنے میں گناہ نہیں۔ (البقرۃ : ٢٣٥) ١١۔ دورانِ عدّت نکاح جائز نہیں۔ (البقرۃ: ٢٣٥) البقرة
229 فہم القرآن ربط کلام : گزشتہ سے پیوستہ۔ عربوں نے عورت کے لیے طلاق کو کنددھار آلہ بنا لیا تھا۔ ایک آدمی اپنی بیوی کو طلاق دیتا جب اس کی عدّت ختم ہونے کے قریب آتی تو وہ اس سے رجوع کرلیتا تھا۔ اس طرح باربار طلاق دیتا اور رجوع کرتا یہاں تک کہ اس کو اسی حالت پر رہنے دیتا۔ اس حالت میں نہ وہ بیوی کے طور پر گھر میں زندگی بسر کرتی اور نہ ہی اس کی جان چھوٹتی۔ انہی خیالات کے تحت ایک انصاری صحابی (رض) نے ایک دن اپنی بیوی سے کہا کہ میں تمہیں ایسی سزادوں گا جس سے چھٹکارا پانا تیرے بس کا روگ نہیں ہوگا۔ اس نے عرض کیا کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے ؟ انصاری نے کہا کہ میں ہر طلاق کے بعد عدّت گزرنے سے پہلے رجوع کرتا رہوں گا تاکہ تو اسی کش مکش میں مبتلا رہے۔ یہ سزا سن کربیچاری کانپ اٹھی اور موقع پاتے ہی رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے گھر پہنچی۔ آپ گھر میں موجود نہ تھے حضرت عائشہ (رض) سے عرض کیا کہ میرے ساتھ یہ ظلم ہونے والا ہے۔ مجھے ان حالات میں کیا کرنا چاہیے۔[ رواہ الترمذی : ابواب الطلاق واللعان، باب ماجاء فی طلاق المعتوہ] اس صورت حال پر رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پروحی نازل ہوئی کہ آج کے بعد مرد کو صرف دو رجعی طلاقیں دینے کا حق ہوگا۔ اگر وہ اس دوران رجوع کرتا ہے تو ٹھیک ورنہ تیسری طلاق کے بعد نکاح ختم ہوجائے گا اور مردوں کے لیے یہ بھی جائز نہیں کہ جو کچھ انہوں نے اپنی بیویوں کو بھلے وقت میں دیا ہے وہ ان سے واپسی کا مطالبہ کریں۔ اگر دونوں اس بات کا خطرہ محسوس کریں کہ ہم اللہ تعالیٰ کی مقرر کردہ اخلاقی حدود کا احترام نہیں کرسکیں گے۔ ایسی صورت میں عورت حق مہر واپس کرے یا مزید کوئی چیز دے کر طلاق حاصل کرلے۔ اس لین دین میں دونوں پر کوئی گناہ نہیں ہوگا۔ یہ اللہ تعالیٰ کی مقرر کردہ حدود ہیں جن میں کسی صورت بھی تجاوز نہیں ہونا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ اپنی متعین کردہ حدود کو اس لیے واضح فرماتا ہے کہ تم احترام کرو اور ان کا حدود اربعہ سمجھ جاؤ۔ اسلام کے نظام معاشرت اور عائلی قوانین میں اس قدر توازن برقرار رکھا گیا ہے کہ باوجود اس کے کہ مرد مرتبے اور اختیارات کے لحاظ سے عورتوں پر ناظم اور نگران بنائے گئے ہیں لیکن مرد کو اس طرح کے اندھا دھند اختیارات نہیں دیے گئے کہ وہ آزاد اور محصنات عورتوں کو لونڈیاں بناڈالے۔ بلکہ اس حکم خدا وندی میں عورت کو بھی ایک درجہ اختیار دیا گیا ہے کہ اگر وہ غیر جذباتی انداز اور پوری سوچ وبچار کے بعد اس فیصلے پر پہنچتی ہے کہ میرا اس خاوند کے ہاں اب رہنا مشکل ہوگیا ہے تو اس صورت حال میں عورت کو طلاق لینے کا حق دیا گیا ہے جسے شریعت کی زبان میں خلع کہا جاتا ہے۔ خلع کا مطلب ہے کہ عورت طلاق لینا چاہتی ہے تو خاوند کے مطالبہ پر اسے اس کی کچھ نہ کچھ قیمت ادا کرنا پڑے گی۔ یہ قدغن اس لیے لگائی گئی کہ عورت جذباتی اور مرد کے مقابلے میں معاشرتی حالات کو پوری طرح نہیں جانتی تاکہ وہ خلع حاصل کرنے کے لیے اچھی طرح غوروخوض کرلے۔ ایساہی واقعہ رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں پیش ہوا کہ ثابت بن قیس (رض) کی بیوی نے آپ کی خدمت میں عرض کیا (یَارَسُوْلَ اللّٰہِ ! ثَابِتُ بْنُ قَیْسٍ مَا أَعْتِبُ عَلَیْہِ فِیْ خُلُقٍ وَلَا دِیْنٍ وَلٰکِنِّیْ أَکْرَہُ الْکُفْرَ فِی الْإِسْلَامِ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) أَتَرُدِّیْنَ عَلَیْہِ حَدِیْقَتَہٗ قَالَتْ نَعَمْ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) إِقْبَلِ الْحَدِیْقَۃَوَطَلِّقْھَا تَطْلِیْقَۃً) [ رواہ البخاری : کتاب الطلاق، باب الخلع وکیف الطلاق فیہ] ” اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! میں ثابت بن قیس کے دین اور اخلاق میں کوئی نقص محسوس نہیں کرتی لیکن اسلام میں کفر کو ناپسند کرتی ہوں۔ آپ نے پوچھا کیا تو اس کا باغ اسے واپس لوٹا دے گی۔ اس نے اثبات میں جواب دیا تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ ثابت باغ قبول کرو اور اسے طلاق دے دو۔“ لیکن اس کے باوجود عورتوں کو یہ مسئلہ بھی ذہن میں رکھنا چاہیے کہ جو عورت بغیر کسی عذرکے خلع مانگتی ہے اس پر جنت کی خوشبو حرام ہوگی۔[ رواہ أبود اوٗد : کتاب الطلاق، باب ماجاء فی المختلعات] مسائل ١۔ طلاق رجعی دو مرتبہ ہے۔ ٢۔ بیوی کو دئیے ہوئے تحائف واپس نہیں لینے چاہییں۔ ٣۔ عورت خاوند کے مطالبہ پر کچھ نہ کچھ دے کر خلع حاصل کرسکتی ہے۔ ٤۔ اللہ کی حدود میں تجاوز نہیں کرنا چاہیے۔ ٥۔ اللہ کی حدود کو پامال کرنے والے ظالم ہیں۔ البقرة
230 فہم القرآن ربط کلام : گزشتہ سے پیوستہ۔ اگر میاں بیوی کے درمیان اکٹھا رہنے کی کوئی شکل باقی نہ رہے اور عورت کو تیسری بار طلاق بھی دے دی جائے تو پھر وہ آپس میں رجوع نہیں کرسکتے کیونکہ ایسی طلاق کو طلاق مغلظہ کہتے ہیں۔ اب ان کامیاں بیوی بن کر رہنے کا کوئی جواز باقی نہیں رہا۔ سوائے اس کے کہ یہ عورت کسی دوسرے کے ساتھ نکاح کرے اور اس نکاح میں یہ شرط ہرگز نہیں ہونا چاہیے کہ میں اتنی مدت کے بعد تجھ سے طلاق حاصل کروں گی یا اس کا بننے والا خاوند اس ارادے کے ساتھ نکاح کرے کہ میں مجامعت کرنے کے بعد اسے طلاق دے دوں گا۔ ایسے ملاپ اور نکاح کو حدیث میں حلالہ کہا گیا ہے اور حلالہ کرنے اور کروانے والے پر رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لعنت کی ہے۔ [ رواہ أبوداوٗد : کتاب النکاح، باب فی التحلیل] اس طرح کا نکاح زنا کے زمرے میں آتا ہے اور اس انداز سے دی ہوئی طلاق پہلے خاوند کے ساتھ نکاح کرنے کا جواز پید انہیں کرسکتی۔ قرآن مجید کے نقطۂ نگاہ سے تین طلاقیں ہوجانے کے بعد پہلے خاوند سے نکاح اس صورت میں جائز ہوگا جب یہ خاوند کسی جبر اور پیشگی طے شدہ بات یا نیت کے بغیر صرف باہمی نباہ نہ ہونے کی صورت میں طلاق دے پھر اس عورت کا پہلے خاوند کے ساتھ اس شر ط کے ساتھ نکاح ہوسکتا ہے کہ یہ دونوں خلوص نیت کے ساتھ یہ عہد کریں کہ آئندہ وہ اللہ تعالیٰ کی متعین کردہ حدود کا پوری طرح احترام کریں گے۔ اللہ تعالیٰ اپنی حدود کو اس لیے واضح اور کھول کر بیان کرتا ہے تاکہ لوگ ان کا احترام کریں۔ مسائل ١۔ طلاق مغلظہ کے بعد نکاح نہیں ہوسکتا۔ ٢۔ دوسرا خاوند بلا شرط نکاح اور طلاق دے تو پہلے خاوند سے نکاح ہوسکتا ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ اپنی حدود اس لیے بیان کرتا ہے تاکہ لوگ سمجھ جائیں اور ان کا احترام کریں۔ البقرة
231 فہم القرآن ربط کلام : گزشتہ سے پیوستہ۔ بیوی کو طلاق دینا جائز قرار دینے کے باوجود اسلام میں اس قدر مشکل بنا دیا گیا ہے کہ آدمی طلاق دینے سے پہلے بار بار اس پر غور اور اس کے مضرات سمجھنے کی کوشش کرے۔ کیونکہ شریعت کا نقطۂ نگاہ یہ ہے کہ جس حد تک ممکن ہو میاں بیوی کے درمیان یہ بابرکت اور پاکیزہ بندھن ٹوٹنا نہیں چاہیے۔ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرمایا کرتے تھے : ( أَ بْغَضُ الْحَلَالِ إِلَی اللّٰہِ الطَّلَاقُ) [ رواہ أبو داوٗد : کتاب الطلاق‘ باب فی کراھیۃ الطلاق] ” اللہ تعالیٰ کے ہاں طلاق جائز ہونے کے باوجود ناپسندیدہ عمل ہے۔“ لہٰذا اگر میاں بیوی کے درمیان ناچاقی اور نااتفاقی کا ماحول پیدا ہوجائے تو اس خلیج کو پاٹنے اور غلط فہمیوں کو دور کرنے کے لیے یکے بعد دیگرے کئی اقدامات تجویز کیے گئے ہیں۔ ان پر عمل کیے بغیر کوئی طلاق دیتا ہے تو اللہ تعالیٰ کے نزدیک ایک طرح کا مجرم تصور ہوگا۔ کیونکہ عام تعلقات اور رشتہ داریوں کے بارے میں ارشاد ہے کہ جس نے رشتہ داری اور صلہ رحمی کو منقطع کیا تو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس کو اپنے رشتۂ رحمت سے کاٹ دے گا۔ [ رواہ البخاری : کتاب الادب، باب من وصل وصلہ اللّٰہ] شریعت نے طلاق سے پہلے جو اقدامات تجویز فرمائے ہیں وہ مرحلہ وار ایک طویل سلسلہ ہے جس کا اختصار پیش کیا جاتا ہے۔ بیوی کو مسلسل نصیحت کرنا۔ بیوی کی عادت پسند نہیں تو پھر بھی گزارا کرنا۔ بستر الگ کردینا۔ ہلکی پھلکی سزا دینا۔ فریقین کے خاندان میں سے دو ثالث مقرر کرنا۔ طلاق طہر کی حالت میں دینا۔ مطلقہ اپنے خاوند کے گھر میں عدّت گزارنے کی مجاز ہے۔ حاملہ ہونے کی صورت میں وضع حمل تک اپنے خاوند کے گھر رہنے کا اسے حق دینا ہے۔ اس صورت میں وضع حمل تک خاوند اپنی بیوی کے نان ونفقہ اور دیگر ضروریات کا ذمہ دار ہوگا۔ طلاق رجعی کی صورت میں رجوع کرنے کا حق رکھتا ہے۔ تاکہ نباہ کی کوئی نہ کوئی شکل پیدا ہوجائے اور انہیں بار بار سمجھنے‘ سوچنے اور حالات کو نارمل کرنے کا موقع میسر آئے یہ سب کے سب اقدامات اگر بے نتیجہ ثابت ہوتے ہیں تو پھر حکم ہے کہ اچھے طریقے کے ساتھ اسے الوداع کیا جائے اور خاوند کے لیے حکم ہے کہ وہ عورت کو تکلیف دینے کے لیے عورت کے آگے نکاح کرنے میں کسی قسم کی منفی حرکت اور رکاوٹ پیدا نہ کرے۔ جس نے ایسا کیا حقیقتاً وہ اپنے آپ پر ظلم کرے گا۔ ظاہر ہے کوئی عقل مند اپنے آپ پر ظلم نہیں کیا کرتا اپنے آپ پر ظلم کا معنیٰ ہے دنیا میں اس کی عزت میں فرق آئے گا اور قیامت کے دن پکڑ ہوگی اس ظلم سے باز رکھنے کے لیے مختلف انداز سے چار دفعہ سمجھایا گیا ہے۔ جب کہ پچھلی آیات میں میاں بیوی کے درمیان اخلاقی قدروں اور ازدواجی بندھن کو حدود اللہ قراردیا گیا ہے۔ یہاں انتباہ کیا کہ اللہ تعالیٰ کے احکامات کو مذاق سمجھنے کی جرأت نہ کرنا۔ اس نے جو تمہیں باہم رہنے کے اصول اور تنازعات ختم کرنے کے ضابطے اور اکٹھا رہنے کے بار بار مواقع فراہم کیے ہیں۔ یہ سراسر اس کی طرف سے انعامات ہیں۔ اللہ تعالیٰ کسی قوم کو اپنی کتاب اور پر حکمت احکام اس لیے عطا فرماتا ہے کہ وہ ان سے استفادہ اور نصیحت حاصل کرے۔ پھر انتباہ کرتے ہوئے اپنی ذات سے ڈرایا کہ اللہ تعالیٰ سے ڈر کر رہنا سیکھو اور جانو کہ اللہ تعالیٰ تمہاری گھریلو اور پبلک زندگی کی ہر ہر حرکت سے واقف ہے۔ مسائل ١۔ عدّت کے دوران عورت کو اچھے انداز سے رکھنا یا اچھے انداز سے فارغ کرنا چاہیے۔ ٢۔ عورت کو کسی دوسرے کے ساتھ نکاح کرنے سے روکنا اپنے آپ پر ظلم کرنا ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ کے احکامات کو مذاق نہیں بنانا چاہیے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ کے انعامات کو یاد رکھنا چاہیے۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ نے کتاب و حکمت اس لیے نازل فرمائے کہ لوگ نصیحت حاصل کریں۔ ٦۔ ہر دم اللہ تعالیٰ سے ڈرنا چاہیے کیونکہ وہ ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے البقرة
232 فہم القرآن ربط کلام : گزشتہ سے پیوستہ۔ اس سے پہلے طلاق رجعی کا بیان جاری ہے کہ جس عورت کو طلاق رجعی دی جائے اور وہ اپنی عدت گزارلے تو کسی دوسرے کے ساتھ نکاح کرنے میں سابقہ خاوند رکاوٹ نہ بنے۔ یہاں اس بات کی بھی وضاحت کی گئی ہے کہ طلاق رجعی کی صورت میں اگر مطلقہ عورت کی عدت گزرجائے اب میاں بیوی آپس میں اچھے انداز میں رہنے کا عزم کرتے ہوئے دوبارہ نکاح کرنا چاہیں تو ولی کو بھی اس نکاح میں رکاوٹ نہیں بننا چاہیے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایسے شخص کے لیے نصیحت ہے جو حقیقتاً دل کی گہرائیوں سے اللہ اور آخرت پر یقین رکھتا ہے۔ فرمایا یہی صورت تمہارے لیے مناسب اور بہتر ہے۔ کیونکہ انہوں نے ایک دوسرے کو دیکھا بھالا ہوا ہے اور وہ ایک عرصہ اکٹھے رہے ہیں اور اولاد ہونے کی صورت میں تو نہایت ہی مستحسن فیصلہ ہوگا۔ خاص کر جب انہوں نے ماضی کی تلافی اور آئندہ اچھے انداز سے رہنے کا عہد کرلیا ہو تو یہ اس سے کہیں بہتر ہے کہ کوئی دوسرا راستہ تلاش کیا جائے۔ اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے جب کہ لوگوں کو حالات کا کماحقہ علم نہیں ہوتا۔ لہٰذا ایسی عورتوں کو اپنے خاوندوں کے ساتھ نکاح کرنے سے ہرگز نہیں روکنا چاہیے۔ جیسا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے میں اس قسم کا واقعہ پیش آیا : (عَنْ مَعْقِلِ بْنِ یَسَارٍ (رض) أَنَّہٗ زَوَّجَ أُخْتَہٗ رَجُلًا مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ عَلٰی عَھْدِ رَسُوْلِ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَکَانَتْ عِنْدَہٗ مَاکَانَتْ ثُمَّ طَلَّقَھَا تَطْلِیْقَۃًلَمْ یُرَاجِعْھَا حَتَّی انْقَضَّتِ الْعِدَّۃُ فَھَوِیَھَا وَھَوِیَتْہُ ثُمَّ خَطَبَھَا مََعَ الْخُطَّابِ فَقَالَ لَہٗ یَا لُکَعْ أَکْرَمْتُکَ بِھَا وَزَوَّجْتُکَھَا فَطَلَّقْتَھَا وَاللّٰہِ لَاتُرَاجِعُ إِلَیْکَ أَبَدًا آخِرُ مَا عَلَیْکَ قَالَ فَعَلِمَ اللّٰہُ حَاجَتَہٗ إِلَیْھَا وَحَاجَتَھَا إِلٰی بَعْلِھَا فَأَنْزَلَ اللّٰہُ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی (وَإِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَبَلَغْنَ أَجَلَھُنَّ) إِلٰی قَوْلِہٖ (وَأَنْتُمْ لَاتَعْلَمُوْنَ) فَلَمَّا سَمِعَھَا مَعْقِلٌ قَالَ سَمْعًا لِّرَبِّیْ وَطَاعَۃً ثُمَّ دَعَاہُ فَقَالَ أُزَوِّجُکَ وَأُکْرِمُکَ) [ رواہ الترمذی : کتاب التفسیر، باب ومن سورۃ البقرۃ] ” حضرت معقل بن یسار (رض) نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دور میں مسلمانوں کے ایک آدمی سے اپنی بہن کی شادی کردی وہ اس کے پاس کچھ عرصہ رہی پھر اس کے خاوندنے اسے ایک طلاق دی اور عدت بھی گزر گئی لیکن رجوع نہ کیا۔ پھر میاں بیوی ایک دوسرے کو چاہنے لگے اس آدمی نے نکاح کے لیے آدمی بھیجا تو معقل بن یسار (رض) نے کہا‘ کمینے! میں نے تیری عزت کرتے ہوئے اس کے ساتھ شادی کی اور تو نے اسے طلاق دے دی اللہ کی قسم! اب کبھی بھی یہ تیرے پاس نہیں لوٹے گی یہ آخری باری تھی۔ اللہ تعالیٰ نے دونوں میاں بیوی کی خواہش کے پیش نظر یہ آیت نازل فرمائی (وَإِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَآءَ فَبَلَغْنَ أَجَلَھُنَّ) جب معقل بن یسار (رض) نے یہ آیت سنی تو فرمایا کہ میں نے اپنے رب کی بات کو سنا اور مان لیا۔ پھر انہوں نے اس آدمی کو بلایا اور کہا میں تیرا نکاح بھی کرتا ہوں اور عزت بھی۔“ تاہم عقد ثانی کی صورت میں اگر عورت چاہے تو وہ نیا حق مہر اور شرائط مقرر کرسکتی ہے کیونکہ پہلا نکاح ختم ہوجانے کی وجہ سے دوسرے نکاح کی ضرورت پیش آتی ہے۔ مسائل ١۔ عدّت پوری ہونے کے بعد عورتیں اپنے خاوندوں سے نکاح کرنا چاہیں تو انھیں روکنا نہیں چاہیے۔ ٢۔ نصیحت اس شخص پر اثر انداز ہوتی ہے جو اللہ اور آخرت پر یقین رکھتا ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ سب کچھ جانتا ہے جبکہ لوگ بہت کمعلم رکھتے ہیں۔ تفسیربالقرآن اللہ سب کچھ جانتا ہے۔ ١۔ اللہ دلوں کے راز جانتا ہے۔ (ہود : ٥) ٢۔ جوا للہ جانتا ہے تم نہیں جانتے۔ (البقرہ : ٢١٦) ٣۔ اللہ کا علم فرشتے بھی نہیں جانتے۔ (البقرہ : ٣٠) ٤۔ ہر گرنے والا پتا اللہ کے علم میں ہوتا ہے۔ (الانعام : ٥٩) ٥۔ اللہ آنکھوں کی خیانت کو جانتا ہے۔ (المومن : ١٩) ٦۔ اللہ خشکی اور تری کی پوشیدہ چیزوں سے واقف ہے۔ (الانعام : ٥٩) البقرة
233 فہم القرآن ربط کلام : گزشتہ سے پیوستہ۔ طلاق ہونے کی صورت میں ماں کی گود میں نو نہال اور معصوم بچہ ہو تو اس کا کون محافظ اور نگران ہونا چاہیے؟ بالخصوص جب کہ بچہ کھانا کھانے اور اپنے ہاتھ سے پانی پینے کے قابل نہ ہو۔ رب کریم نے اس نونہال کی پرورش اور نگرانی کا ایسا انتظام فرمایا کہ جس میں ماں کو بچے کی وجہ سے تکلیف نہیں ہونا چاہیے اور نہ ہی باپ کو تنگ کرنے کے لیے ماں بچے کا بہانہ بنائے بلکہ باہمی مشاورت کے ساتھ بچے کی رضاعت اور حفاظت کا معاملہ طے ہونا چاہیے۔ اس میں ایک حکمت یہ بھی ہے کہ طلاق ہونے کے باوجود سابقہ میاں بیوی اور دونوں کے خاندانوں کے درمیان دشمنی کے بجائے ممکن حد تک قربت باقی رہنے کا امکان رہے گا۔ لہٰذا باہم رضامندی کے ساتھ ماں اپنے بچے کو مکمل دو سال دودھ پلائے اور اس دوران بچے اور اس کی والدہ کے کھانے پینے اور رہنے سہنے کے اخراجات بچے کے والد کے ذمّہ ہوں گے۔ والد کے فوت ہوجانے پر یہ ذمّہ داری وارث نبھائیں گے۔ کفالت کے سلسلے میں بھی اس اصول کو پیش نظر رکھا جائے کہ جس سے ایک دوسرے کو تکلیف پہنچانے کے بجائے خاوندعورت کی ضروریات کا خیال رکھے اور بچے کی ماں اپنے سابقہ خاوند کی مالی حیثیت کو سامنے رکھ کر اخراجات کا تقاضا کرے۔ پھر تیسری گنجائش یہ بھی رکھ دی گئی ہے کہ اگر بچے کا والد کسی وجہ سے اس کی ماں کا دودھ نہیں پلوانا چاہتا یا عورت کسی مجبوری یا آئندہ نکاح کے پیش نظر اپنے لخت جگر کو دودھ پلانے سے عاجز ہے تو ایسی صورت میں کسی دایہ کے ہاں بچے کی رضاعت کا انتظام کیا جاسکتا ہے۔ بشرطیکہ دودھ پلانے والی کو اچھے انداز میں اس کا حق الخدمت ادا کیا جائے۔ یہاں اس مسئلہ کی وضاحت بھی فرمادی گئی کہ ماں اپنے بچے کو دوسال دودھ پلائے گی اور رضاعت کی مدت دو سال ہوگی۔ اس سے رضاعت کی اہمیت بھی اجاگر ہوتی ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے کہ میں نے معراج کی رات دیکھا کہ کچھ عورتوں کے پستانوں سے سانپ چمٹے ہوئے ہیں۔ میرے پوچھنے پر بتلایا گیا کہ یہ وہ مائیں ہیں جو بلاوجہ اپنے بچوں کو دودھ نہیں پلاتی تھیں۔ [ سلسلۃ الصحیحۃ: للألبانی :3951] الحمد للہ جدید میڈیکل سائنس نے ثابت کردیا ہے کہ جو مائیں اپنے بچوں کو دودھ پلاتی ہیں وہ سینے کے کینسر سے محفوظ رہتی ہیں۔ آج اس کے لیے سالانہ واک کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ کچھ لوگوں نے رضاعت کی مدت سورۃ الاحقاف کی آیت ١٥ سے استدلال کرتے ہوئے اڑھائی سال بتلائی ہے اس استدلال کا کوئی ٹھوس ثبوت نہیں ملتا۔ قرآن مجید کا اسلوب ہے کہ وہ ہر اہم مسئلہ کے بعد اللہ تعالیٰ کا خوف اور لوگوں کو اس بات کا احساس دلاتا ہے کہ جو کچھ تم کرتے ہو اللہ تعالیٰ سے ڈر کر کیا کرو۔ کیونکہ وہ تمہاری ہر حرکت کو جاننے اور دیکھنے والا ہے۔ یہ تصور یہاں اس لیے دہرایا اور تازہ کیا گیا ہے کہ معصوم بچے اور اس کی مطلقہ ماں کے بارے میں وہی اچھا سلوک کرے گا جو اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والا ہے۔ مسئلہ رضاعت رضاعت کی مدت دوسال ہے۔ (وَالْوَالِدَاتُ یُرْضِعْنَ أَوْلَادَھُنَّ حَوْلَیْنِ کَامِلَیْنِ لِمَنْ أَرَادَ أَنْ یُّتِمَّ الرَّضَاعَۃَ) [ البقرۃ: ٢٣٣] ” مائیں اپنے بچوں کو پورے دوسال دودھ پلائیں۔ یہ مدت مکمل دودھ پلانے کا ارادہ رکھنے والوں کے لیے ہے۔“ ان سالوں میں بچہ جس عورت کا دودھ پیے گا وہ اس کی رضاعی ماں کہلائے گی اور جتنے رشتے حقیقی ماں کی وجہ سے اس پر حرام تھے اتنے ہی رضاعی ماں کی وجہ سے حرام ہوں گے۔ رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے : (یَحْرُ مُ مِنَ الرَّضَاعِ مَایَحْرُمُ مِنَ النَّسَبِ) [ رواہ البخاری : کتاب الشھادات، باب الشھادۃ علی الأنساب] ” جو رشتے نسب کی وجہ سے حرام ہیں وہ رضاعت کے سبب بھی حرام ہوجاتے ہیں۔“ پردہ کی آیات کے نزول کے بعد حضرت عائشہ (رض) کے پاس افلحابو القعیس کا بھائی آیا تو حضرت عائشہ (رض) نے قسم اٹھا کر کہا کہ جب تک میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نہ پوچھ لوں تب تک میں تجھے اپنے ہاں آنے کی اجازت نہیں دے سکتی۔ حضرت عائشہ (رض) نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ بھی سوال کیا کہ مجھے تو ابو القعیس کی بیوی نے دودھ پلایا ہے نہ کہ ابو القعیس کے بھائی نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : (إِءْذِنِیْ لَہٗ فَإِنَّہٗ عَمُّکِ تَرِبَتْ یَمِیْنُکِ) [ رواہ البخاری : کتاب الأدب] ” تیرے ہاتھ خاک آلودہ ہوں ! اسے اجازت دے کیونکہ وہ تیرا چچا ہے۔“ ہاتھ آلودہ ہونا عرب کا محاورہ تھا جو تعجب دلانے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔ رضاعت کب تک ثابت ہوسکتی ہے؟ اس مسئلہ میں صحابہ (رض) کی غالب اکثریت کا فیصلہ ہے کہ رضاعت اتنی مدّت کے دوران ہی ثابت ہوگی جتنی دیر تک بچے کو دودھ پلانے کی اجازت ہے۔ اور وہ قرآن مجید کے مطابق دوسال ہے :[ البقرۃ: ٢٣٣] نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے : (لَا یُحَرِّمُ مِنَ الرَّضَاعَۃِ إِلَّا مَافَتَقَ الْأَمْعَاءَ فِی الثَّدْیِ وَکَانَ قَبْلَ الْفِطَامِ) [ رواہ الترمذی : کتاب الرضاع، باب ماجاء ماذکرأن الرضاعۃ لاتحرم إلا فی الصغر ] ” رضاعت اس وقت ثابت ہوگی جب دودھ سے انتڑیاں سیر ہوجائیں اور یہ رضاعت دودھ چھڑانے کی مدت کے دوران ہے۔“ (بچہ پانچ بار خوب سیر ہو کر دودھ پیئے تب رضاعت ثابت ہوگی کیونکہ حدیث میں پانچ بار کی شرط ہے ) مسائل ١۔ مائیں اپنی اولاد کو پورے دو سال دودھ پلائیں۔ ٢۔ دودھ پلانے کے دوران ماں اور بچے کے اخراجات خاوند کے ذمہ ہوں گے۔ ٣۔ بچے کے بہانے میاں بیوی ایک دوسرے کو اذیت نہ پہنچائیں۔ ٤۔ باپ کے فوت ہونے کی صورت میں اس کے وارث بیوہ اور اس کے بچے کی کفالت کے ذمہ دار ہوں گے۔ ٥۔ میاں بیوی یا وارث باہمی رضامندی سے بچے کو دودھ دوسری عورت سے پلوانا چاہیں تو کوئی حرج نہیں۔ ٦۔ دایہ کو اس کا حق ہر صورت ادا کرنا چاہیے۔ ٧۔ اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہنا چاہیے کیونکہ وہ سب کے اعمال دیکھ رہا ہے۔ تفسیر بالقرآن رضاعت کے اصول : ١۔ مدت رضاعت دو برس ہے۔ (البقرۃ: ٢٣٣) ٢۔ دودھ پلانے والی کا نان ونفقہ اور کپڑے بچے کے والد کے ذمّے ہیں۔ (البقرۃ: ٢٣٣) ٣۔ دودھ پلانے میں کسی کو تکلیف نہ دی جائے۔ (البقرۃ: ٢٣٣) ٤۔ رضامندی سے بچے کی ماں کا دودھ چھڑانا گناہ نہیں۔ (البقرۃ: ٢٣٣) ٥۔ دودھ پلانے کے دوران مطلقہ کو اخراجات دینے چاہییں۔ (الطلاق : ٦) البقرة
234 فہم القرآن ربط کلام : گزشتہ سے پیوستہ۔ یہاں ازدواجی اور معاشرتی مسائل کے تذکرہ میں ایک اور اہم مسئلہ کی طرف توجہ دلائی جارہی ہے۔ جن عورتوں کے خاوندفوت ہوجائیں انہیں چار مہینے دس دن اسی گھر میں رہنا اور عدّت گزارنی چاہیے۔ جب وہ اپنی عدّت گزار لے تو اسے اپنے مستقبل کے بارے میں شریفانہ انداز میں فیصلہ کرنے کا حق دینا چاہیے۔ پھر خبردار فرمایا کہ بیوہ، اس کے لواحقین اور سب لوگوں کے اعمال سے اللہ تعالیٰ بہت اچھی طرح باخبر ہے۔ لہٰذا ہر کسی کو پوری ہوش مندی کے ساتھ اپنی ذمہ داری پوری کرنا چاہیے۔ بیوی کی چار مہینے دس دن عدت کے بارے میں اہل علم کے مختلف موقف ہیں۔ ایک جماعت کا کہنا ہے کہ یہ عدّت اس لیے مقرر کی گئی ہے تاکہ اچھی طرح معلوم ہوسکے کہ بیوہ صاحب امید ہے یا کہ خالی الرحم اور دوسروں کا خیال ہے کہ چار مہینے دس دن خاوند کی وفات پر اس کی بیوی افسوس کے طور پر گزارے گی جب کہ خاوند کے علاوہ کسی دوسرے کی وفات پر تین دن سے زیادہ سوگ کرنا شرعًا جائز نہیں۔ چار مہینے دس دن عدت ہر اس عورت کے لیے ہے چاہے فوت ہونے والے اس کے خاوند نے اس کے ساتھ مجامعت کی ہو یا نہ کی ہو‘ بوڑھی ہو یا جوان۔ البتہ حاملہ کی عدّت بچہ جنم دینے تک ہے۔ [ الطلاق : ٤] ایسی عورت اس کے بعد کسی دوسرے سے نکاح کرسکتی ہے بیوہ عدّت کے دوران زیب وزینت، بناؤ سنگھار نہیں کرسکتی اور نہ ہی بلا ضرورت گھر سے باہر جاسکتی ہے۔ البتہ مجبوری کی حالت میں گھر تبدیل کرنا اور ضرورت کے تحت کام کاج کرنے کی اجازت ہے۔ ” جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ میری خالہ کو طلاق دے دی گئی۔ اس نے اپنے باغ سے کھجوریں اتارنے کا ارادہ کیا تو ایک شخص نے اسے باہر نکلنے سے روک دیا۔ وہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئیں تو آپ نے فرمایا : اپنی کھجوریں اتارو ہوسکتا ہے کہ تم صدقہ کرو یا دوسرا نیکی کا کام کرو۔“ [ رواہ مسلم : کتاب الطلاق، باب جواز خروج المعتدۃ] مسائل ١۔ بیوہ کی عدّت چار مہینے دس دن ہے۔ ٢۔ عدت پوری ہونے کے بعد عورت اپنے بارے میں فیصلہ کرسکتی ہے۔ البقرة
235 فہم القرآن ربط کلام : عورتوں کے مسائل جاری ہیں۔ بیوہ عورت اپنے خاوندکی وفات کے بعد چار مہینے دس دن کی عدت گزارے گی بشرطیکہ وہ حاملہ نہ ہو۔ حاملہ ہونے کی صورت میں اس کی عدت بچہ پیدا ہونے تک ہوگی۔ اس عدت کے دوران اس کے ساتھ نکاح کرنے کا خواہش مند شخص کسی ایسے طریقے اور انداز سے اسے اپنے ارادے سے آگاہ نہیں کرسکتا جس سے نکاح کرنے کا کھلا اشارہ پایا جائے البتہ کنایہ کی زبان استعمال کرسکتا ہے۔ یہ شرط عورت کی پریشان حالی کی وجہ سے عائد کی گئی ہے کیونکہ عدّت اور صدمے کے ایّام میں اس کے ساتھ نکاح کی واضح بات کرنا ہمدردی کے بجائے اس کی افسردگی میں اضافہ اور دکھے ہوئے دل پر نمک پاشی کرنے کے مترادف ہے۔ شاید ہی کوئی بیوہ ہو جس کے لیے اس کے خاوند کا فوت ہونا معمولی بات ہو ورنہ خاوند کے اٹھ جانے کے خیال سے ہی ایک شریف عورت جدائی اور تنہائی کے تصور سے کانپ جاتی ہے۔ اگر اس کے چھوٹے چھوٹے بچے اور مالی حالات بہتر نہ ہوں تو اس کی زندگی ویران اور مستقبل تاریک ہوجاتا ہے۔ بیوہ کی عدّت کے دوران نکاح کا واضح پیغام بھیجنا اخلاقی قدروں کے منافی ہے ایسی صورت میں دیکھنے اور سننے والا یہ سمجھے گا کہ شاید یہ اپنے خاوند کے مرنے کے انتظار میں تھی۔ ہاں اشارے، کنائے سے آگاہ کرنے کی اجازت دینا اپنے دامن میں کئی حکمتیں لیے ہوئے ہے۔ سب سے بڑی اور جامع حکمت اسی حکم میں بیان کی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں اشارے کی زبان استعمال کرنے کی اس لیے اجازت دی ہے کہ وہ جانتا ہے کہ نکاح کے خواہشمند لوگ ضرور کسی انداز میں اپنے جذبات کا اظہار کریں گے۔ اس اخلاقی جرم سے بچانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے از راہ کرم تمہیں کنایہ استعمال کرنے کی اجازت عطا فرمائی ہے تاہم یہ اشارات اس وقت تک نکاح کے عزم کے ترجمان نہیں ہونے چاہییں جب تک اللہ تعالیٰ کا مقرر کردہ ضابطہ اپنے وقت کو نہ پہنچ جائے یعنی عدت پوری نہ ہوجائے۔ عزم نکاح کے اظہار سے اس لیے بھی منع کیا گیا کہ کہیں عورت غم اور پریشانی کے عالم میں اپنے مستقبل کے بارے میں غلط فیصلہ نہ کربیٹھے۔ آخر میں ارشاد ہوتا ہے کہ لوگو! یہ بات یاد رکھنا کہ اللہ تعالیٰ تمہارے جذبات اور عزائم کو اچھی طرح جانتا ہے لہٰذا اس کی نافرمانیوں سے بچ کر رہنا اور یہ بھی یاد رکھو اللہ تعالیٰ سب کچھ جاننے کے باوجود معاف کرنے والا نہایت ہی برد بار ہے۔ عدّت کے مسائل (عَنْ أُمِّ عَطِیَّۃَ قَالَتْ کُنَّا نُنْھٰی أَنْ نُحِدَّ عَلٰی مَیِّتٍ فَوْقَ ثَلَاثٍ إِلَّا عَلٰی زَوْجٍ أَرْبَعَۃَ أَشْھُرٍ وَّعَشْرًا وَلَانَکْتَحِلَ وَلَا نَطَّیَّبَ وَلَا نَلْبَسَ ثَوْبًا مَصْبُوْغًا إِلَّا ثَوْبَ عَصْبٍ وَقَدْ رُخِّصَ لَنَا عِنْدَ الطُّھْرِ إِذَا اغْتَسَلَتْ إِحْدَانَا مِنْ مَحِیْضِھَا فِیْ نُبْذَۃٍ مِنْ کُسْتِ أَظْفَارٍ وَکُنَّا نُنْھٰی عَنِ اتِّبَاعِ الْجَنَآءِزِ) [ رواہ البخاری : کتاب الطلاق، باب القسط للحادۃ عند الطھر] ” حضرت ام عطیہ (رض) کہتی ہیں ہمیں منع کیا جاتا تھا کہ کسی میت پر تین دن سے زیادہ سوگ کریں سوائے شوہر کے۔ شوہر کے مرنے پر چار مہینے دس دن سوگ کریں اور عدت کے زمانے میں نہ سرمہ لگائیں نہ خوشبو لگائیں نہ رنگا ہوا کپڑا پہنیں سوائے اس کپڑے کے جو بننے سے پہلے رنگا گیا ہو۔ البتہ ہمیں اس بات کی اجازت تھی کہ جب ماہواری کے غسل کے بعد خوشبو کے پھنبے کو خون کی جگہ پر پھیر لیں۔ اور جنازے کے پیچھے جانے سے بھی روکا جاتا تھا۔“ ” رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں بیوہ عدّت کے دوران نہ زرد کپڑا پہنے نہ زیور پہنے اور نہ خضاب لگائے۔“ [ رواہ ابو داوٗد : کتاب الطلاق، باب فیما تجتنبہ المعتدۃ فی عدتھا] مسائل ١۔ بیوہ کو عدّت کے دوران نکاح کا پیغام بھیجنا منع ہے۔ ٢۔ عدّت کے دوران بیوہ کو نکاح کا اشارہ دیاجاسکتا ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ ہمارے دلوں کے حال سے واقف ہے۔ ٤۔ ہر حال میں اللہ تعالیٰ سے ڈرنا چاہیے۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ معاف کرنے والا نہایت ہی بردبار ہے۔ البقرة
236 فہم القرآن اب ایسے ہنگامی حالات اور واقعات کے بارے میں ہدایات دی جارہی ہیں جو اس دنیا میں پیش آ ہی جاتے ہیں۔ ان حالات کے کئی اسباب ہوا کرتے ہیں۔ نکاح کے وقت حق مہر پرجھگڑا، نکاح سے پہلے ایک دوسرے کو دی گئی معلومات کا غلط ثابت ہونا اور بعض دفعہ موقع پر اچانک کسی شریر کی شرارت اس قدر شر انگیز اور زوداثر ہوتی ہے کہ خوشی کے موقع پر جمع ہونے والے خاندان کے ذمہ دار افراد آپس میں لڑ کر جدا ہوجاتے ہیں۔ عام طور پر یہ واقعات اچانک رونما ہوتے ہیں جو فریقین کے لیے نہایت ہی خفت کا باعث اور خاص طور پر بیٹی والوں کے لیے ایسا معاملہ نہایت ہی دل خراش اور سبکی کا باعث ہوتا ہے۔ اس سارے ہنگامے میں سب سے زیادہ متاثر دلہن ہوتی ہے جس کا چند لمحوں بعد نکاح ہونے والا ہوتا ہے۔ لہٰذا نہایت ہی ضروری تھا کہ جس لڑکی کو اس کے خاوند نے چھوئے اور حق مہر مقرر کیے بغیر چھوڑ دیا ہے اس کی دل جوئی کا سامان اور اس کے مستقبل کو کئی قسم کے خدشات اور الزامات سے بچایا جائے۔ کیونکہ اس صورت حال سے اس کا مستقبل خدشات اور شبہات کے حوالے ہوچکا ہے۔ لہٰذا دلخراش اور ہنگامی صورت حال میں حکم دیا کہ صاحب حیثیت اپنے وسائل کے مطابق اور مالی لحاظ سے کمزور اپنی طاقت کے مطابق عورت کے ساتھ اچھا سلوک کریں۔ نیک لوگوں پر اس لیے لازم ہے کہ اس سے طرفین کی پریشانی میں کمی اور عورت کا مستقبل کافی حد تک غلط افواہوں اور الزامات سے محفوظ ہوگا اور دونوں خاندان مزید اختلافات سے بھی بچ جائیں گے۔ نکاح کے بعد یہ صورت بھی پیش آسکتی ہے کہ حق مہر مقرر ہوچکا ہو لیکن میاں بیوی کے باہم ازدواجی تعلقات قائم ہونے سے پہلے طلاق ہوجائے۔ جس کی کئی ہنگامی وجوہات ہوسکتی ہیں۔ جن میں ایک بڑی وجہ میاں بیوی کا ایک دوسرے کو ناپسند کرنا ہے۔ نعوذ باللہ یہ کوئی فرضی مسئلہ بیان نہیں کیا جارہا بلکہ غیرمسلم معاشروں کی طرح مسلمان معاشرے میں بھی اس قسم کے واقعات ایک حد تک رونما ہوتے رہتے ہیں۔ اسلام کی ہمہ جہت رہنمائی، شفقت اور جامعیت کا تصور ذہن میں لائیں کہ وہ زندگی کے تمام اہم شعبوں کی رہنمائی کے لیے کس قدر جامع اور تفصیلی ہدایات جاری کرتا ہے۔ مسلمان معاشرہ میں ہونے والے اس قسم کے ہنگامی واقعات کو مستقل دشمنی کا روپ دھارنے سے پہلے اس کا حل پیش کردیا گیا ہے تاکہ رشتہ داری اور اخوت کے مضبوط قلعہ میں واقعہ ہونے والی دراڑوں کو حتی المقدور پر کرنے کی سعی ہوسکے۔ حق مہر مقرر ہوجانے اور خاوند کا اپنی بیوی سے مجامعت کرنے سے پہلے طلاق دینا خاندانی نظام اور میاں بیوی کے لیے شدید دھچکا ہوا کرتا ہے۔ ایک حد تک اس کی تلافی کے لیے یہ اصول نافذ فرمایا کہ ایسی صورت میں بہتر ہوگا کہ عورت اپنا حق معاف کردے یا اس کا خاوند پورے کا پورا حق مہر دے دے۔ مردو! اگر تم معاف کرو تو یہ تقو ٰی کے زیادہ قریب ہے۔ یہاں تقو ٰی سے مراد باہمی بدگمانیوں اور آئندہ مزید اختلافات اور قلبی نفرتوں سے بچنا ہے۔ یہ تبھی ہوسکتا ہے کہ علیحدگی کے عمل کے دوران سابقہ تعلقات اور رشتہ داریوں کو پیش نظر رکھا جائے اس بات کا حکم دیتے ہوئے خبردار کیا گیا ہے کہ یاد رکھنا کہ اللہ تعالیٰ سب کے پوشیدہ اور ظاہر کردار کو دیکھنے والا ہے۔ اس سے تمہاری کوئی زیادتی اور حرکت پوشیدہ نہیں ہے۔ مسائل ١۔ غیر معمولی حالات میں بیوی کو چھوئے بغیر طلاق دی جاسکتی ہے۔ ٢۔ مرد کی طرف سے سارا حق مہر چھوڑ دینا تقو ٰی کی علامت ہے۔ ٣۔ طلاق کا معاملہ کرتے ہوئے سابقہ محبت کو نہیں بھولنا چاہیے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ ہر کسی کے عمل کو دیکھ رہا ہے۔ تفسیربالقرآن مطلقہ کے حقوق : ١۔ طلاق والی عورتوں کو مالی وسعت کے مطابق خرچ دینا ہوگا۔ (البقرۃ: ٢٣٦) ٢۔ طلاق یافتہ عورتوں کو خرچ دینامتقین پر لازم ہے۔ (البقرۃ: ٢٤١) البقرة
237 البقرة
238 فہم القرآن ربط کلام : ازواجی مسائل کے بیان کے دوران خصوصی نصیحت۔ سلسلۂ کلام منقطع فرما کر یہاں حفاظت نماز اور خاص کر درمیانی نماز کی حفاظت کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اسلام کے عملی نظام میں نماز ایسی پنجگانہ تربیت ہے کہ اگر کوئی شخص شریعت کی ہدایات کے مطابق نماز ادا کرے اور اس کے تقاضے سمجھنے کی طرف توجہ دے تو نمازی دین اور دنیا کی ذمہ داریوں کے حوالے سے ایک منفرد اور ذمہ دار شخصیت بن جاتا ہے۔ کیونکہ پانچ وقت اس بات کا آرزو مند ہوتا ہے کہ اس کے گناہ معاف کردیے جائیں اور قدم قدم پر اس کی رہنمائی کا اہتمام ہوجائے اور روز محشر اپنے رب کے حضور اس حالت میں پیش ہو کہ وہ اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونے والا بندہ شمار ہوسکے۔ گویا کہ مومن بظاہر تو دنیا میں زندگی بسر کر رہا ہے لیکن اعتقادی اور فکری طور پراپنے آپ کو میدان محشر میں اپنے رب کے حضور سمجھتا ہے۔ نماز خود احتسابی کا مؤثر ترین ذریعہ ہے۔ حضرت عمر (رض) اپنی حکومت کے اہل کاروں کو فرمایا کرتے تھے کہ میں تمہاری کارکردگی کو نماز کی حفاظت کے آئینہ میں دیکھتا ہوں۔ (سیرت الفاروق) کیونکہ جو شخص نماز کی پابندی اور اسے احسن انداز سے ادا نہیں کرتا وہ اپنی دوسری ذمّہ داریاں پوری کرنے میں بھی کوتاہی کا مرتکب ہوگا۔ انسان کی معاشرتی ذمہ داریوں کی ابتداو انتہا اس کے اہل خانہ کے حوالے سے ہوا کرتی ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے : (خَیْرُکُمْ خَیْرُکُمْ لِأَھْلِہٖ وَأَنَا خَیْرُکُمْ لِأَھْلِیْ) [ رواہ الترمذی : کتاب المناقب عن رسول اللہ] ” وہی شخص اعلیٰ اخلاق وکردار کا مالک ہے جو اپنے اہل خانہ کے ساتھ بہتر طریقے سے رہتا ہے اور میں تم سے اپنے گھر والوں کے معاملہ میں بہتر ہوں۔“ معلوم ہوتا ہے کہ یہاں معاشرتی اور ازدواجی مسائل کے درمیان حفاظت نماز کے حکم کا یہی منشا ہے۔ کہ آدمی اپنی ذمہ داریوں کو پہچانے۔ صلوۃِ وسطیٰ سے مراد اکثر اہل علم کے نزدیک عصر کی نماز ہے۔ کیونکہ نبی محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے غزوۂ خندق کے موقع پر کفار کو ملعون کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ اللہ ان کا ستیا ناس کرے کہ انہوں نے آج ہماری نماز وسطیٰ کو بھی مؤخر کرادیا ہے۔ [ رواہ البخاری : کتاب المغازی، باب غزوۃ الخندق ] نماز عصر کی اہمیت اور فضیلت اس لیے زیادہ ہے کہ گھر پلٹنے والا مسافر گھر پہنچنے کے لیے تیز گام ہوجاتا ہے۔ دفتر سے رخصت کا وقت دن کا پچھلا پہر ہی ہوا کرتا ہے۔ کاروباری لوگ ذہنی طور پر عصر کے وقت ہی معاملات سمیٹنے کی کوشش میں ہوتے ہیں۔ یہاں تک کہ مزدوری کا اختتام اور مالک سے معاوضہ لینے کا بھی یہی وقت ہوتا ہے۔ گویا کہ یہ وقت ہجوم کار کا سنگھم اور ان کی انتہا ہے۔ اس لیے اس نماز کے فوت یا مؤخر ہونے کے زیادہ خدشات ہیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرمایا کرتے تھے کہ جس کی نماز عصر ضائع ہوگئی گویا اس کی تمام دن کی کمائی غارت ہوگئی۔ [ رواہ البخاری : کتاب مواقیت الصلاۃ، باب إثم من فاتتہ العصر] جس طرح مزدوردن کے آخر میں معاوضے کا طلب گار ہوتا ہے یہی صورت نمازی کی ہے کہ اس وقت ملائکہ اللہ تعالیٰ کے حضور آدمی کے سارے دن کی رپورٹ پیش کرتے ہیں۔ گویا کہ جس کی نماز عصر ضائع ہوئی وہ اس دن اللہ تعالیٰ سے اجر لینے میں محروم رہے گا۔ نماز کی ادائیگی کے بارے میں یہ حکم دیا ہے کہ نہایت خاموشی اور عاجزی کے ساتھ اللہ کے حضور کھڑا ہواجائے۔ نماز میں بے جاحرکت نہیں کرنا چاہیے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : (اُمِرْتُ أَنْ أَسْجُدَ عَلٰی سَبْعَۃٍ لَاأَکُفُّ شَعْرًا وَلَا ثَوْبًا)[ رواہ البخاری : کتاب الاذان] ” مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں سات اعضاء پر سجدہ کروں اور بالوں اور کپڑوں کو نہ لپیٹوں۔“ یہاں نماز خوف کا طریقہ بھی بتلایا ہے کہ اگر انتہائی خطر ناک اور ہنگامی حالات ہوں تو سواری پر نماز ادا کی جاسکتی ہے۔ البتہ امن کی حالت میں پہلے طریقے پر ہی نماز ادا کی جائے گی۔ نماز خوف کے ہنگامی حالات کے مطابق کئی طریقے احادیث کی کتابوں میں موجود ہیں جن کی تفصیل إن شاء اللہ سورۃ المائدۃ میں آئے گی۔ حالت جنگ میں اللہ تعالیٰ کو زیادہ سے زیادہ یاد کرنا چاہیے۔ فاذْکُرُوا اللّٰہ سے مراد نماز کے بعد کے اذکار ہو سکتے ہیں نماز اسی طرح پڑھو اور قائم کرو جس طرح اللہ تعالیٰ نے اس کی تعلیم دی ہے۔[ تفسیرابن کثیر] مسائل ا۔ نمازوں کی حفاظت کرنا چاہیے بالخصوص عصر کی نماز کا زیادہ خیال رکھنا چاہیے۔ ٢۔ نماز میں عاجزی کے ساتھ کھڑا ہونا اور بلا وجہ حرکات نہیں کرنا چاہیے۔ ٣۔ نماز کے بعد اور ہر حال میں اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنا چاہیے۔ البقرة
239 البقرة
240 فہم القرآن ربط کلام : گزشتہ سے پیوستہ مضمون۔ جس عورت کا خاوند فوت ہوتے وقت وصیت کرجائے کہ اسے ایک سال گھر سے نہ نکالا جائے تو اس صورت میں اسے شوہر کے گھر رہنے اور نان و نفقہ کی ذمہ داریاں وارثوں پر ہوں گی۔ اگر وہ اپنے طور پر اپنے میکے یا کہیں اور رہنے کا انتظام کرے تو وارثوں پر اس کا کوئی گناہ نہیں ہوگا۔ اس حکم کے بارے میں تمام مفسرین کا خیال ہے کہ جب بیوہ کو باضابطہ طور پر اس کے فوت شدہ خاوند کی وراثت میں حصہ دار بنا دیا گیا تو یہ حکم منسوخ ہوچکا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہی اپنے احکام کے بارے میں ترمیم واضافہ کرنے کا حق رکھنے اور ان کی حکمت کو سمجھنے والا ہے۔ آخر میں پھر ہدایت کی جارہی ہے کہ مطلقہ عورتوں کے ساتھ حسن سلوک اور تعاون کرنا صاحب تقو ٰی لوگوں کی ذمہ داری ہے۔ اللہ تعالیٰ اس لیے اپنے احکامات کھول کر بیان کرتا ہے تاکہ لوگ دانش مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے خاندانی الجھنوں اور آخرت کی سختیوں سے مامون ہوجائیں۔ مسائل ١۔ بیوہ اپنی عدّت کے بعد رہائش کا فیصلہ کرنے میں خود مختار ہے۔ ٢۔ مطلقہ عورتوں کو اچھے انداز میں فائدہ پہنچانا لازم ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ کے احکام پر غور و خوض کرنا چاہیے۔ البقرة
241 البقرة
242 البقرة
243 فہم القرآن ربط کلام : نیاخطاب بدر، احد سے پہلے مسلمانوں کو جہاد کے لیے تیار کیا گیا ہے۔ اس سے پہلے سورۃ البقرۃ آیت : ١٩١ تا ١٩٣ میں دفاعی جنگ کا حکم دیا گیا تھا اور یہاں بھی ایسے تناظر میں جہاد کا ذکر ہورہا ہے۔ جس سے واضح ہوتا ہے کہ مسلمانوں پر جنگ مسلط کردی جائے تو انہیں موت کی پروا کیے بغیردشمن کے مقابلے میں ڈٹ جانا چاہیے۔ کیونکہ بات کا آغاز ہی بنی اسرائیل کے اس واقعے سے کیا جارہا ہے جو ہزاروں کی تعداد میں اپنے گھروں سے صرف اس لیے نکلے تھے کہ کہیں یہاں رہتے ہوئے انہیں موت نہ دبوچ لے۔ چند اہل علم کو چھوڑ کر باقی سب نے ایک خاص واقعے اور علاقے کا ذکر کیا ہے کہ وہاں بنی اسرائیل پر طاعون کی وبا پھیلی اور وہ موت کے خوف سے اپنے گھروں سے نکل کھڑے ہوئے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے اس حرکت کو ناپسند کرتے ہوئے ان پر موت وارد کی اور وہ سب کے سب موت کی آغوش میں چلے گئے۔ ایک مدت گزرنے کے بعد حضرت سموئیل (علیہ السلام) کی دعا کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے انہیں دوبارہ زندگی عطا کی۔ اس واقعہ سے بیک وقت دو نتائج لوگوں کے سامنے رکھے گئے ہیں۔ ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ اسی طرح مردوں کو زندہ کرنے پر قادر ہے۔ اور دوسری یہ بات بتلائی کہ جو لوگ موت سے ڈر کراپنے گھروں سے نکلے تھے موت نے انہیں آلیا۔ یاد رکھو ہر کسی کی موت کا وقت اور مقام مقرر ہے وہ اس سے بھاگ نہیں سکتا بلکہ ان لوگوں کی طرح چل کر خود ہی موت کے مقام تک پہنچ جائے گا اس لیے بزدلوں کی طرح دشمن کے آگے بھاگنے اور بھیڑ بکریوں کی طرح اس کے ہاتھوں قتل ہونے کی بجائے دشمن کے سامنے ڈٹ جاؤ۔ موت تو اپنے وقت اور مقام پر ہی آئے گی۔ اللہ تعالیٰ لوگوں کو اپنی قدرت کے معجزات اس لیے دکھاتا ہے تاکہ وہ ہدایت پاکر اس کا شکریہ ادا کریں لیکن اکثر لوگ شکر گزار نہیں ہوتے۔ مرنے کے بعد اٹھنا قرآن مجید کا بنیادی نظریہ ہے جس کے ثبوت میں یہ دوسراواقعہ بیان ہورہا ہے۔ اس واقعہ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ شریعت محمدی کی طرح بنی اسرائیل کے لیے بھی یہی قانون تھا کہ اگر کسی علاقے میں طاعون یا کوئی وبا پھیل جائے تو اسے چھوڑنا نہیں چاہیے۔ حضرت اسامہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : (اَلطَّاعُوْنُ رِجْسٌ أُرْسِلَ عَلٰی طَآءِفَۃٍ مِّنْ بَنِیْ إِسْرَآءِیْلَ أَوْ عَلٰی مَنْ کَانَ قَبْلَکُمْ فَإِذَا سَمِعْتُمْ بِہٖ بِأَرْضٍ فَلَا تَقْدَمُوْا عَلَیْہِ وَإِذَا وَقَعَ بِأَرْضٍ وَأَنْتُمْ بِھَا فَلَا تَخْرُجُوْا فِرَارًا مِّنْہُ) [ رواہ البخاری : کتاب أحادیث الأنبیاء، باب حدیث الغار] ” طاعون عذاب ہے جو بنی اسرائیل یا تم سے پہلے کسی قوم پر بھیجا گیا۔ جب تمہیں معلوم ہو کہ فلاں علاقے میں طاعون کی بیماری پھیل گئی ہے تو وہاں نہ جاؤ۔ اگر تمہارے علاقے میں طاعون کی وباپھوٹ پڑے تو وہاں سے فرار اختیار نہ کرو۔“ طاعون کی بیماری کے وقت اپنا گھر بار چھوڑ کر نکلنے کا اس لیے کوئی فائدہ نہیں کیونکہ موت کا وقت مقرر ہے جو کسی بنا پر بھی آگے پیچھے نہیں ہوسکتا قرآن مجید میں ارشاد ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ لوگوں کو ان کے جرائم کی وجہ سے پکڑنا چاہے تو زمین میں ایک جاندار بھی باقی نہ رہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ لوگوں کو ان کی موت تک مہلت دیتا ہے جب موت کا وقت آجاتا ہے تو لوگوں کی اجل ایک لمحہ بھی آگے پیچھے نہیں ہوا کرتی۔ سورہ لقمان آیت ٣٤ میں فرمایا ” ہر کسی کی مرنے کی جگہ مقرر ہوچکی ہے کوئی شخص موت کے مقام سے آگے پیچھے نہیں ہو سکتا۔“ طاعون سے شاید اس لیے بھی فرار کی اجازت نہیں دی کہ اس طرح مخصوص علاقہ کے جراثیم دور تک پھیلنے کا خدشہ ہوسکتا ہے۔ مسائل ١۔ موت سے بھاگنے والا موت کی ہی طرف جاتا ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ ہی مارنے اور زندہ کرنے والا ہے۔ ٣۔ اکثر لوگ اللہ تعالیٰ کے شکرگزار نہیں ہوتے۔ ٤۔ جہاد صرف اللہ کے لیے ہونا چاہیے۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ ہر چیز کا علم رکھنے والا اور ہر بات کو سننے والا ہے۔ دنیا میں مر کر دوبارہ زندہ ہونے والوں کے واقعات اور دلائل البقرہ آیت ٢٥٩ کے تحت دیکھیں۔ البقرة
244 البقرة
245 فہم القرآن ربط کلام : جہاد میں مال کی بڑی اہمیت ہے لہٰذا دفاعی فنڈ میں حصہ لینا اللہ تعالیٰ کو قرض دینے کے برابر ہے۔ جہاد کے لیے مجاہد کی جسمانی جدوجہد کے ساتھ جو اہم ترین چیز ہے وہ مال ہے۔ جہاد میں مال اور جان دونوں لازم وملزوم ہیں۔ دشمنوں کے مقابلے میں نہتا مجاہد کب تک لڑ سکتا ہے؟ اس لیے اسلحہ اس کی پہلی اور بنیادی ضرورت ہے۔ اسلحہ مال کے بغیر حاصل نہیں ہوسکتا۔ اس کے ساتھ ہی مجاہد کے لیے فوجی لباس، طعام، سواری یہاں تک کہ اس کے بال بچوں کے اخراجات کی بھی ضرورت ہے۔ ان ضروریات کو پورا کرنے کے لیے مال ناگزیر ہے اس لیے قرآن مجید میں اکثر مقامات پر جہاد بالنفس سے پہلے جہاد بالمال کا حکم ہوا ہے۔ یہ مال بظاہر تو مجاہد کی ضروریات پر خرچ ہوتا ہے لیکن حقیقتاً یہ اللہ تعالیٰ کو قرض دینے کے مترادف ہے کیونکہ مجاہد کو اللہ ہی کے لیے جہاد کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اس بنا پر اللہ تعالیٰ نے جہاد فی سبیل اللہ پر خرچ کرنے کو اپنی ذات عالی کو قرض دینا قرار دیا ہے۔ لیکن جس طرح جہاد محض فی سبیل اللہ ہونا چاہیے اس طرح قرض بھی کسی اور غرض کی بجائے اللہ ہی کی رضا کے لیے دینا چاہیے۔ یہی قرض حسنہ کا معنٰی ہے کہ جس کے دینے میں کوئی ذاتی غرض نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم کا ذرا تصور کیجیے کہ جو کچھ اس نے بندوں کو عطا کیا ہے وہ اسی کی مہربانی ہے۔ لیکن اس کے باوجود وہ اپنا عطا کیا ہوا مال اپنے بندوں سے قرض کے طور پر حاصل کرتا ہے اس شرط کے ساتھ کہ تم جس ذات کریم کو قرض دے رہے ہو وہ تمہیں کئی گنا اضافے کے ساتھ واپس لوٹائے گی۔ اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے مال دیتے ہوئے کمی کا خوف محسوس نہ کرو۔ اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو تمہارے مال کو کسی اور طریقے سے کم کرسکتا ہے۔ زمیندار ہے تو فصل تباہ ہونے کی شکل میں، دکاندار ہے تو خسارے کی صورت میں، تنخواہ دارہے تو بیماری اور حادثے کی شکل میں‘ تاجر ہے تو نقصان کی صورت میں مال میں کمی واقع ہوسکتی ہے۔ اس طرح کسی بھی حادثے کے ذریعے مال کم ہوسکتا ہے۔ گویا کہ اللہ تعالیٰ چاہے تو اس کے لیے کمی کرنا کوئی مشکل نہیں وہ بڑھانے اور کم کرنے پر پوری طرح قادر ہے۔ طبع انسانی میں یہ بات ہمیشہ موجود رہتی ہے کہ اسے آنے والے کل کے لیے کچھ جمع کرنا چا ہے کیونکہ آج وہ صحت مند اور صاحب روز گار ہے۔ نہ معلوم آ نے والے وقت میں اس کے ساتھ کیا حا دثہ پیش آ جائے۔ اس فکر کی بنا پر ہر آ دمی کچھ نہ کچھ بچا کر رکھنے کا عا دی ہوتا ہے تاکہ کل خود اور اس کے اہل وعیال اس مال سے مستفید ہو سکیں۔ اس طرح کی انشور نس کے لیے دنیا میں بے شمار ناجائز سکیمیں جاری ہیں۔ مسلمان کا جب یہ عقیدہ ہے کہ یہ دنیا عا رضی ہے اور موت کے بعد لا محدود زندگی کا آغاز ہونے والا ہے اور اس کا انحصار اعمال کے نتا ئج پر ہوگا تو صحیح فہم و فراست کا تقاضا ہے کہ آدمی اس جہان کے لیے ضرور اہتمام کرے جس کی کوئی انتہا نہیں۔ اسی انشورنس کی بنیاد پر ہی اسے آخرت کی مراعات میسر ہوں گی گویا کہ صدقہ وخیرات آدمی کے لیے الٰہی انشورنس کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اس انشورنس کی ضمانت اللہ تعالیٰ نے عطا فرمائی ہے۔ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَنْ تَصَدَّقَ بِعَدْلِ تَمْرَۃٍمِنْ کَسْبٍ طَیِّبٍ وَلَا یَقْبَلُ اللّٰہُ إِلَّا الطَّیِّبَ وَإِنَّ اللّٰہَ یَتَقَبَّلُھَا بَیَمِیْنِہٖ ثُمَّ یُرَبِّیْھَا لِصَاحِبِہٖ کَمَا یُرَبِّیْ أَحَدُکُمْ فَلُوَّہٗ حَتّٰی تَکُوْنَ مِثْلَ الْجَبَلِ ) [ رواہ البخاری : کتاب الزکاۃ، باب الصدقۃ من کسب طیب] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتیہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جس نے پاکیزہ کمائی سے ایک کھجور کے برابر بھی صدقہ کیا اور اللہ تعالیٰ صرف پاکیزہ چیز ہی قبول فرماتے ہیں۔ بے شک اللہ تعالیٰ اسے اپنے دائیں ہاتھ میں لیتے ہیں پھر اس کو صدقہ کرنے والے کے لیے بڑھاتے رہتے ہیں جس طرح تم میں سے کوئی اپنے بچھٹرے کی پرورش کرتا ہے یہاں تک کہ آدمی کا کیا ہوا صدقہ پہاڑ کی مانند ہوجاتا ہے۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے صدقہ کرنا اللہ تعالیٰ کو قرض دینے کے مترادف ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ رزق کم اور زیادہ کرنے والا ہے۔ ٣۔ ہر کسی نے اللہ کے حضور پیش ہونا ہے۔ تفسیربالقرآن بہترین قرض حسنہ : ١۔ اللہ کو قرض حسنہ دینے کا حکم۔ (المزمل : ٢٠) ٢۔ اللہ اسے بڑھا کر واپس کرے گا۔ (الحدید : ١١) ٣۔ اللہ اسے سات سو گناہ سے بھی زیادہ بڑھائے گا۔ (البقرہ : ٢٦١) ٤۔ صدقہ صرف اللہ کی رضا کے لیے دینا چاہیے۔ (البقرۃ: ٢٦٥) البقرة
246 فہم القرآن ربط کلام : گزشتہ مضمون سے پیوستہ۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد بنی اسرائیل کی بد اعمالیوں کی بنا پر ان پر قوم عمالقہ کو مسلط کردیا گیا۔ جنہوں نے بنی اسرائیل پر پے در پے حملے کیے اور ان کو بیت المقدس سے نکال دیا۔ یہ در بدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہوئے۔ بنی اسرائیل کا شیرازہ اس طرح بکھر کر رہ گیا کہ باپ بیٹے اور بھائی بھائی کا چہرہ دیکھنے کو ترستا گیا۔ قرآن مجیدان حالات کا نقشہ انہی کی زبان سے بیان کررہا ہے کہ انہوں نے اپنے پیغمبر سے جہاد کے لیے کمانڈر کا مطالبہ کیا۔ وقت کے پیغمبر نے انہیں سمجھایا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ تم پر جہاد فرض کردیا جائے اور تم جہاد کرنے سے انکار کرنے لگو ؟ انہوں نے کہا یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ہم اللہ کے راستے میں جہاد کرنے سے جی چرائیں۔ جب کہ ہم پر اس قدر ظلم ہوا ہے کہ ہمیں ہمارے گھروں سے نکال دیا گیا اور ہم اپنے بچوں سے الگ کردیئے گئے ہیں۔ یاد رہے قوموں کے عروج وزوال کا دارومدار غرباء اور ضعفاء پر نہیں ہوا کرتا۔ یہ طبقہ تو عضو محض اور لکیر کا فقیر ہوتا ہے قوم کی ترقی وتنزل کا تعلق قوم کے کھاتے پیتے اور سربرآوردہ لوگوں پر ہوا کرتا ہے اگر یہ طبقہ باشعور اور بہتر فکر وعمل کا حامل ہو تو قوم ترقی کی منازل طے کیا کرتی ہے۔ جب یہ لوگ عیاش، بدکردار اور بے عمل ہوجائیں تو قوم کی تباہی یقینی ہوجاتی ہے۔ بنی اسرائیل کے حالات جب بہتر ہونے کو آئے تو ان کے سرداروں نے اس بات کا احساس کیا کہ ہمارا ملک چھن گیا ہے اور ہم در بدر کی ٹھوکریں کھارہے ہیں ہمارے لیے بہتر ہے کہ ذلت کی موت مرنے کے بجائے شہادت کی باعزت موت مرجائیں چنانچہ انہوں نے اپنے پیغمبر سے مضبوط اور جوان قیادت کا مطالبہ کیا۔ وقت کا پیغمبر بوڑھا ہوچکا تھا جس بنا پر اللہ تعالیٰ نے نبی کی دعا اور قوم کے مطالبہ پر طالوت کو ان کا کمانڈر مقرر فرمادیا کیونکہ جب تک ایک اور مضبوط قیادت نہ ہوقوم ترقی نہیں کرسکتی۔ جنگ کی تمنا نہ کیا کرو (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ لَاتَمَنَّوْا لِقَاءَ الْعَدُوِّ فَإِذَا لَقِیْتُمُوْھُمْ فَاصْبِرُوْا) [ رواہ البخاری : کتاب الجھاد والسیر، باب لاتمنوا لقاء العدو] ” حضرت ابوہریرہ (رض) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان فرماتے ہیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : دشمن سے ٹکرانے کی آرزو نہ کرو اور جب تمہارا ان سے سامنا ہوجائے تو پھر جم جاؤ۔“ قوم کی تباہی کا باعث طبقہ (وَکَذٰلِکَ جَعَلْنَا فِیْ کُلِّ قَرْیَۃٍ أَکٰبِرَ مُجْرِمِیْھَا لِیَمْکُرُوْا فِیْھاَط وَمَا یَمْکُرُوْنَ إِلَّا بِأَنْفُسِھِمْ وَمَا یَشْعُرُوْنَ) [ الأنعام : ١٢٣] ” اور اسی طرح ہم نے ہر بستی میں وہاں کے رئیسوں ہی کو جرائم کا مرتکب بنایا تاکہ وہ لوگ وہاں فریب کریں۔ اور وہ لوگ اپنے ہی ساتھ فریب کررہے ہیں اور ان کو ذرا خبر نہیں۔“ (وَکَمْ أَھْلَکْنَا مِنْ قَرْیَۃٍ بَطِرَتْ مَعِیْشَتَھَاج فَتِلْکَ مَسٰکِنُھُمْ لَمْ تُسْکَنْ مِّنْ بَعْدِھِمْ إِلَّا قَلِیْلًا ط وَکُنَّا نَحْنُ الْوَارِثِیْنَ) [ القصص : ٥٨] ” اور ہم نے بہت سی بستیاں تباہ کردیں جو اپنی عیش وعشرت میں اترانے لگی تھیں، یہ ہیں ان کی رہنے کی جگہیں جو ان کے بعد بہت ہی کم آباد کی گئیں اور ہم ہی ہیں آخر سب کے وارث۔“ (فَأَمَّا عَادٌ فَاسْتَکْبَرُوْا فِی الْأَرْضِ بِغَیْرِ الْحَقِّ وَقَالُوْا مَنْ أَشَدُّ مِنَّا قُوَّۃًط أَوَلَمْ یَرَوْا أَنَّ اللّٰہَ الَّذِیْ خَلَقَھُمْ ھُوَ أَشَدُّ مِنْھُمْ قُوَّۃً ط وَکَانُوْا بِاٰیٰتِنَا یَجْحَدُوْنَ) [ حمٓ السجدۃ: ١٥] ” اب عاد نے بے وجہ زمین میں سرکشی شروع کردی اور کہنے لگے کہ ہم سے زور آور کون ہے؟ کیا انہیں یہ نظر نہ آیا کہ جس نے انہیں پیدا کیا ہے وہ ان سے (بہت ہی) زیادہ زور آور ہے۔ اور وہ ہماری آیات کا انکار کرنے والے تھے۔“ مسائل ١۔ ارباب حل و عقد ہی قوموں کے بگاڑ و سنوار کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔ ٢۔ مظلوم کو ظالم کے خلاف اٹھ کھڑا ہونا چاہیے۔ ٣۔ جہاد کرنے والے لوگ تھوڑے ہی ہوا کرتے ہیں۔ البقرة
247 فہم القرآن ربط کلام : گزشتہ سے پیوستہ۔ وہی ہوا جس کا پیغمبر نے خدشہ ظاہر کیا تھا۔ جب سرداران قوم کے مطالبہ پر جناب طالوت کو ان کا بادشاہ مقرر کردیا گیا تو بنی اسرائیل حسب عادت بہانے تراشتے ہوئے کہنے لگے کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ یہ ہمارا بادشاہ بن جائے ؟ جب کہ اس کے پاس مال واسباب کی فراوانی نہیں۔ پیغمبر نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے اسے جسمانی اور علمی صلاحیتوں سے تم پر برتری عطا فرمائی ہے۔ اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے حکومت سے سرفراز کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ ہی سب سے زیادہ جاننے والا ہے۔ لیکن اس کے باوجود انہیں اطمینان نہ ہوا انہوں نے یہ مطالبہ کرڈالا کہ اس کے سربراہ ہونے کی کوئی نشانی ہونی چاہیے۔ حضرت شمویل (علیہ السلام) نے فرمایا کہ اس کے بادشاہ ہونے کی نشانی یہ ہے کہ وہ صندوق جو تم سے چھن چکا ہے اسے فرشتے اٹھائے ہوئے تمہارے پاس لائیں گے جس میں تمہارے رب کی طرف سے سامان اطمینان‘ موسیٰ (علیہ السلام) اور ہارون (علیہ السلام) کے تبرکات اور وہ عصا بھی اس میں موجود ہوگا جسے موسیٰ (علیہ السلام) اللہ تعالیٰ کے حکم سے پھینکتے تو اژدہا بن جاتا۔ اس کے ذریعے پانی جاری ہوتا اور کبھی اس سے دریا کی لہریں اس طرح تھم گئیں کہ درمیان میں خشک اور ہموار راستے بن گئے۔ اگر تم تسلیم کرنے والے ہو تو طالوت کی تائید میں یہ بہت بڑے دلائل وبراہین ہیں۔ بالآخر انہوں نے جناب طالوت کی سر کردگی کو قبول کرلیا۔ اس واقعہ سے دنیا پرست مال داروں کی ذہنیت کا پتہ چلتا ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ قیادت بھی سرمایہ کی بنیاد پر ان کا حق بنتا ہے۔ حالانکہ قائد میں علم وفراست اور جسمانی قوت وصلاحیت کا ہونا نہایت ضروری ہے۔ اس کی دیانت وامانت بھی مسلّمہ ہونی چاہیے۔ یہاں تک کہ اس میں منصب کی خواہش بھی نہیں ہونا چاہیے۔ (عَنْ أَبِیْ مُوْسٰی (رض) قَالَ دَخَلْتُ أَنَا وَرَجُلَانِ مِنْ قَوْمِیْ فَقَالَ أَحَدُ الرَّجُلَیْنِ أَمِّرْنَا یَارَسُوْلَ اللّٰہِ وَقَالَ الْآخَرُ مِثْلَہٗ فَقَالَ إِنَّا لَانُوَلِّیْ ھٰذَا مَنْ سَأَلَہٗ وَلَا مَنْ حَرَصَ عَلَیْہِ) [ رواہ البخاری : کتاب الأحکام، باب مایکرہ من الحرص علی الإمارۃ] ” حضرت ابو موسیٰ (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں اور میرے قبیلے کے دو آدمی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے۔ دونوں میں سے ایک نے کہا : اے اللہ کے رسول! مجھے عہدہ دیجیے اور دوسرے نے بھی ایسا ہی مطالبہ کیا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : یقینًا ہم ایسے شخص کو عہدہ نہیں دیتے جو عہدہ طلب کرے اور نہ ہی ایسے شخص کو عہدہ دیتے ہیں جو عہدے کا حریص ہو۔“ حکمران کے اوصاف (1) مسلمان ہو : قرآن کریم میں اولوالامر کا مسلمان ہونا شرط قرار دیا گیا ہے۔[ النساء : ٥٩] لہٰذا امیر کا مسلمان ہونا بدرجۂ اولیٰ ضروری ہے۔ کیونکہ غیر مسلموں کو اپنے معاملات میں دخیل اور شریک کرنا جائز نہیں ہے۔ [ آل عمران : ١١٨، التوبۃ: ١٦] (2) مرد ہو : مرد عورتوں پر حاکم ہیں۔[ النساء : ٣٤] رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے وہ قوم کبھی کامیاب نہیں ہوسکتی جس نے عورت کو اپنا حاکم بنا لیاہو۔[ رواہ البخاری : کتاب الفتن، باب الفتنۃ التی تموج کموج البحر] رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ بھی ارشاد ہے کہ جب تمہارے معاملات عورتوں کے حوالے کردیے جائیں تو تمہارے لیے پھر موت ہی بہتر ہے۔[ رواہ الترمذی] فقہائے اسلام کا اس بات پر اجماع ہے کہ عورت خلیفہ اور سربراہ حکومت نہیں بن سکتی۔ (3) عادل اور صالح ہو : قرآن کریم میں فرمایا گیا ہے کہ ظالم لوگ مسلمانوں کی امامت اور قیادت کے مستحق نہیں ہیں۔[ البقرۃ: ١٢٤] غافل اور مسرفین ومفسدین کی اطاعت جائز نہیں ہے۔[ الکہف : ٢٨، الشعراء : ١٥١، ١٥٢] اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ محترم وہ ہے جو زیادہ پرہیزگار ہو۔[ الحجرات : ١٣] (4) صاحب علم ہو : قرآن کریم میں اولوا لامر کے لیے استنباط اور اجتہادی بصیرت کا حامل ہونا ضروری قرار دیا گیا ہے۔ [ النساء : ٨٣] قیادت کے لیے علمی اور جسمانی صلاحیتوں کا ہونا ضروری ہے۔[ البقرۃ: ٢٤٧] عالم اور غیر عالم برابر نہیں ہیں۔[ الزمر : ٩] (5) آزاد ہو : یعنی کسی کا غلام، ہمہ وقتی ملازم اور قیدی نہ ہو اور فرائض کی ادائیگی کے لیے فارغ ہو۔ (6) بالغ ہو : نابالغ بچہ اس بوجھ کو جسمانی اور ذہنی کمزوری کی وجہ سے نہیں اٹھاسکتا۔ اس لیے نادان اور نابالغ بچوں کو اپنے مال میں تصرف کرنے سے بھی منع کیا گیا ہے۔[ النساء : ٥] (7) عاقل ہو : دماغی طور پر مریض نہ ہو۔ (8) سلیم الاعضاء ہو : جسمانی طور پر ناکارہ شخص یہ عظیم خدمت انجام نہیں دے سکتا۔ (9) دلیر اور شجاع ہو : بزدل شخص نہ ملک کا دفاع کرسکتا ہے اور نہ امن قائم کرسکتا ہے۔ (10) معاملہ فہم ہو : حالات سے باخبر اور معاملہ فہم ہو۔ البقرة
248 البقرة
249 فہم القرآن ربط کلام : واقعہ طالوت وجالوت کی تفصیل جاری ہے۔ جناب طالوت قوم کے حالات اور عادات کو جانتے تھے اس لیے انہوں نے مناسب سمجھا کہ پہلے ان کی آزمائش کرنا چاہیے تاکہ دشمن کے مقابلے میں ان کی طاقت وصلاحیت کا اندازہ لگایا جاسکے۔ اسی سے ٹریننگ اور فوجی مشقوں کا اصول نکلا ہے۔ جنا بِ طالوت نے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ ہمارے راستے میں ایک نہر آنے والی ہے اور وہ نہر اللہ تعالیٰ کی طرف سے تمہارے لیے آزمائش ہوگی۔ جس نے نہر سے سیر ہو کر پانی پی لیا وہ میرا ساتھی نہیں ہوگا چلو بھر پانی پینا تمہارے لیے جائز قرار دیا گیا ہے۔ جو نہی وہ نہر کے کنارے پہنچے تو چند لوگوں کو چھوڑ کر ان کی اکثریت نے خوب سیر ہو کر پانی پیا۔ جنہوں نے پانی نہیں پیا تھا ان کی تعداد تین سو تیرہ (313) تھی۔ (عَنِ الْبَرَاءِ (رض) قَالَ کُنَّا أَصْحَابَ مُحَمَّدٍ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نَتَحَدَّثُ أَنَّ عِدَّۃَ أَصْحَابَ بَدْرٍ عَلٰی عِدَّۃِ أَصْحَابِ طَالُوْتَ الَّذِیْنَ جَاوَزُوا النَّھْرَ وَلَمْ یُجَاوِزُوْا مَعَہٗ إِلَّا مُؤْمِنٌ بِضْعَۃَ عَشَرَ وَثَلَاث ماءَۃٍ) [ رواہ البخاری : کتاب المغازی : باب عدۃ أصحاب بدر] ” حضرت براء (رض) بیان کرتے ہیں کہ ہم حضرت رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھی باہم گفتگو کیا کرتے تھے کہ اصحاب بدر کی تعداد طالوت کے ان ساتھیوں کی تعداد کے برابر تھی جنہوں نے نہر پار کی تھی اور ان کے ساتھ صرف 313 مومن تھے۔“ جب ان کا سامنا جالوت کی فوج کے ساتھ ہوا تو سیر ہو کر پانی پینے والوں نے لڑنے سے انکار کردیا۔ بعض مفسرین نے اسرائیلی روایات کے حوالے سے لکھا ہے کہ سیر ہو کر پانی پینے والوں کے پیٹ پھول گئے۔ جب فوجوں کا آمنا سامنا ہوا تو انہوں نے جہاد سے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ ہم میں جالوت کے لشکر کے ساتھ لڑنے کی ہمت نہیں ہے۔ اس صورت حال سے عہدہ برآ ہونے اور بزدلوں کو جہاد پر آمادہ کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ پر سچا یقین رکھنے والے مجاہدوں نے کم ہمت لوگوں کو بار بار سمجھایا کہ کم ہمتی اور بزدلی نہ دکھاؤ۔ ہمت کرو اور یقین جانو کہ تاریخ میں بار ہا دفعہ ایسا ہوا کہ قلیل جماعتیں کثیر جماعتوں پر اللہ کے حکم سے غالب آتی رہی ہیں۔ یہ ایسی حقیقت ہے کہ اسلام کا تابناک ماضی اس پر گواہ ہے کہ مسلمان اسلحہ اور افرادی قوت کے اعتبار سے کبھی بھی اپنے دشمن سے زیادہ نہیں رہے لیکن جب تک یہ منظم‘ مستقل مزاج، پر عزم، صاحب کردار اور حوصلہ مند یعنی صابر رہے یہی غالب آتے رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ مستقل مزاج لوگوں کا ساتھ دیا کرتا ہے۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ مختلف طریقوں کے ساتھ لوگوں کو آزماتا ہے۔ ٢۔ دشمن کے مقابلے سے پہلے ٹریننگ اور تربیت حاصل کرنا ضروری ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ کی مدد سے قلیل کثیر پر غالب آیا کرتے ہیں۔ ٤۔ اللہ کے نافرمان بزدل ہوتے ہیں۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ حوصلہ مند لوگوں کی مدد فرماتا ہے۔ ٦۔ جناب طالوت کے ثابت قدم رہنے والے ساتھی 313 تھے۔ ٧۔ آزمائش کے وقت ایک دوسرے کو ثابت قدم رہنے کی تلقین کرنا چاہیے۔ البقرة
250 فہم القرآن جب طالوت کے لشکر کا جالوت کے لشکروں کے ساتھ آمنا سامنا ہوا تو جذبۂ ایمان سے سرشارمجاہد اپنے رب کے حضور دعائیں مانگنے لگے کہ بارِ الٰہا ! ہمیں حوصلہ، ثابت قدمی اور کفار پر غلبہ عطا فرما ! سو اللہ تعالیٰ کے حکم کے ساتھ جناب داوٗد (علیہ السلام) نے کفار کے کمانڈر جالوت کو قتل کیا۔ جس کے بدلے میں اللہ تعالیٰ نے حضرت داوٗد (علیہ السلام) کو بہت بڑی مملکت سونپتے ہوئے نبوت سے سرفراز فرمایا۔ یہ وہی داوٗد علیہ السلامہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمان (علیہ السلام) جیسا بیٹا عطا فرمایا جو پیغمبر بھی تھے اور حکمران بھی۔ اللہ تعالیٰ جسے چاہے اپنا علم وفضل عطا کرتا ہے اور اگر اللہ تعالیٰ لوگوں کو ایک دوسرے کے ذریعے نہ ہٹائے تو زمین پر فساد عظیم برپا ہوجائے لیکن اللہ تعالیٰ اہل جہاں پر انتہائی فضل فرمانے والا ہے۔ بنی اسرائیل کے ان دو واقعات میں ایک طرف اہل مکہ کے مظالم کی طرف اشارہ ہے اور دوسری طرف مسلمانوں کو بتلایا جارہا ہے کہ تمہیں بنی اسرائیل کی طرح جنگ کا مطالبہ نہیں کرنا چاہیے۔ بے شک تمہارے ساتھ اہل مکہ وہی کچھ کر رہے ہیں جو عمالقہ نے بنی اسرائیل کے ساتھ کیا تھا۔ ہاں اگر تم پر جنگ مسلط کردی جائے توبنی اسرائیل کے ایمان دار مجاہدوں کی طرح تمہیں بھی پوری غیرت اور جرأت کے ساتھ ڈٹ جانا چاہیے۔ جیسے انہوں نے میدان کارزار میں اترنے سے پہلے اپنے رب سے نصرت وحمایت طلب کی تھی تمہیں بھی اپنے رب کی نصرت ودستگیری مانگنا چاہیے جس طرح بنی اسرائیل کے کچھ لوگوں نے دشمن کے مدّ مقابل ہونے کے بعد اپنے کمانڈر سے غداری کی تھی۔ ایسے ہی حالات تمہیں بھی درپیش ہوسکتے ہیں جو تھوڑے ہی عرصہ کے بعد احد میں منافقین کے کردار کی وجہ سے پیش آئے۔ جب منافقین کفار کو دکھا دکھا کر ٹولیوں کی صورت میں مسلمانوں سے الگ ہوئے تھے۔ وہ طالوت کی سربراہی پر یہ کہہ کر معترض ہوئے تھے کہ اس کے پاس مال نہیں۔ منافق یہ کہہ کر الگ ہوئے تھے کہ اس موقع پر مدینہ میں رہ کر لڑنے کی ہماری تجویز تسلیم نہیں کی گئی ہے۔ حالانکہ رسول مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی مدینہ میں رہ کر دفاع کرنے کے حق میں تھے لیکن مسلمانوں کی بھاری اکثریت کا احترام کرتے ہوئے میدان احد میں تشریف لے گئے۔ طالوت کے ساتھیوں کی طرح مکہ والے بھی یہی کہتے تھے کہ یہ نبی تو غریب ہے پیغمبری تو ابو الحکم (ابوجہل) یا طائف کے سرداروں میں سے کسی کو ملنا چاہیے تھی۔ ازل سے اللہ تعالیٰ کا یہی دستور ہے کہ وہ جہاد اور دوسرے ذرائع سے ظالم اور سفّاک لوگوں کو کمزوروں اور مظلوموں کے ذریعے اقتدار سے ہٹایا کرتا ہے۔ جس کی ایک حکمت یہ بیان فرمائی ہے کہ اگر ایسا نہ کیا جائے تو دنیا کا نظام درہم برہم ہوکررہ جائے جو اللہ تعالیٰ کوہر گز گوارا نہیں۔ مسائل ١۔ قیادت کا انتخاب مال نہیں علمی اور جسمانی صلاحیت پر ہونا چاہیے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ کشادگی اور علم والا ہے۔ ٣۔ مجاہد کی تربیت اور آزمائش ہونا چاہیے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ کے حکم سے تھوڑے زیادہ پر غالب آیا کرتے ہیں۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ صابروں کے ساتھ ہوا کرتا ہے۔ ٦۔ جنگ سے پہلے اور اس کے دوران اللہ تعالیٰ سے مدد اور حوصلہ مانگنا چاہیے۔ ٧۔ اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے حکومت اور حکمت عطا کرتا ہے۔ ٨۔ اللہ تعالیٰ زمین میں امن قائم رکھنے کے لیے ظالم کو مظلوموں کے ذریعے ہٹایا کرتا ہے۔ تفسیربالقرآن طالوت وجالوت کا واقعہ اور حکمران کے اوصاف : ١۔ بنی اسرائیل کا بادشاہ کی تقرری کے لیے درخواست کرنا۔ (البقرۃ: ٢٤٦) ٢۔ حکمران کے دو بڑے اوصاف۔ (البقرۃ: ٢٤٧) ٣۔ طالوت کے پاس بطور نشانی تابوت سکینہ کا آنا۔ (البقرۃ: ٢٤٨) ٤۔ لشکر کا کم ہمتی دکھانا۔ (البقرۃ: ٢٤٩) ٥۔ طالوت کا جالوت پر فتح حاصل کرنا۔ (البقرۃ: ٢٥٠، ٢٥١) ٦۔ فتح وشکست کا معیار کثرت وقلت نہیں ہے۔ (البقرۃ: ٢٤٩) البقرة
251 البقرة
252 فہم القرآن ربط کلام : قلیل اور ضعیف جماعت کا اپنے سے طاقت ور اور زیادہ پر غالب آنا اللہ تعالیٰ کی قدرت کا کرشمہ ہے اس فرمان میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی کامیابی کی پیش گوئی ہے۔ جو واقعات، حقائق اور نتائج ہم آپ کے سامنے پڑھتے ہیں یہ بالکل سچ ہیں۔ جس طرح بنی اسرائیل کو ہم نے معزز اور محترم امت بنایا تھا۔ ان کی راہنمائی کے لیے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے بعد حضرت داوٗد (علیہ السلام) کو پیغمبر بنایا گیا تاآنکہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) مبعوث کیے گئے۔ بنی اسرائیل کو موسیٰ (علیہ السلام) کے معجزات اور سخت ترین احکامات، حضرت داوٗد (علیہ السلام) کی حکومت وحکمت اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی مافوق الفطرت خلقت، حلیمی اور برد باری حلقۂ ایمان میں داخل نہ کرسکی۔ اگر یہ لوگ حقائق‘ معجزات اور آپ کا اخلاق و اخلاص دیکھ کر حلقہ اسلام میں داخل نہیں ہو رہے تو آپ کیوں پریشان ہوتے ہیں؟ یقین فرمائیں کہ آپ بھی اسی مقدس جماعت انبیاء کے ایک فرد اور اسی مشن کے داعی ہیں۔ لہٰذا آپ کو اپنے بارے میں شک نہیں کرنا چاہیے اعتماد کرو کہ اللہ تعالیٰ اپنے ضابطے کے مطابق بالآخر ظالموں کو مٹا کر آپ کو غلبہ عطا کرنے والا ہے اور یہ انقلاب آکر رہے گا۔ ظالموں کا ظلم کبھی اس سیل حق کے سامنے نہ رکاوٹ بنا اور نہ بن سکے گا۔ ( ھُوَ الَّذِیْ أَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بالْھُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْھِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ وَلَوْکَرِہَ الْمُشْرِکُوْنَ ) [ ا لصف : ٩] ” اللہ وہ ذات ہے جس نے اپنا رسول ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا تاکہ اسے تمام ادیان پر غالب کردے اگرچہ یہ بات مشرکوں کو ناپسند لگے۔“ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : (لَیَبْلُغَنَّ ھٰذَا الْأَمْرُ مَا بَلَغَ اللَّیْلُ وَالنَّھَارُوَلَایَتْرُکُ اللّٰہُ بَیْتَ مَدَرٍ وَّلَا وَبَرٍإِلَّا أَدْخَلَہُ اللّٰہُ ھٰذَا الدِّیْنَ) [ مسند أحمد : کتاب مسند الشامیین، باب حدیث تمیم الداری] ” یہ دین ضروربضرور وہاں تک پہنچے گا جہاں رات کی تاریکی اور دن کی روشنی پہنچتی ہے اور اللہ تعالیٰ ایک ایک شہر اور بستی کے ہر گھر میں اس دین کو داخل کردے گا۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ کے احکام حق اور سچ ہیں۔ ٢۔ نبی محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مرسلین میں سے ایک ہیں۔ البقرة
253 فہم القرآن ربط کلام : جلیل القدر انبیاء کرام اور ان کے معجزات دیکھ لینے کے باوجود سب کے سب لوگوں کا ایمان نہ لانا اللہ تعالیٰ کے اختیار سے متجاوز نہیں یہ اس کی مشیّت کے عین مطابق ہے۔ جس طرح انبیاء کے مراتب اور ان کی جدوجہد کے نتائج میں فرق ہے اسی طرح حق کو قبول کرنے اور کفر سے اجتناب کرنے میں لوگوں میں فرق پایا جاتا ہے۔ اے رسول کریم! آپ کو ان کے حالات کا موازنہ کرتے ہوئے یقین رکھنا چاہیے کہ آپ بالیقین مرسلین کے سرخیل ہیں۔ تمام انبیاء خاندان نبوت کے افراد اور گلدستۂ رسالت کے پھول ہیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرمایا کرتے تھے کہ انبیاء رشتہ نبوت کے اعتبار سے ایک دوسرے کے بھائی ہیں لیکن ان کی مائیں مختلف ہیں۔ [ رواہ البخاری : کتاب أحادیث الانبیاء ] پھر سلسلۂ نبوت کو ایک عالی شان اور خوبصورت محل کے ساتھ تشبیہ دیتے ہوئے فرمایا : (إِنَّ مَثَلِیْ وَمَثَلَ الْأَنْبِیَاءِ مِنْ قَبْلِیْ کَمَثَلِ رَجُلٍ بَنٰی بَیْتًا فَأَحْسَنَہٗ وَأَجْمَلَہٗ إِلَّا مَوْضِعَ لَبِنَۃٍمِنْ زَاوِیَۃٍ فَجَعَلَ النَّاسُ یَطُوْفُوْنَ بِہٖ وَیَعْجَبُوْنَ لَہٗ وَیَقُوْلُوْنَ ھَلَّا وُضِعَتْ ھٰذِہِ اللَّبِنَۃُ قَالَ فَأَنَا اللَّبِنَۃُ وَأَنَا خَاتَمُ النَّبِیِّیْنَ) [ رواہ البخاری : کتاب المناقب، باب خاتم النبیین] ” بے شک میری اور مجھ سے پہلے انبیاء کی مثال اس آدمی کی طرح ہے جس نے ایک گھر بنایا پھر اس کو خوبصورت اور مزین کیا لیکن صرف ایک اینٹ کی جگہ ایک کونے میں رہ گئی۔ لوگ اس گھر کو دیکھتے اور اس ایک اینٹ کی جگہ خالی پا کر تعجب کرتے ہوئے کہتے : یہ اینٹ کیوں نہیں لگائی گئی؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : میں ہی وہ اینٹ ہوں اور میں خاتم النبیین ہوں۔“ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : (أَنَا سَیِّدُ وُلْدِ اٰدَمَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ وَلَا فَخْرَ وَبِیَدِیْ لِوَاءُ الْحَمْدِ وَلَا فَخْرَ وَمَا مِنْ نَبِیٍّ یَوْمَءِذٍ اٰدَمُ فَمَنْ سِوَاہُ إِلَّا تَحْتَ لِوَاءِیْ وَأَنَا أَوَّلُ مَنْ تَنْشَقُّ عَنْہُ الْأَرْضُ وَلَا فَخْرَ) [ رواہ الترمذی : کتاب المناقب ] ” میں قیامت کے دن آدم کی ساری اولاد کا سردار ہوں گا مگر اس اعزاز پر فخر نہیں کرتا اور میرے ہاتھ میں حمد کا جھنڈا ہوگا اس پر میں اتراتا نہیں اور قیامت کے دن آدم (علیہ السلام) سمیت تمام نبی میرے جھنڈے کے نیچے ہوں گے اور میں قیامت کے دن سب سے پہلے اپنی قبر سے اٹھوں گا اور مجھے اس پر کوئی فخر نہیں۔“ اللہ تعالیٰ کا ارشاد : ” جب اللہ تعالیٰ نے نبیوں سے عہد لیا کہ جب میں تمہیں کتاب وحکمت دوں پھر تمہارے پاس کوئی دوسرا رسول اسی چیز کی تصدیق کرتا ہوا آئے جو پہلے تمہارے پاس موجود ہے تو تمہارے لیے اس پر ایمان لانا اور اس کی مدد کرنا ضروری ہے فرمایا کہ تم اس کے اقراری ہو اور اس پر میرا ذمہ لے رہے ہو ؟ سب نے کہا کہ ہم اقرار کرتے ہیں‘ فرمایا اب گواہ رہو اور خود میں بھی تمہارے ساتھ گواہوں میں ہوں۔“ [ آل عمران : ٨١] رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : (لَاتُفَضِّلُوْا بَیْنَ أَنْبِیَاء اللّٰہِ )[ رواہ البخاری : أحادیث الأنبیاء، باب قول اللّٰہ تعالیٰ وإن یونس لمن المرسلین]” انبیاء کو آپس میں ایک دوسرے پر فضیلت نہ دو۔“ انبیاء کے درمیان مراتب کا تفاوت سمجھنے کے لیے طلبہ کی ایک کلاس کو سامنے رکھیں۔ استاد کی نظر میں تمام طلبہ عزیز ہوتے ہیں اور ہونے چاہییں۔ اس کی خواہش ہوتی ہے کہ میرا ہر طالب علم ایک دوسرے پر سبقت لے جائے۔ اس کے باوجود پوری کلاس میں مجموعی طور پر ایک ہی طالب علم قابلیت اور لیاقت کے اعتبار سے سب سے آگے ہوتا ہے۔ جب کہ جزوی لیاقت اور صلاحیت کے لحاظ سے کئی طلبہ کو ایک دوسرے پر برتری حاصل ہوتی ہے۔ ہوسکتا ہے مجموعی طور پر سرفہرست آنے والے طالب علم سے دوسرا طالب علم سائنس کے مضمون میں اس سے زیادہ نمبر حاصل کرتا ہو۔ اور یہی کیفیت دوسرے طالب علم کی کسی دوسرے مضمون میں ہو سکتی ہے۔ یہاں بھی انبیاء کو ایک دوسرے پر فضیلت و عظمت دینے کا یہی مفہوم ہوسکتا ہے کہ زمانے اور اقوام کے مزاج کے پیش نظر ایک نبی کو ایسے معجزات دیے گئے جو اس کے بعد آنے والے نبی کے دور اور مزاج کے لیے ضروری نہیں تھے۔ مثال کے طور پر موسیٰ (علیہ السلام) کے دور میں جادو کا علم اپنی انتہا کو پہنچا ہوا تھا اس لیے موسیٰ (علیہ السلام) کو ایسے معجزات عطا ہوئے کہ دنیا کے قابل ترین جادوگر شکست ماننے پر مجبور ہوئے۔ ان کے بعد ہر دور کے مطابق انبیاء معجزات کے ساتھ مبعوث کیے گئے یہاں تک کہ عیسیٰ (علیہ السلام) کو ایسے معجزات عطا ہوئے کہ ان کے سامنے ارسطو اور افلاطون کی طب ماند پڑگئی۔ پھر یہودیوں کی چیرہ دستیوں اور سازشوں سے محفوظ رکھنے کے لیے حضرت جبریل امین (علیہ السلام) کے ذریعے ان کی حفاظت کا انتظام کیا گیا تاآنکہ عیسیٰ ( علیہ السلام) زندہ آسمان پر اٹھالیے گئے۔ اتنے عظیم المرتبت پیغمبروں کی تشریف آوری اور ان کی گراں مایہ تعلیمات اور بے مثال جدوجہد کے باوجود بھی نہ صرف لوگ انکاری ہوئے بلکہ باطل نظریات کی خاطر انبیاء کرام سے لڑتے جھگڑتے رہے۔ یہ جرأت ان کو اس لیے حاصل نہ تھی کہ وہ اللہ تعالیٰ کی قدرت و سطوت سے باہر تھے بلکہ یہ اس لیے ہوتا رہا کہ اللہ تعالیٰ کی حکمت یہ ہے کہ حقائق لوگوں کے سامنے کھول کر رکھنے کے بعد دیکھا جائے کہ کون دل و دماغ اور بصارت و بصیرت سے کام لے کر ہدایت کے راستے پر گامزن ہوتا ہے اور کون ہدایت کا انکار کرتا ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ انہیں اپنی طاقت کے ذریعے روکنا چاہتاتو وہ ایک قدم بھی آگے نہ بڑھ سکتے تھے لیکن اللہ تعالیٰ اپنی حکمت کے مطابق ہی سب کچھ کیا کرتا ہے لہٰذا ان میں ایمان لانے والے بھی تھے اور کفروالحاد قبول کرنے والے بھی ہوئے۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے انبیاء کو ایک دوسرے پر فضیلت عطا فرمائی۔ ٢۔ موسیٰ (علیہ السلام) کو ہم کلامی کا شرف عطا کیا اور عیسیٰ (علیہ السلام) کی جبریل امین سے تائید فرمائی۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ چاہتا تو لوگ آسمانی ہدایت آنے کے بعد اختلاف نہ کرتے۔ تفسیربالقرآن انبیاء کے مراتب میں فرق : ١۔ آدم (علیہ السلام) کو اللہ نے خلیفہ بنایا۔ (البقرۃ: ٣٠) ٢۔ ابراہیم (علیہ السلام) کو اللہ نے اپنا خلیل بنایا۔ (النساء : ١٢٥) ٣۔ سلیمان (علیہ السلام) کو اللہ نے سب سے بڑا حکمران بنایا۔ (ص : ٣٥) ٤۔ داوٗد (علیہ السلام) کو اللہ نے دانائی عطا فرمائی۔ (ص : ٢٠) ٥۔ یعقوب (علیہ السلام) کو اللہ نے صبر جمیل عطا فرمایا۔ (یوسف : ٨٣) ٦۔ یوسف (علیہ السلام) کو اللہ نے حکمرانی اور پاک دامنی عطا فرمائی۔ (یوسف : ٣١) ٧۔ ادریس (علیہ السلام) کو اللہ نے مقا مِ علیا سے سرفراز کیا۔ (مریم : ٥٧) ٨۔ موسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ نے ہم کلامی کا شرف بخشا۔ (طٰہٰ: ١٢ تا ١٤) ٩۔ عیسیٰ (علیہ السلام) کو اپنا کلمہ قرار دیا۔ (النساء : ١٧١) ١٠۔ نبی مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو رحمۃ للعالمین وخاتم النبیّین بنایا۔ (الانبیاء : ١٠٧، الاحزاب : ٤٠) البقرة
254 فہم القرآن ربط کلام : انبیاء (علیہ السلام) کے مراتب‘ ان کے ادوار اور جدوجہد کے انداز کا فرق بیان کرنے کے بعد انفاق فی سبیل اللہ کا حکم دیا جو دنیا میں کامیابی کا اہم عنصر اور آخرت میں نجات کا ذریعہ ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنی عدالت عظمیٰ کے اصول بتلاتے ہیں کہ جس دن تمہیں اس کے حضور پیش ہونا ہے اس دن کوئی لین دین نہیں ہوگا۔ آج وہ تمہیں بار بارحکم دیتا ہے کہ آؤ میرے راستے میں خرچ کرو۔ یہ میرے ساتھ تمہارا لین دین ہے۔ تمہارا خرچ کرنا رائیگاں نہیں جائے گا بلکہ تمہیں اس کے بدلے کئی گنا زیادہ عطا ہوگا۔ مگر یہ لین دین صرف دنیا کی زندگی میں ہے۔ اس کے بعدآخرت میں اپنی نجات کے بدلے تم سب کچھ دینے کے لیے تیار ہوگے لیکن کوئی لینے اور قبول کرنے والا نہیں ہوگا۔ تمہاری ایک دوسرے کے ساتھ دوستی اور محبت کام نہ آئے گی اور کوئی سفارش بھی فائدہ مند نہ ہوگی۔ اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ نہ کرنے اور قیامت کا انکار کرنے والے ہی ظالم ہیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان ہے کہ لوگوآگ سے بچو ! اگرچہ تمہیں کھجور کا ایک ٹکڑا ہی صدقہ کرنا پڑے۔ [ رواہ البخاری : کتاب الزکوٰۃ، باب إتقوا النار ولوبشق تمرۃ ] مسائل ١۔ مرنے سے پہلے پہلے اللہ کی راہ میں صدقہ کرنا چاہیے۔ ٢۔ قیامت کا انکار کرنے والے ظالم ہیں۔ ٣۔ قیامت کے دن لین دین، دوستی اور کوئی سفارش قبول نہیں ہوگی۔ تفسیربالقرآن اللہ تعالیٰ کی عدالت کے ضابطے : ١۔ قیامت کے دن دوستی اور سفارش کام نہ آئے گی۔ (ابراہیم : ٣١) ٢۔ قیامت کو لین دین نہیں ہوسکے گا۔ (البقرۃ: ٢٥٤) ٣۔ قیامت کے دن کوئی دوست کسی دوست کے کام نہیں آئے گا۔ (الدخان : ٤١، ٤٢) ٤۔ قیامت کے دن متقین کے سوا سب ایک دوسرے کے دشمن بن جائیں گے۔ (الزخرف : ٦٧) البقرة
255 فہم القرآن ربط کلام : صاحب ایمان مخیر حضرات کو ان کے نیک اعمال اور صدقات کا بدلہ عطا کرنے والا اور ظالموں کو ٹھیک ٹھیک سزا دینے والا اللہ تعالیٰ ہے جس کی ذات اور صفات میں کوئی شریک نہیں۔ لہٰذا وہی دنیا و آخرت میں تمہارا مالک‘ خالق اور نگران ہے۔ آخرت میں کوئی اس کے سامنے دم نہیں مار سکے گا۔ البتہ دنیا میں اس نے بطور آزمائش تمہیں کچھ اختیار دے رکھے ہیں۔ جس کی وجہ سے وہ کسی پر ہدایت مسلط نہیں کرتا۔ اس آیت مبارکہ کو آیت الکرسی کہا گیا ہے۔ کچھ اہل علم نے کرسی کا معنیٰ اللہ تعالیٰ کا اقتدار لیا ہے لیکن صحابہ اور تابعین کی اکثریت نے اس سے مراد کرسی لی ہے۔ اس آیت کی عظمت و فضیلت کے بارے میں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ابی بن کعب (رض) سے یوں ارشاد فرمایا : ” اے ابو منذر! تجھے علم ہے کہ کتاب اللہ کی عظیم آیت کونسی ہے؟ میں نے عرض کیا اللہ اور اس کا رسول زیادہ جانتے ہیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پھر دریافت فرمایا ابو منذر! تو جانتا ہے کہ قرآن کی عظیم آیت کونسی ہے؟ ابی بن کعب کہتے ہیں میں نے جواباً عرض کیا کہ (أَللّٰہُ لَاإِلٰہَ إِلَّا ھُوَ الْحَیُّ الْقَیُّوْمُ) (یعنی آیت الکرسی) آپ نے میرے سینے پرتھپکی دیتے ہوئے فرمایا اے ابو منذر! اللہ تجھے تیرا علم مبارک کرے۔“ [ رواہ مسلم : کتاب صلوۃ المسافرین وقصرھا] اس عظیم آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے معبودِ حق ہونے کی چودہ صفات بیان فرمائی ہیں جو انسان، جنات، ملائکہ اور کائنات کی کسی چیز میں نہیں پائی جاتیں۔ گویا کہ وہ اپنی ذات اور صفات کے اعتبار سے بے مثال، لازوال اور لا شریک ہے۔ اللہ تعالیٰ کے اسم مبارک ” اللہ“ کے بارے میں امام رازی نقل کرتے ہیں کہ یہ ” اَلَھْتُ اِلَی فُلاَنٍ“ سے مشتق ہے۔ اس کے معنی ہیں ” سَکَنْتُ اِلٰی فُلاَنٍ“ یعنی وہ ہستی جس کے نام سے سکون حاصل کیا جائے اور وہ معبود برحق ہے۔ زمین و آسمان اور پوری کائنات میں اس کے سوا کوئی اِلٰہ نہیں وہی اِلٰہ واحد ہے۔ اہل علم نے لفظ اِلٰہ کے جتنے مصادر بیان کیے ہیں ہر ایک کا معنیٰ اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور الوہیت کا کامل تصور رکھتا ہے۔ جس کے معانی ہیں اونچی شان والا، کائنات کی نظروں سے پوشیدہ، سب کی ضرورتیں پوری کرنے والا اور جس کی ذات سے پناہ طلب کی جائے۔ جس سے سب سے زیادہ محبت کی جائے اس کی عبادت کرنی چاہیے۔ اکیلا ہی عبادت کے لائق، ہمیشہ زندہ رہنے والا اور ہر چیز کو حیات بخشنے والا، ہر دم اور ہر لحاظ سے قائم رہنے والا اور جب تک چاہے کائنات کی ہر چیز کو قائم رکھنے والا۔ ایسی ذات جسے نہ اونگلاہٹ آئے اور نہ ہی اس کی ذات کے بارے میں نیند کا تصور کیا جا سکے۔ زمین و آسمان میں ذرّہ ذرّہ اسی کی ملکیت ہے۔ اس کی جناب میں اس کی اجازت کے بغیر کوئی بات اور سفارش کرنے کی جرأت نہیں کرسکتا وہ سب کچھ جانتا ہے جو ہوچکا‘ جو موجود ہے اور جو کچھ ہونے والا ہے۔ اس کے علم سے کوئی کچھ بھی حاصل نہیں کرسکتا سوائے اس کے جسے وہ خود کچھ عطا کرنا چاہے۔ اس کا اقتدار اور اختیار زمین اور آسمانوں پر ہمیشہ سے قائم ہے اور ہمیشہ قائم رہیگا۔ زمین و آسمان اور جو کچھ ان میں ہے ان کی حفاظت سے اسے نہ تھکاوٹ ہوتی ہے اور نہ اکتاہٹ۔ وہ اپنے مقام و مرتبہ اور ذات و صفات کے لحاظ سے بلند و بالا اور رفعت و عظمت والا ہے۔ حضرت ابو امامہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جس نے ہر فرض نماز کے بعد آیۃ الکرسی پڑھی اسے جنت میں داخل ہونے سے صرف موت ہی مانع ہے۔[ صحیح الجامع الصغیر للألبانی : ٦٤٦٤] حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے صدقۂ فطر کی حفاظت پر مقرر کیا۔ ایک شخص آیا اور غلہ چوری کرنے لگا میں نے اس کو پکڑ لیا اور کہا : میں تجھے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس لے جاؤں گا ؟ وہ کہنے لگا میں محتاج، عیالدار اور سخت تکلیف میں ہوں چنانچہ میں نے اسے چھوڑ دیا۔ جب صبح ہوئی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھ سے پوچھا : ابوہریرہ! آج رات تمہارے قیدی نے کیا کہا؟ میں نے عرض کی یارسول اللہ! اس نے محتاجی اور عیالداری کا شکوہ کیا۔ مجھے رحم آیا تو میں نے اسے چھوڑ دیا۔ آپ نے فرمایا دھیان رکھنا وہ جھوٹا ہے وہ پھر تمہارے پاس آئے گا۔ چنانچہ اگلی رات وہ پھر آیا اور غلہ اٹھانے لگا۔ میں نے اسے پکڑ لیا اور کہا آج تو ضرور میں تمہیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس لے جاؤں گا۔ وہ کہنے لگا مجھے چھوڑ دو میں محتاج اور عیالدار ہوں آئندہ نہیں آؤں گا۔ مجھے پھر رحم آگیا اور اسے چھوڑ دیا۔ صبح ہوئی تو آپ نے مجھے پوچھا ابوہریرہ تمہارے قیدی نے کیا کیا؟ میں نے کہا یارسول اللہ! اس نے سخت محتاجی اور عیالداری کا شکوہ کیا مجھے رحم آگیا تو میں نے اسے چھوڑ دیا۔ آپ نے فرمایا خیال رکھناوہ جھوٹا ہے وہ پھر آئے گا۔ چنانچہ تیسری بار میں تاک میں رہا وہ آیا اور غلہ سمیٹنے لگا میں نے اسے پکڑ لیا۔ اس نے کہا مجھے چھوڑ دو میں تمہیں چند کلمے سکھاتا ہوں جو تمہیں فائدہ دیں گے۔ میں نے کہا وہ کیا ہیں؟ کہنے لگا جب تو سونے لگے تو آیۃ الکرسی پڑھ لیا کر۔ اللہ کی طرف سے ایک فرشتہ تیرا نگہبان ہوگا اور صبح تک شیطان تیرے پاس نہیں آئے گا۔ چنانچہ میں نے اسے چھوڑ دیا۔ صبح ہوئی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھ سے پوچھا تیرے قیدی نے آج رات کیا کیا؟ میں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ساری بات بتلادی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اس نے یہ بات سچی کہی حالانکہ وہ کذاب ہے۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھ سے کہا ابوہریرہ (رض) جانتے ہو تین راتیں کون تمہارے پاس آتارہا ہے؟ میں نے عرض کی نہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : وہ شیطان تھا۔ [ رواہ البخاری : کتاب الوکالۃ، باب إذا وکل رجلا فترک الوکیل شیئا الخ] مسائل ٩۔ اللہ تعالیٰ لوگوں کے پہلے اور بعد کے حالات جانتا ہے۔ ١٠۔ اس کی مرضی کے بغیر اس کے علم سے کوئی کچھ حاصل نہیں کرسکتا۔ تفسیربالقرآن اللہ تعالیٰ ہمیشہ رہنے والا ہے : ١۔ ہر چیز تباہ ہوجائے گی صرف اللہ کی ذات کو دوام حاصل ہے۔ (الرحمن : ٢٧) ٢۔ اللہ کے علاوہ ہر شے ہلاک ہوجائے گی۔ (القصص : ٨٨) ٣۔ اللہ ہی ازلی اور ابدی ذات ہے۔ (الحدید : ٣) قیامت کے دن سفارش کے اصول : ١۔ اللہ تعالیٰ کی اجازت کے بغیر سفارش نہیں ہوسکے گی۔ (البقرۃ: ٢٥٥) ٢۔ سفارش بھی اللہ تعالیٰ کی مرضی کے مطابق ہوگی۔ (النبا : ٣٨) ٣۔ اللہ تعالیٰ اپنی پسندکی بات ہی قبول فرمائیں گے۔ (طٰہٰ: ١٠٩) ٤۔ اللہ کی اجازت کے بغیر کوئی سفارش کا حقدار نہ ہوگا۔ (یونس : ٣) ٥۔ سفارش کا اختیار اسی کو ہوگا جسے رحمن اجازت دے گا۔ (مریم : ٨٧) ٦۔ اگر رحمننقصان پہنچانا چاہے تو کسی کی سفارش کچھ کام نہ آئے گی۔ (یٰس : ٢٣) ٧۔ سفارشیوں کی سفارش ان کے کسی کام نہ آئے گی۔ (المدثر : ٤٨) ٨۔ وہی سفارش کرسکے گا جس کی سفارش پر رب راضی ہوگا۔ (الانبیاء : ٢٨) البقرة
256 فہم القرآن ربط کلام : قدرت و سطوت ہونے کے باوجود اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کو منوانے کا جبری طریقہ اختیار نہیں فرمایا۔ اس فرمان میں واضح اشارہ ہے کہ توحید کا دوسرا نام دین ہے۔ اس کے بغیر نہ لوگوں کا دین صحیح اور پختہ ہوسکتا ہے اور نہ ہی تعلق باللہ مضبوط ہو سکے گا عقیدہ توحید اپنانا مضبوط رسی تھامنے کے مترادف ہے جس طرح رسی تھامنے والا بھنور میں نہیں ڈوبتا۔ اسی طرح عقیدہ توحید پر قائم رہنے والا اختیار کرنے والا دنیا و آخرت کے مسائل اور مصائب میں نہیں ڈولتا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی رہنمائی اور دستگیری کرنے والا ہے جبکہ شیطان اللہ کے منکروں کو جہالت کے اندھیروں میں دھکیلتا ہے۔ یہاں لفظ دین سے پہلی مراد اللہ تعالیٰ کی توحید ہے۔ اس کی نہایت مختصر مگر جامع تعریف آیت الکرسی میں کردی گئی ہے۔ جس کا مفہوم یہ ہے کہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی ملکیت ہے اور ہر چیز اس کے حکم کی غلام اور تابع فرمان ہے۔ کوئی اس کے سامنے دم نہیں مار سکتا کوئی راز اور بات اس سے مخفی نہیں‘ نہ ہی وہ کسی بات سے غافل ہے۔ وہ ہمیشہ سے قائم دائم اور جب تک کسی چیز کو چاہے اسے زندہ اور قائم رکھنے والا ہے۔ زمین و آسمان کی حفاظت و نگرانی سے نہ تھکتا ہے اور نہ اکتاہٹ محسوس کرتا ہے۔ اس کی حکومت ہواؤں اور فضاؤں حتی کہ زمین کے ذرّے ذرّے اور آسمان کے چپّے چپّے پر قائم ہے۔ اس کے اقتدار و اختیار کی وسعتیں لامحدود ہیں۔ وہ ہر چیز پر بلند و بالا اور اپنی عظمت و سطوت قائم رکھے ہوئے ہے۔ اس کے باوجود اس نے اپنی ذات اور بات منوانے کے لیے جبر و اکراہ کا اندازاختیار نہیں فرمایا۔ ذرا سوچیے کہ انسان نے دنیا میں آکر کون سے جرائم اور بغاوتیں نہیں کیں؟ اگر اللہ تعالیٰ روکنا چاہتاتو اس کی قوت وطاقت سے کچھ بھی باہر نہ تھا لیکن اس نے ہدایت کو گمراہی سے کئی گنا واضح اور آسان فرما کر انسان کو سمجھایا کہ اگر تو اپنے رب کی ذات اور اس کی بات پر ایمان لے آئے تو تیرا رب کے ساتھ ایسا تعلق اور رشتہ قائم ہوجائے گا جو کبھی ٹوٹنے والا نہیں ہے۔ لیکن شرط یہ ہے کہ اس کی ذات اور فرمان کو بلا شرکت غیرے تسلیم کرتے ہوئے ہر شیطانی قوت کا انکار کرے۔ دنیا میں جتنے بھی حلف لیے جاتے ہیں ان میں حلف اٹھانے والا صرف یہی کہتا ہے کہ میں فلاں قانون، دستور اور سلطنت یا مملکت کا وفا دار رہوں گا۔ اسلام صرف اس شخص کا حلف تسلیم کرتا ہے جو پہلے غیر اللہ کا انکار کرے اور پھر اپنے خالق ومالک کی ذات و صفات کا اقرار کرے تب جا کر حلف مکمل اور آدمی حلقۂ اسلام میں داخل ہوتا ہے۔ جہاں تک دین میں جبر نہ کرنے کا تعلق ہے اس کے بارے میں کچھ لوگ تو واقعتاغلط فہمی میں مبتلا ہیں لیکن زیادہ تر غلط فہمی پیدا کرنے والے ہیں۔ غلط فہمی پیدا کرنے والے کوئی ان پڑھ، دیہاتی اور اجڈلوگ نہیں بلکہ نہایت تعلیم یافتہ، ترقی پسند اور اپنے آپ کو مہذب ترین سمجھنے والے ہیں۔ انہیں انفرادی طور پر دین کی دعوت دی جائے یا ملک میں نفاذ شریعت کی بات چلے تو وہ کہنا شروع کردیتے ہیں کہ جبرًا کسی کو مسجدوں کی طرف نہیں دھکیلا جا سکتا‘ مذہب انسان کا ذاتی معاملہ ہے‘ اس میں حکومت کو بھی دخل اندازی کا کوئی حق نہیں اور جبری عبادت تو ویسے ہی قبول نہیں ہوتی۔ پھر یکدم اس آیت کریمہ کے الفاظ یا اس کے مفہوم کا حوالہ دیتے ہیں۔ بالخصوص حدود کے نفاذ کی بات ہو تو ان کو فوری خطرات لاحق ہوتے ہیں کہ اس طرح تو لوگوں کے ہاتھ کٹ جائیں گے۔ اسلام کے حوالے سے چوری کی روک تھام کی بات کی جائے تو وہ کہتے ہیں کہ پہلے لوگوں کے روزگار کا بندوبست کیا جائے۔ گویا کہ ان کے نزدیک جب تک ملک میں شہد کی نہریں نہ چل نکلیں کسی چور اور ڈاکو کو سزا نہیں ملنی چاہیے۔ کچھ جرأت مند بےدین تو حدوداللہ کو ویسے ہی وحشیانہ قانون قرار دیتے ہیں۔ سختی کا حکم جہاں تک قانون اور حدود کا تعلق ہے تو دنیا میں کونسا ایسا ملک ہے جہاں چور، ڈاکو اور قاتل کو سزا دینے کی بجائے تمغۂ جرأت عطا کیا جاتا ہے؟ ہر ملک میں ایسے لوگوں کو کچھ نہ کچھ سزائیں ضرور دی جاتی ہیں۔ حکومت اور انتظامیہ کے وجود کا مقصدہی ملک میں اجتماعی نظام کی حفاظت اور قانون کا نفاذ ہوا کرتا ہے تاکہ لوگ ایک دوسرے پر زیادتی نہ کرسکیں۔ اگر کوئی قانون کا احترام نہیں کرتا اور اس پر قانون کا نفاذنہ کیا جائے تو حکومت اور مملکت کے اجتماعی نظام کی کیا ضرورت باقی رہ جاتی ہے؟ اس بات سے ہی اس حقیقت کو سمجھنا چاہیے کہ اگر اسلامی مملکت میں مجرم کو شریعت کے مطابق سزا نہ دی جائے تو پھر حدودو قصاص کی آیات اور احادیث کا کیا مقصد ہوگا؟ اگر حدود نافذ کرنا حکومت کا لوگوں کے ذاتی معاملات میں مداخلت کرنا ہے تو پھر کیا لوگوں کو ایک دوسرے پر قانون نافذ کرنے کی اجازت دے دینی چاہیے یا معاشرے کو کھلا چھوڑ دینا چاہیے؟ دین میں جبر نہ ہونے کا فقط اتنا ہی مفہوم ہے کہ غیر مسلم کو جبرًامسلمان نہیں بنایا جا سکتا۔ جہاں تک اس معاملہ میں ملت اسلامیہ کے کردار و اخلاق کا تعلق ہے مسلمان تقریباً نو سو سال تک مشرق سے مغرب اور جنوب سے شمال تک بلا شرکت غیرے حکمران رہے۔ کیا انہوں نے کسی معبد خانے، کلیسا اور آتش کدہ میں جا کر تلوار کی دھار اور نیزے کی نوک سے لوگوں کو مسلمان بنایا ؟ ہرگز نہیں! ایسا کرنا تو درکنار انہوں نے دوسروں کے عبادت خانوں میں جا کر دعوت اسلام دینا بھی اخلاقیات کے منافی اور دوسروں کے حقوق میں مداخلت سمجھا تاکہ غیر مسلم جبر کا پہلو محسوس نہ کریں۔ یہاں تک کہ حالت جنگ میں بھی کسی کو جبرًامسلمان بنانے کی مثال پیش نہیں کی جا سکتی کیونکہ مسلمان کو روز اول ہی سے حکم ہوا ہے کہ دین میں جبرنہیں۔ تاہم جو لوگ حلقۂ اسلام میں داخل ہونے کا اعلان کردیں ان کو جبراً نماز پڑھانا، ان سے زکوٰۃ وصول کرنا اور ان پر اسلامی قانون جاری کرنا حکومت کا فرض ہے۔ ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انتقال فرمایا اور حضرت ابوبکر (رض) کو خلیفہ بنایا گیا تو عرب کے کچھ قبائل نے زکٰو ۃ دینے سے انکار کردیا۔ حضرت ابو بکر صدیق (رض) نے فرمایا میں ان کے خلاف جہاد کروں گا۔ یہاں تک کہ یہ لوگ زکٰوۃ ادا کریں۔ حضرت عمر (رض) نے حضرت ابوبکر (رض) سے کہا آپ ان لوگوں سے کیسے لڑیں گے جب کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے کہ مجھے لوگوں سے اس وقت تک لڑنے کا حکم ہے جب تک وہ لاإلہ إلا اللہ نہ کہیں۔ جس نے یہ شہادت دے دی اس نے اپنا مال اور اپنی جان مجھ سے بچالیے إلا یہ کہ وہ کوئی ایسا کام کرے جس سے سزا کے طور پر اس کے کوئی جرمانہ، دیت وصول کی جائے یا اسکو جسمانی سزا دی جائے۔ اس کے جواب میں حضرت ابوبکر (رض) نے کہا اللہ کی قسم! میں اس شخص سے ضرور لڑوں گا جو نماز اور زکوٰۃ میں فرق کرے گا۔ اس لیے کہ زکوٰۃ اللہ کا حق ہے اللہ کی قسم! اگر یہ لوگ زکوٰۃ کی مد میں مجھے بکری کا ایک بچہ نہ دیں جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیا کرتے تھے تو میں ان سے ضرور لڑوں گا۔ تب حضرت عمر (رض) نے کہا اللہ کی قسم! اس کے بعد میں سمجھ گیا کہ ابوبکر (رض) کے دل میں جو جہاد کا ارادہ پیدا ہوا ہے یہ اللہ تعالیٰ ہی نے ان کے دل میں ڈالا ہے اور میں سمجھ گیا کہ حضرت ابوبکر (رض) کی رائے درست ہے۔“ [ رواہ البخاری : کتاب الزکوۃ، باب وجوب الزکوۃ] (عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَیْبٍ عَنْ أَبِیْہِ عَنْ جَدِّہٖ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مُرُوْا أَوْلَادَکُمْ بالصَّلَاۃِ وَھُمْ أَبْنَاءُ سَبْعِ سِنِیْنَ وَاضْرِبُوْھُمْ عَلَیْھَا وَھُمْ أَبْنَاءُ عَشْرٍ وَفَرِّقُوْا بَیْنَھُمْ فِی الْمَضَاجِعِ) [ رواہ أبوداوٗد : کتاب الصلوۃ] ” عمرو بن شعیب اپنے باپ سے اور وہ اپنے والد سے بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب تمہارے بچے سات سال کے ہوجائیں تو انہیں نماز کی تلقین کرو جب دس سال کے ہوں تو انہیں جبراً نماز پڑھاؤ اور ان کے بستر جدا کردو۔“ ان دلائل سے ثابت ہوا کہ کلمہ گو کو جبراً شریعت پر چلایاجائے گا۔ الکرسی سے مرا دکرسی ہی لینی چاہیے۔ کچھ لوگوں نے کرسی سے مرا داللہ تعالیٰ کا اقتدار لیا ہے۔ واللہ اعلم مسائل ١۔ دین میں جبر نہیں کیونکہ ہدایت گمراہی سے نمایاں ہوچکی ہے۔ ٢۔ طاغوت کا انکار اور اللہ تعالیٰ پر ایمان لانانہ ٹوٹنے والی رسی کو پکڑنا ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ سب کچھ سننے اور جاننے والاہے۔ تفسیربالقرآن دین میں جبر نہیں : ١۔ دین میں جبر نہیں۔ (البقرۃ: ٢٥٦) ٢۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو لوگوں پر داروغہ نہیں بنایا گیا۔ (بنی اسرائیل : ٥٤) ٣۔ نبی کسی کو ہدایت کے لیے مجبور نہیں کرسکتا۔ (القصص : ٥٦) ٤۔ نبی کسی پر نگران نہیں ہوتا۔ (النساء : ٨٠) البقرة
257 فہم القرآن ربط کلام : عقیدہ توحید اللہ تعالیٰ سے مضبوط تعلق جوڑنے کا نام ہے جب آدمی اللہ تعالیٰ سے مخلصانہ تعلق قائم کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ از راہ کرم اسے اپنا دوست بنا کر روشن مستقبل کی رہنمائی فرماتا ہے۔ جب آدمی اللہ تعالیٰ پر کامل ایمان لائے اور شیطانی قوتوں کا انکار اور ان کے خلاف سینہ سپر ہوجائے تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے اپنی ہدایت کے راستے کھول دیتا ہے۔ یہاں ہدایت کو نور اور طاغوتی راستوں کو ظلمات سے تعبیر کیا گیا ہے۔ کیوں کہ شاہراہ ہدایت ایک ہی ہے اور شیطان کے راستے بے شمار ہیں جیسا کہ روشنی ایک ہے اور اندھیرے کئی قسم کے ہیں۔ یہی ایمان قیامت کے دن نور بن کر جنتیوں کے لیے مشعل راہ ہوگا۔ کفر و نفاق تاریکی بن کر جنت کے راستے میں حائل ہوجائے گا۔ ایسے لوگ جہنم میں دھکیلے جائیں گے جس میں انہیں ہمیشہ رہنا ہوگا۔ [ الحدید : ١٣] جب آدمی اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کے سپرد کر دے تو اللہ بندے کو اپنا دوست بنا لیتا ہے۔ اسے اپنی طرف آنے کی توفیق بخشتا اور اس کی رہنمائی کرتا ہے۔ جوں جوں بندۂ مومن اللہ تعالیٰ کی محبت سے سرشار اور اس کے حکم پر نثار ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کی آنکھ، کان اور جوارح پر چھا جاتا ہے اور وہ اپنے دوستوں کی رہنمائی ہی نہیں کرتا بلکہ وہ اپنے بندے کے دشمن کا دشمن ہوجاتا ہے اور اعلان کرتا ہے کہ میرے دوستوں کو دنیا و آخرت میں کوئی خوف نہ ہوگا۔ اس کے برعکس شیطان اپنے دوستوں کو نور ہدایت سے نکال کر گمراہی کے اندھیروں میں دھکیل دیتا ہے۔ (عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) إنَّّ اللّٰہَ قَالَ مَنْ عَادٰی لِیْ وَلِیًّا فَقَدْ آذَنْتُہٗ بالْحَرْبِ وَمَا تَقَرَّبَ إِلَیَّ عَبْدِیْ بِشَیْءٍ أَحَبَّ إِلیَّ مِمَّا افْتَرَضْتُ عَلَیْہِ وَمَا یَزَالُ عَبْدِیْ یَتَقَرَّبُ إِلَیَّ بالنَّوَافِلِ حَتّٰی أُحِبَّہٗ فَإِذَا أَحْبَبْتُہٗ کُنْتُ سَمْعَہُ الَّذِیْ یَسْمَعُ بِہٖ وَبَصَرَہُ الَّذِیْ یَبْصُرُبِہٖ وَیَدَہُ الَّتِیْ یَبْطِشُ بِھَا وَرِجْلَہُ الَّتِیْ یَمْشِیْ بِھَا وَإِنْ سَأَلَنِیْ لَأُعْطِیَنَّہٗ وَلَءِنِ اسْتَعَاذَنِیْ لَأُعِیْذَنَّہٗ وَمَا تَرَدَّدْتُ عَنْ شَیْءٍ أَنَا فَاعِلُہٗ تَرَدُّدِیْ عَنْ نَفْسِ المُؤْمِنِ یَکْرَہُ الْمَوْتَ وَأَنَا أَکْرَہُ مَسَاءَ تَہٗ) [ رواہ البخاری : کتاب الرقاق، باب التواضع ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جس نے میرے دوست سے دشمنی کی میں اس سے اعلان جنگ کرتا ہوں۔ میں نے جو چیزبندے پر فرض کی اس سے زیادہ مجھے کوئی چیز محبوب نہیں جس سے وہ میرا قرب حاصل کرے بندہ نوافل کے ذریعے میرا قرب حاصل کرتا رہتا ہے حتیٰ کہ میں اس سے محبت کرتا ہوں۔ جب میں اس کے ساتھ محبت کرتا ہوں تو میں اس کے کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے، اس کی آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے، اس کے ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے اور اس کے پاؤں بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے۔ اگر سوال کرے تو میں اسے عطا کرتاہوں‘ اگر مجھ سے پناہ طلب کرے تو میں اسے پناہ دیتاہوں۔ میں اپنے کسی کام میں اتنا تردُّد نہیں کرتاجتنا ایک مومن کی جان قبض کرنے میں کرتا ہوں کیونکہ بندہ موت کو ناپسند کرتا ہے اور مجھے اس کی تکلیف اچھی نہیں لگتی۔“ (عَنْ أَنَسٍ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فِیْمَا یَرْوِیْہِ عَنْ رَبِّہٖ قَالَ إِذَا تَقَرَّبَ الْعَبْدُ إِلَیَّ شِبْرًا تَقَرَّبْتُ إِلَیْہِ ذِرَاعًا وَإِذَا تَقَرَّبَ مِنِّیْ ذِرَاعًا تَقَرَّبْتُ مِنْہُ بَاعًا وَإِذَا أَتَانِیْ یَمْشِیْ أَتَیْتُہٗ ھَرْوَلَۃً) [ رواہ البخاری : کتاب التوحید] ” حضرت انس (رض) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے وہ بات بیان کرتے ہیں جو آپ اللہ تعالیٰ سے بیان کرتے ہیں یعنی یہ حدیث قدسی ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جب بندہ میری طرف ایک بالشت بڑھتا ہے تو میں اس کی طرف ایک ہاتھ بڑھتاہوں اور جب وہ میری طرف ایک ہاتھ بڑھتا ہے تو میں اس کی طرف دو ہاتھ بڑھتاہوں اور جب وہ میری طرف چل کر آتا ہے تو میں اس کی طرف دوڑ کر آتاہوں۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ مومنوں کا دوست ہے اور انہیں اندھیروں سے روشنی کی طرف لاتا ہے۔ ٢۔ شیطان اپنے دوستوں کو روشنی سے اندھیروں میں دھکیلتا ہے۔ ٣۔ شیطان کے دوست ہمیشہ جہنم میں رہیں گے۔ النور : ١۔ اللہ تعالیٰ ہی زمین و آسمان کا نور ہے۔ (النور : ٣٥) ٢۔ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی روشنی نہیں دے سکتا۔ (النور : ٤٠) ٣۔ اللہ تعالیٰ ایمان والوں کو روشنی کی طرف لاتا ہے۔ (البقرۃ: ٢٥٧) ٤۔ رسول لوگوں کو روشنی کی دعوت دیتا ہے۔ (ابراہیم : ١) ٥۔ تورات وانجیل نور ہیں۔ (المائدۃ: ٤٦) ٦۔ قرآن بھی نور ہے۔ (المائدۃ: ١٥) البقرة
258 فہم القرآن ربط کلام :ٰ جس طرح اللہ تعالیٰ مردہ روح کو نور ایمان سے زندہ کرتا ہے اسی طرح وہ مردہ جسم کو دوبارہ زندگی عطا کرنے پر قادر ہے۔ اللہ تعالیٰ قیامت کو لوگوں کو زندہ فرمائے گا جس کی امثال پیش کی جارہی ہیں۔ ایک دنیا پرست اور کوتاہ نظر انسان کی عادت ہوتی ہے کہ جونہی اسے کوئی نعمت و افر مقدار میں میسر ہو تو اس کی فطرت بغاوت پر اتر آتی ہے۔ جن نعمتوں کے ملنے کے بعد آدمی بہت جلد غرور اور تکبر کا مظاہرہ کرتا ہے ان نعمتوں میں اقتدار اور اختیار ایسی چیز ہے جب اس کانشہ دماغ پر غالب آتا ہے تو آدمی اپنے محسنوں کو بھول ہی نہیں جاتا بلکہ بسا اوقات ان کی جان کا دشمن بن جاتا ہے۔ خیر خواہی کرنے والوں کو مخالف اور چاپلوسی کرنے والوں کو خیر خواہ سمجھتا ہے۔ ایسے شخص کے پاس زیادہ عرصہ اقتدار رہے تو وہ اس زعم باطل میں مبتلا ہوجاتا ہے کہ سب کچھ میری ذاتی صلاحیتوں اور کارکردگی کا نتیجہ ہے بالآخر وہ عملاً اپنے آپ کو خدائی مقام پر فائز سمجھتا ہے۔ نمرود جب اس خمار میں مبتلا ہوا تو اس نے اپنے آپ کو زمین پر خدائی اوتارکے طور پر متعارف کروایا۔ اس قسم کے حکمرانوں کی بنیادی سوچ یہ ہوتی ہے کہ ہر قانون ان کے تابع ہو اور دین کا دنیاوی معاملات سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ جس کو آج کل کی زبان میں یوں کہا جاتا ہے کہ سیاست اور دین دو متضاد چیزیں ہیں۔ دین کا ریاست اور سیاست کے معاملات میں کوئی دخل نہیں ہونا چاہیے کیونکہ ان کے بقول دین ملک کی ترقی میں رکاوٹ بنتا ہے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا نمرود سے واسطہ پڑا جو کہ نبوت کی تاریخ میں پہلا واقعہ تھا۔ اس سے پہلے انبیاء کرام (علیہ السلام) عوام الناس کو تبلیغ کیا کرتے تھے اور کسی حکمران کے ساتھ دین کے حوالے سے بالمشافہ گفتگو کرنے کی ضرورت پیش نہیں آئی تھی۔ جونہی حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اسے اللہ تعالیٰ کی توحید پیش فرمائی تو اس نے اپنے سیاسی تحفظات کی بنا پر رب کائنات کی ہستی کا انکار کیا اور پھر اپنے مؤقف کے بارے میں باطل اور فرسودہ دلائل دینے لگا۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے سمجھایا کہ میں اس خالق حقیقی کی بات کر رہا ہوں جو موت و حیات کا مالک ہے۔ اللہ کا باغی کہنے لگا یہ کام تو میں بھی کرسکتا ہوں۔ میں چاہوں تو جلاد کو حکم دوں کہ فلاں آدمی کو قتل کردیا جائے۔ جب جلاّد تلوار اٹھائے تو میں اسے ایسا کرنے سے روک دوں لہٰذا مارنا اور زندہ کرنا کونسا مشکل کام ہے۔ اکثر مفسّرین نے لکھا ہے کہ اس نے موت کی سزاپانے والے قیدی کو رہا کردیا اور رہا ہونے والے کو قتل کرنے کا حکم جاری کیا۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اس کا تکبر اور ہٹ دھرمی دیکھ کر اپنی دلیل کی لطافت سمجھانے اور اس کے ساتھ الجھنے کے بجائے یک دم فرمایا میں اس رب کی بات کر رہا ہوں جو سورج کو مشرق سے طلوع کر کے مغرب میں غروب کرتا ہے اگر تو اپنے آپ کو خدا سمجھتا ہے تو سورج کو مغرب سے طلوع کر۔ یہ ایسی اچانک، واضح اور ٹھوس دلیل تھی جس کا وہ جواب نہ دے سکا۔ یہاں بعض اہل علم نے لکھا ہے کہ اگر وہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے کہتا کہ تیرا رب سورج کو مغرب سے طلوع کرکے دکھائے تو اللہ تعالیٰ اس کو جھوٹا ثابت کرنے کے لیے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی تائید میں ایسا کردیتے لیکن حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے سامنے دلیل کی تاب نہ لاکر نمرود اس قدر بوکھلا چکا تھا کہ اس کے حواس ٹھکانے نہ رہے کیونکہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو بات کرنے کاسلیقہ معجزہ کے طور پر عطا ہوا تھا۔[ الشعراء : ٨٣] جب وہ اپنے مخالفوں سے بات کرتے تو لوگ ان کے سامنے دم بخود رہ جاتے تھے۔ چنانچہ نمرود کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔ یہی سچے دین کی خوبی ہے کہ وہ ہر دور میں علمی برتری اور ٹھوس دلائل کے حوالے سے باطل نظریات پر غالب رہا ہے اور ہمیشہ بالادست رہے گا۔ جو لوگ حقائق کے سامنے لاجواب ہو کر بھی حق قبول نہیں کرتے اللہ تعالیٰ ایسے ظالموں کو ہدایت نہیں دیا کرتا کیونکہ ہدایت کے لیے عاجزی اور سچی طلب ضروری ہوا کرتی ہے۔ مسائل ١۔ موت و حیات کا صرف اللہ ہی مالک ہے۔ ٢۔ شمس و قمر سمیت اللہ کے نظام میں کوئی دخل نہیں دے سکتا۔ ٣۔ اللہ کے منکروں کو بالآخر پریشانی اٹھاناپڑتی ہے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ ظالموں کو ہدایت نہیں دیتا۔ تفسیربالقرآن اللہ ہی موت وحیات کا مالک ہے : ١۔ اللہ ہی زندہ کرتا اور مارتا ہے۔ (آل عمران : ١٥٦) ٢۔ اللہ ہی موت وحیات کا خالق ہے۔ (الملک : ٢) ٣۔ اللہ تعالیٰ مردہ سے زندہ اور زندہ سے مردہ کرتا ہے۔ (آل عمران : ٢٧) ٤۔ اللہ تعالیٰ مارنے کے بعد زندہ کرے گا۔ (البقرۃ: ٧٣) البقرة
259 فہم القر آن ربط کلام : سلسلہ مضمون جاری ہے لہٰذا یہاں مرنے کے بعددوبارہ زندہ ہونے کی ایک مثال پیش کی گئی ہے۔ اس شخص سے مراد اکثر مفسّرین نے حضرت عزیر (علیہ السلام) لیے ہیں اور جس بستی کی طرف اشارہ کیا گیا ہے وہ بیت المقدس تھی جسے بخت نصر نے تہس نہس کردیاتھا۔ اس تاریخی اور مقدس شہر کو ویران اور سنسان دیکھ کر حضرت عزیر (علیہ السلام) کو شدید دھچکا لگا اور خیالات کی دنیا میں سوچنے لگے کہ کبھی اس کے بازار پُر رونق، اس کے مکان اپنے مکینوں سے آباد، یہاں چہل پہل اور شہر کی ایک شان ہوا کرتی تھی۔ اب یہاں ہُو کا عالم ہے اب تو اس میں سے گزرتے ہوئے بھی دل کانپتا ہے۔ جوں ہی یہ خیال پیدا ہوا کہ اللہ تعالیٰ اس اجڑی ہوئی بستی کو دوبارہ کس طرح رونقیں عطا کرے گا؟ اس سوچ میں غلطاں ہو کر کہنے لگے اَنّٰی یُحِیْ ہٰذہ اللّٰہ بَعْدَ مَوتہا ” اللہ تعالیٰ اس کی موت کے بعد اسے کس طرح زندہ کرے گا“ اللہ تعالیٰ نے حضرت عزیر (علیہ السلام) کو سو سال تک موت کی آغوش میں سلادیا۔ جب دوبارہ اٹھایا تو فرمایا کہ اے عزیر! تم کتنی مدت تک یہاں رہے ہو؟ انہوں نے عرض کی الٰہی! میں ایک دن یا اس کا کچھ حصہ یہاں ٹھہرا ہوں۔ ارشاد ہوا کہ ہرگز نہیں! تو یہاں ایک صدی ٹھہرا رہا ہے۔ اب اپنے کھانے پینے کی طرف دیکھ اس میں نہ بساند پیدا ہوئی اور نہ ہی اس کا ذائقہ تبدیل ہوا ہے۔ پھر اپنے گدھے کی طرف دیکھ تاکہ تجھے اور اس پورے واقعہ کو لوگوں کے لیے مر کر اٹھنے پر ایک دلیل کے طور پر پیش کیا جائے۔ اب گدھے کی ہڈیوں کی طرف دیکھ کہ ہم کس طرح انہیں اکٹھا کر کے اس پر گوشت پوست چڑھاتے ہیں۔ چنانچہ دیکھتے ہی دیکھتے گدھے کی بوسیدہ ہڈیاں صحت مند ہڈیوں کی شکل اختیار کر گئیں اور باہم جڑ کر گدھے کا ڈھانچہ بن گیا اور پھر اس پر گوشت اور بالوں سمیت کھال نمودار ہوئی یہ دیکھتے ہی حضرت عزیر (علیہ السلام) پکار اٹھے میں اچھی طرح جان چکا کہ اللہ ہی زندہ کرنے پر قادر اور ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے۔ اس واقعہ میں اللہ تعالیٰ کی قدرت کے عجب نظائر ہیں کہ حضرت عزیر (علیہ السلام) کو سو سال تک موت کی آغوش میں دے کر پہلی حالت میں صحیح سالم اٹھانا، بہت جلد خراب ہونے والے کھانے اور پانی کو اسی طرح اپنی حالت پر برقرار رکھنا کہ اس میں معمولی تغیرّبھی پیدا نہ ہوپایا۔ گدھا جو زندہ رہ سکتا اور اپنے طور پر وادی میں کھا پی سکتا تھا اسے مار کر از سر نوزندہ فرما کر حضرت عزیر (علیہ السلام) کے سامنے تجربے اور مشاہدے کے ذریعے ثابت کرنا کہ اللہ تعالیٰ اس طرح ہی اجڑی ہوئی بستیوں کو آباد کرتا اور صحراؤں اور ریگستانوں کو گل و گلزار بناتا ہے۔ اگر کوئی پانی میں ڈوب جائے یا جل کر راکھ ہوجائے تو اللہ تعالیٰ بکھرے ہوئے اجزاء کو اکٹھا کر کے اپنی بارگاہ میں پیش کرے گا اور یقین جانو کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر غالب بھی ہے اور اس کے ہر کام اور حکم میں حکمت بھی ہے۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ اجڑی بستیوں کو آباد اور مردوں کو زندہ کرتا ہے اور کرے گا۔ ٢۔ مرنے والے کو اپنے مرنے کی مدّت بھی یاد نہیں ہوتی۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ بقا اور فنا کا مالک اور ہر چیز پر قادر ہے۔ تفسیربالقرآن موت کے بعد زندہ ہونے کی مثالیں : ١۔ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کے مقتول کو زندہ فرمایا۔ (البقرۃ: ٧٣) ٢۔ حضرت عزیر (علیہ السلام) کو زندہ فرمایا۔ (البقرۃ: ٢٥٩) ٣۔ چار پرندوں کو زندہ فرمایا۔ (البقرۃ : ٢٦٠) ٤۔ اصحاب کہف کو تین سو سال کے بعد اٹھایا۔ (الکہف : ٢٥) ٥۔ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کے ہزاروں لوگوں کو دوبارہ زندہ کیا۔ (البقرۃ: ٢٤٣) البقرة
260 فہم القرآن ربط کلام : گزشتہ سے پیوستہ۔ مردہ کو زندہ کرنے کی ایک اور مثال۔ اللہ تعالیٰ نے سورۃ التّکاثر میں انسانی علم کے تین مدارج ذکر فرمائے ہیں۔ علم، علم الیقین اور عین الیقین۔ عین الیقین ایسا علم ہے جو تجربے اور مشاہدے سے ثابت ہوجائے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے اس واقعہ کو عین الیقین کے تناظر میں سمجھنا چاہیے کیونکہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اللہ تعالیٰ کی قدرت اور حیات بعد الممات کے بارے میں کبھی بھی تشکیک کا شکار نہیں ہوئے۔ ان کے بارے میں دو ٹوک انداز میں الانعام ٥٧ میں فرمایا گیا ہے کہ ہم نے ابراہیم (علیہ السلام) کو پہلے روز سے ہی رشد و ہدایت سے نوازا تھا۔ انبیاء کرام نبوت سے پہلے بھی کفر اور شرک کا ارتکاب نہیں کرتے کیونکہ اللہ تعالیٰ ہر نبی کو ابتداء ہی سے اپنی نگرانی میں رکھتے اور پالتے ہیں اور ہر نبی کو اس کے حالات کے مطابق اپنی قدرت کے نشانات دکھلایا کرتے ہیں تاکہ ان کے کلام اور خطاب میں انقلابی تاثیر پیدا ہوجائے اس انقلابی تاثیر کی بنا پر لوگ انبیاء کا انکار کرنے کے باوجوددل میں ان کی سچائی کے قائل ہوا کرتے تھے۔ یہاں عین الیقین کے درجے کو پانے کے لیے جناب ابراہیم (علیہ السلام) اپنے رب کے حضور سوال پیش کر رہے ہیں۔ رب حکیم نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو لوگوں کے الزام سے بچانے کے لیے ہی یہ سوال فرمایا کہ کیا ابراہیم (علیہ السلام) تم بھی اس بات پر یقین نہیں رکھتے؟ ابراہیم (علیہ السلام) جواباً عرض کرتے ہیں کہ میرے رب کیوں نہیں ! میں تو اطمینان قلب کے لیے یہ درخواست کر رہا ہوں تاکہ قیامت کو اٹھنے کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے میرے دل کا ایک ایک گوشہ اور ریشہ گواہی دے رہا ہو کہ مرنے کے بعد جی اٹھنا اور اللہ کے حضور پیش ہونا یقینی ہے۔ حکم ہوا کہ ابراہیم چار پرندے پکڑ کر انہیں کچھ مدّت کے لیے اپنے ساتھ مانوس کرو۔ اس کے بعد انہیں ذبح کر کے ان کے اعضاء مختلف پہاڑوں پر رکھ کر انہیں اپنی طرف آنے کے لیے آواز دو‘ آواز سنتے ہی وہ تمہاری طرف دوڑتے ہوئے آئیں گے۔ جان لو کہ اللہ تعالیٰ ہر کام کرنے پر قادر ہے اور اس کے ہر کام اور حکم میں بہت سی حکمتیں پنہاں ہوتی ہیں۔ پرندوں کو اپنے ساتھ مانوس کرنے کا حکم اس لیے دیا گیا تاکہ پرندے زندہ ہونے کے بعد ڈر کر ادھر ادھر نہ اڑ جائیں۔ اُڑ کر آنے کے بجائے چل کر آنے کی وضاحت فرمائی کہ بعد میں آنے والے قیامت کے منکر لوگ یہ نہ کہہ پائیں کہ ذبح ہونے والے پرندے زندہ نہیں ہوئے تھے بلکہ کوئی اور پرندے اتفاقاً اڑ کر موقع پر پہنچ گئے تھے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے وہ پرندے اڑنے کے بجائے چل کر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس پہنچے جس سے ہر قسم کے شبہات کا ازالہ کردیا گیا۔ پرندوں کے اجزاء اس لیے مختلف چٹانوں پر بکھیر دیے گئے تاکہ لوگوں کو معلوم ہوجائے کہ آدمی جس حال میں مرے اللہ تعالیٰ اسے ہر صورت میں اپنے سامنے پیش کرے گا۔ مر کر اٹھنے کے عقیدے کو قرآن مجید اس طرح زور دار طریقے سے بیان کرتا ہے کہ اس کے بعد اس عقیدے کے بارے میں کوئی شک باقی نہیں رہتا۔ (قُلْ کُوْنُوْا حِجَارَۃً أَوْحَدِیْدًا۔ أَوْخَلْقًا مِّمَّا یَکْبُرُ فِیْ صُدُوْرِکُمْ) [ بنی اسرائیل : ٥٠، ٥١] ” اے پیغمبر! قیامت کے منکروں کو فرما دو۔ تم پتھر بن جاؤ یا لوہا یا ایسی مخلوق بن جاؤ جو تمہارے خیالات میں بڑی ہو۔“ (اللہ تعالیٰ پھر بھی تمہیں اٹھائے گا) (عَنْ أَبِیْ سَعِیْدٍ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) أَنَّ رَجُلًا کَانَ قَبْلَکُمْ رَغَسَہُ اللّٰہُ مَالًا فَقَالَ لِبَنِیْہِ لَمَّا حُضِرَ أیَّ أَبٍ کُنْتُ لَکُمْ قَالُوْا خَیْرَ أَبٍ قَالَ فَإِنِّیْ لَمْ أَعْمَلْ خَیْرًا قَطُّ فَإِذَا مِتُّ فَأَحْرِ قُوْنِیْ ثُمَّ اسْحَقُوْنِیْ ثُمَّ ذَرُوْنِیْ فِیْ یَوْمٍ عَاصِفٍ فَفَعَلُوْا فَجَمَعَہُ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ فَقَالَ مَا حَمَلَکَ قَالَ مَخَافَتُکَ فَتَلَقَّاہُ بِرَحْمَتِہٖ)[ رواہ البخاری : کتاب أحادیث الانبیاء، باب حدیث الغار] ” حضرت ابو سعید (رض) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں کہ تم سے پہلے ایک آدمی کو اللہ نے مال سے نوازا۔ اس نے اپنے بیٹوں سے پوچھا کہ میں تمہارا کیسا باپ ہوں؟ انہوں نے جواب دیا آپ بہترین باپ ہیں۔ اس آدمی نے کہا میں نے کبھی اچھا کام نہیں کیا لہٰذا میرے مرنے کے بعد مجھے جلا کر میری راکھ تیزہواؤں میں اڑا دینا انہوں نے ایسے ہی کیا۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی راکھ کو جمع کر کے اس سے پوچھا تو نے ایسا کیوں کیا تھا ؟ اس نے عرض کی : الٰہی! تیرے خوف کی وجہ سے ایسا کیا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت سے اسے معاف کردیا۔“ مسائل ١۔ اطمینان قلب کے لیے سوال کرنا جائز ہے۔ ٢۔ مشاہدہ انسان کے دل میں یقین پیدا کرتا ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن انسان کے ایک ایک جز کو اکٹھا کریں گے۔ البقرة
261 فہم القرآن ربط کلام : یہاں سے صدقات کے بارے میں خطاب شروع ہوتا ہے۔ سابقہ آیات میں صدقہ کرنے کا حکم تھا اور صدقہ کرنا اللہ تعالیٰ کو قرض دینے کے مترادف قرار دیا گیا۔ اب صدقہ کی فضیلت‘ اس کی قبولیت کے اصول اور اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے کیے گئے صدقات کے دنیا اور آخرت میں ثمرات کا تذکرہ کیا جاتا ہے۔ قرآن مجید کی ابتداء میں ایمان کے مرکزی اور بنیادی اصولوں میں تیسرا اصول یہ بیان ہوا ہے کہ صاحب ایمان لوگوں کا ایک وصف یہ بھی ہے کہ جو کچھ اللہ تعالیٰ نے انہیں عنایت فرمایا ہے وہ اس میں سے خرچ کرتے رہتے ہیں۔ اب اسی بنیادی رکن کی مختلف زاویوں سے وضاحت شروع ہوتی ہے جس میں فضیلت، فرضیت اور احتیاطی ہدایات مسلسل 23 آیات میں بیان کی گئی ہیں جو چار رکوع پر مشتمل ہیں۔ صدقات کی ترغیب سے پہلے موت کے بعد اٹھنے کے تین دلائل دیے گئے ہیں۔ ان کی حکمت یہ ہے کہ مرنے کے بعد جس طرح دوسرے اعمال کی جزا اور سزا ملے گی اسی طرح اللہ کے راستے میں کیے گئے صدقات کا نیت اور صدقے کے مطابق پورا پورا اجر ملے گا۔ لہٰذا ترغیب دی جارہی ہے کہ مرنے سے پہلے زیادہ سے زیادہ اپنے لیے آگے بھیجو۔ تاکہ مشکل وقت میں تمہارے کام آسکے۔ صدقے کے لیے پہلی شرط یہ ہے کہ صدقہ ہر حال میں اللہ کی رضا اور اس کی منشا کے مطابق ہونا چاہیے۔ ایسے صدقے کی مثال اس بیج کی طرح ہے جس سے سات بالیاں نکلیں اور ہر بالی سو دانہ اٹھائے ہوئے ہو۔ یہ اس صورت میں ہوگا جب کاشتکار نے صحیح بیج‘ مناسب وقت اور زرخیز زمین پر کاشتکاری کر کے اس کی اچھی طرح آبیاری اور نگرانی کی ہو۔ ایسی برکت اللہ تعالیٰ ہر اس صدقے میں پیدا فرمائے گا جو اخلاص، للہیت، رزق حلال اور مستحق جگہ اور سنت کے مطابق خرچ کیا جائے۔ ایسے صدقہ کے بارے میں سات سو گنا بڑھانے کی حد بندی نہیں بلکہ ارشاد ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ صدقہ کرنے والے کے اخلاص اور جذبات کے مطابق اسے اس سے زیادہ برکت سے نوازیں گے کیونکہ اللہ وسعت وکشادگی دینے اور ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے۔ دنیا میں آج تک کوئی بینک یا مالیاتی ادارہ قائم نہیں ہوا اور نہ ہی ہوسکتا ہے جو اس قدر اپنے شیئر ہولڈر کو منافع دینے کے لیے تیار ہو۔ جس قدر اللہ تعالیٰ اپنے بندے کو عطا کرتا ہے اور کرے گا۔ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَنْ تَصَدَّقَ بِعَدْلِ تَمْرَۃٍ مِّنْ کَسْبٍ طَیِّبٍ وَّلَا یَقْبَلُ اللّٰہُ إِلَّا الطَّیِّبَ فَإِنَّ اللّٰہَ یَتَقَبَّلُھَا بِیَمِیْنِہٖ ثُمَّ یُرَبِّیْھَا لِصَاحِبِہٖ کَمَا یُرَبِّیْ أَحَدُکُمْ فُلُوَّہٗ حَتّٰی تَکُوْنَ مِثْلَ الْجَبَلِ) [ رواہ البخاری : کتاب الزکوۃ، باب الصدقۃ من کسب طیب ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو آدمی کھجور کے برابر اپنی پاک کمائی سے صدقہ کرتا ہے اور اللہ کے ہاں صرف پاک چیز ہی قبول ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ اسے قبول کرتے ہوئے اپنے دائیں ہاتھ میں لے کر اس کو اس طرح پالتا اور بڑھاتا ہے جیسے تم میں سے کوئی بچھڑے کو پالتا ہے حتیٰ کہ صدقہ پہاڑکی مانند ہوجاتا ہے۔“ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ بَیْنَا رَجُلٌ بِفَلَاۃٍ مِّنَ الْأَرْضِ فَسَمِعَ صَوْتًا فِیْ سَحَابَۃٍ إِسْقِ حَدِیْقَۃَ فُلَانٍ فَتَنَحّٰی ذٰلِکَ السَّحَابُ فَأَفْرَغَ مَاءَ ہٗ فِیْ حَرَّۃٍ فَإِذَا شَرْجَۃٌ مِنْ تِلْکَ الشَّرَاجِ قَدِاسْتَوْعَبَتْ ذٰلِکَ الْمَاءَ کُلَّہٗ فَتَتَبَّعَ فَإِذَا رَجُلٌ قَاءِمٌ فِیْ حَدِیْقَتِہٖ یُحَوِّلُ الْمَاءَ بِمِسْحَاتِہٖ فَقَالَ لَہٗ یَاعَبْدَ اللّٰہِ مَااسْمُکَ قَالَ فُلَانٌ لِلْإِسْمِ الَّذِیْ سَمِعَ فِی السَّحَابَۃِ فَقَالَ لَہٗ یَاعَبْدَ اللّٰہِ لِمَ تَسْأَلُنِیْ عَنِ اسْمِیْ فَقَالَ إِنِّیْ سَمِعْتُ صَوْتًا فِی السَّحَابِ الَّذِیْ ھٰذَا مَاءُ ہٗ یَقُوْلُ اسْقِ حَدِیْقَۃَ فُلَانٍ لِإِسْمِکَ فَمَا تَصْنَعُ فِیْھَا قَالَ أَمَّا إِذْ قُلْتَ ھٰذَا فَإِنِّیْ أَنْظُرُ إِلٰی مَایَخْرُجُ مِنْھَا فَأَتَصَدَّقُ بِثُلُثِہٖ وَآکُلُ أَنَا وَعِیَالِیْ ثُلُثًا وَأَرُدُّ فِیْھَا ثُلُثَہٗ) [ رواہ مسلم : کتاب الزھد والرقائق، باب الصدقۃ فی المساکین] ” حضرت ابوہریرہ (رض) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں آپ نے فرمایا : صحرا میں ایک آدمی نے بادلوں میں آواز سنی کہ فلاں آدمی کے باغ کو پانی پلاؤ تو وہ بادل دوسرے بادلوں سے علیحدہ ہوگیا اور اپنا پانی ایک پتھریلی زمین پر برسایا وہاں ایک نالا پانی سے بھر گیا وہ آدمی اس کے پیچھے پیچھے چلا ایک آدمی اپنے باغ میں کھڑا اپنی کسّی کے ساتھ پانی لگارہا تھا۔ اس آدمی نے پوچھا اللہ کے بندے تیرا نام کیا ہے؟ اس نے کہا : فلاں، وہی نام جو مسافر نے بادلوں میں سناتھا۔ نام بتانے والے نے وجہ پوچھی تو سائل نے جواب دیا کہ میں نے اس بارش برسانے والے بادل میں یہ سنا کہ فلاں آدمی کے باغ کو پانی پلاؤ۔ آپ ایسا کونسا عمل کرتے ہیں؟ اس نے جواب دیا کہ آپ نے پوچھ لیا ہے تو سنیں کہ میں اس باغ کی کل آمدنی سے ایک تہائی صدقہ کرتاہوں‘ ایک تہائی سے گھر کے اخراجات چلاتاہوں اور ایک تہائی اس پر لگاتاہوں۔“ مسائل ١۔ اللہ کی رضا کے لیے خرچ کرنے والے کو سات سو گنا سے زیادہ اجر ملے گا۔ تفسیربالقرآن صدقہ میں برکت : ١۔ صدقہ کرنا اللہ تعالیٰ کو قرض دینا ہے۔ (الحدید : ١١) ٢۔ اللہ تعالیٰ اسے دگنا تگنا کرکے واپس کرے گا۔ (التغابن : ١٧) ٣۔ اللہ سات سو گنا تک بڑھا دیتا ہے۔ (البقرۃ: ٢٦١) ٤۔ اللہ کے ہاں اضافے کی کوئی حد نہیں ہے۔ (البقرۃ: ٢٦١) البقرة
262 فہم القرآن ربط کلام : انفاق فی سبیل اللہ سے ثواب میں اضافہ تب ہی ہوگا جب احسان جتلانے اور تکلیف دینے سے صدقہ پاک ہوگا۔ احسان جتلانے اور تکلیف سے بہتر ہے کہ آدمی دوسرے سے معذرت ہی کرلے۔ صدقہ کا بھاری اور بے انتہا اجر انہیں موصول ہوگا۔ جنہوں نے حالت ایمان میں انفاق فی سبیل اللہ کی شرائط پوری کرتے ہوئے اپنے صدقہ کو ایذاء اور احسان سے محفوظ رکھا ہو۔ ضروری نہیں کہ احسان اور تکلیف زبان سے ہی دی جائے۔ بسا اوقات صدقہ کرنے والا اپنے ملازم سے اس لیے زیادہ کام لیتا ہے کہ تنخواہ کے علاوہ بھی اسے کچھ دیتا ہے۔ اپنا اعزہ و اقرباء پر خرچ کرنے والے اکثر لوگ ان سے خدمت اور غیر معمولی احترام کی توقع کرتے ہیں۔ اسی طرح مسجد، مدرسہ اور کسی رفاعی ادارے پر خرچ کرنے کے بعد ریا کار اور کم ظرف لوگ ایسے اداروں کے خدمت گاروں اور علماء کو ملازم اور اپنا احسان مند رکھنے کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ جس سے ملازم، رشتہ دار اور دین کی خدمت کرنے والوں کی عزت نفس مجروح ہوتی ہے اور بسا اوقات اس قسم کے مخیر اور شہرت کے خواہش مند لوگ حکومت کے اداروں میں خرچ کرنے کے بعد سرکاری افسران سے مفادات اٹھاتے ہیں۔ جس سے صدقہ کرنے والے کے ثواب میں کمی اور صدقہ ضائع ہونے کا خطرہ ہوتا ہے۔ جس نے اپنے صدقے کو ان کمزوریوں سے بچا لیا اس کے لیے اس کے رب کے ہاں بے انتہا اجر ہے اور اسے کوئی خوف و خطر نہیں ہوگا۔ ایسا صدقہ جو اخلاقی بیماریوں سے محفوظ ہو۔ وہ دنیا میں بھی آدمی کو بے شمار نقصانات اور آزمائشوں سے محفوظ رکھتا ہے۔ اس سے نیک نامی‘ دل میں سکون اور باہمی محبت میں اضافہ ہوتا ہے۔ یہاں صدقہ کرنے والے کو عاجزی اختیار کرنے اور گفتگو کا طریقہ بتلایا گیا ہے بالخصوص اس وقت جب آدمی کے پاس سائل کو دینے کے لیے کچھ نہ ہو توسائل کو ڈانٹنے کے بجائے اچھے طریقے سے ٹالنا اور معذرت کرنا چاہیے۔ یہ انداز اس صدقے سے کہیں بہتر ہے جس صدقہ کے بعد مستحق کو احسان جتلا کر یا کسی اور طریقے سے اذیت پہنچائی جائے۔ صدقہ دینے والے کو ایسا اس لیے بھی نہیں کرنا چاہیے کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم کا نتیجہ ہے کہ اس نے اس کو اس قابل بنایا کہ اس کے سامنے دوسرے لوگ محتاج بن کر حاضر ہوتے ہیں۔ صاحب ثروت کو ہر دم یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ ہمیشہ دینے والی اللہ کی ذات ہے۔ وہ آدمی کی کمزوریوں سے صرف نظر فرما کر اپنی عطاؤں سے نوازتا ہے۔ لہٰذا آدمی کو بھی برد باری اور سخاوت کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ البتہ جو شخص صحت مند اور حقیقتاً محتاج نہ ہو اسے دینے کے بجائے سمجھانا چاہیے۔ اگر وہ پھر بھی مانگنے سے باز نہ آئے تو اسے ڈانٹنے کی گنجائش ہے جیسا کہ امیر المومنین حضرت عمر (رض) نے ایسے مانگت سے مانگا ہوا اس کی ضرورت سے زائد مال چھین کر آئندہ گداگری سے منع کردیا۔ [ سیرت فاروق] (عَنِ ابْنِ عُمَرَ (رض) قَالَ قَال النَّبِیُِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَایَزَال الرَّجُلُ یَسْأَلُ النَّاسَ حَتّٰی یَأْتِیَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ لَیْسَ فِیْ وَجْھِہٖ مُزْعَۃُ لَحْمٍ) [ رواہ البخاری : کتاب الزکاۃ، باب من سأل الناس تکثرا] ” حضرت عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا آدمی ہمیشہ لوگوں سے مانگتا رہتا ہے یہاں تک کہ قیامت کے دن اس حالت میں آئے گا کہ اس کے چہرے پر گوشت کا ایک ٹکڑا بھی نہیں ہوگا۔“ (عَنْ أَبِیْ ذَرٍّ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ ثَلَاثَۃٌ لَا یُکَلِّمُھُمُ اللّٰہُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ وَلَا یَنْظُرُ إلَیْھِمْ وَلَا یُزَکِّیْھِمْ وَلَھُمْ عَذَابٌ أَلِیْمٌ قَالَ فَقَرَأَھَا رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ثَلَاثَ مِرَارٍ قَالَ أَبُوْ ذَرٍّ (رض) خَابُوْا وَخَسِرُوْامَنْ ھُمْ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ الْمُسْبِلُ وَالْمَنَّانُ وَالْمُنْفِقُ سِلْعَتَہٗ بالْحَلْفِ الْکَاذِبِ) [ رواہ مسلم : کتاب الإیمان، باب بیان غلظ تحریم إسبال الإزار والمن بالعطیۃ] ” حضرت ابوذر (رض) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں۔ آپ نے فرمایا قیامت کے دن تین قسم کے لوگوں سے اللہ تعالیٰ نہ کلام کرے گا نہ ان کی طرف نظر رحمت سے دیکھے گا اور نہ ہی ان کو گناہوں سے پاک کرے گا۔ ان کے لیے درد ناک عذاب ہوگا۔ ابوذر (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ بات تین مرتبہ ارشاد فرمائی۔ ابوذر (رض) نے عرض کی یارسول اللہ! وہ کون لوگ ہیں ؟ وہ تو ناکام ونامراد ہوگئے۔ آپ نے فرمایا : 1 اپنا ازار ٹخنوں سے نیچے لٹکانے والا 2 احسان جتلانے والا 3 جھوٹی قسمیں اٹھا کر اپنا مال فروخت کرنے والا۔“ مسائل ١۔ احسان جتلانے اور تکلیف دینے سے بچنے والا دنیا و آخرت میں بے خوف و خطر ہوگا۔ ٢۔ معذرت کرنا تکلیف دینے اور احسان جتلانے سے بہتر ہے۔ البقرة
263 البقرة
264 فہم القرآن ربط کلام : اس سے پہلے عمومی انداز میں سمجھایا گیا تھا کہ اللہ کے لیے خرچ کرو اور صدقہ لینے والے کو تکلیف نہ دو اور نہ ہی اس پر احسان جتلاؤ۔ یاد رکھو کہ حقیقی غنی وہ ذات اقدس ہے جس نے اپنی غنا کے خزانوں سے تمہیں عطا فرمایا ہے۔ تم تو تھوڑا سادے کر بے حوصلہ ہوجاتے ہو اس مالک کی طرف دیکھو جو تمہیں صبح وشام کھلانے پلانے اور خزانے عطا کرنے کے باوجود تمہاری گستاخیاں اور نافرمانیاں برداشت کرتا ہے۔ اب براہ راست صاحب ایمان لوگوں کو حکم دیا جارہا ہے کہ ایذاء رسانی اور احسان جتلا کر اپنے صدقات کو ہرگز ضائع نہ کرنا۔ کیونکہ جس حاجت مند کے ساتھ یہ رویہ اختیار کیا جائے اس کے دل میں صدقہ دینے والے کے بارے میں دعا اور ہمدردی کے بجائے نفرت کے جذبات پیدا ہوتے ہیں۔ احسان جتلانے اور ایذاء پہنچانے والے آدمی کے بارے میں معاشرہ میں نفرت اور حقارت پیدا ہوتی ہے۔ اگر وہ اپنے آپ کو تبدیل نہ کرے تو ایسارویّہ اس کی کمینگی کی علامت بن جاتا ہے۔ معاشرہ میں صدقہ کرنے سے جو مثبت اثرات پیدا ہونے تھے۔ اس کی بجائے منفی اثرات ظاہر ہوتے ہیں۔ گویا کہ اس طرز عمل سے صدقہ دینے والے کی عزت اور خدمت برباد ہوجاتی ہے۔ آخرت کے بارے میں رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے کہ اللہ تعالیٰ ایسے شخص کو نظر کرم کے ساتھ نہیں دیکھے گا۔ [ رواہ مسلم : کتاب الإیمان، باب بیان غلظ تحریم إسبال الإزار والمن بالعطیۃ] صدقہ کرنے کے بعد ایذا پہنچانے والے شخص کو ریا کار کے ساتھ تشبیہ دی جارہی ہے۔ جس کا اللہ اور آخرت پر ایمان نہیں ہوتا کیونکہ اگر اس کا اللہ اور آخرت پر حقیقی ایمان ہوتا تو اسے نمودو نمائش کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت نہ تھی۔ اس نے آخرت میں اپنے رب سے اجر لینے کے بجائے لوگوں سے تحسین اور شہرت کی صورت میں اجر لینے کی کوشش کی ہے۔ اس کے اس عمل کی مثال تو ایسی ہے جس طرح ایک چٹان کے اوپر معمولی سی مٹی ہو جو ہلکی سی بارش سے صاف ہوجائے۔ اس چٹان پر گل و گلزار کی توقع کس طرح کی جاسکتی ہے ؟ یہی حالت ریا کار اور اس شخص کی ہے جو صدقہ کرنے کے بعد احسان اور ایذارسانی کا رویہ اختیار کرتا ہے۔ اس کا کردار تو کفار کے ساتھ ملتا جلتا ہے کیونکہ کافر نہ آخرت پر یقین رکھتا ہے نہ ہی اس کا اللہ تعالیٰ پر ایمان ہوتا ہے۔ ایسے لوگ اللہ تعالیٰ کی ہدایت سے محروم رہتے ہیں۔ حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : قیامت کے دن سب سے پہلے تین آدمیوں کا فیصلہ کیا جائے گا ایک شہید ہوگا اس کو اللہ کے دربار میں پیش کیا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ اس کو اپنی نعمتیں یاد کروائے گا وہ ان نعمتوں کا اعتراف کرے گا پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا تم نے ان نعمتوں سے کیا فائدہ اٹھایا؟ وہ کہے گا : میں نے تیرے راستے میں جہاد کیا یہاں تک کہ میں شہید ہوگیا۔ اللہ فرمائے گا تو جھوٹ بولتا ہے تو نے تو اس لیے جہاد کیا تھا تاکہ کہا جائے تو بڑا بہادر ہے۔ دنیا میں تجھے بہادر کہہ دیا گیا۔ اس کے بعد اس کو الٹے منہ گھسیٹ کر جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔ اسی طرح ایک عالم اور ایک سخی کو بھی لایا جائے گا جنہوں نے دکھلاوے کی خاطر علم پڑھا اور پڑھایا اور صدقہ کیا پھر ان کے ریاکاری کرنے کی وجہ سے ان کو بھی الٹے منہ جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔ [ رواہ مسلم : کتاب الامارۃ] مسائل ١۔ تکلیف دینے اور احسان جتلانے سے صدقہ ضائع ہوجاتا ہے۔ ٢۔ ریا کار اللہ اور آخرت پر حقیقی ایمان نہیں رکھتا۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ کافروں کو ہدایت نہیں دیتا۔ تفسیربالقرآن ریا کاری اور احسان جتلانا : ١۔ ریاکاری دھوکہ ہے۔ (النساء : ١٤٢) ٢۔ ریاکار نمازیوں کے لیے ہلاکت ہے۔ (الماعون : ٦) ٣۔ ریاکاری کفار کرتے ہیں۔ (الانفال : ٤٧) ٤۔ منافق ریا کارہوتے ہیں۔ (النساء : ١٤٢) ٥۔ کسی سے زیادہ حاصل کرنے کے لیے احسان نہیں کرنا چاہیے۔ (المدثر : ٦) ٦۔ احسان جتلانے سے ثواب ضائع ہوجاتا ہے۔ (البقرۃ: ٢٦٤) البقرة
265 فہم القرآن ربط کلام : ریا کاری‘ احسان جتلانے اور تکلیف والے صدقہ کے مقابلہ میں لِوَجْہِ اللّٰہِ کیے گئے صدقہ کے ثمرات وانجام۔ یہاں دو مثالوں کے ذریعے دو قسم کا کردار واضح کیا جارہا ہے۔ پہلی مثال میں ایسے سخی کی بات تھی جو کسی کو صدقہ دینے کے بعد احسان جتلاتا اور اذیّت دے کر اپنے صدقے کو اس طرح ضائع کر بیٹھتا ہے جیسے نمود و نمائش کرنے والے کا اللہ تعالیٰ اور آخرت پر یقین نہیں ہوتا جس وجہ سے اس کا اجر ضائع ہوجاتا ہے۔ اس صدقے کی مثال ایک چٹان اور اس پر پڑی ہوئی مٹی سے دی گئی تھی جو بارش کے چند قطروں سے صاف ہوجائے۔ گویا کہ ریا کار اور اس قسم کے آدمی کے صدقے کی حیثیت نہ ہونے کے برابر ہے۔ حالانکہ پتھر پر مٹی کے ذرات ہوں تو بارش کے بعد اس پر کچھ نہ کچھ ضرور اگتا ہے۔ ایسے ہی اگر اخلاص کے ساتھ صدقہ کیا جائے تو اس کے مخیّر کے دل اور معاشرہ پر اچھے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ لیکن جس طرح چٹان پر بارش کا کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ ایسے ہی ریا کار کو صدقہ کرنے کا کوئی اجر و ثواب حاصل نہیں ہوگا۔ اس کے بعد اس صاحب دل اور خوش قسمت انسان کی مثال دی جارہی ہے جو اپنے دل کے اطمینان، روح کی خوشی اور اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے صدقہ کرتا ہے۔ اس کی مثال اس باغ جیسی ہے جو بلند اور ہموار زمین پر ہوجس پر بارش نہ بھی ہو تو اسے شبنم ہی کفایت کرتی ہے۔ اخلاص نیت کے ساتھ کیے جانے والے صدقہ میں اگر کوئی کمی وکمزوری رہ جائے تو اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے اس کی تلافی فرما دے گا۔ کیونکہ صدقہ کرنے والا اس نیت کے ساتھ کر رہا ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کا ہی مال تھا جو میں نے اس کے کمزور بندوں پر خرچ کیا ہے اس میں میرا کوئی کمال نہیں۔ ایسا شخص نمود و نمائش، احسان جتلانے اور تکلیف دینے سے اجتناب کرتا ہے۔ دوسری مثال میں مخیر حضرات کی توجہ اس جانب دلائی جارہی ہے کہ کیا تم میں کوئی شخص یہ پسند کرتا ہے کہ اس کے پاس کھجوروں اور انگوروں پر مشتمل ایک بہترین باغ ہو اور اس میں آب پاشی کا خود کار نظام ہو‘ اس باغ کا مالک بوڑھا اور اس کی چھوٹی چھوٹی اولاد ہو اور وہ باغ بھر پور طریقے سے پھل دے رہا ہو۔ اچانک اس باغ کو آگ کا بگولہ خاکستر کر دے۔ بتائیے کہ ایسے سانحہ فاجعہ پر اس بوڑھے مالک کی کیا حالت ہوگی ؟ جو لوگ خرچ کرنے کے بعد شہرت کے طالب اور مسکین کو اذیت پہنچاتے ہیں۔ قیامت کے دن ان کا معاملہ باغ کے بوڑھے مالک کی طرح ہوگا جسے بڑھاپے میں ایک ایک پائی کی ضرورت تھی اور بچے کمزور اور کمانے کے لائق نہیں تھے جو بچے اس سانحہ کے وقت بچے اپنے باپ کی کوئی مدد نہ کرسکے جب کہ بوڑھے باپ اور اس کے چھوٹے چھوٹے بچوں کے سامنے باغ جل رہا تھا۔ بوڑھا اسے بچانے کی کوشش کے باوجود نہ بچا سکا۔ نمود و نمائش اور صدقہ کرنے کے بعد احسان جتلانے اور تکلیف دینے والے کو قیامت کے دن ایسی ہی صورت حال کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس کے کمینے پن کی وجہ سے آج اس کے سامنے اس کی امیدیں ختم ہورہی ہیں۔ جب اسے جہنم کی طرف دھکیلا جارہا ہوگا تو اولاد سمیت کوئی بھی اس کی مدد نہیں کرسکے گا۔ اس نازک ترین صورت حال کو بیان کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ کیا کوئی دنیا میں ایسا شخص ہوسکتا ہے جو اپنے اور اپنی اولاد کے لیے ایسا حادثہ پسند کرتا ہو؟ ظاہر ہے کوئی پسند نہیں کرتا، اللہ تعالیٰ تمہارے لیے اپنے احکامات اس لیے کھول کھول کر بیان کرتا ہے تاکہ تم اپنے فکر و عمل پر غور کرو۔ مسائل ١۔ اللہ کی رضا کے لیے خرچ کرنے والا خسارہ نہیں اٹھاتا۔ ٢۔ ریا کاری اور احسان جتلانے سے اعمال غارت ہوجاتے ہیں۔ تفسیربالقرآن لوجہ اللہ خرچ کرنے کا ثواب : ١۔ اللہ کی رضا کے لیے خرچ کرنے والے کو پورا پورا اجر ملے گا۔ (البقرۃ: ٢٧٢) ٢۔ اللہ کی رضا کے لیے کیے گئے کام کابڑا اجر ہے۔ (النساء : ١١٤) ٣۔ اللہ کی رضا کے متلاشیوں کا انجام بہترین ہوگا۔ (الرعد : ٢٢) ٤۔ مخلص، مخیرحضرات لوگوں کے شکریہ اور جزا سے بے نیاز ہوتے ہیں۔ (الدھر : ٩) البقرة
266 البقرة
267 فہم القرآن ربط کلام : سلسلۂ کلام جاری رکھتے ہوئے مومنوں کو حکم دیا جارہا ہے کہ جو تم کمائی کرتے ہو یا جو کچھ ہم تمہارے لیے زمین سے نکالتے ہیں اس میں سے پاک اور طیّب مال اللہ تعالیٰ کے راستے میں صدقہ کیا کرو۔ یہاں طیّب سے مراد حلال، پاک اور نفیس مال ہے کیونکہ ایسا مال خرچ کرنے سے منع کیا گیا ہے جو آدمی کسی سے خود لینے کے لیے تیار نہ ہو۔ اس حرکت سے نفرت دلانے کے لیے ایسے صدقے اور مال کو خبیث کہا گیا ہے جس میں وہ تمام نقائص شامل ہوجائیں جو ایک شریف آدمی کے لیے نہایت ہی ناگوار ہوتے ہیں۔ فرمایا کہ تم ایسے مال کو کسی مجبوری یا چشم پوشی کے سوا قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے تو اللہ تعالیٰ کے بارے میں کس طرح تصور کرتے ہو کہ وہ تمہارا مسترد اور ناپسندیدہ مال پسندیدگی کے ساتھ قبول فرمائے گا؟ ایسے صدقے سے نہ تو دل بخل سے پاک ہوتا ہے اور نہ ہی لینے والے پر مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ایسا شخص اجرو ثواب سے بھی محروم رہے گا۔ لہٰذا بطور انتباہ فرمایا جارہا ہے کہ یاد رکھو! اللہ تعالیٰ کو ایسے صدقہ کی ضرورت نہیں وہ ہر چیز سے بے نیاز اور ہر حال میں لائقِ تعریف ہے۔ صدقہ کرتے ہوئے ناقص مال دینا یاحرام مال اللہ کے راستے میں خرچ کرکے اجر کی توقع رکھنا یہ شیطان کی طرف سے جھوٹی امید کا نتیجہ ہے۔ شیطان تمہیں غریب ہوجانے کا خوف دلاتا ہے۔ ناقص اور حرام مال خرچ کرنے کی ترغیب دے کر حقیقتاً شیطان تمہیں بے حیائی کا حکم دیتا ہے۔ یہ عقل مند مسلمان کے سچے جذبات کے منافی ہے کہ صدقے کے نام پر حرام مال خرچ کرے جس کے لینے سے ہی اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا ہے۔ گویا کہ انتہاء درجے کی بے حیائی اور ڈھٹائی ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہیں حرام سے منع کرے اور تم اس کے نام حرامچیز دو اور پھر اس میں ثواب کی امید بھی رکھو۔ یہ سراسر شیطانی عمل ہے جب کہ اللہ تعالیٰ صدقہ کرنے کے بدلے تمہارے گناہ معاف کرنے اور مزید عطا کرنے کا وعدہ کرتا ہے۔ (عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) أَیُّھَاالنَّاسُ إِنَّ اللّٰہَ طَیِّبٌ لَایَقْبَلُ إِلَّا طَیِّبًا وَإِنَّ اللّٰہَ أَمَرَ الْمُؤْمِنِیْنَ بِمَا أَمَرَ بِہِ الْمُرْسَلِیْنَ فَقَالَ (یَاأَیُّھَا الرُّسُلُ کُلُوْامِنَ الطَّیِّبٰتِ وَاعْمَلُوْا صَالِحًا إِنِّیْ بِمَا تَعْمَلُوْنَ عَلِیْمٌ) وَقَالَ (یَا أَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُلُوْا مِنْ طَیِّبٰتِ مَارَزَقْنٰکُمْ) [ رواہ مسلم : کتاب الزکوٰۃ ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : لوگو ! اللہ پاک ہے ا ورپاک چیز ہی قبول کرتا ہے۔ اللہ نے مومنوں کو وہی حکم دیا ہے جو رسولوں کو حکم دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : اے رسولو! حلال چیزیں کھاؤ اور نیک عمل کرو جو کچھ تم کرتے ہو میں اسے جانتا ہوں اور فرمایا : اے مومنو! ہم نے جو تمہیں دیا ہے اس میں سے حلال کھاؤ۔“ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ مَانَقَصَتْ صَدَقَۃٌ مِّنْ مَّالٍ وَّمَازَاد اللّٰہُ عَبْدًابِعَفْوٍ إِلَّا عِزًّا وَّمَا تَوَاضَعَ أَحَدٌ لِلّٰہِ إِلَّا رَفَعَہُ اللّٰہُ) [ رواہ مسلم : کتاب البر والصلۃ والآداب] ” حضرت ابوہریرہ (رض) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا صدقہ مال میں کمی نہیں کرتا اور کسی بھائی کو معاف کرنے سے اللہ تعالیٰ معاف کرنے والے کو مزید عزت بخشتا ہے۔ جو کوئی اللہ تعالیٰ کے لیے تواضع اختیار کرتا ہے اللہ تعالیٰ اسے سر بلندفرماتا ہے۔“ مسائل ١۔ اللہ کی راہ میں پاک مال دینا چاہیے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ بے نیاز اور حمد و ستائش کے لائق ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ بخشش اور فضل کا وعدہ کرتا ہے، شیطان غربت اور بے حیائی کا وعدہ کرتا ہے۔ تفسیربالقرآن شیطان کے وعدے تباہی کا پیش خیمہ ہیں : ١۔ شیطان بے حیائی کا حکم دیتا ہے۔ (البقرۃ: ١٦٩) ٢۔ شیطان مفلسی سے ڈراتا اور بے حیائی کا حکم دیتا ہے۔ (البقرۃ: ٢٦٨) ٣۔ شیطان کا وعدہ فریب ہے۔ (بنی اسرائیل : ٦٤) البقرة
268 البقرة
269 فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ کے احکامات کو سمجھنا اور اس کی راہ میں حلال و طیب مال خرچ کرنا عقل و دانش کا کام ہے۔ اہل علم نے حکمت کے بے شمار معانی بیان فرمائے ہیں لیکن حکمت کاسب سے جامع معنیٰ حدیث رسول ہے کیونکہ رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قرآن کا وہی مفہوم بیان فرمایا جو اللہ تعالیٰ کی منشا ہے۔ تفسیر بحر المحیط کے مصنف سورۃ البقرہ آیت ٢٥١ کی تفسیر میں حضرت داوٗد (علیہ السلام) کے حوالے سے لکھتے ہیں : (اَلْحِکْمَۃُ وَضْعِ الْاُمُوْرِ فِیْ مَحَلِّہَا عَلَی الصَّوَابِ وَکَمَالِ ذٰلِکَ اَنَّمَا یَحْصِلُ بالنَّبُوَّۃِ) ” حکمت کا حقیقی معنی ہر چیز کو ٹھیک طور پر اس کے مقام پر رکھنا ہے۔ حکمت کی تکمیل نبوت کے ذریعے ہوا کرتی ہے لہذا حکمت وہ ہے جو اللہ کے رسول کا ارشاد ہے۔“ [ بحوالہ معارف القرآن مفتی محمد شفیع ] امام راغب اصفہانی نے مفردات القرآن میں فرمایا کہ حکمت کا لفظ جب اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب ہو تو اس کا معنٰی تمام چیزوں کی مکمل معرفت اور ان کی ٹھیک ٹھیک ایجاد ہے۔ اور جب اللہ کے علاوہ کسی دوسرے کی طرف نسبت ہو تو اس سے مراد معرفت اور اس کے مطابق عمل کرنا ہے۔ حدیث کی مقدس دستاویزات میں لفظ حکمت کو کئی معنوں میں استعمال کیا گیا ہے صدقات کے مسائل اور احکامات کے بیان کے بعد حکمت کو بہت بڑی خیر قرار دینے میں جو حکمت سجھائی دیتی ہے وہ یہ ہے کہ ایک دانا اور سمجھ دار آدمی یہ حرکت کبھی نہیں کرسکتا کہ وہ ایسا مال اللہ کے راستے میں خرچ کرے جسے وہ خود لینے کے لیے تیار نہ ہو اور نہ ہی کسی دانشور سے یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ آخرت کے بدلے دنیا کے مال کو ترجیح دے کر بخل کا مظاہرہ کرے یا نمود و نمائش کے لیے خرچ کرے۔ نصیحت تو اہل دانش ہی قبول کیا کرتے ہیں۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ حکمت و دانش بہت بڑا خزانہ ہے۔ ٢۔ عقلمند لوگ ہی نصیحت حاصل کرتے ہیں۔ تفسیربالقرآن انبیاء علم وحکمت کے داعی تھے : ١۔ خاتم الانبیاء (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تعلیمات حکمت پر مبنی ہیں ابراہیم (علیہ السلام) کی دعا۔ (البقرۃ: ١٢٩) ٢۔ اللہ تعالیٰ نے داؤد (علیہ السلام) کو حکمت سے نوازا۔ (البقرۃ: ٢٥١) ٣۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کتاب وحکمت سکھانے کے لیے بھیجا گیا۔ (آل عمران : ١٦٤) البقرة
270 فہم القرآن ربط کلام : گزشتہ مضمون سے پیوستہ۔ ایسا کام جو اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر کسی آدمی نے خود اپنے آپ پرلازم قرار دے لیا ہو اسے منّت یا نذر سے تعبیر کیا گیا ہے اس کا کرنا نہایت ضروری ہوتا ہے۔ غیر اللہ کے نام کی نذر ماننا شرک ہے جس کی ہرگز اجازت نہیں۔ نذر اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لیے ہونی چاہیے یہ جسمانی عبادت بھی ہوسکتی ہے اور صدقہ بھی۔ اگر کسی نے غلطی یا بے علمی سے کوئی غیر شرعی کام کرنے کی نذر مانی ہو تو اسے پورا نہیں کرنا چاہیے۔ اگر نذر مانتے وقت قسم اٹھائی ہو تو غلط کام پر اٹھائی ہوئی قسم کا کفارہ دینا چاہیے جس کی تفصیل دیکھنے کے لیے سورۃ المائدۃ آیت ٨٩ کی تلاوت کیجیے۔ نذر ماننے کا یہ طریقہ ناپسندیدہ ہے کہ کوئی شخص یہ ارادہ کرے کہ اگر اللہ تعالیٰ نے میرا فلاں کام کردیا تو میں اتنا صدقہ، نفل یاحج کروں گا۔ اگر یہ کام نہ ہوا تو پھر میں نذر پوری نہیں کروں گا۔ ایسی نذر کے بارے میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان : ” حضرت عبداللہ بن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نذر ماننے سے منع کیا اور فرمایا کہ نذر کسی چیز کو ٹالتی نہیں۔ نذر کے ذریعے صرف بخیل کا مال نکالا جاتا ہے۔“ [ رواہ البخاری : کتاب القدر] رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فرمان کا مقصد یہ ہے کہ آدمی کو صدقہ کرتے ہی رہنا چاہیے۔ رب ذوالجلال کے ساتھ شرط لگاناآدمی کو زیب نہیں دیتا کیونکہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کا ہے پھر اس کے ساتھ شرط لگانے کا کیا معنٰی؟ اگر کوئی شخص نذر مان کر اس پر عمل درآمد نہیں کرتا تو وہ اپنے آپ پر ظلم کرتا ہے کیونکہ وہ بیک وقت چار گناہوں کا ارتکاب کرتا ہے۔ اپنے خالق اور رازق سے شرط لگانا، اللہ تعالیٰ کا شکریہ ادا کرنے سے انکار کرنا، عہد شکنی اور نعمت کی ناقدری کرنا۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ ایسے ظالموں کی مدد نہیں کرتا۔ ” حضرت عمران بن حصین (رض) بیان کرتے ہیں رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا نافرمانی کے کام میں نذر کو پورا نہ کیا جائے اور جو چیز انسان کے قبضہ میں نہیں اس کی نذر نہ مانی جائے۔ ایک اور روایت میں ہے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی میں نذر نہیں ہے۔“ [ رواہ مسلم : باب لا وفاء لنذر فی معصیۃ] مسائل ١۔ نیکی کے کام پر مانی ہوئی نذر کو پورا کرنا لازم ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ ظالموں کی حمایت نہیں کرتا۔ البقرة
271 فہم القرآن ربط کلام : صدقہ کے متعلق وضاحت اور اخروی فائدہ۔ نیت خالص ہو تو دوسرے کی خود داری کو مدنظر رکھ کر حالات کے مطابق خفیہ کی بجائے علانیہ صدقہ دیا جاسکتا ہے۔ کچھ اہل علم کا خیال ہے کہ زکوٰۃ اور فرضی صدقات علانیہ طور پر دینا چاہییں تاکہ لوگوں کو ترغیب دی جا سکے۔ عام صدقات خفیہ طور پر دینا زیادہ افضل ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ شریعت کا مزاج یہی ہے کیونکہ اکثر اوقات خفیہ طور پر صدقہ کرنے سے دینے اور لینے والوں پر نہایت ہی دور رس اور پاکیزہ اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ جس سے مسکین کی خود داری اور صدقہ کرنے والے کی لِلّٰہیت میں اضافہ ہوتا ہے۔ تاہم یہ بات انسان کی نیت اور مساکین کے حالات پر منحصر ہے کہ صدقہ کب اور کس انداز میں دینا چاہیے؟ یہاں اعلانیہ کو بہتر اور خفیہ کو خیر قرار دیا ہے اور یہ بھی ضمانت دی گئی ہے کہ اخلاص نیت کے ساتھ صدقہ کرنے والے کے گناہوں کو معاف کردیا جاتا ہے۔ آخری الفاظ اس بات کے ترجمان ہیں کہ صدقہ خفیہ ہو یا اعلانیہ تم جن جذبات کے ساتھ صدقہ کرو گے اللہ تعالیٰ اس جذبے اور صدقہ کے ایک ایک ذرّے سے باخبر ہے۔ ” رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ایک آدمی نے کہا میں ضرور صدقہ کروں گا وہ اپنا صدقہ لے کر نکلا تو اس نے صدقہ ایک چور کو دے دیا۔ جب صبح ہوئی تو لوگوں نے باتیں کیں کہ رات کسی نے چور کو صدقہ دے دیا ہے۔ اس نے کہا اے اللہ! تمام تعریفیں تیرے ہی لیے ہیں میں پھر صدقہ کروں گا۔ وہ پھر صدقہ لے کر نکلا اور اس نے ایک بدکار عورت کو صدقہ دے دیا۔ جب صبح ہوئی تو لوگ باتیں کرنے لگے کہ رات زانیہ پر صدقہ کیا گیا ہے۔ اس نے کہا : میں پھر صدقہ کروں گا۔ تیسری مرتبہ پھر صدقہ لے کر نکلا اور اس نے صدقہ ایک مالدار کو دے دیا تو صبح کے وقت لوگ باتیں کرنے لگے کہ رات کسی شخص نے مالد ار کو صدقہ دیا ہے۔ تو اس نے کہا : اے اللہ! چور، بدکارہ اور مالدار کو صدقہ دینے پر تیرے لیے ہی تمام تعریفیں ہیں۔ پھر اس کو خواب میں کہا گیا کہ شاید تیرے صدقہ دینے سے چور چوری اور بدکار بدکاری سے باز آجائے اور مالدار عبرت پکڑ کر اللہ کے دیئے ہوئے مال سے صدقہ کرنے لگے۔“ [ رواہ البخاری : کتاب الزکوۃ، باب إذا تصدق علی غنی وہو یعلم] مسائل ١۔ صدقہ علانیہ اور خفیہ دونوں طرح دیا جاسکتا ہے۔ ٢۔ صدقہ کرنے والے کے گناہ معاف اور اسے برکت نصیب ہوتی ہے۔ البقرة
272 فہم القرآن ربط کلام : جس طرح حکمت و دانائی اللہ تعالیٰ کی عطا ہے۔ اسی طرح ہدایت پانا اور صدقہ کی توفیق ملنا بھی اسی کا کرم ہے۔ اے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! تمہاری ذمہ داری لوگوں کو سمجھانا ہے۔ ہدایت سے ہمکنار کرنا آپکا اختیار نہیں ہے۔ یہ تو اللہ تعالیٰ کی مشیّت اور حکمت ہے جسے چاہے ہدایت سے سرفراز فرمائے۔ صدقات کے بیان میں یہ جملہ اس لیے لایا گیا ہے کہ ابتدائی دور میں بے شمار ایسے صحابہ کرام (رض) تھے جن کی کافروں اور مشرکوں کے ساتھ قریبی رشتہ داریاں تھیں۔ مال دار صحابہ ایمان لانے کے بعد بھی کفارکے ساتھ تعاون کرتے تھے۔ لیکن اب انہوں نے ایمان کی بنیاد پر ایسے لوگوں کے ساتھ تعاون کرنے سے ہاتھ کھینچ لیا۔ جس پر یہ فرمان نازل ہوا جس میں وضاحت فرمائی کہ جو کچھ بھی تم اللہ کی رضا کے لیے غریبوں اور مسکینوں پر خرچ کرو گے اس کا پورا پورا اجر عنایت کیا جائے گا۔ ایسا ہی واقعہ حضرت عائشہ (رض) کی بہن حضرت اسماء (رض) کے ساتھ پیش آیا ان کی والدہ اپنی بیٹی اسماء (رض) سے تعاون حاصل کرنے کے لیے مکہ سے مدینہ آئی جس پر حضرت اسماء (رض) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہو کر پوچھتی ہیں کہ میری والدہ مجھ سے تعاون کی امید رکھتی ہے۔ کیا میں مشرکہ والدہ کے ساتھ تعاون کرسکتی ہوں؟ آپ نے فرمایا : تمہیں اس کے ساتھ تعاون کرنا چاہیے۔ [ رواہ البخاری : کتاب الھبۃ وفضلھا، باب الھدیۃ للمشرکین] بعض اہل علم نے یہ تفسیر فرمائی ہے کہ عام صدقہ مستحق کافر اور مشرک کو دیا جاسکتا ہے لیکن زکوٰۃ کافر کو نہیں دینا چاہیے البتہ قربانی کا گوشت مشرک، کافر کو دینے میں کوئی حرج نہیں۔ صدقہ اور خیرات کی وسعتوں کا ذکر کرتے ہوئے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرمایا کرتے تھے : (مَامِنْ مُّسْلِمٍ غَرَسَ غَرْسًا فَأَکَلَ مِنْہُ إِنْسَانٌ أَوْ دَآبَّۃٌ إِلَّا کَانَ لَہٗ بِہٖ صَدَقَۃٌ) [ رواہ البخاری : کتاب الأدب] ” جس مسلمان کے کھیت سے کسی انسان یا جانورنے دانہ کھایا اسے بھی صدقہ کا ثواب ملے گا۔“ (کُلُّ سُلَامٰی عَلَیْہِ صَدَقَۃٌ کُلَّ یَوْمٍ یُعِیْنُ الرَّجُلَ فِیْ دَابَّتِہٖ یُحَامِلُہٗ عَلَیْھَا أَوْ یَرْفَعُ عَلَیْھَا مََتَاعَہٗ صَدَقَۃٌ وَالْکَلِمَۃُ الطَّیِّبَۃُ وَکُلُّ خُطْوَۃٍ یَمْشِیْھَا إِلَی الصَّلٰوۃِ صَدَقَۃٌ وَدَلُّ الطَّرِیْقِ صَدَقَۃٌ) [ رواہ البخاری : کتاب الجھاد والسیر] ” روزانہ ہر جوڑ پر صدقہ ہے کسی آدمی کو سواری کے لیے سواری دے دینا یا کسی کے سامان کو سواری پر رکھ لینا صدقہ ہے اور اچھی بات کہناصدقہ ہے۔ نماز کے لیے جاتے ہوئے ہرقدم کا بدلہ صدقہ ہے۔ کسی کو راستہ بتلانا صدقہ ہے۔“ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَال النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بَیْنَمَا کَلْبٌ یُطِیْفُ بِرَکِیَّۃٍ کَادَ یَقْتُلُہُ الْعَطْشُ إِذْ رَأَتْہُ بَغِیَّۃٌ مِّنْ بَغَایَا بَنِیْ إِسْرَاءِیْلَ فَنَزَعَتْ مُوْقَھَا فَسَقَتْہُ فَغُفِرَلَھَا بِہٖ) [ رواہ البخاری : کتاب أحادیث الأنبیاء] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے کہ ایک کتا کنوئیں کے کنارے چکر لگارہا تھا قریب تھا وہ پیاس سے مر جائے۔ اچانک بنی اسرائیل کی ایک بدکار عورت نے دیکھ کر اپنے موزے کے ذریعے اسے پانی پلایا۔ اس وجہ سے اس عورت کو بخش دیا گیا۔“ مسائل ١۔ اللہ کے نبی کا کام رہنمائی کرنا ہے کسی کو ہدایت پر گامزن کرنا نہیں۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ جسے چاہے ہدایت سے نوازتا ہے۔ ٣۔ صدقہ کرنے میں بہتری ہے۔ ٤۔ صدقہ کرنے والے کو پورا پورا اجر دیا جائے گا۔ ٥۔ قیامت کے دن کسی پر کوئی ظلم نہیں ہوگا۔ تفسیربالقرآن اللہ کی توفیق سے ہی ہدایت ملتی ہے : ١۔ ہدایت پر چلانا انبیاء کی ذمہ داری نہیں۔ (البقرۃ: ٢٧٢) ٢۔ اللہ تعالیٰ کی توفیق کے بغیر کوئی شخص ہدایت یافتہ نہیں ہو سکتا۔ (الاعراف : ٤٣) ٣۔ اللہ جسے چاہے ہدایت دیتا ہے۔ (القصص : ٥٦) ٤۔ جسے اللہ ہدایت دے وہی ہدایت یافتہ ہے۔ (الکہف : ١٧) ٥۔ اللہ جسے چاہتا ہے صراط مستقیم کی ہدایت دیتا ہے۔ (البقرۃ: ١٤٢) البقرة
273 فہم القرآن ربط کلام : پہلے صدقہ کرنے کا حکم تھا اب مستحق حضرات کو پہچاننے کا حکم ہے۔ اس مقام پر خود دار اور پاک باز لوگوں کے ساتھ تعاون کرنے کی ترغیب دی جارہی ہے جو نہ کسی سے سوال کرتے ہیں اور نہ ہی مزدوری کے پیچھے بھاگتے ہیں کیونکہ انہوں نے اپنے آپ کو تعلیم وتعلّم، ترویج اسلام، جہاد فی سبیل اللہ بالفاظ دیگر اپنے آپ کو خدمت اسلام کے لیے وقف کر رکھا ہے۔ وہ مزدوری کرسکتے ہیں لیکن اس لیے نہیں کرتے کہ کہیں فریضۂ تبلیغ میں کوتاہی واقع نہ ہوجائے۔ پہلے انفاق کے احکامات میں فی سبیل اللہ خرچ کرنے کا حکم تھا اور اب خود دار مستحق لوگوں کو فی سبیل اللہ کے مقام پر فائز کرتے ہوئے اغنیاء کو خرچ کرنے کی تلقین کرتے ہوئے انہیں سرزنش کی گئی ہے کہ ایسے مال دار‘ لوگ جاہلوں کا ساکردار رکھتے ہیں۔ جو حاجت مند خود دار لوگوں کو ضرورت مند نہیں سمجھتے۔ اللہ کے راستے میں وقف لوگ اس قدر غیّور، خود دار، شرم وحیا کے پیکر اور بے نیاز ہیں کہ کسی سے سوال کرنا ان کے ضمیر کے خلاف ہے۔ یہاں چمٹ کر سوال کرنے کا یہ معنٰی نہیں کہ اس کے سوا کسی اور انداز میں سوال کرنا اپنے لیے روا رکھتے ہیں بلکہ اس انداز کلام سے یہ واضح کرنا مقصود ہے کہ وہ کسی حال میں بھی دوسرے کے سامنے دست سوال دراز کرنے کے قائل نہیں۔ لہٰذا مخیر حضرات کا فرض ہے کہ وہ خود آگے بڑھ کر ان کی ضروریات کا خیال رکھیں۔ ان کی ضرورتوں کو سمجھنا کوئی مشکل نہیں گو ان کے ہاتھ اور زبانیں بند ہیں لیکن ان کے چہرے‘ لباس اور بودو باش عسرت کے ترجمان ہیں کیونکہ اگر یہ لوگ اپنے آپ کو تبلیغ دین کے لیے وقف نہ کریں تو دینی درسگاہیں باہنجھ، مساجد ائمہ کرام سے خالی اور دین کا نسل درنسل چلنے کا سلسلہ بند ہوجائے گا۔ یہاں یہ بات بھی نمایاں ہوتی ہے کہ دین کے نام پر جائیدادیں بنانا اور تبلیغ کو پیشہ کے طور پر اختیار کرنا کسی لحاظ سے بھی مناسب نہیں۔ قرآن کا منشاء یہ ہے کہ دین کا کام کرنے والے لوگ پوری بے نیازی کے ساتھ اپنے کام کو جاری رکھیں۔ مخیر حضرات کا فرض ہے کہ وہ از خود ان کی ضروریات کا خیال رکھیں ان کے مقام ومرتبہ کو پیش نظر رکھ کر ان کے ساتھ فی سبیل اللہ تعاون کرتے رہیں۔ جن پاک باز لوگوں کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی تھی وہ اصحاب صفّہ (رض) کا مقدس گروہ تھا جن کو رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حسب ضرورت تبلیغ اور دوسرے دینی کاموں کے لیے بھیجا کرتے تھے۔ جونہی یہ لوگ اس فرض سے فارغ ہوتے تو مسجد نبوی کے متصل ایک چبوترے پر اپنی تعلیم کا سلسلہ جاری رکھتے۔ اصحابِ صُفَّہ (رض) کی خود داری : ان میں سے ایک عظیم ہستی جن کا اسم گرامی حدیث کی مقدس دستاویزات میں بڑی کثرت کے ساتھ آیا ہے وہ جناب ابوہریرہ (رض) ہیں جو اپنے بارے میں بیان کرتے ہیں : (إِنَّکُمْ تَزْعُمُوْنَ أَنَّ أَبَاھُرَیْرَۃَ یُکْثِرُ الْحَدِیْثَ عَلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وَاللّٰہُ الْمَوْعِدُ إِنِّیْ کُنْتُ امْرَأً مِسْکِیْنًا أَلْزَمُ رَسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عَلٰی مِلْءِ بَطْنِیْ وَکَانَ الْمُھَاجِرُوْنَ یَشْغَلُھُمُ الصَّفْقُ بالْأَسْوَاقِ وَکَانَتِ الْأَنْصَارُ یَشْغَلُھُمُ الْقِیَامُ عَلٰی أَمْوَالِھِمْ فَشَھِدْتُ مِنْ رَّسُوْلِ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ذَاتَ یَوْمٍ وَقَالَ مَنْ یَّبْسُطُ رِدَاءَ ہٗ حَتّٰی أَقْضِیَ مَقَالَتِیْ ثُمَّ یَقْبِضُہٗ فَلَنْ یَّنْسٰی شَیْءًا سَمِعَہٗ مِنِّیْ فَبَسَطْتُّ بُرْدَۃًکَانَتْ عَلَیَّ فَوَ الَّذِیْ بَعَثَہٗ بالْحَقِّ مَا نَسِیْتُ شَیْءًا سَمِعْتُہٗ مِنْہُ) [ رواہ البخاری : کتاب الإعتصام، باب الحجۃ علی من قال إن أحکام النبی] ” اے لوگو! تم کہتے ہو کہ ابوہریرہ (رض) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حدیثیں بہت بیان کرتا ہے۔ اللہ کی قسم ! میں مسکین آدمی تھا پیٹ بھرنے کی خاطر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ چمٹا رہتا تھا۔ مہاجرین منڈی میں کاروبار کرنے میں مصروف رہتے اور انصار اپنے مال کو سنبھالنے میں مشغول ہوتے۔ ایک دن میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس حاضرہوا تو آپ نے فرمایا : کون اپنی چادر پھیلاتا ہے یہاں تک کہ میں اپنی بات پوری کرلوں؟ پھر وہ اپنی چادر کو لپیٹ لے۔ وہ جو کچھ بھی مجھ سے سنے گا کبھی نہیں بھولے گا۔ میں نے اپنی چادر بچھائی جو میں نے اپنے اوپر لے رکھی تھی۔ اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے میں نے جو کچھ بھی آپ سے سنا کبھی نہیں بھولا۔“ مسائل ١۔ صدقات فقراء وغرباء میں تقسیم کرنے چاہییں۔ ٢۔ اللہ کے راستے میں وقف لوگوں کی از خود خدمت کرنا چاہیے۔ ٣۔ اللہ کے کام میں گھرے ہوئے خود دار مسکین لوگوں سے چمٹ کر سوال نہیں کرتے۔ ٤۔ انسان جو کچھ بھی خرچ کرے گا اللہ تعالیٰ اسے جانتا ہے۔ البقرة
274 فہم القرآن ربط کلام : پہلے ریاکاری کی مذمت کی گئی ہے اب وضاحت فرمائی ہے کہ نیت میں اخلاص ہو تو اعلانیہ صدقہ کرنا ریاکاری میں شامل نہیں۔ صدقہ کرنے کے انداز اور طریقہ کے بارے میں پہلے ارشاد یہ تھا کہ چھپا کر صدقہ کرو یا اعلانیہ دونوں صورتیں تمہارے لیے بہتر ہیں۔ اس کے بدلے تمہارے گناہوں کو معاف کردیا جائے گا۔ یہاں ارشاد ہوتا ہے کہ جو لوگ رات کی تاریکی میں صدقہ کریں یا دن کی روشنی میں سب کے سامنے کریں یا چھپ کر ایسے لوگوں کے اخلاص‘ جذبات اور صدقات کے مطابق ان کے رب کے ہاں نہایت ہی عمدہ اجر ہے۔ جس میں ایک رائی کے دانے کے برابر بھی کمی نہیں کی جائے گی۔ اس اجر کے ساتھ انہیں یہ بھی انعام سنایا جاتا ہے کہ انہیں اپنے مستقبل کے بارے میں خوفزدہ اور فکر مند ہونے کا اندیشہ نہیں ہونا چاہیے کیونکہ وہ غربت کے خوف اور دولت کے لالچ سے بے نیاز ہو کر مستحق غریب کو معاشی غم سے نجات دلایا کرتے ہیں اس کے بدلے ان پر نہ خوف طاری ہوگا اور نہ ہی انہیں کسی قسم کی پریشانی اور پشیمانی ہوگی۔ دنیا میں بھی ان کا مال کم نہیں ہوگا۔ مسائل ١۔ صدقہ دن رات، چھپ کر یا اعلانیہ کیا جائے اس کا اجر اللہ کے ہاں محفوظ ہے۔ ٢۔ صدقہ کرنے والے کو کوئی خوف و خطر نہیں ہوگا۔ تفسیربالقرآن خوف وغم سے مبرّا حضرات : ١۔ ہدایت پر عمل پیرا ہونے والا خوف زدہ اور غمگین نہیں ہوگا۔ (البقرۃ: ٣٨) ٢۔ ایمان اور عمل صالح کرنے والے خوف زدہ نہ ہوں گے۔ (البقرۃ: ٦٢) ٣۔ رضائے الٰہی کے لیے خرچ کرنے والے بے خوف وبے غم ہوں گے۔ (البقرۃ: ٢٦٢) ٤۔ ایمان، نماز اور زکوٰۃ مومن کو بے خوف وبے غم کرتی ہے۔ (البقرۃ: ٢٧٧) ٥۔ ایمان پر قائم رہنے والوں اور اصلاح کرنے والوں پر خوف وغم نہ ہوگا۔ (الانعام : ٤٨) البقرة
275 فہم القرآن ربط کلام : سودی نظام صدقہ کی تحریک میں سب سے زیادہ رکاوٹ ہے لہٰذا سود خور کا انجام بیان کرنے کے بعد سود اور تجارت کا فرق بتلایا گیا ہے۔ سود کو قدیم زمانے سے ربا کہا جاتا ہے۔ قرآن مجید نے بھی اس کے لیے یہی لفظ استعمال کیا ہے۔ ربا کا معنٰی ہے اضافہ یا زیادتی۔ فارسی میں اس کو سود کہتے ہیں جس کا مطلب ہے فائدہ یا اضافہ۔ انگلش میں اس کا نام (USURY) ہے۔ ایسا معاملہ جس میں سرمایہ کار کو مہلت کی بنا پر اپنی رقم پر منافع ملے۔ یہ کاروبار انفرادی طور پر ہو یا اجتماعی سطح پر ہو، رباتصور ہوگا۔ سود کا دھندا پہلی اقوام میں بھی پایا جاتا تھا جیسا کہ یہود کے بارے میں قرآن مجید نے بڑی وضاحت کے ساتھ ذکر کیا ہے کہ وہ سود کھانے اور کھلانے والی قوم تھی حالانکہ تورات میں انہیں سختی کے ساتھ اس دینی اور معاشی جرم سے منع کیا گیا تھا۔ (النساء : ١٦١) عیسائیوں کے متعلق انجیل میں موجود ہے کہ ان کا ایک گروہ ہیکل سلیمانی میں بیٹھ کر سود کا دھندا کیا کرتا تھا۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے ایک دفعہ ان کے کاروبار کو یہ کہہ کر الٹ ڈالا تھا کہ تم کیسے ناہنجار لوگ ہو کہ اللہ تعالیٰ کے عظیم اور مقدس گھر میں بھی اس جرم سے باز نہیں آتے۔ ہندؤوں کی پرانی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو سودی کاروبار کے واضح ثبوت ملتے ہیں۔ یہاں تک کہ دارا شکوہ نے ایک پنڈت سے گفتگو کرتے ہوئے اس سے سود کے بارے میں سوال کیا تو اس نے کہا کہ ہمارے مذہب میں بھی اسی طرح سود حرام ہے جس طرح دوسرے مذاہب میں اس کی حرمت کا ذکر ہوا ہے۔ افلاطون نے اپنی کتاب ” جمہوریہ“ میں سودی کاروبار کو مکھیوں کے چھتے کے ساتھ تشبیہ دی ہے کہ جس طرح شہد کی مکھیوں میں کچھ ایسی مکھیاں ہوتی ہیں جو شہد بنانے کے بجائے دوسری مکھیوں کے بنائے ہوئے شہد کو کھاجاتی ہیں۔ جب یہ چوری مکھیوں کی ملکہ کے نوٹس میں آتی ہے تو وہ اس مکھی کو موت کے گھاٹ اتار دیتی ہے یہی صورت حال معاشرے کے ساتھ سود خور کی ہے لہٰذا افلاطون کہتا ہے کہ سود خور کو فوری طور پر قتل کردینا چاہیے۔[ معارف القرآن] عربوں کے ہاں دونوں طرح کا سود رواج پاچکا تھا ذاتی غرض اور مجبوری کے وقت یا کاروبار کو ترقی دینے کے لیے سود پر رقم حاصل کرنا۔ حضرت عباس (رض) (رض) حرمت سود نازل ہونے سے پہلے اس کام میں پیش پیش تھے۔ [ رواہ مسلم : کتاب الحج، باب حجۃ النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ] سود کے بارے میں ارشاد ہوتا ہے کہ جسے اپنے رب کی نصیحت پہنچے اور سود خوری سے باز آجائے تو جو کچھ وہ پہلے کھاچکا سو کھاچکا اور اس کا سابقہ معاملہ اللہ کے حوالے ہوگا۔ یہاں واضح طور پر معافی کا اعلان نہیں کیا بلکہ یہ فرمایا کہ جو گزر گیا سو گزر گیا اور اس کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے۔ یہ معاف کردینے ہی کا ایک انداز ہے لیکن سود کے جرم کے پیش نظر واضح طور پر معافی کا اعلان نہیں کیا تاکہ سود خوروں کو اس جرم کی سنگینی کا احساس ہو اور وہ آئندہ اس جرم سے بچتے رہیں۔ جو اس کے باوجود سودی دھندہ کریں گے۔ وہ یقینا جہنم میں پھینکے جائیں گے اور انہیں اس میں ہمیشہ رہنا ہوگا۔ (عَنْ جَابِرٍ (رض) قَالَ لَعَنَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اٰکِلَ الرِّبَا وَمُوْکِلَہٗ وَشَاھِدَیْہِ وَقَالَ ھُمْ سَوَاءٌ) [ رواہ مسلم : کتاب المساقاۃ، باب لعن آکل الربوا وموکلہ] ” حضرت جابر (رض) بیان کرتے ہیں اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سود کھانے، کھلانے اور گواہی دینے والوں پرلعنت کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ سب برابرہیں۔“ (عَنْ سَمُرَۃَ بْنِ جُنْدُبٍ (رض) قَالَ قَال النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رَأَیْتُ اللَّیْلَۃَ رَجُلَیْنِ أَتَیَانِیْ فَأَخْرَجَانِیْ إِلٰی أَرْضٍ مُّقَدَّسَۃٍ فَانْطَلَقْنَا حَتّٰی أَتَیْنَا عَلٰی نَھْرٍ مِّنْ دَمٍ فِیْہِ رَجُلٌ قَاءِمٌ وَعَلٰی وَسْطِ النَّھْرِ رَجُلٌ بَیْنَ یَدَیْہِ حِجَارَۃٌ فَأَقْبَلَ الرَّجُلُ الَّذِیْ فِی النَّھْرِ فَإِذَا أَرَاد الرَّجُلُ أَنْ یَّخْرُجَ رَمَی الرَّجُلُ بِحَجَرٍ فِیْ فِیْہِ فَرَدَّہٗ حَیْثُ کَانَ فَجَعَلَ کُلَّمَا جَآءَ لِیَخْرُجَ رَمٰی فِیْ فِیْہِ بِحَجَرٍ فَیَرْجِعُ کَمَا کَانَ فَقُلْتُ مَاہٰذَا فَقَالَ الَّذِیْ رَأَیْتَہٗ فِی النَّھْرِ آکِلَ الرِّبَا) [ رواہ البخاری : کتاب البیوع، باب آکل الربا وشاھدہ وکاتبہ] ” حضرت سمرۃ بن جندب (رض) کہتے ہیں اللہ کے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا رات میں نے دیکھا میرے پاس دو آدمی آئے اور وہ مجھے ایک مقدس زمین کی طرف لے گئے ہم چلتے رہے حتیٰ کہ ہم ایک خونی نہر پر پہنچ گئے۔ ایک آدمی اس کے اندر تھا اور دوسرا آدمی باہر کھڑا تھا جس کے سامنے پتھر پڑے ہوئے تھے۔ نہر میں کھڑا شخص جب باہر نکلنے کا ارادہ کرتا تو دوسرا آدمی اس کے منہ پر پتھر مار کر واپس کردیتا۔ جب بھی وہ نکلنا چاہتا اسے باہر والا آدمی پتھر مار کر واپس لوٹا دیتا۔ میں نے پوچھا یہ کون ہے ؟ فرشتے نے جواب دیا خون کی نہر میں کھڑا شخص سود خور ہے۔“ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اَلرِّبَا سَبْعُوْنَ حُوْبًا أَیْسَرُھَا أَنْ یَّنْکِحَ الرَّجُلُ أُمَّہٗ ) [ رواہ ابن ماجۃ: کتاب التجارات، باب التغلیظ فی الربا] ” حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا سود کے گناہ کے ستر درجات ہیں۔ سب سے ہلکا گناہ یہ ہے کہ آدمی اپنی ماں سے نکاح جیسا عمل کرے۔“ ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا شب معراج میں جب ہم ساتویں آسمان پر پہنچے تو میں نے کڑک سنی اور بجلی دیکھی اس کے بعد ہم ایسی قوم پر گزرے جن کے پیٹ بڑے بڑے مکانات کی طرح بڑھے ہوئے تھے اور ان میں سانپ بھرے ہوئے تھے جو باہر سے بھی نظر آرہے تھے۔ میں نے جبریل امین (علیہ السلام) سے دریافت کیا کہ یہ کون لوگ ہیں ؟ انہوں نے بتایا کہ یہ سود خور ہیں۔“ [ مسند أحمد : کتاب باقی مسند المکثرین ] صدقات کی ترغیب، احکامات اور آداب بیان کرنے کے بعد سود کی حرمت ومذمت کے احکام جاری فرمائے گے کیونکہ سود انفرادی اور اجتماعی معیشت کی تباہی کا بڑا سبب اور جذبۂ ایثار وہمدردی اور باہمی تعاون کی راہ میں بہت بڑی رکاوٹ ہے۔ سودکی حرمت اس نظریۂ باطل کی مذمت سے شروع کی گئی جس کا سود خور صدیوں سے پروپیگنڈہ کرتے آرہے ہیں۔ سود خور حرص وہوس کی وجہ سے دماغی طور پر اس قدر غیر متوازن ہوچکا ہوتا ہے کہ وہ صرف اللہ تعالیٰ کے حکم کا انکار ہی نہیں کرتا بلکہ اپنے خبث باطن کی وجہ سے اس حکم کی ایسی تاویل کرتا ہے جو کھلم کھلا اللہ تعالیٰ کے حکم کے برخلاف اور اس کا استہزاء کرنے کے مترادف ہے۔ سود خور کی پہلی سزا یہ ہوگی کہ قبر سے اٹھتے ہی یہ ایسی حرکات کرے گا کہ لوگ دیکھتے ہی پہچان جائیں گے کہ یہ اللہ تعالیٰ کا وہ باغی اور قومی مجرم ہے جو دنیا میں سود کھایا کرتا تھا۔ اس کی حواس باختگی کو شیطان کے خبط کے ساتھ تشبیہ دی ہے۔ اندازہ کیجیے جس شخص کے اوپر شیطان مسلط ہوجائے کیا اس سے کسی بھلے کام کی توقع کی جاسکتی ہے ؟ ہرگز نہیں۔ اس پر یہ سزا اس لیے مسلط ہوگی کہ یہ دنیا میں کہا کرتا تھا کہ تجارت اور سود میں کوئی فرق نہیں حالانکہ تجارت اور سود میں مماثلت کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ تجارت اور سود میں فرق ١ تجارت میں نفع ونقصان دونوں کا احتمال ہوتا ہے۔ سود میں بظاہر نقصان کا کوئی احتمال نہیں ہوتا۔ ٢ تجارت میں منافع کا تعین نہیں ہوتا۔ سود میں منافع کی حد مقرر ہوتی ہے۔ ٣ تجارت میں نفع ونقصان کا کوئی وقت مقرر نہیں۔ سود میں پہلے دن ہی نفع کی وصولی کے لیے وقت مقرر کرلیا جاتا ہے۔ ٤ تجارت میں کسی سودے پر ایک ہی دفعہ منافع لیا جاتا ہے۔ سود میں بار بار منافع وصول کیا جاتا ہے۔ ٥ تجارت میں دونوں طرف سے کچھ نہ کچھ محنت ہوتی ہے۔ سود میں صرف سود ادا کرنے والا ہی محنت کرتا ہے۔ ٦ تجارت دونوں طرف سے لوگوں کے روز گار کا ذریعہ بنتی ہے۔ سود میں ایک طرف سے ہی آدمی شریک ہوتا ہے۔ ٧ تجارت کو اللہ تعالیٰ نے حلال قرار دیا ہے۔ سود اللہ اور رسول کے خلاف جنگ کرنے کے مترادف ہے۔ ٨ ٍتجارت کرنے کا حکم اور اس میں برکت ہے۔ سود حرام اور اس میں برکت نہیں ہوتی۔ ٩ تاجر صدقہ کرنے میں خوشی محسوس کرتا ہے۔ سود خور لوگوں کا خون نچوڑ نے سے خوش ہوتا ہے۔ ١٠ تجارت ملک وقوم کی ترقی کا باعث بنتی ہے۔ سود تباہی کا پیش خیمہ ہوتا ہے۔ ١١ صدقہ کرنے والے پر اللہ تعالیٰ خوش ہوتا ہے۔ سود خورمجرم ہے اس پر اللہ تعالیٰ ناراض ہوتا ہے۔ ١٢ نیک تاجر صدیقین اور شہداء کا ساتھی اور جنتی ہے۔ سود خور شیطان کا ساتھی اور جہنمی ہے۔ مسائل ١۔ سود خور قیامت کے دن پاگلوں کی طرح کھڑے ہوں گے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے سود حرام اور تجارت جائز قرار دی ہے۔ ٣۔ نصیحت قبول کرنے والے سے اللہ تعالیٰ در گزر فرماتا ہے۔ ٤۔ نصیحت سننے کے باوجود گناہ کرنے والا دوزخ میں جائے گا۔ تفسیربالقرآن سودکی تباہ کاریاں : ١۔ سود حرام ہے۔ (البقرۃ: ٢٧٥، آل عمران : ١٣٠) ٢۔ اللہ سود کو مٹانا چاہتا ہے۔ (الروم : ٣٩) ٣۔ سودخوروں کی اللہ و رسول سے جنگ ہے۔ (البقرۃ: ٢٧٩) ٤۔ سود کی حرمت کے بعد سود کھانے کی سخت سزا ہے۔ (البقرۃ: ٢٧٥) البقرة
276 فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ سود خور سے ناپسندیدگی کا اظہار کیا گیا ہے۔ سود کے بارے میں اسلام نے صرف انفرادی اور اخلاقی سطح پر مذّمت نہیں کی بلکہ اسے قانونی شکل دے کر انفرادی اور اجتماعی نظام میں سرکاری سطح پر حرام قرار دیا۔ اس فرمان میں پھر کہا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ سود کو ہر صورت مٹانا اور صدقات کو بڑھانا چاہتا ہے۔ جو لوگ سود کے حق میں پروپیگنڈہ اور اقدام کریں گے۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں وہ فکری ونظری اور علمی و عملی طور پر نافرمان اور مجرم ٹھہریں گے۔ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حجۃ الوداع کے موقعہ پر یہ اعلان فرمایا کہ آج کے بعد سود کے واجبات کا لین دین حرام قرار دیتا ہوں اور سب سے پہلے اپنے چچا عباس کے واجبات کو چھوڑتا ہوں۔ آپ کے اعلان کے بعد مسلمانوں نے جو غیر مسلموں اور ایک دوسرے سے سودی واجبات لینے تھے انہیں یکسر چھوڑ دیا۔ اسی بنیاد پر آئمہ کرام اور فقہاء نے اسلامی حکومت میں کسی غیر مسلم کو بھی سودی کاروبار کرنے کی اجازت نہیں دی۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جب نجران کے عیسائیوں سے معاہدات کیے تو ان میں ایک شق یہ بھی تھی کہ اگر تم نے اسلامی مملکت میں سودی کاروبار کا دھندا کیا تو ہماری طرف سے یہ معاہدہ فی الفور ختم ہوجائے گا۔ [ فتوح البلدان‘ کتاب الخراج امام ابو یوسف] سود کا متبادل عالم اسلام بالخصوص پاکستان میں جب کبھی سود کے خلاف آواز اٹھتی ہے تو سود خور اور اس نظام سے منسلک افراد یہ اعتراض اٹھاتے ہیں کہ علماء کرام کو چاہیے کہ وہ سودی نظام کے خاتمے کا مطالبہ کرنے سے پہلے اس کا متبادل نظام پیش کریں۔ حالانکہ متبادل نظام پیش کرنا معاشیات کے ماہر سرکاری کارندوں کی ذمّہ داری ہے جن میں اکثریت کو بھاری تنخواہوں پر بین الاقوامی مالیاتی اداروں سے درآمد کیا جاتا ہے۔ علماء کا کام تو دینی رہنمائی کرنا ہے اگر حکومت اس استحاصلی نظام سے مخلصانہ طور پر نجات حاصل کرنا چاہتی ہے تو اس کے لیے اسلام نے دو واضح صورتیں پیش کی ہیں جنہیں صدیوں مسلمانوں نے انفرادی اور اجتماعی طور پر اپنایا اور اس کے نتیجے میں مسلمان بین الاقوامی منڈیوں پر غالب آئے اور معاشیات میں قوموں کے رہبر و رہنما بنے۔ مسلمان تاجروں نے تجارت میں اپنی دیانت اور امانت کے ذریعے عام لوگوں پر وہ اثرات مرتب کیے۔ جن کی وجہ سے بڑی بڑی قومیں حلقۂ اسلام میں داخل ہوئیں۔ قدیم تاریخ کے مطابق شام اور جدید دنیا میں انڈونیشیا کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ یاد رہے کہ انڈو نیشیا کو مسلمانوں نے تلوار کی بجائے کاروباری اخلاق اور دینی اطوار کے ذریعے فتح کیا تھا۔ اسلام میں تجارت کی دو بڑی قسمیں مضاربت اور مشارکت ہیں۔ مضاربت کا معنیٰ یہ ہے کہ مال ایک کا ہو اور محنت دوسرے کی اور دونوں نفع ونقصان میں شامل ہوں۔ نقصان ہونے کی صورت میں صاحب ثروت کا مال ضائع ہوگا اور محنت کرنے والے کی محنت رائیگاں جائے گی۔ مشارکت آج کے مالی ادارے اور کمپنیوں کے مترادف ہے۔ ماضی کی طرح یہ نظام آج بھی بابرکت اور ترقی کا ضامن بن سکتا ہے بشرطیکہ درج ذیل اصولوں کی پاسداری کی جائے اور یہی سودی نظام کا متبادل ہے۔ حکومت کی طرف سے مشارکہ کمپنیوں اور کاروباری افراد کو اندرون اور بیرون ملک نفع بخش پراجیکٹ فراہم کیے جائیں جس طرح ترقی یافتہ ملک کرتے ہیں۔ شراکت داروں کے نمائندوں کا خفیہ انتخاب کے ذریعے بورڈ بنایا جائے جو شراکت داروں کو نفع ونقصان سے آگاہ رکھیں۔ بد دیانت افراد کو سخت ترین سزائیں دینے کے ساتھ ان سے پائی پائی وصول کی جائے۔ کھاتہ داروں کو قانونی تحفظ اور بھرپور اعتماد فراہم کیا جائے۔ صدقہ : اللہ تعالیٰ سود کے خاتمہ کے ساتھ ارشاد فرماتے ہیں کہ تمہارے رب کا فرمان اور منشا یہ ہے کہ سود لینے دینے کی بجائے صدقہ و خیرات عام کیا جائے اس کی روشنی میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : (عَنْ زَیْنَبَ امْرأَۃِ عَبْدِاللّٰہِ بْنِ مَسْعُوْدٍ (رض) قَالَتْ کُنْتُ فِی الْمَسْجِدِ فَرَأَیْتُ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَقَالَ تَصَدَّقْنَ وَلَوْ مِنْ حُلِیِّکُنَّ) [ رواہ البخاری : کتاب الزکاۃ، باب الزکاۃ علی الزوج ] ” حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) کی بیوی زینب (رض) بیان کرتی ہیں کہ میں نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مسجد میں دیکھا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : راہ خدا میں صدقہ کیا کرو اگرچہ تمہیں اپنے زیورات میں سے دینا پڑے۔“ (عَنْ اَسْمَاءَ (رض) قَالَتْ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) أَنْفِقِیْ وَلَا تُحْصِیْ فَیُحْصِی اللّٰہُ عَلَیْکِ وَلَا تُوْعِیْ فَیُوْعِی اللّٰہُ عَلَیْکِ) [ رواہ مسلم : کتاب الزکاۃ، باب الحث علی الإنفاق وکراھیۃ الإحصاء] ” حضرت اسماء (رض) بیان کرتی ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا خرچ کر اور اسے شمار نہ کرو، ورنہ اللہ تعالیٰ بھی تجھے گن کر دے گا اور نہ ہی حساب کرو، ورنہ وہ بھی تجھ سے حساب کرے گا۔“ یعنی فراخ دلی اور کشادہ دستی سے اللہ کی راہ میں خرچ کرتے رہنا چاہیے۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ سود کو مٹانا اور صدقات کو بڑھانا چاہتا ہے۔ ٍ٢۔ اللہ تعالیٰ ناشکرے اور گناہگار کو پسند نہیں کرتا۔ البقرة
277 فہم القرآن ربط کلام : قرآن مجید اپنے اسلوب کے مطابق احکامات جاری کرتے ہوئے نصیحت بھی کرتا ہے تاکہ اللہ تعالیٰ کے احکام پر عمل پیرا ہونے کے لیے ذہن ازخود آمادہ ہوجائے۔ قرآن مجید کا یہ اسلوب ہے کہ جب قانون اور ضابطے بیان کرتا ہے تو اس دوران لوگوں کے اخلاق میں نکھار پیدا کرنے اور ایمان کو جلا بخشنے کے لیے نماز، آخرت، اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت اور جزا‘ سزا میں سے کسی ایک کی طرف توجہ دلاتا ہے تاکہ دین کے احکام لوگوں کے ذہن میں محض ضابطے اور قانون کے طور پر نہیں بلکہ عبادت، قیامت میں پیشی کا تصور، خوف خدا اور اللہ تعالیٰ کی رضا کے طور پر سامنے رہیں۔ سماجی تعلقات ہوں یا کاروباری معاملات، امتناعی احکامات ہوں یا ترغیبی ارشادات ان کے دوران اسی فلسفہ کے تحت یہ اسلوب اختیار کیا جاتا ہے۔ یہاں بھی سود کی حرمت اور قباحت واضح کرنے کے دوران فکر آخرت، نماز اور زکوٰۃ کا حکم دے کریہ تصور دیا گیا ہے کہ جس طرح تم خدا کا حکم سمجھ کر نماز میں اس کے سامنے سرفگندہ ہوتے ہو اور نماز کا صلہ اللہ کے پاس تمہارے لیے موجود ہے اور تمہیں مستقبل میں کوئی خوف وخطر نہیں ہوگا۔ اسی طرح ہی سود اللہ تعالیٰ کا حکم سمجھ کر چھوڑدو اور اس اللہ کے سامنے جھک جاؤ اس کا تمہیں اجر ملے گا۔ لہٰذا سود لینے اور لوگوں کا مال کھانے کی بجائے صدقہ اور زکوٰۃ دینے والے بن جاؤ۔ مسائل ١۔ ایماندار، نیکو کار، نمازی، اور زکوٰۃ دینے والے کو نہ خوف ہوگا نہ غم۔ تفسیر بالقرآن خوف سے بے نیاز حضرات : ١۔ اولیاء اللہ خوف اور غم سے پاک ہوں گے۔ (یونس : ٦٢) ٢۔ استقامت دکھلانے والے خوفزدہ وغمگین نہ ہوں گے۔ (الاحقاف : ١٣) ٣۔ جنتی لوگوں کو خوف وغم نہ ہوگا۔ (الاعراف : ٤٩) البقرة
278 فہم القرآن ربط کلام : گزشتہ سے پیوستہ۔ سود خوروں کو آخری انتباہ۔ نماز اور زکوٰۃ کا حکم دینے کے بعد ایک دفعہ پھر دلرُبا اور عزت افزا لقب کے ساتھ مخاطب کیا جارہا ہے۔ اے میرے مومن بندو! سو دکامعمولی اور عارضی فائدہ حاصل کرنے کی بجائے دائمی سکون، اطمینان اور میرے ہاں اجر پانے کے لیے مجھ سے ڈرو اور جو کچھ سود کے بقایا جات ہیں انہیں ترک کردواگر تم حقیقتاً میرا حکم ماننے اور مجھ پر ایمان لانے والے ہو۔ حقیقی ایمان کا تقاضا یہی ہے کہ تم سود سے کنارہ کش ہوجاؤاگر تم نے اس نعمت کے باوجود سود نہ چھوڑا تو یاد رکھو یہ اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ کھلی جنگ ہوگی۔ ہاں اگر تم تائب ہوجاؤ تو پھر اصل مال لینے کا تمہیں پورا پورا حق ہے۔ نہ ظلم کرو نہ تم پر ظلم کیا جائے۔ اس سے مراد یہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ سود خور پر ظلم کرے گا۔ بلکہ اس کا معنٰی ہے کہ سود معاشی ظلم ہے جس کا رد عمل ظلم ہوا کرتا ہے۔ سود قانونی اور معاشی جرم ہی نہیں بلکہ اس سے انسان اخلاق باختہ ہوجاتا ہے۔ سود خور فقط منافع کی نظر سے دیکھتا، بولتا اور معاملات کرتا ہے۔ اس میں دن بدن انسانی ہمدردی ختم ہوجاتی ہے۔ ہر دور اور معاشرے میں سینکڑوں واقعات ایسے ملتے ہیں کہ سود خور نے مصیبت زدہ حقیقی بھائی کو قرض حسنہ دینے کے بجائے سود پر رقم دی اور وہ بیچارہ کنگال سے کنگال ہوتاچلا گیا۔ حکومت کے نظام میں تو ہزاروں واقعات تاریخ کا حصہ ہیں کہ سودی قرضہ کی وجہ سے غریبوں کی جائیدادیں ضبط ہوئیں، مکانات گروی ہوئے یہاں تک کہ انہیں کئی کئی سال جیل میں رہنا پڑا حالانکہ انہوں نے ذاتی مجبوری اور حقیقی ضرورت کے لیے بینک یا حکومت کے کسی مالیاتی ادارے سے قرض لیا تھا۔ کیا پسماندہ لوگوں کی بنیادی ضرورتیں پوری کرنا، انہیں مالی سہارا دینا، ان کو وسائل فراہم کرنا، بیماروں کا علاج کروانا اور تعلیم کا انتظام کرنا حکومت کے فرائض میں شامل نہیں ؟ لیکن غریبوں، معذوروں، مجبوروں اور بیماروں کے ساتھ عملی ہمدردی کی بجائے ان پر ظلم کے پہاڑ توڑدیے جاتے ہیں۔ اس عمل کو اللہ تعالیٰ اپنے اور اپنے رسول کے خلاف جنگ قرار دے رہے ہیں۔ کیا دنیا میں کوئی ایسا مذہب اور حکومت ہے جو غریبوں اور مجبوروں کی اس قدر خیر خواہ ہو کہ ان پر ہونے والی زیادتی کو براہ راست اپنے آپ پر ظلم تصور کرے؟ یہ خیر خواہی تو صرف دین اسلام میں ہی پائی جاتی ہے کاش غریب لوگ اسلام کے سایۂ عاطفت میں آکر اپنی دنیا اور آخرت سنوار لیں۔ اس فرمان کے آخر میں حکم دیا ہے کہ اے صاحب ثروت حضرات! کسی پر ظلم نہ کرو تاکہ تم پر بھی ظلم نہ کیا جائے۔ کسی معاشرے اور قوم میں جب سود خوروں کی بہتات ہوجائے تو پھر غریب عوام کے لیے اس کے بغیر کوئی چارۂ کار نہیں رہتا کہ مظلوم کے ہاتھ ظالم کے گریبان تک پہنچیں، پھر یہ لوگ استحاصلی طبقہ کے محلات اور فیکٹریوں پر حملہ آور اور ہڑتالیں کرتے ہیں۔ ماضی قریب میں روس، یوگو سلاویہ کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں کہ جب غریب لوگ سرمایہ داروں کے خلاف سینہ سپر اور منظم ہوئے تو پھر انہوں نے نہ صرف امیروں کی جائیدادوں پر قبضہ کیا بلکہ کیمو نزم کے نام پر ایک نیا نظام دنیا کے سامنے پیش کیا۔ یہ نظام غیر فطری اور پہلے نظام سے زیادہ ظالمانہ تھا۔ اس لیے نہ صرف یہ نظام ناکام ہوا بلکہ روس جیسی عظیم مملکت ٹکڑے ٹکڑے ہوگئی۔ اس طرح ان قوموں نے ایک دوسرے پر ظلم کیا۔ لہٰذا سودی نظام قوم اور معاشرے کے لیے مہلک ہے۔ انہی اخلاقی ومعاشی برائیوں کی وجہ سے سودی نظام کو اپنے آپ پر ظلم کرنے اور اللہ اور اس کے رسول کے خلاف جنگ قرار دیا گیا ہے۔ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ إجْتَنِبُوا السَّبْعَ الْمُْوْبِقَاتِ قَالُوْا یَارَسُوْلَ اللّٰہِ وَمَاھُنَّ قَالَ اَلشِّرْکُ باللّٰہِ وَالسِّحْرُ وَقَتْلُ النَّفْسِ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّٰہُ إِلَّا بالْحَقِّ وَأَکْلُ الرِّبَاوَأَکْلُ مَالِ الْیَتِیْمِ وَالتَّوَلِّیْ یَوْمَ الزَّحْفِ وَقَذْفُ الْمُحْصَنَاتِ الْمُؤْمِنَاتِ الْغَافِلَاتِ) [ رواہ البخاری : کتاب الوصایا، باب قول اللہ تعالیٰ إن الذین یأکلون أموال الیتامی ظلما] ” حضرت ابوہریرہ (رض) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : سات ہلاک کرنے والے گناہوں سے بچ جاؤ صحابہ کرام (رض) نے عرض کی اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! وہ گناہ کون کون سے ہیں؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرنا‘ جادو کرنا‘ ناحق کسی جان کو قتل کرنا‘ سود کھانا‘ یتیم کا مال کھانا‘ میدان جنگ سے پیٹھ پھیر کر بھاگنا اور پاکدامن‘ مومن‘ بے خبر عورتوں پر تہمت لگانا۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ سے ڈر کر سود اور اس کی باقیات کو چھوڑ دیا جائے۔ ٢۔ سود نہ چھوڑنے والے اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ جنگ کرتے ہیں۔ ٣۔ سود سے توبہ کے بعد اصل مال وصول کیا جاسکتا ہے۔ ٤۔ سود خور نہ ظلم کریں اور نہ ان پر ظلم ہو۔ البقرة
279 البقرة
280 فہم القرآن ربط کلام : اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ ضرورت مند پر صدقہ کیا جائے یاقرض حسنہ کے ساتھ اس سے تعاون کیا جائے اس لیے سود کی حرمت ومذّمت کرنے کے بعد تجارت کے مسائل بیان ہورہے ہیں۔ قرض حسنہ کے بارے میں حکم ہے کہ اگر مقروض کوشش کے باوجود قرض کی ادائیگی کا اہتمام نہ کرسکے تو اسے مہلت دینا ہوگی۔ اگر قرض معاف ہی کردیا جائے تو یہ صاحب مال کے لیے بہت ہی بہتر ہوگا۔ یہاں فکر آخرت کے حوالے سے سمجھایا جارہا ہے کہ اے مالدارو! اللہ تعالیٰ سے ڈرو یہ سب کچھ یہیں کا یہیں رہ جائے گا اور بالآخر تم نے اللہ تعالیٰ کی عدالت میں پیش ہونا ہے اگر تم قرض معاف کردو یا تنگ دست کو مہلت دو تو دونوں صورتوں میں تمہیں پورا پورا اجر دیا جائے گا۔ یہاں کُلُّ نَفْسٍ کا لفظ استعمال فرما کر قرض دہندہ کو بھی ہدایت کی گئی ہے کہ اگر جان بوجھ کر قرض کی ادائیگی میں تاخیر کی تو یہ اللہ کے ہاں ظلم تصور ہوگا۔ ” حضرت ابو قتادہ (رض) کا کسی آدمی پر قرض تھا جب اس کے پاس قرض لینے جاتے تو وہ آگے پیچھے ہوجاتا۔ ایک دن وہ اس کے گھر گئے تو ایک بچہ نکلا حضرت ابو قتادہ (رض) نے بچے سے اس آدمی کے بارے میں دریافت کیا۔ اس نے کہا وہ گھر میں کھاناکھا رہا ہے انہوں نے آواز دی کہ اے فلاں! باہر آؤ مجھے پتہ چلا ہے کہ تم یہیں ہو۔ وہ آدمی آیا تو انہوں نے پوچھا کہ تو مجھ سے کیوں غائب ہوجاتا ہے؟ اس نے کہا میں تنگدست ہوں اور میرے پاس کچھ بھی نہیں۔ ابو قتادہ (رض) نے پوچھا اللہ کی قسم! کیا تو واقعی تنگدست ہے؟ اس نے کہا ہاں۔ ابو قتادہ (رض) نے روتے ہوئے کہا میں نے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا ہے کہ جس شخص نے اپنے قرض دار پر نرمی کی یا اس کا قرض معاف کردیا تو وہ روز قیامت عرش کے سایہ تلے ہوگا۔“ [ مسند احمد : کتاب باقی مسند الأنصار، باب حدیث أبی قتادہ] (عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ کَانَ تَاجِرٌ یُدَایِنُ النَّاسَ فَإِذَا رَأٰی مُعْسِرًا قَالَ لِفِتْیَانِہٖ تَجَاوَزُوْا عَنْہُ لَعَلَّ اللّٰہَ أَنْ یَتَجَاوَزَ عَنَّا فَتَجَاوَزَ اللّٰہُ عَنْہُ) [ رواہ البخاری : کتاب البیوع، باب من أنظر معسرا] ” حضرت ابوہریرہ (رض) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : ایک تاجر لوگوں سے لین دین کرتا تھا۔ جب وہ کسی تنگدست کو دیکھتا تو اپنے خادموں سے کہتا کہ اسے معاف کردوشاید اللہ ہمیں معاف فرما دے تو اللہ تعالیٰ نے اسے معاف فرمادیا۔“ (عَنْ کَعْبٍ (رض) قَالَ تَقَاضَی ابْنَ اَبِیْ حَدْرَدٍ دَیْنًا کَانَ لَہٗ عَلَیْہِ فِی الْمَسْجِدِ فَارْتَفَعَتْ أَصْوَاتُھُمَا حَتّٰی سَمِعَھَا رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وَھُوَ فِیْ بَیْتِہٖ فَخَرَجَ إِلَیْھِمَا حَتّٰی کَشَفَ سِجْفَ حُجْرَتِہٖ فَنَادٰی یَاکَعْبُ ! قَالَ لَبَّیْکَ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ قَالَ ضَعْ مِنْ دَیْنِکَ ہٰذَا وَأَوْمَأَ إِلَیْہِ أَیْ الشَّطْرَ قَالَ لَقَدْ فَعَلْتُ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ قَالَ قُمْ فَاقْضِہٖ) [ رواہ البخاری : کتاب الصلوۃ، باب التقاضی والملازمۃ فی المسجد] ” حضرت کعب (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے ابن ابی حدرد (رض) سے کچھ ادھار لینا تھا۔ میں نے مسجد میں اس کا مطالبہ کیا۔ ہماری آوازیں سن کر رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے حجرہ کا پردہ ہٹاکرگھر سے نکلتے ہوئے آواز دی اے کعب! میں نے عرض کیا : لبیک یارسول اللہ ! فرمایا : اسے آدھا قرض معاف کردو۔ میں نے آدھا معاف کردیا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ابن ابی حدرد کو حکم دیا جاؤ باقی قرض واپس کرو۔“ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ مَطْلُ الْغَنِیِّ ظُلْمٌ فَإِذَا أُتْبِعَ أَحَدُکُمْ عَلٰی مَلِیٍّ فَلْیَتْبَعْ) [ رواہ البخاری : کتاب الحوالات، باب الحوالۃ وھل یرجع فی الحوالۃ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : صاحب استطاعت کا قرض واپس کرنے سے ٹال مٹول کرنا ظلم ہے۔ جب مہلت کا مطالبہ کیا جائے تو قرض دار کو اسے مہلت دینی چاہیے۔“ مسائل ١۔ مقروض کو مہلت دینا یا اسے معاف کردینا بہتر ہے۔ ٢۔ ہر کسی نے اللہ تعالیٰ کے حضور پیش ہونا ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ کے حضور پیشی سے ڈرتے رہنا چاہیے۔ ٤۔ ہر کسی کو اس کے عمل کے مطابق جزا ملے گی کسی پر ظلم نہیں ہوگا۔ البقرة
281 البقرة
282 فہم القرآن ربط کلام : سود کی لعنت تین طریقوں سے ختم ہوسکتی ہے صدقہ، قرض دینا اور تجارت بڑھانا لہٰذا قرض اور تجارت کے معاملات کو ضبط تحریر میں لانے کی ہدایات جاری کی جارہی ہیں۔ اسلام کی منشایہ ہے کہ جس کے پاس اپنی ضرورت سے زائد مال ہو یا وہ کسی سبب سے خود تجارت نہیں کرسکتا تو اس کے لیے دو ہی صورتیں ہیں۔ ایک یہ کہ وہ مالی لحاظ سے کمزور بھائی پر صدقہ کرے یا اس کو قرض حسنہ دے۔ یہاں قرض کا لین دین کرنے والوں کو حکم دیا جارہا ہے کہ وہ قرض کی ماعہد اور اس کے متعلقہ معاملات ضبط تحریر میں لائیں تاکہ قرض دینے والے کو قانونی تحفظ حاصل ہونے کے ساتھ یہ اطمینان ہو کہ اس کی رقم کسی حقیقی سبب کے بغیر ضائع نہیں ہوپائے گی۔ اس سے قرض دار کو بر وقت ادائیگی کا احساس دلانے کے ساتھ ساتھ اس بات کا پابند کیا گیا ہے کہ وہ قرض دینے والے محسن کا احسان ذہن میں رکھتے ہوئے مقررہ میعاد تک پائی پائی واپس کرنے کی کوشش کرے۔ ان دستاویزات کو مکمل قانونی شکل اور تحفظ دینے کے لیے دو ایسے گواہ ہونے چاہییں جن پر فریقین کا پورا پورا اعتماد ہو اور اگر مردوں میں دو مناسب گواہ نہ مل سکیں تو پھر دو عورتیں ایک مردکی گواہی کے قائم مقام شہادت دیں گی تاکہ اگر ایک عورت اپنا بیان دیتے ہوئے کوئی بات بھول جائے تو دوسری عورت اسے یاد کروادے۔ ایک مرد کے مقابلے میں دو عورتوں کی گواہی کو برابر ٹھہرایا گیا ہے کیونکہ عورتیں مالی معاملات میں زیادہ دلچسپی نہیں رکھتیں اور نہ ہی اسلامی معاشرے میں معیشت کی ذمّہ داری عورتوں پر ڈالی گئی ہے۔ اس بنا پر ان کا مالی معاملات سے پوری طرح واقف نہ ہونا فطری اور شرعی امر ہے۔ جس کو پیش نظر رکھتے ہوئے دو عورتوں کی گواہی مرد کی ایک گواہی کے برابر ٹھہرائی گئی ہے۔ بعض لوگ اسلام دشمن عناصر سے متاثر ہو کر یہ تاثر دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ عورت کی نصف گواہی کے اصول میں عورت کی تذلیل پائی جاتی ہے۔ حالانکہ اس طرح عورت کو بہت بڑی ذمہ داری سے سبک دوش اور کئی الجھنوں سے بچایا گیا ہے۔ اسلام کے نقطۂ نظر سے عورت خاتون خانہ ہے یہ کس طرح مناسب ہوسکتا ہے کہ ایک پردہ نشین، باحیا اور کاروباری معاملات سے لا تعلق خاتون خانہ کو تھانوں، کچہریوں اور مردوں کے کاروباری معاملات میں پھنسایا جائے؟ یہ اصول عورت کوتکریم اور تحفظ فراہم کرتا ہے کہ ایک خاتون خانہ کیوں عدالت میں فریقین کے سامنے وکلاء کے اوٹ پٹانگ سوالات کا نشانہ بنے ؟ عدالت کے ماحول میں تو بڑوں بڑوں کے حواس گم ہوجاتے ہیں جب آپ یکایک بھری محفل یا عدالت میں خاتون خانہ کو لاکھڑا کریں گے تو اس کے ذہن پر ماحول کا دباؤ اور منفی اثرات کا مرتب ہونا ایک طبعی اور فطری امر ہے۔ قرآن مجید نے عورت کے ساتھ خیر خواہی کرتے ہوئے ایک کی بجائے دو عورتوں کورکھا۔ اکیلی عورت عدالت میں جانے کے بجائے اپنی ہم جنس کے ساتھ پہنچے تاکہ آنے جانے، عدالت میں بیٹھنے اٹھنے، جرح کے وقت اور عدالتی وقفے کے دورانیہ میں وہ اپنی ساتھی عورت سے مشورہ اور وقت گزارنے کے لیے بات چیت کرسکے۔ پھریہ بات بھی میڈیکل سائنس نے ثابت کی ہے کہ عورتوں کی غالب اکثریت مردوں کے مقابلے میں دماغی لحاظ سے کمزور واقع ہوئی ہے۔ اس لیے اگر وہ گواہی دیتے بھول جائے تو دوسری عورت اس کو یاد کروائے تاکہ اس طرح ایک دوسرے کی معاون بنتے ہوئے گواہی ٹھیک طرح سے دے سکیں۔ (عَنْ أَبِیْ سَعِیْدِ نِ الْخُدْرِیِّ (رض) قَالَ خَرَجَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فِیْ أَضْحٰی أَوْفِطْرٍ إِلَی الْمُصَلّٰی فَمَرَّ عَلَی النِّسَاءِ فَقَالَ یَامَعْشَرَ النِّسَاءِ تَصَدَّقْنَ فَإِنِّیْ أُرِیْتُکُنَّ أَکْثَرَ أَھْلِ النَّارِ فَقُلْنَ وَبِمَ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ قَالَ تُکْثِرْنَ اللَّعْنَ وَتَکْفُرْنَ الْعَشِیْرَ مَارَأَیْتُ مِنْ نَاقِصَاتِ عَقْلٍ وَدِیْنٍ أَذْھَبَ لِلُبِّ الرَّجُلِ الْحَازِمِ مِنْ إِحْدَاکُنَّ قُلْنَ وَمَانُقْصَانُ دِیْنِنَا وَعَقْلِنَا یَارَسُوْلَ اللّٰہِ قَالَ أَلَیْسَ شَھَادَۃُ الْمَرْأَۃِ مِثْلَ نِصْفِ شَھَادَۃِ الرَّجُلِ قُلْنَ بَلٰی قَالَ فَذٰلِکَ مِنْ نُقْصَانِ عَقْلِھَا أَلَیْسَ إِذَاحَاضَتْ لَمْ تُصَلِّ وَلَمْ تَصُمْ قُلْنَ بَلٰی قَالَ فَذٰلِکَ مِنْ نُقْصَانِ دِیْنِھَا) [ رواہ البخاری : کتاب الحیض، باب ترک الحائض الصوم] ” حضرت ابوسعید خدری (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عید الاضحی یا عید الفطر کے لیے عیدگاہ کی طرف نکلے عورتوں کے پاس سے گزرے تو فرمایا اے عورتوں کی جماعت! صدقہ کیا کرو۔ مجھے جہنم میں تمہاری اکثریت دکھلائی گئی ہے۔ عورتوں نے کہا اللہ کے رسول! کس وجہ سے؟ آپ نے فرمایا : تم اکثر لعنت کرتی اور خاوند کی ناشکری کرتی ہو۔ میں نے عقل اور دین کے اعتبار سے تم سے بڑھ کر کسی کو کم عقل نہیں دیکھا جو ایک عقلمند آدمی کو حواس باختہ کر دے۔ عورتوں نے پوچھا اللہ کے رسول! ہماری عقل اور دین میں کیا کمی ہے؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کیا ایک عورت کی گواہی مرد کے مقابلے میں آدھی نہیں ؟ عورتوں نے کہا ایسے ہی ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا یہ تمہاری کم عقلی ہے۔ دوبارہ پوچھاکہ کیا ایسے نہیں کہ عورت حائضہ ہوجائے تو نہ نماز پڑھتی ہے اور نہ روزے رکھتی ہے۔ عورتوں نے کہا ہاں ایسے ہی ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا یہ تمہارے دین میں کمی ہے۔“ یہاں یہ بات بھی ذہن میں رکھنی چاہیے کہ اسلام میں ہر معاملہ میں عورت کی آدھی گواہی مقرر نہیں کی گئی بلکہ کئی ایسے معاملات ہیں جن میں عورت کی گواہی مرد کے مقابلے میں زیادہ ثقہ اور مکمل سمجھی گئی ہے۔ مثال کے طور پر رضاعت اور حمل کے معاملات۔ عورت کی آدھی گواہی کے بارے میں سورۃ نور میں بحث ہوگی۔ (ان شاء اللہ) نظام عدالت، معاملات اور مقدمات کو صحیح خطوط پر چلانے کے لیے یہ بھی حکم دیا گیا ہے کہ گواہوں کو گواہی دینے سے بلا عذر شرعی انکار نہیں کرنا چاہیے۔ کاروباری معاملہ چھوٹا ہو یا بڑا اس کے لکھنے کا اہتمام کرنا، حصول انصاف اور معاملات کو صحیح خطوط پر استوار رکھنے کا بہترین طریقہ ہے۔ کاروباری معاملہ دست بدست اور نقد ہونے کی صورت میں اگر تحریر نہ ہوسکے تو اس میں کوئی حرج نہیں تاہم بہتری اسی میں ہے کہ اسے بھی کیش میمو، رسید، یا کسی شکل میں ریکارڈ میں لایاجائے۔ جس سے نہ صرف کاروباری الجھنوں سے بچاجاسکتا ہے بلکہ مسلمانوں کو اپنی تجارت کا سالانہ اندازہ کرنے اور زکوٰۃ کی ادائیگی میں آسانی پیدا ہوگی۔ یہاں یہ بھی فرمایا کہ معاہدہ ضبط تحریر میں لاتے ہوئے کاتب کو لکھنے سے انکار نہیں کرنا چاہیے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ہی اسے اس صلاحیّت سے نوازا ہے۔ اس لیے اس کا فرض بنتا ہے کہ وہ عدل وانصاف کے اصول پیش نگاہ رکھے۔ معاہدہ لکھوانا مقروض کی ذمّہ داری ہے۔ اگر مقروض کم عقل، کمزور یا املاء نہ کرواسکتاہو تو اس کا ولی یا وکیل معاہدہ تحریر کروائے تاکہ کسی کمی بیشی کا امکان اور الزام کا موقع پیدا نہ ہوسکے۔ اس طرح فریقین کو اللہ تعالیٰ کا خوف رکھتے ہوئے ہر قسم کی خیانت سے پرہیز کرنا لازم ہے۔ کاتب اور گواہوں کو کسی صورت تکلیف نہیں پہنچنی چاہیے اسی بنا پر دانشوران اسلام نے لکھا ہے کہ کاتب کے آنے جانے اور کھانے پینے کے اخراجات بھی ادا کرنے ہوں گے۔ جو کوئی ان قواعد کی خلاف ورزی کرے گا وہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کا مرتکب ہوگا لہٰذا ایسے لوگوں کو اللہ تعالیٰ سے ڈر کر قرآن مجید کے ضابطوں کے مطابق اپنے معاملات طے کرنے چاہییں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا اصول سمجھانے کا مقصد ہی یہی ہے کہ مسلمان اپنے معاملات کو صحیح سمت پر چلائیں اور یقین رکھیں کہ اللہ تعالیٰ کو ایک ایک لمحہ اور ہر چیز کا علم ہے۔ مسائل ١۔ ادھار کا معاملہ ضبط تحریر میں لانا چاہیے۔ ٢۔ کاتب کو انکار کرنے کے بجائے انصاف کے ساتھ تحریر کرنا چاہیے۔ ٣۔ معاہدہ لکھوانے کا حق قرض دار کو ہے۔ ٤۔ تحریر میں کمی وبیشی نہیں کرنی چاہیے۔ ٥۔ نادان، کمزور، اور معذور کی طرف سے اس کا وکیل عدل کے ساتھ تحریر کروائے۔ ٦۔ فریقین کی طرف سے مردوں میں سے دو گواہ ہونے چاہییں۔ ٧۔ دو عورتوں کی گواہی ایک مرد کی گواہی کے برابر ہوگی۔ ٨۔ گواہوں کو گواہی سے انکار کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ ٩۔ معاہدہ کے مطابق انصاف کے ساتھ چھوٹے بڑے معاملے کو لکھنا چاہیے۔ ١٠۔ معاملہ کو درست رکھنے کا بہترین طریقہ اسے تحریر کرنا ہے۔ ١١۔ نقد لین دین کو نہ لکھا جائے تو کوئی حرج نہیں۔ ١٢۔ کاتب اور گواہ کو تکلیف سے بچانا چاہیے۔ ١٣۔ معاہدہ میں گڑ بڑ کرنا اور کاتب و گواہ کو تکلیف دینا اللہ کی نافرمانی کرنا ہے۔ البقرة
283 فہم القرآن ربط کلام : گزشتہ سے پیوستہ ہدایات۔ اگر سفر کے دوران ادھارلینے کی نوبت پیش آئے تو کاتب کی عدم موجودگی اور باہمی اعتماد نہ ہونے کی صورت میں قرض لینے والے کی کوئی چیز گروی رکھی جاسکتی ہے۔ (عَنْ عَاءِشَۃَ (رض) قَالَتِ اشْتَرٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مِنْ یَھُوْدِیٍّ طَعَامًا بِنَسِیْءَۃٍ وَرَھَنَہٗ دِرْعَہٗ) [ رواہ البخاری : کتاب البیوع، باب شراء الإمام الحوائج بنفسھا] ” حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک یہودی سے کچھ مدت کے لیے غلہ حاصل کیا اور اپنی لوہے کی زرہ اس کے پاس بطور رہن رکھی۔“ یاد رکھیں کہ ( آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کسی سے اپنی ذات کیلیے قرض لینا ثابت نہیں۔ بیت المال کمزور ہونے کی وجہ سے آپ غریب مسلمانوں کے لیے قرض لیتے تھے)۔“ جو چیزکسی کے ہاں گروی رکھی جائے اس کا عارضی مالک اس سے کوئی فائدہ نہیں اٹھا سکتا۔ اگر یہ فائدہ اٹھائے گا تو وہ بھی سود کے زمرے میں سمجھا جائے گا۔ سوائے اس کے کہ اگر کوئی جانور وغیرہ ہو تو اس کا دودھ پینا یا اس پر سواری کرنا اس کے لیے جائز ہے۔ کیونکہ یہ اس جانور کے چارے کا انتظام کرتا ہے۔ (عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اَلرَّھْنُ یُرْکَبُ بِنَفَقَتِہٖ إِذَا کَانَ مَرْھُوْنًا وَلَبَنُ الدَّرِّ یُشْرَبُ بِنَفَقَتِہٖ إِذَا کَانَ مَرْھُوْنًا وَعَلَی الَّذِیْ یَرْکَبُ وَیَشْرَبُ النَّفَقَۃُ) [ رواہ البخاری : کتاب الرھن، باب الرھن مرکوب ومحلوب] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے گروی چیز پر خرچ کرنے کی وجہ سے سواری کی جاسکتی ہے جب اسے گروی رکھا جائے اور دودھ والے جانور کا دودھ جانور کو چارہ کھلانے کی وجہ سے پیا جاسکتا ہے۔ جب اس قسم کا جانور گروی رکھاجائے تو سواری کرنے یا دودھ پینے والے پر اسے چارہ کھلانا ہے۔“ سفر سیگھر پہنچنے اور معاملے کی میعاد پوری ہوجانے کے بعد یہ گروی شدہ چیز مالک کو صحیح سالم واپس لوٹانا ہوگی۔ آخر میں پھر حکم دیا جارہا ہے کہ اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہووہی تمہارا پالنہار اور مالک ہے۔ لہٰذا گواہی کو ہرگز نہ چھپایا جائے۔ جو شخص شہادت کو چھپائے گا یقینًا اس کا دل گناہ سے آلودہ ہوچکا ہے۔ گویا کہ وہ گندے دل کا مالک ہے اور ایسے دل والے سے ہر گناہ کی توقع کی جاسکتی ہے۔ گواہی چھپانے والے کے لیے اس لیے بھی یہ لفظ استعمال ہوا ہے کہ اس کے شہادت چھپانے کی وجہ سے حق دار کی حق تلفی کا خطرہ اور نظام عدالت کے ناکام ہوجانے کا انتہائی اندیشہ ہے کیونکہ عدالت شرعی ہو یا غیر شرعی اس کا دارو مدار بالآخر شہادت پر ہی قائم ہے۔ شہادت چھپانے والے نے گویا کہ نظام عدل کی بنیاد ہی اکھاڑ ڈالی ہے لہٰذا ایسے لوگوں کو ادراک ہونا چاہیے کہ جو بھی وہ حرکت کرتے ہیں اللہ تعالیٰ اس سے بخوبی واقف ہے۔ مسائل ١۔ حالت سفر میں کاتب نہ ملنے کی صورت میں کوئی چیز گروی رکھی جاسکتی ہے۔ ٢۔ مدّت مکمل ہونے کے بعد امانت واپس لوٹانا لازم ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والے کو شہادت نہیں چھپانی چاہیے۔ ٤۔ شہادت چھپانے والے کا دل گنہگار ہوتا ہے۔ تفسیر بالقرآن سچی گواہی : ١۔ سچی گواہی دینے کا حکم۔ (المائدۃ: ٨) ٢۔ سچی گواہی چھپانے کا گناہ۔ (البقرۃ: ٢٨٣) ٣۔ گواہی چھپانے والے ظالم ہیں۔ (البقرۃ: ١٤٠) ٤۔ جھوٹی گواہی سے بچنے والوں کی تعریف۔ (الفرقان : ٧٢) ٥۔ گواہی پر قائم رہنے والوں کی جنت میں تکریم ہوگی۔ (المعارج : ٣٣) البقرة
284 فہم القرآن ربط کلام : صدقہ کرنے، قرض حسنہ دینے اور سود سے دست کش ہونے کے لیے ضروری ہے کہ انسان یہ تسلیم کرے کہ زمین و آسمان کی ہر چیز اللہ تعالیٰ کی ملکیت ہے اس لیے مجھے حقیقی مالک کی مرضی کے مطابق لین دین اور مالی معاملات کو چلانا چاہیے۔ عام طور پر شہادت کسی مفاد یا خوف کی وجہ سے ہی چھپائی جاتی ہے جس سے عدالتی نظام کے بگاڑ کے ساتھ حق دار اپنے حق سے محروم ہوجاتا ہے۔ شہادت چھپانے والے کو یہاں یہ باور کرایا گیا ہے کہ شہادت چھپانے سے پہلے تجھے ہزار بار سوچنا چاہیے کہ یہ وقتی مفاد اور عارضی خوف ہے۔ جب کہ نفع ونقصان اور زمین و آسمان کی ہر چیز کا اصلی مالک تو اللہ تعالیٰ ہے جو ہر کسی کے مفاد کی حفاظت کرنے والا ہے۔ جس کا حق مارا گیا اس کے لیے بھی یہ الفاظ سرمایۂ اطمینان ہیں کہ دنیا میں تو یہ حق مارا گیا لیکن اللہ تعالیٰ کے ہاں تیرا حق محفوظ ہے۔ آگے فرمایا لوگو! کوئی چیز تم اپنے دلوں میں چھپاؤ یا اسے ظاہر کرو اللہ تعالیٰ اس کا محاسبہ کرے گا اور جسے چاہے معاف کرے اور جسے چاہے عذاب میں مبتلا کرے گا۔ وہ اللہ ذرّے ذرّے پر قدرت رکھنے والا ہے۔ اس لیے گواہی سوچ سمجھ کردینا چاہیے۔ جھوٹی گواہی دے کر متاثرہ فریق کو اپنی چرب لسانی سے مطمئن کرلو لیکن اللہ تعالیٰ تو تمہارے دلوں کو جانتا ہے کہ تمہارا ظاہر کیا ہے اور دل میں کیا چھپاۓ ہوئے ہو۔ یہاں دلوں کے خیالات پر محاسبے کا ذکر ہوا ہے۔ اس کے متعلق قرآن و حدیث میں دو قسم کے اصول بیان ہوئے ہیں۔ کفر، شرک، نفاق، حسد، کینہ اور ریاکاری کے خیالات سے اگر کوئی شخص اللہ تعالیٰ کی پناہ طلب کرنے کی بجائے انہیں دانستہ دل میں جمائے رکھتا ہے اور عقیدے کے طور پر اپناتا ہے تو ان پر نہ صرف محاسبہ ہوگا بلکہ ایسے لوگ شدید عذاب میں مبتلا کیے جائیں گے۔ باقی خیالات کے بارے میں معاف کردیا گیا ہے۔ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ إِنَّ اللّٰہَ تَجَاوَزَعَنْ أُمَّتِیْ مَاحَدَّثَتْ بِہٖ أَنْفُسُھَا مَالَمْ تَعْمَلْ أَوْ تَتَکَلَّمْ) [ رواہ البخاری : کتاب الطلاق، باب الطلاق فی الإغلاق والکرہ والسکران والمجنون] ” حضرت ابوہریرہ (رض) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان فرماتے ہیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا یقینًا اللہ تعالیٰ نے میری امت کے لوگوں کے دلوں کے وسوسے اس وقت تک کے لیے معاف کردیے ہیں جب تک وہ ان پر عمل نہ کریں یا ان کے مطابق کلام نہ کی جائے۔“ دل کی پاکیزگی کے بارے میں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعائیں : (عَنْ أُمِّ مَعْبَدٍ قَالَتْ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَقُوْلُ اللّٰھُمَّ طَھِّرْ قَلْبِیْ مِنَ النِّفَاقِ وَعَمَلِیْ مِنَ الرِِّیَاءِ وَلِسَانِیْ مِنَ الْکَذِبِ وَعَیْنِیْ مِنَ الْخِیَانَۃِ فَإِنَّکَ تَعْلَمُ خَاءِنَۃَ الْأَعْیُنِ وَمَا تُخْفِی الصُّدُوْرُ) [ مشکوۃ المصابیح : کتاب الدعوات، الفصل الثالث ] ” حضرت ام معبد (رض) بیان کرتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کہتے ہوئے سنا اے اللہ! میرے دل کو نفاق سے، میرے عمل کو دکھلاوے سے، میری زبان کو جھوٹ سے اور میری آنکھوں کو خیانت سے پاک کردے یقینًا تو آنکھوں کی خیانت اور جو کچھ دلوں میں ہے اسے جانتا ہے۔“ (عَنْ أَنَسٍ (رض) قَالَ کَان النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَدْعُوْ یَقُوْلُ اللّٰھُمَّ إِنِّیْ أَعُوْذُ بِکَ مِنَ الْعَجْزِ وَالْکَسْلِ وَالْبُخْلِ وَالْھَرَمِ وَالْقَسْوَۃِ وَالْغَفْلَۃِ وَالذِّلَّۃِ وَالْمَسْکَنَۃِ وَأَعُوْذُ بِکَ مِنَ الْفَقْرِ وَالْکُفْرِ وَالشِّرْکِ وَالنِّفَاقِ وَالسُّمْعَۃِ وَالرِّیَاءِ وَأَعُوْذُ بِکَ مِنَ الصَّمَمِ وَالْبُکْمِ وَالْجُنُوْنِ وَالْبَرْصِ وَالْجَذَامِ وَسَیِّءِ الْأَسْقَامِ ) [ صحیح ابن حبان : کتاب الرقائق، باب الأدعیۃ] ” حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دعا کرتے ہوئے فرماتے اے اللہ! بے شک میں تجھ سے بے بسی، سستی، بخیلی، بڑھاپا، سختی، غفلت، ذلت اور مسکنت سے پناہ مانگتاہوں اور میں تجھ سے فقر، کفر، شرک، نفاق اور ریاکاری سے پناہ مانگتاہوں اور بہرے پن، گونگے پن، جنون، پھلبہری، کوڑھ اور بری بیماریوں سے تیری پناہ چاہتاہوں۔“ مسائل ١۔ زمین و آسمان کی ہر چیز اللہ کے لیے ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ لوگوں کا احتساب کرے گا۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ جسے چاہے گا معاف کرے گا اور جسے چاہے گا عذاب دے گا۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے۔ البقرة
285 فہم القرآن ربط کلام : سورۃ البقرۃ کی ابتدا ایمانیات سے ہوئی اختتام بھی انہی ہدایات سے کیا گیا ہے جب ہر چیز کا مالک اللہ ہے اور وہی گناہوں کو معاف فرمانے اور سزا دینے والا ہے تو اسی پر ایمان لاؤ جس پر کائنات کی عظیم ہستی حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مومن ایمان لائے۔ سورۃ البقرۃ کے آغاز میں ایمان کے بنیادی ارکان کا ذکر ہوا ہے اب اس سورۃ مبارکہ کا اختتام بھی عقائد کے بیان سے ہورہا ہے تاکہ معلوم ہو کہ ایمان کامل کے بغیر اللہ تعالیٰ کے احکام پر عمل پیرا ہونا اور ان کی قبولیت ناممکن ہے۔ ابتدا میں اہل ایمان کے حوالے سے دین کے بنیا دی عقائد کا ذکر تھا اور اب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات پر اختتام کیا جارہا ہے کہ یہ وہ عقائد، نظریات، اصول اور احکام ہیں جن پر میرا رسول محمد عربی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایمان لایا اور تمام مومن یعنی صحابہ کرام (رض) اللہ تعالیٰ، اس کے ملائکہ، اس کی نازل کردہ کتب اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے۔ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مومن پہلے رسولوں کے درمیان کسی قسم کا فرق نہیں کرتے۔ رسولوں کے درمیان فرق نہ کرنے کا معنٰی ہے کہ وہ اپنے زمانے میں اللہ تعالیٰ کے رسول تھے۔ لیکن اب سب پر حضرت محمد مصطفی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اتباع فرض ہے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مومن ان جذبات کا اظہار کرتے ہیں کہ الٰہی! ہم نے تیرے پیغامات کو سنا اور اس پر ایمان لائے۔ ہمارے رب ! ہمارے گناہوں اور خطاؤں کو معاف کیجیے۔ ہم تیرے حضور ہی حاضر ہونے والے ہیں۔ یہاں دعا کی صورت میں مومنوں کے ایمانی جذبات اور کردار کی ترجمانی کی جارہی ہے۔ یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ اللہ کا رسول سب سے پہلے اپنے رب کے احکام پر ایمان لانے والا اور اس پر عمل کرکے مومنوں کے لیے نمونہ ہوا کرتا ہے۔ یہی نیک قائد اور مذہبی پیشوا کا عمل ہونا چاہیے تاکہ اپنے اور بیگانے سبھی اسلام کے اصولوں پر عمل کرنے میں رغبت محسوس کریں۔ (عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِیْرٍ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ إِنَّ اللّٰہَ کَتَبَ کِتَابًا قَبْلَ أَنْ یَخْلُقَ السَّمٰوَاتِ وَالْأَرْضَ بِأَلْفَیْ عَامٍ أَنْزَلَ مِنْہُ آیَتَیْنِ خَتَمَ بِھَا سُوْرَۃَ الْبَقَرَۃِ وَلَا یُقْرَآنِ فِیْ دَارٍ ثَلَاثَ لَیَالٍ فَیَقْرَبُھَا شَیْطَانٌ) [ رواہ الترمذی : کتاب فضائل القرآن، باب ماجاء فی آخرسورۃ البقرۃ] ” نعمان بن بشیر (رض) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان کی تخلیق سے دو ہزار سال قبل ایک کتاب لکھی اس کتاب کی دو آیتیں نازل کیں جن سے سورۃ البقرہ کا اختتام کیا جس گھر میں یہ تین راتیں پڑھی جائیں وہاں شیطان نہیں جاتا۔“ (عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ بَیْنَمَاجِبْرِیْلُ قَاعِدٌ عِنْدَ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اِذْ سَمِعَ نَقِیْضًا مِّنْ فَوْقِہٖ فَرَفَعَ رَأْسَہٗ فَقَالَ ھٰذَا بَابٌ مِّنَ السَّمَاءِ فُتِحَ الْیَوْمَ لَمْ یُفْتَحْ قَطُّ إِلَّا الْیَوْمَ فَنَزَلَ مِنْہُ مَلَکٌ فَقَالَ ھٰذَا مَلَکٌ نَزَلَ إِلَی الْأَرْضِ لَمْ یَنْزِلْ قَطُّ إِلَّا الْیَوْمَ فَسَلَّمَ وَقَالَ أَبْشِرْ بِنُوْرَیْنِ أُوْتِیْتَھُمَا لَمْ یُؤْتَھُمَا نَبِیٌّ قَبْلَکَ فَاتِحَۃُ الْکِتَابِ وَخَوَاتِیْمُ سُوْرَۃِ الْبَقَرَۃِ لَنْ تَقْرَأَ بِحَرْفٍ مِّنْھُمَا إِلَّا أُعْطِیْتَہٗ) [ رواہ مسلم : کتاب صلاۃ المسافرین] ” حضرت عبداللہ بن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک دن حضرت جبریل (علیہ السلام) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس بیٹھے ہوئے تھے اس دوران انہوں نے ایک زور دار آواز سنی اور اپنا سر اٹھانے کے بعد فرمایا کہ آسمان کا جو دروازہ آج کھولا گیا ہے یہ اس سے پہلے کبھی نہیں کھولا گیا۔ اس دروازے سے ایک ایسا فرشتہ نازل ہوا ہے جو آج سے پہلے زمین پر نہیں اترا۔ اس فرشتے نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سلام کیا اور کہا دو نوروں کی خوشخبری سنیے جو آپ سے پہلے کسی نبی کو عطا نہیں کیے گئے ان میں سے ایک فاتحۃ الکتاب اور دوسرا سورۃ البقرہ کی آخری دو آیات ہیں۔ آپ ان دونوں میں سے کوئی کلمہ تلاوت کریں گے تو آپ کی مانگی مراد پوری ہوجائے گی۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ، ملائکہ، آسمانی کتابوں اور رسولوں پر ایمان لانا فرض ہے۔ ٢۔ مومن بندے انبیاء کے درمیان تفریق نہیں کرتے۔ ٣۔ مومن بندے سننے، ماننے اور اپنے رب سے معافی طلب کرنے والے ہوتے ہیں۔ ٤۔ ہر نفس نے اللہ تعالیٰ کی طرف ہی پلٹنا ہے۔ تفسیربالقرآن انبیاء ( علیہ السلام) کے درمیان فرق نہیں کرنا چاہیے : ١۔ مومن اللہ اور اس کے رسولوں میں فرق نہیں کرتے۔ (النساء : ١٥٢) ٢۔ رسولوں کے درمیان فرق کرنا کفر ہے۔ (البقرۃ: ٢٨٥) ٣۔ کافر اللہ اور اس کے رسولوں کے درمیان تفریق کرتے ہیں۔ (النساء : ١٥٠) البقرة
286 فہم القرآن ربط کلام : ایمان لانا اور اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرنا مشکل کام نہیں یہ عین انسان کی فطرت اور اس کی وسعت ہمت کے مطابق ہے ان پر اپنی ہمت کے مطابق عمل کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے بخشش، رحمت اور مدد طلب کرنی چاہیے یہی اسلام کے غلبہ اور کفار پر فتح پانے کا طریقہ ہے۔ اللہ تعالیٰ اس سورۃ کے اختتام میں از راہ کرم اپنے بندوں کے لیے یہ وضاحت فرماتا ہے کہ تمہارے رب نے جو احکامات نازل فرمائے ہیں۔ وہ ایسے نہیں کہ کسی نفس پر اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ ڈالا گیا ہو۔ لہٰذا جو ان کے مطابق عمل کرے گا اس کا اسی کو فائدہ پہنچے گا اور جس نے ان احکامات کی مخالفت کی وہ اس کا خمیازہ بھگتے گا۔ مومن تو وہ ہیں جو اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرنے کے باوجود اس کی بارگاہ میں فریاد کرتے ہیں کہ اے ہمارے خالق ومالک ! اگر ہم سے بھول یا دانستہ خطا ہوجائے تو ہمیں اپنی گرفت سے بچائے رکھنا۔ اے ہمارے پالنہار ! ہم پر ایسا بوجھ نہ ڈالنا جس طرح پہلے لوگوں پر ان کی نافرمانیوں کی وجہ سے ڈالا گیا تھا۔ مومن تو اپنے رب کے حضور دست بستہ دعا کرتے ہیں کہ ہمارے رب ! ہم سے غلطی ہوجائے تو اس سے صرف نظر کرتے ہوئے ہم پر ایسا بوجھ نہ ڈالیو۔ جس کی ہم میں ہمت نہ ہو۔ الٰہی ! ہم سے در گزر کر، ہماری خطاؤں کو معاف فرما اور ہم پر رحم کر۔ تو ہی تو ہمارا مولا ہے اور کافروں کے مقابلے میں ہماری نصرت وحمایت فرما۔ آمین۔ (عَنْ فَرْوَۃَ بْنِ نَوْفَلِ نِ الْأَشْجَعِیِّ قَالَ سَأَلْتُ عَاءِشَۃَ عَمَّا کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ یَدْعُوْ بِہِ اللّٰہَ قَالَتْ کَانَ یَقُوْلُ اَللّٰھُمَّ إِنِّیْ أَعُوْذُبِکَ مِنْ شَرِّ مَا عَمِلْتُ وَمِنْ شَرِّ مَالَمْ أَعْمَلْ) [ رواہ مسلم : کتاب الذکر والدعاء، باب التعوّذ من شر ماعمل ومن شر ما لم یعمل] ” حضرت فروہ بن نوفل اشجعی (رض) نے حضرت عائشہ (رض) سے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعاؤں کے بارے میں دریافت کیا تو انہوں نے جواب دیا آپ دعا کیا کرتے تھے اے اللہ ! میں نے جو کام کیے اور جو نہیں کیے ان کے شر سے تیری پناہ چاہتاہوں۔“ (عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَیْنٍ (رض) قَالَ کَانَ عَآمَّۃُ دُعَاءِ نَبِیِّ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلِیْ مَاأَخْطَأْتُ وَمَا تَعَمَّدْتُّ وَمَا أَسْرَرْتُ وَمَا أَعْلَنْتُ وَمَا جَھِلْتُ وَمَا تَعَمَّدْتُّ ) [ مسند احمد : کتاب اول مسند البصریین، باب حدیث عمران بن حصین ] ” حضرت عمران بن حصین (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی یہ دعا ہوا کرتی تھی کہ اے اللہ! میری خطاؤں کو جو میں نے جان بوجھ کر‘ پوشیدہ‘ ظاہری‘ بے علمی سے اور عمداً کی ہیں سب کو معاف فرما۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ کسی پر اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا۔ ٢۔ ہر کسی کو اس کے عمل کے مطابق جزاء و سزا ملے گی۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ سے اپنی خطاؤں اور بھول کی معافی مانگنا اور اس کی سختی سے پناہ طلب کرنا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن دین میں آسانیاں : ١۔ مریض ومسافر کو روزوں میں تاخیر کرنے کی اجازت۔ (البقرۃ: ١٨٥) ٢۔ نماز میں قصر۔ (النساء : ١٠١) ٣۔ رمضان کی راتوں میں مباشرت کی اجازت۔ (البقرۃ: ١٨٧) ٤۔ حج صرف صاحب استطاعت پر فرض ہے۔ (آل عمران : ٩٧) ٥۔ ہمت کے مطابق اللہ تعالیٰ کا تقو ٰی اختیار کرنے کا حکم۔ (التغابن : ١٦) تفصیل کے لیے میری کتاب ” دین تو آسان ہے“ کا مطالعہ فرمائیں البقرة
0 سورۃ آل عمران اس سورۃ مبارکہ کا نام آل عمران ہے یہ آیت 33 سے لیا گیا ہے۔ حضرت عمران حضرت مریم [ کے والد گرامی اور حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کے نانا محترم ہیں۔ یہ سورۃ مدینہ طیبہ میں نازل ہوئی اس کے 20 رکوع اور 200 آیات ہیں۔ سورۂ آل عمران میں توحید کے دو ایسے پہلو نمایاں کیے گئے ہیں جن میں جلالت وجبروت اور اللہ تعالیٰ کا ہمیشہ زندہ اور قائم رہنابیان ہوا ہے۔ جس سے واضح ہوتا ہے کہ جب کچھ نہیں تھا تو اللہ تعالیٰ کی ذات اس وقت بھی موجود اور قائم تھی اور جب ہر چیز فنا کے گھاٹ اتر جائے گی تو اس وقت بھی ذات کبریا قائم و دائم رہے گی۔ اس سورۃ کے نازل ہونے کا پس منظر یہ ہے کہ نجران کا علاقہ جو شام اور مدینہ منورہ کے درمیان واقع ہے۔ وہاں سے عیسائیوں کا ایک نمائندہ وفد رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہو کر اسلام اور عیسائیت کے بارے میں گفتگو کرتا ہے اور ساتھ ہی حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں اپنے عقیدے کا اظہار کرتے ہوئے کہتا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی الوہیت میں شامل ہیں۔ ابتدائی آیات میں اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کی صفات کے بارے میں اجمالی اشارے دیے گئے ہیں کہ یہ صفات عیسیٰ (علیہ السلام) اور کائنات کی کسی چیز میں نہیں پائی جاتیں۔ اس لیے اللہ تعالیٰ ہی واحد اور معبود برحق ہے۔ وہ اپنی قدرت کاملہ سے ماں کے رحم کے اندر جس طرح اور جیسے چاہے بچہ پیدا کرتا ہے۔ عیسیٰ (علیہ السلام) بھی اس کی خالقیت کا ایک نمونہ ہیں۔ اس کے بعد قرآن مجید کا تعارف کروایا گیا کہ یہ تورات‘ انجیل اور ان سے پہلی آسمانی کتابوں کی تصدیق کرتا ہے۔ ربط سورۃ: ” الفاتحہ“ کی ابتداء اللہ تعالیٰ کی توحید سے اور ” البقرۃ“ کا آغاز قرآن مجید کے تعارف سے ہوا تھا۔ سورۃ آل عمران کی ابتداء ان دونوں مضامین سے ہورہی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کی صفات کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے کہ اسی ذات لم یزل نے یہ کتاب حق اور سچ کے ساتھ نازل فرمائی۔ جس نے تورات اور انجیل کو نازل فرمایا۔ یہ قرآن ان کی تائید و تصدیق کرتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ قرآن مجید ہدایت کا سر چشمہ ہے لیکن اس سے ہدایت پانے کے لیے چار بنیادی اصول ہیں : ١۔ قرآن مجید کو ہدایت حاصل کرنے کے لیے پڑھا جائے۔ ٢۔ قرآن مجید میں غور وخوض کیا جائے۔ ٣۔ قرآن مجید کی تشریح وتوضیح کے لیے بنیادی اور مرکزی آیات کو رہنما اصول بنایا جائے۔ ٤۔ قرآن مجید پر عمل کیا جائے۔ جو شخص ان اصولوں کو چھوڑ کر قرآن مجید کی تشریح و تفسیر کرنے کی کوشش کرے گا۔ اس کے بھٹکنے کا اندیشہ ہے۔ جس کے بارے میں اس سورۃ کی ابتدا میں وضاحت کردی گئی ہے کہ جن کے دلوں میں ٹیڑھ اور سوچ میں کجی ہے۔ وہ فرقہ واریت اور فتنہ پروری کے لیے بنیادی آیات کو چھوڑ کر متشابہات کو اپنے فکر کی بنیادبناتے ہیں حالانکہ متشابہات کا مفہوم اللہ تعالیٰ اور اہل علم کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ ” سورۃ البقرۃ“ میں زیادہ تر یہودیوں کے کردار اور اعتراضات کا جواب دیا گیا ہے جس میں ضمنًا عیسائیوں کا ذکر ہوا تھا لیکن اس سورۃ مبارکہ میں خطاب کا اکثر رخ عیسائیوں کی طرف ہے جس میں ان کے عقائد ونظریات اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں ان کے شبہات کا جواب دیا گیا ہے۔ سورۃ البقرۃ میں تحویل قبلہ کے احکام کے بعد واضح کیا گیا تھا کہ مسلمانو! تم محض پراپیگنڈہ سے خوفزدہ ہوئے جارہے ہو جب کہ اللہ تعالیٰ تمہیں دشمن کے خوف، اعزہ واقرباء کی شہادت، مال وجان کے نقصان‘ بھوک و پیاس اور غربت و افلاس کے ساتھ بہر حال آزمانے والا ہے۔ چنانچہ احد میں مسلمانوں کو ان آزمائشوں سے حقیقتاً واسطہ پڑا۔ پھر احد کے نتائج اور عارضی شکست پر تفصیلی تبصرہ کرتے ہوئے آخری اصول واضح کیا کہ دنیا میں حالات ہمیشہ ایک جیسے نہیں رہا کرتے۔ اگر تم سر بلند رہنا چاہتے ہو تو تمہیں مسلمان بن کر رہنا ہوگا۔ ” سورۃ البقرۃ“ کی ابتدا اور اس کے آخر میں ایمان کے بنیادی ارکان کا ذکر ہوا تھا جس بنا پر اسلام کی عمارت استوار ہوتی ہے۔ سورۃ آل عمران میں یہ ارشاد ہوا کہ ایمان کی مبادیات کی طرح اسلام کی عمارت کے بنیادی ستون بھی ہمیشہ سے ایک رہے ہیں اور اسلام ہی اللہ کا پسندیدہ دین ہے۔ یہی تمہارے لیے ضابطۂ حیات اور دستور زندگی ہے۔ جو فرد یا قوم اس کے علاوہ دوسرا راستہ تلاش کرے گی۔ اللہ تعالیٰ اس کے نظریۂ حیات اور کردار کو ہرگز قبول نہیں کرے گا۔ اس کے بعد اہل کتاب کو مشترکہ خطاب کرتے ہوئے فرمایا جس دین اور نظریات پر تم فخر اور ناز کررہے ہو۔ اس کا دور ختم ہوچکا ہے اب اسلام کا سکہ چلے گا اور تمہاری مخالفت کچھ کام نہیں آسکتی۔ کیوں کہ عزت، ذلّت، اقتدار اور اختیار اللہ تعالیٰ کے پاس ہے وہ جسے چاہے جب چاہے عنایت فرمائے اور جب چاہے محروم کر دے۔ اس کے سامنے کوئی دم نہیں مار سکتا۔ اگر تم عظمت رفتہ کے خواہاں اور اللہ تعالیٰ کی محبت کے طلب گار ہو تو تمہیں نبی آخر الزماں (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اتباع کرنا ہوگی۔ اس کے علاوہ اللہ تعالیٰ کی قربت ومحبت کا کوئی ذریعہ نہیں ہوسکتا۔ پھر حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے خاندان کی بزرگی اور عظمت کا ذکر مرحلہ وار کرتے ہوئے عیسیٰ (علیہ السلام) کی پیدائش، معجزات اور ان کے آسمان پر اٹھائے جانے کی وضاحت کرتے ہوئے دوٹوک الفاظ میں یہودیوں کے دعو ٰی کی تردید کی ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) نہ قتل ہوئے اور نہ ہی انہیں تختہء دار پر لٹکایا گیا انہیں تو اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاں آسمانوں پر صحیح سالم اٹھا لیا ہے۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں وضاحتی اور دعوتی خطاب 31 آیات تقریبًا 3 رکوع پر مشتمل ہے۔ اس تفصیلی خطاب کے بعد ایک دفعہ پھر یہود ونصارٰی کو اہل کتاب کے باعزت لقب سے مخاطب کرتے ہوئے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے دعوت دی گئی ہے کہ آؤ اس کلمہ پر متفق ہوجائیں جو ہمارے اور تمہارے درمیان بنیاد اور قدر مشترک کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہی دعوت حضرت ابراہیم (علیہ السلام) تورات وانجیل کے نزول سے پہلے دیا کرتے تھے۔ یقین جانو کہ ابراہیم (علیہ السلام) یہودی، عیسائی اور مشرک نہیں تھے وہ تو ادھر ادھر اور دائیں بائیں کی نسبتوں کے بجائے صاف، سیدھے، مواحد اور کامل مسلمان تھے۔ اس کے بعد اہل کتاب کی سازشوں اور شرارتوں کا ذکر کیا اور فرمایا عیسیٰ (علیہ السلام) تو اللہ کے جلیل القدر نبی اور رسول تھے۔ اللہ تعالیٰ جس شخص کو کتاب، نبوت اور حکومت عطا کرے تو اسے یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ لوگوں کو اللہ کی توحید سمجھانے اور اس کا بندہ بنانے کے بجائے اپنا بندہ بنانے کی کوشش کرے۔ تم انبیاء اور عیسیٰ (علیہ السلام) کے ذمہ شرک لگاتے ہو۔ کیا وہ اللہ تعالیٰ کو ایک ماننے کے باوجود کفر و شرک کا حکم دے سکتے تھے ؟ انبیاء کا حال تو یہ تھا کہ انہوں نے ابتدائے آفرینش اپنے رب کے حضور یہ عہد کیا تھا کہ ہم تیری توحید کا اقرار اور اس کا پرچار کرنے کے ساتھ نبی آخر الزماں، خاتم المرسلین حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لا کر اس کی تائید کریں گے۔ انبیاء کے عہد کے بعد بیت اللہ کا تذکرہ اور اسے مرکزامن وہدایت قرار دینے کا مقصد یہ ہے کہ اگر اہل کتاب اور بنی نوع انسان امن وامان، رشدو ہدایت چاہتے ہیں تو انہیں توحید کا اقرار اور رسول کی اتباع کرتے ہوئے ایک ہی مرکز کو اپنا نا ہوگا۔ جس طرح سورۃ البقرۃ کا اختتام قرآن کے الفاظ میں مومنوں کی دعاؤں کے ساتھ ہوا ہے اسی طرح آل عمران کا اختتام مومنوں کی دعاؤں سے ہوتا ہے۔ رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سورۃ البقرۃ اور آل عمران کو دو نور اور الزھراوین قرار دیا ہے : (اِقْرَءُ وا الْقُرْاٰنَ فَإِنَّہٗ یَأْتِیْ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ شَفِیْعًا لِاَّصْحَابِہٖ اِقْرَءُ وا الزَّھْرَاوَیْنِ الْبَقَرََۃَ وَسُوْرَۃَ آلِ عِمْرَانَ فَإِنَّھُمَا تَأْتِیَانِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ کَأَنَّھُمَا غَمَامَتَانِ أَوْ کَاَ نَّہُمَا غَیَابَتَانِ کَأَنَّھُمَا فِرْقَانِ مِنْ طَیْرٍ صَوَآفَّ تُحَآجَّانِ عَنْ أَصْحَابِھِمَا اِقْرَءُ و سُوْرَۃَ الْبَقَرَۃِ فَإِنَّ أَخْذَھَا بَرْکَۃٌ وَتَرْکَھَا حَسْرَۃٌ وَلَا یَسْتَطِیْعُھَا الْبَطَلَۃُ) [ رواہ مسلم : کتاب صلاۃ المسافرین وقصرھا، باب فضل قراء ۃ القرآن وسورۃ البقرۃ] ” قرآن کی تلاوت کیا کرو کیونکہ یہ روز قیامت اپنے پڑھنے والوں کا سفارشی ہوگا دو روشن سورتیں البقرۃ اور آل عمران پڑھو یہ قیامت کے دن دو بدلیاں یا پرندوں کی طرح صفیں باندھے جھرمٹ کی طرح ہوں گی جو اپنے پڑھنے والوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے تکرار کریں گی۔ سورۃ البقرۃ کی تلاوت کیا کرو اس کا پڑھناباعث برکت اور چھوڑنا حسرت کا سبب ہے اور جہاں یہ پڑھی جائے وہاں جادو اور جنات اثر انداز ہونے کی جرأت نہیں کرتے۔“ آل عمران
1 آل عمران
2 فہم القرآن ربط کلام : سورۃ البقرۃ کا اختتام ایمان کے بنیادی ارکان اور اللہ تعالیٰ سے بخشش مانگنے کی دعا پر ہوا ہے۔ سورۃ آل عمران کی ابتداء میں بتلایا گیا ہے کہ جس اللہ پر تم نے ایمان لانا ہے۔ وہ ہمیشہ قائم دائم اور زندہ جاوید رہنے والا ہے۔ اسی نے لوگوں کی ہدایت کے لیے پہلے تورات و انجیل نازل فرمائی اور اب اپنے بندوں کی رہنمائی کے لیے قرآن مجید نازل کیا ہے۔ یاد رکھو اللہ تعالیٰ نافرمانوں سے سخت انتقام لے گا۔ حروف مقطعات کے بعد اس عظیم سورۃ کی ابتدا توحید باری تعالیٰ سے ہوتی ہے۔ یہاں توحید کے دو ایسے پہلو نمایاں کیے گئے ہیں۔ جن میں جلالت وجبروت کے لہجے میں اللہ تعالیٰ کے ہمیشہ زندہ اور قائم رہنے کابیان ہوا ہے۔ جس سے واضح ہوتا ہے کہ جب کچھ نہیں تھا تو اللہ تعالیٰ کی ذات موجود اور قائم تھی۔ جب ہر چیز ختم ہوجائے گی تو اس وقت بھی اس کی ذات کبریا موجود اور قائم ہوگی گویا کہ وہ ہمیشہ زندہ اور قائم رہنے والی ذات ہے اور کائنات کو اپنی حکمت اور مرضی کے مطابق قائم رکھے ہوئے ہے۔ جس طرح اور جس وقت تک چاہے ہر چیز کو قائم رکھنے والا ہے ان اوصاف میں اس کا کوئی شریک اور ساجھی نہیں۔ جب کائنات میں کوئی ہستی اس جیسی نہیں تو سب کا وہی معبود ومسجود ہونا چاہیے اور ہے۔ اسی ذات اعلیٰ نے حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات اقدس پر کتا بِ حق نازل فرمائی اور اسی نے اس سے پہلے تورات اور انجیل نازل فرمائی تھیں جو اپنے اپنے دور میں لوگوں کے لیے ہدایت کا سرچشمہ تھیں۔ اب قرآن مجید نازل فرمایا جو پہلی کتابوں کے من جانب اللہ ہونے کی تصدیق اور ان میں لوگوں نے جو ترمیم واضافے کیے ان کی نشاندہی کرتا ہے تاکہ لوگوں کے سامنے حق اور باطل واضح ہوجائے اس امتیاز اور حق کو پہچاننے کے باوجود جو لوگ اللہ تعالیٰ کے ارشادات کا انکار کرتے ہیں ان کے لیے شدید ترین عذاب ہوگا۔ اللہ تعالیٰ ان سے اس جرم کا بدلہ لینے پر غالب ہے۔ قرآن مجید کے بنیادی اور مرکزی اوصاف میں ایک خوبی یہ ہے کہ یہ پہلی کتابوں کے حقیقی مضامین کی تصدیق کرنے کے ساتھ قیامت تک کے لیے حق وباطل کے درمیان حد فاصل اور نگران کی حیثیت رکھتا ہے۔ ” اور ہم نے تیری طرف حق کے ساتھ کتاب نازل کی جو اپنے سے ماقبل کتب کی تصدیق کرنے والی اور ان پر نگران و نگہبان ہے۔“ [ المائدۃ: ٤٨] گویا کہ حق وباطل کا فیصلہ کرنا لوگوں کی عقل ودانش اور کسی پارلیمنٹ کے اختیار پر نہیں بلکہ قرآن لوگوں کی رہنمائی کا ضامن اور صحیح و غلط میں تمیز کرنے کا معیار ہے۔ (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَمْرٍو (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لَایُؤْمِنُ أَحَدُکُمْ حَتّٰی یَکُوْنَ ھَوَاہُ تَبْعًا لِّمَا جِءْتُ بِہٖ) [ مشکوٰۃ: باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ] ” حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا آدمی جب تک اپنی خواہشات میری لائی ہوئی شریعت کے تابع نہ کردے تب تک وہ ایمان والا نہیں ہوسکتا۔“ مسائل ١۔ اللہ ہی اکیلا معبود اور وہی ہمیشہ زندہ و قائم رہنے والا ہے۔ ٢۔ اس نے تورات، انجیل اور قرآن مجید نازل فرمایا۔ ٣۔ اب تورات اور انجیل نہیں صرف قرآن ہی ہدایت کا سرچشمہ ہے۔ ٤۔ قرآن مجید پہلی کتب آسمانی کی تصدیق کرتا ہے۔ ٥۔ انکار کرنے والوں کے لیے سخت ترین عذاب ہوگا۔ ٦۔ اللہ تعالیٰ سخت بدلہ لینے والا ہے۔ تفسیربالقرآن فرقان کا مفہوم : ١۔ قرآن فرقان ہے۔ (الفرقان : ١) ٢۔ معجزات فرقان ہیں۔ (الانبیاء : ٤٨) ٣۔ بدر کا معرکہ فرقان ہے۔ (الانفال : ٤١) ٤۔ فرقان سے مراد قوت فیصلہ بھی ہے۔ (الانفال : ٢٩) ٥۔ حق وباطل کے درمیان فرق کرنے والی کتاب یعنی قرآن مجید کو فرقان کہا گیا ہے۔ (البقرۃ: ١٨٥) آل عمران
3 آل عمران
4 آل عمران
5 فہم القرآن ربط کلام : بدلہ اور سزا دینے والی ہستی کے لیے ضروری ہے کہ وہ حالات‘ واقعات سے اچھی طرح باخبر ہو چنانچہ اللہ تعالیٰ وہ ذات ہے۔ جس سے زمین و آسمان کی کوئی چیز مخفی نہیں وہ ماں کے رحم میں ہونے والی تبدیلوں کو جانتا ہی نہیں بلکہ جس طرح چاہتا ہے انسان کی شکل و صورت بناتا اور اسے خاص ڈھانچے میں ڈھالتا ہے۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ انسان کی ہر نقل و حرکت سے واقف ہے۔ اللہ تعالیٰ سے زمین و آسمان میں کوئی چیز پوشیدہ نہیں وہ زمین کی گہرائیوں اور اس کے ذرّے ذرّے‘ آسمان کی بلندیوں اور اس کے چپے چپے سے واقف ہے۔ وہ تمہاری پیدائش کے ابتدائی مراحل سے آگاہ ہی نہیں بلکہ ماں کے رحم کے اندر لمحہ بہ لمحہ جو تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں انہیں بھی جانتا ہے۔ وہ جس طرح چاہتا ہے تمہاری صورتوں اور قسمتوں کا فیصلہ کرتا ہے۔ وہ ایسا کرنے پر غالب بھی ہے اور اس کے ہر کام اور فیصلے کے پیچھے حکمتیں بھی کار فرما ہوتی ہیں۔ اسے اچھی طرح معلوم ہے کہ پیدا ہونے والے کو طاقتور بنانا ہے یا کمزور، خوبصورت پیدا کرنا ہے یا قبول صورت، اس کا غریب ہونا بہتر ہے یا امیر، یہ نیک ہوگا یا بد۔ اللہ تعالیٰ تمام اور ہر قسم کے حالات جانتا ہے اور اسے ہر فیصلے پر اختیار ہے اور تم نہ دنیا میں اس کی دسترس سے باہر ہو اور نہ مرنے کے بعد۔ وہ ہر حال میں تم پر غالب ہونے کے باوجود تمہیں مہلت دیے ہوئے ہے۔ اس مہلت کے پیچھے اس کی بہت سی حکمتیں پنہاں ہیں۔ (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ (رض) قَالَ حَدَّثَنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وَھُوَ الصَّادِقُ الْمَصْدُوْقُ قَالَ إِنَّ أَحَدَکُمْ یُجْمَعُ خَلْقُہٗ فِیْ بَطْنِ أُمِّہٖ أَرْبَعِیْنَ یَوْمًانُطْفَۃً ثُمَّ یَکُوْنُ عَلَقَۃً مِثْلَ ذٰلِکَ ثُمَّ یَکُوْنُ مُضْغَۃً مِثْلَ ذٰلِکَ ثُمَّ یَبْعَثُ اللّٰہُ مَلَکًا فَیُؤْمَرُ بِأَرْبَعِ کَلِمَاتٍ وَیُقَالُ لَہٗ أُکْتُبْ عَمَلَہٗ وَرِزْقَہٗ وَأَجَلَہٗ وَشَقِیٌّ أَوْ سَعِیْدٌ ثُمَّ یُنْفَخُ فِیْہِ الرُّوْحُ فَإِنَّ الرَّجُلَ مِنْکُمْ لَیَعْمَلُ حَتّٰی مَایَکُوْنُ بَیْنَہٗ وَبَیْنَ الْجَنَّۃِ إِلَّا ذِرَاعٌ فَیَسْبِقُ عَلَیْہِ کِتَابُہٗ فَیَعْمَلُ بِعَمَلِ أَھْلِ النَّارِ وَیَعْمَلُ حَتّٰی مَایَکُوْنُ بَیْنَہٗ وَبَیْنَ النَّارِ إِلَّا ذِرَاعٌ فَیَسْبِقُ عَلَیْہِ الْکِتَابُ فَیَعْمَلُ بِعَمَلِ أَھْلِ الْجَنَّۃِ) [ رواہ البخاری : کتاب بدء الخلق، باب ذکر الملائکۃ] ” حضرت عبداللہ (رض) بیان کرتے ہیں صادق و مصدوق رسول مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بیان فرمایا کہ تم میں سے ہر کوئی اپنی ماں کے پیٹ میں چالیس دن ٹھہرتا ہے تو جما ہوا خون بن جاتا ہے پھر چالیس دن بعد گوشت کا لوتھڑا بن جاتا ہے اس کے بعد اللہ تعالیٰ فرشتہ بھیجتے ہیں اسے آدمی کا عمل، رزق، موت اور نیک وبد ہونا لکھنے کا حکم ہوتا ہے پھر اس میں روح پھونک دی جاتی ہے۔ تم میں ایک بندہ عمل کرتارہتا ہے حتی کہ اس کے اور جنت کے درمیان ایک ہاتھ کا فاصلہ رہ جاتا ہے تو اس کی تقدیر غالب آجاتی ہے وہ جہنمیوں والے کام شروع کردیتا ہے۔ ایسے ہی آدمی برے عمل کرتا رہتا ہے حتی کہ اس کے اور جہنم کے درمیان ایک ہاتھ کا فاصلہ رہ جاتا ہے تو وہ جنتیوں والے اعمال شروع کردیتا ہے۔“ اس حدیث میں آدمی کے انجام کا ذکر فرمایا گیا ہے کہ کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو زندگی بھر ماحول کے اثر، بزرگوں کے خوف، ذاتی مفاد اور اسلامی حکومت کے جبر سے بظاہر نیک اعمال کرتے ہیں لیکن ایمان ان کے دل میں راسخ نہیں ہوتا محض ماحول کے جبر کی وجہ سے ظاہری طور پر نیک ہوتے ہیں۔ جو نہی انہیں موقعہ ملتا ہے وہ برائی کی طرف لپکے چلے جاتے ہیں ایسے ہی بے شمار لوگ سوسائٹی یا گھریلو اثرات کی وجہ سے نیکی کی طرف متوجہ نہیں ہوتے لیکن فطرتًا نہایت ہی سعادت مندطبیعت کے مالک ہوتے ہیں۔ جب کبھی انہیں نیکی کا ماحول میسر آئے تو بہت سے نیک لوگوں سے بڑھ کر ذوق وشوق سے نیک کام سرانجام دیتے ہیں۔ موت کے قریب اس قسم کے لوگوں کی نیک نیتی اور حقیقی کردار ان کو اصلی انجام کی طرف کھینچ لیتا ہے۔ اس کے برعکس فطری اور قلبی طور پر برا شخص موت کے وقت کفر کا ارتکاب کرتا ہے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فرامین میں اسی فطری انجام کی نشان دہی کی گئی ہے۔ اس طرح اللہ تعالیٰ کا لکھا ہوا غالب آجاتا ہے۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ سے زمین و آسمان میں کوئی چیز پوشیدہ نہیں۔ ٢۔ وہی ماں کے رحم میں انسان کی شکل و صورت بناتا ہے۔ ٣۔ اللہ کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں ہے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ غالب‘ حکمت والا ہے۔ تفسیربالقرآن اللہ تعالیٰ صورتیں بنانے اور اولاد دینے والا ہے : ١۔ لوگوں کی شکلیں اللہ تعالیٰ بناتا ہے۔ (آل عمران : ٦) ٢۔ اللہ ہی بیٹے، بیٹیاں دیتا ہے۔ (الشوری : ٤٩) ٣۔ اللہ ہی پیدا کرنے والا ہے۔ (الانعام : ١٠٢) ٤۔ اللہ ہی ہر چیز کا خالق ہے۔ (الزمر : ٦٢) آل عمران
6 آل عمران
7 فہم القرآن ربط کلام : قرآن مجید کتاب مبین ہے جو پہلی کتابوں کا مصدق ہے۔ اس کے احکامات محکم ہیں جن میں کوئی ٹیڑھ اور زیغ نہیں۔ زیغ اور ٹیڑھ تو منکرین کے دلوں میں ہے انہیں معلوم ہونا چاہیے۔ اللہ ان کی حرکات و سکنات اور اعمال و افعال سے واقف ہے وہ دلوں کے اسرار و رموز اور کجی و زیغ بھی جانتا ہے۔ قرآن مجید کو سمجھنے اور اُمّت کے اختلافات کو جاننے کے لیے یہ آیت بنیادی اور کلیدی حیثیت رکھتی ہے۔ اس میں یہ وضاحت پائی جاتی ہے کہ قرآن مجید کے احکامات اور ارشادات دو طرح کے ہیں۔ ایک وہ احکامات ہیں جو الفاظ و معانی اور مفہوم کے اعتبار سے دو اور دو‘ چار کی طرح واضح ہیں یہی قرآن کی اساس ہیں اور یہ فہم قرآن کے لیے رہنما اصول کی حیثیت رکھتے ہیں۔ جب کہ دوسری آیات میں دونوں قسم کے مفہوم تلاش کیے جاسکتے ہیں۔ جن کے دل حق سے اجتناب کرنے والے اور فتنہ جو ہیں وہ محکم اور بیّن آیات کو چھوڑ کر دوسری آیات کو رہنما اور مقدم سمجھتے ہیں تاکہ ان کے ذریعے اپنی انفرادیت، برتری اور الگ عقیدے کی بنیاد رکھیں۔ یہ لوگ متشابہ آیات کا اپنی مرضی سے معنیٰ متعین کرتے ہیں۔ (عَنْ عَاءِشَۃَ قَالَتْ تَلَا رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ھٰذِہِ الْآیَۃَ (ھُوَ الَّذِیْ أَنْزَلَ عَلَیْکَ الْکِتٰبَ مِنْہُ اٰیٰتٌ مُّحْکَمٰتٌ ھُنَّ أُمُّ الْکِتٰبِ وَأُخَرُ مُتَشٰبِھٰتٌط فَأَمَّا الَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِھِمْ زَیْغٌ فَیَتَّبِعُوْنَ مَا تَشَابَہَ مِنْہُ ابْتِغَآءَ الْفِتْنَۃِ وَابْتِغَآءَ تَأْوِیْلِہٖ ج وَمَا یَعْلَمُ تَأْوِیْلَہٗٓ إِلَّا اللّٰہُ م وَالرّٰسِخُوْنَ فِی الْعِلْمِ یَقُوْلُوْنَ اٰمَنَّا بِہٖ لا کُلٌّ مِّنْ عِنْدِ رَبِّنَاج وَمَا یَذَّکَّرُ إِلَّآ أُولُوا الْأَلْبَابِ) قَالَتْ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَإِذَا رَأَیْتِ الَّذِیْنَ یَتَّبِعُوْنَ مَا تَشَابَہَ مِنْہُ فَأُولٰءِکَ الَّذِیْنَ سَمَّی اللّٰہُ فَاحْذَرُوْھُمْ) [ رواہ البخاری : کتاب التفسیر] ” حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے (ھُوَ الَّذِیْ أَنْزَلَ عَلَیْکَ الْکِتٰبَ۔۔) آیت پڑھنے کے بعد ارشاد فرمایا : عائشہ! جب تو متشابہات کے پیچھے لگنے والے لوگوں کو دیکھے تو سمجھ لے کہ یہ وہی لوگ ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے نام لے کر بتایا ہے کہ ان سے بچتے رہنا۔“ متشابہات کا مفہوم اور حقیقت اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتے ہیں۔ یہاں اہل علم کے دونظریے پائے جاتے ہیں۔ ایک جماعت کا خیال ہے کہ ”إِلَّا اللّٰہُ“ پر وقف کرنا چاہیے اور اس کا معنی ہے کہ ان آیات کا مفہوم اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ دوسرے علماء کا نقطۂ نظر یہ ہے کہ ”إِلَّا اللّٰہُ“ کو ” وَالرَّاسِخُوْنَ فِی الْعِلْمِ“ کے ساتھ ملا کر پڑھنا چاہیے۔ جس کا مفہوم یہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ تو جانتا ہی ہے مگر خداد اد صلاحیت سے کچھ اہل علم بھی ان کا مفہوم جانتے ہیں جو خداداد علم وبصیرت کی بنیاد پر ان آیات کا صحیح مفہوم متعین کرسکتے ہیں۔ قرآن مجید لوگوں کی ہدایت کے لیے نازل ہوا ہے اور اس میں مقطعات کے سوا کوئی ایسی آیت نہیں جس کا معنی پوری امت سے مخفی رکھا گیا ہو۔ باوجود اس کے کہ اہل علم ان آیات کا مفہوم جانتے ہیں مگر اپنے متعین کردہ مفہوم پر اصرار کرنے کی بجائے عجز و انکساری کا مظاہرہ اور حقیقت کا اعتراف کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ جو کچھ بھی اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا ہے ہم اس پر ایمان رکھتے ہیں کیونکہ یہ سب کچھ ہمارے رب کی طرف سے ہی نازل ہوا ہے۔ ایسی منصفانہ بات کہنا اور محکم آیات کو مقدم سمجھنا، فتنہ جوئی اور غلط تاویل سے بچناہی صاحب دانش لوگوں کا کردار ہوا کرتا ہے۔ قرآن ہی پہلی کتاب عظیم ہے جس نے دنیا کے اہل علم کو یہ اصول دیا کہ کسی قانون اور دستور میں اختلاف ہو تو اس کے بنیادی اصولوں کو سامنے رکھتے ہوئے اس کی باقی شقوں کی تشریح کرنا چاہیے۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے ہی قرآن مجید نازل فرمایا۔ ٢۔ قرآن مجید میں واضح اور متشابہ دونوں طرح کی آیات ہیں۔ ٣۔ گمراہ لوگ فتنہ پروری کے لیے متشابہات کو مقدم جانتے ہیں۔ ٤۔ پختہ علم، نیک اور سمجھ دار علماء فتنہ پروری اور قرآن مجید کی غلط تاویل سے پناہ مانگتے ہیں۔ تفسیربالقرآن نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات کے متعلق محکم آیات : ١۔ رسول انسان (بشر) ہوتے ہیں۔ (ابراہیم : ١١) ٢۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بشر اور عبد ہیں۔ (الکہف : ١١٠) ٣۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) غیب دان نہیں ہیں۔ (الانعام : ٥٠) ٤۔ نبی مختار کل نہیں ہوتا۔ (القصص : ٥٦) ٥۔ رسول محترم اپنے نفع و نقصان کے مالک نہیں تھے۔ (الجن : ٢١) آل عمران
8 فہم القرآن ربط کلام : حقیقت جاننے کے باوجود ٹیڑھا پن اور کج روی اختیار کرنا عقل مندی نہیں۔ عقل مندی تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سے ہدایت کی طلب اور کج روی سے دوری اختیار کی جائے۔ اس سے پہلے قرآن فہمی کے بارے میں کج بحث، فتنہ جو اور گمراہ لوگوں کا ذکر کرنے کے بعد علم میں یدِطولیٰ رکھنے والے علماء کی مثبت سوچ، عاجزی اور اعتراف حقیقت کے اظہار کا ذکر ہوا ہے۔ ایسے علماء کی یہ بھی خوبی ہوتی ہے کہ وہ اپنی بصیرت پر ناز‘ موقف پر فخر اور علم پر اترانے کے بجائے اپنے رب سے آرزوئیں کرتے ہیں کہ اے ہمارے رب! ہمیں ہدایت عطا کرنے کے بعد ہمارے دلوں کو کجی اور گمراہی سے بچائے رکھناکیونکہ کتنے ہی علم والے ہیں جن کا علم ان کی گمراہی کا سبب اور ان کی تحقیق ان کے لیے حجاب بن گئی اور وہ گمراہی کے سرغنہ ثابت ہوئے۔ اللہ! ہماری تیرے حضور یہ فریاد ہے کہ ہمیں ہمیشہ اپنی رحمت سے نوازتے رہنا یقیناتوہی عطا کرنے والا ہے۔ اے ہمارے رب! یہاں تو لوگ حق پر اکٹھے نہیں ہوئے لیکن قیامت کے دن لوگوں کو تواکٹھا کرنے والا ہے جس کے قائم ہونے میں کوئی شک نہیں کیا جاسکتا۔ الٰہی! اس دن بھی ہمیں اپنی رحمتوں سے ہمکنار اور اپنی عطاؤں سے سرفراز فرمانا، بے شک تو کبھی وعدہ خلافی نہیں کرتا۔ (عَنْ أَنَسٍ (رض) قَالَ کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یُکْثِرُ أَنْ یَّقُوْلَ یَا مُقَلِّبَ الْقُلُوْبِ ثَبِّتْ قَلْبِیْ عَلٰی دِیْنِکَ فَقُلْتُ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ ! اٰمَنَّا بِکَ وَبِمَا جِءْتَ بِہٖ فَھَلْ تَخَافُ عَلَیْنَا قَالَ نَعَمْ إِنَّ الْقُلُوْبَ بَیْنَ إِصْبَعَیْنِ مِنْ أَصَابِعِ اللّٰہِ یُقَلِّبُھَا کَیْفَ یَشَآءُ) [ رواہ الترمذی : کتاب القدر، باب ماجاء أن القلوب ...] ” حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اکثر دعا کرتے۔ اے دلوں کو پھیرنے والے! میرے دل کو اپنے دین پر قائم رکھنا۔ میں نے کہا : اللہ کے رسول! ہم آپ پر اور آپ کی لائی ہوئی شریعت پر ایمان لائے۔ کیا آپ ہمارے بارے میں خطرہ محسوس کرتے ہیں؟ آپ نے فرمایا ہاں! دل اللہ کی دو انگلیوں کے درمیان ہیں۔ اللہ انہیں جیسے چاہتا ہے پھیر دیتا ہے۔“ آل عمران
9 آل عمران
10 فہم القرآن ربط کلام : جس مال اور افرادی قوت کی بنیاد پر اہل مکہ حقائق کا انکار کرتے ہیں آل فرعون بھی اسی بنا پر گمراہ ہوئے اور تباہی کے گھاٹ اترے تھے۔ اہل مکہ بھی عنقریب دنیا میں بدر کے معرکہ میں اور آخرت میں جہنم میں داخل ہونے کی بنا پر کافر ذلیل ہوں گے۔ سورۂ آل عمران کا آغازبڑے جاہ و جلال سے ہوا۔ جس میں واشگاف لہجے میں واضح کیا گیا ہے کہ ہمیشہ قائم و دائم رہنے والی اللہ تعالیٰ کی ذات ہے اس سے کوئی چیز بھی پوشیدہ نہیں ہے۔ اس نے لوگوں کی رہنمائی کے لیے اپنی آخری کتاب نازل فرمائی‘ منکروں کے لیے اس کا عذاب بڑا سخت ہے اور اللہ تعالیٰ ان سے زبردست انتقام لینے والا ہے۔ وہ سب کو اپنے حضور اکٹھا کرے گا اور یہ وعدہ اٹل ہے۔ اے کفر کرنے والو! جب تمہیں جہنم کی آگ میں جھونکا جائے گا تو یہ مال و منال‘ اولاد و احفاد اور دنیا کی جاہ وحشمت تمہارے کچھ کام نہیں آئے گی۔ تمہارا انجام بھی دنیا اور آخرت میں آل فرعون کی طرح ہونے والا ہے۔ جس نے اللہ تعالیٰ کے احکام کی تکذیب کی اس کو اس کے جرائم کی وجہ سے شدید عذاب میں مبتلا کیا گیا۔ فرعون کا غرور، اقتدار، اختیار اور مال واسباب فرعون کو اللہ تعالیٰ کی گرفت سے نہ بچا سکا۔ اے رسول معظم! دوٹوک اور بلا جھجک اعلان فرمائیں کہ عنقریب اللہ تعالیٰ کے منکروں کو دنیا میں سرنگوں اور آخرت میں جہنم میں اکٹھا کیا جائے گا جو رہنے کے اعتبار سے بدترین جگہ ہے۔ مفسرین نے لکھا ہے کہ غزوۂ بدرکے بعد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اہل یہود کو مخاطب کرتے ہوئے سمجھایا کہ تمہیں اسلام کی مخالفت اور کفر کی حمایت چھوڑ کر ہمارے ساتھ شامل ہوجانا چاہیے۔ انہوں نے بڑی رعونت کے ساتھ کہا کہ بدر میں تمہارا مقابلہ اپنے ہم وطنوں اور ناتجربہ کار لوگوں سے ہوا ہے۔ جب ہمارے ساتھ تمہاری پنجہ آزمائی ہوگی تو تمہارا جہاد کا شوق پورا کردیا جائے گا۔ چاہیے تو یہ تھا کہ یہو دونصارٰی اور اہل کفر غزوۂ بدر سے عبرت حاصل کرتے کیونکہ دنیا کی تاریخ میں یہ ایسا معرکہ تھا کہ ایک طرف اللہ تعالیٰ کے راستے میں کٹ مرنے کا جذبہ اور دوسری طرف خدا کے نافرمان تھے۔ جن کے درمیان طاقت کے عدم توازن کا یہ عالم تھا کہ مسلمانوں کی اکثریت بے خانماں، افرادی قوت کے اعتبار سے تھوڑے اور اسباب کے حوالے سے نہایت ہی کمزور اپنے سے کئی گناطاقت ور دشمن کے خلاف برسر پیکار ہوئے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے کرم سے کفار کی نظروں میں مسلمانوں کو دوگنا کردکھایا اور ملائکہ کے ساتھ اپنے بندوں کی نصرت وحمایت فرمائی۔ اللہ تعالیٰ جب چاہے جتنی چاہے جس کی چاہے مدد کرتا ہے۔ اس معرکۂ حق وباطل کو یوم الفرقان کے لقب سے ملقب فرمایا اور دنیا والوں کے لیے اس طرح عبرت قرار دیا جس طرح فرعون اور اس سے پہلے لوگ عبرت کا سامان بنائے گئے۔ اسے فرقان اس لیے بھی کہا گیا کہ جنگ بدر کے بعد جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مدینہ پہنچ گئے تو آپ نے صحابہ کرام (رض) سے قیدیوں کے بارے میں مشورہ کیا۔ حضرت ابوبکر (رض) نے کہا یارسول اللہ! یہ لوگ چچیرے بھائی اور برادری‘ قبیلے کے لوگ ہیں۔ میری رائے یہ ہے کہ آپ ان سے فدیہ لیں اس طرح جو کچھ ہم لیں گے وہ کفار کے خلاف ہماری قوت کا ذریعہ ہوگا اور یہ بھی متوقع ہے کہ اللہ انہیں ہدایت دے دے اور وہ ہمارے دست و بازو بن جائیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ابن خطاب! تمہاری کیا رائے ہے؟ انہوں نے کہا واللہ میری وہ رائے نہیں ہے جو ابوبکر کی ہے۔ میری رائے یہ ہے کہ آپ فلاں کو (جو حضرت عمر (رض) کا قریبی تھا) میرے حوالے کریں میں اس کی گردن ماردوں۔ عقیل بن ابی طالب کو علی (رض) کے حوالے کریں وہ اس کی گردن ماریں اور فلاں کو جو حمزہ (رض) کا بھائی ہے حمزہ (رض) کے حوالے کریں وہ اس کی گردن ماردیں۔ تاکہ اللہ کو معلوم ہوجائے کہ ہمارے دلوں میں مشرکین کے لیے ذرّہ برابر بھی نرم گوشہ نہیں ہے اور یہ لوگ مشرکین کے ائمہ اور اکابر ہیں۔ حضرت عمر (رض) کا بیان ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ابوبکر (رض) کی بات پسند فرمائی اور میری بات پسند نہ کی گئی، چنانچہ قیدیوں سے فدیہ لینا طے کرلیا اس کے بعد جب اگلا دن آیا تو میں صبح ہی صبح رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ابوبکر (رض) کی خدمت میں حاضر ہوا وہ دونوں رورہے تھے۔ میں نے کہا اے اللہ کے رسول! بتائیں آپ اور آپ کا ساتھی کیوں رو رہے ہیں؟ اگر مجھے رونے کی وجہ ہوئی تو روؤں گا اور اگر نہ معلوم ہوسکی تو آپ حضرات کے رونے کی وجہ سے روؤں گا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا فدیہ قبول کرنے کی وجہ سے تمہارے اصحاب پر جو چیز پیش کی گئی ہے اسی وجہ سے رو رہا ہوں۔ آپ نے ایک قریبی درخت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا مجھ پر اللہ کا عذاب اس درخت سے بھی زیادہ قریب کردیا گیا۔ [ الرحیق المختوم، بدرکے قیدیوں کا قضیہ] مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں کفار کو ان کے مال اور اولاد کچھ فائدہ نہیں پہنچائیں گے۔ ٢۔ کفار جہنم کا ایندھن بنیں گے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ نے آل فرعون اور ان سے پہلے مجرموں کی سخت گرفت کی۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ سخت عذاب دینے والا ہے۔ ٥۔ عنقریب کفار مغلوب اور جہنم میں اکٹھے کیے جائیں گے۔ ٦۔ جہنم بہت برا ٹھکانہ ہے۔ ٧۔ معرکۂ بدر بصیرت والوں کے لیے قدرت کا بہت بڑا نشان ہے۔ ٨۔ اللہ تعالیٰ جس طرح چاہے جس کی چاہے اور جب چاہے مدد فرماتا ہے۔ تفسیربالقرآن قوموں کی تباہی کے اسباب : ١۔ قوم نوح کی ہلاکت کا سبب بتوں کی پرستش تھی۔ (نوح : ٢٣) ٢۔ قوم لوط کی تباہی کا سبب اغلام بازی کرنا تھی۔ (الاعراف : ٨١) ٣۔ شعیب (علیہ السلام) کی قوم کی تباہی کا سبب ماپ تول میں کمی تھی۔ (ھود : ٨٤، ٨٥) ٤۔ قوم عاد کی تباہی کا سبب رسولوں کی نافرمانی تھی۔ (ھود : ٥٩) ٥۔ صالح (علیہ السلام) نے اپنی قوم سے کہا اے قوم! یہ اونٹنی تمہارے لیے ایک نشانی ہے، اسکو چھوڑ دو تاکہ اللہ کی زمین میں چرے اور اس کو کسی طرح تکلیف نہ دینا ورنہ تمہیں جلد عذاب آپکڑے گا۔ مگر انہوں نے اس کی کونچیں کاٹ دیں تو صالح نے کہا تین دن فائدہ اٹھا لو، یہ وعدہ ہے جو جھوٹا نہ ہوگا۔ (ھود : ٦٤، ٦٥) ٦۔ فرعونیوں نے اپنے پروردگار کے پیغمبر کی نافرمانی کی تو اللہ نے بھی ان کو سخت پکڑا۔ (الحاقۃ: ١٠) آل عمران
11 آل عمران
12 آل عمران
13 آل عمران
14 فہم القرآن ربط کلام : حق سے انحراف اور قوموں کی تباہی میں دنیا پرستی کا عنصر ہمیشہ غالب رہا ہے اس لیے اس کی حقیقت بیان کی گئی ہے۔ ہدایت کے راستے میں جو چیزیں سب سے بڑی رکاوٹ بنتی ہیں۔ ان میں سر فہرست عورت، بیٹے، سونا، چاندی، سواری، مال، مویشی اور کھیتی باڑی ہے۔ ہر انسان ان میں سے کسی نہ کسی چیز کے ساتھ ضرورت سے زیادہ محبت کرتا ہے اور یہی چیز راہ ہدایت میں رکاوٹ بن جاتی ہے۔ خواہشات کے میدان میں عام طور پرسب سے پہلی خواہش عورت کے ساتھ مرد کی وابستگی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے بطور آزمائش آدمی کے دل میں ان چیزوں کی محبت اور رغبت پیدا فرمائی ہے تاکہ دنیا کا نظام چلتا رہے۔ اگر عورت کے ساتھ مرد کی رغبت اور محبت نہ ہو تو نسب کا سلسلہ آگے نہیں چل سکتا۔ اسی تعلق کی خاطر اور ضرورت سے آدمی بیوی کو کھلاتا پلاتا اور اس کی آسائش وآرام کا خیال رکھتا ہے۔ اگر اولاد نہ ہو تو آدمی کی دنیا سے رغبت کم ہوجاتی ہے پھر اولاد میں بیٹوں کا ذکر کیا گیا ہے کیونکہ بیٹا ماں باپ کا سہارا اور ان کے سلسلۂ نسب اور جائیداد کا وارث ہوتا ہے۔ بیٹی کی پیدائش پر باپ اپنی ذمہ داریوں میں اضافہ محسوس کرتا ہے۔ جب کہ بیٹے کو اپنا معاون اور مستقبل کا سہارا سمجھتا ہے۔ طبع انسانی کا خیال رکھتے ہوئے بیٹوں کا خاص طور پر ذکر کیا ہے۔ بیوی اور بیٹوں کے بعد دنیا کا نظام چلانے اور سہولیات حاصل کرنے کے لیے سونا اور چاندی ہمیشہ سے انسان کے لیے پر کشش سرمایۂ حیات رہا ہے۔ سونے اور چاندی کی بدولت ہی دنیا میں لین دین اور تجارت ہوا کرتی ہے۔ کاروبار کے بعد اچھی سواری آدمی کے لیے آرام کے ساتھ ساتھ باعث عزت ہوتی ہے۔ ہر دور میں گھوڑے کی سواری آدمی کے لیے شان وشوکت کا باعث سمجھی گئی ہے اور آج بھی موٹر کاروں اور مشینری کی پاور کا اندازہ کرنے کے لیے گھوڑے کی طاقت [HORSE POWe R] کو معیار بنایا گیا ہے۔ گھڑسواری ہمیشہ لوگوں کے لیے باعث فخر و انبساط رہی ہے۔ یہ جانور بہترین سواریوں میں شمار ہوتا ہے۔ ان چیزوں کے بعد کھیتی باڑی اور چوپایوں کی باری آتی ہے جو انسانی بقا کے لیے غلہ، رہائش، دودھ، مکھن، گوشت اور خوراک کا کام دیتے ہیں۔ دیہاتی زندگی اور زمیندار کی یہی چیزیں متاع حیات ہیں۔ اس لحاظ سے انسانی زندگی کا دارو مدار عورت، اولاد، سونا، چاندی، رہائش اور خوراک پر ہے باقی تمام نعمتیں انہی کے متعلّقات اور لوازمات ہیں۔ ان نعمتوں کی افادیت اپنی جگہ مسلّم اور انہیں دنیا کی زندگی کے بہترین اسباب اور زینت قرار دیا گیا ہے۔ لیکن آدمی کی دانشمندی یہ ہے کہ وہ عارضی زندگی اور اس کے اسباب پر نگاہ جمانے اور اکتفا کرنے کی بجائے حیات جاوداں‘ لازوال نعمتوں اور ان کے خالق و مالک کی طرف توجہ رکھے اور دنیا کے ذریعے آخرت کے انعامات حاصل کرنے کی کوشش کرتا رہے جو رب کریم کے پاس صاحب ایمان وکردار لوگوں کے لیے محفوظ ہیں۔ (عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ (رض) أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ لَوْ أَنَّ لِإِبْنِ آدَمَ وَادِیًا مِّنْ ذَھَبٍ أَحَبَّ أَنْ یَکُوْنَ لَہٗ وَادِیَانِ وَلَنْ یَمْلَأَ فَاہُ إِلَّا التُّرَابُ وَیَتُوْبُ اللّٰہُ عَلٰی مَنْ تَابَ) [ رواہ البخاری : کتاب الرقاق، باب مایتقی من فتنۃ المال] ” حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ بے شک رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اگر آدم کے بیٹے کے پاس سونے کی ایک وادی ہو تو وہ پسند کرے گا کہ اس کے پاس سونے کی دو وادیاں ہوں۔ اس کے منہ کو مٹی کے علاوہ کوئی چیز نہیں بھر سکتی۔ اللہ جس پر چاہتا ہے توجہ فرماتا ہے۔“ (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ (رض) قَالَ خَطَّ النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مُرَبَّعًا وَخَطَّ خَطًّا فِی الْوَسْطِ خَارِجًا مِّنْہُ وَخَطَّ خُطَطًا صِغَارًا إِلٰی ھٰذَا الَّذِیْ فِی الْوَسْطِ مِنْ جَانِبِہِ الَّذِیْ فِی الْوَسْطِ وَقََالَ ھٰذَا الْإِنْسَانُ وَھٰذَا أَجَلُہٗ مُحِیْطٌ بِہٖ أَوْ قَدْ أَحَاطَ بِہٖ وَھٰذَا الَّذِیْ ھُوَ خَارِجٌ أَمَلُہٗ وَھٰذِہِ الْخُطَطُ الصِّغَارُ الْأَعْرَاضُ فَإِنْ أَخْطَأَہٗ ھٰذَا نَھَشَہٗ ھٰذَا وَإِنْ أَخْطَأَہٗ ھٰذَا نَھَشَہٗ ھٰذَا) [ رواہ البخاری : کتاب الرقاق، باب فی الأمل وطولہ] ” حضرت عبداللہ (رض) بیان کرتے ہیں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک مربع نمالکیر کھینچی اور اس کے درمیان سے باہر نکلی ہوئی لکیر لگائی پھر اس درمیانی لکیر کے ارد گرد چھوٹی چھوٹی لکیریں کھینچیں اور فرمایا یہ انسان ہے اور یہ اس کی موت اسے گھیرے ہوئے ہے اور جو اس خانے سے باہر لکیر ہے یہ اس کی خواہشات ہیں اور یہ چھوٹی لکیریں آفات ہیں اگر ایک سے بچتا ہے تو دوسری اسے دبوچ لیتی ہے۔ اگر اس سے بچتا ہے تو اور کوئی اسے آ لیتی ہے۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے عورتوں، بیٹوں، سونا، چاندی، گھوڑوں، چوپایوں اور کھیتیوں کو لوگوں کے لیے خوش نما بنایا ہے۔ ٢۔ یہ دنیا کی زندگی کے اسباب ہیں جبکہ اللہ تعالیٰ کے پاس اس سے بہتر مقام اور انعام ہے۔ آل عمران
15 فہم القرآن ربط کلام : دنیا پرستی کے بجائے آدمی کی نظر آخرت کی دائمی نعمتوں پر ہونی چاہیے ایسا وہی لوگ کرتے ہیں جن میں یہ اوصاف پائے جاتے ہیں۔ اور وہ اپنے رب سے معافی مانگتے ہیں۔ میرے محبوب فرمائیں کہ اے دنیا دارو! آؤ میں تمہیں ان نعمتوں سے بڑھ کر نعمتیں بتاتا ہوں۔ جو اللہ تعالیٰ نے صرف اپنے پرہیزگار بندوں کے لیے جنت میں تیار فرمائی ہیں۔ ایسی جنت جس کے نیچے نہریں اور آبشاریں جاری ہیں۔ اس میں متقین کے لیے پارسا و باوفا اور حسن وجمال کی پیکر بیویاں ہوں گی۔ اس جنت کے وارث ایسے پرہیزگار ہوں گے جو نیکی اور پارسائی کے باوجود اپنے رب سے اپنے گناہوں اور خطاؤں کی معافی طلب کرتے اور ہر دم جہنم کی ہولناکیوں سے پناہ مانگتے ہیں۔ ان کے اوصاف یہ بھی ہیں کہ وہ نیک کاموں پر مستقل مزاج، مصائب ومشکلات پر حوصلہ مند، سچ کے داعی‘ حق پر قائم رہنے والے، ہر حال میں اپنے رب کے فرماں بردار، عُسرو یسر میں خرچ کرنے والے اور سحری کے وقت توبہ و استغفار سے ماضی کی کوتاہیوں پر معذرت اور اپنے آپ کا محاسبہ کرتے ہوئے اپنے رب کے حضور معافی کے خواستگار ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے ہر قسم کے اعمال پر نگاہ رکھے ہوئے ہے کہ کون دنیا کی آسائشوں کو مقدم جاننے والے اور کون اللہ تعالیٰ کی رضا کو ترجیح دینے والے ہیں۔ ایسے کردار کے حامل لوگ جنت کے وارث ہوں گے اور ان پر اللہ تعالیٰ ہمیشہ ہمیشہ اپنی رضا مندی کا اظہار فرمائیں گے۔ (عَنْ أَبِیْ سَعِیْدِنِ الْخُدْرِیِّ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) إِنَّ اللّٰہَ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی یَقُوْلُ لِأَھْلِ الْجَنَّۃِ یَا أَھْلَ الْجَنَّۃِ فَیَقُوْلُوْنَ لَبَّیْکَ رَبَّنَا وَسَعْدَیْکَ فَیَقُوْلُ ھَلْ رَضِیْتُمْ فَیَقُوْلُوْنَ وَمَالَنَا لَانَرْضٰی وَقَدْ أُعْطِیْنَا مَالَمْ تُعْطِ أَحَدًا مِّنْ خَلْقِکَ فَیَقُوْلُ أَنَآ أُعْطِیْکُمْ أَفْضَلَ مِنْ ذٰلِکَ قَالُوْا یَارَبِّ وَأَیُّ شَیْءٍ أَفْضَلُ مِنْ ذٰلِکَ فَیَقُوْلُ أُحِلُّ عَلَیْکُمْ رِضْوَانِیْ فَلَا أَسْخَطُ عَلَیْکُمْ بَعْدَہٗ أَبَدًا) [ رواہ البخاری : کتاب الرقاق، باب صفۃ الجنۃ والنار] ” حضرت ابو سعید خدری (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ تعالیٰ اہل جنت کو مخاطب کرتے ہوئے استفسار فرمائیں گے اے جنت میں رہنے والو! جنتی کہیں گے ہمارے رب! ہم حاضر ہیں آپ کے حضور پیش ہیں۔ ہر قسم کی بھلائی آپ کے ہاتھوں میں ہے۔ اللہ تعالیٰ پوچھے گا کیا تم خوش ہو؟ وہ عرض کریں گے : اے ہمارے رب! بھلا ہم کیوں نہ خوش ہوں ؟ تو نے تو ہمیں ایسی نعمتیں عطاکی ہیں جو آپ نے اپنی مخلوق میں کسی کو عطا نہیں کیں۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کیا میں تمہیں اس سے بھی بہتر نعمت عطانہ کروں؟ وہ عرض کریں گے اے ہمارے پروردگار! اس سے بڑھ کر اور نعمت کیا ہوسکتی ہے؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا : میں تم پر ہمیشہ کے لیے خوش ہوں اب کبھی تم پر ناراض نہیں ہوں گا۔“ مسائل ١۔ جنتیوں پر اللہ ہمیشہ راضی رہے گا۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نیکو کار اور مجرموں کو دیکھ رہا ہے۔ ٣۔ نیکو کار ہر دم اپنے گناہوں کی معافی اور جہنم کی آگ سے پناہ مانگتے ہیں۔ ٤۔ اللہ کے بندے صابر، سچے، تابعدار، مخیر اور سحری کے وقت استغفار کرنے والے ہوتے ہیں۔ تفسیربالقرآن مومنین کی صفات : ١۔ زمین پر اللہ کا نظام رائج کرنے والے ہیں۔ (الحج : ٤١) ٢۔ اللہ کا ڈر رکھنے والے ہوتے ہیں۔ ( المومنون : ٥٧) ٣۔ زمین پر امن کے داعی ہیں۔ ( القصص : ٨٣) ٤۔ کروٹ کروٹ اللہ کو پکارتے ہیں۔ (السجدۃ: ١٦) ٥۔ اللہ کا کثرت سے ذکر کرنے والے ہوتے ہیں۔ (الاحزاب : ٣٥) ٦۔ صبح و شام معافی مانگنے اور اللہ کی راہ میں خرچ کرنے والے ہیں۔ (آل عمران : ١٧) آل عمران
16 آل عمران
17 آل عمران
18 فہم القرآن ربط کلام : اوصاف حمیدہ کا تقاضا اور خلاصہ یہ ہے کہ اللہ کی توحید اور انصاف پر قائم رہنا ضروری ہے۔ سورۃ کی ابتداء اللہ تعالیٰ کی توحید سے ہوئی تھی اور اب پھر اسی مضمون کا اعادہ شہادت کے الفاظ میں ہورہا ہے۔ سب سے پہلے رب ذو الجلال اپنی ذات، صفات اور وحدانیت پر خود گواہی دے رہا ہے کہ میرے بغیر کائنات کا کوئی خالق ومالک نہیں اور میں ہی معبودِ بر حق اور واحد ہوں اس کے بعد ملائکہ کی شہادت ڈالی جارہی ہے جو اللہ تعالیٰ کی قدرت اور بادشاہت کے عینی گواہ ہیں۔ ان کے بعد اہل علم کی گواہی پیش کی جارہی ہے جو انصاف کی گواہی دینے والے اور ہر حال میں اس پر قائم رہنے والے ہیں۔ یہاں ” اُولُوا الْعِلْمِ“ سے مراد سب سے پہلے انبیاء کرام ہیں اور ان کے بعد درجہ بدرجہ ان کے اصحاب، شہداء اور مومن ہیں۔ اس فرمان سے یہ بات عیاں ہورہی ہے کہ حقیقی اہل علم اور علمائے حق وہ ہیں جو اللہ تعالیٰ کی توحید کا پرچار کرنے والے اور اس پر قائم ہیں۔ کائنات میں توحید سے بڑھ کر کوئی انصاف کی بات نہیں ہوسکتی جسے قسط کہا گیا ہے۔ قسط کا معنی ہے ” ہر چیز اپنے اپنے دائرۂ کار میں ٹھیک ٹھیک کام کرتی رہے“ جسے اللہ تعالیٰ نے سورۃ الرحمن کی ابتدا میں اس طرح بیان فرمایا ہے کہ شمس و قمر، نجم وشجر، زمین و آسمان اور ہوا و فضا میں جو کچھ بھی ہے وہ اصول قسط کے تحت رواں دواں اور قائم دائم ہے۔ یہ سب پکار پکار کر کہہ رہے ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں وہی نظام کائنات پر غالب‘ مالک اور تدبیر وحکمت کے ساتھ اس کا انتظام وانصرام کرنے والا ہے۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ اپنی وحدانیت پر خود گواہی دیتا ہے۔ ٢۔ ملائکہ اور اہل علم اس کی توحید پر گواہ ہیں۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی الہٰ نہیں اور وہی غالب‘ حکمت والا ہے۔ تفسیربالقرآن اللہ تعالیٰ کی شہادت : ا۔ اللہ تعالیٰ کی توحید پر شہادت (آل عمران : ١٨) ٢۔ رسول کی وحی پر شہادت۔ (النساء : ١٦٦) ٣۔ حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت پر شہادت۔ (النساء : ٧٩) آل عمران
19 فہم القرآن ربط کلام : توحید اور اسلام دونوں مترادف ہیں۔ توحید اور اسلام کا خلاصہ یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کے حوالے کردے۔ کائنات کا پورا نظام مالک واحد کی ذات اور اس کے حکم کے تابع اور عدل وقسط کے اصول پر چل رہا ہے۔ یہی توحید کی روح اور اس کا تقاضا ہے کہ بنی نوع انسان کے انفرادی اور اجتماعی معاملات بھی تقاضائے توحید کے مطابق چلنے چاہییں۔ توحید ہی اسلام کی بنیاد ہے اور یہی ایسا دین ہے جو اللہ کے نزدیک پسندیدہ، معتبر اور مقبول ہے۔ جس کے بنیادی ارکان اور اصول ہمیشہ سے ایک رہے اور تمام انبیاء کرام اسی اسلام کی دعوت دیتے رہے ہیں۔ اسی بنیاد پر اللہ تعالیٰ نے تمام انبیاء کو ایک جماعت قرار دیتے ہوئے فرمایا : (اِنَّ ھٰذِہٖ اُمَّتُکُمْ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً وَّاَنَا رَبُّکُمْ فَاعْبُدُوْنِ) [ الانبیاء : ٩٢] ” یقینًا تمہاری امت ایک ہی امت ہے اور میں تمہارا رب ہوں پس تم میری ہی عبادت کرو۔“ حضرت آدم (علیہ السلام) سے لے کر جناب خاتم الانبیاء تک انبیاء کی دعوت میں کبھی اختلاف نہیں رہا اور نہ ہی ہوسکتا ہے۔ ہر نبی اپنے اپنے وقت میں لوگوں کے پاس دین اسلام لایا۔ لوگوں نے حقیقت معلوم ہوجانے کے باوجود اس دین کو ماننے سے انکار کیا اور انبیاء کرام کے جانے کے بعد دین کے ماننے والوں نے دین کے حصّے بخرے کردیے۔ یہودی 71 فرقوں میں تبدیل ہوئے عیسائیوں نے 72 گروہ بنا لیے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان ہے میری امت 73 فرقوں میں تقسیم ہوجائے گی۔ سوائے ایک کے باقی سب کے سب جہنمی ہوں گے۔[ رواہ الترمذی : کتاب الإیمان، باب ماجاء فی افتراق ہذہ الأمۃ] حضرت محمد کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور دین اسلام کے ساتھ یہود و نصارٰی اور کفار و مشرکین کے اختلاف کی وجہ یہ نہیں ہے کہ انہیں دین سمجھنے میں کوئی غلط فہمی یا دقّت پیش آئی۔ قرآن مجید دوٹوک انداز میں اختلافات کا سبب بیان کرتا ہے کہ دین اسلام کا انکار کرنے والوں نے جان بوجھ کر ایسا کیا تھا۔ حالانکہ وہ آپ کی ذات اور دین کو اچھی طرح پہچانتے تھے۔ مگر ذاتی برتری، معاشرتی رجحانات، جماعتی تعصبات اور مالی مفادات کی بنیاد پر انہوں نے اسے قبول کرنے سے انکار کیا کیونکہ دین اللہ تعالیٰ نے ہی نازل فرمایا ہے۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ ہی ان سے حساب چکائیں گے اور وہ بہت جلد حساب لینے والا ہے۔ اے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! اگر حقیقت عیاں ہوجانے کے باوجود یہ لوگ تم سے جھگڑا کریں تو تم ان سے کہہ دو، مانو یا نہ مانو میں نے تو اپنے چہرے کو اللہ تعالیٰ کے تابع فرمان کرلیا ہے۔ اس سے مراد کلی تابعداری ہے کیونکہ چہرہ ہی انسان کے جذبات اور اس کے رجحانات کا ترجمان ہوتا ہے۔ ہر زبان میں چہرے کی سپردگی کو پورے وجود کی سپرد داری سمجھا جاتا ہے لہٰذا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم ہوتا ہے کہ آپ اختلافات، حالات اور ان کے تعصبات سے بے پروا ہو کر اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کی غلامی اور دین کی سر بلندی کے لیے وقف کردیں۔ تمہارے پیروکاروں کو بھی ایسا ہی کرنا چاہیے۔ اس کے ساتھ ہی اہل کتاب‘ کفار‘ اَن پڑھ اور پڑھے لکھے لوگوں سے یہ پوچھیے کہ کیا تم بھی اپنے آپ کو زمین و آسمان کے خالق ومالک کے تابع فرمان کرنے کے لیے تیار ہو؟ اگر تم ایسا کرو گے تو ہدایت پاجاؤ گے کیونکہ ہدایت کا دارو مدار اور معیار صرف اسلام ہے۔ اگر یہ لوگ انکار کریں تو تمہارا کام سمجھانا ہے منوانا نہیں، پہنچانا ہے جھگڑنا نہیں۔ اللہ تعالیٰ نیکو کاروں اور نافرمانوں کو خوب دیکھ رہا ہے۔ اس سے ان لوگوں کی خود بخود نفی ہوجاتی ہے جو اسلامی طریقہ سے ہٹ کر دوسرے کاموں میں نیکی اور خیر سمجھتے ہیں۔ حضرت جعفر (رض) کا نجاشی کے سامنے اسلامی تعلیمات کے بارے میں خطاب : مکہ کے مہاجر مسلمانوں کے ترجمان حضرت جعفر بن ابی طالب (رض) نے کہا ” اے بادشاہ! ہم ایسی قوم تھے جو جاہلیت میں مبتلا تھی۔ ہم بت پوجتے تھے مردار کھاتے تھے‘ بدکاریاں کرتے تھے‘ قرابتداروں سے تعلق توڑتے تھے‘ ہمسایوں سے بدسلوکی کرتے تھے اور ہم میں سے طاقتور کمزور کو کھا رہا تھا ہم اسی حالت میں تھے کہ اللہ نے ہم میں سے ایک رسول بھیجا۔ اس کی عالی نسبی‘ سچائی‘ امانت داری‘ پاکدامنی ہمیں پہلے سے معلوم تھی۔ اس نے ہمیں اللہ کی طرف بلایا اور سمجھایا کہ ہم صرف ایک اللہ کو مانیں اور اسی کی عبادت کریں اور اس کے سوا جن پتھروں اور بتوں کو ہم پوجتے تھے انہیں چھوڑ دیں۔ اس نے ہمیں سچ بولنے‘ امانت ادا کرنے‘ قرابت جوڑنے‘ پڑوسی سے اچھا سلوک کرنے اور حرام کاری و خونریزی سے باز رہنے کا حکم دیا۔ اور فواحش میں ملوث ہونے‘ جھوٹ بولنے‘ یتیم کا مال کھانے اور پاکدامن عورتوں پر جھوٹی تہمت لگانے سے منع کیا۔ اس نے ہمیں یہ بھی حکم دیا کہ ہم صرف اللہ کی عبادت کریں اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں۔ اس نے ہمیں نماز‘ روزہ اور زکوٰۃ کا حکم دیا۔“ اسی طرح حضرت جعفر (رض) نے اسلام کے کام گنوانے کے بعد فرمایا : ” ہم نے اس پیغمبر کو سچا مانا‘ اس پر ایمان لائے اور اس کے لائے ہوئے دین میں اس کی پیروی کی چنانچہ ہم نے صرف اللہ کی عبادت کی‘ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کیا اور جن باتوں کو اس پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حرام بتایا انہیں حرام مانا‘ اور جن کو حلال بتایا انہیں حلال جانا اس پر ہماری قوم ہم سے بگڑ گئی اس نے ہم پر ظلم و ستم کیا اور ہمیں ہمارے دین سے پھیرنے کے لیے فتنے اور سزاؤں سے دو چار کیا۔ تاکہ ہم اللہ کی عبادت چھوڑ کر بت پرستی کی طرف پلٹ جائیں اور جن گندی چیزوں کو حرام سمجھتے تھے انہیں پھر حلال سمجھنے لگیں۔ جب انہوں نے ہم پر بہت ظلم و جبر کیا‘ ہمارے لیے زمین تنگ کردی۔ ہمارے اور ہمارے دین کے درمیان رکاوٹ بن کر کھڑے ہوگئے تو ہم نے آپ کے ملک کی راہ لی اور دوسروں پر آپ کو ترجیح دیتے ہوئے آپ کی پناہ میں رہنا پسند کیا اور یہ امید کی کہ اے بادشاہ! آپ کی طرف سے ہم پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔“ [ سیرت ابن ہشام] مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ کے نزدیک صرف اسلام ہی مقبول ہے۔ ٢۔ اہل کتاب محض تعصب کی بنیاد پر اسلام کی مخالفت کرتے ہیں۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ جلد حساب لینے والا ہے۔ ٤۔ اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کے حوالے کرنے والا ہدایت پائے گا۔ ٥۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کام تبلیغ کرنا ہے۔ ٦۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو دیکھ رہا ہے۔ تفسیربالقرآن تابعداری کا حکم : ١۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مطیع ہونے کا حکم۔ (الانعام : ١٤) ٢۔ ابراہیم (علیہ السلام) کو مطیع ہونے کا حکم۔ (البقرۃ: ١٣١) ٣۔ اولاد ابراہیم (علیہ السلام) کو تابعدار ہونے کا حکم۔ (البقرۃ: ١٣٢، ١٣٣) ٤۔ سب کو اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری کرنے کا حکم۔ (الحج : ٣٤) ٥۔ اسلام میں ہی پوری کی پوری ہدایت مضمر ہے۔ (آل عمران : ٢٠) آل عمران
20 آل عمران
21 فہم القرآن ربط کلام : اسلام چھوڑ کر جس نے کفر کا راستہ اختیارکیا، انبیاء اور نیک لوگوں کو قتل کیا اس کے لیے سزا عذاب الیم ہے۔ اہل کتاب اور کفار کو باربار اسلام کی دعوت دی گئی۔ لیکن انہوں نے تسلیم کرنے کے بجائے انکار اور مخالفت کا راستہ اپنایا بالخصوص یہودیوں کی یہ تاریخ ہے کہ جب بھی ان کے پاس کوئی نبی اور مصلح آیا تو انہوں نے سمع واطاعت کی بجائے ان کے خلاف سازشوں اور تشدد کا راستہ اختیار کیا۔ علامہ ابن جریر نے کئی حوالوں کے ساتھ تحریر فرمایا ہے کہ یہودی اس قدر سازشی اور تخریب کارتھے کہ انہوں نے ایک ہی دن میں صبح کے وقت 43 انبیاء کرام (علیہ السلام) اور دن کے پچھلے پہر 170 مذہبی رہنماؤں کو شہید کردیا۔ تاریخ کے اس المناک سانحہ کی نشاندہی کرتے ہوئے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے رفقاء گرامی کو چوکس کیا جارہا ہے کہ یہودیوں کی ملمع سازی اور چکنی چپڑی باتوں سے بچتے رہیے۔ یہ ایسی قوم ہے کہ جن کی تاریخ گھناؤنے جرائم سے بھری ہوئی ہے۔ مدینے کے یہودیوں نے بھی آپ کے خلاف بارہا سازش کی کہ آپ کو شہید کردیا جائے۔ ایک دفعہ آپ ایک مکان کے صحن میں تشریف فرما تھے یہودیوں نے پروگرام بنایا کہ کچھ لوگ آپ کو گفتگو میں مصروف رکھیں اور دوسرے آدمی چھت کے اوپر سے آپ پر بھاری پتھر پھینک کر آپ کا خاتمہ کردیں۔ (البدایہ والنہایہ) ابن اسحاق کا بیان ہے کہ ایک بوڑھا یہودی شاش بن قیس ایک بار صحابہ کرام (رض) کی ایک مجلس کے پاس سے گزرا۔ جس میں اوس و خزرج دونوں قبیلوں کے لوگ بیٹھے محبت و الفت کی باتیں کر رہے تھے۔ یہ دیکھ کر کہ ان کے درمیان جاہلیت کی باہمی عداوت و شقاوت کی جگہ اسلام کی الفت و اجتماعیت نے لے لی ہے۔ بوڑھایہودی سخت رنجیدہ ہو کر کہنے لگا۔ بخدا اشراف کے اتحاد کے بعد تو ہمارا یہاں گزر نہیں ہو سکتا۔“ چنانچہ اس نے ایک نوجوان یہودی کو حکم دیا کہ انصار اور مہاجرین کی مجالس میں جائے اور ان کے ساتھ بیٹھ کر پھر جنگ بعاث اور اس کے واقعات کا ذکر کرے۔ اس سلسلے میں دونوں جانب سے جو اشعار کہے گئے ہیں انہیں سنائے۔ اس یہودی نے ایسا ہی کیا۔ اس کے نتیجے میں اوس و خزرج میں تو تو میں میں شروع ہوگئی۔ لوگ جھگڑنے لگے اور ایک دوسرے پر خنجر اٹھا لیے یہاں تک کہ دونوں قبیلوں کے آدمی ایک دوسرے کے خلاف گھٹنوں کے بل بیٹھ گئے۔ ایک نے اپنے مد مقابل سے کہا اگر چاہو تو ہم اس جنگ کو پھر جو ان کر کے پلٹا دیں۔ اس پر دونوں فریقوں کو تاؤ آگیا اور بولے چلو ہم تیار ہیں حرہ میں مقابلہ ہوگا۔ اسلحہ۔۔ ! اسلحہ کی آوازیں بلندہوئیں! اور لوگ اسلحہ لے کر حرہ کی طرف نکل پڑے۔ قریب تھا کہ خونریز جنگ ہوجاتی لیکن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بروقت خبر ہوگئی۔ آپ مہاجرصحابہ کو ہمراہ لے کر جھٹ ان کے پاس پہنچے اور فرمایا اے مسلمانوں کی جماعت ! اللہ سے ڈرو کیا میرے ہوتے ہوئے اور اسلام قبول کرنے کے باوجود آپس میں لڑ رہے ہو؟ سازشوں کا یہ سلسلہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حیات مبارکہ کے آخری دور تک جاری رہا۔ یہاں تک کہ ہجرت کے ساتویں سال لبید بن اعصم یہودی نے آپ پر جادو کا ایسا وار کیا کہ آپ کی طبیعت کئی دنوں تک نڈھال اور پریشان رہی۔ گویا اس زمانے میں سب سے بڑے تخریب کار اور تشدد پسند یہودی تھے اور آج بھی بین الاقوامی سازشوں اور تخریب کاریوں کے پیچھے یہودی ہی کار فرما ہیں۔ جو لوگ اللہ تعالیٰ کی آیات کا انکار، انبیاء اور نیک لوگوں کو قتل کرتے ہیں۔ ان پر اللہ تعالیٰ اس قدر ناراض ہوتا ہے کہ انہیں اذیت ناک عذاب کی تنبیہ کرنے کے بجائے خوشخبری سنائی جاتی ہے۔ ایسے لوگوں کے دنیا اور آخرت میں اعمال غارت ہوں گے اور ان کا کوئی مددگار نہیں ہوگا۔ (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ (رض) أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ أَشَدُّ النَّاسِ عَذَابًا یَّوْمَ الْقِیَامَۃِ رَجُلٌ قَتَلَہٗ نَبِیٌّ أَوْ قَتَلَ نَبِیًّا) [ مسند احمد : کتاب مسند المکثرین من الصحابۃ، باب مسند عبدا اللہ بن مسعود] ” حضرت عبداللہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا قیامت کے دن لوگوں میں سب سے زیادہ سخت عذاب اس آدمی کو ہوگا جسے کسی نبی نے قتل کیا یا اس نے کسی نبی کو قتل کیا۔“ مسائل ١۔ اللہ کے احکامات کے منکر اور انبیاء و علماء کے قاتل جہنم میں جائیں گے۔ ٢۔ دنیاو آخرت میں ان کے اعمال ضائع ہوں گے اور ان کی مدد کرنے والا کوئی نہیں ہوگا۔ تفسیربالقرآن یہودیوں کا گھناؤنا کردار : ١۔ یہودی انبیاء کے قاتل ہیں۔ (آل عمران : ١١٢) ٢۔ یہودیوں نے انبیاء کی تکذیب 8 کی اور انہیں قتل کیا۔ (المائدۃ: ٧٠) ٣۔ یہودی مشرک ہیں۔ (التوبۃ: ٣٠) ٤۔ یہودی سازشی ہیں۔ (آل عمران : ٥٤) ٥۔ یہودی لعنتی ہیں۔ (المائدۃ: ٧٨) ٦۔ یہودی جھوٹے اور سودخورہیں۔ (المائدۃ: ٦٣) ٧۔ یہودی اللہ تعالیٰ کے گستاخ ہیں۔ (المائدۃ: ٦٤) آل عمران
22 آل عمران
23 فہم القرآن ربط کلام : اہل کتاب ہی پہلے کفر کرنے والے ہیں ان کے کفر کی بنیاد ان کا من ساختہ عقیدہ ہے کہ ہم چند دن جہنم میں جائیں گے حالانکہ وہاں ایک کے اعمال دوسرے کے لیے فائدہ مند نہیں ہوں گے۔ اینبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! کیا آپ نے اہل کتاب کے رویّے پر غور نہیں فرمایا کہ جب بھی انہیں تنازعات کا فیصلہ کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ کی کتاب کی طرف بلایا جاتا ہے تو بلاوا سنتے ہی ان میں ایک گروہ سراسر منہ پھیر لیتا ہے۔ ایسا اس لیے کرتا ہے کہ ان کا دعو ٰی ہے کہ ہمیں جہنم کی آگ مَس نہیں کرے گی سوائے چند دنوں کے جن میں ہمارے بزرگوں نے بچھڑے کی عبادت کی تھی۔ دراصل ان کا خود ساختہ دین ہی ان کے لیے فریب نفس اور ہدایت کے لیے سدِّراہ بن چکا ہے۔ ان کی خود فریبیوں کا عالم یہ ہے کہ اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کے بیٹے قرار دیتے ہیں اور لوگوں میں یہ تاثّر پیدا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ چند دنوں کے علاوہ ہمیں ہرگز سزا نہیں دے گا۔ افسوس ! یہی فریب کاریاں اور خوش فہمیاں آج امّتِ محمدیہ کی غالب اکثریت میں پیدا ہوچکی ہیں۔ کوئی آل رسول کا نام لے کر اپنے آپ کو دھوکہ دیتا ہے‘ کسی نے عشق رسول کا نعرہ لگا کر لوگوں کو شریعت سے آزاد کردیا ہے اور کچھ لوگوں نے دنیا میں ہی بہشتی دروازے کھول رکھے ہیں اور ان کے مذہبی پیشوا اور پیر ومرشد برملا اپنے مریدوں کو یہ سبق دیتے ہیں کہ جنت میں جانے کے لیے نیک اعمال کی ثانوی حیثیت ہے۔ بزرگوں کو راضی رکھنا جنت کا سر ٹیفکیٹ حاصل کرنے کے مترادف ہے۔ اسی بناء پر مرشد پکڑنا اور کسی امام کی تقلید ضروری قرار دی جاتی ہے۔ ان خود ساختہ دعوؤں اور وعدوں کی نفی کرتے ہوئے فرمایا جارہا ہے کہ اس وقت ان لوگوں کی کسمپرسی کا کیا عالم ہوگا؟ جب اللہ تعالیٰ محشرکے میدان میں انہیں اپنے حضور جمع کرے گا؟ وہاں نہ تو نسب کام آئے گا نہ بزرگ فائدہ پہنچا سکیں گے اور نہ ہی پر کشش نعرے سودمند ہوں گے۔ وہاں تو مجرموں کو دیکھتے ہی ہر کوئی ان سے دور بھاگ جائے گا۔ یہاں تک کہ جنم دینے والی ماں، پرورش کرنے والا باپ، فدا ہونے والے بھائی، اور جانثار بیوی، بیٹے اور بیٹیاں بھی ساتھ چھوڑ جائیں گی۔ پیر مریدوں سے اور مرید اپنے پیروں سے رفو چکر ہوجائیں گے اور ہر شخص کو اس کے اچھے برے اعمال کی پوری پوری جزاء وسزا دی جائے گی کسی پر ذرّہ برابر بھی ظلم نہیں ہونے پائے گا۔ مسائل ١۔ اہل کتاب کو اسلام کی دعوت دی جائے تو ان کی اکثریت اعراض کرتی ہے۔ ٢۔ یہودیوں کا عقیدہ ہے کہ ہم چند دن ہی جہنم میں جائیں گے۔ ٣۔ یہودیوں کے خود ساختہ دین نے ہی انہیں گمراہ کردیا ہے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن سب کو جمع کرے گا۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ ہر کسی کو پورا پورا بدلہ دے گا اور کسی پر ظلم نہیں ہوگا۔ تفسیربالقرآن کتاب اللہ سے اعراض کا نتیجہ : ١۔ قرآن سے اعراض کرنے والے ظالم اور گمراہ ہیں۔ (الکہف : ٥٧) ٢۔ قرآن سے منہ پھیرنے والوں کی سزا۔ (السجدۃ: ٢٢) ٣۔ قرآن سے اعراض کرنے والے قیامت کے دن اندھے ہوں گے۔ (طٰہٰ: ١٢٤، ١٢٥) ٤۔ اعراض اور گناہوں کا بوجھ اٹھانا پڑے گا۔ (طٰہٰ: ١٠٠، ١٠١) ٥۔ قرآن کا انکار برے لوگ ہی کرتے ہیں۔ (البقرۃ: ٩٩) ٦۔ انہیں دنیا اور آخرت میں دوہرا عذاب ہوگا۔ (بنی اسرائیل : ٧٥) آل عمران
24 آل عمران
25 آل عمران
26 فہم القرآن ربط کلام : اہل کتاب اسلام کی عظمت، غلبہ اور نبی محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عزت ختم کرنے کے درپے ہیں جب کہ عزت وذلت، اختیارواقتدار، موت وحیات اور ہر چیز اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے۔ یہودی اپنے آپ کو سلسلۂ نبوت کا وارث سمجھتے ہیں جس بنا پر انہوں نے عیسیٰ (علیہ السلام) کو تختہ دار پر لٹکانے کی سازش کی اور اسی بنا پر یہ رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)، اسلام اور مسلمانوں کی مخالفت کے درپے ہوئے اور رہتے ہیں۔ ان کا یہ عقیدہ ہے کہ دنیا میں سب سے پاک، معزز اور اللہ تعالیٰ کے مقرب یہودی ہیں لہٰذا جب بھی غلبۂ اسلام یا مسلمانوں کی عزت واقبال کی بات ہو تو یہ لوگ اپنے آپ سے باہر ہوجاتے ہیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے میں ان کا حسدوبغض اپنے عروج پر پہنچا ہوا تھا۔ جب کبھی مسلمانوں کو تابناک مستقبل کے بارے میں خوشخبری سنائی جاتی تو یہودی طعنہ زن ہوتے کہ جنہیں پہننے کے لیے کپڑا، کھانے کے لیے روٹی، سر چھپانے کے لیے مکان میسر نہیں اور جن کا معاشرے میں کوئی مقام نہیں کیا یہ لوگ سلطنت رومہ پر قابض اور ایران کے فاتح بنیں گے؟ ایسے لوگوں کی غلط فہمی دور کرنے کے لیے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ عظیم دعا سکھلائی گئی جو دعابھی ہے مستقبل کی پیش گوئی بھی اور مسلمانوں کے عقیدے کی ترجمانی بھی کرتی ہے۔ اس میں مسلمان اپنے مولا کے حضور اس خواہش کا اظہار اور فریاد کرتا ہے کہ الٰہی! اس لا محدود اور بے کنار مملکت کا تو ہی مالک اور بادشاہ ہے تیرے اختیار میں ہے کہ تو گداؤں کو بادشاہ بنادے اور بادشاہوں کو دربدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور کردے۔ عزت والوں کو ان کی سر مستیوں کی وجہ سے ذلیل کردے اور لوگوں کی نظروں میں ناچیز اور حقیروں کو معزز اور محترم ٹھہرادے۔ پوری کی پوری خیر تیرے ہی قبضہ میں ہے بلاشک تو ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے۔ لیکن یہودیوں کی طرح کتنے لوگ اور حکمران ہیں جو ”أَنَا وَلَا غَیْرِیْ“ کے نعرے لگاتے ہیں کہ ہمارے اقتدار اور اختیار کو چیلنج کرنے والا کوئی نہیں۔ ہماری طرف بڑھنے والے ہاتھ کاٹ دیے جائیں گے۔ لیکن جب احکم الحاکمین کا فیصلہ صادر ہوا تو جو ہاتھ بادشاہوں، افسروں اور لیڈروں کے گلے میں پھول پہنایا کرتے تھے وہی ہاتھ ان کی موت کا سبب ثابت ہوئے۔ یہاں اسی عقیدے کی ترجمانی کی گئی ہے۔ الٰہی ! توہی رات کو دن میں اور دن کی روشنی کو رات کی تاریکیوں میں گم کرتا ہے۔ تو مردہ سے زندہ پیدا کرتا اور زندہ سے مردہ نکالتا ہے۔ تیرے ہی ہاتھ میں ہماری روزی ہے تو جسے چاہے بغیر حساب کے عطا فرماتا ہے۔ دعا کا مفہوم یہ ہے کہ جس طرح رات کے اندھیروں کے بعد دن کا اجالا ہوتا ہے اسی طرح مصائب اور مشکلات کے بعد آسانیاں ہوا کرتی ہیں۔ جس طرح دن کی روشنی کو رات کی تاریکیاں آلیتی ہیں ایسے ہی تندرستی کے بعد بیماری، دولت کے بعد غربت اور کامیابی کے بعد ناکامی آدمی کا مقدر بن جاتی ہے۔ گویا کہ جس طرح زندگی دن رات سے عبارت ہے اسی طرح غمی و خوشی اور بیماری و تندرستی آپس میں جڑے ہوئے اور زندگی کا حصہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے بے حساب رزق دینے کا معنیٰ یہ ہے کہ جب وہ دینے پر آتا ہے تو لینے والے کو بھی اندازہ نہیں رہتا۔ یہ اس کے بے حساب رزق دینے کا ہی نتیجہ ہے کہ مالداروں نے اپنا حساب و کتاب رکھنے کے لیے کئی کئی کیشیئر اور کلرک رکھے ہوتے ہیں۔ اب تو کیش گننے کے لیے کمپیوٹر اور مشینیں ایجاد ہوچکی ہیں۔ اس کے باوجود بھی مال داروں کو اپنی جائیداد اور سرمایہ کا اندازہ نہیں ہوتا اس میں سرمایہ دار کی محنت سے زیادہ اللہ تعالیٰ کی رزّاقی اور اس کی مشیت کا دخل ہوتا ہے جس کی حکمت وہی جانتا ہے۔ مسائل ١۔ اقتدار و زوال اور عزّت و ذلّت اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے۔ ٢۔ ہر قسم کی خیر اس کے ہاتھ میں ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ رات کو دن اور دن کو رات میں داخل کرنے والا ہے۔ ٤۔ وہ زندہ سے مردہ اور مردہ سے زندہ نکالتا اور بے حساب رزق دینے والا ہے۔ تفسیربالقرآن اللہ تعالیٰ کے اختیارات : ١۔ اللہ زندہ کو مردہ اور مردہ کو زندہ سے نکالتا ہے۔ (آل عمران : ٢٧) ٢۔ اللہ جسے چاہتا ہے معزز اور جسے چاہتا ہے ذلیل کرتا ہے۔ (آل عمران : ٢٦) ٣۔ اللہ مردے کو زندہ کرنے پر قادر ہے۔ (الاحقاف : ٣٣) ٤۔ اللہ سب کو مار کر دوسری مخلوق پیدا کرسکتا ہے۔ (النساء : ١٣٣) آل عمران
27 آل عمران
28 فہم القرآن ربط کلام : جب عزت وذلت اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے تو ذاتی مفاد اور دنیوی عزت کی خاطر اسلام دشمن قوتوں کے ساتھ قلبی محبت اور تعلق نہیں رکھنا چاہیے۔ دنیا میں جو لوگ جان بوجھ کر گناہوں سے نہیں بچتے قیامت کے دن خواہش کرنے کے باوجود عذاب سے نہیں بچ سکیں گے۔ مدینہ طیبہ میں ہجرت کے ابتدائی ایّام تک کئی مسلمان کافروں کو اپنا دوست اور خیر خواہ سمجھتے تھے۔ یہاں مسلمانوں کو کفار کے ساتھ رہنے کے بنیادی اصول سے آگاہ کیا جارہا ہے کہ کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ کفار کو اپنا دلی دوست بنائے اور اسے مومن بھائی سے مقدّم سمجھنے کی کوشش کرے۔ جو ایسا کرے گا اللہ تعالیٰ پر اس کی کوئی ذمّہ داری نہ ہوگی کیونکہ عزّت و ذلّت، غربت و دولت اور اختیار واقتدار اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔ عام طور پر یہی چیزیں ایک غریب آدمی کو امیر کے سامنے دست نگربناتی اور قریب کرتی ہیں۔ جب ہر قسم کی خیر اور سب کچھ اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے تو پھر مومن کو زیب نہیں دیتا کہ وہ اپنے ہم عقیدہ بھائی کو چھوڑ کر یا مومن سے زیادہ اللہ کے باغیوں کے ساتھ دوستی کا ہاتھ بڑھائے۔ البتہ وقتی طور پر کسی خوف یا مصلحت کی خاطر دوستی رکھی جاسکتی ہے۔ تفصیل کے لیے سورۃ توبہ رکوع 9 کی تلاوت کریں۔ اللہ تعالیٰ تمہیں صرف اپنی ذات سے ڈرنے کا حکم دیتا ہے اور اسی کی طرف تم نے پلٹ کر جانا ہے۔ تم کوئی چیز چھپاؤ یا اسے ظاہر کرو، اللہ تعالیٰ اس کو جانتا ہے کیونکہ وہ آسمانوں کے چپے چپے اور زمین کے ذرّے ذرّے سے واقف اور ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے۔ وہ تمہیں اس دن جمع کرے گا جس دن ہر کسی کے سامنے اس کے اچھے یا برے کام پیش کیے جائیں گے۔ مجرم اس وقت اس خواہش کا اظہار کرے گا کہ کاش! میرے اور میرے جرائم کے درمیان ایک وسیع خلیج حائل ہوجائے۔ سورۃ النباء آیت ٤٠ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : (وَیَقُوْلُ الْکَافِرُ یٰلَیْتَنِیْ کُنْتُ تُرَابًا) ” کافر کہے گا کاش میں مٹی کے ساتھ مٹی ہوتا۔“ اللہ تعالیٰ تمہیں اپنی ذات سے ڈراتا ہے۔ اس کی جلالت سے ڈرانے کا مقصد یہ ہے کہ تم کفار اور اپنے مفاد کے چھن جانے سے نہ ڈروبلکہ اللہ تعالیٰ کی ذات کبریا سے ڈرتے رہو۔ جو اس سے ڈرتے ہیں وہ کسی سے نہیں ڈرا کرتے۔ اللہ تعالیٰ اپنے تابع فرمان بندوں کے ساتھ نہایت ہی شفقت ومہربانی کرنے والا ہے۔ مسائل ١۔ کافر کو دلی دوست بنانا جائز نہیں۔ ٢۔ مصلحت کی خاطر کافر سے عارضی دوستی ہوسکتی ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ سے ہی ڈرنا چاہیے، سب نے اسی کی طرف پلٹ کر جانا ہے۔ ٤۔ ہم کوئی چیز چھپائیں یا ظاہر کریں اللہ تعالیٰ اسے جانتا ہے۔ ٥۔ قیامت کے دن ہر آدمی کے سامنے اس کے نیک اور برے اعمال پیش کئے جائیں گے۔ ٦۔ مجرم اپنے جرائم سے دور بھاگنے کی تمنا کرے گا۔ ٧۔ اللہ تعالیٰ مجرموں کو ڈرانے والا اور نیکوں کے ساتھ شفقت کرنے والا ہے۔ تفسیربالقرآن کفار سے قلبی دوستی کی اجازت نہیں : ١۔ کافروں سے دوستی کی ممانعت۔ (آل عمران : ٢٨) ٢۔ کافروں کو خوش کرنے کی ممانعت۔ ( الانعام : ١٥٠) ٣۔ کفار کی پیروی کا نقصان۔ ( آل عمران : ١٤٩) ٤۔ جب تک یہود و نصارٰی کی پیروی نہ کی جائے یہ خوش نہیں ہوتے۔ (البقرہ : ١٢٠) ٥۔ یہود و نصارٰی کی پیروی پر انتباہ۔ (البقرہ : ١٢٠) آل عمران
29 آل عمران
30 آل عمران
31 فہم القرآن ربط کلام : اسلام کے دشمنوں سے محبت رکھنے کے بجائے اللہ تعالیٰ سے محبت کرو اور یہ اطاعت رسول کے بغیر ممکن نہ ہوگی۔ دنیا میں ہر مذہب کے لوگوں نے اللہ تعالیٰ کی قربت ومحبت کے حصول کے لیے اپنے اپنے طریقے ایجادکررکھے ہیں۔ یہودی اپنے آپ کو انبیاء کی اولاد اور خود کو ان کا وارث سمجھتے ہیں۔ اس بنا پر ان کا دعویٰ ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے سب سے زیادہ مقرب ہیں۔ مشرکوں نے اپنے بزرگوں، بتوں اور مزارات کو اللہ تعالیٰ کی قربت کا وسیلہ ٹھہرا لیا ہے کچھ لوگوں نے دنیا سے لاتعلق ہو کر گوشہ نشینی، صحرا نور دی اور چلہ کشی کو اللہ تعالیٰ کی قربت کا ذریعہ بنایا ہے۔ عیسائیوں نے عیسیٰ (علیہ السلام)‘ ان کی والدہ، پوپ اور پادری کو درجہ بدرجہ اللہ تعالیٰ کے تقرب کا زینہ بنایا ہے۔ مسلمانوں نے زندہ اور فوت شدہ بزرگوں کو وسیلہ بنا لیا ہے۔ یہاں مثبت اور لطیف انداز میں ان طریقوں کی نفی کرتے ہوئے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اعلان کروایا گیا ہے کہ اے لوگو! اگر تم اللہ تعالیٰ کی محبت کے طلب گار ہو تو اس کے لیے صرف ایک ہی راستہ ہے کہ تم صرف اور صرف میری فرمانبرداری کرو۔ کیونکہ آپکی اطاعت ہی اللہ تعالیٰ کی اطاعت ہے۔ جس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ تم سے محبت کرتے ہوئے تمہارے گناہوں کو معاف فرمائے گا۔ اللہ معاف کرنے والا‘ نہایت ہی مہربان ہے۔ مسلمان اور کافر کے درمیان یہی بنیادی فرق ہے ورنہ عیسائی، یہودی، مجوسی، ہندو، سکھ، بدھ مت، غرضیکہ دنیا میں کوئی ایسی قوم نہیں جو کسی نہ کسی طریقے سے اللہ تعالیٰ کی ذات کا اعتراف اور اس کی عبادت نہ کرتی ہو۔ آخر کیا وجہ ہے کہ قرآن مجید انہیں کافر گردانتا ہے؟ اگر مسلمان بھی اللہ تعالیٰ کی ذات کو اپنے اپنے انداز میں مانیں اور اس کی عبادت اپنے اپنے طریقے سے کریں تو مقام رسالت اور آپ کی اتباع کی کیا حیثیت باقی رہ جاتی ہے ؟ کاش کہ مسلمان اتباع رسول کو سمجھنے کی کوشش کریں اور آپ کی اطاعت کو اللہ تعالیٰ کی محبت کا وسیلہ بنا کر دنیا وآخرت کی کامرانیوں سے سرفراز ہوجائیں۔ مقام نبوت اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اتباع کو سمجھنے کے لیے عقل مند کے لیے آپ کا ایک ہی ارشاد کافی ہے جو شخص اس کے باوجود اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت سے انحراف کرتا ہے اسے سمجھ لینا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ انکار کرنے والوں کو ہرگز پسند نہیں کرتا۔ ایک دن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور حضرت ابو بکر (رض) تشریف فرما تھے کہ حضرت عمر (رض) نے اچانک آپ کے سامنے تورات کا کچھ حصہ پڑھنا شروع کیا جس میں قرآن مجید کے احکامات کی تائید پائی جاتی تھی۔ جوں جوں حضرت عمر (رض) تورات پڑھ رہے تھے آپ کا چہرہ متغیر ہورہا تھا۔ حضرت ابو بکر (رض) نے یہ صورت حال دیکھی تو انہوں نے عمر (رض) کی توجہ اس طرف مبذول کروائی کہ آپ تورات پڑھے جارہے ہیں جب کہ سرور دو عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس پر خوش نہیں ہیں۔ حضرت عمر (رض) نے معذرت خواہانہ انداز میں عرض کیا کہ میں تو اللہ اور اس کے رسول پر مطمئن اور راضی ہوں تب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ ارشاد فرمایا جو ہر مسلمان کے لیے مشعل زندگی ہونا چاہیے۔ آپ نے فرمایا : ( وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہٖ لَوْ أَنَّ مُوْسٰی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کَانَ حَیًّا مَا وَسِعَہٗ إِلَّا أَنْ یَّتَّبِعَنِیْ) [ مسند احمد : کتاب باقی مسند المکثرین، باب باقی مسند السابق] ” اس ذات کی قسم! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر موسیٰ (علیہ السلام) زندہ ہوتے تو انہیں بھی میری اتّباع کیے بغیر کوئی چارہ کار نہ ہوتا۔“ مسائل ١۔ رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اتباع ہی اللہ تعالیٰ کی محبت کا ذریعہ ہے۔ ٢۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اتباع کے سبب اللہ تعالیٰ گناہ معاف کرتا ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ کفار سے محبت نہیں کرتا۔ تفسیربالقرآن رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کے ثمرات : ١۔ رسول کی اطاعت اللہ کی اطاعت ہے۔ (النساء : ٨٠) ٢۔ اطاعت میں کامیابی ہے۔ (الاحزاب : ٧١) ٣۔ اللہ تعالیٰ کی مہربانی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت میں ہے۔ (آل عمران : ١٣٢) ٤۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت اللہ کی محبت اور بخشش کاذریعہ ہے۔ (آل عمران : ٣١) ٥۔ اطاعت رسول سے نبیوں، صدیقوں، شہداء اور صالحین کی رفاقت نصیب ہوگی۔ (النساء : ٦٩) ٦۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کرنے والوں کو جنت میں داخلہ نصیب ہوگا۔ (الفتح : ١٧) آل عمران
32 آل عمران
33 فہم القرآن ربط کلام : یہاں سے خطاب کا رخ عیسائیوں کی طرف کیا جارہا ہے۔ جس کی ابتدا حضرت آدم، حضرت نوح‘ حضرت ابراہیم اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے خاندانی حالات سے کی گئی ہے کہ یہ سب انسان تھے تو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کس طرح خدا بن گئے؟ عیسائیوں کے نظریات کی اصلاح، حضرت عیسیٰ اور مریم ( علیہ السلام) کے بارے میں ان کی غلط فہمیوں کو دور کرنے سے پہلے دنیا کی عظیم ترین شخصیات کا اس لیے حوالہ دیا جارہا ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) اللہ تعالیٰ کے کلمہ اور محبوب پیغمبر ہیں‘ مگر ان شخصیات سے عظیم تر نہیں بلکہ وہ انہی کے روحانی اور نسبی فرزند ہیں۔ چنانچہ عیسیٰ (علیہ السلام) کا خاندانی پس منظر اس طرح ہے کہ جب ان کے نانا حضرت عمران (علیہ السلام) کی بیوی نے اپنے رب کے حضور یہ نذر مانی کہ اے اللہ! میرے بطن میں جو ہے میں اسے تیرے لیے وقف کرتی ہوں۔ تو میری طرف سے اسے قبول فرما۔ لیکن جب اس نے جنم دیا تو وہ بیٹے کی بجائے بیٹی تھی اس نے اپنے رب کے حضور عرض کی کہ الٰہی! یہ تو بیٹی پیدا ہوئی ہے۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ خوب جانتا تھا جو اس نے جنم دیا ہے بلا شبہ لڑکی لڑکے کی مانند نہیں ہوسکتی۔ زوجہ عمران نے اس کا نام مریم رکھنے کے بعد دعا کی کہ الٰہی! میں اسے اور اس کی اولاد کو شیطان لعین سے تیری پناہ میں دیتی ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی فریاد کو خوب قبول فرمایا اور حضرت مریم (علیہ السلام) کی بہترین نشوونما فرمائی اور اس کی کفالت حضرت زکریا (علیہ السلام) کے ذمہ ٹھہری۔ حضرت مریم ع[ کی پیدائش کے بارے میں مشہور مفسر امام رازی لکھتے ہیں کہ مریم کی والدہ نہایت ہی بوڑھی ہوچکی تھیں۔ ایک دن ایک درخت کے نیچے تشریف فرما تھیں۔ کیا دیکھتی ہیں کہ ایک پرندہ اپنے بچوں کے منہ میں منہ ڈال کر دانہ کھلا رہا ہے اس منظر نے ان کی طبیعت میں عجیب احساس پیدا کیا۔ فوراً اللہ تعالیٰ کے حضور فریاد کرنے لگیں کہ الٰہی! اگر تو مجھے بیٹا عطا فرمائے تو میں اسے تیری راہ میں وقف کروں گی جس کے نتیجے میں مریم [ پید اہوئیں۔ ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے ہوئے سنا کہ آدم (علیہ السلام) کی اولاد میں ہر پیدا ہونے والے بچے کو شیطان مس کرتا ہے۔ بچہ شیطان کے چھونے کی وجہ سے چیختا ہے لیکن مریم اور عیسیٰ (علیہ السلام) اس سے مستثنیٰ ہیں۔ پھر ابوہریرہ (رض) نے اس آیت کی تلاوت کی (وَإِنِّیْ أُعِیْذُھَا بِکَ وَذُرِّیَّتَھَا مِنَ الشَّیْطَان الرَّجِیْمِ) [ رواہ البخاری : کتاب أحادیث الأنبیاء، باب قول اللہ تعالیٰ واذکر فی الکتاب مریم] (عَنْ عَاءِشَۃَ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ مَنْ نَذَرَ أَنْ یُّطِیْعَ اللّٰہَ فَلْیُطِعْہُ وَمَنْ نَذَرَ أَنْ یَّعْصِیَہٗ فَلَا یَعْصِہٖ) [ رواہ البخاری : کتاب الأیمان والنذور، باب النذر فی الطاعۃ] ” حضرت عائشہ (رض) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتی ہیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس نے نذرمانی کہ وہ اللہ کی اطاعت کرے گا تو اسے پورا کرنا چاہیے اور جو اس کی نافرمانی کی نذر مانے اسے اس سے باز رہنا چاہیے۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم (علیہ السلام) حضرت نوح (علیہ السلام) آل ابراہیم اور آل عمران کو منتخب کرلیا تھا۔ ٢۔ نذر پوری کرنی چاہیے۔ ٣۔ حضرت مریم اور حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے شیطان کے شر سے محفوظ رکھا۔ تفسیربالقرآن اللہ تعالیٰ کے منتخب کردہ حضرات : ١۔ آدم، نوح (علیہ السلام)، آل ابراہیم اور آل عمران۔ (آل عمران : ٣٣) ٢۔ حضرت مریم [۔ (آل عمران : ٤٢) ٣۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام)۔ (الاعراف : ١٤٤) ٤۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) منفرد اور منتخب۔ (البقرۃ: ١٣٠) ٥۔ حضرت اسحاق و یعقوب (علیہ السلام) اللہ کے منتخب کردہ ہیں۔ (ص : ٤٥ تا ٤٧) ٦۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رحمۃ للعالمین اور خاتم النبیین ہیں۔ (الانبیاء : ١٠٧‘ الاحزاب : ٤٠) آل عمران
34 آل عمران
35 آل عمران
36 آل عمران
37 فہم القرآن ربط کلام : گزشتہ سے پیوستہ۔ حضرت مریم [ جب بڑی ہوئیں تو انہیں حضرت زکریا (علیہ السلام) کی کفالت میں دیا گیا۔ اس زمانے کے مذہبی رواج کے مطابق اللہ تعالیٰ کی راہ میں وقف لوگ تارک الدّنیا ہو کر مسجد اقصیٰ میں تعلیم وتربیت اور ذکر واذکار میں مصروف رہتے تھے۔ ان میں وہ عورتیں بھی شامل ہوتی تھیں۔ جنہوں نے اپنے آپ کو دنیا کے معاملات سے الگ کرلیا ہوتا تھا۔ چنانچہ حضرت مریم [ انہی ذاکرات میں شامل ہو کر اپنے حجرے میں محو عبادت رہا کرتی تھیں۔ ان کے کھانے پینے کا انتظام ان کے خالو حضرت زکریا (علیہ السلام) کے سپر دتھا۔ ایک دن زکریا (علیہ السلام) ان کے ہاں حجرے میں تشریف لائے تو ان کے پاس غیر موسمی عمدہ پھل دیکھ کر ششدر رہ گئے۔ حیران ہو کر پوچھتے ہیں کہ بیٹی مریم یہ پھل کہاں سے آئے ہیں ؟ مریم [ نے جواب دیا کہ یہ اللہ تعالیٰ کی عطا کا نتیجہ ہے۔ اللہ تعالیٰ جسے چاہے بلا حساب رزق سے نوازتا ہے۔ یہ سنتے اور خدا کی قدرت دیکھتے ہی حضرت زکریا (علیہ السلام) کے رونگٹے کھڑے ہوئے اور وجود تھرّانے لگا اور بے ساختہ ہاتھ اللہ کے حضور اٹھے اور فریاد کرنے لگے کہ اے میرے رب! مجھے بھی اپنی جناب سے نیکو کار اولاد نصیب فرما یقینًا تو دعا سننے والا ہے زکریا (علیہ السلام) ابھی اسی حجرے میں نماز کی حالت میں کھڑے تھے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملائکہ کا نزول ہوا اور انہوں نے آپ کو یہ نوید سنائی کہ اے زکریا! خوش ہوجائیے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو بیٹا عطا فرمائیں گے جس کا نام یحییٰ ہوگا وہ اللہ تعالیٰ کے کلمے کی تصدیق کرے گا اور وہ سردار ہوگا نہایت ہی پاک باز، اپنے آپ کی حفاظت کرنے والا اور انبیاء میں سے ہوگا۔ کلمہ سے مراد اللہ تعالیٰ کی کتاب اور عیسیٰ (علیہ السلام) ہیں۔ حصورًا کا معنی ہے کہ مجرّد رہیں گے جس کی غالبًا حکمت یہ تھی کہ یہود دنیا کے بندے بن چکے تھے۔ دنیا سے بے رغبتی دلانے کے لیے حضرت یحییٰ (علیہ السلام) نے اپنی ذات کو نمونہ کے طور پر پیش کیا تاکہ ان میں دنیا کے بارے میں بے رغبتی پیدا ہوسکے۔ مسائل ١۔ حضرت مریم [ کو اللہ تعالیٰ نے خصوصی نشو و نما سے نوازا تھا۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے بلا حساب رزق دیتا ہے۔ ٣۔ حضرت یحییٰ (علیہ السلام) سردار اور شرم وحیا والے نبی تھے۔ تفسیربالقرآن حضرت مریم [ کی کفالت : ١۔ کفالت میں جھگڑا۔ (آل عمران : ٤٤) ٢۔ جھگڑے کے حل کا طریقہ کار۔ (آل عمران : ٤٤) ٣۔ حضرت زکریا (علیہ السلام) کفیل ہوئے۔ (آل عمران : ٣٧) اولاد کی بشارت : ١۔ زکریا (علیہ السلام) کو یحییٰ (علیہ السلام) کی بشارت۔ (مریم : ٧) ٢۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو اسماعیل (علیہ السلام) کی خوشخبری۔ (الصافات : ١٠١، الذاریات : ٢٨) ٣۔ مریم [ کو عیسیٰ (علیہ السلام) کی بشارت۔ (مریم : ١٧، ١٩) ٤۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو حضرت اسحاق (علیہ السلام) اور پوتے کی خوشخبری۔ (ھود : ٧١) آل عمران
38 آل عمران
39 آل عمران
40 فہم القرآن ربط کلام : خطاب کا تسلسل جاری ہے۔ قدرت کاملہ کی طرف سے دنیا میں کچھ واقعات ایسے رونما ہوتے ہیں کہ جن کے ظہور پذیر ہونے سے پہلے آدمی ان کی توقع نہیں کرسکتا۔ لیکن انسان کے دیکھتے ہی دیکھتے وہ سامنے آجاتے ہیں اور آدمی ان کو دیکھ کر حیرت کی تصویر بن جاتا ہے ایسے واقعات پر تعجب کا اظہار کرنے سے کوئی شخص مستثنیٰ نہیں ہوا کرتا۔ یہاں تک کہ کچھ واقعات پر انبیاء کرام (علیہ السلام) بھی تعجب میں مبتلا ہوجاتے۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی پیدائش اور زندگی سے متعلقہ کئی واقعات ایسے ہیں جو زمانے میں پہلی اور ایک ہی دفعہ رونما ہوئے۔ ان واقعات میں ایک واقعہ یہ بھی ہے کہ جب حضرت زکریا (علیہ السلام) نے حضرت مریم [ کے پاس بے موسم پھل دیکھے تو پوچھا کہ مریم! یہ پھل کہاں سے آئے ہیں ؟ حضرت مریم (علیہ السلام) نے عرض کیا کہ خالو جان! یہ اللہ تعالیٰ کی عنایت کا نتیجہ ہیں وہ جسے چاہے بغیر اسباب اور بے حساب رزق عطا فرماتا ہے۔ جناب زکریا (علیہ السلام) کے کلیجے پر چوٹ لگی کہ مریم کو بے موسم پھل اس حجرے میں مل سکتے ہیں تو مجھے اس عمر میں اولاد کیوں نہیں مل سکتی؟ چنانچہ بے ساختہ دعا نکلی اے رب العالمین! مجھے بھی اپنی قدرت کاملہ سے نیک اولاد عطا فرما۔ اس دعا کے صلہ میں جب ملائکہ نے انہیں بیٹے کی خوشخبری سنائی اور کہا کہ اس کا نام یحییٰ ہوگا اور اس سے پہلے اس نام کا کوئی شخص نہیں ہوا۔ تو زکریا (علیہ السلام) حیرت زدہ ہو کر اللہ کے حضور عرض کرتے ہیں کہ بارِ الٰہ! مجھے کس طرح بیٹا نصیب ہوگا جب کہ میں بوڑھا اور میری بیوی جسمانی طور پر بچہ جننے کے لائق نہیں؟ حالانکہ وہ اس سے پہلے دعا کیا کرتے تھے کہ میری بیوی بانجھ اور میرے بال بڑھاپے سے سفید ہوچکے ہیں اس کے باوجوداللہ! میں تیرے کرم سے مایوس نہیں ہوا۔ (مریم ٢ تا ٧) لیکن ملائکہ نے اللہ تعالیٰ کی طرف سے خوشخبری سنائی تو تعجب کا اظہار فرمانے لگے مگر تعجب کا اظہارملائکہ سے کرنے کے بجائے براہ راست اللہ تعالیٰ سے کرتے ہیں۔ کیونکہ اولاد دینے والا تو وہی ہے اور یہ خوشخبری بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے تھی۔ فرشتہ تو محض پیغام رساں ہے۔ زکریا (علیہ السلام) کے تعجب کے جواب میں ارشاد ہوا کہ میرے بندے ! اللہ اپنے کام کو خود ہی جانتا ہے اور وہ اسی طرح ہی کرتا ہے جس طرح اس کی منشا ہوا کرتی ہے۔ پھر عرض کرنے لگے : اے رب! میرے لیے بیٹے کی کوئی واضح نشانی ہونی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تم تین دن تک لوگوں سے اشارے کے علاوہ کلام نہیں کرسکو گے ان دنوں خاص طور پر صبح وشام اللہ تعالیٰ کی حمد اور اس کا شکریہ ادا کرتے رہو۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ مسبب الاسباب ہے وہ جس طرح چاہے کرتا ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ بانجھ عورت کو بچہ دے سکتا ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ کو صبح و شام کثرت کے ساتھ یاد کرنا چاہیے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ بڑھاپے میں بھی اولاد دیتا ہے۔ تفسیربالقرآن اللہ تعالیٰ بڑھاپے میں اولاد دینے پر قادرہے : ١۔ زکریا (علیہ السلام) کو بڑھاپے میں اولاد دی۔ (مریم : ٧، ٨) ٢۔ ابراہیم (علیہ السلام) کو بڑھاپے میں اولاد عطا فرمائی۔ (ھود : ٧١، ٧٢) اللہ کا ذکر : ١۔ اللہ کا ذکر بڑی چیز ہے۔ (العنکبوت : ٤٥) ٢۔ اللہ کا ذکر کرنے کا حکم۔ (البقرۃ: ١٥٢) ٣۔ اللہ کو کثرت سے یاد کرو۔ (الانفال : ٤٥) ٤۔ اللہ کو گڑگڑا کر صبح وشام آہستہ یاد کرو۔ (الأعراف : ٢٠٥) ٥۔ اللہ کے ذکر سے دل مطمئن ہوتے ہیں۔ (الرعد : ٢٨) ٦۔ اللہ کے ذکر سے غافل لوگوں پر شیطان کا تسلط ہوتا ہے۔ (الزخرف : ٣٦) ٧۔ اللہ کے ذکر سے غافل لوگ گھاٹے میں ہیں۔ (المنافقون : ٩) ٨۔ اللہ کے ذکر سے اعراض کرنا اس کے عذاب کو دعوت دینا ہے۔ (الجن : ١٧) آل عمران
41 آل عمران
42 فہم القرآن ربط کلام : خطاب کا رخ حضرت مریم [ کی طرف ہوتا ہے۔ سلسلۂ کلام یہاں تک پہنچا کہ حضرت مریم [ کی والدہ جو حضرت عمران (علیہ السلام) کی بیوی اور عیسیٰ (علیہ السلام) کی نانی ہیں انہوں نے نذر مانی تھی کہ اللہ تعالیٰ اسے بیٹا عطا فرمائے گا تو وہ اس کو اللہ تعالیٰ کی نذر کر دے گی لیکن بیٹے کے بجائے مریم پیدا ہوئی تو اس نے مریم کو ہی اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لیے وقف کردیا جو مسجد اقصیٰ کے متصل ایک حجرے میں اللہ تعالیٰ کی عبادت میں مشغول رہتی تھی۔ جب حضرت مریم [ سن بلوغت کو پہنچی تو اللہ تعالیٰ کے حکم سے ملائکہ نے یہ پیغام دیا کہ اے مریم! اللہ نے تجھے منتخب فرمالیا ہے گناہوں، حیض ونفاس اور لوگوں کے الزامات سے پاک کردیا ہے اور تجھے دنیا کی عورتوں پر فضیلت عطا فرمائی ہے لہٰذا اے مریم! اپنے رب کی تابعدار بن جا، اس کے حضور سجدہ ریز ہوتی رہو اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرتی رہو۔ (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ جَعْفَرٍ قَالَ سَمِعْتُ عَلِیًّا (رض) یَقُوْلُ سَمِعْتُ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَقُوْلُ خَیْرُنِسَاءِھَا مَرْیَمُ ابْنَۃُ عِمْرَانَ وَخَیْرُ نِسَاءِھَا خَدِیْجَۃُ)[ رواہ البخاری : کتاب أحادیث الأنبیاء، باب وإذ قالت الملائکۃ یامریم] ” حضرت عبداللہ بن جعفر کہتے ہیں میں نے حضرت علی (رض) سے سنا وہ کہتے تھے میں نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے ہوئے سنا کہ عورتوں میں مریم بنت عمران (علیہ السلام) اور خدیجہ (رض) بہترین عورتیں ہیں۔“ (عَنْ أَبِیْ سَعِیْدٍ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَاطِمَۃُ سَیِّدَۃُ نِسَاءِ أَھْلِ الْجَنَّۃِ) [ مسند احمد : کتاب باقی مسند المکثرین، باب مسند أبی سعید الخدری] ” حضرت ابو سعید (رض) فرماتے ہیں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے کہ فاطمہ جنتی عورتوں کی سردار ہے۔“ (عَنْ أَبِیْ مُوْسَی الْأَشْعَرِیِّ (رض) قَالَ قَال النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَضْلُ عَاءِشَۃَ عَلَی النِّسَآءِ کَفَضْلِ الثَّرِیْدِ عَلٰی سَآءِرِ الطَّعَامِ کَمُلَ مِنَ الرِّجَالِ کَثِیْرٌ وَّلَمْ یَکْمُلْ مِنَ النِّسَاءِ إِلَّا مَرْیَمُ بْنَتُ عِمْرَانَ وَآسِیَۃُ امْرَأَۃُ فِرْعَوْنَ) [ رواہ البخاری : کتاب أحادیث الأنبیاء، باب قول اللہ تعالیٰ إذ قالت الملائکۃ یامریم إن اللہ یبشرک] ” حضرت ابو موسیٰ اشعری (رض) بیان کرتے ہیں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : عورتوں میں عائشہ کی فضیلت ایسے ہے جیسے تمام کھانوں پر ثرید کی ہے‘ مردوں میں کامل لوگ بہت ہیں لیکن عورتوں میں مریم بنت عمران اور آسیہ زوجۂ فرعون کے علاوہ کوئی کامل نہیں۔“ علامہ رازی نے امام اوزاعی کے حوالے سے لکھا ہے کہ حضرت مریم [ اس قدر نماز میں طویل قیام کرتی کہ ان کے پاؤں سے خون رسنا شروع ہوجاتا۔ واقعہ کے بیان میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ میرے پیغمبر! یہ غیب کی خبریں ہیں جو تمہارے سامنے بیان کی جارہی ہیں کیونکہ تم اس وقت موجود نہیں تھے جب لوگ مریم کو اپنی کفالت میں لینے کے لیے باہم جھگڑتے ہوئے قلموں کے ذریعے قرعہ اندازی کر رہے تھے۔ اہل علم نے لکھا ہے کہ اس زمانے میں مذہبی لوگوں میں رواج تھا کہ جب کسی بات کا فیصلہ نہ ہوپاتا تو وہ ان قلموں کو پانی میں پھینکتے جن کے ذریعے تورات کی کتابت کی جاتی تھی جس کا قرعہ نکلتا اس کا قلم پانی کے بہاؤ کی طرف بہنے کے بجائے وہیں ٹھہرا رہتا یا الٹا چلنا شروع ہوجاتا۔ اس طرح حضرت زکریا (علیہ السلام) کا نام نکلا جو رشتہ میں حضرت مریم [ کے خالو لگتے تھے۔ حضرت مریم [ کی کفالت پر یہ لوگ اس لیے جھگڑتے تھے کہ حضرت مریم [ کو اللہ تعالیٰ نے ابتدا میں ہی اپنے ہاں ایک مقام سے نوازا تھا۔ وہ بچپن میں نہایت ہی معصوم، شرم وحیا کا مجسمہ اور حسن وجمال کی پیکر تھی۔ ان کے وجود کی برکات اور کرامات لوگ دیکھ چکے تھے۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت مریم [ کو ہر قسم کے عیب سے پاک اور عورتوں پر فضیلت عطا فرمائی۔ ٢۔ حضرت مریم [ عبادت گزار اور اللہ تعالیٰ کی فرمانبردار تھی۔ ٣۔ یہ غیب کی خبریں اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر وحی فرمائی ہیں۔ تفسیربالقرآن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حاضر وناظر نہیں ہیں : ١۔ مریم [ کی کفالت کے وقت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حاضر نہ تھے۔ (آل عمران : ٤٤) ٢۔ اخوان یوسف کے مکر کے وقت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) موجود نہ تھے۔ (یوسف : ١٠٢) آل عمران
43 آل عمران
44 آل عمران
45 فہم القرآن ربط کلام : گزشتہ سے پیوستہ۔ اب وہ وقت آن پہنچا جس کے لیے اللہ تعالیٰ نے حضرت مریم [ کو پاک، معزز اور اس زمانے کی عورتوں پر فضیلت عطا فرمائی تھی۔ چنانچہ حضرت مریم [ کے پاس فرشتے حاضر ہو کر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک بیٹے کی خوشخبری کا اشارہ دیتے ہوئے بتلاتے ہیں کہ اس کا لقب مسیح اور نام عیسیٰ بن مریم جو دنیا وآخرت میں نہایت ہی وجیہ اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک مقرب بندوں میں ہوگا۔ وَجِیْھاً کا معنیٰ ہے معزز، تروتازہ وہشاش بشاش، نہایت ہی خوبصورت چہرے والا۔ یہی وجہ ہے کہ جب رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) معراج سے واپس آکر انبیاء کے ساتھ ہونے والی ملاقات کے بارے میں صحابہ کرام (رض) کو تفصیل بتارہے تھے تو آپ نے عیسیٰ (علیہ السلام) کے متعلق فرمایا : (رَبْعَۃٌ أَحْمَرُکَأَنَّمَا خَرَجَ مِنْ دِیْمَاسٍ یَعْنِی الْحَمَّامَ) [ رواہ البخاری :أحادیث الانبیاء، باب قول اللہ واذکر فی الکتاب مریم] ” درمیانے قد اور سرخ رنگ کے تھے گویا کہ وہ حمام سے غسل فرما کر ابھی نکلے ہوں۔“ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو دو وجہ سے مسیح کہا جاتا ہے ایک یہ کہ اس زمانے میں نیک اور معزز شخص کو مذہبی لوگ ایک خاص قسم کا تیل لگاتے تھے دوسری وجہ حضرت ابن عباس (رض) بیان فرماتے ہیں چونکہ ان کے ہاتھ پھیرنے سے کوڑھی صحت مند اور پیدائشی نابینا‘ بینا ہوجاتا تھا اس لیے انہیں مسیح کہا جاتا ہے۔ عبرانی میں عیسیٰ کا معنیٰ سردار ہے۔ فرشتوں نے یہ بھی کہا کہ وہ گہوارہ اور بڑی عمر میں پہنچ کر لوگوں سے گفتگو کرے گا اور نیک سیرت ہوگا۔ جب حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) پیدا ہوئے تو حضرت مریم [ پر لوگوں نے تہمت لگائی تو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے اس وقت صاف اور مؤثر گفتگو کرتے ہوئے فرمایا کہ میں اللہ کا بندہ ہوں مجھے اللہ تعالیٰ نے کتاب عطا فرمائی ہے۔ ہر حال میں مجھے برکت دی گئی ہے اور میں اپنی والدہ کا خدمت گزار ہوں گا۔ (تفصیل کے لیے سورۃ مریم کی آیات ٣٠ تا ٤٣ تلاوت کیجیے۔) حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو تیس سال کی عمر میں نبوت عطا ہوئی اور پینتیس سال کی عمر میں انہیں آسمان پر اٹھا لیا گیا۔ ” کَہْلًا“ یعنی وہ بڑھاپے میں بھی لوگوں سے خطاب اور گفتگو کریں گے۔ اس لیے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ عیسیٰ (علیہ السلام) قیامت کے قریب دنیا میں تشریف لائیں گے اور میری اتّباع میں دین اسلام کی سربلندی کے لیے کام کریں گے گویا انہیں بڑھاپے کی عمر بھی دیکھنا نصیب ہوگی۔ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) عَنِ النَّبِیِِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ لَاتَقُوْمُ السَّاعَۃُ حَتّٰی یَنْزِلَ عِیْسَی ابْنُ مَرْیَمَ حَکَمًا مُقْسِطًاوَإِمَامًا عَادِلًا فَیَکْسِرُ الصَّلِیْبَ وَیَقْتُلُ الْخِنْزِیْرَ وَیَضَعُ الْجِزْیَۃَ وَیَفِیْضُ الْمَالُ حَتّٰی لَایَقْبَلَہٗ أَحَدٌ) [ رواہ ابن ماجۃ: کتاب الفتن، باب فتنۃ الدجال وخروج عیسیٰ ابن مریم] ” حضرت ابوہریرہ (رض) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا جب تک عیسیٰ بن مریم منصف حکمران اور عادل امام بن کر نہیں آتے۔ اس وقت تک قیامت قائم نہیں ہوگی وہ صلیب کو توڑیں گے‘ خنزیر کو قتل کریں گے‘ جزیہ ختم کریں گے اور مال کی فراوانی ہوگی یہاں تک کہ اسے کوئی قبول کرنے والا نہیں ہوگا۔“ اس سے یہودیوں کے دعو ٰی کی تردید ہوتی ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) پھانسی دیئے گئے ہیں۔ دوسری طرف عیسائیوں کے شرک کی نفی کی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات ولادت، بچپن اور بڑھاپا جیسی تبدیلیوں سے مبرّا ہے جب کہ عیسیٰ (علیہ السلام) کی زندگی میں بہت سے مدو جزر ہوئے اور قرب قیامت ان کے متعلق مزید واقعات رونما ہوں گے لہٰذاعیسیٰ (علیہ السلام) رب نہیں اللہ کا بندہ ہے۔ مسائل ١۔ عیسیٰ (علیہ السلام) دنیا و آخرت میں عزت والے اور اللہ کے مقرب ہیں۔ ٢۔ حضرت قرب قیامت آسمانوں سے زمین پر اتریں گے۔ تفسیربالقرآن حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے اوصاف : ١۔ بغیر باپ کے پیدا ہونا۔ (آل عمران : ٤٧) ٢۔ بچپن وبڑھاپے میں کلام کرنا۔ (آل عمران : ٤٦) ٣۔ مٹی سے پرندہ بنانا۔ (المائدۃ: ١١٠) ٤۔ ماد رزاداندھے اور کوڑھی کو درست کرنا۔ (آل عمران : ٤٩) ٥۔ لوگوں کی ذخیرہ شدہ اشیاء کی خبردینا۔ (آل عمران : ٤٩) ٦۔ باذن اللہ مردوں کو زندہ کرنا۔ (المائدۃ: ١١٠) ٧۔ روح اور جسم سمیت آسمانوں پر اٹھایا جانا۔ (آل عمران : ٥٥) آل عمران
46 آل عمران
47 فہم القرآن ربط کلام : حضرت مریم [ کو ولادت عیسیٰ (علیہ السلام) کی خوشخبری‘ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے اوصاف، معجزات اور ان کے مشن کا بیان۔ ملائکہ کی گفتگو ابھی جاری تھی کہ حضرت مریم (علیہ السلام) شرمندگی اور گھبراہٹ کے عالم میں فرشتوں کی بجائے اللہ تعالیٰ سے عرض کرنے لگیں کیونکہ فرشتے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہی عیسیٰ (علیہ السلام) کی خوشخبری دے رہے تھے۔ اے میرے رب! مجھے کیونکربیٹا ہوگا؟ جب کہ کسی بشر نے آج تک مجھے چھوا ہی نہیں۔ ارشاد ہواکہ اللہ تعالیٰ جس طرح چاہے پیدا کرتا ہے۔ جب وہ کسی کام کا فیصلہ کرلیتا ہے تو وہ صرف اس کام کے ہوجانے کا حکم دیتا ہے اور وہ کام اسی طرح ہوجا تا ہے۔ حضرت مریم [ یہ سوچنے لگی کہ میں کنواری ہوں میرے ماں باپ نے مجھے اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لیے وقف کر رکھا ہے۔ معاشرہ مجھے نیک اور باحیا سمجھتا ہے۔ قوم میں میرے خاندان کی نیک نامی کا شہرہ ہے‘ مجھے کسی انسان نے چھوا تک نہیں وہ انہی خیالات میں گم تھیں کہ اچانک حضرت جبریل امین (علیہ السلام) انسان کی شکل میں ظاہر ہوئے۔ حضرت مریم [ چونک اٹھیں کہ میں تجھے رب رحمٰن کا واسطہ دے کر کہتی ہوں کہ اگر تم واقعی نیک ہو تو میرے قریب نہ آنا۔ جبریل امین (علیہ السلام) نے فرمایا کہ میں تیرے رب کی طرف سے بھیجا ہواہوں تاکہ تجھے نیک بچہ عطا کروں۔ (سورۂ مریم آیت ١٩) حضرت جبریل (علیہ السلام) نے حضرت مریم [ کو عیسیٰ (علیہ السلام) کے اوصاف، خصوصیات، مرتبہ میں بتلاتے ہوئے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اسے کتاب اور حکمت ودانائی کی تعلیم دے گا تورات اور انجیل بھی سکھلائے گا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے عیسیٰ (علیہ السلام) کو لکھنے کا طریقہ سکھلایا‘ ان کی گفتگو اتنی حکیمانہ ہوتی کہ لوگ حیران رہ جاتے۔ اس کے ساتھ ہی انہیں انجیل سے نوازا اور تورات پر انہیں اتنا عبور تھا کہ اگر کوئی یہودی ان سے سوال کرتا تو وہ تورات کی عبارت کا زبانی حوالہ دے کر اسے قائل اور خاموش کردیتے۔ فرشتوں نے مریم [ کے سامنے یہ بات بھی واضح کی کہ وہ بنی اسرائیل کارسول ہوگا۔ چنانچہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) بنی اسرائیل سے مخاطب ہو کر فرماتے ہیں کہ میں تمہارے رب کی طرف سے کھلے دلائل اور معجزات لے کر آیا ہوں، میں تمہارے سامنے مٹی سے پرندہ بنا کر اس میں پھونک مارتا ہوں تو وہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے اڑنے لگتا ہے پیدائشی نابینے کو بینا، کوڑھی کو صحیح اور مردے کو اللہ تعالیٰ کے حکم سے زندہ کرتا ہوں پھر میں تمہیں یہ بھی بتلاتا ہوں کہ تم اپنے گھروں میں کیا کھاتے اور کیا جمع کرتے ہو ؟ یقیناً ان معجزات اور دلائل میں تمہارے لیے ہدایت کے بڑے ثبوت ہیں۔ اگر تم ایمان لانے کے لیے تیار ہو۔ میں تورات کی تائید کرتا ہوں اور ان چیزوں کو تمہارے لیے حلال کرتا ہوں جو تمہاری نافرمانیوں اور گستاخیوں کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے تم پر حرام قراردیں ہیں۔ ان چیزوں کو بھی تمہارے لیے جائز قرار دیتا ہوں جو تمہارے مذہبی پیشواؤں نے اپنی مرضی سے تم پر حرام کی ہیں۔ میں یہ سب دلائل و معجزات تمہارے رب کی طرف سے پیش کرتا ہوں لہٰذا اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور میری تابع داری میں لگ جاؤ۔ یہ بات پہلے بھی بیان ہوچکی ہے کہ نبی جس قوم میں مبعوث کیا جاتا ہے وہ قوم جس فن میں ید طولیٰ رکھتی ہو اللہ تعالیٰ اپنے نبی کی نبوت ثابت کرنے کے لیے اسے ایسے معجزات عطا فرماتا ہے کہ جس سے ظاہری اسباب کے حوالے سے بھی نبی کی صداقت لوگوں کے سامنے اظہر من الشمس ہوجائے اور لوگ نبی کے دلائل کے سامنے لاجواب ثابت ہوں۔ عیسیٰ (علیہ السلام) کی بعثت سے پہلے اس زمانے کے اہل علم طب، جراحت اور جادوگری میں اپنے کمال کو پہنچے ہوئے تھے انہیں لاجواب کرنے کے لیے عیسیٰ (علیہ السلام) کو ایسے معجزات عطا فرمائے کہ لوگ یہ معجزات دیکھ کر انگشت بدنداں رہ گئے۔ یادرہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) ان معجزات کی نسبت اپنی طرف کرنے کی بجائے اللہ تعالیٰ کی طرف کرتے ہیں کہ جس طرح میں اللہ کا رسول ہوں اسی طرح یہ معجزات اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ ہیں اس میں میرا کمال اور اختیار نہیں ہے۔ یہودیوں پر حرام کردہ چیزیں : (وَعَلٰی الَّذِیْنَ ھَادُوْا حَرَّمْنَا کُلَّ ذِیْ ظُفُرٍ ج وَمِنَ الْبَقَرِ وَالْغَنَمِ حَرَّمْنَا عَلَیْھِمْ شُحُوْمَھُمَا إِلَّا مَاحَمَلَتْ ظُھُوْرُھُمَا أَوِ الْحَوَایَا أَوْ مَا اخْتَلَطَ بِعَظْمٍ ط ذٰلِکَ جَزَیْنٰھُمْ بِبَغْیِھِمْ ز وَإِنَّا لَصٰدِقُوْنَ۔ فَإِنْ کَذَّبُوْکَ فَقُلْ رَبُّکُمْ ذُوْ رَحْمَۃٍ وَّاسِعَۃٍج وَلَا یُرَدُّ بَأْسُہٗ عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِیْنَ) [ الأنعام : ١٤٦، ١٤٧] ” اور یہود پر ہم نے تمام ناخن والے جانور حرام کردیے تھے اور گائے اور بکری میں سے ان دونوں کی چربی ان پر ہم نے حرام کردی تھی مگر وہ جو ان کی پشت پر یا انتڑیوں میں لگی ہو یا جو ہڈی سے ملی ہو۔ ان کی شرارت کے سبب ہم نے ان کو یہ سزا دی اور ہم یقیناً سچے ہیں۔ پھر اگر یہ تمہیں جھٹلائیں تو کہہ دو کہ تمہارا رب بڑی وسیع رحمت والا ہے اور اس کا عذاب مجرم لوگوں سے نہ ٹلے گا۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ جو حکم دیتا ہے وہ ہوجاتا ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے عیسیٰ (علیہ السلام) کو کتاب، حکمت، تورات اور انجیل سکھلائی۔ ٣۔ عیسیٰ (علیہ السلام) صرف بنی اسرائیل کے پیغمبر تھے۔ ٤۔ عیسیٰ (علیہ السلام) تورات کی تصدیق کرتے تھے۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ کے حکم سے عیسیٰ (علیہ السلام) نے یہودیوں کے لیے حرام چیزیں حلال ہونے کا اعلان فرمایا۔ ٦۔ عیسیٰ (علیہ السلام) اللہ کے حکم سے بیماروں کو شفاء اور مردے زندہ کرتے تھے۔ ٧۔ عیسیٰ (علیہ السلام) اپنی تابعداری اور اللہ تعالیٰ سے ڈرنے کا حکم دیتے تھے۔ ٨۔ اللہ کے حکم کے بغیر کوئی کچھ نہیں کرسکتا۔ آل عمران
48 آل عمران
49 آل عمران
50 آل عمران
51 فہم القرآن ربط کلام : حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا پیغام اور عقیدہ توحید تھا۔ یہ پہلے بھی بیان ہوچکا ہے کہ تمام انبیاء رشتۂ نبوت کے لحاظ سے ایک دوسرے کے بھائی ہیں بالخصوص بنی اسرائیل کے انبیاء کی اکثریت نسب کے اعتبار سے بھی آپس میں رشتہ دار تھی اور سب انبیاء کی دعوت کے بنیادی اصول بھی ایک ہی ہوا کرتے تھے۔ اسی لیے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) صاحب انجیل ہونے کے باوجود تورات سے اپنی تائید میں اکثر حوالہ پیش کیا کرتے تھے۔ واضح اور ٹھوس دلائل دینے اور بے مثال معجزات دکھانے کے بعد جناب عیسیٰ (علیہ السلام) بنی اسرائیل کو ایک ہی دعوت دیا کرتے تھے۔ اس اللہ کی عبادت کرو جو تمہارا اور میرا رب ہے۔ یاد رہے کہ وہ میرا اور تمہارا باپ نہیں کہتے تھے جس طرح انجیل میں ان کی طرف بار بار باپ کے الفاظ منسوب کیے گئے ہیں۔ حالانکہ وہ میرا اور تمہارے رب کے مقدس اور واضح الفاظ استعمال فرماتے تاکہ معجزے دیکھ کر لوگوں کو ان کے بارے میں کوئی غلط فہمی نہ پید اہو۔ فرماتے کہ اللہ تعالیٰ سے ڈرنا اور صرف اسی ایک کی عبادت کرنا صراط مستقیم ہے۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا فرمان پرانے عہد نامہ کی کتاب استثناء میں مرقوم، قوم اسرائیل کا مشہور کلمہ شمع (Shama) (=عربی : اسمع) اپنے مفہوم کے اعتبار سے اسلام کے کلمۂ شہادت اور قرآن کی سورۃ اخلاص کی پہلی آیت سے چنداں مختلف نہیں ہے۔ خصوصًا اپنے عربی و عبرانی متن میں اس کے الفاظ مبارک اس آیت کی باز گشت ہیں ملاحظہ فرمائیے : عربی : اسمع یا اسرائیل إن الرب الھنارب واحد۔ عبرانی :Shama Yisrael Adonoielohem. Adonoiehod شمع یاسرائیل ادونائی الوھیم ادونائی احاد۔ [ بائبل عبرانی واردو، کتاب استثناء ٦: ٤۔ الکتاب المقدس عربی ٠ ط۔ بیروت ١٨٩٩ ء) پرانے اور نئے عہد نامہ کی وضاحت کے لیے دیکھئے باب ہفتم۔] ” سن اے اسرائیل ! خداوند ہمارا خدا ایک ہی خدا ہے۔“ کتاب استثناء میں دوسری جگہ ہے : ” خدا وند ہی خدا ہے اور اس کے سوا اور کوئی ہے ہی نہیں۔“ [ استثناء : ٤، ٣٥] نیز فرمایا : ” میرے آگے اور معبودوں کو نہ ماننا۔“ [ استثناء : ٥، ٧] پرانے عہد نامہ کی کتاب میں مذکور ہے حضرت داوٗد (علیہ السلام) کی دعا میں یہ الفاظ موجود ہیں : ” تو ہی واحد خدا ہے۔“ [ زبور : ٨٦: ١٠] عہد نامہ قدیم میں ایک اور جگہ لکھا ہے : ” مجھ سے پہلے کوئی خدا نہ ہے اور میرے بعد بھی کوئی نہ ہوگا۔۔ خدا وند فرماتا ہے میں ہی خدا ہوں۔“ [ یسعیاہ : ٤٣: ١٠، ١٢] نیز فرمایا : ” میں خدا وند سب کا خالق ہوں، میں ہی اکیلا آسمان کو تاننے اور زمین کو بچھانے والا ہوں، کون میرا شریک ہے۔“ [ یسعیاہ : ٤٤: ٢٤] برناباس۔ باب ١١ میں ہے : ” تو احمق ہے۔ تو اس خدا کی عبادت کر جس نے تجھے پیدا کیا ہے اور وہی تجھے صحت عطا کرے گا کیونکہ میں ویسا ہی ایک انسان ہوں جیسا تو ہے۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ سب کا رب ہے لہٰذا صرف اسی کی عبادت کرنی چاہیے۔ ٢۔ اللہ کی عبادت کرنا ہی صراط مستقیم ہے۔ تفسیر بالقرآن تمام انبیاء کی دعوت : ١۔ تمام انبیاء (علیہ السلام) اللہ کی عبادت کی دعوت دیتے تھے۔ (الانبیاء : ٢٥) ٢۔ نوح (علیہ السلام) کا فرمان کہ اللہ کی عبادت کرو۔ (ھود : ٢٦) ٣۔ یوسف (علیہ السلام) نے اللہ کی عبادت کرنے کی طرف بلایا۔ (یوسف : ٤٠) ٤۔ عیسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ کی عبادت کرنے کا حکم دیا۔ (المائدۃ: ٧٢) ٥۔ ھود (علیہ السلام) نے اللہ کی عبادت کرنے کی دعوت دی۔ (الاعراف : ٦٥) ٦۔ صالح (علیہ السلام) نے اللہ کی عبادت کرنے کی دعوت دی۔ (الاعراف : ٧٣) ٧۔ شعیب (علیہ السلام) نے اللہ کی عبادت کرنے کی طرف بلایا۔ (الاعراف : ٨٥) ٨۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی اللہ کی عبادت کرنے کی دعوت دی۔ (آل عمران : ٦٤) آل عمران
52 فہم القرآن ربط کلام : عیسائیوں کا اللہ تعالیٰ کی توحید سے انکار اور عیسیٰ (علیہ السلام) کی پکار۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) سے پہلے جناب موسیٰ (علیہ السلام) نے یہودیوں کو راہ راست پر لانے کے لیے لازوال اور انتھک جدوجہد فرمائی اور ایسے معجزات دکھائے جن کی ماضی میں نظیر نہیں ملتی۔ مگر یہودی اس قدر متلوّن مزاج، موقع شناس، نافرمان اور مکار قوم ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے جانے کے بعد انہوں نے انبیاء اور مصلحین کے ساتھ ایسا گھناؤ نا کردار ادا کیا کہ دنیا میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ بنی اسرائیل کے آخری نبی حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے ایسے معجزات پیش فرمائے جو اپنی تاثیر اور نوعیت کے اعتبار سے موسیٰ (علیہ السلام) کے معجزات سے بڑھ کر تھے۔ خطاب اور گفتگو کا ملکہ عیسیٰ (علیہ السلام) کو بچپن میں ہی معجزانہ طور پر عطا ہوا تھا۔ وہ ایسی مدلّل، مؤثر اور حکیمانہ گفتگو فرماتے کہ بڑے سے بڑا مخالف بھی انہیں قلبی طور پر اللہ کا بندہ اور نبی تسلیم کیے بغیر نہیں رہ سکتا تھا۔ زبور کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ بارہ سال کی عمر میں حضرت مسیح نے پہلی بار ہیکل میں تعلیم دی۔ اس کم سنی کے باوجود ان کی تعلیم میں حکمت ومعرفت، فصاحت وبلاغت اور لب ولہجہ میں عظمت وجلالت اور رعب و دبدبہ کا عالم یہ تھا کہ فقیہ، فریسی، سردار، کاہن اور ہیکل کا تمام عملہ دم بخود رہ گیا۔ حیرانی کے عالم میں وہ ایک دوسرے سے پوچھتے پھرتے تھے کہ یہ کون ہے؟ جو اس شان سے بات کرتا ہے کہ معلوم ہوتا ہے کہ آسمان سے اس کو خاص ملکہ عطا ہوا ہے۔ انہوں نے اپنے زمانے کے اہل علم اور یہودیوں کو ایسے معجزات دکھائے کہ لوگ ورطۂ حیرت میں ڈوب گئے۔ اس وقت یونان کے لوگ طب میں اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے۔ اس دور میں بقراط، ارسطو، افلاطون اور بڑے بڑے شہرۂ آفاق اطباء اور سائنسدان ہوچکے تھے وہ پیدائشی نابینے اور کوڑھے کا علاج نہ کرسکے لیکن عیسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ کے حکم سے ایسے معجزے پیش کیے کہ یہ لوگ ان کے سامنے طفل مکتب کے طور پر کھڑے بے بس دکھائی دیتے تھے۔ مٹی کا پرندہ بنانا، مردے کو زندہ کرنا، لوگوں کے کھائے پیے اور جمع پونجی کے بارے میں خبر دینا، بڑے بڑے حکماء اور نجومی ان باتوں کا تصور بھی نہیں کرسکتے تھے۔ عیسیٰ (علیہ السلام) کے معجزات اور خطبات نے بنی اسرائیل میں ایک حرکت اور انقلاب برپا کردیا۔ وہ جہاں جاتے لوگوں کی توجہ کا مرکز بن جاتے۔ ان کا پر جمال اور ہشاش بشاش چہرہ دیکھ کر لوگ پروانہ وار ان کی طرف لپکے آتے گویا کہ قوم میں ایک انقلاب برپا ہوچکا ہے۔ یہ صورت حال دیکھ کر یہودی غضب ناک ہوئے اور انہوں نے عیسیٰ (علیہ السلام) کے خلاف الزامات کا طوفان اٹھایا اور لوگوں کو متنفر کرنے کے لیے ان کے خلاف سازشوں کا ایک طویل منصوبہ تیار کیا۔[ یوحنا باب ٩٤ بحوالہ تدبر قرآن] حالات اس قدر نازک صورت حال اختیار کرگئے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) کے لیے باہر نکلنا بھی مشکل ہوگیا۔ اس صورت حال میں انہوں نے ہر جگہ لوگوں کو بتلایا اور سمجھایا کہ میری دعوت قبول کرو اسی میں تمہاری دنیا و آخرت کی کامیابی ہے لیکن حکومت کے خوف، یہودیوں کے الزامات اور سازشوں کے ڈر سے لوگ ان سے دور بھاگ گئے۔ بالآخر انہوں نے اپنے شاگردوں کو اللہ کے نام پردہائی دی کہ کون ہے جو اللہ کے لیے میرا ساتھ دے؟ ہزاروں شاگردوں میں سے صرف بارہ آدمیوں نے موت کی پروا کیے بغیر کہا کہ ہم ہیں اللہ کی خاطر آپ کی نصرت وحمایت کرنے والے اور اللہ پر ایمان لانے والے ہیں۔ انہوں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو یقین دلایا اور کہا کہ گواہ رہنا کہ ہم اسلام پر مرتے دم تک قائم رہیں گے۔ اور اللہ تعالیٰ کے حضور بھی ہماری فریاد ہے کہ وہ ہمیں آپ کا تابع دار اور آپ کے ساتھ کلمہ حق کی شہادت دینے والے شمار فرمائے۔ مسائل ١۔ داعی اپنے متبعین کی جانچ اور ان کا امتحان لے سکتا ہے۔ ٢۔ اللہ کے رسول کی اتباع کرنا حق کی شہادت دینا ہے۔ ٣۔ اللہ کی نازل کردہ کتابوں پر ایمان لانا چاہیے۔ تفسیربالقرآن حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے حواری : ١۔ عیسیٰ (علیہ السلام) کے انصار۔ (الصف : ١٤) ٢۔ حواریوں کی پکار کہ ہم انصار اللہ ہیں۔ (الصف : ١٤) ٣۔ امت محمدیہ کو حکم کہ ایمان والو! اللہ کے انصار بن جاؤ۔ (الصف : ١٤) آل عمران
53 آل عمران
54 فہم القرآن ربط کلام : حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے پیغام کا ردّ عمل اور ان کی حفاظت کے ساتھ اہل ایمان کی برتری کا اعلان۔ حالات اس نہج پر پہنچے کہ یہودیوں کے مذہبی اور سیاسی رہنما حاکم وقت کو یہ باور کروانے میں کامیاب ہوگئے کہ یہ شخص یہودیت کے لیے زہر قاتل اور مذہب کی آڑ میں حکومت کا تختہ الٹنا چاہتا ہے۔ اس سازش کو کامیاب بنانے کے لیے یہودیوں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے حواریوں میں سے یہودا نامی شخص کو بھاری رشوت دے کر وعدہ معاف گواہ بنایا اس نے سرکاری اہلکاروں کو مخبری کردی کہ عیسیٰ (علیہ السلام) فلاں پہاڑیوں میں چھپے ہوئے ہیں۔ اس گرفتاری سے بچنے کے لیے بارہ حواریوں کے سوا باقی سب حواری عیسیٰ (علیہ السلام) کو چھوڑ کر رفوچکر ہوگئے۔ قیصرِروم کے نمائندے شام کے گورنر ہیرو ڈیس نے آپ کو گرفتار کیا۔ بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ گرفتاری کے وقت حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے چہرۂ مبارک پر تھپڑ مارے گئے۔ یہ بات اس لحاظ سے غلط معلوم ہوتی ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے وہ جلال بخشا تھا کہ بڑے بڑے گستاخ یہودی دائیں بائیں تو ان کی ولادت باسعادت کے بارے میں تہمت لگاتے تھے لیکن ان کے سامنے ایسا کہنے کی جرأت نہیں کرسکتے تھے۔ بہرحال عیسیٰ (علیہ السلام) گرفتار ہوئے مقدمہ چلا اور وقت کی حکومت نے انہیں الزامات سے بری الذمہ قرار دیا لیکن یہودیوں کے مذہبی اور سیاسی رہنماؤں نے ایسا ماحول پیدا کردیا کہ بالآخر شام کے گورنر نے عیسیٰ (علیہ السلام) کو اپنے نائب بلاطوس کے حوالے کیا۔ اس نے رائے عامہ کے ہاتھوں مجبور ہو کر یہ کہتے ہوئے عیسیٰ (علیہ السلام) کوسولی پر لٹکانے کا فیصلہ دیا کہ یہ جرم میری گردن کے بجائے تمہاری گردن پر ہوگا۔ یہودیوں نے متفق ہو کر کہا کہ ہمیں یہ منظور ہے۔ جب عیسیٰ (علیہ السلام) کو تختہ دار پر لے جانے کے لیے آدمی آگے بڑھے تو بعض روایات کے مطابق حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) سوئے ہوئے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں اسی حالت میں آسمانوں پر اٹھا لیا اور جو لوگ انہیں لینے کے لیے آگے بڑھے ان میں سے یہودا کو عیسیٰ (علیہ السلام) کے مشابہ کردیا گیا سرکاری اہلکاروں نے اسے عیسیٰ سمجھ کر سولی چڑھا دیا۔ اس لیے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں قرآن مجید نے یہ الفاظ استعمال فرمائے۔ ( وَمَا قَتَلُوْہُ وَمَاَ صَلَبُوْہُ وَلٰکِنْ شُبِّہَ لَھُمْ) [ النساء : ١٥٧] کہ انہوں نے نہ عیسیٰ (علیہ السلام) کو قتل کیا اور نہ ہی سولی پر چڑھا سکے بلکہ اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے ایک شخص کو مشابہ کردیا۔ اسی واقعہ کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ انہوں نے عیسیٰ (علیہ السلام) کے خلاف مکروفریب کیا۔ جب کہ اللہ تعالیٰ نے پر حکمت تدبیر کے ذریعے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو آسمان پر اٹھا لیا اور اللہ تعالیٰ سے بڑھ کر کوئی بہتر تدبیر کرنے والا نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے عیسیٰ (علیہ السلام) کو یہودیوں کے الزامات اور مقدمات سے محفوظ فرماکر اپنے ہاں رفعت مکانی سے ہمکنار کیا اور فرمایا کہ قیامت کے دن تم سب نے میرے ہاں لوٹ کر آنا ہے اور میں تمہارے اختلافات کا قطعی اور آخری فیصلہ کروں گا۔ تاہم جو لوگ عیسیٰ (علیہ السلام) کے متبعین ہیں انہیں قیامت کے دن عیسیٰ (علیہ السلام) کی ذات اور ان کی نبوت کا انکار کرنے والوں پر بلند رکھوں گا۔ مفسّرین نے ان الفاظ کے دو مفہوم درج فرمائے ہیں کہ عیسائی علمی اور سیاسی طور پر ہمیشہ یہودیوں پر غالب رہیں گے۔ چنانچہ آج بھی اسرائیل کے علاوہ یہودیوں کی کہیں حکومت اور عزت نہیں پائی جاتی۔ اسرائیلی حکومت بھی امریکہ، برطانیہ اور دوسرے عیسائی ملکوں کے سہارے قائم ہے ان کے بغیر یہودی اپنا وجود برقرار نہیں رکھ سکتے۔ بعض عیسائی قرآن مجید کے اس مقام سے مسلمانوں کو یہ مغالطہ دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ دیکھیں تمہارا قرآن ہماری بالا دستی کی گواہی دے رہا ہے حالانکہ یہ بات قرآن کے مفہوم اور تاریخی حقائق کے سراسر خلاف ہے کیونکہ مسلمان تقریبًا ایک ہزار سال تک دنیا میں بلاشرکت غیرے حکومت کرتے رہے ہیں اور عیسائی مسلمانوں کے زیر دست اور ذمی بن کررہے ہیں اس لحاظ سے صحیح مفہوم یہ ہے کہ جو عیسائی مسلمان ہوجائیں وہ یہودیوں پر بالادست رہیں گے۔ اگر عیسائیوں اور یہودیوں کا مقابلہ کیا جائے تو عیسائی سیاسی اور علمی طور پر یہودیوں پر غالب رہیں گے۔ یاد رہے کہ عربی میں مکر کا معنی فریب، دھوکہ دہی اور سازش ہوا کرتا ہے لیکن جب اس لفظ کی نسبت اللہ تعالیٰ کی ذات اقدس کی طرف ہو تو اس کا معنی ہوتا ہے تدبیر کرنا۔ یہاں اسی فرق کے ساتھ یہ لفظ استعمال ہوا ہے۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے رفع آسمانی پر یہودیوں، عیسائیوں اور مرزائیوں کے مؤقف کا جواب : حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی پوری زندگی معجزات سے عبارت ہے۔ وہ بن باپ پیدا ہوئے، جھولے میں اپنی والدہ ماجدہ کی براءت اور صاحب کتاب نبی ہونے کا اعلان فرمایا، یہودیوں نے تختۂ دار پر چڑھانے کی کوشش کی تو جسد اطہر سمیت آسمانوں پر اٹھا لیے گئے۔ ان کے رفع آسمانی کے بارے میں یہاں قدرے اجمال کے ساتھ بیان ہوا ہے لیکن سورۃ النساء : آیت ١٥٨، ١٥٧ میں کھل کر اس بات کی تردید کی گئی کہ جو لوگ یہ دعو ٰی کرتے ہیں کہ انہوں نے عیسیٰ (علیہ السلام) کو سولی پر چڑھا دیا ہے وہ سراسر اٹکل پچو اور غلط بیانی سے کام لے رہے ہیں حالانکہ اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنی طرف اٹھالیا اور پھانسی دینے والوں نے کسی دوسرے آدمی کو سولی پر چڑھادیا۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ اتنی واضح اور دوٹوک تردید کے بعدبھی یہودی اپنے خبث باطن کی تسکین اور بے بنیاد کامیابی پر اتراتے ہوئے دعو ٰی کرتے ہیں کہ ہم نے عیسیٰ (علیہ السلام) کو پھانسی پر چڑھا دیا ہے۔ عیسائیوں کے ایک فرقہ کو چھوڑ کر باقی سب نے یہودیوں کا جواب دینے کے بجائے اپنے مفادات اور لوگوں کو آوارگی کا سر ٹیفکیٹ دینے کے لیے یہ عقیدہ بنایا کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) سولی پر چڑھ کر ہمارے گناہوں کا کفارہ بن چکے ہیں۔ گویا کہ یہودی جہنم میں چند دن جانے کے قائل ہیں عیسائیوں نے جہنم کا قصہ ہی پاک کردیا ہے۔ ان کی دیکھا دیکھی مرزا قادیانی نے یہ کہہ کر نبوت کا دعو ٰی کیا کہ عیسیٰ (علیہ السلام) تو فوت ہوئے۔ قرب قیامت جس مسیح موعود کی بشارت دی گئی ہے وہ میں ہی ہوں۔ اپنے موقف کو سچا ثابت کرنے کے لیے مرزائیوں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی قبر بھی کشمیر میں ڈھونڈ نکالی تاکہ ختم نبوت پر ڈاکہ ڈالا جاسکے رسالت مآب (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا معجزہ ہے کہ کسی جھوٹے نبی کی نبوت زیادہ دیر نہیں چل سکتی۔ ہر دور کے لوگوں نے جلد ہی ایسے کذّاب سے اللہ کی زمین کو پاک کردیا لیکن ہندوستان میں مرزائیوں کو انگریز کی وجہ سے ساز گار ماحول میسر ہوا۔ اس لیے یہ جھوٹا نبی ہندؤوں، عیسائیوں اور اسلام دشمن لوگوں کی سرپرستی میں محفوظ رہا لیکن علمی اور اعتقادی طور پر علماء نے اسے آگے نہیں بڑھنے دیا۔ مسلمانوں نے اپنی گروہی تفریق کے باوجود مرزائیوں کا ناطقہ بند کردیا اس سلسلہ میں تمام علماء اور مذہبی جماعتوں کی خدمات لائقِ تحسین ہیں۔ سب سے پہلے مرزا کے خلاف مولانا محمد حسین بٹالوی (رح) نے کفر کا فتویٰ جاری کرنے کی ابتدا کی۔ جب کہ مرزا کا انجام شیخ الاسلام مولانا ثناء اللہ امرتسری (رح) کے ہاتھوں ہوا۔ انہی کے ساتھ مرز انے مباہلہ کیا جس کے نتیجے میں لاہور برانڈرتھ روڈ پر احمدیہ مارکیٹ میں اپنے ایک مرید کے گھر لیٹرین میں واصل جہنم ہوا۔ اس کے بعد 1973 ء میں علماء کی زبردست تحریک پر وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے آئینی طور پر مرزائیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا۔ مسائل ١۔ اللہ بہتر تدبیر کرنے والا ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے عیسیٰ (علیہ السلام) کو جسد اطہر سمیت آسمان پر اٹھا لیا۔ ٣۔ سب نے اللہ تعالیٰ کے ہاں پیش ہونا ہے اور وہی اختلافات کا فیصلہ فرمائے گا۔ تفسیربالقرآن رفع حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) : ١۔ آسمانوں پر اٹھانے کا اعلان۔ (آل عمران : ٥٥) ٢۔ عیسیٰ (علیہ السلام) قتل نہیں ہوئے۔ (النساء : ١٥٧) ٣۔ عیسیٰ (علیہ السلام) آسمان پر اٹھالیے گئے۔ (النساء : ١٥٨) آل عمران
55 آل عمران
56 فہم القرآن ربط کلام : قرآن اپنے اسلوب کے مطابق بیک وقت حق کے منکروں اور اہل ایمان کے انجام کا فرق بیان کرتا ہے۔ جن لوگوں نے اللہ تعالیٰ کی توحید کا انکار اور دین حق سے انحراف کیا۔ وہ دنیا اور آخرت میں شدید عذاب سے دوچار کیے جائیں گے اور ان کا کوئی حامی ومدد گار نہیں ہوگا۔ آخرت کے عذاب کے بارے میں قرآن مجید کافر کی خوفناک موت سے لے کر جہنم میں اس کے دخول اور سزاؤں کا موقع بموقع تفصیل کے ساتھ ذکر کرتا ہے۔ جہاں تک دنیا کے عذاب کا تعلق ہے اس کی کئی شکلیں اور صورتیں ہوسکتی ہیں۔ جن میں سے ایک یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے وعدہ کے مطابق صاحب کردار ایمان داروں کو ایسا غلبہ نصیب فرمائے گا کہ اللہ کے باغی اور منکر دنیا میں ان کے سامنے سرنگوں ہو کر رہیں۔ جس طرح قرون اولیٰ میں اللہ کے منکرذلیل ورسوا ہوئے تھے اسی طرح قرب قیامت امام مہدی اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے ہاتھوں ان کا ذلیل ہونا یقینی ہے۔ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ لَاتَقُوْمُ السَّاعَۃُ حَتّٰی یُقَاتِلَ الْمُسْلِمُوْنَ الْیَھُوْدَ فَیَقْتُلُھُمُ الْمُسْلِمُوْنَ حَتّٰی یَخْتَبِیءَ الْیَھُوْدِیُّ مِنْ وَّرَآءِ الْحَجَرِ وَالشَّجَرِ فَیَقُوْلُ الْحَجَرُ أَوِ الشَّجَرُ یَامُسْلِمُ یَاعَبْدَ اللّٰہِ ھٰذَا یَھُوْدِیٌّ خَلْفِیْ فَتَعَالْ فَاقْتُلْہُ إِلَّا الْغَرْقَدَ فَإِنَّہٗ مِنْ شَجَرِ الْیَھُوْدِ) [ رواہ مسلم : کتاب الفتن وأَشراط الساعۃ، باب لا تقوم الساعۃ حتی یمر الرجل بقبر الرجل فیتمنی الخ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا اس وقت تک قیامت قائم نہیں ہوگی جب تک مسلمان یہودیوں سے جنگ نہ کریں۔ مسلمان ان کو قتل کریں گے یہاں تک کہ یہودی پتھر اور درخت کے پیچھے چھپے گا تو وہ پتھر اور درخت کہے گا۔ اے مسلمان! اے اللہ کے بندے! یہ یہودی میرے پیچھے چھپا ہوا ہے۔ تو آگے بڑھ کر اسے قتل کردے لیکن غرقد درخت ایسا نہیں کہے گا کیونکہ وہ یہودیوں کا درخت ہے۔“ قرآن مجید کا یہ اسلوب ہے کہ وہ جہنم کے ساتھ جنت اور کفار کی ذلت کے ساتھ مومنوں کی عظمت اور اللہ کا فضل وکرم بیان کرتا ہے تاکہ قرآن کی تلاوت کرنے والے کے دل پر اس بات کا اثر اور اس کے لیے حق وباطل کے درمیان فیصلہ کرنا آسان ہوجائے۔ یہاں مزید فرمایا کہ یہ اللہ کی کتاب کی آیات ہیں جو آپ پر پڑھی جارہی ہیں اور یہ حکمتوں سے لبریز نعمت ہے جس کا دل چاہے اسے قبول کرے۔ مسائل ١۔ کافر دنیا اور آخرت میں ذلیل ہوں گے۔ ٢۔ مومنوں کو اللہ تعالیٰ پورا پورا اجر عطا فرمائیں گے۔ ٣۔ آخرت میں کفار کی کوئی مدد نہیں کرسکے گا۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ ظالموں کو پسند نہیں کرتا۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ کے احکامات نصیحت اور حکمت سے لبریز ہوتے ہیں۔ تفسیربالقرآن دنیا وآخرت میں عذاب پانے والے : ١۔ یہودی دنیا میں ذلیل اور آخرت میں سخت عذاب کے مستحق ٹھہریں گے۔ (البقرۃ: ٨٥) ٢۔ اللہ کی مسجدوں سے روکنے والے دنیا وآخرت میں ذلیل ہوں گے۔ (البقرۃ: ١١٤) ٣۔ کفار کو دنیا وآخرت میں شدید عذاب ہوگا۔ (الرعد : ٣٤، آل عمران : ٥٦) ٤۔ اللہ اور اس کے رسول کے دشمن اور فسادی دنیا وآخرت میں عذاب کے مستحق قرار پائیں گے۔ (المائدۃ: ٣٣) ٥۔ بچھڑے کے پجاری دنیا وآخرت میں ذلیل ہوں گے۔ (الاعراف : ١٥٢) ٦۔ منافقین کو دنیا وآخرت میں سزا ہوگی۔ (التوبۃ: ٧٤) ٧۔ فحاشی پھیلانے والوں کو دنیا وآخرت میں ذلت اٹھانی پڑے گی۔ (النور : ١٩) ٨۔ دین حق جھٹلانے والوں کو دنیا میں ذلت اور آخرت میں عذاب عظیم ہوگا۔ (الزمر : ٢٦) آل عمران
57 آل عمران
58 آل عمران
59 فہم القرآن ربط کلام : عیسائیوں سے خطاب کے آغاز میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے خاندان۔ ان کی پیدائش کے مراحل‘ حضرت مریم [ کا تعجب‘ عیسیٰ (علیہ السلام) کی دعوت توحید‘ اس کا رد عمل اور اب ان کی ذات کے بارے میں وضاحت کی جا رہی ہے۔ قرآن مجید نے صرف حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی پیدائش کی تفصیلات ہی نہیں بتائیں بلکہ دنیا کے سامنے ان کے پورے خاندان کی تاریخ رکھ دی ہے۔ جس میں ان کی نانی کی نذر ماننے سے لے کر حضرت مریم [ کی پیدائش، بیت المقدس میں ان کے خالو کے ہاں ان کی تربیت‘ عیسیٰ (علیہ السلام) کی پیدائش کا تذکرہ‘ ان کی پیدائش پر حضرت مریم [ پر یہودیوں کا الزام اور عیسیٰ (علیہ السلام) کا جواب گویا کہ ان کی زندگی کے اہم مراحل اور خاندانی پس منظر سے لے کر آسمانوں پر اٹھائے جانے تک کی تفصیلات کھول کر بیان کردی ہیں اور یہ بھی فرمایا کہ عیسیٰ (علیہ السلام) کی پیدائش اور حضرت آدم (علیہ السلام) کی تخلیق اللہ تعالیٰ کے ہاں ایک ہی سلسلہ کی کڑی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کو ” کُنْ“ کہہ کر مٹی سے پیدا فرمایا اور عیسیٰ (علیہ السلام) کی خوشخبری دیتے ہوئے حضرت مریم [ کو بھی ” کُنْ“ کے الفاظ صادر فرمائے۔ جب اللہ تعالیٰ کسی بات کا فیصلہ فرماتا ہے تو اس کے لیے لفظ کُنْ سے حکم صادر فرماتا ہے۔[ یٰسٓ: ٨٢] عیسائی لوگوں کو یہ کہہ کر دھوکہ دیتے ہیں کہ کیونکہ عیسیٰ (علیہ السلام) اللہ تعالیٰ کا کلمہ ہیں اور وہ بغیر باپ کے پیدا ہوئے اور اللہ تعالیٰ نے ان میں اپنی روح پھونکی لہٰذا عیسیٰ (علیہ السلام) اور ان کی والدہ مریم سے مل کر اللہ تعالیٰ کی خدائی مکمل ہوتی ہے۔ اس کو عرف عام میں تثلیث کہا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہاں آدم (علیہ السلام) کی مثال دے کرواضح فرمایا ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) کے بن باپ پیدا ہونے کی وجہ سے تم کہتے ہو کہ یہ اللہ ہیں یا اللہ کا حصہ ہیں تو تمہارا آدم (علیہ السلام) کے بارے میں کیا خیال ہے؟ ان کی تخلیق تو عیسیٰ (علیہ السلام) سے بھی بڑھ کر تھی۔ عیسیٰ (علیہ السلام) کی تو والدہ تھی جب کہ آدم (علیہ السلام) کا نہ باپ تھا اور نہ ہی ماں۔ کیا پھر آدم (علیہ السلام) کو اللہ یا اس کا جزو قرار دینے کے لیے تیار ہو؟ حالانکہ تمہارا بھی عقیدہ ہے کہ آدم (علیہ السلام) اللہ تعالیٰ کے خلیفہ اور اوّل البشر ہیں۔ عیسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں خطاب کا اختتام ان الفاظ سے کیا جارہا ہے کہ جو تفصیلات تمہارے سامنے بیان کی گئی ہیں۔ یہ سب تمہارے رب کی طرف سے حق اور سچ ہے۔ لہٰذا تم اور کسی مسلمان کو اس میں شک نہیں کرنا چاہیے۔ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ خَلَقَ اللَّہُ اٰدَمَ عَلَی صُورَتِہِ، طُولُہُ سِتُّونَ ذِرَاعًا ) [ رواہ البخاری : باب بدء السلام] ” حضرت ابوہریرہ (رض) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کو اس کی صورت کے مطابق بنایا، اس کا قد ساٹھ ہاتھ تھا۔“ حضرت آدم (علیہ السلام) اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے درمیان مماثلت اور فرق آدم (علیہ السلام) بغیر ماں باپ کے پیدا ہوئے۔ عیسیٰ (علیہ السلام) باپ کے بغیر پیدا ہوئے۔ اللہ نے آدم (علیہ السلام) کو اپنے دست مبارک اور ” کُنْ“ کہہ کر پیدا فرمایا۔ عیسیٰ (علیہ السلام) کو صرف ” کُنْ“ کہہ کرپیدا فرمایا۔ اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) میں اپنی روح پھونکی۔ عیسیٰ (علیہ السلام) کو حضرت جبریل کے ذریعے روح سے پیدا فرمایا۔ حضرت آدم (علیہ السلام) نبی اور اوّل البشر تھے۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) صاحب کتاب نبی اور رسول تھے۔ تفسیربالقرآن الحق سے مراد : ١۔ درست بات۔ (البقرۃ: ١٤٦) ٢۔ ثابت شدہ حقیقت۔ ( یٰس : ٧، المائدۃ: ٤٨) ٣۔ واجب۔ (ص : ١٤) ٤۔ استحقاق۔ (الانعام : ٩٣) ٥۔ علم۔ (یونس : ٣٦) ٦۔ یقینی بات۔ (یونس : ٩٤) ٧۔ معجزات۔ (یونس : ٧٦) ٨۔ قرآن۔ (الانعام : ٥) ٩۔ نعمت۔ (البقرۃ: ١٤٦) ١٠۔ عدل وحکمت۔ (الانعام : ٧٣) ١١۔ ایثار۔ (الانفال : ٦) ١٢۔ توحید۔ (الرعد : ١٤) ١٣۔ اسلام۔ (اسراء : ٨١) آل عمران
60 آل عمران
61 فہم القرآن ربط کلام : حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا اللہ کا بندہ اور رسول ہونا حق ہے۔ دلائل کے باوجود جو حق تسلیم نہیں کرتا اسے سمجھانے کا آخری طریقہ مباہلہ ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی پیدائش اور ان کے خاندان کی مرحلہ وار تاریخ کے واضح دلائل اور روشن حقائق کے ساتھ نجران کے وفد کو دعوت دی۔ لیکن وہ اس کے باوجود کہنے لگے کہ ہم تو عیسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ کا بیٹا سمجھتے ہیں۔ اس موقع پر آیت مباہلہ نازل ہوئی۔ مباہلہ کا معنٰی ہے عاجزی کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے حضور یہ دعا کرنا کہ حق والا سرخرو ہو اور جھوٹے پر اللہ کی پھٹکار نازل ہو۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نجران کے وفد کو فرمایا کہ کل میں اپنے اہل بیت کو لے کر فلاں وقت حاضر ہوں گا اور تم بھی اپنے ارکان کے ساتھ جمع ہوجانا۔ تاکہ ہم اللہ تعالیٰ کے حضور یہ دعا کریں کہ جھوٹے پر اللہ کی لعنت اور پھٹکار ہو۔ بعض روایات کے مطابق اگلے دن آپ حضرت علی، حضرت فاطمہ اور حسن وحسین (رض) کو لے کر تشریف لائے۔ نجران کے وفد کے سربراہ اسقف اور ان کے پادری شرحبیل نے یہ کہہ کر اپنے وفد کو مباہلہ سے باز رکھا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) واقعی نبی آخر الزمان ہیں اور نبی کی بد دعا مسترد نہیں ہوا کرتی۔ اگر مباہلہ ہوا تو ہم نیست ونابود ہو کر رہتی دنیا تک عیسائیوں کے لیے ننگ و عار ثابت ہوں گے۔ چنانچہ انہوں نے جزیہ دینے کی ذلت قبول کرلی۔ لیکن نعمت ہدایت کو قبول کرنے سے انکار کردیا۔ اس آیت کی تفسیر میں بریلوی مکتب فکر کے مفکرّ پیر کرم شاہ فرماتے ہیں : بعض لوگوں نے یہاں یہ ثابت کرنے کی بے جاکوشش کی ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صرف ایک صاحبزادی حضرت فاطمہ (رض) ہی اہل بیت میں شامل کی گئی ہیں۔ ورنہ دوسری صاحبزادیاں بھی اس روز مباہلہ میں شرکت کرتیں۔ تو ان کی خدمت میں گزارش ہے کہ تاریخ کی تمام معتبر کتب اور ناسخ التواریخ اور کافی وغیرہ میں موجود ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی چار صاحبزادیاں تھیں۔ اس روز خاتون جنت کا اکیلے تشریف لانا اس لیے تھا کہ باقی صاحبزادیاں انتقال فرما چکی تھیں۔ حضرت رقیہ نے 2 ہجری میں، حضرت زینب نے 8 ہجری میں اور حضرت ام کلثوم نے 9 ہجری میں انتقال فرمایا جب کہ یہ واقعہ 10 ہجری میں پیش آیا۔ اس لفظ سے بعض لوگوں نے حضرت علی (رض) کی خلافت بلا فصل پر استدلال کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ انفسنا سے مراد حضرت علی (رض) ہیں۔ جس سے ثابت ہوا کہ آپ نفس رسول ہیں۔ گویا آپ رسول جیسے ہیں۔ تو جب آپ حضور کے مساوی ہوگئے تو پھر آپ سے زیادہ خلافت کا حقدار اور کون ہوسکتا ہے ؟ تو اس کے متعلق التماس ہے کہ حضرت علی کا شمار ابناءنا میں ہے۔ کیونکہ آپ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے داماد تھے۔ اور داماد کو بیٹا کہا جاتا ہے۔ اور اگر انفسنا میں ہی شمار کریں تو عینیت اور مساوات کہاں سے ثابت ہوئی ؟ کیونکہ یہ لفظ تو ان لوگوں کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے جو قریبی رشتہ داریا دینی اور قومی بھائی ہوں۔ ان آیات اور تفصیلات کے بعد اس آیت میں ان سب کا ما حصل بیان فرما دیا کہ اللہ تعالیٰ کے بغیر کوئی اللہ اور معبود نہیں۔ جو کسی مخلوق کو اللہ یا اللہ کا بیٹا تسلیم کرتا ہے وہ راہ راست سے بھٹک جاتا ہے۔ حقائق جھٹلانے والوں کو اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے۔ توحید کا انکار اور حقائق سے انحراف کرنے والے فسادی ہیں۔ [ ضیاء القرآن : پیر کرم شاہ] مسائل ١۔ جھگڑالو کے ساتھ مباہلہ کرنا جائز ہے۔ ٢۔ جھوٹے پر اللہ کی لعنت ہوتی ہے۔ ٣۔ فسادی اللہ کے علم اور اس کی دسترس سے باہر نہیں ہوتے۔ ٤۔ قرآن مجید کے بیان کردہ واقعات کہانیاں نہیں بلکہ حق اور سچ ہیں۔ تفسیربالقرآن قصص قرآن کی حقیقت : ١۔ قرآن کے بیانات حق ہیں۔ (آل عمران : ٦٢) ٢۔ قرآن کے قصے بہترین ہیں۔ (یوسف : ٣) ٣۔ قرآن کے قصے نصیحت آموز ہیں۔ (یوسف : ١١١) آل عمران
62 آل عمران
63 آل عمران
64 فہم القرآن ربط کلام : توحید حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور تمام انبیاء کی مشترکہ دعوت اور مشن ہے۔ لہٰذا اہل کتاب کو اس کی پھر دعوت دی جارہی ہے۔ سورۃ البقرہ میں یہودیوں کو اور سورۃ آل عمران میں نصاریٰ کو مفصل خطاب کرنے کے بعداب دونوں کو ایسی بات کی طرف دعوت دی جارہی ہے جو تمام انبیاء کی دعوت کی ابتدا اور انتہا ہوا کرتی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں مختلف پیرائے میں اس بات کی وضاحت و صراحت فرمائی ہے کہ ہم نے جتنے انبیاء مبعوث کیے وہ یہی دعوت دیتے تھے کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو اور ہر قسم کے طاغوت کا انکار کردو۔ الانعام : ٨٨ میں اٹھارہ پیغمبروں کا نام بنام ذکر کرنے کے بعد فرمایا کہ اگر یہ شرک کرتے تو ان کے سب اعمال ضائع کردیے جاتے۔ یہاں حکم دیا جارہا ہے کہ اے خاتم المرسلین! ان کو دعوت عام دو کہ آؤ اس بات پر متفق ہوجائیں۔ جو آدم (علیہ السلام) سے لے کر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی دعوت تھی وہی ہماری دعوت ہے۔ اگر لوگ یہ دعوت قبول کرنے سے انکار کردیں تو آپ فرما دیں کہ گواہ رہنا ہم تو اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے والے اور اس کے تابع فرمان ہیں۔ اس دعوت کے تین بنیادی اصول ہیں۔ 1۔ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کی عبادت نہ کی جائے۔2۔ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرایا جائے۔ 3۔ اللہ کی ذات کے سوا کسی کو معبود کا مقام نہ دیا جائے اس دعوت کا منطقی نتیجہ ہے نبی معظم کو اللہ کا آخری رسول ماناجائے کیونکہ آپ ہی توحید کی دعوت دینے والے ہیں۔ یہی دعوت آپ نے سلطنت رومہ کے فرماں روا ہرقل کو ایک مراسلہ کے ذریعے دی تھی۔ [ رواہ البخاری : کتاب بدء الوحی] مسائل ١۔ اہل کتاب اور مسلمانوں کے درمیان قدر مشترک توحید ہے۔ ٢۔ سب کو توحید کی دعوت دینا چاہیے۔ آل عمران
65 فہم القرآن ربط کلام : اہل کتاب اپنے غلط اور مشرکانہ موقف کی تائید کے لیے عیسائی حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو عیسائی اور یہودی ان کو یہودی ثابت کرنے کی مذموم کوشش کرتے ہیں۔ اس کی تردید اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے طریقے کی سراحت اور ان سے امت مسلمہ کے تعلق کی وضاحت کی گئی ہے۔ قومیں جب گمراہی کا شکار ہوتی اور الٹے پاؤں چلتی ہیں تو وہ صرف مذہب کا حلیہ ہی نہیں بگاڑا کرتیں بلکہ تاریخ کے مسلّمہ حقائق کو تبدیل کرتے ہوئے اپنے اختلافات میں ان بزرگوں کو گھسیٹ لاتی ہیں جن کا ان کے اختلافات سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہوتا۔ صرف اپنے موقف کو سچا ثابت کرنے کے لیے ان شخصیات کا سہارا لیا جاتا ہے۔ یہودیوں نے عیسائیوں پر برتری ثابت کرنے کے لیے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو یہودی اور عیسائیوں نے یہودیوں پر اپنا سکہ جمانے کے لیے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو عیسائی ثابت کرنے کی کوشش کی۔ ان کی دیکھا دیکھی مشرکین مکہ نے بھی یہ دعویٰ کیا کہ ہم اسماعیل (علیہ السلام) کی اولاد اور کعبہ کے متولّی ہیں۔ اگر ہم ابراہیم (علیہ السلام) کے وارث اور تولیت کے اہل نہ ہوتے تو اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے گھر کا متولّی اور نگران نہ بناتا۔ لہٰذا محمد اور اس کے ساتھیوں کا حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے کوئی تعلق نہ ہے۔ ان لوگوں کی تردید اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا رسول کریم اور آپ کی امت محمدیہ کے ساتھ رشتہ ثابت کرنے کے لیے ان کے عقیدے اور شخصیت کی وضاحت کی جارہی ہے کہ تورات وانجیل تو عرصۂ دراز کے بعد نازل ہوئیں۔ تم اپنی جہالت کی بنیاد پر ابراہیم (علیہ السلام) کے بارے میں کیوں جھگڑتے ہو؟ وہ نہ یہودی تھے نہ عیسائی اور نہ ہی مشرکین کے ساتھ ان کا کوئی تعلق تھا اور ہے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے تعلق محمد عربی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ان کے ماننے والوں کا ہے کیونکہ ابراہیم (علیہ السلام) صرف ایک ہی رب کی عبادت کرنے اور اس کی توحید کی دعوت دینے والے اور اللہ کے تابع فرمان تھے۔ افسوس! اسی مرض میں امت محمدیہ مبتلا ہوچکی ہے کہ آج قرآن وسنت کے داعی حضرات کو مقلد حضرات طعنہ دیتے ہیں کہ تمہارا کوئی امام نہیں اور بغیر امام کے کوئی شخص جنت میں داخل نہیں ہوگا۔ کچھ علماء غلو کرتے ہوئے یہاں تک کہتے ہیں کہ صحابہ کرام (رض) بھی مقلد تھے۔ (نعوذ باللہ) حالانکہ تقلید چار سو سال بعد شروع ہوئی۔ مزید تفصیل کے لیے سورۃ البقرۃ آیت : 170 ملاحظہ فرمائیں۔ اہل تشیع نے اخلاق کی تمام حدیں پھلانگتے ہوئے واقعۂ کربلا کو اس قدر پھیلایا ہے کہ تین خلفاء اور چند اصحاب کے علاوہ باقی صحابہ کرام (رض) کو شہادت حسین میں ملوث سمجھتے ہوئے ان پر دشنام کرتے ہیں۔ جب کہ یہ واقعہ حضرت ابو بکر (رض) کے 47 سال بعد حضرت عمر (رض) کے 36 سال بعد اور حضرت عثمان (رض) کے 26 سال بعد رونما ہوا۔ اور انکا واقعہ کربلا سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ مسائل ١۔ تورات و انجیل حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے بعد نازل ہوئیں۔ ٢۔ جس مسئلہ کا علم نہ ہو اس میں بحث نہیں کرنی چاہیے۔ ٣۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) یہودی، عیسائی اور مشرک نہیں تھے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ مومنوں کا دوست ہے۔ ٥۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے تعلق حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مسلمانوں کا ہے۔ تفسیربالقرآن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے تعلق خاص : ١۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی اولاد میں سے ہیں۔ (الحدید : ٢٦) ٢۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے زیادہ نسبت ہے۔ (آل عمران : ٦٨) ٣۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں ابراہیم (علیہ السلام) کی دعا۔ (البقرۃ: ١٢٩) ٤۔ ابراہیم (علیہ السلام) کی زندگی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور امت کے لیے بہترین نمونہ ہے۔ (الممتحنۃ: ٦) آل عمران
66 آل عمران
67 آل عمران
68 آل عمران
69 فہم القرآن ربط کلام : اہل کتاب یہ جاننے کے باوجود کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) یہودی اور عیسائی نہیں تھے۔ پھر بھی اپنے مذہب کو تقویت دینے اور مسلمانوں کو دھوکہ دینے کے لیے ان کی شخصیت کا حوالہ دیتے ہیں۔ گمراہ فرقوں کی ایک یہ بھی نشانی ہوتی ہے کہ وہ دلائل کی کمزوری کو شخصیات سے نسبت اور ان کی عقیدت کے حوالے سے دور کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ قرآن مجید مسلمانوں کو باربار اہل کتاب کی سازشوں اور عادتوں سے آگاہ کرتا ہے کہ اہل کتاب کی کوشش ہے کہ وہ کسی طرح تمہیں صراط مستقیم سے گمراہ کردیں۔ ان کی بد حرکتوں اور ان کے خبث باطن کے باوجود قرآن مجید انہیں سمجھانے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرتا۔ قرآن جب بھی انہیں خطاب کرتا ہے تو اہل کتاب کے معزز لقب کے ساتھ‘ تاکہ انہیں اپنے مرتبے کا احساس ہو اور وہ بری عادتیں چھوڑنے کے لیے تیار ہوجائیں۔ اسی لیے ایک دفعہ پھر انہیں سمجھایا جارہا ہے کہ حقیقت جاننے کے باوجود تم اللہ تعالیٰ کی آیات کے ساتھ کیوں کفر کرتے ہو؟ اے اہل کتاب تمہیں حق چھپانے اور حق کو باطل کے ساتھ ملانے سے بھی باز آنا چاہیے۔ کیونکہ تم اس کے گناہ اور نقصان سے واقف ہو۔ جب کسی معاشرے کے پڑھے لکھے لوگ حقائق کا انکار کریں یا حق وباطل کے التباس کے جرم میں ملوث ہوجائیں تو پھر عوام الناس کا ہدایت تک پہنچنا مشکل ہوجاتا ہے۔ دراصل عیسائیوں اور یہودیوں کی ہمیشہ یہی کوشش رہی ہے کہ لوگوں میں اسلام اور نبی آخر الزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں اس قسم کے شکوک وشبہات پیدا کردیے جائیں کہ جن سے لوگ از خود اسلام سے دور رہنے کی کوشش کریں۔ اسی ذہنیت سے انہوں نے سازشوں کونیا رنگ دے کر یہ منصوبہ بنایا کہ اپنے میں سے کچھ لوگوں کو صبح کے وقت محمد عربی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس بھیجا جائے۔ وہ ان کے سامنے اسلام کے اوصاف گنواتے ہوئے برملا ایمان لانے کا اظہار کریں لیکن ٹھیک دن کے آخر میں اسلام سے براءت کا اعلان کردیں تاکہ ہم مسلمانوں کو باور کروا سکیں کہ اگر اسلام میں سچائی اور آپ کے نبی میں کوئی خوبی ہوتی تو یہ پڑھے لکھے اور سمجھ دار لوگ مسلمان ہونے کے بعد کیوں اسے چھوڑتے؟ اس طرح مسلمان شکوک وشبہات کا شکار ہوں اور وہ بھی واپس پلٹنے کے لیے سوچیں۔ یہ صرف ایک واقعہ نہیں بلکہ اگر اہل کتاب بالخصوص یہودیوں کی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو اس بات کا پتہ چلتا ہے انہوں نے اسلام اور مسلمانوں کے بہی خواہ بن کر ملت اسلامیہ کو بار ہانقصان پہنچانے کی کوشش کی ہے۔ جس کی ابتدا عبداللہ بن سبا نے حضرت عثمان (رض) کی خلافت میں کی تھی اور اس کے نتیجے میں جنگ جمل اور جنگ صفین واقع ہوئیں اور آج تک یہ سلسلہ جاری ہے۔ کاش ! مسلمان اور ان کے سیاسی و مذہبی راہنما اہل کتاب خاص کر یہودیوں کی سازشوں کو سمجھ جائیں۔ مسائل ١۔ اہل کتاب مسلمانوں کو گمراہ کرنا چاہتے ہیں۔ ٢۔ کسی کو گمراہ کرنے والا خود گمراہ ہوا کرتا ہے۔ ٣۔ اہل کتاب حقائق جاننے کے باوجود دین اسلام کا انکار کرتے ہیں۔ ٤۔ اہل کتاب جان بوجھ کر حق و باطل کی آمیزش کرتے ہیں۔ ٥۔ اہل کتاب میں سے ایک گروہ ہمیشہ سے مسلمانوں کے خلاف سازشیں کرتا آرہا ہے۔ تفسیربالقرآن اہل کتاب کے مذموم خیالات : ١۔ اہل کتاب کی کوشش ہے کہ مسلمان بہک جائیں۔ (آل عمران : ٦٩) ٢۔ اہل کتاب حقائق جاننے کے باوجود اللہ کی آیات کے منکر ہیں۔ (آل عمران : ٧٠) ٣۔ اہل کتاب جانتے ہوئے بھی حق کو باطل کے ساتھ ملاتے اور کتمان حق کرتے ہیں۔ (آل عمران : ٧١) ٤۔ اہل کتاب کا مسلمانوں کو ورغلانے کا عجب انداز۔ (آل عمران : ٧٢، ٧٣) آل عمران
70 آل عمران
71 آل عمران
72 آل عمران
73 فہم القرآن ربط کلام : کسی کے نعروں اور دعووں سے دھوکہ کھانے اور اعتماد کرنے کی بجائے اللہ تعالیٰ کی ہدایت کی پیروی کرنی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ کا فضل کسی شخص کی ذات یافرقہ کی بنیاد پر نہیں بلکہ اس کی رحمت کی بدولت ہوا کرتا ہے۔ اہل کتاب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مسلمانوں کے خلاف سازشیں کرنے کے باوجود فکر مند رہتے تھے کہ مسلمانوں کی تعداددن بدن بڑھتی جارہی ہے۔ جو شخص بھی آپ سے ملاقات کرتا اور قرآن سنتا ہے وہ آپ ہی کا ہو کر رہ جاتا ہے۔ اہل کتاب کے سامنے مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ میں اس کی طویل لسٹ تھی۔ اکثریہ ہوا کہ اہل مکہ اور اہل کتاب کانمائندہ بن کر جانے والاشخص آپ کی پرجمال شخصیت اور دل ربا گفتگو سن کر اپنے دین سے دستبردار ہوجاتا۔ اس سے بچاؤ کے لیے انہوں نے اپنی عوام میں پرزور مہم چلائی اور خاص کر سازشوں میں کردار ادا کرنے والوں کو تین باتیں سمجھائیں۔1 اپنے پیشواؤں کے بغیر کسی کی بات نہ ماننا۔ 2 صرف اس بات کو تسلیم کرنا جس کا وجود اور ثبوت تورات اور انجیل میں پایا جاتا ہو۔ 3 تیسری بات یہ باور کروائی جاتی کہ دیکھنا کہیں ایسا نہ ہو کہ اپنے دین کے بارے میں کوئی کمزور بات کرو یا اسے چھوڑنے کا مسلمانوں کو عندیہ دو۔ یاد رکھنا! روز محشر مسلمان تمہارے خلاف اللہ تعالیٰ کے حضور جھگڑا کریں گے۔ تمہیں وہاں کوئی چھڑانے والا نہیں ہوگا۔ اس طرح کی بے محل مصنوعی فکر آخرت کا خوف دلا کر لوگوں کو ڈرایا کرتے تھے۔ باطل نظریات کے حامل لوگ شروع سے حق کے خلاف یہی ہتھیار استعمال کرتے آرہے ہیں۔ اس کے جواب میں دو باتیں ارشاد فرمائی گئیں۔ اے اہل کتاب تمہارا صبح کے وقت ایمان لانا اور شام کے وقت انکار کرنا اہل حق کو صراط مستقیم سے نہیں ڈگمگا سکتا کیونکہ ہدایت اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے۔ جب وہ کسی کو ہدایت سے سرفراز کرتا ہے تو دنیا کی کوئی سازش اس کے قدموں کو ڈگمگا نہیں سکتی۔ یہ بھی یاد رکھو کہ ہدایت وہ نہیں جسے اہل کتاب یا دنیا کا کوئی شخص ہدایت قرار دے۔ ہدایت حقیقتاً وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی پر نازل فرمائی۔ جو سراسر اللہ کا فضل ہے اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے نبوت اور ہدایت کے لیے منتخب فرماتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی رحمتوں، وسعتوں اور اس کے لامحدود فضل کا کوئی اندازہ نہیں کرسکتا۔ (عَنْ عَبْدِاللّٰہِ بْنِ عَمْرٍو (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) إِنَّ قُلُوبَ بَنِی آدَمَ کُلَّہَا بَیْنَ إِصْبَعَیْنِ مِنْ أَصَابِعِ الرَّحْمَنِ کَقَلْبٍ وَاحِدٍ یُصَّرِفُہُ حَیْثُ یَشَاءُ ثُمَّ قَالَ رَسُول اللَّہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللَّہُمَّ مُصَرِّفَ الْقُلُوبِ صَرِّفْ قُلُوبَنَا عَلَی طَاعَتِکَ)[ رواہ مسلم : باب تصریف اللہ القلوب حیث یشاء] ” حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) بیان کرتے ہیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بے شک بنی آدم کے دل اللہ تعالیٰ کی انگلیوں میں سے دو انگلیوں کے درمیان ایک دل کی طرح ہیں۔ وہ ان کو پھیرتا ہے جیسے چاہتا ہے۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ دعا فرمائی۔ اے اللہ دلوں کو پھیرنے والے ہمارے دلوں کو اپنی فرمانبرداری کی طرف پھیرے رکھنا“ مسائل ١۔ اہل کتاب اللہ تعالیٰ کا حکم ماننے کی بجائے اپنے عقیدہ کو حق سمجھتے ہیں۔ ٢۔ جماعتوں اور انسانوں کا من گھڑت عقیدہ ہدایت نہیں ہوا کرتا۔ ٣۔ ہدایت اللہ کی طرف سے ہے اور اس کے فضل سے ملتی ہے۔ ٤۔ فضل سارے کا سارا اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے اپنی رحمت سے نوازتا ہے۔ ٦۔ اللہ تعالیٰ وسعت اور علم والا ہے۔ تفسیربالقرآن ہدایت اللہ کے اختیار میں ہے : ١۔ ہدایت کا اختیار نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھی حاصل نہیں۔ (القصص : ٥٦) ٢۔ نبی کسی کو ہدایت پر گامزن کرنے کا ذمہ دار نہیں ہوتا۔ ( البقرہ : ٢٧٢) ٣۔ اللہ جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے۔ (ابراہیم : ٤) ٤۔ جسے اللہ گمراہ کر دے کوئی اسے ہدایت نہیں دے سکتا۔ (الاعراف : ١٨٦) آل عمران
74 آل عمران
75 فہم القرآن ربط کلام : اہل کتاب کی علمی خیانت کے بعد مالی بددیانتی کا تذکرہ۔ اہل کتاب کا کثیر طبقہ ہمیشہ سے علمی خیانت کے ساتھ مالی بددیانتی کا شکار رہا ہے۔ اس کی وجہ دین سے لاعلمی، بشری کمزوری اور صرف مالی ہوس نہیں۔ بلکہ بنیادی سبب ان کا یہ عقیدہ ہے کہ ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت پر اس لیے ایمان نہیں لاتے کہ اللہ تعالیٰ نے ہم سے یہ عہد لیا ہے کہ ہم موسیٰ (علیہ السلام) کے علاوہ کسی کو رسول تسلیم نہ کریں۔ اسی طرح ان کا یہ نظریہ بھی ہے کہ غیر یہودی اور اَن پڑھ لوگوں کے بارے میں ہمیں پوچھ گچھ نہیں ہوگی۔ ان کا مال لوٹنا ہمارے لیے جائز ہے۔ ان کے نزدیک اَن پڑھ سے مرادخاص طور پر حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کی اولاد ہے۔ ان کی کتابوں میں یہاں تک لکھا ہے کہ اگر کسی یہودی کے ہاں ایسا مقدمہ پیش ہو جس میں ایک فریق غیر یہودی ہو تو یہودی جج کا فرض ہے کہ وہ ہر طریقے سے اپنے یہودی بھائی کو فائدہ پہنچائے۔ یہاں تک کہ ان کے ہاں غیر یہودی کو قتل کرکے اس کا مال ہڑپ کرنا بھی جائز ہے۔ اس باطل نظریے کی وجہ سے ان میں اس قدر بے باکی پیدا ہوئی کہ اگر اس نظریہ کے حامل لوگوں کے پاس امانت رکھی جائے تو وہ اسے غصب کرنا شرعی حق اور ہر قسم کی عہد شکنی کو اپنے لیے جائز سمجھتے ہیں۔ سوائے اس کے کہ امانت رکھنے والا ان کے سر پر سوار ہوجائے بصورت دیگر ان سے امانت کی واپسی کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ پھر اس خیانت اور بددیانتی کا جواز تورات سے پیش کرتے ہیں۔ اس کا دوسرے لفظوں میں مطلب یہ ہے کہ وہ دین کو ڈھال کے طور پر استعمال کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ پر جھوٹ بول رہے ہیں۔ حالانکہ وہ جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ خیانت کو ہرگز پسند نہیں کرتا۔ قرآن مجید کی انصاف واصول پسندی پر قربان جائیے کہ اس نے یہودیوں میں جودیانتدار لوگ ہیں ان کو یہ کہہ کر مستثنیٰ قرار دیا ہے کہ ان میں دیانت دار بھی ہیں۔ جن کے پاس ایک خزانہ بھی رکھ دیا جائے تو وہ اس کی پائی پائی لوٹانے کے لیے تیار رہتے ہیں۔ امام رازی (رض) فرماتے ہیں کہ یہی لوگ ہی آپ کی نبوت پہ ایمان لانے والے ہیں۔ یہودیوں کے بارے میں اسرائیلی اخباروبزنس ڈیٹاکی رپورٹ : یہ یہودی فلاسفی ہے‘ کہ یہودی دنیا میں اعتماد‘ یقین‘ لین دین‘ وعدے وعید اور پیسے روپے کے معاملہ میں بدترین قوم ہیں۔ چاروں آسمانی کتابیں متفق ہیں کہ یہودی وعدے کے کمزور ہوتے ہیں۔ بات کر کے مکر جانا ان لوگوں کا شیوہ ہوتا ہے اور پانچ ہزار سال کی تاریخ بتاتی ہے یہ لوگ جس جگہ رہتے ہیں اس جگہ کا امن و سکون اور اطمینان غارت ہوجاتا ہے وہ جگہ ” دارالحرب“ بن جاتی ہے۔ اس جگہ جنگیں اور لڑائیاں ہوتی ہیں۔ یہ ان لوگوں پر وہ سیاہ دھبے ہیں۔ جنہیں شاید اب دنیا کی کوئی طاقت نہیں دھو سکتی۔ یہ لوگ کرپٹ بھی ہوتے ہیں‘ اسی اخبار میں عالمی بنک کے اعداد و شمار چھپے ہیں ان اعدادو شمار میں انکشاف ہوا کہ اسرائیل کا شمار اس وقت کے کرپٹ ترین ممالک میں ہوتا ہے۔ (بحوالہ جنگ اخبار 10 ستمبر 2005 ء) مسائل ١۔ دین کا نام لے کر جھوٹ بولنا بالواسطہ اللہ تعالیٰ پر جھوٹ بولنا ہے۔ ٢۔ ایسے لوگوں کا ضمیر انہیں ملامت کرتا ہے۔ تفسیربالقرآن اہل کتاب کی اکثریت بددیانت اور حرام خورہے : ١۔ اہل کتاب رشوت خور ہیں۔ (البقرۃ: ٨٥) ٢۔ اہل کتاب حرام خورہیں۔ (البقرۃ: ١٧٤) ٣۔ اہل کتاب بددیانت ہیں۔ (آل عمران : ٧٥) ٤۔ اہل کتاب سود خورہیں۔ (النساء : ١٦١) ٥۔ اہل کتاب کی اکثریت گناہ اور زیادتی کے کاموں میں جلدی کرنیوالی اور سود خور ہے۔ (المائدۃ: ٦٢) آل عمران
76 فہم القرآن ربط کلام : یہودیوں کا یہ عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہم سے عہد لیا ہے کہ موسیٰ کے علاوہ کسی نبی کو تسلیم نہ کریں۔ یہاں اس بات کی تردید کی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تو تمام انبیاء سے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لانے کا عہد لیا تھا۔ لہٰذا جو شخص انبیاء کے عہد کی پاسداری کرتے ہوئے نبی آخرالزماں (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لائے اور اللہ کی نافرمانی سے بچے۔ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں سے محبت کرتا ہے۔ انسان کا تعلق کسی مذہب سے ہو وہ فطری اور شرعی طور پر تین باتوں کا مکلّف ہوتا ہے۔ تخلیق آدم کے وقت اللہ تعالیٰ سے ” اَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ“ کے جواب میں توحید کا اقرار کرنا، ہر نبی کے عہد اور اعلان کے مطابق نبی آخر الزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لانا اور ایک دوسرے کے ساتھ کیے گئے عہد کی پاسداری کرنا۔ جو شخص بھی وعدہ ایفاء کرے اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتا رہے یقینًا اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو پسند کرتا ہے۔ (عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ قَالَ مَا خَطَبَنَا نَبِیُّ اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) إِلاَّ قَالَ لاَ إِیمَانَ لِمَنْ لاَ أَمَانَۃَ لَہُ وَلا دینَ لِمَنْ لاَ عَہْدَ لَہُ )[ رواہ احمد] ” حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ اللہ کے نبی نے جب بھی ہمیں خطبہ دیا آپ نے فرمایا اس شخص کا کوئی ایمان نہیں جس میں امانتداری نہیں اور اس شخص کا کوئی دین نہیں جس میں عہد کی پاسداری نہیں۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ سے عہد اور اس کے تقاضے پورے کرنے چاہییں۔ ٢۔ ایک دوسرے سے کیے ہوئے عہد کو پورا کرنا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن ایفائے عہد کا حکم : ١۔ وعدہ پورا کرنے کا حکم۔ (المائدۃ: ١) ٢۔ قیامت کو عہد کی باز پرس۔ (بنی اسرائیل : ٣٤) ٣۔ عہد پورا کرنے والے متقی۔ (البقرۃ: ١٧٧) ٤۔ عہد پورا کرنے والے عقل مند۔ (الرعد : ١٩، ٢٠) ٥۔ عہد پورا کرنے والوں کو اجر عظیم۔ (الفتح : ١٠) ٦۔ عہد پورا کرنے والے جنتی ہیں۔ (المومنون : ١٠، ١١) آل عمران
77 فہم القرآن ربط کلام : سلسلہ کلام گزشتہ سے پیوستہ۔ اہل کتاب عہدشکن اور ایمان فروش ہیں دنیوی مفاد کے لیے عہد توڑنے اور ایمان فروشی کی سزا۔ اللہ تعالیٰ کے حکم، دین اور اس کی عظمت کے مقابلے میں دنیا کی بادشاہت اور دولت کی کوئی حیثیت نہیں۔ دین میں داخل ہونا اللہ تعالیٰ سے عہد کرنے کے مترادف ہے۔ اللہ تعالیٰ کے عہد اور حکم کو دنیا کی خاطر چھوڑنا عہد اور دین بیچنے کے مترادف ہے۔ اس جرم میں وہ لوگ بھی شامل ہوں گے جو قسموں کے ذریعے اللہ تعالیٰ کے نام کو ڈھال اور دنیاوی مفاد کا ذریعہ بناتے ہیں۔ حضرت عبداللہ بن ابی اوفیٰ (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے بازار میں اپنا سودا لگایا اور دوسرے مسلمان کو یہ کہہ کر سودا فروخت کیا کہ اللہ کی قسم ! مجھے اس کا اتنا منافع ملتا ہے تو یہ آیت نازل ہوئی۔ [ رواہ البخاری : کتاب الشھادات، باب قول اللہ تعالیٰ ان الذین یشترون الخ] دین کے نام پر سیاسی، مالی اور سماجی مفادات اٹھانا دین کو بیچنے کے برابر ہے۔ اہل کتاب کے علماء کا یہ بھی شیوہ تھا کہ انہوں نے دین کو محض پیشہ کے طور پر اختیار کر رکھا تھا۔ وہ تعلیم وتعلّم اور تبلیغ واشاعت کا اتنا ہی کام کرتے تھے۔ جتنا ان کو معاوضہ ملتا اور فائدہ پہنچتا۔ ایسے مذہبی مجرموں کے لیے پانچ سزاؤں کا اعلان کیا گیا ہے 1 ان کے لیے آخرت میں کوئی اجر نہیں ہوگا 2 اللہ تعالیٰ ان سے کلام نہیں کرے گا 3 اللہ تعالیٰ انہیں نظر رحمت سے نہیں دیکھے گا 4 انہیں گناہوں سے پاک نہیں کیا جائے گا 5 ان کے لیے اذیت ناک عذاب ہوگا۔ مسائل ١۔ آخرت کے مقابلے میں پوری دنیا حقیر اور قلیل ہے۔ ٢۔ دین کے بدلے دنیا کمانے والوں کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہوگا۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ ایسے مجرموں کو اذّیت ناک عذاب دیں گے۔ آل عمران
78 فہم القرآن ربط کلام : اہل کتاب کے کردار کی مزید وضاحت کہ تاریخی حقائق بدلنے اور ان کا انکار کرنے کے ساتھ لسانی کرتب کے ذریعے باطل کو حق بنا کر پیش کر کے اس کو اللہ تعالیٰ کے ذمہ لگاتے ہیں۔ اہل کتاب نے اپنی طرف سے شریعت بنانا، حق وباطل کو خلط ملط کرنا، دنیا کی خاطر دین و ایمان فروخت کرنا اور حق چھپانا اپنے مذہب کا حصہ بنا لیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی ان میں سے ایک گروہ تورات اور انجیل کو توڑ مروڑ کر پیش کرکے دعو ٰی کرتا ہے کہ یہ اللہ کی کتاب ہے تاکہ سننے والا اس پر ایمان لے آئے۔ انہوں نے اس میں بیشمار ترامیم و اضافے کیے اور لوگوں کو باور کروانے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ تورات اور انجیل اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کردہ ہیں۔ اس طرح جان بوجھ کر اللہ تعالیٰ پر جھوٹ بولتے ہیں۔ افسوس ! آج امت محمدیہ کے بیشتر علماء اور فرقوں کا بھی یہی طرز عمل ہے کہ وہ اپنے گروہی نظریات، ذاتی خیالات اور فقہی مسائل کو متبادل دین کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ اپنے خطبات اور فتاویٰ میں قرآن وسنت کا حوالہ دینے کے بجائے فقہ کی کتب کا حوالہ دیتے ہیں۔ حتی کہ مدارس میں زیادہ وقت قرآن و حدیث پڑھانے کے بجائے کئی کئی سال اپنے فرقہ کی فقہ ہی پڑھائی جاتی ہے۔ مسائل ١۔ اہل کتاب گروہی خیالات کو کتاب اللہ کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ ٢۔ اہل کتاب دانستہ اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھتے ہیں۔ تفسیربالقرآن ١۔ اہل کتاب زبان کے ہیر پھیرسے کتاب کو بدلتے ہیں۔ (آل عمران : ٧٨) ٢۔ زبان کے ہیر پھیر سے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی گستاخیاں کرتے ہیں۔ (البقرۃ: ١٠٤) ٣۔ اہل کتاب الفاظ کے ادل بدل سے کلام اللہ کا مفہوم بدلتے ہیں۔ (النساء : ٤٦) آل عمران
79 فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ نے اہل کتاب کو کتاب‘ نبوت اور حکمرانی سے نوازا۔ اس لیے ان کے بہانوں میں ایک بہانہ یہ تھا کہ ہمیشہ سے کتاب‘ نبوت اور حکومت ہمیں ملتے آئے ہیں۔ اب ہم کسی دوسرے شخص کو نبی کیوں تسلیم کریں۔ یہاں اس بات کی تردید کی گئی ہے کہ کسی شخص کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ اللہ تعالیٰ اسے کتاب‘ حکومت اور نبوت سے نوازے تو وہ لوگوں کو اللہ کا بندہ بنانے کی بجائے اپنا بندہ بنانے کی کوشش کرے۔ لہٰذا تمہیں لوگوں کو اپنا بندہ بنانے کی بجائے خود اللہ کے بندے بننا چاہیے یہی اسلام کی دعوت اور مسلمان ہونے کا تقاضا ہے۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس وفد نجران آیا آپ نے ان کو عیسیٰ (علیہ السلام) کے متعلق وحی کی صورت میں جب ٹھوس اور مکمل معلومات فراہم کردیں تو وہ لاجواب اور کھسیانے ہو کر کہنے لگے تو پھر ہمیں آپ کی عبادت کرنی چاہیے؟ ہمیں تو عیسیٰ (علیہ السلام) نے اسی طرح عبادت کرنے کا حکم دیا تھا۔ اس کے جواب میں یہ وضاحت نازل ہوئی کہ کسی بشر کو یہ زیب نہیں دیتا کہ اللہ تعالیٰ اسے کتاب‘ نبوت وحکومت کے ساتھ سرفراز فرمائے تو وہ لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی بندگی کا حکم دینے کے بجائے اپنی بندگی پر آمادہ کرے۔ پیغمبر تو لوگوں کو رب کے بندے بنانے کے لیے مبعوث کیے جاتے ہیں اسی کی وہ تعلیم دیتے اور تبلیغ کرتے ہیں۔ وہ اس بات کا حکم بھی نہیں دیتے کہ لوگ ملائکہ اور انبیاء کورب یا اس کا جزو بنالیں وہ تمہیں کیونکر کفر کا حکم دے سکتے ہیں جب کہ تم مسلمان ہو۔ جہاں تک عیسیٰ (علیہ السلام) کا تعلق ہے تو وہ دوٹوک الفاظ میں کہا کرتے تھے کہ میرا اور تمہارا رب ایک ہے اور اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ محشر کے میدان میں جب ان سے یہ سوال ہوگا کہ اے عیسیٰ ! کیا تو نے عیسائیوں کو یہ کہا تھا کہ مجھے اور میری والدہ کو الٰہ بنالو ؟ تو عیسیٰ (علیہ السلام) تھر تھر اتے ہوئے رب ذو الجلال کے حضور عرض کریں گے کہ بارِالٰہ! ایسی بات میں کیونکر کہہ سکتا تھا جسے کہنے کی مجھے اجازت نہ تھی۔ اگر میں نے ایسی بات کہی ہے تو تجھے معلوم ہے۔ تو میرے دل کی حالت سے بھی واقف ہے جب کہ میں تیرے فیصلے کو نہیں جانتا۔ میں نے تو صرف یہ بات کہی تھی کہ اس اللہ کی عبادت کرو جو میرا اور تمہارا رب ہے (المائدۃ: ١١٦، ١١٧)۔ یہی بات رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس موقع پر ارشاد فرمائی جب ایک صحابی نے ملک فارس سے واپسی پر آپ کے قدموں پر سجدہ کرنے کی کوشش کی تو آپ نے اسے پیچھے ہٹا تے ہوئے فرمایا کہ اگر میں نے سجدہ کرنے کی اجازت دینا ہوتی تو بیوی کو حکم دیتا کہ وہ اپنے خاوند کے سامنے سجدہ ریز ہواکرے۔ لیکن یادرکھو! اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی کو سجدہ کرنے اور کسی کے سامنے جھکنے کی اجازت نہیں ہے۔ (عَنْ قَیْسِ بْنِ سَعْدٍ (رض) قَالَ أَتَیْتُ الْحِیْرَۃَ فَرَأَیْتُھُمْ یَسْجُدُوْنَ لِمَرْزُبَانٍ لَھُمْ فَقُلْتُ رَسُوْلُ اللّٰہِ أَحَقُّ أَنْ یُّسْجَدَ لَہٗ قَالَ فَأَتَیْتُ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَقُلْتُ إِنّیْ أَتَیْتُ الْحِیْرَۃَ فَرَأَیْتُھُمْ یَسْجُدُوْنَ لِمَرْزُبَانٍ لَھُمْ فَأَنْتَ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ أَحَقُّ أَنْ نَّسْجُدَ لَکَ قَالَ أَرَأَیْتَ لَوْ مَرَرْتَ بِقَبْرِیْ أَکُنْتَ تَسْجُدُ لَہٗ قَالَ قُلْتُ لَا قَالَ فَلَا تَفْعَلُوْا لَوْ کُنْتُ آمِرًا أَحَدًا أَنْ یَّسْجُدَ لِأَحَدٍ لَأَمَرْتُ النِّسَآءَ أَنْ یَسْجُدْنَ لِأَزْوَاجِھِنَّ لِمَا جَعَلَ اللّٰہُ لَھُمْ عَلَیْھِنَّ مِنَ الْحَقِّ) [ رواہ أبو داوٗد : کتاب النکاح، باب فی حق الزوج علی المرأۃ] ” حضرت قیس بن سعد (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں حیرہ گیا تو میں نے انہیں بادشاہ کو سجدہ کرتے ہوئے دیکھا۔ میں نے سوچا کہ اللہ کے رسول سجدے کے زیادہ لائق ہیں۔ میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا تو میں نے عرض کی کہ میں نے حیرہ میں دیکھا کہ وہ اپنے بادشاہ کو سجدہ کرتے ہیں۔ اللہ کے رسول ! آپ زیادہ حقدار ہیں کہ ہم آپ کو سجدہ کریں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بتلائیے! اگر تم میری قبر کے پاس سے گزرو تو کیا اسے سجدہ کرو گے؟ میں نے کہا نہیں۔ آپ نے فرمایا ایسا نہ کرو۔ اگر میں نے کسی کو کسی کے سامنے سجدہ ریز ہونے کا حکم دینا ہوتا تو اللہ تعالیٰ نے مردوں کا عورتوں پر جو حق رکھا ہے۔ اس وجہ سے عورتوں کو حکم دیتاکہ وہ اپنے خاوندوں کے سامنے سجدہ ریز ہوں۔“ مسائل ١۔ کسی پیغمبر کو بھی اختیار نہیں کہ وہ لوگوں کو اپنا بندہ بنانے کی کوشش کرے۔ ٢۔ اللہ کے پیغمبر لوگوں کو اللہ ہی کا بندہ بننے کی تلقین فرماتے تھے۔ ٣۔ آسمانی کتاب‘ حکومت اور کسی کو نبوت دینا اللہ تعالیٰ کا اختیار ہے۔ ٤۔ ملائکہ اور انبیاء یا کسی دوسرے کو الٰہ کا درجہ نہیں دینا چاہیے۔ ٥۔ ملائکہ‘ انبیاء اور کسی بزرگ کو خدائی درجہ دینا کفر ہے۔ ٦۔ شرک اور کفر باہم مترادف ہیں۔ آل عمران
80 آل عمران
81 فہم القرآن ربط کلام : عیسائیوں اور یہودیوں کے الزام‘ بہانے اور جھوٹ کی تردید۔ یہودی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا نام لے کر اور عیسائی جناب عیسیٰ (علیہ السلام) کے حوالے سے کہتے ہیں۔ ہمیں ہدایت کی گئی ہے کہ ہم اپنے انبیاء کے علاوہ کسی نبی پر ایمان نہ لائیں۔ ان کی کذب بیانی کی تردید کرتے ہوئے اس عہد کا ذکر کیا گیا ہے۔ جو اللہ تعالیٰ نے تخلیق آدم کے وقت انبیائے کرام سے لیا تھا کہ میں تمہیں کتاب وحکمت سے سرفراز کروں گا۔ لیکن ایک آخر الزمان پیغمبر آنے والا ہے جو تمہاری شریعتوں کی تائید کرے گا۔ جس کے دور میں وہ پیغمبر آئے اس نبی کا فرض ہوگا کہ وہ اس پر ایمان لائے اور اس کی نصرت وحمایت کرے۔ فرمایا کہ کیا تم اس بات کا اقرار اور میرے ساتھ وعدہ کرتے ہو؟ تمام انبیاء نے بیک زبان ہو کر اللہ تعالیٰ سے عہد کیا کہ ہم نبی آخر الزمان پر ایمان لاتے ہوئے اس کی مدد کریں گے۔ فرمایا پھر گواہ رہنا اور میں بھی اپنی شہادت تمہارے ساتھ ثبت کرتا ہوں۔ یاد رکھنا! کہ جس نے اس عہد سے انحراف کیا وہ نافرمان سمجھا جائے گا۔ چنانچہ ہر نبی اور رسول نے اپنے دور نبوت میں اپنی امت کو ہدایت کی کہ جوں ہی خاتم المرسلین تشریف لائیں تو تمہارا فرض ہوگا کہ تم میری نبوت چھوڑ کر اس پر ایمان لا کر اس کی نصرت و حمایت کرنا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت کے لیے حضرت ابراہیم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دعامانگی اور اپنی دعا میں اس تمنا کا اظہار کیا کہ بارِالٰہ ! وہ آخری نبی مکہ معظمہ میں مبعوث فرمانا۔ اس طرح انہوں نے علاقے اور ایک شہر کی نشاندہی فرما دی (البقرۃ : ١٢٩) ان کے بعد آپ کی رسالت کا ہر نبی اعلان کرتا رہا یہاں تک کہ عیسیٰ ( علیہ السلام) نے آپ کے اسم گرامی سے بنی اسرائیل کو آگاہ فرمایا اس آخری رسول کا نام نامی اسم گرامی احمد ہوگا۔ (الصف : ٦) بعض اہل علم نے لکھا ہے کہ یہ عہد انبیاء سے لینے کے بجائے ان کی وساطت سے ان کی امتوں سے لیا گیا تھا۔ حالانکہ قرآن مجید دوٹوک انداز میں واضح کررہا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ عہد انبیاء سے براہ راست لیا تھا۔ دراصل ان حضرات کو ” فَمَنْ تَوَلّٰی“ (کہ تم میں سے عہد سے پھر جائے) کے الفاظ سے مغالطہ ہوا ہے اس لیے کہ نبی تو عام آدمی کے ساتھ عہد شکنی نہیں کرتا چہ جائے کہ اللہ کے ساتھ انبیاء کی وعدہ خلافی کے بارے میں کچھ کہا جائے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ انبیاء کے بارے میں یہ سوچنا گناہ ہے لیکن بات کی اہمیت کے پیش نظر قرآن مجید نے کئی مقامات پر یہ اسلوب اختیار فرمایا ہے۔ یہ انداز اس لیے بھی اپنایا گیا کہ معاملہ رب ذوالجلال کے ساتھ ہورہا ہے۔ لہٰذا یہ عہد انبیائے عظام سے ہوا کیونکہ خالق کو اپنی مخلوق پر حق ہے کہ جس طرح چاہے خطاب فرمائے۔ یہاں عہد کے بجائے میثاق کا لفظ استعمال فرمایا جو اہمیت کے اعتبار سے بلند درجہ رکھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور انبیاء کرام (علیہ السلام) کو اس طرح بھی خطاب فرمایا ہے : (لَءِنْ اَشْرَکْتَ لَیَحْبَطَنَّ عَمَلُکَ) [ الزمر : ٦٥] ” اگر تم نے شرک کیا تو تمہارے اعمال برباد ہوجائیں گے۔“ (وَلَوْ أَشْرَکُوْالَحَبِطَ عَنْھُمْ مَّاکَانُوْا یَعْمَلُوْنَ) [ الانعام : ٨٨] ” اور اگر یہ تمام انبیاء بھی شرک کا ارتکاب کرتے تو ان کے اعمال ضائع ہوجاتے۔“ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی وصیت ” میں دنیا میں اس لیے آیاہوں کہ اس اللہ کے رسول کی آمد کے لیے راستہ ہموار کروں جو دنیا کو نجات دلائے گا۔ لیکن خبردار! دھوکہ نہ کھانا، کیونکہ بے شمار جھوٹے نبی آئیں گے جو میرا نام لیں گے اور میری انجیل میں ملاوٹ کریں گے۔“ [ برناباس۔ باب ٧١] ” وہ تمہارے وقتوں میں نہیں آئے گا بلکہ تمہارے کچھ عرصے کے بعد آئے گا جب کہ میری انجیل مسترد کردی جائے گی۔۔ وہ دنیا سے بت پرستی کا خاتمہ کرے گا اور ان لوگوں سے بدلہ لے گا جو مجھے آدمی سے بڑھ کر کچھ اور تصور کریں گے۔“ [ برناباس۔ باب ٧١] مسائل ١۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت کا تمام انبیاء نے اقرار کیا اور اللہ تعالیٰ نے اس پر اپنی شہادت ثبت فرمائی۔ تفسیربالقرآن انبیاء ایک دوسرے کے مصدّق تھے : ١۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پہلے انبیاء کی تصدیق کی۔ (الصافات : ٣٧) ٢۔ قرآن پہلی کتب کا مصدق ہے۔ (آل عمران : ٣) ٣۔ عیسیٰ (علیہ السلام) نے تورات کی تصدیق کی۔ (آل عمران : ٥٠) ٤۔ حضرت یحییٰ، عیسیٰ (علیہ السلام) کے مصدق تھے۔ (آل عمران : ٣٩) آل عمران
82 آل عمران
83 فہم القرآن ربط کلام : اہل کتاب اور اللہ کے نافرمانوں کو بار بار سوچنا چاہیے کہ تمہاری بد عہدی اور نافرمانی سے رب کی خدائی میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ کیونکہ زمین و آسمان کی ہر چیز اپنے خالق و مالک کی تابعدار ہے۔ جب ساری مخلوق تابعدار اور تمام انبیاء نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کا اقرار اور اس سے عہد کیا تو تم نبوت کا انکار اور اللہ کی بغاوت کرنے والے کون ہوتے ہو؟ اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کے احکامات ماننے کا نام دین ہے۔ اے اہل کتاب اور دنیا جہان کے لوگو! کیا اللہ تعالیٰ کی اطاعت چھوڑ کر کسی اور کی تابعداری کرنا چاہتے ہو ؟ ذراغور کرو اور سوچو کہ زمین و آسمان کی ہر چیز اس کی فرمانبرداری میں لگی ہوئی ہے۔ سورج اس کے حکم کے مطابق ڈیوٹی دے رہا ہے، چاند اس کی اطاعت میں اپنی منازل طے کرتا ہے، ستارے اسی کے نظام کے مطابق چھپتے اور ظاہر ہوتے ہیں۔ دریا اور سمندر اس کے حکم سے رواں دواں ہیں۔ ہوائیں اس کی فرمانبرداری میں چلتی اور رکتی ہیں، رات اور دن اس کے حکم سے ایک دوسرے کے آگے پیچھے چل رہے ہیں جونہی حکم ہوگا پہاڑ ریزہ ریزہ ہوجائیں گے، ہوائیں تھم جائیں گی، سمندر جامد ہوجائیں گے، سورج اپنا رخ موڑلے گا، اور لیل ونہار کی گردشیں رک جائیں گی گویا کہ پورے کا پورا نظام لفظ ” کُنْ“ سے جامد، ساکت اور الٹ پلٹ ہوجائے گا۔ جب پورا نظام اللہ تعالیٰ کی سمع وطاعت اور اس کے حکم سے انسان کی خدمت میں لگا ہوا ہے تو حیف ہے انسان پر جو اس کی ذات کا انکار اور اس کے حکم سے سرتابی کرتے ہوئے پورے نظام کے ساتھ بغاوت اور اس کے خلاف چلتا ہے۔ لہٰذا انتباہ کے انداز میں سوال کیا جا رہا ہے کیا اللہ تعالیٰ کے نظام قدرت کے خلاف چلنا چاہتے ہو ؟ جب کہ زمین و آسمان کی ہر چیز چاروناچار اس کے حکم کی فرمانبردار ہے۔ لفظ ” کَرْھًا“ استعمال فرما کر باغی انسانوں کو متنبہ کیا جارہا ہے کہ وہ اللہ ہواؤں کا رخ موڑدیتا ہے، سمندروں کو پرسکون بنا دیتا ہے، پہاڑوں کو پھاڑکر چشمے چلا دیتا ہے، شمس وقمر اپنے وجود عظیم کے باوجود اس کے سامنے بے بس ہیں، آسمان اپنی بلندیوں کے باوجود اس کے زیر تسلط ہیں، زمین کی وسعت وکشادگی اس کی کرسی اقتدار کے سامنے ایک انگوٹھی کے مانند ہے تو اے انسان! تم اس رب کی دسترس سے کس طرح باہر ہوسکتے ہو؟ اس کی دی ہوئی مہلت کے بعد بالآخر تم نے اسی کے حضور پیش ہونا ہے۔ دین کی روح اور مدعا اللہ تعالیٰ کی سمع وطاعت کا نام ہے اور یہی انبیاء کرام کی دعوت ہے اور اسی پر وہ ایمان لائے اور اسی کی اطاعت کرتے رہے۔ لہٰذا اے رسول! تم اس بات کا اعلان کرو کہ میں ہی نہیں بلکہ ہم سب کے سب اللہ تعالیٰ پر ایمان لائے اور جو کچھ ہم پر اور ابراہیم، اسماعیل، اسحاق، یعقوب، موسیٰ اور عیسیٰ پر نازل کیا گیا ہم ان میں سے کسی ایک کی نبوت کی نفی اور ان کے درمیان تفریق نہیں کرتے اور ہم اسی کے ماننے والے ہیں اور یہی انبیاء کا دین اور طریقۂ حیات تھا۔ جو بھی اس طرز بندگی اور سمع وطاعت کے طریقہ سے ہٹ کر زندگی بسر کرے گا اس کی کوئی نیکی اور کاوش اللہ تعالیٰ کے ہاں مقبول نہیں ہوگی اور اس کا انجام بالآخر نقصان پانے والوں میں ہوگا۔ مسائل ١۔ زمین و آسمان کی ہر چیز اللہ تعالیٰ کی تابع فرمان ہے۔ لہٰذا جن و انس کو بھی اللہ کی اطاعت کرنا چاہیے۔ ٢۔ سب نے اللہ تعالیٰ ہی کی طرف پلٹ کر جانا ہے۔ ٣۔ اسلام کے سوا دوسرادین قبول نہیں کیا جائے گا۔ ٤۔ ایمان کا تقاضا ہے کہ انبیاء کی کتابوں کا من جانب اللہ ہونا بلاتفریق تسلیم کیا جائے۔ ٥۔ دین اسلام کے خلاف چلنے والا بالآخر نقصان اٹھائے گا۔ تفسیربالقرآن اسلام کی اہمیّت : ١۔ اسلام کے بغیر کوئی دین قبول نہیں۔ (آل عمران : ٨٥) ٢۔ اللہ کے نزدیک پسندیدہ دین اسلام ہے۔ (آل عمران : ١٩) ٣۔ یوسف (علیہ السلام) کی اسلام پر موت کی دعا۔ (یوسف : ١٠١) ٤۔ سب کو اسلام پر ہی مرنے کا حکم۔ (البقرۃ: ١٣٢) آل عمران
84 آل عمران
85 آل عمران
86 فہم القرآن ربط کلام : انبیاء کے مشن اور نظام کائنات کے خلاف چلنے والے کفار کی دنیا میں سزا اور آخرت میں اس کا انجام۔ اکثر مفسرین نے اس آیت کی تفسیر میں لکھا ہے کہ ایمان کے بعد کفر اختیار کرنے والوں سے مراد اہل کتاب ہیں۔ کیونکہ تورات اور انجیل کے حوالے سے وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت کے بارے میں قلبی طور پر مانتے ہیں کہ یہ حق ہے۔ اس فرمان کے مخاطب اہل کتاب ہوں یا مرتدین آپ کی رسالت کی حقیقت کے ٹھوس دلائل جاننے کے باوجود جو بھی تسلیم ورضا کارویّہ اختیار نہ کرے۔ اللہ تعالیٰ ایسے ظالموں کو ہدایت عطا نہیں کیا کرتا۔ جو شخص اپنے آپ پر ظلم کرنے کے درپے ہوجائے اس کا ہاتھ پکڑنا مشکل ہوجاتا ہے۔ جیسا کہ ہرزبان میں محاورہ ہے کہ ” سوئے ہوئے کو تو جگایا جاسکتا ہے۔ لیکن جاگتے کو جگانامحال ہوتا ہے“ یہاں بھی ایسے ہی لوگوں کو مخاطب کیا جارہا ہے کہ جنہوں نے آپ کی رسالت کو اس طرح پہچان لیا ہے جس طرح باپ اپنے بیٹے کو پہچان لیا کرتا ہے لیکن پھر بھی تعصب یا کسی مفاد کے چھن جانے کے خوف سے آپ پر ایمان لانے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ ایسے ظالموں کو ہدایت دینا تو درکنار ان پر اللہ تعالیٰ‘ ملائکہ اور دنیا جہان کے انسان پھٹکار بھیجتے ہیں۔ ایسا پھٹکارا ہوا شخص ہدایت پائے تو کس طرح؟ انہیں تو اس پھٹکار کی حالت میں ہمیشہ رہنا ہے اور یہ پھٹکار انہیں بالآخر جہنم میں لے جائے گی۔ جہاں ان پر نہ کبھی عذاب ہلکا ہوگا اور نہ وہ اس سے چھٹکارا پاسکیں گے۔ مسائل ١۔ جان بوجھ کر حق کا انکار کرنے والے کو اللہ تعالیٰ ہدایت نہیں دیتا۔ ٢۔ کفار پر اللہ تعالیٰ اور پوری مخلوق لعنت کرتی ہے۔ آل عمران
87 آل عمران
88 آل عمران
89 فہم القرآن ربط کلام : کفار کے لیے توبہ کی گنجائش اور توبہ کرنے پر مہربانی کا وعدہ۔ توبہ کا معنٰی پلٹنا ہے جس سے مراد آدمی کا اللہ کی طرف رجوع کرنا ہے کیونکہ یہ شخص اپنے گناہوں اور جرائم کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے حکم سے الگ اور اس کی رحمت سے دور ہوگیا تھا۔ اب یہ اپنے رب کی طرف متوجہ ہوا ہے اور اس نے توبہ کی ایسے شخص کو تائب کہتے ہیں۔ جب لفظ توبہ کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف ہو تو معنٰی یہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندے پر توجہ فرمائی۔ توبہ کی تکمیل کے لیے دو شرطیں ازحد ضروری ہوا کرتی ہیں 1 سابقہ گناہوں کی معافی طلب کرنا جسے قرآن و حدیث میں استغفار کہا گیا۔2 دوسری شرط یہ ہے کہ آدمی اخلاص نیت کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے یہ عہد کرے کہ اِلٰہی آئندہ میں اس گناہ سے بچنے کی کوشش کروں گا۔ ذاتی اصلاح کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ اس کی وجہ سے معاشرے میں جو گناہ پھیلاہے اس کی تردید اور اس کے اثرات ختم کرنے کے لیے بھی کوشش کرتارہے۔ ایسی صورت میں اللہ تعالیٰ یقیناً اس کے گناہوں کو معاف فرمائے گا کیونکہ وہ معاف فرمانے والا‘ نہایت مہربان ہے۔ مسائل ١۔ توبہ اور اصلاح کرلینے والوں کو معاف کردیا جاتا ہے۔ تفسیربالقرآن توبہ کی شرائط : ١۔ اعتراف جرم کے سبب توبہ قبول ہوتی ہے۔ (البقرۃ: ٣٧) ٢۔ ظلم سے اجتناب اور اصلاح احوال کے بعد توبہ قبول ہوتی ہے۔ (المائدۃ: ٣٩) ٣۔ جہالت کے سبب گناہ کرکے اصلاح کرنے پر اللہ توبہ قبول کرتا ہے۔ (الانعام : ٥٤) ٤۔ توبہ قبول کرنا اللہ تعالیٰ کا اختیار ہے۔ (التوبۃ: ٢٧) ٥۔ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی گناہ معاف نہیں کرسکتا۔ (آل عمران : ١٣٥) آل عمران
90 فہم القرآن ربط کلام : توبہ اور اصلاح کا موقعہ ملنے کے باوجود جو لوگ کفر و شرک پر ہیں۔ ان کے بارے میں حتمی سزا کا اعلان۔ بلا شبہ جن لوگوں نے ایمان کے بعد کفر اختیار کیا اور پھر اپنی اصلاح اور ایمان کی طرف پلٹنے کی بجائے کفر میں آگے ہی بڑھتے چلے گئے۔ اللہ تعالیٰ ان کی توبہ قبول نہیں کرے گا اور یہی لوگ گمراہی میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ اگر انہیں اسی حالت میں موت آگئی تو ایسے لوگ قیامت کے دن اپنے آپ کو چھڑانے کے لیے زمین بھر سونا بھی پیش کریں تو وہ قبول نہیں ہوگا۔ یاد رہے کہ مرنے کے بعد انسان کے پاس اچھے یابرے اعمال کے علاوہ کوئی چیز نہیں ہوگی۔ اس کے باوجود یہاں فدیہ کی بات ہورہی ہے۔ اس کا معنٰی ہے کہ ایسے لوگوں کے پاس نہ مرنے کے بعد کچھ ہوگا نہ ہی یہ لوگ عذاب سے نجات پائیں گے اور نہ ہی ان کا کوئی حامی ومدد گار ہوگا۔ (عَنْ أَنَسٍ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یُؤْتٰی بالرَّجُلِ مِنْ أَھْلِ الْجَنَّۃِ فَیَقُوْلُ لَہٗ یَاابْنَ آدَمَ کَیْفَ وَجَدْتَّ مَنْزِلَکَ فَیَقُوْلُ أَیْ رَبِّ خَیْرُ مَنْزِلٍ فَیَقُوْلُ سَلْ وَتَمَنَّ فَیَقُوْلُ مَا أَسْأَلُ وَأَتَمَنّٰی إِلَّا أَنْ تَرُدَّنِیْ إِلَی الدُّنْیَا فَأُقْتَلَ فِیْ سَبِیْلِکَ عَشْرَ مَرَّاتٍ لِمَایَرٰی مِنْ فَضْلِ الشَّھَادَۃِ وَیُؤْتٰی بالرَّجُلِ مِنْ أَھْلِ النَّارِ فَیَقُوْلُ لَہٗ یَا ابْنَ آدَمَ کَیْفَ وَجَدْتَّ مَنْزِلَکَ فَیَقُوْلُ أَیْ رَبِّ شَرُّّ مَنْزِلٍ فَیَقُوْلُ لَہٗ أَتَفْتَدِیْ مِنْہُ بِطِلَاعِ الْأَرْضِ ذَھَبًا فَیَقُوْلُ أَیْ رَبِّ نَعَمْ فَیَقُوْلُ کَذَبْتَ فَقَدْ سَأَلْتُکَ أَقَلَّ مِنْ ذٰلِکَ وَأَیْسَرَ فَلَمْ تَفْعَلْ فَیُرَدُّ إِلَی النَّارِ) [ مسند أحمد : کتاب باقی مسند المکثرین، باب باقی المسند السابق] ” رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ایک جنتی کو لایا جائے گا اللہ تعالیٰ اس سے پوچھے گا اے ابن آدم تو نے اپنا مقام کیسا پایا؟ وہ جواب دے گا اے میرے رب! بہترین رہنے کی جگہ ہے۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کسی اور تمنا کا اظہار کر۔ وہ عرض کرے گا نہ میری کوئی تمنا ہے نہ سوال سوائے اس کے کہ آپ مجھے دنیا میں دوبارہ بھیج دیں میں تیری راہ میں دس مرتبہ شہید کردیا جاؤں یہ شہادت کی فضیلت کی وجہ سے تمنا کرے گا۔ پھر ایک جہنمی آدمی لایا جائے گا اللہ تعالیٰ اس سے پوچھے گا۔ اے ابن آدم تو نے اپنا ٹھکانہ کیسا پایا؟ وہ جواب دے گا اے میرے رب! بدترین ٹھکانا ہے اللہ تعالیٰ اسے کہیں گے کیا تو زمین بھر سونا فدیہ کے طور پر دے گا؟ وہ کہے گا ہاں میرے رب۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا تو جھوٹ بولتا ہے میں نے تو تجھ سے اس سے کم اور آسان کام کا مطالبہ کیا تھا جو تو نے نہ کیا۔ پھر اسے جہنم میں داخل کردیا جائے گا۔“ (عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ یَقُوْلُ اللّٰہُ تَعَالٰی لِأَھْوَنِ أَھْلِ النَّارِ عذَابًا یَوْمَ الْقِیَامَۃِ لَوْ أَنَّ لَکَ مَافِی الْأَرْضِ مِنْ شَیْءٍ أَکُنْتَ تَفْتَدِیْ بِہٖ فَیَقُوْلُ نَعَمْ فَیَقُوْلُ أَرَدْتُّ مِنْکَ أَھْوَنَ مِنْ ھٰذَا وَأَنْتَ فِیْ صُلْبِ آدَمَ أَنْ لَّاتُشْرِکَ بِیْ شَیْءًا فَأَبَیْتَ إِلَّآأَنْ تُشْرِکَ بِیْ) [ رواہ البخاری : کتاب الرقاق، باب صفۃ الجنۃ والنار] ” حضرت انس بن مالک (رض) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتی ہیں آپ نے فرمایا ایک جہنمی آدمی سے روز قیامت کہا جائے گا تیرا کیا خیال ہے کہ اگر تیرے پاس زمین میں جو کچھ ہے تو وہ جہنم کے عذاب کے بدلے فدیہ دے ؟ وہ کہے گا ہاں۔ اللہ تعالیٰ فرمائیں گے میں نے تو تجھ سے اس سے ہلکی اور کم چیز کا مطالبہ کیا تھا۔ میں نے تیرے باپ آدم کی پشت میں عہد لیا تھا کہ تو میرے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائے گا لیکن تو نے انکار کیا اور میرا شریک ٹھہرایا۔“ مسائل ١۔ حالت ارتداد پر قائم رہنے والے کی توبہ قبول نہیں ہوتی۔ ٢۔ کفر کی حالت میں مرنے والے کی معافی نہیں۔ تفسیربالقرآن قیامت کو کفار سے کچھ بھی قبول نہیں کیا جائے گا : ١۔ قیامت کو کوئی فدیہ قبول نہیں کیا جائے گا۔ (البقرۃ: ١٢٣) ٢۔ اسلام کے علاوہ کوئی دین قبول نہ کیا جائے گا۔ (آ ل عمران : ٨٥) ٣۔ جہنمیوں سے زمین کے برابر سونا بھی قبول نہ ہوگا۔ (آل عمران : ٩١) ٤۔ قیامت کے دن ایمان لانا نفع بخش نہ ہوگا۔ (الانعام : ١٥٨) ٥۔ دوستیاں کام نہ آئیں گی۔ (البقرۃ: ٢٥٤) ٦۔ خرید وفروخت کا موقعہ نہیں ہوگا۔ (البقرۃ: ٢٥٤) آل عمران
91 آل عمران
92 فہم القرآن ربط کلام : کفر اللہ تعالیٰ سے دوری اور آخرت میں ذلّت کا باعث ہوگا۔ صدقہ اللہ تعالیٰ کی قربت اور آخرت میں نجات کا ذریعہ ہے۔ ” بِرّ“ ایسی نیکی کو کہتے ہیں جسے اس کے پورے تقاضوں کے ساتھ ادا کیا جائے۔ لہٰذاحکم ہوا ہے کہ اے لوگو! تم اس وقت تک صدقے کے حق اور نیکی کی روح کو نہیں پہنچ سکتے جب تک اللہ کی راہ میں وہ چیز خرچ نہ کرو جس کے ساتھ تم انتہائی محبت کرتے ہو۔ ” بِرّ“ کا معنی جنت بھی کیا گیا ہے۔ (تفسیر کبیر رازی) دوسرے الفاظ میں تم جنت کو نہیں پا سکتے جب تک اپنی محبوب چیز اللہ کی راہ میں قربان نہ کرو۔ یہاں لطیف پیرائے میں یہودیوں کے کھوکھلے دعووں اور ان کے بخل کی نشان دہی کرنے کے ساتھ مسلمانوں کو عزیز ترین چیز اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ جونہی یہ حکم نازل ہوا تو صحابہ کرام (رض) نے اپنی اپنی متاع عزیز کو فی سبیل اللہ صدقہ کیا۔ حضرت عبداللہ بن عمر (رض) نے اپنی وفادار اور سلیقہ شعار کنیز کو آزاد کیا، حضرت زید بن حارثہ (رض) نے قیمتی گھوڑا بیت المال میں دینے کا اعلان کیا جسے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کے بیٹے اسامہ کو عنایت فرمایا جو الگ گھر والے تھے۔ جس پر جناب زید دل گرفتہ ہوئے کہ ہمارا صدقہ ہمیں ہی واپس لوٹا دیا گیا ہے۔ ان کی تسلی کے لیے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارا صدقہ قبول فرما لیا ہے۔ [ ابن جریر و طبرانی] (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ جَاءَ رَجُلٌ إِلَی النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَقَالَ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ أَیُّ الصَّدَقَۃِ أَعْظَمُ أَجْرًا قَالَ أَنْ تَصَدَّقَ وَأَنْتَ صَحِیْحٌ شَحِیْحٌ تَخْشَی الْفَقْرَ وَتَأْمَلُ الْغِنٰی وَلَاتُمْھِلُ حَتّٰی إِذَابَلَغَتِ الْحُلْقُوْمَ قُلْتَ لِفُلَانٍ کَذَا وَلِفُلَانٍ کَذَا وَقَدْ کَانَ لِفُلَانٍ) [ رواہ البخاری : کتاب الزکاۃ، باب فضل صدقۃ الشحیح الصحیح] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں ایک آدمی نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آکر پوچھنے لگا کہ کونسا صدقہ زیادہ اجر والا ہے؟ فرمایا جب تو تندرستی کی حالت میں مال کی خواہش ہوتے ہوئے محتاجی کے خوف اور مالدار بننے کی خواہش کے باوجود خیرات کرے۔ اتنی دیر نہ کر کہ جان حلق تک آ پہنچے اس وقت تو کہے کہ اتنا فلاں کو دو اتنا فلاں کو دو۔ حالانکہ اب تو سارا ہی فلاں فلاں کا ہوچکا۔“ (عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ (رض) یَقُوْلُ کَانَ أَبُوْطَلْحَۃَ أَکْثَرَ أَنْصَارِیٍّ بالْمَدِیْنَۃِ نَخْلًا وَکَانَ أَحَبَّ أَمْوَالِہٖ إِلَیْہِ بَیْرُحَاءُ وَکَانَتْ مُسْتَقْبِلَۃَ الْمَسْجِدِ وَکَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَدْخُلُھَا وَیَشْرَبُ مِنْ مَاءٍ فِیْھَا طَیِّبٍ فَلَمَّا أُنْزِلَتْ (لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰی تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ) قَامَ أَبُوْ طَلْحَۃَ فَقَالَ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ إِنَّ اللّٰہَ یَقُوْلُ (لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰی تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ) وَإِنَّ أَحَبَّ أَمْوَالِیْ إِلَیَّ بَیْرُحَاءُ وَإِنَّھَا صَدَقَۃٌ لِلّٰہِ أَرْجُوْبِرَّھَا وَذُخْرَھَا عِنْدَ اللّٰہِ فَضَعْھَا یَارَسُوْلَ اللّٰہِ حَیْثُ أَرَاک اللّٰہُ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بَخْ ذٰلِکَ مَالٌ رَابِحٌ ذٰلِک مَالٌ رَابِحٌ وَقَدْ سَمِعْتُ مَاقُلْتَ وَإِنِّیْ أَرٰی أَنْ تَجْعَلَھَا فِی الْأَقْرَبِیْنَ قَالَ أَبُوْ طَلْحَۃَ أَفْعَلُ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ فَقَسَمَھَا أَبُوْ طَلْحَۃَ فِیْ أَقَارِبِہٖ وَفِیْ بَنِیْ عَمِّہٖ) [ رواہ البخاری : کتاب تفسیر القرآن، باب لن تنالوا البرحتی تنفقوا مما تحبون] ” حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ مدینہ میں ابو طلحہ (رض) انصار میں سب سے زیادہ کھجوروں والے تھے ان باغات میں بیرحاء نامی باغ ان کا سب سے بہترین مال تھا۔ جو مسجد کے سامنے تھا نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس میں جاتے اور وہاں سے پانی پیا کرتے تھے جب آیت (لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰی تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ) نازل ہوئی۔ حضرت ابو طلحہ (رض) رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کرتے ہیں اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ جب تک تم اپنی محبوب ترین چیز خرچ نہ کرو کبھی نیکی تک نہ پہنچ سکو گے۔ یقینًامیرے پاس ” بیرحاء“ کا باغ ہے جو میری پوری جائیداد میں میرے نزدیک قیمتی اور عزیز ہے میں اس کے بدلے اللہ کے ہاں نیکی اور آخرت کے خزانے کا خواہشمند ہوں لہٰذا آپ اسے جہاں چاہیں استعمال کریں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس جذبہ کی تحسین کرتے ہوئے فرمایا : یہ مال بڑا نفع بخش ہے یہ مال بڑا فائدہ مند ہے جو تم نے کہا میں نے سن لیا۔ تم اسے اپنے قریبی رشتہ داروں میں تقسیم کردو۔ چنانچہ حضرت ابو طلحہ (رض) نے باغ اپنے چچا زاد بھائیوں اور عزیزوں میں تقسیم کردیا۔“ یاد رہے! یہ وہی ابو طلحہ (رض) ہیں جنہوں نے مہمان کو کھانا کھلانے کے لیے اپنی بیوی کو کہا تھا کہ جونہی ہم کھانا شروع کریں تو دیا بجھا دیا جائے تاکہ مہمان کو کھانے کی کمی کا احساس نہ ہو۔ آیت کے آخر میں تمام صدقات کی یہ کہہ کر حوصلہ افزائی کی گئی ہے کہ جو کچھ بھی تم اللہ کے راستے میں خرچ کرو گے۔ اللہ تعالیٰ اسے اور تمہاری نیت کو خوب جانتا ہے۔ مسائل ١۔ اللہ کی راہ میں محبوب چیز خرچ کرنا چاہیے۔ ٢۔ آدمی جو کچھ خرچ کرتا ہے اللہ تعالیٰ اسے جانتا ہے۔ تفسیر بالقرآن نیکی کیا ہے ؟ ١۔ نیکی کے کام۔ (البقرۃ: ١٧٧) ٢۔ نیکی میں ایک دوسرے کی مدد کرنی چاہیے۔ (المائدۃ: ٢) ٣۔ نیکی کے عوض برائیاں معاف ہوتی ہیں۔ (ھود : ١١٤) ٤۔ محبوب چیز خرچ کیے بغیر نیکی کا مقصد پورا نہیں ہوتا۔ (آل عمران : ٩٢) آل عمران
93 فہم القرآن ربط کلام : تیسرے پارے کی آخری آیات میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور ان کے خاندان کا ذکر کرنے کے بعد فرمایا کہ ان کا دین یہی اسلام ہے۔ جو کوئی اسلام سے انحراف کرے گا اس سے کوئی دوسرا دین قبول نہ ہوگا۔ جس پر یہودیوں نے یہ اعتراض کیا کہ یہ نبی اور اس کے پیروکار اونٹ کا گوشت کھاتے ہیں۔ حالانکہ یعقوب (علیہ السلام) پر اونٹ کا گوشت حرام تھا لہٰذا ملت ابراہیم پر ہم ہیں تم نہیں۔ یہاں اس اعتراض کا جواب دیا گیا ہے کہ تم جھوٹ بولتے ہو جبکہ اللہ کا فرمان سچا ہے۔ یہودیوں کا دعو ٰی ہے کہ حضرت یعقوب (علیہ السلام) پر اونٹ کا گوشت حرام تھا جس کی وجہ سے یہودی اونٹ کا گوشت نہیں کھاتے۔ حالانکہ حضرت یعقوب (علیہ السلام) کو عرق النساء کی تکلیف تھی۔ جس سے پوری ٹانگ میں ایک درد اٹھتا ہے بسا اوقات یہ تکلیف اس قدر بڑھ جاتی ہے کہ مریض کے لیے ٹانگ گھسیٹ کر چلنا بھی مشکل ہوجاتا ہے۔ حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے اس تکلیف میں پرہیز کے طور پر اونٹ کا گوشت کھانا چھوڑ دیا تھا۔ بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ انہوں نے نذر مانی تھی کہ اللہ تعالیٰ نے شفا عطا فرمائی تو میں کھانے کی محبوب چیز ترک کر دوں گا۔ جس وجہ سے انہوں نے اونٹ کا گوشت کھانا چھوڑ دیا تھا۔ ان کی شریعت میں ایسی نذر جائز تھی۔ اسلام میں ایسا کرنا جائز نہیں ہے باوجود اس کے کہ حضرت یعقوب (علیہ السلام) پر اونٹ کا گوشت حلال تھا۔ یہودیوں نے اسے اپنے طور پر حرام قرار دے لیا۔ یہ حقیقت جاننے کے باوجود یہودی پروپیگنڈہ کیا کرتے تھے کہ یہ عجیب رسول ہے کہ جس نے اللہ تعالیٰ کی حرام کردہ چیزوں کو اپنے لیے حلال قرار دے دیا ہے۔ لہٰذا یہ نبی ابراہیم (علیہ السلام) کے خاندان اور ان کی ملّت کے خلاف ہے۔ اس الزام کی وضاحت اس طرح کی جارہی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر پاک اور حلال کھانا اس میں اونٹ کا گوشت بھی شامل ہے حضرت یعقوب (علیہ السلام) پر حلال اور جائز قرار دیا تھا۔ سوائے اس کے جو کھانا حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے تورات نازل ہونے سے پہلے علاج کے طور پر اپنے لیے حرام قرار دے لیا تھا۔ انہیں فرمائیں اگر تورات میں اونٹ کا گوشت حرام کیا گیا ہے تو میرے سامنے تورات لا کر پڑھو۔ اگر تم اپنے دعوے میں سچے ہو۔ اتنے کھلے چیلنج کے باوجود آج تک کوئی یہودی اصلی توراۃ میں یہ بات نہیں دکھا سکا۔ لیکن پھر بھی یہودی دعو ٰی کیے جا رہے ہیں کہ اونٹ کا گوشت حضرت یعقوب (علیہ السلام) پر حرام تھا حالانکہ حضرت یعقوب (علیہ السلام) نزول تورات سے پہلے فوت ہوچکے تھے۔ پھر حلال و حرام کا اختیار صرف اللہ تعالیٰ کو حاصل ہے کوئی بھی نبی اللہ تعالیٰ کے حلال کو حرام اور حرام کو حلال نہیں کرسکتا۔ ] التحریم :1] البتہ بطور علاج یا کسی چیز کو کھانے پر طبیعت آمادہ نہ ہو تو اسے چھوڑنے میں کوئی گناہ نہیں۔ جس طرح رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے ضب (گوہ) کا سالن رکھا گیا آپ نے اس طرف ہاتھ نہیں بڑھایا جب کہ بعض صحابہ آپ کے سامنے کھا رہے تھے۔ انہوں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کی کہ آپ کیوں نہیں تناول فرماتے ؟ آپ نے فرمایا میری قوم میں یہ نہیں ہوتی اس لیے میری طبیعت اسے کھانے پر آمادہ نہیں ہے۔ [ رواہ البخاری : کتاب الاطعمۃ] (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَبَّاسٍ (رض) قَالَ حَضَرَتْ عِصَابَۃٌ مِّنَ الْیَھُوْدِ رَسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَقَالُوْا یَاأَبَاالْقَاسِمِ حَدِّثْنَا عَنْ خِلَالٍ نَسْأَلُکَ عَنْھُنَّ لَایَعْلَمُھُنَّ إِلَّا نَبِیٌّ فَکَانَ فِیْمَا سَأَلُوْہُ أَیُّ الطَّعَامِ حَرَّمَ إِسْرَاءِیْلُ عَلٰی نَفْسِہٖ قَبْلَ أَنْ تُنَزَّلَ التَّوْرَاۃُ قَالَ فَأَنْشُدُکُمْ باللّٰہِ الَّذِیْ أَنْزَلَ التَّوْرَاۃَ عَلٰی مُوْسٰٰی ھَلْ تَعْلَمُوْنَ أَنَّ إِسْرَاءِیْلَ یَعْقُوْبَ مَرِضَ مَرَضًا شَدِیْدًا فَطَالَ سَقَمُہٗ فَنََذَرَ لِلّٰہِ نَذْرًا لَءِنْ شَفَاہ اللّٰہُ مِنْ سَقَمِہٖ لَیُحَرِّمَنَّ أَحَبَّ الشَّرَابِ إِلَیْہِ وَأَحَبَّ الطَّعَامِ إِلَیْہِ فَکَانَ أَحَبَّ الطَّعَامِ إِلَیْہِ لُحْمَانُ الْإِبِلِ وَأَحَبُّ الشَّرَابِ إِلَیْہِ أَلْبَانُھَا فَقَالُوْا اللّٰہُمَّ نَعَمْ) [ رواہ احمد : کتاب ومن مسند بنی ھاشم، باب بدایۃ مسند عبداللہ بن عباس] ” حضرت عبداللہ بن عباس (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس یہودیوں کے ایک گروہ نے آپ سے کہا اے ابو القاسم! ہم آپ سے کچھ سوال کرنا چاہتے ہیں جسے نبی کے علاوہ کوئی نہیں جانتا۔ ان سوالوں میں ایک سوال یہ تھا کہ وہ کون سا کھانا ہے جو یعقوب (علیہ السلام) نے تورات نازل ہونے سے پہلے اپنے آپ پر حرام کرلیا تھا آپ نے فرمایا : میں تمہیں اس اللہ کی قسم دے کر پوچھتاہوں جس نے موسیٰ (علیہ السلام) پر تورات نازل کی کہ تمہیں معلوم ہے کہ یعقوب (علیہ السلام) ہت زیادہ بیمار ہوگئے اور بیماری نے طوالت اختیار کی تو انہوں نے اللہ کے لیے نذر مانی کہ اگر اللہ تعالیٰ انہیں شفا یاب کرے گا۔ تو وہ اپنے آپ پرسب سے محبوب کھانا‘ پینا (چھوڑ) حرام کرلیں گے اور ان کا پسندیدہ کھانا اونٹ کا گوشت اور پینا اونٹوں کا دودھ تھا انہوں نے کہا ہاں اللہ کی قسم ایسے ہی ہے۔“ مسائل ١۔ حضرت یعقوب (علیہ السلام) پر ہر حلال چیز کھانا جائز تھی۔ ٢۔ بیماری کی وجہ سے حلال چیز کھانا چھوڑی جا سکتی ہے۔ تفسیر بالقرآن ١۔ پیغمبر اللہ تعالیٰ کی حلال چیز کو حرام نہیں کرسکتا۔ (التحریم : ١) ٢۔ یہودیوں کی نافرمانی کی وجہ سے کچھ حلال چیزیں ان پر حرام کردی گئیں تھی۔ (النساء : ١٦٠) ٣۔ یہودیوں پر جانوروں کی چربی حرام کردی گئی تھی۔ (الانعام : ١٤٦) ٤۔ یہودیوں پر سود کھانا حرام تھا۔ (النساء : ١٦١) آل عمران
94 فہم القرآن ربط کلام : حضرت یعقوب (علیہ السلام) کا کسی وجہ سے اونٹ کا گوشت کھاناچھوڑنے کو یہ کہنا کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر اونٹ کا گوشت حرام کیا تھا سراسر جھوٹ ہے جس کی تردید کی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے تورات میں اونٹ کا گوشت یا دودھ حرام نہیں کیا۔ تورات کے حوالے سے اسے حرام قرار دینا تمہارا اللہ تعالیٰ پر جھوٹ بولنے کے مترادف ہے۔ اللہ تعالیٰ پر ظالم لوگ ہی جھوٹ باندھا کرتے ہیں۔ اے رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ فرما دیں کہ یہودیو! تمہاری بات غلط اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد سچا ہے۔ لہٰذا ملت ابراہیم کی اتباع کرو۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ہر طرف سے کٹ کر اللہ ہی کے ہوچکے تھے اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا مشرکوں کے ساتھ کوئی واسطہ نہیں ہے۔ یہی ملت ابراہیم ہے کہ آدمی اللہ تعالیٰ کی حلال کردہ چیزوں کو اپنے لیے حلال اور اس کی حرام کی ہوئی چیزوں کو اپنے لیے حرام سمجھے۔ اور بلاشرکت غیرے اور کسی کی پروا کیے بغیر اللہ تعالیٰ کا حکم مانتا رہے۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ پر جھوٹ بولنے والا ظالم ہے۔ ٢۔ سب کو ملّتِ ابراہیم کی اتّباع کرنے کا حکم ہے۔ تفسیر بالقرآن ملّتِ ابراہیم کی اتباع : ١۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ملّت ابراہیم کی اتّباع کا حکم۔ (النحل : ١٢٣) ٢۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی زندگی امت محمدیہ کے لیے نمونہ ہے۔ (الممتحنۃ: ٦) ٣۔ ابراہیم (علیہ السلام) مشرک نہ تھے۔ (آل عمران : ٩٥) ٤۔ ابراہیم (علیہ السلام) یکسو اور پکّے مسلمان تھے۔ (آل عمران : ٦٧) ٥۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور حقیقی مسلمانوں کا حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے خاص تعلق ہے۔ (آل عمران : ٦٨) ٦۔ یہود و نصاریٰ کا حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے کوئی تعلق نہیں۔ (آل عمران : ٦٧) ٧۔ تورات اور انجیل حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے بعد نازل ہوئیں۔ (آل عمران : ٦٥) آل عمران
95 آل عمران
96 فہم القرآن ربط کلام : یہود و نصارٰی کہتے ہیں کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے بیت اللہ تعمیر نہیں کیا تھا جس کی یہاں بھرپور طریقہ سے تردید کی گئی ہے۔ یہودی یہ دعو ٰی بھی کرتے ہیں کہ ابراہیم (علیہ السلام) نے کعبہ کی بجائے پہلے بیت المقدس تعمیر کیا اور یہی ان کا قبلہ تھا۔ اے نبی! آپ یہ اعلان فرمائیں کہ دنیا میں سب سے پہلے لوگوں کے لیے جو گھر تعمیر ہوا وہ مکہ معظمہ میں بیت اللہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے لوگوں کے لیے ہدایت کا مرکز قرار دیا اور اس میں بے پناہ برکات رکھی ہیں۔ (عَنْ أَبِیْ ذَرٍّ (رض) قَالَ قُلْتُ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ أَیُّ مَسْجِدٍ وُضِعَ فِی الْأَرْضِ أَوَّلَ قَالَ الْمَسْجِدُ الْحَرَامُ قَالَ قُلْتُ ثُمَّ أَیٌّ قَالَ الْمَسْجِدُ الْأَقْصٰی قُلْتُ کَمْ کَانَ بَیْنَھُمَا قَالَ أَرْبَعُوْنَ سَنَۃًثُمَّ أَیْنَمَا أَدْرَکَتْکَ الصَّلَاۃُ بَعْدُ فَصَلِّہٖ فَإِنَّ الْفَضْلَ فِیْہِ ) [ رواہ البخاری : کتاب أحادیث الأنبیاء، باب قول اللہ تعالیٰ واتخذ اللّٰہ إبراھیم خلیلا] ” حضرت ابوذر (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے عرض کی اے اللہ کے رسول! روئے زمین پر کون سی مسجد سب سے پہلے بنائی گئی؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا مسجد حرام۔ میں نے دوبارہ سوال کیا کہ پھر کونسی ؟ آپ نے جواب دیا پھر مسجد اقصیٰ۔ میں نے ان دونوں کے درمیان مدت کے بارے میں پوچھا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ان دونوں کے درمیان چالیس سال کی مدت ہے۔ پھر فرمایا جہاں بھی تو نماز کا وقت پائے وہاں نماز پڑھ لے کیونکہ یہی افضل ہے۔“ مفسرین نے بیت اللہ اور بیت المقدس کی تاریخ کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ سب سے پہلے بیت اللہ کو آدم (علیہ السلام) نے تعمیر کیا تھا۔ طوفان نوح کے بعد اس کے نشانات معدوم ہوگئے تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے حضرت جبریل امین (علیہ السلام) کی نشاندہی پر بیت اللہ تعمیر فرمایا۔ جہاں تک بیت المقدس کی تاریخ ہے اس کی پہلی تعمیر حضرت اسحاق (علیہ السلام) نے فرمائی بعض مؤرخین نے لکھا ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اس کی بنیاد رکھی اور بعد ازاں انہیں بنیادوں پر حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے اسے تعمیر کیا۔ نبی محترم کے ارشاد کے مطابق حضرت ابراہیم اور حضرت اسحاق ( علیہ السلام) کی تعمیر کے درمیان چالیس سال کا فرق ہے۔ اس لحاظ سے یہودیوں کا بیت المقدس کو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا قبلہ قرار دینا سراسر خلاف حقیقت ہے۔ کیونکہ ابراہیم (علیہ السلام) نے جس شہر میں اللہ کا گھر تعمیر کیا تھا اس کا نام ” بکہ“ ہے بکہ مکہ معظمہ کا قدیمی نام ہے۔ تاریخ میں اسے مکہ اور بکہ دونوں طرح ہی یاد کیا جاتا ہے۔ اسی بنیاد پر قرآن میں ” بکہ“ اور حدیث میں اس کا نام ” مکہ“ آیا ہے۔ اس جہان رنگ وبو میں بے شمارعمارات ومحلاّت خوبصورت سے خوبصورت ترین موجود ہیں جن کے حسن وجمال میں اضافہ کرنے کے لیے لاکھوں کروڑوں روپے لگائے گئے اور مزید خرچ کیے جارہے ہیں۔ ان کو دیکھیں تو عقل انسانی دنگ رہ جاتی ہے۔ لیکن کوئی ایسی جگہ یا عمارت نہیں جس کے دیدار کو اہل جہاں کے لیے لازم قرار دیا گیا ہو اور جس کے لیے اتنی دنیا کے دل تڑپتے ہوں یہ اکرام ومقام صرف ایک عمارت کو نصیب ہوا جس کو عام پتھروں سے اٹھایا گیا ہے۔ اللہ رب العزّت نے جس کو بیت اللہ قرار دیا۔ یہی لوگوں کی ہدایت کا مرکز اور بابرکت گھر ہے۔ اسی کی تعمیر کے بعد حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے یہاں کھڑے ہو کر دعائیں مانگی تھیں اور یہاں سے اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری نبی پر قرآن مجید کے نزول کا آغاز فرمایا تھا۔ یہی گھر بھٹکی ہوئی انسانیت کے لیے ہدایت کا مرکز ہے۔ آج بھی اس گھر کی عظمت و فضیلت دیکھ کر ہزار ہا لوگ ہر سال ہدایت کی دولت سے مالا مال ہو رہے ہیں اور قیامت تک یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ اس میں مقام ابراہیم ہے اور ہر دور میں لوگوں کو اس میں امن ملتا رہا اور قیامت تک اسی طرح ہی ملتا رہے گا۔ کائنات میں صرف یہی گھر ہے جس کی زیارت کا اللہ تعالیٰ نے حکم فرمایا ہے۔ اس کی زیارت کی اس قدر تاکید فرمائی ہے کہ جو شخص استطاعت کے باوجود اس گھر کی زیارت نہیں کرتا اللہ تعالیٰ نے اس سے اپنی بیزاری کا اظہار کیا اور ایسے شخص کو کافر قرار دیا ہے۔ (عَنْ عَلِیٍّ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَنْ مَّلَکَ زَادًا وَّرَاحِلَۃً تُبَلِّغُہٗ إِلٰی بَیْتِ اللّٰہِ وَلَمْ یَحُجَّ فَلَا عَلَیْہِ أَنْ یَّمُوْتَ یَہُوْدِیًّا أَوْ نَصْرَانِیًّا وَذٰ لِکَ أنَّ اللّٰہَ یَقُوْلُ فِیْ کِتَابِہٖ (وَ لِلّٰہِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَیْہِ سَبِیْلًا) [ رواہ الترمذی : ابواب الحج، باب ماجاء فی التغلیظ فی ترک الحج] ” حضرت علی (رض) رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد بیان کرتے ہیں کہ جس کے پاس بیت اللہ پہنچنے کے لیے زاد راہ اور سواری ہو۔ پھر بھی وہ حج نہیں کرتا تو اللہ کو کوئی پروا نہیں کہ وہ یہودی ہو کر مرے یا عیسائی۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا ہے کہ صاحب استطاعت لوگوں پر حج کرنا لاز م ہے۔“ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) قالَ خَطَبَنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَقَالَ أَیُّھَا النَّاسُ قَدْ فَرَضَ اللّٰہُ عَلَیْکُمُ الْحَجَّ فَحَجُّوْا فَقَالَ رَجُلٌ أَکُلَّ عَامٍ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ ! فَسَکَتَ حَتّٰی قَالَھَا ثَلَاثًا فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لَوْ قُلْتُ نَعَمْ لَوَجَبَتْوَلَمَا اسْتَطَعْتُمْ ثُمَّ قَالَ ذَرُوْنِیْ مَاتَرَکْتُکُمْ فَإِنَّمَا ھَلَکَ مَنْ کَانَ قَبْلَکُمْ بِکَثْرَۃِ سُؤَالِھِمْ وَاخْتِلَافِھِمْ عَلٰی أَنْبِیَاءِھِمْ فَإِذَا أَمَرْتُکُمْ بِشَیْءٍ فَأْتُوْا مِنْہُ مَا اسْتَطَعْتُمْ وَإِذَا نَھَیْتُکُمْ عَنْ شَیْءٍ فَدَعُوْہُ) [ رواہ مسلم : کتاب الحج] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں خطاب کرتے ہوئے فرمایا لوگو! یقینًا اللہ تعالیٰ نے تم پر حج فرض کیا ہے تم حج کرو۔ ایک آدمی نے اٹھ کر سوال کیا۔ اللہ کے رسول! کیا ہر سال حج کرنا ہوگا؟ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خاموش رہے حتی کہ اس نے اپنا سوال تین مرتبہ دہرایا۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اگر میں ہاں کہہ دیتا تو ہر سال حج فرض ہوجاتا۔ تم اس کی طاقت نہ رکھتے۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا مجھے چھوڑے رکھو جب تک میں تمہیں چھوڑے رکھوں۔ تم سے پہلے لوگ اپنے نبیوں سے اختلاف اور کثرت سوال کی وجہ سے ہلاک ہوئے۔ جب میں تمہیں کسی چیز کا حکم دوں تو حسب ہمت وہ کام کرو اور جس چیز سے تمہیں روکوں اسے چھوڑ دو۔“ مسائل ١۔ سب سے پہلے مکہ میں بیت اللہ تعمیر ہوا۔ ٢۔ بیت اللہ بابرکت اور لوگوں کے لیے ہدایت کا مرکز ہے۔ ٣۔ مکہ معظمہ کا پرانا نام بکہ ہے۔ ٤۔ بیت اللہ میں مقام ابراہیم ہے۔ ٥۔ بیت اللہ میں داخل ہونے والے کو امن نصیب ہوتا ہے۔ ٦۔ صاحب استطاعت پر بیت اللہ کا حج فرض ہے۔ ٧۔ جو حج سے بے پروائی کرے اللہ تعالیٰ اس سے بے نیاز ہے۔ تفسیربالقرآن بیت اللہ کی عظمت : ١۔ بیت اللہ دنیا میں پہلا گھر ہے جو بابرکت اور ہدایت کا مرکز ہے۔ (آل عمران : ٩٦) ٢۔ بیت اللہ امن کا گہوارہ ہے۔ (البقرۃ: ١٢٥) ٣۔ بیت اللہ کے باسیوں سے محبت کی جاتی ہے (القریش : ١) ٤۔ بیت اللہ کے طواف کا حکم ہوا ہے۔ (الحج : ٢٩) ٥۔ پیدل اور سوار دور سے اس کی زیارت کے لیے آتے ہیں۔ (الحج : ٢٧) آل عمران
97 آل عمران
98 فہم القرآن ربط کلام : حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے حوالے سے اللہ تعالیٰ پر جھوٹ بولنا اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو بانئ کعبہ تسلیم نہ کرنا اور ملت ابراہیم سے انحراف کرنا کفر ہے۔ اہل کتاب ایسے حقائق کا انکار کرتے ہیں جو قیامت تک زندہ شہادت کے طور پر دنیا میں موجود ہیں اور رہیں گے۔ یعنی بیت اللہ کا مرکز ہدایت اور اللہ تعالیٰ کی رحمت و برکت کا مرجع قرار پانا‘ زم زم کی برکات اور اس کا ہر وقت رواں دواں رہنا‘ مقام ابراہیم کی شکل میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے قدموں کے نشانات ثبت ہونا‘ صفا اور مروہ کا حضرت ہاجرہ[ کی سعی کی خاموش گواہی دینا۔ زمین کی چھاتی پر نسل در نسل کروڑہا انسانوں کا خاندان ابراہیم کی خدمات کی شہادت دینا۔ اتنی عظیم اور زندہ وجاوید شہادتوں کو مسترد کردینے والی قوم کو قرآن مجید اہل کتاب کے معزز لفظ سے پکارتے ہوئے بار بار متوجہ کرتا ہے کہ اے اہل کتاب! اللہ تعالیٰ کی نشانیوں کا انکار کیوں کرتے ہو اور ہدایت یافتہ لوگوں کو منحرف کرنے کی کوشش کے کیوں درپے ہو؟ جبکہ تمہارا ضمیر قرآن مجید کی تصدیق‘ نبی آخر الزّماں کا اعتراف اور شعائر اللہ کی شہادت دیتے ہوئے تمہارے کفر پر تمہیں ملامت کرتا ہے۔ مسائل ١۔ اہل کتاب جان بوجھ کر حقائق کا انکار کرتے ہیں۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ انسان کی ہر حرکت کو جانتا ہے۔ تفسیربالقرآن اللہ تعالیٰ گواہ ہے : ١۔ اللہ ہر چیز پر گواہ ہے۔ (الحج : ١٧) ٢۔ اللہ تعالیٰ ہر کسی کے عمل پر گواہ ہے۔ (یونس : ٤٦) ٣۔ اللہ تعالیٰ ظاہر اور پوشیدہ کو جانتا ہے۔ (الاعلیٰ: ٧) آل عمران
99 آل عمران
100 فہم القرآن ربط کلام : پہلی آیت میں اہل کتاب کو اسلام کے راستے میں رکاوٹ ڈالنے سے روکا گیا ہے۔ اب مسلمانوں کو متنبہ فرمایا کہ اہل کتاب کی پیروی نہ کرنا یہ تمہیں گمراہ کرنے کے درپے رہتے ہیں۔ قرآن مجید متعدد مقامات پر مسلمانوں کو ہدایت کرتا ہے کہ اگر تم اہل کتاب کو راضی کرنے کی کوشش کرو گے تو وہ ہرگز راضی نہیں ہوں گے۔ ان کی خواہش اور کوشش ہے کہ تمہیں ایمان سے منحرف کر کے کافر بنا دیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری پیغمبر حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو متنبہ کرتے ہوئے فرمایا میرے پیغمبر! جب تک آپ ان کی خواہشات کی پیروی نہ کریں گے تب تک یہ آپ پر بھی راضی نہ ہوں گے۔ [ البقرۃ: ١٢٠] اس لیے ارشاد ہوتا ہے کہ تم کس طرح اپنے لیے کفر کا جواز پیدا کرو گے ؟ جبکہ رسول مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جیسا عظیم رہنما اللہ تعالیٰ کے ہر حکم پر عمل کر کے تمہارے سامنے بہترین نمونہ پیش کرتا ہے جس سے تم براہ راست تربیت پا رہے ہو۔ لہٰذا تمہیں اہل کتاب کو راضی کرنے کے بجائے اللہ اور اس کے رسول کو راضی کرنا چاہیے۔ جس نے اللہ تعالیٰ سے ایمان کا رشتہ مضبوط کرلیا یقیناً وہی صراط مستقیم پائے گا۔ مسائل ١۔ ایمان داروں کو یہود ونصاریٰ کے پیچھے نہیں لگنا چاہیے۔ ٢۔ یہود و نصاریٰ لوگوں کو مرتد کرنا چاہتے ہیں۔ ٣۔ قرآن و حدیث کے ہوتے ہوئے مسلمان کو کافر ہونے کا کوئی جواز نہیں۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول پر ایمان لاناصراط مستقیم پرچلنا ہے۔ آل عمران
101 آل عمران
102 فہم القرآن ربط کلام : اہل کتاب کی اتباع سے بچنے اور ان سے ڈرنے کی بجائے مسلمانوں کو صرف اللہ تعالیٰ سے ڈرنا اور اسی کے حکم پر مر مٹنا چاہیے۔ اب براہ راست مسلمانوں سے مسلسل خطاب ہوتا ہے۔ تقو ٰی کا عمومی معنٰی پرہیزگاری ہے لیکن جب ” اِتَّقِ اللّٰہَ“ کے الفاظ استعمال ہوں تو اس کا معنٰی ہوا کرتا ہے کہ اپنے رب کی نافرمانیوں سے ڈرو‘ اس کی ذات اور احکام کا احترام کرو۔ نفس مضمون کے اعتبار سے یہاں یہ بات بھی تقو ٰی میں شامل ہے کہ اہل کتاب کے الزامات اور سازشوں سے ڈرنے کے بجائے صرف اللہ سے ڈرو۔ جس طرح اللہ تعالیٰ سے ڈرنے کا حق ہے۔ خلوت ہو یا جلوت‘ نفع ہو یا نقصان‘ حاکم ہو یا محکوم‘ امیر ہو یا غریب‘ پڑھے لکھے ہو یا ان پڑھ۔ گویا کہ سب کے سب اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو تاکہ خوفِ الٰہی کا اجتماعی ماحول اور ایک سماں پیداہو جائے۔ جس میں تمہارے لیے نیکی کرنا آسان اور برائی سے بچنا سہل ہوجائے گا۔ تقو ٰی وقتی اور عارضی نہیں بلکہ اس میں ہمیشگی ہونی چاہیے یہاں تک کہ تمہیں موت آجائے۔ دوسرے لفظوں میں مرنا گوارا کرلینا لیکن غیر اللہ سے ڈرنا قبول نہ کرنا۔ گویا کہ تقو ٰی اور اسلام لازم و ملزوم ہیں۔ تقو ٰی اور اسلام کا تقاضا ہے کہ تم اللہ کی رسی کو مضبوطی کے ساتھ تھامے رکھو۔ اتحاد کے لیے پہلی شرط اللہ کا خوف ہے اگر آدمی کا دامن خوفِ الٰہی سے خالی ہو تو وہ اپنے مفادات کی خاطر چھوٹی سی بات کو پہاڑ بنا کر پیش کرتا ہے۔ اتحاد امت کے لیے سب سے بڑی بنیاد خدا خوفی کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی رسی کو تھامنا ہے۔ گویا کہ مسلمانوں کا اتحاد اللہ کا ڈراختیار کیے اور کتاب وسنت تھامے بغیر نہیں ہوسکتا۔ یہی اتحاد دیرپا اور بابرکت ہوتا ہے۔ اس کے بغیر اتحاد ناپائیدار اور عارضی ہوگا۔ رسی کی وضاحت کرتے ہوئے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : (کِتَاب اللّٰہِ ھُوَحَبْلُ اللّٰہِ) [ جامع الصغیر للألبانی] ” اللہ کی کتاب ہی اللہ کی رسی ہے۔“ یہاں رسی کا لفظ استعمال فرما کر اس طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ جس طرح رسی سے لکڑیوں کا گٹھا یا جانور باندھا جاتا ہے اس طرح تم بھی اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کی رسی کے ساتھ باندھ لو۔ آیت میں رسی کو مضبوط پکڑنے کے ساتھ مزید حکم دیا کہ باہمی تفرقے سے بچتے رہو۔ اختلافات سے نہ صرف ذات اور جماعت کی ساکھ اکھڑتی ہے بلکہ اس سے بے سکونی اور بے برکتی پیدا ہونے کے ساتھ ساتھ آدمی ایک دوسرے کے خلاف حسد و بغض کی آگ میں جلتا رہتا ہے۔ اکثر اوقات اس کا انجام قتل و غارت کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے۔ یہاں اختلاف کو بھڑکتی ہوئی آگ اور اتحاد کو اللہ تعالیٰ کی نعمت قرار دیا گیا ہے۔ یہاں صحابہ کرام (رض) کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ تم اپنے ماضی کو سامنے رکھو۔ تم اسلام سے قبل کس قدر باہمی اختلاف کی آگ میں بھسم ہوئے جا رہے تھے اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے تمہارے دلوں سے رنجش و کدورت کو نکال کر انہیں محبت و الفت سے لبریز کردیا۔ اس اختلاف سے مراد اوس اور خزرج کی وہ طویل ترین جنگ ہے جو تقریباً سو سال تک جاری رہی۔ جس میں سینکڑوں عورتیں بیوہ، ہزاروں بچے یتیم اور قیمتی جانیں ضائع ہونے کے ساتھ شاداب کھیتیاں‘ اور لہلہاتے ہوئے باغ اور پر رونق آبادیاں ویران ہوئیں۔ نقصانات سے بچنے اور مسلمانوں کے اتحاد کو قائم رکھنے کے لیے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” تم بد گمانی سے بچو کیونکہ بدگمانی بہت بڑا جھوٹ ہے۔ تم کسی کی عیب جوئی، جاسوسی اور حسد نہ کرو، نہ پیٹھ پیچھے باتیں کرو‘ نہ ہی دشمنی کرو۔ اللہ کے بندو! بھائی بھائی بن جاؤ۔“ [ رواہ البخاری : کتاب الأدب] مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ کے ساتھ وابستہ رہنے والا ہمیشہ صراط مستقیم پاتا ہے۔ ٢۔ صاحب ایمان لوگوں کو صحیح طور پر اللہ سے ڈرتے رہنا چاہیے۔ ٣۔ ایمان داروں کو اللہ کی غلامی میں موت آنی چاہیے۔ ٤۔ فرقہ بندی کے بجائے قرآن و سنّت کے ساتھ وابستہ رہنا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن اتحاد نعمت اور اختلاف آگ ہے : ١۔ اتحاد واتفاق اللہ کی توفیق کا نتیجہ ہے۔ (الانفال : ٦٣) ٢۔ اتحاد واتفاق اللہ کی عظیم نعمت ہے۔ (آل عمران : ١٠٣) ٣۔ کتاب اللہ کارشتہ نہ ٹوٹنے والا ہے۔ (البقرۃ: ٢٥٦) ٤۔ باہمی اختلاف اللہ کا عذاب ہوتا ہے۔ (الانعام : ٦٥) ٥۔ اللہ تعالیٰ کی کتاب کے ساتھ تمّسک کا نتیجہ صراط مستقیم ہے۔ (آل عمران : ١٠١) آل عمران
103 آل عمران
104 فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ لوگوں کی ہدایت کے لیے اپنے احکامات بیان کرتا ہے لہٰذا مسلمانوں کا فرض ہے کہ وہ اس پر عمل پیرا ہوتے ہوئے لوگوں کو تبلیغ کرتے رہیں۔ خاص کر ایک جماعت کو مسلسل یہ فریضۂ سرانجام دینا چاہیے۔ تھوڑا سا آگے چل کر آیت ١١٠ میں اس امت کے وجود کی غرض و غایت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ تمہارے وجود کا مقصدہی یہ ہے کہ تم لوگوں کو نیکی کا حکم کرو اور برائی سے روکتے رہو۔ چونکہ امت میں ہر آدمی اتنا وقت نہیں دے سکتا جس سے فریضۂ تبلیغ کا حق ادا ہو سکے اور نہ ہی ہر کسی میں اتنی صلاحیت ہوا کرتی ہے کہ وہ دلائل کی بنیاد پر دوسرے کو مطمئن کرسکے۔ اس لیے یہاں امت میں ایسی جماعت ہونے کا تقاضا کیا گیا ہے۔ جو لوگوں کو ہمہ وقت تعلیم و تربیت کے ساتھ ساتھ خیر کی دعوت اور نیکی کا حکم دے اور برائی سے روکتی رہے۔ ایسے لوگ اپنے مقاصد میں کامیاب اور آخرت میں سرخرو ہوں گے۔ جو لوگ فریضۂ تبلیغ ادا نہیں کرتے ان پر خدا کی لعنت ہوا کرتی ہے۔ جس طرح بنی اسرائیل کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ بنی اسرائیل پر حضرت داؤد (علیہ السلام) اور حضرت عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) نے پھٹکار کی کیوں کہ یہ لوگ اللہ کے نافرمان اور اس کی حدّوں کو توڑنے والے تھے۔ ان پر اس لیے بھی لعنت کی گئی کہ وہ لوگوں کو برائی سے روکنے کے بجائے خود بھی گناہوں میں ملّوث ہوگئے اور یہ برے کردار کے حامل لوگ تھے۔ (عَنْ عَبْدِاللّٰہِ بْنِ مَسْعُوْدٍ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) إِنَّ اَوَّلَ مَا دَخَلَ النَّقْصُ عَلٰی بَنِیْ إِسْرَاءِیْلَ کَان الرَّجُلُ یَلْقَی الرَّجُلَ فَیَقُوْلُ : یَا ہٰذَا !إِتَّقِ اللّٰہَ وَدَعْ مَا تَصْنَعُ فَإِنَّہٗ لَایَحِلُّ لَکَ ثُمَّ یَلْقَاہُ مِنَ الْغَدِ فَلَا یَمْنَعُہٗ ذٰلِکَ أَنْ یَّکُوْنَ أَکِیلَہٗ وَشَرِیْبَہٗ وَقَعِیدَہٗ فَلَمَّا فَعَلُوْا ذٰلِکَ ضَرَبَ اللّٰہُ قُلُوْبَ بَعْضِہِمْ بِبَعْضٍ ثُمَّ قَالَ: (لُعِنَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْ بَنِیْ اِسْرَاءِیْلَ عَلٰی لِسَانِ دَاوٗدَ وَ عِیْسَی ابْنِ مَرْیَمَ)إِلٰی قَوْلِہٖ (فَاسِقُوْنَ) ثُمَّ قَالَ کَلَّا وَاللّٰہِ لَتَأْمُرُنَّ بالْمَعْرُوْفِ وَلَتَنْہَوُنَّ عَنِ الْمُنْکَرِ وَ لَتَأْخُذُنَّ عَلٰی یَدَیِ الظَّالِمِ) [ رواہ أبو داؤد : کتاب الملاحم، باب الأمر والنھی] ” حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بنی اسرائیل میں پہلا نقص یہ پیدا ہوا کہ کوئی آدمی کسی کو برا کام کرتے دیکھتا تو اسے اللہ کا خوف دلاتے ہوئے اس کام سے منع کرتاکہ ایسا کام نہیں کرنا چاہیے۔ اگلے دن اسے منع نہ کرتا بلکہ اس کے ساتھ مل کر کھاتا‘ پیتا‘ اٹھتا‘ بیٹھتا ان کی جب یہ حالت ہوگئی تو اللہ تعالیٰ نے ان کے دل بھی ایک جیسے کردیے۔ پھر فرمایا بنی اسرائیل پر بزبان داوٗد اور عیسیٰ بن مریم ( علیہ السلام) لعنت کی گئی۔ اس کے بعد فرمایا سنو! اللہ کی قسم! تمہیں ضرور بالضرور نیکی کا حکم دینا اور برائی سے منع کرتے ہوئے ظالم کا ہاتھ روکنا ہوگا۔“ ایک اور موقع پر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے عمل کی اہمیت بیان کرتے ہوئے کشتی میں سوار لوگوں کی مثال بیان فرمائی : (مَثَلُ الْقَاءِمِ عَلٰی حُدُوْدِ اللّٰہِ وَالْوَاقِعِ فِیْھَا کَمَثَلِ قَوْمٍ اسْتَھَمُّوْا عَلٰی سَفِیْنَۃٍ فَأَصَابَ بَعْضُھُمْ أَعْلَاھَا وَبَعْضُھُمْ أَسْفَلَھَا فَکَانَ الَّذِیْنَ فِیْ أَسْفَلِھَا إِذَا اسْتَقَوْا مِنَ الْمَاءِ مَرُّوْا عَلٰی مَنْ فَوْقَھُمْ فَقَالُوْا لَوْ أَنَّا خَرَقْنَا فِیْ نَصِیْبِنَا خَرْقًا وَلَمْ نُؤْذِ مَنْ فَوْقَنَا فَإِنْ یَتْرُکُوْھُمْ وَمَا أَرَادُوْاھَلَکُوْا جَمِیْعًآ وَإِنْ أَخَذُوْا عَلٰی أَیْدِیْھِمْ نَجَوْا وَنَجَوْا جَمِیْعًا) [ رواہ البخاری : کتاب الشرکۃ، ھل یقرع فی القسمۃ والإستھام فیہ] ” اللہ تعالیٰ کی حدود پر قائم رہنے والے اور اس میں ملوث ہونے والوں کی مثال ان لوگوں جیسی ہے جنہوں نے ایک بحری جہاز کے بارے میں قرعہ اندازی کی۔ بعض کو اوپر والے حصے میں اور کچھ کو نیچے والے حصے میں جگہ ملی۔ نیچے والوں کو جب پانی کی ضرورت پڑتی تو اوپر والوں کے پاس جاتے۔ نیچے والوں نے کہا کہ ہم اپنے حصے میں سوراخ کرلیتے ہیں اور اوپر والوں کو تکلیف نہیں دیتے۔ اگر اوپر والے انہیں اسی حالت پر چھوڑ دیں تو تمام ہلاک ہوجائیں گے اور اگر ان کے ہاتھوں کو روک لیں تو وہ سب بچ جائیں گے۔“ مسائل ١۔ امت محمدیہ کا مقصد نیکی کی دعوت دینا اور برائی سے روکنا ہے۔ ٢۔ نیکی کا حکم دینے والے اور برائی سے روکنے والے ہی کامیاب ہوں گے۔ تفسیر بالقرآن امّتِ محمدیہ کے اجتماعی فرائض : ١۔ اپنے آپ اور اعزاء واقرباء کو جہنم کی آگ سے بچانا۔ (التحریم : ٦) ٢۔ تبلیغ کے لیے ایک جماعت کا ہونا ضروری ہے۔ (آل عمران : ١٠٤) ٣۔ اجتماعی زندگی میں شریعت نافذ کرنا فرض ہے۔ (الحج : ٤١) ٤۔ باہمی معاملات مشورہ سے طے کرنے چاہییں۔ (آل عمران : ١٥٩) ٥۔ عہدہ اہل شخص کو دینا چاہیے۔ (النساء : ٥٨) آل عمران
105 فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ کے احکام کو مضبوطی سے تھامنا اور متحد ہو کر لوگوں تک پہنچانا۔ اختلاف کی صورت میں تبلیغ غیر مؤثر ہوجاتی ہے اس لیے باہمی اختلاف سے منع فرمایا ہے۔ اتحاد و اتفاق اور فریضۂ تبلیغ کی ادائیگی کے ساتھ ایک دفعہ پھر امت کو تاکید کی جارہی ہے کہ ان لوگوں کی طرح نہ ہوجانا جو آپس میں گروہ بندی کا شکار ہوئے۔ ٹھوس اور واضح دلائل آجانے کے باوجود انہوں نے اپنے دین میں تفرقہ بازی اور اختلافات پیدا کیے۔ اس فرمان میں عام لوگوں اور خاص کر علماء اور مبلّغین کو مخاطب کیا گیا ہے کیونکہ عام مسلمان امت میں محدود انتشار کا باعث ہوتے ہیں لیکن راہنما اور علماء انتشا رکا زیادہ سبب ہوا کرتے ہیں۔ ایسے رہنما، علماء اور عوام کو وارننگ دی جارہی ہے کہ وہ وقت ذہن میں لاؤ کہ جب تمہارے چہروں کی ترو تازگی اور حسن و جمال کو جہنم کی سیاہی اور دنیا کی شہرت کو آخرت کی رسوائی سے بدلتے ہوئے نرم و نازک اجسام کو آگ کے انگاروں میں جھونک دیا جائے گا اور حکم ہوگا کہ اب ہمیشہ کے لیے جہنم کا عذاب چکھتے رہو۔ اے دنیاکی جاہ وعزت‘ شہرت اور دولت کی خاطر دین اور امت میں انتشار پیدا کر کے گل چھڑے اڑانے والو‘ اب تمہیں جہنم میں رہنا اور عذاب عظیم برداشت کرنا ہوگا۔ (عَنْ صُہَیْبٍ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ اِذَا دَخَلَ اَہْلُ الْجَنَّۃِ الْجَنَّۃَ یَقُوْلُ اللّٰہُ تَعَالٰی تُرِیْدُوْنَ شَیْءًا اَزِیْدُکُمْ فَیَقُوْلُوْنَ اَلَمْ تُبَیِّضْ وُجُوْہَنَا اَلَمْ تُدْخِلْنَا الْجَنَّۃَ وَ تُنَجِّنَا مِنَ النَّارِ قَالَ فَیَکْشِفُ الْحِجَابَ فَمَا اُعْطُوْا شَیْءًا اَحَبَّ اِلَیْہِمْ مِنَ النَّظَرِ اِلٰی رَبِّہِمْ عَزَّوَجَلَّ ثُمَّ تَلَا ھٰذِہِ الْآیَۃَ (لِلَّذِیْنَ اَحْسَنُوا الْحُسْنٰی وَزِیَادَۃٌ) [ رواہ مسلم : کتاب الإیمان، باب إثبات رؤیۃ المؤمنین فی الآخرۃ ربھم سبحانہ] ” حضرت صہیب (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی گرامی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب جنتی جنت میں داخل ہوجائیں گے تب اللہ تعالیٰ فرمائیں گے کیا تم مزید کسی نعمت کو چاہتے ہو کہ میں تمہیں عطا کروں؟ وہ عرض کریں گے اے اللہ! کیا آپ نے ہمارے چہروں کو روشن نہیں فرمایا؟ آپ نے ہمیں جنت میں داخل نہیں کیا؟ اور آپ نے ہمیں دوزخ سے نہیں بچایا؟ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تب اللہ تعالیٰ اپنے چہرہ نور سے پردہ اٹھائیں گے۔ انہیں ایسی کوئی نعمت عطا نہیں ہوئی ہوگی جو پروردگار کے دیدار سے انہیں زیادہ محبوب ہو۔ اس کے بعد آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ آیت تلاوت فرمائی ” جن لوگوں نے اچھے عمل کیے ان کے لیے جنت ہے اور مزید بھی۔“ مسائل ١۔ آپس میں اختلاف کرنا عذاب الیم کو دعوت دینا ہے۔ ٢۔ قیامت کے دن ایمانداروں کے چہرے روشن اور کفار کے منہ کالے ہوں گے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ لوگوں پر ظلم نہیں کرتا۔ ٤۔ زمین و آسمان کی ہر چیز اللہ کی ملکیت ہے۔ ٥۔ اللہ ہی کے پاس ہر کام کا انجام اور اختیار ہے۔ تفسیر بالقرآن جنتیوں اور جہنمیوں کے چہروں میں فرق : ١۔ کفار کے چہرے بگڑے ہوئے ہوں گے۔ (الحج : ٧٣) ٢۔ مومنوں کے چہرے تروتازہ ہوں گے۔ (القیامۃ: ٢٢) ٣۔ کفار کے چہرے مرجھائے اور اڑے ہوئے ہوں گے۔ (القیامۃ: ٢٤) ٤۔ مومنوں کے چہرے خوش وخرم ہوں گے۔ (العبس : ٣٨) ٥۔ کفارکے چہروں پر گردوغبار ہوگا۔ (العبس : ٤٠) ٦۔ مجرموں کے چہرے ڈرے اوراُوندھے ہوں گے۔ (الغاشیۃ: ٢) ٧۔ مومنوں کے چہرے تروتازہ ہوں گے۔ (الغاشیۃ: ٨) آل عمران
106 آل عمران
107 آل عمران
108 فہم القرآن ربط کلام : اس سے پہلے مجرموں کو سزا سنائی گئی تھی یہاں وضاحت فرمائی ہے کہ مجرموں کے چہرے کالے ہونا اور ان کا جہنم میں داخل ہونا اللہ تعالیٰ کی طرف سے زیادتی نہیں بلکہ یہ تو ان کے اعمال کا نتیجہ اور بدلہ ہوگا۔ یہ اللہ تعالیٰ کے ضابطے اور فیصلے ہیں جو ذات کبریا خود آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے پڑھ رہی ہے۔ اس کے منزل من اللہ ہونے میں ذرّہ برابر بھی شک نہیں کیا جاسکتا۔ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے حق اور سچ ہیں۔ جو فرد اور قوم ان پر عمل پیرا ہوگی وہ صراط مستقیم پر گامزن ہوتے ہوئے نہ صرف دنیا میں ساحل مراد تک پہنچیں گی بلکہ آخرت میں ایک لامتناہی روشن مستقبل ان کا منتظر ہوگا اور جو لوگ ان کا انکار کریں گے ان کے لیے دنیا میں بربادی ہے اور آخرت میں روسیاہی ہوگی۔ برے انجام کے ساتھ دوچار ہونا ان کا یقینی ہے اور اس میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان پر کوئی زیادتی نہ ہوگی کیونکہ اللہ تعالیٰ نہ صرف لوگوں کو ظلم سے روکتے ہیں بلکہ اس نے اپنی ذات اقدس پر ظلم وزیادتی حرام قرار دی ہے۔ اللہ تعالیٰ کو کسی پر زیادتی کرنے کی اس لیے بھی ضرورت نہیں کیونکہ زمین و آسمان کا ذرّہ ذرّہ اس کا تابع فرمان اور زیر اقتدار ہے زیادتی تو وہ کرے جس کے اختیارات سے بڑھ کر کوئی نافرمانی کرنے والا ہو۔ انسان نافرمانی کرتا ہے تو اس مہلت کے مطابق کرتا ہے جو اللہ تعالیٰ نے اسے دے رکھی ہے۔ آخرکار ہر کوئی اپنے اعمال کے ساتھ اس کے حضور پیش ہونے والا ہے اور آخرت میں ہر ایک کو اس کے کردار کا بدلہ چکا دیا جائے گا۔ (یَاعِبَادِیْ إِنِّیْ حَرَّمْتُ الظُّلْمَ عَلٰی نَفْسِیْ وَجَعَلْتُہٗ بَیْنَکُمْ مُحَرَّمًا فَلَا تَظَالَمُوْا) [ رواہ مسلم : کتاب البر والصلۃ وا آداب، باب تحریم الظلم] ” اے میرے بندو! یقینًا میں نے اپنے آپ پر ظلم کرنا حرام کردیا ہے اور میں اسے تمہارے درمیان بھی حرام قرار دیتاہوں پس تم آپس میں ظلم نہ کیا کرو۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ کسی پر ظلم نہیں کرتا۔ ٢۔ زمین و آسمان کی ہر چیز اللہ ہی کے لیے ہے۔ ٣۔ تمام معاملات اللہ کی طرف ہی لوٹائے جاتے ہیں۔ ٤۔ ہر کام کا انجام اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے۔ آل عمران
109 آل عمران
110 فہم القرآن ربط کلام : گزشتہ سے پیوستہ جس میں امت محمدیہ کا مقام اور کام بتلایا گیا ہے۔ امام رازی (رض) نے ایک نظریہ پر اکٹھا ہونے والے لوگوں کو امت قرار دیا ہے یہاں مسلمانوں کو صرف ایک امت نہیں بلکہ امت خیر کے معزز ترین لقب سے ملقب فرمایا گیا ہے اور یہ اعزاز صرف اس امت کو حاصل ہوا ہے۔ اس اعتبار سے امت محمدیہ پہلی تمام امتوں پر برتر اور فضیلت کی حامل قرار پائی ہے۔ جس کی تین بنیادی وجوہات ہیں۔ (١) اللہ تعالیٰ پر کامل اور بلاشرکت غیرے ایمان لانا۔ (٢) نیکی پر عمل پیرا ہو کر دوسروں کو اس کی دعوت دینا (٣) برائی سے بچنا اور لوگوں کو اس سے منع کرنا، یہی امت کا اجتماعی فریضہ ہے۔ یہ فرض اتنا مشکل‘ عالمگیر اور ہمہ وقت کرنے کا ہے جو ایک جماعت کے کرنے سے بھی کما حقہ پورا نہیں ہوتا جب تک کہ امت کا ایک ایک فرد اپنے مقام پر اس کے لیے کوشاں نہ ہوجائے۔ رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد گرامی ہے : (مَنْ رَّأٰی مِنْکُمْ مُّنْکَرًا فَلْیُغَیِّرْہُ بِیَدِہٖ فَاِنْ لَّمْ یَسْتَطِعْ فَبِلِسَانِہٖ فَاِنْ لَّمْ یَسْتَطِعْ فَبِقَلْبِہٖ وَذٰلِکَ أَضْعَفُ الْاِیْمَانِ) [ رواہ مسلم : کتاب الإیمان، باب بیان کون النھی عن المنکر من الإیمان] ” تم میں جو آدمی کوئی برائی دیکھے اسے اپنے ہاتھ سے روکے، طاقت نہ ہو تو زبان کے ساتھ منع کرے اگر اس کی بھی طاقت نہ ہو تو دل میں ہی اسے برا محسوس کرے لیکن یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے۔“ یہ فرض امت کے ہر فرد پر اس لیے بھی ضروری ہے کہ اس حکم میں امر اور نہی کا لفظ استعمال کیا گیا ہے اور امر ونہی کے الفاظ قوت و اقتدار کا مطالبہ کرتے ہیں۔ کیونکہ قوت و اقتدار کے بغیر کسی حکم کا نافذ ہونا ممکن نہیں لہٰذا اس کے لیے اجتماعی قوت کی ضرورت ہے۔ یہ کام محض عوامی تحریک یا اجتماعی قوت کے طور پرہی نہیں بلکہ اس کے پیچھے للہیت اور ایمان کی روشنی ہونی چاہیے تب جا کر اقامت دین کا تقاضا پورا ہوسکتا ہے۔ جہاں تک اہل کتاب کا تعلق ہے اگر وہ اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کرنا چاہتے ہیں تو ان کے لیے لازم ہے کہ وہ اللہ اور اس کے آخری رسول پر ایمان لاتے ہوئے ابلاغ دین کے کام میں لگ جائیں اگر وہ ایسا کریں تو نہ صرف وہ امّتِ خیر میں شامل ہوں گے۔ بلکہ دنیا اور آخرت کی بھلائی کے حق دار ٹھہریں گے۔ ان میں کچھ لوگ تو ایمان لاتے ہیں جبکہ اکثریت نے نافرمانی کا رویّہ اختیار کیا ہوا ہے۔ ایسے لوگ اپنی ہرزہ سرائی اور شرارتوں کے ذریعے مسلمانوں کو عارضی اور معمولی نقصان تو پہنچا سکتے ہیں۔ لیکن مسلمانوں کو کامرانی کے راستے سے ہٹانا ان کے لیے ناممکن ہوچکا ہے کیونکہ مسلمان اتحاد و تقو ٰی اور ایمان باللہ کی بنیاد پر غزوۂ خندق کے بعد اس لائق ہوچکے تھے کہ اب انہیں قابل ذکر نقصان پہنچانا ان کے بس کا روگ نہیں رہا تھا۔ اسلام کے دشمن رزم گاہ حق و باطل میں اترنے کی کوشش کریں گے تو مقابلے کی تاب نہ لا کر پیٹھ پھیر کر بھاگنے پر مجبور ہوں گے۔ ان کی مدد کے لیے کوئی تیار نہیں ہوگا۔ بعض مفسرین نے اس آیت مبارکہ کو قرآن کی پیش گوئیوں میں شمار کیا ہے جس کی کامل ابتدا غزوۂ تبوک سے ہوئی اور پھر صدیوں تک یہود و نصارٰی مسلمانوں کی تاب نہ لا سکے۔ مسائل ١۔ امت محمدیہ تمام امتوں سے بہتر ہے۔ ٢۔ امت محمدیہ نیکی کا حکم دینے، برائی سے رکنے اور روکنے والی ہے۔ ٣۔ اہل کتاب ایمان لائیں تو ان کے لیے بہتر ہوگا۔ ٤۔ اہل کتاب میں ایمان لانے والے تھوڑے‘ کفر اور فسِق و فجور اختیار کرنے والے زیادہ ہیں۔ ٥۔ سچے مسلمان متحد ہو کر اہل کتاب کے خلاف لڑیں تو وہ پیٹھ پھیر کر بھاگ جائیں گے۔ تفسیر بالقرآن مشرکین اور اہل کتاب کی پسپائیاں : ١۔ بدر میں مشرکین پسپا ہوئے۔ (آل عمران : ١٢٣ تا ١٢٧) ٢۔ 8 ہجری کو اہل مکہ مغلوب ہوئے۔ (الفتح : ١) ٢۔ غزوۂ حنین میں مشرک شکست خوردہ ہوئے۔ (التوبۃ: ٢٦) ٣۔ جنگ خندق میں مشرکین اور اہل کتاب کو شکست ہوئی۔ (الاحزاب : ٢٥ تا ٢٧) آل عمران
111 آل عمران
112 فہم القرآن ربط کلام : مسلمانوں کی راہ میں رکاوٹ بننے والے اہل کتاب خاص کر یہودیوں کے بارے میں دو ٹوک فیصلہ۔ خندق اور فتح مکہ کے بعد مسلمان اس قابل ہوگئے کہ سرزمین حجاز میں مشرک ان کے سامنے سر نگوں ہوئے‘ یہودیوں کو ہمیشہ کے لیے جزیرہ نمائے عرب سے نکال دیا گیا۔ نصارٰی کی طاقت تبوک کے میدان میں ہزیمت کا شکار ہوئی۔ کچھ عرصہ بعد یہود و نصارٰی ذمّی بن کر رہنے اور جزیہ دے کر اسلام کی قوت کے مقابلہ میں رسوا ہوئے۔ یہودیوں کے مستقبل کے بارے میں پیش گوئی کردی گئی کہ ان پر ہمیشہ ذّلت اور مسکنت مسلط کردی گئی ہے۔ یہ جہاں کہیں بھی ہوں گے دو صورتوں میں سے ایک کو اختیار کیے بغیر نہیں رہ سکتے۔ یا تو اللہ تعالیٰ پر ایمان لا کر اس کی رسی کو مضبوطی کے ساتھ تھام کر اس امت کا حصہ بن کر معزز ہوجائیں یا پھر دوسروں کے سیاسی گداگر بن کر زندگی بسر کریں۔ ایسی صورت میں ان پر ہمیشہ اللہ تعالیٰ کا غضب رہے گا اور مال ومتاع ہونے کے باوجود ان کے دلوں سے حرص و ہوس اور غربت نہیں نکل پائے گی۔ ان کا جرم یہ ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی آیات کا ہمیشہ انکار اور انبیائے کرام کو ناحق قتل کرنے والے ہیں۔ ان جرائم میں اس لیے ملوث ہوئے کہ یہ لوگ پرلے درجے کے نافرمان اور حد سے تجاوز کرنے والے ہیں۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) اور رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ لوگ قتل نہیں کرسکے اور آپ کے بعد تو سلسلۂ نبوت ختم ہوا پھر ان یہودیوں اور ان کے بعد آنے والوں پر یہ سزا کیوں مقرر کی گئی؟ اس کا جواب یہ ہے کہ بے شک عیسیٰ (علیہ السلام) اور رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ لوگ قتل نہیں کرسکے اور نہ ہی اب کسی نبی نے آنا ہے اس کے باوجود ان پر اس سزا کا مسلط ہونا اس لیے ہے کہ یہ اپنے بڑوں کی صفائی ہی پیش نہیں کرتے بلکہ ان کے گھناؤنے جرائم کی تائید کرتے ہیں اور آج بھی مسلمانوں اور مصلحین کو قتل کرنے کے درپے رہتے ہیں۔ جس کی وجہ سے ان پر اللہ کی پھٹکار اور سیاسی طور پر ذلیل اور معاشی اعتبار سے ارب پتی ہونے کے باوجود یہودی کی نگاہ سیر ہوتی ہے نہ پیٹ بھرتا ہے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ یہودی دنیا کی مالدار ترین قوم ہونے کے باوجود کنجوس اور دل کے بھوکے ہوتے ہیں اور ہمیشہ دنیا میں در بدر پھرتے رہے ہیں۔ 1947 ء میں تین عیسائی حکومتوں برطانیہ‘ فرانس اور امریکہ کی مدد سے یہودیوں نے مختصر سے خطہ پر اپنی ایک الگ حکومت قائم کی جسے کئی ممالک نے تاحال تسلیم ہی نہیں کیا اور عیسائیوں نے مسلمانوں سے انتقام کے طور پر ان کے ممالک کے درمیان یہ اسرائیلی حکومت قائم کرکے مسلمانوں کے جگر میں خنجر گھونپا ہے اور آج بھی اسرائیل کو امریکہ کی مکمل حمایت حاصل ہے اور اسی کے دم قدم سے یہ اپنا وجود قائم رکھے ہوئے ہے۔ اگر امریکہ‘ برطانیہ کا سایہ اس کے سر سے اٹھ جائے تو اس کا وجود فوراً ختم ہوجائے۔ اسرائیلغیر قانونی ریاست : اسرائیل فلسطین میں اپنی ریاست کے قیام کی بنیاد جن تین بڑے ماخذوں پر تعمیر کرتا ہے : (١) انجیل میں عہد نامہ قدیم کی میراث۔ (٢) 1917 ء میں حکومت برطانیہ کا اعلان بالفور (٣) 1947 ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی سفارش جس میں فلسطین کو عربوں اور یہودیوں میں تقسیم کرنے کے لیے کہا گیا تھا۔ حالانکہ تاریخی لحاظ سے یہودی فلسطین کے قدیم ترین باشندے نہیں ہیں اور نہ ہی انہوں نے وہاں اتنا عرصہ حکومت کی جتنی دوسری اقوام نے کی ہے۔ جدیدماہرین آثار قدیمہ اب اس بات پر اتفاق کرتے ہیں کہ یہاں کے قدیم ترین باشندے یعنی 3000 سال قبل مسیح سے لے کر تقریبًا 1700 قبل مسیح تک کنعانی اور مصری تھے۔ جن کا ذکر قدیم کتب میں ملتا ہے۔ ان کے یکے بعد دیگرے دوسری اقوام مثلًا ہکسو، حطی اور فلسطینی آئے۔ یہودی حکومت کا عہد 875 قبل مسیح سے شروع ہو کر 1020 قبل مسیح تک رہا اس کے بعد اسرائیلیوں کو اسیرین، اہل بابل، مصریوں اور شامیوں نے روند ڈالا۔ پھر 83 قبل مسیح میں سلطنت رومانے یروشلم فتح کرکے یہودی معبدگھروں کو مسمار کرڈالا اور یہودیوں کو دوسرے علاقوں کی طرف بھگادیا۔ مجموعی طور پر فلسطین کی پانچ ہزارسالہ دستاویزی تاریخ میں قدیم یہودیوں نے اسے یا اس کے ایک بڑے حصہ کو محض چھ سو سال تک کنڑول کیا یعنی کنعانیوں، مصریوں، مسلمانوں اور رومیوں سے بہت کم امریکی ” کنگ کرین کمیشن“ کے مطابق اسرائیل کا 1919 ئکے دوہزار سال پیشتر قبضہ کو بنیاد بنا کر دعو ٰی ملکیت کرنا سنجیدگی سے نہیں لیا جاسکتا۔ 14 مئی 1947 ء کو تل ابیب میں جو میٹنگ ہوئی جس میں جو ” قدرتی اور تاریخی حق“ کے طور پر اعلان آزادی کیا گیا تھا اس میں صرف یہودیوں کے 37 افراد شریک ہوئے تھے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ ان کے اس اقدام کی بین الأقوامی عالمی قانون میں کوئی مستند حیثیت نہیں بنتی کیونکہ وہ اس وقت کی آبادی کی اکثریت کی نمائندگی نہیں کرتے تھے۔ در حقیقت ان میں سے صرف ایک فلسطین کا پیدائشی شہری تھا بقیہ 35 یو رپی ممالک سے تھے اور ایک یمن کا باشندہ تھا۔ بقول ایک فلسطینی دانشور عیسیٰ نخلح کے ” یہودی اقلیت کو ایک ایسے علاقے میں اپنی آزاد ریاست کے قیام کا اعلان کرنے کا کوئی حق نہیں تھا جہاں فلسطینی عرب قوم آباد تھی۔“ امریکہ کی مالی امداد کا سہارا : ہر سال اسرائیل کو دی جانے والی امریکن امداد کسی بھی دوسرے ملک کو دی جانے والی امداد سے زیادہ ہوتی ہے۔ صرف 1987 ء سے لے کر 2003 ء تک براہ راست دی جانے والی معاشی اور فوجی امداد تین ارب ڈالر سے زیادہ ہے۔ علاوہ ازیں جو دوسرے مالی معاملات صرف اور صرف اسرائیل کے لیے خصوصی طور پر طے پاتے ہیں ان کو شامل کرکے یہ امداد تقریبًا پانچ ارب ڈالرسالا نہ تک جاپہنچتی ہے۔ اس میں اسرائیل کو دیے جانے والے قرضہ جات شامل نہیں ہیں۔ امریکی قانون کے مطابق کسی بھی ملک کو امداد چاہے وہ اقتصادی ہو یا فوجی! یکسر ختم کردینی چاہیے اگر وہ ملک جوہری ہتھیار بنالے یا پھر وہ ” عالمی طور پر تسلیم شدہ انسانی حقوق کی پامالی کا مرتکب ہورہا ہو“ امریکی حکومت کو سالہا سال سے اسرائیل کے جوہری اسلحہ خانے کے انبار کا اور اس کے حقوق انسانی کی لگاتار پامالی کا علم ہے لیکن کسی بھی صدر یا کانگرس نے قانون کے مطابق امداد کو ختم کرنے کے اقدامات تو کجا اس کو کم کرنے کی کوشش بھی نہیں کی۔ [ بحوالہ اسرائیل کی دیدہ ودانستہ فریب کاریاں/پال فنڈ ] مسائل ١۔ یہودی اللہ تعالیٰ کی پناہ اور لوگوں کے سہارے کے بغیر ہر جگہ ذلیل و خوار رہیں گے۔ ٢۔ یہودی انبیاء کے قاتل، اللہ کی آیات کے منکر اور حد سے تجاوز کرنے والے ہیں۔ تفسیر بالقرآن یہود ونصارٰی کی ذلّت کے اسباب : ١۔ اللہ تعالیٰ کے گستاخ ہیں۔ (آل عمران : ١٨١) ٢۔ انبیاء کے گستاخ ہیں۔ (آل عمران : ٢١) ٣۔ اللہ تعالیٰ کی آیات کے انکاری ہیں۔ (البقرۃ: ٦١) ٤۔ شرک کی وجہ سے ذلیل ورسوا ہوئے۔ (المائدۃ: ١٨) ٥۔ اللہ تعالیٰ کی حکم عدولی کی وجہ سے رسوا ہوئے۔ (البقرۃ: ٨٣ تا ٨٥) ٦۔ کتاب اللہ میں تحریف کرنے کی وجہ سے خوار ہوئے۔ (النساء : ٤٦) ٧۔ سود اور لوگوں کا مال ناحق کھانے کی بنا پر تباہ ہوئے۔ (النساء : ١٦١) آل عمران
113 فہم القرآن ربط کلام : اہل کتاب سارے ایک جیسے نہیں اور نہ ہی تمام پر ذلت اور پھٹکار ہوگی۔ ان میں وہ مستثنیٰ ہیں جو ایمان لائے اور نیکی کا حکم دینے والے ہیں وہ اللہ تعالیٰ کے محبوب ہیں۔ ان سے مراد وہ بھی اہل کتاب ہوسکتے ہیں جو نبی اکرم سے پہلے تورات، انجیل پر عمل کرتے تھے اور آپ کی بعثت سے پہلے فوت ہوگئے۔ یہاں ان لوگوں کو اللہ کی پھٹکار اور ذلت و رسوائی سے مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے جو اہل کتاب میں سے رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لائے اور امّتِ خیر کے وصف سے متّصف ہوئے۔ انہیں مسلمانوں میں شامل کرتے ہوئے امت کے لفظ سے یاد فرمایا ہے کہ یہ لوگ رات کی تاریکیوں میں اٹھ کر اللہ تعالیٰ کے حضور اس کی آیات کی تلاوت کرتے اور اس کی بارگاہ میں سجدہ ریز ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ پر کامل ایمان رکھنے کے ساتھ ان کے دل فکر آخرت سے لرزاں رہتے ہیں‘ نیکی کا حکم دینے‘ برائی سے منع کرنے‘ ہر کار خیر میں آگے بڑھنے والے اور صالحین میں شامل ہیں اور جو کوئی بھی نیکی کا طلب گار اور ان اوصاف کا حامل ہوگا وہ امیر ہو یا غریب‘ چھوٹا ہو یا بڑا‘ اس کے صالح اعمال کی ہرگز ناقدری نہیں ہونے پائے گی۔ نجاشی شاہ حبشہ جس کا نام اصحمہ جو اہل کتاب میں سے تھا۔ اس نے مسلمانوں کی اس وقت بھرپور حمایت کی جب مسلمان ہجرت کر کے حبشہ پہنچے اور قریش مکہ کا ایک وفد انہیں واپس لانے کے لیے شاہ حبشہ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ شاہ نے نہ صرف یہ کہ مسلمانوں کو واپس نہیں کیا اور انہیں پناہ دی بلکہ برملا اعتراف کیا کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور مریم [ کے معاملہ میں مسلمانوں کے عقائد بالکل درست اور عیسیٰ (علیہ السلام) کی تعلیمات کے عین مطابق ہیں۔ پھر مسلمانوں کے ساتھ بہتر سے بہتر سلوک کیا۔ اور مسلمان ہوگیا جب وہ فوت ہوا تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مسلمانوں کو اس کی وفات پر مطلع کرتے ہوئے فرمایا کہ اپنے بھائی کی نماز جنازہ پڑھو۔ چنانچہ اس کی غائبانہ نماز جنازہ پڑھی گئی۔ [ رواہ البخاری : کتاب الجنائز، باب الصفوف علی الجنازۃ۔۔] عبداللہ بن سلام یہود کے ممتاز علماء میں سے تھے لیکن مفاد پرست اور جاہ طلب ہونے کی بجائے حق پرست تھے۔ جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہجرت کر کے مدینہ تشریف لائے اور عبداللہ بن سلام نے آپ میں وہ نشانیاں دیکھیں جو تورات میں نبی آخر الزماں (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بتلائی گئی تھیں تو چند سوالات پوچھنے کے بعد اسلام لے آئے۔ اس نے رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہود کی سرشت سے آگاہ کیا‘ چنانچہ یہود ان کے دشمن بن گئے۔ بعد ازاں زنا کے ایک مقدمہ میں یہود نے تورات سے رجم کی آیت کو چھپانا چاہا تو عبداللہ بن سلام (رض) نے ہی اس آیت کی نشاندہی کر کے یہود کو نادم اور رسوا کیا تھا۔ [ رواہ ابوداوٗد : کتاب الحدود، باب فی رجم الیہودیین] عبداللہ بن سلام (رض) کو ایک خواب آیا تھا جس کی تعبیر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ بتلائی کہ عبداللہ بن سلام آخری دم تک اسلام پر ثابت قدم رہیں گے۔ [ رواہ البخاری : کتاب المناقب‘ باب مناقب عبداللہ بن سلام] مسائل ١۔ اہل کتاب سب ایک جیسے نہیں۔ ٢۔ اہل کتاب میں سے اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاتے ہوئے اللہ کی عبادت کرنے والے ہیں۔ ٣۔ اللہ و آخرت پر ایمان‘ امر بالمعروف‘ نہی عن المنکر اور نیکیوں میں جلدی کرنے والے صالح ہیں۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ کسی کی نیکی کی ناقدری نہیں کرتا۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ کو خوب معلوم ہے کہ متقی کون ہے۔ تفسیر بالقرآن اہل کتاب میں اچھے لوگوں کے اوصاف : ١۔ اللہ تعالیٰ‘ آخرت اور اللہ کی نازل کردہ کتب اور قرآن مجید پر ایمان لاتے ہیں۔ (آل عمران : ١٩٩) ٢۔ اللہ کی آیات کے بدلے دنیا کا مال نہیں بٹورتے۔ (آل عمران : ١٩٩) ٣۔ رات کو اٹھ اٹھ کر کتاب اللہ یعنی قران مجید کی تلاوت کرتے ہیں۔ (آل عمران : ١١٣) ٤۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ سر انجام دیتے ہیں۔ (آل عمران : ١١٤) ٥۔ امانتوں کا خیال رکھتے ہیں۔ (آل عمران : ٧٥) آل عمران
114 آل عمران
115 آل عمران
116 فہم القرآن ربط کلام : اہل ایمان کے بعد اہل کفر کا انجام ذکر ہوتا ہے۔ اسلام کے مخالف اپنی انا کی خاطر مسلمانوں کے خلاف مال بھی خرچ کرتے ہیں۔ انہیں اس خرچ کرنے کی حقیقت سے آگاہ کیا گیا ہے کہ بالآخر اس کا انجام کیا ہوگا۔ صاحب ایمان اور صالح کردار لوگوں کی ہرگز ناقدری نہیں ہوگی۔ اس کے برعکس جن لوگوں نے کفر کا رویّہ اختیار کیا ان کے مال اور اولادربِّ ذوالجلال کے ہاں انہیں کچھ فائدہ نہیں دے سکیں گے۔ کفار اور اہل کتاب رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام (رض) کو غریبی کے طعنے دیتے ہوئے کہا کرتے تھے کہ اگر آپ لوگ سچے ہوتے تو اللہ تعالیٰ ضرور تمہیں دنیا کے اسباب سے مالا مال کرتا۔ اگر ہم اس کی بارگاہ میں غلط ہوتے تو وہ ہمیں مال اور اولاد سے کیوں نوازتا؟ اس خیال کی تردید اور اہل کفر کے کان کھولنے کے لیے بتلایا جارہا ہے کہ ایسا ہرگز نہیں۔ اللہ تعالیٰ کے نزدیک معیار دنیا کی بجائے آدمی کا عقیدہ اور صالح کردار ہے۔ جو لوگ اس سے تہی دامن ہوئے انہیں جہنم میں جھونکا جائے گا اور وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔ دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا : ( لَایَغُرَّنَّکَ تَقَلُّبُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا فِی الْبِلَادِ مَتَاعٌ قَلِیْلٌ ثُمَّ مَ اْوٰہُمْ جَہَنَّمُ وَ بِءْسَ الْمِہَادُ) [ آل عمران : ١٩٦، ١٩٧] ” آپ کو کفار کا شہروں اور بستیوں میں چلنا پھرنا دھوکے میں نہ ڈالے یہ تھوڑا سا فائدہ ہے پھر ان کا ٹھکانہ جہنم ہے جو بدترین ٹھکانہ ہے۔“ اس عقیدہ کے حامل لوگ دنیا میں فلاح و بہبود اور نیکی کے کاموں پر لاکھوں روپے خرچ کریں تو بھی انہیں کچھ فائدہ نہیں ہوگا۔ جس طرح لہلہاتے ہوئے باغ‘ کھلے ہوئے پھول اور سرسبز و شاداب کھیتیاں باد صرصر سے خاکستر ہوجایا کرتی ہیں۔ عقیدۂ کفر و شرک کی وجہ سے ان کے اعمال بھی اسی طرح ضائع ہوجائیں گے۔ ان کے صدقات اور عبادات کا غارت ہونا ظلم کی بنا پر نہیں بلکہ ان کے اپنے عقیدے اور کردار کی وجہ سے ہوگا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر ظلم نہیں کرتا۔ لوگ خود اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں۔ کفار کے اعمال کے بارے میں حدیث مبارکہ میں یوں آیا ہے : (عَنْ عَاءِشَۃ قَالَتْ قُلْتُ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ابْنُ جُدْعَانَ کَانَ فِی الْجَاہِلِیَّۃِ یَصِلُ الرَّحِمَ وَیُطْعِمُ الْمِسْکِیْنَ فَہَلْ ذَاکَ نَافِعُہٗ قَالَ لاَ یَنْفَعُہٗ إِنَّہُ لَمْ یَقُلْ یَوْمًا رَبِ اغْفِرْلِیْ خَطِیْءَتِیْ یَوْمَ الدِّیْنِ) [ رواہ مسلم : کتاب الإیمان، باب الدلیل علی من مات علی الکفر لاینفعہ عمل] ” حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں میں نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا کہ ابن جدعان جاہلیت میں صلہ رحمی اور مساکین کو کھانا کھلایا کرتا تھا کیا اسے یہ چیزیں نفع دیں گی؟ آپ نے فرمایا نہیں کیونکہ اس نے ایک دن بھی یہ نہیں کہا کہ اے میرے رب ! قیامت کے دن میری خطاؤں کو معاف فرمادینا۔ (یعنی اس کا اللہ اور آخرت پر ایمان نہیں تھا )۔“ مسائل ١۔ کفار کے مال اور اولاد اللہ کے ہاں کچھ فائدہ نہیں دیں گے۔ ٢۔ کفار جہنمی ہیں اس میں ہمیشہ رہیں گے۔ ٣۔ کفار کا سب کچھ ضائع ہوجائے گا۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ کسی پر ظلم نہیں کرتا لوگ خود اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن قیامت کے دن کفار کو کوئی چیز فائدہ نہ دے گی : ١۔ کافر زمین کے برابر سونا دے کر بھی جہنم سے نجات نہیں پاسکتے۔ (آل عمران : ٩١) ٢۔ قیامت کے دن ان کا کوئی سفارشی نہیں ہوگا۔ (الانعام : ٥١) ٣۔ کافر بغیر حساب کے جہنم میں دھکیل دیے جائیں گے۔ (الکہف : ١٠٥) ٤۔ کافروں کو ان کی جمعیت اور تکبر کام نہ آسکے گا۔ (الاعراف : ٤٨) ٥۔ کفار کے مال واولاد ہرگزان کے کام نہ آسکیں گے۔ (آل عمران : ١٠) آل عمران
117 آل عمران
118 فہم القرآن ربط کلام : جو لوگ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف مال خرچ کریں اور ہر قسم کی دشمنی روا رکھیں ان کے ساتھ قلبی دوستی سے منع کیا گیا ہے۔ مسلمانوں کو کفار اور اہل کتاب کے بارے میں مسلسل بتلایا جا رہا ہے کہ ان کی خواہش اور کوشش ہے کہ وہ تمہیں دین حق سے پھیر دیں۔ اب دو ٹوک انداز میں حکم دیا گیا ہے کہ انہیں اپنا راز دان بنانے کی کوشش نہ کرنا یہ دین اسلام سے منحرف کرنے کے ساتھ چاہتے ہیں کہ تمہیں ہر قسم کا نقصان پہنچے یہ تمہاری ذات اور دین کے دشمن ہیں، کئی بار اپنی زبان سے حسد و بغض کا اظہار کرچکے ہیں۔ ان کے سینوں میں حسد اور دشمنی کی جو آگ بھڑک رہی ہے اس کا تم تصور بھی نہیں کرسکتے۔ ہم نے تمہارے سامنے حقیقت حال بیان کردی ہے تاکہ تم عقل و فکر سے کام لو۔ عربی زبان میں ” بِطَانَۃُ ٗ“ استر کو کہتے ہیں جو لباس کے اندر پہنا جاتا ہے جسے بنیان کہا جاتا ہے۔ مقصد یہ ہے کہ اہل کتاب کے ساتھ اس طرح خلط ملط ہونے کی کوشش نہ کرو کہ وہ تمہاری پالیسیوں اور کمزوریوں سے واقف ہو کر تمہیں نقصان پہنچانے میں کامیاب ہوجائیں۔ اہل کتاب کی دشمنی کی تصویر کا ایک رخ : خیبر کی فتح کے بعد سلام بن مشکم کی بیوی زینب بنت حارث نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس بھنی ہوئی بکری کا ہدیہ بھیجا۔ اس نے پوچھ رکھا تھا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کون سا گوشت زیادہ پسند کرتے ہیں۔ اسے بتایا گیا کہ دستی کا گوشت پسند فرماتے ہیں۔ اس لیے اس نے دستی میں زہر ملایا اور بعد ازاں بقیہ حصہ بھی زہر آلود کردیا پھر اسے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے رکھا۔ آپ نے دستی اٹھا کر اس کا ایک ٹکڑا چبایا لیکن نگلنے کے بجائے تھوک دیا۔ فرمایا کہ یہ دستی مجھے بتلا رہی ہے کہ اس میں زہر ملایا گیا ہے۔ اس کے بعد آپ نے زینب کو بلایا تو اس نے اقرار کرلیا۔ آپ نے پوچھا تم نے ایسا کیوں کیا؟ اس نے کہا میں نے سوچا کہ اگر یہ بادشاہ ہے تو ہمیں اس سے نجات مل جائے گی۔ اگر نبی ہے تو اسے خبر دے دی جائے گی۔ اس پر آپ نے اسے معاف کردیا۔ اس موقع پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ حضرت بشر بن براء بھی تھے۔ انہوں نے ایک لقمہ نگل لیا تھا جس کی وجہ سے ان کی موت واقع ہوگئی۔ روایت میں اختلاف ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس عورت کو معاف کردیا تھا یا قتل کردیا تھا تطبیق اس طرح دی گئی ہے کہ پہلے تو آپ نے معاف کردیا تھا۔ لیکن جب حضرت بشر (رض) کی موت واقع ہوگئی تو پھر قصاص کے طور پر قتل کردیا گیا۔ [ فتح الباری : 497/7] ایک دفعہ امیر المومنین حضرت عمر (رض) کے پاس کسی صحابی نے ایک اہل کتاب کی سفارش کی کہ یہ فن کتابت اور حساب کا ماہر ہے آپ اسے اپنا منشی اور کاتب رکھ لیں۔ امیر المومنین (رض) نے فرمایا کہ میں اسے مسلمانوں کا رازدان نہیں بنا سکتا۔ پھر اس آیت کا حوالہ دیا کہ کیا تجھے معلوم نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس بات سے منع کیا ہیکہ اہل کتاب کو اتنا قریب نہ کرو۔[ ابن کثیر] حضرت عمر (رض) کے فرمان کا مقصد یہ تھا کہ غیر مسلموں کو اس قسم کے اہم عہدے نہیں دینے چاہییں۔ اسی وجہ سے وہ فوج کے کمانڈروں کو حکم دیتے کہ کفار کے ساتھ جب تمہارے مذاکرات ہوں یا کہیں مشترکہ اجلاس ہوں تو ان کے ساتھ اس طرح خلط ملط نہ ہونا کہ وہ تمہاری فوجی اور اخلاقی کمزوریوں سے واقف ہوجائیں۔ (سیرت الفاروق) ملت اسلامیہ کو سب سے پہلے جو بھاری نقصان اٹھانا پڑا اس کا بنیادی سبب مسلمانوں کی یہی کمزوری تھی۔ امیر المومنین حضرت عمر (رض) کو ابولؤلؤایرانی مجوسی نے صبح کی نماز کے وقت پے در پے خنجر مار کر زخمی کردیا۔ جب اس تکلیف میں حضرت عباس (رض) اور کچھ صحابہ حضرت عمر (رض) کے پاس اظہار افسوس کے لیے آئے تو انہوں نے فرمایا کہ کیا میں تمہیں توجہ نہیں دلایا کرتا تھا کہ غیر مسلم غلام اپنے قریب نہ آنے دیا کرو۔ لیکن آپ لوگوں نے اسے درخور اعتنانہ سمجھا۔ اب اس کا نتیجہ دیکھ رہے ہو۔ [ البدایۃ والنہایۃ] مسائل ١۔ کفار سے دلی دوستی کرنا منع ہے۔ ٢۔ کفار مسلمانوں کو تکلیف دینے میں ذرہ بھر کسر اٹھا نہیں رکھتے۔ ٣۔ کفار مسلمانوں کو ہر وقت تکلیف میں دیکھنا چاہتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن کفار اور یہود ونصارٰی کے ساتھ دوستی منع ہے : ١۔ اللہ کے دشمنوں کے ساتھ دوستی کی ممانعت۔ (الممتحنۃ: ١) ٢۔ کفار کی خواہشات کی پیروی نہ کرو۔ (الانعام : ١٥٠) ٣۔ کفار کی اطاعت کا نقصان۔ (آل عمران : ١٤٩) ٤۔ کافر مسلمانوں کے ہمدرد نہیں ہو سکتے۔ (آل عمران : ١١٩۔ ١٢٠) ٥۔ اہل کتاب مسلمانوں کو اپنے پیچھے لگائے بغیرخوش نہیں ہوسکتے۔ (البقرۃ: ١٢٠) ٦۔ اہل کتاب چاہتے ہیں کہ مسلمان مشکلات میں پھنسے رہیں۔ (آل عمران : ١١٨) آل عمران
119 فہم القرآن ربط کلام : اسلام کے دشمنوں سے دوستی نہ رکھنے کی مزید وجوہات بیان کی گئی ہیں۔ مسلمانوں کا ضمیر جھنجھوڑنے اور غیرت دلانے کے لیے اب نیا انداز اختیار کرتے ہوئے فرمایا کہ تم کیسے لوگ ہو کہ تم ان سے محبت کی پینگیں بڑھاتے ہو اور وہ تمہارے ساتھ کوئی الفت نہیں رکھتے۔ تم خلوص نیت کے ساتھ قرآن مجید پر ایمان لائے ہو ان کی حالت یہ ہے کہ تمہارے ساتھ ملتے ہیں تو زبانی جمع خرچ کے طور پر ایمان کا دعو ٰی کرتے ہیں اور جب تم سے الگ ہوتے ہیں تو غیظ و غضب کی وجہ سے اپنی انگلیاں کاٹتے ہیں۔ ان سے کہو کہ تم اپنے غصے کی آگ میں جل مرو۔ اللہ تعالیٰ سب کے دلوں کے حال کو جاننے والا ہے۔ یہاں اللہ تعالیٰ نے اپنی صفت علیم کے ذریعے مسلمانوں کو یہ باور کروایا ہے کہ کفار کے غیظ و غضب اور ان کے سینے کی حالت کو اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا وہ تو تمہارے اعمال اور دلوں کی کیفیّات کو بھی جانتا ہے کہ تم کس حد تک کفار کی دوستی سے اجتناب کرنے اور اللہ تعالیٰ کے حکم کو ماننے والے ہو۔ اگر تمہیں کوئی فائدہ اور اچھائی پہنچتی ہے تو ان کو بری لگتی ہے اور اگر تمہیں نقصان اور مصیبت پہنچے تو اس پر شاداں و فرحاں ہوتے ہیں۔ ہاں اگر تم صبر کرو، اللہ تعالیٰ کا خوف اختیار کرو اور کفار سے بچتے رہو تو ان کی سازشیں اور شرارتیں تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکیں گی۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کی دسترس سے کسی کا عمل اور سازش بڑھ نہیں سکتی۔ یہاں مسلمانوں کو اہل کتاب کے چار اخلاقی جرائم بتلا کر ان کے ساتھ قلبی محبت سے روکا گیا ہے۔ تم ان سے محبت کرتے ہو جبکہ وہ تم سے محبت نہیں کرتے۔ تم اللہ تعالیٰ کی کتاب پر مکمل ایمان رکھتے ہو جبکہ وہ صرف تمہارے سامنے ایمان کے دعوے دار ہیں۔ تمہارا فائدہ انہیں برا لگتا ہے اور تمہارے نقصان پر وہ خوش ہوتے ہیں۔ وہ تمہارے ساتھ حسد و بغض رکھتے اور ہر وقت تمہارے نقصان کے درپے رہتے ہیں۔ یہود کا غیظ وغضب : بنوکلاب کے دو مقتولوں جنہیں عمرو بن امیہ ضمری نے غلطی سے قتل کردیا تھا۔ ان کی دیت میں اعانت پر بات چیت کرنے کے لیے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت ابوبکر صدیق، حضرت عمر، حضرت علی اور صحابہ کرام (رض) کی ایک جماعت کے ساتھ یہود کے پاس تشریف لے گئے انہوں نے کہا : ابوالقاسم! آپ تشریف رکھیں ہم آپ کا مطالبہ پورا کیے دیتے ہیں۔ آپ صحابہ کے ہمراہ ان کے وعدے کی تکمیل کے انتظار میں ان کے گھروں میں سے ایک گھر کی دیوار کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھ گئے۔ یہودیوں نے تنہائی میں یہ مشورہ کیا کیوں نا ہم نبی کو ختم کردیں۔ انہوں نے آپس میں کہا : کون اس چکی کے پاٹ کو لے کر اوپر جائے وہاں سے اسے آپ کے سر پر گراکر آپ کو کچل دے؟ عمرو بن جحاش بدبخت یہودی نے اس کام کو اپنے ذمے لیا۔ ان میں سے سلام بن مشکم نے یہ کہہ کر روکا بھی کہ ایسا نہ کرو کیونکہ اللہ اسے اس بات کی خبر دے دے گا اور ہمارے آپس کے عہدوپیمان ختم ہوجائیں گے لیکن وہ نہ مانے اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جبریل (علیہ السلام) کے ذریعے یہودیوں کے ارادے سے آگاہ کردیا۔ آپ فورًا اٹھے اور تیزی کے ساتھ مدینے کی طرف چل پڑے۔ صحابہ کرام (رض) بھی آپ کے پیچھے پیچھے اٹھ آئے۔ پھر آپ نے صحابہ کرام کو سارا واقعہ بیان کیا۔ اس کے بعد محمد بن مسلمہ کو بنی نضیر کی طرف روانہ کیا۔[ ملخص ازالرحیق المختوم، غزوہ بنی نضیر] مسائل ١۔ یہود ونصارٰی اور منافق علیحدگی میں مسلمانوں کے خلاف اپنے غیظ و غضب کے باعث اپنی انگلیاں چبانے لگتے ہیں۔ ٢۔ اہل کتاب مسلمانوں کی ترقی پر ناخوش اور نقصان پر خوش ہوتے ہیں۔ ٣۔ یہود و نصارٰی اور کفار کے ساتھ قلبی تعلق منقطع کرنے سے مسلمانوں کو کوئی نقصان نہیں ہو سکتا۔ ٤۔ مسلمانوں کو لوگوں سے ڈرنے کے بجائے صرف اللہ تعالیٰ سے ڈرنا چاہیے۔ ٥۔ کفار کو راضی کرنے کے بجائے قرآن وسنت پر ثابت رہنا چاہیے۔ ٦۔ اللہ تعالیٰ ہر چیز کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ آل عمران
120 آل عمران
121 فہم القرآن ربط کلام : کفار کا مسلمانوں کو نقصان پہنچانا اور اس پر خوش ہونے کی پہلی مثال غزوۂ احد ہے۔ جس کا نقشہ پیش کیا جار رہا ہے۔ بدر میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو عظیم الشان فتح سے نوازا تھا۔ شکست سے بچنے کے لیے نظم و ضبط‘ حوصلہ اور تقو ٰی نہایت ضروری ہے۔ مسلمانوں نے ٢ ہجری ١٧ رمضان المبارک کے دن بدر کے میدان میں اہل مکہ کو شکست فاش دی تھی۔ جس کا بدلہ لینے کے لیے مکہ والوں نے شوال ٣ ہجری میں مدینہ پر یلغار کردی۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دفاعی منصوبہ بندی کے لیے مشاورت کا اہتمام فرمایا جس میں آپ کا نقطۂ نظر یہ تھا کہ مدینہ سے باہر جانے کے بجائے شہر میں رہ کر دفاع کیا جائے۔ عبداللہ بن ابی اور منافقین نے اس بات کی بھرپور تائید کی۔ لیکن صحابہ (رض) کی اکثریت کی رائے یہ تھی کہ مدینہ سے باہر نکل کر جنگ کرنا چاہیے۔ چنانچہ جمعہ ادا کرنے کے بعد آپ نے مدینہ سے باہر نکلنے کا فیصلہ فرمایا۔ آپ اپنے گھر تشریف لائے حضرت ابو بکر اور حضرت عمر (رض) نے آپ کی دو زرہیں پہننے میں معاونت کی۔ جب آپ جرنیلی شان کے ساتھ گھر سے باہرنکلے تو صحابہ کرام (رض) نے اپنی رائے پر نظر ثانی کرتے ہوئے عرض کی کہ ہمیں آپ کی رائے کے مطابق مدینے میں ہی دفاع کرنا چاہیے لیکن ارشاد ہوا کہ نبی کی شان اور غیرت کے منافی ہے کہ وہ پختہ عزم کرنے کے بعد فیصلہ کن جنگ کیے بغیر جنگی لباس اتار دے۔ اس طرح آپ احد کے قریب پہنچے اور ہفتہ کی صبح کو مورچہ بندی کا آغاز فرمایا۔ جونہی مورچہ زن ہونے کا آغاز ہوا تو عبداللہ بن ابی اپنے تین سو ساتھیوں کو لے کر اس احتجاج کے ساتھ واپس ہوا کہ ہماری رائے کا احترام نہیں کیا گیا۔ منافقین کے اس اقدام نے کفار کے حوصلے بڑھائے جبکہ مسلمانوں میں سراسیمگی پھیلی۔ یہاں تک کہ بنو سلمہ اور بنو حارثہ کے لوگوں نے بھی واپس جانے کے لیے چہ میگوئیاں کیں۔ ان آیات میں اس صورت حال پر تبصرہ کرتے ہوئے ارشاد ہوتا ہے کہ مسلمانو! وہ وقت یاد کرو۔ جب اللہ کا رسول تمہاری صف بندی کر رہا تھا اور عین اس وقت تم میں سے دو گروہوں نے کم ہمتی کا مظاہرہ کرنا چاہا لیکن اللہ تعالیٰ نے انہیں ثابت قدم رکھا کیونکہ اللہ تعالیٰ ان کے ساتھ محبت رکھتا تھا جس کی وجہ سے وہ ایسا نہ کرسکے۔ مومنوں کو چاہیے کہ حالات اچھے ہوں یا برے ہر حال میں اللہ پر بھروسہ کرتے رہیں۔ حضرت جابر بن عبداللہ (رض) فرمایا کرتے تھے کہ اس آیت میں ہماری کمزوری کی نشان دہی کی گئی ہے جس میں ہماری پستی کا پہلو نکلتا ہے لیکن باوجود اس کمزوری کے ہمارے لیے اللہ تعالیٰ کا فرمان اعزاز کی حیثیت رکھتا ہے کیونکہ اس میں اللہ تعالیٰ نے ” وَلِیُّھُمَا“ کا ارشاد فرما کر ہمیں اپنی محبت اور دوستی کا اعزاز بخشا ہے۔ (عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ (رض) یَقُوْلُ فِیْنَا نَزَلَتْ (إِذْ ھَمَّتْ طَّاءِفَتَانِ مِنْکُمْ أَنْ تَفْشَلَا وَاللّٰہُ وَلِیُّھُمَا) قَالَ نَحْنُ الطَّاءِفَتَانِ بَنُوْ حَارِثَۃَ وَبَنُوْ سَلِمَۃَ وَمَانُحِبُّ أَنَّھَا لَمْ تُنْزَلْ لِقَوْلِ اللّٰہِ (وَاللّٰہُ وَلِیُّھُمَا) [ رواہ البخاری : کتاب التفسیر، باب إذ ھمت طائفتان منکم أن تفشلا] ” حضرت جابر بن عبداللہ (رض) بیان کرتے ہیں یہ آیت ہمارے بارے میں نازل ہوئی تھی کہ جب تم میں سے دو جماعتیں ہمت ہارنے کا سوچ چکی تھیں۔ کہتے ہیں ہم دو جماعتیں بنو حارثہ اور بنو سلمہ تھے ہمارے جذبات کے برعکس یہ آیت نازل ہوئی جبکہ اس میں ہے کہ اللہ دونوں گروہوں کا سر پرست اور مددگار ہے۔“ مسائل ١۔ مومنوں کو ہمیشہ اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرنا چاہیے۔ ٢۔ جہاد میں بزدلی دکھانا اللہ تعالیٰ کو ہرگز پسند نہیں۔ ٣۔ اللہ کی رحمت شامل حال ہو تو آدمی کی بگڑی حالت درست ہوجاتی ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ کن کا دوست؟ ١۔ اللہ مومنوں کا دوست ہے۔ (آل عمران : ٦٨) ٢۔ اللہ متقین کا دوست ہے۔ (الجاثیۃ: ١٩) ٣۔ اللہ تعالیٰ اپنے دوستوں کو روشنی کی طرف لاتا ہے۔ (البقرۃ: ٢٥٧) ٤۔ اللہ کے دوستوں کو کوئی خوف و غم نہیں ہوگا۔ (یونس : ٦٢) آل عمران
122 آل عمران
123 فہم القرآن ربط کلام : احد اور بدر کے حالات کا موازنہ کیا جا رہا ہے۔ اُحد کی شکست کے عوامل اور محرّکات پر تبصرہ کرنے سے پہلے بدر کی کامیابی‘ اس وقت کے حالات اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملائکہ کی شکل میں نصرت و حمایت کا تذکرہ اس لیے کیا جا رہا ہے تاکہ مسلمانوں کا غم ہلکا اور مورال بلند ہو سکے۔ اے مسلمانو! میدان بدر کی طرف دیکھو جب تم کمزور اور تعداد میں تھوڑے ہونے کی وجہ سے کفار کی نگاہوں میں حقیر اور کمزور سمجھے جارہے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے تمہاری مدد فرمائی تاکہ تم اللہ سے ڈر کر اپنی کمزوریوں کو دور کر کے اس کا شکریہ ادا کرتے رہو۔ واقعہ اس طرح ہے کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو معلوم ہوا کہ کفار ایک ہزار کا لشکر لے کر بدر کے میدان میں اترنے والے ہیں تو آپ مدینہ سے 313 صحابہ کو لے کر تقریباً 80 میل کا سفر طے کرتے ہوئے بدر میں کفار کے مد مقابل ہوئے۔ صحابہ کو خطاب کرتے ہوئے ایک ہزار فرشتوں کی مدد کی خوشخبری سنائی جس کا ذکر سورۃ الانفال آیت : 9 میں کیا گیا ہے۔ لیکن جنگ کا میدان گرم ہونے سے پہلے کفار نے افواہ پھیلائی کہ کرز بن جابر بھاری کمک کے ساتھ ہماری مدد کے لیے پہنچنے والا ہے۔ اس صورت حال میں اللہ تعالیٰ کے حکم سے رسول للہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اعلان فرمایا کہ اے مومنو! کیا تم کافی نہیں سمجھتے کہ اللہ تمہاری مدد کے لیے تین ہزار مخصوص نشان والے فرشتے نازل کرے؟ بلکہ اگر تم جرأت و حوصلہ اور تقو ٰی میں آگے بڑھو گے تو فوری طور پر ملائکہ کی کمک کو پانچ ہزار کردیا جائے گا۔ ملائکہ کی بھاری نفری اس لیے اتاری جا رہی ہے تاکہ تمہارے دل مطمئن اور تم خوش ہوجاؤ۔ جب کہ حقیقی مدد تو اللہ غالب حکمت والے کی ہی ہوا کرتی ہے۔ کفار کی تباہی کے لیے ایک فرشتہ ہی کافی تھا لیکن جنگ میں افرادی قوت مجاہدین کے لیے خوشی‘ تقویت اور حوصلے کا باعث ہوا کرتی ہے اس لیے فرشتوں کی تعداد کو بشارت کے طور پر بڑھا دیا گیا۔ اتنی بڑی حمایت کے باوجود اس بات کی وضاحت کی گئی کہ پانچ ہزار فرشتوں کی بجائے کائنات کے جن و بشر اور ملائکہ بھی تمہاری حمایت کے لیے آجاتے تو وہ تمہیں فتح نہیں دلوا سکتے تھے کیونکہ نصرت و حمایت‘ فتح و شکست کی طاقت کسی کے پاس نہیں صرف اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے۔ وہی غالب حکمت والا ہے۔ بدر میں کفار کے ستر سرخیل زمین بوس ہوئے اور ستر کو گرفتار کیا گیا۔ یہ اس لیے ہوا تاکہ کفار کی کمر ٹوٹ جائے اور وہ دنیا کے سامنے ذلیل و خوار ہوجائیں۔ مسائل ١۔ تقو ٰی شکر گزاری کا سبب ہے۔ ٢۔ بدر میں اللہ تعالیٰ نے تین ہزار مخصوص ملائکہ کے ساتھ مسلمانوں کی مدد فرمائی۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ صابر اور متقی مجاہدین کی مدد میں اضافہ فرماتا ہے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ کی مدد کامیابی کی ضمانت اور دلوں کا سکون ہوتی ہے۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ کے بغیر کوئی مدد نہیں کرسکتا وہ غالب اور حکمت والا ہے۔ ٦۔ مسلمانوں کو اللہ کی مدد پہنچنے کے بعد کافر ہمیشہ ذلیل وخوار ہوتے ہیں۔ تفسیربالقرآن اللہ تعالیٰ اپنے کمزور بندوں کی مدد کرتا ہے : ١۔ بدر میں اللہ تعالیٰ نے کمزوروں کی مدد فرمائی۔ (آل عمران : ١٢٣) ٢۔ غار ثور میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ابو بکر (رض) کی مدد فرمائی۔ (التوبۃ: ٤٠) ٣۔ ابرہہ کے مقابلے میں بیت اللہ کا تحفظ فرمایا۔ (الفیل : مکمل) ٤۔ بنی اسرائیل کے کمزوروں کی مدد فرمائی۔ (القصص : ٥) آل عمران
124 آل عمران
125 آل عمران
126 آل عمران
127 آل عمران
128 فہم القرآن ربط کلام : جس طرح اللہ تعالیٰ کی نصرت کے بغیر کوئی کسی کی مدد نہیں کرسکتا۔ اسی طرح معاف کرنا یا کسی کو عذاب دینا بھی اللہ ہی کے اختیار میں ہے کیونکہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی ملکیت ہے۔ غزوۂ احد میں مسلمانوں کے سر کردہ جنگجو یہاں تک کہ حضرت حمزہ (رض) بڑی بیدردی کے ساتھ شہید کردیے گئے اور رسول مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات اقدس کو بھی زخم آئے، رباعی دانت شہید ہوا اور آپ بے ہوش ہو کر ایک گھاٹی میں جا گرے جونہی ہوش سنبھالا تو آپ کی زبان اطہر سے بے ساختہ بددُعا نکلی : (کَیْفَ یُفْلِحُ قَوْمٌ شَجُّوْا نَبِیَّھُمْ وَکَسَرُوْا رُبَاعِیَتَہٗ وَھُوَ یَدْعُوْھُمْ إِلَی اللّٰہِ فَأَنْزَلَ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ (لَیْسَ لَکَ مِنَ الْأَمْرِ شَیْءٌ) [ رواہ مسلم : کتاب الجھاد والسیر، باب غزوۃ أحد] ” وہ قوم کیسے فلاح پائے گی جس نے اپنے نبی کاسر پھوڑ ڈالا اور اس کا دانت شہید کردیا؟ حالانکہ وہ انہیں اللہ کی طرف دعوت دیتا ہے۔ تب اللہ تعالیٰ نے آیت نازل فرمائی کہ میرے محبوب! آپ کو کسی چیز کا اختیار نہیں ہے۔“ (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَر (رض) أَنَّہٗ سَمِعَ رَسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) إِذَ ارَفَعَ رَأْسَہٗ مِنَ الرُّکُوْعِ مِنَ الرَّکْعَۃِ الْآخِرَۃِ مِنَ الْفَجْرِ یَقُوْلُ اللّٰھُمَّ الْعَنْ فُلَانًا وَفُلَانًا وَفُلَانًا بَعْدَ مَایَقُوْلُ سَمِعَ اللّٰہُ لِمَنْ حَمِدَہٗ رَبَّنَا وَلَکَ الْحَمْدُ فَأَنْزَلَ اللّٰہُ (لَیْسَ لَکَ مِنَ الْأَمْرِ شَیْءٌ )إِلٰی قَوْلِہٖ (فَإِنَّھُمْ ظَالِمُوْنَ) وَعَنْ حَنْظَلَۃَ بْنِ أَبِیْ سُفْیَانَ سَمِعْتُ سَالِمَ بْنَ عَبْدِ اللّٰہِ یَقُوْلُ کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَدْعُو عَلٰی صَفْوَانَ بْنِ أُمَیَّۃَ وَسُھَیْلِ بْنِ عَمْرٍو وَالْحَارِثِ بْنِ ھِشَامٍ فَنَزَلَتْ (لَیْسَ لَکَ مِنَ الْأَمْرِ شَیْءٌ )إِلٰی قَوْلِہٖ (فَإِنَّھُمْ ظَالِمُوْنَ) [ رواہ البخاری : کتاب المغازی، باب لیس لک من الأمر شیء ] ” حضرت عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا جب آپ فجر کی دوسری رکعت میں رکوع سے سر اٹھا نے اور سمع اللہ لمن حمدہ کہنے کے بعد دعا کر رہے تھے۔ اے اللہ! فلاں اور فلاں پر لعنت فرما۔ تب اللہ تعالیٰ نے (لَیْسَ لَکَ مِنَ الْأَمْرِ شَیْءٌ۔۔ فَإِنَّھُمْ ظَالِمُوْنَ) آیت نازل فرمائی۔ حنظلہ بن ابی سفیان نے سالم بن عبداللہ کو کہتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صفوان بن امیہ، سہیل بن عمرو اور حارث بن ہشام کے لیے بد دعا کرتے تو (لَیْسَ لَکَ مِنَ الْأَمْرِ شَیْءٌ۔۔ فَإِنَّھُمْ ظَالِمُوْنَ) آیت نازل ہوئی۔“ اس فرمان میں آپ کی توجہ مبذول کروائی گئی ہے کہ میرے محبوب! آپ کو دل شکستہ اور حوصلہ نہیں ہارنا چاہیے کیونکہ کسی کو معاف کرنا یا اسے عذاب دینا آپ کے اختیار میں نہیں یہ تو رب کبریا کے فیصلے ہیں جو اس کی حکمت کے مطابق صادر ہوتے ہیں۔ زمین و آسمان کی ہر چیز اسی کی ملکیت ہے اور وہ لا محدود اختیارات اور ہر چیز کی ملکیت رکھنے کے باوجود معاف کرنے والا اور نہایت ہی مہربان ہے۔ آپ کو بددعا سے منع کرنے کا نتیجہ یہ نکلا کہ تھوڑے ہی عرصے بعد احد میں کفار کے لشکر کی کمان کرنے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مسلمانوں کوسب سے زیادہ نقصان پہنچانے والے خالد بن ولید، عمرو بن عاص، ابوسفیان بن حرب اور بڑے بڑے لوگ مسلمان ہوئے یہاں تک کہ پورے عرب میں لوگ حلقۂ اسلام میں داخل ہونے لگے۔ مسائل ١۔ حقیقتاً کسی کو معاف کرنا یا عذاب دینا صرف اللہ کا اختیار ہے۔ ٢۔ زمین و آسمان کی ہر چیز اللہ تعالیٰ کی ملکیت ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ غفورورحیم ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ ہی مختار کل ہے : ١۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کسی پر عذاب نازل کرنے کا اختیار نہیں رکھتے۔ (آل عمران : ١٢٨) ٢۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو منافقین کے لیے دعا اور ان کی قبروں پر جانے سے روک دیا گیا۔ (التوبۃ: ٨٤) ٣۔ نبی مشرک کے لیے دعائے مغفرت کرنے کا مجاز نہیں۔ (التوبۃ: ١١٣) ٤۔ اللہ تعالیٰ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رضا کا پابند نہیں۔ (التوبۃ: ٩٦) ٥۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نفع ونقصان کا اختیار نہیں رکھتے۔ (الجن : ٢١) ٦۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جسے چاہیں ہدایت نہیں دے سکتے۔ (القصص : ٥٦) آل عمران
129 آل عمران
130 فہم القرآن ربط کلام : سود خوری آدمی میں لالچ پیدا کرتی ہے۔ احد میں درّہ چھوڑنے کے پیچھے لالچ ہی کار فرما تھا۔ حرمت سود سے پہلے بعض صحابہ بھی اس کام میں ملوّث تھے۔ جس کے منفی اثرات کا نتیجہ تھا کہ جونہی درّے پر مامور اصحاب نے مجاہدین کو مال غنیمت لوٹتے ہوئے دیکھا تو اپنے کمانڈر سے بے قابو ہو کر غنائم اکٹھا کرنے پر ٹوٹ پڑے۔ اس اخلاقی کمزوری کو دور کرنے کے لیے حکم ہوا کہ اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہوئے سود کو چھوڑ دو تاکہ تم اپنے مقاصد میں کامیاب ہو سکو اور اس آگ سے ڈرو جو اللہ کے حکم کا انکار کرنے والوں کے لیے تیار کی گئی ہے۔ بغاوت اور انکار کی روش اختیار کرنے کی بجائے ہمیشہ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت میں لگے رہو تاکہ اللہ تعالیٰ تم پر اپنی شفقت و مہربانی نازل کرتا رہے۔ دنیا کے مال کے پیچھے بھاگنے کے بجائے اللہ تعالیٰ کی بخشش اور جنت کے حصول کے لیے جلدی کرو۔ دنیا کا مال عارضی، اس کی سہولتیں ناپائیدار‘ یہاں کے بنگلے اور محلاّت مسمار اور دنیا کے باغ و بہار ویرانوں میں تبدیل ہونے والے ہیں جبکہ جنت کے باغات سدا بہار اور اس کی نعمتیں لا محدود اور ہمیشہ رہنے والی ہیں جو اللہ سے ڈرنے اور گناہوں سے بچنے والوں کے لیے تیار کی گئی ہیں۔ قرآن مجید نے مسلمانوں کو صرف نیکی کرنے کا حکم نہیں دیا بلکہ نیکیوں میں آگے بڑھنے اور جنت کی طرف سبقت لے جانے کا حکم دیا ہے۔ جس معاشرے میں نیکی اور اہم مقصد کے لیے آگے بڑھنے کا جذبہ ختم ہوجائے وہ معاشرہ اور قوم بالآخر مردگی کا شکار ہوجایا کرتی ہے۔ زندہ اور بیدار قومیں اپنی منزل کے حصول کے لیے نئے جذبوں اور تازہ ولولوں کے ساتھ آگے بڑھنے کے لیے مسلسل منصوبہ بندی کرتی ہیں۔ مسلمانوں کی زندگی کا مقصد اللہ تعالیٰ کی رضا اور جنت کا حصول ہے اس لیے قرآن مجید نے مختلف مقامات پر ترغیب دی ہے کہ اس مقصد کے لیے آگے بڑھو اور بڑھتے ہی چلے جاؤ۔ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ إِنَّ فِی الْجَنَّۃِ لَشَجَرَۃً یَسِیْرُ الرَّاکِبُ فِیْ ظِلِّھَا ماءَۃَ سَنَۃٍ وَاقْرَأُوْا إِنْ شِءْتُمْ (وَظِلٍّ مَّمْدُوْدٍ) [ رواہ البخاری : کتاب بدء الخلق، باب ماجاء فی صفۃ الجنۃ وأنھا مخلوقۃ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں آپ نے فرمایا جنت میں ایک ایسا درخت ہے کہ گھوڑے پر سوار شخص اس کے سائے میں سو سال تک چل سکتا ہے۔ اگر تم چاہو تو یہ آیت پڑھو ( اور سائے ہیں لمبے لمبے)۔“ (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ قَیْسٍ (رض) عَنْ أَبِیْہِ عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ إِنَّ لِلْمُؤْمِنِ فِی الْجَنَّۃِ لَخَیْمَۃً مِنْ لُؤْلُؤَۃٍ وَاحِدَۃٍ مُجَوَّفَۃٍ طُوْلُھَا سِتُّوْنَ مِیْلًا لِلْمُؤْمِنِ فِیْھَا أَھْلُوْنَ یَطُوْفُ عَلَیْھِمُ الْمُؤْمِنُ فَلَا یَرٰی بَعْضُھُمْ بَعْضًا) [ رواہ مسلم : کتاب الجنۃ وصفۃ نعیمھا وأھلھا، باب فی صفۃ خیام الجنۃ .....] ” حضرت عبداللہ بن قیس اپنے باپ سے اور وہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جنت میں مومن کے لیے موتی کا ایک ایسا خیمہ ہوگا جس کی لمبائی ساٹھ میل ہوگی وہاں مومن کے گھر والے ہوں گے جن کے پاس وہی جائے گا دوسرا کوئی کسی کو نہ دیکھ سکے گا۔“ مسائل ١۔ مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہوئے سود خوری چھوڑ دینا چاہیے۔ ٢۔ اسی میں دنیا و آخرت کی کامیابی ہے۔ ٣۔ اللہ کے نافرمان اور سود خوروں کے لیے جہنم کی آگ تیار کی گئی ہے۔ ٤۔ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرنے والوں پر اللہ تعالیٰ کی شفقت و مہربانی ہوتی ہے۔ ٥۔ اللہ کی بخشش اور اس کی جنت کے لیے جلدی کرنی چاہیے۔ تفسیر بالقرآن اطاعت رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فائدے : ١۔ اللہ کی شفقت ومہربانی حاصل ہوتی ہے۔ (آل عمران : ١٣٢) ٢۔ اللہ کی محبت اور بخشش حاصل ہوتی ہے۔ (آل عمران : ٣١) ٣۔ اطاعت رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اعمال ضائع ہونے سے محفوظ ہوتے ہیں۔ (محمد : ٣٣) ٤۔ دنیا وآخرت کی کامیابی حاصل ہوتی ہے۔ (الاحزاب : ٧١) ٥۔ قیامت کے دن انبیاء، صدیقوں، شہداء اور صلحاء کا ساتھ نصیب ہوگا۔ (النساء : ٦٩) آل عمران
131 آل عمران
132 آل عمران
133 آل عمران
134 فہم القرآن ربط کلام : سود اور جہنم سے بچنے کا حکم، جنت اور صدقہ کی ترغیب دینے کے بعد جنّتیوں کے اوصاف بیان کیے گئے ہیں۔ یہاں جنتیوں کے چھ اوصاف کا ذکر کیا گیا ہے۔ 1 یہ لوگ عسر ویسر میں اللہ کی راہ میں خرچ کرتے رہتے ہیں۔ 2 طیش اور غضب کی حالت میں اپنے آپ پر ضبط رکھتے ہیں۔ 3 ساتھیوں اور بھائیوں کے ساتھ معافی کا وطیرہ اختیار کرتے ہیں۔4 جب ان سے بری حرکت یا گناہ کی صورت میں اپنے آپ پر زیادتی ہوجاتی ہے تو اللہ تعالیٰ کے احسانات کا احساس، اس کے عذاب کا خوف اور اس کی ذات کبریا کا تصور کرتے ہوئے اس کے حضور اپنے گناہوں اور خطاؤں کی معافی مانگتے ہیں۔ 5 اس یقین کے ساتھ کہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی گناہ معاف کرنے والا نہیں 6 وہ ایک لمحہ کے لیے بھی اپنے گناہوں پر اترانے اور اصرار کرنے پر تیار نہیں ہوتے کیونکہ گناہوں کے نتائج اور نقصانات کو وہ اچھی طرح سمجھتے ہیں۔ نیک لوگ منصوبہ بندی کے ساتھ گناہ کا ارتکاب نہیں کرتے اور نہ ہی وہ شیطان کی طرح اپنی غلطی پر اصرار کرتے ہیں۔ وہ تو اپنی غلطی کا اعتراف اور اس پر استغفار کرتے ہیں۔ ان کا صلہ ان کے رب کے ہاں بخشش اور جنت ہے جس کے نیچے نہریں جاری ہیں وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے اور یہ لوگ بہترین اجر پائیں گے۔ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ: لَیْسَ الشَّدِیْدُ بالصُّرْعَۃِ إِنَّمَا الشَّدِیْدُ الَّذِیْ یَمْلِکُ نَفْسَہٗ عِنْدَ الْغَضَبِ) [ رواہ البخاری : کتاب الأدب، باب الحذر من الغضب] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کسی کو پچھاڑنے والا طاقتور نہیں ہے طاقتور تو وہ ہے جو غصے کے وقت اپنے آپ پر قابو رکھے۔“ ” نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابی سلیمان بن صرد (رض) بیان کرتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس دو آدمیوں کا جھگڑا ہوا۔ ایک آدمی ان میں اتنا غضبناک ہوا کہ اس کے چہرے کا رنگ متغیر ہوگیا۔ آپ نے فرمایا میں ایک کلمہ جانتا ہوں اگر وہ پڑھ لے تو اس کا ساراغصہ ختم ہوجائے۔ ایک آدمی نے اسے جاکر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بات بتائی اور کہا کہ شیطان سے اللہ کی پناہ طلب کرو۔ اس نے جوابًا کہا کیا مجھ میں کوئی بیماری نظر آرہی ہے یا میں مجنون ہوں؟ چل تو چلاجا۔“ ( اس کا مقصد یہ تھا کہ آپ کا فرمان سن کر میں اپنے غصہ پر ضبط کرتا ہوں) [ رواہ البخاری : کتاب الأدب] مسائل ١۔ مسلمانوں کو اپنے رب کی بخشش اور جنت کے حصول کی کوشش کرنا چاہیے۔ ٢۔ جنت کی چوڑائی زمین و آسمان کے برابر ہے جو گناہوں سے بچنے والوں کے لیے تیار کی گئی ہے۔ ٣۔ ایمان دار لوگ آسانی اور تنگی میں خرچ کرنے والے، غصہ پر ضبط کرنے والے اور لوگوں کو معاف کرنے والے ہوتے ہیں۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ نیکو کار لوگوں سے محبت کرتا ہے۔ ٥۔ ایمان والے اپنے آپ پر ظلم یا بے حیائی کا ارتکاب کر بیٹھیں تو اللہ کو یاد کرتے اور اس سے معافی مانگتے ہیں۔ ٦۔ صاحب ایمان لوگ اپنی غلطی پر اصرار نہیں کرتے۔ ٧۔ اللہ کے بغیر کوئی گناہ معاف کرنے والا نہیں۔ ٨۔ معافی مانگنے والوں کے لیے ان کے رب کی طرف سے بخشش اور جنت ہے۔ تفسیر بالقرآن جنت کے حصول کی کوشش کرنی چاہیے : ١۔ اللہ کی مغفرت اور جنت کی کوشش کرو۔ (الحدید : ٢١) ٢۔ نیکی کے حصول میں جلدی کرو۔ (البقرۃ: ١٤٨) ٣۔ نیکیوں میں سبقت کرنے والے سب سے اعلیٰ ہوں گے۔ (فاطر : ٣٢) ٤۔ سبقت کرنے والے اللہ کے مقرب ہوں گے۔ (الواقعہ : ١٠، ١١) آل عمران
135 آل عمران
136 آل عمران
137 فہم القرآن ربط کلام : اگر لوگ گناہوں سے بچنے‘ جنت میں داخل ہونے‘ اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس سے معافی مانگنے کے لیے تیار نہیں تو ظالم کو اپنی عارضی کامیابی پر اترانا نہیں چاہیے کیونکہ اس کا انجام برا ہی ہوا کرتا ہے۔ اُحد کی عارضی فتح پر کفار نے بڑے گھمنڈ اور غرور کا مظاہرہ کیا۔ ابو سفیان نے نعرہ لگاتے ہوئے کہا ’ ہبل زندہ باد‘ پھر اس نے احد کے معرکہ کو بدر کا بدلہ قرار دیا جس پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے قریبی ساتھیوں کو حکم دیا کہ اس کا فوری جواب دیا جائے۔ چنانچہ صحابہ نے جواباً نعرہ لگایا : ( اَللّٰہُ اَعْلٰی وَاَجَلُّ) ” اللہ بلند و بالا اور عظمت والا ہے“ حضرت عمر (رض) نے یہ بھی فرمایا کہ احد بدر کا بدلہ نہیں ہوسکتا کیونکہ تمہارے مرنے والے جہنم کا ایندھن بنے اور ہمارے شہیدجنت کے مہمان قرار پائے ہیں۔ [ رواہ البخاری : کتاب المغازی، باب غزوۃ أحد] اس پر روشنی ڈالتے ہوئے قرآن مجید ظالموں کو حکم دیتا ہے کہ اگر تم تاریخ کے اوراق سے بے بہرہ ہو تو ذرا ان جگہوں اور مقامات کو نگاہ عبرت سے دیکھوجہاں ظالموں کو تباہ وبرباد کیا ہے کہ پیغمبروں کو جھٹلانے‘ شریعت کو ٹھکرانے اور اللہ سے ٹکرانے والوں کا کیا انجام ہوا؟ اے اہل کفر! تمہارا انجام بھی ایسا ہی ہونے والا ہے۔ چنانچہ ٹھیک اگلے سال غزوۂ احزاب میں کافر ذلیل ہوئے۔ ٨ ہجری میں اہل مکہ اس طرح سرنگوں ہوئے کہ بیت اللہ میں سب کے سامنے رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے معافی کے خواستگار ہوتے ہیں۔ اس کے بعد قیصر و کسریٰ کی حکومتوں کے تخت الٹ گئے یہاں تک کہ ہندوستان کی سرزمین پر راجہ داہر جیسا ظالم محمد بن قاسم (رح) کے ہاتھوں جہنم واصل ہوا۔ اس طرح کفار اور کذاب لوگوں کا عبرت انگیز انجام ہر جگہ دیکھا جا سکتا ہے۔ رہنمائی حاصل کرنے اور اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والوں کے لیے تاریخ کے اوراق ہمیشہ کے لیے رقم ہوچکے ہیں جن سے عبرت حاصل کرنا چاہیے۔ مسائل ١۔ جھوٹے لوگوں کا انجام دیکھنے کے لیے ان کی اجڑی ہوئی بستیوں کو دیکھنا چاہیے۔ ٢۔ یہ تاریخی واقعات گناہوں سے بچنے والوں کے لیے عبرت اور نصیحت ہیں۔ آل عمران
138 آل عمران
139 فہم القرآن ربط کلام : احد کی ہزیمت کے بعد تسلی دینے کے ساتھ کامیابی کی مشروط ضمانت دی گئی ہے۔ غزوۂ احد میں مسلمانوں کے ستر (٧٠) زعماء شہید ہوئے۔ جن میں شیر دل اور بہادر جوان حضرت حمزہ (رض) بھی شامل تھے جنہوں نے معرکۂ بدر میں سب سے زیادہ کفار کو نقصان پہنچایاتھا۔ انہیں احد میں خاص طور پر نشانہ بنایا گیا۔ ان کی شہادت کے بعد آتش انتقام کو ٹھنڈا کرنے کے لیے کفار نے ان کے جسد اطہر کا مثلہ کیا اور سینہ مبارک چیر کر کلیجہ چبانے کی کوشش کی گئی۔ اس بھاری جانی نقصان کے ساتھ رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات گرامی کو شدید زخم آئے۔ درّہ والوں کی کوتاہی کی وجہ سے یہ سب کچھ آنًا فاناً ہوا۔ اس شدید نقصان کے بارے میں مسلمان سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔ خاص کر ایسے مجاہد جنہوں نے ایک سال پہلے بدر میں کفار کی کمر توڑ دی تھی۔ اس صورت حال پر انتہائی مغموم اور دل گرفتہ ہوئے۔ یہاں ان کی ڈھارس بندھانے اور ان کا حوصلہ بلند رکھنے کے لیے تسلی دی گئی ہے کہ غمزدہ ہونے اور کمزوری دکھانے کی ضرورت نہیں ہم لوگوں کے درمیان گردشِ ایّام کرتے ہیں۔ مجاہد کا ہارنا‘ شہسوار کا گرنا‘ اقتدار کا چھننا‘ جوان کا بوڑھا ہونا‘ تندرست کا بیمار پڑنا‘ امیر کا غریب ہونا‘ غریبوں کو تونگر بنانا‘ کمزوروں کو طاقت بخشنا‘ اوقات کا تبدیل ہونا‘ ایّام کا بدلنا اور قوموں کا عروج و زوال ہماری مشیّت و حکم کا مظہر ہے تاکہ لوگوں کو اللہ کی قدرت وسطوت کا اعتراف ہوتا رہے۔ ہاں ہمیشہ تم ہی سربلند رہو گے بشرطیکہ تم ایمان کے تقاضے پورے کرتے رہو۔ رہی بات تمہیں زخم پہنچنے کی تو اس سے بڑھ کر تم انہیں بدر کے میدان میں زخمی کرچکے ہو۔ وہ شدید زخمی ہونے، جانی ومالی نقصان اٹھانے کے باوجود ہمت نہیں ہارے بلکہ اس سے کئی گنا پرجوش ہو کر تم پر حملہ آور ہوئے ہیں۔ تمہارے پاس حوصلہ ہارنے اور غیر معمولی افسردہ ہونے کا کیا جواز ہے؟ یہ تو گردشِ ایّام ہے جس کو لوگوں کے اعمال اور کردار کی وجہ سے ہم پھیرتے رہتے ہیں تاکہ اللہ تعالیٰ مومنوں کو ممتاز کر کے ان سے منافقوں کو الگ کر دے۔ تم میں سے کچھ لوگوں کو شہادت کے درجے پر فائز فرما دے۔ اللہ تعالیٰ کی راہ میں کٹ مرنے والا اپنے خون جگر سے عملاً اللہ کے کلمہ کو بلند رکھنے کی گواہی دیتا ہے اس لیے اسے شہید کہا جاتا ہے۔ امام رازی (رض) فرماتے ہیں کہ قرآن و حدیث کے مطابق مرنے کے بعد مومنوں کی ارواح مقام علّیّین میں ہوتی ہیں لیکن شہداء کی ارواح اللہ تعالیٰ کے عرش معلّٰی کے نیچے ہوتی ہیں۔ اس لحاظ سے وہ قیامت سے پہلے ہی اپنے رب کے حضور حاضر ہوتے ہیں جس کی وجہ سے انہیں شہید کہا جاتا ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر رہنے والے۔ مفسّرین نے اللہ تعالیٰ کا منافقوں کو جاننے کا معنٰی ان کو لوگوں کے سامنے ظاہر کرنا لیا ہے۔ عربی میں اس طرح کلام کرنے کی کئی مثالیں موجود ہیں۔ جب کہ اللہ تعالیٰ علیم و خبیر ہے اس سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں ہے۔ مسائل ١۔ مسلمانوں کو کسی حال میں غمگین اور سست نہیں ہونا چاہیے۔ ٢۔ مسلمان اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کریں تو ہمیشہ سر بلند رہیں گے۔ ٣۔ احد میں مسلمانوں کو زخم آئے ان کے مقابلہ میں کفار بدر میں زیادہ زخمی ہوئے تھے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ لوگوں کے درمیان دن پھیرتے رہتے ہیں۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ کافروں کو مٹانا اور مومنوں کو ممتاز کرنا چاہتا ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ کا حکم اور مومن سر بلند رہیں گے : ١۔ اللہ کا حکم بلند رہے گا۔ (التوبۃ: ٤٠) ٢۔ مومن ہی ہر حال میں بلند رہیں گے۔ (آل عمران : ١٣٩) ٣۔ مومن اللہ کا لشکر ہیں اور غالب رہیں گے۔ (المجادلۃ: ٢٢) گردشِ ایّام : ١۔ بدر میں مومنوں کو فتح ہوئی۔ (آل عمران : ١٢٣) ٢۔ احد میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ (آل عمران : ١٤٠) ٣۔ احزاب میں مسلمان فاتح ہوئے۔ (الاحزاب : ٢٥ تا ٢٧) ٤۔ مکہ میں فتح یاب ہوئے۔ (الفتح : ١) ٥۔ حنین میں تکلیف دیکھنا پڑی۔ (التوبۃ: ٢٥) آل عمران
140 آل عمران
141 آل عمران
142 فہم القرآن ربط کلام : آزمائش سے قوموں کے کردار میں پختگی پیدا ہوتی ہے احد کی عارضی شکست اسی سلسلہ کی کڑی سمجھنا چاہیے۔ دنیا کی یہ مسلّمہ حقیقت ہے کہ آدمی کا مقصد جتنا بلند اور اہم ہوتا ہے اتنی ہی وہ محنت اور اس کے لیے تکلیف اٹھاتا ہے۔ مومن کی زندگی کا مقصد دین کو سر بلند کر کے اللہ تعالیٰ کی رضا چاہنا ہے جس کا ما حصل جنت ہے۔ یہ مقصد عظیم خالی دعوؤں اور کھوکھلے نعروں سے حاصل نہیں ہو سکتا۔ اس کے لیے مال لٹانا، پیٹ پر پتھر باندھنا‘ گھر بار چھوڑنا‘ اولاد قربان کرنا اور جسم کٹواتے ہوئے صابر و شاکر رہنا پڑتا ہے تب جا کر اللہ تعالیٰ کی رضا اور جنت کا حصول ممکن ہوا کرتا ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے (حُجِبَتِ الْجَنَّۃُ بالْمَکَارِہِ) ” کہ جنت مصائب اور مشکلات میں گھری ہوئی ہے۔“ [ رواہ البخاری : کتاب الرقاق] اب یہاں ایک لطیف سرزنش کے ساتھ مسلمانوں کو باور کروا یا جا رہا ہے کہ تم خود ہی تو موت کی تمنا کر رہے تھے۔ یعنی جو لوگ کسی وجہ سے بدر کے معرکہ میں شامل نہ ہو سکے وہ تمنا کرتے تھے کہ کفار کے ساتھ پھر کب لڑائی ہو جس میں ہم اللہ کے راستے میں کٹ مریں۔ جب احد میں موت سے تمہارا آمنا سامنا ہوا اور کچھ لوگ موت کا لقمہ بنے تو تم اس پر حیرانگی کا اظہار کر رہے ہو کہ ہمیں یہ جانی نقصان کیوں اٹھانا پڑا؟ یہاں موت کی تمنا سے مراد شہادت ہے۔ جو مومن کی منزل مقصود اور جنت کے حصول کا مؤثر زینہ ہے کیونکہ جنت تلواروں کے سائے تلے ہے۔ [ رواہ البخاری : کتاب الجہاد ] مسائل ١۔ صبر اور جہاد کے بغیر کوئی ایماندار جنت میں داخل نہیں ہو سکتا۔ ٢۔ قتال فی سبیل اللہ میں مجاہد موت کو اپنے قریب دیکھتا ہے۔ نوٹ : صبر کی فضیلت کے بارے میں البقرۃ آیت 153 کی تفسیر بالقرآن دیکھیں۔ آل عمران
143 آل عمران
144 فہم القرآن ربط کلام : احد میں نبی محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شہادت کی خبر کی وجہ سے بعض صحابہ بددل ہوئے جس کی حوصلہ شکنی کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے کہ شخصیات تو آنی جانی ہیں اصل مشن تو ان کی دعوت ہے جسے جاری رہنا اور رکھنا چاہیے۔ جنگی تاریخ اس پر گواہ ہے کہ میدان جنگ میں جونہی فوج کا سپہ سالار زخمی ہو کر گرا۔ اس کے گرنے کے ساتھ ہی بڑے بڑے بہادروں اور جنگجوؤں کے قدم اکھڑ گئے۔ سپہ سالار کا گرنا اور مرنا تو بڑی بات ہے فوج کا پرچم سرنگوں ہوجائے تو لڑنے والوں کے حوصلے پست ہوجایا کرتے ہیں۔ غزوۂ احد میں اسلامی فوج کا پرچم ہی سر نگوں نہیں ہوا بلکہ جلیل القدر صحابہ شہید ہوئے اور رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں یہ آواز اٹھی کہ آپ کو شہید کردیا گیا ہے۔ ایسے موقع پر صحابۂ کرام (رض) کے قدم اکھڑنا کوئی غیر معمولی بات نہیں تھی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جرنیل ہی نہیں بلکہ جرنیل اعظم تھے۔ فاطمہ (رض) کے باپ اور حسن و حسین (رض) کے نانا ہی نہیں پوری امت کے روحانی باپ تھے۔ بیواؤں کے سرپرست‘ یتیموں کے ملجا اور مسکینوں کے ماویٰ تھے۔ آپ صحابہ کی عقیدتوں اور محبتوں کا مرکز‘ ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک اور دل کا سرور تھے۔ اگر صحابہ اس خبر پر دل برداشتہ اور غمزدہ نہ ہوتے تو اس سے بڑھ کر دنیا میں کس کے لیے پریشان ہوا جاتا؟ لیکن اللہ تعالیٰ کے راستے میں جہاد آپ کی زندگی کا مقصود تھا اگر آپ کے بعد اسلام کا پرچم سرنگوں ہوجائے تو نہ صرف آپ کی محنت دنیا میں ضائع ہوجاتی بلکہ اتنی بڑی جماعت بنانے کا مقصد ہی فوت ہوجاتا۔ اس طرح ایک نہیں دو ناقابل تلافی نقصان ہوتے۔ لہٰذا اس خطاب کا آغاز ہی یہاں سے کیا گیا ہے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خدا نہیں اللہ کا رسول ہے۔ اللہ تو ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تو انسان ہیں اور ہر ذی روح نے اس دنیا سے کوچ کرنا ہے۔ رسول کا معنی ہی قاصد اور پیغام دینے والاہے۔ جس ہستی نے آپ کو اپنے کام اور پیغام کے لیے مبعوث فرمایا ہے۔ وہ جب چاہے جس حال میں چاہے آپ کو واپس بلا سکتی ہے۔ آپ سے پہلے رسول گزر چکے جن میں کچھ طبعی موت فوت ہوئے اور کچھ شہادت کے منصب پر فائز ہوئے۔ کیا آپ کو طبعی موت یا شہادت نصیب ہوجائے تو تم اسلام اور جہاد سے منہ موڑ جاؤ گے؟ یاد رکھو! جو بھی اپنی ایڑیوں کے بل پھرجائے گا وہ اللہ تعالیٰ کو ذرہ برابر بھی نقصان نہیں پہنچا سکتا۔ اس خطاب کا مقصد یہ ہے کہ شخصیات کتنی ہی گراں قدر اور اہم کیوں نہ ہوں اصل تو ان کا مشن ہوا کرتا ہے۔ ذمہ دار اور زندہ قومیں اپنے قائد کے صحیح نظریات‘ اس کا مشن اور ان کے صحت مند کارناموں کو ہمیشہ آگے بڑھاتی ہیں۔ تم میں جو دنیا کے لیے کوشش کرے گا اسے دنیا مل جائے گی اور جو آخرت کے لیے کوشاں ہوگا اسے آخرت میں جزا ملے گی۔ اسی فلسفہ کی ترجمانی کرتے ہوئے ٹھیک ساڑھے سات سال بعد آپ کی وفات کے وقت حضرت ابو بکر صدیق (رض) نے یہ ارشاد فرمایا تھا : (مَنْ کَانَ مِنْکُمْ یَعْبُدُ مُحَمَّدًا فَإِنَّ مُحَمَّدًا قَدْمَاتَ وَمَنْ کَانَ یَعْبُدُ اللّٰہَ فَإِنَّ اللّٰہَ حَیٌّ لَّا یَمُوْتُ) [ رواہ البخاری : کتاب الجنائز، باب الدخول علی المیت بعد الموت إذا أدرج فی أکفانہ] ” جو کوئی محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عبادت کرتا تھا تو حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی طبعی موت فوت ہوچکے ہیں اور جو کوئی اللہ کی عبادت کرتا تھا تو اللہ تعالیٰ زندہ ہے وہ کبھی فوت نہیں ہوگا۔“ امام رازی (رض) اپنی تفسیر کبیر میں ان الفاظ کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ”أَفَإِنْ مَّاتَ“ سے واضح ہو رہا ہے کہ آپ کو طبعی موت آئے گی اور اس کے ساتھ ہی حضرت سعید بن جبیر (رض) کا قول نقل کرتے ہیں کہ کسی رسول کو آج تک میدان کارزار میں قتل نہیں کیا گیا۔ آیت کے آخر میں ” شَاکِرِیْنَ“ کا لفظ اس لیے بھی لایا گیا ہے تاکہ واضح ہو کہ اللہ کے حقیقی شکر گزار بندے وہی ہوتے ہیں جو غم اور خوشی اور نفع و نقصان میں اللہ کے دین پر کاربند رہتے ہیں۔ حضرت علی (رض) فرمایا کرتے تھے کہ اس فرمان سے مراد حضرت ابوبکر صدیق (رض) ہیں کیونکہ وہ سب سے زیادہ شاکر رہنے والے تھے۔ [ معارف القرآن] مسائل ١۔ حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے رسول ہیں۔ ٢۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پہلے آنے والے رسول دنیا سے جا چکے اور آپ بھی فوت ہوں گے۔ ٣۔ جو شخص اسلام سے پھر جائے وہ اللہ تعالیٰ کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ شکر گزار بندوں کو جزا دینے والا ہے۔ تفسیر بالقرآن نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ہر کسی نے فوت ہونا ہے : ١۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فوت ہوں گے اور آپ کے مخالف بھی۔ (الزمر : ٣٠) ٢۔ ہر نفس نے موت کا ذائقہ چکھنا ہے۔ (آل عمران : ١٨٥) ٣۔ کسی بشر کو دنیا میں ہمیشہ نہیں رہنا۔ (الانبیاء : ٣٤) ٤۔ رب ذوالجلال کے سوا سب کچھ فنا ہوجائے گا۔ (الرحمن : ٢٦) آل عمران
145 فہم القرآن ربط کلام : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی موت کا اشارہ دے کر ہر کسی کا مرنا یقینی بتلایا ہے اور حوصلہ دیا ہے کہ موت سے ڈرنا اور موت کی وجہ سے نیکی کے کام اور جہاد سے پیچھے ہٹنا گناہ ہے۔ موت ایسی حقیقت ہے کہ اس سے کوئی شخص محفوظ نہیں۔ موت کا وقت اور اس کی جگہ کا تعین کردیا گیا ہے۔ کوئی ذی روح اس ضابطے سے بچ نہیں سکتا۔ جب موت یقینی‘ اس کا وقت مقرر اور اس کی جگہ متعین کردی گئی ہے تو اس سے ڈرنے کا کیا مطلب ؟ اسلام نے موت کا تصور اس انداز میں پیش کیا ہے کہ جس سے انسان میں بیک وقت شجاعت اور احساس ذمہ داری پیدا ہوتا ہے کہ ہر انسان جان لے کہ اس نے مر کر ملیا میٹ نہیں ہونا بلکہ اپنے ایک ایک عمل کا اللہ تعالیٰ کے حضور جواب دینا ہے۔ موت پر یقین محکم ہو تو آدمی گھمسان کے رن میں اتر کر بھی خوف زدہ نہیں ہوتا۔ کیونکہ اسے یقین ہوتا ہے کہ اس کی موت کا دن اور جگہ متعین ہے۔ اسی جذبہ کے پیش نظر مجاہد تلوار کی دھار‘ نیزے کی نوک کے سامنے اور توپ کے برستے ہوئے گولوں میں مسکرایا کرتا ہے۔ وہ موت کو سامنے آتے ہوئے دیکھ کر کترانے کی بجائے اس سے نبرد آزما ہونے کی کوشش کرتا ہے کیونکہ اسے یقین کامل ہے کہ موت ہر وقت اور ہر جگہ نہیں آسکتی۔ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) أَنَّہٗ قَالَ مِنْ خَیْرِ مَعَاش النَّاسِ لَھُمْ رَجُلٌ مُمْسِکٌ عِنَانَ فَرَسِہٖ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ یَطِیْرُ عَلٰی مَتْنِہٖ کُلَّمَا سَمِعَ ھَیْعَۃً أَوْ فَزْعَۃً طَارَ عَلَیْہِ یَبْتَغِی الْمَوْتَ وَالْقَتْلَ مَظَانَّہٗ أَوْ رَجُلٌ فِیْ غَنِیْمَۃٍ فِیْ رَأْسِ شَعَفَۃٍ مِنْ ھٰذِہِ الشَّعَفِ أَوْ بَطْنِ وَادٍ مِنْ ھٰذِہِ الْأَوْدِیَۃِ یُقِیْمُ الصَّلَاۃَ وَیُؤتِیَ الزَّکٰوۃَ وَیَعْبُدُ رَبَّہٗ حَتّٰی یَأْتِیَۃُ الْیَقِیْنُ لَیْسَ مِنَ النَّاسِ إِلَّا فِیْ خَیْرٍ) [ رواہ مسلم : کتاب الأمارۃ، باب فضل الجھاد والرباط] ” حضرت ابوہریرہ (رض) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں آپ نے فرمایا سب لوگوں سے بہتر زندگی اس آدمی کی ہے جو جہاد میں اپنے گھوڑے کی باگ تھامے ہوئے اس کی پیٹھ پر اڑتا پھرتا ہے جب بھی کوئی شور یا ہنگامہ سنتا ہے تو وہ اس پر اڑتا ہواپہنچتا ہے موت اور قتل کی جگہوں کو تلاش کرتا ہے یا وہ آدمی سب سے بہتر زندگی والا ہے جو پہاڑ کی چوٹیوں میں کسی چوٹی یا وادیوں میں سے کسی وادی میں اپنی بکریوں کے ساتھ رہتا ہے۔ وہاں نماز پڑھتا‘ زکوٰۃ ادا کرتا اور مرتے دم تک اپنے رب کی عبادت کرتا رہتا ہے وہ لوگوں میں بہترین آدمی ہے۔“ حضرت انس (رض) فرماتے ہیں کہ ان کا چچا غزؤہ بدر میں حاضر نہیں تھا۔ اس نے کہا کہ میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پہلی جنگ میں غیر حاضر تھا اگر اللہ تعالیٰ نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ کسی جنگ میں شرکت کا موقع دیا تو اللہ تعالیٰ دیکھے گا کہ میں کیسی بہادری کے ساتھ لڑتا ہوں۔ غزوۂ احد کے موقع پر جب مسلمانوں کی جماعت میں افراتفری پھیلی تو انہوں نے کہا : اے اللہ! میں تیری بارگاہ میں اس معاملہ میں معذرت کرتا ہوں جو مسلمانوں نے کیا اور میں مشرکین کے مسلمانوں پر غلبہ پانے سے تیرے حضور برأت کا اظہار کرتا ہوں۔ پھر اپنی تلوار لے کر آگے بڑھے تو سعد بن معاذ کو ملے۔ کہنے لگے اے سعد! کہاں جا رہے ہو؟ میں تواُحد کی دوسری طرف جنت کی خوشبو پا رہا ہوں۔ پھر وہ آگے بڑھے اور شہید ہوگئے۔ پہچانے نہ گئے یہاں تک کہ میں نے ان کی انگلیوں کے پوروں سے ان کی لاش کو پہچانا۔ ان کے جسم پر نیزہ‘ تیر اور تلوار کے 80 سے اوپر زخم آئے تھے۔ [ رواہ البخاری : کتاب المغازی، باب غزوۃ أحد] حضرت خالد بن ولید (رض) نے اپنی وفات کے وقت مدینے کے نوجوانوں کو خطاب کرتے ہوئے یہی فلسفہ بیان کیا تھا کہ آج تم موت سے ڈرتے اور کتراتے ہو میری طرف دیکھو کہ میرے جسم پر درجنوں نشانات ہیں اور میں ہمیشہ میدان جنگ میں ہر اول دستہ کے طور پر لڑتا رہا ہوں لیکن افسوس! مجھے شہادت نصیب نہیں ہوئی۔ یہ کہتے ہوئے ان کی آنکھیں نمناک ہوگئیں اور ہونٹ کانپنے لگے۔ تب ایک بزرگ نے انہیں تسلی دیتے ہوئے کہا کہ آپ کو رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ” سیف من سیوف اللّٰہ“ کا خطاب دیا تھا اگر یہ تلوار کفار کے ہاتھوں ٹوٹ جاتی تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فرمان پر آنچ اور اسلام کے لیے آپ کی موت طعنہ بن جاتی۔ کفار کہتے کہ ہم نے اللہ کی تلوار توڑ دی ہے۔ (سیرت خالد بن ولید (رض) مسائل ١۔ کوئی ذی روح اللہ تعالیٰ کے اذن کے بغیر نہیں مرتا۔ ٢۔ ہر کسی کے لیے موت کا دن اور جگہ مقرر ہے۔ ٣۔ دنیا چاہنے والے کو دنیا اور آخرت چاہنے والے کو اللہ تعالیٰ آخرت کا اجر دیں گے۔ تفسیر بالقرآن دنیا اور آخرت کے طلب گار میں فرق : ١۔ دنیا دار صرف دنیا طلب کرتے ہیں۔ (البقرۃ: ٢٢٠) ٢۔ نیکو کار دنیا وآخرت کی اچھائی چاہتے ہیں۔ (البقرۃ: ٢٠١) ٣۔ دنیا چاہنے والوں کو دنیا اور آخرت چاہنے والوں کو آخرت ملتی ہے۔ (آل عمران : ١٤٥) ٤۔ دنیا کی زیب وزینت عارضی اور آخرت ہمیشہ رہنے والی ہے۔ (الکہف : ٤٦) آل عمران
146 فہم القرآن ربط کلام : مسلمانوں کواُحد میں پہنچنے والی تکلیف پر تبصرہ جاری ہے جس میں تلقین کی جارہی ہے کہ حوصلہ ہارنے کے بجائے اپنے سے پہلے اللہ والوں کی تابناک تاریخ پر نظر رکھو۔ مصائب ومشکلات کے باوجود وہ اللہ کی راہ میں کس طرح ڈٹے رہے۔ اے اسلام کے مجاہدو‘ بدر کے غازیو اور محمد عربی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھیو! کیا تم ایک ہی معرکہ میں عارضی شکست کھانے کے بعد کم ہمتی اور دل چھوٹے کیے بیٹھے ہو۔ ذرا تاریخ کے دریچوں میں جھانک کر دیکھو کہ کتنے ہی نبی اور ان کے ساتھ رب والے اللہ کے راستے میں جان توڑ کر لڑے۔ ان کے بچے یتیم ہوئے‘ عورتیں بیوہ ہوئیں‘ گھر بار لٹ گئے، انہیں زخم پر زخم اور صدمہ پر صدمے برداشت کرنے پڑے۔ وہ آگ کے انگاروں میں جھونکے گئے، ان کی چمڑیاں ادھیڑ دی گئیں‘ ان پر مصیبتوں اور پریشانیوں کی آندھیاں چلیں‘ مصائب کے پہاڑ ٹوٹے‘ صدموں اور زخموں سے چور چور ہوئے اس کے باوجود وہ پوری استقامت کے ساتھ بہادروں اور جوانمردوں کی طرح میدان کارزار میں سینہ سپر رہے۔ وہ دشمن کے مقابلے میں نہ بزدل ہوئے اور نہ ہی کم ہمت۔ (اَمْ حَسِبْتُمْ أَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّۃَ وَلَمَّا یَأْتِکُمْ مَّثَلُ الَّذِیْنَ خَلَوْا مِنْ قَبْلِکُمْ مَّسَّتْہُمُ الْبَأْسَآءُ وَالضَّرَّآءُ وَزُلْزِلُوْا حَتّٰی یَقُوْلَ الرَّسُوْلُ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَہٗ مَتٰی نَصْرُ اللّٰہِ ط أَلَاإِنَّ نَصْرَ اللّٰہِ قَرِیْبٌ) [ البقرۃ: ٢١٤] ” تم سمجھتے ہو کہ جنت میں یوں ہی داخل ہوجاؤ گے ؟ حالانکہ ابھی تم پر ان لوگوں جیسی حالت نہیں آئی جو تم سے پہلے گزر چکے ہیں۔ وہ سختیوں اور بدحالیوں سے دو چار ہوئے اور انہیں جھنجھوڑ دیا گیا یہاں تک کہ رسول اور جو لوگ ان پر ایمان لائے تھے پکار اٹھے کہ اللہ کی مدد کب آئے گی؟ سنو! اللہ کی مدد قریب ہی ہے۔“ یقین جانو کہ اللہ تعالیٰ دین پر مستقل مزاج رہنے اور پریشانیوں میں صبر کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔ اللہ کے بندے اپنی محنتوں اور قربانیوں پر اترانے کی بجائے نہایت ہی عاجزی اور سرافگندگی کے ساتھ اپنے رب کے حضور اپنی کوتاہیوں‘ لغزشوں اور اطاعت وجہاد میں کمی وبیشی کی معافی طلب کرتے ہوئے کفار کے مقابلہ میں استقامت اور اللہ تعالیٰ سے نصرت و حمایت طلب کیا کرتے تھے۔ جس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے ان کو دنیا میں عزت و عظمت عطا فرمائی اور دین کی خدمت کی توفیق بخشی۔ یہی لوگ آخرت میں بے پناہ اجر و ثواب کے مستحق ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ نیکی کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔ یہاں ” فِیْ اَمْرِنَا“ (ہمارا کام) کے الفاظ سے واضح ہوتا ہے کہ اللہ والے دین کی خدمت اور جہاد فی سبیل اللہ کو کسی پر احسان کے طور پر نہیں بلکہ اپنا فرض سمجھ کر ادا کیا کرتے ہیں۔ مسائل ١۔ بہت سے انبیاء کے ساتھ کثیر تعداد میں نیک لوگ جہاد کرتے رہے۔ ٢۔ انہوں نے جہاد فی سبیل اللہ میں نہ ہمت ہاری اور نہ دب کر رہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ حوصلہ مند لوگوں کے ساتھ محبت کرتا ہے۔ ٤۔ اللہ کے بندے اللہ تعالیٰ سے ثابت قدمی کے لیے دعا کرتے ہیں۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ دنیا اور آخرت میں اجر عطا فرماتا ہے۔ ٦۔ اللہ تعالیٰ نیکی کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔ تفسیر بالقرآن انبیاء (علیہ السلام) اور ان کے مجاہد ساتھی : ١۔ عیسیٰ (علیہ السلام) اور حواریوں کی جانثاری۔ (الصف : ١٤) ٢۔ جالوت وطالوت کا معرکہ۔ (البقرۃ: ٢٤٩) ٣۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے صحابہ کا جہاد۔ (الفتح : ٢٩) ٤۔ مجاہدین ہی بلند وبالا ہوں گے۔ (النساء : ٩٥) آل عمران
147 آل عمران
148 آل عمران
149 فہم القرآن ربط کلام : جب تمہارے دشمن احد میں تمہیں عظیم نقصان پہنچا چکے اور تمہیں کافر بنانے کے درپے ہیں تو ان سے خیر کی توقع کا کیا معنٰی؟ مسلمانوں تمہار امولیٰ اور خیر خواہ صرف اللہ تعالیٰ ہے بس اس پر بھروسہ رکھو۔ سورۃ آل عمران کی آیت ١٠٠ میں مسلمانوں کو متنبہ کیا گیا ہے کہ اگر تم کفار اور منافقین کے پیچھے چلو گے تو وہ تمہیں کافر بناکر چھوڑیں گے۔ اب دوبارہ تاکید کی جارہی ہے کہ اے مومنو! تم کافروں کے پیچھے لگو گے تو وہ تمہیں یکسر الٹے پاؤں پھیر دیں گے جس سے تمہیں دنیا اور آخرت میں نقصان اٹھانا پڑے گا۔ یاد رکھو! صرف اللہ ہی تمہاری مدد کرنے والا ہے عنقریب وہ کفار کے دلوں میں تمہارا رعب اور دبدبہ ڈال دے گا کیونکہ یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرتے ہیں۔ جس کی اللہ تعالیٰ نے کسی صورت بھی تائید نہیں فرمائی۔ ان کا ٹھکانہ دہکتی ہوئی آگ ہے اور یہ ظالموں کے لیے بدترین ٹھکانہ ہوگا۔ غزوۂ احد کی ہزیمت کے بعد منافقوں کی سرگرمیاں اس قدر تیز ہوئیں کہ وہ مسلمانوں کے گھروں میں جا جا کر پروپیگنڈہ کرتے کہ اگر یہ رسول سچا ہوتا تو اللہ اس کی نصرت و حمایت ضرور کرتا اور تمہیں اس طرح اپنی قیمتی جانوں سے محروم نہ ہونا پڑتا۔ تم اپنی خیر اور تحفظ چاہتے ہو تو ہمارے ساتھ مل جاؤ تاکہ ہم اپنے رئیس عبداللہ بن ابی کے ذریعے اہل مکہ سے تمہیں حفظ و امان کی گارنٹی لے دیں۔ یہاں کمزور مسلمانوں کو ارتداد اور منافقت سے بچانے کے لیے ایک دفعہ پھر حکم دیا گیا ہے کہ اگر تم منافقوں کے پیچھے چلو گے تو یقیناً وہ تمہیں مرتد کردیں گے۔ یاد رکھو! اللہ تعالیٰ سے بڑھ کر کوئی تمہارا خیر خواہ اور مددگار نہیں ہو سکتا۔ عنقریب اللہ تعالیٰ کفار پر تمہارا رعب اور دبدبہ ڈال دے گا۔ چنانچہ احد کے دورانیہ میں دو دفعہ کفار پر ایسا رعب پڑا کہ وہ خود بخود پسپا ہوئے اور اس پسپائی پر ہمیشہ شرمندہ رہے۔ ایک اس وقت جب درّے کے راستہ مسلمانوں پر ان کے عقب سے انہوں نے حملہ کیا اور جونہی مسلمان اکٹھے ہوئے تو انہوں نے بھاگنے میں اپنی عافیت سمجھی۔ دوسری دفعہ جب مدینے سے کچھ میل دور جا کر مسلمانوں پر حملے کی منصوبہ بندی کرنے لگے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو معلوم ہوا تو آپ نے حکم دیا کہ ہمارے ساتھ ان کا مقابلہ کرنے کے لیے وہی لوگ نکلیں جو احد کی جنگ میں شریک تھے۔ کچھ تازہ دم لوگوں نے بھی نکلنا چاہا لیکن آپ نے ایک آدمی کے سوا کسی کو اجازت نہیں دی (الرحیق المختوم) جب تھکے ماندے اور انتہائی زخمی احد کے مجاہدوں کے ساتھ آپ نکلے تو کافروں نے صورت حال جان کر مکے کی راہ لی۔ اس طرح دوسری مرتبہ کفار پر مسلمانوں کا دبدبہ طاری ہوا۔ ایسے موقع پر رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : (نُصِرْتُ بالرُّعْبِ مَسِیْرَۃَ شَھْرٍ) [ رواہ البخاری : کتاب التیمم] ” اللہ تعالیٰ نے مجھے ایسا رعب عطا کردیا ہے کہ میرا دشمن ایک مہینے کی مسافت پر بیٹھا ہوا بھی کانپتا رہے گا۔“ اسی رعب کا نتیجہ تھا کہ جب آپ نے مکہ پر یلغار کی تو مکہ والوں نے مقابلہ کرنے کی بجائی آپ سے معافی مانگ کر جان بچائی۔ اس کے بعد حنین والے پسپا ہوئے اور آخر میں سلطنت روم کے حکمران جو اس وقت دنیا کی واحد سپر پاور تھی تبوک کے مقام پر آپ کا سامنا کرنے کی تاب نہ لا سکے۔ مسائل ١۔ مسلمانوں کو کفار کے پیچھے نہیں لگنا چاہیے۔ ٢۔ کافر مسلمانوں کو مرتد بنا کر دنیا و آخرت کے نقصان میں ڈالنا چاہتے ہیں۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کا مالک اور بہترین مدد کرنے والا ہے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ کفار کے دل میں مسلمانوں کا رعب ڈالتا ہے۔ ٥۔ کافروں کے پاس اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرنے کی کوئی دلیل نہیں۔ ٦۔ کفار کا ٹھکانہ جہنم ہے اور وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔ تفسیر بالقرآن شرک بے بنیاد نظریہ ہے : ١۔ شرکیہ عقیدے کی کوئی دلیل نہیں۔ (المومنون : ١١٧) ٢۔ شرک سے آدمی ذلیل ہوجاتا ہے۔ (الحج : ٣١) ٣۔ بتوں کے الٰہ ہونے کی کوئی دلیل نہیں۔ (النجم : ٢٣) ٤۔ مشرک پر جنت حرام ہے۔ (المائدۃ: ٧٢) ٥۔ مشرک کو اللہ تعالیٰ کسی صورت معاف نہیں کرے گا۔ (النساء : ٤٨) آل عمران
150 آل عمران
151 آل عمران
152 فہم القرآن ربط کلام : احد میں ہونے والے افتراق کی نشاندہی کی گئی ہے تاکہ آئندہ اس سے بچا جاسکے۔ مجاہدین کی صفوں میں اختلافات ہوں تو وہ دشمن کے مقابلہ میں کامیاب نہیں ہو سکتے۔ غزوۂ احد کے دن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خواب بیان فرمایا کہ میں نے رات کو اپنے گردو پیش بہت سی گائیں ذبح ہوتی دیکھی ہیں۔ اس کے بعد میں نے دیکھا کہ میری تلوار کو دندانے پڑگئے ہیں۔ میں پھر دیکھتا ہوں کہ میں نے اپنے ہاتھ میں ایک مضبوط کڑا پکڑا ہوا ہے جس کی آپ نے یوں تعبیر فرمائی کہ پہلے ہمیں فتح ہوگی اس کے بعد نقصان اٹھانا پڑے گا اور بعد ازاں ہم محفوظ ہوجائیں گے۔ [ رواہ البخاری : کتاب المناقب، باب علامات النبوۃ فی الإسلام] اُحد کی عارضی شکست پر منافقین نے ہرزہ سرائی کی چونکہ یہ رسول اپنے دعوائے رسالت میں سچا نہیں اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان کی مدد کا کوئی وعدہ نہیں کیا تھا اگر اللہ تعالیٰ نے اپنی نصرت و حمایت کا وعدہ کیا ہوتا تو وہ ضرور پورا کرتا۔ اللہ تعالیٰ نے منافقین کی تردید کرتے ہوئے فرمایا کہ میرا وعدہ اس وقت پورا ہوگیا تھا۔ جب مسلمان اللہ تعالیٰ کے حکم سے کفار کو قتل کر رہے تھے پھرتم نے آپس میں اختلاف کیا اور مال غنیمت کو دیکھ کر اپنے رسول کی نافرمانی کی۔ کچھ تم میں دنیا اکٹھی کر رہے تھے جبکہ دوسرے آخرت کے طلبگار تھے۔ یہ درّہ والوں کی طرف اشارہ ہے کہ جن پچاس آدمیوں میں سے دس نے اپنے یونٹ کے سردار کے ساتھ جان دے دی لیکن درّہ نہیں چھوڑا۔ جب کہ دوسرے مال غنیمت سمیٹنے میں لگ گئے حالانکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو تعینات کرتے ہوئے فرمایا تھا : (إِنْ رَأَیْتُمُوْنَا تَخْطَفُنَا الطَّیْرُ فَلَا تَبْرَحُوْا مَکَانَکُمْ) [ رواہ البخاری : کتاب الجھاد] ” اگر پرندوں کو ہماری بوٹیاں نوچتے ہوئے دیکھو تو پھر بھی تم نے درّہ کو نہیں چھوڑنا۔“ جب پہلے مرحلہ میں مسلمانوں کو فتح ہوئی اور وہ مال غنیمت اکٹھا کرنے لگے تو درّہ پر مامور لوگ ایک دوسرے کو کہنے لگے کہ ہمیں بھی شریک ہونا چاہیے ورنہ ہم مال غنیمت سے محروم رہ جائیں گے۔ دستے کے سالار حضرت عبداللہ بن جبیر (رض) نے کہا کہ ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا کیونکہ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں یہیں جمے رہنے کا حکم دیا ہے لیکن دس آدمیوں کے سوا باقی سب درّہ چھوڑ کر مال غنیمت اکٹھا کرنے میں مصروف ہوگئے۔ درّہ خالی دیکھ کر خالد بن ولید کی سربراہی میں کفار نے حملہ کیا اور درّے والوں کو شہید کرتے ہوئے مسلمانوں پر ٹوٹ پڑے جس سے حواس باختہ ہو کر مسلمان ادھر ادھر پہاڑ پر چڑھنے لگے۔ جس کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں کفار سے بچا لیا تاکہ تمہیں آزمائے اور پھر تمہیں معاف کردیا اللہ تعالیٰ مومنوں پر بڑا ہی فضل کرنے والا ہے۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا خواب سچا کردیا۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ مومنوں پر بڑا فضل کرتا ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ صاحب فضل وکرم ہے : ١۔ اللہ تعالیٰ جہان والوں پر فضل کرنے والا ہے۔ (البقرۃ: ٢٤٣) ٢۔ اللہ تعالیٰ مومنوں پر اپنا فضل فرماتا ہے۔ (آل عمران : ١٥٢) ٣۔ اللہ کا فضل نہ ہو تو آدمی شیطان کے تابع ہوجاتا ہے۔ (النساء : ٧٣) ٤۔ اللہ کا فضل نہ ہو تو انسان خسارہ پاتا ہے۔ (البقرۃ: ٦٤) ٥۔ اللہ کے فضل وکرم کے بغیر تکلیف سے نہیں بچا جاسکتا۔ (النور : ١٤) ٦۔ فضل سارے کا سارا اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔ (آل عمران : ٧٣) آل عمران
153 فہم القرآن ربط کلام : احد میں سرزد ہونے والی کمزوریوں میں ایک اور کمزوری کی نشاندہی کی ہے کہ جب اکثر صحابہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو چھوڑ کر بھاگ کھڑے ہوئے تھے اور رسول معظم انہیں واپس بلا رہے تھے۔ معرکۂ احد کی ابتدا میں میدان صحابہ کرام (رض) کے ہاتھ رہا کفار نے بھاگنے میں اپنی عافیت سمجھی۔ صحابہ اسلحہ ایک طرف رکھ کر مال غنیمت اکٹھا کرنے میں مصروف ہوگئے۔ درّہ خالی دیکھ کر خالد بن ولید نے اتنی مستعدی اور منصوبہ بندی کے ساتھ حملہ کیا کہ درّہ پر مامور دس اصحاب کو ان کے سالار سمیت شہید کرتے ہوئے غنیمت لوٹنے والوں پر بجلی کی طرح ٹوٹ پڑا۔ افرا تفری کے عالم میں صحابہ کا جس طرف منہ ہوا بھاگناشروع کردیا لیکن رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) زخمی ہونے کے باوجود صبر و استقلال کا پہاڑ اور استقامت کا پیکر بن کر اپنی جگہ پر ڈٹے ہوئے تھے۔ چہرے پر پریشانی اور نہ لہجہ میں گھبراہٹ اپنے حواس پر مکمل کنٹرول، پورے تدبر و تفکر کے ساتھ حالات کا جائزہ لیتے ہوئے بھاگنے والوں کو آواز پر آواز دے رہے تھے : (یَا عِبَادَاﷲِإِلَیَّ عِبَادَ اللہ) [ تفسیر البغوی تفسیر آیت وما محمد الارسول] ” اے اللہ کے بندو! کہاں بھاگے جا رہے ہو پلٹ کر میری طرف آؤ۔“ لیکن حالات نے اس قدر اچانک پلٹاکھایا کہ کسی کو کچھ بھی سوجھائی نہیں دے رہا تھا کہ وہ کیا کرے سوائے چودہ صحابہ کے جن میں سات مہاجر اور سات انصار تھے۔ ان میں سر فہرست حضرت ابو بکر صدیق، حضرت طلحہ اور حضرت سعد بن ابی وقاص (رض) تھے۔ جناب سعد بن ابی وقاص (رض) اس طرح جانثاری کے ساتھ آپ کا دفاع کر رہے تھے کہ رسول اللہ (رض) نے ان کے بارے میں فرمایا : (یَاسَعْدُ ارْمِ فَدَاکَ أَبِیْ وَأُمِّیْ) [ رواہ البخاری : کتاب المغازی] ” اے سعد! تیر پھینکئے میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں۔“ حضرت طلحہ (رض) ڈھال ٹوٹ جانے کی وجہ سے آپ کی طرف آنے والے تیروں کو دبوچنے کی کوشش کرتے جس کی وجہ سے ہمیشہ کے لیے ان کا ایک بازو مفلوج ہوگیا : جیسا کہ قیس بن حازم کہتے ہیں کہ (رَأَیْتُ یَدَ طَلْحَۃَ الَّتِیْ وَقٰی بِھَا النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَدْ شَلَّتْ) [ رواہ البخاری : کتاب المناقب] ” میں نے طلحہ (رض) کے ہاتھ کو دیکھا جس کے ساتھ انہوں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا دفاع کیا تھا وہ مفلوج ہوچکا تھا۔“ حضرت طلحہ (رض) کبھی کبھار بڑے ناز کے ساتھ مدینہ کے نوجوانوں کو اپنا معذور بازو دکھلاکر فرماتے کہ احد کے دن میں نے اسے ڈھال کے طور پر استعمال کیا تھا۔ حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے ایک موقعہ پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا تھا احد طلحہ کا دن تھا۔ (سیر الصحابہ) اس ہنگامی صورت حال میں کفار کی طرف سے یہ افواہ پھیلائی گئی کہ مسلمانوں کے نبی کو قتل کردیا گیا ہے۔ یہاں اسی کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ مسلمانو! وہ وقت یاد کرو جب تم پر غم پر غم ٹوٹ رہے تھے۔ مال غنیمت کا ہاتھ سے نکل جانا، ستر صحابہ کا شہید ہونا، حضرت حمزہ (رض) کا مثلہ کیا جانا‘ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا زخمی ہو کر نیچے گرنا‘ آپ کے دانت ٹوٹنا، پیشانی پر زخم آنا، فتح کا شکست میں تبدیل ہونا اور کفارکا خوش ہونا ایک سے ایک بڑھ کر صدمہ تھا۔ انسان کی فطرت میں اللہ تعالیٰ نے یہ لچک اور وسعت رکھی ہے کہ اکثر اوقات یہ ہلکا غم برداشت نہیں کرتا لیکن بڑے غم کو حوصلے کے ساتھ برداشت کرلیتا ہے۔ گردشِ ایّام کے ساتھ احد میں ہزیمت کا فلسفہ یہ تھا کہ مسلمان اپنے آپ کو آئندہ حالات کے لیے تیار کرلیں کیونکہ افراد اور قومیں وہی آگے بڑھا کرتی ہیں جو مصائب پر نڈھال اور دل برداشتہ ہونے کے بجائے مضبوط اعصاب کے ساتھ ان کا مقابلہ کرنے والی ہوتی ہیں۔ مسائل ١۔ متواتر غم سہنے سے آدمی میں حوصلہ پیدا ہوتا ہے۔ ٢۔ جماعت کے قائد کو مشکل حالات میں بہادری اور استقامت دکھانا چاہیے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ ہر کسی کے اعمال کی خبر رکھنے والا ہے۔ تفسیر بالقرآن غم کا بہتر ردّ عمل : ١۔ غم سے مومن کی تربیت اور اس میں حوصلہ پیدا ہوتا ہے۔ (الحدید : ٢٢، ٢٣) ٢۔ غم میں صبر واستقامت کی دعا کرنا چاہیے۔ (البقرۃ: ٢٥٠) ٣۔ جو چھن جائے اس پر پچھتانا نہیں چاہیے جو ملے اس پر اترانا نہیں چاہیے۔ (الحدید : ٢٣) ٤۔ پریشانی انسان کے اپنے عمل کا نتیجہ ہوتی ہے۔ (الشوریٰ : ٣٠) آل عمران
154 فہم القرآن ربط کلام : احد کے بارے میں تبصرہ جاری ہے۔ احد کے میدان سے ایک دفعہ ہٹنے کے باوجود اللہ تعالیٰ کی طرف سے صحابہ پر سکینت کا نزول۔ اُحد میں سراسیمگی اور پے درپے صدمات کے عالم میں اچانک اللہ کی رحمت کا نزول ہوا جہاں جہاں کوئی تھا۔ لمحہ بھر کے لیے اسے اونگھ آئی جس سے کئی دنوں کی تھکاوٹ اور دماغ کا بوجھ ہلکا ہوا۔ صحابہ (رض) اس طرح تازہ دم ہوئے جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔ حضرت طلحہ (رض) اپنی کیفیت ذکر کرتے ہیں : (کُنْتُ فِیْمَنْ تَغَشَّاہ النُّعَاسُ یَوْمَ أُحُدٍ حَتّٰی سَقَطَ سَیْفِیْ مِنْ یَدِیْ مِرَارًا یَسْقُطُ وَآخُذُہٗ وَیَسْقُطُ فَآخُذُہٗ) [ رواہ البخاری : کتاب المغازی، باب ثم أنزل علیکم من بعد الغم الخ] ” میں ان لوگوں میں تھا جنہیں اونگھ نے آلیا حتیٰ کہ میرے ہاتھ سے کئی مرتبہ تلوار گری اور میں اسے اٹھاتا رہا۔“ کچھ لوگ ایسے بھی تھے جنہیں نہ اونگھ آئی اور نہ ہی انہیں کچھ سکون حاصل ہوا۔ وہ اللہ تعالیٰ پر بد ظنی کا اظہار کرتے ہوئے ایک دوسرے کو کہہ رہے تھے کہ کاش! ہمارے پاس فیصلہ کرنے کا کچھ اختیار ہوتا۔ یہ لوگ اپنے دلوں میں بہت کچھ چھپائے ہوئے تھے۔ یہ بھی کہے جا رہے تھے کہ اگر ہماری بات چلتی تو ہم یہاں مرنے اور کٹنے کے بجائے اپنے گھروں میں ٹھہرے رہتے انہیں سمجھاتے ہوئے یہ عقیدہ بتلایا گیا ہے کہ کلی اختیارات صرف اللہ کے پاس ہیں۔ اگر تم اپنے گھروں میں بستروں پر لیٹے ہوتے تو پھر بھی موت کے وقت اپنے مقتل پر پہنچ جاتے۔ گو شکست تمہاری اپنی کمزوریوں کا نیتجہ ہے لیکن حقیقتاً اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس میں آزمائش ہے تاکہ جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے وہ ظاہر ہوجائے اور تمہیں معلوم ہو کہ تم ایمان کے کس مقام پر کھڑے ہو؟ اللہ تعالیٰ دلوں کے حالات سے خوب واقف ہے۔ بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ منافقوں کے ساتھ بعض کمزور مسلمانوں نے بھی ایسے خیالات کا اظہار کیا تھا جن کے متعلق یہ تبصرہ کیا گیا ہے کہ جن لوگوں نے احد کے دن پیٹھ دکھائی درحقیقت ان کی کمزوریوں کی وجہ سے شیطان نے انہیں ایسا کرنے پر اکسایا تھا۔ یقیناً اللہ تعالیٰ نے انہیں معاف کردیا ہے اور اللہ تعالیٰ نہایت ہی معاف فرمانے والا، بُردبار ہے۔ حافظ ابن حجر (رض) اس فرمان کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ انسان کے اعمال لشکر کی طرح ہیں جو آدمی کو اپنے مطابق گھسیٹ لیتے ہیں اگر نیک اعمال ہوں گے تو وہ نیکی کی طرف کھینچ لیں گے اور اگر برے اعمال ہوں گے تو وہ برائی کی طرف لے جائیں گے۔ یہاں معافی کا اعلان ان مسلمانوں کے لیے ہے جو درّہ اور میدان چھوڑ کر بھاگ نکلے تھے۔ حضرت عبداللہ بن عمر (رض) کے سامنے کسی شخص نے حضرت عثمان (رض) پر اعتراض کیا کہ وہ تین اہم موقعوں پر غیر حاضر تھے۔ ابن عمر (رض) نے فرمایا کہ صلح حدیبیہ کے وقت حضرت عثمان کو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی اور مسلمانوں کی طرف سے مکہ میں نمائندہ بنا کر بھیجا تھا کہ وہ کفار کے ساتھ مذاکرات کریں۔ جب آپ نے صحابہ سے بیعت لی تو اپنے ہاتھ کو عثمان (رض) کا ہاتھ قرار دیا تھا۔ اس سے بڑھ کر کونسا اعزاز ہوسکتا ہے؟ غزوۂ بدر میں حضرت عثمان (رض) کی غیر حاضری اس لیے تھی کہ ان کی بیوی جو نبی کریم کی بیٹی تھی وہ ان دنوں شدید بیمار تھیں۔ آپ نے اس کی تیمار داری کے لیے حضرت عثمان (رض) کو گھر میں رہنے کی اجازت دی تھی۔ جہاں تک احد میں میدان چھوڑ کر بھاگنے کا تعلق ہے۔ اس میں چودہ صحابہ (رض) کے علاوہ باقی سب شامل تھے۔ حضرت عثمان (رض) تنہا نہیں تھے۔ اس کے باوجود اللہ تعالیٰ نے ان سب کو معاف کردینے کا اعلان کردیا ہے۔ اس کے بعدابن عمر (رض) نے یہ آیت پڑھتے ہوئے فرمایا کہ تجھے معلوم نہیں کہ اللہ نے انہیں معاف کردیا ہے جس کو اللہ تعالیٰ معاف فرما دے اس پر کسی کو اعتراض کرنے کا کوئی حق نہیں رہتا۔ ظَنَّ الْجَاھِلِیَّۃ سے مرا دایسا خیال ہے جو عقیدہ توحید اور شریعت کے اصولوں کے خلاف ہو۔ کچھ لوگوں نے یہ کہا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے مدد کا وعدہ نہیں کیا تھا۔ (إِنَّ وَعْدَ اللَّہِ حَقٌّ فَلَا تَغُرَّنَّکُمُ الْحَیَاۃُ الدُّنْیَا وَلَا یَغُرَّنَّکُمْ باللَّہِ الْغَرُورُ)[ لقمان : ٣٣] ” بے شک اللہ کا وعدہ سچا ہے چنانچہ تمہیں دنیاکی زندگی دھوکے میں نہ ڈالے اور نہ شیطان اللہ کے بارے میں دھوکے میں رکھے۔“ مسائل ١۔ تمام اختیارات اللہ تعالیٰ ہی کے پاس ہیں۔ ٢۔ مرنے کے وقت آدمی خود بخود موت کے مقام تک پہنچ جاتا ہے۔ ٣۔ مرنے کے وقت آزمائش میں انسان کا امتحان ہوتا ہے۔ ٤۔ اللہ کا کرم نہ ہو تو شیطان آدمی کو پھسلا دیتا ہے۔ ٥۔ اللہ سینوں کے رازوں کو جانتا ہے۔ ٦۔ اللہ بخشنے والا‘ حوصلے والا ہے۔ تفسیر بالقرآن ظَنّ کے معانی : ١۔ ظن کا معنٰی یقین۔ (الحاقۃ: ٢٠) ٢۔ ظن کا معنی گمان کرنا۔ (یوسف : ٤٢) (موقعہ کی مناسبت سے معنٰی کا تعین کیا جاتا ہے) موت ہر کسی کا مقدر ہے : ١۔ موت کا وقت مقرر ہے۔ (آل عمران : ١٤٥) ٢۔ موت کی جگہ متعین ہے۔ (آل عمران : ١٥٤) ٣۔ موت کو کوئی ٹال نہیں سکتا۔ (آل عمران : ١٦٨) ٤۔ موت سے کوئی بچ نہیں سکتا۔ (النساء : ٧٨) ٥۔ سب کو موت آنی ہے۔ (الانبیاء : ٣٥) ٦۔ اللہ تعالیٰ کے سوا ہر کسی نے مرنا ہے۔ (الرحمن : ٢٦، القصص : ٨٨) آل عمران
155 آل عمران
156 فہم القرآن ربط کلام : منافقین نے اپنے عزیزوں کی موت پر حسرت وافسوس کا اظہار کیا جس پر مسلمانوں کو سمجھایا گیا ہے کہ تمہیں منافقوں اور بزدلوں کی طرح اپنے جذبات کا اظہار نہیں کرنا چاہیے کیونکہ موت وحیات تو اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے۔ اے صاحب ایمان لوگو! تمہاری سوچ اور زبان کفار جیسی نہیں ہونی چاہیے جنہوں نے اپنے رشتے داروں کو یہ کہا کہ اگر تم قتال کے لیے نہ نکلتے اور ہمارے ہاں ٹھہرے رہتے تو قتل ہونے سے بچ جاتے دراصل یہ لوگ اپنی حد سے بڑھ کر بات کرتے ہیں۔ کیونکہ موت و حیات کے فیصلے صرف اللہ کے اختیار میں ہیں۔ کسی نیک کی نیکی‘ برے کی برائی‘ دانش مند کی دانش مندی اور محتاط کی احتیاط موت کو ٹال سکتی ہے اور نہ ہی کسی کو اس کی موت کی جگہ سے ہٹا سکتی ہے۔ یہ تو کفار کی سوچ ہے کہ اگر ایسا ہوتا تو یوں ہوجاتا اور یوں ہوتا تو اس طرح ہوجاتا۔ ایسے لوگ زندگی بھر ایسی حسرتوں کا شکار رہتے ہیں کہ کاش وسائل ہوتے تو یہ اور وہ ہوجاتا حالانکہ ہوتا وہی ہے جو اللہ کو منظور ہوتا ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایسی گفتگو اور سوچ سے منع فرمایا ہے : (عَنْ أبِیْ ہُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اَلْمُؤْمِنُ الْقَوِیُّ خَیْرٌ وَّاأحَبُّ إِلَی اللّٰہِ مِنَ الْمُؤْمِنِ الضَّعِیْفِ وَ فِیْ کُلٍّ خَیْرٌ إِحْرِصْ عَلٰی مَا یَنْفَعُکَ وَاسْتَعِنْ باللّٰہِ وَلَا تَعْجَزْ وَإِنْ أَصَابَکَ شَیْ ءٌ فَلَا تَقُلْ لَوْ أَنِّی فَعَلْتُ کَانَ کَذَا وَ کَذَا وَلٰکِنْ قُلْ قَدَّرَ اللّٰہُ وَمَا شَاءَ فَعَلَ فَإِنَّ لَوْ تَفْتَحُ عَمَلَ الشَّیْطَانِ) [ رواہ مسلم : کتاب القدر، باب فی الأمربالقوۃ وترک العجز والإستعانۃ باللہ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے طاقتور مومن اللہ کے ہاں کمزور مومن سے بہتر اور پسندیدہ ہے تاہم بہتری اور خیر دونوں میں ہے۔ تجھے نفع بخش چیز کی طلب کرتے ہوئے اللہ سے مدد طلب کرنا چاہیے اور عاجز نہیں ہونا چاہیے۔ اگر کوئی تکلیف آئے تو یہ نہ کہنا چاہیے کہ اگر میں یہ کام کرتا تو ایسے ہوجاتا بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ اللہ نے جو تقدیر میں لکھا اور جو چاہا کردیا۔ کیونکہ لفظ ” اگر سے شیطان اپنے کام کی ابتدا کرتا ہے۔“ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فرمان کا مقصد یہ ہے کہ پریشانی کے موقعہ پر آدمی کے اگر مگر کہنے سے شیطان آدمی کا عقیدہ کمزور کرنے اور اسے گمراہ کرنے کی کوشش کرتا ہے۔“ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تعلیم : آپ نے بچوں کے ذہنوں میں بھی یہ بات پختہ کردی کہ جو فیصلہ اللہ تعالیٰ نے کر رکھا ہے وہ ہو کر رہنے والا ہوتا ہے۔ نہ وہ ٹل سکتا ہے اور نہ اسے کوئی روک سکتا ہے آپ نے عبداللہ بن عباس (رض) کو یہ عقیدہ سکھایا : (وَاعْلَمْ أَنَّ الْأُمَّۃَ لَوِ اجْتَمَعَتْ عَلٰی أَنْ یَنْفَعُوْکَ بِشَیْءٍ لَمْ یَنْفَعُوْکَ إِلَّا بِشَیْءٍ قَدْ کَتَبَہُ اللّٰہُ لَکَ وَلَوِ اجْتَمَعُوْا عَلٰی أَنْ یَّضُرُّوْکَ بِشَیْءٍ لَمْ یَضُرُّوْکَ إِلَّا بِشَیْءٍ قَدْ کَتَبَہُ اللّٰہُ عَلَیْکَ رُفِعَتِ الْأَقْلَامُ وَجَفَّتِ الصُّحُفُ) [ رواہ الترمذی : کتاب صفۃ القیامۃ والرقائق والورع] ” یقین رکھ کہ اگر پوری دنیا تجھے کچھ نفع دینے کے لیے جمع ہوجائے تو وہ اتنا ہی نفع دے سکتی ہے جتنا اللہ تعالیٰ نے تیرے لیے لکھ رکھا ہے اور اگر وہ تجھے کچھ نقصان دینے پہ تل جائے تو تجھے اتنا ہی نقصان پہنچے گا جتنا تیری قسمت میں لکھا گیا ہے، قلمیں اٹھالی گئیں ہیں اور صحیفے خشک ہوگئے ہیں۔“ مسائل ١۔ مسلمانوں کی سوچ اور گفتگو کفار جیسی نہیں ہونی چاہیے۔ ٢۔ مسلمانوں کو جہاد سے پھسلانا یا ہٹانا کفریہ سوچ ہے۔ ٣۔ موت اور زندگی اللہ ہی کے اختیار میں ہے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ ہر کسی کے اعمال کو دیکھ رہا ہے۔ تفسیر بالقرآن حسرت زدہ لوگ : ١۔ اسلام کا انکار کرناحسرت کا سبب ہوگا۔ (الحاقۃ: ٥٠) ٢۔ مشرکین قیامت کے دن حسرت کا اظہار کریں گے۔ (البقرۃ: ١٦٧) ٣۔ قیامت کے منکرین حسرت وافسوس کریں گے۔ (الانعام : ٣١) ٤۔ قیامت کے دن مجرم دنیا کی بری دوستی پر اظہار افسوس کریں گے۔ (الفرقان : ٢٧ تا ٢٩) آل عمران
157 فہم القرآن ربط کلام : منافق قتل ہوں یا طبعی موت مریں ان کے لیے حسرتیں ہیں مسلمان شہید ہوں یا فطری موت مریں ان کے لیے اللہ تعالیٰ کی رحمت اور بخشش ہے۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت کا دنیا کی کوئی دولت مقابلہ نہیں کرسکتی۔ یہاں تجزیاتی انداز میں بیان کیا گیا ہے کہ ایک شخص جو اللہ کے کلمہ کی سربلندی کے لیے میدان کار زار میں اترتا ہے اور شہید ہوجاتا ہے یا اسے اللہ تعالیٰ کی سمع واطاعت میں طبعی موت آجاتی ہے اس کا صلہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کی زندگی کی فرو گزاشتوں کو اپنے کرم سے معاف فرمائیں گے اور اس کے اعمال سے کہیں بڑھ کر اپنی رحمت سے نوازیں گے۔ یہ اجر و ثواب دنیا کی دولت و ثروت سے کہیں بڑھ کر ہے۔ جس کو لوگ زندگی بھر جمع کرتے رہتے ہیں۔ ایسے مومن کو جب موت آتی ہے تو ملائکہ اس کا استقبال کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کی مہمان نوازی کا اہتمام ہوتا ہے۔ ان کے مقابلہ میں جو لوگ بدکردار اور اللہ کے نافرمان ہوتے ہیں۔ وہ بری موت مرتے ہیں اور ان کا انجام جہنم ہوگا۔ یہاں کفار کی حسرتوں کا جواب دیتے ہوئے فرمایا گیا ہے کہ تم دنیا میں کتنی مدت ٹھہرے رہو گے ؟ اگر تم قتل ہوجاؤ یا تمہیں طبعی موت آئے بالآخر تم نے اللہ کے حضور ہی جمع ہونا ہے۔ پھر موت سے فرار اور ان حرکتوں کا کیا فائدہ؟ ذرا سوچیے کہ کتنا فرق ہے ایک اللہ کے حضور عزت و تکریم کے ساتھ مہمان کی حیثیت سے حاضر ہے اور اسے دائمی آرام و انعام سے نوازا جا رہا ہے۔ دوسرا رو سیاہ‘ ذلیل و خوار اور مجرم بن کر پیش ہو رہا ہے اور اسے ہمیشہ کے لیے جہنم کے دہکتے ہوئے انگاروں میں پھینکا جا رہا ہیلہٰذا سوچو دنیا بہتر ہے یا آخرت۔ مسائل ١۔ اللہ کا فرمانبردار اور اس کی راہ میں جہاد کرنے والا بخشا جائے گا۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت دنیا کے مال و متاع سے بے انتہا گنا بہتر ہے۔ ٣۔ کوئی طبعی موت مرے یا قتل ہوجائے سب کو اللہ کے ہاں جمع ہونا ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ کی رحمت و بخشش دنیا کے خزانوں سے بہتر : ١۔ اللہ کا فضل ورحمت دنیا کے مال ومتاع سے بہتر ہے۔ (یونس : ٥٨) ٢۔ اللہ کی رحمت دنیا کے خزانوں سے بہتر ہے۔ (الزخرف : ٣٢) ٣۔ حکمت وبصیرت خیر کثیر ہے۔ (البقرۃ: ٢٦٩) آل عمران
158 آل عمران
159 فہم القرآن ربط کلام : احد میں درّہ والوں کی کوتاہی اور صحابہ کے منتشر ہونے کی وجہ سے نقصان ہوا۔ جس پر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صبر وحوصلہ کا مظاہرہ فرمایا۔ اس پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اخلاق عالیہ کی تعریف کی گئی اور خطا کرنے والوں کو معاف کردینے اور اللہ تعالیٰ کے حضور ان کی بخشش کی دعا کی تلقین فرمائی گئی ہے۔ اُحد میں تین سو منافقوں کا واپس لوٹنا، درّے والوں کا درّہ خالی کرنا‘ گھمسان کے رن میں صحابہ کی اکثریت کا آپ کو تنہا چھوڑ جانا‘ اس قدر ذاتی اور جماعتی نقصان کا اٹھانا۔ ان میں کوئی ایک معاملہ بھی نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مشتعل کرنے کے لیے کافی تھا۔ ایسے موقعہ پر بڑے سے بڑا بہادر اور حوصلہ مند انسان کا پِتّہ پانی ہوجایا کرتا ہے۔ لیکن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کسی اشتعال‘ خفگی اور ترش کلامی کا مظاہرہ نہیں فرمایا۔ بلکہ نہایت حوصلہ اور اعلیٰ اخلاق کے ساتھ حالات پر کنٹرول کیا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے آپ کو خراج تحسین سے نوازتے ہوئے فرمایا کہ میرے محبوب ! یہ صرف تیرے رب کے فضل و کرم کا نتیجہ ہے کہ آپ بردبار‘ رحمدل‘ نرم خو اور اعلیٰ اخلاق کے پیکر ہیں۔ اگر آپ سخت خو‘ جذباتی اور ترش کلام ہوتے تو یہ لوگ نفرت کھا کر آپ سے دور بھاگ جاتے۔ لہٰذا انہیں دل سے معاف فرما دیجیے اور اپنے رب کے حضور ان کی معافی کی درخواست کیجیے۔ یہ نہیں کہ پہلے مشورہ کرنے سے نقصان ہوا ہے اور آئندہ مشورہ کرنے سے آپ احتراز کریں بلکہ مشاورت جاری رہنی چاہیے۔ مشاورت کے بعد آپ کو فرمایا گیا ہے کہ مکمل تیاری اور باہمی مشورہ کے بعد اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کیجئے وہی عزت وذلت اور فتح وشکست کا مالک ہے۔ کام کرنے کے لیے جو وسائل اور مشاورت درکار ہوں اس کے لیے بھرپور کوشش کریں اس کے بعد اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرتے ہوئے عزم بالجزم کے ساتھ کام کا آغاز کردینا چاہیے۔ مشاورت کی اہمیت اور غرض وغایت قرآن پاک نے قائد کو مشاورت کا حکم دیا ہے تاکہ مسلمان اجتماعی مسائل کو جماعتی انداز میں حل کرنے کی کوشش کریں۔ اس طرز عمل کے بیک وقت کئی فوائد ہیں ایک طرف اراکین جماعت کی دلجوئی ہے اور دوسری جانب ان کی صلاحیتوں سے اجتماعی فائدہ اٹھانا اور ان کی انفرادی فکر کو اجتماعی نظم میں لانا ہے۔ یہ خیرو برکت سے بھرپور عمل ہے جس سے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات والا صفات کو بھی مستثنیٰ قرار نہیں دیا گیا۔ حالانکہ آپ مسلسل اللہ تعالیٰ کی نگرانی اور ہدایات میں زندگی گزارتے ہوئے لوگوں کی راہنمائی فرمارہے تھے۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان احکامات کے نزول سے قبل بھی صحابہ (رض) سے مشورہ کرتے تھے لیکن نزول حکم کے بعد یہ حالت ہوگئی کہ آپ ہر کام میں صحابہ سے مشورہ فرماتے تھے۔ آپ کی ذات گرامی کو مزید حکم ہوا : ( وَشَاوِرْھُمْ فِی الْاَمْرِ فَاِذَا عَزَمْتَ فَتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ إِنَّ اللّٰہَ ےُحِبُّ الْمُتَوَکِّلِےْنَ) [ آل عمران : ١٥٩] ” اور معاملات میں ان کو شریک مشورہ رکھا کرو، پھر جب آپ کا عزم کسی رائے پر پختہ ہوجائے تو اللہ پر بھروسہ کرو، اللہ کو وہ لوگ پسند ہیں جو اسی کے بھروسے پر کام کرتے ہیں“۔ اس کار خیر کی اہمیت وافادیت کو اجاگر اور ممتاز رکھنے کے لیے پانچ رکوع پر مشتمل ایک سورۃ کا نام ہی الشورٰی رکھ دیا گیا تاکہ رہتی دنیا تک مسلمان مشاورت کے اصولوں کو اپناتے ہوئے اجتماعی زندگی بسر کرتے رہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ مشورہ کن امور میں کرنا چاہیے؟ مشاورت کا حدود اربعہ کیا ہے ؟ جہاد کے سلسلے میں بدر، احد، خندق غرضیکہ ہر اہم معاملہ میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صحابہ کرام (رض) سے مشورہ فرماتے۔ جنگ سے پہلے شورٰی کے اجلاس کا مقصد یہ نہیں تھا کہ جہاد کرنا چاہیے یا نہیں۔ واضح احکامات کے بعد ان پر عمل کرنے کے بارے میں مشورہ کرناتو درکنار ان کے بارے میں سوچنا بھی کبیرہ گناہ ہے۔ مشاورت تو اس بات پر کرنا ہے کہ دشمن پر حملہ کرنے کا وقت اور طریقہ کار اور میدان جنگ کا انتخاب وغیرہ۔ ان امور کو اللہ تعالیٰ نے امت کے ذمہ داران پر چھوڑ دیا ہے۔ بعض لوگوں نے لفظی موشگافیوں میں پڑ کر مشاورت کے حکم کو بازیچۂ اطفال بنانے کی کوشش کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جماعت کا امیر اربابِ حل و عقد سے ان کی دلجوئی کی خاطر مشورہ کرے گا لیکن اس پر عمل کرنے کا پابند نہیں۔ کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ امیر جس سے چاہے مشورہ کرے وہ باضابطہ شور یٰ کو تشکیل دینے اور اس کا پابند نہیں ہونا چاہیے۔ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صحابہ کرام (رض) سے مش اور ت بدر کے قیدیوں کے بارے میں مشورہ : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بدر کے قیدیوں کے بارے میں مشورہ کیا۔ حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے تجویز پیش کی کہ انہیں فدیہ لے کر چھوڑ دینا چاہیے جبکہ حضرت عمر (رض) کا خیال تھا کہ انہیں قتل کردینا چاہیے۔ نبی محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت ابوبکر (رض) کی رائے کو ترجیح دی اور بدر کے قیدیوں کو فدیہ لے کر رہا کردیا۔ حنین کے قیدیوں کے بارے میں رائے طلب کرنا : غزوۂ حنین کے موقعہ پر بے شمار قیدی اور مال غنیمت ہاتھ آیا۔ حنین کے نمائندہ لوگوں نے جب آپ سے قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ کیا تو آپ نے اس بارے میں صحابہ سے رائے طلب کی آراء میں اختلاف دیکھا تو حکم دیا کہ اپنے خیموں میں جا کر باہمی مشاورت کے بعد اپنے نمائندوں کو میرے ہاں بھیجو تاکہ مجھے فیصلہ کرنے میں آسانی ہوجائے۔ [ رواہ البخاری : کتاب الایمان] اُحد میں دفاع کے متعلق مش اور ت : احد سے پہلے مشاورت کی کہ شہر میں رہ کر دفاع کرنا چاہیے یا مدینہ سے باہر نکل کر؟ لوگوں کی اکثریت نے باہر نکل کر لڑنے کا مشورہ دیا تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کی رائے کا احترام کرتے ہوئے احد کے دامن کا انتخاب فرمایا حالانکہ آپ کی رائے مدینہ میں رہ کر دفاع کرنے کے بارے میں تھی۔ (ابن کثیر) گورنر کی تقرری کے لیے مش اور ت حضرت معاذبن جبل (رض) کو یمن کا گورنر بناتے وقت شورٰی بلائی گئی۔ ارکان شوریٰ نے اپنی اپنی رائے پیش کی اور کافی غوروخوض کے بعد معاذبن جبل (رض) کی تقرری کا اعلان ہوا۔ [ کنزالعمال] حضرت ابوبکر (رض) کی مشاورت اور فیصلوں کی بنیاد جمہوریت کی مخالفت میں بعض لوگ حضرت ابوبکر (رض) کے فیصلوں کو بطور دلیل پیش کرتے ہیں کہ انہوں نے صحابہ سے مشورہ کیا لیکن اکثریت کی رائے کو درخور اعتنا نہیں سمجھا۔ لہٰذا خلیفہ اکثریت کی رائے کا پابند نہیں۔ حالانکہ ان واقعات سے ایسے استدلال کی گنجائش نہیں نکلتی کیونکہ حضرت ابوبکر (رض) نے صحابہ کی رائے کے مقابلے میں رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سنت اور فرمان پیش کیے تھے جو آپ کی وفات کے صدمہ اور پے درپے مشکلات کی وجہ سے صحابہ کے ذہن سے اوجھل ہوچکے تھے۔ جوں ہی خلیفۃ المسلمین نے ان کا حوالہ دیا تو صحابہ کرام (رض) اپنے موقف سے پیچھے ہٹ گئے۔ خلیفۂ اول کا پہلا اقدام : حضرت عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کے بعد عرب قبائل مرتد ہونے لگے اور کچھ قبائل نے زکوٰۃ دینے سے انکار کردیا۔ ادھر لشکر اسامہ کی روانگی کا مسئلہ بھی تھا جسے خود نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی حیات مبارکہ میں روانہ کیا تھا۔ اس صورت حال کے پیش نظر حضرت ابوبکر (رض) نے پہلے جیش اسامہ کی روانگی کے متعلق مشورہ کیا تو نازک حالات میں شوریٰ فوری طور پر لشکر کی روانگی کے خلاف تھی لیکن حضرت ابو بکر (رض) نے فرمایا : (وَالَّذِیْ نَفْسُ اَبِیْ بَکْرٍ بِےَدِہٖ لَوْ ظَنَنْتُ اَنَّ السِّبَاعَ تَخْطَفِیْ لَاَنْفَذْتُ بَعْثَ اُسَامَۃَ کَمَا اَمَرَ بِہٖ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وَلَوْ لَا ےَبْقَ فِی الْقُرٰی غَےْرُہُ لَاَنْفَذْتُہُ) [ طبری : ج ٢، ص ٥٢٢] ” اس ذات کی قسم ! جس کے ہاتھ میں ابوبکر کی جان ہے اگر مجھے یہ یقین ہو کہ وحشی جانور مجھے نوچ لیں گے اور ان آبادیوں میں میرے سوا کوئی بھی شخص باقی نہ رہے۔ تو بھی میں لشکر اسامہ روانہ کروں گا کیونکہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو روانگی کا حکم دیا ہے۔“ مانعین زکوٰۃ اور حضرت ابوبکر (رض) کا فیصلہ مانعین زکوٰۃ کے متعلق حضرت ابو بکر (رض) نے مہاجرین وانصار کو جمع کر کے فرمایا آپ کو معلوم ہے کہ بعض عربوں نے زکوٰۃ دینے سے انکار کردیا ہے مشورہ دیں کہ اس صورت حال میں مجھے کیا کرنا چاہیے؟ کیونکہ میں بھی تم میں سے ایک انسان ہوں البتہ تمہاری نسبت مجھ پر بوجھ زیادہ ہے۔ حضرت عمر (رض) نے کہا اے خلیفۂ رسول! میری رائے تو یہ ہے کہ آپ اس وقت لوگوں کی نماز ادائیگی کو ہی غنیمت سمجھیں اور زکوٰۃ چھوڑنے پر گرفت نہ فرمائیں۔ یہ لوگ ابھی ابھی اسلام میں داخل ہوئے ہیں آہستہ آہستہ یہ تمام اسلامی فرائض واحکام کو تسلیم کرنے کے بعد سچے مسلمان بن جائیں گے۔ اللہ تعالیٰ اسلام کو مزید قوت دے گا تو ہم منکرین زکوٰۃ کے مقابلہ میں اٹھ کھڑے ہوں گے لیکن اس وقت ہم میں عرب وعجم کے مقابلہ کی طاقت نہیں۔ حضرت عمر (رض) کی رائے سننے کے بعد حضرت ابوبکر (رض)، حضرت عثمان (رض) کی طرف متوجہ ہوئے انہوں نے بھی حضرت عمر (رض) کی تائید کی۔ پھر حضرت علی (رض) نے بھی اس کی تائید کی۔ ان کے بعد تمام انصار ومہاجرین اسی رائے کی تائید میں یک زبان ہوگئے۔ یہ سن کر حضرت ابوبکر (رض) منبر پر چڑھے اور فرمایا : اسی موقع پر انہوں نے حضرت عمر فاروق (رض) کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ تم کفر میں بڑے تندو تیز اور بہادر تھے، کیا اسلام میں آکر بزدل ہوگئے ہو؟ میں ضرور ان لوگوں کے خلاف جہاد کروں گا جو نماز ادا کرتے ہیں مگر زکوٰۃ دینے سے انکاری ہیں۔ (وَاللّٰہِ لَا اَبْرَحُ اَقُومُ بِاَمْرِاللّٰہِ وَاُجَاھِدُ فِیْ سَبِےْلِ اللّٰہِ حَتّٰی ےَنْجِزَاللّٰہُ تَعَالٰی وَےَفِیَ لَنَا عَھْدَہُ) ” اللہ کی قسم ! میں اس موقف پر ڈٹ جاؤں گا اور اللہ کی راہ میں جہاد کرتا رہوں گا۔ جب تک اللہ تعالیٰ اپنا وعدہ پورا نہ فرمادے۔“ دور فاروقی میں کمانڈر‘ مفتوحہ علاقوں اور طاعون کے بارے میں مش اور ت عراق میں پیش قدمی کے سلسلہ میں اسلامی فوج کی کمان کا مسئلہ پیش آیا۔ یاد رہے اس وقت عراق، فارس (ایران) کے ماتحت تھا خلیفہ ثانی فاروق اعظم (رض) کا خیال تھا کہ اس فوج کی کمان مجھے خود کرنا چاہیے لیکن حضرت عبدالرحمن بن عوف (رض) اور دوسرے جلیل القدر صحابہ (رض) کی رائے یہ تھی کہ آپ مدینہ طیبہ میں رہ کر ہدایات جاری فرماتے رہیں۔ خدانخواستہ اگر فوج کو ہزیمت اٹھانی پڑی یا آپ کو کچھ ہوگیا تو اس نقصان کی تلافی مشکل ہوجائے گی۔ اس صورتحال کی وضاحت کرتے ہوئے امیر المؤمنین نے فرمایا کہ میں تو عراق جانے کے لیے ہی مدینہ سے نکلا تھا مگر اصحاب رسول کی رائے اس کے برعکس ہے۔ اب بتائیں کہ اس فوج کی کمان کس کے سپرد کی جائے؟ لوگوں کی اکثریت نے حضرت سعدبن ابی وقاص (رض) کا نام پیش کیا کیونکہ ابو عبیدہ (رض) اور حضرت خالد (رض) شام کے محاذ پر بر سر پیکار تھے۔ (سیرت الفاروق) مفتوحہ علاقے حضرت عمر فاروق (رض) خلیفۂ اول اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سنت مبارکہ کی اتباع کرتے ہوئے ہر معاملہ میں اہل الرائے سے مشورہ لیتے یہاں تک کہ مفتوحہ علاقوں کی زمین کے لیے بھی انہوں نے کئی دن تک مجلس مشاورت کے اجلاس منعقد کئے۔ حضرت بلال (رض)، عبدالرحمن بن عوف (رض) اور کئی صحابہ کی رائے یہ تھی کہ یہ زمینیں مجاہدین میں تقسیم ہونا چاہییں۔ حضرت عمر (رض) اور ان کے ہم خیال حضرات کی رائے یہ تھی کہ زمینیں حکومت کی ملکیت ہونا چاہییں تاکہ آنے والے حضرات بھی اس سے مستفید ہوتے رہیں۔ اس ضمن میں دونوں طرف سے کوئی واضح شرعی دلیل نہ تھی۔ بالآخر حضرت عمر فاروق (رض) نے قرآن پاک کی آیت تلاوت کی : (وَالَّذِیْنَ جَاءُ وْا مِنْم بَعْدِھِمْ۔۔) پڑھ کر فرمایا : (فَکَانَتْ ھٰذِہٖ عَامَۃُ ٗ مَنْ جَآءَ مِنْ بَعْدِھِمْ فَقَدْصَادَ ھٰذَا اَلْفَیْ بَیْنَ ھٰؤُلآءِ جَمِیْعاً فَکَیْفَ تَقْسِمُہٗ لِھٰؤُلَآءِ وَنَدَعُ مَنْ تَخَلَّفَ بَعْدَھُمْ) [ الفاروق] ” یہ آئندہ آنے والے تمام لوگوں کے لیے ہے پھر یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ میں موجودہ لوگوں کو تقسیم کردوں۔ ان لوگوں کو محروم کردوں جو ان کے بعد آنے والے ہیں۔“ طاعون اور مجلس شوریٰ ” عبداللہ بن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) ملک شام کے دورے کے لیے نکلے جب آپ سرغ کے مقام پر پہنچے تو وہاں شام کے کمانڈر ابو عبیدہ بن جراح (رض) اور دوسرے اعلیٰ حکام نے ان کا استقبال کیا اور وہاں کے حالات بیان کرتے ہوئے عرض کرنے لگے کہ شام میں طاعون کا مرض پھیلا ہوا ہے۔ اس لیے مسئلہ پیدا ہوا کہ آگے جانا چاہیے یا واپس پلٹ جائیں۔ عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ مجھے امیر المؤمنین نے حکم دیا کہ مہاجرین کو بلاؤ۔ جب وہ آئے تو ان سے اس صورت حال پر مشورہ طلب کیا گیا۔ ان کی آراء میں اختلاف تھا۔ کچھ نے کہا کہ آپ دینی کام کے لیے نکلے ہیں آپ کو واپس نہیں جانا چاہیے جبکہ دوسرے اصحاب کہتے تھے آپ کے ساتھ بہت سے اصحاب رسول ہیں خواہ مخواہ موت کو دعوت نہیں دینا چاہیے۔ پھر حضرت عمر (رض) نے فرمایا انصار کو بلایا جائے انہوں نے بھی مہاجرین کی طرح مختلف تجاویز پیش کیں۔ فاروق اعظم (رض) نے فرمایا کہ آپ یہاں سے چلے جائیں۔ پھر حکم دیا قریش کے ان سرداروں کو بلایا جائے جنہوں نے فتح مکہ سے پہلے ہجرت کی تھی۔ یہ سب بالاتفاق کہنے لگے کہ آپ کو آگے جانے کی بجائے واپس پلٹ جانا چاہیے۔۔ تب امیر المؤمنین (رض) نے اعلان فرمایا کہ ہم صبح مدینہ واپس جارہے ہیں، یہ سنتے ہی ابو عبیدہ بن جراح (رض) آگے بڑھ کر کہنے لگے کہ آپ اللہ کی تقدیر سے بھاگتے ہیں۔ حضرت عمر (رض) فرمانے لگے کاش یہ بات ابو عبیدہ کے سوا کوئی اور کہتا! کیونکہ یہ بات ابو عبیدہ (رض) کی دانشمندی کے خلاف تھی۔ آپ نے جواب دیا کہ ہاں میں اللہ کی تقدیر سے اللہ ہی کی تقدیر کی طرف جار ہا ہوں۔ عبدالرحمن بن عوف (رض) جو کسی مصروفیت کی وجہ سے غیر حاضر تھے تشریف لائے اور کہنے لگے ایسی صورت حال کے بارے میں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فیصلہ کن ارشاد موجود ہے۔ (سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَقُوْلُ إِذَا سَمِعْتُمْ بِہٖ بِأَرْضٍ فَلَا تَقْدَمُوْا عَلَیْہِ وَإِذَا وَقَعَ بِأَرْضٍ وَأَنْتُمْ بِھَا فَلَاتَخْرُجُوْا فِرَارًا مِّنْہُ قَالَ فَحَمِدَ اللّٰہَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ ثُمَّ انْصَرَفَ) [ رواہ مسلم : کتاب السلام، باب الطاعون والطیرۃ والکھانۃ ونحوھا] ” میں نے نبی محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا ہے کہ جب کسی علاقے میں طاعون پھیلا ہوا ہو تو وہاں داخل نہیں ہونا چاہیے اور جس زمین میں طاعون واقع ہوجائے وہاں سے بھاگنا نہیں چاہیے۔ یہ سن کر امیر المومنین (رض) نے اللہ کا شکر ادا کیا اور مدینہ واپس تشریف لے گئے۔“ فیصلہ کا طریقہ کار اور ” فَاِذَا عَزَمْتَ“ کا مفہوم آدمی جب اپنے ذہن میں ایک بات بٹھا اور جما لیتا ہے تو پھر ہر بات کو اسی زاویہ نگاہ سے دیکھتا اور پرکھتا ہے۔ یہی حالت ان دوستوں کی ہے جو علمی دنیا میں تنہا پرواز کے قائل اور انتہا پسندی کی روش کو اختیار کیے رکھتے ہیں۔ پہلے ان کی سر توڑ کوشش ہوتی ہے کہ کسی طرح ثابت کیا جائے کہ اکثریت کی کوئی حیثیت نہیں۔ انہیں لفظ اکثریت سے اس حد تک چڑ ہوتی ہے کہ وہ اہل حق کی اکثریت کو بدنام زمانہ جمہوریت سے مماثل قرار دے کر حقائق کو رد کرتے ہوئے خوشی محسوس کرتے ہیں اور جذباتی لوگوں کو یہ کہہ کر مطمئن کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ کیا ہم کسی کے مقلد ہیں؟ حالانکہ قرآن وسنت کے بعد خاص کر تنظیمی اور اجتماعی معاملات میں اجتماعیت کو قابل قدر حیثیت دینا ضروری ہے۔ کیونکہ اجتماعی زندگی کا نظام چلانے کے لیے یہ آخری اصول ہے۔ اس کے بغیر امت کو متحد رکھنے کی کوئی صورت باقی نہیں رہتی۔ اس کے باوجود کچھ حضرات کا کہنا ہے کہ امیر صرف لوگوں کی دلجوئی کی خاطر پیش آمدہ مسئلہ میں شوریٰ کی تجاویز سے فائدہ اٹھانا چاہے تو اس کی ذرہ نوازی ہے ورنہ کوئی اصول امیر کو پابند نہیں کرسکتا۔ پھر ان کا یہ بھی فرمان ہے کہ اس طرح تو امیر مامور اور ربڑ کی مہر بن جاتا ہے۔ بقول ان کے قرآن پاک نے ” فَاِذَا عَزَمْتَ“ کے الفاظ استعمال کر کے امیر کو اجتماعی معاملات میں مختار کل بنا دیا ہے۔ کاش یہ حضرات طبیعت کے بے لگام گھوڑے کو قابو رکھتے ہوئے اس بات پر غور کرتے کہ ارکان شوریٰ مشورہ دینے کے لیے تشریف لائے ہیں نہ کہ مشورہ لینے کے لیے۔ صاحب امر کو تو مشورہ لینے کا حکم ہو رہا ہے لہٰذا یہاں صیغہ بھی واحد حاضر کا استعمال کیا جارہا ہے۔ اگر اراکین شوریٰ کو ایک دوسرے سے مشورہ لینے کے لیے اکٹھا کیا جاتا تو پھر ” شَاوِرْ ھُمْ فیْ الْاَمْرِ فَاِذَا عَزَمْتَ فَتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ“ کے بجائے یہ ہونا چاہیے تھا ” تَشَاوَرُوْا فِی الْاَمْرِ فَاِذَا عَزَمْتُمْ فَتَوَکَّلُوْا عَلَی اللّٰہِ ےَتَشَاوَرُوْنَ فِی الْاَمْرِ فَاِذَاعَزَمُوْا“ اس لیے صحیح نقطہ نگاہ یہ ہے کہ عزم کا معنٰی وہ نہیں جو کچھ علماء نے سمجھا ہے۔ ایسے ہی آزاد استدلال کی وجہ سے مسلمانوں کے حکمران آمر، ڈکٹیٹر، ظالم اور سفاک ثابت ہوئے کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ اللہ کے علاوہ ہم سے پوچھنے کا کسی کو اختیار نہیں اور نہ ہی ہم کسی کے پابند ہیں۔ مذکورہ بالا دلائل کی روشنی میں قابل عمل نقطۂ نگاہ یہی ہے کہ امیر قرآن وسنت، واضح شواہد وقرائن اور شوریٰ کی اکثریت کا پابند ہونا چاہیے۔ اس طرز عمل میں نہ صرف ملک وملت کی بہتری ہے بلکہ امیر کے لیے بھی عافیت کا راستہ ہے کیونکہ وہ اکیلا ذمہ دار ہونے کی بجائے پوری جماعت ذمہ دار ہوگی اور قرآن وسنت اور صحابہ کا عمل بھی اس بات کی مکمل رہنمائی کر رہا ہے۔ اب ” فَاِذَا عَزَمْتَ“ کا معنٰی نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات گرامی اور صحابہ کرام (رض) کے طرز حیات سے سمجھنے کی کوشش فرمائیں۔ (عَنْ عَلِیٍّ قَالَ سُءِلَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عَنِ الْعَزْمِ فَقَالَ مُشَاوَرَۃُ اَھْلِ الرَّاْیِ ثُمَّ اتِّبَاعُھُمْ) [ ابن کثیر] ” حضرت علی (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عزم کے بارے میں سوال کیا تو آپ نے عزم کا مفہوم بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ عزم کے معنٰی ہیں اہل رائے سے مشورہ لینا اور پھر اس کا اتباع کرنا۔“ اس آیت کی روشنی میں امام ابو بکر جصاص (رح) لکھتے ہیں : (وَغَےْرُ جَاءِزٍ اَنْ یَّکُوْنَ الْاَمْرُ بالْمُشَاوَرَۃِ عَلٰی جِھَۃٍ تَطِےْبُ نَفُوْسُھُمْ وَرَفْعِ اَقْدَارِھِمْ وَلِتَقْتَدِی الْاُمَّۃُ بِہٖ فِی مِثْلِہٖ لِاَنَّہُ لَوْ کَانَ مَعْلُوْمًا عِنْدَھُمْ إِنَّھُمْ إِذَا اسْتَغْرَغُوْا مَجْھُوْدُھُمْ فِی اِسْتِنْبَاطِ مَاشُوْرٍ وَافِےْۃٌ وَصَوَابُ الَّذِیْ فِےْمَا سَلُوْا عَنْہُ ثُمَّ لَمْ ےَکُنْ ذَالِکَ مَعْمُوْلًا عَلَےْہِ وَلَا مُلْتَقِیْ مِنْہُ بالْقَبُوْلِ بِوَجْہٍ لَمْ ےَکُنْ فِی ذٰلِکَ تَطِےْبُ نَفُوْسُھُمْ وَلَا رَفْعُ لِاَقْدَارِ ھِمْ بَلْ فِےْہِ اِےْحَاشُھُمْ وَاَعْلَامُھُمْ بِاَنَّ آرَاءَ ھُمْ غَےْرَ مَقْبُوْلَۃٍ وَلَا مَعْمُوْلَ عَلَےْھَا فَھَذَا تَاوِےْلٌ سَاقِطٌ مَعْنًی لَہُ) [ احکام القرآن] ” نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مشورہ لینے کا جو حکم دیا گیا وہ صرف صحابہ کی دلجوئی اور عزت افزائی کے لیے نہیں تھا۔ اگر صحابہ کرام (رض) کو یہ معلوم ہوتا کہ کسی خاص معاملے میں مشورہ طلب کیا جارہا ہے اور وہ مکمل غوروخوض کے ساتھ پیش آمدہ مسئلے میں ٹھیک ٹھیک مشورہ اور رائے کا اظہار کریں گے تو بھی اسے قبول نہیں کیا جائے گا اس طرح تو ان کی دلجوئی اور عزت افزائی کی صورت نہیں نکلتی بلکہ اس میں ان کی حوصلہ شکنی کا پہلو نکلتا ہے۔“ اگر تعصب کی عینک اتار کر اور جذبات کے پردے ہٹا کر نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور خلفائے راشدین (رض) کے مبارک دور میں ہونے والی مجالس شوریٰ کے فیصلوں پر غور کیا جائے تو روز روشن کی طرح یہ حقیقت چمکتی ہوئی دکھائی دیتی ہے کہ حضرت ابو بکر صدیق (رض) نے لشکر اسامہ (رض) کی روانگی کا فیصلہ کرتے ہوئے اگر اکثریت کی رائے کو مسترد کیا تو اس کے پیچھے نص قطعی یعنی نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا حکم موجود تھا۔ مانعین زکوٰۃ کے بارے میں بھی قرآن پاک کی نص قطعی موجود تھی جو حالات کی بحرانی کیفیت کی وجہ سے صحابہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ذہن سے اوجھل ہوچکی تھی۔ جب خلیفۂ وقت نے توجہ دلائی تو صحابہ کے دل ودماغ روشن ہوگئے۔ قرآن وسنت کی روشنی میں صحیح فیصلہ : ١۔ قرآن وسنت کی موجودگی میں کثرت وقلت اور عقل وفکر کی کوئی حیثیت نہیں۔ ٢۔ ٹھوس فکری، نظری، دلائل اور واضح قرائن کے بعد جمہوریت کوئی معنیٰ نہیں رکھتی۔ ٣۔ دونوں طرف دلائل برابر ہوں تو اجتماعی زندگی میں اہل حق کی اکثریت کی اتباع امیر اور سب کے لیے لازم ہے۔ مسائل ١۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ تعالیٰ کی رحمت سے بڑے نرم خو اور خلیق تھے۔ ٢۔ سر براہ بد اخلاق ہو تو لوگ اس سے دور بھاگتے ہیں۔ ٣۔ سربراہ کو قومی کاموں میں لوگوں سے مشورہ کرنا چاہیے۔ ٤۔ مشورہ کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرنا لازم ہے۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ توکل کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔ تفسیر بالقرآن داعی اور قائد کے اوصاف : ١۔ داعی اور قائد کو ہمدرد ہونا چاہیے۔ (التوبۃ: ١٢٨) ٢۔ داعی کو لوگوں سے مشورہ کا خواہش مند ہونا چاہیے۔ (یوسف : ١٠٣) ٣۔ لوگوں کی خیر خواہی کے لیے جان قربان کرنے کا جذبہ ہونا چاہیے۔ (الکہف : ٦) ٤۔ قائد کو مشورہ لینا چاہیے۔ (آل عمران : ١٥٩) ٥۔ قائد میں عفو ودرگزر کا جذبہ ہونا چاہیے۔ (المائدۃ: ١٣) ٦۔ قائد اور مومنین کو اللہ پر توکل کرنا چاہیے۔ (الزمر : ٣٨‘ التوبۃ: ٥١) نوٹ : مزید ’ ’ البقرہ 247“ کی تفسیرملاحظہ فرمائیں۔ آل عمران
160 فہم القرآن ربط کلام : گزشتہ سے پیوستہ‘ اس میں منافقوں کے پروپیگنڈہ کا جواب دیتے ہوئے بنیادی عقیدہ سمجھایا گیا ہے کہ عزت وذلت اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے اور مومنوں کو ہر حال میں اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرنا چاہیے۔ رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہر کام کرنے سے پہلے اس پر غور و خوض اور پھر اللہ تعالیٰ پر توکل کرتے ہوئے اس کو عملی جامہ پہناتے تھے۔ احد میں بھی ایسا ہی کیا گیا لیکن چند ساتھیوں کی کمزوری کی وجہ سے آپ اور مسلمانوں کو مالی‘ جانی نقصان اٹھانا پڑا جس پر کمزور مسلمانوں نے غیر محتاط انداز میں اپنے خیالات کا اظہار کیا اور منافقوں نے اسے ایک دوسرے انداز میں اچھالا۔ اس موقعہ پر یہ بنیادی اصول بیان فرمایا گیا ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ تمہاری مدد کرنے کا فیصلہ صادر فرمائے تو ساری دنیا جمع ہو کر بھی تم پر غالب نہیں آ سکتی۔ اگر اللہ تعالیٰ تمہیں رسوا کرنا چاہے تو تمہیں کوئی بھی عزت نہیں دے سکتا لہٰذا مسلمانوں کو ہر حال میں اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرنا چاہیے۔ اللہ پر توکل کا یہ معنیٰ نہیں کہ آدمی حاصل شدہ وسائل کو استعمال کرنا چھوڑ دے بلکہ توکل کا معنی ہے ہر قسم کی استعداد حاصل کرنے کی کوشش کرے اور پھر وسائل پر بھروسہ کرنے کی بجائے اللہ تعالیٰ کی ذات پر اعتماد اور یقین رکھے۔ انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں ایک آدمی نے عرض کی : اے اللہ کے رسول! (أَعْقِلُھَا وَأَتَوَکَّلُ أَوْ أُطْلِقُھَا وَأَتَوَکَّلُ قَالَ اعْقِلْھَا وَتَوَکَّلْ) [ رواہ الترمذی : کتاب صفۃ القیامۃ والرقائق] ” میں اونٹ کو باندھ کر توکل کروں یا اسے کھلا چھوڑ دوں اور توکل کروں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اونٹ کو باندھو اور توکل کرو۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ کی مدد شامل حال ہو تو آدمی کو کوئی مغلوب نہیں کرسکتا۔ ٢۔ جسے اللہ تعالیٰ ذلیل کرے اس کی کوئی مدد نہیں کرسکتا۔ ٣۔ اللہ ہی پر مومنوں کو ہمیشہ بھروسہ کرنا چاہیے۔ (التوبہ : ١٢٩) آل عمران
161 فہم القرآن ربط کلام : جیسا کہ پہلے بھی بیان ہوا ہے کہ منافقین رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پریشان اور مسلمانوں کو رسوا کرنے کا کوئی موقعہ ہاتھ سے نہیں جانے دیتے تھے۔ بدر کے موقع پر ایک قیمتی چادر سامان میں آگے پیچھے ہوگئی تو منافقوں نے یہ کہہ کر بدگمانی پیدا کرنے کی کوشش کی کہ آپ نے اس کو اپنے لیے رکھ لیا ہوگا۔ بظاہر یہ چھوٹی سی بات ہے لیکن یہ بدگمانی آپ کی ذات اطہر کے بارے میں تھی اس لیے سخت اور دو ٹوک الفاظ میں اس کی وضاحت کی گئی۔ اگر اس موقعہ پر یا وہ گوئی کرنے والوں کی زبانیں بند نہ کی جاتیں تو آئندہ چل کر کسی بڑی خیانت کا الزام بھی آپ کی ذات پر چسپاں کیا جاسکتا تھا کیونکہ اللہ تعالیٰ کو معلوم تھا اور کہ مستقبل میں مسلمانوں کو کتنے قیمتی غنائم حاصل ہونے والے تھے اس لیے فرمایا کہ کسی نبی کے لیے یہ لائق نہیں کہ وہ خیانت کرے بلکہ نبی کے بارے میں ایسا سوچنا بھی عظیم گناہ ہے۔ جو بھی خیانت کرے گا وہ قیامت کے دن اس خیانت کے ساتھ پیش کیا جائے گا پھر وہاں ہر کسی کو اس کے عمل کے مطابق جزا یا سزا ملے گی اور کسی پر کوئی زیادتی نہیں ہوگی۔ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَامَ فِیْنَا النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَذَکَرَ الْغُلُوْلَ فَعَظَّمَہٗ وَعَظَّمَ أَمْرَہٗ قَالَ لَا أُلْفِیَنَّ أَحَدَکُمْ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ عَلٰی رَقَبَتِہٖ شَاۃٌ لَھَا ثُغَاءٌ عَلٰی رَقَبَتِہٖ فَرَسٌ لَہٗ حَمْحَمَۃٌ یَقُوْلُ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ أَغِثْنِیْ فَأَقُوْلُ لَا أَمْلِکُ لَکَ شَیْءًا قَدْ أَبْلَغْتُکَ۔۔) [ رواہ البخاری : کتاب الجھاد والسیر، باب الغلول وقول اللہ تعالیٰ ومن یغلل ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمارے درمیان کھڑے ہو کر خیانت کا تذکرہ کرتے ہوئے اسے بہت سنگین گردانتے ہوئے فرمایا : میں تم میں سے کسی کو روز قیامت اس حال میں نہ پاؤں کہ اس کے کندھے پر بکری ممیارہی ہو اور کسی کے کندھے پر گھوڑا ہنہنا رہا ہو اور وہ کہے کہ اے اللہ کے رسول! میری مدد کیجیے تو میں کہوں کہ میں تو کچھ نہیں کرسکتا میں نے تجھے پہلے ہی باخبر کردیا تھا۔“ مفسّرین نے ” غَلَّ“ کے دو معنٰی کیے ہیں کہ ” کسی کے بارے میں اپنے دل میں غصہ رکھنا“ اُحد میں درّے والوں نے درّہ خالی کرکے غلطی کی اور بعض صحابہ (رض) نے میدان سے بھاگ کر غلطی کی تھی اس پر فرمایا جارہا ہے کہ اے پیغمبر! آپ کو معاف کردینے کے بعد دل میں غصہ نہیں رکھنا چاہیے۔ دوسراغَلَّ کا معنی ہے کہ ” مسلمانوں کے اجتماعی مال میں خیانت کرنا“ جس کا گناہ عام چوری سے زیادہ ہے۔ ” حضرت ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا کہ جب خیبر فتح ہوا تو مال غنیمت میں ہمیں سونا اور چاندی نہیں ملا تھا بلکہ گائے‘ اونٹ‘ سامان اور باغات ملے تھے پھر ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ وادی القریٰ کی طرف لوٹے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ ایک مدعم نامی غلام تھا جو بنی ضباب کے ایک صحابی نے آپ کو ہدیہ دیا تھا وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سواری سے کجاوہ اتار رہا تھا کہ کسی نامعلوم سمت سے ایک تیر آکر اس کو لگالوگوں نے کہا اسے شہادت مبارک ہو۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اس ذات کی قسم! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے جو چادر اس نے خیبر میں تقسیم سے پہلے مال غنیمت میں سے چرائی تھی وہ اس پر آگ کا شعلہ بن کر بھڑک رہی ہے۔ یہ سن کر ایک صحابی ایک یا دو تسمے لے کر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ یہ میں نے اٹھا لیے تھے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ یہ جہنم کے تسمے ہیں۔“ [ رواہ البخاری : کتاب المغازی، باب غزوۃ خیبر ] (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَمْرٍو (رض) أَنَّ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ أَرْبَعٌ مَّنْ کُنَّ فِیْہِ کَانَ مُنَافِقًا خَالِصًا وَمَنْ کَانَتْ فِیْہِ خَصْلَۃٌ مِّنْھُنَّ کَانَتْ فِیْہِ خَصْلَۃٌ مِّنَ النِّفَاقِ حَتّٰی یَدَعَھَا إِذَا اءْتُمِنَ خَانَ وَإِذَاحَدَّثَ کَذَبَ وَإِذَا عَاھَدَ غَدَرَ وَإِذَاخَاصَمَ فَجَرَ) [ رواہ البخاری : کتاب الإیمان، باب علامۃ المنافق] ” حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : چار خصلتیں جس میں ہوں وہ پکّا منافق ہوگا اور ان میں سے جس میں ایک علامت ہو اس میں نفاق کی ایک خصلت ہوگی جب تک کہ اسے چھوڑتا نہیں۔ (١) جب امانت رکھی جائے تو خیانت کرے (٢) بات کرے تو جھوٹ بولے (٣) جب وہ عہد کرے تو غداری کرے (٤) اور معمولی تکرار پر گالی گلوچ پر اتر آئے۔“ مسائل ١۔ کوئی نبی بھی خائن نہیں ہوا۔ ٢۔ قیامت کے دن خائن خیانت کے ساتھ پیش ہوگا۔ ٣۔ ہر کسی کو اس کے عمل کے مطابق جزا وسزا ملے گی کسی پر کوئی ظلم نہیں ہوگا۔ تفسیر بالقرآن نبی خائن نہیں ہوتا : ١۔ نبی اللہ کی وحی میں خیانت نہیں کرتا۔ (التکویر : ٢٤) ٢۔ نبی وحی کو نہیں چھپاتا۔ (المائدۃ: ٦٧) ٣۔ نبی مال میں خیانت نہیں کرتا۔ (آل عمران : ١٦١) ٤۔ نبی خائن کی حمایت نہیں کرتا۔ (النساء : ١٠٥) آل عمران
162 فہم القرآن ربط کلام : امانت ودیانت میں اللہ تعالیٰ کی رضا ہے، خیانت وبددیانتی پر اللہ کی ناراضگی اور غضب ہوتا ہے ایک اللہ تعالیٰ کی رضا کا طالب اور دوسرا اس کے غضب کا سزا وار ہے کیا دونوں کردار کے حامل انسان برابر ہوسکتے ہیں ؟ ہرگز نہیں۔ اب دو قسم کے کرداروں کا موازنہ کیا جارہا ہے کہ کیا ایسے کردار کے حامل انسان انجام اور اعمال کے حوالہ سے برابر ہو سکتے ہیں ؟ ان میں ایک وہ ہے جو سراپا سمع و اطاعت ہے اور اس کے ہر کام کے پیچھے اللہ تعالیٰ کی رضا کار فرما ہوتی ہے۔ دوسرا وہ جو کفر اور نافرمانی میں آگے ہی بڑھتا چلا جا رہا ہے یہاں تک کہ آخر دم تک اللہ تعالیٰ کی بغاوت میں ہی سرگرم عمل رہا۔ اس کا ٹھکانا جہنم ہے جو لوٹنے کی بدترین جگہ ہے۔ پہلے کے لیے اللہ تعالیٰ کے ہاں بہترین درجات‘ اعلیٰ مقامات اور ہمیشہ کے لیے اللہ تعالیٰ کی خوشنودی ہے۔ دوسرے کے لیے جہنم ہے۔ یاد رکھو کہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے سامنے ہے اور وہ انسان کے تمام اعمال کو دیکھ رہا ہے۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ کی رضا چاہنے والا اور اللہ کی ناراضگی مول لینے والا برابر نہیں ہوسکتے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ کی رضا چاہنے والوں کے لیے بڑے درجات ہیں۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ کو ناراض کرنے والا جہنم میں جائے گا۔ تفسیر بالقرآن مومن اور نافرمان برابر نہیں ہیں : ١۔ مومن اور فاسق برابر نہیں ہیں۔ (السجدۃ: ١٨) ٢۔ جنتی اور جہنمی برابر نہیں ہو سکتے۔ (الحشر : ٢٠) ٣۔ سیدھا اور الٹا چلنے والا برابر نہیں ہو سکتا۔ (الملک : ٢٢) ٤۔ اندھا اور بینا برابر نہیں ہو سکتا۔ (الانعام : ٥٠) ٥۔ روشنی اور اندھیرا برابر نہیں ہو سکتے۔ (فاطر : ٢٠) آل عمران
163 آل عمران
164 فہم القرآن ربط کلام : اکثریت کی رائے کا احترام کرنا، ساتھیوں کی غلطیوں کو معاف کردینا۔ انسان کو شرف انسانیت سے سرفراز فرمانا‘ توحید کی دولت سے مالا مال کرنا اور بھٹکتے ہوئے انسان کو کامیابی کے راستے پر گامزن کرنا رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہی کی ذات اور قیادت کا کمال ہے جسے اللہ تعالیٰ مسلمانوں پر بطور احسان ذکر فرماتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان پر اس قدر احسانات فرمائے ہیں کہ وہ ان کا شمار کرنا چاہے تو جدید مشینری کے ذریعے بھی انہیں شمار نہیں کرسکتا۔ تمام احسانات و انعامات میں سب سے بڑا احسان اللہ تعالیٰ کی ہدایت اور رہنمائی ہے۔ دنیا میں ہدایت کا مؤثر‘ مدلل‘ قابل اعتماد اور براہ راست ذریعہ انبیاء کی شخصیات ہوا کرتی تھیں۔ ان شخصیات میں سب سے ممتاز شخصیت رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات گرامی ہے جنہوں نے انسانیت کی اصلاح اور فلاح کے لیے سب سے بڑھ کر کوششیں اور تکلیفیں اٹھائیں ہیں۔ اس لیے مومنوں کو یہ احسان جتلایا جا رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا یہ خاص احسان ہے کہ اس نے تم ہی سے یعنی انسانوں میں سے ایک ایسا رسول مبعوث فرمایا ہے جو تمہارے اپنے آپ سے بھی تم پر زیادہ مہربان اور درگزر کرنے والا ہے۔ اس کی شب و روز کی محنتیں، صبح و شام کی دعائیں اور ہر وقت یہ تمنا اور خواہش ہوتی ہے کہ وہ تمہیں اللہ تعالیٰ کی آیات پڑھ کر سنائے، گناہوں اور جرائم سے پاک کرے اور تمہیں کتاب و حکمت کے ذریعے دنیا و آخرت کی ترقیوں سے سرفراز کرے۔ نبی آخرالزماں (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تشریف آوری اور آپ کی تعلیمات سے پہلے تم سراسر گمراہی اور جہالت کی تاریکیوں میں بھٹک رہے تھے۔ آپ کی کوششوں اور محبت و اخلاص کا نتیجہ ہے کہ آج انسانیت نے اپنا مقام پایا، غلاموں کو آزادی نصیب ہوئی‘ عورتوں کو حقوق ملے اور انسان کو اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے کا طریقہ اور دنیا میں رہنے سہنے کا سلیقہ آیا۔ یہ دنیا کی مسلمہ حقیقت ہے کہ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت سے پہلے انسانیت ہر قسم کی جہالت اور تاریکی کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں بھٹک رہی تھی۔ خصوصاً عرب اور مکہ کی حالت یہ تھی کہ یہاں کے دانشور اس سوچ میں غلطاں تھے کہ ہم تاریکیوں سے کس طرح نجات پائیں۔ اسی کے نتیجے میں حلف الفضول کا معاہدہ طے پایا جس میں اہل دانش نے بیٹھ کر یہ فیصلہ کیا کہ معاشرے میں پیدا ہونے والی بیماریوں کا تدارک اس انداز میں کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ (ابن ہشام) اسی سلسلہ کی دوسری کڑی یہ تھی کہ ایک موقع پر ورقہ بن نوفل‘ زید بن عمرو اور چند دوسرے لوگ حرم میں یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ تمام مروجہ مذاہب کا جائزہ لے کر طے کیا جائے کہ کونسا مذہب سچا ہے؟ اس کے لیے یہ بزرگ اٹھ کھڑے ہوئے جس کے نتیجے میں ورقہ بن نوفل عیسائیت کے قریب ہوئے اور کچھ نے یہودیت کو مناسب سمجھا۔ لیکن حضرت زید بن عمرو نے سب سے براءت کا اعلان کیا۔ چنانچہ وہ بیت اللہ میں سجدہ ریز ہو کر زاروقطار روتے ہوئے دعا کیا کرتے تھے کہ اے کعبہ کے رب! اگر مجھے معلوم ہوجائے کہ تیری عبادت اس طرح کرنی ہے تو میں اس طرح کرنے کو تیار ہوں لیکن آسمانی ہدایت مفقود ہوجانے کی وجہ سے وہ دین کی روشنی سے محروم رہے تاہم ایک سوال کے جواب میں رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کے بارے میں فرمایا تھا (نَعَمْ إِنَّہٗ یُبْعَثُ أُمَّۃً وَّاحِدَۃً) کیوں نہیں! وہ ایک امت کی حیثیت سے اٹھایا جائے گا۔ (ابن ہشام) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آمد سے قبل کی جہالت اور تاریکی کی نشاندہی کرتے ہوئے حضرت علی (رض) کے برادر مکرم حضرت جعفر (رض) بن ابی طالب نے حبشہ کے حکمران نجاشی کے سامنے اس کا یوں اعتراف کیا تھا کہ ہم گمراہ تھے، ہمارے اندر ہر قسم کے گناہ اور جرائم پائے جاتے تھے ہم ایک دوسرے پر ظلم کرنے والے تھے پس اللہ نے ہم میں ایک شخص کو نبی بنایا جس کو ہم ہر لحاظ سے جانتے ہیں اس نے ہماری اصلاح اور تربیت کی جس کے نتیجے میں ہم مسلمان ہوئے۔ (ابن ہشام) اسی کے بارے میں قرآن حکیم نے (وَإِنْ کَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِیْ ضَلَالٍ مُّبِیْنٍ) کے الفاظ استعمال کرتے ہوئے آپ کی بعثت کو احسان عظیم قرار دیا ہے۔ مسائل ١۔ رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مبعوث فرماکر اللہ تعالیٰ نے مومنوں پر بڑا احسان فرمایا ہے۔ ٢۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کا مقصد لوگوں کو قرآن سنانا، ان کی تربیت کرنا اور ان کو کتاب و دانشمندی سکھانا ہے۔ ٣۔ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تشریف آوری سے پہلے لوگ واضح گمراہی میں تھے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ کے احسانات : ١۔ اللہ تعالیٰ کی نعمتیں اور احسان ان گنت ہیں۔ (ابراہیم : ٣٤) ٢۔ ایمان نصیب ہونا اللہ کے احسان کا نتیجہ ہے۔ (الحجرات : ١٦) ٣۔ رسالت مآب (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت اللہ تعالیٰ کا احسان عظیم ہے۔ (آل عمران : ١٦٤) ٤۔ کمزوروں کو خلافت دینا اللہ کا احسان ہے۔ (القصص : ٥) ٥۔ اللہ جس پر چاہتا ہے احسان فرماتا ہے۔ (ابراہیم : ١١) آل عمران
165 فہم القرآن ربط کلام : احد کی شکست اور اس کے عوامل پر تبصرہ جاری ہے اس میں مسلمانوں کی انتظامی اور اخلاقی کمزوریوں کی نشاندہی کرتے ہوئے ان کی اصلاح کی جا رہی ہے۔ اُحد کی شکست کے اسباب میں دو سبب بڑے نمایاں تھے۔ منافقوں کا کردار اور مسلمانوں کا نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حکم پر پوری طرح عمل کرنے کی بجائے درہ چھوڑنا۔ لہٰذا مختلف انداز اور الفاظ میں منافقوں کے کردار کی نشاندہی کرتے ہوئے یہ ثابت کیا گیا ہے کہ یہ ناقابل اعتماد اور آستین کے سانپ ہیں۔ ان سے ہر وقت بچنے کی ضرورت ہے۔ دوسرے سبب پر تبصرہ کرتے ہوئے بتلایا ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ تم مسلمان ہو اور اللہ کا رسول تم میں موجود ہے لیکن تم نے رسول کے حکم کی نافرمانی کی۔ پہلے درّہ خالی کیا اور بعد میں میدان چھوڑ کر بھاگ نکلے اور اب تم یہ کہتے ہو کہ یہ شکست کیونکر ہوئی؟ اگر تم اپنے کیے پر توجہ کرو تو اس کا جواب تمہیں اپنے آپ سے مل جائے گا کہ یہ شکست تمہاری اپنی کمزوریوں کا نتیجہ ہے۔ یہاں ایک اور اصول بیان کیا ہے کہ انسان کو جو بھی مصائب اور پریشانیاں آتی ہیں حقیقتاً وہ اس کے اپنے ہی کیے دھرے کا نتیجہ ہوا کرتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ اس بات پر قادر ہے کہ وہ تمہارے اعمال کی سزا دنیا میں دے یا اسے آخرت کے لیے مؤخر کر دے۔ ذرا ماضی کے آئینہ میں جھانک کر دیکھو کہ تم اس سے دوگنا نقصان انہیں پہنچا چکے ہو۔ بدر میں ان کے ستر سر کردہ آدمی واصل جہنم ہوئے جن کی وہ لاشیں بھی نہ اٹھا سکے۔ ستر قیدی ہوئے جو فدیہ دے کر چھوٹے اور ان کا کافی سامان تمہارے ہاتھ آیا۔ ان کے مقابلے میں تمہارا نقصان احد میں کئی گنا کم ہوا اور وہ بھی تمہاری کوتاہی کی وجہ سے۔ مسائل ١۔ انسان کو پہنچنے والے مصائب اس کی اپنی وجہ سے ہوتے ہیں۔ ٢۔ جنگ میں اپنے اور کفار کے نقصان کا تجزیہ کرنا ضروری ہے۔ ٣۔ اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔ آل عمران
166 فہم القرآن ربط کلام : احد کے واقعات پر تبصرہ رواں ہے تاکہ امت آئندہ ایسے واقعات سے بچنے کی کوشش کرے۔ ساتھ ہی منافقین کا ردّ عمل اور کردار بتلایا گیا ہے۔ اُحد کے دن کفار کے ساتھ ٹکراؤ میں مسلمانوں کو جو کچھ پیش آیا۔ وہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق تھا۔ اس ارشاد کے دو مفہوم ہو سکتے ہیں ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے مقدّر میں اسی طرح لکھا تھا اور دوسرا معنٰی یہ ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کا حکم سمجھ کر کفار کے خلاف برسر پیکار ہوئے جس کے نتیجے میں تمہیں زخم اور پریشانی اٹھانا پڑی۔ اس کے پیچھے یہ فلسفہ کار فرما تھا کہ مومنوں اور منافقوں کے درمیان حد فاصل قائم ہوجائے۔ جب مخلص مسلمان منافقوں کو سمجھا رہے تھے کہ آؤ اللہ کے راستے میں قتال کرو اگر تم لڑنے پر آمادہ نہیں ہو تو کم از کم ہمارے ساتھ شامل ہو کر دفاع کو مضبوط بناؤ۔ لیکن منافق تو یہی کہے جا رہے تھے کہ اگر ہم اسے قتال فی سبیل اللہ سمجھتے تو ضرور تمہارے ساتھ شامل ہوتے کیونکہ اتنے بڑے لشکر کے ساتھ لڑنا سرا سر خود کشی کرنے کے مترادف ہے۔ ایسی صورت میں ہم تمہارے ساتھ کس طرح کھڑے رہ سکتے ہیں؟ بہر حال منافقین نے واپسی کا فیصلہ کیا تو اس نازک ترین موقعہ پر حضرت جابر (رض) کے والد عبداللہ بن عمرو (رض) نے انہیں ان کا فرض یاد دلانا چاہا کہ واپس آؤ۔ اللہ کی راہ میں لڑو یا دفاع کرو مگر انہوں نے جواب میں کہا کہ اگر ہم جانتے کہ واقعی جہاد ہے تو ہم ضرور تمہارے ساتھ شامل ہوتے یہ جواب سن کر حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) یہ کہتے ہوئے واپس آئے کہ اللہ کے دشمنو! تم پر اللہ کی مار ہو۔ یاد رکھو! اللہ تعالیٰ اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تم سے بے نیاز کر دے گا۔ [ الرحیق المختوم : عبداللہ بن أبی اور اس کے ساتھیوں کی سرکشی] درحقیقت منافق یہ بہانہ بنا کر مسلمانوں کو کمزور اور کفار پر اپنی ہمدردیاں ظاہر کرنا چاہتے تھے کیونکہ حقیقت میں منافق مسلمانوں کے بجائے کفار کے قریب ہوا کرتے ہیں اور اس دن بھی ایسا ہی تھا۔ منافق مسلمانوں کو مطمئن کرنے کے لیے وہ کچھ اپنی زبان سے ظاہر کرتے ہیں جو ان کے دل کی آواز نہیں تھی۔ وہ مسلمانوں سے اپنا خبث باطن چھپاسکتے ہیں جب کہ اللہ تعالیٰ سے دنیا و آخرت میں وہ کچھ نہیں چھپا سکتے۔ مسائل ١۔ احد کے دن پہنچنے والی مصیبت میں مومنوں کا امتحان تھا۔ ٢۔ منافق ایمان کے بجائے کفر کے زیادہ قریب ہوتا ہے۔ ٣۔ منافق کا دعو ٰی فریب پر مبنی ہوتا ہے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ آزمائش کے ذریعے مومن اور منافق کے درمیان امتیاز پیدا کرتا ہے۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ سب کچھ جانتا ہے جو لوگ چھپاتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن منافق کی نشانیاں : ١۔ منافق کو مسلمان کی بھلائی اچھی نہیں لگتی۔ (آل عمران : ١٢٠) ٢۔ منافق صرف زبان سے حق کی شہادت دیتا ہے۔ (المنافقون : ١) ٣۔ منافق کفار سے دوستی رکھتا ہے۔ (البقرۃ: ١٤) ٤۔ منافق دنیا کے فائدے کے لیے اسلام قبول کرتا ہے۔ ( البقرۃ: ٢٠) ٥۔ منافق اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ سنجیدہ نہیں ہوتا۔ (البقرہ : ١٤) ٦۔ منافق مسلمانوں کو حقیر سمجھتا ہے۔ (المنافقون : ٨) ٧۔ منافق کفر کے زیادہ قریب ہوتا ہے۔ (آل عمران : ١٦٧) ٨۔ منافق ریا کار ہوتا ہے۔ (النساء : ١٤٢) ٩۔ منافق جھوٹا ہوتا ہے۔ (البقرہ : ١٠) آل عمران
167 آل عمران
168 فہم القرآن ربط کلام : گزشتہ سے پیوستہ۔ بدر میں مسلمانوں کے ساتھ منافق شامل نہیں تھے اس لیے مسلمان پوری یکسوئی کے ساتھ جان توڑ کر لڑے۔ احد کا معاملہ نہایت ہی مختلف تھا کہ پہلے دن کی مشاورت سے لے کر دونوں جماعتوں کے مد مقابل آنے تک منافقوں کی بھاری تعداد مسلمانوں کے ساتھ شامل رہی۔ منافق ایک سوچی سمجھی گہری سازش کے تحت اس وقت مسلمانوں کو چھوڑ کر الگ ہوئے جب اہل مکہ یہ سب کچھ دیکھ رہے تھے۔ منافقین نے جان بوجھ کر مسلمانوں میں ہر قسم کی غلط فہمیاں پیدا کرنے کی کوشش کی تاکہ مسلمان بددل ہو کر کفار کے سامنے ہتھیار ڈال دیں۔ اس طرح ایک تیر سے دو شکار ہوجائیں۔ ایک طرف مسلمان ذلیل ہوں اور دوسری طرف منافقت کا پردہ چاک نہ ہونے پائے۔ اسی سازش کا تسلسل تھا کہ وہ آخر تک مسلمانوں کو بزدل بنانے کی کوشش کرتے رہے۔ میدان جنگ میں منافق جب ٹولیوں کی صورت میں کفار کو دکھا دکھا کر نکل رہے تھے تو بعض صحابہ جن میں سر فہرست جابر کے والد جناب عبداللہ بن عمرو بن حرام انصاری (رض) تھے انہوں نے سر توڑ کوشش کی کہ کسی طریقے سے منافق مسلمانوں سے الگ ہونے سے باز آجائیں لیکن ایسا نہ ہوسکا۔ اُحد میں مسلمان شہید ہوئے تو منافقین نے ان کے لواحقین کو بداعتقادی کا شکار کرنے اور ان کی پریشانی میں اضافہ کرنے کے لیے کہا کہ اگر وہ ہماری بات مان لیتے تو اس طرح قتل نہ کیے جاتے‘ خواہ مخواہ اور بے مقصد ان لوگوں نے اپنی جانوں کو ضائع کیا ہے۔ خاص طور پر حضرت جابر (رض) کے والد عبداللہ بن عمرو (رض) کے بارے میں انہوں نے یہ پروپیگنڈہ کیا کہ یہ تو جانور کی موت مرا کیونکہ افرا تفری کے عالم میں حضرت عبداللہ (رض) کو اپنے ہی کسی ساتھی کی تلوار کا وار لگا اور وہ شہید ہوگئے۔ اس پر منافقین کا تعاقب کرتے ہوئے انہیں چیلنج دیا گیا کہ جب تمہیں موت آئے گی تو اسے اپنے سے دھکیل کراپنے آپ کو بچا کر دکھانا اگر تم اپنے دعوے میں سچے ہو ؟ مسائل ١۔ موت سے کوئی بھی چھٹکارا نہیں پاسکتا۔ ٢۔ منافق مسلمانوں کے ساتھ مخلص نہیں ہوتا۔ آل عمران
169 فہم القرآن ربط کلام : شہداء کا مرتبہ اور منافقوں کی ہرزہ سرائی کا جواب۔ منافقوں نے احد کے شہداء کے بارے میں بھی ہرزہ سرائی کی کہ یہ بے وجہ اور فضول موت مرے ہیں۔ اس لیے شہداء کے بارے میں فرمایا ہے کہ انہیں مردہ نہ کہو۔ انہوں نے اللہ تعالیٰ کے راستے میں اپنے خون کا آخری قطرہ بہا کر آنے والی نسلوں کے لیے یہ ثابت کردیا کہ اللہ کے دین کا پرچم سربلند رکھنے کے لیے ہر چیز قربان کردینا چاہیے کیونکہ شہید اللہ تعالیٰ کا دین اور کام سربلند رکھتا ہے اس لیے اس کا صلہ یہ ہے کہ اس کا نام بھی رہتی دنیا تک سربلند رکھا جائے۔ اس بنا پر حکم دیا کہ انہیں مردہ سمجھنا اور کہنا جائز نہیں۔ یہ گراں مایہ لوگ اللہ کے ہاں زندہ اور انہیں ہر قسم کی نعمتوں سے نوازا جا رہا ہے۔ وہ اللہ تعالیٰ کی عنایات پر اتنے خوش ہیں کہ اپنے سے پیچھے رہ جانے والوں کو یہ پیغام دیتے ہیں کہ شہادت کے میدان میں آگے بڑھو اور اللہ تعالیٰ کے راستے میں کٹ مرو۔ کیونکہ اس کے بعدنہ کوئی خوف ہے اور نہ کوئی حزن و ملال۔ شہداء اپنے سے پیچھے رہنے والے مومنوں کو اللہ تعالیٰ کی نعمتوں اور اس کے فضل و کرم کا پیغام دیتے ہوئے یقین دہانی کرواتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ تمہارے اجر میں ذرّہ برابر کمی نہیں کرے گا کیونکہ وہ کسی کا اجر ضائع نہیں کرتا۔ رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے شہداء کا مقام و مرتبہ بیان کرتے ہوئے خاص کر حضرت جابر (رض) کے والد گرامی کا ذکر فرمایا۔ واقعہ یوں ہے کہ حضرت عبداللہ (رض) کا ایک بیٹا جابر (رض) اور سات یا نو بیٹیاں تھیں۔ حضرت جابر نو عمرتھے ان کے والد نے خاصہ قرض چھوڑا۔ باپ کی شہادت‘ قرض اور جوان بہنوں کی وجہ سے حضرت جابر (رض) مغموم رہا کرتے تھے ایک دن آپ نے جابر کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے باپ کو اپنے حضور بلا کر پوچھا کہ تم مزید کیا چاہتے ہو؟ اس نے عرض کی کہ الٰہی ! مجھے دنیا میں واپس بھیجا جائے تاکہ تیرے راستے میں دوبارہ شہادت کا مرتبہ پاؤں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ایسا ہرگز نہیں ہو سکتا۔ انہوں نے کہا تو پھر میرا پیغام لوگوں تک پہنچا دیا جائے تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائیں۔ [ رواہ ابن ماجۃ : کتاب المقدمۃ، باب فیما انکرت الجھمیۃ ] جہاں تک قرض کا معاملہ تھا اس کے متعلق حدیث میں آتا ہے : (عَنْ جَابِر (رض) قَالَ تُوُفِّیَ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ عَمْرِو بْنِ حَرَامٍ (رض) وَعَلَیْہِ دَیْنٌ فَاسْتَعَنْتُ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عَلٰی غُرَمَاءِہٖ أَنْ یَّضَعُوْا مِنْ دَیْنِہٖ فَطَلَبَ النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) إِلَیْھِمْ فَلَمْ یَفْعَلُوْا فَقَالَ لِیَ النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اذْھَبْ فَصَنِّفْ تَمْرَکَ أَصْنَافًا الْعَجْوَۃَ عَلٰی حِدَۃٍ وَعَذْقَ زَیْدٍ عَلٰی حِدَۃٍثُمَّ أَرْسِلْ إِلَیَّ فَفَعَلْتُ ثُمَّ أَرْسَلْتُ إِلَی النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَجَاءَ فَجَلَسَ عَلٰی أَعْلَاہُ أَوْ فِیْ وَسَطِہٖ ثُمَّ قَالَ کِلْ لِلْقَوْمِ فَکِلْتُھُمْ حَتّٰی أَوْفَیْتُھُمُ الَّذِیْ لَھُمْ وَبَقِیَ تَمْرِیْ کَأَنَّہٗ لَمْ یَنْقُصْ مِنْہُ شَیْءٌ) [ رواہ البخاری : کتاب البیوع، باب الکیل علی البائع والمعطی] ” حضرت جابر (رض) نے بیان کیا کہ جب عبداللہ بن عمروبن حرام (رض) (میرے باپ) شہید ہوگئے تو ان کے ذمہ لوگوں کا قرض باقی تھا۔ میں نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ذریعے کوشش کی کہ قرض خواہ اپنے قرض میں کچھ معاف کردیں۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے فرمایا لیکن وہ نہ مانے۔ آپ نے مجھے فرمایا کہ جاؤ اپنی تمام کھجورکی قسموں کو الگ الگ کرلو۔ عجوہ ایک خاص قسم کی کھجور کو الگ رکھو اور عذق زید کھجور کی قسم کو الگ کرکے مجھے بلا لینا۔ میں نے ایسا ہی کیا اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کہلا بھیجا۔ آپ تشریف لائے اور کھجوروں کے ڈھیرکے درمیان بیٹھ گئے اور فرمایا کہ اب ان قرض خواہوں کو ناپ کردیتے رہو۔ میں نے ناپنا شروع کیا جتنا قرض لوگوں کا تھا میں نے سب ادا کردیا پھر بھی کھجوریں جوں کی توں تھی۔ اس میں سے ایک دانہ برابر کی بھی کمی نہیں ہوئی۔“ مسائل ١۔ اللہ کی راہ میں شہید ہونے والے مردہ نہیں ہوتے۔ ٢۔ شہید اللہ کے ہاں زندہ ہیں اور رزق پاتے ہیں۔ ٣۔ شہید اللہ کے فضل کے ساتھ خوش اور اپنے سے پیچھے لوگوں کو خوشخبری کا پیغام دیتے ہیں۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ مومنوں کا اجر ضائع نہیں کرتا۔ ٥۔ شہداء کا مرتبہ ومقام البقرۃ آیت ١٥٤ کے تحت دیکھیں۔ آل عمران
170 آل عمران
171 آل عمران
172 فہم القرآن ربط کلام : احد کی ہزیمت کے بعد کفار کی دھمکی کا مسلمانوں کی طرف سے ردّ عمل جس میں ان کے ایمان کی تعریف کی گئی ہے۔ منافقوں کے کردار اور ان کی ہرزہ سرائی کے ذکر کے بعد اللہ کے راستے میں کٹ مرنے والوں کی حیات جاوداں اور دنیا و آخرت میں ان کے مقام و انعام کا ذکر کرتے ہوئے ان کے احترام کا لحاظ رکھنے کی تلقین کرنے کے بعد غازیوں اور مجاہدوں کا ایک دفعہ پھر تذکرہ ضروری سمجھا گیا جنہیں احد کی شکست کے فوراً بعد کفار کے لشکر کے کمانڈر ابو سفیان نے یہ چیلنج دیا تھا کہ میں تم پر دوبارہ حملہ آور ہو رہا ہوں۔ جس کی تفصیل اس طرح ہے کہ احد کے میدان میں مسلمانوں کو بھاری نقصان پہنچانے کے باوجود کفار کو مزید ٹھہرنے کا حوصلہ نہ ہوا۔ کچھ دور جا کر انہوں نے سوچ و بچار کے بعد اس طرح بے مراد لوٹنے پر افسوس کا اظہار کیا۔ بالآخر یہ طے کیا کہ ہمیں مدینے پر حملہ کر کے مسلمانوں کی رہی سہی طاقت کو تہس نہس کردینا چاہیے۔ اس کے لیے اعصابی حربہ استعمال کرتے ہوئے انہوں نے نعیم بن مسعود اشجعی کو انعام کا لالچ دے کر اس بات پر آمادہ کیا کہ وہ مدینہ جا کر مسلمانوں کو اس طرح مرعوب کرے کہ وہ ہمارے مدِّ مقابل آنے کی تاب نہ لا کر ہمارے سامنے ہتھیار پھینک دیں۔ اس نے ایسا ہی کیا لیکن مسلمانوں کا ردّ عمل اس قدر شدید اور ایمان افروز تھا کہ انہوں نے بیک زبان ہو کر کہا ہمیں کسی کی مدد کی ضرورت نہیں‘ ہمارے لیے اللہ ہی کافی ہے جو بہترین کارساز ہے۔ البتہ ابو سفیان کے اعصابی حملے کا جواب دیتے ہوئے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے معبد بن ابی معبد الخزاعی کو بھیجا یہ شخص کافر ہونے کے باوجود مسلمانوں سے ہمدردی رکھتا تھا جس کی وجہ سے یہ احد کی شکست کے بعد مدینہ آیا اور اس نے آپ سے عرض کی کہ ان حالات میں آپ کی کیا خدمت کرسکتا ہوں؟ تب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے ذمہ داری سونپی کہ وہ ابوسفیان کے پاس جا کر اس طرح کی گفتگو کرے کہ کفار کے چھکے چھوٹ جائیں۔ چنانچہ اس نے یہ فریضہ انجام دیتے ہوئے ابو سفیان کے سامنے مسلمانوں کی طرف سے حالات کا ایسا نقشہ پیش کیا کہ اس کے اعصاب ٹوٹ گئے اور اس نے مکہ کی راہ اختیار کرنے میں اپنے لیے عافیت سمجھی۔ اس نازک موقعہ پر صحابہ (رض) کے غیر معمولی کردار کو خراج تحسین سے نوازتے ہوئے فرمایا کہ جن لوگوں کو گہرے زخم آئے تھے لیکن اس کے باوجود انہوں نے اللہ اور رسول کی آواز پر لبیک کہا اور کفار سے ڈرنے کے بجائے ان کے ایمان میں اضافہ ہوا۔ وہ کفّارکے تعاقب میں نکل کھڑے ہوئے انہوں نے اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے یہ قدم اٹھایا تھا جس کے بدلے اللہ تعالیٰ نے ان کے دشمن کو مرعوب اور پسپا کردیا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے وہاں دس دن قیام فرمایا یہ مقام تجارتی قافلوں کی گزر گاہ کے قریب تھا۔ بعض صحابہ نے خوب تجارت کی اس طرح مسلمان کاروباری فوائد کے ساتھ بڑی شان و شوکت کے ساتھ مدینہ واپس آئے۔ (الرحیق المختوم) اس آیت میں صحابہ کی تجارت‘ ایمان سے لبریز ولولہ اور کفار کے مقابلہ میں کامیابی کی طرف اشارہ فرمایا گیا ہے۔ مسائل ١۔ تقو ٰی اختیار کرنے، اللہ اور اس کے رسول کی بات ماننے والوں کے لیے اجر عظیم ہے۔ ٢۔ مسلمان کفار سے ڈرنے کی بجائے اللہ تعالیٰ کو اپنا کار ساز سمجھیں۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ پر اعتماد کرنے اور اس کی رضا چاہنے والوں پر اللہ کا فضل عظیم ہوتا ہے۔ تفسیربالقرآن اللہ ہی پر توکل کرنا چاہیے : ١۔ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اللہ پر توکل کرنے کی ہدایت۔ (النمل : ٧٩) ٢۔ مومنوں کو اللہ تعالیٰ پر توکل کرنے کا حکم۔ (المجادلۃ: ١٠) ٣۔ انبیاء اور نیک لوگ اللہ پر توکل کرتے ہیں۔ (یوسف : ٦٧) ٤۔ جو اللہ پر توکل کرتا ہے اللہ اسے کافی ہوجاتا ہے۔ (الطلاق : ٣) ٥۔ اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرنا چاہیے کیونکہ وہ عرش عظیم کا مالک ہے۔ (التوبۃ: ١٢٩) آل عمران
173 آل عمران
174 آل عمران
175 فہم القرآن ربط کلام : احد میں مقابلہ یا اس کے بعد کفار کی دھمکیاں دراصل شیطانی ہتھکنڈے ہیں جن سے ڈرنے کے بجائے اللہ تعالیٰ سے ڈرنا چاہیے۔ اس واقعہ کے بعد مسلمانوں کو ہمیشہ کے لیے سمجھا دیا گیا کہ کبھی اور کسی حال میں بھی شیطان اور اس کے چیلوں سے ڈرنے کی ضرورت نہیں۔ ان کے مکرو فریب بظاہر بڑے مضبوط اور خوفناک نظر آتے ہیں لیکن اگر تم اللہ تعالیٰ پر اعتماد اور کامل ایمان کے ساتھ قائم رہو گے توکفار کی سازشیں اور شرارتیں تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتی۔ شیطان اور غیروں کے خوف کی بجائے اللہ تعالیٰ کا خوف اپنے سینوں میں جاگزیں کرو۔ جس کا خاصہ یہ ہے کہ آدمی بڑی سے بڑی طاقت اور سازش سے خوفزدہ نہیں ہوتا۔ کیونکہ ایک وقت میں دل میں ایک ہی کا خوف سما سکتا ہے۔ کامیابی کے لیے یہی بنیادی اصول ہے کہ مسلمان غیر سے ڈرنے کی بجائے اللہ تعالیٰ سے ڈرے۔ اللہ تعالیٰ پر بھروسہ رکھنے اور اپنی زندگی ایمان کے سانچے میں ڈھال لینے والے کبھی ناکام اور نامراد نہیں ہوا کرتے۔ مسائل ١۔ شیطان اپنے دوستوں سے مسلمانوں کو ڈراتا ہے۔ ٢۔ ان سے ڈرنے کے بجائے اللہ سے ڈرنا چاہیے۔ تفسیربالقرآن اللہ کا خوف : ١۔ مومنوں کو اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرنا چاہیے۔ (البقرۃ: ١٥٠) ٢۔ اللہ کے بندے صرف اللہ سے ہی ڈرتے ہیں۔ (المائدۃ: ٢٨) ٣۔ نبی صرف اللہ سے ڈرتا ہے۔ (یونس : ١٥، الزمر : ٣) ٤۔ اللہ سے ڈرنے والے ہی کامیاب ہوا کرتے ہیں۔ (النور : ٥٢) ٥۔ مومنوں کی استقامت دیکھ کر شیطان خود ڈر جاتا ہے۔ (الانفال : ٤٨) ٦۔ کفار اور منافق اللہ تعالیٰ کے بجائے لوگوں سے ڈرتے ہیں۔ (النساء : ٧٧) آل عمران
176 فہم القرآن ربط کلام : کفار کی سازشوں اور شیطان کے ساتھیوں کی شرارتوں سے دل گیر نہیں ہونا چاہیے انہیں دنیا اور آخرت میں اذیت ناک سزا ملنے والی ہے۔ رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیشہ منافقوں کے ساتھ درگزر کا رویّہ اختیار کیا اور ہر موقع پر انہیں سمجھاتے رہے تاکہ ان کی دنیا اور آخرت سدھر جائے۔ لیکن وہ سدھرنے کے بجائے شرارتوں اور منافقت میں آگے ہی بڑھتے چلے گئے۔ آپ کی درگزر اور اعلیٰ ظرفی سے انہوں نے ہمیشہ غلط فائدہ اٹھایا اور ہر نازک موقعہ پر خبث باطن کا اظہار اور اسلام کے دشمنوں کے ساتھ ساز باز کرتے رہے۔ احد کی لڑائی میں مسلمانوں کا پلڑا ہلکا رہا جس سے انہیں امید ہوگئی کہ اب مسلمان ختم ہوجائیں گے اس لیے سر عام مسلمانوں سے الگ ہوگئے۔ ان کے منافقت میں آگے بڑھنے اور مسلمانوں سے الگ ہونے کی وجہ سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دلی رنج پہنچا کہ یہ کیسے ناعاقبت اندیش اور بدنصیب لوگ ہیں؟ جو سدھرنے کی بجائے نافرمانیوں میں آگے ہی بڑھتے جا رہے ہیں اس پر آپ کو تسلی دی گئی کہ میرے نبی! اطمینان خاطر رکھو کیونکہ آپ کا کام تو فقط سمجھانا ہے جس میں آپ نے کسی غفلت کا ارتکاب نہیں کیا۔ یہ جو چاہیں کرلیں اللہ تعالیٰ اور اس کے دین کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے۔ اللہ تعالیٰ ان کی بد اعمالیوں کی وجہ سے چاہتا ہے کہ ان کے لیے آخرت میں کوئی حصہ نہ رہے۔ بلاشبہ جو لوگ ایمان کے مقابلے میں کفر کو ترجیح دیتے ہیں وہ ہرگز اللہ تعالیٰ کو نقصان نہیں پہنچا سکتے ان کے لیے عظیم اور اذیت ناک عذاب ہوگا۔ مسائل ١۔ کفار کی سرگرمیاں رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کچھ نہیں بگاڑ سکیں۔ ٢۔ ایمان کے بجائے کفر کو ترجیح دینے والے اللہ تعالیٰ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ آل عمران
177 آل عمران
178 فہم القرآن ربط کلام : دنیا کی بجائے کافر کو آخرت میں مکمل سزا دینا، کفریہ کاموں میں ان کا جلدی کرنا، احد میں معمولی کامیابی حاصل کرلینا یہ مہلت دینے کا مقصد یہ ہے کہ یہ دل بھر کر گناہ کرلیں تاکہ قیامت کو انہیں ٹھیک ٹھیک سزادی جائے۔ اُحد میں کفار مسلمانوں کے خلاف برسر پیکار تھے اور منافق ہمدرد اور خیر خواہ بن کر ان کے حق میں خفیہ کردار ادا کر رہے تھے۔ جس کی وجہ سے کبھی کافروں کے کردار پر تنقید کی جاتی ہے اور کبھی منافقوں کے روییّ کو ہدف بنایا جاتا ہے۔ بسا اوقات منافقوں کے کردار اور اعتقاد کی بنا پر ان کے لیے بھی کفر کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ اس فرمان میں منافق اور کافردونوں ہی مراد ہو سکتے ہیں۔ تاہم کفار کو سمجھایا جا رہا ہے کہ اگر احد میں تھوڑی سی کامیابی اور دنیا میں تمہیں کچھ مہلت میسر ہے تو اس سے یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ ہم جو مہلت دیے جا رہے ہیں اس میں تمہارے لیے کوئی خیر ہو سکتی ہے۔ اگر اللہ کی گرفت سے بچے ہوئے ہو تو اس لیے نہیں کہ اللہ تعالیٰ ان حرکتوں سے بے خبر ہے یا اس کی دسترس سے تم باہر ہو بلکہ اللہ تعالیٰ نے تمہاری رسی ڈھیلی اور دراز کر رکھی ہے تاکہ گناہ کرنے میں تمہیں کوئی حسرت باقی نہ رہے۔ جب اللہ تعالیٰ گرفت کی رسی کھینچے گا تو وہ تمہاری گردن میں اس طرح پھندا بن جائے گی جس سے چھٹکارا پانا ممکن نہ ہوگا اور کافر ہمیشہ کے لیے ذلیل کردینے والے عذاب میں سزائیں بھگتتے رہیں گے۔ یہ کبھی نہیں ہوسکتا کہ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو ہمیشہ کسمپرسی کی حالت میں اور منافقوں کو ان کے ساتھ خلط ملط رہنے دے بلکہ اللہ تعالیٰ ایسے حالات پیدا کر رہا ہے جس سے منافق الگ ہوتے جارہے ہیں جیسا کہ احد میں ہوا۔ یہاں مومنوں کے وجود اور کردار کو طیب اور منافقوں کے کردار کو خبیث کہا گیا ہے۔ جس سے یہ ظاہر کرنا مقصود ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نظر میں مومن کتنے عمدہ‘ پاک اور منافق کس قدر گندے ہیں۔ اللہ کے ہاں یہ بھی درست نہیں کہ وہ ہر کسی کو اپنی تقدیر یعنی امور غائب سے مطلع کرتا رہے۔ ایک تو اس لیے کہ ہر شخص کا سینہ اللہ تعالیٰ کی تقدیر کے بھید پانے اور برداشت کرنے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ دوسرا یہ کہ اللہ تعالیٰ نے غیب کی اطلاع کے لیے پیغمبروں کو منتخب کر رکھا ہے۔ ان میں بھی جس پیغمبر کو جتنا چاہا امور غیب سے آگاہ فرمایا۔ لوگوں کا فرض ہے کہ اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لائیں اگر کافر اور منافق بھی ایمان لائیں تو ایمانداروں کی طرح یہ بھی اجر عظیم پائیں گے۔ بعض لوگ پیروں‘ فقیروں اور علماء کے حوالے سے ایسے واقعات لکھتے اور بیان کرتے ہیں کہ فلاں بزرگ بھی غیب کے واقعات جانتے تھے۔ یہاں دو ٹوک الفاظ میں اس عقیدے کی نفی کی گئی ہے۔ جہاں تک انبیاء کا معاملہ ہے ان کے بھی درجنوں واقعات ہیں کہ وہ غیب کا علم ہرگز نہیں جانتے تھے۔ اس کے باوجود بعض علماء نے اس آیت سے یہ استدلال کرنے کی کوشش کی ہے کہ انبیاء کرام خود تو غیب کا علم نہیں جانتے تھے لیکن انہیں عطائی علم غیب ضرور تھا۔ عطائی کا معنیٰ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا بتلایا ہوا اور عطا کردہ علم۔ علم غیب کی یہ تعریف بذات خود مضحکہ خیز ہے۔ جب اللہ تعالیٰ انبیاء یا کسی کو کوئی بات بتلا دے تو وہ غیب کس طرح رہا۔ یہ بات علم غیب کی تعریف میں نہیں آتی اس لیے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان اطہر سے کئی بار یہ اعلان کروایا گیا کہ آپ از خود یہ اعلان فرمائیں کہ میں غیب کا علم نہیں جانتا۔ اس کی تفصیل انشاء اللہ سورۃ الانعام کی تفسیر میں کی جائے گی۔ مسائل ١۔ کفارکے لیے اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی ڈھیل بہتر نہیں ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ انبیاء کے بغیر کسی کو غیب کی خبریں نہیں دیتا۔ ٣۔ ایمان اور تقو ٰی اختیار کرنے والوں کے لیے اجر عظیم ہے۔ تفسیربالقرآن کفار کے لیے مہلت مفید نہیں : ١۔ ڈھیل کفار کے لیے گناہوں کا باعث بنتی ہے۔ (آل عمران : ١٧٨) ٢۔ کفار اور بخیل کے لیے مہلت نقصان دہ ہے۔ (آل عمران : ١٨٠) ٣۔ کفار کے لیے دنیا کی فراوانی نقصان دہ ہے۔ (الانعام : ٤٤) آل عمران
179 آل عمران
180 فہم القرآن ربط کلام : مال اور جان اللہ کے راستے میں قربان کرنے چاہییں۔ منافق مخلص مسلمانوں کو جہاد پر خرچ کرنے سے روکتے تھے اس لیے احد کے غزوہ پر تبصرہ کرتے ہوئے بخل کی مذمت کی گئی ہے۔ منافق مسلمانوں کو صرف جہاد فی سبیل اللہ سے دلبرداشتہ اور منع ہی نہیں کرتے تھے بلکہ وہ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے والوں کو مایوس کرنے کی کوشش بھی کرتے۔ ان کا اپنا حال یہ تھا کہ جہاد فی سبیل اللہ سے دور بھاگتے۔ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی اطاعت سے بچنے کی کوشش کرتے۔ اس طرح وہ مال خرچ کرنے کی بجائے اسے جمع رکھنے کے روییّ پر گامزن تھے۔ ایک موقع پر انہوں نے یہاں تک مہم چلائی اور زبان درازی کرتے ہوئے ایک دوسرے کو کہا کہ مسلمانوں کے ساتھ قطعاً تعاون نہیں کرنا چاہیے تاکہ یہ تنگ آکر مدینہ خالی کردیں اس طرح مدینہ گھٹیا لوگوں سے پاک ہوجائے گا۔ [ المنافقون : ٨] یہاں منافقوں کے حوالے سے ہر کسی کو آگاہ کیا جارہا ہے کہ جو لوگ غریبوں‘ مسکینوں اور جہاد فی سبیل اللہ پر خرچ کرنے کے بجائے بخل کرتے ہیں وہ ہرگز گمان نہ کریں کہ جو مال اللہ تعالیٰ نے انہیں عطا فرمایا ہے وہ جمع کرنے کی صورت میں ان کے لیے بہتر ہوگا بلکہ جس مال کو اپنے مستقبل کی بہتری کے لیے جمع کر رہے ہیں وہ ان کے لیے انتہائی نقصان دہ ثابت ہوگا۔ عنقریب درہم و دینار اور سونا چاندی جہنم میں تپا کر قیامت کے دن ان کے گلے کا ہار بنادیے جائیں گے۔ ان بخیلوں اور کنجوسوں کو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ حقیقتاً اللہ ہی زمین و آسمان کی میراث کا وارث ہے۔ اگر یہ پلٹ کر دیکھیں تو انہیں معلوم ہوجائے گا کہ زمین کی ملکیت کا دعو ٰی کرنے اور دنیا کا مال و متاع جمع کرنے والے ان سے پہلے لوگ کہاں ہیں؟ ان پر بھی وقت آئے گا جب ان کی جائیداد کا وارث دوسرابنے گا تو پھر کیوں نہ یہ اللہ کے دین کی سربلندی اور اس کے مجبور بندوں پر خرچ کیا کریں۔ جو کچھ بھی تم کرتے ہو اللہ تعالیٰ اس کی خوب خبر رکھنے والا ہے۔ دوسری جگہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (یَوْمَ یُحْمٰی عَلَیْھَا فِیْ نَارِ جَھَنَّمَ فَتُکْوٰی بِھَا جِبَاھُھُمْ وَجُنُوْبُھُمْ وَظُھُوْرُھُمْ ھٰذَا مَاکَنَزْتُمْ لِأَنْفُسِکُمْ فَذُوْقُوْا مَاکُنْتُمْ تَکْنِزُوْنَ) [ التوبۃ: ٣٥] ” روز قیامت مال کو جہنم کی آگ میں گرم کر کے ان کی پیشانیوں‘ پہلوؤں اور پیٹھوں پر داغا جائے گا۔ یہ ہے جو تم نے اپنے لیے جمع کیا تم چکھو جو تم جمع کرتے تھے۔“ (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَسْعُوْدٍ (رض) یَبْلُغُ بِہِ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ مَامِنْ رَجُلٍ لَا یُؤَدِّیْ زَکَاۃَ مَالِہٖ إِلَّا جَعَلَ اللّٰہُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ فِیْ عُنُقِہٖ شُجَاعًا ثُمَّ قَرَأَ عَلَیْنَا مِصْدَاقَہُ مِنْ کِتَاب اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ (وَلَا یَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ یَبْخَلُوْنَ بِمَا آتَاھُمُ اللّٰہُ مِنْ فَضْلِہٖ) الآیۃَ) [ رواہ الترمذی : کتاب : تفسیرالقرآن، باب ومن سورۃ آل عمران] ” حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) اس بات کو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حوالے سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا جو آدمی اپنے مال کی زکوٰۃ نہیں دیتا۔ اللہ تعالیٰ روز قیامت یہ مال اس کی گردن میں گنجا سانپ بنا کر ڈالے گا۔ پھر آپ نے کتاب اللہ سے اس آیت کی تلاوت کی (وَلَا یَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ یَبْخَلُوْنَ بِمَا آتَاھُمُ اللّٰہُ مِنْ فَضْلِہٖ)۔“ مسائل ١۔ بخیل کے لیے اس کا بخل کرنا کبھی بہتر نہیں ہوگا۔ ٢۔ رزق حلال اللہ تعالیٰ کا فضل ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے خرچ کرتے رہنا چاہیے۔ ٤۔ قیامت کے دن بخیل کا مال سانپ بنا کر اس کے گلے میں ڈال دیا جائے گا۔ ٥۔ زمین و آسمان کی حقیقی اور دائمی ملکیت اللہ ہی کی ہے۔ ٦۔ اللہ ہر کسی کے اعمال سے باخبر ہے۔ تفسیربالقرآن بخل اور بخیل کا انجام : ١۔ خزانے جمع کرنے والوں کو عذاب کی خوشخبری۔ (التوبۃ: ٣٤) ٢۔ بخیل اپنا مال ہمیشہ باقی نہیں رکھ سکتا۔ (ھمزہ : ٣) ٣۔ بخیل کے مال کے ذریعے ہی اسے سزادی جائے گی۔ (التوبۃ: ٣٥) آل عمران
181 فہم القرآن ربط کلام : مسلمانوں میں بخل کا ماحول پیدا کرنے کے لیے یہودیوں نے منافقوں کو یہ کہہ کر مالی تعاون سے منع کیا کہ مسلمانوں کا رب کنگال ہوگیا ہے اور ہم مال ودولت والے ہیں یہاں بخل کی مذمت اور اس گستاخی کی سزا سنائی گئی ہے۔ حضرت ابوبکر صدیق (رض) فنحاص یہودی عالم کے پاس بیت المدراس میں گئے۔ اسے کہنے لگے اللہ سے ڈرتے ہوئے مسلمان ہوجاؤ۔ کیونکہ تو جانتا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سچے رسول ہیں اور یہ بات تورات وانجیل میں بھی لکھی ہوئی ہے۔ فنحاص نے جواب دیا کہ ہم اللہ کے محتاج نہیں۔ البتہ وہ ضرور ہمارا محتاج ہے اگر وہ ہمارا محتاج نہ ہوتا تو ہم سے قرضے کا مطالبہ نہ کرتا۔ حضرت ابوبکرصدیق (رض) غصے میں آئے اور اس کے منہ پر تھپڑ رسید کیا اور ساتھ یہ فرمایا : اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے اگر ہمارا آپس کا معاہدہ نہ ہوتا تو اے اللہ کے دشمن ! میں تیری گردن اڑا دیتا۔ فنحاص یہ معاملہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس لے گیا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ابوبکرصدیق (رض) سے وجہ دریافت کی تو انہوں نے سارا واقعہ بیان کیا۔ فنحاص نے جب اپنی بات کا انکار کیا تو اللہ تعالیٰ نے حضرت ابوبکر صدیق (رض) کی تصدیق میں یہ آیات نازل فرمائیں۔[ تفسیر ابن کثیر] انفاق فی سبیل اللہ کی تحریک کے خلاف منافقوں نے اپنے طریقہ کے مطابق کوشش اور زبان درازی کی۔ لیکن یہودیوں نے ہرزہ سرائی کرتے ہوئے یہاں تک کہہ دیا کہ اب یہ نبی اور اس کا خدا لوگوں سے قرض کے نام پر چندہ مانگ رہے ہیں۔ در حقیقت مسلمانوں کا خدا فقیر اور کنگال ہوگیا ہے ہم ان کے مقابلے میں غنی اور دولت مند ہیں۔ جو خود لوگوں سے مانگتا ہے وہ ہمیں کہاں سے دوگنا تگنا کر کے واپس کرے گا؟[ الرحیق المختوم] اس ہرزہ سرائی اور یا وہ گوئی کے بارے میں سخت ناراضگی کے عالم میں فرمایا کہ جو کچھ یہ اپنی زبانوں سے نکال رہے ہیں۔ ہم نے اس کا ایک ایک حرف لکھ لیا ہے جس طرح ان کا انبیاء کو ناحق قتل کرنا ریکارڈ ہوچکا ہے۔ گویا کہ جس طرح انہوں نے انبیاء کو قتل کیا اس طرح ہی انہوں نے اللہ تعالیٰ کے تقدس کو پامال کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان کی سزا یہ ہے کہ ہم قیامت کے دن انہیں کہیں گے کہ جس مال کو تم بچا بچا کر رکھتے تھے اب اسی مال کے ساتھ جہنم کا جلا دینے والا عذاب ہمیشہ ہمیشہ کے لیے چکھتے رہو۔ جو کچھ انہوں نے آگے بھیجا اس کی سزا پائیں گے اللہ تعالیٰ کی طرف سے زیادتی نہیں ہوگی کیونکہ اللہ تعالیٰ بندوں پر ذرہ برابر بھی زیادتی نہیں کرتا۔ بے شک انسان کتنا باغی‘ کافر اور متکبر کیوں نہ ہو اسے اتنی ہی سزا ملے گی جتنا اس نے جرم کیا ہوگا۔ (عَنْ أَبِیْ ذَرٍّ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فِیْمَا رَوٰی عَنِ اللّٰہِ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی أَنَّہٗ قَالَ یَاعِبَادِیْ إِنِّیْ حَرَّمْتُ الظُّلْمَ عَلٰی نَفْسِیْ وَجَعَلْتُہٗ بَیْنَکُمْ مُحَرَّمًا فَلَاتَظَالَمُوْا۔۔)[ رواہ مسلم : کتاب البر والصلۃ، باب تحریم الظلم] ” حضرت ابوذر (رض) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں۔ آپ نے اللہ تعالیٰ سے بیان کیا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میرے بندو! یقینًا میں نے اپنے آپ پر ظلم کرنا حرام کرلیا ہے اور میں اسے تمہارے درمیان بھی حرام قرار دیتاہوں۔ پس تم آپس میں ظلم نہ کیا کرو۔“ مسائل ١۔ یہودی اللہ تعالیٰ کو فقیر اور اپنے آپ کو مال دار کہتے ہیں۔ ٢۔ ہر زہ سرائی اور انبیاء کو ناحق قتل کرنے کی وجہ سے انہیں جلا دینے والا عذاب ہوگا۔ ٣۔ لوگوں کو قیامت کے دن وہی کچھ ملے گا جو آگے بھیجیں گے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ بندوں پر کبھی ظلم نہیں کرتا۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ غنی ہے فقیر نہیں : ١۔ اللہ کے ہاتھ فراخ ہیں جسے چاہتا ہے عطا کرتا ہے۔ (المائدۃ: ٦٤) ٢۔ زمین و آسمان کے خزانوں کا مالک اللہ ہی ہے۔ (المنافقون : ٧) ٣۔ زمین و آسمان کی کنجیوں کا مالک اللہ ہے۔ (الزمر : ٦٣) ٤۔ اللہ تعالیٰ رزق بڑھاتا اور کم کرتا ہے۔ (العنکبوت : ٦٢) اللہ تعالیٰ ظلم پسند نہیں کرتا : ١۔ اللہ تعالیٰ بلاوجہ عذاب دینا پسند نہیں کرتا۔ (النساء : ١٤٧) ٢۔ اللہ تعالیٰ ذرّہ برابر ظلم نہیں کرتا۔ (النساء : ٤٠) ٣۔ اللہ تعالیٰ نبی بھیجنے سے پہلے عذاب نہیں دیتا۔ (بنی اسرائیل : ١٥) ٤۔ اللہ تعالیٰ قیامت کو بھی کسی پر ظلم نہیں کرے گا۔ (آ : ٢٩) آل عمران
182 آل عمران
183 فہم القرآن ربط کلام : جس طرح اللہ تعالیٰ پر فقر کا الزام لگا کر یہودی مسلمانوں میں بخل کی فضا پیدا کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ اسی طرح آپ کی ذات اور دین سے روکنے کے لیے قربانی کے جل کر خاکستر ہونے کی جھوٹی شرط پیش کرتے جس کی یہ کہہ کر تردید کی گئی ہے کہ پہلے انبیاء میں سے کچھ نے یہ معجزہ بھی دکھایا تھا پھر تم نے انہیں کیوں قتل کیا؟ یہودی کسی صورت بھی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لانے کے لیے تیار نہیں تھے اور ایسا ہی ان کا رویّہ موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ تھا۔ بات بات پر اعتراضات، ہرمسئلے کو سوالات کے ذریعے الجھانے اور بال کی کھال اتارنے کی کوشش کرتے۔ جب نبی محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے ہر طرح لا جواب ہوتے تو اللہ تعالیٰ کے ذمّہ بات لگاتے کہ در اصل اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ہم آپ پر اس لیے ایمان نہیں لاتے کہ اللہ تعالیٰ نے ہم سے عہد لیا ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد کسی رسول پر ایمان نہیں لانا جب تک وہ رسول قربانی ذبح نہ کرے جسے تمہارے دیکھتے ہی دیکھتے آسمان سے آئی ہوئی آگ نگل جائے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ لوگوں کے بار بار مطالبہ کی وجہ سے بعض انبیاء کے دور میں یہ واقعات رونما ہوئے کہ جو نہی قربانی پیش کی گئی آسمان سے آگ آئی اس نے اسے جلا کر خاکستر کردیا۔ یہ اس بات کا ثبوت تھا کہ اس شخص کی قربانی اللہ کی بارگاہ میں مستجاب ہوچکی ہے اور یہ نبی سچا ہے۔ اس بات کو یہود نے اس طرح توڑ مروڑ کر پیش کیا جیسے یہ نبوت کے لیے لازمی نشانی ہو۔ حالانکہ تورات اور انجیل میں نبی آخرالزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لانے کے لیے ایسی کسی شرط کا ذکر موجود نہیں ہے۔ اے نبی! ان سے پوچھیے کہ مجھ سے پہلے بے شمار رسول ٹھوس اور واضح دلائل کے ساتھ آئے اور وہ چیز بھی انہوں نے کر دکھائی جس کا تم مطالبہ کرتے ہو اگر تم اپنی اس حجت میں سچے ہو تو بتاؤ کہ قربانی کے جل کر راکھ ہونے اور واضح دلائل آنے کے باوجود تم نے پہلے انبیاء کو قتل کیوں کیا؟ اس کے بعد آپ کو اطمینان دلاتے ہوئے فرمایا گیا کہ اگر یہ لوگ آپ کو جھٹلاتے ہیں تو بلاشبہ پہلے انبیاء کو بھی جھٹلایا گیا ہے۔ جبکہ یہ انبیاء واضح دلائل لے کر آئے تھے اور حضرت داوٗد اور عیسیٰ ( علیہ السلام) بھی روشن کتابوں اور کھلے معجزات کے ساتھ آئے تھے۔ جھٹلانے والوں نے ان کی بھی تکذیب کی۔ سورۂ یٰس میں یہاں تک بیان ہوا کہ ایک بستی میں پہلے ایک رسول آیا پھر دوسرے رسول بھیجے گئے اور ان کے بعد تیسرے نبی مبعوث کیے گئے جنہوں نے ایک دوسرے کی تائید اور تصدیق فرمائی لیکن اس کے باوجود لوگوں نے تینوں نبیوں کو جھٹلایا اور ان کی بات ماننے سے انکار کردیا۔ (وَاضْرِبْ لَہُمْ مَّثَلًا اَصْحٰبَ الْقَرْیَۃِ اِذْجَآءَ ہَا الْمُرْسَلُوْنَ اِذْ اَرْسَلْنَآ اِلَیْہِمُ اثْنَیْنِ فَکَذَّبُوْہُمَا فَعَزَّزْنَا بِثَالِثٍ فَقَالُوْا اِنَّآ اِلَیْکُمْ مُّرْسَلُوْنَ) [ یٰسین : ١٣، ١٤] ” ان کے سامنے اس بستی کے رہنے والوں کی مثال بیان کرو۔ جن کے پاس پیغمبر تشریف لائے جب ہم نے ان کی طرف دو رسول مبعوث کیے تو انہوں نے دونوں کو جھٹلایا۔ ہم نے تیسرے کو بھیجا تینوں پیغمبروں نے لوگوں کو بتلایا کہ ہم رسول اور پیغمبر ہیں۔“ لہٰذا اے محبوب پیغمبر! تمہیں دل چھوٹا کرنے اور حوصلہ ہارنے کی ضرورت نہیں ایسا ہی ہوا کرتا ہے۔ دوسرے مقام پر فرمایا : (فَإِنَّھُمْ لَایُکَذِّبُوْنَکَ وَلٰکِنَّ الظَّالِمِیْنَ بآیَات اللّٰہِ یَجْحَدُوْنَ) [ الانعام : ٣٣] ” یہ لوگ تمہیں نہیں جھٹلاتے لیکن ظالم لوگ اللہ کی آیات کو جھٹلاتے ہیں۔“ مسائل ١۔ یہودی اپنی صداقت کے لیے من گھڑت دعوے اور جھوٹی نشانیاں پیش کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ ٢۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پہلے انبیائے عظام کو معجزات اور آسمانی کتابیں پیش کرنے کے باوجود جھٹلایا گیا۔ تفسیربالقرآن حقائق کو جھٹلانا اہل کفر کا وطیرہ ہے : ١۔ اہل کفر انبیاء کو جھٹلایا کرتے تھے۔ (آ : ١٤) ٢۔ باطل پرست اللہ کی آیات کو جھٹلاتے ہیں۔ (المائدۃ: ٨٦) ٣۔ کفار قیامت کو جھٹلاتے ہیں۔ (الروم : ١٦) ٤۔ کفار اللہ تعالیٰ پر جھوٹ بولتے ہیں۔ (المائدۃ: ١٠٣) آل عمران
184 آل عمران
185 فہم القرآن ربط کلام : موت اور فکر آخرت کے ذریعے نصیحت کی گئی ہے کہ دنیا کے جس جاہ وجلال اور مال پر اترا کر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کا انکار اور اللہ تعالیٰ کے بارے میں خرافات بکتے ہو یہ تو ختم ہونے والی ہے۔ منکرین توحید و رسالت کا کردار بتلانے کے بعد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دیتے ہوئے موت کا ذکر اس لیے کیا گیا ہے کہ اے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ کے مخالفوں نے دنیا میں ہمیشہ نہیں بیٹھے رہنا بالآخر ہر کسی نے موت کا ذائقہ چکھنا ہے اور پھر قیامت کے دن تمہارے اعمال کے مطابق تمہیں مکمل جزا اور ان کے کردار کی انہیں پوری پوری سزا دی جائے گی۔ جسے جہنم کی ہولناکیوں سے بچا کر جنت میں داخل کردیا گیا یقیناً وہ کامیاب ہوا۔ یہ دنیا کی زندگانی محض نظر کا فریب اور دماغ کا غرور ہے۔ اسی وجہ سے یہ آپ کی ذات اور اللہ تعالیٰ کی آیات جھٹلا رہے ہیں حالانکہ یہ کرّ وفرّ اور سازو سامان عارضی ہے۔ اس کے مقابلے میں آخرت کی جزا وسزا مستقل اور دائمی ہے۔ جب دنیا عارضی اور موت یقینی ہے تو عقل ودانش کا تقاضا ہے کہ ہمیشہ رہنے والی زندگی کی فکر کرنی چاہیے۔ مسائل ١۔ ہر کسی کو موت آکر رہے گی۔ ٢۔ یہ دنیا مکرو فریب کا سامان ہے۔ ٣۔ قیامت کے دن ہر کسی کو اس کے اعمال کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا۔ ٤۔ جہنم کی آگ سے بچ کر جنت میں داخل ہونے والا ہی کامیاب ہے۔ تفسیربالقرآن نیکی کا پورا پورا اجر ملے گا : ١۔ اللہ مومنوں کا اجر ضائع نہیں کرے گا۔ (آل عمران : ١٧١) ٢۔ اللہ تعالیٰ محسنین کا اجر ضائع نہیں کرتا۔ (ھود : ١١٥) ٣۔ سب کو پورا پورا اجر دیا جائے گا۔ (النساء : ١٧٣) آل عمران
186 فہم القرآن ربط کلام : احد میں مالی، جانی نقصان اور یہودیوں کی اللہ تعالیٰ کے بارے میں ہرزہ سرائی اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کی تصدیق کے لیے غلط ثبوت کا مطالبہ مسلمانوں کے لیے پریشانی کا باعث تھا۔ اس لیے انہیں تسلی دیتے ہوئے صبر کی تلقین کی گئی ہے۔ یہ دنیا ہر کسی کے لیے آزمائش ہے خاص کر انبیاء اور مومنوں کے لیے اسے امتحان گاہ اور کڑی آزمائش کا ذریعہ بنایا گیا ہے۔ مومن کا مال اور اس کی جان آزمائش کی بھٹی میں اس لیے جھونکے جاتے ہیں تاکہ مال کا حق ادا کرنے کے بعد مومن کا مال خالص ہوجائے۔ مومنوں کو اس لیے آزمایا جاتا ہے کہ وہ دوسروں کے لیے نمونہ بن کر زندگی بسر کریں۔ آزمائش اور امتحان کا یہ بھی مقصد ہے کہ مومن دین کی سربلندی اور لوگوں کی خیر خواہی کے لیے قربانیاں پیش کریں۔ اس کے باوجود بھی غیر مسلم حسد و بغض کا مظاہرہ کرتے ہیں جس پر تسلی دینے کے لیے ارشاد ہوتا ہے اے مسلمانو! تم اللہ کی راہ میں سب کچھ قربان کرنے کے باوجود یہود و نصاریٰ اور مشرکین سے باتیں سنو اور تکلیفیں اٹھاؤگے۔ اگر صبر اور پرہیزگاری اختیار کرتے رہو گے تو یہ بڑے ہی عظمت والے کام ہیں۔ صاحب عزیمت لوگ ہی اللہ تعالیٰ کے دین کو سربلند کرنے والے اور دنیا وآخرت میں سرخرو ہوں گے۔ چنانچہ وہ کونسی اذیت اور طعن ہے جو رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نہیں دیا گیا۔ اہل کتاب اور مشرکین کی طرف سے آپ اور صحابہ کرام (رض) نے وہ دکھ اٹھائے کہ جس کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ مسائل ١۔ مسلمانوں کو مال اور ان کی جانوں کے ساتھ ضرور آزمایا جائے گا۔ ٢۔ یہود ونصاریٰ اور مشرکوں سے مسلمان بڑی تکلیفیں اٹھائیں گے۔ ٣۔ تکالیف پر صبر کرنا اور گناہوں سے بچنا بڑے عظیم کام ہیں۔ آل عمران
187 فہم القرآن ربط کلام : یہودیوں کے من گھڑت بہانے کی تردید کرنے کے بعد انہیں اظہارِ حق کے عہد کی یاد دہانی کروائی گئی ہے۔ یہود و نصاری نہ صرف نبی آخر الزماں (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اوصاف اور آپ کی نبوت کے ٹھوس دلائل چھپاتے ہیں۔ بلکہ انہوں نے ہر اس بات کو تورات اور انجیل سے نکال دیا ہے جو ان کے مفادات کے خلاف ہے حالانکہ ان سے اللہ تعالیٰ نے پختہ عہد لیا ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کے احکامات کو چھپانے کی بجائے انہیں کھول کھول کر لوگوں کے سامنے بیان کرو گے۔ انہوں نے اس عہد کو اس طرح فراموش کردیا اور دور پھینکا جس طرح کوئی شخص کسی چیز کو اپنے پیچھے پھینک کر الٹے منہ دیکھ نہیں سکتا۔ دنیا کے وقتی وقار، عارضی اقتدار، معمولی فائدے اور چند دمڑیوں کی خاطرانہوں نے اللہ کے احکام کو بیچ ڈالا۔ پھر اپنے کیے پر افسوس کا اظہار کرنے کی بجائے اس پر اترایا کرتے تھے۔ بڑا ہی برا کردار اور سودا ہے جو انہوں نے اختیارکیا۔ حضرت حسن بصری کی والدہ حضرت ام المومنین امّ سلمہ (رض) کی کنیز تھیں۔ اس بدولت حسن بصری نے حضرت ام المومنین امّ سلمہ (رض) کے ہاں پرورش پائی وہ اس آیت کی تصریح میں فرمایا کرتے تھے کہ یہ عہد اللہ تعالیٰ نے بالواسطہ امت محمدیہ کے علماء سے بھی لیا ہے کہ وہ حق کو چھپانے کے بجائے اسے ہر حال میں بیان کرتے رہیں گے۔ حضرت حسن بصری (رض) کا اپنا کردار یہ تھا کہ وہ حجاج بن یوسف پر سر عام تنقید کرتے۔ ایک دن حجاج نے انہیں بلا کر تلوار لہراتے ہوئے پوچھاکہ آپ میرے بارے میں یہ یہ باتیں کرتے ہیں؟ حضرت حسن بصری (رض) نے وہی باتیں حجاج کے رو برو کہتے ہوئے فرمایا کہ ہاں جب تک تم ان جرائم سے باز نہیں آؤ گے میں تمہیں ٹوکتا رہوں گا۔ اس کے بعد انہوں نے مذکورہ آیات کی تلاوت کرتے ہوئے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ہم سے سچ بولنے کا وعدہ لیا ہے جس کی پاسداری کرنا ہمارا فرض ہے۔ (تفسیررازی) مسائل ١۔ اہل کتاب نے دنیا کے تھوڑے سے مفاد کی خاطر اللہ کی کتاب کو پس پشت ڈالا اور تھوڑی قیمت کے بدلے بیچ دیا۔ آل عمران
188 فہم القرآن ربط کلام : قرآن مجید تحریری شکل میں نازل نہیں ہوا یہ پر مغز خطابی انداز میں نازل ہوا ہے اس لیے مخاطب کو سمجھانے کے لیے جس پیرائے اور الفاظ کی ضرورت ہوتی ہے وہی استعمال ہوتے ہیں جو موقعہ کے مطابق ہوں جس بنا پر بات کا تعلق بہت پیچھے کی بات سے جوڑ کر اسے کسی دوسرے انداز میں سمجھایا جاتا ہے یہاں یہ سمجھایا گیا ہے کہ جس دین کی مخالفت اور دنیا کی خاطر تم بخل اور خوشامد کرتے ہو اس وجہ سے جو تمہارا انجام ہونے والا ہے اس کی طرف توجہ دو۔ انسان کی اخلاقی گراوٹ کی انتہا دیکھنا ہو تو اس شخص کے کردار کی طرف دیکھیے جو گناہ پر معذرت کرنے کے بجائے اس پر اصرار کرتے ہوئے خوش ہوتا اور فخر محسوس کرتا ہے۔ ایسے آدمی کی عادت ہوجاتی ہے کہ وہ صرف صحت مند تنقید سننا گواراہی نہیں کرتا بلکہ وہ اپنے عمل اور ناپسندیدہ کردارکی بھی تعریف چاہتا ہے۔ جس شخص کی یہ حالت ہوجائے اس کے سنورنے کی تمام صورتیں ختم ہوجایا کرتی ہیں۔ اگر ایسا شخص کسی ملک یا قوم کا سربراہ ہو تو ہلاکت اس قوم کا مقدر ہوا کرتی ہے۔ اہل کتاب کے علماء اور زعماء کی یہی حالت تھی کہ وہ ہر حال میں اپنی تعریف سننا پسند کرتے تھے یہاں تک کہ جس کام کے ساتھ ان کا دور کا تعلق نہ ہوتا اس کی بھی تعریف چاہتے تھے۔ حتیٰ کہ مفاد پرست اور جاہل لوگ ان کی ذات اور خاندان میں وہ وہ خوبیاں ظاہر کرنے کی کوشش کرتے جن کا ان کے ہاں تصور بھی نہیں پایا جاتا تھا۔ اپنی کردہ اور ناکردہ خدمات کی تعریف چاہنے والا شخص مغرور‘ ریا کار اور خود پسند ہوجایا کرتا ہے۔ اس قسم کے کردار کے حامل لوگوں کے بارے میں کہا گیا ہے کہ وہ یہ نہ سمجھیں کہ آخرت میں بھی ان کی تعریف اور خوشامدہو گی اور وہ کامیاب ہوجائیں گے۔ ہرگز نہیں ان کے لیے تو رب ذوالجلال نے نہایت ہی تکلیف دہ عذاب تیار کر رکھا ہے۔ اس طرح کی اخلاقی بیماریوں سے بچنے اور بچانے کے لیے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کسی کے رو برو تعریف کرنے والے کے بارے میں فرمایا ایسا شخص دوسرے کو کند چھری کے ساتھ ہلاک کرتا ہے۔ (عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ اأَمَرَنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اأنْ نَّحْثُوَ فِیْ أَفْوَاہِ الْمَدَّاحِیْنَ التُّرَابَ) [ رواہ الترمذی : کتاب الزھد، باب ماجاء فی کراھیۃ المدحۃ والمداحین] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ ہمیں اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حکم دیا کہ ہم کسی کے منہ پر تعریف کرنے والے کے منہ میں مٹی ڈالیں۔“ (عَنِ ابْنِ أَبِیْ مُلَیْکَۃَ قَالَ اسْتَأْذَنَ ابْنُ عَبَّاس (رض) قَبْلَ مَوْتِھَا عَلٰی عَاءِشَۃَ وَھِیَ مَغْلُوْبَۃٌ قَالَتْ أَخْشٰی یُثْنِیَ عَلَیَّ فَقِیْلَ ابْنُ عَمِّ رَسُوْلِ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وَمِنْ وُجُوْہِ الْمُسْلِمِیْنَ قَالَتْ إِءْذَنُوْا لَہٗ فَقَالَ کَیْفَ تَجِدِیْنَکِ قَالَتْ بِخَیْرٍ إِنِ اتَّقَیْتُ قَالَ فَأَنْتِ بِخَیْرٍ إِنْ شَآء اللّٰہُ زَوْجَۃُ رَسُوْلِ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وَلَمْ یَنْکِحْ بِکْرًا غَیْرَکِ وَنَزَلَ عُذْرُکِ مِنَ السَّمَاءِ وَدَخَلَ ابْنُ الزُّبَیْرِ خِلَافَہٗ فَقَالَتْ دَخَلَ ابْنُ عَبَّاسٍ (رض) فَأَثْنٰی عَلَیَّ وَوَدِدْتُّ أَنِّیْ کُنْتُ نَسْیًا مَّنْسِیًّا) [ رواہ البخاری : کتاب التفسیر، باب ولولا إذ سمعتموہ قلتم مایکون لنا أن نتکلم بھذا] ” ابن ابی ملیکہ کہتے ہیں حضرت عائشہ (رض) جب موت کے قریب تھیں تو اس وقت عبداللہ بن عباس (رض) نے ان کے پاس آنے کی اجازت چاہی حضرت عائشہ (رض) نے فرمایا مجھے ڈر ہے کہ وہ میری تعریف نہ کرنے لگیں۔ کسی نے عرض کیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے چچا زاد بھائی اور خود بھی عزت دار ہیں اس پر انہوں نے کہا کہ انہیں اندر بلالو۔ ابن عباس (رض) نے ان سے پوچھا کہ آپ کس حال میں ہیں؟ اس پر انہوں نے فرمایا کہ اگر میں اللہ سے ڈرنے والی ہوں تو اچھا ہی اچھا ہے۔ عبداللہ بن عباس (رض) نے کہا انشاء اللہ آپ اچھی ہی رہیں گی آپ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زوجہ مطہرہ ہیں اور آپ کی براءت آسمان سے نازل ہوئی۔ حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کے تشریف لے جانے کے بعد آپ کی خدمت میں ابن زبیر (رض) حاضر ہوئے۔ حضرت عائشہ (رض) نے ان سے فرمایا کہ ابھی ابن عباس آئے تھے اور میری تعریف کی کاش! میں بھولی بسری گمنام ہوتی۔“ مسائل ١۔ جو لوگ ہر کام پر اپنی تعریف چاہتے ہیں وہ آخرت کے عذاب سے بچ نہیں سکیں گے۔ تفسیربالقرآن اپنی تعریف کروانا بہتر نہیں : ١۔ خواہ مخواہ تعریف کروانے والا جہنم میں جائے گا۔ (آل عمران : ١٨٨) ٢۔ اپنی پاک دامنی کا دعو ٰی کرنا بہتر نہیں۔ (النجم : ٣٢) ٣۔ اللہ کے نیک بندے شکریہ سے مبرّا ہوتے ہیں۔ (الدھر : ٩) ٤۔ پاک وہی ہے جسے اللہ پاک کرے۔ (النساء : ٤٩) آل عمران
189 فہم القرآن ربط کلام : ریاکاروں، کنجوسوں، خوشامدیوں اور اللہ کے منکروں کو سوچنا چاہیے کہ زمین و آسمان کی بادشاہی اور ملکیت کس کے پاس ہے ؟ صرف اللہ تعالیٰ کے پاس ہے تعریف تو اس کی ہونا چاہیے۔ اگر سمجھنا چاہو تو اس نے زمین و آسمان کے درمیان اور لیل ونہار کے آنے جانے میں بہت سی نشانیاں رکھ دی ہیں دوسری طرف مسلمانوں کو سمجھایا کہ جس طرح رات اور دن کا آنا جانا ہے اسی طرح زندگی میں دکھ، سُکھ، خوشی، غم، کامیابی اور ناکامی ایک دوسرے کے ساتھ لگے ہوئے ہیں۔ اس میں مومن کے لیے خوش خبری اور اطمینان کاسبق ہے۔ ” لُبْ“ کا معنی ہے عقل اور الباب اس کی جمع ہے۔ زمین و آسمان کی ملکیت توایک اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ اس کی خدائی کا ثبوت چاہتے ہو تو زمین و آسمان کی پیدائش اور لیل و نہار کی گردشوں پر غور کرو۔ لہٰذاہر قسم کی تعریف ذات کبریا کو لائق ہے اور وہی زمین و آسمان کا مالک اور ان کے چپے چپے پر اختیار اور اقتدار رکھنے والا ہے۔ لیکن نشانات قدرت پر عقل مند ہی غور و خوض کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی نافرمانیوں پر خوش ہونے اور اپنی تعریف کروانے والے لوگ اس کی پکڑ سے نہیں بچ سکتے۔ کیونکہ ہر چیز پر اسی کا کنٹرول ہے۔ مسائل ١۔ آسمانوں اور زمین کی ملکیت اللہ کے لیے ہے اور اللہ ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے۔ ٢۔ زمین و آسمان کی تخلیق، رات اور دن کی تبدیلی میں اللہ تعالیٰ کی قدرت کے نشانات ہیں۔ تفسیربالقرآن سب کچھ اللہ ہی کی ملکیت ہے : ١۔ مشرق ومغرب اللہ کے لیے ہے۔ (البقرۃ: ١٤٢) ٢۔ زمین و آسمان اللہ کی میراث ہیں۔ (آل عمران : ١٨٠) ٣۔ زمین و آسمان پر اللہ کی بادشاہی ہے۔ (آل عمران : ١٨٩) ٤۔ قیامت کو بھی اللہ تعالیٰ ہی کی حکومت ہوگی۔ (الفرقان : ٢٦) آل عمران
190 آل عمران
191 فہم القرآن ربط کلام : اللہ کے بندے ہر حال میں اس کے شکر گزار‘ اس کی عبادت میں محو اور اس کے ذکر و فکر میں مشغول رہتے ہیں، یہی دانشمندی ہے۔ اللہ تعالیٰ خالق کل اور حاکم مطلق ہے۔ اگر وہ چاہتا تو صرف حکم دیتا کہ میری ذات اور بات مانو لیکن اس نے اپنی ذات کو حاکم کی حیثیت سے ہی نہیں بلکہ خالق و مالک اور رحمن و رحیم کے طور پر تسلیم کرنے کی دعوت دی ہے اس لیے وہ انسان کو اس کی تخلیق، اپنی قدرتوں اور کائنات کی بناوٹ اور سجاوٹ پر غور و فکر کی دعوت دیتا ہے تاکہ عقل و فکر اور دل کی اتھاہ گہرائیوں کے ساتھ اس پر ایمان لایا جائے۔ ایسا ایمان ہی آدمی کی فکر میں تبدیلی اور اس کے کردار میں نکھار پیدا کرتا ہے۔ اسی بنا پر قرآن مجید بار بار آدمی کی توجہ کائنات کی تخلیق اور اللہ کی قدرت وسطوت کی طرف دلاتا ہے۔ یہاں تک کہ قرآن انسان کو اپنے اندر جھانکنے کی دعوت دیتا ہے کیونکہ یہی لوگ غور و فکر اور دلائل کی بنیاد پر اللہ تعالیٰ کی بات اور ذات کو پہچانتے اور یاد رکھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کو یاد رکھنے کے تین طریقے ہیں کیونکہ آدمی تین حالتوں میں سے کسی ایک حالت میں ہی ہوتا ہے۔ کھڑا، بیٹھا اور لیٹا ہوا۔ چلنے پھرنے کی حالت کھڑے ہونے میں شمار ہوتی ہے۔ ذکر کا حقیقی مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کی صفات کا ادراک واعتراف کرتے ہوئے اس کے حکم کے مطابق اس کی عبادت کی جائے۔ جب اللہ تعالیٰ کی ذات کا شعور نصیب ہوجائے تو پھر انسان ان تینوں حالتوں میں جس حالت میں بھی ہو۔ وہ اللہ تعالیٰ کو یاد رکھتا ہے۔ نماز افضل ترین ذکر ہونے کی بنا پر فرض ہے۔ اس کے بارے میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ملاحظہ فرمائیں : (عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَیْنٍ (رض) قَالَ کَانَتْ بِیْ بَوَاسِیْرُ فَسَأَلْْتُ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عَنِ الصَّلَاۃِ فَقاَلَ : صَلِّ قَاءِمًا فإِنْ لَّمْ تَسْتَطِعْ فَقاَعِدًا فَإِنْ لَّمْ تَسْتَطِعْ فعَلٰی جَنْبٍ) [ رواہ البخاری : کتاب الجمعۃ، باب إذا لم یطق قاعدا صلی علی جنب] ” حضرت عمران بن حصین (رض) بیان کرتے ہیں کہمجھے بواسیر کی تکلیف تھی تو میں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نماز پڑھنے کے متعلق سوال کیا۔ آپ نے فرمایا : کھڑے ہو کر نماز پڑ ھو کھڑے ہو کر پڑھنے کی طاقت نہیں رکھتا تو پھر بیٹھ کر پڑھ اور اگر اس کی بھی طاقت نہیں تو لیٹ کر۔“ شعور کی دولت اور اللہ تعالیٰ کی محبت اس وقت حاصل ہوتی ہے جب انسان اس کی تخلیقات اور زمین و آسمان کی بناوٹ وسجاوٹ پر فکر و تدبر اختیار کر ے۔ پھر انسان اس نتیجے پر پہنچے بغیر نہیں رہ سکتا کہ اس کے جسم کا ایک ایک رونگٹا اور دل کا ایک ایک گوشہ پکار اٹھتا ہے کہ اے ہمارے رب! تو نے جو کچھ بھی پیدا کیا ہے۔ وہ بے مقصد پیدا نہیں فرمایا۔ اس لیے ہر چیز تیری حکمت اور حکم کے مطابق اپنی تخلیق کے مقصد پر لگی ہوئی ہے۔ اے ہمارے رب! تو ہر عیب سے پاک ہے۔ ہم نے نافرمانیاں کر کے اپنے آپ کو ناپاک بنایا اور اپنی زندگی کے مقصد کو کھویا اور ضائع کرلیا ہے۔ ہماری تیرے حضور التجا ہے کہ ہمیں معاف فرما کر آگ کے عذاب سے محفوظ رکھنا۔ (آمین) غور وفکر کے نتائج اور سائنسدانوں کے مشاہدات ماہر طبقات الأرض جے‘ ڈبلیوڈاسن : ” حق تو یہ ہے کہ عبادت کا فلسفیانہ تصور پیدا کرنے کے لیے اصول وقوانین پر ایمان لانا لابدی ہے۔ اگر کائنات بے ترتیب اتفاقات کا نتیجہ ہوتی یا محض کسی ضرورت یاحاجت کی پیداوار ہوتی تو سوچ سمجھ کر عبادت کرنے کی ضرورت کبھی پیش نہ آتی۔ جب ہم یہ تسلیم کرتے ہیں کہ یہ کائنات ایک حکیم ودانا کی تدبیر کا مظہر ہے وہی ذات بے ہمتا اسے کمال حکمت ودانائی سے چلا رہی ہے اسی حالت میں ہمارے دل میں یہ احساس ابھرتا ہے کہ ہم اس بے مثل ذات کو ہر چیز کا آقا ومولیٰ تصور کرکے، اس کی بے پناہ دانائی اور محبت پر اعتماد کرتے ہوئے اس کے حضور دعا کے لیے ہاتھ اٹھائیں۔“ جہاں تک میرے شعبے کا تعلق ہے ہم لوگ ہر چیز کو وسیع پیمانے پر دیکھنے کے عادی ہیں۔ وقت کا شمار تاریخ ارضی کے پچاس کھرب سال اکائیوں میں کرتے ہیں اور فضا کا اندازہ زمین کے محیط سے اور عمل کائنات کا اندازہ عالمی گردش سے کرتے ہیں۔ ان تمام اندازوں کی وسعت سے ناگزیر طور پر عقیدہ میں اضافہ ہوتا ہے۔ جو انسان مذہب کا دلدادہ نہ ہو وہ بھی ان حیرت پرور اشیاء کو دیکھ کر اپنے دل میں خوف وہیبت محسوس کرتا ہے اور اسے بھی تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ : ” آسمان خدا کی عظمت کے شاہد ہیں اور یہ کائنات اس کے کرشمۂ تخلیق کا ثبوت ہے۔“ مرلن گرانٹ سمتھ (ماہر ریاضیات وفلکیات): خدا کے بارے میں انسان کے دل میں جو سوال پیدا ہوتا ہے اس کا خالق اور مخلوق دونوں کے سامنے جواب دہی سے بڑاقریبی تعلق ہے اس لیے جواب کا فیصلہ کرنے میں بڑی احتیاط کی ضرورت ہے اگر خدا ہے تو وہ صرف ہمارا پیدا کرنے والا ہی نہیں ہے بلکہ ہمارا مالک وآقا بھی ہے اس لیے ہمیں اس کے دونوں قسم کے پسندیدہ افعال واعمال کے بارے میں معلومات حاصل کرنی چاہئیں، یعنی ان افعال کے بارے میں بھی جن کا تعلق براہ راست خدا سے ہے اور ان کے بارے میں بھی جن کا تعلق ہمارے ہم جنس انسانوں سے ہے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ بہت چوٹی کے اہل علم نے حال ہی میں اس بات کا بالواسطہ یا بلا واسطہ اعتراف کیا ہے کہ خدا ہے۔ میں ان میں چند اقوال یہاں پیش کرنے کی اجازت چاہتاہوں۔ مثلًا سرجیمر جینز کہتے ہیں : ” ہماری کائنات ایک بڑی مشین کے مقابلے میں ایک عظیم خیال سے زیادہ مشابہ ہے یہ بات ایک سائنسی حقیقت کی طرح نہیں بلکہ گمان کے طور پر کہتاہوں کہ یہ کائنات کسی بڑے آفاقی ذہن کی پیداوارہے جو ہمارے تمام ذہنوں سے مطابقت رکھتا ہے اور سائنس کے تصوّرات بھی اب اسی طرف اقدام کرتے نظر آتے ہیں۔“ جارج رومینس جو ایک بڑا فاضل حیاتیات ہے لکھتا ہے : ” علم نجوم کی نئی معلومات سے جن کا حصول نئی میکانیات اور ذراتی علم کی بنا پر ممکن ہوا ہے کائنات کی طبیعیاتی بلندیوں خصوصًا اس مسلسل عمل اور ردّ عمل کو دیکھ کر ہمارے دماغ چکراگئے ہیں جو وہاں نظر آرہا ہے۔ یہ تمام بلکہ ان سے اور بھی زیادہ معلومات کا حصول اس مسلسل تلاش وجستجو کامر ہون منّت ہے جو اسباب اور ان کے پس پردہ نتائج معلوم کرنے کے لیے جاری ہے۔ اسباب ونتائج کو ایک دوسرے سے جد انہیں کیا جاسکتا۔ یہ دونوں معنوی طور پر ایک وحدت ہیں۔ ہم انسان اور ہمارے گردوپیش کی دنیا سب مل کر نتائج کا ایک مجموعہ ہیں اور اس مجموعہ کی تہہ میں اس کے پس پشت ایک غیر مرئی سبب اور ازلی علّت موجود ہے جس کو میں خدا کہتاہوں۔“ [ ماخوذ از : خدا موجود ہے، چالیس سائنسدانوں کی شہادت] مسائل ١۔ اللہ کے بندے اٹھتے بیٹھتے اور اپنے بستروں پر اللہ تعالیٰ کا ذکر اور اس کی قدرتوں پر غور و خوض کرتے ہیں۔ تفسیربالقرآن دعوت فکر : ١۔ حق پہچاننے کے لیے آفاق پر غور کرنے کی دعوت۔ (حمٓ السجدۃ: ٥٣) ٢۔ اپنی ذات پر غور وفکر کی دعوت۔ (الذاریات : ٢١) ٣۔ رات کے سکون پر غور کرنے کی دعوت۔ (القصص : ٧٢) ٤۔ دن رات کے بدلنے میں غور و خوض کی دعوت۔ (المومنون : ٨٠) ٥۔ شہد کی بناوٹ پر غور کرنے کی دعوت۔ (النحل : ٦٩) آل عمران
192 فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ کی یاد کا تقاضا ہے کہ انسان کی فکر کا نتیجہ مثبت ہو اور وہ اپنے رب کی پکار پر لبیک کہتے ہوئے اس کے عذاب سے پناہ اور اس کی عطاؤں کا طلب گار رہے۔ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ ایسے فکر وعمل کا حامل مرد ہو یا عورت اللہ تعالیٰ کسی ایک کے اجر کو ضائع نہیں کرے گا۔ حقیقی دانشمند لوگ اللہ تعالیٰ کی قدرت کے نشانات اور عجائبات دیکھنے کے بعد نہ صرف ہر حال میں اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کے احکامات کو یاد رکھتے ہیں بلکہ وہ برملا اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ ہمارے خالق و مالک نے زمین و آسمان کی کسی چیز کو بھی بے مقصد پیدا نہیں کیا۔ ہر چیز اللہ تعالیٰ کے حکم سے اپنی تخلیق کے مقصد کو پورا کر رہی ہے۔ اس حقیقت کے اعتراف کے بعد انہیں اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ انسان بھی ایک عظیم مقصد کے لیے پیدا کیا گیا ہے۔ وہ مقصد اللہ تعالیٰ کی غلامی میں رہتے ہوئے دنیا میں اس کی خلافت کا حق ادا کرنا ہے۔ اس مقصد کے حصول میں صادر ہونے والی کمزوریوں کا احساس کرتے ہوئے انسان پکار اٹھتا ہے۔ الٰہی ! ہم نے اس مقصد کو پانے میں کوتاہی کی۔ ہماری تیرے حضور عاجزانہ التجا ہے کہ تو اپنی ناراضگی اور جہنم کی آگ سے بچائے رکھ۔ کیونکہ جو جہنم کی آگ میں داخلہوا اس کی مدد کرنے والا کوئی نہیں ہوگا اور وہ ذلیل و خوار ہوجائے گا۔ اس کے بعد مومنوں کی چھ دعاؤں کا ذکر اور ان کی قبولیت کا بیان ہوتا ہے۔ ہمیں ان دعاؤں کا اہتمام کرنا چاہیے۔ اے ہمارے رب! ہم نے تیری قدرتوں کے نشانات دیکھے! ہم نے تیرے رسول کی دعوت کو قبول کیا۔ ہم تیری ذات پر ایمان لائے کہ تو ہی ہمارا خالق‘ رازق اور مالک ہے۔ ہماری عاجزانہ درخواست ہے کہ ہمارے گناہوں کو معاف فرما‘ ہمیں گناہوں اور غلطیوں سے بچنے کی توفیق نصیب فرما اور ہمارا خاتمہ نیک لوگوں کے ساتھ فرما اور جو تو نے اپنے انبیاء کے ذریعے اپنے بندوں کے ساتھ وعدے فرمائے وہ سب کچھ ہمیں عطا فرما اور قیامت کے دن ذلت ورسوائی سے محفوظ رکھ۔ بے شک تو وعدہ خلافی نہیں کرتا۔ مومنوں کا کردار اور اخلاص دیکھ کر اللہ تعالیٰ اپنی شفقت و مہربانی سے جواب عنایت فرماتا ہے کہ ان کے رب نے ان کے اخلاص‘ کردار اور دعاؤں کو قبول کرلیا ہے۔ اس کا اعلان ہے کہ مرد ہو یا عورت کسی عمل کرنے والے کے عمل کو ضائع نہیں کرے گا۔ جنہوں نے اللہ کی راہ میں ہجرت کی یا انہیں ان کے گھروں سے جبراً نکال دیا گیا میرے راستے میں انہوں نے دکھ اٹھائے‘ لڑے اور شہید ہوئے ان کے گناہوں کو ضرور معاف کیا جائے گا اور ان کے لیے باغات ہوں گے۔ جن میں نہریں جاری ہیں یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کے لیے اجر و ثواب ہوگا اور اللہ تعالیٰ کے پاس بہترین عطا اور جزا ہے۔ (عَنْ أَبِیْ سَعِیْدِ نِ الْخُدْرِیِّ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) إِنَّ اللّٰہَ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی یَقُوْلُ لِأَھْلِ الْجَنَّۃِ یَاأَھْلَ الْجَنَّۃِ فَیَقُوْلُوْنَ لَبَّیْکَ رَبَّنَا وَسَعْدَیْکَ فَیَقُوْلُ ھَلْ رَضِیْتُمْ فَیَقُوْلُوْنَ وَمَالَنَا لَانَرْضٰی وَقَدْ أَعْطَیْتَنَا مَالَمْ تُعْطِ أَحَدًا مِّنْ خَلْقِکَ فَیَقُوْلُ أَنَا أُعْطِیْکُمْ أَفْضَلَ مِنْ ذٰلِکَ قَالُوْا یَارَبِّ وَأَیُّ شَیْءٍ أَفْضَلُ مِنْ ذٰلِکَ فَیَقُوْلُ أُحِلُّ عَلَیْکُمْ رِضْوَانِیْ فَلَا أَسْخَطُ عَلَیْکُمْ بَعْدَہٗ أَبَدًا ) [ رواہ البخاری : کتاب الرقاق، باب صفۃ الجنۃ والنار] ” حضرت ابوسعید خدری (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اللہ تبارک وتعالیٰ جنتیوں کو فرمائے گا کہ اے جنتیو! جنتی عرض کریں گے اے ہمارے رب! ہم حاضر ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کیا تم راضی ہو؟ جنتی کہیں گے ہم کیوں راضی نہ ہوں۔ کیونکہ آپ نے ہمیں وہ کچھ عطا کیا ہے جو آپ نے اپنی مخلوق میں سے کسی کو بھی عطا نہیں کیا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا میں تمہیں اس سے بھی افضل چیز دینا چاہتاہوں۔ جنتی کہیں گے اے ہمارے رب ! اس سے افضل چیز کون سی ہو سکتی ہے ؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا میں تم پر راضی ہوگیا ہوں اور اس کے بعد تم پر کبھی ناراض نہیں ہوں گا۔“ مسائل ١۔ جسے اللہ تعالیٰ نے آگ میں داخل کردیا وہ ذلیل ہوا اور اس کا کوئی مددگار نہیں ہوگا۔ ٢۔ نیک اعمال کرنے والی عورت ہو یا مرد اللہ تعالیٰ کسی کا عمل ضائع نہیں کرے گا۔ ٣۔ اللہ کے راستے میں لڑنے‘ مرنے‘ تکلیف اٹھانے اور ہجرت کرنے والے کے گناہ معاف کر کے اللہ تعالیٰ اسے جنت میں داخل فرمائے گا۔ تفسیربالقرآن اللہ تعالیٰ کسی کے عمل کو ضائع نہیں کرے گا : ١۔ اللہ تعالیٰ کسی کی نماز ضائع نہیں کرے گا۔ (البقرۃ: ١٤٣) ٢۔ اللہ تعالیٰ مومنوں کا اجر ضائع نہیں کرتا۔ (آل عمران : ١٧١) ٣۔ نیکو کار کا اجر ضائع نہیں ہوتا۔ (التوبۃ: ١٢٠) ٤۔ مصلح کا اجر ضائع نہیں ہوتا۔ (الاعراف : ١٧٠) ٥۔ نیک عمل کرنے والے کا عمل برباد نہیں ہوگا۔ (الکہف : ٣٠) ٦۔ کسی مرد وزن کی نیکی ضائع نہیں ہوگی۔ (آل عمران : ١٩٥) آل عمران
193 آل عمران
194 آل عمران
195 آل عمران
196 فہم القرآن ربط کلام : اپنی بادشاہی اور زمین و آسمانوں کے عبرت انگیز نشانات وآثارات کی نشاندہی‘ ان پر مومنوں کی طرز فکر اور دعاؤں کے ذکر کے بعدمومنوں کے بہتر انجام کے بیان کے ساتھ نصیحت کی جارہی ہے کہ کفار کے کرّوفر پر فریفتہ نہیں ہونا، یہ تو دنیا کی زندگی کا عارضی سامان ہے تمہیں جنت کی ہمیشہ رہنے والی نعمتیں عطا کی جائیں گی۔ قرآن مجید انسان کو بار بار یہ حقیقت بتلاتا اور سمجھاتا ہے کہ دنیا اور اس کی ہر چیز عارضی، ناپائیدار اور بہت جلد ختم ہونے والی ہے۔ نادان ہے وہ انسان جو اس کی زیب و زینت پر فریفتہ ہو کر اپنی زندگی کے اصل مقصد کو کھو بیٹھتا ہے۔ اس دنیا کی شادابی اور حسن و زیبائی نظر کا فریب اور دماغ کا دھوکا ہے جس کے پیچھے لگ کر آدمی اپنی دائمی زندگی اور ہمیشہ رہنے والی نعمتوں کو فراموش کرتا اور لامتناہی مستقبل کو تاریک کرکے جہنم کا خریداربن جاتا ہے۔ یہ طرز حیات ایک مومن کا نہیں بلکہ اللہ کے منکر اور باغی کا ہوا کرتا ہے۔ مسئلہ کی اہمیّت کے پیش نظر بظاہر نبی محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مخاطب کیا ہے لیکن حقیقتاً ایمانداروں کو تاریک مستقبل اور جہنم کی ہولناکیوں سے بچنے کا احساس دلایا گیا ہے کہ دنیا کاسروسامان اور عیش و عشرت نہایت مختصر ہے۔ لہٰذا کفار کے کرّو فر، شان و شوکت اور ان کی زندگی کی چہل پہل مومنوں کو عظیم مقصد سے غافل اور اس غلط فہمی کا شکار نہ کردے کہ شاید اللہ تعالیٰ ان پر راضی ہے جس کی وجہ سے انہیں دنیا کی ترقی سے نوازا گیا ہے۔ جب کہ دنیا کی حقیقت یہ ہے : ( لَوْ کَانَتِ الدُّنْیَا تَعْدِلُ عِنْدَ اللّٰہِ جَنَاحَ بَعُوْضَۃٍ مَاسَقٰی کَافِرًا مِّنْہَا شُرْبَۃَ مَاءٍ )[ رواہ الترمذی : کتاب الزھد] ” اگر دنیاکی قدرو منزلت اللہ تعالیٰ کے ہاں ایک مچھر کے پر کے برابر بھی ہوتی تو دنیا میں کسی کافر کو پانی کا ایک گھونٹ بھی نصیب نہ ہوتا۔“ ” حضرت عبد اللہ (رض) فرماتے ہیں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک چٹائی پر سوئے تو آپ کے پہلو پر نشان پڑگئے۔ ہم نے عرض کی اللہ کے رسول! اگر ہم آپ کے لیے اچھا سا بستر تیار کردیں ؟ آپ نے فرمایا میرا دنیا کے ساتھ ایک مسافر جیسا تعلق ہے جو کسی درخت کے نیچے تھوڑا سا آرام کرتا ہے پھر اسے چھوڑ کر آگے چل دیتا ہے۔“ [ رواہ الترمذی : کتاب الزھد] مسائل ١۔ کفار کی ترقی اور عیش و عشرت سے دھوکا نہیں کھانا چاہیے۔ ٢۔ کافروں کے لیے بالآخر جہنم ہوگی۔ آل عمران
197 آل عمران
198 فہم القرآن ربط کلام : کفار کی شان وشوکت پر فریفتہ ہونے کی بجائے جنت کی نعمتوں پر نظر رکھتے ہوئے مسلمانوں کو اسلام کی سربلندی‘ ذاتی کردار اور اپنی ترقی پر محنت کرنا چاہیے۔ قرآن مجید اپنے اسلوب کو برقرار رکھتے ہوئے یہاں پھر کفار کی سزا کا ذکر کرنے کے فوراً بعد مومنوں کے صلہ اور انعام کا ذکر کرتا ہے۔ تاکہ کتاب الٰہی کی تلاوت کرنے والا فوری طور پر دو کرداروں اور ان کے انجام کا تجزیہ کرتے ہوئے اپنی اصلاح پر غور کرے۔ ارشاد ہوتا ہے کہ جو لوگ اللہ تعالیٰ کی نافرمانیوں سے اجتناب اور دنیا پر فریفتہ ہونے سے بچے رہے۔ ان کے لیے ان کے رب کے ہاں باغ و بہار ہیں جن میں ہر دم نہریں اور آبشاریں جاری ہیں وہ اس میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔ ان کو وہاں نہ مشقت ہوگی اور نہ کسی قسم کی پریشانی‘ بلکہ وہ تو ہمیشہ کے لیے اللہ تعالیٰ کے مہمان ہوں گے۔ ایسے نیکو کار لوگوں کا اللہ تعالیٰ کے ہاں بڑا ہی انعام و اکرام ہوگا۔ ” حضرت ابوہریرہ (رض) نبی گرامی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں رسول اللہ نے فرمایا جنت میں اعلان کرنے والا اعلان کرے گا کہ تم تندرست ہی رہو گے کبھی بیمار نہ ہوگے، تم ہمیشہ زندہ رہو گے کبھی فوت نہ ہو گے‘ تم ہمیشہ جوان رہو گے کبھی تمہیں بڑھاپا نہیں آئے گا اور تم ہمیشہ نعمتوں میں رہو گے ان سے تمہیں محروم نہیں کیا جائے گا۔ یہ اللہ کا فرمان ہے کہ جنتیوں کو آواز دے کر بتایا جائے گا کہ یہ جنت ہے جس کا تمہیں وارث بنایا گیا ہے کیونکہ تم نیک اعمال کرتے تھے۔“ [ رواہ مسلم : کتاب الجنۃ وصفۃ نعیمھا وأھلھا] مسائل ١۔ رب سے ڈرنے والوں کے لیے ہمیشہ کی جنت ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کے مہمان ہوں گے۔ تفسیربالقرآن اللہ تعالیٰ کی مہمان نوازی : ١۔ مومن جنت الفردوس میں مہمان ہوں گے۔ (الکہف : ١٠٧) ٢۔ مومنوں کی جنت میں مہمان نوازی ہوگی۔ (السجدۃ: ١٩) ٣۔ مہمان نوازی رب رحیم کی طرف سے ہوگی۔ (حمٓ السجدۃ: ٣٢) آل عمران
199 فہم القرآن ربط کلام : مسلمانوں کے بعد اہل کتاب میں سے ا یمان والوں کا خصوصی ذکر اور اجر۔ اس سورت میں یہودیوں کے کردار کا ضمناً اور عیسائیوں کے کردار اور عقائد کا تفصیلی تجزیہ کیا گیا ہے۔ جس میں ان کے فکر و عمل کی کمزوریوں کی نشان دہی کی گئی۔ لیکن اس کے ساتھ ہی وضاحت فرمائی کہ اہل کتاب تمام کے تمام ایک جیسے نہیں ہیں۔ ان میں اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے والے‘ شب زندہ دار، نیکی کا حکم دینے اور برائی سے روکنے والے بھی ہیں۔ اس فرمان سے پہلے مومنوں کی دعاؤں کی قبولیت اور بلا امتیاز ان کو اجر و ثواب کی خوشخبری دی گئی ہے۔ اب اختتام پر ضروری سمجھا گیا ہے کہ اہل کتاب کے ان لوگوں کو اطمینان دلایا جائے جو، تورات اور انجیل کے بعد قرآن مجید پر بھی ایمان رکھتے ہیں اور اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی آیات کو دنیا کی حقیر اور قلیل قیمت کے بدلے فروخت کرنے پر تیار نہیں ہوتے۔ انہوں نے دنیا میں معمولی صلہ پانے کی بجائے آخرت کے اجر وثواب کی خاطر ایسا کیا ہے۔ جس بنا پر انہیں یہ تسلی دی گئی ہے کہ ان کا اجر ان کے رب کے ہاں محفوظ ہے۔ جوا نہیں اللہ تعالیٰ بہت جلد عطا کرنے والا ہے۔ ” حضرت عبداللہ بن قیس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تین آدمی ہیں جنہیں دوہرا اجر ملے گا۔1 اہل کتاب میں سے جو اپنے نبی اور محمد کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لایا۔2 غلام جو اللہ کا حق ادا کرنے کے ساتھ اپنے مالک کا حق بھی ادا کرتا ہے۔ 3 ایسا آدمی جس کے پاس لونڈی ہو اس نے اس کی اچھی تعلیم وتربیت کی پھر اسے آزاد کرکے اس کے ساتھ نکاح کرلیا۔“ [ رواہ البخاری : کتاب العلم، باب تعلیم الرجل أمتہ وأھلہ] مسائل ١۔ اہل کتاب میں سے ایمان لانے والوں کے لیے اللہ کے ہاں بڑا اجر ہوگا۔ ٢۔ اللہ جلد حساب لینے والاہے۔ آل عمران
200 فہم القرآن ربط کلام : جنت کی نعمتوں کے حصول اور اسلام کی سربلندی کے لیے مومنوں کو امن ہویاجنگ ہر حال میں اللہ سے ڈرنا اور ثابت قدم رہنا ہوگا۔ سورۃ کی اختتامی آیات میں کفار کی دنیاوی شان و شوکت کا بیان ہوا اور اس پر مسلمانوں کو ہدایت فرمائی گئی کہ ہر مسلمان کو زندگی کے نشیب و فراز اور اسلام دشمنوں کے مقابلہ میں صبر و استقلال اختیار کرنا چاہیے اور اپنے مسلمان بھائی کو اس کی تلقین کرتے ہوئے ایک دوسرے سے بڑھ کر صبر و استقلال کا مظاہرہ اور باہم رابطہ رکھتے ہوئے جہاد کی تیاری کرنا چاہیے۔ مشکلات پر قابو پانے کا یہی مؤثر ذریعہ ہے کہ آدمی ایک دوسرے کی ڈھارس بندھاتے ہوئے آگے بڑھے۔ ” رَابِطُوْا“ کا دوسرا معنی کفار کے خلاف منصوبہ بندی اور جنگی تیاری کرنا ہے اور رات کے وقت مجاہدین کی نگرانی اور حفاظت کرنے کو رباط کہا گیا ہے۔ (عَنْ سَلْمَانَ (رض) قَالَ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَقُوْلُ رِبَاطُ یَوْمٍ وَّلَیْلَۃٍ خَیْرٌ مِّنْ صِیَامِ شَھْرٍ وَقِیَامِہٖ وَإِنْ مَاتَ جَرٰی عَلَیْہِ عَمَلُہُ الَّذِیْ کَانَ یَعْمَلُہٗ وَأُجْرِیَ عَلَیْہِ رِزْقُہٗ وَأَمِنَ الْفَتَّانَ) [ رواہ مسلم : کتاب الإمارۃ] ” حضرت سلمان (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے ہوئے سنا کہ ایک دن اور رات کا پہرہ مہینہ بھر روزے رکھنے اور ان کی راتوں کا قیام کرنے سے بہتر ہے۔ اگر پہرے دار اسی حالت میں فوت ہوجائے تو جو عمل کرتا تھا اس کا اجر اسے برابر ملتا رہے گا اور اس کا رزق جاری ہونے کے ساتھ وہ آخرت کے فتنوں سے محفوظ رہے گا۔“ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : (اَلصَّبْرُ عِنْدَ الصَّدْمَۃِ الْأُوْلٰی) [ رواہ البخاری : کتاب الجنائز] ” اجر ابتداً مصیبت پر صبر کرنے پر ہے۔“ مسائل ١۔ ایمان داروں کو خود صبر کرتے ہوئے ایک دوسرے کو صبر کی تلقین کرنے کے ساتھ جہاد کے لیے مستعدرہنا چاہیے۔ تفسیربالقرآن صبر کی تلقین : ١۔ ایک دوسرے کو صبر کی تلقین کرنے کا حکم۔ (آل عمران : ٢٠٠) ٢۔ کامیاب لوگ ایک دوسرے کو صبر کی تلقین کرتے ہیں۔ (العصر : ٤) ٣۔ صابر بغیر حساب کے جنت میں جائیں گے۔ (الزمر : ١٠) آل عمران
0 مقام نزول مدینہ۔ آیات ١٧٦۔ الفاظ ٣٣٥ اور اس کے ٢٤ رکوع ہیں۔ ربط سورۃ: البقرہ میں مرکزی مضمون بنی اسرائیل کا کردار تھا اور اکثر مقامات میں بنی اسرائیل سے مراد یہودی ہیں۔ سورۃ آل عمران میں سر فہرست عیسائیوں کے عقیدہ و کردار پر بحث کی گئی ہے۔ سورۃ النساء میں مسلمانوں کے باہمی حقوق کے بیان کے ساتھ درج ذیل مضامین ذکر کیے گئے ہیں۔ (١) سورۃ النساء کی ابتداء میں اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات سے ڈرنے کا حکم دینے کے بعد لوگوں کو یہ بتلایا ہے کہ تم ایک ہی جان سے پیدا کیے گئے ہو۔ اس لیے اللہ سے ڈرتے ہوئے ایک دوسرے کے حقوق پورے کرو۔ بالخصوص یتیموں اور عورتوں کے حقوق کا خیال رکھنا پھر مالی‘ معاشرتی اور اخلاقی حدود و قیود کا خیال رکھنے کا حکم دیا ہے۔ ان حقوق کے تحفظ کا حکم دیتے ہوئے یہ یقین دہانی کروائی ہے کہ اگر تم کبیرہ گناہوں سے بچو گے تو یقیناً اللہ تعالیٰ تمہیں جنت میں داخل فرمائے گا۔ (٢) کردار کی پاکیزگی کے بعد جسمانی طہارت کے لیے غسل‘ وضو اور تیمم کا طریقہ بتایا گیا ہے۔ (٣) عقیدہ کی پختگی اور اس کے نکھار کے لیے شرک سے اجتناب کرنے کا حکم دیا اور شرک کو بدترین گناہ قرار دیا ہے۔ (٤) اہل کتاب کو بار بار انتباہ کرنے کے بعد وارنگ دی گئی اگر تم باز نہ آئے تو تم پر ایسا عذاب مسلط ہوگا جس سے تمہارے چہرے مسخ ہوجائیں گے۔ (٥) اہل کتاب نے ہر قسم کی امانت میں خیانت کی تھی لہٰذا اس سے بچنے کے لیے امت کو امانتوں کا خیال رکھنے کا حکم دیا ہے۔ (٦) مسلمانوں کو ہر حال میں اللہ اور اس کے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور خلیفہ وقت کی اطاعت کرنی چاہیے خلیفہ سے اختلاف اور باہمی تنازعات کو اللہ اور اس کے رسول کی طرف لوٹانے کا حکم دیا گیا ہے اور جو شخص اللہ کے رسول کو فیصل تسلیم نہیں کرتا اس کے ایمان کی یکسر نفی کردی گئی ہے۔ (٧) مسلمانوں کو ہر حال میں اپنا بچاؤ کرنے کا حکم دیتے ہوئے جہاد فی سبیل اللہ کی فضیلت‘ معذورین کو رخصت دی اور مسلمانوں کو موت سے بے خوف ہونے کا تصور دیا ہے۔ (٨) حالت جہاد میں کوئی کافر حلقہ اسلام میں داخل ہونے کا اعلان کرے تو اس کے اسلام قبول کرنے کا حکم دیا اور مومن کی حرمت کا حکم دیتے ہوئے اس کے قتل کی سزا بیان کی گئی ہے۔ (٩) کتاب اللہ کے نازل کرنے کی غرض و غایت یہ بیان فرمائی کہ مسلمانوں کے تمام فیصلے اسی کے مطابق ہونے چاہییں۔ (١٠) منافقوں کی عادات اور کردار بیان کرتے ہوئے ان کا انجام ذکر کیا گیا ہے کہ وہ جہنم کے نچلے طبقے میں ہوں گے۔ (١١) اہل کتاب کو شرک اور دین میں غلو کرنے سے روکا ہے اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو فقط حضرت مریم کا بیٹا اور اللہ کا رسول اور کلمہ قرار دیا ہے۔ (١٢) سورت کی ابتدا اخلاقی حدود کے بیان سے ہوئی اور اس کے آخر میں مالی حقوق کے تحفظ کی ضمانت دی گئی ہے۔ النسآء
1 فہم القرآن ربط سورۃ: سورۃ آل عمران کے اختتام میں ” اِتَّقُوْا اللّٰہَ“ فرما کر تقو ٰی کو مسلمانوں کی کامیابی کی ضمانت قرار دیا ہے۔ اِتَّقُوْااللّٰہَ میں جلالت اور تمکنت پائی جاتی ہے۔ سورۃ النساء کا آغاز ” اِتَّقُوْا رَبَّکُمْ“ سے ہوتا ہے۔ اسمِ رب میں اللہ تعالیٰ کی ربوبیت کا اظہار ہوتا ہے جس میں شفقت‘ الفت اور قربت کا تصور پایا جاتا ہے۔ اس سورۃ میں انسانی معاشرے کے ابتدائی یونٹ کو مضبوط بنانے کے لیے اس کے بنیادی حقوق و فرائض کا بیان ہوا ہے۔ سورۃ النساء کے ابتدائی الفاظ اور کلمات میں توحید اور وحدت انسانی کا سبق دیا گیا ہے کہ جس طرح تم سب ایک ہی خالق کی مخلوق اور اسی کی ربوبیت کے مرہون منت ہو۔ اسی طرح تم ایک ہی خاندان کے افراد اور ارکان ہو جس کی ابتدا دو کی بجائے ایک سے ہوئی۔ پھر اس ایک سے دوسرے کو یعنی آدم (علیہ السلام) سے اس کی بیوی حواکو پیدا کیا گیا پھر بے شمار مرد اور عورتیں پیدا کرنے کا سلسلہ جاری فرمایا جو قیامت تک جاری رہے گا۔ اس رب سے ڈرو جو تمہارا اللہ ہے جس کی عظمت و تقدیس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے سوال اور ہمدردی کے طلبگار ہوتے ہو۔ اللہ تعالیٰ سے ڈرنے کے ساتھ رشتے داریوں کو توڑنے سے بھی ڈرو اور اجتناب کرو۔ یقیناً اللہ تعالیٰ تمہارے اوپر نگران کی حیثیت سے قائم دائم ہے۔ لفظ ارحام کا واحد رحم ہے۔ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے رحم کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا۔ (إِنَّ الرَّحِمَ شَجْنَۃٌ مِّنَ الرَّحْمٰنِ فَقَال اللّٰہُ مَنْ وَصَلَکَ وَصَلْتُہٗ وَمَنْ قَطَعَکَ قَطَعْتُہٗ) [ رواہ البخاری : کتاب الأدب، باب من وصل وصلہ اللّٰہ] ” رحم رحمٰن سے نکلا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے رحم سے فرمایا جو تجھے ملائے گا میں اسے ملاؤں گا۔ جس نے تجھے کاٹ دیا میں اسے کاٹ دوں گا۔“ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ بھی فرمان ہے : (لَایَدْخُلُ الْجَنَّۃَ قَاطِعٌ) [ رواہ البخاری : کتاب الأدب، باب إثم القاطع] ” رشتے داریوں کو توڑنے والا جنت میں داخل نہیں ہوگا۔“ صلہ رحمی کی برکات کا ذکر کرتے ہوئے آپ فرمایا کرتے تھے۔ (لَیْسَ الْوَاصِلُ بالْمُکَا فِیئ وَلٰکِنَّ الْوَاصِلُ الَّذِیْ إِذَا قُطِعَتْ رَحِمُہٗ وَصَلَھَا) [ رواہ البخاری : کتاب الأدب، باب لیس الواصل بالمکافی] ” ادلے کا بدلہ صلہ رحمی نہیں بلکہ صلہ رحمی یہ ہے کہ دوسرا آدمی صلہ رحمی نہ بھی کرے تجھے اس کا خیال رکھنا چاہیے۔“ مسائل ١۔ لوگوں کو اپنے رب سے ڈر کر رشتے داریوں کا احترام کرنا چاہیے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ ہر کسی کی نگرانی فرما رہا ہے۔ تفسیربالقرآن نسل انسانی کی افزائش کے مراحل : ١۔ حضرت آدم (علیہ السلام) مٹی سے پیدا کیے گئے۔ (آل عمران : ٥٩) ٢۔ حضرت حوا [ نے آدم (علیہ السلام) سے تخلیق پائی۔ (الروم : ٢١) ٣۔ اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) اور حوا [ سے بے شمار مردوزن پید افرمائے۔ (النساء : ١) ٤۔ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو قبائل میں تقسیم فرمایا۔ (الحجرات : ١٣) تخلیق انسان کے مختلف مراحل پارہ 14: رکوع :8 اور پارہ 18 رکوع 1 کی تفسیر میں دیکھیں۔ النسآء
2 فہم القرآن ربط کلام : سورت کی پہلی آیت میں بنی نوع انسان کو ایک کنبہ قرار دے کر ایک دوسرے کے حقوق کا خیال رکھنے کا حکم دیا اب معاشرے کے پسماندہ لوگوں کے حقوق کا چھ آیات میں ذکر کیا گیا ہے۔ پسماندہ لوگوں میں سرِفہرست یتیم ہیں جو بلوغت سے پہلے باپ کے سہارے سے محروم ہوچکے ہوں۔ یتیم کا مال ہڑپ کرنے کے لیے اپنے مال کے ساتھ ملانے کو کبیرہ گناہ قرار دیا ہے۔ ایسا کرنے والا حرام کو حلال کے ساتھ ملاتا ہے جس سے نفرت دلانے کے لیے خبیث کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ خبیث ناپاک اور گندی چیز کو کہتے ہیں۔ لفظ خبیث استعمال کرنے کا مقصد یہ ہے تاکہ پاک ذہن اور با ضمیر شخص یتیم کا مال کھانے کا تصور بھی نہ کرسکے۔ اسے کبیرہ گناہوں میں شمار کیا گیا ہے۔ جب یہ حکم نازل ہوا تو صحابہ کرام (رض) نے اس پر اتنی سختی اور جلدی کے ساتھ عمل کیا کہ آپ کی محفل سے اٹھے اور گھر جانے کے بعد جن کے ہاں یتیم پرورش پا رہے تھے۔ ان کا کھانا پینا اور برتن الگ کردیے۔ جسے یتیموں نے شدّت کے ساتھ محسوس کیا اور آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر یہ ماجرا عرض کیا۔ تب قرآن مجید میں اس کی وضاحت نازل ہوئی : (وَیَسْءَلُوْنَََکَ عَنِ الْیَتٰمٰی قُلْ اِصْلَاحٌ لَّہُمْ خَیْرٌ وَاِنْ تُخَالِطُوْہُمْ فَاِخْوَانُکُمْ وَاللّٰہُ یَعْلَمُ الْمُفْسِدَ مِنَ الْمُصْلِحِ وَلَوْشَآء اللّٰہُ لَأَعْنَتَکُمْ اِنَّ اللّٰہَ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ) [ البقرۃ: ٢٢٠] ” اور وہ آپ سے یتیموں کے متعلق سوال کرتے ہیں آپ فرما دیں کہ ان کی اصلاح کرنا بہتر ہے اور اگر تم انہیں اپنے ساتھ ملا لو تو وہ تمہارے بھائی ہیں اللہ تعالیٰ مصلح اور مفسد کو جانتا ہے اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو تمہیں مشقت میں ڈال دیتا یقیناً اللہ تعالیٰ غالب حکمت والا ہے۔“ (عَنْ أَبِیْ ذَرٍّ (رض) أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ یَاأَبَاذَرٍّ إِنِّیْ أَرَاکَ ضَعِیْفًا وَإِنِّیْ أُحِبُّ لَکَ مَاأُحِبُّ لِنَفْسِیْ لَاتَأَمَّرَنَّ عَلَی اثْنَیْنِ وَلَاتَوَلَّیَنَّ مَالَ یَتِیْمٍ) [ رواہ مسلم : کتاب الإمارۃ، باب کراھۃ الإمارۃ بغیر ضرورۃ] ” حضرت ابوذر (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اے ابوذر! میں تجھے کمزور پاتاہوں اور میں تمہارے لیے وہی پسند کرتاہوں جو اپنے لیے پسند کرتاہوں، تم دو آدمیوں کے امیر نہ بننا اور نہ ہی یتیم کے مال کا والی بننا۔“ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ خَیْرُ بَیْتٍ فِی الْمُسْلِمِیْنَ بَیْتٌ فِیْہِ یَتِیْمٌ یُحْسَنُ إِلَیْہِ وَشَرُّ بَیْتٍ فِی الْمُسْلِمِیْنَ بَیْتٌ فِیْہِ یَتِیْمٌ یُسَاءُ إِلَیْہِ) [ رواہ ابن ماجۃ: کتاب الأدب، باب حق الیتیم] ” حضرت ابوہریرہ (رض) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں آپ نے فرمایا مسلمانوں میں بہترین گھرانہ وہ ہے جس میں یتیموں کے ساتھ اچھا سلوک کیا جاتاہو۔ مسلمانوں میں بدترین گھر وہ ہے جس میں یتیم کے ساتھ بدسلوکی کے ساتھ پیش آیا جاتا ہو۔“ (عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَیْبٍ عَنْ أَبِیْہِ عَنْ جَدِّہٖ قَالَ جَاءَ رَجُلٌ إِلَی النَّبِیِِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَقَالَ لَاأَجِدُ شَیْءًا وَلَیْسَ لِیْ مَالٌ وَلِیَ یَتِیْمٌ لَہٗ مَالٌ قَالَ کُلْ مِنْ مَالِ یَتِیْمِکَ غَیْرَ مُسْرِفٍ وَلَامُتَأَثِّلٍ مَالًا قَالَ وَأَحْسِبُہٗ قَالَ وَلَا تَقِیَ مَالَکَ بِمَالِہٖ) [ ابن ماجۃ: کتاب الوصایا، باب قولہ ومن کان فقیرًا فلیأکل بالمعروف] ” حضرت عمرو بن شعیب اپنے باپ سے اور وہ اپنے دادا سے بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس ایک آدمی نے آکر کہا میرے پاس کوئی مال نہیں البتہ میرے پاس ایک یتیم ہے جس کا مال بھی ہے۔ آپ نے فرمایا اپنے یتیم کے مال سے فضول خرچی اور اپنے مال کے ساتھ نہ ملاتے ہوئے اس کے مال میں سے کھالیاکر۔ راوی کہتے ہیں میرا خیال ہے کہ آپ نے یہ بھی فرمایا اپنا مال اس کے مال کے ذریعے نہ بچانا۔“ مسائل ١۔ یتیموں کا مال واپس کرنا چاہیے۔ ٢۔ یتیموں کا مال کھانا بڑا گناہ ہے۔ تفسیر بالقرآن یتیموں کے حقوق : ١۔ یتیم تمہارے بھائی ہیں۔ (البقرۃ: ٢٢٠) ٢۔ یتیموں سے اچھا سلوک کرنے کا حکم۔ (البقرۃ: ٨٣) ٣۔ یتیموں کا مال واپس کیا جائے۔ (النساء : ٢) ٤۔ یتیموں کا مال بلوغت کی عمر کو پہنچنے پر واپس کرو۔ (النساء : ٦) ٥۔ یتیموں کو مال دو تو اس پر گواہ کرلو۔ (النساء : ٦) ٦۔ یتیم کو جھڑکنے کی ممانعت۔ (الضحیٰ: ٩) ٧۔ یتیموں کا مال کھانا بڑا گناہ ہے۔ (النساء : ٢) النسآء
3 فہم القرآن ربط کلام : یتامیٰ میں بھی یتیم بچیوں کا خیال رکھنے کا حکم ہے کیونکہ یتیم لڑکا تو کسی نہ کسی طریقے سے گزارہ کرلیتا ہے لیکن یتیم بچی جائے تو کدھر جائے۔ اگر بالغ ہوجائے تو اسے تحفظ فراہم کرنے کے لیے اس سے مشروط نکاح کی ترغیب دی گئی ہے۔ حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں اس حکم کے نازل ہونے سے پہلے یتیموں کے بعض سر پرست محض اس کے مال پر قبضہ کرنے کے لیے یتیم لڑکی کے بالغ ہونے پر اس کا نکاح اپنے یا اپنے بیٹے کے ساتھ کردیتے۔ ایسا ہی واقعہ آپ کی بعثت کے بعد پیش آیا۔ (عَنْ عَاءِشَۃَ أَنَّ رَجُلًا کَانَتْ لَہٗ یَتِیْمَۃٌ فَنَکَحَھَا وَکَانَ لَھَا عَذْقٌ وَکَانَ یُمْسِکُھَا عَلَیْہِ وَلَمْ یَکُنْ لَّھَا مِنْ نَّفْسِہٖ شَیْءٌ فَنَزَلَتْ (وَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تُقْسِطُوْا فِی الْیَتَامٰی۔۔) [ رواہ البخاری : کتاب تفسیر القرآن، باب وإن خفتم ألا تقسطوا] ” حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں ایک آدمی کی پرورش میں ایک یتیم لڑکی تھی جس کی ملکیت میں کھجور کا ایک باغ تھا اسی باغ کی وجہ سے وہ اس کی پرورش کرتا رہا۔ حالانکہ اس کو اس سے کوئی خاص لگاؤ نہ تھا۔ اس سلسلے میں یہ آیت نازل ہوئی۔“ یعنی اگر تم یتیم بچیوں کے بارے میں انصاف نہیں کرسکتے تو پھر دوسری عورتوں کے ساتھ اپنی پسند کے مطابق دو دو، تین تین‘ چار چار نکاح کرسکتے ہو۔ اس میں بھی اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ تم ان کے درمیان عدل نہیں کر پاؤ گے تو پھر ایک سے ہی نکاح کرو۔ البتہ تم لونڈیاں رکھ سکتے ہو۔ عدل و انصاف کی شرط اس لیے لگائی گئی ہے کہ کہیں تم ایک ہی طرف نہ جھک جاؤ۔ (عَنْ عَاءِشَۃَ قَالَتْ کَانَِ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَقْسِمُ فَیَعْدِلُ وَیَقُوْلُ اللّٰھُمَّ ھٰذَا قَسْمِیْ فِیْمَا أَمْلِکُ فَلَا تَلُمْنِیْ فِیْمَا تَمْلِکُ وَلَا أَمْلِکُ) [ رواہ أبوداوٗد : کتاب النکاح، باب فی القسم بین النساء ] ” حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) باری تقسیم کرنے میں عدل کرتے اور یہ فرماتے تھے اے اللہ ! یہ میری تقسیم ہے جس کا مجھے اختیار ہے اور مجھے ملامت نہ کر اس میں جس کا تو مالک ہے اور کیونکہ اس پر مجھے اختیار نہیں (یعنی دل)۔“ چار بیویوں کا مسئلہ غیر مسلموں نے قرآن مجید کے اس فرمان پر بڑے اعتراضات اور سوالات اٹھائے ہیں وہ اس آیت کی خود ساختہ تشریح کرتے ہوئے کہتے اور لکھتے ہیں کہ قرآن نے مسلمانوں کو چار بیویاں کرنے کا حکم دیا ہے حالانکہ قرآن مجید نے چار بیویاں کرنے کا حکم نہیں دیا۔ چار بیویاں کرنے کی صرف رخصت عنایت فرمائی ہے۔ اس میں بھی ہر قسم کا عدل و انصاف قائم رکھنا ضروری ہے ورنہ اسلامی حکومت ایسے شخص کا نوٹس لے سکتی ہے۔ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ إِذَا کَانَ عِنْدَ الرَّجُلِ امْرَأَتَانِ فَلَمْ یَعْدِلْ بَیْنَھُمَا جَاءَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ وَشِقُّہٗ سَاقِطٌ) [ رواہ الترمذی : کتاب النکاح، باب ماجاء فی التسویۃ بین الضرائر] ” حضرت ابوہریرہ (رض) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جس آدمی کے پاس دوبیویاں ہوں اور وہ ان کے درمیان عدل نہ کرے۔ وہ قیامت کے دن فالج زدہ جسم کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کیا جائے گا۔“ قرآن مجید نے جن وجوہات کی بنیاد پر تعدّدِ ازواج کی اجازت دی ہے۔ یہ وجوہات اور ضرورت ہر دور میں رہی ہیں اور قیامت تک باقی رہیں گی۔ مردوں کو یہ اجازت عورتوں کی کفالت اور تحفظ کے لیے دی گئی ہے کیونکہ اس کے بغیر اس مسئلہ کا حل تلاش کرنا ناممکن ہے۔ جن قوموں نے صرف ایک بیوی رکھنے کا قانون بنا کر داشتائیں رکھنے کی اجازت دی ہے۔ ان میں بے حیائی، معصوم بچوں کا قتل، اسقاط حمل، جسمانی اور روحانی بیماریوں کی بہتات کی وجہ سے ان کا معاشرہ پرلے درجے کی آوارگی کا شکار ہوچکا ہے۔ اسلام کے اصولوں کے مطابق اگر بیویوں کے درمیان ہرقسم کا عدل و انصاف کیا جائے تو عورتوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کا حل بڑی عمدگی کے ساتھ کیا جا سکتا ہے اس کے بغیر اس کا کوئی حل نہیں ہو سکتا۔ ١۔ افغانستان پر دس سال تک روس کا جنگ مسلط کرنا بعد ازاں افغانستان اور عراق پر امریکی حملہ جس میں دونوں مسلمان ملکوں کے کم از کم پندرہ سے بیس لاکھ مرد شہید ہوئے جس کی وجہ سے ان ملکوں میں مردوں کے مقابلے میں عورتیں چار گنا زیادہ ہوچکی ہیں۔ جنگی اور ہنگامی حالات کی بناء پر مرد کو چار بیویاں رکھنے کی رخصت دی گئی۔ ٢۔ شرح پیدائش کے اعتبار سے عورتوں کی کثرت خاص کر قرب قیامت عورتوں کا زیادہ ہونا ہے۔ ٣۔ ٹریفک حادثات میں عورتوں کے مقابلے میں مردوں کا زیادہ ہلاک ہونا کیونکہ عورتوں کی نسبت مرد زیادہ سفر کرتے ہیں۔ ٤۔ جنسی طاقت کی بنیاد پر مرد کو اجازت دینا تاکہ بے شرمی رواج پانے کی بجائے شرم و حیا کا تحفظ ہو سکے۔ ٥۔ پہلی بیوی کے بانجھ ہونے کی صورت میں یا نرینہ اولاد کی خواہش میں دوسری شادی کی ضرورت ہونا۔ ٦۔ یاد رکھیے نکاح کا مقصد شہوت زنی نہیں تفصیل کے لیے النساء آیت ٩٤ کی تشریح ملاحظہ فرمائیں۔ رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور اُمّہات المؤمنین رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات اطہر پر وہی شخص اعتراض کرنے کی جسارت کرسکتا ہے جو منکر نبوت اور جاہل ہو کیونکہ آپ اللہ تعالیٰ کے حکم کے بغیر ایک قدم بھی نہیں اٹھا سکتے تھے۔ اللہ کا حکم آنے سے پہلے جہاں کہیں آپ نے کسی مسئلہ میں استدلال فرمایا اگر وہ شریعت کے مزاج سے مطابقت نہیں رکھتا تھا تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے فوراً اس کی تردید یا تصحیح کردی گئی۔ ایک منصف مزاج شخص کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ دیانتداری کے ساتھ مذکورہ بالا اصول پر غور کرے اور آپ کی حیات مبارکہ کا وہ دور دیکھے۔ جب آپ پچیس سال کے جوان رعنا تھے‘ صحت اور حسن و جمال کے حوالے سے پوری دنیا میں آپ کا کوئی ثانی نہیں تھا۔ اس کے ساتھ یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ آپ کو روکنے اور سمجھانے والے والدین بھی سر پر موجود نہیں تھے۔ آپ کی شرم و حیا، دیانت و امانت عرب میں ضرب المثل تھی۔ شادی کا وقت آیا تو آپ نے اپنے سے پندرہ سال بڑی ایک ایسی عورت کے ساتھ نکاح کیا جس کے دو خاوند پہلے فوت ہوچکے تھے۔ پھر اسی ایک کے ساتھ پچیس سال کا عرصہ گزارا تاآنکہ حضرت خدیجہ (رض) دنیا سے رخصت ہوگئیں۔ ان کے بعد حضرت سودہ (رض) سے نکاح کیا جو معمّر عورت تھی۔ جب وہ آپ کے گھر آئیں تو اس وقت آپ کی عمر مبارک ٥٤ سال ہوچکی تھی۔ حضرت سودہ (رض) کے بعد حضرت عائشہ سے ٢ ؁ ھجری میں نکاح کیا۔ آپ نے پچپن سال میں حضرت حفصہ (رض) کے ساتھ اور اسی سال کے آخر میں حضرت زینب (رض) کے ساتھ، ٤ ؁ ہجری میں حضرت اُمّ سلمہ (رض) آپ کے نکاح میں آئیں، ٥ ؁ہجری حضرت زینب بنت جحش (رض) کے ساتھ ٦ ؁ ہجری میں، حضرت جویریہ (رض) ٧ ؁ ہجری میں، حضرت ام حبیبہ (رض) اور ٧ ؁ھجری کے آخر میں حضرت صفیہ (رض) اور حضرت میمونہ (رض) کے ساتھ آپ کا نکاح ہوا۔ مزید وضاحت کے لیے سیرت رحمۃ اللعالمین کا مطالعہ فرمائیں۔ مسائل ١۔ بیک وقت چار شادیاں کرنے کی اجازت ہے۔ ٢۔ انصاف نہ کرسکے تو صرف ایک بیوی رکھنی چاہیے۔ النسآء
4 فہم القرآن ربط کلام : عورتوں کے اخلاقی‘ ازدواجی حقوق بیان کرنے کے بعد ان کا حق مہر اور مالی حقوق ادا کرنے کا حکم دیا ہے تاکہ ان کے معاشی تحفظ کے ساتھ شخصی وقار میں اضافہ ہوجائے۔ اسلام سے پہلے عورتوں پر یہ ظلم بھی ہوتا تھا کہ انہیں حق مہر سے محروم کردیا جاتا اس ظلم کی چار شکلیں تھیں۔ ١۔ یتیم اور کمزور گھرانوں کی بچیوں کا سرے سے حق مہر مقرر ہی نہیں کیا جاتا تھا۔ ٢۔ بعض دفعہ عورت کا ولی حق مہر خود ہی کھا جاتا تھا۔ ٣۔ حق مہر مقرر کرنے کے باوجود عورت کو حق مہرنہ دیا جاتا یا ادا کرنے میں کئی کئی سال اجتناب کیا جاتا۔ تاآنکہ عورت کے مطالبہ پر میاں بیوی کے درمیان تلخیاں پیدا ہوجاتیں۔ ٤۔ خاوند ایسا رویّہ اختیار کرتا جس سے مجبور ہو کر عورت اپنا حق مہر چھوڑنے پر آمادہ ہوجاتی تھی۔ قرآن مجید نے ” نِحْلَۃً“ کا لفظ استعمال فرما کر اس بات کی طرف واضح اشارہ کیا ہے کہ حق مہر دل کی خوشی اور رغبت کے ساتھ ادا کرنا چاہیے۔ حق مہر خاوند کی طرف سے بیوی کے لیے شب زفاف کا تحفہ اور محبت کا اظہار ہے۔ اس سے آدمی کو پہلے دن ہی ازدواجی زندگی کا احساس پیدا ہوتا ہے۔ اگر کوئی عورت اپنی خوشی سے حق مہر خاوند کو معاف کر دے تو خاوند کو چاہیے کہ وہ اس انداز سے اسے استعمال کرے۔ جس سے اس کی استغناء ظاہر ہوتی ہو۔ ایسا کرنے سے آدمی ہلکے پن اور لالچی ہونے کے الزام سے بچ جائے گا۔ بصورت دیگر عورت کی نظر میں خاوند کا ہلکا پن اور اس کے لالچی ہونے کا شبہ پیدا ہونے کا اندیشہ ہوسکتا ہے۔ جس کے لیے یہ ہدایت فرمائی کہ اسے کھاؤ مگر خوشگوار طریقے کے ساتھ۔ حق مہر کا تعیّن لڑکے اور لڑکی کے نکاح کی صورت اس وقت ہی پیش آتی ہے جب دونوں خاندانوں کے درمیان قربت اور مودّت پیدا ہوجائے۔ اس قربت اور مودّت کو آگے بڑھانے اور دونوں خاندانوں اور افراد کو مالی بوجھ سے بچانے کے لیے شریعت نے اپنی طرف سے حق مہر کا تعین کرنے کی بجائے لڑکے، لڑکی اور اس کے ولی پر معاملہ چھوڑ دیا ہے۔ اب ان کا فرض ہے کہ وہ ایک دوسرے کی مالی استعداد کا لحاظ رکھتے ہوئے خوشگوار ماحول اور باہمی رضا مندی سے حق مہر کا تعین کریں۔ اس لیے حدیث کے مقدس ریکارڈ میں بیوی کو چند آیات حفظ کروانے سے لے کر حق مہر میں بھاری رقم دینے کا ثبوت ملتا ہے۔ قرآن مجید نے حق مہر کے لیے ” قِنْطَاراً“ کا لفظ استعمال کیا ہے جس کا معنیٰ خزانہ ہے۔ اس سے مراد کثیر رقم ہے۔ لہٰذا جو علماء شرعی حق مہر 32 روپے یا اپنی طرف سے کسی قسم کی رقم کا تعین کرتے ہیں۔ دین میں اس کا کوئی ثبوت نہیں ملتا بلکہ یہ عورت پر زیادتی کرنے کے مترادف ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) چند صحابہ (رض) میں تشریف فرما تھے ایک عورت نے اپنے حالات سے مجبور ہو کراپنے آپ کو نکاح کے لیے آپ کی خدمت میں پیش کیا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خاموش رہے۔ اتنے میں ایک شخص عرض کرنے لگا اگر آپ آمادہ نہیں تو میں اس عورت کے ساتھ نکاح کرنے کے لیے تیار ہوں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں کہ تیرے پاس حق مہر کے لیے کچھ ہے؟ اس نے عرض کیا یہ چادر جو میں نے لپیٹ رکھی ہے اس کے علاوہ میرے پاس کچھ نہیں۔ فرمایا کہ چادر اپنے پاس رکھو اور حق مہر کے لیے لوہے کی انگوٹھی ہی لے آؤ۔ کوشش کے باوجود اسے انگوٹھی بھی میسر نہ ہوسکی۔ وہ خالی ہاتھ واپس آیا۔ آپ پوچھتے ہیں کہ تجھے قرآن مجید یاد ہے؟ تو اس نے عرض کی کہ مجھے فلاں فلاں سورتیں یاد ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ یہ سورتیں حق مہر کے طور پر اپنی بیوی کو یاد کروا دینا۔ [ بخاری : کتاب النکاح، باب تزویج المعسر] ایک دفعہ امیر المومنین حضرت عمر (رض) نے خطبہ جمعہ میں فرمایا : ( أَلَا لَاتُغَالُوْا صَدْقَۃَ النِّسَاءِ فَإِنَّھَا لَوْ کَانَتْ مَکْرُمَۃً فِی الدُّنْیَاأَوْ تَقْوٰی عِنْدَ اللّٰہِ لَکَانَ أَوْلَاکُمْ بِھَا نَبِیُّ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَاعَلِمْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نَکَحَ شَیْءًا مِّنْ نِّسَاءِہٖ وَلَاأَنْکَحَ شَیْءًا مِنْ بَنَاتِہٖ عَلٰی أَکْثَرَ مِّنْ ثِنْتَیْ عَشْرَۃَ أُوْقِیَّۃً) [ رواہ الترمذی : کتاب النکاح، باب منہ ] ” خبردار! عورتوں کے حق مہر بڑھا چڑھا کر مقرر نہ کیا کرو۔ اگر یہ بات عظمت اور تقو ٰی کا باعث ہوتی تو رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کے سب سے زیادہ حق دار تھے۔ میں جانتا ہوں کہ آپ کی کسی بیوی یا بیٹی کا حق مہر بارہ تولے چاندی سے زیادہ نہیں تھا۔“ حضرت عمر (رض) کے فرمان کا مقصد حق مہر میں اعتدال قائم رکھنے کی طرف توجہ دلانا تھا۔ اس کے باوجود کسی شخص کو عورتوں کے حق مہر کی رقم متعین کرنے کا اختیار نہیں ہے۔ اسی لیے حضرت عمر کے خطبہ کے دوران ایک عورت نے کہا تھا کہ امیر المومنین آپ حق مہر کی رقم مقرر نہیں کرسکتے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں قنطار کا لفظ استعمال فرما کر حق مہر کے مسئلہ کو کھلا چھوڑ دیا ہے۔ اگر کوئی آدمی حق مہر میں خزانہ بھی دینا چاہے تو کوئی حرج نہیں امیر المومنین نے اس عورت کی تصدیق کرتے ہوئے فرمایا کہ عورت کو مسئلہ یادرہا اور مجھ سے خطا ہوئی۔[ عون المعبود] مسائل ١۔ عورتوں کے حق مہر ادا کرنے چاہییں عورت خود معاف کر دے تو اسے اچھے طریقے سے کھانا چاہیے تھا۔ ٢۔ حق مہر مقرر کرتے وقت اعتدال قائم رکھنا چاہیے۔ النسآء
5 فہم القرآن ربط کلام : سابقہ فرامین میں یتامیٰ اور عورتوں کے مالی حقوق کی ادائیگی کا حکم تھا۔ اب فرمایا کہ یتیموں کو ان کا مال واپس لوٹاتے ہوئے اچھی طرح اندازہ کرلو کہ کہیں وہ ناتجربہ کاری یا صغر سنی کی وجہ سے اپنا مال ضائع نہ کربیٹھیں۔ قرآن مجید نے دوسری آزمائشوں کے ساتھ مال کو بھی آدمی کے لیے ایک بڑی آزمائش اور فتنہ قرار دیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی رزق حلال کو اللہ تعالیٰ کا فضل‘ نعمت‘ زندگی کا لازمہ اور اسے تقویت کا باعث ٹھہرایا ہے۔ یتیموں کے لیے بالخصوص مال سہارا اور تقویت کا باعث ہوتا ہے کیونکہ عام طور پر ان کا کمانے والا کوئی نہیں ہوتا بلکہ ان کی جائیداد کا بھی کوئی دوسرا نگران ہوتا ہے۔ یہاں یتیموں کے سر پرست کو یہ حکم دیا ہے کہ وہ ان کے مال کو اپنا تصور کرتے ہوئے اس کی حفاظت اور نگرانی کرے اور جب تک یتیم میں فہم و شعور اور مال سنبھالنے کی صلاحیت پیدا نہ ہو۔ اس وقت تک ان کا سرپرست ان کے مال سے ان کے کھانے پینے اور پہننے کا انتظام کرتا رہے۔ ان کی طرف سے اگر کوئی مطالبہ یا غلط فہمی پیدا ہو تو نہایت محبت اور پیار کے ساتھ ان کو بہلاتا اور سمجھاتا رہے۔ یہاں تک کہ یتیم اپنا مال سنبھالنے کے قابل ہوجائے۔ یتیموں کے لیے ناسمجھ کا لفظ دو وجہ سے استعمال ہوا ہے۔ ایک تو یہ مال کی حفاظت اور اس کو استعمال کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے اور دوسری وجہ یہ ہے کہ نو عمر اور یتیم ہونے کی وجہ سے یہ لوگوں کے پروپیگنڈہ کا شکار ہو کر اپنے سر پرست اور خیر خواہ سے اکثر بدظن ہو کر مال واپس لے کر اسے ضائع کر بیٹھتے ہیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے : (أَلَا مَنْ وَلِیَ یَتِیْمًا لَہٗ مَالٌ فَلْیَتَّجِرْ فِیْہِ وَلَا یَتْرُکْہٗ حَتّٰی تَأْکُلَہٗ الصَّدَقَۃُ) [ رواہ الترمذی : کتاب الزکاۃ، باب ماجاء فی الزکاۃ من مال الیتیم] ” خبردار! جو کسی یتیم کا سرپرست بنے اور یتیم کے پاس مال ہو تو وہ اس کے مال کو کارو بار میں لگائے۔ کہیں آہستہ آہستہ زکوٰۃ سے اس کا مال ختم نہ ہوجائے۔“ یتیموں کے مال کی حفاظت کے پیش نظر یہ اصول بھی قائم فرمایا کہ جب تک وہ بالغ نہ ہوجائیں اور ان میں مالی معاملات سمجھنے کی کچھ نہ کچھ صلاحیت پیدا نہ ہوجائے۔ ان کا مال اس وقت تک نہیں لوٹانا چاہیے جب وہ شعور کو پہنچ جائیں تو انہیں ان کا مال لوٹاتے ہوئے اس پر گواہ بنالینے چاہییں تاکہ جس آدمی نے سر پرستی کی صورت میں ان کی خدمت کی ہے وہ ہر قسم کے الزامات سے محفوظ رہ سکے۔ سر پرست کو یہ حکم بھی دیا کہ اگر وہ امیر ہے تو یتیموں کے مال کی نگرانی اور سرپرستی کے عوض ان کے مال سے کچھ نہ لے اور اگر اس کی اپنی گزران تنگ ہے تو مناسب طریقے سے اس میں سے کھا سکتا ہے۔ یتیم اور ان کے سرپرست کو ہر دم خیال رہنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ ہر قسم کے حساب و کتاب کو خوب جانتا ہے اور اس کے ہاں تمام معاملات لکھے اور پیش کیے جاتے ہیں اور قیامت کے دن پائی پائی کا حساب لے گا۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے مال کو لوگوں کے لیے استحکام کاذریعہ بنایا ہے۔ ٢۔ یتیموں سے نرم لہجے میں پیش آنا چاہیے۔ ٣۔ یتیموں کا مال کھانا منع ہے۔ ٤۔ یتیموں کو آزمانے اور ان میں سمجھداری دیکھنے کے بعد ان کا مال ان کے سپرد کرنا چاہیے۔ ٥۔ یتیموں کا کفیل مالدار ہو تو اسے ان کے مال سے کچھ نہیں لینا چاہیے۔ ٦۔ یتیموں کا کفیل تنگ دست ہو تو معروف طریقے سے ان کے مال میں سے کھا سکتا ہے۔ ٧۔ اللہ تعالیٰ ہر کسی کا حساب لینے کے لیے کافی ہے۔ النسآء
6 النسآء
7 فہم القرآن ربط کلام : پہلے عورتوں اور یتیموں کے مالی اور سماجی حقوق کے تحفظ کا حکم دیا۔ اب قانون وراثت کے ذریعے سب کے مالی حقوق کا تحفظ کیا گیا ہے۔ قبل از اسلام اور آج بھی دنیا میں تقسیم وراثت کے بارے میں چار قانون نافذ العمل ہیں۔ ١۔ عورتوں کو مالی حقوق سے یکسر محروم رکھنا۔ ٢۔ خاوند فوت ہونے کے بعد بیوہ اور بیٹیوں کو متروکہ جائیداد سے خارج کردینا۔ ٣۔ باپ کے فوت ہونے کے بعد صرف بڑے بیٹے کو وراثت کا حقدار ٹھہرانا۔ ٤۔ باپ کی وراثت میں صرف بیٹوں کا ہی حق دار قرار پانا۔ اسلام نے اس استحاصل کو یکسر ختم کر کے حکم دیا کہ مرد ہو یا عورت‘ چھوٹا ہو یا بڑا جو اس کے والدین اور اقرباء چھوڑ جائیں اس میں شریعت کے مقرر کردہ قریبی رشتہ داروں کا حصہ ہے۔ ترکہ تھوڑا ہو یا زیادہ اللہ تعالیٰ کا مقرر کردہ حصہ ہر کسی کو ملنا چاہیے۔ اخلاقی قدروں کا خیال رکھتے ہوئے یہ بھی حکم دیا کہ تقسیم کے وقت غریب رشتہ دار‘ یتیم اور مسکین اگر موجود ہوں وہ جائیداد میں حصہ دار تو نہیں لیکن انہیں کھانے پینے کے لیے کچھ ضرور دینا چاہیے۔ ان کی حاضری کو گراں سمجھتے ہوئے ان کے ساتھ منفی رویہ اختیار کرنے کے بجائے ان کے ساتھ مروّت اور اچھے انداز میں گفتگو کی جائے۔ اس کے بعد فوت ہونے والوں کو تلقین فرمائی کہ وہ مرنے کے قریب اس طرح شاہ خرچ نہ بنیں جس سے ان کے چھوٹے چھوٹے بچے مالی طور پر کنگال ہوجانے کی وجہ سے دوسروں کے دست نگر ہوجائیں۔ کچھ مفسّرین نے یہ حکم میّت کے لواحقین پر لاگو کیا ہے کہ انہیں یتیموں کے ساتھ تلخ رویّہ اور ان کے مال میں زیادتی کرنے سے پہلے سوچنا چاہیے کہ اگر وہ اپنے بچوں کو اس حالت میں چھوڑ جائیں تو ان کے کیا احساسات ہوں گے؟ لہٰذا یتیموں کے ساتھ گفتگو نہایت نرم اور محبت آمیز لہجہ میں کرنا چاہیے۔ وراثت کا مسئلہ شروع کرنے سے پہلے ایک مرتبہ پھر یتیموں کے بارے میں حکم دیا ہے کہ ان کا مال ظلم کے ساتھ نہ کھاؤ۔ یہ کھلم کھلا پیٹ میں آگ کے انگارے ڈالنے کے مترادف ہے۔ یتیم کا مال کھانے والے عنقریب جہنم میں جھونک دئیے جائیں گے۔ وہاں ان کے آگے پیچھے اور اوپر نیچے آگ ہی آگ ہوگی۔ حضرت سعدبن ابی وقاص (رض) فتح مکہ کے موقع پر سخت بیمار ہوئے۔ انہوں نے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کی کہ میرے پاس بہت سا مال ہے ایک بیٹی کے علاوہ کوئی وارث نہیں۔ میں اپنا سارا مال اللہ کی راہ میں صدقہ کرنا چاہتا ہوں۔ آپ نے انہیں اجازت عنایت نہ فرمائی۔ پھر انہوں نے نصف کی اجازت طلب کی۔ آپ نے اس کی بھی اجازت نہ دی۔ اس کے بعد انہوں نے ایک تہائی کی اجازت مانگی تو آپ نے یہ فرماکر اجازت دی کہ یہ بھی زیادہ ہے۔ اپنی اولاد کو مال دار چھوڑناان کو محتاج چھوڑنے سے کہیں بہتر ہے۔ [ رواہ البخاری : کتاب الفرائض، میراث البنات] مسائل ١۔ مردوں کے لیے ان کے والدین اور اقرباء کے ترکہ میں حصہ ہے۔ ٢۔ عورتیں بھی اپنے والدین اور اقرباء کی وراثت میں حصے دار ہیں۔ ٣۔ وراثت تقسیم کرتے وقت یتیموں اور مسکینوں کو کچھ نہ کچھ کھلانا پلانا چاہیے۔ ٤۔ وراثت کے بارے میں واضح ہدایت دینا چاہیے۔ ٥۔ یتیموں کا مال زیادتی کے ساتھ کھانے والے آگ کے انگارے نگلتے ہیں۔ ٦۔ یتیموں کا مال کھانے والے جہنم میں داخل ہوں گے۔ النسآء
8 النسآء
9 النسآء
10 النسآء
11 فہم القرآن ربط کلام : گزشتہ مضمون سے پیوستہ۔ اس آیت کا شان نزول حضرت جابر (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ نبی محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ ہمارا گزر ایک بازار میں ہوا۔ ایک عورت اپنی دو بیٹیوں کے ساتھ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کرنے لگی کہ اے اللہ کے رسول! یہ ثابت بن قیس (رض) کی بچیاں ہیں جو غزوۂ احد میں شہید ہوچکے ہیں۔ ان کا چچا ان کی میراث پر قبضہ کرچکا ہے اب ان کے لیے کچھ باقی نہیں بچا۔ اس معاملہ میں آپ کیا حکم صادر فرماتے ہیں؟ اللہ کی قسم! اگر وراثت واپس نہ ہوئی تو ان لڑکیوں کے ساتھ کوئی شخص نکاح کرنے کے لیے تیار نہیں ہوگا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ عنقریب اللہ تعالیٰ اس کا فیصلہ نازل فرمائیں گے۔ اس کے بعد یہ فرمانِ الٰہی نازل ہوا۔[ رواہ ابوداؤد کتاب الفرائض] اس میں نہایت مختصر مگر کھول کر بیان کردیا گیا ہے کہ مرنے والے کے بعد اس کی جائیداد کا وارث کون کون اور کس حساب سے ہوگا؟ اس میں بیک وقت موروثی معاملات کو نمٹانے کے ساتھ محروم طبقات کا تحفظ، جاگیر داری نظام کا خاتمہ اور دولت کو چند ہاتھوں میں مرکوز ہونے کی بجائے اس کی اس طرح تقسیم کردی گئی ہے کہ ” حقدار راحق رسید“ کا قانون منہ بولتا دکھائی دیتا ہے۔ جائیداد کی تقسیم کا فارمولہ مرد کے بجائے عورت کو سامنے رکھ کر بنایا گیا ہے۔ کیونکہ حکم ہے ” لِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَیَیْنِ“ جس میں عورت کے مالی حقوق کو فوقیت دی گئی ہے۔ یہی حکمت اس سورۃ مبارکہ کے نام ” النساء“ سے معلوم ہوتی ہے تاکہ عورتوں کے اخلاقی‘ معاشی اور معاشرتی حقوق نمایاں کیے جائیں۔ وراثت کی تقسیم سے قبل تین بنیادی باتوں کو پیش نگاہ رکھنا چاہیے ان سے پہلے وراثت تقسیم کرنا جائز نہیں۔ فوت ہونے والے کے کفن دفن کا انتظام کرنا، اس کے ذمہ قرض ہو تو وراثت سے اس کی ادائیگی کا اہتمام کرنا۔ مرنے والے نے اگر شریعت کی حدود میں رہ کر اپنے مال کے بارے میں صدقہ کرنے کی وصیت کی ہو تو اس پر عمل درآمدکرانا ورثاء پر ضروری ہے کیونکہ اس فرمان سے پہلے عورتوں کے حقوق اور ان کے بارے میں عدل وانصاف کی تاکید کی گئی ہے۔ اس سے ان لوگوں کا پروپیگنڈہ بے وجہ ثابت ہوتا ہے جس میں یہ تأثر دینے کی کوشش کی جاتی ہے کہ حاکم بدہن اسلام نے عورت کے مالی حقوق کا چنداں خیال نہیں کیا۔ حالانکہ تعمق نگاہی سے دیکھا جائے تو اسلام ہی فقط ایک دین ہے جس میں عورتوں کو اخلاقی، سماجی اور خاندانی اعتبار سے تحفظ فراہم کرتے ہوئے ان کے مالی حقوق کا پورا اور مکمل خیال رکھا گیا ہے۔ اسلام کے قانون وراثت کے تحت بسا اوقات ایک عورت مختلف انداز میں تین رشتوں سے اپنا حصہ وصول کرتی ہے اس کے باوجود عورتوں کو ان کے حق سے محروم رکھنے کے لیے مختلف ہتھکنڈے استعمال کیے جاتے ہیں۔ جہیز کے بہانے اس کو اصل وراثت سے محروم کرنا بالخصوص یتیم بچیوں کو اپنی سرپرستی میں اس لیے لینا کہ شادی کے بعد ان کی جائیداد پر قبضہ کرنا آسان ہو۔ بعض لوگ ایسا ماحول پیدا کرتے ہیں کہ جس سے وراثت میں حصہ دار بہنیں باہمی تلخی کے خوف اور بھائیوں سے تعلقات استوار رکھنے کی خواہش میں اپنا حصہ معاف کرنے پر مجبور ہوجاتی ہیں۔ ایسی معافی سے قانون کے نفاذ سے تو بچا جاسکتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ کے ہاں سرخروئی حاصل کرنا مشکل ہوگی۔ قرض اور وصیت کی ادائیگی کے بعدورثاء میں تقسیم (١) اولاد (٢) والدین (٣) خاوند (٤) زوجہ (٥) بہن بھائی۔ اولاد : ١۔ لڑکیاں لڑکے ملے جلے ہوں تو لڑکے کو لڑکی کے حصے سے دوگنا ملے گا (لِلذَّکَرِ مِثْلُ۔۔) ٢۔ صرف لڑکیاں دو سے زیادہ ہوں تو ان کو کل مال کا دو تہائی ملے گا۔ (فَإِنْ کُنَّ نِسَاءً فَوْقَ۔۔) ٣۔ اگر اولاد میں صرف ایک لڑکی ہی ہو تو کل مال کا نصف اسے ملے گا۔ (وَإِنْ کَانَتْ وَاحِدَۃً۔۔) والدین : ١۔ میت کے والدین بھی ہوں اور اولاد بھی تو ماں باپ دونوں کو چھٹا چھٹا حصہ ملے گا۔ (وَلِأَبَوَیْہِ لِکُلِّ۔۔) ٢۔ میت کے والدین ہوں اور اولاد نہ ہو تو ماں کو کل مال کا تیسرا حصے ملے گا۔ (فَإِنْ لَّمْ یَکُنْ لَّہٗ وَلَدٌ وَّوَرِثَہٗ ) ٣۔ وارثوں میں میت کے والدین کے ساتھ اولاد تونہ ہو لیکن دوسے زیادہ بہن بھائی ہوں تو ماں کو چھٹا حصہ ملے گا (باقی باپ کو)۔ (فَإِنْ کَانَ لَہٗ إِخْوَۃٌ۔۔) (یا اس کو درج ذیل طریقہ کے مطابق سمجھیں ) صرف ماں کے حصے : ١۔ میت کی اولاد ہو (صرف مذکر کی شرط ہے) تو ماں کو چھٹا حصہ ملے گا۔ (وَلِأَبَوَیْہِ لِکُلِّ وَاحِدٍ۔۔) ٢۔ میت کی اولاد نہ ہو تو ماں کو تیسراحصہ ملے گا۔ (فَإِنْ لَّمْ یَکُنْ لَّہٗ وَلَدٌ۔۔) صرف باپ کے حصے : ١۔ میت کی اولاد ہو تو باپ کو کل مال کا چھٹا حصہ ملے گا۔ (وَلِأَبَوَیْہِ لِکُلِّ۔۔) ٢۔ میت کی اولاد نہ ہو تو باپ عصبہ کی صورت میں باقی ماندہ مال لے گا۔ (فَإِنْ لَّمْ یَکُنْ لَّہٗ وَلَدٌ۔۔) ٣۔ جب میت کی بیٹی، پوتی وغیرہ نیچے تک کوئی موجود ہو تو باپ صاحب فرض اور عصبہ ہونے کے لحاظ سے وارث بنے گاْ۔ خاوند : ١۔ بیوی کی اگر کوئی اولاد اس خاوند سے یا پہلے کسی خاوند سے نہ ہو تو خاوند کو کل ترکے کا نصف ملے گا۔ (وَلَکُمْ نِصْفُ مَاتَرَکَ أَزْوَاجُکُمْ۔۔) ٢۔ اگر بیوی کی اس سے یا پہلے خاوند سے کوئی اولاد ہو تو خاوند کو اس کے کل ترکے سے چوتھا حصہ ملے گا۔ (فَإِنْ کَانَ لَھُنَّ وَلَدٌ فَلَکُمُ۔۔) بیوی : ١۔ خاوند کی اگر کوئی اولاد نہ ہو تو بیوی کو کل مال کا چوتھا حصے ملے گا۔ (وَلَھُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا۔۔) ٢۔ خاوند کی اگر کوئی اولاد ہو تو بیوی کو کل مال کا آٹھواں حصہ ملے گا۔ (فَإِنْ کَانَ لَکُمْ وَلَدٌ فَلَھُنَّ الثُّمُنُ۔۔) بہن، بھائی : ١۔ میت کی اولاد در اولاد اور باپ دادا وغیرہ نہ ہوں اور ماں کی طرف سے ایک بہن یا ایک بھائی وارث بن رہا ہو تو اسے کل مال کا چھٹا حصہ ملے گا مذکر و مونث کی تمیز نہ ہوگی۔ (وَإِنْ کَانَ رَجُلٌ یُّوْرَثُ کَلَالَۃً۔۔) ٢۔ میت کی اولاد در اولاد اور باپ دادا وغیرہ نہ ہوں اور ماں کی طرف سے بہن بھائی یا ایک سے زیادہ ہوں تو ان تمام کو کل مال کا تیسرا حصہ دیا جائے گا، مذکر و مونث اس میں برابر کے حصہ دار ہوں گے۔ (فَإِنْ کَانُوْا أَکْثَرَ مِنْ۔۔) نوٹ : ١۔ اولاد ہونے کی صورت میں پوتے پوتی کو کچھ نہ ملے گا۔ ٢۔ باپ کی موجودگی میں دادا کو کچھ نہ ملے گا اگر باپ نہیں تو دادا باپ والا حصہ لے گا۔ ٣۔ صرف اولاد یا صرف باپ یا اولاد اور باپ کی موجودگی میں میت کے بہن بھائی کو کچھ نہیں ملے گا۔ ٤۔ صرف باپ یا ماں باپ کی طرف سے بہن بھائیوں کی وراثت کا بیان سورۃ کی آخری آیت میں آئے گا۔ مسائل ١۔ لڑکے کا حصہ دو لڑکیوں کے برابر ہے۔ ٢۔ صرف لڑکیاں ہوں اور دو سے زیادہ ہوں تو انہیں دو تہائی دیا جائے گا۔ ٣۔ صرف ایک لڑکی وارث ہونے کی صورت میں اسے آدھا مال ملے گا۔ ٤۔ میت کے متروکہ مال میں ماں باپ میں سے ہر ایک کا چھٹا حصہ ہوگا۔ ٥۔ میت کی اولاد نہ ہونے کی صورت میں اس کی ماں تیسرے حصے کی وارث ہوگی۔ ٦۔ مرنے والے کے بہن بھائی ہوں تو ماں کا چھٹا حصہ ہوگا۔ ٧۔ فوت ہونے والی بیوی کی اولاد نہ ہو تو خاوند کو نصف حصہ ملے گا۔ ٨۔ مرنے والی کی اولاد ہو تو خاوند کا چوتھا حصہ ہوگا۔ ٩۔ آدمی کی اولاد نہ ہو تو اس کی بیوی کو چوتھا حصہ ملے گا۔ ١٠۔ فوت ہونے والے کی اولاد ہو تو اس کی بیوی کا آٹھواں حصہ ہوگا۔ ١١۔ فوت ہونے والے مرد یا عورت کی اولاد، ماں باپ اور دادی دادا نہ ہوں تو بھائی اور بہن (ماں جائے) ہونے کی صورت میں ہر ایک کو چھٹا حصہ ملے گا۔ ١٢۔ کلالہ کے بہن بھائی (ماں جائے) زیادہ ہوں تو وہ تیسرے حصے کے حق دار ہوں گے۔ ١٣۔ یہ تقسیم کفن دفن اور قرض کی ادائیگی اور میت وصیت پر عمل کرنے کے بعد ہوگی۔ النسآء
12 النسآء
13 فہم القرآن ربط کلام : ان دو آیات میں اللہ تعالیٰ نے میراث کے احکام کو اپنی حدود قرار دینے کے بعداسکے ماننے والوں کو جزا اور نہ ماننے والوں کو سزا سنائی ہے۔ ان آیات میں ماں باپ، اولاد اور ان کے قریبی رشتہ داروں کے درمیان میّت کی چھوڑی ہوئی متروکہ جائیداد کی وراثت کے بارے میں اصول متعین کر کے انہیں میت کا وارث بنایا گیا۔ لیکن حدیث میں کچھ جرائم کے مرتکب افراد کو بعض حالتوں میں وراثت سے محروم کردیا گیا ہے۔ جن میں سر فہرست مسلمان کافر کا اور کافر مسلمان کا وارث نہیں ہوسکتا یعنی ایک آدمی پہلے کافر تھا اب مسلمان ہوا لہٰذانئے دین میں شامل ہونے کی وجہ سے دوسرے دین کے حامل کا وارث نہیں ہوسکتا۔ اس کے برعکس اگر ایک شخص پہلے مسلمان تھا بد قسمتی سے عیسائی‘ یہودی یا کسی اور مذہب میں داخل ہوگیا تو وہ بھی وراثت کا حقدار نہیں ہو سکتا۔ [ رواہ البخاری : کتاب الفرائض] ٢۔ باپ کا قاتل بیٹا ہو یا بیٹی وہ وراثت سے محروم ہوجائیں گے۔ ٣۔ قاتل اگر مقتول کی وراثت میں حصہ دار ہے تو قتل عمد کی صورت میں وہ بھی اپنے حصہ سے محروم ہوگا۔ اللہ تعالیٰ کی حدود کے بارے میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے : (إِنَّ الْحَلَالَ بَیِّنٌ وَإِنَّ الْحَرَامَ بَیِّنٌ وَبَیْنَھُمَا مُشْتَبِھَاتٌ لَایَعْلَمُھُنَّ کَثِیْرٌ مِّنَ النَّاسِ فَمَنِ اتَّقَی الشُّبُھَاتِ اسْتَبْرَأَ لِدِیْنِہٖ وَعِرْضِہٖ وَمَنْ وَقَعَ فِی الشُّبُھَاتِ وَقَعَ فِی الْحَرَامِ کَالرَّاعِیْ یَرْعٰی حَوْلَ الْحِمٰٰی یُوْشِکُ أَنْ یَّرْتَعَ فِیْہِ أَلَا وَإِنَّ لِکُلِّ مَلِکٍ حِمًی أَلَا وَإِنَّ حِمَی اللّٰہِ مَحَارِمُہٗ أَلَا وَإِنَّ فِی الْجَسَدِ مُضْغَۃً إِذَا صَلَحَتْ صَلَحَ الْجَسَدُ کُلُّہٗ وَإِذَ فَسَدَتْ فَسَدَ الْجَسَدُ کُلُّہٗ أَلَا وَھِیَ الْقَلْبُ ) [ رواہ مسلم : کتاب المساقاۃ، باب أخذ الحَلال وترک الشبھات] ” یقیناً حلال بھی واضح ہے اور حرام بھی ان کے درمیان کچھ مشتبہات ہیں جنہیں اکثر لوگ نہیں جانتے جو شبہات سے بچ گیا اس نے اپنے دین اور عزت کو بچا لیا اور جو شبہات میں واقع ہوا وہ حرام میں داخل ہوگیا۔ یہ اس چرواہے کی طرح ہے جو چراگاہ کے قریب جانور چراتا ہے ہوسکتا ہے وہ جانور چراگاہ میں چرنا شروع ہوجائیں۔ خبردار! ہر بادشاہ کی چراگاہ ہوتی ہے اور اللہ کی چراگاہ اس کی حرام کردہ چیزیں ہیں۔ سنو! یقیناً جسم میں ایک ٹکڑا ہے جب وہ ٹھیک ہو تو سارا جسم درست ہوتا ہے اور جب وہ فاسد ہو تو سارا جسم خراب ہوجاتا ہے یاد رکھنا! وہ دل ہے۔“ اللہ تعالیٰ کی حدود کا خیال رکھنے والے کے بارے میں فرمایا ہے کہ وہ در حقیقت اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتا ہے۔ دنیا میں اس نے اللہ کی رضا کے لیے اپنی لذّت اور مفاد کو چھوڑا۔ آخرت میں اس کا بدلہ جنت ہے جس میں نہریں جاری ہیں وہ اس میں ہمیشہ رہے گا۔ یہ بہت بڑی کامیابی ہوگی جس نے حدود اللہ کا لحاظ اور احترام نہ رکھا وہ حقیقت میں باغی انسان ہے جس کو جہنم کے دہکتے ہوئے انگاروں میں جھونکا جائے گا۔ وہ اس میں ہمیشہ رہے گا۔ اس کو اذیتّ ناک اور ذلیل کردینے والا عذاب ہوگا۔ تاہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حدود اللہ اور کبیرہ گناہ کے بارے میں یہ صراحت فرمائی ہے کہ موحّد ہونے کی صورت میں تزکیہ یعنی سزا بھگتنے کے بعد اسے جنت میں داخل کردیا جائے گا : (عَنْ أَبِیْ سَعِیْدِ نِ الْخُدْرِیِ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ یَدْخُلُ أَھْلُ الْجَنَّۃِ الْجَنَّۃَ وَأَھْلُ النَّار النَّارَ ثُمَّ یَقُوْلُ اللّٰہُ تَعَالٰی أَخْرِجُوْا مَنْ کَانَ فِیْ قَلْبِہٖ مِثْقَالُ حَبَّۃٍ مِّنْ خَرْدَلٍ مِّنْ إِیْمَانٍ فَیُخْرِجُوْنَ مِنْھَا قَدِ اسْوَدُّوْا فَیُلْقَوْنَ فِیْ نَھْرِ الْحَیَاۃِ فَیَنْبُتُوْنَ کَمَا تَنْبُتُ الْحَبَّۃُ فِیْ جَانِبِ السَّیْلِ أَلَمْ تَرَ أَنَّھَا تَخْرُجُ صَفْرَاءَ مُلْتَوِیَۃً) [ رواہ البخاری : کتاب الایمان، باب تفاضل أھل الإیمان فی الأعمال] ” حضرت ابو سعید خدری (رض) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں کہ جنت والے جنت اور جہنم والے جہنم میں داخل ہوجائیں گے پھر اللہ تعالیٰ فرمائیں گے آگ سے ہر اس آدمی کو نکال لیا جائے جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان ہے۔ فرشتے آگ سے لوگوں کو نکالیں گے جو جل کر سیاہ ہوچکے ہوں گے انہیں نہر حیات میں غسل دیا جائے گا وہ ایسے نمو پائیں گے جس طرح سیلاب کے کنارے دانہ بہترین حالت میں اگتا ہے۔“ مسائل ١۔ وراثت کے مسائل اللہ تعالیٰ کی مقرر کردہ حدود ہیں۔ ٢۔ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرنے والے کو جنت نصیب ہوگی۔ ٣۔ اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی اور حدود سے تجاوز کرنے والے کو ذلیل ترین عذاب ہوگا۔ النسآء
14 النسآء
15 النسآء
16 فہم القرآن ربط کلام : معاشرتی اور معاشی استحاصل ختم کرنے کے احکامات کے بعد اخلاقی بے راہ روی کے خاتمہ کا حکم۔ نزول اسلام سے پہلے روم‘ ایران اور دیگر ممالک کے ساتھ عرب معاشرہ میں ایک طبقہ پرلے درجے کی بے حیائی‘ فحاشی اور بدکاری میں مبتلا تھا۔ بعض شہروں میں جن میں مدینہ بھی شامل تھا باقاعدہ فحاشی کے اڈے قائم ہوچکے تھے۔ بے حیائی کا ارتکاب کرنے والی عورتیں اپنے گھروں پر جھنڈا نما کپڑا لٹکا یا کرتی تھیں تاکہ بے حیالوگ آسانی کے ساتھ راغب ہو سکیں۔ یہ دھندہ کنواری عورتیں ہی نہیں بلکہ شادی شدہ عورتیں بھی کیا کرتی تھیں۔ اسلام نے اس بے حیائی کو روکنے اور ایسے مقدّمات کی تحقیق کے لیے ایک نظام اور طریق کار وضع فرمایا کہ جرم ثابت ہونے پر پہلے نسبتاً ہلکی سزا تجویز کی گئی کہ اگر تمہاری عورتوں میں سے کوئی عورت بد کاری کا ارتکاب کرے تو اس پر چار عادل گواہ پیش کیے جائیں جو صرف عادل مردوں سے ہونے چاہییں اگر وہ اسلامی تقاضوں کے مطابق ٹھیک ٹھیک گواہی دیتے ہیں تو پھر ایسی عورتوں کو ان کے گھروں میں اس وقت تک محصور رکھا جائے جب تک اللہ تعالیٰ کوئی اور حکم نازل نہیں فرماتے یا پھر انہیں اس حالت میں موت آ جائے۔ اس سے اگلی آیت میں ہم جنسی کرنے والے دو مردوں کی سزا بیان کی ہے کہ انہیں اس جرم کے بدلے اذیّت دی جائے۔ اگر وہ تائب ہوجائیں اور اپنی اصلاح کا وعدہ کریں تو پھر انہیں چھوڑ دیا جائے یقیناً اللہ تعالیٰ توبہ قبول کرنے والا نہایت مہربان ہے۔ بعد میں اس سزا میں اضافہ کیا گیا کہ شادی شدہ زانی مرد ہو یا عورت اسے سنگسار کیا جائے اور غیر شادی شدہ مرد ہو یا عورت اسے سو کوڑے مارے جائیں۔ اس کی تفسیر سورۃ نور میں آئے گی۔ ان شاء اللہ۔ قرآن مجید نے یہاں ” وَالَّذَانِ“ کا لفظ استعمال کیا ہے جس کے اہل علم نے دو معانی کیے ہیں۔ 1 وَالَّذَان اسم موصول مذکر کے لیے استعمال ہوتا ہے مؤنث کا مذکر کے تابع ہونے کی وجہ سے یہاں مذکر اشارۃً لایا گیا ہے اس لیے بعض اہل علم نے اس کی تفسیر میں لکھا ہے کہ ” وَالَّذَانِ“ کا معنیٰ ہے مرد اور عورت یعنی غیر شادی شدہ۔ 2” دو مردوں کا آپس میں ہم جنسی کرنے کے بارے میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا یہ قوم لوط کا فعل ہے جن کو اس جرم کی پاداش میں زمین سے اٹھا کر آسمان کے قریب لے جا کر الٹا پھینکا گیا پھر ان لوگوں پر آسمان سے سنگ باری کی گئی۔“ قرآن میں ان کے جرم اور اس کی سزا الاعراف آیت ٨٠ تا ٨٤ کی تلاوت کریں۔ مسائل ١۔ بدکاری کے ثبوت کے لیے چار گواہ ہونے چاہئیں۔ ٢۔ ہم جنسی جرم ہے۔ ٣۔ اللہ توبہ قبول فرمانے اور رحم کرنے والا ہے۔ تفسیر بالقرآن ہم جنسی کرنے والوں کی سزا : ١۔ ہم جنسی کی ابتدا قوم لوط نے کی۔ (الاعراف : ٨٠) ٢۔ ہم جنسی کی سزا۔ (الاعراف : ٨٤) بدکاری کی سزا : ١۔ شادی شدہ زانی کو رجم کرنے کا حکم۔ (مسلم : کتاب الحدود) ٢۔ کنوارے زانی مرد وزن کو سو کوڑے مارنے کا حکم۔ (النور : ٢) ٣۔ تہمت لگانے والے کی سزا۔ (النور : ٤) النسآء
17 فہم القرآن ربط کلام : اخلاقی بے راہروی کی سزا اور اس کی توبہ اور اب ان لوگوں کا ذکر ہوتا ہے جن کی توبہ قبول ہوگی اور جن کی توبہ قبول نہیں کی جائے گی۔ قرآن مجید کے اسلوب بیان میں بیشمار لطافتیں اور حکمتیں ہیں ان میں یہ بھی حکمت ہے کہ یہ محض قانون اور ضابطوں کی کتاب نہیں کہ جس میں پھیکا پن، جرم کی تفصیل اور صرف سزاؤں کا تذکرہ ہو قرآن مجید کی لطافت و بلاغت یہ ہے کہ وہ کسی قانون اور سزا کو محض ضابطے کے طور پر نہیں بلکہ اسے نصیحت اور خیر خواہی کے طور پر بیان اور نافذ کرتا ہے۔ بدکار لوگوں کی سزا کا ذکر کرنے کے فوراً بعد توبہ کا اعلان کرتے ہوئے فرمایا کہ جو لوگ جہالت سے سرزد ہونے والے گناہ کے فوراً بعد توبہ کریں گے اللہ تعالیٰ ان کی توبہ ضرور قبول فرمائے گا۔ البتہ ان لوگوں کی توبہ ہرگز قبول نہیں ہوگی جو پے در پے گناہ کرتے رہے یہاں تک کہ موت نے انہیں آ لیا یا وہ کفر کی حالت میں مرے ان کے لیے نہایت ہی تکلیف دہ عذاب تیار کیا گیا ہے۔ جہالت کی تعریف کرتے ہوئے حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کے شاگرد حضرت عکرمہ (رض) فرمایا کرتے تھے جو کام بھی اللہ تعالیٰ کی تابعداری سے خارج ہو وہ جہالت تصور کیا جائے گا۔ لہٰذا جس شخص سے گناہ سرزد ہو اسے فوراً توبہ کرنی چاہیے۔ توبہ کے متعلق رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشادات ١۔ توبہ کا دروازہ قیامت تک کھلا ہے اور ہر شخص کی توبہ نزع کے وقت سے پہلے قبول ہو سکتی ہے۔ نزع سے مراد موت کی وہ گھڑی ہے جب مرنے والے کو دنیا کی بجائے آخرت نظر آنے لگتی ہے۔ ٢۔ (کُلُّ بَنِیْ اٰدَمَ خَطَّاءٌ وَخَیْرُ الْخَطَّآءِیْنَ التَّوَّابُوْنَ) [ رواہ ابن ماجۃ: کتاب الزھد، باب ذکر التوبۃ] ” آدم کی ساری اولاد خطا کار ہے اور بہترین خطا کار توبہ کرنے والے ہیں۔“ ٣۔ (مَنْ تَابَ قَبْلَ أَنْ یُغَرْغِرَ نَفْسُہٗ قَبِلَ اللّٰہُ مِنْہُ) [ احمد : کتاب باقی مسند المکثرین، باب أحادیث رجال من أصحاب النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ] ” جس نے موت کے آثار ظاہرہونے سے پہلے توبہ کرلی اللہ اس کی توبہ قبول کرتا ہے۔“ ٤۔ ( اَلتَّاءِبُ مِنَ الذَّنْبِ کَمَنْ لَّا ذَنْبَ لَہٗ) [ رواہ ابن ماجۃ: کتاب الزھد] ” گناہ سے توبہ کرنے والا گناہ نہ کرنے کے برابر ہوجاتا ہے۔“ توبہ کی شرائط : توبہ کرنے والا اپنے گناہ پر نادم، آئندہ رک جانے کا عہد اور گناہ کے اثرات کو مٹانے کی کوشش کرے۔ مسائل ١۔ جہالت کی وجہ سے گناہ کرنے والا توبہ کرے تو اللہ تعالیٰ توبہ قبول کرتا ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ جاننے والا‘ حکمت والا ہے۔ ٣۔ موت کے وقت توبہ کرنے کا کوئی فائدہ نہ ہوگا۔ ٤۔ کفار کے لیے دردناک عذاب ہے۔ تفسیر بالقرآن کس کی توبہ قبول نہیں ہوتی : ١۔ موت کے وقت توبہ قبول نہیں۔ (النساء : ١٨) ٢۔ فرعون کی غرق ہونے کے وقت توبہ قبول نہیں ہوئی۔ (یونس : ٩١، ٩٠) ٣۔ عذاب کے وقت ایمان قبول نہیں ہوتا۔ (المومن : ٨٥) ٤۔ مرتد کی توبہ قبول نہیں ہوگی۔ (البقرۃ: ٢١٧) النسآء
18 النسآء
19 فہم القرآن ربط کلام : بدکاری کی سزا اور اس کی توبہ کے بیان سے پہلے عورتوں کے حقوق کا ذکر ہو رہا تھا اب اس کا تسلسل بحال ہوتا ہے۔ عورتوں کے بارے میں عربوں کی جہالت اس حد تک پہنچ چکی تھی کہ وہ عورت کو منڈی کا مال سمجھتے تھے۔ اگر کسی عورت کا خاوند فوت ہوجاتا تو نہ صرف وہ اپنی وراثت سے محروم ہوتی بلکہ مرنے والے کے وارث اس عورت کو اپنی ملک سمجھتے ہوئے اس سے من مرضی کا سلوک کرتے جس کی چار صورتیں تھیں۔ ١۔ بیوہ کو جبراً نکاح میں لینا یہاں تک کہ بعض قبائل میں لوگ اپنی سوتیلی والدہ کو بیوی بنا لیا کرتے تھے۔ ٢۔ عورت کو طلاق دینے کے باوجود آگے نکاح کرنے سے روکنا۔ ٣۔ عورت کی جائیداد اور حق مہر پر قبضہ کرنا۔ ٤۔ ذاتی اور قومی عصبیت کی بنیاد پر بیوہ یا مطلقہ کو نکاح سے روکنا۔ یہاں صرف ایک صورت میں عورت کا حق مہر لینے کی اجازت دی ہے کہ اگر کوئی عورت اپنے خاوند کی انتہاء درجے کی گستاخ ہو یا اس نے بدکاری کا ارتکاب کیا ہو تو ایسی صورت میں خاوند کو حق ہے کہ وہ سزا کے طور پر اس کا حق مہر ضبط کرلے۔ اس آیت میں دوسرا حکم یہ ہے کہ عورتوں کے ساتھ اچھا سلوک کیا جائے ان میں اگر کوئی عادت تمہیں پسند نہیں تو بہت ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ اس بیوی کی وجہ سے تمہیں خیر کثیر عطا فرمائے۔ خیر کثیر سے مراد نیک اولاد، بیوی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ رزق میں برکت اور عزت میں اضافہ فرمادے اور بیوی خاوند کی خیرخواہ ہو اور اپنی اولاد کی تربیت کا خصوصی خیال رکھنے والی ہو۔ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اسْتَوْصُوْا بالنِّسَاءِ فَإِنَّ الْمَرْأَۃَ خُلِقَتْ مِنْ ضِلَعٍ وَإِنَّ أَعْوَجَ شَیْءٍ فِی الضِّلَعِ أَعْلَاہُ فَإِنْ ذَھَبْتَ تُقِیْمُہٗ کَسَرْتَہٗ وَإِنْ تَرَکْتَہٗ لَمْ یَزَلْ أَعْوَجَ فَاسْتَوْصُوْا بالنِّسَاءِ) [ رواہ البخاری : کتاب أَحادیث الأنبیاء، باب خلق آدم وذریتہ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا عورتوں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آؤ کیونکہ یہ ٹیڑھی پسلی سے پیدا کی گئی ہیں اور سب سے ٹیڑھی پسلی اوپر والی ہوتی ہے اگر تو اسے سیدھا کرنا چاہے تو اسے توڑ دے گا اور اگر تو اسے چھوڑ دے گا تو وہ ٹیڑھی ہی رہے گی عورتوں کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔“ (عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ عَوْفٍ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) إِذَا صَلَّتِ الْمَرْأَۃُ خَمْسَھَا وَصَامَتْ شَھْرَھَا وَحَفِظَتْ فَرْجَھَا وَأَطَاعَتْ زَوْجَھَا قِیْلَ لَھَاادْخُلِی الْجَنَّۃَ مِنْ أَیِّ أَبْوَابِ الْجَنَّۃِ شِءْتِ) [ مسند احمد : کتاب منسد العشرۃ المبشرین بالجنۃ، باب حدیث عبدالرحمن بن عوف] ” حضرت عبدالرحمن بن عوف (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب عورت پانچ نمازیں ادا کرے، رمضان کے روزے رکھے، اپنی عفت کی حفاظت کرے اور اپنے خاوند کی اطاعت کرے تو اسے کہا جائے گا کہ تو جس دروازے سے چاہے جنت میں داخل ہوجا۔“ مسائل ١۔ عورتوں کی وراثت پر قبضہ کرنا حرام ہے۔ ٢۔ عورتوں سے حسن سلوک سے پیش آنا چاہیے۔ تفسیربالقرآن بیویوں کے ساتھ اچھا سلوک کرنا : ١۔ بیویوں سے اچھا سلوک کرنے کا حکم۔ (النساء : ١٩) ٢۔ بیویوں کو تکلیف نہ دی جائے۔ (الطلاق : ٦) ٣۔ حق زوجیت ادا کیا جائے۔ (النساء : ٣) ٤۔ حق مہر خوشی سے ادا کرنا چاہیے۔ (النساء : ٤) ٥۔ حق مہر واپس نہیں لینا چاہیے۔ (النساء : ٢٠) ٦۔ بچے کی وجہ سے ماں‘ باپ کو تکلیف نہ دی جائے۔ (البقرۃ: ٢٣٣) النسآء
20 فہم القرآن ربط کلام : عورتوں کے حقوق وفرائض کا تذکرہ جاری ہے۔ بیوی کی کوئی بات ناگوار ہو تو پھر بھی اس کے ساتھ گزارا کرنا چاہیے‘ بصورت دیگر طلاق دیتے ہوئے اس سے حق مہر واپس لینے کی اجازت نہیں۔ پہلے حکم تھا اگر بیوی کی کوئی عادت ناگوار ہو تب بھی اس کے ساتھ اچھے طریقے سے رہنا چاہیے اور جبرًا کسی عورت کو نکاح میں لینا یا بیوی کی کسی چیز پر قبضہ کرنا جائز نہیں۔ اب اس بات کی اجازت دی گئی ہے کہ اگر بیوی کے ساتھ نباہ کی کوئی صورت باقی نہ رہے اور خاوند نے بیوی بدلنے کا فیصلہ کرلیا ہو تو ایسی صورت میں اس کو دیا ہوا حق مہر یا کوئی تحفہ بے شک وہ کتنا ہی گرانقدر اور قیمتی کیوں نہ ہو اس میں کچھ بھی واپس لینے کی اجازت نہیں۔ پہلی آیت میں اس بات کی اجازت تھی کہ اگر عورت بدکاری کا ارتکاب کرے یا حد سے زیادہ گستاخی کرے تو اس کا حق مہر ضبط کیا جا سکتا ہے۔ اب اس اجازت کو غلط استعمال کرنے سے منع کرنے کے لیے حکم دیا ہے کہ بلاوجہ عورت پر الزام لگا کر اسے دی ہوئی چیز واپس لینا اللہ تعالیٰ کے نزدیک تہمت لگانے کے مترادف اور بہت بڑا گناہ ہے۔ بیوی کو ہبہ کی ہوئی چیز اس لیے واپس نہیں لی جا سکتی جب کہ میاں بیوی ایک دوسرے کے ساتھ خلوت اور پختہ عہد کرچکے ہوں۔ ” اَفْضٰی“ کا معنی ہے ” بلا تکلّف ایک دوسرے کے قریب ہونا“ جس سے مراد میاں بیوی کی قربت ہے۔ مفسرین نے لکھا ہے کہ اگر میاں بیوی نے مجامعت نہ بھی کی ہو تو پھر بھی بیوی سے حق مہر لینا جائز نہیں۔ پختہ عہد کا مفہوم نکاح ہے کیونکہ عورت نکاح کے وقت اپنے آپ کو برضاء و رغبت خاوند کے حوالے کرتی ہے۔ قرآن مجید نے دوسرے مقام پر یہ ارشاد فرمایا کہ : (وَلَا تَنْسَوُا الْفَضْلَ بَیْنَکُمْ )[ البقرۃ: ٢٣٧] ” باہمی محبت کو فراموش نہ کرو۔“ جس کا مقصد یہ ہے کہ طلاق ہونے کے باوجود میاں بیوی میں دشمنی کا رویّہ پیدا نہیں ہونا چاہیے۔ مسائل ١۔ بیوی کو چھوڑتے وقت اس کو ددیئے ہوئے تحائف واپس لینا بڑا گناہ ہے۔ النسآء
21 النسآء
22 فہم القرآن ربط کلام : عورت کی عفت و تکریم کے تحفظ‘ گھر کے ماحول میں آزادی کی نعمت اور باہمی شرم و حیا اور حد درجہ احترام کے لیے کچھ رشتے مستقل طور پر اور چند رشتوں کو حسد وبغض سے بچانے اور تقدس کے تحفظ کی خاطر مخصوص مدّت کے لیے حرام قرار دیا۔ مستقل طور پر حرام کردہ رشتے درج ذیل ہیں : ١۔ ماں‘ دادی‘ نانی‘ اوپر تک۔ ٢۔ بیٹیاں‘ پوتیاں نیچے تک اور نواسیاں۔ ٣۔ سگی بہنیں۔ ٤۔ باپ یا ماں کی طرف سے یعنی سوتیلی بہنیں جنہیں علاتی اور اخیافی بہنیں کہا جاتا ہے۔ ٥۔ پھوپھیاں۔ ٦۔ خالائیں‘ خواہ یہ سگی ہوں یا اخیافی یا علاتی۔ ٧۔ بھتیجیاں اور ان کی بیٹیاں۔ ٨۔ بھانجیاں اور ان کی بیٹیاں۔ ٩۔ رضاعی مائیں۔ ١٠۔ رضاعی بہنیں اور رضاعت کی بنیاد پر وہ سب رشتے حرام ہیں جو رشتۂ نسب کی بنیاد پر حرام ہیں۔ ١١۔ ساس اور سالیاں جب تک ان کی بہن نکاح میں ہو۔ ١٢۔ سوتیلی بیٹیاں‘ جن کی ماں کے ساتھ خلوت ہوچکی ہو۔ اگر اس کے ساتھ جماع نہ کیا ہو تو پھر اس کی پہلی بیٹیوں کے ساتھ نکاح ہوسکتا ہے۔ ١٣۔ حقیقی بیٹے کی بیوہ یعنی بہو سے نکاح حرام ہے۔ ١٤۔ دو بہنوں کو بیک وقت نکاح میں جمع کرنا حرام ہے۔ ١٥۔ تمام شوہر والی عورتیں بھی حرام ہیں۔ (عَنْ عَاءِشَۃَ (رض) أَنَّھَا أَخْبَرَتْہُ أَنَّ عَمَّھَا مِنَ الرَّضَاعَۃِ یُسَمّٰی أَفْلَحَ اسْتَأْذَنَ عَلَیْھَا فَحَجَبَتْہُ فَأَخْبَرَتْ رَسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَقَالَ لَھَا لَاتَحْتَجِبِیْ مِنْہُ فَإِنَّہٗ یَحْرُمُ مِنَ الرَّضَاعَۃِ مَا یَحْرُمُ مِنَ النَّسَبِ) [ رواہ مسلم : کتاب الرضاع، باب تحریم الرضاعۃ من ماء الفحل] ” حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ ان کا رضاعی چچا جس کا نام افلح تھا اس نے ان کے پاس آنے کی اجازت چاہی تو انہوں نے اس سے پردہ کیا پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ واقعہ بتلایا آپ نے فرمایا اس سے پردہ نہ کر کیونکہ جو رشتے نسب کی وجہ سے حرام ہیں رضاعت کے سبب بھی حرام ہیں۔“ النسآء
23 النسآء
24 فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ جن عورتوں کے خاوند موجود ہوں وہ بھی حرام ہیں۔ البتہ جو عورتیں جنگی قیدی یعنی لونڈیاں بن کر تمہاری ملک (capture) میں آجائیں اور ان کے خاوند دار الحرب میں رہ جائیں تو وہ عورتیں تمہارے لیے حلال ہیں۔ کیونکہ قیدی ہونے کی وجہ سے ان کا سابقہ نکاح ختم تصور ہوگا۔ مذکورہ عورتوں کے علاوہ دوسری عورتوں سے نکاح کرنا جائز ہے۔ یہاں نکاح کا مقصد بیان فرمایا کہ یہ کام عیاشی کے لیے نہیں بلکہ بدکاری سے بچنے کے لیے ہونا چاہیے بشرطیکہ آزاد عورتوں کے حق مہر ادا کیے جائیں۔ حق مہر کی ادائیگی کے معاملہ میں باہمی رضامندی سے کچھ طے کرلیا جائے تو اس میں گناہ کی بات نہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کے احکام ہیں۔ یاد رکھو! اللہ خوب جانتا ہے کہ تم کس حد تک اس کے احکام کی پابندی کرنے والے ہو۔ قیدیوں کے بارے میں حالات کے مطابق چار صورتوں میں سے کوئی صورت اسلامی حکومت اختیار کرسکتی ہے : بلامعاوضہ آزاد کردیا جائے۔ فدیہ لے کر چھوڑا جائے۔ قیدیوں کا باہمی تبادلہ کرلیاجائے۔ قومی مصلحت کے تحت ان کے شرعی واخلاقی حقوق ادا کرتے ہوئے غلام بنا کر رکھاجائے۔ اللہ تعالیٰ پوری کائنات کا خالق‘ رازق اور مالک ہے اس کا حق اور انسان کا فرض ہے کہ وہ اللہ کی عبادت کرے اور اس کی غلامی میں زندگی گزارے۔ جو شخص یا قوم اللہ کی غلامی سے انکار اور اس کے حکم سے سرتابی کرتی ہے۔ وہ دنیا میں دنگا و فساد کا موجب بنتی ہے۔ اسے اخلاقی حدود میں رکھنے اور امن قائم کرنے کے لیے پہلے تبلیغ اور آخر میں قتال فی سبیل اللہ فرض قرار دیا گیا ہے۔ معرکۂ حق و باطل میں ضروری نہیں ہر بار مسلمان ہی غالب آئیں۔ بسا اوقات مسلمان اپنی کمزوریوں کی وجہ سے ہزیمت کا شکار ہوتے ہیں۔ ایسی صورت میں جانی‘ مالی نقصان کے ساتھ ایک دوسرے کے مردو زن قیدی بنا لئے جاتے ہیں۔ اس صورت میں کوئی چارہ کار نہ تھا کہ بامر مجبوری غلامی کی کوئی ایک صورت ایک حد تک باقی رکھی جائے۔ چنانچہ گھمبیر حالات سے عہدہ بر آ ہونے کے لیے قیدیوں کے متعلق تین باتوں میں سے کوئی ایک اختیار کرنے کی اجازت مرحمت فرمائی۔ فدیہ لے کر چھوڑنا۔ قیدیوں کا باہمی تبادلہ۔ شخصی غلامی یا ملک کے جیل خانہ میں رکھنا۔ (١) اگر فدیہ لے کر چھوڑنا قومی اور دینی مصلحت کے خلاف ہو جیسا کہ بدر کے قیدیوں کو چھوڑنے پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے سرزنش ہوئی تھی تو عادی اور بھاری مجرموں کو قتل کردیا جائے گا۔ [ رواہ مسلم : کتاب الجہاد والسیر، باب الإمدادبا لملائکۃ فی غزوۃ بدر] (٢) باہمی تبادلہ کی صورت نہ بن پڑے تو پھر مسئلہ کا حل غلامی کے بغیر نہیں رہتا۔ اس صورت میں بھی قومی مصلحت کے تحت فیصلہ ہوگا کہ عام جیل خانہ میں رکھنا چاہیے یا قومی بوجھ سے بچنے اور قیدیوں کی دینی‘ اخلاقی تربیت کے لیے شخصی غلامی میں دینا چاہیے۔ شخصی غلامی کی صورت میں درج ذیل پابندیاں عائد کی گئی ہیں۔ کیا کوئی غیور مسلمان یہ گوارا کرسکتا ہے کہ ہمارے قیدی تو دشمن کے قبضہ میں رہیں اور دشمن کے قیدی چھوڑ دیے جائیں۔ مسلمان تو درکنار کوئی قوم بھی اس طرح کرنے کا تصور نہیں کرسکتی۔ اس ناگزیر صورت حال میں اسلام نے قیدیوں کے ساتھ جو سلوک روا رکھنے کے احکامات جاری فرمائے اور جن پر ہر دور کے مسلمانوں نے عمل کیا ہے۔ تاریخ میں اس کی مثال ملنا مشکل ہے۔ غلامی کے بارے میں جو غلط فہمی پیدا کی ہے وہ یہ ہے کہ جو قیدی جس کے ہاتھ میں آئے وہ اس کی ملکیت ہے۔ اس کے ساتھ جو چاہے سلوک کرے حالانکہ اس پکڑ دھکڑ کا اسلام میں کوئی تصور نہیں۔ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا خادم آپ کی سواری کا پلان سیدھا کر رہا تھا کہ دشمن کا تیر لگنے سے موقعہ پر فوت ہوگیا۔ صحابہ (رض) نے تبصرہ کیا کہ کتنا خوش قسمت ہے کہ ابھی چند دن ہوئے مسلمان ہوا اور شہادت کا رتبہ پالیا۔ نبی محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ ہرگز نہیں میں اسے آگ میں لپٹا ہوا دیکھ رہا ہوں۔ النسآء
25 فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ جو شخص آزاد مسلمان عورتوں سے نکاح کے اخراجات کی طاقت نہیں رکھتا وہ مسلمان لونڈیوں سے نکاح کرسکتا ہے کیونکہ مسلمان رشتۂ اسلام کے اعتبار سے ایک دوسرے سے منسلک ہیں۔ یہ لوگوں کے اپنے پیدا کردہ حالات کا نتیجہ ہے کہ ان میں سے کچھ غلام بنا لیے گئے ہیں۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے سب کو آزاد پیدا فرمایا ہے۔ لونڈی سے نکاح کے لیے اس کے مالک سے اجازت لینے کے ساتھ اس کو حق مہر بھی ادا کرنا ہوگا۔ اس لونڈی کا بھی فرض ہے کہ وہ محض شہوت رانی کے بجائے مستقل نکاح کی نیت رکھتے ہوئے پاک دامنی کے ارادے سے ازدواجی بندھن میں آئے اور کسی سے پوشیدہ دوستی رکھنے سے بھی مکمل اجتناب کرے۔ اگر منکوحہ لونڈی بدکاری کا ارتکاب کربیٹھے تو آزاد عورت کے مقابلے میں اسے آدھی سزا ہوگی۔ تخفیف سزا کی بنیادی وجوہات یہ ہیں : ١۔ آزاد عورت کو اپنے خاوند، خاندان اور والدین کی حفاظت ونگرانی حاصل ہوتی ہے۔ جبکہ لونڈی پر اتنی نگرانی نہیں ہوتی۔ ٢۔ لونڈی کسی کی ملکیت میں ہونے کی وجہ سے مجبور ہوتی ہے کہ مالک اسے جہاں اور جن لوگوں کے پاس چاہے کام کے لیے بھیج سکتا ہے جب کہ آزاد عورت اس طرح مجبور نہیں ہوتی۔ ٣۔ کسی کی لونڈی ہونے کی وجہ سے نفسیاتی طور پر خاوند کا رعب اور وقار اتنا نہیں سمجھتی جتنا آزاد عورت سمجھتی ہے کیونکہ یہ لونڈی اپنے مالک کے ماتحت ہوتی ہے۔ ان وجوہات کی وجہ سے لونڈی سے بدکاری ہونے کا امکان زیادہ ہوتا ہے جس وجہ سے سزا میں بھی تخفیف کردی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آزاد عورتوں کو چھوڑ کر لونڈیوں سے شادی کرنے کی دو وجوہ بیان کی ہیں انہیں ذہن نشین رکھنا چاہیے۔ ١۔ آزاد عورت سے شادی کے اخراجات برداشت نہ کرسکتاہو۔ ٢۔ آدمی اپنے آپ میں کسی گناہ میں ملوث ہونے کا خوف محسوس کرتاہو۔ ان دو وجوہات کے علاوہ اسے لونڈی سے شادی کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔ لونڈی سے نکاح کرنے کی قباحتیں : ١۔ غیور آدمی کو یہ بات مسلسل کھٹکتی رہے گی کہ میری بیوی دوسرے کی لونڈی ہے۔ ٢۔ لونڈی کی اولاد اس کے خاوند کی بجائے شرعی طور پر آقا کی ملکیت ہوتی ہے۔ ٣۔ لونڈی اپنے خاوند کے حق زوجیت ادا کرنے کے علاوہ باقی معاملات میں اپنے آقا کی پابند ہوتی ہے۔ مسائل ١۔ آزاد عورت کے ساتھ نکاح کرنے کی استعداد نہ ہو تو مومنہ لونڈی رکھنا جائز ہے۔ ٢۔ بدکار لونڈی کی سزا نصف ہے۔ النسآء
26 فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ عورتوں کے حقوق اور دیگر مسائل کے بارے میں دنیا کے دوبڑے مذاہب یہود و نصاریٰ نے بہت سے حقائق چھپا رکھے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان مسائل کو کھول کھول کر بیان کرنے کے بعد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے یہ اس لیے کھول کر بیان کیے ہیں تاکہ تمہیں پہلے انبیاء اور صلحاء کا راستہ دکھلایا جائے اور تمہیں معلوم ہو کہ اللہ کے برگزیدہ لوگوں کی زندگی کا کیا اسلوب ہوا کرتا ہے تاکہ تم صالح زندگی اختیار کرکے اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم کے حقدار بن جاؤ۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ تم پر اپنے کرم و فضل کے ساتھ توجہ کرنا چاہتا ہے۔ جو لوگ اپنے نفس کے پجاری، خواہشات کے بندے اور رسومات کے غلام بن چکے ہیں وہ چاہتے ہیں کہ تم صراط مستقیم اور اللہ کے کرم سے محروم ہوجاؤ۔ یہ تم پر اللہ تعالیٰ کا خاص کرم ہوا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے دین میں کوئی ایسی بات نہیں رکھی جو تمہاری قوت عمل سے باہر ہو۔ دینی احکام کو اس لیے آسان رکھا گیا کیونکہ انسان نہایت کمزور پیدا کیا گیا ہے۔ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ إِنَّ الدِّیْنَ یُسْرٌوَلَنْ یُّشَادَّ الدِّیْنَ أَحَدٌ إِلَّا غَلَبَہٗ فَسَدِّدُوْا وَقَارِبُوْا وَأَبْشِرُوْا وَاسْتَعِیْنُوْا بالْغُدْوَۃِ وَالرَّوْحَۃِ وَشَیْءٍ مِّنَ الدُّلْجَۃِ) [ رواہ البخاری : کتاب الإیمان، باب الدین یسر] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا دین آسان ہے کوئی شخص اسلام پر غالب نہیں آسکتا بلکہ دین ہی غالب ہوگا۔ اجروثواب کا راستہ اور میانہ روی اختیار کرو، لوگوں کو خوشخبریاں دو، صبح و شام اور رات کے کچھ حصے میں اللہ تعالیٰ کی رضا طلب کرتے رہو۔“ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام (رض) کے بعد کچھ نام نہاد علماء اور جاہل صوفیوں نے مصنوعی تقویٰ، گروہی تعصبات اور دنیوی مفادات کی خاطر دین اسلام میں بے پناہ اضافے کیے۔ مذہبی پیشواؤں کی مجرمانہ حرکت، لوگوں کی بے علمی اور دین سے عدم دلچسپی کی وجہ سے آسان ترین دین آج لوگوں کو مشکل دکھائی دے رہا ہے۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے یہ دین نہایت ہی آسان اور فطرت انسانی کے مطابق بنایا ہے۔ عادی مجرموں، پیشہ ور ظالموں اور اس پر جان بوجھ کر عمل نہ کرنے والوں کے سوا سب کے لیے دین آسان ہے۔ جو شخص خلوص نیت کے ساتھ اس پر عمل پیرا ہونے کی کوشش کرے گا اسے نہ صرف دین آسان دکھائی دے گا بلکہ اس کی دنیا و آخرت کی مشکلات آسان ہوجائیں گی۔ بشرطیکہ اجتماعی ضابطوں پر اجتماعی طور پر اور انفرادی قوانین پر انفرادی سطح پر عمل پیرا ہوا جائے۔ اللہ تعالیٰ سے توفیق مانگتے : یقینا اسلام فطرت کے موافق اور آسان بنایا گیا ہے۔ انسانی طبائع کیونکہ ہمیشہ ایک جیسی نہیں رہتیں۔ دنیاوی ترغیبات، معاشرتی اور کاروباری مشکلات انسان پر گہرے اثرات مرتب کرتی ہیں جن کی وجہ سے آدمی سستی، کم ہمتی اور بے توجہی کا شکار ہوجاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے سستی سے بچنے کی دعا مانگنی چاہیے۔ گرامی قدر رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بڑے اہتمام کے ساتھ اللہ کے حضور یہ دعائیں کیا کرتے تھے : (اَللّٰھُمَّ أَعِنِّیْ عَلٰی ذِکْرِ کَ وَشُکْرِکَ وَحُسْنِ عِبَادَتِکَ) [ رواہ ابوداوٗد : کتاب الصلاۃ] ” الٰہی! اپنے ذکر، شکر اور اچھی طرح عبادت کرنے پر میری مدد فرما۔“ (اَللّٰھُمَّ اِنِّیْٓ اَعُوْذُبِکَ مِنَ الْکَسَلِ وَالْھَرَمِ وَالْجُبْنِ وَالْبُخْلِ) [ رواہ الترمذی : کتاب الدعوات] ” اے اللہ! میں سستی، بڑھاپے، بزدلی اور بخیلی سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ لوگوں کو ہدایت دینا اور ان کی توبہ قبول کرنا چاہتا ہے۔ ٢۔ بدکار لوگ نیک لوگوں کو بے حیا بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ٣۔ انسان کی کمزوری کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اپنے احکام میں آسانی پیدا فرمائی ہے۔ تفسیر بالقرآن دین تو آسان ہے : ١۔ بیماری یا سفر میں روزہ چھوڑ کر بعد میں گنتی پوری کرنا چاہیے۔ (البقرہ : ١٨٤) ٢۔ حالت سفر میں نماز قصر کی اجازت ہے۔ (النساء : ١٠١) ٣۔ غسل یا وضو کے لیے پانی نہ ملے تو تیمم کا حکم۔ (المائدۃ: ٦) (تفصیل کے لیے دیکھیں میری کتاب ” دین تو آسان ہے) النسآء
27 النسآء
28 النسآء
29 فہم القرآن ربط کلام : حرمت رشتہ اور حرمت اموال کا باہم معنوی تعلق ہے کیونکہ دونوں کا خیال نہ رکھنے سے رنجشیں پیدا ہونے کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی قائم کردہ حرمت پامال ہوتی ہے۔ سورت کی ابتدا میں اب تک خاندان، یتامیٰ اور لونڈیوں کے معاشرتی و مالی حقوق کا ذکر اور ان کے ساتھ مقدس رشتوں کی حرمت و تکریم کا بیان ہوا ہے۔ اب مالی حقوق کو قدرے وسعت کے ساتھ یوں بیان فرمایا کہ تم اپنے ہی مال آپس میں باطل طریقے کے ساتھ نہ کھا یا کرو۔ البتہ باہمی رضا مندی کے ساتھ ایک دوسرے سے لین دین کے ذریعے مال لینا اور کھانا جائز ہے۔ جس طرح تم اپنے مال ناجائز طریقے سے نہیں کھاسکتے اسی طرح تمہیں اپنے آپ کو قتل بھی نہیں کرنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ تمہارے ساتھ مہربانی کرنا چاہتا ہے۔ اس کی مہربانی کا یہ تقاضا ہے کہ تم بھی مالی، اخلاقی اور جسمانی ظلم کرنے کے بجائے ایک دوسرے کے ساتھ محبت اور مہربانی کا سلوک کرو۔ جذبۂ اخوت کو بڑھانے کے لیے ایک دوسرے کے مال جیسے الفاظ استعمال کرنے کی بجائے ایسی ضمیریں استعمال فرمائی ہیں۔ جن سے باہمی قربت و شفقت کا احساس بیدار ہو سکے۔ جو شخص اس حکم اور نصیحت کے باوجود کسی پر مالی اور جانی ظلم کرے گا دنیا میں شاید وہ اس کی سزا سے بچ جائے لیکن آخرت کی سزا سے ہرگز نہیں بچ سکے گا۔ اللہ تعالیٰ کے لیے ایسے ظالموں کو سزا دینا ذرّہ برابر بھی مشکل نہیں۔ دنیا تو نہایت مختصر اور جلد ہی ختم ہوجانے والی ہے اور اس کے بعد اسے جہنم کے دہکتے ہوئے انگاروں میں جھونک دیا جائے گا۔ وہاں نہ ان جرائم کی معافی ہوگی اور نہ ہی سزا کے بغیر تلافی ہو سکے گی۔ آپ نے دھوکا دہی، ملاوٹ، ناپ تول میں کمی و بیشی، حرام چیزوں کی خرید و فروخت اور رشوت سے منع فرمایا۔ اب ہم احادیث کے حوالہ جات سے قدرے تفصیل کے ساتھ جائز اور ناجائز طریقوں کا ذکر کریں گے۔ قتل کے بارے میں سورۃ المائدۃ میں تفصیل بیان ہوگی۔ سود اور اس کی تمام قسمیں حرام ہیں سورۃ البقرۃ کی آیت 275 میں سود کو مطلقاً حرام قرار دیا ہے اس کی تفصیل مذکورہ آیت کے ضمن میں دیکھیں اور ہر وہ کاروبار ناجائز ہوگا جس میں سود یا اس کی کوئی شکل پائی جاتی ہو۔ ١۔ حضرت ابو امامہ (رض) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان نقل کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا جو شخص جھوٹی قسم اٹھا کر کسی مسلمان کا حق کھاتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے لیے جہنم لازم اور جنت حرام کردیتے ہیں۔ ایک شخص نے آپ سے عرض کیا اگرچہ یہ حق تلفی تھوڑی ہو؟ فرمایا اگرچہ وہ پیلو کے درخت کی ایک ٹہنی ہی کیوں نہ ہو۔ [ رواہ مسلم : کتاب الایمان، باب وعید من اقتطع الخ] ٢۔ حضرت ابوذر غفاری (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا قیامت کے دن اللہ تعالیٰ تین آدمیوں سے ہم کلام نہیں ہوگا اور نہ ہی انہیں نظر کرم سے دیکھے گا اور نہ انہیں گناہوں سے پاک کرے گا بلکہ انہیں درد ناک عذاب دیا جائے گا۔ میں نے عرض کیا کہ اللہ کے رسول ! وہ کون ہیں؟ ایسے لوگ تو نامراد اور خسارے میں پڑگئے۔ آپ نے فرمایا ٹخنوں سے نیچے تہ بند لٹکانے والا، احسان جتلانے والا اور جھوٹی قسم کھا کر مال بیچنے والا۔[ رواہ مسلم : کتاب الایمان] ماپ تول میں کمی کرنا حضرت شعیب (علیہ السلام) کی قوم اس جرم کی وجہ سے دنیا سے نیست و نابود کردی گئی۔ [ الأعراف : ٨٥] رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ماپ تول میں کمی کرنے والوں کو فرمایا یقیناً تم دو ایسے کاموں کے ذمہ دار بنائے گئے ہو۔ جن میں کوتاہی کی وجہ سے پہلی قومیں تباہ ہوگئیں۔ [ رواہ الترمذی : کتاب البیوع، باب فی المکیال والمیزان ] ایک مرتبہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بازار تشریف لے گئے ایک تولنے والے کو دیکھا کہ وہ کوئی جنس تول رہا ہے۔ اسے فرمایا تولیے مگر جھکتا ہوا۔[ رواہ النسائی : کتاب البیوع، باب الرجحان فی الوزن] حضرت جابر بن عبداللہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے شراب، مردار، خنزیر اور بتوں کی تجارت حرام قرار دی ہے۔ [ رواہ البخاری : کتاب البیوع، باب بیع المیتۃ والأصنام] حضرت ابو مسعود انصاری (رض) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ذکر کرتے ہیں کہ آپ نے کتے کی قیمت، فاحشہ کی کمائی اور نجومی کی اجرت سے منع فرمایا۔ [ رواہ البخاری : کتاب البیوع، باب ثمن الکلب] تجارت میں دھوکا دینا حرام ہے واثلہ بن اسقع (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جس شخص نے کوئی عیب دار چیز عیب بتلائے بغیر فروخت کی وہ ہمیشہ اللہ کے غضب میں مبتلا رہے گا اور فرشتے اس پر لعنت کرتے ہیں۔ [ رواہ ابن ماجۃ: کتاب التجارات] رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے سودا کرنے والے جب تک آپس میں جدا نہ ہوں انہیں سودا منسوخ کرنے کا اختیار ہے۔ اگر انہوں نے سچ بولا اور صاف گوئی سے کام لیا تو ان کی تجارت میں برکت ہوگی اگر اس کا عیب چھپایا اور جھوٹ بولا تو سودے سے برکت اٹھالی جائے گی۔ [ رواہ البخاری : کتاب البیوع، باب إذا بین البیعان......] حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک دن منڈی تشریف لے گئے اور ایک غلے کے ڈھیر میں ہاتھ ڈال کر نکالا تو انگلیوں پر نمی محسوس فرمائی۔ غلہ کے مالک سے پوچھا یہ کیا ہے؟ اس نے عرض کی کہ اللہ کے رسول رات بارش ہوئی تو میں نے گیلا اناج نیچے کردیا آپ نے فرمایا تجھے اس طرح نہیں کرنا چاہیے تھا۔ جس نے دھوکا دیا وہ ہم سے نہیں ہے۔ [ رواہ مسلم : کتاب الایمان، بابقول النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) من غشنا فلیس منا] کسی کی مجبوری سے فائدہ اٹھانا غلط ہے حضرت علی (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجبور آدمی کی تجارت سے فائدہ اٹھانے، دھوکے کی تجارت اور پھلوں کے پکنے سے پہلے سودا کرنے سے منع فرمایا۔ [ رواہ ابوداوٗد : کتاب البیوع، باب فی بیع المضطر ] ابوحرہ اپنے چچا سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا خبردار کسی پر ظلم نہ کرو۔ کسی کا مال اس کی رضا مندی کے بغیر حلال نہیں ہوتا ہے۔ [ مسندأحمد : کتاب : اول مسند البصریین، باب حدیث عم ابی حرہ] چوری کا مال خریدنا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے جس شخص نے اپنا مال کسی کے پاس پایا وہ اس سے واپس لینے کا زیادہ حقدارہے جس نے مسروقہ مال خریدا ہے وہ اس کے چور کو تلاش کر ے۔ [ رواہ النسائی : کتاب البیوع، باب الرجل یبیع السلعۃ فیستحقھا مستحق ] مسائل ١۔ مسلمانوں کا ایک دوسرے کا مال کھانا اور قتل و غارت کرنا حرام ہے۔ ٢۔ ظالم اور زیادتی کرنے والا جہنم میں داخل ہوگا۔ تفسیر بالقرآن مال کمانے کے باطل طریقے : ١۔ سود لینا۔ (البقرۃ: ٢٧٥) ٢۔ رشوت لینا۔ (البقرۃ : ٨٥) ٤۔ کم تولنا۔ (المطففین : ١) ٦۔ لوٹ مار کرنا۔ (المائدۃ : ٣٣) ٥۔ غلط مقدمات کے ذریعے مال حاصل کرنا۔ (البقرۃ : ١٨٨) النسآء
30 النسآء
31 فہم القرآن ربط کلام : رشتوں کی حرمت کو پامال کرنا اور حرام کھانا کبیرہ گناہوں میں شامل ہے۔ جو کبیرہ گناہوں سے بچے گا اس کے لیے چھوٹے گناہوں سے بچاؤ آسان ہوجاتا ہے۔ اگر چھوٹے گناہ بتقاضائے بشریت سرزد ہوجائیں تو اللہ تعالیٰ یقیناً معاف فرما دیں گے۔ رب کریم نے اس فرمان میں مومنوں کو ایک تسلی اور اطمینان دلایا ہے کہ اگر تم بڑے اور سنگین نوعیت کے گناہوں سے اجتناب کرو تو تمہارے چھوٹے چھوٹے گناہ ہم اپنے کرم سے از خود ہی معاف فرما دیں گے۔ اس فرمان کی تفسیر رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یوں فرمائی مسلمان جب وضو کرتا ہے تو اس کے ہاتھوں کے گناہ دھل جاتے ہیں۔ جب کلی کرتا ہے تو زبان کے، منہ دھوتا ہے تو آنکھوں، کان اور چہرے کے گناہ معاف ہوجاتے ہیں جب پاؤں دھوتا ہے تو پاؤں گناہوں سے پاک ہوجاتے ہیں۔ جب نماز ادا کرتا ہے تو وہ اس طرح گناہوں سے پاک اور صاف ہوجاتا ہے جس طرح موسم خزاں میں درخت کے پتے جھڑ جاتے ہیں۔ (عَنْ أَبِیْ ذَرٍ (رض) أَنَّ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خَرَجَ فِیْ زَمَنِ الشِّتَآءِ وَالْوَرَقُ یَتَھَافَتُ فَأَخَذَ بِغُصْنَیْنِ مِنْ شَجَرَۃٍ قَالَ فَجَعَلَ ذٰلِکَ الْوَرَقُ یَتَھَافَتُ قَالَ فَقَالَ یَاأَبَاذَرٍّ! قُلْتُ لَبَّیْکَ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ قَالَ إِنَّ الْعَبْدَ الْمُسْلِمَ لَیُصَلِّی الصَّلَاۃَ یُرِیْدُ بِھَا وَجْہَ اللّٰہِ فَتَھَافَتُ عَنْہُ ذُنُوْبُہٗ کَمَا یَتَھَافَتُ ھٰذَا الْوَرَقُ عَنْ ھٰذِہِ الشَّجَرَۃِ) [ مسند احمد : کتاب مسند الأنصار، باب حدیث أبی ذر (رض) ] ” حضرت ابوذر غفاری (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک دن نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سردیوں کے موسم میں باہر تشریف لائے اور پتے گر رہے تھے آپ نے درخت کی دو ٹہنیوں کو پکڑا جس سے ٹہنی کے پتے زمین پر گر پڑے پھر فرمایا ابوذر! میں نے عرض کی کہ حاضرہوں! اے اللہ کے رسول! آپ نے فرمایا مسلمان آدمی جب اخلاص کے ساتھ نماز پڑھتا ہے تو اس کے گناہ ایسے ہی گر جاتے ہیں جس طرح اس درخت کے پتے گر رہے ہیں۔“ اس طرح بعض اذکار کے فوائد بیان فرمائے کہ ان سے گناہ معاف اور پڑھنے والے کے مرتبے بلند ہوتے ہیں۔ البتہ کبیرہ گناہ سچی توبہ اور اس کے تقاضے پورے کرنے سے ہی معاف ہوتے ہیں۔ آپ نے امت کو ایسے گناہوں سے بچنے کے لیے کبیرہ گناہوں کی ایک فہرست پیش کی ہے۔ ان گناہوں کے ساتھ علماء نے قرآن و سنت کو سامنے رکھتے ہوئے ہر اس گناہ کو کبیرہ گناہ قراردیا ہے۔ جنہیں کرنے والا اللہ تعالیٰ سے بے خوف ہو کر اور تکبر سے کرتا ہے بظاہر وہ کتنا ہی چھوٹا کیوں نہ ہو۔ کچھ علماء نے ان گناہوں کو بھی کبیرہ گناہ شمار کیا ہے جن کے کرنے پر لعنت کی گئی ہے۔ تاہم یہاں ان گناہوں کا ذکر کیا جاتا ہے۔ جن کا نام لے کر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں کبیرہ گناہ قرار دیا ہے (عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ (رض) قَالَ ذَکَرَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) الْکَبَآءِرَ فَقَال الشِّرْکُ باللّٰہِ وَقَتْلُ النَّفْسِ وَعُقُوْقُ الْوَالِدَیْنِ فَقَالَ أَلَآ أُنَبِّءُکُمْ بِأَکْبَرِ الْکَبَاءِرِ قَالَ شَھَادَۃُ الزُّوْرِ) [ رواہ البخاری : کتاب الأدب، باب عقوق الوالدین من الکبائر] ” حضرت انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کبیرہ گناہوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا ” بڑے گناہ یہ ہیں اللہ کے ساتھ شرک کرنا، ناحق خون کرنا، والدین کی نافرمانی کرنا۔“ پھر فرمایا کیا میں تمہیں بڑے گناہ سے آگاہ نہ کروں؟ وہ جھوٹی گواہی دینا ہے۔“ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ اجْتَنِبُوا السَّبْعَ الْمُوْبِقَاتِ قَالُوْا یَارَسُوْلَ اللّٰہِ وَمَاھُنَّ قَال الشِّرْکُ باللّٰہِ وَالسِّحْرُ وَقَتْلُ النَّفْسِ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّٰہُ إِلَّا بالْحَقِّ وَأَکْلُ الرِّبَا وَأَکْلُ مَالِ الْیَتِیْمِ وَالتَّوَلِّیْ یَوْمَ الزَّحْفِ وَقَذْفُ الْمُحْصَنَاتِ الْمُؤْمِنَاتِ الْغَافِلَاتِ) [ رواہ البخاری : کتاب الحدود، باب رمی المحصنات] ” حضرت ابوہریرہ (رض) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان فرماتے ہیں کہ آپ نے فرمایا سات تباہ کردینے والے گناہوں سے بچ جاؤ صحابہ کرام (رض) نے کہا اے اللہ کے رسول! وہ کون کون سے ہیں؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ کے (١) ساتھ شرک کرنا،(٢) جادو کرنا،(٣) ناحق کسی کو قتل کرنا،(٤) سود کھانا،(٥) یتیم کا مال کھانا، (٦) میدان جنگ سے پیٹھ موڑ کر بھاگنا اور (٧) پاکدامن غافل مومنہ عورتوں پر تہمت لگانا۔“ مسائل ١۔ اگر لوگ بڑے گناہوں سے بچ جائیں تو اللہ تعالیٰ چھوٹے گناہوں کو معاف فرما کر ان کو جنت میں داخل کرے گا۔ تفسیر بالقرآن قرآن مجید میں مذکور کبیرہ گناہ : ١۔ شرک۔ (النساء : ٤٨) ٢۔ والدین کی نافرمانی۔ (بنی اسرائیل : ٢٣) ٣۔ زنا۔ (الفرقان : ٦٨، ٦٩) ٤۔ قتل ناحق (النساء : ٩٣) ٥۔ دختر کشی کرنا۔ (التکویر : ٨، ٩) ٦۔ سود کھانا۔ (البقرۃ : ٢٧٥) ٧۔ یتیموں کا مال کھانا۔ (النساء : ١٠) النسآء
32 فہم القران ربط کلام : جس طرح بڑے گناہ آدمی کو ہلاک کردیتے ہیں اسی طرح حسد بھی آدمی کے اعمال کو ضائع کردیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کے اظہار اور دنیا کے نظام کو چلانے کے لیے لوگوں کے درمیان تفاوت اور اونچ نیچ رکھی ہے تاکہ انسان ایک دوسرے کی ضرورت محسوس کرکے باہمی تعاون اور احترام کریں۔ جس کو نعمت میسر آئی ہے وہ شکر ادا کرے اور جسے محروم رکھا گیا ہے وہ صبر کرے۔ چھوٹے بڑے کا فرق عام انسانوں کے علاوہ بسا اوقات ایک باپ کی اولاد میں بھی پایا جاتا ہے۔ ایک خوبصورت دوسرا عام صورت ہے‘ ایک تنو مند اور طویل قدوقامت لیے ہوئے، جبکہ دوسرا پست قد اور ناتواں جسم کا مالک ہے‘ ایک معمولی محنت کے بعد دولت میں کھیل رہا ہے دوسرا سخت مشقت اٹھانے کے باوجود غربت کے تھپیڑے کھا رہا ہے‘ ایک دانا دوسرا نادان ہے۔ اس فطری تفاوت کے بارے میں حکم دیا ہے کہ ایک دوسرے کے ساتھ جلنے اور حسد کرنے کے بجائے اسے اللہ تعالیٰ کی حکمت اور مشیت سمجھ کر قبول کرو۔ یاد رکھو کہ تمہارے رب کے نزدیک طاقت ور اور کمزور، گورے اور کالے، غریب اور امیر، شاہ اور گدا، عربی اور عجمی میں کوئی فرق نہیں۔ اس کی بارگاہ میں چہرے نہیں دل دیکھے جاتے ہیں۔ نعرے نہیں آدمی کا کردار دیکھا جاتا ہے۔ اسی کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حجۃ الوداع کے موقع پر یوں بیان فرمایا : (یَآ أَیُّھَا النَّاسُ !أَلَآ إِنَّ رَبَّکُمْ وَاحِدٌ وَإِنَّ أَبَاکُمْ وَاحِدٌ أَلَا لَا فَضْلَ لِعَرَبِیٍّ عَلٰی أَعْجَمِیٍّ وَلَا لِعَجَمِیٍّ عَلٰی عَرَبِیٍّ وَلَا لِأَحْمَرَ عَلآی أَسْوَدَ وَلَا لِاَسْوَدَ عَلٰی أَحْمَرَ إِلَّا بالتَّقْوٰی) [ مسند أحمد : کتاب مسند الأنصار، باب حدیث رجل من أصحاب النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ] ” اے لوگو! خبردار یقینًا تمہارا رب ایک ہے اور تمہارا باپ بھی ایک ہے خبردار! کسی عربی کو کسی عجمی پر اور کسی عجمی کو کسی عربی پر، کسی سرخ کو کالے پر اور کسی کالے کو سرخ پر سوائے تقویٰ کے کوئی فضیلت حاصل نہیں۔“ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے غریبوں کو خوشخبری دیتے ہوئے فرمایا : (یَدْخُلُ فُقَرَاءُ الْمُسْلِمِیْنَ الْجَنَّۃَ قَبْلَ أَغْنِیَاءِھِمْ بِنِصْفِ یَوْمٍ وَّھُوَ خَمْسُ ماءَۃِ عَامٍ) [ رواہ الترمذی : کتاب الزھد، باب ماجاء أن فقراء المھاجرین یدخلون الجنۃ قبل أغنیاءھم] ” غریب مسلمان امیر لوگوں سے پانچ سو سال پہلے جنت میں داخل ہوں گے۔“ لہٰذا قدرت کے فرق کو مٹانے یا حسد کے ساتھ آگے بڑھنے میں اپنی صلاحیتیں ضائع نہ کرو۔ بلکہ اپنے آپ کو سنوارنے اور آخرت بنانے کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے فضل کے طلب گار اور اس کا قرب تلاش کرنے والے ہوجاؤ۔ اس کے خزانے لامحدود، اس کی رحمت بے کراں اور اس کا فضل بے حد و حساب ہے۔ وہاں مرد وزن میں فرق کیے بغیر ہر کسی کے اعمال اور اس کی نیت و کردار کے مطابق اجر دیا جائے گا۔ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قالَ إِیَّاکُمْ وَالظَّنَّ فَإِنَّ الظَّنَّ أَکْذَبُ الْحَدِیْثِ وَلَاتَحَسَّسُوْا وَلَاتَجَسَّسُوْا وَلَاتَدَابَرُوْا وَلَاتَبَاغَضُوْا وَکُوْنُوْا عِبَاد اللّٰہِ إِخْوَانًا) [ رواہ البخاری : کتاب الأدب ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں کہ بدگمانیوں سے بچو کیونکہ گمان سب سے زیادہ جھوٹی بات ہے اور نہ ٹوہ لگاؤ، نہ جاسوسی کرو، نہ پیٹھ پیچھے باتیں کرو اور نہ ہی آپس میں بغض رکھو اور اللہ کے بندو ! بھائی بھائی بن جاؤ۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے مرد و زن کے حصّے مقرر فرما دیے ہیں۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ کا فضل مانگنا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن فضل کا معنٰی و مفہوم : ١۔ فضل سے مراد مال۔ (البقرۃ: ١٩٨) ٢۔ فضل سے مراد احسان کرنا۔ (البقرۃ: ٦٤) ٣۔ فضل سے مراد فضیلت۔ (النساء : ٧٠) ٤۔ فضل سے مراد مال غنیمت۔ (النساء : ٧٣) النسآء
33 فہم القرآن ربط کلام : مردوں اور عورتوں کے معاشرتی اور اخلاقی حقوق بیان کرنے کے بعد مالیاتی حقوق کا تحفظ فرمایا گیا ہے۔ اوپر کی آیت میں مرد اور عورت کی کمائی کو الگ الگ تسلیم کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔ یہاں عربوں کے اس رواج کی اصلاح کی گئی ہے جس میں مرنے والا اپنے حقیقی وارثوں کو محروم کرکے کسی دوست یا رشتہ دارکے نام اپنی جائیداد وقف کردیتا تھا۔ فرمایا کہ مرد ہو یا عورت ہر ایک کا حصّہ اور اس کے وارثوں کا تعیّن کردیا گیا ہے۔ اب ان کے حصہ میں کمی وبیشی کرنا کسی طرح جائز نہیں۔ سوائے اس کے جو اس فرمان کے نازل ہونے سے پہلے تم نے کسی کے ساتھ عہد کیا ہو۔ اسے عہد کے مطابق اتنا حصہ دے سکتے ہو۔ لیکن اس کے بعد ایسا کرنے کی اجازت نہ ہوگی۔ اس فرمان کے نازل ہونے سے پہلے انصار اپنے مہاجر بھائیوں کو وراثت میں حصہ دار ٹھہرایا کرتے تھے۔ اسحکم کے نازل ہونے کے بعد یہ سلسلہ ختم کردیا گیا اور فرمایا کہتم جو کچھ کرتے ہو اللہ تعالیٰ اس کو اچھی طرح جانتا ہے۔ حضرت سعد بن ابی وقاص (رض) فتح مکہ کے موقع پر سخت بیمار ہوئے۔ انہوں نے رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا کہ میرے پاس بہت سا مال ہے ایک بیٹی کے علاوہ کوئی وارث نہیں۔ میں اپنا سارا مال اللہ کی راہ میں صدقہ کرنا چاہتا ہوں۔ آپ نے انہیں اجازت عنایت نہیں فرمائی۔ پھر انہوں نے نصف کی اجازت طلب کی۔ آپ نے اس کی بھی اجازت نہیں دی اس کے بعد انہوں نے ایک تہائی کی اجازت مانگی تو آپ نے یہ فرما کر اجازت دی کہ یہ بھی زیادہ ہے۔ اپنی اولاد کو مال دار چھوڑناان کو محتاج چھوڑنے سے زیادہ بہتر ہے۔ [ رواہ البخاری : کتاب الفرائض، باب میراث البنات] مسائل ١۔ وراثت کی تقسیم شریعت کے مطابق ہونی چاہیے۔ نوٹ : وراثت کا بیان سورۃ النساء 11: کے تحت دیکھئے۔ النسآء
34 فہم القرآن ربط کلام : معاشرتی‘ مالی حقوق اپنی جگہ مسلّم لیکن خاندانی یونٹ کو متوازن اور مستحکم رکھنے کے لیے مرد کو گھر کا ناظم مقرر کیا گیا ہے اگر میاں بیوی کے درمیان تنازعہ ہوجائے تو اس کا طریقہ کار بھی طے کردیا گیا ہے۔ قرآن مجید نے گھر یلو زندگی کو ایک یونٹ قرار دے کر مرد کو اس کا سربراہ مقرر کیا ہے۔ جس کے لیے ” قَوَّامَ“ کا لفظ استعمال فرمایا ہے جس کا معنی ہے ہر قسم کی نگرانی اور انتظام کرنے والا۔ گھر کا منتظم اس لیے مقرر کیا تاکہ گھر کا نظام مضبوط اور صحت مند خطوط پر چلتا رہے۔ مرد کو منتظم بنانے کی دو وجوہات بیان فرمائیں تاکہ عورت کے ذہن میں پیدا ہونے والی غلط فہمیوں کا ازالہ ہو سکے۔ پہلی یہ کہ مرد ذہنی اور جسمانی لحاظ سے عورت کے مقابلے میں مضبوط اور برتر پیدا کیا گیا ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ مرد پر بیوی بچوں کی حفاظت اور ان کے اخراجات کی ذمہ داری ڈالی گئی ہے۔ تاکہ عورت باہر کی الجھنوں سے بچ کر سکون کے ساتھ خاوند کی خدمت‘ بچوں کی تربیت اور صنف نازک ہونے کی وجہ سے آرام کی زندگی گزار سکے۔ اگر غور سے سوچا جائے تو عورت کی گھریلو مصروفیات اس قدرزیادہ ہیں کہ وہ باہر کے کاموں کی طرف دیکھ بھی نہیں سکتی۔ چہ جائیکہ اس پر ملازمت یا کاروبار کی دوہری ذمہ داری ڈال دی جائے۔ معاشرہ اس بات کا گواہ ہے کہ جو عورتیں کسی مجبوری یا محض گھریلو بجٹ میں اضافہ کرنے کے لیے ملازمت کرتی ہیں۔ انہیں گھر اور بچوں کو سنبھالنے کے لیے کوئی ملازمہ رکھنا پڑتی ہے۔ بصورت دیگر ان کے گھر کا نظام درہم برہم ہوجاتا ہے یہاں تک کہ ان کے پاس کھانا پکانے کا وقت بھی نہیں ہوتا۔ ایسے جوڑے اپنی ڈیوٹی سے گھر آتے وقت کھانا بھی ہوٹل سے لاتے ہیں۔ ان مسائل کی بنا پر عورت کو گھر کی ملکہ اور خاوند کو مشکل معاملات کا ذمہ دار بنایا گیا ہے۔ جب سے مسلمان خواتین نے بلا مجبوری مرد کی ذمہ داریوں میں حصہ لینا شروع کیا ہے اس وقت سے عورت میں خود سری اور نخوت پیدا ہونے کے ساتھ مسلمان معاشرہ توڑ پھوڑ کا شکار، گھروں کا سکون برباد اور اولاد ماں باپ کی نافرمان ہوچکی ہے۔ کتنا ہی بہتر ہوتا کہ ہم اللہ تعالیٰ کی تقسیم کے مطابق اپنی اپنی ذمہ داریاں سنبھالتے تو اولاد کی نافرمانیوں‘ گھروں کی بربادی اور معاشرتی بے حیائی سے محفوظ رہتے۔ نیک بیوی کے کردار میں دو خوبیاں نمایاں ہونی چاہییں۔ خاوند کی مطیع اور اس کی عزت و ناموس، مال اور اولاد کی حفاظت کرنے والی ہو۔ جس طرح اللہ تعالیٰ نے اسے گھر کی نگرانی کرنے کا حکم دیا ہے۔ اگر عورت مرد کے مقابلے میں آئے اور اس کی بغاوت کرے تو اسے بہتر الفاظ اور اچھے انداز میں نصیحت کرنی چاہیے۔ ٹکراؤ کی صورت میں گھریلو زندگی بے چینی اور عدم توازن کا شکار ہوگی بلکہ اولاد پر بھی برے اثرات مرتب ہوں گے۔ خاص کر بیٹیوں کے مستقبل پر اس کے نہایت ہی منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ نفع ونقصان سمجھانے کے باوجود بیوی اگر اپنی روش ترک کرنے کے لیے تیار نہ ہو تو خاوند کو اس کے ساتھ اپنی قربت ختم کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔ جس کے لیے قرآن مجید نے بستر الگ کردینے کا حکم دیا ہے جو حیا دار اور خاندانی عورت کے لیے بہت بڑی سزا ہے۔ عورت میں اگر معمولی عقل اور حیا ہوگی تو وہ ضرور سوچنے پر مجبور ہوگی کہ ایک گھر میں رہتے ہوئے بیگانگی اور ایک دوسرے سے بیزاری اچھی نہیں۔ بصورت مجبوری تیسرا اور آخری اقدام یہ ہے اسے ہلکی پھلکی جسمانی سزا دی جائے تاکہ اس کی آنکھیں کھل جائیں کہ اب گھر کی ملکہ کے بجائے میں لونڈی کے مقام پر آکھڑی ہوں اور میرا گھر عقوبت خانہ اور اس کا ماحول میرے لیے اچھوت بن چکا ہے۔ کوئی عورت اگر اس قدر جاہل اور ہٹ دھرم ہو کہ وہ سدھرنے کا نام نہ لے تو پھر دونوں خاندانوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ قریبی رشتہ داروں سے دو آدمی ثالث مقرر کریں۔ ثالثوں کا دونوں طرف سے رشتہ دار ہونا اس لیے ضروری ہے کہ وہ نہ صرف کھل کر بات چیت اور معاملات سلجھا سکتے ہیں بلکہ اس کے ساتھ میاں بیوی اور خاندان کی عزت بھی سلامت رہ سکے گی۔ بالفاظ دیگر گھر کا معاملہ گھر ہی میں نمٹ جائے گا۔ اگر ثالث اور میاں بیوی اخلاص کے ساتھ معاملہ سدھارنا چاہیں گے تو اللہ تعالیٰ انہیں ہمت اور توفیق نصیب فرمائے گا۔ اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ ان میں کون زیادہ قصور وار اور کون اخلاص کے ساتھ صلح کی کوشش کررہا ہے؟ (عَنْ حَکِیْمِ بْنِ مُعَاوِیَۃَ الْقُشَیْرِیِّ عَنْ أَبِیْہِ قَالَ قُلْتُ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ ! مَاحَقُّ زَوْجَۃِ أَحَدِنَا عَلَیْہِ قَالَ أَنْ تُطْعِمَھَاإِذَا طَعِمْتَ وَتَکْسُوَھَا إِذَا اکْتَسَیْتَ وَلَا تَضْرِبِ الْوَجْہَ وَلَا تُقَبِّحْ وَلَا تَھْجُرْ إِلَّا فِی الْبَیْتِ) [ رواہ أبو داوٗد : کتاب النکاح، باب فی حق المرأۃ علی زوجھا] ” حضرت حکیم بن معاویہ اپنے باپ سے بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا میں نے پوچھا اے اللہ کے رسول ! ہم پر ہماری بیویوں کے کیا حقوق ہیں؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جب تو کھانا کھائے تو اسے بھی کھلائے جب تو کپڑے پہنے اسے بھی پہنائے منہ پر نہ مارے‘ نہ گالی دے اور اسے نہ چھوڑ مگر گھر میں۔“ عورت کی سربراہی بعض نام نہاد دانشور غیر مسلموں سے متاثر ہو کرنا صرف اس بات کا مطالبہ کرتے ہیں کہ عورت کو مرد کے کندھے سے کندھا ملا کر چلنا چاہیے بلکہ وہ مغربی جمہوریت کی پیروی میں عورت کو ملک کا سربراہ بنانے میں حرج نہیں سمجھتے۔ اس کے لیے ” سورۃ النمل“ سے ملکہ سبا کی حکومت کا حوالہ دیتے ہیں۔ ایسے دانشور یہ حقیقت بھول جاتے ہیں کہ مملکت سبا کی ملکہ بلقیس اس وقت تک ہی اپنے ملک کی حکمران رہی تھی جب تک وہ کافرہ تھی۔ جو نہی وہ اپنے وقت کے نبی حضرت سلیمان (علیہ السلام) پر ایمان لائی تو اس نے اپنے آپ کو ان کے حوالے کردیا۔ اس کے بعداس کی حکمرانی کا تاریخ میں ثبوت نہیں ملتا۔ کچھ لوگ جنگ جمل میں حضرت عائشہ (رض) کی سربراہی کا حوالہ دیتے ہیں۔ حالانکہ یہ بات بھی انصاف کے ترازو پر پوری نہیں اترتی۔ کیونکہ حضرت عائشہ (رض) نے زندگی بھر کبھی مسلمانوں کی خلیفہ بننے کی خواہش کا اظہار نہیں کیا۔ وہ تو شدید ہنگامی حالات میں مسلمانوں کے درمیان صلح کی غرض سے نکلی تھیں۔ لیکن حالات کی پیچیدگی میں پھنس کر رہ گئیں۔ اس لیے وہ زندگی بھر اپنے اس اقدام پر پریشان اور پشیمان رہیں۔ جب بھی قرآن مجید کی اس آیت (وَقَرْنَ فِیْ بُیُوْتِکُنَّ) [ الاحزاب : ٣٣] کی تلاوت کرتیں تو زارو قطار رویا کرتی تھیں۔ [ طبقات ابن سعد] عورت کی حکمرانی اور اسلام : ہم یہاں مولانا سید جلال الدین انصر کی کتاب ” عورت اسلامی معاشرے میں“ سے کچھ اقتباس درج کرتے ہیں وہ لکھتے ہیں : ” قدیم تاریخ کے متعلق کسی قدر مفصل اور مستند معلومات ہمیں یونانیوں اور رومیوں کے عہد سے ملتی ہیں۔ انہوں نے تہذیب وتمدن اور علوم وفنون میں اس قدر ترقی کی کہ اس کی بنیاد پر بہت سی تہذیبیں اور بہت سے علوم وجو میں آئے لیکن بایں ہمہ ترقی، ان کے ہاں عورت کا مقام بہت ہی پست تھا۔ وہ اس کو انسانیت پر بار سمجھتے تھے اس کا مقصد ان کے نزدیک سوائے اس کے کچھ نہیں تھا کہ خادمہ کی طرح گھر والوں کی خدمت کرتی رہے۔ اہل یونان اپنی معقولیت پسندی کے باوجود عورت کے بارے میں ایسے ایسے تصورات رکھتے تھے جن کو سن کر ہنسی آتی ہے لیکن ان سے اس بات کے سمجھنے میں مدد ملتی ہے کہ ان کی نگاہ میں عورت کی کیا قدر وقیمت تھی اور وہ اپنے درمیان اسے کیا حیثیت دیتے تھے۔ ان کا قول تھا آگ سے جل جانے اور سانپ کے ڈسنے کا علاج ممکن ہے لیکن عورت کے شر کا مداوا محال ہے۔ پنڈور انامی ایک عورت کی بابت ان کا عام اعتقاد تھا کہ وہی تمام دنیاوی آفات ومصائب کی جڑ ہے۔ ایک یونانی ادیب کہتا ہے : دو مواقع پر عورت مرد کے لیے باعث مسرت ہوتی ہے ایک تو شادی کے دن دوسرا اس کے انتقال کے دن۔“ لیکی نے اپنی کتاب ” تاریخ اخلاق یورپ“ میں لکھا ہے : ” بہ حیثیت مجموعی باعصمت یونانی بیوی کا مرتبہ نہایت پست تھا اس کی زندگی مدۃ العمر غلامی میں بسر ہوتی تھی لڑکپن میں اپنے والدین کی، جوانی میں اپنے شوہر کی، بیوگی میں اپنے فرزندوں کی وراثت میں اس کے مقابلہ میں اس کے مرد اعزہ کا حق ہمیشہ رائج سمجھا جاتا تھا۔ طلاق کا حق اسے قانوناً ضرور حاصل تھا تاہم عملًا وہ اس سے کوئی فائدہ نہیں اٹھاسکتی تھی۔ کیونکہ عدالت میں اس کا اظہار یونانی ناموس وحیا کے منافی تھا۔۔ افلاطون نے بلاشبہ مرد اور عورت کی مساوات کا دعویٰ کیا تھا لیکن یہ تعلیم محض زبانی تھی۔ عملی زندگی اس سے بالکل غیر متاثر رہی۔ ازدواج کا مقصد خالص سیاسی رکھا گیا۔ یعنی یہ کہ اس سے طاقتور اولاد پیدا ہوجوحفاظت ملک کے کام آئے۔“ (عورت اسلامی معاشرہ میں صفحہ :19،20، 21) یہ تو تھا یونانی تہذیب میں عورت کا مقام ومرتبہ جس کی معقولیت پسندی کا تاریخ کے اوراق میں آج بھی شہرہ ہے۔ اب ذرا مذکورہ مصنف لیکی ہی کی زبان سے رومی تہذیب میں عورت کے احوال کا تذکرہ کیا سماعت فرمالیں وہ لکھتا ہے : ” عورت کا مرتبہ رومی قانون نے عرصہ دراز تک نہایت پست رکھا، افسر خاندان جو باپ ہوتا تھا یا شوہر، اسے اپنے بیوی بچوں پر پورا اختیار حاصل تھا۔ وہ عورت کو جب چاہے گھر سے نکال سکتا تھا۔ جہیز یا دلہن کے والد کو نذرانہ دینے کی رسم کچھ بھی نہ تھی اور باپ کو اس قدر اختیار حاصل تھا کہ جہاں چاہے اپنی لڑکی کو بیاہ دے بلکہ بعض دفعہ تو وہ کی کرائی شادی کو توڑ دیتا تھا۔ زمانہ مابعد یعنی دور تاریخی میں یہ حق باپ کی طرف سے شوہر کی طرف منتقل ہوگیا اور اب اس کے اختیارات یہاں تک وسیع ہوگئے ہیں کہ وہ چاہے تو بیوی کو قتل کرسکتا تھا۔20 5 ء تک طلاق کا کسی نے نام نہ سنا تھا۔“ غلاموں کی طرح عورت کا مقصد بھی خدمت اور چاکری سمجھا جاتا تھا۔ مرد اسی غرض سے شادی کرتا تھا کہ وہ بیوی سے فائدہ اٹھاسکے گا۔ وہ کسی عہدے کی اہل نہیں سمجھی جاتی تھی۔ حتی کہ کسی معاملہ میں اس کی گواہی تک کا اعتبار نہیں تھا۔ البتہ اس کی طبعی کمزوریوں کی بناء پر اس کو بعض سہولتیں دی گئی تھیں۔ اس میں شک نہیں کہ بعد کے ادوار میں رومیوں نے اس کو حقوق بھی دیے لیکن اس کے باوجود یہ ایک حقیقت ہے کہ اس کو مرد کے مساوی درجہ کبھی نہیں دیا۔“ (عورت اسلامی معاشرہ میں صفحہ نمبر :21، 22) [ بحوالہ انسائیکلو پیڈیا آف برٹانیکا، عورت کی سماجی ومعاشرتی حالت][ ماخوذ از ” عورت کی حکمرانی اور اسلام“ مصنف فخرا لدین صدیقی] مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے مردوں کو عورتوں پر برتری عنایت فرمائی ہے۔ ٢۔ مرد اپنی کمائی سے عورتوں کی کفالت کرتے ہیں۔ ٣۔ عورتوں کو خاوندوں کی تابعداری اور اپنی عزت و عفت کی حفاظت کرنا چاہیے۔ ٤۔ نافرمان بیویوں کو نصیحت کرنا۔ ٥۔ دوسرا قدم خواب گاہوں میں ان سے علیحدگی اختیار کرنا۔ ٦۔ تیسرا قدم ہلکی پھلکی سزا دینا ہے۔ ٧۔ اطاعت شعار بیوی پر زیادتی کرنا جائز نہیں۔ ٨۔ میاں بیوی کے درمیان اختلافات پہلی تینوں صورتوں سے حل نہ ہوں تو دونوں کی طرف سے رشتہ دار ثالثان مقرر کرنے چاہییں۔ تفسیر بالقرآن نیک عورتوں کے اوصاف : ١۔ پاک دامن، حیا دار اور با پردہ۔ (المائدۃ: ٥، القصص : ٢٥) ٢۔ مطیع‘ توبہ کرنے والی‘ عبادت گزار اور روزے دار۔ (التحریم : ٥) ٣۔ صدقہ کرنے والی‘ صابرہ‘ ڈرنے والی‘ سچی‘ پاکدامنہ‘ اور اللہ کا کثرت سے ذکر کرنے والی۔ (الاحزاب : ٣٥) النسآء
35 النسآء
36 فہم القرآن ربط کلام : میاں بیوی کے حقوق کے بعد اللہ تعالیٰ کی عبادت بلا شرکت غیرے کرنے کا حکم نیز والدین‘ قریبی رشتہ داروں اور مستحق لوگوں کے حقوق ادا کرنے کی تلقین۔ گویا کہ حقوق اللہ اور حقوق العباد کا بیک مقام تذکرہ کیا گیا ہے۔ انسان اس وقت تک کسی کے حقوق اخلاص کے ساتھ پوری طرح ادا نہیں کرسکتا جب تک صحیح معنوں میں اپنے آپ کو بلا شرکت غیرے اللہ تعالیٰ کی غلامی اور تابعداری میں نہ لے آئے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ کبھی احکامات جاری کرنے کے بعد اور کبھی ان کی ابتدا میں اپنی توحید اور تقویٰ یاد دلاتے ہیں تاکہ انسان اپنے آپ کو اس کے حضور مکمل طور پر سر نگوں کر دے۔ ذات کبریا کے بعد والدین ہی انسان کے سب سے زیادہ ہمدرد، محسن، مربیّ اور قریب ہوتے ہیں۔ انسان ماں کی آغوش میں باپ کی کمائی سے نشوونما پاتا ہے۔ اس لیے اللہ اور اس کے رسول کے بعد آدمی کی اطاعت کے سب سے زیادہ حقدار اس کے والدین ہیں۔ والدین‘ یتامیٰ اور مساکین کے تفصیلی مسائل و فضائل کے لیے [ سورۃ البقرۃ آیت 83] کی تفسیر ملاحظہ کیجیے۔ ان کے بعد معاشرے میں ہمسایہ اور بے سہارا ہونے والے طبقات یعنی، یتیموں، مسکینوں، مسافروں اور غلاموں کا ذکر ہوا ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے کہ جبریل امین (علیہ السلام) اس قدر ہمسایوں کے بارے میں مجھے تلقین کرتے رہے کہ میں نے سمجھا شاید پڑوسی کو وراثت میں شریک بنا دیں گے۔“ [ رواہ مسلم : کتاب البر والصلۃ، باب الوصیۃ بالجارو الإحسان إلیہ] حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے استفسار کیا کہ میرے دو پڑوسی ہیں میں پہلے کس کو تحفہ بھیجوں؟ آپ نے فرمایا جس کا دروازہ تیرے زیادہ قریب ہے۔[ رواہ البخاری : کتاب الادب، باب حق الجوار فی قرب الأبواب] رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک موقع پر تین مرتبہ قسم اٹھاتے ہوئے فرمایا کہ وہ شخص مومن نہیں۔ صحابہ نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ! کون مومن نہیں ؟ فرمایا جس کی تکلیف سے اس کا ہمسایہ محفوظ نہ ہو۔ [ رواہ البخاری : کتاب الادب، باب إثم من لایأمن جارہ بوائقہ] مسافر کے حقوق رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے میں بالخصوص عرب میں شہر اور بستیاں ایک دوسرے سے بہت ہی دور ہوا کرتی تھیں اور آج کی طرح ہوٹلوں کا انتظام نہیں تھا۔ مسافر لوگ اونٹوں، گھوڑوں اور گدھوں پر سفر کرتے اور اپنا زاد راہ ساتھ رکھا کرتے تھے۔ بسا اوقات راستہ بھول جانے یا مسافت کا اندازہ کرنے میں غلطی ہوجانے کی وجہ سے زاد راہ ختم ہوجاتا۔ بعض اوقات پینے کا پانی بھی میسر نہیں ہوتا تھا۔ ایسے سفر کے بارے میں ہمارے لیے کیا حکم ہے : (عَنْ عُقْبَۃَ بْنِ عَامِرٍ (رض) أَنَّہُ قَالَ قُلْنَا یَا رَسُول اللَّہِ إِنَّکَ تَبْعَثُنَا فَنَنْزِلُ بِقَوْمٍ فَلاَ یَقْرُونَنَا فَمَا تَرَی، فَقَالَ لَنَا رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) إِنْ نَزَلْتُمْ بِقَوْمٍ فَأَمَرُوا لَکُمْ بِمَا یَنْبَغِی للضَّیْفِ فَاقْبَلُوا، فَإِنْ لَمْ یَفْعَلُوا فَخُذُوا مِنْہُمْ حَقَّ الضَّیْفِ الَّذِی یَنْبَغِی لَہُم)ْ[ رواہ البخاری : کتاب الادب، باب إکرام الضیف وخدمتہ إیاہ بنفسہ] ” حضرت عقبہ بن عامر (رض) نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا کہ آپ ہمیں کسی مہم پر روانہ کرتے ہیں اگر ہم ایسے لوگوں کے پاس سے گزریں یا اتریں جو ہماری مہمان نوازی کرنے کے لیے تیار نہ ہوں۔ اس صورت حال میں آپ ہمیں کیا حکم دیتے ہیں؟ آپ نے فرمایا اگر لوگ تمہارا خیال رکھیں تو اچھی بات ہے بصورت دیگر تمہیں ان سے اپنی مہمانی کا حق وصول کرنا چاہیے۔“ مراد یہ ہے کہ بھوکا مرنے کے بجائے ان سے کھانا پینا مانگا جاسکتا ہے۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ کی بلا شرکت غیرے عبادت کرنا، والدین اور دیگر رشتہ دار، تعلق داروں کے ساتھ حسن سلوک کرنا لازم ہے۔ ٢۔ اللہ متکبر کو پسند نہیں کرتا۔ تفسیر بالقرآن حقوق اللہ اور حقوق العباد : ١۔ ایک اللہ کی ہی عبادت کی جائے۔ ( البقرۃ: ٢١) ٢۔ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرایا جائے۔ ( لقمان : ١٣) ٣۔ والدین کے ساتھ نیک سلوک کیا جائے۔ ( الاحقاف : ١٥) ٤۔ ہمسایوں کا خیال رکھا جائے۔ (النساء : ٣٦) ٥۔ یتامیٰ کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کا حکم۔ ( البقرۃ: ٨٣) ٦۔ اقرباء کے ساتھ نیک سلوک کرنے کا حکم۔ (النحل : ٩٠) النسآء
37 فہم القرآن ربط کلام : اس سے پہلے والدین، عزیز و اقارب، یتامی، مساکین، پڑوسیوں اور مسافروں کے ساتھ مالی تعاون کرنے کا حکم ہے۔ اس لیے یہاں بخل کی مذمت کی گئی ہے۔ اس فرمان میں اللہ تعالیٰ نے مال و اسباب کو اپنا فضل قرار دیتے ہوئے فرمایا ہے کہ جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے سرفراز فرمائے ان کا فرض ہے کہ وہ بخل کرنے کی بجائے سخاوت کا مظاہرہ کریں۔ بخل کا ماحول پیدا کرنے یا مستحق حضرات پر خرچ نہ کرنے کا حکم دینے اور مال کو چھپا کر رکھنے کی بجائے لوگوں کو صدقہ وخیرات کرنے کی تلقین کرنی چاہیے۔ مال چھپا چھپا کر رکھنے کے بجائے اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر خرچ کرنا چاہیے۔ جو لوگ بخل کرنے کے ساتھ دوسروں کو بخل کے لیے کہتے ہیں ایسے ناشکروں اور نافرمانوں کے لیے اللہ تعالیٰ نے نہایت ہی رسوا کن عذاب تیار کیا ہے۔ یہاں صرف خرچ کرنے کا حکم نہیں دیا بلکہ اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے خرچ کرنے کا حکم دیا ہے۔ جو لوگ نمود ونمائش اور دوسروں پر اپنی دھاک بٹھانے کے لیے خرچ کرتے ہیں درحقیقت وہ لوگ اللہ تعالیٰ اور آخرت پریقین نہیں رکھتے۔ کیونکہ انکا اللہ اور آخرت پر یقین ہوتا تو یہ بطور احسان، نمود و نمائش اور لوگوں سے خوشامد کی صورت میں اپنے صدقہ کا معاوضہ نہ لیتے۔ اگر ان کا آخرت پر یقین ہوتا تو یہ دنیا میں عارضی شہرت کی خاطر آخرت کا دائمی اجر ضائع نہ کرتے۔ اس ہلکے پن اور جلد بازی کا حقیقی سبب شیطان کا پھسلانا اوراُکسانا ہے۔ شیطان تو آدمی کا بدترین ساتھی ہے۔ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ ضَرَبَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَثَلَ الْبَخِیْلِ وَالْمُتَصَدِّقِ کَمَثَلِ رَجُلَیْنِ عَلَیْھِمَا جُبَّتَانِ مِنْ حَدِیْدٍ قَدِ اضْطُرَّتْ أَیْدِیْھِمَا إِلٰی ثَدِیِّھِمَا وَتَرَاقِیْھِمَا فَجَعَلَ الْمُتَصَدِّقُ کُلَّمَا تَصَدَّقَ بِصَدَقَۃٍ انْبَسَطَتْ عَنْہُ حَتّٰی تَغْشٰی أَنَامِلَہٗ وََتَعْفُوَ أَثَرَہٗ وَجَعَلَ الْبَخِِیْلُ کُلَّمَا ھَمَّ بِصَدَقَۃٍ قَلَصَتْ وَأَخَذَتْ کُلُّ حَلْقَۃٍ بِمَکَانِھَا قَالَ أَبُوْ ھُرَیْرَۃَ (رض) فَأَنَا رَأَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَقُوْلُ بِإِصْبَعِہٖ ھٰکَذَا فِیْ جَیْبِہٖ فَلَوْ رَأَیْتَہٗ یُوَسِّعُھَا وَلَا تَتَوَسَّعُ) [ رواہ البخاری : کتاب اللباس، باب جیب القمیص من عند الصدر وغیرہ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بخیل اور صدقہ دینے والے کی مثال دی کہ اس کی مثال دو آدمیوں کی طرح ہے جو ہاتھ، سینے اور حلق تک فولادی قمیض پہنے ہوئے ہوں۔ صدقہ دینے والا جب بھی صدقہ کرتا ہے تو اس کا جبہ کشادہ ہوجاتا ہے اور وہ اس کی انگلیوں تک بڑھ جاتا ہے اور قدموں کو ڈھانک لیتا ہے اور بخیل جب صدقہ کا ارادہ کرتا ہے تو اس کا جبہ اس سے چمٹ جاتا ہے یہاں تک ہر حلقہ اپنی جگہ پر جم جاتا ہے۔ حضرت ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیکھا آپ اپنی انگلیوں سے اپنے گریبان کی طرف اشارہ کرکے بتا رہے تھے کہ تم دیکھو گے کہ وہ اس کو کھولنا چاہے گا لیکن وہ نہیں کھلے گا۔“ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) أَنَّ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ مَامِنْ یَوْمٍ یُّصْبِحُ الْعِبَادُ فِیْہِ إِلَّا مَلَکَانِ یَنْزِلَانِ فَیَقُوْلُ أَحَدُھُمَا اَللّٰھُمَّ أَعْطِ مُنْفِقًا خَلَفًا وَیَقُوْلُ الْآخَرُ اللّٰھُمَّ أَعْطِ مُمْسِکًا تَلَفًا) [ رواہ البخاری : کتاب الزکاۃ، باب قول اللّٰہِ تعالیٰ فأما من أعطی واتقی وصدق بالحسنیٰ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہر صبح دو فرشتے اترتے ہیں ان میں سے ایک یہ آواز لگاتا ہے اے اللہ! خرچ کرنے والے کو اور عطا فرما۔ دوسرا یہ آواز لگاتا ہے اے اللہ! نہ خرچ کرنے والے کا مال ختم کردے۔“ مسائل ١۔ بخل کرنے والے کو اللہ تعالیٰ ذلت آمیز عذاب دیں گے۔ ٢۔ نمود و نمائش کے لیے خرچ کرنے والے شیطان کے ساتھی ہیں۔ تفسیر بالقرآن شیطان بد ترین ساتھی ہے : ١۔ شیطان انسان کا دشمن ہے۔ (البقرۃ : ١٦٨) ٢۔ شیطان کی رفاقت کا بدترین انجام۔ (الفرقان : ٢٧، ٢٩) ٣۔ شیطان بے وفائی سکھلاتا ہے۔ (الحشر : ١٦) ٤۔ شیطان بدترین ساتھی ہے۔ (النساء : ٣٨) ٥۔ شیطان نے حضرت آدم (علیہ السلام) کے ساتھ دشمنی کی۔ (الاعراف : ٢٠ تا ٢٢) النسآء
38 النسآء
39 فہم القرآن ربط کلام : ریا کاری اور بخل سے اجتناب اور انفاق فی سبیل اللہ تبھی قبول ہوسکتا ہے جب اللہ تعالیٰ اور آخرت پر یقین کامل ہو کہ جو کچھ صدقہ وہ کرے یا کوئی عمل کرے گا اللہ تعالیٰ اس کا اجر ضائع نہیں کرتاقیامت کو اس کو پورا پورا اجر ملے گا۔ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَنْ تَصَدَّقَ بِعَدْلِ تَمْرَۃٍ مِّنْ کَسْبٍ طَیِّبٍ وَّلَا یَقْبَلُ اللّٰہُ إِلَّا الطَّیِّبَ فَإِنَّ اللّٰہَ یَتَقَبَّلُھَا بِیَمِیْنِہٖ ثُمَّ یُرَبِّیْھَا لِصَاحِبِہٖ کَمَا یُرَبِّیْ أَحَدُکُمْ فُلُوَّہٗ حَتّٰی تَکُوْنَ مِثْلَ الْجَبَلِ) [ رواہ البخاری : کتاب الزکوۃ، باب الصدقۃ من کسب طیب] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو آدمی کھجور کے برابر اپنی پاک کمائی سے صدقہ کرتا ہے اور اللہ کے ہاں صرف پاک چیز ہی قبول ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ اسے قبول کرتے ہوئے اپنے دائیں ہاتھ میں لے کر اس کو اس طرح پالتا اور بڑھاتا ہے جیسے تم میں سے کوئی بچھڑے کو پالتا ہے حتیٰ کہ صدقہ پہاڑکی مانند ہوجاتا ہے۔“ مسائل ١۔ لوگوں کو اخلاص کے ساتھ اللہ اور آخرت پر ایمان لانے کے ساتھ انفاق فی سبیل اللہ کرنا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ ظلم نہیں کرتا : ١۔ اللہ تعالیٰ بندوں پر ظلم نہیں کرتا۔ (آل عمران : ١٨٢) ٢۔ اللہ تعالیٰ کسی پر ذرہ برابر بھی ظلم نہیں کرتے۔ (النساء : ٤٠) ٣۔ اللہ تعالیٰ ظلم نہیں کرتا بلکہ لوگ اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں۔ (آل عمران : ١١٧) النسآء
40 النسآء
41 فہم القرآن ربط کلام : آخرت کے دن ظالم اپنا انجام دیکھ کر اپنے اعمال کا انکار کرتے ہوئے یہاں تک کہیں گے کہ دنیا میں ہمیں کسی نبی اور مبلغ نے کچھ سمجھایا ہی نہیں تھا۔ اے رب! ورنہ ہم تیری نافرمانی نہ کرتے۔ اس دن خدا کے باغی یہ آرزو کریں گے کاش! ہم زمین میں دھنس جائیں اور ہم پر زمین برابر کردی جائے۔ خواہش کے باوجود نہ چھپ سکیں گے اور نہ ہی وہ کوئی بات چھپا سکیں گے۔ محشر کا دن پچاس ہزار سال کے برابر ہوگا۔ اس میں کئی مراحل ہوں گے ہر مرحلہ دنیا کے سینکڑوں سالوں کے برابر ہوگا۔ ان مراحل میں ایک مرحلہ ایسا بھی آئے گا کہ جب مجرم قسمیں اٹھا اٹھا کر اس بات کا انکار کریں گے کہ الٰہی ہم نے تیری ذات کا نہ انکار کیا اور نہ ہی کسی کو تیرا شریک ٹھہرایا۔ ہمارے ذمہ جو اعمال لگائے گئے ہیں ہم نے یہ ہرگز نہیں کیے۔ انبیاء کے بارے میں کہیں گے کہ انہوں نے ہمیں ایک بار بھی نہ سمجھایا۔ اس دروغ گوئی کی وجہ سے ان کے مونہوں پر مہر لگا دی جائے گی۔ اب ان کے اعضاء گواہی دیں گے۔ اس کے بعد اور شہادتیں پیش کی جائیں گی جن میں سب سے بڑی اور معتبر شہادت انبیاء کی ہوگی۔ وہ عرض کریں گے اے رب ذوالجلال! ہم نے تیرا پیغام مِن و عَن پہنچا دیا تھا لیکن مجرم پھر بھی نہیں مانیں گے۔ اس پر سرور دو عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) گواہی دیں گے کہ اے رب کریم ! انبیاء کرام نے تیرا پیغام ٹھیک ٹھیک طریقے سے پہنچایا تھا۔ ” حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے قرآن مجید کی تلاوت کرنے کے لیے فرمایا میں نے عرض کیا کہ اللہ کے رسول! کیا میں آپ کو قرآن پڑھ کر سناؤ ں؟ حالانکہ آپ پر قرآن نازل ہوا ہے۔ آپ نے فرمایا ہاں! میں نے سورۃ النساء کی تلاوت شروع کی جب اس آیت کریمہ پر پہنچا (پس کیا حالت ہوگی جب ہر امت سے گواہ لائیں گے اور ان سب پر تمہیں گواہ بنا کر لائیں گے۔) آپ نے فرمایا رک جائیے! میں نے دیکھا تو آپ کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔“ [ رواہ البخاری : کتاب فضائل القرآن] اس شہادت کے بارے میں حجۃ الوداع کے موقعہ پر خطبہ ارشاد فرماتے ہوئے لوگوں سے پوچھا :”أَلَا ھَلْ بَلَّغْتُ“ کیا میں نے پہنچا دیا ؟ تو لوگوں نے کہا کیوں نہیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں اللہ کے احکام پہنچا دئیے۔ اس وقت آپ نے ارشاد فرمایا : ”أَللّٰھُمَّ اشْھَدْ أَللّٰھُمَّ اشْھَدْ“ اے اللہ ! گواہ رہنا‘ اے اللہ ! گواہ رہنا۔“ [ رواہ البخاری : کتاب الحج، باب الخطبۃ أیام منی] اُمت محمدیہ کی گواہی : (عَنْ أَبِیْ سَعِیْدِنِ الْخُدْرِیِّ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یُدْعٰی نُوْحٌ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ فَیُقَالُ لَہٗ ھَلْ بَلَّغْتَ فَیَقُوْلُ نَعَمْ فَیُدْعٰی قَوْمُہٗ فَیُقَالُ لَھُمْ ھَلْ بَلَّغَکُمْ فَیَقُوْلُوْنَ مَآأَتَانَا مِنْ نَّذِیْرٍ أَوْ مَآ أَتَانَا مِنْ أَحَدٍ قَالَ فَیُقَالُ لِنُوْحٍ مَنْ یَّشْھَدُ لَکَ فَیَقُوْلُ مُحَمَّدٌ وَأُمَّتُہٗ قَالَ فَذٰلِکَ قَوْلُہٗ (وَکَذٰلِکَ جَعَلْنَاکُمْ أُمَّۃً وَّسَطًا) [ مسند أحمد : کتاب باقی مسند المکثرین، باب : مسند أبی سعید الخدری] ” حضرت ابو سعید خدری (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا روز قیامت نوح (علیہ السلام) کو پوچھا جائے گا کہ کیا تو نے میرا پیغام پہنچا یا تھا؟ وہ جواب دیں گے ہاں پھر ان کی قوم کو بلا کر پوچھا جائے گا کیا انہوں نے تمہیں تبلیغ کی اور میرا پیغام پہنچایا۔ وہ کہیں گے ہمارے پاس تو ڈرانے والا کوئی نہیں آیا۔ حضرت نوح (علیہ السلام) سے کہا جائے گا آپ کی گواہی کون دے گا؟ وہ کہیں گے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور اس کی امّت۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا یہی اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ (اسی طرح ہم نے تمہیں امّتِ وسط بنایا ہے)۔“ مسائل ١۔ قیامت کے دن ہر امت کا رسول اس پر گواہ ہوگا اور حضرت محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) امت محمدیہ اور پہلے انبیاء کے بارے میں گواہی دیں گے۔ ٢۔ قیامت کے دن کافر اور رسول کا نافرمان مٹی کے ساتھ مٹی ہوجانے کی آرزو کرے گا۔ تفسیر بالقرآن قیامت کے دن ظالم کی آرزوئیں : ١۔ مٹی کے ساتھ مٹی ہوجانے کی خواہش۔ (النساء : ٤٢، النباء : ٤٠) ٢۔ دنیا میں واپس آنے کی آرزو۔ (البقرۃ : ١٦٧) ٣۔ دنیا میں لوٹ کر نیک عمل کرنے کی تمنا۔ (السجدۃ: ١٢) ٥۔ ظالم اپنے ہاتھ کاٹتے ہوئے کہے گا‘ کاش میں رسول کی اتباع کرتا۔ (الفرقان : ٢٧) ٦۔ کاش میں فلاں کو دوست نہ بناتا۔ (الفرقان : ٢٨) ٧۔ جہنم کے داروغہ سے درخواست کرنا۔ (الزخرف : ٧٧) ٨۔ اپنے مرشدوں اور لیڈروں کو دوگنی سزا دینے کا مطالبہ کرنا۔ (الاحزاب : ٦٨) ٩۔ اللہ تعالیٰ سے مریدوں کا مرشدوں کو اپنے پاؤں تلے روندنے کا تقاضا کرنا۔ (السجدۃ: ٢٩) النسآء
42 النسآء
43 فہم القرآن ربط کلام : آخرت کی تیاری کے لیے سچا ایمان اور پاکیزگی کی حالت میں نماز پڑھنا فرض ہے۔ پہلے بھی عرض کیا گیا ہے کہ قرآن مجید محض قانون کی کتاب نہیں۔ بلکہ قرآن مجید قانون اور ضابطے بیان کرنے کے بعد نصیحت کرتا ہے تاکہ ان پر عمل کرنا آسان ہو۔ سورۃ البقرۃ آیت ٢١٩ میں فقط اتنا احساس دلایا تھا کہ شراب میں فائدے کم اور نقصانات زیادہ ہیں۔ اب حکم ہوتا ہے کہ شراب پی کر نماز کے قریب نہ جاؤ۔ یہاں تک کہ تمہیں معلوم ہوجائے کہ تم کیا کہہ اور مانگ رہے ہو۔ ساتھ ہی طہارت اور وضو کا طریقہ بتلایا گیا ہے۔ سکارٰی کا لفظ استعمال فرماکر بتلایا گیا ہے کہ بے ہوشی نشہ کی ہو یا نیند کی ایسی حالت میں نماز نہیں پڑھنی چاہیے۔ جس کی وضاحت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یوں فرمائی : (عَنْ عَاءِشَۃَ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ إِذَا نَعَسَ أَحَدُکُمْ وَھُوَ یُصَلِّیْ فَلْیَرْقُدْ حَتّٰی یَذْھَبَ عَنْہُ النَّوْمُ فَإِنَّ أَحَدَکُمْ إِذَا صَلّٰی وَھُوَ نَاعِسٌ لَایَدْ رِیْ لَعَلَّہٗ یَسْتَغْفِرُ فَیَسُبُّ نَفْسَہٗ) [ رواہ البخاری : کتاب الوضوء، باب الوضوء من النوم ومن لم یرمن النعسۃ والنعستین أو الخفقۃ وُضواءً] ” حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب تم میں سے کسی کو نماز کے دوران اونگھ آئے تو وہ نیند دور ہونے تک آرام کرے کیونکہ جب تم میں سے کوئی نیند کی حالت میں نماز پڑھتا ہے تو ہوسکتا ہے کہ وہ خیر مانگنے کی بجائے اپنے لیے برائی مانگ رہا ہو۔“ سکارٰی سے مراد ہر قسم کا نشہ ہے چاہے شراب سے ہویا کسی اور چیز سے۔ دوسرے حکم میں جنبی اور محتلم کو جب تک غسل نہیں کرلیتا۔ اسے نماز کے قریب جانے سے منع کیا ہے۔ نماز ہی نہیں بلکہ مسجد میں داخل ہونے سے بھی روک دیا گیا ہے۔ یہاں ” عَابِرِیْ سَبِیْل“ کا اشارہ دے کر کوئی اور راستہ نہ ہونے کی صورت میں مسجد سے گزرنے کی اجازت عنایت فرمائی ہے۔ اس کے ساتھ مریض، مسافر اور قضائے حاجت سے فارغ ہونے والا وضو کے لیے پانی نہ پائے تو اس کے لیے پاک مٹی سے تیمم کرنا ہی کافی ہوگا۔ ہاں جنبی یا محتلم غسل کے لیے پانی نہ پائے یا اس کے لیے پانی کا استعمال مضرہو تو اسے تیمم کافی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان حالتوں میں یہ رعایت عطا فرمائی ہے کیونکہ وہ درگزر اور معاف کرنے والا ہے۔ اس آیت میں عورتوں کو چھونے کے بعد غسل یا تیمم کرنے کا حکم دیا ہے چھونے سے مراد تمام مفسرین نے جماع لیا ہے۔ بعض اہل علم بیوی کو چھونے پر وضو ٹوٹ جانے کے قائل ہیں حالانکہ رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے عمل سے اس طرح تشریح فرمائی تاکہ امت کو کسی قسم کا وسوسہ باقی نہ رہے۔ (عَنْ عَاءِشَۃَ أَنَّ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کَانَ یُقَبِّلُ بَعْضَ أَزْوَاجِہٖ ثُمَّ یُصَلِّیْ وَلَا یَتَوَضَّأُ) [ رواہ النسائی : کتاب الطھارۃ، باب ترک الوضوء من القبلۃ ] ” حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی بیویوں میں سے کسی کا بوسہ لیتے پھر وضو کیے بغیرنماز ادا کرتے۔“ (بشرطیکہ آدمی کی کیفیت نارمل رہے) غسل کا طریقہ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جنبی ہونے کی حالت میں پہلے جسم کا مخصوص حصہ یعنی شرمگاہ دھوتے اور اس کے بعد نماز جیسا وضو کرتے اور بعدازاں اپنے سر پر تین چلو پانی ڈالتے اس کے بعد جسم کے دائیں حصہ سے غسل کا آغاز کرتے اور اس کی تکمیل کرتے۔“ [ رواہ البخاری : کتاب الغسل] حضرت اُمّ سلمہ (رض) نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا کہ میں غسل واجب کرتے ہوئے اپنے سر کے بال کھول دوں ؟ آپ نے فرمایا نہیں۔ [ رواہ مسلم : کتاب الحیض] (بالوں کا خلال ہی کافی ہے) تیمم کا طریقہ حضرت سعید بن عبدالرحمن اپنے باپ سے بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے امیر المومنین حضرت عمر (رض) سے مسئلہ پوچھا کہ اگر میں جنبی ہوجاؤں اور مجھے پانی نہ ملے تو کیا کروں ؟ حضرت عمار بن یاسر (رض) نے حضرت عمر (رض) سے عرض کیا کہ آپ یاد فرمائیں جب ہم دونوں ایک سفر میں اس حالت سے دوچار ہوئے تو آپ نے اس حالت میں نماز ادانہ کی جبکہ میں نے مٹی میں لوٹ پوٹ ہونے کے بعد نماز ادا کرلی۔ بعد ازاں میں نے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ واقعہ عرض کیا۔ آپ نے فرمایا تجھے اتنا ہی کافی تھا کہ اپنی دونوں ہتھیلیاں زمین پر مار کر اور ان میں پھونک مارتے ہوئے اپنے چہرے اور ہاتھوں پر مسح کرلیتا۔ [ رواہ البخاری : کتاب التیمم، باب المتیمم ھل ینفخ فیھما] بعض لوگ تیمم کے لیے دو مرتبہ مٹی پر ہاتھ مارنے اور کہنیوں تک مسح کرنے کے قائل ہیں لیکن مستند روایت میں اس کا ثبوت نہیں ملتا۔ تکلیف کی حالت میں غسل کی بجائے تیمم کافی ہے (عَنْ جَابِرٍ (رض) قَالَ خَرَجْنَا فِیْ سَفَرٍ فَأَصَابَ رَجُلًا مِّنَّاحَجَرٌ فَشَجَّہٗ فِیْ رَأْسِہٖ ثُمَّ احْتَلَمَ فَسَأَلَ أَصْحَابَہٗ فَقَالَ ھَلْ تَجِدُوْنَ لِیْ رُخْصَۃً فِی التَّیَمُّمِ فَقَالُوْا مَانَجِدُ لَکَ رُخْصَۃً وَأَنْتَ تَقْدِرُ عَلَی الْمَاءِ فَاغْتَسَلَ فَمَاتَ فَلَمَّا قَدِمْنَا عَلَی النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) أُخْبِرَ بِذٰلِکَ فَقَالَ قَتَلُوْہُ قَتَلَھُمُ اللّٰہُ أَلَا سَأَلُوْا إِذْ لَمْ یَعْلَمُوْا فَإِنَّمَا شِفَاءُ الْعَیِّ السُّوَالُ إِنَّمَا کَانَ یَکْفِیْہِ أَنْ یَتَیَمَّمَ وَیَعْصِرَ أَوْ یَعْصِبَ عَلٰی جُرْحِہٖ خِرْقَۃً ثُمَّ یَمْسَحَ عَلَیْھَا وَیَغْسِلَ سَاءِرَ جَسَدِہٖ) [ رواہ أبو داوٗد : کتاب الطہارۃ، باب فی المجروح یتیمم] ” حضرت جابر (رض) بیان کرتے ہیں ہم ایک سفر میں تھے ہمارے ایک ساتھی کو سر پر پتھر لگا جس سے وہ زخمی ہوگیا رات کو اسے احتلام ہوا صبح اس نے اپنے ساتھیوں سے پوچھا کیا میں تکلیف کی وجہ سے تیمم کرسکتا ہوں؟ انہوں نے کہا کہ ہرگز نہیں کیونکہ تو پانی استعمال کرنے کی طاقت رکھتا ہے۔ اس نے غسل کیا جس سے اس کی تکلیف بڑھ گئی بالآخر وہ اسی وجہ سے فوت ہوگیا۔ جب ہم رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے۔ آپ کے سامنے یہ واقعہ عرض کیا گیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا مسئلہ بتانے والوں نے اس بیچارے کو مار ڈالا۔ اللہ ان کو مار ڈالے جب انہیں مسئلہ کا علم نہیں تھا تو وہ کسی سے پوچھ لیتے۔ کیونکہ بے علمی کا حل کسی سے پوچھ لینا ہے۔ اس کے لیے اتنا ہی کافی تھا کہ وہ تیمم کرتا اور اپنے زخم پر پٹی باندھ کر اس پر مسح کرتا اور باقی جسم کا غسل کرلیتا۔“ مسائل ١۔ نشہ اور پلیدی کی حالت میں نماز کے قریب نہیں جانا چاہیے۔ ٢۔ پانی نہ ملنے یا تکلیف کے باعث پاک مٹی سے تیمم کرکے نماز پڑھی جاسکتی ہے۔ ٣۔ چہرے اور ہاتھوں کا تیمم ایک ہی مرتبہ مٹی لے کر کرنا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن وضو اور تیمم کے مسائل اور طریقہ : ١۔ وضو۔ (المائدۃ: ٦) ٢۔ تیمم۔ (النساء : ٤٣) النسآء
44 فہم القرآن ربط کلام : سورت کی ابتدا میں تمام انسانوں کو اس کے بعد مسلمانوں کو اور اب اہل کتاب کو مخاطب کیا جارہا ہے۔ اس سورۃ کا آغاز ” اَیُّھَا النَّاسُ“ کہہ کر کیا اور باور کروایا کہ تم ایک ہی ماں، باپ کی اولاد اور ایک ہی اللہ کی مخلوق ہو لہٰذا تمہیں اپنے خالق سے ڈرتے ہوئے ایک دوسرے کے حقوق کا خیال رکھنا چاہیے۔ اس کے بعد مسلمانوں کو میاں بیوی کے حوالے سے اور پھر ایک دوسرے کے حقوق کا خیال رکھنے کے احکام جاری فرمائے۔ اب اہل کتاب کو خطاب کرتے ہوئے ان کی غلطیوں کی نشاندھی کرنے کے بعد نہایت ہی خیر خواہی کے انداز میں سمجھانے کے ساتھ مسلمانوں کو ان کے کردار پر کڑی نظر رکھنے اور اپنے آپ کو گمراہی سے بچانے کی تلقین کی گئی ہے اور تسلی دی ہے کہ ان سے ڈرنے کی ضرورت نہیں۔ اللہ تعالیٰ تمہاری مدد کے لیے کافی ہے۔ خصوصی توجہ کے لیے فرمایا کہ کیا تم نے ان لوگوں کے کردار پر غور نہیں کیا ؟ جنہیں کتاب کا کچھ حصہ دیا گیا۔ قرآن مجید نے اہل کتاب کو خطاب کرتے ہوئے یہ الفاظ کئی مرتبہ استعمال فرمائے ہیں کہ جن لوگوں کو کتاب کا کچھ حصہ دیا گیا۔ ان الفاظ کے اہل علم نے تین مفہوم بیان کیے ہیں۔ کچھ حصہ سے مراد یہ ہے کہ انہوں نے تورات اور انجیل کے کافی حصہ کو اپنے ذاتی اور گروہی مفادات کی خاطر ضائع کردیا تھا۔ جو ان کے ہاں کتابی شکل میں تورات اور انجیل پائی جاتی ہے اس میں بھی بے شمار ترامیم و اضافے کیے۔ اس لحاظ سے تورات اور انجیل کے حقیقی اجزاء تھوڑے ہی باقی تھے۔ یہ کہ تمہیں تورات اور انجیل کی شکل میں جو احکام دیئے گئے ہیں وہ اپنے وقت کے مطابق کافی تھے لیکن ان سے دین مکمل نہیں ہوجاتا کہ تم انہیں پر جم کر بیٹھے رہو۔ وہ نامکمل دین تھا لہٰذا اب جامع دین نازل ہو رہا ہے جو عنقریب مکمل ہوجائے گا۔ اس لیے تمہیں جامع اور اکمل دین کی پیروی کرنی چاہیے۔ لیکن تمہاری حالت یہ ہے کہ تم اپنے مفاد اور عناد کی خاطر نہ صرف اس دین سے انحراف کر رہے ہو بلکہ گمراہی کے خریدار بن کر مسلمانوں کی گمراہی کے درپے ہوچکے ہو۔ اس صورت حال سے آگاہ کرکے مسلمانوں کو تسلی دی جارہی ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہارے دشمنوں اور ان کے عزائم کو اچھی طرح جانتا ہے۔ یہ تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکتے بشرطیکہ تم اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ ہدایت پر ثابت قدم رہو۔ اللہ تمہارا سرپرست خیر خواہ اور مددگار ہے۔ گمراہی کے خریدار : دنیا میں گمراہی خریدنے کی کئی شکلیں ہیں : اللہ تعالیٰ کے احکامات کو مقدم اور بہتر سمجھنے کی بجائے دنیا کے مفاد کو مقدم اور اپنے لیے بہتر تصور کرنا۔ بے حیائی اور برائی کے کاموں کو فروغ دے کر شہرت اور دولت حاصل کرنا۔ دین کو سیاسی اور معاشی مفاد کے لیے استعمال کرنا۔ شریعت کے حرام کردہ کاروبار کو اختیار کرنا۔ مسائل ١۔ اہل کتاب گمراہی کے خریدار ہیں اور مسلمانوں کو گمراہ کرنا چاہتے ہیں۔ ٢۔ اللہ ہی مسلمانوں کا حمایتی اور مدد گا رہے۔ تفسیر بالقرآن اہل کتاب کی بدترین تجارت : ١۔ رشوت لینے والے۔ (البقرۃ: ٨٥، ٨٦) ٢۔ کفر کا سودا کرنے والے۔ (البقرۃ: ٨٩، ٩٠) ٣۔ دین کے بدلے مال بٹورنے والے۔ (البقرۃ: ١٧٤) ٤۔ گمراہی کے خریدار۔ (البقرۃ: ١٧٥) ٥۔ ایمان کے بدلے کفر کو پسند کرنے والے۔ (آل عمران : ١٧٧) ٦۔ دنیا کے بدلے بد عہدی کا ارتکاب کرنے والے۔ (النحل : ٩٥) ٧۔ اللہ کی آیات کو فروخت کرنے والے۔ (التوبۃ: ٩) النسآء
45 النسآء
46 فہم القرآن ربط کلام : اس آیت میں یہودیوں پر فرد جرم عائد کرتے ہوئے ان کی بد ترین عادتوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ جس شخص یا گروہ میں یہ عادتیں پائی جائیں وہ معاشرے کے لیے ناسور، مذہب کا بدترین دشمن اور لوگوں کی ہدایت میں سب سے بڑی رکاوٹ ثابت ہوتا ہے۔ ایسے لوگ اللہ تعالیٰ کی رحمت کی بجائے اس کی لعنت کے سزاوار ہوتے ہیں۔ ان سے چھٹکارا پائے بغیر معاشرہ جرائم سے پاک نہیں ہوسکتا۔ اس لیے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہودیوں کو ہمیشہ کے لیے مدینہ سے نکل جانے کا حکم دیا تھا اور اپنی حیات مبارکہ کے آخری لمحات میں ان پر لعنت اور پھٹکار کی۔ جن عادتوں کی وجہ سے یہودیوں پر لعنت کی گئی وہ یہ ہیں : 1۔ اللہ تعالیٰ کے کلام کو اس کے سیاق و سباق سے ہٹ کر بیان کرنا۔ 2۔ سچ سننے اور سمجھنے کے باوجود اس کا انکار کرنا۔ 3۔ خدا کے رسول کو بہرہ ہونے کی بد دعا دینا اور آپ کو چرواہا کہہ کر گستاخی کا ارتکاب کرنا۔ 4۔ دین اسلام میں عیب نکالنا۔ ان بھاری جرائم کے باوجود انہیں نہایت ہی دلرُباانداز میں سمجھایا گیا ہے کہ کاش یہ لوگ سننے کے بعد سمع و اطاعت کا مظاہرہ کرتے اور رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مزید ارشادات سننے کے لیے ” راعنا“ کا لفظ استعمال کرنے کے بجائے نہایت ادب کے ساتھ عرض کرتے کہ اے رسول محترم! ہماری طرف توجہ فرمائیں۔ اس لفظ کی تشریح پہلے صفحہ ١٧٤ میں گزر چکی ہے۔ ایسا کرنا اور کہنا ان کے لیے نہایت ہی بہتر اور درست ثابت ہوتا لیکن ان کی بری نیت اور بداعمالیوں کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان پر پھٹکار کی۔ اب ان میں نہایت ہی تھوڑے ہوں گے جو ہدایت پائیں گے۔ اس کے باوجود ایک دفعہ پھر قرآن مجید نے یہ بات کہہ کر انہیں ایمان لانے کی دعوت دی ہے کہ یہ کتاب تمہارے انبیاء کی تصدیق اور تورات و انجیل کی تائید کرتی ہے لہٰذا تمہیں اس پر ایمان لانا چاہیے۔ اس برے وقت سے پہلے جب تمہارے چہروں کو مسخ کر کے گدیوں کے بل الٹا کردیا جائے یا تم پر ہفتہ والوں کی طرح لعنت کی جائے۔ ایسا کرنا اللہ تعالیٰ کے لیے کوئی مشکل نہیں۔ ” اَصْحَاب السَّبْتِ“ سے مراد یہودیوں کے وہ آباء و اجداد ہیں جنہیں ہفتہ کے دن مچھلیوں کے شکار سے منع کیا گیا تھا لیکن انہوں نے اللہ تعالیٰ کے حکم پر عمل کرنے کے بجائے حیلہ سازی سے کام لیتے ہوئے دریا کے کنارے تالاب تیار کیے اس میں مچھلیاں خود بخود آجاتیں۔ ہفتہ کی بجائے انہیں اتوار کے روز پکڑ لیا کرتے تھے۔ اس وجہ سے ان پر اللہ کی پھٹکار ہوئی اور ان کو ذلیل بندر بنا دیا گیا۔ جس کی تفصیل پہلے اور چھٹے پارے میں دیکھنی چاہیے۔ مسائل ١۔ یہودی اللہ کی کتاب میں تحریف کرتے ہیں۔ ٢۔ یہودی نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا نام بگاڑکر لیتے ہیں۔ ٣۔ یہودی دین اسلام میں عیب جوئی کرتے ہیں۔ ٤۔ یہودیوں پر ان کے کفر اور کلام اللہ میں تحریف کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی پھٹکار برستی ہے۔ ٥۔ اہل کتاب کو عذاب الٰہی سے پہلے قرآن مجید پر ایمان لانا چاہیے۔ ٦۔ ہفتہ کے دن زیادتی کرنے والوں پر اللہ تعالیٰ کی لعنت بر سی ہے۔ النسآء
47 النسآء
48 فہم القرآن ربط کلام : یہودی اخلاقی جرائم کے ساتھ شرک جیسے بدترین گناہ میں ملوث تھے اور ہیں۔ لیکن اس کے باوجود یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ ہم اللہ تعالیٰ کے چہیتے ہیں اور اس نے ہمارے تمام گناہ معاف کردیے ہیں۔ اخلاقی جرائم کی سزا کا ذکر کرنے کے بعد شرک کے بارے میں واضح کیا ہے کہ جو شخص شرک کی حالت میں فوت ہوگا اسے ہرگز معاف نہیں کیا جائے گا۔ تمام انبیاء کرام کے کلمے کے پہلے جز میں شرک کی نفی اور دوسرے جز میں توحید کا اثبات ہے۔ اس لیے ان کی دعوت کا آغاز یہاں سے ہوتا کہ اللہ تعالیٰ کی ذات، صفات اور عبادات میں کسی قسم کا شرک نہ کیا جائے۔ شرک نام ہے اللہ تعالیٰ کی ذات کے ساتھ کسی کو ملانا یا اس کی صفات وعبادات میں دوسرے کو برابر یا حصہ دار تصور کرنا۔ یہودیوں نے حضرت عزیر (علیہ السلام) کو اس لیے اللہ کا بیٹا قرار دیا کہ وہ سو سال فوت ہونے کے بعد دوبارہ زندہ کیے گئے، عیسائیوں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی غیر معمولی ولادت، بے مثال معجزات اور ان کی والدہ کی کرامات دیکھ کر انہیں اللہ کا جزء قرار دیا۔ اسی بناء پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے محبت و عقیدت میں مبالغہ کرنے سے منع کیا ہے۔ (عَنِ ابْنِ عَبَّاس (رض) سَمِعَ عُمَرَ (رض) یَقُوْلُ عَلَی الْمِنْبَرِ سَمِعْتُ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَقُوْلُ لَاتُطْرُوْنِیْ کَمَا أَطْرَتِ النَّصَارَی ابْنَ مَرْیَمَ فَإِنَّمَا أَنَا عَبْدُ اللّٰہِ وَرَسُوْلُہٗ) [ رواہ البخاری : کتاب أحادیث الأنبیاء، باب قول اللّٰہِ تعالیٰ واذکر فی الکتاب مریم ] ” عبداللہ بن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے حضرت عمر (رض) سے سنا کہ وہ منبر پر فرما رہے تھے میں نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ارشاد فرماتے سنا کہ جس طرح عیسائیوں نے عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) کی شان میں غلو کیا تم میری شان میں اس طرح غلو نہ کرنا۔ میں تو اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں۔“ یہاں تک کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی ذات کے بارے میں فرمایا کہ مجھے حضرت یونس ( علیہ السلام) سے نہ بڑھایا جائے۔ [ رواہ البخاری : کتاب أحادیث الأنبیاء، باب قول اللّٰہِ تعالیٰ وھل اتاک حدیث موسٰی] شرک تمام گناہوں اور جرائم کا منبع ہے جس وجہ سے حضرت نوح (علیہ السلام) سے لے کر آپ کی ذات اطہر تک تمام انبیاء اور صلحاء نے اس کی مذمت کی ہے خاص کر عیسیٰ (علیہ السلام) کی زبان سے یہ الفاظ ادا کروائے گئے۔ (إِنَّہٗ مَنْ یُّشْرِکْ باللّٰہِ فَقَدْ حَرَّمَ اللّٰہُ عَلَیْہِ الْجَنَّۃَ) [ المائدۃ: ٧٢] ” جو اللہ کے ساتھ شرک کرتا ہے یقینًا اللہ نے اس پر جنت حرام کردی ہے۔“ ” رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرمایا کرتے تھے کہ محشر میں میری سفارش مشرک کے سوا ہر کلمہ پڑھنے والے کو فائدہ دے گی۔ شرک کرنے والا نہ صرف اپنے خالق ومالک کے ساتھ غدّاری کا ارتکاب کرتا ہے بلکہ وہ اپنے عقیدے کے حوالے سے اللہ تعالیٰ پر بہت بڑا جھوٹ باندھتا ہے۔ وہ شرک کرتے ہوئے یہ سمجھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان بزرگوں سے خوش ہو کر انہیں کچھ اختیارات دے رکھے ہیں یا اللہ تعالیٰ ان پر اتنا مہربان ہے کہ وہ انہیں کسی صورت ناراض نہیں کرسکتا۔ اس عقیدے کی وجہ سے مشرک کو کذاب کہا گیا ہے۔“ [ الزمر : ٣] (عَنْ أَبِی مُوسَی (رض) قَالَ قَالَ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) أُعْطِیتُ خَمْساً بُعِثْتُ إِلَی الأَحْمَرِ وَالأَسْوَدِ وَجُعِلَتْ لِیَ الأَرْضُ طَہُوراً وَمَسْجِداً وَأُحِلَّتْ لِیَ الْمَغَانِمُ وَلَمْ تَحِلَّ لِمَنْ کَانَ قَبْلِی وَنُصِرْتُ بالرُّعْبِ شَہْراً وَأُعْطِیت الشَّفَاعَۃَ وَلَیْسَ مِنْ نَبِیٍّ إِلاَّ وَقَدْ سَأَلَ شَفَاعَۃً وَإِنِّی اخْتَبَأْتُ شَفَاعَتِی ثُمَّ جَعَلْتُہَا لِمَنْ مَاتَ مِنْ أُمَّتِی لَمْ یُشْرِکْ باللَّہِ شَیْئاً )[ مسند احمد] ” حضرت ابی موسیٰ (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا مجھے پانچ خصوصیات عطا کی گئی ہیں مجھے ساری دنیا کے لیے نبی بنایا گیا ہے اور ساری زمین میرے لیے پاک ہے اور مسجد بنا دی گئی ہے اور میرے لیے مال غنیمت کو حلال قرار دیا گیا ہے جو مجھ سے پہلے کسی کے لیے حلال نہیں اور میری مدد کی گئی ہے ایک مہینے کی مسافت سے اور مجھے شفاعت کا حق دار قرار دیا گیا ہے اور کوئی بھی نبی ایسا نہیں مگر اس نے سفارش کا سوال کیا اور بے شک مجھے شفاعت کے لیے چن لیا گیا اور میں اپنی امت میں سے ہر اس شخص کی سفارش کروں گا جس نے شرک نہیں کیا ہوگا۔“ مسائل ١۔ شرک کے علاوہ اللہ تعالیٰ جو اور جس کے چاہے گناہ معاف کردے گا۔ ٢۔ شرک بہت بڑا گناہ اور بہتان ہے۔ تفسیر بالقرآن شرک بدترین گناہ ہے : ١۔ شرک کی ممانعت۔ (البقرۃ : ٢٢) ٢۔ شرک بڑا ظلم ہے۔ (لقمان : ١٣) ٣۔ مشرک ناپاک ہے۔ (التوبۃ: ٢٨) ٤۔ مشرکوں کے اعمال برباد ہوجاتے ہیں۔ (الانعام : ٨٨) ٥۔ مشرکوں پر اللہ کی لعنت ہوتی ہے۔ (الفتح : ٦) ٦۔ مشرکوں پر جنت حرام ہے۔ (المائدۃ: ٧٢) ٧۔ شرک معاف نہیں ہوگا۔ (النساء : ٤٨) ٨۔ اٹھارہ جلیل القدر انبیاء ( علیہ السلام) کا تذکرہ کر کے فرمایا اگر یہ شرک کرتے تو ان کے اعمال برباد ہوجاتے۔ (الانعام : ٨٣ تا ٨٦) ٩۔ نبی آخری الزماں (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خطاب کہ شرک سے آپ کے اعمال بھی برباد ہوجائیں گے۔ (الزمر : ٦٥) النسآء
49 فہم القرآن ربط کلام : یہودیوں کا زعم ہے کہ ہم انبیاء (علیہ السلام) کی اولاد ہونے کی بنا پر پوری دنیا سے ممتاز اور پاک لوگ ہیں اور عیسائی سمجھتے ہیں کہ عیسیٰ (علیہ السلام) سولی پر لٹک کر ہمارے گناہوں کا کفارہ بن چکے ہیں۔ یہاں یہود ونصاریٰ کے حوالے سے ہر آدمی کو سمجھایا گیا ہے کہ کوئی بزرگوں سے نسبت کی بنیاد یا کسی کو اپنے گناہوں کا کفارہ سمجھ کر اپنی پاک دامنی کا دعویٰ نہ کرے کیونکہ ہر آدمی اپنے اعمال کا ذمہ دار ہے۔ انبیاء کی اولاد ہونے یا کسی کے ساتھ عقیدت و محبت کی بنیاد پر آدمی پاک دامن نہیں ہوجاتا۔ جب تک وہ عقیدے کے اعتبار سے موحّد اور عمل کے لحاظ سے نبی آخرالزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پیروی کرنے والا نہ ہو۔ اس کے ساتھ ہی آدمی کا یہ عقیدہ بھی ہونا چاہیے کہ صرف ظاہری نیکی کی بنیاد پر انسان کا دل پاک نہیں ہوسکتاجب تک وہ نیکی کی روح کو حاصل کرنے کی کوشش نہ کرے۔ جس کا نام اخلاص اور تقو ٰی ہے۔ جو اللہ تعالیٰ کی عنایت اور توفیق کے بغیر حاصل نہیں ہوتا۔ اللہ تعالیٰ کے نزدیک پاک وہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے گناہوں سے پاک کرکے جہنم سے محفوظ فرمادیاہو۔ اس کے باوجود لوگ یہ ذہن رکھتے ہیں کہ ہم بزرگوں سے نسبت اور ان کے طفیل جہنم سے بچ جائیں گے۔ یہودی تورات سے، عیسائی انجیل سے، بد عقیدہ مسلمان قرآن وسنت سے غلط استدلال کرتے ہیں۔ گویا کہ یہ بالواسطہ طور پر اللہ تعالیٰ پر کذب بیانی کرتے ہیں۔ یہ گناہ انہیں جہنم میں لے جانے کے لیے کافی ہے۔ رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مصنوعی تقویٰ اور ایسے نام رکھنے سے منع فرمایا ہے جس سے خواہ مخواہ پاکدامنی کا اظہار ہوتا ہو۔ (عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ عَطَاءٍ قَالَ سَمَّیْتُ ابْنَتِیْ بَرَّۃَ فَقَالَتْ لِیْ زَیْنَبُ بِنْتُ أَبِیْ سَلَمَۃَ (رض) إِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نَھٰی عَنْ ھٰذَا الْإِسْمِ وَسُمِّیْتُ بَرَّۃَ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لَاتُزَکُّوْا أَنْفُسَکُمْ اَللّٰہُ أَعْلَمُ بِأَھْلِ الْبِرِّ مِنْکُمْ فَقَالُوْا بِمَ نُسَمِّیْھَا قَالَ سَمُّوْھَا زَیْنَبَ) [ رواہ مسلم : کتاب الآداب] ” محمد بن عمرو بن عطاء (رح) کہتے ہیں میں نے اپنی بیٹی کا نام برہ رکھا۔ مجھے زینب بنت ابوسلمہ (رض) نے کہا کہ اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ نام رکھنے سے منع کیا ہے۔ میرا نام بھی برہ رکھا گیا تھا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اپنے آپ کو پاک نہ گردانو۔ اللہ جانتا ہے تم میں سے کون پاک ہے۔ انہوں نے پوچھاہم اس کا کیا نام رکھیں؟ آپ نے فرمایا اس کا نام زینب رکھو۔“ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِی بَکْرَۃَ عَنْ أَبِیہِ (رض) قَالَ أَثْنَی رَجُلٌ عَلَی رَجُلٍ عِنْدَ النَّبِی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَقَالَ وَیْلَکَ قَطَعْتَ عُنُقَ صَاحِبِکَ، قَطَعْتَ عُنَقَ صَاحِبِکَ مِرَارًا ثُمَّ قَالَ مَنْ کَانَ مِنْکُمْ مَادِحًا أَخَاہُ لا مَحَالَۃَ فَلْیَقُلْ أَحْسِبُ فُلاَنًا، وَاللَّہُ حَسِیبُہُ، وَلاَ أُزَکِّی عَلَی اللَّہِ أَحَدًا، أَحْسِبُہُ کَذَا وَکَذَا إِنْ کَانَ یَعْلَمُ ذَلِکَ مِنْہُ [ رواہ البخاری : کتاب الشھادات، باب إذازکی رجل کفاہ] حضرت عبد الرحمن بن ابی بکرۃ اپنے باپ سے بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس ایک آدمی نے آکر کسی کی تعریف کی۔ آپ نے فرمایا تو نے اپنے بھائی کی گردن کاٹ کر رکھ دی۔ آپ نے یہ کلمات تین دفعہ دہرا کر فرمایا اگر کوئی ضرور کسی کی تعریف کرنا چاہتا ہے تو یہ کہے کہ فلاں آدمی کے بارے میں میرا یہ خیال ہے اللہ تعالیٰ اس کی حقیقت خوب جانتا ہے اور وہ یہ الفاظ تبھی کہہ سکتا ہے جب حقیقتاً اس شخص کو ایسا پائے اور اللہ تعالیٰ کے ہاں تم کسی کی گارنٹی نہیں دے سکتے۔ مسائل ١۔ آدمی کو اپنی پاکدامنی کا دعو ٰی نہیں کرنا چاہیے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ کی توفیق کے بغیر آدمی پاک اور نیک نہیں ہوسکتا۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ پر جھوٹ بولنے والے کو بس یہی گناہ کافی ہے۔ تفسیر بالقرآن اہل کتاب کی کذب بیانی : ١۔ آگ میں تھوڑی دیر رہنے کا دعو ٰی۔ (البقرۃ: ٨٠) ٢۔ جنت کے ٹھیکیدار بننا۔ (البقرۃ: ١١١) ٣۔ ” اللہ کے محبوب“ ہونے کا دعو ٰی۔ (المائدۃ: ١٨) ٤۔ من گھڑت باتیں اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کرنا۔ (آل عمران : ٧٨) ٥۔ اپنے لیے جنت مخصوص سمجھنا۔ (البقرۃ: ١١١) ٦۔ ہدایت کو اپنے تک محدود کرنا۔ (البقرۃ: ١٣٥) ٧۔ نبوت کو تسلیم کرنے کے لیے قربانی کی شرط لگانا۔ (آل عمران : ١٨٤) ٨۔ اللہ تعالیٰ کی گستاخی کرنا۔ (المائدۃ: ٦٤) ٩۔ بشر کی نبوت کا انکار کرنا۔ (الانعام : ٩١) النسآء
50 النسآء
51 فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ اہل کتاب کے کردار کی مزید تفصیل اللہ تعالیٰ کے سوا جس کی بھی عبادت اور اطاعت کی جائے وہ طاغوت کی عبادت اور اطاعت ہوگی۔ غزوۂ احد میں مسلمانوں کو وقتی طور پر ہزیمت اٹھانی پڑی لیکن اس کے باوجود یہودی سمجھتے تھے کہ مسلمان دن بدن آگے بڑھ رہے ہیں۔ اس کی روک تھام کے لیے مدینے کا ایک وفد کعب بن اشرف کی سر کردگی میں مکہ معظمہ پہنچا تاکہ کفار کے ساتھ گٹھ جوڑ کر کے مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی طاقت کو روکا جاسکے۔ لیکن ابو سفیان اور اہل مکہ یہودیوں پر اعتماد کرنے کے لیے تیار نہیں تھے۔ جس کی وجہ سے انہوں نے یہ شرط پیش کی کہ جب تک تم ہمارے بتوں کے سامنے سجدہ ریز ہو کر اکٹھے رہنے کا یقین نہیں دلاتے ہم آپ پر اعتماد نہیں کرسکتے۔ یہودی مشرک ہونے کے باوجود بتوں کی پوجا سے نفرت کرتے تھے بالخصوص کعب بن اشرف بتوں کو سجدہ کرنے کا سخت مخالف تھا لیکن اہل مکہ کو اعتماد دلانے کے لیے اس نے بتوں کے سامنے سجدہ کیا۔ اس موقعہ پر ابو سفیان نے کعب سے پوچھاکہ ہم تو اتنا علم نہیں رکھتے آپ بتائیں کہ ہم راہ راست پر ہیں یا محمد؟ کعب بن اشرف اور اس کے وفد نے کہا کہ تم زیادہ ہدایت یافتہ ہو جس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ تم نے ان لوگوں کے کردار پر غور نہیں کیا جو اہل کتاب ہونے کا دعویٰ کرنے کے باوجود بتوں اور طاغوت پر ایمان رکھتے ہیں۔ حسد و بغض میں اس قدر آگے بڑھ چکے ہیں کہ مسلمانوں کے مقابلے میں اہل کفر کو یقین دہانی کروا رہے ہیں کہ تم مسلمانوں سے زیادہ ہدایت یافتہ ہو۔ باطل عقائد رکھنے والوں کا یہی طریقہ ہوتا ہے۔ جس کی مثال آج بھی دیکھی جاسکتی ہے کہ یہودی اور عیسائی اہل کتاب ہونے کے باوجود باطل مذاہب کے اس قدر دشمن نہیں ہیں جس طرح مسلمانوں کے دشمن ہیں یہی حالت مسلمانوں کے اندر باطل عقائد رکھنے والوں کی ہے۔ وہ اہل توحید اور سنت پر عمل کرنے والوں کی زیادہ مخالفت کرتے ہیں۔ طاغوت کی پوجا کرنے کی وجہ سے اللہ نے ان پر لعنت کی ہے۔ مشرک اور کافرجس طرح چاہیں آپس میں گٹھ جوڑ کرلیں اللہ تعالیٰ کے بغیر ان کی کوئی مدد نہیں کرسکتا۔ یہی کچھ ہوا کہ ٹھیک دو سال کے بعد غزوۂ خندق سے فارغ ہونے کے بعد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہودیوں کو ہمیشہ کے لیے جزیرۂ عرب سے نکال دیا۔ (١) (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَسْعُوْدٍ (رض) قَالَ دَخَلَ النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَکَّۃَ وَحَوْلَ الْکَعْبَۃِ ثَلَاث ماءَۃٍ وَّسِتُّوْنَ نُصُبًا فَجَعَلَ یَطْعَنُھَا بِعُوْدٍ فِیْ یَدِہٖ وَجَعَلَ یَقُوْلُ (جَآءَ الْحَقُّ وَزَھَقَ الْبَاطِلُ) الآیۃ) [ رواہ البخاری : کتاب المظالم والغصب، باب ھل تکسر الدنان التی فیھا الخمر] ” حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) فرماتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مکہ میں داخل ہوئے اور کعبے کے ارد گرد تین سو ساٹھ بت تھے آپ انہیں اپنے ہاتھ میں پکڑی ہوئی چھڑی سے گراتے اور کہتے : (حق آ چکا اور باطل بھاگ گیا)۔“ (٢) (عَنْ أَبِی الْہَیَّاجِ الأَسَدِیِّ قَالَ قَالَ لِی عَلِیُّ بْنُ أَبِی طَالِبٍ (رض) أَلاَّ أَبْعَثُکَ عَلَی مَا بَعَثَنِی عَلَیْہِ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) أَنْ لاَ تَدَعَ تِمْثَالاً إِلاَّ طَمَسْتَہُ وَلاَ قَبْرًا مُشْرِفًا إِلاَّ سَوَّیْتَہُ)[ رواہ مسلم : کتاب الجنائز] ” ابو الھیاج اسدی کہتے ہیں مجھے علی بن ابی طالب (رض) نے کہا کیا میں تجھے اس کام پر نہ بھیجوں جس پر مجھے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھیجا تھا کہ ہر تصویرکو مٹادے اور جو اونچی قبر دیکھے اسے برابر کردے۔“ مسائل ١۔ اہل کتاب بتوں اور شیاطین پر ایمان رکھتے ہیں۔ ٢۔ اہل کتاب مسلمانوں کے مقابلے میں کفار کو ہدایت یافتہ سمجھتے ہیں۔ ٣۔ اہل کتاب پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہے اور لعنتی اپنے لیے کوئی مددگار نہیں پاسکتا۔ تفسیر بالقرآن طاغوت : ١۔ طاغوت کے انکار کا حکم۔ (النساء : ٦٠) ٢۔ کفار طاغوت کے ساتھ ہیں۔ (البقرۃ: ٢٥٧) ٣۔ کفار طاغوت کی راہ میں لڑتے ہیں۔ (النساء : ٧٦) ٤۔ اہل کتاب میں سے بھی طاغوت کی عبادت کرنے والے ہیں۔ (المائدۃ: ٦٠) ٥۔ طاغوت کا انکار کرنے والا مضبوط کڑے کو تھامتا ہے۔ (البقرۃ: ٢٥٦) ٦۔ طاغوت کی عبادت سے بچنے والے کے لیے خوشخبری ہے۔ (الزمر : ١٧) النسآء
52 النسآء
53 فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ ابھی تو یہودیوں کے پاس کوئی اقتدار اور اختیار نہیں۔ اگر ان کے پاس اقتدار اور اختیار ہو تو یہ کسی کو دمڑی بھی نہ دیں اور نہ ہی کسی کو دم مارنے دیں۔ اہل کتاب رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ اس لیے حسد کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے بنی اسماعیل کے یتیم کو نبوت کا تاج اور قوموں کی قیادت کیوں عطا فرمائی ہے جو روز بروز عملاً غلبہ پارہی ہے۔ یہ جس قدر چاہیں حسد کا مظاہرہ کریں۔ اللہ تعالیٰ دنیا میں آپ کو عزت و عظمت، امامت و قیادت اور دین کو غلبہ دے گا۔ جس طرح ابراہیم (علیہ السلام) اور ان کی اولاد کو امامت و حکومت اور نبوت عطا کی تھی۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو آگ میں پھینکنے اور وطن سے نکالنے والے بالآخر ناکام ہوئے تھے اسی طرح انجام کے لحاظ سے یہ بھی ناکام ہوں گے۔ چنانچہ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ بات لوگوں کو اس وقت بتلائی جب خندق کھودنے کے دوران کچھ صحابہ کو ایسی چٹان سے واسطہ پڑا جس کو توڑنا ان کے لیے مشکل ہوا۔ انہوں نے آپ کی خدمت میں اس پریشانی کا اظہار کیا۔ آپ نے وہاں پہنچ کر اتنے زور سے کدال ماری کہ پہلی اور دوسری ضرب پر پتھر سے چنگاریاں نکلیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ میرے صحابہ خوش ہوجاؤ! اللہ تعالیٰ نے قیصرو کسریٰ کے خزانوں کی چابیاں مجھے عطا فرمادیں ہیں۔ [ مسند احمد : کتاب اول مسند الکوفیین، باب حدیث البراء بن عازب] رہی بات ان لوگوں کی جو آپ کی مخالفت کر رہے ہیں۔ ابراہیم (علیہ السلام) کی آل میں بھی ایسے لوگ رہے ہیں جنہوں نے حسد و بغض اور باہمی مخالفت کی بنیاد پر اپنے باپ دادا کے دین سے انحراف کیا تھا۔ یہ لوگ بھی حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور ان کی اولاد کے ساتھ نسبت کا دعویٰ رکھنے کے باوجود آپ کی ذات اور دعوت سے انکاری ہیں۔ ایسے بغیض اور حاسدوں کے لیے جہنم ہی کافی ہے۔ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) أَنَّ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ:إِیَّاکُمْ وَالْحَسَدَفَإِنَّ الْحَسَدَ یَأْکُلُ الْحَسَنَاتِ کَمَا تَأْکُلُ النَّارُ الْحَطَبَ) [ رواہ أبو داؤد : کتاب الأدب، باب فی الحسد] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا حسد سے بچو کیونکہ حسد نیکیوں کو اس طرح کھا جاتا ہے جس طرح آگ سوکھی لکڑیوں کو کھاجاتی ہے۔“ (عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یُؤْتٰی بِأَنْعَمِ أَھْلِ الدُّنْیَا مِنْ أَھْلِ النَّارِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ فَیُصْبَغُ فِی النَّارِ صَبْغَۃً ثُمَّ یُقَالُ یَاابْنَ آدَمَ ھَلْ رَأَیْتَ خَیْرًا قَطُّ ھَلْ مَرَّبِکَ نَعِیْمٌ قَطُّ فَیَقُوْلُ لَاوَاللّٰہِ یَارَبِّ وَیُؤْتٰی بِأَشَدِّ النَّاسِ بُؤْسًا فِی الدُّنْیَا مِنْ أَھْلِ الْجَنَّۃِ فَیُصْبَغُ صَبْغَۃً فِی الْجَنَّۃِ فَیُقَالُ لَہٗ یَا ابْنَ آدَمَ ھَلْ رَأَیْتَ بُؤْسًا قَطُّ ھَلْ مَرَّ بِکَ شِدَّۃٌ قَطُّ فَیَقُوْلُ لَا وَاللّٰہِ یَارَبِّ مَا مَرَّ بِیْ بُؤْسٌ قَطُّ وَلَا رَأَیْتُ شِدَّۃً قَطُّ) [ رواہ مسلم : کتاب صفۃ القیامۃ والجنۃ والنار، باب صبغ أنعم أھل الدنیا فی النار وصبغ أشدھم بؤسا فی الجنۃ] ” حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا روز قیامت دنیا میں سب سے زیادہ ناز و نعمت میں پلنے والے جہنمی کو لا کر آگ میں غوطہ دیا جائے گا پھر اس سے پوچھا جائے گا کہ کیا تو نے کبھی کوئی خیر دیکھی؟ کیا کبھی تجھے کوئی نعمت میسر ہوئی؟ تو وہ کہے گا نہیں اللہ کی قسم! میرے رب میں نے کوئی نعمت نہیں دیکھی۔ پھر ایک جنتی کو لایا جائے گا جو دنیا میں سب سے زیادہ تکلیفوں میں رہا اسے جنت میں داخل کر کے پوچھا جائے گا اے ابن آدم! کیا تو نے کبھی کوئی تکلیف اور سختی دیکھی تو وہ جواباً کہے گا نہیں اللہ کی قسم! مجھے کبھی کوئی تکلیف اور مصیبت نہیں آئی۔“ مسائل ١۔ آدمی کو حسد سے بچنا چاہیے۔ ٢۔ یہودی بدترین قسم کے بخیل ہوتے ہیں۔ ٣۔ یہودی دوسروں پر حسد کرتے ہیں۔ ٤۔ اہل کتاب لوگوں کو ہدایت سے روکتے ہیں۔ ٥۔ لوگوں کو ہدایت سے روکنے والے جہنم میں جائیں گے۔ النسآء
54 النسآء
55 النسآء
56 فہم القرآن ربط کلام : اہل کتاب بالخصوص یہودی حسد کی بنا پر اسلام اور مسلمانوں سے عداوت رکھتے ہیں لہٰذاحاسدوں اور منکروں کا انجام بیان ہوتا ہے۔ پہلے بھی عرض کیا ہے کہ قرآن مجید کا یہ مستقل اسلوب ہے کہ برے لوگوں کے مقابلے میں نیک لوگوں کا اور جہنم کی سزاؤں کے مقابلے میں جنت کی عطاؤں کا ذکر کرتا ہے۔ تاکہ قرآن کی تلاوت کرنے والا اپنے انجام کا موقع پر ہی فیصلہ کرسکے۔ چنانچہ جو لوگ کفر کی حالت میں کوچ کریں گے وہ مرنے کے بعد جہنم کے گھاٹ اتریں گے۔ جہاں ان کو آگ میں جلایا جاتا رہے گا۔ جب ان کی چمڑیاں جل جائیں گی تو سزا کے لیے ان کے جسموں کو باربار تبدیل کیا جائے گا تاکہ ان کو پوری پوری سزا مل سکے۔ وہ جہنم سے بھاگ سکیں گے اور نہ ہی جل کر راکھ ہوں گے۔ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ضِرْسُ الْکَافِرِ مِثْلُ أُحُدٍ وَغِلْظُ جِلْدِہٖ مَسِیْرَۃُ ثَلَاثٍ) [ رواہ مسلم : کتاب الجنۃ، باب النار یدخلھا الجبارون والجنۃ یدخلھا الضعفاء] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کافر کی ڈاڑھ احد پہاڑ کے برابر اور اس کی جلد تین دن کی مسافت کے مساوی موٹی ہوگی۔“ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ مَابَیْنَ مَنْکِبَی الْکَافِرِمَسِیْرَۃَ ثَلَاثَۃِ أَیَّامٍ للرَّاکِبِ الْمُسْرِعِ) [ رواہ البخاری : کتاب الرقاق، باب صفۃ الجنۃ والنار] ” حضرت ابوہریرہ (رض) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں آپ نے فرمایا کافر کے دونوں کندھوں کا درمیانی فاصلہ تیز ترین گھوڑے کے تین دن دوڑنے کے برابر ہوگا۔“ (عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ نَارُکُمْ جُزْءٌ مِنْ سَبْعِیْنَ جُزْءً مِنْ نَارِ جَھَنَّمَ قِیْلَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ اِنْ کَانَتْ لَکَافِیَۃً قَالَ فُضِّلَتْ عَلَیْھِنَّ بِتِسْعَۃٍ وَّ سِتِّیْنَ جُزْءً کُلُّھُنَّ مِثْلُ حَرِّھَا) [ متفق علیہ : وَاللَّفْظُ لِلْبُخَارِیِّ] وَفِیْ رِوَایَۃِ مُسْلِمٍ نَارُکُمُ الَّتِیْ یُوْقِدُ ابْنُ اٰدَمَ وَفِیْھَاعَلَیْھَا وَکُلُّھَا بَدَلَ عَلَیْھِنَّ وَکُلُّھُنَّ۔ ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں۔ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تمہاری آگ، دوزخ کی آگ کے ستر حصوں میں سے ایک ہے آپ سے عرض کیا گیا اے اللہ کے رسول! جلانے کو تو دنیا کی آگ ہی کافی تھی۔ آپ نے فرمایا دوزخ کی آگ کو دنیا کی آگ سے انہتر ڈگری بڑھا دیا گیا ہے۔ ہر ڈگری دنیا کی آگ کے برابر ہوگی۔ (بخاری و مسلم) یہ بخاری کے الفاظ ہیں اور مسلم کی روایت میں ہے‘ کہ تمہاری آگ جسے ابن آدم جلاتا ہے۔ نیز اس میں عَلَیْھِنَّ وَکُلُّھِنَّ کی بجائے عَلَیْہَا وَ کُلُّھَا کے الفاظ ہیں۔“ (عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِیْرٍ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) إِنَّ أَھْوَنَ أَھْلِ النَّارِ عَذَابًامَّنْ لَّہٗ نَعْلَانِ وَشِرَاکَانِ مِنْ نَّارٍ یَغْلِیْ مِنْھُمَا دِمَاغُہٗ کَمَایَغْلِی الْمِرْجَلُ مَایَرٰی أَنَّ أَحَدًا أَشَدُّمِنْہُ عَذَابًا وَّإِنَّہٗ لَأَھْوَنُھُمْ عَذَابًا) [ رواہ مسلم : کتاب الإیمان، باب أھون أھل النار عذابا] ” حضرت نعمان بن بشیر (رض) بیان کرتے ہیں۔ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ یقیناً دوزخیوں میں سب سے معمولی عذاب پانے والے کے پاؤں میں آگ کے جوتے اور تسمے ہوں گے۔ جس کی وجہ سے اس کا دماغ ہنڈیا کی طرح کھول رہا ہوگا۔ وہ یہ خیال کرے گا کہ کسی دوسرے شخص کو اس سے زیادہ عذاب نہیں ہو رہا‘ حالانکہ وہ سب سے ہلکے عذاب میں مبتلا ہوگا۔“ مسائل ١۔ اللہ کی آیات کے ساتھ کفر کرنے والوں کو جہنم میں جلایا جائے گا۔ ٢۔ ان کی کھالوں کو بار بار بدلا جائے گا تاکہ ان کو پوری پوری سزا مل سکے۔ تفسیر بالقرآن عذاب کی مختلف شکلیں : ١۔ آنتوں اور کھالوں کا بار بار گلنا۔ (النساء : ٥٦) ٢۔ دوزخیوں کی کھال کا بار بار بدلنا۔ (الحج : ٢٠) ٣۔ کانٹے دار جھاڑیوں کا کھانا۔ (الغاشیہ : ٦) ٤۔ لوہے کے ہتھوڑوں سے سزا پانا۔ (الحج : ٢١، ٢٢) ٥۔ کھانا گلے میں اٹک جانا۔ (المزمل : ١٣) ٦۔ دوزخیوں کو کھولتا ہوا پانی دیا جانا۔ (الانعام : ٧٠) ٧۔ دوزخیوں کو پیپ پلایا جانا۔ (النبا : ٢٥) ٨۔ آگ کا لباس پہنایا جانا۔ (الحج : ١٩) النسآء
57 فہم القرآن ربط کلام : کفر اور حسد کرنے والوں کے مقابلہ میں صاحب ایمان اور صالح کردار لوگوں کا صلہ اور انجام۔ جو لوگ ایمان لائے اور صالح کردار کے حامل ہوئے جو نہی وہ دنیا کے امتحانات سے نکل کر عالم عقبیٰ میں پہنچیں گے ان کے لیے ایسے باغات ہوں گے جن میں نہریں اور آبشاریں چلتی ہوں گی۔ صاحب ایمان اس میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔ اس میں نہایت پاک و صاف، وفادار اور جانثار بیویاں ہوں گی۔ انہیں سر سبز وشاداب اور لہلہاتے ہوئے باغوں کے گھنے سایوں میں داخل کیا جائے گا۔ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَال اللّٰہُُ أَعْدَدْتُّ لِعِبَادِیَ الصَّالِحِیْنَ مَالَا عَیْنٌ رَأَتْ وَلَا أُذُنٌ سَمِعَتْ وَلَا خَطَرَ عَلٰی قَلْبِ بَشَرٍ فَاقْرَءُ وْا إِنْ شِءْتُمْ (فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّآ أُخْفِیَ لَھُمْ مِنْ قُرَّۃِ أَعْیُنٍ) [ رواہ البخاری : کتاب بدء الخلق، باب ماجاء فی صفۃ الجنۃ وأنھا مخلوقۃ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے میں نے اپنے نیک بندوں کے لیے جو کچھ تیار کیا ہے نہ کسی آنکھ نے دیکھا نہ کسی کان نے سنا اور نہ کسی بشر کے دل میں خیال پیدا ہوا چاہو تو اللہ کا فرمان پڑھ لو ” کوئی بھی نہیں جانتا کہ جنتیوں کے لیے کیا کچھ آنکھوں کی ٹھنڈک پوشیدہ رکھی گئی ہے۔“ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ إِنَّ فِی الْجَنَّۃِ لَشَجَرَۃً یَسِیْرُ الرَّاکِبُ فِیْ ظِلِّھَا ماءَۃَ سَنَۃٍ وَاقْرَءُ وْا إِنْ شِءْتُمْ (وَظِلٍّ مَّمْدُوْدٍ) [ رواہ البخاری : کتاب بدء الخلق، باب ماجاء فی صفۃ الجنۃ ....] ” حضرت ابوہریرہ (رض) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں آپ نے فرمایا جنت میں ایک درخت ہے جس کے سائے میں ایک سوار سو برس تک چلتا رہے تب بھی ختم نہ ہوگا اگر چاہو تو اللہ کا فرمان (وَظِلِّ مَّمْدُوْدٍ) پڑھو۔“ (عَنْ اَنَسٍ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) غَدْوَۃٌ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ أَوْ رَوْحَۃٌ خَیْرٌ مِّنَ الدُّنْیَا وَمَافِیْھَا وَلَوْ أَنَّّ امْرَاأۃً مِّنْ نِّسَاءِ أَھْلِ الْجَنَّۃِ اطَّلَعَتْ إِلَی الْأَرْضِ لَأَضَاءَ تْ مَابَیْنَھُمَا وَلَمَلَأَتْ مَا بَیْنَھُمَارِیْحًا وَلَنَصِیْفُھَا عَلٰی رَأْسِھَا خَیْرٌ مِّنَ الدُّنْیَا وَمَا فِیْھَا) [ رواہ البخاری : کتاب الرقاق‘ باب صفۃ الجنۃ والنار] ” حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا اللہ کی راہ میں نکلنا دنیا اور دنیا کی تمام چیزوں سے بہتر ہے۔ اگر اہل جنت کی عورتوں سے کوئی ان کی طرف جھانک لے‘ تو مشرق ومغرب اور جو ان کے درمیان ہے روشن اور معطر ہوجائے۔ نیز اس کے سر کا دوپٹہ دنیا اور جو کچھ دنیا میں ہے اس سے قیمتی ہے۔“ (عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ إِنَّ فِی الْجَنَّۃِ لَشَجَرَۃً یَسِیْرُ الرَّاکِبُ فِیْ ظِلِّھَا ماءَۃَ سَنَۃٍ وَاقْرَءُ وْا إِنْ شِءْتُمْ (وَظِلٍّ مَّمْدُوْدٍ) وَلَقَابُ قَوْسِ أَحَدِکُمْ فِی الْجَنَّۃِ خَیْرٌ مِّمَّا طَلَعََتْ عَلَیْہِ الشَّمْسُ اَوْتَغْرُبُ) [ رواہ البخاری : کتاب بدء الخلق، باب ماجاء فی صفۃ الجنۃ وأنھا مخلوقۃ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جنت میں ایک ایسا درخت ہے کہ اگر کوئی سوار اس کے سایہ میں سو سال چلتا رہے تب بھی اس کو عبور نہ کرسکے گا۔ اگر تم چاہو تو اللہ کا یہ فرمان پڑھ لو ” لمبے لمبے سائے“ اور یقیناً جنت میں تم میں سے کسی ایک شخص کی کمان کے برابر جگہ ان تمام چیزوں سے بہتر ہے۔ جن پر سورج طلوع اور غروب ہوتا ہے۔“ مسائل ١۔ صاحب ایمان وکردار جنت میں ہمیشہ رہیں گے۔ ٢۔ جنتیوں کے لیے پاک بیویاں اور گھنے سائے ہوں گے۔ تفسیر بالقرآن ازواج جنت کا حسن و جمال : ١۔ پاک بیویاں۔ (البقرۃ: ٢٥) ٢۔ خوبصورت بڑی بڑی آنکھوں والیاں۔ (الصافات : ٤٨، ٤٩) ٣۔ جنتیوں کی ہم عمر۔ (ص ٓ: ٥٢) ٤۔ یاقوت و مونگے کی طرح خوبصورت۔ (الرحمن : ٥٨) ٥۔ چھپائے ہوئے موتی۔ (الواقعہ : ٢٣) ٦۔ کنواری اور ہم عمرہوں گی۔ (الواقعہ : ٣٦، ٣٧) النسآء
58 فہم القرآن ربط کلام : اہل کتاب سے تورات و انجیل میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لانے کا عہد لیا گیا تھا۔ جس کو لوگوں کے سامنے بیان کرنا امانت داری کا تقاضا تھا لیکن انہوں نے اللہ سے کیے ہوئے عہد اور اس امانت میں خیانت کی تو اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ ہر شعبہ میں پرلے درجہ کے خائن ثابت ہوئے۔ امت کو مالی‘ اخلاقی، سیاسی اور عدالتی خیانت سے بچانے کے لیے ہر قسم کی ذمہ داری اس کے اہل لوگوں کے سپرد کرنے کا حکم دیا جا رہا ہے۔ اکثر مفسرین نے اس آیت کا شان نزول بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ یہ آیت فتح مکہ کے موقعہ پر نازل ہوئی۔ جس کا پس منظر یہ ہے کہ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہجرت سے پہلے بیت اللہ میں داخل ہونے کے لیے عثمان بن طلحہ سے چابی طلب فرمائی لیکن اس نے چابی دینے سے انکار کردیا۔ اس موقعہ پر آپ نے فرمایا عثمان وہ وقت ذہن میں لاؤ۔ جب یہ چابی میرے پاس ہوگی اور جس کو چاہوں گا عطا کروں گا۔ عثمان نے غصہ میں آکر کہا کہ کیا ہم اس وقت مر چکے ہوں گے؟ آپ نے فرمایا نہیں تم زندہ ہو گے لیکن اس کے باوجود چابی میرے پاس ہوگی۔ چنانچہ جب آپ نے مکہ فتح کیا تو بیت اللہ میں داخل ہونے کے لیے عثمان بن طلحہ سے چابی طلب فرمائی جو ابھی تک مسلمان نہیں ہوا تھا۔ عثمان نے بڑی بے چارگی کے عالم میں آپ کو چابی پیش کرتے ہوئے عرض کی اللہ کے رسول ! اسے امانت سمجھیے۔ آپ نے بیت اللہ میں داخل ہو کر دو نفل ادا کیے اور آپ کے ساتھ حضرت بلال (رض) بھی تھے۔ جب نیچے تشریف لائے تو حضرت علی (رض) نے درخواست کی کہ یہ چابی ہمیں ملنی چاہیے کیونکہ حجاج کو زم زم پلانے کی ذمہ داری ہمارے پاس ہے۔ آپ نے فرمایا یہ ایفائے عہد کا دن ہے لہٰذا چابی عثمان بن طلحہ کو دی جائے گی۔ پھر عثمان بن طلحہ کو بلاکر یہ فرماتے ہوئے چابی عطا کی کہ یہ چابی ہمیشہ تمہارے پاس رہے گی۔ جس شخص نے تم سے چابی چھیننے کی کوشش کی وہ ظالم ہوگا۔ حضرت عمر (رض) فرماتے ہیں کہ آپ اس وقت اس آیت کی تلاوت کر رہے تھے۔“ [ تفسیر ابن کثیر : النساء ٥٨] بے شک یہ آیت مبارکہ خاص موقعہ پر نازل ہوئی لیکن اس میں ہر قسم کی امانتوں کی ادائیگی کا حکم دیا گیا ہے جس میں یہ اشارہ بھی موجود ہے کہ اے مسلمانو! قیادت و امامت اہل کتاب سے چھین کر تمہارے سپرد کی جارہی ہے انہوں نے اس کا حق ادا نہیں کیا لیکن تم اس کا حق ادا کرنا۔ اس آیت کی تفسیر میں مولانا امین احسن اصلاحی (رض) لکھتے ہیں : اس امانت کا انہوں نے حق ادا نہیں کیا جس منصب شہادت پر ان کو مامور کیا گیا اس کو انہوں نے چھپایا، جو کتاب ان کی تحویل میں دی گئی اس میں انہوں نے تحریف کی، جس شریعت کا ان کو حامل بنایا گیا اس میں انہوں نے اختلاف پیدا کیا، جن حقوق کے وہ امین بنائے گئے ان میں انہوں نے خیانت کی، جو فرائض ان کے سپرد ہوئے ان میں وہ چور ثابت ہوئے، جو عہد انہوں نے باندھے وہ سب توڑ ڈالے۔ اے امت محمدیہ کے لوگو! اب تمہاری اولین ذمہ داری یہ ہے کہ تم اس عظیم امانت کو ٹھیک ٹھیک ادا کرو یہاں لفظ امانت کے بجائے اما نات استعمال ہوا ہے جس میں اخلاقی، سیاسی امانتیں لوٹانے کے ساتھ رقم کی امانت بھی شامل ہے۔[ تدبر قرآن] اس لیے مفسرین نے سیاسی‘ مالی‘ اخلاقی اور اسلامی امانتوں کے ساتھ حقوق اللہ کو شامل کیا ہے۔ امانت میں سب سے بڑی امانت جس سے دنیا کا نظام بگڑتا اور سنورتا ہے وہ اختیارات کا استعمال ہے۔ اختیارات تبھی صحیح استعمال ہو سکتے ہیں جب یہ اہل اور صحیح لوگوں کو دیے جائیں۔ اگر نااہل، بددیانت اور اوباش لوگوں کو اختیارات سونپ دیے جائیں تو بہتر سے بہترین قانون اور منصب بھی نہ صرف اپنی افادیت کھو بیٹھتا ہے بلکہ یہ دنیا کی نظروں میں حقیر اور بے مقصد ہوجاتا ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے فرمایا تھا کہ جب تمہارے حکمران نا اہل‘ حق سننے اور کہنے میں گونگے‘ بہرے ہوں گے تو پھر تمہیں قیامت کا انتظار کرنا چاہیے۔ اس کے برعکس عادل اور ذمہ دار حکمرانوں کے بارے میں فرمایا کہ وہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے دائیں جانب چمکتے ہوئے منبروں پر جلوہ افروز ہوں گے۔ [ رواہ مسلم : کتاب الامارۃ] نااہل آدمی کو ذمہ داری دینے والا ملعون ہوتا ہے : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے کہ جس شخص کو مسلمانوں کی کوئی ذمہ داری دی جائے اور وہ صرف تعلق اور قرابت کی بنیاد پر کسی نااہل آدمی کو منصب سونپ دے اس پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہوتی ہے اور اس کی نفلی اور فرضی عبادت قبول نہیں ہوتی۔ یہاں تک کہ اسے جہنم میں جھونک دیا جائے گا۔ [ جمع الفوائد بحوالہ معارف القرآن] صحیح مشورہ دینا امانت ہے : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے جس شخص سے مشورہ لیا جائے وہ ایک طرح سے امین ہوتا ہے۔ اس کا فرض ہے کہ وہ اپنی سمجھ اور معلومات کے مطابق بلا رعایت صحیح مشورہ دے۔ اگر اس نے جان بوجھ کر غلط مشورہ دیا تو اس کے نتائج کا ذمہ دار ہوگا آپ نے اس کو جامع الفاظ میں یوں بیان فرمایا : (اَلْمُسْتَشَارُ مُؤْتَمَنٌ) [ رواہ الترمذی : کتاب الأدب، باب إن المستشار مؤتمن] ” جس سے مشورہ لیا جائے وہ صاحب امانت ہوتا ہے۔“ مجالس بھی امانت ہوتی ہیں : عام طور پر لوگ سمجھتے ہیں کہ وہی شخص امانت دار ہوتا ہے جس کے پاس روپیہ پیسہ یا کوئی سامان رکھا جائے حالانکہ قرآن و سنت میں دیانت وامانت کا وسیع تصور پایا جاتا ہے۔ جس کی تفسیر میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے کہ باضابطہ مجالس بھی امانت ہوتی ہیں کیونکہ بسا اوقات مال و اسباب کا نقصان آدمی برداشت کرلیتا ہے یا اس کی تلافی ہو سکتی ہے۔ لیکن اگر کسی اجلاس اور مجالس کا راز افشا کردیا جائے تو فرد اور خاندان ہی نہیں قوموں اور ملکوں کو ناقابل تلافی نقصان ہوتا ہے۔ اس لیے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( اَلْمَجَالِسُ بالْأَمَانَۃِ) [ رواہ أبو داؤد : کتاب الأدب، باب فی نقل الحدیث] ” مجالس امانت ہوا کرتی ہیں۔“ مسائل ١۔ مسلمان اہل لوگوں کو اپنے معاملات کا ذمہ دار بنائیں۔ ٢۔ ذمہ دار لوگوں کا فرض ہے کہ وہ عدل و انصاف قائم کریں۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو بہت ہی اچھی نصیحت فرماتا ہے۔ تفسیر بالقرآن عدل و انصاف کا حکم : ١۔ عدل و انصاف کا حکم۔ (الاعراف : ٢٩) ٢۔ فیصلہ کرتے وقت عدل و انصاف کا خیال رکھنا چاہیے۔ (صٓ: ٢٦) ٣۔ فیصلہ اللہ کے حکم کے مطابق ہونا چاہیے۔ (المائدۃ: ٤٨) ٤۔ انصاف کرنے والوں کو اللہ پسند کرتا ہے۔ (المائدۃ: ٤٢) النسآء
59 فہم القرآن ربط کلام : اپنے میں سے کسی کو حاکم بنانے کا یہ مقصد نہیں کہ حکمران حاکم مطلق بن جائے بلکہ وہ بھی اللہ اور اس کے رسول کے حکم کے تابع ہیں۔ امانتوں کی ادائیگی اور اختیارات کا صحیح استعمال کرنے کا حکم دینے کے بعد اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کا اس لیے فوری ذکر کیا ہے تاکہ کسی کو یہ غلط فہمی نہ ہو کہ کوئی اپنے اختیارات میں آزاد ہے۔ اس بات کو مزید واضح کرنے کی خاطر ” اُولِی الْاَمْرِ“ کے لیے لفظِ ” اطاعت“ استعمال کرنے کے بجائے فقط واؤ کے عطف سے اس کی اطاعت کا حکم دیا گیا ہے تاکہ راعی اور رعیت، امیر اور مامور اپنے اپنے دائرہ کار میں رہ کر اپنے آپ کو صرف اللہ اور اس کے رسول کے تابع فرمان سمجھیں۔ اسی سورۃ کی آیت ٦٤ اور ٨٠ میں واضح کیا کہ رسول کی اطاعت فی ذاتہٖ نہیں بلکہ در حقیقت وہ اللہ تعالیٰ کے حکم کی وجہ سے ہے۔ لہٰذا جس نے رسول کی اطاعت کی اس نے اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کے حکم کا حقیقی منشاء سمجھنا اور اس کے مطابق سو فیصد عمل کرکے دکھلانا رسول کا کام ہوتا ہے۔ اگر رسول سے بتقاضاۓ بشریت کوئی چوک ہوجائے تو اللہ تعالیٰ فوراً اس کی درستگی فرما دیتا ہے۔ اس لیے رسول امت کے ہر شخص کے لیے اسوۂ حسنہ اور واجب الاتباع ہوتا ہے۔ رسول کے علاوہ کوئی شخص غیر مشروط اطاعت کے لائق نہیں۔ اگر امیرالمومنین یا بڑے سے بڑا عالم اور امام غلطی کرے یا اس کے ساتھ کسی مسئلہ میں اختلاف ہوجائے تو اس معاملے کو اللہ اور اس کے رسول کے سامنے پیش کرنا ہوگا۔ دوسرے لفظوں میں وہ معاملہ قرآن و سنت کے سامنے رکھا جائے۔ پھر اللہ اور اس کے رسول کے فیصلے کے سامنے ہر کسی کو سر تسلیم خم کرنا لازم ہے۔ یہی اللہ اور آخرت پر ایمان لانے کا تقاضا ہے۔ اس طرز عمل میں دنیا کی بہتری اور آخرت کی خیرمضمر ہے اور اسی طریقے سے امت متحد رہ سکتی ہے۔ اگر کسی مسئلہ میں دلائل برابر ہوں تو اہل علم کی اکثریت کی پیروی کرنا ہوگی۔ امیر کا انتخاب اور اس کی اطاعت اس فرمان میں امیر کے لیے ” مِنْکُمْ“ آیا ہے اور ” کُمْ“ ضمیر استعمال کی ہے کہ وہ تم میں سے ہو۔ جس سے دوٹوک انداز میں واضح ہوتا ہے کہ مسلمانوں کا امیر مسلمان اور انہی کی مرضی سے ہونا چاہیے۔ کیونکہ امارت اور خلافت کی بنیاداُوپر سے نہیں نیچے سے قائم کی گئی ہے۔ تاکہ فکری اور عملی طور پر اس کی جڑیں گھر اور عوام میں ہوں اور ہر فرد اس ذمہ داری میں اپنے آپ کو برابر کا شریک سمجھے۔ جہاں تک امت میں سیاسی، گروہی اور مذہبی جماعتوں کا تعلق ہے۔ اس کا شریعت میں صرف جواز کے سوا کوئی ٹھوس ثبوت نہیں ملتا۔ لہٰذا ان جماعتوں کے امراء اور سربراہوں کی حیثیت سفری امیر سے زیادہ نہیں۔ جس طرح اس کے وقتی اور محدود اختیارات ہوتے ہیں اسی طرح جماعتوں کے امراء کو اپنے حقوق و فرائض کا تعین کرنا چاہیے۔ مسائل ١۔ مسلمانوں کو اللہ اور اس کے رسول اور نیک حکمرانوں کی اطاعت کرنی چاہیے۔ ٢۔ تنازعات کو اللہ اور اس کے رسول کے سامنے پیش کرنا چاہیے۔ ٣۔ قرآن و سنت کے مطابق فیصلہ کرنا اور کروانا ایمان داروں کے لیے فرض ہے اسی میں دنیا اور آخرت کی بہتری ہے۔ تفسیر بالقرآن اختلافات کا حل : ١۔ معاملہ اللہ کی طرف لوٹایا جائے۔ (الشوریٰ: ١٠) ٢۔ کتاب اللہ میں مسائل کا حل ڈھونڈا جائے۔ (المائدۃ: ٤٧) ٣۔ اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فیصل تسلیم کیا جائے۔ (النساء : ٥٩) ٤۔ جو اللہ کے رسول کو فیصل تسلیم نہیں کرتا وہ مسلمان نہیں۔ (النساء : ٦٥) ٥۔ اللہ اور اس کے رسول کے فیصلہ کے بعد مومن کو کوئی اختیار نہیں باقی رہتا۔ (الاحزاب : ٣٦) ٦۔ کتاب اللہ کے مطابق فیصلہ نہ کرنے والا ظالم، کافر اور فاسق ہے۔ (المائدہ : ٤٤، ٤٥، ٤٧) نوٹ : مزید تفصیل کے لیے دیکھیں میری کتاب ” اتحاد امت اور نظم جماعت“ النسآء
60 فہم القرآن ربط کلام : اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کا حکم دے کر من گھڑت ایمان‘ نمائشی اطاعت کی تردید اور شیطان کی اتباع سے منع کیا گیا ہے۔ اہل کتاب کے بعد خطاب کا رخ منافقین کی طرف کردیا گیا۔ منافقین کا دعویٰ اور خیال تھا کہ وہ قرآن مجید اور پہلی کتابوں پر ایمان رکھتے ہیں حالانکہ ان کا حال یہ ہے کہ منع کرنے کے باوجود چاہتے ہیں کہ ان کے فیصلے طاغوت کے ذریعے ہوں۔ یہ اس لیے کہ شیطان چاہتا ہے کہ انہیں دور کی گمراہی میں دھکیل دے تاکہ یہ ہدایت کی طرف نہ پلٹ سکیں۔ حافظ ابن حجر (رض) نے اس آیت کے تحت ایک واقعہ نقل کیا ہے جس سے منافقوں کی ذہنیت کھل کر سامنے آجاتی ہے۔ ہوا یوں کہ ایک منافق اور یہودی کے درمیان کسی معاملہ میں جھگڑا ہوا۔ یہودی نے مسلمان سے کہا کہ اس کا فیصلہ آپ کے نبی سے کروانا چاہیے لیکن منافق نے کہا کہ نبی کی بجائے یہودیوں کے سردار کعب بن اشرف سے فیصلہ لینا زیادہ بہتر ہے۔ منافق یہودی کے اصرار پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے جانے کے لیے اس لیے مجبور ہوا کہ کہیں میری منافقت کا پتہ نہ چل جائے۔ جب ان دونوں نے رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس مقدمہ پیش کیا تو آپ نے یہودی کا موقف صحیح سمجھ کر اس کے حق میں فیصلہ صادر فرمادیا۔ لیکن منافق نے یہ فیصلہ قبول کرنے سے انکار کردیا اور یہودی کو کہا کہ چلوعمر سے فیصلہ لیتے ہیں۔ کیونکہ منافق سمجھتا تھا کہ حضرت عمر (رض) یہودیوں کے سخت خلاف ہیں۔ اس لیے وہ تعصب کی بنیاد پر یہودی کے خلاف فیصلہ کریں گے۔ معاملہ جب حضرت عمر (رض) کے سامنے پیش ہوا تو یہودی نے کہا کہ اس پر آپ کے نبی پہلے فیصلہ دے چکے ہیں۔ تب حضرت عمر (رض) نے تلوار لا کر منافق کا سر قلم کرتے ہوئے فرمایا : (ھٰذَا قَضَآءِیْ مَنْ لَمْ یَرْضَ بِقَضَآءِ رَسُوْلِ اللّٰہِ) [ فتح الباری : کتاب المساقاۃ] ” جو رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فیصلہ کو نہیں مانتا اس کے بارے میں میرا یہی فیصلہ ہے۔“ وَمَا کَانَ لِمُوْمِنٍ وَلَا مُوْمِنَۃٍ اِذَا قَضَی اللّٰہُ وَ رَسُوْلُہٗ اَمْراً اَنْ یَکُوْنَ لَہُمُ الْخِیَرَۃُمِنْ اَمْرِ ہِمْ وَمَنْ یَعْصِ اللّٰہَ وَرَسُوْ لَہٗ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَا لاً بَعِیْداً۔ [ الاحزاب : ٣٦] ” کسی مومن مرد اور عورت کو یہ حق نہیں ہے کہ جب اللہ اور اس کا رسول کسی معاملے کا فیصلہ کردے تو پھر اسے اس معاملے میں خود فیصلہ کرنے کا اختیار حاصل رہے۔ اور جو کوئی اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے تو وہ صریح گمراہی میں پڑگیا۔“ مسائل ١۔ قرآن و سنت کے خلاف فیصلہ کرنا اور کروانا شیطان کی پیروی کرنے کے مترادف ہے۔ ٢۔ شیطان آدمی کو دور کی گمراہی میں ڈال دیتا ہے۔ ٣۔ منافق اللہ اور اس کے رسول کی ہدایات سے انحراف کرتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن شیطانی ہتھکنڈے : ١۔ انسان کو گمراہ کرنے کے لیے شیطان کی اللہ تعالیٰ کے سامنے قسمیں۔ (صٓ: ٨٢) ٢۔ شیطان کی خفیہ چالیں۔ (الاعراف : ٢٧) ٣۔ شیطان گناہوں کو مزین و خوبصورت بنا کر پیش کرتا ہے۔ (الانعام : ٤٣) ٤۔ شیطان خیالات کے ذریعے گمراہ کرتا ہے۔ (النّاس : ٥) ٥۔ شیطان انسان سے کفر کروا کر خود پیچھے ہٹ جاتا ہے۔ (الحشر : ١٦) ٦۔ اللہ تعالیٰ مومنوں کو نور ہدایت کی طرف بلاتا ہے۔ (البقرۃ: ٢٥٧) ٧۔ کفار کے دوست طاغوت ہوتے ہیں جو انہیں ظلمات کی طرف لے جاتے ہیں۔ (البقرۃ: ٢٥) النسآء
61 النسآء
62 فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ ہونے کے ساتھ منافقین کی دوغلی پالیسی سے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو آگاہ کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے کہ آپ ان کو وعظ ونصیحت جاری رکھیں۔ اس فرمان میں آپ کو خبر دی جارہی ہے کہ آج تو منافقین اپنی سازشوں اور شرارتوں پر اتراتے اور دندناتے پھرتے ہیں۔ لیکن عنقریب وقت آنے والا ہے کہ جب ان کے کرتوت سامنے آئیں گے تو یہ اپنے کیے پر پچھتاتے اور آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر حلف اٹھاتے ہوئے یہ کہہ کر اپنی صفائی پیش کریں گے کہ اس کام میں ہماری یہ مصلحت تھی اور یہ کام ہم نے فلاں وجہ سے کیا ہے۔ ہمارا مقصد صرف اور صرف باہمی یگانگت اور موافقت پیدا کرکے اچھا ماحول پیدا کرنا تھا چنانچہ اس پیش گوئی اور خوشخبری کا ایک ایک حرف غزوۂ تبوک کے موقعہ پر پورا ہوا۔ جب آپ اس غزوہ سے واپس لوٹے تو پیچھے رہ جانے والے منافقین نے آپ کی خدمت میں آ آکر معذرتیں پیش کیں۔ لیکن آپ ان کے جواب میں خاموشی اور درگزر سے کام لیتے رہے۔ مزید گیا رھویں پارے کی ابتدائی آیات کی تفسیر ملاحظہ فرمائیں۔ منافقین کی غلط بیانی اور ملمع سازی پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ جو کچھ اپنے دلوں میں چھپائے بیٹھے ہیں۔ زبان سے اس کے خلاف دعویٰ کرتے ہیں۔ وہ اپنی باتیں دنیا والوں سے تو چھپا سکتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ سے نہیں چھپا سکتے وہ تو ان کے دلوں کو اچھی طرح جانتا ہے۔ لہٰذا میرے محبوب ! ان سے الجھنے کے بجائے اعراض فرمائیں، مسلسل نصیحت کرتے رہیں اور ان کو سمجھانے کے لیے اچھا انداز اور مؤثر الفاظ استعمال فرمائیں۔ اس میں آپ کی ذات گرامی کے حوالے سے ہر مبلغ کے لیے اصول ہے کہ وہ مخالفوں اور منافقوں کے ساتھ الجھنے کے بجائے بہتر رویہ اختیار کرے جس کا نتیجہ دنیا اور آخرت میں یقیناً بہتر ہوگا۔ حضرت عمر (رض) بیان کرتے ہیں ایک مرتبہ میں نے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کی کہ آپ اجازت دیں تو میں عبداللہ بن ابی منافق کا سر قلم کر دوں لیکن آپ نے منع فرمایا اور کہا لوگ کہیں گے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے ساتھیوں کو قتل کراتا ہے۔ [ رواہ البخاری : تفسیر القرآن، قولہ یقولون لئن رجعنا إلی المدینۃ] تھوڑا ہی عرصہ گزرا تھا کہ ابن ابی اپنے اصل کردار کی وجہ سے اس قدر لوگوں کی نظروں میں حقیر ہوا کہ کوئی اس کے پروپیگنڈہ کی طرف توجہ نہیں کرتا تھا۔ اور اس طرح رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فیصلہ درست ثابت ہوا۔ مسائل ١۔ مصیبت کے وقت منافق قسم اٹھا کر مسلمانوں کی رفاقت کا دعو ٰی کرتا ہے۔ ٢۔ منافقوں سے چشم پوشی کر کے انہیں اچھی نصیحت کرتے رہنا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن منافقین کی چالیں : ١۔ دوغلی زبان اور دوغلا کردار۔ (البقرۃ: ١٣، ١٤) ٢۔ اسلام کا دعویٰ مگر طاغوت کے فیصلہ پر خوش ہونا۔ (النساء : ٦٠) ٣۔ مسلمانوں کوتکلیف پہنچا کر صفائی کی قسمیں اٹھانا۔ (النساء : ٦٢) ٤۔ بغیر تحقیق کے افواہیں اڑانا۔ (النساء : ٨٢) ٥۔ صرف دنیا کی کامیابی کی چاہت رکھنا۔ (النساء : ١٤١) ٦۔ زبان اور دل میں تضاد ہونا۔ (آل عمران : ١٦٧) وعظ و نصیحت کا انداز کیا ہونا چاہیے؟ ١۔ نرم انداز میں گفتگو کرنی چاہیے۔ (طٰہٰ: ٤٤) ٢۔ وعظ میں مؤثر انداز اختیار کرنے کا حکم (النساء : ٦٣) ٣۔ جھگڑے کی بجائے احسن انداز اختیار کرنا۔ (النحل : ١٢٥) ٤۔ حکمت کے ساتھ موثر دعوت دینا چاہیے۔ (النحل : ١٢٥) ٥۔ بصیرت کے ساتھ دعوت دینا چاہیے۔ (یوسف : ١٠٨) النسآء
63 النسآء
64 فہم القرآن ربط کلام : خطاب کا تسلسل جاری ہے۔ اس میں منافقوں کو توبہ کرنے کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔ یہاں اللہ تعالیٰ نے رسول کا مرتبہ اور مقام بیان کرنے کے ساتھ اپنی شفقت ومہربانی کا ذکر فرمایا ہے۔ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں فرمایا کہ اس کی شان اور مقام یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے اس کی اطاعت کی جائے۔ اس میں یہ اشارہ ملتا ہے کہ ملمع سازی یا محض دعووں کی بنیاد پر رسول کی ذات کو خوش کرلیا جائے تو اس سے کامیابی حاصل نہیں ہو سکتی۔ جب تک حقیقتاً قرآن مجید کی ہدایت کے مطابق آپ کی اطاعت نہ کی جائے۔ جہاں تک اللہ تعالیٰ کی لاتعداد رحمتوں کا تعلق ہے وہ اس قدر بے کنار ہیں کہ جب بھی کوئی شخص خواہ اس کا ماضی کتنا ہی گھناؤنا اور منافقانہ کیوں نہ ہو۔ اخلاص نیت کے ساتھ اپنے آپ کو اللہ کے رسول کے تابع کرکے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں حاضر ہوگا تو وہ اپنے رب کو شفیق و مہربان پائے گا۔ یہی بات منافقوں کو کہی گئی کہ کتنا ہی بہتر ہوتا کہ وہ اپنے آپ پر ظلم کر بیٹھنے کے بعد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہو کر آپ سے اپنی بخشش کے لیے اللہ تعالیٰ کے حضور دعا کی درخواست کرتے۔ بلا شبہ اللہ کو اپنے بارے میں معاف کرنے والا اور انتہائی مہربان پاتے۔ اس آیت کی تفسیر میں ایک مفسر نے اپنے عقائد کی حمایت میں قرطبی کے حوالے سے ایک واقعہ ذکر کیا ہے جو نہ صرف قرآن و سنت کے نقطۂ نظر کے خلاف ہے بلکہ تاریخی حقائق بھی اس کی تائید نہیں کرتے وہ لکھتے ہیں : ” سیدنا حضرت علی (رض) سے مروی ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے وصال کے تین روز بعد ایک اعرابی ہمارے پاس آیا اور فرط رنج و غم سے مزارِ پُرانوار پر گر پڑا اور خاک پاک کو اپنے سر پر ڈالا اور عرض کرنے لگا۔ اے اللہ کے رسول! جو آپ نے فرمایا ہم نے سنا جو آپ نے اپنے رب سے سیکھا وہ ہم نے آپ سے سیکھا۔ اسی میں یہ آیت بھی ہے ” وَلَوْأَنَّھُمْ إِذْظَّلَمُوْا“ الخ میں نے اپنی جان پر بڑے بڑے ستم کیے ہیں اب آپ کی بارگاہ میں حاضر ہوا ہوں۔ اے سراپاۓ شفقت و رحمت! میری مغفرت کے لیے دعا فرمایئے۔ فَنُوْدِیَ مِنَ الْقَبْرِ أَنَّہٗ قَدْ غُفِرَلَکَ۔ ” تو مرقد منور سے آواز آئی تجھے بخش دیا گیا۔“ قرآن مجیدنے دو ٹوک انداز میں فرمایا ہے وَمَا یَسْتَوِی الْأَحْیَاءُ وَلَا الْأَمْوَاتُ إِنَّ اللَّہَ یُسْمِعُ مَنْ یَشَاءُ وَمَا أَنْتَ بِمُسْمِعٍ مَنْ فِی الْقُبُور[ فاطر :22] کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی قبر والوں کو سنا نہیں سکتے چہ جائیکہ ایک اعرابی آپ کو آکر کوئی فریاد سنائے اور آپ جواب دیں۔ اگر یہ عقیدہ کسی لحاظ سے بھی ثابت ہوتا یا اس کی ذرّہ برابر گنجائش ہوتی تو آپ کی وفات کے وقت جب آپ کا جسدِ مُبارک موجود تھا تو صحابہ میں تین بڑے اختلافات ابھر کر سامنے آئے۔ آپ کو کہاں دفن کیا جائے؟ خلافت کے لیے کون سی شخصیت زیادہ موزوں ہے؟ یہاں تک کہ آپ کے فوت ہونے پر بھی دو نقطۂ نظر تھے۔ حضرت عمر (رض) کی رائے تھی کہ ابھی مدینہ میں منافق موجود ہیں اور اسلام کا غلبہ بھی پوری طرح نہیں ہوا لہٰذا آپ کو موت نہیں آئی۔ حضرت ابو بکر صدیق (رض) نے حضرت عمر (رض) کے موقف کی تردید کرتے ہوئے فرمایا کہ رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فوت ہوچکے ہیں پھر انہوں نے اپنے خطبہ میں یہ الفاظ ارشاد فرمائے : (مَنْ کَانَ مِنْکُمْ یَعْبُدُ مُحَمَّدًا فَإِنَّ مُحَمَّدًا قَدْمَاتَ وَمَنْ کَانَ یَعْبُدُاللّٰہَ فَإِنَّ اللّٰہَ حَیٌّ لَایَمُوْتُ) ” تم میں سے جو محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عبادت کرتا تھا یقینًا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وفات پاگئے اور جو اللہ کی عبادت کرتا تھا تو یقینًا اللہ تعالیٰ زندہ ہے اسے کبھی موت نہیں آئے گی۔“ پھر اس آیت کی تلاوت کی : (وَمَا مُحَمَّدٌ إِلاَّرَسُوْلٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِہِ الرُّسُلُالخ) [ رواہ البخاری : کتاب الجنائز، باب الدخول علی میت الخ] ” محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تو ایک رسول ہیں ان سے پہلے بھی رسول گزر گئے۔“ یاد رہے کسی صحابی نے یہ بات نہیں فرمائی کہ بھائیو کیوں جھگڑتے ہو چلو آپ کے جسد اطہر سے عرض کرتے ہیں۔ حالانکہ اس وقت آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا جسد اطہر ابھی قبر سے باہرجلوہ نما تھا۔ مسائل ١۔ رسول کی بعثت کا مقصد اس کی اطاعت کرنا ہے۔ ٢۔ لوگوں کو ہر دم اللہ تعالیٰ سے معافی طلب کرتے رہنا چاہیے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ نہایت ہی مہربان اور توبہ قبول کرنے والا ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ کی طرف سے بخشش کی دعوت : ١۔ منافق اللہ تعالیٰ سے بخشش مانگنے سے انحراف کرتے ہیں۔ (المنافقون : ٥) ٢۔ گناہ اللہ ہی بخشتا ہے۔ (آل عمران : ١٣٥) ٣۔ اللہ کی رحمت سے مایوس نہیں ہونا چاہیے۔ (الزمر : ٥٣) ٤۔ انبیاء کی دعوت اللہ سے بخشش مانگنا ہے۔ (نوح : ١٠) ٥۔ اللہ تعالیٰ کا اعلان کہ میں بخشنے والا ہوں۔ (الحجر : ٤٩) النسآء
65 فہم القرآن ربط کلام : پہلی آیات میں منافقین کو رسول کو مطاع تسلیم کرنے اور اللہ تعالیٰ سے معافی کی درخواست کرنے کے لیے کہا گیا ہے۔ اب قطعی انداز میں رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فیصل ماننے کا حکم دیا ہے۔ لہٰذا فیصلہ کُن انداز میں منافقوں، کافروں اور سب لوگوں کی غلط فہمی دور کی جارہی ہے کہ کسی کا ایمان اس وقت تک قابل قبول نہیں ہوسکتا جب تک حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو زندگی کے تمام معاملات میں حکم تسلیم نہ کرلیا جائے۔ جونہی آپ کا فیصلہ سامنے آئے تو اسے دل کی رغبت اور طبیعت کی چاہت کے ساتھ من وعن تسلیم کرنا ہوگا اور اس کے تسلیم کرنے میں کسی قسم کا تردد اور تأمل نہیں ہونا چاہیے۔ یہاں قرآن مجید نے ” شجر“ کا لفظ استعمال کیا ہے جس کا معنیٰ ایسا درخت جس کی شاخیں ایک دوسرے کے ساتھ پھنسی اور الجھی ہوئی ہوں۔ اس سے یہ بتلانا مقصود ہے کہ تمہارے معاملات خواہ کتنے ہی الجھے اور بگڑے ہوئے کیوں نہ ہوں تمہیں ہر حال میں اللہ کے رسول کو حکم تسلیم کرنا پڑے گا۔ معاملات سیاسی ہوں یا معاشی، اخلاقی ہوں یا معاشرتی، انفرادی ہوں یا اجتماعی غرض کہ زندگی کا کوئی معاملہ اور شعبہ ہو۔ اس میں اللہ کے رسول کو حکم تسلیم کرنا لازم ہے۔ اس آیت کا شان نزول حضرت زبیر (رض) اس طرح بیان کرتے ہیں : (أَنَّ رَجُلًا مِّنَ الْأَنْصَارِ خَاصَمَ الزُّبَیْرَ عِنْدَ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فِیْ شِرَاجِ الْحَرَّۃِ الَّتِیْ یَسْقُوْنَ بِھَا النَّخْلَ فَقَالَ الْأَنْصَارِیُّ سَرِّحِ الْمَآءَ یَمُرُّ فَأَبٰی عَلَیْہِ فَاخْتَصَمَا عِنْدَ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لِلزُّبَیْرِ أَسْقِ یَا زُبَیْرُ ثُمَّ أرْسِلِ الْمَآءَ إِلٰی جَارِکَ فَغَضِبَ الْأَنْصَارِیُّ فَقَالَ أَنْ کَانَ ابْنَ عَمَّتِکَ فَتَلَوَّنَ وَجْہُ رَسُوْلِ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ثُمَّ قَالَ اسْقِ یَا زُبَیْرُ ثُمَّ احْبِسْ الْمَآءَ حتّٰی یَرْجِعَ إِلَی الْجَدْرِ فَقَال الزُّبَیْرُ وَاللّٰہِ إِنِّیْ لَأَحْسِبُ ھٰذِہِ الْآیَۃَ نَزَلَتْ فِیْ ذٰلِکَ (فلَاَ وَرَبِّکَ لَا یُؤْمِنُوْنَ حَتّٰی یُحَکِّمُوْکَ فِیْمَا شَجَرَ بَیْنَھُمْ) [ رواہ البخاری : کتاب المساقاۃ، باب سکر الأنھار] ” انصار کے ایک آدمی کا حضرت زبیر (رض) سے پانی کے نالے کے بارے میں اختلاف ہوگیا جس سے وہ کھجوروں کو پانی دیتے تھے۔ انصاری نے کہا پانی چھوڑو اسے آگے آنے دو۔ حضرت زبیر (رض) نے انکار کیا دونوں اپنا جھگڑا رسول گرامی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں لائے تو آپ نے حضرت زبیر (رض) سے فرمایا زبیر! پانی لگا کر ہمسائے کے لیے چھوڑ دو۔ انصاری نے غضبناک ہو کر کہا وہ آپ کی پھوپھی کا بیٹا ہوا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا چہرہ متغیر ہوگیا پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا زبیر! پانی لگا جب تک وہ منڈیروں تک نہ پہنچ جائے پانی کو روکے رکھنا۔ حضرت زبیر (رض) فرماتے ہیں۔ اللہ کی قسم! میں سمجھتا ہوں کہ یہ آیت ” فَلاَ وَرَبِّکَ“ اس موقعہ پر نازل ہوئی ہے۔“ ” حضرت معقل بن یسار (رض) نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دور میں مسلمانوں کے ایک آدمی سے اپنی بہن کی شادی کی وہ اس کے پاس کچھ عرصہ رہی پھر اس نے اسے ایک طلاق دی اور عدت بھی گزر گئی لیکن رجوع نہ کیا۔ اب پھر دونوں ایک دوسرے کو چاہنے لگے پھر اس آدمی نے منگنی کے لیے آدمی بھیجا تو معقل بن یسار (رض) نے کہا : کمینے! میں نے تیری عزت کرتے ہوئے اس کے ساتھ شادی کی اور تو نے اسے طلاق دے دی۔ اللہ کی قسم اب کبھی یہ تیرے پاس نہیں لوٹے گی یہ آخری باری تھی۔ اللہ تعالیٰ نے دونوں میاں بیوی کے جذبات کو قبول کیا تو یہ آیت نازل فرمائی (وَإِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَبَلَغْنَ أَجَلَھُنَّ) جب معقل بن یسار (رض) نے یہ آیت سنی تو کہا کہ سَمْعًا لِّرَبِّیْ وَطَاعَۃً میں نے اپنے رب کی بات کو سنا اور مان لیا۔ پھر انہوں نے اس آدمی کو بلایا اور کہا میں تیری شادی بھی کرتا ہوں اور عزت بھی۔“ [ رواہ الترمذی : کتاب التفسیر، باب ومن سورۃ البقرۃ] مسائل ١۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فیصل تسلیم کیے بغیر لوگ ہرگز ایمان دار نہیں ہو سکتے۔ ٢۔ رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فیصلہ دل و جان سے ماننا ایمان ہے۔ تفسیر بالقرآن مقام نبوت : ١۔ رسول محترم بہترین اسوہ ہیں۔ (الاحزاب : ٢١) ٢۔ ہر معاملہ اللہ اور اس کے رسول کی طرف لوٹانا چاہیے۔ (النساء : ٥٩) ٣۔ اللہ اور رسول سے آگے نہ بڑھو۔ (الحجرات : ١) ٤۔ رسول جو تمہیں دے اسے پکڑلو۔ (الحشر : ٧) ٥۔ رسول کی اطاعت اللہ کی اطاعت ہے۔ (النساء : ٨٠) ٦۔ اللہ کی محبت رسول کی اطاعت میں ہے۔ (آل عمران : ٣١) ٧۔ رسول کی مخالفت سے اعمال برباد ہوجاتے ہیں۔ (محمد : ٣٣) النسآء
66 فہم القرآن ربط کلام : منافقین مشکل حکم ماننے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم ہے کہ اس نے لوگوں پر ایسے احکام نازل کیے جو نرمی اور آسانی پر مبنی ہیں۔ اگر یہ احکام سخت اور مشکل ہوتے تو لوگوں کو ان پر عمل کرنا دشوار اور ناممکن ہوتا۔ اس صورت کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے کہ اگر ہم لوگوں کو اپنے آپ کو قتل کرنے یا اپنے جگر گوشوں کو گھروں سے نکال دینے کا حکم دیتے یعنی جو نافرمان اور سرکش ہیں انہیں قتل کرنے یا گھروں سے نکال باہر کرنے کا حکم دیتے تو چند لوگوں کے سوا کوئی بھی ان پر عمل نہ کرسکتا۔ یا جس طرح موسیٰ (علیہ السلام) کی قوم پر شرک کی یہ سزا تجویز کی گئی تھی کہ وہ اپنے آپ کو قتل کریں تو انہیں قتل کرنا پڑا تھا۔ یہاں یہ بتلانا مقصود ہے کہ حضرت محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنے معاملات میں فیصل تسلیم کرو۔ اس میں تمہارے لیے نرمی بھی ہے اور بھلائی بھی۔ (عَنْ عَاءِشَۃَ (رض) أَنَّھَا قَالَتْ مَاخُیِّرَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بَیْنَ أَمْرَیْنِ إِلّآ أَخَذَ أَیْسَرَھُمَا مَالَمْ یَکُنْ إِثْمًا فَإِنْ کَانَ إِثْمًا کَانَ أَبْعَدَ النَّاسِ مِنْہُ وَمَا انْتَقَمَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لِنَفْسِہٖٓ إِلَّا أَنْ تُنْتَھَکَ حُرْمَۃُ اللّٰہِ فَیَنْتَقِمُ لِلّٰہِ بِھَا) [ رواہ البخاری : کتاب المناقب، باب صفۃ النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ] ” حضرت عائشہ (رض) بیان کرتیہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دو کاموں میں اختیار دیا جاتا تو آپ دونوں میں سے آسان کام کو اختیار کرتے جو کام گناہ کا نہ ہوتا۔ اگر وہ کام گناہ کا ہوتا تو لوگوں میں سب سے زیادہ اس سے دور رہتے اور آپ نے اپنی ذات کے لیے کسی سے انتقام نہ لیا البتہ جب اللہ کی حرمتوں کو پامال کیا جاتا تو اللہ کے لیے انتقام لیتے۔“ اگر منافق اللہ تعالیٰ کے احکام پر عمل کرتے تو ان کے لیے یہ بہتر اور ایمان کی پختگی کا باعث ہوتا۔ اس کے بدلے انہیں عظیم اجر اور مزید صراط مستقیم کی رہنمائی سے بھی نوازا جاتا۔ گویا کہ اللہ تعالیٰ کے احکام بظاہر عمل کرنے میں مشکل کیوں نہ ہوں پھر بھی ان پر عمل کرناآدمی کے لیے بہتر ہوا کرتا ہے۔ ابن جریر طبری بیان کرتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو ایک آدمی نے کہا کہ اگر ہمیں ایسا کرنے کا حکم ہوتا تو ہم ضرور کر گزرتے لیکن اللہ کا شکر ہے کہ اس نے ہم سے درگزر فرمائی ہے یہ بات آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تک پہنچی تو آپ نے فرمایا میری امت میں ایسے لوگ بھی ہیں جن میں پہاڑوں سے زیادہ مضبوط ایمان ہے۔ امام ابن کثیر لکھتے ہیں کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے (وَلَوْ أَنَّا کَتَبْنَا) تلاوت فرمائی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے ہاتھ سے عبداللہ بن رواحہ (رض) کی طرف اشارہ کرکے فرمایا : ( لَوْ أَنَّ اللّٰہَ کَتَبَ ذٰلِکَ لَکَانَ ھٰذَا مِنْ أُولٰءِکَ الْقَلِیْلِ) ” اگر اللہ تعالیٰ یہ کام لازم کردیتے تو عبداللہ بن رواحہ (رض) بھی انہی تھوڑے لوگوں میں سے ہوتے جو اللہ کا حکم مان کر اپنے آپ کو قتل کرتے۔“ ( ابن کثیر) حضرت عمر (رض) نے اظہار تشکر کے طور پر فرمایا تھا کہ اللہ تعالیٰ کا بے پناہ فضل و کرم ہوا ہے کہ اس نے ہمیں اپنے آپ کو قتل کرنے کا حکم نہیں دیا۔ اگر یہ حکم نازل ہوجاتا تو ہم اس پر عمل کرنے سے ہرگز گریز نہ کرتے۔ اس بات کا عملی ثبوت انہوں نے غزوۂ بدر کے موقعہ پر دیا تھا کہ جب قیدیوں کے بارے میں مشاورت ہوئی کہ ان کے ساتھ کیا سلوک کرنا چاہیے؟ تو دو تجاویز سامنے آئیں جن میں حضرت صدیق اکبر (رض) کی رائے یہ تھی کہ قیدیوں کو فدیہ لے کر چھوڑدینا چاہیے۔ اس میں مسلمانوں کی مالی امداد کے ساتھ کفار کے لیے ہدایت کا آخری موقعہ فراہم کرنا تھا۔ حضرت عمر (رض) کی تجویز یہ تھی کہ یہ لوگ ناقابل معافی اور ناقابل اصلاح ہیں۔ ان کو قتل کرنے سے ہمیشہ کے لیے کفر کی کمر ٹوٹ جائے گی۔ ان کی تجویز تھی کہ ہر کوئی اپنے قریبی رشتہ دار قیدی کو قتل کرے سب سے پہلے میں اپنے رشتہ دار قیدیوں کو قتل کروں گا۔ [ الرحیق المختوم‘ غزوۂ بدر کے قیدیوں کا قضیہ] مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ کے حکم کی پیروی کرنا ہر حال میں انسان کے لیے بہتر ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو عظیم اجر اور مزید ہدایت سے سرفراز فرماتے ہیں۔ ٣۔ صراط مستقیم کی ہدایت اطاعت رسول میں پنہاں ہے۔ النسآء
67 النسآء
68 النسآء
69 فہم القرآن ربط کلام : اطاعت رسول کے دنیا میں فوائد اور قیامت کے دن اس کے ثمرات۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فیصلہ اور فرمان کو زندگی کے ہر شعبہ میں قطعی طور پر لائقِ اتباع اور باعث نجات سمجھنے والے کو دنیا اور آخرت کے آٹھ انعامات کی خوشخبری دی گئی ہے۔ دنیا میں ہر اعتبار سے بھلائی کا حصول۔ ایمان پر ثابت قدمی کی توفیق۔ عظیم اجر۔ صراط مستقیم کی رہنمائی کے ساتھ اور قیامت کو اللہ تعالیٰ کے عظیم المرتبت انبیاء، صدیق، شہداء اور صالح لوگوں کی رفاقت اور معیّت نصیب ہوگی۔ یہاں چار شخصیات کے حوالے سے درحقیقت چار قسم کے مراتب اور مقام کا ذکر کیا گیا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ جنت میں لوگوں کی انہی چار مراتب کے لحاظ سے درجہ بندی کی جائے۔ آدمی کو شش کرے تو تین مراتب کو کسی نہ کسی حد تک حاصل کرسکتا ہے۔ جن میں صدیق بننا، شہادت کے مرتبہ پر فائز ہونا اور صالح کردار کا حامل بننا ہے۔ جہاں تک نبوت کا مرتبہ اور مقام ہے وہ تو اعمال کے ذریعے نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کا اپنا انتخاب ہے۔ جس کو چاہے اپنے پیغام کے لیے منتخب فرما لے اور یہ سلسلہ بھی محمد کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات پر اختتام کو پہنچ چکا ہے۔ لہٰذا اب کوئی شخص یا گروہ یہ دعو ٰی کرے کہ حسن اعمال کی بنیاد پر آدمی منصب نبوت پر فائز یا نبوت میں حصہ دار ہوسکتا ہے یہ سراسر گمراہی ہے۔ اس لیے یہاں رفاقت کا لفظ استعمال فرمایا ہے یعنی اسے نبی کی رفاقت نصیب ہوگی جس سے واضح طور پر اس باطل عقیدہ کی نفی ہوتی ہے کہ کوئی شخص قیامت تک ظلّی یا بروزی نبی نہیں بن سکتایہ بحث سورۃ الاحزاب آیت : ٤٠ میں ختم نبوت کے سلسلہ میں ہوگی۔ صدیق : صدیق سے مراد ایسا شخص جو ہر حال میں سچ بولنے والا‘ سچ پر قائم رہنے والا اور سچ کے لیے ہر چیز قربان کردینے والا ہو، امت میں اس مقام پر سب سے پہلے حضرت ابو بکر صدیق (رض) فائز ہوئے۔ جن کے بارے میں رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی زبان اطہر سے ان کے اعزاز کا اعلان فرمایا۔ باقی لوگ درجہ بدرجہ اس مقام کے حامل ہو سکتے ہیں۔ شہید : ایسی شخصیت کو کہتے ہیں جو دل کی سچائی کے ساتھ اسلام میں داخل ہو اور دین کی سربلندی کے لیے سب کچھ قربان کرنے کے لیے آمادہ اور تیار رہے اور میدان کارزار میں کٹ مرنے والے کو شہید کہتے ہیں۔ کیونکہ وہ اپنے خون جگر سے حق کی گواہی دیتا ہے۔ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے شہادت کے کئی مراتب ذکر فرماتے ہوئے مختلف قسم کے لوگوں کو شہداء میں شامل فرمایا ہے۔ امام رازی نے سورۃ آل عمران آیت ١٨ سے استدلال کیا ہے کہ عدل و انصاف کی گواہی دینے والے بھی شہداء میں شمار ہوں گے۔ صالحین : صالح سے مراد ہر وہ شخص ہے جو اللہ تعالیٰ کی توحید پر قائم اور خلوص نیت کے ساتھ نبی آخر الزماں (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اتباع کرنے والا ہو۔ اس طرح امت کے تمام موحّد اور نیک لوگ درجہ بدرجہ صالحیت کے مقام پر فائز اور اپنے عمل کے لحاظ سے جنت میں مقام پائیں گے۔ حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مسجد سے باہر نکل رہے تھے دروازے پر آپ کو ایک آدمی ملا اور عرض کرنے لگا اللہ کے نبی! قیامت کب برپا ہوگی؟ آپ نے اس سے فرمایا کہ تو نے قیامت کے لیے کیا تیار کر رکھا ہے؟ عرض کرتا ہے کہ میں نے نفلی کام تو زیادہ نہیں کیے تاہم اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ محبت رکھتا ہوں۔ آپ نے فرمایا : (فَأَنْتَ مَعَ مَنْ أَحْبَبْتَ) [ رواہ مسلم : کتاب البر والصلۃ والآداب، باب المرء مع من أحب] ” تو اسی کے ساتھ ہوگا جس کے ساتھ تو محبت کرتا ہے۔“ یہ مقام اور مراتب محض اعمال کی بنیاد پر نہیں بلکہ سراسر اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم کا صلہ ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ ہر کسی کے افکار اور اعمال کو جانتا ہے۔ اس موقعہ پر اللہ تعالیٰ کے فضل کا ذکر کرتے ہوئے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ کوئی شخص اپنے اعمال کی بنیاد پر جنت میں داخل نہیں ہو سکتا۔ ایک شخص نے عرض کیا آپ کا معاملہ بھی ایسا ہی ہوگا؟ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا! ہاں میں بھی اللہ کی رحمت کے بغیر جنت میں داخل نہیں ہوسکتا۔[ رواہ البخاری : کتاب المرضی، باب تمنی المریض الموت] مسائل ١۔ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرنے والا قیامت کے دن انبیاء، صدیقین، شہداء اور صلحاء کے ساتھ ہوگا۔ ٢۔ جنت میں نیک لوگوں کی رفاقت نصیب ہونا اللہ کا بڑا فضل ہوگا۔ النسآء
70 النسآء
71 فہم القرآن ربط کلام : اطاعت رسول کا حکم اور اس کے ثمرات بیان کرنے کے بعد جہاد کا حکم دیا ہے تاکہ اطاعت رسول کرنے والے جہاد کے لیے نکل کھڑے ہوں۔ اسلام اور کفر کی پندرہ سالہ کشمکش اپنے عروج پر پہنچ چکی تھی۔ معرکۂ بدر میں مسلمانوں کو بے مثال کا میابی حاصل ہوئی اور احد میں کفار کا پلڑا بھاری رہا۔ جس سے کفار اور یہود و نصارٰی کے حوصلے اس قدر بلند ہوئے کہ وہ سوچنے لگے کہ مسلمانوں کو ختم کرنا ناممکن کام نہیں لہٰذا اب فیصلہ کن مرحلہ آن پہنچا ہے کہ ایک فریق ہمیشہ کے لیے سرنگوں ہوجائے۔ اس بنا پر اہل مکہ اور یہود نے مدینہ کی چاروں جانب سازشوں کے جال بننا شروع کردیئے جس کی وجہ سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صحابہ (رض) کو گشت کے لیے بھیجا کرتے تھے تاکہ کفار کی نقل و حرکت کا بروقت علم ہو سکے۔ انہی حالات میں یہ حکم نازل ہوا کہ مسلمانو! ہر وقت چاک و چوبند رہو اور اپنا اسلحہ پکڑے رکھو۔ مراد یہ ہے کہ اسلحہ اس قدر قریب اور تیار ہونا چاہیے کہ ہنگامی حالت میں وقت ضائع کیے بغیر دشمن کا مقابلہ کیا جاسکے۔ پھر جنگ کے بارے ہدایات دیں کہ حالات کے مطابق تم گوریلا جنگ کرویا منظم طریقہ کے ساتھ جماعت کی صورت میں حملہ آور ہوتمہیں ہر طرح میدان کار زار میں اترنے کے لیے آمادہ و تیار رہنا چاہیے۔ اسی سے جنگ کے متعلق قوموں نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ مضبوط دفاع ہی قوموں کے تحفظ کی ضمانت دیتا ہے لہٰذا دشمن کی جارحیت سے بچنے کے لیے ہر وقت چوکس رہنا چاہیے۔ اس کے بعد منافقوں کے عزائم سے آگاہ کیا گیا کہ یہ تمہاری آستینوں کے سانپ اور گھر کے بھیدی ہیں ان کی سازشوں سے آگاہ رہنا نہایت ضروری ہے۔ ان کا حال یہ ہے کہ اگر تمہیں کوئی مشکل اور افتاد آ پڑتی ہے تو یہ سمجھتے ہیں کہ اللہ نے ہم پر انعام کیا کہ ہم مسلمانوں کے ساتھ نہیں تھے۔ اگر تمہیں کامیابی نصیب ہو تو حسرت و افسوس سے کہتے ہیں کہ کاش! ہم بھی اس عظیم کامیابی میں مسلمانوں کے ساتھ ہوتے۔ (عَنْ یَزِیدَ بْنِ أَبِی عُبَیْدٍ قَالَ سَمِعْتُ سَلَمَۃَ بْنَ الأَکْوَعِ قَالَ مَرَّ النَّبِیّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عَلَی نَفَرٍ مِنْ أَسْلَمَ یَنْتَضِلُونَ فَقَال النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ارْمُوا بَنِی إِسْمَاعِیلَ، فَإِنَّ أَبَاکُمْ کَانَ رَامِیًا ارْمُوا وَأَنَا مَعَ بَنِی فُلاَنٍ قَالَ فَأَمْسَکَ أَحَدُ الْفَرِیقَیْنِ بِأَیْدِیہِمْ فَقَالَ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَا لَکُمْ لاَ تَرْمُونَ قَالُوا کَیْفَ نَرْمِی وَأَنْتَ مَعَہُمْ قَال النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ارْمُوا فَأَنَا مَعَکُمْ کُلِّکُمْ) [ رواہ البخاری : باب التَّحْرِیضِ عَلَی الرَّمْیِ] ” حضرت یزید بن ابی عبید کہتے ہیں میں نے سلمہ بن اکوع (رض) سے سناکہ ایک دن نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اسلم قبیلہ کے چند لوگوں پر گذر ہوا جو تیر اندازی میں مقابلہ کر رہے تھے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اے اسماعیل کی اولاد تیر اندازی کرو یقیناً تمھارے آباء بھی تیر انداز تھے تیر اندازی کرو میں فلاں قبیلہ کے ساتھ ہوں تو دوسرے فریق نے مقابلہ کرنا چھوڑدیا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تم تیر اندازی کیوں نہیں کرتے انہوں نے عرض کی کہ ہم تیر اندازی کیونکر کریں جبکہ آپ ان کے ساتھ ہیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تم تیر اندازی کرو میں سبھی کے ساتھ ہوں“ مسائل ١۔ امت کو انفرادی اور اجتماعی طور پر جہاد کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ ٢۔ مسلمانوں کو ہر وقت اپنا دفاع مضبوط رکھنا چاہیے۔ ٣۔ حالات کے مطابق جہاد انفرادی اور اجتماعی طور پر کرنا چاہیے۔ ٤۔ منافق مسلمانوں کی آزمائش میں شامل ہونے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ ٥۔ منافق کو دنیا اور آخرت میں پچھتاوا ہوگا۔ تفسیر بالقرآن ہر حال میں مضبوط دفاع : ١۔ تھوڑے ہو یا زیادہ دفاع مضبوط رکھو۔ (النساء : ٧١) ٢۔ کفار کے مقابلے میں ہر دم تیار رہو۔ (الانفال : ٦٠) ٣۔ دفاعی قوت کے ذریعے اسلام دشمنوں کو مرعوب رکھو۔ (الانفال : ٦٠) ٤۔ اسلحہ سے غافل نہ رہو۔ (النساء : ١٠٢) ٥۔ نماز میں اسلحہ اپنے پاس رکھو۔ (النساء : ١٠٢) منافق کی حسرتیں : ١۔ جنگ میں نہ جاتے تو زندہ رہتے۔ (آل عمران : ١٥٦) ٢۔ با اختیار ہوتے تو قتل نہ ہوتے۔ (آل عمران : ١٥٤) ٣۔ ہماری بات مان لیتے تو نہ مرتے۔ (آل عمران : ١٦٨) ٤۔ کاش ہم فتح کے وقت مسلمانوں کے ساتھ ہوتے۔ (النساء : ٧٣) النسآء
72 النسآء
73 النسآء
74 فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ اب پھر مسلمانوں کو جہاد پر یہ کہہ کر تیار کیا جارہا ہے کہ ان لوگوں کو جنہوں نے دنیا پر آخرت کو مقدم سمجھ رکھا ہے اللہ کے راستے میں ضرور لڑنا چاہیے۔ انہیں کسی نقصان سے ڈرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ وہ تو پہلے ہی دنیا کو خیر باد کہہ چکے ہیں لہٰذا یہ اللہ کی راہ میں کٹ مریں یا غالب آئیں انہیں ہر دو صورتوں میں اجر عظیم سے نوازا جائے گا۔ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ أَنَّ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ تَکَفَّلَ اللَّہُ لِمَنْ جَاہَدَ فِی سَبِیلِہِ، لاَ یُخْرِجُہُ إِلاَّ الْجِہَادُ فِی سَبِیلِہِ، وَتَصْدِیقُ کَلِمَاتِہِ، بِأَنْ یُدْخِلَہُ الْجَنَّۃَ، أَوْ یَرْجِعَہُ إِلَی مَسْکَنِہِ الَّذِی خَرَجَ مِنْہُ، مَعَ مَا نَالَ مِنْ أَجْرٍ أَوْ غَنِیمَۃٍ )[ رواہ البخاری : کتاب التوحید، باب قولہ تعالیٰ ولقد سبقت کلمتنا] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے اس آدمی کا ذمہ لے لیا جسے اس کے راستے میں صرف جہاد اور اس کے کلمے کی تصدیق نے نکالا ہو کہ اسے جنت میں داخل کرے گا یا اسے اس کے اس گھر میں اجر یا مال غنیمت کے ساتھ لوٹائے گا۔“ مسائل ١۔ منافق کامیابی کے وقت اپنی عدم حاضری پر پچھتاتا ہے۔ ٢۔ کفار کے خلاف جہاد کرنے میں کامیابی یا شہادت دونوں ہی اجر عظیم کا باعث ہیں۔ تفسیر بالقرآن مجاہد کا اجر و ثواب : ١۔ مجاہد اور غیر مجاہد برابر نہیں (النساء : ٩٥) ٢۔ مجاہدین عذاب الیم سے نجات پائیں گے۔ (الصف : ١٠، ١١) ٣۔ مجاہد کے لیے جنت۔ (محمد : ٦) ٤۔ شہید کے لیے مغفرت۔ (آل عمران : ١٥٧) ٥۔ مجاہدین سے اللہ تعالیٰ کی محبت۔ (الصف : ٤) ٦۔ شہید زندہ ہیں وہ اللہ کے ہاں رزق پاتے اور بے خوف و غم ہوتے ہیں۔ (آل عمران : ١٧٠، ١٧١) النسآء
75 فہم القرآن ربط کلام : جہاد کے متعلق خطاب جاری ہے اور اس میں مظلوم کی مدد کرنا لازم قرار دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے وطن اور گھر کی محبت انسان ہی نہیں درندوں اور پرندوں کے دل میں بھی پیدا فرمائی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ درندے اپنی غار کی اور پرندے اپنے گھونسلے کے ایک ایک تنکے کی حفاظت کرتے ہیں اور ہر جاندار شام کو اپنے ٹھکانے کی طرف پلٹتا ہے۔ کوئی جاندار اپنے گھر اور وطن کو چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ لیکن جب کسی کو اس قدر ستایا جائے کہ اسے اپنی جان کے لالے پڑجائیں تو وہ ہر چیز چھوڑنے کے لیے تیار ہوجاتا ہے۔ یہی صورت انسان کی ہے جب مکہ معظمہ میں مسلمانوں پر اس قدر مظالم توڑے گئے کہ ظالم اور سفاک لوگوں نے مسلمان خواتین اور معصوم بچوں کو بھی معاف نہ کیا۔ جس کی وجہ سے مرد، عورتیں اور بچے بلبلا اٹھے کہ بارِ الٰہی! ظالموں کی بستی سے نکلنے کے لیے اپنی طرف سے ہمارا سر پرست اور مددگار پیدا فرما۔ تاکہ ہم اپنے ایمان اور جان و مال کو بچا سکیں۔ اس دعا میں کمزور مسلمانوں کی مظلومیت کا نقشہ پیش کرنے کے ساتھ ان کی ہمدردی اور مدد کے لیے مسلمانوں پر جہاد کی فرضیت واضح کی جارہی ہے۔ یاد رہے کہ اسلامی جہاد کی بنیادی طور پر تین اقسام ہیں۔ ١۔ دفاعی۔ ٢۔ مظلوم مسلمان اور انسانیت کی مدد کرنا۔ ٣۔ اللہ کے باغیوں کو سرنگوں کرکے پرچم اسلام کو سر بلند رکھنا۔ کیونکہ زمین و مافیہا اللہ کی ملکیت ہے۔ لہٰذا باغی انسانوں کو سرنگوں کرنا اور رکھنا اللہ والوں کی ذمہ داری ہے۔ جہاں تک مظلوم انسانیت کی مدد کرنے کا معاملہ ہے دنیا میں دوسری قوموں کے مقابلے میں مسلمان لازوال تاریخ رکھتے ہیں۔ کیوں کہ انہوں نے اپنی اغراض کے بجائے محض اللہ کی رضا اور انسانیت کی حمایت کے لیے بیش بہا قربانیاں دی ہیں۔ ہسپانیہ کی تاریخ گواہ ہے کہ جب عیسائی حکمران راڈرک نے اپنے ہی گورنر کی معصوم بچی کے ساتھ زیادتی کی تو گورنر نے مجبور ہو کر اپنے ہم منصب مسلمان ملک کے سرحدی گورنر موسیٰ بن نصیر کو خط لکھا۔ جس کے جواب میں طارق بن زیاد نے اسپین پر حملہ کیا جس کے نتیجے میں تقریباً 8 سو سال تک اسپین امن وامان کا گہوارہ بنا۔ ہسپانوی مورخ اسے ہسپانیہ کی تاریخ کا سنہری دور تصور کرتے ہیں۔ ایسی ہی صورت حال سندھ میں پیدا ہوئی کہ جب مسلمان مسافروں پر راجہ داہر کے غنڈوں نے حملہ کیا تو ایک مسلمان بیٹی نے عراق کے گورنر حجاج بن یوسف کو دہائی دی۔ حجاج نے اپنے بھتیجے محمد بن قاسم کو مظلوموں کی مدد کے لیے بھیجا۔ جس سے تقریباً ایک ہزار سال تک ہندو ستان میں اسلام کا پھریرا بلند رہا اور اس ملک میں وحدت پیدا ہوئی۔ لوگوں کو سیاسی‘ علمی شعور ملنے کے ساتھ امن و سکون نصیب ہوا اور پاکستان وجود میں آیا۔ اسی جہاد کی ترجمانی قادسیہ میں جو اس وقت ایرانی حکومت کا دارالحکومت تھا حضرت ربیع (رح) نے رستم کے سامنے ان الفاظ میں کی تھی : (إِنَّا قَدْ أُرْسِلْنَا لِنُخْرِجَ النَّاسَ مِنْ ظُلُمَاتِ الْجَھَالَۃِ إِلٰی نُوْرِ الْإِیْمَانِ وَمِنْ جَوْرِ الْمُلُوْکِ إِلٰی عَدْلِ الْإِسْلَامِ) [ البدایہ والنہایہ] ” (ہم خود نہیں آئے) ہمیں بھیجا گیا ہے تاکہ لوگوں کو جہالت کی تاریکیوں سے نکال کر نور ایمان میں لا کھڑا کریں۔ عوام الناس کو بڑے لوگوں کے جورو ستم سے نکال کر اسلام کے عادلانہ نظام میں زندگی گزارنے کا موقعہ فراہم کریں۔“ مسائل ١۔ کفار کے مظالم سے مسلمانوں کو چھڑانا چاہیے۔ ٢۔ مظلوم کو اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کرنی چاہیے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ کے بغیر کوئی مدد نہیں کرسکتا۔ تفسیر بالقرآن مظلوم کی مدد کرنا چاہیے : ١۔ مظلوم مسلمانوں کو جہاد کرنے کی اجازت ہے۔ (الحج : ٣٩) ٢۔ مظلوموں کی مدد کے لیے جہاد کرنا لازم ہے۔ (النساء : ٧٥) النسآء
76 فہم القرآن ربط کلام : جہاد فی سبیل اللہ اور لڑائی کا فرق بیان کیا گیا ہے۔ یہاں دو جماعتوں اور لشکروں کی محاذ آرائی اور باہمی جنگ و جدل کی وجوہات‘ محرکات اور ان کے مشن کا فرق نمایاں کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ صاحب ایمان لوگ اللہ تعالیٰ کے لیے جنگ و جدل کرتے ہیں۔ ان کے مقابلے میں کفار طاغوت کے مشن کی بالا دستی کے لیے برسر پیکار ہوتے ہیں۔ تیسرے پارے میں وضاحت گزر چکی ہے کہ طاغوت سے مراد ہر وہ قوت جو اللہ اور اس کے رسول کے خلاف ہو یہ حکمرانوں یا سیاستدانوں کی شکل میں ہوں یا عام انسانوں کے روپ میں‘ کفار ہوں یا اسلام کا لبادہ اوڑھ کر مسلمانوں کی صفوں میں گھسے ہوئے منافق گویا اللہ اور اس کے رسول کے مخالف کہ جس شکل و صورت میں ہوں۔ وہ طاغوت کے ساتھی تصور ہوں گے۔ پہلی آیت میں مظلوموں کی مدد کا حکم دیا گیا ہے۔ اس لیے ضروری سمجھا گیا کہ کفار کی اصل طاقت کا پول کھول دیا جائے تاکہ مجاہد کسی کمزوری اور گھبراہٹ کے بغیرآگے بڑھیں۔ یہ بھی واضح کیا گیا کہ کفار کا کروفر محض دکھاوا ہے اندر سے یہ کمزور اور کھوکھلے ہیں۔ پھر اس کی کمزوری کی وجہ بیان فرمائی کہ اپنے خالق کے باغی اور سچا مشن نہ ہونے کی وجہ سے ان کے دلوں میں جرأت اور ان کے قدموں میں استقامت پیدا نہیں ہوتی۔ مسلمان ایمان کی دولت اور اپنے وسائل کے مطابق مکمل تیاری‘ باہمی اتحاد‘ اور کلمۃ اللہ کی سربلندی کے لیے سینہ سپر ہوں تو دنیا کی کوئی قوت مسلمانوں کو سرنگوں نہیں کرسکتی کیونکہ یہی اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے۔ مجاہدو! تم ہی غالب آؤ گے بشرطیکہ ایمان کامل کے اسلحہ سے لیس ہوجاؤ۔ مسلمانوں کی تاریخ اس بات پر گواہ ہے کہ مسلمان جب بھی ایمان‘ اتحاد اور جہاد کے جذبہ سے سرشار ہو کر میدان کارزار میں اترے فتح و کامرانی نے ان کے قدم چومے اور اللہ کی مدد کالی گھٹا اور موسلا دھار بارش کی طرح مسلمانوں پر سایہ فگن رہی۔ کفار اور اشرار بالآخر ہر میدان میں منہ کی کھا کر واپس ہوئے۔ کیونکہ قوت و جبروت اللہ تعالیٰ کے پاس ہے۔ مکرو فریب اور ضعف و کمزوری شیطان کے حصہ میں آئی ہے۔ مسائل ١۔ ایمان دار اللہ کے لیے لڑتے ہیں اور کافر شیطان کے لیے برسر پیکار ہیں۔ ٢۔ شیطان کے ساتھی اور ان کے حربے نہایت کمزور ہوا کرتے ہیں۔ النسآء
77 فہم القرآن ربط کلام : کمزور مسلمانوں کو جنگ میں پہل کرنے کی بجائے اپنے آپ کو منظم اور اخلاق و ایمان کے لحاظ سے مضبوط کرنا چاہیے۔ مفسرین نے اس آیت کی متضاد مفہوم اخذ کیے ہیں۔ ایک طبقے کا خیال ہے کہ یہ آیت مظلوم مسلمانوں کے بارے میں نازل ہوئی جب انہوں نے مظالم سے تنگ آکر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں مطالبہ کیا کہ ہمیں لڑنے کی اجازت عنایت فرمائی جائے۔ امام نسائی (رح) نے کتاب الجہاد میں یہ حدیث نقل کی ہے کہ حضرت عبدالرحمن بن عوف (رض) اور ان کے ساتھی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہو کر کہنے لگے کہ اللہ کے رسول ! ہم مشرک ہونے کے باوجود معزز اور باوقار لوگ تھے اب ایمان لانے کے بعد ہم ذلیل ہو رہے ہیں۔ اس لیے ہمیں لڑنے کی اجازت دیں۔ آپ نے جواباً ارشاد فرمایا ابھی تک اللہ تعالیٰ نے مجھے جنگ کرنے کی اجازت نہیں دی۔ حضرت ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ جب ہم مدینہ پہنچے تو ہمیں قتال کا حکم ہوا لیکن بعض لوگوں نے لڑنے سے ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کیا‘ جس پر یہ فرمان نازل ہوا۔ جبکہ دوسرے مفسرین کا خیال ہے کہ یہ آیت مسلمانوں کے بجائے منافقوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ جہاد کا حکم آنے سے پہلے وہ ڈینگیں مارتے تھے کہ ہمیں مشرکوں کے مقابلے میں کٹ مرنا چاہیے۔ جس سے ان کا مطلب مصنوعی اخلاص کا اظہار تھا۔ یا پھر منافق چاہتے تھے کہ مسلمان طاقتور اور منظم ہونے سے پہلے کفار کے ساتھ ٹکرا جائیں تاکہ مسلمانوں کی طاقت ابتداء ہی میں پاش پاش ہوجائے۔ لہٰذا مسلمانوں کو سمجھایا اور روکا جارہا ہے کہ ابھی میدان جہاد میں اترنے کا وقت نہیں آیا۔ کیونکہ تم تعداد میں تھوڑے اور تربیت کے لحاظ سے ناپختہ اور غیر منظم ہو۔ اس لیے پہلے زکوٰۃ کی ادائیگی کی صورت میں مالی قربانی کا جذبہ پیدا کرو۔ اخلاقی، روحانی اور تنظیمی تربیت کے لیے نماز پڑھتے رہو۔ جب تم ایک امام کی اتباع میں قیام اور رکوع و سجود کرو گے تو تمہیں ہر حال میں نظم و ضبط قائم رکھنے کا سلیقہ آئے گا۔ جہاد میں مال بھی خرچ ہوتا ہے اور نظم بھی ضروری ہوتا ہے جو زکوٰۃ اور نماز کے بغیر ممکن نہیں۔ لیکن جب جہاد فرض ہوا تو وہ اس طرح ڈر رہے تھے جیسے اللہ تعالیٰ سے ڈرنا چاہیے۔ بلکہ اس سے بھی زیادہ خوف زدہ ہو کر کہتے تھے کہ ہمارے رب نے ہم پر قتال کیوں فرض کیا ہے؟ کاش کہ ہمیں مزید مہلت دی جاتی۔ ان کے جواب میں فرمایا گیا کہ اے رسول! انہیں سمجھاؤ تم تھوڑی سی مہلت مانگتے ہو یہ دنیا تو بذات خود قلیل اور اس میں رہنے کی مدّت انتہائی تھوڑی ہے۔ جبکہ اس کے مقابلے میں آخرت کی نعمتیں بیش بہا، دائمی اور اخروی زندگی ہمیشہ رہنے والی ہے۔ وہاں کسی پر کھجور کی گٹھلی کے دھاگے کے برابر بھی زیادتی نہ ہوگی۔ بلکہ ہر کسی کو پورا پورا اجر دیا جائے گا۔ کھجور کی گٹھلی کے درمیان لکیر میں جو دھاگہ نما پردہ ہوتا ہے۔ اسے عربی میں ” فتیل“ کہا جاتا ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے : (لَاتَمَنَّوْا لِقَآءَ الْعَدُوِّ وَسَلُوا اللّٰہَ الْعَافِیَۃَ فَإِذَا لَقِیْتُمُوْھُمْ فَاصْبِرُوْا) [ رواہ البخاری : کتاب الجھاد والسیر، باب لاتمنوا لقاء العدو] ” دشمن سے ملنے کی آرزونہ کرو اور اللہ تعالیٰ سے عافیت مانگو، جب تمہارا ٹکراؤ دشمن سے ہوجائے تو پھر حوصلہ رکھو۔“ مسائل ١۔ جنگ کی خواہش کرنے کے بجائے نماز اور زکوٰۃ کی ادائیگی سے اپنا کردار مضبوط بنانا چاہیے۔ ٢۔ جہاد فرض ہوجائے تو ڈرنے کے بجائے ڈٹ جانا چاہیے۔ ٣۔ بنی اسرائیل پہلے جہاد کا مطالبہ کرتے اور پھر اس سے راہ فرار اختیار کیا کرتے تھے۔ ٤۔ دنیا کا مال و متاع آخرت کے مقابلے میں نہایت ہی تھوڑا ہے۔ ٥۔ صاحب تقویٰ لوگوں کے لیے آخرت بہتر ہے۔ النسآء
78 فہم القرآن ربط کلام : جہاد وہی کرسکتا ہے جو موت سے ڈرنے والا نہ ہو۔ موت کا تعلق قتال کے ساتھ نہیں۔ موت کا وقت‘ مقام اور سبب مقرر ہے۔ موت اپنے وقت اور مقام پر آئے گی چاہے کوئی قلعہ بند ہوجائے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہر کسی کو زندگی عزیز، اولاد محبوب اور مال و جان پیارے ہوتے ہیں۔ لیکن مومن اور دوسروں کا فرق یہ ہے کہ مومن اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہوئے اس کے حکم کو دنیا جہاں کی ہر چیز سے عزیز تر سمجھ کر بے خوف و خطر میدان جنگ میں کود پڑتا ہے۔ اس کے ذہن میں یہ تصور ہوتا ہے کہ گھر ہو یا باہر، امن ہو یا جنگ میرے لیے موت کا وقت اور جگہ مقرر ہے۔ پھر منافقوں کی طرح چھپنا اور بزدلوں کی طرح پیچھے ہٹنے کا کیا مقصد؟ یہ جذبہ اس کے دل سے موت کا خوف نکال دیتا ہے تبھی تو وہ چمکتی ہوئی تلواروں اور برستے ہوئے گولوں میں بڑھتا ہی چلا جاتا ہے۔ کیونکہ اسے یقین ہوتا ہے کہ موت اپنی مقررہ جگہ اور وقت کے بغیر ہرگز نہیں آسکتی۔ دنیا میں کتنے ہی سپہ سالار اور حکمران گزرے ہیں جن کی حفاظت کے لیے ہزاروں کمانڈوز حصار بنائے رکھتے تھے۔ لیکن جب موت کا وقت آیا تو کوئی بھی ان کی حفاظت نہ کرسکا۔ ماضی قریب میں امریکہ کا صدر کینیڈی گولی لگنے سے اس وقت ہلاک ہوا جب پولیس کے ہزاروں جوان، درجنوں انٹیلی جنس ایجنسیاں اور انتہائی چاک و چوبند مسلح گارڈز اس کی حفاظت کر رہے تھے۔ اس کے مقابلہ میں فلسطین کے صدر یاسر عرفات پر اسرائیل نے بارہا دفعہ سینکڑوں گولے برسائے یہاں تک کہ اس کے صدر مقام رملہ کا اسرائیل نے کئی مہینے محاصرہ کیے رکھا، مسلسل بمباری کی، اس کا دفتر اور رہائش کا بیشترحصہ تباہ ہوگیا لیکن موت یاسرعرفات کے قریب نہ پہنچ سکی، جب وقت آیا تو فرانس کے ایک ہسپتال سے اس کا جسد خاکی اٹھا۔ امریکہ جسے اپنے سیٹلائٹ سسٹم پر بڑا ناز ہے۔ اس کی انٹیلی جنس سے مرعوب ہو کر جنگی جغاوری بھی کہتے ہیں کہ امریکہ سے زمین پر گری ہوئی سوئی بھی نہیں چھپ سکتی۔ لیکن دنیا نے دیکھ لیا کہ 2002 ء سے لے کر 2005 ء ختم ہوچکا ہے۔ افغانستان کا چپہ چپہ چھان مارنے‘ بستیوں کی بستیاں تباہ کرنے کے باوجود امریکہ اسامہ بن لادن تلاش کرسکا اور نہ کروڑوں ڈالر کی پیش کش کے باوجود کوئی اسامہ کو قتل کرسکا۔ یہاں منافقوں کی ایک اور عادت بد کا ذکر کیا گیا ہے کہ اگر ان کو کوئی فائدہ اور اچھائی پہنچے تو کہتے ہیں یہ ہماری حسن تدبیر کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کا فضل ہوا ہے۔ جب کوئی نقصان پہنچتا ہے تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اذیت اور صدمہ پہنچانے کے لیے ہرزہ سرائی کرتے ہیں کہ یہ تمہاری بے تدبیری کا نتیجہ ہے۔ اے نبی! انہیں فرمائیں کہ نفع و نقصان اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوا کرتا ہے۔ کوئی کسی کو نقصان پہنچانا چاہے تو اللہ تعالیٰ کی مشیت کے بغیر ایسا نہیں کرسکتا۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ اگر سب کچھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے تو ہمیں جد وجہد کرنے کی کیا مصیبت پڑی ہے ؟ اللہ تعالیٰ نے جو ہمارے لیے لکھ چھوڑا ہے وہ ہو کر رہے گا دراصل یہ شیطان کا حربہ ہے جس کو استعمال کرکے یہ لوگ نیکی کے کاموں سے چھٹکارا پانا چاہتے ہیں۔ کیا ایسے لوگ دنیا کے معاملات کے بارے میں بھی یہ عقیدہ اختیار کرنے کے لیے تیار ہوتے ہیں؟ جہاں تک رسول گرامی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا تعلق ہے آپ دنیا کے لیے رحمت اور محسن اعظم بنا کر بھیجے گئے ہیں۔ آپ تو کسی کو نقصان پہنچانے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتے تھے بلکہ آپ تو انسانیت کی خاطر بڑی بڑی تکالیف اور نقصانات اٹھاتے رہے ہیں۔ منافق کیسے بد فطرت اور غیر دانشمند لوگ ہیں کہ اس حقیقت کو بھی سمجھنے کے لیے تیار نہیں۔ مسائل ١۔ انسان قلعہ بندہو یا جہاں بھی چھپ جائے موت اسے دبوچ لے گی۔ ٢۔ منافقوں کو کوئی تکلیف پہنچے تو وہ دوسروں کے ذمہ لگاتے ہیں۔ ٣۔ ہر تکلیف بنیادی طور پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوتی ہے۔ ٤۔ منافق اور کافر حقیقت کو سمجھنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ تفسیربالقرآن موت کا ایک دن مقرر ہے : ١۔ موت کا وقت مقرر ہے۔ (آل عمران : ١٤٥) ٢۔ موت کی جگہ متعین ہے۔ (آل عمران : ١٥٤) ٣۔ موت کو کوئی ٹال نہیں سکتا۔ (آل عمران : ١٦٨) ٤۔ موت سے کوئی بچ نہیں سکتا۔ (النساء : ٧٨) ٥۔ سب کو موت آنی ہے۔ (الانبیاء : ٣٥) ٦۔ اللہ تعالیٰ کے سوا ہر کسی نے مرنا ہے۔ (الرحمن : ٢٦، القصص : ٨٨) النسآء
79 فہم القرآن ربط کلام : نقصان پہنچنے پر منافق رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات کو ذمہ دار ٹھہراتے اس ہرزہ سرائی کا جواب دیتے ہوئے اصل حقیقت سمجھائی گئی ہے کہ نفع و نقصان اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتا ہے۔ لیکن انسان کو پہنچنے والے نقصان کا بنیادی سبب اس کے ذاتی کسب و عمل کا نتیجہ ہوتا ہے۔ پہلی آیت میں یہ فرمایا ہے کہ نفع ہو یا نقصان ہر ایک اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتا ہے۔ کیونکہ وہی مختار کل اور نفع و نقصان کا مالک ہے۔ اس آیت میں اس کی یوں تشریح فرمائی ہے کہ انسان کو پہنچنے والی اچھائی اور فائدہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتا ہے کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم کا نتیجہ ہے۔ جہاں تک برائی اور نقصان کا معاملہ ہے یہ انسان کی اپنی کوتاہی اور بے تدبیری کا صلہ ہے۔ اللہ تعالیٰ چاہے تودنیا میں کسی کی غلطی سے درگزر فرمائے نہ چاہے تو کوتاہی کے بدلے سرزنش یا سزا کے طور پر آدمی کی گرفت فرمائے۔ یہی بات حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو توحید سمجھاتے ہوئے بیان فرمائی تھی کہ شفاء اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اور بیماری اپنی طرف سے ہوتی ہے۔ [ الشعراء : ٨٠] یہاں یہ اصول سمجھانے کے بعد فرمایا اے رسول مکرم! آپ کو دل چھوٹا کرنے اور پریشان ہونے کی ضرورت نہیں آپ خود لوگوں کے سامنے کھڑے نہیں ہوئے یہ تو ہم نے آپ کو پوری انسانیت کی طرف اپنا پیغام دینے والا بنا کر بھیجا اور کھڑا کیا ہے۔ لوگ تمہاری رسالت کی گواہی دیں تو یہ ان کی خوش نصیبی ہے اگر یہ انکار کردیں تو تمہیں بھیجنے والا اللہ شہادت دیتا ہے کہ آپ اس کے سچے رسول ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی شہادت تمام شہادتوں سے بڑھ کر ہے کوئی گواہی اس کی گواہی سے بہتر اور معتبر نہیں ہو سکتی۔ اس کی گواہی کے بعد کسی گواہی کی ضرورت نہیں رہتی۔ در اصل لوگ یہ نہیں سمجھتے کہ آپ کی اطاعت اللہ تعالیٰ کی اطاعت ہے۔ جس نے آپ کی اطاعت کی حقیقتاً اس نے اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی۔ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! تمہیں ہم نے ان پر نگہبان اور دربان بنا کر نہیں بھیجا اور نہ ہی آپ سے سوال ہوگا کہ آپ کے ہوتے ہوئے یہ لوگ کافر و مشرک کیوں رہے؟ آپ کا کام تو بات سمجھانا اور پہنچانا ہے یہ فرض آپ کما حقہٗ پورا کر رہے ہیں۔ نفع و نقصان کے بارے میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا عقیدہ اور فرمان : (عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ (رض) قَالَ کُنْتُ خَلْفَ رَسُوْلِ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَوْمًا فَقَالَ یَاغُلَامُ إِنِّیْ أُعَلِّمُکَ کَلِمَاتٍ اِحْفَظِ اللّٰہَ یَحْفَظْکَ احْفَظِ اللّٰہَ تَجِدْہُ تُجَاھَکَ إِذَ ا سَأَلْتَ فَاسْأَلِ اللّٰہَ وَإِذَا اسْتَعَنْتَ فَاسْتَعِنْ باللّٰہِ وَاعْلَمْ أَنَّ الْأُمَّۃَ لَوِ اجْتَمَعَتْ عَلآی أَنْ یَّنْفَعُوْکَ بِشَیْءٍ لَّمْ یَنْفَعُوْکَ إِلَّا بِشَیْءٍ قَدْ کَتَبَہُ اللّٰہُ لَکَ وَلَوِ اجْتَمَعُوْا عَلآی أَنْ یَّضُرُّوْکَ بِشَیْءٍ لَّمْ یَضُرُّوْکَ إِلَّا بِشَیْءٍ قَدْ کَتَبَہُ اللّٰہُ عَلَیْکَ رُفِعَتِ الْأَقْلَامُ وَجَفَّتِ الصُّحُفُ) [ رواہ الترمذی : کتاب صفۃ القیامۃ والرقائق والورع ] ” حضرت عبداللہ بن عباس (رض) بیان کرتے ہیں ایک دن میں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پیچھے سوار تھا آپ نے فرمایا : بچے! میں تجھے چند کلمات سکھاتاہوں تو اللہ کے احکامات کی حفاظت کر اللہ تیری حفاظت کرے گا تو اللہ کو یاد کر تو اسے اپنے سامنے پائے گا، جب سوال کرے تو اللہ ہی سے سوال کر، جب مدد طلب کرے تو اللہ تعالیٰ ہی سے مدد طلب کرنا اور یقین رکھ کہ اگر تمام لوگ تجھے کچھ نفع دینے کے لیے جمع ہوجائیں۔ وہ اتنا ہی نفع دے سکتے ہیں جتنا اللہ تعالیٰ نے تیرے لیے لکھ رکھا ہے اور اگر وہ تجھے نقصان دینے پہ تل جائیں۔ تجھے اتنا ہی نقصان پہنچے گا جتنا تیرے حق میں لکھا گیا ہے، قلمیں اٹھالی گئیں ہیں اور صحیفے خشک ہوگئے ہیں۔“ مسائل ١۔ اچھائی اللہ تعالیٰ کی طرف سے اور نقصان انسان کی کوتاہی کا نتیجہ ہوتا ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نفع و نقصان کا مالک نہیں بنایا۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ ہر کسی پر گواہ ہے۔ ٤۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت حقیقت میں اللہ کی اطاعت ہے۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو لوگوں پر نگہبان بنا کر نہیں بھیجا۔ تفسیر بالقرآن عالمگیر نبوت : ١۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پوری دنیا کے رسول ہیں۔ (الاعراف : ١٥٨) ٢۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سب کے رسول ہیں۔ (سباء : ٢٨) ٣۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مبشر اور نذیر ہیں۔ (الاحزاب : ٤٥) ٤۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رحمت عالم ہیں۔ (الانبیاء : ١٠٧) ٥۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خاتم النبیین ہیں۔ (الاحزاب : ٤٠) النسآء
80 النسآء
81 فہم القرآن ربط کلام : منافقوں کے کردار کا تذکرہ جاری ہے۔ منافق کی یہ بھی عادت ہوتی ہے کہ دوغلی بات کرتا ہے۔ منافق کی عادت ہوتی ہے کہ وہ سامنے جی حضوری اور بعد میں اس کے الٹ بات کرتا ہے۔ یہی عادت آپ کے دور کے منافقوں کی تھی۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے رعب اور مسلمانوں کے ماحول سے مرعوب ہو کر اور ظاہری رکھ رکھاؤ کے لیے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے آتے تو ایسے الفاظ اور انداز اختیار کرتے کہ جن سے آپ کو یقین ہوجائے کہ یہ واقعتا مخلص لوگ ہیں۔ لیکن جونہی آپ کی محفل سے باہرجاتے بالخصوص رات کے وقت خفیہ میٹنگوں میں مشورے کرتے کہ اسلام سے کس طرح چھٹکارا پائیں اور آپ کو کس طرح نقصان پہنچایا جائے؟ ان کی خفیہ مجالس کو طشت ازبام کرکے بتلایا جارہا ہے کہ جو کچھ یہ کہتے اور کرتے ہیں اللہ تعالیٰ اسے لکھ رہا ہے اور کراماً کاتبین ان کا ایک ایک لفظ اور تمام حرکات کو ضبط تحریر میں لا رہے ہیں۔ قیامت کے روز مکمل ریکارڈ ان کے سامنے رکھ دیا جائے گا۔ یہاں نہایت بلیغ انداز میں منافقوں کو ایسی حرکات سے بازرہنے کی تلقین کی گئی ہے۔ اس کے بعد رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سمجھایا گیا کہ آپ ایسی باتوں کے پیچھے پڑنے کے بجائے درگزر فرمایا کریں۔ کیونکہ صاحب عزیمت لوگ سفلہ مزاج لوگوں کی عادات سے صرف نظر ہی کیا کرتے ہیں اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کریں اور اپنا کام کرتے جائیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کی پوری طرح حفاظت کرنے والا، کار ساز اور ان کی سازشیں ناکام کرنے والا ہے۔ مسائل ١۔ منافق لوگ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مجلس میں اطاعت کا اعلان کرتے جبکہ بعد میں انکار کرتے تھے۔ ٢۔ لوگوں کے اعراض اور بے ہودہ اعتراضات پر افسردہ ہونے کی بجائے اللہ پر بھروسہ کرنا چاہیے۔ النسآء
82 فہم القرآن ربط کلام : اگر آدمی قرآن مجید کے نصائح اور فرمودات پر غور کرے تو اس کے قول و فعل میں تضاد نہیں رہ سکتا۔ کیونکہ قرآن تضادات کے بجائے سیدھی اور صاف بات کہتا ہے۔ اس لیے قرآن مجید پر آدمی مخلصانہ طریقہ پر غور اور عمل کرے تو وہ منافقت اور قول و فعل کے تضاد سے محفوظ ہوجاتا ہے۔ قرآن مجید کا یہ اسلوب ہے کہ وہ کسی حقیقت کو منوانے کے لیے تحکم کی بجائے سوچ و بچار اور غور و فکر کی دعوت دیتا ہے۔ توحید کی دعوت دی تو زمین و آسمان کی تخلیق، رات اور دن کی گردش، سمندر کی لہروں اور تہوں گویا کہ بحروبر کی تمام نشانیوں کو پیش فرمایا یہاں تک کہ انسان کو اپنے آپ پر غور کرنے کا حکم دیا اور یہی دعوت قرآن مجید کے بارے میں دی ہے۔ یہاں منافقوں اور قرآن کے منکروں کے اس الزام اور شبہ کی تردید کے لیے خود قرآن ہی کو ان کے سامنے پیش فرمایا کہ آؤ قرآن کا ایک ایک لفظ پرکھو اور اس پر غور کرو۔ اگر تمہارے زعم کے مطابق یہ اللہ تعالیٰ کے کلام کی بجائے کسی اور کا کلام ہوسکتا ہے تو اس میں کسی قسم کے اختلاف، انحطاط اور تضاد کا ثبوت پیش کرو۔ لیکن تم کبھی ایسا نہیں کرسکو گے۔ ہاں یہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی اور کا کلام ہوتا تو اس میں ضرور سینکڑوں اختلافات اور تضادات ہوتے۔ کیونکہ دنیا میں کوئی تحریک اور شخصیت ایسی نہیں جس کے مختلف ادوار اور خطابات و بیانات کو سامنے رکھا جائے تو وہ اونچ نیچ اور تضاد فکری سے خالی ہو۔ کسی لائق سے لائق انسان کی پوری زندگی کا کلام اخلاقی قدروں، علمی بنیادوں اور فکری ارتقاء کے لحاظ سے یکساں نہیں ہوا کرتا۔ جبکہ قرآن مجید کا ایک ایک لفظ انگوٹھی کے نگینے کی طرح موزونیت لیے ہوئے ہے اس میں شہد جیسی مٹھاس، گلاب کے پھول سے بڑھ کر دلربائی‘ چنبیلی کی خوشبو سے زیادہ کشش، دریا کے طوفان سے زیادہ جوش و خروش اور بجلی کے کڑکے سے زیادہ رعب پایا جاتا ہے۔ قرآن کے بیان کردہ واقعات تاریخ کی روشنی میں دیکھیں تو اس کا ہر لفظ صداقت کا آئینہ دار اور حق کی گواہی دے رہا ہے۔ اس کی پیشگوئیوں کا ایک ایک حرف ٹھیک ثابت ہوا اور ہوتا رہے گا۔ اس کے بتلائے ہوئے معاشی، سیاسی اور سائنسی اصول و حقائق اپنی جگہ پر ہر دور میں مسلمہ رہے ہیں اور رہیں گے۔ ” یہ کتاب تیئس سال کے عرصۂ دراز میں وقفہ وقفہ سے نازل ہوئی۔ اس میں تضاد و اختلاف کے بارے میں سوچا بھی نہیں جاسکتا۔ یہ وہ ہنگامہ خیز اور پُر آشوب عرصہ ہے جس میں داعی اسلام، اس کے ماننے والوں اور خود اس دعوت کو شدید قسم کے مختلف مرحلوں سے گزرنا پڑا۔ ظلم و ستم کے پہاڑ بھی توڑے گئے اور عقیدت و محبت کے پھول بھی برسائے گے۔ ایسے حالات بھی رونما ہوئے کہ ظاہر بیں نگاہوں کو یقین ہونے لگا کہ چراغ حق ابھی بجھا چاہتا ہے۔ ایسا دور بھی آیا کہ اس چراغ کو پھونکیں مار مار کر بجھانے والے وحشیوں کی طرح اس پر ٹوٹ پڑے۔ صلح بھی اور جنگ بھی، فتح بھی اور پسپائی بھی، خوف بھی اور امن بھی ہر قسم کے حالات روپذیر ہوئے۔ گوناگوں اور بو قلموں ادوار میں یہ کتاب نازل ہوتی رہی اور اس میں ایک بھی ایسی آیت کی نشاندہی نہیں کی جاسکتی جس سے اسلام کے اصولوں میں تضاد کا شائبہ تک ہو۔ علامہ بیضاوی (رح) نے ایک جملہ میں سب کچھ بیان کر کے رکھ دیا۔ (من تناقض المعنی و تفاوت النظم) یعنی اس کی کوئی آیت نہ معنوی لحاظ سے دوسری آیت کے خلاف ہے نہ فصاحت و بلاغت کے اعتبار سے کوئی حصہ دوسرے حصہ سے فروتر ہے۔ یہ معانی و حقائق کا سمندر ہے جس کی لہروں میں آویزش نہیں اور جس کی ہر موج اور ہر قطرہ گل کا رنگ و بُولیے ہوئے ہے۔ اس سے بڑھ کر اس کے کلام الہٰی ہونے کی اور کیا دلیل ہو سکتی ہے؟ [ ضیاء القرآن] تد بّرِ قرآن کی اہمیت قرآن مجید کی تلاوت کے جو آداب اور تقاضے مقرر کیے گئے ہیں ان میں ایک تقاضا یہ بھی ہے کہ تلاوت کے دوران قرآن مجید کے الفاظ، انداز اور اس کے فرمان پر غور و خوض کیا جائے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عادت مبارکہ تھی کہ تہجد میں تلاوت کے دوران قرآن مجید کے احکامات پر غور کرتے اور عذاب کی آیات پر اللہ تعالیٰ سے پناہ اور معافی طلب کرتے اور زاروقطار روتے۔ جب بشارت کی آیات پڑھتے تو اللہ تعالیٰ کے حضور اس کے حصول کے طلب گار ہوتے۔ قرآن مجید میں تدبّرو تفکّر کرنا حسب لیاقت ہر آدمی پر فرض ہے۔ تدبّرکے اصول قرآن مجید کے تدبر کے بارے میں بنیادی اصول یہ ہے کہ اس کا معنی اور مفہوم وہی متعین کرنا چاہیے جو قرآن مجید کے الفاظ کے سیاق و سباق اور دعوت قرآن کے مطابق ہو۔ جہاں مفہوم سمجھنے میں مشکل پیش آئے تو حدیث رسول کے ذریعے اس کا مفہوم متعین کرنا چاہیے۔ اگر قرآن و حدیث کے حوالے سے بھی بات سمجھنے میں دقّت محسوس ہو۔ جس کی گنجائش بہت کم ہے تو صحابہ کرام (رض) کے اقوال کے مطابق قرآن کا مفہوم لینا ہوگا۔ کیونکہ صحابہ (رض) براہ راست قرآن کے مخاطب تھے اور انہوں نے بلاو اسطہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے قرآن پڑھا، سنا اور سمجھا تھا۔ محض عربی لغت اور ادبی محاورات کی بنیاد پر قرآن مجید کا معنی و مفہوم متعین کرنا قطعاً جائز نہیں۔ اس لیے علماء نے قرآن مجید سے مسائل اخذ کرنے اور اس کی تفسیر کے لیے کچھ اصول مقرر کیے ہیں۔ جب تک ان اصولوں کا خیال نہ رکھا جائے۔ آدمی نہ صرف خود بھٹک سکتا ہے بلکہ دوسروں کی گمراہی کا سبب ثابت ہوگا۔ بعض لوگ اس پر اعتراض کرتے ہیں کہ دین اور قرآن پر علماء کی اجارہ داری چہ معنیٰ دارد؟ ہر کسی کو قرآن و سنت سے مسائل کے استنباط کا حق ہونا چاہیے۔ اس مغالطہ کی عام طور پر دو وجوہات ہوتی ہیں۔ اکثر لوگ اپنی سادگی اور اخلاص کی بنیاد پر جبکہ دوسرے اس زعم میں مطالبہ کرتے ہیں کہ ہم علماء سے زیادہ سمجھدار اور پڑھے لکھے ہیں۔ ذرا غور سے سوچاجائے تو دونوں قسم کے حضرات کا مطالبہ اور موقف دنیا کے مسلَّمہ اصولوں پر پورا نہیں اترتا۔ دنیا میں کونسا ایسا فن ہے جسے مستقل اختیار کرنے کے لیے استاد اور تجربہ کی ضرورت نہیں ہوتی۔ کیا حکمت اور ڈاکٹری نہ جاننے والا مریض کا باقاعدہ علاج کرسکتا ہے؟ اسے مریض کی جان کے ساتھ کھیلنے کی اجازت ہونی چاہیے؟ کوئی معمولی عقل والا جان بوجھ کراناڑی ڈرائیور کے ساتھ سفر کرنے کے لیے آمادہ ہوگا؟ دور نہ جائیں ایک اَن پڑھ اور دیہاتی نے اپنا مکان بنانا ہو تو وہ کسی ناتجربہ کار کاریگر سے کچا مکان بنانے کے لیے بھی تیار نہیں ہوتا۔ آپ دنیا میں کوئی ایسا تعلیمی ادارہ دکھا سکیں گے جس میں ریاضی کے ٹیچر کو اردو پڑھانے کے لیے اور انگلش جاننے والے کو عربی کا سبجیکٹ دیا جاتا ہو؟ کیا ایسی اجازت دینے والے ادارہ کا سربراہ دانشور تسلیم کیا جائے گا؟ نہیں ! تو پھر دین کا معاملہ اتنا عارضی اور ہلکا ہے کہ اس کی باقاعدہ تبلیغ و تدریس اور مسائل کے استدلال کے لیے ہر کسی کو اجازت دے دی جائے۔ اس کا یہ معنیٰ ہرگز نہیں کہ غیر عالم قرآن سمجھنے یا کسی کو مسئلہ بتلانے کی کوشش نہ کرے۔ ہمارا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی باقاعدہ تدریس و تبلیغ اور قرآن و سنت سے مسائل مستنبط کرنا چاہتا ہے تو اسے باضابطہ طور پر عربی جاننا اور قرآن و حدیث کا علم سیکھنا چاہیے ورنہ وہ گمراہی کا سبب بنے گا جس سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دوٹوک الفاظ میں منع فرمایا ہے۔ [ رواہ البخاری : کتاب العلم، باب کیف یقبض العلم] دیہاتی کی غلط فہمی اور مفکر اسلام حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کا جواب بسا اوقات اپنی کم فہمی اور علمی کم مائیگی کی بنیاد پر آدمی قرآن مجید میں تضادات محسوس کرتا ہے۔ ایسا ہی تأثر اس اعرابی کا تھا جس نے حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کے سامنے یہ اعتراضات کئے کہ دیکھئے اس مقام پر قرآن مجید میں تضادات پائے جاتے ہیں۔ اسے کیا خبر تھی کہ میں جس شخصیت کے سامنے یہ اعتراضات رکھ رہا ہوں اسے تو سرور دو عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فہم دین کی دعا دی تھی جس کی برکت سے وہ مفکر اسلام ہوئے۔ چنانچہ جب حضرت ابن عباس (رض) نے ایک ایک کر کے تسلی بخش جواب دیے تو اعرابی پکار اٹھا کہ واقعی قرآن مجید میں کسی قسم کے تضاد اور اختلاف کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔ آپ کے انشراح صدر اور دلچسپی کے لیے من و عن اس مکالمے کا ترجمہ پیش کیا جاتا ہے۔ حضرت سعید بن جبیر (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عباس (رض) سے ایک آدمی نے کہا کہ قرآن میں کئی آیات ایک دوسرے سے ٹکراتی ہیں۔ پھر اس نے قرآنی آیات کا اختلاف پیش کیا کہ ایک آیت میں ہے کہ قیامت کے دن لوگ ایک دوسرے سے سوال نہیں کریں گے دوسری آیت میں ہے کہ وہ آمنے سامنے آکر ایک دوسرے سے پوچھیں گے۔ ایسے ہی ایک آیت میں ہے کہ کوئی بھی اللہ تعالیٰ سے کچھ چھپا نہیں سکے گا۔ دوسرے مقام میں ہے کہ مشرک کہیں گے کہ ہمارے رب ہم نے شرک نہیں کیا۔ پھر ایک آیت میں آسمان کی پیدائش زمین سے پہلے ذکر کی گئی ہے۔ جبکہ دوسری آیت میں زمین کی پیدائش کا آسمان سے پہلے ذکر ہوا ہے۔ ایک اور مقام میں ہے اللہ تعالیٰ بخشنے اور رحم کرنے والا غالب، حکمت والا، سننے والا اور جاننے والا تھا گویا کہ اب نہیں۔ ان اعتراضات کا جواب عبداللہ بن عباس (رض) نے اس طرح دیا کہ جس آیت میں ہے کہ لوگ آپس میں سوال نہیں کریں گے۔ وہ پہلے نفخہ کا ذکر ہے اور جس آیت میں ایک دوسرے سے سوال کرنے کا تذکرہ ہے وہ دوسرے نفخہ کے بعد ہوگا۔ وہ جو کہیں گے کہ ہمارے مالک ہم مشرک نہیں تھے۔ تو یہ اس وقت ہوگا جب اللہ تعالیٰ مومنوں کو بخش دیں گے تو مشرک آپس میں کہیں گے کہ ہم بھی اللہ تعالیٰ کو کہتے ہیں کہ ہم نے شرک نہیں کیا تھا۔ اس وقت ان کے مونہوں پر مہریں لگا دی جائیں گی پھر ان کے ہاتھ اور پاؤں بولیں گے۔ جب مجرم جان لیں گے کہ اللہ تعالیٰ سے کسی چیز کو چھپایا نہیں جاسکتا تب کافر کہیں گے کاش ہم بھی مسلمان ہوتے! !! زمین و آسمان کی پیدائش میں اختلاف کا جواب یہ ہے کہ اللہ نے زمین کو دو دنوں میں پیدا فرما کر پھر آسمان کو پیدا کیا آسمان کو دو دنوں میں برابر کر کے زمین کو پھیلایا اس میں سے پانی‘ پہاڑ‘ ٹیلے اور جو کچھ آسمان و زمین کے درمیان ہے دو دنوں میں بنایا لہٰذا زمین اور اس کی تمام اشیاء چار دن اور آسمان دو دنوں میں پیدا کیا گیا۔ آخری اعتراض تھا کہ اللہ تعالیٰ کی صفات ماضی میں تھیں اب نہیں۔ اس کا جواب یہ ہے کہ ازل سے ہی یہ اللہ کی صفات ہیں اور اللہ تعالیٰ جو چاہتا ہے کر دکھاتا ہے۔ یہ سارا قرآن اللہ کی طرف سے ہے تجھے اس میں اختلاف محسوس نہیں کرنا چاہیے۔ [ رواہ البخاری : کتاب تفسیر القرآن، باب قولہ ونفخ فی الصور.....] مسائل ١۔ قرآن مجید میں تدبر و تفکّر کرنا چاہیے۔ ٢۔ قرآن مجید اللہ کی کتاب ہے اس میں تعارض نہیں پایا جاتا۔ ٣۔ قرآن مجید اگر اللہ تعالیٰ کا کلام نہ ہوتا تو اس میں بے شمار اختلافات پائے جاتے۔ تفسیر بالقرآن قرآن اللہ تعالیٰ کی کتاب ہے : ١۔ قرآن کے بارے میں کفار کا الزام۔ (الفرقان : ٤) ٢۔ قرآن رب العالمین کی طرف سے نازل شدہ ہے۔ (الشعراء : ١٩٢) ٣۔ قرآن کسی کاہن و شاعر کا کلام نہیں۔ (الحاقہ : ٤١، ٤٢) ٤۔ یہ شیطان کی شیطنت سے پاک ہے۔ (التکویر : ٢٥) النسآء
83 فہم القرآن ربط کلام : منافق اپنی دوغلی پالیسی اور فکر کی وجہ سے مسلمانوں کو بھی دوغلے پن سے دوچار کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ جس کا ایک طریقہ یہ ہے کہ افواہوں اور جھوٹی خبروں کے ذریعے مسلمانوں میں دھڑے بندی کردی جائے۔ مدینہ کے یہودیوں اور منافقوں نے دشمنان اسلام کے ساتھ مل کر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پریشان کرنے اور مسلمانوں کے اعصاب توڑنے کے لیے افواہ سازی اور جھوٹی خبروں کا ایک سلسلہ قائم کر رکھا تھا۔ یہ لوگ اہل مکہ کی معمولی سرگرمیوں کو بڑھا چڑھا کر بیان کرتے تاکہ مسلمانوں کے حوصلے پست ہوجائیں۔ کبھی کفار کی طاقت کا معمولی تأثر دیتے کہ مسلمان جوابی کاروائی کرنے میں غفلت کا مظاہرہ کریں۔ بسا اوقات معمولی معاشرتی واقعہ کو ایسے رنگ میں پیش کرتے کہ مسلمانوں کے اخلاقی نظام کی بنیادیں کھوکھلی ہوجائیں۔ انہی افواہوں کا شاخسانہ تھا کہ جب حضرت عائشہ صدیقہ (رض) ایک سفر کے دوران رات کے وقت قضائے حاجت کے لیے اپنے خیمے سے نکل کر باہر تشریف لے گئیں وہاں ان کا ہار گم ہوگیا۔ اس کی تلاش میں واپس لوٹنے میں تاخیر ہوئی جب اپنی جائے قیام پر واپس تشریف لائیں تو قافلہ کوچ کرچکا تھا۔ آپ دوسرے صحابی کی سواری پر سوار ہو کر قافلے کے ساتھ شامل ہوئیں۔ اس دوران وہ صحابی اونٹ کی مہار تھامے پیدل چلتا رہا اور آپ دوپہر کے وقت قافلے سے آملیں۔[ رواہ البخاری : کتاب تفسیر القرآن، لولا إذسمعتموہ ظن المومنون والمومنات بأنفسھم خیرا] اتنے سے واقعہ کو منافقین نے ایسا رنگ دیا کہ جس نے کچھ دنوں کے بعد ایک تہمت اور مہم کی شکل اختیار کرلی جس کی تفصیل اور برأت سورۃ نور میں بیان ہوئی ہے۔ اس قسم کے واقعات کی تحقیق اور افواہوں کے منفی اثرات ختم کرنے اور ان کی روک تھام کے لیے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو یہ اصول اور طریقۂ کار عطا فرمایا ہے کہ افواہ اچھی ہو یا خوفزدہ کرنے والی بالخصوص جنگ کے دوران اس کی چھان بین اور تجزیہ کرنا انتہائی ضروری ہے۔ ورنہ ملک وملت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے۔ ایسی خبروں کو رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ذمہ دار لوگوں کے سامنے پیش کرنا لازم ہے تاکہ وہ اس کی تحقیق اور اس کے نفع و نقصان اور حسن و قبح پر غور کرسکیں۔ لہٰذا عوام الناس کا فرض ہے کہ ایسی باتوں کو آگے پھیلانے کے بجائے متعلقہ اور ذمہ دار لوگوں کے سامنے پیش کریں۔ جس معاشرے اور قوم میں اس قسم کا نظام قائم نہ ہو اسے کسی وقت بھی معاشرتی، سیاسی اور حربی نقصان ہوسکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے نقصان سے بچانے کے لیے سورۃ نور میں مسلمانوں کو تین مرتبہ فرمایا ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کا فضل نہ ہوتا تو دنیا و آخرت میں تم عذاب عظیم میں مبتلا کیے جاتے اور چند لوگوں کے سوا باقی شیطان کے پیچھے چل پڑتے‘ دوسرے لفظوں میں افواہ سازی اور اس پر یقین کرنا شیطانی کام ہے۔ آج یہ شیطانی دھندہ سائنسی شکل اختیار کرچکا ہے۔ کروڑوں ڈالر ایجنسیوں، اداروں، الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر لگائے جارہے ہیں تاکہ مسلمانوں کو اسلام کے بارے میں متزلزل اور ان کے اخلاق کو بگاڑا جاسکے۔ افسوس ! کہ مسلمانوں کے پاس کوئی ایسا نظام نہیں جو ایسے اداروں کا مؤثر جواب دے سکے۔ جب کہ قرآن مطالبہ کر رہا ہے کہ اس قسم کی خبروں، افواہوں اور پروپیگنڈہ کے توڑکے لیے افراد ہونے چاہییں جو منفی اثرات سے مسلمانوں کو بچاسکیں۔ یہاں اسلامی صحافت کے لیے بھی رہنمائی ملتی ہے کہ وہ ہر خبر کی بلا تحقیق اشاعت کرنے سے پرہیز کرے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے : (کَفٰی بالْمَرْءِ کَذِبًا أَنْ یُّحَدِّثَ بِکُلِّ مَا سَمِعَ) [ رواہ مسلم : کتاب المقدمۃ، باب النھی عن الحدیث ....] ” آدمی کے جھوٹا ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ ہر سنی سنائی بات آگے بیان کردے۔“ مسائل ١۔ منافق اور غیر ذمہ دار لوگ مسلمانوں میں افواہیں پھیلاتے ہیں۔ ٢۔ افواہیں پھیلانے کے بجائے معاملہ کتاب و سنت اور صاحب علم لوگوں کے سامنے پیش کرنا چاہیے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ کے فضل کے بغیر آدمی ہر وقت گمراہ ہوسکتا ہے۔ ٤۔ شیطان آدمی کو ہر وقت گمراہ کرنے کے درپے رہتا ہے۔ تفسیر بالقرآن افواہیں اڑاناجرم ہے : ١۔ بلا تحقیق بات کرنا ندامت کا باعث بنتا ہے۔ (الحجرات : ٦) ٢۔ منافق افواہیں پھیلاتے ہیں۔ (النساء : ٨٣) ٣۔ بے بنیاد افواہوں اور جھوٹے الزمات لگانے کی سزا۔ (النور : ٤) النسآء
84 فہم القرآن ربط کلام : بیٹھ رہنے والوں سے مجاہد افضل ہے۔ لہٰذا افضل کام کو اپنانے اور جہاد کو مضبوط رکھنے کے لیے رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم ہوتا ہے کہ آپ اپنے آپ کو چوکس و مستعد رکھ کر مسلمانوں کو ہر دم قتال کے لیے آمادہ و تیار رکھیں۔ مومنوں کو مخاطب کرتے ہوئے جہادی خطاب کا آغاز یوں کیا تھا کہ اپنے بچاؤ کے لیے ہر وقت اسلحہ پکڑے رکھو اور جنگی حالات کے مطابق گوریلا جنگ کرو یا پورے کے پورے دشمن پر ٹوٹ پڑو۔ پھر منافقوں کی عادات کا ذکر کیا کہ وہ ابن الوقت اور اپنے مفاد کے بندے اور تمہارے خلاف سازشیں کرتے ہیں۔ اس کے بعد فرمایا اللہ کی راہ میں تمہیں لڑنا چاہیے۔ چاہے کمزور ہو یا طاقت ور اور جو بھی رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کرے گا حقیقتاً وہ اللہ تعالیٰ کا تابع فرماں اور مطیع ہوگا۔ اب رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو براہ راست اللہ کے راستے میں لڑنے کا یہ کہہ کر حکم دیا جا رہا ہے کہ آپ مومنوں کو قتال کے لیے ترغیب دیں اور اپنی جان کی پرواہ کیے بغیر تنہا نکلنا پڑے تو نکلیں۔ گویا کہ پہلے مجاہدین کو خطاب تھا اور اب ان کے کمانڈر کو حکم دیا ہے پھر تسلی اور خوشخبری دی ہے کہ عنقریب اللہ تعالیٰ کفار کو بے بس کر دے گا۔ وقت آنے والا ہے کہ جب منافقوں کی سازشیں اور کفار کی شرارتیں دم توڑ جائیں گی۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں کوئی طاقت والا اور لڑنے میں جری نہیں ہو سکتا۔ دشمن کی جارحیت سے بچنے کے لیے یہ بنیادی اصول ہے کہ قوم کو ہر دم چوکس، مستعد اور چاک و چوبند رکھنے کے لیے قوم کے ذمہ دار اور فوج کے عہدہ دار نمونے کے طور پر اپنے آپ کو مرنے مارنے کے لیے تیار رکھیں۔ تب جا کر فوج اور قوم کے ایک ایک فرد میں دشمن کے خلاف صف آراء ہونے کا جذبہ اور ولولہ پیدا ہوتا ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ولولہ انگیز جذبات کا یوں اظہار فرمایا : (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃ (رض) قَالَ سَمِعْتُ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَقُوْلُ وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہٖ لَوْلَآ أَنَّ رِجَالًا مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ لَاتَطِیْبُ أَنْفُسُھُمْ أَنْ یَّتَخَلَّفُوْا عَنِّیْ وَلَآ أَجِدُ مَآ أَحْمِلُھُمْ عَلَیْہِ مَا تَخَلَّفْتُ عَنْ سَرِیَّۃٍ تَغْزُوْفِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہٖ لَوَدِدْتُّ أَنِّیْ أُقْتَلُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ ثُمَّ أُحْیَا ثُمَّ أُقْتَلُ ثُمَّ أُحْیَا ثُمَّ أُقْتَلُ ثُمَّ أُحْیَا ثُمَّ أُقْتَلُ) [ رواہ البخاری : کتاب الجھاد، باب تمنی الشھادۃ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں میں نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے ہوئے سنا اس ذات کی قسم ! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر یہ بات نہ ہوتی کہ ایمانداروں کو یہ بات اچھی نہیں لگتی کہ وہ مجھ سے پیچھے رہیں اور میرے پاس اتنی سواریاں نہیں کہ میں ان کو سوار کروں تو میں کسی غزوہ سے بھی پیچھے نہ رہتا۔ اس ذات کی قسم! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! میں چاہتا ہوں کہ میں اللہ کے راستے میں شہید کردیا جاؤں پھر زندہ کیا جاؤں پھر شہید کیا جاؤں پھر زندہ کیا جاؤں پھر شہید کردیا جاؤں پھر زندہ کردیا جاؤں پھر شہید ہوجاؤں۔“ (عَنْ اَبِیْ ھُرَےْرَۃَ عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ لَا ےُکْلَمُ أَحَدٌ فِیْ سَبِےْلِ اللّٰہِ وَاللّٰہُ أَعْلَمُ بِمَنْ یُّکْلَمُ فِیْ سَبِےْلِہٖٓ إِلَّا جَآءَ ےَوْمَ الْقِیَامَۃِ وَجُرْحُہٗ ےَثْعَبُ الَلَّوْنُ لَوْنُ دَمٍ وَالرِّےْحُ رِےْحُ مِسْکٍ) [ رواہ مسلم : کتاب الإمارۃ، باب فضل الجھادو الخروج فی سبیل اللّٰہِ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو شخص اللہ کے راستے میں زخمی ہوجاتا ہے اور یہ اللہ جانتا ہے کہ حقیقتاً کون اس کے راستے میں زخمی ہوا تو وہ زخمی قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ اس کے زخم سے خون بہہ رہا ہوگا‘ اس کا رنگ خون جیسا ہوگا مگر اس کی خوشبو کستوری کی طرح ہوگی۔“ (عَنْ اَبِیْ ھُرَےْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَنْ مَّاتَ وَلَمْ ےَغْزُ وَلَمْ ےُحَدِّثْ بِہٖ نَفْسَہٗ مَاتَ عَلٰی شُعْبَۃٍ مِّنْ نِّفَاقٍ) [ رواہ مسلم : کتاب الإمارۃِ، باب ذم من مات ولم یغزولم یحدث نفسہ بالغزو] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس نے نہ تو جہاد کیا اور نہ ہی دل میں جہاد کا خیال لایا تو وہ منافقت کی ایک قسم پر فوت ہوا۔“ مسائل ١۔ مسلمانوں کے سربراہ کو لوگوں کو جہاد پر آمادہ کرنا چاہیے۔ ٢۔ مسلمان مر مٹنے کے لیے تیار ہوجائیں تو اللہ کافروں کا زور توڑ ڈالے گا۔ تفسیر بالقرآن جہاد کی ترغیب : ١۔ مومنوں کو جہاد کی ترغیب دلائیے۔ (الانفال : ٦٥) ٢۔ مظلوم مسلمانوں کے لیے جہاد کیجیے۔ (النساء : ٧٥) ٣۔ کفارکو ایسی مار مارو کہ ان کے پچھلے بھی بھاگ کھڑے ہوں۔ (الانفال : ٥٧) النسآء
85 فہم القرآن ربط کلام : جہاد کے لیے مسلمانوں کو ابھارنا اور دین کی نشرو اشاعت کی تبلیغ کرنا بھی جہاد ہے۔ جہاد کے دوران پیدا ہونے والے ضمنی مسائل میں مسلمانوں کی رہنمائی کرتے ہوئے جہاد کی ترغیب اور دین کی تبلیغ کو اچھی سفارش اور اس کوشش کو جہاد کا حصہ شمار کیا ہے۔ کیونکہ ترغیب دلائے بغیر کوئی آدمی لڑنے مرنے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ ترغیب اور تبلیغ کو قرآن مجید نے سورۃ الفرقان آیت ٥٢ میں جہاد کبیر قرار دیا ہے۔ اسی کی وضاحت کرتے ہوئے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے کہ افضل ترین جہاد ظالم حکمران کے سامنے کلمہ حق کہنا ہے۔ [ رواہ ابو داؤد : کتاب الملاحم، باب الأمر والنھی] اسے یہاں سفارش کے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے اس میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور نیکی کی سفارش کرنے والے ہر شخص کو تسلی اور مسلسل ملنے والی جزائے خیر کی خوش خبری دی گئی ہے بشرطیکہ وہ خود بھی حتی المقدور اس پر عمل کرنے والا ہو۔ سفارش کی بنیادی طور پر دو اقسام ہیں۔ نیکی اور خیر کے کام کے لیے کسی کو آمادہ اور تیار کرنا‘ اس کے مقابلے میں برائی کی سفارش اور اس کی ترغیب دینا۔ نیکی کی سفارش اور تبلیغ پر مسلسل اور برابر ثواب ملتا رہتا ہے جبکہ برائی پر آمادہ کرنایا اس کی سفارش اور ترغیب دینے والا اس کے گناہ میں حصہ دار ٹھہرایا گیا ہے۔ اور تنبیہ کے طور پر فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر کسی پرنگران ہے۔ سفارش کے مطابق ہر شخص جزاء و سزا پائے گا لہٰذا سفارش سمجھ سوچ کر کرنی چاہیے۔ غلط سفارش مجرم کی رہائی کے لیے ہو یا کسی نااہل کو منصب دلانے کی خاطر ہوجائز نہیں کیونکہ مجرم کی سفارش کرنے سے جرائم کی حوصلہ افزائی اور مظلوم پر مزید ظلم کرنے کے مترادف ہے۔ جس قوم میں یہ سلسلہ عام ہوجائے اس کا تباہی کے گھاٹ اترنا یقینی ہوجاتا ہے۔ جہاں تک کسی نااہل آدمی کو نوکری اور منصب دلانے کا معاملہ ہے اس سے حقدار کا حق تلف ہونے کے ساتھ آہستہ آہستہ پورا نظام ہی بگاڑ اور کمزوری کا شکار ہوجاتا ہے۔ نااہل اور کرپٹ شخص جتنے بڑے منصب پر ہوگا اتنا ہی ملک و ملت کے لیے نقصان دہ ثابت ہوگا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس قسم کی سفارش قبول کرنے سے نہ صرف انکار کیا بلکہ ایسی سفارش کرنے سے منع کیا ہے۔ (عَنْ أَبِیْ ذَرٍّ قَالَ قُلْتُ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) !أَلَا تَسْتَعْمِلُنِیْ قَالَ فَضَرَبَ بِیَدِہٖ عَلیٰ مَنْکِبِیْ ثُمَّ قَالَ یَا أَبَا ذَرٍّ ! إِنَّکَ ضَعِیْفٌ وَإِنَّھَآ أَمَانَۃٌ وَإِنَّھَا یَوْمَ الْقِیَامَۃِ خِزْیٌ وَّنَدَامَۃٌ إِلَّا مَنْ أَخَذَھَا بِحَقِّھَا وَأَدَّی الَّذِیْ عَلَیْہِ فِیْھَا) [ رواہ مسلم : کتاب الإمارۃ، باب کراھۃ الإمارۃ بغیر ضرورۃ] ” حضرت ابوذر (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے عرض کی اے اللہ کے رسول! کیا آپ مجھے عامل یا عہدیدار نہیں بنائیں گے؟ آپ نے میرے کندھے پر تھپکی دیتے ہوئے فرمایا ابو ذر! آپ کمزور ہیں اور یہ عہدہ امانت ہے جو روز قیامت باعث ذلّت اور ندامت ہوگا۔ بچے گا وہی جس نے اس کا حق ادا کیا اور اس کو فرض سمجھا۔“ عَنْ أَبِیْ مُوْسیٰ (رض) قَالَ دَخَلْتُ عَلَی النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) أَنَا وَرَجُلَانِ مِنْ بَنِیْ عَمِیْقٍ فَقَالَ أَحَدُ الرَّجُلَیْنِ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ أَمِّرْنَا عَلٰی بَعْضِ مَاوَلَّاک اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ وَقَالَ الْآخَرُ مِثْلَ ذٰلِکَ فَقَالَ إِنَّا لَا نُوَلِّیْ عَلٰی ھٰذَا الْعَمَلِ أَحَدًا سَأَلَہٗ وَلَا أَحَدًا حَرَصَ عَلَیْہِ) [ رواہ مسلم : کتاب الإمارۃ، باب النھی عن طلب الإمارۃ والحرص علیھا] ” حضرت ابو موسیٰ (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں اور بنو عمیق کے دو آدمی نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس حاضر ہوئے ان میں سے ایک نے کہا اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! اللہ تعالیٰ نے جو علاقے آپ کے سپرد کیے ہیں ان پر ہمیں بھی والی بنائیں دوسرے نے بھی عہدے کا مطالبہ کیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ہم یہ عہدے کسی مطالبہ کرنے اور اس کا لالچ رکھنے والے کو نہیں سونپتے۔“ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : (مَنْ دَلَّ عَلٰی خَیْرٍ فَلَہٗ مِثْلُ أَجْرِ فَاعِلِہٖ) [ رواہ مسلم : کتاب الإمارۃ، باب فضل إعانۃ الغازی ....] ” جس نے کسی نیکی کے کام کی رہنمائی کی اس کو نیکی کرنے والے کے برابر اجر وثواب ملے گا۔“ مسائل ١۔ نیکی کی سفارش اور تبلیغ کرنے والے کو مسلسل اور برابر حصہ ملتا رہتا ہے۔ ٢۔ برائی کی سفارش اور اشاعت کرنے والا برائی میں برابر کا ذمہ دار ہوگا۔ تفسیر بالقرآن نیکی اور برائی کی سفارش کا صلہ : ١۔ نیکی کی سفارش پر اجر۔ (النساء : ٨٥) ٢۔ برائی کی سفارش پر سزا۔ (النساء : ٨٥) النسآء
86 فہم القرآن ربط کلام : قتال فی سبیل اللہ کا معنٰی ہر وقت اور ہر کسی سے لڑنا نہیں بلکہ جو بھی اسلام اور مسلمانوں کی طرف مائل ہو اس کے ساتھ اچھا سلوک کرنا لازم ہے۔ فرمایا جو تمہیں ہدیہ دے تو تم بھی اسے اس سے بہتر یا اس جیسا تحفہ دو۔ اللہ تعالیٰ ہر کسی پر محاسب و نگہبان اور وہی معبود برحق ہے۔ جو تمہیں دنیا میں پیار، محبت اور توحید کی بنیاد پر اکٹھا رہنے کا حکم دیتا ہے۔ وہی قیامت کے دن تمہیں اکٹھا کرے گا۔ لوگوں کو جمع کرنے اور قیامت کے آنے میں ذرہ برابر شک نہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ہر فرمان سچا اور اس سے بڑھ کر کسی کی بات سچی نہیں ہو سکتی۔ لہٰذا سچ سنو، اسے قبول کرو اور اس پر قائم ہوجاؤ۔ یہاں تحفہ سے مراد مفسرین نے دو قسم کے تحائف لیے ہیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عام تحائف کے بارے میں فرمایا کہ مسلمانو! ایک دوسرے کو تحفہ دیا کرو کیونکہ اس سے باہمی محبت میں اضافہ ہوتا ہے۔ [ مؤطا امام مالک : کتاب الجامع، باب ماجاء فی المھاجرۃ] لیکن تحائف کے تبادلہ میں ایک بات نہایت ضروری ہے کہ اس میں تکلف نہیں ہونا چاہیے۔ تکلف ایک دوسرے کے لیے بوجھ کا باعث بنتا ہے جس کی وجہ سے یہ سلسلہ دیرپا نہیں چلتا۔ ایسے تحائف میں نمائش کا عنصر غالب اور بسا اوقات فخر و غرور پیدا ہوتا ہے۔ جس سے محبت کی بجائے نفرت پیدا ہونے کا اندیشہ ہے۔ مسلمان کو اعتدال کے ساتھ خرچ کرنے کا حکم اور تکلف سے منع کیا گیا ہے۔ یہاں مفسرین نے تحفہ سے مراد ایک دوسرے کو السلام علیکم کہنا بھی لیا ہے۔ ایک دوسرے کو سلام کہنے کی ابتداء حضرت آدم (علیہ السلام) سے ہوئی ہے۔ ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم (علیہ السلام) کو پیدا فرمایا ان کا قد ساٹھ ہاتھ تھا۔ جونہی آدم (علیہ السلام) نے آنکھیں کھولیں اور اپنے وجود میں جنبش محسوس کی تو اللہ کی طرف سے ارشاد ہوا کہ اے آدم وہ ملائکہ کا ایک گروہ بیٹھا ہوا ہے‘ تم جاؤ اور انہیں سلام کرو۔ جواب میں ملائکہ جو الفاظ استعمال کریں گے وہی تیری اولاد کے لیے ملاقات کا طریقہ اور اسلوب مقرر کیا جائے گا۔ حضرت آدم (علیہ السلام) کے جواب میں فرشتوں نے ” وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ“ کے الفاظ کہے“ [ رواہ البخاری : أحادیث الأنبیاء، باب خلق آدم وذریتہ] اس گھڑی سے لے کر ملاقات کا یہی طریقہ پسند کیا گیا۔ اس لیے ہمیں ادھر ادھر کے الفاظ کہنے کے بجائے فطری اور طبعی طریقے کو اختیار کرنا چاہیے۔ کیونکہ اس میں اس قدر جامعیت ہے کہ ایک دوسرے کے لیے ہر لحاظ سے خیر سگالی کے جذبات، خیالات اور دعائیہ کلمات کا اظہار ہوتا ہے۔ دنیا کے کسی مذہب اور سوسائٹی میں ملاقات کے وقت اس قدر سلامتی کے جامع الفاظ اور جذبات نہیں ہوتے۔ دنیا میں ہر قوم کے ایک دوسرے سے ملنے کے کچھ آداب ہیں۔ جن سے باہم خیر سگالی اور محبت میں اضافہ ہوتا ہے۔ اسلامی تہذیب کے مقابلے میں ہر قوم کے آداب میں وقتی اور جزوی جذبات کا اظہار ہے۔ ہندو ملنے کے وقت پرنام یعنی ہاتھ جوڑ تے ہیں، انگریز گڈ مارننگ اور گڈنائٹ کے الفاظ کہتے ہیں، مجوسی صرف جھکتے ہیں، یہودی انگلیوں سے اشارہ کرتے ہیں، عیسائی منہ پر ہاتھ رکھتے ہیں۔ نبوت سے پہلے عرب صباح الخیر وغیرہ کے الفاظ استعمال کرتے تھے۔ جب کہ اسلام کی تہذیب یہ ہے کہ ملاقات کے وقت ” السلام علیکم و رحمۃ اللہ“ کہا جائے۔ یہ کلمات پورے دین کے ترجمان اور ہر لمحہ سلامتی کی دعا ہے اور جنتی جنت میں ایک دوسرے سے انہی کلمات کے ساتھ ملاقات کریں گے اور جنت میں ہر جانب سے سلامتی کی صدائیں بلند ہوں گی۔ [ یونس : ١٠] اس حقیقت کی ترجمانی نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے الفاظ سے اور زیادہ نمایاں ہوتی ہے کہ جب ایک مسلمان دوسرے سے ملاقات کرے تو اس کے چہرے پر تبسم اور مسکراہٹ ہونی چاہیے اور اس کو انسانی جسم کی سخاوت قرار دیا : (أَنْ تَلْقَ أَخَاکَ بِوَجْہٍ طَلْقٍ) [ رواہ مسلم : کتاب البر والصلہ، باب استحباب طلاقۃ الوجہ عند اللقاء] ” کسی کو خوش روئی سے ملنا بھی نیکی ہے۔“ مسلمانوں میں باہمی الفت و عقیدت، احترام و اکرام کو فروغ دینے کے لیے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہاتھ ملانے یعنی مصافحہ کرنے کی فضیلت کا تذکرہ ان الفاظ میں فرمایا : (إِذَا الْتَقَی الْمُسْلِمَانِ فَتَصَافَحَا وَحَمِدَا اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ وَاسْتَغْفَرَاہُ غُفِرَلَھُمَا) [ رواہ ابو داوٗد : کتاب الأدب] ” جب دو مسلمانوں کی باہم ملاقات ہو اور وہ مصافحہ کریں اور اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی حمد اور اپنے لیے مغفرت طلب کریں تو ان دونوں کو معاف کردیا جاتا ہے۔“ کچھ مدّت کے بعد ملنے پر بغل گیر ہونا اسلامی معاشرت کا حصہ قرار دیا ہے۔ حضرت ابوذر غفاری (رض) اپنا واقعہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے اپنے ہاں آنے کا پیغام بھیجا میں گھر میں موجود نہیں تھا۔ بعد ازاں میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا (وَھُوَ عَلٰی سَرِیْرِہٖ فَالْتَزَمَنِیْ فَکَانَتْ تِلْکَ أَجْوَدَ وَأَجْوَدَ) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی چار پائی پر بیٹھے میرے ساتھ بغلگیر ہوئے۔ آپ کا ملنا بہت ہی اچھا تھا۔ [ رواہ ابو داوٗد : کتاب الأدب، باب فی المعانقۃ] پھر ملاقات کے آداب میں مسلم معاشرے کو رعونت و غرور اور اخلاقی بیماریوں سے محفوظ رکھنے کے لیے یہ اصول لاگو فرمایا کہ سوار پیدل کو اور چلنے والا بیٹھنے والے کو سلام کرے۔ اگر یہی اصول ٹھہرایا جاتا کہ ہر حال میں چھوٹا بڑے کو‘ کمزور طاقتور کو اور محکوم حاکم کو سلام کرے تو مسلم سوسائٹی واضح طور پر طبقاتی کشمکش کا شکار ہوجاتی۔ آپ کا ارشاد ہے۔ (یُسَلِّمُ الرَّاکِبُ عَلَی الْمَاشِیْ وَالْمَاشِیْ عَلَی الْقَاعِدِ وَالْقَلِیْلُُ عَلَی الْکَثِیْرِ) [ رواہ الترمذی : کتاب الإستئذان، باب ماجاء فی تسلیم الراکب علی الماشی] ” سوار پیدل کو اور چلنے والا بیٹھنے والے کو، تھوڑے زیادہ کو دوسری حدیث میں ہے کہ چھوٹا بڑے کو اسی طرح آنے والا پہلے سے موجود کو السلام علیکم کہے۔“ ہاں اگر ملنے والے ایک جیسی حالت میں ہوں تو احترام کی طبعی اور بین الاقوامی قدروں کا بھی خیال رکھا گیا کہ چھوٹا بڑے کو سلام کرے تاکہ مسلم معاشرہ ادب و احترام کے ثمرات سے لطف اندوز ہو سکے۔ اونچ نیچ کے مرض کے تدارک کے لیے یہ اصول بھی وضع فرمایا کہ کوئی سر جھکا کر نہ ملے اس سے بندگی کا انداز ظاہر ہوتا ہے۔ کیونکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد عالی ہے : (لَوْکُنْتُ اٰمِرًا أَحَدًا أَنْ یَّسْجُدَ لِأَحَدٍ لَأَمَرْتُ النِّسَآءَ أَنْ یَسْجُدْنَ لِأَزْوَاجِھِنَّ) [ رواہ ابو داوٗد : کتاب النکاح، باب فی حق الزوج علی المرأۃ] ” اگر میں نے کسی کو یہ حکم دینا ہوتا کہ وہ اللہ کے علاوہ کسی اور کے سامنے سر جھکائے تو میں عورتوں کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہروں کے سامنے سجدہ کیا کریں۔“ مسائل ١۔ تحفہ کے بدلے میں بہتر تحفہ دینا چاہیے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ قیامت کے دن سب کو اکٹھاکرے گا۔ ٣۔ قیامت برپا ہو کر رہے گی۔ ٤۔ اللہ کے فرمان سے کسی کی بات سچی نہیں ہو سکتی۔ تفسیر بالقرآن تحائف کا تبادلہ کرتے رہیں : ١۔ احسان کا بدلہ احسان۔ (الرحمان : ٦٠) ٢۔ احسان کا بہتر بدلہ دینا چاہیے۔ (النساء : ٨٦) النسآء
87 النسآء
88 فہم القرآن ربط کلام : منافق مسلمانوں میں بزدلی اور انتشار پیدا کرتے ہیں‘ جس سے مسلمانوں کو چوکنا اور بچنے کی تلقین فرمائی گئی ہے۔ مکہ معظمہ اور اس کے گردونواح میں ایسے لوگ اور قبائل موجود تھے جو دنیاوی اغراض اور تعلق داری کی بنا پر کفار کے ساتھ مسلمانوں سے بھی ہمدردی کا اظہار کرتے تھے۔ جب ہجرت کا فیصلہ کن حکم آیا کہ دارالکفر کو چھوڑ کر سب مسلمان دارالاسلام مدینہ میں جمع ہوجائیں تاکہ طاقت مجتمع، مرکز مضبوط، اور دین پر عمل کرنے کیلئے بہتر ماحول پاسکیں تو انہوں نے اسلام اور مسلمانوں کو ترجیح دینے کی بجائے کفار کے ساتھ رہنا پسند کیا۔ مدینہ میں رہنے والے منافقین کی حالت بھی یہی تھی کہ جب کبھی فیصلہ کا وقت آتا تو ان کی ہمدردیاں کفار اور یہود و نصاری کے ساتھ ہوا کرتی تھیں۔ جس کا مظاہرہ وہ غزوۂ احد کے وقت کرچکے تھے۔ جو نہی مسلمانوں سے مشکل وقت گزر جاتا تو یہ لوگ قسمیں کھا کر اپنی صفائی پیش کرتے جس سے کئی سادہ لوح مسلمان متاثر ہو کر ان کے موقف کو تسلیم کرتے ہوئے ان کے حق میں اپنے ساتھیوں سے بحث کرتے تھے۔ اس صورت حال سے مسلمانوں کے درمیان فکری انتشار ہی نہیں بلکہ دو جماعتیں بننے کا خطرہ پیدا ہوگیا جس پر یہ کہہ کر توجہ دلائی گئی ہے کہ مسلمانو! تمہیں کیا ہوگیا ہے؟ تم منافقین کے بارے میں آپس میں ایک رہنے کے بجائے دو ہوتے جارہے ہو۔ کیا منافقین کی خاطر باہمی محبت کمزور اور اتحاد کو پارہ پارہ کرلو گے؟ حالانکہ انہوں نے تمہارے مقابلے میں کفار کو ترجیح دی ہے۔ تم انہیں مخلص سمجھتے ہو جبکہ ان کی حالت یہ ہے کہ وہ اندرون خانہ تمہیں گمراہ کرنے اور نقصان پہنچانے کے درپے ہیں۔ کیا تم ایسے لوگوں کو ہدایت دینا چاہتے ہو جو ہدایت حاصل کرنے کے بجائے تمہیں بھی اپنے جیسا بنانا چاہتے ہیں؟ اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے انہیں گمراہی میں زیادہ کردیا اور انہیں اسی طرف پھیر دیا ہے جدھر وہ رہنا اور جانا پسند کرتے ہیں۔ جسے اللہ تعالیٰ گمراہ کر دے اسے کوئی بھی ہدایت پر نہیں لا سکتا۔ مسائل ١۔ مسلمانوں کو منافقوں کی حمایت کرنا جائز نہیں۔ ٢۔ منافق کو اس کے کردار کی وجہ سے اللہ تعالیٰ الٹا کردیتا ہے۔ ٣۔ جسے اس کی بد اعمالیوں کی وجہ سے اللہ گمراہ کر دے اسے کوئی ہدایت نہیں دے سکتا۔ النسآء
89 فہم القرآن ربط کلام : منافق حقیقتاً کافر ہوتا ہے اور مسلمانوں کو اسے اس طرح ہی دیکھنا چاہیے۔ اس لیے اس سے قلبی دوستی سے منع کیا گیا ہے۔ منافقوں کو ہرگز دوست نہ بناؤ جب تک اللہ کی رضا کے لیے ہجرت نہ کریں۔ اگر وہ ہجرت کرنے سے انکار کریں تو انہیں حالت جنگ میں جہاں پاؤ‘ پکڑو اور قتل کر دو۔ ایسے لوگوں کو اپنا دوست اور مددگار نہیں سمجھنا چاہیے۔ ہجرت کا لغوی معنٰی : ہجرت کا لغوی معنٰی ہے کسی چیز کو ترک کرنا، چھوڑ دینا۔ عرف عام میں دین کی خاطر کسی مقام کو چھوڑنے کا نام ہجرت ہے۔ شریعت کے وسیع تر مفہوم میں ہر اس چیز کو چھوڑ دینا۔ جس سے اللہ اور اس کے رسول نے منع فرمایا ہے ہجرت کہلاتا ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان ہے : (وَالْمُھَاجِرُ مَنْ ھَجَرَ مَانَھَی اللّٰہُ عَنْہُ) [ رواہ البخاری : کتاب الإیمان، باب المسلم من سلم المسلمون] ” مہاجر وہ ہے جو اللہ کی منع کردہ چیزوں کو چھوڑ دے۔“ کن حالات میں ہجرت کا حکم ہے؟ جیسا کہ ابھی ذکر ہوا کہ مقصد حیات (ایمان) کے لیے ہر چیز قربان کردینا ہی کامل ایمان کی نشانی ہے۔ ایسے ہی جذبات کا مندرجہ ذیل آیت میں ذکر کیا گیا ہے۔ (یٰعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا إِنَّ أَرْضِیْ وَاسِعَۃٌ فَإِیَّایَ فَاعْبُدُوْنِ) [ العنکبوت : ٥٦] ” اے میرے بندو جو ایمان لائے ہو! میری زمین بہت وسیع ہے بس تم میری بندگی کئے جاؤ۔“ اس آیت مبارکہ میں و اضح اشا رہ موجود ہے اگر مکے میں اللہ کی بند گی کرنا مشکل ہو رہی ہے تو ملک چھوڑ کر نکل جاؤ۔ ملک خدا تنگ نیست۔ اللہ کی زمین تنگ نہیں ہے جہاں بھی تم اللہ کے بندے بن کر رہ سکتے ہو و ہاں چلے جاؤ۔ (عَنْ عُمَرَبْنِ الْخَطَّابِ (رض) قَالَ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَقُوْلُ إِنَّمَا الْأَعْمَال بالنِّیَّۃِِ وَإِنَّمَا لِإِمْرِیءٍ مَانَوٰی فَمَنْ کَانَتْ ھِجْرَتُہٗ إِلَی اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ فَھِجْرَتُہٗ إِلَی اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ وَمَنْ کَانَتْ ھِجْرَتُہٗ إِلٰی دُنْیَا یُصِیْبُھَا أَوِ امْرَأَۃٍ یَتَزَوَّجُھَا فَھِجْرَتُہٗ إِلٰی مَاھَاجَرَ إِلَیْہِ) [ رواہ البخاری : کتاب الأیمان والنذور، باب النیۃ فی الأیمان] ” حضرت عمر بن خطاب (رض) فرماتے ہیں میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے ہوئے سنا کہ تمام اعمال کا انحصار نیت پر ہے۔ آدمی جس چیز کی نیت کرے گا وہ اس کے مطابق اجر پائے گا۔ جس نے اللہ اور اس کے رسول کے لیے ہجرت کی بس اس کی ہجرت تو واقعی اللہ اور اس کے رسول کے لیے ہے لیکن جس نے دنیا کی خاطر ہجرت کی کہ اس کو دنیا مل جائے یا کسی عورت کے لیے ہجرت کی تاکہ اس سے نکاح کرے اس کی ہجرت اسی کے لیے ہوگی جس کی خاطر اس نے ہجرت کی۔“ ہجرت ایمان کی کسوٹی ہے : اللہ اور اس کے رسول کی خاطر ہجرت کرنا ہر کسی کے بس کا روگ نہیں۔ یہ ایسی پل صراط ہے جس کی دھار تلوار سے زیادہ تیز اور بال سے زیادہ باریک ہے ہجرت کی تکالیف ومشکلات ایمان سے خالی دل کو ننگا کردیتی ہیں یہ ایسا ترازو ہے جس میں ہر آدمی نہیں بیٹھ سکتا۔ اس پیمانے سے کھرے کھوٹے کا اندازہ ہوجاتا ہے۔ اس لیے قرآن مجید نے اسے ایمان کا معیار قرار دیا ہے۔ (مزید دلائل دیکھنا چاہیں تو میری کتاب سیرت ابراہیم (علیہ السلام) کا مطالعہ فرمائیں) مسائل ١۔ کفار کو کبھی اپنا خیر خواہ اور دوست نہیں سمجھنا چاہیے۔ ٢۔ منافق اور کافر حالت جنگ میں جہاں کہیں ملیں انھیں قتل کردینا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن منافق و کفار کو دوست نہ بناؤ: ١۔ منافق و کفار کو دوست نہ بناؤ۔ (المائدۃ: ٥٧) ٢۔ منافق و کفار آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں۔ (المائدۃ: ٥١) ٣۔ مومن کفار کو اپنا دوست نہ بنائیں۔ (آل عمران : ٢٨) ٤۔ محض دنیا کی عزت کی خاطر کفار سے دوستی نہیں رکھنی چاہیے۔ (النساء : ١٣٩) النسآء
90 فہم القرآن ربط کلام : ایسے منافقوں اور کافروں سے لڑنا اور انہیں قتل کرنا ضروری ہے جو اسلام اور مسلمانوں کے خلاف برسر پیکار ہوں۔ یہاں ان کفار اور منافقوں کو مستثنیٰ قرار دیا ہے جن کے ساتھ مسلمانوں کا بقائے باہمی کا معاہدہ ہو یا وہ اسلام اور مسلمانوں کے راستے میں حائل نہ ہوں۔ یہ بات پہلے بھی بیان ہوچکی ہے کہ اسلام جنگ جو مذہب نہیں اسلام امن و سلامتی کا دین ہے۔ وہ ایسے لوگوں سے لڑنے کی اجازت نہیں دیتا جو صلح جو ہوں اور اسلام کے راستے میں رکاوٹ نہیں بنتے۔ یہاں اس بات کا اعادہ فرمایا گیا ہے کہ ان لوگوں سے لڑنے کی تمہیں اجازت نہیں جو تمہاری حلیف قوم کے ساتھی ہیں یا وہ تمہارے ساتھ مل کر لڑنا یا تمہارے مخالفوں کے ساتھ مل کر تم سے لڑنا پسند نہیں کرتے۔ ایسے لوگوں کے ساتھ تمہیں ہرگز نہیں لڑنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ چاہتا تو ان کو تم پر مسلط کردیتا۔ اگر یہ لوگ تمہارے ساتھ لڑنے سے گریز کریں اور تم سے صلح کرنا چاہتے ہوں تو پھر اللہ تعالیٰ نے ان سے لڑنے کا تمہارے لیے کوئی جواز نہیں بنایا۔ مسائل ١۔ عہد و پیمان والے کفار کے ساتھ لڑنا جائز نہیں۔ النسآء
91 فہم القرآن ربط کلام : گزشتہ سے پیوستہ۔ پہلے امن پسند کفار سے لڑنے کی ممانعت فرمائی تھی اب شر پسندوں کو قتل کرنے کا حکم دیا ہے۔ البتہ تم ایسے منافق اور دغا باز لوگ ضرور پاؤ گے جو تم سے اور تمہارے دشمنوں سے امن میں رہنے کے نام نہاد دعوے دار ہیں۔ لیکن جونہی کوئی فتنہ اٹھتا ہے تو اس میں کود پڑتے ہیں اگر یہ لوگ تمہاری طرف صلح کا ہاتھ نہ بڑھائیں اور تم سے جنگ کرنے سے اجتناب نہ کریں تو انہیں جنگ کے دوران جہاں پکڑو مارو۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان کی منافقت اور غداری کی وجہ سے تمہارے لیے ان کو قتل کرنے کی واضح حجت بنا دی ہے۔ مسائل ١۔ عہد شکنی کرنے والے کے ساتھ لڑنا جائز ہے۔ ٢۔ نہ لڑنے والوں سے لڑنا درست نہیں۔ تفسیر بالقرآن جہاد کی حدود : ١۔ کفار مسلمانوں کو اذیت دیں تو انکے خلاف جہاد کرو۔ (النساء : ٧٥) ٢۔ خوف دور کرنے کے لیے جہاد کرنا چاہیے۔ (النساء : ٨٤) ٣۔ عہد شکن اور دغا باز لوگوں سے لڑنے کی اجازت ہے۔ (الانفال : ٥٦، ٥٧) ٤۔ حرمت کے مہینوں میں صرف بدلے کے لیے لڑناجائز ہے۔ (البقرۃ: ٢١٧) ٥۔ خیانت کا اندیشہ ہو تو انہیں آگاہ کر کے عہد توڑ دو۔ (الانفال : ٥٨) ٦۔ نہ لڑنے والوں سے لڑنا درست نہیں۔ (النساء : ٩١) ٧۔ اللہ اور رسول کے منکرین اور حرام کو حلال کرنے والوں سے جہاد کرو۔ (التوبۃ: ٢٩) النسآء
92 فہم القرآن ربط کلام : کافروں اور منافقوں کو قتل کرنے کا حکم ہے لیکن مومن کو قتل کرنا کبیرہ گناہ ہے اگر جنگ یا کسی ہنگامی کیفیت میں مومن‘ مومن کے ہاتھوں قتل ہوجائے تو اس کی سزا کا ذکر۔ یہاں منافق اور مومن کی شخصیت کا بھی موازنہ کیا گیا ہے۔ اسلام میں انسانی شرف اور اس کی جان کی حرمت کا اس قدر خیال رکھا گیا ہے کہ جس نے ایک انسان کو قتل کیا گویا کہ وہ پوری انسانیت کا قاتل ٹھہرا۔ اس کی تفصیل ” المائدہ آیت ٣٢“ میں بیان کی گئی ہے۔ یہاں پہلی آیات میں منافقوں اور کفار کو حالت جنگ میں قتل کرنے کا حکم ہوا تھا۔ لیکن مومن کو جان بوجھ کر قتل کرنے کی ہرگز اجازت نہیں۔ اگر غلط فہمی کی بنیاد پر مومن کو قتل کردیا جائے جسے قتل خطا کہا گیا ہے جس کی کئی صورتیں ہو سکتی ہیں جن میں ٹریفک حادثات، باہمی لڑائی جھگڑا جس میں دونوں طرف سے ارادۂ قتل شامل نہ ہو۔ جنگ کے دوران مسلمان کا اپنوں کے ہاتھوں قتل ہونا شامل ہے جیسا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے میں دو واقعات پیش آئے۔ ان میں سے ایک واقعہ حضرت اسامہ بن زید (رض) بیان کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں قبیلہ جہینہ کی سرکوبی کے لیے بھیجا ہم نے صبح کے وقت ان پر حملہ کیا اور وہ شکست سے دوچار ہوئے میں نے ایک انصاری کے ساتھ مل کر ایک شخص پر قابو پایا تو اس نے ” لَآ اِلٰہَ الاَاللّٰہ‘ پڑھا۔ میرے ساتھی نے اسے چھوڑ دیا لیکن میں نے آگے بڑھ کر اسے نیزہ مارا جس سے وہ مر گیا۔ جب ہم رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس حاضر ہوئے تو آپ کو اس واقعہ کی اطلاع پہلے ہی پہنچ چکی تھی۔ آپ نے مجھے فرمایا : (أَقَالَ لَآ إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَقَتَلْتَہٗ قَالَ قُلْتُ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ إِنَّمَا قَالَھَا خَوْفًا مِّنَ السِّلَاحِ قَالَ أَفَلَا شَقَقْتَ عَنْ قَلْبِہٖ حَتّٰی تَعْلَمَ أَقَالَھَا أَمْ لَا فَمَا زَالَ یُکَرِّرُھَا عَلَیَّحَتّٰی تَمَنَّیْتُ أَنِّیْ أَسْلَمْتُ یَوْمَءِذٍ)[ رواہ مسلم : کتاب الإیمان، باب تحریم قتل الکافر بعد أن قال لاإلہ إلا اللّٰہ] ” کیا تو نے اس کے کلمہ پڑھنے کے باوجود اسے قتل کردیا؟ میں نے عرض کیا کہ اس نے اسلحہ سے ڈر کر کلمہ پڑھا تھا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تو نے اس کا دل چیر کر کیوں نہ دیکھ لیا کہ تجھے معلوم ہوجاتا کہ اس نے کلمہ دل سے پڑھا ہے یا اسلحہ کے خوف سے۔ آپ نے یہ سوال کئی مرتبہ دہرایا یہاں تک کہ میرے دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی کاش میں آج اسلام قبول کرتا۔“ ایسا ہی واقعہ حضرت خالد بن ولید (رض) کے ہاتھوں رونما ہوا۔ (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَ (رض) قَالَ بَعَثَ النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خَالِدَ بْنَ الْوَلِیْدِ إِلٰی بَنِیْ خَزِیْمَۃَ فَدَعَاھُمْ إِلَی الْإِسْلَامِ فَلَمْ یُحْسِنُوْآ أَنْ یَّقُوْلُوْآ أَسْلَمْنَا فَجَعَلُوْا یَقُوْلُوْنَ صَبَأْنَا صَبَأْنَا فَجَعَلَ خَالِدٌ یَقْتُلُ مِنْھُمْ وَیَأْسِرُ وَدَفَعَ إِلٰی کُلِّ رَجُلٍ مِّنَّا أَسِیْرَہٗ حَتّٰی إِذَا کَانَ یَوْمٌ أَمَرَ خَالِدٌ أَنْ یَّقْتُلَ کُلُّ رَجُلٍ مِّنَّا أَسِیْرَہٗ فَقُلْتُ وَاللّٰہِ لَآ أَقْتُلُ أَسِیْرِیْ وَلَایَقْتُلُ رَجُلٌ مِّنْ أَصْحَابِیْ أَسِیْرَہُ حَتّٰی قَدِمْنَا عَلَی النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَذَکَرْنَاہُ فَرَفَعَ النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَدَہٗ فَقَال اللّٰھُمَّ إِنِِّیْ أَبْرَأُ إِلَیْکَ مِمَّا صَنَعَ خَالِدٌ مَّرَّتَیْنِ) [ رواہ البخاری : کتاب المغازی، باب بعث النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خالد بن ولید إلی بنی خزیمۃ] ” حضرت عبداللہ بن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بنی جزیمہ کی طرف خالد بن ولید (رض) کو بھیجا۔ انہوں نے انہیں اسلام کی دعوت دی تو انہیں ( أَسْلَمْنَا) ” ہم مسلمان ہوئے“ کہنا نہ آیا وہ (صَبَأْنَا صَبَأْنَا) ” ہم بےدین ہوگئے، ہم بےدین ہوگئے“ کہنا شروع کردیا۔ حضرت خالد بن ولید (رض) نے کچھ کو قتل کردیا اور کچھ کو قیدی بنالیا اور ہم میں سے ہر ایک کو اس کا قیدی دیا۔ ایک دن آیا کہ حضرت خالد (رض) نے یہ حکم جاری کیا کہ ہر کوئی اپنے قیدی کو قتل کردے تو میں نے کہا اللہ کی قسم! نہ میں اپنے قیدی کو قتل کروں گا اور نہ ہی دوسرا کوئی اپنے قیدی کو قتل کرے گا۔ ہم نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس پہنچ کر معاملہ ذکر کیا تو آپ نے اپنے ہاتھ اٹھاتے ہوئے دو مرتبہ فرمایا اے اللہ! میں خالد بن ولید کے کیے پر تیری بارگاہ میں برأت کا اظہار کرتاہوں۔“ جس پر یہ حکم نازل ہوا کہ اگر کسی مومن کو غیر ارادی طور پر قتل کردیا جائے تو اس کی سزا ایک غلام آزاد کرنا اور اس کی دیّت اس کے وارثوں کو دینا ہے الاّ یہ کہ وہ معاف کردیں۔ اگر مقتول مومن دشمن قوم کا ہو تو پھر صرف ایک غلام آزاد کرنا ہے۔ اگر مقتول مومن ایسی قوم کے ساتھ تعلق رکھتا ہو جس کے ساتھ مسلمانوں کا بقائے باہمی کا معاہدہ ہے تو اس کے وارثوں کو دیت دینے کے ساتھ ایک غلام آزاد کرنا ہوگا۔ غلام نہ ملنے یا اس کے آزاد کرنے کی طاقت نہ ہونے کی صورت میں قاتل کو متواتر دومہینے روزے رکھنا ہوں گے۔ توبہ کا یہ طریقہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقرر کردہ ہے۔ اللہ تعالیٰ ہی اپنے احکام کی حکمت جاننے والا ہے۔ یاد رہے روزے رکھنے کے دوران شرعی عذر کے بغیر ناغہ کرنے والے کو ازسر نو روزوں کی گنتی کا آغاز کرنا اور ان کی تعداد پوری کرنا ہوگی۔ گویا کہ روزے متواتر رکھنے کا حکم ہے۔ مسائل ١۔ مومن کا مومن کو قتل کرنا جائز نہیں۔ ٢۔ مومن کو غلطی سے قتل کرنے کی سزا مقتول کے ورثاء کو دیّت دینا اور ایک مسلمان غلام آزاد کرنا ہے۔ ٣۔ مقتول مومن کافر قوم کے ساتھ تعلق رکھتا ہو تو صرف ایک مومن غلام آزاد کرنا ہوگا۔ ٤۔ معاہد قوم کا مسلمان قتل کرنے کی صورت میں اس کی دیّت دینے کے ساتھ ایک مومن غلام آزاد کرنا ہے۔ ٍٍ٥۔ مومن غلام آزاد کرنے کی استعداد نہ ہو تو متواتر دو مہینے روزے رکھنے ہوں گے۔ تفسیر بالقرآن قتل کی سزا : ١۔ انسان کا احترام و مقام۔ (المائدۃ: ٣٢) ٢۔ دنیا میں پہلا قتل۔ (المائدۃ: ٢٧، ٣١) ٣۔ قتل کی سزا قصاص۔ (البقرۃ: ١٧٨) ٤۔ قصاص میں زندگی۔ (البقرۃ: ١٧٩) ٥۔ مومن کے قاتل کی سزا۔ (النساء : ٩٣) ٦۔ قتل کی اقسام و بدلہ۔ (النساء : ٩٢) النسآء
93 فہم القرآن ربط کلام : گزشتہ سے پیوستہ۔ جان بوجھ کر مومن کو قتل کرنے کی سزا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک موقع پر بیت اللہ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا اے اللہ کے گھر! تیرا احترام و اکرام اور جلالت و منزلت اپنی جگہ مسلّم ہے لیکن اللہ تعالیٰ کے ہاں مومن کی عزت تجھ سے بڑھ کر ہے۔ [ رواہ ابن ماجۃ: کتاب الفتن، باب حرمۃ دم المؤمن ومالہ] ایک مرتبہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک سفر سے واپس تشریف لا رہے تھے راستے میں ایک جگہ پڑاؤ فرمایا۔ کچھ صحابہ کرام ” وَنْ“ کے درختوں پر چڑھ کر پیلو توڑ رہے تھے جن میں حضرت عبداللہ بن مسعود بھی شامل تھے۔ آپ کے ساتھ کھڑا ایک صحابی عبداللہ بن مسعود (رض) کی پتلی پنڈلیاں دیکھ کر مسکرانے لگا۔ یہ صورت حال دیکھ کر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مومن کی شان کو ان الفاظ میں بیان فرمایا کہ یہ پنڈلیاں احد پہاڑ سے زیادہ وزنی ہیں۔ [ مسند احمد : کتاب مسند العشرۃ المبشرین بالجنۃ، باب مسند علی (رض) ] اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نزدیک ایمان اور کلمے کی اتنی قدر ہے کہ آپ سے حضرت مقداد بن اسود نے استفسار کیا اگر میری کسی کافر کے ساتھ مڈھ بھیڑ ہو اور وہ تلوار سے میرا ہاتھ کاٹ دے۔ جب میں اس پر وار کروں تو وہ درخت کی اوٹ میں جان بچانے کے لیے کلمۂ شہادت پکاراُٹھے تو ایسی صورت میں مجھے کیا کرنا چاہیے؟ آپ نے فرمایا تجھے اپنا ہاتھ روکنا ہوگا۔ بے شک اس نے تجھے زخمی کیا ہے اگر تو نے اس پر حملہ کیا۔ تو تو اس کے مقام پر کھڑا ہوگا یعنی وہ مظلوم اور تو ظالم ہوگا۔ [ رواہ البخاری : کتاب المغازی، باب شھود الملائکۃ بدرا] قرآن مجید کے اس فرمان میں مومن کو عمداً قتل کرنے والے کی پانچ سزاؤں کا بیان ہوا ہے : (١) جہنم میں داخلہ (٢) اس میں ہمیشگی (٣) اللہ کا غضب (٤) اللہ کی لعنت (٥) عذاب عظیم۔ اس لیے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : (سِبَابُ الْمُسْلِم فُسُوْقٌ وَقِتَالُہٗ کُفْرٌ) مومن کو گالی دینا اللہ کی نافرمانی اور اسے قتل کرنا کفر ہے۔ [ رواہ البخاری : کتاب الإیمان‘ باب خوف المؤمن من أن یحبط عملہ] مسائل ١۔ بلاوجہ مومن کو قتل کرنے والے پر اللہ کا غضب، اس کی لعنت اور وہ ہمیشہ جہنم میں رہے گا۔ النسآء
94 فہم القرآن ربط کلام : قتال فی سبیل اللہ میں احتیاط کو ملحوظ رکھنا چاہیے تاکہ کسی پر ظلم یا غلطی سے مسلمان نشانہ نہ بن جائیں۔ اسلام میں جہاد و قتال کا یہ معنٰی نہیں کہ کفار کی دشمنی میں مجاہد اس حد تک آگے بڑھ جائے کہ اس کی تلوار کے سامنے جو آئے اسے تہ تیغ کرتا چلا جائے۔ اسلامی جہاد اس کی ہرگز اجازت نہیں دیتا۔ اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ جس علاقہ پر حملہ کرنا مقصود ہو۔ وہاں کے بارے میں پہلے اچھی طرح معلومات حاصل کی جائیں۔ اگر وہاں مسلمان موجود ہوں تو اندھا دھند حملہ کرنے کے بجائے ایسی حکمت عملی اختیار کرنی چاہیے جس سے مسلمان محفوظ رہ سکیں۔ کیونکہ مسلمانوں کا نقصان ملت کا نقصان اور مجاہدین کے لیے بدنامی کا باعث ہوگا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جب مکہ پر حملہ کیا تو ایسی منصوبہ بندی فرمائی کہ جس سے مکہ کی حرمت قائم رہے اور مسلمانوں کا نقصان بھی نہ ہونے پائے۔ اعلان فرمایا کہ جو شخص بھی بیت اللہ میں داخل ہوجائے یا اپنے گھر کے کواڑ بند کرلے یا ابو سفیان کے گھر میں داخل ہوجائے۔ اسے حفظ و امان دیا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے ” سورۃ الفتح آیت ٢٥“ میں اس حکمت عملی کو اپنا انعام قرار دیا ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ہمیشہ یہ معمول تھا کہ جس علاقے کے متعلق آپ کے پاس معلومات نہ ہوتیں وہاں حملہ آور ہونے کے بجائے رات بھر انتظار فرماتے اگر صبح کی اذان سنائی نہ دیتی تو آپ حملہ کرنے کا حکم دیتے جیسا کہ حدیث میں حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں : (عَنِّ النَّبِیّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کَانَ إِذَا غَزَابِنَا قَوْمًا لَمْ یَکُنْ یُغِیْرُ بِنَا حَتّٰی یُصْبِحَ وَیَنْظُرَ فَإِنْ سَمِعَ أَذَانًا کَفَّ عَنْھُمْ وَإِنْ لَمْ یَسْمَعْ أَذَانًا أَغَارَ عَلَیْھِمْ۔۔) [ رواہ البخاری : کتاب الأذان، باب مایحقن بالأذان من الدماء] ” نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کسی قوم پر صبح ہونے سے پہلے حملہ نہ کرتے، صبح کے وقت آپ دیکھتے اگر اذان سنتے تو ان پر حملہ نہ کرتے اور اگر اذان نہ سنتے تو ان پر حملہ کردیتے۔۔“ اس کا مقصد یہ تھا کہ کہیں مسلمانوں کو نقصان نہ پہنچ پائے۔ اس آیت میں اسی احتیاط کا حکم دیا گیا ہے کہ اے مسلمانو! جب تم اللہ کے راستے میں نکلو اور کوئی تمہارے سامنے اپناا سلام پیش کرے تو غنائم کے لالچ میں اسے ٹھکرا نے کی بجائے اچھی طرح تحقیق کرلیا کرو۔ پھر تنبیہ فرمائی کہ آخر تم بھی تو ان حالات سے گزرے ہو کہ جب تم میں کئی لوگ دشمنوں کے خوف کی وجہ سے اپنا ایمان چھپاتے تھے اور تم بھی پہلے کافر تھے۔ یہ تو اللہ تعالیٰ نے اپنا کرم فرمایا کہ تمہیں آزاد مملکت نصیب فرمائی اور دشمن پر غلبہ عطا کیا اور مسلمان ہونے کی توفیق دی۔ یہاں اس سانحہ کی طرف اشارہ ہے جو خالد بن ولید (رض) کے ہاتھوں رونما ہوا کہ جب ایک چھوٹی سی جھڑپ کے دوران کچھ لوگوں نے ان کے سامنے اپنے اسلام لانے کا اظہار کیا تو خالد بن ولید (رض) نے ان پر یقین کرنے کی بجائے انہیں شہید کرڈالا۔ جس پر رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے براءت کا اظہار کیا۔[ رواہ البخاری : کتاب المغازی ] آیت کے آخر میں تنبیہ کے طور پر فرمایا کہ جو کچھ اور جس نیت سے تم کوئی عمل کرتے ہو اللہ تعالیٰ اس کی اچھی طرح خبر رکھنے والا ہے۔ مسائل ١۔ جہاد کے دوران کافر اور مسلمان کی تمیز اور تحقیق کرنا مجاہد پر لازم ہے۔ ٢۔ دنیا کے مال کی خاطر کلمہ پڑھنے والے کو قتل کرنا جائز نہیں۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ لوگوں کے تمام اعمال سے باخبر ہے۔ تفسیر بالقرآن دوران جہاد تحقیق کرنا : ١۔ فاسق کی خبر کی تحقیق کرنا چاہیے۔ (الحجرات : ٦) ٢۔ کسی کے دعوی اسلام کی تحقیق کرنا لازم ہے۔ (النساء : ٩٤) ٣۔ مشرک اور کافر کے اسلام لانے کی تحقیق کی اجازت۔ (الممتحنۃ: ١٠) النسآء
95 فہم القرآن ربط کلام : خطاب جہاد میں پہلے مسلمانوں کو حالات کے مطابق انفرادی اور اجتماعی طور پر قتال فی سبیل اللہ کا حکم دیا اس کے بعد جہاد کے احکامات اور اس کے متعلق ضمنی ہدایات دیتے ہوئے قتال فی سبیل اللہ کی عظمت اور برکت بیان فرمائی پھر قتال میں ہونے والی کوتاہیوں اور غفلتوں کے بارے میں احتیاط کا حکم دیا۔ اب مجاہدین کا مرتبہ و مقام بیان کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے نزدیک ہر مومن کی بڑی قدرو منزلت ہے۔ لیکن ایسے مومن جو بغیر کسی مجبوری اور شرعی عذر کے قتال فی سبیل اللہ میں براہ راست حصہ لینے کی بجائے دنیاوی کاموں میں مشغول رہتے ہیں۔ ان کے مقابلے میں جو لوگ اللہ تعالیٰ کے راستے میں اپنے مال نچھاور اور جانیں نثار کرتے ہیں ان کا مرتبہ و مقام دوسرے مومنوں سے کہیں بڑھ کر ہے۔ گو اللہ تعالیٰ نے ہر ایمان دار کے ساتھ اس کے اعمال اور اخلاص کے مطابق درجات کی بلندی اور جنت کے وعدے کیے ہیں جو ہر صورت پورے ہو کر رہیں گے۔ لیکن اس کے باوجود مومن مجاہدین کا مرتبہ جہاد سے پیچھے رہنے والوں کے مقابلے میں بہت ہی زیادہ ہے جس کا ذکر پہلے ہوچکا ہے۔ عام مومنوں کی رو حیں عالم برزخ میں مقام علّیّین میں ہوتی ہیں جبکہ مجاہدین کی ارواح اللہ تعالیٰ کے عرش تلے جلوہ افروز اور براہ راست جنت کے نظارے کرتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کے گناہ بخشتے ہوئے انہیں اپنی خصوصی رحمت سے نوازتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ تو بخشنے والا نہایت ہی مہربان ہے۔ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَنْ اٰمَنَ باللّٰہِ وَبِرَسُوْلِہٖ وَأَقَام الصَّلٰوۃَ وَصَامَ رَمَضَانَ کَانَ حَقًّا عَلَی اللّٰہِ أَنْ یُّدْخِلَہُ الْجَنَّۃَ جَاھَدَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ أَوْجَلَسَ فِیْ أَرْضِہِ الَّتِیْ وُلِدَ فِیْھَا فَقَالُوْا یَارَسُوْلَ اللّٰہِ ! أَفَلَا نُبَشِّرُ النَّاسَ قَالَ : إِنَّ فِی الْجَنَّۃِ ماءَۃَ دَرَجَۃٍ أَعَدَّھَا اللّٰہُ لِلْمُجَاھِدِیْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ مَابَیْنَ الدَّرَجَتَیْنِ کَمَا بَیْنَ السَّمَآءِ وَالْأَرْضِ فَإِذَا سَأَلْتُمُ اللّٰہَ فَاسْأَلُوْہُ الْفِرْدَوْسَ فَإِنَّہٗ أَوْسَطُ الْجَنَّۃِ وَأَعْلَی الْجَنَّۃِ أُرَاہُ قَالَ وَ فَوْقَہٗ عَرْشُ الرَّحْمٰنِ وَمِنْہُ تَفَجَّرُ أَنْھَارُ الْجَنَّۃِ) [ رواہ البخاری : کتاب الجھاد والسیر] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو اللہ و رسول پر ایمان لایا اس نے نماز قائم کی اور رمضان کے روزے رکھے۔ اسے جنت میں داخل کرنا اللہ پر حق ہے اس نے اللہ کی راہ میں جہاد کیا ہو یا اپنی پیدائش کے علاقہ میں بیٹھا رہا۔ صحابہ نے کہا اللہ کے رسول! تو کیا ہم لوگوں کو خوشخبری نہ دے دیں؟ آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے فی سبیل اللہ جہاد کرنے والوں کے لیے جنت میں سو درجات بنائے ہیں ہر دو درجے کا درمیانی فاصلہ زمین و آسمان کے درمیانی فاصلہ جتنا ہے جب تم اللہ سے جنت کا سوال کرو تو جنت الفردوس مانگا کرو کیونکہ یہ جنت کا وسط اور اعلیٰ جگہ ہے راوی کہتے ہیں میرا خیال ہے آپ نے یہ بھی فرمایا کہ اس کے اوپررحمان کا عرش ہے اور وہاں سے جنت کی نہریں نکلتی ہیں۔“ (عَنِ الْمِقْدَامِ بْنِ مَعْدِ یْکَرِبَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لِلشَّھِیْدِ عِنْدَ اللّٰہِ سِتُّ خِصَالٍ یُغْفَرُ لَہٗ فِیْ أَوَّلِ دَفْعَۃٍ وَیَرٰی مَقْعَدَہٗ مِنَ الْجَنَّۃِ وَیُجَارُ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ وَیَأْمَنُ مِنَ الْفَزَعِ الْأَکْبَرِ وَیُوْضَعُ عَلٰی رَأْسِہٖ تَاجُ الْوَقَارِ الْیَاقُوْتَۃُ مِنْھَا خَیْرٌ مِّنَ الدُّنْیَا وَمَافِیْھَا وَیُزَوَّجُ اثْنَتَیْنِ وَسَبْعِیْنَ زَوْجَۃً مِنَ الْحُوْرِ الْعِیْنِ وَیُشَفَّعُ فِیْ سَبْعِیْنَ مِنْ أَقَارِبِہٖ) [ رواہ الترمذی : کتاب فضائل الجھاد، باب فی ثواب الشھید] ” حضرت مقدام بن معدیکرب (رض) بیان کرے ہیں کہ اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ اللہ کے ہاں شہید کے چھ انعامات ہیں (١) اس کے سب گناہ معاف کرکے اسے جنت میں اس کا مقام دکھلایا جاتا ہے۔ (٢) قبر کے عذاب سے محفوظ ہوگا۔ (٣) روز قیامت گھبراہٹ سے مامون ہوگا۔ (٤) قیامت کے دن اس کے سر پر عزت ووقار کا تاج رکھا جائے گا جس کا ایک موتی دنیا ومافیہا سے بہتر ہوگا۔ (٥) اس کی بہتر حوروں سے شادی کی جائے گی۔ (٦) اور اس کے ستر قریبی رشتہ داروں کے بارے میں سفارش قبول کی جائے گی۔“ (عَنْ سَھْلِ بْنِ سَعْدِ نِ السَّاعِدِیِّ (رض) أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ رِبَاطُ یَوْمٍ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ خَیْرٌ مِّنَ الدُّنْیَا وَمَاعَلَیْھَا) [ رواہ البخاری : کتاب الجھاد والسیر، باب فضل رباط یوم فی سبیل اللّٰہ] ” حضرت سہل بن سعد ساعدی (رض) بیان کرتے ہیں اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ کے راستے میں ایک دن کا پہرہ دینا دنیا اور جو کچھ دنیا میں ہے اس سے بہتر ہے۔“ مسائل ١۔ گھروں میں بیٹھنے والے مومنوں سے مجاہدین بہتر ہیں۔ ٢۔ مجاہدین کو اللہ تعالیٰ نے بلندمرتبہ و مقام عطا فرمایا ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ نے ہر مومن کے ساتھ اس کے اعمال کے مطابق جزا کا وعدہ فرمایا ہے۔ ٤۔ مجاہدین اور دوسروں کیلئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے بخشش اور رحمت ہوگی۔ النسآء
96 النسآء
97 فہم القرآن ربط کلام : دارالکفر میں رہنے کی بجائے صاحب ہمت لوگوں کو دارالاسلام کی طرف ہجرت کرنا چاہیے یہ دنیا جب سے معرض وجود میں آئی ہے اسی وقت سے لے کر حق و باطل کے معرکے پیش آتے رہے ہیں۔ حق و باطل کی اس آویزش میں ہمیں بے شمار ہجرتیں دکھائی دیتی ہیں۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا عراق سے ہجرت کر کے شام‘ مصر اور ارض مقدس کی طرف جانا اور پھر حجاز میں تشریف لا کر اپنے بیٹے اسماعیل (علیہ السلام) کے ذریعے حجاز کو مرکز دعوت مقرر کرنا‘ حضرت یعقوب (علیہ السلام) اور جناب یوسف (علیہ السلام) کی ہجرت مصر کی طرف، سیدنا لوط (علیہ السلام) کی ہجرت علاقہ سدوم کی جانب حضرت موسیٰ کلیم اللہ کی پہلی ہجرت مدین کی طرف اور اس کے بعد ہزاروں ساتھیوں سمیت فلسطین کی طرف ہجرت کرنے کا ثبوت قرآن میں موجود ہے۔ شرعی اصطلاح میں دین کی خاطر وطن چھوڑنے والے کو مہاجر اور اس عمل کو ہجرت کہا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے نزدیک نظریۂ اسلام جو اللہ تعالیٰ کی رضا کا دوسرا نام ہے اس کی خاطر ہر چیز قربان کرنا لازم ہے۔ جو شخص ایمان کے لیے قربانی نہیں دیتا اور اس پر دوسری باتوں کو مقدم جانتا ہے۔ ایسا شخص ایماندار ہونے کا حق دار نہیں۔ ہجرت میں بھی یہی فلسفہ ہے کہ ناگزیر حالات میں ہمیشہ دب کر اور کمزور رہنے کے بجائے مسلمانوں کو ایسے علاقے سے ہجرت کر کے اپنی افرادی قوت کو مجتمع کر کے کفار کے مقابلے میں کھڑا ہونے کے اقدامات کرنے چاہییں۔ ہجرت ایمان کی کسوٹی ہے : اللہ اور اس کے رسول کی خاطر ہجرت کرنا ہر کسی کے بس کا روگ نہیں۔ یہ ایسی پل صراط ہے جس کی دھار تلوار سے زیادہ تیز اور بال سے زیادہ باریک ہے ہجرت کی تکالیف و مشکلات ایمان سے خالی دل کو ننگا کردیتی ہیں یہ ایسا ترازو ہے جس میں ہر آدمی پورا نہیں اتر سکتا۔ اس پیمانے سے کھرے کھوٹے کا اندازہ ہوجاتا ہے۔ اس لیے قرآن مجید نے اسباب اور طاقت رکھنے کے باوجود ہجرت نہ کرنے والوں کو جہنم کی وعید سنائی ہے۔ کیونکہ انہوں نے ایمان کی نعمت‘ مسلمانوں کی اجتماعیت‘ اللہ اور اس کے رسول کے حکم پر اپنے کاروبار‘ مکانات اور دنیاوی مفاد کو ترجیح دی ہے۔ البتہ وہ لوگ جو ہجرت کے لیے کوئی سبیل اور وسیلہ نہیں پاتے انہیں معاف کردینے کی امید دلائی گئی ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ درگزر کرنے اور معاف فرمانے والا ہے۔ مسائل ١۔ شرعی عذر کے بغیر اللہ کی راہ میں ہجرت نہ کرنے والے ظالم ہیں۔ ٢۔ جان بوجھ کر ہجرت نہ کرنے والے کو موت کے وقت فرشتے ہجرت نہ کرنے کا طعنہ دیں گے۔ ٣۔ ظالموں کے لیے جہنم بدترین ٹھکانا ہے۔ ٤۔ مجبور اور معذور لوگ ہجرت سے مستثنیٰ ہیں۔ ٥۔ معذور اور مجبور لوگوں کو اللہ تعالیٰ معاف فرمادے گا۔ ٦۔ اللہ تعالیٰ معاف فرمانے اور بخش دینے والا ہے۔ النسآء
98 النسآء
99 النسآء
100 فہم القرآن ربط کلام : مہاجر کو تسلی دی گئی ہے کہ گھبرانے اور دل چھوٹا کرنے کی ضرورت نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے رزق کو ایک جگہ مقید نہیں رکھا ہوارزق تو انسان کے ساتھ‘ ساتھ رہتا ہے۔ لہٰذا اللہ کے راستے میں بےدھڑک نکلو اللہ تمہارا رزق کشادہ کردے گا۔ ہجرت کا حکم دینے اور معذور لوگوں کو معاف کرنے کے اعلان کے بعد مہاجرین کو تسلی دی جارہی ہے۔ میرے نام اور کام پر بے خانماں ہونے اور در بدر کی ٹھوکریں کھانے والو! دل چھوٹا کرنا نہ حوصلہ ہارنا۔ تم ایسے خالق و مالک کے حکم سے وطن چھوڑ رہے ہو جو پتھر کے کیڑے کو چٹان میں‘ گوشت خور درندوں کو جنگل میں‘ پانی کے جانوروں کو سمندر کی لہروں اور تہوں میں‘ پرندوں کو صحراؤں میں رزق پہنچاتا ہے۔ تم تو اشرف المخلوقات اور اس کے راستے کے راہی ہو۔ وہ تمہیں کس طرح کسمپرسی کی حالت میں رہنے دے گا۔ ایسا ہرگز نہیں ہوگا‘ اپنے رب پر اعتماد کرو۔ ذرا یقین کی آنکھ سے تاریخ کے دریچوں میں جھانک کر دیکھو۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے عراق چھوڑا تو ملک شام اور سرزمین مقدس کے مالک بنے۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) اور ان کا خاندان اپنے وطن سے نکلا تو سینکڑوں سال مصر کا فرما نروا ہوا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) مصر سے نکلے تو ان کے پیرو کار بیت المقدس کے حکمران ہوئے۔ غرض یہ کہ ہر دور میں اور ہر قافلۂ مہاجرین کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے اپنا وعدہ پورا فرمایا۔ انہیں دنیا میں بے پناہ وسعت اور لامحدود فضل سے نوازا۔ صحابہ کرام (رض) کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا کہ جب مہاجرین مکہ نے مدینہ کی طرف ہجرت کی تو بے خانماں اور کنگال تھے لیکن ہجرت کے بعد حضرت عبدالرحمن بن عوف (رض) اپنی روئیداد بیان کرتے ہوئے فرمایا کرتے تھے۔ ایک وقت تھا کہ میرے پاس کچھ بھی نہیں تھا۔ اب یہ حال ہے کہ مٹی اٹھاتا ہوں تو وہ بھی سونا بن جاتی ہے۔ زکوٰۃ کے علاوہ لاکھوں روپے صدقہ کیے۔ اس کے باوجود وفات کے وقت اڑھائی کروڑ کے مالک تھے۔ حضرت زبیر (رض) بے حساب صدقہ کرنے کے بعد بھی پانچ کروڑ کی جائیداد چھوڑ کر دنیا سے گئے۔ حضرت ابو طلحہ انصاری (رض) پر ایک وقت وہ تھا جب مہمان کا کھانا کم ہونے کی وجہ سے بیوی کو حکم دیتے ہیں کہ جب ہم کھانا شروع کریں تو دیا بجھا دینا۔ میں یوں ہی منہ سے آواز نکالتا رہوں گا تاکہ مہمان سیر ہو کر کھالے۔ پھر ایسا دور آیا کہ لاکھوں درہم کا باغ اللہ تعالیٰ کی راہ میں صدقہ کرتے ہیں۔ غرضیکہ جن صحابہ نے کاروبار کیا اللہ تعالیٰ نے انہیں بے حساب نعمتوں سے نوازا۔ [ التجارات فی الاسلام] دنیا کی نعمتوں اور وسعتوں کے ساتھ ان لوگوں کو آخرت کے اجر کی گارنٹی بھی دی گئی ہے۔ جو اپنے گھروں سے نکلے لیکن دارالہجرت نہ پہنچ پائے راستے ہی میں موت نے آ لیا۔ ان میں حضرت خالد بن حزام (رض) بھی ہیں جنہوں نے حبشہ کی طرف ہجرت کی دوران سفر سانپ کے ڈسنے کی وجہ سے دنیا سے کوچ کر گئے۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَال خَرَجَ ضَمْرَۃُ بن جُنْدُبٍ (رض) مِنْ بَیْتِہِ مُہَاجِرًا فَقَالَ لأَہْلِہِ احْمِلُونی فَأَخْرِجُونی مِنْ أَرْضِ الْمُشْرِکِینَ إِلَی رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ فَمَاتَ فِی الطَّرِیقِ قَبْلَ أَنْ یَصِلْ إِلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، قَالَ فَنَزَلَ الْوَحْیُ وَمَنْ یَخْرُجْ مِنْ بَیْتِہِ مُہَاجِرًا إِلَی اللَّہِ وَرَسُولِہِ (النساء آیۃ ١٠٠) حَتَّی بَلَغَ وَکَان اللَّہُ غَفُورًا رَحِیمًا [ مسند ابی یعلیٰ الموصلی : بابوَمَنْ یَخْرُجْ مِنْ بَیْتِہِ مُہَاجِرًا ] حضرت سمرہ بن جندب (رض) مدینہ کی طرف نکلے تو راستے میں وفات پا گئے جناب ابو حمزہ بن العیض زرقی نابینا تھے معذور ہونے کے باوجود مدینہ طیبہ کی طرف رواں دواں ہوئے۔ ابھی مکہ سے کچھ دور تنعیم کے مقام پر پہنچے تھے تو موت نے آلیا۔ [ ابن کثیر، ابن ابی حاتم] کفار اور منافقین نے پروپیگنڈہ کیا کہ یہ لوگ نہ گھر کے رہے نہ گھاٹ کے۔ اس پر رحمتِ الٰہی جوش میں آئی اور خوشخبری سنائی کہ ہجرت کے لیے اپنے گھروں سے نکلنے والے خوش نصیبوں کے اجر اللہ تعالیٰ نے اپنے ذمہ لے لیے ہیں جو ہرگز ضائع نہیں ہوں گے۔ مسائل ١۔ اللہ کی راہ میں ہجرت کرنے والا وسعت اور کشادگی پائے گا۔ ٢۔ ہجرت کے دوران فوت ہونے والے کو پورا پورا اجر ملے گا۔ تفسیر بالقرآن ہجرت کی اہمیت : ١۔ ہجرت کا اجر و ثواب اور فضیلت۔ (آل عمران : ١٩٥) ٢۔ ہجرت کے دوران مرنے والے کو پورا ثواب ملے گا۔ (النساء : ١٠٠) ٣۔ ہجرت کا دنیا میں اجر۔ (النحل : ٤١، ٤٢) ٤۔ ہجرت نہ کرنے والوں کی سزا۔ (النساء : ٩٧، ٩٩) النسآء
101 فہم القرآن ربط کلام : دین اپنے ماننے والوں کو بے جا تکلیف میں مبتلا نہیں کرتا۔ حالت جنگ میں اور سفر کے دوران آدمی تکلیف میں ہوتا ہے۔ لہٰذا جہاد‘ اور سفر کی حالت میں نماز جیسی عظیم عبادت میں تخفیف فرما دی گئی ہے۔ ایمان لانے کے بعد مسلمانوں پر سب سے زیادہ زور نماز کی ادائیگی اور اس کے قیام پر دیا گیا ہے۔ قیام صلوٰۃ سے مراد اس کے ارکان کی سنت کے مطابق ادائیگی اور اس کے روحانی اور معاشرتی تقاضے پورے کرنے کی کوشش کرنا ہے۔ اس فرض کی ادائیگی کے لیے ہر قسم کی رعایت بخشی گئی۔ حالت مجبوری میں نماز کے لیے تیمم ہی کافی سمجھا گیا۔ کسی وجہ سے قبلہ کی طرف منہ کرنا مشکل ہو تو یہ شرط بھی ختم کردی گئی۔ نماز میں قیام اور رکوع و سجود کرنے فرض ہیں۔ لیکن کوئی شخص کھڑا نہیں ہوسکتا تو وہ بیٹھ کر نماز پڑھ لے‘ بیٹھ کر نماز ادا نہیں ہوتی تو لیٹ کر ادا کرے۔ اگر یہ بھی ممکن نہیں تو اشارے کے ساتھ نماز پڑھی جا سکتی ہے۔ لیکن نماز چھوڑنا کفر کے مترادف قرار پایا۔ لہٰذا نماز بقائمی ہوش و حواس ہر حال میں فرض ہے اور اسے جماعت کے ساتھ پڑھنا چاہیے۔ حالت جنگ میں خوف، اضطراب اور عجلت ہوتی ہے۔ اور حالت سفر میں بھی آدمی کو منزل مقصود تک پہنچنے کی جلدی اور گھر سے دور ہونے کی وجہ سے اضطراب ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر نہایت مہربانی فرماتے ہوئے سفر میں قصر کرنے کی اجازت عطا فرمائی۔ حالت جنگ میں ناصرف نماز فرض ہے بلکہ جماعت کے ساتھ پڑھنے کا حکم ہوا ہے چاہے اسلحہ اٹھا کر ہی پڑھنی پڑے۔ تاہم اس کی رکعات میں تخفیف کردی گئی کہ حالت جنگ میں سنن اور نوافل کی ادائیگی معاف کرنے کے ساتھ فرض کی چار رکعات کو دو میں تبدیل کردیا گیا یہاں تک کہ شدید ہنگامی حالات میں ایک رکعت بھی پڑھی جا سکتی ہے۔ حالت جنگ میں نماز باجماعت کی ادائیگی کی کئی صورتیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ثابت ہیں جن میں چند ایک صورتیں درج ذیل ہیں : ١۔ کچھ مجاہد امام کے ساتھ نماز ادا کریں اور باقی پہرہ دیں اور امام دورکعت پڑھ کر بیٹھا رہے اس کے ساتھ پڑھنے والے مجاہد دو رکعت پڑھ کر سلام پھیر دیں۔ پھر دوسرے لوگ آکر امام کی تیسری اور چوتھی رکعت کے ساتھ دو رکعت نماز ادا کریں۔ اس طرح امام کی چار اور مجاہدین کی دو دورکعت نماز ہوگی۔ ٢۔ امام دورکعت نماز پڑھائے گا ایک جماعت اس کے ساتھ ایک رکعت مکمل کرنے کے بعد پیچھے ہٹ کر دوسری رکعت از خود پڑھے گی۔ اب باقی لوگ امام کے ساتھ ایک رکعت ادا کرنے کے بعد دوسری رکعت خودمکمل کریں گے۔ اور امام دورکعت کے بعد سلام پھیرے گا۔ ٣۔ تیسری صورت میں سب لوگ امام کے ساتھ نماز کے لیے کھڑے ہوں گے۔ پہلی صفوں کے لوگ امام کے ساتھ سجدہ کریں گے جبکہ پچھلے لوگ اسی طرح کھڑے رہیں گے۔ اب یہ لوگ آگے بڑھ کر سجدوں سے فارغ ہونے کے بعد امام کے پیچھے کھڑے ہوں گے اور پہلے لوگ پچھلی صفوں میں کھڑے ہو کر قیام اور رکوع کرنے کے بعد کھڑے رہیں گے۔ اب یہ لوگ سجدے کرتے ہوئے تشہد بیٹھنے کے بعد امام کے ساتھ اکٹھے سلام پھیریں گے۔ (مشکوٰۃ باب نماز خوف) ٤۔ شدید خوف، گھمسان کارن یا موجودہ طرز جنگ کے مطابق فوجی اپنے اپنے مورچوں میں جس حالت میں مناسب سمجھیں نماز ادا کرسکتے ہیں۔ بے شک تیمم کے ساتھ جوتوں سمیت پڑھنی پڑھے۔ مجبوری کی حالت میں قبلہ کی پابندی بھی اٹھا دی گئی۔ فرمان عالی ہے : (اَےْنَمَا تُوَلُّوْا فَثَمَّ وَجْہُ اللّٰہِ) [ البقرۃ: ١١٥] ” تم جس طرف بھی اپنے چہرے کرو گے اسی طرف ہی اللہ تعالیٰ کی توجہ کار فرما ہوگی۔“ یہ رعایتیں اس لیے عنایت فرمائیں کہ کفار کی یہ خواہش ہے کہ مسلمانوں کو کسی وقت بھی غافل پا کر یکبارگی حملہ کرکے ختم کردیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ مسلمانوں کی بقا اور ہر لحاظ سے ترقی اور ان کا تحفظ چاہتا ہے۔ جس کی وجہ سے عبادت کے دوران بھی دفاع سے غفلت کی اجازت نہیں دی گئی۔ کاش مسلمان اس نکتہ کو سمجھتے ہوئے دفاعی اور حربی طاقت کو بڑھاتے اور آج غیروں کے سامنے سرنگوں اور ذلیل نہ ہوتے۔ یہاں ایک اور بات کی طرف اشارہ فرمایا کہ اے محبوب (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ ان میں موجود ہوں تو بنفس نفیس امامت کروائیں کیونکہ آپ کے ہوتے ہوئے کسی کا مقام نہیں کہ وہ امامت و قیادت کرے۔ اسی سے استدلال کرتے ہوئے صحابہ (رض) نے آپ کے جسد اطہر کے ہوتے ہوئے صرف درود پڑھا تھا۔ نماز جنازہ نہیں پڑھی تھی۔ یہاں یہ مسئلہ بھی ثابت ہوا کہ سرکاری افسران اور قوم کے رہنماؤں کا فرض ہے کہ وہ اپنے آپ میں اتنی صلاحیت پیدا کریں کہ وہ امامت کروائیں۔ جب سے دینی اور دنیوی قیادت الگ الگ ہوئی۔ اسی وقت سے مذہب اور سیاست میں تفریق پیدا ہوئی۔ سیاست بےدین لوگوں کی وجہ سے کرپشن اور فساد کا منبع بنی اور امامت غریب لوگوں کی بنا پر غیر اہم ہوگئی۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اسفار کو سامنے رکھتے ہوئے مسافت کے تعین میں علماء کرام کی مختلف آراء ہیں امام بخاری (رض)‘ امام احمد بن حنبل (رح) اور امام ابو حنیفہ (رح) ٤٨ میل جبکہ دوسرے علماء شہر کی حدود سے باہر عرب کے ٩ میل، ہمارے پرانے ساڑھے تیرہ میل اور موجودہ پیمائش کے مطابق (تقریباً ٢٢ کلو میٹر) کے قائل ہیں۔ بعض علماء علمی موشگافیوں میں پڑ کر یہ کہتے ہیں کہ اس وقت سفر کی سہولتوں کا فقدان تھا۔ آج سڑکیں ہموار اور سواریاں تیز رفتار ہیں اس وجہ سے ٩ میل کی مسافت پر قصر نہیں کرنا چاہیے بعض علماء تو اس طرح نماز پڑھنے کو مضحکہ خیز قرار دیتے ہیں۔ حالانکہ معلوم ہونا چاہیے کہ شریعت کے پیش نظر کوئی مخصوص علاقہ یا زمانہ نہیں ہوتا۔ آج بھی پہاڑی علاقوں میں پگڈنڈیوں کے ذریعے ٩ میل بالخصوص میدانی علاقے کے رہنے والوں کے لیے دل ہلا دینے والا سفر ہے۔ شریعت کا مطمع نظر لوگوں کو سہولتیں فراہم کرنا ہے۔ لہٰذا شریعت کے مقصد کو فوت کرنا کسی طرح بھی جائز نہیں۔ کیونکہ خالق کائنات کو معلوم تھا اور ہے کہ دنیا میں کون کون سی ایجادات ہوں گی۔ اس لیے شریعت کو مکمل سمجھنا چاہیے اور اپنی طرف سے قیل و قال کر کے مشکلات پیدا نہیں کرنا چاہییں۔ قصر کتنے دن ؟ جس طرح مسافت کی تعیین میں علماء کے مختلف خیالات ہیں اسی طرح قصر کے ایام کے بارے میں اختلافات ہیں کیونکہ بعض وجوہات کی وجہ سے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے قصر کے ایام میں کمی بیشی ثابت ہے جو لوگ تین سے زیادہ دن قصر کرنے کے قائل ہیں وہ اپنے موقف کی تائید میں انہی روایات کا حوالہ دیتے ہیں جو علماء تین دن کے قائل ہیں وہ ان روایات کے بارے میں لکھتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تردد کی کیفیت میں تھے جیسا کہ فتح مکہ کے موقعہ پر پندرہ سے انیس دن قصر کرنے کی روایات ہیں ان کا موقف یہ ہے کہ انتظامی امور نمٹانے کی وجہ سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تردد میں تھے کہ آج رخصت ہوتے ہیں یاکل۔ ایسی صورت میں پندرہ یوم کجا کئی مہینے بھی قصر کی جاسکتی ہے لہٰذا تین دن کے قائل علماء کے دلائل یہ ہیں کہ آپ نے مہمان نوازی تین دن قرار دی ہے۔[ رواہ البخاری : کتاب الرقاق] اس کے بعد مہمان کے ساتھ مقیم جیسا سلوک کیا جاسکتا ہے۔ اسی طرح حج کے موقع پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد تھا کہ مکہ سے باہر رہنے والے لوگ تین دن سے زیادہ مکہ میں قیام نہ کریں۔[ رواہ النسائی : کتاب تقصیر الصلاۃ فی السفر] کیونکہ صحابہ مکہ سے ہجرت کرچکے تھے اس لیے تین دن سے زیادہ ٹھہرنا مقیم ہونے کے مترادف ہوگا۔ سفر میں نفلی نماز : (عَنِ ابْنِ عُمَرَ (رض) یَقُوْلُ صَحِبْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَکَانَ لَایَزِیْدُ فِی السَّفَرِ عَلٰی رَکْعَتَیْنِ وَأَبَا بَکْرٍ وَعُمَرَ وَعُثْمَانَ کَذٰلِکَ) [ رواہ البخاری : کتاب الجمعۃ، باب من لم یتطوع فی السفر دبرا لصلاۃ وقبلھا] ” حضرت عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)، ابو بکر، عمر عثمان (رض) کے ساتھ رہا ہوں وہ سفر میں صرف دو رکعتیں پڑھا کرتے تھے۔“ دو نمازوں کو اکٹھا کرنا : (عَنْ عَلِیِّ بْنِ حُسَیْنٍ (رض) أَنَّہٗ کَانَ یَقُوْلُ کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) إِذَا أَرَادَ أَنْ یَّسِیْرَ یَوْمَہٗ جَمَعَ بَیْنَ الظُّھْرِ وَالْعَصْرِ وَإِذَا أَرَادَ أَنْ یَّسِیْرَ لَیْلَہٗ جَمَعَ بَیْنَ الْمَغْرِبِ وَالْعِشَاءِ) [ مؤطا امام مالک : کتاب النداء للصلاۃِ] ” حضرت علی بن حسین (رض) کہا کرتے تھے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب دن کے وقت سفر کا ارادہ کرتے تو ظہر اور عصر کی نماز کو جمع فرماتے اور جب رات کو سفر کرنا چاہتے تو مغرب اور عشاء کی نماز کو اکٹھا کرتے تھے۔“ مسائل ١۔ سفر کے دوران نماز قصر کرنے کی اجازت ہے۔ ٢۔ کفار مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کا کوئی موقعہ نہیں چھوڑتے۔ ٣۔ کافر مسلمانوں کے کھلے دشمن ہیں۔ ٤۔ جنگ کے دوران حالت نماز میں اسلحہ پہنے رکھنے کی اجازت ہے۔ ٥۔ مسلمانوں کو سستی اور غفلت کی بنا اپنے آپ پر کفار کو حملہ کرنے کا موقع نہیں دینا چاہیے۔ ٦۔ بارش اور جسمانی تکلیف کی وجہ سے حالت نماز میں اسلحہ رکھ دینا جائز ہے۔ ٧۔ حکومت کے اعلیٰ عہدیداروں کو امامت کے فرائض خود سر انجام دینے چاہییں۔ ٨۔ اللہ تعالیٰ نے کفار کے لیے ذلیل کردینے والا عذاب تیار کر رکھا ہے۔ النسآء
102 النسآء
103 فہم القرآن ربط کلام : حالت جنگ اور سفر میں نماز مختصر پڑھنے کی اجازت تھی اب مقیم کو بروقت اور پوری نماز پڑھنے کا حکم دیتے ہوئے فرمایا کہ نماز کے بعد اٹھتے بیٹھتے اللہ تعالیٰ کا ذکر کیا کرو۔ ذکر ایسی عبادت ہے کہ جسے کثرت کے ساتھ کرنے کا حکم ہوا ہے۔ نماز بذات خود بہت بڑا ذکر ہے۔ لیکن اس کے باوجود اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں دو مقامات پر نماز کی ادائیگی کے بعد مزید کثرت کے ساتھ یادِ الٰہی میں مصروف رہنے کا حکم فرمایا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں حضرت عائشہ (رض) کا بیان ہے کہ آپ ہر حال میں اللہ تعالیٰ کا ذکر کیا کرتے تھے۔[ رواہ البخاری : کتاب الأذان، باب ھل یتتبع المؤذن فاہ ھھناوھھنا] یہاں تک کہ رات جاگتے تو کروٹ بدلتے ہوئے بھی کوئی نہ کوئی تسبیح پڑھتے۔ اس لیے مومنوں کو حکم ہے کہ نماز سے فارغ ہونے کے بعد ہر حال یعنی چلتے پھرتے، اٹھتے بیٹھتے اپنے بستروں اور کروٹوں پر اللہ تعالیٰ کو یاد کیا کریں۔ اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ تم دشمن کے مقابلہ میں کامیاب، دین و دنیا کے معاملات میں سرخرو اور اپنے خالق کی دستگیری کا شرف پاؤ گے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس آیت مبارکہ کی روشنی میں نماز کے اوقات مقرر فرمائے ہیں اور ہر نماز کے ابتدائی اور آخری وقت کی وضاحت فرمائی۔ لہٰذا نماز ہمیشہ اول وقت پر ادا کرنی چاہیے۔ گرمی میں نماز کو ٹھنڈے وقت میں ادا کرنے کے یہ معنٰی نہیں کہ اصل وقت سے تجاوز کردیا جائے۔ جو لوگ ظہر کا وقت دو مثل قرار دیتے ہیں۔ وہ فقہ کے علاوہ قرآن و حدیث سے کوئی دلیل نہیں پیش کرسکتے۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے کفارکے لیے ذلیل کردینے والا عذاب تیار کیا ہے۔ ٢۔ نماز کی ادائیگی کے بعد چلتے پھرتے، اٹھتے بیٹھتے اور لیٹنے کی حالت میں اللہ کا ذکر کرتے رہنا چاہیے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ نے نماز کے اوقات مقرر کیے ہیں جن کا خیال رکھنا فرض ہے۔ النسآء
104 فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ جہاد کے مضمون سے پیوستہ۔ جہاد کے مسائل اور احکامات کا اس موقعہ پر اختتام کرنے سے پہلے حسب معمول تربیت اور نصیحت کے پہلو کو نمایاں فرمایا۔ کیونکہ سفر میں نماز پڑھنا خاص کر اوّل وقت پر ادا کرنا عام حالات کی نسبت مشکل ہوا کرتا ہے۔ لہٰذا نماز کی ادائیگی اور اس کے اوقات کی پابندی کا ذکر فرمانے کے بعد جہادی خطاب کے آخر میں مجاہدین کو تسلی اور امید دلائی گئی ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ تمہیں جہاد کے راستے میں مشکلات پہنچیں۔ تم زخمی ہوئے ہو تو وہ بھی زخمی ہوئے ہیں۔ لیکن یاد رکھو تمہارے دشمن اس سے دگنی مشکلات میں مبتلا ہیں۔ اگر بدر و احد کو ملا کر دیکھا جائے تو وہ تم سے زیادہ قتل اور زخمی ہوئے ہیں۔ اگر وہ تمہارا تعاقب کرنے میں سست اور بزدل نہیں ہوئے تو تمہیں بھی سستی اور بزدلی کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے ساتھ دنیا اور آخرت کی کامیابی کا وعدہ کیا ہے لہٰذا جس رحمت کی تم امید رکھتے ہو وہ اس کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔ یہی وہ جذبہ ہے جو مجاہد کو کثرت و قلت اور بے سرو سامانی کی پرواہ کیے بغیر کفار کے مقابلہ میں لاکھڑا کرتا ہے۔ اسی کی بدولت مسلمان کفار پر غالب آتے رہے ہیں۔ جس کی تاریخ میں سینکڑوں مثالیں پائی جاتی ہیں۔ آج بھی مسلمان اسی جذبہ کے ساتھ کفار کے مقابلہ میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔ (عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ (رض) قالَ قَالَ رَجُلٌ للنَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَوْمَ أُحُدٍ أَرَأَیْتَ إِنْ قُتِلْتُ فَأَیْنَ أَنَا قَالَ فِی الْجَنَّۃِ فَأَلقٰی تَمَرَاتٍ فِیْ یَدِہٖ ثُمَّ قَاتَلَ حَتّٰی قُتِلَ) [ رواہ البخاری : کتاب المغازی، باب غزوۃ أحد] ” حضرت جابر بن عبداللہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے غزوۂ احد کے دن نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا اگر میں شہید ہوجاؤں تو میں کہاں ہوں گا؟ آپ نے فرمایا : جنت میں۔ اس کے ہاتھ میں جو کھجوریں تھیں اس نے وہ پھینک دیں پھر لڑا یہاں تک کہ شہید ہوگیا۔“ مسائل ١۔ زخمی ہونے کے باوجود مجاہدین کو حالت جنگ میں ہمّت نہیں ہارنا چاہیے۔ ٢۔ مجاہد اللہ تعالیٰ کی رحمت کا امید وار ہے جبکہ کافر کو کوئی امید نہیں ہوتی۔ النسآء
105 فہم القرآن ربط کلام : امت کو خارجی خطرات سے بچانے کے لیے اسلحہ اور مسلسل جہاد کی ضرورت ہے۔ داخلی انتشار سے محفوظ رکھنے کے لیے کرپٹ لوگوں کی طرفداری سے بچنا اور سب کے لیے قانون شریعت یکساں طور پر نافذ کرنا ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید صرف اس لیے نازل نہیں فرمایا کہ اسے گلدانوں میں سجا کر رکھ دیا جائے۔ نزول قرآن کا مقصد یہ ہے کہ اخلاص، توجہ اور غور و خوض کے ساتھ اس کی تلاوت کی جائے۔ تعلیم و تربیت کا اہتمام کرتے ہوئے اسے اللہ کا قانون سمجھ کر اللہ کے بندوں پر نافذ کیا جائے۔ تاکہ انفرادی اور اجتماعی معاملات عدل و انصاف کے ساتھ چلتے رہیں۔ باہمی اختلاف کی صورت میں قرآن مجید ہی ان کے درمیان فیصل ہو۔ اسی لیے تو رات و انجیل نازل کی گئی تھیں۔ جس معاشرے میں قرآن مجید کا حکم جاری نہیں ہوتا ایسے لوگوں کو ظالم، فاسق اور کافر قرار دیا گیا ہے۔ جس کی تفصیل سورۃ المائدہ آیت ٤٥ تا ٥٠ میں بیان ہوئی ہے۔ (عَنِ ابْنِ عُمَرَ (رض) أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ إِقَامَۃُ حَدٍّ مِّنْ حُدُوْدِ اللّٰہِ خَیْرٌ مِّنْ مَطَرِ أَرْبَعِیْنَ لَیْلَۃً فِیْ بِلَاد اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ) [ رواہ البخاری : کتاب الحدود، باب إقامۃ الحدود] ” حضرت عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ کی حدود میں سے کسی حد کو کسی ملک میں نافذ کرنا چالیس دن کی بارش سے بہتر ہے۔“ یہاں ایک پیش آمدہ واقعہ اور مقدمہ کے سلسلہ میں آپ کو ہدایات دی گئی ہیں۔ جو عدل و انصاف کے اصولوں کے لیے سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہیں۔ جج کا غیر جانب دارہونا، کتاب و سنت کے مطابق فیصلے کرنا، وکیل ہویا رشتہ دار اس کا مجرم کی حمایت سے اجتناب کرنا‘ اس کے بعد شہادتوں کا درست ہونا ضروری ہے۔ یہ وہ چار بنیادی تقاضے ہیں جن کے بغیر کسی معاشرے میں عدل و انصاف کا بول بالا نہیں ہوسکتا۔ جج کو اپنی معلومات کے مطابق صحیح فیصلہ کرنا چاہیے اگر وہ بے علمی میں غلط معلومات کی بنا پر غلط فیصلہ کرتا ہے تو اس کا سارا گناہ غلط معلومات دینے والوں کو ہوگا۔ جانتے بوجھتے غلط فیصلہ کی بنیاد پر لیا ہوا مال حلال نہیں آگ کا ٹکڑا ہوگا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فیصلہ کرنے سے پہلے بعض اوقات یہ بات بیان بھی کیا کرتے تھے جیساکہ حدیث میں ہے : (عَنْ أُمِّ سَلَمَۃَ عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ وَإِنَّکُمْ تَخْتَصِمُوْنَ إِلَیَّ وَلَعَلَّ بَعْضَکُمْ أَنْ یَّکُوْنَ أَلْحَنَ بِحُجَّتِہٖ مِنْ بَعْضٍ وَأَقْضِیَ لَہٗ عَلٰی نَحْوِ مَا أَسْمَعُ فَمَنْ قَضَیْتُ لَہٗ مِنْ حَقِّ أَخِیْہِ شَیْءًا فَلَایَأْخُذْ فَإِنَّمَا أَقْطَعُ لَہٗ قِطْعَۃً مِّنَ النَّارِ) [ رواہ البخاری : کتاب الحیل، باب إذا غضب جاریۃ فزعم أنھا ماتت ] ” حضرت ام سلمہ (رض) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتی ہیں کہ آپ نے فرمایا تم میرے پاس اپنے فیصلے لے کر آتے ہومیں ایک بشر ہوں ہو سکتا ہے کہ تم میں کوئی دوسرے سے دلائل پیش کرنے میں زیادہ مہارت رکھتاہو۔ میں تو اسی بنیاد پر فیصلہ کرتاہوں جو بات سنتا ہوں میں جس کے لیے اس کے بھائی کے حق کا فیصلہ کردوں۔ تو وہ اسے نہ لے کیونکہ میں اسے آگ کا ٹکڑا کاٹ کر دے رہا ہوتاہوں۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید لوگوں کے درمیان فیصلہ کرنے کے لیے نازل فرمایا ہے۔ ٢۔ کسی شخص کو مجرم کا ساتھ نہیں دینا چاہیے۔ ٣۔ ہر دم اللہ تعالیٰ سے معافی طلب کرنی چاہیے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ نہایت ہی رحیم اور بخشنے والا ہے۔ تفسیر بالقرآن قیام عدل : ١۔ فیصلہ انصاف سے کرنا چاہیے۔ (النساء : ٥٨) ٢۔ فیصلہ اللہ کے حکم کے مطابق ہونا چاہیے۔ (المائدۃ: ٤٩) ٣۔ اللہ کا حکم نافذ نہ کرنے والے کافر ہیں۔ (المائدۃ: ٤٤) ٤۔ اللہ کے حکم کے مطابق فیصلہ نہ کرنے والا ظالم ہوتا ہے۔ (المائدۃ: ٤٥) ٥۔ اللہ کے حکم کے مطابق فیصلہ نہ کرنے والے فاسق ہیں۔ (المائدۃ: ٤٧) النسآء
106 النسآء
107 فہم القرآن ربط کلام : گزشتہ سے پیوستہ۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں پیش ہونے والے مقدمہ کی روئیداد اس طرح ہے کہ انصار قبیلہ کے بنی ظفر خاندان میں سے ایک شخص نے انصاری کے گھر سے آٹے کی بوری اور ایک زرہ چوری کرلی۔ جب اس کا کھوج شروع ہوا تو اس نے اپنے آپ کو الزام سے بچانے کے لیے چوری کا سامان ایک یہودی کے گھر میں امانت رکھ دیا۔ اہل محلہ نے سامان یہودی کے گھر پاکر اسے چور ٹھہرایا لیکن یہودی نے انصاری کا نام لیا۔ جس پر انصاری کے رشتے داروں نے مل بیٹھ کر مشورہ کیا کہ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے یہودی کو چور ثابت کیا جائے۔ جب مقدمہ آپ کی خدمت میں پیش ہوا تو انہوں نے یہودی کو چور ثابت کردیا۔ قریب تھا کہ آپ یہودی پر حد جاری کرتے لیکن اللہ تعالیٰ نے آپ کو پوری صورت حال سے آگاہ کرتے ہوئے فرمایا کہ میرے نبی ! یہ آپ کی شان نہیں کہ آپ خائن اور بددیانت لوگوں کی حمایت کریں۔ اب تک جو کچھ ہوا اس پر اللہ تعالیٰ سے بخشش طلب کریں۔ یقیناً اللہ تعالیٰ معاف کرنے والا نہایت مہربان ہے آئندہ آپ کی طرف سے خائن لوگوں کی حمایت نہیں ہونی چاہیے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ خائن اور مجرموں کو پسند نہیں کرتا۔ ایسے لوگ دوسروں سے تو اپنے گناہ اور جرائم چھپا سکتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ سے کوئی چیز نہیں چھپا سکتے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنے اقتدار اور علم وخبر کے لحاظ سے ہر وقت لوگوں کے ساتھ ہوتا ہے۔ جہاں تک یہ لوگ رات کے وقت ایسی باتیں کرتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی رضا کے خلاف ہوتی ہیں اس وقت بھی اللہ تعالیٰ ان کی ہر بات اور عمل کا احاطہ کیے ہوتا ہے۔ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ قَالَ قَامَ فِیْنَا النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَذَکَرَ الْغُلُوْلَ فَعَظَّمَہٗ وَعَظَّمَ أَمْرَہٗ قَالَ لَاأُلْفِیَنَّ أَحَدَکُمْ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ عَلٰی رَقَبَتِہٖ شَاۃٌ لَھَا ثُغَاءٌ عَلٰی رَقَبَتِہٖ فَرَسٌ لَہٗ حَمْحَمَۃٌ یَقُوْلُ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ أَغِثْنِیْ فَأَقُوْلُ لَاأَمْلِکُ لَکَ شَیْءًا قَدْ أَبْلَغْتُکَ وَعَلٰی رَقَبَتِہٖ بَعِیْرٌ لَہٗ رُغَاءٌ یَقُوْلُ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ أَغِثْنِیْ فَأَقُوْلُ لَاأَمْلِکُ لَکَ شَیْءًا قَدْ أَبْلَغْتُکَ) [ رواہ البخاری : کتاب الجہاد والسیر، باب الغلو وقول اللّٰہ تعالیٰ ومن یغلل یأت بما غل ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمارے درمیان کھڑے ہو کر خیانت کا تذکرہ کرتے ہوئے خیانت اور ایسے معاملہ کو خطرناک قرار دیتے ہوئے فرمایا میں قیامت کے دن تم میں سے کسی کو اس حالت میں نہ پاؤں کہ اس کی گردن پر بکری ممیارہی ہو اور کسی کی گردن پر گھوڑا ہنہنا رہا ہو وہ مجھ سے کہے اللہ کے رسول! میری مدد کیجیے۔ تو میں کہوں کہ میں تیرے لیے کسی چیز کا اختیار نہیں رکھتا۔ میں نے تجھے پہنچا دیا اور کسی کی گردن پر اونٹ آواز نکال رہا ہو وہ کہے اللہ کے رسول میری مدد کیجئے۔ تو میں کہوں کہ میں تیرے لیے کسی چیز کا اختیار نہیں رکھتا میں نے تجھے آگاہ کر دیاتھا۔“ مسائل ١۔ خائن لوگوں کی حمایت نہیں کرنی چاہیے کیونکہ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو پسند نہیں کرتا۔ ٢۔ آدمی لوگوں سے چھپ سکتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ سے چھپ سکتا ہے اور نہ کچھ چھپاسکتا۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ اپنے اقتدار، اختیار اور علم کی بنا پر ہر آدمی کے ساتھ ہوتا ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ ہر وقت انسان کے ساتھ ہوتا ہے : ١۔ انسان جہاں کہیں بھی ہو اس کی ہر حرکت اللہ تعالیٰ کے علم میں ہوتی ہے۔ (الحدید : ٤۔ التوبہ : ٤٠) ٢۔ اللہ تعالیٰ انسان کی شاہ رگ سے زیادہ قریب ہے۔ (ق : ١٦، الواقعہ : ٨٥) ٣۔ انسان جدھر بھی رخ کرے اللہ تعالیٰ کی توجہ اس کی طرف ہوتی ہے۔ (البقرۃ: ١١٥) ٤۔ آدمی جہاں کہیں ہو اللہ تعالیٰ اس کے ساتھ ہوتا ہے۔ (الحدید : ٤) ٥۔ آدمی تین ہوں تو چوتھا اللہ ہوتا ہے پانچ ہوں تو چھٹا اللہ ہوتا ہے اس سے زیادہ ہوں یا کم وہ ہر وقت آدمی کے پاس ہوتا ہے۔ (المجادلۃ: ٧) خائن کا انجام : ١۔ خائن قیامت کے دن اپنی خیانت کے ساتھ پیش ہوگا۔ (آل عمران : ١٦١) ٢۔ خائن کو اللہ تعالیٰ پسند نہیں کرتا۔ (الانفال : ٥٨) النسآء
108 النسآء
109 فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ جن لوگوں نے عزیز داری کی بنیاد پر چور کی حمایت اور تعصب کی بنا پر یہودی پر الزام لگایا تھا۔ اب انہیں مخاطب کیا جارہا ہے کہ تم ایسے لوگ ہو جو طرف داری اور تعصب کی بنیاد پر اس دنیا میں مجرم کے حق میں جھگڑتے ہو۔ بتاؤ قیامت کے دن رب ذوالجلال کے سامنے مجرموں کی طرف سے کون جھگڑا اور ان کی وکالت کرسکے گا؟ اس فرمان کا صاف مطلب ہے کہ کسی شخص کو مجرم کی پاسداری اور اس کے جرم کی وکالت نہیں کرنی چاہیے۔ یہ فرمان ہر وکیل کے لیے تازیانۂ عبرت رکھتا ہے۔ اس کے بعد چار مرتبہ لفظ ” مَنْ“ استعمال کیا کہ دنیا میں کوئی بھی جان بوجھ کر گناہ کرے یا بھول کر خطا کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ سے معافی کا خواستگار ہو تو اللہ تعالیٰ یقیناً اسے معاف فرما دے گا۔ اللہ تعالیٰ معاف کرنے اور بڑی شفقت فرمانے والا ہے۔ اس کے بعد پھر فرمایا کہ جو بھی گناہ کرے گا اس کا بوجھ دنیا اور آخرت میں اسے ہی اٹھانا پڑے گا۔ اس سے ان لوگوں کی آنکھیں کھل جانی چاہئیں جو یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ ہم فلاں کے واسطے اور وسیلے سے نجات حاصل کرلیں گے اور بزرگوں کے طفیل ضرور جنت میں داخل ہوں گے۔ قرآن مجید مختلف پیرائے میں یہ بات سمجھاتا ہے کہ ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا لہٰذا پیر ہو یا مرید‘ نبی ہو یا امتی ہر کسی کو اپنے اپنے اعمال کی جزا یا سزا پانا ہوگی۔ ہر شخص کو خوب جان لینا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ اس کی نیت و عمل کو اچھی طرح جانتا ہے۔ اور جس شخص نے کوئی غلطی یا گناہ کیا اور پھر اس کا الزام ایسے آدمی پر لگایا جو اس سے بری الذمہ ہے۔ ایسے شخص نے بیک وقت تہمت لگانے اور گناہ میں ملوث ہونے کا ارتکاب کیا جو اللہ تعالیٰ کے نزدیک کھلا گناہ ہے۔ ” حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں جب یہ آیت (اِشْتَرُوْا اَنْفُسَکُمْ) ” اپنی جانیں خرید لو یعنی نیک کاموں کے بدلے بچا لو“ نازل ہوئی تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کھڑے ہوئے اور فرمایا : اے قریش کے لوگو! اپنے لیے کچھ خرید لومیں تمہیں اللہ کے عذاب سے کچھ بچا نہیں سکوں گا، اے بنی عبد منا ف میں تمہیں اللہ کے عذاب سے کچھ فائدہ پہنچا نہیں سکوں گا، اے عباس بن عبدالمطلب میں تمہیں اللہ کے عذاب سے کچھ کفایت نہیں کرسکوں گا، اور اے صفیہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پھوپھی! میں تمہیں اللہ کے عذاب سے کچھ کفایت نہیں کرسکوں گا، اور اے فاطمہ (محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بیٹی)! مجھ سے میرے مال سے جو چاہتی ہے مانگ لے میں تمہیں اللہ کے عذاب سے بچا نہیں سکوں گا۔“ [ رواہ البخاری : کتاب الوصایا، باب ھل یدخل النساء والولد فی الأقارب] مسائل ١۔ قیامت کے دن کوئی کسی کی غلط حمایت نہیں کرسکے گا۔ ٢۔ گناہ سر زدہو نے کے بعد انسان کو فوراً اللہ تعالیٰ سے معافی مانگنی چاہیے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ ہر وقت اور ہر کسی کو معاف کرنے اور رحم فرمانے والا ہے۔ ٤۔ توبہ نہ کرنے کی صورت میں ہر کسی کو اپنے گناہوں کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ ہر چیز کا علم رکھنے والا اور اس کے ہر کام میں حکمت ہوتی ہے۔ ٦۔ اپنے گناہ کو دوسرے کے ذمہ لگانے والا بہتان اور گناہ کا مرتکب ہوتا ہے۔ تفسیر بالقرآن گناہوں کا بوجھ خود اٹھانا ہوگا : ١۔ کوئی نفس کسی کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔ (الانعام : ١٦٤) ٢۔ ہر ایک اپنے معاملے کا خود ذمہ دار ہے۔ (البقرہ : ١٤١) ٣۔ عزیز واقارب اور ہر کوئی ایک دوسرے سے بھاگ جائے گا۔ (عبس : ٣٤، ٣٦) ٤۔ روز محشر دوست کام نہ آئیں گے۔ (البقرہ : ٢٥٤) النسآء
110 النسآء
111 النسآء
112 النسآء
113 فہم القرآن ربط کلام : خطاب جاری ہے۔ پہلے بیان ہونے والے واقعہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اے پیغمبر! اگر اللہ تعالیٰ کا آپ پر فضل و کرم نہ ہوتا تو ان میں سے ایک گروہ نے تمہیں عدل و انصاف کے راستے سے ہٹا دینے کا پکا منصوبہ بنا لیا تھا۔ اگر آپ ان کی مرضی کے مطابق فیصلہ صادر فرما دیتے تو اس سے آپ کی سیرت پر حرف گیری ہوتی اور عدل و انصاف کا ترازو جھک جاتا۔ تاہم آپ کی ذات اقدس کا حقیقتاً نقصان نہ ہوتا کیونکہ آپ نے ظاہری شواہد کے مطابق فیصلہ کرنا تھا۔ معلوم ہوا کہ اگر جج سے غلط معلومات اور جھوٹی شہادتوں کے ذریعے ناحق فیصلہ کروالیا جائے تو وہ عنداللہ گناہ گار نہیں ہوگا۔ البتہ آدمی کو شعوری اور لاشعوری طور پر ہونے والے گناہوں کی اللہ تعالیٰ سے معافی مانگتے رہنا چاہیے۔ جیسا کہ اوپر کی آیت میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیا گیا ہے۔ لیکن سچ کو جھوٹ بنانے اور دوسروں پر الزام لگانے والے مجرم دنیا اور آخرت میں ضرور نقصان اٹھائیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو بروقت اس واقعہ کی حقیقت بتائی اور کتاب و حکمت عطا فرما کر وہ کچھ سکھلا دیا جو آپ اس سے پہلے نہیں جانتے تھے۔ کسی شخص کو اللہ کی طرف سے کسی غلطی پر بروقت رہنمائی ہونا اس کا بڑا ہی فضل ہوا کرتا ہے۔ آپ پر اللہ تعالیٰ کا اتنا فضل ہوا کہ دنیا اور آخرت میں آپ کا کوئی ثانی نہیں ہوگا ” مَالَمْ تَکُنْ تَعْلَمْ“ کے الفاظ سے ان لوگوں کے باطل عقیدہ کی نفی ہوتی ہے جو آپ کی ذات کے بارے میں یہ دعوٰی کرتے ہیں کہ آپ جو ہوچکا اور جو کچھ ہونے والا ہے سب کچھ جانتے تھے جیسا کہ ایک مکتبہ فکر کے ترجمان نے ابن جریر کے ضعیف قول سے اپنے عقیدے کو تقویت دینے کی ناکام کوشش کی ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ماکَان اور ماھُوْکَاءِنْ کا علم عطا فرمایا گیا تھا پھر انہوں نے مسلم شریف کی حدیث سے غلط مفہوم اخذ کرنے کی کوشش کی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سب کچھ جانتے تھے حالانکہ خود ہی لکھتے ہیں : ” قرآن مجید نے کئی موقعوں پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عالم الغیب ہونے کی نفی کی ہے یہاں تک آپ کے بارے میں سورۃ الشورٰی میں فرمایا کہ اسی طرح ہم نے بذریعہ وحی بھیجا آپ کی طرف ایک جانفزا کلام اپنے حکم سے نہ آپ یہ جانتے تھے کہ کتاب کیا ہے اور نہ یہ کہ ایمان کیا ہے۔ لیکن ہم نے بنا دیا اس کتاب کو (سراپا) نور ہم ہدایت دیتے ہیں اس کے ذریعہ جس کو چاہتے ہیں اپنے بندوں سے۔ اور بلاشبہ آپ رہنمائی فرماتے ہیں صراط مستقیم کی طرف۔“ (قُلْ لَّآ أَمْلِکُ لِنَفْسِیْ نَفْعًا وَّلَّا ضَرًّا إِلَّا مَاشَآء اللّٰہُ ط وَلَوْ کُنْتُ أَعْلَمُ الْغَیْبَ لَاسْتَکْثَرْتُ مِنَ الْخَیْرِ ج وَمَامَسَّنِیَ السُّوْٓءُ ج إِنْ أَنَا إِلَّا نَذِیْرٌ وَّبَشِیْرٌ لِّقَوْمٍ یُّؤْمِنُوْنَ) [ الأعراف : ١٨٨] ” آپ کہہ دیجیے کہ ” مجھے خود اپنے نفع یا نقصان کا اختیار نہیں مگر اللہ ہی جو کچھ چاہتا ہے وہ ہوتا ہے اور اگر میں غیب جانتا ہوتا تو بہت سی بھلائیاں حاصل کرلیتا اور مجھے کبھی کوئی تکلیف نہ پہنچتی میں تو محض ایک ڈرانے والا اور بشارت دینے والا ہوں، ان کے لیے جو ایمان لے آئیں۔“ (وَعِنْدَہٗ مَفَاتِحُ الْغَیْبِ لَایَعْلَمُھَا إِلَّاھُوَط وَیَعْلَمُ مَافِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ ط وَمَا تَسْقُطُ مِنْ وَّرَقَۃٍ إِلَّا یَعْلَمُھَا وَلَاحَبَّۃٍ فِیْ ظُلُمٰتِ الْأَرْضِ وَلَارَطْبٍ وَّلَایَابِسٍ إِلَّا فِیْ کِتَابٍ مُّبِیْنٍ) [ الانعام : ٥٩] ” اور غیب کی چابیاں اسی کے پاس ہیں جنہیں اس کے سوا کوئی نہیں جانتا بحرو بر میں جو کچھ ہے اسے وہ جانتا ہے اور کوئی پتہ تک نہیں گرتا جسے وہ نہ جانتا ہو نہ ہی زمین کی تاریکیوں میں کوئی دانہ ہے جس سے وہ باخبر نہ ہو اور تر اور خشک جو کچھ بھی ہو سب کتاب مبین میں موجود ہے۔“ مسائل ١۔ دوسرے کو گمراہ کرنے والا خود گمراہ اور نقصان میں رہتا ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو کتاب و حکمت عطا فرمائی اور وہ کچھ سکھلایا جو آپ پہلے نہیں جانتے تھے۔ تفسیر بالقرآن نبی محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلاف سازشیں : ١۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو قتل اور ملک بدر کرنے کی سازش۔ (الانفال : ٣٠) ٢۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اللہ کی ہدایت سے پھیر دینے کی سازش۔ (البقرۃ: ١٠٩) ٣۔ منافقین کی سازش مسجد ضرار۔ (التوبہ : ١٠٧) (مزید دیکھیے البقرہ ١٠٥) النسآء
114 فہم القرآن ربط کلام : منافقین کے کردار کے مختلف پہلوبیان کرنے کے ساتھ ان کی مجالس میں ہونی والی سازشوں کو طشت ازبام کیا ہے۔ برے لوگوں کی مجالس بھی اکثر طور پر بری ہی ہوا کرتی ہیں۔ خاص کر ان کی خفیہ مجالس کبھی شر سے خالی نہیں ہوا کرتیں۔ ایسے لوگ برائی، بے حیائی، چوری چکاری، سازش اور شرارت کے لیے ہی سوچ و بچار کرتے ہیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس قسم کے لوگوں کی مجلس کو لوہار کی بھٹی کے ساتھ تشبیہ دی ہے۔ (عَنْ أَبِیْ مُوْسٰی (رض) عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ مَثَلُ الْجَلِیْسِ الصَّالِحِِ وَالسُّوْءِ کَحَامِلِ الْمِسْکِ وَنَافِخِ الْکِیْرِ فَحَامِلُ الْمِسْکِ إِمَّآ أَنْ یُّحْذِیَکَ وَإِمَّآ أَنْ تَبْتَاعَ مِنْہُ وَإِمَّآ أَنْ تَجِدَ مِنْہُ رِیْحًاطَیِّبَۃً وَنَافِخُ الْکِیْرِ إِمَّآ أَنْ یُّحْرِقَ ثِیَابَکَ وَإِمَّا أَنْ تَجِدَ رِیْحًاخَبِیْثَۃً) [ رواہ البخاری : کتاب الذبائح والصید، باب المسک] ” حضرت ابوموسیٰ (رض) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان فرماتے ہیں کہ آپ نے فرمایا اچھے اور برے ساتھی کی مثال کستوری بیچنے والے اور بھٹی میں پھونکنے والے کی طرح ہے۔ کستوری بیچنے والا یا تو تمہیں تحفہ دے گا یا تم اس سے خرید لو گے یا تم اس سے اچھی خوشبو پاؤ گے اور بھٹی میں پھونکنے والا یا تو تمہارے کپڑوں کو جلا دے گا یا تو اس سے بری بو محسوس کرے گا۔“ قرآن مجید نے ایسی مجالس کو خیر سے خالی قرار دیا ہے۔ سوائے اس کے جن میں صدقہ و خیرات، اچھے کام اور لوگوں کی فلاح اور اصلاح کے بارے میں کوئی پروگرام ترتیب دیا جائے۔ دوسرے لفظوں میں اس آیت میں باہم مل بیٹھنے اور مجالس کی غرض و غایت کا اشارہ دیا ہے کہ برے لوگوں کو مل کر سازش اور شرارت کے منصوبے بنانے کے بجائے نیکی اور خیر کے پروگرام ترتیب دینے چاہییں یہ پروگرام محض نمود و نمائش کے لیے نہیں بلکہ ان کے پیچھے اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی مطلوب ہونی چاہیے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک موقعہ پر چوراہوں میں بیٹھنے سے منع فرمایا تو صحابہ (رض) نے سماجی اور معاشرتی مجبوریوں کا ذکر کیا آپ نے ہدایت فرمائی کہ اگر تمہارے لیے چوراہوں میں بیٹھنا ناگزیر ہو تو تمہیں ان باتوں کا خیال رکھنا چاہیے۔ (عَنْ أَبِیْ سَعِیْدِ نِ الْخُدْرِیِ عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ إِیَّاکُمْ وَالْجُلُوْسَ بالطُّرُقَاتِ قَالُوْا یَارَسُوْلَ اللّٰہِ ! مَالَنَا بُدٌّ مِنْ مَّجَالِسِنَا نَتَحَدَّثُ فِیْھَا قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) إِذَآ أَبَیْتُمْ إِلَّا الْمَجْلِسَ فَأَعْطُوا الطَّرِیْقَ حَقَّہٗ قَالُوْا وَمَا حَقُّہٗ ؟ قَالَ: غَضُّ الْبَصَرِ وَکَفُّ الْأَذٰی وَرَدُّّ السَّلَامِ وَ الْأَمْرُ بالْمَعْرُوْفِ وَالنَّھْیُ عَنِ الْمُنْکَرِ) [ رواہ مسلم : کتاب السلام، باب من حق الجلوس علی الطریق رد السلام] ” حضرت ابو سعید خدری (رض) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں آپ نے فرمایا رستوں اور چوراہوں میں بیٹھنے سے بچا کرو۔ صحابہ نے عرض کی کہ اللہ کے رسول ! بیٹھنا ہماری مجبوری ہے ہم وہاں تبادلہ خیال کرتے ہیں آپ نے فرمایا اگر تمہارا بیٹھنا ضروری ہے تو راستے کا حق ادا کیا کرو۔ صحابہ نے اس کا حق پوچھا تو آپ نے فرمایا نظر نیچی رکھنا، کسی کو تکلیف نہ دینا، سلام کا جواب دینا، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنا۔“ مسائل ١۔ بےدین لوگوں کی اکثر مجالس خیر سے خالی ہوتی ہیں۔ ٢۔ مجالس میں لوگوں کی فلاح و بہبود اور اچھے کاموں کی مشاورت ہونی چاہیے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی کے لیے کام کرنے والا بڑا اجر پائے گا۔ تفسیر بالقرآن یہود و نصارٰی اور کفار کی مجالس : ١۔ مسلمانوں کو دھوکا دینے کے لیے دوغلی پالیسی اختیار کرنا۔ (البقرۃ: ١٤) ٢۔ نئے مسلمانوں کو مرتد بنانے کے لیے سازشیں کرنا۔ (آل عمران : ٧٣) ٣۔ مسلمانوں کو ارتداد کی طرف لانے کے لیے کوششیں اور منصوبے بنانا۔ (البقرۃ: ٢١٧) ٤۔ زمین میں فساد کرنے کی کوشش کرنا۔ (البقرۃ: ٢٠٥) ٥۔ یہود و نصارٰی کی سرگرمیاں۔ (المجادلۃ: ٨) النسآء
115 فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو لوگوں کے لیے رہنما اور مقتدا بنا کر بھیجا ہے۔ رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پیروی اور اتباع کو اپنی اتباع قرار دیا، اپنی محبت اور بخشش کو رسول کی اطاعت کے ساتھ مشروط فرمایا ہے۔ اس لیے جلوت اور خلوت میں رسول کی اتباع ہر مسلمان پر فرض ہے۔ جو شخص یا جماعت رسول کی ہدایت اور سنت سامنے ہونے کے باوجود رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پیروی سے انحراف اور صحابہ کرام کے طریقہ کو چھوڑتے ہیں وہ لوگ جدھر چاہیں اور جس طرح چاہیں منہ اٹھا کر چل نکلیں وہ جہنم میں ہی گرنے والے ہیں جو بدترین جائے قرار ہے۔ اس فرمان میں اللہ تعالیٰ نے اتباع رسول کے ساتھ صحابہ کی اتباع کا بھی حکم دیا ہے۔ کیونکہ انہوں نے رسالت مآب (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے براہ راست رہنمائی اور فیض حاصل کیا۔ البقرۃ آیت ١٣ اور آیت ١٣٧ میں ان کے ایمان کو ہمیشہ کے لیے مثال اور نمونہ قرار دیتے ہوئے فرمایا : (فَإِنْ اٰمَنُوْا بِمِثْلِ مَآ آمَنْتُمْ بِہٖ فَقَدِ اھْتَدَوْا) [ البقرۃ: ١٣٧] ” اگر وہ تمہارے یعنی صحابہ جیسا ایمان لے آئیں تو یقیناً وہ ہدایت سے سر فراز ہوجائیں گے“ اس لیے امت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ جس کام پر صحابۂ کرام (رض) کا اجماع ہو۔ وہ امت کے لیے دلیل اور واجب اتباع ہوگا۔ بعض لوگ حدیث رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور اجماع صحابہ (رض) کو چھوڑ کر کسی ایک صحابی کے انفرادی عمل کو اپنے لیے قابل حجت سمجھتے ہیں۔ جو سراسر قرآن کے حکم کی خلاف ورزی ہے۔ جہاں تک کسی صحابی کے انفرادی عمل کا تعلق ہے اگر وہ صحیح سند کے ساتھ ثابت ہوجائے تو اس کی تاویل کرنا ہوگی کہ اس صحابی کو رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان نہیں پہنچا، یا اسے سمجھنے میں سہو ہوئی ہے۔ جس کی مثال حضرت ابوذر غفاری (رض) کا تین دن سے زیادہ کسی چیز کو گھر میں رکھنا خلاف شرع سمجھنا ہے۔ بعض لوگ حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) کے ایک آدھ انفرادی عمل کو اپنے لیے حجت قرار دیتے ہوئے تائید کے طور پر حدیث رسول پیش کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان ہے : (أصحابی کالنجومِ، فبأیِّہِم اقتدیتم اہتدیتم)[ جامع الاصول من احادیث الرسول] ” میرے صحابہ ہدایت کے چمکتے ہوئے ستارے ہیں جس نے کسی صحابی کی پیروی کی وہ ہدایت پا جائے گا“ حالانکہ یہ روایت سند کے اعتبار سے کمزور ہے۔ (عَنِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خَیْرُ النَّاسِ قَرْنِیْ ثُمَّ الَّذِیْنَ یَلُوْنَھُمْ ثُمَّ الَّذِیْنَ یَلُوْنَھُمْ ثُمَّ یَجِئُ قَوْمٌ تَسْبِقُ شَہَادَۃُ اَحَدِھِمْ یَمِیْنَہٗ وَیَمِیْنُہٗ شَہَادَتَہٗ)[ رواہ البخاری : باب لاَ یَشْہَدُ عَلَی شَہَادَۃِ جَوْرٍ إِذَا أُشْہِدَ ]. ” حضرت ابن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ سول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میرے زمانہ کے لوگ سب سے بہتر ہیں۔ پھر وہ لوگ جو ان کے بعد ہوں گے۔ پھر وہ لوگ جو ان کے بعد ہوں گے۔ اس کے بعد کچھ لوگ آئیں گے‘ جن کی گواہی کی قسم سے‘ اور ان کی قسم ان کی گواہی سے سبقت لے جائے گی۔“ جہاں تک کسی دور کے علماء کے اجماع کا تعلق ہے وہ قرآن و سنت کے تابع ہو تو قابل حجت ہوگا۔ بصورت دیگر اس کی پرواہ نہیں کرنی چاہیے۔ کیونکہ شریعت میں دلیل معیار ہے اقلیت اور اکثریت معیار نہیں ہے۔ لہٰذا صحابہ کا اجتماعی طرز فکر اور عمل امت کے لیے حجت ہے۔ سورۃ فاتحہ کے آخری کلمات اسی راستے کی نشاندہی کرتے ہیں۔ جو اس راستے سے جتنا ہٹے گا اتنا ہی گمراہی کی طرف جائے گا۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : (فَلَمَّا زَاغُوْا أَزَاغ اللّٰہُ قُلُوْبَھُمْ) [ الصف : ٥] ” جب وہ سیدھی راہ سے ہٹ گئے تو اللہ تعالیٰ نے بھی ان کے دلوں میں کجی پید اکردی۔“ (وَنَذَرُھُمْ فِیْ طُغْیَانِھِمْ یَعْمَھُوْنَ) [ الانعام : ١١٠] ” انہیں ان کی سرکشی میں رہنے دیتے ہیں اور وہ حیران پھرتے ہیں۔“ مسائل ١۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے راستے کو چھوڑنا جہنم کا راستہ اپنانے کے مترادف ہے۔ ٢۔ جہنم بہت ہی برا ٹھکانہ ہے۔ تفسیر بالقرآن اتباع صحابہ (رض) : ١۔ انعام یافتہ لوگوں کے راستے پر چلنے کی دعا۔ (الفاتحہ : ٦) ٢۔ صحابہ کا ایمان ہدایت کی کسوٹی۔ (البقرۃ: ١٣٧) ٢۔ مومن کو مومنوں کا دوست ہونا چاہیے۔ (التوبۃ: ٧١) ٣۔ الٰہی ہمیں شاہدین کے ساتھ لکھنا۔ (آل عمران : ٥٣) ٥۔ موت کے بعد نیک لوگوں کی رفاقت۔ (آل عمران : ١٩٣) ٦۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) کی دعا۔ (یوسف : ١٠١) النسآء
116 فہم القرآن ربط کلام : نئے خطاب کا آغاز۔ اللہ تعالیٰ کی ذات اور صفات کا انکار کرنا کفر ہے اور اس کی ذات و صفات اور عبادت میں کسی کو شریک ٹھہرانا شرک ہے جو سب سے بڑا گناہ، ظلم عظیم اور پرلے درجے کی گمراہی ہے۔ کفر و شرک کے سوا اللہ تعالیٰ جسے چاہے اور جو چاہے معاف فرما دے گا اس میں حقوق العباد بھی شامل ہیں۔ خاص کر ایسا شخص جو دوسروں کے حق کی ادائیگی اور اپنی زیادتی کی تلافی کرنا چاہتا تھا لیکن غفلت یا عدم وسائل کی وجہ سے تلافی نہیں کرسکا۔ اللہ تعالیٰ یقیناً اسے معاف فرما کر حق دار کی داد رسی فرما دے گا۔ جیسا کہ بخاری شریف میں کئی مقامات میں رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان درج ہے جس میں آپ نے توحید کی برکات کا یوں ذکر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ محشر کے میدان میں اعلان فرمائیں گے جو دنیا میں کسی کی عبادت کرتا تھا وہ اس کے پاس چلا جائے۔ مشرک اپنے اپنے پیروں اور معبودوں کے پاس چلے جائیں گے لیکن کچھ لوگ کھڑے رہیں گے۔ جن میں فاجر لوگ بھی ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ ان سے سوال فرمائیں گے کہ تم کیوں نہیں جاتے؟ وہ عرض کریں گے کہ ہم دنیا میں تیرے ساتھ کسی کو مشکل کشا، حاجت روا، دستگیر اور آپ کی ذات کے ساتھ کسی کو شریک نہیں گردانتے تھے اب بھی تیری ذات کبریا کو چھوڑ کر نہیں جائیں گے۔ چنانچہ شرک سے اجتناب کرنے اور توحید کے صلہ میں انہیں معاف کردیا جائے گا۔[ رواہ البخاری تفسیر سورۃ النساء۔ مسلم : کتاب الإیمان، باب معرفۃ طریق الرؤیۃ ] مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرنے والا انتہا درجے کا گمراہ ہوتا ہے۔ تفسیر بالقرآن شرک کے نقصانات : ١۔ شرک بدترین گناہ ہے۔ (النساء : ٤٨) ٢۔ شرک ظلم عظیم ہے۔ (لقمان : ١٣) ٣۔ شرک سے اعمال غارت ہوجاتے ہیں۔ (الزمر : ٦٥) ٤۔ شرک کے بارے میں انبیاء کو انتباہ۔ (الانعام : ٨٨) ٥۔ شرک کرنے سے آدمی ذلیل ہوجاتا ہے۔ (الحج : ٣١) ٦۔ مشرک پر جنت حرام ہے۔ (المائدۃ: ٧٢) النسآء
117 فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ یہاں شرک کی ایک اور قسم بیان کی گئی ہے۔ یہاں شرک کی حقیقت بیان کی گئی ہے کہ یہ لوگ دیویوں کی عبادت کرتے ہیں جو حقیقتاً شیطان کی عبادت کرنے کے مترادف ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے لعنت کی ہے۔ دنیا میں سب سے پہلے شرک نوح (علیہ السلام) کی قوم میں پیدا ہوا۔ جنہوں نے اللہ تعالیٰ کا تقرب حاصل کرنے کے لیے اپنے بزرگوں کے مجسمے تراشے ان میں سب سے بڑے بت کا نام سواع تھا سواع عورت کی شکل پر بنایا گیا اس کا معنی ہے ” انتظام و انصرام کرنے والی دیوی“۔ مشرکین مکہ لات، منات اور عزیٰ کو اللہ تعالیٰ کے تقرب کا وسیلہ بناتے تھے۔ یہ سب کے سب عورتوں کے نام ہیں۔ ہندؤوں اور بدھ مت کے مندروں میں جاکر ملاحظہ فرمائیں جن مورتیوں کو وہ اللہ کا اوتار سمجھتے ہیں ان کی شکلیں نہایت ہی پرکشش، جاذب نظر عورتوں کے مشابہ بنائی گئی ہیں۔ یونان میں بھی دیویوں کی پوجا ہوتی تھی اور بعض قومیں فرشتوں کی اس لیے عبادت کرتی ہیں کہ وہ ان کو اللہ تعالیٰ کی پاک اور خوبصورت بیٹیاں گردانتے ہیں۔ گویا کہ دنیا میں ہر دور کے مشرکوں کی اکثریت عورتوں کی پرستار رہی ہے۔ یہاں تک کہ عیسائی بھی حضرت مریم [ کو اللہ تعالیٰ کی بیوی یا ذات کبریا کا حصہ سمجھ کر اس کی عبادت کرتے ہیں۔ جس کی اللہ تعالیٰ نے یوں تردید فرمائی : اللہ تعالیٰ ہی زمین و آسمان کو کسی نمونے اور اسباب کے بغیر پیدا کرنے والا ہے لہٰذا اس کی اولاد اور بیوی کس طرح ہو سکتی ہے؟ اس نے ہر چیز کو پیدا کیا اور وہ سب کچھ جاننے والا ہے۔ [ الانعام : ١٠٢] سورۃ اخلاص میں بڑے سادہ اور مختصر الفاظ میں ہر قسم کے شرک کی تردید کی گئی ہے۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ کے سوا دوسروں کو پکارنے والے عورتوں اور شیطان کو پکارتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن مشرک شیطان کی عبادت کرتا ہے : ١۔ اے بنی آدم ! شیطان کی عبادت نہ کرو۔ (یٰس : ٦٠) ٢۔ آزر کو شیطان کی عبادت نہ کرنے کی تلقین۔ (مریم : ٤٤) بتوں کے نام عورتوں کے نام پر : ١۔ مشرک ملائکہ کو اللہ کی بیٹیاں سمجھ کر عبادت کرتے ہیں۔ (النجم : ٢٨) ٢۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کے دور کے بتوں کے نام۔ (نوح : ٢٣) ٣۔ مشرکین مکہ کے بتوں کے نام۔ (النجم : ١٩، ٢٠) النسآء
118 فہم القرآن ربط کلام : شرک دراصل شیطان کا حکم ماننا اور اس کی عبادت کرنا ہے۔ شیطان پر اللہ تعالیٰ نے لعنت کی ہے لہٰذا مشرک پر اللہ کی لعنت ہوتی ہے۔ شیطان نے صرف آدم (علیہ السلام) کو سجدہ کرنے سے انکار نہیں کیا بلکہ وہ جرم پر جرم کرتا چلا گیا۔ اس نے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی پر معذرت کرنے کی بجائے اپنے جرم کے دلائل دیتے ہوئے قسمیں اٹھائیں کہ میں ہر حال میں بنی نوع انسان کو گمراہ کرتا رہوں گا۔ یہاں تک کہ ان میں سے کثیر تعداد کو گمراہ کر کے چھوڑوں گا۔ میں انہیں پر کشش اور دلفریب امیدیں دلاؤں گا اور انہیں جانوروں کے کان چیرنے اور اللہ تعالیٰ کی تخلیق کو بدلنے کا حکم دوں گا۔ چنانچہ ابتدائے آفرینش سے لے کر اب تک مشرک یہی کچھ کرتے آئے ہیں کہ جن جانوروں کو غیر اللہ کے نام پر وقف کرتے ہیں ان کے کان چیر کر مخصوص نشان لگاتے ہیں ایسے لوگوں کے بارے میں فرمایا ہے کہ جس نے شیطان کو اللہ تعالیٰ کے سوا اپنا خیر خواہ اور دوست بنایا وہ بھاری اور صریح نقصان میں پڑگیا۔ (قَالَ فَبِمَآ اَغْوَیْتَنِیْ لَاَقْعُدَنَّ لَھُمْ صِرَاطَکَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ ثُمَّ لَاٰتِیَنَّھُمْ مِّنْ م بَیْنِ اَیْدِیْھِمْ وَ مِنْ خَلْفِھِمْ وَ عَنْ اَیْمَانِھِمْ وَ عَنْ شَمَآءِلِھِمْ ط وَ لَا تَجِدُ اَکْثَرَھُمْ شٰکِرِیْنَ) [ الأعراف : ١٧] ” شیطان نے کہا تو نے مجھے اس کی وجہ گمراہی میں مبتلا کیا ہے لہٰذا اب میں بھی تیرے صراط مستقیم پر ان (کو گمراہ کرنے) کے لیے بیٹھوں گا۔ پھر انسانوں کو آگے سے، پیچھے سے، دائیں سے، بائیں سے غرض ہر طرف سے گھیر لوں گا اور تو ان میں سے اکثر کو شکر گزار نہ پائے گا۔“ دوسری جگہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : (لَمَنْ تَبِعَکَ مِنْھُمْ لَأَمْلَءَنَّ جَھَنَّمَ مِنْکُمْ أَجْمَعِیْنَ) [ الأعراف : ١٨] ” کہ جس نے لوگوں میں سے تیری پیروی کی میں تم سب سے جہنم کو ضرور بھروں گا۔“ لعنت کا معنٰی : اللہ کا کسی کو خیر سے دور اور محروم کرنا۔ لعنت کرنا مسائل ١۔ شیطان لعنتی ہے اور دوسروں کو گمراہ کرتا ہے۔ ٢۔ شیطان نے انسان کو ہر طرح سے گمراہ کرنے کا عزم کر رکھا ہے۔ ٣۔ شیطان کے ساتھ تعلق رکھنے والا ہمیشہ نقصان پائے گا۔ تفسیر بالقرآن شیطان کے ہتھکنڈے : ١۔ شیطان آدمی کو ہر طرف سے گمراہ کرتا ہے۔ (الاعراف : ١٧) ٢۔ شیطان نے حضرت آدم (علیہ السلام) کو پھسلایا۔ (البقرۃ: ٣٦) ٣۔ شیطان نے حضرت آدم (علیہ السلام) کو پھسلانے کے لیے قسمیں اٹھائیں۔ (الأعراف : ٢١) ٤۔ شیطان جھوٹی قسموں سے ورغلاتا ہے۔ (الاعراف : ٢١) ٥۔ شیطان اپنی فریب کاری سے پھسلاتا ہے۔ (الاعراف : ٢٢) ٦۔ شیطان بے حیائی اور برائی کا حکم دیتا ہے۔ (البقرۃ: ١٦٩) ٧۔ شیطان برے اعمال کو فیشن کے طور پر پیش کرتا ہے۔ (النمل : ٢٤) ٨۔ شیطان نے انسان کو گمراہ کرنے کے لیے قسمیں اٹھائیں۔ (الاعراف : ٢) ٩۔ شیطان کی پیروی کرنے سے بچنے کا حکم ہے۔ (البقرۃ: ٢٠٨) ١٠۔ شیطان کی پیروی اس کی عبادت کرنا ہے۔ (یٰس : ٦) ١١۔ قیامت کے دن شیطان جہنمیوں سے برأت کا اعلان کرے گا۔ (ابراہیم : ٢٢) النسآء
119 النسآء
120 فہم القرآن ربط کلام : شیطان گمراہی پر آدمی کو مطمئن کرنے کی کوشش کرتا ہے تاکہ عمر بھر اس کے پھندے میں پھنسا رہے اور گناہوں میں آگے ہی بڑھتاچلا جائے۔ اسی وجہ سے شیطان انسان کو ہر قسم کی امیدیں دلاتا ہے۔ علامہ عبدالرحمن ابن جوزی (رح) نے شیطان کے پھندوں اور دلفریب وعدوں پر ” تلبیس ابلیس“ کے نام پر ایک مفصل کتاب لکھی ہے جس میں انہوں نے سینکڑوں ایسے واقعات درج کیے ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ شیطان آدمی کی طبیعت اور اس کا رجحان دیکھ کر اسے گمراہ کرتا ہے۔ ایسا کم ہی ہوتا ہے کہ وہ کسی سخی انسان کو کنجوسی کی طرف رغبت دے بلکہ وہ سخی کو فضول خرچی و اسراف پر آمادہ کرتا ہے۔ بخیل کو فقر کا خوف دلا کر مزید کنجوس بناتا ہے۔ یہاں تک کہ ایسا آدمی اپنے آپ پر خرچ کرنے سے بھی گریز کرتا ہے۔ اسی طرح شیطان توحید کے نام پر یہ کہہ کر گناہوں پر دلیری دیتا ہے کہ اللہ تعالیٰ شرک کے علاوہ سب کچھ معاف کر دے گا۔ وہ محبت کے نام پر بے حیائی کا سبق دیتا اور بزرگوں کی عقیدت کے ذریعے شرک کے راستے پر ڈالتا ہے۔ یہ سراسر دین کے نام پر جھوٹی امیدیں دلانا اور دھوکہ دینا ہے۔ دین کے نام پر دھوکے کو قرآن مجید نے سورۃ آل عمران میں یوں بیان فرمایا ہے۔ (وَقَالُوْا لَنْ تَمَسَّنَا النَّارُ إِلَّآ أَیَّامًا مَّعْدُوْدَاتٍ۔۔) [ النساء : ٤١] ” اور انہوں نے کہا ہمیں چند گنتی کے دنوں کے علاوہ ہرگز آگ نہ چھوئے گی۔“ یہودیوں کا یہ کہنا کہ ہم صرف چند دنوں کے لیے جہنم میں جائیں گے۔ اس کے بعد ہمارے لیے دائمی عیش و عشرت ہوگی۔ اسی فریب کے ذریعے عیسائیوں کو شیطان نے عقیدہ سمجھایا کہ عیسیٰ (علیہ السلام) سولی پر لٹک کر تمہارے گناہوں کا کفارہ بن چکے ہیں۔ شیطان کی پیروی اور یہود و نصاریٰ کی دیکھا دیکھی مسلمانوں کی غالب اکثریت ابلیس کی فریب کاریوں میں آ کریہ کہتے سنائی دیتی ہے کہ جنت میں جانے کے لیے بزرگوں کی عقیدت اور کسی پیر کا مرید ہونا کافی ہے۔ ایسے لوگ شیطان کی پیروی میں اس عقیدے پر بڑاناز اور فخر کرتے ہیں‘ ان کا ٹھکانہ جہنم ہوگا۔ جس طرح زندگی بھر شیطان کے فریب میں مبتلا رہے اور جھوٹی امیدوں میں گھرے رہے اسی طرح جہنم میں ہمیشہ کے لیے گھرے رہیں گے اور ان کے لیے اس سے نجات کی کوئی صورت نہیں ہوگی۔ شیطان کا دھوکہ اور فریب : (کَمَثَلِ الشَّیْطٰنِ إِذْ قَالَ لِلْإِنْسَانِ اکْفُرْ فَلَمَّا کَفَرَ قَالَ إِنِّیْ بَرِیْءٌ مِّنْکَ إِنِّیْ أَخَاف اللّٰہَ رَبَّ الْعٰلَمِیْنَ فَکَانَ عَاقِبَتَہُمَآ أَنَّہُمَا فِی النَّارِ خَالِدَیْنِ فِیْہَا وَذٰلِکَ جَزٰؤٓا الظّٰلِمِیْنَ) [ الحشر : ١٦، ١٧] ” شیطان کی طرح جب اس نے انسان کو کہا کہ کفر کر پھر اس نے کفر کرلیا تو کہنے لگا میں تجھ سے بری ہوں یقیناً میں تو رب العالمین سے ڈرتا ہوں۔ ان دونوں کا انجام یہ ہے کہ وہ ہمیشہ جہنم میں رہیں گے اور یہی ظالموں کی سزا ہے۔“ مسائل ١۔ شیطان کے وعدے مکرو فریب کے سوا کچھ نہیں ہوتے۔ ٢۔ شیطان اور اس کے ساتھیوں کا ٹھکانہ جہنم ہے اس سے کبھی نجات نہیں پائیں گے۔ تفسیر بالقرآن جہنم سے چھٹکارا ممکن نہیں : ١۔ جہنم سے نکلنے کی کوئی صورت نہیں ہوگی۔ (البقرۃ: ١٦٧) ٢۔ جہنم سے چھٹکارا پانا مشکل ہے۔ (الزخرف : ٧٧) ٣۔ جہنم میں موت و حیات نہیں ہوگی۔ (طٰہٰ: ٧٤) ٤۔ دنیا میں لوٹ آنے کی خواہش پوری نہیں ہوگی۔ (الانعام : ٢٧) ٥۔ جہنم کی سزا میں وقفہ نہیں ہوگا۔ (فاطر : ٣٦) ٦۔ جہنم کا عذاب چمٹ جانے والا ہے۔ (الفرقان : ٦٥) ٧۔ جہنم بدترین ٹھکانا ہے۔ (آل عمران : ١٩٧) ٨۔ جہنم کے عذاب سے پناہ مانگنی چاہیے۔ (الفرقان : ٦٥) ٩۔ جہنمیوں کو آگ کے ستونوں سے باندھ دیا جائے گا۔ (الہمزہ : ٩٠) النسآء
121 النسآء
122 فہم القرآن ربط کلام : مشرک جہنم میں جائیں گے شرک سے پاک ایمان اور نیک عمل کے حاملین جنت میں داخل ہوں گے۔ جو لوگ ایمان لائے اور شریعت کے مطابق نیک عمل کرتے رہے ان کے بارے میں رب کریم فرماتے ہیں کہ ہم انہیں ایسے باغات میں داخل کریں گے جن کے نیچے نہریں جاری و ساری ہوں گی۔ اور وہ اس میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔ اللہ تعالیٰ کا وعدہ برحق اور سچاہے کہ مشرک جہنم میں اور مومن جنت میں جائیں گے۔ مومنوں کو انتہا درجے کی تسلی دینے کے لیے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے وعدے سے بڑھ کر کسی اور کا وعدہ اور فرمان سچا نہیں ہوسکتا۔ لہٰذا صاحب ایمان لوگوں کو جنت کے حصول کے لیے پوری کوشش کرنی اور اس کے حصول کے لیے دن رات ایک کردینا چاہیے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہے کہ اللہ تعالیٰ فرشتوں سے پوچھتے ہیں کہ کیا میرے بندوں نے جنت دیکھی ہے؟ فرشتے جواب دیتے ہیں نہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں اگر وہ جنت دیکھ لیں ؟ تو فرشتے جواباً کہتے ہیں پھر تو وہ مزید اس کی جستجو کریں گے۔ [ روہ البخاری : کتاب الدعوات، باب فضل ذکراللّٰہ عزوجل] مسائل ١۔ ایمان دار‘ صاحب کردار لوگوں کو اللہ تعالیٰ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جنت میں داخل فرمائے گا۔ ٢۔ اللہ کا وعدہ سچا ہے‘ اس کے وعدے اور بات سے سچی بات کسی کی نہیں ہو سکتی۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ کا ارشاد سچا اور اس کا وعدہ پکا ہے : ١۔ اللہ تعالیٰ کی بات سے کسی کی بات سچی نہیں۔ (النساء : ٨٧) ٢۔ اللہ تعالیٰ وعدہ خلافی نہیں کرتا۔ (آل عمران : ٩) النسآء
123 فہم القرآن ربط کلام : جنت محض دعووں‘ نعروں اور کسی فرقہ کی بنیاد پر نہیں بلکہ جو برائی اور شرک سے بچے گا وہی جنت کا مستحق ہوگا۔ بصورت دیگر برا شخص جنت اور اللہ تعالیٰ کی مدد سے محروم رہے گا۔ قرآن مجید ایک بار پھر اپنے اسلوب بیان کا اعادہ فرماتے ہوئے دو قسم کے اعمال اور ان کے انجام کا بیک مقام موازنہ کرتا ہے تاکہ قرآن کا قاری تجزیہ کرے کہ اسے کس کردار کا انتخاب اور آخرت کی کونسی منزل کے لیے کوشش کرنی چاہیے؟ یہ حقیقت بار بار واضح کی گئی ہے کہ کسی شخص کی نجات نعروں اور دعووں کی بنیاد پر نہیں ہوگی بلکہ نجات سچے ایمان اور صالح عمل پر ہوگی۔ یہاں ایک مرتبہ پھر اہل کتاب کے دعوے کی تردید کی جارہی ہے کہ نجات کا دارومدار کسی خاندانی نسبت یا محض دعوئ محبت پر نہیں بلکہ اس کے لیے اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی اور شرک سے بچنا لازم ہے۔ جس شخص نے شرک کا ارتکاب کیا اور برے اعمال میں مبتلا رہا وہ قیامت کے دن اللہ کے سوا اپنے لیے کوئی خیر خواہ اور مددگار نہیں پائے گا۔ یہاں تک کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) خلیل اللہ ہونے کے باوجود اپنے باپ کو جہنم سے نہیں بچا سکیں گے۔ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ یَلْقٰی إِبْرَاہِیْمُ أَبَاہُ آزَرَیَوْمَ الْقِیَامَۃِ وَعَلٰی وَجْہِ آزَرَ قَتَرَۃٌوَغَبَرَۃٌ فَیَقُوْلُ لَہٗ إِبْرَاہِیْمُ أَلَمْ أَقُلْ لَّکَ لَا تَعْصِنِیْ فَیَقُوْلُ أَبُوْہُ فَالْیَوْمَ لَآ أَعْصِیْکَ فَیَقُوْلُ إِبْرَاہِیْمُ یَارَبِّ إِنَّکَ وَعَدْتَّنِیْ أَنْ لَّا تُخْزِیَنِیْ یَوْمَ یُبْعَثُوْنَ فَأَیُّ خِزْیٍ أَخْزٰی مِنْ أَبِی الْأَبْعَدِفَیَقُوْلُ اللّٰہُ تَعَالٰی إِنِّیْ حَرَّمْتُ الْجَنَّۃَ عَلَی الْکَافِرِیْنَ ثُمَّ یُقَالُ یَآ إِبْرَاہِیْمُ مَا تَحْتَ رِجْلَیْکَ فَیَنْظُرُ فَإِذَا ھُوَ بِذِیْخٍ مُتَلَطِّخٍ فَیُؤْخَذُ بِقَوَآءِمِہٖ فَیُلْقٰی فِی النَّارِ) [ رواہ البخاری : کتاب أحادیث الأنبیاء، باب قول اللّٰہ تعالیٰ واتخذ اللّٰہ ابراھیم خلیلا] ” حضرت ابوہریرہ (رض) نبی گرامی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں آپ نے فرمایا ابراہیم (علیہ السلام) روز قیامت اپنے باپ آزر سے ملیں گے اس کے چہرے پر سیاہی اور غبار ہوگا۔ ابراہیم (علیہ السلام) اسے کہیں گے میں نے آپ سے کہا نہیں تھا کہ میری نافرمانی نہ کرو تو وہ جواباً کہے گا آج میں تیری نافرمانی نہیں کروں گا۔ ابراہیم (علیہ السلام) فرمائیں گے اے میرے رب آپ نے مجھ سے قیامت کے دن رسوا نہ کرنے کا وعدہ کیا تھا میرے باپ سے زیادہ بڑھ کر اور کونسی رسوائی ہوگی؟ اللہ تعالیٰ فرمائیں گے میں نے جنت کافروں پر حرام کردی ہے۔ پھر کہا جائے گا ابراہیم اپنے پاؤں کی طرف دیکھو۔ وہ دیکھیں گے کہ ان کا باپ کیچڑ میں لتھڑا ہوا بجو ہے۔ جسے اس کی ٹانگوں سے پکڑ کر جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔“ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے والد ان کو توحید کی دعوت سے روکا کرتے تھے لیکن آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے چچا ابو طالب آپ کے بہت زیادہ حمایتی اور ہمدرد تھے ان کی ہمدردی کا اندازہ یہاں سے لگایا جاسکتا ہے کہ جب قریش وفد لے کر ان کی خدمت میں پہنچے کہ اپنے بھتیجے کو روک لو ورنہ کوئی فتنہ کھڑا ہوگا۔ جناب ابوطالب نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کہا کچھ نرمی اختیار کیجئے آپ نے جواب دیا چچا سورج میرے دائیں ہاتھ پر اور چاند بائیں ہاتھ پر رکھ دیا جائے میں تب بھی دعوت توحید سے باز نہیں آؤں گا تب ابوطالب نے کہا بیٹا جاؤ جو جی چاہے کرو۔ جب تک میں زندہ ہوں تمہیں کوئی تکلیف نہیں پہنچا سکتا لیکن انہوں نے اسلام قبول نہ کیا۔ (عَنْ أَبِیْ سَعِیْدِ نِ الْخُدْرِیِّ (رض) أَنَّہٗ سَمِعَ رَسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وَذُکِرَ عِنْدَہٗ عَمُّہٗ أَبُوْطَالِبٍ فَقَالَ لَعَلَّہٗ تَنْفَعُہٗ شَفَاعَتِیْ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ فَیُجْعَلُ فِیْ ضَحْضَاحٍ مِّنَ النَّارِ یَبْلُغُ کَعْبَیْہِ یَغْلِیْ مِنْہُ أُمُّ دِمَاغِہٖ) [ رواہ البخاری : کتاب الرقاق، باب صفۃ الجنۃ والنار] ” حضرت ابوسعید خدری (رض) بیان کرتے ہیں انہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا آپ کے پاس آپ کے چچا ابو طالب کا تذکرہ کیا گیا آپ نے فرمایا شاید قیامت کے دن میری سفارش اسے فائدہ دے اور اسے جہنم کی اوپر والی سطح میں رکھاجائے جو اس کے ٹخنوں تک پہنچتی ہو اس سے اس کا دماغ کھول اٹھے گا۔“ (ضَرَبَ اللّٰہُ مَثَلًا لِّلَّذِیْنَ کَفَرُوْا امْرَاَۃَ نُوحٍ وَّامْرَاَۃَ لُوْطٍ کَانَتَا تَحْتَ عَبْدَیْنِ مِنْ عِبَادِنَا صَالِحَیْنِ فَخَانَتَاہُمَا فَلَمْ یُغْنِیَا عَنْہُمَا مِنَ اللّٰہِ شَیْءًا وَّقِیْلَ ادْخُلا النَّارَ مَعَ الدَّاخِلِیْنَ) [ التحریم : ١٠] ” اللہ تعالیٰ کافروں کے لیے نوح (علیہ السلام) اور لوط (علیہ السلام) کی بیویوں کو بطور مثال بیان کرتا ہے وہ دونوں ہمارے بندوں میں سے دو صالح بندوں کے نکاح میں تھیں مگر انہوں نے اپنے شوہروں سے خیانت کی تو وہ اللہ کے مقابلے میں ان دونوں کے کچھ کام نہ آسکے اور دونوں سے کہہ دیا گیا کہ جہنم میں داخل ہونے والوں کے ساتھ داخل ہوجاؤ۔“ مسائل ١۔ جنت صرف دعووں اور آرزؤوں سے نہیں مل سکتی۔ تفسیر بالقرآن آرزؤوں اور تمناؤں کی حیثیت : ١۔ بلندوبانگ دعوے کام نہ آئیں گے۔ (البقرۃ: ٦٢) ٢۔ اللہ تعالیٰ سچوں اور جھوٹوں کو پرکھتے ہیں۔ (العنکبوت : ٣) ٣۔ یہود و نصاری کے جنتی ہونے کا دعویٰ جھوٹا ہے۔ (البقرۃ: ١١١) النسآء
124 فہم القرآن ربط کلام : مومنوں کو دوبارہ تسلی دی گئی ہے کہ نیک عمل کرنے والا ایماندار خواہ مرد ہو یا عورت اسے بہترین جزا ملے گی۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں ذات پات اور مذکر و مؤنث کا کوئی امتیاز نہیں۔ اعمال کا انجام ذکر کرنے کے بعد حسب معمول صالح کر دار لوگوں کا صلہ بیان کرتے ہوئے مرد و زن کو تسلی دی گئی ہے کہ نیک عمل کرنے والا مرد ہو یا عورت بشرطیکہ اس نے نیک عمل حالت ایمان میں کیا ہو۔ اللہ تعالیٰ اسے اپنی بارگاہ میں شرف قبولیت بخشے گا اور اس کو جنت میں ضرور داخل فرمائے گا اور ان کے اجر و ثواب میں کسی قسم کی کوئی کمی نہیں کی جائے گی۔ اسی بات کو تفصیل کیساتھ یوں بیان فرمایا ہے۔ ” بے شک مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں، مومن مرد اور مومن عورتیں، فرمانبردار مرد اور فرمانبردار عورتیں، راست باز مرد اور راست باز عورتیں، صبر کرنیوالے مرد اور صبر کرنے والی عورتیں، خشوع کرنے والے مرد اور خشوع کرنے والی عورتیں، صدقہ دینے والے مرد اور صدقہ دینے والی عورتیں، روزے دار مرد اور روزے دار عورتیں، اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرنے والے مرد اور حفاظت کرنے والی عورتیں، اللہ کا کثرت سے ذکر کرنے والے مرد اور ذکر کرنے والی عورتیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے اجر عظیم تیار کر رکھا ہے۔“ [ الاحزاب : ٣٥] مسائل ١۔ نیک عمل کرنے والا صاحب ایمان مرد ہو یا عورت جنت میں داخل ہوگا۔ تفسیر بالقرآن نیکی میں ہرگز کمی نہ ہوگی : ١۔ کسی کا عمل ضائع نہ کیا جائے گا۔ (آل عمران : ١٩٥) ٢۔ اجر میں مرد و زن برابر ہیں۔ (الاحزاب : ٣٥) ٣۔ ذرہ برابر نیکی اور بدی کا بدلہ ملے گا۔ (الزلزال : ٧، ٨) ٤۔ ہر عمل آدمی کے سامنے پیش کیا جائے گا۔ (الکہف : ٤٩) ٥۔ کسی پر کچھ بھی ظلم نہ کیا جائے گا۔ (بنی اسرائیل : ٧١) النسآء
125 فہم القرآن ربط کلام : اچھی تمناؤں کے لیے اچھے اعمال کرناضروری ہیں جن کی بنیاد ملّتِ ابراہیم ہے۔ اس سے پہلے اہل کتاب کی بے بنیاد تمناؤں کی نفی کرکے وضاحت فرمائی کہ جہنم سے نجات اور جنت میں داخلہ محض نیک تمناؤں، خوش کن جذبات اور بلند بانگ دعووں کی بنیاد پر حاصل نہیں ہو سکتا۔ کا میابی کا انحصار ایمان اور نیک اعمال پر ہے جس کی دین اسلام رہنمائی کرتا ہے۔ اسلام نام ہے اللہ تعالیٰ کے حضور سر تسلیم خم کرنے کا۔ جس سے مراد کلی طور پر اپنے جذبات اور اعمال کو اللہ تعالیٰ کے تابع فرمان کرنا ہے۔ ایسا شخص ہی محسن یعنی نیکو کار کہلانے کا حقدار ہے۔ اس کے لیے یہودیت، عیسائیت اور دائیں بائیں کے راستے نہیں بلکہ ایک اور صرف ایک ہی راستہ ہے جسے ملت ابراہیم کے نام سے بیان کیا گیا ہے کیونکہ ابراہیم (علیہ السلام) نے ہر تعلق سے لاتعلق ہو کر اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کا تابع فرمان کردیا تھا۔ جس کا یہ صلہ عطا ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے پوری انسانیت میں صرف ایک ابراہیم (علیہ السلام) کو اپنا خلیل قرار دیا ہے۔ اسی وجہ سے ہر امت کو اور خاص کر آخری رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پیروکاروں کو حکم ہوا کہ اگر تم اللہ تعالیٰ کی محبت کے خواہاں اور دنیا و آخرت کی کامیابی چاہتے ہو تو پھر تمہیں ملت ابراہیم پر چلنا ہوگا۔ یہاں یہ بھی وضاحت فرمائی کہ ابراہیم (علیہ السلام) کا عقیدہ ہر حال میں اللہ تعالیٰ کے حضور سر تسلیم خم کرنا تھا۔ یہ عمل اور نظریہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ انسان اور زمین و آسمان کی ہر چیز اللہ تعالیٰ کی ملکیت ہے اور مملوک کا فرض ہے کہ وہ اپنے مالک کے حکم کی بجا آوری کرتے ہوئے اس کے سامنے مکمل طور پر سرنگوں رہے۔ جس طرح زمین و آسمان کی ہر چیز اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق اپنی ڈیوٹی نبھا رہی ہے۔ ایسے ہی انسان کو بھی اپنے خالق و مالک کا تابع فرمان ہونا چاہیے اور یاد رکھو ! کوئی اللہ کا دوست ہو یا دشمن وہ اللہ تعالیٰ کے اقتدار اور اختیار سے باہر نہیں اللہ تعالیٰ ہر چیز کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) یہ دعا پڑھا کرتے تھے : (إِنِّیْ وَجَّھْتُ وَجْھِیَ لِلَّذِیْ فَطَرَ السَّمٰوٰتِ وَالْأَرْضَ حَنِیْفًا وَّمَآ أَنَا مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ) [ الانعام : ٧٩] ” بلاشبہ میں نے تو یکسو ہو کر اپنا چہرہ اس کی طرف کرلیا ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور میں مشرکین سے نہیں ہوں۔“ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی ان کی اتباع کرتے ہوئے ابتداء نماز میں یہ دعا پڑھتے : (إِنِّیْ وَجَّھْتُ وَجْھِیَ لِلَّذِیْ فَطَرَ السَّمٰوٰتِ وَالْأَرْضَ حَنِیْفًا۔۔) [ الانعام : ٧٩] ” میں نے تو اپنا چہرہ یکسو ہو کر اس طرف کرلیا ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا۔“ [ رواہ ابوداؤد : کتاب الصلاۃ، باب مایستفتح بہ الصلاۃ من الدعاء ] خلیل کا معنٰی : خلیل کا لفظ خلت سے ہے جس کا معنی ہے ایسا دوست کہ جس سے بڑھ کر کوئی محبوب نہ ہودلی دوست۔ خیر خواہ۔ کمزور بدن والا۔ (عَنْ عَبْدِ اللَّہِ (رض) قَالَ قَالَ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) أَلاَ إِنِّی أَبْرَأُ إِلَی کُلِّ خِلٍّ مِنْ خِلِّہِ وَلَوْ کُنْتُ مُتَّخِذًا خَلِیلاً لاَتَّخَذْتُ أَبَا بَکْرٍ خَلِیلاً إِنَّ صَاحِبَکُمْ خَلِیل اللَّہِ )[ رواہ مسلم : باب مِنْ فَضَاءِلِ أَبِی بَکْرٍ الصِّدِّیق ِ] ” حضرت عبداللہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میں ہر ایک کی دوستی سے برأت کا اظہار کرتا ہوں اگر میں کسی کو اپنا جگری دوست بنا تا تو وہ ابو بکر (رض) ہوتا تمھارا ساتھی اللہ تعالیٰ کا خلیل ہے۔ یعنی اللہ کی دوستی سب سے مقدم ہے۔“ مسائل ١۔ اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کے حوالے کرنے والابہترین مسلمان ہے۔ ٢۔ ہر حال میں ملت ابراہیم کی پیروی کرنا چاہیے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ نے ابراہیم (علیہ السلام) کو اپنا دوست بنایا ہے۔ ٤۔ زمین و آسمان کی ہر چیز اللہ تعالیٰ کی ملکیت اور تابع ہے۔ تفسیر بالقرآن کس کا دین بہتر؟ ١۔ اللہ کے سامنے مطیع ہونے والے کا دین سب سے بہتر ہے۔ (النساء : ١٢٥) ٢۔ اللہ کے سامنے جھک جانے والامحسن ہے۔ (لقمان : ٢٢) ٣۔ ابراہیم (علیہ السلام) اللہ کے مطیع و تابع فرمان تھے۔ (البقرۃ: ١٣١، الانعام : ٧٩) ٤۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کلی طور پر اللہ تعالیٰ کے فرماں بردار تھے۔ (البقرۃ: ٦٨) ٥۔ نبی محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی پیروی کرنے کا حکم۔ (النحل : ١٢٣) ٦۔ امت محمدیہ کو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی اتباع کا حکم۔ (آل عمران : ٩٥) ٧۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے مشرکوں سے بیزاری کا اعلان کیا۔ (الانعام : ١٤) ٩۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی زندگی اسوۂ حسنہ قرار پائی۔ (الممتحنۃ: ٤) النسآء
126 النسآء
127 فہم القرآن ربط کلام : نیا خطاب شروع ہوا۔ قرآن مجید میں یتیموں کے حقوق کی ادائیگی اور ان کی ترغیب و فضیلت کے بارے میں تیئس مقامات پر ذکر ہوا ہے۔ جن میں یتیم بچیوں کے متعلق اس سورت کی آیت 4 میں حکم دیا تھا کہ یتیم بچیاں نکاح کے قابل ہوجائیں تو ان سے نکاح کرلو بشرطیکہ ان کا حق مہر خوشی کے ساتھ ادا کیا جائے۔ یہ لوگ پھر آپ سے یتیم لڑکیوں کے بارے میں فتویٰ چاہتے ہیں انہیں فرمائیں فتویٰ تو اللہ تعالیٰ پہلے ہی دے چکے ہیں لہٰذا اس پر عمل کرو۔ جن کے دلوں میں چور ہے وہ چاہتے ہیں کہ یتیموں کے حقوق سے جان چھوٹ جائے حالانکہ ان کا حال یہ ہے کہ یتیم بچیوں کے مال اور جمال کی وجہ سے ان کے ساتھ نکاح کرنا اور ان کے مال اور نام سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں لیکن حقوق دینے سے ہچکچاہٹ محسوس کرتے ہیں۔ یاد رکھو اللہ تعالیٰ کا فتویٰ اور حکم وہی ہے جو یتیموں کے متعلق پہلے بیان ہوچکا ہے اس میں ہرگز کوئی تبدیلی نہ ہوئی ہے نہ ہوگی۔ لہٰذا یتیموں کے بارے میں انصاف کرنے پر قائم ہوجاؤ اور اچھی طرح جان لو جو بھی نیکی کرو گے۔ اللہ تعالیٰ تمہاری نیت اور عمل کو پوری طرح جانتا ہے۔ حضرت ابوہریرہ (رض) رسول گرامی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان بیان کرتے ہیں آپ نے فرمایا : (کَافِلُ الْیَتِیْمِ لَہٗ أَوْلِغَیْرِہٖ أَنَا وَھُوَ کَھَاتَیْنِ فِی الْجَنَّۃِ وَأَشَارَ مَالِکٌ بالسَّبَابَۃِ وَالْوُسْطیٰ) [ رواہ مسلم : کتاب الزھد‘ باب الإحسان إلی الأرملۃِ والمسکین والیتیم] ” اپنے یا عزیز رشتہ دارکسی یتیم کی کفالت کرنے والا اور میں جنت میں ان دوانگلیوں کی طرح ہوں گے۔ راوی نے انگشت شہادت اور درمیانی انگلی کا اشارہ کیا۔“ النسآء
128 فہم القرآن ربط کلام : تسلسل جاری ہے یتامیٰ اور عورتوں کے حقوق کا تعین کیا گیا ہے۔ قرآن مجید نے بار بار مردوں کو حکم دیا ہے کہ عورتوں کے حق مہر خندہ پیشانی اور دل کی رغبت کے ساتھ دیا کرو۔ اگر وہ اپنی خوشی سے حق مہر معاف کریں تو بھی اس انداز سے کھاؤ اور استعمال کرو کہ انہیں تمہارے بارے میں ہلکے پن اور حریص ہونے کا گمان پیدا نہ ہو۔ یہاں عورتوں کو تلقین فرمائی جا رہی ہے کہ اگر کسی عورت کو ایسے خاوند کے ساتھ واسطہ پڑا ہے جو حریص اور لالچی ہے یا کسی وجہ سے مجبور ہو کر چاہتا ہے کہ اسے حق مہر معاف کردیا جائے‘ بصورت دیگر خاوند کی طرف سے اعراض اور اختلاف کا خطرہ ہے تو تنازعہ کھڑا کرنے کی بجائے بہتر ہے کہ عورت اپنے خاوند کے اختلاف اور اعراض سے بچنے کے لیے اپنے حقوق سے دست بردار ہونے کے بارے میں غور کرے۔ ایسا کرنے کا اسے اختیار ہے اس پر اسے کوئی گناہ نہیں ہوگا۔ گھر اجاڑنے سے بہتر ہے کہ عورت اپنے حقوق میں نرمی اختیار کرلے۔ اس سے عورت کا بھرم قائم رہنے کے ساتھ گھریلو ماحول میں خوشگوار تبدیلی آئے گی۔ یہ ہدایت اس لیے کی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہیں خوش حال اور تمہارے گھروں کو آباد دیکھنا چاہتا ہے۔ یہاں دونوں کو ہر حال میں صلح کارویہ اختیار کرنے کا حکم دیا ہے گو انسان حریص واقع ہوا ہے لیکن اس کے باوجود ایک دوسرے کے ساتھ احسان کا رویہ اختیار کرکے اختلافات سے بچنا چاہیے۔ اگر عورت بوڑھی ہوچکی ہو یا خاوند کو اس کی کوئی عادت پسند نہیں تو بھی نباہ کرنا چاہیے۔ یاد رکھو اللہ تعالیٰ اچھی طرح خبر گیر ہے کہ کون تم میں صلح جو، ایثار پسند اور گھر آباد رکھنا چاہتا ہے اور کون ایسا نہیں کرنا چاہتا۔ مسائل ١۔ میاں بیوی کے درمیان صلح جوئی اور اصلاح کا ماحول ہونا چاہیے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نیکی اور تقویٰ اختیار کرنے والے کو جانتا ہے۔ النسآء
129 فہم القرآن ربط کلام : اس سورت کی تیسری آیت میں عدل و انصاف کی شرط کے ساتھ بیک وقت چار تک عورتیں نکاح میں رکھنے کی اجازت دی تھی۔ اب ایک سوال کے جواب میں اس کے متعلقات کی وضاحت کردی گئی ہے کہ پہلے حکم میں عدل کا مفہوم مالی اور اخلاقی معاملات کے ساتھ ہے۔ اب اخلاقی معاملے میں حکم ہے۔ جہاں تک قلبی میلان کا تعلق ہے اس میں تم بیویوں کے درمیان مساوات اور انصاف کرنا چاہوبھی تو پوری طرح انصاف نہیں کرسکتے کیونکہ دل کے رجحانات اور جذبات پر قابو پانا انسان کے بس کا روگ نہیں۔ اگر کسی بیوی کا حسن و جمال اور اس کے اخلاق کی وجہ سے تمہارا دل اس کی طرف زیادہ مائل ہے تو اس میں کوئی حرج کی بات نہیں۔ لیکن کوشش کرو کہ تم ایک ہی کے ہو کر نہ رہ جاؤ۔ بلکہ ظاہری محبت میں سب کی دلجوئی کرنی چاہیے تاکہ ایک بیچاری تمہارا منہ تکتے ہوئے معلق ہو کر نہ رہ جائے۔ لہٰذا جذبات محبت پر کنٹرول کرتے ہوئے بے انصافی سے بچو۔ اگر تم منصفانہ برتاؤ اور سب کے ساتھ احسان کا رویہ اختیار کرو گے تو یقیناً اللہ تعالیٰ تمہاری کمزوریوں کو معاف کرنے والا مہربان ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعا ہے : (اَللّٰھُمَّ ھٰذَا قَسْمِیْ فِیْمَا أَمْلِکُ فَلَا تَلُمْنِیْ فِیْمَاتَمْلِکُ وَلَآ أَمْلِکُ) [ رواہ أبو داؤد : کتاب النکاح] ” اے اللہ! میرا عدل اور مساوات اسی حد تک ہے جو میرے اختیار میں ہے جو تیرے اختیار میں ہے وہ میرے اختیار میں نہیں اس پر مجھے ملامت نہ کیجئے گا۔“ ( مَنْ کَانَتْ لَہُ امْرَأَتَانِ فَمَالَ إِلَی إِحْدَاہُمَا جَاءَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ وَشِقُّہُ مَاءِلٌ ) [ رواہ ابوداود : باب القسمۃ بین النساء] بیویوں کے درمیان عدل نہ کرنے والا روز قیامت فالج زدہ انسان کی طرح اٹھایا جائے گا۔ مسائل ١۔ بیویوں کے درمیان عدل و انصاف کرنا فرض ہے۔ ٢۔ اپنی اصلاح کرتے ہوئے اللہ سے ڈرو گے تو اللہ کو بخشنے والا پاؤ گے۔ النسآء
130 فہم القرآن ربط کلام : اکٹھا رہنے کی کوئی شکل باقی نہ رہے تو جدائی کی صورت میں دونوں کو تسلی دی گئی ہے۔ گھر کی چار دیواری اور میاں بیوی کے تعلقات معاشرے کی اکائی اور بنیادی یونٹ کی حیثیت رکھتے ہیں یہ یونٹ جس قدر خوشحال اور اس کا ماحول جتناخوشگوار ہوگا۔ اتنا ہی معاشرہ مضبوط اور اچھے خطوط پر استوار ہوگا۔ اس یونٹ کو توڑ پھوڑ سے بچانے کے لیے قرآن مجید نے متعدد ہدایات جاری فرمائی ہیں۔ لیکن بسا اوقات معاملات اس حد تک آگے بڑھ جاتے ہیں کہ ان پر قابو پانا کسی کے اختیار میں نہیں رہتا۔ ایسی صورت میں مرد کو طلاق دینے اور عورت کو خلع لینے کا اختیار دیا ہے۔ یہ انقطاع طلاق کی صورت میں ہو یا خلع کی شکل میں بہتر سے بہتر صورت میں وقوع پذیر ہونا چاہیے۔ یہاں تک فرمایا کہ میاں بیوی کو آپس میں علیحدگی اختیار کرتے وقت سابقہ تعلقات اور محبت کو نہیں بھولنا چاہیے۔[ البقرۃ: ٢٣٧] علیحدگی کی صورت میں فریقین کو یہ تسلی دی جارہی ہے کہ اگر تم نے آپس میں علیحدگی کا فیصلہ کرلیا ہے تو گھبرانے اور حوصلہ ہارنے کی ضرورت نہیں اللہ تعالیٰ دونوں کو اپنے اپنے مقام پر اپنی رحمت سے نوازے گا اور ایک دوسرے سے بے نیاز کر دے گا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ وسعت و کشادگی کا مالک ہے۔ اگر اس نے تمہیں ناگزیر حالت میں ایک دوسرے سے الگ ہونے کی اجازت عنایت فرمائی ہے تو اس کی حکمت یہ ہے کہ مزید لڑائی جھگڑے سے بچاؤ معاشرے میں تمہاری عزت، خاندان میں بھرم اور اولاد کے مستقبل پر بہت زیادہ منفی اثرات مرتب نہ ہونے پائیں۔ ” حضرت عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ ثابت بن قیس (رض) کی بیوی نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئی اور اس نے کہا اے اللہ کے رسول! میں ثابت بن قیس (رض) کے اخلاق اور دین پر کوئی عیب نہیں لگاتی لیکن میں اسلام میں کفر کو ناپسند کرتی ہوں تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کیا تو اس کا باغ اس کو واپس کرے گی ؟ اس نے کہا ہاں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ثابت بن قیس کو فرمایا باغ کو قبول کرو اور اسے ایک طلاق دے دو۔“ [ رواہ البخاری : کتاب الطلاق، باب الخلع وکیف الطلاق فیہ ] مسائل ١۔ ناگزیر صورت حال میں میاں‘ بیوی رشتہ توڑ سکتے ہیں۔ ٢۔ میاں بیوی کے درمیان تفریق ہونے کی صورت میں ہر کسی کا اللہ کفیل ہے۔ النسآء
131 فہم القرآن ربط کلام : پچھلی آیت میں دونوں کو تسلی دی تھی۔ یہاں فرمایا کہ میاں بیوی اور زمین و آسمان اللہ تعالیٰ کی ملکیت میں ہے۔ وہ سب کا رازق اور وارث ہے۔ البتہ اس کا تمہیں اور سب لوگوں کو یہی حکم تھا اور ہے کہ ظلم و زیادتی اور اللہ کی نافرمانی سے بچ کر رہنا۔ یہاں مزید تسلی دیتے ہوئے فرمایا کہ ایک گھر آباد نہیں رہا تو گھبرانے کی ضرورت نہیں۔ اللہ تعالیٰ ہی زمین و آسمان کا مالک ہے وہ تمہارے لیے کسی اور گھر کا انتظام کر دے گا۔ یہی ہدایات ان لوگوں کو دی گئیں جنہیں تم سے پہلے تورات، انجیل، زبور اور آسمانی کتابیں دی گئیں تھیں۔ تمہیں بھی یہی نصیحت کی جاتی ہے کہ ہر حال میں اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو اگر تم کفر، نافرمانی اور آپس میں ظلم وزیادتی کا رویہ اختیار کرو گے تو اللہ کی بادشاہی میں کوئی خلل واقع نہیں ہوگا۔ آسمانوں کا چپہ چپہ اور زمین کا ذرہ ذرہ اسی کے زیر اقتدار ہے اور اللہ تعالیٰ بے نیاز اور حمد و ستائش کے لائق ہے کیونکہ کسی گھر کا اجڑنا اور خاندان کا بکھرنا معمولی بات نہیں لہٰذا بار بار اللہ تعالیٰ اپنی بادشاہی اور اختیارات کا ذکر فرما کر دونوں کو ایک دوسرے پر زیادتی کرنے سے باز رہنے اور ہر حال میں اللہ تعالیٰ پر بھروسہ رکھنے کی تلقین فرما رہا ہے تاکہ میاں بیوی اپنے معاملات درست رکھنے کی کوشش کریں۔ (عَنْ أَبِیْ سَعِیْدِ نِ الْخُدْرِیِّ (رض) أَنَّ رَجُلًا جَاءَ ہُ فَقَالَ أَوْصِنِیْ فَقَالَ سَأَلْتَ عَمَّا سَأَلْتُ عَنْہُ رَسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مِنْ قَبْلِکَ أُوْصِیْکَ بِتَقْوَی اللّٰہِ فَإِنَّہٗ رَأْسُ کُلِّ شَیْءٍ۔۔) [ مسند احمد : کتاب باقی مسند المکثرین، باب مسند أبی سعید الخدری] ” حضرت ابوسعید خدری (رض) بیان کرتے ہیں کہ ان کے پاس ایک آدمی نے آکر کہا مجھے نصیحت کیجئے انہوں نے کہا تو نے مجھ سے اس چیز کا سوال کیا ہے جس کے متعلق میں نے تجھ سے پہلے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا تھا۔ میں تجھے اللہ سے ڈرنے کی نصیحت کرتاہوں کیونکہ تقویٰ ہر خیر کا سرچشمہ ہے۔“ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ قَالَ سُءِلَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عَنْ أَکْثَرِ مَایُدْخِلُ النَّاسَ الْجَنَّۃَ قَالَ تَقْوَی اللّٰہِ وَحُسْنُ الْخُلُقِ) [ رواہ الترمذی : کتاب البر والصلۃ، باب ماجاء فی حسن الخلق ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کثرت کے ساتھ لوگوں کو جنت میں داخل کرنے والے عمل کے متعلق سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا اللہ کا ڈر اور اچھا اخلاق۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے اہل کتاب اور مسلمانوں کو تقوٰی کی وصیّت فرمائی ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کفر کرنے والا اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ زمین و آسمان کا مالک اور ہر چیز کا کار ساز ہے۔ تفسیر بالقرآن قرآن کے چندوصایا کا ذکر : ١۔ حضرت نوح (علیہ السلام)، حضرت ابراہیم (علیہ السلام)‘ حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) ( علیہ السلام) کو وصیّت۔ (الشوری : ١٣) ٢۔ شرک نہ کرنے اور والدین کے ساتھ احسان کرنے کی وصیّت۔ (الانعام : ١٥١) ٣۔ یتیموں کے مال اور ماپ تول پورا کرنے کی وصیّت۔ (الانعام : ١٥٢) ٤۔ صراط مستقیم پر چلنے کی وصیّت۔ (الانعام : ١٥٣) ٥۔ والدین سے احسان کرنے کی وصیّت۔ (العنکبوت : ٨، لقمان : ١٤، الاحقاف : ١٥) ٦۔ اہل کتاب اور مسلمانوں کو اللہ سے ڈرنے کی وصیّت۔ (النساء : ١٣١) ٧۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو صلوٰۃ و زکوٰۃ کی وصیّت۔ (مریم : ١٣) ٨۔ وراثت کی تقسیم کے بارے میں وصیّت۔ (النساء : ١١) ٩۔ وارثوں کو تکلیف نہ دینے کی وصیّت۔ (النساء : ١٢) ١٠۔ جانوروں کی حلّت و حرمت کے بارے میں وصیّت۔ (الانعام : ١٤٤) النسآء
132 النسآء
133 فہم القرآن ربط کلام : اگر تم اللہ کی بغاوت اور نافرمانی کرو گے تو یاد رکھو تم اس کی قدرت سے باہر نہیں ہو وہ جب چاہے گا تمہاری صف لپیٹ کر کسی اور قوم کو زمین کا وارث بنا دے گا۔ اللہ تعالیٰ کے لیے ایسا کرنا قطعاً دُشوار نہیں ہے وہ کلی طور پر ایسا کرنے پر قادر ہے۔ دنیا کی تاریخ اس بات پر گواہ ہے کہ جب بھی کسی قوم نے حد سے آگے بڑھنے کی کوشش کی تو اللہ تعالیٰ نے ان پر معاشرے کے کمزور طبقہ کو غالب کردیا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور فرعون کی کشمکش اس بات پر زندہ ثبوت ہے۔ یہودی اپنی حد سے باہر ہوئے تو ان پر عیسائیوں کو مسلط فرمایا۔ عیسائی حدود پھلانگنے لگے تو کسی دوسری قوم کو غلبہ عطا ہوا۔ مسلمانوں کی تاریخ بھی اسی حقیقت کی ترجمانی کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان میں سے ایک گروہ کو دوسرے پر کس طرح مسلط فرمایا۔ مکہ مکرمہ مرکز ہونے کے باوجود مدینہ والوں کے زیر نگین ہوا۔ حجاز پر شامیوں نے حکومت کی۔ امویوں کو اقتدار سے ہٹایا تو پانچ سو سال تک عباسیوں کا پھریرا بلند ہوا۔ پھر عباسیوں پر ترکوں کا غلبہ ہوا۔ علیٰ ھذاا لقیاس ہر دور اور قوم پر اللہ تعالیٰ کا فرمان غالب رہا کیونکہ اللہ تعالیٰ ہی ہر چیز پر قادر اور فیصلہ صادر کرنے والا ہے۔ لہٰذا جو دنیا کے صلہ کے لیے کوشش کرے گا اللہ تعالیٰ اس کی کوشش اور اپنی حکمت ومشیّت کے مطابق اسے دنیا نصیب فرمائے گا۔ جو دنیا کے ساتھ آخرت کا خواہاں ہوگا اللہ اسے بھی اس کی کوشش اور اپنی حکمت اور تقسیم کے مطابق ٰ اجر عطا فرمائے گا۔ یہاں دنیا کے طالب کو دنیا کے اجر کا اشارہ فرما کر آخرت کے ثواب کا ذکر اس لیے کیا تاکہ لوگ صرف دنیا کے لیے نہیں بلکہ دنیا و آخرت کے صلہ و ثواب کے لیے کوشش کریں۔ اللہ تعالیٰ ہر بات کو سننے والا اور ہر چیز کو دیکھنے والا ہے۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ چاہے تو موجودہ انسانوں کو ختم کر کے دوسروں کو لاسکتا ہے۔ ٢۔ دنیا اور آخرت میں اجر سے نوازنے والی اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔ النسآء
134 النسآء
135 فہم القرآن ربط کلام : سابقہ فرمان سے اس کا تعلق معنوی ہے کہ گھرسے لے کر عدالت تک انصاف پر قائم رہنا چاہیے۔ بنیادی طور پر امت مسلمہ فریضۂ شہادت کی ادائیگی کے لیے منتخب کی گئی ہے تاکہ دنیا میں اپنے قول اور فعل کے ساتھ حق کے ترجمان اور توحید کی گواہی دیتے رہیں۔ آخرت میں پہلی امتوں کے بارے میں انبیاء کی تائید اور ان کی نبوت کی شہادت دیں گے۔ جسے قرآن مجید اور رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یوں بیان فرمایا ہے : (لِتَکُوْنُوْا شُھَدَآءَ عَلَی النَّاسِ) [ البقرۃ: ١٤٣] ” تاکہ تم لوگوں پر گواہ ہوجاؤ۔“ (أَنْتُمْ شُھَدَآءُ لِلّٰہِ فِی الْأَرْضِ) [ رواہ البخاری : کتاب الجنائز، باب ثناء الناس علی المیت] ” مسلمانو! تم زمین پر اللہ کے گواہ ہو۔“ لیکن اس آیت میں لفظ ” قسط“ استعمال فرماکر عدل و انصاف قائم کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ یہی انبیاء کی بعثت اور آسمانی کتابوں کے نزول کا مقصد بیان ہوا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے کہ ہم نے رسولوں کو واضح دلائل اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان نازل کیا تاکہ وہ لوگوں کے درمیان عدل قائم کریں اور لوہا نازل کیا جس میں بڑی قوت اور لوگوں کے لیے بڑے فوائد ہیں۔[ الحدید : ٢٥] یہاں شہادت سے مراد وہ گواہی ہے جو کسی واقعہ یا مقدمہ کے ثبوت کے لیے پیش کی جاتی ہے۔ اس پر قائم ہونے کا حکم دیا ہے جس کا معنی یہ ہے کہ اس پر پوری قوت اور صلاحیت کے ساتھ قائم رہا جائے۔ اس کے پیچھے اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کے حکم کی تعمیل اور احترام کا جذبہ کار فرما ہونا چاہیے تاکہ معاشرے میں حق و انصاف کا بول بالا اور عدالتوں میں عدل کا ترازو قائم رہے۔ اس کے لیے گواہی کا عدل و انصاف کے اصول پر پورا اترنا اور قائم ہونا بے حد ضروری ہے۔ مقدمے کا ریکارڈ بھی تحریری شہادت کا درجہ رکھتا ہے۔ جج اس کا پابند ہے۔ اسے چاہیے کہ وہ اچھی طرح گواہی کی چھان بین کرے کیونکہ گواہی کا مقدمے میں بنیادی کردار ہوتا ہے۔ کتنے مقدمات کے فیصلے اس بات پر شاہد ہیں کہ جھوٹی شہادتوں کی وجہ سے بے گناہ شخص پھانسی کے پھندے پر لٹک گیا اور اصل مجرم نہ صرف دندناتے پھرتے ہیں بلکہ مزید جرائم کا ارتکاب کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ لہٰذا گواہی اللہ تعالیٰ کا حکم سمجھ کر بلا رعایت اور لحاظ واقعات کے مطابق دینی چاہیے۔ بے شک یہ گواہی انسان کے اپنے نفس، والدین، اعزہ واقرباء، مالدار یا کنگال کے خلاف ہو خواہ تمہیں ان کا مفاد اور جان کتنی ہی عزیز کیوں نہ ہو۔ والدین کا رشتہ مقدس اور قابل صد احترام، اعزہ واقرباء تمہیں بڑے پیارے، دولت مند مؤثر اور غریب قابل رحم اور خیر خواہی کے لائق ہے لیکن یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ سب کا تم سے زیادہ خیر خواہ اور ہمدرد ہے۔ تم کسی کو نہ نفع دے سکتے ہو اور نہ نقصان سے بچا سکتے ہو لہٰذا تم اچھے برے جذبات کے پیچھے لگنے کے بجائے شہادت عدل پر قائم ہوجاؤ۔ اس میں بے انصافی، لچک اور کسی قسم کا اغراض نہیں ہونا چاہیے۔ یقین جانو اللہ تعالیٰ تمہاری نیت اور عمل سے پوری طرح باخبر ہے۔ (عَنْ أَنَسٍ (رض) قَالَ سُءِلَ النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عَنِ الْکَبَآءِرِ قَالَ الْإِشْرَاک باللّٰہِ وَعُقُوْقُ الْوَالِدَیْنِ وَقَتْلُ النَّفْسِ وَشَھَادَۃُ الزُّوْرِ) [ رواہ البخاری : کتاب الشھادات، باب ماقیل فی شھادۃ الزور] ” حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کبیرہ گناہوں کے متعلق سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا : اللہ کے ساتھ شرک کرنا، والدین کی نافرمانی کرنا، کسی جان کو ناحق قتل کرنا اور جھوٹی گواہی دیناکبیرہ گناہ ہیں۔“ مسائل ١۔ مسلمانوں کو صرف اللہ کے لیے عدل وانصاف پر قائم ہونا چاہیے۔ ٢۔ عدل و انصاف کے راستے میں کسی رشتہ دار اور خواہش کو رکاوٹ نہیں بننے دینا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن عدل و قسط کی اہمیت : ١۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو عدل و انصاف کا حکم۔ (الاعراف : ٢٩) ٢۔ انصاف کی بات کہنے کا حکم۔ (الانعام : ١٥٢) ٣۔ صلح بھی عدل و انصاف سے کروانا چاہیے۔ (الحجرات : ٩) ٤۔ رسولوں کی بعثت کا مقصد انصاف قائم کرنا تھا۔ (الحدید : ٢٥) ٥۔ کسی کی دشمنی عدل و انصاف میں رکاوٹ نہیں بننی چاہیے۔ (المائدۃ: ٨) ٦۔ اللہ تعالیٰ عدل وانصاف کرنے والوں سے محبت رکھتا ہے۔ (المائدۃ: ٤٢) النسآء
136 فہم القرآن ربط کلام : شہادتِ حق و عدل پر وہی قائم رہ سکتا ہے جو حقیقی معنوں میں ایمان کے تقاضے پورے کرتا ہو۔ ایمان کے سوا گمراہی کا راستہ ہے۔ قرآن مجید میں یہی آیت مبارکہ ہے جس میں مسلمانوں کو خطاب کرتے ہوئے دوبارہ ایمان لانے کی دعوت دی گئی ہے۔ اس کے بارے میں مفسرین نے تین آراء قائم کی ہیں۔ ایک طبقہ کا خیال ہے کہ یہاں ایمان داروں سے مراد صرف دعو ٰی ایمان رکھنے والے منافقین کو خطاب کیا گیا ہے۔ امام رازی (رح) اور ان کے ہمنوا اہل علم کا خیال ہے ” اٰمِنُوْا“ سے مراد یہودی ہیں کیونکہ یہودی علماء کا ایک وفد رسول مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہو کر کہنے لگا کہ ہم حضرت موسیٰ (علیہ السلام)، حضرت عزیر (علیہ السلام) اور تورات پر ایمان رکھتے ہوئے آپ اور قرآن مجید پر ایمان لاتے ہیں لیکن ان کے علاوہ عیسیٰ (علیہ السلام) اور دوسرے انبیاء اور آسمانی کتابوں کو نہیں مانتے۔ جس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ مراد یہ ہے کہ اے لوگو! جو موسیٰ (علیہ السلام) اور عزیر (علیہ السلام) اور محمد کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لانے کا اظہار کرتے ہو تمہیں اللہ، اس کے رسول اور قرآن مجید کے ساتھ تمام انبیاء پر ایمان لانا چاہیے۔ تیسرے طبقہ کا خیال ہے کہ اس میں مسلمانوں کو ہی خطاب کیا گیا ہے جس کا معنی ہے اے ایمان کے دعویدار لوگو ! اسلام کو مکمل طور پر اپناتے ہوئے اس پر پوری استقامت کے ساتھ کاربند ہوجاؤ۔ یہاں اللہ، اس کے رسول اور قرآن مجید پر ایمان لانے کے ساتھ پہلے رسولوں اور کتابوں پر ایمان لانے کا حکم دیا ہے۔ پھر ایمان کے پانچ اجزاء کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا جو ان کا انکار کرتا ہے وہ صرف گمراہ ہی نہیں بلکہ دور کی گمراہی میں بھٹکتا رہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے کا تقاضا ہے کہ اسے اس کی ذات اور صفات کے لحاظ سے تنہا اور یکتا تسلیم کرتے ہوئے اس کے احکام کی پورے اخلاص کے ساتھ اطاعت کرو۔ ملائکہ کو اس کی بیٹیاں یا خدائی اختیارات میں شریک سمجھنے کے بجائے اس کی مخلوق تصور کیا جائے۔ پہلی کتابوں اور انبیاء پر ایمان لانے کا معنی یہ ہے کہ وہ اپنے اپنے وقت میں اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ شریعت کے داعی اور اس کے فرستادہ تھے۔ آخرت پر ایمان کا مفہوم یہ ہے کہ اس کا قائم ہونا یقینی ہے اور ہر کسی نے دو بارہ زندہ ہو کر اپنے اچھے اور برے اعمال کا اچھا یا برا صلہ پانا ہے۔ یہی وہ عقیدہ ہے جس سے آدمی کے نظریات اور کردار میں سنوار اور نکھار پیدا ہوتا ہے۔ آدمی اپنے آپ کو دنیا اور آخرت کے حوالہ سے ذمہ دار سمجھتا ہے۔ (عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ (رض) قَالَ بَیْنَمَا نَحْنُ عِنْدَ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ذَاتَ یَوْمٍ إِذْ طَلَعَ عَلَیْنَا رَجُلٌ شَدِیدُ بَیَاض الثِّیَابِ شَدِیدُ سَوَاد الشَّعَرِ لاَ یُرَی عَلَیْہِ أَثَرُ السَّفَرِ وَلاَ یَعْرِفُہُ مِنَّا أَحَدٌ حَتَّی جَلَسَ إِلَی النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَأَسْنَدَ رُکْبَتَیْہِ إِلَی رُکْبَتَیْہِ وَوَضَعَ کَفَّیْہِ عَلَی فَخِذَیْہِ قَالَ فَأَخْبِرْنِی عَنِ الإِیمَانِ قَالَ أَنْ تُؤْمِنَ باللَّہِ وَمَلاَءِکَتِہِ وَکُتُبِہِ وَرُسُلِہِ وَالْیَوْمِ الآخِرِ وَتُؤْمِنَ بالْقَدَرِ خَیْرِہِ وَشَرِّہِ )[ رواہ مسلم : باب مَعْرِفَۃِ الإِیمَانِ وَالإِسْلاَمِ ] ” حضرت عمر بن خطاب (رض) بیان کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ اچانک ایک آدمی سفید کپڑوں میں ملبوس سیاہ بالوں والا جس پر سفر کے کوئی آثار نہیں تھے اور ہم سے کوئی اسے پہچانتا نہیں تھا وہ آکر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے دو زانوں ہو کر بیٹھ گیا اور اپنی ہتھیلیوں کو اپنی رانوں پر رکھتے ہوئے عرض کی مجھے ایمان کے متعلق بتائیے آپ نے فرمایا کہ تو اللہ پر، اس کے فرشتوں پر، اس کے رسولوں پر، آخرت کے دن پر اور اچھی بری تقدیر پر ایمان لائے۔“ مسائل ١۔ مسلمانوں کو اللہ، اس کے رسول، قرآن مجید اور آسمانی کتابوں پر ایمان رکھنا چاہیے۔ ٢۔ کامل ایمان ہی نجات کا ذریعہ ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ، ملائکہ، کتب آسمانی، رسولوں اور قیامت کا انکار کرنے والا پرلے درجے کا گمراہ ہوتا ہے۔ تفسیر بالقرآن ایمان کے بنیادی ارکان : ١۔ غیب پر ایمان لانا۔ (البقرۃ: ١) ٢۔ قرآن مجید اور پہلی آسمانی کتابوں پر ایمان لانا۔ (البقرۃ: ٤) ٣۔ اللہ اور کتب سماوی پر ایمان لانا۔ (البقرۃ: ١٣٦) ٤۔ آخرت پر یقین رکھنا۔ (البقرۃ: ٤) ٥۔ انبیاء پر ایمان لانا اور ان میں فرق نہ کرنا۔ (آل عمران : ٨٤) ٦۔ رسولوں اور مومنوں کے ایمان کی تفصیل۔ (البقرۃ: ٢٨٥) ٧۔ فرشتوں اور رسولوں سے دشمنی اللہ سے دشمنی کرنا ہے۔ (البقرۃ: ٩٨) ٨۔ اللہ اور اس کے رسول کے احکامات کے درمیان فرق نہ کرنا۔ (النساء : ١٥١) النسآء
137 فہم القرآن ربط کلام : ایمان کے بعد کفر اور پھر کفر پر ڈٹ جانے والا ہدایت اور بخشش کا مستحق نہیں رہتا۔ اس آیت کا مفہوم مفسرین نے دو طرح اخذ کیا ہے۔ ایک جماعت کا خیال ہے کہ اس آیت کے مخاطب یہود ہیں جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لانے کے بعد کافر ہوئے اور انہوں نے بچھڑے کو اپنا معبود بنالیا۔ جب موسیٰ (علیہ السلام) چالیس دن کے اعتکاف کے بعد طور پہاڑ سے نیچے اترے تو ان کے سمجھانے پر یہودی دوبارہ ایمان لائے۔ جب موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد عیسیٰ (علیہ السلام) تشریف لائے تو انہوں نے ان پر ایمان لانے سے انکار کردیا اور پھر کفر میں یہ آگے ہی بڑھتے چلے گئے۔ یہاں تک کہ نبی آخرالزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بھی منکر ہوئے۔ دوسری جماعت کا کہنا ہے کہ ایمان کے بعد کفر اختیار کرنا پھر ایمان لانا اور اس کے بعد ایسا کفر اختیار کرنا کہ اس میں سخت سے سخت ہوتے گئے۔ ان سے مراد منافق ہیں جو ہمیشہ کفرو نفاق کی کشمکش میں رہتے ہیں۔ اس آیت کا یہی مفہوم لینا زیادہ بہتر ہے کیونکہ یہاں مسلسل آٹھ آیات میں منافقوں کے کردار کو نمایاں کیا گیا ہے کہ وہ دنیا کے مفاد کی خاطر کبھی اسلام کی طرف آتے ہیں اور کبھی کفر میں آگے بڑھ جاتے ہیں۔ جن لوگوں کا یہ حال ہو ان لوگوں کو اللہ تعالیٰ نہ معاف کرتا ہے اور نہ ہی صراط مستقیم کی ہدایت دیتا ہے کیونکہ ہدایت کے لیے اخلاص اور استقامت نہایت ضروری ہے۔ مگر منافقین دنیا کے مفاد کی خاطر دونوں کو اختیار کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ مرتد کو دنیا میں ہی قتل کردینے کا حکم ہے۔ (عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ (رض) قَالَ قَال النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَنْ بَدَّلَ دِیْنَہٗ فَاقْتُلُوْہُ) [ رواہ البخاری : کتاب الجھاد والسیر، باب لایعذب بعذاب اللّٰہ] ” حضرت عبداللہ بن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس نے اپنا دین تبدیل کرلیا اسے قتل کردو۔“ (عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ (رض) قَالَ کَانَ مِنَّا رَجُلٌ مِنْ بَنِی النَّجَّارِ قَدْ قَرَأَ الْبَقَرَۃَ وَآلَ عِمْرَانَ وَکَانَ یَکْتُبُ لِرَسُوْلِ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَانْطَلَقَ ھَارِبًا حَتّٰی لَحِقَ بِأَھْلِ الْکِتَابِ قَالَ فَرَفَعُوْہُ قَالُوْا ھٰذَا قَدْ کَانَ یَکْتُبُ لِمُحَمَّدٍ فَأُعْجِبُوْا بِہٖ فَمَالَبِثَ أَنْ قَصَمَ اللّٰہُ عُنُقَہٗ فِیْھِمْ فَحَفَرُوْا لَہٗ فَوَارَوْہُ فَأَصْبَحَتِ الْأَرْضُ قَدْ نَبَذَتْہُ عَلٰی وَجْھِھَا ثُمَّ عَادُوْا فَحَفَرُوْا لَہٗ فَوَارَوْہُ فَأَصْبَحَتِ الْأَرْضُ قَدْ نَبَذَتْہُ عَلٰی وَجْھِھَا ثُمَّ عَادُوْا فَحَفَرُوْا لَہٗ فَوَارَوْہُ فَأَصْبَحَتِ الْأَرْضُ قَدْ نَبَذَتْہُ عَلٰی وَجْھِھَا فَتَرَکُوْہُ مَنْبُوْذًا) [ رواہ مسلم : کتاب صفات المنافقین وأحکامھم، باب ] ” حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ ہم میں سے بنی نجار قبیلے کا ایک آدمی تھا جو سورۃ البقرۃ اور سورۃ آل عمران پڑھ چکا تھا اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس کتابت کیا کرتا تھا۔ بھاگ کر اہل کتاب کے ساتھ جاملا۔ راوی کہتے ہیں انہوں نے یہ کہتے ہوئے اسے مقام دیا کہ یہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کاتب تھا تو وہ اس وجہ سے متعجب ہوئے کچھ ہی عرصے بعد اللہ تعالیٰ نے ان میں ہی اس کی گردن توڑ دی۔ انہوں نے گڑھا کھود کر اسے دفن کیا صبح زمین نے اسے باہر پھینکا ہوا تھا۔ انہوں نے پھر گڑھا کھود کر اسے دفن کیا زمین نے اسے پھر باہر پھینک دیا پھر انہوں نے گڑھا کھود کر دفنایا زمین نے پھر اسے باہر پھینک دیا پھر انہوں نے اسے باہر ہی رہنے دیا۔“ مسائل ١۔ بار بار کفر کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ نہ معاف کرتا ہے اور نہ ہی انہیں ہدایت دیتا ہے۔ تفسیر بالقرآن ہدایت اور بخشش سے محروم لوگ : ١۔ ظالموں کو ہدایت نہیں ملتی۔ (البقرۃ: ٢٥٨) ٢۔ مرتدین ہدایت و بخشش سے محروم ہوں گے۔ (النساء : ١٣٧) ٣۔ کافروں کو معافی اور ہدایت نہیں دی جاتی۔ (النساء : ١٦٨) ٤۔ فاسقوں کو ہدایت سے نہیں نوازا جاتا۔ (المائدۃ: ١٠٨) ٥۔ جھوٹوں کو ہدایت نہیں ملتی۔ (الزمر : ٣) ٦۔ مشرک اللہ کی ہدایت سے محروم ہوتا ہے۔ (النساء : ٤٨) النسآء
138 فہم القرآن ربط کلام : منافق کفر اور ایمان کے درمیان رہتا ہے لیکن آخر میں اس کا انجام کفر پر ہوتا ہے۔ پہلے پارے کے دوسرے رکوع کی تفسیر میں واضح کیا جاچکا ہے کہ منافق کا لفظ نفق سے نکلا ہے۔ جس کا معنی ہے چوہے کی ایسی بل جس کے دو منہ ہوں۔ جب تک دونوں طرف سے بل بند نہ کی جائے چوہا قابو نہیں آسکتا۔ یہی حالت منافق کی ہوتی ہے اسے مسلمانوں کی طرف سے فائدہ ہو تو اسلام اسلام کرتا ہے اگر کفار کی طرف سے فائدہ پہنچنے کی امید ہو تو ان کا طرف دار ہوجاتا ہے۔ گویا کہ منافق عقیدے کے اعتبار سے کذّاب، کردار کے لحاظ سے دغا باز اور اخلاق کے حوالے سے مکّار اور مفاد پرست ہوتا ہے۔ اگلی آٹھ آیات میں منافق کی آٹھ بد ترین عادتوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ جس بنا پر اسے خوفناک عذاب کی خوشخبری سنائی گئی ہے۔ (١) بار بار کفر اختیار کرنا۔ (٢) مسلمانوں کی کامیابی کا مخالف ہونا اور کفار سے دلی ہمدردی رکھنا۔ (٣) ایمان میں ہمیشہ متذبذب رہنا۔ (٤) اللہ تعالیٰ کی آیات کے ساتھ کفر کرنا اور ان کا مذاق اڑانا۔ (٥) اللہ اور اس کے رسول کو دھوکہ دینے کی کوشش کرنا۔ (٦) جان بوجھ کر نماز میں غفلت اور سستی اختیار کرنا۔ (٧) اللہ تعالیٰ کے بجائے کفار سے عزت طلب کرنا۔ (٨) نماز اور نیکی کے کام نمائش کے لیے کرنا۔ مسائل ١۔ منافقوں کو درد ناک عذاب کی خوشخبری ہے۔ تفسیر بالقرآن عذاب کی خوشخبری کے مستحق : ١۔ منافقین۔ (النساء : ١٣٨) ٢۔ کفار۔ (التوبہ : ٣) ٣۔ گانے بجانے والا اور متکبر۔ (لقمان : ٧) ٤۔ متکبر گنہگار و بہتان باز۔ (الجاثیۃ: ٨) ٥۔ انبیاء اور منصف لوگوں کے قاتل۔ (آل عمران : ٢١) ٦۔ زکوٰۃ نہ دینے والے۔ (التوبہ : ٣٤) النسآء
139 فہم القرآن ربط کلام : ان آیات میں منافقین کے کردار اور ان کے انجام کے متعلق بیان ہو رہا ہے۔ جس طرح اللہ تعالیٰ ہر چیز کا خالق و مالک ہے اسی طرح وہ عزت و ذلّت کا بھی مالک ہے۔ وہ جسے چاہتا ہے اس کے حسن کردار کی وجہ سے عزت سے نوازتا ہے اور جسے چاہے اس کے گناہوں کی وجہ سے ذلت سے دوچار کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے بغیر نہ کوئی عزت دے سکتا ہے اور نہ ہی آدمی کو کوئی ذلیل و خوار کرسکتا ہے۔ ہر چیز اس کے قبضۂ قدرت میں ہے۔ اس عقیدہ کی ترجمانی اور عزت کی طلب، ذلت سے محفوظ رہنے کے لیے آل عمران آیت 26 میں دعا سکھلائی گئی ہے۔ دعا کیجیے کہ اے کائنات کے مالک تو جسے چاہتا ہے حکومت سے سرفراز کرتا ہے اور جس سے چاہتا ہے حکومت چھین لیتا ہے اور جسے تو چاہے عزتوں سے سرفراز فرماتا اور جس کو چاہے ذلیل و خوار کردیتا ہے۔ ہر قسم کی خیر تیرے ہاتھ میں ہے۔ بلاشک تو ہر چیز پر قدرت و سطوت رکھنے والا ہے۔ لیکن منافق کا حال یہ ہے کہ وہ دنیا کی عزت کی خاطر کافر اور بے ایمان شخص سے بھی عزت کا طالب ہوتا ہے۔ اس کی کاسہ لیسی اور چاپلو سی کرتا ہے چاہے اسے اپنی غیرت اور ایمان کا سودا کرنا پڑے حالانکہ ہر قسم کی عزت و رفعت اللہ ذوالجلال کے ہاتھ میں ہے۔ مسائل ١۔ ہر قسم کی عزت اللہ کے اختیار میں ہے۔ ٢۔ کفار کو دوست نہیں بنانا چاہیے۔ تفسیربالقرآن عزت اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے : ١۔ عزت اللہ کے پاس ہے۔ (فاطر : ١٠) ٢۔ عزت اللہ، اس کے رسول اور مومنوں کے لیے ہے۔ (المنافقون : ٨) ٣۔ اللہ جسے چاہتا ہے عزت دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے ذلیل کرتا ہے۔ (آل عمران : ٢٦) النسآء
140 فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ منافق اور برے لوگوں کی مجالس کے بارے میں اسی سورت کی آیت ١١٤ میں نشان دہی کی گئی ہے کہ ان کی اکثر مجلسیں خیر اور نیکی کے کام سے خالی ہوتی ہیں۔ وہاں ایسی مجالس سے اجتناب کا اشارہ دیا گیا تھا اور یہاں واضح حکم دیا ہے کہ جب تم کسی مجلس میں اللہ تعالیٰ کی آیات کا انکار اور مذاق ہوتا ہوا سنو۔ تو ایسے لوگوں کے ساتھ بیٹھنے کے بجائے وہاں سے اٹھ جاؤ۔ (الانعام : ٦٨) سوائے اس کے کہ تمہارے سمجھانے یا تمہاری حاضری کا احساس کرکے وہ لوگ اس قسم کی گفتگو ترک کردیں جس کا مطلب ہے کہ سماجی، معاشرتی ضرورت کے تحت ایسے لوگوں کی مجلس میں بیٹھنا گناہ نہیں لیکن اگر تم اللہ تعالیٰ کی آیات کے ساتھ کفر اور مذاق ہوتا ہوا دیکھو اور بیٹھے رہو۔ تو تم بھی ان جیسے شمار ہوگے۔ دنیا میں اللہ تعالیٰ نے منافقین اور کفار کو ڈھیل دے رکھی ہے لیکن جہنم میں ان سب کو اکٹھا کردیا جائے گا۔ کیونکہ دنیا میں کافر اور منافق حقیقتًا ایک جیسا کردار اور عقیدہ رکھتے تھے لہٰذا قیامت میں ان کا انجام اور مقام جہنم ہوگا۔ دوسرے مقام پر فرمایا کہ منافق جہنم کے نچلے طبقہ میں ہوں گے۔ (النساء : ١٤٥) مسائل ١۔ جس مجلس میں اللہ تعالیٰ کی آیات کا انکار اور مذاق کیا جارہا ہو اس میں بیٹھنا کفر و استہزاء کا ساتھ دینا ہے۔ تفسیر بالقرآن بری مجالس کا بائیکاٹ کرو : ١۔ جہاں اللہ کی آیات سے مذاق ہو وہاں نہ جاؤ۔ (الانعام : ٦٨) ٢۔ دین کو کھیل تماشا بنانے والوں کو چھوڑ دو۔ (الانعام : ٧٠) ٣۔ سازشیوں کی مجلسیں اچھی نہیں ہوتیں۔ (النساء : ١١٤) النسآء
141 فہم القرآن ربط کلام : منافق ابن الوقت اور مفاد کا بندہ ہوتا ہے اس لیے کافر اور مسلمان کا ساتھ دینے میں مخلص نہیں ہوتا۔ اپنے مفاد کا غلام ہونے کی وجہ سے وہ اس انتظار میں ہوتا ہے کہ جدھر سے اسے فائدہ پہنچے وہ اس فریق کے ساتھ اپنی رفاقت اور ہمدردی کا اظہار کردے۔ رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ کے منافقوں کی یہی حالت تھی۔ غزوۂ احد کے موقع پر مسلمانوں سے الگ ہو کر کفار کی تقویّت کا باعث بنے اور فتح مکہ کے وقت مسلمانوں کی قوت دیکھ کر ان سے وفا کا دم بھرتے رہے۔ جب بھی صحابہ کرام (رض) کو اللہ تعالیٰ کے فضل وکر م سے کامیابی حاصل ہوتی تو وہ اپنی نمازوں اور ظاہری مسلمانی کا واسطہ دے کر یقین دہانی کرواتے کہ ہم ذاتی مجبوریوں اور جماعتی مصلحت کی خاطر کفار کی ہاں میں ہاں ملاتے ہیں۔ جبکہ ہمارا اٹھنا بیٹھنا تمہارے ساتھ ہے لیکن جوں ہی کفار کا پلڑا بھاری دیکھتے ہیں تو انہیں اعتماد دلاتے ہیں کہ ہم تمہارے ساتھی ہیں۔ حقیقت میں ہم ہی نے تمہیں مسلمانوں سے بچایا ہے۔ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو انتباہ کررہا ہے کہ دنیا میں تمہیں مہلت دی گئی ہے۔ جس کی وجہ سے تم مسلمانوں اور کافروں کے ساتھ خلط ملط ہوئے رہتے ہو۔ قیامت کے دن کھرے اور کھوٹے کو الگ الگ کر کے ان کے درمیان فیصلہ کردیا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ منافقوں کو مومنوں پر ہرگز فوقیت نہیں دے گا۔ آیت کے آخر میں منافق کا لفظ استعمال کرنے کے بجائے کافر کا لفظ استعمال فرما کر واضح کیا ہے کہ یہ لوگ حقیقتاً کافر ہیں۔ اس آیت کے آخری الفاظ کا دوسرا مفہوم یہ ہے کہ اے مومنو! پورے اخلاص اور استقامت کے ساتھ ڈٹے رہو۔ اللہ تعالیٰ دنیا میں بھی ایسے حالات پیدا کرے گا کہ منافق مسلمانوں کے سامنے سرنگوں ہوجائیں گے۔ چنانچہ غزوۂ تبوک کے موقعہ پر منافقوں کو آپ سے سر عام معافی مانگنا پڑی۔ جیسا کہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا : (یَعْتَذِرُوْنَ إِلَیْکُمْ إِذَا رَجَعْتُمْ إِلَیْھِمْط قُلْ لَّا تَعْتَذِرُوْا لَنْ نُّؤْمِنَ لَکُمْ قَدْ نَبَّاَنَا اللّٰہُ مِنْ أَخْبَارِکُمْط وَ سَیَرَی اللّٰہُ عَمَلَکُمْ وَ رَسُوْلُہ‘ ثُمَّ تُرَدُّوْنَ اِلٰی عٰلِمِ الْغَیْبِ وَ الشَّھَادَۃِ فَیُنَبِّءُکُمْ بِمَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ سَیَحْلِفُوْنَ باللّٰہِ لَکُمْ إِذَا انْقَلَبْتُمْ إِلَیْھِمْ لِتُعْرِضُوْا عَن ھُمْط فَأَعْرِضُوْا عَنْھُمْ ط إِنَّھُمْ رِجْسٌز وَّ مَاْوٰ ھُمْ جَھَنَّمُج جَزَآءً م بِمَا کَانُوْا یَکْسِبُوْن۔ یَحْلِفُوْنَ لَکُمْ لِتَرْضَوْا عَنْھُمْ ج فَإِنْ تَرْضَوْا عَنْھُمْ فَإِنَّ اللّٰہَ لَا یَرْضٰی عَنِ الْقَوْمِ الْفٰسِقِیْنَ) [ التوبۃ: ٩٤ تا ٩٦] ” جب تم ان کے پاس آؤ گے وہ تمہارے سامنے معذرت کریں گے۔ ان سے کہہ دیجیے بہانے نہ بناؤ ہم تمہاری باتوں پر یقین نہیں کریں گے کیونکہ اللہ نے ہمیں تمہارے حالات بتلا دیے ہیں اور آئندہ بھی اللہ اور اس کا رسول تمہارے کام دیکھ لیں گے پھر تم ایسی ذات کی طرف لوٹائے جاؤ گے جو کھلے اور چھپے سب حالات جانتا ہے وہ تمہیں بتا دے گا کہ تم کیا کچھ کرتے رہے۔“ حضرت عمر (رض) فرماتے ہیں ایک دفعہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اجازت چاہی کہ میں عبداللہ بن ابی کو قتل کروں لیکن آپ نے مجھے یہ فرما کر منع کیا کہ اس طرح لوگ کہیں گے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے ساتھیوں کو قتل کروانا شروع کردیا ہے۔ چنانچہ تھوڑا ہی عرصہ گزرا تھا کہ آپ کی حکمت عملی کا یہ نتیجہ نکلا کہ منافقین ہمارے سامنے بے بس ہوگئے۔ اس طرح اللہ تعالیٰ کا وعدہ دنیا میں ہی پورا ہوا۔ [ البدایۃ والنہایۃ] مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن کفار کو مومنوں پر ہرگز فوقیت نہیں دے گا۔ ٢۔ مسلمان فتح حاصل کریں تو منافق ان کے ساتھ مل جاتے ہیں۔ ٣۔ کفار فاتح بنیں تو منافق ان کے ساتھ ہمدری کا اظہار کرتے ہیں۔ ٤۔ قیامت کو اللہ تعالیٰ سب کے درمیان فیصلہ فرمائے گا۔ تفسیر بالقرآن مسلمانوں کی کفار پر بالا دستی : ١۔ مومن اور فاسق برابر نہیں ہو سکتے۔ (السجدۃ: ١٨ ) ٢۔ مومن اور کافر برابر نہیں ہیں۔ (الانعام : ١٢٢) ٣۔ مومن کافروں سے سربلند ہیں۔ (آل عمران : ٥٥) ٤۔ متقین قیامت کو سربلند ہوں گے۔ (البقرۃ: ٢١٢) النسآء
142 فہم القرآن ربط کلام : منافقین کا کردار اللہ تعالیٰ کے معاملہ میں۔ آدمی جب مسلسل دھوکہ اور فراڈ کرنے کا روّیہ اختیار کرلے اور اس پر اس کی گرفت نہ ہو تو شیطان اس کے دل میں یہ خیال اور دلیری پیدا کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو یہ بات اس قدر نا پسند ہوتی تو مجھے ایسا کرنے کی اجازت اور طاقت نہ دیتا۔ ایسا شخص اللہ تعالیٰ کی مہلت دینے کے اصول کو بھول جاتا ہے جس کی وجہ سے وہ اپنے گھناؤنے کردار میں آگے ہی بڑھتا رہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی مہلت اس کے لیے خود فریبی اور دھوکے کا باعث بنتی ہے اس مہلت کو وہ شخص اللہ تعالیٰ کو دھوکہ دینے کے مترادف سمجھتا ہے حالانکہ مکڑی کے جالے کی طرح خود ہی اس میں پھنسا رہتا ہے۔ نماز میں سستی اور غفلت جسمانی کمزوری اور ذہنی پریشانی کی وجہ سے ہو تو اسے دور کرنے کی کوشش کرنی چاہیے کیونکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نماز میں جمائیاں لینے کو شیطانی عمل قرار دے کر اسے روکنے کا حکم دیا ہے۔ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) أَنَّ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَال التَّثَاؤُبُ فِی الصَّلَاۃِ مِنَ الشَّیْطَانِ فَإِذَا تَثَاءَ بَ أَحَدُکُمْ فَلْیَکْظِمْ مَااسْتَطَاعَ) [ رواہ الترمذی : کتاب الصلاۃ، باب ماجاء فی کراھیۃ التثاؤب فی الصلاۃ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا نماز میں جمائی شیطان کی طرف سے آتی ہے جب تم میں سے کسی کو جمائی آئے تو وہ پوری کوشش سے اسے روکے۔“ نبی محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا سستی سے پناہ مانگنا : (عَنْ أَنَسٍ (رض) أَنَّ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کَانَ یَدْعُوْ یَقُوْلُ اللّٰھُمَّ اِنِّیْٓ اَعُوْذُبِکَ مِنَ الْکَسَلِ وَالْھَرَمِ وَالْجُبْنِ وَالْبُخْلِ وَفِتْنَۃِ الْمَسِیْحِ وَعَذَابِ الْقَبْرِ) [ رواہ الترمذی : کتاب الدعوات، باب ماجاء فی جامع الدعوات] ” حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ دعا کیا کرتے تھے۔ اے اللہ! میں تجھ سے سستی، بڑھاپے، بزدلی، بخیلی، مسیح الدجال کے فتنے اور عذاب قبر سے پناہ چاہتاہوں۔“ فطری سستی اور غفلت منافقت کے زمرہ میں نہیں آتی۔ منافق تو جان بوجھ کر نماز میں لاپرواہی اور غفلت اختیار کرتا ہے کیونکہ اس کے دل میں اخلاص کے بجائے کھوٹ ہوتا ہے۔ اسی سبب وہ اپنے اعتقاد اور عمل کے حوالہ سے اسلام کے بارے میں متذبذب رہتا ہے۔ نہ مسلمانوں سے مخلص ہوتا ہے اور نہ پوری طرح کفار کے ساتھ ہوتا ہے۔ کافر اور گنہگار کے لیے توبہ کی چار شرطیں ہیں (١) آئندہ گناہ کرنے سے رکنے کا عہد (٢) سابقہ گناہوں کی معافی طلب کرنا (٣) گناہ پر شرمندگی اور ندامت (٤) اگر کسی کا حق ضبط کیا ہو تو ادا کرے۔ جبکہ منافق کی توبہ کے لیے مزید دو شرائط رکھی گئی ہیں کہ توبہ اور اصلاح کے تقاضے پورے کرتے ہوئے ایمان باللہ پر اخلاص کے ساتھ استقامت اور اپنے دین میں مخلص ہوجائے۔ (عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ شِبْلٍ الْأَنْصَارِیِّ (رض) أَنَّہٗ قَالَ إِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نَھٰی فِی الصَّلٰوۃِ عَنْ ثَلَاثٍ نَقْرِ الْغُرَابِ وَافْتِرَاش السَّبُعِ وَأَنْ یُوَطِّنَ الرَّجُلُ الْمَقَامَ الْوَاحِدَ کَإِیْطَانِ الْبَعِیْرِ) [ مسند احمد : کتاب مسند المکیین، باب زیادۃ فی حدیث عبدالرحمن بن شبل] ” حضرت عبدالرحمن بن شبل انصاری (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نماز میں تین کاموں سے منع کیا۔ (١) کوے کی طرح ٹھونگیں مارنا (٢) درندے کی طرح بازو بچھانا۔ (٣) اور اونٹ کی طرح ایک جگہ کو پکڑے رکھنا۔“ مسائل ١۔ منافق دھوکہ باز اور اللہ تعالیٰ کی یاد اور ذکر سے جی کترانے والا ہوتا ہے۔ ٢۔ منافق کا کوئی نظریہ نہیں ہوتا۔ ٣۔ منافق نماز میں جان بوجھ کر سستی کرتا ہے۔ ٤۔ منافق دکھلاوے کے لیے نیک عمل کرتا ہے۔ تفسیر بالقرآن منافقین کی نماز : ١۔ نماز میں سستی۔ (الماعون : ٥) ٢۔ نماز میں ریا کاری۔ (الماعون : ٦) النسآء
143 النسآء
144 فہم القرآن ربط کلام : کفار کے کفر اور منافقین کے گھناؤنے کردار کی وجہ سے قرآن مجید مسلمانوں کو بار بار حکم دیتا ہے کہ ان کے ساتھ قلبی دوستی سے اجتناب کیا جائے کیونکہ یہ غیرت ایمانی اور ملّی مفاد کے خلاف ہے۔ کفار اور منافقین کے ساتھ معاشرتی، سیاسی اور کاروباری تعلقات رکھے جاسکتے ہیں لیکن انہیں اپنا ہمدرد اور خیر خواہ سمجھنا مسلمانوں کا اپنے آپ کو دھوکہ دینے کے مترادف ہوگا کیونکہ یہ ملت اسلامیہ کے نقصان کے خواہاں، اللہ اور اس کے رسول کے دشمن ہیں جس کا مشاہدہ میدان احد سے لے کر ہر دور میں کیا گیا ہے۔ 2003 ء میں جب امریکہ نے عراق پر حملہ کا فیصلہ کیا تو ابتداء میں روس سمیت کئی ملکوں نے مخالفت کی لیکن جونہی امریکہ نے انہیں مفادات کا لالچ دیا تو روس عراق کا پرانا حلیف ہونے کے باوجود امریکہ کے ساتھ کھڑا ہوا۔ اس طرح پوری دنیا کا کفر مسلمانوں کے خلاف متحد ہوگیا۔ جب مسلمان کسی نکتہ پر اکٹھا ہونے کی کوشش کرتے ہیں تو کفار مسلمانوں کو تنگ نظری کا طعنہ دیتے ہیں حالانکہ ان کی اپنی حالت یہ ہے کہ دوسری جنگ عظیم 1939 میں برطانیہ نے اپنے کئی شہریوں کو اس لیے حراست میں رکھا تھا کہ ان کے تعلقات جرمن قوم کے ساتھ پائے جاتے تھے۔ یہاں تک کہ متحدہ ہندوستان کے وائسرائے لارڈ مونٹ بیٹن کا والد جو برطانوی بحری فوج کا اعلیٰ افسر تھا اسے بھی زیر حراست رکھا گیا کیونکہ وہ جاپان نژ اد تھا۔ حتی کہ جرمنوں کے ساتھ اس جنگ میں امریکہ نے اپنے ملک میں بعض لوگوں کے ساتھ بھی یہی رویّہ اختیار کیا جب کہ اسلام کفار کے ساتھ دلی دوستی اور کفار کو مسلمانوں سے مقدم سمجھنے کے سوا ان کے ساتھ سیاسی معاشرتی اور کاروباری تعلقات رکھنے کی اجازت دیتا ہے۔ مسائل ١۔ کفار کو دوست بناکر ایمانداروں کو اپنے خلاف حجّت قائم نہیں کرنی چاہیے۔ ٢۔ منافق جہنم کے نچلے طبقہ میں ہوں گے اور کوئی ان کی مدد نہیں کرسکے گا۔ النسآء
145 النسآء
146 فہم القرآن ربط کلام : کفر اور منافقت سے سچی توبہ اور اپنے کیے کی اصلاح کرنے والوں کے لیے اجر عظیم کا وعدہ اور اس بات کی وضاحت کہ اللہ تعالیٰ بندوں کے کفر پر نہیں شکر پر راضی ہوتا ہے کیونکہ وہ مومنوں اور شکر گزاروں کا قدر دان ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم کی انتہا ہے کہ منافقوں کا کردار اور ان کا انجام ذکر کرنے کے باوجود ان کے لیے نہ صرف توبہ اور بخشش کا دروازہ کھلا رکھا بلکہ انہیں توبہ کرنے کی صورت میں انعام و اکرام اور مومنوں کی رفاقت کی خوشخبری سنائی ہے۔ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ تمہیں مومنوں کے ساتھ اجر عظیم سے سرفراز کرے گا اور تمہارے اعمال و خدمات کی قدر افزائی کی جائے گی بشرطیکہ گناہوں پر اصرار کرنے کے بجائے توبہ کرو، فساد اور بگاڑ کی جگہ اپنی اصلاح کرتے ہوئے مومنوں کا ساتھ دو، متذبذب رہنے اور ابن الوقت بننے کے بجائے اللہ تعالیٰ کے ساتھ ایمان کا مضبوط رشتہ قائم کرکے اس کی رضا کے لیے اپنے دین میں مخلص ہوجاؤ۔ تمہارے عمل اور اخلاص کو نہایت ہی نظر استحسان سے دیکھا اور تمہیں بے پناہ اجر دیا جائے گا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو سزا دینے کی بجائے جزا دینا زیادہ پسند کرتا ہے بشرطیکہ وہ تسلیم و رضا کا رویہ اختیار کریں۔ بندے کا شکریہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے احکامات اور نعمتوں پر دل سے مطمئن ہو، زبان سے شکرو اعتراف کرے اور اپنے عمل سے محسن حقیقی کا اطاعت گزار بن کر رہے۔ اللہ تعالیٰ کے شاکر ہونے سے مراد بندے کی حقیر اور ناچیز اطاعت کی قدر کرنا ہے۔ اللہ تعالیٰ نہایت ہی قدر دان اور سب کچھ جاننے والا ہے۔ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَنْ تَصَدَّقَ بِعَدْلِ تَمْرَۃٍ مِّنْ کَسْبٍ طَیِّبٍ وَّلَا یَقْبَلُ اللّٰہُ إِلَّا الطَّیِّبَ فَإِنَّ اللّٰہَ یَتَقَبَّلُھَا بِیَمِیْنِہٖ ثُمَّ یُرَبِّیْھَا لِصَاحِبِہٖ کَمَا یُرَبِّیْ أَحَدُکُمْ فُلُوَّہٗ حَتّٰی تَکُوْنَ مِثْلَ الْجَبَلِ) [ رواہ البخاری : کتاب الزکوۃ، باب الصدقۃ من کسب طیب ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو آدمی کھجور کے برابر اپنی حلال کمائی سے صدقہ کرتا ہے اور اللہ کے ہاں صرف پاک چیز ہی قبول ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ اسے قبول کرکے اپنے دائیں ہاتھ میں لے کر اس کو اس طرح پالتا اور بڑھاتا ہے جیسے تم میں سے کوئی بچھڑے کو پالتا ہے حتیٰ کہ صدقہ پہاڑکی مانند ہوجاتا ہے۔“ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : (اَلتَّاءِبُ مِنَ الذَّنْبِ کَمَنْ لاَّ ذَنْبَ لَہٗ) [ رواہ ابن ماجۃ: کتاب الزھد، باب ذکر التوبۃ] ” گناہ سے توبہ کرنے والا گناہ نہ کرنے والے کی طرح ہے۔“ مسائل ١۔ توبہ اور اپنی اصلاح کرنے اور اللہ سے تعلق مضبوط رکھنے والے مومن کو اجر عظیم دیا جائے گا۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ لوگوں کو عذاب دے کر خوش نہیں ہوتا۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ ایمان لانے اور شرک سے بچنے والے کی قدر افزائی کرتا ہے۔ تفسیر بالقرآن اخلاص فی الدّین : ١۔ پہلے لوگوں کو اخلاص کا حکم۔ (البینۃ: ٥) ٢۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خالص اللہ کی عبادت کرنے کا حکم۔ (الزمر : ١١) ٣۔ سب کو خالص اللہ کی عبادت کرنے کا حکم۔ (المومن : ٦٥) ٤۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مخلص لوگوں کے ساتھ رہنے کی ہدایت۔ (الکہف : ٢٨) النسآء
147 النسآء
148 فہم القرآن ربط کلام : سابقہ آیات میں منافقوں کی دین اور مسلمانوں کے بارے میں ہرزہ سرائی اور نماز میں جان بوجھ کر غفلت اختیار کرنے کی سزا بیان کرنے کے بعد تائب ہونے والوں کو قدر افزائی کا مژدہ سنایا۔ ہرزہ سرائی سے باز نہ آنے والوں کی ایذا رسانی کے مقابلے میں مومنوں کو ایک حدتک ان کے خلاف لب کشائی کرنے کی اجازت مرحمت فرمائی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ بد اخلاقی کے مقابلے میں بھی بدخلقی کو پسند نہیں کرتا لیکن انسان کمزور اور کم حوصلہ واقع ہوا ہے اس لیے دشمن کی ایذا رسائی کے مقابلہ میں مظلوم اور دکھیارے مسلمانوں کو اخلاقی حدود میں رہتے ہوئے یہ حق دیا گیا ہے کہ وہ ظالم کے ظلم کو آشکار اکر سکیں تاکہ مظلوم کے ردّ عمل اور معاشرے کے اخلاقی دباؤ کی وجہ سے ظالم اپنے آپ میں شرمندگی محسوس کرتے ہوئے ظلم سے باز آ جائے۔ دکھی انسان کو اس لیے بھی یہ حق دیا گیا ہے کہ غم میں اس کا دم گھٹنے نہ پائے اور اظہار غم سے اس کا دکھ ہلکا اور جذبات ٹھنڈے ہوجائیں۔ مفسر قرآن حضرت عبداللہ بن عباس (رض) اور ان کے شاگرد رشید حضرت قتادہ (رض) کا قول ہے کہ اس فرمان میں مظلوم کو ظالم کے خلاف بد دعا کرنے کا مکمل حق دیا گیا ہے اور یہ بھی اجازت دی گئی ہے کہ وہ اپنی بپتادوسروں کو سنائے اور ظلم کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرسکے۔ البتہ احتجاج کرتے ہوئے کسی مظلوم کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ اخلاقی حدوں سے تجاوز کرتے ہوئے ظلم کی حدود میں داخل ہوجائے کیونکہ قرآن کا طے شدہ اصول ہے۔ تاہم مظلوم کو بد زبانی کے مقابلہ میں لب کشائی کا حق دینے کے باوجود بردباری اور حوصلہ مندی کا سبق دیا ہے کہ تم اعلانیہ معاف کرو یا دل ہی دل میں اس تکلیف کی ٹیس کو برداشت کرو۔ اگر یہ نہیں ہو سکتاتو درگزر سے کام لینا چاہیے۔ اس سے برائی بڑھنے کی بجائے دب جائے گی اور یہ اس لیے بھی بہتر ہے کہ جو لوگ منافقوں اور ان کی سازشوں کو نہیں جانتے وہ یہ پروپیگنڈہ بھی نہ کرسکیں گے کہ مسلمان آپس میں دست وگریبان ہیں جس سے مسلمانوں کی ساکھ اور وقار کو دھچکا لگنے کا اندیشہ ہوسکتا ہے۔ ایسی صورتحال میں ایک موقعہ پر حضرت عمر (رض) نے عبداللہ بن ابی کی شرارتوں اور سازشوں سے مسلمانوں کو محفوظ رکھنے کے لیے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اجازت طلب کی تھی کہ اگر آپ اجازت دیں تو میں عبداللہ بن ابی کا سر قلم کردوں لیکن آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ کہہ کر منع فرمایا کہ لوگ کہیں گے (اِنَّ مُحَمَّدًا یَقْتُلُ اَصْحَابَہٗ)[ رواہ مسلم : کتاب البروالصلۃ، بَاب نَصْرِ الْأَخِ ظَالِمًا ...]” کہ محمد اپنے ساتھیوں کو قتل کرتا ہے۔“ معافی اور درگزر کا سبق دیتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے یہاں اپنی چار صفات کا ذکر فرمایا ہے کہ تمہارا رب سب کچھ سننے اور جاننے کے باوجود لوگوں کو معاف کرنے والاہے۔ اس لیے اللہ والوں کی یہ شان ہونی چاہیے کہ وہ ظلم کا بدلہ لینے کی طاقت رکھنے کے باوجود لوگوں کو معاف کرنے کی عادت اپنائیں۔ سننے اور جاننے کی صفت بیان فرما کرظالم اور مظلوم کو آگاہ کیا ہے کہ ظالم کا ظلم اور مظلوم کی مظلومیت اللہ سے پوشیدہ نہیں اس میں ظالم کو انتباہ اور مظلوم کو ایک گنا تسلی دی گئی ہے۔ (قِیْلَ نَزَلَتِ الْآیَۃُ فِیْ أَبِیْ بَکَرٍ (رض)، فَإِنَّ رَجُلاً شَتَمَہٗ فَسَکَتَ مِرَاراً، ثُمَّ رَدَّ عَلَیْہِ فَقَام النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)، فَقَالَ أَبُوْ بَکْرٍ شَتَمَنِیْ وَأَنْتَ جَالِسٌ، فَلَمَّا رَدَدْتُ عَلَیْہِ قُمْتَ، قَالَ إِنَّ مَلِکًا کَانَ یُجِیْبُ عَنْکَ، فَلَمَّا رَدَدْتَ عَلَیْہِ ذَہَبَ ذٰلِکَ الْمَلَکُ وَجَاء الشَّیْطَانْ، فَلَّمْ أَجْلِسُ عِنْدَ مُجِیْءِ الشَّیْطَانِ) (تفسیر الرازی) ” ایک موقعہ پر حضرت ابو بکر صدیق (رض) سے ایک شخص بد زبانی کر رہا تھا تنگ آکر جناب ابو بکر صدیق (رض) نے اس جیسی زبان استعمال کی تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ تم صبر اور درگزر کر رہے تھے تو تمہاری طرف سے ایک فرشتہ جواب دے رہاتھا جب تم نے اس کا جواب دیاتو اس کی جگہ اب شیطان آ گیا ہے۔“ (رازی) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان ہے : (لَیْسَ الشَّدِید بالصُّرَعَۃِ إِنَّمَا الشَّدِیدُ الَّذِی یَمْلِکُ نَفْسَہُ عِنْدَ الْغَضَبِ) [ رواہ البخاری : کتاب الادب، باب الحذر] ” قوی اور طاقت ور وہ نہیں جو کسی کو پچھاڑ دے بلکہ طاقتور وہ ہے جو غصہ کے وقت اپنے آپ پر قابو رکھے“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ بری بات کو پسند نہیں کرتا۔ ٢۔ مظلوم کی زبان سے نکلی ہوئی بری بات پر کوئی مؤ ا خذہ نہیں۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ ہر بات کو سننے والا اور جاننے والا ہے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ گناہ معاف کرنے پر قادر ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ کس بات کو پسند نہیں کرتا : ١۔ اللہ تعالیٰ بے حیائی کو پسند نہیں کرتا۔ (النساء : ٢٢) ٢۔ اللہ تعالیٰ فخر کرنے والے کو پسند نہیں کرتا۔ (النساء : ٣٦) ٣۔ اللہ تعالیٰ خیانت کرنے والے کو پسند نہیں کرتا۔ (النساء : ١٠٧) ٤۔ اللہ تعالیٰ فساد کرنے والے کو پسند نہیں کرتا۔ (المائدۃ: ٦٤) ٥۔ اللہ تعالیٰ اسراف کرنے والے کو پسند نہیں کرتا۔ (الانعام : ١٤٢) ٦۔ اللہ تعالیٰ تکبر کرنے والے کو پسند نہیں کرتا۔ (النحل : ٢٣) ٧۔ اللہ تعالیٰ اترانے والے کو پسند نہیں کرتا۔ القصص : ٧٦) ٨۔ اللہ تعالیٰ کفر کرنے والے کو پسند نہیں کرتا۔ (الروم : ٤٥) ٩۔ اللہ تعالیٰ ظلم کرنے والے کو پسند نہیں کرتا۔ (الشوریٰ : ٤٠) النسآء
149 النسآء
150 فہم القرآن ربط کلام : منافقوں کے بعد کفار کی ایک اور قسم اور ان کے کفر کا بیان۔ یہاں کفار کے ایسے کفر کی نشاندہی کی گئی ہے جس سے کچھ لوگ مخلص مسلمانوں کو مغالطہ دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ اگر کوئی شخص نبی آخر الزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یا کسی ایک نبی کا انکار کرتا ہے تو اسے اسلام سے خارج نہیں سمجھنا چاہیے ایسے لوگ بھول جاتے ہیں کہ ایمان کا پہلا اور آخری تقاضا یہ ہے کہ ہر حال میں اللہ تعالیٰ کا حکم تسلیم کیا جائے۔ اللہ تعالیٰ نے جس ایمان کا انسان سے مطالبہ کیا ہے اس کے کئی اجزاء ہیں جسے شرعی اصطلاح میں ایمان مفصّل کہا جاتا ہے جب تک ایمان کے تمام اجزاء کو تسلیم نہیں کیا جاتا کسی آدمی کو ایمان دار کہلوانے کا حق نہیں پہنچتا۔ ایمان کے تین بنیادی اجزاء ہیں ایمان باللہ، ایمان بالرسالت اور ایمان با لآخرت۔ یہ مجمل ایمان ہے باقی اجزاء اس کی تفصیل ہیں یہاں ایمان کے دوسرے بنیادی جزء یعنی ایمان بالرسالت کی تفصیل بیان ہوئی ہے کہ جو شخص کچھ انبیاء کو مانتا ہے اور کچھ یا کسی ایک کا انکار کرتا ہے اس کا ایمان نہ صرف قابل قبول نہیں بلکہ وہ حقیقت میں پکا کافر ہے۔ اس لیے کہ تمام کے تمام انبیاء ( علیہ السلام) اللہ تعالیٰ کے فرستادہ اور ایک دوسرے کی تائید و تصدیق کرنے والے تھے کسی ایک نبی کے منکر کو اس لیے بھی ایماندار تسلیم نہیں کیا جا سکتا کہ ہر نبی اور اس کی تعلیمات رسالت مآب (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تصدیق کرتی ہیں لیکن انکار کرنے والا محض ہٹ دھرمی اور تعصب کی بنیاد پر نبی آخر الزماں (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یا کسی نبی کا انکار کرتا ہے یہ احمقانہ بات ہے اور اسلام ایسی حماقت کی حوصلہ افزائی نہیں کرتا۔ اسی بنیاد پر یہودی اور عیسائی کافر قرار پاتے ہیں کیونکہ یہودی حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور نبی آخر الزمان حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نبی نہیں مانتے اور عیسائی رسالت مآب (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے منکر ہیں۔ کفر کی دوسری صورت یہ ہے کہ ایک شخص قرآن کو مانتا ہے لیکن مستند حدیث کو یہ کہہ کر رد کرتا ہے کہ بس ہمیں قرآن ہی کافی ہے۔ ایسا شخص اللہ اوراُسکے رسول کے فرامین کے درمیان تفریق پیدا کرتا ہے۔ جو اللہ اور اسکے رسول کے درمیان تفریق ڈالنے کے مترادف ہے۔ ایسا عقیدہ رکھنے و الا شخص بھی دائرہ اسلام سے خارج تصور ہوگا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کے احکام کو صحیح طور پر سمجھنے اور ان پر کما حقہ عمل کرنے کے لیے نبی آخرالزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مبعوث کیا گیا ہے جس کی عملی تفسیر نمونہ حدیث ہے۔ جو رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تفسیر اور آپ کی سنت نہیں مانتا اسے کیونکر مسلمان تسلیم کیا جائے؟ جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کے فرمان میں تفریق کرتے ہیں وہ کافر ہیں۔ ان کے لیے ذلیل کردینے والا عذاب تیار کیا گیا ہے۔ (عَنْ أَبِی رَافِعٍ (رض) وَغَیْرِہٖ رَفَعَہُ قَالَ لَا أُلْفِیَنَّ أَحَدَکُمْ مُتَّکِءًا عَلَی أَرِیکَتِہٖ یَأْتِیہٖ أَمْرٌ مِمَّا أَمَرْتُ بِہِ أَوْ نَہَیْتُ عَنْہُ فَیَقُولُ لاَ أَدْرِی مَا وَجَدْنَا فِی کِتَاب اللَّہِ اتَّبَعْنَاہُ) [ روا ھ الترمذی : کتاب العلم] ” حضرت ابورافع (رض) ان کے علاوہ اور صحابہ کرام (رض) بھی اس حدیث کو نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میں تم سے کسی کو اس طرح نہ پاؤں کہ اس کے پاس میرا کوئی فرمان آئے جس میں کسی چیز کا حکم یا کسی کام سے منع کیا گیا ہو تو وہ کہے میں اسے نہیں جانتا ہم تو فقط اس کی پیروی کریں گے جو اللہ کی کتاب میں موجود ہے۔“ مسائل ١۔ کسی ایک نبی کا انکار کرنا دائرہ اسلام سے خارج ہونے کے مترادف ہے۔ ٢۔ اللہ اور اس کے رسول کی تعلیمات میں تفریق کرناکفر ہے۔ ٣۔ کافروں کے لیے رسوا کن عذاب ہوگا۔ تفسیر بالقرآن تفریق سے بچنا چاہیے : ١۔ اللہ اور اس کے رسول کے فرمان کے درمیان تفریق جائز نہیں۔ (النساء : ٨٠۔ ١٥٠) ٢۔ مومن انبیاء کے درمیان تفریق نہیں کرتے۔ (البقرۃ: ٢٨٥) ٣۔ دین کو قائم کرو اور تفریق میں نہ پڑو۔ (الشوریٰ: ١٣) ٤۔ مومن پہلی کتب آسمانی پر ایمان لاتے ہیں۔ (البقرۃ: ٤) ٥۔ بہت سے راستوں کی اتباع نہ کرو ورنہ تفریق میں پڑجاؤ گے۔ (الانعام : ١٥٤) ٦۔ سب مل کر اللہ کی رسی کو پکڑ لو اور تفریق سے بچو۔ ( آل عمران : ١٠٣) ٧۔ تفریق اور اختلاف کرنے والوں کی طرح نہ ہوجاؤ۔ (آل عمران : ١٠٥) ٨۔ مومن سب انبیاء پر ایمان لاتے ہیں۔ (البقرۃ: ٢٨٥) النسآء
151 النسآء
152 فہم القرآن ربط کلام : منافقین اور کفار کا ذکر کرنے کے بعد سچے اور پکے مسلمان کی نشاندہی کی جارہی ہے۔ ایمان کامل کا یہ تقاضا ہے کہ اللہ کے تمام رسولوں پر ایمان لایا جائے کہ وہ اپنے اپنے زمانے میں اللہ کے برگزیدہ رسول تھے اور انہوں نے ٹھیک ٹھیک طریقہ سے اللہ تعالیٰ کے پیغام کو پہنچایا۔ جس بنا پر مقام رسالت کے حوالے سے کسی ایک کے درمیان فرق نہیں کیا جاسکتا۔ پہلے انبیاء پر صحیح ایمان لانے کا تقاضا تبھی پورا ہوسکتا ہے کہ جب جناب رسالت مآب محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو آخری نبی تسلیم کیا جائے کیونکہ تمام انبیاء اللہ تعالیٰ کے حضور آپ کی نبوت کا اقرار کرچکے ہیں۔ (آل عمران : ٨١) انہوں نے اپنی اپنی امت کو یہی پیغام دیا تھا بالخصوص حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے آپ کے لیے دعا کی اور آپ کی جائے نبوت کی نشان دہی فرمائی۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) جو کہ آپ سے پہلے نبی ہیں انہوں نے بنی اسرائیل کو آپ کی تشریف آوری کی خوشخبری دی اور آپ کے اسم گرامی سے آگاہ فرمایا۔ لہٰذا جو لوگ اس طرح ایمان لائیں گے وہ اللہ کے ہاں بے حد و حساب اجر پائیں گے۔ بتقاضائے بشریت سرزد ہونے والی ان کی خطاؤں اور گناہوں کو معاف کیا جائے گا کیونکہ اللہ تعالیٰ معاف کرنے والا نہایت مہربان ہے۔ ( رَبَّنَا وَابْعَثْ فِیْھِمْ رَسُوْلاً مِّنْھُمْ یَتْلُوْا عَلَیْہِمْ اٰیٰتِکَ وَیُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ وَیُزَکِّیْھِمْ اِنَّکَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمِ )[ البقرہ : ١٢٩] ” اے ہمارے رب ان میں ایک رسول بھیج جو انہی میں سے ہو وہ ان پر تیری آیات کی تلاوت کرے اور انہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دے اور ان کو پاکیزہ بنائے بلاشبہ تو غالب اور حکمت والاہے“ (وَإِذْ قَالَ عِیْسٰی ابْنُ مَرْیَمَ یَا بَنِیٓ إِسْرَآءِیلَ إِنِّی رَسُوْلُ اللّٰہِ إِلَیْکُم مُّصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیَّ مِنَ التَّوْرَاۃِ وَمُبَشِّرًا بِرَسُوْلٍ یَأْتِیْ مِنْ م بَعْدِیْ اسْمُہُ أَحْمَدُ)[ الصّف : ٦] ” اور جب عیسیٰ ابن مریم نے کہا اے بنی اسرائیل میں یقیناً تمھاری طرف اللہ کا رسول ہوں اور پہلے سے نازل شدہ تورات کی تصدیق کرتا ہوں اور ایک رسول کی بشارت دیتا ہوں جو میرے بعد آئے گا۔ اس کا نام احمد ہوگا۔“ (وَاِذْاَخَذَاللّٰہُ مِیْثَا قَ النَّبِیّٖنَ لِمَا اٰتَیْتُکُمْ مِّنْ کِتٰبٍ وَّحِکْمَۃٍ ثُمَّ جَآءَ کُمْ رَسُوْلُ ٗ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَکُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِہٖ وَلَتَنْصُرُنَّہٗ قَالَ ءَ اَقْرَرْتُمْ وَاَخَذْتُمْ عَلٰی ذٰلِکُمْ اِصْرِیْ قَالُوْا اَقْرَرْنَا قَالَ فَاشْھَدُوْا وَاَنَامَعَکُمْ مِّنَ الشّٰھِدِیْنَ) [ آل عمران : ٨١] ” اور جب اللہ تعالیٰ نے تمام انبیاء سے یہ عہد لیا کہ اگر میں تمہیں کتاب وحکمت عطا کروں پھر تمہارے پاس کوئی رسول آئے جو اس کتاب کی تصدیق کرتا ہے جو تمہارے پاس ہے تمہیں لازماً ایمان لانا ہوگا اور اس کی مدد کرنا ہوگی اللہ تعالیٰ نے پوچھا کیا تم اقرار کرتے ہو اور میرے اس عہد کی ذمہ داری قبول کرتے ہو ؟ انبیاء نے کہا ہم اقرار کرتے ہیں فرمایا گواہ رہو اور میں بھی تمہارے ساتھ گواہ ہوں“ ( عَنِ الْعِرْبَاضِ بْنِ سَارِیَۃَ السُّلَمِیِّ (رض) قَالَ سَمِعْتُ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَقُولُ إِنِّی عَبْدُ اللّٰہِ فِی أُمِّ الْکِتَابِ لَخَاتَمُ النَّبِیِّینَ وَإِنَّ آدَمَ لَمُنْجَدِلٌ فِی طینَتِہٖ وَسَأُنَبِّءُکُمْ بِتَأْوِیلِ ذٰلِکَ دَعْوَۃِ أَبِی إِبْرَاہِیمَ وَبِشَارَۃِ عیسیٰ (علیہ السلام) قَوْمَہُ وَرُؤْیَا أُمِّی الَّتِی رَأَتْ أَنَّہُ خَرَجَ مِنْہَا نُورٌ أَضَاءَ تْ لَہُ قُصُور الشَّامِ وَکَذٰلِکَ تَرٰی أُمَّہَات النَّبِیِّینَ صَلَوَات اللّٰہِ عَلَیْہِمْ)[ رواہ احمد] ” حضرت عرباض بن ساریہ سلمی (رض) بیان کرتے ہیں میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ بلاشبہ میں اللہ کا بندہ ہوں قرآن مجید میں مجھے خاتم النبیین قرار دیا گیا ہے اس وقت سے جب حضرت آدم (علیہ السلام) ابھی مٹی اور روح کے درمیان تھے میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی دعا، حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی بشارت اور اپنی والدہ ماجدہ کا خواب ہوں میری والدہ نے دیکھا کہ ان کے وجود سے ایک روشنی نکلی جس سے ملک شام کے محلات روشن ہوگئے۔ اور اسی طرح ہی انبیائے کرام (علیہ السلام) کی مائیں دیکھا کرتی تھیں۔“ مسائل ١۔ ایمان کا تقاضا ہے کہ بلا تفریق تمام انبیاء پر ایمان لایا جائے۔ ٢۔ کامل ایمان والوں کے لیے بے حدو حساب اجر ہوگا۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ گناہوں کو معاف کرنے اور رحم کرنے والا ہے۔ النسآء
153 فہم القرآن ربط کلام : اہل کتاب موقعہ بموقعہ مختلف الفاظ اور انداز میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت پر اعتراض اٹھاتے رہتے تھے اسی سبب سے وہ آپ کی نبوت کا انکار اور انبیاء کے درمیان تفریق کرتے تھے جس کا سورۃ الانعام، آیت : ١٢٤ میں یہ جواب دیا گیا۔ کسی کو نبوت عطا کرنا اللہ تعالیٰ کا خاص کرم ہوا کرتا ہے جس کے بارے وہی جانتا ہے کہ کون سے کندھے بار نبوت اٹھا سکتے ہیں اور کس کا سینہ انوار نبوت کو سما سکتا ہے اور کون سی زبان اس کا حق ادا کرسکتی ہے اہل کتاب کے اعتراض کا مقصد یہ تھا کہ نبوت ہماری بجائے اسماعیل (علیہ السلام) کے خاندان کو نہیں ملنی چاہیے تھی اب اہل کتاب اس بات کو دوسرے انداز میں پیش کرتے ہیں کہ کیا وجہ ہے کہ اے محمد کتاب تجھ پر نازل ہوئی ہے اور ہم پر نہیں اتری۔ ہم تب ایمان لائیں گے کہ جب ہم پر کتاب نازل کی جائے اور اس میں ہمیں براہ راست ایمان لانے کی دعوت دی جائے۔ یہاں اس بیہودہ سوال کا جواب فقط اتنا ہی دیا گیا ہے کہ یہ لوگ اس سے بڑھ کر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو لایعنی سوال کرچکے ہیں۔ جب کوہ طور سے موسیٰ (علیہ السلام) لکھی ہوئی کتاب ان کے پاس لائے تو یہ کہنے لگے کہ ہم اس کتاب کی تصدیق تب ہی کرسکتے ہیں کہ جب ہم براہ راست اللہ تعالیٰ کو خود دیکھ لیں ہمیں یقین ہو کہ واقعی ہی اللہ تعالیٰ کوہ طور پر آ کر آپ سے ہم کلامی کرتا ہے تب ان کے گستاخانہ مطالبے کی پاداش میں کڑک نے انہیں آ لیا اور وہ اس وقت مر گئے لیکن موسیٰ (علیہ السلام) کی دعا کے صلہ میں انہیں دوبارہ زندہ کیا گیا۔ (الاعراف : ١٥٥) اس جواب کے ساتھ ان کے جرائم پر مشتمل درج ذیل فرد جرم عائدکر دی گئی جس میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دی گئی ہے کہ ایسی باتیں کرنا ان کا پرانا وطیرہ ہے اس کے ساتھ بھی مسلمانوں کو بے مقصد سوال کرنے سے احتراز کرنے کی نصیحت کی گئی ہے اور یہود کو انتباہ کیا گیا ہے کہ باز آجاؤ تمہاری بھلائی اسی میں ہے ورنہ تمہارے آباؤ اجداد کی طرح تمہیں بھی نیست و نابود کردیا جائے گا۔ ہاں تم وہی لوگ ہو جنہیں موسیٰ (علیہ السلام) نے بڑے بڑے معجزات دکھائے جن میں موسیٰ (علیہ السلام) کے ہاتھ کا چودہویں رات کے چاند کی طرح چمکنا، لاٹھی کا اژدہا بن کر جادوگروں کی رسیوں اور لاٹھیوں کو نگل جانا، ملک کے جادو گر جو مصر کے چنے ہوئے دانشور تھے ان کا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لانا، بنی اسرائیل یعنی تمہارا بحفاظت دریا عبور کرنا، فرعون اور اس کے لشکروں کا غرقآب ہونا۔ ان عظیم معجزات کے باوجود جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) طور پر گئے تو تمہارا بچھڑے کو مشکل کشا اور معبود بنا ناان بڑے جرائم کے باوجودہمارا تم کو معاف کردینا۔ یہودیوں کی گستاخیاں اور بے ہودہ اعتراض : ١۔ سرور دوعالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اعتماد اور یقین کرنے کے بجائے اپنے آپ پر کتاب نازل کیے جانے کا مطالبہ کرنا۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ کو براہ راست دیکھنے کا مطالبہ کرنا۔ ٣۔ بچھڑے کو معبود بنانا۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ سے کیے ہوئے پختہ عہد کو توڑنا۔ ٥۔ سجدہ کرنے کی بجائے کلام اللہ کو بدلنا اور تمرداختیار کرنا۔ ٦۔ ہفتہ کے دن مچھلیاں پکڑنا۔ ٧۔ اللہ تعالیٰ کی آیات کا انکار کرنا۔ ٨۔ انبیاء (علیہ السلام) کو ناحق قتل کرنا۔ ٩۔ تعصب اور حسد کی وجہ سے اپنے دلوں کو ملفوف قرار دینا۔ ١٠۔ حضرت مریم [ پر بدکاری کا الزام لگانا۔ ١١۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو قتل کرنے کا دعوی کرنا۔ مسائل ١۔ بے مقصد سوال کرنے سے احتراز کرنا چاہیے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ کو دیکھنے کا مطالبہ کرنا پرلے درجے کی گستاخی ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو واضح دلائل عطا فرمائے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ نے یہودیوں کو بار بار معاف کیا۔ تفسیر بالقرآن یہودیوں کے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے مطالبات : ١۔ ہم اللہ کو اپنے سامنے دیکھنا چاہتے ہیں۔ (البقرۃ: ٥٥) ٢۔ ہم ایک کھانے پر اکتفا نہیں کرسکتے۔ (البقرۃ : ٦١) ٣۔ گائے کے بارے میں بار بار سوال کرنا۔ (البقرۃ: ٦٨) ٤۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا اپنی قوم کے لیے پانی طلب کرنا۔ (البقرۃ: ٦٠) ٥۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے مقتول کے بارے میں سوال کرنا۔ (البقرۃ: ٧٢) ٦۔ قوم کا مختلف عذابوں سے نجات کے لیے درخواست کرنا۔ (الاعراف : ١٣٤) النسآء
154 فہم القرآن ربط کلام : یہودی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت پر ہی اعتراض اور سوال نہیں کرتے بلکہ انھوں نے ہر نبی کی ذات پر الزامات لگائے اور اس کی نبوت پر اعتراض کیے۔ ایسا کرنا ان کی پرانی عادت ہے۔ اللہ تعالیٰ کو براہ راست دیکھنے کا مطالبہ اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی چند دنوں کی غیر حاضری پر بچھڑے کو معبود بنانا اور بعدازاں اللہ تعالیٰ نے ان کے سروں پر کوہ طور منڈلاکر اس بات کا عہد لیا کہ آئندہ تورات کے احکامات پر سختی کیساتھ عمل کرتے رہوگے۔ یہاں اہل کتاب سے مراد صرف یہودی ہیں جو کوہ طور پر اللہ تعالیٰ سے پختہ اقرار کرنے کے باوجود اپنے عہد سے منحرف ہوگئے فتح ایلیاء یعنی بیت المقدس کی کامیابی کے وقت انہیں ہدایت کی گئی تھی کہ تم اللہ کے حضور سجدہ کرتے اور معافی مانگتے ہوئے شہر کے دروازے میں داخل ہونا۔ لیکن انھوں نے نہ صرف استکبار اور جور واستبداد کا مظاہرہ کیا بلکہ سرے سے ہی فرمان الٰہی حِطَّۃٌ کو حِنْطَۃٌ میں تبدیل کردیا، جب انہیں ہفتہ کے دن میں عبادت کرنے کا حکم دیا گیا تو انہوں نے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرتے ہوئے مچھلیاں پکڑنے کے لیے حیلہ بازی سے کام لیا۔ اس کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ کی آیات کا مسلسل انکار کرنے اور انبیائے کرام (علیہ السلام) کو ناحق قتل کرنے کے سنگین جرم میں ملوث ہوئے، جب انہیں ان جرائم سے باز رہنے کی تلقین کی جاتی تو دنیاوی مفادات کے حصول اور طبعی رعونت کی بنا پر انبیاء اور صالحین کو جواب دیتے کہ ہمیں تمہاری باتیں سمجھ میں نہیں آتیں جسکا دوسرا معنی یہ تھا کہ تم جس قدر چاہو ہمیں سمجھاؤ۔ ہم اپنی ضد سے باز آنے والے نہیں ہیں۔ اس طرح حق کے مقابلہ میں تعصب کی انتہا کو پہنچ چکے تھے۔ جس تعصب اور رعونت پر وہ فخر کرتے تھے وہ درحقیقت اللہ تعالیٰ کے غضب کا نتیجہ تھا۔ جس وجہ سے ان کے دلوں پر کفر کی مہریں ثبت کردی گئیں ا سی کا نتیجہ ہے کہ انہوں نے حضرت مریم [ جیسی پاکدامنہ خاتون پر بد کاری کا سنگین الزام عائد کیا اور اب تک یہودی ایسی یاوا گوئی کرتے ہیں۔ اسی لیے یہودیوں میں بہت کم لوگ اسلام قبول کرتے ہیں۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے اہل کتاب کو عاجزی اختیار کرنے کا حکم دیا ہے۔ ٢۔ بنی اسرائیل عہد شکن قوم ہے۔ ٣۔ یہودی انبیاء کے قاتل ہیں۔ ٤۔ آدمی کی بار بار سرکشی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ اس کے دل پر مہر لگا دیتا ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ ہی رفعت عطا کرنے والا ہے : ١۔ اللہ وہ ہے جس نے آسمانوں کو بغیر ستونوں کے بلند کیا۔ (الرعد : ٢) ٢۔ اللہ تعالیٰ نے بعض کو بعض پر فضیلت عطا فرمائی۔ (الانعام : ١٦٦) ٣۔ ہم نے حضرت ادریس کو اعلیٰ مقام پر اٹھایا۔ (مریم : ٥٧) ٤۔ اللہ ہی درجات بلند کرنے والا ہے۔ (الانعام : ٨٣) ٥۔ اللہ نے اہل علم کے درجات کو بلند فرمایا ہے۔ (المجادلۃ : ١١) ٦۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ نے اپنی طرف اٹھا لیا ہے۔ (النساء : ١٥٨) ٧۔ نیک عمل اللہ تعالیٰ کی طرف بلند ہوتے ہیں۔ (الفاطر : ١٠) النسآء
155 النسآء
156 فہم القرآن ربط کلام : یہودیوں کے جرائم کی فہرست جاری ہے۔ یہود حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں اس قدر تعصب کا شکار ہوئے کہ انہوں نے نہ صرف عیسیٰ (علیہ السلام) کو قتل کرنے کی سازش کی بلکہ انکی عابدہ اور عفیفہ ماں حضرت مریم [ پر بد کاری کا الزام عائد کیا حالانکہ حضرت مریم [ کی حیات طیبہ اور ان کے خاندان کا تقدس ضرب المثل اور شہرہ آفاق تھا۔ اس کیساتھ عیسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی والدہ ماجدہ کی برأت کی شہادت اور اپنی نبوت کی اس وقت گواہی دی جب آپ چند دنوں کے نومولود تھے۔ اس معجزانہ اور معصومانہ گواہی کے چرچے سارے عالم میں اس طرح مشہور اور گہرے اثرات کے حامل ہوئے جس سے لوگ حضرت مریم [ کی تقدیس و تکریم کے اس قدر معترف ہوئے کہ کوئی بدکار سے بدکار شخص بھی حضرت مریم کے بارے میں برے خیالات کا اظہار تو درکنار منفی سوچ کا تصور بھی نہیں کرسکتا تھا۔ لیکن جونہی حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے تیس سال کے بعد توحید خالص کا پرچار اور پیغمبرانہ دعوت کا آغاز کرتے ہوئے یہود کے سیاسی رہنماؤں اور مذہبی پیشواؤں کو ان کی کوتاہیوں پر ٹوکا تو یہ لوگ نہ صرف عیسیٰ (علیہ السلام) کے مخالف ہوئے بلکہ کمینگی میں اتنا آگے بڑھے کہ حضرت مریم [ پر بدکاری اور بے حیائی کا الزام لگایا تاکہ عیسیٰ (علیہ السلام) کو ولد الزنا ثابت کرکے لوگوں کو ان سے متنفر کیا جائے۔ یہود کی بد زبانی اور الزام تراشی کا جواب دیتے ہوئے قرآن مجید نے نہ صرف عیسیٰ (علیہ السلام) اور ان کی والدہ معظمہ کی برات کا اظہار فرمایا بلکہ ان کے خاندانی پس منظر 249 عظیم تقدس اور ان کے نانا حضرت عمران کی کرامات اور ان کی نانی محترمہ کی عظیم قربانی جو انہوں نے حضرت مریم کو اللہ کی عبادت کے لیے وقف کرنے کی صورت میں دی اس کا تفصیلی تذکرہ کیا ہے یہ عیسائیوں پر قرآن مجید کا اتنا بڑا احسان ہے کہ جس کا وہ قیامت تک بدلہ نہیں چکا سکتے۔ مسائل ١۔ یہودیوں کے کفر اور حضرت مریم [ پر الزام لگانے کی وجہ سے ان پر اللہ تعالیٰ کی پھٹکار ہوئی۔ ٢۔ حضرت مریم [ پاکباز اور پاکدامن خاتون تھیں۔ النسآء
157 فہم القرآن ربط کلام : گزشتہ سے پیوستہ۔ اللہ تعالیٰ نے جس طرح نبی آخر الزماں (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ارشاد فرمایا کہ میرے رسول بےدھڑک اپنا کام کرتے جائیے ہم آپ کو لوگوں کی سازشوں اور شرارتوں سے محفوظ رکھیں گے۔ اسی طرح ہی اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) سے وعدہ فرمایا تھا کہ تیرے دشمن جتنی چاہیں سازشیں اور شرارتیں کرلیں وہ تیرا کچھ نہیں بگاڑ سکتے کیونکہ میں تجھے تیرے دشمنوں سے بچاؤں گا چنانچہ یہودیوں نے جب عیسیٰ (علیہ السلام) کو تختہ دار پر لٹکانے کی کوشش کی تو جہاں عیسیٰ (علیہ السلام) محصور کیے گئے تھے انہیں لینے کے لیے یہودا نامی شخص اندر گیا جس کے بارے میں قرآن مجید نے اشارہ کیا ہے کہ یہ غدّارجب باہر آیا تو اسے عیسیٰ (علیہ السلام) کے ہم شکل کردیا گیا۔ قرآن مجید کی اس وضاحت کے باوجود بائبل میں لکھا ہے کہ سولی کے وقت عیسیٰ (علیہ السلام) کے چہرہ پر تھوکا گیا اور انہیں کانٹوں کا ہار پہنا کر بڑی ذلت کے ساتھ تختۂ دار پر لٹکایا گیا اگر ان روایات کو صحیح مان لیا جائے تو اس سے مراد وہ شخص ہے جو آخری وقت تک واویلا کرتا رہا کہ میں عیسیٰ نہیں یہودا ہوں۔ لیکن اس کے باوجود اسے سولی پر لٹکادیا گیا جہاں تک عیسیٰ (علیہ السلام) کی ذات اقدس کا معاملہ ہے اللہ تعالیٰ نے انھیں اس قدر جمال اور جلال بخشا تھا کہ کوئی شخص انکے سامنے ایسی حرکت کرنے کی جرات نہیں کرسکتا تھا اور ہر آڑے و قت میں اللہ تعالیٰ کے حکم سے جبریل امین (علیہ السلام) انکی مدد کیا کرتے تھے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدہ کے مطابق انہیں آسمانوں پر اٹھا لیا اور قیامت کے دن حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اہل کتاب کے شرک اور بغاوت کے خلاف شہادت دیں گے۔ النسآء
158 لوگوں کے تعجب کو دور کرنے اور نام نہاد دانشوروں کی دانش کو لگام دینے کے لییعَزِیْزاً حَکِیْماً کے الفاظ کے ذریعے وضاحت فرمائی کہ اللہ تعالیٰ انہیں آسمان کی طرف اٹھانے اور ان کے دشمنوں سے بچانے پر قادر ہے اللہ تعالیٰ انھیں آسمان پر اٹھانے اور قیامت کے قریب زمین پر بھیجنے کاراز جانتا ہے لہٰذا عیسیٰ (علیہ السلام) کے رفع آسمانی کے بارے میں اختلاف کرنے والے صرف اٹکل پچوسے کام لے رہے ہیں۔ یہاں یہودیوں کے دعویٰ کی تردید کرتے ہوئے وضاحت فرمائی کہ یقیناً عیسیٰ (علیہ السلام) سولی نہیں چڑھائے گئے۔ مزید ارشاد فرمایا کہ اہل کتاب اپنی موت سے پہلے اس بات پر ایمان لائیں گے یہاں اہل کتاب سے مراد وہ لوگ ہیں جو قرب قیامت حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی زمین پر آمد اور انکی وفات کے وقت موجود ہوں گے۔ بعض لوگوں نے کچھ اقوال کی بنیاد پر لکھا ہے کہ ” قَبْلَ مَوْتِہِ“ سے مرادہر مرنے والا عیسائی اور یہودی ہے۔ جب یہودی اور عیسائی کو موت آتی ہے تو اس کے سامنے ایسے قرائن لائے جاتے ہیں جس سے اسے یقین آجاتا ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) ابھی زندہ ہیں لیکن اس بات کو کسی ٹھوس دلیل کے ساتھ ثابت نہیں کیا جاسکتا۔ کیونکہ قَبْلَ مَوْتِہٖ الفاظ کا حقیقی معنی احادیث کی روشنی میں متعین ہوچکا ہے۔ یہودی عیسیٰ (علیہ السلام) کو سولی پر لٹکانے کا دعویٰ کرتے ہیں ان کی تائید میں عیسائیوں کی اکثریت نے اپنے مفاد کی خاطریہ عقیدہ گھڑ لیا ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) واقعی ہی فوت ہوچکے ہیں۔ حالانکہ عیسیٰ (علیہ السلام) قیامت کے قریب دوبارہ زمین پر تشریف لائیں گے۔ یہودیوں کے دلائل سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مرزائی کہتے ہیں کہ واقعی عیسیٰ (علیہ السلام) مصلوب ہوچکے ہیں جس عیسیٰ مسیح کے دوبارہ آنے کا حدیث میں ذکر ملتا ہے وہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نہیں بلکہ مرزا ہے جو مسیح بن کر آ چکا ہے لہٰذا عیسیٰ (علیہ السلام) دوبارہ نہیں آئیں گے۔ (ِعنَ أَبَی ہُرَیْرَۃَ (رض) عَنْ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ لَا تَقُوم السَّاعَۃُ حَتّٰی یَنْزِلَ فیکُمْ ابْنُ مَرْیَمَ حَکَمًا مُقْسِطًا فَیَکْسِرَ الصَّلِیبَ وَیَقْتُلَ الْخِنْزِیرَ وَیَضَعَ الْجِزْیَۃَ وَیَفِیضَ الْمَالُ حَتّٰی لَا یَقْبَلَہُ أَحَدٌ)[ رواہ البخاری : کتاب ا لمظالمِ، بَاب کَسْرِ الصَّلِیبِ وَقَتْلِ الْخِنْزِیر] حضرت ابوہریرہ (رض) نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا بیان نقل کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا کہ قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی جب تک حضرت عیسیٰ ابن مریم (علیہ السلام) عادل حکمران کی حیثیت سے نہیں آئیں گے وہ صلیب کو توڑدیں گے، خنزیر کو قتل کردیں گے۔ جزیہ ختم کردیں گے۔ مال ودولت کی اس قدربہتات ہوگی کہ صدقہ وخیرات لینے والا نہیں ہوگا۔“ (عن عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ سَلَامٍ (رض) عَنْ أَبِیہٖ عَنْ جَدِّہٖ قَالَ مَکْتُوبٌ فِی التَّوْرَاۃِ صِفَۃُ مُحَمَّدٍ وَصِفَۃُ عیسَی ابْنِ مَرْیَمَ[ یُدْفَنُ مَعَہُ) [ رواہ الترمذی : کتاب المناقب، بَاب فِی فَضْلِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ] ” حضرت عبداللہ بن سلام (رض) اپنے والد اور وہ اپنے دادا سے بیان کرتے ہیں کہ تورات میں حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور حضرت عیسیٰ ابن مریم ( علیہ السلام) کی صفات لکھی ہوئی ہیں کہ عیسیٰ (علیہ السلام) حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ دفن ہوں گے۔“ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) أَنَا أَوْلَی النَّاسِ بِعِیسَی ابْنِ مَرْیَمَ فِی الدُّنْیَا وَالآخِرَۃِ، وَالأَنْبِیَاءُ إِخْوَۃٌ لِعَلاَّتٍ، أُمَّہَاتُہُمْ شَتَّی، وَدِینُہُمْ وَاحِدٌ ) [ رواہ البخاری : باب واذْکُرْ فِی الْکِتَابِ مَرْیَمَ إِذِ انْتَبَذَتْ مِنْ أَہْلِہَا ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میں دنیا و آخرت میں عیسیٰ بن مریم کے زیادہ قریب ہوں اور تمام انبیاء (علیہ السلام) علاتی بھائی ہیں ان کی مائیں مختلف ہیں اور دین ایک ہی ہے۔“ مسائل ١۔ یہودیوں نے عیسیٰ ابن مریم (علیہ السلام) کو نہ قتل کیا اور نہ ہی انہیں سولی پر لٹکایا۔ ٢۔ عیسیٰ (علیہ السلام) کی موت کے بارے میں لوگ اپنی طرف سے اٹکل پچو لگاتے ہیں۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ نے عیسیٰ (علیہ السلام) کو اپنی طرف اٹھا لیا ہے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ ہر کام کرنے پر غالب اور اس کے ہر کام میں حکمت پنہاں ہوتی ہے۔ النسآء
159 النسآء
160 النسآء
161 فہم القرآن ربط کلام : گزشتہ سے پیوستہ : یہودیوں کے جرائم کی فہرست جاری ہے۔ یہودیوں کی حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) پر زیادتیوں اور پے درپے حیلہ سازیوں، گستاخیوں اور تہمتوں کی وجہ سے جن میں انبیاء کو قتل کرنا، شرک کا ارتکاب کرنا، سود کو جائز قرار دینا حالانکہ ان پر حرام کیا گیا تھا، دوسروں کا ناجائز طریقے سے مال کھانے اور لوگوں کو اللہ کی راہ سے روکنے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان کی سرکشی اور تمرد میں کمی لانے اور انکی ہوس زر کی آگ کو ٹھنڈا کرنے کے لیے چند حلال چیزوں کو ان پر حرام قراردے دیا۔ جس طرح مریض کو بیماری سے بچانے کے لیے حکیم حاذق اس پر کچھ پابندیاں اور احتیاطیں لازم قراردیتا ہے اگر مریض صحت یاب ہوجائے تو پابندیاں اٹھالی جاتی ہیں ورنہ انہی پابندیوں کے ساتھ مریض موت کی آغوش میں چلا جاتا ہے یا مراعات یافتہ آدمی کو اس کی غلطی پر سرزنش کرنے کے لیے اس سے کچھ مراعات اور اختیارات واپس لے لیے جاتے ہیں۔ یہودیوں کیساتھ بھی ایسا ہی کیا گیا تاکہ وہ اپنی سرکشی و بغاوت سے باز آجائیں لیکن انہوں نے اپنی روایتی بغاوت کو برقرار رکھا اور پابندیوں اٹھائے ہوئے انکی نسلیں ختم ہوگئیں جنہیں قیامت کے دن ہولناک عذاب کا سامنا کرنا پڑے گا۔ تقریباً پانچ سو سال کے بعد عیسیٰ (علیہ السلام) نے آکر کچھ پابندیاں ختم فرمائیں جن کا تذکرہ قرآن مجید کی آیت میں کیا گیا ہے۔ یہودیوں پر جو پابندیاں عائد کی گئی تھیں سورۃ الانعام ١٤٦ میں بیان ہوئی ہیں۔ (وَعَلَی الَّذِینَ ہَادُواْ حَرَّمْنَا کُلَّ ذِی ظُفُرٍ وَمِنَ الْبَقَرِ وَالْغَنَمِ حَرَّمْنَا عَلَیْہِمْ شُحُومَہُمَا إِلاَّ مَا حَمَلَتْ ظُہُورُہُمَا أَوِ الْحَوَایَا أَوْ مَا اخْتَلَطَ بِعَظْمٍ ذٰلِکَ جَزَیْنَاہُم بِبَغْیِہِمْ وِإِنَّا لَصَادِقُونَ) [ الأنعام : ١٤٦] ” اور ان لوگوں پر جو یہودی ہوئے ہم نے ہر ناخن والا جانور حرام کیا تھا نیز ان پر گائے اور بکری کی چربی بھی حرام کی الّا یہ کہ وہ پشتوں، آنتوں سے لگی ہو یا ہڈیوں سے چمٹی ہوئی ہو۔ ہم نے ان کی سرکشی کی سزا کے طور پر ایسا کیا اور ہم بالکل سچ کہہ رہے ہیں۔“ مسائل ١۔ آدمی کی ناشکری کی وجہ سے اللہ کی نعمتیں چھن جاتی ہیں۔ ٢۔ یہودیوں کی سرکشی کم کرنے کے لیے چند حلال چیزیں ان پر حرام کی گئیں۔ ٣۔ اللہ کے راستے سے روکنا بہت بڑا گناہ ہے۔ ٤۔ سود اور ناجائز مال کھانے والوں کو دردناک عذاب ہوگا۔ تفسیر بالقرآن یہودونصاریٰ کے ظلم : ١۔ یہودیوں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو پھانسی دینے کی کوشش کی۔ (النساء : ١٥٧) ٢۔ اللہ تعالیٰ کی آیات میں تحریف کرنا۔ (النساء : ٤٦) ٣۔ زبان مروڑ کر کلام اللہ کا مفہوم بدلنا۔ (آل عمران : ٧٨) ٤۔ اللہ کی حلال کردہ چیزوں کو حرام قرار دینا، اللہ کے راستہ سے روکنا، سود کھانا اور لوگوں کا مال غلط طریقہ سے کھانا۔ (النساء : ١٦٠، ١٦١) ٥۔ بار بار وعدہ کی خلاف ورزی کرنا، اللہ کی آیات کا انکار اور انبیاء کو قتل کرنا، حضرت مریم [ پر الزام لگانا۔ (النساء : ١٥٥) النسآء
162 فہم القرآن ربط کلام : یہودیوں سے اچھے لوگوں کا استثنیٰ اور ان کی خوبیوں کا ذکر۔ قران مجید کے اسلوب بیان اور انصاف پسندی پر قربان جائیں جو نہی یہود و نصاریٰ کے جرائم کی فہرست اور انکے مذہبی اور سیاسی راہنماؤں کے گھناؤنے کردار کا ذکر کرتا ہے۔ معاً ان کے نیک علماء اور زعما کے اچھے کردار کی تحسین کرتا ہے کہ بے شک انکی اکثریت برے لوگوں پر مشتمل ہے لیکن یہ تمام کے تمام ایسے نہیں ان میں ایسے لوگ بھی ہیں اور ہوں گے کہ جب بھی ان کے سامنے حقائق منکشف ہوتے ہیں تو وہ مذہبی تعصب اور گروہ بندی کی دیواریں توڑ کر حلقہ اسلام میں داخل ہوجاتے ہیں اور تمام اعمال بجا لاتے ہیں جن کا اسلام انہیں کرنے کا حکم دیتا ہے۔ اس طرح وہ اپنے دامن عمل میں ہر خیر ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں جن سے انکا رب راضی ہوتا ہے۔ ایسے خوش نصیب اور عظیم لوگوں کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ عنقریب ان کو دنیا میں عزت و رفعت ملے گی اور آخرت میں ا جر عظیم سے نوازا جائے گا۔ راسخ العلم کی سورۃ آل عمران آیت ٧ میں تعریف کی گئی ہے کہ وہ متشابہات کے پیچھے لگنے کی بجائے مرکزی اور بنیادی احکام کو سامنے رکھتے ہوئے متشابہ آیات کا مفہوم متعین کرتے ہیں اور ان کے اوصاف یہ ہیں کہ یہ لوگ ہر حال میں اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتے ہیں۔ اس سے استقامت اور رحمت کے طلبگار رہتے ہیں یہاں دین کے چار بنیادی عناصر کا ذکر کیا گیا ہے۔ کتب آسمانی اور قرآن مجید پر مکمل ایمان لانا نماز کو اس کے تقاضوں کے ساتھ ادا کرنا، زکوٰۃ کی ادائیگی کا اہتمام کرنا اللہ تعالیٰ اور آخرت پر ایمان لانا شامل ہے ایسے لوگوں کے اجر عظیم کے بارے میں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یوں ارشاد فرمایا ہے : (عن أَبی بُرْدَۃَ (رض) أَنَّہُ سَمِعَ أَبَاہُ عَنْ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ ثَلَاثَۃٌ یُؤْتَوْنَ أَجْرَہُمْ مَرَّتَیْنِ الرَّجُلُ تَکُونُ لَہُ الْأَمَۃُ فَیُعَلِّمُہَا فَیُحْسِنُ تَعْلِیمَہَا وَیُؤَدِّبُہَا فَیُحْسِنُ أَدَبَہَا ثُمَّ یُعْتِقُہَا فَیَتَزَوَّجُہَا فَلَہُ أَجْرَانِ وَمُؤْمِنُ أَہْلِ الْکِتَابِ الَّذِی کَانَ مُؤْمِنًا ثُمَّ اٰمَنَ بالنَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَلَہُ أَجْرَانِ وَالْعَبْدُ الَّذِی یُؤَدِّی حَقَّ اللّٰہِ وَیَنْصَحُ لِسَیِّدِہِ ) [ رواہ البخاری : کتاب الجھاد و السیر، بَاب فَضْلِ مَنْ أَسْلَمَ مِنْ أَہْلِ الْکِتَابَیْنِ ] ” حضرت ابوبردہ (رض) نے اپنے والد گرامی کو نبی مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان بیان کرتے ہوئے سنا سرکار دوعالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تین طرح کے افراد کو دوہرا اجر عنایت فرمایا جائے گا ان میں سے ایک وہ ہوگا جس کے پاس لونڈی ہو اس نے اسے اچھی طرح تعلیم دی اور اس کو ادب سکھایا اچھے انداز سے اس کی تربیت کی پھر وہ اس کو آزاد کرتے ہوئے اس سے نکاح کرلے۔ دوسرایہود و نصاریٰ کا وہ شخص جو اپنے دین میں پکا تھا اور بعد ازاں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لے آیا اس کے لیے بھی دوہرا اجر ہے تیسرا وہ شخص جو غلام ہے لیکن اللہ تعالیٰ کے حقوق ادا کرتے ہوئے اپنے مالک کے کام اور خدمت میں اس کی خیرخواہی کرتا ہے۔“ مسائل ١۔ ارکان اسلام پر عمل کرنے والوں کے لیے اجر عظیم ہے۔ ٢۔ آخرت پر یقین ایمان کا حصہ ہے۔ ٣۔ قرآن مجید کے ساتھ پہلی کتب سماوی پر بھی ایمان لانا فرض ہے۔ تفسیر بالقرآن ایمان کی مبادیات اور راسخ العلم کی صفت : ١۔ غیب پر ایمان لانا، نماز قائم کرنا اور زکوٰۃ ادا کرنا۔ (البقرۃ: ٣) ٢۔ پہلی کتابوں پر مجموعی طور پر اور قرآن مجید پر کلی طور پر ایمان لانا۔ (البقرۃ: ٤) ٣۔ اللہ، ملائکہ، اللہ کی کتابوں، اور اس کے رسولوں پر ایمان لانا۔ (البقرۃ: ٢٨٥) ٤۔ راسخ العلم کی صفت۔ (النساء : ١٦٢) ٥۔ صحابہ کرام جیسا ایمان لانا فرض ہے۔ ( البقرۃ: ١٣٧) النسآء
163 فہم القرآن ربط کلام : دین کے جن بنیادی ارکان کا پہلے ذکر ہوا ہے۔ اسی کی تبلیغ یہ عظیم المرتبت شخصیات کرتی رہی ہیں۔ یہودیوں کے سوال کا جواب دیتے ہوئے بتلایا گیا ہے کہ دین کے بنیادی احکامات ہمیشہ سے ایک تھے اور ہیں۔ وہ لوگوں پر براہ راست نازل ہونے کی بجائے وحی کے ذریعے انبیاء ( علیہ السلام) پر نازل ہوتے رہے۔ جو مختلف انداز اور الفاظ میں اتارے گئے۔ قرآن مجید تحریری مسودہ کے بجائے لوگوں کی سہولت اور اصلاح احوال کی خاطر خطاب در خطاب کی صورت میں نازل ہوا ہے یہی وجہ ہے کہ ہر خطاب میں نصیحت کے جامع پہلو کو ملحوظ رکھا جاتا ہے۔ اسی اسلوب کے پیش نظریہودیوں کے اس مطالبہ پر کہ ان پر براہ راست کتاب کیوں نہیں نازل کی جاتی اس کے جواب میں نصیحت کے کئی پہلو اختیار کیے گئے ہیں۔ ١۔ پہلے سرزنش کی گئی کہ تم موسیٰ (علیہ السلام) سے اس سے بڑھ کر سوالات کرچکے ہو جن میں تمھارے اکثر سوال پورے ہوچکے ہیں لیکن اس کے باوجود تم بڑے بڑے جرائم میں ملوث رہے اور اب بھی ان گناہوں کا اعتراف کرتے ہو۔ ان سے تائب ہونے کی بجائے ان پر فخر کرتے اور ان کا ارتکاب کیے جا رہے ہو۔ ٢۔ کسی امت پر بھی براہ راست کتاب نازل نہیں کی گئی اللہ تعالیٰ کے احکام وحی کے ذریعے ہی انبیاء پر نازل ہوتے رہے ہیں جن اولو العزم شخصیات پر وحی نازل ہوئی ان میں چند ایک کا ذکر کیا جاتا ہے جو شان و مرتبہ اور جدوجہد کے اعتبار سے سب سے نمایاں تھے جن کی اکثریت کا تعلق تمھارے آباؤ اجداد سے ہے۔ ٣۔ ان انبیاء کرام (علیہ السلام) کا دین ہمیشہ ایک ہی رہا ہے جس کے بنیادی اصول یہ ہیں کہ توحیدخالص پر ایمان لانا، تمام آسمانی کتب کو تسلیم کرنا، نماز قائم کرنا، زکوٰۃ ادا کرنا اور آخرت پر کامل یقین رکھنا ہے۔ ٤۔ تمام انبیاء (علیہ السلام) کی دعوت کا مقصد لوگوں کے اچھے اعمال کے بدلے دنیا اور آخرت کی کامیابی کی خوشخبری دینا اور برے اعمال کے برے انجام سے لوگوں کو ڈرانا تھا۔ ٥۔ انبیاء کی بعثت کا مقصد لوگوں کو سینہ زوری سے منوانا نہیں ان کا کام بتلانا اور سمجھانا تھا تاکہ محشر میں لوگوں کے پاس اللہ تعالیٰ کی عدالت میں کوئی حجت باقی نہ رہے۔ ٦۔ بڑے بڑے انبیاء کرام (علیہ السلام) کے تذکرے کا مقصد نبی محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دینا ہے۔ اس لیے آدم (علیہ السلام) سے انبیاء کا ذکر کرنے کی بجائے حضرت نوح (علیہ السلام) سے شروع کیا ہے کیونکہ آدم (علیہ السلام) سے لے کر حضرت نوح (علیہ السلام) کی تشریف آوری سے کچھ عرصہ پہلے تک لوگ توحید اور فطرت سلیم پر قائم رہے بعد ازاں لوگ شرک میں مبتلا اور دین سے منحرف ہوگئے۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے ساڑھے نو سو سال بڑی جانفشانی سے جدوجہد فرمائی لیکن چند لوگوں کو چھوڑ کر باقی سب گمراہی پر قائم رہے جنھیں طوفان نے آلیا اور وہ نیست و نابود کردیے گئے۔ ان کے بعد حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے خاندان میں نسل در نسل انبیاء ( علیہ السلام) کی آمد کا سلسلہ جاری رہا۔ جن میں ایسے انبیاء بھی تھے جو نبوت کے منصب کے ساتھ حکمران بھی تھے ان میں موسیٰ (علیہ السلام) ایسے پیغمبر ہیں جنھوں نے اللہ تعالیٰ سے ہم کلامی کا شرف پایا۔ ان کی شخصیت، جدوجہد اور حالات و واقعات کو نبی آخر الزماں (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ مماثل قرار دیا گیا ہے (المزمل : ١٥) ان انبیاء کے آخر اور نبی محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پہلے عیسیٰ (علیہ السلام) عظیم الشان معجزات کے ساتھ تشریف لائے۔ یہ تمام کے تمام انبیاء اللہ تعالیٰ کی طرف سے خوشخبری دینے والے اور اس کی نافرمانیوں سے ڈرانے والے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے چیدہ چیدہ انبیاء کا ذکر فرمایا ہے باقی کا ذکر نہیں کیا۔ جن کے ذکر نہ کرنے کی وہی حکمت جانتا ہے اللہ تعالیٰ ہر بات اور ہر کام پر غالب ہے اور اس کے ہر فرمان اور کام میں حکمت ہوتی ہے۔ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) أَنَا أَوْلَی النَّاسِ بِعِیسَی ابْنِ مَرْیَمَ فِی الدُّنْیَا وَالآخِرَۃِ، وَالأَنْبِیَاءُ إِخْوَۃٌ لِعَلاَّتٍ، أُمَّہَاتُہُمْ شَتَّی، وَدِینُہُمْ وَاحِدٌ ) [ رواہ البخاری : باب واذْکُرْ فِی الْکِتَابِ مَرْیَمَ إِذِ انْتَبَذَتْ مِنْ أَہْلِہَا ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میں دنیا و آخرت میں عیسیٰ ابن مریم کے زیادہ قریب ہوں اور تمام انبیاء (علیہ السلام) علاتی بھائی ہیں ان کی مائیں مختلف ہیں اور دین ایک ہی ہے۔“ مسائل ١۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر پہلے انبیاء کرام (علیہ السلام) ہی کی طرح وحی نازل ہوئی۔ ٢۔ قرآن کی طرح پہلے انبیاء (علیہ السلام) پر بھی کتابیں نازل کی گئیں۔ ٣۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے اللہ تعالیٰ نے از خود کلام فرمایا۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کچھ انبیاء (علیہ السلام) کے واقعات بیان فرمائے اور کچھ کا ذکر نہیں فرمایا۔ تفسیر بالقرآن انبیاء (علیہ السلام) کا اجتماعی ذکر : ١۔ اٹھارہ انبیاء کرام کا ذکر۔ (الانعام : ٨٣ تا ٩٠) ٢۔ ابراہیم، اسماعیل، اسحاق، یعقوب اور ان کی اولاد موسیٰ، عیسیٰ اور دیگر انبیاء ( علیہ السلام)۔ (البقرۃ: ١٣٦) ٣۔ نبی محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ذکر گرامی ( آل عمران : اور احزاب : ١٤٤، محمد : ٢، الفتح : ٢٩۔) موسیٰ (علیہ السلام) کا مرتبہ و مقام : ١۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے براہ راست کلام کیا۔ (النساء : ١٦٤) ٢۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو دو عظیم معجزے عطا فرمائے۔ (طٰہٰ: ١٧ تا ٢٢) ٣۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو برتری عطا فرمائی۔ (الاعراف : ١٤٤) ٤۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو یہود کے الزام سے پاک کیا۔ (الاحزاب : ٦٩) ٥۔ موسیٰ اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے درمیان مماثلت قرار دی گئی۔ (المزمل : ١٥) ٦۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو نو نشانیاں عطا فرمائیں۔ (بنی اسرائیل : ١٠١) النسآء
164 النسآء
165 فہم القرآن ربط کلام : نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کسی انوکھی نبوت کے ساتھ نہیں آئے ان سے پہلے بے شمار انبیاء آئے لہٰذا بڑے بڑے انبیاء کا نام بنام ذکر کرنے کے بعد ان کی بعثت کا مقصد بیان کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات بنا کر زمین میں اپنا خلیفہ نامزد فرمایا اور اسے عقل و فکر کی دولت سے مالا مال کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو کم ازکم اتنی عقل و فکر ضرور عطا فرمائی ہے کہ وہ اچھے و برے اور نفع و نقصان میں تمیز کرسکے۔ اس کے ساتھ ہی اپنی پہچان کے لیے دنیا میں بے شمار شواہد و قرائن پیدا فرمائے پھر جزوی تشریحات کو چھوڑ کر دین کے بنیادی ارکان کو ہمیشہ سے ایک رکھا۔ تاکہ جس دین کے بغیر گزارہ نہیں اسے سمجھنا اور اپنا ناانسان کے لیے آسان رہے۔ اس فطری، ماحولیاتی، اور آفاقی رہنمائی کے باوجود انسان پر یہ کرم کیا کہ پے درپے انبیاء کا سلسلہ جاری فرمایا۔ انبیائے کرام (علیہ السلام) ایسی بے مثال شخصیات تھیں جو پیدائشی طور پر گفتار کے سچے، کردار کے پکے اور اس قدر خیر خواہ اور مخلص ہوا کرتے تھے کہ جن کو دیکھ کر پتھر بھی پکار اٹھے کہ یہ واقعی اللہ کا بھیجا ہوا نبی ہے۔ پھر ہر نبی کو اس کے حالات کے مطابق ایسے ایسے معجزات عطا کے گئے کہ ان کے جانی دشمن بھی تنہائی میں ان کے سچے ہونے کا اعتراف کیا کرتے تھے۔ انبیاء اس قدر مخلصانہ اور بے پناہ جدوجہد کرتے اور اس کے بدلے ایک پائی بھی وصول کرنے کے روا دار نہیں ہوتے تھے۔ انھوں نے اپنے مشن کے لیے جان کی بازی لگا دی اس کے باوجود لوگوں کی اکثریت نے اللہ تعالیٰ کی توحید کا انکار اور انبیاء ( علیہ السلام) کی دعوت کو مسترد کردیا۔ ایسا اس لیے نہیں ہوا کہ لوگ اللہ تعالیٰ کی قدرت سے باہرتھے یہ اس لیے ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے ہدایت کو لوگوں کے لیے اختیاری رکھا ہے اور انبیاء (علیہ السلام) کو صرف بتلانے اور سمجھانے والا بنا کر بھیجا تھا۔ جن کی تبلیغ و تعلیم کا مقصد لوگوں کو اچھے برے اعمال اور ان کے انجام سے آگاہ کرنا ہے۔ تاکہ محشر کے دن خدا کے حضور مجرم پیش ہوں تو ان کے پاس یہ حجت نہ ہو کہ ہمیں یاد دلانے اور سمجھانے والا نہیں آیا تھا۔ اس لیے فرمایا ہے کہ اے رسول ! یہود و نصاریٰ کی سازشوں اور لوگوں کے انکار سے دلبرداشتہ اور ہمت ہارنے کی ضرورت نہیں اگر یہ لوگ ہٹ دھرمی اور دنیا پرستی کی وجہ سے آپ کی رسالت کا انکار اور اللہ تعالیٰ کے احکامات سے انحراف کرتے ہیں تو اس سے خدا کی خدائی اور آپ کی پیغمبرانہ شان اور کام میں کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ یہ دنیا کا منصب اور عہدہ نہیں کہ جس کو لوگ مسترد کردیں گے تو اسے نامزد کرنے والا بالآخر واپس بلانے پر مجبور یا صاحب منصب خود بھاگ جائے گا۔ یہ تو نبوت کا مقام عالی ہے کہ ساری مخلوق بھی ٹھکرا دے تو نبی کی نبوت اور اس کے اجر و ثواب میں رائی کے دانے کے برابر بھی کمی نہیں آتی۔ اس لیے آپ اللہ تعالیٰ کے پیغام کو پہنچاتے جائیں اسے معلوم ہے کہ کون اس کے پیغام کا حق ادا کرتا ہے اور کس کس نے اس کا انکار کرنا ہے زمین و آسمان کا مالک گواہی دیتا ہے کہ آپ اس کے رسول ہیں اور اسی نے اپنے علم کے مطابق آپ پر قرآن مجید نازل فرمایا ہے لہٰذا اپنا کام جانفشانی اور پورے اخلاص کے ساتھ جاری رکھیں لوگ تائید نہیں کرتے تو نہ کریں اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے آپ کی نبوت، اخلاص اور کار نبوت کی ادائیگی پر گواہ ہیں یاد رکھیں کہ اللہ کی گواہی سے بڑھ کر کسی کی گواہی معتبر نہیں ہوسکتی ہے۔ مسائل ١۔ انبیاء ( علیہ السلام) کی بعثت کا مقصد لوگوں تک اللہ کے پیغامات پہنچانا ہے۔ ٢۔ رسول لوگوں کو جنت کی خوش خبری اور عذاب سے ڈرانے والے تھے۔ ٣۔ رسول اتمام حجت کے لیے مبعوث کیے جاتے تھے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے گواہی دیتے ہیں کہ جو کچھ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل ہوا وہ حق ہے۔ النسآء
166 النسآء
167 فہم القرآن ربط کلام : انبیاء ( علیہ السلام) کے مشن کی مخالفت کرنے والوں کی سزا۔ کفر کا معنٰی ہے حقیقت پر پردہ ڈالنا، شرعی اصطلاح میں اللہ اور اس کے رسول اور قیامت کا انکار کرنے والا کافر ہوتا ہے۔ جو لوگ کفر کا ارتکاب کرتے ہیں وہی لوگ اللہ کے راستے میں رکاوٹ بنتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی راہ سے مراد صراط مستقیم اور دین کا راستہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کی آیات کا انکار اور اس کی راہ میں رکاوٹ بننے کی درج ذیل صورتوں میں سے کوئی ایک صورت ہوسکتی ہے۔ ١۔ خود کفر اختیار کرنا، اپنے کردار اور طریقۂ کار سے لوگوں کو دین سے روکنا۔ ٢۔ اسلام کا اقرار کرنے کے باوجود جان بوجھ کر کفار جیسا عقیدہ اور کردار رکھنا جس سے لوگوں کی نظروں میں اسلام اور مسلمانوں کا وقار ختم ہوجائے ایسے لوگ بیک وقت کفر اور ظلم کے مرتکب ہوتے ہیں کفر کو پسند کرنے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نہ انھیں معاف کرتا ہے اور نہ ہی صراط مستقیم کی توفیق دیتا ہے۔ ان کے پسندیدہ راستے پر چلنے کے لیے انھیں کھلا چھوڑ دیتا ہے جو راستہ جہنم کا راستہ ہے۔ اس جہنم میں انھیں ابدالاباد تک رہنا نافرمان بڑا ہو یا چھوٹا اسے جہنم میں پھینکنا اللہ تعالیٰ کے لیے ذرّہ برابر مشکل نہیں۔ یہاں ان کی نہ فریاد سنی جائے گی اور نہ کوئی ان کی مدد کرنے والا ہوگا۔ النسآء
168 النسآء
169 کفار اور مشرکین ہمیشہ جہنم میں رہیں گے : (وَالَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَکَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَآ اُولٰٓءِکَ اَصْحٰبُ النَّارِ ھُمْ فِیْھَا خٰلِدُوْنَ)[ البقرۃ: ٣٩] ” وہ لوگ جو کفر کرتے ہیں اور ہماری آیات کو جھٹلاتے ہیں وہ آگ والے ہیں اس میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔“ (اِنَّہٗ مَنْ یُّشْرِکْ باللّٰہِ فَقَدْ حَرَّمَ اللّٰہُ عَلَیْہِ الْجَنَّۃَ وَ مَاْوٰاہ النَّارُوَ مَا للظّٰلِمِیْنَ مِنْ اَنْصَارٍ) [ المائدۃ: ٧٢] ” جو اللہ کے ساتھ شرک کرتا ہے اس کے لیے جنت حرام ہے اور اس کا ٹھکانہ جہنم ہے اور ظالموں کا کوئی مددگار نہیں ہوگا۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کفر کرنے اور لوگوں کو حق سے روکنے والے گمراہ ہیں۔ ٢۔ ظلم اور کفر کرنے والوں کو اللہ معاف نہیں فرمائے گا۔ ٣۔ کافروں کے لیے جہنم کا دائمی عذاب ہے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ کے لیے کفار کو عذاب دینا مشکل نہیں۔ تفسیر بالقرآن کفار کے لیے معافی نہیں : ١۔ موت کی تمنا پوری نہ ہوگی۔ (البقرۃ: ٩٤) ٢۔ عذر قبول نہ ہوگا۔ (البقرۃ: ١٢٣) ٣۔ سفارش قبول نہ ہوگی۔ (البقرۃ: ١٢٣) ٤۔ جہنم میں رخصت نہ ہوگی۔ (طہ : ٧٤) ٥۔ جہنم سے نہیں نکل سکیں گے۔ (البقرۃ: ١٦٧) ٦۔ فدیہ قبول نہیں کیا جائے گا۔ (آل عمران : ٩١) ٧۔ دنیا میں واپس نہیں آسکیں گے۔ (السجدۃ: ١٢) النسآء
170 فہم القرآن ربط کلام : منکرین نبوت کو ایک مرتبہ پھر نبی آخر الزماں (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت پر ایمان لانے کی دعوت دی گئی ہے انکار کرنے والوں کو انتباہ کیا ہے کہ تمہارے کفر سے خدا کی خدائی میں کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ یہود کے بعد دعوت عام دی جا رہی ہے کہ اے لوگو! یہودیوں کی طرح بہانہ تراشی اور حیلہ سازی کرنے کی بجائے سرور دو عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لاؤ۔ جو تمھارے پاس تمھارے رب کی طرف سے حق کے ساتھ مبعوث کیے گئے ہیں۔ یہی تمھارے لیے بہتر راستہ ہے اگر تم ایمان لانے اور حق کا ساتھ دینے سے گریزاں ہو تو یاد رکھو۔ اللہ تعالیٰ کی بادشاہت میں کوئی فرق نہیں پڑتا زمین و آسمان کا ذرّہ ذرّہ اور چپہ چپہ اس کے تابع فرمان ہے۔ صرف باغی انسان ہی پوری کائنات کے طرزعمل کے خلاف طریقہ اختیار کیے ہوئے ہے۔ یہ ڈھیل انسان کو اس لیے نہیں دی گئی کہ انسان کے اعمال و خیالات اللہ کے علم سے باہر ہیں اللہ تعالیٰ سب کچھ جاننے کے باوجود اپنی حکمت و مشیّت کے تحت انسان کو ایک وقت مقرر تک چھوڑے ہوئے ہے جب اس کی گرفت اور عتاب کا وقت آئے گا تو باغی اور ظالم کو چھڑانے اور بچانے والا کوئی نہیں ہوگا۔ حق (اَلْحَقُّ) اللہ کے ٩٩ صفاتی ناموں میں سے ایک نام ہے۔ (مشکوٰۃ: باب اسماء اللہ ) ” حق“ سے مراد قرآن اور اللہ کا پیغام ہے آپ کی نبوت کے بارے میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے نہصرف دعا کی بلکہ مکہ شہر کی نشاندہی بھی فرمائی کہ اس شہر اور اس قوم میں آخری نبی ہونا چاہیے۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے اس سے آگے بڑھ کر آپ کا اسم گرامی لے کر بنی اسرائیل کو آپ کی نبوت کی بشارت سے نوازا۔ (عَنِ الْعِرْبَاضِ بْنِ سَارِیَۃَ السُّلَمِیِّ قَالَ سَمِعْتُ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَقُولُ إِنِّی عَبْدُ اللّٰہِ فِی أُمِّ الْکِتَابِ لَخَاتَمُ النَّبِیِّینَ وَإِنَّ آدَمَ لَمُنْجَدِلٌ فِی طینَتِہٖ وَسَأُنَبِّءُکُمْ بِتَأْوِیلِ ذَلِکَ دَعْوَۃِ أَبِی إِبْرَاہِیمَ وَبِشَارَۃِ عیسَی قَوْمَہُ وَرُؤْیَا أُمِّی الَّتِی رَأَتْ أَنَّہُ خَرَجَ مِنْہَا نُورٌ أَضَاءَ تْ لَہُ قُصُور الشَّامِ وَکَذٰلِکَ تَرٰی أُمَّہَات النَّبِیِّینَ صَلَوَات اللّٰہِ عَلَیْہِمْ) [ رواہ احمد] ” حضرت عرباض بن ساریہ سلمی بیان کرتے ہیں میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ بلاشبہ میں اللہ کا بندہ ہوں قرآن مجید میں مجھے خاتم النبیین قرار دیا گیا ہے جب حضرت آدم (علیہ السلام) ابھی مٹی اور روح کے درمیان تھے میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی دعا، حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی بشارت اور اپنی والدہ ماجدہ کا خواب ہوں انھوں نے دیکھا کہ ان کے وجود سے ایک روشنی نکلی جس سے ملک شام کے محلات روشن ہوگئے۔ اور اسی طرح ہی انبیاء کرام (علیہ السلام) کی مائیں دیکھا کرتی تھیں۔“ (یَا عِبَادِی لَوْ أَنَّ أَوَّلَکُمْ وَآخِرَکُمْ وَإِنْسَکُمْ وَجِنَّکُمْ کَانُوا عَلَی أَفْجَرِ قَلْبِ رَجُلٍ وَاحِدٍ مَا نَقَصَ ذَلِکَ مِنْ مُلْکِی شَیْءًا)[ رواہ مسلم : باب تَحْرِیم الظُّلْمِ] ” اے میرے بندو اگر تمھارے پہلے، پچھلے جن و انس سارے کے سارے فاجر انسان کی طرح ہوجائیں میری بادشاہت میں کسی چیز کی کمی واقع نہیں ہوسکتی۔“ مسائل ١۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ تعالیٰ کی طرف سے حق لے کر مبعوث ہوئے ہیں۔ ٢۔ کفر و شرک کرنے والے اللہ تعالیٰ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ علم و حکمت والا ہے۔ تفسیر بالقرآن رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا مرتبہ و مقام : ١۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پوری دنیا کے لیے نبی بنا کر بھیجا گیا۔ (الاعراف : ١٥٨) ٢۔ آپ کو رحمۃ للعالمین بنا کر بھیجا گیا۔ (الانبیاء : ١٠٧) ٣۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خاتم النبیین ہیں۔ (الاحزاب : ٤٠) ٤۔ آپ کو پوری دنیا کے لیے داعی، بشیر اور نذیر بنا کر مبعوث کیا گیا ہے۔ (الاحزاب : ٤٥۔ ٤٦) ٥۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تمام انسانوں کے لیے رؤف، رحیم بنایا گیا ہے۔ (التوبۃ : ١٢٨) ٦۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت مومنوں پر اللہ تعالیٰ کا احسان عظیم ہے۔ (آل عمران : ١٦٤) النسآء
171 فہم القرآن ربط کلام : اگر اہل کتاب اپنے دین میں غلو اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک نہ کرتے تو یقیناً نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کو مانتے ہوئے ہدایت کا راستہ اختیار کرتے لیکن وہ مذہبی عصبیت اور دین میں غلو کی وجہ سے گمراہ ہوئے۔ خطاب کا آغاز یہود سے ہوا تھا جس میں انھیں مختلف طریقوں سے سمجھایا گیا۔ ان کے بعد تمام لوگوں کو دعوت حق قبول کرنے کی تلقین کی گئی۔ اب عیسائیوں کی دین کے بارے میں بنیادی خرابی یعنی ” غلو“ کرنے سے روکا جا رہا ہے جو ان کی گمراہی کا اصل سبب ہے غلو کا معنی ہے محبت یا تعصب میں آکر افراط و تفریط کرنا۔ یہودیوں نے تعصب کی بنا پر عیسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں غلو کیا اور وہ اس میں اتنا آگے نکل گئے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور ان کی پاکباز والدہ پر الزامات لگائے جناب عیسیٰ (علیہ السلام) اور ان پر نازل ہونے والی کتاب انجیل کا انکار کیا حالانکہ عیسیٰ (علیہ السلام) نے بار ہا دفعہ فرمایا تھا کہ میں کوئی الگ شریعت لے کر نہیں آیا بلکہ تورات کی تعلیمات کی تکمیل کے لیے آیا ہوں لیکن ستیاناس ہو اس غلو کا جس کے نتیجہ میں یہودیوں نے ہر سچائی کو ٹھکرا دیا۔ ان کے برعکس عیسائیوں نے دوسری انتہا کو اختیار کرتے ہوئے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو خدا کا بیٹا اور مریم [ کو خدا کی بیوی قرار دیا یہودی عداوت کی بنیاد پر گمراہ ہوئے اور عیسائی محبت میں غلو کرنے کی وجہ سے گمراہ ٹھہرے۔ عیسائیوں کو اس لیے روکا اور ٹوکا جا رہا ہے کہ تمھیں عیسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں غلو نہیں کرنا چاہیے ان کی حیثیت تو یہ تھی کہ وہ مریم کے بیٹے اللہ کے رسول اور اس کا کلمہ ہیں خدا کی خدائی میں ان کا کوئی دخل نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے عیسائیوں اور یہودیوں کے عقیدہ کے حوالے سے ہر شخص کے باطل نظریہ کی نفی فرمائی ہے کہ کوئی ذات ادنیٰ ہو یا اعلیٰ وہ اللہ تعالیٰ کی ذات کا حصہ اور اس کی صفات کی حامل نہیں ہو سکتی اس عقیدہ کو سورۃ اخلاص میں کھول کر بیان کیا گیا ہے۔ ١۔ رسول کا مقام : دنیا میں انسان تو کروڑوں اور اربوں گزرے ہیں اور ہوں گے لیکن اللہ تعالیٰ اپنے پیغام کے لیے ایسے انسانوں کو منتخب فرماتا ہے جو ظاہری وباطنی کمال، کردار کی پاکیزگی اور قلبی طہارت کے لحاظ سے اپنے دور کے سب سے بلند اور ممتاز انسان ہوا کرتے تھے۔ انسان اور ضرورتوں کے ناتے سے وہ لوگوں کے ہم شکل اور ہم مثل ہوتے تھے لیکن خوبیوں اور صلاحیتوں کے لحاظ سے انسانوں کے ساتھ ان کی کوئی نسبت نہیں ہوا کرتی تھی۔ اس لیے آپ نے ایک موقعہ پر فرمایا تھا ” اَیُّکُمْ مِثْلِیْ“ تم میں سے کون میری مثل ہے؟ گویا کہ رسول شرف انسانیت کی انتہا اور خدا کی مخلوقات میں سب سے اعلیٰ اور ارفع ہوتا ہے۔ لہٰذا عیسیٰ (علیہ السلام) رسول اللہ ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اس اعزاز سے بڑا کوئی اعزاز نہیں ہوسکتا۔ ٢۔ ھُوَ رَسُوْلُ اللّٰہِ : عیسیٰ (علیہ السلام) کی دوسری حیثیت یہ ہے کہ وہ اللہ کا رسول ہے۔ رسول کا معنی ہے پیغام پہنچانے والا، ظاہر ہے کہ جس کی طرف سے کوئی پیغام دینے والا ہو اس کا بھیجنے والا اس سے اعلیٰ اور بہتر ہوا کرتا ہے۔ بھیجنے والاجب چاہے اپنے رسول کو واپس بلا سکتا ہے اس لیے ہر پیغمبر اپنی زندگی گزار کر موت کی آغوش میں چلا گیا اور یہی بات رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں ارشاد ہوئی ہے۔ ” ہم نے آپ سے پہلے کسی انسان کو ہمیشگی نہیں دی۔ اگر آپ فوت ہوجائیں تو کیا وہ ہمیشہ رہیں گے؟“ [ الانبیاء : ٣٤] ٣۔ عیسیٰ (علیہ السلام) اللہ کا کلمہ اور اس کی روح ہیں : قرآن مجید میں کلمہ کا لفظ تین معنوں میں استعمال ہوا ہے : ١۔ کلمہ کا معنی ہے خوشخبری اور بشارت سورۃ آل عمران کی آیت ٤٥ میں اس طرح استعمال ہوا ہے۔ ” اور جب فرشتوں نے مریم سے کہا : بلاشبہ اے مریم ! اللہ تجھے اپنے کلمہ کی بشارت دیتا ہے اس کا نام مسیح عیسیٰ ابن مریم ہوگا وہ دنیا اور آخرت میں معزز ہوگا اور اللہ کے مقرب بندوں میں سے ہوگا۔“ [ آل عمران : ٤٥] ٢۔ کلمہ کا معنی آیت اور نشانی ہے۔ ” اور مریم بنت عمران جس نے اپنی عصمت کی حفاظت کی پھر ہم نے اس کے اندر اپنی روح پھونک دی اور اس نے اپنے رب کے کلمات اور کتابوں کی تصدیق کی اور وہ اطاعت گزار تھی۔“ [ التحریم : ١٢] ٣۔ کلمہ کا معنی کلام۔ ” امید ہے اب میں نیک عمل کروں گا جسے میں چھوڑ آیا ہوں ہرگز نہیں۔ یہ بس ایک بات ہوگی جسے اس نے کہہ دیا اور ان کے درمیان دوبارہ اٹھنے تک کے دن تک ایک آڑ ہوگی۔“ [ المومنون : ١٠٠] عیسیٰ ابن مریم رسول اللہ اور کلمۃ اللہ ہونے کے ساتھ ان کا تیسرا اعزاز یہ ہے کہ وہ اللہ کی روح ہیں یہی وہ لفظ ہے جس سے عیسائی مغالطہ کا شکار ہوئے یا وہ جان بوجھ کر مغالطہ دینے کی کوشش کرتے ہیں ان کا کہنا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ کو اپنی روح قرار دے کر مریم میں اس کا القاء فرمایا لہٰذا مریم اور اللہ تعالیٰ کو ملا کر ایک مثلّث بنتی ہے جسے وہ عرف عام میں تثلیث قرار دیتے ہیں حالانکہ یہ ان کی من ساختہ اختراع ہے کیونکہ قرآن مجید میں لفظ روح کا استعمال مختلف انداز میں ہوا ہے۔ ’ تو جب میں اسے درست کر چکوں اور اس میں اپنی روح سے پھونک دوں تو تم اس کے سامنے سجدہ ریز ہوجانا۔“ [ الحجر : ٢٩] اگر عیسائیوں کی باطل دلیل کو تسلیم کرلیا جائے تو پھر ہر فرد اور ہر چیز میں اللہ تعالیٰ کی روح کو تسلیم کرنا پڑے گا۔ جس سے حلول جیسے بدترین شرک کا تصور سامنے آتا ہے جس کی تائید معمولی عقل رکھنے والا شخص بھی نہیں کرسکتا اس بنیاد پر اہل کتاب کو مخاطب کرتے ہوئے سمجھایا گیا ہے کہ بس اللہ اور اس کے رسولوں پر اسی طرح ایمان لاؤ جس طرح تمھیں ایمان لانے کا حکم دیا گیا ہے اور تثلیث کے باطل عقیدہ کو یک لخت چھوڑ دو۔ اسے چھوڑ دینے میں ہی تمھاری بہتری ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنی ذات اور صفات کے لحاظ سے یکتا اور تنہا ہے اس کی ذات اور صفات میں اس کا کوئی ہمسر اور شریک نہیں ہے۔ اس کی ذات ان سہاروں اور رشتوں سے ممتاز اور پاک ہے۔ تم عیسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ کا بیٹا کہتے ہو اللہ تعالیٰ کو اولاد کی ضرورت نہیں ہے اولاد تو انسان کی ضرورت اور کمزوری ہے۔ ١۔ اولاد کی ضرورت اس لیے ہے کہ اس کا سلسلہ نسب جاری رہے تاکہ اس کا نام اور کام باقی رہے۔ ٢۔ اولاد نہ ہو تو انسان اپنے آپ میں تنہائی اور اداسی محسوس کرتا ہے۔ ٣۔ اولاد آدمی کا سہارا اور اس کی ضروریات میں معاون ہوتی ہے۔ ٤۔ ماں، باپ اولاد کے ساتھ محبت کرنے میں طبعاً مجبور ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نہ محبت کے ہاتھوں مجبور ہے اور نہ ہی تنہائی محسوس کرتا ہے نہ اس کو خدمت اور سہارے اور معاون کی ضرورت ہے۔ وہ تو محبت عطا کرنے والا اور کائنات کی ہر چیز کو سہارا دینے والا ہے وہ ان کمزوریوں سے یکسر بے نیاز ہے اسے کسی کی حاجت نہیں کیونکہ زمین و آسمان کا چپہ چپہ اور ذرہ ذرہ اس کی غلامی اور فرما نبرداری میں لگا ہوا ہے۔ اس کا تعلق مخلوق کے ساتھ باپ اور بیٹے یا کسی کا حصہ ہونے کی بنا پر نہیں اس کا تعلق مخلوق کے ساتھ خالق اور مالک اور مملوک کا ہے جسے دنیا کے کسی رشتے کے ساتھ نسبت نہیں دی جا سکتی۔ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَال النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) أُرَاہُ یَقُول اللَّہُ شَتَمَنِی ابْنُ آدَمَ وَمَا یَنْبَغِی لَہُ أَنْ یَشْتِمَنِی، وَتَکَذَّبَنِی وَمَا یَنْبَغِی لَہُ، أَمَّا شَتْمُہُ فَقَوْلُہُ إِنَّ لِی وَلَدًا وَأَمَّا تَکْذِیبُہُ فَقَوْلُہُ لَیْسَ یُعِیدُنِی کَمَا بَدَأَنِی ) [ رواہ البخاری : باب مَا جَاءَ فِی قَوْلِ اللَّہِ تَعَالَی (وَہُوَ الَّذِی یَبْدَأُ الْخَلْقَ ثُمَّ یُعِیدُہُ)] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ میرا خیال ہے اللہ تعالیٰ نے فرمایا آدم کا بیٹا مجھے گالیاں دیتا ہے اور یہ اس کے لیے لائق نہیں اور وہ میری تکذیب کرتا ہے اور وہ بھی اس کے لیے لائق نہیں اس کا مجھے گالی دینا یہ ہے کہ میں نے اولاد پکڑی ہے اور مجھے جھٹلانا اس کا یہ ہے کہ وہ کہتا ہے کہ مجھے دوبارہ نہیں لوٹایا جائے گا جس طرح مجھے پہلی بار پیدا کیا گیا۔“ مسائل ١۔ دین کے معاملہ میں افراط و تفریط سے بچنا چاہیے۔ ٢۔ اللہ کی نسبت سے صرف حق بات ہی کہنی چاہیے۔ ٤۔ الٰہ صرف ایک ہے۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ اولاد اور بیوی سے پاک ہے۔ تفسیر بالقرآن حضرت عیسیٰٰ (علیہ السلام) کی حیثیت اور حضرت مریم [ کا مقام : ١۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اللہ کے بندے اور صاحب کتاب نبی تھے۔ (مریم : ٣٠) ٢۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) ابن مریم کی حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کے ذریعہ مدد کی گئی۔ (البقرۃ: ٢٥٣) ٤۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور ان کی والدہ کھانا کھاتے تھے۔ (المائدۃ: ٧٥) ٥۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) ابن مریم نے بنی اسرائیل کو اللہ کی عبادت کا حکم دیا۔ (المائدۃ: ٧٢) ٦۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی پیدائش کی بشارت دی گئی۔ (آل عمران : ٤٥) ٧۔ حضرت عیسیٰ کو اللہ تعالیٰ نے معجزات عطا فرمائے۔ ( آل عمران : ٤٦ تا ٤٩) ٨۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) دنیا و آخرت میں عزت والے ہیں۔ (آل عمران : ٤٥) ٩۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) ابن مریم کی کفالت کی گئی۔ (آل عمران : ٤٤) النسآء
172 فہم القرآن ربط کلام : عیسائیوں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو خدائی کا مرتبہ دیا حالانکہ وہ اللہ کے بندے تھے اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ کا بندہ یعنی اس کا غلام اور فرمانبردار ہونے سے قطعاً کوئی انکار نہ تھا جو اپنے آپ کو اللہ کا بندہ ہونے سے انکار کرے گا اس کی سزادرد ناک عذاب ہے۔ عبد کا معنی ہے۔۔ انسان اور غلام (المنجد) قرآن مجید نے دو ٹوک الفاظ اور انداز میں واضح کیا ہے کہ جتنے پیغمبر دنیا میں مبعوث کیے گئے وہ سارے کے سارے عبد اور بشر تھے خاص طور پر جن انبیاء ( علیہ السلام) کی عبدیت کو مشکوک بنانے کی کوشش کی گئی ان کی سوانح حیات کو قرآن مجید نے اتنا واضح انداز میں بیان کیا ہے کہ جس سے ان کے عبد ہونے میں ذرہ برابر بھی شبہ باقی نہیں رہتا۔ یہودیوں نے حضرت عزیر (علیہ السلام) کے بارے میں جب یہ نظریہ گھڑا کہ وہ اللہ کے بیٹے ہیں تو اس باطل نظریہ کی تردید کے لیے حضرت عزیر (علیہ السلام) کی زندگی کا اہم ترین واقعہ یوں بیان کیا کہ اس شخص کی مثال سامنے رکھیے کہ جو ایک بستی کے قریب سے گزرا اور اس نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے یہ الفاظ کہے کہ اللہ تعالیٰ اس بستی کو کس طرح زندہ کرے گا ؟ اللہ تعالیٰ نے اسے سو سال تک فوت کیے رکھا پھر اسے اٹھا کر پوچھا کہ اے میرے پیغمبر تم کتنی دیر یہاں ٹھہرے ہو؟ حضرت عزیر (علیہ السلام) کو یہ خبر نہ تھی کہ وہ کتنی مدت تک مردہ پڑے رہے ہیں۔ چنانچہ انھوں نے جواب دیا کہ بارالہا ! میں ایک دن یا اس کا کچھ وقت یہاں ٹھہرا ہوں۔ اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا نہیں تم سو سال تک مردہ پڑے رہے ہو۔ اب اپنے کھانے پینے کو دیکھو کہ وہ جوں کا توں ترو تازہ ہے اور اس میں کوئی سڑا ندھ پیدا نہیں ہوئی۔ پھر اپنے گدھے کی طرف دیکھو کہ ہم تجھے کس طرح لوگوں کے لیے دلیل بناتے ہیں اپنے گدھے کی ہڈیوں کی طرف دیکھیے پھر ان کے سامنے گدھے کی ہڈیاں جڑیں اور اس کے اوپر گوشت چڑھا اس پر کھال اور بال اگے جب یہ سب کچھ واضح اور ثابت ہوا توحضرت عزیر (علیہ السلام) پکار اٹھے کہ میں جان چکا ہوں کہ اللہ ذرے ذرے پر اقتدار اور اختیار رکھنے والا ہے۔ (البقرہ : ٢٥٩) معجزات کی بنا پر ہی عیسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں عیسائیوں نے من گھڑت عقیدہ قائم کیا کہ وہ تین میں سے ایک ہیں یعنی عیسیٰ (علیہ السلام) اللہ تعالیٰ کے بیٹے ہیں تو اس باطل نظریہ کی تردید کے لیے قرآن مجید میں آل عمران کے نام سے ایک مفصل سورت نازل کی گئی جس میں عیسیٰ (علیہ السلام) کے خاندانی پس منظر، ان کی نانی محترمہ کا اللہ تعالیٰ کے حضور نذر ماننا، بیٹے کی بجائے حضرت مریم کا پیدا ہونا، حضرت زکریا (علیہ السلام) کا مریم کی کفالت کرنا، مریم کی والدہ کا مریم کو اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لیے وقف کرنا۔ اس طرح عیسیٰ (علیہ السلام) کے خاندانی پس منظر کیساتھ ان کی سوانح حیات کو پوری طرح کھول کر بیان کیا گیا ہے۔ اسی طرح یحییٰ (علیہ السلام) کا خدا کا بیٹا ہونے کی نفی کرتے ہوئے ان ہی کی زبان سے وضاحت کروائی گئی کہ میں اللہ کا بندہ اور رسول ہونے کے سوا کچھ نہیں ہوں۔ (مریم : ٣٠) اسی بنیاد پر یہاں وضاحت کی گئی ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) اللہ کا بندہ ہونے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے تھے یہاں یہ بات بھی واضح ہوجانی چاہیے اللہ تعالیٰ کو معلوم تھا اور ہے کہ نبی آخر الزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی امت میں بھی باطل عقائد کے لوگ ہوں گے جس کی بنا پر حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں بھی متعدد آیات میں روز روشن کی طرح یہ حقیقت واضح کردی گئی کہ آپ اللہ کے رسول اس کے بندے اور بشر ہیں اس عقیدہ کا یہاں تک التزام کردیا گیا کہ آدمی اس وقت تک دائرۂ اسلام میں داخل نہیں ہوسکتا جب تک وہ کلمۂ شہادت میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عبدیت کا اقرار نہیں کرلیتا اور اس کی پنجگانہ نماز مکمل نہیں ہو سکتی جب تک تشہد میں آپ کی عبدیت کی شہادت نہیں دیتا۔ یاد رہے کہ انبیاء ( علیہ السلام) کی عبدیت انسانیت کا شرف ہے۔ انبیاء کرام (علیہ السلام) شرف انسانیت کی شان اور ترجمان ہوا کرتے تھے۔ اس لیے ان کو عبد اور بشر ہونے میں ذرہ برابر بھی تأمل نہیں تھا۔ اس ضمن میں سند کی طرف توجہ کیے بغیر ہم تفسیرضیاء القرآن سے ایک حوالہ نقل کرتے ہیں۔ ” حضور رحمۃ للعالمین (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) معراج کی رات مقام قرب کی انتہا تک پہنچے تو اللہ تعالیٰ نے آپ سے پوچھا ” بما اشرفک یامحمد“۔ اے سراپا ستائش و خوبی ! میں آج تجھے کس اعزاز سے مشرف کروں تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عرض کی ” بنسبتی الیک بالعبودیۃ“ ” مجھے اپنا بندہ ہونے کا شرف عطا فرما“ شاید یہی حکمت ہے کہ جس سورۃ میں معراج کا ذکر ہے وہاں حضور کے متعلق عبدہ کا لفظ مذکو رہے۔“ اسی لیے اس فرمان کے آخر میں فرمایا کہ جو لوگ عیسیٰ (علیہ السلام) کی اس حیثیت پر ایمان لائیں گے اور صالح کر دار اپنائیں گے۔ اللہ تعالیٰ انھیں ان کے اعمال کا پورا پورا صلہ دینے کے ساتھ اپنی طرف سے مزید اجر سے نوازیں گے۔ اور جنھوں نے عقیدہ توحید اور اللہ کی الوہیت سے انکار کیا۔ ان کے لیے اذیت ناک عذاب ہوگا۔ کوئی ان کی خیر خواہی اور مدد نہیں کرسکے گا۔ مسائل ١۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اللہ کے بندے تھے اور بندہ ہونا اپنے لیے عار نہیں سمجھتے تھے۔ ٢۔ اللہ کی بندگی کو عار نہیں سمجھنا چاہیے۔ ٣۔ فرشتے اللہ تعالیٰ کی بندگی کو عار نہیں سمجھتے۔ ٤۔ جو اللہ تعالیٰ کی عبادت کو عار سمجھے گا اسے اذیت ناک سزا دی جائے گی۔ ٥۔ ایمان لانے اور عمل صالح کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے نوازتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا مرتبہ و مقام اور ان کا اقرار کہ میں اللہ کا بندہ ہوں : ١۔ حضرت عیسیٰ کی تخلیق اللہ تعالیٰ کے نزدیک آدم جیسی ہے۔ (آل عمران : ٥٩) ٢۔ حضرت عیسیٰ کو اللہ نے اپنی طرف اٹھا لیا۔ (النساء : ١٥٨) ٣۔ عیسیٰ بن باپ کے پیدا ہوئے۔ (آل عمران : ٥٩) ٤۔ عیسیٰ نے اپنی والدہ کی گود میں اپنی نبوت اور بندہ ہونے کا اعلان فرمایا۔ (مریم : ٢٩، ٣٠) ٥۔ عیسیٰ مادر زاد اندھے اور کوڑھی کو تندرست کرتے تھے (آل عمران : ٤٩) ٦۔ عیسیٰ مٹی سے اڑنے والا پرندہ بناتے تھے۔ (آل عمران : ٤٩) ٧۔ عیسیٰ لوگوں کے اندوختے کی خبر دیتے تھے۔ (آل عمران : ٤٩) ٨۔ حضرت عیسیٰ کی حضرت جبریل امین خصوصی معاونت فرماتے تھے۔ (البقرۃ: ٢٥٣) النسآء
173 النسآء
174 فہم القرآن ربط کلام : اس سورت کی ابتداء بھی ” یَاَ ایُّھَا النَّاسُ“ کے الفاظ سے ہوئی تھی۔ اور اختتام بھی انھی الفاظ اور مسائل سے کیا جارہا ہے۔ اس سورۃ مبارکہ میں یہود و نصاریٰ اور مومنوں کے ساتھ تیسری مرتبہ تمام لوگوں کو دعوت عام دی گئی ہے کہ اے لوگو! ادھر ادھر کے اعمال اور عقائد کی اتباع چھوڑ کر صرف اس برہان کی پیروی اور واضح روشنی کے پیچھے چلو جو تمھارے لیے دو جہاں کے راستوں کو منور کر دے گی۔ برہان سے مراد مفسرین نے رسول مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات اور نور سے مراد قرآن مجید کی تعلیمات لی ہیں۔ رسول کی آمد کے بعد لوگوں کے پاس اللہ تعالیٰ کی عدالت عظمیٰ میں حجت ختم ہوجاتی ہے۔ اللہ کا رسول آچکا اور اس نے زندگی کے تمام شعبوں میں قرآن مجید پر عمل کرکے دکھلا دیا۔ لہٰذا لوگوں کا فرض بنتا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ پر ایمان لائیں یعنی اس کی توحید کو سمجھیں اور اس کے تقاضے پورے کریں اور قرآن و سنت کے ساتھ اعتصام کرتے ہوئے اپنی زندگی سنواریں۔ جس کے بدلے اللہ تعالیٰ انھیں اپنے فضل و کرم سے نوازتے ہوئے صراط مستقیم پر گامزن رہنے کی توفیق دے گا۔ النسآء
175 (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ قَالَ (رض) خَطَّ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خَطًّا بِیَدِہٖ ثُمَّ قَالَ ھٰذَا سَبِیْلُ اللّٰہِ مُسْتَقِیْمًا قَالَ ثُمَّ خَطَّ عَنْ یَّمِیْنِہٖ وَشِمَالِہٖ ثُمَّ قَالَ ھٰذِہِ السُّبُلُ وَلَیْسَ مِنْھَا سَبِیْلٌ إِلَّا عَلَیْہِ شَیْطَانٌ یَدْعُوْ إِلَیْہِ ثُمَّ قَرَأَ (وَاََنَّ ھٰذَا صِرَاطِیْ مُسْتَقِیْمًا فَاتَّبِعُوْہُ وَلَا تَتَّبِعُوْا السُّبُلَ) [ رواہ احمد ] ” حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) فرماتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے ہاتھ سے ایک لکیر کھینچی پھر فرمایا یہ اللہ کا سیدھا راستہ ہے پھر اس کے دائیں اور بائیں خط کھینچ کر فرمایا یہ راستے ہیں ان سب میں سے ہر ایک پر شیطان کھڑا ہے اور وہ اس کی طرف بلاتا ہے پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس آیت کی تلاوت کی (بے شک یہ میرا سیدھا راستہ ہے اسی پر چلتے رہنا اور پگڈنڈیوں پر نہ چلنا۔) “ (الانعام : ١٥٣) مسائل ١۔ قرآن مجید ہدایت کا سر چشمہ ہے۔ ٢۔ قرآن کو مضبوطی سے تھامنے والے اللہ کے فضل و کرم سے ہمکنار ہوں گے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ قرآن مجید کے ذریعے لوگوں کو صراط مستقیم کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔ ٤۔ قرآن مجید چمکتا ہوا نورہے۔ تفسیر بالقرآن نور کیا ہے ؟ ١۔ اللہ تعالیٰ کی ذات زمین و آسمان کا نور ہے۔ (النور : ٣٥) ٢۔ قرآن نور ہے۔ (النساء : ١٧٤) ٣۔ توحید نور ہے۔ (البقرۃ: ٢٥٧) ٤۔ حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نور کی طرف بلاتے تھے۔ ( الطلاق : ١١، ابراہیم : ١) ٥۔ تمہارے پاس اللہ کی طرف سے کتاب مبین کی صورت میں نور آگیا۔ ( المائدۃ : ١٥) ٦۔ توراۃ و انجیل نور ہیں۔ (المائدۃ : ٤٤۔ ٤٦) ٧۔ وہ ذات جس نے سورج کو ضیاء اور چاند کو نور بنایا۔ ( یونس : ٥) النسآء
176 فہم القرآن ربط کلام : اس سورۃ کی ابتدا معاشرہ کے پسماندہ طبقہ یعنی یتیموں کے مالی حقوق سے ہوئی تھی اور اس کا اختتام بھی معاشرتی اعتبار سے کمزور افراد کے مالی تحفظ سے کیا گیا ہے۔ سورۃ النساء کی ابتدا میں بنی نوع انسان کو ایک کنبہ قرار دیتے ہوئے یتیموں اور عورتوں کے حقوق کا خیال رکھنے کا حکم دیا گیا تھا۔ اب اس سورۃ کا اختتام خاندانی لحاظ سے کمزور ترین انسان کے متعلقہ مسائل سے کیا جا رہا ہے۔ جسے قرآن نے کلالہ کے نام سے متعارف کروایا ہے۔ کلالہ کی تعریف : کلالہ وہ شخص ہے جس کے نہ والدین ہوں نہ دادا، دادی اور نہ اولاد اور نہ پوتے پوتیاں، خواہ وہ مرد ہو یا عورت۔ بے شک اس کے بہن بھائی ہوں کلالہ ہی تصور ہوگا۔ اخیافی بہن بھائیوں کا حصہ 1/3 ہے۔ اور اگر ایک بہن اور ایک بھائی ہو تو ہر ایک کا 1/6 ہے۔ اور اگر بہن بھائی زیادہ ہوں تو بھی انھیں 1/3 سے زیادہ نہیں ملے گا اور یہ 1/3 ان میں برابر تقسیم ہوگا۔ مرد کو عورت سے دو گنا نہیں ملے گا۔ اور اگر صرف ایک ہی بھائی یا صرف ایک ہی بہن ہو تو اسے 1/6 ملے گا۔ باقی پہلی صورت میں 2/3 اور دوسری صورت میں 5/6 بچ جائے گا۔ کلالہ باقی حصہ کے متعلق وصیت کرسکتا ہے یا پھر یہ حصہ ذوی الارحام میں تقسیم ہوگا بشرطیکہ کوئی عصبہ نہ مل رہا ہو۔ اولاد کی تین قسمیں ہیں : ١۔ عینی : وہ بہن بھائی جو سگے ہوں۔ ٢۔ علاتی : جن کا باپ ایک ہو اور مائیں الگ الگ ہوں۔ ٣۔ اخیافی : جن کی ماں ایک اور باپ الگ الگ ہو۔ اخیافی بہن بھائیوں کے متعلق احکامات اسی سورت کی آیت نمبر ١٢ میں بیان ہوچکے ہیں۔ جو اس آیت ١٧٦ میں بیان ہو رہے ہیں یہ حقیقی یا سوتیلے بہن بھائیوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ کلالہ کی میراث کی تقسیم میں دو باتوں کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔ ایک یہ کہ اگر کلالہ کے حقیقی اور سوتیلے دونوں قسم کے بہن بھائی موجود ہوں تو سوتیلے کو محروم رکھا جائے گا۔ اور اگر حقیقی نہ ہوں تو پھر سوتیلے بہن بھائیوں میں جائیداد تقسیم ہوگی۔ دوسرا یہ کہ کلالہ کے بہن بھائیوں میں تقسیم میراث کی بالکل وہی صورت ہوگی جو اولاد کی صورت میں ہوتی ہے۔ یعنی اگر صرف ایک بہن ہو تو اس کو آدھا حصہ ملے گا۔ دو یا دو سے زیادہ بہنیں ہوں تو ان کو دو تہائی ملے گا۔ اگر صرف بھائی ہی ہو تو تمام تر کہ کا واحد وارث ہوگا۔ اگر بہن بھائی ملے جلے ہوں تو ان میں سے ہر مرد کو دو حصے اور ہر عورت کو ایک حصہ ملے گا۔ یہاں یعنی آیت ١٧٦ میں بہن سے مراد سگی اور باپ کی طرف سے جو بہن ہو اس کا ذکر ہو رہا ہے۔ ایسی بہن کو نصف ترکہ ملے گا اور بقیہ نصف اگر کوئی عصبہ ہو یعنی چچا، چچا زاد بھائی تو ان کو یہ نصف ملے گا ورنہ یہ نصف بھی بہن کی طرف لوٹ آئے گا۔ پھر اگر دو بہنیں ہوں تو ان کو دو تہائی ملے گا اور بقیہ ثلث عصبہ کو ملے گا اور اگر عصبہ کوئی نہ ہو تو یہ بھی ثلث ان کو ملے گا۔ دو یا دو سے زیادہ بہنوں کا یہی حکم ہے۔ اگر کلالہ کے وارثوں میں بھائی اور بہن دونوں ہوں تو بھائی کو دو حصے اور بہن کو ایک حصہ ملے گا۔ مسائل ١۔ کلالہ کی صرف بہن ہو تو وہ نصف ترکہ کی مالک ہوگی۔ ٢۔ اگر کلالہ کی دو بہنیں ہیں تو ان کے لیے دو تہائی ہے۔ ٣۔ اگر کلالہ کے بہن بھائی ہوں تو ” للذکر مثل حظ الانثیین“ کے تحت وراثت تقسیم ہوگی۔ النسآء
0 سورۃ المائدۃ کی آیت نمبر ٥ کے سو ا باقی تمام آیات مدینہ طیبہ اور اس کے گرد ونواح میں نازل ہوئی ہیں۔ جس بنا پر اس سورت مبارکہ کو مدنی کہا جاتا ہے۔ اس کی آیات ایک سو بیس (١٢٠) رکوع سولہ (١٦) اور اس کے حروف بارہ ہزار چار سو چونسٹھ ہیں۔ اس کا نام آیت ١١٤ کی بنا پر رکھا گیا ہے جس کا معنی ہے دستر خوان کیونکہ عیسائیوں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) سے آسمان سے دستر خوان نازل ہونے کا مطالبہ کیا تھا۔ سورت کے نزول کا آغاز صلح حدیبیہ کے زمانہ میں ہوا اور اس کی تکمیل حجۃ الوداع کے موقعہ پر میدان عرفات میں ہوئی۔ اس میں دوٹوک انداز میں اعلان ہوا ہے کہ اے مسلمانوں ! آج کے بعد کفار تمہارے دین سے قطعی طور پر مایوس ہوچکے ہیں کیونکہ انہیں پوری طرح باور ہوچکا ہے کہ اس دین (جن کفار کو پوری طرح باور ہوگیا کہ ” اسلام“ دین حق ہے وہ اسے قبول کرکے مسلمان ہوگئے) کو مٹانا کسی کے بس کا روگ نہیں دوسری طرف اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو مخاطب فرمایا کہ اب تمہارے دشمن کا زور ٹوٹ چکا ہے ان کی ہر سازش اور شرارت ناکام ہوئی اور انہیں ہر محاذ پر منہ کی کھانی پڑی لہٰذا اب دین اسلام کے غلبہ اور تمہارے عروج کا دور ہے کہیں ایسانہ ہو کہ تم اقتدار اور اختیار کے نشہ میں آکر دین اسلام کی اخلاقی اقدار کو پامال کرو۔ تمہیں حکم دیا جاتا ہے کہ ہر قسم کے عہدکی پاسداری کرنا چاہے وہ ایمان کی صورت میں اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ ہو یا ایک فرد یا قوم کا دوسرے فرد اور قوم کے ساتھ ہو۔ اللہ تعالیٰ کے ساتھ عہد کی پاسداری کا تقاضا ہے کہ اس کے حلال کو حلال سمجھو اور اس کی حرام کردہ چیزوں کو حرام جانو۔ کسی قوم کی دشمنی تمہیں شریعت کی حدود اور اخلاقی قدروں کو پامال کرنے پر آمادہ نہ کرپائے۔ اس کے بعد تیسرے رکوع میں بنی اسرائیل سے لیے گے عہد کا تذکرہ کیا تاکہ مسلمانوں کو معلوم ہو کہ دین کے بنیادی تقاضے ہمیشہ ایک رہے ہیں جو بندے کا اللہ تعالیٰ سے عہد کرنے کے مترادف ہے۔ اس کے بعد یہود ونصارٰی کے اس دعوے کی تردید کی گئی ہے کہ جو وہ لوگوں پر اپنا تقدس قائم کرنے کے لیے کرتے ہیں کہ ہم اللہ تعالیٰ کے چہیتے ہیں اور عیسیٰ (علیہ السلام) اللہ تعالیٰ کے بیٹے ہیں۔ اس میں یہ واضح فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی کوئی اولاد نہیں اور اس کا محب وہی ہوسکتا ہے جو قرآن مجید کی تعلیمات کو تسلیم کرنے اور نبی آخرالزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لانے والا ہو۔ اس کے بعد بنی اسرائیل کا جہاد سے انحراف بیان کیا اور آدم (علیہ السلام) کے ایک بیٹے کا اپنے بھائی کے ہاتھوں قتل ہونے کا واقعہ بیان کرنے کے ساتھ دین کے فوجداری قوانین ذکر فرمائے، پھر مسلمانوں کو براہ راست مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں شخصیات کو وسیلہ بنانے کی بجائے جہاد فی سبیل اللہ اور تقوٰی کے ذریعے اپنے رب کے قریب ہونے کی کوشش کرو۔ آیت نمبر ٥٦ سے لیکر نمبر ٦٦ میں یہ بیان کیا کہ یہود ونصارٰی مسلمانوں کے دلی دوست اور کبھی خیرخواہ نہیں ہوسکتے لہٰذا اے رسول مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ کو رائے عامہ کے خوف اور یہود ونصارٰی سے ڈرے بغیر رسالت کے پیغام کو من وعن لوگوں تک پہنچانا چاہیے یہ تو وہ لوگ ہیں جن کے باطل عقیدہ اور گھناؤنے کردار کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اور حضرت داؤد (علیہ السلام) سے لے کر حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) تک تمام انبیاء نے ان پر لعنت کی ہے حضرت داؤد اور جناب عیسیٰ کا اس لیے ذکر کیا کہ یہودی موسیٰ کے بعد حضرت داؤد (علیہ السلام) اور عیسائی حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ محبت کا دعویٰ کرتے ہیں تاہم یہ وضاحت فرمائی کہ عیسائیوں میں ایک فرقہ ایسا ہے کہ جو مسلمانوں کے بارے میں نرم گوشہ رکھتا ہے اور اسی نرمی کی بناء پر ان میں کئی لوگ قرآن مجید سن کر نبی آخرالزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لے آتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو اپنے فضل وکرم کے ساتھ جنت میں داخل کرے گا۔ آیت نمبر ٨٧ تا ١٠٨ تک قسم کے کفارے کا بیان ہے شراب، جوا، بتوں اور مختلف طریقوں سے اپنی قسمت معلوم کرنے کو ناجائز قرار دیا ہے احرام کی حالت میں خشکی کا شکار کرنا حرام اور بحری سفر میں دریائی شکار کو جائز قرار دیا ہے۔ ان مسائل کے بعدمسلمانوں کو یہ تلقین فرمائی کہ نزول قرآن کے زمانہ میں سوالات کرنے سے اجتناب کرو اور اپنے آباؤ اجدادکی تقلید کرنے کی بجائے رسول کی اتباع کو مقدم جانو اگر تم ایساکرو گے تو تمہارے دشمن تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکیں گے۔ سورۃ المائدۃ کے اختتام میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے عظیم الشان معجزات بیان کرتے ہوئے واضح فرمایا کہ اتنے عظیم معجزات ملنے کے باوجودعیسائیوں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) سے یہ مطالبہ کیا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک دستر خوان نازل ہونا چاہیے تاکہ ہم اس سے کھا کر مطمئن اور لطف اندوز ہوں۔ اس سورت کا اختتام اس بات پر کیا گیا کہ محشر کے میدان میں عیسائیوں کے مشرکا نہ عقیدہ کی وجہ سے حضرت عیسیٰ سے وضاحت طلب کی جائے گی کہ اے عیسیٰ کیا آپ نے عیسائیوں کو یہ عقیدہ پڑھایا اور سمجھا یا تھا کہ وہ مجھے اور میری والدہ کو اللہ کا شریک بنا لیں جس کے جواب میں حضرت عیسیٰ نہایت ہی عاجزانہ انداز میں اپنی صفائی پیش کرتے ہوئے عرض کریں گے کہ اے مولائے کریم! اگر میں نے یہ بات کہی تو آپ مجھ سے بہتر جانتے ہیں کیونکہ آپ دلوں کے بھید اور سینوں کے راز جاننے والے ہیں۔ اس التجا کے ساتھ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) یہ بھی عرض کریں گے اے رب ذوالجلال ! اگر آپ ان کو عذاب کریں تو یہ تیرے ہی بندے ہیں اگر آپ معا ف فرمادیں تو آپ کو کوئی روکنے والا نہیں کیونکہ آپ فیصلہ کرنے کا اختیار رکھتے ہیں اور آپ کے حکم میں بڑی حکمتیں پنہاں ہوتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ حضرت عیسیٰ کی در خواست کو یہ کہہ کر مسترد فرما دیں گے کہ آج سچے لوگوں کو ان کی سچائی کا ہی فائدہ پہنچے گا۔ اہل علم نے لکھا ہے کہ یہاں سچائی سے مراد اللہ کی توحید کا عقیدہ ہے جس کے بغیر کوئی نیک سے نیک عمل بھی اللہ کے حضور قبول نہیں ہوگا۔ المآئدہ
1 فہم القرآن ربط کلام : سورۃ النساء کا آغاز عام لوگوں کے خطاب سے ہوا۔ سورۃ المائدۃ کا آغاز مومنوں سے خطاب کرتے ہوئے کیا گیا ہے۔ ایمان کا معنی ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کی ذات اور ان کے احکام کو تسلیم کرنا۔ جس کا مفہوم یہ ہوا کہ ” اے صاحب ایمان لوگو! تمہارا اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانا ایک عہد ہے۔ لہٰذا اس عہد کی پاسداری کرو۔ عقود عقد کی جمع ہے۔ اس کا معنی ہے ” کسی سے پختہ عہد کرنا۔“ اس کی تین اقسام ہیں۔ ١۔ بندے کا اللہ تعالیٰ سے عہد۔ جو ایمان لانے کی صورت میں کرتا ہے۔ ٢۔ انسان کا اپنے دل ہی دل میں اللہ تعالیٰ سے کوئی عہد کرنا۔ ٣۔ آدمی کا دوسرے کے ساتھ عہد کرنا۔ حاکم اور رعیت کا ایک دوسرے کے ساتھ، کسی خاندان کا دوسرے خاندان اور ایک قوم کا دوسری قوم کے ساتھ عہد کرنا عقود میں شامل ہے میاں بیوی کے نکاح کے لیے بھی قرآن مجید نے عقد کا لفظ استعمال کیا ہے۔ کیونکہ نکاح میاں، بیوی کے درمیان ایک پختہ عہد ہے۔ یہ بات بھی عہد کی پاسداری میں شامل ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو جانور حلال کیے ہیں۔ انھیں ہی کھایا جائے۔ سوائے ان کے جن کا شکار کرنا احرام کی حالت میں منع کیا گیا ہے۔ البتہ حدیث میں اس بات کی رخصت دی گئی کہ اگر محرم نے شکار کرنے میں کسی قسم کی معاونت نہ کی ہو تو وہ غیر محرم کا کیا ہوا شکار کھا سکتا ہے۔ احرام وہ لباس ہے جو عمرہ اور حج کے موقعہ پر اللہ تعالیٰ نے اپنے گھر میں حاضری دینے والوں کے لیے مقرر فرمایا ہے۔ احرام اور بیت اللہ کی حاضری کا تقاضا یہ ہے کہ آدمی شریعت کی عائد کردہ دوسری پابندیوں کے ساتھ شکار کرنے سے بھی اجتناب کرے۔ بہیمہ سے مراد وہ جانور ہیں جو گوشت کھانے کی بجائے زمین کی پیداوار سے خوراک حاصل کرتے ہیں۔ گوشت خور جنھیں عرف عام میں درندہ کہا جاتا ہے۔ ان کو حرام کرنے کی حکمت یہ معلوم ہوتی ہے کہ یہ جانور وحشی طبیعت کے ہوتے ہیں۔ جن کے کھانے سے انسان میں وحشت اور درندگی کے جذبات پیدا ہوتے ہیں۔ عہد کی پاسداری کا حکم دینے کے بعد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ جس طرح چاہتا ہے حکم جاری کرتا ہے۔ انسان کی طبیعت کھانے پینے میں کسی قسم کی پابندی کو اپنے لیے بوجھ تصور کرتی ہے۔ جس کی وجہ سے وہ ہر چیز کے حرام، حلال کا فلسفہ جاننے کی کوشش کرتا ہے۔ جب اسے اس چیز کا فلسفہ سمجھ نہیں آتا تو وہ اللہ تعالیٰ کے حکم پر لب کشائی کرنے کی جسارت کرتا ہے۔ جس سے یہ کہہ کر منع کیا گیا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی مرضی ہے کہ وہ جس چیز کو چاہے حلال کرے اور جس کو چاہے حرام قرار دے۔ حرمت و حلت کا اختیار اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو بھی عطا نہیں فرمایا۔ (التحریم : ١) اس لیے اللہ تعالیٰ کا حکم ماننا ہی عہد کی پاسداری اور ایمان کا تقاضا ہے (عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ (رض) قَالَ مَا خَطَبَنَا نَبِیُّ اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) إِلاَّ قَالَ لاَ إِیمَانَ لِمَنْ لاَ أَمَانَۃَ لَہُ وَلا دینَ لِمَنْ لاَ عَہْدَ لَہُ) [ مسند احمد، ٣١: مسند انس بن مالک] ” حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں جب کبھی بھی خطبہ ارشاد فرمایا تو الفاظ ضرور ادا فرمائے کہ اس بندے کا ایمان نہیں جو امانت دار نہیں اور اس بندے کا دین نہیں جو وعدے کی پاسداری نہیں کرتا۔“ مسائل ١۔ عہد کی پاسداری کرنی چاہیے۔ ٢۔ حالت احرام میں شکار کرنا جائز نہیں۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ اپنی مرضی سے فیصلے کرتا ہے۔ تفسیر بالقرآن ایفاء عہد کا حکم : ١۔ اللہ کے بندے وعدہ ایفاء کرتے ہیں۔ (البقرۃ: ١٧٧) ٢۔ اللہ کے ساتھ کیے ہوئے عہد کو پورا کرو۔ (الانعام : ١٥٢) ٣۔ ایماندار اللہ تعالیٰ کے ساتھ اپنا عہد پورا کرتے ہیں۔ (الرعد : ٢٠) ٤۔ اللہ کے عہد کا ایفاء ضروری ہے۔ (النحل : ٩١) ٥۔ قیامت کے دن ایفائے عہد کے بارے میں سوال ہوگا۔ (الاسراء : ٣٤) ٦۔ جو اللہ کا وعدہ پورا کرے گا اللہ تعالیٰ اس کے ساتھ اپنا وعدہ پورا فرمائے گا۔ (البقرۃ: ٤٠) المآئدہ
2 فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ : پہلے بھی عرض کیا جا چکا ہے کہ حرمت و حلت کے سلسلہ میں انسان حد سے زیادہ حساس واقع ہوا ہے۔ اس لیے پھر ” یَاَیّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا“ کے خطاب سے حرمت و حلت کے مسائل کی تفسیر بیان کی جار ہی ہے۔ جس کا مفہوم یہ بھی لیا جا سکتا ہے کہ اے ایمان کا دعوی کرنے والو۔ اپنے ایمان کو تازہ اور پختہ کرو اور حرمتوں کا احترام کرو حرمتوں کے لیے ” شعائر اللّٰہ“ کا لفظ استعمال کیا تاکہ ان کی اہمیت کا مزید احساس پیدا ہو شعائر ” شعیر ۃ“ کی جمع ہے۔ جس کا معنی ہے کہ دین کی ایسی علامت جس سے دین یا اس کے کسی رکن کی شناخت اور تکریم واضح ہوتی ہو۔ شعائر اللہ میں سے چار کا یہاں ذکر کیا گیا ہے۔ بعض اہل علم نے شعائر میں کسی قوم یا ملک کی اس نشانی کو بھی شامل کیا ہے جس سے کسی قوم کی قومی اور مذہبی شناخت ہوتی ہے۔ جیسا کہ قومی پرچم اور مخصوص قومی لباس ہے۔ انھیں قومی شعائر تو کہا جا سکتا ہے لیکن یہ چیزیں شعائر اللہ کا مقام حاصل نہیں کرسکتیں۔ ١۔ حرمت والے مہینے۔ ذیقعدہ، ذوالحجہ، محرم اور رجب، یہ مہینے اس وقت سے محترم قرار پائے ہیں۔ جب سے اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان کو پیدا فرمایا ہے۔ (التوبۃ : ٣٦) مفسرین نے ان کی یہ حکمت بیان کی ہے کہ ان مہینوں میں لوگ حج کرنے کے لیے بیت اللہ آیا کرتے تھے۔ اس لیے ابتدائے آفرینش سے انھیں محترم قرار دیا گیا تاکہ دور دراز سے آنے جانے والے زائرین کو تحفظ فراہم کیا جا سکے۔ ان میں تین مہینے تو متواتر ہیں جبکہ چوتھا مہینہ رجب ہے جو رمضان المبارک سے دو مہینے پہلے آتا ہے اس کو اس لیے محترم ٹھہرایا گیا کہ قدیم زمانے سے لوگ اس میں بیت اللہ کی زیارت اور عمرہ کے لیے آیا کرتے تھے۔ (٢) (الھدی) اس سے مراد وہ جانور ہے جس کو بیت اللہ میں قربانی کے لیے نامزد کیا گیا ہو (٣) (القلآئد) اس سے مراد وہ نشانیاں ہیں جو بیت اللہ بھیجے جانیوالے جانوروں کے گلے میں ڈالی جاتی تھیں۔ یہ پرانی جوتی، دھاگہ یا اس کے جسم پر ہلکی سی خراش دے کر اس کے بالوں پر خون لگا دیا جاتا تھا تاکہ معلوم ہو کہ یہ جانور اللہ کے لیے قربانی کرنے کے لیے رکھا گیا ہے۔ (٤) زائرین حرم۔ یہ لوگ اللہ کی راہ کے مسافر، اس کے گھر کے مہمان اور اس کے فضل و کرم کے طلبگار ہوتے ہیں اس لیے ان کا احترام و اکرام کرنا بھی واجب قرار دیا گیا ہے۔ احرام کی حالت میں شکار کھیلنے پر پابندی تھی اب اس کی اجازت عنایت فرمائی کہ جب تم احرام کھول دو تو شکار کرنے کی اجازت ہے۔ صلح حدیبیہ کے موقع پر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے صحابہ کو کفار نے مکہ داخل ہونے سے روک دیا تھا۔ جو عربوں کی دینی اور ملّی روایات کے خلاف تھا۔ خطرہ تھا کہ صحابہ کرام اس حالت میں مدینہ واپس لوٹیں گے تو مدینہ کے راستے سے بیت اللہ کی زیارت کرنے والے کفار کو اس طرح روکنے کی کوشش کریں۔ جس طرح صحابہ کو روکا گیا تھا لہٰذا سختی کے ساتھ منع کردیا گیا کہ کسی قوم کا رد عمل بیت اللہ کی طرف آنے والے مسافروں کے لیے رکاوٹ نہیں بننا چاہیے۔ دوسرے لفظوں میں یہ مسلمانوں کی شان کے منافی ہے کہ وہ کفار جیسا وطیرہ اختیار کریں۔ مسلمان کی شان اور کردار یہ ہونا چاہیے کہ وہ ہر نیکی اور تقوٰی کے کام میں تعاون کرے۔ چاہے نیکی کرنے والا مسلمان کا مخالف ہی کیوں نہ ہو۔ مسلمانوں کو ظلم اور گناہ کی معاونت ہرگز نہیں کرنا چاہیے۔ بے شک ظلم اور گناہ کرنے والے ان کے عزیز و اقرباء کیوں نہ ہوں۔ مسلمان کا فرض بنتا ہے کہ وہ اللہ سے ڈرتے ہوئے نیکی اور تقوٰی کے کام میں تعاون کرے بصورت دیگر۔ یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ سخت پکڑنے والا ہے۔ الا یہ کہ نیکی اور تقوٰی کا نام لے کر کوئی شخص اس کے پس منظر میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف کسی سازش کا ارتکاب کرے تو بظاہر نیکی ہونے کے باوجود ایسے آدمی سے تعاون نہیں کرنا چاہیے۔ اس لیے حضرت علی (رض) نے خارجیوں سے یہ کہہ کر عدم تعاون کا اعلان کیا تھا کہ یہ لوگ نیکی کے پردے میں باطل کی تائید کر رہے ہیں۔ (کَلِمَۃَ حَقٍ اَرِیْدَ بِہْ الْبَاطِلَ)[ البدایہ والنہایہ] مسائل ١۔ اللہ کی نشانیوں (مناسک حج وغیرہ) کی بے حرمتی کرنا جائز نہیں۔ ٢۔ عازمین حج کا احترام کرنا لازم ہے۔ ٣۔ باہمی رنجش کی وجہ سے کسی کو بیت الحرام سے روکناجائز نہیں۔ ٤۔ نیکی کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا چاہیے۔ ٥۔ گناہ کرنے والوں کی حوصلہ افزائی نہیں کرنی چاہیے۔ ٦۔ اللہ تعالیٰ کی پکڑ سے ڈرتے رہنا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن اللہ کا فضل : ١۔ انسان کا خسارے سے بچنا اللہ کے فضل کا نتیجہ ہے۔ (البقرۃ: ٦٤) ٢۔ اللہ تعالیٰ لوگوں پر فضل کرنے والا ہے۔ (البقرۃ: ٢٤٣) ٣۔ اللہ جس پر چاہتا ہے اپنا فضل کرتا ہے۔ (آل عمران : ٧٤) ٤۔ اللہ مومنوں پر اپنا فضل کرتا ہے۔ (آل عمران : ١٥٢) ٥۔ اللہ کے فضل کے بغیر آدمی شیطان کا غلام بن جاتا ہے۔ (النساء : ٨٣) ٦۔ مومنوں کو اللہ تعالیٰ کے فضل پر خوش ہونا چاہیے۔ (یونس : ٥٨) المآئدہ
3 فہم القرآن ربط کلام : حرام و حلال کی مزید تفصیل۔ دین کے معانی : دین اسلام اپنے کام اور نظام کے اعتبار سے کامل اور اکمل ہی نہیں بلکہ یہ تو اپنے نام کے دامن میں بھی پوری جامعیت اور دنیا وآخرت کے معاملات کا احاطہ کیے ہوئے ہے چنانچہ دین کا معنی ہے (١) تابع دار ہونا (٢) دوسرے کو اپنا تابع فرمان بنانا (٣) مکمل اخلاص اور یکسوئی کا اظہار کرنا۔ (٤) قانون (٥) مکمل ضابطۂ حیات (٦) جزاء وسزا اور قیامت کے دن کے لیے بھی لفظ دین بولا جاتا ہے۔ ذیل میں چند حوالے ملاحظہ فرمائیں۔ اطاعت : (اِنَّآ اَنْزَلْنَا اِلَےْکَ الْکِتٰبَ بالْحَقِّ فَاعْبُدِ اللّٰہَ مُخْلِصًا لَّہُ الدَّےْنَ۔ اَلاَ لِلّٰہِ الدِّےْنُ الْخَالِصُ) [ الزمر : ٢، ٣] ”(اے نبی) یہ کتاب ہم نے تمہاری طرف برحق نازل کی ہے۔ لہٰذا تم اللہ ہی کی بندگی کرو (اطاعت) کو اسی کے لیے خالص کرتے ہوئے۔ خبردار، اطاعت خالص اللہ کا حق ہے۔“ تابع بنانا : (ہُوَ الَّذِی أَرْسَلَ رَسُولَہُ بالْہُدٰی وَدِینِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہُ عَلَی الدِّینِ کُلِّہٖ وَلَوْ کَرِہَ الْمُشْرِکُونَ)[ التوبۃ: ٣٣] ” وہی تو ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور سچے دین کے ساتھ بھیجا تاکہ اس دین کو سب ادیان پر غالب کردے چاہے مشرک ناپسند ہی کریں۔“ قانون اور ضابطہ : (فَبَدَاَ بِاَوْعِےَتِھِمْ قَبْلَ وِعَآءِ اَخِےْہِ ثُّمَّ اسْتَخْرَجَھَا مِنْ وِّعَاءِ اَخِےْہِ کَذٰلِکَ کِدْنَا لِےُوْسُفَ مَا کَانَ لِےَاْخُذَ اَخَاہُ فِی دِےْنِ الْمَلِکِ) [ یوسف : ٧٦] ” تب یوسف نے اپنے بھائی سے پہلے ان دوسروں کی خرجیوں کی تلاشی لینی شروع کی‘ پھر اپنے بھائی کی خرجی سے گم شدہ چیز برآمد کرلی۔ اس طرح ہم نے یوسف کی تائید اپنی تدبیر سے کی۔ اسے یہ اختیار نہ تھا کہ بادشاہ کے دین یعنی مصر کے شاہی قانون میں اپنے بھائی کو پکڑتا۔“ نظام حکومت : (وَقَالَ فِرْعَوْنُ ذَرُوْنِیْ اَقْتُلْ مُوْسٰی وَلْےَدْعُ رَبَّہٗ اِنِّیْٓ اَخَافُ اَنْ یُّبَدِّلَ دِےْنَکُمْ اَوْ اَنْ یُّظْھِرَ فِی الْاَرْضِ الْفَسَادَ )[ مومن : ٢٦] ” ایک روز فرعون نے اپنے درباریوں سے کہا‘ چھوڑو مجھے میں اس موسیٰ کو قتل کیے دیتا ہوں اور پکار دیکھے یہ اپنے رب کو۔ مجھے اندیشہ ہے کہ یہ تمہارا دین بدل ڈالے گا یا ملک میں فساد برپا کرے گا۔“ دین بمعنی دین : (قَاتِلُوا الَّذِےْنَ لَا ےُؤْمِنُوْنَ باللّٰہِ وَلَا بالْےَوْمِ الْاٰخِرِ وَلَا ےُحَرِّمُوْنَ مَا حَرَّمَ اللّٰہُ وَرَسُوْلُہٗ وَلَا ےَدِےْنُوْنَ دِےْنَ الْحَقِّ) [ التوبہ : ٢٩] ” جنگ کرو اہل کتاب میں سے ان لوگوں کے خلاف جو اللہ اور روز آخر پر ایمان نہیں لاتے اور جو کچھ اللہ اور اس کے رسول نے حرام قرار دیا ہے اسے حرام نہیں کرتے اور دین حق کو اپنا دین نہیں بناتے۔“ روز قیامت : (یَّصْلَوْنَھَا ےَوْمَ الدِّ ےْنِ وَمَا ھُمْ عَنْھَا بِغَآءِبِےْنَ وَمَآ اَدْرٰکَ مَا ےَوْمُ الدِّےْنِ ثُمَّ مَآ اَدْرٰکَ مَا ےَوْمُ الدِّےْنِ) [ الانفطار : ١٥ تا ١٨] ” جزا کے دن وہ اس میں داخل ہوں گے اور اس سے ہرگز غائب نہ ہو سکیں گے۔ اور تم کیا جانتے ہو کہ وہ جزا کا دن کیا ہے ؟ ہاں تمہیں کیا خبر کہ وہ جزا کا دن کیا ہے۔“ جزاء و سزا : (مٰلِکِ ےَوْمِ الدِّےْنِ) [ فاتحۃ: ٣] ” روز جزا کا مالک ہے۔“ مذہب اور دین میں بنیادی فرق : عربی لغت میں مذہب نام ہے رسومات‘ چند عبادات اور طریقے کا۔ جبکہ دین عبادات‘ احکامات‘ معاملات‘ اخلاقیات گویا کہ دنیا وآخرت کے تمام امور دین میں شامل ہیں لفظ مذہب عربی زبان کا لفظ ہونے کے باوجود قرآن و احادیث کے وسیع ترین علمی ذخیرہ میں دین کے لیے استعمال نہیں ہوا۔ جبکہ دین قرآن مجید اور عربی ادب میں ان تمام معنوں میں استعمال ہوا اور تمام معانی اور مفاہیم کا لفظ ” دین اسلام“ نے احاطہ کرلیا ہے۔ اسلام کا مرکزی اور جامع معنی سلامتی اور سپردگی کے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے اسماء گرامی میں ایک اسم مبارک ” سلام“ ہے۔ اسم پاک ہونے کی وجہ سے اس کا معنی ٰ سلامتی والا اور سلامتی عطا فرمانے والا ہے۔ اسلام اللہ تعالیٰ کی طرف سے بندوں کے لیے امن وسلامتی کا پیغام اور اپنے ماننے والوں کو سلامتی کی ضمانت فراہم کرتا ہے۔ جس طرح اللہ تعالیٰ قائم و دائم اور ہمیشہ سے سلامتی والا ہے اور رہے گا۔ اس طرح دین اسلام ہمیشہ قائم اور تسلیم ورضا اختیار کرنے والوں کو دنیاوآخرت کی سلامتی فراہم کرنے کی ضمانت دیتا ہے اور دیتا رہے گا۔ دین اسلام کا مطالبہ یہ ہے کہ آدمی دل کی گہرائیوں اور عمل کی تمام اکائیوں کے ساتھ اس کے حلقۂ اثر میں شامل ہوجائے۔ اسلام کا مفہوم : ” ابراہیم کا حال یہ تھا کہ جب اس کے رب نے اس سے کہا ” مسلم ہوجا“ تو اس نے فورًا کہا میں مالک کائنات کا تابع ہوگیا۔ اس طریقے پر چلنے کی ہدایت اس نے اپنی اولاد کو بھی کی تھی اور اسی کی وصیّت یعقوب اپنی اولاد کو کر گئے۔ انہوں نے کہا میرے بچو‘ اللہ نے تمہارے لیے یہی دین پسند کیا ہے لہٰذا مرتے دم تک مسلمان ہی رہنا۔“ [ البقرۃ: ١٣١‘ ١٣٢] ” اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ سے ڈرو جیسا کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے تم کو موت نہ آئے مگر اس حال میں کہ تم مسلم ہو۔ سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوط پکڑ لو اور تفرقہ میں نہ پڑو۔“ [ آل عمران : ١٠٢‘ ١٠٣] اسلام مکمل تابع داری کا تقاضا کرتا ہے : ” اے ایمان والو! تم پورے کے پورے اسلام میں آ جاؤ اور شیطان کی پیروی نہ کرو کیونکہ وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔“ [ البقرۃ: ٢٠٨] ” کہیے! میری نماز‘ میرے تمام مراسم عبودیت‘ میرا جینا اور مرنا سب کچھ اللہ رب العٰلمین کے لیے ہے جس کا کوئی شریک نہیں۔ اسی کا مجھے حکم دیا گیا ہے اور سب سے پہلے سر اطاعت جھکانے والا میں ہوں۔ کہیے کیا میں اللہ کے سوا کوئی اور رب تلاش کروں حالانکہ وہی ہر چیز کا رب ہے۔“ [ الانعام : ١٦٢ تا ١٦٤] دین فطرت : قرآن مجید نے اسلام کو دین فطرت قرار دیا ہے کہ اس کا ہر حکم اور ارشاد انسان کی فطرت اور طبیعت کے عین مطابق ہے فطرت کو سمجھنے کے لیے کسی بھی نو مولود بچے کی عادات وحرکات پر غور فرمائیں۔ تجربہ اور مشاہدہ اس بات پر گواہ ہے کہ بطخ کا بچہ پیدا ہوتے ہی پانی کی طرف بھاگتا ہے، مرغی کا بچہ انڈے سے نکلتے ہی مرغی کے پاؤں اور پروں میں سکون پاتا ہے، انسان کا نومولود اپنی مامتا کی چھاتی کی طرف لپکتا ہے۔ ایسا اس لیے ہے کہ اس کی فطرت اسے ایسا کرنے پر مجبور کرتی ہے۔ اسی فطرت کی ترجمانی کرتے ہوئے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرمایا کرتے تھے کہ ہر گھر کے آنگن میں پیدا ہونے والا بچہ فطرت اسلام پر پیدا ہوتا ہے۔ (مَامِنْ مَوْلُوْدٍ ےُوْلَدُ عَلَی الْفِطْرَۃِ فَاَبَوَاہُ ےُھَوِّدَانِہٖ اَوْےُمَجِّسَانِہٖ اَوْ ےُنَصِّرَانِہٖ) [ مشکٰوۃ: باب الایمان بالقدر] ” ہرجنم لینے والا بچہ فطرت سلیم پر پیدا ہوتا ہے یہ تو والدین کی تربیت کے اثرات ہونگے کہ اسے یہودی، عیسائی یا آتش پرست بنا دیں۔“ بھینس کا بچہ اگر کچھ لمحوں کے لیے بھول کر بھینس کے تھنوں کی بجائے اگلی ٹانگوں میں منہ ڈالتا ہے تو مالک کے ایک اشارے کے بعد دوبارہ دودھ پینے والی جگہ کو نہیں بھولتا۔ انسانی فطرت کا خود اپنا تقاضا ہے کہ وہ اپنے رب سے مانگے اور اس کے سامنے جھکتارہے۔ اس کے باوجود پیدا ہوتے ہی اس کے کانوں میں اذان اور اقامت کہہ کر اسے بتلایا ہے گیا کہ اب تمہیں یہ سبق نہیں بھولنا کہ تیرا الٰہ ایک ہے اس نے ہی تجھے پیدا کیا اور تجھے ہر حال میں اس کے سامنے جھکنا ہوگا۔ جو شخص بڑا ہو کر توحید کے اس فطری راستے اور تقاضے کو چھوڑ کر شرک کی پگڈنڈیوں پر چلتا ہے وہ اپنے رب کا نافرمان ہی نہیں بلکہ اپنی فطرت سے بھی بغاوت کررہا ہوتا ہے۔ ان آیات میں انسان کو بغاوت و سرکشی سے بچنے کی تلقین کرتے ہوئے اسی فطرت کا حوالہ دیا جا رہا ہے : ” پس اے نبی اور نبی کے ماننے والو! یک سو ہو کر اپنا رخ اس دین کی طرف قائم کرو۔ جس فطرت پر اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو پیدا کیا ہے۔ اللہ کی بنائی ہوئی فطرت بدلنے کی اجازت نہیں ہے‘ یہی بالکل راست اور درست دین ہے مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں۔ قائم ہوجاؤ اس بات پر اللہ کی طرف رجوع کرتے ہوئے اور ڈرو اس سے اور نماز قائم کرو اور مشرکین میں شامل نہ ہوجاؤ۔“ [ الروم : ٣٠‘ ٣١] مومن اور مشرک کے درمیان یہی بنیادی فرق ہے کہ موحّد کی فطرت اپنی اصلّیت پر قائم رہتی ہے جس کی وجہ سے وہ ہر حال میں اپنے خالق ومالک کی طرف رجوع کرتا ہے۔ مشرک نے اپنی فطرت سے انحراف کیا ہوتا ہے جس کی وجہ سے وہ خوش حالی اور امن وسکون کی حالت میں اپنے سچے اور حقیقی خالق کو براہ راست پکارنے کی بجائے دوسروں کے توسُّط سے سوال کرتا ہے لیکن ایسا شخص جب مسائل اور مصائب کے گرداب میں پھنس کر اسباب و وسائل سے مایوس ہوجاتا ہے تو وہ بے ساختہ پکار اٹھتا ہے کہ الٰہی تیرے سوا کوئی میری مدد کرنے والا نہیں۔ گویا کہ فطرت اور اللہ تعالیٰ کے درمیان اسباب کے حجاب اور وسائل کے پردے اٹھ گئے ہیں۔ جس کی وجہ سے وہ اللہ تعالیٰ کو براہ راست پکار رہا ہے۔ یہی وہ فطرت صحیحہ اور اس کی حقیقی آواز ہے جس سے انسان وسائل کی وجہ سے بغاوت کرتا ہے۔ ” اور جب سمندر میں ان لوگوں پر ایک موج سائبانوں کی طرح چھا جاتی ہے تو یہ صرف ایک اللہ کو پکارتے ہیں اپنے دین کو بالکل اسی کے لیے خالص کر کے‘ پھر جب وہ بچا کر انہیں خشکی تک پہنچا دیتا ہے تو ان میں سے کوئی اغماض برتتا ہے اور ہماری نشانیوں کا انکار نہیں کرتا مگر ہر وہ شخص جو غدار اور ناشکرا ہے۔“ [ لقمٰن : ٣٢] مسائل ١۔ غیر اللہ کے نام پر ذبح کیا ہوا جانور حرام ہے۔ ٢۔ شرک کی جگہ پر ذبح کیا ہوا جانور بھی حرام ہے۔ ٣۔ کفار سے مرعوب ہونے کی بجائے اللہ پر ایمان پختہ رکھنا چاہیے۔ ٤۔ دین اسلام مکمل ہوچکا ہے۔ ٥۔ انتہائی مجبوری کی حالت میں بعض حرمت والی چیزیں جائز ہیں۔ تفسیر بالقرآن اسلام کا معنی اور مفہوم : ١۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا اے ابراہیم فرمانبردار بن جا تو ابراہیم اسی وقت رب کے مطیع ہوگئے۔ (البقرۃ: ١٣١) ٢۔ اللہ تعالیٰ کے سامنے مطیع ہونے کا نام اسلام ہے۔ (الصافات : ١٠٣ تا ١٠٥) ٣۔ اللہ کے نزدیک پسندیدہ دین اسلام ہے۔ (سورۃ آل عمران : ١٩) ٤۔ جو اسلام کے علاوہ دوسرا دین تلاش کرے گا وہ خسارہ اٹھائے گا۔ (آل عمران : ٨٥) ٥۔ اللہ تعالیٰ جس کے ساتھ بھلائی کرتا ہے اس کا سینہ اسلام کے لیے کھول دیتا ہے۔ (الانعام : ١٢٥) ٦۔ جس کا سینہ اسلام کے لیے کھول دیا گیا وہ اللہ تعالیٰ کی روشنی پر ہے۔ (الزمر : ٢٢) ٧۔ جس نے اپنے چہرے کو اللہ کے سامنے جھکا دیا اور وہ نیکی کرنے والاہے اس نے مضبوط کڑے کو تھام لیا۔ (لقمان : ٢٢) المآئدہ
4 فہم القرآن ربط کلام : حرام کے بعد حلال کی وضاحت۔ سابقہ آیات میں حرام کی ایک فہرست پڑھی گئی ہے اس لیے سوال پیدا ہوا کہ یہ چیزیں تو حرام ہیں لیکن حلال کونسی ہیں ؟ اس کے بارے میں وضاحت نازل ہوئی کہ تمہارے لیے ہر طیب چیز حلال کردی گئی ہے۔ سابقہ مذاہب میں یہ تھا کہ جو چیزیں ان کے مذہب میں حلال تھیں ان کے سوا باقی سب حرام تھا۔ دین اسلام نے اس کے خلاف فارمولا پیش فرمایا کہ حرام کے علاوہ تمام چیزیں اس شرط پر حلال ہیں کہ وہ پاک ہوں۔ پاک کے بارے میں اہل علم نے وضاحت کی ہے کہ جو شریعت کے کسی اصول کے تحت حرام نہ ہوں اور اسے فطرت سلیم کھانا پسند کرے۔ وہ جانور بھی حلال ہوگا جو شکاری کتے کے ذریعے شکار کیا گیا ہو۔ جسے تم نے سدھا یاہو۔ اللہ تعالیٰ کے سدھانے سے یہاں مرادشکار کرنے کے اصول و ضوابط ہیں۔ جس کی تین بنیادی شرائط ہیں۔ ١۔ کتایا باز سدھا یا ہوا ہو۔ جس کی فقہاء نے یہ صفت بیان کی ہے کہ جب اسے شکار پر چھوڑا جائے تو وہ شکار کرے اور جب اسے روکا جائے تو رک جائے۔ یہاں تک کہ اگر وہ شکار پکڑنے کے لیے دوڑے یا اڑے۔ مالک اسے رک جانے کا اشارہ دے تو وہ واپس آجائے۔ ٢۔ شکار خود کھانے کی بجائے مالک کے لیے شکار کرے اگر اس نے اس میں خود کھالیا تو وہ سدھایا ہوا تصور نہیں ہوگا اور نہ اس کا کیا ہوا شکار حلال ہوگا۔ ٣۔ اسے چھوڑتے وقت ” بسم اللّٰہ واللّٰہ اکبر“ پڑھا گیا ہو۔ اس صورت میں شکار مر جائے تو پھر بھی حلال تصور ہوگا۔ یہی حکم بندوق سے شکار کرنے کا ہے۔ اس بات سے علم کی فضیلت بھی ظاہر ہوتی ہے کہ جس کتے کے ایک دفعہ برتن چاٹنے سے اسے ایک دفعہ مٹی کے ساتھ اور چھ مرتبہ پانی کے ساتھ دھونا پڑتا ہے۔ صرف علم کی بنیاد پر وہ اپنی نسل سے اس قدر ممتاز ہوا کہ اس کے ہاتھوں مرا ہوا جانور بھی حلال قرار پایا ہے۔ آیت کے آخر میں ” واتقو اللّٰہ اور سریع الحساب“ کے الفاظ استعمال فرما کر شکار کرنے والوں کو یہ احساس دلایا گیا ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ شکار ان شرائط پر پورا نہ اترے اور تم گوشت خوری کے شوق میں یونہی نوش کر جاؤ۔ ایسا کرنا حرام اور اللہ تعالیٰ کی سخت نافرمانی ہوگی۔ لہٰذا یاد رکھو اللہ تعالیٰ بہت جلد حساب چکانے والا ہے۔ اس سے ڈرتے رہو واتقواللّٰہ کا یہ مفہوم بھی اخذ کیا گیا ہے کہ شکار کے جنون میں آکر فرض نمازوں سے غافل نہ ہونا جیسا کہ عام شکاری سارا دن شکار کے پیچھے دوڑتے ہوئے نماز کا خیال نہیں کرتے۔ (عَنْ عَدِیِّ بْنِ حَاتِمٍ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ إِذَا أَرْسَلْتَ کَلْبَکَ وَسَمَّیْتَ فَأَمْسَکَ وَقَتَلَ فَکُلْ وَإِنْ أَکَلَ فَلَا تَأْکُلْ فَإِنَّمَا أَمْسَکَ عَلَی نَفْسِہٖ وَإِذَا خَالَطَ کِلَابًا لَمْ یُذْکَرْ اسْمُ اللّٰہِ عَلَیْہَا فَأَمْسَکْنَ وَقَتَلْنَ فَلَا تَأْکُلْ فَإِنَّکَ لَا تَدْرِی أَیُّہَا قَتَلَ وَإِنْ رَمَیْتَ الصَّیْدَ فَوَجَدْتَّہُ بَعْدَ یَوْمٍ أَوْ یَوْمَیْنِ لَیْسَ بِہٖ إِلَّا أَثَرُ سَہْمِکَ فَکُلْ وَإِنْ وَقَعَ فِی الْمَاءِ فَلَا تَأْکُلْ) ” حضرت عدی بن حاتم (رض) نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان ذکر کرتے ہیں کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب تو اللہ کا نام لے کر کتا شکار کے لیے چھوڑے تو وہ شکار کرکے تیرے لیے پکڑے رکھے تو اس کو کھالو۔ اگر وہ کتا اس کو تھوڑا بہت کھالے تو پھر نہ کھانا۔ کیونکہ اس نے اپنے لیے شکار کیا ہے۔ اگر اس کے ساتھ کوئی اور کتا شامل ہوجائے جس کو اللہ کا نام لے کر نہیں چھوڑا گیا اور وہ دونوں شکار کریں تو اس سے نہ کھانا کیونکہ تم نہیں جانتے کہ کس نے شکار کیا ہے۔ اگر تم تیر کے ساتھ شکار کرو اور تم اپنے شکار کو ایک یا دو دن بعد پاؤ (بشرطیکہ وہ کھانے کے قابل ہو) تو اگر اس پر صرف تیرے ہی تیر کا نشان ہے تو اس کو کھالو اور اگر وہ پانی میں گرگیا ہو تو پھر نہ کھانا۔“ [ رواہ البخاری : کتاب الذبائح، ] مسا ئل ١۔ تمام پاک و صاف چیزیں حلال ہیں۔ ٢۔ سدھائے ہوئے جانور کا شکار حلال ہے۔ ٣۔ شکار کرتے ہوئے بھی بسم اللہ اللہ اکبرپڑھنا ضروری ہے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ کے احتساب سے ڈرتے رہنا چاہیے۔ المآئدہ
5 فہم القرآن ربط کلام : حرام اور حلال کی مزید وضاحت۔ آج کے دن سے مراد نو ذوالحجہ ہے جس کے بارے میں پیچھے بیان ہوچکا ہے کہ یہ دن تکمیل دین، اتمام نعمت اور مسلمانوں کے لیے شوکت اسلام کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس میں یہ بھی اعلان ہوا کہ باقی حلال چیزوں کے ساتھ تمہیں یہ بھی اجازت دی جاتی ہے کہ اہل کتاب کا کھانا تمہارے لیے اور تمہارا کھانا ان کے لیے حلال ہے۔ اس کا یہ معنی نہیں کہ اہل کتاب کا کھانا جس طرح کا بھی ہو وہ مسلمانوں کے لیے جائز ہوگا۔ بلکہ اس میں اسلام کی حلال و طیب کی شرائط کا ہونا ضروری ہے۔ جس میں یہ بات بھی شامل ہے کہ وہ چیز نہ تو غیر اللہ کے نام پر پکائی گئی ہو اور نہ ہی ذبح کرتے وقت کسی غیر کا نام لیا گیا ہو۔ اہل کتاب سے مراد یہودی اور عیسائی ہیں جو آسمانی کتابوں پر یقین رکھتے ہوں بے شک وہ عمل اور عقیدے کے اعتبار سے کمزور ہی کیوں نہ ہوں کیونکہ جن اہل کتاب کے متعلق اجازت دی گئی ہے ان کے جرائم کی قرآن مجید طویل فہرست پیش کرتا ہے۔ عقیدہ میں شرک کی آمیزش، کتاب اللہ میں تحریف کرنے والے اور سود خوربھی تھے۔ تیسری اجازت اس بات کی دی گئی کہ اہل کتاب کی باکردار اور با حیا عورتوں سے مسلمان کے لیے نکاح کرنا جائز ہے بشرطیکہ ان کا حق مہر ادا کیا جائے۔ جس نے اللہ تعالیٰ کے جاری کیے ہوئے قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی کی وہ کفر کا مرتکب ہوا۔ اس کے اعمال ضائع ہوجائیں گے اور آخرت میں وہ نقصان پانے والوں میں سے ہوگا۔ اعمال ضائع ہونے سے یہ بھی مراد ہے کہ بد کردار عورت سے نکاح کرنے میں آدمی کا وقار، عزت اور غیرت ختم ہوجاتی ہے۔ ایسی عورت سے جو اولاد ہوگی اسے بھی تشکیک کی نگاہ سے دیکھا جائے گا۔ جہاں تک اہل کتاب کی عورت سے نکاح کرنے کا تعلق ہے وہ اتنا کھلا اجازت نامہ نہیں جس طرح کہ لوگوں نے اپنی عیاشی کے لیے سمجھ رکھا ہے۔ اس کو سمجھنے کے لیے ایک مثال ہی کافی ہونی چاہیے۔ ابو بکر جصاص نے احکام القرآن میں شقیق بن سلمہ کی روایت سے نقل کیا ہے کہ حضرت حذیفہ بن یمان (رض) جب مدائن پہنچے تو وہاں ایک یہودی عورت سے نکاح کرلیا۔ حضرت فاروق اعظم (رض) کو اس کی اطلاع ملی تو ان کو خط لکھا کہ اس کو طلاق دیدو۔ حضرت حذیفہ (رض) نے جواب میں لکھا کہ کیا وہ میرے لیے حرام ہے، تو پھر امیر المومنین فاروق اعظم (رض) نے جواب میں تحریر فرمایا کہ میں حرام نہیں کہتا لیکن ان لوگوں کی عورتوں میں عام طور پر عفت و پاکدامنی نہیں ہے۔ اس لیے مجھے خطرہ ہے کہ آپ لوگوں کے گھرانہ میں اس راہ سے فحاشی و بدکاری داخل نہ ہوجائے۔ امام محمد بن حسن (رح) نے کتاب الآثار میں اس واقعہ کو بروایت امام ابو حنیفہ اس طرح نقل کیا ہے کہ دوسری مرتبہ فاروق اعظم (رض) نے جب حضرت حذیفہ (رض) کو خط لکھا تو اس کے یہ الفاظ تھے : (اعزم علیک ان لا تضع کتابی حتّٰی تخلی سبیلھا فانی اخاف ان یقتدیک المسلمون فیخنارو النساء اہل الذمۃ لجمالھن وکفٰی بذلک فتنۃ لنساء المسلمین۔) (کتاب الآثار، ص : ١٥٦) ” یعنی آپ کو قسم دیتا ہوں کہ میرا یہ خط اپنے ہاتھ سے رکھنے سے پہلے ہی اس کو طلاق دے کر آزاد کر دو۔ کیونکہ مجھے یہ خطرہ ہے کہ دوسرے مسلمان بھی آپ کی اقتدا کریں گے اور اہل ذمہ اہل کتاب کی عورتوں کو ان کے حسن و جمال کی وجہ سے مسلمان عورتوں پر ترجیح دینے لگیں گے۔ مسلمان عورتوں کے لیے اس سے بڑی مصیبت کیا ہوگی۔“ مؤرخ اس کے جواب میں لکھتا ہے کہ حضرت حذیفہ (رض) نے امیر المومنین کا خط پڑھتے ہی اپنی پسندیدہ بیوی کو طلاق دے دی۔ مسائل ١۔ اہل کتاب کا کھانا حلال ہے۔ ٢۔ اہل کتاب کا ذبیحہ بھی حلال ہے۔ ٣۔ اہل کتاب کی عورتوں سے مشروط نکاح جائز ہے۔ ٤۔ ایمان لانے سے انکار کرنے والے آخرت میں نقصان اٹھائیں گے۔ المآئدہ
6 فہم القرآن ربط کلام : غذائی پاکیزگی کے بعد جسمانی طہارت کا حکم۔ سورۃ النساء کی آیت ٤٣ میں غسل اور تیمم کا مسئلہ بیان کیا گیا تھا۔ اب حکم ہوا ہے کہ اے صاحب ایمان لوگو! جب تم نماز پڑھنے کا ارادہ کرو تو اپنے چہروں اور ہاتھوں کو کہنیوں تک دھو لیا کرو۔ اپنے سروں کا مسح کیا کرو اور پاؤں کو ٹخنوں تک دھویا کرو۔ اگر حالت جنابت میں ہو تو غسل کرکے پاک ہوجاؤ۔ کوئی شخص بیمار ہو یا سفر کی حالت میں ہو یا کوئی قضائے حاجت سے فارغ ہوا ہو یا اس نے اپنی بیوی سے مجامعت کی ہو اور اسے پانی نہ ملے تو پاک مٹی پر ہاتھ مار کر منہ اور چہرے کا مسح کرو۔ اللہ تعالیٰ مسلمانوں پر سختی کا ارادہ نہیں رکھتا وہ تمہیں پاک کرنے اور تم پر اپنی نعمت کو پورا کرنا چاہتا ہے تاکہ مسلمان شکر گزار بن جائیں۔ وضو کی حالت میں بیوی کے ساتھ کس حد تک لمس جائز ہے ؟: آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے وضو کے بعد اپنی بیوی سے بوس و کنار کیا تاکہ قرآن کا مفہوم متعین ہو اور امت کے لیے سہولت نکل آئے۔ (عَنْ عَاءِشَۃَ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَبَّلَ بَعْضَ نِسَاءِہٖ ثُمَّ خَرَجَ إِلَی الصَّلا ۃِ وَلَمْ یَتَوَضَّأْ) [ رواہ البخاری : کتاب الطہارۃ] ” حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ بلاشبہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی کسی زوجہ محترمہ سے بوس و کنار کیا۔ پھر دوبارہ وضو کیے بغیر ہی نماز ادا کی۔“ وضو کا طریقہ : (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لاَ صَلاَۃَ لِمَنْ لاَ وُضُوءَ لَہُ وَلاَ وُضُوءَ لِمَنْ لَمْ یَذْکُرِ اسْمَ اللّٰہِ تَعَالَی عَلَیْہِ )[ رواہ ابو داؤد : باب التَّسْمِیَۃِ عَلَی الْوُضُوءِ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بغیر وضو کے نماز نہیں ہوتی اور بسم اللہ کے بغیر وضو نہیں ہوتا۔“ (عن عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ (رض) اَنَّہٗ دَعَا بِإِنَاءٍ فَأَفْرَغَ عَلٰی کَفَّیْہِ ثَلَاثَ مِرَارٍ فَغَسَلَہُمَا ثُمَّ أَدْخَلَ یَمِینَہُ فِی الْإِنَاءِ فَمَضْمَضَ وَاسْتَنْشَقَ ثُمَّ غَسَلَ وَجْہَہُ ثَلَاثًا وَیَدَیْہِ إِلَی الْمِرْفَقَیْنِ ثَلَاثَ مِرَارٍ ثُمَّ مَسَحَ بِرَأْسِہٖ ثُمَّ غَسَلَ رِجْلَیْہِ ثَلَاثَ مِرَارٍ إِلَی الْکَعْبَیْنِ ثُمَّ قَالَ قَالَ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَنْ تَوَضَّأَ نَحْوَ وُضُوءِی ہٰذَا ثُمَّ صَلٰی رَکْعَتَیْنِ لَا یُحَدِّثُ فیہِمَا نَفْسَہُ غُفِرَ لَہُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِہِ) [ رواہ البخاری : کتاب الو ضوء، بَاب الْوُضُوءِ ثَلَاثًا ثَلَاثًا] ” حضرت عثمان بن عفان (رض) سے روایت ہے کہ انھوں نے پانی والا برتن منگوایا۔ اپنے ہاتھوں پر پانی ڈالتے ہوئے انھیں تین مرتبہ دھویا۔ پھر اپنے دائیں ہاتھ سے برتن سے پانی لے کر کلی کی اور ناک صاف کیا۔ پھر تین مرتبہ اپنے چہرے کو دھونے کے ساتھ بازوؤں کو کہنی تک دھویا۔ پھر سر کا مسح کرتے ہوئے اپنے پاؤں کو ٹخنوں تک تین مرتبہ دھویا۔ پھر کہا رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تھا کہ جس نے میرے وضو جیسا وضو کیا پھر دو رکعت نماز ادا کی۔ اس دوران اس نے دل میں کسی سے گفتگو نہ کی تو اس کے پہلے سارے گناہ معاف کردیے جائیں گے۔“ (عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ (رض) قَالَ قَالَ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَنْ تَوَضَّأَ فَأَحْسَنَ الْوُضُوءَ ثُمَّ قَالَ أَشْہَدُ أَنْ لَا إِلَہَ إِلَّا اللَّہُ وَحْدَہُ لَا شَرِیکَ لَہُ وَأَشْہَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہُ وَرَسُولُہُ اللَّہُمَّ اجْعَلْنِی مِنْ التَّوَّابِینَ وَاجْعَلْنِی مِنْ الْمُتَطَہِّرِینَ فُتِحَتْ لَہُ ثَمَانِیَۃُ أَبْوَابِ الْجَنَّۃِ یَدْخُلُ مِنْ أَیِّہَا شَاءَ )[ رواہ الترمذی : باب فیما یقال بعد الوضوء] ” حضرت عمر بن خطاب (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو شخص اچھی طرح وضو کرتا ہے پھر کہتا ہے میں گواہی دیتا ہوں اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کے بندے اور رسول ہیں۔ اے اللہ ! مجھے توبہ کرنے والوں میں اور پاک صاف رہنے والوں میں شامل فرما اس کے لیے جنت کے آٹھوں دروازے کھول دیے جاتے ہیں جہاں سے چاہے داخل ہوجائے۔“ تیمم کا طریقہ : ( عَنْ سَعِیدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبْزٰی (رض) عَنْ أَبِیہٖ قَالَ جَاءَ رَجُلٌ إِلٰی عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ (رض) فَقَالَ إِنِّی أَجْنَبْتُ فَلَمْ أُصِبْ الْمَاءَ فَقَالَ عَمَّارُ بْنُ یَاسِرٍ لِعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ أَمَا تَذْکُرُ إِنَّا کُنَّا فِی سَفَرٍ أَنَا وَأَنْتَ فَأَمَّا أَنْتَ فَلَمْ تُصَلِّ وَأَمَّا أَنَا فَتَمَعَّکْتُ فَصَلَّیْتُ فَذَکَرْتُ للنَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَقَال النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) إِنَّمَا کَانَ یَکْفِیکَ ہٰکَذَا فَضَرَبَ النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بِکَفَّیْہِ الْأَرْضَ وَنَفَخَ فیہِمَا ثُمَّ مَسَحَ بِہِمَا وَجْہَہُ وَکَفَّیْہِ)[ رواہ البخاری : کتاب التیمم، باب الْمُتَیَمِّمُ ہَلْ یَنْفُخُ فیہِمَا ] ” سعید بن عبدالرحمن بن ابزی (رض) اپنے والد سے بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی عمر بن خطاب (رض) کے پاس آیا تو اس نے کہا میں جنبی ہوگیا ہوں۔ میرے پاس پانی نہیں ہے، حضرت عمار بن یاسر (رض) نے عمربن خطاب (رض) سے کہا کیا آپ کو یاد ہے کہ ہم دونوں ایک سفر میں تھے آپ نے نماز نہیں پڑھی تھی اور میں نے مٹی پر لوٹ پوٹ ہو کر نماز پڑھ لی تھی میں نے یہ بات نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کی تو نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا آپ کو صرف اتنا ہی کافی تھا نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے دونوں ہاتھوں کو زمین پر مارا۔ ان میں پھونکا اور پھر ان دونوں کو اپنے چہرے اور ہاتھوں پر مل لیا۔“ مسائل ١۔ نماز کے لیے وضو کرنا لازم ہے۔ ٢۔ پانی نہ ملنے کی صورت میں تیمم کرنا چاہیے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو پاک صاف دیکھنا چاہتا ہے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں پر اس کا شکر ادا کرنا چاہیے۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو مشقت میں نہیں ڈالتا۔ المآئدہ
7 فہم القرآن ربط کلام : دین اسلام کی تکمیل، حلال چیزوں کی فہرست میں وسعت و کشادگی، پاکیزگی کے احکامات، نعمتوں کی یاد دہانی کے بعد وہ عہد یاد کروایا ہے جو انسانیت نے اللہ تعالیٰ کی جناب میں اپنی تخلیق کے وقت کیا تھا، کلمۂ طیبہ اس عہد کی تائید ہے کیونکہ انسان اس میں یہ اقرار کرتا ہے کہ میں اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو اس کی عبادت اور اس کے حکم میں شریک نہیں کروں گا۔ وہی عبادت کے لائق اور احکم الحاکمین ہے بندہ اس میں یہ بھی اقرار کرتا ہے کہ میرے قائد اور پیشوا حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں۔ میں انہی کے فرمان اور طریقہ کے مطابق اللہ تعالیٰ کی عبادت اور زندگی کے تمام معاملات طے کرتا رہوں گا۔ مفسرین نے اس عہد سے مرادصحابہ کا صلح حدیبیہ کا عہد بھی لیا ہے۔ انسان جو بھی اللہ تعالیٰ سے عہد کرتا ہے اسے ہر حال میں پورا کرنا اور اس پر سختی کے ساتھ کاربندرہنا چاہیے۔ عہد کی پاسداری کے لیے یہاں دو چیزیں بیان کی گئی ہیں ایک اللہ تعالیٰ کا خوف اس کے بغیر صحیح معنوں میں نہ آدمی صالح کردار ہوسکتا ہے اور نہ ہی کسی عہد کی پاسداری کرسکتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی یہ فرمایا یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ دلوں میں پیدا ہونے والے خیالات سے پوری طرح واقف ہے جس کا معنی یہ ہے کہ تمہارا ظاہر اور باطن ایسا ہونا چاہیے کہ جس پر خدا خوفی کے اثرات نمایاں طور پر دکھائی دیں۔ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو یاد رکھنے والا اور اس کا تقوٰی اختیار کرنے والا ہی اپنے عہد کی پاسداری کیا کرتا ہے۔ (عَنْ عُبَادَۃَ بْنَ الصَّامِتِ (رض) یَقُولُ قَالَ لَنَا رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وَنَحْنُ فِی مَجْلِسٍ تُبَایِعُونِی عَلٰی أَنْ لَا تُشْرِکُوا باللّٰہِ شَیْءًا وَلَا تَسْرِقُوا وَلَا تَزْنُوا وَلَا تَقْتُلُوا أَوْلَادَکُمْ وَلَا تَأْتُوا بِبُہْتَانٍ تَفْتَرُونَہُ بَیْنَ أَیْدِیکُمْ وَأَرْجُلِکُمْ وَلَا تَعْصُوا فِی مَعْرُوفٍ فَمَنْ وَفٰی مِنْکُمْ فَأَجْرُہُ عَلَی اللّٰہِ وَمَنْ أَصَابَ مِنْ ذٰلِکَ شَیْءًا فَعُوقِبَ فِی الدُّنْیَا فَہُوَ کَفَّارَۃٌ لَہُ وَمَنْ أَصَابَ مِنْ ذٰلِکَ شَیْءًا فَسَتَرَہُ اللّٰہُ فَأَمْرُہُ إِلَی اللّٰہِ إِنْ شَاءَ عَاقَبَہُ وَإِنْ شَاءَ عَفَا عَنْہُ فَبَایَعْنَاہُ عَلٰی ذٰلِکَ)[ رواہ البخاری : باب بَیْعَۃِ النِّسَاءِ] ” حضرت عبادہ بن صامت (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں ایک مجلس کے دوران فرمایا کہ تم ان باتوں پر میری بیعت کرو کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ اور نہ تم چوری اور نہ ہی زنا کرو۔ اور اپنی اولاد کو قتل نہ کرو اور تم کسی پر من گھڑت بہتان نہ باندھو۔ اور نہ ہی نیکی کے کاموں میں نافرمانی کرو۔ جس نے اس بیعت کی پاسداری کی اس کا اجر اللہ تعالیٰ کے ذمّہ ہے جس کسی نے ان باتوں کا ارتکاب کیا اللہ تعالیٰ اس کو دنیا میں سزا دے گا جو اس کے لیے کفارہ ہوگا۔ جس نے ان گناہوں کا ارتکاب کیا اور اللہ تعالیٰ نے اس کے گناہوں پر پردہ ڈال دیا تو اس کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے چاہے سزا دے اور چاہے تو اس سے درگزر فرمائے۔ ہم سب نے اس پر بیعت کی۔“ جب رسول محترم گفتگو فرماتے تو وہ خاموشی کے ساتھ سنتے۔ اور تعظیم کی بنا پر آپ کی طرف نظر اٹھا کر نہ بات کرتے۔ مکے والوں کا نمائندہ عروہ بن مسعود اپنے ساتھیوں کی طرف پلٹا تو کہا اے میری قوم میں وفود کے ساتھ بادشاہوں کے پاس گیا۔ مجھے قیصر و کسریٰ اور نجاشی کے دربار میں بھی جانے کا موقع ملا مگر اللہ کی قسم جتنی عزت و تعظیم محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھی اس کی کرتے ہیں کسی بادشاہ کی رعایا اتنی تعظیم اس کی نہیں کرتی۔ اللہ کی قسم وہ تھوک نہیں پھینکتے مگر وہ اس کے ساتھیوں کے ہتھیلیوں میں گرتی ہے اور وہ اسے اپنے چہروں اور جسم کے ساتھ مل لیتے اور جب وہ کسی کام کا حکم دیتے ہیں تو وہ اس کی تعمیل میں جلدی کرتے ہیں اور جب وہ وضو کرتے ہیں تو قریب ہے کہ اس کے ساتھی اس کے وضو کے پانی پر لڑ پڑیں اور جب وہ کلام کرتا ہے تو وہ اپنی آوازوں کو پست کرلیتے ہیں اور آپ کی طرف آپ کی عظمت کی وجہ سے نگاہ نہیں اٹھاتے اور تحقیق اس نے تمھارے سامنے ایک عظیم چیز پیش کی ہے اسے قبول کرلو۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ کی نعمتیں ہر وقت یاد رکھنی چاہییں۔ ٢۔ وعدوں کی پاسداری کرنی چاہیے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ دلوں کے بھید جانتا ہے تفسیر بالقرآن تقویٰ کیا ہے ؟ ١۔ جنگ اور مصیبتوں میں صبر اختیار کرنا سچ بولنا تقوٰی ہے۔ (البقرۃ: ١٧٧) ٢۔ حلال روزی کھانا، اللہ پر ایمان لانا اور اس سے ڈرنا تقوٰی ہے۔ (المائدۃ: ٨٨) ٣۔ اپنے اہل و عیال کو نماز کا حکم دینا اور اس پر قائم رہنا تقوٰی ہے۔ (طٰہٰ: ١٣٢) ٤۔ شعائر اللہ کا احترام کرنا تقویٰ ہے۔ (الحج : ٣٢) ٥۔ حج کے سفر میں زاد راہ لینا تقوٰی ہے۔ (البقرۃ: ١٩٧) المآئدہ
8 فہم القرآن ربط کلام : تکمیل دین کی خوش خبری درحقیقت اسلامی انقلاب کے غلبہ کی نوید ہے اس لیے صحابہ (رض) اور مسلمانوں کو عدل و انصاف پر قائم رہنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ اہل مکہ اور دیگر قبائل نے جس جس انداز سے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے رفقاء پر جو رواستبداد کیا تھا اس کا تقاضا یہ تھا کہ صحابہ ] جب اہل کفر پر غالب آتے تو ان سے گن گن کر بدلے لیتے لیکن اللہ تعالیٰ نے قبل از وقت یہ ہدایت فرمائی کہ ” اے اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانے والو! تمہیں ہر حال میں اپنے رب کی رضا کے لیے عدل و انصاف پر قائم رہنا چاہیے۔“ (النساء : ١٣٥) میں اس سے ملتا جلتا حکم پہلے گزر چکا ہے وہاں گواہی کے بارے میں اپنی ذات اور اعزاء و اقرباء کی طرف داری سے روکا گیا تھا۔ دوسری بات جو عدل کے معاملہ میں رکاوٹ بنتی ہے وہ کسی فرد یا قوم کی دشمنی اور عداوت ہوا کرتی ہے لہٰذا یہاں اس بات سے روکا گیا ہے کہ بے شک کسی فرد یا قوم کے ساتھ تمہاری دشمنی ہی کیوں نہ ہو یہ عدل و انصاف کی راہ میں آڑے نہیں آنی چاہیے دونوں آیات میں یہ تلقین فرمائی ہے کہ یہ کام عقیدت و عداوت سے بالا تر ہو کر محض اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے ہونا چاہیے۔ یہی انصاف کا تقاضا اور خدا خوفی کا خاصہ ہے۔ اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو اور ہر دم یہ عقیدہ تازہ رکھو کہ اللہ تعالیٰ تمہاری حرکات و سکنات اور اعمال و کردار کی خبر رکھنے والا ہے۔ شہادت کی تفسیر کرتے ہوئے معارف القرآن کے مصنف مفتی محمد شفیع (رض) لکھتے ہیں :” ڈاکٹر کا میڈیکل سر ٹیفکیٹ جاری کرنا، مہتمم کا طالب علموں کے پیپروں پر نمبر لگانا، انتخاب کے وقت کسی کو ووٹ دینا بھی شہادت کے زمرے میں آتا ہے۔“ فرماتے ہیں کہ ووٹ کی دو حیثیتیں ہیں۔ ١۔ ووٹ دینا شہادت ہے جو آدمی تحریراً یا ہاتھ اٹھا کر کسی آدمی کے اہل ہونے کے بارے میں دیتا ہے۔ ٢۔ ووٹ دیناکسی کو اپنے ذاتی اور قومی معاملات میں وکیل بنانے کے مترادف ہے۔ لہٰذا یہاں بھی عدل و انصاف کو پیش نگاہ رکھ کردینا چاہیے کیونکہ اس کے مضمرات ایک فرد نہیں بلکہ ملک و ملت کو برداشت کرنے پڑتے ہیں۔“ (عَنْ أَنَسٍ (رض) قَالَ سُءِلَ النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عَنْ الْکَبَاءِرِ قَالَ الإِْشْرَاک باللّٰہِ وَعُقُوقُ الْوَالِدَیْنِ وَقَتْلُ النَّفْسِ وَشَہَادَۃُ الزُّورِ) [ رواہ البخاری : کتاب الشہادات، باب ماقیل فی شھادۃ الزور] ” حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کبیرہ گناہوں کے بارے میں پوچھا گیا، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ کے ساتھ شرک کرنا، والدین کی نافرمانی کرنا، کسی جان کو قتل کرنا اور جھوٹی گواہی دینا۔“ مسائل ١۔ ہمیشہ سچی اور انصاف پر مبنی گواہی دینی چاہیے۔ ٢۔ باہم چپقلش کی وجہ سے انصاف کا دامن نہیں چھوڑنا چاہیے۔ ٣۔ عدل کرنا تقوٰی کے زیادہ قریب ہے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ ہر چیز سے باخبر ہے۔ تفسیر بالقرآن عدل کی اہمیت : ١۔ عدل کرو یہ تقویٰ کے زیادہ قریب ہے اور اللہ سے ڈر جاؤ اور جان لو اللہ سینوں کے بھیدوں سے واقف ہے۔ (المائدۃ: ٨) ٢۔ اور جب فیصلہ کرو تو عدل و انصاف کا فیصلہ کرو۔ (النساء : ٥٨) ٣۔ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں تمھارے درمیان عدل و انصاف کا فیصلہ کروں۔ (الشوریٰ: ١٥) ٤۔ اگر آپ ان کے درمیان فیصلہ کریں تو انصاف کا فیصلہ کریں اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔ (المائدۃ: ٤٢) ٥۔ کہہ دیجیے مجھے میرے رب نے انصاف کرنے کا حکم دیا ہے۔ (الاعراف : ٢٩) ٦۔ جب مسلمانوں کے دو گروہ آپس میں لڑ پڑیں تو ان کے درمیان عدل سے فیصلہ کریں۔ اللہ عدل کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔ (الحجرات : ٩) ٧۔ جب بات کرو تو عدل وانصاف کی کرو۔ ( الانعام : ١٥٢) ٨۔ اللہ تعالیٰ تمہیں عدل وانصاف کرنے کا حکم دیتا ہے۔ (النحل : ٩٠) المآئدہ
9 فہم القرآن ربط کلام : اللہ کی نعمتوں کی شکر گزاری اور عہد کی پاسداری کا صلہ، اس کے مقابلے میں ناقدری و عہد شکنی اور تکفیر وتکذیب کی سزا بیان کی گئی ہے۔ یہ بات پہلے بھی عرض کی جا چکی ہے کہ قرآن مجید کا اسلوب بیان ہے کہ جب وہ اچھے اور برے اعمال کا ذکر کرتا ہے تو اس کے ساتھ ہی اچھے کام کا اجر اور برے کام کے انجام کا ذکر بھی ضروری سمجھتا ہے۔ جس کا مقصد یہ ہے کہ تصویر کے دونوں رخ آدمی کے سامنے ہوں تاکہ اس کے لیے اچھے اور برے کی تمیز اور ان کے درمیان فیصلہ کرنا آسان ہوجائے۔ مراد یہ ہے جس ایمان پر قائم رہنے اور صالح کردار کو اختیار کرنے کا تم سے عہد لیا گیا ہے اگر اس پر پورا اتر و گے تو اللہ تعالیٰ کے ہاں اجر عظیم اور اس کی مغفرت و رحمت کے حق دار ہو گے۔ اس کے مقابلے میں کفر اختیار کروگے اور برے اعمال کے مرتکب ہوگے تو تمہیں دہکتی ہوئی جہنم میں رہنا ہوگا۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے مومنوں سے بخشش کا وعدہ فرمایا ہے۔ ٢۔ نیک اعمال کرنے والوں کے لیے بہت زیادہ اجر ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ کی آیات کی تکذیب کرنے والے جہنم میں ہوں گے۔ المآئدہ
10 المآئدہ
11 فہم القرآن ربط کلام : نعمتوں کی یاد دہانی اور ان کی قدر شناسی کے بعد دو قسم کے انجام کا ذکر ہوا۔ اب دشمن کے مقابلہ میں تحفظ فراہم کرنے کا انعام یاد کرایا جا رہا ہے۔ علامہ ابن کثیر نے اس آیت کا شان نزول ذکر کرتے ہوئے ایک واقعہ تحریر کیا ہے کہ رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) چند صحابہ (رض) کے ساتھ یہودیوں کے قبیلہ بنی نضیر کے ہاں پہنچے آپ کسی معاملہ کے بارے میں گفتگو فرمار ہے تھے۔ یہودیوں نے عمرہ بن جحش کو کہا کہ تم مکان کی چھت سے ایک بھاری پتھر نبی کے اوپر گراؤ تاکہ اس کا خاتمہ ہوجائے۔ کچھ اہل علم نے تنعیم کے واقعہ کی طرف اشارہ کیا ہے کہ صلح حدیبیہ کے موقع پر کفار کی ایک جماعت نے صحابہ پر شب خون مارنے کی سازش کی۔ لیکن صحابہ (رض) کے جذبہ اطاعت شعاری سے اس قدر مرعوب ہوئے کہ انھوں نے آگے بڑھنے کی بجائے پسپائی میں خیر جانی۔ جس کو اللہ تعالیٰ نے بطور نعمت ذکر فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے اس فضل و کرم کو یاد کرو جب لوگوں نے تم پر جارحیت کرنے کا مصمم ارادہ کرلیا تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کے اعصاب توڑ دیے۔ واقعہ یاد کروانے کا مقصد یہ ہے کہ مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ کے دین کو اپنانے اور اسے نافذ کرنے میں کسی قسم کا خوف خاطر میں نہیں لانا چاہیے اور غیروں پر بھروسہ کرنے کی بجائے اللہ تعالیٰ پر ہی بھروسہ اور اعتماد کرنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرنے والے کبھی نقصان نہیں اٹھاتے کیونکہ اللہ تعالیٰ انھیں کافی ہوتا ہے۔ (الطلاق : ٣) اللہ تعالیٰ کا خوف اختیار کرنے سے مسلمان کے کردار میں پرہیزگاری اور نکھار پیدا ہوتا ہے اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرنے سے غیروں کے مقابلہ میں حوصلہ، جرأت اور خود اعتمادی پیدا ہوتی ہے۔ ( عَنْ أَبِی مُوسٰی (رض) قَالَ قَال النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَثَلُ الَّذِی یَذْکُرُ رَبَّہُ وَالَّذِی لَا یَذْکُرُ رَبَّہُ مَثَلُ الْحَیِّ وَالْمَیِّتِ)[ رواہ البخاری : کتاب الدعوات، باب فضل ذکر اللہ عزوجل] ” حضرت ابو موسیٰ اشعری (رض) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان بیان کرتے ہیں کہ اپنے پروردگار کا ذکر کرنے والے کی مثال زندہ اور نہ کرنے والے کی مثال مردہ شخص کی سی ہے۔“ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَال النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَقُول اللّٰہُ تَعَالَی أَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِی بِی وَأَنَا مَعَہُ إِذَا ذَکَرَنِی فَإِنْ ذَکَرَنِی فِی نَفْسِہٖ ذَکَرْتُہُ فِی نَفْسِی وَإِنْ ذَکَرَنِی فِی مَلَإٍ ذَکَرْتُہُ فِی مَلَإٍ خَیْرٍ مِنْہُمْ )[ رواہ البخاری : کتاب التوحید، باب یحذرکم اللہ نفسہ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے میں اپنے بندے کے ساتھ اپنے بارے میں اس کے ظن کے مطابق معاملہ کرتا ہوں۔ وہ جب میرا ذکر کرتا ہے تو میں اس کے ساتھ ہوتا ہوں اگر وہ میرا ذکر اپنے دل میں کرتا ہے تو میں اس کو اپنے دل میں یاد کرتا ہوں۔ اگر وہ میرا ذکر کسی گروہ میں کرتا ہے تو میں اس کا ذکر اس سے بہتر گروہ میں کرتاہوں۔“ (عَنْ عَاءِشَۃَ قَالَتْ کَان النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَذْکُرُ اللَّہَ عَلَی کُلِّ أَحْیَانِہِ) [ رواہ مسلم : باب ذِکْرِ اللَّہِ تَعَالَی فِی حَالِ الْجَنَابَۃِ وَغَیْرِہَا] ” حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ نبی کائنات (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہر حال میں اللہ کا ذکر فرماتے تھے۔“ مسائل ١۔ ہرو قت اللہ تعالیٰ کے احسان یاد رکھنے چاہییں۔ ٢۔ اللہ ہی پر بھروسہ کرنا چاہیے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ ہی حفاظت کرنے والا ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ پر ہی بھروسہ کرنا چاہیے : ١۔ مومنوں کو اللہ پر بھروسہ کرنا چاہیے۔ (آل عمران : ١٢٢) ٢۔ جب کسی کام کا عزم کرلو تو اللہ پر بھروسہ کرو۔ (آل عمران : ١٥٩) ٣۔ احد کے غازیوں نے کہا ہمارا بھروسہ اللہ پر ہے اور وہی ہمیں کافی ہے۔ (آل عمران : ١٧٣) ٤۔ مومن اپنے رب پر ہی بھروسہ رکھتے ہیں۔ (الانفال : ٢) ٥۔ جو شخص اللہ پر بھروسہ رکھتا ہے اللہ ہی اس کو کافی ہے۔ (الطلاق : ٣) المآئدہ
12 فہم القرآن ربط کلام : دین کے بنیادی اصول ہمیشہ سے ایک رہے ہیں۔ انہی کا بنی اسرائیل سے عہد لیا گیا تھا۔ جس کے بڑے بڑے اصول یہ ہیں، جن کی پاسداری کا اسلام نے حکم دیا ہے۔ لہٰذا یہود و نصاریٰ کو انہی پر ایمان لانا چاہیے۔ قرآن مجید نے مختلف مقامات پر بنی اسرائیل سے لیے گئے عہد کی اٹھارہ باتوں کا ذکر کیا ہے۔ ان پر عمل درآمد کروانے کے لیے کوہ طور کو ان کے سروں پر منڈلایا گیا اور ان کے قبائل کو مد نظر رکھتے ہوئے ان میں بارہ ١٢ نقیب مقرر کیے۔ نقیب کا معنیٰ ہے کڑی نگرانی اور دوسرے کے معاملات کو کنٹرول کرنے والا۔ ان نقباء کی تعیناتی کو اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف منسوب فرمایا ہے۔ کیونکہ موسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے ان کو تعینات فرمایا تھا۔ جن باتوں کا بنی اسرائیل سے بار بارعہد لیا گیا ان کا خلاصہ اس آیت میں بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ اے بنی اسرائیل اگر ان باتوں پر سختی سے عمل پیرا ہوجاؤ تو نہ صرف اللہ کی دستگیری اور معیت تمہیں حاصل ہوگی۔ بلکہ گناہوں کی معافی اور تمہارا جنت میں داخلہ یقینی ہوگا۔ جس نے اس عہد کی خلاف ورزی کی وہ ہماری دستگیری سے محروم اور صراط مستقیم سے گمراہ تصور ہوگا۔ ” سواء السبیل“ سے مراد شریعت کا متوازن اور معتدل راستہ ہے جو ہر قسم کی افراط و تفریط سے پاک ہے۔ عہد کی بنیادی شرائط اور اہمیت : ١۔ نماز قائم کرنا : ہر دین میں نماز اللہ تعالیٰ کی نہایت ہی پسندیدہ عبادت رہی ہے۔ جو فکر وعمل کی پاکیزگی کا ذریعہ اور اللہ تعالیٰ سے تعلق اور اس کے حقوق کی ترجمان ہے۔ ٢۔ زکوٰۃ : یہ غرباء سے عملی ہمدردی کا مظہر، بخل کا علاج اور تزکیۂ مال کے ساتھ غریبوں کے حقوق کی محافظ ہے۔ ٣۔ انبیاء پر ایمان لانا اور ان کی تکریم و معاونت کرنا کیونکہ انبیاء ہی اللہ تعالیٰ کے ترجمان اور اس کی مرضی کے مطابق عمل کرکے دکھلانے والے ہیں۔ لہٰذاان کی تکریم اور تابعداری فرض ہے۔ ایمان لانے اور تکریم کرنے میں بدرجۂ اولیٰ نبی آخر الزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) شامل ہیں۔ کیونکہ ہر نبی اور رسول آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آمد کا اعلان کرتا رہا۔ اور سب انبیاء سے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لانے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تائید کرنے کا عہد لیا گیا ہے۔ صدقہ سے مراد عام صدقہ بھی ہے اور زکوٰۃ بھی : صدقہ کرنے کی یہ کہہ کر تلقین فرمائی کہ اللہ کی راہ میں خرچ کرنا درحقیقت اللہ تعالیٰ کو قرض دینے کے مترادف ہے قرض کا لفظ اس لیے استعمال فرمایا تاکہ دینے والے کے دل میں حوصلہ اور امید پیدا ہو کہ مجھے اس سے زیادہ ملنے والاہے۔ عہد کی پاسداری کا صلہ : اے بنی اسرائیل اللہ تعالیٰ سے عہد کی پاسداری کرتے رہو اس سے تمہیں اللہ تعالیٰ کی دستگیری اور تائید حاصل ہوگی تمہاری بشری کوتاہیوں کو معاف کرکے تمہیں جنت میں داخل کردیا جائے گا۔ بنی اسرائیل سے لیے گئے عہد کی شرائط : ١۔ لاَ تَعْبُدُوْنَ إِلاَّ اللّٰہَ۔ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرنا۔ ٢۔ وَبِالْوَالِدَیْنِ إِ حْسَاناً۔ والدین کے ساتھ احسان کرنا۔ ٣۔ وَذِی الْقُرْبٰی۔ قریبی رشتہ داروں کے ساتھ ٤۔ وَالْیَتَامٰی۔ یتیموں کے ساتھ ٥۔ وَالْمَسَاکِیْنِ۔ اور غریبوں کے ساتھ احسان کرنا۔ ٦۔ وَقُوْلُوْا للنَّاسِ حُسْنًا۔ لوگوں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنا۔ ٧۔ وَأَقِیْمُوا الصَّلاَۃَ۔ نماز قائم کرنا۔ ٨۔ وَآتُوا الزَّکٰوۃَ۔ زکوٰۃ ادا کرنا۔ (البقرۃ: ٨٣) ٩۔ لاَ تَسْفِکُوْنَ دِمَاءَ کُمْ۔ آپس میں خون نہ بہانا۔ ١٠۔ وَلاَ تُخْرِجُوْنَ أَنْفُسَکُم مِنْ دِیَارِکُم۔ کمزوروں کو ان کے گھروں سے نہ نکالنا۔ (البقرۃ: ٨٤) ١١۔ خُذُوْا مَا آتَیْنَاکُم بِقُوَّۃٍ۔ اللہ کے احکام کو پوری قوت کے ساتھ پکڑے رکھنا۔ ١٢۔ وَاسْمَعُوْا۔ اللہ کے احکام سننا۔ (البقرۃ: ٩٣) ١٣۔ لَتُبَیِّنُنَّہٗ للنَّاس۔ انھیں لوگوں کے سامنے بیان کرنا۔ ١٤۔ وَلاَ تَکْتُمُوْنَہٗ۔ انھیں ہرگز نہ چھپانا۔ (اٰل عمران : ١٨٧) ١٥۔ آمَنْتُمْ بِرُسُلِیْ۔ اللہ کے انبیاء پر ایمان لانا۔ ١٦۔ وَعَزَّرْتُمُوْھُمْ۔ ان کی تعظیم کرنا۔ ١٧۔ وَأَقْرَضْتُمُ اللّٰہَ قَرْضًا حَسَنًا۔ اللہ کو قرض دینا یعنی صدقہ کرنا۔ (المائدۃ: ١٢) مسائل ١۔ بنی اسرائیل کے بارہ قبائل اور بارہ سردار تھے۔ ٢۔ نماز قائم کرنے اور زکوٰۃ ادا کرنے والوں کا اللہ مددگار ہوتا ہے۔ ٣۔ نیکی کے کام کرنے سے برائیاں مٹ جاتی ہیں۔ ٤۔ اللہ کے عہد کی پاسداری نہ کرنے والے گمراہ ہوجاتے ہیں۔ ٥۔ نیکی کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ جنت عطا فرمائیں گے۔ المآئدہ
13 فہم القرآن ربط کلام : گزشتہ سے پیوستہ۔ بار بار عہد لینے، اور بارہ نگران مقرر کرنے کے باوجود بنی اسرائیل کو جو نہی کچھ ڈھیل حاصل ہوتی تو یہ لوگ اللہ تعالیٰ سے کیے ہوئے عہد کی ایک ایک شق کو نہ صرف ٹھکراتے بلکہ اس کے مفہوم کو بدل دیتے یہاں تک کہ الفاظ بھی تبدیل کرکے ہر نصیحت اور سرزنش کو فراموش کردیتے۔ جس کا بنیادی سبب ان کی مسلسل نافرمانیوں کی وجہ سے ان کے دلوں پر پڑنے والی لعنت اور پھٹکار تھی۔ لعنت کا معنی اللہ تعالیٰ کی رحمت سے دور اور محروم ہونا ہے۔ جو شخص یا قوم اللہ تعالیٰ کی رحمت سے دور ہوجائے ان کے دل سخت ہوجاتے ہیں۔ جس کے سبب اپنے آپ کو بدلنے کی بجائے وہ اللہ تعالیٰ کے احکام کو بدلنے کے درپے رہتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی یہ عادت خبیثہ اور فطرت ثانیہ بن جاتی ہے، جس وجہ سے ان کی اکثریت ہر قسم کی خیانت کو جائز سمجھتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اہل یہود کی تاریخ عہد شکنی، مالی اور اخلاقی خیانت سے بھرپور ہے۔ یہاں پھر اس بات کی وضاحت کردی گئی کہ ان میں کچھ لوگ ایسے ہیں جو خیانت کے حوالے سے مستثنیٰ قرار دیے جا سکتے ہیں۔ آیت کے آخر میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ تعلیم دی گئی ہے اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ ان سے الجھنے کی بجائے معاف کریں یا درگزر فرمائیں کیونکہ اللہ تعالیٰ احسان کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ (رض) عَنْ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ إِنَّ الْعَبْدَ إِذَا أَخْطَأَ خَطِیءَۃً نُکِتَتْ فِی قَلْبِہٖ نُکْتَۃٌ سَوْدَاءُ فَإِذَا ہُوَ نَزَعَ وَاسْتَغْفَرَ وَتَابَ سُقِلَ قَلْبُہُ وَإِنْ عَاد زیدَ فیہَا حَتَّی تَعْلُوَ قَلْبَہُ وَہُوَ الرَّانُ الَّذِی ذَکَرَ اللّٰہُ کَلَّا بَلْ رَانَ عَلَی قُلُوبِہِمْ مَا کَانُوا یَکْسِبُونَ قَالَ ہَذَا حَدِیثٌ حَسَنٌ صَحِیحٌ )[ رواہ الترمذی : کتاب تفسیر القرآن، باب ومن سورۃ ویل للمطفین] ” حضرت ابوہریرہ (رض) رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان بیان کرتے ہیں آپ نے فرمایا بلاشبہ جب بندہ ایک غلطی کرتا ہے تو اس کے دل پر ایک سیاہ نکتہ لگا دیا جاتا ہے جب وہ توبہ استغفار کرتا ہے تو اس کا دل صاف کردیا جاتا ہے اور اگر وہ اس غلطی کا اعادہ کرتے ہوئے مزید گناہ کرے تو اس سیاہ نکتے میں اضافہ کردیا جاتا ہے حتیٰ کہ وہ پورے دل کو لپیٹ میں لے لیتا ہے اور وہ زنگ ہے جس کا تذکرہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا ہے : ہرگز نہیں بلکہ ان کے دلوں پر ان کے اعمال کی وجہ سے زنگ لگا دیا گیا ہے۔“ (عَنِ ابْنِ عُمَرَ (رض) قَالَ سَمِعْتُ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَقُولُ لِکُلِّ غَادِرٍ لِوَاءٌ یُنْصَبُ لِغَدْرَتِہِ) [ رواہ البخاری : باب إِثْمِ الْغَادِرِ لِلْبَرِّ وَالْفَاجِرِ] ” حضرت عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا آپ فرما رہے تھے کہ ہر بد عہد کے لیے جھنڈا ہوگا جو اس کی بد عہدی کے مطابق نمایاں ہوگا۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ وعدہ پورا نہ کرنے والوں پر لعنت کرتا ہے۔ ٢۔ وعدہ پورا نہ کرنے کی و جہ سے دل سخت ہوجاتے ہیں۔ ٣۔ نیکی کرنے والوں سے اللہ تعالیٰ محبت کرتا ہے۔ تفسیر بالقرآن یہودیوں پر لعنت کے اسباب : ١۔ اللہ تعالیٰ کے کلام کو بدلنے کی وجہ سے یہودیوں پر لعنت کی گئی۔ (النساء : ٤٦) ٢۔ بنی اسرائیل کی ایک جماعت کے کفر کی وجہ سے حضرت داؤد اور عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) نے لعنت کی۔ (المائدۃ: ٧٨) ٣۔ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کیے ہوئے میثاق کو توڑنے پر لعنت ہوئی۔ (الرعد : ٢٥) ٤۔ اللہ تعالیٰ کی آیات کو چھپانے کی وجہ سے لعنت کی گئی۔ (البقرۃ: ١٥٩) ٥۔ اللہ تعالیٰ پر الزام لگانے کی وجہ سے ان پر لعنت ہوئی۔ (ھود : ١٨) المآئدہ
14 فہم القرآن ربط کلام : یہودیوں کے بعد عیسائیوں کے کردار کا بیان۔ اہل کتاب اور بنی اسرائیل سے مراد یہود و نصاریٰ ہیں لیکن کبھی کبھی اہل کتاب اور بنی اسرائیل سے مراد صرف یہودی ہوتے ہیں۔ یہ فرق متعلقہ آیات کے سیاق و سباق دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے، یہاں پہلی آیات میں یہودیوں کو مخاطب کیا گیا تھا اور اب عیسائیوں سے خطاب ہو رہا ہے جس میں اس بات کی وضاحت کی گئی ہے کہ جو عہد یہودیوں سے لیا گیا تھا وہی عہد عیسائیوں سے بھی لیا گیا۔ انجیل سے بھی اس بات کی تائید ہوتی ہے کیونکہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا فرمان ہے کہ میں تورات کی تکمیل اور موسیٰ (علیہ السلام) کی تائید کے لیے آیا ہوں۔ اس بنا پر یہاں فرمایا گیا ہے کہ وہ لوگ جو اپنے آپ کو نصاریٰ کہتے ہیں انھوں نے بھی اللہ تعالیٰ کا عہد توڑتے ہوئے انجیل میں تحریف اور اس میں نازل شدہ نصیحتوں کو یکسر فراموش کردیا۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جس طرح یہودیوں پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہوئی اسی طرح عیسائی بھی مستوجب عذاب قرار پائے۔ جو اللہ کی کتاب لوگوں کو متحد رکھنے کے لیے نازل ہوئی تھی جب اس میں تغیر و تبدّل کردیا گیا تو وہ ناقابل اعتمادبن گئی اب اس کا منطقی نتیجہ تھا کہ عیسائی بھی یہودیوں کی طرح کئی فرقوں میں بٹ گئے۔ جس کے بارے میں کہا گیا ہے کہ اب ان کی باہمی مخاصمت اور عداوت قیامت تک باقی رہے گی جس کا انجام اللہ تعالیٰ ان کے سامنے لائے گا۔ باہمی عدوات سے مراد یہودیوں اور عیسائیوں کی عداوت بھی ہو سکتی ہے۔ (عَنْ عَوْفِ بْنِ مَالِکٍ (رض) قَالَ قَالَ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) افْتَرَقَتِ الْیَہُودُ عَلَی إِحْدَی وَسَبْعِینَ فِرْقَۃً فَوَاحِدَۃٌ فِی الْجَنَّۃِ وَسَبْعُونَ فِی النَّارِ وَافْتَرَقَتِ النَّصَارَی عَلَی ثِنْتَیْنِ وَسَبْعِینَ فِرْقَۃً فَإِحْدَی وَسَبْعُونَ فِی النَّارِ وَوَاحِدَۃٌ فِی الْجَنَّۃِ وَالَّذِی نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِیَدِہِ لَتَفْتَرِقَنَّ أُمَّتِی عَلَی ثَلاَثٍ وَسَبْعِینَ فِرْقَۃً فَوَاحِدَۃٌ فِی الْجَنَّۃِ وَثِنْتَانِ وَسَبْعُونَ فِی النَّار قیلَ یَا رَسُول اللَّہِ مَنْ ہُمْ قَالَ الْجَمَاعَۃُ ) [ رواہ ابن ماجۃ: باب افْتِرَاقِ الأُمَم] ” حضرت عوف بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا یہودی اکہتر فرقوں میں بٹے تھے ان کے ستر فرقے جہنم میں جائیں گے اور ایک جنت میں اور عیسائی بہتر فرقوں میں بٹے تھے ان میں سے اکہتر جہنم میں جائیں گے اور ایک جنت میں اور قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جان ہے میری امت تہتر فرقوں میں بٹے گی ان میں سے بہتر جہنمی ہوں گے اور ایک جنتی، صحابہ نے عرض کی جنت میں جانے والے کون ہیں آپ نے فرمایا وہ جماعت (جو میرے اور میرے صحابہ کے طریقہ پر چلنے والے) ہے۔“ مسائل ١۔ یہودیوں کی طرح عیسائیوں سے بھی پختہ عہد لیا گیا۔ ٢۔ یہودی اور عیسائی ایک دوسرے کے دشمن ہیں۔ ٣۔ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ ان کے اعمال کو آشکار فرمائے گا۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ کن لوگوں سے محبت کرتا ہے : ١۔ اللہ تعالیٰ پر ہیز گاروں سے محبت کرتا ہے۔ (آل عمران : ٧٦) ٢۔ بے شک اللہ تعالیٰ انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔ (الممتحنۃ: ٨) ٣۔ غصہ پینے والے اور لوگوں کو معاف کرنے والوں سے اللہ محبت کرتا ہے۔ (آل عمران : ١٣٤) ٤۔ اللہ صبر کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔ (آل عمران : ١٤٦) ٥۔ اللہ تعالیٰ احسان کرنے سے محبت کرتا ہے۔ (آل عمران : ١٤٨) ٦۔ اللہ تعالیٰ پاک صاف رہنے والوں سے محبت کرتا ہے۔ (التوبۃ: ١٠٨) ٧۔ اللہ تعالیٰ ان لوگوں سے محبت کرتا ہے جو اللہ کی راہ میں منظم ہو کر لڑتے ہیں۔ (الصف : ٤) المآئدہ
15 المآئدہ
16 فہم القرآن ربط کلام : یہود و نصاریٰ کو الگ، الگ خطاب کرنے کے بعد مشترکہ خطاب۔ اب یہود و نصاریٰ کو اکٹھا خطاب کرتے ہوئے نصیحت کی جا رہی ہے کہ اے اہل کتاب تمہارے پاس ہمارا آخری رسول آپہنچا ہے جو تورات اور انجیل کی ایسی حقیقتیں منکشف کر رہا ہے جن کو تم نے کلی طور پر چھپا رکھا تھا اور بہت سی تمہاری ذاتی کمزوریوں سے صرف نظر کرتا ہے یقیناً تمہارے پاس اللہ تعالیٰ کا بھیجا ہوا نور اور واضح کتاب پہنچ چکی ہے۔ جو اللہ تعالیٰ کی خوشی کا طلب گارہے اور اس کی جستجو کرتا ہے اللہ اپنے حکم سے اسے تاریکیوں سے نکال کر روشن فضا اور سیدھے راستے پر گامزن کرتا ہے۔ سبل السلام سے مراد وہ سیدھا راستہ ہے جس کی صراط مستقیم کہہ کر وضاحت کی گئی ہے۔ سورۃ البقرۃ کی آیت ٢٥٧ میں ” ظلمات“ کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا جا چکا ہے کہ دنیا میں شرک و بدعت، رسومات وخرافات اور دیگر گمراہیوں کی شکل میں بہت سے اندھیرے ہیں لیکن روشنی ایک ہی ہے جو ہدایت کی صورت میں ہمیشہ سے ایک ہی چلی آرہی ہے جب انسان اللہ تعالیٰ کی رضا کا متلاشی اور ہدایت کے راستے کا راہی بنتا ہے تو اسے اللہ تعالیٰ یقیناً ہدایت سے سرفراز فرماتا ہے۔ یہاں ایک مفسر نے اپنے باطل عقیدہ کو ثابت کرنے کے لیے تفسیر ابن جریر سے ایک غیر مستند قول نقل کیا ہے کہ نور سے مراد رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات ہے جبکہ ایک معمولی گرائمر جاننے والا شخص بھی آسانی کے ساتھ سمجھ سکتا ہے کہ ” نوروکتاب مبین“ سے مراد ایک ہی چیز ہے۔ یھدی بہ میں ضمیر تثنیہ کی بجائے واحد کی استعمال کی گئی ہے۔ اس لیے اہل علم نے اس کی تفسیر کتاب مبین کی ہے اس آیت میں قرآن کو واضح طور پر نور قرار دیا ہے۔ جہاں تک نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات اقدس کا معاملہ ہے۔ آپ بشر اور انسان تھے۔ مسائل ١۔ نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دین کو کھول کر بیان فرمادیا ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ لوگوں کو قرآن مجید کے ذریعے ہدایت دیتا ہے۔ ٣۔ قرآن مجید ہدایت کے لیے نور ہے۔ ٣۔ اہل کتاب اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ احکامات چھپاتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن نور سے مراد : ١۔ اللہ تعالیٰ آسمانوں اور زمین کا نور (ہدایت دینے والا) ہے۔ (النور : ٣٥) ٢۔ اللہ ہی اندھیرے اور روشنی پیدا کرنے والا ہے۔ (الانعام : ١) ٣۔ کفار اور مشرک اللہ کے نور کو بجھانا چاہتے ہیں۔ (التوبۃ: ٣٢) ٤۔ اندھیرا اور نور برابر نہیں ہو سکتے۔ ( الرعد : ١٦) ٥۔ اللہ تعالیٰ ایمان والوں کا دوست ہے انھیں اندھیروں سے نور کی طرف لاتا ہے۔ (البقرۃ: ٢٥٧) ٦۔ نبی قوم کو اندھیروں سے نکال کر روشنی کی طرف لاتے ہیں۔ (ابراہیم : ٥) ٧۔ اللہ جس کی چاہتا ہے اپنے نور (قرآن) کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔ (النور : ٣٥) تمام انبیاء (علیہ السلام) بشر اور بندے تھے : ١۔ انبیاء (علیہ السلام) کا اقرار کہ ہم بشر ہیں۔ (ابراہیم : ١١) ٢۔ ہم نے آپ سے پہلے جتنے نبی بھیجے وہ بشر ہی تھے۔ (النحل : ٤٣) ٣۔ نبی آخر الزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اعتراف کہ میں تمھاری طرح بشر ہوں۔ (الکہف : ١١٠) ٤۔ ہم نے آدمیوں کی طرف وحی کی۔ (یوسف : ١٠٩) ٥۔ کسی بشر کو ہمیشگی نہیں ہے۔ (الانبیاء : ٣٤) المآئدہ
17 فہم القرآن ربط کلام : یکے بعد دیگرے یہود و نصاریٰ کو مخاطب کیا جا رہا ہے۔ درمیان میں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تشریف آوری اور کتاب مبین کا مقصد بیان کرنے کے بعد اب پھر عیسائیوں کے عقیدہ کی کمزوری کی نشاندہی کی گئی ہے۔ قرآن مجید یہ حقیقت منکشف کرتا ہے کہ جب کوئی فرد یا قوم شرک میں مبتلا ہوجاتی ہے تو وہ اس قدر ژود نگاہی اور کج فکری کا شکار ہوتی ہے کہ اسے خبر نہیں ہوتی کہ اس کے نظریات میں کس قدر تضاد اور الجھاؤ پایا جاتا ہے۔ ایسی ہی صورت حال میں عیسائی مبتلا ہیں ان کا عقیدہ ہے کہ حضرت مریم، حضرت عیسیٰ اور اللہ تعالیٰ کو ملا کر خدا مکمل ہوتا ہے غور فرمائیں کہ عیسائی ایک طرف اللہ تعالیٰ کی وحدت کا دعویٰ کرتے ہیں اور اسی زبان سے تثلیث پر بھی اصرار کیے جا رہے ہیں۔ جس چیز کو بنیاد بنا کر عیسائی تثلیث کا مغالطہ دیتے ہیں وہ عیسیٰ (علیہ السلام) کا بن باپ پیدا ہونا ہے جن کے بارے میں ایک چھوٹے سے گروہ کو چھوڑ کر عیسائیوں کا عقیدہ ہے کہ وہ ہمارے گناہ معاف کروانے کی خاطر سولی پر لٹک چکے ہیں۔ یہ تو قرآن مجید کا عیسائیت پر احسان ہے کہ اس نے یہ وضاحت فرمائی ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) نہ سولی چڑھائے گئے اور نہ ہی انھیں قتل کیا گیا ہے۔ تاہم قرآن مجید انھیں یہ باور کرا رہا ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ عیسیٰ اور اس کی والدہ کو ہلاک اور زمین و آسمان کو نیست و نابود کرنا چاہے تو دنیا کی کون سی طاقت ہے جو انھیں بچا اور تحفظ دے سکے گی؟ کیونکہ زمینوں، آسمانوں اور جو کچھ ان میں ہے سب کا سب اللہ کی ملکیت اور اس کے اختیار میں ہے۔ اسی کے اختیار کا یہ مظہر ہے کہ اس نے عیسیٰ (علیہ السلام) کو بغیر باپ کے پیدا کیا جب اللہ تعالیٰ کسی چیز کو پیدا کرنا چاہتا ہے جس طرح چاہے اس کو پیدا فرماتا ہے کیونکہ وہ ہر چیز پر قدرت وسطوت رکھنے والا ہے۔ عیسائیوں پر تعجب ہے کہ ایک طرف عیسیٰ (علیہ السلام) کو خدا کا بیٹا قرار دیتے ہیں اور دوسری طرف انھیں مصلوب بھی سمجھتے ہیں۔ حالانکہ جو اپنی موت و حیات پر اختیار نہیں رکھتا وہ اللہ یا اس کا شریک کس طرح ہوسکتا ہے، کیا فنا ہونے والا اور باقی رہنے والا یا با اختیار اور بے اختیار دونوں برابر یا ایک دوسرے کے شریک ہو سکتے ہیں۔ مسائل ١۔ کسی کو اللہ تعالیٰ کا بیٹا قرار دینا کفر ہے۔ ٢۔ حضرت عیسیٰ ابن مریم ( علیہ السلام) اللہ کا بیٹا نہیں۔ ٣۔ زمین و آسمان کی ہر چیز اللہ کی ملکیت ہے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے۔ ٥۔ جس کو اللہ تعالیٰ نقصان پہنچانا چاہے اسے دنیا کی کوئی طاقت نہیں بچا سکتی۔ تفسیر بالقرآن اللہ ہی خالق ہے : ١۔ اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں اور زمین و آسمانوں کو پیدا فرمایا۔ (البقرۃ: ٢٢) ٢۔ اللہ نے انسان کو مٹی سے پیدا کیا۔ (الروم : ٢٠) ٣۔ اللہ ہی نے انسان کو بڑی اچھی شکل و صورت میں پیدا فرمایا۔ (التین : ٤) ٤۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو ایک نطفے سے پیدا کیا۔ (الدھر : ٢) ٥۔ اللہ نے ایک ہی جان سے سب انسانوں کو پیدا کیا۔ (الاعراف : ١٨٩) ٦۔ اللہ ہی پیدا کرنے والاہے اور اس کا ہی حکم چلنا چاہیے۔ (الاعراف : ٥٤) ٧۔ لوگو اس رب سے ڈر جاؤ جس نے تمہیں پیدا کیا ہے۔ (النساء : ١) المآئدہ
18 فہم القرآن ربط کلام : اب عیسائیوں اور یہودیوں کو مشترکہ خطاب ہوتا ہے۔ قرآن مجید کا فرمان ہے کہ جب کوئی فرد یا قوم شرک میں مبتلا ہوتی ہے تو اس کی گمراہی کی کوئی حد نہیں رہتی۔ جس نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کیا وہ دور کی گمراہی میں مبتلا ہوا۔ (النساء : ١١٦) جس نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کیا گو یا وہ آسمان سے گرا اور پر ندوں نے اسے نوچ ڈالا یا وہ تیز ہواؤں نے اسے کسی گہری کھڈ میں دے مارا۔ (الحج : ٣١) یہ شرک کی نحوست کا نتیجہ ہے کہ یہودیوں نے حضرت عزیر (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ کا بیٹا ٹھہرایا۔ اور عیسائیوں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو خدا کا جزء قرار دیا پھر آگے چل کر مذہبی تقدس کی دھاک بٹھانے اور سیاسی اجارہ داری قائم کرنے کے لیے بزعم خود اللہ تعالیٰ کے بیٹے ہونے کا اعلان کیا۔ اور یہ بھی باور کرو ایا کہ ہم اس کے ایسے بیٹے ہیں جن کے ساتھ اللہ تعالیٰ بڑی محبت کرتا ہے۔ اس کے جواب میں ان پر اعتراض اٹھایا گیا ہے کہ اگر تم واقعی اللہ تعالیٰ کے بیٹے اور اس کے پسند یدہ لوگ ہو تو پھر اللہ تعالیٰ تمہیں عذاب اور ذلت میں کیوں مبتلا کرتا رہا اور کرتا ہے۔ کوہ طور کے دامن میں موسیٰ (علیہ السلام) کی موجودگی کے باوجود تمہارے ستر زعما کا ہلاک ہونا۔ جنھیں موسیٰ (علیہ السلام) کی دعا کے بدلے میں حیات نو سے نوازا گیا۔ اصحاب سبت پر پھٹکارکا نازل ہونا جس کے بدلے میں انھیں ذلیل بندر بنا دیا گیا۔ تمہارے سروں پرکوہ طورکا منڈلایا جانا۔ اس طرح دیگر عذابوں کا نازل ہونا اگر تم واقعی اللہ تعالیٰ کے بیٹے اور اس کے پسندیدہ لوگ ہو تو یہ عذاب تم پر کیوں نازل ہوئے؟ کیا کبھی ایسا ہوا ہے کہ کوئی مشفق اور مہر بان باپ اپنی محبوب اور تابع فرمان اولاد کو اپنے ہاتھوں سے پر یشانیوں اور عذاب میں مبتلا کرے ؟ تم تو انسانوں کی طرح ہی انسان ہو جیسے اللہ تعالیٰ نے دوسروں کو پیدا کیا ہے۔ ایسے ہی اس نے تمہیں پیدا فرمایا۔ وہ جس کی چاہے خطاؤں کو معاف فرما دے اور جسے چاہے اس کی بد اعمالیوں کی سزا دے۔ زمین و آسمانوں اور جو کچھ ان کے درمیان ہے۔ اللہ کی ملک ہے اور ہر کسی نے اس کے ہاں پلٹ کر جانا ہے مسائل ١۔ یہود و نصاریٰ اللہ کے محبوب اور اس کے بیٹے نہیں ہیں۔ ٢۔ سزا و جزا اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ ٣۔ زمین و آسمان کی بادشاہت اللہ کے لیے ہے۔ ٤۔ سب کو اللہ کی طرف لوٹنا ہے وہ جسے چاہے معاف فرمائے گا اور جسے چاہے عذاب کرے گا۔ تفسیر بالقرآن زمین اور آسمان اللہ ہی کی ملکیت ہیں : ١۔ اللہ تعالیٰ ہی کے لیے زمین و آسمان کی ملکیت ہے۔ (البقرۃ: ١٠٧) ٢۔ مالک الملک اللہ تعالیٰ ہے۔ (آل عمران : ٢٦) ٣۔ اللہ جسے چاہتا ہے اسے حکومت دیتا ہے۔ (آل عمران : ٢٦) ٤۔ اللہ جس سے چاہتا ہے حکومت چھین لیتا ہے۔ (آل عمران : ٢٦) ٥۔ اللہ ہی کے لیے زمین و آسمان کی بادشاہی ہے۔ (الشوریٰ : ٤٩) ٦۔ بابرکت ہے وہ ذات جس کے ہاتھ میں سب کچھ ہے۔ (الملک : ١) ٧۔ اللہ ہی کے لیے زمین و آسمان کی ملکیت ہے وہ جسے چاہے معاف کرے گا۔ (الفتح : ١٤) المآئدہ
19 فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ : یہاں اہل کتاب سے مراد یہود و نصاریٰ دونوں ہیں جنھیں بطور نعمت اور احسان کے اس بات کی یاد دہانی کروائی جا رہی ہے کہ اے اہل کتاب اپنے ماضی کو ذرا جھانک کر دیکھو۔ جب تم مایوس ہو کر کہا کرتے تھے اب ہماری رہنمائی کے لیے قیامت تک کوئی پیغمبر مبعوث نہیں کیا جائے گا۔ اہل کتاب بالخصوص یہودیوں نے انبیاء (علیہ السلام) پر جو مظالم ڈھائے اس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ایک عرصہ تک ان میں انبیائے کرام کی بعثت کا سلسلہ منقطع کردیا ” فترۃ“ کا معنی ہوتا ہے تسلسل کو روکنا یا ایک خاص مدت کے لیے کسی کام میں وقفہ پیدا کرنا۔ اس سے مراد عیسیٰ (علیہ السلام) کے بعد کی مدت اور وقفہ ہے کیونکہ موسیٰ (علیہ السلام) سے لے کر عیسیٰ (علیہ السلام) تک تقریباً سترہ سو سال میں اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل میں مسلسل انبیاء مبعوث فرمائے جن میں نہ صرف انبیاء تھے بلکہ ایسے انبیاء بھی مبعوث کیے گئے جو اپنے وقت کے حکمران بھی تھے لیکن عیسیٰ (علیہ السلام) کے بعد تقریباً چھ سو سال تک کوئی نبی مبعوث نہیں کیا گیا تاآنکہ نبی آخر الزمان جناب محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بشیر و نذیر بنا کر بھیجا گیا۔ آپ کی آمد سے پہلے بنی اسرائیل مایوس ہو کر کہتے تھے کہ اب ہمارے پاس کوئی ڈرانے والا اور خوشخبری دینے والا نہیں آئے گا لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر کرم فرماتے ہوئے ایسا رسول بھیجا جو تمام انبیاء کے اوصاف کا مرقع اور ان کی شریعتوں کا ترجمان ہے۔ لہٰذا اے بنی اسرائیل اور دنیا کے لوگو! تمہیں بنی اسماعیل کے محمد عربی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو آخری رسول مان لینا چاہیے۔ اس کی اتباع میں تمہاری بہتری اور نجات ہے۔ اگر تم انکار کرتے ہو تو اللہ تعالیٰ کو تمھارے کفر و شرک سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ ہر بات پر قادر ہے۔ (عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ الْأَنْصَارِیِّ (رض) قَالَ قَالَ رَسُول اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔۔ وَبُعِثْتُ إِلٰی کُلِّ أَحْمَرَ وَأَسْوَدَ)[ رواہ مسلم : کتاب المساجد ومواضع الصلاۃ] ” حضرت جابر بن عبداللہ انصاری (رض) بیان کرتے ہیں رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میں ہر سرخ وسیاہ کی طرف مبعوث کیا گیا ہوں۔“ مسائل ١۔ نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جنت کی خوشخبری سنایا کرتے تھے۔ ٢۔ رسول اکر م (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دوزخ کے عذاب سے ڈرایا کرتے تھے۔ ٣۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اتمام حجت کے لیے مبعوث کیے گئے۔ ٤۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کھول کھول کر حقائق بیان فرما دیے۔ تفسیر بالقرآن نبی بشیر اور نذیر ہوتا ہے : ١۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو خوشخبری دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے۔ (البقرۃ: ١١٩) ٢۔ اے اہل کتاب تمہارے پاس ہمارا رسول آیا ہے تاکہ تم یہ نہ کہہ سکو کہ ہمارے پاس کوئی خوشخبری دینے اور ڈرانے والا نہیں آیا۔ (المائدۃ: ١٩) ٣۔ نبی آخر الزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ڈرانے اور بشارت دینے والے ہیں۔ (الاعراف : ١٨٨) ٤۔ آپ کا اعلان بے شک میں اللہ کی طرف سے تمہیں ڈرانے والا اور خوشخبری دینے والا ہوں۔ (ھود : ٢) ٥۔ اے نبی ہم نے تجھے بشارت دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے۔ (بنی اسرائیل : ١٠٥) ٦۔ اے نبی ہم نے آپ کو سب لوگوں کے لیے بشارت دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے۔ (سبا : ٢٨) المآئدہ
20 فہم القرآن ربط کلام : اب پھر یہودیوں کو خطاب ہوتا ہے۔ اپنی قوم کا مزاج دیکھتے ہوئے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے ارض مقدّس میں داخل ہونے کا حکم دینے سے پہلے انھیں اللہ تعالیٰ کے انعامات اور ماضی کی عزت رفتہ اور اقتدار یاد دلا کر حکم دیا کہ میری قوم ارض مقدس کی طرف پیش قدمی کرو۔ اس کے ساتھ ہی خوشخبری سنائی کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے فتح کو یقینی بنا دیا ہے یہاں دوسرے انعامات کے ساتھ بالخصوص دو انعام کا نام لے کر یہ احساس دلایا کہ یہ مقدس زمین انبیاء کی سرزمین ہے اور یہاں تمہارے آباؤ اجداد نے سینکڑوں سال تک حکومت کی ہے اور تمہیں وہ کچھ عنایت فرمایا تھا جو دنیا میں تم سے پہلے کسی کو نہیں دیا گیا۔ اس یاد دہانی کرانے کا مقصد یہ تھا کہ اس سرزمین میں داخل ہونا تمہارا مذہبی اور سیاسی حق بنتا ہے لہٰذا پیچھے نہ ہٹنا ورنہ نقصان اٹھاؤ گے۔ دشمن کے مقابلہ میں پیچھے ہٹنا کبیرہ گناہ ہونے کے ساتھ دنیا میں ذلت اٹھانا پڑتی ہے بسا اوقات ایسی قوم اپنا سب کچھ کھو بیٹھتی ہے۔ اس سے مؤرخین کی اس غلط فہمی کا ازالہ ہوتا ہے کہ جن کا خیال ہے کہ فلسطین میں بنی اسرائیل کے عروج کی تاریخ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے شروع ہوتی ہے جبکہ موسیٰ (علیہ السلام) اپنے خطاب میں اپنے سے پہلے بنی اسرائیل کے شاندار ماضی کا حوالہ دے رہے ہیں۔ جس کے بارے میں قرآن مجید نے واضح فرمایا ہے کہ ہم نے ابراہیم (علیہ السلام) کو عظیم مملکت سے نوازا تھا۔ ظاہر بات ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) جناب موسیٰ (علیہ السلام) سے سینکڑوں سال پہلے گزر چکے تھے۔ یہاں اہل علم نے نکتہ وردی کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ انبیاء کا ذکر کرتے ہوئے ” فیکم“ کے الفاظ استعمال کیے جس کا معنیٰ ہے تم میں سے کچھ شخصیات کو نبی بنایا جس سے ثابت ہوا کہ نبوت لوگوں کا انتخاب نہیں ہوتا بلکہ اللہ تعالیٰ کی مرضی پر منحصر ہے کہ وہ جس کو چاہے نبوت کے لیے منتخب فرمائے ” وجعلکم“ کا مفہوم یہ ہے کہ تمہیں حکمران بنایا کسی قوم اور ملک کا حکمران تو ایک ہی ہوتا ہے۔ لیکن خبر جمع لائی گئی ہے جس میں یہ اشارہ پایا جاتا ہے کہ صحیح حکمران وہ ہوتا ہے جو لوگوں کو ساتھ لے کر چلے یعنی اپنے اقتدار میں عوام کو شرکت کا حق دے۔ (عَنْ عَوْفِ بْنِ مَالِکٍ (رض) عَنْ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ خِیَارُ أَءِمَّتِکُمْ الَّذِینَ تُحِبُّونَہُمْ وَیُحِبُّونَکُمْ وَیُصَلُّونَ عَلَیْکُمْ وَتُصَلُّونَ عَلَیْہِمْ وَشِرَارُ أَءِمَّتِکُمْ الَّذِینَ تُبْغِضُونَہُمْ وَیُبْغِضُونَکُمْ وَتَلْعَنُونَہُمْ وَیَلْعَنُونَکُمْ قیلَ یَا رَسُول اللّٰہِ أَفَلَا نُنَابِذُہُمْ بالسَّیْفِ فَقَالَ لَا مَا أَقَامُوا فیکُمْ الصَّلَاۃَ وَإِذَا رَأَیْتُمْ مِنْ وُلَاتِکُمْ شَیْءًا تَکْرَہُونَہُ فَاکْرَہُوا عَمَلَہُ وَلَا تَنْزِعُوا یَدًا مِنْ طَاعَۃٍ)[ رواہ مسلم : کتاب الامارۃ، باب خیار الائمۃ وشرارھم] ” حضرت عوف بن مالک اشجعی (رض) فرماتے ہیں میں نے رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا تمہارے بہترین حکمران وہ ہیں جن کو تم پسند کرو اور وہ تم سے مروت رکھیں تم ان کے لیے رحمت مانگو اور وہ تمہارے لیے رحمت کی دعائیں مانگیں اور تمہارے برے حکمران وہ ہوں گے جن سے تم بغض رکھو اور وہ تم سے نفرت کریں تم ان پر لعن طعن کرو اور وہ تمہیں ملعون قرار دیں۔ صحابی رسول فرماتے ہیں ہم نے عرض کیا کہ کیا ہم ان سے لڑائی نہ کریں؟ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : نہیں جب تک وہ نماز قائم کریں جب تم اپنے حکمرانوں میں کوئی ایسی چیز دیکھو جس کو تم نا پسند کرتے ہو تو ان کے فقط اس عمل کو ناپسند کرو اور ان کی فرمانبرداری سے ہاتھ نہ کھینچو۔“ مسائل ١۔ انبیاء کو مبعوث فرمانا اور بادشاہت کا عطا فرمانا اللہ کا انعام ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو وہ کچھ عطا فرمایا جو پہلے اور ان کی ہم عصراقوام کو نہیں دیا گیا تھا۔ ٣۔ اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے احکامات نہ ماننے والے نقصان اٹھائیں گے۔ تفسیر بالقرآن بنی اسرائیل پر اللہ تعالیٰ کے انعامات : ١۔ اے بنی اسرائیل میری نعمتوں کو یاد کرو جو میں نے تم پر انعام فرمائیں۔ (البقرۃ: ٤٧) ٢۔ بنی اسرائیل کو ساری دنیا پر فضیلت دی گئی۔ (البقرۃ: ٤٧) ٣۔ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو آل فرعون سے نجات دی۔ (البقرۃ: ٤٩) ٤۔ بنی اسرائیل کے لیے سمندر کو پھاڑا گیا۔ ( البقرۃ: ٥٠ ) ٥۔ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کے لیے بارہ چشمے جاری فرمائے۔ (الاعراف : ١٦٠) ٦۔ بنی اسرائیل پر اللہ تعالیٰ نے بادلوں کا سایہ کیا اور من و سلویٰ نازل فرمایا۔ (البقرۃ: ٥٧) المآئدہ
21 المآئدہ
22 فہم القرآن ربط کلام : قوم کا موسیٰ (علیہ السلام) کو جواب۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے حکمت عملی کے تحت قوم کے سرداروں کو فلسطین کے حالات کا جائزہ لینے کے لیے یہ کہہ کر روانہ کیا کہ ان کی فوجی طاقت کا جائزہ لے کر مجھے رپورٹ دینا لیکن یاد رکھنا یہ خبر بنی اسرائیل یعنی عوام کو نہیں پہنچنا چاہیے۔ اس کے باوجود بارہ میں سے دس لیڈروں نے موسیٰ کے حکم کی نافرمانی کرتے ہوئے اپنے اپنے قبائل کے چیدہ چیدہ افراد کو صورت حال بتلائی کہ جس سر زمین کی طرف ہمیں پیش قدمی کا حکم دیا جا رہا ہے۔ وہاں بڑے بڑے کڑیل جوان، جنگ جو اور بہادر لوگ ہیں۔ ان کا مقابلہ کرنا ہمارے بس کا روگ نہیں چنانچہ جوں ہی موسیٰ (علیہ السلام) نے قوم کو جہاد کی تیاری کا حکم دیا اور فرمایا آگے بڑھنا پیچھے نہ ہٹنا۔ ورنہ شکست ہوگی دنیا میں ذلیل اور آخرت میں تمہیں اس فرار اور انکار کی سزا ملے گی۔ دو لیڈروں کے سوا باقی سب نے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ وہاں ہمارے مقابلے میں انتہائی طاقت ور لوگ رہتے ہیں۔ ہم ان کا ہرگز مقابلہ نہیں کرسکتے ہم تبھی ارض مقدس میں داخل ہوں گے جب وہ لوگ خود بخود وہاں سے نکل جائیں لیکن ان میں سے دور ہنما ایسے تھے جن پر اللہ تعالیٰ نے ثابت قدم رہنے کا انعام فرمایا تھا کیونکہ وہ خوف خدا رکھنے والے تھے نہ انھوں نے راز افشا کیا اور نہ ہی جہاد سے فرار اختیار کیا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے مؤقف کی پر زور تائید کرتے ہوئے اپنی قوم کو سمجھایا کہ حوصلہ نہ ہارو اور دل چھوٹا نہ کرو۔ اگر تم ایماندار ہو توجناب موسیٰ (علیہ السلام) کے فرمان پر یقین رکھو۔ اللہ تعالیٰ پر بھروسہ رکھو جوں ہی تم اس سرزمین پر قدم رکھو گے فتح تمہاری ہوگی۔ لیکن سمجھانے اور کوشش کے باوجود انھوں نے موسیٰ (علیہ السلام) کو کہا کہ ہمارے وہاں داخل ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اگر آپ کو فتح کا اتنا ہی شوق اور یقین ہے تو تم اور تمہارا رب جہاد کرے ہم تو یہاں بیٹھے رہیں گے۔ مسائل ١۔ اللہ سے ڈرنے والوں پر اللہ کا انعام ہوتا ہے۔ ٢۔ اللہ اور اس کے رسول کی بات ماننے والے غالب آتے ہیں۔ ٣۔ مومن ہر حال میں اللہ تعالیٰ پہ توکل کرتے ہیں۔ ٤۔ نیک لوگوں کو دوسروں کو نیکی کی تلقین کرنی چاہیے۔ تفسیر بالقرآن اللہ ہی پر توکل کرنا چاہیے : ١۔ رسول کریم کو اللہ پر تو کل کرنے کی ہدایت۔ (النمل : ٧٩) ٢۔ مومنوں کو اللہ تعالیٰ پر توکل کرنے کا حکم۔ (المجادلۃ: ١٠) ٣۔ انبیاء اور نیک لوگ اللہ پر توکل کرتے ہیں۔ (یوسف : ٦٧) ٤۔ جو اللہ پر توکل کرتا ہے اللہ اسے کافی ہوجاتا ہے۔ (الطلاق : ٣) ٥۔ اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرنا چاہیے کیونکہ وہی عرش عظیم کا مالک ہے۔ (التوبۃ: ١٢٩) ٦۔ اللہ توکل کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔ (آل عمران : ١٥٩) ٧۔ اللہ صبر کرنے والوں اور توکل کرنے والوں کو بہترین اجر عطا فرمائے گا۔ (العنکبوت : ٥٩) ٨۔ اللہ پر ایمان لانے والوں اور توکل کرنے والوں کے لیے خیر ہی خیر ہے۔ (الشوریٰ : ٣٦) المآئدہ
23 المآئدہ
24 فہم القرآن ربط کلام : موسیٰ (علیہ السلام) کی اللہ تعالیٰ کے حضور التجاء : جب نا ہنجار اور نافرمان قوم نے نہ صرف موسیٰ (علیہ السلام) کے حکم کا انکار کیا بلکہ پرلے درجے کی گستاخی کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ تو اور تیرا رب جاکرقتال کریں۔ غور فرمائیں، جس قوم کے لیے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے بے شمار مصائب وآلام برداشت کیے اور جس کے لیے اتنی جدوجہد کی کہ اس کا جواب کتنا گستاخانہ اور بزدلانہ ہے۔ یہ سن کر جناب موسیٰ (علیہ السلام) کے دل پر کیا گزری ہوگی؟ لیکن اس کے باوجود موسیٰ (علیہ السلام) نے انتہائی صبر و تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے انھیں کچھ کہنے کی بجائے اللہ تعالیٰ کی بار گاہ میں فریاد کی کہ الٰہی ! میں اپنی اور اپنے بھائی کی ذمہ داری لیتا ہوں جس کا یہ معنی ہے کہ ہم تو تیری راہ میں لڑنے مرنے کے لیے تیار ہیں اگر یہ نافرمان اپنے فائدے کی خاطر بھی تیرے راستے میں لڑنے کے لیے تیار نہیں۔ بس تو ہمارے اور ان کے درمیان علیحدگی فرما دیجیے۔ اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے ان پر ارض مقدس کو حرام کیا اور انھیں چالیس سال تک تیہ کے صحرا میں ٹھوکریں کھانے کے لیے چھوڑ دیا اور ساتھ ہی موسیٰ (علیہ السلام) کو فرمایا کہ آپ کو نافرمان قوم پر افسردہ ہونے کی ضرورت نہیں۔ چنانچہ کچھ مدت کے بعد حضرت موسیٰ اور ہارون ( علیہ السلام) یکے بعد دیگرے اللہ کو پیارے ہوئے۔ ان کے بعد یوشع بن نون کی قیادت میں بنی اسرائیل ارض مقدس میں داخل ہوئے لیکن اس وقت بھی انھوں نے بغاوت کا مظاہرہ کیا جس کا ذکر گزر چکا ہے۔ جغرافیہ دانوں نے اس صحرا کا رقبہ ٢٧ فرسخ طول اور ٩ فرسخ عرض بیان کیا جس کا مطلب ہے کہ یہ صحرا ٩٠ میل لمبا اور ٢٧ میل چوڑا ہے جس میں تقریباً ٧٠ لاکھ کے قریب بنی اسرائیل مقید کیے گئے جس کے بارے میں مفسرین نے لکھا ہے کہ وہ صبح سے شام تک اس کو شش میں سرگرداں رہتے کہ کسی طرح وہ واپس پلٹ جائیں لیکن مغرب کے وقت اسی مقام پر ہوتے جہاں سے انھوں نے سفر شروع کیا ہوتا تھا گویا کہ وہ بغیر کسی دیوار اور بیڑیوں کے اللہ تعالیٰ کی جیل میں جکڑ دیے گئے تھے تاہم اس دوران انھیں صبح و شام کھانے کے لیے من اور سلویٰ دیا جاتا اور پینے کے بارہ چشموں کا انتظام اور دھوپ سے بچاؤ کے لیے بادلوں کا سا یہ کیا گیا۔ یہ مثلث نما جزیرہ ہے جو بحر الکاہل (بحیرہ روم) (شمال کی طرف) اور ریڈسی بحر احمر (جنوب کی طرف) کے درمیان مصر میں واقع ہے اور اس کا رقبہ ساٹھ ہزار مربع کلومیٹر ہے اس کی زمینی سرحدیں سویز نہر مغرب کی طرف اور اسرائیل۔ مصر سرحد، شمال مشرق کی طرف ہیں۔ سینائی جزیرہ نما جنوب مغربی ایشیا میں واقعہ ہے اسے مغربی ایشیا بھی کہتے ہیں یہ زیادہ درست جغرافیائی اصطلاح ہے جبکہ مصر کا باقی حصہ شمالی افریقہ میں واقعہ ہے جغرافیائی وسیاسی مقاصد کے لیے زیادہ سینائی کو اکثر افریقہ کا حصہ سمجھا جاتا ہے۔ سینائی تقریباً مکمل طور پر صحرا ہے مگر تبا (Taba) میں سبا ساحل (Sabah Coast) کے ساتھ ساتھ واقع ہے (موجودہ اسرائیل قصبہ ایلٹ ( eilat) کے نزدیک) جہاں ایک ہوٹل اور رقص گاہ (Casino) ہے جب ساحل کے ساتھ ساتھ جنوب کی طرف حرکت کی جائے تو وہاں نیوویبا (N (علیہ السلام) weba) داھاب (Dahab) اور شرم الشیخ (Sharmel sheikh) واقع ہیں سینائی العریش ( I Arishel) یں غزہ پٹی کے نزدیک شمالی ساحل پر واقع ہے۔ مسائل ١۔ اللہ کے رسول کے حکم کو نہ ماننے والے فاسق ہیں۔ ٢۔ اللہ کا حکم نہ ماننے والے رسوا ہوتے ہیں۔ ٣۔ مغضوب قوم کے لیے زمین تنگ کردی جاتی ہے۔ ٤۔ نافرمان لوگوں پر عذاب نازل ہو تو افسوس نہیں کرنا چاہیے۔ المآئدہ
25 المآئدہ
26 المآئدہ
27 فہم القرآن ربط کلام : قابیل اور ہابیل کا واقعہ پڑھنے کا مقصد یہودیوں کو بتانا ہے کہ تمہارے اور قابیل کے کردار میں کوئی فرق نہیں جس طرح وہ اپنے بھائی پر ظلم کرنے کے بعد پچھتایا تھا۔ عنقریب تمہیں بھی اپنے کیے پر پچھتاوا ہوگا۔ کیونکہ تم بھی اپنے بعد والی امت پر ظلم کر رہے ہو۔ قربانی کا لفظ ” قربان“ بروزن ” سلطان“ سے نکلا ہے عربی محاورات میں قربان ہر اس چیز کو کہتے ہیں جس سے اللہ کا قرب حاصل کیا جائے جیسا کہ امام ابو بکر جصاص مرحوم نے احکام القرآن میں نقل کیا۔ ” والقربان مایقصد بہ القرب من رحمۃ اللّٰہ تعالیٰ من اعمال البرّ“”’ قربان ہر اس نیک کام کو کہا جاتا ہے جس کا مقصد اللہ کی قربت حاصل کرنا ہو۔“ لیکن عرف عام میں دسویں ذوالحجہ کو بکرے، دنبے، گائے اونٹ ذبح کرنے کا نام قربانی ہے۔ واقعہ بیان کرنے سے پہلے اس کے متعلق گارنٹی دی گئی کہ واقعہ اور اس کے حقائق اتنے برحق ہیں کہ ان کے بارے میں شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں یہ ہر لحاظ سے حق پر مبنی ہے۔ اس میں یہ اشارہ بھی ملتا ہے جس طرح قابیل قتل کرنے کے بعد نادم اور پریشان ہوا تھا نبی آخر الزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے ساتھیوں پر ظلم کرنے والے بھی یقینی طور پر ندامت اور پریشانی کا سامنا کریں گے۔ یہاں سے یہ بھی معلوم ہوا کہ تاریخی واقعات کو من و عن اور بلا کم و کاست بیان کرنا چاہیے۔ جس میں نہ مبالغہ ہو اور نہ ہی کمی کی جائے۔ عَلَیْہِمْ ضمیر کا اشارہ یہود کی طرف ہے جس کا ذکر ان آیات کے سیاق وسباق سے واضح ہے مگر واقعہ میں جو نصیحت ہے وہ سب کے لیے ہے۔ یہود کو اس لیے مخاطب کیا کہ جس طرح آج تم اپنے سے بعد میں آنے والی امت محمدیہ جو کہ رشتۂ انسانی کی ترتیب کے لحاظ سے تمہارے چھوٹے بھائی ہیں تم حسد وبغض کی وجہ سے ان کو ختم کرنے کے درپے ہوچکے ہو بالکل اسی طرح آدم (علیہ السلام) کے دو بیٹوں میں صورت حال پیدا ہوئی کہ ایک نے دوسرے کی عزت اور شرف کو تسلیم نہیں کیا بلکہ حسدو دشمنی میں بہت آگے نکل گیا نتیجتاً اللہ کی زمین پر قتل جیساعظیم سانحہ پیش آیا اور سفاکانہ کردار رکھنے والے کو پچھتانا پڑا۔ تفسیر ابن کثیر میں لکھا ہے کہ نسل انسانی کی ابتدائی حالت کے پیش نظر اور انسان کی افزائش کے لیے اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق ایک حمل میں بچی اور بچہ ہوا کرتے تھے۔ جب یہ جوان ہوجاتے تو بحکم خداوندی پہلے لڑکے کی شادی دوسری لڑکی، دوسرے کی پہلی کے ساتھ یعنی الٹ کرکے ازدواجی تعلق قائم کردیا جاتا تھا۔ جب قابیل کی شادی کا وقت آیاتو اس نے دوسری لڑکی کے ساتھ نکاح سے اس لیے انکار کردیا کہ وہ لڑکی اسے پسند نہ تھی۔ کہنے لگا میں تو اپنی ہم جائی کے ساتھ نکاح کروں گا۔ حضرت آدم (علیہ السلام) نے بہت سمجھایا لیکن وہ نہ سمجھا بالآخر حضرت آدم (علیہ السلام) نے حکم دیا کہ تم دونوں اللہ کے راستے میں قربانی دو۔ جس کی قربانی قبول ہوجائے اس کی خواہش کے مطابق نکاح کردیا جائے گا۔ قابیل نے ناقص اور پھر خدائے ذوالجلال کی رضا کی بجائے صرف مفاد کی خاطر قربانی دی جبکہ ہابیل نے اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے کے لیے قربانی پیش کی چھوٹے یعنی ہابیل کی قربانی قبول اور بڑے کی مسترد کردی گئی تو اس نے حسد اور بغض سے اپنے چھوٹے بھائی کو قتل کردیا۔ دنیا میں چونکہ یہ پہلا قتل تھا اس لیے قاتل کو یہ پتہ نہ تھا کہ بھائی کی لاش کس طرح دفنائے۔ بالآخر اللہ نے کوّے کو حکم دیا تو کوّے نے دوسرے کوّے کو مار کر اس کے سامنے مٹی میں دفن کیا اس کو دیکھ کر قابیل نے اپنے مقتول بھائی کو دفن کیا اور پھر حسرت کے ساتھ کہنے لگا ہائے افسوس! میں توکوّے سے بھی بدتر نکلا۔ لہٰذا روز اول سے بتا دیا گیا کہ قربانی اور تمام اعمال کی قبولیت کا انحصار تقوی پر ہوگا۔ مسائل ١۔ ہر نیک کام اخلاص سے کرنا چاہیے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ متقین کے اعمال قبول کرتا ہے۔ ٣۔ آدم (علیہ السلام) کے ایک بیٹے کی قربانی قبول ہوئی اور دوسرے کی مسترد کردی گئی۔ ٤۔ نیکی قبول کرنا اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے۔ تفسیر بالقرآن قرآن مجید میں قربانی کا بیان : ١۔ آدم کے دو بیٹوں نے اللہ تعالیٰ کے حضور قربانی پیش کی۔ (المائدۃ: ٢٧) ٢۔ ہر امت کے لیے ایک طریقہ مقرر کیا گیا ہے۔ (الحج : ٣٤) ٣۔ ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے بیٹے کی قربانی پیش کی۔ (الصافات : ١٠٢ ) ٤۔ اپنے رب کے لیے نماز پڑھیے اور قربانی کیجیے۔ (الکوثر : ٢) ٥۔ قربانی کے اونٹوں کو اللہ تعالیٰ نے لوگوں کے لیے شعائر بنایا ہے۔ (الحج : ٣٦) المآئدہ
28 فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ قابیل کے چھوٹے بھائی ہابیل نے جب یقین کرلیا کہ قابیل مجھے قتل کرنے کا مصمّم ارادہ کرچکا ہے تو اس نے بڑے ادب سے کہا کہ اگر آپ مجھے قتل کرنے کے لیے اپنا ہاتھ آگے بڑھائیں گے تو میں آپ کو قتل کرنے کے لیے اپنا ہاتھ آگے نہیں بڑھاؤں گا۔ جس میں یہ احساس دلانا مقصود تھا کہ میں تجھ سے لڑنا نہیں چاہتا۔ لہٰذا تجھے بھی مجھ پر زیادتی نہیں کرنا چاہیے۔ پھر بھی تمہیں اس بات کا احساس نہیں تو یاد رکھنا تیرے گناہ کے ساتھ میرا گناہ بھی تیرے ذمہ ہوگا اس کا معنیٰ یہ نہیں کہ انھوں نے اپنا دفاع نہیں کیا ہوگا بلکہ اپنی جان بچانا، عزت و مال کی حفاظت کرنا، ہر کسی کا فطری حق اور شرعی طور پر ایسا کرنا لازم ہے، ہابیل نے قابیل کو ظلم سے روکنے کے لیے پانچ باتیں کہی تھیں۔ ١۔ اللہ تعالیٰ متقین کی قربانی قبول کرتا ہے۔ جس کا مفہوم یہ ہے کہ تجھے مفاد کے بجائے اخلاص کے ساتھ قربانی پیش کرنا چاہیے تھی۔ ٢۔ تیرے ہاتھ بڑھانے کے باوجود میں تیری طرف ہاتھ نہیں بڑھاؤں گا۔ ٣۔ میں ظالم بننے کی بجائے مظلوم بننا پسند کروں گا۔ ٤۔ میں اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہوں۔ جس کا معنیٰ یہ ہے کہ تجھے بھی اللہ تعالیٰ سے ڈرنا چاہیے۔ ٥۔ اگر تو ظلم سے باز نہ آئے گا تو تیرا ٹھکانہ جہنم ہوگا۔ ( عَنْ سَعِیدِ بْنِ زَیْدٍ (رض) قَالَ سَمِعْتُ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَقُولُ مَنْ قُتِلَ دُونَ مَالِہٖ فَہُوَ شَہِیدٌ وَمَنْ قُتِلَ دُون دینِہٖ فَہُوَ شَہِیدٌ وَمَنْ قُتِلَ دُونَ دَمِہٖ فَہُوَ شَہِیدٌ وَمَنْ قُتِلَ دُونَ أَہْلِہٖ فَہُوَ شَہِیدٌُ ) [ رواہ الترمذی : کتاب الدیات، بَاب مَا جَاء فیمَنْ قُتِلَ دُونَ مَالِہِ فَہُوَ شَہِیدٌ] ” حضرت سعید بن زید (رض) فرماتے ہیں میں نے رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے ہوئے سنا کہ آپ نے فرمایا کہ جو کوئی اپنے مال کی حفاظت کرتے ہوئے مارا گیا وہ شہید ہے، جو کوئی اپنے دین کی حفا ظت کرتے ہوئے مارا گیا وہ شہید ہے، جو کوئی اپنی جان کی حفاظت کرتے ہوئے مارا گیا وہ شہید ہے اور جو کوئی اپنے گھروالوں کی حفاظت کرتے ہوئے مارا جائے وہ بھی شہید ہے۔“ (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ (رض) قَال النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) أَوَّلُ مَا یُقْضٰی بَیْنَ النَّاس بالدِّمَاء) [ رواہ البخاری : کتاب الرقاق، بَاب الْقِصَاصِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ] ” حضرت عبداللہ (رض) بیان کرتے ہیں نبی مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا قیامت کے دن سب سے پہلے لوگوں کے درمیان خون کا فیصلہ کیا جائے گا“ مسائل ١۔ کسی پر زیادتی نہیں کرنا چاہیے۔ ٢۔ ہر وقت اللہ رب العالمین سے ڈرنا چاہیے۔ ٣۔ ظالم کا ٹھکانہ جہنم ہے۔ ٤۔ کسی پر زیادتی کرنے کی وجہ سے اس کے گناہوں کا بھی بوجھ اٹھانا پڑے گا۔ تفسیر بالقرآن گناہوں کا انجام : ١۔ قیامت کے دن برے کاموں کی سزا ملے گی۔ (النجم : ٣١ ) ٢۔ جو گناہوں میں گھرارہا وہ جہنم میں داخل ہوگا۔ (البقرۃ: ٨١) ٣۔ جہنمی اپنے گناہوں کا اعتراف کریں گے۔ (الملک : ١١) المآئدہ
29 المآئدہ
30 فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں نفس انسانی کی تین حالتیں بیان کی ہیں۔ ١۔ نفس مطمئنہّ۔ ہر حال میں مطمئن یعنی نیکی پر قائم رہنے والا نفس۔ (الفجر : ٢٧) ٢۔ نفس لوّامہ۔ گناہ پر ملامت کرنے والا نفس (القیامۃ: ٢) ٣۔ نفس امّارہ۔ گناہ پر ابھارنے والا نفس (یوسف : ٥٣) یہ انسان کے دل کی تین حالتیں ہیں نفس مطمئنہ صرف انبیاء کو نصیب ہوتا ہے باقی انسانوں کے نفس کی دو کیفیتیں ہوتی ہیں۔ (١) نفس امارہ اور نفس لوامہ۔ ان کے درمیان مقابلہ رہتا ہے اگر نفس لوامہ جیت جائے تو انسان کو نیک اعمال کی توفیق ملتی ہے۔ جب نفس امارہ غالب آجائے تو آدمی برائی کا مرتکب ہوتا ہے۔ ” فطوعت لہ نفسہ“ سے یہی کشمکش مراد ہے۔ چنانچہ قابیل نے وہی کیا جس کا وہ اعلان کرچکا تھا۔ قتل کرنے کے بعد اس کے دل کا سکون جاتا رہا۔ رہتی دنیا تک بدنامی اس کے مقدر میں آئی، ظلم و زیادتی کی بری روایت قائم کی۔ آخرت میں جہنم کا ایندھن اور ظالموں کا ساتھی بنا۔ اس سے زیادہ اور نقصان کیا ہوسکتا ہے اور جب بھی کوئی شخص ظلم کرتا ہے اسے ایسی ہی کیفیات کا سامنا کرنا پڑتا ہے کیونکہ نیکی میں اطمینان اور برائی میں پریشانی و پشیمانی ہوا کرتی ہے۔ (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ (رض) قَالَ قَال النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لَیْسَ مِنْ نَفْسٍ تُقْتَلُ ظُلْمًا إِلَّا کَانَ عَلَی ابْنِ آدَمَ الْأَوَّلِ کِفْلٌ مِنْہَا وَرُبَّمَا قَالَ سُفْیَانُ مِنْ دَمِہَا لِأَنَّہُ أَوَّلُ مَنْ سَنَّ الْقَتْلَ أَوَّلًا)[ رواہ البخاری : کتاب الاعتصام بالکتاب و السنہ، بَاب إِثْمِ مَنْ دَعَا إِلَی ضَلَالَۃٍ أَوْ سَنَّ سُنَّۃً سَیِّءَۃً ] ” حضرت عبداللہ (رض) بیان کرتے ہیں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا آدم (علیہ السلام) کے پہلے بیٹے پر ہر ظلم کے ساتھ قتل کیے جانے والے کے گناہ کا حصہ ہے اور شاید سفیان نے خون کا لفظ بولا ہے کیونکہ وہ پہلا شخص تھا جس نے قتل کرنے کی بنیاد رکھی۔“ المآئدہ
31 فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ دنیا میں سب سے پہلے قتل اور فوت ہونے والا شخص ہابیل تھا اس لیے قابیل کو معلوم نہ تھا کہ میت کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے۔ اس بات کے ساتھ اس کا دوسرا مفہوم بھی ذہن میں رکھنا چاہیے جو واقعہ کے ساتھ گہری نسبت رکھتا ہے جب قاتل کسی شخص کو قتل کرتا ہے تو وہ اپنا جرم چھپانے کے لیے لاش کو آگے پیچھے کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ ممکن ہے قابیل اسی کشمکش میں مبتلا ہو گھبراہٹ اور بے قراری کے عالم میں اس کی عقل پر پردہ پڑگیا ہو۔ کہ وہ اپنے بھائی کی لاش کو کہاں ٹھکانے لگائے جس کی رہنمائی کے لیے اللہ تعالیٰ نے ایک کوّے کے ذریعے یہ کام کروایا۔ ایک کوّے نے دوسرے کوّے کو مار کر اس کی لاش زمین میں دفن کی جب قابیل نے یہ نقشہ دیکھا تو سخت پریشانی کے عالم میں پکار اٹھا ہائے افسوس میں تو کوّے سے بھی کم تر ثابت ہوا۔ بعد ازاں اس نے اپنے بھائی کو زمین میں دفن کیا اسی وقت سے لے کر فطری اور شرعی طریقہ یہی ہے۔ جلانے کی بجائے میّت کو عزت و احترام کے ساتھ دفنانا چاہیے۔ اسلام کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ نہ صرف میت کو دفنانے کا حکم دیتا ہے بلکہ اس کی تعلیم یہ ہے کہ اچھی طرح غسل دینے کے بعد صاف اور اجلا سفید رنگ کا کفن پہنا کر خوشبو لگائی جائے اور نہایت اخلاص کے ساتھ نماز جنازہ پڑھ کر، دفنانے کے بعد قبر پر کھڑے ہو کر دعا کی جائے اور میّت کے لیے ایصال ثواب کا اہتمام بھی کیا جانا چاہیے۔ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ (رض) أَنَّ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ إِذَا مَاتَ الْإِنْسَانُ انْقَطَعَ عَنْہُ عَمَلُہُ إِلَّا مِنْ ثَلَاثَۃٍ إِلَّا مِنْ صَدَقَۃٍ جَارِیَۃٍ أَوْ عِلْمٍ یُنْتَفَعُ بِہٖ أَوْ وَلَدٍ صَالِحٍ یَدْعُو لَہُ) [ رواہ مسلم : کتاب الوصیہ، بَاب مَا یَلْحَقُ الْإِنْسَانَ مِنْ الثَّوَابِ بَعْدَ وَفَاتِہِ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں بلاشبہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب انسان فوت ہوجاتا ہے تو اس کے اعمال منقطع کردیے جاتے ہیں مگر صرف تین ذرائع سے اسے اجر ملتا رہتا ہے۔ (١) صدقہ جاریہ۔ (٢) ایسا علم جس سے لوگ فائدہ اٹھائیں۔ (٣) نیک اولاد جو اس کے لیے دعائیں کرے۔“ (عَنْ سَعْدِ بْنِ عُبَادَۃَ (رض) أَنَّہُ قَالَ یَا رَسُول اللّٰہِ إِنَّ أُمَّ سَعْدٍ مَاتَتْ فَأَیُّ الصَّدَقَۃِ أَفْضَلُ قَالَ الْمَاءُ قَالَ فَحَفَرَ بِءْرًا وَقَالَ ہَذِہِ لِأُمِّ سَعْدٍ)[ رواہ ابوداؤد : کتاب الزکاہ، بَاب فِی فَضْلِ سَقْیِ الْمَاءِ ] ” حضرت سعد بن عبادہ (رض) نے رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے استفسار کیا اے اللہ کے رسول! ام سعد وفات پا گئی ہیں کون سا صدقہ سب سے افضل ہے آپ نے فرمایا پانی پلانا۔ حضرت سعد نے کنواں کھدوایا اور کہا یہ ام سعد کے لیے ہے۔“ (عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدِ بْنِ أَبِی وَقَّاصٍ أَنَّ سَعْدَ بْنَ أَبِی وَقَّاصٍ (رض) قَالَ فِی مَرَضِہِ الَّذِی ہَلَکَ فیہِ الْحَدُوا لِی لَحْدًا وَانْصِبُوا عَلَیَّ اللَّبِنَ نَصْبًا کَمَا صُنِعَ بِرَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) [ رواہ مسلم : کتاب الجنائز، باب فی اللحد ونصب اللبن علی المیت] ” عامر بن سعد بن ابی وقاص بیان کرتے ہیں کہ حضرت سعد (رض) نے اپنے مرض الموت کے وقت حکم دیا کہ میرے لیے لحد بنانا اور لحد کے اوپر کچی اینٹیں رکھنا جس طرح رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے کیا گیا تھا۔“ مسائل ١۔ میت کو دفنانا چاہیے۔ ٢۔ قاتل کف افسوس ملتا رہ جاتا ہے اور ندامت اس کا مقدر بن جاتی ہے۔ تفسیر بالقرآن نادم ہونے والے لوگ : ١۔ آدم کا بیٹا کہنے لگا کاش میں اس کوے کی طرح ہوتا کہ اپنے بھائی کی لاش کو چھپا دیتا تو وہ نادم ہونے والوں میں سے ہوگیا۔ (المائدۃ: ٣١) ٢۔ قریب ہے اللہ فتح عطا کر دے یا اپنی طرف سے کوئی حکم نازل فرما دے پس یہ اپنے آپ پر نادم ہوں۔ (المائدۃ: ٥٢) ٣۔ اپنی غلطیوں پر نادم ہونے والے بہت ہی کم ہوتے ہیں۔ (المومنون : ٤٠) ٤۔ انھوں نے اونٹنی کی کونچیں کاٹ ڈالیں اور وہ نادم ہونے والوں میں سے ہوگئے۔ (الشعراء : ١٥٧) ٥۔ اے ایمان والو ! فاسق کی خبر کی تحقیق کرلیا کرو کہیں ایسا نہ ہو کہ تمھیں اپنے کیے پر نادم ہونا پڑے۔ (الحجرات : ٦) المآئدہ
32 فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ عربی گرائمر میں ” مَنْ“ کا لفظ سبب کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے اس کے دو مفہوم ہیں یہ قانون روز آفرنیش سے ہی لاگو کیا گیا تھا۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ اسی وجہ سے یعنی قتل و غارت کو روکنے کے لیے ہم نے بنی اسرائیل پر یہ قانون نافذ کیا کہ اگر کسی شخص نے دوسرے کو ناحق قتل کیا تو قاتل کو اس کے بدلے میں قتل کردیا جائے۔ اور یہی سزا قتل و غارت کرنے والوں کی ہوگی۔ کیونکہ جس نے ایک جان کو قتل کیا گویا کہ وہ پوری انسانیت کا قاتل ٹھہرا۔ جس نے کسی ایک کی جان بچائی اس نے پوری انسانیت کا تحفظ کیا۔ دین اسلام سے بڑھ کر دنیا میں کوئی مذہب اور قانون انسان کو تحفظ نہیں دے سکتا۔ قانون سمجھانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے پے درپے انبیاء مبعوث فرمائے۔ تاکہ لوگوں کی اخلاقی تربیت فرمائیں کہ لوگ قتل و غارت اور دنگا فساد کرنے سے اجتناب کریں لیکن اس کے باوجود لوگوں کی اکثریت آپس میں زیادتی کرنے والی ہے۔ (عن عَبْدِ اللّٰہِ (رض) أَنَّ النَّبِیَّ َ قَالَ سِبَابُ الْمُسْلِمِ فُسُوقٌ وَقِتَالُہُ کُفْرٌ)[ رواہ البخاری : کتاب الایمان، باب خوف المومن من ان یحبط عملہ وہو لا یشعر] ” حضرت عبداللہ (رض) بیان کرتے ہیں بلاشبہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا مسلمان کو گالی دینا فسق اور اس سے لڑائی کرنا کفر ہے“ (عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عَمْرٍو (رض) عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ لَزَوَال الدُّنْیَا أَہْوَنُ عِنْدَ اللَّہِ مِنْ قَتْلِ رَجُلٍ مُسْلِمٍ ) [ رواہ النسائی : باب تَعْظِیم الدَّمِ] ” حضرت عبداللہ بن عمر و (رض) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں آپ نے فرمایا دنیا کا ختم ہوجانا اللہ کے ہاں ایک مسلمان کے قتل سے کم تر ہے۔“ مسائل ١۔ ایک انسان کا قاتل ساری انسانیت کا قاتل ہے۔ ٢۔ ایک انسان کی زندگی بچانے والا ساری انسانیت کی زندگی بچانے والا ہوتا ہے۔ ٣۔ دلائل و براہین کے آجانے کے بعد ظلم و زیادتی نہیں کرنا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن اسراف کرنے والے لوگ : ١۔ جو اسراف کرے اور اللہ کی آیات پر ایمان نہ لائے اسے سزا دی جائے گی۔ (طہ : ١٢٧) ٢۔ فصل کاٹتے وقت اس کا حق ادا کرو اور اسراف نہ کرو۔ (الانعام : ١٤٢) ٣۔ کھاؤ پیو اور اسراف نہ کرو کیونکہ اسراف کرنے والوں کو اللہ دوست نہیں رکھتا۔ (الاعراف : ٣١) ٤۔ رحمن کے بندے خرچ کرتے وقت اسراف نہیں کرتے۔ (الفرقان : ٦٧) ٥۔ اسراف نہ کرو اللہ تعالیٰ اسراف کرنے والے سے محبت نہیں کرتا۔ (الانعام : ١٤١) ٦۔ اسراف کرنے والے شیطان کے بھائی ہیں۔ ( بنی اسرائیل : ٢٧) المآئدہ
33 فہم القرآن ربط کلام : ظلم واستبداد کو روکنے کے لیے ابتدا ہی سے فوج داری ضابطے نازل فرمائے گئے تاکہ ظالم دنیا ہی میں سزا پائیں اور آئندہ ایسے مظالم سے باز آجائیں۔ اسلام نے قتل انسان کو بڑا سنگین جرم قرار دیا ہے۔ اس کے باوجود لوگ انسانی اقدار کو پامال کرتے ہوئے درندگی کا مظاہرہ کرتے ہیں ایسے درندوں کے لیے اسلام سخت ترین سزا تجویز کرتا ہے تاکہ امن و امان قائم اور چادر اور چار دیواری کا تحفظ یقینی ہو سکے۔ اگر کسی ملک میں شاہراہیں غیر محفوظ اور لوگوں کی آمد و رفت پر خطربنا دی جائے تو اسلام ایسی صورت حال کو لمحہ بھر کے لیے بھی برداشت نہیں کرتا۔ ایسے لوگوں سے نمٹنے کے لیے اسلام سخت ترین کارروائی کا حکم دیتا ہے۔ اور اس صورت حال کو اللہ اور اس کے رسول کے خلاف جنگ کے مترادف تصوّر کرتا ہے ان خطرناک اور پیشہ ور ظالموں کے قلع قمع کے لیے حکم صادر فرمایا کہ ایسے لوگوں کو چار سزاؤں میں سے حسب جرم کوئی ایک سزا سرعام دینا چاہیے۔ تاکہ یہ لوگ دنیا میں عبرت کا نشان ثابت ہوں۔ اور آخرت میں انھیں عذاب عظیم سے دو چار ہونا پڑے گا۔ (١) قتل کردیا جائے۔ (٢) تختۂ دار پر لٹکا دیا جائے۔ (٣) مخالف سمت میں ان کے ہاتھ پاؤں کاٹ دیے جائیں۔ (٤) ملک بدر کردیا جائے۔ مفسرین نے ان سزاؤں کی تنفیذ کا ذکر کرتے ہوئے تشریح کی کہ یہ اسلامی عدالت کے اختیار میں ہوگا کہ وہ موقعۂ واردات اور جرم کی نوعیت کو سامنے رکھتے ہوئے کوئی ایک سزا تجویز کرے۔ جہاں تک ملک بدر کردینے کی سزا کا تعلق ہے حضرت عمر (رض) ایسے مجرموں کو جیل میں بند کیا کرتے تھے۔ کیونکہ اس طرح ان لوگوں سے عوام الناس مامون ہوجاتے تھے۔ ” حضرت قتادہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت انس (رض) نے انہیں بتایا کہ ” عکل اور عرینہ (قبیلوں) کے کچھ لوگ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس مدینہ میں آئے اور کلمہ پڑھنے لگے۔ انھوں نے کہا۔ یا رسول اللہ ! ہم بھیڑ بکریاں چرانے والے لوگ ہیں کسان نہیں۔ انھیں مدینہ کی آب و ہوا موافق نہ آئی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے چند اونٹ اور ایک چرواہا ان کے ساتھ کیا اور کہا کہ تم لوگ (جنگل میں) چلے جاؤ۔ ان اونٹنیوں کا دودھ اور پیشاب پیتے رہو۔ وہ حرہ کے پاس اقامت پذیر ہوئے اور اس علاج سے وہ خوب موٹے تازے ہوگئے۔ پھر ان کی نیت میں فتور آگیا اور اسلام سے مرتد ہوگئے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے چرواہے (یسار) کی آنکھوں میں گرم سلائیاں پھیر کر اسے کئی طرح کی تکلیفیں پہنچا کر مار ڈالا اور اونٹ بھگا کر چلتے بنے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اطلاع ہوئی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انھیں گرفتار کرنے کے لیے آدمی روانہ کیے۔ جب وہ گرفتار ہو کر آئے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حکم سے ان کی آنکھوں میں گرم سلائیاں پھیری گئیں۔ ان کے ہاتھ پاؤں کاٹے گئے اور حرہ کے ایک کونے میں پھینک دیے گئے۔ وہ اسی حال میں مر گئے۔“ [ رواہ البخاری : کتاب المغازی، باب قصۃ عکل وعرینہ] مسائل ١۔ اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے لڑائی کرنے اور زمین میں فساد پھیلانے والوں کو قتل کردینا چاہیے۔ ٢۔ تخریب کار کو سولی پر لٹکا دینا چاہیے۔ ٣۔ ڈاکوکے ہاتھ پاؤں الٹے کاٹ دینے چاہییں۔ ٤۔ تخریب کار کو ملک بدر کردینا چاہیے۔ ٥۔ اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ لڑائی کرنے والے دنیا و آخرت میں ذلیل ہوں گے۔ تفسیر بالقرآن فساد کرنے والوں کی سزا : ١۔ زمین میں فساد نہیں کرنا چاہیے۔ (الاعراف : ٥٦) ٢۔ اللہ فساد کرنے والوں کے کام کو نہیں سنوارتا۔ (یونس : ٨١) ٣۔ فساد کی کوشش نہ کرو کیونکہ اللہ فساد کرنے والے کو پسند نہیں کرتا۔ (القصص : ٧٧) ٤۔ خشکی و تری میں لوگوں کے اعمال کی وجہ سے فساد پھیلتا ہے۔ (الروم : ٤١) ٥۔ فساد کرنے والوں کا انجام۔ (النمل : ١٤) ٦۔ زمین میں فساد کی غرض سے نہ چلو۔ (البقرۃ: ٦٠) ٧۔ اللہ فساد کرنے والوں کو جانتا ہے۔ (آل عمران : ٦٣) ٨۔ فساد کرنے والوں پر اللہ کی لعنت ہوتی ہے۔ (الرعد : ٢٥) المآئدہ
34 فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ اسلامی سزاؤں کا فلسفہ یہ ہے کہ جرائم کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا جائے۔ مگر صرف سزا کا نفاذ ہی اصلاح کا ذریعہ نہیں ہوا کرتا اگر مجرموں کو سزا پر سزا دی جاتی رہے تو بسا اوقات وہ قومی مجرم اور پیشہ ور لٹیرے ثابت ہوتے ہیں۔ اس لیے اسلام نے دوسرے جرائم کی طرح سنگین جرائم کے مرتکب افراد کے لیے بھی توبہ کا دروازہ کھلا رکھا ہے۔ لیکن اس کی ایک بڑی شرط یہ ہے کہ وہ انتظامیہ کی پکڑ میں آنے اور عدالت کے کٹہرے میں کھڑے ہونے سے پہلے تائب ہوجائیں۔ اس میں بھی کچھ صورتوں کو ناقابل معافی قرار دیا گیا ہے۔ اگر ایسے شخص نے کوئی قتل کیا ہے تو اسے قتل کے بدلے میں قتل کیا جائے گا۔ اس نے کسی کا مال لوٹا ہو تو اس سے واپس لے کر اس کے مالک کو دلوانا حکومت کی ذمہ داری ہوگی۔ یہ طریقۂ کار فوج داری اور دیوانی مقدمات میں ہوگا۔ اخلاقی مقدمات مثلاً زنا کاری کے مقدمہ میں نہ بدلہ ہے اور نہ ہی شہادتیں قائم ہونے کے بعد عدالت معافی دے سکتی ہے۔ توبہ کا دروازہ کھولتے ہوئے اعلان فرمایا ہے کہ اگر یہ لوگ آئندہ کے لیے سچے دل سے توبہ کرلیں تو اللہ تعالیٰ بخشنے والا اور نہایت ہی مہربانی کرنے والا ہے۔ اگر یہ لوگ اسلامی سزا کے بعد یا عدالت میں پہنچنے سے پہلے اخلاص کے ساتھ توبہ کریں گے تو اللہ تعالیٰ انھیں معاف فرما دے گا۔ (عَنْ أَبِی عُبَیْدَۃَ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ عَنْ أَبِیہِ قَالَ قَالَ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) التَّاءِبُ مِنْ الذَّنْبِ کَمَنْ لَا ذَنْبَ لَہُ) [ رواہ ابن ماجۃ: کتاب الزہد، باب ذکر التوبۃ] ” حضرت ابوعبیدہ بن عبداللہ (رض) اپنے والد سے بیان کرتے ہیں رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا گناہوں سے توبہ کرنے والا اس شخص کی طرح ہے جس نے کوئی گناہ نہ کیا ہو“ (عَنْ أَبِی مُوسَی (رض) عَنْ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ إِنَّ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ یَبْسُطُ یَدَہُ باللَّیْلِ لِیَتُوبَ مُسِیء النَّہَارِ وَیَبْسُطُ یَدَہُ بالنَّہَارِ لِیَتُوبَ مُسِیء اللَّیْلِ حَتَّی تَطْلُعَ الشَّمْسُ مِنْ مَغْرِبِہَا )[ رواہ مسلم : کتاب التوبہ، باب قبول التوبۃ من الذنوب] ” حضرت ابو موسیٰ (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ تعالیٰ رات کو اپنا دست رحمت پھیلاتا ہے تاکہ دن بھر کا گنہگار توبہ کرلے اور دن کو دست شفقت بڑھاتا ہے تاکہ رات بھر کا گنہگار توبہ کرلے، سورج کے مغرب سے نکلنے یعنی قیامت تک یہ سلسلہ جاری رہے گا۔“ (عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عَمْرٍو (رض) عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ إِنَّ اللَّہَ عَزَّ وَجَلَّ لَیَقْبَلُ تَوْبَۃَ الْعَبْدِ مَا لَمْ یُغَرْغِرْ ) [ رواہ ابن ماجۃ: باب ذِکْرِ التَّوْبَۃِ] ” حضرت عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اللہ بندے کی توبہ کو قبول فرماتا ہے جب تک اس کا سانس حلق میں نہیں اٹک جاتا۔“ (عَنْ أَنَسٍ (رض) قَالَ قَالَ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کُلُّ بَنِی آدَمَ خَطَّاءٌ وَخَیْرُ الْخَطَّاءِیْنَ التَّوَّابُوْنَ) [ رواہ ابن ماجۃ: باب ذِکْرِ التَّوْبَۃِ] ” حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا آدم کا ہر بیٹا خطا کار ہے اور ان میں سے بہتر وہ ہے جو خطا کرنے کے بعد توبہ کرنے والا ہے۔“ مسائل ١۔ گرفتاری سے پہلے توبہ کرنے والوں کو اللہ معاف فرما دیتا ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ کن لوگوں پر رحم کرتا ہے : ١۔ اللہ کی مہربانی کے بغیر گناہ سے بچنا مشکل ہے۔ (یوسف : ٥٣) ٢۔ اللہ توبہ کرنے والوں کو اپنی رحمت میں داخل کرتا ہے بے شک اللہ معاف اور رحم کرتا ہے۔ (التوبۃ: ٩٩) ٣۔ اللہ توبہ کرنے والوں کو معاف کرنے اور رحم کرنے والا ہے۔ (التوبۃ: ٢٧) ٤۔ اللہ معاف کرنے والا رحم کرنے والا ہے۔ (المائدۃ: ٧٤) ٥۔ جو سچے دل سے تائب ہوجائے ایمان کے ساتھ اعمال صالح کرتا رہے تو اللہ تعالیٰ اس کی برائیوں کو نیکیوں میں بدل دے گا کیونکہ اللہ معاف کرنے والا رحم کرنے والا ہے۔ (الفرقان : ٧٠) ٦۔ گناہ گار کو اللہ کی رحمت سے مایوس نہیں ہونا چاہیے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ معاف کرنے والا ہے۔ (الزمر : ٥٣) المآئدہ
35 فہم القرآن ربط کلام : یہود و نصاریٰ کی طرح خدا کی نافرمانی اور اس سے دور ہونے کی بجائے اس کی قربت تلاش کرو۔ زمین میں دنگا فساد کرنے کی بجائے جہاد فی سبیل اللہ کے لیے اپنی قوت و طاقت استعمال کرو اس طرح تم کامیاب ہو گے۔ وسیلہ کی حقیقت : اردو میں وسیلہ کا معنی ہے ذریعہ اور واسطہ جس سے بے شمار مسلمانوں کو قرآن کے لفظ وسیلہ کے بارے میں غلط فہمی ہوئی ہے جبکہ قرآن مجید میں اس کا معنی اللہ تعالیٰ کا قرب چاہنا ہے۔ ادھر ادھر کے واسطوں کے ذریعے نہیں بلکہ تقوٰی اور نیکی کے کاموں کے ذریعے اللہ تعالیٰ کے قریب ہونے کی کوشش کرو۔ حدیث میں وسیلہ کا معنی مقام علیا ہے جس پر فائز ہو کر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قیامت کے دن رب کریم کے حضور سجدہ ریز ہو کر امت کی سفارش کریں گے اس کا تذکرہ اذان کے بعد کی دعا میں موجود ہے۔ آپ نے اسی مقام کے لیے دعا کرنے کی تلقین کی ہے۔ یہ دنیا عالم اسباب ہے اس کا پورا نظام اسباب اور وسائل پر چل رہا ہے جب تک وسائل کو بروئے کار نہیں لایا جائے گا اس وقت تک دنیا کے معاملات صحیح سمت پر چلنے تو درکنار زندگی کا باقی رہنا ناممکن ہے۔ ایک شخص کتنا ہی متوکل علی اللہ کیوں نہ ہوا گر پیاس کے وقت پانی نہیں پیتا اور بھوک کے وقت کھانا نہیں کھاتا تو موت کا لقمہ بن جائے گا۔ بیمار کے لیے پرہیز اور دوائی لازم ہے۔ بغیر اسباب کے کسی چیز کو باقی رکھنا یہ صرف خالق کائنات کی قدرت کا کرشمہ ہے۔ لہٰذا شریعت نے کمزور کے ساتھ تعاون اور بے سہارا کو سہارا دینا اور بے وسیلہ کا وسیلہ بننے کا حکم دیا ہے۔ اس وسیلہ اور اسباب کو اللہ تعالیٰ کی ذات اور اختیارات کے بارے میں دلیل نہیں بنایا جا سکتا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کو کسی وسیلہ اور واسطہ کی ضرورت نہیں وہ مسبب الاسباب اور انسان کی شہ رگ سے زیادہ قریب اور دلوں کی دھڑکنوں کو جاننے والا ہے۔ توہین آمیز اور مضحکہ خیزمثال : لیکن آج کا خطیب وسیلے کے جواز کے لیے یہ کہتا سنائی دیتا ہے کہ پھر ایک دوسرے کی مدد کرنا ٗگاڑی استعمال کرنا اور عینک لگانا بھی شرک ہے۔ وہ جانتے ہوئے اس بات کو فراموش کردیتا ہے کہ دنیا کے معاملات میں اسباب اختیار کرنے کا شریعت میں حکم ہے۔ واعظ کا یہ بھی فرمان ہے کہ چھت پر چڑھنے کے لیے سیڑھی کی ضرورت ہے۔ اور افسر کو ملنے کے لیے کسی سفارش کا ہونا ضروری ہے۔ ذرا سوچئے چھت تو جامد اور ساکت ہے وہ اوپر سے نیچے نہیں آسکتی اور نہ ہی آدمی چھلانگ لگا کر چھت پر چڑھ سکتا ہے اس لیے سیڑھی کی ضرورت ہے۔ ایسے ہی افسر توانسان ہے جب تک اسے معاملہ بتلایا نہ جائے۔ وہ نہیں جان سکتا یہاں تک کہ اس کے لیے سفارش ڈھونڈنے کا تعلق ہے وہ بھی ایک طرح کی کمزوری ہے۔ اللہ تعالیٰ تو ہر قسم کی کمزوریوں سے پاک ہے۔ اس کی قدرت وسطوت تو ہر جگہ موجود ہے وہ دلوں کی دھڑکنوں کو جانتا ہے یہاں تو و سیلے و سفارش اور سیڑھی کا تصور ہی نہیں کیا جا سکتا۔ لہٰذا آدمی کو کسی اعتبار سے بھی اس ذات کبریا کو اپنے آپ پر قیاس نہیں کرنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ کو چھت اور انسان کے ساتھ مشابہ قرار دینا ناقابل معافی گناہ ہی نہیں بلکہ ذات کبریا کی شان میں پرلے درجے کی گستاخی ہے۔ وسیلہ کی گنجائش ہی نہیں : (وَلَقَدْ خَلَقْنَا الإِْنْسَانَ وَنَعْلَمُ مَا تُوَسْوِسُ بِہٖ نَفْسُہٗ وَنَحْنُ اَقْرَبُ إِلَیْہِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِیْدِ)[ ق : ١٦] ” اور بلاشبہ ہم نے ہی انسان کو پیدا کیا ہے اور ہم جانتے ہیں اس کا نفس جو وسوسے ڈالتا ہے اور ہم اس سے شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہیں۔“ (اِنَّہُ عَلِیْمٌ بِذَات الصُّدُوْرِ) [ الملک : ١٣]” بے شک وہ خوب جاننے والا ہے جو کچھ سینوں میں ہے۔“ ذات کبریا کا احترام کرو : (فَلاَ تَضْرِبُوْا لِلّٰہِ الْاَمْثَالَ)[ النحل : ٧٤]” اللہ کے لیے ایسی مثالیں بیان نہ کیا کرو۔“ (وَمَا قَدَرُوا اللّٰہَ حَقَّ قَدْرِہٖ)[ الزمر : ٦٧] ” اور نہ قدر پہچانی انھوں نے اللہ تعالیٰ کی جس طرح قدر پہچاننے کا حق تھا۔“ اس عقیدہ کے اخلاقی اور دینی نقصانات : * انسان خود نیکی کرنے کی بجائے دوسرے کی نیکی پر بھروسہ کرتا ہے۔ * انسان توبہ کے ذریعے اللہ تعالیٰ کے قریب ہونے کے بجائے پہلے کی طرح دور رہتا ہے۔ * وسیلہ کی آڑ میں جعلی پیر لوگوں کی عزت اور مال لوٹتے ہیں۔ * اللہ تعالیٰ اپنے بارے میں وسیلہ اور واسطے کو پسند نہیں کرتا۔ * وسیلہ کے عقیدہ سے اللہ تعالیٰ کی توہین کا پہلو نکلتا ہے۔ * یہ طریقہ ہندوؤں اور غیر مسلموں کے مشابہ ہے۔ اخلاص اور انصاف کے ساتھ فیصلہ کیجیے : ١۔ فوت ہونے والے بزرگ بیمار ہوئے، ہزار دعاؤں اور دواؤں کے باوجود صحت یاب نہ ہو سکے۔ ٢۔ فوت ہوئے تو گھر میں میت ہونے کے باوجود روتی ہوئی بیٹیوں، تڑپتی ہوئی والدہ، بلکتی ہوئی بیوی، سسکتے ہوئے بیٹے اور آہ و بکا کرنے والے مریدوں کو تسلی نہ دے سکے۔ ٣۔ شرم و حیا کے پیکر ہونے کے باوجود اپنے آپ استنجا کرسکے نہ غسل۔ ٤۔ زندگی میں خود اپنی قبر بنوانے والے بھی اپنے پاؤں پر چل کر قبر تک نہ پہنچ سکے۔ ٥۔ جو زندگی میں صرف پنجابی یا کوئی ایک زبان جانتے تھے فوت ہونے کے بعد قبر پر آنے والوں اور دوسری زبانوں میں فریاد کرنے والوں کی زبان سے کس طرح واقف ہوگئے ؟ ( ٦۔ جو خوداولاد سے محروم تھے دوسرے کو کس طرح اولاد عطا کرسکتے ہیں؟ ٧۔ جو خراٹے لینے والی نیند یا کسی وجہ سے بے ہوشی کے عالم میں دیکھ اور سن نہیں سکتے اب موت کے بعد کس طرح سننے اور دیکھنے کے قابل ہوئے؟ ٨۔ جو زندگی میں دیوار کی دوسری طرف نہیں دیکھ سکتے تھے اب قبر کی منوں مٹی اور مضبوط پتھروں کے درمیان کس طرح دیکھ سکتے ہیں؟ ٩۔ جو اپنی حالت سے کسی کو آگاہ نہیں کرسکتے۔ دوسرے کی حالت رب کے حضور کس طرح پیش کرسکتے ہیں؟ ١٠۔ جو زندگی میں بیک وقت ایک یا دو‘ تین آدمیوں سے زیادہ کی بات سن اور سمجھ نہیں سکتے تھے اب بیک وقت سینکڑوں، ہزاروں آدمیوں کی فریاد کس طرح سن سکتے ہیں؟ وسیلے تو خود اللہ تعالیٰ کے محتاج ہیں : (یَٓایُّھَا النَّاسُ ضُرِبَ مَثَلٌ فَاسْتَمِعُوْا لَہٗ إِنَّ الَّذِیْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ لَنْ یَّخْلُقُوْا ذُبَابًا وَّلَوِاجْتَمَعُوْا لَہٗ وَإِنْ یَّسْلُبْھُمُ الذُّبَابُ شَیْءًا لَّا یَسْتَنْقِذُوْہُ مِنْہُ ضَعُفَ الطَّالِبُ وَالْمَطْلُوْبُ) [ الحج : ٧٣] ” اے لوگو! ایک مثال بیان کی جارہی ہے پس غور سے سنو اسے! بے شک جن معبودوں کو تم پکارتے ہو اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر یہ تو مکھی بھی پیدا نہیں کرسکتے اگرچہ وہ سب جمع ہوجائیں اس (معمولی سے) کام کے لیے اور اگر چھین لے ان سے مکھی بھی کوئی چیز تو وہ نہیں چھڑا سکتے اسے اس مکھی سے (آہ!) کتنا بے بس ہے ایسا طالب اور کتنا بے بس ہے ایسا مطلوب۔“ (تفسیر ضیاء القرآن) اللہ تعالیٰ کے اسماء اور صفات کو وسیلہ بنائیں : سمع اطاعت کا تقاضا یہ ہے کہ بندۂ مسلم اللہ تعالیٰ کے حضور وہی واسطہ اور وسیلہ پیش کرے جس کی ذات کبریا نے اجازت دے رکھی ہے۔ ایک احمق ترین شخص بھی جان بوجھ کر یہ حرکت نہیں کرسکتا کہ جس سے وہ کچھ مانگنا چاہتا ہے وہ اپنے محسن کے سامنے ایسا طریقہ اختیار کرے کہ جس سے وہ عطا کرنا تو درکنار الٹا ناراض ہوجائے۔ لہٰذا دانش مندی کا تقاضا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد کے مطابق اس کے اسمائے مبارکہ اور صفات مقدسہ کو وسیلہ بنایا جائے۔ سرور دو عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کسی شخصیت کے واسطے‘ حرمت‘ صدقے اور طفیل کی بجائے اللہ کی صفات کے واسطے سے دعا کیا کرتے تھے۔ (وَلِلّٰہِ الْاَسْمَاءُ الْحُسْنٰی فَادْعُوْہُ بِھَا) [ الأعراف : ١٨] ” اللہ تعالیٰ کے نہایت ہی خوبصورت نام ہیں انہی ناموں سے دعا کیا کرو۔“ (اَللّٰہُمَ بَدِیْعُ السَّمٰوٰتِ وَالْأَرْضِ ذُوْالْجَلاَلِ وَالإِْکْرَامِ وَالْعِزَّۃِ الَّتِی لاَ تَرَامُ أَسْأَلُکَ یَااَللّٰہُ یَارَحْمٰنُ بِجَلاَلِکَ وَنُوْرِ وَجْہِکَ) [ رواہ الترمذی : باب فی دعاء الحفظ ] ” اے زمین و آسمان کو ابتداء سے پیدا کرنے والے‘ اے ذوالجلال والاکرام تیری عزت کو پانے کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا اے اللہ‘ اے رحمٰن تیرے جلال اور تیرے چہرے کے جمال کے واسطے سے ہم تجھ سے مانگتے ہیں۔“ (یَا رَبِّ لَکَ الْحَمْدُ کَمَا یَنْبَغِی لِجَلَالِ وَجْہِکَ وَلِعَظِیمِ سُلْطَانِکَ) [ رواہ ابن ماجۃ: کتاب الاداب، باب فضل الحامدین] ” اے اللہ ! تیرے لیے تمام تعریفات ہیں جس طرح تیرے چہرے کی جلالت اور عظیم با دشاہی کے لائق ہے۔“ (عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ أَنَّہُ سَمِعَ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَقُولُ إِذَا سَمِعْتُمْ الْمُؤَذِّنَ فَقُولُوا مِثْلَ مَا یَقُولُ ثُمَّ صَلُّوا عَلَیَّ فَإِنَّہُ مَنْ صَلّٰی عَلَیَّ صَلَاۃً صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ بِہَا عَشْرًا ثُمَّ سَلُوا اللّٰہَ لِی الْوَسِیلَۃَ فَإِنَّہَا مَنْزِلَۃٌ فِی الْجَنَّۃِ لَا تَنْبَغِی إِلَّا لِعَبْدٍ مِنْ عِبَاد اللّٰہِ وَأَرْجُو أَنْ أَکُونَ أَنَا ہُوَ فَمَنْ سَأَلَ لِی الْوَسِیلَۃَ حَلَّتْ لَہُ الشَّفَاعَۃُ)[ رواہ مسلم : کتاب الصلوۃ، باب اسْتِحْبَابِ الْقَوْلِ مِثْلَ قَوْلِ الْمُؤَذِّنِ] ” حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص (رض) بیان کرتے ہیں بلاشبہ انہوں نے نبی مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب تم مؤذن کی اذان سنوتو اس کے ساتھ وہی کلمات دہراتے چلے جاؤ پھر مجھ پر درود پڑھو۔ اذان کے بعد جس نے مجھ پر درود پڑھا۔ اللہ تعالیٰ اس پر دس رحمتیں نازل فرمائے گا۔ اس کے بعد میرے لیے اللہ تعالیٰ سے وسیلہ طلب کرو بلاشبہ وہ جنت کا بلند ترین مقام ہے۔ جو اللہ کے بندوں میں سے ایک بندے کو نصیب ہوگا مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھے ہی وہ عطا کرے گا۔ جس مسلمان نے میرے لیے اس مقام کی دعا کی میری سفارش اس پر واجب ہوگی۔“ مسائل ١۔ ایمان والوں کو اللہ تعالیٰ سے ڈرنا چاہیے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ کا قرب تلاش کرنا چاہیے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ کے راستہ میں جہاد کرنا چاہیے۔ ٤۔ کافر زمین و آسمان کے خزانے خرچ کرکے بھی اللہ کے عذاب سے نہیں بچ سکتے ٥۔ کفار کے لیے المناک عذاب ہوگا۔ تفسیر بالقرآن وسیلہ کی حیثیت : ١۔ اے ایمان والو اللہ سے ڈرواس کی طرف وسیلہ تلاش کرو۔ (المائدۃ: ٣٥) ٢۔ جن کو یہ لوگ پکارتے ہیں وہ خود اللہ کا قرب تلاش کرتے ہیں۔ (الاسراء : ٥٧) ٣۔ وسیلہ کی ضرورت نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ بندے کے قریب تر ہے۔ (البقرۃ: ١٨٦) ٤۔ وسیلہ کی ضرورت نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ انسان کی شہ رگ سے زیادہ قریب ہے۔ (ق : ١٦) المآئدہ
36 فہم القرآن ربط کلام : اے لوگو! فساد فی الارض میں صلاحیتیں ضائع کرنے اور اللہ سے دوری اختیار کرنے کی بجائے جہاد فی سبیل اللہ میں اپنی قوتیں صرف کرو تاکہ تمہیں اللہ کا قرب اور کامیابی حاصل ہو۔ اللہ تعالیٰ کے منکر نہ صرف اس کے قرب سے محروم ہوں گے بلکہ انھیں جہنم میں پھینکا جائے گا جس سے ان کے نکلنے کی کوئی صورت نہیں ہوگی۔ جو لوگ نیک اعمال کرکے اللہ تعالیٰ کا قرب چاہنے اور پانے کی بجائے یہود و نصاریٰ کا رویہ اختیار کرتے اور فساد فی الارض کے مرتکب ہوتے ہیں فلاح اور کامیابی کے راستے پر چلنے کی بجائے بغاوت اور سرکشی کا راستہ اختیار کرتے ہیں انھیں قیامت کے دن جہنم میں جھونکا جائے گا۔ جس سے نکلنے کے لیے آہ و زاریاں کریں گے لیکن ان کی فریاد اور کوئی وسیلہ کام نہیں آئے گا۔ جو دنیا میں یہ اعتقاد رکھتے تھے کہ ہم فلاں فلاں کی و جہ سے دنیا کی عدالتوں سے چھوٹ جاتے ہیں اور قیامت کے دن بھی بزرگ اور بڑے ہمیں اللہ تعالیٰ کی گرفت سے بچالیں گے وہ اپنی نجات کے لیے سب کچھ پیش کرنے کی درخواست کریں گے باوجود اس کے کہ ان کے پاس نیکی اور برائی کے سوا کوئی چیز نہیں ہوگی لیکن پھر بھی ایسی پیشکشیں کریں گے۔ ان سے کچھ قبول نہیں کیا جائے گا۔ وہ جہنم کی آگ سے نکلنے کی کوشش کریں گے لیکن نکل نہیں پائیں گے۔ انھیں ہمیشہ وہاں رہنا ہوگا۔ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ضِرْسُ الْکَافِرِ أَوْ نَابُ الْکَافِرِ مِثْلُ أُحُدٍ وَغِلَظُ جِلْدِہٖ مَسِیرَۃُ ثَلَاثٍ)[ رواہ مسلم : کتاب الجنۃ وصفۃ ونعیمھا، باب النَّارُ یَدْخُلُہَا الْجَبَّارُونَ وَالْجَنَّۃُ یَدْخُلُہَا الضُّعَفَاءُ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جہنم میں کافر کا دانت احد پہاڑ جتنا ہوگا اور اس کی جلد کی موٹائی تین دن کی مسافت جتنی ہوگی۔“ (وَہُمْ یَصْطَرِخُونَ فِیْہَا رَبَّنَا أَخْرِجْنَا نَعْمَلْ صَالِحًا غَیْرَ الَّذِیْ کُنَّا نَعْمَلُ أَوَلَمْ نُعَمِّرْکُمْ مَّا یَتَذَکَّرُ فِیْہِ مَنْ تَذَکَّرَ وَجَآءَ کُمُ النَّذِیرُ فَذُوقُوْا فَمَا للظَّالِمِیْنَ مِنْ نَّصِیْرٍ)[ فاطر : ٣٧] ” اور وہ چیخ چیخ کر کہیں گے : ہمارے رب! ہمیں (اس سے) نکال کہ ہم نیک عمل کریں ویسے نہیں جیسے پہلے کیا کرتے تھے (اللہ فرمائے گا) کیا ہم نے تمہیں اتنی عمر نہیں دی تھی جس میں کوئی نصیحت حا صل کرنا چاہتا توکر سکتا تھا ؟ تمہارے پاس ڈرانے والا آیا تھا اب عذاب کو چکھو یہاں ظالموں کا کوئی مددگار نہیں۔“ مسائل ١۔ مجرموں سے زمین اور اس کے برابر فدیہ قبول نہیں کیا جائے گا۔ ٢۔ مجرم جہنم سے نہیں نکل سکیں گے۔ ٣۔ مجرموں کے لیے ہمیشہ قائم رہنے والا اور ذلیل کردینے والا عذاب ہوگا۔ تفسیر بالقرآن قیامت کے دن کوئی معاوضہ نہیں قبول ہوگا : ١۔ قیامت کے دن سے ڈر جاؤ جس دن کوئی معاوضہ قبول نہیں کیا جائے گا۔ (البقرۃ: ٤٨) ٢۔ قیامت کو مجرم زمین بھر سونا کر دے تب بھی قبول نہیں ہوگا۔ (آل عمران : ٩١) ٣۔ مجرم خواہش کرے گا کہ میں جو کچھ زمین میں ہے سب کچھ معاوضہ دے کر بچ جاؤں۔ (المعارج : ١١ تا ١٤) ٤۔ کوئی معاوضہ اس دن قبول نہیں کیا جائے گا۔ (المائدۃ: ٣٦) المآئدہ
37 المآئدہ
38 فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ آیات میں ڈاکہ اور رہزنی کی سزا بیان کی گئی تھی درمیان میں حسب دستور نصیحت اور تنبیہ کی گئی۔ اب چور کی سزا بیان ہوتی ہے۔ ہر قوم اور معاشرے میں طاقت اور قوت کے زور پر مال لوٹنے والے کو ڈاکو اور چھپ کر کوئی چیز اٹھانے والے کو چور کہا جاتا ہے۔ اس لیے اہل لغت اور شارحین نے چوری کی یہ تعریف کی ہے ” ایسا مال جس کو حفاظت میں رکھا گیا ہو اسے ہتھیانے والے کو چورکہیں گے ایسے شخص پر چوری کی سزا نافذ کی جائے گی“ پہلی دفعہ چوری کرنے والے سے مال وصول کرتے ہوئے اس کا دایاں ہاتھ کاٹا جائے گا۔ اگر دوسری دفعہ چوری کرتا ہے۔ تو اس کا بایاں ہاتھ بھی کاٹ دیا جائے گا۔ بعض لوگ غیر مسلموں کے پروپیگنڈہ میں آکر اسلام کی مقرر کردہ سزاؤں کو غیر مہذب سمجھتے ہیں۔ ایسے لوگ اپنے آپ کو مہذب سمجھنے کے باوجود مظلوم کی خیر خواہی کرنے کی بجائے ڈاکو، چور اور بدکار لوگوں کی حمایت کرتے ہیں۔ جو اخلاق، دین اور معاشرتی آداب کے کسی اصول کے مطابق نہیں ہے۔ قرآن مجید جرائم کی بیخ کنی کے لیے سنگین جرائم کی نہ صرف سخت ترین سزا تجویز کرتا ہے۔ بلکہ اس کا یہ بھی مطالبہ ہے کہ ایسے لوگوں کو سر عام سزا دی جائے گی۔ اس آیت میں لفظ ” نکالاً“ کا یہی مفہوم ہے۔ (عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ لَعْنَ اللّٰہُ السَّارِقْ یَسْرِقُ الْبَیْضَۃَ فَتُقْطَعُ یَدُہٗ وَیَسْرِقُ الْحَبْلَ فَتُقْطَعُ یَدُہٗ) [ رواہ البخاری : کتاب الحدود، باب لعن السارق اذا لم یسم] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ چور پر لعنت کرے ایک انڈے کی چوری کرتا ہے تو اس کا ہاتھ کاٹا جاتا ہے اور ایک رسی کی چوری کرتا ہے تو اس کا ہاتھ کاٹا جاتا ہے۔“ مسائل ١۔ چوری کرنے والے مرد اور عورت کے ہاتھ کاٹے جائیں۔ ٢۔ عبرت کے لیے یہ ان کی دنیا میں سزا ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ سزا کی حکمتوں کو خوب جانتا ہے۔ المآئدہ
39 فہم القرآن ربط کلام : مجرموں کے لیے توبہ اور اصلاح کا دروازہ کھلا رکھ کر انہیں توبہ اور اصلاح کی ترغیب دی گئی ہے۔ دنیا کے دسا تیر اور قوانین میں اس بات کا اہتمام نہیں کیا جاتا کہ ایک مجرم کو سزا دینے کے بعد اس کی اصلاح کا اہتمام کیا جائے۔ یہ اعزاز بھی صرف دین اسلام کو حاصل ہے کہ وہ مجرم کو سزا دینے کے بعد نہ صرف اسے اپنی اصلاح کا موقع دیتا ہے بلکہ وہ اسے اس بات کی یقین دہانی کرواتا ہے کہ جو شخص بھی سچے دل اور اصلاح کے ارادے کے ساتھ توبہ کرے گا وہ اللہ تعالیٰ کو رحیم وکریم پائے گا۔ اللہ کے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مجرم کو توبہ کی تلقین کیا کرتے تھے۔ (عَنْ أَبِی سَعِیدٍنِ الْخُدْرِیِّ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ کَانَ فِی بَنِی إِسْرَاءِیلَ رَجُلٌ قَتَلَ تِسْعَۃً وَتِسْعِینَ إِنْسَانًا ثُمَّ خَرَجَ یَسْأَلُ فَأَتٰی رَاہِبًا فَسَأَلَہُ فَقَالَ لَہُ ہَلْ مِنْ تَوْبَۃٍ قَالَ لَا فَقَتَلَہُ فَجَعَلَ یَسْأَلُ فَقَالَ لَہُ رَجُلٌ اءْتِ قَرْیَۃَ کَذَا وَکَذَا فَأَدْرَکَہُ الْمَوْتُ فَنَاءَ بِصَدْرِہٖ نَحْوَہَا فَاخْتَصَمَتْ فیہِ مَلَاءِکَۃُ الرَّحْمَۃِ وَمَلَاءِکَۃُ الْعَذَابِ فَأَوْحَی اللّٰہُ إِلٰی ہَذِہٖ أَنْ تَقَرَّبِی وَأَوْحَی اللّٰہُ إِلٰی ہَذِہٖ أَنْ تَبَاعَدِی وَقَال قیسُوا مَا بَیْنَہُمَا فَوُجِدَ إِلٰی ہٰذِہٖ أَقْرَبَ بِشِبْرٍ فَغُفِرَ لَہُ) [ رواہ البخاری : کتاب احادیث الانبیاء، باب حدیث الغار] ” حضرت ابو سعید خدری (رض) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کرتے ہیں آپ نے فرمایا بنی اسرائیل میں ایک شخص نے ننانوے قتل کیے تھے۔ پھر وہ توبہ کے لیے استغفار کر رہا تھا وہ ایک راہب کے پاس پہنچا اور اس سے پوچھا کیا اس کی توبہ قبول ہو سکتی ہے ؟ راہب نے جواب دیا نہیں۔ اس نے اسے بھی قتل کردیا۔ پھر وہ مسئلہ پوچھنے گیا، اسے اس شخص نے ایک بستی کی طرف رہنمائی کی۔ راستے میں اس کو موت نے آلیا تو وہ اپنے سینے کے بل اس بستی کی طرف گرا۔ اس شخص کے بارے میں رحمت اور عذاب کے فرشتے جھگڑنے لگے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے اس بستی کو حکم دیا کہ مرنے والے کے قریب ہوجائے اور چھوڑی ہوئی بستی کو اس سے دوری کا حکم دیا۔ پھر دونوں کے درمیان فاصلہ ناپنے کا حکم دیا۔ چنانچہ وہ منزل مقصود کے بالشت بھر قریب پا یا گیا اس لیے اس کو معاف کردیا گیا۔“ (عَنْ أَبِی مُوسَی (رض) عَنْ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ إِنَّ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ یَبْسُطُ یَدَہُ باللَّیْلِ لِیَتُوبَ مُسِیء النَّہَارِ وَیَبْسُطُ یَدَہُ بالنَّہَارِ لِیَتُوبَ مُسِیء اللَّیْلِ حَتَّی تَطْلُعَ الشَّمْسُ مِنْ مَغْرِبِہَا ) [ رواہ مسلم : کتاب التوبہ، باب قبول التوبۃ من الذنوب] ” حضرت ابو موسیٰ (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ تعالیٰ رات کو اپنا دست رحمت پھیلاتا ہے تاکہ دن بھر کا گنہگار توبہ کرلے اور دن کو دست شفقت بڑھاتا ہے تاکہ رات بھر کا گنہگار توبہ کرلے، سورج کے مغرب سے نکلنے یعنی قیامت تک یہ سلسلہ جاری رہے گا۔“ (کُلُّ بَنِیْ آدَمَ خَطَّاءٌ وَخَیْرُ الْخَطَّآءِیْنَ التَّوَّابُوْنَ) [ رواہ ابن ماجۃ: کتاب الزھد، باب ذکر التوبۃ] ” آدم کی ساری اولاد خطا کار ہے اور بہترین خطا کار توبہ کرنے والے ہیں۔“ (مَنْ تَابَ قَبْلَ أَنْ یُغَرْغِرَ نَفْسُہٗ قَبِلَ اللّٰہُ مِنْہُ )[ احمد : کتاب باقی مسند المکثرین، باب أحادیث رجال من أصحاب النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ] ” جس نے موت کے آثار ظاہرہونے سے پہلے توبہ کرلی اللہ اس کی توبہ قبول کرتا ہے۔“ ( اَلتَّاءِبُ مِنَ الذَّنْبِ کَمَنْ لَّا ذَنْبَ لَہٗ) [ رواہ ابن ماجۃ: کتاب الزھد] ” گناہ سے توبہ کرنے والا گناہ نہ کرنے کے برابر ہوجاتا ہے۔“ تفسیر بالقرآن توبہ کی شرائط : ١۔ اللہ تعالیٰ توبہ کرنے والوں اور صاف پاک رہنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔ (البقرۃ: ٢٢٢) ٢۔ توبہ اور اپنی اصلاح کرنے والے کی اللہ توبہ قبول کرتا ہے۔ (البقرۃ: ١٥٩ تا ١٦٠) ٣۔ جو گناہ کے بعد توبہ کرے اور نیک ہوجائے تو اللہ اس کی توبہ قبول کرلیتا ہے۔ (المائدۃ: ٣٩) ٤۔ برائی کرنے کے بعد توبہ کرنے پر اللہ تعالیٰ معاف کردیتا ہے۔ (الاعراف : ١٥٣) ٥۔ ایمان والو سچے دل سے توبہ کرلواللہ تبارک وتعالیٰ تمہاری برائیوں کو نیکیوں سے بدل دے گا۔ (التحریم : ٨) ٦۔ سچی اور صحیح توبہ اس کی ہے جو توبہ کے بعد نیک اعمال کرتا رہے اور گناہ سے بچے۔ (الفرقان : ٧١) ٧۔ توبہ کے بعد گناہوں سے باز آنے والے کی توبہ قبول ہوتی ہے جو اپنی موت تک گناہوں سے باز نہ آئے اور توبہ بھی کرتا رہے اس کی توبہ قبول نہیں۔ (النساء : ١٧۔ ١٨) ٨۔ اگر کبیرہ گناہوں سے بچا جائے تو پھر چھوٹے گناہ معاف ہوتے ہیں۔ (النساء : ٣١) المآئدہ
40 فہم القرآن ربط کلام : گزشتہ سے پیوستہ، سزاء وجزا کا کلی اختیار اللہ تعالیٰ کے پاس ہے۔ چوری کی سزا بیان کرنے کے بعد فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ غالب اور حکمت والا ہے جس کا معنی ہے کہ وہ اپنے فیصلے نافذ کرنے کی پوری قوت اور اختیار رکھتا ہے۔ اور اس کے ہر قانون اور فیصلے میں بڑی حکمتیں پائی جاتی ہیں۔ یہاں ہر انسان کو مخاطب کرتے ہوئے یہ باور کروا یا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے قانون پر معترض، توبہ اور اپنی اصلاح سے اعراض کرنے والے کو یہ جاننا چاہیے کہ زمین و آسمان کی بادشاہت صرف اللہ تعالیٰ کے لیے ہے۔ کوئی انسان اللہ کی بادشاہی سے نہ باہر نکل سکتا ہے اور نہ ہی اسے چیلنج کرسکتا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی مصلحت ہے کہ اس نے انسان کو ایک مدت کے لیے اختیار اور مہلت دے رکھی ہے۔ اس کا اختیار ہے وہ جسے چاہے سزا دے اور جسے چاہے معاف کر دے وہ ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ زمین و آسمان کا مالک و مختار ہے۔ ٢۔ عذاب دینا اور معاف کرنا صرف اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے۔ تفسیر بالقراٰن اللہ ہر چیز پر قادر ہے : ١۔ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے (البقرۃ: ٢٠) ٢۔ اللہ آسمانوں وزمین کی ہر چیز کو جانتا ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ (آل عمراٰن : ٢٩) ٣۔ تم جہاں کہیں بھی ہوگے اللہ تمہیں قیامت کے دن جمع فرمائیگا وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ (البقرۃ: ١٤٨) ٤۔ اللہ جسے چاہے عذاب دے جسے چاہے معاف کردے وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ (البقرۃ: ٢٨٤) المآئدہ
41 فہم القرآن ربط کلام : نیاخطاب شروع ہوتا ہے۔ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شب و روز کی پر خلوص محنت کے باوجود منافق آپ کو تکلیف دینے، مسلمانوں کا مذاق اڑانے اور اسلام کے خلاف ہر زہ سرائی کرنے میں آگے ہی بڑھتے جا رہے تھے۔ ان کے ساتھ یہودیوں کا یہ عالم تھا کہ انھوں نے جھوٹ سننے اور اسے آگے پھیلانے کا مستقل مشغلہ اختیار کر رکھا تھا۔ ١۔ یہودی اپنے علماء سے جھوٹے مسائل سنتے اور ان کو آگے پھیلاتے تھے۔ ٢۔ یہودی جھوٹ سننا پسند کرتے اور جھوٹی باتیں لوگوں تک پہنچاتے تھے تاکہ لوگ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور اسلام سے دور رہیں۔ یہودیوں کی دوسری بدترین عادت یہ تھی اور ہے کہ یہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشادات کو توڑ مروڑ کر اور قرآن کو اس کے سیاق و سباق سے ہٹ کر بیان کرتے ہیں تاکہ لوگ اسلام کے بارے میں تشکیک کا شکار رہیں۔ اور لوگوں کو یہ بھی کہا کرتے تھے کہ اگر محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمارے عقائد کے مطابق مسائل بیان کریں تو انھیں قبول کرلو اگر ایسا نہ کریں تو ہرگز قبول نہ کرو۔ اس کا صاف مطلب تھا اور ہے کہ دین ان کی مرضی کے مطابق نازل ہونا چاہیے اس صورت حال پر نبی محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بتقا ضائے بشریت رنجیدہ خاطر ہوتے جس پر آپ کو تسلی دی گئی ہے کہ اے پیارے رسول آپ کو لوگوں کی ہرزہ سرائی اور بد اعمالیوں پر دل گرفتہ نہیں ہونا چاہیے۔ یاد رکھیں جسے اللہ اس کی بد اعمالیوں کی وجہ سے گمراہی میں مبتلا کر دے اسے آپ کچھ فائدہ نہیں پہنچا سکتے۔ اللہ تعالیٰ نے فیصلہ کردیا ہے کہ ان کے دلوں کو نفاق اور گندگی سے کبھی پاک نہیں کرے گا، ان کے لیے دنیا میں ذلت اور آخرت میں بڑا عذاب ہوگا۔ جن لوگوں کی بد اعمالیوں کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے انھیں زمینی کشمکش میں مبتلا کردیا ہے۔ اے رسول! ایسے لوگوں کی آپ رہنمائی نہیں کرسکتے۔ کیونکہ یہ لوگ اپنے قلوب و اذہان کو اس گندگی سے پاک نہیں کرنا چاہتے۔ جس وجہ سے اللہ تعالیٰ بھی انھیں طہارت قلبی کی توفیق نہیں دیتا۔ ایسے لوگوں کے لیے بالآخر دنیا میں ذلت و رسوائی ہے۔ اور آخرت میں انھیں عذاب الیم میں مبتلا کیا جائے گا۔ ” حضرت حفص بن عاصم (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا آدمی کے جھوٹا ہونے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ ہر سنی سنائی بات کو بیان کرے۔“ [ رواہ مسلم : فی المقدمۃ] (عَنْ عَبْدِ اللَّہِ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ إِنَّ الصِّدْقَ یَہْدِی إِلَی الْبِرِّ، وَإِنَّ الْبِرَّ یَہْدِی إِلَی الْجَنَّۃِ، وَإِنَّ الرَّجُلَ لَیَصْدُقُ حَتَّی یَکُونَ صِدِّیقًا، وَإِنَّ الْکَذِبَ یَہْدِی إِلَی الْفُجُورِ، وَإِنَّ الْفُجُورَ یَہْدِی إِلَی النَّارِ، وَإِنَّ الرَّجُلَ لَیَکْذِبُ، حَتَّی یُکْتَبَ عِنْدَ اللَّہِ کَذَّابًا ) [ رواہ مسلم : باب قُبْحِ الْکَذِبِ وَحُسْنِ الصِّدْقِ وَفَضْلِہِ] ” حضرت عبداللہ (رض) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں آپ نے فرمایا بے شک سچ نیکی کی طرف رہنمائی کرتا ہے اور نیکی جنت کی طرف رہنمائی کرتی ہے آدمی سچ بولتا رہتا ہے یہاں تک کہ اللہ کے ہاں سچا لکھ دیا جاتا ہے اور بے شک جھوٹ برائی کی طرف رہنمائی کرتا ہے اور برائی آگ کی طرف لے جاتی ہے اور بے شک آدمی جھوٹ بولتا رہتا ہے حتی کہ اللہ کے ہاں جھوٹا لکھ دیا جاتا ہے۔“ مسائل ١۔ کفر کی طرف راغب ہونے والے اپنا ہی نقصان کرتے ہیں۔ ٢۔ یہو دی جھوٹ گھڑتے اور بولتے ہیں۔ ٣۔ یہودی اللہ تعالیٰ کے کلام میں تحریف کرتے ہیں۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ جس کو آزمائش میں مبتلا کرے اسے کوئی نہیں بچا سکتا۔ ٥۔ جھوٹ گھڑنے والے اور کلام اللہ میں تحریف کرنے والوں کے دل پاک نہیں ہوتے۔ ٦۔ ایسے لوگوں کے لیے دنیا میں ذلّت اور آخرت میں عظیم عذاب ہوگا۔ تفسیر بالقرآن دنیا اور آخرت میں ذلیل لوگ : ١۔ دنیا وآخرت میں ذلیل ہونے والے مجرم۔ (المائدۃ : ٤١) ٢۔ کفار کے لیے دنیا میں ذلت اور آخرت میں عذاب کے سوا کچھ نہیں۔ ( البقرۃ : ٨٥) ٣۔ کفار کے لیے دنیا میں ذلت اور آخرت میں برا عذاب ہے۔ (البقرۃ: ١١٤) ٤۔ کافروں کے لیے دنیا میں رسوائی اور آخرت میں بڑا عذاب ہے۔ (المائدۃ: ٤١) ٥۔ کفارکے لیے دنیا میں ذلت ورسوائی ہے اللہ قیامت کو سخت عذاب چکھائے گا۔ (الحج : ٩) ٦۔ اللہ کفار کو دنیا میں ذلت ورسوائی چکھاۓ گا اور آخرت کا عذاب تو بہت بڑا ہے۔ (الزمر : ٢٦) ٧۔ جو مسلمان ظاہرہ اور باطنی گناہ کرنا ترک نہ کرے اسے آخرت میں سزا ملے گی۔ (التحریم : ٨۔ الانعام : ١٢٠) المآئدہ
42 فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ جب جھوٹ سننا اور حرام کھاناکسی فرد یا قوم کی عادت ہوجائے تو پھر اس کی اصلاح کے تمام راستے مسددد ہوجایا کرتے ہیں کیونکہ صالح کردار کے لیے اکل حلال اور صدق مقال شرط ہے۔ جھوٹ بولنے اور حرام کھانے میں کوئی قوم یہودیوں کا مقابلہ نہیں کرسکتی بعض مفسرین نے ” سُحْتَ“ کا معنٰی رشوت خوری بھی کیا ہے۔ رشوت کا لین دین ہو یا حرام خوری کا معاملہ یہودی اس سلسلہ میں ہمیشہ سرفہرست دکھائی دیں گے۔ یہاں مفسرین نے اس آیت کا پس منظر بیان کرتے ہوئے خیبر میں ہونے والی بدکاری کا ایک واقعہ بیان کیا ہے جو خیبر کے کھاتے پیتے گھرانے کے ایک مرد اور عورت سے سرزدہوئی یہودیوں کے ہاں زنا کی سزا وہی تھی جو قرآن مجید میں بیان ہوئی ہے۔ لیکن انھوں نے اپنی بدنامی سے بچنے اور تورات کی حد سے اجتناب اختیار کرنے کے لیے یہ مقدمہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں پیش کیا آپ نے یہودیوں سے سوال کیا کہ تورات میں اس کی کیا سزا بیان ہوئی ہے ؟ انھوں نے کہا ہمارے ہاں ایسے مجرم کی سزا یہ ہے کہ اس کا منہ کالا کرکے الٹے منہ گدھے پر بٹھایا جائے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہرگز نہیں تورات میں بھی اس جرم کی وہی سزا ہے۔ جو قرآن مجید میں ہے اس وضاحت کے باوجود یہودیوں نے اسے تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔ تب آپ نے یہودیوں کے ایک جید عالم کو بلا کر اسے فرمایا کہ تجھے اس اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں جس نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو فرعون کے مظالم سے نجات دلائی تھی یہ سنتے ہی یہودی عالم نے اقرار کیا کہ واقعی اس معاملہ میں تورات اور قرآن میں کوئی اختلاف نہیں پایا جاتا۔ تب عورت اور مرد کو سنگسار کردیا گیا۔ اس فرمان میں آپ کو یہ اختیار دیا گیا ہے اگر یہودی آپ کے پاس کوئی مقدمہ پیش کریں تو آپ کو حق حاصل ہے کہ اس کی سماعت سے انکار کریں یا فیصلہ صادر فرمائیں۔ انکار کی صورت میں یہ آپ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے البتہ فیصلہ کرنے کی صورت میں آپ تعصب اور جانب داری کا مظاہرہ کرنے کی بجائے عدل و قسط کے ساتھ فیصلہ کریں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ عدل و انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔ اہل علم نے یہاں اس بات کی صراحت فرمائی ہے کہ اگر کسی غیر مسلم قوم کے ساتھ مسلمانوں کا عہد ہو تو اس صورت میں قاضی کو مقدمہ سننے یا انکار کرنے کا مکمل اختیار ہے اگر مقدمہ پیش کرنے والے اسلامی مملکت کی رعایا ہوں تو پھر عائلی قوانین کے علاوہ دیگر مقدمات کو سننا اور اس کا فیصلہ دینا اسلامی عدالت کا فرض ہے۔ یاد رکھیے کہ یہودی کس طرح آپ کو فیصل تسلیم کریں گے کیونکہ جو حکم آپ نے دینا ہے وہ تو تورات میں بھی موجود ہے۔ جس سے یہ انحراف کرتے ہیں۔ یہ خلوص نیت کے ساتھ آپ کے پاس نہیں آتے۔ اگر کسی سماجی مجبوری کی وجہ سے آپ کے پاس آبھی جائیں تو وہ آپ کے فیصلے کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہوں گے کیونکہ یہ کسی آسمانی کتاب کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ مسائل ١۔ یہودی جھوٹ پسند کرنے والے اور سود خور ہیں۔ ٢۔ فیصلہ عدل و انصاف پر مبنی ہونا چاہیے۔ ٣۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہودیوں کا فیصلہ کرنے یا نہ کرنے کا اختیار دے دیا گیا۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ عدل و انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔ ٥۔ یہودی نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فیصل نہیں مانتے۔ المآئدہ
43 المآئدہ
44 فہم القرآن ربط کلام : تورات کی تعلیمات کی مزید وضاحت۔ قانون کی بالادستی اور حدود اللہ کا نفاذ۔ حدود الٰہی کو دل و جان سے تسلیم کرنا مجرمانہ ذہنیت کے لیے ہمیشہ سے مشکل رہا ہے۔ انسانوں کی اکثریت کا یہ حال ہے کہ جب کسی معاشرے میں جرم سرزد ہوتا ہے تو وہ سخت نفرت کا اظہار اور مجرم کو کیفر کردار تک پہنچانے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ لیکن جونہی کچھ عرصہ گزر جائے تو اکثریت کی ہمدردیاں مظلوم کے ساتھ نہ صرف ختم ہوجاتی ہیں بلکہ مجرم کو سزا دینے کے وقت ان کو مجرم پر ترس آنا شروع ہوجاتا ہے۔ اس لیے سورۃ نور آیت ٢ میں حکم دیا کہ جب مجرموں کو سزا دی جائے تو مومنوں کو اس پر ترس نہیں آنا چاہیے۔ حدود کے نفاذ اور اس کی اہمیت کے پیش نظر یہاں تورات کی روشن تعلیمات کا ذکر کرنے سے پہلے ” اناانزلنا“ کے الفاظ لائے گئے ہیں کہ اس کے نفاذ اور تعلیم میں ذرّہ برابر شک اور رعایت کی گنجائش نہیں کیونکہ تورات اور اس میں نازل ہونے والے احکامات اللہ تعالیٰ نے ہی نازل فرمائے ہیں۔ جو لوگوں کی رہنمائی کے لیے اتنے واضح اور روشن ہیں کہ ان میں کسی قسم کا کوئی اشتباہ نہیں پایا جاتا۔ انھی ہدایات پر انبیاء ( علیہ السلام) بنی اسرائیل اور ان کے صالح کردار حکمران عمل پیرا تھے اور آج بھی منصفانہ مزاج رکھنے والے لوگ تورات کی سچی تعلیمات اور اس میں درج شدہ حدود کی شہادت دیتے ہیں۔ جب یہ ہدایت روشن اور فی الواقع اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کردہ ہیں۔ تو پھر اس پر عمل کرنے میں لوگوں سے ڈرنے کی بجائے، صرف اللہ تعالیٰ ہی سے ڈرنا چاہیے۔ اور جو لوگ اللہ تعالیٰ سے ڈرنے کی بجائے لوگوں سے ڈرتے اور دنیا کے فائدے کو اللہ تعالیٰ کی آیات پر مقدم جانتے ہوئے ان کا نفاذ نہیں کرتے وہ لوگ کافر ہیں۔ (عَنْ عَاءِشَۃَ (رض) أَنَّ قُرَیْشًا أَہَمَّہُمْ شَأْنُ الْمَرْأَۃِ الْمَخْزُومِیَّۃِ الَّتِی سَرَقَتْ فَقَالَ وَمَنْ یُکَلِّمُ فیہَا رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَقَالُوا وَمَنْ یَجْتَرِئُ عَلَیْہِ إِلَّا أُسَامَۃُ بْنُ زَیْدٍ حِبُّ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَکَلَّمَہُ أُسَامَۃُ فَقَالَ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) أَتَشْفَعُ فِی حَدٍّ مِنْ حُدُود اللّٰہِ ثُمَّ قَامَ فَاخْتَطَبَ ثُمَّ قَالَ إِنَّمَا أَہْلَکَ الَّذِینَ قَبْلَکُمْ أَنَّہُمْ کَانُوا إِذَا سَرَقَ فیہِمْ الشَّرِیفُ تَرَکُوہُ وَإِذَا سَرَقَ فیہِمْ الضَّعِیفُ أَقَامُوا عَلَیْہِ الْحَدَّ وَایْمُ اللّٰہِ لَوْ أَنَّ فَاطِمَۃَ بِنْتَ مُحَمَّدٍ سَرَقَتْ لَقَطَعْتُ یَدَہَا)[ رواہ البخاری : کتاب الحدود، باب حَدِیثُ الْغَارِ] ” حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ قریش کے قبیلہ بنو مخزومیہ کی عورت جس نے چوری کی تھی اس کی وجہ سے خفت محسوس کرنے لگے۔ انھوں نے کہا کہ اس کے بارے میں اللہ کے رسول کے ہاں کون سفارش کرے گا ؟ تو انھوں نے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پیارے صحابی اسامہ بن زید (رض) کو اس کی ہمت و الا پایا۔ اسامہ بن زید (رض) نے اس عورت کی سفارش کی تو اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کیا تم اللہ کے مقرر کردہ حد کے متعلق سفارش کرتے ہو۔ پھر نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خطبہ کے لیے کھڑے ہوئے تو فرمایا تم سے پہلے لوگوں کی ہلاکت کی وجہ یہ بھی تھی جب ان میں معزز قبیلے کا فرد چوری کرتا تو اسے چھوڑ دیا جاتا اور جب کوئی کمزور کسی جرم کا مرتکب ہوتا تو اس پر قانون کا نفاذ کرتے۔ اللہ کی قسم! اگر محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بیٹی فاطمہ (رض) بھی چوری کرتی تو میں اس کا ہاتھ کاٹ دیتا۔“ مسائل ١۔ یہودی تورات نہیں مانتے۔ ٢۔ کتاب اللہ کے مطابق فیصلے نہ کرنے والے کافر ہیں۔ ٣۔ اللہ کی کتاب اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بات کو نہ ماننے والا مومن نہیں ہو سکتا۔ المآئدہ
45 فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ، یہاں تورات میں جو حدود و قصاص کے احکامات کی تفصیل بیان فرمائی ہے انجیل کا اس لیے ذکر نہیں کہ انجیل تورات ہی کا تتمّہ ہے۔ پوری امت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ جن احکامات کا تورات میں ذکر ہے اگر وہ قرآن مجید میں من و عن یا ان کا جو حصہ قرآن مجید میں بطور نفاذ ذکر کیا گیا ہو تو اس پر عمل کرنا لازم ہے۔ یہاں تو رات اور قرآن مجید کی متفق علیہ حدود کا ذکر کرنے سے پہلے نصیحت کی گئی کہ لوگوں سے ڈرنے کی بجائے صرف اللہ سے ڈرا کرو اور اللہ تعالیٰ کی مقرر کردہ حدود کو دنیاوی مفادات کے لالچ میں آکر ہرگز نہ چھوڑو کیونکہ ان کانفاذ اللہ تعالیٰ نے سب پر فرض قرار دیا ہے۔ ” ھم“ کی ضمیر بظاہر تو یہود و نصاریٰ کی طرف ہے لیکن نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان پر عمل پیرا ہونا امت کے لیے لازم قرار دیا ہے آپ نے اپنی حیات مبارکہ میں ان حدود کو عملاً نافذ فرمایا کیونکہ جو حاکم جان بوجھ کر ان پر عمل نہیں کرتا۔ وہ کافر، ظالم اور فاسق یعنی کسی ایک زمرے میں ضرور شامل ہوگا۔ البتہ اس بات کی پوری گنجائش رکھی گئی ہے کہ فوجداری مقدمات عدالت میں آنے سے پہلے مجروح یا مقتول کے وارث معاف کردیں تو یہ معافی ظالم کے لیے اس کے گناہ کا کفارہ بن جائے گی۔ اگر معافی کی صورت نہ نکلے تو حاکم کا فرض ہے کہ قصاص دلوائے اگر ایسا نہ کیا جائے تو حاکم ظالموں میں شمار ہوں گے۔ کیونکہ ان کی وجہ سے مظلوم اپنے حق سے محروم ہوا اور معاشرہ عدم استحکام کا شکار ہوگا۔ (عَنْ أَنَسٍ (رض) قَالَ کَسَرَتْ الرُّبَیِّعُ وَہْیَ عَمَّۃُ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ ثَنِیَّۃَ جَارِیَۃٍ مِنْ الْأَنْصَارِ فَطَلَبَ الْقَوْمُ الْقِصَاصَ فَأَتَوْا النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَأَمَرَ النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بِالْقِصَاصِ فَقَالَ أَنَسُ بْنُ النَّضْرِ عَمُّ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ لَا وَاللّٰہِ لَاتُکْسَرُ سِنُّہَا یَا رَسُول اللّٰہِ فَقَالَ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَا أَنَسُ کِتَاب اللّٰہِ الْقِصَاصُ فَرَضِیَ الْقَوْمُ وَقَبِلُوا الْأَرْشَ فَقَالَ رَسُولُ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) إِنَّ مِنْ عِبَاد اللّٰہِ مَنْ لَوْ أَقْسَمَ عَلَی اللّٰہِ لَأَبَرَّہُ)[ رواہ البخاری : کتاب تفسیر القرآن، باب قولہ والجروح قصاص] ” حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں حضرت انس بن مالک کی چچی نے انصار کی ایک بچی کا دانت توڑ دیا تو انھوں نے قصاص کا مطالبہ کیا اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قصاص کا حکم دیا۔ انس بن نضر (رض) جو کہ انس بن مالک کے چچا ہیں۔ انہوں نے کہا اللہ کی قسم! اس کا دانت نہیں توڑا جائے گا۔ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اے انس قصاص اللہ کا حکم ہے اچانک قوم دیت لینے پر راضی ہوگئی تو رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ کے بندوں میں کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں اگر قسم اٹھالیں تو اللہ اس کو بری کردیتے ہیں۔“ (عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ (رض) یَقُولُ قَالَ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حَدٌّ یُعْمَلُ فِی الأَرْضِ خَیْرٌ لأَہْلِ الأَرْضِ مِنْ أَنْ یُمْطَرُوا ثلاَثِینَ صَبَاحًا )[ رواہ النسائی : باب التَّرْغِیبِ فِی إِقَامَۃِ الْحَدِّ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا زمین میں اللہ کی ایک حد پر عمل کرنا زمین والوں کے لیے تیس دن کی بارش سے بہتر ہے۔“ مسائل ١۔ تورات کو اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا ہے۔ ٢۔ تورات میں ہدایت اور روشنی ہے۔ ٣۔ انبیاء (علیہ السلام) کتاب اللہ کے مطابق فیصلہ کرتے تھے۔ ٤۔ اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرنا چاہیے۔ ٥۔ کتاب اللہ کا حکم نہ ماننے والے کافر، ظالم، فاسق ہیں۔ ٦۔ یہودیوں پر بھی قصاص فرض تھا۔ تفسیر بالقرآن نفاذ دین کی فرضیت : ١۔ جو شخص اللہ کی کتاب کے مطابق فیصلہ نہیں کرتا وہ کافر ہے۔ (المائدۃ: ٤٤) ٢۔ جو شخص اللہ کی کتاب کے مطابق فیصلہ نہیں کرتے وہ فاسق ہیں۔ (المائدۃ: ٤٧) المآئدہ
46 فہم القرآن ربط کلام : تورات کے بعد انجیل کی ہدایات اور اس کے احکامات کی اہمیت کا بیان۔ اس سے متصل پہلی آیات میں تورات کے منزل من اللہ ہونے اور اس کے احکامات کے نفاذ کا ذکر ہوا تھا اب حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی نبوت کا ثبوت اور انجیل کا تورات کی تائید کرناثابت کیا گیا ہے۔ اس لیے انجیل کی ہدایات اور احکامات کو انہی الفاظ میں بیان کیا گیا ہے جن الفاظ میں تورات کی اہمیت اور ہدایات کا تعارف کروا یا گیا ہے۔ یہ کتب اپنے اپنے وقت میں لوگوں کے لیے روشنی کا مینار اور ہدایت کا سرچشمہ تھیں یاد رہے جو الفاظ تورات اور انجیل کے بارے میں آئے ہیں ایسے ہی الفاظ قرآن مجید کے بارے میں ارشاد ہوئے ہیں۔ یہ قرآن مجید کی حقانیت اور اس کی کشادہ ظرفی کا منہ بولتا ثبوت ہونے کے ساتھ اس بات کا اعلان ہے کہ جس طرح تورات اور انجیل اپنے اپنے دور میں لوگوں کے لیے ہدایت کا سرچشمہ اور روشنی کا مینار تھیں اسی طرح ہی آج قرآن مجید لوگوں کے لیے ہدایت کا منبع، روشن قندیل ہے اور اس کے احکامات رہتی دنیا تک قابل عمل اور نافذ العمل رہیں گے۔ تورات و انجیل اپنے دور کے لیے لوگوں کے نصیحت و موعظت کا مرقع تھیں اور اب قرآن ان کے بنیادی احکامات اور ہدایات کا ترجمان اور لوگوں کے لیے راہ عمل ہے جس طرح تورات و انجیل کے احکامات نافذ نہ کرنے والے درجہ بدرجہ کافر، ظالم اور فاسق تھے اگر آج مسلمان اپنی انفرادی زندگی اور اجتماعی نظام میں قرآن نافذ نہیں کرتے تو وہ بھی اسی زمرے میں سمجھے جائیں گے جس طرح تورات و انجیل پر عمل نہ کرنے والے کافر، ظالم اور فاسق ٹھہرے تھے۔ مسائل ١۔ ہر نبی پہلی آسمانی کتابوں کی تصدیق کرتا تھا۔ ٢۔ عیسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے انجیل عطا کی تھی۔ ٣۔ انجیل میں ہدایت اور روشنی ہے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ کی نازل شدہ کتاب کے مطابق فیصلہ نہ کرنے والے فاسق ہیں۔ تفسیر بالقرآن کتاب اللہ کے مطابق فیصلہ ہونا چاہیے : ١۔ ہم نے آپ کی طرف کتاب نازل کی تاکہ آپ لوگوں کے درمیان فیصلہ کریں۔ (النساء : ١٠٥) ٢۔ ہم نے انبیاء پر کتابیں نازل کیں تاکہ وہ لوگوں کے درمیان فیصلہ کریں۔ (البقرۃ: ٢١٣) ٣۔ اور انجیل والے اس کے مطابق فیصلہ کریں۔ (المائدۃ: ٤٧) ٤۔ آپ ان کے درمیان کتاب اللہ کے مطابق فیصلہ کریں۔ (المائدۃ: ٤٨) ٥۔ اللہ تعالیٰ نے جو احکام آپ پر اتارے ہیں ان کے مطابق فیصلہ کیجیے۔ (المائدۃ: ٤٩) المآئدہ
47 المآئدہ
48 فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ اس آیت مبارکہ میں پہلی مرتبہ استعمال ہونے والے لفظ ” الکتاب“ سے مراد قرآن مجید ہے۔ جو پہلی کتب آسمانی کی تائید اور تصدیق کرتا ہے اور جو کچھ ان کتابوں میں احکام بیان کیے گئے۔ وہ قرآن مجید میں محفوظ کرلیے گئے ہیں۔ ” مھیمن“ کا معنیٰ ہے کسی چیز کو ڈھانپ لینا یا اس کی حفاظت اور نگرانی کرنا کیونکہ دین کے مرکزی اور بنیادی اصول شروع سے ایک ہی رہے ہیں اس لیے وہ تمام احکام اور اصول جو پہلی کتابوں میں نازل کیے گئے اور جن کے نفاذ کا ان لوگوں کو حکم دیا گیا تھا۔ قرآن مجید ان کا امین اور ترجمان ہے۔ پہلی آیات میں تورات اور انجیل کے نفاذ کا حکم ان کے حاملین کو دیا گیا تھا۔ اب قرآن مجید کے نازل ہونے کے بعد وہ کتابیں منسوخ ہوچکی ہیں۔ البتہ ان کے منزل من اللہ ہونے کی تصدیق کرنی چاہیے۔ تورات اور انجیل کے بنیادی احکام جو قرآن مجید میں بیان ہوئے ہیں۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو براہ راست ان کے بارے میں حکم دیا گیا ہے ان کا نفاذ کریں تاکہ اس شبہ کا ازالہ ہو سکے کہ ان احکام کا نفاذ پہلی امتوں کے لیے ہی نہیں تھا بلکہ یہ امت ان کے نفاذ میں اتنی ہی پابند ہے جتنا پہلی امتوں کو پابند کیا گیا تھا۔ لہٰذا قرآن مجید کے نفاذ میں کسی کے منفی خیالات اور رجحانات کی پرواہ نہیں کرنا چاہیے۔ کیونکہ حق پہنچ چکا اور نفاذ دین کے بغیر مسلمانوں کا اجتماعی نظام مستحکم نہیں ہوسکتا اور ان کی ترقی نہیں ہو سکتی۔ جس کی اہمیت کے پیش نظر براہ راست نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیا گیا ہے کہ آپ ان کا من و عن نفاذ کریں اور کسی کی خواہش اور مخالفت کو خاطر میں نہ لائیں۔ فرمان کے آخر میں یہ وضاحت کردی گئی ہے کہ ہر امت کے لیے اس کی الگ، الگ شریعت اور علیحدہ طریقہ تھا۔ یہ اس لیے نہیں تھا کہ لوگوں کو ایک جگہ پر اکٹھا کرنا اللہ تعالیٰ کے لیے مشکل تھا بلکہ مصلحت اور حکمت یہ تھی کہ لوگوں کو اس بات میں آزمایا جائے کہ وہ نئے نبی اور اس کی شریعت پر ایمان لاتے ہیں یا اپنے اپنے مذہب اور ملتوں کے ساتھ منسلک رہتے ہیں۔ اس میں یہ حکمت بھی پنہاں تھی کہ پہلی امتوں کے مزاج اور ان کے حالات کے مطابق انھیں شریعت اور اس پر عملدر آمد کا طریقہ وہی دیا جائے جس کو اپنانا ان کے لیے آسان تھا۔ جس کی اہل علم نے یہ توجیہ فرمائی ہے کہ دین ایک ہونے کے باوجود شریعتوں کا مختلف ہونا انسانی ذہن کی ارتقاء کی بنا پر کیا گیا ہے۔ لہٰذا دانشمندی کا تقاضا یہ ہے کہ ان اختلافات میں الجھنے اور اپنی صلاحیتیں ضائع کرنے کی بجائے نیکی میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنا چاہیے۔ کار خیر میں مسابقت ہی زندہ اور بیدار قوموں کا شعار ہوا کرتا ہے۔ قرآن مجید مسلمانوں کو صرف نیکی کرنے کا حکم نہیں دیتا بلکہ اس کا فرمان ہے کہ نیکی کے کاموں میں ایک دوسرے سے آگے بڑھو۔ کیونکہ جس شعبہ میں مسابقت ختم ہوجائے وہ شعبہ زندگی کی روح کھو بیٹھتا ہے اس لیے سورۃ التکاثر میں ان لوگوں کو سخت انتباہ کیا ہے جو دنیا کے لیے اس قدر ہلکان کا شکار ہوگئے کہ قبر کی دیواروں تک دنیا ہی کے پیچھے بھاگتے رہے اور اپنی آخرت کو تباہ کر بیٹھے۔ اس لیے حکم فرمایا کہ مسلمانو نیکی کے کاموں میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کرو۔ نیکی میں سبقت کرنے والے ہی اللہ کے مقرب ہوں گے۔ حقیقت آشکارا ہونے کے باوجود خواہ مخواہ اختلافات میں الجھنے والوں کا تعلق ہے۔ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن لوگوں کے درمیان ان کا ٹھیک ٹھیک فیصلہ فرمائیں گے۔ مسائل ١۔ قرآن مجید منزل من اللہ ہے۔ ٢۔ قرآن مجید پہلی کتابوں کی تصدیق کرتا ہے۔ ٣۔ قرآن مجید پہلی کتابوں کا نگران ہے۔ ٤۔ قرآن مجید کے احکامات کے مطابق فیصلہ کرنا چاہیے۔ ٥۔ حق آ جانے کے بعد کسی اور کے پیچھے نہیں لگنا چاہیے۔ ٦۔ اللہ تعالیٰ اپنے احکامات کے ذریعے لوگوں کو آزماتا ہے۔ ٧۔ نیکی کے کاموں میں سبقت اختیار کرنی چاہیے۔ ٨۔ سب نے اللہ تعالیٰ کی طرف لوٹنا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ یوم قیامت لوگوں کے اختلافات کا فیصلہ فرمائے گا۔ تفسیر بالقرآن قانون الٰہی کے بغیر فیصلے کرنے والے مجرم ہیں : ١۔ اللہ تعالیٰ نے جو کتاب آپ پر نازل کی ہے لوگوں کے درمیان اس کے مطابق فیصلہ کریں۔ (المائدۃ: ٤٨) ٢۔ جو کتاب اللہ کے بغیر اپنی مرضی سے فیصلہ کرے گا اللہ کے راستے سے بھٹک جائے گا۔ (ص : ٢٦) ٣۔ قانون الٰہی کے خلاف فیصلہ دینے والے فاسق ہیں۔ (المائدۃ: ٤٧) ٤۔ جو قانون الٰہی کے خلاف فیصلہ کرتا ہے وہ کافر ہے۔ (المائدۃ: ٤٤) ٥۔ جو قانون الٰہی کے خلاف فیصلہ کرے وہ ظالم ہے۔ (المائدۃ: ٤٥) ٦۔ امت کو قرآن کی اتباع کا حکم دیا گیا ہے قرآن وسنت کو چھوڑ کر دوسرے کی اتباع نہیں کرنی چاہیے (الاعراف : ٣) المآئدہ
49 المآئدہ
50 فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ : یہود و نصاریٰ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پریشان اور پھسلانے کے لیے آئے دن کوئی نہ کوئی شرارت اور سازش کیا کرتے تھے ان کی خواہش اور کوشش تھی کہ اللہ کے پیغمبر سے کوئی ایسا کام کروائیں جس سے اسلام کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا ہوں اور آپ کے دامن پاک پر کوئی ایسا دھبہ لگ جائے کہ لوگ آپ سے بد ظن ہوجائیں۔ اسی کے پیش نظر یہودیوں کے مذہبی رہنما آپ کی خدمت میں ایک مقدمہ پیش کرتے ہوئے کہنے لگے کہ اگر آپ اس کا فیصلہ ہماری مرضی کے مطابق کردیں تو نہ صرف ہم مسلمان ہونے کے لیے تیار ہیں بلکہ ہمارے ہزاروں متبعین مشرف بہ اسلام ہوجائیں گے۔ اس موقعہ پر یہ حکم نازل ہوا کہ اے نبی ! آپ ان کی خواہشات کا خیال رکھنے اور ان کی سازشوں سے خوفزدہ ہونے کی بجائے انھیں ان کی حالت پر چھوڑ دیں۔ آپ صرف اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ حکم کو نافذ فرمائیں اگر یہ لوگ اللہ کے حکم سے انحراف کریں گے تو یہ انحراف ان کے گناہوں کا سبب اور سزا ہوگی۔ جو اللہ تعالیٰ کی منشا کے مطابق سمجھنی چاہیے۔ یقین جانیں کہ لوگوں کی اکثریت نافر مانوں پر مشتمل ہوا کرتی ہے۔ نبی اور اس کے سچے متبعین کو ایسی اکثریت کی تابعداری نہیں کرنی چاہیے کیا جو لوگ جاہلیت کا قانون پسند کرتے ہیں حالانکہ اللہ تعالیٰ کا حکم اور قانون دنیا اور آخرت کے نتائج کے اعتبار سے ہر قانون سے بہتر ہے لیکن اسے وہی لوگ تسلیم کرتے ہیں جنھیں یقین و ایمان کی دولت نصیب ہوتی ہے جہالت سے مراد ہر وہ کام اور مسئلہ ہوتا ہے جو وحی الٰہی کے خلاف ہو اور اس میں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی پائی جائے۔ مسائل ١۔ ہر فیصلہ کتاب اللہ کے مطابق ہونا چاہیے اور کسی کی پروا نہیں کرنی چاہیے۔ ٢۔ بعض لوگ کتاب اللہ سے منحرف کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ٣۔ لوگوں کی اکثریت نافرمان ہوتی ہے۔ ٤۔ گمراہ لوگ جاہلیت کے فیصلے چاہتے ہیں۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ کے قانون سے بہتر کوئی قانون نہیں ہے۔ تفسیر بالقرآن اکثریت کا حال : ١۔ اللہ تعالیٰ بڑے فضل والاہے لیکن لوگوں کی اکثریت شکر گزار نہیں ہوتی۔ (البقرۃ: ٢٤٣) ٢۔ اللہ تعالیٰ سب کو جانتا ہے اکثریت اس حقیقت کو نہیں جانتی۔ (الاعراف : ١٨٧) ٣۔ قرآن آپ کے رب کی طرف سے حق ہے۔ لیکن لوگوں کی اکثریت نہیں جانتی۔ (ھود : ١٧) ٤۔ اللہ تعالیٰ اپنا فیصلہ نافذ کرنے پر قادر ہے لیکن لوگوں کی اکثریت نہیں جانتی۔ (یوسف : ٢١) ٥۔ لوگوں کی اکثریت شکر گزار نہیں ہوتی۔ (یوسف : ٣٨) ٦۔ لوگوں کی اکثریت بے عقل ہوتی ہے۔ (المائدۃ: ١٠٣) ٧۔ لوگوں کی اکثریت ایمان نہیں لاتی۔ (الرعد : ١) المآئدہ
51 فہم القرآن ربط کلام : یہود و نصاریٰ کا کردار بتلانے کے بعد ان سے حقیقی اور قلبی تعلقات رکھنے سے منع کیا ہے۔ اسلام اور کفر کی کشمکش روز افزوں تھی جس کی بنا پر نو وارد مسلمان بالخصوص منافقین اس کوشش میں تھے کہ ہمارے تعلقات یہود و نصاریٰ کے ساتھ پہلے کی طرح استوار رہیں تاکہ یہود و نصاریٰ کی کامیابی کی صورت میں ہم نقصان سے محفوظ رہ سکیں۔ اسی بنا پر مسلمانوں کے راز یہود و نصاریٰ تک پہنچاتے تاکہ ان کی دلی ہمدردیاں حاصل کرسکیں۔ حق و باطل کے اس معرکہ میں اسلام یہ بات کس طرح گوارا کرسکتا تھا کہ ان لوگوں کو آستینوں کا سانپ سمجھنے کے باوجود اس حالت میں رہنے دیا جائے کہ یہ مسلمانوں کو نقصان پہنچاتے رہیں۔ اسلام تو دور بینی کا دین ہے۔ ایسی صورت حال تو کوئی باطل نظریہ کی حامل اور کمزور جماعت بھی گوارا نہیں کرسکتی۔ لہٰذا سازشوں کا قلع قمع اور مذموم سرگرمیوں کی روک تھام کے لیے قرآن مجید مسلمانوں کو حکم دیتا ہے کہ وہ غیر مسلم بالخصوص یہود و نصاریٰ کے ساتھ رازد ارانہ تعلقات سے کامل اجتناب کریں۔ جو اس حکم کے باوجود غیر مسلموں کے ساتھ دوستی سے باز نہیں آتا وہ انھی میں شمار ہوگا اور ایسے ظالموں کو اللہ تعالیٰ ہدایت سے سرفراز نہیں کرتا۔ واضح رہے کہ اسلام سماجی تعلقات اور کاروباری معاملات میں اپنوں کو ترجیح دینے کی ترغیب دیتا ہے۔ لیکن غیر مسلموں سے سماجی تعلقات اور کاروبار کرنے سے منع نہیں کرتا۔ البتہ ان سے قلبی تعلق اور ان کی مشابہت اختیار کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ (عَنْ ابْنِ عُمَرَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَنْ تَشَبَّہَ بِقَوْمٍ فَہُوَ مِنْہُمْ) [ رواہ ابوداؤد : کتاب اللباس باب فی لبس الشہرۃ] ” حضرت عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بیان فرماتے ہیں جو کوئی کسی قوم کی مشابہت اختیار کرے گا وہ انہی میں شمار ہوگا۔“ (عَنْ عَبْدِاللّٰہِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ (رض) قَالَ لَعَنَ اللّٰہُ الْوَاشِمَاتِ وَالْمُسْتَوْشِمَاتِ وَالْمُتَنَمِّصَاتِ وَالْمُتَفَلِّجَاتِ لِلْحُسْنِ اَلْمُغَےِّرَاتِ خَلْقَ اللّٰہِ فَجَاءَ تْہُ امْرَأَۃٌ فَقَالَتْ اِنَّہٗ بَلَغَنِیْ اَنَّکَ لَعَنْتَ کَےْتَ وَکَےْتَ فَقَالَ مَالِیْ لَا اَلْعَنُ مَنْ لَعَنَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وَمَنْ ہُوَ فِیْ کِتَاب اللّٰہِ فَقَالَتْ لَقَدْ قَرَأْتُ مَا بَےْنَ اللَّوْحَےْنِ فَمَا وَجَدْتُّ فِےْہِ مَا تَقُوْلُ قَالَ لَءِنْ کُنْتِ قَرَأْتِےْہِ لَقَدْ وَجَدْتِّےْہِ اَمَا قَرَأْتِ مَا اٰتٰکُمُ الرَّسُوْلُ فُخُذُوْہُ وَمَا نَھٰکُمْ عَنْہُ فَانْتَھُوْا قَالَتْ بَلٰی قَالَ فَاِنَّہٗ قَدْ نَھٰی عَنْہُ۔)[ متفق علیہ] ” حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) فرماتے ہیں کہ سرمہ بھرنے والیوں اور بھروانے والیوں بھنووں ( اور رخسار کے بال) اکھیڑنے والیوں اور خوب صورتی کے لیے دانتوں کو باریک بنانے والیوں اور اللہ کی تخلیق کو بدلنے والیوں پر اللہ کی لعنت ہو۔ ایک عورت عبداللہ بن مسعود (رض) کے پاس آئی اور کہا کہ مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ آپ (رض) نے فلاں فلاں عورت کو ملعون قرار دیا ہے؟ عبداللہ بن مسعود (رض) نے جواب دیا کہ میں کیوں اس پرلعنت نہ کروں جس پر رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لعنت کی ہے۔ اور جس پر اللہ کی کتاب میں لعنت کی گئی ہے۔ اس عورت نے کہا‘ میں نے دونوں تختیوں کے درمیان (یعنی پورے) قرآن مجید کی تلاوت کی ہے‘ مجھے اس میں وہ بات نہیں ملی جو آپ کہہ رہے ہیں۔ ابن مسعود (رض) نے وضاحت فرمائی کہ اگر تو نے قرآن مجید کی تلاوت کی ہوتی تو اس میں اس حکم کو پالیتی کیا تو نے قرآن مجید میں نہیں پڑھا ” تمہیں جو چیز رسول دیں اس پر عمل کرو اور جس بات سے منع کریں اس سے رک جاؤ“ (الحشر) اس عورت نے جواب دیا کہ بالکل عبداللہ بن مسعود (رض) نے فرمایا‘ تو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان باتوں سے منع فرمایا ہے۔“ مسائل ١۔ مومن یہود و نصاریٰ کو دوست نہ بنائیں۔ ٢۔ یہودی اور عیسائی ایک دوسرے کے دوست ہیں۔ ٣۔ یہود و نصاریٰ سے دوستی کرنے والا انہی میں سمجھاجائے گا۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ ظالموں کو ہدایت نہیں دیتا۔ تفسیر بالقرآن یہود و نصاریٰ کو دوست نہیں بنانا چاہیے : ١۔ اے ایمان والو ! میرے اور اپنے دشمن کو دوست نہ بناؤ۔ (الممتحنۃ : ١ تا ٢) ٢۔ اے ایمان والو! جن پر اللہ کا غضب ہوا انھیں اپنا دوست مت بناؤ۔ (الممتحنۃ: ١٣) ٣۔ اے ایمان والو! ان لوگوں کو دوست نہ بناؤ جنھوں نے تمہارے دین کو کھیل بنا لیا ہے۔ (المائدۃ: ٥٦ تا ٥٧) ٤۔ اے ایمان والو! یہود و نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ۔ (المائدۃ: ٥١) ٥۔ اے ایمان والو! مسلمانوں کو چھوڑ کر کفار کو اپنا دوست نہ بناؤ۔ (النساء : ١٤٤) المآئدہ
52 فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ : منافقین کی دلی کیفیت اور ان کے قلبی خوف کو طشت ازبام کیا گیا ہے۔ منافقانہ عقیدہ اور کردار کو قرآن مجید ایک مرض قرار دیتا ہے جس میں آدمی کفر و اسلام کے درمیان تذبذب کا شکار رہتے ہوئے ہمیشہ دنیاوی مفاد کو پیش نظر رکھتا ہے۔ یہی حالت رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے میں منافقین کی تھی۔ جب انھیں اس روش سے باز رہنے کی تلقین کی جاتی تو وہ اپنے جذبات کو ان الفاظ میں بیان کرتے کہ ہم فریقین کے ساتھ اس لیے تعلقات رکھے ہوئے ہیں کہ کسی ایک فریق کو شکست ہونے کی صورت میں ہمیں نقصان نہ اٹھانا پڑے۔ اس صورتحال کا تجزیہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو تسلی دینے کے ساتھ منافقین کو انتباہ کر رہا ہے کہ جس بات سے تم ڈرتے ہو۔ وہ عنقریب ہو کر رہے گی۔ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو فتح سے نوازے گا یا اپنی طرف سے کامیابی کا دوسرا راستہ کھول دے گا۔ جس میں منافقین کے لیے ندامت کے سوا کچھ نہیں ہوگا۔ چنانچہ غزوۂ بدر سے لے کر غزوۂ تبوک تک منافقوں کو معمولی فائدہ پہنچنے کے سوا ہر قدم پر ندامت اور خفت اٹھانا پڑی آخرت میں ان کے لیے ذلت اور نقصان کے سوا کچھ نہیں ہوگا۔ سورۃ البقر ۃ کے دوسرے رکوع میں منافقین کی عادات کا ذکر ہوا۔ جس میں ہم نے لکھا ہے کہ منافق کا لفظ نفق سے نکلا ہے جس کا معنی ہے کہ چوہے کی ایسی بل جسکے دو منہ ہوں، اگر ایک منہ بند کیا جائے تو چوہا دوسری طرف سے نکل جاتا ہے جب تک دونوں بل کے منہ بند نہ کیے جائیں چوہا قابو میں نہیں آسکتا۔ منافق کی یہی حالت ہوتی ہے۔ کہ جب تک بیک وقت کفار اور مسلمانوں کی طرف سے دھتکارا نہ جائے اسے نقصان نہیں ہوتا۔ منافق اس نقصان سے بچنے کے لیے ددنوں فریقوں سے رابطہ رکھتا ہے۔ اس آیت میں ان کی اسی کمزوری کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ لیکن دنیا کا یہ مفاد منافقین کو آخرت کے نقصان سے نہیں بچا سکتا اگر مسلمان منافقین کو سمجھ جائیں اور ان کے ساتھ وہ سلوک کریں جس کے کرنے کا حکم قرآن دیتا ہے تو منافق دنیا میں بھی ذلیل ہوجائیں گے جس طرح نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے کے منافق بالآخر رسوا ہوئے تھے۔ (عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اٰےَۃُ الْمُنَافِقِ ثَلٰثٌ زَادَ مُسْلِمٌ وَاِنْ صَامَ وَصَلّٰی وَزَعَمَ اَنَّہُ مُسْلِمٌ ثُمَّ اتَّفَقَا اِذَا حَدَّثَ کَذَبَ وَاِذَا وَعَدَ اَخْلَفَ وَاِذَا اءْتُمَنَّ خَانَ) (رواہ مسلم : باب خصائل المنافق) ” حضرت ابوہریرہ (رض) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان ذکر کرتے ہیں منافق کی تین نشانیاں ہیں۔1 جب وہ بات کرے تو جھوٹ بولے 2 جب وعدہ کرے تو وعدہ خلافی کرے 3 جب اسے امانت دی جائے تو خیانت کرے۔ (متفق علیہ) مسلم شریف میں ان الفاظ کا اضافہ ہے ” چاہے روزے رکھتا اور نماز پڑھتا ہو اور اپنے آپ کو مسلمان سمجھتا ہو۔“ مسائل ١۔ منافق یہود ونصاریٰ سے دوستی کرتے ہیں۔ ٢۔ مومنوں کی کامیابی کو منافق برامحسوس کرتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن نادم ہونے والے لوگ : ١۔ آدم کا بیٹا کہنے لگا کاش میں اس کوے کی طرح ہوتا کہ اپنے بھائی کی لاش کو چھپا دیتا تو وہ نادم ہونے والوں میں سے ہو گیا۔ (المائدۃ: ٣١) ٢۔ قریب ہے اللہ فتح عطا کر دے یا اپنی طرف سے کوئی حکم نازل فرما دے پس یہ اپنے آپ پر نادم ہوں۔ (المائدۃ: ٥٢ ) ٣۔ اپنی غلطیوں پر نادم ہونے والے بہت ہی کم ہوتے ہیں۔ (المومنون : ٤٠) ٤۔ انھوں نے اونٹنی کی کونچیں کاٹ ڈالیں اور وہ نادم ہونے والوں میں سے ہوگئے۔ (الشعراء : ١٥٧) ٥۔ اے ایمان والو ! فاسق کی خبر کی تحقیق کرلیا کرو کہیں ایسا نہ ہو کہ تمھیں اپنے کیے پر نادم ہونا پڑے۔ (الحجرات : ٦) المآئدہ
53 فہم القرآن ربط کلام : مومنوں کا منافقین پر تعجب کا اظہار اور منافقین کے اعمال کا غارت ہونا۔ اس سے پہلی آیت میں مسلمانوں کو کامیاب ہونے کی خوشخبری سنانے کے ساتھ اس بات سے آگاہ کیا گیا ہے کہ عنقریب وہ وقت آئے گا کہ مسلمان کامیاب اور منافق اپنی سازشوں اور شرارتوں پر نادم ہوں گے اور اس وقت مسلمان انھیں مخاطب کرتے ہوئے کہیں گے کیا یہی وہ لوگ تھے جو قسمیں اٹھا اٹھا کر ہمیں یقین دہانی کرایا کرتے تھے کہ ہم تمہارے ساتھ ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے دنیا میں بھی منافقوں کو شرمندہ کیا اور آخرت میں جب منافق جہنم میں داخل کیے جائیں گے تو مومن ان سے یہ پوچھیں گے کیا تم وہی لوگ ہو جو دنیا میں حلف اٹھا اٹھا کر کہا کرتے تھے کہ ہم بھی ایماندار اور تمہارے ساتھی ہیں۔ دنیا میں منافقوں کو شرمندگی اٹھانا پڑے گی اور آخرت میں ذلت سے دو چار ہوں گے۔ ان کے تمام اعمال بے فائدہ اور غارت ہوجائیں گے اعمال کی قبولیت کا دارومدار اخلاص پر ہے۔ منافق اخلاص سے تہی دامن ہوتا ہے جس وجہ سے نہ صرف آخرت میں یہ لوگ نقصان اٹھائیں گے بلکہ دنیا میں بھی ان کی منافقت کا پردہ چاک ہوجائے گا۔ ان کی حالت اس جانور کی ہوگی جس کے بارے میں محاورہ زبان زد عام ہے کہ نہ گھر کا اور نہ گھاٹ کا، منافق ایسی صورت حال سے دو چار ہوا کرتا ہے۔ (عَنْ ابْنِ عُمَر َ عَنْ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ مَثَلُ الْمُنَافِقِ کَمَثَلِ الشَّاۃِ الْعَاءِرَۃِ بَیْنَ الْغَنَمَیْنِ تَعِیرُ إِلٰی ہٰذِہِ مَرَّۃً وَإِلٰی ہٰذِہِ مَرَّۃٌ) [ رواہ مسلم : کتاب صفات المنافقین واحکامھم] ” حضرت عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا منافق کی مثال دو ریوڑوں کے درمیان بکرے کی تلاش میں پھرنے والی بکری کی طرح ہے۔ ایک مرتبہ اس جانب جاتی اور دوسری مرتبہ دوسری جانب جاتی ہے۔“ المآئدہ
54 فہم القرآن ربط کلام : منافقوں کی خصلتوں کے مقابلے میں مومنوں کی خوبیوں کا تذکرہ۔ اللہ تعالیٰ ایمانداروں کو ایک طرح کا چیلنج دیتا ہے کہ اگر تم اپنے دین سے مرتد ہوجاؤ تو مجھے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ اللہ عنقریب ایسے لوگوں کو دین کے میدان میں لاکھڑا کرے گا۔ جن سے اللہ تعالیٰ محبت کرئے گا اور وہ لوگ اللہ سے محبت کریں گے وہ دین اور اللہ کی محبت میں اس قدر فنا ہوں گے کہ اپنوں کے ساتھ نرم اور کفار پر سخت ہوں گے۔ یہی جذبہ انھیں جہاد فی سبیل اللہ پر آمادہ کرے گا اور انھیں جہاد کرتے ہوئے ملامت کرنے والوں کی ملامت اور کسی کے پراپیگنڈہ کی کوئی پرواہ نہیں ہوگی۔ اس آیت مبارکہ میں یہ بات بھی واضح کردی گئی ہے کہ کفار کا مسلمانوں کے خلاف یہ بھی ایک حربہ ہوتا ہے کہ وہ مسلمانوں کو جہاد سے روکنے کے لیے پروپیگنڈہ کرتے ہیں کہ مسلمان وحشی اور جنگجو لوگ ہیں۔ اسلام دنیا کے امن کو تباہ کردینے والا مذہب ہے۔ ذرا غور فرمائیں کہ قرآن نے صدیوں پہلے کفار کی جس ملامت کی طرف اشارہ کردیا تھا وہ کس طرح حرف بحرف پوری ہورہی ہے۔ آج پوری دنیا کے کافر جب خودعراق، افغانستان، بوسنیا اور کشمیر پر بم باری کرتے ہیں تو انھیں کوئی شرم نہیں آتی جب مجاہدین دفاع کرتے ہیں تو انھیں تخریب کار اور کیا کیا لقب دیتے ہیں کاش مسلمان سربراہ قرآن کی آواز سنیں اور دشمن کے ایجنٹ کا کردار ادانہ کریں۔ اکثر محدثین نے اس آیت کی تفسیر میں لکھا ہے کہ اس میں مسلمانوں کو آئندہ ہونے والے کچھ لوگوں کے ارتداد کے بارے میں خبر دی گئی ہے۔ اور ان لوگوں کو خوشخبری سنائی گئی ہے جو ارتداد کے دور میں دین پر پکے اور مرتدین کے خلاف جہاد کریں گے۔ چنانچہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کے فوراً بعد صحابہ کرام (رض) کو مرتدین کا سامنا کرنا پڑا۔ مسیلمہ کذاب نے نبوت کا دعویٰ کیا۔ جس کی سرکوبی کے لیے خلیفہ اوّل حضرت ابو بکر صدیق (رض) نے خالد بن ولید (رض) کی کمان میں فوج روانہ کی اس جنگ میں کئی صحابہ (رض) شہید ہوئے۔ ان میں بہت سے حفاظ صحابہ (رض) بھی شامل تھے۔ اس کے بعد کچھ قبائل نے زکوٰۃ دینے سے انکار کردیا۔ حضرت ابو بکر صدیق (رض) نے ان سے زکوٰۃ وصول کرنے کے لیے جہاد کا اعلان کیا۔ بڑے بڑے صحابہ (رض) نے یہ کہہ کر اس کی مخالفت کی کہ ان کے خلاف جہاد کیونکر ہوسکتا ہے ؟ جبکہ یہ لوگ دین کے باقی ارکان پر عمل پیرا ہیں۔ لیکن صدیق اکبر (رض) نے فرمایا جو زکوٰۃ اور نماز میں فرق کرے گا میں اس کے خلاف جہاد ضرور کروں گا۔ بالآخر حضرت عمر (رض) اور ان کے ہم نوا صحابہ کرام (رض) کو اس مسئلہ میں انشراح صدرہوا اور انھوں نے خلیفۃ المسلمین کا ساتھ دینے کا اعلان کیا۔ جس کے نتیجے میں مانعین زکوٰۃ نے زکوٰۃ دینے پر آمادگی کا اظہار کیا۔ ان بحرانوں کے ساتھ ہی یہ مسئلہ بھی پیدا ہوا۔ لشکر اسامہ کو روانہ کیا جائے یا کہ بحرانی کیفیت کی بنا پر کچھ عرصہ کے لیے روک لیا جائے۔ اس پر خلیفہ اول نے بڑا مضبوط موقف اختیار فرمایا۔ جس سے امت اعتقادی، مالی، اور سیاسی بحران سے بچ گئی۔ ان حالات میں بہت سے لوگوں نے حضرت ابو بکرصدیق (رض) کو مشورہ دیا کہ وہ وقت کی نزاکت کے پیش نظر جیش اسامہ کو نہ بھیجیں، کیونکہ اسے امن وسلامتی کی حالت میں تیار کیا گیا تھا۔ مشورہ دینے والوں میں حضرت عمر بن خطاب (رض) بھی شامل تھے، مگر حضرت ابو بکر (رض) نے اس بات کو قبول نہ کیا اور جیش اسامہ کو روکنے سے سختی سے انکار کیا اور فرمایا خدا کی قسم ! میں اس جھنڈے کو نہیں کھولوں گا جس کو اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے باندھا ہے۔ خواہ پرندے اور درندے ہمیں مدینے کے ارد گرد سے اچک لیں۔ اگر امہات المومنین کے پاؤں کو کتے گھسیٹ لیں تو بھی میں ضرور جیش اسامہ کو بھیجوں گا۔ اور مدینہ کے ارد گرد کے محافظوں کو حکم دوں گا کہ وہ اس کی حفاظت کریں اور جیش اسامہ کا اس حالت میں جانابڑے مفاد میں رہا اور وہ عرب کے جس قبیلے کے پاس سے بھی گزرے وہ ان سے خوف زدہ ہوجاتا اور وہ لوگ کہتے کہ یہ لوگ اس لیے نکلے ہیں کہ ان کو بڑی قوت حاصل ہے۔ (البدایہ والنہایہ) اس آیت میں مومنین کی پانچ صفات بیان کی گئی ہیں۔ ١۔ مومن اللہ سے محبت کرنے والے ہوتے ہیں۔ ٢۔ مومن آپس میں نرم خو اور خیر خواہ ہوتے ہیں۔ ٣۔ کفار کے بارے میں نرم گوشہ رکھنے کی بجائے ان کے کفر سے شدید نفرت کرتے ہیں ٤۔ اللہ تعالیٰ کے دین کی سربلندی کے لیے کوشش پیہم میں مصروف رہتے ہیں۔ ٥۔ دین کی محبت اور جہاد کے راستے میں کسی کی پرواہ نہیں کرتے۔ جہاں تک کفار کے ساتھ سخت گیر ہونے کا تعلق ہے۔ اس کا یہ معنی نہیں کہ مسلمان سماجی اور معاشرتی لحاظ سے بداخلاق ہوتے ہیں بلکہ اس کا مفہوم یہ ہے کہ مسلمان وہ ہے جو اپنے دین پر غیر متزلزل ایمان رکھتا ہو اور جہاد کے وقت کسی رشتہ اور مروّت کی پروا کیے بغیر کفار کے خلاف ڈٹ جائے۔ اس راستے میں بھی حضرت ابو بکر صدیق (رض) تمام صحابہ سے افضل ہیں۔ جب غزوۂ بدر کے بعد ان کا بیٹاعبدالرحمن مسلمان ہوا تو اس نے بدر کا معرکہ بیان کرتے ہوئے اپنے والد ابو بکر (رض) سے کہا جنگ کے دوران ایک موقع ایسا بھی آیا تھا جب آپ میرے نشانے پر تھے، لیکن میں نے اس لیے آپ پر وار نہ کیا کہ آپ میرے والد گرامی ہیں۔ اس کے جواب میں حضرت ابو بکر صدیق (رض) نے فرمایا کہ اگر تم میرے نشانے میں ہوتے تو میں تم پر وار کرنے سے ہرگز نہ چوکتا۔ (البدایہ والنہایہ) اللہ تعالیٰ سے اس کی اور نیک لوگوں کی محبت مانگنی چاہیے : (عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ (رض) قَالَ احْتُبِسَ عَنَّا رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)۔۔ أَسْأَلُکَ حُبَّکَ وَحُبَّ مَنْ یُحِبُّکَ وَحُبَّ عَمَلٍ یُقَرِّبُ إِلَی حُبِّکَ )[ رواہ الترمذی : کتاب تفسیر القرآن عن رسول اللہ، باب ومن سورۃ ص ] ” حضرت معاذ بن جبل (رض) سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمارے پاس آنے سے رک گئے۔۔ اے اللہ میں تم سے تیری محبت کا سوال کرتا ہوں اور اس کی محبت جو تم سے محبت رکھتا ہے اور ایسے عمل کی محبت جو مجھے تمھاری محبت کے قریب کر دے۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ کو کسی کی کوئی پروا نہیں ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ ایسے مسلمانوں کو پسند فرماتا ہے جو آپس میں نرم اور کافروں پر سخت ہوں۔ ٣۔ مومن اللہ کے راستہ میں جہاد کرتے ہیں۔ ٤۔ مومن کسی کی ملامت کی پرواہ نہیں کرتے۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے جس کو چاہتا ہے نوازتا ہے۔ المآئدہ
55 فہم القرآن ربط کلام : مسلمانوں کو اللہ اور اس کے رسول اور مومنوں کی باہمی محبت کے ذریعے تسلی دی جارہی ہے۔ خطاب کے آغاز اور رکوع کی ابتدا میں مسلمانوں کو یہود و نصاریٰ کے ساتھ قلبی دوستی سے منع کیا گیا ہے۔ جس میں یہ اندیشہ ہوسکتا ہے کہ مسلمان اپنے آپ کو تنہا محسوس کریں۔ اس لیے فرمایا جا رہا ہے کہ تمہیں غیروں سے دوستی کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ جب اللہ اور اس کا رسول تمہارے ساتھ محبت کرتے ہیں کیونکہ تم اللہ ہی کے لیے دین کے دشمنوں کے ساتھ برسرپیکار ہو۔ تم اللہ تعالیٰ کے حضور نماز کی حالت میں جھکنے والے اور اس کی رضا کی خاطر زکوٰۃ کی شکل میں غرباء سے تعاون کرنے والے رکوع کرتے ہوئے عاجزی اختیار کرنے والے ہو۔ گویا کہ جب تک مسلمانوں میں یہ اوصاف ہوں گے کہ وہ اللہ کے حضور نماز کی صورت میں جھکنے والے، زکوٰۃ کی شکل میں کمزور ساتھیوں سے تعاون کرنے والے، اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ اور آپس میں محبت کرنے والے ہوں گے۔ تو انہیں کسی کی پرواہ نہیں کرنی چاہیے یہ اللہ کی فوج ہیں اور اللہ کی فوج ہی دنیا میں غالب رہے گی۔ چنانچہ دنیا نے کھلی آنکھوں کے ساتھ دیکھا جب تک مسلمانوں میں یہ اوصاف رہے مسلمان سربلند رہے۔ یہاں رکوع سے مراد اکثر مفسرین نے عاجزی اور انکساری لی ہے تاہم یہ سورۃ ا لبقرۃ میں ذکر ہوچکا ہے کہ نماز کے ساتھ رکوع کا خصوصی ذکر اس لیے کیا جاتا ہے کہ یہودیوں نے رکوع فرض ہونے کے باوجود اپنی نماز سے خارج کردیا ہے یہاں کفار اور منافقوں کو متنبہ کرنے کے ساتھ مومنوں کو خوشخبری سنائی گئی ہے کہ تمہیں غیروں سے دوستی اس لیے بھی نہیں کرنا چاہیے کیونکہ کامیابی تمہارا مقدر ہے۔ (الاسلام یعلوولا یعلیٰ) [ ارواء الغلیل حدیث نمبر : ١٢٦٨] ” اسلام غالب آئے گا اور اس پر کوئی غالب نہیں آئے گا۔“ (کَتَبَ اللّٰہُ لَأَغْلِبَنَّ أَنَا وَرُسُلِی إِنَّ اللّٰہَ قَوِیٌّ عَزِیزٌ) [ المجادلۃ: ٢١] ” اللہ تعالیٰ نے لکھ رکھا ہے کہ میں اور میرے رسول ہی غالب رہیں گے۔“ (عَنِ ابْنِ عُمَرَ (رض) أَنَّ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتَّی یَشْہَدُوا أَنْ لاَ إِلَہَ إِلاَّ اللَّہُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُول اللَّہِ، وَیُقِیمُوا الصَّلاَۃَ، وَیُؤْتُوا الزَّکَاۃَ، فَإِذَا فَعَلُوا ذَلِکَ عَصَمُوا مِنِّی دِمَاءَ ہُمْ وَأَمْوَالَہُمْ إِلاَّ بِحَقِّ الإِسْلاَمِ، وَحِسَابُہُمْ عَلَی اللَّہِ ) [ رواہ البخاری : باب (فَإِنْ تَابُوا وَأَقَامُوا الصَّلاَۃَ وَآتَوُا الزَّکَاۃَ فَخَلُّوا سَبِیلَہُمْ)] ” حضرت عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا مجھے لوگوں کے ساتھ لڑائی کا حکم دیا گیا ہے یہاں تک کہ وہ اس بات کا اقرار کریں گے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں، نماز قائم کرے، زکوٰۃ ادا کرے جب انھوں نے یہ کام کرلیا تو انھوں نے اپنے خون اور اپنے مال کو محفوظ کرلیا مگر اسلام کے حقوق کے ساتھ اور ان کا حساب اللہ پر ہے۔“ مسائل ١۔ مومن اللہ اور اس کے رسول کے دوست ہوتے ہیں۔ ٢۔ مومن نماز قائم کرتے اور زکوٰۃ ادا کرتے اور اللہ کے سامنے رکوع کرتے ہیں۔ ٣۔ اللہ اور اس کے رسول اور مومنوں سے دوستی کرنے والے غالب رہیں گے۔ تفسیر بالقرآن اللہ کن کا دوست ہے : ١۔ اللہ ایمان والوں کا دوست ہے۔ (البقرۃ: ٢٥٧) ٢۔ اللہ مومنین کا دوست ہے۔ (آل عمران : ٦٨) ٣۔ اللہ متقین کا دوست ہے۔ (الجاثیۃ : ١٩) ٤۔ اللہ مومنوں کا دوست ہے۔ (المائدۃ: ٥٥) ٥۔ مشرک اور اللہ تعالیٰ کی آیات جھٹلانے والوں کا کوئی دوست نہیں۔ (العنکبوت : ٢٣) ٦۔ مسلمانوں کے لیے جنت اور اللہ تعالیٰ کی دوستی ہوگی۔ (الانعام : ١٢٦) المآئدہ
56 المآئدہ
57 فہم القرآن ربط کلام : یہود و نصاریٰ اور کفار سے قلبی تعلقات نہ رکھنے کے مزید تین اسباب : یہود ونصاریٰ اہل کتاب اور اہل مکہ کعبہ کے متولی اور ملت ابراہیم کے دعوے دار ہونے کے باوجود اسلام جیسے سچے دین، نماز جیسی افضل ترین عبادت اور اس کی پکار یعنی اذان کو کھیل تماشا اور استہزاء کا نشانہ بنایا کرتے تھے۔ (الانفال : ٣٥) میں ذکر ہوا ہے کہ جب مسلمان نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو یہ لوگ سیٹیاں اور تالیاں بجایا کرتے تھے۔ ان کا خبث باطن اس حد تک بڑھ گیا تھا کہ جب آپ بیت اللہ میں اپنے رب کے حضور سجدہ ریز تھے تو انھوں نے اونٹ کی بھاری بھرکم گندگی سے بھری ہوئی اوجڑی آپ کے کمر مبارک پر رکھ دی تھی۔ ان کی یہ باقیات سیئات فتح مکہ کے موقعہ پر بھی موجود تھیں۔ جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت بلال (رض) کو کعبہ میں اذان کہنے کا حکم دیا تو مکہ کے گلی کوچوں میں ابو محذورہ اور ان کے شریر ساتھی جو کہ اس وقت نو عمر تھے۔ حضرت بلال (رض) کی نقلیں اتارا کرتے تھے۔ ایک موقع پر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیکھتے ہوئے انھوں نے اذان کی نقل اتاری تو آپ نے کریمانہ اخلاق کا مظاہرہ کرتے ہوئے ابو محذورہ کو بلایا اور سمجھایا۔ آپ کے مشفقانہ رویہ سے متاثر ہو کر ابو محذورہ نے کلمہ پڑھ لیا۔ تو آپ نے اسے بیت اللہ یعنی مسجد حرام کا مؤذن مقرر فرمایا۔ ” حضرت عبداللہ بن محیریز سے روایت ہے وہ یتیم تھے اور انھوں نے ابو محذورہ کے گھر پرورش پائی ابو محذورہ نے ان کو شام کی طرف بھیجا وہ کہتے ہیں میں نے ابومحذورہ سے کہا میں ملک شام کی طرف جا رہا ہوں اور مجھے خیال ہے کہ وہ لوگ مجھ سے آپ کی آذان کے متعلق پو چھیں گے تو میری رہنمائی کریں۔ ابو محذورہ نے کہا میں چند لوگوں کے ساتھ حنین کی طرف جا رہا تھا جبکہ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حنین سے واپس پلٹ رہے تھے میری کسی راستے میں ان سے ملاقات ہوئی رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مؤذن نے نماز کے لیے اذان کہی ہم نے مؤذن کی آواز سنی تو اس وقت ہم ان سے کچھ دور تھے ہم نے اذان کی نقل اتارتے ہوئے اس کا مذاق اڑایا۔ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے آواز سنی تو ہمیں بلایا ہم آپ کے سامنے حاضر ہوئے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا میں نے تم میں سے کس کی اس قدر بلند آواز سنی ہے میرے ساتھیوں نے سچ بولتے ہوئے میری طرف اشارہ کیا نبی اکر م نے ان سب کو چھوڑ دیا اور مجھے وہیں روکے رکھا۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کھڑے ہو کر اذان کہیے۔ رسول اکر م (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے اذان سکھائی فرمایا کہیے اللّٰہُ أَکْبَرُ اللّٰہُ أَکْبَرُ اللّٰہُ أَکْبَرُ اللّٰہُ أَکْبَرُ أَشْہَدُ أَنْ لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ أَشْہَدُ أَنْ لَا إِلٰہََ إِلَّا اللّٰہُ أَشْہَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُول اللّٰہِ أَشْہَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُول اللّٰہِ پھر فرمایا اپنی آواز کو لمبا کرتے ہوئے دوبا رہ کہو أَشْہَدُ أَنْ لَا إِلٰہََ إِلَّا اللّٰہُ أَشْہَدُ أَنْ لَا إِلٰہََ إِلَّا اللّٰہُ أَشْہَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُول اللّٰہِ أَشْہَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُول اللّٰہِ حَیَّ عَلَی الصَّلَاۃِ حَیَّ عَلَی الصَّلَاۃِ حَیَّ عَلَی الْفَلَاحِ حَیَّ عَلَی الْفَلَاح اللّٰہُ أَکْبَرُ اللّٰہُ أَکْبَرُ لَا إِلٰہََ إِلَّا اللّٰہُ پھر آپ نے میرے لیے دعا کی جب میں نے اذان ختم کی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے ایک تھیلی دی جس میں کچھ چاندی تھی۔ میں نے عرض کی اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مجھے مکہ میں اذان کہنے کی اجازت فرمائیں۔ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میں تجھے اس پر مامور کرتا ہوں۔ میں عتاب بن اسید جو کہ مکہ میں رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مقرر کردہ عامل تھے ان کے پاس گیا، پھر میں نے ان کے پاس مکہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حکم کے مطا بق اذان کہتا۔“ [ رواہ النسائی : کتاب الاذان، باب کیف الاذان] مسائل ١۔ ایمان والے دین کے ساتھ مذاق کرنے والوں سے دوستی نہیں کرتے۔ ٢۔ ایمان والے صرف اللہ سے ڈرتے ہیں۔ ٣۔ کافر لوگ دین کا مذاق اڑاتے ہیں۔ ٤۔ کفار حقیقتاً بے عقل ہوتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن بے عقل لوگ کون ہیں : ١۔ جنہوں نے دین کو ہنسی اور کھیل بنا لیا وہ عقل والے نہیں۔ (المائدۃ: ٥٨) ٢۔ اگر ہم سنتے اور عقل کرتے تو اہل جہنم سے نہ ہوتے۔ (الملک : ١٠) ٣۔ آپ ان کو اکٹھا گمان کرتے ہیں حالانکہ ان کے دل جدا، جدا ہیں یہ قوم بے عقل ہے۔ (الحشر : ١٤) ٤۔ وہ لوگ جو آپ کو حجرات کے پیچھے سے بلاتے ہیں وہ بے عقل ہیں۔ (الحجرات : ٤) ٥۔ آپ فرما دیں سب تعریف اللہ ہی کے لیے ہے اکثر لوگ عقل نہیں رکھتے۔ (العنکبوت : ٦٣) ٦۔ ہم نے جو کتاب نازل کی ہے اس میں تمہارے لیے نصیحت ہے تم عقل کیوں نہیں کرتے۔ (الانبیاء : ١٠) ٧۔ جو اللہ کے پاس ہے وہ بہتر ہے اور باقی رہنے والا ہے تم عقل کیوں نہیں کرتے۔ (القصص : ٦٠) المآئدہ
58 المآئدہ
59 فہم القرآن ربط کلام : اہل کتاب کا گھناؤنا کردار ذکر کرنے کے بعد ان کو مزید احساس دلانے کے لیے براہ راست سوال۔ اہل کتاب سے سوال کرنے کے دو مقصد ہیں کہ انہیں اس بات کا احساس دلایاجائے کہ اسلام کو مذاق سمجھنے اور نماز اور اذان کو استہزاء کانشانہ بنانے کا تمہارے پاس کیا جواز ہے ؟ کیا اس پر تمہارے ضمیر تمہیں کوئی ملامت نہیں کرتے ؟ ہاں یہ سب کچھ اس لیے ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتے ہیں اور جو کچھ ہمیں عطا کیا گیا ہے اور جو ہم سے پہلے نازل کیا گیا ہم اس کو بھی مانتے ہیں اس کا نتیجہ یہ ہونا چاہیے تھا کہ تم دوسروں سے دو قدم آگے بڑھ کر قرآن مجید پر ایمان لاتے کیونکہ قرآن مجیدتمہاری کتابوں کی تصدیق کرتا ہے اور ہم تورات اور انجیل کو ان کے دور کی منزل من اللہ کتابیں سمجھتے ہیں۔ دنیا میں وہ شخص کتنا عاقبت نااندیش ہے جس کے نظریہ کی تائید کی جائے وہ اس پر خوش ہونے کی بجائے الٹا اپنے مؤید کی مخالفت پر کمربستہ ہوجائے اہل کتاب تمہارا یہی حال ہے دراصل تمہاری مخالفت کا بنیادی سبب یہ ہے کہ تمہاری اکثریت نافرمان لوگوں پر مشتمل ہے۔ اللہ کے نافرمان اس حد تک حقیقی شعور سے تہی دامن ہوتے ہیں کہ وہ نیکی کی بجائے فسق وفجور کے مددگار بن جاتے ہیں جن کی یہ حالت ہو وہ اللہ کی رحمت کی بجائے اس کے غضب کے سزا وارہونے کی وجہ سے انسانیت کے شرف سے محروم ہو کر بدترین مخلوق قرار پائے۔ مسائل ١۔ اہل کتاب مسلمانوں سے دین اسلام کی وجہ سے دشمنی رکھتے ہیں۔ ٢۔ اہل کتاب میں سے اکثر نافرمان ہیں۔ المآئدہ
60 فہم القرآن ربط کلام : اہل کتاب کی دنیا میں سزا اور آخرت میں بدترین انجام۔ اہل کتاب کی اکثریت ماضی کے جرائم اور اپنے آباؤاجداد کے کردار سے عبرت حاصل کرنے کی بجائے ان کے گھناؤنے کردار پر فخر کرتی ہے۔ جس وجہ سے قرآن مجید ہر دور کے اہل کتاب کو انہی میں شمار کرتا ہے چنانچہ رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ارشاد ہوا کہ آپ ان سے استفسار فرمائیں کہ کیا تمہیں ان لوگوں کے انجام سے آگاہ نہ کیا جائے جو اپنے کردار کی وجہ سے اللہ کے ہاں اس حد تک بدترین ٹھہرے کہ ان پر اللہ تعالیٰ کا غضب اور پھٹکار ہوئی۔ جس کے نتیجہ میں انہیں بندر، خنزیر اور شیطان کے بندے بنادیا گیا۔ یہ لوگ دنیا میں صراط مستقیم سے بھٹک چکے اور آخرت میں ان کا بدترین اور عبرت ناک انجام ہوگا۔ امام رازی (رح) نے مختلف ذرائع سے لکھا ہے کہ یہودیوں میں ہفتہ کے روز زیادتی کرنے والوں کو ذلیل بندر بنادیا گیا اور عیسائیوں میں جن لوگوں نے آسمانی دسترخوان کا مطالبہ کیا پھر نافرمانیوں میں آگے بڑھتے چلے گئے۔ انہیں خنزیر بنادیا گیا تھا حضرت عبداللہ بن عباس (رض) فرمایا کرتے تھے کہ امت محمدیہ کے لوگ خنزیر اور بندر تو نہیں بنائے جائیں گے لیکن ان کا ذہن بندروں کی طرح شریر اور ان کا کردار خنزیروں کی طرح بے حمیت ہوجائے گا۔ یہ بات سورۃ البقرہ آیت نمبر ٦٥، ٦٦ میں بیان ہوچکی ہے کہ جس قوم کی اللہ تعالیٰ شکلیں مسخ کرتا ہے وہ تین دن سے زیادہ زندہ نہیں رہا کرتے۔ اس لیے جن لوگوں نے بندر اور خنزیر کی نسل کو یہود و نصاریٰ کے ساتھ وابستہ کرنے کی کوشش کی ہے ان کا نقطۂ نگاہ کسی اعتبار سے پایۂ ثبوت کو نہیں پہنچتا۔ مسائل ١۔ طاغوت کی عبادت کرنے والوں پر اللہ تعالیٰ کی لعنت اور پھٹکارپڑتی ہے۔ ٢۔ طاغوت کی عبادت کرنے والوں میں سے اللہ تعالیٰ نے بعض کو بندر اور بعض کو خنزیر بنادیا۔ ٣۔ طاغوت کی عبادت کرنے والے سب سے بدتر اور سیدھی راہ سے بھٹکے ہوتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن اللہ کے راستے سے گمراہ لوگ : ١۔ جو ایمان کو کفر کے ساتھ بدل دے وہ سیدھے راستہ سے گمراہ ہوگیا۔ (البقرۃ: ١٠٨) ٢۔ جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرتا ہے وہ دور کی گمراہی میں مبتلا ہوا۔ (النساء : ١١٦) ٣۔ جو اللہ کے ساتھ کفر کرے وہ دور کی گمراہی میں جا پڑا۔ (النساء : ١٣٦) ٤۔ اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرنے والاگمراہ ہوگیا۔ (الاحزاب : ٣٦) ٥۔ جس کو اللہ گمراہ کرے اس کو کوئی ہدایت دینے والا نہیں۔ (الرعد : ٣٣) ٦۔ اللہ تعالیٰ کی بیان کردہ مثال کے ساتھ فاسق ہی گمراہ ہوتے ہیں۔ ( البقرۃ: ٢٦) ٧۔ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کیے ہوئے عہد کو پامال کرنے والا سیدھے راستہ سے بھٹک جاتا ہے۔ (المائدۃ: ١٢) ٨۔ کفار سے دوستی کرنے والا سیدھی راہ سے دور چلا جاتا ہے۔ (الممتحنۃ: ١) ٩۔ دین کے معاملات میں غلو کرنے والا سیدھی راہ سے گمراہ ہوجاتا ہے۔ (المائدۃ : ٧٧) ١٠۔ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی اور کو شریک ٹھہرانے والا سیدھے راستہ سے بھٹک گیا۔ (ابراہیم : ٣٠) المآئدہ
61 فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ کی رحمت سے دوری اور اپنی طبیعتوں کی مکاری کی وجہ سے اہل کتاب گناہ، ظلم اور حرام خوری میں آگے ہی بڑھتے جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی لعنت اور اس کے غضب میں مغضوب لوگوں کی شکلیں تبدیل نہ بھی ہوں تو بھی برے اعمال کی وجہ سے شیطان کے بندے اور غلام بن جاتے ہیں۔ جس وجہ سے وہ کفر اور ایمان کے درمیان تمیز نہیں کرسکتے ان کی اکثریت کی حالت یہ ہوتی ہے کہ وہ گناہ، زیادتی اور اکل حرام میں بڑے مستعد اور تیز رفتار ہوتے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ وہ کفر اور اسلام میں امتیاز نہیں کرتے اور اس غلط فہمی کا شکار رہتے ہیں کہ ان کا کردار لوگوں کی نگاہوں سے پوشیدہ ہے۔ جس کے متعلق انہیں انتباہ کیا گیا ہے ہوسکتا ہے تمہارا برا کردار مومنوں کی نظروں سے اوجھل رہ جائے۔ لیکن یاد رکھنا تمہاری کوئی حرکت اللہ تعالیٰ سے پوشیدہ نہیں ہے اللہ تمہارے جھوٹے دعوے کو خوب جانتا ہے۔ جس کا تم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے اظہار کرتے ہو۔ حالانکہ تمہاری حالت یہ ہے کہ جب تم ایمان کا اظہار کر رہے ہوتے ہو تو اس وقت بھی تم کفر کی حالت میں ہوتے ہو۔ جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مجلس سے اٹھ کر جاتے ہو تب بھی تم کفر ہی میں مبتلا ہوتے ہو۔ امام رازی (رض) نے ” اثم“ سے مراد عام گناہ لیا ہے اور ” عدوان“ کا معنیٰ یہ کرتے ہیں کہ ایسا گناہ جس کے اثرات لوگوں پر مرتب ہوتے ہوں اور اس میں زیادتی کا عنصر بھی پایاجائے۔” سحت“ کا معنی رشوت اور حرام خوری کیا گیا ہے۔ (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ لَعَنَ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) الرَّاشِیَ وَالْمُرْتَشِیَ)[ رواہ الترمزی : کتاب الاحکام عن رسول اللہ، باب ماجاء فی الراشی والمرتشی] ” حضرت عبداللہ بن عمر و بیان کرتے ہیں رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے رشوت لینے اور دینے والے پر لعنت فرمائی ہے۔“ مسائل ١۔ محض زبانی دعویٰ کرنے سے کوئی شخص مومن نہیں بنتا۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ چھپی ہوئی چیزوں کو جانتا ہے۔ ٣۔ اہل کتاب کی اکثریت گناہ اور زیادتی کے کاموں اور حرام خوری میں تیز ہے۔ ٤۔ گناہ وزیادتی اور حرام خوری برے عمل ہیں۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ ہر پوشیدہ چیز کو جانتا ہے : ١۔ اللہ ہی غیب کا جاننے والا ہے۔ (الجن : ٢٦) ٢۔ کیا لوگوں کو معلوم نہیں کہ اللہ تعالیٰ پوشیدہ چیزوں کو جانتا ہے۔ (التوبۃ: ٧٨) ٣۔ غیب کی چابیاں اللہ ہی کے پاس ہیں اس کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ (الانعام : ٥٩) ٤۔ اگر میں غیب جانتا ہوتا تو بہت ساری بھلائیاں اکٹھی کرلیتا۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اعلان۔ (الاعراف : ١٨٨) ٥۔ یہ غیب کی باتیں ہیں جو ہم آپ کی طرف وحی کرتے ہیں۔ (ھود : ٤٩) ٦۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) غیب نہیں جانتے۔ (ھود : ٣١) ٧۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرما دیں کہ ہر قسم کا غیب اللہ ہی جانتا ہے۔ (یونس : ٢٠) المآئدہ
62 المآئدہ
63 فہم القرآن ربط کلام : اہل کتاب کے عوام کا کردار بیان کرنے کے بعد ان کے علماء اور نام نہاد صلحاء کے گھناؤنے کردار کا تذکرہ۔ علامہ بیضاوی (رح) ” لولا“ کے الفاظ پر بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اگر یہ الفاظ ماضی پر داخل ہوں تو اس کا معنی انتباہ (Warning) ہوتا ہے اگر یہ الفاظ مضارع پر وارد ہوں تو اس کا معنی کسی کو آمادہ اور کام پر اکسانا ہوتا ہے۔ ربی کی جمع ربیون ہے یہودی اپنے عالم کو ربی کہہ کر بلاتے ہیں اور حِبَرْ کی جمع احبار ہے جس کا معنی ہے تارک الدنیا اور درویش۔ یہ اصطلاح عام طور پر عیسائیوں میں استعمال ہوتی ہے۔ بعض اہل علم کا خیال ہے کہ ربی اور احبار یہود یوں کی اصطلاحات ہیں بہرحال یہاں یہود ونصاریٰ کے علماء اور نام نہاد صلحاء کو مخاطب کرتے ہوئے ترغیب دی جارہی ہے کہ تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ تم لوگوں کو برائی اور حرام خوری سے منع نہیں کرتے۔ تمہیں اپنے برے کردار پرنظرثانی کرنی چاہیے کیونکہ ایسا کردار کسی شریف آدمی کو زیب نہیں دیتا بالخصوص علماء اور صلحاء کی شان کے بالکل منافی ہے۔ علماء کا کام تو لوگوں کی اصلاح اور فلاح کی کوشش کرنا ہے۔ (عَنْ أَبِی سَعِیدِنِ الْخُدْرِیِّ أَنَّ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ إِنَّ مِنْ أَعْظَمِ الْجِہَادِ کَلِمَۃُ عَدْلٍ عِنْدَ سُلْطَانٍ جَاءِرٍ) [ رواہ الترمذی : کتاب الفتن عن رسول اللہ، باب ماجاء فی افضل الجہاد کلمۃ عدل عند سلطان جائر] ” حضرت ابوسعید خدری (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جابر سلطان کے سامنے عدل کی بات کہنا بڑا جہاد ہے۔“ (عَنْ عُمَارَۃَ بْنِ رُؤَیْبَۃَ قَالَ رَأَی بِشْرَ بْنَ مَرْوَان َ عَلَی الْمِنْبَرِ رَافِعًا یَدَیْہِ فَقَالَ قَبَّحَ اللّٰہُ ہَاتَیْنِ الْیَدَیْنِ لَقَدْ رَأَیْتُ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَا یَزِیدُ عَلَی أَنْ یَقُولَ بِیَدِہِ ہَکَذَا وَأَشَارَ بِإِصْبَعِہِ الْمُسَبِّحَۃِ)[ رواہ مسلم : کتاب الجمعۃ، باب تَخْفِیف الصَّلاَۃِ وَالْخُطْبَۃِ] ” حضرت عمارہ بن رویبہ (رض) کہتے ہیں انہوں نے بشر بن مروان (رض) کو دونوں ہاتھ منبر پر اٹھاتے ہوئے دیکھا تو انھوں نے کہا اللہ ان دو نوں ہا تھوں کو تباہ کردے میں نے رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیکھا وہ صرف اپنے ہاتھ کی شہادت کی انگلی کے ساتھ اشارہ کیا کرتے تھے۔“ ( عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَسْعُودٍ (رض) قَالَ قَالَ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لَمَّا وَقَعَتْ بَنُو إِسْرَاءِیلَ فِی الْمَعَاصِی نَہَتْہُمْ عُلَمَاؤُہُمْ فَلَمْ یَنْتَہُوا فَجَالَسُوہُمْ فِی مَجَالِسِہِمْ وَوَاکَلُوہُمْ وَشَارَبُوہُمْ فَضَرَبَ اللّٰہُ قُلُوبَ بَعْضِہِمْ بِبَعْضٍ وَلَعَنَہُمْ عَلٰی لِسَانِ دَاوُدَ وَعِیسَی ابْنِ مَرْیَمَ ذٰلِکَ بِمَا عَصَوْا وَّکَانُوا یَعْتَدُونَ قَالَ فَجَلَسَ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وَکَانَ مُتَّکِءًا فَقَالَ لَا وَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِہِ حَتَّی تَأْطُرُوہُمْ عَلَی الْحَقِّ أَطْرًا) [ رواہ الترمذی : کتاب التفسیر، باب و من سورۃ المائدۃ ] ” حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب بنی اسرائیل کے لوگ گناہوں میں مبتلا ہوئے تو ان کے علماء نے ان کو روکاجب وہ نہ رکے۔ ان کے علماء نے بھی ان کی مجالس میں بیٹھنا شروع کردیا حتیٰ کہ ان کے ساتھ ہی کھانا پینا شروع کردیا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں میں با ہم نفرت ڈال دی۔ حضرت داؤد اور عیسیٰ (علیہ السلام) کے ذریعے ان پر لعنت فرمائی یہ اس وجہ سے کہ یہ گناہ اور زیادتی کرنے والے تھے۔ حضرت عبداللہ کہتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ٹیک لگا کر تشریف فرما تھے سیدھے بیٹھ کر آپ نے فرمایا نہیں اس ذات کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے! یہاں تک کہ تم ان کے خلاف حق کی خاطر پوری طرح ڈٹ جاؤ۔“ (عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ یَزِیدَ أَنَّہَا سَمِعَتِ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَقُولُ مَنْ شَرِبَ الْخَمْرَ لَمْ یَرْضَ اللّٰہُ عَنْہُ أَرْبَعِینَ لَیْلَۃً فَإِنْ مَاتَ مَاتَ کَافِرًا وَإِنْ تَابَ تَاب اللّٰہُ عَلَیْہِ) [ مسند احمد : کتاب من مسند القبائل، باب من حدیث اسماء بنت یزید] ” حضرت اسماء بنت یزید فرماتی ہیں میں نے نبی مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا آپ نے فرمایا جو بھی شراب پیے اللہ تعالیٰ اس سے چالیس دن تک راضی نہیں ہوگا۔ اگر وہ مر گیا تو وہ کفر کی حالت میں مرے گا۔ اگر اس نے توبہ کی تو اللہ تعالیٰ اس کی توبہ کو قبول فرمائے گا۔“ (عَنْ أَبِیْ سَعِیدٍ الْخُدْرِیُّ (رض) سَمِعْتُ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَقُولُ مَنْ رَأَی مُنْکَرًا فَغَیَّرَہُ بِیَدِہِ فَقَدْ بَرِءَ وَمَنْ لَمْ یَسْتَطِعْ أَنْ یُغَیِّرَہُ بِیَدِہِ فَغَیَّرَہُ بِلِسَانِہِ فَقَدْ بَرِءَ وَمَنْ لَمْ یَسْتَطِعْ أَنْ یُغَیِّرَہُ بِلِسَانِہِ فَغَیَّرَہُ بِقَلْبِہِ فَقَدْ بَرِءَ وَذَلِکَ أَضْعَفُ الإِیمَانِ) [ رواہ النسائی : باب تَفَاضُلِ أَہْلِ الإِیمَانِ] ” حضرت ابو سعید خدری (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا آپ نے فرمایا جس شخص نے برائی کو دیکھا تو اس نے اسے اپنے ہاتھ سے ختم کیا تو وہ بری ہوگیا اور اگر اس نے اس برائی کو ہاتھ سے روکنے کی طاقت نہیں پائی تو اس نے اسے اپنی زبان سے روکا تو وہ بھی بری ہوگیا اگر اس نے زبان سے روکنے کی طاقت نہ پائی تو اس نے اسے اپنے دل سے برا جانا تو وہ بھی بری ہوگیا اور یہ سب سے کمتر ایمان ہے۔“ مسائل ١۔ درویشوں اور علماء لوگوں کو حرام خوری اور برے کاموں سے منع کرنا چاہیے۔ ٢۔ برائی سے نہ روکنا بھی برائی ہے۔ المآئدہ
64 فہم القرآن ربط کلام : یہودیوں کے علماء کا کردار اور عوام کی اصلاح سے عدم التفات کی وجہ سے ان کے عوام پر لے درجے کے گستاخ ہوچکے ہیں۔ یہودی زبان درازی اور شقاوت قلبی کے اعتبار سے اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ مطلب براری کے لیے انتہائی لجاجت اور میٹھی زبان کا مظاہرہ کرتے ہیں لیکن جونہی مطلب نکل جائے تو اپنا خبث باطن ظاہر کرنے اور دوسرے کو زیر کرنے میں ذرا تامل نہیں کرتے۔ ان کی گستاخیوں کا سورۃ البقرۃ کی تفسیر میں قدرے ذکر ہوا ہے۔ یہ نہ صرف انبیاء کے گستاخ اور قاتل ہیں بلکہ مشکل وقت آنے پر اللہ تعالیٰ کے بارے میں ہرزہ سرائی کرتے ہوئے ذرہ برابر جھجھک محسوس نہیں کرتے۔ چنانچہ جونہی اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو رزق کی کشادگی سے نوازا اور یہودیوں کی تجارت اور کاروبار محدود ہوا تو انہوں نے اپنی اصلاح کرنے کی بجائے برملا اس گستاخی کا اظہار کیا کہ ہمارے رزق میں کمی اور تجارت میں اس لیے خسارہ ہوا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ بند کرلیے ہیں خاکم بدہن بقول ان کے اللہ تعالیٰ کنجوس اور بخیل ہوگیا، ان کے جواب میں یہ فرمایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ہاتھ کشادہ ہیں اور وہ ہر وقت مخلوق کو اپنی عطاؤں سے نواز رہا ہے اگر وہ اپنے جود وکرم کا ہاتھ ایک لمحہ کے لیے بند کرلے تو دنیا کی کوئی چیز باقی نہ رہے۔ جہاں تک رزق کی کمی و بیشی کا تعلق ہے اس میں اس کی حکمت کار فرما ہے اور اکثر اوقات انسان کی اپنی کمی کمزوری کا دخل ہوتا ہے۔ جہاں تک یہودیوں کی فطرت کا معاملہ ہے یہودی بظاہر کتنا ہی مالدار کیوں نہ ہو وہ پرلے درجے کا کنجوس اور اس کی سیاست اور کاروباری معاملات پر لوگ لعنت ہی کیا کرتے ہیں۔ اسی کا سبب ہے کہ یہ قرآن مجید سے خاص عداوت رکھتے ہیں اس کے ساتھ ہی یہود ونصاریٰ آپس میں خاص کر یہودیوں کے درمیان بے انتہا اختلافات ہیں۔ ایک مذہب پر ہونے کے باوجود اللہ تعالیٰ کی لعنت کے سبب ایک دوسرے کے ساتھ انتہائی حسد اور بغض رکھتے ہیں اور دنیا میں جس قدر جنگ وجدال ہوتا ہے اس میں کسی نہ کسی صورت میں یہودیوں کا ہاتھ کار فرما ہوتا ہے۔ یہاں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ اطمینان دلایا گیا ہے کہ ان کی خباثتوں سے ڈرنے کی ضرورت نہیں یہ جب آپ کو کسی سازش اور لڑائی میں جھونکنے کی کوشش کریں گے اللہ تعالیٰ آپ کو اس آگ سے بچالے گا لیکن اس کے باوجود یہ دنیا میں لڑائی اور فساد کرتے رہیں گے اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو ہرگز پسند نہیں کرتا۔ یہودیوں کی سازشوں اور شرارتوں سے محفوظ رکھنے کا وعدہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ خاص نہیں بلکہ آج بھی مسلمان رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بتلائے ہوئے طریقہ کو اختیار کرلیں تو اللہ تعالیٰ انہیں بھی یہودیوں کی سازشوں سے محفوظ کرے گا۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ کے بارے میں غلط نظریہ رکھنے کی وجہ سے یہود پر لعنت وپھٹکار ہوئی۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ جیسے چاہتا ہیں رزق عطا کرتا ہے۔ ٣۔ قرآن مجید کے نازل ہونے کے بعد اہل کتاب کی کفروسرکشی میں اضافہ ہوگیا۔ ٤۔ اہل کتاب میں سے اکثر فساد کرانے میں لگے رہتے ہیں۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ فساد کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ المآئدہ
65 فہم القرآن ربط کلام : اہل کتاب گستاخیاں اور نافرمانیاں کرنے کی بجائے ایمان اور تقویٰ کی راہ اختیار کرتے تو آخرت میں ہی نہیں دنیا میں بھی جنت کی جھلک پاتے۔ اگر اہل کتاب اللہ تعالیٰ کی نافرمانیاں کرنے کی بجائے اس کی نازل کردہ ہدایات پر ایمان لاتے اور اجتماعی زندگی میں تورات وانجیل کانفاذ کرتے تو دنیا و آخرت کے ثمرات سے سرفراز کیے جاتے۔ اہل کتاب کے جرائم کی وجہ سے ان میں سے کچھ لوگوں کو دنیا میں بندر اور خنزیر بنادیا گیا اور باقی کے درمیان ہمیشہ کے لیے حسد وبغض اور عداوت ودشمنی پیدا کردی گئی۔ اب اس کا نتیجہ ہے کہ یہ لوگ دنیا میں دنگا فساد برپا کرنے کے درپے رہتے ہیں حالانکہ چاہیے یہ تھا کہ یہ لوگ اللہ تعالیٰ کی ہدایات پر ایمان لاتے اور اپنے دور میں تورات وانجیل کو اپنے لیے ضابطۂ حیات مقرر کرتے تونہ صرف ان کے گناہ معاف کردیے جاتے۔ بلکہ دنیا میں بھی بابرکت رزق سے مستفید ہوتے اور آخرت میں اللہ تعالیٰ انہیں جنت کی نعمتوں سے سرفراز فرماتے۔ یہاں دنیا کی فراوانی کے لیے فرمایا ہے کہ یہ لوگ اپنے اوپر، نیچے سے رزق پاتے یعنی زمین ان کے لیے اپنے خزانے اگلتی اور آسمان سے اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کا نزول ہوتا جس کی ظاہری شکل بارش کابر وقت ہونا اور لوگوں کا آفاقی آفتوں سے محفوظ رہنا ہے۔ اس کے لیے شرط یہ تھی کہ سچے ایمان کے ساتھ وہ تورات اور انجیل کو اجتماعی زندگی میں بالفعل نافذ کرتے۔ یہی اقامت دین کا مفہوم ہے لیکن انہوں نے انفرادی زندگی میں بداعمالیوں کو اپنا یا اور اجتماعی زندگی میں دین کو کلیتاً خارج کردیا دوسرے لفظوں میں نظام حکومت سے تورات اور انجیل کو نکال کر اپنی مرضی کے قوانین نافذ کیے۔ یوں ان کی پوری زندگی تورات اور انجیل کے احکامات سے خالی ہوگی۔ جس کے نتیجے میں ان کے کردار سے دیانت وامانت، شرم وحیا اور شرافت ونجابت کا خاتمہ ہوا۔ دنیا کی فراوانی کے باوجود ان سے برکت اٹھالی گئی تاہم ان میں ایسے خوش قسمت بھی ہیں جنہوں نے اعتدال کا رویہ اختیار کرتے ہوئے نہ صرف تورات وانجیل پر عمل کیا بلکہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لا کر دونوں جہانوں میں سرخرو ہوئے۔ (عن ابی ہُرَیْرَۃ َ یَقُولُ قَالَ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حَدٌّ یُعْمَلُ فِی الْأَرْضِ خَیْرٌ لِأَہْلِ الْأَرْضِ مِنْ أَنْ یُمْطَرُوا ثَلَاثِینَ صَبَاحًا)[ رواہ النسائی : کتاب قطع السارق، باب الترغیب فی اقامۃ الحد) ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کیا کرتے تھے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا زمین پر ایک حد کا نفاذ اہل دنیا کے لیے تیس دن کی بارش سے بھی بہتر ہے۔“ (یہاں تیس دن کی بارش سے مراد مناسب وقت پر بارشوں کا ہونا ہے۔ ) (حَدَّثَنِی أَبُو بُرْدَۃَ (رض) عَنْ أَبِیہِ قَالَ قَالَ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ثَلاَثَۃٌ لَہُمْ أَجْرَانِ رَجُلٌ مِنْ أَہْلِ الْکِتَابِ آمَنَ بِنَبِیِّہِ وَآمَنَ بِمُحَمَّدٍ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)۔۔)[ رواہ البخاری : باب تَعْلِیم الرَّجُلِ أَمَتَہُ وَأَہْلَہُ] ” حضرت ابو بردہ (رض) اپنے باپ سے بیان کرتے ہیں انھوں نے کہا رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تین آدمیوں کے لیے دوہرا اجر ہے ایک وہ آدمی جس کا تعلق اہل کتاب سے وہ اپنے نبی پر بھی ایمان لایا اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر بھی ایمان لایا۔۔“ مسائل ١۔ ایمان وتقویٰ اختیار کرنے سے اللہ تعالیٰ گناہ مٹا دیتا ہے۔ ٢۔ ایمان و تقویٰ کی وجہ سے اللہ تعالیٰ جنت کا داخلہ عطا فرمائے گا۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ کی کتاب پر عمل کرنے کی وجہ سے رزق میں فراوانی ہوتی ہے۔ ٤۔ اہل کتاب کی اکثریت بدعمل ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ کے قانون قصاص میں دنیوی فائدے : ١۔ قصاص لینا فرض ہے اور اس میں تمہاری زندگی ہے۔ (البقرۃ: ١٧٨) ٢۔ قصاص میں برابری ضروری ہے۔ (البقرۃ: ١٧٨) ٣۔ اگر کوئی تم پر زیادتی کرے تم بھی واپسی اس پر زیادتی کرسکتے ہو۔ (البقرۃ: ١٩٤) ٤۔ بدلہ لینا ضروری ہے جو معاف کردے یہ اس کے گناہوں کا کفارہ ہوگا۔ (المائدۃ: ٤٥) ٥۔ دیت قبول کرنے کے بعد زیادتی کرنے والے کو دردناک عذاب ہوگا۔ (البقرۃ: ١٧٨) المآئدہ
66 المآئدہ
67 فہم القرآن ربط کلام : اس سے پہلے آیت ٥٨ میں مسلمانوں کی طرف یہود ونصارٰی کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ تم ہماری اس لیے مخالفت کرتے ہو کہ ہم اپنے رب پر کامل ایمان رکھتے ہیں۔ پھر یہو دو نصارٰی کی با ہمی دشمنی کا ذکر کیا ہے اور سمجھایا ہے کہ اگر یہ لوگ اپنے زمانے میں تورات اور انجیل پر عمل کرتے تو دنیا اور آخرت کی نعمتوں سے ہم کنار ہوتے۔ اب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرمایا جارہا ہے کہ آپ ان کی پرواہ کیے بغیر اپنا کام جاری رکھیں اللہ تعالیٰ آپ کی حفاظت فرمائے گا۔ الرّسول سے مراد سرور دوعالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات اقدس ہے یہاں لفظ الرّسول استعمال فرما کر آپ کو باور کروایا گیا ہے کہ آپ اللہ تعالیٰ کے رسول یعنی اس کی طرف سے پیغام رساں ہیں، لہٰذا حالات جیسے بھی ہوں اور دشمن کتنا ہی طاقتور اور مخالف کیوں نہ ہو آپ کو ہر حال میں لوگوں تک اپنے رب کا پیغام من وعن پہنچانا ہے۔ اگر آپ نے اس میں ذرہ برابر کوتاہی کی تو اس کا یہ معنی ہوگا کہ آپ نے رسالت کا حق ادا نہیں کیا۔ یہ آیت مبارکہ اعلان نبوت کے پندرہ سال بعد غزوۂ احد کے معرکہ کے بعد نازل ہوئی۔ اس سے پہلے آپ قدم بقدم رسالت کا فریضہ سرانجام دیتے ہوئے بڑے بڑے مصائب کا مقابلہ کرتے رہے۔ یہاں تک کہ آپ مدینہ طیبہ میں تشریف لائے یہاں کے حالات کے پیش نظر آپ کے ساتھ مسلح پہرے دار موجود ہوتے تھے جب تک اللہ تعالیٰ نے واضح اعلان نہیں فرمایا اس وقت تک یہ سلسلہ جاری رہا جب آپ کی حفاظت کا فرمان نازل ہوا تو آپ نے اپنا پہرہ ہٹاتے ہوئے فرمایا کہ اب مجھے پہرہ کی ضرورت نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے میری حفاظت کا ذمہ لیا ہے۔ حدیث کی مقدس دستاویزات اور سیرت طیبہ سے سے پتہ چلتا ہے کہ کیسے کٹھن حالات میں آپ نے لوگوں کی اصلاح اور فلاح کے لیے کام کیا اور جتنے آپ پر شب خون مارے گئے اور حملے کیے گئے شاید ہی دنیا کے کسی مصلح پر اتنے حملے کیے گئے ہوں۔ مفسر قرآن مولانا عبدالرحمن کیلانی نے اپنی تفسیر میں اسی آیت کے ضمن میں جن المناک واقعات کا تفصیلی احاطہ کیا ہے ان کا خلاصہ پیش خدمت ہے۔ ١۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات اقدس پر پہلا حملہ اس وقت ہوا جب آپ نے حرم کعبہ میں جا کر توحید کا اعلان کیا جس سے مکہ میں ہلچل پیدا ہوئی اور لوگ آپ پر حملہ آور ہوئے حضرت خدیجہ (رض) کے پہلے خاوند سے بیٹے حارث بن ابی حالہ آپ کا دفاع کرتے ہوئے شہید ہوگئے یہ اسلام کے پہلے شہید تھے۔ (الاصابہ فی تمیز الصحابہ ) ٢۔ ابوجہل نے پتھر سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا سر مبارک کچلنے کی کوشش کی حالانکہ آپ بارگاہ ایزدی میں سجدہ ریز تھے جو نہی وہ آگے بڑھا تو ایک خونخوار اونٹ اس کو دبوچنے کے لیے دوڑا آرہا تھا ابو جہل گھبرا کر پیچھے کی طرف بھاگا۔ اپنے ساتھیوں کے پوچھنے پر اس نے بتایا کہ اگر میں ایک قدم اور آگے بڑھتا تو اونٹ مجھے کھا جاتا۔ میں نے اتنا خوفناک اونٹ آج تک نہیں دیکھا (ابن ہشام۔ الرحیق المختوم ) ٣۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بیت اللہ میں کھڑے ہو کر توحید کا پیغام سنارہے تھے کہ مشرکین آپ پر ٹوٹ پڑے جن میں عقبہ بن ابی معیط نے آپ کے گلے میں کپڑا ڈال کر اتنے بل دیے کہ آپ کا چہرہ مبارک خون سے سرخ ہوگیا اور بے ساختہ آواز نکل گئی اس موقع پر اچانک حضرت ابوبکر صدیق (رض) آن پہنچے۔ انہوں نے آپ کو چھڑانے کی کوشش کی جس پہ ان کو اس قدر پیٹا گیا کہ وہ کئی دن تک اٹھنے کے قابل نہ رہے۔ (رواہ البخاری : کتاب المناقب فضائل ابو بکر) ٤۔ جناب عمر (رض) کا مشہور واقعہ کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو قتل کرنے کے ارادے سے باہر نکلے۔ راستے میں انہیں بتایا گیا کہ تمہاری بہن اور بہنوئی مسلمان ہوچکے ہیں جسے سنتے ہی عمر اپنی بہن کے گھر گئے اور بہن اور بہنوئی کو پیٹنا شروع کردیا۔ ٥۔ آپ کی عظیم جدوجہد سے مجبور ہو کر مکے کے زعماء ابوطالب کے پاس جا کر پیشکش کرتے ہیں کہ آپ مکہ کے نامور سردار ولید بن مغیرہ کے بیٹے عمارہ کو قبول فرمائیں اور اس کے بدلے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہمارے حوالے کردیں۔ ان کا مقصد رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو قتل کرنا تھا۔ (ابن ہشام، الرحیق المختوم) ٦۔ ہجرت سے پہلے رات کے وقت آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے گھر کا گھیراؤ کرنا تاکہ آپ صبح کے وقت نکلیں تو یکبارگی حملہ کرکے آپ کا کام تمام کردیا جائے (الانفال آیت ٣٠ کی تفسیر دیکھئے) ٧۔ ہجرت کے دوران ١٠٠ اونٹ کے لالچ میں سراقہ بن مالک کا پیچھا کرنا تاکہ زندہ یا قتل کرنے کی صورت میں انعام حاصل کیا جائے (بخاری کتاب الانبیاء باب ہجرت النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ٨۔ غزوۂ بدر کے بعد صفوان بن امیہ کا عمیر بن وہب کو قتل کے ارادے سے مدینہ بھیجناعمیر جب آپ کے پاس پہنچا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بذریعہ وحی اسے پوری بات بتلائی کہ صفوان بن امیہ نے تیرا قرض چکانے اور اہل وعیال کی ذمہ داری اٹھائی ہے تاکہ تو مجھے قتل کردے یہ سن کر عمیر بن وہب ششدر رہ گیا۔ اس نے اس بات کا اقرار کیا اور ساتھ ہی مسلمان ہونے کا اعلان کیا۔ تفصیل جاننے کے لیے ابن ہشام اور الرحیق المختوم کی طرف رجوع کریں۔ ٩۔ ثمامہ بن اثال کی گرفتاری کا مشہور واقعہ ہے جس کی تفصیل میں الرحیق کے مصنف لکھتے ہیں کہ یہ بھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو قتل کرنے کے ارادے سے نکلا تھا لیکن گرفتار ہوگیا اور آپ کا حسن اخلاق دیکھ کر مسلمان ہوگیا۔ ١٠۔ مدینہ میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک قضیہ کے تصفیہ کے لیے یہودیوں کے محلے میں تشریف لے گئے آپ کی گفتگو کے دوران یہودیوں نے ایک آدمی کی ڈیوٹی لگائی کہ وہ چپکے سے مکان پر چڑھ کر بھاری پتھر لڑھکائے جس سے آپ جانبر نہ ہوسکیں لیکن بذریعہ وحی آپ کو خبر ہوئی آپ اس سے پہلے ہی اٹھ کر چلے آئے۔ (الرحیق المختوم) ١١۔ خیبر کے موقع پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ختم کرنے کے لیے یہودی عورت کا آپ کی دعوت کرنا جس میں زہر ملا دیا گیا تھا لیکن لقمہ منہ میں ڈالتے ہی آپ کو احساس ہوا جس سے آپ نے کھانا چھوڑ دیا تاہم یہ زہر اس قدر ہلاکت انگیز تھا کہ وفات کے وقت بھی آپ نے اس کے زہریلے اثرات بڑی شدت کے ساتھ محسوس فرمائے۔ (بخاری کتاب الطب) ١٢۔ صلح حدیبیہ کے بعد اشاعت دین کے لیے رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مختلف حکمرانوں کو مراسلات لکھے جن میں ایران کے فرما نروا خسرو پرویز کو بھی خط لکھا اس نے نہ صرف آپ کا نامہ مبارک پھاڑ دیا بلکہ یمن کے گورنر کو حکم دیا کہ نبوت کے دعویدار کو گرفتار کرکے میرے پاس بھیجا جائے تب یمن کے اہلکاروں نے آپ کے پاس آکر خسروپرویز کا حکم نامہ سناتے ہوئے کہا کہ اگر آپ نے گرفتاری پیش نہ کی تو آپ کے علاقے کو تہس نہس کردیا جائے گا۔ (ابن ہشام، بخاری) ١٣۔ یہود کی تمام سازشیں اور شرارتیں ناکام ہوگئیں تو انہوں نے ایک بہت بڑے جادوگر کے ذریعے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر جادو کا ایسا وار کیا جس سے کئی ہفتے آپ کی طبیعت انتہائی پریشان، مضمحل اور بے چین رہی، رات کی نینداڑ گئی اور دن کا چین جاتارہا اس حالت میں جبریل امین تشریف لائے اور انہوں نے جادو کا علاج بتلاتے ہوئے اس کنویں کی نشاندہی فرمائی جہاں آپ کا مجسمہ بنا کر آپ کے بالوں کو گرہیں دیتے ہوئے جادو کیا گیا تھا۔ تفصیل جاننے کے لیے (رواہ البخاری : کتاب بدء الخلق، کتاب الادب) (میری کتاب جادو کی تباہ کاریاں اور ان کا شرعی حل) ١٤۔ غزوہ ذات الرقاع سے واپسی پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اسلحہ اتار کر ایک درخت کے نیچے آرام فرماتھے کہ ایک دشمن قبیلے کا آدمی موقعہ پاکر آپ کی تلوار لہراتے ہوئے کہتا ہے کہ اب تجھے مجھ سے کون بچا سکتا ہے ؟ آپ نے کسی مرعوبیت کے بغیر فرمایا اللہ ہی مجھے بچانے والا ہے یہ سنتے ہی اس کے ہاتھ سے تلوار چھوٹ گئی وہ معافی کا خواستگار ہوا آپ نے اسے معاف کردیا بعض روایات کے مطابق وہ شخص آپ کا حسن اخلاق دیکھ کر مسلمان ہوگیا۔ (رواہ البخاری : کتاب الجہاد) ١٥۔ عمیر بن وہب کا واقعہ نمبر ٨ گزر چکا ہے اس کا بیٹا فضالہ فتح مکہ کے موقع پر کافر تھا فتح کے بعد جب آپ بیت اللہ کا طواف کر رہے تھے تو اس نے آپ کو قتل کرنے کا ارادہ کیا جسے آپ بھانپ گئے آپ نے اسے قریب بلاکر اس کے مذموم ارادے سے متنبہ فرمایا تو وہ فوراً مسلمان ہوگیا۔ (الرحیق المختوم ) ١٦۔ اسلام کا پیغام حجاز کی سرزمین سے گزر کر روم کی سرحدات میں پہنچ چکا تھا جس وجہ سے روم کے حکمران اپنے لیے خطرہ محسوس کر رہے تھے انہوں نے حفظ ما تقدم کے طور پر اپنی افواج کو پیش قدمی کے لیے تیار کیا اس صورت حال کو دبانے کے لیے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ٣٠٠٠٠ ہزار مجاہدین لے کر روم کے دروازے پر دستک دی آپ کا جرأتمندانہ اقدام دیکھ کر رومی سامنے آنے کی تاب نہ لا سکے۔ کچھ دن قیام کرنے کے بعد آپ مدینہ واپس آرہے تھے کہ رات کی تاریکی میں منافقوں نے آپ کو شہید کرنے کا منصوبہ بنایا کہ جب آپ کسی تنگ گزرگاہ کے درمیان پہنچیں تو آپ پر یکبارگی حملہ کردیا جائے منافقوں کے جتھے نے چہرے چھپائے ہوئے تھے تاہم وحی کے ذریعے آپ کو اطلاع ہوئی تو آپ نے حذیفہ بن یمان کو حکم دیا کہ منافقوں کی سواریوں کو دور ہانک دیاجائے۔ اس کے ساتھ ہی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں منافقوں کے نام بتائے اور کریمانہ اخلاق کا مظاہرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ ان کے نام کسی اور کو نہ بتلائے جائیں۔ (رواہ مسلم : کتاب صفۃ المنافقین، ابن ہشام، الرحیق المختوم) ١٧۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلاف آخری سازش عامر بن طفیل نے تیار کی جس نے بئر معونہ کے مقام پر ستر قرّاء کو شہید کر وایا یہ ایک وفد لے کر مدینہ آیا اور منصوبے کے تحت آپ سے گفتگو کر رہا تھا کہ اس کے ایک ساتھی نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پیچھے ہو کر تلوار کا وار کرنا چاہا جس کی بذریعہ وحی آپ کو خبر ہوگئی آپ نے ان کی سازش کو بے نقاب کرتے ہوئے درگزر سے کام لیا تاہم اس کے لیے بددعا کی جس کی وجہ سے وہ ذلیل ہو کر مرا۔ (رواہ البخاری : کتاب المغازی) مسائل ١۔ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو من وعن شریعت پہنچانے کا حکم دیا گیا تھا۔ ٣۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حفاظت کا اللہ تعالیٰ نے اعلان فرمادیا تھا۔ ٤۔ شریعت کا انکار کرنے والوں کو ہدایت نہیں دی جاتی۔ المآئدہ
68 فہم القرآن ربط کلام : دوبارہ اہل کتاب کو خطاب۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خطاب کرنے سے پہلے یہود ونصاریٰ کو مخاطب کیا جا رہا تھا۔ اس کے بعد آپ کو آپ کے عظیم منصب کے حوالے سے مخاطب کرتے ہوئے معنوی لحاظ سے تسلی دی گئی کہ یہود ونصاریٰ آپ کو الرسول تسلیم کریں یا نہ کریں آپ حقیقتاً اللہ کے رسول ہیں لہٰذا حالات جیسے بھی ہوں آپ بے خوف وخطر اپنے رب کا پیغام لوگوں تک پہنچاتے جائیں اس تسلی اور تاکید کے بعد اب خطاب کا رخ پھر اہل کتاب کی طرف پھیر دیا گیا ہے۔ اے رسول! آپ واشگاف الفاظ میں اہل کتاب کو باور کرائیں کہ تم اس وقت تک ذرہ برابر حقیقت پر نہیں ہوسکتے جب تک تورات وانجیل کے احکامات کو مانتے ہوئے قرآن مجید کی ہدایت پر عمل نہیں کرتے۔ یہاں تورات وانجیل پر قائم رہنے کا جو منطقی تقاضا بیان کیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ قرآن مجید کو من جانب اللہ تسلیم کرتے ہوئے اس کی ہدایات اور احکامات کو مانا جائے۔ کیونکہ قرآن مجید تورات اور انجیل کے احکامات کا ضامن اور محافظ ہے۔ لہٰذا قرآن مجید پر عمل کرنا تورات اور انجیل کے احکامات کو ماننے کا تسلسل ہے۔ اسی تسلسل کو قائم رکھنے کے لیے پہلے انبیاء کی تصدیق اور تائید لازم قرار پائی۔ اہل کتاب کی اکثریت کا عالم یہ ہے وہ مخالفت برائے مخالفت کی بنیاد پر قرآن مجید کے ساتھ کفر کرتے ہوئے آگے ہی بڑھتے جا رہے ہیں حالانکہ وہ جانتے ہیں قرآن من جانب اللہ اور نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے سچے رسول ہیں۔ اسی بنا پر آپ نے دو ٹوک الفاظ میں فرمایا ہے۔ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ (رض) عَنْ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) أَنَّہُ قَالَ وَالَّذِی نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِیَدِہِ لاَ یَسْمَعُ بِی أَحَدٌ مِنْ ہَذِہِ الأُمَّۃِ یَہُودِیٌّ وَلاَ نَصْرَانِیٌّ ثُمَّ یَمُوتُ وَلَمْ یُؤْمِنْ بالَّذِی أُرْسِلْتُ بِہِ إِلاَّ کَانَ مِنْ أَصْحَاب النَّارِ) [ رواہ مسلم : باب وُجُوبِ الإِیمَانِ بِرِسَالَۃِ نَبِیِّنَا مُحَمَّدٍ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں آپ نے فرمایا قسم ہے مجھے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میں محمد کی جان ہے یہودیوں اور عیسائیوں میں سے جس شخص تک میرا پیغام پہنچ جائے اور پھر وہ اسی حالت میں مرجائے اور وہ مجھ پر ایمان نہ لائے وہ جہنم میں داخل ہوگا۔“ کیونکہ قرآن مجید کا ارشاد ہے کہ اہل کتاب کے ایمان اور اعمال کی کوئی حیثیت نہیں۔ جب تک وہ آپ پر جو نازل ہوا اس پر ایمان نہیں لاتے۔ یہاں واضح الفاظ میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اطمینان دلایا گیا ہے کہ اہل کتاب کی سرکشیوں اور نافرمانیوں پر آپ کو افسردہ اور دل گرفتہ نہیں ہونا چاہیے آپ اللہ کے رسول ہیں اور رسول کا کام لوگوں تک اللہ کا پیغام پہنچانا ہے منوانا نہیں۔ مسائل ١۔ یہودی اور عیسائی جب تک قرآن کو نہیں مانتے وہ کسی دین پر نہیں سمجھے جا سکتے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ کے احکامات پس پشت ڈال کر کوئی قوم کامیاب نہیں ہو سکتی۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ احکامات کو نہ ماننے والے کفرو سرکشی میں آگے ہی بڑھتے جاتے ہیں۔ ٤۔ کافروں کے کفر پر غمزدہ نہیں ہونا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن یہودو نصاریٰ کی اندرونی حالت : ١۔ یہودی اور عیسائی ایک دوسرے کو مرتد کہتے ہیں۔ (البقرۃ: ١١٣) ٢۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کو اکٹھا تصور کرتے ہیں حالانکہ ان کے دل الگ الگ ہیں۔ (الحشر : ١٤) ٣۔ اللہ نے ان کے دلوں میں قیامت تک کے لیے دشمنی ڈال دی ہے۔ (المائدۃ: ١٤) المآئدہ
69 فہم القرآن ربط کلام : اہل کتاب کی روش اور کردار کو کفر قرار دینے کے بعد ایمان کے بنیادی ارکان، تقاضوں اور اس کے صلہ کا ذکر کیا گیا ہے اس حقیقت کو سورۃ البقرۃ کی آیت ٦٢ میں بیان کیا جا چکا ہے۔ اللہ کے ہاں خالی ایمان کا دعویٰ اور مذہبی فرقہ واریت کے لیبل کی کوئی حیثیت نہیں اسلام سچے عقیدے اور حسن کردار کا نام ہے۔ لہٰذا جو شخص اللہ تعالیٰ پر ایمان اور آخرت پر یقین رکھتا ہے اسے چاہیے کہ وہ اسلام کے منتخب اور پسندیدہ اعمال کو اختیار کرے۔ اس میں ایمان با للہ کے بعد نماز، زکوٰۃ، روزہ اور حج لازم ہیں جو ان اعمال اور ان کے متعلقات کو پورا کرے گا اسے دنیا میں سکون و اطمینان اور آخرت میں کوئی خوف و غم نہیں ہوگا۔ یہاں ایمان کے باقی ارکان کا ذکر کرنے کی بجائے صرف دو ارکان کا بیان ہوا ہے۔ یعنی اللہ اور آخرت پر ایمان لانا یہ اختصار قرآن مجید کے اور مقامات میں بھی پایا جاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ پر ایمان وہی شخص لائے گا جو نبی آخر الزماں (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت کو تسلیم کرے گا۔ کیونکہ آپ اللہ کے آخری نبی ہیں اور آپ کی رسالت کا انکار کرنے والا ایمان باللہ کے تقاضے پورے نہیں کرسکتا اور آخرت میں کامل ایمان اور نیک اعمال کے بغیر نجات کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔ اس لیے قرآن مجید ارکان ایمان کے بارے میں بسا اوقات تفصیلات چھوڑ کر ایمان باللہ اور ایمان بالآخرت کے ذکر پر اکتفا کرتا ہے کیونکہ جو ان کو دل کی گہرائی اور سچائی کے ساتھ مانتا ہے وہ دوسرے ارکان کا انکار نہیں کرسکتا۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں زبانی کلامی دعوؤں کی قدر نہیں۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ اور آخرت پر ایمان لانے والے لوگ خوف وغم سے محفوظ رہیں گے۔ المآئدہ
70 فہم القرآن ربط کلام : بنی اسرائیل سے ایمان باللہ، آخرت پر یقین اور دیگر انبیاء ( علیہ السلام) کے ساتھ نبی آخر الزماں (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لانے کا عہد لیا گیا تھا۔ اگر وہ اس پر عمل کرتے تو مغضوب ہونے کے بجائے دنیا اور آخرت میں بے خوف ہوجاتے۔ بنی اسرائیل سے اللہ تعالیٰ نے جو عہد لیا تھا اس کی تفصیل سورۃ البقرہ آیت ٨٣ المائدہ ١٢ میں گزر چکی ہے البقرہ آیت ٨٣ میں یہ بیان ہوا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کی پیدائش کے وقت تمام انبیاء کرام سے یہ عہد لیا تھا کہ جس نبی کی نبوت کے دور میں خاتم المرسلین حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لائیں اسے اپنی نبوت کاسلسلہ ختم کرتے ہوئے آخری نبی کی رسالت کا پرچم اٹھانا ہوگا اس عہد کی بنیاد پر ہر رسول اور نبی اپنی امت سے یہ عہد لیا کرتا تھا کہ جونہی نبی آخرالزماں جلوہ افروز ہوں۔ ہر کسی کافرض ہوگا کہ وہ آخری نبی کا کلمہ پڑھے اور آپ کے لائے ہوئے دین کو اختیار کرے لیکن بنی اسرائیل کی اکثریت نہ صرف اس عہد سے منحرف ہوئی بلکہ انہوں نے اپنے میں سے مبعوث ہونے والے ہر نبی کی مخالفت کی۔ ان کا مزاج تھا اور ہے کہ یہ اپنے آپ کو شریعت کے حوالے کرنے کی بجائے شریعت کو اپنا غلام بنانے کی مذموم کوشش میں مصروف رہتے ہیں اسی بناء پر ہی انہوں نے انبیاء کی تکذیب کی اور اسی وجہ سے ہی انبیاء کو قتل کرتے رہے اس آیت مبارکہ میں بھی ایک انداز سے آپ کے لیے ڈھارس کا سامان ہے اے رسول اقدس! آپ کو ایسے لوگوں پر دل گرفتہ ہونے کی بجائے اپنا کام کرتے رہنا چاہیے اگر یہ قرآن مجیدکی مخالفت اور آپ کو جھٹلاتے ہیں تو یہ ان کی فطرت ثانیہ اور جبلت قدیمہ ہے۔ مسائل ١۔ بنی اسرائیل سے پختہ عہد لیا گیا کہ انبیاء پر ایمان لائیں۔ ٢۔ بنی اسرائیل نے کچھ انبیاء کی تکذیب کی، اور کچھ انبیاء کو قتل کیا۔ المآئدہ
71 فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ سے باربار عہد شکنی، شریعتوں کی تکذیب، انبیاء (علیہ السلام) پرزیادتی کرنے اور اپنی خواہش کا بندہ بننے کی وجہ سے اہل کتاب بصیرت سے تہی دامن ہوگئے۔ جب کوئی قوم ایمان کی دعوے دار ہو کر اپنی خواہشات کو مقدم سمجھے، حقائق کی تکذیب کرے، مصلحین کی گستاخ اور ان کی جان کے درپے ہوجائے تو وہ اس غلط فہمی کا شکار ہوجایا کرتی ہے کہ اب انہیں کوئی روکنے، ٹوکنے والا نہیں ہے۔ یہود ونصاریٰ اس جرم میں مبتلا ہونے کے بعد اسی خوش فہمی کا شکار ہوئے۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ حقائق دیکھنے اور سننے سے بے بہرہ اور اندھے ہوگئے یہ تو اپنے آپ کو دیکھنے سے اندھے ہوئے لیکن اللہ تعالیٰ تو ان کے اعمال کو دیکھنے والا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان پر بخت نصر اور ہر دور میں ایسے حکمران مسلط کیے کہ جنہوں نے ان کو ایسی سزائیں دیں جو پہلے کسی قوم کو نہیں دی گئیں تھیں۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ان پر کرم فرماتے ہوئے انہیں آزادی کی نعمت سے ہمکنار فرمایا لیکن بنی اسرائیل نے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے اور اپنے اعمال کو شریعت کے سانچے میں ڈھالنے کی بجائے پھر اندھے اور بہرہ پن کا مظاہرہ کیا۔ (وَلَقَدْ ذَرَأْنَا لِجَہَنَّمَ کَثِیرًا مِنَ الْجِنِّ وَالْإِنْسِ لَہُمْ قُلُوبٌ لَا یَفْقَہُونَ بِہَا وَلَہُمْ أَعْیُنٌ لَا یُبْصِرُونَ بِہَا وَلَہُمْ آَذَانٌ لَا یَسْمَعُونَ بِہَا أُولَءِکَ کَالْأَنْعَامِ بَلْ ہُمْ أَضَلُّ أُولَءِکَ ہُمُ الْغَافِلُونَ) [ الاعراف : ١٧٩] ”” اور بلاشبہ ہم نے بہت سے جن اور انسان جہنم کے لیے ہی پیدا کیے ہیں ان کے دل ہیں جن سے وہ سمجھتے نہیں اور ان کی آنکھیں ہیں جن سے وہ دیکھتے نہیں اور ان کے کان ہیں جن سے وہ سنتے نہیں یہ لوگ چوپاؤں جیسے ہیں بلکہ یہ زیادہ بھٹکے ہوئے ہیں یہی ہیں جو بالکل بے خبر ہیں۔“ امام رازی (رح) نے اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ بنی اسرائیل پہلی مرتبہ حضرت زکریا (علیہ السلام)، حضرت یحییٰ (علیہ السلام) اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے زمانے میں مکمل طور پر اندھے اور بہرے پن کا شکار ہوئے اور دوسری مرتبہ نبی آخر الزماں (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کے وقت اس مرض میں مبتلا ہوئے، سوائے چند لوگوں کے باقی یہود ونصاریٰ نے سرورگرامی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مخالفت کی تاآنکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام (رض) کو غلبہ نصیب فرمایا۔ یہودیوں کی باربار عہد شکنی اور سازشوں کی وجہ سے غزوہ خندق کے بعد نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو ہمیشہ کے لیے سر زمین عرب سے نکال دیا۔ چودہ سو سال سے زائد عرصہ ہو چلا ہے یہودی ہزاروں کوششوں کے باوجود مدینہ میں داخل نہیں ہوسکے حالانکہ یہودی ہر دور میں اپنی قوم سے وعدہ لوگوں کے سامنے کرتے آ رہے ہیں کہ ہم عنقریب مدینہ پر قبضہ کرنے والے ہیں۔ لیکن ایسانہ ہوسکا اور نہ ہی قیامت تک ہو سکے گا۔ ان شاء اللہ مسائل ١۔ خوش فہمی انسان کو مروا دیتی ہے۔ ٢۔ آنکھیں اور کان بند کرلینے سے مصیبت سے چھٹکارا نہیں ملتا۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ سب کے اعمال کو دیکھتا ہے۔ تفسیر بالقرآن اندھے اور بہرے لوگ : ١۔ اللہ نے یہودیوں پر رجوع فرمایا لیکن یہ پھر اندھے ہوگئے۔ (المائدۃ: ٧١) ٢۔ جن پر اللہ کی لعنت ہو وہ اندھے اور بہرے ہوجاتے ہیں۔ (محمد : ٢٣) ٣۔ بہرے، گونگے اور اندھے ہیں ہدایت کی طرف نہیں آیا کرتے۔ (البقرۃ: ١٧١) ٤۔ ہدایت سے اندھے، بہرے اور گونگے لوگ چوپاؤں سے بھی بدتر ہوا کرتے ہیں۔ (الاعراف : ١٧٩) ٥۔ کافر، اہل کتاب اور مشرکین بد ترین مخلوق ہیں۔ (البینۃ: ٦) المآئدہ
72 فہم القرآن ربط کلام : یہود کے بعد عیسائیوں کے عقائد اور کردار کابیان۔ یہ حقیقت پہلے بھی بیان ہوچکی ہے کہ یہودی انبیاء ( علیہ السلام) کی تکذیب اور ان کو قتل کرنے کی وجہ سے گمراہ ہوئے جبکہ عیسائی عیسیٰ (علیہ السلام) کی محبت اور ان کی والدہ کے احترام میں غلو کی وجہ سے صراط مستقیم سے ہٹ گئے۔ عیسائیوں کی گمراہی کے دو اسباب ہیں ان میں کچھ لوگ تو اس غلط فہمی کا شکار ہوئے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے اپنا کلمہ قرار دیا ہے جس کا منطقی مفہوم یہ بنتا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کا جزو یعنی اس کی ذات کا حصہ ہے۔ عیسائیوں کے دوسرے گروہ نے جان بوجھ کر عیسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ کا بیٹا اور اس کی والدہ حضرت مریم کو خدا کی بیوی قرار دیتے ہوئے کہا کہ تینوں کو ملا کر خدا کی ذات مکمل ہوتی ہے۔ کچھ عیسائی کہتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) ہی خدا ہیں۔ اس طرح یہ لوگ ایک گورکھ دھندے میں پھنسے ہوئے ہیں جو علم کی دنیا میں ایک مذاق کے سوا کچھ بھی نہیں۔ پھر عیسائیوں نے یہ عقیدہ گھڑا کہ اللہ تعالیٰ نے عیسیٰ کو تختہ دار پر لٹکا کر اپنے بیٹے کی قربانی پیش کی تاکہ ہمارے گناہوں کا کفارہ بن سکے حالانکہ عیسیٰ (علیہ السلام) نہ سولی پر لٹکائے گئے اور نہ انہوں نے شرک کی تائید کی وہ تو باربار فرماتے رہے کہ اے بنی اسرائیل صرف ایک اللہ کی عبادت کرو جو میرا اور تمہارا رب ہے۔ یاد رکھو جس نے اللہ تعالیٰ کی ذات یا صفات میں شرک کیا اللہ تعالیٰ نے اس پر ہمیشہ کے لیے جنت کو حرام قرار دیا ہے۔ اس کا ٹھکانہ آگ ہے۔ ایسے ظالموں کے لیے قیامت کے دن کوئی مددگار نہیں ہوگا۔ یاد رہے سب سے بڑا ظلم اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرنا ہے افسوس پاکستانی مسلمانوں کی اکثریت یہود و نصاریٰ کو مات دیتے ہوئے کہتی ہے۔ یا عبدالقادر شیأً للّٰہِ ! وہی جو مستوی عرش تھا خدا ہو کر اتر پڑا مدینے میں مصطفٰی ہو کر مسائل ١۔ انبیاء ( علیہ السلام) کی شان میں گستاخی کرنے سے انسان کافر ہوجاتا ہے ٢۔ انبیاء (علیہ السلام) اللہ تعالیٰ کی عبادت کا حکم دیتے تھے۔ ٣۔ مشرک پر جنت حرام ہے۔ ٤۔ مشرک کا ٹھکانہ جہنم ہے۔ ٥۔ ظالموں کا کوئی مددگار نہیں ہوگا۔ تفسیر بالقرآن شرک کی مذمت : ١۔ شرک بہت بڑا ظلم ہے۔ (لقمان : ١٣) ٢۔ شرک بہت بڑی گمراہی ہے۔ (النساء : ١١٦) ٣۔ شرک بہت بڑی ذلت اور گراوٹ ہے۔ (الحج : ٣١) ٤۔ شرک سے تمام اعمال ضائع ہوجاتے ہیں۔ (الزمر : ٦٥) ٥۔ اللہ تعالیٰ شرک معاف نہیں کرتاز کیونکہ یہ بہت بڑا گناہ ہے۔ (النساء : ٤٨) ٦۔ اللہ تعالیٰ شرک کے سوا جس کے چاہے گا گناہ معاف فرمادے گا۔ (النساء : ١١٦) المآئدہ
73 فہم القرآن ربط کلام : عیسائیوں کے باطل عقیدہ کی تردید اور انہیں اس عقیدہ سے توبہ کی تلقین کی گئی ہے۔ آدمی جب حقائق دیکھنے سے اندھا اور دلائل سننے سے بہرہ ہوجائے تو وہ کفر کی وادیوں میں آگے ہی بڑھتا جاتا ہے عیسائی اس جرم کے مرتکب ہوئے تو حقائق جاننے کے باوجود عیسیٰ (علیہ السلام) کی محبت میں اندھے ہو کر یہ کہتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کے مرتکب ہوئے کہ اللہ، عیسیٰ اور مریم ایک دوسرے سے ہیں اور اللہ اس مثلث میں سے ایک ہے۔ توحید کا خلاصہ یہ ہے کہ آدمی اللہ تعالیٰ کی ذات اور صفات میں کسی کو شریک نہ سمجھے شرک تمام گناہوں کا منبع، آخری درجے کا ظلم اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ غداری کرنے کے مترادف ہے اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنی توحید سے آگاہ فرماتے ہوئے انسانی رشتوں کے درجہ بدرجہ احترام کا حکم دیا ہے لیکن کوئی انسان کس قدر نیک، صالح اور دین و دنیا کے لحاظ سے کتنا ہی بلندوبالا کیوں نہ ہو وہ بالآخر انسان ہی رہتا ہے لہٰذاانسان کا اللہ تعالیٰ کے ساتھ اس کا بندہ ہونے کے سوا کوئی رشتہ نہیں رکھتا۔ سورۃ اخلاص میں اس عقیدہ کو نہایت سادہ لیکن مکمل انشراح کے ساتھ بیان کردیا گیا ہے کہ اللہ وہ ہے جو نہ کسی سے پیدا ہوا ہے نہ اس سے کوئی چیز نکلی اور پیدا ہوئی ہے اور نہ اس کی کوئی برابری کرنے والا ہے۔ وہ ہر اعتبار سے ایک ہے اور بے مثال ہے لیکن افسوس مشرک اس بات کو سمجھنے اور ماننے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ سب سے پہلے یہودیوں نے حضرت عزیر (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ کا بیٹا قرار دیا۔ عیسائی دو قدم آگے بڑھتے ہوئے عیسیٰ (علیہ السلام) کو خدا کا بیٹا اور مریم [ کو اللہ کی بیوی قرار دیتے ہیں اور اس عقیدہ کا نام تثلیث رکھا۔ افسوس امت مسلمہ کی اکثریت شرک کی تمام اقسام کا ارتکاب کر رہی ہے جبکہ ہر نبی اپنی امت کو اور عیسیٰ (علیہ السلام) نے بنی اسرائیل کو صرف اور صرف ایک اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے کا حکم دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں وہی ایک معبود حقیقی ہے لہٰذا انسان کو ایک اللہ ہی کو اپنا معبود، مشکل کشا، حاجت روا اور خالق ومالک سمجھ کر اس کی عبادت کرنی چاہیے جو لوگ عقیدہ تثلیث اور شرک سے باز نہیں آئیں گے اللہ تعالیٰ انہیں درد ناک عذاب میں مبتلا کرے گا۔ البتہ جنھوں نے شرک سے توبہ کی اور اللہ کے حضور معافی کے خواستگار ہوئے۔ یقیناً اللہ تعالیٰ انہیں معاف فرمائے گا کیونکہ وہ نہایت ہی معاف کرنے والا بڑا مہربان ہے۔ (عن ابی وائل (رض) قالَ سَمِعْتُ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَقُولُ یُجَاء بالرَّجُلِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ فَیُلْقٰی فِی النَّارِ فَتَنْدَلِقُ أَقْتَابُہُ فِی النَّارِ فَیَدُورُ کَمَا یَدُورُ الْحِمَارُ بِرَحَاہُ فَیَجْتَمِعُ أَہْلُ النَّارِ عَلَیْہِ فَیَقُولُونَ أَیْ فُلَانُ مَا شَأْنُکَ أَلَیْسَ کُنْتَ تَأْمُرُنَا بالْمَعْرُوفِ وَتَنْہَانَا عَنِ الْمُنْکَرِ قَالَ کُنْتُ آمُرُکُمْ بالْمَعْرُوفِ وَلَا آتِیہِ وَأَنْہَاکُمْ عَنِ الْمُنْکَرِ وَآتِیہِ)[ رواہ البخاری : کتاب بدء الخلق، باب صفۃ النا ر] ” حضرت ابو وائل (رض) بیان کرتے ہیں میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرما تے ہوئے سنا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا قیامت کے دن ایک آدمی کو جہنم میں پھینکا جائے۔ وہ آگ میں اپنی انتڑیوں کے گرد چکر لگائے گا جس طرح گدھا کنویں کے گرد چکر لگاتا ہے جہنم کے لوگ اکٹھے ہو کر اسے کہیں گے تمہیں کیا ہوگیا ہے کیا تم ہمیں نیکی کی ترغیب اور برے کا موں سے روکتے نہیں تھے وہ کہے گا میں تم لوگوں کو تو نیکی کا حکم دیتا تھا مگر خود نہیں کیا کرتا تھا۔ تمہیں برائی سے منع کرتا تھا اور خود اس کا مر تکب ہوا کرتا تھا۔“ (عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ (رض) أَنَّ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ اَ للّٰہُ أَشَدُّ فَرَحًا بِتَوْبَۃِ عَبْدِہٖ مِنْ أَحَدِکُمْ إِذَا اسْتَیْقَظَ عَلَی بَعِیرِہِ قَدْ أَضَلَّہُ بِأَرْضِ فَلَاۃٍ )[ رواہ مسلم : کِتَاب التَّوْبَۃِ، بَاب فِی الْحَضِّ عَلَی التَّوْبَۃِ وَالْفَرَحِ بِہَا] حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں رسول مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ اپنے بندوں کے توبہ کرنے سے اس شخص سے بھی زیادہ خوش ہوتا ہے جس کو اس کا اونٹ بے آب و گیاہ علاقے میں چھوڑ کر دوبارہ ملے۔“ (لَّقَدْ کَفَرَ الَّذِینَ قَالُواْ إِنَّ اللّٰہَ ثَالِثُ ثَلاَثَۃٍ وَمَا مِنْ إِلَہٍ إِلاَّ إِلَہٌ وَاحِدٌ وَإِن لَّمْ یَنتَہُواْ عَمَّا یَقُولُونَ لَیَمَسَّنَّ الَّذِینَ کَفَرُواْ مِنْہُمْ عَذَابٌ أَلِیمٌ)[ المائدۃ: ٧٣] ” بلاشبہ وہ لوگ کافر ہوچکے جنھوں نے کہا کہ اللہ تین میں سے تیسرا ہے حالانکہ اِلٰہ تو صرف وہی اکیلا ہے اگر یہ لوگ اپنی باتوں سے باز نہ آئے تو ان میں سے جو انکار کرتے رہے انھیں المناک عذاب ہوگا۔“ مسائل ١۔ تین الٰہ کا عقیدہ رکھنے والے کافر ہیں۔ ٢۔ ا لٰہ ایک ہی ہے۔ ٣۔ شرکیہ عقائد سے باز نہ آنے والوں کے لیے درد ناک عذاب ہوگا۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی معافی کا طلب گار رہنا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن اللہ ہی ایک الٰہ ہے : ١۔ اللہ نے زمین و آسمان کو پیدا کیا اور پھر آسمان سے پانی اتار کر باغات اگائے کیا اس کے ساتھ کوئی اور بھی الٰہ ہے؟ (النمل : ٦٠) ٢۔ اللہ نے زمین کو جائے قرار بنایا اس میں پہاڑ اور دو سمندروں کے درمیان پردہ بنایا کیا اس کے ساتھ اور بھی الٰہ ہے؟ (النمل : ٦١) ٣۔ کون ہے جو لاچار کی فریاد رسی کرتا ہے اور اس کی تکلیف کو دور کرتا ہے کیا کوئی اور بھی الٰہ ہے ؟ (النمل : ٦٢) ٤۔ خشکی اور سمندر کی تاریکیوں میں اللہ کے سواکون رہنمائی کرتا ہے کیا کوئی اور بھی اس کے ساتھ الٰہ ہے۔ (النمل : ٦٣) ٥۔ پہلے اور دوبارہ پیدا کرنا اور زمین و آسمان سے تمہارے لیے روزی کا بندوبست کرنے والا اللہ کے سوا کوئی اور الٰہ ہے؟ (النمل : ٦٤) ٦۔ آپ فرما دیں سوائے ایک الٰہ کے آسمان وز میں کے غیب کو کوئی نہیں جانتا۔ (النمل : ٦٥) ٧۔ کیا کوئی ہے اس الٰہ کے سوا ہے جو رات ختم کرکے دن لائے ؟ (القصص : ٧١) ٨۔ کیا کوئی ہے اس الٰہ کے علاوہ کوئی اور الٰہ ہے جو دن ختم کرکے رات لائے ؟ (القصص : ٧٢) ٩۔ بس اس ایک الٰہ کے سوا کوئی دوسرے الٰہ کو نہ پکارو۔ (القصص : ٨٨) ١٠۔ تمھارا الٰہ ایک ہی وہ رحمن، رحیم ہے۔ (البقرۃ: ١٦٣) المآئدہ
74 المآئدہ
75 فہم القرآن ربط کلام : گزشتہ سے پیوستہ : عیسائیوں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور ان کی والدہ کو اللہ کا جزو قرار دیا جو صریح کفر کرنے کے مترادف ہے حالانکہ عیسائیوں اور دنیا کے مشرکوں کے پاس اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک بنانے کی کوئی دلیل نہیں۔ الٰہ صرف اللہ تعالیٰ کی ذات کبریا ہے جو ایک ہی ہے عیسائیوں کو ان کے باطل عقیدہ پر انتباہ کرتے ہوئے متنبہ کیا گیا ہے کہ اگر یہ توبہ کے بغیر مر گئے تو انہیں اذیت ناک عذاب دیا جائے گا اب عیسیٰ (علیہ السلام) اور ان کی والدہ ماجدہ کے الٰہ نہ ہونے کے طبعی اور فطری دلائل دیے گئے ہیں۔ ١۔ عیسیٰ (علیہ السلام) حضرت مریم [ کے بیٹے ہیں جو اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) الٰہ نہیں کیونکہ اسے مریم [ نے جنم دیا ہے اور ان کی پیدائش باپ کے بغیر ہوئی جو اللہ تعالیٰ کی قدرت کا کرشمہ ہے جس کے بارے میں سورۃ آل عمران کی آیت ٣٤ تا ٦٠ یعنی ٢٦ آیات میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی نانی کی نذر ماننے سے لے کر عیسیٰ (علیہ السلام) کے رفع آسمانی تک کی تفصیلات بیان کی گئی ہیں اور سورۃ مریم میں عیسیٰ (علیہ السلام) کی ولادت کے وقت حضرت مریم [ کا اضطرار اور پریشانی کا بیان اور لوگوں کا مریم [ کو الزام دینا، حضرت عیسیٰ [ کا مریم کی گود میں قوم کو مفصل اور کامل جواب دینا اور اپنے بارے میں اس بات کی وضاحت کرنا کہ میں غیر انسانی مخلوق ہونے کی بجائے اللہ کا بندہ ٗاس کا رسول ہوں اور میری ولادت سے لے کر میرے محشر کے دن اٹھنے تک اللہ تعالیٰ کی طرف سے مجھ پر سلامتی ہوگی۔ ( مریم ١٧ تا ٣٧) ٢۔ عیسیٰ (علیہ السلام) اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں ان سے پہلے بھی بے شمار رسول آئے اور فریضۂ نبوت سرانجام دینے کے بعددنیا سے رخصت ہوئے ظاہر ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) بھی اپنا فرض ادا کرنے کے بعد دنیا سے رخصت ہوجائیں گے فرق صرف اتنا ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے آسمانوں پر اٹھالیا ہے اور قیامت کے قریب ان کا نزول ہوگا اور دنیا میں چالیس سال گزارنے کے بعد فوت ہوں گے۔ ٣۔ یہودی حضرت مریم [ پر ( خاکم بدہن) بدکاری کا الزام لگاتے ہیں جس کی تردید کے لیے حضرت مریم [ کو صدیقہ کے عظیم لقب سے نوازا گیا ہے۔ جو لفظ صدیق کی مؤنث ہے۔ نبوت کے بعد صدیق کا مقام ہے۔ ٤۔ حضرت مریم [ کی پاکدامنی اور ہر اعتبار سے طاہرہ، طیبہ ہونے کی شہادت دینے کے بعد حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور ان کی والدہ کے بارے میں طبعی اور فطری یہ دلیل دی گئی ہے کہ وہ دونوں اکل وشرب کے محتاج تھے جبکہ اللہ تعالیٰ کھانے پینے اور مخلوق کی حاجات سے بے نیاز اور مبرّا ہے۔ ان دلائل کے بعد حکم ہوا کہ غور کیجئے کہ ہم نے سچائی واضح کرنے کے لیے کتنے کھلے دلائل بیان کیے ہیں اور اس پر بھی غور کیجئے کہ کتنے ٹھوس اور واضح دلائل ہونے کے باوجود لوگ حقائق کا انکار اور شرک کا ارتکاب کرکے کس طرح گمراہی میں ٹھوکریں کھا رہے ہیں ان آیات کی تفسیر کرتے ہوئے امام رازی (رح) درج ذیل نکات اٹھاتے ہیں۔ (١) دوسرے انبیاء معجزات دکھانے سے الٰہ نہیں ہوئے تو عیسیٰ (علیہ السلام) معجزات کی بناء پر کس طرح الٰہ ہو سکتے ہیں ؟ (٢) حضرت آدم (علیہ السلام) ماں باپ کے بغیر پیدا ہوئے جبکہ عیسیٰ (علیہ السلام) صرف باپ کے بغیر پیدا ہوئے ہیں تو انہیں کس طرح الٰہ کا درجہ دیاجاسکتا ہے ؟ (٣) جو چیز معرض وجود میں آئے یا جو کسی سے جنم پائے وہ حادث ہوتی ہے جس کا معنی ہے کہ وہ پہلے موجود نہیں تھی اور یہ دلیل ہے کہ عدم سے وجود میں آنے والا الٰہ نہیں ہوسکتا۔ ” وہی اول ہے اور وہی آخر ہے وہ ظاہر بھی ہے اور پوشیدہ بھی اور وہ ہر چیز کو جاننے والا ہے۔“ [ الحدید : ٣] اسی طرح انجیل میں خود حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے متعلق ہے کہ جب ان کے شاگردان کو ایک روح سمجھ کر ان سے ڈرے تو انھوں نے بھنی ہوئی مچھلی کا ایک قتلہ ان کے سامنے کھا کر ان کو اطمینان دلایا کہ وہ کوئی روح نہیں بلکہ آدمی ہیں۔ لوقا میں ہے : ” وہ یہ باتیں کر ہی رہے تھے کہ یسوع آپ انکے بیچ میں کھڑا ہوا اور ان سے کہا تمہاری سلامتی ہو مگر انھوں نے گھبرا کر اور خوف کھا کر یہ سمجھاکہ کسی روح کو دیکھتے ہیں۔ اس نے ان سے کہا تم کیوں گھبراتے ہو اور کس واسطے تمہارے دل میں شک پیدا ہوتے ہیں۔ میرے ہاتھ اور میرے پاؤں دیکھو کہ میں ہی ہوں۔ مجھے چھو کر دیکھو کیونکہ روح کے گوشت اور ہڈی نہیں ہوتی، جیسا مجھ میں دیکھتے ہو اور یہ کہہ کر اس نے اپنے ہاتھ اور پاؤں دکھائے۔ جب مارے خوشی کے ان کو یقین نہ آیا اور تعجب کرتے تھے تو اس نے ان سے کہا کیا یہاں تمہارے پاس کچھ کھانے کو ہے ؟ انھوں نے اسے بھنی ہوئی مچھلی کا قتلہ دیا۔ اس نے لے کر ان کے رو برو کھایا۔“ (لوقا : باب ٢٤: ٣٦۔ ٤٣) مسائل ١۔ مسیح ابن مریم اللہ کے رسول تھے۔ ٢۔ عیسیٰ (علیہ السلام) اور ان کی والدہ کھانا کھاتے تھے۔ ٣۔ واضح دلائل کے باوجود حقیقت کو نہ ماننے والا گمراہ ہوتا ہے۔ تفسیر بالقرآن بہکے ہوئے لوگ : ١۔ دانے اور گٹھلی کو پھاڑنا، زندہ سے مردہ اور مردہ سے زندہ کرنا اللہ ہی کا کام ہے تم کہاں بہک گئے ہو؟ (الانعام : ٩٥) ٢۔ تمہارا رب ہر چیز کو پیدا کرنے والاہے اس کے علاوہ کوئی معبود نہیں تم کہاں بہک گئے ہو ؟ (المومن : ٦٢) ٣۔ ان کو کس نے پیدا کیا؟ جو اب دیں گے اللہ نے۔ تو پھر یہ کہاں بہک گئے ہیں؟ (الزخرف : ٨٧) ٤۔ آپ فرما دیں اللہ ہی نے تخلیق کی ابتداء کی پھر دوبارہ پیدا کرے گا پھر تم کہاں بہک گئے ہو؟ (یونس : ٣٤) ٥۔ نہیں ہیں مسیح ابن مریم مگر رسول اس سے پہلے کئی رسول گزر چکے ان کی والدہ صدیقہ ہیں۔ وہ کہاں بہک گئے ہیں؟ (المائدۃ: ٧٥) المآئدہ
76 فہم القرآن ربط کلام : عقیدۂ تثلیث کی تردید کرنے کے بعد اہل کتاب اور ان کے حوالے سے تمام لوگوں کو سمجھایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کی عبادت نہ کی جائے کیونکہ اس کے علاوہ کوئی نفع ونقصان کا مالک نہیں۔ عبادت کا معنٰی ہے نہایت عاجزی اور انکساری کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی بندگی اور اس کی غلامی اختیار کرنا ہے، انسان بڑا کمزور اور عاجز واقع ہوا ہے اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس پر انعام کرتے ہوئے اجازت ہی نہیں دی بلکہ حکم دیا ہے کہ اے انسان مجھے اپنی حاجات کے لیے پکارا کر۔ میں تیری دستگیری اور دادرسی بھی کروں گا اور یہ پکار میری بارگاہ میں تیری عبادت بھی سمجھی جائے گی لیکن شرط یہ ہے کہ میرے سوا کسی کو اپنا مشکل کشا اور حاجت روا نہ سمجھنا۔ بے شک کوئی نبی ہو یا ولی ٗ حاکم ہو یا غنی ٗ کوئی بھی ہوتجھے میرے اذن کے بغیر نفع ونقصان نہیں پہنچا سکتا۔ پہلی بات عیسائیوں کو سمجھائی گئی ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت مریم [ اللہ کی مخلوق ہیں اگر وہ نفع ونقصان کے مالک ہوتے تو حضرت مریم عیسیٰ ( علیہ السلام) کو جنم دیتے ہوئے یہ نہ کہتی کہ کاش میں اس سے پہلے بے نام ونشان ہوچکی ہوتی سورۃ مریم : آیت ٢٣ اسی طرح اگر عیسیٰ (علیہ السلام) حاجت روا اور مشکل کشا ہوتے تو انہیں تختہ دار پر چڑھانے کی کوشش اور سازش نہ کی جاتی۔ (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ (رض) قَالَ سَمِعْتُ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَقُولُ إِنَّ اللّٰہَ لَا یَقْبِضُ الْعِلْمَ انْتِزَاعًا یَنْتَزِعُہُ مِنَ الْعِبَادِ وَلَکِنْ یَّقْبِضُ الْعِلْمَ بِقَبْضِ الْعُلَمَاءِ حَتّٰی إِذَا لَمْ یُبْقِ عَالِمًا اتَّخَذَ النَّاسُ رُءُ وسًا جُہَّالًا فَسُءِلُوا فَأَفْتَوْا بِغَیْرِ عِلْمٍ فَضَلُّوا وَأَضَلُّوا) [ رواہ البخاری : کتاب العلم، باب کیف یقبض العلم] ” حضرت عبداللہ بن عمر بن عاص (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ بلا شبہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے علم نہیں چھینے گا بلکہ علم کو علماء کے ساتھ قبض کرلے گا۔ یہاں تک کہ زمین پر کوئی عالم نہیں بچے گا۔ لوگ جاہلوں کو اپنے عالم بنا لیں گے ان سے سوال ہوگا تو وہ بغیر علم کے فتوٰی جاری کریں گے وہ خود بھی گمراہ ہوں گے اور لوگوں کو بھی گمراہ کریں گے۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی کی عبادت نہیں کرنا چاہیے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو نفع ونقصان کا مالک نہیں سمجھنا چاہیے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ سننے والا اور سب کچھ جاننے والاہے۔ ٤۔ اہل کتاب دین میں غلو کرتے ہیں۔ ٥۔ بھٹکے ہوئے لوگوں کی پیروی نہیں کرنی چاہیے۔ تفسیر بالقرآن اللہ کے سوا کوئی نفع و نقصان کا مالک نہیں : ١۔ اللہ کے سوا کسی کو نہ پکاروجو نہ نقصان پہنچا سکتا ہے اور نہ نفع دے سکتا ہے۔ (یونس : ١٠٦) ٢۔ اللہ کے سوا کوئی ذرہ بھر بھی نفع و نقصان کا مالک نہیں۔ (الانبیاء : ٦٦) ٣۔ اے نبی آپ اعلان فرمادیں کہ میں اپنے بارے میں بھی نفع ونقصان کا مالک نہیں ہوں (الاعراف : ١٨٨) ٤۔ کیا تم انکی عبادت کرتے ہو جو تمہیں نفع و نقصان نہیں پہچاسکتے۔ (الانبیاء : ٦٦) المآئدہ
77 المآئدہ
78 فہم القرآن ربط کلام : دین میں غلو کرنے، خود گمراہ اور لوگوں کو گمراہ کرنے کا سبب بننے کی وجہ سے اہل کتاب لعنت کے سزاوار ٹھہرے۔ امام رازی (رح) نے مفسر قرآن حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کے حوالے سے نقل فرمایا ہے کہ اہل کتاب پر موسیٰ (علیہ السلام) سے لے کر حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) تک تمام انبیاء ( علیہ السلام) نے لعنت کی یہاں تک کہ قرآن مجید نے بھی انہیں مغضوب، گمراہ اور لعنت کا مستحق قرار دیا ہے اس مقام پر حضرت داوٗد (علیہ السلام) اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا خصوصی ذکر کرنے کا مفہوم یہ سمجھ میں آتا ہے کہ عیسائی حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی محبت کا دم بھرتے ہیں اور یہودی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد حضرت داوٗد (علیہ السلام) کو سب سے محبوب سمجھتے ہیں یہاں دونوں فریقوں کی نام نہاد محبت و عقیدت کا پردہ چاک کرنے کے لیے خصوصی طور پر حضرت داوٗد (علیہ السلام) اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے حوالے سے اہل کتاب پر پھٹکار کا ذکر کیا گیا ہے۔ لعنت کا معنی ہے نیکی کرنے کی توفیق سے محروم ہونا اور اللہ تعالیٰ کے عذاب کا سزاوار ٹھہرنا۔ اس کی ایک بنیادی وجہ یہ بھی ہے کہ اہل کتاب خود بھی بد عمل تھے اور ہیں۔ لوگوں کے لیے برائی کا سبب بنے اور یہ اسی روش پر آج تک قائم ہیں جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ان کی اکثریت مسلمانوں سے محبت کرنے کی بجائے کفار کے ساتھ محبت کرتی ہے حالانکہ عیسائی اور یہودی اللہ تعالیٰ کی توحید پر ایمان لانے کے دعوے دار اور انبیاء کے قائل ہیں۔ اگر یہ لوگ اپنے دعویٰ میں سچے ہوتے تو اس کا نتیجہ یہ ہونا چاہیے تھا کہ یہ کفار کی بجائے مسلمانوں سے محبت کرتے لیکن انھوں نے ہمیشہ مسلمانوں پر کفار کو ترجیح دی ہے۔ جس کا واضح ثبوت امریکہ اور یورپ کا عربوں کی بجائے اسرائیل کے ساتھ اور پاکستان کے مقابلہ میں ہندوستان کو ترجیح دینا ہے۔ اسی وجہ سے دنیا میں ان پر اللہ تعالیٰ کا غضب نازل ہوا اور آخرت میں ہمیشہ کے لیے جہنم میں دھکیلے جائیں گے۔ بنی اسرائیل کے بارے میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے ارشادات : ” اے ریا کار فقیہو اور فریسیو، تم پر افسوس ! تم بیواؤں کے گھروں کو دبا بیٹھے ہو اور دکھاوے کے لیے نماز کو طول دیتے ہو کہ ایک مرید کرنے کے لیے تری اور خشکی کا دورہ کرتے ہو اور جب وہ مرید ہو چکتا ہے تو اپنے سے دونا جہنم کا فرزندبنا دیتے ہو۔ اے اندھے راہ بتانے والو، تم پر افسوس ! جو کہتے ہو کہ اگر کوئی مقدس کی قسم کھائے تو کچھ بات نہیں لیکن اگر مقدس کے سونے کی قسم کھائے تو اس کا پابند ہوگا۔ اے احمقو اور اندھو، کون سابڑا ہے، سونا یا مقدس جس نے سونے کو مقدس کیا اور پھر کہتے ہو کہ اگر کوئی قربان گاہ کی قسم کھائے تو کچھ بات نہیں لیکن جو نذر اس پر چڑھی ہو اگر اس کی قسم کھائے تو اس کا پابند ہوگا۔ اے اندھو، کون سی بڑی ہے نذر یا قربان گاہ جو نذر کو مقدس کرتی ہے۔ اے ریا کارفقیہو اور فریسیو، تم پر افسوس ! کہ تم سفیدی پھری ہوئی قبروں کے مانند ہو جو اوپر سے تو خوب صورت دکھائی دیتی ہیں مگر اندر مردوں کی ہڈیوں اور ہر طرح کی نجاست سے بھری ہوئی ہیں۔ اسی طرح تم بھی ظاہر میں تو لوگوں کو راست باز دکھائی دیتے ہو مگر باطن میں ریاکاری اور بےدینی سے بھرے ہو۔ ارے ریا کار فقیہو اور فریسیو، تم پر افسوس ! کہ نبیوں کی قبریں بناتے اور راست بازوں کے مقبرے آراستہ کرتے ہو اور کہتے ہو کہ اگر ہم اپنے باپ دادا کے زمانے میں ہوتے تو نبیوں کے خون میں ان کے شریک نہ ہوتے۔ اس طرح تم اپنی نسبت گواہی دیتے ہو کہ تم نبیوں کے قاتلوں کے فرزند ہو۔ غرض اپنے باپ دادا کا پیمانہ بھر دو۔ ارے سانپوں کے بچو ! تم جہنم کی سزا سے کیوں کر بچو گے ؟ اس لیے دیکھو میں نبیوں اور داناؤں اور فقیہوں کو تمہارے پاس بھیجتا ہوں، ان میں سے تم بعض کو قتل کرو گے اور صلیب پر چڑھاؤ گے اور بعض کو اپنے عبادت خانوں میں کوڑے مارو گے اور شہر بہ شہر ستاتے پھرو گے تاکہ سب راست بازوں کا خون جو زمین پر بہایا گیا تم پر آئے۔ راست باز ہابیل کے خون سے لے کر برکیاہ کے بیٹے زکریا کے خون تک جسے تم نے مقدس اور قربان گاہ کے درمیان قتل کیا۔ میں سچ کہتا ہوں کہ یہ سب کچھ اس زمانہ کے لوگوں پر آئے گا۔“ [ متّٰی : ٢٣: ١٤۔ ٣٩] (بحوالہ : تدبر قرآن ) مسائل ١۔ برائی سے منع نہ کرنے والے اللہ تعالیٰ کے عذاب کی لپیٹ میں آجاتے ہیں۔ ٢۔ برائی سے منع نہ کرنا بڑا گناہ ہے۔ ٣۔ بنی اسرائیل نے ایک دوسرے کو برائی سے منع کرنا چھوڑ دیا تھا۔ ٤۔ بنی اسرائیل کی اکثریت کفار سے دوستی کرتی ہے۔ ٥۔ برے اعمال کرنے والوں پر اللہ تعالیٰ ناراض ہوتا ہے۔ تفسیر بالقرآن لعنت زدہ لوگ : ١۔ شیطان لعنتی ہے۔ (النساء : ١١٨) ٢۔ کافر لعنتی ہیں۔ (الاحزاب : ٦٤) ٣۔ اصحاب السبت لعنتی ہیں۔ (النساء : ٤٧) ٤۔ یہودی لعنتی ہیں۔ (المائدۃ: ٦٤) ٥۔ جھوٹے لعنتی ہیں۔ (آل عمران : ٦١) ٦۔ ظالم پر لعنت برستی ہے،(ھود : ١٨) ٧۔ حق چھپانے والے لعنتی ہیں۔ (البقرۃ: ١٥٩) ٨۔ اللہ اور رسول کو تکلیف دینے والے لعنتی ہیں۔ (الاحزاب : ٥٧) المآئدہ
79 المآئدہ
80 المآئدہ
81 فہم القرآن ربط کلام : اہل کتاب پر ناراضگی کا اظہار کرنے کے باوجود ان کو ایک موقع اور دیا گیا ہے کہ اگر ایمان لائیں تو آخرت کے عذاب اور دنیا کی ذلت سے بچ سکتے ہیں۔ اہل کتاب پھٹکار کے مستحق قرار دیے گئے ہیں تو یہ ان کے عقیدہ اور کردار کا نتیجہ ہے تاہم اگر یہ لوگ اللہ اور اس کے رسول پر خالص ایمان لائیں۔ قرآن کی اتباع کریں، خدا کے باغیوں اور منکروں سے محبت کرنے کی بجائے مسلمانوں سے محبت واخوت کا رشتہ جوڑیں تو لعنت کی بجائے اللہ کی رحمت کے مستحق قرار پائیں گے یہاں اللہ، اس کے رسول اور قرآن مجید پر ایمان کے ساتھ تیسری شرط یہ بیان ہوئی ہے کہ ان کی ہمدردیاں، رشتہ داریاں کفار کی بجائے مسلمانوں کے ساتھ ہونی چاہئیں یہی ان کی عزت رفتہ کا زینہ ہے یہاں یہ بات دو ٹوک انداز میں واضح کردی ہے کہ اہل کتاب دنیا اور آخرت کی ذلت مول لے لیں گے لیکن اللہ، اس کے رسول پر مخلصانہ ایمان لانے اور مسلمانوں سے رشتۂ اخلاص قائم کرنے کے لیے تیار نہیں ہوں گے کیونکہ ان کی غالب اکثریت فاسق افراد پر مشتمل ہے۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ اور اس کے نبی اور کتاب اللہ پر ایمان لانے والے کفار سے دوستی نہیں کرتے۔ ٢۔ بنی اسرائیل کی اکثریت نافرمان ہے۔ المآئدہ
82 فہم القرآن ربط کلام : اہل کتاب میں اچھے لوگوں کا کردار۔ قرآن مجید کا کمال یہ ہے کہ جب وہ اہل کتاب کی غالب اکثریت کی برائی اور کمزوری کا ذکر کرتا ہے تو ان میں سے اچھے لوگوں کی تعریف کرنا بھی ضروری سمجھتا ہے اسی اصول کے پیش نظر یہودیوں اور مشرکوں کے بارے میں وضاحت کردی گئی کہ یہ عیسائیوں کی نسبت مسلمانوں کے بارے میں زیادہ متشدد ہیں ان کے مقابلے میں عیسائی مسلمانوں کے بارے میں نرم واقع ہوئے ہیں مفسرین نے اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے لکھا ہے یہاں عیسائیوں سے مراد سب عیسائی نہیں بلکہ عیسائیوں کا وہ فرقہ مراد ہے جو اپنے آپ کو نصاریٰ کے نام سے منسوب کرتا ہے یہ مدینہ اور خیبر کے درمیان میں آباد تھے اور عقیدہ کے لحاظ سے دوسرے عیسائیوں سے بہتر اور مسلمانوں کے بارے میں نرم گوشہ رکھتے تھے۔ آج بھی عیسائیوں میں اس فرقہ کے لوگ اپنے آپ کو یہودیوں کی نسبت مسلمانوں کے قریب سمجھتے ہیں۔ لیکن افسوس یہ لوگ تعداد اور اثر و رسوخ کے لحاظ سے ہمیشہ تھوڑے رہے ہیں۔ یہ تخصیص اس لیے حق پر مبنی معلوم ہوتی ہے کہ ابتدا سے لے کر آج تک مسلمانوں کی عیسائیوں کے ساتھ ہی معرکہ آرائی ہوتی رہی ہے یہودی پیچھے رہ کر عیسائیوں اور دوسری اقوام کو مسلمانوں کے خلاف استعمال کرتے رہے ہیں عیسائیوں میں جن لوگوں کو مسلمانوں کا ہمدرد قرار دیا گیا ہے اس کی وجہ یہ بیان کی گئی کہ اس فرقہ میں ایسے علماء اور درویش موجود ہیں جو تکبر و غرور سے اجتناب کرنے والے ہیں اس آیت کی تشریح میں کچھ اہل علم کا خیال ہے ان عیسائیوں سے مراد وہ لوگ ہیں جو حلقۂ اسلام میں داخل ہوجاتے ہیں۔ مسائل ١۔ یہودی اور مشرک مومنوں کے سخت ترین دشمن ہیں۔ ٢۔ نصاریٰ مومنین کے ساتھ محبت کرنے میں قریب تر ہیں۔ ٣۔ نصاریٰ میں عبادت گزار، عالم وزاہد اور تکبر سے اجتناب کرنے والے لوگ ہیں۔ تفسیر بالقرآن یہود اور مشرکین مسلمانوں کے بڑے دشمن ہیں : ١۔ اے ایمان والو میرے اور اپنے دشمنوں کو دوست نہ بناؤ۔ (الممتحنۃ: ١) ٢۔ مومنوں کو کفار کے ساتھ دوستی نہیں کرنی چاہیے،(ال عمران : ٢٨) ٣۔ اے ایمان والو کفار کو دوست نہ بناؤ(النساء : ١٤٤) ٤۔ اے ایمان والو یہود ونصاریٰ کو دوست مت بناؤ(المائد ۃ: ٥١) ٥۔ اے ایمان والو ان کو اپنا دوست مت بناؤ جن پر اللہ کا غضب ہوا۔ (الممتحنۃ: ١٣) ٦۔ اے ایمان والو ان لوگوں کو دوست نہ بناؤ جنھوں نے تمہارے دین کو کھیل بنا لیا ہے۔ (المائدۃ: ٥٧ تا ٥٨) ٧۔ اگر وہ اللہ اور اس کے نبی پر اور اللہ کی نازل کردہ کتاب پر ایمان لانے والے ہوتے تو کفار کو دوست نہ بناتے۔ (المائدۃ : ٨١) ٨۔ اے ایمان والو اگر تمہارے اٰباؤاجداد کفر کو پسند کریں تو انہیں اپنا دوست نہ بناؤ۔ (التوبۃ: ٢٣) ٩۔ ظالم لوگ ایک دوسرے کے دوست ہیں اور اللہ متقین کا دوست ہے۔ (الجاثیۃ: ١٩) ١٠۔ ایمان والے شیاطین کے دوست نہیں ہوا کرتے۔ (الاعراف : ٢٧) المآئدہ
83 فہم القرآن ربط کلام : پہلی آیت میں یہودیوں کے مقابلہ میں عیسائیوں کی نرمی کی بات کی گئی تھی۔ اب اس کا عملی ثبوت پیش کیا جا رہا ہے۔ اس کے ساتھ یہ مسئلہ بھی سمجھا دیا کہ تکبر سے اجتناب اور اللہ کے خوف کا تقاضا یہ ہے کہ آدمی قرآن مجید کی تلاوت سنے تو حق کو پہچانتے ہوئے اپنے رب سے عاجزانہ درخواست کرے کہ اسے اس کا رب توحید اور حق کی شہادت دینے والوں میں شامل فرمائے۔ مکہ معظمہ میں جوں جوں اسلام کی ترویج ہو رہی تھی۔ اسی رفتار سے اہل مکہ کے جو رواستبداد میں اضافہ ہوتاجا رہا تھا ان کی ایذا رسانیوں سے تنگ آکر نبوت کے پانچویں سال مسلمانوں کے ٨٣ آدمی اور ١٨ عورتوں نے حبشہ کی طرف ہجرت کرنے کا ارادہ کیا۔ ان کی رہنمائی اور حوصلہ افزائی کرتے ہوئے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے امید ظاہر فرمائی کہ اللہ تعالیٰ یقیناً تمھیں وہاں امن وسکون سے نوازے گا۔ کیونکہ حبشہ کا حکمران منصف مزاج انسان ہے۔ چنانچہ ستم رسیدہ لوگ حبشہ کی طرف ہجرت کرگئے لیکن اہل مکہ نے اس اقدام کو گوارا نہ کیا۔ انھوں نے عمرو بن عاص اور عبداللہ بن ربیعہ کو جو انتہائی دانشور اور سفارتی معاملات کی اونچ نیچ کو سمجھنے والے تھے گراں قدر تحائف دے کر حبشہ کے حکمران نجاشی کے پاس بھیجا۔ انھوں نے حبشہ پہنچ کر سب سے پہلے نجاشی کے وزیروں اور مذہبی رہنماؤں سے رابطہ کیا جو اس کے سب سے زیادہ قریب سمجھے جاتے تھے۔ مکی وفد کی گفتگو اور تحائف سے متاثر ہو کر ان لوگوں نے وعدہ کیا کہ جب تم نجاشی سے اپنی آمد کا مقصد بیان کر چکو تو ہم تمھاری بھرپور تائید کریں گے۔ اگلے دن مکی وفد نجاشی کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اور اس کے حضور شاہی آداب کی بجا آوری اور اپنے علاقے کے نادر تحائف پیش کرنے کے بعد اپنا مقصد اس طرح بیان کیا۔ ” اے بادشاہ! آپ کے ملک میں ہمارے کچھ ناسمجھ نوجوان بھاگ آئے ہیں۔ انہوں نے اپنی قوم کا دین چھوڑ دیا ہے۔ لیکن آپ کے دین میں بھی داخل نہیں ہوئے بلکہ ایک نیا دین ایجاد کیا ہے جسے نہ ہم جانتے ہیں نہ آپ۔ ہمیں آپ کی خدمت میں انہی کی بابت ان کے والدین، چچاؤں اور کنبے قبیلے کے عمائدین نے بھیجا ہے۔ مقصد یہ ہے کہ آپ انہیں ہمارے ساتھ واپس بھیج دیں کیونکہ وہ لوگ ان پر کڑی نگاہ رکھتے ہیں اور ان کی خامی اور ناراضگی کے اسباب کو بہتر طور پر سمجھتے ہیں۔“ جب یہ دونوں اپنا مدعا عرض کرچکے تو اس کے مصاحبین نے کہا :” بادشاہ سلامت ! یہ دونوں ٹھیک کہہ رہے ہیں۔ آپ ان جوانوں کو ان کے حوالے کردیں ہم انہیں ان کی قوم اور ان کے ملک میں واپس پہنچا دیں گے۔“ لیکن حکمران نے یکطرفہ کارروائی کرنے کے بجائے مسلمانوں کو اپنی خدمت میں پیش کرنے کا حکم دیا۔ نجاشی مسلمانوں سے سوال کرتا ہے یہ کون سا دین ہے جس بنا پر تم نے اپنے اعزاء و اقارب، کا روبار اور گھر بار چھوڑدیا ہے ؟ وفد کے ترجمان حضرت جعفر بن ابی طالب (رض) نے مفصل جواب دیا جس کا خلاصہ یہ ہے کہ ہم غریبوں، مسافروں اور پڑوسیوں پر ظلم کرنے والے تھے۔ ہمارے رسول نے ہمیں اس سے منع کرتے ہوئے سمجھایا کہ لوگوں پر ظلم کرنے کے بجائے ان کے معاون اور مددگار بن جاؤ۔ حضرت جعفر (رض) نے اپنی گفتگو جاری رکھتے ہوئے یہ بھی فرمایا کہ ہم پتھر اور لکڑی کے بنے ہوئے بتوں کی عبادت کرتے تھے ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے ناجائز قرار دیتے ہوئے حکم دیا تم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کیا کرو۔ حضرت جعفر (رض) نے اپنا نظریہ اور مؤقف اتنا دلگداز طریقے سے پیش کیا کہ نجاشی نے ان کا خطاب سنتے ہی حکم صادر فرمایا کہ میں مظلوموں کو اپنے ملک میں پناہ دیتا ہوں۔ اس ناکامی پر مکی وفد نے آخری حربہ استعمال کرتے ہوئے اگلے دن نجاشی کو یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ یہ لوگ عیسیٰ (علیہ السلام) کی یہ کہہ کر توہین کرتے ہیں کہ عیسیٰ اللہ کا بندہ، رسول اور فقط ابن مریم ہے۔ قریب تھا عمرو بن عاص کا یہ حربہ کارگر ثابت ہوتا لیکن حضرت جعفر (رض) نے سورۃ مریم کی آیات ایسے رقت آمیز لہجے میں تلاوت کیں کہ جس سے شاہی دربار میں ایک سماں پیدا ہوا۔ شاہ حبشہ نے کہا کہ قرآن مجید نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں جو کچھ فرمایا ہے یہی حق ہے اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی اس میں کوئی توہین نہیں پائی جاتی۔ اس طرح مسلمانوں کو سکون ملا اور مکہ کا وفد ناکام لوٹا۔ اس واقعہ کے کئی سال بعد حبشہ سے ستر زعماء پر مشتمل رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں عیسائیوں کا وفد آیا جب یہ لوگ اسلام کے بارے میں نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے گفتگو کر رہے تھے تو آپ نے ان کے سامنے سورۃ یٰس کی تلاوت فرمائی سنتے ہی وفد کی آنکھوں سے چھم چھم آنسو بہنے لگے وہ جوں جوں قرآن مجید کی تلاوت سن رہے تھے زارو و قطار رونے کے ساتھ اس بات کا اقرار کر رہے تھے کہ ہم نے اللہ تعالیٰ کے پیغام کو حق سمجھ کر پہچان لیا ہے۔ ہماری اس کے حضور عاجزانہ التجا ہے کہ وہ ہمیں حق کی شہادت دینے والوں میں شامل فرمالے۔ حق پہچان لینے کے بعد ہمارے پاس اب کوئی حُجّت نہیں کہ ہم حق کا انکار کریں لہٰذا ہم امید رکھتے ہیں کہ ہمارا رب ہمیں اپنے نیک بندوں میں شمار فرمائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کا ایمان قبول کرتے ہوئے ان کے ساتھ ہمیشہ رہنے والی جنت کا وعدہ فرمایا جس کے نیچے نہریں جاری ہیں اور اللہ تعالیٰ کے ہاں محسنین کے لیے ایسا ہی بدلہ تیار کیا گیا ہے۔ ان کے مقابلے میں جو لوگ اللہ تعالیٰ کی آیات کے ساتھ کفر و تکذیب کا رویہ اختیار کریں گے انھیں دہکتی ہوئی جہنم میں جھونکا جائے گا۔ مسائل ١۔ حق جان لینے کے بعد اسے مان لینا چاہیے۔ ٢۔ حق کی گواہی دینا باعث نجات ہے۔ ٣۔ نیک لوگوں کی صحبت کی دعا کرنی چاہیے ٤۔ شریعت الٰہی پر عمل کرنے سے اللہ تعالیٰ جنت عطا فرمائے گا۔ ٥۔ اللہ کی آیات کا انکار کرنے والے جہنم میں جائیں گے۔ ٦۔ اللہ کے بندے قرآن مجید سن کر رو پڑتے ہیں۔ ٧۔ نیکوں کو ان کی نیکی اور بروں کو ان کی برائی کی پوری پوری جزاء و سزا ملے گی۔ تفسیر بالقرآن ایمان قبول کرنے والوں کی دعائیں : ١۔ فرعون کی مومنہ بیوی کی ظلم سے نجات کی دعا۔ (التحریم : ١١) ٢۔ جادوگروں کی ایمان کے بعد صبر اور ثابت قدمی کی دعا۔ (الاعراف : ١٢٠ تا ١٢٦) ٣۔ ایمان لانے کے بعد طرح طرح کے ادعیہ ماثورہ کا ذکر۔ (البقرۃ: ٢٨٥ تا ٢٨٦) ٤۔ ہمارے رب ہم نے ایمان کی دعوت قبول کی تو ہماری خطاؤں کو معاف فرما۔ (آل عمران : ١٩٣ تا ١٩٤) ٥۔ اے رب ہمارے ! ہمیں اور ہمارے مومن بھائیوں کو معاف فرما۔ (الحشر : ١٠) ٦۔ جب طالوت اور جالوت کے لشکر بالمقابل ہوئے تو انھوں نے کہا اے ہمارے پروردگار ہم پر صبر نازل فرما اور ہمیں ثابت قدم فرما اور کافروں کی قوم پر ہماری مدد فرما۔ (البقرۃ: ٢٥٠) ٧۔ وہ کہتے ہیں اے ہمارے رب بے شک ہم ایمان لائے ہمارے گناہ معاف فرما اور ہمیں آگ کے عذاب سے محفوظ فرما۔ (آل عمران : ١٦) المآئدہ
84 المآئدہ
85 المآئدہ
86 فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ کی آیات کے ساتھ کفر و تکذیب کا رویہ اختیار کرنے کی وجہ سے لوگ جہنم کا ایندھن بنیں گے۔ اے صاحب ایمان لوگو! تم اللہ کی حلال کردہ چیزوں کو اپنی مرضی سے حرام کرکے زیادتی کے مرتکب نہ ہوجانا، زیادتی کرنے والے اور حد سے بڑھنے والے لوگ عملاً کفر و تکذیب کرنے والے ہوتے ہیں۔ اس آیت میں بنیادی حکم یہ دیا گیا ہے کہ مومنوں کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ اللہ تعالیٰ کی حلال اور طیّب چیزوں کو من مرضی سے حرام قرار دیں۔ حرام و حلال کی تاریخ دیکھی جائے تو یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ لوگوں نے لذت نفس کی خاطر اللہ تعالیٰ کی حرام کردہ چیزوں کو حلال قرار دیا اور کچھ لوگوں نے تقویٰ اور نیکی کے حصول کے لیے حلال کو حرام ٹھہرایا۔ جس طرح کہ بعض صوفیاۓ کرام، ہندو پنڈت، جوگی، بدھ مت کے پیروکار اور عیسائیوں میں بعض پادریوں نے من ساختہ نیکی کے حصول کے لیے لذّات سے اجتناب اور تارک الدّنیا ہونے کا عقیدہ اختیار کیا۔ دین اسلام نے اس بات کی قطعاً اجازت نہیں دی کہ ایمان کا دعویٰ کرنے والے اللہ تعالیٰ کی حلال کردہ چیزوں کو حرام قرار دیں اور حدود اللہ سے تجاوز کر جائیں۔ یاد رہے کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک موقع پر یوں فرمایا ہے کہ ہر حکومت کی ایک چراگاہ ہوتی ہے اگر کوئی شخص اپنے مویشی سرکاری چراگاہ کی حدود کے قریب لے جائے گا تو خطرہ ہے کہ کسی وقت بھی اس کے جانور چراگاہ میں داخل ہوجائیں۔ احتیاط اور تقویٰ کی بات یہ ہے کہ کسی گلہ بان کو اپنا ریوڑسرکاری چراگاہ کے قریب نہیں لے جانا چاہیے۔ گویا کہ اللہ تعالیٰ کے حرام و حلال کے ضابطوں کے اندر رہ کر زندگی بسر کرنا ہی تقویٰ ہے۔ اس سے صوفیائے کرام کے اس نظریے کی تردید ہوتی ہے جنھوں نے خدا کی معرفت حاصل کرنے کے لیے اس کی نعمتوں کو ترک کرتے ہوئے نفس کشی کا رویہ اختیار کیا حالانکہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے کہ صحت مند مومن کمزور مومن سے بہتر ہے۔ البتہ طبعی کراہت یا پرہیز کی خاطر کسی چیز کو ترک کرنا حرام کے زمرے میں نہیں آتا ہے بشرطیکہ آدمی خدا کی حلال کردہ چیزکو حلال اور اس کے حرام کو حرام سمجھتا ہو۔ اگر کسی کو حقیقی ایمان نصیب ہو تو یہ بات سمجھنے میں کوئی رکاوٹ نہیں کہ اسی میں تقویٰ اور تزکیہ نفس ہے۔ ” حضرت عبداللہ بن دینار (رض) بیان کرتے ہیں انھوں نے عبداللہ بن عمر (رض) کو فرماتے سنا کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سانڈھے (گوہ) کے متعلق پوچھا گیا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میں اس کو کھاتا ہوں نہ اس کو حرام کرتا ہوں۔“ ( عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِیرٍ (رض) یَقُولُ سَمِعْتُ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَقُولُ الْحَلَالُ بَیِّنٌ وَالْحَرَامُ بَیِّنٌ وَبَیْنَہُمَا مُشَبَّہَاتٌ لَا یَعْلَمُہَا کَثِیرٌ مِّنَ النَّاسِ فَمَنِ اتَّقَی الْمُشَبَّہَاتِ اسْتَبْرَأَ لِدِینِہٖ وَعِرْضِہٖ) [ رواہ البخاری : کتاب الایمان، باب فضل من استبرألدینہ] ” حضرت نعمان بن بشیر (رض) کہتے ہیں میں نے رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا آپ نے فرمایا حلال واضح ہے اور حرام بھی واضح ہے دونوں کے درمیان متشابہ چیزیں ہیں ان کو لوگوں کی اکثریت نہیں جانتی ہے جو کوئی متشابہ چیزوں سے بچے گا اس نے اپنا دین اور عزت محفوظ کرلی۔“ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)۔۔ قَالَ یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا کُلُوا مِنْ طَیِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاکُمْ ثُمَّ ذَکَرَ الرَّجُلَ یُطِیل السَّفَرَ أَشْعَثَ أَغْبَرَ یَمُدُّ یَدَیْہِ إِلَی السَّمَاءِ یَا رَبِّ یَا رَبِّ وَمَطْعَمُہُ حَرَامٌ وَمَشْرَبُہُ حَرَامٌ وَمَلْبَسُہُ حَرَامٌ وَغُذِیَ بالْحَرَامِ فَأَنّٰی یُسْتَجَابُ لِذٰلِکَ)[ رواہ مسلم : کتاب الزکاۃ، باب قبول الصدقۃ من الکسب الطیب وتربیتھا] ” حضرت ا بو ہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اے ایمان والو ! پاکیزہ چیزوں میں سے کھاؤ جو ہم نے تم کو دی ہیں، پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک ایسے شخص کا ذکر کیا جو لمبے سفر کی وجہ سے پراگندہ بالوں کے ساتھ اپنے ہاتھوں کو آسمان کی طرف پھیلاتا ہے اے میرے رب ! اے میرے رب ! کہتا ہے اس کا کھانا پینا حرام، اس کا لباس بھی حرام اور اس کا سامان بھی حرام مال کا ہے تو اس کی دعا کیسے قبول ہوگی۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ کی حلال کردہ چیزوں کو حرام نہیں گرداننا چاہیے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ کی مقرر کردہ حدود سے تجاوز نہیں کرنا چاہیے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ کی حلال کردہ پاکیزہ چیزیں ہی کھانی چاہییں۔ ٤۔ تقویٰ ہی مومنین کو اعتدال و فرمانبرداری کی راہ پر گامزن کرتا ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ زیادتی کرنے والے کو پسند نہیں کرتا : ١۔ زیادتی کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ پسند نہیں کرتا۔ (البقرۃ: ١٩٠) ٢۔ اللہ ظلم کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ (آل عمران : ٥٧) ٣۔ اللہ فساد کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ (المائدۃ: ٦٤) ٤۔ اسراف کرنے والوں کو اللہ پسند نہیں کرتا۔ (الانعام : ١٤١) ٥۔ خیانت کرنے والوں کو اللہ پسند نہیں کرتا۔ (انفال : ٥٨) ٦۔ تکبر کرنے والے کو اللہ پسند نہیں کرتا۔ (النحل : ٢٣) المآئدہ
87 المآئدہ
88 المآئدہ
89 فہم القرآن ربط کلام : جس طرح اللہ تعالیٰ کی حلال کردہ چیزوں کو حرام ٹھہرانا ناجائز ہے اس طرح اللہ کے عظیم نام کو غلط استعمال نہیں کرنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ کا انسان پر یہ بھی کرم ہے کہ وہ اپنے نام کو بے وجہ استعمال کرنے کے باوجود اس پر گرفت نہیں کرتا۔ لغو کا معنی بے ہودہ، بے وجہ اور بلا ارادہ ہے۔ البتہ لغو کام اور بات سے منع کیا گیا ہے۔ عزم اور شعوری طور پر اٹھائی ہوئی قسم پر مؤاخذہ ہوتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کے عظیم اور مقدس نام کی لاج رکھنا مسلمان پر فرض ہے۔ انسان کی جبلت میں یہ بات شامل ہے کہ جب اپنی بات کو مؤثر اور مضبوط کرنا چاہتا ہے تو شواہد اور دلائل کے ساتھ کسی عزیر یا محترم چیز کی قسم اٹھایا کرتا ہے تاکہ سننے والا اس کی بات پر اعتماد اور یقین کرلے۔ اس لیے ہر دور کے مشرک اپنے باطل خداؤں کی قسمیں اٹھایا کرتے ہیں۔ نبی محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس طریقۂ گفتگو کی اصلاح کرتے ہوئے فرمایا کہ بلاوجہ قسمیں اٹھانے سے پرہیز کرنا چاہیے اور اگر قسم اٹھانا ناگزیر ہو تو غیر اللہ کی قسم اٹھانے کے بجائے اللہ تعالیٰ کے نام کی قسم اٹھانا چاہیے۔ دوسری طرف آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس بات کو بہت ہی برا جانا ہے کہ کوئی شخص اللہ تعالیٰ کے مقدس نام کو دنیاوی فائدے اور محض ڈھال کے طور پر استعمال کرے۔ قسم اٹھانا درحقیقت اللہ تعالیٰ کو گواہ بنانے کے مترادف ہے اس لیے آدمی کو حتی المقدور کوشش کرنی چاہیے کہ وہ منہ سے نکلی ہوئی قسم اور بات کی پاسداری کرے قسم کے لیے یمین کا لفظ استعمال ہوا ہے جس کا معنی دایاں ہاتھ ہے۔ پہلے وقتوں میں لوگ حلف اٹھاتے وقت ایک دوسرے کا دایاں ہاتھ پکڑ لیا کرتے تھے جس سے قسم اٹھانے والا اپنی بات کو قوی اور مؤکد کیا کرتا تھا۔ حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ لغو قسموں سے مراد ایسی قسمیں ہیں جو انسان تاکید کلام کے طور پر کہتا ہے جیسے لاواللہ۔ وغیرہ (رواہ البخاری : کتاب التفسیر) کفّارہ کا لفظ کفر سے مشتق ہے کفر کا ایک معنی ستر ڈھانپنا ہے۔ قسم توڑنے کی وجہ سے جس گناہ کا ارتکاب ہوتا ہے کفارہ اس گناہ کو ڈھانپ دیتا ہے۔ قسم کا کفارہ درج ذیل میں سے کوئی ایک ہے۔ ١۔ دس غریب لوگوں کو کھانا کھلانا۔ ٢۔ دس آدمیوں کو لباس پہنانا۔ ٣۔ غلام آزاد کرانا۔ ٤۔ تین روزے رکھنا۔ (عن ابن عمر (رض) اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ اِنَّ اللّٰہَ ےَنْھٰکُمْ اَنْ تَحْلِفُوْا بِاٰ بَآءِکُمْ مَنْ کَانَ حَالِفًا فَلْےَحْلِفْ باللّٰہِ اَوْلِےَصْمُتْ)[ رواہ البخاری : کتاب الشہادات، باب کیف یستحلف] ” حضرت عبداللہ بن عمر (رض) ہی بیان کرتے ہیں : رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : بے شک اللہ تعالیٰ تمہیں اس بات سے منع کرتا ہے کہ تم اپنے باپ دادا کے نام کی قسمیں کھاؤ۔ جسے قسم اٹھانی ہو وہ اللہ کے نام کی قسم اٹھائے یا خاموش رہے۔“ (عَنْ اَبِیْ ھُرَےْرَۃَ (رض) عَنِِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ مَنْ حَلَفَ فَقَالَ فِیْ حَلْفِہٖ بِِاللَّاتِِ وَالْعُزّٰی فَلْےَقُلْ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَمَنْ قَالَ لِصَاحِبِِہٖ تَعَالَ اُقَامِرْکَ فَلْےَتَصَدَّقْ) [ رواہ البخاری : کتاب التفسیر، باب افرایتم اللات والعزی] ” حضرت ابوہریرہ (رض) نبی رحمت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان نقل کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا کہ جس نے لات وعزٰی کی قسم کھائی وہ دوبارہ لا الہٰ الا اللہ پڑھے اور جس نے اپنے ساتھی سے کہا کہ آؤ جوا کھیلیں‘ وہ صدقہ کرے۔“ ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بلاشبہ آدمی کے بہترین اسلام کی نشانی یہ ہے کہ وہ فضول یعنی لا حاصل باتوں کو چھوڑ دے۔“ [ رواہ الترمذی : کتاب الزہد،] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تمھاری وہی قسم قابل اعتماد ہوگی جس کی تصدیق قسم لینے والا کرے گا اور عمرو (رض) نے کہا کہ تمھاری تصدیق تمھارا ساتھی کرے گا۔“ [ رواہ مسلم : باب یمین الحالف علیٰ نیۃ المستحلف] مسائل ١۔ لغو قسموں سے احتراز کرنا چاہیے۔ ٢۔ قسم پوری ذمہ داری کے ساتھ اٹھانی چاہیے۔ تفسیر بالقرآن قسم کے مسائل : ١۔ قسموں کو پورا کرنے کا حکم ہے۔ (النحل : ٩١ تا ٩٤) ٢۔ صدقہ نہ کرنے پر قسم کھانا منع ہے۔ (النور : ٢٢ تا ٢٤) ٣۔ بلا اراداہ ٹھائی جانے والی قسموں پر مؤاخذہ نہیں ہوگا۔ (البقرۃ: ٢٢٥) ٤۔ ڈھال کے طور پر اللہ کی قسم نہیں کھانا چاہیے۔ (البقرۃ: ٢٢٤) ٥۔ اللہ کے عہد اور قسموں کے ذریعے مال کمانے والوں کو عذاب الیم ہے۔ (آل عمران : ٧٧) المآئدہ
90 فہم القرآن ربط کلام : جس طرح اللہ تعالیٰ کے نام کا تقدس ہے کہ اسے ناجائز استعمال نہیں کرنا اسی طرح اس کے حکم کا تقاضا ہے کہ شراب اور شیطانی کاموں کو چھوڑ دیا جائے۔ سورۃ البقرۃ کی تشریح میں بتایا گیا ہے کہ عربی میں ہر اس چیز کو خمر کہتے ہیں جو دوسرے پر پردہ ڈال دے۔ اسی مناسبت سے عورتوں کی اوڑھنیوں کو بھی قرآن مجید میں خمر کہا گیا ہے (سورۃ النور : ٣١) کیونکہ عورت اس سے اپنا سر، چہرہ اور جسم ڈھانپتی ہے شراب کو خمر اس لیے کہا جاتا ہے کہ وہ آدمی کی عقل و فکر پر پردہ ڈال دیتی ہے۔ اسلام کے دوسرے ضابطوں اور قوانین کی طرح شراب کے حکم امتناعی کی تکمیل بھی تدریجاً ہوئی ہے۔ شراب کی جسمانی اور اخلاقی قباحتوں کی وجہ سے اسے مطلقاً حرام قرار دیا گیا ہے۔ شراب کا عادی شخص اپنی عمر سے کہیں پہلے بوڑھا ہوجاتا ہے آدمی شراب پی کر ایسی حرکات کرتا اور خرافات بکتا ہے کہ جس کا صحیح حالت میں تصور بھی نہیں کرسکتا۔ اس لیے شراب کسی بھی مذہب میں جائز قرار نہیں دی گئی۔ شراب کے بارے میں دور حاضر کے ڈاکٹر بھی اس بات پر متفق ہیں کہ اس کے فائدے نہایت عارضی اور معمولی ہیں لیکن روحانی، جسمانی، اخلاقی، معاشرتی اور معاشی نقصان لامحدود اور ناقابل تلافی ہیں۔ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے شراب کو علاج کے طور پر استعمال کرنے سے منع ہی نہیں فرمایا ہے بلکہ اسے بیماری قرار دیتے ہوئے ابتدا میں اس کے لیے استعمال ہونے والے برتنوں سے بھی منع فرما دیا۔ (أَنَّ طَارِقَ بْنَ سُوَیْدٍ الْجُعْفِیَّ (رض) سَأَلَ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عَنِ الْخَمْرِ فَنَہَاہُ أَوْ کَرِہَ أَنْ یَصْنَعَہَا فَقَالَ إِنَّمَا أَصْنَعُہَا للدَّوَاءِ فَقَالَ إِنَّہُ لَیْسَ بِدَوَاءٍ وَلَکِنَّہُ دَاءٌ )[ رواہ مسلم : کتاب الاشربہ، باب تحریم التداوی بالخمر] ” طارق بن سوید جعفی (رض) نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے شراب کے متعلق سوال کیا تو آپ نے اسے پینے سے منع کیا یا ناپسند کیا تو اس نے کہا کیا میں اسے بطور دوا استعمال کرسکتا ہوں؟ آپ نے فرمایا یہ دوا نہیں بلکہ بیماری ہے۔“ (ٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ (رض) عَنْ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ إِنَّ اللّٰہَ حَرَّمَ عَلَیْکُمْ الْخَمْرَ وَالْمَیْسِرَ وَالْکُوبَۃَ وَقَالَ کُلُّ مُسْکِرٍ حَرَامٌ)[ رواہ احمد] ” حضرت عبداللہ بن عباس (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے تم پر شراب، جوا اور شترنج کو حرام کردیا ہے مزید فرمایا ہر نشہ آور چیز حرام ہے۔“ (عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ (رض) أَنَّ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ مَا أَسْکَرَ کَثِیرُہُ فَقَلِیلُہُ حَرَامٌ) [ رواہ الترمذی : باب الاشربہ] ” حضرت جابر بن عبداللہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس چیز کی کثیر مقدار حرام ہو اس کی قلیل مقدار بھی حرام ہوتی ہے۔“ (عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ (رض) قَالَ لَعَنَ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فِی الْخَمْرِ عَشْرَۃً عَاصِرَہَا وَمُعْتَصِرَہَا وَشَارِبَہَا وَحَامِلَہَا وَالْمَحْمُولَۃُ إِلَیْہِ وَسَاقِیَہَا وَبَاءِعَہَا وَآکِلَ ثَمَنِہَا وَالْمُشْتَرِی لَہَا وَالْمُشْتَرَاۃُ لَہُ)[ رواہ الترمذی : کتاب البیوع، باب النہی ان یتخذ الخمر خلا ] ” حضرت انس (رض) فرماتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے شراب کے متعلق دس آدمیوں پر لعنت کی ہے۔ ١۔ شراب نچوڑنے والا۔ ٢۔ نچڑوانے والا۔ ٣۔ لینے والا۔ ٤۔ اٹھانے والا۔ ٥۔ جس کے لیے لے جائی جائے۔ ٦۔ پلانے والا ٧۔ بیچنے والا۔ ٨۔ اس کی قیمت کھانے والا۔ ٩۔ خریدنے والا۔ ١٠۔ جس کے لیے خریدی جائے۔“ (عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ (رض) أَنَّ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) أُتِیَ بِرَجُلٍ قَدْ شَرِبَ الْخَمْرَ فَجَلَدَہُ بِجَرِیدَتَیْنِ نَحْوَ أَرْبَعِینَ قَالَ وَفَعَلَہُ أَبُو بَکْرٍ فَلَمَّا کَانَ عُمَرُ اسْتَشَار النَّاسَ فَقَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ أَخَفَّ الْحُدُودِ ثَمَانِینَ فَأَمَرَ بِہِ عُمَرُ (رض) [ رواہ مسلم : کتاب الحدود، باب حد الخمر] ” حضرت انس بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس ایک شخص لایا گیا جس نے شراب پی ہوئی تھی۔ آپ نے اسے دو چھڑیوں سے چالیس ضربیں لگائیں۔ اور حضرت ابو بکر (رض) نے اپنے دور خلافت میں بھی ایسا ہی کیا۔ پھر حضرت عمر (رض) کا دور خلافت آیا تو انھوں نے اس بارے میں صحابہ سے مشورہ کیا۔ عبدالرحمن بن عوف (رض) نے کہا کہ سب حدوں میں سے ہلکی حد اسّی کوڑے ہیں۔ (یعنی حد قذف جو قرآن میں مذکور ہے) حضرت عمر (رض) نے شرابی کے لیے اسّی کوڑوں کی حد کا حکم دیا۔“ میسر : ہر وہ عقد جس کی رو سے ہارنے والا جیتنے والے کو ایک معین اور پہلے سے طے شدہ رقم ادا کرے اس کو میسر کہتے ہیں، یہ ” یسر“ سے ہے جس کا معنی آسانی ہے۔ اسے عرف میں جوا کہتے ہیں جوئے کے ذریعے جیتنے والے فریق کو ہارنے والے فریق کی رقم آسانی سے مل جاتی ہے۔ اس لیے اس کو میسر کہتے ہیں۔ ازلام : تیروں کی شکل میں پتلی پتلی لکڑیاں، ان سے زمانۂ جاہلیت میں قسمت کا حال اور شگون لیا کرتے اور فال نکالتے تھے۔ جس کے ہر دور میں کئی طریقے اختیار کیے جاتے رہے ہیں جیسا کہ آج کے زمانے میں طوطے کو سکھلا کر اس سے کاغذ کی پرچیاں اٹھوائی جاتی ہیں۔ (عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ (رض) قَالَ إِنَّ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لَمَّا قَدِمَ أَبَی أَنْ یَدْخُلَ الْبَیْتَ وَفِیہِ الْآلِہَۃُ فَأَمَرَ بِہَا فَأُخْرِجَتْ فَأَخْرَجُوا صورَۃَ إِبْرَاہِیمَ وَإِسْمَاعِیلَ فِی أَیْدِیہِمَا الْأَزْلَامُ فَقَالَ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَاتَلَہُمْ اللّٰہُ أَمَا وَاللّٰہِ لَقَدْ عَلِمُوا أَنَّہُمَا لَمْ یَسْتَقْسِمَا بِہَا قَطُّ فَدَخَلَ الْبَیْتَ فَکَبَّرَ فِی نَوَاحِیہٖ وَلَمْ یُصَلِّ فیہٖ) [ رواہ البخاری : کتاب الحج، باب من کبر فی نواحی الکعبۃ] ” حضرت عبداللہ بن عباس (رض) فرماتے ہیں بلاشبہ جب رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حرم میں آئے تو کعبہ میں داخل ہونے سے انکار کردیا۔ کیونکہ وہاں بت رکھے ہوئے تھے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں نکالنے کا حکم دیا۔ ان کو نکال دیا گیا۔ لوگوں نے حضرت ابراہیم اور اسماعیل ( علیہ السلام) کے مجسمیجن کے ہاتھوں میں تیر تھے، اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو برباد کرے اللہ کی قسم! یہ جانتے تھے کہ یہ ان کی قسمت کا حال کبھی نہیں بتا سکتے۔ تب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بیت اللہ میں داخل ہوئے آپ نے اس کے کو نوں میں تکبیر کہی اور وہاں نماز نہ ادا کی۔“ انصاب : بتوں کے پاس نصب شدہ پتھر جن کی عبادت کی جاتی تھی اور بتوں کا تقرب حاصل کرنے کے لیے ان پر جانور ذبح کیے جاتے تھے۔ (المفردات ج ٢ ص : ٦٣٨) رجس : جو چیز حسًا یا معنًا گندی اور ناپاک ہو، انسان کی طبیعت اس سے گھن کھائے یا عقل اس کو برا جانے یا شریعت نے اس کو ناپاک قرار دیا ہو وہ رجس اور حرام ہے۔ مسائل ١۔ شراب، جوا، وغیرہ شیطانی کام ہیں۔ ٢۔ شیطانی کاموں سے اجتناب کرنا چاہیے۔ ٣۔ دنیا و آخرت کی کامیابی برے کاموں سے بچنے میں ہے۔ ٤۔ شیطان اپنے افعال سے مسلمانوں کو باہم لڑاتا ہے۔ ٥۔ شراب اور جوا نماز اور ذکر الٰہی سے روکتے ہیں تفسیر بالقرآن شراب کے مسائل : ١۔ شراب کا نقصان فائدہ سے زیادہ ہے۔ (البقرۃ: ٢١٩) ٢۔ شراب پینا شیطانی عمل ہے۔ (المائدۃ : ٩٠) ٣۔ شراب اللہ تعالیٰ کے ذکر سے روکتی ہے۔ (المائدۃ: ٩١) ٤۔ شراب حرام ہے اس کے پینے سے بچنا چاہیے۔ (المائدۃ : ٩٠) المآئدہ
91 المآئدہ
92 فہم القرآن ربط کلام : اللہ اور اس کے رسول نے خمر، جوئے اور دیگر محرمات سے اجتناب کا حکم دیا ہے۔ اس حکم پر عمل کرو اور اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی سے بچو۔ قرآن مجید نے بار ہا اس بات کی وضاحت فرمائی ہے کہ رسول کی ذمہ داری فقط یہ ہے کہ وہ اپنے رب کے پیغام من و عن لوگوں تک پہنچائے اور اس پر خود عمل کرکے اپنے آپ کو نمونہ کے طور پر پیش کرے۔ تاکہ لوگوں کے لیے کوئی حجت باقی نہ رہے۔ یہاں یہ بھی بتلا دیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ممنوعات سے بچنا اور اس کے رسول کی اطاعت کرنا ہے۔ اس بات کو اس طرح بھی بیان فرمایا جو کچھ تمھیں رسول دیتا ہے اسے قبول کرو اور جس سے روکتا ہے اس سے رک جاؤ کیونکہ جس نے رسول کی اطاعت کی اس نے حقیقتاً اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی۔ یہاں ماضی کے حوالے سے ایک استفسار کا جواب بھی دیا گیا ہے۔ جب شراب حرام ہونے کا حکم نازل ہوا تو صحابہ کرام (رض) نے کہا اے اللہ کے رسول! ہمارے ان بھائیوں کا کیا حال ہوگا جو شراب پیتے تھے اور اسی دور میں فوت ہوگئے اس کے جواب میں یہ آیت نازل ہوئی۔ (مسند احمد) اس فرمان میں تقویٰ، ایمان اور عمل صالح کو لازم ملزوم قرار دیا کیونکہ تقویٰ کے بغیر ایمان قابل قبول نہیں اور ایمان صالح اعمال کے بغیر آدمی کو خاطر خواہ فائدہ نہیں دیتا۔ پہلی مرتبہ تقویٰ اور ایمان کے بعد صالح اعمال کا ذکر کیا ہے اور دوسری مرتبہ ایمان کو تقویٰ سے مقدّم رکھتے ہوئے صالح اعمال کی جگہ ” اَحْسِنُوْا“ کا لفظ استعمال فرما کر محسنین کو اپنی محبت کا یقین دلایا ہے۔ احسان کا ایک معنی یہ بھی ہے کہ ہر کام اللہ کی رضا کے لیے کیا جائے۔ حقیقتاً عمل صالح ہوتا وہی ہے جس میں صرف اللہ تعالیٰ کی رضا مقصود ہو۔ اور اسے اس جذبہ کے ساتھ بجا لایا جائے گویا کہ انسان اللہ تعالیٰ کو دیکھ کر اس کی منشا کے مطابق عمل کر رہا ہے۔ جب کسی کام کی ادائیگی میں یہ جذبہ اور تخیل پیدا ہوجائے تو نہ صرف نیکی کرنے میں ذوق شوق پیدا ہوتا ہے بلکہ اس انداز سے نیکی کرنے والا اللہ تعالیٰ کی رحمت اور محبت کی لذّت محسوس کرتا ہے۔ اس طرح اسے دنیا میں ہی رب کریم کی محبت کا کیف محسوس ہوتا ہے۔ اور یہ نیکی کی قبولیت کا واضح ثبوت ہے۔ کچھ مفسرین نے تقویٰ اور ایمان کے تکرار کے بارے میں لکھا ہے کہ اس تکرار سے مراد تقویٰ اور ایمان میں مبالغہ مقصود ہے۔ کچھ کا خیال ہے کہ تقویٰ اور ایمان کی تکرار سے اس کے مختلف درجات مراد ہیں۔ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ إِذَا أَحَبَّ اللّٰہُ عَبْدًا نَادٰی جِبْرِیلَ إِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ فُلَانًا فَأَحِبَّہُ فَیُحِبُّہُ جِبْرِیلُ فَیُنَادِی جِبْرِیلُ فِی أَہْلِ السَّمَاءِ إِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ فُلَانًا فَأَحِبُّوہُ فَیُحِبُّہُ أَہْلُ السَّمَاءِ ثُمَّ یُوضَعُ لَہُ الْقَبُولُ فِی أَہْلِ الْأَرْضِ)[ رواہ البخاری : کتاب بدء الخلق، باب ذکر الملائکۃ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب اللہ تعالیٰ کسی بندے سے محبت کرتا ہے تو جبرائیل (علیہ السلام) کو بلا کر فرماتا ہے بلاشبہ اللہ تعالیٰ فلاں بندے سے محبت رکھتا ہے تم بھی اس سے محبت کرو۔ جبرائیل (علیہ السلام) اس سے محبت کرتے ہوئے آسمان والوں کے سامنے اعلان کرتے ہیں بلاشبہ اللہ تعالیٰ اس سے محبت رکھتا ہے تو تم بھی اس سے محبت کرو اہل آسمان بھی اس سے محبت کرنے لگتے ہیں۔ پھر اس بندے کے لیے زمین میں شرف قبولیت بخش دیا جاتا ہے۔“ مسائل ١۔ اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ہی اطاعت کرنی چاہیے۔ ٢۔ رسول مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حکم سے اعراض نہیں کرنا چاہیے۔ ٣۔ کسی بھی چیز کا حکم سامنے آجانے پر اس پر عمل کرنا چاہیے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ احسان کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے۔ تفسیر بالقرآن تقویٰ اور اس کے فائدے : ١۔ اللہ تعالیٰ نے متقین کے ساتھ جنت کا وعدہ فرمایا ہے اور کافروں کا انجام دوزخ کی آگ ہے۔ (الرعد : ٣٥) ٢۔ صبر کرو متقین کا بہتر انجام ہے۔ (ہود : ٤٩) ٣۔ متقین کے لیے جنت ہے۔ (الحجر : ٤٥) ٤۔ قیامت کے دن متقین کے چہرے ہشاش بشاش ہوں گے۔ (یونس : ٢٦۔ ٢٧) المآئدہ
93 المآئدہ
94 فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ : تقویٰ اور ایمان کا یہ بھی تقاضا ہے کہ احرام کی حالت میں شکار کرنے سے اجتناب کرو۔ امام ابن ابی حاتم (رض) نے تحریر کیا ہے کہ یہ آیات صلح حدیبیہ کے سال نازل ہوئیں۔ جب مسلمان عمرہ کرنے کی غرض سے مدینہ طیبہ سے نکلے تو چند لوگوں کے سوا سب نے میقات پر پہنچ کر احرام باندھا اس حالت میں مسلمانوں کو شکار کرنے سے منع کیا گیا۔ جبکہ شکار مسلمانوں کے اتنا قریب تھا کہ وہ اپنے ہاتھوں سے جانوروں کی گردنیں دبوچ سکتے تھے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کا حکم پہنچنے کے بعد جن لوگوں نے احرام باندھا ہوا تھا انھوں نے شکار پر ہاتھ اٹھانے کی جرأت نہ کی۔ اس حکم کا تقاضا یہ بھی ہے کہ محرم شخص غیر محرم کو شکار کرنے کا اشارہ بھی نہیں کرے۔ کیونکہ اس حکم میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے ” وہ تمھیں آزمانا چاہتا ہے کہ کون تم میں غیب کی حالت میں اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہے۔“ غیب سے مراد یہ نہیں کہ انسان کسی لمحہ اللہ تعالیٰ سے پوشیدہ اور اس کی قدرت سے باہر ہوتا ہے۔ غائب سے مراد انسان کی ایسی خلوت ہے جب اسے اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں دیکھتا۔ احرام کی حالت میں اللہ تعالیٰ کا خوف اور اس کا حکم سمجھ کرشکار کرنے سے بچنا اور اللہ کے منع کردہ کاموں سے رکنا ہی حقیقی ایمان اور تقویٰ ہے۔ یہاں یہ بھی انتباہ کیا کہ جو شخص خلوت میں اللہ تعالیٰ سے بے خوف ہو کر اس کی نافرمانی کرتا ہے اسے یاد رکھنا چاہیے کہ اسے اذیت ناک عذاب میں مبتلا کیا جائے گا۔ ابو قتادہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ ہم جب حدیبیہ کے سفر پر روانہ ہوئے تو میرے سوا تمام صحابہ (رض) نے احرام باندھا ہوا تھا۔ میرے ساتھیوں نے راستہ میں ایک جنگلی گدھا دیکھا اور ایک دوسرے کو دیکھ کر ہنسنے لگے۔ میں اپنا جوتا سینے میں مشغول تھا لیکن انھوں نے مجھے نہیں بتلایا اگرچہ وہ چاہتے تھے کہ میں اسے دیکھ لوں۔ اچانک میں نے نظراٹھائی تو گدھا دیکھا۔ گدھا سے مراد نیل گائے ہے۔ میں گھوڑے پر زین کس کر اس پر سوار ہوا اور جلدی میں کوڑا اور نیزہ لینا بھول گیا میں نے ساتھیوں سے کہا کہ مجھے کوڑا اور نیزہ اٹھا کر پکڑا دو۔ انھوں نے کہا اللہ کی قسم! ہم اس کام میں تمھاری کچھ مدد نہیں کرسکتے۔ مجھے غصہ آیا۔ لیکن میں نے اتر کر کوڑا اور نیزہ پکڑا اور سوار ہوگیا۔ پھر میں نیل گائے پر حملہ آور ہوا اور نیزہ مار مار کر اسے روک لیا میں نے اس دوران ان سے مدد طلب کی انھوں نے میری مدد کرنے سے انکار کردیا۔ پھر ہم سب نے اس میں سے کھایا۔ اس کے بعد میں رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے جا ملا۔ میں نے آپ سے عرض کی کہ ہم نے ایک جنگلی گدھے کا شکار کیا ہے۔ آپ نے صحابہ (رض) سے پوچھا کیا تم میں سے کسی نے شکار کیا یا حملہ کرنے کو کہا تھا یا اس کی طرف اشارہ کیا تھا یا کسی قسم کی مدد کی تھی ؟ صحابہ نے عرض کی نہیں پھر آپ نے محرم صحابہ سے فرمایا تم اسے کھا سکتے ہو۔ پوچھا کیا تمھارے پاس اس میں سے کچھ باقی ہے ؟ میں نے نیل گائے کی دستی پیش کی جسے آپ نے کاٹ کر کھایا۔ (رواہ مسلم : کتاب الحج، بخاری : ابواب العمرۃ) مطلب یہ ہے کہ احرام کی حالت میں شکار کرنے میں کسی قسم کی مدد نہ کی ہو تو محرم اس شکار میں سے کھا سکتا ہے۔ البتہ جو شخص احرام کی حالت میں ارادۃً شکار کرے اس کا جرمانہ شکار کے برابر حلال جانور بیت اللہ کے قریب قربان کرنا ہوگا جس کا فیصلہ دو منصف مزاج مسلمان کریں گے۔ اگر اس نے نیل گائے شکار کیا ہو تو وہ اس کے برابر گائے یا بکرا قربان کرے گا۔ اگر اس سے چھوٹا جانور شکار کیا ہو تو اس کے برابر کوئی جانور ذبح کرنے کا منصف فیصلہ دیں گے اگر کوئی شخص ایسا کرنے کی طاقت نہیں رکھتا تو اس کا کفارہ دو مسکینوں کو کھانا کھلانا یا دوروزے رکھنا ہوں گے یہ جرمانہ اس لیے مقرر کیا گیا ہے تاکہ وہ اپنی غلطی کی سزا پائے، ہاں جو یہ حکم آنے سے پہلے ہوچکا ہے اللہ تعالیٰ اسے معاف کرنے والا ہے جو جان بوجھ کر احرام کی حالت میں شکار کرنے کی غلطی کا اعادہ کرے گا اسے یاد رکھنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ اس سے بدلہ لے گا اور وہ بدلہ لینے کی ہر اعتبار سے قوت رکھتا ہے۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ مومنین کے ایمان کو پرکھتا ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ کی مقرر کردہ حدود سے تجاوز نہیں کرنا چاہیے۔ ٣۔ احرام کی حالت میں شکار ممنوع ہے۔ ٤۔ احرام کی حالت میں شکاری کی مدد بھی نہیں کرنا چاہیے۔ ٥۔ جو مسئلہ جاننے کے باوجود احرام میں شکار کرے گا اللہ تعالیٰ اس سے انتقام لے گا۔ ٦۔ اللہ تعالیٰ زبردست انتقام لینے پر قادر ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ سے اس وقت بھی ڈرنا چاہیے جب کوئی نہ دیکھ رہا ہو : ١۔ جو اللہ سے غیب میں ڈرتے ہیں ان کے لیے بخشش اور بڑا اجر ہے۔ (الملک : ١٢) ٢۔ جو رحمٰن سے غیب میں ڈرتے ہیں ان کے لیے بخشش کی خوشخبری ہے۔ (یٰس ٓ: ١١) ٣۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان لوگوں کو ڈرانے والے ہیں جو اپنے رب سے غیب میں ڈرتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں۔ (الفاطر : ١٨) المآئدہ
95 المآئدہ
96 فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ : پہلے زمانے میں بحری سفر بڑا طویل اور مشکل ہوا کرتا تھا جیسا کہ کچھ ملکوں کے لیے آج بھی یہ سفر بڑا طویل اور دشوارہوتا ہے ان ملکوں کے لوگ کئی کئی ہفتے بحری سفر کرنے میں مجبور ہوتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ زائر اپنے ساتھ ایک حد تک ہی زاد راہ لے سکتا ہے۔ کبھی کبھار بحری سفر کے دوران جہاز کا اپنے راستہ سے بھٹکنے یا کسی بھنور میں مبتلا ہونے کی وجہ سے سفر کے ایام غیر معینہ مدت تک بڑھ جاتے ہیں اور پہلے زمانے میں یہ اکثر ہوا کرتا تھا کہ باد مخالف کی وجہ سے بحری جہاز کئی کئی دن تک ٹھہرے رہتے تھے اور بسا اوقات جہاز اپنے راستے سے کئی میل دور ہٹ جایا کرتا تھا۔ ان وجوہات کی بنا پر زادراہ کا ختم ہوجانا بحری سفر کا حصہ شمار کیا جاتا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے خاص کرم فرماتے ہوئے بحری سفر میں زائرین کعبہ کے لیے یہ رعایت بخشی کہ اگر وہ عمرہ یا حج کے لیے بحری سفر اختیار کریں تو حالت احرام میں بحری شکار کرنے، اس کے کھانے اور ذخیرہ کرنے پر کوئی پابندی نہیں۔ تاہم یہ بات ملحوظ خاطر رہے کہ اس سفر کو عبادت سمجھ کر کرنا چاہیے۔ اس اجازت کا ہرگز معنی نہیں کہ احرام کی حالت میں آدمی عبادت کا ماحول اپنانے کے بجائے شکار کی پکڑ دھکڑ میں مصروف رہے اس لیے اجازت دینے کے ساتھ ہی حکم فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہوئے یہ سفر کرو کیونکہ بالآ خر تم اس کے حضور پیش ہونے والے ہو۔ مسائل ١۔ احرام کی حالت میں سمندری شکار حلال ہے ٢۔ خشکی کا شکار کرنا احرام کی حالت میں قطعاً جائز نہیں۔ ٣۔ تمام لوگوں کو اللہ کے حضور اکٹھا ہونا ہے۔ المآئدہ
97 فہم القرآن ربط کلام : احرام کی حالت میں تمہیں شکار سے اس لیے منع کیا گیا ہے کہ اللہ کے گھر کا مقام اور احترام کا یہی تقاضا ہے جس کا تمھیں خیال رکھنا چاہیے۔ کیونکہ اللہ نے اسے امن وسکون کا گہوارا بنایا ہے۔ لفظ کعبہ کا معنی بیان کرتے ہوئے معارف القرآن کے مؤلف مفتی شفیع مرحوم لکھتے ہیں کہ عربی میں کعبہ ایسی عمارت کو کہتے ہیں جو چوکور ہو یعنی جو چار کو نوں پر استوار اور اونچی جگہ پر ہو پھر ان کا بیان ہے کہ عرب میں کعبہ کے نام پر خشعم قبیلہ کی ایک عمارت تھی جسے کعبہ یمانیہ کہا جاتا تھا۔ قرآن مجید نے اس مغالطے سے بچانے کے لیے کعبہ کے ساتھ بیت الحرام کی تخصیص فرمائی ہے جو لوگوں کے لیے باعث قیام ٹھہرایا گیا ہے۔ بیت اللہ لوگوں کے لیے باعث قیام اس لیے ہے کہ جب تک لوگ اس کا احترام اور اس جانب منہ کرکے نماز پڑھتے رہیں گے اسی وقت تک ہی یہ دنیا قائم رہے گی۔ جب لوگ کعبہ کی طرف منہ کرکے اللہ تعالیٰ کی عبادت چھوڑ دیں گے تو دنیا کو نیست و نابود کردیا جائے گا۔ ” اَلنَّاسْ“ کے مفسرین نے تین مفہوم بیان کیے ہیں : ١۔ مکہ معظمہ اور اس کے آس پاس میں رہنے والے لوگ۔ ٢۔ حج اور عمرہ کے لیے بیت اللہ تک پہنچنے والے زائرین۔ ٣۔ پوری دنیا کے لوگ۔ اس آیت میں بیت اللہ کے ساتھ چار حرمت والے مہینے یعنی ذوالقعدہ، ذوالحجہ، محرم اور رجب اور حج وعمرہ کے موقع پر کی جانے والی قربانیاں اور اس کے علاوہ وہ جانور بھی محترم قرار دیے گئے ہیں جنھیں عرب بیت اللہ کے لیے وقف کرتے ہوئے ان کے گلے میں کسی قسم کا ہار ڈال دیا کرتے تھے۔ بعض مفسرین نے یہ بھی بیان کیا ہے کہ کچھ لوگ بیت اللہ کی زیارت کا سفر باندھتے تو اپنے گلے میں کوئی ہار ڈال لیا کرتے تھے تاکہ ہر قسم کی زیادتی سے مامون ہوجائیں۔ بیت اللہ کی حرمت و برکت کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے یہ ارشاد فرمایا کہ یہ محرمات اس لیے مقرر کیے گئے ہیں تاکہ تم جان لو کہ اللہ تعالیٰ نے بیت اللہ کی وجہ سے تمھیں کس قدر عزت و تکریم اور اپنی نعمتوں سے نوازا ہے۔ جس طرح اللہ تعالیٰ نے تمھاری ضروریات کا خیال رکھا ہے۔ اس کا تمھیں احساس ہونا چاہیے کہ جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اسے خوب جانتا ہے کیونکہ وہ زمین و آسمان کے چپے چپے اور ذرّے ذرّے سے واقف ہے اور تمھیں یہ بھی اچھی طرح معلوم ہونا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نافرمانوں کو شدید ترین عذاب دینے والا اور تابع فرمان لوگوں کی کوتاہیوں کو معاف کرنے والا اور ان پر رحم کرنے والا ہے۔ ” حضرت انس (رض) فرماتے ہیں بے شک رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی جب تک زمین میں اللہ اللہ کہنے والے لوگ ہیں۔“ [ رواہ مسلم : کتاب الایمان] قرآن مجید نے سورۃ آل عمران آیت ٩٦ میں بیان کیا ہے کہ سب سے پہلے جو گھر معرض وجود میں آیا وہ بیت اللہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے لوگوں کے لیے مبارک اور ہدایت کا مرکز قرار دیا ہے۔ نبی مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے کہ قیامت کے قریب حبشہ کا ایک آدمی جس کی پنڈلیاں عام لوگوں سے لمبی ہوں گی بیت اللہ کو شہید کرے گا۔ اس سے ثابت ہوا کہ جب تک بیت اللہ ہے اس وقت دنیا قائم رہے گی۔ بیت اللہ کا لوگوں کے لیے باعث قیام ہونے کا یہ مفہوم بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے گھر کی برکت کی وجہ سے اس کی زیارت کرنے والوں کو حفظ و امان سے نوازا ہے اور بے آب و گیاہ سر زمین میں اللہ تعالیٰ اس کے زائرین اور اس کے گرد و پیش رہنے والوں کو انواع و اقسام کے کھانوں، پھلوں اور نعمتوں سے نوازرہا ہے۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے کعبہ تمام لوگوں کے لیے قیام کا باعث بنایا ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ زمین و آسمان کی ہر چیز کو جانتا ہے۔ ٣۔ اللہ نافرمانوں کو سخت سزا دینے والا ہے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ فرمانبرداروں پر بہت رحمت کرنے والا ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ زمین و آسمان کی ہر چیز کو جانتا ہے : ١۔ اللہ تعالیٰ جانتا ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے۔ (الحجرات : ١٦) ٢۔ وہ جانتا ہے جو کچھ زمین میں داخل ہوتا اور جو کچھ اس سے نکلتا ہے۔ (الحدید : ٤) ٣۔ کیا انسان کو معلوم نہیں کہ اللہ جانتا ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے۔ (المجادلۃ : ٧) ٤۔ اللہ جانتا ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے۔ (التغابن : ٤) ٥۔ اللہ ہی کے پاس غیب کی چابیاں ہیں جنھیں اس کے سوا کوئی نہیں جانتا وہ بحر و برّ کی ہر چیز کو جانتا ہے۔ (الانعام : ٥٩) المآئدہ
98 المآئدہ
99 فہم القرآن ربط کلام : رسول کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ لوگوں کو حق وباطل اور اچھے، برے سے آگاہ کرے لوگوں کا فرض یہ ہے کہ وہ برائی کے رواج اور اسکی کثرت سے مرعوب ہونے کے بجائے رسول کی اطاعت کریں اسی میں کامیابی ہے۔ اس جاری خطاب کی آیت نمبر ٩٢ میں یہ مضمون بیان ہوا تھا کہ ہمارے رسول کا منصب لوگوں تک پیغام پہنچانا ہے جبراً منوانا نہیں۔ یہاں پھر فرمایا ہے کہ رسول کی ذمہ داری اللہ تعالیٰ کے پیغام ٹھیک ٹھیک لوگوں تک پہنچانا ہے۔ اس کا کام لوگوں کے پیچھے پیچھے رہنا اور ان کی خلوتوں کی نگرانی کرنا نہیں۔ یہ تو اللہ تعالیٰ کی شان ہے کہ جو کچھ تم چھپاتے یا ظاہر کرتے ہو وہ تمھارے ایک ایک لمحہ اور کام کو جانتا ہے۔ رسول کا کام فقط یہ ہے کہ وہ لوگوں کے سامنے برے بھلے اور نیک و بد کی تمیز واضح کر دے، بے شک برائی کتنی غالب اور لوگوں کی نظر میں کتنی بھلی معلوم ہوتی ہو۔ رسول کی یہ ذمہ داری بھی ہے کہ وہ لوگوں کو خوف خدا سے آگاہ کرے تاکہ صاحب دانش اللہ تعالیٰ سے ڈریں۔ اللہ تعالیٰ سے ڈرنا ہی دانائی کی علامت اور کامیابی کا راستہ ہے۔ جہاں تک خبیث اور طیب یعنی اچھے اور برے اور نیک اور بد کا تعلق ہے یہ فرق ہر چیز اور کام میں پایا جاتا ہے۔ ہر چیز مفید بھی ہوتی ہے اور اس میں نقصان اور ضرر بھی موجود ہوتا ہے۔ انسانوں میں بھی نیک و بد پائے جاتے ہیں اس طرح کچھ کام دنیا اور آخرت کے لحاظ سے مفیدہوتے ہیں جبکہ کئی کام آدمی کے لیے دنیا میں نقصان اور آخرت میں خسارے کا باعث ہیں اور یہ بھی ہوتا ہے کہ کوئی کام دنیا کے لحاظ سے بظاہر فائدہ مند ہو لیکن آخرت کے اعتبار سے دائمی نقصان کا باعث ہو حقیقی عقل اور خدا خوفی کا تقاضا ہے کہ آدمی وہی کام کرے جو دنیا کے مقابلے میں آخرت کے لحاظ سے اس کے لیے بہتر ہو۔ لہٰذا ہر انسان کو یاد رکھنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ سخت عذاب دینے والا اور معاف کردینے والا، نہایت مہربان ہے۔ اسی کو کائنات کے عظیم دانشور نبی محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یوں بیان فرمایا ہے : (عَنْ أَبِی یَعْلٰی شَدَّادِ بْنِ أَوْسٍ (رض) قَالَ قَالَ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) الْکَیِّسُ مَنْ دَانَ نَفْسَہُ وَعَمِلَ لِمَا بَعْدَ الْمَوْتِ وَالْعَاجِزُ مَنْ أَتْبَعَ نَفْسَہُ ہَوَاہَا ثُمَّ تَمَنَّی عَلَی اللّٰہِ)[ رواہ ابن ماجۃ: کتاب الزہد، باب ذکر الموت والاستعداد لہ] ” حضرت ابو یعلی شداد بن اوس (رض) بیان کرتے ہیں رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا عقلمند وہ ہے جو اپنے آپ کو پہچانتا ہے اور مرنے کے بعد فائدہ دینے والے اعمال سر انجام دیتا ہے اور نادان وہ ہے جس نے اپنے آپ کو اپنے نفس کے پیچھے لگایا اس کے باوجود وہ اللہ تعالیٰ سے تمنا کرے۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ تمام ظاہری و پوشیدہ چیزوں کا علم رکھنے والا ہے۔ ٢۔ اللہ کے فرمانبردار اور نافرمان کبھی برابر نہیں ہو سکتے۔ ٣۔ برائی کا چلن خواہ کتنا ہی زیادہ کیوں نہ ہو وہ گناہ ہی رہتا ہے۔ ٤۔ تقویٰ اختیار کرنے میں ہی کامیابی ہے۔ تفسیر بالقرآن فلاح پانے والے حضرات : ١۔ نمازوں میں خشوع کرنے والے مومن فلاح پا گئے۔ (المومنون : ١ تا ١١) ٢۔ جس نے اپنے آپ کو پاک کرلیا وہ فلاح پا گیا۔ (الاعلیٰ: ١٤) ٣۔ اللہ سے ڈرو تاکہ تم فلاح پاؤ۔ (البقرہ : ١٨٩) ٤۔ اللہ کا قرب تلاش کرو اور اس کے راستہ میں جہاد کرو تاکہ تم فلاح پاؤ۔ (المائدۃ: ٣٥) ٥۔ تم اللہ کی نعمتوں کو یاد رکھو تاکہ تم فلاح پاؤ۔ (الاعراف : ٦٩) ٦۔ اللہ کو بہت یاد کرو تاکہ تم فلاح پاؤ۔ (الجمعۃ : ١٠) ٧۔ اپنے رب کی ہدایت پر چلنے والے ہی فلاح پانے والے ہیں۔ (لقمان : ٥، البقرۃ: ٥) ٨۔ جو نفس کی بخیلی سے بچ گیا وہ فلاح پا گیا۔ (التغابن : ١٦۔ الحشر : ٩) المآئدہ
100 المآئدہ
101 فہم القرآن ربط کلام : گزشتہ سے پیوستہ۔ جب رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی ذمہ داری کما حقہ نبھاتے ہوئے اچھائی اور برائی میں فرق واضح کر رہے ہیں تو تمہیں بے وجہ سوال نہیں کرنا چاہیے۔ یہ ادب کے منا فی ہونے کے ساتھ تمہارے لیے مشکل کا با عث ہوگا۔ نزول قرآن کے وقت سوال کرنے سے اس لیے منع کیا گیا تھا کہ جب رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ تعالیٰ کی طرف سے نا زل کردہ وحی من وعن لوگوں تک پہنچا رہے ہیں جس میں حلال وحرام، خبیث اور طیّب، جائز اور نا جائز کے درمیان پوری طرح فرق کیا جارہا ہے تو پھر خواہ مخواہ بال کی کھال اتارنا جائز نہیں۔ اس میں ایک طرف گستاخی کا پہلو نکلتا ہے اور دوسری طرف حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی قوم کی طرح اپنے لیے مزید مشکلات پیدا کرنا ہے جو کسی طرح بھی جائز نہیں۔ اس لیے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جب میں کوئی مسئلہ بیان کروں تو اسے سنو اور اس پر حتی المقدور عمل کرو۔ یاد رکھو اللہ تعالیٰ کوئی بات کرتے ہوئے بھولتا نہیں۔ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ خَطَبَنَا وَقَالَ مَرَّۃً خَطَبَ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَقَالَ أَیُّہَا النَّاسُ إِنَّ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ قَدْفَرَضَ عَلَیْکُمْ الْحَجَّ فَحُجُّوا فَقَالَ رَجُلٌ أَکُلَّ عَامٍ یَا رَسُول اللّٰہِ فَسَکَتَ حَتّٰی قَالَہَا ثَلَاثًا فَقَالَ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لَوْ قُلْتُ نَعَمْ لَوَجَبَتْ وَلَمَا اسْتَطَعْتُمْ ثُمَّ قَالَ ذَرُونِی مَا تَرَکْتُکُمْ فَإِنَّمَا ہَلَکَ مَنْ کَانَ قَبْلَکُمْ بِکَثْرَۃِ سُؤَالِہِمْ وَاخْتِلَافِہِمْ عَلٰی أَنْبِیَاءِہِمْ فَإِذَا أَمَرْتُکُمْ بِأَمْرٍ فَأْتُوا مِنْہُ مَا اسْتَطَعْتُمْ وَإِذَا نَہَیْتُکُمْ عَنْ شَیْءٍ فَدَعُوہُ)[ رواہ احمد] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں ایک مرتبہ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خطبہ ارشاد فرما تے ہوئے فرمایا اے لوگو! بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے تم پر حج فرض کیا ہے تو تم حج کرو۔ ایک شخص نے کہا اے رسول مکرم ! کیا ہر سال حج فرض ہے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خاموش ہوگئے یہاں تک کہ اس شخص نے اس بات کو تین مرتبہ دہرایا۔ رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اگر میں ہاں کہہ دیتا تو تم پر حج واجب ہوجا تا اگرچہ تم میں سے اس کی کوئی طا قت نہ رکھتا۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جن معاملات کے متعلق میں نے تم کو چھوڑ دیا ہے تم بھی اس کے بارے میں مجھے چھوڑ دو بلاشبہ تم سے پہلے لوگ کثرت سوال اور انبیاء کے بارے میں اختلاف کرنے کی وجہ سے ہلاک ہوئے۔ جب میں تم کو کسی کام کا حکم دوں تو حسب استطاعت اس کو پورا کرو اور جب کسی چیز سے روکوں تو اس کو چھوڑ دو۔“ بے مقصد سوال کرنے والا مجرم ہے : (عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدِ بْنِ أَبِی وَقَّاصٍ (رض) عَنْ أَبِیہِ أَنَّ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ إِنَّ أَعْظَمَ الْمُسْلِمِینَ جُرْمًا مَنْ سَأَلَ عَنْ شَیْءٍ لَمْ یُحَرَّمْ، فَحُرِّمَ مِنْ أَجْلِ مَسْأَلَتِہِ )[ رواہ البخا ری : باب مَا یُکْرَہُ مِنْ کَثْرَۃِ السُّؤَالِ وَتَکَلُّفِ مَا لاَ یَعْنِیہِ] ” سعد بن ابی وقاص (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا مسلمانوں میں سب سے بڑا مجرم وہ ہے جو ایسی چیز کے بارے میں سوال کرے جس کو لوگوں پر حرام قرار نہیں دیا گیا تھا لیکن اس کے سوال کی وجہ سے اس چیز کو حرام قرار دے دیا گیا۔“ مسائل ١۔ خواہ مخواہ مسئلہ سے مسئلہ نہیں نکالنا چاہیے۔ ٢۔ بے مقصد سوال نہیں کرنے چاہییں۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ معاف کرنے والا نہایت بردبار ہے۔ ٤۔ جن لوگوں نے بے مقصد سوال کرنے کا وطیرہ اختیار کیا وہ پریشان ہوئے۔ ٥۔ بے مقصد سوالات اٹھانے والوں کی اکثریت گمراہ ہوجاتی ہے۔ المآئدہ
102 المآئدہ
103 فہم القرآن ربط کلام : سلسلۂ کلام کے درمیان ادب سکھلانے کے بعد اب پھر مزید حرام چیزوں کی نشا ندہی کی جارہی ہے۔ اس سے پہلی آیات میں کثرت سوال سے منع فرمایا تھا۔ اس آیت میں فرمایا ہے کہ مشرکوں نے از خود بعض جانوروں کو حرام کرلیا تھا حالانکہ اللہ تعالیٰ نے ان کو حرام نہیں کیا بلکہ وہ بدستور حلال ہیں۔ جس چیز کو اللہ اور اس کے رسول نے حرام نہ کیا ہو اس کو حرام قرار دے کر شریعت سازی نہ کرو۔ بحیرہ : وہ جانور ہوتا تھا جس کا دودھ بتوں کی نذر کردیا جاتا تھا کوئی شخص اس کو دوہ نہیں سکتا تھا۔ اس کے کان چیر کر اس کو آزاد چھوڑ دیا جاتا۔ اس پر سواری کی جاتی نہ اس پر سامان لادا جاتا اور نہ ہی اس کا دودھ دوہا جاتا یہ جس چراگاہ سے مرضی چرے اور پانی پیے۔ سائبہ : وہ جانور ہے جس کو بتوں کے نام منسوب کیا جاتا اور اس پر کسی قسم کابوجھ نہیں ڈالا جاتا تھا تو اس اونٹنی کو آزاد کرکے بتوں کے نام کردیتے تھا ایسی اونٹنی کو سائبہ کا نام دیا جاتا۔ وصیلہ : اس اونٹنی کو کہا جاتا ہے جو پہلی بار اور دوسری بار مادہ بچہ جنم دے ان دوبچوں کے درمیان کوئی نر بچہ نہ ہو تو اسے بھی بتوں کے نام پر چھوڑ دیتے۔ حام : اس نر اونٹ کو کہتے ہیں جو ایک خاص تعداد کے مطابق جفتی کرچکا ہو اور اسے بتوں کے نام پر چھوڑ دیا جائے۔ سعید بن مسیب (رض) بیان کرتے ہیں بحیرہ وہ اونٹنی سمجھی جاتی جس کا دودھ دوہنا بتوں کی وجہ سے منع کردیا جاتا تھا اور کوئی شخص اس کا دودھ نہیں دوہتا تھا۔ سائبہ وہ اونٹنی ہے جس کو وہ اپنے بتوں کے لیے چھوڑ دیتے تھے اور اس پر کسی چیز کو لادا نہیں جاتا تھا۔ ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میں نے عمرو بن عامر خزاعی کو دیکھا وہ دوزخ میں اپنی آنتوں کو گھسیٹ رہا تھا کیونکہ یہی وہ شخص تھا جس نے سب سے پہلے سائبہ اونٹنیوں کو چھوڑا تھا۔“ [ رواہ البخاری : باب قصۃ خزاعۃ] مسائل ١۔ من گھڑت رسوم و رواج کو اللہ کی طرف منسوب نہیں کرنا چاہیے۔ ٢۔ کافر لوگ اللہ کے بارے میں جھوٹ بولتے ہیں۔ ٣۔ مشرکین حق کو پہچاننے کے لیے عقل سے کام نہیں لیتے۔ المآئدہ
104 فہم القرآن ربط کلام : اہل مکہ نے بحیرہ، سائبہ، وصیلہ اور حام کسی دلیل کی بنیاد پر اپنے آپ پر حرام نہیں کی تھیں بلکہ اس کا سبب آباؤ اجداد کی تقلید تھا جس وجہ سے یہاں تقلید کا رد بھی کردیا ہے۔ ساتھ مسلمانوں کو اطمینان دلایا ہے کہ تم ہدایت پر پکے رہوگے تو دوسروں کی گمراہی کا تم پر چنداں اثر نہیں پڑے گا۔ اور نہ تم ان کے مسؤل بنائے گئے ہو۔ بس تم اپنی فکر کرو۔ انبیاء کرام (علیہ السلام) کو پیش آنے والی پانچ رکاوٹیں : ١۔ لوگوں کا پرانے نظریات پرجمے رہنا۔ ٢۔ ادیان باطلہ کے تعصبات و تحفظات ٣۔ انبیاء کرام کی ذات سے حسد و بغض۔ ٤۔ حبّ جاہ اور دنیا پرستی ٥۔ بزرگوں اور آباؤ اجداد کی تقلید یہ تقلید کا ہی نتیجہ تھا کہ مذکورہ جانور کسی آسمانی شریعت میں حرام نہیں کیے گئے تھے۔ لیکن اہل مکہ نے اپنے سے پہلے لوگوں کی دیکھا دیکھی انھیں نہ صرف اپنے آپ پر حرام قرار دیا بلکہ دعویٰ کیا کہ یہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے بزرگوں پر حرام قرار دیے تھے۔ جس بنا پر سے ہم بھی ان سے استفادہ کرنا اپنے آپ پر جائز نہیں سمجھتے۔ تقلید آباء کا عقیدہ ان کے ذہن میں اس قدر پختہ ہوچکا تھا کہ جب انھیں اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف دعوت دی جاتی تو وہ بلا جھجھک کہتے ہمیں وہی کچھ کافی ہے جو ہمارے بزرگ کرتے رہے ہیں۔ اس پر گرفت کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے کیا ان کے آباؤ اجداد ہدایت نہ پانے اور شریعت کا علم نہ رکھنے کے باوجود ان کے رہنما ٹھہرے ہیں؟ مقلدین کی گمراہی کا اندازہ لگائیں کہ وہ جانتے بوجھتے ایسی باتوں کو شریعت سمجھ کر اپناتے ہیں جن کا دین کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مقابلے میں ان لوگوں کو رہنما سمجھتے ہیں جن کی گمراہی اور بے علمی کی قرآن گواہی دیتا ہے۔ ایسے لوگوں کو ہدایت نصیب ہو تو کس طرح ؟ جہاں تک ائمہ کرام اور بزرگان دین کی تقلید کا تعلق ہے اس کی بھی دین میں کوئی گنجائش نہیں جس کے دو بنیادی اسباب ہیں۔ (١) امت مسلمہ کو بزرگان دین کی اتباع کی بجائے صرف اور صرف نبی آخر الزمان حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اتباع کا پابند کیا گیا ہے کیونکہ انسان اللہ اور اس کے رسول کا کلمہ پڑھ کر حلقہ اسلام میں داخل ہوتا ہے جس میں دین کے بارے میں کسی دوسرے کی اتباع کی گنجائش نہیں ہے۔ (٢) ائمہ کرام اور بزرگان دین کی تقلید سے امت اس لیے بھی آزاد ہے کہ ہر امام نے یہ ارشاد فرمایا ہے کہ حدیث مصطفی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مقابلے میں میری بات اور فتویٰ کو فی الفور مسترد کردیا جائے کیونکہ وہی سچے ایمان کی نشانی ہے۔ تقلید کے بارے میں ائمہ کے اقوال : امام ابو حنیفہ (رض) کا قول : (اِذَا صَحَّ الْحَدِیْثُ فَھُوَ مَذْھَبِیْ) [ تفسیر مظہری] ” جب صحیح حدیث موجود ہو تو وہی میرا مذہب ہے۔“ امام مالک (رح) کا قول : امام مالک نے روضۃ النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : ” ہر شخص کی بات تسلیم کی جاسکتی ہے اگر درست ہو۔ اور اسے ٹھکرایا جا سکتا ہے جب درست نہ ہو۔ مگر اس روضے والے کی بات کو ترک نہیں کیا جاسکتا۔“ [ حیات امام مالک۔ از امام زہری] امام شافعی (رح) کا قول : (اَجْمَعَ ا لْمُسْلِمُوْنَ عَلٰی اَنَّ مَنِ اسْتَبَانَ لَہٗ سُنَّۃٌ مِنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لَایَحِلُّ لَہٗ اَنْ یَّدَعَھَا لِقَوْلِ اَحَدٍ) [ اعلام المعوقین] ” اس بات پر تمام مسلمانوں کا اجماع ہے کہ جب رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سنت سامنے آجائے، پھر اس بات کی گنجائش نہیں رہتی کہ اسے کسی کے قول کی بنا پر ترک کردیا جائے۔“ امام احمدبن حنبل (رح) کا قول : (مَنْ رَدَّ حَدِیْثَ رَسُوْلِ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَھُوَ عَلٰی شَفَا ھَلَکَتِہِ)[ ابن جوزی] ” جس نے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حدیث کو رد کیا وہ تباہی کے کنارے پر پہنچ گیا۔“ مسائل ١۔ آباء واجداد کی تقلید کے بجائے قرآن و سنت کی پیروی کرنا چاہیے۔ ٢۔ آخرت کو مقدم رکھنا چاہیے۔ ٣۔ اللہ کے سامنے حاضری کی فکر کرنی چاہیے۔ تفسیر بالقرآن تقلید آباء کا نتیجہ اور بہانہ : ١۔ جب انھیں اللہ اور اس کے رسول کی طرف بلایا جائے تو کہتے ہیں جو ہمارے آباء واجداد کرتے تھے ہمیں وہی کافی ہے۔ (المائدۃ: ١٠٤) ٢۔ جب قرآن کی طرف بلایا جاتا ہے تو کہتے ہیں کہ ہم اپنے باپ دادا کی اتباع کریں گے۔ (لقمان : ٢١) المآئدہ
105 فہم القرآن ربط کلام : ایک مخلص داعی دلائل کے ساتھ جب کسی شخص کو ہدایت کی دعوت دیتا ہے۔ اور سامع اس کے مقابلے میں بوسیدہ نظریات پیش کرتے ہوئے اپنی جہالت پر اصرار کرے۔ تو داعی کا اس پر دل گرفتہ ہونا فطری بات ہے اسی کیفیت سے صحابہ کرام (رض) دو چار ہوا کرتے تھے جس پر انھیں تسلی دی گئی ہے۔ صحابہ کرام (رض) اپنے اخلاص اور جدوجہد کے مقابلے میں کفار اور اہل کتاب کی ہٹ دھرمی دیکھتے تو انھیں اس بات پر سخت رنج پہنچتا۔ دل گرفتگی کے عالم میں بار بار سوچتے کہ یہ لوگ کس قدر نا عاقبت اندیش ہیں کہ ہم ان کی دنیا وآخرت کی بھلائی کی بات کرتے ہیں اور یہ اسے قبول کرنے کے بجائے ہماری جان کے درپے ہوچکے ہیں۔ اس صورتحال پر مسلمانوں کو اطمینان دلایا گیا ہے کہ تمھیں دل گرفتہ ہونے کی ضرورت نہیں۔ تمھارا کام حق بات پہنچانا ہے ہدایت دینا نہیں۔ اگر تم ہدایت پر قائم ہو تو گمراہ لوگ تمھیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے۔ بالآخر تم سب نے اپنے اللہ کی طرف لوٹ کرجانا ہے وہ ہر کسی کو اس کے اچھے برے عمل اور اس کے انجام سے آگاہ فرمادے گا۔ ہدایت ایسا گراں قدر سرمایہ ہے جو چاہت اور محنت کے بغیر حاصل نہیں ہوا کرتا۔ اگر یہ لوگ دنیا میں اللہ تعالیٰ کے حکم کو ماننے کے لیے تیار نہیں تو ایک وقت ایسا آنے والا ہے جب سب کے سب بے چون و چراں رب کبریا کی بارگاہ میں حاضر کیے جائیں گے۔ وہ انھیں ایک ایک پل کی خبر اور ہر برے عمل کی سزا دے گا۔ وہاں انھیں نہ بزرگ بچا سکیں گے اور نہ ہی ان کے آباؤ اجداد چھڑا سکیں گے۔ بعض لوگ اس آیت سے غلط استدلال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ آدمی کو کسی دوسرے کی فکر کرنے کے بجائے اپنا خیال اور اپنے کام کی طرف دھیان رکھنا چاہیے۔ اس کی بلا سے کوئی جو چاہے کرتا رہے۔ ایسے نام نہاد دانشور تمام احکامات کو جان بوجھ کر فراموش کردیتے ہیں جن میں ہر شخص کو اپنے متعلقین کا مسؤل بنایا گیا ہے۔ دوسرے الفاظ میں وہ اس امت کے وجود کی ہی نفی کردیتے ہیں حالانکہ اس امت کا مقصد اپنی اور لوگوں کی اصلاح کرنا ہے۔ (کُنْتُمْ خَیْرَ أُمَّۃٍ أُخْرِجَتْ للنَّاسِ تَأْمُرُوْنَ بالْمَعْرُوْفِ وَتَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ باللّٰہِ وَلَوْٓ اٰمَنَ أَہْلُ الْکِتَابِ لَکَانَ خَیْرًا لَّہُمْ مِنْہُمُ الْمُؤْمِنُونَ وَأَکْثَرُہُمُ الْفَاسِقُونَ)[ آل عمران : ١١٠] ”(اے مسلمانو!) تم بہترین امت ہو جنہیں لوگوں (کی اصلاح وہدایت) کے لیے پیدا کیا گیا ہے۔ تم لوگوں کو بھلے کاموں کا حکم دیتے ہو اور برے کاموں سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان لاتے ہو اور اگر اہل کتاب ایمان لے آتے تو یہ ان کے حق میں بہتر ہوتا۔ ان میں سے کچھ لوگ مومن ہیں مگر ان کی اکثریت فاسق ہے۔“ (عَنْ طَارِقِ بْنِ شِہَاب (رض) سَمِعْتُ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَقُولُ مَنْ رَأٰی مِنْکُمْ مُنْکَرًا فَلْیُغَیِّرْہُ بِیَدِہٖ فَإِنْ لَمْ یَسْتَطِعْ فَبِلِسَانِہٖ فَإِنْ لَمْ یَسْتَطِعْ فَبِقَلْبِہٖ وَذٰلِکَ أَضْعَفُ الْإِیمَانِ)[ رواہ مسلم : کتاب الایمان، باب کون النھی عن المنکر من الایمان وان الایمان۔۔ الخ] ” حضرت طارق بن شھاب (رض) بیان کرتے ہیں میں نے رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو کوئی تم میں سے برائی دیکھے اسے چاہیے کہ اسے اپنے ہاتھ سے روکے اگر اس کی استطاعت نہ رکھتا ہو تو زبان کے ساتھ روکے اگر وہ اس کی بھی استطاعت نہ رکھتا ہوتووہ دل سے برا جانے۔ یہ ضعیف ایمان کی نشانی ہے۔“ (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَ (رض) یَقُولُ سَمِعْتُ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَقُولُ کُلُّکُمْ رَاعٍ وَکُلُّکُمْ مَسْءُولٌ عَنْ رَعِیَّتِہِ) [ رواہ البخاری : کتاب الجمعۃ، باب جمعۃ فی القری والمدن] ” حضرت عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں میں نے رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تم میں سے ہر کوئی ذمہ دار ہے اور وہ اپنی ذمہ داری کا جواب دہ ہے۔“ مسائل ١۔ دوسروں کے بجائے اپنی فکر مقدم ہونی چاہیے۔ ٢۔ حقیقی ہدایت یافتہ لوگوں کو کوئی بھی گمراہ نہیں کرسکتا۔ ٣۔ تمام لوگوں کو اللہ کے سامنے پیش ہونا ہے۔ ٤۔ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ ہر کسی کو اس کے اچھے برے اعمال کی جزا اور سزادے گا۔ المآئدہ
106 فہم القرآن ربط کلام : اس سے پہلی آیت میں مخصوص حالات میں مسلمانوں کو اپنے آپ کی فکر کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔ جس میں بعض لوگوں سے فریضۂ تبلیغ سے کوتاہی کا اندیشہ ہوسکتا تھا۔ اسے دور کرنے کے لیے یہ حکم نازل ہوا کہ فریضۂ تبلیغ ایک شہادت ہے شہادت کی ایک قسم گواہی ہے۔ مشکل اور نازک وقت میں بھی اسے ٹھیک طور پر ادا کرنا چاہیے۔ آیت کا پس منظر مفسرین نے اس طرح ذکر کیا ہے جو بخاری کتاب الوصایا میں مختصر لیکن احادیث اور سیرت کی دوسری کتب میں تفصیل کے ساتھ آیا ہے حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ بنو سہم قبیلے کا ایک مسلمان جس کا نام بدیل تھا تمیم داری اور عدی کے ساتھ سفر میں تھا تمیم اور عدی اس وقت عیسائی تھے۔ حضرت بدیل راستے میں بیمار ہوئے اور فوت ہوگئے۔ انھوں نے فوت ہونے سے پہلے اپنے سامان کی ایک فہرست تیار کرکے چپکے سے اپنے سامان میں رکھ دی۔ اس سامان میں ایک قیمتی پیالہ تھا جسے سونے کی تار سے جوڑا گیا تھا۔ فوت ہونے والے نے وصیت کی کہ یہ سامان میرے ورثاء تک پہنچا دیا جائے۔ واپسی پر عدی اور تمیم داری نے یہ سامان مرحوم کے ورثاء کے حوالے کیا۔ سامان کھولنے پر جب فہرست ملیتو اس میں سے پیالہ غائب تھا جسے عدی اور تمیم داری نے مدینے کے ایک سنار کے ہاتھ بیچ ڈالا تھا مرحوم کے ورثاء نے ان دونوں سے پوچھا کہ فوت ہونے والے نے سامان سے اپنے علاج کے لیے کوئی چیز فروخت تو نہیں کی تھی؟ انھوں نے نفی میں جواب دیا تب مرنے والے کے ورثاء نے سامان کی فہرست پیش کرتے ہوئے ان سے اس قیمتی پیالے کا مطالبہ کیا لیکن دونوں نے اس کا انکار کیا۔ بالآخر مقدمہ نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہاں پیش ہوا گواہی نہ ہونے کی وجہ سے عدی اور اس کا ساتھی بری قرار پائے۔ تھوڑے عرصہ کے بعد پیالہ سنار کے ہاں پایا گیا تب بدیل کے ورثاء نے دوبارہ اللہ کے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے یہ بات رکھی آپ نے عدی اور تمیم کو بلایا اور ورثا نے آپ کی موجودگی میں ان دونوں کے سامنے قسم اٹھائی کہ ہم بالکل سچی قسم اٹھارہے ہیں اور ان کی قسمیں جھوٹی ہیں۔ یہ حلف نماز عصر کے بعد دیا گیا تھا اور آپ کو یقین ہوگیا کہ بدیل کے ورثاء کی قسم سچی ہے جس بناء پر دونوں عیسائیوں سے پیالے کی قیمت ایک ہزار درہم وصول کرکے ورثاء کو دی گئی بعد ازاں عدی اور تمیم مسلمان ہوئے تو انھوں نے اس بات کا اعتراف کیا واقعی ہم نے پیالہ چوری کیا تھا۔ اس وقت سے یہ قانون جاری ہوا کہ سفر کی حالت میں ایسا واقعہ پیش آجائے اور بیمار کو اپنی موت کا یقین ہونے لگے تو وہ اپنا سامان دوسرے کے حوالے کرتے ہوئے دو مسلمان گواہ بنائے۔ اگر مسلمان نہ ہوں تو غیر مسلموں میں بھی دو عادل گواہ مقرر کیے جا سکتے ہیں قسم اٹھانے والے نماز عصر کے بعد کھڑے ہو کر ان الفاظ کے ساتھ اللہ کی قسم اٹھائیں کہ ہم ذاتی مفاد اور کسی عزیز کی طرفداری کیے بغیر اللہ تعالیٰ کا حکم سمجھتے ہوئے اور کوئی چیز چھپائے بغیر حلف دیتے ہیں کہ اگر جھوٹی قسم اٹھائیں گے تو ہم مجرم ہوں گے۔ اس موقع پر قرآن مجید کا یہ ارشاد سامنے رکھتے ہوئے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حلف دینے والے کو اس کے حلف سے پہلے اللہ تعالیٰ کا خوف دلایا کرتے تھے۔ لہٰذا حلف لینے والے کی ذمہ داری ٹھہری کہ وہ قسم لینے سے پہلے اسے اللہ تعالیٰ سے ڈرنے کی وصیت کرے۔ (عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ ہِلَالَ بْنَ أُمَیَّۃَ قَذَفَ امْرَأَتَہُ فَجَاءَ فَشَہِدَ وَالنَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَقُولُ إِنَّ اللّٰہَ یَعْلَمُ أَنَّ أَحَدَکُمَاکَاذِبٌ فَہَلْ مِنْکُمَا تَاءِبٌ ثُمَّ قَامَتْ فَشَہِدَتْ)[ رواہ البخاری : کتاب الطلاق، باب یبدء الرجل بالتلاعن] ” حضرت عبداللہ بن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ ہلال بن امیہ (رض) نے اپنی بیوی پر الزام لگایا تو وہ آئے اور گواہی دی تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بلاشبہ اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ تم دونوں میں سے ایک جھوٹا ہے۔ کیا تم میں کوئی ہے جو تو بہ کرے ؟ پھر وہ عورت کھڑی ہوئی اور اس نے گواہی دی۔“ (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَمْرٍو (رض) عَنْ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ الْکَبَاءِرُ الْإِشْرَاک باللّٰہِ وَعُقُوقُ الْوَالِدَیْنِ وَقَتْلُ النَّفْسِ وَالْیَمِینُ الْغَمُوسُ) [ رواہ البخاری : کتاب الایمان والنذور، باب یمین الغموس] ” عبداللہ بن عمرو (رض) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ کے ساتھ شرک کرنا، والدین کی نافرمانی کرنا، کسی جان کو قتل کرنا اور جھو ٹی قسم اٹھا نا کبیرہ گناہوں میں سے ہیں۔“ (عَنْ عَبْدِ اللَّہِ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ مَنْ حَلَفَ عَلَی یَمِینٍ یَقْتَطِعُ بِہَا مَالَ امْرِءٍ، ہُوَ عَلَیْہَا فَاجِرٌ، لَقِیَ اللَّہَ وَہْوَ عَلَیْہِ غَضْبَانُ، فَأَنْزَلَ اللَّہُ تَعَالَی (إِنَّ الَّذِینَ یَشْتَرُوْنَ بِعَہْدِ اللَّہِ وَأَیْمَانِہِمْ ثَمَنًا قَلِیلاً) الآیَۃَ)[ رواہ البخاری : باب الخصومۃ ] ” حضرت عبداللہ (رض) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں آپ نے فرمایا جو آدمی کسی کا مال بٹورنے کے لیے قسم اٹھاتا ہے اور وہ اس میں جھوٹا ہے۔ وہ اللہ کو اس حال میں ملے گا کہ اللہ اس پر ناراض ہوگا۔ اس وقت اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی (بے شک وہ لوگ جو اللہ کے عہد اور قسموں کے عوض تھوڑی قیمت وصول کرتے ہیں ) “ مسائل ١۔ گناہ میں ملوث لوگوں کے بجائے دوسرے لوگ گواہی دیں۔ ٢۔ گواہی دینے والوں کو کسی پر زیادتی نہیں کرنی چاہیے۔ ٣۔ اگر مسلمان عادل گواہ نہ ملیں تو غیر مسلم کو بھی گواہ بنایا جا سکتا ہے۔ ٤۔ ذاتی مفاد اور رشتہ داری سے بالا تر ہو کر گواہی دینا چاہیے۔ ٥۔ گواہ پر شک ہو تو قسم بھی لی جا سکتی ہے اگرچہ وہ رشتہ دار ہی کیوں نہ ہو۔ ٦۔ جھوٹی گواہی دینا ظلم اور کبیرہ گناہ ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ کن لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا : ١۔ اللہ تعالیٰ ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔ (البقرۃ: ٢٥٨) ٢۔ اللہ تعالیٰ کافروں کو ہدایت نہیں دیتا۔ (البقرۃ: ٢٦٤) ٣۔ اللہ تعالیٰ فاسق لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔ (المائدۃ: ١٠٨) ٤۔ آخرت پر دنیا کو ترجیح دینے والوں کو ہدایت نہیں ملتی۔ (النحل : ١٠٧) ٥۔ گمراہی کا راستہ اختیار کرنے والوں کو ہدایت نہیں ملتی۔ (النحل : ٣٧) ٦۔ اللہ تعالیٰ جھوٹے لوگوں کو ہدایت نصیب نہیں فرماتا۔ (الزمر : ٣) المآئدہ
107 المآئدہ
108 المآئدہ
109 فہم القرآن ربط کلام : حق کی شہادت دینا مسلمان کا فریضہ ہے جو انبیاء کا مشن ہے۔ جب انبیاء کرام (علیہ السلام) سے ان کے مشن کے بارے میں سوال ہوگا تو انکے متبعین کس طرح مسؤ لیت سے بچ سکتے ہیں۔ اسلام کے بنیادی عقائد میں تین باتیں مرکزی حیثیت رکھتی ہیں اللہ تعالیٰ کی ذات اور صفات کو یکتا جانتے ہوئے اس پر کامل ایمان رکھنا، حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خاتم المرسلین مانتے ہوئے ان کی رسالت پہ ایمان لانا، تیسرا بنیادی عقیدہ یہ ہے آدمی کا قیامت پر ایمان ہو کہ وہ قائم ہوگی اور ہم سب نے رب کبریا کی عدالت میں اپنی ہر بات اور عمل کا جواب دینا ہے۔ قیام قیامت کے بارے میں قرآن مجید میں بڑی شرح و بسط کے ساتھ دلائل دیے گئے ہیں یہ ایسا دن ہے کہ جبرائیل امین (علیہ السلام) اور تمام ملائکہ ( علیہ السلام) قطار اندر قطار رب کبریا کی بارگاہ میں کھڑے ہوں گے۔ یہ پچاس ہزار سال کا دن ہوگا۔ اس میں ہر نبی وقت مقررہ پر اپنی امت کو لے کر اللہ تعالیٰ کے حضور پیش ہوگا۔ یہاں ہر فرد کو اس کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کے بارے میں سوال ہوگا۔ قرآن مجید کی تلاوت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جب انبیاء (علیہ السلام) اپنی امتوں کے ساتھ پیش ہوں گے تو اللہ تعالیٰ پہلے اس امت کے نبی سے سوال کرے گا کہ آپ نے میرا پیغام ٹھیک ٹھیک طریقے سے پہنچایا یا نہیں ؟ اس کے جواب میں تمھاری امت نے کیا وطیرہ اختیار کیا ؟ انبیاء کرام (علیہ السلام) اللہ تعالیٰ کے حضور فریاد کناں ہوں گے کہ الٰہی ہم تو نہیں جانتے آپ ہی غیب کو جاننے والے ہیں۔ انبیاء کا لا علمی کا اظہار کرنے کے بارے میں مفسرین نے تین قسم کی تفسیر کی ہے : ١۔ لاَ عِلْمَ لَنَا کہ ہمیں علم نہیں سے مراد علم کا مل ہے۔ کیونکہ علاَّمُ الغیوب کے لفظ ظاہر کر رہے ہیں کہ انبیاء صرف انھی حالات سے واقف تھے اور ہوتے ہیں جو ان کے سامنے ظاہر ہوتے ہیں۔ لوگوں کی خلوت کی زندگی کو انبیاء (علیہ السلام) نہیں جانتے۔ ٢۔ لاَ عِلْمَ لَنَا کا یہ معنی ہے کہ جب تک ہم ان میں موجود رہے اس وقت تک تو ہمیں کچھ نہ کچھ ان کے حالات کا علم ہے لیکن ان کے بارے میں کامل اور اکمل علم تیرے سوا کوئی نہیں جانتا۔ (فَکَیْفَ إِذَا جِءْنَا مِن کُلِّ أمَّۃٍ بِشَہِیدٍ وَجِءْنَا بِکَ عَلَی ہَؤُلاء شَہِیدًا)[ النساء : ٤١) ” بھلا اس وقت کیا حال ہوگا جب ہم ہر امت سے ایک گواہ لائیں گے، پھر ان پر (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ کو گواہ بنا دیں گے۔“ ٣۔ انبیاء اپنی امتوں کے بارے میں شہادت دیں گے لہٰذا اس آیت کا یہ مفہوم لینے میں کوئی حرج معلوم نہیں ہوتاکہ اللہ تعالیٰ کے جلال اور دبدبہ کی وجہ سے انبیاء کرام (علیہ السلام) پہلے لا علم لنا کا اظہار کریں گے۔ بہر حال قرآن و حدیث کی روشنی میں یہ بات مسلمہ ہے کہ انبیاء کرام (علیہ السلام) وہی کچھ جانتے تھے جس کا علم اللہ تعالیٰ انھیں عطا کیا تھا یا جو کام ان کی موجودگی میں ہوا کرتے تھے۔ مسائل ١۔ قیامت کے دن تمام انبیاء کرام (علیہ السلام) سے بھی سوال ہوگا۔ ٢۔ انبیاء و رسل ( علیہ السلام) سے ان کی رسالت کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ ٣۔ صرف اللہ تعالیٰ ہی عالم الغیب ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ ہی غیب جانتا ہے : ١۔ اللہ تعالیٰ آسمانوں اور زمین کے غیب کے بارے میں جانتا ہے۔ (البقرۃ: ٣٣) ٢۔ اللہ تعالیٰ چھپی ہوئی چیزوں کے بارے میں خوب جانتا ہے۔ (البقرۃ: ٣٣) ٣۔ اللہ تعالیٰ سینوں میں چھپی باتوں کو جانتا ہے۔ (فاطر : ٣٨) ٤۔ اللہ تعالیٰ ہر عمل کو خوب جانتا ہے۔ (الحجرات : ١٨) ٥۔ اللہ کے پاس ہی غیب کی چابیاں ہیں۔ (الانعام : ٥٩) ٦۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) غیب نہیں جانتے۔ (الانعام : ٥٠) ٧۔ کہہ دیجیے غیب اللہ کے لیے ہے تم انتظار کرو میں بھی تمہارے ساتھ انتظار کرتا ہوں۔ (یونس : ٢٠) ٨۔ آسمان و زمین کا غیب اللہ جانتا ہے۔ (النحل : ٧٧) المآئدہ
110 فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ عیسائیوں کے باطل عقیدہ اور برے اعمال کی وجہ سے یہ وقت بھی آئے گا کہ اللہ تعالیٰ اپنے پیارے پیغمبر عیسیٰ (علیہ السلام) سے اس انداز سے سوال فرمائے گا کہ جس کا ایک ایک لفظ جلالت و تمکنت سے لبریز ہوگا اور عیسیٰ (علیہ السلام) اللہ تعالیٰ کے حضور عاجزی اور بے چارگی کا مجسمہ بنے ہوئے ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ عیسیٰ (علیہ السلام) کو انعامات یاد کرائیں گے کہ میں نے تیری والدہ کو خصوصی کفالت و تربیت سے نوازتے ہوئے زمانے کی عورتوں میں معزز اور محترم ٹھہرایا۔ ان کے لیے بے موسم پھولوں کا انتظام کیا جب ان کی پاک دامنی پر حرف آیا تو تجھ جیسے نو مولود سے ان کی برأت کا اس طرح اظہار کروایا کہ پھر ان کی زندگی میں کوئی شخص ان پر الزام لگانے کی جرأت نہ کرسکا۔ اور تجھے جبرائیل امین (علیہ السلام) کے ذریعے معاونت بخشی اور تو نے مہد میں نہ صرف اپنی والدہ کی پاک دامنی کی گواہی دی بلکہ اپنی نبوت کا بھی اعلان کیا۔ تجھے یہ بھی شرف بخشا کہ تو ادھیڑ عمر میں لوگوں سے باتیں کرتا رہا۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) تقریباً ٣٥ سال کی عمر میں آسمانوں پر اٹھالیے گئے نامعلوم لاکھوں کروڑوں سالوں کے بعد جب وہ قرب قیامت تشریف لائیں گے تو وہ بوڑھے ہونے کے بجائے پورے حسن و جمال کے ساتھ جوان ہوں گے یہ بھی ان پر اللہ کا منفرد احسان ہوگا کہ صدیاں گزرنے کے باوجود ظاہری اور جوہری صلاحیتوں سے ہر طرح ہم کنار ہوں گے عیسیٰ (علیہ السلام) کو لکھنا، پڑھنا، حکمت و دانش اور نہ صرف انجیل یاد کروائی بلکہ تورات بھی انھیں پوری طرح ازبرتھی۔ حکمت میں انھیں اس قدر ید طولیٰ عطا کیا گیا کہ بڑے بڑے اطباء اور حکماء ان کے سامنے طفل مکتب کی مانند پیش ہوتے تھے۔ عیسیٰ (علیہ السلام) نے مادر زاد اندھے کو بینائی دی اور کوڑھی کے جسم پر ہاتھ پھیرا تو وہ صحت یاب ہوگیا۔ عیسیٰ (علیہ السلام) نے مردہ کو زندہ کیا یہ سب کچھ اللہ کے حکم سے ہوا جہاں تک پرندہ بنانے اور اسے اڑانے کا تعلق ہے تفسیر بیضاوی میں لکھا ہے کہ لوگوں نے ان سے چمگادڑ بنانے اور اس میں روح ڈالنے کا مطالبہ کیا۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے زمین سے مٹی اٹھائی اور اسے چمگادڑ کی شکل دی اس میں پھونک ماری تو چمگادڑ اڑنے لگا۔ چمگادڑ کا مجسمہ بنانا عیسیٰ (علیہ السلام) کا کام تھا لیکن اس میں روح ڈالنا اور اڑنے کی طاقت بخشنا اللہ تعالیٰ کا کمال تھا۔ صاحب بیضاوی کا کہنا ہے کہ لوگوں نے چمگادڑ بنانے کا اس لیے مطالبہ کیا تھا کہ یہ جانور دوسرے جانوروں سے بالکل مختلف ہوتا ہے۔ اس کے جسم میں ہڈی نہیں ہوتی یہ صرف گوشت اور خون کا بنا ہوتا ہے۔ یہ پرندوں کی طرح اڑتا ہے اور حیوانوں کی طرح بچے دیتا ہے۔ پرندے انڈے دیتے ہیں یہ دودھ دیتا ہے۔ اسے عورت کی طرح حیض آتا ہے، اور انسان کی طرح ہنستا ہے عیسیٰ (علیہ السلام) کو دوسری نعمتوں کی یاد دہانی کے ساتھ یہ بھی یاد کروایا جائے گا کہ اے عیسیٰ میں نے تجھے یہودیوں کی دستبرد سے بچایا اور تیرے بارے میں تیرے شاگردوں کے دل میں خصوصی محبت اور ایمان کا جذبہ بخشا۔ سورۃ آل عمران آیت ٤٩ میں ہر معجزے کے بعد باذ ن اللہ کے الفاظ بھی آئے ہیں جہاں نعمتوں کی یاد دہانی کے بعد اللہ تعالیٰ نے ” بِاِذْنِیْ“ کے الفاظ استعمال کیے ہیں کہ سب کچھ میری عطا اور میرے حکم سے ہوا تھا۔ تاکہ کسی کو یہ شبہ نہ ہو کہ یہ عیسیٰ (علیہ السلام) کا کمال تھا۔ لیکن افسوس بار بار کی صراحت کے بعد عیسائی عیسیٰ (علیہ السلام) اور ان کی والدہ کو اللہ تعالیٰ کا جز ٹھہراتے ہوئے کفر کرتے ہیں۔ جس کا قیامت کے دن عیسیٰ (علیہ السلام) صاف صاف انکار کریں گے۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو خاص شرف بخشاتھا۔ ٢۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو جبرائیل امین کی تائید حاصل تھی۔ ٣۔ تمام کاموں کا اختیار صرف اللہ کے پاس ہے۔ تفسیر بالقرآن حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے معجزات : ١۔ مٹی سے پرندہ بنا کر اڑانا، مادر زاد اندھے اور کوڑھی کو باذن اللہ اچھا کرنا۔ ( آل عمران : ٤٩) ٢۔ آسمان سے دستر خوان کا اترنا۔ (المائدۃ: ١١٢ تا ١١٥) ٣۔ روح القدس کی تائید پانا۔ (البقرۃ: ٢٥٣) ٤۔ آپ کلمۃ اللہ ہیں۔ دنیا و آخرت میں عزت پانے والے ہیں۔ (آل عمران : ٤٥) ٥۔ بن باپ کے پیدا ہونا۔ (آل عمران : ٤٧) ٦۔ زندہ آسمانوں پر اٹھایا جانا۔ (النساء : ١٥٨) ٧۔ ابتدائی دنوں میں اپنی نبوت کا اعلان کرنا۔ (مریم : ٣٠) ٨۔ اپنی والدہ کی براءت کا اعلان کرنا۔ (آل عمران : ٤٧) ٩۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کالوگوں کو انکی کھانے پینے اور ذخیرہ کی ہوئی چیزوں کے بارے مطلع کرنا۔ (آل عمران : ٤٩) المآئدہ
111 فہم القرآن ربط کلام : قیامت کے دن حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو دوسرے احسانات کے ساتھ یہ احسان بھی یاد کرایا جاۓ گا۔ اس فرمان کا پس منظر یوں معلوم ہوتا ہے کہ جب یہودیوں کی سازشوں اور پروپیگنڈہ کی بنا پر کوئی شخص بھی حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی نبوت کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہ ہوا تو اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) پر خاص کرم فرماتے ہوئے کچھ لوگوں کے دل ہدایت کے لیے کھول دیے۔ جس کو بیان کرتے ہوئے ” اَوْحَیْتُ“ کے الفاظ استعمال فرماۓ کہ اے عیسیٰ ! اللہ ہی نے تمھارے حواریوں کے دل میں القا کیا کہ آگے بڑھ کر عیسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لاؤاور اس کے دست وبازو بن جاؤ۔ المآئدہ
112 المآئدہ
113 المآئدہ
114 قرآن مجید کے دوسرے مقام پر اس کی یوں وضاحت ہے۔ (یَآأَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْا أَنْصَار اللّٰہِ کَمَا قَالَ عِیْسٰی ابْنُ مَرْیَمَ لِلْحَوَارِیِّیْنَ مَنْ أَنصَارِیْٓ إِلٰی اللّٰہِ قَالَ الْحَوَارِیُّوْنَ نَحْنُ أَنْصَار اللّٰہِ فَاٰمَنَتْ طَّاءِفَۃٌ مِّنمْ بَنِی إِسْرَاءِیْلَ وَکَفَرَتْ طَّآءِفَۃٌ فَأَیَّدْنَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا عَلٰی عَدُوِّہِمْ فَأَصْبَحُوْا ظَاہِرِیْنَ)[ الصف : ١٤] ” اے ایمان والو ! اللہ تعالیٰ کے دین کے مددگار بن جاؤ۔ جیسے عیسیٰ بن مریم نے حواریوں سے کہا تھا اللہ کی طرف (بلانے میں) میرا کون مددگار ہے؟ تو حوا ریوں نے کہا تھا کہ ہم اللہ کے دین کے مددگار ہیں پھر بنی اسرائیل کا ایک گروہ تو ایمان لے آیا اور دوسرے گروہ نے انکار کردیا ہم نے ایمان لانے والوں کی ان کے دشمنوں کے مقابلے میں مدد کی لہٰذا وہی غالب رہے۔“ حواریوں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لانے کا اعلان تو کردیا لیکن ساتھ ہی نہا یت ادب کے ساتھ ملتمس ہوئے کہ جناب عیسیٰ (علیہ السلام) کیا یہ ممکن ہے آپ کا رب آسمان سے ہمارے لیے کھانوں سے بھر پور دستر خوان نازل کرے؟” ہَلْ یَسْتَطِیْعُ“ کے معنی یہ نہیں کہ انہیں شک تھا کہ اللہ تعالیٰ آسمان سے دستر خوان نازل نہیں کرسکتا۔ یقیناً وہ جانتے تھے کہ جو رب من وسلوی اور بارش نازل کرسکتا ہے وہ پکا پکایا کھانا بھی نازل کرسکتا ہے۔ کیا آپ کا رب طاقت رکھتا ہے؟ کا مقصد یہ تھا کہ اگر یہ اللہ تعالیٰ کی شان میں گستاخی اور اس کی حکمت کے منافی نہ ہو تو وہ ہم پر دسترخوان نازل فرمائے تاکہ ہم یہ فوائد حاصل کرسکیں۔ ١۔ اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ پکوان کو خوب مزے لے لے کر سیر ہو کر کھائیں۔ ٢۔ جس طرح ابراہیم (علیہ السلام) کے سامنے پرندوں کا معجزہ ظاہر ہوا اور وہ اطمینان قلب کی دولت سے مالا مال ہوئے ہم بھی دستر خوان سے لطف اندوز ہونے کے ساتھ قلبی اطمینان چاہتے ہیں۔ ٣۔ اس اطمینان قلب اور انشراح صدر کے بعد ہم لوگوں کے سامنے شدّو مدّاور بھرپور طریقہ کے ساتھ آپ کی نبوت کا پر چار کریں گے۔ اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ میں تم پر اپنی نعمتوں سے بھر پور دستر خوان نازل کروں گا لیکن یاد رکھنا اس کے بعد جس کسی نے انکار کیا تو اسے ایسے عذاب سے دوچار کیا جائے گا کہ جس کی مثال دنیا میں پہلے نہ ہوگی۔ دستر خوان کے نزول کے بارے میں مفسرین کی دو آرا پائی جاتی ہیں ایک طبقہ کا خیال ہے کہ دستر خوان نازل ہوا جب کہ دوسرے فریق کا خیال ہے کہ عذاب کی وارننگ سن کر حواریوں نے اس مطالبہ سے توبہ کرلی تھی۔ (واللہ اعلم) مسائل ١۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ سے خصوصی کھانے کی دعا کی۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ کی آیات نازل ہونے پر اتمام حجت ہوجاتی ہے۔ تفسیر بالقرآن ١۔ اللہ ہی سب کو رزق دینے والا ہے : ٢۔ اے اللہ ہمیں رزق عطا فرما تو ہی بہتر رزق دینے والا ہے۔ ( المائدہ : ١١٤) المآئدہ
115 المآئدہ
116 فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ عیسائیوں کے باطل عقیدہ کی وجہ سے یہ وقت بھی آئے گا کہ اللہ تعالیٰ تمام انسانوں کے سامنے بڑے جلال کے ساتھ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) سے سوال کرے گا کہ اے مریم کے بیٹے عیسیٰ کیا تو نے عیسائیوں کو یہ تبلیغ کی تھی کہ مجھے اور میری والدہ کو اللہ کے سوا معبود بنا لو؟ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) تھر تھرکانپتے ہوئے ہونٹوں اور لڑکھڑاتی زبان سے اپنے رب کے حضور التجا کریں گے کہ اے رب ذوالجلال والاکرام میں وہ بات کہنے کی کس طرح جرأت کرسکتا تھا جس کے کہنے کا مجھے اختیار نہ تھا۔ الٰہی اگر میں نے یہ بات ان لوگوں کو کہی ہوتی میرے الفاظ اور میرے دل کی حالت کو آپ جانتے ہیں جس کا دوسرا مفہوم ہے کہ میں ایسی بات کہنا تو درکنار سوچ بھی نہیں سکتا۔ آپ میرے دل کی سچائی اور عاجزی سے پوری طرح آگاہ ہیں۔ البتہ میں نہیں جانتا آپ میرے بارے میں کیا فیصلہ فرمانے والے ہیں۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اپنی فریاد کو جاری رکھتے ہوئے عرض کریں گے۔ کہ میں نے تو انہیں پوری زندگی یہی بات باربار کہی اور سمجھائی کہ صرف ایک اللہ کی عبادت کرو جو میرا اور تمہارا رب ہے۔ میں ان کے بارے میں اتنی ہی شہادت دے سکتا ہوں جب تک میں ان میں موجود رہا جب تو نے مجھے فوت کرلیا۔ تو ہی ان کا نگہبان تھا اور تو ہی ان کے عقیدے اور عمل کو جاننے والا ہے۔ امام ابن کثیر (رض) نے اپنی تفسیر میں لکھا ہے کہ یہ فریاد کرتے ہوئے عیسیٰ (علیہ السلام) اس قدر عاجزی وانکساری کا اظہار کریں گے کہ انکے جسم کے ایک ایک رونگٹے سے پسینا بہنا شروع ہوجائے گا۔ بالآخر سراپا التجا بن کر عرض گزار ہوں گے کہ تو انہیں عذاب کرے تیرے ہی بندے ہیں اگر معاف فرما دے تو تجھے روکنے اور ٹوکنے والا کوئی نہیں۔ تو اپنے فیصلے صادر کرنے پر غالب اور نہایت حکمت والا ہے۔ اس عاجزی اور بار بار فریاد کرنے کے باوجود رب ذوالجلال فرمائے گا کہ آج سچے لوگوں کو ان کی سچائی کاہی فائدہ پہنچے گا۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن عیسیٰ (علیہ السلام) سے سوال کریں گے۔ ٢۔ عیسیٰ (علیہ السلام) اور ان کی والدہ مافوق الفطرت انسان ہی ہیں۔ ٣۔ مرنے کے بعد انبیاء کو بھی دنیا کے حالات کا علم نہیں ہوتا۔ ٤۔ اللہ جسے چاہے معاف کرے اور جیسے چاہے عذاب میں مبتلا کرے۔ المآئدہ
117 المآئدہ
118 المآئدہ
119 فہم القرآن ربط کلام : عیسیٰ (علیہ السلام) کی معذرت اور فریاد کے باوجود اللہ تعالیٰ مشرکوں کے بارے میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی فریاد قبول نہ کرتے ہوئے فرمائے گا کہ آج کے دن سچے شخص کو اس کی سچائی کا فائدہ پہنچے گا۔ اس میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو تسلی دی گئی ہے اے عیسیٰ جو کچھ تم نے کہا سچ کہا کہ واقعی تو اور تیری والدہ نے لوگوں کو شرک کی دعوت نہیں دی تھی لہٰذا تجھے مطمئن رہنا چاہیے آج ہر شخص کو فائدہ پہنچے گا جو سچ پر قائم رہا اور سچ کی دعوت دیتا رہا۔ ان آیات کے سیاق و سباق سے یہ حقیقت بالکل واضح اور نمایاں ہوتی ہے۔ یہاں صدق سے مراد اللہ تعالیٰ کی توحید ہے کیونکہ توحید کے بغیر دنیا کی کوئی سچائی قیامت کے دن انسان کی نجات کا ذریعہ نہیں بن سکتی۔ توحید کے مقابلہ میں شرک ہے اور شرک کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا سورۃ النساء، آیت : ١١٦ میں فیصلہ ہے کہ اس نے شرک کو ہرگز معاف نہیں کرنا جبکہ دوسرے جس کو چاہے گا اس کے دوسرے گناہ معاف کر دے گا۔ جہاں تک توحید کے علاوہ دوسرے اعمال کا تعلق ہے نیکی کرنے والے کو اسکی نیکی کا دنیا میں فائدہ پہنچے گا لیکن شرک کی وجہ سے قیامت کے دن اس کے سب اعمال غارت ہوجائیں گے۔ اس کے مقابلے میں عقیدۂ توحید پر قائم رہنے اور اس کے مطابق نیک اعمال کرنے والوں کے لیے ایسی جنت ہے جس کے نیچے نہریں اور چشمے جاری ہوں گے۔ اس میں صادقین کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے داخلہ نصیب ہوگا۔ اللہ تعالیٰ ان پر راضی ہوگا اور یہ اپنے رب پر خوش و خرم ہوں گے ان کے لیے عظیم کامیابی ہے۔ (عَنْ عمرو بن العاص (رض) قال أَتَیْتُ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَقُلْتُ ابُسُطْ یَمِینَکَ فَلْأُبَایِعْکَ فَبَسَطَ یَمِینَہُ قَالَ فَقَبَضْتُ یَدِی قَالَ مَا لَکَ یَا عَمْرُو قَالَ قُلْتُ أَرَدْتُّ أَنْ أَشْتَرِطَ قَالَ تَشْتَرِطُ بِمَاذَا قُلْتُ أَنْ یُّغْفَرَ لِی قَالَ أَمَا عَلِمْتَ أَنَّ الْإِسْلَامَ یَہْدِمُ مَا کَانَ قَبْلَہٗ) [ رواہ مسلم : کتاب الایمان، باب کون الاسلام یھدم ماقبلہ وکذا الھجرۃ والحج] ” حضرت عمر و بن عاص (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کی اے اللہ کے رسول اپنا دایاں ہاتھ آگے کیجیے تاکہ میں آپ کی بیعت کروں۔ جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنا دایاں ہاتھ آگے کیا تو میں نے اپنا ہاتھ پیچھے کھینچ لیا۔ تب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا اے عمرو! کیا ہوا ؟ میں نے عرض کی کہ ایک شرط کے ساتھ بیعت کرنا چاہتا ہوں۔ ارشاد ہوا کہ وہ کون سی شرط ہے؟ میں نے عرض کی کہ میرے گناہ معاف کردیے جائیں۔ فرمایا عمرو تجھے معلوم نہیں اسلام پہلے گناہوں کو ختم کردیتا ہے۔“ مسائل ١۔ عقیدۂ توحید اور صالح اعمال والے ہی سچے ہیں۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ کی رضا بہت بڑی نعمت ہے۔ ٣۔ جنت کا حصول بہت بڑی کامیابی ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ کی رضامندی سب سے بڑی نعمت ہے : ١۔ اللہ نے مومن مرد اور عورتوں سے جنت کا وعدہ کیا ہے جس کے نیچے نہریں جاری ہیں۔ اللہ کی رضامندی بڑی بات ہے۔ (التوبۃ: ٧٢) ٢۔ آج کے دن سچائی فائدہ دے گی۔ ان کے لیے جنت ہے۔ اللہ ان سے راضی ہوا۔ وہ اللہ پر راضی ہوگئے یہی بڑی کامیابی ہے۔ (المائدۃ: ١١٩) ٣۔ صحابہ کرام (رض) اللہ پر راضی ہوئے اور اللہ تعالیٰ ان پر راضی ہوگیا۔ (المجادلۃ: ٢٢) ٤۔ اللہ کی رضا بہت بڑی کامیابی ہے۔ (التوبۃ: ١٠٠) ٥۔ ایمان دار، اعمال صالح کرنے والوں سے اللہ راضی ہوگا اور وہ اللہ پر راضیہوں گے۔ (البینۃ : ٧ تا ٨) المآئدہ
120 فہم القرآن ربط کلام : اس سورۃ کی ابتدا میں عہد کی پاسداری کا حکم دیا تھا عہد میں سب سے بڑا عہد بندے کا اللہ تعالیٰ کی توحید کا اقرار کرنا ہے اب سورۃ کا اختتام شرک کی نفی اور توحید کے اثبات اور اقرار پر ہو رہا ہے۔ سورۃ کے اختتام میں اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان اور جو کچھ ان میں ہے اسے اپنی ملکیت قرار دیتے ہوئے اس کے ذرّے ذرّے اور چپے چپے پر قادر ہونے کا اعلان فرمایا ہے۔ جس کا مطلب ہے کہ اے لوگو اگر تم اللہ کی توحید سے منحرف ہو کر اللہ تعالیٰ سے کیے ہوئے عہد توڑ دو اس کی نافرمانی اور شرک جیسے عظیم گناہ میں ملوث ہوجاؤ۔ تو اللہ تعالیٰ کی ملکیت، اس کے اقتدار اور اختیار میں ذرّہ برابر کمی واقع نہیں ہوتی۔ دوسرے لفظوں میں یہ خدا کے نافرمان اور باغیوں کو ایک چیلنج ہے جس کی رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تفصیل یوں بیان فرمائی ہے : مسائل ١۔ زمین و آسمان کی بادشاہت صرف اللہ تعالیٰ کے لیے ہے۔ ٢۔ کائنات کی ہر چیز اللہ کی ملکیت ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے۔ تفسیر بالقرآن ہر چیز اللہ کی ملکیت ہے : ١۔ جو کچھ آسمان و زمین میں ہے وہ اللہ کی ملکیت ہے اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔ (آل عمران : ١٨٩) ٢۔ بے شک زمین و آسمان کی بادشاہت اللہ کے لیے ہے وہ زندہ کرتا اور مارتا ہے۔ (التوبۃ: ١١٦) ٣۔ کیا آپ نہیں جانتے ؟ کہ زمین و آسمان کی بادشاہت اللہ کے لیے ہے۔ (البقرۃ: ١٠٧) المآئدہ
0 سورۃ الانعام کا تعارف اس سورۃ مبارکہ کا نام آیت ١٣٦ سے لیا گیا ہے۔ الانعام کا لفظ پورے قرآن میں ٣٠ مرتبہ اور اس سورۃ میں ٦ مرتبہ آیا ہے۔ اس کی آیات ١٦٥ اور بیس ٢٠ رکوع ہیں۔ چند آیات کے سوا پوری کی پوری سورۃ مکہ معظمہ میں نازل ہوئی۔ اس سورۃ مبارکہ کا مرکزی مضمون اللہ تعالیٰ کی توحید ہے مکہ اور اس کے گرد ونواح کا وسیع ترین علاقہ بلکہ پورا حجاز شرک کی غلاظت میں کلی طور پر ملوث تھا جس بناء پر اس میں اللہ کی توحید کے ایسے دلائل دیے گئے ہیں جن کا انکار کرنا کسی عقلمند اور شریف آدمی کے بس کی بات نہیں ہے۔ سورۃ کی ابتداء اللہ تعالیٰ کی حمد و ستائش سے ہوتی ہے کیونکہ وہ ایسی ذات ہے جس نے زمین و آسمان، ظلمت اور روشنی پیدا فرمائی۔ وہی ذات ہے جس نے انسان کو مٹی سے پیدا کیا اور پھر انسان کی زندگی کا تعین فرمایا وہ زمین و آسمان کی ہر چیز اور انسانوں کی جلوت و خلوت کی حرکات سے ہر لمحہ مکمل آگاہی رکھنے والا ہے۔ لیکن مشرکین اس عقیدہ کو تسلیم کرنے کی بجائے دعوت توحید دینے والی شخصیات کا ہمیشہ سے مذاق اڑاتے آرہے ہیں۔ اگر یہ لوگ دنیا کی تاریخ اور جغرافیہ پر توجہ کریں تو انھیں معلوم ہوجائے گا کہ عقیدہ توحید کی مخالفت کرنے والوں کا دنیا میں کیا انجام ہوا۔ توجہ دلاتے ہوئے یہ بھی بتادیا گیا ہے اگر اللہ تعالیٰ نے اب تک انھیں نہیں پکڑا تو اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ اس نے اپنی ذات پر لوگوں پر شفقت و مہربانی کرنالازم قرار دے لیا ہے اس کے بعد درج ذیل توحید کے دلائل دیے ہیں۔ ١۔ اللہ تعالیٰ ہی زمین و آسمان پیدا کرنے والا اور لوگوں کو کھلانے، پلانے والا ہے جبکہ وہ خود کھانے پینے کا محتاج نہیں ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ کسی کو تکلیف پہنچانا چاہے تو دنیا کی کوئی طاقت اسے بچا نہیں سکتی اگر وہ کسی کے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرما لے تو اس خیر کو کوئی روک نہیں سکتا۔ ٣۔ توحید کا اقرار سب سے بڑی گواہی اور شہادت ہے جس پر ایک داعی کو ہر حال میں قائم رہنا چاہیے۔ ٤۔ توحید کا منکر حقیقتاً آخرت کا انکاری ہوتا ہے۔ ٥۔ اگر اللہ تعالیٰ کسی کی بصیرت و بصارت اور سماعت کو کلیتاً ختم کر دے تو زمین و آسمان میں کوئی ایسی طاقت نہیں جو ان صلاحیتوں کو واپس لوٹا سکے۔ ( ٤٦) ٦۔ اللہ کے خزانوں اور زمین و آسمان کے غائب کو اس کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ ( ٥٠) ٧۔ اللہ ہی کے پاس غیب کی چابیاں ہیں اور وہ بحر و بر کی ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے۔ یہاں تک کہ دنیا میں بیک وقت کھربوں کی تعداد میں درختوں سے گرنے والے پتے بھی اس کے علم اور شمار میں ہوتے ہیں۔ ( ٦٠) ٨۔ وہ ہر اعتبار سے اپنے بندوں پر غالب ہے۔ (٦١) ٩۔ ان دلائل کے بعد حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا نمرود کے ساتھ مکالمہ ذکر کیا ہے جس میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے شمس و قمر اور ستاروں کے حوالے سے توحید کے وہ دلائل دیے کہ نمرود حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے سامنے ششدر اور خاموش ہوجاتا ہے۔ اس کے بعد حضرت ابراہیم (علیہ السلام) چیلنج کا ذکر کیا گیا ہے جس میں انہوں نے بےدھڑک ہو کر فرمایا تھا کہ میں اللہ تعالیٰ کے سوا تمہارے شریکوں سے ذرہ کے برابر بھی ڈرنے کے لیے تیار نہیں، اور یا درکھو حقیقی امن مواحد کو حاصل ہوتا ہے۔ اس گفتگو کی تائید میں اٹھارہ انبیاء کا نام لے کر ذکر کیا ہے کہ وہ سب کے سب اللہ کی توحید کے داعی اور شرک کے خلاف بر سر پیکار رہنے والے تھے وضاحت فرمائی کہ شرک اتنا سنگین جرم ہے کہ اگر یہ عظیم شخصیات شرک کا ارتکاب کرتی تو ان کے اعمال بھی ضائع کردیے جاتے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے نباتات، صبح وشام، رات دن، شمس وقمر اور کا ئنات کی بڑی بڑی چیزوں کو اپنی وحدت کی تائید میں دلیل کے طور پر پیش کرتے ہوئے فیصلہ کن انداز میں فرمایا ہے کہ اللہ کی ذات ہر اعتبار سے وحدہ لا شریک ہے وہ لوگوں کو براہ راست دیکھتا ہے لیکن اسے کوئی نہیں دیکھ سکتا اس کے بعد آیت ١٥٧ میں سرور دوعالم کو تسلی دی کہ آپ اپنا کام ایک مبلغ کی حیثیت سے کرتے جائیں اور یہ بات ذہن نشین کرلیں کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو منکرین پر چوکیدار بنا کر نہیں بھیجا۔ ان لوگوں کی حالت تو ہے کہ اگر ان پر فرشتے نازل کردیے جائیں اور ان کے مدفون آباو اجداد زندہ ہو کر انہیں سمجھائیں یہاں تک کہ ہر چیز ان کے سامنے اللہ کی توحید کی گواہی دے پھر بھی یہ لوگ ایمان نہیں لائیں گے کیونکہ یہ اپنی جہالت پر ڈٹ چکے ہیں۔ (١١١) توحید کے دلائل دینے کے بعد حلال وحرام کے مسائل کا ذکر کیا گیا ہے اور حلال وحرام کے سلسلے میں مشرکین کے خود ساختہ اصولوں کی حقیقت بیان کی کہ ان لوگوں نے اپنی طرف سے طے کرلیا کہ فلاں فلاں جانور کا کھانا ان کے مردوں کے لیے جائز مگر ان کی عورتوں کے لیے حرام ہے۔ پھر مشرکین سے ان کے حلال وحرام کے قواعد کے بارے میں سوالات کرتے ہوئے انہیں چیلنج دیا کہ اگر تمہارے پاس ان کے حق میں کوئی علمی دلائل ہیں تو پیش کرو۔ (١٤٨) اس کے بعد آیت ١٥١ تا ١٥٤ میں توحیدو شرک کا بیان، والدین سے حسن سلوک، اولاد کے حقوق، ہر قسم کی بے حیائی سے اجتناب، قتل وغارت سے روکتے ہوئے یتیموں کے ساتھ حسن سلوک، لین دین اور ہر معاملے میں عدل وانصاف کا حکم دیتے ہوئے فرمایا کہ یہی صراط مستقیم ہے لوگوں کو اسی کی اتباع کرنا چاہیے۔ سورۃ کا اختتام ان مسائل پر فرمایا کہ اے محبوب (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ یہ اعلان فرمائیں کہ اللہ کی توحید پر قائم رہنا، اس کی دعوت دینا، غیر اللہ کا انکار کرنا اور نماز، قربانی، موت وحیات کو اللہ تعالیٰ کے حوالے کرنے کا نام ہی دین اور صراط مستقیم ہے۔ آخر میں فرمایا کہ اللہ ہی تمہیں ایک دوسرے کا خلیفہ بناتا ہے تاکہ تمھیں آزمائے کہ تم اپنے اپنے مقام پر کس قسم کا کردار ادا کرتے ہو۔ اور یاد رکھنا کہ اللہ تعالیٰ بہت جلد تمہارا حساب چکا دینے والا ہے اور حساب لیتے ہوئے ظلم کی بجائے وہ معافی اور شفقت کو زیادہ پسند کرتا ہے۔ الانعام
1 فہم القرآن قرآن مجید نے اس حقیقت کو بار بار واضح فرمایا ہے کہ زمین کا ذرہ ذرہ اور آسمانوں کا چپہ چپہ۔ اللہ تعالیٰ کی حمد و ستائش میں رطب اللّسان ہے۔ اللہ تعالیٰ ہی کائنات کا خالق و مالک ہے۔ اسی بنا پر اس سورۃ کی ابتدا میں اللہ تعالیٰ اپنی حمد کا استحقاق بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ اللہ وہ ہے جس نے زمین و آسمانوں کو پیدا فرمایا اور اسی نے ظلمات اور نور بنایا لیکن کافر اتنے ناعاقبت اندیش ہیں کہ وہ اس عظیم الشان ہستی کا نہ صرف انکار کرتے ہیں بلکہ وہ دوسروں کو اس کے برابر گردانتے ہیں حالانکہ وہ ایسی ہستی ہے جس نے نہ صرف سب کو پیدا فرمایا ہے بلکہ ہر کسی کی ضرورت کے مطابق اس کی پرورش کا انتظام فرمایا ہے۔ یہاں زمین و آسمانوں کے لیے تخلیق کا لفظ استعمال فرمایا۔ اندھیروں اور روشنی کے لیے ” جَعَلَ“ کا لفظ استعمال کیا ہے۔ شاید اس میں اس حقیقت کی طرف اشارہ ہو جو موجودہ سائنس دانوں نے ہمارے سامنے پیش کی ہے۔ سائنس دانوں کا کہنا ہے جس طرح زمین ایک کرَّہ ہے اسی طرح سورج چاند اور بے شمار کرّہ جات ہیں۔ جس طرح سورج کے عکس سے چاند روشن ہوتا ہے اسی طرح بلندی پر جاکر دیکھیں تو زمین چمکتی ہوئی دکھائی دیتی ہے اور ہر کرّہ ایک دوسرے کو روشن کیے ہوئے ہے۔ پھر اندھیرے کے لیے جمع کا لفظ استعمال کیا اور روشنی کو واحد قرار دیا۔ اس لیے اکثر مفسرین نے واضح فرمایا کہ اندھیرے کئی قسم کے ہیں اور روشنی ایک ہی ہوتی ہے۔ ظلمات سے مراد مختلف قسم کی گمراہیاں ہیں اور نور کا مفہوم ہدایت لیا گیا ہے کیونکہ ہدایت ہمیشہ سے ایک ہی رہی ہے اور گمراہی ہر دور میں اپنا روپ بدلتی رہتی ہے۔ لفظ ظلمات کو پہلے اس لیے لایا گیا یہ کائنات پہلے دھواں کی شکل میں تھی جیسا کہ قرآن مجید میں بیان ہوا ہے۔ اور موجودہ سائنس بھی اس کی تائید کر رہی ہے۔ الانعام
2 فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ : جس میں توحید کے دلائل بیان کیے جا رہے ہیں۔ جیسا کہ حدیث شریف کے حوالے سے پہلی آیت میں بیان کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان میں سب سے پہلے مٹی کو پیدا فرمایا۔ اب ارشاد ہوا کہ اے انسان ہم نے اسی مٹی سے تمھیں پیدا کیا ہے۔ تخلیق انسانیت کے پہلے مرحلہ کا ذکر کرنے کے بعد اجل کا ذکر کیا ہے۔ اجل کا معنی وہ مدت ہے جو اللہ تعالیٰ نے انسان اور ہر چیز کی مقرر کر رکھی ہے۔ جسے دو حصوں میں بیان کیا گیا ہے۔ پہلی اجل سے مراد انسان اور ہر چیز کی ابتدا اور موت ہے دوسری اجل کا مفہوم قیامت لیا گیا ہے دونوں قسم کی اجل کا ایک وقت مقرر ہے جس میں ایک لمحہ کی تاخیر نہیں ہو سکتی اور دنیا کا کوئی سائنس دان اس اجل کی مدت کو نہیں پا سکتا۔ یہاں انسان کو اس کی تخلیق کے ساتھ اس کی اصلیت بتائی گئی ہے کہ اے انسان ! تو جو کچھ بھی ہوجائے تیری اصلیت مٹی ہے۔ اور بالآخر تجھے اسی میں جانا ہے دوسرے لفظوں میں انسان کی تخلیق سے لے کر اس کی موت اور پھر قیامت کے دن اٹھنے اور اللہ تعالیٰ کی بار گاہ میں پیش ہونے میں کوئی شک نہیں کیا جا سکتا لیکن صد حیف ہے ایسے انسان پر جو نہ صرف اپنی ابتدا اور انجام کو بھول چکا ہے بلکہ وہ خالق حقیقی کے بارے میں بھی شک کرتا ہے۔ (عَن أَبِیْ مُوسَی الْأَشْعَرِیِ قَالَ قَالَ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) إِنَّ اللّٰہَ خَلَقَ آدَمَ مِنْ قَبْضَۃٍ قَبَضَہَا مِنْ جَمِیعِ الْأَرْضِ فَجَاءَ بَنُو آدَمَ عَلٰی قَدْرِ الْأَرْضِ جَاءَ مِنْہُمْ الْأَحْمَرُ وَالْأَبْیَضُ وَالْأَسْوَدُ وَبَیْنَ ذٰلِکَ وَالسَّہْلُ وَالْحَزْنُ وَالْخَبِیثُ وَالطَّیِّبُ)[ رواہ ابو داود : کتاب السنہ، باب فی القد ر] ” حضرت ابو موسیٰ اشعری (رض) بیان کرتے ہیں رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے آدم کو ایک مٹھی سے پیدا کیا۔ جو اس نے ساری زمین سے لی تھی تو آدم کی اولاد زمین کے مطابق ہوئی۔ ان میں سرخ، سفید، سیاہ اور ان کی درمیانی رنگت کے لوگ ہیں ان میں کچھ سخت اور کچھ نرم طبیعت کے لوگ ہیں اسی طرح کچھ نیک اور کچھ بد ہیں۔“ (عَن ابْنِ عُمَرَ (رض) أَنَّ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خَطَبَ النَّاسَ یَوْمَ فَتْحِ مَکَّۃَ فَقَال النَّاسُ بَنُو آدَمَ وَخَلَقَ اللّٰہُ آدَمَ مِنْ تُرَابٍ) [ رواہ الترمذی : کتاب التفسیر، باب ومن سورۃ الحجرات] ” حضرت عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں بلاشبہ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فتح مکہ کے موقع پر لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا : لوگ آدم کی اولاد ہیں اور آدم کو اللہ تعالیٰ نے مٹی سے پیدا فرمایا۔“ (خَلَقَ الإِْنسَانَ مِن صَلْصَالٍ کَالْفَخَّارِ)[ سورۃ الرحمن : ١٤] ” اس نے انسان کو ٹھیکری کی طرح بجنے والی مٹی سے پیدا کیا“ (وَلَقَدْ خَلَقْنَا الإِْنسَانَ مِنْ صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَإٍ مَّسْنُوْنٍ)[ سورۃ الحجر : ٢٦] ” اور ہم نے انسان کو گلے سڑے گارے، کھنکھناتی مٹی سے پیدا کیا“ (وَلَقَدْ خَلَقْنَا الإِْنسَانَ مِن سُلَالَۃٍ مِّنْ طِیْنٍ)[ سورۃ المؤمنون : ١٢] ” اور ہم نے انسان کو مٹی کے جوہر سے پیدا کیا۔“ (عَنْ عَبْدِ اللَّہِ (رض) قَالَ خَطَّ النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خَطًّا مُرَبَّعًا، وَخَطَّ خَطًّا فِی الْوَسَطِ خَارِجًا مِنْہُ، وَخَطَّ خُطُطًا صِغَارًا إِلَی ہَذَا الَّذِی فِی الْوَسَطِ، مِنْ جَانِبِہِ الَّذِی فِی الْوَسَطِ وَقَالَ ہَذَا الإِنْسَانُ، وَہَذَا أَجَلُہُ مُحِیطٌ بِہِ أَوْ قَدْ أَحَاطَ بِہِ وَہَذَا الَّذِی ہُوَ خَارِجٌ أَمَلُہُ، وَہَذِہِ الْخُطُطُ الصِّغَارُ الأَعْرَاضُ، فَإِنْ أَخْطَأَہُ ہَذَا نَہَشَہُ ہَذَا، وَإِنْ أَخْطَأَہُ ہَذَا نَہَشَہُ ہَذَا )[ رواہ البخاری : باب فِی الأَمَلِ وَطُولِہِ ] ” حضرت عبداللہ (رض) بیان کرتے ہیں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے چوکور خط کھینچا اور ایک خط اس کے درمیان میں سے کھینچا جو چوکور خط سے باہر نکل رہا تھا اور اس کے ارد گرد چھوٹے چھوٹے اور خط کھینچے آپ نے فرمایا درمیان والا خط انسان ہے اور چاروں طرف سے اس کی اجل اسے گھیرے ہوئے ہے اور یہ جو خط باہر نکل رہا ہے یہ اس کی حرص ہے اور چھوٹے چھوٹے جو خطوط ہیں یہ اس کی خواہشات ہیں اگر ایک سے بچے تو دوسری خواہش دامن تھام لیتی ہے۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں کو مٹی سے پیدا کیا۔ ٢۔ ہر نفس کی موت وحیات کا ایک وقت مقرر ہے۔ ٣۔ قیامت کا علم صرف اللہ تعالیٰ کے پاس ہے۔ تفسیر بالقرآن ہر چیز کا وقت مقرر ہے : ١۔ ہر امت کے لیے ایک وقت مقرر ہے۔ (الاعراف : ٣٤) ٢۔ اللہ تعالیٰ ظالموں کو وقت مقررہ تک ڈھیل دیتا ہے۔ (ھود : ١٠٤) ٣۔ سورج اور چاند اپنے مقررہ وقت کے پابند ہیں۔ (الرعد : ٢) ٤۔ رات اور دن اپنے وقت کے پابند ہیں۔ (الزمر : ٥) ٥۔ جب کسی کی اجل آجائے تو اس میں تقدیم و تاخیر نہیں ہوتی۔ ( یونس : ٤٩) الانعام
3 فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ : توحید کے دلائل کا تذکرہ جاری ہے۔ اس سے پہلی آیت میں انسان کی تخلیق اس کی موت و حیات کا ذکر تھا۔ اب اللہ تعالیٰ یہ بتلانا چاہتا ہے کہ اے انسان تجھے ہوش کے ناخن لینے اور اس حقیقت کا ادراک کرنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ زمین و آسمان کو پیدا کرنے کے بعد الگ تھلگ ہو کر گوشہ نشین نہیں ہوا۔ بلکہ جس طرح وہ زمین و آسمان کے چپہ چپہ اور ذرہ ذرہ سے واقف اور ان کے نظام کو سنبھالے ہوئے ہے اسی طرح وہ انسان کی جلوت و خلوت اور ہر قسم کی نقل و حرکت سے واقف ہے۔ کسب کا لفظ استعمال فرما کر انسان کے کردار کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ اسے اپنے فکر و عمل کا محاسبہ کرنا چاہیے کیونکہ اللہ تعالیٰ اس کے کردار سے پوری طرح واقف ہے۔ تخلیق کائنات کا پہلے ذکر کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اے انسان ! اللہ تعالیٰ کی ذات وہ ذات کبریا ہے جو لامحدود و سعتوں کی حامل زمین جو تہ در تہ سات طبقات پر مشتمل ہے اور آسمان جو اپنی وسعت و کشادگی اور رفعت وبلندی کے اعتبار سے انسانی تخیلات سے ماوراء ہے جب ان کے ایک ایک ذرّے پر اللہ تعالیٰ کنٹرول کیے ہوئے ہے تو تجھے بھی غور کرنا چاہیے کہ تیری جلوت و خلوت، اچھی اور بری حرکت۔ اللہ تعالیٰ کے اختیار سے باہر نہیں ہو سکتی یہ تو اس کی حکمت بالغہ اور ابدی فیصلے کا نتیجہ ہے کہ اس نے انسان کو ایک مدت معینہ تک ڈھیل دے رکھی ہے لیکن انسان کی کوتاہ بینی کا عالم یہ ہے کہ وہ چار سو پھیلی ہوئی اس کی قدرت کی نشانیوں سے اعراض اور انحراف کرتا ہے۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ جب بھی انسان کے سامنے انبیاء (علیہ السلام) نے حق پیش کیا تو انسانوں کی غالب اکثریت نے اس کی تکذیب کی۔ اس تکذیب کا نتیجہ عنقریب ان کے سامنے آجائے گا جو اللہ تعالیٰ کی پکڑ کی صورت میں ہوگا۔ ” حضرت ابوہریرہ (رض) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں آپ نے فرمایا جب اللہ نے موسیٰ (علیہ السلام) کے لیے تجلی فرمائی اس وقت وہ اندھیری رات میں پتھر پر چلنے والی چیونٹی کو دیکھ رہا تھا دس فرسخ کے فاصلے سے۔“ [ (الشفا) بحوالہ ابن کثیر] الانعام
4 الانعام
5 فہم القرآن ربط کلام : پہلی آیات میں اللہ تعالیٰ نے کفار مکہ کو توحید اور اس کے دلائل اور اللہ تعالیٰ کی قدرت کی نشانیوں سے اعراض، ان کی تکذیب کرنے اور ان کا مذاق اڑانے سے منع فرمایا تھا۔ اب افتراء اور استہزاء پر ان کو عذاب کی وعید سنائی گئی ہے۔ اس آیت میں یہ بیان ہوا ہے کہ کفار اور مکذّبین کو عذاب کی وعید سنانا اللہ تعالیٰ کی سنت ہے۔ کیا ان کو معلوم نہیں کہ ان سے پہلے عاد، ثمود، قوم فرعون اور قوم لوط کو ہلاک کردیا گیا۔ جنھوں نے اس گھمنڈ کے ساتھ تکذیب کی کہ ہم بہت طاقتور، اور مالدار ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے جرائم کی وجہ سے ان کی پکڑ کی اور ان کو ختم کرکے ان کی جگہ دوسری قوم کھڑی کردی۔ یہ اللہ تعالیٰ کی سنت جاریہ ہے جو قوم اپنے رسول کی تکذیب اور اللہ کی نعمتوں کی ناشکری کرتی ہے۔ اللہ اسے ملیا میٹ کردیتا ہے۔ قرن : کے بارے میں مختلف اقوال ہیں۔ مال اور طاقت ان کے کچھ کام نہ آئے، ایک نسل یا کسی قوم کا دور مدت سو سال بیان کی گئی ہے۔ (رازی) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت عبداللہ بن بسر (رض) سے فرمایا تھا تم ایک قرن زندہ رہو گے۔ تو وہ سو سال زندہ رہے۔ (الجامع لاحکام القرآن) (عن عِمْرَانَ بن حُصَیْنٍ (رض) قَالَ قَال النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خَیْرُکُمْ قَرْنِی ثُمَّ الَّذِینَ یَلُونَہُمْ ثُمَّ الَّذِینَ یَلُونَہُمْ قَالَ عِمْرَانُ لَا أَدْرِی أَذَکَرَ النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بَعْدُ قَرْنَیْنِ أَوْ ثَلَاثَۃً) [ رواہ البخاری : کتاب الشہادات، باب لایشہد علی شہادۃ جور] ” حضرت عمران بن حصین (رض) کہتے ہیں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تم میں سے بہترین زمانہ میرا ہے پھر ان کے بعد آنے والے لوگ پھر ان کے بعد آنے والے لوگ درجہ بدرجہ ہیں۔ عمران بن حصین (رض) کہتے ہیں مجھے یہ بات یاد نہیں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے بعد دوزمانوں کا تذکرہ کیا یا تین کا۔“ مسائل ١۔ کافر اللہ تعالیٰ کے کلام کی تکذیب کرتے ہیں۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ کی آیات کا مذاق اڑانے والوں کو ضرور سزا دی جائے گی۔ ٣۔ جو قوم بھی سرکشی کی راہ اختیار کرے گی اسے خوشحالی و مادی ترقی ہلاکت سے نہیں بچا سکتی۔ تفسیر بالقرآن تباہ ہونے والی بڑی بڑی اقوام : ١۔ اللہ تعالیٰ نے بہت سی اقوام کو تباہ کیا۔ (الانعام : ٦) ٢۔ جب تم سے پہلے لوگوں نے ظلم کیا تو ہم نے ان کو تباہ کردیا۔ (یونس : ١٣) ٣۔ ثمود زور دار آواز کے ساتھ ہلاک کیے گئے۔ (الحاقۃ: ٥) ٤۔ عاد زبر دست آندھی کے ذریعے ہلاک ہوئے۔ (الحاقۃ: ٦) ٥۔ فاسق ہلاک کردیے گئے۔ (الاحقاف : ٣٥) ٦۔ قوم نوح طوفان کے ذریعے ہلاک ہوئی۔ (الاعراف : ١٣٦) ٧۔ قوم لوط کو زمین سے اٹھا کر آسمان کے قریب لے جاکر الٹا دیا گیا۔ (ھود : ٨٢) الانعام
6 الانعام
7 فہم القرآن ربط کلام : قرآن مجید کے انتباہ اور پہلی اقوام کے انجام بیان کرنے کے باوجود کفار کے بے جا مطالبات اور ان کا جواب۔ اہل کفر انبیاء ( علیہ السلام) سے ایسے مطالبات کرتے تھے جن کا دعویٰ کسی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نہیں کیا تھا اس کے باوجود اپنی ہٹ دھرمی پر قائم رہنے والے لوگوں نے موسیٰ (علیہ السلام) سے یہ مطالبہ کیا کہ ہم اس وقت تک تیری تائید نہیں کرسکتے۔ جب تک تختیوں کی شکل میں ہمارے پاس تورات نہ لے آئے۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) پر تختیوں کی شکل میں آسمان سے تورات نازل فرمائی۔ مطالبہ پورا ہونے کے باوجود بنی اسرائیل کی اکثریت نے تورات پر ایمان لانے سے انکار کردیا۔ یہی حال اہل مکہ کا تھا۔ وہ آپ سے مطالبہ کرتے ہیں کہ ہم تب ایمان لائیں گے کہ جب ہم پر قرطاس یعنی اوراق کی شکل میں کتاب نازل کی جائے اور ہم اس کو اپنے ہاتھوں سے اچھی طرح ٹٹول کر یقین کرلیں۔ تب جا کر ہم آپ پر ایمان لائیں گے۔ اس کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ اہل کفر کا شروع سے یہ وطیرہ رہا ہے کہ جب ان کا مطالبہ پورا ہوجاتا تو وہ اسے جادو قرار دیتے تھے۔ یہی اہل مکہ نے کردار پیش کیا َ۔ جب نبی محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے چاند کو دو ٹکڑے کرنے کا مطالبہ کیا۔ آپ کے اشارہ کرنے پر اللہ کے حکم سے چاند دو ٹکڑے ہوا تو کہنے لگے یہ شخص تو بہت بڑا جادو گر ہے۔ ایسا ہی ان کا رد عمل آپ پر نازل کیے گئے دوسرے معجزات کے بارے میں سامنے آیا۔ اس کے بعد انھوں نے یہ مطالبہ کر ڈالا کہ اس نبی کے ساتھ ایک فرشتے کی ڈیوٹی کیوں نہیں لگائی گئی جو جگہ جگہ اس کی تائید کرتا اور اس کا انکار کرنے والوں کو موقع پر سزا دیتا۔ اس کا جواب یہ دیا گیا کہ اگر ہم فرشتے کو نازل کرتے تو پھر مہلت دیے بغیر موقع پر ہی مجرموں کو سزا دے دی جاتی۔ جس طرح کہ قوم لوط کے پاس فرشتے آئے اور انھوں نے لوط (علیہ السلام) اور ان کے متبعین کو بستی سے نکل جانے کا موقع فراہم کرنے کے بعد منکروں کو تہس نہس کردیا۔ (قَالُوْا یَا لُوْطُ إِنَّا رُسُلُ رَبِّکَ لَنْ یَّصِلُوْٓا إِلَیْکَ فَأَسْرِ بِأَہْلِکَ بِقِطْعٍ مِّنَ اللَّیْلِ وَلَا یَلْتَفِتْ مِنْکُمْ أَحَدٌ إِلَّا امْرَأَتَکَ إِنَّہُ مُصِیبُہَا مَا أَصَابَہُمْ إِنَّ مَوْعِدَہُمُ الصُّبْحُ أَلَیْسَ الصُّبْحُ بِقَرِیْبٍ فَلَمَّا جَآءَ أَمْرُنَا جَعَلْنَا عَالِیَہَا سَافِلَہَا وَأَمْطَرْنَا عَلَیْہَا حِجَارَۃً مِّنْ سِجِّیلٍ مَّنْضُوْدٍ مُسَوَّمَۃً عِنْدَ رَبِّکَ وَمَا ہِیَ مِنَ الظَّالِمِیْنَ بِبَعِیْدٍ) [ ہود : ٨١ تا ٨٣] ” کہنے لگے : اے لوط ! ہم تیرے رب کے بھیجے ہوئے فرشتے ہیں یہ لوگ تمہار اکچھ نہ بگاڑ سکیں گے تم رات کا کچھ حصہ باقی ہو تو اپنے گھر والوں کو لے کر بستی سے نکل جا ؤاور تم میں سے کوئی بھی مڑ کر نہ دیکھے البتہ تمہاری بیوی پر وہی کچھ گزرنا ہے جو ان پر گزرے گا۔ ان پر عذاب کے لیے صبح کا وقت مقرر ہے۔ کیا اب صبح قریب ہی نہیں؟ پھر جب ہمارا حکم آگیا تو ہم نے اس بستی کا اوپر کا حصہ نچلا حصہ بنا دیا پھر ان پر کھنگر قسم کے تہ بہ تہ پتھر برسائے۔ جو تیرے رب کے ہاں سے نشان زدہ تھے اور یہ خطہ ان ظالموں سے کچھ دور بھی نہیں۔“ مسائل ١۔ اہل کفر انبیاء کرام (علیہ السلام) سے نت نئے مطالبے کیا کرتے تھے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ لوگوں کے احوال سے بخوبی واقف ہے۔ ٣۔ اللہ کی آیات کو جھٹلانا اہل کفر کا وطیرہ ہے۔ تفسیر بالقرآن انبیاء (علیہ السلام) پرکفار کے جادو کا الزام : ١۔ آل فرعون نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر جادو گرکا الزام لگایا۔ (القصص : ٣٦) ٢۔ کفار نے تمام انبیاء (علیہ السلام) کو جادوگر اور دیوانہ قرار دیا۔ (الذاریات : ٥٢) ٣۔ کفار کے پاس حق بات آئی تو انھوں نے اسے جادو قرار دیا۔ (سباء : ٤٣) ٤۔ جب لوگوں کے پاس حق آیا تو انھوں نے کہا یہ تو جادو ہے۔ ہم اسے نہیں مانتے۔ (الزخرف : ٣٠) ٥۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اہل مکہ نے جادوگر کہا۔ ( الصف : ٦) ٦۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جادو زدہ کہا گیا۔ (الفرقان : ٨۔ بنی اسرائیل : ٤٧) ٧۔ کیا قرآن جادو ہے یا تم نہیں دیکھتے۔ (الطور : ١٥) ٨۔ حضرت صالح اور حضرت شعیب کو جادو زدہ کہا گیا۔ (الشعراء : ١٥٣۔ ١٨٥) الانعام
8 فہم القرآن ربط کلام : کفار کا دوسرا مطالبہ : سورۂ یونس آیت ٢ میں بیان ہوا ہے کہ لوگوں نے ہمیشہ اس بات پر تعجب کا اظہار کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں میں سے انبیاء کو کیوں مبعوث کیا ہے؟ سورۃ الفرقان کی آیت ٧ میں کفار کے اس تعجب کو یوں بیان کیا گیا ہے کہ یہ کیسا رسول ہے جو ہماری طرح کھاتا پیتا اور بازاروں میں چلتا پھرتا ہے۔ حالانکہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اللہ تعالیٰ اس کے ساتھ ایک فرشتہ نازل کرتا جو ہر مقام پر اس کی تائید کرتا۔ یہاں بھی کفار کے اسی مطالبہ کا اعادہ کیا گیا ہے۔ جس کے دو جواب دیے گئے ہیں کہ اگر ہم اپنے رسول کی تائید میں فرشتہ نازل کرتے اور اسکے مقابلہ میں لوگ انکار کرتے تو ان کو کبھی مہلت نہ دی جاتی۔ دوسرا جواب یہ دیا گیا ہے کہ اگر فرشتہ کو رسول بنایا جاتا تو وہ بھی انسان کی شکل میں ہی رسول ہوتا اگر ہم ایسا کرتے تو یہ لوگ یہی یاوا گوئی کرتے کہ ہم انسان ہیں اور ہمارے لیے ہمارے جیسا انسان ہی رسول ہونا چاہیے تھا۔ انسانوں میں رسول بنانے کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ وہ انسانوں کی طرح اپنی حاجات کو پورا کرتے ہوئے لوگوں کے سامنے بہترین نمونہ ثابت ہوں، تاکہ لوگ یہ بہانہ نہ بنا سکیں کہ تم تو فرشتے ہو جبکہ ہم حاجات میں پھنسے ہوئے انسان ہیں لہٰذا ہم شریعت پر کس طرح عمل پیراہو سکتے ہیں؟ اس بہانے کو ختم کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے جتنے انبیاء ( علیہ السلام) مبعوث فرمائے وہ سارے بنی نوع انسان میں سے تھے تاکہ لوگوں کے لیے کوئی حجت باقی نہ رہے۔ افسوس آج مسلمانوں میں کئی لوگ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرشتہ یعنی نوری مخلوق ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو صریح طور پر قرآن مجید کی آیات کے الٹ ہے۔ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو ہدایت سے نوازے۔ آمین (أَکَان للنَّاسِ عَجَبًا أَنْ أَوْحَیْنَا إِلٰی رَجُلٍ مِّنْہُمْ أَنْ أَنذِرِ النَّاسَ وَبَشِّرِ الَّذِینَ اٰمَنُواْ أَنَّ لَہُمْ قَدَمَ صِدْقٍ عندَ رَبِّہِمْ قَالَ الْکَافِرُونَ إِنَّ ہٰذَا لَسٰاحِرٌ مُّبِینٌ)[ یونس : ٢] ” کیا لوگوں کو اس بات پر تعجب ہوتا ہے کہ انہیں میں سے ایک آدمی پر ہم نے وحی کی کہ وہ لوگوں کو ڈرائے اور ایمان لانے والوں کو یہ خوشخبری دے کہ ان کے رب کے ہاں ان کی حقیقی عزت اور مرتبہ ہے تو کافروں نے کہہ دیا کہ یہ صاف جادو ہے۔“ (وَقَالُوا مالِ ہٰذَا الرَّسُولِ یَأْکُلُ الطَّعَامَ وَیَمْشِی فِی الْأَسْوَاقِ لَوْلَا أُنزِلَ إِلَیْہِ مَلَکٌ فَیَکُونَ مَعَہُ نَذِیرًا) [ الفرقان : ٧] ” وہ کہتے ہیں کہ یہ کیسا رسول ہے جو کھانا کھاتا ہے اور بازاروں میں چلتا پھر تا ہے اس پر کوئی فرشتہ کیوں نہ اتارا گیا جو اس کے ساتھ رہتا اور لوگوں کو ڈرایا کرتا ؟“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ انسانوں میں سے ہی رسول منتخب فرماتا رہا ہے۔ ٢۔ اللہ کی آیات آجانے کے بعد لوگوں پر حجت تمام ہوجاتی ہے۔ ٣۔ کھلے معجزے کا انکار کرنا عذاب الٰہی کو دعوت دینا ہے۔ تفسیر با لقرآن تمام انبیاء (علیہ السلام) بشر اور بندے تھے۔ ١۔ انبیاء ( علیہ السلام) کا اقرار کہ ہم بشر ہیں۔ (ابراہیم : ١١) ٢۔ ہم نے آپ سے پہلے جتنے نبی بھیجے وہ بشر ہی تھے۔ (النحل : ٤٣) ٣۔ نبی آخر الزماں (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اعتراف کہ میں تمہاری طرح کا بشر ہوں۔ (الکہف : ١١٠، حٰم السجدۃ: ٦) ٤۔ ہم نے آدمیوں کی طرف وحی کی۔ (یوسف : ١٠٩) ٥۔ کسی بشر کو ہمیشگی نہیں ہے۔ (الانبیاء : ٣٤) ٦۔ کفار کو ان کے رسولوں نے کہا ہم تمہاری طرح بشر ہیں۔ (ابراہیم : ١١) ٧۔ شعیب (علیہ السلام) کی قوم نے کہا کہ تو ہماری طرح بشر ہے اور ہم تجھے جھوٹا تصور کرتے ہیں۔ (الشعراء : ١٨٦) الانعام
9 الانعام
10 فہم القرآن ربط کلام : کفار کا انبیاء ( علیہ السلام) کے ساتھ مذاق اور اس کا انجام۔ اہل کفر انبیاء کرام (علیہ السلام) سے صرف اوٹ پٹانگ مطالبات ہی نہیں کیا کرتے تھے بلکہ انھیں ہر طرح زچ اور پریشان کرنے کے ہتھکنڈے بھی استعمال کرتے تھے۔ ان ہتھکنڈوں اور کٹ حجتوں میں ایک بات یہ بھی تھی کہ ان کی شخصیات کو تضحیک کا نشانہ بنانے کے ساتھ ساتھ ان کی نبوت کو مذاق اور ان کے کام کو کھیل تماشا سمجھتے تھے۔ جس طرح ابراہیم (علیہ السلام) کی قوم ان سے کہنے لگی کہ کیا توہمارے پاس کوئی حق اور سچ کی بات لایا ہے یا کہ محض کھیل تماشا کر رہا ہے۔ اس کے جواب میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے توحید کے دلائل دیتے ہوئے فرمایا کہ تمھارے رب کی ہی بات کہہ رہا ہوں وہ رب جس نے زمین و آسمان کو پیدا فرمایا اور میں تم پر شہادت قائم کر رہا ہوں۔ (الانبیاء : ٥٦، ٥٥) حضرت نوح (علیہ السلام) کی قوم نے ساڑھے نو سو سال آپ کو ستایا چند لوگوں کے سوا باقی لوگ ان کی مخالفت اور کفر پر ڈٹے رہے۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے ان الفاظ میں بد دعا کی اے میرے رب اب ایسا عذاب نازل فرما کہ کفار کا ایک فرد بھی نہ بچے۔ اس کے جواب میں حضرت نوح (علیہ السلام) کو حکم ہوا آپ ہماری نگرانی اور وحی کے مطابق ایک کشتی تیار کریں۔ جب نوح (علیہ السلام) کشتی تیار کر رہے تھے تو ان کی قوم کے بڑے لوگ دیکھ کر انھیں مذاق کرتے تھے۔ جس کے جواب میں جناب نوح (علیہ السلام) فرماتے کہ وقت آنے والا ہے۔ جس طرح ہمیں مذاق کرتے ہو ہم بھی تمھیں اسی طرح مذاق کریں گے۔ پہلی اقوام کی طرح کافر اور منافق بھی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مذاق کرتے تھے۔ منافقوں کے بارے میں تو یہاں تک موجود ہے جب آپ پر کسی نئی سورت کا نزول ہوتا تو منافق آپ کو استہزاء کا نشانہ بناتے۔ جب آپ انھیں سمجھاتے تو وہ کہتے ہم تو محض شغل اور دل لگی کے لیے ایسی بات کر رہے ہیں۔ اس کے جواب میں فرمایا گیا کہ کیا تم اللہ کی ذات اور اس کے ارشادات اور اس کے معزز رسول سے مذاق کرتے ہو؟ (التوبۃ: ٦٤ تا ٦٥) یہاں ایسے لوگوں کا جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ اے رسول ! اپنا عزم اور حوصلہ بلند رکھیے آپ سے مذاق ہونا کوئی عجب کی بات نہیں آپ سے پہلے انبیاء کا تمسخر اڑایا جاتا رہا ہے جس طرح پہلے لوگوں کو ان کے کردار کی سزا ملی اسی طرح آپ کو مذاق کرنے والے بھی اپنے انجام سے دو چار ہوں گے۔ لہٰذا آپ فرما دیجیے کہ زمین میں چل پھر کر دیکھو۔ کہ اللہ تعالیٰ کی آیات کو جھٹلانے اور انبیاء کو مذاق کرنے والوں کا کیا انجام ہوا۔ مسائل ١۔ پہلی اقوام کے انجام سے عبرت و نصیحت حاصل کرنی چاہیے۔ ٢۔ انبیاء کرام (علیہ السلام) کو جھٹلانے والوں کو نشانۂ عبرت بنا دیا گیا۔ تفسیر بالقرآن انبیاء اور ” اللہ“ کی آیات کو جھٹلانے والے لوگ : ١۔ اگر انھوں نے آپ کو جھٹلا دیا ہے تو آپ سے پہلے بھی کئی رسول جھٹلائے گئے۔ (آل عمران : ١٨٤) ٢۔ آپ کو اگر انھوں نے جھٹلادیا ہے آپ فرما دیں میرے لیے میرے عمل اور تمھارے لیے تمھارا عمل ہے۔ (یونس : ٤١) ٣۔ اگر انھوں نے آپ کو جھٹلا دیا ہے تو آپ فرما دیں تمھارا رب وسیع رحمت والا ہے۔ (الانعام : ١٤٧) ٤۔ اگر انھوں نے آپ کو جھٹلا دیا ہے تو جھٹلائے گئے ان سے پہلے حضرت نوح وغیرہ۔ (الحج : ٤٢) ٥۔ اگر انھوں نے آپ کو جھٹلایا ہے۔ تو ان سے پہلے لوگوں نے بھی جھٹلایا تھا۔ (الفاطر : ٢٥) ٦۔ وہ لوگ جو ہماری آیات کے ساتھ کفر کرتے ہیں اور ان کی تکذیب کرتے ہیں وہ ہمیشہ جہنم میں رہیں گے۔ (البقرۃ: ٣٩) ٧۔ انہوں نے کہا کیا بشر ہم کو ہدایت دے گا انہوں نے کفر کیا اور ایمان لانے سے اعراض کیا۔ (التغابن : ٦) ٨۔ انہوں نے شعیب (علیہ السلام) کو جھٹلایا تو انہیں ہلاک کردیا گیا۔ (العنکبوت : ٣٧) الانعام
11 الانعام
12 فہم القرآن ربط کلام : انبیاء ( علیہ السلام) کے ساتھ استہزاء کرنے والوں کو عبرت آموزی کے لیے زمین میں چل پھر کر نشانات عبرت دیکھنے کا حکم دینے کے بعد بتایا گیا ہے کہ جس زمین پر تم چلتے اور آسمان کے نیچے رہتے ہو۔ وہ اللہ کی ملک ہیں۔ لہٰذا کفار اور مشرکین سے چند سوال کیے جاتے ہیں۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ارشاد ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی آیات سے اعراض کرنے اور آپ سے استہزاء کرنے والوں سے پوچھیے کہ یہ زمین و آسمان کس کی ملکیت اور کس کے کنٹرول میں ہیں ؟ کیونکہ اہل مکہ کا عقیدہ تھا کہ زمین و آسمان کو پیدا کرنے والا اور ان پر کلی اختیار رکھنے والا صرف اللہ تعالیٰ ہے۔ لہٰذا ان کے جواب کا انتظار کرنے کے بجائے آپ کو حکم ہوا کہ بےدھڑک فرما دیں کہ یہ اللہ کی ملک ہیں اور اسی کے اقتدار اور اختیار کے تابع ہیں۔ انبیاء ( علیہ السلام) کا مذاق اڑانے والے کھلے پھر رہے ہیں تو اس کا یہ معنی نہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کے قبضۂ قدرت سے باہر ہیں بلکہ یہ اس لیے ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت سے اپنے آپ پر لازم کر رکھا ہے کہ وہ لوگوں کو ایک مدت تک مہلت دے گا۔ البتہ ایک دن ضرور آئے گا، جس میں سب لوگوں کو جمع کیا جائے گا۔ اس دن اللہ کے منکر ایسے خسارے میں ہوں گے جس کی تلافی نہیں کر پائیں گے۔ بعض لوگ اس آیت کریمہ کو سامنے رکھتے ہوئے اعتراض کرتے ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ نے اپنے اوپر رحمت غالب اور واجب کرلی ہے اور وہ ماں کی مامتا سے زیادہ مہر بان ہے تو پھر اس کا اپنے بندوں کو عذاب دینا چہ معنی دارد۔ مفسر قرآن امام رازی (رض) اس کا جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ماں اپنے بچے پر اس وقت تک ہی مہربان ہوتی ہے جب بچہ اپنی ماں کی مامتا کو تسلیم کرتا ہے اگر کوئی ماں کے ہونے کا کلیتاً انکار کرے اور کسی اور کو ماں کا درجہ دے دے تو کوئی غیور ماں ایسے بچے پر ترس کھانے کے لیے تیار نہیں ہوتی۔ مشرک اور کافر کے ساتھ اللہ تعالیٰ ایسا ہی معاملہ کرتا ہے۔ (عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ قَدِمَ عَلَی النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سَبْیٌ فَإِذَا امْرَأَۃٌ مِّنْ السَّبْیِ قَدْ تَحْلُبُ ثَدْیَہَا تَسْقِی إِذَا وَجَدَتْ صَبِیًّا فِی السَّبْیِ أَخَذَتْہُ فَأَلْصَقَتْہُ بِبَطْنِہَا وَأَرْضَعَتْہُ فَقَالَ لَنَا النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) أَتُرَوْنَ ہٰذِہٖ طَارِحَۃً وَلَدَہَا فِی النَّارِ قُلْنَا لَا وَہِیَ تَقْدِرُ عَلٰی أَنْ لَا تَطْرَحَہُ فَقَال اللّٰہُ أَرْحَمُ بِعِبَادِہٖ مِنْ ہٰذِہٖ بِوَلَدِہَا) [ رواہ البخاری : کتاب الأدب، باب رحمۃ الولد وتقبیلہ ومعانقتہ] ” حضرت عمر بن خطاب (رض) بیان کرتے ہیں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس کچھ قیدی لائے گئے۔ ان قیدیوں میں ایک عورت کی چھاتی سے دودھ بہہ رہا تھا۔ جونہی اس نے اپنے بچے کو پایا اس کو پکڑتے ہوئے اس نے اپنے سینے سے لگا کر اسے دودھ پلانا شروع کردیا۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں مخاطب کرتے ہوئے فرمایا تمھارا کیا خیال ہے یہ عورت اپنے بچے کو آگ میں پھینک دے گی ؟ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ تعالیٰ اس عورت کی محبت سے بھی زیادہ اپنے بندوں سے محبت کرتا ہے۔“ مسائل ١۔ زمین و آسمان اللہ تعالیٰ کی ملکیت ہیں ٢۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے اوپر رحمت کو واجب کرلیا ہے ٣۔ تمام لوگوں کو قیامت کے دن اکٹھا کیا جائے گا۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ کی رحمت بے کنار ہے : ١۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت نے ہر چیز کو گھیر رکھا ہے۔ (الاعراف : ١٥٦) ٢۔ قیامت کے منکر اللہ کی رحمت سے مایوس ہوں گے۔ (العنکبوت : ٢٣) ٣۔ دن اور رات کو اللہ نے اپنی رحمت سے تمھارے لیے پر سکون بنایا ہے۔ (القصص : ٧٣) ٤۔ اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے اپنی رحمت کے ساتھ مخصوص کرلیتا ہے۔ (البقرۃ: ١٠٥) ٥۔ ایماندار صالح اعمال کرنے والوں کو اللہ اپنی رحمت میں داخل کرے گا۔ (الجاثیۃ : ٣٠) الانعام
13 فہم القرآن ربط کلام : صرف زمین و آسمان اللہ کی ملکیت نہیں بلکہ ان کی گردش کے نتیجہ میں رات اور دن کا وجود اور ظہور، تاریکیوں اور روشنیوں میں رہنے والی ہر چیز اس کی ملکیت اور اس کے اختیار میں ہے۔ مشرکین مکہ کے الزامات میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات پر ایک الزام یہ بھی تھا کہ آپ نے نبوت کا دعویٰ اور توحید کا پرچار اس لیے کیا ہے تاکہ آپ اس کے بدلے میں دنیا کا مال و متاع جمع کرسکیں۔ اس کے لیے ایک موقع پر انھوں نے آپ کو پرکشش مراعات پیش بھی کی تھیں۔ جن میں آپ کو حاکم تسلیم کرنا، نکاح کے لیے خوبصورت لڑکی پیش کرنے کے ساتھ انھوں نے آپ کے حسب منشاء دولت جمع کرنے کا عندیہ بھی دیا تھا۔ کچھ مفسرین کے خیال کے مطابق یہ اسی پیشکش کا جواب ہے کہ تم لوگ توحید باری تعالیٰ کے بدلے میں جو پیشکشیں کرتے ہو۔ ذرا سوچو تو سہی یہ زمین و آسمان، رات اور دن ان میں رہنے اور بسنے والی ہر چیز کس کی ملکیت ہے؟ اس میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے تسلی ہے کہ جس طرح رات کے بعد دن کا آنا یقینی ہے ایسے ہی مشکلات کے بعد آسانیوں اور کامیابیوں کا حاصل ہونا بھی یقینی ہے۔ جیسے رات کی تاریکی اور دن کی روشنی لازم و ملزوم ہیں ایسے ہی حق و باطل کی کشمکش بھی لازم و ملزوم ہے لہٰذا آپ حوصلہ پست کرنے کے بجائے اپنا کام جاری رکھیں۔ جس اللہ نے آپ کو اپنا پیغام رساں بنایا ہے۔ وہ اللہ آپ کے اخلاص اور آپ کی محنت شاقہ جاننے کے ساتھ آپ کے مخالفوں کی ہر بات کو سننے والا اور ہر حرکت کو جاننے والا ہے۔ مسائل ١۔ کائنات کی ہر چیز اللہ تعالیٰ کے کنٹرول میں ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ ہر کسی کا ظاہر و باطن جانتا ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ کا علم ساری کائنات پر حاوی ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ ہر بات جانتا اور سنتا ہے : ١۔ کیا تم اللہ کے سواان کی عبادت کرتے ہو ؟ جو تمھارے نفع و نقصان کا مالک نہیں اور اللہ سننے والا جاننے والا ہے۔ (المائدۃ: ٧٦) ٢۔ اللہ سے ڈر جاؤ اللہ سننے والا، جاننے والا ہے۔ (الحجرات : ١) ٣۔ اللہ تعالیٰ کی مثل کوئی چیز نہیں وہ سننے والا جاننے والا ہے۔ (الشوریٰ: ١١) الانعام
14 فہم القرآن ربط کلام : مشرکین اور کفار سے دوسرا سوال اور اس کا جواب : جب زمین اور آسمانوں کی تخلیق اور ملکیت اللہ ہی کے لیے ہے اور وہ ہر کسی کو اس کے ماحول اور ضرورت کے مطابق روزی پہنچانے والا ہے اور سب کو کھلاتا پلاتا ہے۔ جبکہ وہ خود کھانے پینے کا محتاج نہیں تو ایسے خالق، مالک اور رازق کو چھوڑ کر اس کے سوا کسی دوسرے کو کس طرح اپنا خیر خواہ سمجھوں ؟ اگر وہ کسی کے ساتھ خیر کا ارادہ نہ کرے تو باپ کی شفقت اور ماں کا رحم بھی آدمی کو کچھ فائدہ نہیں دے سکتا۔ اس لیے مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں سب سے پہلے اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کے تابع کروں اور مشرکوں کے ساتھ لاتعلقی کا اظہار کروں۔ اگر اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کو زمین و آسمان کا خالق، مالک اور کسی دوسرے کو روزی رساں اور اس کے سوا مہربان تسلیم کرلوں تو میں اس نافرمانی کے بدلے عذاب عظیم میں مبتلا ہوں گا جس سے میں ڈرتا ہوں۔ یاد رکھیے کہ جو اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بچ جائے اس پر اس کا بڑا کرم ہوا۔ اور یہ ایمان دارکے لیے کھلی کامیابی ہے۔ (عن أبی ہُرَیْرَۃَ قَالَ (رض) سَمِعْتُ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَقُولُ لَنْ یُدْخِلَ أَحَدًا عَمَلُہُ الْجَنَّۃَ قَالُوا وَلَا أَنْتَ یَا رَسُول اللّٰہِ قَالَ لَا وَلَا أَنَا إِلَّا أَنْ یَتَغَمَّدَنِی اللّٰہُ بِفَضْلٍ وَرَحْمَۃٍ ) [ رواہ البخاری : کتاب المرضی، باب تمنی المریض الموت] ” حضرت ابو ہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں میں نے رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا آپ فرما رہے تھے جنت میں کسی کو بھی اس کے اعمال داخل نہیں کریں گے صحا بہ کرام (رض) نے عرض کی اے اللہ کے رسول ! آپ کو بھی نہیں ؟ نبی محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہاں مجھے بھی نہیں مگر یہ کہ اللہ تعالیٰ مجھے اپنی رحمت اور فضل سے ڈھانک لے۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ ساری کائنات کو رزق دینے والا ہے۔ ٢۔ اللہ کی نافرمانی سے بچتے رہنا چاہیے۔ ٣۔ جہنم کے عذاب سے بچنا اللہ کی رحمت کی نشانی ہے۔ ٤۔ جس پر اللہ تعالیٰ رحمت فرمائے وہ کامیاب ہوجاتا ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ ہی انسان کو کھلاتا پلاتا ہے : ١۔ اللہ تعالیٰ ہی رازق ہے۔ (الذاریات : ٥٨) ٢۔ اللہ ہی رزق فراخ کرتا اور کم کرتا ہے۔ (ا لسباء : ٣٩) ٣۔ اللہ تعالیٰ لوگوں سے رزق طلب نہیں کرتا بلکہ وہ لوگوں کو رزق دیتا ہے۔ (طٰہٰ : ١٣٢) ٤۔ اللہ جسے چاہتا ہے بغیر حساب کے رزق دیتا ہے۔ (البقرۃ: ٢١٢) ٥۔ اللہ تعالیٰ مہاجروں کو ضرور اچھا رزق دے گا۔ (الحج : ٥٨) ٦۔ اللہ تعالیٰ چوپاؤں اور تمام انسانوں کو رزق دیتا ہے۔ (العنکبوت : ٦٠) ٧۔ اپنی اولاد کو مفلسی کے ڈر سے قتل نہ کرو کیونکہ اللہ تمھیں اور انھیں بھی رزق دینے والا ہے۔ (الانعام : ١٥١) الانعام
15 الانعام
16 الانعام
17 فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ آخرت کے دن ہی جزا و سزا اور رحم و کرم کا مالک نہیں بلکہ دنیا میں بھی خیر و شر کا اختیار رکھنے والا ہے۔ خیر و شر کے اختیار کا ذکر کرتے ہوئے براہ راست نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مخاطب کیا گیا ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ آپ کو کوئی نقصان پہنچانا چاہے تو زمین و آسمان میں کوئی ہستی نہیں جو نقصان سے آپ کو بچا سکے۔ اگر اللہ تعالیٰ آپ کو بھلائی اور بہتری عطا کرنا چاہے تو زمین و آسمان میں کوئی طاقت نہیں جو اس میں رکاوٹ ڈال سکے آپ کو براہ راست مخاطب کرنے کا معنی یہ ہے کہ جب رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے نفع و نقصان کے مالک نہیں تو دنیا میں کون ہے جو اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کی گرفت سے بچا سکے۔ یہ ایسا عقیدہ ہے جو مسلمان کو اللہ تعالیٰ کے سوا ہر کسی سے بے نیاز کردیتا ہے اسی عقیدہ کی بنیاد پر مجاہد میدان کار زار میں اترتا ہے کیونکہ اسے یقین ہوتا ہے جب تک اللہ تعالیٰ نے میری حفظ و امان کا ذمہ لیا ہوا ہے۔ اس وقت تک دشمن میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتا اور یہی عقیدہ اخلاص کی دولت عطا کرتا ہے۔ جس کی بنیاد پر ہر مسلمان دوسرے مسلمان سے پر خلوص محبت کا ناتہ جوڑتا ہے۔ کیونکہ وہ سمجھتا ہے کہ خیر و شر صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے۔ وہی اللہ اپنے بندوں کو نفع و نقصان پہنچانے کا اختیار رکھتا ہے۔ اس کے فیصلے کے سامنے کسی جابر کا جبر اور کسی صالح کی صالحیت رکاوٹ نہیں بن سکتی۔ وہ اپنے بندوں پر پوری طرح قادر ہے۔ وہ کسی کو خیر پہنچانے اور عذاب دینے کی حکمت سے خوب واقف ہے۔ (عَنْ وَرَّادٍ مَوْلَی الْمُغِیرَۃِ بْنِ شُعْبَۃَ قَالَ کَتَبَ مُعَاوِیَۃُ (رض) إِلَی الْمُغِیرَۃِ اُکْتُبْ إِلَیَّ مَا سَمِعْتَ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَقُولُ خَلْفَ الصَّلَاۃِ فَأَمْلٰی عَلَیَّ الْمُغِیرَۃُ قَالَ سَمِعْتُ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَقُولُ خَلْفَ الصَّلَاۃِ لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہُ لَا شَرِیکَ لَہُ اللَّہُمَّ لَا مَانِعَ لِمَا أَعْطَیْتَ وَلَا مُعْطِیَ لِمَا مَنَعْتَ وَلَا یَنْفَعُ ذَا الْجَدِّ مِنْکَ الْجَدُّ) [ رواہ البخاری : کتاب القدر، باب لامانع لما اعطی اللہ] ” مغیرہ بن شعبہ کے غلام وراد کہتے ہیں معاویہ (رض) نے مغیرہ کی جانب لکھا کہ مجھے لکھ کر بھیجئے۔ جو آپ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نماز کے بعد سنا کرتے تھے۔ حضرت مغیرہ (رض) نے مجھ سے لکھوایا کہ میں نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نماز کے بعد یہ الفاظ کہتے ہوئے سنا۔ اللہ کے علاوہ کوئی معبود بر حق نہیں وہ ایک ہی ہے اس کا کوئی شریک نہیں اے اللہ جسے تو دینا چاہتا ہے اسے کوئی نہیں روک سکتا اور جس سے تو روک لے اسے کوئی نہیں دینے والا۔ اور تیرے ہاں کسی بڑے کی بڑائی کوئی فائدہ نہیں دے سکتی۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر مکمل اختیار رکھنے والا ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی مصیبت دور کرنے والا نہیں۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ بڑا صاحب حکمت ہے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ ہر چیز سے باخبر ہے۔ ٥۔ اللہ کے علاوہ کوئی بھلائی عطا نہیں کرسکتا۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ ہی مشکل کشا، حاجت روا ہے : ١۔ اللہ ہی کو پکارو وہی تکلیف دور کرتا ہے۔ (الانعام : ٤١) ٢۔ اگر آپ کو کوئی تکلیف ہوجائے تو سوائے اللہ کے اسے کوئی نہیں ہٹا سکتا۔ (یونس : ١٠٧) ٣۔ اللہ کے سوا کوئی تکلیف دور کرنے والا نہیں۔ (الاسراء : ٥٦) ٤۔ کون ہے جو اللہ کے سوا مجبور کی دعا سننے والا اور مصیبت دور کرنے والا ہے۔ (النمل : ٦٢) ٥۔ کہہ دیجیے اگر اللہ تعالیٰ نقصان پہچانے پر آئے کیا کوئی نقصان دور کرسکتا ہے۔ (الفتح : ١١) ٦۔ کیا تم ایسے لوگوں کو معبود مانتے ہو جو نفع ونقصان کے مالک نہیں۔ (الرعد : ١٦) الانعام
18 الانعام
19 فہم القرآن ربط کلام : سابقہ آیات میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت پر کفار کے اعتراضات کا جواب، اس کے دلائل اور اللہ تعالیٰ نے اپنی توحید اور قوت وسطوت ثابت کرنے کے آفاقی اور طبعی دلائل دیے ہیں۔ جو شہادت کا درجہ رکھتے ہیں یاد رہے اللہ تعالیٰ کی شہادت سے بڑھ کر کسی کی شہادت نہیں ہو سکتی۔ توحید کی گواہی سب سے پہلی اور سب سے بڑی گواہی ہے۔ اب ان دلائل پر شہادت قائم کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی شہادت سے بڑھ کر کوئی شہادت نہیں ہو سکتی۔ اس نے ہر چیز کو پیدا کیا۔ وہی اس کی ابتدا اور انتہا کو جانتا ہے۔ وہ ہر چیز کا پیدا کرنے والا اور اس پر اقتدار اور اختیار رکھتا ہے۔ اس کا منطقی نتیجہ یہ ہے کہ اس کی شہادت سے بڑھ کر کسی اور کی شہادت ٹھوس اور بڑی نہیں ہوسکتی۔ یاد رہے شہادت کی دو بڑی اقسام ہیں۔ عینی اور یقینی شہادت : عینی شہادت کا معنی ہے کہ واقعہ شہادت دینے والے کے سامنے پیش ہوا ہو اور یقینی شہادت کا مفہوم یہ ہے کہ اس کے اتنے ٹھوس دلائل ہوں کہ کوئی اس کی تردید نہ کرسکے۔ اللہ تعالیٰ کی شہادت ان دونوں اصولوں کی بنیاد پر کامل اور اکمل حیثیت رکھتی ہے۔ یہی وہ بنیاد ہے جس پر اللہ تعالیٰ کی شہادت کو شہادت اکبر کا درجہ حاصل ہے۔ لہٰذا نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم ہوا کہ آپ اپنے اور ان کے درمیان اللہ تعالیٰ کو شاہد کے طور پر پیش فرمائیں کہ اسی نے آپ پر یہ قرآن وحی فرمایا تاکہ آپ ہر اس شخص کو اس کے برے اعمال کے انجام سے ڈرائیں جس تک قرآن کا پیغام پہنچجائے۔ پھر فرمایا کہ ان سے پوچھیے کیا تم ان دلائل کے باوجود شہادت دیتے ہو کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی اور بھی معبود ہوسکتا ہے ؟ اس سوال کے بعد آپ کو حکم ہوا کہ میں یہ کہنے اور شہادت دینے کے لیے تیار نہیں ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی اور بھی معبود ہوسکتا ہے۔ بلکہ آپ یہ اعلان فرمائیں کہ وہ ایک ہی الٰہ ہے اور میں تمھارے شرک سے برأت کا اعلان کرتا ہوں۔ اس آیت میں توحید کے اثبات کے ساتھ یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ امت مسلمہ کو اللہ تعالیٰ کا پیغام یعنی قرآن مجید لوگوں تک پہنچانے کی ہر ممکن کو شش کرنی چاہیے تاکہ غیر مسلموں پر توحید و رسالت کی شہادت قائم ہو سکے۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ کی گواہی ہر گواہی سے بڑی ہے۔ ٢۔ قرآن مجیدلوگوں پر اللہ تعالیٰ کی شہادت ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ ہر قسم کے شرک سے مبرا ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ کی شہادت سب سے بڑی اور معتبر ہے : ١۔ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر گواہ ہے۔ (النساء : ٣٣) ٢۔ اللہ تعالیٰ کی گواہی کافی ہے۔ (الفتح : ٢٨) ٣۔ اللہ کی گواہی سے کسی کی گواہی بڑی نہیں ہے۔ (الانعام : ١٩) ٤۔ اللہ لوگوں پر گواہ ہے۔ (آل عمران : ٩٨) ٥۔ نبی پر جو کچھ نازل ہو اللہ تعالیٰ اس پر گواہ ہے۔ (النساء : ١٦٦) الانعام
20 فہم القرآن ربط کلام : توحید و رسالت پر آفاقی دلائل دینے اور اللہ تعالیٰ کی شہادت کبریٰ کے بعد اہل کتاب کے زندہ ضمیر اور مصنف مزاج لوگوں کی شہادت کا تذکرہ۔ اہل کتاب کے اس اعتراف کے بارے میں مفسرین نے دو مفہوم لیے ہیں۔ امام رازی (رض) اور ان کے ہمنوا مفسرین کا خیال ہے کہ ” ہ“ کی ضمیر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات والاصفات اور آپ کی رسالت کے متعلق ہے۔ جیسا کہ سورۃ البقرۃ آیت ٤٦ میں رسالت کے بارے میں اہل کتاب کا ذکر کیا گیا ہے۔ مولانا مودودی (رض) اور کچھ اہل علم کا خیال ہے کہ یہاں ” ھو“ کی ضمیر توحید کے متعلق ہے کہ جس طرح اہل کتاب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات اور رسالت کو اپنے بیٹوں سے بڑھ کر جانتے تھے۔ اسی طرح وہ اپنے ضمیر میں اللہ تعالیٰ اور اس کی توحید کو اچھی طرح جانتے اور سمجھتے تھے۔ قرآن مجید کے سیاق و سباق سے دونوں مفاہیم کی تائید ہوتی ہے۔ لہٰذا جس نے توحید و رسالت میں سے کسی ایک کا اعتقاداً یا عملاً انکار کیا، وہ لوگ نقصان پائیں گے۔ حضرت صفیہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ میرے والد حیی بن اخطب اور چچا ابو یاسر صبح کے وقت رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں پہنچ کر اسلام کے بارے میں مذاکرات کرتے ہیں۔ انہیں یقین ہوگیا کہ حقیقتاً آپ نبی آخر الزماں (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں۔ جب آپ سے گفتگو کے بعد مغرب کے وقت واپس آئے تو نہایت تھکے ماندے دکھائی دے رہے تھے۔ چچا ابو یاسر میرے والد سے پوچھتے ہیں :أَھُوَ ھُوَ ؟ ” کیا یہی وہ نبی ہے جس کا تذکرہ تورات وانجیل میں پایا جاتا ہے؟“ والد : کیوں نہیں یہ وہی رسول ہے۔ ابو یاسر :أَتَعْرِفُہٗ وَتُثَبِّتُہٗ ؟ ” کیا واقعی تو اسے پہچانتا ہے؟“ والد : ہاں میں اچھی طرح پہچانتاہوں۔ ابویاسر : فَمَافِیْ نَفْسِکَ مِنْہُ ؟ ” پھر آپ کا کیا ارادہ ہے؟“ والد : عَدَاوَۃٌ وَاللّٰہِ مَابَقِیْتُ ” کہ اللہ کی قسم! جب تک زندہ ہوں عداوت کا اظہار کرتا رہوں گا“۔ [ ابن ہشام : شہادۃ عن صفیۃ] امام رازی نے اس ضمن میں عجب واقعہ ذکر کیا ہے لکھتے ہیں کہ جنگ بدر کے موقع پر اخنس بن شریق نے ابو جہل کو لوگوں سے الگ کرکے پوچھا کہ اے ابو الحکم ! یہ بتائیں کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے دعویٰ میں جھوٹا ہے یا سچا ؟ ابو جہل نے کہا کہ ابن شریق تجھ پر نہایت ہی افسوس کہ اس میں کیا شک ہے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) واقعی اللہ کا سچا رسول ہے۔ اس لیے کہ اس نے آج تک کسی فرد کے ساتھ جھوٹ نہیں بولا۔ لیکن ہماری مخالفت کی وجہ یہ ہے کہ پہلے ہی بڑے بڑے مناصب اور اعزاز۔ ان کے خاندان کے پاس ہیں۔ جنگ کے موقع پر پرچم اٹھانا، کعبہ کی دربانی اور نگہبانی، لوگوں کوز م زم پلانا اور یہ سب اعزازات ان کے پاس ہیں۔ اگر ہم نے اس کی نبوت کو تسلیم کرلیا تو ہمارے پاس کیا رہ جائے گا۔ مسائل ١۔ اہل کتاب نبی مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پہچاننے کے باوجود ماننے سے انکار کرتے ہیں۔ ٢۔ توحید و رسالت کا انکار کرنا اپنے آپ کو نقصان میں ڈالنے کے مترادف ہے۔ تفسیر بالقرآن یہود و نصاریٰ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پہچانتے ہیں : ١۔ اہل کتاب آپ کو پہچانتے تھے۔ (البقرۃ: ١٤٦) ٢۔ انھوں نے نبی کو پہچان لیا ہے۔ (المؤمنون : ٦٩) ٣۔ اہل کتاب نبی آخر الزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنے بیٹوں کی طرح پہچانتے ہیں۔ (البقرۃ: ١٤٦) ٤۔ جن لوگوں کو ہم نے کتاب دی وہ آپ کو پہچانتے ہیں۔ (الانعام : ٢٠) الانعام
21 فہم القرآن ربط کلام : منکرین حق کا نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کا انکار کرنا، اللہ تعالیٰ کی ذات کے ساتھ شریک ٹھہرانا اور اپنے باطل نظریات کی تائید کے لیے اللہ تعالیٰ پر جھوٹ بولنا ظلم ہے۔ شریعت کی نظر میں جھوٹ بولنا انتہائی قبیح گناہ ہے۔ اس جرم کی سنگینی میں اس وقت بے پناہ اضافہ ہوجاتا ہے جب کوئی شخص اپنے باطل نظریات کو اللہ تعالیٰ کے ذمہ لگا کر اسے حق ثابت کرنے کی کوشش کرے۔ ایسا شخص نہ صرف پرلے درجے کا کذّاب شمارہوتا ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک بدترین ظالم سمجھا جاتا ہے۔ کیونکہ ذات حق پر جھوٹ بول کر لوگوں کو گمراہی کا راستہ دکھانا انتہائی سنگین جرم ہے۔ ایسے ظالم آخرت میں ہر قسم کی مدد سے محروم ہوں گے اکثر اوقات دنیا میں بھی ناکامی کا منہ دیکھیں گے۔ منکرین حق اللہ تعالیٰ پر درج ذیل جھوٹ بولا کرتے ہیں۔ ١۔ انبیاء ( علیہ السلام) کی نبوت کا انکار کرنا اور ان پر جھوٹا ہونے کا الزام لگانا۔ ٢۔ معبودان باطل کو اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کی خدائی میں شریک کرنا۔ ٣۔ زندہ اور فوت شدہ بزرگوں کے بارے میں یہ عقیدہ رکھنا اور پھیلانا کہ ان کی بزرگی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے انھیں اپنے اختیارات میں شریک بنا لیا ہے۔ ٤۔ اپنے گناہوں کے بارے میں یہ کہنا کہ ایسا کرنے کی اللہ تعالیٰ نے ہمیں اجازت دے رکھی ہے۔ (الاعراف : ٢٨) ٥۔ یہودیوں کا یہ دعویٰ کرنا کہ ہمیں چند دنوں کے سوا جہنم میں نہیں رکھا جائے گا۔ (البقرۃ : ٨٠) ٦۔ یہودیوں کا اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کا بیٹا اور محب قرار دینا۔ ( المائدۃ: ١٨) ٧۔ یہودیوں کا حضرت عزیر (علیہ السلام) کو اللہ کا بیٹا گرداننا۔ (التوبۃ: ٣٠) ٨۔ عیسائیوں کا حضرت مریم اور عیسیٰ ( علیہ السلام) کو خدا کا جز قرار دینا۔ (المائدۃ: ١٧، ٧٢) ٩۔ نبی آخر الزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر جھوٹ بولنا اور قرآن مجید کے من جانب اللہ ہونے کا انکار کرنا۔ (البقرۃ: ٩١) ١٠۔ اللہ کی آیات کو جھٹلانا اس کے احکام کی صورت میں ہو یا اس کی قدرت کے نشانات کی شکل میں۔ (النساء : ١٥٠) مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ کے بارے افترا پر دازی نہیں کرنی چاہیے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ کی ذات پر جھوٹ بولنا بڑا ظلم ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ کی آیات کو جھٹلانا بہت بڑا ظلم ہے۔ ٤۔ ظالم لوگ کبھی کامیاب نہیں ہوں گے۔ تفسیر بالقرآن بڑا ظالم کون ہے : ١۔ سب سے بڑا ظالم وہ ہے جو اللہ پر جھوٹ بولتا ہے۔ (الکہف : ١٥) ٢۔ اللہ کی آیات کو سن کر اعراض کرنے والا بڑا ظالم ہے۔ (السجدۃ: ٢٢) ٣۔ سچائی کو جھٹلانے والا اور اللہ پر جھوٹ باندھنے والا بڑا ظالم ہے۔ (الزمر : ٣٢) ٤۔ اللہ کے گھر میں ذکر کرنے سے منع کرنے والا بڑا ظالم ہے۔ (البقرۃ: ١١٤) ٥۔ اللہ کی آیات کو جھٹلانے اور لوگوں کو گمراہ کرنے والا بڑا ظالم ہے۔ (الانعام : ١٤٤) ٦۔ اس سے بڑا ظالم کون ہے ؟ جو اللہ پر جھوٹ باندھتا ہے اور اس کی آیات کو جھٹلاتا ہے۔ (الانعام : ٢١) ٧۔ اللہ کی مساجد سے روکنے والے سے بڑھ کر کون ظالم ہوسکتا ہے ؟ (البقرۃ: ١١٤) ٨۔ شہادۃ کو چھپانے والے سے بڑا ظالم کون ہے ؟ (البقرۃ: ١٤٠) ٩۔ اللہ کی آیات سے اعراض کرنے والے سے بڑھ کر کون ظالم ہوسکتا ہے ؟ (الکہف : ٥٧) ١٠۔ اس سے بڑھ کر کوئی ظالم نہیں ہوسکتا ؟ جو اللہ پر جھوٹ باندھتا ہے۔ (ھود : ١٨) الانعام
22 فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ، منکرین حق کا قیامت کے دن اپنا انجام دیکھ کر جھوٹی قسمیں اٹھانا۔ جو گواہی کی بد ترین قسم ہے۔ ” قیامت کا دن پچاس ہزار سال کا ہوگا۔“ (المعارج، آیت : ٤) اس میں مختلف مراحل ہوں گے اور ہر مرحلہ ہزاروں سال پر محیط ہوگا۔ ان مراحل میں ایک مرحلہ ایسا بھی آئے گا کہ معبودان باطل اور ان کے عابدوں کو ایک دوسرے کے سامنے کھڑا کیا جائے گا تاکہ دنیا میں ایک دوسرے سے امیدیں رکھنے والے لوگوں کے عقیدہ کی قلعی کھل جائے۔ البقرہ آیت ١٦٥ تا ١٦٧ میں بیان ہوا ہے کہ جب یہ لوگ جہنم کا عذاب دیکھیں گے تو انھیں یقین ہوجائے گا کہ ہر قسم کی قوت وسطوت اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے۔ اس یقین کے بعد طالب اپنے مطلوب، تابع اپنے متبوع، مقتدیٰ اپنے مقتدی اور پیر اپنے مریدوں سے بیزاری، کارکن اپنے لیڈروں سے نفرت کا اظہار کریں گے، ایک دوسرے پر لعنت کرتے ہوئے مطالبہ کریں گے کہ اے خدا ہمارے پیروں اور سرداروں کو دوگنا عذاب دیجیے۔ (الاحزاب : ٦٧۔ ٦٨) جھوٹے رہنماؤں کے پیچھے لگنے والے اس خواہش کا بھی اظہار کریں گے کہ کاش ہمیں دنیا میں واپس جانے کی اجازت مل جائے تو ہم ان لوگوں سے اسی طرح بیزاری اور نفرت کا اظہار کریں جیسے آج یہ ہم سے بیزاری کا اظہار کر رہے ہیں۔ (البقرہ : ١٦٧) جب ان کی یہ حسرت پوری نہیں ہو سکے گی تو پھر وہ اپنے گناہوں اور شرک کا انکار کرتے ہوئے قسمیں اٹھائیں گے۔ اے اللہ ! تیری ذات کی قسم ! ہم نے کبھی شرک نہیں کیا۔ ان کے انکار کی دو وجوہات ہوں گی۔ اللہ تعالیٰ کی ہیبت وجلالت اور گرفت۔ دنیا میں جھوٹی قسمیں کھانے کی عادت کی وجہ سے وہ رب کی بارگاہ میں جھوٹی قسمیں اٹھائیں گے کہ شاید دنیا کی طرح آج بھی ہم بچ نکلنے میں کامیاب ہوجائیں۔ یہ ضرور جھوٹ بولیں گے اس لیے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے کہ دیکھیے ! یہ ظالم کس طرح اللہ کے حضور جھوٹی قسمیں کھانے کے ساتھ اپنے آپ پر جھوٹ بولیں گے اور وہ سب کچھ بھول جائیں گے جو دنیا میں مکر و فریب اور افتراء پر دازی کیا کرتے تھے۔ (عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ (رض) قَالَ اأمَّا قُوْلُہٗ وَاللّٰہِ رَبِّنَا مَا کُنَّا مُشْرِکِینَ فَإِنَّہُمْ رَأَوْا أَنْہٗ لاَ یَدْخُلُ الْجَنَّۃَ إِلَّا أَہْلُ الصَّلَاۃَ، فَقَالُوْا تَعَالُوْا فَلْنَجْحَدْ، فَیَجْحَدُوْنَ، فَیَخْتِمُ اللّٰہُ عَلٰی أَفْوَاہِہِمْ، وَتَشْہَدُ أَیْدَیَہُمْ وَأَرْجُلَہُمْ وَلَا یَکْتُمُوْنَ اللّٰہ حَدِیْثًا) [ ابن کثیر] ” مفسّرِقرآن حضرت عبداللہ بن عباس (رض) اس کی یوں تفسیر کیا کرتے تھے کہ جب اللہ تعالیٰ توحید والوں کے گناہ بخش دے گا اور اس کے لیے کسی کے گناہ معاف کرنا مشکل نہیں۔ مشرکین یہ صورت حال دیکھ کر کہیں گے کہ اللہ تعالیٰ لوگوں کے شرک کے علاوہ باقی گناہ بخش رہا ہے آؤ ہم بھی یہ کہیں کہ ہم گناہ گار توہیں لیکن مشرک نہیں۔ جب اپنے شرک کو چھپائیں گے تو ان کے منہ پر مہر لگ جائے گی اور ان کے ہاتھ پاؤں ان کے خلاف گواہی دیں گے۔ اس وقت مشرکین یہ جان لیں گے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے کچھ بھی نہیں چھپا سکتے۔“ (ابن کثیر) اس کے بعد ان کی زبانوں پر مہریں لگا دی جائیں گی : (اَلْیَوْمَ نَخْتِمُ عَلٰٓی أَفْوَاہِہِمْ وَتُکَلِّمُنَا أَیْدِیْہِمْ وَتَشْہَدُ أَرْجُلُہُمْ بِمَا کَانُوا یَکْسِبُوْنَ) [ یسٓ: ٦٥] ” آج ہم ان کے منہ پر مہر لگا دیں گے اور ان کے ہاتھ ہم سے کلام کریں گے اور ان کے پاؤں گواہی دیں گے جو وہ کیا کرتے تھے۔“ مسائل ١۔ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ مشرکوں سے ان کے شرک کے بارے میں پوچھے گا۔ ٢۔ مشرکین اللہ تعالیٰ کو کوئی جواب نہیں دے پائیں گے۔ ٣۔ مشرکین قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے ساتھ بنائے گئے شریکوں سے برأت کا اعلان کریں گے۔ ٤۔ قیامت کے دن معبودان باطل کوئی فائدہ نہیں دے سکیں گے۔ تفسیر بالقرآن مشرک اور ان کے معبودوں کا اکٹھا کیا جانا : ١۔ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ مشرکوں کو اور ان کے معبودوں کو اکٹھا کرے گا۔ (الفرقان : ١٧) ٢۔ قیامت کے دن اللہ سب کو اکٹھا کرے گا اور کہے گا یہ ہیں تمھارے معبود۔ (السباء : ٤٠) ٣۔ اس دن اکٹھا کیا جائے گا ظالموں کو اور جن کی یہ عبادت کرتے تھے۔ (الصافات : ٢٢) ٤۔ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اکٹھا کریں گے اور مشرکوں کو کہیں گے کہاں ہیں تمھارے معبود۔ (الانعام : ٢٢) ٥۔ مشرک اپنے معبودوں کے دشمن بن جائیں گے۔ (الاحقاف : ٦) جھوٹوں کا انجام : ١۔ ان سے کہا جائے گا چکھو، آگ کا عذاب جس کو تم جھٹلاتے تھے۔ (السجدۃ: ٢٠) ٢۔ یہ آگ ہے جس کو تم جھٹلا تے تھے۔ (الطور : ١٤) ٣۔ دوزخ کا عذاب ہے جھٹلانے والوں کے لیے ہے۔ (المطففین : ١١) ٤۔ تم زمین میں چل پھر کر دیکھو کیا انجام ہوا جھٹلانے والوں کا۔ (آل عمران : ١٣٧) ٥۔ میری آیات کا انکار کرنے اور جھٹلانے والے دوزخی ہیں۔ (التغابن : ١٠) ٦۔ کافر اور اللہ کی آیات کو جھٹلانے والے جہنمی ہیں۔ (الحدید : ١٩) ٧۔ جب ان کے پاس رسول آئے تو انھوں نے ان کو جھٹلایا عذاب نے ان کو پکڑ لیا۔ (النحل : ١١٣) ٨۔ انھوں نے انبیاء (علیہ السلام) کو جھٹلایا اور وہ ہلاک ہونے والوں میں سے ہوگئے۔ (المؤمنون : ٤٨) الانعام
23 الانعام
24 الانعام
25 فہم القرآن ربط کلام : کفارکا شہادت حق سے انکار، مشرکوں کے شرک اور منافقوں کی منافقت کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی آیات کو سمجھنے اور ہدایت کے لیے سننے کے بجائے کہتے ہیں کہ یہ ہماری سماعت پر ایک بوجھ ہیں۔ اور ہم انہیں پہلے لوگوں کے قصے کہانیاں سمجھتے ہیں۔ قرآن مجید نے ہدایت پانے اور اس کی حقیقت تک پہنچنے کے لیے یہ اصول بیان کیا ہے کہ سننے والا پوری توجہ دل کی حاضری اور ہدایت پانے کے لیے بات سنے تو یقیناً اللہ تعالیٰ اسے ہدایت سے بہرہ مند کرتا ہے۔ (إِنَّ فِی ذٰلِکَ لَذِکْرٰی لِمَنْ کَانَ لَہُ قَلْبٌ أَوْ أَلْقَی السَّمْعَ وَہُوَ شَہِیدٌ)[ قٓ : ٣٧] ” اس میں اس شخص کے لیے عبرت ہے جو دل رکھتا ہو اور حضور قلب کے ساتھ متوجہ ہو کر بات سنے۔“ لیکن منکرین حق کی شروع سے ہی یہ عادت خبیثہ ہے کہ وہ سچی بات قبول کرنا تو درکنار اس کا سننا ہی ان کے لیے گرانی کا باعث ہوا کرتا ہے۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کے ساتھ کفار نے یہاں تک معاندانہ رویہ اختیار کیا کہ جب حضرت نوح (علیہ السلام) توحید کی دعوت دیتے توکفار اپنے کانوں میں انگلیاں ڈال کر اپنے چہرے چھپاتے ہوئے ان سے دور بھاگ جاتے۔ کفار کے دلوں پر مہریں ثبت ہونا : (صُمٌّ بُکْمٌ عُمْیٌ فَہُمْ لَا یَرْجِعُونَ )[ البقرۃ : ١٨] ” ایسے لوگ بہرے، گونگے اور اندھے ہیں یہ لوٹنے والے نہیں۔“ (قَالَ رَبِّ إِنِّیْ دَعَوْتُ قَوْمِیْ لَیْلًا وَّنَہَارًا۔ فَلَمْ یَزِدْہُمْ دُعَآءِ یْ إِلَّا فِرَارًا۔ وَإِنِّیْ کُلَّمَا دَعَوْتُہُمْ لِتَغْفِرَ لَہُمْ جَعَلُوْا أَصَابِعَہُمْ فِیْٓ اٰذَانِہِمْ وَاسْتَغْشَوْا ثِیَابَہُمْ وَأَصَرُّوْا وَاسْتَکْبَرُوا اسْتِکْبَارًا۔ ) [ نوح : ٥ تا ٧] ” نوح نے عرض کیا اے میرے رب ! میں نے اپنی قوم کو دن رات دعوت دی۔ مگر میری دعوت سے ان کے فرار میں اضافہ ہوا۔ میں نے جب بھی انہیں بلایا تاکہ تو انہیں معاف کر دے تو انہوں نے اپنے کانوں میں انگلیاں ڈال لیں۔ اور اپنے کپڑے اپنے منہ پر ڈال لیے اور اپنی روش پر اڑ گئے اور تکبر کی انتہا کردی۔“ یہی رویہ منکرین حق نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ اختیار کیا جب انھیں غور کے ساتھ قرآن سننے کی طرف توجہ دلائی جاتی تو وہ بظاہر غور کے ساتھ سنتے لیکن حقیقت میں عدم توجہ اختیار کیے رکھتے اور آخر میں کہتے یہ باتیں ہمارے فہم و ادراک سے باہر اور ہماری قوت سماعت پر بوجھ کے سوا کچھ بھی نہیں۔ اس طرح جو حکم بھی ان کے پاس آتا وہ اس کا مسلسل انکار کیے رکھتے۔ جس کی بنا پر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بتلایا گیا کہ ان کے سامنے ایک سے ایک بڑھ کر نشانی پیش کی جائے یہ لوگ ایمان لانے کی بجائے آپ کے ساتھ بحث و تکرار میں آگے ہی بڑھتے جائیں گے کیونکہ یہ غور و فکر کرنے کے بجائے کہتے ہیں کہ یہ تو پہلے لوگوں کی کہانیاں ہیں جنھیں زیب داستاں کے لیے بیان کیا جاتا ہے۔ یہ لوگ نہ صرف ہدایت سے دور ہیں بلکہ دوسروں کی ہدایت کے لیے بھی رکاوٹ بن چکے ہیں یہی ان کی ہلاکت کا پیش خیمہ ہے۔ حقیقتاً یہ ہدایت یافتہ لوگوں کو نقصان پہنچانے کے بجائے اپنے آپ کو ہلاکت کے گڑھے میں ڈال رہے ہیں جس حقیقت کو سمجھنے کے لیے یہ تیار نہیں ہیں۔ جہاں تک قرآن مجید پر قصہ، کہانیاں بیان کرنے کا الزام ہے اس میں ذرہ برابر بھی صداقت نہیں کیونکہ دو تین واقعات کو چھوڑ کر کوئی ایسا واقعہ نہیں جسے قرآن مجید نے ابتدا سے آخر تک ایک ہی موقعہ اور مقام پر ذکر کیا ہو۔ قرآن مجید کوئی تاریخ کی کتاب نہیں کہ جس میں رطب و یا بس اور داستان گوئی کا انداز اختیار کیا گیا ہو۔ اس میں سب سے زیادہ موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کی قوم کا ذکر پایا جاتا ہے۔ جسے ایک ہی جگہ بیان کرنے کے بجائے موقع اور اس کے محل کے مطابق مختلف مقامات اور الفاظ میں بیان کیا گیا ہے تاکہ قرآن مجید کی تلاوت کرنے والا اسے قصہ کہانی سمجھنے کے بجائے نصیحت و عبرت کے طور پر پڑھے اور ہر قدم پر اس کی رہنمائی کا اہتمام ہو سکے۔ مسائل ١۔ کافر لوگ قرآن مجید پر طعن و تشنیع کرتے ہیں۔ ٢۔ کافر نبی مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے جھگڑتے تھے۔ ٣۔ کافر اپنے ساتھ دوسرے لوگوں کو بھی ملانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ٤۔ دین اسلام کے بارے میں ہر زہ سرائی کرنے والے اپنے آپ کو ہی ہلاکت میں ڈالتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن کفار نے قرآن مجید کو پہلے لوگوں کے قصّے قرار دیا : ١۔ کفار قرآن کو پہلے لوگوں کی کہانیاں قرار دیتے ہیں۔ (الانعام : ٢٥) ٢۔ جب ان پر اللہ کی آیات پڑھی جاتی ہیں تو کہتے ہیں یہ پہلے لوگوں کے قصے کہانیاں ہیں۔ (المطففین : ١٣) ٣۔ جب کفار سے کہا جاتا ہے کہ تمھارے رب نے کیا نازل کیا ہے تو کہتے ہیں کہ یہ پہلے لوگوں کی کہانیاں ہیں۔ (النحل : ٢٤) ٤۔ جب ان پر ہماری آیات پڑھی جاتی ہیں تو کہتے ہیں کہ یہ تو پہلے لوگوں کی کہانیاں ہیں۔ (القلم : ١٥) ٥۔ انہوں نے کہا یہ تو سراسر پہلے لوگوں کی قصے کہانیاں لکھی ہوئی ہیں۔ (الفرقان : ٥) الانعام
26 الانعام
27 فہم القرآن ربط کلام : جو لوگ دنیا میں قرآن مجید کے بارے میں کہا کرتے تھے کہ یہ ہمارے کانوں کے لیے بوجھ ہے وہ جہنم کے کنارے کھڑے ہو کر آیات ربانی کی حقیقت کا اعتراف اور دنیا میں حق کی شہادت نہ دینے کے جرم کا اعتراف کریں گے۔“ جیسا کہ پہلے بیان ہوچکا کہ قیامت کا دن پچاس ہزار سال پر محیط ہوگا اور اس میں مختلف مراحل ہوں گے۔ جو ہزاروں سال پر مشتمل ہوں گے۔ قیامت کا ہر مرحلہ مجرموں کے لیے سخت سے سخت تر ہوگا۔ پہلے مرحلہ پر مجرم شرک اور اپنے جرائم کا انکار کریں گے اس کے بعد ان کی زبانوں پر مہر ثبت کردی جائے گی تو ان کے اعضاء بول بول کر ان کے بارے میں گواہی دیں گے۔ اس کے ساتھ ہی جہنم کو ستر ہزار فرشتے بھاری بھرکم زنجیروں کے ساتھ کھینچ کر لوگوں کے سامنے لائیں گے۔ ہر زنجیر کے ساتھ ستر ستر ہزار فرشتے ہوں گے۔ جب مجرموں کو جہنم کے قریب کھڑا کیا جائے گا تو وہ آہ و بکا کرتے ہوئے اس خواہش کا اظہار کریں گے کہ کاش ہمیں دنیا میں لوٹنے کا موقعہ نصیب ہوجائے اور ہم دنیا میں جاکر اپنے رب کے احکام کی تکذیب کرنے کے بجائے اس کے ایک ایک حکم پر ایمان لائیں گے۔ ان کا یہ اقرار حقیقت پر مبنی یا دائمی ہونے کے بجائے عارضی اور دفع الوقتی کے لیے ہوگا۔ کیونکہ بفرض محال انھیں واپس لوٹا بھی دیا جائے تو وہ پہلے کی طرح اللہ تعالیٰ کے احکام کا انکار کرتے ہوئے کفر و شرک میں ملوث ہوں گے۔ کیوں کہ وہ عادی مجرم تھے لہٰذا اب بھی کذب بیانی سے کام لیں گے۔ یہ اس لیے ہوگا کہ ان کا نظریہ تھا دنیا کی زندگی ہی مستقل زندگی ہے حالانکہ دنیا کی ہر چیز اپنی ناپائیداری کے بارے میں پکار پکار کر ثبوت دے رہی ہے کہ ہمیں قرار اور سکون نہیں ہے۔ انسان کے سایہ سے لے کر فلک بوس پہاڑوں کی چوٹیاں اس بات پر گواہ ہیں کہ قرار اور دوام صرف اللہ تعالیٰ کی ذات کو حاصل ہے۔ ان کا یہ بھی نظریہ تھا کہ مٹی میں دفن ہونے کے بعد ہمیں ہرگز نہیں اٹھایا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد کہ اگر انھیں دنیا میں دوبارہ بھیج دیا جائے تو وہ وہی کچھ کریں گے جس سے انھیں منع کیا گیا تھا یہ اس لیے کہ انھوں نے دین پر دنیا کو مقدم سمجھا اور اللہ تعالیٰ کی رضا پر دنیا کی زندگی کو ترجیح دی اگر انہیں دنیا میں لوٹا دیا جائے تب بھی وہ باز نہیں آئیں گے۔ مسائل ١۔ کافر جہنم کو دیکھ کر حسرت کا اظہار کریں گے۔ ٢۔ کافر خواہش کریں گے کہ ہمیں دنیا میں دوبارہ لوٹا دیا جائے۔ ٣۔ مشرکین، مومنین کی رفاقت کی خواہش کریں گے۔ ٤۔ کافر اسی دنیا کو ہی سب کچھ سمجھتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن جہنمیوں کا دنیا میں واپس لوٹنے کا مطالبہ : ١۔ جہنمی کہیں گے اے اللہ ہم نے دیکھ لیا اور سن لیا اب ہم کو واپس لوٹا دے۔ (السجدۃ: ١٢) ٢۔ جب بھی جہنم سے نکلنے کا ارادہ کریں گے تو دوبارہ لوٹائے جائیں گے۔ (السجدۃ: ٢٠) ٣۔ جب بھی ارادہ کریں گے کہ ہم نکلیں جہنم سے تو اس میں واپس لوٹائے جائیں گے۔ (الحج : ٢٢) ٤۔ جہنمی کی خواہش ہوگی کہ دنیا میں واپس بھیج دیا جائے۔ (الانعام : ٢٧ تا ٢٨) ٥۔ اے رب ہمارے! ہمیں یہاں سے نکال ہم پہلے سے نیک عمل کریں گے۔ (الفاطر : ٣٧) ٦۔ اے رب ہمارے! ہم کو یہاں سے نکال اگر دوبارہ ایسا کریں تو بڑے ظالم ہوں گے۔ (المؤمنون : ١٠٧) الانعام
28 الانعام
29 الانعام
30 فہم القرآن ربط کلام : مجرموں کی اللہ کے حضور پیشی اور اس کی بارگاہ میں سوال وجواب۔ قرآن مجید بار بار انسان پر یہ حقیقت عیاں کرتا ہے کہ اسے مرنے کے بعد اپنے کیے کا جواب دینا ہے۔ جس کی ابتدا قبر کی کوٹھڑی سے ہوگی۔ جب میت کو دفنایا جاتا ہے ابھی اس کے اعزاء و اقرباء قبر پر مٹی ڈال کر رخصت ہی ہوتے ہیں کہ منکر نکیر مرنے والے سے تین سوال کرتے ہیں کہ تیرا رب کون ہے ؟ تو محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں کیا جانتا ہے ؟ اور تیرا دین کونسا ہے ؟ قبر سے اٹھنے کے بعد محشر کے میدان میں جب لوگ اپنے رب کی بارگاہ میں پیش ہوں گے تو ان سے سوال کیا جائے گا کہ کیا مرنے کے بعد اٹھ کر حشر کے میدان میں رب کی بارگاہ میں حاضر ہونا حق ہے یا نہیں ؟ تو انسان بے ساختہ پکار اٹھیں گے کیوں نہیں ہم نے قدم قدم پر اپنے رب کا وعدہ سچا پایا۔ جہاں تک مجرموں کا تعلق ہے وہ دہائی دیں گے اے ہمارے رب ! آج ہمیں یقین ہوگیا کہ آپ کا فرمان سچا اور آپ کی ملاقات برحق تھی لیکن ان کا اعتراف اور معذرت کسی کام نہیں آئے گی۔ حکم ہوگا کہ اب عذاب کی سختیاں اور جہنم کی اذیتیں چکھتے رہو کیونکہ بار بار سمجھانے کے باوجود تم کفر ہی کرتے رہے تھے۔ تم نے اپنے رب کی ملاقات کو جھٹلائے رکھا یہاں تک کہ قیامت برپا ہوگئی۔ کافر، منافق، مشرک اور عادی مجرم حسرت و یاس کا اظہار کرتے ہوئے گناہوں کا بوجھ اپنی پیٹھوں پر اٹھائے ہوں گے۔ نہایت ہی بدترین بوجھ ہوگا جو انھیں اٹھانا پڑے گا۔ تیسرا موقع سوال و جواب کا اس وقت ہوگا جب مجرم اپنا اپنا بوجھ اٹھائے ذلت و رسوائی کی صورت میں جہنم کی طرف ہانکے جائیں گے جب یہ لوگ جہنم کے کنارے پہنچیں گے تو ان کے لیے جہنم کے دروازے کھول دیے جائیں گے داخلے کے وقت جہنم کے فرشتے ان سے سوال کریں گے کیا تم میں رسول مبعوث نہیں کیے گئے جو تمھارے سامنے تمھارے رب کے احکام پڑھتے اور تمھیں آج کے دن کی ہولناکیوں سے ڈراتے؟ جہنمی پکار پکار کرکہیں گے کیوں نہیں ! انبیاء کرام (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ کے احکام سے ہمیں آگاہ کیا اور اس دن سے ہمیں بار بار ڈرایا لیکن ہم نے کفر و استکبار کا رویہ اختیار کیا جس وجہ سے آج ہمیں یہ رسوائی کا دن دیکھنا پڑا۔ اللہ تعالیٰ کا عذاب برحق ثابت ہوا یہ سنتے ہی ملائکہ ان پر لعنت کی بوچھاڑ کریں گے۔ (الزمر : ٧١ تا ٧٢) مسائل ١۔ مشرکین قیامت کے دن حق کا اعتراف کریں گے۔ ٢۔ آخرت کا انکار کرنے والے نقصان اٹھائیں گے۔ ٣۔ منکرین حق ہر مرحلہ پر حسرت کا اظہار کریں گے۔ ٤۔ ہر انسان قیامت کے دن اپنے گناہوں کا بوجھ اٹھائے گا۔ تفسیر بالقرآن جہنمیوں کے اعترافات : ١۔ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ جہنمیوں سے فرمائے گا کیا آج کا عذاب برحق نہیں وہ کہیں گے کیوں نہیں۔ (الاحقاف : ٣٤) ٢۔ جہنمی کی خواہش ہوگی کہ دنیا میں واپس بھیج دیا جائے۔ (الانعام : ٢٧ تا ٢٨) ٣۔ اے رب ہمارے! ہمیں یہاں سے نکال ہم پہلے سے نیک عمل کریں گے۔ (الفاطر : ٣٧) ٤۔ اے رب ہمارے! ہم کو یہاں سے نکال اگر دوبارہ ایسا کریں تو بڑے ظالم ہوں گے۔ (المؤمنون : ١٠٧) الانعام
31 الانعام
32 فہم القرآن ربط کلام : مجرم جس دنیا کو ہمیشہ کھیل تماشا تصور کرتے ہیں اس کی حقیقت۔ اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کو زمین پر نازل کرنے کے وقت یہ حقیقت آشکار کردی تھی کہ اے آدم! تم زمین پر اتر جاؤ لیکن یاد رکھنا زمین تیرے اور تیری اولاد کے لیے عارضی قیام گاہ ہے۔ وہاں تمھارا ایک مقررہ مدت تک ہی ٹھہرنا ہوگا۔ یہاں دنیا کی حقیقت بتلائی گئی ہے یہ دنیا کھیل تماشا کے سوا کچھ نہیں جس طرح کھیل اور تفریح زندگی کا مستقل حصہ نہیں کھیل مصروف کار رہنے کے بعد آدمی کے لیے دل بہلاوا اور عارضی راحت کا سبب ہوتا ہے۔ کافر کے لیے دنیا فقط اسی چیز کا نام ہے کہ وہ اس کے لہو و لعب میں مصروف ہو کر رہ جائے اس کے مقابلہ میں مومن دنیا کی نعمتوں سے مستفید ہوتے ہوئے کھلاڑی کے وقفۂ آرام کی طرح آخرت کی تیاری کے لیے تازہ دم ہوجاتا ہے کیونکہ اس کا ایمان ہے دنیا عارضی اور آخرت دائمی ہے یہاں کی ہر چیز فنا ہوجانے والی ہے، آخرت کی زندگی اور نعمتوں کو دوام حاصل ہے۔ اس سوچ کے پیش نظر وہ اللہ تعالیٰ سے ڈر کر زندگی بسر کرتا ہے اور یہی انسان کے عقل مند ہونے کی دلیل ہے۔ سر ور دو عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس حقیقت کو یوں بیان فرمایا۔ (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ قَالَ اضْطَجَعَ النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عَلَی حَصِیرٍ فَأَثَّرَ فِی جِلْدِہِ فَقُلْتُ بِأَبِی وَأُمِّی یَا رَسُول اللّٰہِ لَوْ کُنْتَ اٰذَنْتَنَا فَفَرَشْنَا لَکَ عَلَیْہِ شَیْءًا یَقِیکَ مِنْہُ فَقَالَ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَا أَنَا وَالدُّنْیَا إِنَّمَا أَنَا وَالدُّنْیَا کَرَاکِبٍ اسْتَظَلَّ تَحْتَ شَجَرَۃٍ ثُمَّ رَاحَ وَتَرَکَہَا) [ رواہ ابن ماجۃ : کتاب الزہد، باب مثل الدنیا] ” حضرت عبداللہ (رض) بیان کرتے ہیں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) چٹائی پر لیٹے۔ اس کے نشان آپ کے جسم اطہر پر پڑگئے میں نے آپ کو دیکھ کر عرض کی میرے ماں باپ آپ پر قربان ! آپ حکم دیتے تو ہم آپ کے لیے بستربچھا دیتے جس سے آپ کا جسم اطہر تکلیف سے بچ جاتا۔ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میری اور دنیا کی مثال اس طرح ہے جیسے کوئی سوار سایہ دار شجر کے نیچے استراحت کے لیے رکے اور پھر اس کو چھوڑ دے۔“ (عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عُمَرَ (رض) قَالَ أَخَذَ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بِمَنْکِبِی فَقَالَ کُنْ فِی الدُّنْیَا کَأَنَّکَ غَرِیبٌ أَوْ عَابِرُ سَبِیلٍ) [ رواہ البخاری : کتاب الرقاق] ” حضرت عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے میرے کندھے سے پکڑ تے ہوئے فرمایا دنیا میں اس طرح رہو جیسے اجنبی یا مسا فررہتے ہیں۔“ عقل مند کون؟ (عَنْ أَبِی یَعْلٰی شَدَّادِ بْنِ أَوْسٍ (رض) قَالَ قَالَ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) الْکَیِّسُ مَنْ دَانَ نَفْسَہُ وَعَمِلَ لِمَا بَعْدَ الْمَوْتِ وَالْعَاجِزُ مَنْ أَتْبَعَ نَفْسَہُ ہَوَاہَا ثُمَّ تَمَنَّی عَلَی اللّٰہِ)[ رواہ ابن ماجۃ: کتاب الزہد، باب ذکر الموت والاستعداد لہ] ” حضرت ابو یعلی شداد بن اوس (رض) بیان کرتے ہیں رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا عقلمند وہ ہے جو اپنے آپ کو پہچانتا ہے اور مرنیکے بعد فائدہ دینے والے اعمال سر انجام دیتا ہے اور نادان وہ ہے جس نے اپنے آپ کو اپنے نفس کے پیچھے لگایا اس کے باوجود وہ اللہ تعالیٰ سے تمنا کرے۔“ مسائل ١۔ آخرت کے مقابلہ میں دنیا محض کھیل تماشا ہے۔ ٢۔ متقین کے لیے آخرت میں جنت ہے۔ ٣۔ آخرت کی تیاری کرنا انسان کے عقل مند ہونے کی دلیل ہے۔ تفسیر بالقرآن دنیا کی حیثیت : ١۔ جو چیز تم دیے گئے ہو یہ تو دنیا کا سامان اور زینت ہے۔ (القصص : ٦٠) ٢۔ نہیں ہے دنیا کی زندگی مگر کھیل تماشا۔ (العنکبوت : ٦٤) ٣۔ دنیا آخرت کے مقابلہ میں بہت کمتر ہے۔ (التوبۃ: ٣٨) ٤۔ نہیں ہے دنیا کی زندگی مگر دھوکے کا سامان۔ (آل عمران : ١٨٥) ٥۔ مال اور اولاد دنیا کی زندگی کی زینت ہیں۔ (الکہف : ٤٦) ٦۔ مال اور اولاد تمھارے لیے فتنہ ہے۔۔ (التغابن : ١٥) ٧۔ آپ فرما دیں کہ دنیا کا سامان تھوڑا ہے اور آخرت بہتر ہے۔ (النساء : ٧٧) ٨۔ وہ دنیا کی زندگی پر خوش ہوگئے حالانکہ اس کی آخرت کے مقابلہ میں کوئی حیثیت نہیں۔ (الرعد : ٢٦) ٩۔ آپ ان لوگوں کو چھوڑدیں جنہوں نے دین کو کھیل تماشہ بنالیا اور انہیں دنیا کی زندگی نے دھوکے میں مبتلا کردیا۔ (الانعام : ٧٠) ١٠۔ تم دنیا کی زندگی کو ترجیح دیتے ہو جبکہ آخرت اس سے بہتر ہے۔ (الاعلیٰ: ١٧) الانعام
33 فہم القرآن ربط کلام : اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! جب یہ دنیا عارضی اور اس کے مقابلے میں آخرت دائمی اور اس کی نعمتیں ہمیشہ رہنے والی ہیں یہاں متقین کو ان کی نیکیوں سے بڑھ کر اجر ملنے والا ہے لہٰذا آپ کو مکذّبین کی باتوں پر دل گرفتہ اور غمزدہ نہیں ہونا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ نے نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بے حساب صبر و تحمل اور عظیم حوصلہ عطا فرمایا تھا اس کے باوجود کفار کے ظلم و ستم، یہود ونصاریٰ کی سازشیں اور منافقین کی چیرہ دستیوں کی وجہ سے کبھی کبھار آپ پر یشان ہوجایا کرتے تھے۔ پریشانی کا بنیادی سبب لوگوں کی ہدایت اور ان کی خیر خواہی کا جذبہ ہوا کرتا تھا۔ جس پر آپ کو تسلی دیتے ہوئے ارشاد ہوا کہ اے نبی! ہم آپ کی فکر مندی، لوگوں کی خیر خواہی اور شب و روز کی مشقت کو جانتے ہیں اور یہ حقیقت بھی اللہ علیم و خبیر کے علم میں ہے کہ لوگ آپ کی تکذیب نہیں کرتے بلکہ وہ اللہ تعالیٰ کی آیات کی وجہ سے آپ کو جھٹلاتے ہیں کیونکہ نبوت عطا ہونے سے پہلے یہ لوگ آپ کو صادق و امین کے نام سے جانتے تھے۔ جونہی آپ نے صفا پہاڑی پر کھڑے ہو کر قَوْلُوْالَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کا آوازہ بلند کیا تو ایک لمحہ کی تاخیر کیے بغیر یہ لوگ آپ کے مخالف ہوگئے یہاں تک کہ آپ کے چچا ابو لہب نے بھرے مجمع میں آپ کو ان الفاظ سے مخاطب کیا : کہ کفار کے جھٹلانے کا معاملہ صرف آپ سے پیش نہیں آیا بلکہ آپ سے پہلے جتنے انبیاء آئے ان سب کی تکذیب کی جاتی رہی ہے لیکن وہ کفار کی ایذا رسانی اور تکذیب پر صبر و حوصلہ سے کام لیا کرتے تھے یہاں تک کہ اللہ کی نصرت و حمایت آن پہنچتی۔ نصرت و حمایت سے مراد انبیاء ( علیہ السلام) کی اخلاقی کامیابی اور ان کے مقابلے میں دشمن کی ذلت و رسوائی ہے۔ جس طرح کہ حضرت نوح (علیہ السلام) سے لے کر عیسیٰ (علیہ السلام) تک تمام انبیاء (علیہ السلام) کے مخالفین کو مختلف قسم کے عذاب اور ذلت ور سوائی سے دو چار ہونا پڑا۔ اے نبی ! آپ کو عزم و حوصلہ سے کام لینا چاہیے اور یاد رکھیے حالات کوئی بھی صورت اختیار کرلیں اللہ تعالیٰ کے احکام و ارشادات اپنی جگہ پر اٹل اور قائم رہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے کلمات یعنی ارشادات تبدیل نہ ہونے کا ایک مفہوم یہ بھی ہے کہ جس طرح پہلے انبیائے کرام (علیہ السلام) سے اللہ کا وعدہ پورا ہوا اسی طرح سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ نصرت و ہدایت کا وعدہ پورا ہوگا۔ جس کے نتیجے میں آپ کامیاب اور آپ کے دشمن ناکام اور نامراد ہوں گے۔ (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ شَقِیقٍ (رض) قَالَ قُلْتُ لِعَاءِشَۃَ (رض) ہَلْ کَان النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یُصَلِّی وَہُوَ قَاعِدٌ قَالَتْ نَعَمْ بَعْدَ مَا حَطَمَہُ النّاسُ)[ رواہ مسلم : کتاب صلاۃ المسافر ین، باب جواز النافلۃ قائما وقاعدا] ” حضرت عبداللہ بن شقیق بیان کرتے ہیں میں نے حضرت عائشہ (رض) سے پو چھا کیا نبی محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بیٹھ کر بھی نماز پڑھا کرتے تھے ؟ ام المومنین (رض) نے فرمایا ہاں لوگوں کے بوڑھا کردینے کے بعد۔“ مسائل ١۔ داعی حق کو مخالفین سے دل آزردہ نہیں ہونا چاہیے۔ ٢۔ کفار اللہ تعالیٰ کے پیغام کو جھٹلاتے ہیں۔ ٣۔ تمام انبیاء و رسل کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ ٤۔ دین حق میں کوئی رد و بدل نہیں ہوسکتا۔ تفسیر بالقرآن نبی کو جھٹلانے والے لوگ : ١۔ اگر انھوں نے آپ کو جھٹلا دیا ہے تو آپ سے پہلے بھی کئی رسول جھٹلائے گئے۔ (آل عمران : ١٨٤) ٢۔ آپ کو اگر انھوں نے جھٹلادیا ہے آپ فرما دیں میرے لیے میرے عمل اور تمھارے لیے تمھارے عمل ہیں۔ (یونس : ٤١) ٣۔ اگر انھوں نے آپ کو جھٹلا دیا ہے تو آپ فرما دیں تمھارا رب وسیع رحمت والا ہے۔ (الانعام : ١٤٧) ٤۔ اگر انھوں نے آپ کو جھٹلا دیا ہے تو جھٹلائے گئے ان سے پہلے حضرت نوح اور دوسرے انبیاء۔ (الحج : ٤٢) ٥۔ اگر انھوں نے آپ کو جھٹلایا ہے۔ ان سے پہلے لوگوں نے بھی رسولوں کو جھٹلایا تھا۔ (الفاطر : ٢٥) الانعام
34 الانعام
35 فہم القرآن ربط کلام : نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دینے کے ساتھ ایک حقیقت بتلائی گی ہے کہ تمام کے تمام انسان سچائی پر اکٹھے نہیں ہوا کرتے۔ لوگوں کی ہدایت کے بارے میں رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے جذبات کا جواب جس میں ایک طرح کی آپ کو تسلی دینے کے ساتھ تنبیہ فرمائی گئی ہے۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صبح وشام اس تڑپ اور کوشش میں تھے کہ کسی طرح یہ لوگ ہدایت سے ہم کنار ہوجائیں۔ اس کے لیے بحیثیت ایک انسان اور داعی کے یہ خیالات پیدا ہوتے تھے کہ کاش اللہ تعالیٰ کفار کے مطالبات کو من و عن پورا فرما دے تاکہ کوئی شخص بھی ہدایت سے محروم نہ رہے۔ بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ اہل مکہ نے آپ سے مطالبہ کیا تھا کہ آپ زمین میں سرنگ لگا کر ہمارے لیے اس کے مدفون خزانے لائیں جیسا کہ انھوں نے نہروں اور باغات کا مطالبہ بھی کیا تھا اور یہ بھی مطالبہ کیا کہ آپ ہمارے سامنے آسمان پر چڑھیں اور ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے کوئی ایسا معجزہ لائیں جس کا انکار کرنا ہمارے لیے ناممکن ہو۔ اس ضمن میں وہ یہاں تک مطالبہ کرتے تھے کہ ایسی کتاب لائی جائے جسے ہم اپنے ہاتھوں کے ساتھ اچھی طرح ٹٹول کر یقین کرلیں کہ واقعی یہ آسمانوں سے لائی ہوئی کتاب ہے۔ (وَلَوْ نَزَّلْنَا عَلَیْکَ کِتَابًا فِیْ قِرْطَاسٍ فَلَمَسُوْہُ بِأَیْدِیْہِمْ لَقَالَ الَّذِینَ کَفَرُوْٓ اْ إِنْ ہٰذَٓا إِلاَّ سِحْرٌ مُّبِیْنٌ)[ الأنعام : ٧] ” اور اگر ہم کاغذ پر لکھی ہوئی کتاب آپ پر نازل کرتے، پھر یہ لوگ اپنے ہاتھوں سے چھو کر دیکھ بھی لیتے تو جن لوگوں نے کفر کیا ہے یہی کہتے کہ یہ صاف جادو ہے۔“ کفار کی ہٹ دھرمی بتلانے کے لیے آپ کو یوں خطاب فرمایا گیا ہے کہ اے رسول ! آپ پر ان لوگوں کا اعراض و انکار اس قدر گراں گزرتا ہے اگر آپ کے پاس طاقت ہے تو آپ زمین میں اتر جائیں یا آسمان پر چڑھ جائیں اور ان کے سامنے ان کے حسب منشاء معجزات لے آئیں تو پھر بھی یہ لوگ ایمان نہیں لائیں گے۔ اگر اس طرح لوگوں کو منوانا مقصود ہوتا تو اللہ تعالیٰ ضرور سب کو ہدایت پر جمع کردیتا لیکن یہ اللہ تعالیٰ کی حکمت اور اس کے طریقہ کے خلاف ہے۔ لہٰذا سب کو ہدایت پر جمع کرنے کی خواہش رکھنا جاہلوں کا شیوہ ہے۔ جس کی آپ سے توقع نہیں ہو سکتی، لہٰذا آپ کی سوچ کا انداز ایسا نہیں ہونا چاہیے یہاں مضمر الفاظ میں آپ کو تسلی دی گئی ہے کہ آپ کا کام حق بات لوگوں تک پہنچانا ہے منوانا نہیں۔ آپ جس قدر بھی کوشش کرلیں یہ ایمان لانے والے نہیں ہیں۔ یہ سنتے ضرور ہیں لیکن ان کے دل مردہ ہونے کی وجہ سے مردوں جیسے ہوچکے ہیں۔ جس طرح مردے قیامت کو اٹھائے جائیں گے اس سے پہلے مردوں کا اٹھنا اور ان کا سننا مشکل ہے۔ اسی طرح کفار کا حق بات سننا اور اس کو قبول کرنا مشکل ہے۔ البتہ جو آدمی حق بات کو دل کے کانوں سے سنتا ہے وہ ضرور اس کو قبول کرتا ہے۔ مسائل ١۔ منکرین حق کی باتوں سے پریشان نہیں ہونا چاہیے ٢۔ صاحب بصیرت لوگ ہی دعوت حق قبول کرتے ہیں۔ ٣۔ ہٹ دھرم لوگ بڑی سے بڑی نشانی دیکھ کر بھی ایمان نہیں لاتے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ قیامت کے دن لوگوں کو اٹھائے گا : ١۔ آپ فرما دیں کہ تم ضرور اٹھائے جاؤ گے۔ (التغابن : ٧) ٢۔ اللہ تعالیٰ لوگوں کو اٹھائے گا تاکہ ان کے درمیان فیصلہ صادر فرمائے۔ (الانعام : ٦٠) ٣۔ تمام مردوں کو اللہ اٹھائے گا پھر اسی کی طرف لوٹائے جائیں گے۔ (الانعام : ٣٦) ٤۔ قیامت کے دن اللہ سب کو اٹھائے گا پھر ان کے اعمال کی انھیں خبر دے گا۔ (المجادلۃ: ٦ تا ١٨) ٥۔ موت کے بعد تمھیں ضرور اٹھایا جائے گا۔ (ھود : ٧) الانعام
36 الانعام
37 فہم القرآن ربط کلام : حق کا انکار کرنے کے باوجود کفارکا بار بار نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے معجزات کا مطالبہ کرنا۔ منکرین حق گاہے، گاہے رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے معجزات کا مطالبہ کرتے رہتے تھے لیکن جونہی ان کے پاس کوئی معجزہ آتا تو نہ صرف اس کا انکار کرتے بلکہ الٹا آپ کو جادو گر ہونے کا الزام دیتے۔ قرآن مجید کا مطالعہ کیا جائے تو درجنوں ایسی آیات ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ کفار نے نہ صرف آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عجیب و غریب معجزات کا مطالبہ کیا بلکہ ایک موقع پر انھوں نے بیت اللہ کا غلاف پکڑ کر یہاں تک اپنے لیے مطالبہ کیا : (وَإِذْ قَالُواْ اللّٰہُمَّ إِن کَانَ ہٰذَا ہُوَ الْحَقَّ مِنْ عندِکَ فَأَمْطِرْ عَلَیْنَا حِجَارَۃً مِّنَ السَّمَاء أَوِ اءْتِنَا بِعَذَابٍ أَلِیمٍ)[ الأنفال : ٣٢] ” جب انھوں (کافروں) نے کہا : اے اللہ ! اگر یہ قرآن واقعی تیری طرف سے ہے اور یہ نبی سچا ہے تو ہم پر آسمان سے پتھر برسا یا پھر ہمیں اذیت ناک عذاب میں مبتلا کر دے۔“ جس قوم کی ہٹ دھرمی اور گمراہی کا یہ عالم ہوا سے کیونکر ہدایت نصیب ہو سکتی ہے۔ لہٰذا اس موقع پر فقط یہی جواب دیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ تمھارے مطالبات سے بڑھ کر آیات و معجزات نازل کرنے پر قادر ہے لیکن اس کے باوجود تمھاری اکثریت اس حقیقت کو ماننے اور جاننے کو تیار نہیں ہے۔ مسائل ١۔ گمراہی پر مصر قوم ہدایت نہیں پا سکتی۔ ٢۔ معجزات اتمام حجت کے لیے ہوا کرتے ہیں۔ ٣۔ اکثر لوگ حقیقت کو نہیں سمجھتے۔ الانعام
38 فہم القرآن ربط کلام : کفار نشانی کا مطالبہ کرتے تھے اس کے جواب میں ان کی توجہ پر ندوں کی طرف مبذول کی گئی ہے تاکہ وہ ان کی ساخت، پرورش اور پرواز کے نظام پر غور کریں۔ منکرین حق کا مطالبہ تھا کہ ہمارے پاس اللہ تعالیٰ کی مزید نشانیاں آنی چاہییں جس کے جواب میں یہ فرمایا گیا کہ اللہ تعالیٰ مزید نشانیاں نازل کرنے پر قادر ہے۔ تاہم اگر انسان غور کرے تو اس کی چشم کشائی کے لیے اس کے گرد و پیش اتنے نشانات عبرت ہیں کہ جن کو دیکھ کریہ مالک حقیقی کو پہچان سکتا ہے۔ اس کے لیے انسان کو دور دراز سفر کرنے کی ضرورت نہیں اگر وہ اپنے سامنے زمین پر چلنے والے جانور اور فضا میں اڑنے والے پرندوں پر غور کرے تو اسے معلوم ہوجائے گا کہ یہ اللہ تعالیٰ کے نظام قدرت کی حدود وقیود کے اس طرح پابند ہیں کہ کوئی اس سے سرمو انحراف نہیں کرسکتا۔ یہ درند اور پرند نہ صرف اللہ تعالیٰ کے حکم کے تابع ہیں بلکہ اس کی حمدو ثنا کے گیت گاتے ہیں۔ سورۃ بنی اسرائیل آیت ٤٤ میں بیان کیا گیا ہے کہ ساتوں آسمان اور زمین اور جو کچھ ان میں ہے وہ تمام کے تمام اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء بیان کرتے ہیں لیکن انسان ان کی تسبیحات کو نہیں سمجھ سکتے۔ سورۃ النحل آیت ٧٩ میں اس بات کی طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ دیکھو اور غور کرو کہ اللہ کے سوا کون ہے جو پرندوں کو فضا میں تھامے ہوئے ہے اس میں لا تعداد نشانیاں ہیں مگر ان لوگوں کے لیے جو تسلیم کرنے کی دولت سے بہرہ مند ہیں۔ اسی بات کو سورۃ الملک آیت ١٩ میں یوں بیان کیا کہ کیا یہ لوگ پرندوں کی طرف غور نہیں کرتے کہ وہ ان کے سروں کے اوپر فضا میں پرواز کرتے ہوئے اپنے پروں کو کھولتے اور سمیٹ لیتے ہیں۔ رحیم و کریم رب کے سوا پرندوں کو کون سنبھالے ہوئے ہے۔ یہاں پرندوں کو آدمیوں کی مثل امت قرار دیتے ہوئے یہ وضاحت کردی گئی ہے کہ سب کا ریکارڈ ہمارے پاس موجود ہے اور ہر کسی نے اپنے رب کی بارگاہ میں اکٹھا ہونا ہے۔ امام رازی (رض) اس کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں : ١۔ حیوان اور پرندے کو بھی اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل ہے اور وہ اس کی حمدو تسبیح میں مصروف رہتے ہیں۔ ٢۔ جس طرح انسانوں میں تو لدوتناسل کا سلسلہ جاری ہے اسی طرح پرندے بھی آپس میں محبت اور مباشرت کا عمل اختیار کرتے ہیں۔ ٣۔ جس طرح انسانوں کو ایک خاص مقصد اور تدبیر کے ساتھ پیدا کیا گیا ہے اسی طرح حیوانوں اور پرندوں کو بھی خاص مقصد اور تدبیر کے ساتھ پیدا کیا گیا ہے۔ ٤۔ جس طرح اللہ تعالیٰ انسان کی حفاظت اور اس کے رزق کا ذمہ دار ہے یہی معاملہ پرندوں اور درندوں کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ ٥۔ جس طرح قیامت کے دن انسانوں کو اکٹھا کرکے ان سے ایک دوسرے کا قصاص لیا جائے گا اسی طرح درندوں، پرندوں اور جانوروں کو جمع کرکے ان سے ایک دوسرے کا بدلہ چکا یا جائے گا۔ ٦۔ جس طرح اللہ تعالیٰ نے انسان کے لیے موت و حیات اور دیگر معاملات مقرر فرمائے ہیں اسی طرح حیوانوں اور پرندوں کے لیے ضابطے مقرر کیے ہیں۔ ٧۔ جس طرح انسان اپنی روزی کا محتاج ہے اور اس کے لیے تگ و دو کرتا ہے اسی طرح دیگر جاندار اپنی خوراک کے محتاج ہیں اور اس کے لیے محنت کرتے ہیں۔ ٨۔ انسانوں، حیوانوں اور پرندوں کے درمیان عادات اور خصائل کے لحاظ سے بھی کچھ قدریں مشترک ہیں شیر کی طرح بہادر، مور کی طرح خوبصورت خنزیر کی طرح بے حمیت، کوے کی طرح حریص اور لومڑی کی طرح بعض انسان چالاک اور عیار ہوتے ہیں۔ مسائل ١۔ ہر ذی روح چیز سے حساب و کتاب ہوگا۔ ٢۔ تمام مخلوقات کو قیامت کے روز اکٹھا کیا جائے گا۔ تفسیر بالقرآن قیامت کے دن لوگوں کا اللہ کے حضور اکٹھا ہونا یقینی ہے : ١۔ یقیناً قیامت کے دن اللہ تمھیں جمع کرے گا جس میں کوئی شک نہیں۔ (الانعام : ١٢) ٢۔ آپ فرما دیں تمھارے پہلے اور آخر والے سب کو ضرور اکٹھا کیا جائے گا۔ (الواقعۃ: ٤٧ تا ٥٠) ٣۔ پھر ہم تمھیں تمھاری موت کے بعد اٹھائیں گے۔ (البقرۃ: ٥٦) ٤۔ جس دن تم سب کو جمع ہونے والے دن اللہ جمع کرے گا۔ (التغابن : ٩) ٥۔ جس دن اللہ رسولوں کو جمع کرے گا۔ (المائدۃ: ١٠٩) ٦۔ یہ فیصلہ کا دن ہے ہم نے تمھیں بھی جمع کردیا ہے اور پہلوں کو بھی۔ (المرسلات : ٣٨) الانعام
39 فہم القرآن ربط کلام : حقیقت کا بار بار انکار کرنے کی وجہ سے منکرین کی حالت کا بیان۔ قیامت کو جھٹلانے اور اللہ تعالیٰ کی آیات کی تکذیب کرنے والے بہرے، گونگے ہونے، اور اندھیروں میں ٹامک ٹویاں مارنے کی وجہ سے درندوں اور پرندوں سے بھی کم تر ہیں۔ حقائق کا انکار اور اللہ تعالیٰ کی نشانیوں کی تکذیب کرنے کی وجہ سے انسان بالآخر چلتی پھرتی لاش کے سوا کچھ نہیں رہتا۔ جس طرح مردہ سن سکتا ہے اور نہ بول سکتا ہے اور نہ ہی اسے سردی گرمی، روشنی اور اندھیرے کا احساس ہوتا ہے بالکل یہی حالت ان لوگوں کی ہوجاتی ہے جو حق سننے اور سچ بیان کرنے کی صلاحیت سے محروم ہوجاتے ہیں۔ ان لوگوں کی بری خصلت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ ان پر گمراہی مسلط کردیتا ہے۔ جس طرح صحت، تندرستی اور دیگر امور پر اللہ تعالیٰ کو ہر قسم کا اختیار حاصل ہے اسی طرح ہی ہدایت کا معاملہ ہے اللہ تعالیٰ جسے چاہے صراط مستقیم پر گامزن کرتا ہے اور جسے چاہے اس کی بد اعمالیوں کی وجہ سے اسے گمراہی میں بھٹکنے کے لیے چھوڑ دیتا ہے۔ فہم القرآن کی جلد اول، صفحہ۔ ٧٠ سورۃ البقرہ آیت۔ ٢٦ میں وضاحت کی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی طرف سے کسی کو گمراہ نہیں کرتا جب تک کوئی شخص اپنے لیے گمراہی پسند نہ کرے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کی ہدایت کے لیے اسے عقل و شعور کی نعمت سے ہمکنار کرتے ہوئے آسمانی کتب کے ذریعے اس کی رہنمائی کا اہتمام کیا ہے لہٰذا انسان کی گمراہی کو اپنی طرف منسوب کرنے کا مفہوم فقط اتنا ہے کہ اللہ تعالیٰ جبراً کسی پر ہدایت مسلط نہیں کرتا جب تک انسان اس کی چاہت اور کوشش نہ کرے۔ دوسرا مفہوم یہ ہے کہ جس طرح ہر چیز اللہ تعالیٰ کے قبضۂ قدرت میں ہے اس طرح ہدایت اور گمراہی بھی اس کے اختیار میں ہے۔ اس لیے انسان کو ہدایت کی دعا اور گمراہی سے بچنے کی توفیق مانگنا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن صراط مستقیم : ١۔ صراط مستقیم کی بنیاد۔ (آل عمرآن : ١٠١) ٢۔ اللہ تعالیٰ کو ایک ماننا صراط مستقیم ہے۔ (آل عمرآن : ٥١) الانعام
40 فہم القرآن ربط کلام : گزشتہ سے پیوستہ : صحیح العقیدہ شخص عسر، یسر، بیماری، تندرستی، مشکل اور خوشحالی یعنی ہر حال میں اللہ تعالیٰ سے مشکل کشائی کی تمنا اور آرزو کرتا ہے اس کے مقابلے میں باطل عقیدہ کا حامل انسان آسانی کے وقت اللہ کے سوا دوسروں سے رجوع کرتا ہے اور جب مسائل کے گرداب میں پھنس جائے تو ہر طرف سے مایوس ہو کر اللہ تعالیٰ کو صدائیں دیتا ہے اس کی اسی عادت کے پیش نظر نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرمایا گیا ہے کہ آپ ان سے استفسار فرمائیں کہ اگر تم پر اللہ تعالیٰ کا عذاب ٹوٹے یا تم پر ناگہانی کوئی مصیبت اور قیامت آن پڑے اگر تم واقعی اپنے عقیدے میں سچے ہو تو کیا پھر بھی تم اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کو پکارو گے ؟ ایسا کبھی نہیں ہوگا بلکہ صرف اور صرف تم اللہ تعالیٰ کو پکارتے ہو اور پکارو گے وہی تمھاری مشکل دور اور تکلیف رفع کرتا ہے مشکل کے وقت جن کو مشکل کشا اور حاجت روا سمجھتے ہو تم یکسر انھیں بھول جاتے اور چھوڑ دیتے ہو۔ اس سے ثابت ہوتا ہے اللہ تعالیٰ کے سوا دوسروں کو پکارنے والا اپنے عقیدہ میں سچا اور مخلص نہیں ہوتا کیونکہ توحید کے بغیر آدمی کو اخلاص اور کسی بات پر قرار نصیب نہیں ہوتا۔ مشرک کی عادت ہے اور تاریخ اس بات پر گواہ ہے کہ جب بھی باطل عقیدہ لوگوں کو کوئی آفت آئے تو وہ اللہ تعالیٰ کو ہی پکارا کرتے ہیں۔ کیونکہ مصیبت کے وقت انسان کے دل و دماغ سے جہالت اور غفلت کے پردے اٹھ جاتے ہیں اور اس کی سوئی ہوئی فطرت سلیم بیدار ہوجاتی ہے جس کی بنا پر وہ صرف اللہ تعالیٰ کو ہی مشکل کشا اور حاجت روا سمجھتا ہے۔ کیونکہ توحید فطرت کی آواز ہے جسے اللہ تعالیٰ نے انسان کی جبلت میں سمو دیا ہے۔ علامہ ابن کثیرنے لکھا ہے کہ جب مکہ فتح ہوا تو ابو جہل کا بیٹا عکرمہ (رض) اپنی جان بچانے کی خاطر جدہ کی بندرگاہ پہنچا۔ جب بیڑے پر سوار ہوا تو سفر کے دوران بیڑہ سمندر کے بھنور میں جاپھنسا۔ طوفان اس قدر شدید تھا کہ بادبان نے بیڑے پر سوار لوگوں کو تلقین کی کہ ایسے حالات میں کسی اور کو پکارنے کی بجائے صرف ایک اللہ کو صدا دینے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوتا اس لیے ہم سب کو ایک اللہ ہی سے اس گرداب سے نجات کی دعا کرنی چاہیے۔ جناب عکرمہ (رض) کا فرمان ہے کہ میں نے اسی وقت اپنے دل میں فیصلہ کرلیا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے اس مصیبت سے نجات دی تو میں واپس جا کر محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہاتھ پر بیعت کرلوں گا کیونکہ مجھے یقین ہوگیا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی نجات دینے والا نہیں ہے۔ چناچہ اس واقعہ کے بعد حضرت عکرمہ بن ابو جہل (رض) مکہ واپس آکر حلقۂ اسلام میں داخل ہوئے اور آخر دم تک نبی محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے جانثار رہے۔ مسائل ١۔ مشرک مصیبت کے وقت اللہ تعالیٰ ہی کو پکارتے ہیں۔ ٢۔ مشکل وقت میں مشرک معبودان باطل کو بھول جاتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن اگر مدد کرسکتے ہیں تو اپنے معبودوں کو آواز دو : ١۔ بلاؤ اپنے معبودوں کو اگر تم سچے ہو۔ (البقرۃ: ٢٣) ٢۔ ان کو ٹھہراؤ ان سے کچھ پوچھنا ہے۔ تمھیں کیا ہوگیا اب ایک دوسرے کی مدد نہیں کرتے۔ (الصافات : ٢٤ تا ٢٥) ٣۔ اللہ کے علاوہ جن معبودوں کا تمھیں زعم ہے انھیں بلاؤ وہ بھی مصیبت دور نہیں کرسکتے۔ (بنی اسرائیل : ٥٦) ٤۔ بلاؤ تم ان کو وہ تمھیں جواب نہیں دیں گے۔ (الاعراف : ١٩٤) ٥۔ اس دن ان سے کہا جائے گا بلاؤ اپنے معبودان باطل کو، وہ بلائیں گے تو انھیں جواب نہیں ملے گا۔ (القصص : ٦٤) الانعام
41 الانعام
42 فہم القرآن ربط کلام : حقیقت کا انکار کرنے والوں کا دنیا میں انجام جب ان پر ہلکا اور بھاری عذاب آیا تو ان کی قلبی کیفیت اور رد عمل جیسا کہ آیت ٣٧ میں کفار کے مطالبہ کا ذکر ہوا۔ جس میں انھوں نے نبی رحمت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کسی معجزہ یا نشانی کا مطالبہ کیا اس کے جواب میں فرمایا گیا کہ اگر اللہ تعالیٰ کا عذاب یا جس قیامت کی آمد کا تم مطالبہ کرتے ہو وہ یکایک تم پر نازل ہوجائے تو کیا پھر بھی تم اللہ تعالیٰ کے سوا اپنے معبود ان باطل سے مدد طلب کرو گے ؟ ہرگز نہیں تمھاری حالت یہ ہوگی کہ تم سب کچھ بھول کر صرف ایک رب کو پکارو گے۔ جہاں تک اللہ تعالیٰ کی نشانی یا اس کے عذاب کا معاملہ ہے تو جان رکھو اس کے عذاب کی مختلف صورتیں ہوا کرتی ہیں۔ جن میں ابتدائی شکل یہ ہوتی ہے اللہ تعالیٰ غربت و افلاس، تنگی اور حالات کی ترشی کے ذریعے لوگوں کو جھنجھوڑتا ہے تاکہ لوگ اپنی روش پر نظر ثانی کریں۔ اس ہلکی پھلکی گرفت میں اس کی رحمت پنہاں ہوتی ہے کہ جو میرے بندے مجھ سے دور اور میری رحمت سے محروم ہوچکے ہیں انھیں معمولی جھٹکے کے ذریعے احساس دلایا جائے کہ تمھیں ادھر ادھر کے سہارے تلاش کرنے اور دوسروں کو خوش کرنے کی بجائے صرف اپنے رب کا سہارا اور اسی کو خوش کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ لیکن مسلسل گناہوں کی وجہ سے جب لوگوں کے دل سخت ہوجائیں اور وہ ہلکے پھلکے عذاب سے سبق حاصل کرنے کی بجائے گناہوں اور جرائم کے اس قدر دلدادہ ہوجائیں کہ برائی اور بے حیائی ان کی زندگی کا معمول اور فیشن بن جائے تو ان کو شیطانی کام خوبصورت دکھائی دیتے ہیں گویا کہ شیطان پوری طرح ان پر حاوی اور غالب ہوچکا ہوتا ہے۔ جب یہ لوگ اللہ تعالیٰ کی ہدایات اور نصائح کو مسلسل نظر انداز کردینے کا وطیرہ اختیار کرتے ہیں تو پھر ان پر دنیا کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں تاکہ گناہ کرنے میں ان کی کوئی حسرت باقی نہ رہے۔ جب یہ اپنی طرز زندگی پر پوری طرح شاداں و فرحاں اور مطمئن ہوجاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کا عذاب اچانک انھیں آلیتا ہے۔ پھر ایسی قوم کو صفحۂ ہستی سے ناپید کردیا جاتا ہے۔ جس سے نہ صرف ان کے نشانات اور اثرات ختم ہوجاتے ہیں بلکہ مدت دراز تک لوگ ان پر حسرت و افسوس کا اظہار کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہیں کہ مجرموں سے اللہ کی زمین پاک ہوئی، مظلوموں اور مجبوروں کو سکھ کا سانس لینا نصیب ہوا۔ قرآن مجید کے مطالعہ سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ اکثر قومیں جن پر عذاب نازل ہوئے وہ غریب ہونے کے بجائے دولت مند اور ترقی یافتہ ہوا کرتی تھیں۔ ( عَنْ أَبِی قَتَادَۃَ بْنِ رِبْعِیٍّ الْأَنْصَارِیِّ أَنَّہُ کَانَ یُحَدِّثُ أَنَّ رَسُول اللّٰہِ صَلّٰی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مُرَّ عَلَیْہِ بِجِنَازَۃٍ فَقَالَ مُسْتَرِیحٌ وَمُسْتَرَاحٌ مِنْہُ قَالُوا یَا رَسُول اللّٰہِ مَا الْمُسْتَرِیحُ وَالْمُسْتَرَاحُ مِنْہُ قَالَ الْعَبْدُ الْمُؤْمِنُ یَسْتَرِیحُ مِنْ نَصَبِ الدُّنْیَا وَأَذَاہَا إِلَی رَحْمَۃِ اللّٰہِ وَالْعَبْدُ الْفَاجِرُ یَسْتَرِیحُ مِنْہُ الْعِبَادُ وَالْبِلَادُ وَالشَّجَرُ وَالدَّوَابُّ)[ رواہ البخاری : کتاب الرقاق، باب سکرات الموت] ” حضرت ابو قتادہ بن ربعی الانصاری (رض) بیان کیا کرتے تھے رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس سے جنازہ گزرا نبی محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا یہ راحت پا گیا اور اس سے سکون پاگئے صحابہ کرام (رض) نے استفسار کیا اے اللہ کے رسول کون سکون پا گیا اور کس نے اس سے سکون پایا فرمایا؟ آپ نے فرمایا بندہ مومن جب فوت ہوتا ہے تو دنیا کے مصائب اور اذیتوں سے اللہ کی رحمت کی طرف راحت میں چلا جاتا ہے جبکہ ایک فاجر آدمی کی موت سے لوگ، علاقہ، درخت اور جانور سکون محسوس کرتے ہیں۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ تنگدستی و تکلیف کے ذریعے لوگوں کو احساس دلاتے ہیں ٢۔ مصیبت میں لوگوں کو اللہ تعالیٰ سے خصوصی دعائیں کرنی چاہییں۔ ٣۔ دلوں کے سخت ہونے سے پناہ مانگنی چاہیے۔ ٤۔ دنیا کی خوشحالی حق وصداقت کا معیار نہیں ہے۔ ٥۔ ظالم لوگ اللہ تعالیٰ کے عذاب سے دو چار ہوتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن نافرمان لوگوں کے دل سخت ہوجاتے ہیں : ١۔ یہودیوں کے دل پتھروں کی طرح سخت ہوگئے۔ (البقرۃ: ٧٤) ٢۔ ان کے دل سخت ہوگئے اور شیطان نے ان کے لیے ان کے اعمال خوبصورت بنا دیے۔ (الانعام : ٤٣) ٣۔ ان کے دل سخت اور عمر لمبی ہوگئی۔ (الحدید : ١٦) ٤۔ ان کے دلوں میں بیماری اور سختی ہے۔ (الحج : ٥٣) ٥۔ سخت دل والوں کے لیے جہنم ہے۔ (الزمر : ٢٢) الانعام
43 الانعام
44 الانعام
45 الانعام
46 فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ کے عذاب کی یہ بھی ایک شکل ہے کہ وہ سننے، دیکھنے اور سمجھنے کی صلاحیتیں سلب کرلیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی گرفت اور عذاب کی مختلف شکلیں ہیں جلد یا بدیر دنیا میں کسی نہ کسی عذاب میں مجرم کو مبتلا کرتا ہے یا پھر اس کی سماعت یا بصیرت و بصارت اور تفہیم کی صلاحیتوں کو مسلوب کردیتا ہے جس سے مجرم کو یہ غلط فہمی ہوجاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھ پر ناراض ہونے کے بجائے خوش ہے جس کی بنا پر مجھے دنیا کی فراوانی اور ہر قسم کی آزادی سے نواز رکھا ہے حالانکہ اس کا اصول یہ ہے کہ جسے جرائم میں مزید بڑھانا مقصود ہوتا ہے اس کی حیات مستعار کی رسی دراز کردیتا ہے تاکہ یہ گناہ اور جرائم کرتا رہے اور آخرت میں اسے ٹھیک ٹھیک سزا دی جائے۔ یہاں اعضاء اور جوارح کے بارے میں یہ احساس دلایا ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ تمھاری صلاحیتیں سلب کرلے تو بتلاؤ کہ اس کے سوا کون ان کی قوت کار کو بحال کرسکتا ہے یاد رہے کہ جب اللہ تعالیٰ جسمانی اعضاء میں سے کسی ایک کو مکمل طور پر مفلوج کردیتا ہے تو دنیا کا کوئی ڈاکٹر اور سرجن اسے بحال نہیں کرسکتا۔ مثال کے طور پر اگر کسی شخص کی انگلی کٹ جائے تو دوبارہ انگلی کا وجود میں آنا ناممکن ہے اسی طرح اگر آنکھ اور کان اپنے مکمل نظام کے ساتھ ناکارہ ہوجائیں تو انھیں دوبارہ کا رآمد بنانا کسی سرجن کے بس کا روگ نہیں۔ اس لیے لفظ ” اُنْظُرْ“ کہہ کر توجہ دلائی گئی ہے کہ دیکھو اور غور کرو کہ اللہ تعالیٰ حقائق اور اپنی آیات کو کسی طرح مختلف زاویوں کے ساتھ بیان کرتا ہے لیکن اس کے باوجود لوگ بات سمجھنے اور ہدایت پانے کے لیے تیار نہیں ہوتے یہاں تیسری بار غور و فکر کی دعوت دی گئی ہے کہ جس عذاب کا تم مطالبہ کرتے ہو وہ اللہ کے لیے مشکل نہیں۔ (اللّٰہُمَّ اجْعَلْ فِی قَلْبِی نُورًا وَفِی بَصَرِی نُورًا وَفِی سَمْعِی نُورًا وَعَنْ یَمِینِی نُورًا وَعَنْ یَسَارِی نُورًا وَفَوْقِی نُورًا وَتَحْتِی نُورًا وَأَمَامِی نُورًا وَخَلْفِی نُورًا وَاجْعَلْ لِیّ نُورًا) [ رواہ البخاری، کتاب الدعوات، باب الدعا اذا انتبدہ بالیل] ” اے اللہ میرے دل میں نور پیدا فرمادے میری نگاہ میں بھی نور، میرے کا نوں میں بھی نور، میرے دائیں بھی نور، میرے بائیں بھی نور، میرے اوپر بھی نور، میرے نیچے بھی نور، میرے آگے بھی نور، میرے پیچھے بھی نور، اور میرے لیے نور پیدا فرما۔“ (عَنْ عَاءِشَۃَ (رض) قَالَتْ کَانَ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَقُول اللّٰہُمَّ عَافِنِی فِی جَسَدِی وَعَافِنِی فِی بَصَرِی وَاجْعَلْہُ الْوَارِثَ مِنِّی لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ الْحَلِیمُ الْکَرِیمُ سُبْحَان اللّٰہِ رَبِّ الْعَرْشِ الْعَظِیمِ وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِینَ) [ رواہ الترمذی : کتاب الدعوات عن رسول اللہ، باب ماجاء فی جامع الدعوات عن النبی ] ” حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرمایا کرتے تھے اے اللہ ! میرے جسم کو عافیت دے اور میری بصارت کو بھی عافیت دے اور میری طرف سے اس کو وارث بنا دے۔ اللہ کے علاوہ کوئی الٰہ نہیں جو کہ بردبار اور عزت والا ہے، اللہ تعالیٰ پاک ہے اور بہت بڑے عرش کا رب ہے اور تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جو کہ تمام جہانوں کا رب ہے۔“ مسائل ١۔ اگر اللہ تعالیٰ کسی کو اپنی کسی نعمت سے محروم کردے تو دنیا کی کوئی طاقت اسے واپس نہیں لا سکتی۔ ٢۔ اگر اللہ تعالیٰ کسی کو نواز نا چاہے تو کوئی اس کی نوازش کو روک نہیں سکتا۔ تفسیر بالقرآن آنکھ، کان اور دل اللہ کے قبضہ میں ہیں : ١۔ اللہ نے تمھاری سماعت اور بصارت بنائی ہے۔ (المؤمنون : ٧٨، الملک : ٢٣) ٢۔ کیا اللہ کے سوا کان اور آنکھ کا کوئی اور مالک ہے ؟ (یونس : ٣١) ٣۔ اگر اللہ چاہے تو ان کے کان، آنکھیں چھین لے۔ (البقرۃ: ٢٠) ٤۔ اللہ نے ان پر لعنت کردی اور بینائی سے محروم کردیا۔ (محمد : ٢٣) ٥۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں اور کانوں پر مہر لگا دی اور ان کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا۔ (البقرۃ: ٧) الانعام
47 فہم القرآن ربط کلام : سلب شدہ نعمتوں کو بحال کرنا عذاب کو ٹالنا اور کفار کے مطالبے کو پورا کرنا عام شخص تو درکنار کسی رسول کے بس میں بھی نہیں۔ قرآن مجید نے ہر نبی کے بارے میں یہ حقیقت منکشف فرمائی ہے کہ وہ فرشتہ اور کوئی دوسری جنس ہونے کے بجائے بنی نوع انسان میں سے ہی ہوا کرتے تھے لیکن اس کے باوجود اہل کفر ان سے ایسے مطالبات کرتے جنھیں پورا کرنا یا ان چیزوں پر اختیار رکھنے کا دعویٰ کسی نبی نے نہیں کیا تھا۔ انبیائے عظام (علیہ السلام) تو صرف وہی بات کرتے تھے جس کے کرنے کا اللہ تعالیٰ انھیں حکم دیتا تھا۔ لیکن اس کے باوجود لوگ انھیں پریشان اور لاجواب کرنے کے لیے ایسے مطالبات کرتے تھے جن کا پاکباز ہستیوں نے کبھی دعویٰ نہیں کیا تھا۔ یہی وطیرہ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مخالفوں نے اختیار کر رکھا تھا چنانچہ وہ آپ سے مطالبہ کرتے ہیں کہ آپ اور آپ کے ساتھی غریب اور کنگال ہیں ہمارے لیے نہ سہی کم ازکم تمھیں اپنے لیے تو رزق کی فراوانی کا انتظام کرنا چاہیے۔ اس طرح کبھی وہ قدرت کے پوشیدہ امور یعنی غیب کی خبروں کے بارے میں آپ سے سوال کرتے اور کبھی یہ اعتراض اٹھاتے کہ یہ کیسا رسول ہے جو ہماری طرح انسانی حاجات کا اہتمام کرنے پر مجبور ہے۔ اسے تو ان حاجات اور ضروریات سے مبرا ہونا چاہیے تھا۔ ان مطالبات اور اعتراضات کے جواب میں آپ کو فقط یہی بات کہنے کا حکم دیا گیا کہ آپ فرمائیں کہ میں نے کبھی ان باتوں کا دعویٰ نہیں کیا میرا دعویٰ تو صرف اتنا ہے کہ میں اللہ کا رسول ہوں مجھ پر میرے رب کے پیغامات نازل ہوتے ہیں۔ میں ان کی اتباع اور ابلاغ کرنے کا پابند ٹھہرایا گیا ہوں اس لیے میں ادھر ادھر کی باتیں کرنے کے بجائے صرف اللہ تعالیٰ کی وحی کے مطابق بات کرتا ہوں اس کی پیروی وہ ہی شخص کرے گا جو دیکھنے اور سمجھنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ ایسا شخص ہی دانا اور بینا کہلانے کا حق دار ہے۔ جو اللہ تعالیٰ کی آیات پر غور و فکر نہیں کرتا وہ حقیقتاً اندھا ہے۔ اندھا اور دیکھنے والا کبھی برابر نہیں ہو سکتے۔ بس تمھیں اس حقیقت پر غور و فکر کرنا چاہیے۔ مسائل ١۔ اللہ کا عذاب ظالموں کے لیے خاص ہوتا ہے۔ ٢۔ انبیاء کرام (علیہ السلام) اللہ کے عذاب سے ڈرانے والے اور جنت کی خوشخبری دینے والے تھے۔ ٣۔ فاسقین کو دنیا و آخرت میں رسوا کن عذاب سے دو چار کیا جائے گا۔ ٤۔ تمام رسول اللہ کی وحی کے پابند تھے۔ ٥۔ کافر و مومن کبھی برابر نہیں ہو سکتے۔ تفسیر بالقرآن نبی غیب نہیں جانتے : ١۔ اللہ ہی کے پاس غیب کی چابیاں ہیں اس کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ (الانعام : ٥٩) ٢۔ آپ فرما دیں کہ غیب اللہ ہی کے لیے ہے۔ (یونس : ٢٠) ٣۔ آپ فرما دیں کہ زمین اور آسمانوں کے غیب اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ (النمل : ٦٥) ٤۔ نہ ہی میں غیب جانتا ہوں اور نہ ہی میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں۔ (ھود : ٣١) الانعام
48 الانعام
49 الانعام
50 الانعام
51 فہم القرآن ربط کلام : غور و فکر کی صلاحیتوں کو بیدار کرنے کے لیے قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے حضور حاضری کا تصور پیدا کرنا ضروری ہے جس کی یہاں تلقین کی گئی ہے۔ یہی عقیدہ اور تصور انسان کو صراط مستقیم کی طرف لاتا ہے۔ قرآن مجید انسان کو اللہ تعالیٰ کی آیات، اس کے گرد و پیش کے ماحول، یہاں تک کہ اپنی ساخت وپرداخت پر غور کرنے کی دعوت دیتا ہے۔ غور و فکر کرنا ایسی قوت ہے جس سے انسان کے بند دماغ کی گرہیں کھل جاتی ہیں اور اس کی آنکھوں پر پڑے ہوئے غفلت کے پردے ہٹ جاتے ہیں جو شخص ان صلاحیتوں سے عاری ہوجائے وہ اپنے سامنے کی بڑی سے بڑی حقیقت کو پہچاننے سے قاصر رہتا ہے۔ منکرین حق دنیاوی مسائل کی گرہیں کھولنے اور ترقی کرنے کے دعوے دار ہونے کے باوجود حقیقی اور دائمی حقائق سے غافل ہوتے ہیں۔ اسی وجہ سے وہ مومن کی نسبت محشر کے میدان سے زیادہ لرزاں و ترساں رہتے ہیں اس لیے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم ہوا کہ آپ ایسے لوگوں کو ڈرائیں جو اپنی بد اعمالیوں کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہونے سے ڈرتے ہیں اور جن سہاروں پر یہ بھروسہ کیے ہوئے ہیں وہاں کوئی خیر خواہ ان کی خیر خواہی اور کوئی سفارشی ان کی سفارش نہیں کرسکے گا لہٰذا انھیں اپنے باطل عقیدہ کو چھوڑنا اور برے اعمال سے پرہیز کرنا چاہیے۔ مفسرین کے دوسرے گروہ کا خیال ہے کہ اس آیت میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مخاطب کیا گیا ہے کہ آپ کفار کے مطالبات پر پریشان ہونے اور ان پر مزید صلاحیتیں صرف کرنے کے بجائے ان لوگوں کی تعلیم و تربیت فلاح اور اصلاح کے لیے کوشش کریں اور ڈرائیں جو اللہ تعالیٰ کی بار گاہ میں حاضری کے تصور سے لرزاں و ترساں رہتے ہیں۔ اور ایسے لوگوں کو اپنے آپ سے ہرگز دور نہ کریں جو اپنے پروردگار کو صبح و شام پکارتے اور ہر وقت اس کے فضل و کرم کے طالب رہتے ہیں ان کے حساب کے بارے میں آپ مسؤل نہیں اور آپ کے حساب میں سے ان کے ذمّہ نہیں ہوگا اگر آپ خدا ترس بندوں کو چھوڑ دیں تو آپ کا شمار زیادتی کرنے والوں میں ہوگا۔ تمام مفسرین نے اس آیت کا شان نزول بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اہل مکہ نے ایک دن آپ سے یہ مطالبہ کیا کہ ہم آپ کی محفل میں آنے اور آپ کی بات سمجھنے کے لیے تیار ہیں لیکن شرط یہ ہے کہ بلال، خبیب (رض) اور اس قسم کے غریب لوگ ہماری آمد کے وقت آپ کی محفل میں نہیں ہونے چاہییں بعض روایات سے ثابت ہوتا ہے کہ آپ نے کفار کی ہدایت کی طلب کے جذبے میں آکر ایسا کرنے کا عندیہ دیا تھا اور کچھ لوگوں کا یہ اعتراض بھی تھا کہ آپ کی محفل میں بیٹھنے والے بعض لوگ ایسے ہیں جو اسلام قبول کرنے سے پہلے بڑے بڑے جرائم میں ملوث تھے۔ آپ نے اپنی پاک فطرت کی بنا پر اس چیز کو محسوس کیا جس بنا پر یہ وضاحت نازل ہوئی کہ اے نبی! آپ نے اپنا حساب دینا ہے اور یہ اپنے حساب و کتاب کے بارے میں جواب دہ ہوں گے۔ ماضی کے حوالے سے ان لوگوں کو چھوڑنا ظالموں کا ساتھ دینے کے مترادف ہے اللہ تعالیٰ نے ان کے پر خلوص ایمان کی وجہ سے ان کے گناہوں کو معاف کردیا ہے۔ (عن عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ (رض) قَالَ أَتَیْتُ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَقُلْتُ ابْسُطْ یَمِینَکَ فَلْأُبَایِعْکَ فَبَسَطَ یَمِینَہٗ قَالَ فَقَبَضْتُ یَدِی قَالَ مَا لَکَ یَا عَمْرُو قَالَ قُلْتُ أَرَدْتُّ أَنْ أَشْتَرِطَ قَالَ تَشْتَرِطُ بِمَاذَا قُلْتُ أَنْ یُغْفَرَ لِی قَالَ أَمَا عَلِمْتَ أَنَّ الْإِسْلَامَ یَہْدِمُ مَا کَانَ قَبْلَہُ وَأَنَّ الْہِجْرَۃَ تَہْدِمُ مَا کَانَ قَبْلَہَا وَأَنَّ الْحَجَّ یَہْدِمُ مَا کَانَ قَبْلَہُ وَمَا کَانَ أَحَدٌ أَحَبَّ إِلَیَّ مِنْ رَسُول اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَلَا أَجَلَّ فِی عَیْنِی مِنْہُ وَمَا کُنْتُ أُطِیقُ أَنْ أَمْلَأَ عَیْنَیَّ مِنْہُ إِجْلَالًا لَہُ وَلَوْ سُءِلْتُ أَنْ أَصِفَہُ مَا أَطَقْتُ لِأَنِّی لَمْ أَکُنْ أَمْلَأُ عَیْنَیَّ مِنْہُ وَلَوْ مُتُّ عَلَی تِلْکَ الْحَالِ لَرَجَوْتُ أَنْ أَکُونَ مِنْ أَہْلِ الْجَنَّۃِ ثُمَّ وَلِینَا أَشْیَاءَ مَا أَدْرِی مَا حَالِی فیہَا فَإِذَا أَنَا مُتُّ فَلَا تَصْحَبْنِی نَاءِحَۃٌ وَلَا نَارٌ)[ رواہ مسلم : کتاب التفسیر، باب قول اللہ تعالیٰ وانذر عشیرتک الاقربین] ” حضرت عمرو بن عاص (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنا دایاں ہاتھ آگے کیجئے تاکہ میں آپ کی بیعت کروں جب آپ نے اپنا دایاں ہاتھ آگے فرمایا تو میں نے اپنا ہاتھ پیچھے کرلیا تب آپ پوچھتے ہیں اے عمرو! کیا ہوا ہے؟ میں نے عرض کیا کہ ایک شرط کے ساتھ بیعت کرتا ہوں ارشاد ہوا کہ وہ کونسی شرط ہے؟ میں نے عرض کیا کہ میرے گناہ معاف کردیے جائیں۔ فرمایا عمرو تو نہیں جانتا یقیناً اسلام پہلے گناہوں کو ختم کردیتا ہے؟ اسی طرح ہجرت کرنے سے ہجرت سے پہلے کے بھی گناہ ختم ہوجاتے ہیں اور یقیناً حج سے بھی سابقہ غلطیاں معاف ہوجاتی ہیں۔ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے زیادہ مجھے کوئی محبوب نہ تھا۔ اور نہ ہی میری آنکھ میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے زیادہ کسی کا جلال تھا۔ میں انہیں اس جلال کی وجہ سے آنکھ بھر کے نہیں دیکھ سکا۔ اگر مجھ سے کوئی سوال کرے کہ میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کوئی وصف بیان کروں تو اس کی مجھ میں طاقت نہیں ہے۔ کیونکہ میں نے آپ کو کبھی آنکھ بھر کے دیکھا ہی نہیں۔ اگر میں اس حال میں فوت ہوگیا تو میں امید کرتا ہوں کہ میں اہل جنت میں سے ہوں گا۔ پھر اللہ مجھے جنت میں ولی مقرر کر دے تو میں نہیں جانتا وہاں کس حال میں ہوں گا تو جب میں فوت ہوجاؤں تو میرے ساتھ کوئی نوحہ کرنے والی اور آگ نہ لے کے آنا۔“ حضرت عمر و بن عاص (رض) کے ذاتی احساسات : حضرت عبداللہ بن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ جب کوئی آدمی فوت ہونے لگتا تو عمرو بن عاص (رض) فرمایا کرتے کہ نہ معلوم لوگ نزع کے وقت کیوں نہیں بتلاتے کہ موت کی کیا کیفیت ہوتی ہے۔ جب عمر و بن عاص (رض) پر نزع کا عالم طاری ہوا تو میں نے ان کی بات یاد کرواتے ہوئے گذارش کی کہ آپ فرمایا کرتے تھے کہ جب مجھ پر یہ وقت آئے گا تو میں بتلاؤں گا کہ موت کس طرح آتی ہے۔ اس کے جواب میں عمرو بن عاص (رض) صرف اتنا بتلاسکے کہ بھتیجے بس میں اتنا ہی بیان کرسکتا ہوں کہ مجھے نزع کا عالم یوں محسوس ہونے لگا ہے جیسے کسی نے احد پہاڑ میرے سینے پر رکھ دیا ہو اور پھر زارو قطار رونے لگے۔ اسی موقعہ پر ہی انہوں نے اپنے بیٹے حضرت عبداللہ کو وصیت کی تھی کہ میری قبر پر منکر نکیر کے سوالات تک کھڑے رہنا۔ تاکہ میں تسکین پاؤں حالانکہ وہ جانتے تھے کہ مرنے والے کی کوئی مدد نہیں کرسکتا اور نہ ہی اس کا دنیا والوں کے ساتھ کوئی تعلق ہوتا ہے۔“ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو آزمانے اور ان کی صلاحیتوں کو نکھار نے کے لیے بے شمار آزمائشیں بنائی ہیں۔ ان میں غربت اور امارت، شہرت اور گمنامی، حاکم اور محکوم ہونا بھی آزمائش کا ایک طریقہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کچھ لوگوں کو دولت و ثروت، شہرت و ناموری اقتدار اور اختیار دے کر آزماتا ہے کہ یہ لوگ نعمتوں سے محروم انسانوں کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں اگر نعمتیں پانے کے بعد اللہ تعالیٰ کے شکر گزار بندے اور اس کی مخلوق کے ساتھ عاجزی اور خیر خواہی کا رویہ اختیار کرتے ہیں تو انھیں مزید نعمتیں دیتے ہوئے آخرت میں اجر وثواب سے نوازا جائے گا۔ اگر صاحب حیثیت لوگ خدا کے نافرمان اور اس کی مخلوق کے لیے ظالم ثابت ہوتے ہیں تو انھیں اذیت ناک سزاؤں سے دو چار ہونا پڑے گا۔ اسی طرح ہی نعمتوں سے محروم لوگوں کو آزمایا جاتا ہے کہ وہ دنیاوی نعمتوں سے محروم ہو کر صبر و شکر کا رویہ اختیار کرتے ہیں تو انھیں قیامت کے دن عظیم اجر و ثواب عطا ہوگا۔ اور اگر یہ لوگ سرکشی اور نافرمانی کا رویہ اختیار کرتے ہیں تو انھیں اس کی سزا اور مزید محرومیوں سے واسطہ پڑے گا۔ اہل مکہ غریب صحابہ (رض) پر یہ طعن بھی کرتے تھے کیا یہ لوگ ہیں؟ جن پہ اللہ نے احسان کیا ہے کہ جن کو پیٹ پالنے کے لیے خوراک اور تن ڈھانپنے کے لیے پوشاک بھی میسر نہیں۔ یہاں ایک طرف کفار کو بین السطور سرزنش کی جارہی ہے کہ تم خدا کی نعمتیں پانے کے باوجود سرکش اور باغی ہو لہٰذا اپنا انجام سوچ لو۔ تمہارے مقابلے میں نعمتوں سے محروم لوگ اس کسمپرسی کے عالم میں بھی اپنے رب کے فرمانبردار یا تابع فرمان اور شکر گزار ہیں۔ اس طرح شکر گزار بندوں کو تسلی اور ان کی قدر افزائی کی گئی ہے۔ اگلی آیات میں غریب مومنین کو یہ کہہ کر اعزاز بخشا گیا ہے کہ اے نبی ! جب یہ لوگ آپ کی خدمت میں حاضر ہوں تو آپ ان کو سلام کرنے میں پہل کیا کریں۔ مسائل ١۔ لوگوں کو اللہ کے حضور پیش ہونے کا خو ف دلاتے رہنا چاہیے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی مددگار نہیں ہے۔ ٣۔ خوشحالی اور تنگدستی اللہ کی طرف سے آزمائش ہے۔ ٤۔ انسان کو ہر حال میں اپنے رب کا صابر و شاکر رہنا چاہیے۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ اپنے فرمانبردار لوگوں کو اچھی طرح جانتا ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ کا ہی شکر ادا کرنا چاہے : ١۔ اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کرنا چاہیے۔ (البقرۃ: ١٧٢) ٢۔ اللہ تعالیٰ شکر کرنے والے لوگوں کو اپنی نشانیاں دکھاتا ہے۔ (الاعراف : ٥٨) ٣۔ اللہ تعالیٰ شکر کرنے والے کو زیادہ عطا کرتا ہے۔ (ابراہیم : ٧) ٤۔ اللہ کے تھوڑے بندے ہی شکر گزار ہوتے ہیں۔ (سباء ١٣) ٥۔ شکر کرنے والوں سے اللہ تعالیٰ راضی ہوتا ہے۔ (الزمر : ٧) ٦۔ اللہ تعالیٰ شکر کرنے والوں کو بہتر جزا دیتا ہے۔ (القمر : ٣٥) ٧۔ اللہ تعالیٰ نے اپنا شکر ادا کرنے کا حکم دیا ہے۔ (لقمان : ١٢) الانعام
52 الانعام
53 فہم القرآن ربط کلام : پہلی آیت میں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہدایت فرمائی گئی تھی کہ غریب صحابہ (رض) کو اپنے سے دور نہ کیجیے اب اللہ تعالیٰ کی طرف سے غریب صحابہ (رض) کو قدر افزائی اور فضل و کرم کا پیغام سنایا گیا ہے۔ کفار کی طرف سے غریب صحابہ (رض) کی حوصلہ شکنی اور طعنہ زنی کے بدلے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کی حوصلہ افزائی اور قدر دانی، فضل و کرم کا پیغام اور گناہوں کی بخشش کی خوشخبری سنائی گئی ہے۔ کفار نے غریب صحابہ (رض) کو حقیر سمجھ کر ان کی دنیاوی پسماندگی کا مذاق اڑایا تھا جس کے بدلے میں اللہ تعالیٰ نے صحابہ پر چار کرم فرمائے۔ ١۔ صحابہ کے ایمان اور اخلاص کی قدر افزائی فرمائی۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے سلامتی کا پیغام آیا۔ ٣۔ رب رحیم کی رحمت کے حق دار ٹھہرائے گئے۔ ٤۔ گناہوں کی بخشش کی خوشخبری دی گئی۔ یہاں جہالت کو گناہ کا سبب قرار دیا ہے۔ جہالت کا مفہوم واضح کرتے ہوئے مفسرین نے لکھا ہے جہالت سے مراد یہ نہیں کہ آدمی کو گناہوں کے بارے میں علم نہ ہو بلکہ اس کا معنی یہ ہے کہ آدمی جب گناہ کرتا ہے تو اس وقت وہ عملاً جاہل ہوجا تا ہے۔ اس لیے ہر زبان میں یہ معروف ہے کہ جب کوئی پڑھا لکھا انسان غلطی کا ارتکاب کرے تو لوگ اسے جاہل قرار دیتے ہیں۔ گویا کہ گناہ کا دوسرا نام جہالت ہے۔ یہاں اس لیے بھی جہالت کا لفظ استعمال کیا ہے تاکہ کفارکو اس بات کا احساس ہو کہ دین سے بے بہرہ ہونا پرلے درجے کی جہالت ہے۔ بہر حال جہالت کی کسی شکل میں انسان سے غلطی ہوجائے پھر وہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں تو بہ کرے اور اپنی اصلاح کی طرف متوجہ ہوجائے۔ اللہ تعالیٰ گناہ معاف کرنے والا نہایت ہی مہربان ہے۔ کافر کی توبہ یہ ہے کہ وہ کفر سے تائب ہو کر اپنے گناہوں کی بخشش طلب کرتے ہوئے اصلاح کا رویہ اختیار کرے۔ یقیناً اس کے سابقہ گناہوں کو معاف کردیا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے احکام کو اس لیے کھول کر بیان کرتا ہے تاکہ مجرموں کا راستہ واضح ہوجائے یہاں ہدایت کے بجائے مجرموں کا راستہ واضح کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اس طرح گمراہی کے مقابلے میں ہدایت اور کفر و نفاق کے مقابلے میں دین کا راستہ خود بخود نمایاں ہوجاتا ہے۔ مجرموں کے راستے کو واضح کرنے کا یہ بھی مقصد ہے کہ جس طرز حیات پر وہ اتراتے ہیں انھیں احساس ہو کہ یہ اللہ کے فرماں بردار بندوں کا طریقہ اور راستہ نہیں ہے۔ اس سے یہ بھی اشارہ کرنا مقصود ہے کہ مجرموں کا راستہ جہنم ہوگا جو نہایت ہی برا راستہ ہے۔ یہاں مومنوں کو اپنی رحمت کی خوشخبری سنانے کے بعد مجرموں پر واضح فرمایا کہ اگر تم بھی بغاوت اور تکبر کا راستہ ترک کرکے نیک بندوں کے ساتھ عاجزی اور اپنے رب کے حضور سرافندگی کا طریقہ اختیار کرلو۔ تو اس کی رحمت تمہیں بھی اپنے دامن میں پناہ دینے کے لیے تیار ہے۔ اگر تم نے اس کے نیک بندوں کے ساتھ تکبر اور اپنے رب کے ساتھ نافرمانی کا رویہ اپنائے رکھا تو یاد رکھو اس کا عذاب بڑا سخت ہے۔ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لَمَّا قَضَی اللَّہُ الْخَلْقَ کَتَبَ فِی کِتَابِہٖ فَہُوَ عِنْدَہٗ فَوْقَ الْعَرْشِ إِنَّ رَحْمَتِی غَلَبَتْ غَضَبِی)[ رواہ البخاری : کتاب بدء الخلق ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب اللہ تعالیٰ کائنات کی تخلیق سے فارغ ہوا تو اپنی کتاب میں جو کہ اللہ تعالیٰ کے پاس ہے عر ش کے اوپر لکھا میری رحمت میرے غضب پر غالب ہے۔ الانعام
54 الانعام
55 الانعام
56 فہم القرآن ربط کلام : کفار اور مشرکین نہ صرف خودگمراہ ہوتے ہیں بلکہ وہ دوسروں سے بھی اپنا عقیدہ اپنانے کا مطالبہ کرتے ہیں ان کا کفر و شرک واضح کرنے کے بعد نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اعلان کرایا گیا ہے کہ میں اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کی عبادت کرنے کے لیے تیار نہیں ہوں۔ مشرکین اور منکرین کی ہمیشہ سے یہ خواہش اور کوشش رہی ہے کہ وہ توحید پرستوں کو ان کے راستے سے ہٹا کر شرک اور نافرمانی کے راستہ پر لگائیں۔ جس کے لیے قرآن مجید نے متعدد بار نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان اطہر سے یہ اظہار اور اعلان کروایا ہے کہ آپ دو ٹوک انداز میں لوگوں کو بتلائیں کہ مجھے غیر اللہ کی عبادت اور لوگوں کی خواہشات کی پیروی کرنے سے سختی کے ساتھ روکا گیا ہے۔ اگر میں ہدایت کے خلاف لوگوں کی خواہش کی پیروی اور غیر اللہ کی عبادت کروں تو اللہ کا رسول ہونے کے باوجود میں بھی ہدایت سے تہی دامن اور گمراہی میں مبتلا ہوجاؤں گا۔ آپ کی زبان اطہر سے یہ اعلان سن کر کفار انتہائی مایوس ہو کر یہ مطالبہ کرتے کہ اگر آپ وا قعتا اپنے رب کی طرف سے دلیل پر ہیں تو پھر ہم پر اللہ کا عذاب لے آؤ۔ اس حماقت کا جواب دیتے ہوئے آپ سے یہ اعلان کروایا گیا ہے کہ بلاشبہ میں اپنے رب کی دلیل پر ہوں جس کو تم مسلسل جھٹلاتے ہو۔ جہاں تک تمھارے مطالبے کا تعلق ہے جس پر تم آپے سے باہر ہوئے جا رہے ہو یہ تو اللہ کو معلوم ہے کہ وہ کب اور کس طرح تم پر عذاب نازل کرے گا میں اس پر بھی کوئی اختیار نہیں رکھتا۔ کیونکہ کسی کی ہدایت یا گرفت کا فیصلہ کرنا صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے۔ وہی حاکم مطلق ہے۔ میرے اور تمھارے درمیان حق اور سچ کے ساتھ فیصلہ کرنے والا وہی ہے۔ یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ ظالموں کو اچھی طرح جانتا ہے۔ مسائل ١۔ اللہ کے علاوہ کوئی بھی عبادت کے لائق نہیں۔ ٢۔ خود ساختہ خداؤں کی عبادت کرنے والے گمراہ ہیں۔ ٣۔ جزاء و سزا اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔ ٤۔ فیصلہ کرنے کا حق صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کو ہے۔ ٥۔ ظالموں کو دنیا و آخرت میں عذاب سے دو چار کیا جائے گا۔ تفسیر بالقرآن حکم اللہ ہی کا چلتا ہے : ١۔ بے شک اللہ جو چاہتا ہے فیصلہ کرتا ہے۔ (المائدۃ: ١) ٢۔ نہیں ہے حکم مگر اللہ کا۔ اس کا حکم ہے کہ نہ عبادت کرو مگر صرف اسی کی۔ (یوسف : ٤٠) ٣۔ یہ اللہ کا حکم ہے اور فیصلہ کرتا ہے ان کے درمیان اللہ جاننے والا حکمت والا ہے۔ (الممتحنۃ : ١٠) ٤۔ اللہ فیصلے کرے گا ان کے درمیان قیامت کے دن جس بات میں وہ اختلاف کرتے ہیں۔ (البقرۃ: ١١٣) ٥۔ قیامت کے دن آپ کا رب ان کے درمیان فیصلہ کرے گا۔ (النحل : ١٢٤، النساء : ١٤١) الانعام
57 الانعام
58 الانعام
59 فہم القرآن ربط کلام : کفار نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عذاب لانے کا مطالبہ کیا جس کا جواب دیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی آپ کو بتلا دیا گیا ہے اللہ ہی جانتا ہے کہ کس کس نے ہدایت قبول کرنا ہے اور کس نے گمراہی میں مرنا ہے۔ اسی سورۃ کی آیت نمبر ٥٠ میں کفار کے ایک مطالبہ کا یہ جواب دیا گیا تھا کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ فرما دیں کہ میں اللہ تعالیٰ کے خزانوں کا مالک، غیب جاننے اور فرشتہ ہونے کا دعویٰ نہیں کرتا۔ یہاں دوسرے زاویے سے جواب دیا گیا ہے کہ عذاب نازل کرنے یا اللہ کے خزانوں کی ملکیت کا معاملہ ہو۔ اللہ تعالیٰ کے سوا انھیں کوئی نہیں جانتا۔ غیب کے پردوں اور دروازوں کے پیچھے جو کچھ چھپا ہے اس کی چابیاں اللہ تعالیٰ ہی کے پاس ہیں۔ وہ زمین کے ذرّے ذرّے اور پانی کے ایک ایک قطرے سے واقف ہے وہ زمین پر پیدا ہونے والے اربوں درخت اور ان پر لگنے والے کھربوں پتوں کو جانتا ہے اور کروڑوں کی تعداد میں بیک وقت زمین پر گرنے والے پتوں کا اسے علم ہوتا ہے۔ اسی طرح زمین کی تہوں اور اندھیروں میں زندہ، مردہ خشک اور تر کروڑ ہا قسم کے بیجوں کو نہ صرف جانتا ہے بلکہ اس کے ہاں لوح محفوظ میں ہر چیز کا ریکارڈ ثبت ہے۔ اللہ تعالیٰ انسانوں کو رات کے وقت فوت کرتا ہے اور وہ سوتے اور جاگتے ہوئے جو حرکات کرتے ہیں وہ ان سے اچھی طرح باخبر ہے۔ اسی طرح جو دن کی روشنی میں لوگ اعمال کرتے ہیں وہ سب کے سب اس کے احاطہ علم میں ہوتے ہیں۔ وہی اللہ لوگوں کو نیند سے بیدار کرتا ہے۔ اسی طرح صبح و شام، رات اور دن، سونے اور جاگنے کے عمل سے ہر انسان کی زندگی کے دن پورے ہوتے ہیں۔ جس طرح سونے اور جاگنے کا معاملہ ہے ایسے ہی انسان موت کے بعد اٹھائے جائیں گے۔ پھر ہر کسی کو اسی کی بارگاہ میں پیش ہونا ہے پھر وہ ہر انسان کو اس کے اچھے برے اعمال اور اس کے انجام سے آگاہ فرمائے گا یہاں نیند کو موت کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے کیونکہ جب انسان گہری نیند سو جاتا ہے تو اسے گرد و پیش میں ہونے والے واقعات کی کوئی خبر نہیں ہوتی۔ نیند اور موت کے درمیان یہ فرق ہے کہ نیند کی حالت میں آدمی زندہ ہونے کی وجہ سے تھوڑی بہت آواز سے جاگ اٹھتا ہے، موت دنیاوی زندگی کے خاتمے کا نام ہے۔ مرنے والے کو قیامت کا شدید ہنگامہ ہی بیدار کرسکے گا۔ جب انسان موت کے بعد اٹھائے جائیں گے تو پھر سب کو اللہ تعالیٰ کی عدالت عظمیٰ میں پیش ہونا ہوگا اور اللہ تعالیٰ ہی ہر کسی کو اس کے اعمال اور انجام سے باخبر فرمائے گا۔ مسائل ١۔ عالم الغیب صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔ ٢۔ بحر و بر میں ہونے والی تمام حرکات و سکنات اللہ تعالیٰ کے علم میں ہوتی ہیں۔ تفسیر بالقرآن ” اللہ“ کے سوا کوئی غیب نہیں جانتا : ١۔ اللہ ہی کے پاس غیب کی چابیاں ہیں اس کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ ( الانعام : ٥٩) ٢۔ آپ فرما دیں کہ غیب اللہ ہی کے لیے ہے۔ ( یونس : ٢٠) ٣۔ نہ ہی میں غیب جانتا ہوں اور نہ ہی میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں۔ ( ھود : ٣١) ٤۔ آپ فرما دیں کہ زمین اور آسمانوں کے غیب اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ (النمل : ٦٥) الانعام
60 الانعام
61 فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ جس طرح نیند اور بیداری پر اختیار رکھتا ہے۔ اسی طرح ہی انسان کی موت کے بعد اسے زندہ کرکے اپنی بارگاہ میں حاضر کرنے پر قوت و اختیار رکھتا ہے۔ وہ بندوں پر مکمل اختیار رکھنے کے با وجود ہدایت کے بارے میں جبر اختیار نہیں کرتا۔ اللہ تعالیٰ اپنی ذات، قدرت، علم، حکمت اور ہر لحاظ سے اپنے بندوں پر قادر اور قاہر ہے۔ وہی ہر چیز کو عدم سے وجود میں لاتا ہے اور ایک مدت معینہ کے بعد اس کے وجود کو ناپید کردیتا ہے۔ پھر قیامت کے دن ہر چیز کو وجود میں لائے گا۔ وہ ظلمت پر روشنی کو اور روشنی پر ظلمت کو غالب کرتا ہے۔ وہی ہر نعمت دینے والا ہے۔ اور جب چاہتا ہے اسے واپس لے لیتا ہے۔ زمین و آسمان میں کوئی طاقت ایسی نہیں جو اس کے اقتدار اور اختیار، قدرت و سطوت کے سامنے دم مار سکے۔ وہ ہر وقت اور ہر لحاظ سے اپنے بندوں پر غالب اور قادر ہے۔ وہی بندوں کے اجسام اور اعمال کی حفاظت کرتا ہے۔ اس نے انسان کی جان اور اعمال محفوظ رکھنے کے لیے ملائکہ مقرر کر رکھے ہیں۔ جو آدمی کی آخروقت تک حفاظت کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ موت کا فرشتہ اپنے عملے کے ساتھ آدمی کی جان اچک لیتا ہے۔ پھر وہ اسے پوری طرح اللہ تعالیٰ کی طرف لوٹا تے ہیں۔ جو انسان کا حقیقی مالک ہے۔ یہاں مَوْلٰہُمُ الْحَقِّ کا لفظ استعمال فرما کر یہ حقیقت باور کروائی ہے کہ دنیا میں کافر اور مشرک بے شمار جھوٹے مولیٰ بنائے پھرتے ہیں جو آدمی کی موت کے ساتھ ہی اس سے الگ ہوجاتے ہیں۔ لہٰذا انسان کو یہ حقیقت جان لینی چاہیے حقیقی مولیٰ اور حاکم مطلق اللہ کے سوا کوئی نہیں۔ اس لیے انسان کی انسانیت یہ ہے کہ وہ اللہ کو سچا مولیٰ اور حاکم مطلق تصور کرے جو بہت جلد حساب چکا دینے والا ہے۔ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ أَنَّ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ یَتَعَاقَبُون فیکُمْ مَلَاءِکَۃٌ باللَّیْلِ وَمَلَاءِکَۃٌ بالنَّہَارِ وَیَجْتَمِعُونَ فِی صَلَاۃِ الْفَجْرِ وَصَلَاۃِ الْعَصْرِ ثُمَّ یَعْرُجُ الَّذِینَ بَاتُوا فیکُمْ فَیَسْأَلُہُمْ وَہُوَ أَعْلَمُ بِہِمْ کَیْفَ تَرَکْتُمْ عِبَادِی فَیَقُولُونَ تَرَکْنَاہُمْ وَہُمْ یُصَلُّونَ وَأَتَیْنَاہُمْ وَہُمْ یُصَلُّونَ) [ رواہ البخاری : کتاب مواقیت الصلاۃ، باب فضل صلاۃ العصر] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا رات اور دن کے فرشتے تمہارے پاس آتے جاتے رہتے ہیں۔ وہ فجر اور عصر کی نماز کے وقت اکٹھے ہوتے ہیں پھر آسمان کی طرف چلے جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سب کچھ جاننے کے باوجود ان سے پوچھتا ہے تم نے میرے بندوں کو کس حال میں چھوڑا ؟ وہ کہتے ہیں جب ہم ان کے پاس سے آئے تو وہ نماز پڑھ رہے تھے اور جب ان کے ہاں گئے تو بھی وہ نماز ہی پڑھ رہے تھے۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ ہر بندے پر حفظ وضبط کے لیے فرشتے مقرر فرمارکھے ہیں۔ ٢۔ وقت مقررہ سے فرشتے ایک لمحہ بھی آگے پیچھے نہیں ہونے دیتے۔ ٣۔ اللہ ہی مالک حقیقی ہے۔ ٤۔ فیصلہ صرف اور صرف اللہ تعالیٰ ہی کا چلتا ہے۔ تفسیر بالقرآن موت کے وقت مہلت نہیں دی جاتی : ١۔ ہر امت کے لیے ایک اجل ہے جب آجائے تو ایک منٹ آگے پیچھے نہیں ہوتی۔ (یونس : ٤٩) ٢۔ جب لوگوں کی اجل آجائے تو ایک منٹ بھی آگے پیچھے نہیں ہوتی۔ (النحل : ٦١) ٣۔ اللہ تعالیٰ ہرگز کسی جان کو مہلت نہیں دیتا جب اس کی اجل آجائے۔ (المنافقون : ١٠ تا ١١) الانعام
62 الانعام
63 فہم القرآن ربط کلام : اللہ صرف دنیا میں ہی نہیں بلکہ انسانوں کی موت و حیات پر قادر، حاکم مطلق اور مولیٰ حق ہے گو اس نے ہدایت کا جبری نظام نہیں بنایا لیکن تم اس کی قدرتیں دیکھو اور ان پر غور کرو۔ آسانی اور خوشحالی میں اسی کو پکارو جس کو تم مشکل اور اضطراری حالت میں پکارتے اور اس کے مشکل کشا ہونے کا اقرار کرتے ہو۔ یہ بات پہلے بھی عرض کی گئی ہے کہ مشرک اور موحد میں بنیادی فرق یہ ہے کہ مشرک اور کافر صرف مشکل کے وقت اللہ تعالیٰ کو پکارتے ہیں۔ جب مشکل ٹل جاتی ہے تو پھر اس کے ساتھ دوسروں کو پکارنا شروع کردیتے ہیں۔ ان کے برعکس موحد کی یہ شان ہے کہ وہ عسر و یسر، آسانی اور پریشانی میں صرف اور صرف اپنے رب کو پکارتا ہے اور یہی فطرت سلیم کا تقاضا ہے، مشکل اور پریشانی کے وقت مشرک کے دل و دماغ پر غفلت کے پردے اٹھ جاتے ہیں۔ اس وقت اسے اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی مشکل کشا دکھائی اور سجھائی نہیں دیتا۔ مشرک انتہائی مشکل میں مبتلا ہوتے ہیں تو وہ بڑی آہ و زاری کے ساتھ دل ہی دل میں اللہ تعالیٰ کو صداؤں پر صدائیں دے رہے ہوتے ہیں اور اپنے دل ہی دل میں یہ عہد کرتے ہیں کہ اگر اللہ تعالیٰ نے اس مصیبت سے نجات بخشی تو ہم اس کے شکر گزار بندے بنیں گے۔ لیکن جونہی وہ اس کرب ناک مصیبت سے نجات پاتے ہیں تو پھر اس مشکل کشائی میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ دوسروں کو شریک کرلیتے ہیں۔ یہاں شکر کرنے سے مراد توحید کا اقرار کرنا ہے اور بحر و بر کی ظلمات سے مراد بادل اور رات کے اندھیروں کے ساتھ صحراؤں کے گرد و غبار اور سمندر کی موجوں اور تہوں کے اندھیرے ہیں۔ ( فَإِذَا رَکِبُوْا فِی الْفُلْکِ دَعَوُا اللّٰہَ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ فَلَمَّا نَجَّاہُمْ إِلَی الْبَرِّ إِذَا ہُمْ یُشْرِکُوْنَ) [ العنکبوت : ٦٥] ” پھر جب یہ کشتی میں سوار ہوتے ہیں تو اللہ کی حاکمیت تسلیم کرتے ہوئے خالصتاً اسے ہی پکارتے ہیں۔ اور جب وہ انہیں بچا کر خشکی پر لے آتا ہے تو اس کے ساتھ شرک کرنے لگتے ہیں۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی بھی بحر و بر کی مشکلات سے نجات نہیں دے سکتا۔ ٢۔ مصیبت سے نکلنے کے بعد خصوصاً اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہیے۔ ٣۔ عقیدہ توحید پر قائم رہنے کے ساتھ شرک سے نفرت کرنا بھی لازم ہے۔ تفسیر بالقرآن خشکی اور تری میں اللہ ہی نجات دینے والا ہے : ١۔ جب تمھیں خشکی کی طرف نجات مل جاتی ہے تو اس سے اعراض کرتے ہو۔ (الاسراء : ٦٧) ٢۔ جب ہم انھیں خشکی کی طرف نجات دیتے ہیں تو وہ شرک کرنے لگ جاتے ہیں۔ (العنکبوت : ٦٥) ٣۔ وہ اللہ کو خالص پکارتے ہیں جب انھیں خشکی کی طرف نجات ملتی ہے۔ (لقمان : ٣٢) ٤۔ ہم نے ان لوگوں کو بچا لیا جو ایمان لائے اور نافرمانی سے بچتے رہے۔ (حٰم السجدۃ: ١٨) ٥۔ جب ان پر سائبان جیسی کوئی موج چھا جاتی ہے تو اللہ کی حاکمیت کو تسلیم کرتے ہوئے خالصاً اسے پکارتے ہیں پھر جب انھیں بچا کر خشکی تک لے آتا ہے تو پھر کچھ بد اعتدال ہوجاتے ہیں۔ (لقمان : ٣٢) مشرک نجات پانے کے بعد شرک کرتا ہے : ١۔ جب ہم انھیں نجات دیتے ہیں تو وہ بغیر حق کے زمین میں بغاوت کرتے ہیں۔ (یونس : ٢٣) ٢۔ جب ہم انھیں نجات دیتے ہیں تو بعد میں وہ شرک کرنے لگ جاتے ہیں۔ ( العنکبوت : ٦٥) ٣۔ آپ فرما دیں اللہ تمھیں اس سے اور ہر مصیبت سے نجات دیتا ہے اور تم شرک کرتے ہو۔ (الانعام : ٦٤) الانعام
64 الانعام
65 فہم القرآن ربط کلام : سمندر کے طوفان اور صحرا کے گرداب اور بھنور میں ہی نہیں وہ اللہ جب چاہے انسان کو دیگر آزمائشوں اور عذابوں میں مبتلا کرسکتا ہے۔ اے لوگو تم ہر حال میں اپنے رب کے سامنے مجبور محض ہو۔ پہلی آیات میں برّی گرداب اور سمندری طوفانوں کا ذکر ہوا ہے۔ جن کے ساتھ عام طور پر مسافر کو واسطہ پڑتا ہے۔ یہاں اپنے اپنے گھروں میں بیٹھے ہوئے لوگوں کو انتباہ کیا جا رہا ہے کہ لازم نہیں کہ صرف سفر میں ہی تمھیں مشکلات اور عذاب کے ساتھ واسطہ پڑے۔ وہ اللہ اس بات پر قادر ہے کہ تمھیں تمھارے گھروں میں بیٹھے ہوئے آسمانی اور زمینی عذاب سے دو چار کردے، یہی نہیں بلکہ تمھیں تمھاری نافرمانی، بداخلاقی اور باہمی منافقت ور نجشوں کی بنا پر آپس میں اس طرح الجھا دے کہ تم ایک دوسرے کے لیے عذاب اور مصیبت بن جاؤ۔ آسمانی عذاب سے مراد بارشوں کا بے موقع اور غیر معمولی برسنا ہے۔ دیگر آفات کا لوگوں کے پاؤں تلے سے نمودار ہونا ہے۔ پاؤں تلے نمودار ہونے کی مثال قوم نوح کے عذاب کی طرح پانی کا آسمان سے اترنا اور زمین سے نکلنا اور اگلنا ہے۔ لوگوں کا زمین کے اندر دھنسائے جانا اور اس طرح کے دیگر عذاب ہیں اس مقام پر ایک دوسرے کے ساتھ الجھنے کو عذاب سے تشبیہ دی گئی ہے۔ باہمی جنگ و جدال کو اللہ تعالیٰ نے اپنا عذاب قرار دیا اور فرمایا کہ غور کرو کہ ہم اپنے احکام کو مختلف زاویوں کے ساتھ کس طرح بیان کرتے ہیں تاکہ لوگ سمجھ بوجھ سے کام لیں۔ انسانی اعضاء و جوارح اور وجود میں سمجھ بوجھ ہی وہ قوت ہے۔ جو انسان کو دینی اور دنیاوی نفع و نقصان سے باخبر رکھتی ہے اگر سوجھ بوجھ کی صلاحیت سلب ہوجائے تو آدمی کا صحیح راستے پر چلنا، نفع اور نقصان کو پہچاننا ناممکن ہوجاتا ہے۔ نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بار بار سمجھانے کے باوجود کفار ہر بار حقائق کی تکذیب کرتے۔ جس پر رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ تسلی دی گئی ہے کہ آپ کا کام لوگوں کو سمجھانا اور بتلانا ہے منوانا نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو لوگوں پر چوکیدار بنانے کے بجائے مبلغ بنایا ہے۔ جہاں تک عذاب یا قیامت لانے کا مطالبہ ہے انھیں خبر ہونی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر بات اور کام کا وقت مقرر کر رکھا ہے۔ اس کا حکم اور کام اپنے وقت پر ہی ظہور پذیر ہوا کرتا ہے۔ (عَنْ جَرِیرٍ (رض) أَنَّ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ لَہٗ فِی حَجَّۃِ الْوَدَاعِ اِسْتَنْصِتِ النَّاسَ فَقَالَ لَا تَرْجِعُوا بَعْدِی کُفَّارًا یَضْرِبُ بَعْضُکُمْ رِقَابَ بَعْضٍ) [ رواہ البخاری : کتاب العلم، باب الانصات للعلماء] ” حضرت جریر (رض) بیان کرتے ہیں بلاشبہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے حجۃ الوداع کے موقع پر فرمایا لوگوں کو خاموش کراؤ۔ اس کے بعد فرمایا میرے بعد کفر میں لوٹ نہ جاناکہ ایک دوسرے کو قتل کرنے لگو۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ ہر طرح کا عذاب نازل کرسکتا ہے۔ ٢۔ ہر نبی کا کام دعوت حق پہنچانا ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ حق بات دلائل و شواہد سے واضح کرتا ہے تاکہ لوگ شرک و مصیبت سے باز آجائیں۔ ٤۔ عذاب کا ایک وقت مقرر ہے۔ تفسیر بالقرآن باہمی اختلاف اللہ تعالیٰ کا عذاب ہے : ١۔ شیطان چاہتا ہے کہ تمھارے درمیان عداوت اور بغض ڈال دے۔ (المائدۃ: ٩١) ٢۔ باہمی اختلاف انسان کو جہنم کے کنارے پر کھڑا کردیتا ہے۔ (آل عمران : ١٠٣) ٣۔ اختلاف سے ساکھ اکھڑ جاتی ہے۔ (الانفال : ٤٦) ٤۔ اللہ تعالیٰ کے غضب کا نتیجہ ہے کہ یہودیوں اور عیسائیوں کے درمیان قیامت تک کے لیے باہم اختلافات رہیں گے۔ ( المائدۃ: ٦٤) ٥۔ اللہ نے یہود و نصاریٰ کے درمیان بغض اور دشمنی قیامت تک کے لیے ڈال دی ہے۔ (المائدۃ: ١٤) الانعام
66 الانعام
67 الانعام
68 فہم القرآن ربط کلام : پیغمبر (علیہ السلام) کی تکذیب، آپ سے بار بار آیات کا مطالبہ کرنا اور حقائق کو ٹھکرانادرحقیقت اللہ تعالیٰ کی آیات کے ساتھ کھیلنے کے مترادف ہے۔ یہ منکرین کا شروع سے یہی وطیرہ رہا ہے۔ ایسے موقعہ پر مومنوں کو ہدایت۔ کفار بار بار پیغمبر (علیہ السلام) سے آیات و معجزات کا مطالبہ کرتے تھے جب ان کا مطالبہ پورا کردیا جاتا تو وہ ایک اور مطالبہ پیش کردیتے۔ اس طرح انھوں نے اللہ کے دین کو کھیل اور شغل بنا رکھا تھا۔ خوض کا معنی کسی حقیقت کو کھیل تماشا بنانا یا اسے مذاق سمجھنا ہے۔ کفار کھلم کھلا دین اور مسلمانوں کو مذاق کیا کرتے تھے۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں زبان درازی کرتے ہوئے کہتے کہ یہ کیسا نبی ہے۔ جسے سفر کے لیے سواری، رہنے کے لیے عمدہ مکان، کھانے کے لیے دو وقت کی روٹی اور پہننے کے لیے اچھا لباس میسر نہیں۔ جہاں تک اس کے متبعین کا تعلق ہے ان کی اکثریت معاشرے کے کم تر لوگوں سے تعلق رکھتی ہے۔ اس استہزاء کے ساتھ جب صحابہ (رض) اور نبی محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نماز پڑھتے تو یہ لوگ سیٹیاں بجایا کرتے تھے۔ اسی طرح آپ کو عطا ہونے والے معجزات کا مذاق اڑاتے۔ چاند دو ٹکڑے ہوا تو انھوں نے آپ کو جادوگر کہا۔ آپ معراج پر پہنچے تو کفار نے اسے دیوانے کی بڑ قرار دیا۔ قرآن مجید نے اسلام اور مسلمانوں کے غلبے کی بات کی تو مخالفین نے اسے یوں استہزاء کا نشانہ بنایا کہ ہاں یہ کنگال اور بے خانماں لوگ ہی سلطنت روما کے وارث اور فارس کے فاتح قرار پائیں گے۔ ایسے ماحول اور مجالس کے بارے میں آپ اور آپ کے رفقاء کو حکم دیا گیا ہے کہ جہاں اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کی آیات کو استہزاء کا نشانہ بنایا جا رہا ہو تو آپ لوگوں کو وہاں ہرگز نہیں بیٹھنا چاہیے۔ اگر شیطان کے بہلاوے سے ایسی مجلس میں بیٹھ گئے ہوں تو یاد آنے کے بعد فوراً اٹھ کھڑا ہونا چاہیے۔ جو شخص یاد آنے اور مسئلہ جاننے کے باوجود ایسے لوگوں کے ساتھ بیٹھے گا وہ ظالموں میں شمار ہوگا۔ اللہ سے ڈرنے والوں پر ظالموں کے حساب کی کوئی ذمہ داری نہیں ہوگی۔ آپ کا کام تو فقط اتنا ہے کہ ایسے لوگوں کو موقع بموقع سمجھاتے رہیں تاکہ ظالم اللہ تعالیٰ سے ڈر کر گناہوں کی زندگی سے بچ جائیں۔ (عَنْ اَبِی بُرْدَۃَ بْنِ أَبِی مُوسٰی (رض) عَنْ أَبِیہٖ قَالَ قَالَ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَثَلُ الْجَلِیس الصَّالِحِ وَالْجَلِیس السَّوْءِ کَمَثَلِ صَاحِبِ الْمِسْکِ وَکِیرِ الْحَدَّادِ لَا یَعْدَمُکَ مِنْ صَاحِبِ الْمِسْکِ إِمَّا تَشْتَرِیہِ أَوْ تَجِدُ ریحَہُ وَکِیرُ الْحَدَّادِ یُحْرِقُ بَدَنَکَ أَوْ ثَوْبَکَ أَوْ تَجِدُ مِنْہُ ریحًا خَبِیثَۃً)[ رواہ البخاری : کتاب البیوع، باب فی العطار] ” حضرت ابو بردہ بن ابو موسیٰ (رض) اپنے والد سے بیان کرتے ہیں رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا نیک اور برے آدمی کی مثال خوشبو بیچنے والے اور بھٹی والے کی ہے۔ خوشبو والے سے تم خوشبو خریدو گے یا اچھی خوشبو محسوس کرو گے۔ جو بھٹی والا ہے اس کی چنگاری تمہارے بدن یا کپڑے کو جلادے گی یا تم اس سے دھواں کی بد بو محسوس کرو گے۔“ مسائل ١۔ جہاں اللہ کی آیات کا مذاق اڑا یا جائے وہاں جانے سے احتراز کرنا چاہیے۔ ٢۔ شیطان کے بہکاوے سے خبردار رہنا چاہیے۔ ٣۔ دین کے ساتھ مذاق کرنے والے لوگوں سے کنارہ کشی بہتر ہے۔ تفسیر بالقرآن ظالم کون : ١۔ اللہ کی مساجد کو ویران کرنے والا ظالم ہے۔ (البقرۃ: ١١٤) ٢۔ اللہ کی گواہی کو چھپانے والا ظالم ہے۔ (البقرۃ: ١٤٠) ٣۔ اللہ پر جھوٹ باندھنے والا ظالم ہے۔ (الانعام : ٢١) ٤۔ نبوت کا جھوٹا دعو یٰ کرنے والا ظالم ہے۔ (الانعام : ٩٣) ٥۔ اللہ کی آیات کو جھٹلانے والا ظالم ہے۔ (الاعراف : ٣٧) ٦۔ اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرنے والا بہت بڑا ظالم ہے۔ (لقمان : ١٣) الانعام
69 فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ : مشرکین اور منکرین اللہ تعالیٰ کی سطوت وقدرت جاننے کے باوجود معبودان باطل پر امیدیں لگائے ہوئے ہیں۔ اس کی وجہ سے وہ اللہ تعالیٰ کی آیات کو استہزاء کا نشانہ بناتے ہیں اور دین کو کھیل تماشا سمجھتے ہیں۔ ان سے اجتناب کرنے کا حکم دینے کے ساتھ ان کا انجام بتلایا گیا ہے۔ اس آیت مبارکہ میں ان لوگوں سے اجتناب کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ ١۔ جو دین کو کھیل اور تماشا سمجھتے ہیں۔ ٢۔ جو دنیا کے اسباب و وسائل اور ترقی پر غرور کرتے ہیں۔ یہاں اجتناب سے مراد ان لوگوں کے ساتھ قلبی محبت اور ان کے لادینی اشغال میں حصہ دار بننا ہے۔ ایسے لوگوں سے ایک حد تک دور رہتے ہوئے نصیحت کرتے رہنا چاہیے۔ قرآن مجید متعدد مقامات پر یہ حقیقت عیاں کرتا ہے کہ دنیا پرست لوگوں نے دین کو کھیل اور تماشا بنا لیا ہے جس طرح تما شا دل بہلانے کے لیے اور کھیل جسمانی تقویت کے لیے ہوتا ہے یہی سوچ اور وطیرہ دنیا دار کا دین کے بارے میں ہوا کرتا ہے یہ دین کو دنیاوی مفاد، شہرت و منصب اور محض ذہنی سکون کے طور پر استعمال کرتا ہے۔ ایسے لوگوں کے مشاغل سے دور رہتے ہوئے انھیں موقع بموقع نصیحت کرتے رہنا چاہیے اور ان کو یہ حقیقت باور کرانی چاہیے کہ جس دنیا کے جاہ و جلال اور اسباب و وسائل پر تم نازاں خود سپردگی کا انداز اختیار کیے ہوئے ہو۔ مرنے کے بعد یہ سب دھرے کا دھرا رہ جائے گا اور تمھیں ایسی عدالت میں پیش ہونا ہے جہاں کسی ولی کی ولایت، سفارشی کی سفارش اور فدیہ دینے والے کا فدیہ قبول نہیں کیا جائے گا۔ اس طرح دنیا کے اسباب ہی نہیں بلکہ جن لوگوں اور معبودان باطل پر بھروسہ کیے ہوئے ہو وہ بھی تمھیں فائدہ نہیں پہنچا سکیں گے۔ جو لوگ دنیا کے بندے اور برائی کے دھندے میں مبتلا ہو کر موت کی آغوش میں جائیں گے انھیں جہنم میں پینے کے لیے ابلتا ہوا پانی اور اذیّت ناک عذاب دیا جائے گا کیونکہ یہ دنیا کے بندے بن کر توحیدو رسالت کا انکار کرنے والے تھے۔ (عَنْ أَبِی أُمَامَۃَ عَنْ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فِی قَوْلِہٖ وَیُسْقٰی مِنْ مَاءٍ صَدِیدٍ یَتَجَرَّعُہُ قَالَ یُقَرَّبُ إِلَیْہِ فَیَتَکَرَّہُہُ فَإِذَا دَنَا مِنْہُ شُوِیَ وَجْہُہُ وَوَقَعَتْ فَرْوَۃُ رَأْسِہٖ وَإِذَا شَرِبَہُ قَطَّعَ أَمْعَاءَ ہُ حَتَّی خَرَجَ مِنْ دُبُرِہٖ)[ رواہ احمد ] ” حضرت ابو امامہ (رض) بیان کرتے ہیں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جہنمیوں کے بارے فرمایا کہ ان کو کھولتا ہوا پانی پلایا جائے گا وہ ان کو جلا دے گا۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا وہ ان کے قریب کیا جائے گا تو وہ اس کو نا پسند کریں گے۔ جونہی وہ اس کے قریب ہوگا تو اس کا چہرہ جھلس جائے گا۔ اس کے سر کے بال بھی گر جائیں گے اور جب وہ پیے گا تو اس کی آنتیں کٹ جائیں گی یہاں تک کہ وہ اس کی پشت سے نکل جائے گا۔“ (إِنَّ شَجَرَۃَ الزَّقُّوْمِ۔ طَعَامُ الْأَثِیْمِ کَالْمُہْلِ یَغْلِیْ فِی الْبُطُونِ کَغَلْیِ الْحَمِیْمِ۔ خُذُوْہُ فَاعْتِلُوْہُ إِلٰی سَوَآءِ الْجَحِیمِ۔ ثُمَّ صُبُّوا فَوْقَ رَأْسِہٖ مِنْ عَذَابِ الْحَمِیْمِ۔ ذُقْ إِنَّکَ أَنْتَ الْعَزِیزُ الْکَرِیْمُ۔ إِنَّ ہٰذَا مَا کُنْتُمْ بِہِ تَمْتَرُوْنَ) [ الدخان : ٤٣ تا ٥٠] ” بلاشبہ زقوم کا درخت گنہگار کا کھانا ہوگا۔ جو پگھلے تانبے کی طرح پیٹ میں جوش مارے گا۔ جیسے کھولتا ہوا پانی جوش مارتا ہے۔ پھر حکم ہوگا کہ اسے پکڑ لو پھر اسے گھسیٹتے ہوئے جہنم کے درمیان تک لے جاؤ۔ پھر حکم ہوا کہ کھولتے پانی کا عذاب اس کے سر پر انڈیل دو۔ پھر اسے کہا جائے گا چکھ ! تو بڑا معزز اور شریف بنا پھرتا تھا۔ یہ ہے جس میں تم شک کیا کرتے تھے۔“ مسائل ١۔ گمراہ لوگوں کو وعظ و نصیحت کرتے رہنا چاہیے۔ ٢۔ دین کو کھیل تماشا سمجھنے والوں کو نصیحت کرنی چاہیے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی کار ساز نہیں۔ ٤۔ کافروں کے لیے کھولتے ہوئے پانی کا عذاب ہوگا۔ تفسیر بالقرآن قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی خیر خواہ نہیں ہوگا : ١۔ وہ اپنے لیے اللہ کے سوا کوئی خیر خواہ اور نہ ہی کوئی مددگار پائیں گے۔ (الاحزاب : ١٧) ٢۔ جہنم میں ہمیشہ رہیں گے، وہ خیر خواہ اور مددگار نہیں پائیں گے۔ (الاحزاب : ٦٥) ٣۔ نہیں ہے کوئی ان کے لیے اللہ کے سوا خیر خواہ۔ (ھود : ٢٠) ٤۔ نہیں ہے تمھارے لیے کوئی اللہ کے سوا خیر خواہ اور پھر تم نہیں مدد کیے جاؤ گے۔ (ھود : ١١٣) ٥۔ نہیں ہے تمھارے لیے اللہ کے سوا کوئی خیر خواہ اور نہ مدد گار۔ ( العنکبوت : ٢٢) الانعام
70 الانعام
71 فہم القرآن ربط کلام : جس طرح معبودان باطل آخرت میں کسی کو کوئی فائدہ نہیں دے سکتے اسی طرح یہ حقیقت بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مرضی کے بغیر دنیا میں بھی یہ کسی کو نفع اور نقصان نہیں پہنچا سکتے۔ مشرک کی عادات میں ایک عادت یہ بھی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے بڑھ کر اپنے معبودوں کے ساتھ محبت کرتا اور لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف بلانے کے بجائے اپنے باطل معبودوں کی طرف بلاتا اور کھینچتا ہے۔ حالانکہ معبودان باطل نہ کسی کو فائدہ پہنچا سکتے ہیں اور نہ ہی نقصان۔ اسی بنا پر نبی مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم ہوا کہ آپ مشرکوں کو سمجھائیں کہ کیا ہم ان کی طرف دعوت دیں اور ان کی عبادت کریں جو کسی کو ذرّہ برابر نفع اور رتی برابر نقصان نہیں پہنچا سکتے۔ مشرکوں سے یہ بھی کہیے کہ کیا اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہدایت نصیب ہونے کے باوجود ہم لوگوں کو شرک کی دعوت دیں۔ توحید کا عقیدہ اپنانے کے بعد شرک کی دعوت دینا الٹے پاؤں چلنے کے مترادف ہے۔ ظاہر بات ہے الٹے پاؤں چلنا عقل و فکر کے خلاف اور حقیقت سے منہ موڑنا ہے یہ تو اس شخص کا وطیرہ ہے جس کو شیطان نے کسی صحرا اور بیابان میں بہکا دیا ہو۔ وہ حیرانی اور پریشانی کے سوا کوئی راستہ نہیں پاتا۔ اور ادھر ادھر بہکا پھر رہا ہے۔ یہی مشرک کی مثال ہے کہ وہ عقیدہ و عمل کی دنیا میں صحیح فکر اختیار کرنے کے بجائے فکری اور عملی آوارگی کا شکار رہتا ہے۔ اسے توحید کی دعوت سمجھ نہیں آتی اور اس کی حالت صحرا میں بہکے ہوئے مسافر کی ہے۔ جسے صحیح راستے کی طرف بلایا جائے تو وہ اس قدر حواس باختہ ہوچکا ہوتا ہے اسے کوئی بات سنائی اور سمجھائی نہیں دیتی۔ ایسے شخص سے بحث مباحثہ کرنے کے بجائے اسے کہنا چاہیے کہ ہدایت تو اللہ کی طرف سے نصیب ہوا کرتی ہے اور ہمیں یہی حکم ہے کہ ہم غیر اللہ کی پیروی کرنے کی بجائے صرف اور صرف رب العالمین کی غلامی اور اس کے حکم کی پیروی کریں۔ اس کا حکم اور اس کی اتباع یہ ہے کہ نماز قائم کی جائے اور ہر حال میں اللہ تعالیٰ سے ڈرا جائے کیونکہ اسی کی طرف سب نے لوٹ کر جانا ہے۔ اس نے حق کے ساتھ زمین و آسمان کو پیدا کیا۔ جس دن وہ ” کُنْ“ فرمائے گا تو سب کچھ اس کے سامنے حاضر ہوجائے گا۔ اس کا حکم صادر ہونے اور ہر چیز کا اس کے حضور اکٹھا ہونے میں کوئی شک نہیں ہے۔ اسی کی زمین و آسمان پر بادشاہی ہے اسی کے حکم سے پہلا اور دوسرا صور پھونکا جائے گا وہ ہر قسم کے غائب اور ظاہر کو جانتا ہے۔ اس کے ہر حکم اور کام میں حکمت ہے اور وہ ہر چیز کی خبر رکھنے والا ہے۔ (عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ (رض) قَالَ جَاءَ أَعْرَابِیٌّ إِلَی النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ مَا الصُّورُ قَالَ قَرْنٌ یُنْفَخُ فیہِ) [ رواہ الترمذی : کتاب الصفۃ القیامہ، باب ماجاء فی شان الصور] ” حضرت عبداللہ بن عمر وبن عاص (رض) بیان کرتے ہیں ایک دیہاتی نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضرہو کر پوچھا کہ صور کیا ہے؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا وہ ایک سینگ ہے جس میں پھونکا جائے گا۔“ (عَنْ أَبِی سَعِیدٍ (رض) قَالَ قَالَ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کَیْفَ أَنْعَمُ وَصَاحِبُ الْقَرْنِ قَدِ الْتَقَمَ الْقَرْنَ وَاسْتَمَعَ الْإِذْنَ مَتٰی یُؤْمَرُ بالنَّفْخِ فَیَنْفُخُ فَکَأَنَّ ذَلِکَ ثَقُلَ عَلٰی أَصْحَاب النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَقَالَ لَہُمْ قُولُوا حَسْبُنَا اللّٰہُ وَنِعْمَ الْوَکِیلُ عَلَی اللّٰہِ تَوَکَّلْنَا) [ رواہ الترمذی : کتاب صفۃ القیا مۃ، باب ما جاء فی صفۃ الصور] ” حضرت ابو سعید (رض) بیان کرتے ہیں رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میں کیسے نعمتوں سے فائدہ اٹھاؤں؟ جبکہ سینگ والے نے سینگ منہ میں ڈالا ہوا ہے اور اجازت کا منتظر ہے کب اس کو پھونکنے کا حکم ملے تو وہ پھونک مار دے۔ نبی محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ (رض) پر یہ بات گراں گزری نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے فرمایا تم کہو ہمیں اللہ ہی کافی ہے اور وہ بہتر کار ساز ہے اور ہم اپنے اللہ پر ہی توکل کرتے ہیں۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی بھی نفع و نقصان نہیں دے سکتا۔ ٢۔ گمراہی پر اصرار کرنا شیطان کی مدد کرنے کے مترادف ہے۔ ٣۔ آخرت میں اللہ تعالیٰ کے حضور ہی سب کو اکٹھا کیا جائے گا۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ کا ہر فرمان حق اور سچ ہے۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ بہت حکمت والا ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ سے ہی ڈرنا چاہیے : ١۔ خاص مجھ ہی سے ڈر۔ (البقرۃ: ٤١) ٢۔ اللہ سے ڈر جاؤ اے عقل مندو۔ (الطلاق : ١٠) ٣۔ اللہ سے ڈر جاؤ اے عقل مند و تاکہ تم فلاح پاؤ۔ (المائدۃ: ١٠٠) ٤۔ اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور صاف گوئی اختیار کرو۔ ( الاحزاب : ٧٠) ٥۔ اے لوگو ! اس اللہ سے ڈرو جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا فرمایا۔ ( النساء : ١) ٦۔ مومن آپس میں بھائی بھائی ہیں ان میں صلح کروا دو اور اللہ سے ڈرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔ ( الحجرات : ١٠) الانعام
72 الانعام
73 الانعام
74 فہم القرآن ربط کلام : شرک کی بے ثباتی ثابت کرنے کے لیے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے حوالے سے ایک مشاہدہ اور ایک عملی مثال کا بیان کی تاکہ دنیا بھر کے مذاہب سے تعلق رکھنے والے وہ لوگ جو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے ساتھ اپنا رشتہ ناتہ جوڑتے ہیں انہیں معلوم ہوجائے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا عقیدہ کیا تھا۔ مؤرخین اور تورات نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے والد کا نام تارخ بتایا ہے اور قرآن مجید نے آزر لیا ہے۔ اس لیے مؤرخین کے خیالات میں فرق ختم کرنے کے لیے مختلف راہیں اختیار کی گئیں۔ ایک مفسر کا خیال ہے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے والد آپ کی پیدائش کے بعد جلد دنیا سے رخصت ہوگئے۔ آپ کی تربیت آپ کے چچا نے کی۔ چچا بمنزلہ باپ کے ہے۔ اسی لیے قرآن حکیم نے آزر کو ابیہ کے نام سے پکارا ہے۔ دوسرے صاحب قلم کا عندیہ ہے کہ آپ کے والد کا اصلی نام تارخ تھا۔ لیکن وہ محب صنم ہونے کی وجہ سے آزر کہلایا۔ کیونکہ عربی میں محب صنم کو آزر کہا جاتا ہے۔ تیسرے مؤرخ نے تطبیق کا راستہ تلاش کرتے ہوئے لکھا کہ آپ کے باپ کا اصلی نام تارخ اور وصفی (پیشہ وارانہ) نام آزر تھا۔ لیکن قرآن مجید ان تکلفات سے پاک ہے اور واضح طور پر ابراہیم (علیہ السلام) کے والد کا نام آزربتارہا ہے لہٰذا ہم ابراہیم (علیہ السلام) کے باپ کو آزر ہی کہیں گے۔ بعض لوگوں نے لکھا ہے کہ ابراہیم (علیہ السلام) کے والد بت تراش کر بازار میں فروخت کیا کرتے تھے یہ بات غلط ہے کیونکہ جدید تحقیقات سے ثابت ہوچکا ہے کہ آپ کے والد مذہبی پیشوا اور اس زمانے کی حکومت میں مرکزی کابینہ کے رکن ہونے کی بنا پر حاکم وقت اور عوام الناس میں انتہائی احترام کی نگاہوں سے دیکھے جاتے تھے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی ولادت باسعادت : تورات کے نسخہ سجینہ کا جو ترجمہ عبرانی سے یونانی میں تین سو سال قبل مسیح کیا گیا اور جس میں نامور دانشور یہودی شریک تحقیق ہوئے ان کے حوالے سے ماہر اثریات سر چارلس مارسٹن نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا سن ولادت ٢١٦٠ قبل مسیح تحریر کیا ہے۔ آپ کی عمر مبارک ١٧٥ سال تھی چنانچہ مذکورہ تحقیق کے مطابق آپ کی وفات پر ملال ١٩٨٥ قبل مسیح قرار پائی۔ تاہم یہ تحقیق حتمی حیثیت نہیں رکھتی۔ جدیدتحقیق میں نہ صرف وہ شہر معلوم ہوگیا ہے جس میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی ولادت ہوئی بلکہ آپ کے دورکے حالات و واقعات قدرے تفصیل کے ساتھ سامنے آئے ہیں۔ آپ جنوبی عراق میں دریائے فرات کے کنارے واقع شہر ار میں پیدا ہوئے جس کو موجودہ جغرافیہ کی زبان میں تل ابیب کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے پیدائشی شہر کی آبادی کا ڈھائی لاکھ سے لے کر پانچ لاکھ تک اندازہ کیا گیا ہے۔ آثار قدیمہ کے کھنڈرات سے معلوم ہوتا ہے کہ ان لوگوں کی زندگی کا مقصد دولت کمانا، سود خوری اور مقدمہ بازی مشغلہ تھا۔ گویا کہ اخلاقی اور اعتقادی اعتبار سے یہ قوم تباہی کے گڑھے پر کھڑی تھی۔ اس وقت کے مذہبی حالات کا آپ اندازہ اس بات سے لگائیں کہ آپ کے شہر ار میں پانچ ہزار خداؤں کے نام دریافت کیے گئے ہیں۔ دوسرے شہروں اور قصبات کے الگ الگ خدا مقرر تھے۔ ہر شہر کا ایک خاص خدا ہوتا تھا، جس کو رب البلد یعنی خداۓ شہر کہتے تھے۔ ظاہر ہے لوگ اس کا احترام دوسرے خداؤں سے زیادہ کرتے تھے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے پیدائشی شہر ار کا بڑا خدا ننار تھا (چاند دیوتا) اسی وجہ سے بعض مؤرخین نے اس شہر کا نام قمرینہ بھی لکھا ہے۔ ننار کا بت شہر میں سب سے اونچی جگہ رکھا گیا تھا۔ جس کے ساتھ ہی اس کی بیوی (نن گل) کا معبد تھا۔ لوگ بتوں، مزاروں کے سامنے مراقبے کرتے، سجدہ ریز ہوتے اور طواف کرتے تھے۔ ننار کی شان شاہی محل سرا کی تھی۔ یہاں ہر وقت نئی عورتیں آکر ٹھہرتی۔ یہاں بہت سی عورتوں نے اپنے آپ کو وقف کر رکھا تھا۔ وہ عورت بڑی محترم سمجھی جاتی تھی جو اپنی چادر عفت کو یہاں قربان کردیتی۔ اس مزار کے نام بہت سے رقبے وقف تھے جن کی آمدنی مجاور ہی استعمال کرسکتے تھے۔ اس شرک و خرافات کی یلغار اور بھرمار میں رب کریم کا فضل و کرم جوش میں آیا۔ اس نے شرک ورسومات کے مرکز میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو پیدا فرمایا۔ اس کی قدرت کا کرشمہ اور سنت قدیمہ ہے کہ جب بھی برائی حد سے بڑھنے لگتی ہے تو رب کبریا حق و باطل کا معرکہ برپا کرتا ہے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا چہرۂ مبارک : واقعہ معراج کا ذکر کرتے ہوئے نبی مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ مجھے جبرائیل (علیہ السلام) ساتویں آسمان پر لے گئے۔ میں کیا دیکھتا ہوں کہ ایک بزرگ شخصیت بیت المعمور کے ساتھ ٹیک لگائے ہوئے تشریف فرما ہے۔ جبرائیل (علیہ السلام) نے تعارف کرواتے ہوئے فرمایا۔ (ہٰذَا اَبُوْکَ اِبْرَاہِیْمُ فَسَلِّمْ عَلَیْہِ فَسَلَّمْتُ عَلَیْہِ)[ مشکوۃ: باب فی المعراج ] ” یہ آپ کے والد گرامی ابراہیم (علیہ السلام) ہیں آپ آگے بڑھ کر سلام عرض کریں چنانچہ میں نے سلام کیا۔“ جواباً حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے سلام کہتے ہوئے ارشاد فرمایا۔ (قَالَ مَرْحَبًا لاِبْنِ الصَّالِحِ وَالنَّبِیّ الصَّالِح)ِ[ مشکوۃ: باب فی المعراج ] ” خوش آمدید (جی آیاں نوں) نیک بیٹا اور نبی صالح بھی۔“ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ (رض) کا ذوق و شوق دیکھتے ہوئے مزید فرمایا کہ جس نے ابراہیم (علیہ السلام) کے رخ زیبا کا اندازہ لگانا ہو وہ مجھے دیکھ لے۔ (قَالَ أَمَّا إِبْرَاہِیمُ فَانْظُرُوا إِلَی صَاحِبِکُمْ) [ رواہ البخاری : کتاب احادیث الانبیاء] جیسا کہ ابھی ابھی ذکر کیا گیا ہے حضرت خلیل (علیہ السلام) کی قوم کے لوگ صنم پرستی کے ساتھ ساتھ ستارہ پرستی کے بھی قائل تھے۔ سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) نے مناسب جانا کہ اب وقت آگیا ہے کہ معبود ان ارضی کے ساتھ معبودان فلکی (چاند سورج، ستاروں) کی پر زور تردید کی جائے۔ لیکن اسلوب بیان ایسا اختیار فرمایا۔ کہ شرک کا مریض، یکایک بدک نہ جائے، کیونکہ مریض شرک بہت جلد باز اور ہلکی طبیعت کا واقع ہوا ہے۔ جب بھی اس کو محسوس ہوجائے کہ نسخہ توحید کے ساتھ میرا علاج ہونے والا ہے تو پہلے ہی بھاگنا اور منہ بسورنا شروع کردیتا ہے۔ (وإِذَا ذُکِرَ اللّٰہُ وَحْدَہُ اشْمَاَزَّتْ قُلُوْبُ الَّذِیْنَ لاَ یُؤْمِنُونَ بِا لْاٰ خِرَۃِ وَإِذَا ذُکِرَ الَّذِیْنَ مِنْ دُوْنِہٖٓ إِذَا ھُمْ یَسْتَبْشِرُوْنَ) [ الزمر : ٤٥] ” جب ایک اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے تو آخرت کے منکروں کے دل کڑھنے لگتے ہیں۔ جب اس کے علاوہ دوسروں کا تذکرہ ہوتا ہے تو یکایک خوشی سے کھل جاتے ہیں۔“ حضرت خلیل (علیہ السلام) نے نہایت اچھے اور دلچسپ انداز میں توحید سمجھانے کی کوشش فرمائی۔ یہ انداز بیان ان کی زبردست معجزانہ فصاحت و بلاغت اور حکمت و دانائی کا مرقع ہے۔ جب شام ہوئی تو پردۂ ظلمت سے ستارے درخشاں ہوئے تو اپنی قوم کا عقیدہ نقل کرتے ہوئے فرمایا۔ یہ میرا رب ہے۔ لیکن تھوڑی دیر کے بعد چمکتا ہوا ستارہ ڈوب گیا۔ فرمایا ڈوبنے والا رب نہیں ہو سکتا۔ پھر چاند نمودار ہوا، فرمایا یہ ہے میرا رب، لیکن چاند بھی آنکھوں سے اوجھل ہوگیا۔ صبح ہوئی اور مہر جہاں روشن ہوا، فرمایا یہ میرا رب ہے یہ ان سب سے بڑا ہے، لیکن سورج کو دوام اور روشنی کو بھی قرار نہیں۔ پہلے بڑھ رہی تھی، دوپہر کے بعد ڈھلنے لگی شام کو سورج غروب ہوگیا حضرت ابراہیم (علیہ السلام) پکارا ٹھے یہ سب محکوم و مجبور اور بے بس ہیں ان کو لانے اور لے جانے والا حقیقی مالک اللہ ہی عبادت کے لائق ہے۔ اب ان کا مکالمہ قرآن کے الفاظ میں سنیے! ” اس طرح ابراہیم (علیہ السلام) کو ہم نے زمین و آسمان کا نظام حکومت دکھایا تاکہ وہ یقین کرنے والوں میں ہوجائے۔ چنانچہ جب رات چھاگئی، تو اس نے ایک تارا دیکھا کہا یہ میرا رب ہے۔ لیکن جب وہ تارا ڈوب گیا تو کہنے لگے میں ڈوبنے والے کو بالکل پسند نہیں کرتا۔ جب چمکتے ہوئے چاند کی طرف دیکھا تو کہا یہ میرا رب ہے۔ جب وہ بھی ڈوب گیا تو فرمایا۔ اگر میرا رب مجھے ہدایت سے نہ نوازتا تو میں بھی گمراہ لوگوں میں شامل ہوتا۔ پھر سورج کو چمکتا ہوا دیکھا تو فرمایا یہ میرا رب ہے۔ اور یہ ان سب سے بڑا ہے۔ مگر جب وہ بھی غروب ہوگیا تو فرمایا اے برادران قوم میں بری ہوں، ان سے جن کو تم شریک بناتے ہو۔ میں نے تو اپنا چہرہ اس ہستی کی طرف کرلیا ہے، جس نے زمین و آسمان کو پیدا فرمایا اور میں مشرکوں کا سا تھی نہیں ہوں۔ اس کی قوم اس سے جھگڑنے لگی۔ فرمایا کیا اللہ تعالیٰ کے بارے میں میرے ساتھ جھگڑتے ہو۔ حالانکہ اس نے مجھے صراط مستقیم دکھائی، میں تمھارے بنائے ہوئے معبودان باطل سے نہیں ڈرتا، ہاں اگر میرا رب میرا نقصان چاہے تو ضرور نقصان ہوجائے گا۔ میرے رب کا علم ہر چیز پر محیط ہے کیا اب بھی تم نصیحت حاصل نہیں کرو گے ؟ آخر تمھارے ٹھہرائے ہوئے شریکوں سے کیوں ڈروں ؟ اللہ نے تم پر کوئی دلیل نہیں اتاری۔ ہم دونوں فریقوں میں کون امن و سلامتی کا حق دار ہے۔ بتاؤ اگر کچھ علم رکھتے ہو۔ بعض مفسرین کا خیال ہے کہ یہ ابراہیم (علیہ السلام) کے ایمان کا تدریجی عمل تھا، حالانکہ اس خطاب کے سیاق و سباق سے یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ نہ ابراہیم (علیہ السلام) کے ایمان کا تدریجی عمل تھا اور نہ ہی ایک لمحہ کے لیے ان کو معبود تصور کرتے تھے۔ کیونکہ قرآن مجید واقعہ کے آخر میں واشگاف الفاظ میں اعلان کرتا ہے۔ کہ ہم نے ابراہیم کو ان کی قوم کے خلاف دلائل دیے۔ ہم جس کے چاہتے ہیں درجات بلند کرتے ہیں یقیناً تیرا رب حکیم و علیم ہے۔ (وَلَقَدْ اٰتَیْنَآ اِبْرَاھِیْمَ رُشْدَہٗ مِنْ قَبْلُ وَکُنَّا بِہٖ عٰلِمِیْن)[ الانبیاء : ٥١] ” ہم نے ابراہیم کو ابتداء ہی سے ہدایت سے نوازا تھا اور ہم اس کو خوب جاننے والے تھے۔“ ارشاد الٰہی سے یہ بالکل واضح ہوجاتا ہے کہ ابراہیم (علیہ السلام) کو ابتدا سے ہی رشد و ہدایت حاصل ہوچکی تھی، بقول بعض مفسرین، اگر پھر بھی وہ ستارے اور چاند سورج ہی کو معبود تصور کر رہے تھے تو وہ ہدایت کیا تھی جو پہلے سے اللہ تعالیٰ نے عطا فرما رکھی تھی۔ چاند، سورج کی حیثیت : (وَالْقَمَرَ قَدَّرْنَاہُ مَنَازِلَ حَتَّی عَادَ کَالْعُرْجُونِ الْقَدِیمِ لَا الشَّمْسُ یَنْبَغِی لَہَا أَنْ تُدْرِکَ الْقَمَرَ وَلَا اللَّیْلُ سَابِقُ النَّہَارِ وَکُلٌّ فِی فَلَکٍ یَسْبَحُونَ )[ یٰس : ٣٩۔ ٤٠] ” سورج اپنے ٹھکانے کی طرف چلا جا رہا ہے۔ جو زبردست علیم ہستی کا مقرر کیا ہوا ہے۔ اور چاند کے لیے بھی ہم نے منزلیں مقرر کر رکھی ہیں، یہاں تک کہ ان منزلوں سے گزرتا ہوا بالآخر وہ کھجور کی سوکھی ہوئی ٹہنی کی مانند پتلا ہوجاتا ہے نہ سورج کے بس میں ہے کہ وہ چاند کو پکڑے اور نہ رات دن سے آگے نکل سکتی ہے ہر ایک اس فضا میں تیر رہا ہے۔ (یٰسین : ٣٨ تا ٤٠) (قُلْ أَرَأَیْتُمْ إِن جَعَلَ اللّٰہُ عَلَیْکُمُ اللَّیْلَ سَرْمَدًا إِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ مَنْ إِلَہٌ غَیْرُ اللّٰہِ یَأْتِیْکُم بِضِیَآء أَفَلَا تَسْمَعُوْنَ قُلْ أَرَأَیْتُمْ إِن جَعَلَ اللَّہُ عَلَیْکُمُ النَّہَارَ سَرْمَدًا إِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ مَنْ إِلٰہٌ غَیْرُ اللّٰہِ یَأْتِیْکُمْ بِلَیْلٍ تَسْکُنُوْنَ فیہِ أَفَلَا تُبْصِرُوْنَ)[ القصص : ٧١، ٧٢] ” آپ فرما دیں کیا تم نے غور نہیں کیا اگر اللہ تعالیٰ قیامت تک تم پر رات کو لمبا کر دے۔ کون ہے جو اللہ کے سوا رات کو بدل کر دن کی روشنی لے آئے ؟ کیا تم سنتے نہیں ہو ؟ آپ اعلان کردیں ! غور کرو اگر اللہ تعالیٰ قیامت تک تم پر دن چڑھائے رکھے کون ہے جو اس کے بغیر دن کو رات میں بدل دے، جس میں تم آرام کرتے ہو ؟ کیا پھر بھی تم نہیں دیکھتے ؟“ (وَمِنْ اٰیٰتِہٖ الَّیْلُ وَالنَّھَارُ وَالشَّمْسُ وَالْقَمَرُ لاَ تَسْجُدُوْا للشَّمْسِ وَلاَ لِلْقَمَرِ وَاسْجُدُوْا لِلّٰہِ الَّذِیْ خَلَقَھُنَّ إِنْ کُنْتُمْ إِیَّاہُ تَعْبُدُوْنَ) (حٰمٓ السجدۃ: ٣٧) ” رات اور دن، سورج اور چاند اللہ کی نشانیاں ہیں۔ سورج چاند کو سجدہ نہ کر وبلکہ اس ذات کبریاء کو سجدہ کرو جس نے ان کو پیدا کیا ہے اگر واقعتا تم اسی کی عبادت کرنے والے ہو۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو معبود بنانا کھلی گمراہی ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے ابراہیم (علیہ السلام) کو زمین و آسمان کی بادشاہت دکھائی۔ ٣۔ شرک اور مشرکوں سے برأت کا اعلان کرنا سیرت ابراہیم (علیہ السلام) کا روشن باب ہے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ ہی سیدھے راستے کی طرف ہدایت دیتا ہے۔ تفسیر بالقرآن حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا تذکرہ : ١۔ آپ ابراہیم کا قرآن سے تذکرہ فرمائیں وہ سچے نبی تھے۔ (مریم : ٤١) ٢۔ اللہ تعالیٰ نے ابراہیم کو اپنا دوست بنا لیا۔ (النساء : ١٢٥) ٣۔ تمھارے لیے ابراہیم کی زندگی بہترین نمونہ ہے۔ (الممتحنۃ : ٤) ٤۔ اے نبی ابراہیم کے دین کی پیروی کرو۔ (النساء : ١٢٥) ٥۔ ہم نے آپ کو وحی کی کہ ابراہیم کے دین کی پیروی کرو۔ (النحل : ١٢٣) ٦۔ آپ ابراہیم کے مہمانوں کے متعلق بتلائیں۔ (الحجر : ٥١) ٧۔ یقیناً ابراہیم (علیہ السلام) تحمل مزاج، آہ وزاریاں کرنے والے اور اللہ کی طرف رجوع کرنے والے تھے۔ (ہود : ٧٥) ٨۔ بے شک ابراہیم (علیہ السلام) آہ وزاریاں کرنے والے اور متحمل مزاج تھے۔ ( التوبۃ: ١١٤) الانعام
75 الانعام
76 الانعام
77 الانعام
78 الانعام
79 الانعام
80 الانعام
81 فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ : اور ابراہیم (علیہ السلام) کے خطاب کا رد عمل۔ چاہیے تو یہ تھا کہ واضح قرائن دیکھنے اور ٹھوس دلائل سننے کے بعد حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی قوم سر تسلیم خم کرتی لیکن انھوں نے اسی روش کو اختیار کیا جو ہمیشہ سے منکرین حق اختیار کرتے ہیں۔ چنانچہ وہ قیل وقال اور حیلہ سازی سے بڑھ کر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے ساتھ لڑائی، جھگڑے پر اتر آئے۔ ابراہیم (علیہ السلام) نے ان سے جھگڑنے کے بجائے فقط اتنا فرمایا کہ کیا تم اللہ تعالیٰ کی ذات یعنی اس کی توحید کے بارے میں مجھ سے جنگ و جدال کرتے ہو؟ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے مجھے ہدایت سے سرفراز فرمایا ہے۔ ابتدا ہی سے مشرکوں کا یہ طریقہ رہا ہے کہ وہ انبیاء ( علیہ السلام) اور موحدین کو نہ صرف اپنی مادی اور افرادی قوت سے ڈراتے ہیں بلکہ اپنے عقیدہ کو سچ ثابت کرنے اور موحدین کو خوفزدہ کرنے کے لیے یہ بھی کہا کرتے ہیں کہ اگر تم نے اسی طرح ہمارے معبودوں کی مخالفت جاری رکھی تو وہ تمھیں تہس نہس کردیں گے۔ بسا اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ موحد کو اللہ تعالیٰ کی تقدیر کے مطابق کوئی تکلیف پہنچے تو مشرک طعنہ دیتے ہیں کہ یہ ہمارے معبودوں کی گستاخی کا نتیجہ ہے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو بھی مشرکوں نے یہ کہہ کر ڈرایا کہ عنقریب ہمارے معبود تجھے خوفناک گرفت میں لینے والے ہیں۔ جس کے جواب میں جناب ابراہیم (علیہ السلام) نے دو ٹوک انداز میں فرمایا کہ میں تمھارے معبودان باطل سے کس طرح خوف کھا سکتا ہوں۔ حالانکہ تمھاری حالت یہ ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرنے سے نہیں ڈرتے جبکہ تمھارے پاس اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرنے کا کوئی جواز اور دلیل نہیں۔ عقیدۂ توحیداپنانے اور اس کے تقاضے پورے کرنے سے انسان دنیا و مافیھا کے خوف سے بے خوف، اس کا دل مطمئن اور اپنے آپ میں امن و سکون محسوس کرتا ہے اس کے مقابلہ میں مشرک پتھر سے تراشے ہوئے بتوں اور اپنے ہاتھوں سے بنائے ہوئے مزاروں یہاں تک کہ مزارات میں اگنے والے درختوں کے پتوں سے بھی کانپتا ہے۔ اسی بنا پر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے ان سے سوال کیا کہ بتاؤ کون سے عقیدے کا حامل امن و سکون کا حق دار ہے اگر تم اس حقیقت کو جانتے ہو ؟ جہاں تک تمھاری بے بنیاد دھمکیوں کا تعلق ہے تو ان کی حقیقت میرا رب اچھی طرح جانتا ہے کیونکہ اس کا علم ہر چیز کا احاطہ کیے ہوئے ہے اور دنیا میں وہی کچھ رونما ہوتا ہے جو میرا رب چاہتا ہے کیا ان دلائل کے ہوتے ہوئے بھی تم توحیدکو ماننے اور نصیحت حاصل کرنے کے لیے تیار نہیں ہو۔ (مزید مطالعہ کے لیے ہماری کتاب سیرت ابراہیم (علیہ السلام) ملاحظہ فرمائیں۔) مسائل ١۔ عقیدۂ توحید راسخ ہو تو بندے کو کسی کا کوئی خوف نہیں رہتا۔ ٢۔ مشرک بزدل ہوتا ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ نے کسی کو اپنا شریک نہیں ٹھہرایا۔ ٤۔ شرک کرنے والوں کے پاس کوئی ٹھوس دلیل نہیں ہوتی۔ ٥۔ عقیدۂ توحید ہی امن و سلامتی کا ضامن ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ کا علم پوری کائنات پر محیط ہے : ١۔ اللہ تعالیٰ وسیع علم والا ہے۔ (البقرۃ: ١١٥) ٢۔ اللہ تعالیٰ ہر چیز کو جانتا ہے۔ (البقرۃ: ٢٩) ٣۔ ہمارے رب نے ہر چیز کو اپنے علم کے ذریعہ گھیرے میں لیا ہوا ہے۔ (الاعراف : ٨٩) ٤۔ اللہ تعالیٰ کے احاطۂ علم میں ہر چیز ہے۔ (الطلاق : ١٢) شرک کے لیے کوئی دلیل نہیں : ١۔ جو اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی غیر کو پکارتا ہے اس کے پاس کوئی دلیل نہیں ہے۔ (المؤمنون : ١١٧) ٢۔ انھوں نے اللہ کے علاوہ کئی معبود بنالیے ہیں آپ فرمائیں کوئی دلیل لاؤ۔ (الانبیاء : ٢٤) ٣۔ اس کے سوا کوئی اور بھی الٰہ ہے کوئی دلیل لاؤ اگر تم سچے ہو۔ (النمل : ٦٤) ٤۔ اے لوگو! تمھارے پاس رب کی طرف سے دلیل آچکی ہے۔ (النساء : ١٧٥) ٥۔ وہ اللہ کے سوا ان کی عبادت کرتے ہیں جن کی عبادت کے لیے کوئی دلیل نازل نہیں کی گئی۔ ( الحج : ٧١) ٦۔ تم اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک ٹھہراتے ہوئے نہیں ڈرتے جس کی اللہ نے کوئی دلیل نازل نہیں فرمائی۔ (الانعام : ٨١) الانعام
82 فہم القرآن ربط کلام : حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنی گفتگو میں توحید کو امن کا ضامن قرار دیا۔ حقیقت یہ ہے عقیدۂ توحید کے تقاضے پورے کیے بغیر امن قائم نہیں ہو سکتا۔ ایمان کی ابتدا اور انتہا توحید پر ہے باقی دین کے ارکان توحید کا تقاضا ہیں۔ توحید یہ ہے کہ آدمی اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کی صفات میں کسی کو شریک نہ سمجھے۔ اللہ تعالیٰ کی ذات کا کسی کو حصہ بنانا اس کی صفات میں کسی کو شریک سمجھنا پر لے درجے کا ظلم ہے۔ کیونکہ ظلم کا بنیادی معنی یہ ہے ” وَضْعُ الشَّی ءِ فِیْ غَیْرِ مَحَلِّہٖ“ ” کسی چیز کو اس کے اصلی مقام سے ہٹا کر دوسری جگہ رکھنا۔“ کسی ذات کو اللہ تعالیٰ کا حصہ یا جز قرار دینا جس طرح یہودیوں نے حضرت عزیر (علیہ السلام) کو اور عیسائیوں نے عیسیٰ (علیہ السلام) کو نہ صرف اللہ کا بیٹا کہا بلکہ مریم [، عیسیٰ (علیہ السلام) اور اللہ تعالیٰ کی ذات کو ملا کر تثلیث کا عقیدہ پیش کیا۔ ان کی دیکھا دیکھی مسلمانوں میں بعض لوگ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نور من نور اللہ کہتے ہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کی ذات کے ساتھ انبیاء کو شریک بنانا اور انھیں ان کے مقام سے بڑھا کر خدا بنانا ہے۔ ایسے ہی اللہ تعالیٰ کی صفات کو کسی زندہ یا مدفون بزرگ میں سمجھنے کا نام شرک ہے۔ جسے قرآن مجید پرلے درجے کا ظلم قرار دیتا ہے۔ یہاں ظلم سے مراد شرک اور ایمان سے مراد توحید ہے۔ جن لوگوں نے اپنے ایمان کو شرک کی ملاوٹ سے محفوظ رکھا۔ ہی ہدایت یافتہ اور قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے غضب اور جہنم کی ہولناکیوں سے مامون ہوں گے۔ شرک ظلم ہے اور ظلم کے خلاف حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے یہ دلیل سجھائی تھی جس کی بنیاد پر انھوں نے ثابت کیا کہ چاند ستاروں اور سورج کو اپنی قسمت کا مالک سمجھنا اور انھیں خیر و شر میں دخیل جان کر ان کی عبادت کرنا ظلم ہے۔ جس کا ان کی قوم کوئی جواب نہ دے سکی اور وہ ابراہیم (علیہ السلام) کے سامنے دلیل کے اعتبار سے سرنگوں ہوئے۔ اس طرح ابراہیم (علیہ السلام) اپنی قوم پر سربلند ہوئے۔ (عَنْ عَبْدِ اللَّہِ (رض) قَالَ لَمَّا نَزَلَتْ (الَّذِینَ اٰمَنُوا وَلَمْ یَلْبِسُوْا إِیْمَانَہُمْ بِظُلْمٍ) قَالَ أَصْحَابُ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) أَیُّنَا لَمْ یَظْلِمْ فَأَنْزَلَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ إِنَّ الشِّرْکَ لَظُلْمٌ عَظِیمٌ) [ رواہ البخاری : کتاب الایمان، باب ظلم دون ظلم] ” حضرت عبداللہ (رض) بیان کرتے ہیں جب یہ آیت نازل ہوئی الَّذِینَ اٰمَنُوْا وَلَمْ یَلْبِسُوْٓا إِیمَانَہُمْ بِظُلْمٍ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ (رض) نے پوچھا ہم میں سے کون ہے جس نے ظلم نہ کیا ہو تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی بلا شبہ شرک بہت بڑا ظلم ہے۔“ ١۔ اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے سر بلند کرتا ہے کیونکہ اس کے ہر کام اور حکم میں حکمت ہوتی ہے اور وہ ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے یہاں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے طریقۂ تبلیغ اور دلیل کو اللہ تعالیٰ نے اپنی دلیل قرار دیا ہے۔ جس سے ثابت ہوا کہ ابراہیم (علیہ السلام) نے چاند، سورج اور ستاروں کو اپنا رب نہیں سمجھتے تھے۔ ٢۔ یاد رہے کہ دنیا میں کوئی رسول اور نبی ایسا نہیں گزرا جو دلائل کے حوالے سے اپنی قوم کے سامنے لاجواب اور سرنگوں ہوا ہو۔ ابراہیم (علیہ السلام) کو گفتگو کا یہ طریقہ سمجھانا اور انھیں ٹھوس دلائل عطا کرنے کی اور بھی حکمتیں ہیں۔ جنھیں اللہ علیم و حکیم خوب جانتا ہے۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو واضح دلائل عنایت فرمائے۔ ٢۔ عقیدۂ توحید ہی امن و سکون کی ضمانت دیتا ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ جس کے چاہتے ہیں درجات بلند فرماتے ہیں۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ ہر چیز کا بخوبی علم رکھتا ہے۔ تفسیر بالقرآن شرک ظلم اور گناہ ہے : ١۔ اللہ تعالیٰ کا کوئی شریک نہیں میں اسی بات کا حکم دیا گیا ہوں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اعلان۔ (الانعام : ١٦٤) ٢۔ جو اللہ کی ملاقات چاہتا ہے وہ اپنے رب کی عبادت میں کسی کو شریک نہ ٹھہرائے۔ (الکہف : ١١٠) ٣۔ اللہ تعالیٰ شرک کو معاف نہیں کرے گا اس کے علاوہ جو چاہے گا معاف فرما دے گا۔ (النساء : ٤٨ تا ١١٦) ٤۔ اللہ کی عبادت کرو اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ۔ (النساء : ٣٦) ٥۔ جو بھی اللہ کے ساتھ شرک کرتا ہے اللہ نے اس پر جنت حرام کردی ہے۔ (المائدۃ: ٧٢) ٦۔ اے بیٹے شرک نہ کر شرک بہت بڑا ظلم ہے حضرت لقمان کی نصیحت۔ (لقمان : ١٣) الانعام
83 الانعام
84 فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو نہ صرف دلائل کے اعتبار سے برتری عنایت فرمائی تھی بلکہ رہتی دنیا تک امامت کے منصب سے سرفراز کرتے ہوئے انبیاء کی صورت میں نیک اولاد عنایت فرمائی جنھوں نے ان کے مشن کو جاری و ساری رکھا تاآنکہ نبی آخر الزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دین حنیف کا پھر یرا پوری دنیا میں سربلند فرمایا۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) تن تنہا اپنے باپ، قوم اور حاکمِ و قت کے سامنے ڈٹے رہے۔ اللہ تعالیٰ نے نہ صرف دلائل کے اعتبار سے انھیں اپنی قوم پر برتری عنایت فرمائی بلکہ ایک وقت وہ بھی آیا کہ پوری دنیا کی امامت سے سرفراز کیا گیا اور ان کی دعوت کو چار سو پھیلانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے انھیں ایسی اولاد اور وارث نصیب فرمائے کہ جن میں اولوالعزم انبیاء عظیم الشان خلفاء پیدا ہوئے۔ ان میں ایسی شخصیات بھی تھیں جو بیک وقت منصب خلافت و نبوت پر فائز ہوئیں اور انھوں نے توحید کی دعوت کو دنیا میں عام کیا۔ یہاں ان انبیاء کا نام بنام ذکر کیا گیا ہے جو انفرادی اوصاف کے اعتبار سے باقی انبیاء سے برتر تھے۔ جس میں یہ اشارہ پایا جاتا ہے جو اوصاف ان شخصیات میں پائے جاتے تھے وہ سب کے سب نبی آخر الزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات میں ودیعت کردیے گئے ہیں۔ ان انبیاء (علیہ السلام) کو ایک دوسرے کے باپ، اولاد اور بھائی قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ ہم نے ان کو اپنے کام کے لیے منتخب فرما کر صراط مستقیم کی ہدایت سے نوازا تھا۔ اس بات کی وضاحت بھی کردی گئی کہ ہدایت وہی ہوتی ہے۔ جسے اللہ تعالیٰ ہدایت قرار دے اور وہ اپنے بندوں میں جسے چاہتا ہے ہدایت کی دولت سے مالا مال فرماتا ہے۔ الانعام
85 الانعام
86 الانعام
87 الانعام
88 یہاں ہدایت سے پہلی مراد اللہ کی توحید ہے کیونکہ اس عقیدے کے بغیر کوئی عبادت بھی قابل قبول نہیں ہوتی۔ عقیدۂ توحید کی ضد شرک ہے جو ہر برائی کا منبع، عظیم گناہ اور انتہا درجے کا ظلم ہے اس لیے یہاں اٹھارہ عظیم المرتبت ہستیوں کا ذکر کرنے کے بعد فرمایا کہ اگر یہ ہستیاں بھی شرک کا ارتکاب کرتیں تو ان کی زندگی بھر کی عبادت وریاضت ضائع کردی جاتی۔ (عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِی بَکْرَۃَ (رض) عَنْ أَبِیہٖ قَالَ قَال النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) أَلَا أُنَبِّءُکُمْ بِأَکْبَرِ الْکَبَاءِرِ ثَلَاثًا قَالُوا بَلٰی یَا رَسُول اللّٰہِ قَالَ اَلْإِشْرَاک باللَّہِ وَعُقُوقُ الْوَالِدَیْنِ وَجَلَسَ وَکَانَ مُتَّکِءًا فَقَالَ أَلَا وَقَوْلُ الزُّورِ قَالَ فَمَا زَالَ یُکَرِّرُہَا حَتَّی قُلْنَا لَیْتَہُ سَکَت) [ رواہ البخاری : کتاب الشہادات، باب ما قیل فی شہادات الزور] ” عبدالرحمن بن ابی بکرہ (رض) اپنے والد سے بیان کرتے ہیں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کیا میں تم کو بڑے گناہ کی خبر نہ دوں آپ نے ان الفاظ کو تین مرتبہ دہرایا صحابہ کرام (رض) نے عرض کی کیوں نہیں اے اللہ کے رسول ! آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرنا، والدین کی نافرمانی کرنا اور پھر آپ ٹیک چھوڑ کر بیٹھ گئے۔ فرمایا اور جھوٹی بات کہنا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس بات کو دہراتے رہے یہاں تک ہم نے سوچا کاش! آپ خاموش ہوجائیں۔“ (عن ابْن عَبَّاسٍ (رض) یَقُولُ لَمَّا بَعَثَ النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مُعَاذَ بْنَ جَبَلٍ إِلَی نَحْوِ أَہْلِ الْیَمَنِ قَالَ لَہُ إِنَّکَ تَقْدَمُ عَلَی قَوْمٍ مِنْ أَہْلِ الْکِتَابِ فَلْیَکُنْ أَوَّلَ مَا تَدْعُوہُمْ إِلَی أَنْ یُوَحِّدُوا اللّٰہَ تَعَالَی فَإِذَا عَرَفُوا ذَلِکَ فَأَخْبِرْہُمْ أَنَّ اللّٰہَ قَدْ فَرَضَ عَلَیْہِمْ خَمْسَ صَلَوَاتٍ فِی یَوْمِہِمْ وَلَیْلَتِہِمْ فَإِذَا صَلَّوْا فَأَخْبِرْہُمْ أَنَّ اللّٰہَ افْتَرَضَ عَلَیْہِمْ زَکَاۃً فِی أَمْوَالِہِمْ تُؤْخَذُ مِنْ غَنِیِّہِمْ فَتُرَدُّ عَلَی فَقِیرِہِمْ فَإِذَا أَقَرُّوا بِذٰلِکَ فَخُذْ مِنْہُمْ وَتَوَقَّ کَرَاءِمَ أَمْوَال النَّاسِ)[ رواہ البخاری : کتاب التوحید،] ” حضرت عبداللہ بن عباس (رض) بیان کرتے ہیں جب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے معاذ بن جبل (رض) کو اہل یمن کی طرف بھیجا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تم اہل کتاب کی طرف جا رہے ہو سب سے پہلے تم جس بات کی انہیں دعوت دو وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو ایک جانیں جب وہ اس کی توحید کے قائل ہوجائیں تو انہیں بتانا۔ اللہ نے ان پر پانچ نمازیں دن اور رات میں فرض کی ہیں۔ جب وہ نماز پڑھنے لگیں تو ان کو بتا نا اللہ تعالیٰ نے ان کے مالوں سے ان پر زکوٰۃ فرض کی ہے۔ جو ان کے مالدار لوگوں سے لے کر ان کے غرباکو دی جائے۔ جب وہ اس بات کا اقرار کرلیں تو ان سے زکوٰۃ وصول کرنا اور ان کے بہترین مال سے بچنا۔“ نواسے بھی آدمی کی اولاد ہوتے ہیں : (عَنْ یَعْلَی بْنِ مُرَّۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حُسَیْنٌ مِنِّی وَأَنَا مِنْ حُسَیْنٍ أَحَبَّ اللَّہُ مَنْ أَحَبَّ حُسَیْنًا حُسَیْنٌ سِبْطٌ مِنْ الْأَسْبَاطِ)[ رواہ الترمذی : کتاب المناقب، باب مناقب الحسن والحسین] ” یعلی بن مرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں اللہ تعالیٰ اس سے محبت کرے گا جو حسین سے محبت کرے گا حسین میری اولاد سے ہے۔“ انبیاء ( علیہ السلام) ایک دوسرے کے بھائی ہوتے ہیں : (عن ابی ہُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ سَمِعْتُ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَقُولُ أَنَا أَوْلَی النَّاس بابْنِ مَرْیَمَ وَالْأَنْبِیَاءُ أَوْلَادُ عَلَّاتٍ لَیْسَ بَیْنِی وَبَیْنَہُ نَبِیٌّ)[ رواہ البخاری : کتاب احادیث الانبیاء،] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں میں نے رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا لوگو! میں ابن مریم کے زیادہ قریب ہوں اور تمام انبیاء ( علیہ السلام) علاتی بھائی ہیں میرے اور ان کے درمیان کوئی نبی نہیں ہے۔“ مسائل ١۔ تمام انبیاء کرام (علیہ السلام) ایک دوسرے کے بھائی یعنی ایک ہی خاندان نبوت سے تعلق رکھتے ہیں۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے انبیاء کرام (علیہ السلام) کو تمام انسانوں سے ممتاز فرمایا ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ نے انبیاء کو خصوصی ہدایت سے نوازا۔ ٤۔ اگر انبیاء (علیہ السلام) میں سے کوئی بھی شرک کرتا تو اس کے تمام اعمال ضائع ہوجاتے۔ الانعام
89 فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ، نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ابراہیم (علیہ السلام) اور انکے بعد آ نے والے انبیاء کی دعوت کو پھیلانے اور اس پر قائم رہنے کا حکم۔ عظیم الشان اٹھارہ انبیائے کرام (علیہ السلام) اور ان کی پاک باز اولاد کا تذکرہ کرنے کے بعد فرمایا کہ وہ سب کے سب مواحد، ہدایت یافتہ اور شرک سے سخت اجتناب کرنے والے تھے اگر وہ شرک کا ارتکاب کرتے تو ان کے تمام اعمال ضائع کردیے جاتے۔ شرک سے بچنے کی ہمت اور توحید کی سمجھ انھیں اس لیے نصیب ہوئی کہ اللہ تعالیٰ نے انھیں کتاب، حکمت اور نبوت سے سرفراز فرمایا تھا۔ جس کا دوسرا معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جس قوم کو کتاب و حکمت اور نبوت کی تعلیم سے آگاہ کرے اس کا فرض بنتا ہے کہ وہ شرک سے اجتناب کرے اور اللہ کی توحید کا پر چار کرنے والی ہو۔ الحکم سے مراد وہ قوت ہے جس کے ذریعے امر بالمعروف اور نہی عن المنکرکا فریضہ تکمیل پاتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جس قوم کو اپنی کتاب اور نبوت کی روشنی عطا فرمائے۔ اس کا فرض ہے کہ وہ حکماً شرک کا قلع قمع اور توحید کا نفاذ کرے۔ یہاں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دینے کے ساتھ خوشخبری سنائی جا رہی ہے کہ اگر آپ کے مخاطبین کفر و شرک کا رویہ اپنائے رکھیں تو گھبرانے کی ضرورت نہیں۔ ہم نے آپ کے مقدر میں ایسے ساتھی رکھ دیے ہیں جو اللہ کی کتاب کا انکار نہیں کرتے۔ دین اور آپ کی ذات پر تن، من دھن قربان کرنے والے ہیں۔ لہٰذا آپ کو پہلے انبیائے کرام (علیہ السلام) کی اقتدا کرنی چاہیے کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہدایت یافتہ افراد تھے۔ اقتدا سے مراد انبیاء کا اسوۂ مبارکہ ہے جو وہ مخالفین کے مقابلہ میں اختیار کیا کرتے تھے۔ اقتدا میں دوسرا اشارہ یہ ہے تمام انبیا کی دعوت کے بنیادی اصول ایک ہی رہے ہیں۔ جس میں سرفہرست توحید کا اقرار، پرچار اور شرک سے نفرت کا اظہار ہے۔ جس طرح پہلے انبیاء دعوت کے بدلے کوئی اجرت نہیں لیتے تھے۔ آپ بھی ان کی اقتدا میں اعلان کرتے جائیں کہ اے لوگو! میں اس دعوت کے بدلے تم سے کسی مفاد اور اجرت کا مطالبہ نہیں کرتا۔ میرا کام تو نصیحت کرنا ہے اور یہ قرآن مجید پورے عالم کے لیے ذکر اور نصیحت بنا کر بھیجا گیا ہے۔ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَال النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَا مِنَ الْأَنْبِیَاءِ نَبِیٌّ إِلَّا أُعْطِیَ مَا مِثْلہُ آمَنَ عَلَیْہِ الْبَشَرُ وَإِنَّمَا کَانَ الَّذِی أُوتِیتُ وَحْیًا أَوْحَاہ اللَّہُ إِلَیَّ فَأَرْجُو أَنْ أَکُونَ أَکْثَرَہُمْ تَابِعًا یَوْمَ الْقِیَامَۃِ) [ رواہ البخاری : کتاب فضائل القران، باب کیف نزل الوحی] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا انبیاء کرام میں سے ہر نبی کو ایسی چیزیں دی گئی ہیں جس پر لوگ ایمان لے آئیں مجھے وحی عنایت کی گئی اس میں اللہ تعالیٰ نے جو فرمایا میں امید کرتا ہوں قیامت کے دن میری پیروی کرنے والے سب سے زیادہ ہوں گئے۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے انبیاء (علیہ السلام) کو خصوصی حکمت سے نوازا۔ ٢۔ لوگوں کو نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے طریقہ کی ہی پیروی کرنی چاہیے۔ ٣۔ انبیاء کرام (علیہ السلام) دعوت دین کے بدلے کسی سے معاوضہ طلب نہیں کرتے تھے۔ ٤۔ قرآن مجید تمام جہانوں کے لیے نصیحت ہے۔ تفسیر بالقرآن انبیاء (علیہ السلام) کسی سے اجرت نہیں لیتے تھے : ١۔ (حضرت نوح (علیہ السلام) نہیں میں سوال کرتا کسی سے اجر کا۔ میرا اجر اللہ رب العالمین کے ذمہ ہے۔ (الشعراء : ١٠٩) ٢۔ (حضرت ھود علیہ السلام) نہیں میں سوال کرتا کسی سے اجر کا میرا اجر اللہ رب العالمین کے ذمہ ہے۔ (الشعراء : ١٢٧) ٣۔ (حضرت صالح (علیہ السلام) نہیں میں سوال کرتا کسی سے اجر کا میرا اجر اللہ رب العالمین کے ذمہ ہے۔ (الشعراء : ١٤١ تا ١٤٥) ٤۔ (حضرت لوط (علیہ السلام) نہیں میں سوال کرتا کسی سے اجر کا میرا اجر اللہ رب العالمین کے ذمہ ہے۔ (الشعراء : ١٦٤) ٥۔ (حضرت شعیب (علیہ السلام) نہیں میں سوال کرتا کسی سے اجر کا میرا اجر اللہ رب العالمین کے ذمہ ہے۔ (الشعراء : ١٨٠) ٦۔ نہیں ہے میرا اجر مگر اللہ پر اور وہی ہر چیز پر گواہ ہے۔ (السباء : ٤٧) ٨۔ (حضرت ھود علیہ السلام) نہیں ہے میرا اجر مگر اللہ پر جس نے مجھے پیدا کیا ہے۔ (ھود : ٥١) ٩۔ (اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) !) کہہ دیجیے میں اس تبلیغ پر تم سے کوئی اجر نہیں مانگتانہ ہی میں متکلف ہوں۔ (صٓ: ٨٦ ) الانعام
90 الانعام
91 فہم القرآن ربط کلام : توحید سے انحراف، اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بشریت کا انکار کرنا۔ اللہ تعالیٰ کی ناقدری کرنے کے مترادف ہے۔ انسان جب اللہ تعالیٰ کی ذات کا انکار یا اس کی ذات اور صفات میں کسی کو شریک بناتا ہے تو پھر وہ بڑے بڑے حقائق ٹھکراتا چلا جاتا ہے۔ نزول قرآن کے وقت اور آج بھی کفار اور مشرکوں کی یہی حالت ہے کہ وہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت کا یہ کہہ کر انکار کرتے ہیں کہ آپ بشر ہیں اور اللہ تعالیٰ نے کسی بشر پر اپنی کتاب نازل نہیں کی۔ مکہ کے لوگ اکثر جاہل تھے وہ اپنی جہالت کی بنا پر کہا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ کو بشر کے بجائے کسی فرشتہ کو نبی بنانا چاہیے تھا۔ ان کے مقابلہ میں یہودی عصبیت میں آکر یہ بات کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد کسی شخص کو رسول منتخب نہیں کیا۔ بس موسیٰ (علیہ السلام) ہی آخری رسول اور نبی ہیں۔ اسی بنا پر انھوں نے عیسیٰ (علیہ السلام) کی مخالفت کی اور اسی وجہ سے وہ نبی رحمت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کا انکار کرتے ہیں بشر پر نبوت نازل نہیں کی۔ یہ سوچنا اور کہنا اللہ تعالیٰ کی ناقدری کرنے کے مترادف ہے۔ اس ناقدری، عصبیت اور ہٹ دھرمی پر سوال کیا گیا ہے کہ وہ کونسی ہستی ہے جس نے موسیٰ (علیہ السلام) پر کتاب نازل کی جو لوگوں کے لیے روشنی اور ہدایت کا سرچشمہ تھی۔ جسے تم نے مختلف اوراق میں تبدیل کردیا ہے کچھ حصہ لوگوں کے سامنے بیان کرتے ہو جبکہ کثیر حصہ تم نے لوگوں سے چھپالیا ہے جسے بہت کم لوگوں کے سامنے ظاہر کرتے ہوحالانکہ اس کتاب میں تمھیں اس تعلیم سے آراستہ کیا گیا جس سے تم اور تمھارے آباو اجداد بے خبر تھے۔ اس سوال میں یہ استفسار بھی موجود ہے کہ بتاؤ موسیٰ بشر نہیں تھے۔ تورات کو مختلف اوراق میں تبدیل کرنے کا یہ بھی مفہوم ہے کہ انھوں نے ذاتی اور گروہی مفادات کے پیش نظر اس کے حصے، بخرے کردیئے تھے۔ جن کو موقع محل کے مطابق لوگوں کے سامنے پیش کرتے۔ اگر مجبوراً کہیں اصل مسئلہ بیان کرنا پڑتا تو اس کی ایسی تاویل کرتے کہ جس کا تورات کے ساتھ دور کا واسطہ نہیں ہوتا تھا۔ اس طرح جب چاہتے تورات کے احکام کی من مرضی تاویل کردیتے۔ اس صورت حال پر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تلقین کی گئی ہے کہ ایسے ناعاقبت اندیش اور ناہنجار لوگوں پر اپنی صلاحیتیں صرف کرنے کے بجائے انھیں ان کی حالت پر چھوڑ دینا چاہیے۔ اس کتاب کا حق چھپانا : (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَ (رض) أَنَّ الْیَہُودَ جَاءُ وا إِلَی رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَذَکَرُوا لَہُ أَنَّ رَجُلًا مِنْہُمْ وَامْرَأَۃً زَنَیَا فَقَالَ لَہُمْ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَا تَجِدُونَ فِی التَّوْرَاۃِ فِی شَأْنِ الرَّجْمِ فَقَالُوا نَفْضَحُہُمْ وَیُجْلَدُونَ فَقَالَ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ سَلَامٍ (رض) کَذَبْتُمْ إِنَّ فیہَا الرَّجْمَ فَأَتَوْا بالتَّوْرَاۃِ فَنَشَرُوہَا فَوَضَعَ أَحَدُہُمْ یَدَہُ عَلٰی آیَۃِ الرَّجْمِ فَقَرَأَ مَا قَبْلَہَا وَمَا بَعْدَہَا فَقَالَ لَہُ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ سَلَامٍ (رض) ارْفَعْ یَدَکَ فَرَفَعَ یَدَہُ فَإِذَا فیہَا آیَۃُ الرَّجْمِ فَقَالُوا صَدَقَ یَا مُحَمَّدُ فیہَا آیَۃُ الرَّجْمِ فَأَمَرَ بِہِمَا رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَرُجِمَا قَالَ عَبْدُ اللّٰہِ فَرَأَیْتُ الرَّجُلَ یَجْنَأُ عَلَی الْمَرْأَۃِ یَقِیہَا الْحِجَارَۃَ۔۔) [ رواہ البخاری : کتاب المناقب، باب قول اللہ تعالیٰ یعرفونہ کما یعرفون ابناۂم] ” حضرت عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں یہود کے کچھ افراد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے۔ انہوں نے کہا ایک مرد اور عورت نے زنا کیا ہے رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا رجم کے بارے میں تم تورات میں کیا پاتے ہو ؟ انہوں نے کہا انہیں ذلیل ورسوا کرتے ہوئے پیٹا جائے گا۔ عبداللہ بن سلام (رض) نے کہا تم لوگ جھوٹ بولتے ہو اس میں تو رجم کا حکم ہے۔ وہ تورات لے کر آئے تو انہوں نے اسے کھولا تو ان میں سے ایک نے رجم کی آیت پر ہاتھ رکھا تو اس نے ان حروف سے پہلے اور بعد کی عبارت پڑھی۔ عبداللہ بن سلام (رض) نے کہا اس سے ہاتھ اٹھا ئیے۔ اس نے اپنا ہاتھاٹھا یا تو اس جگہ رجم کی آیت تھی تو انہوں نے کہا اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تو سچا ہے اس میں رجم کے متعلق آیت ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان دونوں کو سنگسار کرنے کا حکم دیا۔ حضرت عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ مرد عورت پر جھک کر اس کو پتھروں سے بچاتا تھا۔“ مسائل ١۔ قرآن مجید کا انکار کرنے والے درحقیقت اللہ تعالیٰ کی ناقدری کرتے ہیں۔ ٢۔ لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے اپنی کتابوں کے ذریعے تعلیم دی۔ ٣۔ تمام الہامی کتابوں کو نازل کرنے والا ایک اللہ ہی ہے۔ الانعام
92 فہم القرآن ربط کلام : تورات اور انجیل کے بعد قرآن مجید مبارک کتاب ہے اور لوگوں کے لیے ہدایت کا آخری سرچشمہ ہے جو پہلی کتب آسمانی کی تصدیق کرتی ہے۔ یہودی عصبیت کی بنا پر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت اور قرآن مجید کے نزول کا انکار کرتے ہیں۔ حالانکہ قرآن تورات سمیت آسمانی کتابوں کی تصدیق اور تائید کرتا ہے اور لوگوں کے لیے باعث برکت ہے۔ قرآن مجید کتب آسمانی کی تائید و تصدیق کرنے کے ساتھ نہایت ہی مبارک کتاب ہے۔ کائنات کے انسانوں کے لیے ہدایت کا منبع، روشنی کا سرچشمہ اور حکمت و دانش کا مہرتاباں ہے اگر یہود ہٹ دھرمی کی بنا پر مسلسل انکار کر رہے ہیں تو اے رسول ان پر صلاحیتیں صرف کرنے کے بجائے آپ اہل مکہ اور اس کے چاروں طرف بسنے والے لوگوں کو ڈرائیں اور سمجھائیں اور ان مسلمانوں کو جو آخرت کے حساب و کتاب پر یقین رکھتے اور پنجگانہ نماز کی حفاظت کرتے ہیں۔ اس آیت میں مکہ معظمہ کو ام القریٰ کا درجہ دیا گیا ہے ام القریٰ کا معنی ہے ” بستیوں کی ماں۔“ سورۃ آل عمران کی آیت ٩٦ سے اشارہ ملتا ہے کہ یہی مبارک بستی ہے جو سب سے پہلے دنیا میں معرض وجود میں آئی حدیث میں اس کی وضاحت یوں کی گئی ہے کہ زمین کے پیدا ہونے سے پہلے آسمان کے نیچے پانی ہی پانی تھا۔ اللہ تعالیٰ نے زمین کو صفحۂ ہستی پر آنے کا حکم دیا۔ سب سے پہلے زمین کا جو حصہ ظہور پذیر ہوا۔ وہ مکہ معظمہ کی سرزمین تھی اس اعتبار سے بھی مکہ ام القریٰ کا درجہ رکھتا ہے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے یہاں آخری نبی کی بعثت کی دعا کی تھی اس سے یہ حقیقت بھی واضح ہوتی ہے کہ تبلیغ کا نیٹ ورک ایسا ہونا چاہیے جس میں ایک مبلغ اپنے نفس کے بعد اپنے اعزاء و اقرباء، اڑوس پڑوس اور اپنے ہم وطنوں کو سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچائے۔ یہ حقوق انسانی اور فطری تقسیم کے عین مطابق ہے پھر تبلیغ کے سلسلہ میں ان لوگوں پر خاص توجہ دے جو مرنے کے بعد جی اٹھنے پر یقین رکھتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو منوانا دوسروں کی نسبت آسان ہوتا ہے۔ آخرت پر یقین رکھنے والے ہی نماز کی حفاظت کا التزام کرتے تھے کیونکہ نماز اللہ تعالیٰ کے قرب کا مؤثر ذریعہ ہے اور نماز اس بات کا احساس دلاتی ہے جس طرح دنیا میں اللہ تعالیٰ کے حضور کھڑے ہوتے ہیں۔ اسی طرح مرنے کے بعد اس کی بارگاہ میں عاجز اور سرافگندہ ہو کر کھڑے ہوں گے۔ قرآن مجید کے نفاذ کی برکات : (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حَدٌّ یُعْمَلُ بِہٖ فِی الْأَرْضِ خَیْرٌ لِأَہْلِ الْأَرْضِ مِنْ أَنْ یُمْطَرُوا أَرْبَعِینَ صَبَاحًا) [ رواہ ابن ماجۃ: کتاب الحدود، باب اقامۃ الحد] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ حد کو زمین پر نافذ کرنا اہل زمین کے لیے چالیس دن کی بارش سے بہتر ہے۔“ قرآن مجید کی تلاوت کا ثواب : (عن عَبْد اللَّہِ بْنَ مَسْعُودٍ (رض) یَقُولُ قَالَ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَنْ قَرَأَ حَرْفًا مِنْ کِتَاب اللّٰہِ فَلَہُ بِہٖ حَسَنَۃٌ وَالْحَسَنَۃُ بِعَشْرِ أَمْثَالِہَا لَا أَقُول الم حَرْفٌ وَلَکِنْ أَلِفٌ حَرْفٌ وَلَامٌ حَرْفٌ وَمِیمٌ حَرْفٌ) [ رواہ الترمذی : کتاب فضائل القران] ” حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس نے اللہ تعالیٰ کی کتاب سے ایک حرف پڑھا اس کے لیے دس نیکیوں کے برابر ثواب ہے میں یہ نہیں کہتا الم ایک حرف ہے بلکہ الف ایک حرف ہے ل دوسرا حرف ہے اور میم تیسرا حرف ہے۔“ تبلیغ کی ترتیب : (عَنْ عَاءِشَۃَ (رض) قَالَتْ لَمَّا نَزَلَتْ وَأَنْذِرْ عَشِیرَتَکَ الْأَقْرَبِینَ قَامَ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عَلَی الصَّفَا فَقَالَ یَا فَاطِمَۃَ بِنْتَ مُحَمَّدٍ یَا صَفِیَّۃَ بِنْتَ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ یَا بَنِی عَبْدِ الْمُطَّلِبِ لَا أَمْلِکُ لَکُمْ مِنْ اللّٰہِ شَیْءًا سَلُونِی مِنْ مَالِی مَا شِءْتُمْ) [ رواہ مسلم : کتاب الایمان، باب فی قولہ تعالیٰ وانذر عشیرتک الأقربین] ” حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں جب یہ آیت نازل ہوئی ” اور اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈرائیے“ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صفا پر کھڑے ہو کر فرمایا اے فاطمہ میری بیٹی، اے صفیہ بنت عبدالمطلب، اے عبدالمطلب کے خاندان کے لوگو ! مجھ سے مانگ لو لیکن اللہ کے ہاں میں تمہارے کچھ کام نہیں آؤں گا۔“ نماز کی فرضیت اور فضیلت : (عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) الصَّلَوٰتُ الْخَمْسُ وَالْجُمُعَۃُ اِلَی الْجُمُعَۃِ وَ رَمَضَانُ اِلٰی رَمْضَانَ مُکَفِّرَاتٌ لِّمَا بَیْنَہُنَّ اِذَا اجْتُنِبَتِ الْکَبَاءِرُ)[ رواہ مسلم : کتاب الطہارۃ، باب الصلوات الخمس] ” ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا پانچ نمازیں اور جمعہ سے جمعہ اور رمضان سے رمضان درمیانی مدّت کے گناہوں کا کفارہ ہیں۔ بشرطیکہ کبیرہ گناہوں سے اجتناب کیا جائے۔“ مسائل ١۔ قرآن مجید اللہ تعالیٰ کا کلام ہے۔ ٢۔ قرآن مجید بابرکت کتاب ہے۔ ٣۔ قرآن مجید پہلے انبیاء و رسل کی تصدیق کرتا ہے۔ ٤۔ مکہ مکرمہ دنیا کی تہذیبوں کا سنگم تھا۔ ٥۔ قرآن مجید کے ماننے والے اپنی نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں۔ الانعام
93 فہم القرآن ربط کلام : قرآن مجید کی آیات کا انکار کرنا، یا یہ نبوت کا دعویٰ کرناکہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی دوسرا بھی وحی یا کتاب نازل کرسکتا ہے یہ اللہ تعالیٰ پر جھوٹ بولنے کے مترادف ہے۔ رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مخالف آپ پر صرف یہ الزام ہی نہیں لگاتے تھے کہ آپ پر کوئی کتاب نازل نہیں ہوئی۔ بلکہ ان میں ایسے بدبخت بھی تھے جو یہ دعویٰ کرنے میں شرم محسوس نہیں کرتے تھے کہ ہم پر بھی اللہ تعالیٰ وحی نازل کرتا ہے۔ ان میں ایسے لوگ بھی تھے جو یہ لاف زنی کرتے کہ عنقریب ہم بھی ایسی کتاب لانے والے ہیں اس ضمن میں مفسرین نے مسیلمہ کذّاب اور عبداللہ بن ابی سرحہ کا ذکر کیا ہے مسیلمہ کذّاب کو حضرت ابو بکر صدیق (رض) کی خلافت میں اس کے ساتھیوں سمیت قتل کردیا گیا اور عبداللہ بن ابی سرحہ نے یا وہ گوئی پر معذرت کی اور خالص توبہ کی اور فتح مکہ کے موقع پر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اور اس کی توبہ قبول ہوئی۔ جہاں تک کسی شخص کا یہ دعویٰ کرنا کہ میں بھی قرآن مجید جیسی کتاب لاسکتا ہوں تو ایسے لوگوں کو قرآن مجید نے ایک دفعہ نہیں بلکہ تین مرتبہ یکے بعد دیگرے چیلنج دیا ہے اور یہ چیلنج کسی ایک فرد یا خاص قوم کے لیے نہیں بلکہ روئے زمین کے ہر زمانے کے لوگوں کے لیے ہے۔ کہ کوئی ایک سورۃ اس جیسی بنا کر پیش کرے۔ تفصیل کے لیے سورۃ البقرۃ آیت ٣٣ اور ٢٤ کی تفسیر ملاحظہ فرمائیں وہاں قرآن مجید کے مقابلہ میں کوئی ایک سورۃ لانے کا چیلنج کرنے کے بعد فرمایا ہے کہ تم سب مل کر بھی اس جیسی سورۃ نہیں لا سکتے۔ جب تم ایسا نہیں کرسکتے پھر تمھیں جہنم کی اس آگ سے بچنا اور ڈرنا چاہیے جس میں باغی انسان اور پتھرپھینکے جائیں گے۔ یہ سزا مرنے کے بعد ہوگی اور موت کے وقت ان کو یہ سزا دی جائے گی کہ ملائکہ ان کے چہروں پر تھپڑ اور ان کی کمروں پر ہتھوڑے مارتے ہوئے کہیں گے کہ اپنی جان نکال کر ہمارے حوالے کرو۔ بدن سے روح نکالنا اور داخل کرنا صرف اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے۔ اس لیے جب اپنی روح نہیں نکال سکیں گے تو انھیں اذیت ناک تکلیف کا سامنا کرنا پڑے گا اور ملائکہ اذیت دیتے ہوئے کہیں گے کہ آج اس عذاب کا مزا چکھو۔ یہ سزا موت کے وقت ہوگی اور مرنے کے بعد یہ لوگ ہمیشہ کے لیے عذاب میں مبتلا رہیں گے۔ ملائکہ انھیں مزید ذلیل کرنے کے لیے کہیں گے کہ اب ذلّت ناک عذاب جھیلتے رہو کیونکہ تم تکبر کی و جہ سے اللہ تعالیٰ کے احکام کا انکار کرتے اور اس کی ذات کے بارے میں حقیقت کے خلاف باتیں کرتے تھے۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ پر افترابازی کرنا بہت بڑا ظلم ہے۔ ٢۔ نبوت کا جھوٹادعویٰ کرنے والا بہت بڑا ظالم ہوتا ہے۔ ٣۔ فاسق لوگوں کو موت کے وقت ہی سزا شروع ہوجاتی ہے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ کے ذمہ خود ساختہ باتیں لگانے والوں کو ذلت آمیز عذاب ہوگا۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ کی آیات کو کم تر سمجھنے والوں کو سخت ترین عذاب دیا جائے گا۔ الانعام
94 فہم القرآن ربط کلام : دنیا میں کفار اپنی اجتماعی قوت اور مالی و سائل کی بنا پر قرآن مجید اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کا انکار کرتے ہیں۔ لیکن موت کے بعد سب کو اکیلے، اکیلے رب کے حضور پیش ہونا ہوگا۔ جس کے لیے موت کے بعد اٹھنے اور محشر کے میدان میں حاضری کی کیفیت بیان کی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے احکام سے انحراف اور موت کے بعد اٹھنے کا جو لوگ انکار کرتے ہیں ان کو خبردار کیا گیا ہے۔ کہ اس وقت کا تصور کرو۔ جب اللہ تعالیٰ ایک، ایک کو اپنی بارگاہ میں اس طرح کھڑا کریں گے جس طرح اس نے تمھیں پہلی مرتبہ پیدا کیا ہے۔ جس دولت پر تم اتراتے ہو، جو اقتدار اور اختیار تمھارے تکبر کا باعث بنا ہے جن پیروں فقیروں اور باطل معبودوں پر بھروسہ کرتے ہوئے موت کا انکار اور ہماری آیات سے انحراف کیا وہ سب کا سب پیچھے رہ جائے گا۔ کوئی ایک شخص بھی تمھاری سفارش کرنے کی جرأت نہیں کرسکے گا۔ اس وقت تمام وسائل ختم اور ہر قسم کے رشتے ناتے کٹ چکے ہوں گے اور وہ زعم بھی ختم ہوجائے گا جس کی بنا پر مشرک دنیا میں شرک کیا کرتے تھے۔ کہ فلاں، فلاں ہمیں اللہ سے چھڑوائے گا۔ ظالم کو اس کی کربناک موت کا احساس دلاتے ہوئے یہ بھی بتلایا جا رہا ہے کہ جس طرح موت و حیات کی کشمکش اور نزع کے عالم میں مرنے والے کی کوئی مدد نہیں کرسکتا اور موت کے فرشتے ظالم کو جھڑکیاں دیتے ہوئے اسے اپنی جان نکالنے کا حکم دیتے ہیں حالانکہ جان نکالنا یعنی روح قبض کرنا مرنے والے کے اختیار میں نہیں یہ اختیار صرف اور صرف روح قبض کرنے والے فرشتہ کو دیا گیا۔ اس کے سوا کوئی کسی کی روح نہیں نکال سکتا۔ بے شک کوئی آگ میں چھلانگ لگائے یاد ریا میں کود پڑے وہ وقت معین سے پہلے مر نہیں سکتا۔ جس طرح موت کی سختیاں اور نزع کی کربناکیاں انسان کو کسی کی مدد اور سہارے کے بغیر ہی برداشت کرنا پڑتی ہیں۔ ایسے ہی ہر انسان تن تنہا رب کبریا کی عدالت میں پیش ہوگا۔ وہاں نہ سفارشی ہوگا اور نہ ہی کوئی مددگار اور غم خوار قریب آئے گا۔ اس تصور کو یہ کہہ کر مزید واضح کیا گیا ہے کہ تم ایسے ہی اکیلے اکیلے اللہ تعالیٰ کے حضور پیش ہونے والے ہو۔ جس طرح پیدائش کے وقت انسان اکیلا پیدا ہوتا ہے۔ فرق یہ ہے کہ تخلیق کے وقت انسان گناہوں سے پاک پیدا ہوتا ہے اور مرتے وقت انسان گناہوں کے انبار ساتھ لے کرجاتا ہے۔ ایسے لوگوں کو باور کرایا گیا ہے کہ جن سہاروں پہ تم تکیہ اور جن امیدوں کو سہارا بنائے ہوئے ہو۔ وہ سب کی سب دم توڑ جائیں گی اور اس وقت تمھارے اس طرح اوسان خطا ہوں گے کہ کوئی دنیا کے سہاروں کا تصور بھی نہیں کرسکے گا۔ (عَنْ عَاءِشَۃ َ قَالَتْ لَمَّا نَزَلَتْ وَأَنْذِرْ عَشِیرَتَکَ الْأَقْرَبِینَ قَامَ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عَلٰی الصَّفَا فَقَالَ یَا فَاطِمَۃَ بِنْتَ مُحَمَّدٍ یَا صَفِیَّۃَ بِنْتَ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ یَا بَنِی عَبْدِ الْمُطَّلِبِ لَا أَمْلِکُ لَکُمْ مِنْ اللّٰہِ شَیْءًا سَلُونِی مِنْ مَالِی مَا شِءْتُمْ)[ رواہ مسلم : کتاب الایمان، باب فی قولہ تعالیٰ وانذر عشیرتک الاقربین] ” حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں جب یہ آیت نازل ہوئی ” اور اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈرائیے“ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صفا پر کھڑے ہو کر فرمایا اے فاطمہ میری بیٹی، اے صفیہ بنت عبدالمطلب، اے عبدالمطلب کے خاندان کے لوگو ! میرے مال میں سے جو چاہومانگ لو لیکن اللہ کے ہاں میں تمہارے کچھ کام نہیں آؤں گا۔“ (عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ إِنَّکُمْ مَحْشُورُونَ حُفَاۃً عُرَاۃً غُرْلًا ثُمَّ قَرَأَ کَمَا بَدَأْنَا أَوَّلَ خَلْقٍ نُعِیدُہُ وَعْدًا عَلَیْنَا إِنَّا کُنَّا فَاعِلِینَ وَأَوَّلُ مَنْ یُکْسٰی یَوْمَ الْقِیَامَۃِ إِبْرَاہِیمُ وَإِنَّ أُنَاسًا مِنْ أَصْحَابِی یُؤْخَذُ بِہِمْ ذَات الشِّمَالِ فَأَقُولُ أَصْحَابِی أَصْحَابِی فَیَقُولُ إِنَّہُمْ لَمْ یَزَالُوا مُرْتَدِّینَ عَلٰی أَعْقَابِہِمْ مُنْذُ فَارَقْتَہُمْ فَأَقُولُ کَمَا قَالَ الْعَبْدُ الصَّالِحُ وَکُنْتُ عَلَیْہِمْ شَہِیدًا مَا دُمْتُ فیہِمْ فَلَمَّا تَوَفَّیْتَنِی إِلٰی قَوْلِہٖ الْعَزِیزُ الْحَکِیمُ)[ رواہ البخاری : کتاب احادیث الانبیاء، باب قَوْلِ اللَّہِ تَعَالَی وَاتَّخَذَ اللَّہُ إِبْرَاہِیمَ خَلِیلاً ] ” حضرت عبداللہ بن عباس (رض) بیان کرتے ہیں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تم لوگوں کو ننگے پاؤ ں، ننگے بدن، بغیر ختنوں کے اکٹھا کیا جائے گا پھر اس آیت کی تلاوت فرمائی ( کَمَا بَدَأْنَا أَوَّلَ خَلْقٍ نُعِیدُہٗ وَعْدًا عَلَیْنَا إِنَّا کُنَّا فَاعِلِیْنَ) اور سب سے پہلے قیامت کے دن حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو لباس پہنایا جائے گا میری امت کے بائیں جانب کچھ لوگوں کو علیحدہ کردیا جائے گا میں کہوں گا میری امت میرے اصحاب کدھر گئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا یہ لوگ تو آپ کے دنیا سے رخصت ہونے کے بعد دین سے پھر گئے تھے پھر میں اللہ کے نیک بندے عیسیٰ (علیہ السلام) کی طرح کہوں گا میں تو اس حد تک گواہ ہوں جب تک میں ان میں موجود تھا۔ جب تو نے مجھے فوت کرلیا وَکُنْتُ عَلَیْہِمْ شَہِیدًا مَا دُمْتُ فیہِمْ فَلَمَّا تَوَفَّیْتَنِی إِلٰی قَوْلِہٖ الْعَزِیزُ الْحَکِیم“ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لِکُلِّ نَبِیٍّ دَعْوَۃٌ مُسْتَجَابَۃٌ وَإِنِّی اخْتَبَأْتُ دَعْوَتِی شَفَاعَۃً لِأُمَّتِی وَہِیَ نَاءِلَۃٌ إِنْ شَاء اللّٰہُ مَنْ مَاتَ مِنْہُمْ لَا یُشْرِکُ باللَّہِ شَیْءًا) [ رواہ الترمذی : کتاب الدعوات عن رسول اللہ باب فضل لا حول ولا قوۃ الا باللہ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہر نبی کی ایک مقبول دعا ہوتی ہے اور میں نے وہ دعا اپنی امت کی سفارش کے لیے رکھی ہے۔ انشاء اللہ یہ ہر اس آدمی کو فائدہ دے گی جو شرک کی حالت میں فوت نہ ہوا ہوگا۔“ مسائل ١۔ لوگ اللہ تعالیٰ کی بار گاہ میں فرداً فرداً بلائے جائیں گے۔ ٢۔ لوگوں کو ننگے پاؤں، ننگے بدن اور بغیر ختنہ کے اکٹھا کیا جائے گا۔ ٣۔ دنیا کا سازوسامان دنیا میں ہی رہ جائے گا۔ ٤۔ دنیا کے تمام، رشتے اور تعلقات ختم ہوجائیں گے۔ تفسیر بالقرآن قیامت کے دن کسی کی سفارش قبول نہیں ہوگی : ١۔ کون ہے جو اس کے حکم کے بغیر سفارش کرے۔ (البقرۃ: ٢٥٥) ٢۔ کافر قیامت کے دن سفارشی تلاش کریں گے۔ (الاعراف : ٥٣) ٣۔ قیامت کے دن سفارشی کسی کو فائدہ یا نقصان نہیں دیں گے۔ (یونس : ١٨) ٤۔ سفارش بھی اللہ تعالیٰ کی مرضی کے مطابق ہوگی۔ (الانبیاء : ٣٨) ٥۔ اللہ تعالیٰ اپنی پسندکی بات ہی قبول فرمائیں گے۔ (طٰہٰ: ١٠٩) ٦۔ قیا مت کے دن کسی سفارشی کی سفارش کام نہیں آئے گی۔ (المدثر : ٣٨) ٧۔ اللہ تعالیٰ کی اجازت کے بغیر کوئی سفارش نہیں کرسکے گا۔ (یونس : ٣) الانعام
95 فہم القرآن ربط کلام : جس طرح اللہ تعالیٰ زمین میں پڑے ہوئے دانے کو اگاتا اور نکالتا ہے۔ اسی طرح وہ مردہ انسان کو قبر سے زندہ کرکے نکالے گا۔ اب مسلسل آیات میں نباتات، آفاق اور دیگر حوالوں سے توحید باری تعالیٰ کے دلائل دیے جاتے ہیں۔ زندگی کی پیدائش اور حرکت ایک معجزہ ہے جسے پیدا کرنا ایک طرف، اس کے بھید کو بھی کوئی نہیں پا سکتا۔ زمین میں ہر لحظہ دانوں سے پھوٹ پھوٹ کر تنا ور اور پھلنے پھولنے والے درخت نکلتے ہیں۔ خاموش، ساکن، اور سوکھی گٹھلیوں سے بلند کھجوریں پھوٹتی ہیں۔ جو زندگی دانے اور گٹھلی میں پوشیدہ ہے وہ پودے اور کھجور میں آکرظاہر اور متحرک ہوجاتی ہے۔ اس کا بھید ایک سر بستہ راز ہے جسے صرف اللہ ہی جانتا ہے۔ حیات کی حقیقت اور اس کا مصدر صرف خالق کو معلوم ہے۔ انسان آج بھی پہلے انسان کی مانند ظواہر و اشکال کے سامنے کھڑا ہو کر اس کے خصائص و اطوار کا مشاہدہ تو کرسکتا ہے مگر اس سے پہلے انسان کی طرح اس کے غیب سے پردہ نہیں اٹھا سکتا۔ حرکت و نشو و نما کو دیکھتا ہے مگر مصدر اور جو ہر سے ناواقف ہے۔ لیکن زندگی اپنی راہ پر رواں دواں ہے، اور معجزہ ہر لحظہ واقع ہو رہا ہے۔ زندہ کا مردہ سے نکلنا شروع سے چلا آیا ہے، یہ کائنات تھی، زمین تھی مگر اس میں حیات نہ تھی۔ پھر زندگی آئی جس کو موت میں سے نکالا گیا کیسے نکالا گیا ؟ ہم نہیں جانتے۔ وہ دن ہے اور آج کا دن، کہ زندگی موت سے اور زندہ مردہ سے نکل رہا ہے ! ہر لحظہ ذرات زندوں کے اجسام و اعضا کا حصہ بن رہے ہیں اور زندہ خلیوں میں تبدیل ہو رہے ہیں۔ پھر اس کے برعکس ہر لحظہ زندہ خلیے مردہ ذروں میں تبدیل ہو رہے ہیں۔ حتی کہ ایک دن پورا زندہ جسم مردہ ہوجاتا ہے۔ اور اس پر اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی قادر نہیں۔ ابتدا میں موت سے زندگی نکالنے والا وہی تھا، پھر مردہ ذرات کو انسانی اجسام کا حصہ بنا کر زندہ کرنے والا بھی وہی ہے۔ یہ ایک ایسا چکر ہے جس کی ابتداء و انتہا اور اس کی کیفیت و نتائج کو سوائے اللہ تعالیٰ کے کوئی نہیں جانتا۔ اس میں کسی کاذرہ بھر دخل نہیں ہے۔ سب کچھ اسی قادر و علیم کی قدرت و علم سے ہو رہا ہے۔ زندگی اللہ کی صفت خلق سے وجود میں آئی۔ اس کے سوا اس کی جو تعبیر بھی کی جائے وہ غلط اور باطل ہے۔ یورپ کے لوگ جب سے کلیسا سے بھاگے ہیں ’ ’ گویا کہ وہ گدھے ہیں جو شیر سے بھاگے ہوں“ اسی دن سے وہ کائنات کی موت و حیات کی پیدائش کا راز معلوم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ انھوں نے اللہ کے وجود کا اعتراف کرنا چھوڑ دیا۔ جس کی وجہ سے ان کوششوں کا نتیجہ صفر ہے۔ حیات پر جدید تحقیق کے نتائج : ڈاکٹر فرینک ایلن جو کینیڈا کی ایک یونیورسٹی کا بیالوجی کا پروفیسر ہے کہتا ہے : (مقالہ): ” علم کی نشو ونما اتفاقاً ہوئی ہے یا قصداً ؟“ اس کا ترجمہ ڈاکٹر ترشاش عبدالمجید سرمانی ” اگر زندگی کسی حکمت سے اور کسی سابق منصوبے سے پیدا نہیں ہوئی تو، پھر یہ اتفاقاً پیدا ہوئی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ وہ اتفاق کونسا ہے ؟ تاکہ ہم اس پر غور کریں اور زندگی کی پیدائش کا پتہ چلائیں۔ اتفاق اور احتمال کے نظریات کی اب کچھ درست حسابی بنیادیں موجود ہیں۔ جو انھیں ان معاملات پر منطبق کرتی ہیں۔ جہاں مطلق صحیح حکم نہ لگایا جا سکے۔ یہ نظریات ہمیں ایسے فیصلے پر پہنچاتے ہیں جو درستی سے قریب تر ہو، ریاضی کے طریقے سے اتفاق اور احتمال کا نظریہ تحقیق کے لحاظ سے بہت آگے بڑھ چکا ہے۔ حتی کہ ہم بعض ظواہر کی پیشگوئی پر قادر ہوچکے ہیں۔ جن کے متعلق ہم کہتے ہیں کہ وہ اتفاق سے واقع ہوتے ہیں۔ بعض ایسی چیزیں جن کے وقوع کی ہم کوئی اور تفسیر نہیں کرسکتے۔ ان تحقیقات کی ترقی کے باعث ہم اس پر قادر ہیں کہ اتفاقاً واقع ہونے والی چیزوں میں اور ان میں جن کا اس طرح وقوع ناممکن ہے، تمیز کرسکیں۔ ہم زمانے کی ایک معین مدت میں اس وقوع کا احتمال ظاہر کرسکتے اب ہم اس چکر کو دیکھتے ہیں جو زندگی کی پیدائش میں اتفاقات کے کھیل سے ہوتا ہے۔ (معلوم رہے کہ یہ ڈاکٹر فرینکلن کا خیال ہے ورنہ اسلامی نقطۂ نظر سے کائنات میں کوئی چیز بھی اتفاقیہ طور پر نہیں ہوتی۔ ہر ایک ضابطہ، قانون وقوت، جگہ وغیرہ خدا کے ہاں مقرر ہے اور سب کچھ لگے بندھے قوانین کے مطابق ہو رہا ہے۔) تمام زندہ خلیوں میں پرو ٹین بنیادی مرکب ہے اور اس میں پانچ عناصر ہوتے ہیں : کاربن، ہائیڈروجن، نائٹروجن، آکسیجن اور سلفر اور ایک جزء میں ذرات کی تعداد ٤ لاکھ تک ہوتی ہے۔ چونکہ کیمیاوی عناصر کی تعداد ١٠٠ سے زائد ہے، ہر ایک کو اندازے کی غیر مرتب تقسیم پر بانٹا گیا ہے۔ پس ان پانچ عناصر کا اجتماع تاکہ وہ پروٹین کے جزئیات میں سے ایک جزیہ بن جائے، اس مادے کی کمیت کو معلوم کرنے کے لیے اس کا حساب معلوم کیا جا سکتا ہے۔ جس کو ہمیشہ کے لیے باہم ملایا جائے تاکہ وہ جزئی حاصل ہو سکے، پھر زمانے کا فاصلہ بھی معلوم ہوسکتا ہے تاکہ اس جزئی کے درجات میں اجتماع ہو سکے۔ مشہور ریاضی دان عالم شارنر یوجین نے تمام عوامل کا حساب کیا ہے اور معلوم کیا ہے کہ اتفاقیہ طور پر ایک پروٹین جزئی کا بننا ١٠؍١ کی نسبت سے ہوسکتا ہے۔ یعنی ایک کو دس تک ہر ہندسے میں فی نفسہ ضرب دینا ١٦٠ بار اور یہ ایک ایسی رقم ہے جس کا بولنا یا کلمات میں اس کی تعبیر کرنا ناممکن ہے۔ مناسب ہے کہ اس تفاعل کے لیے جتنا مادہ ضروری ہے تاکہ ایک جزئی پیدا ہو سکے۔ یہ اس ساری کائنات سے لاکھوں کروڑوں مرتبہ زیادہ ہوگا اور زمین پر صرف ایک جزئی کو پیدا کرنے کے لیے۔۔ یعنی اتفاقیہ طور پر پیدا کرنے کے لیے۔۔ لا انتہا سالوں کی ضرورت ہوگی۔ جسے اس عالم ریاضی نے اندازًا یہ بتایا ہے کہ دس کو اس کے نفس میں ٢٤٣ بار ضرب دی جائے تو اتنے سال لگیں گے۔ پروٹین لمبے سلسلوں کے ساتھ اپنی کھٹائیوں سے پیدا ہوتے ہیں۔ سو ان جزئیات کے ذریعے کس طرح تالیف پاتے ہیں ؟ جب وہ اس طریقے کے علاوہ مرکب ہوں جس سے وہ ہوتے ہیں تو زندگی کے قابل نہیں ہوتے بلکہ بعض دفعہ زہربن جاتے ہیں۔ جے بی سیتھر نے وہ طریقے شمار کیے ہیں جن سے کہ ذرات کا پروٹین کے ایک بسیط جزئی میں مرکب ہونا ممکن ہوتا ہے۔ اس نے کہا کہ دس کو اسی طرح فی نفسہ ١٨ سے ضرب دیں تو اتنے ملین اس کی تعداد ہوگی۔ اس بنا پر یہ عقلاً محال ہے کہ یہ تمام اتفاقات ایک بھی پروٹین کو پیدا کرسکیں۔ لیکن پروٹین کیمیاوی مردہ مادہ ہے اور اس میں زندگی اس وقت رینگتی ہے جب وہ عجیب بھید اس میں داخل ہوتا ہے۔ جس کی حقیقت کو ہم نہیں جانتے۔ وہ ایک غیر محدود عقل ہے (اس سے اس کی مراد اللہ تعالیٰ کی ذات ہے اور یہ ایک فلسفیانہ نام ہے) اور وہ اکیلا خدا ہے جو اپنی حکمت کے ساتھ یہ پا سکتا ہے کہ یہ پروٹینی جزئی زندگی کا مسکن بن سکتی ہے، سو اس نے اس کو بنایا، اس کی تصویر کھینچی، اور اس پر زندگی کا بھید انڈیل دیا۔ مشی گن یونیورسٹی کا علوم طبیعات کا پروفیسر ڈاکٹر ایرفنگ ولیم اپنے مقالے :” مادیت تنہا کافی نہیں“ (جو اسی نام کی کتاب میں وارد ہے !) میں لکھتا ہے : ” سائنس ہمیں یہ بتانے سے قاصر ہے کہ وہ نہایت چھوٹے چھوٹے غیر محدوددقائق کیسے پیدا ہوتے ہیں۔ اور انھی سے تمام مادے بنتے ہیں۔ اسی طرح سائنس ہم پر یہ کھولنے سے بھی قاصر ہے کہ یہ چھوٹے چھوٹے ذرے کیونکر جمع ہوتے ہیں اور ان میں زندگی کیونکر آتی ہے۔ اس کا مدار محض اتفاقات پر ہے۔ بے شک یہ نظریہ جو دعویٰ کرتا ہے کہ ترقی یافتہ حیات کی تمام صورتیں موجودہ ترقی کی حالت تک محض اندھا دھند چھلانگوں اور اجتماعات کے باعث پہنچی ہیں بلاشبہ ایک نظریہ ہے مگر اسے قبول نہیں کیا جا سکتا، صرف فرض کیا جا سکتا ہے۔ پس یہ منطق اور دلیل کی بنیاد پر قائم نہیں ہے۔ ڈاکٹر مالکوم ونسٹر پروفیسر زوالوجی بائلر یونیورسٹی اپنے مقالے : ” سائنس میرے ایمان کو مضبوط کرتی ہے“ میں لکھتا ہے کہ : میں زوالوجی کے مطالعہ میں مشغول ہوا۔ جو ان وسیع علمی میدانوں میں سے ہے جو علم الحیاۃ سے بحث کرتے ہیں۔ اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ اللہ کی ساری مخلوقات میں کائنات میں بسنے والی کوئی چیز زندوں سے زیادہ حیران کن نہیں ہے۔ تم کسی راستے کے کنارے پر اگی ہوئی کمزور سی برسیم کو دیکھو، کیا تمھیں انسان کی بنائی ہوئی تمام چیزوں اور آلات میں اتنی تابناک چیز نظر آتی ہے ؟ یہ ایک زندہ آلہ ہے جو دن رات ایک دائمی صورت میں کھڑا رہتا ہے۔ اس میں ہزار ہا کیمیاوی اور طبیعی عمل پائے جاتے ہیں۔ اور یہ سب پروٹو پلازم کی قوت کے تحت پورے ہوتے ہیں۔ یہ وہی مادہ ہے جو تمام زندہ کائنات کی ترکیب میں داخل ہوتا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ یہ پیچ در پیچ زندہ آلہ کہاں سے آیا ہے ؟ اللہ نے اس کو یوں اکیلا نہیں بنایا۔ بلکہ اس نے حیات کو پیدا کیا ہے اور اپنے نفس کی حفاظت پر اسے قادر بنایا ہے۔ یہ کہ وہ ایک نسل سے دوسری نسل تک برابر چلتا ہے اور ان تمام خاصیتوں اور امتیازات کو برقرار رکھے ہوئے ہے۔ جو ہمیں ایک نبات اور دوسری میں تمیز کرنے میں مدد دیتے ہیں۔ زندہ چیزوں میں کثرت کا مطالعہ کرنا نہایت عجیب اور چونکا دینے والا ہے۔ اس سے اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی قدرت ظاہر ہوئی ہے۔ جدید نبات جس تناسلی خلیے سے بار آور ہوتی ہے وہ اتنا چھوٹا ہوتا ہے کہ طاقتور خورد بین کے بغیر نظر نہیں آسکتا۔ اور یہ عجیب بات ہے کہ نباتات کی صفات میں سے ہر صفت، ہر رگ، و ریشہ، ہر شاخ، ہر بیج یا پتہ ان انجینئروں کے زیر نگرانی بنتا ہے جو نہایت چھوٹے ہیں۔ وہ اس خلیے کے اندر رہ سکتے ہیں جس سے نبات پیدا ہوتی ہے۔ انجینئروں کا یہ فرقہ کروموسوم کہلاتا ہے۔ (یعنی وراثت کو نقل کرنے والے) حیات اور حیاتیات پر اسی قدر بات چیت کے بعد اب ہم قرآنی آیات کی طرف لوٹتے ہیں۔ (ذلکم اللّٰہ ربکم)[ الانعام : ١٠٢] ” یہ ہے تمھارا اللہ تمھارا رب“ جو اس دائمی مسلسل و متواتر معجزے کا موجد ہے۔ وہی اس کا حق دار ہے کہ تم اس کے آگے جھکو۔ اس کی عبودیت، خضوع، خشوع اور اتباع کا اقرار و اعلان کرو۔ پھر فرمایا : ” پھر تم کہاں اور کیونکر پھرائے جاتے ہو ؟“ (ظلال القرآن) مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ ہی بے جان سے جاندار چیزوں کو پیدا کرتا ہے۔ ٢۔ زندگی وموت اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ کی نشانیاں دیکھتے ہی اپنا ایمان پختہ کرنا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن ” اللہ“ نباتات اگانے والا ہے : ١۔ اللہ پانی سے تمہارے لیے کھیتی، زیتون، کھجور اور انگور اگاتا ہے۔ ( النحل : ١١) ٢۔ اللہ نے کھجوروں اور انگوروں کے باغات پیدا کیے۔ (المومنوں : ١٩) ٣۔ اللہ نے زمین میں کھجوروں اور انگوروں کے باغات پیدا کیے۔ ( یٰسٓ: ٣٤) ٤۔ اللہ نے پانی سے ہر قسم کی نباتات کو پیدا کیا۔ ( الانعام : ٩٩) ٥۔ اللہ نے باغات، کھجور کے درخت اور کھیتی پیدا کی جو ذائقہ کے لحاظ سے مختلف ہیں۔ ( الانعام : ١٤١) الانعام
96 فہم القرآن ربط کلام : آفاق سے توحید کے دلائل۔ اللہ تعالیٰ جس طرح ” فَالِقُ الْحُبِّ وَالنُّوَیٰ“ ہے اسی طرح ” فَالِقُ الْاِصْبَاحِ“ بھی ہے۔ اسی نے رات کو سکون کے لیے بنایا اور شمس وقمر کو حساب کے لیے۔ ماہ وسال کا حساب انہی سے ہوتا ہے۔ البتہ کہیں سورج سے اور کہیں چاند سے، اسلام نے لوگوں کی آسانی کے لیے سورج کا پیچیدہ حساب چھوڑ کر چاند کا حساب اختیار کیا۔ چاند کے طلوع وغروب سے ماہ وسال کا حساب لگانا آسان تر ہے۔ حج، رمضان، عیدین وغیرہ کا حساب چاند پر مبنی ہے۔ صبح کی تاریکی سے روشنی پھوٹنے کو دانے اور گٹھلی کے پھوٹنے کی مانند ٹھہرایا گیا ہے۔ دونوں سے حیات پھوٹتی ہے۔ نور کا پھوٹنا نباتات اور پودے کے زمین سے پھوٹنے کی مانند ہوتا ہے۔ نور کا تاریکی سے پھوٹ کر نکلنا ایسی حرکت رکھتا ہے جو اپنی شکل میں دانے اور گٹھلی کے پھٹنے سے مشابہ ہوتا ہے۔ اس حرکت کے ساتھ نور کا نکلنا یوں ہے جیسے کہ انگوری مٹی کے پردے میں سے ظاہر ہوتی ہے۔ دونوں میں حرکت، زندگی رونق اور جمال کی صفات وعلامات مشترک ہیں۔ پھر دانے اور گٹھلی کے پھٹنے اور صبح کے پھٹنے میں اور رات کے سکون میں ایک تعلق یہ بھی ہے۔ کہ اس کائنات کے اندر صبح وشام کا آنا، حرکت وسکون کا پیدا ہونا، نباتات اور حیات کے ساتھ براہ راست متعلق ہوتا ہے۔ سورج کے سامنے زمین کا گھومنا، چاند کا اتنے بڑے حجم کے باوجود اور زمین کا اس قدر دوری کے با وجود، سورج کا اتنے بڑے حجم اور حرارت میں اتنا زیادہ گرم ہونے کے باوجود یہ سارے کام کو مل کر انجام دینا اور باشندگان کرۂ ارض کی خدمات ہر وقت اور ہر لمحہ انجام دینا۔ ایک صاحب غلبہ واقتدار اور علیم اللہ کاٹھہرایا ہوا اندازہ ہے۔ اگر یہ اندازہ اور خدائی حساب نہ ہوتا تو زمین پر یوں زندگی نمودار نہ ہوتی۔ نباتات واشجارنہ پھوٹتے، نور و ظلمت اور حیات وموت کا یوں ظہور نہ ہوتا۔ یہ ایک دقیق ٹھہرایا ہوا، مقرر کردہ حساب ہے۔ جس کے ساتھ یہ کائنات بندھی ہوئی ہے۔ یہ کوئی محض اتفاقی حادثہ نہیں۔ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ یہ زندگی کائنات کے اندرمحض ایک عبوری لمحہ ہے، خالق کائنات کو اس کی کوئی پروا نہیں۔ ایسے اقوال کبھی فلسفہ اور علم کہلاتے تھے۔ مگر علم کا ان سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہبے دین حضرات کی اہواء وخرافات ہیں جو ان کے قلوب ونفوس میں رچی ہوئی ہیں۔ انسان جب ان کے فیصلوں کو پڑ ھے تو محسوس کرتا ہے کہ یہ لوگ اپنی مقرر کردہ علمی حدود کی تعریفات سے خود تجاوز اور فرار کر رہے ہیں۔ وہ اللہ سے بھاگنا چاہتے ہیں جس کے دلائل وجودتوحید وقدرت خود ان کے نفوس وقلوب کو گھیرے ہوئی ہیں۔ وہ بھاگ کر جہاں بھی چلے جائیں۔ اللہ کو آخر کار اپنے سامنے پائیں گے۔ پھر وہ گھبرا کر ایک اور راستہ اختیار کریں گے اور آخر کار اس کی انتہا پر بھی انہیں اللہ سامنے ملے گا ! یہ بیچارے مصیبت زدہ مسکین ہیں جو ایک زمانے میں کلیسا اور اس کے اللہ سے بھاگے تھے، مگر اللہ نے ان کی گردنیں پھر اپنے سامنے جھکا لیں۔ وہ اس صدی کے اوائل تک برابر بھاگتے رہے، مگر پیچھے مڑ کر نہ دیکھا مگر اللہ تعالیٰ تو ان کے تعاقب میں تھا ! اگر وہ پیچھے دیکھیں تو شک کریں گے کہ کلیسا کی دوڑ ان کے پیچھے ابھی ختم نہیں ہوئی۔ اور شاید ان کی طاقت ہی ختم ہوچکی ہے۔ ان بے چارے مساکین کے ” علمی نتائج“ آج خود ان کے مد مقابل بن کر سامنے کھڑے ہیں، بھاگ جانے کا کیا سوال ہے؟ فرینک ایلن جس کے کچھ اقتباسات ہم نے گزشتہ صفحات میں پیش کیے ہیں لکھتا ہے :” زمین کا زندگی کے لیے مناسب ہونا ایسی صورتیں اختیار کرتا ہے کہ ہم اسے محض اتفاق یا حادثہ کہہ سکتے ہیں۔ کیونکہ زمین ایک گول کرّہ ہے جو فضا میں لٹکا ہوا ہے اور اپنے گرد گردش کرتا رہتا ہے۔ اسی سے رات دن کا چکر چل رہا ہے۔ اور وہ سال بھر میں ایک دفعہ سورج کے گرد گھومتا ہے۔ جس سے موسم اور فصول پیدا ہوتے ہیں۔ یہ گھومنا ہمارے اس کرّے کی سطح کو زندگی کی پیدائش اور نشوونما کا مزید صالح جز مہیا کرتا ہے۔ زمین کے ٹھہراؤ کی صورت میں اس قدر مختلف انواع واقسام کی نباتات کا پیدا ہونا اور ان کی نشوونما ممکن نہ ہوتی۔ پھر زمین گیس کے ایک غلاف سے ڈھکی ہوئی ہے۔ جس میں بہت سی ایسی گیسیں موجود ہیں جو زندگی کے لیے لازم ہیں۔ یہ گیسیں بہت بلندی تک زمین کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ جو پانچ سو میل سے زائد فاصلہ ہے۔ پھر ان گیسوں کی موٹائی اس قدر ہے جو لاکھوں کروڑوں شہاب ثاقب کو ہم تک پہنچنے سے روکتی ہے۔ ان تاروں کا ٹوٹنا تیس میل فی منٹ کی رفتار سے بھی تیز تر ہوتا ہے۔ اور یہ فضائی غلا ف جو زمین کو محیط ہے وہ زمین کے درجۂ حرارت کو زندگی کے لیے مناسب حدود کے اندر قائم رکھتا ہے۔ وہ سمندروں سے پانی کے بخارات کو اٹھا کر بر اعظموں کے اندر تک لے جاتا ہے۔ وہاں پر وہ گاڑھا ہو کر بادل بنتا ہے اور بر ستا ہے۔ جو زمین کی مردگی کو زندگی میں بدلتا رہتا ہے۔ بارش خالص پانی کا مصدر ہے اگر وہ نہ ہوتی تو زمین ایک لق ودق صحرا بن کررہ جاتی اور اس میں زندگی کی کوئی علامت باقی نہ رہ سکتی۔ یہاں سے ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ فضا اور سمندر جو زمین پر ہیں وہ اس کے توازن کو بر قرار رکھنے کی مشینیں ہیں۔“ ان لوگوں کے سامنے علمی دلائل بے شمار موجود ہیں۔ جو ان کے ” اتفاقات“ کے نظر یے کو رد کرتے ہیں اور زندگی کی نشوونما کے متعلق ان کے عجز کا اعلان کرتے ہیں۔ اس طبیعات کے عالم نے جن موافقات اور مناسبات کا ذکر کیا ہے۔ کائنات میں زندگی کے لیے صرف یہی نہیں اور بھی بے شمار اسباب وعلل موجود ہیں۔ اب نتیجہ اس کے سوا نہیں کہ کہا جائے ” ذٰلِکَ تَقْدِیْرُ الْعَزِیْزِ الْعَلِیْمِ۔“ اسی ذات نے ہر چیز کو اس کی پیدائش اور رہنمائی بخشی اور ہر چیز کو پیدا فرماکر اس کے خاص اندازے مقرر کیے ہیں۔ ستاروں کی پیدائش اور ان کے مقا صد : ” اور وہ وہی خدا ہے جس نے تمہارے لیے ستارے بنائے تاکہ تم ان سے خشکی وتری کی تاریکیوں میں راستہ پاؤ۔ ہم نے جاننے والوں کے لیے آیات کو کھول دیا ہے۔“ جدید علمی ایجادات چاہے جتنی زیادہ ہوجائیں، لیکن انسان کا اجرام فلکی سے راہ پانا ایسی حقیقت ہے جس کا ظہور ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے، اب بھی ہے اور مستقبل میں بھی ہوگا۔ اسرار کائنات چاہے انسان پر کس قدر منکشف ہوجائیں مگر یہ حقیقت قاہرہ اپنا آپ منواتی رہے گی۔ جدید علوم نے ستا روں کے متعلق بے شمار نئے انکشافات بھی کیے ہیں جو بڑے حیرت انگیز ہیں۔ جس مقام پر تمام انسانی آلات ناکام ہوجائیں، وہاں ستاروں کو دیکھ کر سمتیں متعین کرتے، وقت کا پتہ چلاتے، موسموں کا حال معلوم کرتے، بارش اور آندھی وغیرہ کی پیش گوئی کرتے اور سنتے ہیں۔ ستاروں کا علم نہایت وسیع اور حیرت انگیز ہے۔ ذرا غور کرنے والا اس نتیجے پر پہنچ جاتا ہے کہ اس کارخانہء قدرت کے پیچھے ایک علیم و بصیرہستی کی مشیت وقدرت اور ارادہ کار فرما ہے۔ جو تمام کرّوں کی رفتار اور گردش کا انتظام کرتا ہے اور انھیں باہم تصادم سے بچاتا ہے۔ یہ سب کچھ محض اتفاق کا نتیجہ نہیں ہے، اس کے پیچھے قادر مطلق کی کار فرمائی کام کر رہی ہے۔ اسی لیے اس آیت کے آخر میں فرمایا ہے کہ جاننے والوں کے لیے ہم نے آیات کی تفصیل بیان کردی ہے، ستاروں کی رفتار اور گردش کائنات تو حسی رہنمائی کے لیے ہے مگر تفصیل آیات سے عقل و فکر کو رہنمائی میسر آتی ہے۔ (ماخوذ از ظلال القرآن ) نظام فلکی اور علم نجوم کی حقیقت قرآن و حدیث میں کافی تفصیل کے ساتھ زمین و آسمان کی ساخت‘ ہیئت اور ان کی وسعت وکشادگی کے بارے میں بتلایا گیا ہے۔ آسمان کی ساخت کا ذکر کرتے ہوئے یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ ستارے آسمان کی خوبصورتی اور سجاوٹ کے ساتھ مسافروں کی رہنمائی اور نظام فلکی کی حفاظت کے لیے بنائے گئے ہیں۔ انسان کی قسمت اور تقدیر کے ساتھ ان کا کوئی واسطہ نہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کا ایسا نظام ہے جس میں نہ کوئی مداخلت کرسکتا ہے اور نہ ہی ان کی گردش وتغیر کے بارے میں کوئی علم کامل رکھتا ہے۔ نبی محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے میں رات کے وقت ایک دفعہ بارش ہوئی تو آپ نے صبح کی نماز کے بعد فرمایا کہ آج کچھ لوگ ابرباراں کی وجہ سے ہدایت یافتہ ٹھہرے کچھ لوگ اسی بارش کی وجہ سے گمراہی کے گھاٹ اتر گئے۔ صحابہ (رض) کے استفسار پر وضاحت فرمائی کہ جن لوگوں نے یہ عقیدہ ٹھہرایا کہ بارش ستاروں کی وجہ سے ہوئی ہے وہ گمراہ ہوگئے اور جنہوں نے بارش کو فضل ربی قرار دیا وہ ہدایت پر قائم رہے۔ علم نجوم کی مرکزیت اور دارومدار ستاروں کی گردش پر ہے۔ اس علم کی بنیادنجومیوں نے سورج کی منازل پر قائم کی ہے۔ جس کو قرآن مجید نے منازل اور بروج کا نام دیا ہے۔ بروج کی تفصیلات جاننے سے پہلے نظام فلکی کی ایک جھلک کا نظارہ فرمائیں۔ ( اَلَّذِیْ خَلَقَ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ طِبَاقاً مَاتَرٰی فِیْ خَلْقِ الرَّحْمٰنِ مِنْ تَفٰوُتٍ ط فَارْجِعِ الْبَصَرَ ھَلْ تَرٰی مِنْ فُطُوْرٍ ثُمَّ ارْجِعِ الْبَصَرَ کَرَّتَیْنِ یَنْقَلِبْ اِلَیْکَ الْبَصَرُ خَاسِئاً وَّھُوَ حَسِیْرٌ وَلَقَدْ زَیَّنَّا السَّمَآء الدُّنْیَا بِمَصَا بِیْحَ وَجَعَلْنٰھَا رُجُوْ ما لّلشَّیٰطِیْنِ وَاَعْتَدْنَا لَھُمْ عَذَاب السَّعِیْرِ) [ الملک : ٣ تا ٥ ] ” اسی نے سات آسمان تہ بہ تہ پیدا کیے۔ تم رحمن کی پیدا کردہ چیزوں میں کوئی بے ربطی نہیں دیکھ سکتے۔ ذرا دوبارہ آسمان کی طرف دیکھو، کیا تمھیں اس میں کوئی خلل نظر آتا ہے؟ پھر اسے بار بار دیکھو۔ تمہاری نگاہ تھک کر ناکام پلٹ آئے گی۔“ (وَلَقَدْ جَعَلْنَا فِی السَّمَآءِ بُرُوْجاً وَّزَیَّنّٰھا للنّٰظِرِیْنَ وَحَفِظْنٰھَا مِنْ کُلِّ شَیْطٰنٍ رَّجِیْمٍ اِلَّا مَنِ اسْتَرَقَ السَّمْعَ فَاَتْبَعَہٗ شِھَابٌ مُّبِیْنٌ) [ الحجر : ١٦ تا ١٨] ” بلا شبہ ہم نے آسمان میں بروج بنائے اور دیکھنے والوں کی لیے انھیں خوبصورت بنایا اور ہر شیطان مردود سے محفوظ کردیا ہاں اگر شیطان چوری چھپے سننا چاہے توایک چمکتا ہوا شعلہ اس کے پیچھے لگ جاتا ہے۔“ (فَالتّٰلِیٰتِ ذِکْرًا۔ اِنَّ اِلٰھَکُمْ لَوَاحِدٌ۔ رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَمَابَیْنَھُمَا وَرَبُّ الْمَشَارِقِ۔ اِنَّا زَیَّنَّا السَّمَآء الدُّنْیاَ بِزِیْنَۃِ نِ الْکَوَاکِبِ۔ وَحِفْظاً مِّنْ کُلِّ شَیْطَانٍ مَّارِدٍ۔ لَا یَسَّمَّعُوْنَ اِلَی الْمَلأَِ الْاَعْلٰی وَ یُقْذَفُوْنَ مِنْ کُلِّ جَانِبٍ۔ دُحُوْرًا وَّلَھُمْ عَذَابٌ وَّاصِبٌ) [ الصافات ٣ تا ٩] ” پھر ان کی قسم جو کہ تلاوت کرنے والے ہیں۔ بلاشبہ تمہارا الٰہ ایک ہی ہے جو آسمانوں اور زمین کا پروردگار ہے۔ اور ان چیزوں کا بھی جو ان دونوں کے درمیان ہیں اور مشرقوں کا بھی پروردگار ہے۔ بلاشبہ ہم نے آسمان دنیا کو ستاروں سے مزین کیا اور اسے ہر سرکش شیطان سے محفوظ بنا دیا۔ وہ عالم بالا کی باتیں سن ہی نہیں سکتے۔ ہر طرف سے ان پر شہاب پھینکے جاتے ہیں تاکہ وہ بھاگ کھڑے ہوں۔ اور ان کے لیے دائمی عذاب ہے۔“ جنات کا اعتراف : (وَاَنَّھُمْ ظَنُّوْاکَمَا ظَنَنْتُمْ اَنْ لَّنْ یَّبْعَثَ اللّٰہُ اَحَدًا۔ وَاَنَّا لَمَسْنَا السَّمَآءَ فَوَجَدْ نٰھَا مُلِءَتْ حَرَساً شَدِیْداً وَّشُھُبًا۔ وَّاَنَّا کُنَّا نَقْعُدُ مِنْھَا مَقَاعِدَ للسَّمْعِ فَمَنْ یَّسْتَمِعِ الْاٰنَ یَجِدْلَہٗ شِھَابًارَّ صَدًا۔) [ الجن ٧ تا ٩] ” اور یقیناً انسان بھی ایسا ہی خیال کرتے تھے جیسے تم کرتے ہو کہ اللہ کبھی کسی کو دوبارہ نہ اٹھائے گا اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم نے آسمان کو ٹٹولا تو اسے سخت پہرے دار اور شہابوں سے بھرا ہوا پایا اور اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ ہم سننے کے لیے آسمان کے ٹھکانوں میں بیٹھا کرتے تھے مگر اب جو سننے کو کان لگائے تو وہ اپنے لیے ایک شہاب کو تاک لگائے ہوئے پاتا ہے۔“ تعلیم یافتہ حضرات کی فکری کمزوری : علم نجوم کے بارے میں صرف جاہل ہی نہیں بلکہ اچھے بھلے تعلیم یافتہ لوگ بھی تو ہم پرستی کا شکار ہیں۔ یہ لوگ اس قدر اس بیماری کا شکار ہیں کہ پامسٹوں اور علم نجوم جاننے والوں کے پاس جا کر انگوٹھی کا نگینہ‘ گاڑی کی نمبر پلیٹ‘ شادی یا کسی تقریب کا دن مقرر کرنے کیلئے مارے مارے پھر رہے ہیں‘ تاکہ انہیں معلوم ہو سکے کہ کون سے دن اور کس چیز میں ان کیلئے برکت رکھی گئی ہے۔ حالانکہ رحمت اور زحمت‘ برکت اور نحوست صرف اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ وہی انکے نازل ہونے کے اوقات جانتا ہے۔ کوئی چیز اپنی ذات میں نہ منحوس ہو سکتی ہے اور نہ ہی برکت کا سرچشمہ۔ ان توہّمات سے بچنے کے لیے اسلام نے علم نجوم کو کفر کے مترادف قرار دیا ہے۔ جس سے بچنا ہر مسلمان کا فرض ہے۔ علم نجوم کے بارے میں ترقی یافتہ اقوام کے پراگندہ تصورات : ترقی یافتہ اقوام اپنے مقابلے میں دوسروں کو اجڈ‘ جاہل اور غیر مہذب تصور کرتی ہیں۔ بالخصوص مسلمانوں کے بارے میں ان کا خیال ہے کہ مسلمان غیر مہذب‘ جاھل اور بنیاد پرست لوگ ہیں۔ حالانکہ اسلام ہی وہ دین ہے جس نے ان فرسودہ خیالات اور تصورات کی نہ صرف حوصلہ شکنی بلکہ مکمل نفی کی ہے۔ ستاروں اور چاند کو مسخر کرنے کا دعوے کرنے والی اقوام ایسے جاہلانہ تصورات رکھتی ہیں کہ انہوں نے ہفتے کے ایام کو انہی بروج اور سیاروں کی طرف منسوب کر رکھا ہے۔ انہوں نے تو ایّام کے نام بھی ستاروں اور سیاروں پر رکھے ہوئے ہیں۔ مثلاً: ١۔ Sun-day (سورج کا دن) ٢۔ Mon-day ( چاند کا دن) Moon کا مخفّف ہے۔ ٣۔ Tues-day (مریخ کا دن)۔ یہ (Tues) فرانسیسی زبان کے لفظ (Mars) کاترجمہ ہے۔ ٤۔ Wednes-day (عطارد کا دن) کیونکہ Wednes کا لفظ فرانسیسی لفظ Mercury کا ترجمہ ہے۔ اور فرانسیسی زبان میں Mercuary سیارہ عطارد کو کہا جاتا ہے۔ ٥۔ Thurs-day ( مغربی لغت میں "Thurs" سیارہ مشتری کو کہتے ہیں۔ ترجمہ ہوا ” مشتری کا دن“ ٦۔ Fri-day ( زہرہ کا دن) ٧۔ Satur-day ( زحل کا دن) کیونکہ سیارہ زحل کو انگریزی زبان میں Saturn کہتے ہیں۔ (تفصیل کے لیے دیکھیں ہماری کتاب جادو کی تباہ کاریاں اور ان کا شرعی علاج۔) مسائل ١۔ دن اور رات کا نظام اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔ ٢۔ سورج اور چاند اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ ہیں۔ ٣۔ ستارے راستے ڈھونڈنے میں معاون ہیں۔ تفسیر بالقرآن سورج، چاند، ستاروں کے فوائد : ١۔ وہ ذات جس نے ستاروں کو اندھیروں میں تمہاری رہنمائی کے لیے پیدا فرمایا۔ ( الانعام : ٩٧) ٢۔ یہ لوگ ستاروں کی علامات سے راہ پاتے ہیں۔ (النحل : ١٦) ٣۔ چاند، سورج اور ستارے اس کے حکم کے پابند ہیں۔ ( الاعراف : ٥٤) ٤۔ اللہ تعالیٰ نے سورج کو ضیاء اور چاند کو باعث روشنی بنایا۔ ( یونس : ٥) ٥۔ اللہ تعالیٰ نے آسمان میں چاند کو روشنی کا باعث اور سورج کو روشن چراغ بنایا۔ ( نوح : ١٦) الانعام
97 فہم القرآن ربط کلام : تخلیق انسان سے توحید کی دلیل۔ ” اور وہی ہے جس نے تمھیں ایک نفس سے پیدا کیا، پھر اس کا ایک ٹھکانا ہے اور ایک سونپے جانے کی جگہ ہے۔ ہم نے گہری سوچ رکھنے والوں کے لیے آیات کو کھول کر بیان کیا ہے۔“ انسان ایک نطفہ سے پیدا ہوتا ہے۔ جس کی بنیاد ایک خلیہ ہے جو انسان کی پیدائش کی اصل بنتا ہے مرد کی صلب کے اندر ایک ٹھکانے پر ہوتا ہے، پھر اس کا مستقر عورت کا رحم ہوتا ہے اس کے بعد زندگی نشو و نما اور پھیلاؤ حاصل کرتی ہے۔ جب تک اللہ کے حکم سے روئے زمین پر انسانی حیات موجود رہے گی یہ سلسلہ چلتا رہے گا۔ حیات کو سمجھنے کے لیے فقہ گہرائی پر اترنا، غور و فکر کرنا ضروری ہے۔ جتنی بات انسان کے سمجھنے کی ہے اور اس کے لیے ضروری یا مفید ہے وہ اللہ تعالیٰ نے کھول کر بیان فرما دی ہے۔ جہاں سے عالم غیب کی حدود شروع ہوتی ہیں وہاں انسان کا کوئی عمل دخل نہیں۔ نفس واحدہ سے حیات کا نکلنا اور پھر ایک طویل سلسلہ قائم ہوجانا۔ اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ اور صفت تخلیق پر دلالت کرتا ہے۔ جسے سوچ کر انسان اللہ کی طرف گامزن ہوسکتا ہے۔ مذکر اور مؤنث کی ایک متناسب تعداد ہر وقت دنیا میں موجود رہتی ہے تاکہ توالدوتناسل کا سلسلہ قائم رہ سکے اور ایک مقرر وقت تک دنیا کا سلسلہ چل سکے۔ اس موضوع پر مفصل گفتگو کی گنجائش نہیں۔ صرف مذکر یا مؤنث کے نطفے کی پیدائش کی کیفیت اور اس کے متعلق بعض باتوں پر مختصراً کلام کرنا ضروری ہے تاکہ پتہ چل سکے کہ ربانی تقسیم سے کس طرح یہ تذکیر و تانیث کا سلسلہ قائم رہتا ہے۔ جو حیات کے قیام و استمرار کا ذریعہ ہے۔ نر و مادہ کا تناسب و توازن : اللہ تعالیٰ علیم و قدیر کی تقدیر سے نر و مادہ کے کروموسوم باہم ملتے اور مذکر یا مؤنث بچے کی پیدائش کا سبب بنتے ہیں۔ یہ سب کچھ ایک غیبی تدبیر ہے۔ جس میں اللہ کے سوا کسی کا ہاتھ کار فرما نہیں۔ اللہ تعالیٰ کبھی مذکر اور کبھی مونث یا صرف مذکر یا صرف مؤنث پیدا فرماتا ہے۔ یہ اس توازن و تناسب کو برقرار رکھتا ہے جو زمین پر توالدوتناسل کے لیے ضروری ہے۔ اس سے انسانیت میں انتشار نہیں پڑتا۔ کوئی شخص یہ بھی سوچ سکتا تھا کہ صرف نسل کی بقاء و کثرت کے لیے تو چند نروں کا وجود کافی ہوسکتا تھا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے یہ توازن و تناسب کیوں قائم فرمایا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ حیوانات میں تو واقعی ایسا ممکن اور درست تھا مگر نسل انسانی میں صرف پیدائش کافی نہ تھی۔ بلکہ انسانی نشو و نما اور تربیت اولاد کے لیے ضروری تھا کہ بچے ایک خاندان میں والدین کے زیر سایہ پیدا ہوں اور نشو و نما پائیں۔ صرف اسی صورت میں زمین پر انسانیت برقرار رہ سکتی تھی۔ پس قضاء و قدر خداوندی کا یہ فیصلہ ہوا کہ نر و مادہ میں عدد کا تناسب بھی قائم رکھا جائے۔ حیوانات میں یہ ضروری نہ تھا لہٰذا وہاں پر اس تعداد اور توازن کا قائم رکھنا لازم نہ ہوا۔ اگر صرف اس توازن ہی کو لیا جائے تو یہ اللہ تعالیٰ خالق کائنات کی حکمت و تدبیر اور رحمت و تقدیر پر دلالت کرنے کے لیے کافی ہے۔ اس آیت کا اختتام جو اس جملے پر فرمایا گیا ہے کہ (قَدْ فَصَّلْنَا الاْٰ یَاتِ لِقَوْمٍ یَفْقَھُوْنَ) کی گہرائی یہی ہے۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ ہی تمام انسانوں اور ہر چیز کو پیدا کرنے والا ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے ہی انسانی تخلیق کے مختلف مراحل مقرر فرمائے ہیں۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کی پیدائش کے بعد اس کے رہنے سہنے کی منازل متعین فرمائی۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ ہی اپنی توحید کے دلائل اس لیے کھول کر بیان کرتا ہے تاکہ لوگ ہر اعتبار سے اسے لاشریک سمجھیں۔ تفسیر بالقرآن انسانی تخلیق کے مختلف مراحل : ١۔ اللہ نے انسان کو نطفہ سے پیدا کیا۔ ( النحل : ٤) ٢۔ اللہ نے آدم کو مٹی سے پیدا کیا۔ ( آل عمران : ٥٩) ٣۔ حوا کو آدم سے پیدا کیا۔ ( النساء : ١) ٤۔ ہم نے انسان کو مٹی کے جوہر سے پیدا کیا۔ ( المؤمنون : ١٢) ٥۔ ہم نے انسان کو مخلوط نطفہ سے پیدا کیا۔ ( الدھر : ٢) ٦۔ اے لوگو! اپنے پروردگار سے ڈرو جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا۔ ( النساء : ١) الانعام
98 الانعام
99 فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ قرآن مجید میں انسانی زندگی، پھل، پھول، نباتات اور درخت وغیرہ کے اگانے کے سلسلے میں پانی کا ذکر کئی مرتبہ آیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسے سبب حیات قرار دیا ہے۔ زمین کی زینت، مردہ زمین کی زندگی، پودوں اور سبزی ترکاری کی شادابی، ان کی پیدائش اور قیام، پھر ان کا رنگ برنگے پھل پھول پیدا کرنا، غلے، میوے، چارہ، بے شمار نفع آور اشیاء کا پیدا ہونا، پکنا اور انسان کے کھانے کے قابل ہونا، ان کی خوبصورتی اور زینت ان تمام چیزوں کو وجود باری تعالیٰ پر دلیل توحید الوہیت اور ربوبیت قرار دیا گیا ہے۔ ” اور وہ وہی خدا ہے جس نے اوپر سے پانی اتارا، پھر ہم نے اس کے ساتھ ہر چیز کی انگوری نکالی۔“ ہر چیز کے اگانے میں پانی کا جو کام ہے وہ شہری و دیہاتی اور عالم و جاہل پر واضح ہے۔ مگر اس کا کام اس ظاہر سے بہت آگے، بہت گہرا اور بہت مؤثر ہے۔ سائنس کی جدید ترین تحقیقات بتاتی ہیں کہ زمین کی سطح شروع شروع میں بالکل گرم تھی۔ اور وہ نباتات کو اگانے کے قابل نہ تھی۔ اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ نے اسے پانی اور کئی اور فضائی عوامل سے کاشت اور بیج اگانے کے قابل بنایا۔ بارش کے ساتھ ایک قدرتی کھاد بھی نائٹروجن گیس کے ساتھ زمین پر برستی ہے۔ جو زمین کو زرخیز اور سبزی ترکاری وغیرہ اگانے کے قابل بناتی ہے۔ انسان نے بھی اسی سے کھاد بنانے اور زمین کو زرخیز کرنے کا طریقہ سیکھا ہے، پھر سورج، چاند، ہوا وغیرہ بھی اپنا اپنا کام کرتے ہیں۔ سطح زمین کے اوپر اور اس کے اندر بے شمار ایسے کیمیاوی اور غیر کیمیاوی مادے موجود ہیں جو اس سارے کام میں ہاتھ بٹاتے ہیں۔ نباتات کے مختلف ادوار و اطوار : ” پس نکالا ہم نے اس سے سبز انگوری کو جس سے ہم تہ در تہ دانے نکالتے ہیں اور کھجور کی کونپل سے لٹکے ہوئے گچھے اور انگوروں کے باغ اور زیتون و انار باہم ملتے جلتے اور نہ ملتے جلتے۔“ ہر انگوری شروع میں سبز ہوتی ہے اور یہاں پر خضرا کا لفظ زیادہ مؤثر اور گہرا ہے بہ نسبت اخضر کے۔ اس سبز انگوری سے دانے پیدا ہوتے ہیں جو اوپر نیچے بالیوں میں سجے ہوتے ہیں۔ بعض غلے اور پھل شکل و صورت اور مزے میں باہم ملتے جلتے ہوتے ہیں اور بعض نہیں۔ ایک ہی پھل کسی زمین میں ترش اور تلخ ہوتا ہے۔ اور دوسری جگہ میٹھا۔ تاثیر میں بھی بعض ایک جیسے ہیں بعض مختلف، پھر فرمایا : ” جب وہ درخت پھل لائے تو اس کے پھل کو دیکھو، اور پھر اس کے پکنے کا مشاہدہ کرو۔“ ان پھلوں کو دیکھ کردل میں سرور اور آنکھوں میں نور پیدا ہوتا ہے۔ جب کچے ہوں تو رنگ و روپ اور رونق ہوتی ہے۔ پکنے پر آئیں تو آہستہ آہستہ بدلتے جاتے ہیں۔ اور پک کر تیار ہوں تو ہر دیکھنے والے کا جی للچا تا ہے۔ سبحان اللہ ! یہ صنعت، یہ مہارت، یہ کاری گری ایک ہی عزیز و علیم کی ہے۔ اس لیے فرمایا : ” بے شک اس میں بہت سے دلائل ہیں ان کے لیے جو ایمان لاتے ہیں۔“ انھیں کھا تو ہر ایک لیتا ہے لیکن نور بصیرت اور حس ایمان کے ساتھ وہی دیکھتا ہے جس میں ایمان ہو۔ پھلوں اور غلوں کے مختلف ادوار پر غور کریں گے تو ان میں ایمان باللہ، وحدانیت، قدرت، علم و صنعت ملیں گے۔ جو تمھیں زبان حال اور زبان قال سے احسن الخالقین کی حمد و ثنا پر آمادہ کریں گے۔ اتنی آیات قدرت کو دیکھ کرجو انسان کے ماحول میں اس کے دائیں بائیں اور آگے پیچھے بکھری پڑی ہیں۔ جو لوگ توحید خداوندی کا اعتراف و اقرار نہ کریں، خود ساختہ معبودوں کو پکاریں، ان میں ایسی صفات اور طاقت مانیں جس کا ان میں کہیں نام و نشان نہیں۔ تو پھر یہی کہا جا سکتا ہے کہ مشرک اندھے، بہرے اور گونگے ہیں۔ بے عقل وبے شعور ہیں، ناشکرے ہیں، حیوانات سے بھی بدتر ہیں۔ اس لیے اگلی آیت میں شرک اور مشرکین اور ان کے بنائے ہوئے شرکاء کا رد کیا گیا ہے۔ زمین کے جن پودوں کے نام قرآن مجید میں آئے ہیں ان کی تعداد اور نام درج ذیل ہیں۔ ١۔ من ٢۔ کھجور ٣۔ زیتون ٤۔ انگور ٥۔ انار ٦۔ انجیر ٧۔ سدرہ یا بیری ٨۔ جھاؤ ٩۔ شجر مسواک ١٠۔ حنا یا کافور ١١۔ ادرک ١٢۔ مسور ١٣۔ پیاز ١٤۔ لہسن ١٥۔ ککڑی ١٦۔ ببول عرب یا کیلا ١٧۔ لوکی ١٨۔ رائی ١٩۔ ریحان ٢٠۔ زقوم ٢١۔ ضریع ٢٢۔ طوبی ٢٣۔ شجر ٢٤۔ ثمر ٢٥۔ برگ ٢٦۔ اناج ٢٧۔ زراعت ٢٨۔ چارہ ٢٩۔ ترکاری ٣٠۔ افزائش نباتات۔ کھجور : لیکن یہاں ہم صرف کھجور اور انگور کے بارے میں کچھ لکھیں گے۔ ان کو دیگر پودوں پر ایک امتیاز اور برتری حاصل ہے۔ یوں تو تمام نباتات اور پودے خالق ارض و سماء کے پیدا کیے ہوئے ہیں لیکن ان چند پودوں کا تذکرہ اس ذات الٰہی نے خود اپنے کلام میں کیا ہے، اس طرح ان پودوں کا نام ابد الآباد تک کلام الٰہی میں محفوظ ہوگیا اور کلام الٰہی میں ان کا ذکر آنے سے ان کی خصوصیتوں کا سمجھنا ایک علمی و دینی ضرورت بن گئی ہے۔ قرآنی نام : ١۔ نَخْل، نَخِیل، نَخْلَۃ دیگر نام : Date (انگریزی )، Datte (فرانسیسی)، Tamar-Tamarim (عبرانی )، کھجور (اردو، پنجابی، ہندی)، خرما (فارسی )، کھرجور (سنسکرت) کرجور و (کشمیری)۔ نباتاتی نام : (Phoenix dactylifera Linn. (Family: Palmae/Aracaceae) قرآن مجید میں کھجور کا تذکرہ : ١۔ البقرہ، آیت : ٢٦٦ ٢۔ الانعام، آیت : ١٠٠ ٣۔ الانعام، آیت : ١٤٢ ٤۔ الرعد، آیت : ٤ ٥۔ النحل، آیت : ١١، ١٠ ٦۔ النحل، آیت : ٦٧ ٧۔ بنی اسرائیل، آیت : ٩١، ٩٠ ٨۔ الکہف، آیت : ٣٢ ٩۔ مریم، آیت : ٢٣ ١٠۔ مریم، آیت : ٢٥، ٢٤ ١١۔ طٰہٰ، آیت : ٧١ ١٢۔ المؤمنون :، آیت : ١٩ ١٣۔ الشعراء، آیت : ١٤٨ ١٤۔ یٰس ٓ، آیت : ٣٥، ٣٣ ١٥۔ ١٥۔ ق ٓ، آیت : ١٠ ١٦۔ القمر، آیت : ٢٠، ١٨ ١٧۔ الرحمن، آیت : ١١، ١٠ ١٨۔ الرحمن، آیت : ٦٩، ٦٨ ١٩۔ الحاقۃ، آیت : ٧، ٦ ٢٠۔ عبس، آیت : ٣٢، ٢٤ قرآنی ارشادات کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے متعدد بار ان احسانوں اور مہربانیوں کا ذکر کیا ہے جو اس نے پھلوں کی صورت میں انسان پر کیے ہیں۔ ان پھلوں میں یوں تو انگور، انجیر، انار اور زیتون کا تذکرہ کئی بار بار آیا ہے لیکن جس پھل اور درخت کا حوالہ سب سے زیادہ دیا گیا ہے وہ کھجورہے۔ اس کا بیان نخل۔ النخیل (جمع) اور نخلۃ (واحد) کے ناموں سے بیس مرتبہ قرآن کریم میں کیا گیا ہے۔ کھجور کی قسموں اور اس کی گٹھلیوں وغیرہ کا ذکر بھی قرآن پاک میں الگ الگ ناموں سے کیا گیا ہے۔ مثلاً سورۃ الحشر آیت ٥ میں کھجور کی ایک نفیس قسم کو ” لینۃ“ کہا گیا ہے۔ اسی طرح سورۃ النساء کی دو آیات ٥٣ اور ١٢٤ میں ” نقیرا“ کا لفظ تمثیل کے طور پر استعمال ہوا ہے جس کے لغوی معنی یوں تو کھجور کی گٹھلی میں چھوٹی سی نالی کے ہیں لیکن تشبیہ دی گئی ہے ایسی چیز سے جو نہ ہونے کے برابر یعنی حقیر ترین ہو۔ ایسی ہی مثال سورۃ فاطر آیت ١٣ میں لفظ ” قطمیر“ سے دی گئی ہے جس کے معنی اس باریک جھلی کے ہیں۔ جو کھجور کی گٹھلی کے اوپر ہوتی ہے۔ ” النوی“ کے معنی زیادہ تر مفسرین نے عام گٹھلی کے لیے ہیں۔ ” العرجون“ کھجور کے گچھے کی ٹہنی کو کہتے ہیں جو درخت پر خشک ہو کر ہنسلی کی شکل اختیار کرلیتی ہے۔ چنانچہ سورۃ یٰس ٓآیت ٣٩ میں اس کی مثال نئے چاند سے دی گئی ہے۔ ” حبل“ کے معنی یوں تو کسی بھی رسی کے ہو سکتے ہیں۔ لیکن پرانے زمانے میں عرب عام طور پر کھجور کی پتیوں سے بنی ہوئی رسی مراد لیتے تھے۔ اسی طرح سورۃ القمر کی آیت ١٣ میں لفظ ” دسر“ کا استعمال ہوا ہے، اس کے معنی بھی Palm-Fibre کے لیے گئے ہیں۔ مختلف ناموں کے حوالے سے کھجور کا ذکر قرآن حکیم میں اٹھائیس بار ہوا ہے۔ سائنس دانوں کا خیال ہے کہ کھجور کی کاشت آٹھ ہزار سال قبل جنوبی عراق میں شروع ہوئی تھی۔ اس وقت دنیا میں کہیں بھی پھلدارپودوں کی کھیتی کا تصور تک نہ تھا۔ عربوں میں ایک پرانی کہاوت تھی کہ سال میں جتنے دن ہوتے ہیں اتنے ہی کھجور کے استعمال کے فوائد ہیں، اور حقیقت بھی کچھ ایسی ہی لگتی ہے۔ ایک طرف اس کی لکڑی عمارت اور فرنیچر بنانے کے کام آتی ہے تو دوسری جانب اس کی پتیوں سے جن کو شاخیں کہا جاتا ہے بے شمار مصنوعات تیار کی جاتی ہیں۔ کھجور کی گٹھلیاں جانوروں کے لیے موزوں چارہ ہیں اور اس کے پھل انسان کے لیے بہترین غذا ہیں۔ اس کی غذائیت کا اندازہ اس کے کیمیاوی اجزاء سے کیا جا سکتا ہے کیونکہ اس میں تقریباً ساٹھ فیصد Invert sugar اور Sucrose کے علاوہ اسٹارچ، پروٹین، Cellulose,Pectin,Tannin اور چربی مختلف مقدار میں موجود ہیں۔ علاوہ ازیں اس میں وٹامن اے، وٹامن بی، وٹامن بی ٹو اور وٹامن سی بھی پائے جاتے ہیں۔ اس کے معدنیاتی اجزاء بھی اہمیت کے حامل ہیں، یعنی سوڈیم، کیلشیم، سلفر، کلورین، فاسفورس اور آئرن، سے بھرپور ہے۔ کھجور میں نر اور مادہ درخت ہوتے ہیں۔ دونوں کے پھولوں کے ذریعہ (Cross Polination) ہوتا ہے۔ تب ہی مادہ پودوں میں پھل آتے ہیں۔ ایک نر درخت کے پھول ایک سو مادہ درختوں کے (Polination) کے لیے کافی سمجھے جاتے ہیں۔ اسلام سے قبل عرب قبائل کی آپس کی دشمنی اور رقابت میں ایک دوسرے کو نقصان اور ضرر پہنچانے کا ایک طریقہ یہ بھی تھا کہ دشمن کے کھجور کے باغات تہس نہس کردیے جائیں۔ نر پودوں کو خاص طور سے کاٹ دیا جاتا تھا۔ کھجور کے بے مثال طبی فوائد ہیں۔ بلغم اور سردی کے اثر سے پیدا ہونے والی بیماریوں میں کھجور کھانا مفید ہے۔ یہ دماغ کا ضعف مٹاتی ہے اور یادداشت کی کمزوری کا بہترین علاج ہے۔ قلب کو تقویت دیتی ہے اور بدن میں خون کی کمی کو دور کرتی ہے، گردوں کو قوت دیتی ہے، سانس کی تکالیف میں بالعموم اور دمہ میں بالخصوص سود مند ہے۔ کھانسی، بخار اور پیچش میں اس کے استعمال سے افاقہ ہوتا ہے۔ یہ دافع قبض کے ساتھ پیشاب آور بھی ہے۔ قوت باہ کو بڑھانے میں مددگار ہے۔ غرضیکہ کھجور کا استعمال ایک مکمل غذا بھی ہے اور اچھی صحت کے لیے ایک لاجواب ٹانک بھی۔ طب نبوی میں کھجور کی بڑی افادیت بیان کی گئی ہے۔ کھجور کی عالمی مقبولیت کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ پیداواری ملکوں میں مقامی کھپت کے ماسوا پانچ سے آٹھ لاکھ ٹن کھجور دنیا کے بازاروں میں بھیجی جاتی ہے۔ ایک اندازہ کے مطابق ١٩٨٢ ء میں کھجور کی عالمی پیداوار چھبیس لاکھ ٹن تھی جس کا ٥٦ فیصد حصہ عراق، سعودی عرب، مصر اور ایران میں پیدا کیا گیا۔ عراق کا شہر بصرہ کھجور کی تجارت کے لیے زمانہ قدیم سے بہت مشہور رہا ہے۔ آج بھی سب سے زیادہ کھجوریں اسی بندرگاہ سے برآمد کی جاتی ہیں۔ عراق میں ٤٤٥ اقسام کی کھجوریں پائی جاتی ہیں کھجور کے اعتبار سے عراق پوری دنیا میں سرفہرست ہے۔ کھجور کی تاریخی اور سماجی اہمیت کے ساتھ ساتھ اس کی غذائی اور طبی خصوصیات کی روشنی میں اسے ” نباتاتی نعمت“ کہا جائے تو نہایت مناسب ہوگا۔ اسی نعمت کی بنا پر قرآن مجید میں اس کا کئی بار ذکر ہوا ہے ان لوگوں کے لیے جو عقل و فہم رکھتے ہیں۔ انگور قرآنی نام : عنب، اعناب (جمع) دیگر نام : Grape (انگریزی)، فرشک، انگور (فارسی)، عنب (عربی )، انگور (اردو، فارسی) قرآن مجید میں انگور کا تذکرہ : ١۔ البقرہ، آیت : ٢٦٦ ٢۔ الانعام، آیت : ١٠٠ ٣۔ الرعد، آیت : ٤ ٤۔ النحل، آیت : ١١ ٥۔ النحل، آیت : ٦٧ ٦۔ بنی اسرائیل، آیت : ٩١ ٧۔ الکہف، آیت : ٣٢ ٨۔ المؤمنون، آیت : ١٩ ٩۔ یٰس ٓ، آیت : ٣٤ ١٠۔ النباء، آیت : ٣٢۔ ٣١ ١١۔ عبس، آیت : ٢٨۔ ٢٧ انگور کا شمار قدرت کی بہترین نعمتوں میں کیا جاتا ہے۔ اسی لیے قرآن حکیم میں اس کا ذکر عنب اور اعناب (جمع) کے نام سے مندرجہ بالا گیارہ آیات میں کیا گیا ہے۔ انگور فارسی لفظ ہے جس کا نباتاتی نام Vitis Vinifera ہے۔ اس طرح کھجور کے بعد انگور کی تاریخ بھی پھلوں میں سب سے قدیم مانی جا سکتی ہے۔ انگور سے پیدا کی گئی قسموں (Varieties) کی تعداد آٹھ ہزار تک پہنچ چکی ہے۔ اس کی کاشت دنیا کے بہت سے ممالک میں عام ہے جن میں سرفہرست ہیں اٹلی، فرانس، روس، اسپین، ترکی، ایران، افغانستان، جاپان، شام، الجیریا، مراکش، فلسطین اور امریکہ۔ انگورکی کل عالمی پیداوار کا نصف یورپ کے ممالک پیدا کرتے ہیں۔ کیمیاوی طور سے انگور، گلوکوز اور فرکٹوزکا بہترین ذریعہ ہے جو اس میں پندرہ سے پچیس فیصد تک پائے جاتے ہیں اس کے سوا Tartaric acid اور Malic acid بھی خاصی مقدار میں ملتے ہیں۔ سوڈیم پوٹاشیم، کیلشیم اور آئرن کی قابل قدر مقدار اس میں موجود ہے جبکہ پروٹین اور چربی برائے نام ہے۔ اس میں ایک بہت اہم کمپاؤنڈ بھی دریافت ہوا ہے جس کو وٹامن ” پی“ (P) کہا گیا ہے۔ یہ کیمیاوی جز ذیابیطس سے پیدا شدہ خون کے بہنے کو روکتا ہے۔ جسم کے ورم اور نسوں کی سوجن کو کم کرتا ہے اور Atherosclerosis کا مؤثر علاج ہے۔ کیمیاوی اجزاء کی بنا پر انگور ایک ایسا لاجواب ثمر ہے جو نہایت ہاضم ہونے کے ساتھ انتہائی فرحت بخش اور Demulcent ہے۔ خون کو صاف کرتا ہے اور جسم میں خون کی مقدار بڑھاتا ہے اور عام جسمانی کمزوری کو دفع کرتا ہے۔ کچے انگور کا رس گلے کی خرابیوں میں مفید سمجھا جاتا ہے۔ اس کی پتیاں اسہال کو روکتی ہیں۔ اس کی بیلوں سے حاصل کیا گیا رس (Sap) جلدکی بیماریوں میں کام میں لایا جا سکتا ہے۔ یورپ میں یہی رس Ophthalmia کا بہترین علاج مانا جاتا ہے۔ انگوری سرکہ معدہ کی خرابیوں، ہیضہ اور قولنج کی اچھی دوا ہے الانعام
100 الانعام
101 فہم القرآن ربط کلام : توحید کے دلائل دیتے ہوئے مشرکوں کے عقیدہ کی بے ثباتی ثابت کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کو ہر اعتبار سے وحدہٗ لاشریک قرار دیا ہے۔ آیت ٩٥ تا ٩٩ میں نباتات، آفاق، انسان کی پیدائش اور اس کی عارضی اور مستقل قیام گاہ کا حوالہ دے کر۔ غور وفکر کی کی دعوت دیتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی ذات پر بلا شرکت غیرے ایمان لانے کی تلقین کی گئی ہے۔ لیکن شرک ایسا مہلک مرض ہے کہ جس کی وجہ سے انسان کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیتیں ماؤف ہوجاتی ہیں جس کی بنا پر کسی شہادت اور دلیل کے بغیر لوگ جنات، ملائکہ، شمس وقمر، نباتات وجمادات یہاں تک کہ اپنے جیسے بلکہ اپنے سے بھی کم تر انسانوں، دیوانوں، مجذوبوں اور حو اس باختہ لوگوں کو کائنات کے نظام میں دخیل اور اللہ تعالیٰ کے اختیارات میں شریک سمجھ کر نہ صرف انھیں مشکل کشا اور حاجت روا خیال کرتے ہیں بلکہ ملائکہ، جنات کو اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں اور بعض شخصیات کو اللہ تعالیٰ کی اولاد تصور کرتے ہیں تاکہ خدا کی خدائی میں ان کی شراکت ثابت کی جاسکے۔ جیسا کہ یہودیوں نے جناب عزیر (علیہ السلام) اور عیسائیوں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو خدا کا بیٹا اور ان کی والدہ حضرت مریم [ کو خدا کی بیوی قرار دیا ہے۔ اللہ کی ذات کسی کی شراکت سے مبرا اور اولاد کی حاجت سے بے نیاز ہے۔ کسی کو اللہ تعالیٰ کی اولاد یا شریک ٹھہرانا مشرکوں کی ذہنی پستی اور فکری دیوانگی ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ ان کے باطل تصور ات اور ہر قسم کی یاوا گوئی سے پاک اور مبرّا ہے کائنات کی تخلیق کے لیے بدیع کا لفظ استعمال فرما کر واضح کیا کہ جس اللہ نے بغیر کسی پہلے سے موجود نقشے اور میٹریل کے اوپر نیچے سات آسماں اور تہ بہ تہ سات زمینیں پیدا کی ہیں۔ اسے اولاد کی کیا حاجت ہے ؟ اولاد انسان کی آنکھوں کی ٹھنڈک اور قلبی سکون کا باعث، اس کی زندگی کا سہارا، معاملات میں اس کی معاون اور اس کے سلسلۂ نسب قائم رہنے کا وسیلہ ہے۔ اولاد ہونے کا منطقی نتیجہ ہے کہ اس کی بیوی ہو کیونکہ بیوی کے بغیر اولاد کا تصور محال ہے جبکہ فرشتوں اور جنات کو خدا کی بیٹیاں، بعض انبیاء (علیہ السلام) کو خدا کا بیٹا قرار دینے سے اللہ تعالیٰ کی بیوی ثابت کرنا لازم ہوجاتا ہے۔ اولاد کسی نہ کسی طرح باپ کے مشابہ اور اس کی ہم جنس اور ہم نسل ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ان حاجات اور تمثیلات سے پاک ہے۔ مشرک بتائیں کہ زمین و آسمانوں میں کون سی چیز اللہ تعالیٰ کی مشابہ اور ہم جنس ہے؟ پھر کائنات کی ہر چیز کی ابتداء، انتہا اور اس کے لیے فنا ہے جبکہ اللہ تعالیٰ کی ذات اس وقت بھی تھی جب کچھ نہیں تھا اور وہ اس وقت بھی ہوگی جب ہر چیز فنا کے گھاٹ اتر جائے گی۔ کائنات کی ہر چیز پر حالات و واقعات کے منفی یا مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ جبکہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہمیشہ ایک ہی حالت پر قائم ودائم ہے۔ وہ ضعف و کمزوری اور نقص و نقصان سے پاک ہے۔ نہ اس کی ذات سے کوئی چیز پیدا ہوئی اور نہ وہ کسی سے پیدا ہوا ہے وہ ہر چیز کا خالق و مالک اور ذمہ دار ہے۔ وہ زمین کے ذرّے ذرّے اور آسمانوں کے چپہ چپہ کو جاننے اور ہر انسان کے خیالات سے واقف ہے اسے اچھی طرح معلوم ہے کہ مشرک کس بنا پر شرک کرتے ہیں۔ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَال اللَّہُ عَزَّ وَجَلَّ یُؤْذِینِی ابْنُ آدَمَ یَسُبُّ الدَّہْرَ وَأَنَا الدَّہْرُ بِیَدِی الْأَمْرُ أُقَلِّبُ اللَّیْلَ وَالنَّہَارَ)[ رواہ البخاری : کتاب تفسیر القران، باب ومایہلکنا الا الدہر] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے ابن آدم مجھے تکلیف دیتا ہے اس کا مجھے تکلیف دینا یہ ہے کہ وہ زمانے کو گا لیاں دیتا ہے حالانکہ زمانہ میں ہوں۔ میرے ہاتھ میں ہی معاملات ہیں میں ہی رات دن کو پھیرتا ہوں۔“ (عن أَنَس بن مالِکٍ (رض) یَقُولُ قَالَ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لَنْ یَبْرَحَ النَّاسُ یَتَسَاءَ لُونَ حَتّٰی یَقُولُوا ہَذَا اللّٰہُ خَالِقُ کُلِّ شَیْءٍ فَمَنْ خَلَقَ اللّٰہَ )[ رواہ البخاری : کتاب الإعتصام بالکتاب والسنۃ ] ” حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا لوگ باہم ایک دوسرے سے سوال کرتے رہیں گے اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کو پیدا کیا ہے تو اللہ تعالیٰ کو کس نے پیدا کیا ہے؟“ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لَا یَزَال النَّاسُ یَتَسَاءَ لُونَ حَتّٰی یُقَالَ ہٰذَا خَلَقَ اللّٰہُ الْخَلْقَ فَمَنْ خَلَقَ اللّٰہَ فَمَنْ وَجَدَ مِنْ ذٰلِکَ شَیْءًا فَلْیَقُلْ آمَنْتُ باللّٰہِ ورسلہ) [ رواہ مسلم : کتاب الایمان، باب بیان الوسوسۃ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان بیان کرتے ہیں کہ لوگ ہمیشہ ایک دوسرے سے سوال کرتے رہیں گے یہاں تک کہ کہا جائے گا مخلوق اللہ نے پیدا کی ہے لیکن اللہ کو کس نے پیدا کیا ہے؟ جو شخص اس قسم کے خیالات پائے اسے یہ کہنا چاہیے میں اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان رکھتا ہوں۔“ مسائل ١۔ کسی کو اللہ کا بیٹا یا بیٹی قرار دینا بہت بڑا شرک ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ ہر طرح کے شرک سے پاک اور مبّرا ہے۔ ٣۔ آسمانوں اور زمین کو بنانے والا صرف اللہ ہے۔ ٤۔ ساری کائنات کو بنانے والا صرف اللہ ہے۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ کو ہر چیز کا بخوبی علم ہے۔ ٦۔ اللہ تعالیٰ بہترین کار ساز ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ ہی ہر چیز کا خالق ہے : ١۔ اللہ تمھارا رب ہے اس کے سوا کوئی الٰہ نہیں وہی ہر چیز کا خالق ہے۔ (الانعام : ١٠٢) ٢۔ آپ فرما دیں اللہ ہی ہر چیز کا خالق ہے اور وہی واحدا ور قہار ہے۔ (الرعد : ١٦) ٣۔ اللہ ہی ہر چیز کا خالق ہے اور وہ ہر چیز کا کفیل ہے۔ (الزمر : ٦٢) ٤۔ کیا اللہ کے علاوہ بھی کوئی خالق ہے جو تمھیں روزی دیتا ہے۔ (الفاطر : ٣) الانعام
102 الانعام
103 فہم القرآن ربط کلام : توحید کے بین اور ٹھوس دلائل دینے کے بعد وضاحت فرمائی گئی ہے کہ تم اپنے خالق کو بصیرت کی آنکھوں اور اس کی قدرت کے نشانات کے حوالے سے دیکھ سکتے ہو لیکن ظاہری آنکھ سے ہرگز نہیں دیکھ سکتے۔ اللہ تعالیٰ کے دیدار کی چاہت رکھنا مومن کے ایمان کی معراج ہے۔ جنت میں سب سے بڑی نعمت اللہ تعالیٰ کی زیارت اور خوشنودی ہوگی۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے کوہ طور پر اللہ تعالیٰ سے حجاب میں ہم کلامی کرتے ہوئے فرط محبت میں آکر مطالبہ کیا تھا۔ اے رب کریم میرا دل تیری زیارت کے لیے تڑپ رہا ہے اس لیے میری درخواست ہے کہ مجھے اپنی زیارت کے شرف سے سرفراز فرمائیں۔ اس کے جواب میں ارشاد ہوا۔ اے موسیٰ تو مجھے ہرگز نہیں دیکھ سکتا جب موسیٰ محبت الٰہی میں بے قرار ہو کر اصرار کرنے لگے تو حکم ہوا کوہ طور کے فلاں حصہ پر نگاہ اٹھاؤ۔ اگر وہ میرے جلال و جمال کی ایک کرن برداشت کرسکا تو تُو بھی میرے جلال اور جمال کی جھلک برداشت کرسکے گا۔ جو نہی اللہ تعالیٰ کے جمال کی ایک کرن کوہ طور پر پڑی تو طور کا وہ حصہ ریزہ ریزہ ہوگیا اور موسیٰ بے ہوش ہو کر پیٹھ کے بل نیچے گرپڑے۔ جب ہوش آیا تو اس مطالبہ پر اللہ سے معافی طلب کی۔ اس کی تفصیل سورۃ الاعراف آیت ١٤٣ میں ملاحظہ فرمائیے۔ کفار محبت الٰہی کی بنا پر نہیں بلکہ انبیاء (علیہ السلام) پر بےیقینی اور ان کو لاجواب کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ کے دیدار کا مطالبہ کرتے تھے۔ ان میں یہودی سرفہرست رہے ہیں جنھوں نے موسیٰ (علیہ السلام) سے بار ہا مطالبہ کیا کہ ہم تب ایمان لائیں گے جب ہم براہ راست اللہ تعالیٰ کو دیکھ لیں۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) مجبور ہو کر ستر آدمیوں کو ساتھ لے کر کوہ طور پر پہنچے جب یہ لوگ اللہ تعالیٰ سے اس کے دیدار کا مطالبہ کرنے لگے تو ایک کڑک نے انھیں آلیا۔ وہ سب کے سب ہلاک ہوئے لیکن موسیٰ (علیہ السلام) کی دعا کی برکت سے اللہ تعالیٰ نے انھیں دوبارہ زندگی عنایت فرمائی۔ (الاعراف : ١٥٥) معراج کی رات نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اللہ تعالیٰ کو دیکھنے کے بارے میں حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کا مؤقف ہے آپ نے معراج کی رات اللہ تعالیٰ کی براہ راست زیارت کی ہے وہ فرمایا کرتے تھے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہمکلامی کا شرف حاصل ہوا اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے معراج کی رات رؤیت کا شرف پایا۔ حضرت ابن عباس (رض) کی وجہ سے کچھ صحابہ اور بعض ائمہ کرام کا بھی یہی موقف ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے معراج کی رات اللہ تعالیٰ کی زیارت کی ہے۔ اس کے لیے وہ دوآیات کا حوالہ دیتے ہیں۔ ( وَلَقَدْ رَاٰہُ بالْاُفُقُ الْمُبِیْنِ)[ التکویر : ٢٣] ” اور اس نے اس کو روشن افق پر دیکھا“ (وَلَقَدْ رَاٰہُ نَزْلَۃً اُخْرٰی )[ النجم : ١٣] ” اور ایک مرتبہ اور بھی اس نے اس کو دیکھا“ لیکن صحابہ کرام (رض) کی غالب اکثریت ان آیات کو جبریل امین (علیہ السلام) کے ساتھ آپ کی ملاقات پر منطبق کرتی ہیں کیونکہ حضرت عائشہ (رض) فرمایا کرتی تھیں کہ مجھے یہ شرف حاصل ہے کہ میں نے براہ راست اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا تھا کہ کیا آپ نے معراج کی رات اللہ تعالیٰ کا دیدار پایا ہے ؟ آپ نے اس کی نفی فرمائی۔ کیوں کہ قرآن مجید نے دو ٹوک انداز میں فرمایا ہے اللہ تعالیٰ کو کوئی آنکھ نہیں دیکھ سکتی جبکہ وہ ہر آنکھ کو دیکھنے والا ہے۔ جہاں تک اللہ تعالیٰ کو دیکھنے کا مطالبہ ہے یہ ہر اعتبار سے فضول اور ناقابل فہم ہے۔ انسان کی نگاہ سمندر، پہاڑ اور صحرا کا احاطہ نہیں کرسکتی۔ انسانی آنکھ سورج کے سامنے نہیں ٹھہر سکتی یہاں تک کہ انسان اپنے ہاتھوں سے بنائے کسی پاور فل بلب کو آنکھ بھر کر نہیں دیکھ سکتا۔ وہ اللہ تعالیٰ کا کس طرح دیدار کرسکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نہایت ہی لطیف بین اور ہر چیز کی خبر رکھنے والا ہے۔ یہاں توحید کے دلائل کو بصائر کہا گیا ہے جو بصیرت کی جمع ہے۔ واضح رہے کہ جسمانی آنکھ کے دیکھنے کو بصارت اور قلب و فکر کے ساتھ کسی چیز کا ادراک کرنے کو بصیرت کہا جاتا ہے۔ یہاں توحید کے دلائل اور ان کی فہم کو بصیرت قرار دیا گیا ہے جو شخص اللہ تعالیٰ کی توحید کا ادراک رکھتے ہوئے اس کے تقاضے پورے کرتا ہے وہی عقل و دانش کا حامل انسان ہے۔ اس نور بصیرت کا اسے دنیا و آخرت میں فائدہ پہنچے گا اور جس نے اللہ تعالیٰ کی توحید کا انکار کیا وہ عقل و دانش کا اندھا ہے اور اس اندھے پن کا اسے دنیا و آخرت میں بے انتہا نقصان اٹھانا پڑے گا۔ توحید کا فائدہ اور شرک کا نقصان بیان کرنے کے بعد رحمت دو عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دی گئی ہے کہ آپ کو لوگوں کی گمراہی پر آزر دہ ہونے اور انسانی حد سے بڑھ کر کوشش کرنے کے بجائے یہ سمجھنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو لوگوں کے نفع و نقصان اور ہدایت و گمراہی کا ذمہ دار نہیں بنایا۔ اللہ تعالیٰ اپنے احکام، فرامین، اور دلائل کو مختلف انداز، الفاظ اور زاویوں سے اس لیے بیان کرتا ہے تاکہ لوگ حقیقت کو جان جائیں۔ یہاں تک حقائق اور بصائر جو بصیرت کی جمع ہے جسکا معنی ہے ایسی حقیقت یا دلیل جس سے انسان کی آنکھیں کھل جائیں۔ تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایسے معجزات نازل کیے گئے کہ جن کو مانے بغیر کوئی چارہ نہ تھا۔ کفار بھی کھلے الفاظ میں اپنی مجالس میں ان کا اعتراف کرتے تھے لیکن خاندانی نخوت جھوٹے مذہب کی عصبیت اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ مخالفت کی وجہ سے سرعام اعتراف کرنے کی بجائے آئے دن آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نئے سے نئے معجزہ کا مطالبہ کرتے تاکہ کفر پر قائم رہنے کے لیے اپنے اور عوام کے لیے کوئی بہانہ تلاش کرسکیں۔ جن پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا گیا کہ جو جان بوجھ کر اندھا ہوجائے اس کے اندھے پن کا وبال اسی کے اوپر پڑے گا۔ جس کا نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مکلف نہیں بنایا گیا۔ نبی کا کام حق پہچانا ہے منوانا نہیں۔ قیامت کے دن دیدار ہوگا : (عَنْ جَرِیرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ (رض) قَالَ کُنَّا عِنْدَ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَنَظَرَ إِلَی الْقَمَرِ لَیْلَۃً یَعْنِی الْبَدْرَ فَقَالَ إِنَّکُمْ سَتَرَوْنَ رَبَّکُمْ کَمَا تَرَوْنَ ہٰذَا الْقَمَرَ لَا تُضَامُّونَ فِی رُؤْیَتِہٖ فَإِنِ اسْتَطَعْتُمْ ) [ رواہ البخاری : کتاب مواقیت الصلوۃ، باب فضل صلاۃ العصر] ” حضرت جریر بن عبداللہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ ہم نبی مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ تھے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے چاند کی طرف دیکھا جو کہ چودھویں کا تھا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بلاشبہ تم عنقریب اپنے رب کو دیکھو گے جس طرح تم اس چاند کو دیکھ رہے ہو۔ تم اس کو دیکھنے میں کوئی دقت محسوس نہیں کرتے“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ کا دیدار کرنا کسی آنکھ کے بس کی بات نہیں۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ ہر چیز کو دیکھ سکتا ہے۔ الانعام
104 الانعام
105 فہم القرآن ربط کلام : پہلے خطاب کا تتمّہ۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے منکرین رسالت کا ایک بہانہ بیان کیا ہے اس کی تمہید یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ایک ایک آیت کرکے قرآن نازل کرتا اور ایک مضمون کو مختلف اسالیب سے بیان فرماتا ہے تاکہ اہل علم پر اللہ تعالیٰ کی مراد منکشف ہوجائے اور ان کے ذہنوں میں صحیح مفہوم مستقر ہوجائے جو اللہ تعالیٰ کے فرمان کا منشا ہے۔ لیکن کفار کو اس سے یہ شبہ ہوا کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہود و نصاریٰ کے علماء سے مذاکرہ اور مباحثہ کرتے ہیں۔ جو اس بحث و تمحیص سے حاصل ہوتا ہے۔ اسے مختلف فقروں اور جملوں میں ڈھال کر ہمارے سامنے پڑھتے ہوئے یہ ظاہر کرتے ہیں کہ یہ آپ پر وحی نازل ہوئی ہے۔ حالانکہ یہ سب کچھ لوگوں سے پڑھا اور حاصل کیا ہوا ہوتا ہے ورنہ یہ اللہ کا نازل کیا ہوا کلام ہوتا تو اس کا ایک ہی انداز ہوتا اور یک بارگی پوری کتاب نازل ہوجاتی۔ ان کے اس شبہ کا قرآن مجید نے متعدد بار جواب دیا ہے کہ اگر تمھارے زعم میں یہ اللہ تعالیٰ کا کلام نہیں ہے کسی انسان کا بنایا اور سکھایا ہوا ہے۔ تو تم اس جیسی کوئی چھوٹی سورۃ بناکر لے آؤ۔ اس کے جواب میں وہ لوگ نہ ایسا کرسکے اور نہ قیامت تک کوئی شخص یا ادارہ کرسکتا ہے۔ یہ تو اللہ تعالیٰ کی وحی کردہ کتاب ہے۔ یہ جواب دینے کے بعد رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سمجھایا گیا ہے کہ آپ اپنے رب کی نازل کی ہوئی وحی کی پیروی کرتے رہیں تاکہ ان کی طعن آمیز باتوں سے آپ کی دعوت و تبلیغ متاثر نہ ہو۔ اس فرمان سے یہ بھی مقصود ہے کہ ان کے اس شک و شبہ اور طعن و تشنیع سے جو آپ کو حزن و ملال ہوتا ہے وہ زائل ہوجائے اور آپ کے دل کو ڈھارس حاصل ہو۔ پھر فرمایا اللہ کے سوا کوئی عبادت کا مستحق نہیں۔ اس فرمان میں اس پر متنبہ کیا گیا ہے کہ آپ صرف اپنے رب کی اطاعت کریں۔ اور جاہلوں کی جہالت کی وجہ سے اپنے مشن کو متاثر نہ ہونے دیں۔ مشرکین سے بے جا تکرار اور ایک حد سے زیادہ اصرار کرنے کے بجائے اعراض کیجیے۔ اس کا معنیٰ یہ نہیں ہے کہ ان کو تبلیغ نہ کریں بلکہ اس کا معنی یہ ہے کہ دل آزار باتوں سے اعراض کریں اور ان پر غم اور افسوس نہ کریں تاکہ آپ کی دعوت و تبلیغ کے مشن کو نقصان نہ پہنچے۔ مسائل ١۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وحی کے پابند تھے۔ ٢۔ مشرکین سے اعراض کرنا چاہیے۔ ٣۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کسی پر نگران نہیں تھے۔ تفسیر بالقرآن نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وحی کے پابند تھے : ١۔ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں تمھیں ڈراؤں۔ (الانعام : ١٩) ٢۔ آپ مضبوطی سے پکڑ لیں جو آپ کی طرف وحی کی جاتی ہے یہی صراط مستقیم ہے۔ (الزخرف : ٣ ٤) ٣۔ وحی الٰہی کے بغیر نبی اپنی مرضی سے کلام نہیں کرتا۔۔ (النجم : ٤) ٤۔ اے نبی جو آپ پر وحی کی گئی ہے آپ اس کی پیروی کریں۔ (الاحزاب : ٢) ٥۔ میں پیروی نہیں کرتا مگر اس کی جو میری طرف وحی کی جاتی ہے۔ (الاحقاف : ٩) ٦۔ آپ فرما دیں میں وحی کے ذریعہ تمھیں ڈرانے والا ہوں۔ (الانبیاء : ٤٥) الانعام
106 الانعام
107 فہم القرآن ربط کلام : پچھلی آیات کے آخر میں مختلف الفاظ اور انداز میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ڈھارس اور تسلی دی گئی ہے کہ آپ اپنا کام جاری رکھیں، توحید کے عقیدہ پر پکے رہ کر اللہ کی عبادت کرتے رہیں اور مخالفوں کو خاطر میں نہ لائیں۔ یہاں کھول کر بیان کردیا گیا ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو یہ لوگ اللہ کی ذات کے ساتھ کسی کو شریک نہ بنا سکتے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کی مشیت یہ ہے کہ یہ لوگ شرک کی ضلالت میں مبتلا رہیں۔ اس بات کی پہلے بھی دلائل کی روشنی میں صراحت کی جا چکی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے کسی کو ہدایت پر گامزن نہ کرنے یا گمراہی میں مبتلا رکھنے کا یہ معنیٰ نہیں کہ رب ذوالجلال انھیں خود ہدایت سے محروم اور شرک میں مبتلا رکھنا چاہتا ہے بلکہ لفظ ” یَشَآءُ“ کا حقیقی مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی کو جبراً ہدایت کی طرف نہیں کھینچتا۔ کیونکہ اس نے انسان کو اشرف المخلوقات بنا کر عقل و خرد کی نعمت سے سرفراز کیا ہے۔ کتاب مبین کی صورت میں صراط مستقیم کی طرف جامع اور اکمل ہدایات دے کر اس کے راہی کو دنیا اور آخرت کی کامیابیوں کی ضمانت دی ہے۔ صراط مستقیم چھوڑنے والوں کو دنیا کے نقصان اور آخرت کے عذاب سے متنبہ کیا ہے۔ اسی بنا پر اللہ تعالیٰ ہدایت اور گمراہی کو اپنی طرف منسوب کرتا ہے۔ کیونکہ جس طرح ظاہری نقصان کا مالک اللہ ہے اسی طرح وہ روحانی نفع و نقصان کا اختیار رکھنے والابھی وہی ہے۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبر کو اس کی حدود کار کی نشاندہی کرتے ہوئے تسلی اور تسکین دیتا ہے کہ میرے نبی آپ لوگوں کے لیے داعی ہیں ان کے معاملات کے محافظ اور ذمہ دار نہیں بنائے گئے۔ بس آپ اپنا کام کرتے جائیں۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے دین کو واضح فرمادیا ہے۔ ٢۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وحی کے پابند تھے۔ ٣۔ سرور کائنات (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر مشرکوں کا کوئی ذمہ نہیں تھا۔ الانعام
108 فہم القرآن ربط کلام : مشرکوں کے شرک اور مخالفوں کے رد عمل میں اخلاق کا دامن نہ چھوڑنے کی ہدایت۔ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا عزم و حوصلہ فلک بوس پہاڑوں سے بلند و بالا، آپ کی برد باری اور درگزر سمندر کے پانی کی گہرائی اور پھیلاؤ سے زیادہ تھی۔ آپ مشکل سے مشکل حالات میں صبر کرنے اور حوصلہ رکھنے والے تھے۔ کسی کی سنگین سے سنگین تر گستاخی اور زیادتی کے مقابلہ میں کبھی مشتعل نہ ہوتے۔ مکہ والوں نے آپ کی ذات اقدس پر ہر قسم کے الزام لگائے۔ سجدہ کی حالت میں آپ پر گندگی سے بھری ہوئی اونٹ کی اوجڑی رکھ دی۔ آپ کی ننھی منھی بچی حضرت فاطمہ (رض) کے معصوم چہرہ پر ابو جہل نے طمانچہ مارا۔ طائف کے غنڈوں نے آپ پر پتھربرسائے اور بدکلامی کی انتہا کردی مدینہ میں منافقوں نے ہر قسم کی ہرزہ سرائی کی یہاں تک کہ آپ کی پاک دامن اور وفا شعار بیوی حضرت عائشہ (رض) پر تہمت لگائی حالانکہ اس وقت اقتدار اور اختیار کے لحاظ سے سر زمین حجاز میں آپ کا کوئی ثانی نہیں تھا۔ ان مظالم اور زیادتیوں پر آپ کا مشتعل ہونا اور کسی سے بدلہ لینا تو درکنار پوری زندگی آپ کی زبان اطہر سے کسی نے کبھی سطحی لفظ نہیں سنا۔ پچھلی آیات میں آپ کو براہ راست مخاطب کیا گیا ہے۔ یہاں آپ کے بجائے مسلمانوں کو مخاطب کیا گیا ہے کیونکہ تبلیغ کے میدان میں کئی مراحل ایسے آتے ہیں کہ مبلغ کے لیے نازک صورت حال کو برداشت کرنا مشکل ہوجاتا ہے بالخصوص جب مشرکین سچے خالق اور رحیم و کریم رب کے مقابلہ میں اپنے ہاتھوں سے بنائے ہوئے لکڑی اور پتھر کے بتوں کو پیش کرتے، ان کے مشکل کشا، حاجت روا ہونے کے گھٹیا دلائل دیتے ہیں تو موحّد کی غیرت ایمانی جوش میں آتی ہے جس کی بنا پر ایک مصلح اور مبلغ کی زبان پر سطحی لفظ کا آنا غیر فطری بات نہیں۔ لیکن تبلیغ کے میدان میں چھوٹی سی لغزش بھی مبلغ کے لیے عار اور اس کے مشن میں رکاوٹ بنتی ہے اس لیے اسے ضابطۂ اخلاق کا پابند بناتے ہوئے گالی سے روکا گیا ہے۔ (سورۃ حٰم السجدہ، آیت : ٣٤) میں یہ کہہ کر مبلغ کو اخلاق کا سبق دیا گیا کہ نیکی اور برائی برابر نہیں ہو سکتے۔ لہٰذا کسی سے بحث و تکرار کے وقت بھی حسن اخلاق کا دامن نہیں چھوڑنا چاہیے۔ مشرک دلائل کے اعتبار سے نہایت ہی کمزور ہوتا ہے اس لیے وہ فطرتاً سفلہ مزاج اور کم ظرف واقع ہوا ہے جس بنا پر باطل معبودوں کی حمایت میں وہ سچے حقیقی معبود کی گستاخی کرنے میں بھی نہیں چونکتا اسے بے علم اور کم حوصلہ قرار دیتے ہوئے مواحد کو سمجھایا گیا ہے کہ ان کے باطل خداؤں کے بارے میں برے الفاظ مت کہو۔ کہیں وہ ذات کبریا کے بارے میں برے الفاظ نہ کہہ دیں۔ اس طرح تمھاری اخلاقی کمزوری کی وجہ سے وہ شرک میں آگے بڑھتے ہوئے تمھیں مشتعل کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے جس سے فائدے کے بجائے تبلیغ کے مشن کو نقصان ہوگا۔ یہاں یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ قرآن مجید باطل معبودوں کے لیے ” مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ“ کے الفاظ استعمال کرتا ہے جو عربی زبان میں زندہ اور ذوی العقول کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ لہٰذا جو لوگ ” مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ“ سے مراد بے جان چیزیں اور پتھر کے بت مراد لیتے ہیں انھیں اپنی غلط فہمی دور کرلینی چاہیے کیونکہ من دون اللہ کے دائرہ میں اللہ تعالیٰ کے سوا ہر وہ چیز اور ذات آئے گی جسے کسی نہ کسی انداز میں خدا کی خدائی میں شریک کیا جاتا ہے۔ یہاں اللہ تعالیٰ نے یہ کہہ کر ہر مبلغ کو تسلی دی ہے کہ مشرکوں اور خدا کے نافرمانوں کی نافرمانیوں اور شرک کی وجہ سے ان کے اعمال ان کے لیے خوبصورت بنا دیے گئے ہیں۔ جس کی وجہ سے وہ شرک اور توحید میں فرق نہیں سمجھتے، گناہ اور خدا کی نافرمانی کو اپنی زندگی کا معمول بنائے ہوئے ہیں۔ دنیا میں جتنا چاہیں دندناتے پھریں آخر وہ وقت آکر رہے گا جب انھیں اپنے رب کی طرف لوٹنا ہے ان کی ایک ایک حرکت اور عمل کے بارے میں نہ صرف ان کو بتلایا جائے گا بلکہ انھیں اس کے انجام سے دو چار ہونا ہوگا۔ (عَنْ وَاءِلٍ (رض) عَنْ الْمُرْجِءَۃِ فَقَالَ حَدَّثَنِی عَبْدُ اللّٰہِ (رض) أَنَّ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ سِبَابُ الْمُسْلِمِ فُسُوقٌ وَقِتَالُہُ کُفْرٌ) [ رواہ البخاری : کتاب الایمان، باب خَوْفِ الْمُؤْمِنِ مِنْ أَنْ یَحْبَطَ عَمَلُہُ وَہُوَ لاَ یَشْعُرُ ] ” حضرت وائل (رض) مرجۂ سے بیان کرتے ہیں مجھے عبداللہ (رض) نے بتایا بلاشبہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا مسلمان کو گالی دینا فسق ہے اور اس سے لڑنا کفر ہے۔“ مسائل ١۔ باطل عقائد کا حکمت و دانائی کے ساتھ رد کیا جانا چاہیے۔ ٢۔ ہر گروہ کے لیے ان کے اعمال مزین کردیے گئے ہیں۔ ٣۔ بتوں کو بھی گالی دینے کی اجازت نہیں ہے۔ ٤۔ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ سب کے درمیان فیصلہ صادر فرمائے گا۔ تفسیر بالقرآن برے اعمال کن لوگوں کے لیے خوبصورت ہوتے ہیں : ١۔ جن کے دل سخت ہوگئے اور ان کے اعمال کو شیطان نے مزین کردیا۔ (الانعام : ٤٣) ٢۔ جن لوگوں کا آخرت پر ایمان نہیں شیطان ان کے اعمال مزین کردیتا ہے۔ (النمل : ٤) ٣۔ کفار کے لیے دنیا کی زندگی مزین کردی گئی۔ (البقرۃ: ٢١٢) ٤۔ کفار کے لیے ان کے اعمال کو مزین کردیا گیا ہے۔ (الانعام : ١٢٢) الانعام
109 فہم القرآن ربط کلام : مشرکین اور منکرین کے باطل نظریات اور یا وہ گوئی کے مقابلے میں مسلمانوں کو اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ کرنے کی تلقین کرنے کے بعد کفار کے لایعنی مطالبہ کا جواب اور اس کی حقیقت منکشف کی گئی ہے۔ یہود و نصاریٰ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو لاجواب کرنے اور مسلمانوں کو ورغلانے کے لیے یہ ہتھکنڈا بھی استعمال کیا کرتے تھے کہ جب مسلمانوں کی مجالس میں بیٹھتے تو اپنا اعتماد اور اخلاق ظاہر کرنے کے لیے قسمیں اٹھایا کرتے تھے کہ اگر یہ نشانیاں اور معجزات ہمارے سامنے پیش کیے جائیں تو ہم حلقہ بگوش اسلام ہوجائیں گے۔ ان کے ساتھ اہل مکہ کا یہ مطالبہ بھی تھا کہ صفا پہاڑ کو سونے کا بنا دیا جائے تاکہ ہماری معاشی مشکلات حل ہو سکیں اور ہم کامل یکسوئی کے ساتھ اسلام کی خدمت کرسکیں۔ آپ نے اللہ تعالیٰ کے حضور دعا کی جس کے جواب میں جبرائیل امین (علیہ السلام) تشریف لائے اور آپ سے کہا کہ آپ کی دعا کے بدلے یہ پہاڑ سونے میں تبدیل ہوجائے گا اگر یہ لوگ پھر بھی ایمان نہ لائے تو انھیں فی الفور صفحہ ہستی سے مٹا دیا جائے گا اگر آپ چاہیں تو انھیں مزید مہلت دی جائے تاکہ ان میں سلیم الفطرت لوگ ایمان لے آئیں۔ آپ نے اسی بات کو پسند کرتے ہوئے ان لوگوں سے فرمایا کہ معجزہ ظاہر کرنا میرے بس کی بات نہیں یہ تو اللہ تعالیٰ کی عنایت کا نتیجہ ہوتا ہے۔ وہ جب چاہتا ہے اپنے رسول کو عطا فرماتا ہے۔ اے رسول معجزات تو ان کے پاس پے درپے آچکے تھے لیکن جب کسی کی سوچ الٹی ہوجائے اور اس کی آنکھیں کسی چیز کو غلط زاویے سے دیکھنے لگیں تو اسے ہدایت کس طرح نصیب ہو سکتی ہے۔ اس وجہ سے ہم نے انھیں ان کی نافرمانیوں کے حوالے کردیا ہے جس میں وہ سرگرداں رہتے ہیں۔ بعض مفسرین نے ” ونقلب افئد تھم وابصارھم“ کا مفہوم یہ لیا ہے کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ انھیں جہنم کی طرف پھیر دے گا۔ نبی گرامی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے کہ دل رحمن کے اختیار میں ہیں۔ (عَنْ اُمِّ سَلَمَۃَ تُحَدِّثُ أَنَّ رَسُول اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یُکْثِرُ فِی دُعَاءِہٖ أَنْ یَقُول اللّٰہُمَّ مُقَلِّبَ الْقُلُوبِ ثَبِّتْ قَلْبِی عَلٰی دینِکَ قَالَتْ قُلْتُ یَا رَسُول اللّٰہِ أَوَإِنَّ الْقُلُوبَ لَتَتَقَلَّبُ قَالَ نَعَمْ مَا مِنْ خَلْقِ اللّٰہِ مِنْ بَنِی آدَمَ مِنْ بَشَرٍ إِلَّا أَنَّ قَلْبَہُ بَیْنَ أَصْبَعَیْنِ مِنْ أَصَابِعِ اللّٰہِ فَإِنْ شَاء اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ أَقَامَہُ وَإِنْ شَاء اللّٰہُ أَزَاغَہُ۔۔)[ رواہ احمد] ” حضرت ام سلمہ (رض) بیان کرتی ہیں بلاشبہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اکثر اپنی دعاؤں میں کہا کرتے تھے اے اللہ دلوں کو پھیرنے والے ! میرے دل کو اپنے دین پر ثابت رکھنا۔ وہ بیان کرتی ہیں میں نے پوچھا اے اللہ کے رسول! آیا دل بھی پھیرے جاتے ہیں؟ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہاں! بنی آدم کے ہر فرد کا دل اللہ تعالیٰ کی انگلیوں میں سے دوانگلیوں کے درمیان ہے۔ اللہ تعالیٰ چاہتا ہے تو اس کو قائم رکھتا ہے۔ اور اگر اللہ چاہے تو اس کو پھیر دے۔۔“ (رَبَّنَا لاَ تُزِغْ قُلُوْبَنَا بَعْدَ إِذْ ہَدَیْتَنَا وَہَبْ لَنَا مِنْ لَّدُنْکَ رَحْمَۃً إِنَّکَ أَنْتَ الْوَہَّابُ) [ آل عمران : ٨] ” اے ہمارے رب! ہمارے دلوں کو ہدایت دینے کے بعد پھیر نہ دینا۔ اور ہمیں اپنی طرف سے رحمت عنایت کر بلا شبہ تو ہی دینے والا ہے۔“ مسائل ١۔ کفار بے جامعجزات کے مطالبے کیا کرتے تھے۔ ٢۔ مشرکین کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان کے دل پھیر دیے۔ ٣۔ مشرکین اپنی ہی سرکشی میں الجھے پھرتے ہیں الانعام
110 الانعام
111 فہم القرآن ربط کلام : منکرین حق کے لایعنی مطالبات کا دوسرا جواب اور ان کی حیثیت۔ جیسا کہ پہلی آیات کی تفسیر میں عرض کیا جا چکا ہے کہ منکرین حق رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو لاجواب اور مسلمانوں کو پھسلانے کے لیے مختلف ہتھکنڈے استعمال کرتے اور مطالبات کرتے رہتے تھے۔ اس کے جواب میں فرمایا گیا کہ دلائل اور معجزات تو بہت آچکے لیکن یہ لوگ اپنی باغیانہ فطرت کی وجہ سے انھیں تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ اب اسی بات کو کھول کر یوں بیان کیا گیا ہے کہ اگر ہم آسمان سے ملائکہ نازل کریں اور وہ آواز پر آواز دیں کہ لوگو یہ رسول سچاہے اور پھر مردوں کو قبروں سے اٹھا کر ان کے سامنے لا کھڑا کیا جائے اور وہ دہائی دیتے ہوئے کہیں کہ واقعی ہمارے مرنے کے بعد ہم سے اللہ، اس کے رسول اور ہمارے اعمال کے بارے میں سوال ہوا لیکن ہم ٹھیک ٹھیک جواب نہ دے سکے جس کی وجہ سے ہمیں اذیت ناک عذاب میں مبتلا رکھا گیا ہے جس کا تم تصور بھی نہیں کرسکتے۔ اسی طرح ان کا ہر مطالبہ تسلیم کیا جائے تو پھر بھی یہ بدفطرت لوگ کبھی اللہ کی توحید کا اقرار اس کے رسول پر سچا اعتقاد اور آخرت کی جو ابد ہی پر ایمان نہیں لائیں گے کیونکہ ان کی اکثریت جہلا پر مشتمل ہے سوائے ان لوگوں کے جن کا ایمان لانا اللہ کی مشیت میں لکھا ہوا ہے۔ یاد رہے منکرین حق کے ان مطالبات سے پہلے ایسے معجزات آچکے تھے جن کی حقیقت کو یہ اچھی طرح جان چکے تھے پھر نبی محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اپنی سچائی کی تائید کے لیے یہ کہہ کراپنے ماضی کا حوالہ پیش کرنا کہ میں نے تم میں چالیس سال کا طویل عرصہ گزارا ہے کیا تمھیں میری دیانت و امانت اور حق و صداقت پر کوئی شبہ ہے ؟ جس کے جواب میں منکرین حق نے بیک زبان اقرار کیا تھا۔ (مَا جَرَّبْنَا عَلَیْکَ إِلاَّ صِدْقًا) ” ہم نے آپ کو ہمیشہ سچا پایا ہے“ قرآن مجید کے بارے میں بار بار چیلنج دیا گیا کہ اگر تمھارے الزام میں کوئی حقیقت ہے کہ یہ نبی اپنی طرف سے قرآن بنا کر پیش کرتا ہے تو سب مل کر کوئی ایک سورۃ ہی بنا لاؤ۔ جس کا جواب کفار نہ دے سکے اور نہ قیام قیامت تک کوئی دے سکے گا۔ اس کے ساتھ ہی ان کے سامنے چاند دو ٹکڑے ہوا پتھروں نے رحمت دو عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت کی شہادت دی اور آپ کی بیان کی ہوئی ایک ایک پیشگوئی سچ ثابت ہوئی۔ ان معجزات اور نشانیوں سے بڑھ کر کون سی نشانی اور معجزات ہو سکتے تھے جس کا وہ لوگ مطالبہ کرتے تھے۔ اس وجہ سے یہ جواب دیا گیا کہ ان کی ہر بات مان لی جائے پھر بھی یہ ایمان نہیں لائیں گے۔ ایسا اس لیے ہے کہ ان کی جہالت ان پر غالب آچکی ہے۔ یہاں جہالت سے مراد ان پڑھ نہیں بلکہ اکھڑ مزاجی اور ہٹ دھرمی ہے۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ ہر طرح کے دلائل اور معجزات نازل کرنے پر قادر ہے۔ ٢۔ کافر عناد اور قساوت قلبی کی وجہ سے ایمان نہیں لاتے۔ ٣۔ لوگوں کی اکثریت جاہل ہوتی ہے۔ ٤۔ جہالت انسان کو کفر و شرک پر آمادہ رکھتی ہے۔ ٥۔ جہالت سے اللہ کی پناہ مانگنی چاہیے۔ تفسیر بالقرآن لوگوں کی اکثریت جاہل اور گمراہ ہوتی ہے : ١۔ اگر ہم منکرین کے سامنے ہر چیزکو اکٹھا کردیتے تب بھی وہ ایمان نہ لاتے کیونکہ اکثر ان میں جاہل ہیں۔ (الانعام : ١١١) ٢۔ کیا زمین و آسمان کی تخلیق مشکل ہے یا انسان کی پیدائش مگر اکثر لوگ جاہل ہیں۔ (الفاطر : ٥٧) ٣۔ یہ دین صاف اور سیدھا ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔ (یوسف : ٤٠) ٤۔ اللہ اپنے امر پر غالب ہے لیکن لوگ نہیں جانتے۔ (یوسف : ٢١) ٥۔ اللہ اپنے وعدہ کی خلاف ورزی نہیں کرتا لیکن اکثر لوگ جاہل ہیں۔ (الروم : ٦) ٦۔ وہ اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھتے ہیں اور ان کی اکثریت بے عقل ہے۔ (المائدۃ: ١٠٣) ٧۔ قیامت کا علم اللہ تعالیٰ کو ہے لیکن لوگوں کی اکثریت بے علم ہے۔ (الاعراف : ١٨٧) الانعام
112 فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جن حالات سے آپ گزر رہے ہیں۔ ایسے اعتراضات اور حالات سے تمام انبیاء کو واسطہ پڑتا رہا ہے۔ کیونکہ جنوں اور انسانوں میں سے ہر نبی کا ایک دشمن ضرور ہوا کرتا تھا۔ کَذٰلِکَ کا لفظ اس بات کی ترجمانی کرر ہا ہے کہ نبی آخر الزماں (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پہلے جتنے انبیاء کرام (علیہ السلام) دنیا میں تشریف لائے انھیں کئی قسم کے مظالم برداشت کرنے پڑے۔ ان پاکباز شخصیتوں پر الزامات لگائے گئے ان کی دعوت پر ہر قسم کی تنقید کی گئی لیکن وہ جو اں مرد پوری استقامت کے ساتھ اپنے مشن پر قائم رہے۔ یہاں اس بات کو یوں بیان کیا گیا ہے کہ ہم نے ہر نبی کے جنوں اور انسانوں میں سے دشمن بنائے تھے جو لوگوں کو گمراہ کرنے کے لیے ایک دوسرے کو عیاری، مکاری اور ملمع سازی کی باتیں سکھلایا کرتے تھے۔ یہاں شیاطین کے لیے وحی کا لفظ استعمال کیا گیا ہے کیونکہ وحی کی اقسام میں ایک قسم یہ بھی ہے کہ جو بات پیغمبر کو بتلانی ہوتی ہے اسے اللہ تعالیٰ اس کے دل میں ڈال دیتا ہے۔ سورۃ النحل آیت ٦٨ میں شہد کی مکھی کے لیے بھی یہ لفظ استعمال کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ مکھی کو شہد بنانے کی وحی کرتا ہے۔ شیطان صفت انسان اور جنات غیر محسوس طریقے سے اپنے چیلوں کے ذریعے برائی اور بے حیائی پھیلانے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ لوگ برائی کی طرف مائل ہوجائیں۔ یہ باتیں شیطان ان کے ذہن میں ڈالتا ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے شیطان کو مہلت دے رکھی ہے اور انسانوں کے لیے دنیا کی زندگی کو امتحان گاہ بنایا ہے جس بنا پر اللہ تعالیٰ کی منشاء ہے کہ انسان کو اچھائی اور برائی سے آگاہ کرنے کے بعد اختیار اور مہلت دی جائے کہ وہ ان میں سے کون سی چیز اپنے لیے پسند کرتا ہے۔ ورنہ اللہ تعالیٰ چاہتا تو ایسے لوگ اور شیطان اس کی دسترس سے باہر نہیں ہیں۔ اس لیے آپ کو حکم دیا گیا ہے کہ ان لوگوں کو ان کی حالت پر چھوڑ دیجیے تاکہ جو لوگ آخرت کی جوابدہی پر یقین نہیں رکھتے ان کے دل اسی طرف مائل رہیں جو کچھ وہ اپنی من مرضی سے اپنے لیے پسند کرچکے ہیں۔ یہاں برائی کے تین مدارج بیان کیے گئے ہیں۔ ١۔ جب شیطان کسی شخص کو پھسلاتا ہے تو سب سے پہلے اس کے دل میں باطل خیالات پیدا کرتا ہے اگر انسان اللہ تعالیٰ سے پناہ طلب نہ کرے تو بالآخر اس کا دل ان کی طرف مائل ہوجاتا ہے۔ ٢۔ انسان کے دل میں جو نظریہ جگہ پکڑ جائے وہ اسی پر اپنے آپ کو راضی اور مطمئن سمجھتا ہے۔ ٣۔ آدمی جب اللہ تعالیٰ کی ہدایت کو چھوڑ کر کسی بات کی طرف مائل اور اس پر راضی ہوجائے تو وہ وہی کچھ کرتا ہے جو اس کا دل چاہتا ہے اکثر اوقات اس گمراہی پر لوگوں سے جھگڑتا ہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے کہ انسان کے جسم میں گوشت کا ایک ایسا ٹکڑا ہے اگر وہ صحیح رہے تو انسان صحیح رہتا ہے اگر وہ خراب ہوجائے تو تمام جسم خراب ہوجاتا ہے وہ انسان کا دل ہے۔ (رواہ البخاری : باب فضل من استبراء الدینہ) (أَوَمَنْ کَانَ مَیْتًا فَأَحْیَیْنَاہُ وَجَعَلْنَا لَہٗ نُورًا یَّمْشِیْ بِہٖ فِی النَّاسِ کَمَنْ مَّثَلُہٗ فِی الظُّلُمَاتِ لَیْسَ بِخَارِجٍ مِّنْہَا کَذٰلِکَ زُیِّنَ لِلْکَافِرِینَ مَا کَانُواْ یَعْمَلُونَ) [ سورۃ الأنعام : ١٢٢) ” بھلا وہ شخص جو مردہ تھا پھر ہم نے اسے زندہ کیا اور اس کو روشنی عطا کی جس کی مدد سے وہ لوگوں میں زندگی بسر کرتا ہے اس شخص جیسا ہوسکتا ہے جو تاریکیوں میں پڑا ہو اور اس کے نکلنے کی کوئی صورت نہ ہو۔ کافروں کے لیے ان کے اعمال اسی طرح خوشنما بنا دیے گئے۔“ (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَسْعُودٍ (رض) قَالَ قَالَ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَا مِنْکُمْ مِنْ أَحَدٍ إِلَّا وَقَدْ وُکِّلَ بِہٖ قَرِینُہُ مِنْ الْجِنِّ قَالُوا وَإِیَّاکَ یَا رَسُول اللّٰہِ قَالَ وَإِیَّایَ إِلَّا أَنَّ اللّٰہَ أَعَانَنِی عَلَیْہِ فَأَسْلَمَ فَلَا یَأْمُرُنِی إِلَّا بِخَیْرٍ) [ رواہ مسلم : کتاب صفۃ القیامۃ والجنۃ والنار، باب تحریش الشیطان وبعثہ سرایاہ لفتنۃ الناس] ” حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا تم میں سے ہر شخص کے ساتھ ایک جن اور ایک فرشتہ مقرر کیا گیا ہے، صحابہ (رض) نے عرض کیا اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ کے ساتھ بھی ؟ فرمایا کیوں نہیں لیکن اللہ نے اس پر میری مدد فرمائی جس سے وہ میرا تابع ہے اس لیے وہ نیکی کے سوا مجھے کوئی حکم نہیں دے سکتا۔“ (عَنْ أَبِی أُمَامَۃَ (رض) قَالَ کَانَ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فِی الْمَسْجِدِ جَالِسًا وَکَانُوا یَظُنُّونَ أَنَّہٗ یَنْزِلُ عَلَیْہِ فَأَقْصَرُوْا عَنْہُ حَتّٰی جَاءَ أَبُو ذَرٍّ فَاقْتَحَمَ فَأَتٰی فَجَلَسَ إِلَیْہِ فَأَقْبَلَ عَلَیْہِمْ النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَقَالَ یَا أَبَا ذَرٍّ ہَلْ صَلَّیْتَ الْیَوْمَ قَالَ لَا قَالَ قُمْ فَصَلِّ فَلَمَّا صَلَّی أَرْبَعَ رَکَعَاتٍ الضُّحَی أَقْبَلَ عَلَیْہِ فَقَالَ یَا أَبَا ذَرٍّ تَعَوَّذْ مِنْ شَرِّ شَیَاطِیْنِ الْجِنِّ وَالْإِنْسِ قَالَ یَا نَبِیَّ اللّٰہِ وَہَلْ لَلْإِنْسِ شَیَاطِینٌ قَالَ نَعَمْ شَیَاطِینُ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ یُوحِیْ بَعْضُہُمْ إِلَی بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُورًا) [ مسند احمد : ٢١٢٥٧] ” حضرت ابو امامہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مسجد میں تشریف فرما تھے اور صحابہ کا یہ گمان تھا کہ آپ پر وحی نازل ہو رہی ہے اس لیے وہ آپ کے سامنے چپ چاپ بیٹھے تھے اتنے میں حضرت ابوذر (رض) آکر آپ کے پاس بیٹھ گئے آپ نے فرمایا اے ابوذر کیا تم نے نماز پڑھ لی ہے؟ انھوں نے کہا نہیں آپ نے فرمایا کھڑے ہو کر نماز پڑھو۔ جب انھوں نے چار رکعات چاشت کی نماز پڑھ لی تو آپ اس کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا شیطان جنوں اور انسانوں سے پناہ طلب کیا کرو انھوں نے کہا اے اللہ کے نبی کیا انسانوں میں بھی شیطان ہوتے ہیں آپ نے فرمایا ہاں ! جن اور انسان لوگوں کو دھوکے میں ڈالنے کے لیے ایک دوسرے کو خوش نما باتیں القا کرتے ہیں۔“ مسائل ١۔ ہر نبی کے شیاطین اور انسانوں میں دشمن ہوا کرتے تھے۔ ٢۔ جنوں اور انسانوں میں سے کچھ افراد شیطان ہوتے ہیں۔ ٣۔ شیاطین لوگوں کو دھوکا دینے کے لیے خوش نما باتیں لوگوں کے دلوں میں ڈالتے ہیں۔ ٤۔ آخرت کا انکار کرنے والے شیاطین کے ساتھی ہیں۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو مہلت دے رکھی ہے۔ ٦۔ آخرت کے منکروں کے دل برائی کی طرف مائل رہتے ہیں۔ الانعام
113 الانعام
114 فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ انسان کا فرض ہے کہ وہ من ساختہ بات کے پیچھے چلنے کے بجائے اللہ تعالیٰ کے حکم کی پیروی کرے جس کے لیے اس نے مفصل کتاب نازل فرمائی ہے۔ انسان پر شیطان کا تسلط قائم ہوجائے تو وہ اللہ کا بندہ بننے کے بجائے اپنے نفس اور شیطان کا غلام بن کر رہ جاتا ہے۔ قرآن کے الفاظ میں ایسا شخص اپنے نفس کا بندہ بن جاتا ہے اور وہ آخرت سے بے پروا ہو کر اپنے نظریات کو شریعت کا متبادل سمجھتے ہوئے اس کی پیروی کرتا ہے اس سوچ اور طرز عمل کی مذمت کرتے ہوئے رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان سے کہلوایا گیا ہے کہ کیا میں اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر کسی اور کو اپنا حاکم تصور کرلوں حالانکہ فیصلہ کرنے والا تو صرف وہی ہے اور اس نے انسانوں کو شیطان اور نفس کی پیروی سے منع کیا ہے اور لوگوں کی ہدایت کے لیے جامع اور مفصل کتاب نازل فرمائی ہے۔ اِلَیْکُمْکا اشارہ اور ضمیر لا کر منکرین وحی کو فرمایا ہے کہ اگر تمھیں رسول کے برحق اور قرآن مجید کے من جانب اللہ ہونے پر شک ہے تو اہل علم سے اس کے بارے میں پوچھ لیجیے۔ اہل علم سے مراد خاص کروہ صحابہ ہیں جو عیسائی اور یہودی مذہب چھوڑ کر حلقۂ اسلام میں داخل ہوئے تھے۔ ان کے ساتھ ہی یہود و نصاریٰ کے حق گو دانشور بھی شامل ہیں جو اپنے مذہب پر رہنے کے باوجود قرآن مجید کے من جانب اللہ ہونے کی کھلی گواہی دیتے ہیں۔ قرآن مجید کی صداقت و عظمت کے پیش نظر نبی محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرمایا گیا ہے کہ آپ کو قرآن کے من جانب اللہ اور اس کی ہدایت پر کسی قسم کا اندیشہ اور شک نہیں ہونا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ ہر بات کو سننے اور جاننے والا ہے۔ اس میں بظاہر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات مخاطب ہے مگر حقیقتاً پوری بنی نوع انسان شامل ہے۔ ان دو آیات میں قرآن مجید کے سات اوصاف کا ذکر کیا گیا ہے۔ ١۔ قرآن مجید اللہ کا نازل کردہ ہے۔ ٢۔ احکام و مسائل میں جامع اور مفصل کتاب ہے۔ ٣۔ اس کی رہنمائی اور ہدایت میں کسی قسم کا نقصان اور شک کی گنجائش نہیں۔ ٤۔ قرآن اللہ تعالیٰ کی آخری کتاب ہے۔ ٥۔ قرآن مجید کے احکام عدل و انصاف پر مبنی ہیں۔ ٦۔ قرآن مجید کے ارشادات اور اس کی پیش گوئیاں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے برحق ہیں۔ ٧۔ قرآن مجید ہر اعتبار سے تغیر و تبدل سے پاک ہے اور قیامت تک اس کے محفوظ رہنے کی ضمانت دی گئی ہے۔ (وَقَالُوْا یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْ نُزِّلَ عَلَیْہِ لذِّکْرُ اِنَّکَ لَمَجْنُوْنٌ) [ الحجر : ٦] ” اللہ رب العزت فرماتے ہیں جسے قرآن پاک کی تلاوت اور میرے ذکر نے مجھ سے مانگنے سے مشغول رکھا میں اسے مانگنے والوں سے زیادہ عطاکروں گا۔“ قرآن مجید کی تلاوت کا ثواب : (یَقُوْلُ الرَّبُّ عَزَّوَجَلَّ مَنْ شَغَلَہُ الْقُرْآنُ وَذِکْرِیْ عَنْ مَسْأَلَتِیْ اَعْطَیْتُہٗ اَفْضَلَ مَآ اُعْطِیَ السَّآءِلِیْنَ) [ رواہ الترمذی : کتاب فضائل القرآن، باب ماجاء کیف کانت قراء ۃ النبی] ” اللہ رب العزت فرماتے ہیں جسے قرآن پاک کی تلاوت اور میرے ذکر نے مجھ سے مانگنے سے مشغول رکھا میں اسے مانگنے والوں سے زیادہ عطا کروں گا۔“ جس طرح اللہ تعالیٰ کی ذات بڑائی وکبریائی اور خیر و برکت کے لحاظ سے یکتا اور تنہا ہے یہی مقام ذکر واذکار میں تلاوت قرآن مجید کو حاصل ہے۔ قرآن مجید کو زندگی کا رہنما بنانے سے دنیا و آخرت کے مسائل ومصائب کا مداوا ہونے کی ضمانت دی گئی ہے۔ اس کتاب مقدس سے انحراف اور بے اعتنائی کرناپریشانیوں اور ناکامیوں کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔ (اِنَّ اللّٰہَ یَرْفَعُ بِھٰذَا الْکِتَابِ اَقْوَامًا وَّ یَضَعُ بِہٖ آخَرِیْنَ) [ رواہ مسلم : کتاب صلاۃ المسافرین وقصرھا] ” یقیناً اللہ تعالیٰ اس کتاب کے ذریعے قوموں کو بلند فرماتا ہے اور اسی کے سبب لوگوں کو ذلیل کرتا ہے۔“ (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَسْعُوْدٍ (رض) یَقُوْلُ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَنْ قَرَأَ حَرْفًا مِّنْ کِتَاب اللّٰہِ فَلَہٗ بِہٖ حَسَنَۃٌ وَالْحَسَنَۃُ بِعَشْرِ أَمْثَالِھَا لَا أَقُوْلُ الم حَرْفٌ وَلٰکِنْ أَلْفٌ حَرْفٌ وَلَامٌ حَرْفٌ وَمِیْمٌ حَرْفٌ) [ ترمذی : کتاب فضائل القرآن] ” حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس نے اللہ کی کتاب کا ایک حرف پڑھا اسے اس کے بدلے ایک نیکی ملے گی اور ایک نیکی دس نیکیوں کے برابر ہے میں یہ نہیں کہتا کہ ” الم“ ایک حرف ہے بلکہ ” الف“ ایک حرف ہے اور ” لام“ ایک حرف ہے ” اور ” میم“ ایک حرف ہے۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ کی شریعت کے مطابق فیصلے کرنے چاہییں۔ ٢۔ قرآن مجید اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ کتاب ہے۔ ٣۔ قرآن مجید میں کسی قسم کا رد و بدل نہیں کیا جا سکتا۔ ٤۔ قرآن مجید قیامت تک محفوظ رہے گا۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ کا کلام حق اور اس کے وعدے سچے ہیں : ١۔ اللہ تعالیٰ سچ فرماتا ہے۔ (الاحزاب : ٤) ٢۔ اللہ تعالیٰ حق بات کہنے سے نہیں شرماتا۔ (الاحزاب : ٥٣) ٣۔ جان لو اللہ تعالیٰ کا وعدہ حق ہے۔ (القصص : ١٣) ٤۔ اللہ تعالیٰ کا وعدہ حق ہے تمھیں دنیا کی زندگی دھوکے میں نہ ڈال دے۔ (لقمان : ٣٣) ٥۔ اللہ تعالیٰ سے بات کرنے کے لحاظ سے کون زیادہ سچا ہے۔ (النساء : ٨٧) ٦۔ اللہ کے قول سے بڑھ کر کس کا قول ہوسکتا ہے۔ (النساء : ١٢٢) ٧۔ کہہ دیجیے کیا تم نے اللہ سے عہد لیا ہے تو اللہ اپنے عہد کے خلاف نہیں کرے گا۔ (البقرۃ: ٨٠) ٨۔ وہ عذاب کی جلدی مچاتے ہیں اللہ اپنے وعدے کے ہرگز خلاف نہیں کرے گا۔ (الحج : ٤٧) ٩۔ اے ہمارے پروردگارتو قیامت کے دن لوگوں کو جمع فرمائے گا اور تو اس کے خلاف نہیں کریگا۔ (آل عمران : ٩) الانعام
115 الانعام
116 فہم القرآن ربط کلام : حق و انصاف، ہدایت اور رہنمائی کا فیصلہ لوگوں کی اکثریت پر نہیں ہوا کرتا۔ اکثریت کے پیچھے چلنے والا گمراہ ہی ہوا کرتا ہے۔ کیونکہ لوگوں کی اکثریت گمراہ ہوتی ہے۔ رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ میں منکرین حق اپنی گمراہی کی تائید میں یہ دلیل بھی دیا کرتے تھے کہ اگر آپ سچے ہیں تو آپ کی پیروی کرنے والے تعداد کے لحاظ سے تھوڑے اور وسائل کے اعتبار سے کمزور کیوں ہیں ؟ اس کا جواب یوں دیا گیا ہے کہ لوگوں کی اکثریت ہمیشہ گمراہی پر قائم رہی ہے لہٰذا حق و صداقت کا معیار ٹھوس دلائل ہیں لوگوں کی اکثریت نہیں۔ لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ شریعت کا پابند کیا گیا ہے نہ کہ جمہوریت کا؟ اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ دنیا میں گمراہ لیڈر لوگوں کو گمراہ کرنے کے لیے جمہوریت کا بہانہ بنائیں گے اس لیے اس نے جمہوریت کے بت کو پاش پاش کرنے کے لیے اپنے نبی کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر آپ بھی عدل و انصاف کے اصول اور قرآن مجید کی ہدایات کو چھوڑ کر محض اکثریت کی اتباع کریں گے تو یہ لوگ آپ کو صراط مستقیم سے ہٹا دیں گے۔ اکثریت تو خود ساختہ اصولوں اور اپنے تصورات کی اتباع کرنے کے سوا کسی حقیقت پر قائم نہیں ہوتی۔ قربان جائیں قرآن کے فرمان پر! دنیا میں جہاں، جہاں بھی جمہوریت کو حق وباطل کا معیار بنایا گیا ہے وہاں یہی اصول ہے کہ جمہوریت کا فیصلہ ہی حق کا معیار ہے اس لیے انتخاب جیتنے والا ہر لیڈر نعرہ لگاتا ہے کہ جمہوریت کا فیصلہ غلط نہیں ہوسکتا لیکن جب الیکشن ہار جاتا ہے تو کہتا ہے کہ میرا مد مقابل عوام کو گمراہ کر رہا ہے۔ قرآن مجید جمہوریت کو حق و باطل کا معیار قرار دینے کے اصول اور نظریہ کی نفی کرتا ہے۔ لہٰذا نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم ہوا کہ آپ پورے اخلاص اور دلجمعی کے ساتھ اللہ کی نازل کردہ ہدایت کی طرف بلائیں اور اس پر جمے رہیں اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ کون اس کے راستے سے گمراہ ہوا کون خوش نصیب ہدایت یافتہ ہے۔ اس فرمان میں ایک اعتبار سے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دی گئی کہ آپ کا کام سمجھانا ہے منوانا نہیں۔ مسائل ایمان اور حق کا معیار : ١۔ مسلمانوں کو صرف اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے احکام کی پیروی کرنی چاہیے۔ ٢۔ ہدایت اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔ ٣۔ اکثریت کی پیروی حق کا معیار نہیں ہوا کرتی۔ ٤۔ لوگوں کی اکثریت محض وہم و گمان کی پیروی کرتی ہے۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ ہدایت یافتہ اور گمراہ لوگوں کو خوب جانتا ہے۔ تفسیر بالقرآن لوگوں کی اکثریت حق کے بارے میں جاہل اور گمراہ ہوتی ہے : ١۔ اگر ہم منکرین کے سامنے ہر چیز کو اکٹھا کردیتے تب بھی وہ ایمان نہ لاتے کیونکہ اکثر ان میں جاہل ہیں۔ (الانعام : ١١١) ٢۔ کیا زمین و آسمان کی تخلیق مشکل ہے یا انسان کی پیدائش مگر اکثر لوگ جاہل ہیں۔ (الفاطر : ٥٧) ٣۔ یہ دین صاف اور سیدھا ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔ (یوسف : ٤٠) ٤۔ اللہ اپنے امر پر غالب ہے لیکن لوگ نہیں جانتے۔ (یوسف : ٢١) ٥۔ اللہ اپنے وعدہ کی خلاف ورزی نہیں کرتا لیکن اکثر لوگ جاہل ہیں۔ (الروم : ٦) الانعام
117 الانعام
118 فہم القرآن ربط کلام : جس طرح گمراہ اکثریت کی اتباع جائز نہیں اسی طرح اس جانور کو بھی کھاناجائز نہیں جس پر اللہ تعالیٰ کا نام نہ لیا گیا ہو۔ بے شک حرام کھانے والوں کی اکثریت ہی کیوں نہ ہوں۔ سرزمین حجاز اور مکہ میں ایسے قبائل بھی تھے جو جانور ذبح کرتے وقت اللہ تعالیٰ کا نام لینا مناسب نہیں سمجھتے تھے جس طرح کہ سکھ مذہب کے لوگ جانور حلال کرتے ہوئے اس کا جھٹکا کرتے ہیں پھر کچھ لوگ ایسے بھی تھے جو مردہ جانور کھاتے تھے جب انھیں اس سے روکا جاتا تو وہ کہتے کہ مسلمانوں کی عجب حالت ہے کہ اللہ کے مارے ہوئے کو نہیں کھاتے لیکن اپنے ہاتھ سے مارے ہوئے کو کھا لیتے ہیں۔ اس پر یہ فرمان نازل ہوا کہ مسلمانو! تمہارے ایمان کا تقاضا ہے کہ صرف وہی ذبیحہ کھاؤ جس پر اللہ تعالیٰ کا نام لیا گیا ہو، پھر ان لوگوں کو مخاطب کیا کہ تمھیں کیا ہوگیا ہے کہ تم اللہ کا حلال کردہ ذبیحہ نہیں کھاتے جس کو ذبح کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کا مبارک نام لیا گیا ہے۔ حرام کھانا تمھارے لیے اس وقت ہی جائز ہوگا جب تمھیں حلال چیز میسر نہ ہو اور تم اسے کھانے کے لیے بے حد اضطرار کی حالت میں ہو۔ اس حکم کی وضاحت کرتے ہوئے فقہاء نے لکھا ہے کہ حرام کھانا اس وقت جائز ہوگا جب آدمی کو یقین ہو کہ واقعی مجھے اس وقت حلال میسّر نہیں ہوسکتا۔ اگر میں کچھ نہ کھاؤں گا تو میری موت واقع ہوجائے گی ایسا شخص اپنے آپ کو مضطر تصور کرتے ہوئے اتنا ہی حرام کھا سکتا ہے جس سے اس کی زندگی بچ سکے۔ اس فرمان سے پہلے گمراہ قسم کی اکثریت کی اتباع سے روکا گیا ہے اب حرام خوری سے منع کرنے کے لیے پھر گمراہ اکثریت کی اتباع سے روکا گیا ہے کیونکہ لوگوں کی اکثریت کا عالم یہ ہے کہ وہ کسی علمی بنیاد کے بغیر محض اپنے تصورات کی بناء پر حرام کو حلال اور حلال کو حرام قرار دیتے ہیں۔ انہیں معلوم ہونا چاہیے حلال و حرام میں تجاوز کرنے والوں کو اللہ خوب جانتا ہے۔ (عن عُمَر بن أَبِی سَلَمَۃَ (رض) یَقُولُ کُنْتُ غُلَامًا فِی حَجْرِ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وَکَانَتْ یَدِی تَطِیشُ فِی الصَّحْفَۃِ فَقَالَ لِی رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَا غُلَامُ سَمِّ اللّٰہَ وَکُلْ بِیَمِینِکَ وَکُلْ مِمَّا یَلِیکَ فَمَا زَالَتْ تِلْکَ طِعْمَتِی بَعْدُ)[ رواہ البخاری : کتاب الأطعمۃ، باب التسمیۃ علی الأکل والأکل بالیمین] ” عمر بن ابی سلمہ (رض) فرماتے ہیں میں بچپن میں رسول مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس تھا اور کھانا کھاتے وقت میرا ہاتھ پیالے میں اردگرد گھوم رہا تھا مجھے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اے بچے کھانا اللہ کے نام سے شروع کیا کرو دائیں ہاتھ اور اپنے آگے سے کھایا کرو۔ اس کے بعد ہمیشہ کے لیے میرا کھانے کا انداز یہی رہا۔“ (عَنْ جَابِرٍ (رض) عَنْ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ لَا تَأْکُلُوا بالشِّمَالِ فَإِنَّ الشَّیْطَانَ یَأْکُلُ بالشِّمَالِ) [ رواہ مسلم : کتاب الأشربۃ باب اداب الطعام] ” حضرت جابر (رض) رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان نقل کرتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تم بائیں ہاتھ سے نہ کھایا کرو بلاشبہ شیطان بائیں ہاتھ سے کھاتا ہے۔“ مسائل ١۔ اللہ کا نام لے کر کھانے کی ابتدا کرنی چاہیے۔ ٢۔ جانور کو اللہ کا نام لے کر ذبح کرنا چاہیے۔ ٣۔ لوگوں کی اکثریت کے پاس شریعت کا علم نہیں ہوتا۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ نے حلال و حرام کو واضح فرما دیا ہے۔ ٥۔ اپنی خواہشات کے بجائے شریعت پر عمل کرنا چاہیے۔ ٦۔ لوگوں کی جمہوریت گمراہ ہوتی ہے۔ تفسیر بالقرآن کسی چیز پر غیر اللہ کا نام نہیں لینا چاہیے : ١۔ اللہ نے جو تمھیں رزق دیا ہے اس پر اللہ کا نام لو۔ (الحج : ٣٤) ٢۔ کھانے پینے پر اللہ کا نام لینا چاہیے۔ (المائدۃ: ٤ ) ٣۔ وہ چیز کھاؤ جس پر اللہ کا نام لیا گیا ہے۔ (انعام : ١١٨ ) ٤۔ کسی شخص کو حرام وحلال فیصلہ کرنے کا اختیار نہیں (النحل : ١١٦) الانعام
119 الانعام
120 فہم القرآن ربط کلام : صرف حرام کھانا ہی نہیں چھوڑنا بلکہ خفیہ اور اعلانیہ گناہ بھی چھوڑ دینے چاہییں۔ اس سے پہلے حکم میں مجبور انسان کو حرام کھانے کی اجازت دی گئی تھی جس سے کوئی ناجائز فائدہ اٹھا سکتا تھا کیونکہ کسی دوسرے کو کیا معلوم کہ حرام کھانے والا کس حد تک مجبور ہے۔ یعنی حالت کا صرف متعلقہ آدمی کو ہی معلوم ہوتا ہے۔ اس لیے واضح کردیا گیا کہ مومن وہ ہے جو پوشیدہ اور کھلے گناہوں کو چھوڑ دیتا ہے۔ لہٰذا انتباہ فرمایا کہ جو لوگ خفیہ یا اعلانیہ گناہ کریں گے بہت جلد سزا سے دو چار ہوں گے۔ جلد سے مراد دنیا میں اللہ تعالیٰ کی کسی نہ کسی شکل میں گرفت ہو سکتی ہے پھر آخرت کے مقابلہ میں دنیا کی زندگی نہایت مختصر ہے۔ اس لحاظ سے آخرت کی سزا بھی بہت جلد ملنے والی ہے اللہ سے ڈرنے والا شخص ہمیشہ آخرت کو قریب ہی سمجھا کرتا ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان ہے کہ موت انسان کی جوتی کے تسمے سے بھی قریب ہے۔ (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ (رض) قَالَ قَال النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) الْجَنَّۃُ أَقْرَبُ إِلٰی أَحَدِکُمْ مِنْ شِرَاکِ نَعْلِہِ وَالنَّارُ مِثْلُ ذَلِکَ) [ رواہ البخاری : بابالْجَنَّۃُ أَقْرَبُ إِلٰی أَحَدِکُمْ مِنْ شِرَاکِ نَعْلِہِ وَالنَّارُ] ” حضرت عبداللہ (رض) بیان کرتے ہیں نبی مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جنت اور دوزخ تم میں سے ہر کسی کے جوتے کے تسمے سے بھی زیادہ قریب ہے۔“ ظاہری اور باطنی گناہ چھوڑ دینے کے حکم کے ساتھ ہی یہ حکم ہوا کہ یہ بھی گناہ ہے کہ تم وہ جانور کھاؤ جس کو ذبح کرتے وقت اللہ تعالیٰ کا نام نہ لیا گیا ہو۔ ایسے جانور کا گوشت کھانا اللہ تعالیٰ کی نافرمانی ہوگی۔ اللہ تعالیٰ کے نام لیے بغیر کسی جانور کو ذبح کرنے کا دوسرا معنی یہ ہے کہ اس پر اللہ تعالیٰ کا نام لینے کے بجائے کسی غیر کا نام لے کر یا بظاہر تو اللہ تعالیٰ کا نام لیا جا رہا ہو لیکن ذبح کسی مزار، بت یا اللہ تعالیٰ کے سوا کسی دوسرے کے نام پر کیا گیا ہو۔ اس موقع پر بعض لوگ یہ مغالطہ دیتے ہیں کہ کسی فوت شدہ کے لیے ایصال ثواب کی نیت سے ذبح کرنا بھی تو غیر اللہ ہی کے لیے ہوگا۔ یہی وہ مغالطے ہیں جو غیر اللہ کے نام پر ذبح کرنے والے ہمیشہ سے مسلمانوں کو دینے کی کوشش کرتے آرہے ہیں۔ اسی لیے غیر اللہ کے نام پر کوئی چیز دینے اور ذبح کرنے سے روکتے ہوئے فرمایا گیا ہے کہ شیطان اپنے ساتھیوں اور دوستوں کے ذہن میں ایسی ایسی باتیں اور دلیلیں ڈالتا ہے جس سے وہ موحدوں کے ساتھ جھگڑا کرتے ہیں۔ لہٰذا موحدین کا فرض ہے کہ وہ ایسی چیزیں نہ کھائیں اور نہ استعمال کریں اور نہ ہی ایسے دلائل سے دھوکا کھائیں۔ اگر کوئی غیر اللہ کے نام پر دی ہوئی چیز کھائے یا استعمال کرے گا تو وہ مشرکوں کے زمرہ میں سمجھا جائے گا۔ اس مقام پر ان لوگوں کو غور کرنا چاہیے جو روا داری میں ایسی چیزیں ہڑپ کر جاتے ہیں یا غیر اللہ کے نام دی ہوئی چیز وصول کرلیتے ہیں حالانکہ اس کا لینا بھی حرام ہے بے شک وہ چیز باہر پھینک دی جائے یا کسی جانور کو کھلا دی جائے اس کا وصول کرنا کسی نہ کسی درجے میں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی ہوگی۔ مسائل ١۔ کھلے اور پوشیدہ گناہوں سے بچنا چاہیے۔ ٢۔ نیکی ہو اور برائی کے عمل کا بدلہ دیا جائے گا۔ ٣۔ غیر اللہ کے نام پردی ہوئی چیز کھانا حرام ہے۔ ٤۔ شیاطین اپنے ساتھیوں کو مومنین کے خلاف بھڑکاتے ہیں۔ ٥۔ اللہ کے طریقہ کو چھوڑ کر دوسرا طریقہ اختیار کرنا گمراہی ہے۔ تفسیر بالقرآن ہر قسم کے گناہ چھوڑ دینے کا حکم : ١۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرما دیں کہ میرے رب نے ظاہر و باطن کی بے حیائی اور گناہ کے کاموں سے منع کردیا ہے۔ (الاعراف : ٣٣) ٢۔ درویش اور علماء لوگوں کو گناہ کی باتوں سے منع کیوں نہیں کرتے۔ (المائدۃ: ٦٣) ٣۔ اللہ کے بندے کبیرہ گناہوں اور بے حیائی کے کاموں سے بچتے ہیں۔ (الشوریٰ : ٣٧) ٤۔ بے شک نیک لوگ کبیرہ گناہوں اور بے حیائی کے کاموں سے بچتے ہیں۔ (النجم : ٣٢) الانعام
121 فہم القرآن ربط کلام : مردار اور غیر اللہ کے نام پر ذبح کیا ہوا جانور کھانے، سے آدمی کا ضمیر اور ایمان مردہ ہوجاتا ہے۔ یہاں ان دونوں کا تقابل کیا گیا ہے۔ بنیادی طور پر انسان کی زندگی دو عناصر پر مشتمل ہے جسم کو قائم رکھنے کے لیے بہتر فضا اور اچھی غذا کی ضرورت ہے۔ روح کو بیدار اور صحت مند رکھنے کے لیے گناہوں سے اجتناب اور کفرو شرک سے بچنا انتہائی ضروری ہے۔ خوراک اور آب و ہوا مناسب نہ ہو تو جسمانی بیماریاں لاحق ہوجاتی ہیں۔ روح کی خوراک، اچھے اعمال اور عقیدۂ توحید ہے۔ جس قدر آدمی کے اعمال اور اس کا عقیدہ کمزور ہوگا اتنی ہی اس کی روح کمزور ہوتی چلی جائے گی۔ یہاں تک کہ زندہ ہونے کے باوجود انسان روحانی طور پر مردہ ہوجاتا ہے۔ یہاں مردار خوری اور غیر اللہ کے نام وقف کی ہوئی چیز سے بچنے کو زندگی قرار دیا گیا ہے۔ جسے اللہ تعالیٰ یہ طرز زندگی عطا فرمائے گو یا کہ وہ زندہ انسان ہے۔ وہ لوگوں میں تابناک، اور شاندار زندگی بسر کر رہا ہے۔ روشنی کا منبع اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ کتاب اور اس پر چلنے کی توفیق ہے۔ جسے سورۃ ابراہیم کی دوسری آیت میں یوں بیان فرمایا ہے اس کتاب کو ہم نے اپنے رسول پر نازل کیا تاکہ اللہ کے حکم کے مطابق لوگوں کو ہر قسم کی تاریکیوں سے نکال کر واضح اور شاندار روشنی میں لاکھڑا کرے۔ ( البقرۃ، آیت : ٢٥٧) میں ارشاد ہوا کہ اللہ تعالیٰ ایمانداروں کا مربی اور دوست ہے وہ انھیں ہر قسم کی ظلمات سے نکال کر ایمان کی روشنی کی طرف لاتا ہے اور کفار کے دوست شیاطین ہیں جو انھیں ایمان اور توحید کی روشنی سے نکال کر شرک و بدعت اور گناہوں کی تاریکیوں میں دھکیل دیتے ہیں۔ یہاں اسی بات کا تجزیہ کیا گیا ہے۔ اللہ کی عطا کردہ روشنی میں زندگی بسر کرنے والا ایسے شخص کی مانند نہیں ہوسکتا جو کفر و شرک کی تاریکیوں میں ٹامک ٹوئیاں مار رہا ہو۔ اسے اندھیروں سے کوئی نکالنے والا نہیں گویا کہ جو علماء لوگوں کو شرک اور غیر اللہ کے نام پر وقف کی ہوئی چیزیں کھانے کی دعوت دیتے ہیں وہ لوگوں کو ایمان کی روشنی سے نکال کر بدعت و شرک کے اندھیروں میں گھسیٹتے ہیں۔ گمراہ علماء کے پیروکار اس لیے اندھیروں سے نکل کر ایمان کی روشنی کی طرف نہیں آتے کیونکہ باطل عقیدہ اور برے اعمال ان کے لیے خوبصورت بنا دیے گئے ہیں۔ یہی و جہ ہے کہ ایسے لوگ توحید کے دلائل سننے اور ماننے میں گرانی محسوس کرتے ہیں اور شرک و بدعت کو اپنانے اور برے اعمال اختیار کرنے کو فیشن اور دین سمجھتے ہیں۔ مسائل ١۔ قرآن مجید ہدایت کی طرف بلاتا ہے۔ ٢۔ عقیدۂ توحید زندگی کی علامت ہے۔ ٣۔ کافر اپنی بد اعمالیوں میں مگن رہتا ہے۔ ٤۔ کافر دنیا کی خوش نما اور عارضی زندگی پر بھروسہ رکھتا ہے۔ ٥۔ حرام کھانے سے انسان کا ضمیر مردہ ہوجاتا ہے۔ ٦۔ ایمان روشنی ہے اور گمراہی اندھیرا ہے۔ ٧۔ ایمان دار زندہ ہے اور گمراہ انسان مردہ ہوتا ہے۔ تفسیر بالقرآن نور اور اندھیرے : ١۔ ” اللہ“ ایمان والوں کا دوست ہے انہیں اندہیروں سے نکال کر روشنی کی طرف لاتا ہے۔ (البقرۃ: ٢٥٧) ٢۔ اندھا اور بینااندہیرا اور روشنی برابر نہیں ہو سکتے۔ (فاطر : ٢٠) ٣۔ اللہ وہ ذات ہے جس نے اپنے بندے پر قرآن نازل فرمایا تاکہ لوگوں کو اندہیروں سے روشنی کی طرف لائیں۔ (الحدید : ٩) ٤۔ جس کا سینہ اللہ تعالیٰ نے اسلام کے لیے کھول دیا وہ اللہ کی طرف سے روشنی پر ہے۔ (الزمر : ٢٢) ٥۔ تمام تعریفیں اس ذات کے لیے ہیں جس نے روشنی اور اندہیروں کو پیدا کیا۔ (الانعام : ١) الانعام
122 الانعام
123 فہم القرآن ربط کلام : جرائم پیشہ لوگ نور توحید کو مٹانے اور بجھانے کے لیے ہمیشہ سرگرم رہے ہیں۔ اس فرمان الٰہی میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دینے کے ساتھ اطلاع دی گئی ہے کہ آپ کو گھبرانے اور ڈگمگانے کی ضرورت نہیں یہ تو ہمیشہ سے ہوتا آرہا ہے کہ معاشرے کے سماجی، سیاسی، معاشی اور نام نہاد مذہبی رہنما دعوت حق کی مخالفت اور انبیاء کی مخاصمت میں پیش پیش رہے ہیں۔ جو ملک و قوم کے مفاد کے نام پر مکر و فریب کے جال بنتے ہیں۔ جب انھیں اللہ تعالیٰ کے احکام کو ماننے اور اس کے ارشادات کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کے لیے کہا جاتا تو تکبر، رعونت میں آکر کہتے ہیں کہ ہم اس وقت تک ہرگز نہیں مانیں گے جب تک ہمارے پاس براہ راست یہ احکام نہیں آجاتے۔ اللہ تعالیٰ اس شخص سے ہم کلام ہوسکتا ہے تو ہمارے ساتھ کیوں کلام نہیں کرسکتا۔ بعض اس سے آگے بڑھ کر کہتے کہ اس شخص سے ہم نبوت کے زیادہ اہل اور حق دار ہیں۔ حالانکہ وہ جانتے تھے کہ ان کے کردار کی نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے کردار سے کوئی نسبت نہیں ہو سکتی۔ اس کے باوجود اپنے مکرو فریب سے لوگوں کو دھوکہ دیتے تھے۔ عنقریب مکار اور مجرموں کو رب ذوالجلال کی طرف سے ذلت و رسوائی کا سامنا کرنا پڑئے گا اور یہ شدید ترین عذاب میں مبتلا ہونگے۔ مسائل ١۔ نبوت، مال و دولت، جاہ و حشمت یاکسی بڑے پن کی وجہ سے نہیں ملتی۔ ٢۔ نبوت سراسر اللہ تعالیٰ کی رحمت اور اس کا انتخاب ہوتا ہے اور جسے چاہتا ہے عطا کرتا ہے۔ ٣۔ نبوت کا انکار اور رسول کی مخالفت کرنے والے دنیا میں ذلیل اور آخرت میں شدید ترین عذاب میں مبتلا ہوں گے۔ تفسیر بالقرآن شدید عذاب کے مستحق مجرم : ١۔ اللہ تعالیٰ کفار کو شدید عذاب دے گا۔ (حم السجدۃ : ٢٧) ٢۔ اللہ سے منہ موڑنے والوں کو شدید عذاب ہوگا۔ (المجادلۃ : ١٥) ٣۔ اے لوگو! اگر تم ناشکری کرو گے تو اللہ کا عذاب شدید ہے۔ (ابراہیم : ٧) ٤۔ جان بوجھ کر بیوی کو نان و نفقہ نہ دینے والے کو شدید عذاب ہوگا۔ (الطلاق : ١٠) ٥۔ اللہ تعالیٰ کی آیات کو جھٹلانے والے شدید عذاب سے دوچار ہونگے۔ (آل عمراٰن : ١١) ٦۔ مجرم لوگ ذلت اور سخت عذاب میں مبتلا ہو نگے۔ (الانعام : ١٢٤) ٧۔ اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کرنے والے کے لیے شدید ترین عذاب ہے۔ (الانفال : ١٣) ٨۔ کفار کے لیے دنیا میں تھوڑا سا فائدہ ہے پھر انکا ہماری طرف لوٹنا ہوگا پھر ہم انہیں سخت عذاب میں مبتلا کریں گے۔ (یونس : ٧٠) ٩۔ وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا ان کے لیے شدید عذاب ہے۔ (فاطر : ٧) ١٠۔ لوگوں کو اللہ کی راہ سے بھٹکانے والوں کے لیے شدید عذاب ہے۔ (صٓ: ٢٦) ١١۔ اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک ٹھہرانے والوں کو شدید عذاب میں مبتلا کیا جا ئیگا۔ (آ : ٢٦) ١٢۔ کفار کو دنیا اور آخرت میں سخت عذاب سے دوچار کیا جائیگا۔ (آل عمراٰن : ٥٦) الانعام
124 الانعام
125 فہم القرآن ربط کلام : کفار کے کفر، مشرکوں کے شرک اور منافقوں کی منافقت کا بنیادی سبب یہ ہے کہ ان کے سینے اسلام کے بارے میں بند ہوجاتے ہیں۔ قرآن مجید نے ہدایت پانے اور بات کی حقیقت تک پہنچنے کے لیے یہ اصول بیان کیا ہے کہ سننے والا پوری توجہ، دل کی حاضری اور ہدایت پانے کے لیے بات سنے یقیناً اللہ تعالیٰ اسے ہدایت سے بہرہ مند کردیتا ہے۔ ( ق : ٣٧) لیکن منکرین حق کی شروع سے ہی یہ بری عادت ہے کہ وہ سچی بات قبول کرنا تو درکنار اس کی سماعت بھی ان کے لیے گرانی کا باعث ہوا کرتی ہے۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کے ساتھ کفار نے یہاں تک معاندانہ رویہ اختیار کیا کہ جب حضرت نوح (علیہ السلام) توحید کی دعوت دیتے تو کفاراپنے کانوں میں انگلیاں ڈال کر اپنے چہرے چھپاتے ہوئے ان سے دور بھاگ جاتے تھے۔ (قَالَ رَبِّ إِنِّی دَعَوْتُ قَوْمِی لَیْلًا وَنَہَارًا۔ فَلَمْ یَزِدْہُمْ دُعَاءِی إِلَّا فِرَارًا وَإِنِّی کُلَّمَا دَعَوْتُہُمْ لِتَغْفِرَ لَہُمْ جَعَلُوا أَصَابِعَہُمْ فِی آَذَانِہِمْ وَاسْتَغْشَوْا ثِیَابَہُم وَأَصَرُّوا واسْتَکْبَرُوا اسْتِکْبَارًا۔)[ نوح : ٥ تا ٧] ” نوح (علیہ السلام) نے عرض کیا اے میرے رب میں نے اپنی قوم کو رات دن دعوت دی مگر میری دعوت سے ان کے فرار میں اضافہ ہوا اور میں نے جب بھی انہیں بلایا تاکہ تو انہیں معاف کر دے تو انہوں نے اپنے کانوں میں انگلیاں ڈال لیں اور اپنے کپڑے اوڑھ لیے۔ اور اپنی روش پر اڑ گئے اور تکبر کی انتہاکر دی۔“ یہی رویہ منکرین حق نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ اختیار کیا۔ جب انھیں قرآن مجید غور کے ساتھ سننے کی طرف توجہ دلائی جاتی تو وہ بظاہر غور کے ساتھ سنتے لیکن حقیقت میں عدم توجہ اختیار کیے رکھتے اور آخر میں کہتے یہ باتیں ہمارے فہم و ادراک سے باہر اور قوت سماعت کے لیے بوجھ کے سوا کچھ بھی نہیں اس طرح جو حکم بھی ان کے پاس آتا وہ اس کا مسلسل انکار کردیتے اور اس پر پروپیگنڈے کے ذریعے غالب آنے کی کوشش کرتے جو شخص حق بات سننے سے احتراز کرے اسے کس طرح ہدایت نصیب ہو سکتی ہے۔ کیونکہ ہدایت اسے نصیب ہوتی جو اسے پانے کی خواہش اور کوشش کرتا ہے۔ جب انسان خلوص نیت کے ساتھ چاہتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کا سینہ کھول دیتا ہے لیکن جو اس سے مسلسل اعراض کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کا سینہ بند کردیتا ہے۔ اس کے لیے ہدایت پانا ایسے ہی مشکل ہوتا ہے جیسا کہ انسان کا آسمان پر چڑھنا ناممکنات میں سے ہے۔ یہ اس لیے ہے کہ گمراہ انسان نے اپنے لیے خود گمراہی کو پسند کیا ہوا ہے۔ لہٰذا یہ کج فکری اس کے لیے گندے اعمال کا سبب ہوتی ہے اور یہ گندگی اس کے برے عقیدہ کی وجہ سے ہوتی ہے جس کی وجہ سے یہ گندگی اس پر ہمیشہ کے لیے مسلط کردی جاتی ہے۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ جس کو چاہتا اسلام کی طرف ہدایت دیتا ہے۔ ٢۔ کافر ایمان لانے میں تنگی محسوس کرتے ہیں۔ ٣۔ کافروں کے ارادۂ کفر و شرارت کی وجہ سے انھیں راہ ہدایت کی توفیق نصیب نہیں ہوتی۔ ٤۔ کفر و شرک گندگی ہے جو کافر اور مشرک پر مسلط ہوجاتی ہے۔ تفسیر بالقرآن کن لوگوں پر گمراہی مسلط ہوتی ہے : ١۔ ایمان نہ لانے والوں پر گمراہی مسلط کردی جاتی ہے۔ (الانعام : ١٢٥) ٢۔ شیطان کی دوستی اختیار کرنے والوں گمراہی مسلط کردی جاتی ہے۔ (الاعراف : ٣٠) ٣۔ ان میں سے کچھ ایسے ہیں جن کو اللہ نے ہدایت عطا کی اور کچھ پر اللہ نے گمراہی مسلط کردی۔ (النحل : ٣٦) ٤۔ جن لوگوں پر گمراہی مسلط کردی جاتی ہے وہ ایمان نہیں لاتے۔ (یونس : ٩٦) الانعام
126 فہم القرآن ربط کلام : جس کا سینہ اسلام کے لیے کھل جائے اسے صراط مستقیم کی ہدایت ملتی ہے اور اسلام ہی صراط مستقیم اور دنیا وآخرت کی سلامتی کا ضامن ہے۔ پچھلی آیت میں یہ فرمایا گیا ہے کہ جسے اللہ تعالیٰ ہدایت دینا چاہتا ہے اس کا سینہ اسلام کے لیے کھول دیتا ہے یہاں ” ھٰذا“ اسم اشارہ لا کر اس بات کی وضاحت کردی گئی ہے اسلام ہی صراط مستقیم ہے۔ آخری نبی اور ان پر نازل ہونے والا یہی ” الاسلام“ آخری دین قرار پایا ہے۔ سورۃ المائدۃ، آیت : ٣ میں یہ وضاحت کردی گئی ہے کہ یہ دین کامل اور مکمل ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنی نعمت قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ میں نے تمھارے لیے اسلام ہی کو دین کے طور پر پسند کیا ہے۔ سورۃ آل عمران، آیت : ٨٥ میں دو ٹوک انداز میں صراحت کی ہے کہ جو شخص دین اسلام کے علاوہ کوئی دوسرا دین اختیار کرے گا اسے ہرگز قبول نہیں کیا جائے گا وہ شخص اور قوم آخرت میں نقصان پائے گی۔ اسی سورۃ کی آیت ٨٤ میں وضاحت کی گئی ہے کہ کیا تم اللہ کے اس دین کو چھوڑ کر کوئی اور دین اختیار کرو گے جبکہ زمین و آسمان کی ہر چیز اللہ تعالیٰ کے تابع فرمان ہے۔ یہاں اسلام کو اللہ تعالیٰ کی تابعداری کے مفہوم میں بیان کیا گیا ہے۔ لہٰذا دین اسلام ہی افراد اور اقوام کے لیے دنیا و آخرت کی سلامتی کی ضمانت دیتا ہے اس لیے جنت کو ” دارالسلام“ قرار دیتے ہوئے دین اسلام ماننے والوں کو اس کی خوشخبری دی کہ ان کے لیے ان کے رب کے ہاں دارالسلام ہے۔ اللہ تعالیٰ اسلام پہ چلنے والوں کا والی اور دوست ہے۔ ولی کا لفظ استعمال فرما کر اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو اپنی قربت کا احساس دلاکر یہ وضاحت کی ہے کہ اگر تم میری قربت و محبت اور جنت کے طلب گار ہو تو تمھیں صراط مستقیم پر چلنا ہوگا جو اسلام کے بغیر کسی دوسرے دین میں نہیں مل سکتا۔ انفرادی زندگی میں اسلام پر عمل پیرا ہونے اور اجتماعی زندگی میں نافذ کرنے سے دنیا میں بھی سلامتی نصیب ہوتی ہے اس طرح دنیادارالفساد بننے کے بجائے دارالسلام بن جاتی ہے۔ ” حضرت جا بر بن عبداللہ (رض) بیان کرتے ہیں ہم نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس تھے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک سیدھا خط کھینچا پھر اس کے دائیں اور بائیں مختلف خطوط کھینچے پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنا دست مبارک درمیان والے سیدھے خط پر رکھتے ہوئے فرمایا یہ اللہ تعالیٰ کا راستہ ہے، پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ آیت مبارکہ تلاوت فرمائی :” اور یہ میرا سیدھا راستہ ہے اس کی پیروی کرو اس کے سوا دوسری راہوں پر نہ چلو دوسری راہیں تمہیں صراط مستقیم سے جدا کردیں گی۔“ [ رواہ ابن ماجۃ: باب اتباع سنۃ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ] مسائل ١۔ اسلام ہی صراط مستقیم ہے۔ ٢۔ اسلام دنیا میں سلامتی کا ضامن ہے اور آخرت میں جنت کے حصول کا ذریعہ ثابت ہوگا۔ ٣۔ نیک اعمال سے مسلمان کو اللہ تعالیٰ کی قربت اور ولایت حاصل ہوتی ہے۔ تفسیر بالقرآن صراط مستقیم کے نشانات : ١۔ اللہ تعالیٰ ہی ایمان والوں کو صراط مستقیم کی ہدایت دیتا ہے۔ (الحج : ٥٤) ٢۔ اللہ جسے چاہتا ہے صراط مستقیم کی ہدایت دیتا ہے۔ (البقرۃ: ٢١٣) ٣۔ اللہ تعالیٰ میرا اور تمھارا رب ہے۔ تم اسی کی عبادت کرو یہی صراط مستقیم ہے۔ (آل عمران : ٥١، مریم : ٣٦) ٤۔ اللہ تعالیٰ نے انبیاء کی جماعت کو چن لیا اور ان کو صراط مستقیم کی ہدایت دی۔ (الانعام : ٨٧) ٥۔ اللہ کی عبادت کرو یہی سیدھا راستہ ہے۔ (یسٰین : ٦١) ٦۔ صراط مستقیم کی ہی پیروی کرو۔ (الانعام : ١٥٣) ٧۔ اللہ ہی صراط مستقیم کی ہدایت کرتا ہے۔ (الشوریٰ : ٥٢) ٨۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صراط مستقیم کی طرف دعوت دیتے ہیں۔ (الشوریٰ : ٥٢) الانعام
127 الانعام
128 فہم القرآن ربط کلام : اسلام کو چھوڑنے والے انسانوں اور جنوں کا انجام اور ان کا اقرار۔ جن لوگوں اور جنات نے اسلام کے بغیر کوئی اور دین اپنایا وہ صراط مستقیم سے گمراہ ہوئے جس کا نتیجہ ہے کہ وہ ” دارالسلام“ یعنی جنت سے محروم ہوگئے۔ انسان کی گمراہی شیطان کی وجہ سے ہوتی ہے اور شیاطین کی اکثریت کا تعلق جنات سے ہے اس لیے محشر کے دن اللہ تعالیٰ جنات کو خطاب کرتے ہوئے فرمائے گا۔ اے جنو! تم نے بہت سے انسانوں کو گمراہ کیا جس کا اقرار شیاطین کے ساتھ انسان اس طرح کریں گے اے ہمارے رب تیرا فرمان سچا ہے اور واقعی ہم نے ایک دوسرے سے مفادات اور فائدے اٹھائے اور ہم نے بڑے بڑے جرائم کیے ہیں یہاں تک کہ ہماری اجل آن پہنچی جو آپ نے ہمارے لیے مقرر کر رکھی تھی یعنی ہمیں موت نے آلیا۔ آج تیری بارگاہ میں مجرم کی حیثیت سے اپنے جرائم کا اقرار کرتے ہیں۔ اس کے جواب میں حکم ہوگا کہ اب آگ ہی تمھارا ٹھکانہ ہے جس میں تمہیں ہمیشہ رہنا ہوگا۔ ما شاء اللہ کے الفاظ کے بارے میں مفسرین نے دو تفسیریں کی ہیں۔ ایک جماعت کا کہنا ہے کہ ان الفاظ میں مجرموں کے لیے بالآخر نجات کی نشاندہی کی گئی ہے جب کہ اہل علم کی اکثریت کا نظریہ ہے کافر اور مشرکوں کا جہنم سے نجات پانے کا بھی تصور نہیں کیا جا سکتا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے بار بار ان کے بارے میں خٰلِدِیْنَ فِیْھٰآ اَبَدًا کا اعلان کیا ہے۔ انھیں ہمیشہ ہمیشہ جہنم میں رہنا ہوگا اور جنت ان پر حرام کردی گئی ہے۔ البتہ کلمہ گو گناہگار جنات اور انسانوں کو سزا کے بعد جہنم سے نکال لیا جائے گا۔ کچھ مفسرین نے الا ما شاء اللہ کے الفاظ کی تشریح کرتے ہوئے لکھا ہے یہاں اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت اور اختیارات کا اشارہ دیا ہے کہ دنیا میں کئی لوگ جنات کو مشکل کشا سمجھتے تھے الا ما شاء اللہ میں ان کے باطل عقیدہ کی نفی کی گئی ہے کہ وہی کچھ دنیا میں ہوتا ہے اور آخرت میں ہوگا جو اللہ تعالیٰ چاہتا ہے اور چاہے گا۔ اگر دنیا میں تم شرک و کفر اور صراط مستقیم چھوڑ کر اللہ تعالیٰ کی سرکشی اور نافرمانی کاراستہ اختیار کیے ہوئے ہو تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ تم اللہ کے علم، طاقت اور دسترس سے باہر ہو بلکہ یہ مہلت اس کی حکمت کا نتیجہ ہے۔ اسی مہلت اور حکمت کے تحت اللہ تعالیٰ ظالموں کو ایک دوسرے کی مدد کا موقع دیتا ہے۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن جنوں اور انسانوں سے ان کے عقیدہ و عمل کے بارے میں سوال کرے گا۔ ٢۔ قیامت کے دن مجرم ایک دوسرے کو گمراہ کرنے کا اعتراف کریں گے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ دنیا میں ظالموں کو اس لیے ڈھیل دیتا ہے کہ وہ زیادہ گناہ کرسکیں۔ ٤۔ مشرک اور کافر ہمیشہ جہنم میں جلتے رہیں گے۔ ٥۔ دنیا میں برے لوگ ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں لیکن قیامت کے دن ایک دوسرے کی مدد نہیں کرسکیں گے۔ ٦۔ مجرم آخرت میں اپنے گناہوں کا اقرار کریں گے۔ ٧۔ مجرموں کا اقرار قیامت کے دن انہیں کوئی فائدہ نہیں دے گا۔ الانعام
129 الانعام
130 فہم القرآن ربط کلام : جہنم میں جانے والے جنات اور انسانوں کو مشترکہ خطاب۔ اللہ تعالیٰ اظہارِ حق اور مجرموں کو ان کے جرائم کا احساس دلانے کے لیے جنوں اور انسانوں سے خطاب کرتے ہوئے پوچھیں گے کیا میں نے تمھارے پاس تم ہی سے رسول نہیں بھیجے تھے جو تمھیں میرے احکام پڑھ کر سناتے اور اس دن کے ہولناک انجام سے ڈراتے تھے۔ مجرم جواب دیں گے کیوں نہیں ہمارے رب آپ کے بھیجے ہوئے رسول تشریف لائے اور ہمیں سمجھاتے اور ڈراتے رہے لیکن ہمیں دنیا کی زندگی نے فریب میں ڈالے رکھا جس کی وجہ سے ہم تیرے حضور پیشی کو بھول گئے۔ اس طرح وہ اپنے بارے میں شہادت دیں گے کہ بلاشک ہم اپنے کفر کا اقرار کرتے ہیں۔ قیامت کے دن انسانوں کے ساتھ جنوں کو سوال کرنے کے بارے میں مفسر قرآن حضرت عبداللہ بن عباس (رض) فرمایا کرتے تھے جتنے رسول دنیا میں مبعوث کیے گئے وہ سب کے سب انسان ہی تھے مگر ان کا پیغام جنوں اور انسانوں کے لیے مشترکہ ہوا کرتا تھا اس لیے نبی آخر الزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے طائف سے واپسی پر جنوں کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے انھیں توحید و رسالت کی دعوت دی تھی۔ اس کی تفصیل جاننے کے لیے سورۃ الاحقاف اور سورۃ الجن کی تلاوت کرنی چاہیے۔ اسی بنیاد پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے۔ (عَنْ أَبِی ذَرٍّ (رض) قَالَ قَالَ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) أُعْطِیْتُ خَمْسًا لَمْ یُعْطَہُنَّ أَحَدٌ قَبْلِی بُعِثْتُ إِلَی الْأَحْمَرِ وَالْأَسْوَدِ وَجُعِلَتْ لِیَ الْأَرْضُ طَہُورًا وَمَسْجِدًا وَأُحِلَّتْ لِیَ الْغَنَاءِمُ وَلَمْ تَحِلَّ لِأَحَدٍ قَبْلِی وَنُصِرْتُ بالرُّعْبِ فَیُرْعَبُ الْعَدُوُّ وَہُوَ مِنِّی مَسِیْرَۃَ شَہْرٍ وَقِیلَ لِیْ سَلْ تُعْطَہْ وَاخْتَبَأْتُ دَعْوَتِیْ شَفَاعَۃً لِأُمَّتِی فَہِیَ نَاءِلَۃٌ مِنْکُمْ إِنْ شَاء اللّٰہُ تَعَالَی مَنْ لَّمْ یُشْرِکْ باللّٰہِ شَیْءًا قَالَ الْأَعْمَشُ فَکَانَ مُجَاہِدٌ یَرٰی أَنَّ الْأَحْمَرَ الْإِنْسُ وَالْأَسْوَدَ الْجِنُّ)[ مسند احمد] ” حضرت ابوذر (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ مجھے پانچ ایسی چیزیں عنایت کی گئی ہیں جو مجھ سے پہلے کسی نبی کو عطا نہیں ہوئیں۔ ١۔ مجھے اللہ تعالیٰ نے ہر کالے اور گورے کے لیے رسول بنایا ہے۔ ٢۔ میرے لیے ساری زمین پاک اور مسجد بنادی گئی ہے۔ ٣۔ میرے لیے مال غنیمت حلال کیا گیا ہے جبکہ مجھ سے پہلے کسی رسول کے لیے حلال نہیں تھا۔ ٤۔ میری رعب سے مدد فرمائی گئی ہے کیونکہ ایک مہینہ کی مسافت پر ہونے کے باوجود دشمن مجھ سے لرزاں رہتا ہے۔ ٥۔ مجھے ( قیامت کے دن) کہا جائے گا مانگ عطا کیا جائے گا اور تیری امت کے حق میں تیری شفاعت قبول کی جائے گی اور جس نے اللہ کے ساتھ شرک نہ کیا ہوگا اس کو میری شفاعت پہنچے گی۔“ اعمش کہتے ہیں مجاہد کا خیال ہے کہ احمر سے مراد انسان اور اسود سے مراد جن ہیں جہاں تک قیامت کے دن مجرموں کا اپنے خلاف شہادت دینے کا تعلق ہے مجرم پہلے اپنے شرک و کفر اور برے اعمال سے انکار کریں گے۔ جب ان کے خلاف ان کے ہاتھ پاؤں اور دیگر اعضاء گواہی دیں گے تو پھر مجبور ہو کر اس کا اعتراف کریں گے۔ اس اعتراف کا قرآن مجید نے کئی مقامات پر ذکر کیا ہے۔ مسائل ١۔ تمام انبیاء ( علیہ السلام) کی نبوت جنوں اور انسانوں کے لیے تھی۔ ٢۔ نبی آخر الزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جنوں اور انسانوں کی طرف رسول بنا کر بھیجے گئے ہیں۔ ٣۔ قیامت کے دن مجرم اپنے گناہوں کا خود اعتراف کریں گے۔ تفسیر بالقرآن جہنمیوں کے اعترافات : ١۔ جہنمیوں سے ملائکہ کا خطاب۔ (الزمر ٧١، ٧٢) ٢۔ جہنمیوں سے جنتیوں کے سوالات اور جہنمیوں کا اپنے گناہوں کا اقرار۔ (المدثر : ٤٠ تا ٤٨) ٣۔ جہنمیوں کے ایک دوسرے سے سوالات۔ (حآ، السجدۃ، الاحزاب) ٤۔ جہنمیوں سے اللہ تعالیٰ کا سوال۔ (الصٰفٰت) ٥۔ جہنمیوں کی باہم گفتگو۔ (الصفت : ٢٧ تا ٣٣) الانعام
131 فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ انبیاء کرام (علیہ السلام) کو لوگوں کی طرف اس لیے بھیجتا رہا تاکہ لوگوں پر حجت تمام ہوجائے۔ اس سے پہلے فرمان میں ” رُسُلٌ مِنْکُمْ“ کے الفاظ استعمال فرمائے۔ ذٰلک کا اشارہ انھی الفاظ کی ترجمانی کر رہا ہے کہ لوگوں میں انہی سے رسول بھیجنے کا مقصد یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے احکام پڑھ کر سنائیں اور ان پر من و عن عمل کرکے دکھلائیں تاکہ کسی کے لیے یہ بہانہ نہ رہے کہ ہمارے پاس کوئی بتلانے اور سمجھانے والا نہیں آیا تھا۔ جس کی وجہ سے ہم غفلت میں پڑے رہے اور آج ہمیں بد ترین انجام سے دو چار ہونا پڑ رہا ہے۔ اس بات کے ازالہ کے لیے فرمایا اے پیغمبر! تیرے رب کا یہ وطیرہ نہیں کہ وہ کسی بستی اور اہل علاقہ کو ان کے اچھے برے انجام سے آگاہ کیے بغیر اسے فنا کے گھاٹ اتار دے بلکہ پہلے وہ رسول بھیج کر لوگوں کی اصلاح اور فلاح کی کوشش کرتا ہے۔ لیکن لوگ انبیاء کی مخلصانہ اور بے مثال محنت کے باوجود غفلت اور مجرمانہ زندگی کو ترجیح دیتے رہے اور جرائم میں اتنے آگے بڑھے کہ اللہ کی مخلوق ان سے پناہ مانگنے لگی اور زمین کا نظام درہم برہم ہونے لگا تو اللہ تعالیٰ نے ظالموں کو نیست و نابود کردیا۔ اس گرفت میں بھی انھیں اتنی ہی سزا دی گئی جتنے ان کے اعمال برے تھے۔ ان پر ذرہ برابر بھی ظلم نہیں کیا گیا۔ جس طرح دنیا میں ان کے کردار کے مطابق گرفت کی گئی بالکل اسی طرح قیامت کے دن نیک لوگوں کو ان کے اعمال کی جزا ملے گی اور برے لوگوں کو ان کے جرائم کے مطابق سزا ہوگی۔ لوگوں کے اعمال جاننے، پرکھنے اور ان کو جزا اور سزا دینے میں اللہ تعالیٰ کسی چیز سے غافل نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ لوگوں کو بار بار نصیحت اور انتباہ اس لیے نہیں کرتا ہے کہ لوگوں کے نیک اعمال سے اللہ تعالیٰ کو فائدہ اور برے کردار سے اسے نقصان پہنچتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کو کسی کی نیکی اور برائی کا کوئی فائدہ اور نقصان نہیں ہوتا۔ وہ ذات کبریا مفادات، خدشات اور نقصانات سے بے نیاز ہے۔ اس کی ذات بے نیاز ہونے کے باوجود سراپا رحمت ہے۔ وہ نیکوں کو ان کی نیکی سے بڑھ کر عنایات ورحمت سے نوازتا ہے۔ دنیا میں ظالموں کی گرفت میں اس کی یہ رحمت ہوتی ہے کہ اس کی مخلوق ان کے ظلم سے نجات پائے۔ اگر وہ چاہے تو ساری انسانیت کی صف لپیٹ کر ایک طرف رکھ دے اور ان کی جگہ اتنے ہی اور لوگوں کو لے آئے۔ جس طرح کہ پہلی اقوام میں اس کی مثالیں موجود ہیں۔ اس سچائی کو جاننے کے لیے دنیا کے ہر علاقے کی تاریخ اس حقیقت کی ترجمان ہے۔ عرب کی سرزمین کے بارے میں قرآن مجید تفصیل کے ساتھ ایک کے بعد دوسری قوم کے آنے کے واقعات بیان کرتا ہے۔ کبھی اس سرزمین پر قوم نوح کے کفر و شرک کا غلبہ تھا جنھیں اللہ تعالیٰ نے پانی کے سیلاب میں ڈبکیاں دے دے کر مارا۔ زمین کو شرک کی غلاظت سے پاک کردیا۔ ان کے بعد قوم عاد نے سرکشی اور تمرد کا مظاہرہ کیا جس کی وجہ سے ان پر سات دن مسلسل زور دار آندھیاں چلیں جس سے ان کو زمین پر پٹخ پٹخ کر مارا اور صفحۂ ہستی سے ان کا وجود ختم کردیا۔ قوم ثمود کو زور دار آسمانی دھماکے نے آلیا۔ جس سے ان کے کلیجے پھٹ گئے اور اللہ کی مخلوق نے ان سے سکھ پایا۔ ان کے بعد قوم لوط نے بے حیائی کا وطیرہ اپنایا۔ جس کی پاداش میں انھیں زمین سے اٹھا کر آسمان کے قریب لے جا کر الٹ دیا اور ان پر پتھروں کی بارش برسائی پھر اس دھرتی پر کبھی ایرانی دندنائے اور کبھی رومیوں کا غلبہ ہوا۔ ان کے بعد یہودی اور عیسائی ایک دوسرے کو موت کے گھاٹ اتارتے رہے۔ عربوں کے بعد ترکوں کا دور آیا۔ ترکوں کے بعد تاتاری بادو باراں کی طرح زمین پر پھیل گئے گویا کہ ایک کے بعد دوسری قوم اور دوسری کے بعد تیسری قوم نے اس کی جگہ لی یہاں نہ داراو سکندر کا اقتدار باقی رہا ار نہ ہی نمرود، فرعون اور ہامان کا تسلط قائم رہ سکا۔ پھر خاندانی نظام کو دیکھیں کس طرح نسل درنسل سلسلہ چل رہا ہے۔ آج ہمیں اپنے ہی آباؤ اجداد کی تیسری نسل سے اوپر کا کچھ علم نہیں۔ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی اس سنت کا نتیجہ تھا اور ہے جس کے بارے میں یہاں ارشاد فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ جب اور جسے چاہے لوگوں کو ایک دوسرے کی جگہ پر لاکھڑا کرے۔ اے اہل مکہ اور دنیا جہان کے انسانو ! اللہ تعالیٰ کی اس سنت اور قوت اختیار پر سوچو اور غور کرو کہ تم نے پہلوں کی طرح ہمیشہ نہیں بیٹھا رہنا۔ جب اللہ تعالیٰ اپنی قدرت کی نشانی ظاہر کرے گا تو تم اس کی قدرت و سطوت کے سامنے دم نہیں مار سکو گے۔ یاد رکھو قیامت ضرور برپا ہونے والی ہے اور تم اس کے برپا ہونے پر اللہ تعالیٰ کو بے بس اور عاجز نہیں کرسکتے۔ لہٰذا ہوش کے ناخن لو اور اپنے رب کے تابعدار بن جاؤ۔ (عَنْ أبِی ہُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) أَوَّلُ زُمْرَۃٍ تَدْخُلُ الْجَنَّۃَ مِنْ أُمَّتِی عَلٰی صُورَۃِ الْقَمَرِ لَیْلَۃَ الْبَدْرِ ثُمَّ الَّذِینَ یَلُونَہُمْ عَلٰی أَشَدِّ نَجْمٍ فِی السَّمَاءِ إِضَاءَ ۃً ثُمَّ ہُمْ بَعْدَ ذٰلِکَ مَنَازِلُ لَا یَتَغَوَّطُونَ وَلَا یَبُولُونَ وَلَا یَمْتَخِطُونَ وَلَا یَبْزُقُونَ أَمْشَاطُہُمُ الذَّہَبُ وَمَجَامِرُہُمُ الْأَلُوَّۃُ وَرَشْحُہُمُ الْمِسْکُ أَخْلَاقُہُمْ عَلٰی خُلُقِ رَجُلٍ وَّاحِدٍ عَلٰی طُولِ أَبِیہِمْ آدَمَ سِتُّونَ ذِرَاعًا) [ رواہ مسلم : کتاب الجنۃ ونعیمہا، باب أَوَّلُ زُمْرَۃٍ تَدْخُلُ الْجَنَّۃَ عَلَی صُورَۃِ الْقَمَرِ لَیْلَۃَ الْبَدْرِ وَصِفَاتُہُمْ وَأَزْوَاجُہُمْ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میری امت کا جنت میں داخل ہونے والا گروہ چودھویں رات کے چاند کی طرح چمکتے چہروں کے ساتھ ہوگا پھر ان کے بعد آسمان پر روشن ستاروں کی طرح پھر درجہ بدرجہ ہوں گے جنتی نہ پیشاب کریں گے نہ قضائے حاجت کی ضرورت ہوگی وہ تھوکیں گے بھی نہیں ان کی کنگھیاں سونے کی ہوں گی۔ ان کی انگیٹھیاں عود کی اور ان کے پسینے مشک عنبر کی طرح ہوں گے۔ ان سب کا ایک ہی طرح کا اخلاق ہوگا اور قدو قامت آدم (علیہ السلام) کے برابر یعنی ساٹھ ہاتھ ہوگی۔“ ( عَنْ قَتَادَۃَ (رض) حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ مَالِکٍ أَنَّ رَجُلًا قَالَ یَا رَسُول اللّٰہِ کَیْفَ یُحْشَرُ الْکَافِرُ عَلٰی وَجْہِہِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ قَالَ أَلَیْسَ الَّذِی أَمْشَاہُ عَلٰٰی رِجْلَیْہِ فِی الدُّنْیَا قَادِرًا عَلٰٰٰی أَنْ یُمْشِیَہُ عَلٰٰی وَجْہِہٖ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ قَالَ قَتَادَۃُ بَلَی وَعِزَّۃِ رَبِّنَا)[ رواہ مسلم، کتاب القیامۃ والجنۃ والنار، باب یحشر الکافر علی وجھہ] ” حضرت قتادہ (رض) سے روایت ہے کہ حضرت انس بن مالک (رض) نے بیان کیا ایک شخص نے استفسار کیا اے اللہ کے رسول! کافروں کو قیامت کے دن چہرے کے بل کس طرح اکٹھا کیا جائے گا۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کیا وہ ذات جو سب کو دنیا میں پاؤں کے بل چلانے پر قادر ہے وہ قیامت کے دن منہ کے بل چلانے پر قادر نہیں ؟ حضرت قتادہ کہتے ہیں ہمیں اپنے رب کی عزت کی قسم کیوں نہیں“ (عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ (رض) قَالَ قَالَ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یُؤْتٰی بِأَنْعَمِ أَہْلِ الدُّنْیَا مِنْ أَہْلِ النَّارِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ فَیُصْبَغُ فِی النَّارِ صَبْغَۃً ثُمَّ یُقَالُ یَا ابْنَ آدَمَ ہَلْ رَأَیْتَ خَیْرًا قَطُّ ہَلْ مَرَّ بِکَ نَعِیمٌ قَطُّ فَیَقُولُ لَا وَاللّٰہِ یَا رَبِّ وَیُؤْتٰی بِأَشَدِّ النَّاسِ بُؤْسًا فِی الدُّنْیَا مِنْ أَہْلِ الْجَنَّۃِ فَیُصْبَغُ صَبْغَۃً فِی الْجَنَّۃِ فَیُقَالُ لَہٗ یَا ابْنَ آدَمَ ہَلْ رَأَیْتَ بُؤْسًا قَطُّ ہَلْ مَرَّ بِکَ شِدَّۃٌ قَطُّ فَیَقُولُ لَا وَاللّٰہِ یَا رَبِّ مَا مَرَّ بِی بُؤْسٌ قَطُّ وَلَا رَأَیْتُ شِدَّۃً قَطُّ) [ رواہ مسلم : کتاب صفۃ القیامۃ والجنۃ والنار، باب الکافر الغداء لملء الأرض ذھبا] ” حضرت انس بن مالک (رض) کہتے ہیں رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا قیامت کے دن دنیا میں سب سے زیادہ نعمتوں میں پلنے والے شخص کو لایا جائے گا تو اسے جہنم میں صرف ایک غوطہ دیا جائے گا اور اس سے پوچھا جائے گا اے ابن آدم! تم نے کبھی کوئی بھلائی دیکھی تو وہ کہے گا اللہ کی قسم ! کبھی نہیں، پھر دنیا میں مصائب میں زندگی گزارنے والے کو لایا جائے گا اسے جنت کا ایک جھونکا دیا جائے گا تو اس سے پوچھا جائے گا اے انسان کیا تم نے کبھی کوئی تنگدستی دیکھی؟ تو وہ کہے گا اللہ کی قسم میں نے کبھی کوئی مشکل نہیں دیکھی۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ کسی بستی کو اپنا پیغام پہنچائے بغیر ہلاک نہیں کرتا۔ ٢۔ لوگوں کو ان کے اعمال کے مطابق ہی جزا، سزا ملے گی۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ کسی کے عمل سے غافل نہیں ہے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ لوگوں کے اچھے اور برے اعمال سے بے نیاز ہونے کے باوجود اس دنیا میں اپنی رحمت سے نوازنے والا ہے۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ ایک قوم کو ختم کرکے دوسری قوم کو لانے پر قادر ہے۔ ٦۔ اللہ تعالیٰ کے عذاب کو کوئی نہیں ٹال سکتا۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ کسی پر ظلم نہیں کرتا : ١۔ تیرا رب بندوں پر ظلم نہیں فرماتا۔ (الانفال : ٥١) ٢۔ جو شخص نیک اعمال کرے اس کا صلہ اسے ملے گا اور جو برائی کرے گا اس کا وبال اس پر ہوگا تیر ارب کسی پر ظلم نہیں کرے گا۔ (حٰم السجدۃ: ٤٦) ٣۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان تبدیل نہ ہوگا اور اللہ کسی پر ظلم نہیں فرمائے گا۔ (آ : ٢٩) ٤۔ اللہ تعالیٰ لوگوں پر ظلم نہیں فرماتا لیکن لوگ اپنے اوپر ظلم کرتے ہیں۔ (یونس : ٤٤) الانعام
132 الانعام
133 الانعام
134 الانعام
135 فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ کے سامنے انسان بے بس اور کمزور ہے لیکن اس کے باوجود اللہ تعالیٰ انسان کو اپنے احکام جبراً نہیں منواتا۔ میرے پیارے رسول! کھلا اعلان کر دو کہ اے لوگو ! تم میری بات نہیں مانتے ہو تو تمھاری مرضی مجھ سے الجھنے اور میرا راستہ روکنے کے بجائے تم اپنے اپنے طریقہ پر عمل کرو۔ میں اپنے طریقہ پر عمل پیرا رہوں گا۔ عنقریب تم جان جاؤ گے کہ آخرت کا گھر کس کے لیے بہتر ہوگا۔ یقین رکھو کہ ظالم کبھی فلاح نہیں پائیں گے۔ وعظ و نصیحت کے میدان میں داعی کو ایسے افراد کے ساتھ واسطہ پڑتا ہے کہ نہایت خلوص اور سوز مندی کے ساتھ سمجھانے کے باوجودلوگ آباؤ اجداد کی تقلید، زمانے کی رسومات اور بری عادات سے باز نہیں آتے۔ ایسے افراد نہ صرف حق قبول نہیں کرتے بلکہ وہ حق کا راستہ روکنے اور داعی کو پریشان کرنے کے لیے ہر قسم کی زیادتی اور شرارت کرتے ہیں۔ سرور دو عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھی ایسے افراد اور حالات سے بار بار واسطہ پڑا جس کے رد عمل میں آپ پر یشان ہو کر سوچتے کہ یہ کیسے ناہنجار لوگ ہیں جو حق کو قبول کرنے کے بجائے اس کے مقابلے میں بحث و تکرار، جنگ و جدال کا راستہ اختیار کیے ہوئے ہیں۔ اس پر آپ کو حکم ہوا کہ آپ ایسے لوگوں کو سمجھائیں کہ اگر تم حق قبول کرنے کے لیے تیار نہیں تو میرے ساتھ مزید الجھنے کے بجائے تم اپنے طریقہ کے مطابق کام کرو اور میں اپنے طریقے پر گامزن رہوں گا لیکن یاد رکھو عنقریب تمھیں اپنے انجام کا علم ہوجائے گا۔ اس وقت تم کھلی آنکھوں کے ساتھ اپنے ٹھکانے اور ہمارے مقام کو دیکھو گے۔ یاد رہے کہ دنیا میں تو بعض دفعہ ظالم کامیاب ہوجاتے ہیں لیکن آخرت کے بارے میں دو ٹوک انداز میں واضح کیا گیا ہے کہ ظالم کامیاب نہیں ہوں گے۔ بلکہ انہیں ان کے گناہوں اور جرائم کی ٹھیک ٹھیک سزا ملے گی۔ قرآن مجید میں یہ اصول کئی بار بیان ہوا ہے کہ ہر شخص اپنے اعمال کا ذمہ دار ہے۔ قیامت کے دن کوئی کسی کا بوجھ اٹھائے گا اور نہ کسی کے عمل کے بدلے پکڑا جائے گا۔ ہر کسی نے اپنے اعمال اور عقیدہ کے مطابق جزا یا سزا پائے گا۔ (أَلَّا تَزِرُ وَازِرَۃٌ وِزْرَ أُخْرٰی۔ وَأَنْ لَیْسَ لِلْإِنْسَانِ إِلَّا مَا سَعٰی۔ وَأَنَّ سَعْیَہٗ سَوْفَ یُرٰی۔ ثُمَّ یُجْزَاہُ الْجَزَاءَ الْأَوْفٰی۔ وَأَنَّ إِلٰی رَبِّکَ الْمُنْتَہَی)[ النجم : ٣٨ تا ٤٢] ” کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔ اور انسان کے لیے وہی کچھ ہے جو اس نے کوشش کی۔ اور اس کی کوشش جلد دیکھی جائے گی۔ پھر اس کا پورا بدلہ دیا جائے گا۔ اور بے شک سب کو آپ کے رب کے پاس ہی پہنچنا ہے۔“ مسائل ١۔ ظالم عنقریب اپنے انجام کو دیکھ لیں گے۔ ٢۔ قیامت کے دن ظالم فلاح نہیں پائیں گے۔ تفسیر بالقرآن فلاح نہ پانے والے لوگ : ١۔ ظالم فلاح نہیں پائیں گے۔ (الانعام : ٢١) ٢۔ مجرم فلاح نہیں پائیں گے۔ (یونس : ١٧) ٣۔ کافر فلاح نہیں پائیں گے۔ (المؤمنون : ١١٧) ٤۔ اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھنے والے فلاح نہیں پائیں گے۔ (یونس : ٦٩) ٥۔ جادوگر فلاح نہیں پائیں گے۔ (یونس : ٧٧) ٦۔ اے کافرو تمھارے لیے تمھارا دین، ہمارے لیے ہمارا دین۔ (الکافرون : ١) ٧۔ اے ایمان والو! اگر تم ہدایت پر رہو تو گمراہوں کی گمراہی تمھیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتی۔ (المائدۃ: ١٠٥) ٨۔ پہلے لوگوں کے لیے ان کے عمل تمھارے لیے تمھارے عمل۔ (البقرۃ: ١٤١) الانعام
136 فہم القرآن ربط کلام : دنیا میں سب سے بڑا ظلم اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرنا ہے شرک کے مرتکب جن اور انسان جس طرح قولی اور جسمانی عبادات میں گمراہ ہوتے ہیں اسی طرح مالی معاملات اور صدقہ کرنے میں شرک کرتے ہیں۔ اب مشرکوں کے مالی عبادات میں شرک کی نشاندہی اور اس کی مذمت کی جاتی ہے مفسر قرآن حضرت عبداللہ بن عباس (رض) ذکر کرتے ہیں کہ مشرکین مکہ اپنی خود ساختہ تقسیم کے مطابق اپنے جانوروں میں سے ایک حصہ اللہ تعالیٰ کے لیے وقف کرتے تھے اور دوسرا حصہ معبودان باطل کے لیے۔ جن کے بارے میں ان کا عقیدہ تھا کہ یہ سب کچھ ان کی حرمت و طفیل اور صدقہ سے ملتا ہے۔ جو حصہ ان کے معبودوں کے نام کا ہوتا وہ پورے کا پورا ان کے نام پر بتوں کی آرائش و زیبائش کے لیے نذرانہ کیا جاتا، جسے بت خانہ کے متولی اپنی مرضی سے خرچ کرتے۔ جو حصہ اللہ تعالیٰ یعنی فی سبیل اللہ مقرر کرتے اسے غربا اور مساکین پر خرچ کرتے۔ معبودوں کے مقرر کیا ہوا حصہ میں اگر نقصان ہوجاتا تو یہ نقصان فی سبیل اللہ کے حصہ سے پورا کردیتے۔ اگر فی سبیل اللہ کے کھاتے میں کمی واقع ہوجاتی تو اس کو کم ہی رہنے دیتے کیونکہ ان کا عقیدہ تھا کہ اللہ تعالیٰ مستغنی، بے نیاز اور بڑے حوصلے والا ہے۔ اس کا حصہ کم بھی رہ جائے تو اسے کوئی پروا نہیں۔ لیکن ہمارے معبود حاجت مند ہیں اس لیے اگر ان کا حصہ پورا نہ کیا گیا تو وہ ناراض ہوجائیں گے جس کی وجہ سے ہمارا نقصان ہوسکتا ہے۔ تقسیم کا یہ اصول کسی شریعت سے ماخوذ نہیں تھا بلکہ انھوں نے من ساختہ بنایا ہوا تھا جس کی بنا پر فرمایا ہے کہ بدترین ہے فیصلہ اور ان کی تقسیم جو وہ کرتے ہیں۔ غور فرمائیں کہ چودہ سو تیس سال پہلے کی رسومات اور شرک قریب قریب اسی شکل میں اب بھی جاری ہے۔ آج بھی مزارات پر دیے جانے والے نذرانوں کے بارے میں لوگوں کا عقیدہ ہے کہ اگر ہم نے پیر عبدالقادر جیلانی (رح) کے نام گیا رہویں پیش نہ کی، فلاں مزار پر اتنا حصہ نہ دیاتو بزرگ ناراض ہو کر ہمارا نقصان کردیں گے اور مال سے برکت اٹھ جائے گی۔ مکہ کے مشرکوں کا یہ عقیدہ تھا کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز سے بے نیاز ہے۔ لیکن ہمارے معبود حاجت مند ہیں۔ اس کے باوجود انھیں اپنی مشکلات کے حل کا ذریعہ اور مشکل کشا سمجھتے تھے۔ یہی عقیدہ آج بے شمار کلمہ گو حضرات کا ہے۔ مزارات میں مدفون بزرگوں کو مشکلات کے حل کے لیے اللہ کے حضور واسطہ اور ذریعہ سمجھتے ہیں۔ حالانکہ قرآن مجید بار بار وضاحت کرتا ہے۔ یہ نہ سن سکتے ہیں اور نہ کسی کی مدد کرسکتے ہیں۔ انھیں تو یہ بھی خبر نہیں کہ وہ کب اٹھائے جائیں گے۔ (عَنْ ثَابِتِ بْنِ الضَّحَّاکِ قَالَ نَذَرَ رَجُلٌ عَلٰی عَہْدِ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) أَنْ یَنْحَرَ إِبِلًا بِبُوَانَۃَ فَأَتَی النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ إِنِّی نَذَرْتُ أَنْ أَنْحَرَ إِبِلًا بِبُوَانَۃَ فَقَال النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہَلْ کَان فیہَا وَثَنٌ مِنْ أَوْثَانِ الْجَاہِلِیَّۃِ یُعْبَدُ قَالُوْا لَا قَالَ ہَلْ کَان فیہَا عیدٌ مِنْ أَعْیَادِہِمْ قَالُوا لَا قَالَ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) أَوْفِ بِنَذْرِکَ فَإِنَّہُ لَا وَفَاءَ لِنَذْرٍ فِی مَعْصِیَۃِ اللّٰہِ وَلَا فیمَا لَا یَمْلِکُ ابْنُ آدَمَ) [ رواہ ابوداؤد : باب مایومر بہ من الوفاء بالنذر] ” حضرت ضحاک بن ثابت (رض) بیان کرتے ہیں رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے میں ایک شخص نے نذر مانی کہ وہ ’ بوانہ‘ مقام پر اونٹ ذبح کرے گا۔ سرور عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دریافت فرمایا کیا وہاں جاہلیت کے بتوں میں سے کوئی بت تھا جس کی پوجا ہوتی تھی؟ اس نے نفی میں جواب دیا۔ سرورِکائنات نے استفسار فرمایا بھلا وہاں جاہلیت کے میلوں میں سے کوئی میلہ لگتا تھا؟ عرض کی کہ نہیں۔ حبیب کبریا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا پھر تجھے نذر پوری کرنا چاہیے۔ اس نذر کو پورا نہ کیا جائے جس میں اللہ کی نافرمانی ہو اور نہ اسے جس کو انسان پورا کرنے کی طاقت نہ رکھتا ہو۔“ مسائل ١۔ غیر اللہ کے نام پر صدقہ یا نذرانہ کرنا شرک ہے۔ ٢۔ اپنی مرضی سے حرام و حلال کا فیصلہ کرنا بدترین جرم ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ چیزوں کو غیر اللہ کے نام منسوب کرنا حرام ہے۔ ٤۔ مالی اور دیگر عبادات میں کسی کو اللہ تعالیٰ کا ساجھی بنانا شرک ہے۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ کے نام وقف کی ہوئی چیز کو غیر اللہ کے نام وقف کرنا بدترین گناہ ہے۔ الانعام
137 فہم القرآن ربط کلام : مشرک جس طرح مال میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ غیر اللہ کو شریک بناتے ہیں اس طرح اولاد میں بھی غیر اللہ کو شریک ٹھہراتے ہیں اور ان کو غیر اللہ کے نام پر قربان کرتے تھے۔ مشرکوں کا شروع سے عقیدہ ہے کہ جب تک فلان بزرگ کی روح کو خوش نہیں کیا جائے گا اس وقت تک ہمارے مال اور اولاد میں برکت پیدا نہیں ہو سکتی اسی وجہ سے بے اولاد مشرک غیر اللہ کے نام پر چڑھاوے اور بزرگوں کے مزارات پر نذرانے پیش کرتے ہیں تاکہ ان کی گود ہری ہوجائے۔ اولاد کی خواہش میں اس قدر آگے بڑھ کر منتیں مانتے ہیں اگر بزرگوں نے اولاد عنایت کر وا دی تو ایک بچے کو فلاں بت پر قربان کریں گے۔ اسی عقیدہ کی بنا پراپنے بچوں کو بت خانوں پر ذبح کیا کرتے تھے۔ ہندوستان میں آج بھی بعض دیوتاؤں کے نام پر بچوں کو قربان کرنے کی خبریں اخبار میں شائع ہوتی رہتی ہیں۔ تہذیب و تمدن کے دور میں قبروں اور بتوں پر اس کثرت کے ساتھ بیٹوں کو ذبح کرنے کا رواج تو نہیں رہا لیکن یہ رواج تو مشرکوں میں عام ہے کہ وہ اپنے بچوں کو بت خانوں اور مزارات کے لیے وقف کرتے ہیں جو آگے چل کر مجاور کا روپ دھار کر دولت اکٹھی کرنے کے ساتھ ساتھ بدکاری کو رواج دیتے ہیں۔ ایسے لوگ اپنی ہوس پوری کرنے کے لیے جہلا کو مزارات اور بت خانوں پر بیٹیاں وقف کرنے کی ترغیب دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ شاید کوئی بت خانہ اور مزار ہو۔ جہاں دن رات عورتیں قیام نہ کرتی ہوں۔ اسی وجہ سے مزارات اور آستانوں کے آئے دن اخلاق باختہ واقعات سننے میں آتے ہیں۔ بچوں کو غیر اللہ کے نام پر ذبح یا وقف کرنا اس لیے ہے کہ عیسائیوں کے پادریوں، ہندوؤں کے پنڈتوں اور مسلمانوں کے غلط عقیدہ پیروں کی وجہ سے اصلی اور حقیقی دین کی جگہ من گھڑت دین کا غلبہ ہوگیا ہے جو عزت، مال اور اولاد کی بربادی کے ساتھ آخرت کی تباہی کا پیش خیمہ ہے۔ ایسے لوگوں کو جب شرک و رسومات سے منع کیا جائے تو وہ سمجھنے کے بجائے سمجھانے والوں کو بزرگوں کا گستاخ اور بےدین ہونے کا طعنہ دیتے ہیں اس لیے فرمایا انھیں ان کے من گھڑت دین پر چھوڑ دیجیے۔ اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو انھیں شرک و خرافات سے بچا لیتا کیونکہ یہ ہدایت کی چاہت نہیں رکھتے اس لیے اللہ تعالیٰ بھی ان کی چاہت کے مطابق انھیں گمراہی میں چھوڑ دیتا ہے۔ (عَنْ سَہْلِ بْنِ سَعْدٍ (رض) قَالَ قَال النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) إِنِّی فَرَطُکُمْ عَلٰی الْحَوْضِ مَنْ مَرَّ عَلَیَّ شَرِبَ وَمَنْ شَرِبَ لَمْ یَظْمَأْ أَبَدًا لَیَرِدَنَّ عَلَیَّ أَقْوَامٌ أَعْرِفُہُمْ وَیَعْرِفُونِی ثُمَّ یُحَالُ بَیْنِی وَبَیْنَہُمْ قَالَ أَبُو حَازِمٍ فَسَمِعَنِی النُّعْمَانُ بْنُ أَبِی عَیَّاشٍ فَقَالَ ہٰکَذَا سَمِعْتَ مِنْ سَہْلٍ فَقُلْتُ نَعَمْ فَقَالَ أَشْہَدُ عَلٰی أَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ (رض) لَسَمِعْتُہُ وَہُوَ یَزِید فیہَا فَأَقُولُ إِنَّہُمْ مِنِّی فَیُقَالُ إِنَّکَ لَا تَدْرِی مَا أَحْدَثُوا بَعْدَکَ فَأَقُولُ سُحْقًا سُحْقًا لِمَنْ غَیِّرَ بَعْدِی) [ رواہ البخاری : کتاب الرقاق باب الحوض] ” حضرت سہل بن سعد (رض) بیان کرتے ہیں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میں تمھارا حوض کوثر پر انتظار کروں گا جو بھی میرے پاس آئے گا وہ اس سے پیے گا اور جو شخص بھی اس سے ایک مرتبہ پیے گا وہ کبھی پیاس محسوس نہیں کرے گا۔ میرے پاس کچھ لوگ آئیں گے وہ مجھے پہچان لیں گے اور میں انھیں اپنے امتی کے طور پر سمجھوں گا پھر میرے اور ان کے درمیان پردہ حائل ہوجائے گا ابو حازم نے کہا نعمان بن ابی عیاش نے مجھ سے سنا اور کہا کیا تم نے اسی طرح سہل سے سنا ہے میں نے کہا ہاں، پس اس نے کہا میں ابو سعید خدری (رض) سے سنا وہ اس میں مزید اضافہ کرتے ہوئے کہا یہ تو میرے امتی ہیں کہا جائے گا آپ نہیں جانتے آپ کے بعد انھوں نے کیا کیا بدعتیں شروع کیں میں ان سے کہوں گا دور ہوجاؤ دور ہوجاؤ جس نے میرے بعد دین کو بدل ڈالا۔“ مسائل دنیا میں قتل اولاد کی ہر دور میں چار صورتیں رہی ہیں : ١ غیر اللہ کے نام پر بچوں کو قربان کرنا۔ ٢ رزق کی تنگی کی وجہ سے سے اولاد کو قتل کرنا۔ ٣ کسی کے داماد بننے کی عار سے بچیوں کو قتل کرنا۔ ٤ جنگ و جدال میں بچیوں کی گرفتاری کے پیش نظر انھیں قتل کرنا۔ تفسیر بالقرآن اولاد کا قتل کرنا جرم ہے : ١۔ مفلسی کے ڈر سے اپنی اولاد کو قتل نہ کرو۔ (الاسراء : ٣١) ٢۔ غربت کے خوف سے اپنی اولاد کو قتل نہ کرو۔ (الانعام : ١٥١) الانعام
138 فہم القرآن ربط کلام : مشرکوں کے شرک و رسومات کی مزید تفصیلات زمانۂ جاہلیت میں کفار اور مشرکین نے اپنے مویشیوں اور کھیتیوں کو چار اقسام میں تقسیم کر رکھا تھا۔ ١۔ غیر اللہ کے نام پر مخصوص کیے ہوئے مویشی اور کھیت جنہیں مجاورین کی اجازت کے بغیر کوئی استعمال نہیں کرسکتا تھا۔ ٢۔ جو جانور غیر اللہ اور آستانوں کے لیے وقف کیے جاتے ان پر سواری کرنا بھی ان کے ہاں جائز نہیں تھا۔ ٣۔ غیر اللہ کے نام پر وقف کیے ہوئے جانوروں کو ذبح کرتے وقت ان پر اللہ کا نام نہیں لیتے تھے۔ ٤۔ وقف کی ہوئی اونٹنی، گائے، بکری کا دودھ پینامردوں کے لیے جائز اور عورتوں کے لیے حرام تھا اسی طرح ان جانوروں سے جو بچہ پیدا ہوتا اس کا کھانا مردوں کے لیے حلال تھا۔ اگر بچہ مردہ ہوتا تو اس کے کھانے میں مرد و زن شریک ہوجاتے تھے۔ مالی عبادات میں مشرکوں کے شرک و رسومات کی تفصیل کے ضمن میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ وہ شرک میں اس قدر آگے بڑھ چکے تھے کہ جو جانور غیر اللہ کے نام پر وقف کرتے انھیں ذبح کرتے وقت اللہ تعالیٰ کا نام لینا خود ساختہ شریعت کے خلاف سمجھتے تھے۔ اور غیر اللہ کے نام وقف کیے ہوئے جانور اور کھیتوں کو مجاورین کا اپنے نام مخصوص کرلینا، ایسے جانوروں پر سواری نہ کرنا، زندہ پیدا ہونے والے بچے پر مردوں کی ملکیت سمجھنا اگر مردہ پیدا ہو تو اس میں مرد و زن کی شرکت جائز قرار دینا، یہ ان کے من گھڑت دین کی نمایاں علامات تھیں۔ دراصل یہ دین کے نام پر مذہبی پیشواؤں کی مالی کرپشن تھی جس کے نام پر انھوں نے بڑی بڑی جائیدادیں بنائیں اور مذہب کے نام پر عوام کا استحاصل کیا۔ جس کی مثالیں مسلمانوں سمیت ہر مذہب کے نام نہاد دینی رہنماؤں میں پائی جاتی ہیں۔ اسی لیے پہلی آیت کے آخر میں انھیں وارننگ دی گئی کہ عنقریب انھیں اس مکر و فریب اور گھناؤنے دھندے کی سزا دی جائے گی، آیت : ١٣٨ کے آخر میں فرمایا یہ لوگ اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے لوگوں کے سامنے من گھڑت شریعت پیش کرتے ہیں انھیں اسی پر چھوڑ دیجیے۔ بہت جلد انھیں اس جرم کی سزا مل جائے گی۔ اللہ تعالیٰ ان کے عزائم اور کردار کو اچھی طرح جانتا ہے۔ اس نے اپنی حکمت کے تحت انھیں مہلت دے رکھی ہے۔ ان لوگوں کا بغیر کسی جواز کے محض حماقت کی بنا پر اپنی اولاد کو قتل کرنا اور اللہ تعالیٰ کی حلال کردہ چیزوں کو اللہ ہی کے ذمہ لگا کر حرام قرار دینا انتہا درجے کی گمراہی ہے۔ جو لوگ اللہ تعالیٰ کا نام لے کر لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں وہ ہدایت نہیں پایا کرتے۔ (عَنْ أَبِی الطُّفَیْلِ قَالَ سُءِلَ عَلِیٌّ (رض) أَخَصَّکُمْ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بِشَیْءٍ فَقَالَ مَا خَصَّنَا رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بِشَیْءٍ لَمْ یَعُمَّ بِہِ النَّاسَ کَافَّۃً إِلَّا مَا کَانَ فِی قِرَابِ سَیْفِی ہٰذَا قَالَ فَأَخْرَجَ صَحِیفَۃً مَکْتُوبٌ فیہَا لَعَنَ اللّٰہُ مَنْ ذَبَحَ لِغَیْرِ اللّٰہِ وَلَعَنَ اللّٰہُ مَنْ سَرَقَ مَنَارَ الْأَرْضِ وَلَعَنَ اللّٰہُ مَنْ لَعَنَ وَالِدَہٗ وَلَعَنَ اللّٰہُ مَنْ آوٰی مُحْدِثًا) [ رواہ مسلم : کتاب الأضاحی، باب تحریم الذبح لغیر اللہ] ” حضرت ابو طفیل فرماتے ہیں حضرت علی (رض) سے پوچھا گیا کیا رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے آپ کو کسی بات کے ساتھ خاص کیا تھا حضرت علی (رض) نے فرمایا رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے عام لوگوں سے ہٹ کر کوئی خاص بات نہیں کہی مگر یہ میری تلوار کی میان میں جو ہے پھر انھوں نے میان میں سے کاغذ نکالا جس میں لکھا ہوا تھا اللہ تعالیٰ اس شخص پر لعنت کرے جو غیر اللہ کے نام پر ذبح کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس پر بھی لعنت کرے جو چوری کرتا ہے اور اللہ اس پر لعنت کرے جو اپنے والد کو لعن طعن کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ اس شخص پر بھی لعنت کرے جو کسی بدعتی کو پناہ دیتا ہے۔“ (عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ (رض) قَالَ کَانَ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) إِذَا خَطَبَ۔۔ یقول أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّ خَیْرَ الْحَدِیثِ کِتَاب اللّٰہِ وَخَیْرُ الْہُدَی ہُدَی مُحَمَّدٍ وَشَرُّ الْأُمُورِ مُحْدَثَاتُہَا وَکُلُّ بِدْعَۃٍ ضَلَالَۃٍ) [ رواہ مسلم : کتاب الجمعۃ، باب تخفیف الصلاۃ] ” حضرت جابر بن عبداللہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب بھی خطبہ ارشاد فرماتے تو کہا کرتے۔۔ اما بعد بلاشبہ سب سے بہترین کلام اللہ کی کتاب ہے اور بہترین ہدایت کا راستہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ہے اور برے کاموں میں سے بدعات ایجاد کرنا ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے۔“ مسائل ١۔ مشرکین جانوروں کے بارے میں من گھڑت باتیں منسوب کیا کرتے تھے۔ ٢۔ حلال وحرام کرنے کا اختیار صرف اللہ تعالیٰ کے پاس ہے۔ ٣۔ اولاد کو قتل کرنا کبیرہ گناہ ہے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ پر افترا باندھنے والے کبھی ہدایت نہیں پا سکتے۔ تفسیر بالقرآن گمراہ لوگ : ١۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت سے پہلے لوگ کھلی گمراہی میں تھے۔ (آل عمران : ١٦٤، الجمعۃ : ٢) ٢۔ جو شخص اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے گا وہ واضح گمراہی میں مبتلا ہوا۔ (الاحزاب : ٣٦) ٣۔ بہت بڑا ظالم ہے وہ شخص جو اللہ پر جھوٹ باندھے بغیر علم کے تاکہ لوگوں کو گمراہ کرے۔ (الانعام : ١٤٤) ٤۔ کفار اللہ کے راستہ سے روکنے والے اور خوددور کی گمراہی میں ہیں۔ (النساء : ١٦٧) ٥۔ جس نے اللہ، رسول، ملائکہ، کتابوں اور آخرت کے دن کا انکار کیا وہ دور کی گمراہی میں مبتلا ہوا۔ (النساء : ١٣٦) ٦۔ اللہ کے سوا غیروں کو پکارنے والے گمراہ ہیں۔ (الاحقاف : ٥) الانعام
139 الانعام
140 الانعام
141 فہم القرآن ربط کلام : جن کھیتوں میں مشرک غیر اللہ کا حصہ مقرر کرتے ہیں وہ تو اللہ ہی پیدا کرنے، اگانے اور پکانے والا ہے۔ زیتون : Olive (انگریزی، فرانسیسی، جرمن ) Oliva (روسی، لاطینی ) زیتون ( عربی، فارسی، ہندی، اردو، پنجابی) zayit ,Zaith ( عبرانی) نباتاتی نام : Ole ae uropae a Linn. قرآنی آیات بسلسلہ زیتون : ١۔ سورۃ الانعام آیت : 100 ٢۔ سورۃ الانعام آیت : 142 ٣۔ سورۃ النحل آیت : 11 ٤۔ سورۃ المومنون آیت : 20 ٤۔ سورۃ التین آیت :2 زیتون کا ذکر قرآن پاک میں اس کے نام سے چھ بار آیا ہے اور ایک مرتبہ سورۃ المومنون، آیت : ٢٠ اس کی جانب یہ کہہ کر اشارہ کیا گیا ہے یہ کہ اللہ تعالیٰ نے طور سینا کے اطراف ایک ایسا درخت پیدا کیا ہے جس میں ایسا تیل ہوتا ہے جو سالن کے کام آتا ہے۔ زیتون کا نباتاتی نام (Oleaeuropaea) ہے۔ یہ ایک چھوٹا درخت ہے جس کی اونچائی اوسطاً ٢٥ فٹ ہوتی ہے۔ اس کی پیداوار قلم لگا کر ہوتی ہے کیونکہ بغیر قلم لگائے ہوئے پودے اچھے پھل نہیں دیتے ہیں۔ اس کے کچے پھل چٹنی اور اچار کے کام میں لائے جاتے ہیں، جبکہ پکے ہوئے پھل انتہائی شیریں اور لذیذ ہوتے ہیں۔ یہ بیضاوی شکل کے ٢ سے ٣ سنٹی میٹر لمبے ہوتے ہیں ان کے گودے میں پندرہ سے چالیس فیصد تک تیل ہوتا ہے جو اپنی خصوصیات اور صاف و شفاف ہونے میں بے مثال مانا جاتا ہے۔ دل کے امراض میں زیتون کا تیل سود مند ثابت ہوتا ہے۔ زیتون کا اصل وطن فلسطین اور شام کا وہ علاقہ ہے جو فینی شیا (Phoenicia) کہلاتا ہے۔ یہیں اس کی کاشت تقریباً دو ہزار سال قبل مسیح شروع کی گئی اور اسی خطہ سے یہ پودہ مغرب اور مشرق کے ممالک میں لے جایا گیا۔ زیتون کی وطنیت (Nativity) کا حوالہ قرآن کریم کی سورۃ النور کی آیت ٣٥ میں دیا گیا ہے جس میں ارشاد ہوا ہے ” ایک مفید درخت زیتون ہے جو نہ پورب کا ہے نہ پچھم کا۔“ زیتون کے باغات جنوبی یورپ، شمالی افریقہ اور عرب کے کئی ممالک میں ملتے ہیں، لیکن اسپین اور اٹلی زیتون کے پھل اور تیل پیدا کرنے میں سرفہرست ہیں۔ روغن زیتون کی عالمی پیداوار تین ملین میٹرک ٹن سے بھی زیادہ بتائی جاتی ہے۔ روغن زیتون چراغ کی روشنی کے لیے زمانہ قدیم سے بڑا مشہور اور بڑا اہم رہا ہے۔ عمدہ قسم کا تیل نہایت شفاف ہوتا ہے۔ اسے اگر کسی صاف برتن یا گلاس یا گلاس کی قندیل میں رکھ دیا جائے تو ایسا محسوس ہوگا کہ کوئی شے ہے جو خود ہی روشن ہے اور اگر اس سے چراغ جلایا جائے تو ایسا لگے گا کہ گویا نور سے نور نکل رہا ہے۔ اسی حقیقت کی منظر کشی سورۃ النورآیت ٣٥ میں کی گئی ہے اور روغن زیتون سے روشن قندیل کی روشنی کو ” نور علی نور“ کہا گیا ہے۔ انار قرآنی نام : رُمَّانٌ دیگر نام : Pomegranate (انگریزی) Granade (فرانسیسی) Granat ( روسی) Granatapfel ( جرمن) Punicum (لاطینی) Me lagrana ( اطالوی) Rimmon (عبرانی) Granada (ہسپانوی) Roa (یونانی) (سنسکرت) تیلگو داون (کشمیری) رمان (عربی) انار (فارسی، اردو، ہندی، پنجابی) نباتاتی نام : Punica granatum linn.(Family:punicaceae) قرآنی آیات بسلسلہ انار : (١) سورۃ الانعام آیت :100 (٢) سورۃ الانعام آیت : 142 (٣) سورۃ الرحمن آیت : 68,69 انار کا ذکر ’ رمان‘ کے نام سے قرآن حکیم میں تین بار آیا ہے اور تینوں بار انسان کو اہم نصیحتیں کی گئی ہیں۔ مثلاً سورۃ الانعام کی آیت :142 میں حکم ہوا کہ کھجور، زیتون اور انار وغیرہ کی جب فصلیں کاٹی جائیں تو فوراً اس میں سے ایک حصہ حقدار کو دے دیا جائے اس طرح اشارہ کیا گیا قدرت کی نعمتیں عام انسانوں کے لیے بھی ہیں جو لوگ باغ کے پھلوں کو اور کھیت کی پیداوار کو اپنے لیے مخصوص رکھنا چاہتے ہیں اور دوسروں کی حق تلفی کرتے ہیں وہ اللہ کی نظر میں ناپسند یدہ انسان ہیں۔ قرآن کا یہ ارشاد سماج میں اجارہ داری اور سرمایہ داری کو نامناسب قرار دیتا ہے۔ نباتاتی سائنس کی رو سے انار کا نام Pumigranatum ہے۔ انار کے دانوں کا رس ایک ہلکی اور فرحت انگیز غذا ہے جو دل کے امراض میں بہت سود مند ہے میٹھا انار قبض کشا ہوتا ہے جبکہ تھوڑی سی کھٹاس والے انار کے دانے معدہ کے ورم اور دل کے لیے لا جواب دوا اور ٹانک ہیں ان دانوں سے تیار کیا گیا شربت Dyspepsia جیسے معدہ کی روگوں کو فائدہ دیتا ہے۔ اسہال یا پیچش میں مبتلا مریضوں کے لیے پچاس گرام انار کا رس ایک بہترین علاج بھی ہے اور کمزوری رفع کرنے کا طریقہ بھی۔ قلت خون، یرقان، بلڈ پریشر، بواسیر اور ہڈیوں وجوڑوں کے درد میں انار کے طبی فوائد طب یونانی آیورویدک اور ایلو پیتھی میں بھی تسلیم کیے گئے ہیں۔ شہد کے ساتھ انار رس Biliousness میں کمی لاتا ہے۔ انار کا پھل دل ودماغ کو فرحت اور تازگی بخشتا ہے۔ انار کی جڑ کی چھال ایک ایسی بے مثال دوا ہے جسے پانی میں ابال کر مریض کو پلانے سے Tape worm سمیت پیٹ کے کیڑے ختم ہوجاتے ہیں۔ بعض تحقیقات سے معلوم ہوا ہے اس کا ابلا ہوا پانی ٹی بی اور پرانے بخار کو ختم کرنے میں موثر ثابت ہوا ہے۔ مزید براں ملیریا کے بعد کی کمزوری کو بھی دور کرتا ہے۔ بعض نسوانی امراض میں انار کی جڑ کی چھال کا استعمال ایک حتمی علاج سمجھا جاتا ہے۔ انار کے پھولوں سے ایک لال رنگ حاصل کیا جاتا ہے جو غذائی اشیاء میں استعمال ہو سکتا ہے انار کے پھول اسقاط حمل کو روکنے کی بھی دواہیں۔ انار کے پھل کا چھلکا بھی طبی اہمیت کا حامل ہے۔ دودھ میں چھلکا ابال کر پلانے سے پرانی پیچش کے مریض کو فوراً افاقہ ہوتا ہے۔ یہ چھلکا تجارتی طور پر بھی بڑے کام کی چیز ہے کیونکہ اس میں بیس فیصد سے زیادہ (رض) annin ہوتا ہے اس لیے کچے چمڑے کو پکانے کے لیے ان چھلکوں کا استعمال بڑے پیمانے پر افریقہ کے کچھ ملکوں میں کیا جاتا ہے۔ مراکش اور اسپین کا جو چمڑا کسی زمانے میں بہت مشہور تھا اس کی (رض) anning انار کے چھلکوں سے کی جاتی تھی۔ اللہ تعالیٰ کی عنایت کردہ نعمتوں میں انار بھی ایک بڑی نعمت ہے جس کی بابت خدائے برتر فرماتا ہے : (فِیہِمَا فَاکِہَۃٌ وَنَخْلٌ وَرُمَّانٌ فَبِأَیِّ آَلَاءِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبَانِ )[ الرحمٰن : ٦٨] ” ان دونوں میں میوے ہوں گے اور کھجور اور انار۔ تم اپنے پرور دگا رکی کون کون سی نعمت کو جھٹلاؤ گے۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ ہی مختلف انواع و اقسام کے درخت اگاتا ہے۔ ٢۔ پھلوں کے علیحدہ رنگ و مختلف ذائقے ہونا اللہ تعالیٰ کی قدرت کا کرشمہ ہے۔ ٣۔ فصل کاٹتے وقت اس کا حق ادا کرنا چاہیے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ فضول خرچی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ الانعام
142 فہم القرآن ربط کلام : اہل مکہ جس طرح من ساختہ اصولوں کی بنیاد پر اپنی فصلوں میں اللہ کے سوا دو سروں کا حصہ مقرر کرتے تھے۔ اسی باطل اصول کی بنیاد پر انھوں نے جانوروں کے بارے میں بھی یہ اصول بنالیا تھا کہ فلاں مردوں کے لیے جائز ہے اور فلاں جانور صرف عورتوں کو کھانے کی اجازت ہوگی۔ شریعت نام ہے اللہ اور اس کے رسول کے فرمودات کا۔ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی اسی چیز کو حلال اور حرام قرار دینے کے پابند ہیں۔ جس کو اللہ تعالیٰ نے حرام یا حلال کرنے کا حکم دیا ہو۔ بصورت دیگر کسی شخص کو یہ اختیار نہیں کہ وہ حلال و حرام کے ضابطے بنائے اور ان کی بنیاد پر اللہ تعالیٰ کی حلال کردہ چیز کو حرام اور اس کی حرام کی ہوئی چیز کو حلال قرار دے۔ سورۃ التحریم کی پہلی آیت میں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مخاطب کرتے ہوئے اسی اصول کی وضاحت فرمائی کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ کو کسی طرح بھی یہ اختیار نہیں کہ آپ اللہ کی حلال کردہ چیز کو حرام قرار دیں۔ یہاں ” حمولہ“ سے مراد وہ جانور ہیں جو سواری، باربرداری اور کاشتکاری کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ مثلاً بیل، اونٹ، گھوڑے، گدھے اور خچر۔” الفرش“ کا لفظ استعمال فرما کر ان جانوروں کی نشاندہی کی گئی ہے جو کھیتی باڑی، سواری اور بار برداری کی بجائے انسان کی دوسری ضروریات پورا کرتے ہیں۔ بھیڑ، بکری اور مرغ وغیرہ جس میں گوشت، انڈے، زیبائش اور میڈیکل کی ضروریات یہاں تک کہ ان کی کھال اور ہڈیوں سے بے شمار چیزیں بنائی جاتی ہیں۔ چنانچہ ارشاد فرمایا کہ یہ تمھارے لیے اللہ تعالیٰ کا رزق ہے انھیں کھاؤ اور استعمال کرو لیکن شیطان کی پیروی کرنے سے بچو۔ کیونکہ شیطان تمھارا کھلم کھلا دشمن ہے۔ یہ شیطان کی کارستانی اور اس کی پیروی کا نتیجہ ہے کہ لوگ جانوروں کو ذبح کرتے ہوئے ان پر غیر اللہ کا نام لیتے اور انھیں بتوں اور مزارات کی نذر کرتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی پرلے درجے کی ناشکری اور اس کی بغاوت کے مترادف ہے۔ اہل مکہ نے اپنے من ساختہ اصولوں کے مطابق کسی جانور کا مادہ اور کسی کا نر حرام ٹھہرا لیا تھا۔ جیسا کہ اسی سورۃ کی آیت ،139,138 میں ان کا عقیدہ بیان ہوا ہے کہ جس جانور یا کھیتی کو وہ اپنے بتوں کی نذر کرتے ان کے بارے میں یہ اصول کار فرما تھا کہ اس میں جو بچہ پیدا ہو وہ صرف ہمارے مردوں کے لیے حلال اور ہماری عورتوں کے لیے اس کا کھانا ہرگز جائز نہیں اگر اونٹنی اور گائے وغیرہ سے پیدا ہونے والا بچہ مردہ ہو تو اس کو مرد اور عورتیں کھا سکتی ہیں۔ یہاں بھیڑ، بکری کے چار جوڑوں کا ذکر کرنے کے بعد مشرکین سے استفسار فرمایا کہ اگر تمھارے بے ہودہ اصول اور باطل عقیدہ کی کوئی ٹھوس دلیل ہے تو اس کی علمی دلیل پیش کرو اگر تم اپنے من ساختہ حرام وحلال کے نظریہ میں سچے ہو۔ علم سے مراد وحی کا علم ہے۔ جس سے مراد یہ ہے کہ تمھارے من گھڑت اصولوں کی کسی بھی شریعت سے تائید نہیں ہوتی گویا کہ اللہ تعالیٰ نے کسی رسول پر یہ حکم نازل نہیں کیا کہ جس میں یہ ہو کہ فلاں جانور کا مادہ حلال ہے اور اس کا نرحرام! بھیڑ اور بکری کے جوڑوں کے بعد اونٹ اور گائے کے چار جوڑوں کا ذکر فرما کر سوال کیا ہے ان کے نر یعنی مذکر حرام ہیں یا ان کے مادے ؟ یا ان کے بچے جو ان کی مؤنث کے پیٹ میں ہوتے ہیں۔ اگر تم اپنے نقطہ نظر میں سچے ہو تو بتاؤ کہ کیا جب اللہ تعالیٰ نے ان کے جائز اور ناجائز کا حکم دیا تھا تو تم میں سے کوئی اس وقت موجود تھا۔ حرام و حلال کے یہ اصول دراصل اللہ تعالیٰ پر جھوٹ اور بہتان ہیں۔ یاد رکھو وہ شخص سب سے بڑا ظالم ہے جو اپنے جھوٹ کو اللہ کی طرف منسوب کرتا ہے تاکہ اس جہالت کی بنیاد پر لوگوں کو گمراہ کرے اور اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔ ظاہر ہے کہ جن لوگوں کو ان کی بد اعمالیوں کی وجہ سے اللہ تعالیٰ ہدایت نہ دے انھیں کوئی بھی ہدایت نہیں دے سکتا۔ مسائل ١۔ ہر طرح کے جانوروں کو پیدا کرنے والا اللہ ہی ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ کا عنایت کیا پاکیزہ اور حلال رزق کھانا چاہیے۔ ٣۔ شیطان تمام لوگوں کا واضح دشمن ہے، اس سے بچنا چاہیے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ کسی شخص کو حلال کو حرام اور حلال کو حرام کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ کے ذمہ جھوٹ لگا کر لوگ ایک دوسرے کو گمراہ کرتے ہیں۔ ٦۔ اللہ تعالیٰ ظالم قوم کو ہدایت نہیں دیتا۔ الانعام
143 الانعام
144 الانعام
145 فہم القرآن ربط کلام : حرام و حلال کے عقلی، شرعی اور توحید کے دلائل دینے کے بعد نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو وضاحت کے لیے مزید کہا جارہا ہے۔ اہل مکہ نے اپنی مرضی سے اللہ تعالیٰ کی حلال کردہ چیزوں کو ایک دوسرے کے لیے حرام قرار دے لیا تھا۔ جس کی سابقہ آیات میں نفی کرتے ہوئے فرمایا کہ جن لوگوں نے اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ رزق کو خود ساختہ شریعت کی وجہ سے اپنے آپ پر حرام کرلیا ہے وہ گمراہ ہوئے۔ پھر نباتات اور حیوانات کے حوالے سے توحید کے دلائل دیے جس میں یہ ثابت کیا گیا ان کے خالق کے علاوہ کسی کو حرام و حلال کے تعین کرنے کا حق نہیں۔ کفار نے من مرضی سے قانون بنا کر لوگوں کو یہ تاثر دیا تھا کہ یہ چیزیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے حرام کردہ ہیں۔ اس کے ان کے پاس شرعی دلائل نہ تھے۔ کیونکہ کسی شریعت میں حرام و حلال کی یہ فہرست نازل نہیں ہوئی کہ جس میں یہ بتلایا گیا ہو کہ کھانے پینے کی فلاں چیز مرد کے لیے جائز اور عورت کے لیے حرام ہے اور فلاں چیز عورت کے لیے حلال ہے لیکن مرد کے لیے حرام ہے۔ یہ ایسی تقسیم ہے جس کے بارے میں خوامخواہ یہ سوال اٹھتا ہے کہ آخر کیا سبب ہے کہ فلاں کھانے کی چیز شرعی طور پر مرد کے لیے جائز ہے اور عورت کے لیے حرام۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ لباس اور زیورات کے بارے میں مرد و زن میں شریعت نے فرق قائم کیا ہے لیکن خورد و نوش کے سلسلہ میں حرام و حلال کے اصول سب کے لیے برابر ہیں۔ اس لیے ان کے پاس اپنی بنائی ہوئی شریعت کا کوئی عقلی ثبوت نہیں تھا۔ اور نہ ہی اس تقسیم کا کوئی ثبوت پہلی شریعتوں میں پایا جاتا ہے کہ کھیتی کا اتنا حصہ غیر اللہ کے نام وقف کیا جائے اور اگر اس وقف میں کسی وجہ سے نقصان ہو تو وہ فی سبیل اللہ کے کھاتہ سے پورا کرلیا جائے۔ اس کے برعکس تمام شریعتوں میں یہ بات متفق علیہ ہے کہ کوئی چھوٹی سے چھوٹی چیز بھی غیر اللہ کے نام دینا شرک ہے۔ چونکہ ان کے پاس عقلی و نقلی دلائل نہیں تھے اس لیے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم ہوا کہ ان کو بتلائیں کہ وحی تمھارے پاس نہیں میرے پاس آتی ہے اور اس وحی میں کھانے والے پر کوئی چیز کھانا حرام نہیں سوائے مردار، بہنے والے خون، خنزیر کے گوشت کے کیونکہ وہ پلید اور اللہ تعالیٰ کی نافرمانی ہے۔ اسی طرح وہ چیز بھی حرام ہے جو غیر اللہ کے نام پر ذبح کی گئی ہو۔ یہ چیزیں اس شخص کے لیے حلال ہوں گی جسے کھانے کے لیے کوئی چیز میسر نہ ہو اور اسے اپنی موت واقع ہونے کا خطرہ لاحق ہوجائے۔ اور یہ شخص عام حالات میں حرام و حلال کی تمیز کرنے والا ہو۔ ایسی صورت میں حرام کھانے والے کو اللہ تعالیٰ معاف کرنے اور رحم فرمانے والا ہے۔ بعض لوگ اس آیت میں لفظاِلاَّسے غلط استدلال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ مذکورہ بالا چیزوں کے سوا باقی تمام چیزیں حلال ہیں۔ کیونکہ ان کا کہنا ہے لفظ الاَّ حصر کے لیے آتا ہے جس کا معنی ہے کہ صرف یہی چیزیں حرام ہیں جس بنا پر وہ غلط استدلال کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ان چیزوں کے علاوہ کھانے پینے کی باقی چیزوں پر پابندی عائد نہیں کی جاسکتی۔ حالانکہ قرآن مجید میں شراب حرام کی گئی جو پینے کی چیز ہے کھانے کے سلسلہ میں مردار، خون، خنزیر کا گوشت اور غیر اللہ کے نام پر ذبح کی ہوئی چیز کے ساتھ وہ جانور جو گلا گھٹ کر، چوٹ کھا کر بلندی سے گر کر یا سینگ کی ضرب سے مر گیا ہو وہ بھی حرام ہے۔ [ المائدۃ: ٣] ان کا استدلال اس لیے بھی غلط ہے کہ یہاں ان چار چیزوں کی حرمت کے فوراً بعد تورات کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ یہودیوں پر ناخن والے جانور حرام کرنے کے ساتھ، بکری اور گائے کی چربی بھی حرام کی گئی تھی سوائے اس کے جو جانور کی ہڈیوں سے الگ نہیں ہو سکتی تھی یہ چربی اس لیے ان پر حرام کی گئی کہ وہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرنے والے تھے۔ آخر میں کفار کے بوسیدہ دلائل کا یہ کہہ کر جواب دیا گیا ہے کہ حلال و حرام کی جو فہرست اللہ تعالیٰ کے ذمہ لگاتے ہیں اس میں وہ جھوٹ بولتے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے اس کے متعلق جو فہرست مرحمت فرمائی ہے وہ سراسر سچ ہے۔ اگر ٹھوس دلائل کے باوجود یہ لوگ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تکذیب کرتے ہیں اور ان کی گرفت نہیں ہو رہی تو انھیں فرمائیں چونکہ اللہ تعالیٰ اعلیٰ ظرف اور اس کی رحمت بے کنار ہے اس لیے وہ تمھیں مہلت دیتا ہے۔ لیکن یاد رکھو جب اس کا عذاب نازل ہوگا تو اس سے مجرم کو کوئی بچانے والا نہیں ہوگا۔ قارئین کی سہولت کے لیے ہم جلد اول کی پوری پوری عبارت درج کرتے ہیں۔ جوسورۃ البقرۃ ١٧٣ میں ان چار چیزوں کے حرام ہونے کے بارے میں پیش کی گئی ہے۔ (١) مردار : ہرقسم کے مردار کھانے سے منع کیا گیا ہے سوائے دوچیزوں کے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے : (اُحِلَّتْ لَنَا مَیْتَتَانِ اَلْحُوْتُ وَالْجَرَادُ) [ رواہ ابن ماجہ : کتاب الصید، باب صید الحیتان والجراد] ” ہمارے لیے دو مردار حلال کیے گئے ہیں۔ مچھلی اور ٹڈی۔“ (٢) خون : نزول قرآن کے وقت وحشی قبائل نہ صرف مردار کھایا کرتے بلکہ وہ جانوروں کا خون بھی پی جایا کرتے تھے۔ جس طرح آج بھی افریقہ کے کئی وحشی قبائل جانوروں کا ہی نہیں بلکہ انسانوں کا بھی خون پینے سے گریز نہیں کرتے۔ جدید تحقیق کے مطابق خون میں کئی ایسے جراثیم ہوتے ہیں جن سے پیدا ہونے والی بیماریوں کا علاج ممکن نہیں ہوتا۔ تبھی تو اللہ تعالیٰ نے مردہ یا زندہ جانور کا خون پینے سے منع فرما دیا ہے البتہ کسی کی زندگی بچانے کے لیے خون کا طبی استعمال جائز ہے۔ (٣) خنزیر : خنزیر کا گوشت کھانا بھی حرام ہے۔ اس کے بارے میں جدید اور قدیم اطباء کا اتفاق ہے کہ اس کا گوشت کھانے سے انسان کے جسم میں نہ صرف مہلک بیماریاں پیدا ہوتی ہیں بلکہ آدمی میں بے حیائی اور بے شرمی کے جذبات ابھرتے ہیں۔ کیونکہ خنزیر جانوروں میں سب سے زیادہ بے غیرت جانور ہے۔ کوئی بھی جانور اپنی جنم دینے والی مادہ کے ساتھ اختلاط کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتا سوائے خنزیرکے۔ اس کی طبیعت میں اس کام میں کوئی جھجک نہیں پائی جاتی۔ (٤) غیر اللہ کے نام کا ذبیحہ : غیر اللہ کے نام پر ذبح کی ہوئی یا پکائی ہوئی چیز اس لیے حرام کی گئی کہ اس سے روح، غیرت اور ایمان کی موت واقع ہوتی ہے۔ ایک غیرت مند ایمان دار سے یہ کس طرح توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ ٹھہرائے گئے شریک کے نام پر چڑھائی گئی چیز کھانے یا استعمال کرنے پر آمادہ ہوجائے ؟ یہ نہ صرف غیرت ایمانی کے منافی ہے بلکہ فطرت بھی اس بات کو گوارا نہیں کرتی بشرطیکہ کسی کی فطرت ہی مسخ نہ ہوچکی ہو۔ فطرت سلیم کا ثبوت اس فرمان کے نازل ہونے سے پہلے مکہ میں پایا گیا ہے۔ (عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) أَ نَّہٗ لَقِیَ زَیْدَ بْنَ عَمْرِ و بْنِ نُفَیْلٍ بِأَسْفَلَ بَلْدَحٍ وَذَاکَ قَبْلَ أَنْ یُّنْزَلَ عَلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) الْوَحْیُ فَقُدِّمَتْ إِلَی النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سُفْرَۃٌ فَأَبٰی أَنْ یَّأْکُلَ مِنْھَا ثُمَّ قَالَ زَیْدٌ إِنِّیْ لَسْتُ آکُلُ مِمَّا تَذْبَحُوْنَ عََلٰی أَنْصَابِکُمْ وَلَا آکُلُ إِلَّا مِمَّا ذُکِرَ اسْمُ اللّٰہِ عَلَیْہِ ) [ رواہ البخاری : کتاب الذبائح والصید، باب ماذبح علی النصب والأصنام] ” وحی نازل ہونے سے پہلے بلدح کے نشیبی علاقے میں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ملاقات زید بن عمر وبن نفیل سے ہوئی۔ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے ایک دستر خوان لایا گیا جس پر غیر اللہ کے نام کی کوئی چیز تھی۔ آپ نے کھانے سے انکار کردیا۔ اسکے ساتھ ہی جناب زید نے کہا کہ میں بھی ان ذبیحوں کا گوشت نہیں کھاتا جو تم اپنے آستانوں پر ذبح کرتے ہو اور نہ ان جیسی کوئی اور چیز کھاتاہوں۔ سوائے اس چیز کے جس پر اللہ کا نام لیا گیا ہو۔“ مزارات اور بت خانوں پر ذبح کرنا حرام ہے : (عَنْ ثَابِتِ ابْنِ الضَّحَاکِ (رض) قَالَ نذَرَ رَجُلٌ عَلٰی عَھْدِ رَسُوْلِ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) أَنْ یَنْحَرَ إِبِلًا بِبُوَانَۃَ فَأَتَی النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَقَالَ إِنِّیْ نَذَرْتُ أَنْ أَنْحَرَ إِبِلًا بِبُوَانَۃَ فَقَال النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ھَلْ کَانَ فِیْھَا وَثَنٌ مِنْ أَوْثَانِ الْجَاھِلِیَّۃِ یُعْبَدُ قَالُوْا لَا قَالَ ھَلْ کَانَ فِیْھَا عِیْدٌ مِنْ أَعْیَادِھِمْ قَالُوْا لَا قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) أَوْفِ بِنَذْرِکَ فِإِنَّہٗ لَاوَفَاءَ لِنَذْرٍ فِیْ مَعْصِیَۃِ اللّٰہِ وَلَا فِیْمَا لَا یَمْلِکُ ابْنُ آدَمَ) [ رواہ أبوداؤد : کتاب الأیمان والنذور باب مایؤمربہ من وفاء النذر] ” ثابت بن ضحاک (رض) نے مجھے بیان کیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دور میں ایک آدمی نے بوانہ نامی جگہ پر اونٹ ذبح کرنے کی نذر مانی۔ اس نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آکر عرض کی میں نے نذر مانی ہے کہ میں بوانہ نامی جگہ پر اونٹ ذبح کروں گا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : کیا وہاں جاہلیت کے بتوں میں سے کوئی بت تھا جس کی عبادت کی جاتی تھی؟ صحابہ نے عرض کیا نہیں۔ آپ نے پھر پوچھا : کیا وہاں کوئی ان کا میلہ لگتا تھا؟ صحابہ نے نفی میں جواب دیا تو آپ نے فرمایا : اپنی نذر پوری کرو کیونکہ اللہ کی نافرمانی والی نذر پوری نہیں کرنا چاہیے اور نہ ہی وہ نذر پوری کرنالازم ہے جس کی انسان طاقت نہیں رکھتا۔“ اللہ تعالیٰ کا رحم وکرم تو دیکھیے کہ ان چار چیزوں سے سختی کے ساتھ منع کرنے کے باوجود ایسے شخص کے لیے ان کو کھانے کی اجازت دی جارہی ہے جسے زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھنے کا شدید خطرہ لاحق ہوگیا ہو۔ لیکن اس کے ساتھ یہ شرط رکھی کہ نہ وہ پہلے سے ان چیزوں کے کھانے کا عادی ہو اور نہ ہی حرام خوری کی طرف اس کا دل مائل ہو۔ عموماً یہ سمجھا جاتا ہے کہ جس جانور پر ذبح کرتے وقت اللہ کے سوا کسی دوسرے کا نام لیا جائے، صرف وہی حرام ہوتا ہے۔ یہ تصور بالکل غلط ہے، کیونکہ قرآن کے الفاظ میں نہ جانور کا ذکر ہے نہ ذبح کا بلکہ ” ما“ کا لفظ ہے جس میں عمومیت پائی جاتی ہے۔ لہٰذا اس کا معنی یہ ہوگا کہ جو چیز کسی فوت شدہ بزرگ‘ دیوی، دیوتا کا تقرب حاصل کرنے اور اس کے نام پر مشہور کردی جائے جیسے امام جعفر کے کو نڈے، بی بی پاک دامن کی صحنک، مزار کے لیے بکرا وغیرہ یہ سب چیزیں حرام ہیں۔ اگر کوئی چیز جو فی نفسہٖ حلال ہو اور اس پر ذبح کے وقت اللہ کا نام ہی کیوں نہ لیا جائے وہ حرام ہی رہے گی۔ کیونکہ غیر اللہ کے نام کی نیت رکھنے سے ہی وہ چیز حرام ہوجائے گی۔ اللہ کی عطا کردہ چیزوں کی قربانی یا نذر ونیاز صرف اللہ کے نام کی ہونا چاہیے اس میں کسی کو شریک نہ بنایا جائے۔ ہاں اگر کوئی شخص صدقہ وخیرات یا قربانی کرتا ہے اور اس سے اس کی نیت یہ ہو کہ اس کا ثواب میرے فوت شدہ والدین یا فلاں رشتہ دار یا فلاں بزرگ کو پہنچے تو اس میں کوئی حرج نہیں، یہ نیک عمل ہے اور سنت سے ثابت ہے۔ حرام جانور کی نشانی : (عَنْ أَبِی ثَعْلَبَۃَ (رض) أَنَّ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نَہٰی عَنْ أَکْلِ کُلِّ ذِی نَابٍ مِنَ السِّبَاعِ ) [ رواہ البخاری : کتاب الذبائح والصید، باب أکل کل ذی ناب من السباع] ” حضرت ابو ثعلبہ (رض) بیان کرتے ہیں بلاشبہ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہر کچلی والے جانور کے کھانے سے منع فرمایا ہے۔“ مسائل ١۔ قرآن مجید میں مردار، خون، خنزیر کا گوشت، غیر اللہ کے نام پر ذبح کیے ہوئے جانور کے ساتھ اور چیزیں بھی حرام ہیں۔ ٢۔ حرام چیزوں کا کھانا انتہائی مجبور شخص کے لیے جائز ہے۔ لیکن دوسرے کے لیے حرام ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ بخشنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔ ٤۔ یہودیوں کی بار بار نافرمانیوں کی وجہ سے ان پر گائے اور بکری کی چربی بھی حرام کردی گئی۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ کا ہر فرمان سچا ہے۔ ٦۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت بڑی بے کنار ہے۔ ٧۔ اللہ تعالیٰ کے عذاب کو ٹالنے والا کوئی نہیں۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ کی حرام کردہ چیزیں : ١۔ تم پر اللہ تعالیٰ نے حرام کردیا ہے مردار، خون اور خنزیر کا گوشت۔ (البقرۃ: ١٧٣) ٢۔ سودی کاروبار حرام اور لوگوں کا مال باطل طریقہ سے کھانا حرام ہے۔ (النساء : ١٦٠، البقرۃ: ٢٧٥) ٣۔ اللہ تعالیٰ نے ظاہر اور پوشیدہ برائی حرام کردی ہے۔ (الاعراف : ٣٣) ٤۔ کسی جان کا بغیر حق کے قتل کرنا حرام ہے۔ (الاسراء : ٣٣) ٥۔ یہود پر جانوروں کی چربی حرام کردی گئی۔ (الانعام : ١٤٦) رحمت خداوندی کی وسعتیں : ١۔ مصائب پر صبر کرنے والوں کے لیے اللہ کی رحمت و بخشش۔ (البقرۃ: ١٥٦) ٢۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لوگوں کے لیے نرم دل ہیں۔ (آل عمران : ١٥٩) ٣۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا رب غنی صاحب رحمت ہے۔ (الانعام : ١٣٣) ٤۔ قرآن مومنین کے لیے شفاء اور رحمت ہے۔ (الاسراء : ٨٢) ٥۔ اللہ کی رحمت نے ہر چیز کو گھیر لیا ہے۔ (الاعراف : ١٥٦) ٦۔ اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے اپنی رحمت میں داخل کرتا ہے۔ (الدھر : ٣١) ٧۔ لوگوں کو اللہ کی رحمت اور فضل پر خوش ہونا چاہیے۔ (یونس : ٥٨) ٨۔ اللہ تعالیٰ نے نیک لوگوں کو اپنی رحمت میں داخل کرلیا ہے۔ (الانبیاء : ٨٦) الانعام
146 الانعام
147 الانعام
148 فہم القرآن ربط کلام : مشرک اور اللہ کے نافرمان لوگوں کے خود ساختہ بہانے۔ مجرمانہ ذہنیت کے لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ وہ گناہ کو چھوڑنے کے بجائے اس کا جواز اور بہانہ تلاش کرتے ہیں۔ جس کے لیے یہ لوگ جھوٹے دلائل دینے کے ساتھ اپنے آباؤ اجداد کی رسومات کی دلیل کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ یہ عادت ہر دور کے مشرک اور نافرمانوں کی رہی ہے۔ اسی بنا پر فرمایا گیا ہے کہ حرام و حلال کے متعلق عقلی اور نقلی دلائل نہ رکھنے والے لوگ عنقریب یہ دلیل دیں گے کہ اگر واقعی اللہ تعالیٰ شرک اور حرام خوری کو ناپسند کرتا تو پھر ہم اور ہمارے آباؤ اجداد شرک کرنے اور کسی چیز کو حرام قرار دینے کی کس طرح جرأت کرسکتے تھے؟ اسی طرح ان سے پہلے لوگوں نے اللہ تعالیٰ کی آیات کو جھٹلایا یہاں تک کہ انھیں اللہ کے عذاب نے آلیا۔ قرآن مجید میں یہ بات کئی مقامات پر سمجھائی گئی ہے کہ کسی کو جبراً ہدایت کے راستے پر چلانا اللہ تعالیٰ کی حکمت کے منافی ہے۔ اس لیے یہاں ایسے لوگوں کو تفصیلی جواب دینے کے بجائے فقط اتنا ہی جواب دینا مناسب سمجھا گیا ہے کہ اسی طرح کے بہانے بنا کر تم سے پہلے لوگ اللہ تعالیٰ کی آیات کی تکذیب اور انبیاء کرام (علیہ السلام) کو جھٹلایا کرتے تھے، یہاں تک کہ انھیں اللہ کے عذاب نے آلیا۔ اگر تمھارے پاس علم کی بنیاد پر کوئی دلیل ہے تو اسے ہمارے سامنے پیش کرو۔ لیکن تمھاری حالت تو یہ ہے کہ تم محض اپنے خیالات کی پیروی کرتے ہوئے بے بنیاد باتیں بنا تے ہو۔ یہ کوئی ٹھوس دلیل پیش نہیں کرسکتے لہٰذا انھیں فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ کی دلیل تمھیں پہنچ چکی ہے جو عقل و فکر اور ہر اعتبار سے کا مل اور اکمل ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ جبراً چاہتاتو سب لوگوں کو ہدایت پر اکٹھا کرسکتا تھا لیکن ہدایت واضح کرنے کے بعد اس نے انسان کو فیصلہ کرنے کے لیے آزاد چھوڑ دیا ہے اس لیے کہ اللہ تعالیٰ جبراً ہدایت قبول کرنے پر کسی کو مجبور نہیں کرتا۔ اب پھر اتمام حجت کے لیے انہی سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ اگر تمھارے پاس علم کی کوئی سند نہیں تو تم ایسے گواہ پیش کرو۔ جو علمی اور فکری دلائل سے ثابت کریں کہ واقعی اللہ تعالیٰ نے تمھاری حرام کردہ چیزوں کو حرام کیا اور شرک کا کوئی جواز پیش کیا ہے۔ یہاں گواہوں سے مراد وہ لوگ ہیں جو حق اور سچ کی گواہی دینے والے ہوں۔ ظاہر ہے جس طرح ان کے پاس شرک اور حرام خوری کے لیے علمی اور شرعی دلائل نہیں اسی طرح ایسے گواہوں کا ملنا مشکل ہے جو تورات اور انجیل سے ان کی حرام خوری اور شرک کا ثبوت پیش کرسکیں۔ اسی بنا پر فرمایا کہ اگر علم و عقل سے عاری لوگ شہادت دینے کے لیے کھڑے ہوجائیں تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ان کے ساتھ ہرگز گواہی نہیں دینا چاہیے۔ اور ایسے لوگوں کے جذبات و خیالات کا ہرگز خیال نہیں کرنا چاہیے جو اللہ تعالیٰ کی آیات کی تکذیب، آخرت کا انکار اور اپنے خالق و مالک کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہراتے ہیں۔ شرک اور حرام خوری کا انجام : (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ (رض) قَالَ قَالَ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَنْ مَّاتَ یُشْرِکُ باللّٰہِ شَیْءًا دَخَلَ النَّارَ وَقُلْتُ أَنَا مَنْ مَّاتَ لَا یُشْرِکُ باللّٰہِ شَیْءًا دَخَلَ الْجَنَّۃَ) [ رواہ البخاری : کتاب الجنائز، باب ماجاء فی الجنائز] ” حضرت عبداللہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو کوئی اس حال میں مرا کہ اس نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کیا وہ جہنم میں جائے گا اور میں بھی یہ کہتا ہوں جس شخص نے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرایا اور وہ اسی حال میں فوت ہوا وہ جنت میں جائے گا۔“ مسائل ١۔ مشرک اور حرام خور، شرک اور حرام خوری کے لیے بہانے بناتے ہیں۔ ٢۔ آدمی کو قرآن و سنت کے علم کے مقابلہ میں اپنے خیالات کی پیروی نہیں کرنا چاہیے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ کسی کو جبراً ہدایت پر گامزن نہیں کرتا۔ ٤۔ جھوٹے گواہ کی تائید نہیں کرنی چاہیے۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ کی آیات کی تکذیب کرنا، آخرت کا انکار ہے اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرنا پرلے درجے کے گناہ ہیں۔ تفسیر بالقرآن گمراہ لوگوں کی پیروی سے اجتناب : ١۔ جو لوگ اللہ کی آیات کا انکار اور مذاق اڑاتے ہیں تم ان کے ساتھ مت بیٹھو۔ (النساء : ١٤٠) ٢۔ یہودی مسلمانوں کو اپنی طرح کافر بنا دینا چاہتے ہیں ان کو اپنا دوست نہ بناؤ۔ (النساء : ٨٩) ٣۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کفارکی خواہشات کے پیچھے مت چلیں۔ (البقرۃ: ١٤٥) ٤۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو کفار اور منافقین کی پیروی سے اجتناب کا حکم دیا ہے۔ (الاحزاب : ١) الانعام
149 الانعام
150 الانعام
151 فہم القرآن ربط کلام : مشرکین مکہ من گھڑت حلال و حرام کی فہرست کو اللہ تعالیٰ کے ذمہ لگاتے تھے جس کی تردید کرنے کے بعد اب وہ فہرست پیش کی جارہی ہے جس کو حقیقتاً اللہ تعالیٰ نے حرام قرار دیا ہے اس میں اعتقادی، اخلاقی، اور معاشی اصول بیان کیے گئے ہیں۔ شرک کے پیشواؤں اور یہودیوں کے رہنماؤں نے اپنی طرف سے حلال و حرام کے قواعد بنا کر لوگوں کو یہ تاثر دیا ہوا تھا۔ یہ چیزیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے حرام کی گئی ہیں۔ پہلی آیات میں ان کے جھوٹ کی قلعی کھول کر اس فہرست کو عقل و نقل کے خلاف ثابت کیا ہے پھر اس پر ان سے گواہی طلب کی گئی جب وہ ان چیزوں کی حرمت و حلت کے بارے میں گواہی دینے سے انکاری اور ان کے جواز کی دلیل دینے میں ناکام ہوئے تو آپ کو حکم ہوا کہ انھیں بلائیں اور ارشاد فرمائیں کہ وہ چیزیں حرام نہیں جنھیں تم حرام کہتے ہو بلکہ اللہ تعالیٰ نے یہ چیزیں میرے دین اور پہلی شریعتوں میں حرام قرار دی ہیں۔ ١۔ شرک : اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کی صفات میں غیروں کو شریک سمجھنا اور شرک کرنا ہے۔ شرک کے بارے میں قرآن مجید نے فرمایا ہے اس کی کوئی دلیل نہیں اتاری گئی۔ اس لیے اسے ظلم عظیم قرار دیا گیا جو شخص شرک کے حق میں دلیل دیتا ہے گویا کہ وہ خاکم بدہن، اللہ تعالیٰ کو جھوٹا قرار دے کر اس کی ذات اور صفات میں شریک ثابت کرنے کی گھٹیا ترین کوشش کرتا ہے۔ تمام انبیاء کرام (علیہ السلام) نے شرک کی تردید کے لیے اپنی زندگیاں صرف کردیں۔ لیکن اس کے باوجود مشرک اس کے جواز کی دلیلیں پیش کرتے ہیں۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے شدید ترین الفاظ میں اسے ظلم اور ناجائز ثابت کر کے ناقابل معافی جرم قرار دیا ہے۔ (عَنْ أَنَسٍ (رض) قَالَ سُءِلَ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عَنِ الْکَبَاءِرِ قَالَ الْإِشْرَاک باللّٰہِ وَعُقُوقُ الْوَالِدَیْنِ وَقَتْلُ النَّفْسِ وَشَہَادَۃُ الزُّورِ) [ رواہ البخاری : کتاب الشہادات، باب ماقیل فی شہادۃ الزور] ” حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں نبی مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے استفسار کیا گیا کہ گناہ کبیرہ کون سے ہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک ٹھہرانا، والدین کی نافرمانی کرنا، بے گناہ کو قتل کرنا اور جھوٹی گواہی دینا۔“ ٢۔ والدین کی نافرمانی : قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے اپنی توحید کا اثبات اور شرک کی نفی کرتے ہوئے والدین کے احترام و مقام اور ان کے ساتھ احسان کے ساتھ پیش آنے کا حکم دیا ہے۔ ہر مرتبہ والدین کی اطاعت کا حکم دے کر لفظ احسان استعمال فرمایا ہے۔ حدیث میں احسان کا لفظ اللہ تعالیٰ کی عبادت کے بارے میں استعمال ہوا ہے کہ عبادت گزار کے ذہن میں یہ تصور پیدا ہو جیسا کہ وہ اللہ تعالیٰ کو براہ راست دیکھ رہا ہے۔ اگر احسان کا یہ درجہ حاصل نہیں ہوتا تو کم ازکم یہ تو ضرور ہونا چاہیے کہ وہ یہ سمجھے کہ اللہ تعالیٰ اسے دیکھ رہا ہے۔ (مسلم : باب بیان الایمان والاسلام والاحسان) ” احسان“ کا دوسرا معنیٰ یہ ہے کہ کوئی نیکی نہ بھی کرے پھر بھی اس کے ساتھ اچھا سلوک کیا جائے۔ تمام شریعتوں میں اخلاق کے اس درجہ کو احسان سے تعبیر کیا گیا ہے۔ قرآن مجید میں والدین کے بارے میں یہ لفظ 5 مرتبہ استعمال ہوا ہے۔ جس کا حقیقی مفہوم یہ ہے کہ اولاد کو والدین کی کمزور یوں پر نظر رکھنے کے بجائے ان کے مرتبہ و مقام اور احسانات کو پیش نظر رکھنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے مقام و مرتبہ کے ساتھ والدین کے مقام کا اس لیے ذکر کیا ہے کہ والدین کو اللہ تعالیٰ نے اپنے بعد انسان کی تخلیق اور پرورش کا واحد ذریعہ قرار دیا ہے اور اسی تصور کو تازہ کرنے اور یاد رکھنے کے لیے یہ دعا کرنے کا حکم دیا۔ (عن عَبْدِ اللّٰہِ (رض) قَالَ سَأَلْتُ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) أَیُّ الْعَمَلِ أَحَبُّ إِلَی اللّٰہِ قَال الصَّلَاۃُ عَلٰی وَقْتِہَا قَالَ ثُمَّ أَیٌّ قَالَ بِرُّ الْوَالِدَیْنِ قَالَ ثُمَّ أَیٌّ قَالَ الْجِہَادُ فِی سَبِیل اللّٰہِ قَالَ حَدَّثَنِی بِہِنَّ وَلَوْ اسْتَزَدْتُہُ لَزَادَنِی) [ رواہ البخاری : کتاب الأدب، باب قول اللہ تعالیٰ ووصینا الانسان بوالدین احسانا] ” حضرت عبداللہ (رض) بیان کرتے ہیں میں نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے استفسار کیا کون سا عمل اللہ تعالیٰ کو زیادہ پسند ہے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا نماز کو اس کے وقت پر ادا کرنا۔ میں نے پوچھا پھر کون سا ہے؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا والدین کے ساتھ نیکی کرنا۔ میں نے پوچھا پھر کون سا عمل ہے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ کے راستے میں جہاد کرنا۔ حضرت عبداللہ (رض) فرماتے ہیں یہ باتیں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بتائیں اگر میں مزید پوچھتا تو آپ مجھے اور بھی بتاتے۔“ ٣۔ قتل اولاد : سورۃ الانعام کی آیت ١٣٧ کے تفسیر کرتے ہوئے عرض کیا گیا ہے کہ ہمیشہ سے دنیا میں قتل اولاد چار صورتوں میں سے کوئی ایک صورت رہی ہے۔ ١۔ رزق کی تنگی کی وجہ سے اولاد قتل کرنا۔ ٢۔ غیر اللہ کے نام پر بچوں کو قتل کرنا۔ ٣۔ رشتۂ داماد کی عار سے بچنے کے لیے بیٹیوں کو قتل کرنا۔ ٤۔ جنگ و جدال میں بچیوں کی گرفتاری کے خوف سے قتل کرنا۔ قتل اولاد کے جرم کے بارے میں سورۃ الانعام آیت ١٣٧ کی تشریح ملاحظہ فرمائیں۔ ” زمانۂ جاہلیت کا یہ فعل قبیح آج کل ضبط ولادت یا خاندانی منصوبہ بندی کے نام سے پوری دنیا میں زور و شور سے جاری ہے اللہ تعالیٰ اس سے محفوظ رکھے۔“ کھلی اور پوشیدہ بے حیائی سے اجتناب کا حکم : دین اسلام اپنے ماننے والے کو صرف بے حیائی کرنے سے ہی نہیں روکتا بلکہ دین ایسے ذرائع اور مقامات کے قریب جانے سے بھی منع کرتا ہے جس سے اس کی آنکھوں میں بے حیائی، دماغ میں بری سوچ اور اس کا وجود برائی کی طرف مائل ہوجائے۔ اس کے لیے سورۃ بنی اسرائیل آیت ٣٢ میں فرمایا کہ زنا کے قریب بھی نہ جاؤ۔ یہ بے حیائی کے ساتھ بدترین راستہ ہے۔ سورۃ الانعام، آیت ١٢٠ میں حکم دیا گیا کہ گناہ کھلا ہو یا پوشیدہ اسے چھوڑ دینا چاہیے۔ سورۃ النحل، آیت : ٩٠ میں کھلی بے حیائی، برے کام اور سرکشی سے منع کیا گیا ہے۔ یہاں بھی یہی حکم ہوا کہ بے حیائی کھلی ہو یا پوشیدہ اس کے قریب بھی نہ پھٹکنا۔ کیونکہ جو شخص بے حیائی کی طرف توجہ کرتا ہے اس کے بارے میں خطرہ ہے کہ وہ کسی وقت بھی اس میں ملوث ہوجائے گا۔ اسی خطرے کے پیش نظررسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے : (عن أبی ہُرَیْرَۃَ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) إِنَّ اللّٰہَ کَتَبَ عَلٰی ابْنِ آدَمَ حَظَّہٗ مِنَ الزِّنَا أَدْرَکَ ذٰلِکَ لَا مَحَالَۃَ فَزِنَا الْعَیْنِ النَّظَرُ وَزِنَا اللِّسَانِ الْمَنْطِقُ وَالنَّفْسُ تَمَنّٰی وَتَشْتَہِی وَالْفَرْجُ یُصَدِّقُ ذٰلِکَ کُلَّہٗ وَیُکَذِّبُہُ) [ رواہ البخاری : کتاب الاستئذان، باب زنا الجوارح دون الفرج] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے آدم کی اولاد پر اس کا حصہ زنا کا مقرر کردیا ہے وہ اس سے بچ نہیں سکتا وہ اس کو پالے گا آنکھوں کا زنا دیکھنا ہے اور زبان کا زنا فحش باتیں کرنا ہے۔ انسان کا نفس اس کی خواہش کرتا ہے اور شرمگاہ اس کی تصدیق یا تکذیب کرتی ہے۔“ (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَبَّاسٍ (رض) قَالَ کَانَ الْفَضْلُ بْنُ عَبَّاسٍ رَدِیفَ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَجَاءَ تْہُ امْرَأَۃٌ مِّنْ خَثْعَمٍ تَسْتَفْتِیہٖ فَجَعَلَ الْفَضْلُ یَنْظُرُ إِلَیْہَا وَتَنْظُرُ إِلَیْہِ فَجَعَلَ رَسُول اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَصْرِفُ وَجْہَ الْفَضْلِ إِلَی الشِّقِّ الْآخَر) [ رواہ ابوداؤد : کتاب المناسک، باب الرجل یحج عن غیرہ] ” حضرت عبداللہ بن عباس (رض) بیان کرتے ہیں فضل بن عباس (رض) نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پیچھے سواری پر سوار تھے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس ایک عورت خثعم قبیلہ کی آئی اور کوئی مسئلہ پوچھنے لگی۔ فضل بن عباس اس کی طرف دیکھنے لگے اور عورت اس کی طرف دیکھنے لگی رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فضل بن عباس (رض) کا چہرہ دوسری جانب پھیر دیا۔“ ٥۔ قتل نفس : سورۃ المائدۃ، آیت ٣١ اور ٣٢ میں دنیا میں انسانی قتل کے پہلے واقعہ پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے کہ ہم نے اسی وقت سے بنی اسرائیل پر یہ بات لاگو کردی تھی کہ جس نے کسی شخص کو ناجائز قتل کیا یا زمین میں دنگا فساد اور تخریب کاری کی تو گویا اس نے سب انسانوں کو تہہ تیغ کردیا ہے اور جس نے ایک شخص کی جان بچالی اس نے پوری انسانیت کا تحفظ کیا اسلام میں کسی کو قتل کرنے کی بنیادی طور پر چار صورتیں ہیں۔ ١۔ جو شخص دین اسلام قبول کرنے کے بعد مرتد ہوجائے اسے قتل کردیا جائے۔ ٢۔ قتل کے بدلے قتل۔ ٣۔ شادی شدہ زانی کو پتھر مار مار کر ختم کیا جائے۔ ٤۔ خلیفہ، برحق کے ہوتے ہوئے جو شخص اس کی خلافت میں دوسری خلافت قائم کرے یا بغاوت کرے اسے قتل کردیا جائے۔ قیامت کے دن حقوق اللہ کے بارے میں پہلا فیصلہ نماز کے بارے میں اور حقوق العباد کے بارے میں پہلا مقدمہ انسانی قتل کے بارے ہوگا۔ (عَنْ جَرِیرٍ (رض) أَنَّ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ لَہٗ فِی حَجَّۃِ الْوَدَاعِ اسْتَنْصِتْ النَّاسَ فَقَالَ لَا تَرْجِعُوا بَعْدِی کُفَّارًا یَضْرِبُ بَعْضُکُمْ رِقَابَ بَعْضٍ)[ رواہ البخاری : کتاب العلم، باب الانصات للعلماء ] ” حضرت جریر (رض) بیان کرتے ہیں بلاشبہ نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے حجۃ الوداع کے موقع پر فرمایا لوگوں کو خاموش کراؤ پھر فرمایا اے لوگو! میرے بعد تم کفر کی طرف نہ لوٹ جانا کہ تم باہم ایک دوسرے کو قتل کرنا شروع کردو۔“ اس آیت میں شرک سے منع کرنا، قتل اولاد سے روکنا، کھلی اور پوشیدہ برائی سے دور رہنا اور ناجائز قتل کرنے سے روکنے کے ساتھ والدین کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیا گیا ہے۔ جس کا مفہوم یہ ہے شرک سے پوری طرح بچ کر اللہ تعالیٰ کی توحید کا عقیدہ اپنایا جائے اور اولاد کو رزق کی تنگی کی بنا پر قتل کرنے کے بجائے اللہ تعالیٰ کی رزاقی پر بھروسہ کرتے ہوئے ان کی پرورش اور تربیت کی جائے۔ ہر قسم کی بے حیائی کے قریب جانے کے بجائے عفت و عصمت کی حفاظت کی جائے اور دوسرے کو ناحق قتل کرنے کے بجائے اس کے مال وجان، عزت وآبرو کی حفاظت کی جائے اور والدین کی نافرمانی کی بجائے ان کے ساتھ حسن سلوک برتا جائے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے دانشمندوں کے لیے وصیت ہے۔ مسائل ١۔ اللہ کے احکام کی خلاف ورزی کرنے والا درحقیقت حماقت کا ارتکاب کرتا ہے کیونکہ توحید کا عقیدہ انسان کو اس کے رب کے قریب کرنے، غیرت مند بنانے کے ساتھ اس کے شرف میں اضافہ کرتا ہے۔ ٢۔ والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرنے میں انسان کا اپنا فائدہ اور گھر میں محبت و الفت کا ماحول پیدا ہوتا ہے۔ والدین کی دعائیں ملتی ہے۔ ٣۔ انسان اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ رزق سے فائدہ اٹھائے اور ازدواجی زندگی سے لطف اندوز ہو مگر اس کے نتیجہ میں پیدا ہونے والی اولاد کو قتل کر دے عقلمندی کے بجائے پرلے درجے کی حماقت ہے۔ ٤۔ کسی کو ناجائزقتل کرنا انسان دشمنی اور درندگی ہے جس کی عقلمند شخص سے توقع نہیں کی جا سکتی۔ الانعام
152 فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ :۔ پہلی آیت میں ایک کام کو کرنے اور چار کاموں سے منع کیا گیا ہے۔ اب معاشرے کے نہایت ہی پسماندہ طبقے یتیموں کے مالی حقوق کے تحفظ کا حکم دیا ہے کہ یتیم کے مال کے قریب نہ جاؤ یہاں تک کہ وہ سن بلوغت کو پہنچ جائے۔ شریعت کے مطابق یتیم وہ ہوتا ہے جس کا بلوغت سے پہلے باپ فوت ہوجائے۔ نابالغ بچے میں کاروبار کرنے اور مال کے تحفظ کے سلسلے میں وہ شعور اور پختگی نہیں ہوتی جو جوان اور بالغ بچے میں ہوتی ہے۔ اس لیے حکم دیا کہ یتیم کے مال کے قریب بھی نہیں جانا۔ جس کا مفہوم یہ ہے کہ یتیم کے مال کو ناجائز طریقے سے کھانا سخت منع ہے۔ قرآن مجید کے دوسرے مقامات میں یتیم کی پرورش اس کے مال کا تحفظ کرنا اس کے سرپرست کی ذمہ داری قرار پائی ہے۔ یہاں یتیم کے سرپرست کو دو ہدایات دی گئی ہیں اگر اس کا کوئی اور کاروبار نہ ہو تو وہ نہایت عدل و انصاف کے ساتھ یتیم کے مال سے اپنے مناسب اخراجات پورے کرسکتا ہے جب یتیم عمر اور شعور کے اعتبار سے اپنے معاملات چلانے کا اہل ہوجائے تو اس کا مال گواہوں کی موجودگی میں اس کے حوالے کردینا چاہیے۔ یتیم کے مال کا تحفظ کرنے کے ساتھ سب لوگوں کے مال کو تحفظ دیا گیا ہے کہ ماپ تول میں کمی بیشی کرنے سے بچنا چاہیے کوئی چیز دیتے ہوئے طے شدہ اصول اور پیمانے سے کم نہیں ہونی چاہیے اور جب کسی سے کوئی چیز لی جائے تو پھر بھی عدل و انصاف کے پہلو کو سامنے رکھتے ہوئے طے شدہ اصول اور پیمانے سے زیادہ نہیں لینی چاہیے۔ اس کے ساتھ ہی یہ وضاحت فرمائی کہ کاروبار اور معاشرتی زندگی میں جو تمھیں اصول دیے جا رہے ہیں یہ کوئی ایسی پابندی اور بوجھ نہیں جس پر کوئی شخص عمل نہیں کرسکتا۔ شریعت کے تمام اصول اور قانون ایسے ہیں جو انسان کی طاقت و ہمت کے مطابق ہیں۔ آٹھویں نصیحت یہ کی جاتی ہے کہ جب بھی بات کرو تو وہ اخلاق کے مطابق اور منصفانہ ہونی چاہیے۔ بے شک حق گواہی کسی عزیز کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔ یہاں تک فرمایا کہ اگرچہ یہ تمھارے اپنے خلاف ہی کیوں نہ ہو تمھیں ہر حال میں سچ اور حق کہنا چاہیے۔ عدالت میں گواہی کے ساتھ اس میں مبلغ کی حق گوئی، جج کا انصاف اور ہر قسم کی گفتگو شامل ہے۔ یہاں نویں اور آخری نصیحت یہ کی جارہی ہے کہ ہر حال میں اپنے اللہ سے کیے ہوئے عہد کو پورا کیا کرو۔ اللہ تعالیٰ سے عہد کرنے کی تین صورتیں مفسرین نے بیان کی ہیں۔ ١۔ عہد سے مراد وہ ازلی عہد ہے جب اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کو پیدا فرمایا تو اس کی پشت پر اپنا دست مبارک رکھتے ہوئے ” کن“ کا حکم صادر فرمایا جس کا معنی ہے کہ ہوجا۔ قیامت تک کے لیے جتنے انسان پیدا ہونے ہیں وہ سب کے سب آدم (علیہ السلام) کے سامنے ہوئے۔ اللہ تعالیٰ نے تمام بنی نوع انسان سے یہ استفسار فرما کر عہد لیا کہ کیا میں تمھارا رب ہوں ؟ جس کا سب نے اقرار کیا تو ہی ہمارا رب ہے۔ اس کی تفصیل سورۃ آل عمران : ٨١ میں ملاحظہ فرمائیں۔ ٢۔ عہد سے مراد وہ عہد بھی ہے جو انسان کسی مشکل یا عام حالات میں اپنی زبان یا دل ہی دل میں اپنے رب کے ساتھ کرتا ہے وہ گناہوں سے توبہ کی شکل میں ہو یا اللہ تعالیٰ کی کسی نعمت کے بدلہ میں اس کا شکریہ ادا کرنے کی صورت میں۔ اس عہد کی پاسداری بھی آدمی پر لازم قرار دی گئی ہے۔ ٣۔ عہد کی تیسری شکل یہ ہے کہ جب فرد یا قوم کا ایک دوسرے سے عہد و پیماں ہو تو اس کی پاسداری کرنا فرض ہے۔ اس عہد کو پورا کرنا اللہ تعالیٰ کا حکم ہے۔ لہٰذا یہ بھی بالواسطہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ عہد کرنے کے مترادف ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے وصیتیں کی گئی ہیں جس کا تمھیں ہر صورت خیال رکھنا ہوگا۔ (عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ (رض) قَالَ مَا خَطَبَنَا نَبِیُّ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) إِلَّا قَالَ لَا إِیمَانَ لِمَنْ لَا أَمَانَۃَ لَہٗ وَلَا دینَ لِمَنْ لَا عَہْدَ لَہٗ)[ رواہ احمد] ” حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جب بھی ہمیں خطبہ دیا فرمایا جو بندہ امانت دار نہیں اس کا کوئی ایمان نہیں اور جو شخص وعدہ پورا نہیں کرتا اس کا کوئی دین نہیں۔“ (عَن ابْنِ عُمَرَ (رض) قَالَ سَمِعْتُ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَقُولُ لِکُلِّ غَادِرٍ لِوَاءٌ یُّنْصَبُ بِغَدْرَتِہٖ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ) [ رواہ البخاری : کتاب الجزیۃ، باب اثم الغادر للبر والفاجر] ” حضرت عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں میں نے نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہر بد عہد کے لیے ایک جھنڈا ہوگا جو اس کی بد عہدی کی وجہ سے قیامت کے دن نصب کیا جائے گا۔“ (عَنْ سَہْلٍ (رض) قَالَ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) أَنَا وَکَافِلُ الْیَتِیمِ فِی الْجَنَّۃِ ہَکَذَا وَأَشَار بالسَّبَّابَۃِ وَالْوُسْطٰی، وَفَرَّجَ بَیْنَہُمَا شَیْءًا )[ رواہ البخاری : باب فضل من یعول یتیما] ” حضرت سہل (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میں اور یتیم کی کفالت کرنے والا جنت میں اس طرح ہوں گے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سبابہ اور درمیانی انگلی سے اشارہ فرمایا اور ان کے درمیان تھوڑا سا فاصلہ رکھا۔“ مسائل ١۔ کسی کمزور کے ساتھ ظلم نہیں کرنا چاہے۔ ٢۔ کاروبار انصاف سے کرنا چاہیے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ کسی پر بھی اس کی وسعت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتے۔ ٤۔ عدل و انصاف کرنا چاہیے خواہ قرابت داری ہی کیوں نہ ہو۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ کے عہد کو وفا کرنا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن یتیم کے ساتھ حسن سلوک کرنا چاہیے : ١۔ یتیم کے مال کے قریب نہ جائیں مگر احسن طریقہ کے ساتھ۔ (الانعام : ١٥٢) ٢۔ یتیم کا مال کھانے والا اپنے پیٹ میں جہنم کی آگ بھر رہا ہے۔ (النساء : ١٠) ٣۔ کسی یتیم پر ظلم زیادتی نہیں کرنی چاہیے۔ (الضحیٰ: ٦) ٤۔ یتیموں کو انکے مال لوٹادو۔ (النساء : ٢) ٥۔ والدین، یتیموں، اور مسکینوں کے ساتھ حسن سلوک کرنا چاہیے۔ (النساء : ٣٦) الانعام
153 فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ کی وصیتوں کا خلاصہ اور نتیجہ صراط مستقیم ہے۔ اے لوگو! بس صراط مستقیم پر چلو۔ نو نصیحتیں کرنے کے بعد فرمایا یہی سیدھا راستہ ہے کیونکہ نصائح کے آغاز میں لفظ ” قل“ سے حکم دیا گیا تھا کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ ان لوگوں کو یہ نصائح پڑھ کر سنائیں اب ان کے اختتام پر فرمایا ہے کہ آپ یہ اعلان فرمائیں کہ یہی میرا صراط مستقیم ہے لہٰذا تم سب کے سب اسی کی اتباع کرو دوسرے راستوں اور طریقوں کی پیروی نہ کرو۔ اگر تم اس راستہ کے سوا دوسرے راستوں پر چلو گے تو سیدھے راستے سے ہٹ جاؤ گے اس لیے تمھیں وصیت کی جاتی ہے کہ تم اسی راستہ پر چلنا تاکہ تم گناہ اور گمراہی کے راستوں سے بچ جاؤ۔ (عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ (رض) قَالَ کُنَّا عِنْدَ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَخَطَّ خَطًّا وَخَطَّ خَطَّیْنِ عَنْ یَّمِینِہٖ وَخَطَّ خَطَّیْنِ عَنْ یَّسَارِہٖ ثُمَّ وَضَعَ یَدَہٗ فِی الْخَطِّ الْأَوْسَطِ فَقَالَ ہَذَا سَبِیل اللّٰہِ ثُمَّ تَلَا ہٰذِہِ الْآیَۃَ (وَأَنَّ ہٰذَا صِرَاطِی مُسْتَقِیمًا فَاتَّبِعُوہُ وَلَا تَتَّبِعُوْا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِکُمْ عَنْ سَبِیْلِہٖ)) [ رواہ ابن ماجۃ: باب اتباع سنۃ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ] ” حضرت جا بر بن عبداللہ (رض) بیان کرتے ہیں ہم نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس تھے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک سیدھا خط کھینچا پھر اس کے دائیں اور بائیں مختلف خطوط کھینچے پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنا دست مبارک درمیان والے سیدھے خط پر رکھتے ہوئے فرمایا یہ اللہ تعالیٰ کا راستہ ہے، پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ آیت مبارکہ تلاوت فرمائی :” اور یہ میرا سیدھا راستہ ہے اس کی پیروی کرو اس کے سوا دوسری راہوں پر نہ چلو دوسری راہیں تمہیں صراط مستقیم سے جدا کردیں گی۔“ الانعام
154 فہم القرآن ربط کلام : صراط مستقیم کے نو سنگ میلوں کی نشاندہی کرنے کے بعد اشارہ دیا ہے کہ یہ نصیحتیں تورات میں بھی موجود ہیں۔ یہاں لفظ ” ثُمَّ“ لا کر یہ واضح کیا گیا ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) جس کتاب کی دعوت اور جس راستے کی طرف بلاتے تھے اس کے بنیادی اصول بھی یہی تھے تورات میں اللہ تعالیٰ نے مذکورہ بالا احکام کی تفصیلات نازل فرمائی تھیں۔ تاکہ اس شخص کے لیے ہدایت اور رحمت کے دروازے کھل جائیں جو اپنے رب کی ملاقات پر ایمان رکھتا ہے۔ اور یہی صفات اس کتاب یعنی قرآن مجید میں ہیں جو ہدایت کا سرچشمہ اور اللہ تعالیٰ کی رحمت کا پیش خیمہ ہے جس میں انسان کی ہدایت کے لیے مکمل اور جامع رہنمائی کی گئی ہے تاکہ وہ اپنے رب کی ملاقات پر یقین رکھتے ہوئے کتاب مبین کی ہدایت کے مطابق زندگی گزارے جس کی سب کو دعوت دی جاتی ہے تاکہ لوگ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے بچ کر اس کی شفقت و رحمت کے مستحق قرار پائیں۔ قرآن مجید سے ہدایت پانے اور اللہ تعالیٰ کی رحمت کے حق دار ہونے کے لیے قیامت کے دن حساب و کتاب کا خوف دلانے کی بجائے رب کی ملاقات کی یاد دلائی گئی ہے مومن کے لیے اللہ تعالیٰ کی ملاقات دنیا اور آخرت کی تمام نعمتوں سے اعلیٰ اور محبوب ترین نعمت ہے۔ (عَنْ جَرِیرٍ (رض) قَالَ کُنَّا جُلُوسًا عِنْدَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِذْ نَظَرَ إِلَی الْقَمَرِ لَیْلَۃَ الْبَدْرِ قَالَ إِنَّکُمْ سَتَرَوْنَ رَبَّکُمْ کَمَا تَرَوْنَ ہَذَا الْقَمَرَ لَا تُضَامُونَ فِی رُؤْیَتِہٖ فَإِنْ اسْتَطَعْتُمْ أَنْ لاَّ تُغْلَبُوا عَلٰی صَلَاۃٍ قَبْلَ طُلُوع الشَّمْسِ وَصَلَاۃٍ قَبْلَ غُرُوب الشَّمْسِ فَافْعَلُوا) [ رواہ البخاری : کتاب التوحید، باب قول اللہ تعالیٰ وجوہ یومئذ ناضرۃ] ” حضرت جریر (رض) بیان کرتے ہیں ہم نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس بیٹھے ہوئے تھے اچانک نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے چودھویں رات کے چاند کو دیکھا اور فرمایا عنقریب تم اپنے رب کو ایسے ہی دیکھو گے جس طرح اس چاند کو دیکھ رہے ہو تمھیں چاند دیکھنے میں کوئی دقت پیش نہیں آرہی ؟ اگر تم استطاعت رکھتے ہو کہ تمسست نہ ہوجاؤ فجر اور عصر کی نماز کا خیال رکھو۔“ مسائل ١۔ تورات اپنے دور میں مکمل ہدایت تھی لیکن اب قرآن مجید ہدایت کا مل کا ذریعہ اور سرچشمہ ہے۔ ٢۔ قرآن مجید اللہ تعالیٰ کی رحمت، برکت اور ہدایت کا سبب ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ سے ملاقات کا عقیدہ انسان کو اپنے رب کی ہدایت پر گامزن رکھتا ہے۔ تفسیر بالقرآن قرآن مجید کے اوصاف کی ایک جھلک : ١۔ قرآن مجید لاریب کتاب ہے۔ (البقرۃ: ١) ٢۔ قرآن مجید لوگوں کے لیے ہدایت اور نصیحت ہے۔ (آل عمران : ١٣٨) ٣۔ قرآن مجید اللہ تعالیٰ کی طرف سے واضح کتاب ہے۔ (ھود : ١) ٤۔ قرآن مجید کے نزول کا مقصد لوگوں کو اندھیروں سے نکال کر روشنی کی طرف لانا ہے۔ (ابراہیم : ١) ٥۔ قرآن مجید لوگوں کے لیے ہدایت ہے۔ (البقرۃ: ١٨٥) ٦۔ قرآن مجید برہان اور نور مبین ہے۔ (النساء : ١٧٤) الانعام
155 فہم القرآن ربط کلام : اہل کتاب کے بعد اہل مکہ کو خطاب۔ سابقہ آیات میں اہل کتاب سے خطاب تھا اور اب اہل مکہ کے حوالے سے پوری دنیا کو مخاطب کیا گیا ہے تاکہ اہل مکہ اور باقی لوگوں کے لیے یہ بہانہ نہ رہے کہ یہود و نصاریٰ کی ہدایت کے لیے تو کتاب نازل کی گئی تھی۔ ہمیں کتاب سے کیوں محروم رکھا گیا۔ یہاں ان دو گروہوں کے لیے تورات اور انجیل کا الگ الگ ذکر کرنے کے بجائے ” الکتاب“ فرما کر صرف ایک کتاب یعنی تورات کا ذکر کیا گیا ہے یہ اس لیے کہ انجیل تورات ہی کے احکام کا تتمہ اور تفصیل ہے۔ اس بنا پر عیسائیوں، یہودیوں کے لیے ” الکتاب“ لا یا گیا ہے۔ پھر اہل مکہ اور قیامت تک پیدا ہونے والے انسانوں کو مخاطب کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید جیسی مفصل اور مبارک کتاب اس لیے نازل فرمائی ہے کہ تمھیں یہ بات کہنے کا جواز نہ مل سکے کہ ہمارے پاس براہ راست کوئی کتاب نہیں آئی۔ جس سے ہم ہدایت حاصل کرتے۔ قرآن مجید اس لیے نازل کیا گیا ہے کہ تمھیں یہ کہنے کا موقع نہ مل پائے کہ اگر ہم پر اللہ کی کتاب نازل ہوتی تو ہم یہود و نصاریٰ کی طرح گمراہ ہونے کے بجائے ہدایت یافتہ ثابت ہوتے۔ اس بہانے کو رفع کرنے اور اتمام حجت کے لیے تمھارے پروردگار کی طرف سے واضح کتاب پہنچ چکی ہے۔ جو سراسر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہدایت کا سر چشمہ اور اس کی رحمت کا ذریعہ ہے جو شخص اس کتاب کی ہدایت، دلائل اور بینات کو جھٹلاتا اور ان سے منہ پھیرتا ہے اس سے بڑھ کر کوئی ظالم نہیں ہو سکتا۔ ایسا شخص گمراہی میں پڑ کر اپنے آپ پرہی ظلم نہیں کرتا بلکہ وہ اپنی نسل اور لوگوں کے لیے ہدایت کے راستے میں رکاوٹ بنتا ہے۔ جو لوگ اللہ تعالیٰ کی آیات کو جھٹلائیں، ان سے انحراف کریں اور ہدایت کے راستہ میں رکاوٹ بنیں ا نھیں بد ترین عذاب ہوگا۔ اللہ تعالیٰ کی آیات کو جھٹلانے سے مراد زبان سے ان کی تکذیب کرنا یا جان بوجھ کر ان سے اعراض کرنا ہے۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید اس لیے نازل کیا تاکہ لوگوں کو اپنی گمراہی کا بہانہ نہ رہے۔ ٢۔ قرآن مجید مفصل، جامع اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہدایت اور رحمت کا پیغام ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ کی آیات کی تکذیب کرنا یا اس سے انحراف کرنے والا ظالم انسان ہے۔ تفسیر بالقرآن ظالم لوگ : ١۔ اللہ پر جھوٹ بولنے والا بڑا ظالم ہے۔ (الانعام : ١٤٤) ٢۔ اللہ تعالیٰ پر جھوٹ بولنے والا اور اس کی آیات کو جھٹلانے والا بڑا ظالم ہے۔ (الانعام : ٢١) ٣۔ جو اللہ کی آیات سن کر اعراض کرتا ہے وہ ظالم ہے۔ (الکہف : ٥٧) ٤۔ اللہ پر جھوٹ بولنے والا اور سچائی کو جھٹلانے والا ظالم ہے۔ (العنکبوت : ٦٨) ٥۔ اسلام کی دعوت پہنچ جانے کے باوجودجو اللہ پر جھوٹ باندھے وہ ظالم ہے۔ (الصف : ٧) ٦۔ گواہی کو چھپانے والا بڑا ظالم ہے۔ (البقرۃ: ١٤٠) ٧۔ مسجدوں سے روکنے والا بڑا ظالم ہے۔ (البقرۃ: ١١٤) الانعام
156 الانعام
157 فہم القرآن ربط کلام : اہل کتاب کے بعد اہل مکہ کو خطاب۔ سابقہ آیات میں اہل کتاب سے خطاب تھا اور اب اہل مکہ کے حوالے سے پوری دنیا کو مخاطب کیا گیا ہے تاکہ اہل مکہ اور باقی لوگوں کے لیے یہ بہانہ نہ رہے کہ یہود و نصاریٰ کی ہدایت کے لیے تو کتاب نازل کی گئی تھی۔ ہمیں کتاب سے کیوں محروم رکھا گیا۔ یہاں ان دو گروہوں کے لیے تورات اور انجیل کا الگ الگ ذکر کرنے کے بجائے ” الکتاب“ فرما کر صرف ایک کتاب یعنی تورات کا ذکر کیا گیا ہے یہ اس لیے کہ انجیل تورات ہی کے احکام کا تتمہ اور تفصیل ہے۔ اس بنا پر عیسائیوں، یہودیوں کے لیے ” الکتاب“ لا یا گیا ہے۔ پھر اہل مکہ اور قیامت تک پیدا ہونے والے انسانوں کو مخاطب کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید جیسی مفصل اور مبارک کتاب اس لیے نازل فرمائی ہے کہ تمھیں یہ بات کہنے کا جواز نہ مل سکے کہ ہمارے پاس براہ راست کوئی کتاب نہیں آئی۔ جس سے ہم ہدایت حاصل کرتے۔ قرآن مجید اس لیے نازل کیا گیا ہے کہ تمھیں یہ کہنے کا موقع نہ مل پائے کہ اگر ہم پر اللہ کی کتاب نازل ہوتی تو ہم یہود و نصاریٰ کی طرح گمراہ ہونے کے بجائے ہدایت یافتہ ثابت ہوتے۔ اس بہانے کو رفع کرنے اور اتمام حجت کے لیے تمھارے پروردگار کی طرف سے واضح کتاب پہنچ چکی ہے۔ جو سراسر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہدایت کا سر چشمہ اور اس کی رحمت کا ذریعہ ہے جو شخص اس کتاب کی ہدایت، دلائل اور بینات کو جھٹلاتا اور ان سے منہ پھیرتا ہے اس سے بڑھ کر کوئی ظالم نہیں ہو سکتا۔ ایسا شخص گمراہی میں پڑ کر اپنے آپ پرہی ظلم نہیں کرتا بلکہ وہ اپنی نسل اور لوگوں کے لیے ہدایت کے راستے میں رکاوٹ بنتا ہے۔ جو لوگ اللہ تعالیٰ کی آیات کو جھٹلائیں، ان سے انحراف کریں اور ہدایت کے راستہ میں رکاوٹ بنیں ا نھیں بد ترین عذاب ہوگا۔ اللہ تعالیٰ کی آیات کو جھٹلانے سے مراد زبان سے ان کی تکذیب کرنا یا جان بوجھ کر ان سے اعراض کرنا ہے۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید اس لیے نازل کیا تاکہ لوگوں کو اپنی گمراہی کا بہانہ نہ رہے۔ ٢۔ قرآن مجید مفصل، جامع اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہدایت اور رحمت کا پیغام ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ کی آیات کی تکذیب کرنا یا اس سے انحراف کرنے والا ظالم انسان ہے۔ تفسیر بالقرآن ظالم لوگ : ١۔ اللہ پر جھوٹ بولنے والا بڑا ظالم ہے۔ (الانعام : ١٤٤) ٢۔ اللہ تعالیٰ پر جھوٹ بولنے والا اور اس کی آیات کو جھٹلانے والا بڑا ظالم ہے۔ (الانعام : ٢١) ٣۔ جو اللہ کی آیات سن کر اعراض کرتا ہے وہ ظالم ہے۔ (الکہف : ٥٧) ٤۔ اللہ پر جھوٹ بولنے والا اور سچائی کو جھٹلانے والا ظالم ہے۔ (العنکبوت : ٦٨) ٥۔ اسلام کی دعوت پہنچ جانے کے باوجودجو اللہ پر جھوٹ باندھے وہ ظالم ہے۔ (الصف : ٧) ٦۔ گواہی کو چھپانے والا بڑا ظالم ہے۔ (البقرۃ: ١٤٠) ٧۔ مسجدوں سے روکنے والا بڑا ظالم ہے۔ (البقرۃ: ١١٤) الانعام
158 فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ جو لگ اللہ تعالیٰ کی آیات کی تکذیب یا ان سے انحراف کرتے ہیں ان کی حالت یہ ہے کہ وہ اس بات کے منتظر ہیں کہ اب ان کے پاس اللہ تعالیٰ کے ملائکہ آئیں جو ان کو اپنے زور سے کتاب اللہ کو ماننے پر مجبور کریں یا پھر اللہ کی طرف سے ایسی نشانی یا عذاب نازل ہو کہ یہ مجبور ہو کر پکار اٹھیں کہ واقعی یہ رسول سچا اور اس پر نازل ہونے والی کتاب برحق ہے۔ یاد رہے اہل مکہ برملا یہ اظہار کیا کرتے تھے۔ اس نبی کی تائید کے لیے اللہ تعالیٰ اپنے فرشتے نازل کیوں نہیں کرتا یا اب تک ایسا عذاب نازل کیوں نہیں ہوا کہ جس کو دیکھ کر ہم قرآن مجید کی تائید اور نبی کی تصدیق کرنے پر مجبور ہوجائیں۔ اس صورتحال پر تبصرہ کیا جا رہا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملائکہ یا کوئی فیصلہ کن نشانی آئے گی تو جو پہلے ایمان نہیں لایا۔ اس کے ایمان لانے کا اس وقت اسے کچھ فائدہ نہیں ہوگا۔ اور وہ شخص بھی نہیں بچ پائے گا جس نے ایمان لانے کے باوجود نیک کام نہیں کیے۔ اس کی مثالیں پہلی اقوام کے حوالے سے بے شمار ہیں کہ جب ان پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے فیصلہ کن عذاب آیا تو وہ چیخ چیخ کر اپنے ایمان کی دہائی دے رہے تھے لیکن ان کا ایمان ان کے لیے فائدہ مند ثابت نہ ہوا۔ لہٰذا اے نبی انھیں فرمائیں اگر تم اس گھڑی کے انتظار میں ہو تو مزید انتظار کرو میں بھی تمھارے انجام کا انتظار کرتا ہوں۔ ( عَنْ حُذَیْفَۃَ بْنِ أَسِیدٍ الْغِفَارِیِّ (رض) قَالَ کُنَّا قُعُودًا نَتَحَدَّثُ فِی ظِلِّ غُرْفَۃٍ لِرَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَذَکَرْنَا السَّاعَۃَ فَارْتَفَعَتْ أَصْوَاتُنَا فَقَالَ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لَنْ تَکُونَ أَوْ لَنْ تَقُوم السَّاعَۃُ حَتّٰی یَکُونَ قَبْلَہَا عَشْرُ آیَاتٍ طُلُوع الشَّمْسِ مِنْ مَغْرِبِہَا وَخُرُوج الدَّابَّۃِ وَخُرُوجُ یَأْجُوجَ وَمَأْجُوجَ وَالدَّجَّالُ وَعِیسَی ابْنُ مَرْیَمَ وَالدُّخَانُ وَثَلَاثَۃُ خُسُوفٍ خَسْفٌ بالْمَغْرِبِ وَخَسْفٌ بالْمَشْرِقِ وَخَسْفٌ بِجَزِیرَۃِ الْعَرَبِ وَآخِرُ ذٰلِکَ تَخْرُجُ نَارٌ مِنَ الْیَمَنِ مِنْ قَعْرِ عَدَنٍ تَسُوق النَّاسَ إِلَی الْمَحْشَرِ) [ رواہ ابوداؤد، کتاب الملاحم، باب أمارات الساعۃ] ” حضرت حذیفہ بن اسید غفاری (رض) بیان کرتے ہیں ہم نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حجرہ مبارک کے سائے میں بیٹھے باتیں کر رہے تھے دوران گفتگو ہم نے قیامت کا ذکر کیا اس کے ساتھ ہی ہماری آوازیں بھی بلند ہوگئیں۔ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی جب تک اس سے پہلے دس نشانیاں پوری نہ ہوجائیں۔ سورج کا مغرب سے طلوع ہونا، دابہ جانور کا نکلنا، یاجوج و ماجوج کا ظاہر ہونا، دجال کا ظاہر ہونا، عیسیٰ ابن مریم ( علیہ السلام) کا نزول، دھواں کا ظاہرہونا اور زمین کا تین مرتبہ دھنسنا ایک مرتبہ مغرب میں، ایک مرتبہ مشرق میں اور ایک مرتبہ جزیرۃ العرب میں اور آخری آگ یمن کے علاقہ سے عدن کی طرف رونما ہوگی جو کہ لوگوں کو محشر کے میدان میں اکٹھا کرے گی۔“ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَنْ تَابَ قَبْلَ أَنْ تَطْلُعَ الشَّمْسُ مِنْ مَغْرِبِہَا تَاب اللّٰہُ عَلَیْہِ) [ رواہ مسلم : کتاب الذکر والدعاء والتوبۃ، باب استحباب الاستغفار] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو بندہ بھی سورج کے مغرب سے طلوع ہونے سے قبل توبہ کرے گا اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول فرمائیں گے۔“ (عَن ابْنِ عُمَرَ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ إِنَّ اللّٰہَ یَقْبَلُ تَوْبَۃَ الْعَبْدِ مَا لَمْ یُغَرْغِرْ)[ رواہ الترمذی : کتاب الدعوات، باب فی فضل التوبۃ] ” حضرت عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں نبی مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بلاشبہ اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی توبہ اس کی جان ہنسلی میں اٹکنے سے قبل تک قبول کرتا ہے۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بے شمار نشانیاں نازل ہوئی ہیں اور ہوتی رہتی ہیں مگر ظالم لوگ پھر بھی ان کے نزول کا مطالبہ کرتے ہیں۔ الانعام
159 فہم القرآن ربط کلام : انسان کی گمراہی کے اسباب میں ایک کا سبب دین میں اختلاف کرنا ہے۔ باہمی اختلاف کی صورت میں لوگ ٹھوس دلائل کے باوجود انکار کی روش پر قائم رہتے ہیں۔ سورۃ آل عمران میں فرمایا گیا ہے کہ اللہ کے نزدیک دین اسلام ہی دین حق ہے۔ جس کے بنیادی اصول ہمیشہ سے ایک رہے ہیں۔ وہ توحید و رسالت کے بارے میں ہوں یا حلال و حرام اور اخلاق و معاملات کے متعلق۔ لہٰذا جو دین کے بارے میں اختلاف کرتے ہیں اور اس کو لوگوں کی نظروں میں مختلف فیہ بناتے ہیں۔ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ کا ایسے لوگوں کے ساتھ کوئی تعلق نہیں اور نہ ہی آپ کے ماننے والوں کا ایسے لوگوں کے ساتھ تعلق ہونا چاہیے۔ ان کا معاملہ اللہ کے حوالے ہے وہ ان کو بتاۓ گا جو وہ کیا کرتے تھے۔ دین میں تفرقہ بازی کا ذکر کرتے ہوئے رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ یہودی اپنے دین میں اختلاف کرنے کی وجہ سے اکہتر فرقے ہوئے، عیسائی اختلاف کی بنا پر بہتر گروہوں میں تقسیم ہوگئے اور میری امت ایک قدم آگے بڑھتی ہوئی تہتر فرقوں میں تقسیم ہوجائے گی۔ (رواہ الترمذی : باب ماجاء فی افتراق ہذہ الامۃ) اختلاف اخلاق و اعمال اور باہمی محبت کے لیے نہایت ہی نقصان دہ ہوتا ہے لیکن اگر یہ اختلاف نیکی اور دین کے نام پر ہو تو اس کے نتائج بڑے ہولناک اور گمراہ کن ثابت ہوتے ہیں۔ دین انسانوں میں وحدت اور اکائی پیدا کرنے کے لیے آیا ہے اگر اسی کو ہی اختلاف کی بنیاد بنا لیا جائے تو قیامت تک لوگ اکٹھے نہیں ہو سکتے۔ یہی وجہ ہے نہ صرف یہود و نصاریٰ الگ الگ امت کی بنیاد پر آپس میں دست و گریباں رہتے ہیں بلکہ ان کے اپنے اپنے گروہ ایک دوسرے کو کافر گمراہ اور جہنمی قرار دیتے ہیں اس صورتحال سے بچنے کے لیے قرآن مجید نے اللہ تعالیٰ کو بلا شرکت غیرے الٰہ ماننے اور نبی آخر الزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بہترین اسوہ قرار دیتے ہوئے آپ کی اتباع کا حکم دیا ہے۔ تاکہ توحید اور نبی کو ماننے والے متحد و متفق رہیں۔ یہودی تحقیق کے نام پر دین میں غلو کرکے گمراہ ہوئے اور عیسائی حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور ان کی والدہ کی عقیدت میں حد سے بڑھے اور صراط مستقیم سے ہٹ گئے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے غلو سے بچنے کے لیے مسائل کی کھال اتارنے اور دین میں قیل و قال سے منع فرمایا اور عقیدت و محبت میں آکر کسی شخصیت کو اس کے مرتبہ و مقام سے بڑھانے سے روکا ہے۔ یہ وہ بنیادی اسباب ہیں جن کی وجہ سے دین دار لوگ گمراہ ہوا کرتے ہیں۔ (عَنْ الْعِرْبَاضِ بْنِ سَارِیَۃَ (رض) قَالَ وَعَظَنَا رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَوْمًا بَعْدَ صَلَاۃِ الْغَدَاۃِ مَوْعِظَۃً بَلِیغَۃً ذَرَفَتْ مِنْہَا الْعُیُونُ وَوَجِلَتْ مِنْہَا الْقُلُوبُ فَقَالَ رَجُلٌ إِنَّ ہٰذِہٖ مَوْعِظَۃُ مُوَدِّعٍ فَمَاذَا تَعْہَدُ إِلَیْنَا یَا رَسُول اللّٰہِ قَالَ أُوصِیکُمْ بِتَقْوَی اللّٰہِ وَالسَّمْعِ وَالطَّاعَۃِ وَإِنْ عَبْدٌ حَبَشِیٌّ فَإِنَّہُ مَنْ یَعِشْ مِنْکُمْ یَرٰی اخْتِلَافًا کَثِیرًا وَإِیَّاکُمْ وَمُحْدَثَاتِ الْأُمُورِ فَإِنَّہَا ضَلَالَۃٌ فَمَنْ أَدْرَکَ ذٰلِکَ مِنْکُمْ فَعَلَیْہِ بِسُنَّتِی وَسُنَّۃِ الْخُلَفَاء الرَّاشِدِینَ الْمَہْدِیِّینَ عَضُّوا عَلَیْہَا بالنَّوَاجِذِ)[ رواہ الترمذی : کتاب العلم، باب ماجاء فی الأخذ بالسنۃ] ” حضرت عرباض بن ساریہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں نماز فجر کے بعد بلیغ وعظ کیا۔ اس سے ہمارے دل کانپ اٹھے اور آنکھوں سے آنسو بہہ پڑے۔ ایک شخص نے عرض کی یہ تو الوداعی وعظ و نصیحت لگتی ہے اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ ہم سے کیا وعدہ لینا چاہیں گے؟ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میں تمھیں اللہ تعالیٰ سے ڈرنے کی نصیحت کرتا ہوں اور اس کے ساتھ سمع اور اطاعت کی بھی۔ اگرچہ تم پر ایک حبشی غلام ہی ذمہ دار بنا دیا جائے۔ جو کوئی تم میں سے زندہ رہا میرے بعد وہ بہت زیادہ اختلاف دیکھے گا۔ تم دین میں نئے نئے کاموں سے بچو۔ بلاشبہ وہ گمراہی ہے جو کوئی تم میں سے ایسی صورت حال پائے تو وہ میرے اور میرے ہدایت یافتہ خلفاء کے طریقے کو لازم پکڑے اور اسے دانتوں سے مضبوطی کے ساتھ تھامے رکھے۔“ (عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ (رض) قَالَ سَمِعْتُ رَجُلًا قَرَأَ آیَۃً وَسَمِعْتُ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَقْرَأُ خِلَافَہَا فَجِءْتُ بِہِ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَأَخْبَرْتُہٗ فَعَرَفْتُ فِی وَجْہِہِ الْکَرَاہِیَۃَ وَقَالَ کِلَاکُمَا مُحْسِنٌ وَّلَا تَخْتَلِفُوا فَإِنَّ مَنْ کَانَ قَبْلَکُمُ اخْتَلَفُوا فَہَلَکُوا) [ رواہ البخاری : کتاب أحادیث الأنبیاء، باب حدیث الغار] ” حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں میں نے ایک آدمی کو قرآن کی تلاوت کرتے ہوئے سنا جب کہ میں نے نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو وہی آیت تلاوت کرتے سنا تھا۔ آپ اس سے مختلف انداز سے تلاوت کر رہے تھے۔ میں اس شخص کو لے کر نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ کو اس کی تلاوت کے بارے میں بتلایا۔ میں نے آپ کے چہرے پر کراہت کے آثار دیکھے آپ نے فرمایا دونوں طریقے ٹھیک ہیں اور تم اس طرح اختلاف نہ کیا کرو بلاشبہ جو لوگ تم سے پہلے تھے انھوں نے اختلاف کیا اور وہ ہلاک ہوگئے۔“ ( عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عَمْرٍو (رض) قَالَ قَالَ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لَیَأْتِیَنَّ عَلٰی أُمَّتِی مَا أَتَی عَلٰی بَنِی إِسْرَاءِیلَ حَذْوَ النَّعْلِ بالنَّعْلِ حَتّٰی إِنْ کَانَ مِنْہُمْ مَنْ أَتٰی أُمَّہُ عَلَانِیَۃً لَکَانَ فِی أُمَّتِی مَنْ یَصْنَعُ ذَلِکَ وَإِنَّ بَنِی إِسْرَاءِیلَ تَفَرَّقَتْ عَلَی ثِنْتَیْنِ وَسَبْعِینَ مِلَّۃً وَتَفْتَرِقُ أُمَّتِی عَلٰی ثَلَاثٍ وَسَبْعِینَ مِلَّۃً کُلُّہُمْ فِی النَّارِ إِلَّا مِلَّۃً وَاحِدَۃً قَالُوا وَمَنْ ہِیَ یَا رَسُول اللَّہِ قَالَ مَا أَنَا عَلَیْہِ وَأَصْحَابِی)[ رواہ الترمذی : باب ماجاء فی افتراق ہذہ الامۃ] ” حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) بیان کرتے ہیں رسول مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میری امت میں ایسا وقت ضرور آئے گا کہ وہ بنی اسرائیل کے ساتھ بالکل اس طرح مل جائے گی جس طرح جو تا ایک دوسرے کے ساتھ ملتا ہے۔ یہاں تک کہ اگر ان میں سے کسی نے اپنی ماں سے علانیہ زنا کیا ہوگا تو میری امت میں بھی ایسا ضرور ہوگا۔ بنی اسرائیل بہتر فرقوں میں تقسیم ہوئی جبکہ میری امت تہتر فرقوں میں بٹ جائے گی۔ ایک گروہ کے علاوہ سارے کے سارے جہنم میں جائیں گئے۔ صحابہ نے استفسار کیا اے رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! وہ کون سا گروہ ہے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو میرے اور میرے صحابہ کرام (رض) کے طریقے پر عمل کرنے والا ہوگا۔ مسائل ١۔ فرقہ واریت گمراہی کی طرف لے جاتی ہے۔ ٢۔ جو لوگ تفرقہ بازی کرتے ہیں ان کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے۔ ٣۔ فرقہ واریت کو ہوا دینے والوں کو ضرور سزا دی جائے گی۔ تفسیر بالقرآن دین میں تفریق کی ممانعت : ١۔ دین پر قائم رہو جدا جدا نہ ہوجاؤ۔ (الشوریٰ: ١٣) ٢۔ کئی راستوں کی اتباع نہ کرنا وہ تمھیں سیدھے راستہ سے گمراہ کردیں گے۔ (آل عمران : ١٥٣) ٣۔ تم ان لوگوں کی طرح نہ ہوجانا جو جدا جدا ہوگئے اور انہوں نے باہم اختلاف کیا۔ (آل عمران : ١٠٥) ٤۔ اللہ کے دین کو مضبوطی سے پکڑ لو اور تفرقہ میں نہ پڑو۔ (آل عمران : ١٠٣) ٥۔ دین میں تفرقہ ڈالنے والوں کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے۔ (الانعام : ١٥٩) ٦۔ مشرکین سے نہ ہوجاؤ جنھوں نے اپنے دین کو جدا جدا کردیا اور کئی فرقے بن گئے۔ (الروم : ٣٢) الانعام
160 فہم القرآن ربط کلام : اس سے پہلی آیت کے آخری الفاظ ” بما کانو یفعلون“ ہیں۔ یہاں اعمال کی تشریح اور ان کی حیثیت بیان فرمائی کہ اگر لوگ نیکی کریں گے تو اس کا کم ازکم دس گنا اجر پائیں گے اگر برائی کریں گے تو صرف اس کے برابر سزادی جائے گی۔ پارہ تیس کی سورۃ الزلزال میں فرمایا کہ انسان نے ذرہ بھر بھی نیکی کی تو قیامت کے دن اسے اپنی آنکھوں کے سامنے پائے گا۔ اگر اس نے ذرہ برابر برائی کی تو اسے بھی دیکھ لے گا۔ یہاں نیکی یا بدی کے اجر کے بارے میں وضاحت فرمائی کہ ہر حسنہ کا اجر اس کے دس گنا ہوگا۔ تاہم برائی کی سزا دوگنی یا دس گناہ نہیں بلکہ اسی کے برابر ہوگی۔ لیکن قرآن مجید کی دوسری آیات سے ثابت ہوتا ہے کہ بعض لوگوں کو دوگنا عذاب ہوگا۔ اس کا مفہوم یہ ہے کہ جو لوگ خود گمراہ ہوئے اور دوسروں کی گمراہی کا سبب بنے ان کو دوگناعذاب ہوگا۔ کیونکہ ان کا گناہ ایک کا دوگنا ہوگا۔ لہٰذا ہر کسی کو اس کے گناہ کے بدلے سزا ہوگی۔ البتہ احادیث کی روشنی سے ثابت ہوتا ہے کہ اخلاص اور آدمی کے حالات کے مطابق کی گئی نیکی کے بدلے اللہ تعالیٰ ایک نیکی کا بدلہ دس گنا ہی نہیں بلکہ سات سو گنا سے بھی زیادہ دیں گے جس کی مفسرین نے اس طرح تشریح فرمائی ہے کہ کروڑ پتی آدمی کسی کو کھانا کھلاتا ہے تو اس کے لیے یہ کوئی بھاری اور بڑا کام نہیں اور اگر فاقہ کش آدمی کسی بھوکے کو کھانا کھلاتا ہے تو اس کی یہ نیکی بڑا مقام رکھتی ہے۔ کیونکہ خود بھوکا رہ کر دوسرے کا پیٹ بھرتا ہے۔ لہٰذا ایسی صورت میں دونوں کی نیکی کے اجر میں فرق ہوگا۔ بعض لوگوں نے کہا کہ اسباب نہیں اخلاص کی بنا پر فرق ہوگا۔ جتنا نیکی کرنے والے میں اخلاص اور للٰھیت ہوگی۔ اتنا ہی اس کا اجر بڑھتا جائے گا اس کے مقابلہ میں برائی کی سزا برائی کے برابر ہوگی اور کسی پر ذرہ برابر زیادتی نہ ہوگی۔ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَنْ تَصَدَّقَ بِعَدْلِ تَمْرَۃٍ مِنْ کَسْبٍ طَیِّبٍ وَلَا یَقْبَلُ اللّٰہُ إِلَّا الطَّیِّبَ وَإِنَّ اللّٰہَ یَتَقَبَّلُہَا بِیَمِینِہٖ ثُمَّ یُرَبِّیہَا لِصَاحِبِہٖ کَمَا یُرَبِّی أَحَدُکُمْ فَلُوَّہُ حَتّٰی تَکُونَ مِثْلَ الْجَبَلِ) [ رواہ البخاری : کتاب الزکاۃ، باب الصدقۃ من کسب طیب] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو کوئی اپنی پاکیزہ کمائی سے ایک کھجور کے برابر صدقہ کرے گا۔ اللہ تعالیٰ صرف پاک کمائی ہی قبول کرتا ہے اور بلاشبہ اللہ تعالیٰ اسے اپنے دائیں ہاتھ سے قبول فرماتے ہوئے پھر اسے بڑھائے گا اپنے بندے کے لیے جس طرح تم میں سے کوئی شخص اپنے بچھڑے کی پرورش کرتا ہے اللہ تعالیٰ نیکی کو پہاڑ کی مانند بنادے گا۔“ (عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فِیمَا یَرْوِی عَنْ رَبِّہٖ عَزَّ وَجَلَّ قَالَ قَالَ إِنَّ اللّٰہَ کَتَبَ الْحَسَنَاتِ وَالسَّیِّءَاتِ ثُمَّ بَیَّنَ ذٰلِکَ فَمَنْ ہَمَّ بِحَسَنَۃٍ فَلَمْ یَعْمَلْہَا کَتَبَہَا اللّٰہُ لَہٗ عِنْدَہٗ حَسَنَۃً کَامِلَۃً فَإِنْ ہُوَ ہَمَّ بِہَا فَعَمِلَہَا کَتَبَہَا اللّٰہُ لَہٗ عِنْدَہٗ عَشْرَ حَسَنَاتٍ إِلَی سَبْعِ ماءَۃِ ضِعْفٍ إِلَی أَضْعَافٍ کَثِیرَۃٍ وَّمَنْ ہَمَّ بِسَیِّءَۃٍ فَلَمْ یَعْمَلْہَا کَتَبَہَا اللّٰہُ لَہٗ عِنْدَہٗ حَسَنَۃً کَامِلَۃً فَإِنْ ہُوَ ہَمَّ بِہَا فَعَمِلَہَا کَتَبَہَا اللّٰہُ لَہٗ سَیِّءَۃً وَّاحِدَۃً) [ رواہ البخاری : کتاب الرقاق، باب من ہم بحسنۃ اوسیءۃ] ” حضرت عبداللہ بن عباس (رض) نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان نقل کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے نیکیاں اور برائیاں لکھ دی ہیں پھر ان کو واضح کردیا ہے جو کوئی نیکی کرنے کا ارادہ کرے مگر عمل نہ کرسکے اللہ تعالیٰ اپنے ہاں اس کی مکمل نیکی لکھ لیتا ہے اگر وہ ارادے کے ساتھ عمل بھی کرے تو اللہ تعالیٰ اسے دس نیکیوں سے لے کر سات سو گنا سے بڑھا دیتا ہے۔ جو کوئی برائی کا ارادہ کرے مگر اس پر عمل نہ کرے تو اللہ تعالیٰ اسے مکمل نیکی لکھ دیتے ہیں اور اگر وہ ارادے کے ساتھ عمل بھی کرے تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے ایک ہی برائی لکھتا ہے۔“ (عَنْ أَبِی عُبَیْدَۃَ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ عَنْ أَبِیہٖ قَالَ قَالَ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) التَّاءِبُ مِنْ الذَّنْبِ کَمَنْ لاَّ ذَنْبَ لَہٗ) [ رواہ ابن ماجۃ، کتاب الزہد، باب ذکر التوبۃ] ” حضرت ابو عبیدہ بن عبداللہ اپنے والد سے بیان کرتے ہیں کہ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا گناہوں سے توبہ کرنے والا اسی طرح ہے جیسے اس نے گناہ کیا ہی نہ ہو۔“ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ (رض) أَنَّ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ یَقُول اللّٰہُ إِذَا أَرَادَ عَبْدِی أَنْ یَّعْمَلَ سَیِّءَۃً فَلَا تَکْتُبُوہَا عَلَیْہِ حَتّٰی یَعْمَلَہَا فَإِنْ عَمِلَہَا فَاکْتُبُوْہَا بِمِثْلِہَا وَإِنْ تَرَکَہَا مِنْ أَجْلِی فَاکْتُبُوہَا لَہٗ حَسَنَۃً وَإِذَا أَرَادَ أَنْ یَعْمَلَ حَسَنَۃً فَلَمْ یَعْمَلْہَا فَاکْتُبُوہَا لَہٗ حَسَنَۃً فَإِنْ عَمِلَہَا فَاکْتُبُوہَا لَہٗ بِعَشْرِ أَمْثَالِہَا إِلٰی سَبْعِ ماءَۃِ ضِعْفٍ) [ رواہ البخاری : کتاب التوحید، باب قول اللہ تعالیٰ یریدون أن یبدلوا کلام اللہ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں کہ انھوں نے فرمایا اللہ تعالیٰ کا اعلان ہے جب میرا بندہ برائی کا ارادہ کرے۔ تم اس کو نہ لکھو یہاں تک کہ وہ اس پر عمل کرے اگر وہ عمل کرتا ہے تو اسے صرف اتنا ہی لکھو اور اگر اسے میری وجہ سے چھوڑتا ہے تو اس کے لیے ایک نیکی لکھ دو۔ اور جب وہ کسی نیکی کا ارادہ کرے اور اس پر عمل نہ بھی کرے تو اس کے لیے ایک نیکی لکھ دو۔ اگر اسے عملی جامہ پہنائے تو اسے دس گنا سے لے کر سات سو گنا تک بڑھا دو۔“ (فَمَنْ یَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ خَیْرًا یَرَہُ وَمَنْ یَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ شَرًّا یَرَہُ )[ الزلزال : ٧۔ ٨] جس نے ذرہ بھر نیکی کی ہوگی وہ اسے دیکھ لے گا اور جس نے ذرہ بھر برائی کی ہوگی وہ (بھی) اسے دیکھ لے گا۔ مسائل ١۔ ایک نیکی کا بدلہ کم ازکم دس گنا ہوگا۔ ٢۔ برائی کی سزا صرف اس کے برابر ہوگی۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ کسی پر ظلم نہیں کرتا۔ تفسیر بالقرآن نیکی کی جزا، برائی کی سزا : ١۔ جس نے ذرہ برابر نیکی کی ہوگی وہ اس کو دیکھ لے گا۔ جس نے ذرہ برابر برائی کی ہوگی وہ بھی اس کو دیکھ لے گا۔ (الزلزال : ٧ تا ٨) ٢۔ برائیوں میں مرنے والے کے لیے جہنم ہے۔ (البقرۃ: ٧١) ٣۔ جو ایک نیکی کرے گا اس کو دس نیکیوں کا بدلہ ملے گا جو برائی کرے گا اس کی سزا صرف اتنی ہی ہوگی۔ (الانعام : ١٦٠) ٤۔ برائی کا بدلہ اس کی مثل ہی ہوگا۔ (القصص : ٨٤) ٥۔ جس نے سرکشی کی اور دنیا کی زندگی کو ترجیح دی اس کا بدلہ جہنم ہے۔ (النازعات : ٣٧) ٦۔ صبر کرنے والوں کے لیے جنت کی جزا ہے۔ (الدھر : ١٢) ٧۔ اللہ تعالیٰ صدقہ کرنے والوں کو جزا دیتا ہے۔ (یوسف : ٨٨) ٩۔ نافرمانوں کو ہمیشہ کے عذاب کی سزادی جائے گی۔ (یونس : ٥٢) ١٠۔ تکبر کرنے والوں کو ذلت آمیز سزا دی جائے گی۔ (احقاف : ٢٠) ١١۔ شیطان اور اس کے پیروکاروں کو جہنم کی سزا دی جائے گی۔ (بنی اسرائیل : ٦٣) الانعام
161 فہم القرآن ربط کلام : دین اسلام میں کوئی اختلاف نہیں اور نہ ہی یہ دین اس قسم کے اختلافات کو پسند کرتا ہے۔ لہٰذا پیغمبر آخر الزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم ہوا کہ آپ ملت ابراہیم کے متبع رہیں۔ سرور دو عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا تفرقہ بازی کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ آپ تو دین قیم اور سیدھی راہ کے راہی اور داعی تھے۔ لہٰذا آپ کی زبان اطہر سے اعلان کروایا گیا کہ اے محبوب برحق! آپ وضاحت فرمائیں کہ میرا ادھر ادھر کے راستوں اور متضاد نظریات رکھنے والوں کے ساتھ کوئی تعلق نہیں میں اپنے رب کی بتلائی ہوئی راہ پر اس کی توفیق سے گامزن ہوں۔ یہی دین ہمیشہ سے قائم دائم ہے۔ اور اسی پر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا مل یکسوئی کے ساتھ قائم رہے۔ ان کا مشرکین کے ساتھ کوئی تعلق نہ تھا۔ وہ شرک سے بیزار اور توحید خالص کے پرستار تھے۔ وہ نماز قائم کرنے اور دین حق کی خاطر ہر قسم کی قربانی دینے والے تھے۔ ان کی موت و حیات کا مقصد ہی توحید کا پرچار اور اپنے رب کی فرمانبرداری تھا۔ یہی میرا نصب العین اور میری زندگی کا مشن ہے۔ اس لیے میری نماز، قربانی اور زندگی کا ہر لمحہ یہاں تک کہ میری موت بھی رب العالمین کے حکم پر ہوگی۔ اس کا کوئی شریک نہیں۔ مجھے یہی حکم ہے کہ میں عقیدۂ توحید پر قائم رہ کر اس کے دین کی دعوت دیتے ہوئے سب سے پہلے اپنے رب کی فرمانبرداری کا مظاہرہ کروں گویا کہ جس دعوت کا میں داعی ہوں اس پر سب سے پہلے میں ہی عمل کرنے والا ہوں، اسی بات کا نتیجہ ہے۔ میدان کار زار ہو یا صدقہ و قربانی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے صحابہ (رض) میں سب سے آگے دکھائی دیتے ہیں۔ یہاں تک کہ مسجد نبوی کی تعمیر کا معاملہ پیش آیا تو اپنے جسم اطہر پر پتھراٹھائے ہوئے تھے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو امت کے لیے اسوۂ حسنہ بنایا تھا اور آپ اول المسلمین ہیں۔ اور یہی دینی قیادت کا وطیرہ ہونا چاہیے کہ وہ عوام الناس کے لیے نمونہ ثابت ہوں۔ اس سے لوگوں کے دلوں میں اخلاص اور جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ ہی صراط مستقیم کی طرف ہدایت دیتا ہے۔ ٢۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) یکسو اور پکے مسلمان تھے۔ ٣۔ انسان کی زندگی و موت کا مقصد صرف اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری ہونی چاہیے۔ ٤۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے حکم پر سب سے زیادہ عمل کرنے والے اور امت کے لیے نمونہ تھے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ کا کوئی شریک نہیں : ١۔ تمام تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں جس کی کوئی اولاد نہیں اور نہ ہی اس کی بادشاہی میں کوئی شریک ہے۔ (الاسراء : ١١١) ٢۔ اللہ تعالیٰ کی اولاد نہیں اور نہ ہی اس کی بادشاہی میں کوئی شریک ہے۔ (الفرقان : ٢) ٣۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا دو الٰہ نہ بناؤ الٰہ ایک ہی ہے (النحل : ٥١) ٤۔ کیا اللہ کے سوا کوئی الٰہ ہے؟ اللہ تعالیٰ شراکت داری سے پاک ہے۔ (الطور : ٤٣) ٥۔ کیا تم انہیں اللہ کے شریک قرار دیتے ہوجنہوں نے کچھ پیدا نہیں کیا اور وہ خود پیدا کیے گئے ہیں۔ (الاعراف : ١٩١) ٦۔ کہہ دیجیے الٰہ ایک ہی ہے اور میں تمہارے شرک سے بری ہوں۔ (الانعام : ١٩) ٧۔ اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ۔ (النساء : ٣٦) الانعام
162 الانعام
163 الانعام
164 فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ : کفار نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جدوجہد سے تنگ آکر بالآخر یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ کچھ آپ نرم ہوجائیں اور کچھ ہم بدل جاتے ہیں۔ اس کے لیے ان کی آخری تجویز یہ تھی کہ ہم آپ کے الٰہ کی عبادت آپ کے طریقہ کے مطابق کریں گے اور آپ ہمارے بتوں کی تعظیم بھی کریں۔ اس کے جواب میں آپ سے کہلوایا گیا ہے کہ آپ صاف صاف فرما دیں کیا میں ذات کبریا کو چھوڑ کر ایسا رب تلاش کروں جو تمھارے ہاتھوں کے تراشے ہوئے ہیں جبکہ جس رب کی میں عبادت کرتا، اور دعوت دیتا ہوں وہ ہر چیز کا سچا اور حقیقی رب ہے۔ جن باطل معبودوں پر تم بھروسہ کرتے ہو جن کو تم اپناداتاو دستگیر اور مشکل کشا سمجھتے ہو وہ نہ کسی کی مدد کرسکتے ہیں اور نہ کسی کا بوجھ اٹھا سکتے ہیں۔ بلکہ کوئی آدمی کسی دوسرے آدمی کا بوجھ نہیں اٹھاۓ گا۔ ہر نفس اپنا بوجھ خود اٹھائے گا اور اسے اپنے کیے کا خمیازہ بھگتنا ہے اور سب نے مالک حقیقی کے حضور پیش ہونا ہے۔ وہی لوگوں کے اختلافات کے درمیان فیصلہ کرے گا۔ نہ اس کے سامنے کوئی دم مار سکے گا اور نہ ہی اس کے فیصلہ سے انحراف کی کسی کو جرأت ہوگی۔ یہی وہ عقیدہ ہے جو انسان کو اس کے اعمال کا ذمہ دار بناتا اور اس میں جوابدہی کا تصور پیدا کرتا ہے۔ (عن أَبَی ہُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَامَ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حِینَ أَنْزَلَ اللّٰہُ (وَأَنْذِرْ عَشِیرَتَکَ الْأَقْرَبِینَ) قَالَ یَامَعْشَرَ قُرَیْشٍ أَوْ کَلِمَۃً نَحْوَہَا اشْتَرُوا أَنْفُسَکُمْ لَا أُغْنِی عَنْکُمْ مِنَ اللّٰہِ شَیْءًا یَا بَنِی عَبْدِ مَنَافٍ لَا أُغْنِی عَنْکُمْ مِنَ اللّٰہِ شَیْءًا یَا عَبَّاسُ بْنَ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ لَا أُغْنِی عَنْکَ مِنَ اللّٰہِ شَیْءًا وَیَا صَفِیَّۃُ عَمَّۃَ رَسُول اللّٰہِ لَا أُغْنِی عَنْکِ مِنَ اللّٰہِ شَیْءًا وَیَا فَاطِمَۃُ بِنْتَ مُحَمَّدٍ سَلِینِی مَا شِءْتِ مِنْ مَّالِی لَا أُغْنِی عَنْکِ مِنَ اللّٰہِ شَیْءًا) [ رواہ البخاری : کتاب التفسیر، باب وانذر عشیرتک الاقربین] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کھڑے ہوئے جب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت مبارکہ نازل فرمائی : ” اور اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈرائیے“ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اے قریش کے لوگو ! تم اپنی ذمہ داری خود اٹھاؤ میں اللہ کے ہاں تمھارے کچھ بھی کام نہیں آؤں گا۔ اے بنو عبد مناف میں اللہ کے ہاں تمھارے کچھ بھی کام نہیں آؤں گا۔ اور اے صفیہ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پھوپھی میں اللہ کے ہاں تمھارے کچھ بھی کام نہیں آؤں گا۔ اور اے فاطمہ بنت محمد میرے مال سے جو چاہتی ہے مجھ سے سوال کرلے میں اللہ کے ہاں تمھارے کچھ کام نہیں آسکوں گا۔“ (عَنْ عَدِیِّ بْنِ حَاتِمٍ (رض) قَالَ قَال النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَا مِنْکُمْ مِنْ أَحَدٍ إِلَّا وَسَیُکَلِّمُہُ اللّٰہُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ لَیْسَ بَیْنَ اللّٰہِ وَبَیْنَہٗ تُرْجُمَانٌ ثُمَّ یَنْظُرُ فَلَا یَرٰی شَیْءًا قُدَّامَہُ ثُمَّ یَنْظُرُ بَیْنَ یَدَیْہِ فَتَسْتَقْبِلُہُ النَّارُ فَمَنْ اسْتَطَاعَ مِنْکُمْ أَنْ یَتَّقِیَ النَّارَ وَلَوْ بِشِقِّ تَمْرَۃٍٍ۔۔ فَمَنْ لَّمْ یَجِدْ فَبِکَلِمَۃٍ طَیِّبَۃٍ) [ رواہ البخاری : کتاب التوحید، باب کلام الرب عزوجل یوم القیامۃ مع الأنبیاء وغیرھم] ” حضرت عدی بن حاتم (رض) بیان کرتے ہیں نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تم میں سے ہر کسی کے ساتھ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کلام کریں گے، اللہ اور اس شخص کے درمیان کوئی ترجمان نہیں ہوگا، پھر وہ دیکھے گا اس نے کیا عمل کیے ہیں، وہ آدمی دیکھے گا تو سامنے آگ ہوگی جو بھی تم میں سے استطاعت رکھتا ہے آگ سے بچنے کی کوشش کرے چاہے کھجور کے ایک ٹکڑے کے ساتھ۔۔ جو یہ بھی نہ پائے تو وہ اچھی بات کہے۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ تمام جہانوں کا رب ہے۔ ٢۔ آخرت میں ہر بندہ صرف اپنا ہی بوجھ اٹھاۓ گا۔ ٣۔ ہر کسی کو اللہ رب العالمین کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔ الانعام
165 فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ نے کائنات کا نظام ایسے منضبط اور مربوط طریقہ سے بنایا ہے کہ اس میں کبھی خلل اور خلا پیدا نہیں ہوا۔ رات، دن ایک دوسرے کی جگہ لیتے ہیں روشنی اور اندھیرا ایک دوسرے کے پیچھے لگے ہوئے ہیں۔ ایک نسل دوسری نسل کی خلیفہ بنتی ہے۔ ایسے ہی انسانوں کی ایک کھیپ دوسری کھیپ کی جگہ سنبھالتی ہے۔ بیٹا باپ کی اور باپ اپنے باپ کی ذمہ داریاں سنبھالتا ہے۔ آج کا بچہ کل کو باپ بنتا ہے پھر اس کے فوت ہونے کے بعد اس کی اولاد اس کی جائیداد اور معاملات کی وارث بن جاتی ہے۔ اسی طرح ملکوں کی حکمرانی کا معاملہ ہے۔ کل کا حکمران آج نہیں اور آج کے حکمران کی مسند پر ایک مدت کے بعد کوئی اور بیٹھ جائے گا۔ خلافت کے اس نظام میں ایک فرد سے لے کر کسی بڑے سے بڑے، جابرحکمران اور نیک کو مفر نہیں سب کے سب خلافت کی زنجیر میں بندھے ہوئے ایک دوسرے کے پیچھے آنے پر مجبور ہیں۔ کوئی نہیں جو وسائل اور لشکر و سپاہ کی مدد سے یا اپنی نیکی اور ولایت کے بل بوتے پر اپنی جگہ پر ہمیشہ قبضہ جماۓ رکھے۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کے مقبول ترین بندے انبیاء کرام (علیہ السلام) بھی اسی نظام کے تحت ایک دوسرے کے وارث بنے۔ اس نظام کو بنانے اور چلانے والا۔ اللہ اپنے بارے میں فرماتا ہے کہ وہی تو ہے جو تمھیں ایک دوسرے کے پیچھے لاتا یعنی خلیفہ بناتا ہے۔ ( سورۃ یونس : آیت۔ ١٤) میں فرمایا کہ تمھیں ایک دوسرے کا خلیفہ اس لیے بناتا ہے کہ تاکہ تمھیں آزمائے کہ تم اپنے اپنے دائرہ کار میں رہ کر اپنی اپنی باری میں اپنے رب کی کتنی تابعداری اور کیا کردار ادا کرتے ہو۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس ذمہ داری کے بارے میں یوں فرمایا کرتے تھے۔ دین کے بارے میں پرکھنے، دنیا کا نظام چلانے اور ایک کو دوسرے کے ساتھ آزمانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو مختلف صلاحیتیں اور وسائل دے کر درجہ بدرجہ مراتب پر فائز فرمایا ہے۔ داعی کو رعایا کے ساتھ، امیر کو غریب کے ساتھ باپ کو اولاد اور اولاد کو والدین کے حقوق کے بارے میں، آجر کو اجیر اور چھوٹے بڑے کو ایک دوسرے کے حقوق و فرائض کے ساتھ آزمانے کا انتظام کر رکھا ہے۔ تاکہ دیکھے کہ کون کیا عمل کرتا ہے ؟ جو لوگ برے عمل کرتے ہیں۔ انھیں وارننگ دی کہ یاد رکھو دنیا کی مہلت نہایت مختصر ہے۔ اللہ تعالیٰ بہت جلد تمھارا حساب لینے والا ہے۔ جو لوگ نیک اعمال کی کوشش کرتے رہے لیکن پھر بھی ان سے بتقاضائے بشریت غلطیاں ہوگئیں۔ اللہ تعالیٰ دنیا میں بیماری، تکلیف اور استغفارکے ذریعے گناہ معاف کرتا ہے بالآخر اللہ تعالیٰ جلد حساب لینے اور نہایت ہی رحم فرمانے والا ہے۔ (عَن ابْنِ عُمَرَ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ کُلُّکُمْ رَاعٍ وَکُلُّکُمْ مَسْءُولٌ عَنْ رَّعِیَّتِہٖ وَالْأَمِیرُ رَاعٍ وَالرَّجُلُ رَاعٍ عَلٰی أَہْلِ بَیْتِہٖ وَالْمَرْأَۃُ رَاعِیَۃٌ عَلٰی بَیْتِ زَوْجِہَا وَوَلَدِہٖ فَکُلُّکُمْ رَاعٍ وَکُلُّکُمْ مَسْءُولٌ عَنْ رَعِیَّتِہٖ) [ رواہ البخاری : کتاب النکاح، باب المرأۃ راعیۃ فی بیت زوجہا] ” حضرت عبداللہ بن عمر (رض) نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان نقل کرتے ہیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تم میں سے ہر ایک نگران ہے اور ہر کسی کو اپنی ذمہ داری کے بارے میں جواب دینا ہے، امیر نگران ہے آدمی اپنے گھر کا نگران ہے اور عورت اپنے خاوند کے گھر کی اور اپنے بچوں کی نگران ہے تو تم میں سے ہر کوئی ذمہ دار ہے اور ہر کسی سے اس کی ذمہ داری کے متعلق پوچھا جائے گا۔“ مسائل ١۔ درجات میں تفاوت آزمائش کے لیے ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ کسی کو نعمتیں دے کر اور کسی کو محروم رکھ کر آزماتا ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔ تفسیر بالقرآن آزمائش کی مختلف صورتیں : ١۔ اللہ نے موت وحیات کو انسان کی آزمائش کے لیے پیدا فرمایا۔ (الملک : ٢) ٢۔ اللہ نے انسانوں کی آزمائش کے لیے بعض کو بعض پر فوقیت دی۔ ( الانعام : ١٦٥) ٣۔ مال واولاد انسان کے لیے آزمائش ہے اللہ کے ہاں بہت بڑا اجر ہے۔ (التغابن : ١٥) ٤۔ ہم تمہیں خوف، بھوک، مال واولاد اور پھلوں کی کمی میں مبتلا کر کے ضرور آزمائیں گے۔ (البقرۃ: ١٥٥) الانعام
0 سورۃ الاعراف کا تعارف سورۃ الاعراف ٢٠٦ آیات اور ٢٤ رکوع پر مشتمل ہے مفسرین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ پانچ چھ آیات کو چھوڑ کر باقی تمام کی تمام آیات مکہ معظمہ میں نازل ہوئیں اس کے مضامین، اسلوب بیان سورۃ الانعام سے زیادہ مشابہت رکھتے ہے۔ ” سورۃ البقرۃ“ میں دیگرادیان کے حاملین کے ساتھ یہودیوں کو زیادہ مخاطب کیا گیا ہے اور ” آل عمران“ میں دوسروں کی نسبت عیسائیوں کو کثرت کے ساتھ خطاب کیا ہے ” سورۃ الانعام“ اور ” سورۃ الاعراف“ میں اہل مکہ اور باقی مشرکین کی طرف زیادہ توجہ دی گئی ہے۔ اس سورۃ کے پہلے رکوع میں قرآن مجید کا تعارف کرواتے ہوئے فرمایا گیا ہے کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! قرآن کے بارے میں آپ کو اپنے دل میں کسی قسم کی تنگی محسوس نہیں کرنی چاہیے۔ اس میں منکروں کے لیے انتباہ اور ماننے والوں کے لیے خیرخواہانہ نصیحت پائی جاتی ہے۔ اس لیے مومنوں کو صرف اس بات کا پابند بنایا گیا ہے کہ وہ اپنے رب کی نازل کردہ ہدایت کی اتباع کریں۔ اللہ تعالیٰ کی ہدایت کو چھوڑ کر کسی بزرگ، ولی اور خیرخواہ کی بات کو اللہ تعالیٰ کے فرمان سے مقدم نہیں جاننا چاہیے لیکن کھلی اور واضح ہدایت کے باوجود تھوڑے لوگ ہیں جو قرآن کی اس نصیحت پر عمل کرتے ہیں۔ اس کے بعد نافرمان اقوام کا انجام بیان کرتے ہوئے وضاحت فرمائی ہے کہ قیامت کے روز ہر کسی کے اعمال کو عدل کے ترازو میں رکھ کر تولا جائے گا۔ جس کی نیکیوں کا پلڑا بھاری ہوا وہ کامیاب ہوگا اور جس کی نیکیوں کے مقابلے میں گناہ بھاری رہے وہ ہمیشہ کے لیے ذلت ورسوائی سے دوچار ہوں گے، پھر واضح کردیا کہ اللہ تعالیٰ انبیاء کرام (علیہ السلام) سے ان کی ذمہ داریوں کے حوالے سے سوال کریں گے اور ان کی دعوت کے مقابلہ میں جن لوگوں نے انکار اور انحراف کارویہ اختیار کیا ان کا پوری طرح احتساب کیا جائے گا۔ اس کے بعد انسان اور شیطان کی جبلت کا فرق بیان کرکے ان کی آپس میں ازلی اور ابدی کشمکش کا ذکر کیا ہے جس میں واضح اشارہ ہے کہ انسان وہ ہے جو اپنے باپ آدم (علیہ السلام) کی اتباع میں غلطی کا اعتراف کرکے اپنے رب سے معذرت خواہ رہے اور شیطان وہ ہے جو غلطی کرنے کے بعد اس کا جواز پیش کرکے اس پر اڑ جائے بے شک وہ جنات میں سے ہو یا بنی نوع انسان سے۔ کچھ ضمنی مسائل بیان کرنے کے بعد آیت ٤٠ میں دو اور دو چار کی طرح واضح کیا گیا ہے کہ جن لوگوں نے شیطان کی طرح تکبر کیا ان کا جنت میں داخل ہونا اس طرح ہی محال ہے جس طرح اونٹ کا سوئی کے سوراخ میں سے گزرنا محال ہے۔ اس کے ساتھ جنتیوں کے جنت میں جانے کے بعد اور جہنمیوں کے جہنم میں داخل ہونے کے بعد ان کی آپس میں ہونے والی گفتگو کا ذکر ہے تاکہ لوگوں کو معلوم ہو کہ نیکوں اور بروں میں کیا فرق ہوگا۔ جہنمیوں کا اقرار جرم انھیں کچھ فائدہ نہ دے گا۔ جو انسان دنیا میں اپنے گناہوں کا اقرار کرکے اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگے اور اپنے باپ حضرت آدم (علیہ السلام) کی طرح رب کی بارگاہ میں سرخرو ہوجائے۔ پھر توحید کے ٹھوس دلائل دے کر توحید کو ٹھکرانے والی قوم نوح، قوم عاد، قوم ثمود، قوم لوط، قوم مدین اور قوم فرعون کے کردار کا تفصیلی تذکرہ کرکے ان کا عبرت ناک انجام بیان کیا ہے تاکہ ان کے بعد آنے والے لوگ اس کردار اور انجام سے بچ جائیں۔ سورۃ کی ١٧٢ آیت میں اس عہد کا ذکر کیا جو آدم اور اس کی اولاد سے روز آفرنیش لیا گیا تھا جس میں ذکر ہے کہ اچھی طرح غور کرلو کہ میں تمھارا رب ہوں یا نہیں ؟ تمام بنی نوع انسان نے ذات کبریا کی توحید کا اقرار کیا کہ کیوں نہیں تیرے سوا کون ہمارا رب ہوسکتا ہے۔ اس اقرار کے بعد فرمایا گیا۔ اب تمھارا یہ بہانہ نہیں چلے گا کہ ہمارے آباؤ اجداد شرک کرتے رہے جن کی وجہ سے ہم اس سنگین جرم کے مجرم بنے۔ سورۃ کا اختتام ان آیات پر ہوا کہ اگر شیطان تمھیں پھسلانے کی کوشش کرے تو اس سے اپنے رب کی پناہ طلب کرو اور جس طرح اللہ کا حکم سمجھ کر ملائکہ نے عاجزی اختیار کی اس طرح تم بھی اپنے رب کے حضور عاجزی اختیار کرتے ہوئے اسی کی ذات اور فرمان کے سامنے جھک کر زندگی گزارو یہی اللہ تعالیٰ کے قرب کا ذریعہ ہے۔ الاعراف
1 الاعراف
2 فہم القرآن المص۔ حروف مقطعات ہیں ان کے بارے میں سورۃ البقرۃ کی ابتداء میں عرض کیا جاچکا ہے کہ ان حروف کا معنیٰ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا اور نہ ہی ان کا شریعت کے مسائل کے ساتھ تعلق ہے۔ جس کی وجہ سے صحابہ (رض) نے ان کے معانی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ تفصیل جاننے کے لیے سورۃ البقرۃ کے ابتدائی حروف اآم کی تشریح ملاحظہ فرمائیں چنانچہ مقطعات کے بعد حکم ہوا۔ اے پیغمبر ! یہ کتاب مقدس اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کی ذات اطہر پر نازل کی گئی ہے تاکہ آپ لوگوں کو پڑھائیں اور سمجھائیں۔ اگر لوگ اسے ماننے سے انکار اور آپ سے تکرار کرتے ہیں تو آپ کو دل میں تنگی اور لوگوں کو سمجھانے میں اکتاہٹ محسوس نہیں کرنی چاہیے۔ یہ کتاب تو تنگ دلی کا علاج، الجھنوں کا حل، قلب ونظر کے لیے نور، دینی ودنیاوی مسائل کا مداوا ہے۔ اس میں اللہ کے منکروں، حق کا انکار کرنے والوں کے لیے بڑا انتباہ ہے اور ایمان وایقان والوں کے لیے خیر خواہی، رحمت اور موعظت کی بے مثال اور لازوال دولت ہے بشرطیکہ لوگ اس کی چاہت اور اس سے رہنمائی حاصل کرنے کی کوشش کرنے والے ہوں۔ (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَسْعُوْدٍ (رض) یَقُوْلُ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَنْ قَرَأَ حَرْفًا مِّنْ کِتَاب اللّٰہِ فَلَہٗ بِہٖ حَسَنَۃٌ وَالْحَسَنَۃُ بِعَشْرِ أَمْثَالِھَا لَآ أَقُوْلُ الم حَرْفٌ وَلٰکِنْ أَلْفٌ حَرْفٌ وَلَامٌ حَرْفٌ وَمِیْمٌ حَرْفٌ ) [ رواہ الترمذی : کتاب فضائل القرآن، باب ماجاء فیمن قرأ حرفا من القرآن مالہ من الأجر] ” حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس نے اللہ کی کتاب کا ایک حرف پڑھا اسے اس کے بدلے ایک نیکی ملے گی اور ایک نیکی دس نیکیوں کے برابر ہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں کہ میں یہ نہیں کہتا کہ ” الم“ ایک حرف ہے بلکہ ” الف“ ایک حرف ہے اور ” لام“ ایک حرف ہے ” اور ” میم“ ایک حرف ہے۔“ مسائل ١۔ قرآن مجید نبی مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل کیا گیا۔ ٢۔ دعوت و تبلیغ میں مبلغ کو پر عزم اور بلند حوصلہ ہونا چاہیے۔ ٣۔ وعظ و نصیحت سے مومن ہی صحیح فائدہ اٹھاتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن قرآن مجید کے اوصاف کی ایک جھلک : ١۔ قرآن مجید لاریب کتاب ہے۔ (البقرۃ: ٢) ٢۔ قرآن مجید رحمت اور ہدایت کی کتاب ہے۔ (لقمان : ٣) ٣۔ قرآن مجیدلوگوں کے لیے ہدایت و رہنمائی کی کتاب ہے۔ (البقرۃ: ١٨٥) ٤۔ قرآن مجید بابرکت اور پہلی کتابوں کی تصدیق کرنے والا ہے۔ (الانعام : ٩٢) ٥۔ قرآن مجید میں ہدایت واضح کردی گئی ہے۔ (النحل : ٨٩) ٦۔ قرآن مجید روشن اور بین کتاب ہے۔ (المائدۃ: ١٥) ٧۔ قرآن مجید عربی زبان میں نازل ہوا ہے۔ (یوسف : ٣) ٨۔ قرآن مجید اللہ کی طرف سے نازل کردہ ہے۔ (الشعراء : ١٩٢) قرآن و سنت کے علاوہ کسی کی بات کو شریعت کا درجہ حاصل نہیں : ١۔ جب ان سے کہا جاتا ہے پیروی کرو اللہ کی نازل کردہ کتاب کی تو جواب میں اپنے آباء واجداد کی پیروی کا حوالہ دیتے ہیں۔ (البقرۃ: ١٧٠، لقمان : ٢١) ٢۔ اس کی پیروی کرو جو تمھارے رب کی طرف سے نازل کی گئی ہے۔ (الزمر : ٥٥) ٣۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پیروی کریں جو آپ کے رب کی طرف سے وحی کی گئی ہے۔ (الاحزاب : ٢) ٤۔ بے علم لوگوں کی خواہشات کی پیروی نہیں کرنی چاہیے۔ (الجاثیۃ : ١٨) ٥۔ اسلام میں مکمل طور پر داخل ہوجاؤ شیطان کے قدموں کی پیروی نہ کرو۔ (البقرۃ: ٢٠٨) ٦۔ اس کتاب بابرکت کی پیروی کرو۔ (الانعام : ١٥٥) ٧۔ لوگوں کی اکثریت گمراہ ہوتی ہے لہٰذا ان کی پیروی نہیں کرنی چاہیے۔ (المائدۃ: ٧٧) الاعراف
3 فہم القرآن ربط کلام : ہدایت کے متلاشی لوگوں کے لیے نہایت ہی لازم بات ہے کہ وہ ادھر ادھر سے راہنمائی لینے کی بجائے صرف اور صرف قرآن مجیدکی اتباع کریں۔ قرآن مجید کے انتباہ سے ڈرنے اور اس کی نصیحت سے مستفید ہونے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ آدمی اس بات کی پیروی کرے جو اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی ہدایت کے لیے نازل فرمائی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ سے بڑھ کر انسان کا نہ کوئی خیر خواہ ہوسکتا ہے اور نہ اس کے کاموں کا والی اور ذمہ دار بن سکتا ہے۔ اولیاء ولی کی جمع ہے جس کا معنٰیہے دوست اور خیر خواہ۔ یہ لفظ لاکر انسان کی اس فطری کمزوری کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جس بناء پر آدمی کسی سے دھوکا کھاتا ہے۔ حضرت آدم (علیہ السلام) بھی اس فطری کمزوری کی بناء پر شیطان سے دھوکا کھاگئے۔ جب شیطان نے ان کے قریب آکر باربار قسمیں کھا کر کہا کہ جناب آدم ! میں خیرخواہی کے لیے آپ کو مشورہ دیتا ہوں کہ آپ اس درخت کا پھل کھالیں تاکہ ہمیشہ جنت میں رہ سکیں۔ اللہ تعالیٰ کلی علم رکھنے والا ہے اس کو معلوم تھا اور ہے کہ شیطان ان لوگوں کو اولیاء کے نام پر گمراہ کرے گا لہٰذا حکم دیا کہ اولیاء کی پیروی نہ کرنا۔ بے شک اولیاء کا اللہ کے ہاں ایک مرتبہ اور مقام ہے ہمارے لیے ان کا احترام ومقام لازم ہے لیکن دین اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل کیا ہے نہ کہ اولیاء پر۔ اس لیے اتباع صرف اور صرف نبی محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ہوگی کیونکہ آپ پر رب کا قرآن نازل ہوا۔ یہاں انسانوں کے رویے کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ بہت قلیل لوگ ہیں جو اس اصول کا خیال رکھتے ہوئے صرف وحی الٰہی کی پیروی کرتے ہیں۔ اس اصول کو چھوڑنے اور محبت میں غلو کا نتیجہ تھا اور ہے کہ امت پہلے آئمہ کرام کے نام پرچار فرقوں میں تقسیم ہوئی اور پھر ہر فرقے کے کئی کئی گروہ وجود میں آئے اور آتے جا رہے ہیں صرف ایک فرقہ کا حال دیکھیں پہلے امام ابوحنیفہ (رض) کی نسبت سے حنفی کہلائے اور اس کے بعد سہروردی، چشتی، قادری، نقشبندی، نظامی، گیلانی اور جیلانی۔ نہ معلوم یہ سلسلہ کہاں تک پہنچا اور پہنچ جائے گا۔ ایسے بھائیوں کو قرآن و حدیث کا حوالہ پیش کیا جائے تو فوراً کہتے ہیں کہ کیا امام صاحب کو یہ حدیث یاد نہ تھی۔ کیا تم بزرگوں سے زیادہ قرآن و حدیث سمجھنے والے ہو۔ کچھ لوگ اس سے آگے بڑھ کر بات کرتے ہیں کہ کیا پہلے بزرگ گمراہ تھے ؟ نعوذ باللہ من ذالک۔ حالانکہ یہ حضرات غور کریں تو ان کا رویہ خود آئمہ کرام کی توہین کے مترادف ہے۔ اگر واقعتا امام موصوف کو زیر بحث مسئلہ کا علم تھا تو، پھر انھوں نے اس پر عمل کیوں نہ کیا۔ کیا اس میں امام صاحب کی توہین ہے یا تکریم ؟ جہاں تک اولیاء اللہ کا مقام اور احترام ہے اس کا خیال رکھنا ہمارے لیے فرض ہے۔ لیکن دین اللہ اور اس کے رسول کے فرمان کا نام ہے۔ مسلمان کو صرف قرآن و سنت کی پیروی کا حکم ہے۔ مسائل ١۔ قرآن و سنت کی ہی پیروی کرنی چاہیے۔ ٢۔ قرآن و حدیث کے علاوہ باقی تمام راستے گمراہی کے ہیں۔ ٣۔ گمراہ لوگوں کی اکثریت سے متاثر نہیں ہونا چاہے۔ تفسیر بالقرآن نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وحی کے پابند تھے : ١۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے رب کی وحی کی اتباع کریں۔ (الاحزاب : ٢) ٢۔ میں اتباع کرتا ہوں اس کی جو میری طرف وحی کی گئی ہے۔ (الاحقاف : ٩) ٣۔ مجھے قرآن وحی کے ذریعہ دیا گیا ہے تاکہ میں تمھیں ڈراؤں۔ (الانعام : ١٩) ٤۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی مرضی سے بات نہیں کرتے مگر آپ کو جو وحی کی جاتی ہے۔ (النجم : ٣ تا ٤) ٥۔ میں تو اسی بات کی پیروی کرتا ہوں جس کی میری طرف وحی کی گئی ہے۔ (یونس : ١٥۔ الاعراف : ٢٠٣) ٦۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے رب کی وحی کی اتباع کریں۔ (یونس : ١٠٩) الاعراف
4 فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ کے فرمان نہ ماننے اور اس کی نصیحت قبول نہ کرنے والوں کا انجام۔ سورہ کے تعارف میں ہم نے عرض کیا ہے کہ سورۃ کے پہلے رکوع میں ساری سورۃ کے مضامین کا خلاصہ ذکرہوا ہے جس کی تفصیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے پہلی اقوام اور امتوں کے پاس اپنے رسول بھیجے جو انکو اللہ تعالیٰ کے احکام بتلاتے اور باربار نصیحت کرتے تھے کہ اے لوگو! اپنے رب کی ہدایات پر عمل کرو۔ اس میں تمہارا بھلا ہے اور ہم تمہارے خیرخواہ ہیں لیکن لوگوں نے اپنے رب کی ہدایات ماننے اور انبیاء (علیہ السلام) کی پیروی کرنے کے بجائے اپنے آبا کے رسم ورواج، بزرگوں کے اقوال اور ذاتی خیالات کو مقدم جانا۔ اس فکروعمل پر انہیں باربارتنبیہ کی گئی کہ اگر تم نے اپنی طرزحیات کو نہ بدلا تو اللہ تعالیٰ کا عذاب تمھیں آلے گا لیکن وہ اپنے فکروعمل پر مصر اور انبیاء (علیہ السلام) کی توہین کرتے اور ان سے عذاب الٰہی کا مطالبہ کرتے رہے۔ جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان پر حجت تمام ہوئی تو اس کے عذاب نے انہیں ایسے وقت میں آدبوچا جب وہ غفلت کی نیند سوئے ہوئے تھے۔ یعنی ایسی حالت میں عذاب آیا کہ وہ آہ وزاری بھی نہ کرسکے۔ بڑا ہی بدقسمت ہے وہ انسان اور قوم جسے اس کی بداعمالیوں کی وجہ سے آخر وقت میں توبہ نصیب نہ ہو۔ انہوں نے غفلت میں زندگی گزاری اور غفلت کی حالت میں پکڑے گئے اگر کسی کو ہوش آیا بھی تو وہ یہی کہہ رہا تھا کہ واقعی ہم ظالم ہونے کی وجہ سے اس عذاب میں مبتلا ہوئے ہیں۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ کے عذاب کا ایک وقت مقرر ہے۔ ٢۔ عذاب عموماً اس وقت آتا ہے جب لوگ غفلت و بے فکری میں پڑے ہوتے ہیں۔ ٣۔ عذاب کے وقت سبھی اپنے جرائم کا اعتراف کرتے ہیں۔ الاعراف
5 الاعراف
6 فہم القرآن ربط کلام : قوم کس قدر بھی اکھڑ مزاج ہو اور تباہی کے گڑھے پر کھڑی ہو اسے آخر وقت تک سمجھانا۔ انبیاء ( علیہ السلام) کی سنت ہے کیونکہ ہر نبی سے اپنی امت کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔ جس طرح نبی سے اس کی امت کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ اسی طرح امت سے سوال ہوگا کہ اس نے اپنے نبی کی دعوت کا کیا جواب دیا۔ چنانچہ قیامت کے دن تمام انبیاء ( علیہ السلام) وقت مقررہ کے مطابق اپنی اپنی امت کو لے کر عدالت کبریا میں حاضر ہوں گے سب سے پہلے حضرت نوح (علیہ السلام) رب کی بارگاہ میں پیش ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ ہر فرد کے سامنے اس کا اعمال نامہ پیش فرمائیں گے۔ جس میں ایک بات بھی حقیقت کے خلاف نہ ہوگی۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا علم ہر بات پر حاوی ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ ہر امت اور نبی سے سوال کرے گا : ١۔ اللہ تعالیٰ سوال کرے گا کیا تمھارے پاس رسول نہ آئے جو میری آیات پڑھ کر سناتے تھے ؟ (الزمر : ٧١) ٢۔ اے جنوں اور انسانوں کی جماعت! کیا تمھارے پاس تم میں سے رسول نہیں آئے تھے ؟ (الانعام : ١٣٠) ٣۔ اے بنی آدم کیا تمھارے پاس رسول نہ آئے ؟ (الاعراف : ٣٥) ٤۔ اللہ تعالیٰ قیامت کے روز رسولوں کی جماعت کو اکٹھا کرکے امتوں کے سلوک کے بارے میں سوال کرے گا۔ (المائدۃ: ١٠٩) ٥۔ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن عیسیٰ بن مریم سے سوال کرے گا۔ (المائدۃ: ١١٦) الاعراف
7 الاعراف
8 فہم القرآن ربط کلام : سابقہ آیات میں ارشاد ہے کہ ہم انبیاء اور ان کی امتوں سے پوچھیں گے۔ پھر انہیں ان کے اعمال کے بارے میں بتلائیں گے یہاں ارشاد ہے کہ اعمال کا وزن کیا جائے گا۔ پھر وزن کی بنیاد پرجنت یا جہنم کا فیصلہ ہوگا۔ گو یا کہ یہ پوچھ نہیں بلکہ جزا سزا بھی ہوگی۔ منکرین قرآن اور آخرت کے عقیدہ کا انکار کرنے والے کہا کرتے تھے کہ اعمال کا وزن کس طرح ہوگا۔ یہ نبی جھوٹ بولتا ہے الفاظ ہوا میں تحلیل ہوجاتے ہیں زنا کرتا ہے اس کا وزن کیسے ہوگا۔ کفر و شرک کا تعلق عقیدہ کے ساتھ ہے۔ عقیدہ فکر کا نام ہے۔ فکر کی پیمائش اور وزن ہو نہیں سکتا۔ لیکن سائنس نے کا فی حد تک ثابت کردیا ہے کہ ہوا کا وزن ہوسکتا ہے بخار کا ٹمریچر معلوم کرلیا جاتا ہے۔ آواز اور تصویر منتقل کی جاسکتی ہے علیٰ ہذا القیاس کیا جس رب نے انسان کو سب کچھ سکھایا ہے وہ اعمال کا وزن نہیں کرسکتا؟ یقیناً کرسکتا ہے اور کرے گا۔ اسی لیے فرمایا کہ وہ وقت آئے گا اور وزن ہوگا اس میں شک کی کوئی گنجائش نہیں ہے سب کچھ ہو کر رہے گا۔ ہاں جس کا نیکیوں کا پلڑا بھاری ہوا۔ وہ کامیاب ہوگا اور جس کا برائیوں کا پلڑا ہلکا ہوا وہ رسوا ہوجائے گا۔ مسائل ١۔ قیامت کے دن اعمال کا وزن ہوگا۔ ٢۔ جن کی نیکیوں والا پلڑا بھاری ہوا وہ کامیاب ہوگا۔ ٣۔ دنیا میں نیک اعمال نہ کرنے والے خائب وخاسر ہوں گے۔ الاعراف
9 فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ نے انسان کو زمین پر اس لیے بھیجا ہے کہ وہ نیک اعمال کرکے نیکیوں کے پلڑے کو بھاری بنائے لیکن اس نے برائی کے پلڑے کو بھاری بنایا اور جہنم کا ایندھن بنا۔ انسان کو زمین پر بھیجتے وقت ہدایت کی گئی تھی کہ اب تیرا رہنا، مرنا اور محشر کے دن اٹھنا زمین سے ہی ہوگا۔ لہٰذا زمین ہی تیرا ٹھکانہ اور اس میں تیرے لیے زینت کا سامان ہے۔ ہاں یا درکھنا میری طرف سے تیری رہنمائی کے لیے احکام نازل ہوتے رہیں گے۔ جس نے اس رہنمائی کے مطابق زندگی بسر کی۔ اسے دنیا اور آخرت میں خوف و خطر نہیں ہوگا۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو زمین پر بسنے کے لیے وسائل اور کچھ اختیارات دیے ہیں تاکہ اسے آزمائے کہ وسائل کس طرح بروئے کار لاتا اور اپنے اختیار ات کو کس طرح استعمال کرتا ہے۔ وسائل اور اختیارات کو اللہ تعالیٰ کی ہدایت کے مطابق استعمال کرنا گویا کہ اس کا شکر ادا کرنا ہے۔ لیکن لوگوں کی اکثریت کا حال یہ ہے کہ وہ اپنے اختیارات سے تجاوز اور اللہ کے دیے ہوئے وسائل کو غلط استعمال کرکے اس کے شکر گزار بندے بننے کے بجائے باغی اور نافرمان ثابت ہوتے ہیں۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ کا انسان کے لیے کھلا پیغام ہے کہ اپنے رب کا شکر ادا کرے گا تو وہ تجھے مزید عنایت فرمائے گا۔ شکر کا تقاضا ہے کہ انسان اپنی صلاحیتوں کو اللہ کی تابع داری میں لگائے۔ اس کی دی ہوئی طاقت کو اس کے بندوں کی خدمت اور دین کی سربلندی پر صرف کرے اس کے دیے ہوئے مال کو غریبوں اور مسکینوں پر خرچ کرے۔ تفسیر بالقرآن شکر گذار لوگ تھوڑے ہی ہوتے ہیں : ١۔ شکر گذار بہت تھوڑے ہوتے ہیں۔ (السباء : ١٣) ٢۔ لوگوں کی اکثریت نا شکری ہوتی ہے۔ (البقرۃ: ٢٤٣) ٣۔ آپ انکی اکثریت کو شکر کرنے والے نہیں پائیں گے۔ (الاعراف : ١٧) الاعراف
10 فہم القرآن ربط کلام : پہلی آیات میں قیامت کے دن اعمال کا وزن کرنے، انبیاء اور امتوں سے ان کے کردار کے بارے میں پوچھ گچھ کرنے کا ذکر کرنے کے ساتھ ہی فرمایا کہ ہم نے ہی تمہیں زمین میں ٹھہرایا اور تمہاری حیثیت کا انتظام کیا۔ اب فرمایا کہ اے انسان ہم نے تمہیں پیدا کیا اور بہترین شکل وصورت سیمزین کیا۔ پھر تمہارے باپ آدم کو مسجود ملائکہ کا اعزاز بخشا۔ اس آیت کے الفاظ اور انداز سے یوں معلوم ہوتا ہے کہ جیسے اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں کو بیک وقت پیدا فرما کر انہیں شکل وصورت سے نوازا بعد ازاں ملائکہ کو حکم دیا کہ آدم کو سجدہ کریں جبکہ قرآن مجید میں ہی موجود ہے کہ سب سے پہلے صرف آدم (علیہ السلام) کو پیدا کیا گیا پھر اس سے اس کی بیوی کو پیدا کیا اور ان سے بے شمار مرد وزن کی تخلیق کا سلسلہ شروع کیا۔[ النساء آیت : ١] یہاں ( وَلَقَدْ خَلَقْنٰکُمْ ثُمَّ صَوَّرْنٰکُمْ) کہ ہم نے تمہیں پیدا کیا اور ہمیں نے تمہاری شکلیں بنائیں۔ یہاں مخاطب کی ضمیر (کُم) لائی گئی ہے جس کے اہل علم نے تین مفہوم لیے ہیں : 1 آدم (علیہ السلام) تمام انسانوں کے باپ اور نمائندہ ہیں ان کے لیے جمع کی ضمیر استعمال کی گئی ہے۔ 2 تمام ارواح آدم (علیہ السلام) کی پشت یعنی جبلت میں تھیں اور عالم ارواح میں ان کی شکلیں متعین کردی تھیں۔ جس بنا پر جمع مخاطب کی ضمیر لائی گئی ہے۔ سورۃ الاعراف آیت : ١٧٢ میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) سے اس کی اولاد کو پیدا فرما کر استفسار کیا کہ میں تمہارا رب ہوں یا نہیں؟ تمام بنی آدم نے جواب دیا (بلٰی) کیوں نہیں تو ہی ہمارا رب ہے۔ 3 آیت کے الفاظ پر معمولی غور کیا جائے تو یہ حقیقت خود بخود واضح ہوتی ہے تخلیق اور شکلوں کے بارے میں جمع مخاطب کی ضمیر لائی گئی ہے لیکن سجدے کا ذکر کرتے ہوئے واضح الفاظ استعمال فرمائے ہیں کہ ہم نے ملائکہ کو حکم دیا کہ وہ آدم (علیہ السلام) کو سجدہ کریں۔ گویا کہ ملائکہ نے آدم (علیہ السلام) کی پوری اولاد کو نہیں بلکہ صرف حضرت آدم (علیہ السلام) کو سجدہ کیا تھا۔ (عَن أَبِیْ مُوسَی الْأَشْعَرِیِ (رض) قَالَ قَالَ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) إِنَّ اللّٰہَ خَلَقَ آدَمَ مِنْ قَبْضَۃٍ قَبَضَہَا مِنْ جَمِیعِ الْأَرْضِ فَجَاءَ بَنُو آدَمَ عَلٰی قَدْرِ الْأَرْضِ جَاءَ مِنْہُمْ الْأَحْمَرُ وَالْأَبْیَضُ وَالْأَسْوَدُ وَبَیْنَ ذٰلِکَ وَالسَّہْلُ وَالْحَزْنُ وَالْخَبِیثُ وَالطَّیِّبُ) [ رواہ ابو داود : کتاب السنہ، باب فی القد ر] ” حضرت ابو موسیٰ اشعری (رض) بیان کرتے ہیں رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کو مٹی سے پیدا کیا۔ جو ساری زمین سے لی گئی آدم کی اولاد زمین کے مطابق ہوئی۔ ان میں سرخ، سفید، سیاہ اور درمیانی رنگت کے لوگ ہیں ان میں سخت ہیں اور نرم طبیعت کے ہیں کچھ نیک اور بد ہیں۔“ (عَنْ اَبِیْ ھُرَےْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خَےْرُ ےَوْمٍ طَلَعَتْ عَلَےْہِ الشَّمْسُ ےَوْمُ الْجُمُعَۃِ فِےْہِ خُلِقَ اٰدَمُ وَفِےْہِ اُدْخِلَ الْجَنَّۃَ وَفِےْہِ اُخْرِجَ مِنْھَا وَلَا تَقُوْمُ السَّاعَۃُ اِلَّا فِیْ ےَوْمِ الْجُمُعَۃِ ) [ رواہ مسلم : باب فَضْلِ یَوْمِ الْجُمُعَۃِ] ” حضرت ابوہریرۃ (رض) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان بیان کرتے ہیں کہ ایام میں سب سے بہتر دن جمعہ کا دن ہے اس دن آدم (علیہ السلام) کو پیدا کیا گیا اسی دن ان کو جنت میں داخلہ ملا اور جمعہ کو ہی ان کا جنت سے اخراج ہوا۔ اور اسی دن ہی قیامت برپا ہوگی۔“ ( وَعَنْ اَنَسٍ (رض) اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ لَمَّاصَوَّرَ اللّٰہُ اٰدَمَ فِیْ الْجَنَّۃِ تَرَکَہٗ مَا شَاء اللّٰہُ اَنْ یَتْرُکَہٗ فَجَعَلَ اِبْلِیْسُ یُطِیْفُ بِہٖ یَنْظُرُ مَا ھُوَفَلَمَّارَاٰہُ اَجْوَفَ عَرَفَ اَنَّہٗ خُلِقَ خَلْقًا لَایَتَمَالَکُ) [ رواہ مسلم] ” حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا‘ جب اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم (علیہ السلام) کی جنت میں شکل و صورت بنائی اس پیکر کو جب تک اللہ تعالیٰ نے چاہا جنت میں اسی طرح رہنے دیا ابلیس اس کے گرد گھوما اور وہ غور کرتا رہا کہ یہ کیا ہے؟ جب اس نے مجسمہ کو دیکھا کہ یہ اندر سے کھوکھلا ہے‘ تو سمجھ گیا کہ یہ ایسی مخلوق تخلیق کی جارہی ہے‘ جو مستقل مزاج نہیں ہوگی۔“ تفسیر بالقرآن حضرت آدم (علیہ السلام) کی تخلیق کے مختلف مراحل : ١۔ حضرت آدم کی تخلیق کا اعلان۔ (البقرۃ: ٣٠) ٢۔ حضرت آدم کو مٹی سے پیدا کیا گیا۔ (نوح : ١٧) ٣۔ حضرت آدم بد بودار مٹی سے پیدا کیے گئے۔ (الحجر : ٢٦) ٤۔ حضرت آدم (علیہ السلام) جس مٹی سے پیدا کیے گئے وہ کھڑ کھڑاتی تھی۔ (الحجر : ٢٦) ٥۔ انسان یعنی آدم (علیہ السلام) کو بجنے والی مٹی سے پیدا کیا۔ (الرحمن : ١٤) ٦۔ سب سے پہلے حضرت آدم پھر ان سے ان کی بیوی پھر دونوں سے تخلیق انسانی کا سلسلہ جاری فرمایا۔ (النساء : ١) الاعراف
11 الاعراف
12 فہم القرآن ربط کلام : گزشتہ سے پیوستہ۔ سجدہ کا حکم ہوتے ہی تمام ملائکہ آدم (علیہ السلام) کے حضور سر بسجود ہوئے لیکن شیطان نے حضرت آدم (علیہ السلام) کا احترام و مقام دیکھ کر حسد اور تکبر کی وجہ سے سجدہ ریز ہونے سے نہ صرف انکار کیا بلکہ وہ جرم پر جرم اور گستاخی پر گستاخی کرتا چلا گیا۔ اس جگہ اجمال ہے جبکہ دوسرے مقامات پر شیطان کے انکار کی تفصیلات یوں بیان کی گئی ہیں۔ ( وَ اِذْ قُلْنَا لِلْمَلآءِکَۃِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوْٓا اِلَّآ اِبْلِیْسَ ط قَالَ ءَ اَسْجُدُ لِمَنْ خَلَقْتَ طِیْنًا)[ الاسراء : ٦١] ” اور جب ہم نے فرشتوں سے کہا آدم کو سجدہ کرو ابلیس کے علاوہ سب نے سجدہ کیا اور اس نے کہا کہ کیا میں اسے سجدہ کروں جسے تو نے مٹی سے پیدا کیا ہے۔“ ( اَنَا خَیْرٌ مِّنْہُ خَلَقْتَنِیْ مِنْ نَّارٍ وَّ خَلَقْتَہٗ مِنْ طِیْنٍ) [ الاعراف : ١٢] ” میں آدم سے بہتر ہوں تو نے مجھے آگ سے اور اسے مٹی سے پیدا کیا ہے۔“ الاعراف
13 الاعراف
14 (قَالَ اَرَءَ یْتَکَ ھٰذَا الَّذِیْ کَرَّمْتَ عَلَیّ لَءِنْ اَخَّرْتَنِ اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ لَاَحْتَنِکَنَّ ذُرِّیَّتَہ‘ ٓ اِلَّا قَلِیْلاً) [ الاسراء : ٦٢] ” شیطان نے کہا دیکھ لے اسے تو نے مجھ پر بزرگی دی ہے لیکن اگر مجھے قیامت تک تو نے ڈھیل دی تو میں اس کی اولاد پر غلبہ حاصل کرلوں گا تھوڑے لوگ ہی بچیں گے۔“ ( قَالَ فَبِعِزَّتِکَ لَأُغْوِیَنَّہُمْ اَجْمَعِیْنَ) [ ص : ٨٢] ” کہنے لگا تیری عزت کی قسم! میں ان سب کو بہکا دوں گا۔“ ( قَالَ لَمْ اَکُنْ لِّاَسْجُدَ لِبَشَرٍ خَلَقْتَہ‘ مِنْ صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَاٍ مَّسْنُوْنٍ) [ الحجر : ٣٣] ” شیطان نے کہا میں ایسا نہیں کہ انسان کو سجدہ کروں جسے تو نے کالی اور سڑی ہوئی کھنکھناتی مٹی سے پیدا کیا ہے۔“ حسد اور تکبر وہ بری چیز ہے کہ جس سے انسان کے تمام اعمال غارت اور بسا اوقات دنیا ہی میں ذلت و رسوائی سے دو چار ہونا پڑتا ہے۔ سرور دو عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تکبر کا مفہوم اور اس کے نقصانات یوں ذکر فرمائے ہیں : (اَلْکِبْرُ بَطَرُ الْحَقِّ وَغَمْطُ النَّاسِ) [ رواہ مسلم : کتاب الایمان، باب تحریم الکبر وبیانہ] ” تکبر حق بات کو چھپانا اور لوگوں کو حقیر جاننے کا نام ہے۔“ (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ لَا یَدْخُلُ الْجَنَّۃَ مَنْ کَانَ فِیْ قَلْبِہٖ مِثْقَالُ ذَرَّۃٍ مِّنْ کِبْرٍ) [ رواہ مسلم : کتاب الایمان، باب تحریم الکبر وبیانہ] ” حضرت عبداللہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی تکبرہوا وہ جنت میں داخل نہیں ہوگا۔“ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَقُوْلُ اللّٰہُ سُبْحَانَہٗ الْکِبْرِیَاءُ رِدَاءِیْ وَالْعَظْمَۃُ إِزَارِیْ مَنْ نَازَعَنِیْ وَاحِدًا مِّنْھُمَا أَلْقَیْتُہٗ فِیْ جَھَنَّمَ) [ رواہ ابن ماجۃ: کتاب الزھد، باب البراء ۃ من الکبر والتواضع ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تکبر میری چادر ہے اور عظمت میرا ازار ہے جو ان میں سے کوئی ایک مجھ سے چھیننے کی کوشش کرے گا میں اس کو جہنم میں پھینک دوں گا۔“ غیر اللہ کو سجدہ کرنا جائز نہیں : (عَنْ قَیْسِ بْنِ سَعْدٍ (رض) قَالَ أَتَیْتُ الْحِیْرَۃَ فَرَأَیْتُھُمْ یَسْجُدُوْنَ لِمَرْزُبَانٍ لَّھُمْ فَقُلْتُ رَسُوْلُ اللّٰہِ أَحَقُّ أَنْ یُّسْجَدَ لَہٗ قَالَ فَأَتَیْتُ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَقُلْتُ إِنّیآ أَتَیْتُ الْحِیْرَۃَ فَرَأَیْتُھُمْ یَسْجُدُوْنَ لِمَرْزُبَانٍ لَّھُمْ فَأَنْتَ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ أَحَقُّ أَنْ نَسْجُدَ لَکَ قَالَ أَرَأَیْتَ لَوْ مَرَرْتَ بِقَبْرِیْ أَکُنْتَ تَسْجُدُ لَہٗ قَالَ قُلْتُ لَا قَالَ فَلَا تَفْعَلُوْا لَوْ کُنْتُ آمِرًا أَحَدًا أَنْ یَّسْجُدَ لِأَحَدٍ لَأَمَرْتُ النِّسَآءَ أَنْ یَسْجُدْنَ لِأَزْوَاجِھِنَّ لِمَا جَعَلَ اللّٰہُ لَھُمْ عَلَیْھِنَّ مِنَ الْحَقِّ) [ رواہ أبوداؤد : کتاب النکاح، باب فی حق الزوج علی المرأۃ] ” حضرت قیس بن سعد (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں حیرہ گیا تو میں نے وہاں کے لوگوں کو بادشاہ کو سجدہ کرتے ہوئے دیکھا۔ میں نے کہا : اللہ کے رسول سجدے کے زیادہ لائق ہیں۔ میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا تو میں نے عرض کی : میں نے حیرہ میں دیکھا کہ وہ اپنے بادشاہ کو سجدہ کرتے ہیں۔ اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ زیادہ حقدار ہیں کہ ہم آپ کو سجدہ کریں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : بتلاؤ! اگر تم میری قبر کے پاس سے گزرو تو کیا اسے سجدہ کرو گے؟ میں نے کہا : نہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ایسے نہ کرو اگر میں نے کسی کو کسی کے سامنے سجدہ ریز ہونے کا حکم دینا ہوتا۔ اللہ تعالیٰ نے مردوں کا عورتوں پر جو حق رکھا اس وجہ سے عورتوں کو حکم دیتاکہ وہ اپنے خاوندوں کے سامنے سجدہ ریز ہوں۔“ مسائل ١۔ سب سے پہلے ابلیس نے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی۔ ٢۔ تکبر کرنا ابلیس کا کام ہے۔ ٣۔ تکبر اللہ تعالیٰ کو قطعاً پسند نہیں۔ ٤۔ ابلیس کو قیامت تک کے لیے مہلت دی گئی ہے۔ الاعراف
15 الاعراف
16 الاعراف
17 الاعراف
18 الاعراف
19 فہم القرآن ربط کلام : شیطان کو دھتکارنے اور راندۂ درگاہ کرنے کے بعد آدم (علیہ السلام) اور اس کی بیوی کو جنت میں قیام کرنے کا حکم ہوا۔ اے آدم! تو اور تیری بیوی جنت میں قیام کرو اور اس درخت کے سوا تم جو چاہو کھا پی سکتے ہو۔ ہاں اگر تم اس کے قریب چلے گئے تو ظالموں کی صف میں شامل ہوجاؤ گے۔1 جنت میں رکھنے کی یہ حکمت معلوم ہوتی ہے کہ حضرت آدم (علیہ السلام) اور ان کی زوجہ جنت کی سہولتوں، بہاروں اور نعمتوں کو اچھی طرح دیکھ لیں اور ان سے لطف اندوز ہولیں۔ تاکہ دنیا کی عارضی نعمتوں کو جنت کے مقابلے میں خاطر میں نہ لائیں اور دوبارہ یہاں آنے کی کوشش کریں۔ 2 شاید اس کی یہ بھی حکمت ہو کہ وہ آسمانی نظام کا براہ راست مشاہدہ کریں تاکہ بحیثیت خلیفہ زمین کے انتظامات کرنے میں انہیں سہولت رہے۔ 3 بطور آزمائش اس درخت سے اس لیے منع کیا گیا کہ وہ خدا کے منع کردہ امور سے بچنے کی تربیت پائیں اور غلطی ہونے کی صورت میں معذرت کا رویہ اختیار کریں۔ 4 اس میں یہ حکمت بھی ہو سکتی ہے کہ انہیں شیطان کے ساتھ عداوت اور دشمنی کا مزید مشاہدہ ہو۔ تاکہ دنیا میں جا کر شیطانی اثرات وحرکات سے بچنے کی ہر وقت کوشش کرتے رہیں۔ آدم (علیہ السلام) اور ان کی زوجہ مکرمہ کو جنت میں ٹھہراتے ہوئے کھلی اجازت عنایت فرمائی گئی کہ جنت میں جہاں سے چاہو اس کی نعمتوں سے لطف اندوز ہوتے رہو لیکن ایک بات یاد رکھوکہ اس درخت کے قریب نہ جانا ورنہ تم ظالموں میں شمار ہوگے۔ جنت میں وہ کون سادرخت تھا جس کے قریب نہ جانے سے منع کیا گیا اس کے بارے میں قرآن مجید اور حدیث مبارکہ میں کوئی وضاحت موجود نہیں بعض مفسرین نے جو کچھ لکھا ہے وہ محض اسرائیلی روایات اور اٹکل پچو ہیں۔ قرآن مجید میں کئی بار یہی الفاظ وارد ہوئے ہیں کہ اس درخت کے قریب جاؤگے تو ظالموں میں ہوجاؤ گے یہاں اہل علم نے ظلم کے مختلف معانی بیان کیے ہیں لیکن جوہری اعتبار سے سب کا ایک ہی معنیٰ بنتا ہے کہ کسی چیز کو اس کی اصلیت سے آگے پیچھے کرنا۔ الاعراف
20 فہم القرآن ربط کلام : گزشتہ سے پیوستہ۔ اسی سورۃ کی آیت ١٨٩ میں ذکر ہوا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت حواکو آدم (علیہ السلام) سے ہی پیدا فرمایا۔ یہاں اس بات کا ذکر ہے کہ آدم اور اس کی بیوی کو جنت میں رہنے کا حکم ہوا۔ اور ساتھ یہ بات بتلادی گئی کہ صرف اس ایک درخت کے سوا باقی ہر چیز کھا سکتے ہو۔ اس کے قریب گئے تو ظالموں میں شمار کیے جاؤ گے۔ لیکن شیطان نے انتقام لینے اور ان کو برہنہ کرنے کے لیے ان کے دل میں وسوسہ پیدا کرکے انہیں باور کرایا کہ تمہیں اس درخت سے محض اس لیے روکا گیا ہے کہیں تم فرشتے بن کر ہمیشہ کے لیے جنت کے باسی نہ بن جاؤ۔ نامعلوم شیطان لعین ان کو پھسلانے کی کتنی مدت کوشش کرتا رہا جب اس نے دیکھا کہ یہ دونوں میرے جال میں نہیں پھنس رہے تو اس نے اللہ کی قسمیں اٹھائیں کہ میں تمھیں دشمنی کی بناء پر نہیں بلکہ خیر خواہی کے جذبہ سے مشورہ دے رہا ہوں کہ تمھیں اس درخت کا ذائقہ ضرور چکھنا چاہیے۔ چنانچہ آدم (علیہ السلام) اور ان کی رفیۂ حیات نے شیطان کی قسموں پر اعتبار کرتے ہوئے اس درخت کا ذائقہ چکھ لیا۔ جونہی انہوں نے درخت کا ذائقہ چکھا تو ان کے لباس اتر گئے اور وہ شرم کے مارے جنت کے پتوں سے اپنی شرم گاہوں کو ڈھانپنے کی کوشش کر رہے تھے اس حالت میں اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کو آواز دی کیا میں نے تمہیں اس سے پہلے منع نہیں کیا تھا کہ تم دونوں اس درخت کے قریب نہ جانا اور میں نے یہ بھی تمہیں سمجھایا تھا کہ شیطان تمہارا کھلا دشمن ہے اس سے بچ کر رہنا لیکن تم نے وہ کیا جس سے تمہیں روکا گیا تھا۔ ” وسوسہ“ کا معنیٰ ہے کہ کسی کے دل میں برا خیال ڈالنا یا اس کے کان میں سرگوشی کے انداز میں بری بات کہنا بعض مفسر یہاں اس الجھن کا شکار ہوئے ہیں کہ شیطان کو جنت میں جانے کی اجازت نہ تھی تو پھر اس نے حضرت آدم (علیہ السلام) اور ان کی بیوی کے دل میں کس طرح وسوسہ ڈالا۔ اس الجھن سے نکلنے کے لیے اسرائیلی روایات کا سہارا لیتے ہوئے کہا کہ شیطان سانپ کی شکل میں جنت میں داخل ہوا۔ کچھ مفسرین نے لکھا ہے کہ حضرت آدم (علیہ السلام) جنت کے دروازے کے قریب آئے تو شیطان ان کو ورغلانے میں کامیاب ہوا یہ تفسیر لکھنے والے اگر حدیث رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف رجوع کرتے تو انہیں ان مضحکہ خیز تاویلات کی ضرورت پیش نہ آتی۔ شیطان کی قوت وحرکت کا تذکرہ کرتے ہوئے نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ شیطان دور کھڑا ہو کر بھی انسان پر اثرا نداز ہوتا ہے اور کبھی خون کی گردش کی طرح انسان کے جسم میں سرایت کرجاتا ہے۔ جہاں تک دور کھڑے ہو کر اثر انداز ہونے کا تعلق ہے ٹی وی کے فحش پروگرام اس کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ بعض اہل علم نے اس بات پر تعجب کا اظہار کیا ہے کہ آدم (علیہ السلام) تو مسجود ملائکہ ہونے کی وجہ سے افضل المقام تھے پھر انہیں فرشتہ یا اس کا ہم پلہ ہونے کا کس طرح خیال آیا؟ اس کے ساتھ ہی وہ اس بات پر تعجب کا اظہار کرتے ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ نے میاں بیوی کو جنت میں رہنے کا حکم دیا تھا تو پھر انہیں کس طرح خدشہ پیدا ہوا کہ وہ یہاں سے نکال دیے جائیں گے؟ مذکورہ بالا خیالات کی توجیہ کے لیے بھی کئی راستے نکالے گئے ہیں۔ شاید کچھ مفسرین نے قرآن کے الفاظ پر غور نہیں فرمایا ورنہ قرآن مجید نے اسی مقام پر لفظ ” غرور‘ استعمال کرکے اس الجھن کو دور کردیا ہے ” غرر“ کا معنیٰ ہے حقیقت کے خلاف کوئی چیز پیش کرنا یا حقیقت کے خلاف مغالطہ دینا۔ غرر کا مقصد ہی دوسرے کی عقل وفہم پر پردہ ڈالنا ہوتا ہے۔ اس لیے شیطان باربار اللہ تعالیٰ کی قسمیں اٹھانے کے بعد حضرت آدم (علیہ السلام) اور ان کی بیوی کو دھوکا دینے میں کامیاب ہوا کیونکہ ان کے سامنے اللہ تعالیٰ کے نام کی یہ پہلی قسم تھی جس کی وجہ سے وہ دھوکا کھا گئے آدم (علیہ السلام) اور ان کی بیوی یہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ شیطان اللہ تعالیٰ کی جھوٹی قسم بھی اٹھا سکتا ہے۔ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ثَلَاثَۃٌ لَا یُکَلِّمُہُمْ اللّٰہُ وَلَا یَنْظُرُ إِلَیْہِمْ وَلَا یُزَکِّیہِمْ وَلَہُمْ عَذَابٌ أَلِیمٌ رَجُلٌ عَلٰی فَضْلِ مَاءٍ بِطَرِیقٍ یَمْنَعُ مِنْہُ ابْنَ السَّبِیلِ وَرَجُلٌ بَایَعَ رَجُلًا لَا یُبَایِعُہٗ إِلَّا للدُّنْیَا فَإِنْ أَعْطَاہُ مَا یُرِیدُ وَفٰی لَہٗ وَإِلَّا لَمْ یَفِ لَہٗ وَرَجُلٌ سَاوَمَ رَجُلًا بِسِلْعَۃٍ بَعْدَ الْعَصْرِ فَحَلَفَ باللّٰہِ لَقَدْ أَعْطٰی بِہَا کَذَا وَکَذَا فَأَخَذَہَا)[ رواہ البخاری : کتاب الأحکام، باب من بایع رجلا لا یبایعہ إلا للدنیا] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تین قسم کے لوگوں سے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن نہ بات کریں گے نہ ان کو گناہوں سے پاک کریں گے ان کے لیے درد ناک عذاب ہے۔۔ ایسا آدمی جو دوسرے شخص کو سودا عصر کے بعد اللہ تعالیٰ کی قسم اٹھا کر فروخت کرے کہ وہ اسے فلاں قیمت پر ملا ہے تو لینے والا اس کی تصدیق کرتے ہوئے اس سے لے لے حالانکہ بیچنے والے نے وہ چیز اس قیمت پر نہیں خریدی۔“ (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ الْحَارِثِ رَفَعَہُ إِلَی حَکِیمِ بْنِ حِزَامٍ (رض) قَالَ قَالَ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) الْبَیِّعَان بالْخِیَارِ مَا لَمْ یَتَفَرَّقَا أَوْ قَالَ حَتَّی یَتَفَرَّقَا فَإِنْ صَدَقَا وَبَیَّنَا بُورِکَ لَہُمَا فِی بَیْعِہِمَا وَإِنْ کَتَمَا وَکَذَبَا مُحِقَتْ بَرَکَۃُ بَیْعِہِمَا) [ رواہ البخاری : کتاب البیوع، باب إذا بین البیعان ولم یکتما] ” عبداللہ بن حارث حضرت حکیم بن حزام (رض) کے پاس گئے حضرت حکیم بن حزام (رض) بیان کرتے ہیں رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا خرید و فروخت کرنے والوں کو اختیار ہے جب تک وہ علیحدہ نہ ہوجائیں یا فرمایا یہاں تک کہ وہ علیحدہ ہوجائیں تو اگر وہ دونوں سچے ہوں گے اور چیز کے نقص کی وضاحت کریں گے تو ان کے لیے اس سودے میں برکت ڈال دی جائے گی، اگر وہ چھپائیں اور جھوٹ بولیں گے تو ان کے سودے سے برکت ختم کردی جائے گی۔“ الاعراف
21 الاعراف
22 الاعراف
23 فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ اللہ تعالیٰ کا آدم (علیہ السلام) کو ان کی غلطی پر توجہ دلانا اور آدم (علیہ السلام) اور حضرت حوّا کا اللہ کے حضور معذرت کرنا۔ اللہ تعالیٰ نے جونہی آدم (علیہ السلام) اور ان کی بیوی سے فرمایا کہ کیا میں نے تمہیں اس درخت کے قریب نہ جانے اور شیطان کی دشمنی سے آگاہ نہیں کیا تھا ؟ یہ فرمان سنتے ہی دونوں نہایت عاجزی اور شرمساری کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے حضور ان الفاظ میں معافی مانگنے لگے اے ہمارے رب ! اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم نے اپنے آپ پر ہی ظلم کیا ہے۔ اگر تو نے ہمیں معاف نہ کیا اور ہم پر رحم نہ فرمایا تو ہم نقصان پانے والوں میں ہوں گے۔ آخرت کا خسارہ واضح ہے دنیا کی زندگی میں نقصان یہ ہے کہ تو نے ہمیں عزت وعظمت سے نوازا لیکن ہم اپنی غلطی کی وجہ سے یہ مقام کھوچکے ہیں۔ اس سے پہلی آیت میں ” دَلَّ“ کا لفظ آیا ہے جس کا معنیٰ ہے اوپر سے نیچے آنا یہ گراوٹ روحانی بھی ہوسکتی ہے اور مکانی بھی۔ یہاں دونوں قسم کاتنزل پایا جاتا ہے۔ سورۃ البقرۃ کی آیت ٣٢ تا ٣٧ کی تفسیر میں ہم نے عرض کیا ہے کہ اس مقام پر تینوں قسم کی مخلوق کی فطرت کافرق نمایاں ہوتا ہے۔ ملائکہ نے معمولی لغزش پر لفظ ” سبحان“ کے ساتھ معذرت کی انہیں اسی طرح ہی قربِ الٰہی حاصل رہا۔ شیطان اپنے گناہ پر مصر رہا تو ہمیشہ کے لیے راندۂ درگاہ اور لعنتی قرار پایا۔ آدم (علیہ السلام) اپنی خطا پر معذرت خواہ ہوئے تو ان کی معذرت قبول کرلی گئی تاہم یہ حکم ہوا تم سب کے سب زمین پر اترجاؤ کیونکہ تم ایک دوسرے کے دشمن ہو۔ زمین تمہارے لیے عارضی طور پر جائے قرار اور ایک معین مدت تک زیست کا سامان ہے ہاں یاد رکھوکہ اب تمہیں زمین میں جینا اور مرنا ہے اور اسی سے ہی محشر کے دن اٹھایا جانا ہے۔ آدم (علیہ السلام) کو زمین پر اتارتے وقت کہا گیا تھا کہ تم ایک دوسرے کے دشمن ہو یہاں ایک دوسرے کا دشمن ہونے سے مراد پہلا دشمن شیطان ہے جو انسان کا ابدی اور ازلی دشمن ہے جس کی دشمنی میں کوئی شک نہیں۔ جس نے دشمن پر بھروسہ کیا وہ مارا گیا اور بسا اوقات میاں بیوی بھی آپس میں دشمن اور ایک دوسرے کے مخالف ہوجاتے ہیں یہاں تک کہ اولاد بھی ماں باپ کی مخالف اور دشمن بن جایا کرتی ہے۔ حضرت آدم (علیہ السلام) کی فطرت کا تذکرہ کرتے ہوئے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ (عَنْ أَنَسٍ (رض) أَنَّ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ کُلُّ ابْنِ آدَمَ خَطَّاءٌ وَخَیْرُ الْخَطَّاءِین التَّوَّابُونَ) [ رواہ الترمذی : کتاب صفۃ القیامۃ] ” حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں بلاشبہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ابن آدم خطا کرنے والا ہے اور خطا کاروں میں اچھے وہ ہوتے ہیں جو توبہ کرتے ہیں۔“ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ (رض) أَنَّ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کَانَ یَقُولُ فِی سُجُودِہٖ اللّٰہُمَّ اغْفِرْ لِی ذَنْبِی کُلَّہٗ دِقَّہٗ وَجِلَّہٗ وَأَوَّلَہٗ وَآخِرَہٗ وَعَلَانِیَتَہٗ وَسِرَّہٗ)[ رواہ مسلم : کتاب الصلاۃ ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں بلاشبہ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے سجدوں میں پڑھا کرتے تھے اے اللہ میرے چھوٹے اور بڑے پہلے اور بعد والے، علانیہ اور پوشیدہ کیے تمام کے تمام گناہ معاف فرمادے۔“ تفسیر بالقرآن اللہ رحم کرنے والا، توبہ قبول کرنے والا ہے : ١۔ اللہ تعالیٰ غفور ہے۔ (الحجر : ٤٩) ٢۔ اللہ تعالیٰ رحمن ہے۔ (الفاتحۃ: ٢) ٣۔ اللہ ہی بندوں کی توبہ قبول کرتا ہے۔ (الشورٰی : ٢٥) ٤۔ اللہ بخشنے اور رحمت کرنے والا ہے۔ (الکہف : ٥٨) ٥۔ اللہ کی رحمت ہر چیز سے وسیع ہے۔ (الاعراف : ١٥٦) ٦۔ کشتیوں کا غرق ہونے سے بچنا اللہ کی رحمت کا نتیجہ ہے۔ (یٰسٓ: ٤٣) ٧۔ اللہ کی رحمت سے گمراہ ہی مایوس ہوتے ہیں۔ (الحجر : ٥٦) ٨۔ اللہ کی رحمت سے مایوس نہیں ہونا چاہیے۔ (الزمر : ٥٣) ٩۔ اللہ تعالیٰ کی مومنوں پر خاص رحمت ہوتی ہے۔ (الاحزاب : ٤٣) الاعراف
24 الاعراف
25 الاعراف
26 فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ شجرِممنوعہ کو چکھنے کی وجہ سے آدم (علیہ السلام) اور ان کی رفیقہ حیات کا لباس اتر گیا جس کی وجہ سے شرم کے مارے جنت کے پتوں سے اپنے آپ کو ڈھانپ رہے تھے۔ اس لیے مناسب سمجھا کہ لباس کی افادیت کا بیان کردیا جائے۔ حضرت آدم (علیہ السلام) اور حضرت حوا [ سے خطا سرزد ہونے کی وجہ سے ان کا لباس اتر گیا جس کی بناء پر اولاد آدم کو لباس پہننے اور گناہوں سے بچنے کا حکم دے کر فرمایا ہے کہ لباس پہننے اور گناہوں سے پرہیزگاری اختیار کرنے میں تمہاری خیر ہے یہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے جس سے نصیحت حاصل کرو۔ خیر سے مراد ظاہری کثافت، یا موسم کی حدّت وبرودت سے بچاؤ اور بے حیائی سے بچنا ہے۔ لباس کی فرضیت کے لیے انزلنا اور اسے آیت اللہ قرار دیا ہے۔ جس لباس سے انسان کی حیا، عفّت اور عزت و وقار پامال ہو وہ نہیں پہننا چاہیے لباس کو ظاہری زینت اور شرافت نفس کا ضامن قرار دے کر اس کی اہمیت وفرضیت کو انزلنا کے ساتھ بیان فرمایا کہ ہم نے تمہارے لیے لباس اتارا۔ لفظ انزلنا میں لباس کی فرضیت کے ساتھ یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہی اون، روئی اور چمڑا پیدا کرنے کے ساتھ تمہیں لباس سینے اور پہننے کا سلیقہ سمجھایا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے لباس کی ضرورت و اہمیت بیان کرتے ہوئے صرف مسلمان یا کسی خاص قبیلے اور قوم کو ہی مخاطب نہیں فرمایا بلکہ لباس کی مقصدیت اجاگر کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ لباس آدمی کی زینت اور ستر پوشی کا مظہر ہے۔ (یَا بَنِیْٓ آدَمَ قَدْ أَنزَلْنَا عَلَیْکُمْ لِبَاسًا یُّوَارِی سَوْءَ اتِکُمْ وَرِیشًا وَلِبَاس التَّقْوٰی ذٰلِکَ خَیْرٌ) [ الأعراف : ٢٦] ” اے آدم کی اولاد ! ہم نے تمھارے لیے لباس نازل کیا جو تمھارے جسموں کو ڈھانپنے کے ساتھ تمھارے وجود کی حفاظت اور زینت کا ذریعہ ہے۔ بہترین لباس پرہیزگاری کا لباس ہے۔“ ریش : ریش پرندے کے پروں کو بھی کہا جاتا ہے جو اس کا لباس ہونے کے ساتھ ساتھ حسن و زیبائی کا باعث اور پھر اس کی اڑان اور پروان کا ذریعہ بھی ہیں۔ انسان کیونکہ پوری مخلوق میں ظاہری اور معنوی اعتبار سے خوبصورت ترین پیدا کیا گیا ہے۔“ (لَقَدْ خَلَقْنَا الإِْنسَانَ فِی أَحْسَنِ تَقْوِیمٍ) [ التین : ٤) ” بلاشبہ ہم نے انسان کو بہترین انداز میں تخلیق کیا ہے۔“ اس لیے ضروری ہے کہ وہ ایسا لباس زیب تن کرے جو وضع قطع اور رنگ و ڈیزائن کے اعتبار سے اس کی قدوقامت نکھارو سنوار میں اضافہ کرے۔ لباس کا دوسرا مقصد تقویٰ قرار پایا۔ یہاں تقویٰ کے دونوں معنی لینے چاہییں۔ ظاہری کثافت و نجاست اور موسموں کی حدت و برودت، ہوا اور فضا کے برے اثرات سے اپنے آپ کو بچانا اسی کے باعث آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمیشہ موسم کے مطابق لباس زیب تن فرماتے۔ دیکھنے والوں کا بیان ہے کہ گرمیوں میں آپ کھلا کرتا پہنتے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دعا کے لیے ہاتھ اٹھاتے تو بسا اوقات سامنے بیٹھا ہوا آدمی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آستینوں سے بغلوں کے قریب بازوؤں کی سفیدی دیکھ لیتا تھا۔ (وَاِنَّہُ یَرفَعُ حَتّٰی یُریٰ بَیَاضُ اِبْطَیْہٖ) [ مشکوٰۃ : کتاب الاستسقاء] ” آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس قدر ہاتھ بلند کیے کہ بغلوں کی سفیدی نظر آنے لگی۔“ اور اسی طرح آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سردیوں میں نسبتاً چست لباس استعمال فرماتے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک دفعہ وضو کرنے لگے تو کہنیوں کو دھونے کے لیے آستینیں چڑھانا چاہیں، جب اوپر نہ ہو پائیں تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اچکن اتارنا پڑی۔ (اَنَّ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لَبِسَ جُبَّۃً رُومِیَۃً ضَیِّقَہَ الْکُمَّیْنِ)[ رواہ البخاریومسلم : کتاب اللباس ] ” بلاشبہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک رومی جبہ پہنا جس کی آستینیں تنگ تھیں۔“ لباس کا دوسرا مقصد شرم و حیا کے تمام تقاضوں کو ملحوظ رکھنا ہے۔ قرآن کریم اس کو تقویٰ سے تعبیر کرتا ہے۔ اگر لباس موسم کے مطابق نہیں تو صحت کے خراب ہونے کا اندیشہ ہے اور اگر شریعت کے تقاضے پورے نہیں کرتا تو حیا کے رخصت ہونے کا خدشہ ہے۔ اسی بنا پر خاص کر عورت کو شرم و حیا کی تلقین فرماتے ہوئے پردے کا حکم دیا ہے۔ ” جناب عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب کوئی عورت بے پردہ باہر نکلتی ہے تو شیطان صفت لوگ اس کو اپنی نظروں کا نشانہ بناتے ہیں۔“ [ رواہ الترمذی :] اور یہ بھی فرمایا کہ عورتیں زیادہ باریک لباس نہ پہنیں۔ جس سے ان کا جسم نظر آئے۔ لباس پہننے کے باوجود برہنہ دکھائی دینے والی عورتوں پر پھٹکار کے الفاظ استعمال کیے۔ ” حضرت عائشہ صدیقہ (رض) بیان کرتی ہیں (میری بہن) اسماء بنت ابی بکر (رض) رسول پاک (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئیں اور وہ باریک کپڑے پہنے ہوئے تھیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کی طرف سے چہرہ پھیر لیا اور فرمایا کہ اے اسماء! جب عورت جوان ہوجائے تو اس کے لیے جائز نہیں کہ اس کے ہاتھوں اور چہرے کے علاوہ جسم کا کوئی حصہ نظر آئے۔“ [ مشکوۃ، کتاب اللباس] دوسری روایات میں یہ وضاحت موجود ہے کہ چہرے کا ڈھانپنا نہایت ضروری ہے کیونکہ اگر چہرہ ننگا ہو تو پردے کا تقاضا پورا نہیں ہوتا۔ غرور اور تکبر سے بچیے : (عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَااَسْفَلَ مِنَ الْکَعْبَیْنِ مِنَ الْاِزَارِ فِیْ النَّارِ) [ مشکوۃ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو شخص ٹخنوں سے نیچے تہبند رکھے گا اس کے ٹخنوں کو آگ میں جلایا جائے گا۔“ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ملبوسات کے رنگ وڈیزائن : (عَن سَمُرَۃَ (رض) اَنَّ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ اِلْبَسُوا الثِّےَابَ الْبِےْضَ فَاِنَّھَا اَطْہَرُ وَاَطْےَبُ وَکَفِّنُوْا فِےْھَا مَوتَاکُمْ) ” حضرت سمرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ سفیدکپڑے پہنا کرو کیونکہ یہ زیا دہ صا ف ستھرے اور نفیس ہوتے ہیں۔ اور اپنے فوت ہونے والوں کو سفید کپڑوں میں کفن دیا کرو۔“ [ مشکوٰۃ: کتاب اللباس] آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سفید لباس پسند کرنے کے باوجود رنگ دار لباس بھی زیب تن کرتے تھے۔ خصوصاً وفود سے ملاقات کرتے ہوئے گیرورنگ کالباس پہنتے۔ بالکل کالا، سبز اور سرخ رنگ کالباس کبھی بھی استعمال نہیں کیا۔ مخصوص لباس اور ہمیشہ ایک ہی رنگ اختیار کیے رکھنا نیکی کی نمائش اور جاہل صوفیا کا طریقہ ہے۔ احادیث کی مقدس دستاویز ات میں کالے یا سرخ رنگ کے لباس کے جو اشارات ملتے ہیں اس سے مراد سرخی یا سیاہی مائل کپڑے ہیں۔ حافظ ابن قیم (رض) نے لکھا ہے کہ بالکل سیاہ، سبز اور سرخ لباس آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نہیں پہنا۔ حدیث میں ایسے رنگوں سے مراد ان رنگوں کا غالب ہونا ہے۔ البتہ دستار مبارک اور سردیوں میں اوپر لینے والی چادر خالص کالے رنگ کی استعمال فرمائی۔ (عَنْ عَمْرِ وبْنِ حُرَےْثٍ (رض) قَالَ رَأَےْتُ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عَلَی الْمِنْبَرِ وَعَلَیْہِ عَمَامَۃٌ سَوْدَآءَ) ” حضرت عمرو بن حریث (رض) کہتے ہیں کہ میں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو منبر پر تشریف فرما دیکھا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سیاہ پگڑی سجائے ہوئے تھے۔“ [ مشکوٰۃ: کتاب اللباس] وضع قطع کے اعتبار سے چند معمولی تبدیلیوں کے علاوہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے وہی لباس استعمال فرمایا جو اس زمانے میں لوگ پہنا کرتے تھے۔ اس دور میں لوگ اکثر قمیص کے ساتھ تہبند اور سر پر دستار سجایا کرتے تھے۔ یہی بڑے اور معزز لوگوں کا لباس ہوا کرتا تھا۔ البتہ معاشرے میں پاجامہ اور شلوار بھی لوگوں کے زیراستعمال تھی۔ یہی وجہ ہے کہ حافظ ابن قیم (رض) نے اس بات کی طرف اشارے دیے ہیں کہ نبی محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) شلوار بھی پہنا کرتے تھے۔ جبکہ صحابہ کرام (رض) سے شلوار یا پاجامہ اور سروں پر ٹوپیاں پہننے کے تو کافی ثبوت موجود ہیں۔ (عَنْ سَہْلِ بْنِ مُعَاذِ بْنِ أَنَسٍ عَنْ أَبِیہِ أَنَّ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ مَنْ أَکَلَ طَعَامًا ثُمَّ قَالَ الْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِی أَطْعَمَنِی ہٰذَا الطَّعَامَ وَرَزَقَنِیہِ مِنْ غَیْرِ حَوْلٍ مِنِّی وَلَا قُوَّۃٍ غُفِرَ لَہٗ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِہٖ وَمَا تَأَخَّرَ قَالَ وَمَنْ لَبِسَ ثَوْبًا فَقَالَ الْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِی کَسَانِی ہٰذَا الثَّوْبَ وَرَزَقَنِیہٖ مِنْ غَیْرِ حَوْلٍ مِنِّی وَلَا قُوَّۃٍ غُفِرَ لَہٗ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِہٖ وَمَا تَأَخَّرَ)[ رواہ ابو داؤد : کتاب اللباس] ” حضرت سہل بن معاذ بن انس اپنے باپ سے بیان کرتے ہیں بلاشبہ رسول مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو شخص کھانا کھائے تو کہے تمام تعریفات اس اللہ کے لیے جس نے مجھے یہ کھانا کھلایا اور مجھے بغیر مشقت کے عنایت فرمایا تو اس کے تمام اگلے اور پچھلے گناہ معاف کردیے جاتے ہیں۔ جو کوئی کپڑا پہنے تو کہے تمام تعریفات اس اللہ تعالیٰ کے لیے جس نے مجھے یہ کپڑا پہنا یا اور مجھے بغیر کسی مشقت کے عنایت فرمایا تو اس کے اگلے اور پچھلے تمام گناہ معاف کردیے جاتے ہیں۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے لباس اس لیے نازل فرمایا تاکہ لوگ اس کے ساتھ جسم اور اپنی شرافت کی حفاظت کریں۔ ٢۔ لباس پہننے میں ہی بہتری ہے بشرطیکہ انسان اس کی حقیقت سمجھ جائیں۔ ٣۔ لباس پہننے کا مقصدزینت اور تقویٰ کا حصول ہے تفسیر بالقرآن نصیحت حاصل کرو : ١۔ ہم نے قرآن مجید کو واضح کردیا تاکہ لوگ نصیحت حاصل کریں۔ (بنی اسرئیل : ٤١) ٢۔ اللہ تعالیٰ نے آل فرعون کو مختلف عذابوں سے دو چار کیا تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں۔ (الاعراف : ١٣٠) ٣۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کو نصیحت کے لیے نازل فرمایا۔ (آ : ٢٩) ٤۔ اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کے جوڑے (نرومادہ) بنادیے تاکہ لوگ نصیحت حاصل کریں۔ (الذاریات : ٤٩) ٥۔ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں مثالیں بیان کرتا ہے تاکہ لوگ نصیحت حاصل کریں۔ (الزمر : ٢٧) ٦۔ اللہ تعالیٰ لوگوں کے لیے اپنی آیات کھول کھول کر بیان کرتا ہے تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں۔ (البقرۃ: ٢٢١) ٧۔ صاحب عقل ودانش ہی نصیحت حاصل کرتے ہیں۔ (الزمر : ٩) الاعراف
27 فہم القرآن ربط کلام : لباس کا حکم دینے کے بعد بنی آدم کو شیطان سے بچنے کا حکم تاکہ جسمانی حفاظت کے ساتھ اس کا کردار بھی سلامت رہے۔ بنی نوع انسان کو لباس پہننے کا حکم دے کر لباس کو پرہیزگاری اور ہر قسم کی خیر قرار دیا ہے۔ آدمی شریعت کے مطابق لباس کا اہتمام کرکے ظاہری وباطنی گناہوں سے تبھی بچ سکتا ہے جب شیطان کو اپنا دشمن جان کر اس کی شرارت، سازش اور فتنہ انگیز یوں سے بچنے کی کوشش کرے۔ اس احساس کو بیدار کرنے اور انسان کی غیرت کو ابھارنے کے لیے یہ کہہ کر غیرت دلائی گئی ہے کہ تمہیں شیطان سے بچنے کا اس لیے بھی حکم دیا جاتا ہے کہ یہ تمہارا ایسا دشمن ہے کہ جس نے تمہارے ماں باپ کو جنت سے برہنہ کرکے نکلوایا تھا یہ تمہارا ایسا دشمن ہے کہ وہ اور اس کے چیلے چانٹے تمہیں وہاں سے دیکھتے ہیں جہاں سے تم ان کو نہیں دیکھ سکتے۔ شیطان اور اس کی اولاد جناّت میں سے ہیں اور جناّت کو اللہ تعالیٰ نے ایسی آگ سے بنایا ہے جو ہمیں نظر نہیں آتی اور پھر شیطان کو یہ قوت بھی دی کہ وہ کئی روپ بدل کر انسان کو گمراہ کرتا ہے۔ اس لیے فرمایا وہ اور اس کی اولاد تمہیں دیکھتی ہے جبکہ تم انہیں نہیں دیکھ سکتے۔ اس سے ثابت ہوا کہ شیطان اور اس کی دشمنی انسان کے لیے انتہائی خطرناک ہے آدمی اپنے سے کئی گنا بڑے دشمن کے ساتھ آمنے سامنے کچھ نہ کچھ مقابلہ کرسکتا ہے لیکن ایسا دشمن جو ان دیکھے وار کرے اس کا مقابلہ کرنا انتہائی مشکل ہوتا ہے اس آیت میں صرف شیطان کو آدمی کا دشمن قرار نہیں دیا گیا بلکہ شیطان کا ایک ایک روحانی اور جسمانی فرزند آدمیت کا دشمن ہے۔ یاد رہے قرآن مجید کی آخری سورۃ الناس میں جنات کے ساتھ بعض انسانوں کو بھی شیطان قرار دیا ہے۔ شیطان توانسان کے دل میں صرف برائی کی طاقت اور خیال پیدا کرتا ہے جبکہ انسان کے روپ میں جو شیطان ہوتے ہیں وہ عورت کی شکل میں عورتوں کو اور مرد کی صورت میں مردوں کو الگ الگ اور مردوزن کے اختلاط سے بے حیائی اور اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی دعوت دیتے ہیں۔ جس کا مظاہرہ تفریح کے نام پر ٹی وی، کیبل ڈراموں، آرٹ کونسلوں اور مختلف قسم کی سماجی تقریبات میں سامنے آتا ہے۔ سب سے پہلے شیطان انسان کے اندر جسمانی اور اخلاقی بے حیائی پیدا کرتا ہے۔ جب کسی انسان اور معاشرہ میں بے حیائی پیدا ہوجائے تو اس سے ہر گناہ اور جرم کی توقع کی جاسکتی ہے ایسے لوگوں کو سمجھایا جائے تو وہ اسے اپنے بڑوں کی روایت اور معاشرے کا کلچر قرار دیتے ہیں۔ جب انہیں مزید توجہ دلائی جائے تو وہ یہاں تک کہہ گزرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کو یہ کام ناپسند ہوتا تو لوگ اس طرح اپنی خوشیوں کا اظہار نہ کرتے۔ اللہ تعالیٰ کے حکم کے خلاف کوئی پتہ حرکت نہیں کرسکتا۔ لہٰذا ہم جو کچھ کر رہے ہیں اس کی مرضی اور منشاء کے مطابق کرتے ہیں۔ اے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! انہیں بتلائیں اور سمجھائیں کہ اللہ تعالیٰ بے حیائی کو ہرگز پسند نہیں کرتا اور نہ بے حیائی کو اپنانے اور پھیلانے کا حکم دیتا ہے۔ شیطان کے دوستوں کا اللہ تعالیٰ اور قیامت کے دن پر ایمان نہیں ہوتا۔ جس کی بناء پر وہ ایسی باتیں کہتے اور حرکات کرتے ہیں۔ اللہ اپنے بندوں کو ہر قسم کی بے حیائی سے روکتا ہے اللہ تعالیٰ کے نام بے حیائی کی نسبت کرنا پرلے درجے کی جہالت ہے جو ایمان سے تہی دامن شخص ہی کرسکتا ہے بے حیا لوگ اللہ تعالیٰ کے بارے میں وہ بات کرتے ہیں جس کا علم ودانش اور شرم و حیا کے ساتھ دور کا واسطہ نہیں ہوتا۔ (عَنْ عُقْبَۃَ قَالَ قَال النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) إِنَّ مِمَّا أَدْرَکَ النَّاسُ مِنْ کَلَام النُّبُوَّۃِ إِذَا لَمْ تَسْتَحْیِ فَافْعَلْ مَا شِءْتَ) [ رواہ البخاری : کتاب احادیث الأنبیاء، باب حدیث الغار] ” حضرت عقبہ (رض) فرماتے ہیں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بلاشبہ لوگوں نے نبوت کے کلام سے جو چیز حاصل کی اس میں یہ ہے کہ جب تجھ میں شرم و حیاء نہ رہے تو پھر جو مرضی کرتا رہ۔“ (عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ (رض) قَالَ کَانَتْ الْمَرْأَۃُ تَطُوف بالْبَیْتِ وَہِیَ عُرْیَانَۃٌ فَتَقُولُ مَنْ یُعِیرُنِی تِطْوَافًا تَجْعَلُہُ عَلٰی فَرْجِہَا وَتَقُولُ الْیَوْمَ یَبْدُو بَعْضُہُ أَوْ کُلُّہُ فَمَا بَدَا مِنْہُ فَلَا أُحِلُّہُ فَنَزَلَتْ ہٰذِہِ الْآیَۃُ خُذُوا زینَتَکُمْ عِنْدَ کُلِّ مَسْجِدٍ )[ رواہ مسلم : کتاب التفسیر، باب قول اللہ تعالیٰ خُذُوا زینَتَکُمْ عِنْدَ کُلِّ مَسْجِدٍ ] ” حضرت عبداللہ بن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایام جاہلیت میں عورت برہنہ ہو کر خانہ کعبہ کا طواف کرتی اور کہتی کوئی ہے جو مجھے عاریتاً کپڑا دے اور میں اس سے شرم گاہ ڈھانپ لوں۔ پھر کہتی آج یا تو کچھ شرم گاہ کھلی رہے گی یا پوری کھلی رہے گی بہرحال جتنی بھی کھلی رہے گی اسے کسی پر حلال نہیں کروں گی۔ آیت ( خُذُوا زینَتَکُمْ عِنْدَ کُلِّ مَسْجِدٍ) اسی بارے میں نازل ہوئی“ مسائل ١۔ انسان شیطان کو اس لیے بھی اپنادشمن سمجھے کیونکہ وہ ہمارے ماں باپ حضرت آدم (علیہ السلام) اور حوا کے ساتھ دشمنی کی تھی۔ ٢۔ شیطان اور اس کی اولاد ہم کو دیکھتے ہیں جبکہ ہم انہیں نہیں دیکھ سکتے۔ ٣۔ شیطان کی کوشش ہے کہ لوگوں کو برہنہ کر دے۔ ٤۔ ایمان سے تہی دامن لوگ شیطان کے دوست ہوتے ہیں۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ کے ذمہ برائی کی نسبت کرنا پرلے درجے کا گناہ اور گمراہی ہے۔ ٦۔ اللہ تعالیٰ ہر انسان کو ہر قسم کی بے حیائی سے منع کرتا ہے۔ تفسیر بالقرآن اولیاء الشیطان کی نشانیاں : ١۔ اولیاء الشیطان اللہ کی آیات پر ایمان نہیں لاتے۔ (الاعراف : ٢٨) ٢۔ اولیاء الشیطان گمراہی وضلالت کو نہیں چھوڑتے۔ (البقرۃ: ٢٥٧) ٣۔ اولیاء الشیطان اللہ اور آخرت پر ایمان نہیں لاتے اور دکھلاوے کے لیے خرچ کرتے ہیں۔ (النساء : ٣٨) الاعراف
28 الاعراف
29 فہم القرآن ربط کلام : بعض مشرکین بیت اللہ میں برہنہ طواف کرتے تھے انہیں اس حرکت سے روکا جاتا تو وہ کہتے اس طرح کرنے کا اللہ تعالیٰ نے ہمیں حکم دیا ہے۔ یہ پرلے درجے کی بے انصافی کی بات ہے۔ اس کی نفی کرنے کے ساتھ یہ وضاحت کی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ بے حیائی کا حکم دینے کی بجائے حیاداری کا حکم دیتا ہے۔ مشرکین نے برہنہ طواف کرنے کو اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کر رکھا تھا اس کے جواب میں انہیں یہ کہا گیا کہ تم اللہ تعالیٰ کے ذمہ ایسی بات لگاتے ہو جس کا علم کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ باطل مذاہب کی شروع سے یہ روش رہی ہے کہ وہ اپنے فرسودہ نظریات کو صحیح ثابت کرنے کے لیے انہیں دین کا لبادہ پہناتے ہیں تاکہ عوام الناس ثواب سمجھ کر ان رسومات کی پیروی کریں۔ باطل مذہب کی ایک نشانی یہ بھی ہے کہ وہ تضادات کا مجموعہ ہوتا ہے اس میں ہر قسم کی افراط وتفریط پائی جاتی ہے اس کے مقابلہ میں آسمانی دین اعتدال پر قائم ہوتا ہے جس میں کسی قسم کی افراط وتفریط نہیں ہوتی۔ اس لیے یہاں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکماً فرمایا جارہا ہے کہ آپ اعلان فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے ” القسط“ پر قائم رہنے کا حکم دیا ہے۔ اہل لغت اور مفسرین نے قسط کا مفہوم بیان کرتے ہوئے لکھا ہے اس سے مراد اللہ کی توحید پر پختگی اختیار کرنا اور ” فکروعمل میں اعتدال قائم کرنا ہے“ یاد رہے کہ سارے کا سارا دین القسط کے اصول پر قائم ہے۔ سورۃ الرحمان، آیت : ٩ میں ماپ تول میں قسط کا حکم دیا ہے اور سورۃ الحجرات، آیت : ٩ میں ہر معاملے میں قسط یعنی ہر قسم کی افراط و تفریط سے بچ کر عدل وانصاف پر قائم رہنے کا حکم دیا گیا ہے۔ یہاں مسجد سے مراد مفسرین نے سجدہ لیا ہے کیونکہ مسجد عبادت کے لیے ہی بنائی جاتی ہے۔ سجدہ نماز میں انتہائی عاجزی اور انکساری کی علامت ہے جس کا مطلب یہ ہوا کہ پوری کی پوری نماز اور ہر قسم کی عبادت اللہ ہی کے لیے خاص ہونی چاہیے۔ اس بنا پر حقیقتاً مسجد وہی ہوگی جس کی بنیاد تقویٰ اور لِلّٰھیت پر رکھی گئی ہو۔ سورۃ الجن، آیت : ١٨ میں یہی ارشاد ہوا ہے کہ مساجد اللہ ہی کے لیے ہونی چاہییں اور اس میں خالص اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنی چاہیے اسی کی وضاحت کرتے ہوئے مسجد کے ذکر کے بعد حکم دیا ہے کہ اپنے آپ کو اللہ کے دین کے تابع کرتے ہوئے خالص اپنے رب کی عبادت کرو۔ کیونکہ اس نے ہی تمہیں پیدا کیا ہے اور تمہیں اسی کی طرف لوٹایاجانا ہے۔ جس کی یہ بھی تفسیر کی گئی ہے کہ جس طرح انسان ماں کے پیٹ سے ننگا پیدا ہوتا ہے اسی طرح قیامت کے دن لوگ برہنہ اٹھائے جائیں گے۔ (عَنْ عَاءِشَۃَ (رض) قَالَتْ قَالَ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تُحْشَرُونَ حُفَاۃً عُرَاۃً غُرْلًا قَالَتْ عَاءِشَۃُ فَقُلْتُ یَا رَسُول اللّٰہِ الرِّجَالُ وَالنِّسَاءُ یَنْظُرُ بَعْضُہُمْ إِلٰی بَعْضٍ فَقَالَ الْأَمْرُ أَشَدُّ مِنْ أَنْ یُہِمَّہُمْ ذَاکَ)[ رواہ البخاری : کتاب الرقاق، باب کیف الحشر] ” حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تم ننگے پاؤں، ننگے بدن اور بغیر ختنے کے جمع کیے جاؤ گے حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں میں نے پوچھا اے اللہ کے رسول! کیا مرد اور عورتیں ایک دوسرے کی طرف نہیں دیکھیں گے ؟ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اس دن معاملہ اس قدر شدید ہوگا کہ انھیں اس کا خیال بھی نہیں آئے گا۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے ہر معاملہ میں القسط یعنی عدل وانصاف پر قائم رہنے کا حکم دیا ہے۔ ٢۔ مسلمان کو ہر حال میں اللہ تعالیٰ کے دین کے تابع ہونا چاہیے۔ ٣۔ عبادت خالص اللہ کے لیے ہی ہونی چاہیے۔ ٤۔ انسان ننگے بدن پیدا ہوتا ہے اور قیامت کے دن بھی لوگ ننگے اٹھائے جائیں گے۔ تفسیر بالقرآن دین میں اخلاص کی اہمیت : ١۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اخلاص کا حکم۔ (الزمر : ٢، ١١) ٢۔ پوری امت کو اخلاص کا حکم۔ (غافر : ١٤) ٣۔ پہلی امتوں کو بھی اخلاص کا حکم۔ (البینۃ: ٥) ٤۔ مشرکین بھی مشکل کے وقت خالصتاً اللہ تعالیٰ کے پکارتے تھے۔ (یونس : ٢٢) ٥۔ مخلص لوگ شیطان کی چالوں سے محفوظ رہتے ہیں۔ (الحجر : ٤٠) ٦۔ اللہ کے عذاب سے اخلاص والے بندے محفوظ رہتے ہیں۔ (الصٰفٰت : ٧٤) الاعراف
30 فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو خالص اپنی عبادت کا حکم دیا ہے لیکن اس کے باوجود لوگ اس کی عبادت میں دوسروں کو شریک کرتے ہیں جو سراسر گمراہی ہے۔ سورۃ البقرۃ آیت ٢٥٦، ٢٥٧ میں واضح کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہدایت کو گمراہی سے الگ اور ممتاز کردیا ہے جو شخص طاغوت کا انکار کرے اور اللہ تعالیٰ پرسچا ایمان لائے۔ درحقیقت اس نے ایسی رسی کو مضبوطی کے ساتھ تھام لیا ہے جس کا ٹوٹنا ناممکن ہے۔ اللہ تعالیٰ ایمان والوں کو جہالت کی تاریکیوں سے نکال کر ایمان وایقان اور علم کی روشنی کی طرف لاتا ہے۔ کافر اپنے ساتھیوں کو ایمان کی روشنی سے نکال کر کفرو شرک کی تاریکیوں میں دھکیلتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ ہدایت پر صاحب ایمان لوگ رہنمائی پاتے ہیں اور دوسروں پر گمراہی مسلط ہوجاتی ہے کیونکہ انہوں نے اللہ تعالیٰ سے تعلق جوڑنے کے بجائے شیطان کو اپنا ساتھی اور خیر خواہ بنایا ہوتا ہے۔ جو انسان کا کھلم کھلا دشمن ہے۔ دشمن کو خیر خواہ سمجھنے والا کبھی خیر نہیں پاسکتا۔ ایسے لوگوں کی بدقسمتی کی انتہا یہ ہے کہ وہ سراسر گمراہ ہونے کے باوجود اپنے آپ کو ہدایت یافتہ تصور کرتے ہیں۔ یہی کچھ شیطان نے کہا تھا کہ میرا مؤقف ٹھیک ہے کہ میں آدم سے بہتر ہوں۔ (عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ (رض) قَالَ کَانَ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یُکْثِرُ أَنْ یَّقُول اللّٰہُمَّ ثَبِّتْ قَلْبِی عَلٰی دینِکَ) [ رواہ ابن ماجہ : کتاب الدعاء، باب دعاء رسول اللّٰہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ] ” حضرت انس بن مالک (رض) فرماتے ہیں رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اکثر فرمایا کرتے تھے اے اللہ میرے دل کو اپنے دین پر ثابت قدم رکھنا۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ پر سچا ایمان لانے والے ہرقدم پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے رہنمائی پاتے ہیں۔ ٢۔ شیطان کی سنگت اختیار کرنے والوں پر گمراہی مسلط ہوجاتی ہے۔ ٣۔ شیطان کے ساتھی گمراہ ہونے کے باوجود اپنے آپ کو ہدایت یافتہ تصور کرتے ہیں۔ الاعراف
31 فہم القرآن ربط کلام : مکہ کے مشرک بیت اللہ کا برہنہ طواف کرتے تھے اس سے منع کرتے ہوئے تمام انسانوں کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ بیت اللہ اور مساجد میں ننگا آنے کی بجائے لباس پہنا کریں۔ مشرک اور بےدین لوگوں کی زمانہ قدیم سے عادت رہی ہے کہ وہ ننگے ہو کر عبادت کرنے کو ترک دنیا اور لِلّھیت تصور کرتے ہیں۔ ان میں کچھ لوگ تو سراپا برہنہ ہوتے اور کچھ صرف لنگوٹی کا ستعمال کرتے ہیں جس طرح کہ ہندوستان کے سب سے بڑے لیڈر مہاتماگاندھی اکثر لنگوٹی پہنا کرتے تھے اور آج بھی کئی پنڈت اور گوتم بدھ کے ماننے والے اپنی شرم گاہ کو ڈھانپنے کے سوا ننگا رہنا رہبانیت کا حصہ تصور کرتے ہیں۔ ان کی دیکھا دیکھی مسلمانوں میں صوفی لوگ برہنہ تو نہیں ہوتے تاہم ناقص اور گندا لباس پہننے کو نیکی تصور کرتے ہیں۔ ان کی وجہ سے مزارات پر نیم برہنہ لوگ سرعام پھرتے دکھائی دیتے ہیں اسلام نے نہ صرف تارک الدنیا ہونے کی مذمت کی ہے بلکہ دین اسلام نے بلاشرعی عذر اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ نعمتوں سے فائدہ نہ اٹھانے کو گناہ قرار دیا ہے۔ اسی طرح وسائل ہونے کے باوجود جو شخص مناسب لباس نہیں پہنتا شریعت نے اسے بھی پسند نہیں کیا۔ کیونکہ جہالت کی بنیاد پر لوگ بیت اللہ اور عبادت گاہوں میں برہنہ آتے تھے اس لیے بالخصوص حکم دیا ہے کہ جب بھی مسجد میں آؤ تو پاک جسم اور اچھا لباس پہنا کرو اس سے پہلے ” القسط“ کا حکم دیا گیا تھا جس کا معنیٰ افراط وتفریط سے بچنا اور ہر معاملہ میں عدل وانصاف اور توازن قائم رکھنا ہے لہذا عبادات، ملبوسات، اور کھانے پینے میں بھی اعتدال اور توازن ہونا چاہیے اس لیے ہر قسم کے اسراف سے منع کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے اوصاف کا تذکرہ کرتے ہوئے یہ صفت بھی بیان کی ہے وہ خرچ کرتے ہوئے نہ اسراف کرتے ہیں اور نہ ہی بخل کے مرتکب ہوتے ہیں بلکہ وہ ہمیشہ اعتدال کا راستہ اختیار کرتے ہیں۔ (فرقان : ٦٧) (عَنْ أَبِی الْأَحْوَصِ عَنْ أَبِیہِ أَنَّہُ أَتَی النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فِی ثَوْبٍ دُونٍ فَقَالَ لَہٗ النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) أَلَکَ مَالٌ قَالَ نَعَمْ مِنْ کُلِّ الْمَالِ قَالَ مِنْ أَیِّ الْمَالِ قَالَ قَدْ آتَانِی اللّٰہُ مِنْ الْإِبِلِ وَالْغَنَمِ وَالْخَیْلِ وَالرَّقِیقِ قَالَ فَإِذَا آتَاک اللّٰہُ مَالًا فَلْیُرَ عَلَیْکَ أَثَرُ نِعْمَۃِ اللّٰہِ وَکَرَامَتِہٖ)[ رواہ النسائی : کتاب الزینۃ، باب الجلاجل ] ” حضرت ابو الاحوص اپنے والد سے بیان کرتے ہیں کہ بلاشبہ وہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس بالکل معمولی کپڑوں میں آئے تو انھیں اللہ کے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کیا تمھارے پاس مال ہے انھوں نے کہا ہاں ہر طرح کا مال ہے نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا کون کون سا ؟ میرے والد نے کہا اللہ نے اونٹ، بکریاں، گھوڑے، غلام اور لونڈیاں بھی دی ہیں۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب اللہ تعالیٰ نے تمھیں مال دیا ہے تو تم پر اس کی نعمت اور فضل کے آثار بھی دیکھے جانے چاہییں۔“ (عَنْ عُمَرَ بْنَ أَبِی سَلَمَۃَ (رض) یَقُولُ کُنْتُ غُلَامًا فِی حَجْرِ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وَکَانَتْ یَدِی تَطِیشُ فِی الصَّحْفَۃِ فَقَالَ لِی رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَا غُلَامُ سَمِّ اللّٰہَ وَکُلْ بِیَمِینِکَ وَکُلْ مِمَّا یَلِیکَ فَمَا زَالَتْ تِلْکَ طِعْمَتِی بَعْدُ) [ رواہ البخاری، کتاب الأطعمۃ، باب التسمیۃ علی الطعام] ” حضرت عمر بن ابو سلمہ (رض) کہتے ہیں میں رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہاں گود میں بچہ تھا اور میرا ہاتھ کھانے کے دوران برتن میں گھوم رہا تھا مجھے رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اے بچے کھانا اللہ کے نام سے شروع کرو۔ دائیں ہاتھ اور اپنے آگے سے کھاؤ اس کے بعد میں ہمیشہ کھانا اسی طرح کھاتا ہوں۔“ (عَنْ عَاءِشَۃَ (رض) أَنَّ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ إِذَا أَکَلَ أَحَدُکُمْ فَلْیَذْکُرْ اسْمَ اللّٰہِ تَعَالٰی فَإِنْ نَسِیَ أَنْ یَذْکُرَ اسْمَ اللّٰہِ تَعَالٰی فِی أَوَّلِہٖ فَلْیَقُلْ بِسْمِ اللّٰہِ أَوَّلَہٗ وَآخِرَہٗ) [ رواہ ابوداؤد والترمذی : کتاب الأطعمۃ، باب التسمیۃ علی الطعام] ” حضرت عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ بلاشبہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب تم میں سے کوئی کھانا کھانے لگے تو بسم اللہ پڑھ لے اگر اللہ کا نام لینا بھول جائے تو اسے چاہیے کہ کہے اللہ کے نام سے ہی ابتدا اور انتہا کرتا ہوں۔“ (عَنْ مِقْدَامِ بْنِ مَعْدِی کَرِبَ (رض) قَالَ سَمِعْتُ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَقُولُ مَا مَلَأَ آدَمِیٌّ وِعَاءً شَرًّا مِنْ بَطْنٍ بِحَسْبِ ابْنِ آدَمَ أُکُلَاتٌ یُقِمْنَ صُلْبَہُ فَإِنْ کَانَ لَا مَحَالَۃَ فَثُلُثٌ لِطَعَامِہٖ وَثُلُثٌ لِشَرَابِہٖ وَثُلُثٌ لِنَفَسِہٖ) [ رواہ احمد والترمذی : کتاب الزھد، باب ماجاء فی کراھیۃ کثرۃ الأکل] ” حضرت مقدام بن معدیکرب (رض) بیان کرتے ہیں میں نے رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا آپ نے فرمایا کسی بھی برتن کا بھرنا آدمی کے پیٹ سے بھرنے سے برا نہیں۔ ابن آدم کی کمر کو سیدھا رکھنے کے لیے چند لقمے کافی ہیں اگر اس طرح گزارہ نہ ہو تو ایک حصہ کھانے، ایک حصہ پینے اور ایک حصہ سانس لینے کے لیے ہونا چاہیے۔“ مسائل ١۔ مساجد میں آتے ہوئے اچھا لباس پہننا چاہیے۔ ٢۔ رہنے سہنے اور کھانے پینے میں اعتدال ہونا چاہیے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ اسراف کو ہرگز پسند نہیں کرتا ہے۔ الاعراف
32 فہم القرآن ربط کلام : بنی نوع انسان کو لباس پہننے کا حکم دینے کے ساتھ فرمایا تھا کہ کھاؤ اور پیو مگر اعتدال کے ساتھ۔ اس حکم کے باوجود جو لوگ شریعت کی جائز کردہ زیب وزینت اور حلال چیزوں کو حرام کرتے ہیں انہیں انتباہ کے انداز میں ایک سوال کیا ہے۔ ذرا بتاؤ تو سہی کہ جن چیزوں کو تم مذہب کے نام پر حرام کہتے ہو وہ کس نے تمہارے لیے حرام کی ہیں؟ جبکہ حرام وحلال کا اختیار اللہ تعالیٰ نے کسی کو بھی نہیں دیا پھر کون ہے جو اللہ کی نعمتوں کو اسکے بندوں پر حرام کرے ؟ سورۃ التحریم کی پہلی آیت میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ اے نبی آپ کو حق نہیں ہے کہ آپ اپنی ازواج کو خوش کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ کی حلال کردہ چیز کو اپنے لیے حرام قرار دیں۔ اس فرمان سے یہ حقیقت بالکل واضح ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کے آخری نبی کو بھی کسی حلال کو حرام کرنے اور حرام کو حلال کرنے کا اختیار نہیں تو دوسرا کون ہوتا ہے جو اللہ تعالیٰ کی حلال قرار دی ہوئی چیزوں کو حرام کی فہرست میں شامل کرے۔ اس لیے بطور انتباہ ایسے لوگوں سے پوچھا جارہا ہے بتاؤ وہ کون سی ذات ہے جس نے اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو تم پر حرام قرار دیا ہے جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لیے پیدا فرماکر حلال قرار دیا۔ یہاں نعمتوں کے لیے زینت اور طیبات کا لفظ استعمال کیا ہے۔ مفسر قرآن حضرت عبداللہ بن عباس (رض) فرمایا کرتے تھے کہ زینت سے مراد مردوزن کالباس ہے لہٰذا انسان کے لیے ہر چیز اور سب کے سب لباس جائز ہیں سوائے ان کے جن سے شریعت نے منع کیا ہے جہاں تک عمدہ اور قیمتی لباس کا تعلق ہے۔ حضرت عبدالرحمن بن عوف (رض) نے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کی۔ کیا عمدہ لباس پہننا تکبر میں شامل ہے؟ آپ نے فرمایا اچھا لباس پہننا تکبر میں شامل نہیں۔ اسی طرح خوردونوش کے بارے میں ہر وہ چیز مسلمان کو کھانے کی اجازت ہے جو پاک ہو اور شریعت نے اسے حلال قرار دیا ہو۔ اللہ تعالیٰ اپنے احکام اس لیے کھول کر بیان کرتا ہے تاکہ لوگ ان سے آگہی حاصل کریں۔ یہاں زینت اور طیبات کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے کہ یہ دنیا کی زندگی میں صاحب ایمان لوگوں کے لیے ہیں جن سے کفار بھی فائدہ اٹھاتے ہیں البقرۃ کی آیت ١٢٦ میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی دعاؤں کا ذکر ہے جب انہوں نے بیت اللہ تعمیر کرنے کے بعد اور دعاؤں کے ساتھ یہ بھی دعا کی کہ الٰہی حرم کے رہنے والوں میں ان لوگوں کو رزق عنایت فرما جو تیری ذات اور آخرت پر یقین رکھتے ہیں۔ جواباً ارشاد ہوا کہ میں ان کو بھی رزق دوں گا جو کفر کریں گے البتہ انہیں آخرت میں جہنم کی آگ میں جھونکا جائے گا۔ یہاں اس بات کا کنایۃً ذکر ہے کہ دنیا میں اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ زینت اور طیبات کے حقدار حقیقتاً اس کے تابع فرمان بندے ہیں۔ لیکن دنیا آزمائش گاہ بنائی گئی ہے اس سے کافر بھی فائدہ اٹھائیں گے۔ اس لیے عمومی طور پر یہی نظر آتا ہے کہ مومنوں کے بجائے دنیا کے اسباب ووسائل۔ اللہ کے باغیوں کے ہاں زیادہ پائے جاتے ہیں (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَسْعُودٍ (رض) عَنْ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ لَا یَدْخُلُ الْجَنَّۃَ مَنْ کَانَ فِی قَلْبِہٖ مِثْقَالُ ذَرَّۃٍ مِنْ کِبْرٍ قَالَ رَجُلٌ إِنَّ الرَّجُلَ یُحِبُّ أَنْ یَکُونَ ثَوْبُہٗ حَسَنًا وَنَعْلُہٗ حَسَنَۃً قَالَ إِنَّ اللّٰہَ جَمِیلٌ یُحِبُّ الْجَمَالَ الْکِبْرُ بَطَرُ الْحَقِّ وَغَمْطُ النَّاسِ)[ رواہ مسلم : کتاب الایمان، باب تحریم الکبر] ” حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں کہ جس شخص کے دل میں ذرہ برابر بھی تکبر ہوگا وہ جنت میں داخل نہیں ہوگا۔ ایک آدمی نے کہا بلاشبہ بندہ یہ پسند کرتا ہے کہ اس کے کپڑے اور جوتے اچھے ہوں، نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ تعالیٰ خوبصورت ہے اور خوبصورتی کو پسند کرتا ہے جبکہ تکبر حق کو جھٹلانا اور لوگوں کو حقیر جاننا ہے۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ کی جائز کردہ زینت اور اس کی حلال کی ہوئی چیزوں کو کھانا اور استعمال کرنا چاہیے۔ ٢۔ دنیا کی نعمتوں سے کافر بھی فائدہ اٹھاتے ہیں۔ ٣۔ آخرت کی نعمتیں کفار کے بجائے سب کی سب مومنوں کے لیے ہوں گی۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے احکام اس لیے نازل فرمائے ہیں تاکہ لوگ ان کا علم حاصل کریں اور ان پر عمل بھی کریں۔ الاعراف
33 فہم القرآن ربط کلام : پہلے منکرین حق سے سوال کیا تھا کہ جن چیزوں کو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لیے حلال قرار دیا ہے بتاؤ ان کو کس نے حرام کیا ہے؟ اب ایک خاص انداز میں جواب دیتے ہوئے یہ بتلایا گیا ہے کہ جو چیزیں تم نے از خود اپنے آپ حرام کی ہیں اللہ تعالیٰ نے وہ چیزیں حرام نہیں کیں بلکہ یہ چیزیں حرام قرار دی ہیں۔ ١۔ بے حیائی خفیہ ہو یا اعلانیہ۔ ٢۔ گناہ چھوٹا ہو یا بڑا۔ ٣۔ ہر قسم کی تعدّی اور سرکشی۔ ٤۔ اللہ کی ذات اور اس کی صفات میں کسی کو شریک کرنا۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ کے ذمے وہ بات لگانا جس کا قرآن وسنت میں ثبوت نہ ہو۔ فواحش، فاحشۃ کی جمع ہے جسے کلی طور پر اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر حرام اور ناجائز قرار دیا ہے۔ بے حیائی سرعام کی جائے یا چھپ کر کی جائے وہ ہر صورت اور ہر حالت میں ناجائز اور حرام ہے۔ اکثر مفسرین نے فواحش سے مرادبے حیائی اثم سے مراد شراب خوری لی ہے کیونکہ سورۃ بنی اسرائیل آیت ٣٢ میں زنا کو بے حیائی قرار دیا ہے۔ اثم کا معنیٰ بعض مفسرین نے شراب لیا ہے اس لیے کہ سورۃ البقرۃ، آیت ٢١٩ میں شراب اور جوا کو اثم کہا ہے تاہم اس تفسیر کے باوجود فواحش سے مراد یہاں ہر قسم کی بدکاری اور بے حیائی ہے چاہے عملاً ہو یا پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے پھیلائی جا رہی ہو جس سے مسلمانوں کے اخلاق تباہ اور ان کی دینی اور ایمانی قدریں کمزور ہوتی ہوں اس قسم کی تمام حرکات بے حیائی تصور کی جائیں گی۔ اثم کی تشریح کرتے ہوئے سید ابوالاعلیٰ مودودی (رض) لکھتے ہیں کہ اثم اس اونٹنی کو کہا جاتا ہے جو تیز رفتار چل سکتی ہو مگر اس کے باوجود وہ جان بوجھ کر سست روی کا مظاہرہ کرے یعنی انسان نیکی کرنے کی استعداد اور طاقت رکھتا ہو مگر پھر بھی نیکی کرنے میں سستی اور غفلت کا مظاہرہ کرے اس لحاظ سے اثم یعنی گناہ کا دائرہ بڑا وسیع ہوجاتا ہے شاید اسی بنیاد پر نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں یہ دعا کیا کرتے تھے۔ (اَللَّہُمَّ إِنِّی أَعُوذُ بِکَ مِنَ الْکَسَلِ) [ رواہ البخاری : باب التَّعَوُّذِ مِنَ الْمَأْثَمِ وَالْمَغْرَمِ] ” الٰہی میں تجھ سے سستی اور غفلت سے پناہ مانگتاہوں۔“ البغی کا معنیٰ تعدی اور سرکشی اختیار کرنا جس سے مراد اللہ تعالیٰ کی مقرر کردہ اخلاقی اور ایمانی حدود سے تجاوز کرنا ہے اس لیے یہاں اَلْبَغْیُ بِغَیْرِ الْحَقِّ کے الفاظ فرمائے ہیں۔ جس کا مفہوم یہ نہیں کہ کسی شخص کو اللہ اور اس کے رسول کی مقرر کردہ حدود سے تجاوز کرنے کا حق ہے بلکہ بِغَیْرِ الْحَقِّ کے الفاظ سے یہ تاکید کی جا رہی ہے کہ کسی انسان کو بھی حق نہیں پہنچتا کہ وہ اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی اور سرکشی کرے بعض اہل علم نے البغی سے مراد ایسا گناہ لیا ہے جس میں گناہ کرنے والا دوسرے پر زیادتی کا بھی ارتکاب کرے جیسے قتل، چوری، زنا بالجبر وغیرہ۔ شرک : سورۂ لقمان آیت ١٣ میں شرک کو ظلم عظیم قرار دیا گیا ہے شرک اس لیے ظلم عظیم ہے کہ مشرک جن صفات کو اللہ تعالیٰ کے سوا دوسروں کے ساتھ منسوب کرتا اور سمجھتا ہے وہ صفات اللہ تعالیٰ کے سوا کسی بھی شخص زندہ ہو یا فوت ہوچکا ہو۔ اس میں نہیں پائی جاتیں۔ اور نہ ہی شرک کی تائید میں کوئی معقول دلیل پیش کی جاسکتی ہے بشرطیکہ کسی کی عقل ماؤف نہ ہوچکی ہو۔ ہرزمانے کے مشرک شرک کی حمایت میں جودلیلیں دیتے ہیں وہ عقل اور علم کے معیار پر پوری نہیں اترتیں اس لیے حکم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہ بناؤ کیونکہ اس نے شرک کی تائید میں کوئی دلیل نازل نہیں کی۔ اللہ اور اس کے رسول پر کذب بیانی کرنا : یعنی اپنے جی سے حلال و حرام ٹھہرانا، اپنی خواہشوں کی پیروی اور ثواب کی خاطر دین میں بدعتیں ایجاد کرنا، من مرضی سے شریعت تصنیف کرکے اس کو اللہ کی طرف منسوب کرنا۔ اس اعتبار سے جو شخص رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف جھوٹی اور من گھڑت حدیث منسوب کرتا ہے وہ بالواسطہ اللہ تعالیٰ کے ذمہ جھوٹ لگاتا ہے۔ (عَنْ عَامِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ الزُّبَیْرِ عَنْ أَبِیہٖ قَالَ قُلْتُ للزُّبَیْرِ (رض) إِنِّی لَا أَسْمَعُکَ تُحَدِّثُ عَنْ رَّسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کَمَا یُحَدِّثُ فُلَانٌ وَفُلَانٌ قَالَ أَمَا إِنِّی لَمْ أُفَارِقْہُ وَلَکِنْ سَمِعْتُہٗ یَقُولُ مَنْ کَذَبَ عَلَیَّ فَلْیَتَبَوَّأْ مَقْعَدَہُ مِنَ النَّارِ) [ رواہ البخاری : کتاب العلم، باب اثم من کذب علی النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ] ” حضرت عامر بن عبداللہ بن زبیر اپنے والد سے بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے اپنے والد زبیر (رض) سے کہا میں نے آپ کو نہیں سنا کہ آپ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے حدیث بیان کریں جس طرح فلاں فلاں آدمی بیان کرتا ہے۔ حضرت زبیر (رض) نے کہا میں نے ہمیشہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ بات سنی کہ آپ نے فرمایا جو کوئی میری جانب جھوٹ کی نسبت کرے اسے چاہیے کہ وہ اپنا ٹھکاناجہنم سمجھے۔“ (عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ (رض) قَالَ کَانَ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَتَعَوَّذُ یَقُولُ ” اللّٰہُمَّ إِنِّی أَعُوذُ بِکَ مِنَ الْکَسَلِ وَأَعُوذُ بِکَ مِنَ الْجُبْنِ وَأَعُوذُ بِکَ مِنَ الْہَرَمِ وَأَعُوذُ بِکَ مِنَ الْبُخْلِ“ ) [ رواہ البخاری : کتاب الدعوات، باب التعوذ من أرذل العمر] ” حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتے ہوئے یہ دعا کیا کرتے تھے اے اللہ میں سستی، بزدلی، ناکارہ پن بڑھاپے اور بخل سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔“ مسائل ١۔ چھوٹے بڑے، ظاہر اور باطن گناہوں کو چھوڑ دینا چاہیے۔ ٢۔ کسی کو حق نہیں پہنچتا کہ وہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی وسرکشی کرے۔ ٣۔ شرک کی تائید میں اللہ تعالیٰ نے کوئی دلیل نازل نہیں کی۔ ٤۔ شرک کی کوئی دلیل نہیں اس لیے من گھڑت باتیں کرنے سے شرک ثابت نہیں ہوسکتا۔ ٥۔ من گھڑت مسائل بیان کرنا اللہ تعالیٰ پرجھوٹ باندھنے کے مترادف ہے۔ تفسیر بالقرآن شرک کا عقیدہ بے بنیاد ہے : ١۔ اللہ کے سوا مشرک جس کی عبادت کرتے ہیں اس کی کوئی دلیل نہیں۔ (الحج : ٧١) ٢۔ مشرک اللہ کے ساتھ شرک کرتے ہوئے نہیں ڈرتے حالانکہ اس کی کوئی دلیل نہیں۔ (الانعام : ٨١) الاعراف
34 فہم القرآن ربط کلام : بے حیائی کا ارتکاب، جان بوجھ کر گناہ کرنا، اللہ تعالیٰ کی ذات کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانا اور شریعت کے نام پر اللہ تعالیٰ کے ذمہ جھوٹ لگانے والوں کو انتباہ۔ جس طرح اللہ تعالیٰ نے ہر ذی روح اور چیز کی موت اور فنا کا وقت مقرر کر رکھا ہے جب وقت آئے گا تو اس میں لمحہ بھر تقدیم وتاخیر نہیں ہوگی۔ یہی اصول قوموں اور امتوں کے لیے مقرر کیا گیا ہے جب کسی قوم کے زوال اور تباہی کا وقت آتا ہے تو پھر اس کے اڑوس پڑوس کی اقوام اور خیر خواہ اسے ہرگز نہیں بچا سکتے۔ افراد اور اقوام کی اجل یعنی موت میں فرق یہ ہے کہ افراد کی عمر اور مدت کے لیے سال، مہینے، ایام اور لمحے مقرر کیے گئے ہیں اور لوگ انھی کو شمار کرتے ہیں جب یہ مدت پوری ہوجائے تو انسان لقمۂ اجل بن جاتا ہے۔ عام طور پر قوموں اور امتوں کا معاملہ اس سے قدرے مختلف ہوتا ہے ان کی موت، ایمان، اخلاق اور کردار کے حوالے سے واقع ہوتی ہے۔ بدکردار اور بے عمل قوم کی جگہ دوسری قوم لے لیتی ہے۔ بسا اوقات اللہ تعالیٰ اپنے غضب سے پوری کی پوری قوم کو موت کے گھاٹ اتار دیتا ہے۔ جس طرح قوم نوح، عاد، ثمود اور قوم لوط کے واقعات اس کی دلیل ہیں۔ تاہم جب کوئی قوم یا علاقے کے افراد برائی کے اس درجے کو پہنچ جائیں جس سے اس خطے کا نظام بگڑنے کے قریب پہنچ جائے تو اللہ تعالیٰ اس قوم کی جگہ دوسری قوم کو مسلط کردیتا ہے۔ اس حقیقت کو سورۃ البقرۃ، آیت ٢٥١ اور ٢٥٢ میں بیان کرتے ہوئے ظالم قوم کی تبدیلی کو اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل اور اپنی قدرت کی نشانی قرار دیا ہے اور سورۃ محمد میں فرمایا اگر تم اللہ تعالیٰ کے احکام سے منہ پھیروگے تو وہ تمہاری جگہ دوسری قوم کو لے آئے گا جو تم جیسے نہیں ہوں گے۔ یہاں قوموں کے زوال اور ان کی تباہی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اجل اور ساعت کے الفاظ استعمال کیے ہیں۔ اجل سے مراد موت کا فیصلہ کن مرحلہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں قوم کی موت یا زوال کی گھڑی متعین ہے۔ جب وہ گھڑی اپنے وقت کو پہنچ جاتی ہے تو اللہ تعالیٰ کا فیصلہ صادر ہوجاتا ہے جس کے صدور میں لشکر وسپاہ، قوم کی شان وشکوہ، مادی اور عسکری وسائل رکاوٹ نہیں بن سکتے۔ اسی حقیقت کو یہاں بیان کیا گیا ہے کہ جب کسی امت کی مقررہ گھڑی آجاتی ہے تو اس میں لمحہ بھر کے لیے آگاپیچھا نہیں ہوتا۔ اسی طرح ہی فرد کی موت کا معاملہ ہے جب موت کا وقت آن پہنچے تو ولی کی ولایت، صابر کا صبر موت کو ٹال نہیں سکتا۔ (یونس : ٤٩) موت کا نقشہ : (عَنْ عَبْدِ اللَّہِ (رض) قَالَ خَطَّ النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خَطًّا مُرَبَّعًا، وَخَطَّ خَطًّا فِی الْوَسَطِ خَارِجًا مِنْہُ، وَخَطَّ خُطُطًا صِغَارًا إِلَی ہَذَا الَّذِی فِی الْوَسَطِ، مِنْ جَانِبِہِ الَّذِی فِی الْوَسَطِ وَقَالَ ہَذَا الإِنْسَانُ، وَہَذَا أَجَلُہُ مُحِیطٌ بِہِ أَوْ قَدْ أَحَاطَ بِہِ وَہَذَا الَّذِی ہُوَ خَارِجٌ أَمَلُہُ، وَہَذِہِ الْخُطُطُ الصِّغَارُ الأَعْرَاضُ، فَإِنْ أَخْطَأَہُ ہَذَا نَہَشَہُ ہَذَا، وَإِنْ أَخْطَأَہُ ہَذَا نَہَشَہُ ہَذَا )[ رواہ البخاری : باب فِی الأَمَلِ وَطُولِہِ ] ” حضرت عبداللہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مربع کی صورت بنائی اور اس کے درمیان ایک خط کھینچا جو مربع سے باہر نکل رہا تھا اور کچھ چھوٹے چھوٹے خط اس کے دائیں بائیں کھینچے درمیان والی لکیر پر انگلی رکھ کر فرمایا یہ انسان ہے اور اس کو چاروں طرف سے اجل گھیرے ہوئے ہے۔ باہر نکلنے والا خط اس کی امید ہے اور چھوٹے چھوٹے خط اس کی خواہشات ہیں ایک خواہش ختم ہوتی ہے تو دوسری آ گھیرتی ہے۔“ مسائل ١۔ امتوں کے عروج وزوال فنا اور بقا کا وقت مقرر ہے۔ ٢۔ قوم اور کسی فردکی تقدیر کے فیصلے کا وقت آتا ہے تو اس میں لمحہ بھر کے لییتقدیم و تاخیر نہیں ہوسکتی۔ تفسیر بالقرآن ہر چیز کا وقت مقرر ہے : ١۔ اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کا وقت مقرر کیا ہے۔ (الاعراف : ١٨٥) ٢۔ تمام لوگوں کے لیے وقت مقرر ہے۔ (الانعام : ٢) ٣۔ چاند اور سورج کا بھی وقت مقرر ہے۔ (الرعد : ٢) ٤۔ گناہگاروں کو وقت مقررہ تک ڈھیل دی جاتی ہے۔ (النحل : ٦١) ٥۔ زمین و آسمان کے لیے بھی وقت مقرر ہے۔ (الروم : ٨) ٦۔ وقت آنے پر اللہ تعالیٰ کسی کو لمحہ بھر بھی مہلت نہیں دے گا۔ (المنافقون : ١١) الاعراف
35 فہم القرآن ربط کلام : قوم کی اجتماعی تباہی کا اشارہ دینے کے بعد بنی آدم کو اجتماعی خطاب اور نصیحت کرتے ہوئے نیک وبد کا انجام بیان کیا ہے یہی قرآن مجید کا اسلوب ہے کہ وہ انتباہ اور نصیحت کو برابر چلاتے ہوئے لوگوں کو اچھے اور برے انجام سے آگاہ کرتا ہے تاکہ سننے والا ایک لمحہ میں فیصلہ کرسکے۔ اللہ تعالیٰ نے جب آدم (علیہ السلام) اور ان کی زوجہ مکرمہ کو زمین پر اترنے کا حکم صادر فرمایا تو اس وقت نصیحت فرمائی کہ تم سب کے سب زمین پر اتر جاؤ۔ بس جب تمہارے پاس میری طرف سے کوئی ہدایت پہنچے تو اس کی پیروی کرو اور جو اس ہدایت کی پیروی کریں گے انہیں کوئی خوف وخطر اور رنج وملال نہیں ہوگا۔ جنہوں نے انکار کیا اور جھٹلانے کا رویہ اختیار کیا انہیں آگ میں جھونکا جائے گا اور وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔ یہاں قوموں کے زوال اور ان کے فنا کا ذکر ہوا ہے لہٰذا انہیں اجتماعی طور پر مخاطب کرتے ہوئے بنی آدم کے الفاظ استعمال کرکے وہ نصیحت یاد دلائی گئی ہے جو بنی نوع انسان کے جد اعلیٰ کو زمین پر اترنے کے وقت دی گئی تھی چنانچہ ارشاد ہوا کہ اے بنی آدم جب میرے رسول تمہارے سامنے میرے احکام بیان کریں تو میری نافرمانی سے بچ کر تمھیں اپنی اصلاح کرنا چاہیے۔ جس کا دوسرا مفہوم یہ ہے میں نے اول روز کے فرمان کو اس طرح پورا کردیا ہے کہ تمہارے پاس میرے رسول میرے احکام لے کر پہنچ چکے ہیں جن میں آخری رسول محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں لہٰذا جو لوگ اللہ تعالیٰ سے ڈر کر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پیروی کرکے اپنی اصلاح کریں گے انہیں کوئی خوف وغم نہیں ہوگا اور جنہوں نے میرے احکام کی تکذیب کی اور ان کے ساتھ تکبر کا رویہ اختیار کیا انہیں آگ میں جھونکا جائے گا جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَسْعُودٍ (رض) عَنْ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ لَا یَدْخُلُ الْجَنَّۃَ مَنْ کَانَ فِی قَلْبِہٖ مِثْقَالُ ذَرَّۃٍ مِنْ کِبْرٍ قَالَ رَجُلٌ إِنَّ الرَّجُلَ یُحِبُّ أَنْ یَکُونَ ثَوْبُہٗ حَسَنًا وَنَعْلُہٗ حَسَنَۃً قَالَ إِنَّ اللّٰہَ جَمِیلٌ یُحِبُّ الْجَمَالَ الْکِبْرُ بَطَرُ الْحَقِّ وَغَمْطُ النَّاسِ) [ رواہ مسلم : کتاب الإیمان، باب تحر یم الکبر] ” حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں کہ جس شخص کے دل میں ذرہ برابر بھی تکبر ہوگا وہ جنت میں داخل نہیں ہوگا۔ ایک آدمی نے کہا بلاشبہ بندہ یہ پسند کرتا ہے کہ اس کے کپڑے اور جوتے اچھے ہوں، نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ تعالیٰ خوبصورت ہے اور خوبصورتی کو پسند کرتا ہے تکبر حق کو جھٹلانا اور لوگوں کو حقیر جاننا ہے۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے احکام اس لیے نازل فرمائے ہیں کہ لوگ اس کی نافرمانی سے ڈرتے ہوئے اپنی اصلاح کریں۔ ٢۔ اصلاح کرنے والوں کو قیامت کے دن کوئی خوف وخطر اور رنج وغم نہیں ہوگا۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ کی آیات کو جھٹلانے اور ان کے ساتھ تکبر کرنے والے ہمیشہ جہنم کی آگ میں رہیں گے۔ تفسیر بالقرآن متکبرین : ١۔ سب سے پہلے شیطان نے تکبر کیا۔ (ص : ٧٤) ٢۔ تکبر کرنا فرعون اور اللہ کے باغیوں کا طریقہ ہے۔ (القصص : ٣٩) ٣۔ تکبر کرنے والے کے دل پر اللہ مہر لگا دیتا ہے۔ (المؤمن : ٣٥) ٤۔ متکبر کو اللہ تعالیٰ پسند نہیں کرتا۔ (النحل : ٢٣) ٥۔ تکبر کرنے والے جہنم میں جائیں گے۔ (المؤمن : ٧٦) الاعراف
36 الاعراف
37 فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ کی آیات کو جھٹلانے والوں کے ساتھ ان لوگوں کا انجام بھی بیان کردیا گیا ہے جو اللہ تعالیٰ پر بالواسطہ یا بلاواسطہ جھوٹ باندھتے ہیں۔ گویا کہ یہ اللہ تعالیٰ کو جھٹلانے کے مترادف ہے۔ قرآن مجید میں اِفْتَرَیٰ عَلَی اللّٰہِ کے الفاظ مختلف موقعوں پر ٩ دفعہ استعمال ہوئے ہیں جن کا خلاصہ یہ ہے۔ ١۔ اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرنا۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ کی آیات کی تکذیب کرنا۔ ٣۔ لوگوں کو گمراہ کرنے کے لیے دین کے حوالے سے جھوٹ بولنا۔ ٤۔ اپنے آپ پر وحی نازل ہونے کا جھوٹا دعویٰ کرنا۔ ٥۔ حق بات کو جھٹلانا۔ ٦۔ نبی کی نبوت کا انکار کرنا۔ اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھنے سے مراد یہاں اس کی ذات اور صفات میں شرک کرنا ہے۔ مشرک کا یہ عقیدہ ہوتا ہے یہ مورتیاں اللہ تعالیٰ کا اوتار ہیں اور مزارات میں دفن بزرگ اللہ کے مقرب بندے ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے خوش ہو کر کچھ اختیار دے رکھے ہیں۔ یہ عقیدہ من گھڑت اور بلا دلیل ہونے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ پرجھوٹ بولنے کے مترادف ہے جس کی وجہ سے فرشتے ان کی موت کے وقت ان سے سوال کرکے سزا دیں گے۔ جو لوگ اللہ تعالیٰ پر افترأ بازی کرتے اور اس کی آیات کو جھٹلاتے ہیں ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ کی کتاب میں جو سزا بیان کی گئی ہے وہ ہر صورت دنیا اور آخرت میں ان کو مل کر رہے گی۔ بعض مفسرین نے کتاب میں حصہ ملنے سے مراد لوح محفوظ میں لکھی ہوئی تقدیر لی ہے جو اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان پیدا کرنے سے پچاس ہزار سال پہلے لکھ رکھی ہے۔ جس میں دوسری تفصیلات کے ساتھ یہ بھی درج ہے کہ انسان جوکرے گا وہی بھرے گا مجرموں کو عذاب صرف آخرت میں نہیں بلکہ موت کے لمحات سے شروع ہوجاتا ہے۔ روح نکالنے والے فرشتے ان سے سوال کرتے ہیں کہ تم اللہ تعالیٰ کے سوا دوسروں کی عبادت کرنے کے ساتھ انہیں حاجت روا، مشکل کشا کیوں سمجھتے تھے دوسرے لفظوں میں ملائکہ ان سے کہیں گے کہ اگر وہ تمہاری مدد کرسکتے ہیں تو اپنے مشکل کشاؤں کو بلاؤ۔ جس کے جواب میں وہ موت کے وقت زبان حال اور قیامت کے دن بول، بول کرکہیں گے کہ آج تو ان میں سے ہماری مدد کرنے والا کوئی نہیں۔ اس طرح ظالم اپنی موت کے وقت اور قیامت کے دن اقرار کریں گے کہ واقعی ہم اللہ کی ذات کا انکار اور اس کی آیات کا کفر کرتے تھے لیکن یہ اقرار انہیں کوئی فائدہ نہیں دے گا۔ ” حضرت برا بن عازب (رض) بیان کرتے ہیں ہم نبی مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ انصار کے کسی آدمی کے جنازہ کے لیے نکلے ہم قبرستان پہنچے تو ابھی قبر کھودی نہیں گئی تھی۔ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بیٹھ گئے تو ہم بھی آپ کے ارد گرد بیٹھ گئے جیسے ہمارے سروں پر پرندے بیٹھے ہوں، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہاتھ میں ایک چھڑی تھی آپ اس کے ساتھ زمین کرید رہے تھے آپ نے سر اٹھاتے ہوئے دو یا تین مرتبہ فرمایا قبر کے عذاب سے پناہ مانگو پھر فرمایا۔۔ جب کافر دنیا کو چھوڑ کر آخرت کی طرف جا رہا ہوتا ہے تو اس کی طرف آسمان سے سیاہ چہروں والے فرشتے آتے ہیں ان کے ہاتھ میں بدبودار بوری ہوتی ہے وہ حد نگاہ تک اس کے پاس بیٹھ جاتے ہیں، پھر اس کے پاس ملک الموت آتا ہے یہاں تک کہ اس کے سر کے پاس بیٹھ جاتا ہے تو وہ کہتا ہے اے خبیث نفس! اللہ تعالیٰ کی ناراضگی اور غضب کی طرف چل۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا وہ اس کی روح کو اس طرح نکالتے ہیں جس طرح گرم سلائی کو روئی سے نکالا جاتا ہے وہ اس کو نکال کر اس تھیلے میں ڈالتے ہیں اس سے اتنی بدبو نکلتی ہے جس طرح زمین سے لاش کی گندی بدبو نکلتی ہے وہ اس کو لے کر آسمانوں کی طرف بڑھتے ہیں وہ فرشتوں کے جس گروہ کے پاس سے گزرتے ہیں وہ کہتے ہیں یہ خبیث روح کون سی ہے وہ کہتے ہیں یہ فلاں بن فلاں ہے۔ اس کے برے نام لے کر اس کو بلاتے ہیں یہاں تک کہ وہ آسمان دنیا تک پہنچتے ہیں وہ اس کو کھلوانا چاہتے ہیں مگر اسے کھولا نہیں جاتا، پھر نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس آیت مبارکہ کی تلاوت فرمائی :” ان کے لیے آسمان کے دروازے نہیں کھولے جائیں گے نہ وہ جنت میں داخل ہوں گے یہاں تک کہ سوئی کے سوراخ میں اونٹ داخل ہوجائے۔“ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اس کے لیے سجین یعنی زمین کی تہہ میں ٹھکانا لکھو۔ پھر اس کی روح کو نیچے پھینک دیا جاتا ہے پھر نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس آیت مبارکہ کی تلاوت فرمائی ” جو اللہ کے ساتھ شرک کرے گا گویا کہ وہ آسمان سے گرا اور اسے پرندے اچک لیں یا اس کو ہوائیں کسی دور دراز مقام پر پھینک دیں“ پھر اس روح کو اس کے بدن میں لوٹا دیا جاتا ہے اور اس کے پاس دو فرشتے آتے ہیں جو اس کو بٹھاتے ہیں وہ اس سے کہتے ہیں کہ تیرا رب کون ہے؟ وہ کہتا ہے ہائے ہائے میں نہیں جانتا، پھر فرشتے کہتے ہیں تیرا دین کیا ہے وہ کہتا ہے ہائے ہائے میں نہیں جانتا، پھر فرشتے کہتے ہیں یہ شخص کون ہے جو تم لوگوں میں نبی مبعوث کیا گیا ؟ وہ کہتا ہے ہائے ہائے میں نہیں جانتا۔ تو آسمانوں سے آواز دینے والا آواز دیتا ہے کہ یہ جھوٹ بول رہا ہے اس کا بچھونا آگ کا بنا دو اور آگ کا دروازہ اس کی طرف کھول دو۔ اس کے پاس اس آگ کی گرمی اور بدبو آتی ہے اس پر اس کی قبر تنگ کردی جاتی ہے یہاں تک کہ اس کی پسلیاں ایک دوسرے میں گھس جاتی ہیں اور اس کے پاس بدصورت گندے کپڑے اور بدبو دار جسم کے ساتھ آدمی آتا ہے تو وہ کہتا ہے آج خوش ہوجا تجھے حسب وعدہ رسوا کیا جائے وہ پوچھتا ہے تو کون ہے اس طرح کی شکل والا جو اتنی بری بات کے ساتھ آیا ہے وہ کہے گا میں تیرا برا عمل ہوں وہ کہے گا اے میرے رب کبھی قیامت نہ قائم کرنا۔“ [ مسند احمد] مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ کی آیات کو جھٹلانے یا اس کی ذات کے بارے میں جھوٹ گھڑنے والا سب سے بڑا ظالم ہے۔ ٢۔ ظالموں کو اللہ کی کتاب کے مطابق سزا دی جائے گی۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ کے ذمے جھوٹی بات لگانے والا اپنی موت کے وقت اپنے ظلم اور کفر کا اقرار کرتا ہے۔ ٤۔ مشرک اپنی موت کے وقت اقرار کرتا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی مشکل کشا نہیں۔ تفسیر بالقرآن ظالم کون؟ ١۔ اللہ تعالیٰ کی آیات کو جھٹلانے والا ظالم ہے۔ (الانعام : ٢١) ٢۔ شرک کرنے والا ظالم ہے۔ (لقمان : ١٣) ٣۔ اللہ کی مسجدوں سے روکنے اور ان میں خرابی پیدا کرنے والا ظالم ہے۔ (البقرۃ: ١١٤) ٤۔ اللہ تعالیٰ پر جھوٹ بولنے والا ظالم ہے۔ (الزمر : ٣٢) ٥۔ اللہ ظالموں کو پسند نہیں کرتا۔ (آل عمران : ٥٧) الاعراف
38 فہم القرآن ربط کلام : گزشتہ سے پیوستہ۔ جس میں مکذبین کی بری موت کے بعد ان کا برا انجام بتلایا گیا ہے۔ متکبرین اور مکذبین گروہ درگروہ جہنم میں پھینکے جائیں گے جہنم میں ڈالا جانے والا جنوں اور انسانوں کا ہر گروہ اپنے سے پہلے گروہ پر لعنت اور پھٹکار بھیجتے ہوئے کہے گا کہ ہم تمہاری وجہ سے اس انجام کو پہنچے ہیں اگر تم ہدایت کا راستہ اختیار کرتے تو ہم تمہارے بعد کبھی گمراہ نہ ہوتے۔ وہ جواب دیں گے کہ تم نے خود ہی ایمان کا راستہ اختیار نہیں کیا جبکہ ہم نے تم پر کوئی جبر نہیں کیا تھا۔ (الصافات ٢٢ تا ٣١) سورۃ الاحزاب آیت ٦٦ تا ٦٨ میں بیان کیا گیا ہے کہ جب جہنمی جہنم کی آگ سے منہ باہر نکالیں گے تو اللہ تعالیٰ سے آہ وزاری کرتے ہوئے فریاد کریں گے اے ہمارے رب ! ہمیں ہمارے برے سادات اور بڑوں نے گمراہ کیا اس لیے انہیں دوگناعذاب دے اور ان پر بڑی سے بڑی پھٹکار ڈال۔ یہاں یہ بیان ہوا ہے کہ جب گروہ در گروہ جہنم میں جمع ہوں گے تو بعد میں آنے والے پہلوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے فریاد کریں گے کہ انہیں آگ کا دوگنا عذاب دیجیے۔ حکم ہوگا ہر ایک دوگنے عذاب میں مبتلا ہے جس کا تمہیں علم نہیں۔ پیچھے آنے والوں کی بددعاؤں کے جواب میں پہلے والے کہیں گے کہ تمہیں ہم پر برتری حاصل نہیں لہذا تم بھی اپنے کیے کے بدلہ میں عذاب پاتے رہو یہاں جہنمیوں کے عذاب کے بارے میں ” ضعف“ کا لفظ استعمال ہوا ہے جس کا معنیٰ دوگنا ہے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ قرآن مجید میں ہی اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ برے کی سزا اس کی برائی کے برابر ہوگی۔ لیکن یہاں دوگنا عذاب بیان کیا جا رہا ہے اس کا مفہوم حدیث میں اس طرح بیان ہوا ہے جو گناہ پہلے لوگوں کی وجہ سے دوسری نسل میں منتقل ہوں گے اس میں گناہ ایجاد کرنے والوں کو ان کے بعد آنے والے لوگوں کے گناہوں کا حصہ بھی ملے گا اور اکثر یہی ہوتا آرہا ہے کہ نہ صرف ایک نسل کے گناہ کسی نہ کسی صورت میں دوسری نسل میں منتقل ہوتے رہتے ہیں بلکہ پہلے لوگوں کے گناہوں کے نتیجہ میں نئی نسل اپنے گناہوں میں مزید اضافہ کرتی ہے۔ اس طرح ہر نسل اپنے بعد آنے والی نسل کے لیے پہلے سے زیادہ گناہ چھوڑتی ہے۔ نتیجتاً مجرموں کی غالب اکثریت اپنے ہی نہیں بلکہ دوسروں کے گناہوں کے ذمہ دار بنتے ہیں۔ اسی بناء پر انہیں دوگنا عذاب دیا جائے گا کیونکہ ان کے گناہوں کی نوعیت بھی دوگنی ہوگی۔ جہنمیوں کا ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہرانا ان کے لیے کوئی فائدہ مند نہیں ہوگا اس لیے جہنمیوں کے پیشوا اپنے سے پیچھے آنے والوں کو کہیں گے تمہارا ہم کو اپنے گناہوں کا ذمہ دار ٹھہرانا تمہیں کچھ فائدہ نہیں دے گا اور تم سزا کے حوالے سے ہم پر کوئی امتیاز نہیں رکھتے لہٰذا اپنے کیے کی سزا بھگتتے رہو۔ اس طرح جہنمی عذاب میں مبتلا رہ کر ایک دوسرے پر پھٹکار بھیجتے رہیں گے۔ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَال النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کُلُّ مَوْلُودٍ یُولَدُ عَلَی الْفِطْرَۃِ فَأَبَوَاہُ یُہَوِّدَانِہٖ أَوْ یُنَصِّرَانِہٖ أَوْ یُمَجِّسَانِہٖ کَمَثَلِ الْبَہِیمَۃِ تُنْتَجُ الْبَہِیمَۃَ ہَلْ تَرٰی فیہَا جَدْعَاءَ) [ رواہ البخاری : کتاب الجنائز، باب ماقیل فی أولاد المشرکین] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہر نو مولود فطرت اسلام پر پیدا ہوتا ہے اس کے والدین اسے یہودی، عیسائی یا مجوسی بنا دیتے ہیں جس طرح جانور کسی کو جنم دیتا ہے تو کیا تم ان میں کسی کو مقطوع الاعضا پاتے ہو؟ مسائل ١۔ جہنمی ایک دوسرے پر پھٹکار بھیجیں گے۔ ٢۔ جہنم میں پہلے داخل ہونے والے بعد میں آنے والوں کو ملامت کریں گے۔ ٣۔ جہنمی اللہ تعالیٰ سے فریاد کریں گے کہ پہلے لوگوں کو دوگنا عذاب دیاجائے۔ الاعراف
39 الاعراف
40 فہم القرآن ربط کلام : اب مسلسل (١١) گیارہ آیات میں اللہ کے باغیوں اور اس کے تابعداروں کا یکے بعد دیگرے کردار اور انجام بیان کیا جاتا ہے۔ عربی زبان میں ” تکذیب“ کا معنی حقیقت کو جھٹلانا یا اس کا انکار کرنا ہے۔ تکبر کا مفہوم یہ ہے کہ حقیقت جاننے کے باوجود اسے تسلیم کرنے سے انکار کردیا جائے۔ جو لوگ اللہ تعالیٰ کے احکام کے ساتھ تکذیب اور تکبر کارویہ اختیار کریں گے ان کے بارے میں دوٹوک اور قطعی طور پر فرما دیا گیا ہے کہ ان کے لیے نہ آسمان کے دروازے کھولے جاتے ہیں اور نہ ہی ان کو جنت میں داخلہ نصیب ہوگا۔ اس فرمان میں قطعیت اور مزید تاکید پیدا کرنے کے لیے فرمایا کہ ان کا جنت میں داخلہ اتنا ہی ناممکن ہے جتنا اونٹ کا سوئی کے ناکے سے گزرنا محال ہے۔ یہ اس لیے ہے تاکہ مجرم اپنے جرائم کی پوری طرح سزا پاتے رہیں مجرموں کے نیچے بھی جہنم کی دہکتی ہوئی آگ اور ان کے اوپر اور چاروں طرف بھی آگ ہی آگ ہوگی۔ جو لوگ اللہ تعالیٰ کی آیات کی تکذیب اور ان کے ساتھ استکبار کا رویہ اختیار کرتے ہیں ایسے ظالموں کو ایسی ہی سزا دی جائے گی۔ ” حضرت براا بن عازب (رض) بیان کرتے ہیں ہم نبی مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ انصار کے کسی آدمی کے جنازہ کے لیے نکلے قبرستان پہنچے تو ابھی قبر کھودی نہیں گئی تھی۔ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بیٹھ گئے تو ہم بھی آپ کے ارد گرد بیٹھ گئے جیسے ہمارے سروں پر پرندے بیٹھے ہوں، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہاتھ میں ایک چھڑی تھی آپ اس کے ساتھ زمین کو کرید رہے تھے آپ نے سر اٹھاتے ہوئے دو یا تین مرتبہ فرمایا قبر کے عذاب سے پناہ مانگو پھر فرمایا۔۔ جب کافر دنیا کو چھوڑ کر آخرت کی طرف جا رہا ہوتا ہے تو اس کی طرف آسمان سے سیاہ چہروں والے فرشتے آتے ہیں ان کے ہاتھ میں بدبودار بوری ہوتی ہے وہ حد نگاہ تک اس کے پاس بیٹھ جاتے ہیں، پھر اس کے پاس ملک الموت آتا ہے یہاں تک کہ اس کے سر کے پاس بیٹھ جاتا ہے تو وہ کہتا ہے اے خبیث نفس! اللہ تعالیٰ کی ناراضگی اور غضب کی طرف چل۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا وہ اس کی روح کو اس طرح نکالتے ہیں جس طرح گرم سلائی کو روئی سے نکالا جاتا ہے وہ اس کو نکال کر تھیلے میں ڈالتے ہیں اس سے اتنی بدبو نکلتی ہے جس طرح زمین سے لاش کی گندی بدبو نکلتی ہے وہ اسے کو لے کر آسمانوں کی طرف بڑھتے ہیں ان کا گذر فرشتوں کے جس گروہ کے پاس سے ہوتا ہے وہ دریافت کرتے ہیں یہ خبیث روح کون سی ہے وہ کہتے ہیں یہ فلاں بن فلاں ہے۔ اس کے برے نام لے کر اس کو بلاتے ہیں یہاں تک کہ وہ آسمان دنیا تک پہنچتے ہیں وہ اس کو کھلوانا چاہتے ہیں مگر اسے کھولا نہیں جاتا، پھر نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس آیت مبارکہ کی تلاوت فرمائی :” ان کے لیے آسمان کے دروازے نہیں کھولے جائیں گے نہ وہ جنت میں داخل ہوں گے یہاں تک کہ سوئی کے سوراخ میں اونٹ داخل ہوجائے“ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اس کے لیے سجین یعنی زمین کی تہہ میں ٹھکانا لکھو۔ پھر اس کی روح کو نیچے پھینک دیا جاتا ہے پھر نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس آیت مبارکہ کی تلاوت فرمائی ” جو اللہ کے ساتھ شرک کرے گا گویا کہ وہ آسمان سے گرا اور اسے پرندے اچک لیں یا اس کو ہوائیں کسی دور دراز مقام پر پھینک دیں“ [ رواہ أحمد] مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ کی آیات کی تکذیب اور ان کے ساتھ تکبر کرنے والا جہنم میں داخل ہوگا۔ ٢۔ مکذبین اور متکبرین کے لیے نہ آسمان کے دروازے کھلتے ہیں اور نہ ہی ان کو جنت میں داخلہ نصیب ہوگا۔ ٣۔ مجرموں کے اوپر اور نیچے جہنم کی بھڑکتی ہوئی آگ ہوگی۔ تفسیر بالقرآن ظلم کرنے والوں کا انجام : ١۔ ظالموں کے لیے ہمیشہ کا عذاب ہے۔ (الحشر : ١٧) ٢۔ ظالموں کے لیے صرف تباہی ہے۔ (نوح : ٢٨) ٣۔ ظالم قوم کو سمندر میں غرق کردیا گیا ہے۔ (القصص : ٤٠) ٤۔ اللہ تعالیٰ ظالموں کو پسند نہیں کرتا۔ (الشوریٰ: ٤٠) ٥۔ ظلم کرنے والوں کی بستی کو الٹا کر پتھر مارے گئے۔ (العنکبوت : ٣١) ٦۔ ظالموں پر لعنت کی جائے گی۔ (غافر : ٥٢ ) الاعراف
41 الاعراف
42 فہم القرآن ربط کلام : جہنمیوں کے مقابلہ میں جنتیوں کا انعام و مقام۔ جنتیوں کا مرتبہ ومقام اور ان کا اجروثواب ذکر کرنے سے پہلے یہ واضح کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی نفس پر اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا۔ اس میں ایک طرف جنتیوں کو سمجھایا گیا ہے کہ جنت کا حصول اور دین پر عمل کرنا کوئی مشکل کام نہیں۔ دوسری طرف جہنمیوں کی طرف اشارہ ہے کہ یہ لوگ اپنے جرائم کی وجہ سے جہنم میں ہمیشہ سزا پائیں گے۔ یہ ان کے تکبر کا نتیجہ ہوگا۔ اگر یہ لوگ دنیا میں اللہ تعالیٰ کے احکام کو دل وجان سے تسلیم کرکے ان پر عمل کرنے کی کوشش کرتے تو یہ ان کی ہمت سے باہر نہیں تھا لیکن انہوں نے اپنے نفس کی خواہشات کو اپنے رب کی رضا پر مقدم جانا اور اس کے ساتھ تکبر کا رویہ اختیار کیا جس کی وجہ سے ان کا اوڑھنا بچھونا جہنم کی آگ کو بنادیا گیا۔ مفسر قرآن امام رازی (رح) لفظ ” وسع“ کا معنیٰ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں وسع کا معنیٰ ہے ایسا کام جو آسانی اور معمولی کوشش سے کیا جا سکے۔ اس کے مقابلہ میں ” جہد“ کا لفظ استعمال ہوتا ہے جو کسی مشکل کام کی نشاندہی کرتا ہے اس سے پہلے جہنمیوں کا ایک دوسرے کے لیے بددعا کرنا اور لعنت کرنا بیان ہوا ہے۔ اب مومنوں کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جنت کی خوش خبری دے کر یہ وضاحت کردی ہے کہ دنیا میں رہتے ہوئے ان کی آپس میں غلط فہمیوں کی وجہ سے جو ناچاتیاں ہوئیں اور اس کے نتیجے میں ان کے دلوں میں جو رنجشیں پیدا ہوئیں۔ ان سے الاعراف
43 ان کے دلوں کو پاک اور صاف کردیا جائے گا۔ یہ آپس میں اس طرح شیروشکر اور الفت ومحبت سے رہیں گے جیسے دنیا میں ان کے درمیان کوئی رنجش پیدا ہی نہ ہوئی تھی۔ جنتی باہمی محبت اور جنت کے انعام وکرام پا کر اپنے رب کے ممنون اور شکر گزار ہوں گے اور کہیں گے کہ سب تعریفات اس ذات باری کے لیے ہیں جس نے ہمیں اپنی ہدایت سے سرشار اور سرفراز فرمایا۔ اگر ذات کبریا ہم کو ہدایت سے سرفراز نہ کرتی تو ہم کبھی ہدایت یافتہ نہ ہوتے۔ یقیناً یہ انبیاء کرام (علیہ السلام) کی جدوجہد کا صلہ ہے جو انہوں نے حق بتلانے اور سمجھانے کے لیے فرمائیں۔ جنتی ان خیالات کا اظہار کررہے ہوں گے تو انہیں ایک آواز سنائی دے گی جس میں خوشخبری ہوگی۔ کہ اب تمہیں کوئی فکر لاحق نہیں ہونی چاہیے کیونکہ تمہارے رب نے تمہیں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جنت کا وارث بنا دیا ہے۔ سیدنا ابوہریرہ (رض) اور ابوسعید خدری (رض) دونوں سے روایت ہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ایک منادی کرنے والا ندا کرے گا اے اہل جنت ! تم تندرست رہو گے کبھی بیمار نہ ہوگے، زندہ رہو گے تمہیں کبھی موت نہیں آئے گی، جوان رہو گے تم پر کبھی بڑھاپا نہیں آئے گا، عیش میں زندگی گزاروگے تمہیں کبھی حزن وملال نہ ہوگا۔ یہی مطلب ہے اللہ کے اس فرمان کا۔ مسائل ١۔ ایمان کے ساتھ صالح عمل کرنے والے ہی جنتی ہوں گے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ مومنین کے دلوں سے رنجشیں دور کردے گا۔ ٣۔ صرف اللہ تعالیٰ ہی ہدایت دیتا ہے۔ ٤۔ اللہ نے تمام انبیاء (علیہ السلام) کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ کے احکام کی پیروی کرنے والے جنت کے وارث ہوں گے۔ الاعراف
44 الاعراف
45 فہم القرآن ربط کلام : جنتی اور جہنمیوں کا اپنے اپنے مقام اور انجام کا اعتراف۔ جب جنتی جنت میں اور جہنمی جہنم میں چلے جائیں گے توجہنمیوں کو ان کی ذلت کا احساس دلانے کے لیے اللہ تعالیٰ جنتیوں کو جہنمیوں کے ساتھ سوال وجواب کرنے کا موقع عنایت فرمائے گا۔ جنتی حضرات جہنمیوں سے جنت کی آسائش وزیبائش، انعام وکرام اور جنت کی بیش بہا نعمتوں کا تذکرہ کرکے کہیں گے کہ ہم نے رب کریم کی طرف سے وہ سب کچھ پالیا جس کا ہمارے رب نے ہمارے ساتھ دنیا میں وعدہ فرمایا تھا۔ اے مجرمو! تم بتاؤ کہ کیا تم نے وہ بلائیں اور سزائیں دیکھ لیں جن کو تم دنیا کی زندگی میں جھٹلایا کرتے تھے۔ جہنمی ذلت کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈوبے ہوئے اقرار کریں گے کہ ہاں ہم اپنے جرائم اور گناہوں کی سزا پا رہے ہیں۔ جب ذلت وخواری کی حالت میں اپنے کیے کی سزا کا اعتراف کر رہے ہوں گے تو ان کی ذلت و حسرت میں اضافہ کرنے کے لیے ان پر موسلادھار پھٹکار کاسلسلہ جاری ہوگا کہ ظالموں پر واقعتا اللہ تعالیٰ کی لعنت اور پھٹکار ہونی چاہیے۔ لعنت کرنے والے ملائکہ اور جنتی ہوں گے، یہاں ظالموں کے ظلم کی وضاحت بھی کردی گئی ہے کہ یہ لوگ ہر برائی اور گمراہی کے طلبگار ہونے کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی راہ میں رکاوٹ بنتے اور اپنے قول اور فعل کے ساتھ آخرت کا انکار کیا کرتے تھے۔ مسائل ١۔ جنتی اپنے رب کی عطاؤں کا اقرار کرتے ہوئے اس کے شکرگزار ہوں گے۔ ٢۔ جہنمیوں پر مسلسل لعنت اور پھٹکار پڑتی رہے گی۔ ٣۔ اللہ کی راہ سے روکنے اور یوم آخرت کا انکار کرنے والے ظالم ہیں۔ تفسیر بالقرآن لعنتی کون؟ ١۔ بے گناہ مومن کو جان بوجھ کر قتل کرنے والے پر لعنت اور اللہ کا عذاب ہوگا۔ (النساء : ٩٣) ٢۔ کافروں پر اللہ تعالیٰ کی لعنت اور جہنم کا عذاب۔ (الاحزاب : ٦٤) ٣۔ اللہ اور رسول کو ایذا پہنچانے والوں پرلعنت برستی ہے۔ (الاحزاب : ٥٧) ٤۔ ظالموں کے لیے جہنم کا عذاب اور لعنت ہے۔ (حٰم ٓ السجدۃ: ٥٢) ٥۔ یہودیوں پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہے۔ (المائدۃ: ٦٤) ٦۔ جہنمی ایک دوسرے پر لعنت کریں گے۔ (الاعراف : ٣٨) ٧۔ منافقین پر اللہ تعالیٰ کی لعنت اور جہنم کا عذاب ہوگا۔ (الفتح : ٦) آخرت میں خسارہ پانے والے لوگ : ١۔ حقیقی خسارے پانے والے وہ لوگ ہیں جنہوں نے قیامت کے دن نقصان اٹھایا۔ (الشوری : ٤٥) ٢۔ کفار کے لیے شدید عذاب ہے اور وہ آخرت میں نقصان اٹھائیں گے۔ (النمل : ٥) ٣۔ کیا ہم تمہیں اعمال کے لحاظ سے خسارہ پانے والے لوگوں کے متعلق نہ بتائیں یہ وہ لوگ ہیں جن کی دنیاوی کوشش رائیگاں گئی۔ (الکھف : ١٠٣۔ ١٠٤) ٤۔ اللہ تعالیٰ پر افترابازی کرنے والے آ خرت میں نقصان اٹھائیں گے۔ (ھود : ٢٢۔ ٢٣) الاعراف
46 الاعراف
47 فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ اصحاب اعراف کا جنتیوں کو سلام اور جہنمیوں کو شرم دلانا۔ اعراف کا معنیٰ بلندی ہے جو جنت اور جہنم کے درمیان لامتنا ہی طول و عرض اور بلند و بالا قسم کی دیوار ہوگی اور اس میں ایک دروازہ بھی ہوگا جس کا قدرے تفصیل کے ساتھ ذکر سورۃ الحدید آیت ١٣ میں کیا گیا ہے اس پر تشریف فرما لوگوں کو اصحاب الاعراف کے نام سے پکارا جائے گا یہ کون حضرات ہوں گے ان کے بارے میں قرآن و حدیث میں دو اور دو چار کے الفاظ میں وضاحت نہیں ملتی۔ البتہ مفسرین نے متقدمین کے اقوال سے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ یہ وہ لوگ ہوں گے جن کی نیکیاں اور برائیاں برابر ہوں گی۔ بعض حضرات نے لکھا ہے کہ ان سے مراد وہ اصحاب ہوں گے جنھوں نے والدین کی اجازت کے بغیر قتال فی سبیل اللہ میں حصہ لیا ہوگا۔ یہ بالآخر جنت میں داخل ہوں گے۔ ایسے حضرات کو الاعراف پر براجمان کیا جائے گا تاکہ انھیں ان کی کمزوریوں کا کچھ نہ کچھ احساس دلایا جائے۔ یہ اہل جنت کو ان کے نام اور اعزازات سے پہچان کر ان کی خدمت میں سلام عرض کرتے ہوئے اس امید کا اظہار کریں گے گو ہمیں اب تک تمھاری رفاقت کا اعزاز اور جنت میں داخلہ نصیب نہیں ہوا لیکن ہمیں اپنے رب کے فضل و کرم سے پوری امید ہے کہ وہ ہمیں اپنی جنت میں داخلہ عطا فرمائے گا اس گفتگو کے بعد ان کے چہروں کو جہنم کی طرف پھیر دیا جائے گا وہ جہنم کی بلاؤں اور سزاؤں اور ان میں مبتلا جہنمیوں کو دیکھ کر اپنے رب سے عاجزانہ درخواست کریں گے۔ بار الٰہا! ہمیں جہنم کی ہولناکیوں اور ظالموں کی معیت سے محفوظ فرما کر جنت میں داخلہ نصیب فرما۔ پھر وہ جہنمیوں کے نام اور ان کے چہروں سے پہچانتے ہوئے انھیں شرم دلائیں گے کہ افرادی قوت، اسباب و وسائل کی کثرت اور تمھارا انکار و استکبار تمھیں جہنم میں داخل ہونے سے نہ بچا سکے اور جن لوگوں کو تم دنیا میں حقیر سمجھ کر ان کے ایمان اور صالح کردار پر طعنہ زنی کرتے تھے کہ یہ لوگ کسی صورت میں ہم سے بہتر نہیں ہو سکتے۔ اگر یہ واقعی اللہ کے پسندیدہ لوگ ہیں تو انھیں ہمارے مقابلہ میں دنیا کی نعمتیں کیوں حاصل نہیں ہو سکیں۔ اے جہنم والو! یہ بھی دنیا میں کہا کرتے تھے کہ یہ لوگ آخرت میں بھی اللہ کے فضل و کرم سے محروم رہیں گے۔ اب دیکھو کہ یہ خوش نصیب کس طرح اپنے رب کی نعمتوں سے سرفراز کیے جا رہے ہیں۔ اصحاب الاعراف کی جہنمیوں کے ساتھ اس گفتگو کے بعد انھیں جنت میں داخلہ کی اجازت دیتے ہوئے اطمینان دلایا جائے گا کہ اب تمھیں کوئی خوف اور غم نہیں ہوگا۔ کیونکہ وہ اعراف پر بیٹھے ہوئے جہنم کی ہولناکیوں کو دیکھتے ہوئے خوفزدہ تھے اس لیے جنت میں داخلہ عنایت کرکے انھیں حزن و ملال اور خوف و خطر سے مامون رہنے کی تسلی دی گئی ہے۔ کیونکہ جنت آسائش و آرام اور سکون و اطمینان کا گہوارا ہے۔ جب یہ لوگ جنت میں داخل ہوجائیں گے تو جہنمی آہ و زاریاں کرکے ان سے فریاد کریں گے کہ اللہ تعالیٰ نے جو ماکولات اور مشروبات تمھیں عنایت کیے ہیں ان میں سے پانی اور کھانے کے لیے کچھ نہ کچھ ہمیں بھی عنایت کیجیے۔ ان کے جواب میں جنتی فرمائیں گے کہ اللہ تعالیٰ نے جنت کا اکل و شرب کافروں پہ حرام کر رکھا ہے اس لیے ہم تم کو پانی کا ایک گھونٹ اور کھانے کے لیے ایک ذرّہ بھی نہیں دے سکتے۔ ١۔ اَھآؤُلآءِ کا اشارہ لایا گیا ہے جو قریب کے لیے استعمال ہوتا ہے ممکن ہے کہ جہنمیوں کی حسرتوں اور ذلتوں میں اضافہ کرنے کے لیے جنت اور دوزخ کے درمیان واقع اس دیوار کا دروازہ ایک دفعہ کھول دیا جائے جس سے یہ جنتیوں کو قریب سے دیکھ سکیں۔ ٢۔ اصحاب الاعراف اونچی دیوار پر بیٹھے جنتیوں کو بھی دیکھ رہے ہوں گے شاید ان کے لیے قریب کا اشارہ کیا گیا ہے۔ ٣۔ رجال سے مراد مفسرین نے جنت اور جہنم کے سردار لیے ہیں۔ مسائل ١۔ اصحاب اعراف جنتی اور جہنمیوں کو ان کے نام سے آواز دیں گے۔ ٢۔ اصحاب اعراف بالآخر جنت میں داخل کردیے جائیں گے۔ ٣۔ جہنمیوں کو ان کا تکبر اور مال و اسباب کچھ فائدہ نہیں دے گا۔ ٤۔ جنت میں کسی قسم کا خوف و خطر اور حزن و ملال نہیں ہوگا۔ تفسیر بالقرآن جنتی بے خوف ہوں گے : ١۔ تم جنت میں داخل ہو جاؤتمہارے اوپرکسی قسم کا خوف نہیں ہوگا۔ (الاعراف : ٤٩) ٢۔ جس نے اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کے لیے مطیع کرلیا اس پر کسی قسم کا خوف نہیں ہوگا۔ (البقرۃ: ١١٢) ٣۔ اے میرے بندو! تمہارے اوپر کسی قسم کا خوف نہیں ہوگا۔ (الزخرف : ٦٨) الاعراف
48 الاعراف
49 الاعراف
50 الاعراف
51 فہم القرآن ربط کلام : جہنمیوں کا جہنم میں جانا اور ان پر جنت کی نعمتوں کا حرام ہونا اس لیے ہوگا کہ یہ دین کو کھیل تماشا سمجھتے ہوئے دنیا کی عیش و عشرت میں غرق ہو کر آخرت کو بھول چکے تھے۔ کھیل تماشا وقتی طور پر دل بہلانے اور ایک حد تک صحت کے لیے مفید ہوتا ہے بشرطیکہ اس میں وقت اور دولت کا ضیاع اور بے حیائی کا عنصر شامل نہ ہو۔ اگر یہ چیزیں کسی کھیل اور گیم میں شامل ہوجائیں تو فائدہ کے بجائے صحت اور وقت کا نقصان ہوتا ہے۔ پھر یہ بھی حقیقت ہے کہ کھیل کود انسان پوری زندگی اختیار نہیں کرسکتا کیونکہ کھیلنے کودنے سے آدمی کا پیٹ نہیں بھرتا اور نہ ہی زندگی بھر کوئی شخص اسے اختیار کرسکتا ہے۔ یہاں کھیل تماشا کا ذکر کرکے یہ بتلانا مقصود ہے کہ سنجیدہ انسان کے سامنے ایسی چیزوں کی کوئی حیثیت اور حقیقت نہیں ہوتی۔ جہنم میں داخل ہونے والوں کا دین کے ساتھ یہی رویہ تھا کہ انھوں نے اللہ تعالیٰ کی عبادت کو وقت کا ضیاع سمجھا، دین کے احکام کو ناروا پابندی جانا، اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کو اپنے لیے غلامی تصور کرتے ہوئے اس سے روگردانی کی اور دنیا کی لذّات، جاہ و حشمت اور ترقی میں اس طرح غرق ہوئے کہ دنیا کی زندگی کو آخرت کے مقابلہ میں دائمی تصور کرلیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جب انھیں سمجھانے والا سمجھانے کی کوشش کرتا تو اس کے ساتھ استہزاء اور جھگڑا کیا کرتے تھے جس کے بدلہ میں آج جہنم میں ان کی آہ وزاریوں کو یکسر فراموش کردیا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ کے بھولنے سے مراد کسی قسم کا نسیان نہیں بلکہ اس کے بھولنے سے مراد یکسر طور پر مسترد کردینا ہے۔ بظاہر ” ھم“ کا اشارہ اہل مکہ کی طرف ہے لیکن قرآن مجید میں متعدد مقامات پر بنی نوع انسان کو رہتی دنیا تک مخاطب کیا گیا ہے کیونکہ انسان کی رہنمائی کے لیے یہ اللہ تعالیٰ کی آخری کتاب ہے اس لیے اس میں ہدایت کے متعلق تمام تفصیلات اور ہدایات بیان کردی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کو اپنے قطعی اور جامع علم کے مطابق نازل فرمایا ہے یہی وجہ ہے اس کی ہدایت کے مقابلہ میں کوئی ہدایت اور رہنمائی نہیں ہو سکتی جو کچھ اس میں دنیا اور آخرت کے حوالے سے حقائق بیان کیے گئے ہیں۔ وہ من و عن آج تک پورے ہوئے ہیں اور ہمیشہ عقل، علم اور سچائی کے اصولوں پر پورے اترتے رہیں گے۔ جو فرد اور قوم اس کی رہنمائی میں اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی گزارے گی۔ وہ دنیا میں اللہ تعالیٰ کی رحمت کے سزاوار ہوگی۔ ہر قسم کی کامیابی پاکر آخرت میں سرخرو ہوگی۔ لیکن رحمت اور ہدایت انھی لوگوں کو حاصل ہوگی جو قرآن مجید پر کامل ایمان لائیں گے۔ مسائل ١۔ قرآن مجید تمام بنی نوع انسان کے لیے ہدایت کا سرچشمہ ہے۔ ٢۔ دین کو کھیل اور تماشا سمجھنے والا آخرت میں نقصان اٹھائے گا۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ہدایت کے متعلق ہر بات کھول کر بیان کردی ہے۔ تفسیر بالقرآن قرآن مجید کے اوصاف کی ایک جھلک : ١۔ قرآن مجید لاریب کتاب ہے۔ (البقرۃ: ١) ٢۔ قرآن مجید برہان اور نور مبین ہے۔ (النساء : ١٧٤) ٣۔ قرآن مجید لوگوں کے لیے ہدایت اور نصیحت ہے۔ (آل عمران : ١٣٨) ٤۔ قرآن مجید اللہ تعالیٰ کی طرف سے واضح کتاب ہے۔ (ھود : ١) ٥۔ قرآن مجید لوگوں کے لیے ہدایت کا سرچشمہ ہے۔ (البقرۃ: ١٨٥) ٦۔ قرآن مجید کے نزول کا مقصد لوگوں کو اندھیروں سے نکال کر روشنی کی طرف لانا ہے۔ (ابراہیم : ١) الاعراف
52 الاعراف
53 فہم القرآن ربط کلام : قرآن مجید کی ہدایت سے روگردانی کرنے اور آخرت کو بھول جانے کا انجام اور جہنمیوں کی حسرتوں کا بیان۔ قرآن مجید میں لفظ تاویل سترہ آیات میں آیا ہے ان مقامات کی تلاوت سے یہ حقیقت عیاں ہوئی ہے کہ یہ لفظ مختلف معانی کے لیے استعمال ہوا ہے۔ سورۃ آل عمران آیت ٧ میں تفسیر اور تشریح کے لیے استعمال ہوا۔ سورۃ النساء، آیت : ٥٩ میں نتیجہ اور انجام مراد ہے۔ الاعراف، آیت : ٥٣ سورۃ یونس، آیت : ٣٩ میں ایسے واقعہ کا ظہور پذیر ہونا جس کی کسی رسول یا نبی نے خبر دی ہو۔ سورۃ یوسف میں تین دفعہ خواب کی تعبیر کے معنی میں آیا ہے، سورۃ الکہف، آیت : ٧٨ اور ٨٣ میں کسی کام کے محرک اور سبب کے لیے استعمال ہوا ہے۔ مندرجہ بالا حوالہ جات میں اس آیت کا حوالہ بھی شامل ہے یہاں دو مرتبہ تا ویل کا لفظ استعمال ہوا ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ جو کچھ انبیاء (علیہ السلام) بیان کیا کرتے تھے۔ اس کا من و عن سچا ثابت ہونا۔ دنیا کے اسباب و وسائل اور ان کی ہوس میں مدہوش ہو کر آخرت کو بھول جانے والے قیامت کے دن جب کھلی آنکھوں سے اپنا انجام اور جہنم کی ہولناکیاں دیکھیں گے تو اس بات کا برملا اظہار کریں گے کہ واقعی ہمارے رب کے فرستادہ رسول قیامت کے بارے میں حق اور سچ فرماتے تھے۔ لیکن ہماری بدبختی کہ ہم نے انکار کردیا۔ اس اعتراف کے باوجود مجرموں کو اس کا کچھ فائدہ نہیں پہنچے گا پھر وہ بڑی حسرت اور آہ و زاری کے ساتھ اس بات کا اظہار کریں گے کہ کاش آج کوئی سفارش کرنے والا ہماری سفارش کرے تاکہ ہم جہنم سے نجات پائیں یا ہمیں ایک دفعہ دنیا میں واپس لوٹایا جائے تاکہ ہم برے اعمال کے بجائے صالح اعمال کرسکیں۔ یہ فریاد بھی مسترد کردی جائے گی۔ سورۃ الانعام آیت ٢٧، ٢٨ میں بیان ہوا ہے کاش آپ دیکھیں جب یہ لوگ جہنم کی آگ کے سامنے کھڑے کیے جائیں گے تو وہ فریاد کریں گے۔ کاش ہمیں واپس لوٹایاجائے اور ہم اپنے رب کی آیات کی تکذیب ہرگز نہ کریں گے اگر انھیں دنیا میں ایک دفعہ لوٹا بھی دیا جائے تو یہ وہی کچھ کریں گے جو پہلے کرتے رہے ہیں۔ کیونکہ یہ بڑے جھوٹے ہیں۔ ایسے لوگ اپنے آپ کو ہی نقصان پہنچانے والے ہیں اور دنیا میں جو دعوے کیا کرتے اور جن کو دستگیر اور مشکل کشا سمجھتے تھے سب کو بھول جائیں گے۔ مسائل ١۔ مجرم اپنا انجام دیکھ کر قیامت کے دن اعترافِ حق کریں گے۔ ٢۔ مجرم خواہش کے باوجود کسی کو اپنا سفارشی نہیں پائیں گے۔ ٣۔ مجرم دنیا میں واپس آنے کی خواہش کریں گے جو کبھی قبول نہ ہوگی۔ ٤۔ کافر اور مشرک ایک دوسرے سے کیے ہوئے وعدے بھول جائیں گے۔ تفسیر بالقرآن مجرموں کا افسوس کرنا : ١۔ عذاب کے وقت کفار کا حسرت و افسوس کرنا۔ (البقرۃ: ١٦٧) ٢۔ موت کے وقت آہ و زاریاں کرنا۔ (المومنون : ٩٩) ٣۔ محشر کے میدان میں حسرت و افسوس کا اظہار کرنا۔ (النباء : ٤٠) ٤۔ جہنم میں ان کا آہ و بکا کرنا۔ (فاطر : ٣٧) الاعراف
54 فہم القرآن ربط کلام : مشرک جن کو اللہ تعالیٰ کے ہاں سفارشی سمجھتے ہیں۔ ان کا کائنات کی تخلیق اور اس کے چلانے میں کوئی عمل دخل نہیں پھر وہ کس بنیاد پر سفارش کریں گے؟ قرآن کریم نے مادی کائنات کے آغاز و انجام کا ایک خاص تصور دیا ہے۔ یہ تصور ڈیڑھ سو برس پہلے تک انسان کے لیے بالکل نامعلوم تھا۔ یقیناً نزول قرآن کے زمانے میں تو اس کا شاید تصور بھی کسی انسان کے لیے محال تھا۔ مگر جدید کائنات کے علم نے حیرت انگیز (کسی مسلمان کے لیے تو یہ بالکل حیرت انگیز نہیں ہے۔ ہاں غیر مسلموں کے لیے ضرور ہوسکتا ہے) طور پر اس کی تصدیق کی ہے۔ قرآن کریم میں مظاہر فطرت، تخلیق اور دیگر اہم موضوعات کا تذکرہ ایک مسلسل اور مربوط انداز کی بجائے پورے قرآن میں پھیلا ہوا۔ جس کا مقصد موقعہ محل کے مطابق اس سے اللہ کی توحید کا استدلال کرنا ہے۔ چنانچہ متعدد سورتوں میں پھیلے ہوئے اجزا کو یکجا کرکے ہم تخلیق کائنات اور سماوات وارض کے مختلف ارتقائی مراحل کا قرآنی تصور حاصل کرکے جدید سائنسی تحقیقات سے ان کا موازنہ کرسکتے ہیں۔ ان آیات سے تخلیق کے چند نکات بالکل واضح ہیں۔ ١۔ عام تخلیق کے لیے چھ ادوار کا ہونا۔ (جن کا دورانیہ اربوں کھربوں سالوں پر محیط ہے، صحیح علم تو اللہ ہی کے پاس ہے۔) ٢۔ آسمان اور زمین کے وجود کا آپس میں جڑا ہونا۔ ٣۔ کائنات کی تخلیق ابتدائی نوعیت کے ایسے مادے سے جو ایک بڑے تودے کی شکل میں تھا اور بالآخر ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا۔ ٤۔ آسمانوں اور زمینوں کے درمیان مخلوق کی تخلیق۔ ٥۔ آسمانوں اور زمینوں کا مقررہ وقت پر طے شدہ وقت کے مطابق و خاتمہ۔ تشکیل کائنات سے متعلق چند جدید سائنسی معلومات کائنات کی ابتداء Big Bang Teory انیسویں صدی کے نصف اول میں چند علماء یورپ کا یہ خیال تھا کہ شاید کائنات ازل سے ہے اور ابد تک رہے گی۔ لیکن جدید سائنسی تحقیقات نے یہ ثابت کیا ہے کہ کائنات ہمیشہ سے موجود نہیں ہو سکتی بلکہ اس کی ایک ابتدا ہے اور اس کا ایک انجام بھی مقدر ہے۔ جدید طبیعات کا ایک قانون (Second law of the rmodynamics) ” احرکیات حرارت کا دوسرا قانون“ ہے۔ اس کا ایک ضمنی قانون جسے ” ضابطۂ ناکارگی“ (Law of enterophy) کہا جاتا ہے۔ ثابت کرتا ہے کہ کائنات ہمیشہ سے موجود نہیں ہو سکتی۔ یہ قانون بتاتا ہے کہ حرارت، مسلسل، باحرارت وجود سے بے حرارت وجود میں منتقل ہوتی رہتی ہے مگر اس چکر کو الٹا نہیں چلایا جا سکتا کہ خود بخود حرارت، کم حرارت والے جسم سے زیادہ حرارت والے جسم میں منتقل ہونے لگے۔ ناکارگی دستیاب توانائی (Available Energy) اور غیر دستیاب توانائی (Unavailable Energy) کے درمیان تناسب کا نام ہے اور اسی بنا پر کہا جا سکتا ہے کہ کائنات کی ناکارگی مسلسل بڑھ رہی ہے۔ اور ایک وقت ایسا آنا مقدر ہے جب تمام موجودات کی حرارت یکساں ہوجائے گی اور کوئی کار آمد توانائی باقی نہیں رہے گی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ کیمیائی اور طبعی عمل کا خاتمہ ہوجائے گا۔ اور زندگی بھی اس کے ساتھ ہی ختم ہوجائے گی۔ لیکن اس حقیقت کے پیش نظر کہ کیمیائی اور طبعی عمل جاری اور زندگی کے ہنگامے قائم ہیں یہ بات قطعی طور پر ثابت ہوجاتی ہے کہ یہ کائنات ازل سے موجود نہیں۔ وگرنہ اخراج حرارت کے لازمی قانون کی وجہ سے اس کی توانائی کبھی کی ختم ہوچکی ہوتی اور یہاں زندگی کی ہلکی سی رمق بھی موجود نہ ہوتی۔ اسی جدید تحقیق کا حوالہ دیتے ہوئے ایک امریکی عالم حیوانات ( Edward Futher Kesel) لکھتا ہے : ” اس طرح غیر ارادی طور پر سائنس کی تحقیقات نے ثابت کردیا ہے کہ کائنات اپنا ایک آغاز (Beginning) رکھتی ہے۔ اور ایسا کرتے ہوئے اس نے خدا کی صداقت کو ثابت کردیا ہے۔ کیونکہ جو چیز اپنا آغاز رکھتی ہو وہ اپنے آپ شروع نہیں ہو سکتی۔ یقیناً وہ ایک محرک اول، ایک خالق، ایک خدا کی محتاج ہے۔“ (The evidence of God ,p51) چنانچہ کائنات کے وجود میں آنے کا مسلمہ جدید ترین نظریہ یہ ہے کہ ابتداً مادہ مرکوز اور مجتمع (Concentrated and Condensed) حالت میں تھا۔ (أَوَلَمْ یَرَ الَّذِینَ کَفَرُوا أَنَّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ کَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنَاہُمَا وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَاء کُلَّ شَیْءٍ حَیٍّ أَفَلَا یُؤْمِنُونَ)[ سورۃ الأنبیاء : ٣٠] ” کیا کافروں نے اس بات پر غور نہیں کیا کہ ارض و سماوات آپس میں گڈ مڈ تھے پھر ہم نے انھیں الگ الگ کیا اور ہر جاندار چیز کو پانی سے زندگی بخشی کیا پھر بھی یہ لوگ (اللہ تعالیٰ کی خلاقی) پر ایمان نہیں لاتے ؟“ یہ مادہ بالکل توازن کی حالت میں تھا اس میں کسی قسم کی کوئی حرکت نہ تھی پھر اچانک یہ ایک عظیم دھماکہ (Big Bang) (یہ عظیم دھماکہ ایک اندازہ کے مطابق 15 کھرب سال پہلے ہوا) سے پھٹ پڑا اور اس نے ایک عظیم گیسی بادل یا قرآن کے لفظ میں دخان (ثُمَّ اسْتَوَی إِلَی السَّمَاءِ وَہِیَ دُخَانٌ) کی صورت اختیار کرلی۔ سائنس کی یہ دریافت قرآنی بیان کی تفسیر معلوم ہوتی ہے۔ یہ گیسی بادل بہت عظیم الجثہ تھا اور آہستہ آہستہ گردش کر رہا تھا۔ یہ عظیم سدیم (Primery nebula) انجام کار متعدد ٹکڑوں میں بٹ گیا جن کی لمبائی چوڑائی اور مقدار مادہ بہت ہی زیادہ تھا۔ نجمی طبیعات (Astrophysicist) کے ماہرین اس کی مقدار کا اندازہ سورج کے موجودہ مادہ کے ایک ارب سے لگا کر ایک کھرب گنا تک لگاتے ہیں۔ ان اعداد سے ابتدائی گیسی مقدار مادہ (Hydrogen and Helium) کے ان ٹکڑوں کے عظیم جثوں کا کچھ تصور ملتا ہے جن سے بعد میں عمل انجماد (Condensation) کے ذریعے کہکشائیں وجود میں آئیں۔ وسعت کائنات یہ کائنات جس کا ابھی تک انسان احاطہ نہیں کرسکا ہے اتنی وسیع ہے کہ اس کو تصور میں لانا ہی مشکل ہے اگر ساری دنیا کے ریگستانوں اور سمندروں کے کنارے پائی جانے والی ریت اکٹھی کرلی جائے تو ریت کے اس عظیم ڈھیر میں جتنی حیثیت، ریت کے ایک ذرّے کی ساری ریت کے مقابلے میں بنتی ہے کائنات کے مقابلے میں ہماری زمین کی شاید اتنی حیثیت بھی نہیں بنتی۔ اگر ہم ایک خیالی جہاز تصور کریں جو روشنی کی ہیبت ناک رفتار یعنی ایک لاکھ چھیا سی ہزار میل فی سیکنڈ (1,86,000 Miles/Sec) کی رفتار سے سفر کرسکتا ہو کائنات کے گرد گھومے تو اس ہوائی جہاز کو پورا چکر لگانے میں ایک ارب سال لگیں گے۔ پھر بھی ہمارا یہ فرضی جہاز کبھی کائنات کا چکر مکمل نہ کرسکے گا کیونکہ اتنی وسعت کے باوجود یہ کائنات ٹھہری ہوئی نہیں بلکہ غبارے کی طرح پھیل رہی ہے اور اس کے پھیلنے کی رفتار اتنی ہے کہ ہر 130 کروڑسال بعد کائنات کے تمام فاصلے دگنے ہوجاتے ہیں۔ کائنات کا یہ پھیلاؤ جدید سائنس کی سب سے مرعوب کن دریافت اور اب یہ ایک نہایت مستحکم تصور ہے اور بحث صرف اس بات پر مرکوز ہے کہ یہ امر کس طرح انجام پا رہا ہے۔ جبکہ قرآن نے 14,00 سال پہلے اس کا انکشاف کردیا تھا۔ (وَالسَّمَاء بَنَیْنَاہَا بِأَیْدٍ وَإِنَّا لَمُوسِعُونَ)[ سورۃ الذاریات : ٤٧] ” آسمان کو ہم نے اپنے ہاتھوں سے بنایا ہے اور ہم ہی اس میں توسیع کر رہے ہیں۔“ نزول قرآن کے وقت کسی بھی شخص کے لیے ناممکن تھا کہ وہ وسعت کائنات کا مطالعہ و مشاہدہ کرسکتا ہو۔ چنانچہ سائنس کی یہ دریافت اس بات کا بین ثبوت ہے کہ قرآن خالق کائنات یعنی اللہ کا کلام ہے۔ نظام شمسی اور کہکشائیں نظام شمسی ایک ایسے نظام کو کہتے ہیں جس کے مرکز میں ایک سیارہ ہو اور اس کے گرد مختلف سیارے اپنے اپنے مداروں میں چکر لگا رہے ہوں۔ چنانچہ کائنات کے جس نظام شمسی میں ہم رہتے ہیں اس کے مرکز میں سورج ہے اور اس کے گرد بشمول ہماری زمین ٩ سیارے چکر لگا رہے ہیں۔ صرف اس نظام کی وسعت کا یہ حال ہے کہ سورج کی (یاد رہے کہ روشنی 1,86,000 میل فی سیکنڈ کی تیز ترین رفتار سے سفر کرتی ہے) روشنی کو اپنے بعید ترین سیارے یعنی پلوٹو (Pluto) جو کہ اعداد میں دیکھیں تو سورج سے تین ارب سر سٹھ کروڑ بیس لاکھ میل (3,66,2000000) دور ہے، کئی گھنٹے لگ جاتے ہیں اور پلوٹو سورج کے گرد ساڑھے سات ارب میل کے دائرے میں چکر لگا رہا ہے۔ ہماری زمین جو سورج سے ساڑھے نو کروڑ میل دور ہے اپنے محور پر ایک ہزار میل فی گھنٹہ کی رفتار سے گھومتی ہے۔ سورج کے گرد انیس کروڑ میل کا دائرہ ہے جو ایک سال میں پورا ہوتا ہے۔ یہ تمام سیارے اپنے سفر میں اس طرح مصروف ہیں کہ ان کے گرد اکتیس چاند بھی اپنے اپنے سیاروں کے گرد گھوم رہے ہیں۔ ان کے علاوہ تیس ہزار چھوٹے سیاروں (Asteroids) کا ایک حلقہ، ہزاروں دمدار ستارے (Comets) اور لاکھوں شہاب ثاقب ہیں جو اسی طرح گردش میں مصروف ہیں۔ ان سب کے درمیان میں سورج ہے جس کا قطر (Diameter) آٹھ لاکھ پینسٹھ ہزار میل ہے اور وہ زمین سے بارہ لاکھ گنا بڑا ہے، پھر یہ سورج خود بھی رکا ہوا نہیں۔ سورج کس طرح سفر کر رہا ہے ؟ کیلیفورنیا کی ایک رصد گاہ کے ڈائریکٹر آرجی ایٹکن کا اندازہ ہے کہ سورج اپنے نظام شمسی سمیت اپنی کہکشاں کے ساتھ چوبیس ہزار میل فی گھنٹہ کی رفتار سے کسی نامعلوم منزل کی طرف جا رہا ہے۔ جو جدید انکشاف کے مطابق سورج مجمع النجوم شلیاق کے مرکز جس کو Solar Apex ہا گیا ہے کی طرف جا رہا ہے۔ یہ دریافت بھی قرآن کی صداقت کا ایک منہ بولتا ثبوت ہے جیسا کہ قرآن نے چودہ صدیاں قبل ہی یہ اعلان کردیا تھا۔ (وَالشَّمْسُ تَجْرِی لِمُسْتَقَرٍّ لَّہَا ذٰلِکَ تَقْدِیرُ الْعَزِیزِ الْعَلِیم)[ یس : ٣٨] ” اور سورج اپنی مقررہ گزر گاہ پر چل رہا ہے یہ زبردست علیم ہستی کا مقرر کردہ اندازہ ہے۔“ علمائے فلکیات کے ایک جدید اندازے کے مطابق ہر کہکشاں (Galaxy) میں دو کھرب ستارے ہیں اور اب تک معلوم کائنات میں تقریباً دو کھرب یہ کہکشائیں ہیں۔ جو کہکشاں ہم سے قریب ترین ہے وہاں سے روشنی کو ہم تک پہنچنے میں تقریباً نو لاکھ سال لگ جاتے ہیں۔ یہ کہکشاں مراۃ السلسلہ (Andromida) نامی مجمع النجوم میں واقع ہے۔ لہٰذا روشنی کو ان ستاروں سے جو معلوم سماوی جہاں کے اس سرے پر واقع ہیں ہم تک پہنچنے میں اربوں سال لگ جاتے ہیں۔ کائنات کی پہنائیاں اس قدر وسیع ہیں کہ ان کی پیمائش کے لیے خاص اکائیاں مثلاً نوری سال اور پارسک وغیرہ وضع کی گئیں ہیں۔ نوری سال یا سال نوای اس فاصلہ کو کہتے ہیں جو روشنی ایک سال میں طے کرتی ہے اور یہ تقریباً 58 کھرب ستر ارب میل کے برابر ہوتا ہے اور پارسک 3.26 نوری سال یا ایک نیل 92 کھرب میل کے لگ بھگ ہے۔ (فَتَبَارَکَ اللّٰہُ اَحْسَنُ الْخَالِقِیْنَ) کائنات کی ان وسعتوں کو دیکھ کر لگتا ہے کہ اس حدیث میں ذرا بھی مبالغہ نہیں جس میں بتایا گیا ہے وہ آخری آدمی جسے اللہ تعالیٰ دوزخ سے نکال کر جنت میں بھیجے گا اور اسے وہ وسیع و عریض باغ دکھا کرکہا جائے گا یہ سب تمھارا ہے تو وہ حیران ہو کر کہے گا۔ ” یا اللہ تو اللہ ہو کر مجھ سے مذاق کرتا ہے۔“ طرّہ پھر اس پہ یہ کہ یہ کہکشائیں بھی ٹھہری ہوئی نہیں ہیں بلکہ اپنے محور پر گردش کر رہی ہیں۔ چنانچہ وہ کہکشاں جس میں ہمارا نظام شمسی واقع ہے اس کا اپنے محور پر ایک دور 20 کروڑ سال میں پورا ہوتا ہے۔ یہ ساری حرکتیں اور گردشیں حیرت انگیز طور پر نہایت تنظیم اور باقاعدگی کے ساتھ ہو رہی ہیں۔ نہ ان میں باہم کوئی ٹکراؤ ہوتا ہے اور نہ رفتار میں کوئی فرق پڑتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق Big Bang کے وقت اگر مادے کے پھیلنے کی رفتار میں ایک سیکنڈ کے ہزارویں حصے کے لاکھویں حصے جتنا بھی فرق پڑجاتا تو ساری کائنات آپس میں ٹکرا کر درہم برہم ہوجاتی ! (سُبْحَان اللّٰہِ وَبِحَمْدِہٖ سُبْحَان اللّٰہِ الْعَظِیْمِ) یہ نظام اس حدتک مربوط اور مستند (Accurate) ہے کہ ایک کہکشانی نظام جو اربوں متحرک ستاروں پر مشتمل ہوتا ہے دوسرے کہکشانی نظام میں حرکت کرتا ہوا داخل ہوتا ہے اور پھر اس سے نکل جاتا ہے مگر باہم کسی قسم کا ٹکراؤ پیدا نہیں ہوتا! اس عظیم اور حیرت انگیز نظام کو دیکھ کر انسانی عقل بے اختیار اعتراف کرتی ہے کہ کوئی تو ہے، زبردست، غیر معمولی طاقت اور علم والا جس نے اس اتھاہ نظام کو قائم کر رکھا ہے۔ یہاں پر یہ واقعہ باعث بصیرت و تقویت ایمان ہوگا جس کا تعلق مشہور ماہر فلکیات سر جیمز جینز (Sir James Jeans) England (1877-1946) سے ہے۔ موصوف مشہور کتاب (The Mysterious Universe) کے مصنف ہیں۔ اس واقعہ کو علامہ عنایت اللہ مشرقی نے بیان کیا ہے انھی کے الفاظ میں سنیے۔ ” 1909 کا ذکر ہے، اتوار کا دن تھا اور زور کی بارش ہو رہی تھی۔ میں کسی کام سے نکلا تو جامعہ کیمبرج کے مشہور ماہر فلکیات سر جیمز جینز پر نظر پڑی جو بغل میں انجیل دبائے چرچ کی طرف جا رہے تھے۔ میں نے قریب ہو کر سلام کیا۔ انھوں نے کوئی جواب نہ دیا۔ دوبارہ سلام کیا تو متوجہ ہوئے اور کہنے لگے تم کیا چاہتے ہو ؟ میں نے کہا دو باتیں۔ اول یہ کہ زور سے بارش ہو رہی ہے اور آپ نے چھتری بغل میں دبا رکھی ہے۔ سر جیمز جینز اپنی بد حواسی پر مسکرائے اور چھاتہ تان لیا۔ دوم یہ کہ آپ جیسا شہرہ آفاق آدمی گرجا میں عبادت کے لیے جا رہا ہے۔ یہ کیا ؟ میرے اس سوال پر پروفیسر جیمز جینز لمحہ بھر کے لیے رک گئے اور پھر میری طرف متوجہ ہو کر فرمایا۔ ” آج شام کی چائے میرے ساتھ پیو“ چنانچہ شام کو میں ان کی رہائش گاہ پر پہنچا۔ ٹھیک 4 بجے لیڈی جیمز باہر آکر کہنے لگیں : ” سر جیمز تمھارے منتظر ہیں“ اندر گیا تو ایک چھوٹی میز پر چائے لگی ہوئی تھی۔ پروفیسر صاحب تصورات میں کھوئے ہوئے تھے۔ کہنے لگے : ” تمھاراسوال کیا تھا؟“ میرے بولنے کا انتظار کیے بغیر ہی اجرام فلکی کی تخلیق، ان کے حیرت انگیز نظام، بے انتہا پہنائیوں اور فاصلوں، ان کی پیچیدہ راہوں اور مداروں نیز باہمی کشش اور طوفان ہائے نور پر وہ ایمان افروز تفصیلات پیش کیں کہ میرا دل اللہ کی اس داستان کبریا اور جبروت پر دہلنے لگا، اور ان کی اپنی کیفیت یہ تھی کہ سر کے بال سیدھے اٹھے ہوئے تھے۔ آنکھوں سے حیرت و خشیت کی دو گونہ کیفیتیں عیاں تھیں، اللہ کی ہیبت اور دانش سے ان کے ہاتھ قدرے کانپ رہے تھے اور آواز لرز رہی تھی۔ فرمانے لگے، عنایت اللہ خاں! جب میں خدا کے تخلیقی کارناموں پر نظر ڈالتا ہوں تو میری ہستی اللہ کے جلال سے لرزنے لگتی ہے اور جب میں کلیسا میں خدا کے سامنے سرنگوں ہو کر کہتا ہوں ” تو بہت بڑا ہے“ تو میری ہستی کا ذرہ ذرہ میرا ہم نوا بن جاتا ہے۔ مجھے بے حد خوشی اور سکون نصیب ہوتا ہے۔ مجھے دوسروں کی نسبت عبادت میں ہزار گنا زیادہ کیف ملتا ہے کہو عنایت اللہ خاں! تمھاری سمجھ میں آیا کہ میں گرجے کیوں جاتا ہوں ؟“ علامہ مشرقی کہتے ہیں کہ پروفیسر جیمزکی اس تقریر نے میرے دماغ میں عجیب کہرام مچا دیا۔ میں نے کہا :” جناب والا آپ کی روح افروز تفصیلات سے میں بے حد متاثر ہوا ہوں۔ اس سلسلے میں قرآن پاک کی ایک آیت یاد آئی ہے اگر اجازت ہو تو پیش کروں۔“ فرمایا ضرور چنانچہ میں نے یہ آیت پڑھی۔ (وَمِنَ النَّاسِ وَالدَّوَابِّ وَالْأَنْعَامِ مُخْتَلِفٌ أَلْوَانُہُ کَذَلِکَ إِنَّمَا یَخْشَی اللّٰہَ مِنْ عِبَادِہِ الْعُلَمَاء إِنَّ اللّٰہَ عَزِیزٌ غَفُورٌ)[ سورۃ فاطر : ٢٨] ” اور اسی طرح انسانوں، جانوروں اور مویشیوں کے لیے بھی رنگ مختلف ہیں بلاشبہ اللہ کے بندوں میں سے اس سے ڈرتے وہی ہیں جو علم رکھنے والے ہیں اللہ تعالیٰ یقیناً ہر چیز پر غالب اور بخشنے والا ہے۔“ آیت سنتے ہی پروفیسر بولے ” کیا کہا! اللہ سے صرف اہل علم ڈرتے ہیں۔ حیرت انگیز، بہت عجیب، یہ بات جو مجھے ٥٠ برس کے مسلسل مطالعہ و مشاہدہ کے بعد معلوم ہوئی، محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کس نے بتائی۔ کیا قرآن میں واقعی ہی یہ آیت موجود ہے ؟ اگر ہے تو میری شہادت لکھ لو کہ قرآن ایک الہامی کتاب ہے۔ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان پڑھ تھے، انھیں یہ عظیم حقیقت خود بخود معلوم نہیں ہو سکتی۔ انھیں یقیناً اللہ نے بتائی تھی۔ بہت خوب بہت عجیب۔۔“ (بحوالہ : ” ماہنامہ نقوش“ ) مسائل ١۔ جہانوں کا رب اللہ ہے جس نے چھ دن میں زمین و آسمانوں کو پیدا کیا۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ اپنی شان کے مطابق عرش کے اوپر متمکن ہے۔ ٣۔ رات دن کو ڈھانپ لیتی ہے۔ ٤۔ سورج، چاند، ستارے اللہ کے حکم کے تابع ہیں۔ ٥۔ کائنات کو پیدا کرنے والا اللہ ہے۔ ٦۔ کائنات پر صرف اللہ کا حکم چلتا ہے جو تمام کائنات کا رب ہے۔ الاعراف
55 فہم القرآن ربط کلام : جب زمین و آسمانوں کا خالق، رات اور دن، شمس و قمر اور ہر چیز کا مالک وہی ہے اور ہر چیز پر اسی کا حکم چلتا ہے۔ تو کسی دوسرے کے سامنے دست سوال دراز کرنے کا کیا معنٰی ؟ لہٰذا حقیقی خالق اور بااختیار مالک سے مانگا کیجیے اس سے نہ مانگنا اور غیروں سے مانگنا اللہ تعالیٰ کی بغاوت ہے جس سے ساری زمین کا نظام بگڑتا ہے۔ دعا کے آداب میں شکرو حمد، درود اور توبہ استغفار کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی جلالت ومنزلت کا تقاضا اور فقیر کی شان یہ ہے کہ مانگتے وقت غایت درجے کی انکساری اور در ما ندگی کا اظہار کرتے ہوئے اسکے سامنے دست سوال دراز کرنا چاہیے۔ شاہ ولی اللہ (رض) نے لکھا ہے کہ دعا مانگنے والا اس بے بسی اور بے چارگی کا اظہار کرے جس طرح مردہ غساّل کے ہاتھ میں ہو۔ (رُوْحُ الدُّعَاءِ اَنْ یَّرَیٰ کُلَّ حَوْلٍ وَقُوَّۃٍ مِنَ اللّٰہِ وَےَصِےْرُ کَا لْمَیِّتِ فِیْ ےَدِ الْغُسَّالِ) [ حجۃ اللّٰہ] ” دعا کی روح یہ ہے کہ دعا کرنے والا ہر قسم کی طاقت وقوت کا سر چشمہ اللہ تعالیٰ کی ذات کو تصور کرے اور اس کی قوت وعظمت کے سامنے اپنے آپ کو اس طرح بے بس سمجھے جس طرح نہلانے والے کے ہاتھوں میت ہوتی ہے۔“ اللہ تعالیٰ کو انکساری اس قدر پسند ہے کہ جب انسان پریشانیوں کے ہجوم، مسائل کے گرداب اور مصائب کے طوفانوں میں پھنس جاتا ہے۔ عزیز واقربا، دوست واحباب منہ پھیر چکے ہوتے ہیں، لوگوں کی بے وفائی کے جھٹکوں اور حالات و واردات کے تھپیڑوں نے اسے زمین کی پستیوں پر دے مارا ہوتا ہے تمام وابستگیاں ختم اور ہر قسم کی امیدیں دم توڑ گئی ہیں۔ اب نہ اٹھنے کی ہمت ہے اور نہ بیٹھنے کی سکت ہر دم بستر کے ساتھ چمٹا ہوا ہے۔ جسمانی طور پر اس قدر کمزوری کا عالم! کہ اندر سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوچکا ہے۔ ہاتھ اٹھانا چاہتا ہے مگر ہمت اور طاقت ختم ہوچکی ہے۔ کیونکہبیماری اور غم کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ہاتھ اٹھانے کے قابل نہیں رہا۔ معذور یاں، مجبوریاں : ان مجبوریوں اور معذوریوں میں ایک آواز اس کے کانوں کو مس کرتی ہے۔ آواز میں یہ تحریک اور امید دلائی جارہی ہے کہ میرے کمزور، ناتواں اور گناہ گار بندے تجھے اپنی درماندگیوں، لاچاریوں اور کمزوریوں پر نگاہ رکھنے کی بجائے میری رحمت پر امید رکھنی چاہئے کیونکہ میرے بغیر کوئی چارہ گر اور تیرا پر سان حال اور تیری غلطیاں معاف کرنے والا نہیں۔ امید کی اس پکار نے اس کے کمزور جسم میں طاقت، ناتواں ہاتھوں میں سکت اور شکستہ دل میں ایک امیدپیدا کردی ہے۔ وہ کانپتے وجود، لرزتے ہاتھوں کو اس کی بارگاہ اقدس میں پھیلا دیتا ہے۔ اس کی زبان سے نہایت نحیف آواز نکلتی ہے کہ اے رحیم وکریم مالک میں ہر طرف سے ٹھکرایا ہوا اور ہر جانب سے بے آسرا ہو کر تیری بارگاہ پاک میں اپنادامن حاجت پھیلا رہا ہوں۔ تو میری فریاد قبول فرما۔ میں تیرے در کا محتاج اور تیری رحمت کا طلب گارہوں اس کے جواب میں آواز آتی ہے : (قُلْ ےٰعِبَادِیَ الَّذِےْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰی اَنْفُسِھِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَۃِ اللّٰہِ إِنَّ اللّٰہَ ےَغْفِرُالذُّنُوْبَ جَمِےْعًا إِنَّہُ ھُوَالْغَفُوْرُ الرَّحِےْمُ) [ الزمر : ٥٣] ”(اے نبی) کہہ دو کہ اے میرے بندو جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے۔ اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہوجاؤ۔ یقیناً اللہ سارے گناہ معاف کردیتا ہے۔ وہ تو غفورالرحیم ہے۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ کو عاجزی اور انکساری کے ساتھ پکارنا چاہیے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ سے خوف اور امید کے ساتھ مانگنا چاہیے۔ ٣۔ اللہ سے نہ مانگنے والے فسادی لوگ ہیں۔ ٤۔ اللہ کی رحمت اس کے نیک بندوں کے قریب تر ہوتی ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ کی رحمت : ١۔ اللہ کی رحمت سے مایوس نہیں ہونا چاہیے اللہ گناہوں کو بخشنے والا ہے۔ (الزمر : ٥٣) ٢۔ اللہ کی رحمت دنیا کی ہر چیز سے بہتر ہے۔ (الزخرف : ٣٢) ٣۔ اللہ کی رحمت نیکو کاروں کے قریب ہوتی ہے۔ (الاعراف : ٥٦) ٤۔ اللہ کی رحمت سے گمراہ لوگ ہی مایوس ہوتے ہیں۔ (الحجر : ٥٦) الاعراف
56 الاعراف
57 فہم القرآن رابط کلام : یہ اللہ کی رحمت کا کرشمہ ہے کہ وہ پہلے ٹھنڈی ہوائیں چلاتا ہے تاکہ لوگوں کے دل بارش کے نزول سے پہلے ہی مسرور ہوجائیں اور اپنا سازو سامان سنبھال لیں۔ پھر وہ بارش سے مردہ زمین، مرجھائی فصلوں اور مضمل طبیعتوں کو شاداں اور فرحان کردیتا ہے۔ بارش کا ذکر فرما کر انسان کو سمجھایا گیا ہے کہ دعا کے بعد اللہ کی رحمت کا نزول ہوتا ہے لہٰذا دعا توبہ اور عاجزی کے ساتھ مانگا کرو۔ جو شخص توحید کے منافی عقیدہ رکھتا اور اللہ کے سوا غیروں سے مانگتا ہے وہ زمین میں فساد کا موجب بنتا ہے اب پھر توحید کے آفاقی دلائل کی طرف توجہ دلائی جارہی ہے کہ صرف ایک ہی ذات کبریا ہے جو کائنات کا نظام سنبھالے ہوئے ہے اسی کے حکم سے ہواؤں اور فضاؤں میں تبدیلی آتی ہے یہ اسی کی رحمت کا کرشمہ ہے کہ پہلے ٹھنڈی ہوائیں چلاتا ہے تاکہ لوگوں کے دل ٹھنڈی ہوا سے مسرور ہوجائیں اور بارش آنے سے قبل اپنا سازوسامان سنبھال لیں۔ گھٹا ٹوپ ہوائیں نہ معلوم بادلوں کو کہاں سے کہاں اٹھائے ہوئے ہزاروں میل دور لے جاتی ہیں۔ جہاں اللہ تعالیٰ کا حکم صادر ہوتا ہے وہیں بارش کا نزول ہوتا ہے اس طرح اجڑی ہوئی بستیاں تروتازہ ویران کھیتیاں شاداب اور نہ صرف مردہ زمین زندہ ہوجاتی ہے بلکہ فضا مہلک جراثیم سے پاک اور درختوں کا پتہ پتہ گردوغبار سے صاف ہوجاتا ہے ہر سو سہانا موسم جس سے روحانی اور جسمانی طور پر تسکین پہنچتی ہے اس کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ میوہ جات سے اپنے بندوں کو لطف اندوز ہونے کا موقعہ فراہم کرتا ہے بارش کی مثال سے استدلال پیش کرتے ہوئے مرنے کے بعد جی اٹھنے کا عقیدہ سمجھایا گیا ہے کہ لوگو! غور کرو کہ اگر مردہ زمین کو زندہ کیا جاسکتا ہے اور اس میں مدتوں پڑے ہوئے بیج باغ وبہار کا منظر پیش کرسکتے ہیں تو کیا انسان کو پیدا کرنا خالقِ کل کے لیے مشکل ہے؟ ہرگز نہیں اسی طرح ہی اللہ تعالیٰ تمہیں پیدا فرمائے گا۔ (عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَا بَیْنَ النَّفْخَتَیْنِ اَرْبَعُوْنَ قَالُوْ یَا اَبَا ھُرَیْرۃَ اَرْبَعُوْنَ یَوْمًا قَالَ اَبَیْتُ قَالُوْا اَرْبَعُوْنَ شَھْرًا قَالَ اَبَیْتُ قَالُوْا اَرْبَعُوْنَ سَنَۃً قَالَ اَبَیْتُ ثُمَّ یُنْزِلُ اللّٰہُ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَیُنْبَتُوْ نَ کَمَآ یَنْبُتُ الْبَقْلُ قَالَ وَلَیْسَ مِنَ الْاِنْسَانِ شَیْءٌ لَا یَبْلٰی اِلَّاعَظْمًا وَاحِدًا وَّھُوَ عَجْبُ الذَّنَبِ وَمِنْہُ یُرَکَّبُ الْخَلْقُ یَوْمَ الْقِیَا مَۃِ)[ متفق علیہ] وَفِیْ رِوَایَۃٍ لِمُسْلِمِ قَالَ کُلُّ اِبْنِ اٰدَمَ یَاکُلُہٗ التُّرَاب الاَّ عَجْبَ الذَّنَبِ مِنْہُ خُلِقَ وَفِیْہِ یُرَکَّبُ [ متفق علیہ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا دو صور پھونکنے کا عرصہ چالیس ہوگا۔ حضرت ابوہریرہ (رض) سے ان کے شاگردوں نے کہا چالیس دن ؟ حضرت ابوہریرہ (رض) نے فرمایا کہ میں یہ نہیں کہتا انہوں نے استفسار کیا چالیس ماہ ہیں؟ حضرت ابوہریرہ (رض) نے جواباً فرمایا میں یہ نہیں کہتا انہوں نے پھر پوچھا چالیس سال ہیں؟ ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں میں یہ بھی نہیں کہتا۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ بارش نازل فرمائے گا۔ لوگ یوں اگیں گے جس طرح انگوری اگتی ہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا، انسان کی دمچی کے علاوہ ہر چیز بو سیدہ ہوجائے گی۔ روز قیامت اسی سے تمام اعضاء کو جوڑا جائے گا۔ (بخاری و مسلم) اور مسلم کی ایک روایت میں ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا انسان کے تمام اعضاء کو مٹی کھا جائے گی۔ لیکن دمچی کو نہیں کھائے گی انسان اسی سے پیدا کیا جائے گا اور جوڑا جائے گا۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ بارش سے پہلے ہواؤں کو بھیجتا ہے۔ ٢۔ ہوائیں بادلوں کو لاتی ہیں۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ بارش سے انگوریاں پیدا فرماتا ہے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ مردوں کو زندہ فرمائے گا۔ ٥۔ انسانوں کی نصیحت کے لیے اللہ تعالیٰ نے سب کچھ پیدا فرمایا ہے۔ الاعراف
58 فہم القرآن ربط کلام : بارش کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کے حکم سے نباتات کا ظہور اور نمود ہوتا ہے بارش تو ہر کسی کے لیے یکساں ہوتی ہے مگر اس کے اثرات اور نتائج مختلف ہوتے ہیں زمین چٹیل اور بنجر ہوگی تو اس سے کسی چیز کا اخراج نہیں ہوگا۔ اگر زمین زرخیز اور ہموار ہوگی تو نہ صرف وہ زمین ٹھنڈی ہوگی بلکہ اس سے مختلف قسم کی فصلیں اور پودہ جات پیدا ہوں گے۔ زمین شوریلی ہوگی تو اس سے مزید کلر شور ابھر کر سامنے آئے گا۔ اس پر کھڑے ہوئے پانی میں تعفن کے سوا کچھ پیدا نہیں ہوگا۔ اللہ تعالیٰ اپنے ارشادات کو مختلف انداز میں بیان کرتا ہے تاکہ لوگ شکر ادا کریں۔ بظاہر یہ بارش اور زمین کی مثال ہے لیکن حقیقت میں اس کا تعلق دین کے ساتھ ہے کیونکہ سورۃ البقرہ کی آیت ١٧ اور ١٨ میں دین اور بارش کو مترادف الفاظ میں بیان کیا گیا ہے کہ جس طرح بارش سے مردہ زمین زندہ ہوجاتی ہے اسی طرح عقیدہ توحید اپنانے اور دین اسلام کو اختیار کرنے سے مسلمان کی روحانی زندگی میں بہار ہوتی ہے۔ اس کے ذوق وشوق میں اضافہ اور نیکی کے عمل میں ترقی ہوتی ہے۔ (عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَیْبٍ (رض) عَنْ أَبِیہِ عَنْ جَدِّہِ قَالَ کَانَ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) إِذَا اسْتَسْقَی قَال اللَّہُمَّ اسْقِ عِبَادَکَ وَبَہَاءِمَکَ وَانْشُرْ رَحْمَتَکَ وَأَحْیِ بَلَدَکَ الْمَیِّتَ) [ رواہ ابو داؤدد : باب رَفْعِ الْیَدَیْنِ فِی الاِسْتِسْقَاءِ] ” حضرت عمرو بن شعیب (رض) بیان کرتے ہیں بلاشبہ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب بارش کے لیے دعا کرتے تو فرماتے اللّٰہُمَّ اسْقِ عِبَادَکَ وَبَہِیمَتَکَ وَانْشُرْ رَحْمَتَکَ وَأَحْیِ بَلَدَکَ الْمَیِّتَ ” اے اللہ اپنے بندوں اور جانوروں کو بارش کے ذریعے پانی پلا اور اپنی رحمت کو پھیلاتے ہوئے مردہ زمین کو زندہ کردے“ الاعراف
59 فہم القرآن حضرت نوح (علیہ السلام) : آپ کا نسب نامہ اس طرح ہے نوح (علیہ السلام) بن لامک بن متوشلخ بن خنوخ ( ادریس (علیہ السلام) بن یرد بن مھلا ییل بن قینن بن انوش بن شیث بن آدم (علیہ السلام)۔ حضرت ابو امامہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کی کہ کیا آدم (علیہ السلام) نبی تھے؟ آپ نے فرمایا ہاں ! ان سے اللہ تعالیٰ نے کلام کیا۔ پھر اس نے یہ سوال کیا کہ آدم (علیہ السلام) اور نوح (علیہ السلام) کے درمیان کتنی مدت ہے آپ نے فرمایا دس قرن (صحیح ابن حبان : ٦١٥٧) قرن سے مراد اہل علم نے ایک نسل یا ایک صدی لی ہے اگر ایک نسل مراد لی جائے تو آدم (علیہ السلام) کی وفات اور نوح (علیہ السلام) کی پیدائش کے درمیان ہزاروں سال کی مدت بنتی ہے۔ کیونکہ پہلے لوگوں کی عمر صدیوں پر محیط ہوا کرتی تھی جس بنا پر حضرت آدم اور حضرت نوح (علیہ السلام) کے درمیان ہزاروں سال کا وقفہ ثابت ہوتا ہے، بہر حال اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح (علیہ السلام) کو اس وقت نبوت سے سرفراز فرمایا جب ان کی قوم کے لوگ مجسموں کے پجاری بن چکے تھے جس کی وضاحت کرتے ہوئے حضرت عبداللہ بن عباس (رض) نے فرمایا کہ جب نوح (علیہ السلام) کی قوم کے نیک لوگ فوت ہوگئے تو شیطان نے ان کی اولاد کے دل میں یہ خیال ڈالا کہ جہاں تمھارے بزرگ بیٹھا کرتے تھے وہاں ان کے مجسمے تراش کر رکھ دیے جائیں تاکہ ان کا نام اور عقیدت باقی رہے۔ چنانچہ انھوں نے ایسا کیا جب یہ کام کرنے والے لوگ فوت ہوگئے تو ان کے بعد آنے والے لوگوں نے ان مجسموں کو اللہ تعالیٰ کی قربت کا وسیلہ بناناشروع کردیا اور پھر ان کی بالواسطہ عبادت اور ان کے حضور نذرانے پیش کیے جانے لگے۔ حضرت عبداللہ بن عباس (رض) یہ بھی فرمایا کرتے تھے کہ سورۃ نوح میں ودّ، سواع، یغوث اور یعوق کے نام پر جن بتوں کا تذکرہ پایا جاتا ہے وہ نوح (علیہ السلام) کی قوم کے صالح لوگوں کے نام ہیں۔ (بخاری کتاب التفسیر ٤٩٢٠، طبری تفسیر سورۃ نوح، آیت : ٢٣، ٢٤) سورۃ العنکبوت آیت ١٤ میں بیان کیا گیا ہے کہ جناب نوح (علیہ السلام) نے ساڑھے نو سو سال قوم کی اصلاح کرنے میں صرف فرمائے۔ سورۃ نوح میں یہ وضاحت فرمائی گئی کہ انھوں نے اللہ تعالیٰ سے یہ فریاد کی کہ میرے رب میں نے اپنی قوم کو رات اور دن، انفرادی اور اجتماعی طور پر سمجھانے کی کوشش کی لیکن میری بھرپور کوشش کے باوجود یہ قوم شرک اور برائی میں بڑھتی ہی چلی گئی۔ قوم نہ صرف جرائم میں آگے برھتی گئی بلکہ الٹا انھوں نے نوح (علیہ السلام) کے خلاف گمراہ ہونے کا پراپیگنڈہ کرنے کے ساتھ ان سے بار بار مطالبہ کیا کہ اے نوح! اگر تو واقعی اللہ کا سچا نبی ہے تو ہمارے لیے عبرت ناک عذاب کی بددعا کیجیے۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے نہایت ہی مجبور ہو کر ان کے لیے بد دعا کی ” اے میرے رب میں ان کے مقابلے میں بالکل بے بس اور مغلوب ہوچکا ہوں بس تو میری مدد فرما۔“ (القمر : ١٠) حضرت نوح (علیہ السلام) نے بد دعا کرتے ہوئے اپنے رب کے حضور یہ بھی درخواست کی کہ میرے رب اب زمین پر کافروں کا ایک شخص بھی نہیں بچنا چاہیے کیونکہ ان میں سے جو بھی پیدا ہوگا وہ برا اور کافر ہی پیدا ہوگا۔ ( نوح ٢٥ تا ٢٧) اللہ تعالیٰ نے نوح (علیہ السلام) کی بد دعا قبول کرتے ہوئے انھیں حکم دیا کہ آپ میرے سامنے ایک کشتی بنائیں جب نوح (علیہ السلام) کشتی بنا رہے تھے تو ان کی قوم نے ان کو بار بار تمسخر کا نشانہ بنایا۔ جس کے جواب میں نوح (علیہ السلام) فقط انھیں یہی فرماتے آج تم مجھے استہزاء کانشانہ اور تماشا بنا رہے ہو لیکن کل تم ہمیشہ کے لیے مذاق اور عبرت کا نشان بن جاؤ گے۔ (ھود آیت ٣٧ تا ٣٩) قوم نوح پر اللہ تعالیٰ نے پانی کا ایسا عذاب نازل فرمایا کہ جس کے بارے میں سورۃ القمر آیت ١١، ١٢ اور سورۃ المؤمنون، آیت ٢٧ میں بیان ہوا ہے کہ آسمان کے دروازے کھل گئے زمین سے چشمے پھوٹ نکلے یہاں تک کہ تنور پھٹ پڑا۔ اس طرح نوح (علیہ السلام) کے نافرمان بیٹے سمیت ان کی قوم کو پانی میں ڈبکیاں دے دے کر ختم کردیا گیا۔ اللہ تعالیٰ کا اس قوم پر اس قدر غضب ہوا کہ جب نوح (علیہ السلام) کا بیٹا پانی میں ڈبکیاں لے رہا تھا تو حضرت نوح (علیہ السلام) کو بحیثیت باپ ترس آیا انھوں نے اللہ تعالیٰ سے اس کے حق میں دعا کرتے ہوئے کہا، میرے رب میرا بیٹا بھی ڈوب رہا ہے حالانکہ تیرا فرمان تھا کہ میں تیرے اہل کو بچا لوں گا۔ الٰہی تیرا وعدہ برحق ہے۔ جواب آیا اے نوح تیرا بیٹا صالح نہ ہونے کی وجہ سے تیرے اہل میں شمار نہیں۔ اب مجھ سے ایسا سوال نہ کرنا ورنہ تجھے جاہلوں میں شمار کروں گا۔ اس پر حضرت نوح (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ سے پناہ مانگتے ہوئے معافی طلب کی اور درخواست کی مجھ پر مہربانی کی جائے ورنہ میں بھی خسارہ پانے والوں میں ہوجاؤں گا۔ حضرت نوح (علیہ السلام) اور ان کے ماننے والے سلامت اور محفوظ رہے اور باقی قوم کو غرقاب کردیا گیا۔ کیونکہ ان کی قوم کفر و شرک میں اندھی ہوچکی تھی۔ ( ھود : ٤٥ تا ٤٨) قوم کا جواب اور الزامات : اے نوح (علیہ السلام) تو ہمارے جیسا انسان ہے۔ تیرے ماننے والے عام اور سطحی قسم کے لوگ ہیں۔ تمھیں ہم پر کوئی فضیلت حاصل نہیں اور ہم تمھیں جھوٹا تصور کرتے ہیں۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کا خطاب اور قوم کا جواب : اے میری قوم مجھے اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت سے نوازا ہے اور میں اپنے رب کی طرف سے دلیل پر ہوں۔ تم ہدایت کو پسند نہیں کرتے تو میں تم پر ہدایت کس طرح مسلط کرسکتا ہوں۔ میں تم سے تبلیغ کا اجر نہیں مانگتا۔ نہ میں ایمان والوں کو اپنے سے دھتکارنے والا ہوں۔ ہوش کرو اگر میں انھیں دھتکاردوں تو اللہ کے ہاں میری کون مدد کرے گا ؟ میں غیب دان ہونے کا دعوی نہیں کرتا۔ نہ میں اپنے آپ کو فرشتہ کہتا ہوں نہ میں کہتا ہوں جنھیں تم حقیر سمجھتے ہو کہ اللہ انھیں بھلائی سے نہیں نوازے گا۔ اگر ایسی باتیں کہوں تو میں ظالموں میں شمار ہوں گا۔ (ھود : ١٢٣) قوم : تم ہماری طرح کے انسان ہو کر ہم پر برتری چاہتے ہو۔ ہم نے باپ دادا سے یہ باتیں کبھی نہیں سنیں۔ نوح دیوانہ ہوگیا ہے۔ بس انتظار کرو ختم ہوجائے گا۔ (المؤمنوں : ٢٤، ٢٥) ہم تجھ پر ایمان نہیں لائیں گے کیونکہ تجھے ماننے والے گھٹیا لوگ ہیں (الشعراء : ١١٢) ہم تجھے سنگسار کردیں گے۔ (الشعراء : ١١٦) قوم سے خطاب : اے میری قوم میں تمھیں کھلے الفاظ میں انتباہ کر رہا ہوں صرف ایک اللہ کی عبادت کرو۔ شرک اور اللہ کی نافرمانی سے بچو اور میری اطاعت کرو۔ اللہ تعالیٰ تمھارے گناہ معاف فرما کر تمھیں مہلت دے گا۔ اللہ تعالیٰ کی اجل کو کوئی ٹال نہیں سکتا۔ کاش تم جان جاؤ۔ (نوح : ٢ تا ٤) قوم کا جواب : ہم اپنے معبودوں اور ود، سواع، یعوق اور نسر کو نہیں چھوڑ سکتے۔ ( نوح، آیت : ٢٤) حضرت نوح (علیہ السلام) کی فریاد : میرے رب میں نے اپنی قوم کو دن اور رات خفیہ اور اعلانیہ، انفرادی اور اجتماعی طور پر سمجھایا میں نے جب بھی انھیں دعوت دی تو انھوں نے اپنے کانوں میں انگلیاں ٹھونس لی۔ اپنے چہرے چھپا لیے اور تکبر کرنے کی انتہا کردی۔ میرے رب انھوں نے میری ہر بات کو ٹھکرایا اور نافرمانی کی۔ ان کی اولاد اور مال نے تیری نافرمانی میں انھیں بہت زیادہ بڑھایا دیا ہے انھوں نے زبردست قسم کی سازشیں اور شرارتیں کیں۔ (نوح : ٥ تا ٩) قوم کا عذاب الٰہی کو چیلنج کرنا : اے نوح تم نے ہم سے بہت زیادہ بحث و تکرار اور جھگڑا کرلیا اور اب اس کی انتہا ہوگئی ہے بس ہمارے پاس اللہ کا عذاب لے آ اگر واقعی تو سچے لوگوں میں ہے۔ ( ھود : ٣٢) حضرت نوح (علیہ السلام) کا جواب : اگر اللہ تعالیٰ نے چاہا تو عذاب تم پر ضرور آئے گا اور تم اسے ہرگز نہیں ٹال سکو گے۔ (ھود : ٣٣) نوح (علیہ السلام) کی بد دعا : حضرت نوح نے اپنے رب سے فریاد کی اے باری تعالیٰ میں ان کے مقابلے میں انتہائی کمزور اور بے بس ہوچکا ہوں بس تو میری مدد فرما۔ (القمر : ١٠) اے میرے رب اب زمین پر کفار کا ایک گھر بھی باقی نہیں رہنا چاہیے۔ اگر تو نے انھیں چھوڑ دیا وہ تیرے بندوں کو گمراہ کرتے رہیں گے۔ اب ان میں سے جو بھی پیدا ہوگا وہ نافرمان اور ناشکرگزار ہوگا۔ (نوح : ٢٥، ١٠، ٢٧) اللہ تعالیٰ کا فرمان : اے نوح ظالموں کے بارے میں اب ہم سے فریاد نہ کرنا یقین رکھ کہ اب یہ غرق ہو کر رہیں گے۔ (ھود : ٣) عذاب الٰہی سے پہلے حضرت نوح (علیہ السلام) کو کشتی بنانے کا حکم : اے نوح ! جو کچھ یہ کر رہے ہیں ان پر غم نہ کرو اور ایک کشتی ہمارے حکم سے ہمارے سامنے بناؤ۔ اب ان کے بارے میں ہمارے ساتھ بات نہ کرنا کیونکہ یہ غرق ہونے والے ہیں۔ حضرت نوح (علیہ السلام) جب کشتی بنا رہے تھے۔ تو قوم ان سے مسلسل مذاق کرتی رہی جس کے جواب میں حضرت نوح (علیہ السلام) ان سے فرماتے کہ آج تم مجھے ہنسی مذاق کرتے ہو کل ہم تمھیں اس طرح ہی مذاق کریں گے عنقریب تمھیں معلوم ہوجائے گا کہ کس پر ہمیشہ کے لیے ذلیل کردینے والا عذاب نازل ہوتا ہے۔ (ھود : ٣٧ تا ٤٠) عذاب کی کیفیت : قوم نوح پر چالیس دن مسلسل دن رات بے انتہا بارش برستی رہی یہاں تک کہ جگہ جگہ زمین سے چشمے پھوٹ پڑے۔ حتی کہ تنور پھٹ پڑا اللہ تعالیٰ نے طوفان کے آغاز میں حضرت نوح (علیہ السلام) کو حکم دیا کہ وہ اللہ کا نام لے کر کشتی میں سوار ہوجائیں اور اپنے ساتھ ہر جاندار کا جوڑا جوڑا یعنی نر اور مادہ دو دو کشتی میں اپنے ساتھ سوار کرلیں۔ البتہ کسی کافر اور مشرک کو کشتی میں سوار نہ کیا جائے۔ (ہود : ٤٠ تا ٤٢) عذاب کی ہو لناکیاں : ہم نے موسلا دھار بار ش کے لیے آسمان کے دروازے کھول دیے۔ اور ہم نے زمین سے ابلتے چشمے جا ری کیے۔ (القمر : ١١، ١٢) جب ہمارا حکم صادر ہوا تو تنور جوش مارنے لگا۔ (المؤمنون : ٢٧) جب پانی پوری طغیانی پر آیا۔ (احقاف : ١١) مفسرین نے لکھا ہے جس کی تائید موجودہ دور کے آثار قدیمہ کے ماہرین بھی کرتے ہیں کہ طوفان نوح نے فلک بوس پہاڑوں کی چوٹیوں کو بھی ڈھانپ لیا تھا۔ بائبل میں لکھا ہے کہ سیلاب بلند ترین پہاڑوں کی چوٹیوں سے ١٥ فٹ اوپر بہہ رہا تھا۔ امام طبری سورۃ الحاقۃ آیت ١١ کی تفسیر کرتے ہوئے حضرت ابن عباس (رض) کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ سیلاب اس قدر بے انتہا تھا کہ مشرق سے مغرب تک کوئی جاندار چیز باقی نہ رہی۔ تفسیر بالقرآن حضرت نوح (علیہ السلام) کا تذکرہ : ١۔ حضرت نوح (علیہ السلام) اپنی قوم کو ایک اللہ کی عبادت کی دعوت دی۔ (المومنون : ٢٣) ٢۔ حضرت نوح (علیہ السلام) پر اللہ تعالیٰ نے سلامتی نازل فرمائی۔ (الصٰفٰت : ٧٩) ٣۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کی طرف اللہ تعالیٰ نے وحی کا نزول فرمایا۔ (النساء : ١٦٣) ٤۔ حضرت نوح (علیہ السلام) پر اللہ تعالیٰ نے اپنا انعام فرمایا۔ (مریم : ٥٨) ٥۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے ہدایت سے نوازا۔ (الانعام : ٨٤) ٦۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کا قرآن مجید میں ستائیس بار تذکرہ ہوا ہے۔ الاعراف
60 الاعراف
61 الاعراف
62 الاعراف
63 الاعراف
64 الاعراف
65 فہم القرآن حضرت ھود (علیہ السلام) : حضرت ھود (علیہ السلام) کا تعلق عرب کے عاد قبیلے سے تھا جن کی رہائش موجودہ جغرافیے کے مطابق عمان اور یمن کے علاقے حضرموت کے درمیان تھی۔ یہ علاقہ سمندر کے کنارے پر واقع تھا یہاں ریت کے بڑے بڑے ٹیلے اور بلندو بالا پہاڑ تھے۔ اس کے باسی جسمانی اعتبار سے دراز قامت، کڑیل جوان اور قوی ہیکل تھے۔ دنیا میں ان کا کوئی ثانی نہیں تھا۔ انھوں نے پہاڑ تراش، تراش کر خوبصورت محلات تعمیر کر رکھے تھے۔ ان کی سرزمین نہایت سر سبزتھی جس میں ہر قسم کے باغات آراستہ تھے انھیں قرآن مجید میں ” احقاف والے“ کہا گیا ہے۔ احقاف ریت کے بڑے بڑے ٹیلوں کو کہا جاتا ہے جو عرب کے جنوب مغربی حصہ میں واقع تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اسی علاقہ میں حضرت ھود (علیہ السلام) کو مبعوث فرمایا جو خوش اندام کڑیل جوان اور بہترین صورت و سیرت کے حامل تھے۔ قوم عاد کی خصوصیات اور جرائم : ١۔ اللہ تعالیٰ نے عاد کو قوم نوح کے بعد زمین پر اقتدار اور اختیار بخشا۔ (الاعراف : ٦٩) ٢۔ قوم عاد اس قدر کڑیل اور قوی ہیکل جوان تھے کہ ان جیسا دنیا میں کوئی اور پیدا نہیں کیا گیا۔ (الفجر ٦ تا ٨ ) ٣۔ انھیں افرادی قوت اور مویشیوں سے نوازا گیا۔ (الشعراء : ١٣٣) ٤۔ یہ قوم بڑے بڑے محلات میں رہتی تھی۔ کھیتی باڑی اور باغات میں ان کا کوئی ثانی نہیں تھا۔ (الشعراء ١٢٩ تا ١٣٣) ٥۔ انھوں نے خود ساختہ معبود بنا رکھے تھے ان کے سامنے اپنی حاجات و مشکلات پیش کرتے۔ (الاعراف : ٧٠) ٦۔ یہ لوگ آخرت کو جھٹلانے والے اور دنیا پر اترانے والے تھے۔ (المؤمنون : ٣٣) ٧۔ ان کا عقیدہ تھا کہ اس دنیا کے سوا اور کوئی جہاں برپا نہیں ہوگا۔ (المؤمنون : ٣٧) یہ اپنی قوت پر اترانے والے تھے۔ (حٰآالسجدۃ : ١٥) حضرت ھود (علیہ السلام) کے خطبات کے اقتباسات : ١۔ اے میری قوم اللہ کی عبادت کرو اس کے سوا تمھارا کوئی معبود اور مشکل کشا نہیں۔ اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرنے اور اس کی نافرمانیوں سے بچتے رہو۔ میں تمھارا خیر خواہ ہونے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے احکام پوری امانت داری سے پہنچارہا ہوں۔ سورۃ ھود میں ان کے خطاب کے اقتباسات یوں ذکر کیے گئے ہیں۔ ٢۔ اے میری قوم اللہ تعالیٰ نے مجھے آپ کی طرف رسول بنا کر بھیجا ہے۔ میں نے تمھیں اپنے رب کا پیغام پوری خیر خواہی اور دیانت داری کے ساتھ پہنچا دیا ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی معافی طلب کرو وہ تمھیں مزید طاقت ور اور مال دار بنائے گا۔ ہاں یاد رکھو تمھاری اصلاح اور فلاح پر میں تم سے کسی صلہ اور اجر کا خواہش مند نہیں ہوں۔ میرا اجر میرے رب کے ذمہ ہے جس نے مجھے پیدا فرمایا ہے۔ (ھود ٥٠ تا ٥٢) قوم کا رد عمل اور حضرت ھود (علیہ السلام) پر الزامات : ١۔ قوم نے حضرت ھود (علیہ السلام) کو بے وقوف قرار دیا۔ (الاعراف : ٦٦) ٢۔ ھود (علیہ السلام) ہماری طرح ہی طرح کھانے، پینے والا انسان ہے۔ (المؤمنون : ٣٣) ٣۔ انھوں نے کہا اے ھود تو اللہ پر جھوٹ باندھتا ہے۔ (المؤمنون : ٣٨) ٤۔ تیرے کہنے پر ہم اپنے معبودوں کو نہیں چھوڑ سکتے۔ یہ محض پہلے لوگوں کی کہانیاں ہیں۔ (الشعراء : ١٣٧) ٥۔ تم ہمیں سمجھاؤ یا نہ سمجھاؤ ہم نہیں مانیں گے۔ (شعراء : ١٣٦) ٦۔ ہمارے معبودوں کی تجھے بد دعا لگ گئی ہے۔ (ھود : ٥٤) ٧۔ ہم پر کوئی عذاب آنے والا نہیں تو جھوٹ بولتا ہے۔ (الشعراء : ١٣٨ تا ١٣٩) ٨۔ اگر تو اپنے دعوے میں سچا ہے تو ہم پر عذاب لے آ۔ (الاحقاف : ٢٢) حضرت ھود (علیہ السلام) کا قوم کو بار بار سمجھانا : ١۔ جھوٹے معبودوں اور خود ساختہ ناموں کے بارے میں مجھ سے کیوں جھگڑتے ہو۔ (الاعراف : ٧١) ٢۔ شرک کی کوئی دلیل نہیں ہے۔ (الاعراف : ٧١) ٣۔ تم اللہ تعالیٰ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے اللہ تعالیٰ تمھاری جگہ کوئی اور قوم لے آئے گا۔ (ھود : ٥٧) ٤۔ میرا اللہ پر بھروسہ ہے اس کے قبضہ میں ہر جاندارکی پیشانی ہے۔ (ھود : ٥٦) ٥۔ گواہ رہو میں شرک سے بیزار ہوں تم سب مل کر بھی میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ (ھود : ٥٤ تا ٥٥) حضرت ھود (علیہ السلام) کی بددعا اور اللہ تعالیٰ کا عذاب : ١۔ میرے رب میری مدد فرما انھوں نے مجھے کلی طور پر جھٹلا دیا ہے۔ (المؤمنوں : ٣٩) ٢۔ سات راتیں اور آٹھ دن زبردست آندھی اور ہوا کے بگولے چلے۔ (الحاقۃ : ٧) (الشعراء : ٢٠) ٣۔ گرج چمک اور بادو باراں کا طوفان آیا۔ (الاحقاف : ٢٤) ٤۔ آندھیوں نے انھیں کھجور کے تنوں کی طرح پٹخ پٹخ کر دے مارا۔ (الحاقۃ: ٧) ٥۔ انھیں ریزہ ریزہ کردیا گیا۔ (الذاریات : ٤١، ٤٢) ٦۔ دنیا اور آخرت میں ان پر پھٹکار برستی رہے گی۔ دنیا میں ذلیل و خوار ہوئے اور آخرت میں سخت عذاب میں مبتلا ہوں گے۔ (السجدۃ : ١٦، ھود : ٥٩) ٧۔ قوم ھود کو نیست و نابود کردیا گیا۔ (الاعراف : ٧٢) ٨۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت ھود اور ایمانداروں کو اس عذاب سے محفوظ رکھا۔ (ھود : ٥٨) مسائل ١۔ قوم نوح کے بعد قوم عاد دنیا میں آئی۔ ٢۔ عاد کی طرف حضرت ہود (علیہ السلام) کو مبعوث کیا گیا۔ ٣۔ قوم عادنے اللہ کی توحید ماننے کی بجائے حضرت ہود علیہ السلامکو جھٹلایا۔ ٤۔ حضرت ہود علیہ السلامنے انہیں اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرایا۔ ٥۔ اتمام حجت کے بعد عذاب نہیں ٹلاکرتا۔ تفسیر بالقرآن حضرت ھود (علیہ السلام) کا تذکرہ : ١۔ اللہ تعالیٰ نے قوم عاد کیطرف حضرت ھود (علیہ السلام) کو مبعوث فرمایا۔ (الاعراف : ٦٥) ٢۔ حضرت ھود (علیہ السلام) نے قوم کو ایک اللہ کی عبادت کی طرف بلایا۔ (ھود : ٥٣) ٣۔ قوم نے حضرت ھود (علیہ السلام) کی تکذیب کی (ھود : ٦٠) ٤۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت ھود (علیہ السلام) کو عذاب سے محفوظ فرمایا۔ (ھود : ٥٨) حضرت ھود (علیہ السلام) کا قرآن مجید میں ٨ بار تذکرہ ہوا ہے۔ الاعراف
66 الاعراف
67 الاعراف
68 الاعراف
69 الاعراف
70 الاعراف
71 الاعراف
72 الاعراف
73 فہم القرآن حضرت صالح (علیہ السلام) کے خطبات کے اقتباسات ١۔ اے میری قوم اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں اس لیے صرف اسی کی عبادت کرو۔ (الاعراف : ٧٣) ٢۔ اے میری قوم تمھیں عاد کے بعد اس دنیا میں بھیجا گیا ہے تاکہ تم نصیحت حاصل کرو۔ (الاعراف : ٧٤) ٣۔ اے میری قوم اللہ کی نعمتوں سے فائدہ اٹھاکر اس کا شکر ادا کرو۔ (الاعراف : ٧٤) قوم صالح کی خصوصیات و عادات : ١۔ قوم صالح اللہ کے ساتھ شرک کیا کرتی تھیں۔ (ھود : ٦٢۔ ٦١) ٢۔ ثمود انبیاء کو جھوٹا قرار دیتے تھے۔ (الشعراء : ١٤١) ٣۔ وہ پہاڑوں کو تراش کر گھر بنایا کرتے تھے۔ (الاعراف : ٧٤) ٤۔ وہ نرم زمین پر بھی بڑے بڑے محلات تعمیر کیا کرتے تھے۔ (الاعراف : ٧٤) ٥۔ وہ لوگ بہت زیادہ اسراف، تکبر اور زمین میں فساد کرنے والے تھے۔ (الشعراء : ١٥٢، ١٥١) ٦۔ قوم ثمود ہدایت کے بجائے گمراہی کو پسند کرتی تھی۔ (حٰم السجدۃ: ١٧) ٧۔ انھوں نے اللہ کی نشانی کو جھٹلایا۔ (ھود : ٦٦) قوم کے جواب اور الزامات : ١۔ اے صالح ہم تو تجھے بہت اچھا سمجھتے تھے مگر تو ہمارے آباؤ اجداد کو گمراہ قرار دیتا ہے۔ (ھود : ٦٢) ٢۔ کیا تو ہمیں ان کاموں سے روکتا ہے جو ہمارے بزرگ کرتے چلے آئے ہیں۔ (ھود : ٦٢) ٣۔ ہم تمھیں اور تمھارے ساتھیوں کو منحوس سمجھتے ہیں۔ (النمل : ٧٤) ٤۔ کیا ہم اپنے بزرگوں، آباؤ اجداد کے مذہب کو چھوڑ کر صرف تمھاری پیروی کریں۔ (القمر : ٢٤) ٥۔ صالح تو بہت بڑا جھوٹا اور بڑائی بکھیرنے والا ہے۔ (القمر : ٢٥) ٦۔ تم پر کسی نے جادو کردیا ہے۔ (الشعراء : ١٥٣) پیغمبر کا جواب اور قوم کو مزید سمجھانا : ١۔ اے میری قوم اللہ سے ڈر جاؤ اور میری باتوں پر غور کرو۔ (الشعراء : ١٤٤) ٢۔ میں اللہ کے احکام سنانے کے لیے تم سے کوئی معاوضہ طلب نہیں کرتا۔ (الشعراء : ١٤٥) ٣۔ اے میری قوم میں واقعی اپنے رب کی طرف سے مبعوث ہوں۔ (ھود : ٦٣) ٤۔ اے قوم یہ اونٹنی اللہ کی طرف سے معجزہ ہے اس کے ساتھ زیادتی نہ کرنا۔ (ھود : ٦٤) ٥۔ میں تمھیں وعظ و نصیحت کرتا ہوں جب کہ تم خیر خواہوں کو ناپسند کرتے ہو۔ (الاعراف : ٧٩) قوم کی ہٹ دھرمی اور عذاب کا مطالبہ : ١۔ انھوں نے قسمیں اٹھائیں کہ حضرت صالح کو اہل وعیال سمیت ختم کردیں گے۔ (النمل : ٤٩) ٢۔ قوم نے اونٹنی کی کونچیں کاٹ ڈالیں۔ (القمر : ٢٩) ٣۔ اے صالح ! ہم تمھارے عقیدے کا انکار کرتے رہیں گے۔ (الاعراف : ٧٦) ٤۔ اے صالح! تو جس چیز سے ہمیں ڈراتا ہے وہ لے آ۔ (الاعراف : ٧٧) عذاب کا وقت اور اس کی تباہ کاری : ١۔ قوم ثمود کو صبح کے وقت ہولناک دھماکے نے آلیا اور ان کی کمائی ان کے کچھ کام نہ آئی۔ (الحجر ٨٣۔ ٨٤) ٢۔ قوم ثمود کو تین دن کی مہلت دی گئی۔ (ھود : ٤٥) ٣۔ ہم نے ان پر ہولناک چیخ نازل کی وہ ایسے ہوگئے جیسے بوسیدہ اور سوکھی ہوئی باڑ ہوتی ہے۔ (القمر : ٣١) حضرت صالح (علیہ السلام) کا اظہار افسوس : ١۔ حضرت صالح (علیہ السلام) نے اپنی قوم سے ناامید ہو کر فرمایا اے میری قوم میں نے تم کو اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچا دیا اور میں نے تمھاری خیر خواہی کی لیکن تم خیر خواہی کو پسند کرنے والے نہیں۔ (الاعراف : ٧٩) تفسیر بالقرآن حضرت صالح (علیہ السلام) کابیان : ١۔ اللہ تعالیٰ نے قوم ثمود کی طرف حضرت صالح (علیہ السلام) کو رسول بناکر بھیجا۔ ( ھود : ٦١) ٢۔ حضرت صالح (علیہ السلام) نے قوم کو ایک اللہ کی عبادت کی طرف بلایا۔ (الاعراف : ٧٣) ٣۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت صالح (علیہ السلام) کو اونٹنی کی صورت میں معجزہ عطا فرمایا۔ ٤۔ قوم نے حضرت صالح (علیہ السلام) کو کمزور جانا (ھود : ٦٢) حضرت صالح (علیہ السلام) کا قرآن مجید میں ٦ بار تذکرہ ہوا ہے۔ ٣۔ ہم تمھیں اور تمھارے ساتھیوں کو منحوس سمجھتے ہیں۔ (النمل : ٧٤) ٤۔ کیا ہم اپنے بزرگوں، آباؤ اجداد کے مذہب کو چھوڑ کر صرف تمھاری پیروی کریں۔ (القمر : ٢٤) ٥۔ صالح تو بہت بڑا جھوٹا اور بڑائی بکھیرنے والا ہے۔ (القمر : ٢٥) ٦۔ تم پر کسی نے جادو کردیا ہے۔ (الشعراء : ١٥٣) پیغمبر کا جواب اور قوم کو مزید سمجھانا : ١۔ اے میری قوم اللہ سے ڈر جاؤ اور میری باتوں پر غور کرو۔ (الشعراء : ١٤٤) ٢۔ میں اللہ کے احکام سنانے کے لیے تم سے کوئی معاوضہ طلب نہیں کرتا۔ (الشعراء : ١٤٥) ٣۔ اے میری قوم میں واقعی اپنے رب کی طرف سے مبعوث ہوں۔ (ھود : ٦٣) ٤۔ اے قوم یہ اونٹنی اللہ کی طرف سے معجزہ ہے اس کے ساتھ زیادتی نہ کرنا۔ (ھود : ٦٤) ٥۔ میں تمھیں وعظ و نصیحت کرتا ہوں جب کہ تم خیر خواہوں کو ناپسند کرتے ہو۔ (الاعراف : ٧٩) قوم کی ہٹ دھرمی اور عذاب کا مطالبہ : ١۔ انھوں نے قسمیں اٹھائیں کہ حضرت صالح کو اہل وعیال سمیت ختم کردیں گے۔ (النمل : ٤٩) ٢۔ قوم نے اونٹنی کی کونچیں کاٹ ڈالیں۔ (القمر : ٢٩) ٣۔ اے صالح ! ہم تمھارے عقیدے کا انکار کرتے رہیں گے۔ (الاعراف : ٧٦) ٤۔ اے صالح! تو جس چیز سے ہمیں ڈراتا ہے وہ لے آ۔ (الاعراف : ٧٧) عذاب کا وقت اور اس کی تباہ کاری : ١۔ قوم ثمود کو صبح کے وقت ہولناک دھماکے نے آلیا اور ان کی کمائی ان کے کچھ کام نہ آئی۔ (الحجر ٨٣۔ ٨٤) ٢۔ قوم ثمود کو تین دن کی مہلت دی گئی۔ (ھود : ٤٥) ٣۔ ہم نے ان پر ہولناک چیخ نازل کی وہ ایسے ہوگئے جیسے بوسیدہ اور سوکھی ہوئی باڑ ہوتی ہے۔ (القمر : ٣١) حضرت صالح (علیہ السلام) کا اظہار افسوس : ١۔ حضرت صالح (علیہ السلام) نے اپنی قوم سے ناامید ہو کر فرمایا اے میری قوم میں نے تم کو اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچا دیا اور میں نے تمھاری خیر خواہی کی لیکن تم خیر خواہی کو پسند کرنے والے نہیں۔ (الاعراف : ٧٩) تفسیر بالقرآن حضرت صالح (علیہ السلام) کابیان : ١۔ اللہ تعالیٰ نے قوم ثمود کی طرف حضرت صالح (علیہ السلام) کو رسول بناکر بھیجا۔ ( ھود : ٦١) ٢۔ حضرت صالح (علیہ السلام) نے قوم کو ایک اللہ کی عبادت کی طرف بلایا۔ (الاعراف : ٧٣) ٣۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت صالح (علیہ السلام) کو اونٹنی کی صورت میں معجزہ عطا فرمایا۔ ٤۔ قوم نے حضرت صالح (علیہ السلام) کو کمزور جانا (ھود : ٦٢) حضرت صالح (علیہ السلام) کا قرآن مجید میں ٦ بار تذکرہ ہوا ہے۔ ٣۔ ہم تمھیں اور تمھارے ساتھیوں کو منحوس سمجھتے ہیں۔ (النمل : ٧٤) ٤۔ کیا ہم اپنے بزرگوں، آباؤ اجداد کے مذہب کو چھوڑ کر صرف تمھاری پیروی کریں۔ (القمر : ٢٤) ٥۔ صالح تو بہت بڑا جھوٹا اور بڑائی بکھیرنے والا ہے۔ (القمر : ٢٥) ٦۔ تم پر کسی نے جادو کردیا ہے۔ (الشعراء : ١٥٣) پیغمبر کا جواب اور قوم کو مزید سمجھانا : ١۔ اے میری قوم اللہ سے ڈر جاؤ اور میری باتوں پر غور کرو۔ (الشعراء : ١٤٤) ٢۔ میں اللہ کے احکام سنانے کے لیے تم سے کوئی معاوضہ طلب نہیں کرتا۔ (الشعراء : ١٤٥) ٣۔ اے میری قوم میں واقعی اپنے رب کی طرف سے مبعوث ہوں۔ (ھود : ٦٣) ٤۔ اے قوم یہ اونٹنی اللہ کی طرف سے معجزہ ہے اس کے ساتھ زیادتی نہ کرنا۔ (ھود : ٦٤) ٥۔ میں تمھیں وعظ و نصیحت کرتا ہوں جب کہ تم خیر خواہوں کو ناپسند کرتے ہو۔ (الاعراف : ٧٩) قوم کی ہٹ دھرمی اور عذاب کا مطالبہ : ١۔ انھوں نے قسمیں اٹھائیں کہ حضرت صالح کو اہل وعیال سمیت ختم کردیں گے۔ (النمل : ٤٩) ٢۔ قوم نے اونٹنی کی کونچیں کاٹ ڈالیں۔ (القمر : ٢٩) ٣۔ اے صالح ! ہم تمھارے عقیدے کا انکار کرتے رہیں گے۔ (الاعراف : ٧٦) ٤۔ اے صالح! تو جس چیز سے ہمیں ڈراتا ہے وہ لے آ۔ (الاعراف : ٧٧) عذاب کا وقت اور اس کی تباہ کاری : ١۔ قوم ثمود کو صبح کے وقت ہولناک دھماکے نے آلیا اور ان کی کمائی ان کے کچھ کام نہ آئی۔ (الحجر ٨٣۔ ٨٤) ٢۔ قوم ثمود کو تین دن کی مہلت دی گئی۔ (ھود : ٤٥) ٣۔ ہم نے ان پر ہولناک چیخ نازل کی وہ ایسے ہوگئے جیسے بوسیدہ اور سوکھی ہوئی باڑ ہوتی ہے۔ (القمر : ٣١) حضرت صالح (علیہ السلام) کا اظہار افسوس : ١۔ حضرت صالح (علیہ السلام) نے اپنی قوم سے ناامید ہو کر فرمایا اے میری قوم میں نے تم کو اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچا دیا اور میں نے تمھاری خیر خواہی کی لیکن تم خیر خواہی کو پسند کرنے والے نہیں۔ (الاعراف : ٧٩) تفسیر بالقرآن حضرت صالح (علیہ السلام) کابیان : ١۔ اللہ تعالیٰ نے قوم ثمود کی طرف حضرت صالح (علیہ السلام) کو رسول بناکر بھیجا۔ ( ھود : ٦١) ٢۔ حضرت صالح (علیہ السلام) نے قوم کو ایک اللہ کی عبادت کی طرف بلایا۔ (الاعراف : ٧٣) ٣۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت صالح (علیہ السلام) کو اونٹنی کی صورت میں معجزہ عطا فرمایا۔ ٤۔ قوم نے حضرت صالح (علیہ السلام) کو کمزور جانا (ھود : ٦٢) حضرت صالح (علیہ السلام) کا قرآن مجید میں ٦ بار تذکرہ ہوا ہے۔ الاعراف
74 الاعراف
75 الاعراف
76 الاعراف
77 الاعراف
78 الاعراف
79 الاعراف
80 فہم القرآن حضرت لوط (علیہ السلام) : حضرت لوط (علیہ السلام) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے بھتیجے تھے۔ جنھوں نے عراق کی سرزمین سے ہجرت کرکے غور زنمر کے علاقہ سدوم شہر میں رہائش اختیار کی۔ یہ شہر علاقے کا مرکزی مقام تھا۔ جہاں کے رہنے والے پر لے درجے کے فاسق و فاجر مشرک، کافر، ڈاکو، چور اور انتہائی بد کردار لوگ تھے۔ جنھوں نے دنیا میں بے حیائی کا ایسا عمل اختیار کیا جو اس سے پہلے کسی قوم نے نہیں کیا تھا۔ قوم لوط کا کردار : انھوں نے اپنی نفسانی خواہش اپنی بیویوں سے پوری کرنے کے بجائے لڑکوں سے شروع کر رکھی تھی۔ گویا کہ یہ ہم جنسی کے بدترین گناہ کے مرتکب ہوئے۔ حضرت لوط (علیہ السلام) کے بار بار سمجھانے کے باوجود باز آنے پر تیار نہ ہوئے۔ حضرت لوط (علیہ السلام) کو رجم کردینے کی دھمکی دینے کے ساتھ عذاب الٰہی کا مطالبہ کرتے رہے۔ حضرت لوط (علیہ السلام) کا سمجھانا : قوم لوط نے بھی پیغمبروں کو جھٹلایا جب ان سے ان کے بھائی لوط نے کہا کہ تم کیوں نہیں ڈرتے ؟ میں تمھارے لیے امانت دار پیغمبر ہوں، سو اللہ سے ڈرو اور میرا کہا مانو اور میں تم سے اس کا بدلہ نہیں مانگتا، میرا بدلہ رب العالمین کے ذمے ہے۔ کیا تم لڑکوں پر مائل ہوتے ہو اور تمھارے پروردگار نے تمھارے لیے جو بیویاں پیدا کی ہیں ان کو چھوڑ دیتے ہو؟ حقیقت یہ ہے کہ تم حد سے نکل جانے والے ہو۔ (الشعراء : ١٦٠ تا ١٦٦) قوم کا جواب : کہنے لگے کہ اے لوط اگر تم باز نہ آؤ گے تو شہر بدر کردیے جاؤ گے۔ لوط (علیہ السلام) نے کہا میں تمھارے کام کا سخت مخالف ہوں۔ (الشعراء : ١٦٧ تا ١٦٨) حضرت لوط (علیہ السلام) نے اس وقت اپنی قوم سے کہا تم یہ بے حیائی کیوں کرتے ہو جو تم سے پہلے دنیا میں کسی نے نہیں کی۔ (الاعراف : ٨٠) ان کی قوم سے اس کے سوا کوئی جواب نہ بن پڑا کہ وہ کہنے لگے ان لوگوں کو اپنی بستی سے نکال دو یہ لوگ بڑے پاک بنتے ہیں۔ (الاعراف : ٨٠ تا ٨٢) حضرت لوط (علیہ السلام) نے اپنی قوم سے فرمایا کہ تم ایسی بے حیائی کا ارتکاب کرتے ہو جو تم سے پہلے دنیا میں کسی نے نہیں کی، تم لڑکوں سے بدکاری کرتے ہو مسافروں پر ڈاکہ ڈالتے ہو۔ اور ہر قسم کی برائی میں ملوث ہو۔ (العنکبوت : ٢٩) قوم کا جواب : اے لوط اگر تم واقعی ہی سچے ہو تو ہم پر اللہ تعالیٰ کا عذاب لے آؤ۔ (العنکبوت : ٢٩) حضرت لوط (علیہ السلام) کی اللہ کے حضور فریاد : اے میرے رب اس مفسد قوم کے مقابلے میں میری مدد فرما۔ (العنکبوت : ٣٠) قوم لوط پر عذاب کے فرشتوں کی آمد : حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس فرشتوں کے حاضرہونے کا قرآن مجید تفصیل سے ذکر کرتا ہے کہ قوم لوط پر عذاب نازل کرنے والے فرشتے پہلے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس حاضر ہوئے۔ انھوں نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو بیٹے اور پوتے کی خوشخبری دی۔ جس پر ان کی بیوی نے تعجب کا اظہار کیا۔ لیکن ملائکہ نے ان کو تسلی دی کہ اللہ تعالیٰ نے تم پر یہ رحمت فرما دی ہے اس لیے اس میں کسی قسم کا تعجب نہیں کرنا چاہیے۔ خوشخبری دینے کے بعد ملائکہ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے عرض کی کہ ہم قوم لوط پر عذاب نازل کرنے والے ہیں۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ملائکہ سے اصرار کرنے لگے کہ ایسا نہیں ہونا چاہیے کیونکہ ابراہیم (علیہ السلام) نہایت ہی حوصلہ مند اور نرم خو تھے۔ ملائکہ نے انھیں عرض کی اس بات کو جانے دیجیے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہوچکا ہے لہٰذا اس عذاب کو کوئی نہیں ٹال سکتا۔ (ہود : ٦٩ تا ٧٦) عذاب لانے والے فرشتے حضرت لوط (علیہ السلام) کی خدمت میں : قرآن مجید نے بتلایا ہے کہ جب یہ فرشتے لڑکوں کی شکل میں حضرت لوط (علیہ السلام) کے ہاں تشریف لائے تو بدمعاش قوم ان سے بے حیائی کرنے کی نیت سے ان کے ہاں دوڑتے ہوئے آئی۔ حضرت لوط (علیہ السلام) نے نہایت عاجزی کے ساتھ انھیں سمجھایا کہ اے میری قوم یہ میری بیٹیاں ہیں جو تمھارے لیے حلال ہیں۔ (یعنی تم ان کے ساتھ نکاح کرسکتے ہو) اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور مہمانوں کے بارے میں مجھے بے آبرو نہ کرو۔ جب وہ بھاگم بھاگ ایک دوسرے سے آگے بڑھ رہے تھے۔ حضرت لوط (علیہ السلام) نے یہ بھی فرمایا کیا تم میں کوئی بھی شریف آدمی نہیں ہے ؟ (ہود : ٧٨) بے حیا کہنے لگے کہ ہمیں تمھاری بیٹیوں سے کیا سروکار، تو جانتا ہے کہ ہم کس ارادہ سے آئے ہیں مشکل ترین حالات میں حضرت لوط (علیہ السلام) کہنے لگے کہ آج کا دن میرے لیے بڑا بھاری دن ہے۔ کاش تمھارے مقابلے میں میرا کوئی حمایتی ہوتا یا کوئی پناہ گاہ جہاں میں تم سے بچ نکلتا۔ (ہود : ٧٩، ٨٠) ملائکہ اپنے آپ کو ظاہر کرکے حضرت لوط (علیہ السلام) کو تسلی دیتے ہیں : عذاب کے فرشتوں نے حضرت لوط (علیہ السلام) کو تسلی دی کہ اے اللہ کے نبی دل چھوٹا نہ کیجیے۔ یہ بے حیا تمھاراکچھ نہیں بگاڑ سکیں گے۔ بس آپ اہل ایمان کو لے کر رات کے پچھلے پہر ہجرت کر جائیں۔ ہاں یاد رہے کہ آپ اپنی بیوی کو ساتھ نہیں لے جا سکیں گے کیونکہ اسے بھی وہی عذاب پہنچنے والا ہے۔ جس میں دوسرے لوگ مبتلا ہوں گے اور یہ عذاب ٹھیک صبح کے وقت نازل ہوگا۔ حضرت لوط (علیہ السلام) گھبراہٹ کے عالم میں فرمانے لگے کہ صبح کب ہوگی ؟ ملائکہ نے مزید تسلی دیتے ہوئے کہا کہ اے اللہ کے رسول صبح تو ہونے ہی والی ہے چنانچہ صبح کے وقت رب ذوالجلال کا حکم صادر ہوا تو اس دھرتی کو اٹھا کر نیچے پٹخ دیا گیا۔ پھر ان پر مسلسل نامزد پتھروں کی بارش کی گئی۔ (ھود : ٦٩ تا ٨٣) سورۃ القمر ٣٧ تا ٣٨ میں فرمایا کہ ظالموں نے لوط (علیہ السلام) کے مہمانوں پر زیادتی کرنا چاہی تو ہم نے ان کی آنکھوں کو مسخ دیا۔ سورۃ الصافات میں ١٣٧ تا ١٣٨ میں ارشاد ہوا یقیناً لوط (علیہ السلام) مرسلین میں سے تھے جب ہم نے انھیں اور اس کے اہل کو نجات دی۔ البتہ ایک بڑھیا کو پیچھے رہنے دیا پھر ہم نے باقی سب کو ہلاک کیا۔ اے اہل مکہ تم صبح شام ان بستیوں سے گزرتے ہو لیکن اس کے باوجود عقل نہیں کرتے۔ (الصافات : ١٣٥ تا ١٣٨) (فَلَمَّا جَاءَ أَمْرُنَا جَعَلْنَا عَالِیَہَا سَافِلَہَا وَأَمْطَرْنَا عَلَیْہَا حِجَارَۃً مِنْ سِجِّیلٍ مَنْضُود مُسَوَّمَۃً عِنْدَ رَبِّکَ وَمَا ہِیَ مِنَ الظَّالِمِینَ بِبَعِیدٍ )[ ھود : ٨٢، ٨٣] ” پھر جب ہم نے حکم نافذ کیا تو ہم نے اس بستی کو اوپر نیچے (تہس نہس) کردیا اور تابڑ توڑ پکی مٹی کے پتھر برسائے۔ تیرے رب کی طرف سے ہر پتھر پر نشان (نام) لکھا ہوا تھا اور ظالموں سے یہ سزا دور نہیں ہے۔“ بحرمردار (میت): دنیا کے موجو دہ جغرافیے میں یہ بحر مردار اردن کی سر زمین میں واقع ہے۔ پچاس میل لمبا، گیارہ میل چوڑا ہے اسکی سطح کا کل رقبہ ٣٥١ مربع میل ہے۔ اسکی زیادہ سے زیادہ گہرائی تیرہ سو فٹ پیمائش کی گئی ہے۔ یہ اسرائیل اور اردن کی سرحد پر واقع ہے۔ اور اس کا کسی بڑے سمندر کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ گویا کہ یہ ایک بہت بڑی جھیل بن چکی ہے۔ اس کی نمکیات اور کیمیائی اجزاء عام سمندروں سے کہیں زیادہ ہے۔ اس کے قریب ترین سمندر بحر روم ہے۔ جدید محققین نے اسی جگہ پر لوط (علیہ السلام) کی قوم کی بستیوں کی نشاندہی کی ہے۔ جو کسی زمانے میں یہاں صدوم عمود کے نام سے بڑے شہر آباد تھے۔ مصرکے محقق عبدالوہاب البخار نے بھرپور دلائل کے ساتھ یہ ثابت کیا ہے کہ عذاب لوط (علیہ السلام) سے پہلے اس جگہ پر کوئی سمندر نہیں تھا۔ جب اللہ کے عذاب کی وجہ سے اس علاقے کو الٹ دیا گیا تو یہ ایک چھوٹے سے سمندر کی شکل اختیار کر گیا۔“ ١۔ اس کے پانی کی خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس میں نمکیات کا تناسب پچیس فیصد قرار دیا گیا ہے۔ جب کہ دنیا کے تمام سمندروں میں نمکیات کا تناسب چار سے چھ فیصد ریکارڈ کیا گیا ہے۔ ٢۔ اسکے کنارے نہ کوئی درخت ہے اور نہ ہی اس میں کوئی جانور زندہ رہ سکتا ہے حتی کہ سیلاب کے موقع پر دریائے اردن سے آنیوالی مچھلیاں اس میں داخل ہوتے ہی تڑپ تڑپ کر مر جاتی ہیں۔ اہل عرب اسکو بحیرہ لوط بھی کہتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن حضرت لوط (علیہ السلام) کا تذکرہ : ١۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) پر حضرت لوط (علیہ السلام) ایمان لائے اور انہوں نے اللہ کی راہ میں ہجرت کی۔ (العنکبوت : ٢٦) ٢۔ حضرت لوط (علیہ السلام) اللہ کے رسولوں میں سے تھے۔ (الصٰفٰت : ١٣٣) ٣۔ اللہ تعالیٰ نے اسماعیل، یسع، یونس اور لوط کو جہاں والوں پر فضیلت دی۔ (الانعام : ٨٦) ٤۔ اللہ تعالیٰ نے لوط کو دانائی اور علم عطا فرمایا۔ (الانبیاء : ٧٤) ٥۔ لوط (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو فحاشی اور بے حیائی سے منع فرمایا۔ (النمل : ٥٤) حضرت لوط (علیہ السلام) کا قرآن مجید میں ٢٣ بار تذکرہ ہوا ہے۔ الاعراف
81 الاعراف
82 الاعراف
83 الاعراف
84 الاعراف
85 فہم القرآن حضرت شعیب (علیہ السلام) : حضرت شعیب (علیہ السلام) کو مؤرخین اور سیرت نگاروں نے خطیب الانبیاء کے نام سے یاد کیا ہے۔ آپ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے بیٹے ” مدیان“ کی اولاد سے تعلق رکھتے ہیں۔ جس کی بنا پر ان کو قوم مدین کہا جاتا ہے۔ اس قوم کا سب سے بڑا شہر ان کے قومی نام مدین سے ہی معروف تھا۔ اس لیے قرآن مجید نے انھیں اہل مدین کے نام سے پکارا ہے۔ حضرت شعیب (علیہ السلام) کو ان کی قوم میں ہی رسول مبعوث کیا گیا تاکہ آپ اپنی قوم کو راہ راست پر لانے کی جدوجہد فرمائیں۔ اہل مدین کو قرآن میں اصحاب الایکہ بھی کہا گیا ہے۔ (الشعراء : ١٧٦) اہل مدین کا عقیدہ اور گھناؤنا کردار : ١۔ اہل مدین بھی اپنے پیش رو اقوام کی طرح شرک جیسے غلیظ اور بد ترین عقیدہ میں مبتلا تھی۔ شرک وہ بیماری ہے جسے امّ الامراض کہنا چاہیے۔ قوم مدین کے اندر وہ تمام اخلاقی اور اعتقادی بیمار یوں نے جنم لیا۔ جن میں قوم نوح سے لے کر قوم لوط کے لوگ ملوث چلے آرہے تھے۔ اس امّ الامراض کی جڑ کاٹنے کے لیے حضرت شعیب (علیہ السلام) اپنی دعوت کا آغاز دعوت توحید سے کرتے ہیں۔ (الاعراف، آیت : ٨٥) ٢۔ قوم مدین نہ صرف عقیدہ کی خیانت میں مرتکب ہوئی بلکہ گاہک سے پوری قیمت وصول کرنے کے باوجود ماپ تول میں کمی بیشی کرتے تھے۔ ادائیگی کے وقت چیز مقررہ وزن اور پیمائش سے کم دیتے۔ دوسروں سے لیتے تو طے شدہ وزن سے زیادہ لینے کی مجرمانہ کوشش کرتے۔ (الاعراف، آیت : ٨٥) ٣۔ یہ لوگ پیشہ ور ڈاکو تھے ان کے علاقے سے گزرنے والے مسافروں کی عزت و آبرو اور مال و جان محفوظ نہیں تھے۔ (الاعراف : ٨٦، ھود : ٨٥) ٤۔ حضرت شعیب (علیہ السلام) کی زبردست مخالفت اور نافرمانی کرنے والے تھے۔ (ھود : ٨٩) حضرت شعیب (علیہ السلام) کی نصیحتیں : ١۔ اے میری قوم ایک اللہ کی عبادت کرو، ماپ تول میں کمی ڈاکہ زنی اور فساد فی الارض سے توبہ کرو۔ اگر میری بات مان جاؤ تو یہ تمھارے لیے بہتر ہے اور اللہ کی نعمت کو یاد کرو کہ جب تم ہر لحاظ سے تھوڑے اور کم تر تھے۔ اللہ تعالیٰ نے تمھیں کثرت سے نوازا۔ (الاعراف، آیت : ٨٦، ٨٥) اے میری قوم اللہ تعالیٰ سے ڈر جاؤ اور میری بات مانو میں نہایت ایمانداری کے ساتھ تمھیں اللہ کا پیغام پہنچا رہا ہوں اور اس پر میں تم سے کوئی اجر نہیں مانگتا۔ میرا اجر میرے رب کے ذمہ ہے۔ (الشعراء، آیت : ١٧٦ تا ١٨٠) قوم کا حضرت شعیب (علیہ السلام) کو جواب : اے شعیب کیا تیری نمازیں تجھے یہی کہتی ہیں کہ ہم اپنے باپ دادا کے طریقۂ عبادت کو چھوڑ دیں اور اپنے کاروبار کو اپنے طریقہ کے مطابق نہ کریں ؟ ھود، آیت : ٨٧۔ تم پر اے شعیب ( علیہ السلام) کسی نے جادو کردیا ہے۔ (الشعراء : ١٨٥) حضرت شعیب (علیہ السلام) کی مزید نصیحت : اے میری قوم میں اپنے رب کی طرف سے واضح دلیل پر ہوں اور اس نے مجھے وافر رزق عطا فرمایا ہے۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ میں وہی کچھ کروں جس سے تمھیں منع کرتا ہوں۔ میں اللہ کی توفیق سے صرف اصلاح کی غرض سے یہ بات کہتا ہوں۔ میرا اللہ تعالیٰ پر بھروسہ ہے اور میں ہر حال میں اس کی طرف رجوع کرتا ہوں۔ (ھود : ٨٨) قوم کا جواب : اے شعیب! تیری اکثر باتیں ہماری سمجھ میں نہیں آتیں اور ہم تمھیں اپنے آپ میں کمزور دیکھتے ہیں، اگر تیری برادری نہ ہوتی تو ہم تجھے پتھر مار مار کر رجم کردیتے تو ہمارا کچھ نہ بگاڑ سکتا۔ (ھود، آیت : ٩١) حضرت شعیب (علیہ السلام) کا ارشاد : میری قوم کیا تم اللہ تعالیٰ سے میری برادری کو بڑا سمجھتے ہو اور تم باز نہیں آتے۔ تم اپنا کام کرو اور مجھے اپنا کام کرنے دو اور عنقریب تمھیں معلوم ہوجائے گا کہ جھوٹا کون ہے اور کس پر ذلیل کردینے والا عذاب نازل ہوگا۔ (ھود : ٩٠ تا ٩٥) قوم حضرت شعیب (علیہ السلام) سے عذاب کا مطالبہ کرتی ہے : اے شعیب تو ہمارے جیسا انسان ہے اور ہم تجھے کذّاب سمجھتے ہیں بس تو ہم پر آسمان کا ایک ٹکڑا گرادے اگر تو سچا ہے۔ (الشعراء : ١٨٥ تا ١٨٧) قوم شعیب پر اللہ تعالیٰ کا عذاب : قوم نے حضرت شعیب (علیہ السلام) کو جھٹلایا تو ان پر بلاشبہ عذاب عظیم نازل ہوا۔ ( الشعراء : ١٨٩) ظالموں کو ایک کڑک نے آلیا اور وہ اپنے گھروں میں اوندھے منہ پڑے ہوئے تھے۔ ان کے گھر ایسے ویران ہوئے جیسے ان میں کوئی بسا ہی نہ ہو۔ یاد رکھو اہل مدین پر ایسی ہی پھٹکار ہوئی جس طرح قوم ثمود پھٹکاری گئی۔ مفسرین نے لکھا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان پر سات راتیں آٹھ دن گرمی اور حبس کا ایسا عذاب مسلط کیا کہ وہ نہ تہہ خانوں میں آرام کرسکتے تھے اور نہ ہی کسی درخت کے سائے تلے ٹھہر سکتے تھے۔ وہ انتہائی کرب کے عالم میں اپنے گھروں سے باہر نکلے تو ایک بادل ان کے اوپر سایہ فگن ہوا۔ جب سب کے سب بادل تلے جمع ہوگئے تو بادل سے آگ کے شعلے برسنے لگے۔ زمین زلزلہ سے لرزنے لگی اور پھر ایسی دھماکہ خیز چنگھاڑ گونجی کہ ان کے کلیجے پھٹ گئے اور اوندھے منہ تڑپ تڑپ کر ذلیل ہو کر مرے۔ حضرت شعیب (علیہ السلام) کا لاشوں کو خطاب : حضرت شعیب (علیہ السلام) ان سے مخاطب ہوتے ہیں۔ اے میری قوم میں نے نہایت خیر خواہی کے ساتھ اپنے رب کا پیغام پہنچا دیا تھا۔ لہٰذا اللہ کے نافرمانوں پر مجھے کوئی افسوس نہیں ہے۔ (الاعراف : ٩٣) مسائل ١۔ قوم شعیب ناپ تول کی کمی بیشی کیا کرتے تھے۔ ٢۔ حضرت شعیب (علیہ السلام) اپنی قوم کو پہلی قوموں کے انجام سے ڈراتے تھے۔ ٣۔ حق وباطل میں اللہ تعالیٰ فیصلہ کردیتا ہے۔ تفسیر بالقرآن ناپ تول میں کمی نہیں کرنی چاہیے : ١۔ ماپ تول کو پورا کرو اور لوگوں کو چیزیں کم نہ دو۔ (الاعراف : ٨٥) ٢۔ ماپ تول کو انصاف سے پورا کرو۔ (الانعام : ٥٢) ٣۔ ماپ کو پورا کرو اور پورا پورا وزن کرو۔ (الاسراء : ٣٥) ٤۔ ماپ تول میں کمی نہ کرو۔ (ھود : ٨٤) ٥۔ ماپ کو پورا کرو اور کمی کرنے والے نہ بنو۔ (الشعراء : ١٨١) الاعراف
86 الاعراف
87 الاعراف
88 فہم القرآن ربط کلام : حضرت شعیب (علیہ السلام) اور ان کی قوم کے درمیان کشمکش کا ذکر جاری ہے۔ حضرت شعیب (علیہ السلام) اپنی موت تک قوم کو سمجھاتے رہے لیکن قوم نے نہ صرف ان کی باتوں کی طرف توجہ نہ دی بلکہ انہوں نے تشدد کا راستہ اختیار کیا اور اور کہنے لگے اے شعیب اب تیرے اور تیرے ساتھیوں کے لیے ایک ہی راستہ ہے اگر تم اپنی بات پر قائم رہنا چاہتے ہو تو اپنا کاروبار اور گھر بار ہمارے حوالے کرو اور یہاں سے نکل جاؤ۔ اگر تم اپنا کاروبار اور گھر بچانا چاہتے ہو تو پھر تمھیں ہر صورت ہمارے عقیدے کو ماننا پڑے گا۔ اس کے سوا ہمارا اور تمہارا اکٹھا رہنا مشکل ہے۔ حضرت شعیب (علیہ السلام) نے فرمایا کیا ہم کفر و شرک اور بددیانتی سے نفرت کرتے ہیں تب بھی اسے قبول کرلیں؟ ان کے فرمان کا مطلب یہ تھا کہ ایک طرف ہم ان باتوں کے خلاف نفرت کرتے ہوئے مہم چلارہے ہیں اور دوسری طرف خوف یا لالچ کی بنا پر انہیں قبول کرلیں یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ دین چھوڑ کر دوبارہ کفر و شرک اختیار کرلیں۔ ایسا کرناہماری طرف سے اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھنے کے مترادف ہوگا۔ کیونکہ ہم کہتے رہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں کفر و شرک، خیانت اور بدیانتی کرنے سے منع کیا اور ان کے خلاف جدوجہد کرنے کا حکم دیا۔ ہاں جو اللہ چاہے وہ ہوجاتا ہے مومنوں کے فرمان کے دو مقصد ہو سکتے ہیں۔ پہلا مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ تو ہرگز نہیں چاہتا کہ انسان کفر و شرک، خیانت اور بد دیانتی کا راستہ اختیار کرے اس کا حکم تو وہی ہے۔ جو حضرت شعیب (علیہ السلام) اور تمام انبیاء ( علیہ السلام) دیتے آ رہے ہیں لہٰذا ہمیں سب کچھ منظور ہے لیکن صراط مستقیم سے ہٹنا گوارا نہیں۔ دوسرا مفہوم یہ ہو سکتا ہے کہ ایمان پر قائم رہنا اللہ کی توفیق کے بغیر ممکن نہیں لہٰذا ہم اپنے رب سے استقامت کی توفیق مانگتے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں انہوں نے عاجزی اختیار کرتے ہوئے اپنی قوم کی یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ ایمان لانا اور اس پر استقامت اختیار کرنا ہمارے بس کی بات نہیں۔ یہ ہمارے رب کی توفیق کا نتیجہ ہے جس پر ہم تا دم آخر قائم ہیں۔ گویا کہ انہوں نے انشاء اللہ کے مفہوم میں یہ الفاظ ادا فرمائے تھے۔ اسی لیے انہوں نے یہ بھی فرمایا کہ ہمارے انجام کا ٹھیک ٹھیک علم تو ہمارے رب کے پاس ہے۔ ہمارا بھروسہ اسی پر ہے۔ ہم تو دعا ہی کرسکتے ہیں کہ اے ہمارے رب ظالموں کا ظلم حد سے بڑھ چکا ہے اس سے ہمارے اور ہمارے دشمنوں کے درمیان بہتر فیصلہ صادر فرما تو ہی بہترین فیصلہ کرنے والا ہے۔ قوم شعیب اور کفارکا ابتدا ہی سے وطیرہ رہا ہے کہ ایک طرف ایمان والوں پر مظالم ڈھاتے ہیں اور دوسری طرف باقی لوگوں کے لیے ہدایت کے راستے میں رکاوٹ بنتے ہیں تاکہ مزید لوگ حلقۂ دین میں داخل نہ ہوسکیں۔ شعیب (علیہ السلام) کی قوم کے سرداروں نے بھی یہی گھناؤنا کردار اختیار کر رکھا تھا۔ وہ اپنی قوم کو کہتے کہ اگر تم نے شعیب کی پیروی کی تو یاد رکھو بھاری نقصان اٹھاؤ گے تمھارا برا حشر ہوگا۔ سرداروں کے پروپیگنڈے کا یہ معنٰیبھی تھا کہ اگر تم شعیب کا حکم مانو گے تو تم اپنی مرضی سے کاروبار نہیں کرسکو گے۔ جس سے تمھاری تجارت اور ترقی کو زبردست نقصان پہنچے گا۔ یاد رہے کہ دنیا دار لوگ شروع ہی سے ایسی باتوں سے عوام کو دین سے روکتے رہے ہیں۔ اور آج بھی نفاذ اسلام کی بات چلے تو ایسا ہی پروپیگنڈا کیا جاتا ہے۔ قوم شعیب کے کردار اور ان کے بار بار عذاب کے مطالبہ پر رات کے وقت ایسا زلزلہ آیا کہ وہ صبح اوندھے منہ پڑے ہوئے تھے۔ وسیع ترین کاروبار، بڑے بڑے حفاظتی منصوبے اور ہر قسم کے مکرو فریب انھیں رب ذوالجلال کے عذاب سے نہ بچا سکے جو لیڈرز قوم کو یہ کہہ کر ڈراتے تھے کہ شعیب (علیہ السلام) کی پیروی کرنے میں نقصان ہوگا۔ وہی ملک و ملت کی تباہی کا باعث بنے۔ اس المناک صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے حضرت شعیب (علیہ السلام) نے فرمایا کہ اے میری قوم میں نے سمجھانے میں کوئی کسر نہ اٹھارکھی۔ جو عذاب لانے کا تم مجھ سے اصرار کرتے تھے اس نے تمھیں آلیا اب تم نے اپنے کیے کا پھل پا لیا ہے۔ لہٰذا میں تم پر کیونکر افسوس کرسکتا ہوں۔ الاعراف
89 الاعراف
90 الاعراف
91 الاعراف
92 الاعراف
93 الاعراف
94 فہم القرآن ربط کلام : عرب اور اس کے گرد و نواح کی پانچ اقوام کے کردار اور انجام کا ذکر کرنے کے بعد دنیا میں جزاء و سزا اور آزمائش کا عمومی اصول بیان کیا گیا ہے۔ اہل علم نے ” بِالْبَاسَاءِ“ کا معنی غربت، تنگدستی اور ” ضَرَّاءِ“ کا مفہوم جسمانی بیماریاں لیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہاں ایک بنیادی اصول ذکر فرمایا ہے کہ ہم قوموں کو تباہ و برباد کرنے سے پہلے غربت و افلاس اور جسمانی امراض کے ذریعے جھنجوڑا کرتے ہیں تاکہ بڑا عذاب آنے سے پہلے اپنی اصلاح کی طرف توجہ کریں۔ گویا کہ اس معمولی اور عارضی گرفت کے پیچھے۔ اللہ تعالیٰ کی دائمی شفقت اور حکمت پنہاں ہوتی ہے کہ لوگوں کو احساس ہو کہ اگر ہم نے نافرمانی کی روش اختیار کیے رکھی تو کوئی ہولناک عذاب ہمیں اچک لے گا۔ لہٰذا ہمیں خدا کی نافرمانی کے بجائے اس کی اطاعت میں رہنا چاہیے اس میں ہمارے رب کی خوشنودی اور دنیا وآخرت کی بھلائی ہے۔ جب لوگ ان جھٹکوں سے سمجھنے اور سلجھنے کی کوشش نہیں کرتے تو پھر اللہ تعالیٰ دوسری آزمائش میں ڈال دیتا ہے۔ غربت و افلاس کی جگہ مال کی فراوانی اور کشادگی دیتا ہے۔ بیماری اور عوارض کی جگہ صحت اور فراغت آجاتی ہے یہ چیزیں اس قدر کھلے انداز میں دے دی جاتی ہیں کہ لوگ اپنے آباؤ اجداد پر آنے والے مصائب اور آلام کو یہ کہہ کر بھول جاتے ہیں کہ یہ تو حالات کے مدو جزر کا نتیجہ تھا، ایسا ہو ہی جایا کرتا ہے۔ بعض لوگ اسے منصوبہ بندی کا فقدان قرار دیتے ہیں اور اپنی کوششوں پر اتراتے ہوئے خود فریبی کا شکار ہو کر کہتے ہیں کہ اگر ہمارے بزرگ یہ احتیاطی تدابیر اختیار کرتے تو فلاں فلاں آفت سے مامون رہ سکتے تھے۔ اسی لیے قوم ثمود نے پہاڑوں کو تراش تراش کر محفوظ محلات اور مضبوط قلعے بنائے اور قوم عاد نے دعویٰ کیا کہ ” مَنْ اَشَدُّ مِنَّا قُوَّۃً“ ” ہم سے زیادہ طاقت ور کون ہوسکتا ہے ؟“ لیکن اللہ کے عذاب نے انھیں تہس نہس کرکے رکھ دیا۔ دیکھنے والا سمجھتا تھا کہ یہاں کبھی کوئی بندہ، بشر رہا ہی نہیں۔ قرآن مجید کے مطالعہ سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ اکثر اوقات اللہ تعالیٰ کا عذاب کنگال اور کمزور لوگوں کے بجائے معاشی لحاظ سے خوشحال اور سیاسی اعتبار سے صاحب اقبال لوگوں پر آتا ہے۔ یہ عذاب اس قدر اچانک آیا کرتا ہے کہ وہ اس کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتے۔ جب اللہ کا عذاب آجائے تو کسی قوم کی سیاسی برتری اور معاشی خوشحالی اسے ہرگز نہیں بچا سکتی۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ آزمائش کے ذریعے لوگوں کے گناہ معاف فرماتے ہیں۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ کے احسانات کو کبھی فراموش نہیں کرنا چاہیے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ کی پکڑ اچانک اور زبردست ہوا کرتی ہے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ خوشحالی کے ذریعے آزماتا ہے۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ تکلیف اور تنگ دستی کے ذریعے بھی آزماتا ہے۔ ٦۔ تباہ ہونے والی اکثر اقوام خوشحال ہوا کرتی تھیں۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ کی پکڑ اچانک اور زبردست ہوا کرتی ہے : ١۔ جب وہ ہماری عطا کی ہوئی نعمتوں پر خوش ہوجاتے ہیں تو اچانک انکو عذاب کی لپیٹ میں لے لیتے ہیں (الانعام : ٤٤) ٢۔ کیا وہ لوگ بے فکر ہوگئے ہیں کہ اللہ انہیں زمین میں دھنسا دے؟ (النحل : ٤٥) ٣۔ کیا وہ لوگ بے فکر ہوگئے ہیں کہ انہیں اللہ کا عذاب اپنی لپیٹ میں لے لے یا اچانک قیامت آجائے۔ (یوسف : ١٠٧) ٤۔ کیا بستیوں والے بے فکر ہوگئے ہیں کہ اللہ کا عذاب رات کے وقت اپنی لپیٹ میں لے لے اور وہ نیند کی حالت میں ہوں۔ (الاعراف : ٩٥) ٥۔ کیا وہ لوگ بے خوف ہوگئے ہیں کہ اللہ انہیں چلتے پھرتے اپنے عذاب کی لپیٹ میں لے لے۔ (النحل : ٤٦) الاعراف
95 الاعراف
96 فہم القرآن ربط کلام : سرکشی اور بےدینی کی بنیاد پر ملنے والی فراوانی اور دین کی بدولت عطا ہونے والی خوشحالی کا فرق۔ اللہ تعالیٰ نے فرقان مجید کی سورۃ نساء کی آیت ١١٥ میں ایک اصول بیان فرمایا ہے کہ ہدایت واضح ہونے کے باوجود جو شخص ہمارے رسول کی مخالفت کرے گا ہم اسے ادھر ہی پھیر دیں گے جدھر وہ جانا چاہتا ہے۔ سورۃ الشوریٰ کی آیت ٢٠ میں فرمایا کہ جو دنیا چاہتے ہیں اسے اس کے نصیب کی دنیا دے دیتے ہیں۔ جو آخرت چاہتا ہے اسے آخرت عطا کردیتے ہیں۔ قرآن کی تعلیم یہ ہے کہ اگر لوگ ایمان اور تقویٰ کا راستہ اختیار کریں گے تو ہم ان کے لیے زمین و آسمان کی برکات کے دروازے کھول دیں گے۔ لیکن انسانوں کی اکثریت ہمیشہ اس طرح رہی ہے کہ وہ ایمان اور پرہیزگاری کا راستہ اختیار کرنے کے بجائے من مانی اور خدا کی نافرمانی میں دنیا کی ترقی سمجھتے ہیں۔ جو اللہ کی ذات اور اس کی تعلیمات کو جھٹلانے کے مترادف ہے۔ جب لوگ نیکی کے بجائے برائی، حلال کی جگہ حرام، اور خدا کی اطاعت کے بجائے نافرمانی کا رویہ اختیار کرتے ہیں تو پھر اکثر اوقات دنیا میں ہی انھیں اپنے کیے کی سزا مل جاتی ہے۔ یہاں اہل ایمان اور تقویٰ اختیار کرنے والوں کو زمین و آسمان کی برکات کی خوشخبری دی گئی ہے۔ برکت کی جمع برکات ہے جب اللہ تعالیٰ کسی چیز میں برکت پیدا فرماتا ہے تو وہ چیز تعداد اور مقدار میں تھوڑی ہونے کے باوجود آدمی کو کفایت کر جاتی ہے۔ اور انسان اس پر مطمئن ہوتا ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ کی طرف سے کسی کی عمر میں برکت ڈال دی جائے تو وہ تھوڑی مدت میں وہ کار ہائے نمایاں سر انجام دے پاتا ہے کہ لوگ اس سے مدت تک استفادہ کرتے ہیں۔ خورد و نوش میں برکت ڈال دی جائے تو آدمی کے لیے پانی کے چند گھونٹ اور خوراک کے چند لقمے ہی کافی ہوتے ہیں۔ لیکن جب برکت اٹھالی جائے تو پیٹ بھر کھانے کے باوجود طبیعت سیر نہیں ہوتی اور انواع و اقسام کے کھانے بھی اس کی قوت و توانائی میں اضافہ نہیں کرتے۔ جب برکت اٹھ جاتی ہے تو بعض اوقات یوں بھی ہوتا ہے کہ گھر میں سب کچھ ہونے کے باوجود نہ ہونے کا احساس ہوتا ہے۔ اور ہر نعمت میسر ہونے کے باوجود انسان اس سے اس لیے استفادہ نہیں کرسکتا کہ وہ چیزیں استعمال کرنے سے اس کی صحت مزید بگڑنے کا اندیشہ ہوتا ہے گویا کہ کسی چیز سے برکت اٹھالی جائے تو انسان اسے محسوس کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ آج دنیا کی غالب اکثریت اسی حالت سے دو چار ہے۔ کھیت سرسبز و شاداب، فیکٹریاں دن رات ٹھک ٹھک چل رہی ہیں، ذرائع مواصلات پہلے سے کہیں زیادہ اور ہر چیز کی فراوانی ہے لیکن انسان روحانی اور جسمانی اعتبار سے اپنے ہی آپ میں کھویا ہوا، مضطرب اور پریشان دکھائی دیتا ہے۔ اس لیے سرور دوعالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کھانا کھانے کے بعد اور مختلف مواقعوں پر اللہ تعالیٰ سے برکت کی دعا فرمایا کرتے تھے۔ ” مگر جو شخص ہدایت کے واضح ہوجانے کے بعد رسول کی مخالفت کرے اور مومنوں کی راہ چھوڑ کر اور راہ اختیار کرے تو ہم اسے ادھر پھیر دیتے ہیں جدھر کا اس نے رخ کیا ہے، پھر ہم اسے جہنم میں جھونکیں گے جو بدترین ٹھکانا ہے۔ [ النساء : ١١٥] ” جو شخص آخرت کی کھیتی چاہتا ہے ہم اس کی کھیتی بڑھا دیتے ہیں اور جو دنیا کی کھیتی چاہتا ہے اسے اس میں سے کچھ دے دیتے ہیں اور آخرت میں اس کا کوئی حصہ نہ ہوگا۔“ [ الشوری : ٢٠] ” حضرت عبداللہ بن بسر (رض) بیان کرتے ہیں رسول مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میرے والد کے پاس آئے تو ہم نے آپ کو کھانا پیش کیا۔ آپ نے کھانا کھایا پھر آپ کو کھجوریں پیش کیں۔ آپ کھجوریں کھا کر گٹھلیاں اپنی دونوں انگلیوں کے درمیان رکھتے جاتے ہیں۔ شعبہ کہتے ہیں میرا خیال ہے کہ اگر اللہ نے چاہا تو وہ بالکل درست ہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دونوں انگلیوں کے درمیان گٹھلیاں رکھ کر پھینکتے جاتے، پھر آپ کو پانی دیا گیا۔ تو آپ نے نوش فرمایا پھر برتن دائیں جانب بیٹھے شخص کے حوالے کیا میرے والد نے آپ کی سواری کی لگام پکڑی ہوئی تھی انہوں نے کہا ہمارے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا کیجیے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اے اللہ! ان کے رزق میں برکت فرما اے اللہ! ان کے گناہ معاف فرما اور ان پر رحم فرما۔“ (عَنْ أَنَسٍ (رض) قَالَ رَأَی النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عَلٰی عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ (رض) أَثَرَ صُفْرَۃٍ فَقَالَ مَہْیَمْ أَوْ مَہْ قَالَ قَالَ تَزَوَّجْتُ امْرَأَۃً عَلٰی وَزْنِ نَوَاۃٍ مِنْ ذَہَبٍ فَقَالَ بَارَکَ اللّٰہُ لَکَ أَوْلِمْ وَلَوْ بِشَاۃٍ) [ رواہ البخاری : ] ” حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عبدالرحمن بن عوف (رض) پر زرد رنگ کے کچھ اثرات دیکھے آپ نے استفسار فرمایا یہ کیا ہے؟ حضرت عبدالرحمن نے کہا میں نے سونے کی ایک ڈلی مہر کے عوض ایک عورت سے نکاح کیا ہے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ تعالیٰ تیرے لیے بابرکت بنائے ولیمہ کرو خواہ ایک ہی بکری سے کرو۔“ (عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ (رض) قَال قالَ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) إِذَا أَکَلَ أَحَدُکُمْ طَعَامًا فَلْیَقُلْ اللَّہُمَّ بَارِکْ لَنَا فیہِ وَأَطْعِمْنَا خَیْرًا مِّنْہُ وَإِذَا سُقِیَ لَبَنًا فَلْیَقُلْ اللّٰہُمَّ بَارِکْ لَنَا فیہِ وَزِدْنَا مِنْہُ) [ رواہ ابوداؤد : کتاب الأشربۃ] ” حضرت عبداللہ بن عباس (رض) بیان کرتے ہیں رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب تم میں سے کوئی شخص کھانا کھائے تو کہے اے اللہ ہمارے لیے اس کھانے میں برکت ڈال دے اور ہمیں اس سے بہتر کھانا کھلا اور جب دودھ پیے تو کہے اے اللہ! ہمارے لیے اس میں برکت ڈال دے اور ہمیں اس سے زیادہ عنایت فرما۔“ مسائل ١۔ تقویٰ اختیار کرنے سے اللہ تعالیٰ برکات کے دروازے کھول دیتا ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ کی آیات کی تکذیب کرنا اس کے عذاب کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔ الاعراف
97 فہم القرآن ربط کلام : سابقہ آیات میں پانچ اقوام کی تباہی اور اس کے اسباب بیان کرتے ہوئے دنیا میں جزاء و سزا کا ایک عمومی اصول بیان فرمایا اور اس کے بعد ایمان اور تقویٰ کی ترغیب دیتے ہوئے زمین و آسمان کی برکات کی خوشخبری سنائی اب پھر مجرموں کو وارننگ دی جا رہی ہے۔ قرٰی کا واحد ” قَرْیَۃ“ ہے یہ لفظ شہر اور دیہات دونوں کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ قرآن مجید نے اسے شہر اور بستیوں کے لیے استعمال فرمایا ہے سورۃ زخرف آیت : ٣١ میں ہے کہ لوگ شہروں کے رہنے والے ہوں یا دیہاتوں کے بسنے والے انھیں وارننگ اور انتباہ کیا جا رہا ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کی بغاوت اور نافرمانیاں کرکے کس طرح پرسکون اور امن میں رہ سکتے ہو ؟ یہ تو اللہ کی حکمت اور اس کی طے شدہ پالیسی ہے کہ وہ باغی اور نافرمانوں کو ایک وقت مقرر تک مہلت دیتا ہے اگر وہ لوگوں کے جرائم اور گناہوں کی وجہ سے پکڑنے پر آجائے تو زمین پر چلنے والی کوئی چیز باقی نہ رہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ لوگوں کو مدت معینہ تک مہلت دیتا ہے۔ جب مہلت ختم ہوجاتی ہے تو ایک لمحہ تقدیم یا تاخیر نہیں ہونے پاتی۔ (النحل، آیت : ٦١) اس لیے لوگوں کو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ ہمارا عذاب رات کی تاریکیوں میں ان کو نیند کی حالت میں اچک سکتا ہے اور اگر ہم چاہیں تودن دیہاڑے لوگوں کو فنا کی گھاٹ اتار سکتے ہیں۔ سورۃ القصص آیت ٧١ تا ٧٢ میں فرمایا : (قُلْ اَرَءَ یْتُمْ اِنْ جَعَلَ اللّٰہُ عَلَیْکُمُ النَّہَارَ سَرْمَدًا اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ مَنْ اِلٰہٌ غَیْرُ اللّٰہِ یَاْتِیْکُمْ بِلَیْلٍ تَسْکُنُوْنَ فِیْہِطاَفَلَا تُبْصِرُوْنَ۔ قُلْ اَرَءَ یْتُمْ اِنْ جَعَلَ اللّٰہُ عَلَیْکُمُ النَّہَارَ سَرْمَدًا اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ مَنْ اِلٰہٌ غَیْرُ اللّٰہِ یَاْتِیْکُمْ بِضِیَآءٍطاَفَلا تَسْمَعُوْنَ۔) [ سورۃ القصص، آیت : ٧١، ٧٢] ” اے نبی لوگوں سے فرما دیجیے اگر اللہ تعالیٰ تم پر رات کو قیامت تک طویل کر دے تو کون ہے صبح کی روشنی لانے والا اور اگر وہ دن کو قیامت تک لمبا کر دے تو کون ہے رات لانے والا جس میں تم سکون پاتے ہو ؟“ قوم لوط پر صبح کے وقت عذاب آیا جو قیامت تک رات کی تاریکی نہیں پا سکتے۔ قوم مدین پر رات کی تاریکیوں میں عذاب نازل ہوا جنھیں قیامت تک صبح دیکھنا نصیب نہیں ہوگی۔ ایسے ہی یہاں عذاب کا اشارہ کیا گیا ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو دن اور رات میں کسی وقت بھی تمھیں پکڑ سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بے خوف ہونے والے نقصان ہی پایا کرتے ہیں، یا درہے مکر کے لفظ کی نسبت لوگوں کی طرف ہو تو اس کا مطلب مکر وفریب ہوتا ہے جب اس لفظ کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف ہو تو اس کا معنی تدبیر ہوا کرتا ہے۔ دنیا کی تاریخ اٹھا کے دیکھیے۔ 2005 ء میں رمضان المبارک کے دوسرے دن کشمیر میں صبح 9 بجے ایسا زلزلہ آیا کہ چالیس سیکنڈ کے اندر 70000 انسان موت کا لقمہ بنے اور لاکھوں مکان زمین بوس ہوگئے۔ 1948 ء میں رات کے وقت بلوچستان میں زلزلہ آیا تو بیس سیکنڈ میں کوئٹہ شہر مکمل طور پر تباہ ہوگیا۔ مسائل ١۔ پہلی قوموں پر عذاب اس وقت آیا جب وہ اللہ اور آخرت کو بھولے، غفلت اور بدامنی میں پڑے ہوئے تھے۔ ٢۔ عذاب الٰہی سے بے خوف ہونا کفر ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ کے عذاب سے بے خوف ہونے والے دنیا و آخرت میں نقصان اٹھائیں گے : ١۔ جو ایمان لانے کے بعد کفر کرے اس کے تمام عمل برباد اور وہ دنیاء و آخرت میں خسارہ پانے والوں میں ہوگا۔ (المائدۃ: ٥) ٢۔ اللہ کے عذاب سے بے خوف ہونے والے نقصان اٹھاتے ہیں۔ (الاعراف : ٩٩) ٣۔ جن لوگوں نے اللہ کی آیات کا انکار کیا وہی نقصان اٹھائیں گے۔ (الزمر : ٦٢) ٤۔ کافروں کی پیروی کرنے والے نقصان اٹھائیں گے۔ (آل عمران : ١٤٩) ٥۔ اللہ کو چھوڑ کر شیطان سے دوستی کرنے والا نقصان اٹھائے گا۔ ( النساء : ١١٩) الاعراف
98 الاعراف
99 الاعراف
100 فہم القرآن ربط کلام : دنیا اور آخرت میں نقصان اٹھانے والے لوگوں کا رویہ اور ان کی عادات۔ ایک مرتبہ پھر غافل اور نافرمانوں کو انتباہ کیا جا رہا ہے۔ کیا ان لوگوں کو معلوم نہیں کہ آج جن بستیوں اور سر زمین کے یہ وارث بنے ہوئے ہیں ان سے پہلے ان لوگوں کا کیا حال ہوا۔ جو اللہ تعالیٰ کے خوف سے بے خوف ہوئے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کے عذاب نے انھیں ملیا میٹ کردیا۔ ان کے بعد آنے والوں کی بصیرت تو یہ ہونی چاہیے کہ وہ اپنے سے پہلے لوگوں کی غلطیوں سے بچیں اور ان کے انجام سے عبرت حاصل کریں۔ جن کے واقعات اللہ تعالیٰ نے اس لیے بار بار اور کھول کھول کر بیان کیے تاکہ نئی نسل اپنے سے پہلے لوگوں کے انجام سے عبرت حاصل کرے۔ لیکن ایسا کم ہوتا ہے کہ بعد کے لوگ اپنی اصلاح اور فلاح کی طرف توجہ کریں بلکہ یہ لوگ وہی کام کرتے ہیں جو پہلے لوگوں کی تباہی کا سبب ہوتے ہیں۔ جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ جب ان کے پاس انبیاء کرام (علیہ السلام) دلائل کے ساتھ تشریف لائے اور انھوں نے ایمان باللہ اور اپنی اطاعت کا حکم دیا تو لوگوں نے انھیں جھٹلایا اور پھر اپنی ضد پر پکے ہوگئے۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں پر مہر ثبت کردی اور پھر وہ کفر کی حالت میں ہی ہلاک ہوئے۔ یہاں پہلے لوگوں کی ضد اور ان کے انجام کا ذکر کرنے کے بعد توجہ دلائی ہے کہ ان کے وارث بننے والوں کو یہ راہ اختیار نہیں کرنی چاہیے اگر یہ بھی یہی راہ اختیار کریں گے تو اللہ تعالیٰ ان کے گناہوں کی وجہ سے ان کے دلوں پر بھی مہرثبت کر دے گا۔ پھر یہ ہوگا کہ یہ حق بات سننے اور نگاہ عبرت سے محروم ہوجائیں گے۔ یہ بات پہلے بھی بیان کی جا چکی ہے کہ اللہ تعالیٰ کا گمراہی کو اپنی طرف منسوب کرنے کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہے کہ ہدایت کسی پر مسلط نہ کی جائے گی۔ مہر کس طرح لگتی ہے : (عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ (رض) عَنْ رَّسُوْلِ اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ إِنَّ الْعَبْدَ إِذَا أَخْطَأَ خَطِیْٓءَۃً نُکِتَتْ فِیْ قَلْبِہٖ نُکْتَۃٌ سَوْدَآءُ فَإِذَا ہُوَ نَزَعَ وَاسْتَغْفَرَ وَتَابَ سُقِلَ قَلْبُہٗ وَإِنْ عَاد زیدَ فِیْہَا حَتّٰی تَعْلُوَ قَلْبَہٗ وَہُوَ الرَّانُ الَّذِیْ ذَکَرَ اللَّہُ (کَلاَّ بَلْ رَانَ عَلٰی قُلُوبِہِمْ مَا کَانُوْا یَکْسِبُوْنَ))[ رواہ الترمذی : کتاب تفسیر القرآن، باب وَمِنْ سُورَۃِ وَیْلٌ لِّلْمُطَفِّفِیْنَ (حسن )] ” حضرت ابوہریرہ (رض) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں آپ نے فرمایا بلاشبہ جب بندہ گناہ کرتا ہے اس کے دل پر سیاہ نکتہ لگا دیا جاتا ہے جب وہ اس گناہ کو چھوڑتا اور توبہ و استغفار کرتا ہے تو اس کا دل صاف ہوجاتا ہے اور اگر وہ دوبارہ گناہ کرتا ہے تو اس سیاہ نکتے میں اضافہ کردیا جاتا ہے یہاں تک کہ اس کی سیاہی دل پر غالب آجاتی ہے یہی وہ زنگ ہے جس کا تذکرہ اللہ نے کیا ہے ” کیوں نہیں ان کے اعمال کی وجہ سے ان کے دلوں پر زنگ پڑچکا ہے۔“ مسائل ١۔ پہلی اقوام سے نصیحت وعبرت پکڑنی چاہیے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ انبیاء کرام (علیہ السلام) کو واضح دلائل کے ساتھ مبعوث فرماتا ہے۔ تفسیر بالقرآن کن کے دلوں پر مہر ثبت ہوتی ہے : ١۔ کافروں کے دلوں پر مہر لگادی جاتی ہے۔ (البقرۃ: ٧) ٢۔ مشرکوں کے دلوں پر مہرلگادی جاتی ہے۔ (الانعام : ٤٦) ٣۔ اللہ کے علاوہ دوسرے کو معبود بنانے والوں کے دلوں پر مہر ثبت ہوتی ہے۔ (الجاثیۃ: ٢٣) ٤۔ اللہ تعالیٰ پر افتراء بازی کرنے والوں کے دل پر مہر لگتی ہے۔ (الشوریٰ: ٢٤) ٥۔ مرتد ہونے والے کے دل پر اللہ تعالیٰ مہر لگا دیتا ہے۔ (المنافقون : ٣) ٦۔ تکبر کرنے والے کے دل پر مہر لگائی جاتی ہے۔ (المومن : ٣٥) ٧۔ جہاد سے پیچھے رہنے والوں کے دلوں پر مہر ثبت ہوتی ہے۔ (التوبۃ: ٩٣) الاعراف
101 الاعراف
102 فہم القرآن ربط کلام : کفار کے دلوں پر مہر ثبت ہونے اور ان کی ہلاکت کا سبب، اللہ کے ساتھ ان کی عہد شکنی تھی۔ کفار کی ہلاکت اور ان کی گمراہی کا سبب بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ ایسا اس لیے ہوا کہ ہم نے ان کی اکثریت کو نافرمان اور بد عہد پایا تھا۔ عہد سے مراد وہ ازلی عہد ہے جو روز آفرینش اللہ تعالیٰ نے تمام بنی نوع انسان سے لیا تھا کہ کیا میں تمھارا رب ہوں یا نہیں؟ جس کی تفسیر اسی سورۃ کی آیت ١٧٢ میں بیان کی جائے گی انشاء اللہ عہد سے مراد وہ اقرار اور عہد ہے جو آدمی ایمان لاتے ہوئے کلمۂ شہادت کے الفاظ میں اقرار کرتا ہے۔ جس کا مختصر مفہوم یہ ہے کہ کلمہ پڑھنے والا اقرار کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا میرا کوئی خالق، مالک اور معبود نہیں، محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میرے رہنما اور مقتدا ہیں، میں انھی کی اتباع میں زندگی بسر کروں گا۔ اس عہد کے تحت وہ عہد و اقرار بھی شامل ہیں جو ہم ایک دوسرے کے ساتھ کرتے ہیں یہ تین قسم کے عہد و اقرار ہیں جن پر پورا اترنا انسان کی ذمہ داری ہے اگر کوئی جان بوجھ کر عہد شکنی کرے گا تو اللہ تعالیٰ کے ہاں اسے باز پرس ہوگی۔ یہاں انسانوں کی اکثریت کے بارے میں ارشاد فرمایا ہے کہ ہم نے ان کو عہد شکن اور نافرمان ہی پایا ہے۔ جو لوگ جمہوریت کو حق و باطل، صحیح اور غلط کا معیار قرار دیتے ہیں۔ انھیں اس اصول پر نظرثانی کرنی چاہیے۔ کیونکہ حق و باطل، غلط اور صحیح کا معیار لوگوں کی اکثریت نہیں بلکہ اس کا معیار مسلمہ اقدار اور قرآن و سنت کے اصول ہیں۔ لوگوں کی اکثریت تو لکیر کی فقیر ہوا کرتی ہے۔ (عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ (رض) قَالَ مَا خَطَبَنَا نَبِیُّ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) إِلَّا قَالَ لَا إِیمَانَ لِمَنْ لاَّ أَمَانَۃَ لَہٗ وَلَا دینَ لِمَنْ لَا عَہْدَ لَہٗ)[ رواہ أحمد] ” حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں نبی مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے ہر خطبے میں یہ فرماتے جو امانت دار نہیں اس کا کوئی ایمان نہیں اور جو عہد کی پاسداری نہیں کرتا اس کا کوئی دین نہیں۔“ مسائل ١۔ لوگوں کی اکثریت گمراہ اور فاسق ہوا کرتی ہے۔ ٢۔ گمراہوں کا انجام آخرت میں بد ترین ہوگا۔ الاعراف
103 فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ کے عہد کو توڑنے والی اقوام میں آل فرعون سرفہرست تھے۔ جنھوں نے نہ صرف اللہ تعالیٰ سے کیے ہوئے عہد کی بار بار وعدہ خلافی کی بلکہ قوم کے مزاج اور مشرکانہ عقائد سے فائدہ اٹھاتے ہوئے فرعون نے ” اَنَا رَبُّکُمُ الْاَعْلٰی“ کا دعویٰ کیا تھا۔ فرعون مصر کے حکمران کا اصلی نام نہیں بلکہ اس کا یہ سرکاری لقب تھا۔ قدیم تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ یمن کا حکمران تبع، حبشہ کا بادشاہ نجاشی، روم کا حکمران قیصر، ایران کا فرمانروا کسریٰ کہلواتا اور ہندوستان کے حکمران اپنے آپ کو راجا کہلوانا پسند کرتے تھے۔ جس طرح آج کل صدارتی نظام میں حکمران پریذیڈنٹ اور پارلیمانی نظام رکھنے والے ممالک میں وزیر اعظم اور جرمن کا حکمران چانسلر کہلواتا ہے اسی طرح ہی مصر کا بادشاہ سرکاری منصب کے حوالے سے فرعون کہلواتا تھا۔ موسیٰ (علیہ السلام) کا جس فرعون سے واسطہ پڑا اس کا نام قابوس یا رعمیس تھا۔ یہ فرعون اپنے آپ کو خدا کا اوتار سمجھتے ہوئے لوگوں کو یہ تاثر دینے میں کامیاب ہوا۔ کہ اگر میں خدا کا اوتار نہ ہوتا تو دنیا کی سب سے بڑی مملکت کا فرمانروا نہیں ہوسکتا تھا۔ پھر اس نے لوگوں کے مزاج اور مشرکانہ عقائد سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے آپ کو رب اعلیٰ قرار دیا۔ قوم اور موسیٰ (علیہ السلام) کے سامنے دعویٰ کیا کہ زمین و آسمان میں مجھ سے بڑھ کر کوئی رب نہیں ہے میں ہی سب دیوتاؤں سے بڑا دیوتا اور سب سے اعلیٰ اور اولیٰ کائنات کا رب ہوں۔ اس کی جھوٹی خدائی کے پرخچے اڑانے اور اس کی کذب بیانی کا پول کھولنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے اسی کے گھر میں پرورش پانے والے موسیٰ (علیہ السلام) کو رسول منتخب فرمایا۔ جن کی پیدائش کا تفصیلی تذکرہ سورۃ القصص کی ابتدائی ٣٢ آیات میں کیا گیا ہے جس کی ابتدا اللہ تعالیٰ نے یوں فرمائی۔ ” اے نبی یہ کتاب مبین کی آیات ہیں جن میں ہم آپ کے سامنے فرعون اور موسیٰ کا واقعہ ٹھیک ٹھیک بیان کرتے ہیں فرعون زمین پر بڑا بن بیٹھا اور اس نے اپنی قوم کو طبقاتی کشمکش میں مبتلا کردیا تھا۔ ایک طبقہ کو مراعات یافتہ اور دوسرے کو غلامی اور پسپائی کی گھاٹیوں میں دھکیل رکھا تھا۔ ان حالات میں ہم نے فیصلہ کیا کہ کمزور لوگوں کو زمین میں فرمانروائی سے سرفراز کیا جائے تاکہ فرعون اور اس کے لشکروسپاہ کو وہ کچھ دکھایا جائے جس کے دیکھنے سے ڈرتے تھے۔ فرعون اور اس کے ساتھیوں نے بنی اسرائیل کو اس لیے دبا رکھا تھا کہیں یہ لوگ قوت حاصل کرکے ہمارے خلاف برسر پیکار نہ ہوجائیں۔“ بنی اسرائیل کے بچوں کے قتل کی ابتدا۔ یوں ہوئی کہ فرعون کے درباریوں نے اسے یہ بتلایا کہ بنی اسرائیل کے ہاں ایک ایسا بچہ پیدا ہونے والا ہے جو تیری خدائی کو چیلنج کرے گا۔ فرعون نے اس بنا پر بنی اسرائیل کے نومولود بچوں کو قتل کروانا شروع کیا لیکن یہ سوچ کر اپنے قانون میں ترمیم کی۔ اس طرح تو ہماری خدمت کرنے والا کوئی نہیں رہے گا لہٰذا ایک سال بچوں کو قتل کیا جائے اور دوسرے سال کے بچوں کو باقی رکھا جائے۔ اللہ تعالیٰ کی شان دیکھیے کہ اہل تاریخ نے لکھا ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) اپنی والدہ ماجدہ کے ہاں اس سال جنم لیتے ہیں جس سال بچوں کو قتل کیا جا رہا تھا۔ موسیٰ (علیہ السلام) پیدا ہوئے تو ان کی والدہ انتہائی خوفزدہ ہوئیں کہ جونہی حکومت کے کار پر دازوں کو میرے ہاں پیدا ہونے والے بچے کا علم ہوگا تو وہ میرے لخت جگر کو قتل کردیں گے۔ سورۃ القصص کی آیت ٧ میں موسیٰ (علیہ السلام) کی والدہ کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ہم نے اسے القا کیا کہ جب بیٹے کی جان کا خطرہ محسوس کرو تو اسے دریا کی لہروں کے سپرد کردینا لیکن ڈرنے کی ضرورت نہیں ہم نہ صرف اسے تیرے پاس لے آئیں گے بلکہ آپ کا بیٹا انبیاء (علیہ السلام) کی جماعت کا ایک فرد ہوگا۔“ چنانچہ موسیٰ (علیہ السلام) کی والدہ نے اپنے بیٹے کو دریا کے سپرد کیا جسے آل فرعون نے اٹھا لیا۔ جب فرعون موسیٰ (علیہ السلام) کو قتل کرنے لگا تو اس کی بیوی نے اسے سمجھایا کہ اتنے پیارے بچے کو قتل نہ کرو ممکن ہے بڑا ہو تو ہم اسے اپنا بیٹا بنالیں۔ جب دودھ پلانے کا مرحلہ آیا تو موسیٰ (علیہ السلام) نے غیر عورتوں کا دودھ پینے سے انکار کردیا۔ جس کے بارے میں ارشاد ہوتا ہے کہ ہم نے موسیٰ پر سب عورتوں کا دودھ حرام قرار دیا تھا۔ بالآخر مجبور ہو کر فرعون نے موسیٰ (علیہ السلام) کی والدہ کو ہی انجانے میں اس کی دایہ مقرر کردیا۔ جب موسیٰ (علیہ السلام) بھرپور جوان ہوئے تو ان کے ہاتھوں آل فرعون کا ایک فرد سہواً قتل ہوگیا۔ جس کی وجہ سے موسیٰ (علیہ السلام) نے مصر سے ہجرت فرمائی اور وہ مدین میں حضرت شعیب (علیہ السلام) کے ہاں آٹھ، دس سال داماد بن کر زیر تربیت رہے۔ پھر مصر واپس آتے ہوئے راستہ میں انھیں نبوت عطا ہوئی اور اس کے ساتھ ہی انھیں دو عظیم معجزے عطا کیے گئے۔ جس لاٹھی کے ساتھ وہ بکریاں ہانکا کرتے تھے۔ اس میں معجزانہ قدرت پیدا کی گئی کہ وہ حسب ضرورت بہت بڑا اژدہا بن جاتی اور دوسرا معجزہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو یہ عطا کیا گیا کہ جب وہ اپنا دایاں ہاتھ بائیں بغل میں دبا کر باہر نکالتے تو اس کے سامنے چاند اور سورج کی روشنی بھی مدہم دکھائی دیتی تھی۔ یہاں انھی دو معجزوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ سورۃ القصص، آیت : ٣٤ میں یہ بھی بیان ہوا ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے رب سے اپنے بھائی ہارون (علیہ السلام) کو اپنا معاون بنانے کی دعا کی جسے اللہ تعالیٰ نے قبول فرمایا موسیٰ (علیہ السلام) اپنے بھائی اور معجزات کے ساتھ فرعون کے دربار میں پہنچے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا پہلا خطاب : آل فرعون انتہائی ظالم لوگ تھے۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے فرعون کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا مجھے رب العالمین کی طرف سے رسول بنایا گیا ہے اور میں وہی بات کہوں گا جس کے کہنے کا اللہ تعالیٰ نے مجھے حکم دیا ہے میں تمھارے پاس اپنے رب کی ربوبیت اور وحدت کے ٹھوس اور واضح دلائل لایا ہوں۔ اس لیے تمھیں اپنی خدائی چھوڑ کر صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کو اپنا رب ماننا چاہیے اس کے ساتھ میرا یہ مطالبہ ہے کہ بنی اسرائیل کو آزاد کردیا جائے۔ فرعون نے موسیٰ (علیہ السلام) کی دعوت کا جواب دیتے ہوئے کہا اگر تو واقعی اپنے دعویٰ میں سچا ہے تو کوئی معجزہ پیش کرو۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے فی الفور اپنا عصا زمین پر پھینکا جو بہت بڑا اژدہا بن کر لہرانے لگا۔ جس کے بارے میں مفسرین نے لکھا ہے کہ وہ اتنا بڑا اژدہا بن کر سامنے آیا کہ یوں لگتا تھا جیسے وہ اپنے جبڑوں میں سب کو نگل لے گا۔ یہ دیکھتے ہی فرعون اور اس کے درباری اپنی جان بچانے کے لیے دوڑتے ہوئے موسیٰ (علیہ السلام) سے فریادیں کرنے لگے کہ ہمیں اس سے بچائیں۔ تب موسیٰ (علیہ السلام) نے اس کو پکڑ لیا جو پہلے کی طرح عصا بن گیا۔ اپنی بغل میں ہاتھ دبا کر باہر نکالا تو اس کے سامنے تمام روشنائیاں ماند پڑگئیں۔ ہاتھ دیکھنے والے حیران اور ششد ررہ گئے کہ یہ تو سورج اور چاند سے زیادہ روشن ہے۔ حضرت ابن عباس (رض) فرمایا کرتے تھے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے ہاتھ کے سامنے سورج کی روشنی ماند پڑتی دکھائی دیتی تھی۔ (روح المعانی و جامع البیان) مسائل ١۔ فرعون اور اس کے ساتھی بدترین قسم کے ظالم تھے۔ ٢۔ فرعون اور اس کے ساتھیوں کی پالیسی اور ان کے کردار سے ملک میں فساد پھیل چکا تھا۔ ٣۔ موسیٰ (علیہ السلام) اللہ تعالیٰ کے سچے رسول تھے۔ ٤۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے سب سے پہلے اللہ کی توحید کے دلائل دیے اور اپنی قوم کی آزادی کا مطالبہ کیا۔ ٥۔ موسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے لاٹھی اور ید بیضاء کے دو عظیم معجزے عطا فرمائے۔ تفسیر بالقرآن نافرمان اور فساد کرنے والوں کا انجام : ١۔ دیکھیں فساد کرنے والوں کا انجام کیا ہوا۔ (الاعراف : ١٠٣) ٢۔ دیکھیں ظالموں کا انجام کیسا ہوا۔ (یونس : ٣٩) ٣۔ دیکھیں نافرمانوں کا انجام کیسا ہوا۔ (الاعراف : ٨٤) ٤۔ زمین میں چل کر دیکھیں مجرموں کا انجام کیسے ہوا۔ (النمل : ٦٩) ٥۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دیکھیں جھٹلانے والوں کا انجام کیا ہوا۔ (الزخرف : ٢٥) الاعراف
104 الاعراف
105 الاعراف
106 الاعراف
107 الاعراف
108 الاعراف
109 فہم القرآن ربط کلام : حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے معجزہ کا مطالبہ، معجزہ سامنے آنے پر فرعون کے ساتھیوں کا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر جادو گر ہونے کا الزام اور ان کا چیلنج۔ سورۃ الشعراء کی آیت ١٦ تا ٣٣ میں بیان ہوا ہے کہ جب موسیٰ (علیہ السلام) نے فرعون کو اپنی نبوت کا ثبوت دیا اور بنی اسرائیل کی آزادی کا مطالبہ کیا تو فرعون نے موسیٰ (علیہ السلام) پر اخلاقی حملہ کرتے ہوئے کہا کہ کیا تو نہیں جانتا کہ ہم نے تیری پرورش کی اور تو عرصہ درازتک ہمارے ہاں ٹھہرا اور پھر تو نے ایک ایسا کام کیا جو تجھے اچھی طرح یاد ہے یعنی تو نے ہمارے ایک شخص کو قتل کیا۔ کیا ہمارے احسانات کا تو انکار کرتا ہے ؟ موسیٰ (علیہ السلام) نے نہایت بردباری اور بہترین انداز میں جواب دیتے ہوئے فرمایا ہاں! نادانستہ طور پر مجھ سے آدمی مر گیا تھا۔ جس کی وجہ سے میں تمھارے خوف سے بھاگ نکلا۔ اب اللہ نے مجھے تمھارے پاس رسول بناکر بھیجا ہے۔ جہاں تک آپ کے مجھ پر احسان کا تعلق ہے کیا اس کا بدلہ یہ ہے کہ آپ میری پوری قوم کو غلام بنا رکھیں ؟ موسیٰ (علیہ السلام) سے فرعون نے اللہ تعالیٰ کی ربوبیت کے دلائل طلب کیے جس کا جواب دیتے ہوئے موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا میں اس رب کی بات کر رہا ہوں جو زمین و آسمان اور جو کچھ ان میں ہے اس کو پیدا کرنے والا اور ہر جاندار کو اس کی روزی مہیا کرنے والا ہے وہ تمھارا اور تم سے پہلے لوگوں کا رب ہے بشرطیکہ تم توحید کو سمجھنے کے لیے اپنی عقل استعمال کرو۔ اس پر فرعون نے موسیٰ (علیہ السلام) کا استہزاء اڑاتے ہوئے اپنے درباریوں کو کہا کہ جو تمھارے پاس رسول بنا کر بھیجا گیا ہے وہ تو پاگل ہے۔ پھر موسیٰ (علیہ السلام) کو مخاطب کرتے ہوئے کہنے لگا اگر تو نے میرے سوا کسی اور کو الٰہ مانا تو میں تجھے جیل خانہ میں ڈال دوں گا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا کیا واضح دلائل کے باوجود تم ایسا کرو گے تو اس نے مجبور ہو کر کہا اچھا پھر اپنی صداقت کی دلیل پیش کرو۔ تب موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی صداقت کی تائید میں عصا اور یدبیضاء کے معجزے پیش فرمائے۔ جس پر فرعون اور اس کے درباریوں نے کہا کہ تم تو بہت بڑے جادو گر ہو اور جادو کے ذریعے تم ہمیں اقتدار اور ہمارے ملک سے بےدخل کرنا چاہتے ہو۔ ہم تمھارے مقابلہ میں اپنے جادوگر لائیں گے۔ سورۃ طٰہٰ، آیت : ٥٨ تا ٦٠ میں بیان ہوا ہے کہ مقابلہ کے لیے انھوں نے قومی تہوار کا دن اور صبح کا وقت مقرر کرتے ہوئے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے کہا کہ اس عہد کی خلاف ورزی نہیں ہونی چاہیے۔ سورۃ الشعراء، آیت : ٣٦ تا ٤٤ میں تفصیل یہ ہے کہ پھر انھوں نے ملک کے تمام شہروں سے ماہر جادوگروں کو اکٹھا کیا۔ جب جادوگر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے مقابلہ میں اکٹھے ہوئے تو انھوں نے فرعون کے حق میں پرزور نعرے بازی کی کہ ” فرعون کی جے“ (فرعون زندہ باد) اور اس کے ساتھ ہی جادوگروں نے فرعون سے مطالبہ کیا کہ ہم موسیٰ پر غالب آگئے تو ہمیں کیا انعام ملے گا۔ فرعون نے انھیں یقین دہانی کروائی کہ انعام پانے کے ساتھ میرے مقرب ہوجاؤ گے۔ (الاعراف : ١١٤)۔ یعنی اجر تو معمولی بات ہے۔ تم ہمیشہ کے لیے میرے اقتدار میں شریک ہوگے۔ یہی دین اور دنیا دار کی سوچ میں فرق ہے جس کا جادوگروں نے مظاہرہ کیا کہ ہمیں دنیا میں کیا ملے گا؟ پھر اس کے بعد موسیٰ (علیہ السلام) سے مخاطب ہو کر کہنے لگے کہ ہم اپنے علم و ہنر کا مظاہرہ کریں یا آپ کرتے ہیں ! حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا کہ پہلے تم کرو جو کچھ کرنا چاہتے ہو۔ انھوں نے اپنی رسیاں اور لاٹھیاں زمین پر ڈالیں جو ایک سے ایک بڑھ کر سانپ اور اژدہا بن کر دوڑ نے لگیں۔ جس سے لوگ زبردست خوف زدہ ہوئے۔ کیونکہ قرآن بیان کر رہا ہے کہ انھوں نے سحر عظیم کا مظاہرہ کیا جس سے لوگوں کی آنکھیں حیرت زدہ ہوگئیں۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا جوابی حملہ اور جادوگروں کا ایمان لانا : سورۃ طٰہٰ، آیت : ٦٧ تا ٦٩ میں بیان ہوا کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) خوف زدہ ہوگئے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے موسیٰ ڈرنے کی ضرورت نہیں اپنا عصا زمین پر پھینک یہ سب کو کھا جائے گا اور جادو گرجہاں بھی ہوں کامیاب نہیں ہوں گے۔ یہاں بیان فرمایا کہ ہم نے موسیٰ کو وحی کی کہ آپ اپنا عصا زمین پر پھینکیں جو نہی عصا زمین پر پھینکا گیا تو اس نے ان کے کیے دھرے کو نگل لیا۔ اس طرح حق ثابت اور بلند و بالا ہوا اور باطل ناکام اور نامراد ہو کر ذلیل ہوگیا۔ جادوگر موسیٰ (علیہ السلام) کی حق و صداقت دیکھ کر اللہ تعالیٰ کے حضور سجدہ ریز ہوئے کیونکہ ملک بھر کے نامی گرامی جادوگروں کو شکست دینا کسی عام آدمی کے بس کی بات نہ تھی۔ جادوگر یہ حقیقت پوری طرح سمجھ گئے کہ موسیٰ (علیہ السلام) جس رب کے فرستادہ ہیں وہی خالقِ کل اور مالک حقیقی ہے۔ اسی کے سامنے آدمی کو سجدہ ریز ہونا چاہیے۔ لہٰذا انھوں نے اسی بات کا اقرار اور اظہار کیا کہ ہم رب العالمین پر ایمان لائے مزید وضاحت بھی کردی کہ فرعون پر نہیں جو رب ہونے کا جھوٹا دعوے دار بلکہ موسیٰ اور ہارون (علیہ السلام) کے رب پر ایمان لائے جو پوری کائنات کا رب ہے۔ تاکہ ان کے ایمان پر کسی کو ہرگز شبہ نہ رہے۔ مسائل ١۔ فرعون نے موسیٰ (علیہ السلام) کے خلاف ملک بھر کے جادوگر اکٹھے کیے۔ ٢۔ جادو گروں کے سامنے دین کا مشن نہیں تھا اس لیے انھوں نے دنیا کے اجر کا مطالبہ کیا۔ ٣۔ جادو سب سے پہلے انسان کی نظر پر اثر انداز ہوتا ہے۔ ٤۔ حق ہمیشہ دلائل کی بنیاد پر بلند و بالا رہتا ہے۔ ٥۔ آدمی کو حقیقت سمجھ آجائے تو اسے کھلم کھلا اس کا اعتراف اور اظہار کرنا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن انبیاء (علیہ السلام) پر جادو گر ہونے کا الزام : ١۔ جب موسیٰ (علیہ السلام) کھلے دلائل لے کر آئے تو قوم نے ان پر جادو گر ہونے کا الزام لگایا۔ (القصص : ٣٦) ٢۔ کفار کے سامنے جب حق آیا تو انھوں نے کہا یہ تو جادو ہے۔ (سباء : ٤٣) ٣۔ فرعون کے سرداروں نے کہا یہ تو جادو ہے۔ (الاعراف : ١٠٩) ٤۔ جب کفار کے پاس حق بات آئی تو انھوں نے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر جادو گر ہونے کا الزام لگایا۔ (یونس : ٧٦) ٥۔ کفار نے کہا یہ نبی نہیں جادو گر ہے۔ (یونس : ٢) ٦۔ کفار نے کہا یہ نبی جھوٹا اور جادوگر ہے۔ (ص : ٤) ٧۔ ظالموں نے کہا کیا ہم جادوگر کی اتباع کریں ؟ (الفرقان : ٨) ٨۔ آپ سے پہلے جو بھی نبی آیا اسے جادوگر کہا گیا۔ (الذاریات : ٥٢) ٩۔ مشرکین قرآن مجید کو جادو قرار دیتے تھے۔ (الاحقاف : ٧) الاعراف
110 الاعراف
111 الاعراف
112 الاعراف
113 الاعراف
114 الاعراف
115 الاعراف
116 الاعراف
117 الاعراف
118 الاعراف
119 الاعراف
120 الاعراف
121 الاعراف
122 الاعراف
123 فہم القرآن ربط کلام : جادو گروں کے ایمان لانے پر فرعون کا ان پر سازش کرنے کا الزام اور ان کو مار ڈالنے کی دھمکیاں۔ اس پر جادوگروں کا رد عمل اور عزم و استقلال کا مظاہرہ۔ حق و باطل کی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو یہ حقیقت بالکل عیاں دکھائی دیتی ہے کہ حق ہمیشہ دلائل کی بنیاد پر باطل پر غالب رہا ہے اور غالب رہے گا۔ یہی بات قرآن مجید نے دو ٹوک الفاظ میں بیان فرمائی ہے کہ ” کافر اور مشرک چاہتے ہیں کہ اللہ کے نور کو اپنے منہ کی پھونکوں سے بجھا دیں جبکہ اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہے کہ وہ اپنے نور کو ہر جانب پھیلا کر رہے گا۔ اس نے اپنے رسول کو دین حق اور ہدایت کے ساتھ اس لیے بھیجا ہے تاکہ اس کا دین تمام باطل ادیان پر غالب آجائے خواہ یہ بات کفار کے لیے کتنی ہی ناگوار ہو۔“ (سورۃ الصف : ٨، ٩) سورۃ المجادلۃ کی آیت ٢١ میں یہ فرمایا کہ ” اللہ نے یہ بات لکھ چھوڑی ہے کہ میں اور میرے رسول غالب آکر رہیں گے کیونکہ اللہ تعالیٰ قوت رکھنے والا غالب ہے۔“ یہی بات جادوگروں کے مقابلہ میں موسیٰ (علیہ السلام) کو تسلی دیتے ہوئے کہی گئی تھی۔ اے موسیٰ خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں۔ یقین جانیے کہ آپ ہی غالب رہیں گے۔ جادوگر جہاں سے بھی حملہ آور ہو کامیاب نہیں ہوتا۔“ (طٰہٰ ٦٨ تا ٦٩) اللہ تعالیٰ کا وعدہ پورا ہوا اور جو جادوگر تھوڑی دیر پہلے فرعون زندہ باد کے نعرے لگا رہے تھے جونہی ان کے سامنے حقیقت منکشف ہوئی تو انھوں نے اللہ تعالیٰ کی توحید اور موسیٰ (علیہ السلام) کی رسالت پر ایمان لانے کا دو ٹوک الفاظ میں نہ صرف اعلان کیا بلکہ اللہ تعالیٰ کے حضور سجدہ ریز ہوئے تاکہ دیکھنے والے یہ جان جائیں کہ جادوگر موسیٰ (علیہ السلام) کے مقابلہ میں شکست کھاچکے ہیں۔ فرعون یہ ہزیمت کس طرح برداشت کرسکتا تھا اس لیے اس نے اپنی ذلت چھپانے اور لوگوں پر تسلط قائم رکھنے کے لیے ایمان لانے والوں پر سازش کا الزام لگایا کہ تم نے میری اجازت کے بغیر ایمان لانے کا اعلان کیا یہ تم جادوگروں کی ہمارے خلاف بہت بڑی سازش ہے تاکہ تم ہمیں اقتدار سے محروم کرکے ملک سے نکال دو۔ لیکن یاد رکھو کہ عنقریب تمھاراانجام تمھارے سامنے ہوگا۔ سورۃ طٰہٰ آیت ٧١ تا ٧٣ میں یہ بیان ہوا ہے کہ فرعون نے یہ بھی الزام لگایا کہ درحقیقت یہ تمھارا استاد جادوگر ہے جس کے ساتھ مل کر تم نے یہ کام کیا ہے لہٰذا میں تمھارے مخالف سمت میں ہاتھ پاؤں کاٹ ڈالوں گا اور کھجوروں کے بلند تنوں پر تمھیں پھانسی دی جائے گی اور تمھیں معلوم ہوجائے گا کہ ہم سزا دینے میں کتنے سخت لوگ ہیں۔ اس کا جواب دیتے ہوئے ایمانداروں نے کہا کہ ہمارے پاس سچ اور حق کے دلائل آچکے ہیں جن پر ہم تمھیں اور تمھارے مفادات کو ہرگز تر جیح نہیں دے سکتے۔ لہٰذا جو کچھ تو کرنا چاہتا ہے کر گزر تیری سزا تو اس دنیا کی حد تک محدود ہے بلاشبہ ہم اپنے رب پر ایمان لے آئے ہیں تاکہ وہ ہماری خطاؤں کو معاف فرمائے اور جو ہم نے جادو کا مظاہرہ کیا ہے اسے معاف کر دے۔ اللہ تعالیٰ ہی بہتر اور باقی رہنے والا ہے۔ یہ بیان ہوا ہے کہ جب فرعون نے ان کے مخالف سمت میں ہاتھ پاؤں کاٹنے اور سولی چڑھانے کی دھمکی دی تو صاحب ایمان لوگوں نے پر اعتماد انداز میں جواب دیا کہ یقیناً ہم اپنے رب کی طرف ہی لوٹنے والے ہیں۔ ہمارا صرف اتنا قصور ہے کہ ہم اپنے رب کی نشانیوں پر ایمان لے آئے ہیں جو ہم تک پہنچ چکی ہیں۔ ہم اپنے رب کے حضور یہ فریاد کرتے ہیں کہ اے ہمارے پالنہار ہمیں فرعون کی اذیتوں پر صبر و استقامت عنایت فرما اور ہماری موت تیرے تابعدار بندوں جیسی ہو۔ فرعون نے صاحب عزیمت لوگوں کو مار ڈالنے کی دھمکی دی تھی اس لیے انھوں نے اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہوئے اسے جواب دیا کہ دنیا میں کسی نے بھی ہمیشہ نہیں رہنا لہٰذا ہمیں موت سے ڈرنے کی ضرورت نہیں۔ موت تو اپنے رب تک پہنچنے کا ایک وسیلہ ہے اس لیے ہم مر کر اپنے رب کی طرف ہی پلٹنے والے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں انھوں نے اپنے رب کے ہاں بہتر انجام کی دعا کی تھی مومن کے لیے اس سے بڑھ کر کوئی کامیابی نہیں ہو سکتی کہ وہ صبر و استقامت کے ساتھ اللہ کے راستے میں جان قربان کر دے۔ سچے ایمان کی یہ نشانی ہے کہ وہ انسان کو ایک لمحہ میں صبر و استقامت اور ایمان و ایقان کی ایسی بلندیوں پر پہنچا دیتا ہے جس کا دنیا دار شخص تصور بھی نہیں کرسکتا۔ یہی وہ جذبہ اور ایمان کا درجہ ہے جس کا اظہار حضرت خبیب (رض) نے تختۂ دار پر چڑھتے ہوئے اہل مکہ کے سامنے کیا تھا۔ ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دس آدمیوں کو کفار کی جاسوسی کے لیے روانہ کیا اور ان کا ذمہ دار عاصم بن ثابت انصاری کو بنایا جو کہ عاصم بن عمر بن خطاب کے نانا تھے یہ لوگ جب ہداۃ مقام پر پہنچے جو کہ عسفان اور مکہ کے درمیان ہے تو کسی نے بنی لحیان کے لوگوں کو بتایا جو ہذیل قبیلے کی شاخ ہے انھوں نے دو سو تیرا نداز ان کے تعاقب میں بھیجے یہ لوگ ان کے نشان ڈھونڈتے چل پڑے۔ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ (رض) نے ایک جگہ کھجوریں کھائیں تھیں جو مدینہ سے ساتھ لی تھیں۔ بنولحیان کے لوگوں نے وہاں کھجوریں دیکھیں تو پہچان لیں کہ یہ یثرب کی کھجوریں ہیں عاصم اور ان کے ساتھیوں کے تعاقب میں چل پڑے۔ جب عاصم نے ان کو دیکھا تو ایک ٹیکری پر پناہ لی کافروں نے ان کو گھیر لیا اور کہنے لگے تم ٹیکری سے اتر آؤ اور اپنے آپ کو ہمارے سپرد کر دو۔ اور ہم تم سے پکاوعدہ کرتے ہیں کہ تم کو نہیں ماریں گے یہ سن کر عاصم بن ثابت جو کہ ان کے سردار تھے نے کہا اللہ کی قسم! میں اپنے آپ کو کافروں کے سپرد نہیں کروں گا۔ اے اللہ! ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہماری خبر دے دے۔ اس پر کافروں نے تیروں کی بارش شروع کردی اور عاصم سمیت سات کو شہید کردیا۔ باقی جو تین بچ گئے وہ کافروں کے اقرار پر بھروسہ کرکے اتر آئے انھی میں خبیب، زید بن دثنہ اور ایک اور شخص تھے جب کافروں کے قابو میں آگئے تو انھوں نے دھوکہ دیا اور اپنی کمانوں کی رسی کھول کر ان کے ہاتھ باندھ دیے۔ تیسرا شخص کہنے لگا یہ پہلا دھوکہ ہے میں تمھارے ساتھ نہیں جانے والا۔ میں تو اپنے شہید ساتھیوں کی پیروی چاہوں گا۔ کافروں نے ان کو زبردستی ساتھ لے جانے کی کوشش کی مگر وہ نہ مانے۔ آخر کار انھوں نے اسے شہید کر ڈالا۔ اور خبیب اور زید بن دثنہ کو پکڑ کرلے گئے۔ ان دونوں کو غلام بنا کر مکہ میں مشرکین کے ہاتھ بیچ ڈالا۔ خبیب کو حارث بن عامر کے بیٹوں نے خریدا۔ بدر کے دن خبیب نے ان کے باپ حارث کو قتل کیا تھا۔ خبیب چند دنوں تک ان کے پاس قید رہے۔ ابن شہاب کہتے ہیں مجھ سے عبید اللہ بن عیاض نے بیان کیا ان سے حارث کی بیٹی بیان کرتی تھی جب حارث کے گھر کے افراد متفق ہوگئے کہ انھیں قتل کردیا جائے تو انھی دنوں خبیب نے زینب سے ایک استرا مانگا تو زینب نے ان کو دے دیا۔ اس وقت اتفاق سے میرا ایک بیٹا انجانے میں خبیب کے پاس آگیا۔ میں نے دیکھا تو کم سن ان کے ران پر بیٹھا ہوا ہے اور استرا ان کے ہاتھ میں ہے یہ منظر دیکھ کر میں گھبرا گئی۔ خبیب نے میرا چہرہ دیکھ کر پہچان لیا میں گھبرا رہی ہوں اور پوچھا کیا تو یہ سمجھتی ہے میں اس بچے کو مار ڈالوں گا یہ کبھی نہیں ہوسکتا۔ زینب کہتی ہیں میں نے خبیب کی مانند کوئی نیک آدمی نہیں دیکھا۔ اللہ کی قسم ! میں نے ایک دن دیکھا کہ وہ لوہے کی زنجیر میں جکڑے ہوئے انگور کا گچھا ان کے ہاتھ میں تھا کھا رہے تھے۔ ان دنوں مکہ میں پھل بالکل نہیں ملتا تھا۔ زینب کہتی تھیں یہ اللہ تعالیٰ کا رزق ہے جو خبیب کو اس نے عنایت فرمایا۔ جب خبیب کو قتل کرنے کے لیے حرم سے باہر لے گئے تو انھوں نے درخواست کی مجھے دورکعت پڑھنے دو۔ انھوں نے اجازت دے دی۔ خبیب نے دو رکعت ادا کیں، پھر وہ کہنے لگے اگر تم یہ خیال نہ کرتے کہ میں مارے جانے سے ڈرتا ہوں تو میں اپنی رکعات لمبی ادا کرتا۔ یا اللہ ان کافروں کو ایک ایک کرکے ہلاک کر دے۔ پھر حارث کے بیٹے نے انھیں شہید کردیا۔ حضرت خبیب (رض) نے اس چیز کی ابتدا کی جو بھی مسلمان اسیر ہو کر مارا جائے تو وہ دو رکعت نماز ادا کرلے۔ جس دن حضرت عاصم (رض) شہید ہوئے اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا قبول فرمالی۔ نبی مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسی دن اپنے صحابہ (رض) کو خبر دی اور ان کی مصیبت بیان کی۔ ان کے شہید ہونے کے بعد قریش کے کافروں نے کسی کو عاصم کی لاش پر بھیجا کہ ان کے بدن کا کوئی ٹکڑا کاٹ کر لائے جس کو وہ کاٹ نہ سکے۔ حضرت عاصم (رض) نے بدر کے دن قریش کے سردار کو قتل کیا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے عاصم کی لاش پر بھڑوں کا چھتہ بھیج دیا۔ انھوں نے قریش کے آدمیوں سے عاصم کو بچا لیا وہ ان کے بدن کا کوئی ٹکڑا نہ کاٹ سکے۔“ (رواہ البخاری : کتاب الجہاد والسیر، باب یستأسر الرجل) مسائل ١۔ سچا ایمان نصیب ہوجائے تو آدمی دنیا کی تکالیف کی پروا نہیں کرتا۔ ٢۔ مشکل اور مصیبت کے وقت انسان کو اللہ تعالیٰ سے صبر اور استقامت مانگنا چاہیے۔ ٣۔ ہر انسان نے بالآخر اللہ تعالیٰ کی طرف ہی پلٹ کرجانا ہے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ سے ایمان کی سلامتی اور اس پر استقامت طلب کرنی چاہیے۔ تفسیر بالقرآن مواحد لوگوں پر مشرکین کے مظالم : ١۔ فرعون قوم موسیٰ (علیہ السلام) کے لڑکوں کو قتل کرتا تھا اور لڑکیوں کو زندہ چھوڑ دیتا تھا۔ (البقرۃ: ٤٩) ٢۔ فرعون مومنوں کو کئی طرح کے عذابوں میں مبتلا کرتا تھا۔ (الاعراف : ١٤١) ٣۔ فرعون نے موحد ین کو ٹانگ اور بازو کاٹنے کی دھمکی دی۔ (الاعراف : ١٢٤) ٤۔ فرعون نے اللہ پر ایمان لانے والوں کو ہاتھ پاؤں کاٹنے اور کھجور کے تنوں پر پھانسی دینے کی دھمکی دی۔ (طہٰ: ٧١) ٥۔ فرعون نے اپنی موحدہ بیوی کو دین سے پھیرنے کے لیے طرح طرح کی تکالیف دیں۔ (التحریم : ١١) الاعراف
124 الاعراف
125 الاعراف
126 الاعراف
127 فہم القرآن ربط کلام : اہل ایمان کو دھمکیاں دینے کے بعد حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کی قوم کو قتل کرنے کی دھمکی۔ فرعون نے اہل ایمان کو اذیتیں دینے اور تختۂ دار پر لٹکانے کی دھمکی دی تھی اس کے ہم زبان ہو کر فرعون کے وزیروں، مشیروں، درباریوں اور سرکاری اہلکاروں نے اسے مزید اشتعال دلاتے ہوئے مطالبہ کیا، کیا موسیٰ اور اس کی قوم کو ملک میں بد امنی پھیلانے اور اپنی خدائی کا انکار اور بغاوت کرنے کے لیے کھلا چھوڑ دیا جائے گا ؟ اس پر اس نے پورے جاہ و جلال سے اعلان کیا کہ ہم ایسا ہرگز نہیں ہونے دیں گے بلکہ عنقریب ہم ان کے جوانوں کو تہہ تیغ کرتے ہوئے ان کی عورتوں کو لونڈیاں بنائیں گے کیونکہ ہم ہر اعتبار سے ان پر جاہ و جلال اور اقتدار و اختیار رکھنے والے ہیں۔ ان کے خلاف پوری قوت کا مظاہرہ کیا جائے گا۔ سورۃ المومن (٢٦) میں فرعون کی اس دھمکی کا ذکر بھی موجود ہے کہ اس نے اپنے درباریوں سے کہا کہ میرے راستے سے ہٹ جاؤ کہ میں موسیٰ (علیہ السلام) کو قتل کردینا چاہتا ہوں اور میرے مقابلہ میں یہ اپنے رب کو بلا لائے۔ اگر میں نے موسیٰ ( علیہ السلام) کو قتل نہ کیا تو میں خطرہ محسوس کرتا ہوں کہ یہ تمھارے دین کو بدلنے کے ساتھ ملک اجاڑ دے گا۔ اس کے جواب میں موسیٰ (علیہ السلام) نے فقط اتنا فرمایا کہ میں متکبر اور قیامت کے حساب و کتاب کو جھٹلانے والے ہر شخص کے شر سے، اس رب کی پناہ مانگتا ہوں جو میرا اور تمھارا حقیقی رب ہے۔ ساتھ ہی موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو تلقین کرتے ہوئے فرمایا کہ فرعون کے جبر و استبداد کے مقابلہ میں پورے صبر و استقامت کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے مدد مانگتے رہو یقیناً اللہ تعالیٰ زمین کا وارث اپنے بندوں میں جسے چاہتا ہے بنایا کرتا ہے حقیقی اور بہتر انجام مومنوں کے لیے ہی ہوا کرتا ہے۔ لیکن موسیٰ (علیہ السلام) کی قوم افسوس کرنے لگی کہ ہمیں آپ کی تشریف آوری سے پہلے اور آپ کے آنے کے بعد بھی تکلیفیں ہی اٹھانا پڑی ہیں۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے انھیں مزید تسلی دیتے ہوئے فرمایا ہوسکتا ہے کہ عنقریب ہی تمھارا رب تمھارے دشمن کو تباہ و برباد کردے اور پھر تمھیں ملک میں خلافت عنایت کرے اور دیکھے تمھارا کردار کیا ہے۔ سورۃ یونس آیت ٨٤ تا ٨٥ میں تفصیل بیان کی گئی ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو یہ بھی فرمایا اگر تم صحیح معنوں میں مسلمان ہوئے ہو تو پھر اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرو۔ جس کے جواب میں ایماندار لوگوں نے کہا کہ ہم اللہ پر بھروسہ کرتے ہوئے دعا کرتے ہیں کہ وہ ہمیں ظالموں کے ظلم سے نجات دے۔ قرآن مجید کے انداز بیان سے واضح ہو رہا ہے کہ فرعون نے جادو سے توبہ کرنے والے ایمانداروں پر ہاتھ ڈالنے کے بجائے بنی اسرائیل ہی کو ظلم و ستم کا نشانہ بنایا تھا اس کی وجہ یہ ہے کہ جادوگر پورے ملک سے لائے گئے تھے اور ان کا اپنے اپنے مقام پر لوگوں میں گہرا اثر و رسوخ تھا۔ اس کے پیش نظر فرعون اور اس کے درباریوں نے ان پر ہاتھ ڈالنے کے بجائے مناسب سمجھا کہ پہلے موسیٰ (علیہ السلام) اور اس کی قوم کو تہس نہس کیا جائے تاکہ بنیادی مسئلہ حل ہوجائے۔ چنانچہ موسیٰ (علیہ السلام) کی قوم یعنی بنی اسرائیل پر ظلم و ستم کا یہ دوسرا دور شروع ہوا۔ اس سے پہلے موسیٰ (علیہ السلام) کی پیدائش سے قبل بنی اسرائیل کے بیٹوں کو قتل کرنے کی کئی سال تک مہم جاری رہی تھی۔ جسے اب دوبارہ پوری قوت کے ساتھ شروع کیا گیا۔ جس کا اندازہ قرآن کے اس بیان سے لگایا جا سکتا ہے کہ جبر و استبداد کی یہ مہم اتنی سخت تھی کہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے : (وَاَوْحَیْنَآ اِلٰی مُوْسٰی وَاَخِیْہِ اَنْ تَبَوَّاٰ لِقَوْمِکُمَا بِمِصْرَ بُیُوْتًا وَّاجْعَلُوْا بُیُوْتَکُمْ قِبْلَۃً وَّاَقِیْمُوا الصَّلٰوۃَط وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِیْنَ) (سورۂ یونس، آیت : ٨٧) ” اور ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) اور ہارون (علیہ السلام) کو وحی کی کہ اپنی قوم کو حکم دو کہ اپنے گھروں کو قبلہ رخ بناتے ہوئے نماز قائم کریں اور عنقریب مومنوں کے لیے خوشخبری ہوگی۔“ مسائل ١۔ متکبر اور بےدین حکمران ہمیشہ سے انبیاء ( علیہ السلام) اور مصلحین کو فسادی قرار دیتے آئے ہیں۔ ٢۔ ظالم حکمران اور متکبر لوگ حق کا مقابلہ طاقت سے کیا کرتے ہیں۔ ٣۔ مشکل اور مصیبت کے وقت صبر و استقامت کے ساتھ اللہ سے مدد طلب کرنی چاہیے۔ ٤۔ صبر و استقامت اختیار کرنے والوں کی اللہ تعالیٰ ضرور مدد کرتا ہے۔ تفسیر بالقرآن توحید باری تعالیٰ پر ایمان لانے والوں کا صبر و حوصلہ : ١۔ سخت آزمائش کے وقت رسولوں اور ایماندار لوگوں نے گھبرا کر کہا کہ اللہ کی مدد کب آئے گی۔ (البقرۃ: ٢١٤) ٢۔ مومن پر اللہ کی طرف سے خوف، بھوک، مال و جان کے نقصان میں آزمائش ضرور آتی ہے۔ مومن صابر کے لیے خوشخبری ہے۔ (البقرۃ: ١٥٥) ٣۔ پہلے لوگوں کو بڑی بڑی آزمائشوں سے دو چار کیا گیا تاکہ پتہ چل جائے کہ سچا کون ہے اور جھوٹا کون۔ (العنکبوت : ٣) اللہ تعالیٰ لوگوں کو ایک دوسرے کا جانشین بناتا ہے : ١۔ اللہ تعالیٰ نے مومنوں کے ساتھ وعدہ کیا ہے کہ وہ انھیں ضرور زمین میں خلیفہ بنائے گا جیسے ان سے پہلے لوگوں کو بنایا۔ (النور : ٥٥) ٢۔ اللہ چاہے تو تمھیں اٹھا لے اور تمھارے بعد جس کو چاہے خلیفہ بنائے۔ (الانعام : ١٣٣) ٣۔ تمھارا رب جلد ہی تمھارے دشمن کو ہلاک کردے اور ان کے بعد تم کو خلیفہ بنائے گا۔ (الاعراف : ١٢٩) الاعراف
128 الاعراف
129 الاعراف
130 الاعراف
131 فہم القرآن ربط کلام : آل فرعون پر برے حالات اور مومنوں کے صبر و استقامت کا صلہ۔ فرعون اور آل فرعون کے بے پناہ مظالم کے مقابلہ میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو تسلی دی تھی کہ عنقریب اللہ تعالیٰ تمھارے دشمن کو تباہ و برباد کرے گا بشرطیکہ تم صبر و استقامت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے رب کے حضور نماز ادا کرتے رہو۔ فرعون نے جب اپنی دھمکی پر عمل کر دکھایا تو موسیٰ (علیہ السلام) نے مظالم سے نجات پانے کے لیے اللہ تعالیٰ سے فریاد کی۔ الٰہی تو نے فرعون اور اس کے سرداروں کو دنیا کے اسباب و وسائل عنایت فرمائے۔ لیکن انھوں نے تیرا شکریہ ادا کرنے کے بجائے تیرے بندوں کو تیرے راستے سے گمراہ کرنے پر صرف کردیے ہیں۔ اے ہمارے رب ان کے مال و اسباب تباہ و برباد فرما۔ اور ان کے دلوں کو اس قدر سخت کردے کہ تیرا عذاب دیکھ کر بھی ایمان نہ لائیں اس کے جواب میں موسیٰ (علیہ السلام) کو تسلی دی گئی کہ تمہاری دعا قبول کی جاتی ہے۔ اب تم اور ہارون اس بات پر قائم رہنا اور گمراہوں کے بارے میں جلد بازی نہ کرنا۔ (سورۂ یونس : ٨٨ تا ٨٩)۔ (وَلَنُذِیقَنَّہُمْ مِنَ الْعَذَابِ الْأَدْنٰی دُونَ الْعَذَابِ الْأَکْبَرِ لَعَلَّہُمْ یَرْجِعُونَ)[ سورۃ السجدۃ: ٢١) ” ہم انھیں (قیامت کے) برے عذاب سے پہلے ہلکے عذاب کا ذائقہ بھی ضرور چکھاتے ہیں شاید وہ باز آجائیں۔“ ہم مجرموں کو پہلے چھوٹے چھوٹے عذاب میں مبتلا کرتے ہیں تاکہ وہ سمجھنے کی کوشش کریں۔ جب یہ لوگ سمجھنے کی طرف توجہ نہ کریں تو ان کو بڑا عذاب آلیتا ہے۔ یہی صورت آل فرعون کو پیش آئی۔ یہ ہدایت پانے کے بجائے گمراہی اور عہد شکنی میں آگے ہی بڑھتے گئے۔ چنانچہ آل فرعون کو کئی سال تک قحط سالی کے عذاب میں مبتلا کیا گیا تاکہ ان کے دماغ سے دولت کا نشہ اتر جائے اور یہ چھوٹے جھٹکوں کے بعد ہدایت کے راستے پر آجائیں۔ لیکن جونہی انھیں کچھ مہلت اور نعمت میسر ہوتی تو موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے ساتھیوں کو کہتے یہ تو ہماری بہتر منصوبہ بندی اور حسن تدبیر کا نتیجہ ہے اور جب انھیں نقصان کے ذریعے جھٹکا دیا جاتا تو نصیحت حاصل کرنے کے بجائے موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے ساتھیوں کو الزام دیتے کہ یہ نحوست تمھاری وجہ سے پیدا ہوئی ہے۔ جس کا یہ جواب دیا گیا کہ نحوست مومنوں کی وجہ سے نہیں بلکہ تمھاری بد اعمالیوں کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے آئی ہے لیکن لوگوں کی اکثریت اس بات کو جاننے کے لیے تیار نہیں ہوتی۔ قدیم زمانے سے جہلا کی یہ عادت ہے کہ وہ اپنی ضعیف الاعتقادی کی وجہ سے مختلف چیزوں سے بدشگونی لیا کرتے ہیں جن چیزوں سے بدشگونی لی جاتی ہے ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ مخصوص اوقات میں اگر کوئی پرندہ ان کے مکان کی چھت پر آبیٹھے اگر وہ دائیں جانب اڑے تو ضعیف الاعتقاد لوگ سمجھتے ہیں کہ آج کا دن بہتر گزرے گا یا ہمارا فلاں کام ہوجائے گا اگر یہی پرندہ بائیں طرف اڑ جائے تو سمجھتے ہیں کہ آج کا دن منحوس ہوگا یا فلاں کام الٹ جائے گا۔ ایسے ہی بعض دوسری چیزوں اور آدمیوں کے بارے میں بدشگونی لی جاتی ہے۔ آل فرعون حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے ساتھیوں کو برا سمجھتے ہوئے نحوست ان کے ذمہ لگایا کرتے تھے۔ اس طرح نہ صرف خود گمراہی میں مبتلا رہتے بلکہ دوسرے لوگوں کو اس بہانے سے مزید گمراہ کرنے کے درپے ہوتے۔ جب موسیٰ (علیہ السلام) ان کے سامنے معجزہ پیش کرتے تو یہ لوگ انھیں جادو گر قرار دیتے ہوئے چیلنج دیتے کہ اے موسیٰ ! تم جس قدر چاہو کرشمہ سازیاں کرو ہم تمھاری اس جادوگری کی وجہ سے کبھی ایمان نہیں لائیں گے۔ ” اَلْحَسَنَۃُ“ اس چیز کو کہا جاتا ہے جو انتہائی خوبصورت ہو اور اس کی طرف انسان کا دل مائل ہو۔ یہ دنیا کی کوئی بھی نعمت ہو سکتی ہے اور یہ لفظ نیکی اور خیر کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے کیونکہ نیکی سے بڑھ کر نیک آدمی کو کوئی چیز مرغوب نہیں ہوتی۔ اس کے مقابلہ میں السیءۃ کا لفظ آتا ہے اس سے مراد دنیا کا ہر قسم کا نقصان ہے خواہ وہ بیماری کی شکل میں ہویا مالی خسارے کی صورت میں اس کے لییالسیءۃ کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ چھوٹے بڑے گناہ کو بھی سیءۃ کہا جاتا ہے۔ بعض مفسرین نے الحسنۃ سے مراد یہاں آل فرعون کی خوشحالی اور سیءۃ سے مراد ان کی بدحالی لی ہے۔ آل فرعون کے نحوست کے الزام کے مقابلے میں کہا گیا کہ یاد رکھو جو نحوست تم پر آئی ہے یہ کسی انسان کی طرف سے نہیں بلکہ تمھارے اعمال کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوئی ہے۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ بڑے عذاب سے پہلے مجرم قوم پر چھوٹے چھوٹے عذاب بھیجتا ہے تاکہ یہ نصیحت حاصل کریں۔ ٢۔ مجرم لوگ نیک لوگوں کو ہمیشہ سے منحوس قرار دیتے آئے ہیں۔ ٣۔ نحوست کی بذات خود کوئی حیثیت نہیں کیونکہ خیر اور شر کا مالک اللہ ہے۔ ٤۔ آل فرعون نے بار بار اللہ تعالیٰ کے عذاب کا تمسخر اڑایا۔ تفسیر بالقرآن آل فرعون پر مختلف قسم کے عذاب : ١۔ اللہ نے قوم فرعون پر طرح طرح کے عذاب بھیجے : طوفان، مکڑی، جوئیں، مینڈک، خون وغیرہ۔ (الاعراف : ١٣٣) ٢۔ قحط سالی۔ پھلوں میں نقصان۔ (الاعراف : ١٣٠) ٣۔ آل فرعون پر صبح وشام آگ پیش کی جاتی ہے اور قیامت کے دن انہیں سخت ترین عذاب سے دوچار کیا جائیگا۔ (المومن : ٤٦) ٤۔ ہم نے آل فرعون سے انتقام لیا اور انہیں دریا میں غرق کردیا۔ (الاعراف : ١٣٦) ٥۔ ہم نے فرعون اور اس کے ساتھیوں کو غرق کردیا۔ (بنی اسرائیل : ١٠٣) ٦۔ ہم نے ان کو ان کے گناہوں کی وجہ سے ہلاک کردیا اور آل فرعون کو غرق کردیا۔ (الانفال : ٥٤) ٧۔ ہم نے موسیٰ اور اس کے ساتھیوں کو نجات دی اور دوسروں کو ہم نے غرق کردیا۔ (الشعراء : ٦٦۔ ٦٧) ٨۔ ہم نے تمہیں نجات دی اور آل فرعون کو غرق کردیا۔ (البقرۃ: ٥٠) الاعراف
132 الاعراف
133 الاعراف
134 فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ آل فرعون کا موسیٰ (علیہ السلام) سے باربار عہد شکنی کرنے کے ساتھ عذاب کا مطالبہ کرنا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرعون اور قوم فرعون کو کئی مرتبہ عظیم الشان معجزات دکھائے بار بار اللہ تعالیٰ کی توحید اور اس کے دین کی دعوت دی۔ موسیٰ (علیہ السلام) کے مقابلہ میں ملک بھر کے نامی گرامی جادو گر نہ صرف شکست فاش کھاچکے بلکہ انھوں نے سرِمیدان پوری قوم کے سامنے موسیٰ (علیہ السلام) اور ہارون (علیہ السلام) کے رب پر ایمان لانے کا اقرار اور اظہار کیا۔ فرعون نے اس پر شدید رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے انھیں بد ترین سزاؤں اور الٹا لٹکا دینے کی دھمکیاں دیں، صاحب ایمان لوگوں نے پوری جو ان مردی کے ساتھ آل فرعون کے مظالم کا مقابلہ کیا۔ لیکن فرعون اور اس کی قوم سمجھنیکے بجائے موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے اولوالعزم ساتھیوں کو منحوس قرار دیتے ہوئے جناب موسیٰ (علیہ السلام) سے بار بار عذاب کا مطالبہ کرتے رہے۔ جس پر انھیں ہلکے عذابوں کے بعد پانچ سخت اور ذلیل کردینے والے عذابوں میں مبتلا کیا گیا۔ سیلاب : ١۔ بارش انسانی صحت اور ہر چیز کی نشوونما کے لیے نہایت ضروری ہے۔ اس کے بغیر زمین مردہ اور ہر چیز مرجھائی نظر آتی ہے۔ بشرطیکہ یہ بر وقت اور مناسب مقدار میں ہو۔ اگر یہی بارش بے وقت اور غیر معمولی ہو تو اس سے ہر چیز تباہ ہوجاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آل فرعون پر بے موسم اور غیر معمولی بارشیں نازل کیں۔ جس سے ان کی فصلیں تباہ، جانور بدحال اور مکانات گر گئے۔ باد وباراں کے طوفان اس لیے نازل کیے گئے تاکہ یہ لوگ توبہ و استغفار کریں۔ لیکن یہ توبہ کرنے کے بجائے تکبرّاور نافرمانی میں آگے ہی بڑھتے گئے۔ اس کے بعد ٹڈیوں کا عذاب نازل ہوا۔ ٹڈیوں کے جھنڈ : ٢۔ ٹڈیوں کے دل کے دل امڈ آئے اور انھوں نے نہ صرف باقی ماندہ کھیتوں اور فصلوں کو تباہ کیا بلکہ درختوں کی ٹہنیاں تک کھاڈالیں سرسبز و شاداب ملک و یرانی اور تباہی کا منظر پیش کرنے لگا۔ جوؤں کی بہتات : ٣۔ ان کے لباس اور جسم کی رگ رگ میں اس قدر کثرت کے ساتھ جوئیں پیدا ہوئیں کہ ان کا رات کا سونا اور دن کا سکون غارت ہوگیا۔ ان لوگوں نے خارش کر کر کے اپنے جسم زخمی کرلیے۔ مگر ایمان نہ لائے۔ مینڈکوں کی بہتات : ٤۔ جوؤں کے بعد مینڈکوں کا اتنا شدید سیلاب آیا کہ مینڈکوں کے ڈَل کے ڈَل ان کے کھیتوں، کھلیانوں اور گھروں میں اس طرح گھس آئے کہ ان کے لیے چار پائی کے اوپر بستروں میں سونا بھی حرام ہوگیا۔ خوفناک شکل اور بھاری بھرکم مینڈک ملک میں اس طرح پھیل گئے کہ ہر شخص خوف کے مارے چھپتا پھرتا تھا۔ لیکن جائیں تو کہاں جائیں۔ خون ہی خون : ٥۔ ہر کھانے پینے والی چیز میں خون ہی خون پیدا ہوا، یہاں تک کہ ماؤں کی چھاتیوں میں دودھ کی بجائے خون اتر آیا حتیٰ کہ آل فرعون میں سے کوئی اگر کسی اسرائیلی سے پانی طلب کرتا تو وہ جونہی اس پانی کو پینے لگتا تو وہ بھی گندے خون میں تبدیل ہوجاتا۔ بعض مفسرین نے یہاں تک لکھا ہے کہ آل فرعون کی ایک عورت نے انتہائی قلق کی حالت میں اپنی پڑوسن اسرائیلی عورت کو کہا کہ پانی کی ایک کلی میرے منہ میں ڈال دے تاکہ مجھے سکون حاصل ہو۔ جب اس کی پڑوسن نے ایسا کیا تو پانی کی کلی آل فرعون کی عورت کے منہ میں جا کر خون میں تبدیل ہوگئی۔ نہ معلوم فرعون نے پہلے پہل ان عذابوں کے بارے میں عوام میں کیا تاثر دیا ہوگا اور ان کے مقابلہ میں سرکاری سطح پر کیا کیا جتن کیے ہوں گے لیکن جب اس کی تمام کوششیں نامراد ہوئیں تو وہ ہر عذاب کے بعد مجبور ہو کر موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس حاضر ہو کر انتہائی آہ و زاری اور عاجزی کے ساتھ پختہ وعدہ کرتے ہوئے کہتا کہ اے موسیٰ ! اپنے رب کے حضور دعا کیجیے کہ یہ عذاب ہم سے ٹل جائے ہمیں اس عذاب سے نجات ملے گی تو ہم آپ پر ایمان لاکر بنی اسرائیل کو آزاد کردیں گے۔ لیکن جونہی موسیٰ (علیہ السلام) کی دعا سے عذاب ٹلتا تو وہ عہد شکنی کرتے ہوئے پہلے سے زیادہ شرک و کفر اور بنی اسرائیل کو اذیتیں دیا کرتے تھے۔ قرآن و حدیث میں ان عذابوں کے دورانیہ کی وضاحت نہیں ملتی تاہم تفسیر روح المعانی اور قرطبی کے مؤلفین نے بنی اسرائیل کی روایات کو بنیاد بناتے ہوئے لکھا ہے کہ ہر عذاب کا دورانیہ ایک ہفتہ پر محیط ہوتا تھا۔ اور اس کے بعد ایک مہینہ کی مہلت دی جاتی تھی جونہی وہ لوگ آسودہ حال ہوتے تو پہلے سے زیادہ کفر و شرک اور مظالم کا ارتکاب کرتے تھے۔ ایک موقعہ پر فرعون نے یہاں تک ہرزہ سرائی کرتے ہوئے موسیٰ (علیہ السلام) سے کہا : (وَقَالُوْا یٰاَیُّہَ السّٰحِرُ ادْعُ لَنَا رَبَّکَ بِمَا عَہِدَ عِنْدَکَجاِنَّنَا لَمُہْتَدُوْنَ۔ فَلَمَّا کَشَفْنَا عَنْہُمُ الْعَذَابَ اِذَا ہُمْ یَنْکُثُوْنَ۔ وَنَادٰی فِرْعَوْنُ فِیْ قَوْمِہٖ اَلَیْسَ لِیْ مُلْکُ مِصْرَ وَ ہٰذِہِ الْاَنْہٰرُ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِیْج اَفَلَا تُبْصِرُوْنَ۔ اَمْ اَنَا خَیْرٌ مِّنْ ہٰذَ الَّذِیْ ہُوَ مَہِیْنٌ وَّلَا یَکَادُ یُبِیْنُ۔ فَلَوْلَآ اُلْقِیَ عَلَیْہِ اَسْوِرَۃٌ مِّنْ ذَہَبٍ اَوْ جَآءَ مَعَہُ الْمَلٰءِکَۃُ مُقْتَرِنِیْنَ۔)[ الزخرف، آیت : ٤٩ تا ٥٣] ” اے جادوگر اپنے رب سے عذاب ٹلنے کی دعا کیجیے۔ ہم وعدہ کرتے ہیں کہ ہم ضرور ہدایت پائیں گے۔ لیکن جب عذاب ٹل گیا تو اپنی قوم سے مخاطب ہو کر کہنے لگا اے میری قوم کیا تم نہیں دیکھتے کہ مصر کا اقتدار میرے ہاتھ میں ہے اور نہریں میرے محلات کے نیچے چلتی ہیں۔ کیا تم دیکھتے نہیں کہ میں اس شخص سے کہیں بہتر ہوں جو میرے مقابلہ میں ذلیل ہے اور اپنی بات واضح نہیں کرسکتا۔ اگر یہ واقعی سچا ہے تو اس کے لیے سونے کے کنگن اور اس کی اردل میں فرشتے اترنے چاہییں تھے۔“ مسائل ١۔ فرعون اور اس کی قوم بدترین مجرم اور متکبر لوگ تھے۔ ٢۔ فرعون اور اس کی قوم بار بار موسیٰ (علیہ السلام) سے بد عہدی کرتے رہے۔ ٣۔ آل فرعون پر یکے بعد دیگرے کئی عذاب آئے لیکن وہ سمجھنے کے بجائے کفر و شرک میں آگے ہی بڑھتے گئے۔ الاعراف
135 فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ فرعون اور اس کی قوم جب تمام اخلاقی حدود پامال کرچکی تو اللہ تعالیٰ نے انھیں ہمیشہ کے لیے ختم کردیا۔ قرآن مجید کے مطالعہ سے یہ حقیقت معلوم ہوتی ہے جب کوئی قوم کفر و شرک تکبر اور تمرد میں آگے ہی بڑھتی جائے تو اس کا وجود انسانی معاشرے میں کینسر کی صورت اختیار کرجاتا ہے۔ جس سے اس علاقے کے رہنے والے ہی نہیں بلکہ زمین و آسمان کی ہر چیز اس سے نفرت کا اظہار کرتے ہوئے اس پر لعنت بھیجتی ہے اس صورتحال میں اللہ تعالیٰ دنیا کے نظام کو چلانے اور قائم رکھنے کے لیے مجرم قوم کا صفایا کردیتا ہے۔ اسی اصول کے تحت اب وقت آن پہنچا تھا کہ فرعون اور آل فرعون کو ہمیشہ کے لیے نیست و نابود کردیا جائے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ اس قوم کو دریا میں ڈبکیاں اور غوطے دے دے کر ختم کردیا گیا۔ کیونکہ یہ بار بار اللہ تعالیٰ کی آیات کی تکذیب کرتے اور دنیا کی لذات میں مگن ہو کر اللہ تعالیٰ کی گرفت سے کلیتاً غافل اور بے پرواہو چکے تھے۔ جس کے نتیجہ میں انھیں غرقاب کیا گیا۔ جس کی ابتدا اس طرح ہوئی کہ موسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ سے فریاد کی اے میرے رب یہ قوم پر لے درجے کی مجرم ہوچکی ہے موسیٰ (علیہ السلام) کی دعا قبول کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا اے موسیٰ بس میرے بندوں کو رات کے وقت لے کر یہاں سے نکل جاؤ لیکن یاد رکھنا مجرم قوم تمھارا تعاقب ضرور کرے گی۔ (الدُّخان، آیت : ٢٢ تا ٢٣) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) جب رات کی تاریکیوں میں اپنی قوم کو لے کر دریا عبور کرنے کے لیے نکلے تو فرعون نے تمام شہروں میں ہر کارے بھیجے کہ اکٹھے ہوجاؤ۔ ایک چھوٹی سی جماعت نے ہمیں غضب ناک کردیا ہے۔ اس طرح انھوں نے موسیٰ (علیہ السلام) کا تعاقب کیا جب بنی اسرائیل نے انھیں اپنی طرف آتے ہوئے دیکھا تو موسیٰ (علیہ السلام) سے کہنے لگے اے موسیٰ ! ہم تو گھیرے جا چکے ہیں۔ سامنے بحر قلزم ٹھاٹھیں مار رہا ہے اور پیچھے سے دشمن آپہنچا ہے۔ ہم جائیں تو کدھر جائیں ؟ اس وقت موسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے وحی فرمائی کہ انھیں تسلی دیجیے کہ میرا رب دریا کو عبور کرنے کے لیے کوئی راستہ بنائے گا۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق دریا میں اپنا عصا مارا جس سے بحر قلزم پھٹ گیا اور اس کی لہریں پہاڑوں کی طرح بلند ہو کر اپنی جگہ جم گئیں۔ جب موسیٰ (علیہ السلام) اپنی قوم کو لے کر بحیرۂ قلزم میں اترے تو فرعون بھی اپنے لشکر و سپاہ لے کر ان کے تعاقب میں بحیرۂ قلزم میں اتر ا۔ جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ” (اور کہلا بھیجا کہ) یہ مٹھی بھر لوگ ہیں جو ہمیں غصہ چڑھا رہے ہیں۔ اور ہم یقیناً ایک مسلح جماعت ہیں۔ ہم فرعونیوں کو نکال لائے ان کے باغات اور چشموں سے اور خزانوں اور بہترین قیام گاہوں سے اس طرح ہم نے بنی اسرائیل کو زمین کا وارث بنا دیا۔ چنانچہ ایک دن صبح کے وقت فرعونی ان کے تعاقب میں چل پڑے، جب دونوں جماعتوں نے ایک دوسرے کو دیکھا تو اصحاب موسیٰ چیخے ہم پکڑے گئے۔ موسیٰ نے کہا : ہرگز نہیں میرا رب میرے ساتھ ہے وہ جلد رہنمائی کرے گا۔ چنانچہ ہم نے موسیٰ کو وحی کی کہ اپنا عصا سمندر پر مارو۔ چنانچہ سمندر پھٹ گیا اور ہر حصہ بڑے پہاڑ کی طرح کھڑا ہوا۔ ہم دوسروں کو قریب لے آئے۔ اس طرح ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) اور اس کے تمام ساتھیوں کو بچا لیا اور دوسروں کو غرق کردیا۔ اس میں لوگوں کے لیے عبرت اور اللہ تعالیٰ کی قدرت کے بہت سے نشان ہیں۔ اس کے باوجود لوگوں کی اکثریت ایمان نہیں لاتی۔ یقیناً اللہ تعالیٰ ہر چیز پر غالب اور نہایت مہربان ہے۔“ (الشعراء، آیت : ٥٤ تا ٦٨) قرآن مجید کے دوسرے مقام پر اس واقعہ کو یوں بیان کیا گیا ہے : ” ہم نے بنی اسرائیل کو سمندر عبور کر وایا اس کے پیچھے فرعون اور اس کا لشکر زیادتی اور ظلم کے ارادے سے چلا یہاں تک کہ وہ ڈوبنے لگا تو اس نے کہا کہ میں اس اللہ پر ایمان لایا جو بنی اسرائیل کا رب ہے۔ اور میں اپنے ایمان کا اعلان کرتا ہوں۔ لیکن اس کے جواب میں فرمایا گیا کیا اب تو ایمان لاتا ہے؟ جب کہ اس سے پہلے بغاوت اور فساد کرنے والا تھا۔ ہم تیری لاش کو باقی رکھیں گے تاکہ تیرے بعد آنے والے عبرت حاصل کریں۔ اگرچہ اکثر لوگ ہماری آیتوں سے غفلت ہی برتتے ہیں۔“ (یونس آیت ٩٠ تا ٩٢) مفسرین نے تاریخ کی بنیاد پر لکھا ہے کہ فرعون کے لشکر میں ایک لاکھ گھوڑ سوار اور پندرہ لاکھ پیادے تھے بنی اسرائیل کی تعداد چھوٹے بچوں کے علاوہ چھ لاکھ افراد پر مشتمل تھی اور یہ واقعہ حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے مصر پہنچنے کے ٤٢٦ شمسی سال بعد پیش آیا بظاہر اتنی بڑی تعداد پر یقین نہیں تاہم واللہ اعلم۔ (حوالہ قصص الانبیاء امام ابن کثیر ) مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے آل فرعون سے بنی اسرائیل پر مظالم کرنے کا انتقام لیا۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ کی آیت کو جھٹلانے والوں کا دنیا میں بھی بدترین انجام ہوتا ہے۔ الاعراف
136 الاعراف
137 فہم القرآن ربط کلام : آل فرعون کی غرقابی کے بعد بنی اسرائیل پر اللہ تعالیٰ کے احسانات اور بنی اسرائیل کا کردار۔ بنی اسرائیل حضرت یوسف (علیہ السلام) کے دور میں مصر میں برسراقتدار آئے۔ اور مدت دراز تک انھیں اقتدار اور اختیار حاصل رہا لیکن اپنی بد اعمالیوں کی وجہ سے نہ صرف اقتدار سے محروم ہوئے بلکہ مصر میں انھیں تیسرے درجے کا شہری بنا دیا گیا۔ وہ مدت تک فرعون کے مظالم سہتے رہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو مبعوث فرمایا جناب موسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت ہارون (علیہ السلام) کی بے مثال جدوجہد سے بنی اسرائیل کو مصر سے نکلنے میں کامیابی نصیب ہوئی اور ان کے لیے شام اور فلسطین کی فتح کا دروازہ کھول دیا گیا۔ جس سر زمین کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ اس کے مشرق سے لے کر مغرب تک اللہ تعالیٰ نے برکات و ثمرات کے خزانے رکھے ہیں۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کے ساتھ کیے ہوئے وعدے کو پورا فرمایا کہ انھیں آزادی جیسی نعمت سے سرفراز فرمایا۔ فرعون اور اس کی قوم جو کچھ کرتی تھی اسے تباہ کردیا گیا۔ ” یَعْرِشُوْنَ“ کا معنی کرتے ہوئے اہل علم نے لکھا ہے کہ اس سے مراد بڑے بڑے محلات اور انگوروں کے باغات ہیں جن کی بیلیں ٹہنیوں پر چڑھائی جاتی ہیں۔ دشمن کا خاتمہ اور آزادی کی نعمت بنی اسرائیل کو اس لیے حاصل ہوئی کہ انھوں نے طویل عرصہ تک صبر و استقامت کا مظاہرہ کرتے ہوئے آزادی کے لیے جدوجہد کی۔ * صبر بے بسی اور بے کسی کا نام نہیں۔ صبر قوت برداشت، قوت مدافعت کو بحال رکھنے اور طبیعت کو شریعت کا پابند بنانے کا نام ہے۔ * دشمن کے مقابلے میں جرأت، بہادری اور مستقل مزاجی کے ساتھ مسائل و مصائب کا سامنا کرنے سے مسائل حل ہوتے ہیں۔ آخرت میں بغیر حساب و کتاب کے جنت میں داخلہ نصیب ہوگا۔ دنیا میں اللہ تعالیٰ کی رفاقت و دستگیری حاصل ہوگی مشکلات زندگی کا حصہ ہیں ان سے نکلنے کے لیے روحانی اور الہامی طریقے اختیار کرنے کے ساتھ مادی وسائل اپنانے کا حکم ہے مگر جب تک پوری دلجمعی اور صبر و استقلال کے ساتھ اسباب کو استعمال اور ان کے اثرات و نتائج کا انتظار نہ کیا جائے اس وقت تک مشکلات سے نکلنا ناممکن ہے۔ شریعت نے صبر و استقامت کو مشکلات سے نجات پانے کا اولین درجہ قرار دیا ہے۔ کیونکہ جب تک آدمی مشکلات سے چھٹکارا پانے کے لیے اسباب کو مستقل مزاجی اور حوصلے کے ساتھ اختیار نہیں کرے گا تو نہ صرف اس کی جسمانی اور روحانی تکلیف میں اضافہ ہوگا بلکہ وہ اپنی جذباتیت اور عجلت پسندی کی وجہ سے دنیا و آخرت میں بہتر نتائج سے محروم رہے گا جو صبر و استقامت کے سبب اس کو حاصل ہونے والے تھے۔ (عَنْ أَبِی مَالِکٍ الْأَشْعَرِیِّ (رض) قَالَ قَالَ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)۔۔ وَالصَّبْرُ ضِیَاءٌ ) [ رواہ مسلم : کتاب الطہارۃ، باب فضل الوضوء ] ” حضرت ابومالک اشعری (رض) بیان کرتے ہیں رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔۔ صبر روشنی ہے۔“ (عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ (رض) عَنْ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ قَالَ رَبُّکُمْ عَزَّ وَجَلَّ مَنْ أَذْہَبْتُ کَرِیمَتَیْہِ ثُمَّ صَبَرَ وَاحْتَسَبَ کَانَ ثَوَابُہُ الْجَنَّۃَ )[ رواہ احمد] ” حضرت انس بن مالک (رض) نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان نقل کرتے ہیں انہوں نے فرمایا اللہ تعالیٰ اعلان کرتا ہے کہ جس کی دو محبوب چیزیں (دو آنکھیں) میں لے لوں تو پھر وہ صبر کرے اور مغفرت کی امید رکھے تو اس کا بدلہ جنت ہوگا۔“ مسائل ١۔ آزادی حاصل کرنے کے لیے صبر و استقامت کے ساتھ جدوجہد کرنی چاہیے۔ ٢۔ صبر و استقامت کے مقابلہ میں ظالم کا ظلم بالآخر ناکام ہوجاتا ہے۔ تفسیر بالقرآن صبر کی فضیلت : ١۔ اللہ کی رفاقت اور دستگیری صبر کرنے والوں کے لیے ہے۔ (البقرۃ: ١٥٢) ٢۔ صبر اور نماز کے ذریعے اللہ کی مدد طلب کرو۔ (البقرۃ: ١٥٢) ٣۔ صبر کرنے والوں کو بے حساب اجر دیا جائے گا۔ (الزمر : ١٠) ٤۔ بے شک جنھوں نے اللہ تعالیٰ پر ایمان کا اظہار کرتے ہوئے صبر و استقامت کا ثبوت دیا انھیں کوئی خوف اور حز ن وملال نہیں۔ (الاحقاف : ١٣) الاعراف
138 فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ ٓزادی حاصل کرنے کے بعد بنی اسرائیل کا پہلا جرم۔ بنی اسرائیل بحر قلزم کو عبور کرکے ایسے علاقے میں پہنچے جہاں کے لوگ بت اور قبر پرست تھے۔ انھوں نے موسیٰ (علیہ السلام) سے یہ مطالبہ کر ڈالا کہ اسے موسیٰ ہمارے لیے بھی ایسا ہی معبود مقرر کیا جائے جس طرح ان لوگوں نے اپنا معبود بنا رکھا ہے۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا تم انتہائی جاہل قوم ہو۔ یہ لوگ جو کچھ کررہے ہیں اور جو کچھ انھوں نے بنا رکھا ہے وہ باطل اور جھوٹ ہے اور یہ سب کا سب تباہ ہوجائے گا۔ کیا میں اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کو تمھارا معبود ٹھہراؤں حالانکہ اس نے پوری دنیا پر تمھیں فضیلت وعظمت عطا کی ہے اور ابھی تو چند دنوں کی بات ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمھیں آل فرعون کے مظالم سے نجات دی جو تمھارے بیٹوں کو تہہ تیغ کرتے تھے اور تمھاری بچیوں اور بیویوں کو اپنے لیے رہنے دیتے تھے یہ تم پر بڑی کربناک آزمائش تھی۔ چاہیے تو یہ تھا کہ تم اللہ تعالیٰ کا شکریہ ادا کرتے اور اس کی توحید پر جمے رہتے لیکن اس کے برعکس تم بت پرستی کا مطالبہ کر رہے ہو۔ بنی اسرائیل نسل در نسل غلام رہنے اور مشرکانہ ماحول میں پرورش پانے کی وجہ سے اس قدر ضعیف الاعتقاد اور متلون مزاج ہوچکے تھے کہ جونہی انھوں نے ایک قوم کو دیکھا کہ وہ پتھروں سے بنائی ہوئی مورتیوں کی پوجا کر رہی ہے تو انھوں نے موسیٰ (علیہ السلام) سے مطالبہ کر ڈالا کہ ہمارے لیے بھی ایسے بت بنا دیں۔ ناہنجار قوم سب کچھ بھول گئی۔ کہ ہماری بے بسی اور کمزوریوں کے باوجود اللہ تعالیٰ نے ہمیں ظالموں سے نہ صرف نجات عطا فرمائی بلکہ ہمارے سامنے ہمارا دشمن ڈبکیاں لے لے کر دہائی دیتے ہوئے ذلیل ہو کر مار دیا گیا۔ اس کے مقابلہ میں اللہ تعالیٰ نے پوری دنیا میں ہماری فضیلت و عظمت اور بزرگی کی دھاک بٹھا دی ہے۔ یاد رہے شرک بذات خود ہر قسم کی جہالت اور برائی کا سرچشمہ اور منبع ہے لیکن اس قوم کی جہالت کی کوئی حد نہیں ہوتی جو اپنے نبی سے شرک کرنے کی نہ صرف اجازت طلب کرتی ہو بلکہ اس سے مطالبہ کرے کہ ہمارے لیے ایسا ہی بت خانہ بنایا جائے۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے انھیں جاہل قرار دیتے ہوئے متنبہ فرمایا کہ شرک پر لے درجے کی جہالت ہے۔ مشرک جو کچھ کرتے اور بناتے ہیں اس کی کوئی حیثیت نہیں یہ سب کا سب باطل ہے اور باطل قائم رہنے کے بجائے بہت جلد تباہی کے گھاٹ اترجاتا ہے۔ (عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ (رض) قَالَ لَعَنَ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) زَاءِرَاتِ الْقُبُورِ وَالْمُتَّخِذِیْنَ عَلَیْہَا الْمَسَاجِدَ وَالسُّرُجَ) [ رواہ النسائی : کتاب الجنائز، باب التغلیظ فی اتخاذ السرج علی القبور] ” حضرت عبداللہ بن عباس (رض) فرماتے ہیں رسول مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قبروں پر جانے والی خواتین اور ان پر مساجد بنانے والوں اور ان پر چراغ روشن کرنے والوں پر لعنت کی ہے“ (عَنْ عَاءِشَۃَ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ فِیْ مَرَضِہِ الَّذِیْ مَاتَ فِیْہِ لَعَنَ اللّٰہُ الْیَہُوْدَ وَالنَّصَارٰی اتَّخَذُوا قُبُورَ أَنْبِیَاءِہِمْ مَسْجِدًا)[ رواہ البخاری : کتاب الجنائز، باب ماجاء فی قبر نبی] ” حضرت عائشہ (رض) نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان نقل کرتی ہیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی اس مرض میں فرمایا جس میں آپ فوت ہوئے اللہ تعالیٰ یہودیوں اور عیسائیوں پر لعنت فرمائے انھوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا۔“ (عَنْ اَبِی مَرْثَدَنِ الْغَنَوِیِّ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لَا تَجْلِسُوْا عَلٰی الْقُبُورِ وَلاَ تُصَلُّوا اِلَیْہَا) [ مسلم] ٗٗ” حضرت ابو مرثد غنوی (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ نہ قبروں پر بیٹھا کرو اور نہ ان کی طرف منہ کرکے نماز پڑھا کرو۔“ مسائل ١۔ بتوں اور مزارات کے سامنے چلہ کشی کرنا شرک ہے۔ ٢۔ شرک پرلے درجے کی جہالت ہے۔ ٣۔ شرک کی دین میں کوئی حقیقت نہیں۔ تفسیر بالقرآن الٰہ صرف ایک ہی ہے : ١۔ الٰہ ایک ہی ہے اس کے علاوہ کوئی معبود نہیں۔ (البقرۃ: ١٦٣) ٢۔ ا لٰہ ٰ تمھارا ایک ہی ہے لیکن آخرت کے منکر نہیں مانتے۔ (النحل : ٢٢) ٣۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرما دیں میں تمھاری طرح بشر ہوں میری طرف وحی کی جاتی ہے تمھارا الٰہ ایک ہی الٰہ ہے۔ (الکہف : ١١٠) ٤۔ الٰہ تمھارا ایک اللہ ہی ہے۔ (طہ : ٩٨) ٥۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرمادیں میری طرف وحی کی جاتی ہے تمہارا الٰہ صرف ایک ہی الٰہ ہے۔ (الانبیاء : ١٠٨) ٦۔ تمھارا صرف ایک ہی الٰہ ہے اسی کے تابع ہوجاؤ۔ (الحج : ٢٤) ٧۔ ہمارا الٰہ اور تمھارا الٰہ صرف ایک ہی ہے۔ ہم اسی کے لیے فرمانبردار ہیں۔ (العنکبوت : ٤٦) ٨۔ کیا اللہ کے سوا کوئی اور الٰہ ہے جو میں تلاش کروں۔ (الاعراف : ١٤٠) الاعراف
139 الاعراف
140 الاعراف
141 الاعراف
142 فہم القرآن ربط کلام : بنی اسرائیل کے آزاد ہونے کے بعد اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو تورات کی شکل میں مفصل ہدایات دیں تاکہ وہ اپنی قوم کی تربیت کرسکیں۔ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو آزادی عنایت فرمانے کے بعد حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو کوہ طور پر طلب فرمایا کہ انھیں مفصل کتاب دی جائے۔ تاکہ بنی اسرائیل کو شام و فلسطین کا اقتدار ملنے سے پہلے ان کی تربیت کرسکیں۔ جن پر عمل پیرا ہو کر یہ لوگ اپنے آپ کو قیادت کے اہل ثابت کریں۔ چنانچہ حکم ہوا کہ اے موسیٰ ! آپ تیس دن تک کوہ طور پر اعتکاف کریں۔ جس کو بعد میں چالیس دن کردیا گیا۔ یہ اعتکاف آزادی کا شکریہ بھی تھا۔ اللہ تعالیٰ سے ہم کلامی اور کتاب کی دستیابی کے لیے روحانی بلندی کا ارتقا بھی تاکہ موسیٰ (علیہ السلام) میں روحانی صلاحیت پیدا ہو سکے جو اللہ تعالیٰ کی ملاقات اور وحی الٰہی کا بار اٹھانے کے لیے ضروری تھی۔ موسیٰ (علیہ السلام) کوہ طور پر جاتے ہوئے اپنے بھائی حضرت ہارون (علیہ السلام) جو عمر میں تین سال بڑے تھے مگر ان کے نائب نبی تھے کو یہ ہدایات دے کر رخصت ہوتے ہیں کہ میری غیر حاضری میں میرا قائم مقام ہوتے ہوئے قوم کی اصلاح کی کوشش کرتے رہیں۔ اور اگر قوم برائی کاراستہ اختیار کرے تو ان کی اتباع ہرگز نہ کریں۔ اس سے ثابت ہوا کہ قوم کا حقیقی مصلح وہ ہوتا ہے جو قومی رسم و رواج کے پیچھے لگنے کے بجائے قوم کی اصلاح کرکے انھیں سیدھے راستے پر چلائے۔ ایسے مصلح کا اجر بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ اس کے نیک کاموں کے ساتھ اس کی تحریک پر نیکی کرنے والوں کے اجر کا بدلہ بھی اسے دیا جائے گا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) چالیس دن کی مدت پوری کرتے ہیں۔ اس کے بدلے اللہ تعالیٰ نے انھیں تورات عنایت فرمائی اور اپنی ہم کلامی کا شرف بخشا۔ ( عَنْ أَبِی مَسْعُودٍ الْأَنْصَارِیِّ (رض) قَالَ جَآءَ رَجُلٌ إِلَی النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَقَالَ إِنِّی أُبْدِعَ بِیْ فَاحْمِلْنِی فَقَالَ مَا عِنْدِیْ فَقَالَ رَجُلٌ یَا رَسُول اللّٰہِ أَنَا أَدُلُّہُ عَلٰی مَنْ یَحْمِلُہُ فَقَالَ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَنْ دَلَّ عَلٰی خَیْرٍ فَلَہٗ مِثْلُ أَجْرِ فَاعِلِہٖ) [ رواہ مسلم : کتاب الامارۃ، باب فضل اعانۃ الغازی] ” حضرت ابو مسعود (رض) فرماتے ہیں ایک شخص نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا اور کہا میرے پاس سواری نہیں ہے مجھے سواری عنایت کیجیے۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میرے پاس بھی نہیں ہے۔ ایک آدمی نے کہا اے اللہ کے رسول! میں اس کو اس شخص کی طرف رہنمائی کرتا ہوں جواسے سواری دے سکے۔ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس نے کسی کی بھلائی کی طرف رہنمائی کی تو اسے بھی وہ نیکی کرنے والے کی طرح ہی اجر دیا جائے گا۔“ مسائل ١۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے کوہ طور پر چالیس دن اعتکاف فرمایا۔ ٢۔ حضرت ہارون جناب موسیٰ (علیہ السلام) کے خلیفہ، نبی اور ان کے بھائی تھے۔ ٣۔ آدمی کو مفسدین کا طریقہ اختیار نہیں کرنا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن مفسد اور گمراہ لوگوں کے طریقہ سے اجتناب کا حکم : ١۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے حضرت ہارون (علیہ السلام) سے فرمایا کہ فساد کرنے والوں کی راہ سے اجتناب کرنا۔ (الاعراف : ١٤٢) ٢۔ اگر تم پھر جاؤ اللہ تعالیٰ فساد کرنے والوں کو اچھی طرح جانتا ہے۔ (آل عمران : ٦٣) ٣۔ لوگ زمین میں فساد برپا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اللہ فساد کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ (المائدۃ: ٦٤) ٤۔ اللہ فساد کرنے والوں کے کام نہیں سنوارتا۔ (یونس : ٨١) ٥۔ حضرت شعیب (علیہ السلام) نے اپنی قوم سے فرمایا زمین میں فساد کا باعث نہ بنو۔ (الاعراف : ٨٥) ٦۔ زمین کی اصلاح کے بعد اس کے بگاڑ کا سبب نہ بنو اور اللہ تعالیٰ کو خوف طمع سے پکارو۔ (الاعراف : ٥٦) الاعراف
143 فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی اللہ تعالیٰ سے ہم کلامی اور ذات اقدس کے دیدار کا مطالبہ۔ حسب وعدہ موسیٰ (علیہ السلام) چالیس راتوں کے لیے کوہ طور پر تشریف فرما ہوئے۔ چالیس راتوں سے مراد تمام مفسرین نے دن اور راتیں مراد لی ہیں کیونکہ شریعت میں قمری مہینوں کا حساب لگایا جاتا ہے۔ جس کی ابتداء چاند کے نمودار ہونے سے ہوتی ہے اس لیے شریعت کی تمام عبادات کا حساب طلوع چاند سے لگایا جاتا ہے۔ جب موسیٰ (علیہ السلام) حسب وعدہ اللہ تعالیٰ سے ملاقات کی غرض سے کوہ طور پر پہنچے اور انھوں نے چالیس راتیں مکمل کرلیں تو اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو اپنی ہم کلامی کا اعزازبخشا جس کی نوعیت اور کیفیت کے بارے میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کا رب ہی جانتا ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے ہم کلامی کا کیا انداز اور کونسا طریقہ اختیار فرمایا تھا تاہم قرآن مجید صرف یہ وضاحت کرتا ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرط محبت میں آکر اپنے رب سے اس خواہش کا اظہار کیا کہ میرے رب میں تیری زیارت کا طلب گار ہوں کیونکہ موسیٰ (علیہ السلام) کے شب و روز کا ایک ایک لمحہ اسی تڑپ اور طلب میں گزر رہا تھا کہ کب اللہ تعالیٰ مجھے اپنی ہم کلامی کا شرف عنایت فرماتا ہے جوں ہی ان لمحات کا آغاز ہوا جس سے کوہ طور اللہ تعالیٰ کے انوار و تجلیات سے بقعہ نور بنا۔ رب کریم کے کلام کی مٹھاس سے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) بے خود ہوگئے۔ اور اسی بے خودی کے عالم میں انھوں نے اپنے رب کے حضور اس خواہش کا اظہار کیا کہ میرے رب میں تجھے دیکھے بغیر نہیں رہسکتا۔ مجھے اپنے دیدار سے مشرف فرما۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کے جذبات کا خیال رکھتے ہوئے فقط اتنا فرمایا کہ اے موسیٰ تو مجھے نہیں دیکھ سکتا۔ موسیٰ (علیہ السلام) کے جذبات کی قدر کرتے ہوئے مزید فرمایا کہ اس پہاڑ کی طرف دیکھ اگر یہ پہاڑ میرے جمال و جلال کو برداشت کرسکا تو تو بھی میرا دیدار کرسکے گا۔ جوں ہی اللہ تعالیٰ نے اپنے نور کا پر تو پہاڑ پر ڈالا تو ٹنوں وزنی پہاڑ کا یہ حصہ ایک لمحہ میں ریت کے ذرّات میں تبدیل ہوگیا اور موسیٰ (علیہ السلام) بے ہوش ہو کر نیچے گر پڑے۔ جب انھیں ہوش آیا تو فوراً پکار اٹھے میرے رب تیری ذات کبریا لامحدود اور اتنی پر جلال اور صاحب جمال ہے کہ کسی آنکھ کے احاطۂ نظر میں نہیں آسکتی۔ اس لیے میں اس مطالبہ پر تیری بارگاہ میں توبہ کرتا ہوں اور میں سب لوگوں سے پہلے اس پر ایمان لاتاہوں کہ تیرا فرمان سچا ہے۔ واقعی کوئی آنکھ تیرے دیدار کی سکت نہیں رکھتی۔ جب موسیٰ (علیہ السلام) اپنے رب کے حکم پر کوہ طور پر گئے اور رب کبریا کی زیارت نہ کرسکے تو دوسرا کون ہوتا ہے کہ جو دعویٰ کرے کہ میں نے اللہ تعالیٰ کی زیارت کی ہے۔ اور نہ ہی ایسا اعتقاد رکھنا چاہیے کہ فلاں بزرگ نے حالت بیداری یا خواب میں اللہ تعالیٰ کی زیارت کی ہے۔ البتہ اللہ تعالیٰ کسی کو خواب میں اپنے جمال کی کسی جھلک سے سرفراز فرما دے تو یہ ممکن ہے۔ لیکن اسے اشتہار اور مشہوری کا ذریعہ نہیں بنانا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ کے احسانات کا اظہار اور اس کی نعمتوں کا اعتراف کرنا مشکلات سے محفوظ رہنے کا طریقہ ہے۔ * مزید ملنے کی گارنٹی اور زوال نعمت سے مامون رہنے کی ضمانت ہے۔ رب کی بارگاہ میں نہایت پسندیدہ عمل ہے۔ * اس کے مقابلہ میں ناشکری کفر کے مترادف ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی کسی عبادت اور دین کے کسی عمل کے بارے میں بیک وقت یہ نہیں فرمایا کہ اس کے کرنے سے تم عذاب سے محفوظ رہو گے اور مزید عطاؤں کا سلسلہ جاری رہے گا۔ اس دوہرے انعام کی وجہ سے شیطان نے سرکشی اور بغاوت کی حدود پھلانگتے ہوئے کہا تھا۔ (وَلاَ تَجِدُاَکْثَرَھُمْ شٰکِرِیْنَ) [ الاعراف : ١٧۔ پ ٨] ” اور تو ان میں سے اکثر کو شکر گزار نہ پائے گا۔“ اکثر انسان خوف اور طمع کی بنیاد پر اللہ تعالیٰ کی عبادت اور اطاعت کرتے ہیں ؟ رب کریم نے انسان کی حاجات و ضروریات اور اس کی کمزوری کی وجہ سے اس انداز کو بھی نہ صرف عبادت میں شمار فرمایا بلکہ اس طرح مانگنے کا حکم دیا ہے ایسے لوگوں کو محسنین قرار دے کر اپنی رحمت و دستگیری کا یقین دلایا ہے۔ مگر جو لطف اور لذت اظہار تشکر کے جذبات میں پائی جاتی ہے وہ خوف اور طمع کی عبادت میں نہیں ہوتی۔ اسی طرح غم اور خوف کے آنسو اپنی جگہ سمندروں اور دریاؤں کے پانی سے زیادہ وزنی ہیں۔ کیونکہ سرور دو عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے کہ اللہ کے خوف سے گرنے والا آنسو کا ایک قطرہ زندگی بھر کے انسان کے غلیظ ترین دامن کو دھونے کے لیے کافی ہے۔ ابھی وہ قطرہ انسان کی پلکوں سے ڈھلک کر اس کے رخسار پہ نہیں گرتا کہ غفور و رحیم مالک اس کے گناہوں کو معاف کردیتا ہے لیکن شکر کے آنسو بندۂ مومن میں عجب جذبۂ اطاعت و عبادت پیدا کرتا ہے۔ یہی تصور اور کیفیت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس فرمان میں پائی جاتی ہے کہ جب تہجد کی نماز میں سسکیاں لیتے ہوئے آپ طویل قیام کرتے، آپ کے مبارک قدموں پر ورم پڑجاتے تو مسلمانوں کی والدہ ماجدہ، آپ کی زوجہ سیدہ عائشہ (رض) از راہ ہمدردی عرض کرتیں کہ میرے آقا ! آپ اس قدر کیوں روتے اور مشقت اٹھاتے ہیں ؟ جبکہ بارگاہ ایزدی سے آپ کی سب کمزوریوں کو معاف کردیا گیا ہے آپ نے شکر سے لبریز کلمات کا اس طرح اظہار فرمایا : (أَفَلاَ أَکُوْنُ عَبْدًا شُکُوْرًا۔) [ مشکوٰۃ، باب التحریض علی قیام الیل] ” کیا میں اس کا شکر گزار بندہ نہ بنوں۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو ہم کلامی کا شرف بخشا۔ ٢۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اللہ کے جلوہ کی تاب نہ لا کر بے ہوش ہو کر گر پڑے ٣۔ انسان کو اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے رہنا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن شکر کی فضیلت : ١۔ اللہ کی عبادت کرتے ہوئے شکر گزار بندوں میں شامل ہوجائیے۔ (الزمر : ٦٦) ٢۔ میرا اور اپنے والدین کا شکریہ ادا کرتے رہیے بالآخر تم نے میری طرف ہی لوٹ کر آنا ہے۔ (سورۂ لقمان : ١٤) ٣۔ اگر تم شکر کا رویہ اپناؤ گے تو ہر صورت مزید عنایات پاؤ گے۔ (ابراہیم : ٧) ٤۔ اللہ کو تمھیں سزا دینے سے کیا فائدہ، اگر تم شکر اور تسلیمات کا انداز اختیار کرو۔ وہ اللہ تو نہایت ہی قدر افزائی کرنے والاہے۔ (النساء : ١٤٧) ٥۔ بندوں میں بہت کم شکر ادا کرنے والے ہیں۔ (سبا : ١٣) الاعراف
144 الاعراف
145 فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو رسالت کے منصب پر تو پہلے ہی فائز کردیا تھا اپنی ہم کلامی کا شرف بخشتے ہوئے تختیوں کی شکل میں تورات عطا فرمائی جس میں بنی اسرائیل کے لیے نصیحت اور دین کی متعلقہ تفصیلات درج تھیں۔ قرآن مجید سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو تحریر کی شکل میں تورات عطا کی تھی شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ بنی اسرائیل اہم اور حساس معاملات میں بھی ظاہر پرست واقع ہوئے تھے۔ جس کی بنا پر انھوں نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے یہ مطالبہ کیا کہ ہم اللہ تعالیٰ کو اپنے سامنے دیکھنا چاہتے ہیں۔ پھر اس پر اتنا اصرار کیا کہ موسیٰ (علیہ السلام) ان سے مجبور ہوگئے۔ اللہ تعالیٰ کی ملاقات کے لیے اپنی قوم کے ستر نمائندے ساتھ لے گئے جنھیں اللہ تعالیٰ نے فوت کرنے کے بعد موسیٰ (علیہ السلام) کی دعا پر دوبارہ زندہ کیا۔ تفصیل کے لیے اسی سورۃ کی آیت ١٥٥ کی تلاوت کریں۔ پھر یہ بھی ان کی ظاہر پرستی کا نتیجہ تھا کہ انھوں نے موسیٰ (علیہ السلام) کی صرف چالیس دن کی غیر حاضری پر بچھڑے کو معبود بنا لیا۔ ممکن ہے کہ اسی ظاہر پرستی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے تحریری طور پر تورات نازل فرمائی تاکہ تورات کی لکھی ہوئی تختیاں دیکھ کر یہ ایمان لے آئیں۔ جس کے بارے میں ارشاد ہوا کہ ہم نے ان تختیوں میں ان کی رہنمائی کے لیے ہرمسئلہ لکھ دیا تھا۔ ظاہر ہے تورات کی تحریر کوئی عام تحریر اور اس کی تختیاں کسی انسان کی بنائی ہوئی نہ تھیں نہ معلوم ان تختیوں کے اندر کتنی جاذبیت، کشش اور نورانیت ہوگی۔ اس کی تحریر کتنی خوش نما اور خوبصورت اور دیکھنے والے کو اس تحریر اور تختیوں سے کتناسکون ملتا ہوگا۔ پھر اس میں دین کے متعلق تمام مسائل کا اتنے مؤثر انداز سے احاطہ کیا گیا تھا جس کی نظیر اس سے پہلے دنیا میں نہیں پائی جاتی تھی۔” موعظۃ“ ایسی بات اور انداز کو کہتے ہیں جو انسان کے دل پر براہ راست دستک دے۔ اتنے اوصاف حمیدہ کی حامل کتاب کے بارے میں حکم ہوا کہ اے موسیٰ ! اسے مضبوطی کے ساتھ تھام لو اور اپنی قوم کو حکم دو کہ وہ بھی اخلاص کے ساتھ نہایت اچھے طریقے سے اس کو انفرادی اور اجتماعی زندگی میں تھام رکھیں یعنی پوری طرح اس پر عمل کرتے رہیں۔ یہی کتاب الٰہی کا سب سے بڑا ادب اور اس کا تقاضا ہے۔ جس کا یہ نتیجہ ہوگا کہ عنقریب اللہ تعالیٰ تمھیں اس سر زمین کا وارث بنائے گا جس پر فاسق وفاجر لوگ قابض ہوچکے ہیں۔ اس سے مراد اکثر مفسرین نے شام اور فلسطین کی سرزمین لی ہے جو اس وقت ایک ہی ملک شمار ہوتا تھا لیکن کچھ مفسرین نے شام اور فلسطین کے ساتھ مصر کا علاقہ بھی شامل کیا ہے فرعون اور ان کے بڑے بڑے لوگ غرق ہوجانے کے باوجود مصر کے لوگ اس زمانے میں سب سے زیادہ عیاش اور فسق و فجور میں مبتلا تھے۔” دَارُ الْفٰسِقِیْنَ“ سے مراد جہنم کا گھر بھی ہوسکتا ہے۔ جس میں فاسقین کا جانا یقینی ہے۔ اور مومنوں کو جہنم میں جہنمیوں کا انجام بھی دکھلایا جائے گا۔ تفصیل کے لیے سورۃ المدثر کی ٤٠ تا ٤٧ آیات تلاوت کریں۔ (عن عمر (رض) قال قال رسول اللّٰہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) إِنَّ اللّٰہَ یَرْفَعُ بِہٰذَا الْکِتَابِ أَقْوَامًا وَیَضَعُ بِہٖ آخَرِینَ ) [ رواہ مسلم : کتاب صلاۃ المسافرین، باب فضل من یقوم بالقران ] ” حضرت عمر (رض) بیان کرتے ہیں رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بلا شبہ اللہ تعالیٰ اس کتاب کے ساتھ اقوام کو بلند کرے گا اور دوسروں کو پست کردے گا۔“ (أَنَّ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ تَرَکْتُ فیکُمْ أَمْرَیْنِ لَنْ تَضِلُّوا مَا تَمَسَّکْتُمْ بِہِمَا کِتَاب اللّٰہِ وَسُنَّۃَ نَبِیِّہٖ) [ موطا امام مالک : کتاب الجامع، باب النھی عن القول بالقدر ] ” بلاشبہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میں تم میں دو چیزیں چھوڑچلا ہوں جب تک تم ان کو مضبوطی سے تھامے رکھو گے کبھی گمراہ نہ ہوسکو گے ایک اللہ کی کتاب اور دوسری اس کے نبی کی سنت۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے تورات تختیوں پر تحریر کی صورت میں نازل فرمائی۔ ٢۔ تورات میں ہر چیز کی وضاحت موجود تھی۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ کی کتاب پر عمل نہ کرنے والے فاسق ہوتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن کتاب اللہ سے تمسک کا حکم : ١۔ اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑ لو اور فرقوں میں نہ بٹو۔ (آل عمران : ١٠٣) ٢۔ آپ اسے مضبوطی سے تھام لیں جو آپ کو وحی کی گئی ہے۔ (الزخرف : ٤٣) ٣۔ وہ لوگ جو کتاب کو مضبو طی سے تھامتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں ایسے نیکو کاروں کا اجر ضائع نہیں کیا جاتا۔ (الاعراف : ١٧٠) الاعراف
146 فہم القرآن ربط کلام : بنی اسرائیل کو حکم تھا کہ تورات کو اچھی طرح پکڑے رکھیں مگر انھوں نے اس حکم کی پرواہ نہ کی جس کا انجام بیان کیا جا رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں انسان کی دنیا وآخرت کی بہتری کے لیے بڑے ہی مؤثر اور دل نشین انداز میں ہدایات فرمائی ہیں۔ لیکن اس کے باوجود جو شخص یا قوم اللہ تعالیٰ کی نصیحت اور اس کی خیر خواہانہ رہنمائی کو اپنی رعونت اور تکبر سے ٹھکرا دیتا ہے۔ اس کی دنیا میں یہ سزا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس سے ہدایت کو دور کردیتا ہے ایسے شخص یا قوم کے پاس کوئی بھی نشانی اور معجزہ آئے تو وہ اسے ماننے کے لیے تیار نہیں ہوتے اور اگر انھیں ہدایت کے راستہ کی طرف بلایا جائے تو وہ اس پر چلنے کے لیے آمادہ نہیں ہوتے۔ ان کا مزاج اس قدر بگڑ جاتا ہے کہ وہ ہر برائی اور گمراہی کے راستہ پر چلنے کے لیے تیار رہتے ہیں۔ ایسا اس لیے ہوتا ہے کہ وہ اپنی رعونت اور تکبر کے سبب اللہ تعالیٰ کے احکام کو جھٹلاتے ہوئے تغافل کرتے ہیں۔ جو لوگ بھی اللہ تعالیٰ کے احکام جھٹلائیں اور آخرت کی جواب دہی کا انکار کریں ان کے سب کے سب اعمال ضائع ہوجائیں گے۔ کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کے احکام کو جھٹلاتے اور آخرت کی جواب دہی کے منکر تھے۔ یہاں متکبرین کے بارے میں یہ کہا گیا ہے کہ ہم انھیں اپنی آیات سے پھیر دیتے ہیں یہ مضمون مختلف الفاظ میں پہلے بھی بیان ہوچکا ہے کہ اللہ ہی ہدایت دینے والا اور گمراہ کرنے والا ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کسی پر ہدایت مسلط نہیں کرتا جب مجرم ہدایت کو اپنی رعونت کی وجہ سے قبول کرنے کے لیے تیار ہی نہیں ہوتے تو اللہ تعالیٰ اس پر اپنی ہدایت کیوں مسلط کرے گا۔ یہاں آیات سے پھیر دینے کا یہی مطلب لینا چاہیے۔ جہاں تک آخرت میں متکبرین اور مکذبین کو دنیا کی کسی نیکی کے صلہ سے محروم رکھنے کا تعلق ہے وہ اس لیے ہے کہ ایسا شخص اگر کوئی نیکی کا کام کرتا ہے تو محض اپنی طبیعت کے سکون اور دنیا کی ناموری اور فائدے کے لیے کرتا ہے۔ اسے اچھی شہرت اور کسی نہ کسی شکل میں دنیا میں اس کا صلہ مل جاتا ہے کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کی ملاقات اور آخرت پر یقین نہیں رکھتا اس لیے اس کی نیکی کا آخرت میں بدلہ نہیں دیا جائے گا۔ (عَنْ عَاءِشَۃَ قَالَتْ قُلْتُ یَا رَسُول اللّٰہِ ابْنُ جُدْعَانَ کَانَ فِی الْجَاہِلِیَّۃِ یَصِلُ الرَّحِمَ وَیُطْعِمُ الْمِسْکِینَ فَہَلْ ذَاکَ نَافِعُہٗ قَالَ لَا یَنْفَعُہٗ إِنَّہُ لَمْ یَقُلْ یَوْمًا رَبِّ اغْفِرْ لِی خَطِیءَتِی یَوْمَ الدِّینِ)[ رواہ مسلم : کتاب الایمان] ” حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں میں نے رسول مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے استفسار کیا اے اللہ کے رسول ابن جدعان جاہلیت کے زمانے میں صلہ رحمی اور مساکین کو کھانا کھلایا کرتا۔ تو کیا قیامت کے دن اسے یہ چیز فائدہ دے گی نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا نہیں کیونکہ اس نے کبھی یہ بات نہیں کہی تھی اے میرے رب! قیامت کے دن میری خطاؤں کو معاف فرمانا۔“ یعنی وہ قیامت کے دن پر یقین نہیں رکھتا تھا۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ کی آیات کی تکذیب متکبر لوگ کرتے ہیں۔ ٢۔ کافر ہدایت کی بجائے گمراہی کے راستے پر چلتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن کن لوگوں کے اعمال ضائع ہونگے : ١۔ آخرت کا انکار کرنے والوں کے اعمال ضائع ہوجا تے ہیں۔ (الاعراف : ١٤٧) ٢۔ مشرکین کے اعمال ضائع کردئیے جائیں گے۔ (التوبۃ: ١٧) ٣۔ ایمان کے ساتھ کفر اختیار کرنے والوں کے اعمال ضائع کر دئیے جاتے ہیں۔ (المائدۃ: ٥) ٤۔ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت نہ کرنے والوں کے اعمال برباد کردئیے جاتے ہیں۔ (محمد : ٣٣) ٥۔ وہ لوگ جو اللہ کی آیات کا انکار کرتے ہیں ان کے اعمال غارت کر دئیے جائیں گے۔ (آل عمران : ٢١۔ ٢٢) الاعراف
147 الاعراف
148 فہم القرآن ربط کلام : حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے کوہ طور پر جانے کے بعد بنی اسرائیل کا مشرکانہ کردار۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اپنے بڑے بھائی حضرت ہارون (علیہ السلام) کو اپنا خلیفہ بنا کر اللہ تعالیٰ کے حکم سے چالیس دنوں کے لیے کوہ طور پر معتکف ہوئے ان کی غیر حاضری میں بنی اسرائیل میں سے ایک شخص جس کا نام سامری تھا۔ اس نے بنی اسرائیل سے سونے کے زیورات اکٹھے کیے اور ان کو ڈھال کر ایک بچھڑا بنایا۔ پھر اس میں مٹی ڈالی جس مٹی کے بارے میں سورۃ طٰہٰ آیت ٩٦ میں بیان ہوا ہے کہ یہ مٹی اس نے اس وقت اٹھائی تھی جب بحر قلزم میں فرعون نے ڈبکیاں لیتے ہوئے کہا کہ میں موسیٰ اور ہارون کے رب پر ایمان لاتا ہوں۔ تو جبرائیل (علیہ السلام) نے مٹی اٹھا کر اس کے منہ پر ماری تھی۔ سامری نے دیکھا کہ جس گھوڑے پر جبریل امین (علیہ السلام) انسانی شکل میں سوار ہیں اس کے سم جہاں پڑتے ہیں۔ گھاس ہری ہوجاتی ہے۔ اس نے اس مٹی کو اٹھا لیا۔ کچھ حضرات نے لکھا ہے کہ اثر رسول سے مراد موسیٰ (علیہ السلام) ہیں۔ قرآن مجید نے سامری کی اس بات کی تردید یا تائید نہیں کی جو اس نے موسیٰ (علیہ السلام) کو کہی میں نے یہ مٹی فلاں موقع پر اٹھائی تھی۔ اس نے لوگوں کو گمراہ کرنے کے لیے اس مٹی کو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا معجزہ قرار دیا تاکہ وہ سزا سے بچ جائے۔ بہر کیف الرسول سے مراد موسیٰ (علیہ السلام) ہوں یا جبرائیل امین (علیہ السلام) سامری نے شیطانی تکنیک سے ایک ایسا بچھڑا بنایا کہ جس کے منہ سے مختلف قسم کی آوازیں نکلتی تھیں۔ بچھڑے کو سمجھنے کے لیے آج کے دور کے کھلونے اور ربوٹ دیکھنے چاہییں کہ جو ایسی حرکات کرتے ہیں کہ ان کے ذی روح ہونے کا گمان ہوتا ہے۔ بنی اسرائیل کی ظاہر پرستی اور مشرکانہ جبلت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے سامری انھیں یہ باور کرانے میں کامیاب ہوا کہ موسیٰ (علیہ السلام) جس رب کے حکم سے کوہ طور پر گئے ہیں وہ ہمارے پاس خود آن پہنچا ہے۔ بنی اسرائیل میں سے بہت سے لوگوں نے بچھڑے کو معبود سمجھ کر اس کی تکریم اور عبادت شروع کردی جس طرح کہ مشرک لوگ بتوں اور قبروں کی عبادت کرتے ہیں۔ ایک احترام کے طور پر اس کے سامنے کھڑا ہے اور دوسرا اس بچھڑے کے سامنے رکوع کر رہا ہے۔ کوئی اس کے سامنے ہاتھ جوڑے ہوئے اپنی حاجات پیش کرتا اور کوئی اس کے حضور سجدہ اور نیاز پیش کر رہا ہے انھوں نے یہ دیکھنے اور سوچنے کی زحمت ہی گوارا نہ کی کہ یہ تو ہمارے ہی زیورات سے بنایا ہوا ایک مجسمہ ہے جو نہ خودبات کرسکتا ہے اور نہ ہی ہماری فریاد کا جواب دیتا ہے۔ اسے اپنے قدموں پہ چلنے کی طاقت نہیں اور نہ ہی اسے شعور اور اس کے وجود میں کوئی حرکت پائی جاتی ہے۔ لہٰذا یہ مشکل کشا حاجت روا کس طرح ہوسکتا ہے اور ہماری رہنمائی کیونکر کرسکتا ہے مشرکانہ عقیدہ کا یہی اندھاپن ہے کہ لوگ اس عقیدہ کو سوچے سمجھے بغیر محض بھیڑ چال کے طور پر قبول کرتے چلے جاتے ہیں۔ اس لحاظ سے مشرکانہ عقیدہ اور کردار ایسا ظلم ہے جس کے مقابلے میں تاریخ انسانی میں کوئی مثال نہیں پائی جاتی۔ ظلم نام ہے کسی چیز کو اس کی اصل جگہ سے ہٹا کر دوسری جگہ رکھنے کا یہی کچھ مشرک کرتا اور سوچتا ہے کہ جو تکریم اور عبادت کے آداب صرف اور صرف ایک اللہ کے لیے ہونے چاہییں مشرک قبروں، بتوں اور دیگر چیزوں میں تصور کرتا ہے۔ یہاں الوہیت کی صرف دو صفات کا اس لیے ذکر کیا گیا ہے کہ جناب موسیٰ (علیہ السلام) اپنی قوم کو یہ فرما کر گئے تھے کہ میں اللہ تعالیٰ سے ہم کلامی کرنے اور مستقبل کے لیے ہدایات لینے کے لیے جا رہا ہوں۔ اس لیے اس قوم کو اچھی طرح معلوم تھا کہ موسیٰ (علیہ السلام) اپنے رب سے ہم کلام ہونے کے ساتھ ہمارے لیے مزید ہدایات لائیں گے۔ جس بچھڑے کو انھوں نے اپنا معبود بنا لیا تھا۔ اس میں باقی صفات تو چھوڑ یے یہ دو بھی نہیں پائی جاتی تھیں۔ پھر اس کو معبود بنانے کا ان کے پاس کیا جواز تھا۔ (قَالَ فَاذْہَبْ فَإِنَّ لَکَ فِی الْحَیَاۃِ أَنْ تَقُولَ لَا مِسَاسَ وَإِنَّ لَکَ مَوْعِدًا لَنْ تُخْلَفَہٗ وَانْظُرْ إِلٰی إِلٰہِکَ الَّذِی ظَلْتَ عَلَیْہِ عَاکِفًا لَنُحَرِّقَنَّہٗ ثُمَّ لَنَنْسِفَنَّہٗ فِی الْیَمِّ نَسْفًا۔إِنَّمَآ إِلٰہُکُمُ اللّٰہُ الَّذِی لَآ إِلٰہَ إِلَّا ہُوَ وَسِعَ کُلَّ شَیْءٍ عِلْمًا کَذٰلِکَ نَقُصُّ عَلَیْکَ مِنْ أَ نْبَاءِ مَا قَدْ سَبَقَ وَقَدْ آَتَیْنَاکَ مِنْ لَّدُنَّا ذِکْرًا)[ طٰہٰ: ٩٧ تا ٩٩] ” موسیٰ نے کہا : جاؤ تمھارے لیے زندگی بھر یہ (سزا) ہے کہ (دوسروں سے) کہتے رہو کہ مجھے نہ چھونا اور تیرے لیے عذاب کا ایک وقت ہے جو تجھ سے کبھی نہیں ٹل سکتا اور اپنے الٰہ کی طرف دیکھ، جس کے آگے تو معتکف رہتا تھا کہ ہم کیسے اسے جلا ڈالتے ہیں پھر اس کی راکھ کو کیسے دریا میں بکھیر دیتے ہیں۔ تمھارا الٰہ تو صرف وہی ہے جس کے سوا کوئی الٰہ نہیں اس کا علم ہر چیز کو محیط ہے۔ اے نبی ! اسی طرح ہم گزرے ہوئے لوگوں کی خبریں تجھ سے بیان کرتے ہیں نیز ہم نے اپنے ہاں سے تجھے قرآن عطا کیا ہے۔“ قرآن مجید کے الفاظ سے ثابت ہوتا ہے۔ جو لوگ اپنی ضعیف الاعتقادی کی وجہ سے بچھڑے پر ٹوٹ پڑے تھے انھیں موسیٰ (علیہ السلام) کے آنے سے پہلے احساس ہوگیا کہ ہم سے گناہ ہوا ہے۔ لہٰذا وہ اللہ تعالیٰ سے معافی مانگنے لگے۔ لیکن قرآن مجید بیان کرتا ہے کہ انھیں دنیا میں ذلیل کردینے والی سزا دی گئی۔ جو یہ تھی کہ تم اپنے ہاتھوں ایک دوسرے کو قتل کرو۔” اور جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا : اے میری قوم ! تم نے بچھڑے کو معبود بنا کر اپنے آپ پر ظلم کیا ہے لہٰذا اپنے خالق کے حضور توبہ کرو اور اپنی جانوں کو ہلاک کرو۔ تمھارے رب کے ہاں یہی بات تمھارے حق میں بہتر ہے۔ پھر اللہ نے تمھاری توبہ قبول کرلی وہ توبہ قبول کرنے والا نہایت رحم کرنے والا ہے۔“ (البقرۃ: ٥٤) مسائل ١۔ مشرک جن کی عبادت کرتے ہیں وہ نہ ان سے کلام کرسکتے ہیں اور نہ ہی ان کی رہنمائی کرتے ہیں۔ ٢۔ شرک کرنا اپنے آپ پر ظلم کرنے کے مترادف ہے۔ ٣۔ کفر و شرک کی حالت میں مرنے والا شخص قیامت کے دن بڑا نقصان پائے گا۔ تفسیر بالقرآن خسارہ پانے والے لوگ : ١۔ ( حضرت آدم اور حضرت حوانے کہا) اے اللہ اگر تو نے معاف نہ کیا اور رحم نہ کیا تو ہم خسارہ پانے والے ہوں گے۔ (الاعراف : ٢٣) ٢۔ دنیا اور آخرت کا خسارہ بہت بڑا خسارہ ہے۔ (الحج : ١١) ٣۔ جس کا نیکی والا پلڑا ہلکا ہوا خسارہ پائے گا۔ (الاعراف : ٩) ٤۔ جنھوں نے اللہ کی آیات کا انکار کیا وہ خسارہ پائیں گے۔ (الزمر : ٦٣) ٥۔ اگر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی تو تم خسارہ پانے والے ہوجا تے۔ (البقرۃ: ٦٤) ٦۔ جن کے اعمال برباد ہوگئے وہ خسارہ پائیں گے۔ (المائدۃ: ٥) ٧۔ ارکان اسلام کو چھوڑنے والے آخرت میں خسارہ پائیں گے۔ (النمل : ٥) ٨۔ اسلام سے رو گردانی کرنے والے دنیاء و آخرت میں خسارہ پائیں گے۔ (آل عمران : ٨٥) الاعراف
149 الاعراف
150 فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ موسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے کوہ طور پر مطلع فرمایا کہ تیری قوم نے بچھڑے کی پرستش شروع کردی ہے۔ تب موسیٰ (علیہ السلام) واپس تشریف لائے۔ ادھر موسیٰ (علیہ السلام) کی مدت اعتکاف پوری ہوئی اور انھیں تورات عنایت فرما دی گئی۔ اُدھر ان کی قوم نے بچھڑے کی پرستش شروع کردی۔ جس کی موسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ میں اطلاع دی کہ ” اے موسیٰ ٰتمہارے یہاں آنے کے بعد ہم نے تمہاری قوم کی آزمائش کی اور انھیں سامری نے گمراہ کردیا ہے۔“ (طٰہٰ، آیت : ٨٤) اب موسیٰ (علیہ السلام) غم و غصہ کی حالت میں قوم کی طرف واپس پلٹے اور اپنے بھائی ہارون (علیہ السلام) کو فرمایا کہ تم نے میری جانشینی کا حق ادا نہیں کیا تم برے جانشین ثابت ہوئے ہو۔ پھر بنی اسرائیل سے مخاطب ہو کر فرمایا اے لوگو! تم نے اپنے رب کا حکم آنے سے پہلے جلد بازی کا مظاہرہ کیا پھر تورات کی تختیاں ایک طرف پھینک دیں غم و غصہ کی حالت میں اپنے بھائی کے سر کے بالوں سے پکڑ کر اپنی طرف کھینچنے لگے جس کے جواب میں حضرت ہارون (علیہ السلام) نے نہایت عاجزانہ انداز اختیار کرتے ہوئے کہا کہ اے میرے مادر زاد بھائی میری قوم نے مجھے کمزور سمجھا اور قریب تھا کہ وہ مجھے جان سے مار دیتی آپ ترس کھائیں اور مجھ پر دشمنوں کو خوش ہونے کا موقع نہ دیں اور نہ ہی مجھے ظالموں کا ساتھی سمجھیں۔ اس پر موسیٰ (علیہ السلام) کے جذبات ٹھنڈے ہوئے اور انھوں نے اس حرکت پر نہ صرف اپنے لیے اللہ تعالیٰ سے معافی طلب کی بلکہ اپنے بھائی کے لیے بھی مغفرت کی دعا کی کہ اے میرے رب ہمیں معاف فرما کر اپنی رحمت کے دامن میں لے لیجیے۔ تو سب سے بڑا مہربان ہے۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے غیرت توحید میں آکر حضرت ہارون (علیہ السلام) پر ہاتھ اٹھایا جس پر انھوں نے اپنے رب کے حضور معافی مانگی اور حضرت ہارون (علیہ السلام) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے ہاتھوں مظلوم تھے پھر ان کے لیے جناب موسیٰ نے کیوں ان کے لیے بخشش کی دعا مانگی۔ اس کا سبب یہ معلوم ہوتا ہے کیونکہ حضرت ہارون (علیہ السلام) کو اپنا خلیفہ بنا کر گئے تھے۔ حضرت ہارون (علیہ السلام) قوم کے مقابلے میں کمزور واقع ہوئے اور قوم ان کے سامنے شرک میں مبتلا ہوگئی۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی خطا پر معافی مانگنے کے ساتھ حضرت ہارون (علیہ السلام) کی اس کمزوری پر بھی اللہ سے معافی طلب کی کیونکہ انسان سے گناہ دانستہ طور پر سرزد ہو یا غیر دانستہ طور پر اسے بہرحال اللہ تعالیٰ سے معافی کا خواستگار ہونا چاہیے۔ یہی قرآن مجید اور سنت سے ثابت ہے کہ انسان کو بھول چوک اور دانستہ کیے ہوئے گناہوں کی اللہ تعالیٰ سے معافی مانگتے رہنا چاہیے۔ حضرت ہارون (علیہ السلام) کے لیے معافی مانگنے کی وجہ ان کی دل جوئی بھی ہو سکتی ہے تاکہ حضرت ہارون (علیہ السلام) کو یقین ہوجائے کہ بھائی مجھ پر دلی طور پر راضی ہوچکے ہیں۔ حضرت موسیٰٰٰٗ ( علیہ السلام) مرتبہ کے لحاظ سے بڑے تھے۔ بزرگ دعا مانگتے ہیں اور چھوٹے آمین کہتے ہیں۔ تختیوں کے بارے میں بعض مفسرین نے بنی اسرائیل کی من گھڑت روایات کی بنیاد پر یہاں تک لکھ دیا ہے کہ سات میں سے چھ ٹوٹ گئیں جن میں دین کے متعلق مکمل تفصیلات تھیں انھیں آسمان پر اٹھا لیا گیا اور باقی جو بچی تھیں اس میں صرف عبادات کے مسائل تھے۔ اللہ تعالیٰ سے بھول چوک کی بھی معافی مانگنا چاہیے : ( رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَا إِنْ نَّسِینَا أَوْ أَخْطَأْنَا رَبَّنَا وَلَا تَحْمِلْ عَلَیْنَا إِصْرًا کَمَا حَمَلْتَہٗ عَلَی الَّذِینَ مِنْ قَبْلِنَا رَبَّنَا وَلَا تُحَمِّلْنَا مَا لَا طَاقَۃَ لَنَا بِہٖ وَاعْفُ عَنَّا وَاغْفِرْ لَنَا وَارْحَمْنَا أَنْتَ مَوْلَانَا فَانْصُرْنَا عَلَی الْقَوْمِ الْکَافِرِینَ) [ البقرۃ: ٢٨٦] ” اے ہمارے رب اگر ہم سے بھول چوک ہوجائے تو اس پر گرفت نہ کرنا اے ہمارے رب ہم پر اتنا بھاری بوجھ نہ ڈال جتنا تو نے ہم سے پہلے لوگوں پر ڈالا تھا۔ اے ہمارے رب جس بوجھ کو اٹھانے کی طاقت ہم میں نہیں ہے وہ ہم پر نہ ڈال ہم سے در گزر فرما، ہمیں بخش دے اور ہم پر رحم فرما تو ہی ہمارا مولا ہے لہٰذا کافروں کے مقابلے میں ہماری مدد فرما۔“ (عَنْ فَرْوَۃَ بْنِ نَوْفَلٍ الْأَشْجَعِیِّ (رض) قَالَ سَأَلْتُ عَاءِشَۃَ (رض) عَمَّا کَانَ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَدْعُو بِہِ اللّٰہَ قَالَتْ کَانَ یَقُول اللّٰہُمَّ إِنِّی أَعُوذُ بِکَ مِنْ شَرِّ مَا عَمِلْتُ وَمِنْ شَرِّ مَا لَمْ أَعْمَلْ) [ رواہ مسلم : کتاب الذکر والدعاء ] ” حضرت فروہ بن نوفل اشجعی (رض) فرماتے ہیں میں نے ام المومنین حضرت عائشہ (رض) سے رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعائیں جو وہ اللہ تعالیٰ سے مانگا کرتے تھے ان کے متعلق پوچھا۔ انہوں نے فرمایا نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرمایا کرتے تھے اے اللہ میں نے جو عمل کیا اور جو نہیں کیا اس سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔“ مسائل ١۔ موسیٰ (علیہ السلام) کو ان کی قوم گمراہ ہونے پر اللہ تعالیٰ نے مطلع فرمایا۔ ٢۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے غیرت توحید میں آکر اپنے بھائی کے سرکے بال کھینچے۔ ٣۔ اپنے اور مسلمان بھائیوں کے لیے اللہ تعالیٰ سے بخشش کی دعا مانگنا چاہیے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ سب سے زیادہ رحم کرنے والا ہے۔ تفسیر بالقرآن ظالموں کا ساتھی نہیں بننا چاہیے : ١۔ اے رب ہمارے ہمیں ظالم قوم سے بچا ئیو۔ (الاعراف : ٤٧) ٢۔ اے میرے رب مجھے ظالم قوم سے بچائیو۔ (المومنون : ٩٤) ٣۔ اے اللہ ہمیں ظالم قوم سے بچائیو۔ (یونس : ٨٥) ٤۔ اے میرے رب مجھے ظالم قوم سے نجات دے۔ (تحریم : ١١) الاعراف
151 الاعراف
152 فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ جن لوگوں نے بچھڑے کی پرستش کی ان کی سزا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) جب استغفار سے فارغ ہوئے تو انھوں نے اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق مشرکین کی سزا کا یہ فیصلہ کیا کہ جن لوگوں نے بچھڑے کی پرستش کی ہے ان کی سزا یہ ہے کہ ان کے قریبی عزیز ان کی گردنیں اڑا دیں۔ اس کی تفصیل ” سورۃ البقرہ“ کی آیت ٥٤ میں بیان ہوچکی ہے۔ ان پردنیا میں اللہ کا یہ غضب ہواکہ اپنے ہی اعزاء و اقرباء کے ہاتھوں مارے گئے۔ جو اللہ پر جھوٹ باندھتے ہیں انھیں ایسی ہی سزا ہوتی ہے کیونکہ انھوں نے دین اور ثواب کا جھانسہ دے کر ایک دوسرے کو گمراہ کیا تھا۔ اس مقام پر امام رازی (رض) نے امام مالک بن انس (رح) کا قول نقل کیا ہے کہ جو شخص اپنی طرف سے کوئی مسئلہ گھڑتا ہے یا شریعت سازی کرتا ہے وہ اللہ اور اس کے رسول پر جھوٹ باندھتا ہے۔ یہاں اس سزا کے مستحق جو لوگ بیان کیے گئے ہیں دو قسم کے ہیں۔ ١۔ جو موسیٰ (علیہ السلام) کی کوہ طور سے واپسی سے پہلے فوت ہوگئے انھیں قیامت کو سزا ملے گی۔ ٢۔ جو زندہ تھے انھیں دنیا میں ہی موحّدین کے ہاتھوں سزا دلوا کر معاف کردیا گیا۔ مشرکین کی سزا بیان کرنے کے بعد توبہ کے لیے عام اصول بیان کیا جا رہا ہے کہ بے شک شرک جیسا عظیم گناہ ہی کیوں نہ ہو۔ جو سچے دل کے ساتھ توبہ کریں اور آئندہ کے لیے اپنی اصلاح کرلیں ان کے گناہ معاف کردیے جائیں گے کیونکہ اللہ تعالیٰ بخشنے والا نہایت ہی مہربان ہے۔ (عَنْ اَنَسٍ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اَللّٰہُ اَشَدُّ فَرَحًا بِتَوْبَۃِ عَبْدِہٖ حِےْنَ ےَتُوْبُ اِلَےْہِ مِنْ اَحَدِکُمْ کَانَتْ رَاحِلَتُہُ بِاَرْضِ فُلَاۃٍ فَانْفَلَتَتْ مِنْہُ وَعَلَےْھَا طَعَامُہُ وَشَرَابُہُ فَاَےِسَ مِنْھَا فَاَتٰی شَجَرَۃً فَاضْطَجَعَ فِیْ ظِلِّھَا قَدْ اَےِسَ مِنْ رَّاحِلَتِہٖ فَبَےْنَمَا ھُوَ کَذَالِکَ اِذْ ہُوَ بِھَا قَآءِمَۃٌ عِنْدَہُ فَاَخَذَ بِخِطَامِھَا ثُمَّ قَالَ مِنْ شِدَّۃِ الْفَرَحِ اللّٰھُمَّ اَنْتَ عَبْدِیْ وَاَنَا رَبُّکَ اَخْطَاَ مِنْ شِدَّۃِ الْفَرَحِ۔ )[ مسلم] ” حضرت انس (رض) روایت کرتے ہیں کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کوئی اللہ کا بندہ جب توبہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی توبہ کرنے سے اس شخص سے بھی زیادہ خوش ہوتا ہے جس کی سواری اس کے کھانے پینے کے سامان کے ساتھ کسی بے آب وگیاہ میدان میں گم ہوگئی ہو۔ وہ اس کی تلاش سے مایوس ہو کر ایک درخت کے سائے تلے لیٹ جائے۔ مایوسی کے بعد اچانک اس سواری کو اپنے سامنے کھڑا پائے۔ اس کی لگام تھامتے ہوئے اور انتہائی خوشی سے پکار اٹھے۔ اے اللہ! تو میرا بندہ ہے اور میں تیرا پروردگار ہوں۔ اس بے پناہ خوشی کی وجہ سے بے ساختہ اتنی بری بات کہہ دیتا ہے۔“ مسائل ١۔ مشرک پر اللہ کا غضب ہوتا ہے اور وہ دنیا میں بھی ذلیل ہوتا ہے۔ ٢۔ مشرک اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھتا ہے۔ ٣۔ توبہ کرنے والے کے اللہ تعالیٰ گناہ معاف کردیتا ہے کیونکہ اللہ بڑا مہربان، رحم کرنے والا ہے۔ تفسیر بالقرآن مفتری اور اس کی سزا : ١۔ وہ بہت بڑا ظالم ہے جس نے اللہ پر جھوٹ باندھا یا اس کی آیات کو جھٹلایا۔ (الانعام : ٢١) ٢۔ جس نے اللہ پر جھوٹ باندھا وہ ناکام ہوا۔ (طٰہٰ: ٦١) ٣۔ وہ بڑا ظالم ہے جس نے اللہ پر جھوٹ باندھا تاکہ بغیر علم کے لوگوں کو گمراہ کرے۔ (الانعام : ١٤٥) ٤۔ وہ بڑا ظالم ہے جس نے اللہ پر جھوٹ باندھا یا نبوت کا دعویٰ کیا۔ (الانعام : ٩٣) ٥۔ وہ بہت بڑا ظالم ہے کہ جس نے اللہ پر جھوٹ باندھا۔ (الکہف : ١٥) ٦۔ ظالموں پر اللہ کی لعنت ہوتی ہے۔ (ھود : ١٨) ٧۔ اللہ ظالم قوم کو ہدایت نہیں دیتا۔ (التوبۃ: ١٠٩) ٨۔ اللہ ضرور ظالموں کو ہلاک کرے گا۔ (ابراہیم : ١٣) الاعراف
153 الاعراف
154 فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ : جب موسیٰ (علیہ السلام) کا غصہ فرو ہوا تو انھوں نے تورات کی تختیوں کو سنبھالا جو ہدایت کا منبع اور اللہ تعالیٰ کی رحمت کا سرچشمہ تھیں۔ ان لوگوں کے لیے جو اپنے رب سے جلوت اور خلوت میں ڈرنے والے ہیں۔ یہاں تورات کے دو اوصاف کا ذکر کیا گیا ہے جو ہر آسمانی کتاب کا وصف رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے جو کتاب بھی انسانوں کی ہدایت و رہنمائی کے لیے نازل فرمائی وہ اپنے دور میں لوگوں کی ہدایت کے لیے کافی تھی۔ آسمانی کتاب کا نزول اللہ تعالیٰ کا فضل اور اس کی رحمت ہوتا ہے۔ جس میں انبیاء کرام (علیہ السلام) کے ذریعے لوگوں کی ہدایت کا بندوبست کیا جاتا ہے۔ جو شخص بھی اللہ تعالیٰ کی ہدایت کے مطابق زندگی گزارے گا اس پر دنیا و آخرت میں اللہ کی رحمت برسے گی۔ اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ کتاب اس لیے بھی مجسمۂ رحمت ہوتی ہے کیونکہ اس کی تلاوت سے اجرو ثواب اور قلبی سکون رکھا ہے اور اس پر عمل پیرا ہونے سے آدمی کو مشکلات سے نجات اور آخرت میں عظیم الشان اجر و ثواب سے نوازا جائے گا۔ قرآن مجید کے اوصاف حمیدہ میں بھی یہ اوصاف کا مل اور اکمل انداز میں پائے جاتے ہیں۔ کیونکہ قرآن مجید لوگوں کی ہدایت کے لیے آخری کتاب ہے اس لیے جو شخص مشکلات سے نجات، آخرت کا اجر و ثواب اور اللہ تعالیٰ کی رحمت کا حق دار بننا چاہتا ہے۔ اسے قرآن مجید کی تلاوت اور اس پر پوری طرح عمل پیرا ہونے کی کوشش کرنی چاہیے۔ یقیناً اللہ تعالیٰ ہر قدم اور ہر لمحہ اس کی رہنمائی کرتے ہوئے اس پر اپنے فضل و کرم کا نزول فرمائے گا۔ بشرطیکہ اس کا دل اللہ تعالیٰ سے لرزاں و ترساں ہو۔ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)۔۔ وَمَا قَعَدَ قَوْمٌ فِی مَسْجِدٍ یَتْلُونَ کِتَاب اللّٰہِ وَیَتَدَارَسُونَہُ بَیْنَہُمْ إِلَّا نَزَلَتْ عَلَیْہِمُ السَّکِینَۃُ وَغَشِیَتْہُمُ الرَّحْمَۃُ۔۔)[ رواہ الترمذی : کتاب القرأت عن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)، باب ماجاء أن القران انزل علی سبعۃ احرف] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔۔ جو لوگ مسجد میں بیٹھ کر قرآن کی تلاوت کریں اور با ہم درس وتدریس کریں تو ان پر سکینت نازل ہوتی ہے اور رحمت انہیں لپیٹ لیتی ہے۔۔“ مسائل ١۔ تورات اپنے دور میں لوگوں کے لیے ہدایت و رہنمائی کا مرقع تھی۔ ٢۔ قرآن مجید آخری آسمانی کتاب ہے۔ جو شخص اس پر عمل کرے گا وہ اللہ کی ہدایت اور اس کی رحمت سے سرفراز ہوگا۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت اور ہدایت کے حق دار بننے کے لیے جلوت اور خلوت میں اس سے ڈرتے رہنا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن اللہ سے ڈرتے ہیں : ١۔ اللہ سے ڈر جاؤ اور جان لو بے شک اللہ تعالیٰ متقین کے ساتھ ہے۔ (البقرۃ: ١٩٤) ٢۔ اللہ سے ڈر جاؤ اور جان لو بے شک اللہ سخت سزا دینے والا ہے۔ (البقرۃ: ١٩٦) ٣۔ اللہ سے ڈر جاؤ اور جان لو تم اسی کی طرف جمع کیے جاؤ گے۔ (البقرۃ: ٢٠٣) ٤۔ اللہ سے ڈر جاؤ اور جان لو کہ تم اس سے ملنے والے ہو۔ (البقرۃ: ٢٢٣) ٥۔ اللہ سے ڈر جاؤ اور جان لو کہ اللہ کو ہر چیز کا علم ہے۔ (البقرۃ: ٢٣١) ٦۔ اللہ سے ڈر جاؤ اور جان لو کہ اللہ تمھارے اعمال کو دیکھتا ہے۔ (البقرۃ: ٢٣٣) ٧۔ اللہ سے ڈر جاؤ جس پر تمھارا ایمان ہے۔ (المائدۃ: ٨٨) ٨۔ اللہ سے ڈر جاؤ اے عقلمندو ! تاکہ تم فلاح پاؤ۔ (المائدۃ: ١٠٠) ٩۔ اے ایمان والو ! اللہ سے ڈر جاؤ جیسا کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے۔ (آل عمران : ١٠٢) ١٠۔ اللہ سے ڈر جاؤ کیونکہ وہ دلوں کے بھید جانتا ہے۔ (المائدۃ: ٧) ١١۔ اے ایمان والو! اللہ سے ڈر جاؤ اور سچی بات کہو۔ (الاحزاب : ٧٠) الاعراف
155 فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے تورات کی مبارک اور بابرکت تختیاں قوم کے سامنے پیش کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ اللہ تعالیٰ نے ہماری ہدایت کے لیے نازل فرمائی ہیں۔ لہٰذا ان پر خلوص دل اور پوری ہمت کے ساتھ عمل کرو۔ یقیناً اللہ تعالیٰ تمھیں دنیا میں عزت و عظمت اور ہر قسم کی نعمتیں عطا کرنے کے ساتھ آخرت کے انعام و اکرام سے مالا مال فرمائے گا۔ لیکن قوم نے اپنی عادت کے مطابق یہ کہہ کر تورات کو ماننے سے انکار کردیا کہ ہم کس طرح یقین کریں کہ واقعی یہ اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے نازل کردہ ہیں۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے رب کے حضور فریاد کی کہ بارِ الٰہا ! ان کی یقین دہانی کے لیے کوئی سبب پیدا فرما۔ چنانچہ اس پر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو حکم ہوا کہ اپنی قوم کے ٧٠ سربر آوردہ اشخاص لے کر کوہ طور پر حاضر ہوجاؤ۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) قوم کے ستر نمائندوں کو ساتھ لے کر اللہ تعالیٰ کی ملاقات کے لیے کوہ طور کے دامن پہنچے تو ان پر گہرا بادل سایہ فگن ہوا۔ اس میں اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) سے کلام فرمایا لیکن ان کی قوم کہنے لگی : (وَاِذْ قُلْتُمْ یٰمُوْسیٰ لَنْ نُّؤْ مِنَ لَکَ حَتّٰی نَرَی اللّٰہَ جَہْرَۃً فَاَخَذَتْکُمُ الصّٰعِقَۃُ وَاَنْتُمْ تَنْظُرُوْنَ) (سورۃ البقرۃ، آیت : ٥٥) ” اور اے موسیٰ ! ہم اس وقت تک ہرگز ایمان نہیں لائیں گے جب تک بالکل اللہ تعالیٰ کو اپنے سامنے نہ دیکھ لیں۔“ تب ان پر اللہ تعالیٰ کا غضب نازل ہوا۔ اوپر سے زور دار بجلی کا کڑکا ہوا۔” اور ہماری طے شدہ میعاد کے لیے موسیٰ نے اپنی قوم سے ستر آدمی چن لیے، پھر جب انھیں زلزلے نے آلیا تو موسیٰ نے عرض کی : اے رب اگر تو چاہتا تو اس سے پہلے انھیں اور مجھے بھی ہلاک کرسکتا تھا کیا تو ہم سب کو اس وجہ سے ہلاک کرتا ہے جو ہم میں سے کچھ احمقوں نے کیا؟ یہ تیری آزمائش تھی جس سے تو جسے چاہے گمراہ کرتا ہے اور جسے چاہے ہدایت دیتا ہے تو ہمارا سرپرست ہے۔ لہٰذا ہمیں معاف فرما اور ہم پر رحم فرما اور تو بہترین معاف کرنے والا ہے۔“ (الاعراف : ١٥٥) یہ صورت حال پہلے سے بھی نازک تھی نہ معلوم موسیٰ (علیہ السلام) کے دل و دماغ میں کیا کیا خدشات اور خیالات پیدا ہوئے ہوں گے کہ ان حالات میں قوم میرے ساتھ کیا سلوک کرے گی پھر وہ اپنے رب کے حضور عرض کرنے لگے کہ اے اللہ! یہ تیری طرف سے بہت بڑی آزمائش ہے تو جسے چاہے اپنی آزمائش کے ساتھ گمراہ کر دے اور جسے چاہے اسی آزمائش کے ساتھ ہدایت سے سرفراز کر دے تو ہی ہمارا ولی اور آقا ہے۔ بس ہمیں معاف کر اور ہم پر رحم فرما۔ تجھ سے بہتر کوئی معاف کرنے والا نہیں۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی آہ و زاریاں قبول ہوئیں اور اللہ تعالیٰ نے مرنے والوں کو دوبارہ زندگی عنایت فرمائی۔ اس طرح ایک طرف ستر آدمیوں پر احسان فرمایا اور دوسری طرف قوم کو مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہونے کا ثبوت فراہم کیا۔ اس پرستر آدمیوں کی شخصی شہادت قائم فرمائی۔ قوم کو یہ بھی باور ہوگیا کہ جس طرح ہمارے نمائندوں پر اچانک گرفت ہوئی ہے اسی طرح ہمیں بھی اللہ تعالیٰ کسی وقت پکڑ سکتا ہے۔ مسائل ١۔ آزمائش اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتی ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ کچھ لوگوں کو ان کی بد اعمالیوں کی وجہ سے گمراہ کرتا ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ معاف کرنے اور رحم فرمانے والا ہے۔ الاعراف
156 فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ جب موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھی زندہ ہوگئے اور موسیٰ (علیہ السلام) کو اطمینان ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے انھیں معاف فرمادیا ہے تو انھوں نے اس کرم نوازی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے رب کے حضور یہ بھی دعا کی اے اللہ! ہمارے لیے اس دنیا کی ” حَسَنَۃً“ لکھ دیجیے اور آخرت کو بھی بہتر فرما دیجیے۔ یقیناً ہم تیری طرف رجوع کرنے والے ہیں۔ ” حَسَنَۃً“ سے مراد اللہ تعالیٰ کی وہ نعمت ہے جس کے ملنے سے آدمی کے دل کو سکون اور ایمان میں اضافہ ہو۔ پھر اس کا آخرت میں بھی پورا پورا اجر مل جائے۔ اس لیے مومنوں کو یہ تعلیم دی گئی کہ جب بھی وہ اپنے رب سے کوئی چیز طلب کریں انھیں دنیا و آخرت کی بھلائی طلب کرنی چاہیے۔ (البقرۃ ٢٠١) موسیٰ (علیہ السلام) کی دعا کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میرا عذاب مجرم کو ضرور پہنچے گا جسے میں چاہوں گا لیکن یاد رکھو کہ میری رحمت میرے عذاب اور ہر چیز سے وسیع تر ہے۔ جو ہر اس شخص کے نصیب میں آئے گی جس میں یہ خوبیاں پائی جائیں گی۔ ١۔ تقویٰ اختیار کرنے والا۔ ٢۔ زکوٰۃ ادا کرنے والا۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ کے احکام پر مکمل ایمان لانے والا۔ ٤۔ نبی آخر الزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اتباع کرنے والا۔ ٥۔ نبی آخرالزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لانے کے ساتھ آپ کی توقیر اور حمایت کرنے والا۔ ٦۔ قرآن مجید کی اتباع کرنے والا ہوگا۔ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ إِنَّ اللّٰہَ لَمَّا قَضَی الْخَلْقَ کَتَبَ عِنْدَہٗ فَوْقَ عَرْشِہٖ إِنَّ رَحْمَتِی سَبَقَتْ غَضَبِیْ) [ رواہ البخاری : کتاب التوحید، باب وکان عرشہ علی الماء ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب اللہ تعالیٰ کائنات کی تخلیق سے فارغ ہوا تو اپنی کتاب میں جو کہ اللہ تعالیٰ کے پاس ہے عر ش کے اوپر لکھا میری رحمت میرے غضب پر غالب ہے۔“ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ إِنَّ لِلّٰہِ ماءَۃَ رَحْمَۃٍ قَسَمَ مِنْہَا رَحْمَۃً بَیْنَ جَمِیعِ الْخَلَاءِقِ فَبِہَا یَتَرَاحَمُونَ وَبِہَا یَتَعَاطَفُونَ وَبِہَا تَعْطِفُ الْوَحْشُ عَلَی أَوْلَادِہَا وَأَخَّرَ تِسْعَۃً وَتِسْعِینَ رَحْمَۃً یَرْحَمُ بِہَا عِبَادَہُ، یَوْمَ الْقِیَامَۃِ)[ رواہ ابن ماجۃ: کتاب الزہد، باب مایرجی من رحمۃ اللہ یوم القیامۃ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان نقل کرتے ہیں کہ نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بلا شبہ اللہ تعالیٰ کے پاس رحمت کے سو حصے ہیں اللہ تعالیٰ نے ایک حصہ تمام مخلوق میں تقسیم کیا ہے۔ اسی وجہ سے وہ باہم محبت وشفقت سے پیش آتے ہیں اور اسی وجہ سے ہی وحشی جانور اپنے بچوں سے محبت کرتے ہیں۔ باقی ننانوے حصے اللہ تعالیٰ نے اپنے پاس رکھے ہیں جن سے وہ قیامت کے دن اپنے بندوں پر رحم فرمائے گا۔“ (عَنْ أَنَسٍ (رض) قَالَ کَان النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَقُول اللّٰہُمَّ رَبَّنَا اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَفِی الْاٰخِرَۃِ حَسَنَۃً وَقِنَا عَذَاب النَّارِ) [ رواہ البخاری : کتاب تفسیر القران، باب ومنہم من یقول ربنا] ” حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرمایا کرتے تھے اے اللہ ! ہمیں دنیا میں بھلائی عطا فرما اور آخرت میں بھی ہمیں بھلائی عنایت فرما اور ہمیں آگ کے عذاب سے بچا۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ سے دنیا و آخرت کی حسنۃً مانگنا چاہیے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ مجرم کو معاف کرنے یا اس کو سزا دینے کا مکمل اختیار رکھتا ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت ہر چیز پر حاوی اور محیط ہے۔ الاعراف
157 فہم القرآن ربط کلام : اس سے پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ کی رحمت کے مستحق قرار دیے گئے لوگ (١) صاحب تقویٰ (٢) زکوٰۃ ادا کرنے والے (٣) اللہ تعالیٰ کی آیات پر مکمل ایمان لانے والے لوگ بیان کیے گئے ہیں۔ اب رحمت کے مستحق حضرات کے لیے مزید بنیادی شرائط بیان کی جاتی ہیں۔ مندرجہ بالا صفات رکھنے والے تب اللہ تعالیٰ کی رحمت کے مستحق ہوں گے اگر وہ حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت سے پہلے فوت ہوچکے ہوں۔ جب سے نبی آخر الزماں (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نبوت کا اعلان کیا اس کے بعد کوئی شخص مذکورہ بالا اوصاف کا مالک ہی کیوں نہ ہو اس کا ایمان، کردار اور تقویٰ اس وقت تک قبول نہیں ہوگا جب تک وہ نبی امیّ پر ایمان لاکر آپ کی ذات والا صفات کے حوالے سے درج ذیل تقاضے پورے نہ کرے۔ ١۔ حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت اور ختم نبوت پر مکمل ایمان رکھنا۔ ٢۔ آپ سے دل کی گہرائیوں سے حمیت آپ کی توقیر اور اطاعت کرنا۔ ٣۔ مال و جان کے ساتھ آپ کی نصرت و حمایت کرنا۔ ٤۔ اس نور کی روشنی میں زندگی بسر کرنا جس کے ساتھ آپ دنیا میں مبعوث فرمائے گئے ہیں۔ قرآن مجید میں حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پہلی صفت جو بیان کی گئی ہے وہ ” اَلنَّبِیَ الْاُمِیُّ“ ہے امی کے مفسرین نے چار معانی بیان کیے ہیں۔ ١۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اللہ تعالیٰ کے سوا کسی شخص سے نہ سیکھا نہ پڑھا اس لیے آپ امی ہیں۔ ٢۔ آپ شہر مکہ میں پیدا ہوئے جسے قرآن مجید نے امّ القرایٰ قرار دیا ہے اس نسبت سے آپ امی ہیں۔ ٣۔ آپ بنی اسماعیل میں سے ہیں کیونکہ نبوت ہمیشہ بنی اسرائیل میں رہی ہے اس لیے اہل کتاب بنی اسماعیل کو امی کہتے ہیں گویا کہ امی سے مراد بنی اسماعیل کا نبی۔ ٤۔ آپ قیامت کے روز سب سے بڑی امت کے نبی ہوں گے اس لیے کچھ اہل علم کا خیال ہے کہ اس بنا پر آپ کو النبی الامی کے لقب سے ملقب فرمایا گیا ہے۔ اہل کتاب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نام اور امی کے لقب سے پوری طرح واقف ہیں کیونکہ تورات اور انجیل میں آپ کے اسم گرامی اور امی کا ذکر بار بار پایا جاتا ہے۔ تورات اور انجیل میں یہ بھی موجود ہے کہ آپ اہل کتاب اور پوری دنیا کو معروف کا حکم دیں گے، منکر سے منع کریں گے اور اہل کتاب کے لیے بہت سی حرام چیزیں حلال قرار دیں گے جو ان کی مسلسل نافرمانیوں کی وجہ سے محض سزا کے طور پر ان پر حرام کی گئی تھیں اور ناپاک چیزوں کو حرام کریں گے۔ آپ اہل کتاب اور بنی نوع انسان کے کندھوں سے وہ ناروا بوجھ اتار ڈالیں گے جو ان کے پیشہ ور علماء اور مفاد پرست درویشوں اور صوفیوں نے دین کے نام پر ڈال رکھے ہیں۔ تورات اور انجیل میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی یہ صفت بھی موجود ہے کہ آپ من ساختہ شریعت کی بنیاد پر ناروا لگائی گئی پابندیوں سے آزاد کرنے کے ساتھ لوگوں کی سیاسی، سماجی غلامی کی زنجیروں کو توڑ پھینکیں گے۔ بس وہ لوگ جو آپ پر کامل ایمان لائیں، آپ کی دل و جان سے عزت و توقیر کریں گے، اور اپنے مال و جان کے ساتھ آپ کی حمایت پر کمربستہ ہوں گے اور قرآن مجید کی صورت میں جو آپ پر نورِہدایت نازل کیا گیا ہے اس کی پیروی کریں گے۔ وہی دنیا میں کامیاب اور آخرت میں فلاح پائیں گے۔ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ عَنْ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) أَنَّہٗ قَالَ وَالَّذِی نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِیَدِہٖ لَا یَسْمَعُ بِی أَحَدٌ مِنْ ہٰذِہِ الْأُمَّۃِ یَہُودِیٌّ وَلَا نَصْرَانِیٌّ ثُمَّ یَمُوتُ وَلَمْ یُؤْمِنْ بالَّذِی أُرْسِلْتُ بِہٖ إِلَّا کَانَ مِنْ أَصْحَاب النَّارِ) [ رواہ مسلم : کتاب الایمان، باب وجوب الایمان] ” حضرت ابوہریرہ (رض) نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا بیان نقل کرتے ہیں بلا شبہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اس ذات کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں محمد کی جان ہے ! تمام لوگوں یعنی یہود یوں اور عیسائیوں میں سے کوئی بھی شخص میرا پیغام سنے اور اس چیز پر ایمان نہ لائے جس کے ساتھ مجھے مبعوث کیا گیا ہے تو وہ جہنم میں جائے گا۔“ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ أَنَّ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ فَوَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِہٖ لَا یُؤْمِنُ أَحَدُکُمْ حَتّٰی أَکُونَ أَحَبَّ إِلَیْہِ مِنْ وَالِدِہٖ وَوَلَدِہٖ )[ رواہ البخاری : کتاب الایمان، باب حب الرسول من الایمان] ” حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں بلا شبہ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اس ذات کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے! تم میں کوئی بھی اس وقت تک ایماندار نہیں ہوسکتا یہاں تک کہ میں اس کے والد اور اولاد سے زیادہ محبوب نہ ہوجاؤں۔“ (لِتُؤْمِنُوْا باللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ وَتُعَزِّرُوْہُ وَتُوَقِّرُوْہُ وَتُسَبِّحُوہُ بُکْرَۃً وَّأَصِیْلًا)[ سورۃ الفتح : ٩) ” تاکہ تم اللہ پر اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور اس کی مدد کرو اور اس کی تعظیم کرو اور صبح و شام اللہ کی تسبیح کرو۔“ مسائل ١۔ نبی آخر الزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اللہ تعالیٰ کے سوا کسی سے نہ کچھ پڑھا اور نہ کچھ سیکھا۔ ٢۔ اہل کتاب کے وہی ایمان دار نجات پائیں گے جو حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لائیں گے۔ ٣۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لانے کے بنیادی تقاضے یہ ہیں کہ آپ کی دل و جان سے تعظیم اور مال و جان سے حمایت کی جائے۔ ٤۔ قرآن مجید پر ایمان لانے اور اس پر حتی المقدور عمل کرنے سے ہی آدمی کو دنیا میں کامیابی اور آخرت میں نجات نصیب ہوگی۔ تفسیر بالقرآن نبی مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا احترام کرو : ١۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دور سے آواز نہ دی جائے۔ (الحجرات : ٤) ٢۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آواز سے اونچی آواز نہ کی جائے۔ (الحجرات : ٢ ) ٣۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے آگے قدم نہ اٹھایا جائے۔ (الحجرات : ١) ٤۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مکمل اتباع کی جائے۔ (محمد : ٣٣) الاعراف
158 فہم القرآن ربط کلام : یہود و نصاریٰ کو ایمان کی دعوت کے ساتھ بنی نوع انسان کو ایمان کی دعوت اور قرآن مجید میں رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ذکر گرامی آپ کی زبان اطہر سے نبوت کا اعلان۔ قرآن مجید کے مختلف مقامات میں نبی آخر الزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت و رسالت کا تذکرہ موجود ہے لیکن اس مقام پر آپ کی زبان اطہر سے یہ کہلوایا گیا ہے کہ اے رسول! آپ از خود اعلان کریں کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے سب کے لیے اپنا رسول بنا کر بھیجا ہے۔ سب سے مراد ہر علاقے اور ہر زمانے کے لوگ ہیں۔ امام ابن کثیر (رض) نے اس آیت سے آپ کی ختم نبوت کا استدلال کیا ہے۔ کیونکہ آپ دنیا کے تمام انسانوں کے لیے رسول منتخب کیے گئے ہیں لہٰذا آپ کے بعد اب کسی نبی اور رسول کی گنجائش نہیں۔ یہاں آپ کی عالمگیر نبوت کا یہ بھی ثبوت ہے جس طرح اللہ تعالیٰ زمین و آسمان کا بلا شرکت غیرے مالک اور معبود ہے اسی طرح کسی شراکت کے بغیر آپ بھی قیامت تک کے لیے بنی نوع انسان کے لیے رسول ہیں۔ ” الٰہ“ کا معنی ہے معبود، خالق، مالک، رازق اور حاجت روا مشکل کشا۔ دلائل کے طور پر سورۃ النمل آیت ٦٠ تا ٦٤ کی تلاوت کیجیے۔ جب اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی خالق و مالک اور معبود نہیں تو پھر اسی کی ذات کبریاء پر کامل اور اکمل ایمان لانا چاہیے۔ جس طرح اللہ تعالیٰ اپنی ذات اور صفات میں اکیلا ہے اسی طرح حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی نبوت و رسالت میں اکیلے ہیں۔ لہٰذا کلمہ کی تکمیل اور توحید کے تقاضے تب ہی پورے ہو سکتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خاتم المرسلین تسلیم کرکے ان پر ایمان لایا جائے اور آپ کی رسالت کا مرکزی اور بنیادی تقاضا یہ ہے کہ جو روشنی آپ پر نازل ہوئی وہ قرآن مجید کی شکل میں ہو یا حدیث کی صورت میں اس کی اتباع کی جائے۔ اتباع کرنے والا ہی ہدایت یافتہ ہوگا۔ (عَنْ أَبِی ذَرٍّ (رض) قَالَ قَالَ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) أُعْطِیْتُ خَمْسًا لَمْ یُعْطَہُنَّ أَحَدٌ قَبْلِی بُعِثْتُ إِلَی الْأَحْمَرِ وَالْأَسْوَدِ وَجُعِلَتْ لِیَ الْأَرْضُ طَہُورًا وَمَسْجِدًا وَأُحِلَّتْ لِیَ الْغَنَاءِمُ وَلَمْ تَحِلَّ لِأَحَدٍ قَبْلِی وَنُصِرْتُ بالرُّعْبِ فَیُرْعَبُ الْعَدُوُّ وَہُوَ مِنِّی مَسِیْرَۃَ شَہْرٍ وَقِیلَ لِیْ سَلْ تُعْطَہْ وَاخْتَبَأْتُ دَعْوَتِیْ شَفَاعَۃً لِأُمَّتِی فَہِیَ نَاءِلَۃٌ مِنْکُمْ إِنْ شَاء اللَّہُ تَعَالَی مَنْ لَّمْ یُشْرِکْ باللَّہِ شَیْءًا)[ مسند احمد] ” حضرت ابوذر (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ مجھے پانچ ایسی چیزیں عنایت کی گئی ہیں جو مجھ سے پہلے کسی نبی کو عطا نہیں ہوئیں۔ ١۔ مجھے اللہ تعالیٰ نے ہر کالے اور گورے کے لیے رسول بنایا ہے۔ ٢۔ میرے لیے ساری زمین پاک اور مسجد بنادی گئی ہے۔ ٣۔ میرے لیے مال غنیمت حلال کیا گیا ہے جبکہ مجھ سے پہلے کسی رسول کے لیے حلال نہیں تھا۔ ٤۔ میری رعب سے مدد فرمائی گئی ہے کیونکہ ایک مہینہ کی مسافت پر ہونے کے باوجود دشمن مجھ سے لرزاں رہتا ہے۔ ٥۔ مجھے قیامت کے دن کہا جائے گا مانگیں عطا کیا جائے گا اور میری امت کے حق میں میری شفاعت قبول کی جائے گی۔ جس نے اللہ کے ساتھ شرک نہ کیا ہوگا اس کو میری شفاعت پہنچے گی۔“ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ أَنَّ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ فُضِّلْتُ عَلَی الْأَنْبِیَاءِ بِسِتٍّ أُعْطِیْتُ جَوَامِعَ الْکَلِمِ وَنُصِرْتُ بالرُّعْبِ وَأُحِلَّتْ لِیَ الْغَنَاءِمُ وَجُعِلَتْ لِیَ الْأَرْضُ طَہُورًا وَمَسْجِدًا وَأُرْسِلْتُ إِلَی الْخَلْقِ کَافَّۃً وَخُتِمَ بِیَ النَّبِیُّونَ) [ رواہ مسلم : کتاب المساجد، و مواضع الصلاۃ ] دوسرے موقعے پر حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ آپ نے یوں فرمایا مجھے انبیاء پر چھ فضیلتیں عنایت کی گئی ہیں۔ ١۔ مجھے جوامع الکلم کی صلاحیت عطا کی گئی۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے خصوصی رعب اور دبدبہ سے میری مدد فرمائی ہے۔ ٣۔ مال غنیمت میرے لیے حلال کردیا گیا۔ ٤۔ میرے لیے ساری زمین کو پاک اور مسجد بنا دیا گیا۔ ٥۔ مجھے تمام انسانوں کے لیے رسول بنایا گیا اور مجھ پر سلسلۂ نبوت ختم کردیا گیا۔ (عَنْ تَمِیمٍ الدَّارِیِّ (رض) قَالَ سَمِعْتُ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَقُولُ لَیَبْلُغَنَّ ہَذَا الأَمْرُ مَا بَلَغَ اللَّیْلُ وَالنَّہَارُ وَلاَ یَتْرُکُ اللَّہُ بَیْتَ مَدَرٍ وَلاَ وَبَرٍ إِلاَّ أَدْخَلَہُ اللَّہُ ہَذَا الدِّینَ بِعِزِّ عَزِیزٍ أَوْ بِذُلِّ ذَلِیلٍ عِزًّا یُعِزُّ اللَّہُ بِہِ الإِسْلاَمَ وَذُلاًّ یُذِلُّ اللَّہُ بِہِ الْکُفْرَوَکَانَ تَمِیمٌ الدَّارِیُّ یَقُولُ قَدْ عَرَفْتُ ذَلِکَ فِی أَہْلِ بَیْتِی لَقَدْ أَصَابَ مَنْ أَسْلَمَ مِنْہُمُ الْخَیْرُ وَالشَّرَفُ وَالْعِزُّ وَلَقَدْ أَصَابَ مَنْ کَانَ مِنْہُمْ کَافِراً الذُّلُّ وَالصَّغَارُ وَالْجِزْیَۃُ)[ مسند احمد] ” حضرت تمیم داری (رض) بیان کرتے ہیں میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے ہوئے سنا آپ نے فرمایا اسلام وہاں تک پہنچے گا جہاں جہاں رات دن کا سلسلہ چلتا ہے کوئی کچاپکامکان ایسا نہیں ہوگا جس میں یہ دین داخل نہ ہوعزت دار کی عزت کے ساتھ یا ذلیل کو ذلت کے ساتھ اللہ تعالیٰ عزت والے کو اسلام کی بنیاد پر عزت سے نوازے گا اور کافر کو اس کی وجہ سے ذلیل کرے گا۔ حضرت تمیم داری کہا کرتے تھے میرے گھر میں جو عزت وبھلائی ہے وہ اسلام کی وجہ سے ہے اور کافر کو اسلام نہ لانے کی وجہ سے ذلت، کمتری اور جزیہ سے دوچار ہوناپڑتا ہے۔“ مسائل ١۔ حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قیامت تک کے لیے تمام انسانوں کے لیے رسول بنائے گئے ہیں۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ زندہ، ہمیشہ قائم ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ ٣۔ قرآن و سنت کی اتباع کرنے والا ہی ہدایت یافتہ ہوسکتا ہے۔ تفسیر بالقرآن رسول مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اوصاف کی ایک جھلک : ١۔ آپ کے اوصاف تورات اور انجیل میں موجود ہیں۔ (الاعراف : ١٥٧) ٢۔ قرآن پڑھ کر سنانا، کتاب و حکمت کی تعلیم دینا، لوگوں کا تزکیۂ نفس کرنا۔ (البقرۃ : ١٢٩، الجمعۃ: ٢) ٣۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خلق عظیم کے مالک ہیں۔ (القلم : ٤) ٤۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بشیر اور نذیر ہیں۔ (الفتح : ٨) ٥۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بہترین نمونہ ہیں۔ (الاحزاب : ٢١) ٦۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رحمت عالم ہیں۔ (الانبیاء : ١٠٧) ٧۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لوگوں کے بوجھ اتارنے والے ہیں۔ (الاعراف : ١٥٧) ٨۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لوگوں کے ہمدرد اور خیر خواہ بنائے گئے۔ (التوبۃ: ١٢٨) ٩۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں لیکن آپ اللہ کے رسول اور خاتم النبّیین ہیں۔ (الاحزاب : ٤٠) ١٠۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کی طرف بلانے والے اور آپ کو روشن چراغ بنایا گیا ہے۔ (الاحزاب : ٤٦) ١١۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ساری دنیا کے لیے رسول مبعوث کیا گیا۔ (السبا : ٢٨) ١٢۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے ساتھی کفار کے لیے بڑے سخت اور آپس میں بڑے رحمدل ہیں۔ (الفتح : ٢٩) الاعراف
159 فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ : قرآن مجید کا یہ اسلوب بیان ہے کہ وہ کسی بات کو واقعہ برائے واقعہ اور داستان گوئی کے لیے بیان نہیں کرتا۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) کے قصہ کے سوا کسی ایک نبی کا قصہ کسی ایک مقام پر مسلسل بیان نہیں کیا گیا بلکہ قصہ کا وہی حصہ بیان کیا جاتا ہے جس سے ایک خاص نقطہ اور نصیحت بیان کرنا مقصود ہوتی ہے۔ پھر قرآن مجید کا کمال اور اس کی انصاف پسندی یہ ہے کہ اس نے کسی قوم کے جرائم بیان کرتے ہوئے اس قوم کو کلیتاً مجرم قوم قرار نہیں دیا بلکہ ان کے اچھے لوگوں کو مستثنیٰ قرار دے کر ان کے اچھے کردار کی تعریف کی ہے۔ اسی اصول اور اسلوب کے پیش نظر یہاں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی قوم کے ان اچھے لوگوں کی تعریف کی جا رہی ہے جو حالات کی سنگینی کے باوجود نہ صرف حق پر قائم رہے بلکہ حق کی تلقین اور ہمیشہ عدل کی بات کرتے رہے۔ جنھیں تھوڑے ہونے کے باوجود اللہ تعالیٰ نے ایک امت قرار دیا ہے کیونکہ حق پر قائم رہنے والے لوگ خواہ کتنے ہی تھوڑے کیوں نہ ہوں وہ اپنے صالح کردار اور توحید پر مبنی عقیدہ کی وجہ سے ایک امت کا درجہ رکھتے ہیں۔ اسی لیے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو ایک امت قرار دیا ہے۔ (النمل، آیت : ١٢١) قرآن مجید میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی قوم کے جن پاکباز لوگوں کو امت کے درجے پر فائز کیا گیا ہے ان کی وضاحت کرتے ہوئے مفسرین نے لکھا ہے کہ ان سے مراد موسیٰ (علیہ السلام) کے سچے متبعین اور ان کے بعد عیسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لانے والے لوگ ہیں۔ جب نبی آخر الزماں (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کا اعلان ہوا تو جو آپ کی رسالت پر ایمان لائے ہیں۔ یہی لوگ حق کی رہنمائی کرنے اور اس کے مطابق عمل کرنے والے تھے۔ (عَن سَعِیدِ بْنِ زَیْدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ نُفَیْلٍ، وَعُمَرَ بْنَ الْخَطّابِ (رض) قَالَا لِرَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) أَتَسْتَغْفِرُ لِزَیْدِ بْنِ عَمْرٍو ؟ قَالَ نَعَمْ فَإِنّہُ یُبْعَثُ أُمَّۃً وَّاحِدًا) [ سیرۃ ابن ہشام] ” حضرت سعید بن زید بن عمرو بن نفیل اور عمر بن خطاب (رض) دونوں نے رسول مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دریافت کیا آپ زید بن عمر و کے لیے استغفار کرتے ہیں ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہاں بلاشبہ وہ اکیلا ایک جماعت کی طرح ہے۔“ الاعراف
160 فہم القرآن ربط کلام : موسیٰ (علیہ السلام) کی قوم ہدایت کے اعتبار سے دو حصوں میں تقسیم تھی ایک طبقہ ہمیشہ حق پر قائم رہا جبکہ دوسرا طبقہ حق و باطل کی کشمکش میں پھسلتا اور سنبھلتا رہا۔ اب بار بار پھسلنے والے طبقے کا ذکر دوبارہ شروع ہوتا ہے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی قوم بنیادی طور پر مختلف قبائل میں بٹی ہوئی تھی جن کی تقسیم مفسّریننے یوں بیان کی ہے کہ حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے دس بیٹے تھے اس قوم کے دس قبائل انھی کی طرف منسوب تھے۔ دو قبیلوں کی نسبت حضرت یوسف (علیہ السلام) کے دو بیٹوں کی طرف تھی اس طرح یہ بارہ قبائل بنے۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں باہمی جنگ و جدال سے بچانے کے لیے بارہ چشموں کا انتظام فرمایا تاکہ یہ لوگ اپنے اپنے پڑاؤ میں رہ کر اپنے متعین کردہ چشموں سے پانی حاصل کریں۔ یہ واقعہ سورۃ البقرۃ کی آیات ٥٧ تا ٦١ میں تفصیلی طور پر بیان ہوچکا ہے۔ جس کا خلاصہ یہ ہے کہ جب بنی اسرائیل بحر قلزم عبور کرکے صحرائے سینا میں پہنچے تو اللہ تعالیٰ نے انھیں حکم دیا کہ تم بیت المقدس میں داخل ہوجاؤ فتح تمھارے مقدر میں لکھ دی گئی ہے۔ لیکن انھوں نے یہ کہہ کر انکار کیا کہ وہاں رہنے والے لوگ بڑے جبار اور طاقتور ہیں ہم ان کے ساتھ جہاد نہیں کرسکتے، لہٰذا اے موسیٰ تو اور تیرا خدا جا کر ان سے جنگ کرے ہم تو یہیں ٹھہرے رہیں گے۔ اس پر انھیں سزا کے طور پر چالیس سال کے لیے صحرائے سینا میں مقید کردیا گیا۔ (المائدہ، آیت : ٢٠ تا ٢٦) تاکہ ان کی پرانی نسل ختم ہو اور نئی نسل آزاد ماحول میں حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون (علیہ السلام) کی خصوصی تربیت میں جوان ہو۔ کیونکہ یہ لاکھوں کی تعداد میں تھے اور صحرائے سینا ایک لق ودق وادی تھی جس میں اکل و شرب کا کوئی انتظام نہیں تھا اور نہ ہی یہاں کسی قسم کی شادابی تھی کہ یہ لوگ درختوں کے سائے تلے گزارہ کرسکیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان پر عظیم احسان کرتے ہوئے ان کے لیے پانی کا انتظام یوں کیا کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو حکم دیا کہ پتھر پر اپنا عصا مارو اس سے بارہ چشمے جاری ہوں گے ان میں ہر ایک کے لیے الگ الگ چشمے مقرر کردیے گئے اور کھانے کے لیے آسمان سے من سلویٰ اتارا جاتا رہا۔ حکم دیا کہ اللہ تعالیٰ کے دیے ہوئے رزق سے کھاتے پیتے رہو مگر کسی قسم کا فساد نہ کرو۔ لیکن کچھ عرصے کے بعد اس قوم نے یہ مطالبہ کر ڈالا کہ اے موسیٰ ! ہم ایک ہی طرح کے کھانے پر صبر نہیں کرسکتے۔ اس پر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے انھیں سمجھایا کہ کیا تم بہتر کے مقابلہ میں کم تر چیز کو پسند کرتے ہو۔ اس کے بدلہ میں ان پر ذلت اور مسکنت مسلط کردی گئی۔ جس کی تفصیل سورۃ البقرہ، آیت : ٦١ میں گزر چکی ہے۔ یہاں ان کی ناشکری اور سزا کا ذکر کرنے کی بجائے صرف اتنا فرمایا ہے کہ ان کا ایسا کرنا ہم پر کچھ زیادتی نہ تھی جو کچھ انھوں نے کیا اپنے ہی خلاف کیا۔ اور اپنے آپ پر زیادتی کی۔ حقیقت یہ ہے کہ جب بھی کوئی شخص گناہ کرتا ہے تو اس سے اللہ تعالیٰ کو کوئی نقصان نہیں ہوتا۔ مسائل ١۔ بنی اسرائیل کی پے درپے نافرمانیوں کے باوجود اللہ تعالیٰ نے انھیں من وسلویٰ اور چشموں کا پانی عنایت فرمایا۔ ٢۔ انسان کے گناہ کا اللہ تعالیٰ پر کوئی اثر نہیں ہوتا اس کا نقصان انسان کو ہی اٹھانا پڑتا ہے۔ تفسیر بالقرآن یہودیوں کے ظلم : ١۔ یہودی اپنی جانوں پر ظلم کرنے والے ہیں۔ (آل عمران : ١١٧) ٢۔ اللہ کی کتاب میں تحریف کرنا ظلم ہے۔ (البقرۃ: ٧٥) ٣۔ یہودیوں کا مریم صدیقہ پر الزام لگانا ظلم ہے۔ (النساء : ١٥٦) ٤۔ یہودیوں کا عیسیٰ (علیہ السلام) کو قتل کرنے کا دعویٰ کرنا ظلم ہے۔ (النساء : ١٥٧) ٥۔ آیات اللہ کا انکار کرناظلم ہے۔ (النساء : ١٥٣) ٦۔ یہودیوں کا انبیاء کو بغیر حق کے قتل کرنا ظلم ہے۔ (النساء : ١٥٥) ٧۔ یہودیوں کا ہفتہ کے دن میں زیادتی کرنا ظلم ہے۔ (النساء : ١٥٤) ٨۔ اللہ کی حرام کردہ چیزوں کو حلال کرنا ظلم ہے۔ (النساء : ١٦٠) الاعراف
161 فہم القرآن ربط کلام : بنی اسرائیل کی نافرمانیوں اور بد اعمالیوں کا بیان جاری ہے۔ سورۃ البقرۃ، آیت : ٥٨ میں اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کے بستی میں داخلہ کو یوں بیان فرمایا ہے کہ ہم نے حکم دیا کہ اس بستی میں داخل ہوجاؤ۔ سورۃ المائدۃ، آیت : ٢١ میں ذکر ہوا کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو حکم دیا کہ اس بستی میں داخل ہوجاؤ۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی فتح تمہارے مقدر میں لکھ دی ہے۔ یہاں داخل ہونے کا لفظ استعمال کرنے کے بجائے سکونت اختیار کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ قرآن مجید کے تینوں مقامات میں ایسے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں کہ جن سے ثابت ہوتا ہے کہ بنی اسر ائیل کو پوری طرح یقین دہانی کروائی گئی تھی کہ ہمت کرو تمھاری فتح یقینی ہے۔ جب بیت المقدس میں تمھارا داخلہ اور سکونت لکھ دی گئی ہے تو دنیا دار فاتحوں کی طرح نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے حضور سجدہ کرتے اور اس کے شکرگزار بندوں کی طرح شہر میں داخل ہونا۔ اپنی کوتاہیوں اور غلطیوں کی معافی مانگنا اور مفتوح قوم کے ساتھ درگزر کا رویہ اختیار کرنا۔ ہم اس کے بدلہ میں تمھاری خطاؤں کو معاف کرتے ہوئے تمھیں مزید عنایات سے نوازیں گے لیکن اس قوم نے اللہ تعالیٰ کے حضور معافی مانگنے اور مفتوح قوم سے درگزر کرنے کے بجائے اللہ تعالیٰ کے حکم کو بدل دیا تھا۔ حِطَّۃٌ کا معنی مانگنا، لیکن انھوں نے لفظ حِطَّۃٌ کو حِنْطَۃٌ میں بدل دیا جس کا معنیٰ گندم ہے۔ گویا کہ بخشش کے بجائے روٹی روٹی کہنے لگے۔ انھوں نے ذرّہ برابر نہ سوچا کہ جس رب نے ہمیں چالیس سال تک لق ودق صحرا میں بہترین کھانا، پینا اور رہنا نصیب فرمایا تھا۔ اب کھانے، پینے کے لیے کیوں نہ دے گا۔ جب کہ ہم ایک ایسے علاقہ اور شہر میں آچکے ہیں جسے اللہ تعالیٰ نے روحانی اور دنیوی طور پر برکات سے نوازا ہے۔ لیکن یہودی ایسی قوم ہے کہ جن کے نزدیک اللہ کے احکام اور دینی اقدارکی کوئی حیثیت نہیں۔ ان پر طاعون کی صورت میں عذاب مسلط کردیا گیا۔ جس سے فتح کا خمار ان کے دماغوں سے اس طرح نکلا کہ انھیں لینے کے دینے پڑگئے۔ چند دنوں میں ہزاروں کی تعداد میں موت کے گھاٹ اتار دیے گئے کیونکہ یہ لوگ قدم قدم پر اللہ تعالیٰ کے فرامین کی نافرمانی کرکے خود اپنے آپ پر ظلم کرتے تھے۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ سے ہر دم بخشش طلب کرنی چاہیے۔ ٢۔ دنیا کی ہر نعمت کے مقابلہ میں اللہ تعالیٰ کی رحمت اور بخشش بہتر ہے۔ ٣۔ طاعون ایک آسمانی عذاب ہے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ شکر کرنے والوں کو مزید عنایت فرماتا ہے۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ گناہ معاف کرنے والا ہے۔ ٦۔ بنی اسرائیل پر بدترین عذاب نازل کیے گئے۔ تفسیر بالقرآن بنی اسرائیل پر عذاب نازل ہونے کی وجوہات : ١۔ اللہ تعالیٰ کے حکم کی خلاف ورزی کرنے کی وجہ سے ان پر عذاب نازل ہوا : (البقرۃ: ٥٩) ٢۔ ہفتہ کے دن شکار سے باز نہ آنے کیوجہ سے انہیں بندر بنادیا گیا۔ (البقرۃ: ٦٥) ٣۔ انبیاء کی تکذیب کی وجہ سے وہ اللہ کے غضب کے مستحق قرار پائے : (آل عمران : ١١٢) ٤۔ منکرات سے نہ روکنے کی وجہ سے لعنت کے حقدار ٹھہرے : (المائدۃ: ٧٨۔ ٧٩) الاعراف
162 الاعراف
163 فہم القرآن ربط کلام : یہودیوں کی دنیا پرستی اور اللہ تعالیٰ کی پرلے درجے کی نافرمانی کا ایک اور واقعہ۔ یہودی اس قدر دنیا پرست اور ناعاقبت اندیش قوم ہے کہ دنیا کے مقابلے میں ان کے نزدیک دین اور اخلاقی قدروں کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔ اصحاب السّبت کا واقعہ یہودیوں کے ہاں ہمیشہ سے معروف رہا ہے۔ اس لیے یہ واقعہ بیان کرنے سے پہلے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ارشاد ہوا کہ آپ انھی سے استفسار فرمائیں کہ اس بستی کا کیا واقعہ اور معاملہ ہے؟ جو سمندر کے کنارے واقع تھی جنھیں اللہ تعالیٰ نے یہ حکم دے رکھا تھا کہ ہفتہ کے دن کاروبار کرنے کی بجائے تمھیں صرف میری ہی عبادت کرنی چاہیے لیکن انھوں نے اس کی کوئی پروا نہ کی۔ جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے انھیں اس طرح آزمائش میں ڈالا کہ ہفتہ کے دن مچھلیوں کے بڑے بڑے ریلے پانی کے اوپر تیرتے دکھائی دیتے تھے۔ شُرَّعًا کا معنی ہے ’ ’ نیزے کی انی“ جو نیزے کے سامنے دکھائی دیتی ہے گویا کہ ہفتہ کے دن مچھلیاں اس قدر بہتات کے ساتھ پانی کی سطح پر تیرتی اور اچھلتی تھیں جیسا کہ دیکھنے والوں کے ساتھ آنکھ مچولی کر رہی ہوں۔ جونہی مچھلیوں کے ریلے نظر آئے تو انھوں نے اپنی مجرمانہ ذہنیت سے یہ صورت نکالی کہ بحر قلزم کے کنارے پانی کے بڑے بڑے گھاٹ اور تالاب تیار کیے جائیں تاکہ مچھلیاں ہفتہ کے دن دریا سے پکڑنے کے بجائے اتوار کے دن پکڑی جائیں۔ بظاہر اللہ تعالیٰ کے حکم کی نافرمانی بھی نہ ہو اور لوگوں کی نظروں میں بدنامی سے بھی بچ سکیں۔ لیکن مچھلیاں بھی ہاتھ سے نہ جانے پائیں۔ کیونکہ انھوں نے اللہ تعالیٰ کے حکم کے مقابلہ میں سازش اور حیلہ سازی کی تھی جس وجہ سے اللہ تعالیٰ نے انھیں ذلیل ترین عذاب میں مبتلا کیا اور حکم صادر فرمایا کہ تم ذلیل بندر بن جاؤ کیونکہ ان کے دل و دماغ بندروں کی طرح شرارت سوچتے تھے۔ اس لیے ان کی شکلوں کو بھی بندر بنا دیا گیا۔ ان کی شکلیں اس قدر ذلیل اور حقیر بنا دی گئیں کہ دیکھنے والا ان پر لعنت کیے بغیر نہیں رہ سکتا تھا۔ اس حالت میں وہ تین دن کے اندر تڑپ تڑپ کر مر گئے۔ اس صورت حال میں بستی کے لوگ فکری اور عملی طور پر تین حصوں میں تقسیم ہوگئے۔ ایک گروہ وہ تھا جنھوں نے بار بار مجرموں کو اس حرکت سے روکا۔ دوسرے لوگ وہ تھے جو کسی کمزوری یا مصلحت کی خاطر یہ کہہ کر ان سے الگ ہوگئے کہ انھیں سمجھانے کا کوئی فائدہ نہیں۔ لہٰذا ان کو ان کے حال پر چھوڑ دینا چاہیے۔ کیونکہ یہ رب ذوالجلال کے غضب کو دعوت دے رہے ہیں۔ اگر یہ اسی طرح اللہ کے حکم کے ساتھ مذاق کرتے رہے تو عنقریب شدید ترین عذاب میں مبتلا ہوں گے۔ لیکن سمجھانے والے لوگ الگ ہونے والوں کو کہتے کہ ہم انھیں اس لیے سمجھا رہے ہیں تاکہ اللہ تعالیٰ کے ہاں ہمارا یہ عذر قبول ہو اور ہم اس کے عذاب سے بچ جائیں۔ حضرت ابن عباس (رض) کے شاگرد رشید عکرمہ (رض) بیان کرتے ہیں میں ایک دن حضرت ابن عباس (رض) کے پاس حاضر ہوا تو وہ رو رہے تھے ان کی گود میں قرآن مجید پڑا تھا میں نے عرض کی کہ آپ کیوں رو رہے ہیں؟ حضرت ابن عباس (رض) نے سورۃ الاعراف کی ان آیات کی تلاوت کی اور فرمایا اللہ تعالیٰ نے مجرمین کو سزاد ی اور ان کو مسخ کرکے بندر بنا دیا اور جو فریق ان کو برائی سے منع کرتا تھا۔ اس کا ذکر فرمایا کہ اس کو نجات دے دی اور تیسرا فریق جو ان کو منع نہیں کرتا تھا اس کا ذکر نہیں فرمایا کہ ان کی نجات ہوئی یا نہیں۔ ہمارا یہ حال ہے کہ ہم بھی کئی کاموں کو برا سمجھتے ہیں۔ لیکن لوگوں کو منع نہیں کرتے اللہ جانے ہماری نجات ہوگی یا نہیں۔ عکرمہ کہتے ہیں کہ میں آپ پر قربان ہوں کیا اس فریق نے ان کاموں کو برا نہیں سمجھا تھا؟ قرآن مجید سے معلوم ہو رہا ہے کہ انھوں نے مچھلیاں پکڑنے والوں سے نفرت کا اظہار کیا اور ان سے الگ ہوگئے۔ ان کے عذاب سے بچنے کی یہ واضح دلیل ہے۔ حضرت ابن عباس (رض) میرے اس جواب سے خوش ہوئے اور مجھے دو چادریں تحفۃً عنایت فرمائیں۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ کے حکم کے مقابلہ میں حیلے تلاش کرنا اس کے غضب کو چیلنج کرنا ہے۔ ٢۔ تبلیغ کا فریضہ ہر حال میں ادا کرتے رہنا چاہیے۔ ٣۔ کسی مجبوری کی وجہ سے تبلیغ کا فریضہ ادا نہ ہو سکے تو مجرموں سے الگ ہوجاتا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن یہودیوں کی سزائیں : ١۔ ہم نے یہودیوں پر ان کی سرکشی کی وجہ سے ناخن والے جانور، گائے اور بھیڑ کی چربی حرام کردی۔ (الانعام : ١٤٧) ٢۔ یہودیوں پر ذلت اور محتاجی مسلط کردی گئی۔ (البقرۃ: ٦١) ٣۔ یہودیوں کو بندر بنا دیا گیا۔ (٦٥) الاعراف
164 الاعراف
165 الاعراف
166 فہم القرآن ربط کلام : بنی اسرائیل کی عہد شکنی اور بد اعمالیوں کا تسلسل جس وجہ سے ان پر وقفہ، وقفہ سے عذاب آتے رہیں گے۔ غورو فکرکے ساتھ قرآن مجید کی تلاوت کرنے والا ہر شخص جانتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کی اصلاح اور ہدایت کے لیے ان گنت انبیاء مبعوث فرمائے۔ جنھوں نے انتھک جدوجہد کی۔ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو مختلف عذاب اور بیش بہا انعامات کے ذریعے صدیوں تک بار بار اپنی اصلاح کا موقعہ دیا۔ لیکن یہ قوم اصلاح کے بجائے بگاڑ اور فساد کو ترجیح دیتی رہی۔ جس بنا پر ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے آخری فیصلہ صادر فرماتے ہوئے اعلان کیا کہ اب قیامت تک ان پر ایسے لوگ مسلط کیے جائیں گے جو انھیں اذیت ناک سزاؤں اور عذاب میں مبتلا کرتے رہیں گے۔ تاریخ کا طالب علم قرآن کی اس سچائی کو اچھی طرح سمجھتا ہے کہ بخت نصر سے لے کر جرمنی کے ہٹلر تک جو شخص بھی ان پر مسلط ہوا۔ اس نے انھیں اس طرح اپنی گرفت میں جکڑا اور تشدد کا نشانہ بنایا کہ دنیا سمجھنے لگی کہ اب یہودیوں کا ایک فرد بھی باقی نہیں رہے گا۔ آئندہ بھی نہ معلوم حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی آمد سے پہلے ان کی بد اعمالیوں کی سزا دینے کے لیے اللہ تعالیٰ ان پر کتنے لوگ مسلط کرے گا جو انھیں وقفہ وقفہ کے بعد تہس نہس کرتے رہیں گے۔ قرب قیامت جب حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) تشریف لائیں گے تو وہ اس قدر ان کے خلاف جہاد کریں گے کہ کوئی یہودی ان سے بچ نہیں پائے گا۔ یہاں تک کہ اگر کوئی یہودی کسی دیوار یا درخت کی اوٹ میں چھپنے کی کوشش کرے گا تو وہ درخت بھی پکار اٹھے گا۔ ایسا کیوں ہوتا رہا اور ہوگا۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ جب ظالم اور نافرمان کو پکڑ تا ہے تو بسا اوقات اس کی پکڑ اس قدر آناً فانًا ہوتی ہے کہ ظالم سنبھلنا چاہے تو سنبھل نہ پائے یہاں تک کہ اسے معافی مانگنے کا موقعہ بھی نہیں نصیب ہوتا۔ لیکن یاد رہے کہ اللہ تعالیٰ کا عتاب ظالموں کے لیے ہے نیک اور تائب ہونے والوں کے لیے وہ بڑا معاف فرمانے اور انتہائی رحم و کرم کرنے والا ہے۔ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ أَنَّ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ لَا تَقُوم السَّاعَۃُ حَتّٰی یُقَاتِلَ الْمُسْلِمُونَ الْیَہُودَ فَیَقْتُلُہُمُ الْمُسْلِمُونَ حَتّٰی یَخْتَبِءَ الْیَہُودِیُّ مِنْ وَرَاءِ الْحَجَرِ وَالشَّجَرِ فَیَقُولُ الْحَجَرُ أَوِ الشَّجَرُ یَا مُسْلِمُ یَا عَبْدَ اللّٰہِ ہٰذَا یَہُودِیٌّ خَلْفِی فَتَعَالُ فَاَقْتُلْہُ إِلَّا الْغَرْقَدَ فَإِنَّہٗ مِنْ شَجَرِ الْیَہُودِ) [ رواہ مسلم : کتاب الفتن واشراط الساعۃ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں بلاشبہ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی جب تک مسلمان یہود یوں سے لڑائی نہ کریں مسلمان ان کو مسلمان قتل کریں گے یہاں تک کہ یہودی پتھروں اور درختوں کے پیچھے چھپیں گے۔ تو پتھر اور درخت پکار اٹھے گا اے مسلمان اے اللہ کے بندے یہ میرے پیچھے یہودی ہے آؤ۔ اس کو قتل کرو غرقد کا درخت ایسا نہیں کرے گا کیونکہ وہ یہودیوں کا درخت ہے۔“ مسائل ١۔ یہودیوں پر وقفہ وقفہ کے بعد اللہ تعالیٰ سخت گیر فاتح مسلط کرتا رہے گا۔ ٢۔ قیامت سے پہلے بھی انھیں مختلف قسم کے عذابوں میں مبتلا کیا جائے گا۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ عذاب دینے والا بھی ہے اور معاف کرنے والا بھی۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ کا عذاب اور بخشش : ١۔ اے نبی! میرے بندوں کو بتاؤ کہ میں بخشنے، رحم کرنے والا ہوں اور میرا عذاب بھی دردناک ہوگا۔ (الحجر : ٤٩) ٢۔ جو توبہ کرے اور اصلاح کرے تیرا رب بڑا غفور الرحیم ہے۔ (النحل : ١١٩) ٣۔ کیا تم پسند کرتے ہو کہ اللہ تمھیں معاف کر دے کیونکہ وہ غفور الرحیم ہے۔ (النور : ٢٢) ٤۔ اللہ جلد پکڑنے والا اور غفور الرحیم ہے۔ (الانعام : ١٦٦) ٥۔ اللہ اپنے بندوں کو اپنی رحمت میں داخل فرمائے گا کیونکہ وہ غفور الرحیم ہے۔ (التوبۃ: ٩٩) ٦۔ اللہ سب گناہوں کو معاف کردینے والا اور غفور الرحیم ہے۔ (الزمر : ٥٣) الاعراف
167 الاعراف
168 فہم القرآن ربط کلام : یہودیوں پر اللہ تعالیٰ کے عذاب کی ایک شکل یہ بھی ہے کہ یہ دنیا میں منتشر رہیں گے۔ یہودیوں پر ہمیشہ کے لیے درج ذیل عذاب مسلط کیے گئے ہیں۔ ١۔ دولت مند ہونے کے باوجود ان پر مسکنت کا مسلط ہونا جس وجہ سے یہودی کبھی مستغنی اور سیر چشم نہیں ہوتا۔ ٢۔ یہودی اپنے دشمنوں کی نظر میں ہی نہیں اپنے دوستوں اور حلیفوں کی نظر میں بھی ذلیل سمجھے جاتے ہیں۔ ٣۔ یہودی سیاسی مانگت بنے بغیر دنیا میں کبھی آزاد حکومت قائم نہیں کرسکتے۔ ٤۔ یہودی ہمیشہ دنیا میں منتشر رہیں گے۔ یہودیوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا یہ بھی اعلان اور فیصلہ ہے کہ یہ دنیا میں ہمیشہ منتشر اور در بدر کی ٹھوکریں کھاتے رہیں گے۔ یہاں قرآن مجید کی تلاوت کرنے والے کے ذہن میں یہ سوال ابھرتا ہے کہ آج تو یہودی منظم ہونے کے ساتھ ایک مملکت کے مالک ہیں اس میں کوئی شک نہیں بظاہر یہودی منظم دکھائی دیتے ہیں اور اسرائیل کے نام پر ان کی حکومت بھی قائم ہے۔ قرآن مجید یہاں وضاحت کرتا ہے کہ یہودیوں میں صالح لوگ بھی ہیں اور برے بھی۔ صالح سے مراد اگر دنیوی طور پر شریف النفس انسان لیے جائیں تو ان کی نہایت ہی قلیل تعداد یہودیوں میں ہمیشہ رہی ہے اور رہے گی اگر دین کے حوالے سے صالح کا مفہوم لیا جائے تو حقیقت میں صالح وہی شخص ہوگا جو نبی آخر الزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لانے والا ہو۔ اللہ تعالیٰ نے اس قوم کو اپنی نعمتوں اور احسانات کے ساتھ بھی آزمایا اور مختلف قسم کے عذاب اور دنیوی نقصانات کے ساتھ بھی، لیکن یہ لوگ اپنے رب کی طرف رجوع کرنے کے بجائے الٹے پاؤں ہی چلنے والے ہیں۔ یاد رہے کہ اتفاق و اتحاد اللہ تعالیٰ کی رحمت اور اس کا انعام ہے انتشار اللہ کا عذاب اور آگ ہے۔ (آل عمران : ١٠٤) مسائل ١۔ یہودی دنیا میں ہمیشہ منتشر رہیں گے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ انھیں ہر طرح آزمائش میں ڈالتا ہے مگر انھوں نے اپنی اصلاح نہیں کی۔ الاعراف
169 فہم القرآن ربط کلام : یہودیوں کی نسل در نسل حالت اور ذہنیت۔ اللہ تعالیٰ نے یہودیوں کو اپنے انعامات اور عذابوں کے ساتھ اس لیے آزمایا تاکہ نعمت عطا ہونے پر شکر گزار ہوں اور عذاب آنے کی صورت میں اس کی طرف رجوع کریں۔ لیکن ہوا یہ کہ ان کی ایک کے بعد دوسری نسل پہلے سے بھی بری ثابت ہوئی۔ اہل علم نے لکھا ہے کہ خلف کا لفظ لام کی جزم کے ساتھ ہو تو اس کا معنی ناخلف اور برا ہوتا ہے۔ اس لیے کسی اچھے وارث کو صرف خلف نہیں بلکہ خلف الرشید کہا جاتا ہے۔ لہٰذا ناخلف اور نالائق لوگ ہی تورات کے وارث بنے یعنی ان کی رہنمائی کے لیے کسی نہ کسی حالت میں تورات موجود تھی۔ لیکن جس طرح ان کے آباؤ اجداد نے آسمانی دستر خوان من و سلویٰ کے مقابلہ میں لہسن، پیاز اور دال کو ترجیح دی تھی۔ بیت المقدس میں داخلے کے وقت اللہ تعالیٰ سے بخشش اور اس کی رحمت مانگنے کی بجائے گندم کا مطالبہ کیا تھا گویا کہ جس طرح ان کے بڑے نیکی کے مقابلہ میں برائی، اعلیٰ کے مقابلہ میں ادنیٰ چیز پسند کرتے رہے اسی طرح ان کے نسل در نسل وارث بننے والے ناخلف لوگوں کا حال تھا اور ہے۔ اس گھٹیا ذہنیت اور بد اعمالیوں کے باوجود یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ انھیں قیامت کے دن معاف کردیا جائے گا۔ جب کہ ان کی حالت جوں کی توں ہے اگر ان کو دنیا کا مال ملے تو یہ تورات میں رد و بدل کرنے کے لیے تیار ہوں گے۔ ایسا کرنے کے بعد اس کو ” ہٰذَا مِنْ عِنْدَ اللّٰہِ“ کہہ کر اللہ تعالیٰ کے ذمہ لگا کر کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اسی طرح یہ حکم نازل کیا ہے حالانکہ انھیں اچھی طرح یاد ہے کہ یہ حکم تورات میں نہیں ہے۔ انھیں یہ بھی معلوم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انبیاء کے ذریعے ہم سے عہد لے رکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے بارے میں حق کے سوا دوسری بات نہ کہی جائے اور انھیں اچھی طرح علم ہے کہ دنیا کے مقابلے میں آخرت کا گھر متقین کے لیے بہتر ہے۔ لیکن پھر بھی عقل سے کام لینے کی کوشش نہیں کرتے حالانکہ عقل کا تقاضا اور سمجھ داری یہ ہے کہ اللہ کی کتاب کے ساتھ پختہ تعلق قائم رکھتے ہوئے پانچ وقت نماز قائم کی جائے۔ یہی صالح اعمال کی بنیاد ہے۔ یقیناً اللہ تعالیٰ صالح عمل کرنے والوں کے اجر کو کبھی ضائع نہیں کرتا۔ یہاں کتاب کے ساتھ مضبوط تعلق جوڑنے کے ساتھ اقامت صلوٰۃ کی تلقین کی ہے کیونکہ ایمان لانے کے بعد نماز ہی وہ پہلا عمل ہے جو ایک مسلمان پر فرض ہوتا ہے۔ نماز کی اقامت کا معنی یہ ہے کہ اسے سنت کے مطابق اور اس کے روحانی اور معاشرتی تقاضوں کو پیش نظر رکھ کر ادا کیا جائے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نماز اور دین کو لازم ملزوم قرار دیا ہے۔ (عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ (رض) قَالَ مَنْ تَرَکَ الصَّلاَۃَ فَلاَ دِیْنَ لَہٗ) [ الترغیب والترہیب] ” حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں جس نے نماز چھوڑی اس کا کوئی دین نہیں ہے۔“ (عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ (رض) قَالَ سَیَبْلَی الْقُرْآنُ فِی صُدُورِ أَقْوَامٍ کَمَا یَبْلَی الثَّوْبُ فَیَتَہَافَتُ یَقْرَءُ ونَہُ لَا یَجِدُونَ لَہٗ شَہْوَۃً وَلَا لَذَّۃً یَلْبَسُونَ جُلُود الضَّأْنِ عَلٰی قُلُوب الذِّءَابِ أَعْمَالُہُمْ طَمَعٌ لَا یُخَالِطُہُ خَوْفٌ إِنْ قَصَّرُوا قالُوا سَنَبْلُغُ وَإِنْ أَسَاءُ وا قالُوا سَیُغْفَرُ لَنَا إِنَّا لَا نُشْرِکُ باللّٰہِ شَیْءًا) [ رواہ الدارمی : کتاب فضائل القرآن، باب فی تعاھد القرآن] ” حضرت معاذ بن جبل (رض) بیان کرتے ہیں کہ عنقریب لوگوں کے سینوں میں قرآن اس طرح ہلکا ہوجائے گا جس طرح کپڑا بوسیدہ ہو کر جھڑنے لگتا ہے لوگ بغیر کسی شوق اور لذت کے قرآن کریم پڑھیں گے ان کے کپڑے بھیڑوں کے چمڑوں کے ہوں گے، ان کے اعمال صرف دنیا کے طمع اور حرص کی بنیاد پر ہوں گے۔ وہ خوف خدا سے گناہوں سے پرہیز نہیں کریں گے وہ برے کام کرنے کے باوجود تبلیغ کریں گے اور یہ کہیں گے کہ عنقریب ہماری بخشش ہوجائے گی کیونکہ ہم اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک نہیں کرتے۔“ مسائل ١۔ ناخلف انسان کی نشانی یہ ہے کہ وہ دین کے مقابلے میں دنیا پسند کرتا ہے۔ ٢۔ انسان کو توبہ کیے بغیر اللہ تعالیٰ کی بخشش کی توقع نہیں کرنی چاہیے۔ ٣۔ خود ساختہ مسائل اور بدعات کو اللہ اور اس کے رسول کے ذمہ نہیں لگانا چاہیے۔ ٤۔ حقیقی عقل کا تقاضا ہے کہ آدمی دنیا کے مقابلے میں آخرت کو ترجیح دے۔ ٥۔ مسلمان کو ہر حال میں اللہ کی کتاب کے ساتھ وابستہ رہنا چاہیے۔ ٦۔ ایمان کی پہلی نشانی نماز قائم کرنا ہے۔ ٧۔ اللہ تعالیٰ کسی کی نیکی ضائع نہیں کرتا۔ تفسیر بالقرآن آخرت کا گھر بہتر ہے : ١۔ آخرت کا گھر متقین کے لیے بہتر ہے تم عقل کیوں نہیں کرتے۔ (الاعراف : ١٦٩) ٢۔ آخرت کا گھر پرہیزگاروں کے لیے بہتر ہے۔ تم سوچتے کیوں نہیں۔ (یوسف : ١٠٩) ٣۔ ان کے لیے دنیا میں بھی خوشخبری ہے اور آخرت میں بھی۔ (یونس : ٦٤) ٤۔ اللہ نے ان کو دنیا کا ثواب بھی دیا اور آخرت کا ثواب تو بہت اچھا ہے۔ (آل عمران : ١٤٨) ٥۔ آخرت کا گھر ہم نے ان کے لیے بنایا ہے جو زمین میں تکبر اور فساد نہیں کرتے۔ (القصص : ٨٣) ٦۔ آخرت کا گھر ہی اصل زندگی ہے اگر لوگ جان جائیں۔ (العنکبوت : ٦٤) الاعراف
170 الاعراف
171 فہم القرآن ربط کلام : بنی اسرائیل کو تو رات کے ساتھ وابستہ رکھنے کے لیے ان کے سروں پر کوہ طور کا اٹھایا جانا۔ بنی اسرائیل پر کوہ طور کو اٹھائے جانے کا واقعہ قرآن مجید میں چار مرتبہ بیان ہوا ہے سورۃ البقرۃ، آیت : ٦٣، ٩٣ اور سورۃ النساء ١٥٤ میں اس کے لیے ” وَرَفَعْنَا“ کا لفظ استعمال ہوا۔ جس کا معنیٰ ہے ہم نے ان پر طور کو بلند کیا۔ جس کے بارے میں بعض مفسرین نے یہ لکھا ہے کہ کوہ طور کو جڑ سے نہیں اٹھایا گیا تھا۔ بلکہ یہ شدید زلزلہ کے باعث اس طرح ڈولنے اور حرکت کرنے لگا کہ انھوں نے سمجھا کہ بس یہ پہاڑ ہمارے اوپر گرنے ہی والا ہے لیکن یہاں قرآن نے ” نَتَقْنُا الْجَبَلَ فَوْ قَہُمْ“ کے الفاظ استعمال فرمائے ہیں۔ جن کا معنیٰ ہے کہ ہم نے کوہ طور کو بنیاد سے اٹھا کر ان کے سروں پر منڈلایا۔ مزید فرمایا کہ پہاڑ ان کے سروں پر ” ظُلَّۃٌ“ کی مانند ہوا۔ ظُلّہ کا معنی ہے سائبان جب انسان کا ذہن اللہ تعالیٰ کی قدرت و سطوت کے بجائے پہاڑ کی جسامت اس کی گہرائی اور اونچائی کی طرف مائل ہو تو پھر اسے یہ بات سمجھنے میں دقت محسوس ہوتی ہے کہ اتنا بڑا پہاڑ کس طرح ان کے سروں کے اوپر منڈلایا جا سکتا ہے۔ لیکن جب انسان کا ذہن اللہ تعالیٰ کی قدرت و سطوت کی طرف مائل ہو تو اسے یہ سمجھنے میں کوئی مشکل اور کسی تاویل کی ضرورت پیش نہیں آتی کیونکہ جو قادر مطلق ہمارے سروں پر آسمانوں کو بلا سہارا اربوں سال سے قائم رکھے ہوئے ہے اور جس نے زمین کو پانی کے اوپر بچھا رکھا ہے اور جو کھربوں ٹن بادلوں کو ہمارے سروں پر منڈلا تا ہے اس قادر مطلق کے سامنے کوہ طور کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے اس لیے قرآن کے الفاظ کا حقیقی مفہوم اور لفظی معنیٰ یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کے سروں پر پہاڑ لاکھڑا کیا تھا اور جب ان کو یقین ہوگیا کہ یہ تو ہمارے اوپر گرنے ہی والا ہے تب انھوں نے اقرار کیا تھا۔ قرآن مجید میں ” ظن“ کا لفظ اکثر مقامات پر یقین کے معنوں میں آیا ہے۔ یاد رہے کہ بنی اسرائیل جیسی مجرم قوم محض گمان کی بنیاد پر ماننے والی نہ تھی۔ لہٰذا یہاں ظن سے مراد یقین کرلینا ہے۔ اس حالت میں انھیں حکم ہوا کہ جو کچھ ہم تمھیں دے رہے ہیں ا سے مضبوطی کے ساتھ تھام لو اور اس سے رہنمائی حاصل کرو تاکہ تم اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بچ سکو۔ لیکن یہ قوم اس قدر منافق اور ظالم تھی کہ انھوں نے بظاہر بلند آواز سے کہا کہ ہم نے سن لیا لیکن اپنے دلوں میں کہہ رہے تھے کہ ہم نہیں مانیں گے۔ قرآن مجید بیان کرتا ہے کہ اتنی بڑی سرکشی اور نافرمانی کا سبب ان کا شرک کرنا تھا۔ کیونکہ بچھڑے کی محبت ان کے دلوں میں پوری طرح سرایت کرچکی تھی۔ (وَإِذْ أَخَذْنَا میثَاقَکُمْ وَرَفَعْنَا فَوْقَکُمُ الطُّورَخُذُوا مَا آَتَیْنَاکُمْ بِقُوَّۃٍ وَاسْمَعُوا قالُوا سَمِعْنَا وَعَصَیْنَا وَأُشْرِبُوا فِی قُلُوبِہِمُ الْعِجْلَ بِکُفْرِہِمْ قُلْ بِءْسَمَا یَأْمُرُکُمْ بِہٖ إِیمَانُکُمْ إِنْ کُنْتُمْ مُؤْمِنِینَ)[ البقرۃ: ٩٣] ” اور جب ہم نے طور کو تمھارے اوپر اٹھا کر تم سے اقرار لیا کہ جو کتاب ہم نے نہیں دی ہے اس پر مضبوطی سے عمل پیرا ہونا اور غور سے سننا۔ تو تمھارے اسلاف کہنے لگے کہ ہم نے سن لیا اور (دل میں کہا) ہم مانیں گے نہیں۔ ان کے کفر کی وجہ سے بچھڑا ان کے دلوں میں رچ بس گیا۔ آپ ان سے کہیے اگر تم مومن ہو تو تمھارا یہ ایمان تمھیں بری باتوں کا حکم دیتا ہے۔“ ایسی کیفیت میں اللہ تعالیٰ کی توحید قبول کرنا اور ہدایت کے راستہ پر آنا مشکل ترین عمل بن جاتا ہے۔ اس واقعہ سے یہ بات بھی ثابت ہوئی کہ جب تک انسان قلبی طور پر ہدایت کی طرف راغب نہ ہو۔ اسے جبراً کوئی بات منوائی نہیں جا سکتی۔ جبری ہدایت جبر کے قائم رہنے تک رہتی ہے۔ جونہی جبر ختم ہوگا وہ شخص برائی کی طرف پلٹ جائے گا۔ البتہ کلمہ گو کو جبراً نماز، روزہ اور نیک کاموں کی طرف راغب کرنا حکومت کا فرض ہے لیکن غیر مسلم کو جبراً مسلمان نہیں بنایا جا سکتا۔ مسائل ١۔ بنی اسرائیل کے سروں پر کوہ طور بلند کیا گیا تھا۔ ٢۔ مسلمان کو جبراً اسلام پر عمل کرنے کا حکم دیاجا سکتا ہے۔ ٣۔ غیر مسلم کو جبراً مسلمان نہیں کیا جا سکتا۔ تفسیر بالقرآن تقویٰ کے فوائد : ١۔ متقین کے لیے کامیابی ہے۔ (الانبیاء : ٣١ تا ٣٣) ٢۔ متقین کے لیے ان کے رب کے پاس نعمتوں والی جنت ہے۔ (القلم : ٣٤) ٣۔ متقی کا ہر کام آسان اور اس کی سب خطائیں معاف اور ان کے لیے بڑا اجر ہوگا۔ (الطلاق : ٤ تا ٥) ٤۔ متقین اولیاء اللہ ہیں جو بے خوف ہوں گے۔ ( یونس : ٦١ تا ٦٤) الاعراف
172 فہم القرآن ربط کلام : بنی اسرائیل کے عہد کی مناسبت سے وہ عہد بھی بنی نوع انسان کو یاد کروایا جا رہا ہے جو روز آفرینش ان سے لیا گیا تھا۔ خالق کائنات نے زمین و آسمان بنانے کے بعد جب آدم (علیہ السلام) کو پیدا فرمایا تو اس وقت آدم (علیہ السلام) کی پشت پر اپنا دست مبارک رکھا جس سے قیامت تک نسل در نسل پیدا ہونے والے بنی نوع انسان اس کی بار گاہ میں حاضر ہوگئے۔ یہاں اللہ تعالیٰ نے سب سے یہ استفسار فرمایا کہ کیا میں تمھارا رب ہوں کہ نہیں؟ حضرت آدم (علیہ السلام) اور اس کی ساری اولاد نے اپنے رب کے حضور یہ شہادت دی کیوں نہیں ! آپ ہی ہمارے خالق، مالک، اور پیدا کرنے والے ہیں۔ ارشاد ہوا کہ اس پر قائم رہنا کہیں قیامت کے دن یہ بہانہ نہ بنانا کہ ہمیں تو اس عہد اور شہادت کا علم ہی نہیں تھا۔ یا تم یہ کہو کہ ہم اس لیے شرک کے مرتکب ہوئے کہ ہمارے آباء و اجداد اس طرح کرتے تھے اور ہم تو ان کے بعد آنے والے ان کی اولاد تھے لہٰذا ہمارا کوئی گناہ نہیں جو کچھ کیا ہم سے پہلے لوگوں نے کیا۔ اس لیے ہمیں کسی قسم کی سزا نہیں ہونی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ نے اس وقت بنی نوع انسان کو یہ سمجھا دیا تھا کہ اس عہد کو بھول جانا یا اپنے سے پہلے لوگوں کے طریقے کا بہانہ بنانا قیامت کے دن اس کی کوئی حیثیت نہیں ہوگی۔ اس کے باوجود ہر دور میں اللہ تعالیٰ نے انبیائے کرام (علیہ السلام) کے ذریعے اس عہد کی یاد دہانی کروائی۔ یہاں تک کہ نبی آخر الزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر قرآن مجید نازل ہوا۔ جس میں اللہ کی توحید کو ہر قسم کے دلائل کے ساتھ کھول، کھول کر بیان کرتے ہوئے شرک کو سب سے بڑا ظلم، گمراہی اور جہالت قرار دیا گیا ہے۔ تاکہ شرک سے لوگ بچیں اور اپنے رب کی توحید پر پکے ہوجائیں۔ بعض لوگ عقلی موشگافیوں میں پڑ کر یہ اعتراض کرتے ہیں کہ اگر اللہ تعالیٰ نے انسان سے یہ عہد لیا اور عقیدۂ توحید اس کی فطرت میں رکھا ہے تو پھر انسان اسے فراموش کرکے شرک کا ارتکاب کیوں کرتے ہیں؟ ایسا اعتراض اٹھانے والے یہ بھول جاتے ہیں کہ انسان نسیان سے بنا ہے انسانی فطرت کے سب سے بڑے ترجمان نبی آخر الزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انسان کی اس کمزوری کو یوں بیان فرمایا ہے۔ ” نَسِیَ اٰدَمْ وَنَسِتْ اَوْلَادُہٗ“ کہ جناب آدم بھول گئے اور ان کی اولاد بھی بھول جایا کرے گی۔ اس بنا پر کچھ لوگ بھول جاتے ہیں۔ انبیاء کرام (علیہ السلام) کی بعثت کا مقصدیہ ہے کہ انسان کو اس کی غفلت اور بھول پر چوکنا کیا جا سکے۔ جہاں تک عقیدۂ توحید کو انسانی فطرت میں ودیعت کرنے کا تعلق ہے اس کی گواہی ہر انسان اپنی زندگی میں دیے بغیر نہیں رہتا۔ مکہ کے مشرک بڑے ظالم تھے اور انھوں نے شرک کی بنیاد پر نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کئی جنگیں لڑیں لیکن جب کبھی ان میں سے کسی کو بھاری اور ناگہانی مصیبت آتی تو وہ اقرار کرتا کہ واقعی اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی خالق، مالک، رازق، مشکل کشا اور حاجت روا نہیں ہے۔ یہ فطرت ہی کی آواز ہے جب دنیا کے پرلے درجے کے مشرک اور کافر کو اس کے کفر اور شرک کی نشاندہی کی جائے تو وہ فوراً اس کا انکار کرتا ہے۔ (عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ أَخَذَ اللّٰہُ الْمِیثَاقَ مِنْ ظَہْرِ آدَمَ بِنَعْمَانَ یَعْنِی عَرَفَۃَ فَأَخْرَجَ مِنْ صُلْبِہٖ کُلَّ ذُرِّیَّۃٍ ذَرَأَہَا فَنَثَرَہُمْ بَیْنَ یَدَیْہٖ کَالذَّرِّ ثُمَّ کَلَّمَہُمْ قِبَلًا قَالَ أَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ قَالُوا بَلٰی شَہِدْنَا أَنْ تَقُولُوا یَوْمَ الْقِیَامَۃِ إِنَّا کُنَّا عَنْ ہَذَا غَافِلِینَ أَوْ تَقُولُوا إِنَّمَا أَشْرَکَ آبَاؤُنَا مِنْ قَبْلُ وَکُنَّا ذُرِّیَّۃً مِنْ بَعْدِہِمْ أَفَتُہْلِکُنَا بِمَا فَعَلَ الْمُبْطِلُونَ )[ رواہ احمد] ” حضرت عبداللہ بن عباس (رض) نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے آدم کی پشت کی طرف سے وعدہ لیا نعمان یعنی عرفہ کے مقام پر۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی پشت سے تمام اولاد نکالی جس کو پیدا فرمایا تھا۔ انھیں اپنے سامنے چیونٹیوں کی طرح پھیلایا پھر ان سے اپنے سامنے کلام فرمایا۔ اللہ نے فرمایا کیا میں تمھارا رب نہیں ہوں انھوں نے کہا کیوں نہیں۔ ہم اس کی گواہی دیتے ہیں۔ کہیں قیامت کے دن یہ نہ کہنا بلاشبہ ہم تو اس سے غافل تھے یا تم کہو شرک تو ہمارے آباؤ اجداد نے کیا تھا اور ہم ان کی اولاد تھے۔ کیا تو ہمیں باطل کام کرنے والوں کی وجہ سے ہلاک کرتا ہے۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے تخلیق آدم کے وقت ہی بنی نوع انسان سے اپنی توحید کا اقرار لیا ہے۔ ٢۔ عقیدۂ توحید کو بھول جانا یا آباؤ اجداد کے شرک کا بہانہ مقبول نہیں ہوگا۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں توحید کو کھول کھول کر بیان کیا ہے تاکہ لوگ شرک سے بچ جائیں۔ ٤۔ توحید فطرت کی آواز اور تمام ادیان کی بنیاد ہے۔ ٥۔ عقیدۂ توحید کے بغیر کوئی عمل قابل قبول نہیں ہوگا۔ تفسیر بالقرآن برہان کا معنی دلیل : ١۔ جنت میں داخلہ کے لیے دلیل چاہیے اہل کتاب سے مطالبہ۔ (البقرۃ: ١١١) ٢۔ اے لوگو! تمھارے پاس رب کی طرف سے برہان آچکا ہے۔ (النساء : ١٧٤) ٣۔ اگر رب کی طرف سے برہان نہ ہوتی تو یوسف بھٹک جاتے۔ (یوسف : ٢٤) ٤۔ شرک کے لیے کوئی دلیل نہیں۔ (المومنؤن : ١١٧) ٥۔ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی داتا ہے تو دلیل لاؤ۔ (النمل : ٦٤) ٦۔ حضرت موسیٰ کے معجزے برہان تھے۔ (القصص : ٣٢) ٧۔ قیامت کے دن نبی کی گواہی امت پر دلیل ہوگی۔ (القصص : ٧٥) الاعراف
173 الاعراف
174 الاعراف
175 فہم القرآن ربط کلام : نئے خطاب کا آغاز۔ اللہ تعالیٰ نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ارشاد فرمایا ہے کہ آپ لوگوں کے سامنے اس شخص کا واقعہ بیان فرمائیں جس کو ہم نے علم کے زیور سے آراستہ فرمایا تھا مگر اس نے اس زیور کو اتار پھینکا اور شیطان کی اتباع کرتے ہوئے گمراہ لوگوں میں شمار ہوا یہ کس شخص کا واقعہ ہے، کہاں کا رہنے والا تھا اور اس کا نام کیا ہے۔ قرآن مجید اور احادیث کی مقدس دستاویزات میں اس کا پتہ نہیں چلتا۔ اکثر مفسرین نے صحابہ کرام ] کے اقوال نقل کیے ہیں جن کی بنیاد اسرائیلی روایات پر ہے۔ چنانچہ لکھتے ہیں : اس شخص کا نام بلعم بن بعور یا امیہ بن صلت تھا۔ یہ یہودیوں کا بڑا عالم تھا لیکن انتہائی ضمیر فروش ہونے کی وجہ سے فتویٰ فروشی اور دین کو ایک پیشہ اور دکھلاوے کے طور پر استعمال کرتا تھا۔ اس سے مراد کوئی شخص ہو اصل تو ایک کردار کی نشان دہی کی جا رہی ہے۔ جس کو اللہ تعالیٰ نے علم کی دولت سے مالا مال کیا مگر اس نے اسے منصب کے حصول، دنیا کے لالچ، ذاتی شہرت اور شخصی احترام کے لیے استعمال کیا جو سراسر شیطان کی پیروی کا راستہ ہے اور شیطان انسان کو گمراہ کرکے چھوڑتا ہے۔ اس نام نہاد عالم کے ساتھ بھی یہی کچھ ہوا اور وہ بالآخر گمراہوں میں شمار ہوا۔ ارشاد ہوتا ہے کہ اگر ہم چاہتے تو اسے اپنے عطا کردہ علم کے ساتھ فکر کی بلندی اور کردار کی رفعت عطا کرتے۔ لیکن اس نے اپنی خواہش کی پیروی کرتے ہوئے رفعت و بلندی کے بجائے زمین کے ساتھ چمٹنا پسند کرلیا ہے یہاں زمین کے ساتھ چمٹنے سے مراد فکر و کردار کی پستی اور دنیا کی طرف مائل ہونا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا اصول اور ضابطہ یہ ہے کہ انسان کو ہدایت اور گمراہی کے راستے کی نشاندہی کرکے کھلا چھوڑ دیا جائے تاکہ انسان جس راستہ کو پسند کرتا ہے اسے اختیار کرسکے۔ علم کا بنیادی مقصد اس کے ذریعے رہنمائی پانا ہے اگر کوئی شخص صاحب علم ہو کر بھی جہالت اور گمراہی کے راستہ کو پسند کرتا ہے تو اسے ہدایت پر کیوں کر مجبور کیا جا سکتا ہے۔ ایسے علم والے کی مثال تو اس کتے کی ہے جس پر حملہ کیا جائے یا نہ کیا جائے اور اس پر بوجھ ڈالا جائے یا نہ ڈالا جائے وہ ہر صورت زبان لٹکائے ہانپتا پھرتا ہے۔ کتے کو دیکھنے والا اس بات کا اچھی طرح اندازہ کرسکتا ہے کہ کتا سدھایا ہوا ہو یا آوارہ، سردی ہو یا گرمی، بھوکا ہو یا اس کا پیٹ بھرا ہوا ہو۔ وہ ہر وقت ہانپتا ہے اور چلتے پھرتے زمین سونگھتا اور جگہ جگہ اپنی زبان مارتا پھرتا ہے۔ یہ ایسا جانور ہے جو کبھی سیر چشم نہیں ہوتا یہاں تک کہ اگر آپ اسے پتھر ماریں تو وہ اسے بھی چاٹنے کی کوشش کرتا ہے۔ اتنا بد خصلت اور لالچی جانور ہونے کے باوجود اپنے مالک کا وفادار اور سدھایا ہوا کتا اپنے آقا کے حکم پر عمل کرتا ہے۔ لیکن ایک دنیا پرست عالم کا حال اس سے بھی بدتر ہوتا ہے۔ کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کی آیات کی تکذیب کرتا ہے۔ اقبال کے بجائے زوال اور استغنا کے بجائے بھوک اور لالچ میں آگے ہی بڑھتا جاتا ہے۔ ایک وقت آتا ہے کہ ایسے علماء پکار اٹھتے ہیں کہ واقعی ہم نے اپنے آپ کو ہلاکت کے گڑھے میں ڈال لیا ہے اور ہم اپنے آپ پر ظلم کرنے والے ہیں۔ یہاں بین السطور یہ وضاحت کردی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر کوئی ذیادتی نہیں کی اگر یہ ہدایت کے طالب ہوتے تو انھیں ہدایت دی جاتی لیکن یہ ہدایت کے بجائے گمراہی کے طالب ہوئے اس لیے انھیں گمراہ ہی رہنے دیا گیا جس طرح اللہ تعالیٰ کا ئنات کے چپے چپے اور ذرے ذرے کا مالک ہے اسی طرح ہدایت اور گمراہی بھی اپنی ملکیت قرار دے کر اسے اپنی طرف منسوب کرتا ہے۔ لہٰذا گمراہ لوگ نقصان ہی اٹھائیں گے۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ علم سے رہنمائی نہ پانے والا شیطان کی پیروی کرتا ہے۔ ٢۔ شیطان انسان کو گمراہ کرکے چھوڑتا ہے۔ ٣۔ دین کے بدلے دنیا پسند کرنے والا عالم کتے کی مانند ہے۔ ٤۔ کتا نہایت ہی حریص جانور ہے۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ کی آیات کو جھٹلانے والے لوگ اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن اعتصام بالکتاب کا حکم : ١۔ اللہ کی رسی کے ساتھ اعتصام کا حکم۔ (آل عمران : ١٠٣) ٢۔ توبہ اور اپنی اصلاح کرنا اللہ تعالیٰ کے ساتھ اعتصام کرنا ہے۔ (النساء : ١٤٦) ٣۔ اللہ تعالیٰ پر ایمان لانا اور اس کے احکام ماننا اللہ سے اعتصام کرنا ہے۔ (النساء : ١٧٦) ٤۔ جو نیکی کے کام کرے اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ اعتصام کرے اللہ اس کی مدد فرمائے گا۔ (الحج : ٧٨) نفسانی خواہش کی پیروی کے نقصانات : ١۔ جس نے اپنی خواہش کو رب بنالیا ہے کیا آپ اس کے ذمہ دار ہیں؟ (الفرقان : ٤٣) ٢۔ اپنی خواہش کی پیروی کرنے والا اللہ کے ذکر سے غافل ہوتا ہے۔ (الکہف : ٢٨) ٣۔ قیامت کا منکر اپنے نفس کا بندہ ہوتا ہے اس سے دھوکہ نہیں کھانا چاہیے۔ (طٰہٰ: ١٦) ٤۔ جس نے اپنی خواہشات کی پیروی کی وہ گمراہ ہوا۔ (القصص : ٥٠) ٥۔ ظالم اپنی خواہشات کی پیروی کرتے ہیں۔ (الروم : ٢٩) الاعراف
176 الاعراف
177 الاعراف
178 الاعراف
179 فہم القرآن ربط کلام : دین کے بدلے دنیا کمانے والے نقصان پانے کے ساتھ جہنم میں جائیں گے یہاں ان کے جہنم میں جانے کی بنیادی وجہ بیان کی گئی ہے۔ جہنمیوں کے جہنم میں جانے کی وجہ بیان کرنے سے پہلے فرمایا کہ ہم نے بہت سے جنات اور انسانوں کو جہنم کے لیے پیدا کیا ہے۔ اس سے یہ مغالطہ پیدا ہوتا ہے اگر اللہ تعالیٰ نے بہت سے انسانوں اور جنات کو جہنم کے لیے ہی پیدا کیا ہے تو اس میں انسانوں اور جنات کا کیا گناہ ہے ؟ دوسرا سوال یہ کیا جاتا ہے کہ سورۃ الذٰریت آیت ٥٦ میں اللہ تعالیٰ نے جنوں اور انسانوں کی تخلیق کا مقصد یہ بیان فرمایا ہے کہ ہم نے ان کو اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے۔ اس طرح ایک مغالطہ پیدا ہونے کے ساتھ قرآن مجید کی آیات میں بظاہر تعارض بھی دکھائی دیتا ہے۔ اس مغالطہ اور سوال کا جواب دیتے ہوئے قرآن مجید کے مشہور مفسر امام الرازی (رح) لکھتے ہیں کہ عربی زبان میں حرف لام کسی چیز کا انجام اور اس کی انتہا بیان کرنے کے لیے بھی آتا ہے۔ یہاں لفظ لام جہنم کے ساتھ انجام کے لیے لایا گیا ہے جس کا مفہوم یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے تو انھیں اپنی عبادت کے لیے پیدا فرمایا تھا۔ لیکن انھوں نے اپنے کردار کی وجہ سے اپنا انجام جہنم بنا لیا ہے۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے انھیں دل عطا کیے تھے تاکہ غور و فکر کریں انھیں آنکھیں دیں تاکہ ہر معاملہ کو غور سے دیکھیں انھیں کان بخشے گئے تاکہ ہر بات کو توجہ کے ساتھ سنیں لیکن انھوں نے سوچنا، غور سے دیکھنا اور توجہ کے ساتھ سننا گوارا نہ کیا اس طرح جانوروں کی مانند ہوئے کیوں کہ جانوروں کے پاس دل، آنکھیں اور کان موجود ہوتے ہیں۔ لیکن ان میں کھانے، پینے، اٹھنے، بیٹھنے، سونے اور چلنے پھرنے کے علاوہ کوئی صلاحیت نہیں ہوتی۔ لیکن اس کے باوجود اپنے مالک کے وفادار اور اس کے ساتھ محبت کرتے ہوئے اس کا کہنا مانتے اور اس کی ناراضگی سے ڈرتے ہیں۔ انسان اور جنات جانوروں سے اس لیے بدتر ٹھہرے کہ ان کے پاس نہ صرف سوچنے، دیکھنے اور سننے کی صلاحیت چوپاؤں سے کئی گنا زیادہ ہے بلکہ ان کی رہنمائی کے لیے انبیاء اور آسمانی کتب کا انتظام کیا گیا ہے لیکن یہ دنیا کے معاملات میں اس قدر مشغول ہوئے کہ اپنے خالق و مالک اور اس کے احکام سے یکسر غافل ہوگئے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جنوں اور انسانوں کی اکثریت نے اپنے عمل سے یہ ثابت کردیا کہ گویا کہ جہنم کے لیے ہی پیدا کیا گیا ہے۔ مسائل ١۔ جنوں اور انسانوں کی اکثریت جہنم میں جائے گی۔ ٢۔ جہنم میں جانے کا بنیادی سبب یہ ہے کہ انھوں نے اپنے دل، آنکھوں اور کانوں کو ہدایت کے لیے استعمال نہیں کیا۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کے احکام سے غفلت کرنے والے جانوروں سے بدتر ہیں۔ تفسیر بالقرآن اندھے، بہرے لوگ اور ان کا انجام : ١۔ اہل ایمان اور کفر کی مثال اندھے بہرے اور دیکھنے سننے والوں کی طرح ہے۔ (ھود : ٢٤) ٢۔ اللہ کی آیات کی تکذیب کرنے والے اندھے بہرے ہیں۔ (الانعام : ٣٩) ٣۔ کانوں آنکھوں کا صحیح استعمال نہ کرنے والے لوگ جانوروں سے بھی بدتر ہیں۔ (الاعراف : ١٧٩) ٤۔ اندھے بہرے لوگ عقل نہیں رکھتے۔ (البقرۃ: ١٧١) ٥۔ بہرے وحی کو نہیں سنتے۔ (الانبیاء : ٤٥) ٦۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی اندھے بہرے لوگوں کو ہدایت نہیں دے سکتے۔ (الروم : ٥٢) ٧۔ اندھے بہرے لوگ ہدایت کی طرف نہیں لوٹتے۔ (البقرۃ: ١٨) الاعراف
180 فہم القرآن ربط کلام : جنات اور انسانوں کو جہنم کے لیے پیدا کرنے کی وجہ یہ بیان فرمائی یہ اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کی آیات سے غافل ہیں جہنم سے نجات پانے کا ایک ہی ذریعہ ہے کہ عقل و فکر سے کام لے کر اللہ تعالیٰ کو یاد کرتے ہوئے اس کے احکام پر عمل کیا جائے۔ ہر دور کے کافر اور مشرکوں نے اللہ تعالیٰ کی ذات کے ساتھ تغافل کا مظاہرہ کیا ہے۔ یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرکے نہ صرف اس کی صفات کو اپنے معبودوں میں تصور کرتے ہیں بلکہ ان کے نام اللہ تعالیٰ کے نام پر رکھتے ہیں جو بدترین گناہ اور سنگین جرم ہے۔ ایسے لوگ سمجھانے کے باوجود باز نہ آئیں تو انھیں ان کی حالت پر چھوڑ دینا چاہیے یعنی ان سے قلبی نفرت ہونی چاہیے۔ یہاں اس بات کا حکم دیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو اس کے اسمائے حسنیٰ کے ساتھ پکارا کرو اور ان لوگوں کو بالکل چھوڑ دو جو اللہ تعالیٰ کے ناموں میں الحاد کرتے ہیں۔ انھیں بہت جلد اپنے قول اور فعل کی سزا دی جائے گی۔ اللہ تعالیٰ کا اسم اعظم اللہ ہے۔ یہ ایسا عظیم المرتبت اور عظیم الرعب اسم عالی اور گرامی ہے کہ صرف اور صرف خالق کائنات کی ذات کو زیبا اور اس کے لیے مختص ہے۔ یہ اس کا ذاتی نام ہے اس اسم مبارک کے اوصاف اور خواص میں سے ایک خاصہ یہ بھی ہے کہ کائنات میں انتہا درجے کے کافر، مشرک اور بدترین باغی انسان گزرے ہیں اور ہوں گے۔ جن میں اپنے آپ کو داتا، مشکل کشا، موت و حیات کا مالک کہنے والے حتی کہ ” اَنَا رَبُّکُمُ الْاَعَلٰی“ کہلوانے والے بھی ہوئے ہیں۔ مگر اس نام کی جلالت و ہیبت کی وجہ سے اپنے آپ کو اللہ کہلوانے کی کوئی جرأت نہیں کرسکا اور نہ کرسکے گا۔ مکے کے مشرک اپنے بتوں کو سب کچھ مانتے اور کہتے تھے لیکن وہ بتوں کو اللہ کہنے کی جرأت نہیں کرسکے تھے۔ اللہ ہی انسان کا ازلی اقرار اور اس کی فطری آواز ہے جس بنا پر ہر کام بِسْمِ اللّٰہِ سے شروع کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ یہ اسم مبارک اپنے آپ میں خا لقیت، مالکیت، جلالت و صمدیت، رحمن و رحیمیت کا ابدی اور سرمدی تصور لیے ہوئے ہے۔ قرآن مجید میں اللہ کا نام ٢٦٩٧ مرتبہ وارد ہوا ہے۔ جہاں تک اللہ تعالیٰ کے صفاتی ناموں کا تعلق ہے ان کی دو اقسام ہیں۔ ایک وہ نام ہیں جو صرف اللہ تعالیٰ کے لیے ہی خاص ہیں دوسرے وہ ہیں جن میں سے کوئی نام کسی آدمی کا بھی رکھا جا سکتا ہے۔ مثلاً کریم ہے بہتر تو یہ ہے کہ یہ بھی نام عبدالکریم ہونا چاہیے تاہم کوئی صرف کریم نام رکھنا چاہے تو رکھ سکتا ہے کیونکہ کریم کا معنی درگزر کرنے والا اور سخی ہے جو کسی آدمی کی صفت اور نام بھی ہوسکتا ہے لیکن انسان کی کریمی اور اللہ تعالیٰ کی کریمی کا آپس میں کوئی تعلق اور نسبت نہیں ہو سکتی۔ نبی رحمت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اللہ تعالیٰ کے ننانوے نام بتلائے ہیں جس نے ان کو یاد کرلیا وہ جنت میں داخل ہوجائے گا۔ یاد کرنے سے مراد صرف حفظ کرنا نہیں بلکہ ان کے مطابق انسان کا عقیدہ بھی ہونا چاہیے۔ (بخاری کتاب التوحید) اس آیت مبارکہ میں اللہ تعالیٰ کو اس کے اسمائے حسنہ کے ساتھ پکارنے کا حکم دے کر یہ تلقین فرمائی ہے کہ (وَذَرُوْاالَّذِینَ یُلْحِدُونَ فِیْٓ أَسْمَآءِہٖ) اس کے نام میں الحاد یہ ہے کہ جو نام اللہ تعالیٰ کے لیے خاص ہیں وہ کسی زندہ، مردہ یا کسی کمپنی کا نام رکھا جائے جس طرح آج کل بعض مسلمان جہالت کی بناء پرکسی جنرل سٹور کا نام الرحیم یا الرحمن رکھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ مشکل کشا ہے اور آدمی کسی دوسرے کو بھی مشکل کشا اور حاجت روا سمجھتے ہوئے اس کو اس نام سے پکارے جیسا کہ جاہل اور مشرک لوگ پیر عبدالقادر جیلانی (رح) کو پیر دستگیر کہتے ہیں یعنی ڈوبتے ہوئے یا گرنے والے کا ہاتھ تھامنے والا۔ اور یہ وظیفہ بھی کرتے ہیں۔ یَا عَبْدَ الْقَادِرِ شَیْئا للّٰہِ ” اے عبدالقادر اللہ کے لیے کچھ دیجیے“ جاہل لوگ حضرت علی ہجویری (رح) کو داتا گنج بخش کہتے ہیں جس کا مطلب ہے خزانے بخشنے والا۔ غوث اعظم بڑا فریادیں سننے والا اس سے پہلے ارشاد فرمایا کہ ہم نے بہت سے جنات اور انسانوں کو جہنم کے لیے پیدا کیا ہے جس کی وضاحت آپ پہلے پڑھ چکے ہیں۔ اب استثناء کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ ہم نے ایک امت یعنی جماعت ایسی بھی پیدا فرمائی ہے جو لوگوں کو حق کی رہنمائی کرتے ہیں اور عدل کا حکم دیتے ہیں۔ اس کے برعکس جو لوگ ہماری آیات کی تکذیب کرتے ہیں ہم ان کو اس طرح کھینچ کر جہنم کی طرف لے جا رہے ہیں کہ انھیں اس کی خبر تک نہ ہے۔ ہم نے انھیں مہلت دے رکھی ہے۔ انھیں معلوم ہونا چاہیے کہ یہ مہلت دینے کی تدبیر نہایت مضبوط ہے، کسی کو مہلت دینے کا یہ مطلب نہیں کہ وہ رب ذوالجلال کی گرفت سے بچ جائے گا۔ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ رِوَایَۃً قَالَ لِلّٰہِ تِسْعَۃٌ وَتِسْعُونَ اسْمًا ماءَۃٌ إِلَّا وَاحِدًا لَا یَحْفَظُہَا أَحَدٌ إِلَّا دَخَلَ الْجَنَّۃَ وَہُوَ وِتْرٌ یُحِبُّ الْوِتْرَ)[ رواہ البخاری : کتاب الدعوات، باب للہ ماءۃ اسم غیر واحد] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ تعالیٰ کے ننانوے نام ہیں جو کوئی انہیں یاد کرلے گا جنت میں داخل ہوگا اللہ ایک ہے اور ایک کو پسند کرتا ہے۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ کے اسماء حسنیٰ اس کے صفات کمال کے حامل ہیں۔ ٢۔ توحید اسماء و صفات عقیدہ توحید کا حصہ ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ کی صفات کے ساتھ مخلوق کو پکارنے والوں کو عذاب ہوگا۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ کی تدابیر نہایت مضبوط ہیں۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ کے اسمائے گرامی : ١۔ اللہ کہہ کر پکارو یا رحمن۔ اللہ کے لیے اچھے نام ہیں۔ (الاسراء : ١١٠) ٢۔ اللہ کے علاوہ کوئی اِلٰہ نہیں۔ اس کے اچھے نام ہیں۔ (طٰہٰ : ٨) ٣۔ وہ خالق، باری، المصور ہے اس کے اچھے اچھے نام ہیں۔ (الحشر : ٢٤) ٤۔ وہ اول ہے، وہ آخر ہے، وہ ظاہر اور باطن ہے اور وہ ہر چیز کو جاننے والا ہے۔ (الحدید : ٣) ٥۔ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں وہ زندہ اور قائم ہے۔ (البقرۃ: ٢٥٥۔ آل عمراٰن : ٢) الاعراف
181 الاعراف
182 الاعراف
183 الاعراف
184 فہم القرآن ربط کلام : نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب کفار کو اللہ تعالیٰ کی توحید سمجھاتے اور بتلاتے تو وہ دیگر الزامات کے ساتھ آپ کو مجنوں اور پاگل کہتے تھے جس کا جواب دیا گیا ہے۔ کفار نبی محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو درج ذیل وجوہات کی بنیاد پر مجنون کہتے تھے۔ ١۔ ایک الٰہ تمام لوگوں کی مشکلات کس طرح حل کرسکتا ہے۔ ٢۔ کفار کا کہنا تھا کہ ہم اللہ تعالیٰ کی ذات کا کب انکار کرتے ہیں۔ ہمارا عقیدہ تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے خود ہی ہمارے معبودوں کو کچھ اختیارات دے رکھے ہیں۔ ٣۔ نبی اس لیے مجنون ہے کہ توحید کے سوا کوئی اور بات نہیں کرتا۔ ہر وقت توحید، توحید کی رٹ لگائے ہوئے ہے۔ ٤۔ معاشرہ اور برادری میں اس کا بڑا مقام اور احترام تھا مگر اس نے اپنے مقام اور احترام کو برباد کرلیا ہے۔ ٥۔ ہم نے اسے ہر قسم کی مراعات کی پیشکش کی ہے لیکن یہ جنونیوں کی طرح ایک ہی بات کہے جارہا ہے۔ ٦۔ کفار نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مندرجہ بالا وجوہات کی بناء پر عوام میں مجنون کہتے تھے۔ لیکن ذاتی طور پر پوری دیانت داری سے سمجھتے تھے کہ آپ انتہائی ذہین، دانشور اور صاحب بصیرت انسان ہیں۔ جس کا تجربہ انھوں نے قومی سطح پر اس وقت کیا تھا۔ جب آپ کی عمر مبارک ٣٥ سال کی تھی۔ بیت اللہ کی تعمیر کے وقت حجر اسود رکھنے پر اہل مکہ کے درمیان کشت و خون کی نوبت پیدا ہوچکی تھی۔ آپ نے انتہائی پر آشوب حالات اور جذباتی فضا میں ایسا فیصلہ فرمایا کہ آپ کی ذہانت کے نہ صرف اہل مکہ قائل ہوئے بلکہ پورے حجاز میں آپ کو خراج تحسین پیش کیا گیا۔ آپ کی ٦٣ سالہ زندگی میں بدترین دشمن بھی کسی ایک کام یا بات کی نشاندہی نہ کرسکے۔ جس وجہ سے آپ کو معمولی عقل رکھنے والا انسان کہا جا سکے۔ ان حقائق کی بنیاد پر سورۃ سباء آیت ٤٦ میں کفار کو چیلنج دیا گیا ہے کہ تم اللہ کے لیے کھڑے ہوجاؤ دو دو اور ایک ایک ہو کر سوچو! کہ کیا اس نبی کو کوئی جنون ہے۔ یہ تو صرف اس لیے رات دن ایک کیے ہوئے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو لوگوں کے برے انجام سے ڈرانے کے لیے بھیجا ہے لہٰذا آپ کھلے الفاظ میں لوگوں کو ڈرانے والے ہیں۔ جس عقیدۂ توحید کی بناء پر تم اس رسول کو پاگل کہتے ہو بتاؤ کبھی تم نے زمین و آسمان کے انتظام و انصرام اور جو کچھ اللہ تعالیٰ نے ان کے درمیان پیدا کیا اس پر غور کیا ؟ کیا نظام قدرت میں کسی اعتبار سے بھی کسی کا عمل دخل ہے ؟ اور کبھی سوچا کہ اس نظام کے خاتمہ کا وقت کتنا قریب آلگا ہے، یہ اشارہ فرما کر توحید کے منکروں کو قیامت برپا ہونے کا احساس دلاکر فرمایا ہے کہ مزید کونسی دلیل ہوگی جس پر تم ایمان لاؤ گے۔ دراصل جسے اللہ تعالیٰ اس کی بد اعمالیوں کی وجہ سے گمراہ کردے اسے کوئی ہدایت دینے والا نہیں۔ انھیں ان کے گناہوں میں اس لیے چھوڑا جا رہا ہے تاکہ یہ اپنے گناہوں میں سرگرداں رہیں۔ مسائل ١۔ رسول لوگوں کو ان کے برے انجام سے ڈرانے کے لیے آتا ہے۔ ٢۔ عقیدۂ توحید کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ انسان اللہ کی مخلوق پر غور و خوض کرے۔ ٣۔ آدمی کو اپنی موت سے پہلے اپنا عقیدہ اور اعمال درست کرلینے چاہییں۔ ٤۔ جس کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ اسے گمراہ کر دے اسے کوئی ہدایت دینے والا نہیں۔ ٥۔ گمراہ شخص ہر وقت اپنے گناہوں میں پریشان رہتا ہے۔ تفسیر بالقرآن نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی داعیانہ حیثیت : ١۔ اللہ تعالیٰ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حق دے کر بشیر و نذیر بنا کر بھیجا ہے۔ (البقرۃ: ١١٩) ٢۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ تعالیٰ کے دین کے داعی اور روشن چراغ ہیں۔ (الاحزاب : ٤٦) ٣۔ اللہ تعالیٰ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو شاہد، بشیر اور نذیر بنا کر بھیجا ہے۔ (الاحزاب : ٤٥) ٤۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اللہ تعالیٰ نے پوری دنیا کے لیے بشیر اور نذیر بنا کر بھیجا ہے۔ (سبا : ٢٨) ٥۔ اللہ تعالیٰ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو رحمۃ للعالمین بنا کر بھیجا ہے۔ (الانبیاء : ١٠٧) الاعراف
185 الاعراف
186 الاعراف
187 فہم القرآن ربط کلام : کفار نہ صرف عقیدہ توحید کے منکر تھے بلکہ قیامت کے برپا ہونے پر بھی یقین نہیں رکھتے تھے جس وجہ سے وہ آپ کا مذاق اڑاتے ہوئے پوچھتے کہ قیامت کب آئے گی۔ یہاں اس کا جواب دیا گیا ہے۔ کفار قیامت کے قائم ہونے کا استہزاء اڑانے اور نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پریشان کرنے کے لیے آپ سے مطالبہ کرتے کہ جس قیامت کے برپا ہونے سے آپ ہمیں ڈراتے اور دھمکاتے ہیں یہ کب آئے گی اگر تیرے پاس کوئی اختیار ہے تو اسے ہم پر برپا کر دے۔ اس کا جواب آپ کی زبان اطہر سے یوں دلوایا جا رہا ہے کہ آپ انھیں فرمائیں کہ قیامت کے برپا ہونے کا وقت میرے رب کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ میرارب ہی اسے اس کے وقت پر برپا کرے گا لیکن یاد رکھو قیامت کا برپا ہونا زمین و آسمان اور ان کی ہر چیز پر بھاری ہوگا۔ کوئی چیز بھی اس کی ہولناکیوں کو برداشت نہ کرسکے گی۔ جس قیامت کا تم مذاق اڑاتے ہو وہ تمھارے پاس اچانک اور آناً فاناً آجائے گی۔ جسے کسی کا تکبر اور بڑائی ٹال نہیں سکے گی۔ اے رسول! یہ تو قیامت کے بارے میں آپ سے اس طرح سوال کرتے ہیں جیسے آپ ہر وقت اس کی تلاش میں لگے ہوئے ہوں۔ انھیں بتائیں کہ قیامت کے دن کا علم اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ یہ اچانک اور ہر حال میں برپا ہونے والی ہے لیکن اس کے باوجود لوگوں کی اکثریت اس حقیقت کو جاننے یعنی اس کے لیے اپنے آپ کو تیار کرنے کے لیے آمادہ نہیں ہوتی۔ اس آیت میں کفار کے مزاج اور انکار کا اندازہ ہوتا ہے کہ وہ کس تکرارو استکبار کے ساتھ آپ سے قیامت کے برپا ہونے کا مطالبہ کرتے تھے جس کے جواب میں دو باتیں ارشاد فرمائی گئی ہیں۔ ١۔ قیامت کا علم صرف اللہ تعالیٰ کے پاس ہے۔ ٢۔ قیامت کی ہولناکیوں کو زمین و آسمان بھی برداشت نہیں کرسکیں گے۔ جب یہ اتنا بھاری اور ہولناک واقعہ ہوگا تو اس کا مذاق اڑانا اور اس کے لیے جلدی کرنا سوائے حماقت کے اور کچھ نہیں ہوسکتا۔ (اِنَّ اللّٰہَ عِنْدَہٗ عِلْمُ السَّاعَۃِ وَیُنَزِّلُ الْغَیْثَ وَ یَعْلَمُ مَا فِی الْاَرْحَامِ وَمَا تَدْرِیْ نَفْسٌ مَّا ذَاتَکْسِبُ غَدًا وَمَا تَدْرِیْ نَفْسٌمبِاَیِّ اَرْضٍ تَمُوْتُ اِنَّ اللّٰہَ عَلِیْمٌ خَبِیْرٌ۔) ” اس گھڑی کا علم اللہ ہی کے پاس ہے، وہی بارش برساتا ہے، وہی جانتا ہے کہ ماؤں کے پیٹوں میں کیا پرورش پا رہا ہے، کوئی متنفس نہیں جانتا کہ کل وہ کیا کمائی کرنے والا ہے اور نہ کسی شخص کو یہ خبر ہے کہ کس سر زمین میں اس کو موت آنی ہے، اللہ ہی سب کچھ جاننے والا اور باخبر ہے۔“ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ قَالَ کَان النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بَارِزًا یَوْمًا للنَّاسِ فَأَتَاہُ جِبْرِیلُ۔۔ فقَالَ مَتَی السَّاعَۃُ قَالَ مَا الْمَسْءُولُ عَنْہَا بِأَعْلَمَ مِنَ السَّاءِلِ)[ رواہ البخاری : کتاب الایمان باب سؤال جبریل ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں ایک دن نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صحابہ کرام (رض) کے پاس بیٹھے تھے۔ جبرائیل (علیہ السلام) آئے۔۔ انہوں نے پوچھا کہ قیامت کب آئے گی؟ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس سے سوال کیا گیا ہے وہ سائل سے زیادہ نہیں جانتا۔“؟ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لَتَقُومَنَّ السَّاعَۃُ وَثَوْبُہُمَا بَیْنَہُمَا لَا یَطْوِیَانِہٖ وَلَا یَتَبَایَعَانِہٖ وَلَتَقُومَنَّ السَّاعَۃُ وَقَدْ حَلَبَ لِقْحَتَہٗ لَا یَطْعَمُہٗ وَلَتَقُومَنَّ السَّاعَۃُ وَقَدْ رَفَعَ لُقْمَتَہٗ إِلٰی فیہٖ وَلَا یَطْعَمُہَا وَلَتَقُومَنَّ السَّاعَۃُ وَالرَّجُلُ یَلِیطُ حَوْضَہٗ لَا یَسْقِی مِنْہٗ )[ رواہ احمد] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کپڑا بیچنے اور خریدنے والے ابھی سمیٹ نہیں سکیں گے کہ قیامت آجائے گی۔ ایک آدمی اپنی اونٹنی کا دودھ دوہ رہا ہوگا اور وہ اس کو پی نہیں سکے گا کہ قیامت قائم ہوجائے گی۔ کھانا کھانے والا لقمہ اپنے منہ کی طرف اٹھائے گا۔ اس کو کھا نہیں سکے گا تو قیامت قائم ہوجائے گی۔ ایک آدمی اپنا حوض ٹھیک کر رہا ہوگا وہ اس سے پانی پی نہیں سکے گا کہ قیامت قائم ہوجائے گی۔“ (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ لَا تَقُوم السَّاعَۃُ إِلَّا عَلٰی شِرَار النَّاسِ ) [ رواہ مسلم : کتاب الفتن واشراط الساعۃ باب قرب الساعۃ] ” حضرت عبداللہ (رض) نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان نقل کرتے ہیں کہ قیامت صرف برے لوگوں پر قائم ہوگی۔“ (عَنْ اَنَسٍ (رض) اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ لَا تَقُوْمُ السَّاعَۃُ حَتّٰی لَا یُقَالَ فِیْ الْاَرْضِ اَللّٰہُ اَللّٰہُ وَفِیْ رِوَایَۃٍ قَالَ لَا تَقُوْمُ السَّاعَۃُ عَلٰی اَحَدٍ یَقُوْلُ اَللّٰہُ اَللّٰہُ۔)[ رواہ مسلم : باب ذَہَابِ الإِیمَانِ آخِرَ الزَّمَانِ) حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں‘ رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا قیامت اس وقت تک قائم نہ ہوگی جب تک زمین پر اللہ اللہ کی آواز آنا ختم نہ ہوجائے گی ایک روایت میں ہے قیامت ایسے شخص پر قائم نہیں ہوگی، جو اللہ اللہ کہنے والا ہوگا۔ مسائل ١۔ قیامت وقت مقررہ سے ایک لمحہ بھی آگے پیچھے نہیں ہوسکے گی۔ ٢۔ قیامت اچانک واقع ہوگی۔ تفسیر بالقرآن قیامت کی ہولناکیاں : ١۔ جب زمین کو ہلا دیا جائے گا پوری طرح ہلا دینا۔ (الزلزال : ١) ٢۔ جب واقعہ ہوگی واقعہ ہونے والی۔ (الواقعۃ: ١) ٣۔ لوگو! اپنے رب سے ڈر جاؤ قیامت کا زلزلہ بہت سخت ہے۔ (الحج : ١) ٤۔ قیامت زمین و آسمانوں پر بھاری ہوگی۔ (الاعراف : ١٨٧) ٥۔ قیامت کے دن لوگ اڑتے پروانوں کی طرح ہوں گے۔ (القارعۃ : ٤) ٦۔ قیامت کے دن پہاڑ اون کی طرح ہوں گے۔ (القارعۃ: ٥) ٧۔ قیامت کا دن انتہائی دردناک ہوگا۔ (ھود : ٢٦) ٨۔ زمین کو ہلا کر تہہ و بالا کردیا جائے گا۔ (واقعۃ : ٣، ٤) ٩۔ پہاڑ ریزہ ریزہ ہو کر پر اگندہ غبار کی طرح ہوجائیں گے۔ (الواقعۃ: ٥، ٦) ١٠۔ زمین چٹیل میدان بنا دی جائے گی۔ ( الواقعہ : ٤ ) الاعراف
188 فہم القرآن ربط کلام : کفار نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا کہ قیامت کب آئے گی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہلوایا گیا کہ اس کا علم تو میرے رب کے پاس ہے اب اس کا مزید جواب دیا جار ہا ہے۔ باطل فرقوں کی ہمیشہ سے عادت رہی ہے کہ وہ انبیاء کرام (علیہ السلام) کے ذمہ وہ بات لگاتے اور ان سے مافوق الفطرت کاموں کی توقع اور ایسے مطالبات کرتے رہے کہ جس کا انھوں نے کبھی دعویٰ نہیں کیا۔ یہی حالت اہل مکہ کی تھی۔ کبھی آپ سے یہ مطالبہ کرتے کہ ہم آپ پر تب ایمان لائیں گے جب تک آپ ہمارے لیے زمین سے چشمہ جاری نہ کردیں یا پھر آپ کے پاس کھجوروں کا ایسا باغ ہونا چاہیے جس میں نہریں جاری ہوں، یہ نہیں تو آپ اپنے دعویٰ کے مطابق آسمان ٹکڑے ٹکڑے کرکے ہم پر گرا ڈالیں۔ اگر یہ کام نہیں کرسکتے تو اللہ تعالیٰ اور ملائکہ کو ہمارے سامنے لے آئیں تاکہ ہم ان سے ہم کلام ہونے کے ساتھ انھیں دیکھ لیں۔ اگر یہ بھی نہیں ہوسکتا تو آپ کا گھر سونے کا ہونا چاہیے۔ آخری بات انھوں نے یہ کہی کہ آپ ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے آسمان پر چڑھ جائیں لیکن یاد رکھنا ہم پھر بھی آپ پر ایمان نہیں لائیں گے جب تک آپ ہمارے لیے ایسی لکھی لکھائی کتاب نہ لائیں جس کو ہم خود دیکھ کر پڑھ سکیں۔ ان بے ہودہ سوالات کے جواب میں آپ کو صرف اتنا کہنے کا حکم ہوا کہ آپ انھیں فرمائیں کہ میرا رب یہ کرنا چاہے تو اس کے پاس ایسا کرنے کا پورا اختیار اور طاقت ہے۔ کیونکہ وہ ہر کمزوری سے مبرا اور پاک ہے لیکن مجھے تو میرے رب نے صرف ایک انسان اور رسول بنایا ہے۔ ” اور کہنے لگے : ہم آپ پر ایمان نہ لائیں گے جب تک آپ ہمارے لیے زمین سے چشمہ نہ جاری کردیں۔ یا آپ کا کھجوروں اور انگوروں کا باغ ہو جس میں نہریں بہا دے۔ یا آپ آسمان کو ٹکڑے ٹکڑے کرکے ہم پر گرا دیں جیسے آپ کا دعویٰ ہے یا اللہ اور فرشتوں کو سامنے لے آئیں۔ یا آپ کے لیے سونے کا کوئی گھر ہو یا آپ آسمان میں چڑھ جائیں اور ہم آپ کے چڑھنے کو بھی نہ مانیں گے حتیٰ کہ آپ ہم پر کتاب اتار لائیں جس کو ہم پڑھ لیں کہیے : پاک ہے میرا رب ! میں تو محض ایک انسان ہوں پیغام پہنچانے والا۔“ [ بنی اسرائیل : ٩٠ تا ٩٣] یعنی نہ میں نے کبھی ایسی باتوں کا وعدہ اور دعویٰ کیا ہے اور نہ ہی یہ چیزیں میرے اختیار میں ہیں۔ یہاں تک کہ میں اپنے نفع و نقصان کا بھی اختیار نہیں رکھتا مگر جو اللہ تعالیٰ چاہے اگر میں غیب جاننے والا ہوتا تو یقیناً اپنے لیے بہت سی خیر جمع کرلیتا اور مجھے کبھی نقصان نہ پہنچتا۔ میرا دعویٰ صرف یہ ہے میں ایمان لانے والوں کے لیے ڈرانے اور خوشخبری دینے والا بنا کر بھیجا گیا ہوں۔ قرآن مجید نے متعدد مقامات پر عقیدۂ توحید کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا خواہ کوئی ولی، نبی اور فرشتہ ہی کیوں نہ ہو۔ اسے اپنے یا دوسرے کے نفع و نقصان کا کوئی اختیار حاصل نہیں۔ لیکن افسوس فرقہ واریت کی لہر میں بہہ کر بڑے بڑے علماء کھلم کھلا اپنے بزرگوں کے ایسے اقوال نقل کرتے ہیں جو واضح طور پر قرآن و سنت کے منافی ہوتے ہیں۔ جیسا کہ اس مقام پر ایک عالم نے کچھ اقوال کے ذریعے اپنا کمزور عقیدہ ثابت کرنے کی لاحاصل کوشش کی ہے۔ اس آیت کریمہ میں حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی ذات مقدسہ سے الوہیت کی نفی فرما رہے ہیں کہ میں خدا نہیں۔ کیونکہ خدا وہ ہے جس کی قدرت کامل اور اختیار مستقل ہے جو چاہے کرسکتا ہے۔ نہ کسی کام سے اسے کوئی روک سکتا ہے اور نہ اسے کسی کام پر مجبور کرسکتا ہے۔ اور مجھ میں یہ اختیار کامل اور قدرت مستقلہ نہیں پائی جاتی۔ میرے پاس جو کچھ ہے میرے رب کا عطیہ ہے اور میرا سارا اختیار اسی کا عنایت فرمودہ ہے۔ ” لَا اَمْلِکُ“ کے کلمات سے اپنے اختیار کامل کی نفی فرمائی اور ” اِلَّا مَا شَاء اللّٰہُ“ سے اس غلط فہمی کا ازالہ کردیا کہ کوئی نادان یہ نہ سمجھے کہ حضور کو نفع و ضرر کا کچھ اختیار ہی نہیں۔ فرمایا مجھے اختیار ہے اور یہ اختیار اتنا ہی ہے جتنا میرے رب کریم نے مجھے عطا فرمایا ہے۔ اب رہی یہ بات کہ کتنا عطا فرمایا ہے تو انسانی عقل کا کوئی پیمانہ اور کوئی اندازہ اس کا احاطہ نہیں کرسکتا۔ کوئی بناوٹی حد قائم نہیں کی جا سکتی۔ اس ایک آیت کریمہ میں ہی غور فرمائیے وَلَسَوْفَ یُعْطِیکَ رَبُّکَ فَتَرْضٰی۔”(اے حبیب (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تیرا رب تجھے اتنا دے گا کہ تو راضی ہوجائے گا۔“ کیا لطف ہے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی ساری توانائیوں اور قوتوں سے برأت کرتے ہوئے ہر بات اپنے خالق و مالک کی مرضی اور مشیت کے سپرد کردی اور اس بندہ نواز نے اپنی مشیت کو اپنے محبوب بندے کی رضاو خوشنودی پر منحصر کردیا۔ بتا دیا تجھے دینے والا میں ہوں۔ خود تمھیں دوں گا اور اتنا دوں گا جتنا تو چاہے گا۔ اب اس عالی ظرف آقا کی وسعت ظرف کو ملاحظہ فرمائیے۔ جب (وَلَسَوْفَ یُعْطِیکَ رَبُّکَ فَتَرْضٰی) کا مژدہ پہنچا تو عرض کی اے کریم ! میں تو اس وقت تک راضی نہیں ہوں گا جب تک میری امت کا آخری فرد بھی جنت میں نہ پہنچ جائے۔ انصاف کردیا۔ کیا آتش جہنم سے بچا لینا دفع ضرر باذن اللہ نہیں۔ کیا جنت میں پہنچا دینا نفع رسانی باذن اللہ نہیں ؟ ہے اور یقیناً ہے۔ یہاں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مختار کل ثابت کرنے کے لیے ایک حدیث کا حوالہ دیا ہے اور آپ کے بارے میں علم الغیب ثابت کرنے کے لیے عطائی علم کی اصطلاح کا سہارا لیا ہے یہ ایسا ہی کمزور سہارا ہے جس طرح مرزائی مرزا کو اصلی نبی نہیں کہتے بلکہ عوام الناس کو دھوکا دینے اور مرزا کی نبوت ثابت کرنے کے لیے ظلی اور بروزی نبی کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں۔ الفاظ کے ہیر پھیر کے سوا اس عقیدہ کی کوئی بنیاد نہیں ان کی دیکھا دیکھی ایک طبقہ نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو عالم الغیب ثابت کرنے کے لیے عطائی علم کی اصطلاح اپنائی ہے۔ جس کا معنی ہے کہ آپ واقعی غیب نہیں جانتے تھے سوائے اس کے جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو عطا کیا تھا اس کے لیے قرآن مجید کی واضح اور دو ٹوک آیات کو چھوڑ کر لوگوں کو مغالطہ دینے کے لیے ایک دو ایسی آیات کا حوالہ دیتے ہیں جو متشابہات میں سے ہیں۔ متشابہات آیات کے بارے میں وضاحت کی گئی ہے کہ ان آیات کو قرآن مجید کی مرکزی آیات کے ساتھ ملا کر سمجھنا چاہیے لیکن جن لوگوں کے دلوں میں ٹیڑھ پن ہے اور وہ امت میں فتنہ پیدا کرنا چاہتے ہیں وہ ان آیات کی تفسیر اپنی مرضی سے کرتے ہیں۔ (آل عمران، آیت : ٥) (عَنِ ابْنِ دَارَّۃَ مَوْلٰی عُثْمَانَ (رض) قَالَ إِنَّا لَبِالْبَقِیعِ مَعَ أَبِی ہُرَیْرَۃَ إِذْ سَمِعْنَاہُ یَقُولُ أَنَا أَعْلَمُ النَّاسِ بِشَفَاعَۃِ مُحَمَّدٍ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَوْمَ الْقِیَامَۃِ قَالَ فَتَدَاکَّ النَّاسُ عَلَیْہِ فَقَالُوا إِیہٍ یَرْحَمُکَ اللّٰہُ قَالَ یَقُول اللّٰہُمَّ اغْفِرْ لِکُلِّ عَبْدٍ مُسْلِمٍ لَقِیَکَ یُؤْمِنُ بِی وَلَایُشْرِکُ بِکَ )[ رواہ احمد] ” ابن دارہ جو کہ حضرت عثمان (رض) کے غلام ہیں فرماتے ہیں کہ ہم ابوہریرہ (رض) کے ساتھ بقیع میں بیٹھے ہوئے تھے تو انہوں نے کہا میں لوگوں سے زیادہ جانتاہوں قیامت کے دن محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کس کے ساتھ سفارش کریں گے۔ ابن دارہ کہتے ہیں لوگ ان کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا بتائیے اللہ تعالیٰ آپ پر رحم کرے انہوں نے کہا اے اللہ ہر مسلمان بندے کو بخش دے جو تجھے اس حال میں ملے کہ تجھ پر ایمان لاکر اس نے شرک نہ کیا ہو۔“ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لِکُلِّ نَبِیٍّ دَعْوَۃٌ مُسْتَجَابَۃٌ فَتَعَجَّلَ کُلُّ نَبِیٍّ دَعْوَتَہٗ وَإِنِّی اخْتَبَأْتُ دَعْوَتِی شَفَاعَۃً لِأُمَّتِی یَوْمَ الْقِیَامَۃِ فَہِیَ نَاءِلَۃٌ إِنْ شَاء اللّٰہُ مَنْ مَاتَ مِنْ أُمَّتِی لَا یُشْرِکُ باللّٰہِ شَیْءًا) [ رواہ مسلم : کتاب الایمان، باب اختباء النبی دعوۃ الشفاعۃ لأمتہپ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہر نبی کے لیے ایک ایسی دعا ہوتی ہے جو قبول کی جاتی ہے سارے انبیاء نے اپنی دعاؤں میں جلدی کی اور میں نے اپنی دعا کو آخرت کے لیے اپنی امت کی سفارش کے لیے بچا کر رکھا ہے میری دعا ہر اس شخص کو فائدہ دے گی جو اس حالت میں فوت ہوا کہ اس نے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرایا ہو۔“ (عَنْ عَاءِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا قَالَتْ مَنْ حَدَّثَکَ أَنَّ مُحَمَّدًا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رَأٰی رَبَّہٗ فَقَدْ کَذَبَ وَہُوَ یَقُولُ لَا تُدْرِکُہُ الْأَبْصَارُ وَمَنْ حَدَّثَکَ أَنَّہٗ یَعْلَمُ الْغَیْبَ فَقَدْ کَذَبَ وَہُوَ یَقُولُ لَا یَعْلَمُ الْغَیْبَ إِلَّا اللّٰہُ )[ رواہ البخاری : کتاب التوحید، باب قول اللہ تعالیٰ عالم الغیب فلا یظہر علی غیبہ أحدا] ” حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ جو تمہیں یہ کہے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے رب کو دیکھا ہے تو بلاشبہ وہ جھوٹ بولتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ” اس کو آنکھیں نہیں دیکھ سکتیں“ اور جو کوئی تمہیں یہ کہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) غیب جانتے ہیں تو وہ بھی جھوٹا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ” اللہ کے علاوہ کو غیب نہیں جانتا“۔ مسائل ١۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کسی کو نفع یا نقصان نہیں دے سکتے۔ ٢۔ پیغمبر بھی عام لوگوں کی طرح بیمار ہوتے اور مالی نقصان اٹھاتے تھے۔ ٣۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جنت کی خوشخبری اور جہنم سے ڈرانے کے لیے بھیجے گئے تھے۔ تفسیر بالقرآن نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نفع و نقصان کے مالک نہیں : ١۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرما دیں میں تمھارے نفع و نقصان کا مالک نہیں ہوں۔ (الجن : ٢١ تا ٢٢) ٢۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرما دیں کہ اپنے متعلق بھی نفع و نقصان کا مالک نہیں ہوں۔ (الاعراف : ١٨٨) ٣۔ اگر مجھے کوئی اللہ کی طرف سے تکلیف پہنچے تو اسے اللہ کے سوا کوئی دور نہیں کرسکتا۔ (الانعام : ١٧) ٤۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کہہ دیں کہ میں اپنے نفع و نقصان کا مالک نہیں ہوں۔ (یونس : ٤٩) ٥۔ حضرت نوح (علیہ السلام) اور حضرت لوط (علیہ السلام) اپنی بیویوں کو کوئی فائدہ نہ پہنچا سکے۔ (التحریم : ١٠) ٦۔ ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا مجھے اللہ کے سامنے کسی قسم کا اختیار نہیں ہے۔ (الممتحنۃ: ٤) ٧۔ کہہ دیجئے اگر اللہ عیسیٰ ابن مریم اور اس کی والدہ کو ہلاک کرنا چاہے تو انہیں کون بچا سکتا ہے ؟ (المائدۃ: ١٧) الاعراف
189 فہم القرآن ربط کلام : سابقہ آیات میں یہ ثابت کیا گیا ہے۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مختار کل اور عالم الغیب نہیں۔ مختار کل اور غیب کا علم جاننے والی ذات اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔ وہی ذات ہے جس نے پہلے انسان کو پیدا کیا اور پھر اس سے اس کی بیوی کو پیدا فرمایا ہے۔ عقیدۂ توحید دین کی روح اور اس کی بنیاد ہے۔ اسے سمجھانے کے لیے قرآن مجید نے کائنات کی چھوٹی سے چھوٹی اور بڑی سے بڑی چیزوں سے استدلال کرکے عقیدۂ توحید کو واضح کیا ہے۔ سب سے پہلا توحید کے لیے جو استدلال پیش کیا گیا ہے وہ انسان کی تخلیق کے متعلق ہے۔ پہلی وحی میں فرمایا گیا کہ اس رب کے نام کے ساتھ پڑھیے جس نے انسان کو خون کے لوتھڑے سے پیدا کیا سورۃ النساء آیت (١) میں ارشاد ہوا کہ لوگو ! اس رب کی نافرمانی سے بچو جس نے تمھیں ایک نفس سے پیدا فرمایا۔ اس سے اس کی بیوی کو جنم دیا اور پھر دونوں سے بے شمار مرد اور عورتیں پیدا فرمائیں۔ وہاں خَلَقَ اور یہاں جَعَلَ کا لفظ استعمال کیا ہے جس کا معنی پیدا کرنا اور بنانا ہے۔ پھر یہاں بیوی کے رشتے کی غرض و غایت بیان فرمائی کہ یہ رشتہ باہمی سکون کا باعث ہے۔ تاکہ باہم سکون حاصل کرتے ہوئے سلسلۂ تخلیق کی بنیاد بن سکے۔ ازدواجی تعلقات کے یہاں دو مقاصد بیان کیے ہیں۔ ١۔ میاں بیوی کے درمیان باہم اطمینان اور سکون کا رشتہ ہونا چاہیے جس کی تفصیل سورۃ الروم آیت ٢١ میں یوں بیان کی ہے کہ یہ بات اللہ تعالیٰ کی قدرت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے کہ اس نے مردوں کی جنس سے ہی ان کی بیویوں کو پیدا کیا تاکہ ان سے سکون حاصل کریں۔ اس نے تمھارے درمیان محبت اور مہربانی کا جذبہ قائم فرمایا ہے۔ سورۃ البقرۃ آیۃ ١٨٧ میں ازدواجی رشتہ کو ایک دوسرے کے لیے لباس قرار دیا گیا ہے۔ یعنی ازدواجی زندگی میں چار باتیں ہونی چاہیں۔ ١۔ باہم اطمینان اور اعتماد۔ ٢۔ باہمی محبت۔ ٣۔ ایک دوسرے پر شفقت و مہربانی کرنا۔ ٤۔ ایک دوسرے کی پردہ پوشی کرنا۔ یہ وہ چار بنیادی تقاضے ہیں کہ اگر ان کا خیال رکھا جائے تو گھر کی زندگی پر سکون، امن و امان اور محبت و مہربانی کا گہوارا بن سکتی ہے۔ یہاں تخلیق انسانی کی ابتدائی کیفیت کا تذکرہ کرتے ہوئے تَغَشّٰہَا کا لفظ استعمال کیا ہے۔ جس کا معنیٰ ڈھانپ لینا ہے جو میاں بیوی کی صحبت اور تعلق کی طرف اشارہ ہے۔ جس کے نتیجہ میں بیوی صاحب امید ہوتی ہے اور اس پر کچھ مہینے ایسے گزرتے ہیں جن میں وہ اپنے معمول کے مطابق زندگی گزارتی ہے لیکن جب مادۂ منویہ خون کے بعد لوتھڑے میں تبدیل ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس میں روح پیدا کرتا ہے۔ اس کے بعد عورت محتاط ہونے کے ساتھ اپنے وجود میں دن بدن ایک بوجھ محسوس کرتی ہے امید کے یہ ایام ایسے ہوتے ہیں جن میں میاں بیوی اپنے رب کے حضور مسلسل دعائیں کرتے ہیں کہ الٰہی! ہمیں خوبصورت اور خوب سیرت بیٹا عنایت فرما۔ ہم تیرے شکر گزار بن کر رہیں گے لیکن جب انھیں صحت مند بیٹا عنایت ہوتا ہے تو پھر اپنے خالق و مالک کے ساتھ دوسروں کو شریک گردانتے ہیں۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ شرک سے مبرا اور ان باتوں سے بلند و بالا ہے جو لوگ اللہ تعالیٰ کے بارے میں کرتے ہیں۔ مشرک بتوں، فوت شدہ بزرگوں، چاند ستاروں فرشتوں اور جنات کو اللہ تعالیٰ کے کاموں میں شریک ٹھہراتے ہیں جو کچھ بھی پیدا نہیں کرسکتے۔ وہ خود اللہ تعالیٰ کے پیدا کردہ اور اس کی مخلوق ہیں اور پکارنے والوں کی کوئی مدد نہیں کرسکتے۔ یہاں تک کہ ان پر کوئی افتادآپڑے تو اپنے آپ کو بھی بچا نہیں سکتے لیکن اس کے باوجود مشرک اپنی اولاد میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ دوسروں کو شریک سمجھتے ہوئے پیراں دتہ، عبدالرسول، عبدالعزیٰ وغیرہ نام رکھتے ہیں۔ یہاں تک کہ کچھ لوگ اپنی اولاد کو ساتھ لے کر بتوں اور مزارات کا طواف کرتے اور ان کے لیے نذرانے پیش کرتے ہیں۔ یہ پہلے زمانے کے لوگ بچہ پیدا ہونے کے موقعہ شرک کرتے تھے آج کل تو مشرک اس حد تک شرک میں آگے بڑھ گئے ہیں کہ وہ شادی کے بعد مزارات کے چکر لگاتے ہوئے صاحب قبر سے اولاد مانگتے ہیں۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں کو ایک ہی نفس یعنی آدم سے پیدا کیا ہے۔ ٢۔ میاں بیوی کے درمیان سکون اور اطمینان کا رشتہ ہونا چاہیے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی اولاد دینے والا نہیں۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ مشرک کے شرک سے مبرا ہے۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ صرف اکیلا خالق ہے باقی سب اس کی مخلوق ہے۔ ٦۔ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی کسی کی مدد نہیں کرسکتا۔ تفسیر بالقرآن اللہ کے سوا کوئی مالک اور خالق نہیں : ١۔ مخلوق اللہ کی ہے۔ اللہ کے سوا کسی نے کچھ پیدا کیا ہے تو مجھے دکھاؤ۔ ( لقمان : ١١) ٢۔ اگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان سے زمین و آسمان کی تخلیق کے بارے میں سوال کریں گے تو اللہ ہی کا نام لیں گے۔ ( لقمان : ٢٥) ٣۔ یہ تمھارا رب ہے اس کے سوا دوسرا کوئی خالق نہیں۔ (الانعام : ١٠٢) ٤۔ اللہ کے سوا کوئی اور بھی خالق ہے جو تمھیں زمین و آسمان میں رزق دیتا ہے ؟ (الفاطر : ٢) ٥۔ تمھارا اللہ تمھارا رب ہے کیا اس کے سوا کوئی دوسرا خالق ہے ؟ (غافر : ٦٢) ٦۔ ہر چیز اللہ کے قبضۂ قدرت میں ہے۔ (یٰسین : ٨٣) الاعراف
190 الاعراف
191 الاعراف
192 الاعراف
193 الاعراف
194 فہم القرآن ربط کلام : مشرکین کی مذمت اور توحید کے دلائل جاری ہیں۔ سورۂ نور آیت ١١٧ میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے جو شخص اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو الٰہ مانتا ہے۔ اس کے پاس اس کی کوئی دلیل نہیں ہے کیونکہ حق دلائل پر قائم ہے اور جھوٹ کی کوئی دلیل نہیں ہوتی۔ لہٰذا شرک کی حمایت میں جتنے بھی جھوٹے دلائل دیے جاتے ہیں وہ دلیل کے ترازو میں پورے نہیں اترتے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ ہم نے شرک کے لیے کوئی دلیل نازل نہیں کی۔ (یوسف : ٤٠) یہی وجہ ہے جب بھی مشرک سے اس کے باطل معبودوں کے بارے میں جواب طلب کیا جاتا ہے تو وہ بہکی بہکی باتیں کرنے کے سوا کوئی جواب نہیں دے پاتا۔ یہاں ان کے سامنے ان کے معبودوں کی حیثیت اور حقیقت بیان کی جارہی ہے۔ اگر واقعی یہ تمھاری کوئی بھلائی کرسکتے ہیں تو انھیں رہنمائی کے لیے بلاؤ۔ لیکن وہ تمھاری کوئی رہنمائی نہیں کرسکتے۔ تمھارا ان کو بلانا یا نہ بلانا ان کے لیے یکساں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جن فوت شدہ بزرگوں کو تم پکارتے ہو۔ وہ تمھاری طرح کے ہی بندے تھے یعنی جس طرح تم رب کے سامنے بے بس اور بے اختیار ہو۔ اسی طرح ہی وہ اپنے رب کے سامنے عاجز اور بے اختیار تھے اور ہیں۔ جس طرح بیماری اور شفا، غربت اور دولت، عزت اور ذلت نفع اور نقصان تمھارے اختیار میں نہیں اسی طرح وہ بھی ان امور پر کوئی اختیار نہیں رکھتے تھے۔ اس کے باوجود تم انھیں مشکل کشا اور حاجت روا سمجھتے ہو۔ اگر تم اپنے عقیدہ اور دعویٰ میں سچے ہو تو ان کو آواز دو۔ چاہیے تو یہ کہ وہ جواب دیں لیکن وہ تمھیں کبھی جواب نہیں دے سکتے۔ سورۃ الفاطر، آیت : ٣٤ میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے سوا جن کو تم پکارتے ہو وہ نہ صرف تمھاری پکار کا جواب نہیں دے سکتے بلکہ قیامت تک کے لیے ان باتوں سے لا تعلق اور بے خبر ہیں اور محشر کے دن وہ صاف صاف تمھارے عقیدہ اور باتوں کا انکار کریں گے۔ ان دلائل کے باوجود مشرکین انبیاء اور موحّدین کو دھمکیاں دیا کرتے ہیں کہ ہمارے معبود یہ کچھ کرسکتے ہیں۔ اس کے جواب میں انھیں چیلنج دیا گیا ہے کہ کیا ان کے پاس پاؤں ہیں جن سے وہ چل سکیں یا ان کے ہاتھ ہیں جن سے وہ پکڑ سکیں یا ان کی آنکھیں ہیں جن سے وہ دیکھ سکیں یا ان کے کان ہیں جن سے وہ سن سکیں۔ فوت ہونے کے بعد ان کے اعضا مٹی کے ساتھ مٹی ہوچکے اگر کسی کا وجود قبر میں سلامت بھی ہے تو اس دنیا کے ساتھ کوئی تعلق نہیں رکھتا۔ اس لیے نبی محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم ہوا کہ آپ انھیں چیلنج دیں تم اپنے معبودوں کو میرے خلاف اکٹھا کرو اور جو تم میرا بگاڑنا چاہتے ہو بگاڑ لو میں تم سے ایک لمحہ کی مہلت بھی نہیں مانگتا۔ میرا مالک اور خیر خواہ اللہ تعالیٰ ہے جس نے مجھ پر قرآن مجید نازل کیا ہے وہی نیک بندوں کی خیر خواہی اور دستگیری کرتا ہے۔ جنھیں تم اللہ تعالیٰ کے سوا پکارتے ہو وہ نہ تمھاری مدد کرسکتے ہیں اور نہ اپنے آپ کی۔ اگر تم انھیں رہنمائی کے لیے بلاؤ وہ سنتے ہی نہیں۔ آیت ١٩٨ میں فرمایا۔ حالانکہ وہ نہیں دیکھ سکتے۔ دیکھنے والوں سے مراد مدفون لوگ بھی ہو سکتے ہیں جن کے بارے میں مشرکین کا عقیدہ ہے کہ ہمارے حالات دیکھتے اور جانتے ہیں۔ تب ہی تو مشرک کہتے ہیں۔ یَا عَبْدَ الْقَادِرْ جَیْلَانِیْ۔ اُنْظُرْ اَلِیْنَا۔ اے عبدالقادر جیلانی ہماری حالت دیکھیے۔ ان سے مرادبت بھی ہو سکتے ہیں جنھیں اس طرح خوبصورتی سے تراشا اور بنایا جاتا تھا کہ دیکھنے والا سمجھتا ہے کہ ہمیں دیکھ رہے ہیں۔ خاص کر جو شخص ان مجسموں کو خدا کا اوتار سمجھتا ہو، وہ تو عقیدت و محبت سے ایسا سمجھے بغیر نہیں رہ سکتا۔ حالانکہ ان کے ہاتھ، پاؤں آنکھ، ناک سب کچھ بنایا گیا ہے۔ لیکن یہ کچھ حرکت نہیں کرسکتے یہی صورت قبر میں مدفون بزرگوں کی ہے جو گرتے کو تھام نہیں سکتے، رونے والے کو دلاسہ نہیں دے سکتے۔ یہاں ہم نہایت خیر خواہی کے جذبہ سے چند سوالات پیش کرتے ہیں جنھیں غور سے پڑھنا چاہیے۔ ١۔ فوت ہونے والے بزرگ بیمار ہوئے، ہزارد عاؤں اور دواؤں کے باوجود صحت یاب نہ ہو سکے۔ ٢۔ فوت ہوئے تو گھر میں میت ہونے کے باوجود روتی ہوئی بیٹیوں، تڑپتی ہوئی والدہ، بلکتی ہوئی بیوی، سسکتے ہوئے بیٹے اور آہ و بکا کرنے والے مرید کو تسلی نہ دے سکے۔ ٣۔ شرم وحیا کے پیکر ہونے کے باوجود اپنے آپ استنجا کرسکے نہ غسل۔ ٤۔ زندگی میں خود اپنی قبر بنوانے والے بھی اپنے پاؤں پر چل کر قبر تک نہ پہنچ سکے۔ ٥۔ جو زندگی میں صرف پنجابی یا کوئی ایک زبان جانتے تھے فوت ہونے کے بعد قبر پر آنے والوں اور دوسری زبانوں میں فریاد کرنے والوں کی زبان سے کس طرح واقف ہوگئے؟ ٦۔ جو خود اولاد سے محروم تھے وہ دوسرے کو کس طرح اولاد عطاکر سکتے ہیں ؟ ٧۔ جو خراٹے لینے والی نیند یا کسی وجہ سے بے ہوشی کے عالم میں دیکھ اور سن نہیں سکتے تھے اب موت کے بعد کس طرح سننے اور دیکھنے کے قابل ہوگئے؟ ٨۔ جو زندگی میں دیوار کی دوسری طرف نہیں دیکھ سکتے تھے اب قبر کی منوں مٹی اور مضبوط پتھروں کے درمیان کس طرح دیکھ سکتے ہیں۔ ٩۔ جو اپنی حالت سے کسی کو آگاہ نہیں کرسکتے دوسرے کی حالت رب کے حضور کس طرح پیش کرسکتے ہیں؟ ١٠۔ جو زندگی میں بیک وقت ایک یا دو، تین آدمیوں سے زیادہ کی بات سن اور سمجھ نہیں سکتے تھے۔ اب بیک وقت سینکڑوں، ہزاروں آدمیوں کی فریاد کس طرح سن سکتے ہیں؟ مسائل ١۔ ہٹ دھرم لوگ کبھی ہدایت نہیں پا تے۔ ٢۔ ساری مخلوق اللہ کے سامنے بے بس اور بے اختیار ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ نیک اور متقین کا دوست ہے۔ تفسیر بالقرآن فوت شدگان نہیں سنتے : ١۔ اللہ جسے چاہے سنا سکتا ہے جو قبروں میں ہیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کو نہیں سنا سکتے۔ (الفاطر : ٢٢) ٢۔ آپ مردوں کو نہیں سنا سکتے۔ (النمل : ٨٠) مشرکین کو انبیاء (علیہ السلام) کے چیلنج : ١۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کا مشرکوں کو چیلنج۔ (ھود : ٣٥) ٢۔ (آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرما دیں کہ بلاؤ اپنے شرکاء کو وہ انھیں کوئی جواب نہیں دے سکتے۔ (القصص : ٦٤) ٣۔ (آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرما دیں اپنے شرکاء کے بارے میں خبر دو جن کو تم اللہ کے علاوہ پکارتے ہو۔ (الفاطر : ٤٠) ٤۔ (آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرما دیں کیا تمھارے شرکاء پیدا کرنے اور زندہ کرنے کی طاقت رکھتے ہیں ؟ (یونس : ٣٤) ٥۔ (آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرما دیں کیا تمھارے شرکاء حق کی راہ دکھلا سکتے ہیں ؟ (یونس : ٣٥) ٦۔ (آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) استفسار فرمائیں کہ تمھارے شرکاء کچھ کر بھی سکتے ہیں ؟ (الروم : ٤٠) ٧۔ مشرکین اپنے شرکاء کو بلائیں اگر سچے ہیں۔ (القلم : ٤١) ٨۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا مشرکوں کو چیلنج۔ (الممتحنۃ: ٤) الاعراف
195 الاعراف
196 الاعراف
197 الاعراف
198 الاعراف
199 فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ کی توحید بتلانے اور سمجھانے پر مشرک اور کافر اشتعال میں آکر بد کلامی کرتے ہیں۔ اس کے جواب میں درگزر کرنے کا حکم۔ یہاں مبلغ کو چار ہدایات دی گئی ہیں۔ ١۔ اختلاف اور اشتعال کے مقابلہ میں حوصلہ رکھنا اور درگزر کرنا۔ ٢۔ عرف کے مطابق تبلیغ کرنا۔ ٣۔ جہلا سے اعراض برتنا۔ ٤۔ انسان ہونے کے ناتے سے طبیعت میں غصہ اور اشتعال پیدا ہو تو شیطان سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگنا۔ تبلیغ کے میدان میں ایک مبلغ کو ہر قسم کے لوگوں سے واسطہ پڑتا ہے۔ اس لیے اسے سمجھ داری اور بردباری کا مظاہرہ کرنا چاہیے اگر دین کا کارکن اور مبلغ مشتعل ہوجائے تو کام آگے بڑھنے کے بجائے نہ صرف رک جاتا ہے بلکہ معاملہ جنگ و جدال تک پہنچ جاتا ہے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فطری اور جبلی طور پر حوصلہ اور برد باری کے پیکر تھے۔ آپ کی حیات مبارکہ میں کوئی ایک واقعہ بھی ایسا نہیں کہ آپ نے اشتعال میں آکر کسی کو ترکی بہ ترکی جواب دیا ہو۔ اس کے باوجود آپ کو حکم دیا گیا کہ آپ معافی اور درگزر کا رویہ اختیار کریں۔ یہی تعلیم آپ نے حضرت ابو موسیٰ اشعری اور معاذ بن جبل کو (رض) کو یمن بھیجتے ہوئے دی تھی۔ پہلے آپ نے ارکان اسلام کی ترتیب بتلائی اور فرمایا کہ سب سے پہلے ان لوگوں کو توحید و رسالت سے آگاہ کرنا جب لوگ کلمہ طیبہ کی شہادت دیں تو پھر انھیں نماز پر لگانا اور نماز کے بعد زکوٰۃ کی ادائیگی کا حکم دینا اور لوگوں سے زکوٰۃ لے کر وہاں کے غریبوں پر خرچ کرنا اور یاد رکھنا کہ لوگوں کے ساتھ نرمی اور آسانی کا رویہ اختیار کرتے ہوئے ان کے درمیان نفرت پیدا کرنے سے اجتناب کرنا۔ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ إِنَّ الرَّحِمَ شَجْنَۃٌ مِنْ الرَّحْمٰنِ فَقَال اللّٰہُ مَنْ وَصَلَکِ وَصَلْتُہٗ وَمَنْ قَطَعَکِ قَطَعْتُہٗ )[ رواہ البخاری : کتاب الادب، باب من وصل وصلہ اللہ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں انہوں نے فرمایا بلاشبہ رحم رحمٰن سے ہے تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا جو کوئی تمہیں ملائے گا اسے میں ملاؤں گا اور جو کوئی تمہیں قطع کرے گا میں اسے قطع کروں گا۔“ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ أَنَّ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ لَیْسَ الشَّدِید بالصُّرْعَۃِ إِنَّمَا الشَّدِیدُ الَّذِی یَمْلِکُ نَفْسَہٗ عِنْدَ الْغَضَبِ )[ رواہ البخاری : کتاب الادب، باب الحذر من الغضب] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں بلاشبہ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا طاقتور وہ نہیں جو مد مقابل کو پچھاڑ دے بلکہ طاقتور وہ ہے جو غصے کے وقت اپنے آپ پر کنٹرول رکھے۔“ (عن سُلَیْمَان بن صُرَدٍ (رض) قَالَ اسْتَبَّ رَجُلَانِ عِنْدَ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وَنَحْنُ عِنْدَہٗ جُلُوسٌ وَأَحَدُہُمَا یَسُبُّ صَاحِبَہٗ مُغْضَبًا قَدْ اِحْمَرَّ وَجْہُہٗ فَقَال النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) إِنِّی لَأَعْلَمُ کَلِمَۃً لَوْ قَالَہَا لَذَہَبَ عَنْہُ مَا یَجِدُ لَوْ قَالَ أَعُوذ باللّٰہِ مِنَ الشَّیْطَان الرَّجِیمِ فَقَالُوا للرَّجُلِ أَلَا تَسْمَعُ مَا یَقُول النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ إِنِّی لَسْتُ بِمَجْنُونٍ ) [ رواہ البخاری : کتاب الأدب، باب الحذر من الغضب] ” حضرت سلیمان بن صرد (رض) بیان کرتے ہیں دو آدمیوں نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی موجودگی میں باہم گالی گلوچ کی اور ہم آپ کی مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے۔ ان دونوں میں سے ایک شدید غصے میں تھا وہ دوسرے کو برا بھلا کہہ رہا تھا۔ جس کی وجہ سے اس کا چہرہ سرخ تھا۔ سرکار دو عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میں ایسی بات جانتا ہوں اگر وہ اسے کہہ دے تو اس سے اس کا غصہ جاتا رہے۔ وہ کہے : اَعُوْذُ بالِلّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ ” میں اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتا ہوں شیطان مردود سے۔“ صحابہ کرام (رض) نے اس شخص سے کہا کیا تم نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان نہیں سنتے ہو ؟ اس شخص نے کہا میں پاگل تو نہیں ہوں۔“ (عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ یَسِّرُوا وَلَا تُعَسِّرُوا وَبَشِّرُوا وَلَا تُنَفِّرُوا) [ رواہ البخاری : کتاب العلم، باب ماکا یتخولہم بالموعظۃ] ” حضرت انس بن مالک (رض) نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان نقل کرتے ہیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا آسانیاں پیدا کرو مشکلات پیدا نہ کرو لوگوں کو خوشخبریاں دو اور متنفر نہ کرو۔“ ٢۔ دوسرا حکم آپ اور آپ کے حوالے سے ہر مبلغ کو یہ دیا گیا ہے کہ وہ لوگوں کو عرف کی تبلیغ کریں اور عرف کا معنیٰ نیک کام، تبلیغ اور نصیحت کرنا بھی ہے کہ مبلغ کے لیے یہ بھی لازم ہے کہ وہ مرقع، مسبح، ردیف اور قافیہ ملانے کے بجائے سادہ اور مؤثر الفاظ میں لوگوں کو وعظ کرے۔ اس کے لب و لہجہ، انداز اور الفاظ میں تکلف نہیں ہونا چاہیے کیونکہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ آپ اعلان فرمائیں کہ میں آپ سے تبلیغ کے بدلے نہ کوئی اجر طلب کرتا ہوں اور نہ ہی کسی قسم کا تکلف کرنے والا ہوں۔ (ص، آیت : ٨٦) اس کے ساتھ ہی مبلغ کو وعظ بالخصوص خطبہ جمعہ میں شعر و شاعری سے پرہیز کرنا چاہیے کیونکہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ ہم نے آپ کو شعر و شاعری نہیں سکھلائی اور نہ ہی آپ کی شان کے لائق ہے کہ آپ شعر گوئی کا مظاہرہ کریں۔ ( یٰسٓ، آیت : ٦٩) (عَنْ عُمَارَۃَ بْنِ رُوَیْبَۃَ (رض) قَالَ رَأٰی بِشْرَ بْنَ مَرْوَانَ عَلَی الْمِنْبَرِ رَافِعًا یَدَیْہِ فَقَالَ قَبَّحَ اللّٰہُ ہَاتَیْنِ الْیَدَیْنِ لَقَدْ رَأَیْتُ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَا یَزِیدُ عَلٰی أَنْ یَقُولَ بِیَدِہٖ ہٰکَذَا وَأَشَارَ بِإِصْبَعِہٖ الْمُسَبِّحَۃِ) [ رواہ مسلم : کتاب الجمعۃ، باب تخفیف الصلاۃ والخطبۃ] ” حضرت عمارہ بن رویبہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے بشر بن مروان کو منبر پردیکھا کہ وہ دونوں ہا تھوں کو بلند کیے ہوئے تھے حضرت عمارہ کہنے لگے اللہ ان ہاتھوں کو تباہ کرے ! میں نے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیکھا آپ اس سے زیادہ اشارہ نہیں کرتے تھے یہ کہتے ہوئے انہوں نے اپنی انگشت شہادت کی طرف اشارہ کیا۔“ ٣۔ اعراض : اس سے مراد بحث و تکرار اور جنگ جدال سے بچنا ہے۔ مبلغ تبلیغ کے میدان میں مخالف کی بدکلامی کا جواب ترکی بہ ترکی دے تو سننے والے اس کو اچھا نہیں سمجھتے۔ بدکلامی اور طعنہ زنی کرنے والے مبلغین کو یہ بات اچھی طرح سمجھنی چاہیے وہ کونسا الزام اور بدکلامی ہے۔ جس سے نبی اکرم اور انبیاء کو واسطہ نہیں پڑا لیکن آپ اور کسی نبی نے اپنے مخالف کو برا کہنا تو درکنار کوئی سطحی لفظ بھی نہیں بولا۔ ٤۔ وعظ ونصیحت کے میدان میں درگزر کرنے اور حوصلہ مندی کے باوجود بعض دفعہ ایسے جہلا سے واسطہ پڑتا ہے جو الجھے بغیر نہیں رہ سکتے ایسی صورت میں ایسے لوگوں سے اعراض کرنا چاہیے اگر ان کی اشتعال انگیز باتوں پر طبیعت میں غصہ پیدا ہوا تو اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگنی چاہیے کیونکہ غصہ شیطان کی طرف سے ہوا کرتا ہے۔ جو لوگ گناہوں سے بچنے اور اپنے رب سے ڈرنے والے ہیں جو نہی انھیں شیطان کا غلبہ یا اس کے اثرات محسوس ہوں تو وہ اس پر چوکنے ہوجاتے ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ اگر شیطان سے اللہ تعالیٰ کی پناہ طلب نہ کی جائے تو شیطان اور اس کے ساتھی انسان کو گمراہی میں مبتلا کرنے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کرتے۔ غصہ اور اشتعال ہمیشہ شیطان کی طرف سے ہوتا ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ سے پناہ مانگنی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ ہر کسی کی فریاد سننے والا اور مبلغ کی نیت اور مخالف کی جہالت کو جاننے والا ہے۔ (عن ابی ہُرَیْرَۃَ قال قالَ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَأْتِی الشَّیْطَانُ أَحَدَکُمْ فَیَقُولُ مَنْ خَلَقَ کَذَا مَنْ خَلَقَ کَذَا حَتّٰی یَقُولَ مَنْ خَلَقَ رَبَّکَ فَإِذَا بَلَغَہُ فَلْیَسْتَعِذْ باللّٰہِ وَلْیَنْتَہٖ ) [ رواہ البخاری : کتاب بدء الخلق، باب صفۃ ابلیس وجنودہ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تم میں سے کسی ایک کے پاس شیطان آتا ہے اور کہتا ہے فلاں چیز کس نے پیدا کی ؟ فلاں چیز کس نے پیدا کی؟ یہاں تک کہ وہ کہتا ہے تیرے رب کو کس نے پیدا کیا۔ جب کوئی اس خیال کو پہنچے تو اسے چاہیے کہ اللہ کی پناہ مانگے اور اس سے باز آجائے۔“ مسائل ١۔ جھگڑے اور مخالفت میں حوصلے اور درگزر سے کام لینا چاہیے۔ ٢۔ برے خیالات آنے پر شیطان سے اللہ کی پناہ مانگنی چاہیے۔ تفسیر بالقرآن جاہل لوگوں کی نشانیاں : ١۔ اللہ کے سوا کسی اور کو معبود بنانا جاہلوں کا کام ہے۔ (الاعراف : ١٣٨) ٢۔ جاہل اللہ کے سوا دوسروں کی عبادت کی ترغیب دیتے ہیں۔ (الزمر : ٦٤) ٣۔ اللہ تعالیٰ کی آیات سے روگردانی کرنا جاہلوں کا کام ہے۔ (النمل : ٥٥) ٤۔ بیویوں کو چھوڑ کر لونڈے بازی کرنا جاہلوں کا کام ہے۔ (النمل : ٥٥) ٥۔ سوال نہ کرنے والے حاجت مند کو جاہل لوگ غنی خیال کرتے ہیں۔ (البقرۃ: ٢٧٣) ٦۔ فضول جواب دینا جہالت کی نشانی ہے۔ (البقرۃ: ٦٧) الاعراف
200 الاعراف
201 الاعراف
202 الاعراف
203 فہم القرآن ربط کلام : یہ شیطان کی شیطنت کا نتیجہ ہے کہ دلائل اور معجزات دیکھنے اور جاننے کے باوجود کفار ہر روز نئے سے نیا مطالبہ کرتے تھے کہ ہمیں مزید معجزات دکھائے جائیں۔ یہاں اس کا جواب دیا گیا ہے کہ قرآن سے بڑھ کر کونسا معجزہ ہوسکتا ہے۔ مکے کے کفار اور مدینہ کے اہل کتاب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ایک سے ایک بڑھ کر سوال اور معجزات طلب کیا کرتے تھے۔ ان کے ہر معقول سوال کا مؤثر اور مدلل جواب دیا گیا اور ان کے مطالبہ پر بڑے بڑے معجزات بھی پیش کیے گئے۔ لیکن ان کے دل میں کھوٹ اور طبیعت میں بہانہ سازی کا عنصر غالب تھا جس وجہ سے وہ ایک مطالبہ پورا ہونے کے بعد دوسرا پیش کردیا کرتے تھے۔ اور کبھی کہتے یہ تو تیری جادوگری کا کرشمہ ہے۔ ان باتوں کا جواب دینے کے لیے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم ہوا کہ آپ فقط یہ فرمائیں میں تو ایک رسول ہونے کی حیثیت سے وحی الٰہی کی اتباع کا پابند ہوں۔ جہاں تک دلائل اور معجزہ کا تعلق ہے وہ قرآن مجید فرقان حمید کی شکل میں تمھارے سامنے ہے جس کا جواب آج تک تم سے نہیں بن سکا اور قیامت تک اس کا جواب پیش نہیں کرسکو گے۔ اگر تم اپنی ہٹ دھرمی کو چھوڑ دو اور قرآن مجید کو توجہ اور خاموشی کے ساتھ سنو تو یقیناً تم پر اللہ کا کرم اور اس کی مہربانی نازل ہوگی کیونکہ یہ قرآن لوگوں کے لیے ہدایت اور ان کی مشکلات کے مداوا کے لیے رحمت بنا کر بھیجا گیا ہے۔ لیکن کفار کا وطیرہ تھا اور ہے کہ قرآن پڑھنے اور سننے کے بجائے جونہی قرآن کی تلاوت شروع ہو تو اتنا شور و غوغا کرو کہ تم قرآن پر غالب آجاؤ۔ (سورۂ حٰم السجدہ، آیت : ٣٦) بعض اہل علم نے تلاوت قرآن کو خاموشی کے ساتھ سننے کے حکم کو نماز پر منطبق کیا ہے جس کی بناء پر ان کا خیال ہے کہ جب امام نماز میں بلند آواز سے قراءت کرے تو اس کے پیچھے فاتحہ نہیں پڑھنی چاہیے ابتدا میں یہ صرف علمی بحث تھی لیکن جونہی ائمہ کی تقلید کا مسئلہ پیدا ہوا تو پھر اس میں یہاں تک تشدد پیدا ہوا کہ بعض لوگ من گھڑت روایات سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کرنے لگے کہ جو شخص امام کے پیچھے سورۃ فاتحہ پڑھے گا اس کے منہ میں قیامت کے دن آگ ڈالی جائے گی حالانکہ اس کا حدیث کی کتب میں کوئی ثبوت نہیں ملتا۔ حالانکہ صحیح روایات سے ثابت ہے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جہری نماز میں امام کے پیچھے صرف قرآن مجید کی تلاوت سے منع کیا ہے باقی فاتحہ سمیت پوری نماز امام کے پیچھے پڑھنی ہے۔ کیونکہ یہ آیت مبارکہ نماز کے بجائے کفار کے سورۃ حٰم السجدہ کے جواب میں نازل ہوئی تھی اس کا تعلق نماز کے بجائے تبلیغ کے ساتھ ہے اگر کوئی صاحب علم اس آیت کو عموم پر قیاس کرتا ہے تو پھر بھی اس کا اطلاق فاتحہ پر نہیں ہوتا اس شبہ کو دور کرنے کے لیے حدیث میں فاتحہ کا الگ ذکر کیا گیا۔ مسائل ١۔ معجزات نبی مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اختیار میں نہیں تھے۔ ٢۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وحی کے پابند تھے۔ ٣۔ قرآن مجید ہدایت اور رحمت سے بھرپور ہے۔ ٤۔ قرآن مجید کو توجہ اور خاموشی سے سننا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وحی کے پابند تھے : ١۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے رب کی وحی کی اتباع کریں۔ (الاحزاب : ٢) ٢۔ میں اتباع کرتا ہوں اس کی جو میری طرف وحی کی گئی ہے۔ (الاحقاف : ٩) ٣۔ مجھے قرآن وحی کے ذریعہ دیا گیا ہے تاکہ میں تمھیں ڈراؤں۔ (الانعام : ١٩) ٤۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دین کے متعلق اپنی مرضی سے بات نہیں کرتے مگر آپ کو جو وحی کی جاتی ہے۔ (النجم : ٣ تا ٤) الاعراف
204 الاعراف
205 فہم القرآن ربط کلام : تبلیغ کے میدان میں ایک مبلغ کو کفار سے جھگڑنے اور الجھنے کی بجائے اللہ تعالیٰ کو یاد کرنا اور قرآن مجید کی تلاوت کرنی چاہیے۔ سورۃ الاعراف کا آغاز اس فرمان سے ہوا تھا کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! یہ قرآن آپ کی طرف اس لیے نازل کیا گیا ہے کہ آپ اس کے ذریعے لوگوں کو ان کے برے اعمال کے نتیجے سے ڈرائیں بے شک یہ کام مشکل ہے لیکن اس پر آپ کے دل میں کوئی گھٹن محسوس نہیں ہونی چاہیے۔ یہ تو مومنوں کے لیے ایک ذکر اور نصیحت ہے اب اس سورۃ کا اختتام بھی قرآن اور ذکر سے کیا جا رہا ہے کیونکہ قرآن مجید ملائکہ کے سردار جبرائیل امین (علیہ السلام) کے واسطے سے نازل ہوا ہے۔ اس لیے یہاں ملائکہ کی عجز و عاجزی اور ان کے ذکر اور عبادت سے آگاہ کیا جا رہا ہے۔ جس کا مفہوم یہ ہے کہ انسان کو بھی ہر قسم کے تکبر سے بچتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے حضور ہر دم عاجزی کا اظہار، اس کی عبادت میں انہماک اور اس کی زبان رب کی یاد میں محور رہنے کے ساتھ اس کا سر اللہ کے حضور جھکا رہنا چاہیے۔ جہاں تک ذکر کا تعلق ہے اس میں نمود و نمائش کا ذرہ برابر بھی شائبہ نہیں ہونا چاہیے۔ ذکر سے مراد نماز بھی ہے کیونکہ سورۃ العنکبوت آیت ٤٥ میں نماز کو ذکر اکبر قرار دیا گیا ہے۔ اس لیے نماز کے آداب میں یہ بات شامل ہے کہ جہری نماز میں قرأت درمیانی آواز میں ہونی چاہیے اور اگر ذکر سے عام ذکر مراد لیا جائے تو اس کے لیے بھی یہی اصول ہے کہ جہاں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بلند آواز سے ذکر کیا ہے وہاں بلند آواز سے اور جہاں آہستہ اور خفیہ انداز میں کیا ہے وہاں خفیہ طریقہ ہونا چاہیے جیسا کہ فرض نماز کے بعد ایک مرتبہ اللہ اکبر اور تین دفعہ استغفر اللہ بلند آوازسے کہنا اور باقی اذکار آہستہ کرنے چاہییں۔ حج و عمرہ کا احرام باندھنے کے بعد تلبیہ بلند آواز سے کہنا چاہیے ایسا ہی ذوالحجہ کا چاند طلوع ہونے کے بعد آپ ہر نماز کے بعد بلند آواز سے تکبیرات کہا کرتے تھے اور عیدین کے وقت بھی بلند آواز سے تکبیرات کہنا سنت سے ثابت ہے جہاں تک بعض لوگ نماز کے بعد اور اجتماعی شکل میں اللہ ھو یا کلمہ کا ورد کرتے ہیں اس کا حدیث میں کوئی ثبوت نہیں ملتا۔ (عَنْ أَبِی مُوسٰی (رض) قَالَ قَال النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَثَلُ الَّذِی یَذْکُرُ رَبَّہٗ وَالَّذِی لَا یَذْکُرُ رَبَّہٗ مَثَلُ الْحَیِّ وَالْمَیِّتِ) [ رواہ البخاری : کتاب الدعوات، باب فضل ذکر اللہ عزوجل] ” حضرت ابو موسیٰ (رض) بیان کرتے ہیں نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے اور نہ کرنے والے کی مثال زندہ اور مردہ کی طرح ہے۔“ یعنی جو ذکر کرتا ہے وہ زندہ ہے جو ذکر نہیں کرتا وہ مردہ ہے۔ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ قَالَ قَال النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَقُول اللّٰہُ تَعَالٰی أَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِی بِی وَأَنَا مَعَہٗ إِذَا ذَکَرَنِی فَإِنْ ذَکَرَنِی فِی نَفْسِہٖ ذَکَرْتُہٗ فِی نَفْسِی وَإِنْ ذَکَرَنِی فِی مَلَإٍ ذَکَرْتُہٗ فِی مَلَإٍ خَیْرٍ مِنْہُمْ وَإِنْ تَقَرَّبَ إِلَیَّ بِشِبْرٍ تَقَرَّبْتُ إِلَیْہِ ذِرَاعًا وَإِنْ تَقَرَّبَ إِلَیَّ ذِرَاعًا تَقَرَّبْتُ إِلَیْہِ بَاعًا وَإِنْ أَتَانِی یَمْشِی أَتَیْتُہٗ ہَرْوَلَۃً) [ رواہ البخاری : کتاب التوحید، باب قول اللہ تعالیٰ ویحذرکم اللہ نفسہ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔ میں اپنے بندے کے خیال کے مطابق ہوتا ہوں جب وہ مجھے یاد کرتا ہے تو میں اس کے ساتھ ہوتا ہوں۔ اگر وہ مجھے دل میں یاد کرتا ہے تو میں بھی اسے دل میں یاد کرتا ہوں اور اگر وہ مجھے کسی جماعت میں یاد کرتا ہے تو میں اس کو اس جماعت سے بہتر جماعت میں یاد کرتا ہوں (مراد فرشتوں میں) اور اگر وہ میری طرف ایک بالشت قریب ہوتا ہے میں اس کی طرف ایک ہاتھ قریب ہوتا ہوں اور اگر وہ میری طرف ایک ہاتھ قریب ہوتا ہے تو میں اس کی طرف دو ہاتھ قریب ہوتا ہوں اور وہ میری طرف چل کر آتا ہے تو میں اس کی طرف دوڑ کر آتا ہوں۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ کے ذکر سے زبان تر رہنی چاہیے۔ ٢۔ ذکر انتہائی عاجزی کے ساتھ کرنا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن سجدہ صرف ” اللہ“ کو کرنا چاہیے : ١۔ اللہ کو سجدہ کرو اور اسی کی عبادت کرو۔ (النجم : ٦٢) ٢۔ سورج اور چاند کو سجدہ نہ کرو اس ذات کو سجدہ کرو جس نے انہیں پیدا کیا ہے۔ (حٰم السجدۃ: ٣٧) الاعراف
206 الاعراف
0 سورۃ الانفال کا تعارف انفال کا معنی ہے غنیمت کا مال۔ یہ سورۃ دس رکوع ٧٥ آیات اور ١٠٧٥ کلمات پر مشتمل ہے۔ اس کا آغاز ہی انفال کے متعلقہ سوال سے کیا گیا ہے۔ اس کی تمام آیات مدینہ یا اس کے گرد ونواح میں نازل ہوئیں ہیں۔ سورۃ کے واقعات اور آیات سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ غزوہ بدر کے بعد نازل ہوئی۔ اس کے بنیادی مسائل اور مرکزی مضامین درج ذیل ہیں۔ ١۔ ہر حال میں اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے رہو۔ ٢۔ مال غنیمت پر قانونی حق اللہ اور اس کے رسول کا ہے اس کی تقسیم مجاہد کی مرضی پر نہیں بلکہ اللہ اور اسکے رسول کے حکم کے مطابق ہونی چاہیے۔ ٣۔ بدر کی فتح اللہ تعالیٰ کی نصرت وحمایت کا نتیجہ ہے ملائکہ کی کمک تو مجاہدین کے حوصلے بڑھانے کا بہانہ تھا۔ ٤۔ بدر کے معرکہ کا مقصد اللہ کا کلمہ بلند کرنا اور کفار کا غرور خاک میں ملانا تھا۔ ٥۔ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت میں کسی قسم کی خیانت نہیں ہونی چاہیے۔ ٦۔ اللہ ہی مومنوں کا مولیٰ اور بہترین مددگار ہے۔ ٧۔ مال غنیمت میں پانچواں حصہ اللہ اور اس کے رسول کے لیے مخصوص ہے۔ ٨۔ حالات جنگ میں بھی اللہ تعالیٰ کو یاد کرتے رہنے کا حکم ہے۔ ٩۔ آپس کے اختلاف سے بچنا چاہیے کیونکہ اس سے ساکھ اکھڑ جاتی ہے۔ ١٠۔ شیطان اپنے کارندوں کی نظروں میں ان کے اعمال خوبصورت کر کے دکھاتا ہے۔ ١١۔ میدان بدر میں مسلمانوں کے جوش اور ملائکہ کی مدد دیکھ کر شیطان بھی ڈر کے مارے بھاگ گیا تھا ١٢۔ جب تک لوگ نعمتوں کی ناشکری نہ کریں اللہ تعالیٰ اپنی نعمت کو زحمت میں تبدیل نہیں کرتا۔ ١٣۔ اہل مکہ کا کردار اور آل فرعون کے کردار میں یکسانیت پائی جاتی ہے۔ دونوں کا اپنے اپنے انداز میں ہولناک انجام ہوا۔ ١٤۔ اللہ کے نزدیک پوری مخلوق میں کون بد ترین مخلوق ہے۔ ١٥۔ سربراہ قوم کو اپنی قوم ہر وقت جہاد پر آمادہ رکھنا چاہیے۔ ١٦۔ مسلمانوں کو کفار کے مقابلہ میں اپنے گھوڑے جہاد کے لیے تیار رکھنے چاہیں۔ ١٧۔ کفار ایک دوسرے کے دوست اور مسلمان آپس میں خیر خواہ اور بھائی بھائی ہیں۔ الانفال
1 فہم القرآن عربوں کے ہاں یہ اصول تھا کہ جنگ میں شریک ہونے والے شخص کے جو ہاتھ آتا وہ اسی کا مال سمجھا جاتا تھا غزوۂ بدر میں جب مسلمانوں کو مال غنیمت ہاتھ آیا تو اس کی تقسیم کا مسئلہ پیدا ہوا۔ اس جنگ میں کچھ صحابہ ] رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے کیمپ کی حفاظت کر رہے تھے۔ ایک گروہ نے بھاگتے ہوئے کفار کا تعاقب کیا اور دوسروں نے مال غنیمت جمع کیا۔ اس صورت حال میں مال غنیمت جمع کرنے والوں کا مطالبہ تھا کہ یہ مال و اسباب ہم نے جمع کیا لہٰذا قدیم اصول کے مطابق اس کا استحقاق ہمارے سوا کسی کو نہیں ہے اس پر کچھ صحابہ ] نے نبی معظم سے مال غنیمت کی تقسیم کے بارے میں سوال کیا۔ جس کا اللہ تعالیٰ نے جواب عنایت فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ آپ انھیں بتلائیں کہ یہ مال اللہ اور اس کے رسول کی ملکیت ہے۔ جس میں دو حکمتیں پنہاں ہیں۔ ١۔ تم اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے تابع ہو اس لیے اس کے حقیقی مالک اللہ اور اس کے رسول ہیں۔ ٢۔ تمھاری اکثریت گھروں سے قتال کے ارادے سے نہیں نکلی تھی یہ تو اللہ تعالیٰ نے اپنی خاص حکمت کے تحت تمھیں تمھارے گھروں سے نکال کر یہاں لاکھڑا کیا ہے اس لیے یہ مال انفال کا درجہ رکھتا ہے۔ جو مال مسلمانوں کو حالت جنگ میں ملتا ہے اس کے بارے میں قرآن مجید میں تین الفاظ پائے جاتے ہیں : ١۔ انفال ٢۔ فئی ٣۔ غنیمت اہل علم نے ان الفاظ کے درمیان فرق بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ انفال نفل کی جمع ہے جس کا معنی زائد چیز ہے اس لیے فرض عبادت کے علاوہ دوسری عبادت کو نفلی عبادت کہا جاتا ہے۔ مجاہد کے سامنے مال کے بجائے اعلائے کلمۃ اللہ کا مقصد ہوتا ہے اس کے لیے مال ایک زائد چیز ہے جس کی وجہ سے انفال کہا گیا ہے۔ ١۔ کفار کا جو مال بغیر جنگ کے مسلمانوں کے ہاتھ آئے اسے مال فئی کہا جاتا ہے۔ (الحشر : ٦ ) ٢۔ غنیمت سے مراد وہ مال ہے جو باضابطہ جنگ میں مسلمانوں کے ہاتھ آئے اسے غنیمت کہا جاتا ہے۔ لیکن عمومی طور پر تمام اموال کو مال غنیمت ہی شمار کیا جاتا ہے جس کے بارے میں یہ اصول بیان ہوا۔ پورے مال میں اللہ اور اس کے رسول کا پانچواں حصہ ہوگا۔ (الانفال، آیت : ٤١) اس جواب کے بعد یہ ہدایات دی گئیں کہ ہر حال میں اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہوئے اپنی اصلاح کرتے رہو اور ہمیشہ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کے لیے کمر بستہ رہو اگر تم حقیقتاً ایمان رکھنے والے ہو۔ آپ کا ارشاد گرامی ہے : (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ أَنَّ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ فُضِّلْتُ عَلَی الْأَنْبِیَاءِ بِسِتٍّ أُعْطِیتُ جَوَامِعَ الْکَلِمِ وَنُصِرْتُ بالرُّعْبِ وَأُحِلَّتْ لِیَ الْغَنَاءِمُ وَجُعِلَتْ لِیَ الْأَرْضُ طَہُورًا وَمَسْجِدًا وَأُرْسِلْتُ إِلَی الْخَلْقِ کَافَّۃً وَخُتِمَ بِیَ النَّبِیُّونَ)[ رواہ مسلم : کتاب المساجد ومواضع الصلاۃ ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا مجھے تمام انبیاء (علیہ السلام) پر چھ فضیلتیں عنایت کی گئیں : ١۔” مجھے جوامع الکلم کی صلاحیت عطا کی گئی۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے خصوصی رعب اور دبدبہ سے میری مدد فرمائی۔ ٣۔ مال غنیمت میرے لیے حلال کردیا گیا۔ ٤۔ میرے لیے ساری زمین کو پاک اور مسجد بنا دیا گیا۔ ٥۔ مجھے تمام انسانوں کے لیے رسول بنایا گیا۔ ٦۔ مجھ پر سلسلۂ نبوت ختم کردیا گیا۔“ مسائل ١۔ غنائم اللہ اور اس کے رسول کے لیے ہیں۔ ٢۔ آدمی کو ہر حال میں اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہنا چاہیے۔ ٣۔ مسلمانوں کو اپنی اصلاح پر توجہ رکھنی چاہیے۔ ٤۔ سچے ایمان کا تقاضا ہے کہ ہر حال میں اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کی جائے۔ تفسیر بالقرآن اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کے فائدے : ١۔ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت ایمان کی نشانی ہے۔ (الانفال : ١) ٢۔ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت باعث رحمت ہے۔ (التوبۃ: ٧١) ٣۔ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرنے والے ہی کامیاب ہوں گے۔ (النور : ٥٢) ٤۔ اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کرنے والے کو جنت میں داخل کیا جائے گا۔ (النساء : ١٣) ٥۔ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرنے والے انبیاء، صلحاء شہداء، اور سچے لوگوں کے ساتھ ہوں گے۔ (النساء : ٦٩) الانفال
2 فہم القرآن ربط کلام : انفال کے بارے میں ابتدائی حکم دینے کے بعد مومن کی صفات کا بیان اور اس کا صلہ۔ پہلی آیت میں ایک سوال کا جواب دینے کے بعد مسلمانوں کو جامع ہدایات دی گئی ہیں جس پر عمل پیرا ہونے سے مسلمان میں یہ اوصاف پیدا ہوجاتے ہیں جن سے وہ پکامومن بن جاتا ہے۔ درجات بلند ہونے کے ساتھ مومن کو اللہ کی طرف سے اس کی بخشش اور بہترین رزق کی گارنٹی حاصل ہوتی ہے۔ صحابہ کرام ] نے مال غنیمت کی تقسیم کا حکم سنتے ہی ایک ایک چیز رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حوالے کی اور دل و جان سے اس پر راضی ہوگئے۔ اس پر ان کی تعریف کرتے ہوئے مزید تاکید کی گئی ہے کہ مومن تو وہ ہیں کہ جن کے سامنے اللہ تعالیٰ کا ذکر ہو تو ان کے دل موم سے زیادہ نرم ہوجاتے ہیں۔ اور جب ان کے سامنے اس کی آیات تلاوت کی جائیں تو ان کے ایمان میں اضافہ ہوتا ہے۔ اور وہ عسر اور یسر میں اپنے رب پر توکل کرنے والے ہیں۔ یہی لوگ نماز کی پابندی کرتے ہیں۔ جو کچھ اللہ تعالیٰ نے انھیں عطا کر رکھا ہے اس میں سے اس کی راہ میں خرچ کرتے ہیں یہی لوگ پکے اور سچے مومن ہیں۔ ان کے لیے ان کے رب کے ہاں درجات ہیں۔ اگر ان سے کوئی گناہ سرزدہو جائے تو اللہ تعالیٰ انھیں اپنے کرم سے معاف کردیتے ہیں۔ ان کے لیے نہایت ہی عمدہ رزق تیار کیا گیا ہے یعنی جنت کی نعمتوں کے ساتھ دنیا میں رزق کی فراخی نصیب ہوگی۔ صحابہ کرام ] اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا حکم سمجھ کر مال غنیمت کی تقسیم پر راضی ہوئے اس پر انھیں رزق کریم کی خوشخبری دی گئی۔ جس کے صلہ میں وہ دنیا میں کثیر مال و اسباب کے مالک ہوئے اور قیامت کے دن انھیں جنت کی نعمتوں سے مالا مال کیا جائے گا جو مسلمان بھی ان اوصاف کا حامل ہوگا اللہ تعالیٰ اسے ان نعمتوں کے ساتھ سرفراز فرمائے گا۔ ذکر سے مراد اللہ تعالیٰ کی یاد اور اس کے احکام اور زبانی جسمانی ذکر ہے۔ مسائل ١۔ مومن کی نشانی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ذکر اور اس کی آیات سن کر اس کے ایمان میں اضافہ ہوتا ہے۔ ٢۔ مومنوں کو ہر حال میں اپنے رب پر توکل کرنا چاہیے۔ ٣۔ مسلمان کو نماز کا اہتمام اور زکوٰۃ ادا کرنی چاہیے۔ ٤۔ مومنوں کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے درجات، بخشش اور عمدہ رزق ملے گا۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ کی بخشش اور رزق کریم : ١۔ مومنوں کے لیے رب کے پاس درجات، بخشش اور رزق کریم ہے۔ (الانفال : ٤) ٢۔ نیک اعمال کرنے والوں کا بدلہ بخشش اور رزق کریم ہے۔ (سبا : ٤) ٣۔ ایمان دار نیک اعمال کرنے والوں کے لیے بخشش اور رزق کریم ہے۔ (الحج : ٥٠) ٤۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے فرمانبردار بندوں کے لیے دوہرا اجر اور رزق کریم تیار کر رکھا ہے۔ (الاحزاب : ٣١) ٥۔ یہ لوگ مبرا ہیں ان کی باتوں (بہتان طرازی) سے ان کے لیے بخشش اور رزق کریم ہے۔ (النور : ٢٦) الانفال
3 الانفال
4 فہم القرآن ربط کلام : انفال کے بارے چند بنیادی احکام کے بعد غزوۂ بدر کی چند تفصیلات کہ غنیمتیں کیوں اللہ اور اس کے رسول کے لیے ہیں۔ رسول محترم اور آپ کے عظیم رفقاء نے مکہ میں تیرہ سال بے پناہ مصائب و آلام کا سامنا کیا بالآخر مدینہ کی طرف ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے مکہ والوں نے آخر وقت تک آپ کو قتل کرنے کی کوشش کی۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے خیر و سلامتی کے ساتھ آپ کو مدینہ طیبہ پہنچا دیا۔ یہاں پہنچ کر رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مسلمانوں میں مواخات قائم فرمائی اور یہودیوں کے ساتھ میثاق مدینہ کے نام سے ایک معاہدہ کیا۔ جس میں فریقین کے حلیف قبیلے بھی شامل تھے۔ عبداللہ بن ابی جسے آپ کی آمد سے پہلے اہل مدینہ نے اپنا سربراہ بنانے کا فیصلہ کر رکھا تھا۔ آپ کی تشریف آوری کی وجہ سے اس منصب سے ہمیشہ کے لیے محروم ہوگیا۔ اس نے آپ کی شخصیت اور منصوبہ بندی سے مرعوب ہو کر بظاہر کلمہ پڑھا۔ منافقت کا لبادہ پہن کر مدینہ کے یہودیوں اور مکے والوں کے ساتھ ساز باز کا منصوبہ بنایا جس بنا پر مکے والوں کو مدینہ کے بارے میں پل پل کی خبر دیا کرتا تھا۔ عقیدے کا اختلاف اور رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اہل مکہ سے بچ نکلنا اور مدینہ میں آپ کی منصوبہ بندی کو اہل مکہ کس طرح برداشت کرسکتے تھے اس لیے انھوں نے خفیہ طور پر مدینہ پر حملہ کرنے کا پروگرام بنایا جس کے لیے کثیر سرمایہ کی ضرورت تھی اسی خاطر انھوں نے الانفال
5 الانفال
6 الانفال
7 شام کے لیے ایک تجارتی قافلہ تیار کیا کہ جس کی رقم کا پیشتر حصہ مدینہ فتح کرنے پر لگانا تھا ادھر نبی محترم بھی مکہ والوں کی سرگرمیوں سے پوری طرح آگاہ تھے جناب عباس اور کچھ دوسرے لوگ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مکہ کے حالات سے باخبر رکھتے تھے۔ آپ کو تجارتی قافلہ کی غرض و غایت کا علم ہوا تو آپ نے اس قافلہ پر شبخون مارنے کا فیصلہ کیا۔ حالات کی تیزرفتاری کی وجہ سے آپ نے اعلان فرمایا کہ جو لوگ بھی اس ایمر جنسی میں تیار ہو سکتے ہیں وہ ہمارے ہم رکاب ہوجائیں۔ آپ کے اس فیصلے کو اللہ تعالیٰ نے یہ فرما کر اپنی طرف منسوب فرمایا ہے کہ آپ کے رب نے ہی آپ کو آپ کے گھر سے نکالا تھا۔ یہاں گھر سے مراد مدینہ طیبہ کا گھر اور شہر ہے۔ بدر مدینہ طیبہ سے تقریباً ڈیڑھ سو کلو میٹر دور تھا جب آپ بدر کے مقام کے قریب پہنچے تو آپ کے مخبروں نے آپ کو اطلاع دی کہ قافلہ جرنیلی راستہ چھوڑ کر ساحلی راستہ اختیار کرکے یہاں سے نکل چکا ہے۔ راستہ تبدیل کرنے سے پہلے مکی قافلہ کے سربراہ ابو سفیان نے مکہ والوں کو صورت حال سے آگاہ کرتے ہوئے پیغام بھیجا کہ فوری طور پر قافلے کی حفاظت کا بندوبست کیا جائے۔ مکہ والے پہلے ہی ادھار کھائے بیٹھے تھے اس لیے ابو جہل نے حفاظتی دستہ بھیجنے کے بجائے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ جنگ کرنے کا فیصلہ کیا۔ ابو سفیان کا نمائندہ مکہ پہنچا تو اس نے قدیم روایت کے مطابق شدید ترین ہنگامی صورت حال کا تاثر دینے کے لیے اپنی سواری کا ناک چیر ڈالا اپنا گریبان چاک کیا اور مکہ کے شاہر اہوں میں کھڑے ہو کر دہائی دی کہ قافلہ لٹنے ہی والا ہے۔ اس پر مکہ کے ایک ہزار سورما مرنے مارنے کے لیے تیار ہوگئے۔ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بدر کے قریب جا کر اپنے ساتھیوں کو تجارتی قافلے اور مکہ کے لشکر کے بارے میں بتلایا۔ اور مشورہ طلب کیا کہ ان حالات میں ہمیں کیا کرنا چاہیے ؟ اس پر تین سو تیرہ مجاہدین فکری طور پر دو حصوں میں تقسیم ہوگئے۔ ایک حصہ کا خیال تھا جس قافلہ کے لیے ہم آئے تھے وہ ہمارے ہاتھ سے نکل چکا ہے۔ ہم تھوڑے اور بے سروسامان ہیں۔ اس لیے ہمیں واپس پلٹ جانا چاہیے۔ دوسرے فریق کا نکتہ نگاہ اس کے برعکس تھا۔ اس صورت حال میں آپ نے وقفہ، وقفہ کے بعد تین چار مرتبہ صحابہ سے فرمایا : اَشِیْرُوْا عَلیٰ ہٰذَا اَیُّہَا النَّاس لوگومجھے مشورہ دو۔ جس پر حضرت ابو بکر (رض)، حضرت عمر (رض) نے عرض کی کہ اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم آخر دم تک آپ کے ساتھ کھڑے رہیں گے۔ لیکن آپ کا مطمع نظریہ تھا کہ انصار کے نمائندے اپنے خیالات کا اظہار فرمائیں۔ جس کی مؤرخین نے یہ توجیہ بیان کی ہے کہ بیعت عقبہ کے موقع پر یہ بات طے پائی تھی کہ آپ ہجرت کرکے مدینہ آئیں اگر کوئی آپ پر حملہ آور ہوا تو انصار اس کا دفاع کریں گے۔ اس لیے آپ نے مناسب جانا کہ انصار بھی اپنے خیالات کا اظہار کریں۔ جونہی انصار نے آپ کا نقطہ نظر جانا تو وہ تڑپ گئے۔ ان کے نمائندے سعد بن معاذ (رض) نے اٹھ کر عرض کی یا رسول اللہ ! اس ذات کی قسم جس نے آپ کو دین حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے، اگر آپ ہمیں سمندر میں چھلانگ لگانے کا حکم دیں تو ہمیں اس کے لیے بھی تیار پائیں گے۔ کل جب دشمن سے مقابلہ ہوگا تو ہم اس طرح اپنی جان پر کھیل جائیں گے۔ جس سے آپ کی آنکھیں ٹھنڈی ہوجائیں گی پھر حضرت مقداد (رض) اٹھے اور انھوں نے آپ کی خدمت میں عرض کی کہ آپ ہمیں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی قوم کی طرح نہیں پائیں گے جنھوں نے کہا تھا کہ اے موسیٰ ! آپ اور آپ کا خدا لڑیں ہم یہاں بیٹھے ہیں۔ اے اللہ کے رسول! آپ حبشہ کے دو دراز علاقہ ” برق الغماد“ تک جانا چاہیں تو ہم اس کے لیے بھی تیار ہیں۔ ان جذبات اور بھرپور تائید کے ساتھ آپ نے بدر کی طرف پیش قدمی فرمائی۔ جس کی تائید کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ آپ کا گھر سے نکلنا اور بدر کی طرف روانہ ہونا۔ اللہ تعالیٰ ہی کا آپ کو حق کے ساتھ نکالنا تھا۔ حق سے مراد دین کی سربلندی کے لیے بروقت نکلنا اور صحیح فیصلہ کرنا ہے۔ حضرت مقدار (رض) کا دلیرانہ جواب : (عَنْ عَبْدِ اللَّہِ قَالَ قَالَ الْمِقْدَادُ (رض) یَوْمَ بَدْرٍ یَا رَسُول اللّٰہِ إِنَّا لَا نَقُولُ لَکَ کَمَا قَالَتْ بَنُو إِسْرَاءِیلَ لِمُوسٰی فَاذْہَبْ أَنْتَ وَرَبُّکَ فَقَاتِلَا إِنَّا ہَا ہُنَا قَاعِدُونَ وَلَکِنْ امْضِ وَنَحْنُ مَعَکَ فَکَأَنَّہُ سُرِّیَ عَنْ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) [ رواہ البخاری : کتاب المغازی، باب قول اللّٰہ اذ تستغیثون ربکم] ” حضرت عبداللہ (رض) بیان کرتے ہیں حضرت مقداد (رض) نے بدر کے دن رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا ہم اس طرح نہیں کہیں گے جیسے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی قوم نے ان سے کہا تھا تم اور تمھارا پروردگار دونوں جاؤ اور لڑو۔ ہم یہاں بیٹھے ہوئے ہیں آپ نکلیں ہم آپ کے ساتھ ہیں رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس بات سے خوش ہوگئے۔“ یہاں جھگڑا کرنے سے مراد بحث و تکرار ہے۔ صحابہ (رض) کی دوسری جماعت کا خیال تھا کہ ہم سراسر موت کے منہ میں جا رہے ہیں اسی پر تبصرہ کرتے ہوئے قرآن کہہ رہا ہے کہ گویا کہ وہ موت کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے۔ جبکہ اللہ تعالیٰ نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے وعدہ کیا تھا کہ دو جماعتوں میں کوئی ایک جماعت تمھارے ہاتھ لگے گی۔ یعنی تجارتی قافلہ یا مکے کے لشکر سے مڈ بھیڑ ہوگی۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فیصلہ کر رکھا تھا کہ آج حق کو اپنے حکم کے ساتھ بالا کر دے اور کفار کی جڑ کاٹ دے حق و باطل کے درمیان ہمیشہ کے لیے فیصلہ اور امتیاز ہوجائے خواہ یہ بات مجرموں کے لیے کتنی ہی ناپسند کیوں نہ ہو۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے حق کو ثابت کرنے کے لیے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو غزوۂ بدر کے لیے نکالا۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ مومنین کو مشکل وقت میں کبھی اکیلا نہیں چھوڑتا۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ حق کو سچا ثابت کرتا ہے اگرچہ یہ بات کافروں کو کتنی ہی ناپسند ہو۔ تفسیر بالقرآن اللہ کے وعدے : ١۔ اللہ تعالیٰ نے مومنوں کے ساتھ زمین میں خلیفہ بنانے کا وعدہ کیا ہے۔ (النور : ٥٥) ٢۔ مومنوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے مغفرت اور اجر عظیم کا وعدہ کیا ہے۔ (المائدۃ: ٩، الفتح : ٢٩) ٣۔ اللہ تعالیٰ مومن مرد مومن عورتوں کے ساتھ جنت کا وعدہ کرتا ہے۔ (التوبۃ: ٧٢) ٤۔ ہر مومن کے ساتھ اللہ نے اچھا وعدہ فرمایا ہے۔ (النساء : ٩٥) ٥۔ اللہ تعالیٰ کا وعدہ سچا ہے۔ (ابراہیم : ٢٢) ٦۔ اے اللہ ہمیں اس جنت میں داخل فرما جس کا تو نے وعدہ فرمایا ہوا ہے۔ (المومن : ٨) ٧۔ اللہ اپنے وعدے کی خلاف ورزی نہیں کرے گا۔ (آل عمراٰن : ٩) ٨۔ اللہ تعالیٰ کا وعدہ سچا ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔ (یونس : ٥٥) ٩۔ اے لوگو! اللہ تعالیٰ کا وعدہ سچا ہے تمہیں دنیا کی زندگی دھوکے میں مبتلانہ کرے۔ (فاطر : ٥) ١٠۔ اللہ تعالیٰ کا وعدہ سچا ہے کون ہے جو اللہ سے بڑھ کر سچی بات کرنے والا ہو۔ (النساء : ١٢٢) ١١۔ اللہ نے تمہارے ساتھ اپناوعدہ سچا کر دکھایاجب تم کفار کو اس کے حکم سے کاٹ رہے تھے۔ (آل عمراٰن : ١٥٢) الانفال
8 الانفال
9 فہم القرآن ربط کلام : نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا مدینہ طیبہ سے نکلنا، اللہ تعالیٰ کی مشیت کے عین مطابق تھا۔ آپ نے بدر کے ریتلے علاقہ میں پڑاؤ ڈالا جس کا نقشہ یہاں پیش کیا جا رہا ہے۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رات بھر اپنے رب کی بار گاہ میں آہ و زاری کے ساتھ دعا کرتے رہے۔ جس میں آپ اس حد تک اپنے رب کے حضور فریاد کناں ہوئے کہ اے بار الہا! اگر یہ مٹھی بھر مسلمان ختم ہوگئے تو قیامت تک تیرا نام لینے والا کوئی نہیں ہوگا۔ ان الفاظ کے پیچھے دو قسم کے محرکات تھے۔ ایک تو اللہ تعالیٰ کی بار گاہ میں انتہا درجہ کی عاجزی اور بے کسی کا اظہار۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ اگر مکے کے لوگ آج غالب آگئے تو وہ اگلے دن مدینہ میں کسی ایک مسلمان کو زندہ نہیں چھوڑیں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ انہی جذبات کے ساتھ اہل مکہ نے بدر کی طرف پیش قدمی کی تھی۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعا کے بارے میں جمع کا جو لفظ استعمال فرمایا گیا ہے جس میں صحابہ کرام (رض) کو شامل فرمایا گیا ہے۔ امام رازی نے اس کا مفہوم یہ بیان کیا ہے کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دعا کرتے تھے اور آپ کے کیمپ میں موجود صحابہ آمین کہتے تھے اس کا مفہوم یہ بھی ہوسکتا ہے۔ جو فطرت کے زیادہ قریب ہے کہ تمام صحابہ رات کے وقت اپنے اپنے مقام پر اللہ تعالیٰ سے آرزوئیں کرتے رہے کہ اے مولائے کریم ! صبح دشمن کے مقابلے میں ہمیں کامیابی نصیب فرمانا۔ کوئی جنگ اس وقت تک نہیں جیتی جا سکتی جب تک فوج کا ایک ایک سپاہی اپنی کامیابی اور دشمن کو ختم کرنے کے جذبات سے لبریز نہ ہو۔ اسی جذبہ کی یہاں ترجمانی کی گئی ہے کہ جب آپ اور آپ کے صحابہ اپنے رب کی بار گاہ میں فتح کی التجائیں کر رہے تھے تو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کے ذریعے انھیں ایک ہزار فرشتے نازل کرنے کی خوشخبری سنائی۔ (آل عمران ١٢٣، ١٢٤) یہ کمک اللہ تعالیٰ کی طرف سے مومنوں کی مدد، ان کے لیے فتح کی خوشخبری کا پیش خیمہ اور اطمینان قلب کا ذریعہ بنی۔ مدد کے لیے فرشتہ تو ایک ہی کافی تھا لیکن انسانی نفسیات کو ملحوظ رکھتے ہوئے۔ اللہ تعالیٰ نے پے درپے اس مدد میں اضافہ فرما کر نہتے اور کمزور صحابہ (رض) کو شیروں سے زیادہ بہادر اور طاقت ور بنا دیا اور پھر اس کے ساتھ یہ کرم بھی فرمایا کہ رات کو تمام صحابہ (رض) کو خوب نیند آئی حالانکہ حالت جنگ میں نیندبہت ہی کم آیا کرتی ہے۔ کیونکہ خوف و خطر کی بنا پر اعصاب میں شدید تناؤ پیدا ہوجاتا ہے۔ مزید اللہ کا یہ کرم ہوا کہ رات کو اچھی خاصی رحمت کی برکھا برسی جس سے میدان جنگ کی صورت حال واضح طور پر صحابہ کے حق میں ہوگئی اس سے پہلے اسلامی فوج میدان کے اوپر کی طرف تھی جو ریت اور ڈھلوان ہونے کی وجہ سے پاؤں کے پھسلنے کا مقام تھا۔ بارش ہونے کی وجہ سے کفار کا میدان دلدل بنا اور صحابہ (رض) کا حصہ ریت جمنے کی وجہ سے سخت ہوگیا۔ صحابہ (رض) نے بارش کا پانی جمع کرلیا جس سے صحابہ نے وضو اور غسل کیے۔ اس سے صحابہ اپنے آپ کو جسمانی اور ذہنی طور پر بھی تازہ دم محسوس کر رہے تھے۔ الانفال
10 الانفال
11 الانفال
12 الانفال
13 اس طرح قلبی اطمینان، ذہنی آسودگی، جسمانی نشاط اور ملائکہ کی کمک کی وجہ سے مجاہد قدم جما کر لڑے۔ اس دوران یہ وحی بھی نازل ہوئی کہ اللہ تعالیٰ نے کفار کے دلوں میں تمھارا رعب ڈال دیا ہے۔ گویا کہ وہ پوری طرح تم سے مرعوب ہوگئے ہیں۔ لہٰذا آگے بڑھ کر ان کی گردنیں کاٹو اور جوڑ جوڑ کو نشانہ بناؤ کیونکہ یہ اللہ اور اس کے رسول کے باغی ہیں۔ جو بھی اللہ اور اس کے رسول کا باغی ہوگا اس کو دنیا کی سزا کے ساتھ آخرت میں شدید عذاب میں مبتلا کیا جائے گا۔ جس طرح بدر میں انھیں مارنے کا تمھیں حکم دیا گیا ہے اسی طرح جہنم کی آگ میں جھونکتے ہوئے ملائکہ انھیں کہیں گے اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانیوں کا مزا ہمیشہ چکتے رہو۔ ” حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں بلاشبہ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔۔ یہ فلاں شخص کی قتل گاہ ہے یہ فلاں شخص کی جگہ ہے آپ نے اپنا دست مبارک زمین پر رکھ کر بتا یا۔ انس (رض) کہتے ہیں کافروں میں سے کوئی بھی دوسری جگہ نہیں گراتھا جہاں جہاں رسول مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دست مبارک رکھا تھا۔“ [ رواہ مسلم] (عَن ابْنِ عُمَرَ (رض) قَالَ وَقَفَ النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عَلٰی قَلِیبِ بَدْرٍ فَقَالَ ہَلْ وَجَدْتُّمْ مَا وَعَدَ رَبُّکُمْ حَقًّا ثُمَّ قَالَ إِنَّہُمْ الْآنَ یَسْمَعُونَ مَا أَقُولُ فَذُکِرَ لِعَاءِشَۃَ (رض) فَقَالَتْ إِنَّمَا قَال النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) إِنَّہُمْ الْآنَ لَیَعْلَمُونَ أَنَّ الَّذِی کُنْتُ أَقُولُ لَہُمْ ہُوَ الْحَقُّ ثُمَّ قَرَأَتْ إِنَّکَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتٰی حَتّٰی قَرَأَتْ الْآیَۃَ) [ رواہ البخاری] ” حضرت عبداللہ بن عمر (رض) فرماتے ہیں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بدر کے کنویں کے قریب کھڑے ہو کر پوچھ رہے تھے جو تم سے تمہارے رب نے وعدہ کیا تھا کیا اس کو تم نے سچا پایا ہے؟ پھر فرمایا بلاشبہ یہ اس وقت سن رہے ہیں جو میں انہیں کہہ رہا ہوں حضرت عائشہ صدیقہ (رض) کے سامنے اس بات کا ذکر کیا گیا تو انہوں نے فرمایا نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صرف یہ فرمایا تھا بے شک ان لوگوں کو اب معلوم ہوگیا جو میں انھیں کہتا تھا وہ سچ ہے پھر اس آیت مبارکہ کی تلاوت فرمائی۔ ” آپ مردوں کو نہیں سنا سکتے“ یہاں تک کہ مکمل آیت کی تلاوت کی۔“ مقصد یہ تھا کہ اصل اصول یہی ہے کہ مردے نہیں سنتے لیکن آج یہ میری بات سن رہے ہیں۔ (عَنْ أَنَسٍ (رض) قَالَ کُنَّا مَعَ عُمَرَ بَیْنَ مَکَّۃَ وَالْمَدِینَۃِ أَخَذَ یُحَدِّثُنَا عَنْ أَہْلِ بَدْرٍ فَقَالَ إِنَّ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لَیُرِینَا مَصَارِعَہُمْ بالْأَمْسِ قَالَ ہٰذَا مَصْرَعُ فُلَانٍ إِنْ شَاء اللّٰہُ غَدًا قَالَ عُمَرُ وَالَّذِی بَعَثَہُ بالْحَقِّ مَا أَخْطَءُوا تیکَ فَجُعِلُوا فِی بِءْرٍ فَأَتَاہُمْ النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَنَادٰی یَا فُلَانُ بْنَ فُلَانٍ یَا فُلَانُ بْنَ فُلَانٍ ہَلْ وَجَدْتُّمْ مَا وَعَدَ رَبُّکُمْ حَقًّا فَإِنِّی وَجَدْتُّ مَا وَعَدَنِی اللّٰہُ حَقًّا فَقَالَ عُمَرُ تُکَلِّمُ أَجْسَادًا لَا أَرْوَاح فیہَا فَقَالَ مَا أَنْتُمْ بِأَسْمَعَ لِمَا أَقُولُ مِنْہُمْ) [ رواہ مسلم : کتاب الجنائز، باب أرواح المؤمنین] ” حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں ہم حضرت عمر (رض) کے ساتھ مکہ اور مدینہ کے درمیان سفر میں تھے وہ ہمیں اہل بدر کے متعلق بتانے لگے۔ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے وہ جگہیں متعین فرمائیں ہمیں دکھانے کے لیے جہاں اگلے دن کافروں نے قتل ہونا تھا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اگر اللہ نے چاہا تو فلاں کے قتل ہونے کی جگہ ہے۔ حضرت عمر (رض) فرماتے ہیں اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا کافر مقررہ جگہوں سے ذرا بھی نہیں ہٹے تھے انہیں کنویں میں پھینک دیا گیا۔ کنویں کے پاس نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آئے اور انہیں آواز دیتے ہوئے فرمایا اے فلاں بن فلاں، اے فلاں بن فلاں کیا تم سے تمہارے رب نے اور جو وعدہ کیا تھا تم نے اسے سچ پایا ہے۔ بلاشبہ میرے رب نے میرے ساتھ جو وعدہ کیا تھا میں نے اسے سچ پا یا ہے۔ حضرت عمر (رض) کہتے ہیں لاشوں کے ساتھ باتیں ہوئیں جبکہ ان میں روحیں نہیں تھیں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا یہ تم سے زیادہ سن رہے ہیں جو میں ان سے کہہ رہا ہوں۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے غزوۂ بدر میں فرشتوں کے ذریعے مدد کی۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ ہی مدد کرنے والا ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ اپنی رحمت مختلف انداز سے نازل فرماتا ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ کے سوا کوئی مدد کرنے والا نہیں : ١۔ نہیں ہے تمھارا کوئی اللہ کے سوا دوست اور نہ مددگار۔ (البقرۃ: ١٠٧) ٥۔ نہ ملے ان کو اللہ کے سوا کوئی دوست اور نہ مددگار۔ (الاحزاب : ١٧) ٢۔ نہیں ہے تمھارے لیے اللہ کے سوا کوئی مددگار جو تمھاری مدد کرسکے۔ (ھود : ١٣) ٣۔ نہیں ہے ان کے لیے زمین میں کوئی دوست اور نہ کوئی مدد گار۔ (التوبۃ: ٧٤) ٤۔ نہیں ہے تمھارے لیے اللہ کے سوا کوئی دوست اور سفارشی پھر تم نصیحت کیوں نہیں حاصل کرتے۔ (السجدۃ: ٤) الانفال
14 الانفال
15 فہم القرآن ربط کلام : غزوۂ بدر کے واقعات کا بیان جاری ہے۔ زمانۂ قدیم اور آج بھی بنیادی طور پر جنگ دو طرح لڑی جاتی ہے۔ گوریلا وار، اور ایک دوسرے کے آمنے سامنے برسرپیکار ہونا۔ بدر کا معرکہ فریقین کے آمنے سامنے کی لڑائی تھی۔ جس کے لیے ” زَحْفاً“ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ زحفا بچے کے گھسٹ گھسٹ کر چلنے کو کہا جاتا ہے۔ لشکر بڑا ہو تو وہ بھی اپنے ساز و سامان کے ساتھ سست رفتاری سے چلتا ہے۔ بدر میں مسلمانوں کے مقابلہ میں کفار کی تعداد ایک ہزار تھی اور ان کے ساتھ گھوڑے، خچر اور اونٹ بھی تھے۔ جس کی نقشہ کشی لفظ ” زَحْفاً“ کے ذریعے کی گئی ہے۔ اس کا دوسرا مفہوم یہ ہے کہ جب دشمن سامنے ہو یا مسلمانوں پر جنگ مسلط کردی جائے تو اس صورت میں پیٹھ پھیر کر بھاگنے کے بجائے جان پر کھیل جانا چاہیے۔ جو مجاہد دشمن کے مقابلے میں پیٹھ پھیر کر بھاگے گا۔ وہ اللہ تعالیٰ کے غضب کے ساتھ لوٹے گا۔ اگر وہ اسی حالت میں مر جائے تو اس کا ٹھکانہ جہنم ہوگا کیونکہ اس نے اسلام کی سربلندی اور مسلمانوں کے مفاد پر اپنے آپ اور اپنے مفاد کو ترجیح دی۔ البتہ جنگی حکمت عملی کے تحت مورچہ چھوڑنا یا ایک محاذ کے بجائے اپنے کمانڈر کے حکم پر دوسرے محاذ پر جانا یا دشمن پر حملہ آور ہونے کے لیے دوسرے ساتھیوں کے ساتھ ملنے کی خاطر پیچھے پلٹتا ہے تو اس پر کوئی جرم نہیں۔ کیونکہ حالت جنگ میں یہ تبدیلی ناگزیر ہوتی ہے۔ حالت جنگ میں بھاگنا اس لیے سنگین جرم ہے کہ ایک شخص کے بھاگنے سے دوسرے ساتھیوں کے حوصلے پست ہوتے ہیں۔ اس طرح بھاگنا مسلمان کی غیرت کے منافی ہے۔ جنگ سے فرار موت کے ڈر سے ہوتا ہے۔ جبکہ موت کی جگہ اور وقت مقرر ہے لہٰذا بھاگنا بزدلی کے سوا کچھ نہیں ہے۔ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ اِجْتَنِبُوا السَّبْعَ الْمُوبِقَاتِ قَالُوا یَا رَسُول اللّٰہِ وَمَا ہُنَّ قَال الشِّرْکُ باللّٰہِ وَالسِّحْرُ وَقَتْلُ النَّفْسِ الَّتِی حَرَّمَ اللّٰہُ إِلَّا بالْحَقِّ وَأَکْلُ الرِّبَا وَأَکْلُ مَالِ الْیَتِیمِ وَالتَّوَلِّی یَوْمَ الزَّحْفِ وَقَذْفُ الْمُحْصَنَاتِ الْمُؤْمِنَاتِ الْغَافِلَات) [ رواہ البخاری : کتاب الحدود، باب رمی المحصنات] ” حضرت ابوہریرہ (رض) نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان نقل کرتے ہیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ سات ہلاک کردینے والی چیزوں سے بچو۔ صحابہ کرام (رض) نے استفسار کیا۔ اے اللہ کے رسول! وہ کون سی ہیں ؟ آپ نے فرمایا اللہ کے ساتھ شرک کرنا، جادو کرنا، کسی کو ناجائز قتل کرنا، سود کھانا، یتیم کا مال ہڑپ کرنا، لڑائی کے دن میدان سے بھاگنا، معصوم اور بے گناہ عورتوں پر الزام لگانا۔“ مسائل ١۔ مجاہد کو میدان کارزار میں دشمن کے خلاف ڈٹ کر لڑنا چاہیے۔ ٢۔ حالت جنگ میں پیٹھ پھیرنا سنگین جرم ہے۔ ٣۔ میدان جنگ سے بھاگنے والے پر اللہ کا غضب ہوتا ہے اور اس کا ٹھکانہ جہنم ہوگا۔ تفسیر بالقرآن جہاد میں ثابت قدم رہنے کا حکم : ١۔ مسلمانوں کفار سے تمھارا مقابلہ ہو تو ثابت قدم رہو۔ (الانفال : ١٥) ٢۔ جب کفار سے تمھارا مقابلہ ہو تو ان کی گردنیں اڑادو۔ (محمد : ٤) ٣۔ غم نہ کرو تم ہی غالب آؤ گے اگر تم ایماندار ہو۔ (آل عمران : ١٣٩) ٤۔ اے ایمان والو ! جب کسی لشکر سے تمھارا مقابلہ ہو تو ثابت قدم رہو۔ (الانفال : ٤٥) الانفال
16 الانفال
17 فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ غزوۂ بدر کی کامیابی کا اصل سبب۔ بدر کے لیے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اپنے گھر سے نکلنا، بدر کی رات بارش کا ہونا، رات کو مسلمانوں کا پرسکون ہو کر سونا، پے درپے ملائکہ کی کمک کا پہنچنا، کفار پر مسلمانوں کا رعب طاری ہونا، نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا مٹھی بھر کنکریوں کو کفار کے لشکر کی طرف پھینکنا، اللہ تعالیٰ کا کفار کی آنکھوں میں کنکریوں کا پہنچانا۔ سب کے سب اقدام صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی خصوصی مدد کا نتیجہ تھے۔ اس لیے بدر کی کامیابی کے بارے میں ارشاد فرمایا اے مسلمانو! اس کا میابی پر اترانے کے بجائے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل و احسان کو یاد رکھو کیونکہ تم تو ہر اعتبار سے کفار کے مقابلے میں کمزور اور ناتواں تھے۔ تم نے کفار کو قتل نہیں کیا یہ تو اللہ تعالیٰ نے انھیں قتل کیا ہے پھر نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ آپ نے کنکریاں نہیں پھینکیں وہ تو اللہ تعالیٰ نے پھینکی ہیں گویا کہ ایک ایک کافر کی آنکھ میں کنکریاں جھونکنا۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بس کی بات نہ تھی۔ بدر میں مسلمانوں کو کامیابی سے اس لیے ہمکنار کیا گیا تاکہ ان کو فتح دے کر آزمائے اور دوسری طرف کفار کو ذلیل کردیا جائے۔ دنیا میں یہ پہلا معرکہ تھا کہ اتنے کمزور اور تھوڑے لوگوں نے اپنے سے تین گنابڑی قوت کو نہ صرف شکست دی بلکہ ان کے ستر سر کردہ لوگوں کو جہنم و اصل کرکے ستر آدمیوں کو گرفتار کرلیا جہاں تک اس میں مسلمانوں کی آزمائش کا تعلق ہے۔ اس کے لیے بلاءً حَسَنًا کا لفظ استعمال فرمایا ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ دے کر بھی آزماتا ہے اور لے کر بھی آزماتا ہے۔ بدر میں عظیم الشان کامیابی دے کر مسلمانوں کو آزمایا گیا اسی لیے سورۃ الحدید آیت ٢٣ میں یہ اصول بتلایا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ تم سے کوئی چیزلے لے تو زیادہ افسوس نہ کیا کرو اور جب وہ عطا فرمائے تو اس پر فخر و غرور نہیں کرنا چاہیے کیونکہ اللہ تعالیٰ غرور کرنے والے کو پسند نہیں کرتا۔ (لِکَیْلَا تَأْسَوْا عَلٰی مَا فَاتَکُمْ وَلَا تَفْرَحُوا بِمَا آَتٰاکُمْ وَاللّٰہُ لَا یُحِبُّ کُلَّ مُخْتَالٍ فَخُورٍ)[ الحدید : ٢٣] ” اس لیے کہ جو تمھیں نہ مل سکے اس پر غم نہ کرو اور جو اللہ تمھیں دے اس پر اترایا نہ کرو اور اللہ کسی بھی خود پسند اور فخر کرنے والے کو پسند نہیں کرتا۔“ (عَنْ أَبِی دَاوُدَ الْمَازِنِیِّ وَکَانَ شَہِدَ بَدْرًا قَالَ إِنِّی لَأَتْبَعُ رَجُلًا مِّنْ الْمُشْرِکِینَ لِاَضْرِبَہٗ إِذْ وَقَعَ رَأْسُہٗ قَبْلَ أَنْ یَصِلَ إِلَیْہِ سَیْفِی فَعَرَفْتُ أَنَّہُ قَدْ قَتَلَہٗ غَیْرِی) [ رواہ أحمد] ” حضرت ابی داؤد المازنی (رض) جو کہ بدر کے معرکہ میں شامل تھے بیان کرتے ہیں کہ میں ایک مشرک کے پیچھے اسے قتل کرنے کے لیے بھاگ رہا تھا کہ اچانک میرے اس تک پہنچنے سے پہلے ہی اس کی گردن کٹ گئی۔ مجھے یقین ہوگیا کہ اسے کسی اور نے قتل کیا ہے۔“ (عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ (رض) أَنَّ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ یَوْمَ بَدْرٍ ہٰذَا جِبْرِیلُ آخِذٌ بِرَأْسِ فَرَسِہٖ عَلَیْہِ أَدَاۃُ الْحَرْبِ) [ رواہ البخاری : کتاب المغازی، باب شہود الملائکۃ بدرا] ” حضرت عبداللہ بن عباس (رض) بیان کرتے ہیں بلاشبہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بدر کے دن فرمایا یہ جبرائیل ہیں جنہوں نے اپنے گھوڑے کی پیشانی پکڑی ہوئی ہے اور اس پر اسلحہ رکھا ہوا ہے۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ کبھی دے کر آزماتا ہے اور کبھی لے کر آزماتا ہے۔ ٢۔ آزمائش کبھی نعمت کی شکل میں ہوتی ہے اور کبھی بیماری اور نقصان کی صورت میں۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ کافروں کو دنیا میں بھی ذلیل کردیتا ہے۔ تفسیر بالقرآن کفار کی تدابیرکی حقیقت : ١۔ انہوں نے مکر کیا اور اللہ نے تدبیر کی اللہ بہتر تدبیر فرمانے والا ہے۔ (الانفال : ٣٠) ٢۔ انکے مکر کا انجام دیکھو ہم نے انہیں اور ان کی قوم کو ہلاک کردیا۔ (النمل : ٥١) ٣۔ اللہ نے ان کی خفیہ تدبیروں سے آپ کو محفوظ رکھا۔ (المومن : ٤٥) ٤۔ انہوں نے مکر کیا اور اللہ نے تدبیر کی اللہ بہتر تدبیر فرمانے والا ہے۔ (آل عمراٰن : ٥٤) الانفال
18 الانفال
19 فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ بدر کی ذلت کے بعد کفار کو انتباہ۔ قریش خاندانی سردار اور بیت اللہ کے متولی ہونے کی وجہ سے پوری دنیا میں معزز اور محترم سمجھے جاتے تھے۔ اس پر انھیں بڑا ناز اور فخر تھا۔ لیکن حق کی پے درپے مخالفت اور بدر میں ذلت ناک شکست کی وجہ سے اس قدر ذلیل ہوئے کہ ان کا نام اور مقام خاک میں مل گیا۔ یہاں مفسرین نے ایک عجب واقعہ نقل کیا ہے کہ بدر کی طرف نکلنے سے پہلے۔ سرداران قریش اور ابو جہل نے بیت اللہ کا غلاف پکڑ کر یہ دعا کی کہ اے کعبہ کے رب ! تیری نگاہ میں مسلمانوں اور ہم میں جو حق پر ہے اسے کامیابی عنایت فرما۔ (جامع البیان ) ہو سکتا ہے یہاں اسی بات کی طرف اشارہ ہو کہ جس حق کے لیے تم فتح کے طلبگار ہوئے تھے اس حق پر صرف نبی آخرالزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے ساتھی ہیں۔ جن کو اللہ تعالیٰ نے فتح سے ہمکنار فرمایا۔ لہٰذا تمھاری دعا کے نتیجہ میں جب حق ظاہر ہوچکا تو پھر تمھیں اس حق کی مخالفت سے باز آنا چاہیے۔ یہی تمھاری دنیا و آخرت کے لیے بہتر ہے۔ اگر تم باز آنے کے بجائے پھر مسلمانوں سے جنگ کرنے کے لیے پلٹو گے تو اللہ تعالیٰ مسلمانوں کی پہلے کی طرح امداد کرے گا اور تمھیں تمھاری عددی قوت اور جنگی ساز و سامان کی کثرت کا کچھ فائدہ نہیں پہنچے گا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ مومنوں کا ساتھی ہے۔ چنانچہ تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی مسلمان اللہ تعالیٰ کی رضا اور دین کی سربلندی کے لیے اپنے وسائل کو یکجا کرکے متحد ہو کر نکلے تو کفار کی کثرت اور ساز و سامان کی بہتات انھیں کچھ فائدہ نہ پہنچا سکی۔ وہ اپنے سے کمزور اور تھوڑے مسلمانوں کے مقابلہ میں ہمیشہ ذلیل و خوار ہوئے۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ کی نصرت شامل حال ہو تو کفار کی کثرت مسلمانوں کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔ ٢۔ اگر کلمہ گو پکے مومن ہوجائیں تو اللہ تعالیٰ ان کی ہمیشہ مدد فرمائے گا۔ تفسیر بالقرآن اللہ کی مدد کے بغیر جنگ میں ا کثریت کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی : ١۔ تھوڑی جماعتیں اللہ کی مدد سے بڑی جماعتوں پر غالب آگئیں۔ (البقرۃ: ٢٤٩) ٢۔ اے ایمان والو! جب تمھارا کسی لشکر سے مقابلہ ہو تو ثابت قدم رہو اور اللہ سے مدد کی دعا کرو۔ (الانفال : ٥٣) ٣۔ نہیں ہے کوئی گروہ جو ان کی مدد کرے اللہ تعالیٰ کے سوا۔ (الکہف : ٤٣) ٤۔ بدر میں دو جماعتوں کے لڑنے میں تمھارے لیے عبرت تھی۔ اللہ طاقت دیتا ہے اپنی مدد سے جسے چاہتا ہے۔ (آل عمران : ١٣) ٥۔ تم ہی غالب رہو گے بشرطیکہ تم مومن بن جاؤ۔ ( آل عمران : ١٣٩) تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ کن لوگوں کے ساتھ ہوتا ہے : ١۔ اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ (البقرۃ: ١٥٣) ٢۔ اللہ تعالیٰ متقین کے ساتھ ہے۔ (التوبۃ: ٣٦) ٣۔ اللہ تعالیٰ مومنوں کے ساتھ ہے۔ (النساء : ١٤٦) ٤۔ اللہ تعالیٰ تقویٰ اختیار کرنیوالوں کے ساتھ ہے۔ (النحل : ١٢٨) ٥۔ اللہ تعالیٰ تقویٰ اختیار کرنیوالوں اور نیکو کاروں کے ساتھ ہے۔ (النحل : ١٢٨) الانفال
20 فہم القرآن ربط کلام : غزوۂ بدر پر تبصرہ کے بعد مومنین کو ہدایات۔ مومن کی نشانی یہ ہے کہ وہ ہر حال میں اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتا ہے جب تک مومن اس مشن پر کاربند رہے گا اللہ تعالیٰ کی نصرت و مدد اس کے شامل حال رہے گی۔ قرآن مجید میں مختلف مقامات پر مسلمانوں کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو۔ سورۃ الاحزاب آیت ٧١ میں فرمایا جو مسلمان اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے گا وہ کامیاب ہوگا سورۃ محمد، آیت : ٣٣ میں حکم ہوا کہ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو۔ ان کی نافرمانی کرکے اپنے اعمال ضائع نہ کرنا۔ سورۃ النور، آیت : ٥١ میں ارشاد ہوا کہ مومن تو وہ ہیں جب انھیں اللہ اور اس کے رسول کے حکم کی طرف بلایا جائے تو وہ یہ کہتے ہوئے سرتسلیم خم کرتے ہیں کہ ہم نے سنا اور مان لیا۔ جو بھی اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے اور اللہ تعالیٰ سے ڈر کر گناہوں سے بچ جائے وہی لوگ بامراد ہوں گے۔ (النور : ٥١ تا ٥٢) یہاں یہ حکم ہوا ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو۔ حکم سننے کے باوجود انحراف نہ کرو کسی بات کو تسلیم کرنے کے تین مدارج ہوتے ہیں۔ بات کو اچھی طرح سننا۔ اس پر غور کرنا۔ اس پر پورے اخلاص کے ساتھ عمل کرنا۔ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت میں جب تک تینوں باتیں شامل نہ ہوں۔ اطاعت کا حق ادا نہیں ہوتا اس لیے حکم فرمایا ہے کہ اے ایمان والو ! ان لوگوں کی طرح نہ ہوجانا جنھوں نے کہا ہم نے سن لیا۔ حالانکہ وہ سننے والے نہیں ہیں ایسا کرنے والوں سے مراد کافر، منافق اور وہ کلمہ گو بھی اس میں شامل ہوں گے۔ جو اللہ اور اس کے رسول کا حکم سننے کے باوجود اس طرح زندگی گزارتے ہیں جیسا کہ انھوں نے اللہ اور اس کے رسول کا حکم سنا ہی نہیں۔ ان کی مثال تو دوّاب کی ہے جو دابۃ کی جمع ہے جس کا معنی ہے زمین پر چلنے والے جانور جو بہرے، گونگے اور بے عقل ہیں جنھیں کھانے پینے، چلنے پھرنے، اٹھنے، بیٹھنے اور سونے، جاگنے کے سوا کوئی فکر نہیں ہوتی۔ یہی طرز زندگی ان لوگوں کا ہے جو اللہ اور اس کے رسول کی بات سنتے ہیں مگر اس کے تقاضے پورے نہیں کرتے۔ مسائل ١۔ مسلمان کو ہر حال میں اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرنی چاہیے۔ ٢۔ اللہ اور اس کے رسول کی بات سننے کے باوجود اس پر عمل نہ کرنا جانوروں کا طرز حیات ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کا حکم : ١۔ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو۔ (الانفال : ٤٦) ٢۔ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔ (آل عمران : ١٣٢) ٣۔ اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور اپنے اعمال کو برباد نہ کرو۔ (محمد : ٣٣) ٤۔ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور نافرمانی سے بچو۔ (المائدۃ: ٩٢) ٥۔ اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول اور صاحب امر کی اطاعت کرو۔ (النساء : ٥٩) چوپاؤں اور جانوروں سے بدتر لوگ : ١۔ اللہ تعالیٰ نے ان پر لعنت کردی انھیں بہرے اور اندھے کردیا ہے۔ (محمد : ٢٣) ٢۔ بہرے، گونگے اور اندھے ہیں وہ رجوع نہیں کرتے۔ (البقرۃ: ١٨) ٣۔ ہماری آیات کا انکار کرنے والے بہرے اور گونگے ہیں۔ (الانعام : ٣٩) ٤۔ بہروں کو آپ نہیں سنا سکتے کیونکہ وہ بے عقل ہیں۔ (یونس : ٤٢) ٥۔ آپ مردوں اور بہروں کو اپنی پکار نہیں سنا سکتے۔ (النمل : ٨٠) ٦۔ کفار چوپائے ہیں بلکہ ان سے بھی بدترہیں۔ (الاعراف : ١٧٩) الانفال
21 الانفال
22 الانفال
23 فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ منافق نہیں سننا چاہتے تو نہ سنیں۔ اے مومنوں تمھیں ضرور اللہ اور اس کے رسول کی بات سننا اور ماننا چاہیے۔ جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کا ارشاد سننے کے باوجود ایسا طرز حیات اختیار کرتے ہیں جیسا کہ انھوں نے اسے سنا ہی نہیں۔ ان کو جانوروں کے ساتھ تشبیہ دے کر فرمایا یہ عقل و فکر سے عاری ہیں۔ سورۃ الاعراف آیت ١٧٩ میں ان لوگوں کو جانوروں سے بدتر شمار کرتے ہوئے انھیں غافل قرار دیا گیا ہے۔ یہاں فرمایا ہے اگر اللہ تعالیٰ ان میں خیر کا جذبہ دیکھتا تو ان کو بات سننے، سمجھنے کی توفیق دیتا۔ کیونکہ یہ جانوروں کی طرح محض اپنے مالک کی آواز سنتے ہیں سمجھتے نہیں۔ یہی مثال ان لوگوں کی ہے۔ اسی لیے انھیں ہدایت سے نہیں نوازا گیا۔ ایسے لوگوں کو اگر جبراً کوئی بات سنوائی جائے تو پھر بھی وہ اعراض کرنے والے ہوں گے۔ جیسا کہ بنی اسرائیل کے بارے میں آیا ہے کہ ان کے سروں پر پہاڑ بلند کیا گیا لیکن پھر بھی انھوں نے ماننے سے انکار کردیا تھا۔ یہی حال ان لوگوں کا ہے جو جان بوجھ کر بات کو سننا اور اسے سمجھنا نہیں چاہتے لہٰذا اے مسلمانو! تم اس طرح کا رویہ اختیار کرنے کے بجائے اللہ اور اس کے رسول کی بات کو قبول کرو۔ جب بھی تمھیں اللہ کا رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بلائے تم اس کی طرف دوڑتے ہوئے آؤ یہی تمھارے زندہ اور عقل مند ہونے کا ثبوت ہے۔ یاد رکھو اللہ تعالیٰ بندے اور اس کے دل کے درمیان حائل ہوجاتا ہے۔ اللہ کے بندے اور اس کے دل کے درمیان حائل ہونے کا یہ معنیٰ نہیں کہ بندہ ہدایت طلب کرنا چاہتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ بندے اور ہدایت کے درمیان حائل ہوگیا ہے۔ اس فرمان کا مفہوم یہ ہے جب کوئی شخص ہدایت سے ارادۃً انحراف کرے تو پھر اللہ تعالیٰ اس کے ارادے کے مطابق اس کو ہدایت کی طرف نہیں آنے دیتا کیونکہ ہدایت خیر ہے اور خیر ان لوگوں کو حاصل ہوتی ہے جو اس کے طالب اور اس کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔ اسی بات کو نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یوں بیان فرمایا۔ (عَن عَبْدَ اللّّٰہِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ یَقُوْلُ أَنَّہُ سَمِعَ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَقُولُ إِنَّ قُلُوبَ بَنِی آدَمَ کُلَّہَا بَیْنَ إِصْبَعَیْنِ مِنْ أَصَابِعِ الرَّحْمٰنِ کَقَلْبٍ وَّاحِدٍ یُصَرِّفُہُ حَیْثُ یَشَاءُ) [ رواہ مسلم : کتاب القدر، باب تصریف اللہ القلوب کیف شاء] ” حضرت عبداللہ بن عمرو بن (رض) عاص فرماتے ہیں کہ بلاشبہ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو انہوں نے یہ فرماتے سنا کہ آدم کی اولاد کے دل اللہ تعالیٰ کی دو انگلیوں کے درمیان ہیں جو ایک ہی دل کی طرح ہیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں جس طرح چاہتا ہے پھیرتا رہتا ہے۔“ (عَنْ أَنَسٍ (رض) قَالَ کَانَ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یُکْثِرُ أَنْ یَّقُولَ یَا مُقَلِّبَ الْقُلُوبِ ثَبِّتْ قَلْبِی عَلٰی دینِکَ) [ رواہ الترمذی : کتاب القدر، باب ما جاء ان القلوب بین اصبعی الرحمان] ” حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اکثر یہ دعا کرتے تھے۔ اے اللہ دلوں کو پھیرے والے! میرے دل کو اپنے دین پر ثابت رکھنا۔“ (عن مُعَاوِیَۃَ یَقُولُ سَمِعْتُ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَقُولُ مَنْ یُّرِدْ اللّٰہُ بِہٖ خَیْرًا یُفَقِّہْہُ فِی الدِّینِ) [ رواہ البخاری : کتاب العلم، باب مَنْ یُّرِدْ اللّٰہُ بِہٖ خَیْرًا یُفَقِّہْہُ فِی الدِّین] ” حضرت معاویہ (رض) بیان کرتے ہیں میں نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا آپ نے فرمایا اللہ جس کے ساتھ بھلائی کا ارادہ کرتا ہے اسے دین کی سمجھ عطا کردیتا ہے۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ ہدایت کے طالب کو ہی ہدایت سے نوازتا ہے۔ ٢۔ ہدایت نہ چاہنے والے کو جبراً ہدایت کی طرف بلایا جائے تو وہ پھر بھی اس سے اعراض کرتا ہے۔ ٣۔ ایماندار کو ہمیشہ اللہ اور اس کے رسول کی بات کو قبول کرنا چاہیے۔ ٤۔ جو شخص رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فرمان سے بے پروائی برتتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے دل کو اور دور کردیتا ہے۔ ٥۔ تمام لوگوں نے بالآخر اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں جمع ہونا ہے۔ الانفال
24 الانفال
25 فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ جب لوگ اللہ اور اس کے رسول کے فرمان سے لاپروائی کریں گے اور آخرت کو بھول جائیں گے تو پھر فتنوں کا شکار ہوں گے۔ اس سے پہلی آیت میں اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بات کو انسان کے لیے حیات بخش قرار دیا گیا ہے۔ یعنی مسلمان اور امت کی بقا اسی وقت تک ہے۔ جب تک اللہ اور اس کے رسول کا حکم مانتے رہیں گے۔ جب مسلمان اس کو چھوڑ دیں گے تو پھر من حیث القوم آزمائش اور فتنوں کا شکار ہوں گے۔ اس سے یہاں ڈرایا گیا ہے کہ اے مسلمانو اس آزمائش سے بچو جس میں صرف برے لوگ ہی نہیں مبتلاہوں گے بلکہ اس آزمائش اور فتنہ کی لپیٹ میں مخلص مسلمان بھی آجائیں گے۔ یاد رکھو اللہ تعالیٰ شدید پکڑنے والا ہے۔ قرب قیامت کا ذکر کرتے ہوئے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرمایا کرتے تھے کہ قیامت کے قریب لوگوں سے ایمان اٹھ جائے گا اور فتنے اس طرح نازل ہوں گے جس طرح تسبیح کا دھاگہ ٹوٹ جائے تو اس کے دانے ایک دوسرے کے اوپر گرتے ہیں ان فتنوں سے ایماندار بھی محفوظ نہیں رہیں گے۔ مسلمانوں کو اس فتنہ سے متنبہ کرنے کے لیے پے درپے زور دار چار الفاظ بولے گئے ہیں۔ ١۔ فتنہ سے بچ جاؤ۔ ٢۔ نیک لوگ بھی اس فتنہ سے نہیں بچ سکیں گے۔ ٣۔ خبردار ہوجاؤ۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ شدیدترین عذاب والا ہے۔ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان ہے کہ جب لوگ نیکی کا حکم دینا، برائی سے روکنا اور جہاد فی سبیل اللہ چھوڑ دیں گے۔ تو پھر وہ اس فتنہ خاصہ میں مبتلا ہوجائیں گے۔ (عَنْ ثَوْبَانَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یُوشِکُ الْأُمَمُ أَنْ تَدَاعٰی عَلَیْکُمْ کَمَا تَدَاعٰی الْأَکَلَۃُ إِلٰی قَصْعَتِہَا فَقَالَ قَاءِلٌ وَمِنْ قِلَّۃٍ نَحْنُ یَوْمَءِذٍ قَالَ بَلْ أَنْتُمْ یَوْمَءِذٍ کَثِیرٌ وَلٰکِنَّکُمْ غُثَاءٌ کَغُثَاء السَّیْلِ وَلَیَنْزَعَنَّ اللّٰہُ مِنْ صُدُورِ عَدُوِّکُمْ الْمَہَابَۃَ مِنْکُمْ وَلَیَقْذِفَنَّ اللّٰہُ فِی قُلُوبِکُمْ الْوَہْنَ فَقَالَ قَاءِلٌ یَا رَسُول اللّٰہِ وَمَا الْوَہْنُ قَالَ حُبُّ الدُّنْیَا وَکَرَاہِیَۃُ الْمَوْتِ) [ رواہ ابو داود : کتاب الملاحم، باب فی تداعی الامم علی الاسلام] ” حضرت ثوبان (رض) بیان کرتے ہیں رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا عنقریب لوگ تم پر ایسے ٹوٹ پڑیں گے جیسے کھانے والے دستر خوان پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔ ایک صحابی نے عرض کی ہم اس وقت تھوڑی تعداد میں ہوں گے ؟ نبی مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا نہیں بلکہ تمہاری تعداد بہت زیادہ ہوگی لیکن تم اس وقت سیلاب میں بہنے والے تنکوں کی طرح ہوگے۔ اللہ تعالیٰ تمہارے دشمنوں کے دلوں سے تمہارا رعب ودبدبہ ختم کردے گا اور تمہارے دلوں میں ” وہن“ ڈال دیا جائے گا۔ کسی صحابی نے پوچھا اے اللہ کے رسول ! وہن کیا ہے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : دنیا سے محبت اور موت سے کراہت۔“ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ لَا تَقُوم السَّاعَۃُ حَتّٰی یَمُرَّ الرَّجُلُ بِقَبْرِ الرَّجُلِ فَیَقُولُ یَا لَیْتَنِی مَکَانَہٗ) [ رواہ البخاری : کتاب الفتن، بَاب لَا تَقُوم السَّاعَۃُ حَتَّی یُغْبَطَ أَہْلُ الْقُبُورِ) ” حضرت ابوہریرہ (رض) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان نقل کرتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی یہاں تک کہ ایک آدمی کسی قبر کے پاس سے گزرے گا تو خواہش کرے گا کاش ! میں آج اس کی جگہ ہوتا۔“ مسائل ١۔ اجتماعی آزمائش سے نیک لوگ بھی نہیں بچ سکتے۔ ٢۔ فتنہ سے بچتے رہنا چاہیے۔ ٣۔ پر فتن دور میں اپنے ایمان کی حفاظت کرنی مشکل ہوجائے گی۔ تفسیر بالقرآن آزمائش کی مختلف صورتیں : ١۔ ہم تمہیں کسی چیز کے خوف، بھوک، مال اور پھلوں کی کمی سے ضرور آزمائیں گے۔ (البقرۃ: ١٥٥) ٢۔ کیا لوگوں نے تصور کرلیا ہے کہ وہ ایمان کا اقرار کریں اور انہیں آزمایا نہ جائے۔ (العنکبوت : ٢) ٣۔ یقیناً تمہارے مال اور اولاد تمہارے لیے آزمائش ہیں۔ (التغابن : ١٥) الانفال
26 فہم القرآن ربط کلام : فتنۂ خاصہ سے بچنے کی تلقین کرنے کے بعد مسلمانوں کو ان کی مکی زندگی کے بارے میں اشارہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے اپنا احسان جتلایا ہے اور اس سے نجات کا تذکرہ کیا ہے۔ کیونکہ مکہ میں مسلمان اجتماعی آزمائش میں مبتلا تھے۔ مسلمان مکہ معظمہ میں تھوڑے اور کمزور ہونے کی وجہ سے مشرکین کے مظالم کا اس قدر شکار تھے کہ ہر وقت سہمے اور ڈرے رہتے تھے۔ یہاں تک کہ بڑے بڑے صحابہ (رض) اور رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات بھی ان مظالم سے محفوظ نہ تھی۔ سر بازار آل یا سر (رض) کو پیٹتے ہوئے حضرت سمیہ (رض) کو دولخت کردیا گیا۔ مزدور صحابہ کی خون پسینے کی کمائی ضبط کرلی گئی، نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے خاندان کو مسلمانوں کے ساتھ تین سال شعب ابی طالب میں محصور رکھا گیا۔ مسلمانوں کو پہلے حبشہ کی طرف اور پھر مدینہ کی جانب ہجرت کرنے پر مجبور کردیا کیا۔ ان مصائب و آلام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مسلمانوں کو سمجھایا ہے کہ اگر تم اللہ اور اس کے رسول کی بات کو قبول نہیں کرو گے تو یاد رکھو تم پر دوبارہ ایسے حالات وارد ہو سکتے ہیں۔ لیکن تم نے رسول کی دعوت کو قبول کیا اور اس پر ثابت قدم رہے۔ جس کے بدلے میں اللہ تعالیٰ نے اس کربناک صورت حال سے نجات دیتے ہوئے تمھیں مدینہ کی ریاست عطا فرمائی اور اپنی خاص مدد سے اسے مضبوط کرتے ہوئے تمھارے لیے رزق حلال کے دروازے کھول دیے تاکہ تم اپنے رب کے شکر گزار بنو۔ اس آیت میں غزوۂ بدر کی طرف بھی اشارہ ہے جس کو موت سمجھتے ہوئے تم دشمن سے کانپ رہے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے تم جیسے کمزور اور بے سروسامان لوگوں کو دشمن پر غلبہ عطا کر کے مال غنیمت اور فتح کی کامیابی سے ہمکنار کرکے مدینہ کی ریاست کیا اور تمھیں مال غنیمت عطا فرمایا قدر محفوظ کردیا کہ جس سے تمھارے لیے رزق حلال کے دروازے کھلے اور فتح و کامرانی کے راستے روشن ہوئے۔ اللہ کی نصرت و حمایت اور رزق حلال کی فراوانی کا نتیجہ یہ ہونا چاہیے کہ تم اس کے شکر و حمد کے خوگر ہوجاؤ۔ عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الْمَقْبُرِیِّ أَنَّ أَبَا ہُرَیْرَۃَ قَالَ دُعَاءٌ حَفِظْتُہُ مِنْ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لاَ أَدَعُہُ اللَّہُمَّ اجْعَلْنِی أُعْظِمُ شُکْرَکَ وَأُکْثِرُ ذِکْرَکَ وَأَتَّبِعُ نَصِیحَتَکَ وَأَحْفَظُ وَصِیَّتَکَ [ رواہ الترمذی : باب فِی الاِسْتِعَاذَۃِ] حضرت ابی سعید مقبری حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ یہ دعاء میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے جب سے یاد کی اس کو چھوڑا نہیں۔ اے اللہ مجھے سب سے زیادہ شکر گذار، کثرت سے ذکر کرنے، ہدایت کی پیروی کرنے اور وصیّت کی حفاظت کرنے والا بنا۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ ہی کمزور اور تھوڑے لوگوں کی مدد کرنے والا ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کی مدد نہ فرمائے تو دشمن مسلمانوں کو ختم کردیں۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ رزق حلال اور فتح و کامیابی عطا فرمائے تو انسان کو اس کا شکر گزار رہنا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے کا حکم : ١۔ لوگو ! اللہ کو یاد کرو اللہ تمھیں یاد کرے گا اور اس کا شکر ادا کرو کفر نہ کرو۔ (البقرۃ: ١٥٢) ٢۔ لوگو! تم اللہ کا شکر ادا کرو اور ایمان لاؤ۔ اللہ بہت ہی قدر دان ہے۔ (النساء : ١٤٧) ٣۔ اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہے کہ اگر تم شکر کرو گے تو وہ مزید عطا فرمائے گا۔ (ابراہیم، آیت : ٧) ٤۔ اللہ نے تمھیں دل، آنکھیں اور کان دیے تاکہ تم شکر کرو۔ (السجدۃ: ٩) ٥۔ اللہ کی پاکیزہ نعمتیں کھا کر اس کا شکر کرو۔ (البقرۃ: ١٧٢) ٦۔ اللہ کی عبادت کرتے ہوئے اس کا شکر ادا کرو۔ (العنکبوت : ١٧) ٧۔ اللہ تعالیٰ نے زمین میں تمھارے لیے متاع حیات بنایا تاکہ تم شکر ادا کرو۔ (الاعراف : ١٠) ٨۔ اللہ نے جانوروں کو تمھارے لیے مسخر کیا تاکہ تم شکر کرو۔ (الحج : ٣٦) الانفال
27 فہم القرآن ربط کلام : مزید ہدایات کے ساتھ نیا خطاب شروع ہوتا ہے : اس ارشاد میں مسلمانوں کو امانتوں میں خیانت نہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ خیانت صرف یہ نہیں ہے کہ آدمی دوسرے کی چیز میں خرد برد کرلے۔ اسلام میں امانت اور خیانت کا تصور بڑا وسیع ہے کیونکہ اس آیت میں امانت کے لیے جمع کا لفظ استعمال فرمایا ہے۔ ہر مسلمان کے ذمہ پہلی امانت اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ پورے اخلاص کے ساتھ محبت کرنا اور دل و جان کے ساتھ ان کے احکام ماننا ہے۔ دوسری امانت لوگوں کے آپس کے حقوق و فرائض ہیں۔ اگر کوئی شخص معاشرے کی تفویض کردہ ذمہ داری اور منصب کے فرائض تن دہی سے ادا نہیں کرتا تو وہ بھی خیانت کا مرتکب ہوتا ہے۔ منصبی ذمہ داری کے حوالے سے امانت کے ماحول کو پروان چڑھانے کے لیے قرآن مجید نے ٹھوس بنیاد فراہم کرکے حکم دیا ہے کہ اے لوگو! اللہ تعالیٰ تمھیں حکم دیتا ہے کہ جب تم کسی کو امانت سپرد کرو تو اہل لوگوں کو سپرد کیا کرو۔ جب تم لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل و انصاف کے ساتھ فیصلہ کرو۔ یقیناً اللہ تعالیٰ تمھیں اچھی سے اچھی نصیحت کرتا ہے اور یاد رکھو اللہ تعالیٰ سب کچھ سننے اور دیکھنے والا ہے۔ (النساء : ٥٨) سورۃ النساء میں امانت اہل لوگوں کو سپرد کرکے ان کے حقوق ادا کرنے کا حکم تھا یہاں خیانت سے بچنے کا حکم دیا گیا ہے۔ بنیادی طور پر امانت کی چار قسمیں ہو سکتی ہیں۔ (١) اہل شخص کو منصب سپرد کرنا۔ (٢) منصب کی ذمہ داری پوری کرنا۔ (٣) کسی کی رکھی ہوئی امانت میں خرد برد سے بچنا اور اسے پورا پورا ادا کرنا۔ (٤) اگر کوئی مشورہ طلب کرے تو اسے اپنی فہم و فراست کے مطابق پوری دیانت داری کے ساتھ مشورہ دینا اور اگر کوئی راز بتائے تو اس کے راز کی حفاظت کرنا۔ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) الْمُسْتَشَارُ مُؤْتَمَنٌ) [ رواہ ابن ماجۃ: کتاب الایمان، بابَ الْمُسْتَشَارُ مُؤْتَمَن] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس سے مشورہ مانگا جائے وہ امین ہے۔“ (عَنْ أَبِی حُمَیْدٍ السَّاعِدِیِّ أَنَّہُ أَخْبَرَہُ أَنَّ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اسْتَعْمَلَ عَامِلًا فَجَاءَ ہُ الْعَامِلُ حینَ فَرَغَ مِنْ عَمَلِہٖ فَقَالَ یَا رَسُول اللّٰہِ ہٰذَا لَکُمْ وَہٰذَا أُہْدِیَ لِی فَقَالَ لَہٗ أَفَلَا قَعَدْتَّ فِی بَیْتِ أَبِیکَ وَأُمِّکَ فَنَظَرْتَ أَیُہْدٰی لَکَ أَمْ لَا ثُمَّ قَامَ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عَشِیَّۃً بَعْدَ الصَّلَاۃِ فَتَشَہَّدَ وَأَثْنٰی عَلَی اللّٰہِ بِمَا ہُوَ أَہْلُہٗ ثُمَّ قَالَ أَمَّا بَعْدُ فَمَا بَالُ الْعَامِلِ نَسْتَعْمِلُہٗ فَیَأْتِینَا فَیَقُولُ ہٰذَا مِنْ عَمَلِکُمْ وَہٰذَا أُہْدِیَ لِی أَفَلَا قَعَدَ فِی بَیْتِ أَبِیہِ وَأُمِّہٖ فَنَظَرَ ہَلْ یُہْدٰی لَہٗ أَمْ لَا فَوَالَّذِی نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِیَدِہٖ لَا یَغُلُّ أَحَدُکُمْ مِنْہَا شَیْءًا إِلَّا جَاءَ بِہٖ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ یَحْمِلُہُ عَلٰی عُنُقِہٖ إِنْ کَانَ بَعِیرًا جَاءَ بِہٖ لَہٗ رُغَاءٌ وَإِنْ کَانَتْ بَقَرَۃً جَاءَ بِہَا لَہَا خُوَارٌ وَإِنْ کَانَتْ شَاۃً جَاءَ بِہَا تَیْعَرُ فَقَدْ بَلَّغْتُ فَقَالَ أَبُو حُمَیْدٍ ثُمَّ رَفَعَ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَدَہُ حَتّٰی إِنَّا لَنَنْظُرُ إِلَی عُفْرَۃِ إِبْطَیْہٖ قَالَ أَبُو حُمَیْدٍ وَقَدْ سَمِعَ ذٰلِکَ مَعِی زَیْدُ بْنُ ثَابِتٍ مِنْ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَسْءَلُوْہُ) [ رواہ البخاری : کتاب الایمان، باب کانت یمین النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ] ” حضرت ابو حمیدساعدی (رض) نے بتلایا کہ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کسی علاقے کی طرف عامل بھیجا۔ جب وہ اپنے کام سے فارغ ہو کر واپس آیا۔ اس نے کہا اے اللہ کے رسول! یہ آپ کے لیے ہے اور یہ مجھے تحفہ دیا گیا ہے۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے کہا تو اپنے باپ یا ماں کے گھر میں کیوں نہ بیٹھا رہا اور تو دیکھتا کہ تجھے تحفہ دیا جاتا یا نہیں۔ پھر رسول مکرم عشاء کی نماز کے بعد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کھڑے ہوئے۔ اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا بیان کرتے ہوئے فرمایا اس عامل کا کیا معاملہ ہے جسے ہم کہیں مقرر کریں تو وہ واپس آکر کہے کہ یہ تمہارا ہے اور یہ مجھے تحفہ دیا گیا ہے۔ وہ کیوں نہ اپنے ماں یا باپ کے گھر بیٹھا رہا اور دیکھتا کہ اسے تحفہ دیا جاتا ہے یا نہیں ؟ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے! تم میں سے جو کوئی بھی خیانت کرے گا وہ اسے اپنی گردن پر اٹھائے ہوئے قیامت کے دن آئے گا اگر وہ اونٹ ہوگا تو آوازیں نکال رہا ہوگا اگر وہ گائے ہوئی تو وہ بھی ڈکرا رہی ہوگی اور اگر بکری ہوگی تو وہ ممیارہی ہوگی۔ بلاشبہ میں نے یہ پہنچا دیا ہے۔ ابو حمید ساعدی (رض) فرماتے ہیں کہ پھر رسول مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنا ہاتھ بلند فرمایا یہاں تک کہ ہم آپ کی بغلوں کی سفیدی دیکھ رہے تھے۔ ابوحمید ساعدی (رض) کہتے ہیں میرے ساتھ یہ زید بن ثابت (رض) نے بھی نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا تھا تو اس سے بھی پوچھ لو۔“ مسائل ١۔ اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے احکام پر عمل نہ کرنا خیانت کرنے کے مترادف ہے۔ ٢۔ امانت میں خیانت کرنا جائز نہیں۔ الانفال
28 فہم القرآن ربط کلام : خیانت سے بچنے کا حکم دینے کے ساتھ مال اور اولاد کو آزمائش قرار دیا گیا ہے۔ کیونکہ عموماً انسان ان کی وجہ سے خیانت کا مرتکب ہوتا ہے۔ واعلموا کا معنی ہے اچھی طرح جان لو، اس میں ایک قسم کا انتباہ پایا جاتا ہے کہ اے لوگو تمھارے مال اور تمھاری اولاد تمھارے لیے آزمائش کا باعث ہیں عمومی طور پر انسان اس وقت ہی خیانت کا مرتکب ہوتا اور شریعت کے احکام میں سستی اور غفلت کرتا ہے جب اس کے دل میں مال اور اولاد کی محبت غلو کر جائے۔ اس لیے مناسب سمجھا گیا کہ خیانت سے بچنے کا حکم دینے کے بعد لوگوں کو بتلایا جائے کہ مال اور اولاد خیانت کا سبب بنتے ہیں لہٰذا تمھیں ان کے بارے میں محتاط رہنا چاہیے جو شخص اس آزمائش میں پورا اترے گا اللہ کے ہاں اسے اجر عظیم سے نوازا جائے گا۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان ہے کہ ہر امت کے لیے ایک اجتماعی آزمائش ہوا کرتی ہے۔ میری امت کے لیے اجتماعی آزمائش مال ہوگا۔ دوسرے موقع پر آپ نے صحابہ کرام (رض) کو متنبہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اے میرے ساتھیو! مجھے آپ کی غربت کے بارے میں کوئی اندیشہ نہیں میں تو تمہارے متعلق کثرت مال سے ڈرتا ہوں۔ اولاد کے متعلق آپ نے یہ آیت کریمہ اس وقت تلاوت فرمائی جب آپ منبر پر کھڑے خطبہ ارشاد فرما رہے تھے سامنے دیکھا تو حسن و حسین لوگوں کے درمیان اچھلتے ہوئے منبر کی طرف آرہے تھے آپ نے خطبہ منقطع کیا اور ان کو سینہ کے ساتھ چمٹاتے ہوئے اس آیت کی تلاوت فرمائی کہ واقعی اولاد انسان کے لیے آزمائش ہے۔ (عَنْ ابْنِ بُرَیْدَۃَ عَنْ أَبِیہٖ قَالَ بَیْنَا رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عَلَی الْمِنْبَرِ یَخْطُبُ إِذْ أَقْبَلَ الْحَسَنُ وَالْحُسَیْنُ عَلَیْہِمَا السَّلَام عَلَیْہِمَا قَمِیصَانِ أَحْمَرَانِ یَمْشِیَانِ وَیَعْثُرَانِ فَنَزَلَ وَحَمَلَہُمَا فَقَالَ صَدَقَ اللّٰہُ إِنَّمَا أَمْوَالُکُمْ وَأَوْلَادُکُمْ فِتْنَۃٌ رَأَیْتُ ہٰذَیْنِ یَمْشِیَانِ وَیَعْثُرَانِ فِی قَمِیصَیْہِمَا فَلَمْ أَصْبِرْ حَتّٰی نَزَلْتُ فَحَمَلْتُہُمَا) [ رواہ النسائی : کتاب العیدین، باب نزول الامام عن المنبر قبل فراغہ من الخطبۃ] ” حضرت ابن بریدہ (رض) اپنے والد سے بیان کرتے ہیں وہ کہتے ہیں ایک دن رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) منبر پر خطبہ ارشاد فرمارہے تھے اچانک حسن اور حسین ( علیہ السلام) آگئے انہوں نے سرخ قمیصیں پہن رکھی تھیں وہ چلتے اور گرتے پڑتے آرہے تھے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے منبر سے اتر کر ان دونوں کو اٹھا لیا اور فرمایا اللہ تعالیٰ سچا ہے تمہارے مال اور اولاد تمہارے لیے آزمائش ہیں میں نے ان دونوں کو گرتے پڑتے اپنے کپڑوں میں الجھتے دیکھا مجھ سے رہا نہ جا سکا یہاں تک کہ میں نے اتر کر ان دونوں کو اٹھا لیا۔“ (عَنْ خَوْلَۃَ بِنْتِ قَیْسٍ وَکَانَتْ تَحْتَ حَمْزَۃَ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ تَقُولُ سَمِعْتُ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَقُولُ إِنَّ ہٰذَا الْمَالَ خَضِرَۃٌ حُلْوَۃٌ مَنْ أَصَابَہُ بِحَقِّہٖ بُورِکَ لَہٗ فیہِ وَرُبَّ مُتَخَوِّضٍ فیمَا شَاءَ تْ بِہٖ نَفْسُہٗ مِنْ مَال اللّٰہِ وَرَسُولِہٖ لَیْسَ لَہٗ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ إِلَّا النَّارُ) [ رواہ الترمذی : کتاب الزہد، باب ماجاء فی أخذ المال بحقہ] ” حضرت خولہ بنت قیس (رض) جو کہ حمزہ بن عبدالمطلب (رض) کی بیوی تھیں فرماتی ہیں میں نے رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سنا آپ فرمارہے تھے بلاشبہ یہ مال خوشنما اور دلفریب چیز ہے جو کوئی اس کو حق کے ساتھ لے گا تو اس کے لیے برکت کی جائے گی اور کتنے ہی متکلف لوگوں کے دل اللہ اور اس کے رسول کے مال سے چاہ رہے ہوتے ہیں لیکن قیامت میں آگ کے سوا ان کے لیے کچھ نہ ہوگا۔“ (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَ (رض) قَالَ أَخَذَ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بِمَنْکِبِی فَقَالَ کُنْ فِی الدُّنْیَا کَأَنَّکَ غَرِیبٌ أَوْ عَابِرُ سَبِیلٍ وَکَانَ ابْنُ عُمَرَ یَقُولُ إِذَا أَمْسَیْتَ فَلَا تَنْتَظِرْ الصَّبَاحَ وَإِذَا أَصْبَحْتَ فَلَا تَنْتَظِرْ الْمَسَاءَ وَخُذْ مِنْ صِحَّتِکَ لِمَرَضِکَ وَمِنْ حَیَاتِکَ لِمَوْتِکَ) [ رواہ البخاری : کتاب الرقاق، باب قول النبیکن فی الدنیا کانک غریب] ” حضرت عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے میرے کندھے سے پکڑتے ہوئے فرمایا دنیا میں اس طرح رہو جس طرح تم اجنبی یا مسافر ہو اور عبداللہ بن عمر (رض) فرماتے تھے جب تم شام کرو تو صبح کا انتظار نہ کرو اور جب تم صبح کرو تو شام کا انتظار نہ کرو اپنی صحت کو مرض سے پہلے غنیمت جانو اور اپنی زندگی کو موت سے پہلے غنیمت سمجھو۔“ مسائل ١۔ مال اور اولاد انسان کے لیے آزمائش ہیں۔ ٢۔ آزمائش میں پورا اترنے والے کے لیے اجر عظیم ہے۔ الانفال
29 فہم القرآن ربط کلام : مسلمانوں کو ہدایات کا سلسلہ جاری ہے۔ مال اور اولاد کے فتنہ سے بچنے کا موثر طریقہ یہ ہے کہ آدمی ہر حال میں اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرے۔ تقویٰ کا مفہوم یہ ہے کہ آدمی گناہوں سے ہر ممکن بچنے کی کوشش کرے اور شریعت کے ضابطوں پر عمل پیرا رہے۔ یہی اللہ تعالیٰ سے ڈرنے کا مقصد ہے۔ جو مسلمان جلوت اور خلوت میں اللہ تعالیٰ سے تقویٰ اختیار کرے گا۔ اللہ تعالیٰ تقویٰ کو اس کے لیے فرقان بنا دے گا۔ فرقان قرآن مجید کا اسم مبارک ہے اور معجزہ کو بھی فرقان کہا گیا ہے اس کا معنیٰ ہے حق اور باطل، سچ اور جھوٹ، غلط اور صحیح کے درمیان امتیاز کردینے والا۔ جب کوئی مسلمان صرف اپنے رب کی رضا کی خاطراس کا ڈر اختیار کرتا ہے تو پھر اس کے ضمیر میں ایسی قوت اور نور پیدا ہوتا ہے۔ جس کی روشنی میں اسے حرام کاموں سے بچنا آسان ہوجاتا ہے گویا کہ اس کی زندگی میں معجزانہ تبدیلی رونما ہوتی ہے۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان ہے کہ گناہ وہ ہے جسے انسان کا دل محسوس کرے۔ اس کے ساتھ ہی تقویٰ کا یہ فائدہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ انسان کی غلطیوں سے صرف نظر کرکے اس کے گناہوں کو معاف کردیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ بڑا ہی فضل کرنے والا ہے۔ تقویٰ اختیار کرنے سے نہ صرف انفرادی مسائل حل ہوتے ہیں بلکہ اس سے زمین و آسمان کی برکات کے دروازے کھلتے ہیں۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان ہے کہ تقویٰ کا مقام انسان کا دل ہے۔ اور دل انسانی جسم میں قوت متحرکہ کا کام دیتا ہے۔ دل کی حرکت بند ہوجائے تو انسان کی موت واقع ہوجاتی ہے۔ اگر دل روحانی طور پر مردہ ہوجائے تو جیتا جاگتا اور چلتا پھرتا انسان روحانی اور اخلاقی طور پر مردہ ہوجاتا ہے۔ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لَا تَحَاسَدُوا وَلَا تَنَاجَشُوا وَلَا تَبَاغَضُوا وَلَا تَدَابَرُوا وَلَا یَبِعْ بَعْضُکُمْ عَلٰی بَیْعِ بَعْضٍ وَکُونُوا عِبَاد اللّٰہِ إِخْوَانًا الْمُسْلِمُ أَخُو الْمُسْلِمِ لَا یَظْلِمُہٗ وَلَا یَخْذُلُہٗ وَلَا یَحْقِرُہٗ التَّقْوٰی ہَاہُنَا وَیُشِیرُ إِلَی صَدْرِہٖ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ۔۔) [ رواہ مسلم : کتاب البر والصلۃ، باب تحریم ظلم المسلم] ” حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں رسول مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا با ہم حسد نہ کرو اور ایک دوسرے پر بو لی نہ بڑھاؤ اور بغض نہ رکھو اور قطع تعلقی نہ کرو اور تم میں سے کوئی دوسرے کے سودے پر تجارت نہ کرے اللہ کے بندو بھائی بھائی بن جاؤ۔ مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ وہ اپنے بھائی پر ظلم کرتا ہے نہ اسے ذلیل کرتا ہے اور نہ ہی اسے حقیر سمجھتا ہے تقویٰ اس جگہ ہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے سینے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے تین مرتبہ فرمایا۔۔“ (عَنِ النَّوَّاسِ بْنِ سِمْعَانَ الْأَنْصَارِیِّ قَالَ سَأَلْتُ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عَنِ الْبِرِّ وَالْإِثْمِ فَقَالَ الْبِرُّ حُسْنُ الْخُلُقِ وَالْإِثْمُ مَا حَاکَ فِی صَدْرِکَ وَکَرِہْتَ أَنْ یَطَّلِعَ عَلَیْہِ النَّاسُ) [ رواہ مسلم : کتاب البر والصلۃ، باب تفسیر البر والاثم] ” حضرت نواس بن سمعان انصاری (رض) کہتے ہیں میں نے رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نیکی اور گناہ کے متعلق پوچھا آپ نے فرمایا نیکی حسن اخلاق ہے اور برائی جو تمہارے دل میں کھٹکے اور تو ناپسند کرے کہ اس کے متعلق لوگوں کو پتہ چل جائے۔“ مسائل ١۔ مسلمان کو ہر حال میں اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرنا چاہیے۔ ٢۔ اللہ کا خوف مسلمان کے لیے حق و باطل کا معیار بن جاتا ہے۔ ٣۔ تقویٰ اختیار کرنے والے کے۔ اللہ تعالیٰ گناہ معاف کردیتا ہے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ بڑا فضل وکرم والا ہے۔ تفسیر بالقرآن تقویٰ کے فوائد : ١۔ متقین کے لیے کامیابی ہے۔ (الانبیاء : ٣١ تا ٣٣) ٢۔ متقین کے لیے ان کے رب کے پاس نعمتوں والی جنت ہے۔ (القلم : ٣٤) ٣۔ متقی کا ہر کام آسان اور اس کی سب خطائیں معاف اور ان کے لیے بڑا اجر ہوگا۔ (الطلاق : ٤ تا ٥) ٤۔ متقین اولیاء اللہ ہیں جو بے خوف ہوں گے۔ ( یونس : ٦١ تا ٦٤) الانفال
30 فہم القرآن ربط کلام : سابقہ حالات پر تبصرہ جاری ہے۔ اس سے پہلے مسلمانوں کو مکی حالات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے احساس دلایا گیا کہ اپنا ماضی یاد کرو جب تم کمزور اور قلیل تھے تمھیں ہر وقت خطرہ لاحق رہتا تھا کہ تمھارا دشمن تمھیں نیست و نابود نہ کردے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے تمھاری نصرت و حمایت کی اس آیت میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مخاطب کرتے ہوئے آپ کے سامنے آپ کی ہجرت کا پس منظر رکھا گیا ہے۔ اے نبی ! وہ وقت یاد کیجیے جب کفار نے یہ طے کیا تھا کہ آپ کو ہمیشہ کے لیے قید و بند کردیا جائے یا آپ کو قتل کردیا جائے یا پھر جلا وطن کردیا جائے۔ جب وہ آپ کے خلاف مکر و فریب اور سازشیں کر رہے تھے تو اللہ تعالیٰ نے بھی ایک فیصلہ کر رکھا تھا اور اللہ تعالیٰ سے بڑھ کر کوئی فیصلہ اور تدبیر کرنے والا نہیں ہے۔ اہل مکہ آپ کی عظیم اور پر خلوص جدوجہد سے تنگ آکر۔ دارالندوہ میں بھرپور نمائندہ اجتماع کرتے ہیں۔ جس کا ایجنڈا یہ تھا کہ ہم نے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور اس کے ساتھیوں کے بارے میں ہر حر بہ استعمال کیا مگر وہ بڑھتے ہی جا رہے ہیں ان حالات میں ہمیں فیصلہ کن اور آخری قدم اٹھانا چاہیے۔ مکہ کے ایک سردار نے یہ تجویز پیش کی کہ اسے تا حیات قید رکھا جائے۔ جس کی مخالفت کرتے ہوئے دوسروں نے کہا کہ یہ ممکن نہیں کیونکہ اس کے ساتھی اپنی جانوں پر کھیل کر اسے چھڑوا نے کی کوشش کریں گے۔ دوسری تجویز یہ تھی کہ اسے جلاوطن کردیا جائے اس کا جواب یہ آیا کہ اگر ہم نے ایسا کیا تو یہ ہمارے خلاف لوگوں کو منظم کرنے میں کامیاب ہوجائے گا۔ آخری تجویز ابو جہل نے پیش کی کہ اسے قتل کردینا چاہیے جس کی تائید میں مجلس میں بیٹھے ہوئے عجمی شیخ کی صورت میں شیطان نے کہا کہ میں اس تجویز کی تائید کرتے ہوئے یہ اضافہ کرنا چاہوں گا کہ اسے قتل کرنے کے لیے مکہ کے تمام خاندانوں سے ایک ایک جوان لیا جائے تاکہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا خاندان خون بہا کا مطالبہ کرے تو یہ ذمہ داری کسی ایک فرد پر عائد نہ ہو سکے اور ہم سب اس کی دیت دے کر اس کے خاندان سے نجات پا جائیں گے۔ چنانچہ اگلی رات آپ کے گھر کا گھیراؤ کرلیا گیا حسب فیصلہ انھوں نے آپ کے گھر کا محاصرہ کیا۔ اس وقت آپ کو بذریعہ وحی اس صورت حال سے آگاہ کیا گیا تو آپ نے حضرت علی (رض) کو حکم دیا کہ وہ آپ کی سبز دھاری دار چادر لے کرچار پائی پر لیٹ جائے۔ پھر آپ نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے زمین سے مٹی اٹھاتے ہوئے مکان کے چاروں طرف پھینکی جو کفار کے سروں پر پڑی۔ جس سے وہ مدہوش ہوگئے اس طرح آپ اپنے گھر سے باہر نکلے اور حضرت ابوبکر صدیق (رض) کو لے کر تین دن غار ثور میں روپوش رہے بالآخر مدینہ کی طرف ہجرت فرمائی۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے اپنی تدبیر کو کامیاب فرمایا جس سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کفار کی دست برد سے محفوظ رہے اور اسلام کا بول بالا ہوا۔ تفصیل کے لیے سیرت کی کتب کا مطالعہ کیا جائے۔ مسائل ١۔ کفار کی ہر سازش ناکام ہوئی۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ کا فیصلہ اور تدبیر ہمیشہ غالب رہتی ہے کیونکہ اللہ بہترین تدبیر کرنے والا ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ بہترین تدبیر کرنے والا ہے : ١۔ عیسائیوں نے خفیہ تدبیرکی اللہ نے وہ تدبیر انھی پر لوٹا دی اللہ بہترین تدبیر کرنے والا ہے۔ (آل عمران : ٥٤) ٢۔ ان سے پہلے لوگوں نے بھی تدبیر کی سب تدبیر اللہ ہی کے لیے ہے۔ (الرعد : ٤٢) ٣۔ انھوں نے مکرو فریب کیا جبکہ اللہ نے بھی تدبیر کی لوگ اس کی تدبیر کو نہیں سمجھتے۔ (النمل : ٥٠) ٤۔ انھوں نے سازشیں کیں اللہ کے ہاں بہتر تدبیریں ہیں۔ (ابراہیم : ٤٦) ٥۔ کیا لوگ اللہ کی تدبیر سے بے خوف ہوگئے ہیں۔ (الاعراف : ٩٩) الانفال
31 فہم القرآن ربط کلام : نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ کفار کی دشمنی قرآن کی وجہ سے تھی۔ جس بنا پر کفار نے آپ کو مکہ سے نکلنے پر مجبور کیا ان کی عادت اور غلطی یہ تھی کہ وہ دل لگا کر قرآن سنتے ہی نہیں تھے اگر کسی طرح سن لیتے تو کہتے ہیں یہ تو پہلے لوگوں کے قصے کہانیاں ہیں۔ رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مشرکین مکہ کے سامنے قرآن پاک کی تلاوت کرتے تو وہ اس پر ایمان لانے کے بجائے مختلف قسم کے بہانے بناتے اور الزامات لگایا کرتے تھے۔ ان الزامات میں ایک الزام یہ بھی تھا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی طرف سے ایسا کلام بنا کر اللہ تعالیٰ کے ذمہ لگاتا ہے۔ حالانکہ اس پر کسی قسم کی وحی نازل نہیں ہوتی۔ اللہ تعالیٰ نے اس پر انھیں یکے بعد دیگرے چیلنج دیے کہ اگر تمھیں اس بات پر شک ہے کہ اس نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ہم نے قرآن مجید نازل نہیں کیا اور اس نے خود یہ کلام بنا لیا ہے تو تم جس، جس کو چاہو اپنے ساتھ ملا کر ایک سورۃ ایسی بنا لاؤ۔ لیکن وہ اس چیلنج کا جواب نہیں دے سکے تھے اور قیامت تک کوئی اس چیلنج کا جواب نہیں دے سکے گا۔ اس کے باوجود ہر زہ سرائی کرتے ہوئے کہتے اے محمد! ہم نے آپ کے قرآن کو سن لیا ہے اگر ہم چاہیں تو ایسا کلام بنا سکتے ہیں کیونکہ یہ پہلے لوگوں کے قصے کہانیاں ہیں اور ایسے قصے کہانیاں بنانا ہمارے لیے مشکل نہیں ہے۔ اس کا یہ جواب دیا گیا ہے۔ ہم نے اپنے بندے پر جو قرآن نازل کیا ہے اس کے من جانب اللہ ہونے پر تمہیں شک ہے اور تم اپنے دعوی میں سچے ہو تو اللہ تعالیٰ کے سوا دنیا جہاں کے جن و انس اور جس کو جیسے اور جب چاہو اپنے ساتھ ملا کر انفرادی یا اجتماعی طور پر ایک ہی سورۃ بنا کرلے آؤ۔ لیکن یاد رکھو ! اب تک نہ ہوا اور نہ قیامت تک ایسا ہو سکے گا۔ کیونکہ جس طرح اللہ تعالیٰ اپنی ذات و صفات کے لحاظ سے اعلیٰ و ارفع، لازوال اور بے مثال ہے اسی طرح اس کا کلام اعلیٰ، ارفع، لازوال اور بے مثال ہے۔ قرآن مجید انسانوں کی اصلاح اور فلاح کے لیے اللہ کریم کی طرف سے نبی محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایسا معجزہ عطا کیا گیا ہے۔ جس کی بلاغت نے قیامت تک دنیا کے سخن وروں، قانون دانوں، شاعروں اور ادیبوں کو لا جواب کردیا ہے۔ اس کے باوجود ہر دور کے کافر قرآن مجید‘ فرقان حمید کی مخالفت کرتے رہے ہیں۔ لیکن بالآخر انہیں اپنی ناکامیوں کا اعتراف کرنا پڑا اور کرتے رہیں گے۔ جس کی چند مثالیں پیش کی جا رہی ہیں تاکہ قرآن کے طالب علم کو معلوم ہوجائے کہ منکرین قرآن کس طرح اپنی نا کامی کا اعتراف کرتے آئے ہیں اور کرتے رہیں گے۔ اس لیے ارشاد ہوا کہ جب مقابلہ تمہارے بس کا روگ نہیں تو اس آگ سے بچو جس میں پتھروں اور انسانوں کو جھونکا جائے گا جو کفار کے لیے تیار کی گئی ہے۔ (البقرۃ: ٢٤ ) فرانس کا مشہور مستشرق ڈاکٹر مارڈریس جس کو حکومت فرانس کی وزارت معارف نے قرآن حکیم کی باسٹھ سورتوں کا ترجمہ فرانسیسی زبان میں کرنے پر مامور کیا تھا اس نے اعتراف کیا : ” بے شک قرآن کا طرز بیان اللہ تعالیٰ کا طرز بیان ہے، بلا شبہ جن حقائق ومعارف پر یہ کلام حاوی ہے وہ کلام الٰہی ہی ہوسکتا ہے، اور واقعہ یہ ہے کہ اس میں شک وشبہ کرنے والے بھی جب اس کی عظیم تاثیر کو دیکھتے ہیں تو تسلیم واعتراف پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ پچاس کروڑ مسلمان (اس تحریر کے وقت مسلمانوں کی تعداد اتنی ہی تھی 2005 میں یہ تعداد سوا ارب سے زائد ہے) جو سطح زمین کے ہر حصہ پر پھیلے ہوئے ہیں۔ ان میں قرآن کی خاص تاثیر کو دیکھ کر مسیحی مشن میں کام کرنے والے بالاجماع اس کا اعتراف کرتے ہیں کہ یہ اللہ تعالیٰ کی کتاب ہے۔“ [ معارف القرآن مفتی محمد شفیع ] ڈاکٹر گستادلی بان نے اپنی کتاب ” تمدن عرب“ میں قرآن کی حیرت انگیزی کا اعتراف کیا، ان کے الفاظ یہ ہیں : ” نبی اُمّی اسلام کی ایک حیرت انگیز سر گزشت ہے، جس کی آواز نے ایک قوم ناہنجار کو جو اس وقت تک کسی ملک کے زیر حکومت نہ آئی تھی رام کیا، اور اس درجہ پر پہنچا دیا کہ اس نے عالم کی بڑی بڑی سلطنتوں کو زیر و زبر کر ڈالا۔“ مسٹر وڈول جس نے قرآن مجید کا ترجمہ اپنی زبان میں کیا لکھتے ہیں : ” جتنا بھی ہم اس کتاب یعنی قرآن کو الٹ پلٹ کر دیکھیں۔ اسی قدر پہلے مطالعہ میں اس کی مرغوبیت نئے نئے پہلوؤں سے اپنا رنگ جماتی ہے، فوراً ہمیں مسخر اور متحیر کردیتی ہے، اور آخر میں ہم سے تعظیم کرا کر چھوڑتی ہے۔ اس کا طرز بیان با عتبار اس کے مضامین کے، عفیف، عالی شان اور تہدید آمیز ہے اور جا بجا اس کے مضامین سخن کی غایت رفعت تک پہنچ جاتے ہیں، غرض یہ کتاب ہر زمانہ میں اپنا پر زور اثر دکھاتی رہے گی۔“ (شہادۃ الاقوام، ص ١٣) مسائل ١۔ مشرکین قرآن مجید کو غور سے نہیں سنتے۔ ٢۔ قرآن مجید کو، کافر پہلے لوگوں کے قصے کہانیاں کہتے ہیں۔ ٣۔ قرآن مجید کے منکر جہنم کا ایندھن بنیں گے۔ ٤۔ قرآن مجید کا لوگوں کو قیامت تک کے لیے چیلنج ہے۔ الانفال
32 فہم القرآن ربط کلام : قرآن اور نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وجہ جدوجہد سے تنگ آکر کفار کی انتہا درجے کی جہالت، اکھڑ مزاجی اور اللہ تعالیٰ کے حضور گستاخی۔ مکہ کے سردار اس قدر ہٹ دھرمی اور جہالت پر اتر آئے کہ ایک دن ابو جہل کے ساتھ مل کر بیت اللہ میں جمع ہوئے۔ اللہ تعالیٰ سے ہدایت اور اس کی توفیق مانگنے کے بجائے بیت اللہ کے غلاف کو پکڑ کر یہ دعا مانگتے ہیں۔ بار الٰہا! اگر واقعی محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سچارسول ہے اور اس پر تو نے حق نازل کیا ہے تو پھر ہم پر آسمان سے پتھروں کی بارش برسا۔ یا ہمیں اپنے عذاب میں مبتلا کر دے۔ دنیا کی تاریخ میں شاید یہ پہلا اور آخری واقعہ ہوگا کہ جس میں انسان اس حد تک بغاوت پر اتر آیا ہو کہ وہ اللہ کے گھر میں کھڑے ہو کر اس سے اس کی رحمت اور ہدایت طلب کرنے کے بجائے۔ اس کے غضب کو چیلنج کر رہا ہو۔ جس طرح مکہ والوں نے انتہا کی ہے۔ چاہیے تو یہ تھا کہ ان کی منہ مانگی مراد پوری کرتے ہوئے انھیں ایک لمحہ کی تاخیر دیے بغیر بیت اللہ کے صحن کے اندر ہی تہس نہس کردیا جاتا۔ لیکن اللہ تعالیٰ کی شفقت و مہربانی، حلم اور بردباری اس قدر بے کنار ہے کہ ان پر پتھر برسانے کی بجائے یہ کہہ کر مہلت دی کہ اللہ کے لیے عذاب نازل کرنا کوئی مشکل نہیں کہ وہ تم پر قوم لوط کی طرح پتھر برسائے یا قوم عاد کی طرح پٹخ پٹخ کر زمین پردے مارے کیونکہ تم واقعی اس لائق ہو کہ تمھیں فی الفور ختم کردیا جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ تمھارا وجود معاشرے کے لیے ناسور اور دین حق کی راہ میں رکاوٹ بن چکا ہے لیکن اللہ تعالیٰ تم پر اس لیے عذاب نازل نہیں کر رہا کہ اس کا محبوب اور اس کے توبہ و استغفار کرنے والے ساتھی تم میں موجود ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ہمیشہ سے یہ اصول رہا ہے کہ جس بستی میں اس کا رسول ہو اس بستی کو اس وقت تک ہلاک نہیں کرتا جب تک رسول کو وہاں سے ہجرت کا حکم نہ ہوجائے۔ دوسری بات جو اللہ تعالیٰ کے غضب کو ٹھنڈا کرتی اور اس کے عذاب کو ٹالتی ہے۔ وہ اس کے مومن بندوں کا توبہ و استغفار کرنا ہے جس بستی میں توبہ و استغفار کرنے والے لوگ زیادہ ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ اس بستی کو کبھی ہلاک نہیں کرتا اس لیے ہم پر لازم ہے کہ ہم صبح و شام اللہ تعالیٰ سے توبہ و استغفار کرتے رہیں۔ (عَنْ اَبِیْ ھُرَےْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْ لُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اِنَّ عَبْدًا اَذْنَبَ ذَنْبًا فَقَالَ رَبِّ اَذْنَبْتُ فَاغْفِرْہُ فَقَالَ رَبُّہُ اَعَلِمَ عَبْدِیْ اَنَّ لَہٗ رَبًّا یَّغْفِرُ الذَّنْبَ وَےَاْخُذُبِہٖ غَفَرْتُ لِعَبْدِیْ ثُمَّ مَکَثَ مَا شَآء اللّٰہُ ثُمَّ اَذْنَبَ ذَنْبًا فَقَالَ رَبِّ اَذْنَبْتُ ذَنْبًا فَاغْفِرْہُ فَقَالَ اَعَلِمَ عَبْدِیْ اَنَّ لَہٗ رَبًّا یَّغْفِرُ الذَّنْبَ وَ ےَاْخُذُ بِہٖ غَفَرْتُ لِعَبْدِیْ ثُمَّ مَکَثَ مَاشَآء اللّٰہُ ثُمَّ اَذْنَبَ ذَنْبًا قَالَ رَبِّ اَذْنَبْتُ ذَنْبًا اٰخَرَ فَاغْفِرْہُ لِیْ فَقَالَ اَعَلِمَ عَبْدِیْ اَنَّ لَہٗ رَبًّا یَّغْفِرُ الذَّنْبَ وَےَاْخُذُ بِہٖ غَفَرْتُ لِعَبْدِیْ فَلْےَفْعَلْ مَا شَآءَ)[ رواہ البخاری : کتاب التوحید، باب قول اللہ تعالیٰ یریدون ان یبدلوا کلام اللہ ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) کا بیان ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا‘ کوئی شخص گناہ کرتا ہے پھر اپنے رب سے عرض کرتا ہے کہ میں گناہ کر بیٹھا ہوں تو اے رب معاف فرما۔ اس کا رب فرشتوں سے کہتا ہے‘ کیا میرے بندے کو معلوم ہے کہ اس کا کوئی رب ہے جو گناہوں کو معاف کرتا ہے اور ان پر مؤاخذہ بھی کرتا ہے؟ لہٰذا میں نے اپنے بندے کو بخش دیا۔ پھر جب تک اللہ کی توفیق ہوتی ہے وہ گناہ سے باز رہتا ہے‘ پھر اس سے گناہ ہوجاتا ہے اور پھر اپنے رب کو پکارتا ہے۔ میرے پروردگار مجھ سے گناہ ہوگیا ہے۔ میرے اللہ! مجھے معاف فرما۔ اللہ تعالیٰ فرشتوں سے استفسار کرتا ہے کہ میرا بندہ جانتا ہے کہ کوئی اس کا مالک ہے جو گناہوں کو معاف بھی کرتا ہے اور ان پر پکڑبھی کرتا ہے؟ میں نے اپنے بندے کو معاف کردیا! اب وہ جو چاہے کرے۔“ (یعنی سابقہ گناہ پر کوئی مؤاخذہ نہیں ہوگا۔) “ (عَنْ أَبِی سَعِیدٍ (رض) عَنْ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ مَنْ قَال حینَ یَأْوِی إِلٰی فِرَاشِہٖ أَسْتَغْفِرُ اللّٰہَ الْعَظِیمَ الَّذِی لَا إِلٰہَ إِلَّا ہُوَ الْحَیُّ الْقَیُّومُ وَأَتُوبُ إِلَیْہِ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ غَفَرَ اللّٰہُ لَہُ ذُنُوبَہُ وَإِنْ کَانَتْ مِثْلَ زَبَدِ الْبَحْرِ وَإِنْ کَانَتْ عَدَدَ وَرَقِ الشَّجَرِ وَإِنْ کَانَتْ عَدَدَ رَمْلِ عَالِجٍ وَإِنْ کَانَتْ عَدَدَ أَیَّام الدُّنْیَا) [ رواہ الترمذی : کتاب الدعوات] ” حضرت ابو سعید (رض) نبی مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں جو شخص اپنے بستر پر لیٹتے ہوئے تین مرتبہ یہ کلمات کہتا ہے ”أَسْتَغْفِرُ اللّٰہَ الْعَظِیمَ الَّذِی لَا إِلٰہَ إِلَّا ہُوَ الْحَیَّ الْقَیُّومَ وَأَتُوبُ إِلَیْہِ“ تو اللہ تعالیٰ اس کے گناہ معاف کردیتا ہے اگرچہ وہ سمندر کی جھاگ کے برابر بھی ہوں، اگرچہ درختوں کے پتوں کی تعداد کے برابر بھی ہوں، اگرچہ صحرا کی ریت کے ذروں کے برابر بھی ہوں، اگرچہ دنیا کے دنوں کی تعداد کے برابر بھی ہوں۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ کے عذاب کو دعوت نہیں دینی چاہیے۔ ٢۔ استغفار کرنے سے اللہ تعالیٰ کا عذاب ٹل جاتا ہے۔ الانفال
33 الانفال
34 فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ مشرکین مکہ نے بیت اللہ کا غلاف پکڑ کر اپنے لیے عذاب کی دعا کی جس کے جواب میں یہ فرمایا گیا کہ انھیں عذاب نہ دینے کی و جہ یہ ہے کہ ہمارا رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور اس کے استغفار کرنے والے ساتھی یہاں موجود ہیں۔ حالانکہ مشرکین مکہ اللہ تعالیٰ کے عذاب کے مستحق ہوچکے ہیں۔ کیونکہ یہ مسجد حرام میں توحید کی دعوت دینے سے روکتے ہیں۔ جب کہ بیت اللہ کی بناء کا مقصد ہی اس میں اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنا اور اس کی توحید کا پرچار ہے۔ لیکن یہ بیت اللہ کی تولیت کے زعم میں آکر اپنے اختیارات سے تجاوز کررہے ہیں جبکہ مسجد کی تولیت کا مطلب صرف اس کی خدمت کرنا ہے۔ یہ لوگ اپنے عقیدہ اور کردار کی وجہ سے اس لائق نہیں رہے کہ مسجد حرام کی تولیت کے منصب پر سرفراز رہیں۔ مسجد حرام اور دیگر مساجد کی تولیت کا استحقاق صرف ان لوگوں کے لیے ہے جو اللہ تعالیٰ سے ڈر کر شرک وبدعت سے اجتناب کرتے ہیں لیکن لوگوں کی اکثریت اس حقیقت کو نہیں جانتی۔ اہل مکہ کا نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مسلمانوں کو مسجد حرام سے روکنے کے ساتھ یہ جرم بھی تھا کہ جب آپ بیت اللہ میں نماز پڑھتے یا توحید کی دعوت دیتے تو یہ لوگ سیٹیاں اور تالیاں بجایا کرتے تھے۔ اس پر انھیں عذاب الٰہی سے ڈرایا گیا ہے۔ یہاں مسلمانوں کو اشارہ دیا گیا ہے کہ عنقریب بیت اللہ کا انتظام و انصرام تمھارے سپرد کیا جائے گا۔ جس کی نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس وقت پیش گوئی فرمائی جب آپ نے ہجرت سے پہلے عثمان بن طلحہ (رض) سے بیت اللہ کی چابی طلب کی تاکہ بیت اللہ کے اندر داخل ہو کر نفل ادا کرسکیں۔ لیکن اس نے بڑی رعونت کے ساتھ چابی دینے سے انکار کردیا۔ جس پر آپ نے فرمایا کہ اے عثمان وہ وقت کیسا ہوگا جب یہ چابی میرے ہاتھ میں ہوگی جس کو چاہوں گا دوں گا۔ عثمان بن طلحہ نے کہا کیا اشراف مکہ اس وقت مر چکے ہوں گے ؟ آپ نے فرمایا نہیں تم زندہ ہو گے۔ چنانچہ یہی کچھ ہوا کہ مکہ فتح کرنے کے بعد آپ نے عثمان سے چابی طلب کی اس نے سر جھکاتے ہوئے چابی آپ کی خدمت میں پیش کردی۔ آپ نے بیت اللہ کے اندر داخل ہو کر نفل ادا کیے بعد ازاں عثمان بن طلحہ کو چابی عطا کرتے ہوئے فرمایا۔ عثمان اسے اپنے پاس رکھو جو تجھ سے چابی چھیننے کی کوشش کرے گا وہ ظالم ہوگا۔ اس موقعہ پر حضرت علی (رض) نے درخواست کی کہ زم زم کا کنٹرول ہمارے پاس ہے۔ بہتر ہوگا کہ آپ بیت اللہ کی چابی بھی۔ ہمیں عنایت کردیں۔ آپ نے فرمایا ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا۔ اس موقعہ پر عثمان بن طلحہ (رض) نے مسلمان ہونے کا اعلان کیا۔ مسائل ١۔ لوگوں کو مسجد حرام سے روکنا۔ اللہ تعالیٰ کے عذاب کو دعوت دینا ہے۔ ٢۔ مساجد اور مسجد حرام کی تولیت صرف صاحب تقویٰ لوگوں کے پاس ہونی چاہیے۔ تفسیر بالقرآن مسجد سے روکنا جائز نہیں : ١۔ مسجد سے روکنا بہت بڑا ظلم ہے۔ (البقرۃ: ١١٤) ٢۔ مشرکین مکہ مسلمانوں کو مسجد حرام سے روکا کرتے تھے۔ (الانفال : ٣٤) ٣۔ مسجد سے روکنے والے سزا کے مستحق ہیں۔ (الانفال : ٣٤) ٤۔ مسجدیں تو اللہ کا گھر ہوتی ہیں۔ (الجن : ١٨) ٥۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نماز پڑھتے تو کفار آپ پر آوازیں کستے تھے۔ (الجن : ١٩) الانفال
35 الانفال
36 فہم القرآن ربط کلام : کفار کو ان کے کردار کا آئینہ دکھاتے ہوئے یہ احساس دلایا گیا ہے عنقریب تمھیں اپنے کیے پر حسرت و افسوس ہوگا۔ کفار صرف زبانی اور جسمانی طور پر ہی اللہ کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنے ہوئے تھے بلکہ وہ اس کے لیے اپنا مال بھی خرچ کرتے تھے۔ انھوں نے نبی محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دعوت توحید سے روکنے کے لیے بڑی بڑی پیش کشیں کی تھیں جب آپ نے ان کی پیشکشوں کو مسترد کردیا تو پھر ان لوگوں نے آپ کو مکہ چھوڑنے پر مجبور کیا۔ اس پر بس نہیں کی پھر آپ کے خلاف جنگ و جدال کا راستہ اختیار کیا اور بہت سامال خرچ کر ڈالا لیکن بدر سے لے کر فتح مکہ تک نہ صرف ان کا جانی نقصان ہوا بلکہ بے پناہ وسائل بھی ضائع ہوئے اس طرح حسرت کے سوا ان کے ہاتھ کچھ نہ آیا اسی حسرت و افسوس کے ساتھ جہنم واصل ہوگئے۔ (وَیَوْمَ یَعَضُّ الظَّالِمُ عَلٰی یَدَیْہِ یَقُولُ یَا لَیْتَنِی اتَّخَذْتُ مَعَ الرَّسُوْلِ سَبِیْلاً)[ سورۃ الفرقان : ٢٧] ” اور اس دن ظالم اپنے ہاتھوں کو کاٹے گا اور کہے گا میں نے رسول کے ساتھ اپنا راستہ اختیار کیا ہوتا۔“ اس وقت ان کی آہیں اور صدائیں انھیں کچھ فائدہ نہیں دیں گی اور انھیں ہمیشہ جہنم میں رہنا پڑے گا۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی پر خرچ کیا ہوا مال ضائع ہوجاتا ہے۔ ٢۔ قیامت کے دن یہ مال حسرت و افسوس کا باعث ہوگا۔ ٣۔ خدا کے منکر اور باغی جہنم میں اکٹھے کیے جائیں گے۔ الانفال
37 فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ مشرک اور کافر فکر و عمل کے اعتبار سے گندے لوگ ہیں۔ اس لیے اللہ تعالیٰ قرآن مجید کے ذریعے مومنوں اور مشرکوں کے درمیان ایک امتیاز پیدا کرنا چاہتا ہے اور قیامت کے دن اسی امتیاز کی بناء پر انھیں الگ کردیا جائے گا۔ انسان جب کفر و شرک کا وطیرہ اختیار کرلیتا ہے تو وہ فکری طور پر منتشر اور عملی طور پر خبیث اور گندا ہوجاتا ہے قرآن مجید میں عقیدۂ کفر و شرک کو شجرۂ خبیثہ کہا ہے اور شرک کے مرتکب شخص کو نجس قرار دیا ہے۔ (ابراہیم : ٢٦) عربی میں گندی، پلید اور بری چیز کو خبیث کہا جاتا ہے۔ شیطان ہر قسم کی خباثت کا منبع ہے اس بنا پر اس کا دوسرا نام خبیث ہے۔ خبیث کے مقابلہ میں طیب کا لفظ آیا ہے۔ عقیدۂ توحید کو سورۃ ابراہیم میں شجرہ طیبہ کہا گیا ہے۔ جس کی جڑیں مضبوط اور اس کی شاخیں آسمان تک بلند ہیں۔ یہ ایسا سدا بہار درخت ہے جو ہر آن پھل دیتا ہے۔ اس عقیدہ کے تقاضے پورے کرنے والا شخص طیب ہوگا۔ جس کا معنیٰ پاک، عمدہ اور بہترین ہے۔ نبی محترم نے حلال و حرام کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ طیب ہے اور وہ طیب مال کو پسند کرتا ہے گویا کہ طیب اللہ تعالیٰ کی صفت ہے۔ یہاں کافر و مشرک کو خبیث اور مسلمان کو طیب قرار دیتے ہوئے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کے درمیان امتیاز کرے گا۔ یہ امتیاز اللہ تعالیٰ دنیا میں قائم کرنا چاہتا ہے اور آخرت میں بھی ہوگا۔ اسلام کے نفاذ سے یہ امتیاز دنیا میں مدت تک قائم رہا لوگوں نے کھلی آنکھوں کے ساتھ دیکھا کہ قرآن کے ماننے اور عقیدہ توحید اختیار کرنے والوں کا کیا کردار ہوتا ہے اور خدا کے باغیوں کے عقیدہ و عمل سے دنیا میں کیا غلاظت اور تعفن پیدا ہوتا ہے اسی امتیاز کی بنا پر آخرت میں مومنوں اور مشرکوں کے درمیان فرق کیا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ جہنم میں مشرکوں اور کافروں کو ایک دوسرے کے اوپر جمع کرے گا اور یہ لوگ ہمیشہ کے لیے نقصان میں رہیں گے۔ ایک دوسرے کے اوپر جمع کرنے سے مراد جہنم کے طبقات ہیں اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جہنمیوں کو ذلیل کرنے اور سزا کے طور پر ایک دوسرے پر پھینکا جائے۔ (أَفَمَنْ کَانَ مُؤْمِنًا کَمَنْ کَانَ فَاسِقًا لَّا یَسْتَوُونَ)[ سورۃ السجدۃ: ١٨) ” کیا مومن ایسے ہی ہوتا ہے جیسے فاسق ؟ یہ دونوں کبھی برابر نہیں ہو سکتے۔“ (إِنَّ الْمُنَافِقِیْنَ فِی الدَّرْکِ الْأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ وَلَنْ تَجِدَ لَہُمْ نَصِیْرًا )[ النساء : ١٤٥] ” بلاشبہ منافق جہنم کے نچلے گڑھے میں ہوں گے اور تو ان کے لیے کوئی مددگار نہیں پائے گا۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ مسلمانوں اور کافروں کے درمیان فرق کرتا ہے۔ ٢۔ مشرک لوگ جہنم میں اکٹھے پھینکے جائیں گے۔ تفسیر بالقرآن : مشرک اور مومن دنیا اور آخرت میں برابر نہیں ہو سکتے : ١۔ مشرک پلید ہوتا ہے۔ ( التوبۃ: ٢٨) ٢۔ مومن اور فاسق برابر نہیں ہو سکتے۔ (السجدۃ : ١٨) ٣۔ اللہ تعالیٰ مجرموں اور مومنوں کو برا بر نہیں رکھے گا۔ (القلم : ٣٥۔ ٣٦) ٤۔ اندھا اور بینا برابر اور وہ لوگ جو ایمان لائے اور عمل صالح کرنے والے اور برے اعمال کرنے والے برابر نہیں ہوسکتے۔ (المومن : ٥٨) ٥۔ جنتی اور جہنمی برابر نہیں ہو سکتے جنتی ہی کامیاب ہیں۔ (الحشر : ٢٠) ٦۔ نیکی اور برائی برابر نہیں ہوسکتی۔ (حٰم السجدۃ: ٣٤) ٧۔ کیا تم نے حاجیوں کو پانی پلانا اور مسجد حرام کو تعمیر کرنے کو ان لوگوں کے برابرسمجھ لیا ہے جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان لاتے ہیں اور اللہ کی راہ میں جہاد کرتے ہیں وہ اللہ کے ہاں برابر نہیں ہو سکتے۔ (التوبۃ: ١٩) الانفال
38 فہم القرآن ربط کلام : کفار اور مشرکین کو جہنم کی وارننگ دینے کے بعد ایک دفعہ پھر نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو انھیں نصیحت کرنے کا ارشاد ہوا ہے۔ اے رسول! کفار کو پوری سوز مندی کے ساتھ سمجھائیں کہ یہ لوگ اپنے کفر و شرک سے باز آجائیں تو ان کے تمام جرائم اور گناہوں کو معاف کردیا جائے گا۔ اگر یہ کفر و شرک کی روش پر قائم رہیں تو انھیں اپنے سے پہلے مجرموں کے انجام کو سامنے رکھنا چاہیے۔ اس فرمان میں اللہ تعالیٰ نے کمال شفقت کا اظہار کرتے ہوئے کفار کو ایک دفعہ پھر سمجھانے کا ارشاد فرمایا کہ اے رسول ! ان کو پھر سمجھاؤ کہ جو کچھ تم کرچکے سو کرچکے۔ اگر اب بھی کفر و شرک سے باز آجاؤ تو نہ صرف تمھارے ماضی پر کوئی عقوبت نہیں ہوگی بلکہ تمھارا رب اتنا رحیم و کریم ہے کہ وہ تمھاری ماضی کی تمام غلطیوں کو معاف کر دے گا۔ اللہ تعالیٰ اس قدر حلیم و غفور ہے جو شخص بھی سچے دل کے ساتھ توبہ کرتا ہے نہ صرف اس کے گناہوں کو معاف کردیتا ہے بلکہ اس کی سیئات کو حسنات میں تبدیل کردیا جاتا ہے۔ لیکن اگر یہ لوگ بار بار موقع دینے کے باوجود اپنا فکر و عمل نہیں بدلتے تو انھیں فرمائیے کہ تمھارا انجام تم سے پہلے لوگوں سے مختلف نہیں ہوگا۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک سوال کے جواب میں فرمایا ہے۔ (عن عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ (رض) قَالَ أَتَیْتُ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَقُلْتُ ابْسُطْ یَمِینَکَ فَلْأُبَایِعْکَ فَبَسَطَ یَمِینَہٗ قَالَ فَقَبَضْتُ یَدِی قَالَ مَا لَکَ یَا عَمْرُو قَالَ قُلْتُ أَرَدْتُّ أَنْ أَشْتَرِطَ قَالَ تَشْتَرِطُ بِمَاذَا قُلْتُ أَنْ یُغْفَرَ لِی قَالَ أَمَا عَلِمْتَ أَنَّ الْإِسْلَامَ یَہْدِمُ مَا کَانَ قَبْلَہُ وَأَنَّ الْہِجْرَۃَ تَہْدِمُ مَا کَانَ قَبْلَہَا وَأَنَّ الْحَجَّ یَہْدِمُ مَا کَانَ قَبْلَہُ وَمَا کَانَ أَحَدٌ أَحَبَّ إِلَیَّ مِنْ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وَلَا أَجَلَّ فِی عَیْنِی مِنْہُ وَمَا کُنْتُ أُطِیقُ أَنْ أَمْلَأَ عَیْنَیَّ مِنْہُ إِجْلَالًا لَہُ وَلَوْ سُءِلْتُ أَنْ أَصِفَہُ مَا أَطَقْتُ لِأَنِّی لَمْ أَکُنْ أَمْلَأُ عَیْنَیَّ مِنْہُ وَلَوْ مُتُّ عَلَی تِلْکَ الْحَالِ لَرَجَوْتُ أَنْ أَکُونَ مِنْ أَہْلِ الْجَنَّۃِ ثُمَّ وَلِینَا أَشْیَاءَ مَا أَدْرِی مَا حَالِی فیہَا فَإِذَا أَنَا مُتُّ فَلَا تَصْحَبْنِی نَاءِحَۃٌ وَلَا نَارٌ) [ رواہ مسلم : کتاب التفسیر، باب قول اللہ تعالیٰ وانذر عشیرتک الاقربین] ” حضرت عمرو بن عاص (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنا دایاں ہاتھ آگے کیجئے تاکہ میں آپ کی بیعت کروں۔ جب آپ نے اپنا دایاں ہاتھ آگے فرمایا تو میں نے اپنا ہاتھ پیچھے کرلیا تب آپ پوچھتے ہیں اے عمرو! کیا ہوا ہے؟ میں نے عرض کیا کہ ایک شرط کے ساتھ بیعت کرتا ہوں۔ ارشاد ہوا کہ وہ کونسی شرط ہے؟ میں نے عرض کی کہ میرے گناہ معاف کردیے جائیں۔ فرمایا عمرو تو نہیں جانتا یقیناً اسلام پہلے گناہوں کو ختم کردیتا ہے اسی طرح ہجرت سے پہلے کے بھی گناہ ختم ہوجاتے ہیں۔ اور یقیناً حج سے بھی سابقہ غلطیاں معاف ہوجاتی ہیں۔ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے زیادہ مجھے کوئی محبوب نہ تھا۔ اور نہ ہی میری آنکھ میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے زیادہ کسی کا جلال تھا۔ میں انہیں اس جلال کی وجہ سے آنکھ بھر کے نہیں دیکھ سکا۔ اگر مجھ سے کوئی سوال کرے کہ میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کوئی وصف بیان کروں تو اس کی مجھ میں طاقت نہیں ہے۔ کیونکہ میں نے آپ کو کبھی آنکھ بھر کے ہی نہیں دیکھا۔ اگر میں اس حال میں فوت ہوگیا تو میں امید کرتا ہوں کہ میں اہل جنت میں سے ہوں گا۔ پھر اللہ مجھے جنت میں ولی مقرر کر دے تو میں نہیں جانتا وہاں کس حال میں ہوں گا تو جب میں فوت ہوجاؤں تو میرے ساتھ کوئی نوحہ کرنے والی اور آگ نہ لے کے آنا۔“ (إِلَّا مَنْ تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا فَأُوْلٰٓءِکَ یُبَدِّلُ اللّٰہُ سَیِّءَاتِہِمْ حَسَنَاتٍ وَکَان اللّٰہُ غَفُورًارَّحِیمًا)[ سورۃ الفرقان : ٧٠] ” ہاں جو شخص توبہ کرلے اور ایمان لے آئے اور نیک عمل کرے ایسے لوگوں کی برائیوں کو اللہ نیکیوں سے بدل دے گا اور اللہ بہت بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔“ مسائل ١۔ خدا کے منکروں کو بار بار سمجھانا چاہیے۔ ٢۔ توبہ کرنے اور کفر و شرک سے باز آنے والے کے اللہ تعالیٰ تمام گناہ معاف کردیتا ہے۔ ٣۔ خدا کے باغیوں کو اپنے سے پہلے لوگوں کا انجام یاد رکھنا چاہیے۔ الانفال
39 فہم القرآن ربط کلام : جو کفار اپنی روش سے باز نہیں آتے ان کے خلاف جہاد کا حکم ہے۔ اسلام میں قتال فی سبیل اللہ کا تصور یہ ہے کہ اگر کفار بقائے باہمی کی بنیاد پر مسلمانوں کے ساتھ مفاہمت کرنا چاہیں تو مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ امن پسند کفار کے ساتھ قتال کرنے سے باز رہیں۔ بشرطیکہ اہل کفر تبلیغ دین میں رکاوٹ بننے کی کوشش نہ کریں کیونکہ اسلام کا نقطۂ نگاہ یہ ہے کہ لوگوں تک حق پہنچانا مسلمانوں کی ذمہ داری ہے اگر لوگ اپنی خوشی سے حلقۂ اسلام میں داخل ہونا چاہیں تو ان کی راہ میں رکاوٹ بننے کا کسی کو حق نہیں پہنچتا۔ لیکن کفار دین اسلام کی راہ میں رکاوٹ بنتے ہیں اگر وہ اپنی سازشوں سے باز نہیں آتے تو پھر مسلمانوں کا فرض ہے کہ وہ اپنے اندر ایسی قوت پیدا کریں کہ جس سے کفار کو ان کے مذموم عزائم سے روکا جا سکے کیونکہ لوگوں کو اللہ کی راہ سے روکنا یا اسلامی مملکت کے خلاف سازشیں کرنا ایک فتنہ ہے جسے کسی صورت بھی برداشت نہیں کیا جا سکتا۔ اس بناء پر مسلمانوں کو حکم دیا جا رہا ہے کہ فتنہ کا قلع قمع کرنے کے لیے پوری قوت کے ساتھ اس کے خلاف سینہ سپر ہوجاؤ اور اس وقت تک قتال فی سبیل اللہ سے پیچھے نہ ہٹوجب تک دین کا غلبہ نہ ہوجائے۔ اگر کفار اپنی سازشوں سے بازآجائیں اور بقائے باہمی کے اصول پر امن سے رہنا چاہیں تو پھر ان سے تعارض کرنا جائز نہیں ہوگا۔ اگر وہ باز نہیں آتے تو دین کے غلبہ تک جہاد کرنا مسلمانوں کا فرض ہے۔ کیونکہ اسلام کے نفاذ سے سب کو امن و امان اور سلامتی حاصل ہوتی ہے۔ ایسی صورت میں مسلمانوں کو یہ تسلی دی گئی ہے کہ کفار سے خوف زدہ ہونے کی ضرورت نہیں اللہ تعالیٰ ان کے کردار کو دیکھ رہا ہے۔ یقین رکھو کہ اللہ تعالیٰ تمھارا والی اور خیر خواہ ہے۔ اس سے بہتر تمھارا کوئی خیر خواہ اور مدد کرنے والا نہیں ہوسکتا ہے۔ یعنی جس کی اللہ تعالیٰ خیر خواہی اور دستگیری فرمائے وہی کامیاب اور سرفراز ہوگا۔ (عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لَوْ أَنَّکُمْ کُنْتُمْ تَوَکَّلُوْنَ عَلَی اللَّہِ حَقَّ تَوَکُّلِہٖ لَرُزِقْتُمْ کَمَا تُرْزَقُ الطَّیْرُ تَغْدُوْ خِمَاصًا وَتَرُوْحُ بِطَانًا)[ رواہ الترمذی : کتاب الزہد، باب فِی التَّوَکُّلِ عَلَی اللَّہِ] ” حضرت عمر بن خطاب (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اگر تم اللہ تعالیٰ پر توکل کرو جس طرح توکل کرنے کا حق ہے۔ تمہیں اسی طرح رزق دیا جائے جس طرح پرندوں کو رزق دیا جاتا ہے۔ وہ خالی پیٹوں کے ساتھ صبح کرتے ہیں اور شام کو بھرے پیٹوں کے ساتھ لوٹتے ہیں۔“ مسائل ١۔ فتنہ کے خاتمہ تک قتال فی سبیل اللہ کرنا چاہیے۔ ٢۔ دین کا غلبہ ہونا ضروری ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کا خیر خواہ اور بہترین مدد کرنے والا ہے۔ تفسیربالقرآن اللہ ہی پر توکل کرنا چاہیے : ١۔ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اللہ پر توکل کرنے کی ہدایت۔ (النمل : ٧٩) ٢۔ مومنوں کو اللہ تعالیٰ پر توکل کرنے کا حکم۔ (المجادلۃ: ١٠) ٣۔ انبیاء اور نیک لوگ اللہ پر توکل کرتے ہیں۔ (یوسف : ٦٧) ٤۔ جو اللہ پر توکل کرتا ہے اللہ اسے کافی ہوجاتا ہے۔ (الطلاق : ٣) ٥۔ اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرنا چاہیے کیونکہ وہ عرش عظیم کا مالک ہے۔ (التوبۃ: ١٢٩) الانفال
40 الانفال
41 فہم القرآن ربط کلام : اس سورۃ کی ابتدا مال غنیمت کے متعلق ایک سوال سے ہوئی۔ جس کا مختصر جواب یہ دیا گیا کہ غنیمت اللہ اور اس کے رسول کے لیے ہے تمھارا کام اپنی اصلاح کرنا اور اللہ، اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کرنا ہے یہاں اس کا تفصیلی جواب دیا گیا ہے۔ مال غنیمت کے حقدار لوگوں کی تفصیلات بتانے سے پہلے ” واعلموا“ کا لفظ استعمال فرمایا ہے جس میں کسی بات سے آگاہ کرنے کے ساتھ انتباہ بھی پایا جاتا ہے۔ یعنی اچھی طرح جان لو کہ جو تمھیں بتلایا جا رہا ہے یہ معمولی مسئلہ نہیں حقیقت ہے کہ یہ مال اللہ تعالیٰ کا ہے۔ اس لیے کہ وہی اسے حلال کرنے والا اور تمھیں فتح دینے والا ہے۔ مال غنیمت کے حق داروں میں رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا نام پہلے اس لیے لیا کہ پہلے انبیاء اور ان کی امتوں پر یہ مال حرام تھا۔ پھر یاد رکھو کہ رسول محترم کی قیادت اور محنت کی و جہ سے تم اس قابل ہوئے ہو۔ نبی آخر الزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خصوصیت ہے کہ ان کے لیے غنیمت کا مال جائز قرار دیا گیا جس کی تقسیم یہ ہے کہ اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے مال غنیمت میں پانچواں حصہ ہے جس کا مفہوم ائمہ کرام (رض) نے یہ متعین کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حصہ سے مراد بیت اللہ کی تعمیر و ترقی پر خرچ کرنا ہے کچھ مفسرین کا خیال ہے اللہ تعالیٰ کا نام صرف تبرک کے طور پر لیا گیا ہے۔ میرا ذاتی نقطہ نظریہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنا نام اس لیے لیا ہے تاکہ غازیوں کو احساس ہوجائے کہ یہ مال ہماری بہادری اور جواں مردی کا نتیجہ نہیں بلکہ محض اللہ تعالیٰ کے فضل کی وجہ سے حاصل ہوا ہے۔ اس لیے اس کا حقیقی مالک اللہ تعالیٰ ہے جس نے اس کی تقسیم اس طرح فرمائی ہے کہ پہلا حصہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ہے وہ جہاں چاہیں اسے خرچ فرمائیں۔ جس کے بارے میں آپ فرمایا کرتے تھے میر احصہ بھی مسلمانوں کے لیے ہے جسے آپ مسلمانوں کی اجتماعی ضروریات پر خرچ کیا کرتے تھے۔ امیرالمومنین حضرت عمر (رض) جب خلیفہ بنے تو انھوں نے فرمایا کہ میں امت کا ذمہ دار ہونے کی بناء پر اس سے اتنا ہی اپنی ذات پر خرچ کروں گا۔ جتنا یتیم کی کفالت کرنے والا اس کے مال سے اپنی ذات پر خرچ کرنے کا حق رکھتا ہے۔ گویا کہ خلیفۂ وقت اپنے اہل و عیال پر اس سے بڑھ کر خرچ نہیں کرسکتا۔ جہاں تک رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنے رشتہ داروں پر خرچ کرنے کی اجازت دی گئی ہے اس کے بارے میں آپ کی سنت یہ ہے کہ جب حضرت فاطمہ (رض) نے آپ سے بیت المال میں ایک کنیز لینے کی درخواست کی تو آپ نے فرمایا کہ ابھی مستحق باقی ہیں۔ اس لیے میں آپ کو کنیز دینے کے بجائے وظیفہ بتلاتا ہوں کہ آپ ٣٣ مرتبہ سبحان اللہ، ٣٣ مرتبہ الحمد للہ اور ٣٤ مرتبہ اللہ اکبر۔ رات سونے سے پہلے پڑھا کرو۔ اس سے ثابت ہوا کہ مسلمانوں کا سربراہ اپنے قریبی رشتہ داروں کو کن حالات میں کس قدر مال غنیمت دے سکتا ہے۔ اس کے بعد خمس مال میں یتیموں، مسکینوں اور مسافروں کا حصہ رکھا گیا۔ اس تقسیم پر عمل کرنا ہر اس شخص پر لازم ہے جو اللہ پر ایمان رکھتا ہے اللہ ہی نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر بدر کے دن اپنی خاص مدد نازل فرمائی تھی جب دو جماعتیں آپس میں برسرِپیکار ہوئیں۔ اللہ تعالیٰ ہر چیز کا اختیار رکھنے والا ہے۔ (عَن ابْنِ عُمَرَ (رض) أَنَّ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جَعَلَ لِلْفَرَسِ سَہْمَیْنِ وَلِصَاحِبِہٖ سَہْمًا) [ رواہ البخاری : کتاب الجہاد، باب سہام الفرس] ” حضرت عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں بلاشبہ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے گھوڑے والے کے لیے دو حصے اور پیادہ کے لیے ایک حصہ مقرر فرمایا۔“ (عَنْ عُرْوَۃَ الْبَارِقِیِّ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ الْخَیْلُ مَعْقُودٌ فِی نَوَاصِیہَا الْخَیْرُ الأَجْرُ وَالْمَغْنَمُ إِلَی یَوْمِ الْقِیَامَۃ)ِ[ رواہ البخاری : باب قَوْلِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) أُحِلَّتْ لَکُمُ الْغَنَاءِمُ ] ” حضرت عروہ البارقی (رض) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں آپ نے فرمایا گھوڑوں کی پیشانیوں میں قیامت تک خیر لکھ دی گئی ہے اجر اور غنیمت کی صورت میں۔“ (عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ کَانَ رَسُول اللَّہِ إِذَا أَصَابَ غَنِیمَۃً أَمَرَ بلاَلاً فَنَادَی فِی النَّاسِ فَیَجِیءُونَ بِغَنَاءِمِہِمْ فَیُخَمِّسُہُ وَیُقَسِّمُہُ فَجَاءَ رَجُلٌ بَعْدَ ذَلِکَ بِزِمَامٍ مِنْ شَعَرٍ فَقَالَ یَا رَسُول اللَّہِ ہَذَا فیمَا کُنَّا أَصَبْنَاہُ مِنَ الْغَنِیمَۃِفَقَالَ أَسَمِعْتَ بلاَلاً یُنَادِی ثَلاَثًاقَالَ نَعَمْ قَالَ فَمَا مَنَعَکَ أَنْ تَجِیءَ بِہِ فَاعْتَذَرَ إِلَیْہِ فَقَالَ کُنْ أَنْتَ تَجِیءُ بِہِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ فَلَنْ أَقْبَلَہُ عَنْکَ ) [ رواہ ابوداوٗد : باب فِی الْغُلُولِ إِذَا کَانَ یَسِیرًا یَتْرُکُہُ الإِمَامُ وَلاَ یُحَرِّقُ رَحْلَہُ] ” حضرت عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس جب مال غنیمت پہنچتا آپ بلال کو حکم دیتے کہ لوگوں میں اعلان کرے تو صحابہ کرام مال غنیمت ایک جگہ جمع کرتے اس مال میں سے پانچواں حصہ نکال کر باقی مال تقسیم کردیا جاتا۔ ایک دن ایک آدمی مال کی تقسیم کے بعد بالوں کی ایک گھچی لیکر آیا اور عرض کی اے اللہ کے رسول یہ مال غنیمت میں سے ہے۔ آپ نے فرمایا کیا تو نے بلال کو اعلان کرتے ہوئے سنا تھا آپ نے یہ بات تین بار دہرائی۔ اس نے عرض کی جی ہاں آپ نے فرمایا پھر تو اسے کیوں نہیں لیکر آیا۔ اس نے عذر پیش کیا۔ آپ نے فرمایا اسے اپنے پاس رکھو اور قیامت کو لیکر آنا اب ہرگز میں تجھ سے قبول نہیں کرونگا۔“ مسائل ١۔ مال غنیمت میں اللہ اور اس کے رسول کا پانچواں حصہ ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ مسلمانوں اور کافروں کے درمیان فرق پیدا کرتا ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے۔ ٤۔ بدر کا دن حق و باطل میں فرق کردینے والا دن تھا۔ ٥۔ نبی آخر الزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے بندے تھے۔ ٦۔ مال غنیمت میں یتیموں اور مساکین کا بھی حصہ ہے۔ تفسیر بالقرآن فرقان کیا ہے : ١۔ اگر تم عقل مند ہو تو بتاؤ کونسا فریق امن کا زیادہ حق دار ہے۔ (الانعام : ٨١) ٢۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو کتاب اور حق و باطل میں فرق کرنے والے معجزے عطا کیے۔ (البقرۃ: ٥٣) ٣۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کو لوگوں کے لیے ہدایت اور حق و باطل میں فرق کردینے والی کتاب بنا کر نازل کیا ہے۔ (البقرۃ: ١٨٥) ٤۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن سے پہلے تورات و انجیل کو لوگوں کی ہدایت کے لیے اور حق و باطل میں فرق کرنے والی کتاب بنا کر نازل فرمایا۔ (آل عمران : ٣) ٥۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ اور ہارون (علیہ السلام) کو حق و باطل میں فرق کرنے والی اور روشن کتاب عنایت فرمائی۔ (الانبیاء : ٤٨) ٦۔ اللہ تعالیٰ بابرکت ذات ہے جس نے اپنے بندے پر حق و باطل میں فرق کرنے والی کتاب نازل کی تاکہ آپ لوگوں کو ڈرائیں۔ (الفرقان : ١) ٧۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندے پر دو جماعتوں کے ٹکراؤ میں فرق واضح کردیا۔ (الانفال : ٤١) الانفال
42 فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ میدان بدر کا نقشہ اور فریقین کا ایک دوسرے کو اصل تعداد سے کم دکھائی دینا۔ اس سے پہلی آیت میں غزوۂ بدر کے معرکہ کو یوم الفرقان کہا گیا ہے۔ یعنی ایسا دن جس میں حق اور باطل، سچ اور جھوٹ کے درمیان دو اور دو چار کی طرح فرق واضح کردیا گیا۔ غزوۂ بدر کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ہم نے فیصلہ کر رکھا تھا کہ جو مرے وہ دلیل پر مرے اور جو زندہ رہے وہ بھی دلیل پر زندہ رہے۔ اس لیے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے گھر سے نکلنے کے بارے میں فرمایا کہ آپ کو آپ کے رب نے ہی گھر سے نکالا تھا حالانکہ مومنوں میں سے ایک جماعت اسے پسند نہیں کر رہی تھی۔ (الانفال : ٦) یہاں بدر کا نقشہ پیش کیا گیا ہے کہ جب تم نے بدر میں مدینہ کی جانب اور کفار نے مکہ کی جانب پڑاؤ ڈالا تھا اور جس قافلہ کے لیے تم نکلے تھے وہ نیچے کی طرف ساحل کے کنارے کنارے نکل گیا۔ اگر کفار اور تم آپس میں جنگی اصول طے کرتے تو یہ معرکہ کبھی نہیں ہوسکتا تھا کیونکہ جس طرح تم جنگ کرنے میں مترد دتھے اسی طرح کفار کے درمیان بھی اختلاف تھا۔ سیرت کی کتب میں تفصیل ہے کہ بدر سے پہلے ابو جہل اور ان کے ساتھیوں کے درمیان اختلاف ہوا، کہ جب قافلہ بچ کر نکل چکا ہے تو اب جنگ کرنے کا کیا مقصد ؟ لیکن ابو جہل کی رائے غالب آئی جس کے پیچھے اللہ تعالیٰ کی مشیت کار فرما تھی۔ اس آیت میں اسی اختلاف کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ قرآن مجید میں جس طرح غزوہ بدر کی جزیات بیان کی گئی ہیں۔ اس طرح احد، احزاب، فتح مکہ اور غزوۂ تبوک کی جزیات کی تفصیل بیان نہیں کی گئیں کیونکہ اس معرکہ کے بارے میں اللہ تعالیٰ کے ارشادات ہیں کہ ہم نے اس مندرجہ ذیل وجوہات کی بنا پر رزم آرا کیا تھا ١۔ اللہ تعالیٰ اپنی نصرت کے ساتھ حق ثابت کرنا چاہتا تھا تاکہ حق، حق اور باطل، باطل ثابت ہوجائے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاں جو فیصلہ کر رکھا تھا اسے لوگوں کے سامنے آشکار کرنا چاہتا تھا۔ ٣۔ ہلاک ہونے والا دلیل کی بنیاد پر ہلاک ہو اور زندہ رہنے والا دلیل کی بنیاد پر زندہ رہے۔ دلیل پر مرنے اور دلیل کی بنیاد پر زندہ رہنے کا میرے نزدیک دو معانی ہو سکتے ہیں۔ بدر میں مرنے والے کفار نے اپنی آنکھوں سے اللہ کا وہ وعدہ دیکھ لیا۔ جس کے بارے میں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مکہ میں انھیں بتایا کرتے تھے کہ تم جتنی چاہو مخالفت کرلو۔ اللہ تعالیٰ دین کو غالب کرکے رہے گا۔ اسی طرح مسلمانوں نے بھی اپنے رب کا وعدہ سچا پایا گویا کہ دونوں فریق نے حق کی پاسداری اور باطل کی ناپائیداری اپنی آنکھوں سے ملاحظہ کرلی۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو چیز بھی پیدا فرمائی ہے اس کے وجود کی ایک بنیاد قائم فرمائی خواہ وہ چیز روحانی وجود رکھتی ہو یا مادی۔ انسانی وجود روح اور جسم پر مشتمل ہے۔ انسان کا وجود زمین سے بنا ہے۔ اس کی خوراک بھی زمین سے پیدا کی گئی ہے۔ اگر اسے مادی خوراک نہ ملے تو وجود لاغر، کمزور یہاں تک کہ مردہ ہوجاتا ہے۔ روح آفاقی اور اللہ تعالیٰ کا حکم ہے۔ اس کی خوراک روحانی یعنی آسمانی ہے۔ جسے اللہ تعالیٰ نے ہدایت کی شکل میں اتارا ہے۔ جو شخص کفر و شرک کی راہ اختیار کرتا ہے اس کا روح مردہ ہوجاتا ہے۔ اس لحاظ سے حق زندۂ جاوید اور حیات بخش ہے۔ باطل کے لیے دلیل نہ ہونے کی وجہ سے مردہ اور مردگی کی علامت ہے۔ اس بنا پر ایمان والا زندہ اور کفر والا مردہ ہے۔ یہی وہ دلیل ہے جس کی بنا پر مذکورہ بالا حقائق کو نمایاں اور مسلمانوں کو غالب کرنے کے لیے۔ اللہ تعالیٰ نے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خواب میں کفار کی تعداد اصل تعداد سے کم دکھائی۔ آپ نے اسی طرح صحابہ کرام (رض) کے سامنے اپنا خواب بیان فرمایا اور مسلمانوں کی تعداد کفار کو کم دکھائی گئی۔ جس سے فریقین کے حوصلے دوبالا ہوئے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اگر ہم کثیر تعداد دکھلا دیتے تو اے مسلمانو ! تم بزدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے آپس میں اختلاف کرتے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے تمھیں اختلاف سے بچا لیا۔ اسی کا مقصد تھا کہ اللہ وہ کام پورا کردے جو اس کے ہاں ہونا طے پا چکا تھا اور ہر کام کا انجام اللہ ہی کے اختیار میں ہے۔ اللہ تعالیٰ لوگوں کے خیالات اور دلوں کے جذبات کو جاننے والا ہے۔ مسائل ١۔ فریقین کے نہ چاہنے کے باوجود بدر کا معرکہ برپا ہوا۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ اپنا فیصلہ آشکار کرنا چاہتا تھا۔ ٣۔ باطل مردہ اور اس کی دلیل بھی مردہ ہے۔ ٤۔ حق زندۂ جاوید اور اس کی دلیل بھی حیات بخش ہے۔ ٥۔ تمام امور کا انجام اللہ تعالیٰ کے ہاں طے شدہ ہے۔ ٦۔ اللہ تعالیٰ دلوں کے بھید جاننے والا ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ سب کچھ جانتا ہے : ١۔ اللہ تعالیٰ تمھارے نفسوں کی خباثت کو جانتا ہے۔ (البقرۃ: ١٨٧) ٢۔ ہر ایک کی نماز اور تسبیح اللہ جانتا ہے۔ (النور : ٤١) ٣۔ اللہ نے جان لیا جو ان کے دلوں میں ہے۔ (الفتح : ١٨) ٤۔ اللہ تعالیٰ دلوں کے بھید جانتا ہے۔ (المائدۃ: ٧) ٥۔ اللہ پر بھروسا کیجیے کیونکہ وہ سنتا اور جانتا ہے۔ (الانفال : ٦١) ٦۔ اللہ جاننے والا اور حکمت والا ہے۔ (النور : ١٨) ٧۔ اللہ تعالیٰ جانتا ہے جو کچھ آسمانوں اور جو کچھ زمین میں ہے۔ (الحجرات : ١٦) ٨۔ اللہ تعالیٰ لوگوں کے باطن اور ظاہر کو جانتا ہے وہی غیوب کا جاننے والا ہے۔ (التوبۃ: ٧٨) الانفال
43 الانفال
44 الانفال
45 فہم القرآن ربط کلام : غزوۂ بدر کے واقعات کی روشنی میں آئندہ کے لیے ہدایات۔ غزوۂ بدر کے معرکہ سے پہلے مسلمانوں میں اس بات پر کچھ اختلاف تھا کہ اب اس معرکہ کی ضرورت ہے یا واپس مدینہ پلٹ جانا چاہیے لیکن اللہ تعالیٰ کا فیصلہ تھا کہ معرکہ برپا ہو۔ اس لیے مسلمانوں کی کچھ کمزوریوں کو صرف نظر فرما کر ان کی زبردست مدد فرمائی۔ جس کا نتیجہ رہتی دنیا تک قائم رہے گا۔ اب مسلمانوں کو آئندہ کے لیے ہدایات دی جا رہی ہیں کہ جب تمھارا دشمن کے ساتھ آمنا سامنا ہو۔ تو تمھیں ان باتوں کا خاص خیال رکھنا چاہیے۔ بصورت دیگر تم اللہ تعالیٰ کی نصرت و حمایت سے محروم ہوجاؤ گے۔ ١۔ جنگ میں ثابت قدمی دکھانا۔ ٢۔ مسلسل اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنا۔ ٣۔ ہر حال میں اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کرنا۔ ٤۔ باہمی اختلاف اور انتشار سے بچ کر رہنا۔ ٥۔ عسرو یسر میں مستقل مزاجی اور صبر و حوصلہ کا مظاہرہ کرنا۔ ٦۔ اسلام کا نقطۂ نظریہ ہے کہ جنگ سے بچنے کی ہر ممکن کو شش کی جائے۔ لیکن اگر کفار تبلیغ اسلام کے راستے میں رکاوٹ بنیں اور عوام الناس پر مظالم ڈھائیں یا مسلمانوں پر جنگ مسلط کریں تو پھر کفار کے مقابلے میں پیچھے ہٹنے کی بجائے مسلمانوں کو پوری ثابت قدمی کے ساتھ ڈٹ جانا چاہیے اسی کے پیش نظر رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے کہ کفار سے جنگ کی آرزونہ کرو اگر تم پر جنگ مسلط کی جائے تو پھر ثابت قدمی کا مظاہرہ کرو۔ (حوالہ بخاری : کتاب القتال) حالت جنگ میں دشمن کے خلاف ثابت قدمی دکھانا پہلی اور بنیادی بات ہے۔ اس کے بغیر جنگ جیتنے کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔ مجاہد میں ثابت قدمی تبھی پیداہو سکتی ہے جب اس کا دل قائم رہے۔ دل کو قائم رکھنے والا صرف اللہ تعالیٰ ہے کیونکہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان ہے کہ دل اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حضور ہی دل کی استقامت کے لیے دعا کی جائے۔ دعا کی ایک صورت اللہ تعالیٰ کو مسلسل یاد رکھنا ہے۔ جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ لوگو! دلوں کا اطمینان اور سکون میرے ذکر میں ہے۔ ( الرعد : ٢٨) ذکر جتنی کثرت کے ساتھ کیا جائے گا اتنا ہی دل میں ٹھہراؤ اور سکون پیدا ہوگا۔ جب مجاہد کے قدموں میں ثبات اور اس کے دل میں ٹھہراؤ ہو تو اس کی کامیابی یقینی ہے۔ جس کی بشارت دی گئی ہے۔ البتہ کامیابی اس وقت ناکامی میں تبدیل ہو سکتی ہے جب جنگ کے دوران اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نافرمانی کی جائے۔ اس سے مراد شریعت کے مقرر کردہ جنگ کے اصول و ضوابط کی پابندی، برائی اور بے حیائی سے اجتناب اور اعلاء کلمۃ اللہ کے لیے لڑنا ہے۔ اس کے ساتھ ہی مسلمانوں کو بالعموم اور مجاہدین کو بالخصوص باہمی اختلافات سے بچنے کا حکم دیا ہے۔ ظاہر ہے کہ اگر دشمن کو مسلمانوں کے باہمی اختلاف کا علم ہوجائے تو ان کے حوصلے بلند ہوں گے کیونکہ اختلاف کی وجہ سے قوم کا اجتماعی رعب اور دبدبہ ختم ہوجاتا ہے۔ آخر میں صبر کی تلقین کی گئی ہے۔ صبر کا معنی مستقل مزاجی اور تنگی اور خوشحالی میں حوصلہ رکھنا ہے۔ جنگ کے دوران اس بات کی سب سے زیادہ ضرورت ہوتی ہے کیونکہ جنگ کے دوران بھوک، پیاس اور ہر قسم کی تکلیف سے مجاہد کو واسطہ پڑتا ہے ان حالات میں مجاہدین صبر و استقامت کا مظاہرہ کریں گے تو یقیناً اللہ تعالیٰ ان کی مدد فرمائے گا جس کی تازہ مثال بدر میں مسلمان دیکھ چکے تھے۔ (عَنْ سَالِمٍ أَبِی النَّضْرِ مَوْلَی عُمَرَ بْنِ عُبَیْدِ اللّٰہِ وَکَانَ کَاتِبًا لَہٗ قَالَ کَتَبَ إِلَیْہِ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ أَبِی أَوْفَی (رض) فَقَرَأْتُہُ إِنَّ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فِی بَعْضِ أَیَّامِہِ الَّتِی لَقِیَ فیہَا انْتَظَرَ حَتَّی مَالَتْ الشَّمْسُ ثُمَّ قَامَ فِی النَّاسِ خَطِیبًا قَالَ أَیُّہَا النَّاسُ لَا تَتَمَنَّوْا لِقَاءَ الْعَدُوِّ وَسَلُوا اللّٰہَ الْعَافِیَۃَ فَإِذَا لَقِیتُمُوہُمْ فَاصْبِرُوا واعْلَمُوا أَنَّ الْجَنَّۃَ تَحْتَ ظِلَال السُّیُوفِ ثُمَّ قَال اللّٰہُمَّ مُنْزِلَ الْکِتَابِ وَمُجْرِیَ السَّحَابِ وَہَازِمَ الْأَحْزَابِ اہْزِمْہُمْ وَانْصُرْنَا عَلَیْہِمْ) [ رواہ البخاری : کتاب الجہاد والسیر ] ” حضرت سالم، ابونضر جو کہ عمر بن عبیداللہ کے غلام ہیں اور وہ ان کے مکاتب ہیں۔ فرماتے ہیں کہ ان کی طرف عبیداللہ بن ابو اوفی (رض) نے خط لکھا میں نے اسے پڑھا۔ اس میں تھا رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جن دنوں غزوہ میں کفار کے خلاف برسر پیکار تھے۔ انتظار کیا یہاں تک کہ سورج ڈھل گیا پھر نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لوگوں میں کھڑے ہو کر فرمایا اے لوگو! دشمن سے سامنا کی خواہش نہ کرو۔ اللہ تعالیٰ سے عافیت طلب کرو۔ جب تمہارا دشمن سے سامنا ہوجائے تو ڈٹ جاؤ اور جانو بلاشبہ جنت تلواروں کے سائے تلے ہے۔ پھر دعا کی اے اللہ کتاب نازل فرمانے والے اور بادلوں کو چلانے والے اور لشکروں کو شکست دینے والے۔ دشمن کو شکست دے اور ان کے مقابلے میں ہماری مدد فرما۔ مسائل ١۔ مجاہدین کو جنگ میں ثابت قدمی کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ ٢۔ مسلمان کو ہر وقت بالخصوص حالت جنگ میں اللہ تعالیٰ کو کثرت کے ساتھ یاد کرنا چاہیے۔ ٣۔ مسلمان کو ہر حال میں اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کرنی چاہیے۔ ٤۔ باہمی اختلاف سے بچنا چاہیے۔ کیونکہ اختلاف میں ساکھ اور وقار ختم ہوجاتا ہے۔ ٥۔ عسر ویسر میں مستقل مزاجی اور صبر و حوصلہ سے کام لینا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن اللہ کا ذکر کثرت کے ساتھ کرنا چاہیے : ١۔ صبح اور شام اللہ کا ذکر کثرت سے کرو۔ (آل عمران : ٤١) ٢۔ نماز جمعہ کی ادائیگی کے بعد زمین میں نکل جاؤ اور اللہ کو کثرت سے یاد کرو۔ (الجمعۃ: ١٠) ٣۔ ایام تشریق میں اللہ کو زیادہ یاد کرو۔ (البقرۃ: ٢٠٢) ٤۔ جب حج کے مناسک ادا کر چکو تو اللہ کو یاد کرو۔ (البقرۃ: ١٩٨) ٥۔ جنگ کے دوران۔ اللہ کو کثرت سے یاد کرو تاکہ تم کامیاب ہوجاؤ۔ (الانفال : ٤٥) ٦۔ اے ایمان والو ! اللہ کو کثرت سے یاد کرو۔ (الاحزاب : ٤١) ٧۔ جب نماز ادا کر چکو تو۔ اللہ کو یاد کرو۔ (النساء : ١٠٣) ٨۔ اللہ کو کثرت سے یاد کرنے والوں کے لیے مغفرت اور بڑا اجر ہے۔ (الاحزاب : ٣٥) الانفال
46 الانفال
47 فہم القرآن ربط کلام : جنگ کے بارے میں مزید ہدایات۔ جنگ میں کامیابی حاصل کرنے کی ہدایات دینے کے بعد شکست سے دو چار کردینے والی مذموم حرکات سے روکا گیا ہے۔ ١۔ غرور، تکبر اور اترانے سے اجتناب کرنا چاہیے۔ ٢۔ شہرت، نمائش سے بچ کر اخلاص کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ ٣۔ بے مقصد جنگ کرنے کے بجائے اللہ کی رضا کے لیے جہاد کرنا چاہیے۔ مشرکین مکہ بدر کے لیے نکلے تو ان میں اس قدر غرور تھا کہ وہ مسلمانوں کے ہاتھوں شکست کھانے کا سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔ ابو جہل اور اس کے ساتھیوں کی حالت یہ تھی کہ جس کسی نے انھیں سمجھانے کی کوشش کی کہ جب تجارتی قافلہ بچ کر مکہ پہنچ چکا ہے اور قافلے کے سردار ابو سفیان کا پیغام آچکا ہے کہ اب لڑنے کی بجائے واپس آجانا چاہیے۔ اس کے بعد آگے بڑھنے کا کیا جواز ہے ؟ اس کا جواب ابو جہل یہی دیتا کہ ہم چاہتے ہیں کہ مسلمانوں کا صفایا کردیا جائے۔ اس غرور اور تکبر کے ساتھ وہ آگے بڑھتے رہے اور جہاں پڑاؤ ڈالتے، شراب اور شباب کا دور چلتا۔ مکہ سے نکلتے وقت انھوں نے ناچ گانے اور عیاشی کے لیے کچھ بے حیا عورتوں کو ساتھ لیا ہوا تھا۔ اس گھناؤنے کردار کے ساتھ ان کا جنگ کرنے کا مقصد محض عربوں پر دھاک بٹھانا اور شہرت حاصل کرنا تھا۔ تاکہ لوگ ان کی کامیابی اور قوت و سطوت دیکھ کر اسلام قبول کرنے سے رک جائیں۔ انھیں کیا خبر کہ انسان کی تدبیر اور اس کی کوئی کوشش بھی اللہ تعالیٰ کے احاطۂ قدرت سے باہر نہیں۔ اللہ تعالیٰ کے احاطۂ قدرت کا نتیجہ ہے کہ جب کوئی شخص یا قوم اس کی مقرر کی ہوئی حد سے آگے بڑھتی ہے تو وہ اسے ذلیل و خوار کردیتا ہے۔ کفار کا مقصد لوگوں کو اللہ تعالیٰ کے راستے سے روکنا اور دنیوی رعب اور دبدبہ جمانے کے سوا کچھ نہیں تھا۔ اس لیے شکست اور ذلت ان کا مقدر ٹھہری۔ مسلمانوں کو ان حرکات سے منع کیا گیا ہے۔ ان کے مقابلے میں صحابہ کرام (رض) کا مقصد اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کے دین کو بلند کرنا تھا جس کی وجہ سے وہ تھوڑے اور کمزور ہونے کے باوجود فتح یاب ہوئے۔ (عَنْ أَبِی مُوْسٰی (رض) قَالَ جَاءَ رَجُلٌ إِلَی النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَقَال الرَّجُلُ یُقَاتِلُ حَمِیَّۃً وَیُقَاتِلُ شَجَاعَۃً وَیُقَاتِلُ رِیَاءً فَأَیُّ ذٰلِکَ فِی سَبِیل اللّٰہِ قَالَ مَنْ قَاتَلَ لِتَکُونَ کَلِمَۃُ اللّٰہِ ہِیَ الْعُلْیَا فَہُوَ فِی سَبِیل اللّٰہِ) [ رواہ البخاری : کتاب التوحید، باب قَوْلِہِ تَعَالَی (وَلَقَدْ سَبَقَتْ کَلِمَتُنَا لِعِبَادِنَا الْمُرْسَلِینَ)] ” حضرت ابو موسیٰ (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اس نے کہا ایک آدمی اس لیے قتال کرتا ہے کہ اسے غیرت مند اور حمیت والا کہا جائے اور وہ بہادری جتلانے کے لیے لڑتا ہے دوسرا آدمی وہ ہے جو لوگوں کے دکھاوے کے لیے لڑتا ہے۔ ان میں سے کون سا قتال فی سبیل اللہ ہے ؟ نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو اس لیے لڑتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا دین غالب ہو وہ جہاد فی سبیل اللہ ہے۔“ مسائل ١۔ جہاد صرف اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے ہونا چاہیے۔ ٢۔ غرور اور تکبر نہیں کرنا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ ہر چیز کا احاطہ کیے ہوئے ہے : ١۔ آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے وہ اللہ ہی کے لیے ہے۔ اللہ نے ہر چیز کو اپنے احاطہ قدرت میں لے رکھا ہے۔ (النساء : ١٢٦) ٢۔ لوگ جو کچھ کرتے ہیں ان سب چیزوں کو اللہ نے احاطہ میں لے رکھا ہے۔ (النساء : ١٠٨) ٣۔ حضرت شعیب (علیہ السلام) نے کہا کہ بے شک میرے رب نے جو تم کرتے ہو اس کا احاطہ کیا ہوا ہے۔ (ھود : ٩٢) ٤۔ جو وہ عمل کرتے ہیں اللہ نے اس کا احاطہ کر رکھا ہے۔ (آل عمران : ١٢٠) ٥۔ اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کا اپنے علم کے ذریعہ احاطہ کر رکھا ہے۔ (الطلاق : ١٢) ٦۔ اللہ تعالیٰ کے علم کا کوئی احاطہ نہیں کرسکتا۔ (البقرۃ: ٢٥٥) الانفال
48 فہم القرآن ربط کلام : بدرکے دن شیطان کا کردار۔ لوگوں کو اللہ کے راستے سے روکنا، فخر و غرور اور نمود و نمائش کا مظاہرہ کرنا شیطانی کام ہے۔ شیطان ان کاموں کو خوبصورت بنا کر پیش کرتا ہے۔ اللہ کے راستے کو اختیار کرنا، عاجزی اپنانا اور فخر و غرور، ریاکاری سے اجتناب کرنا۔ اللہ تعالیٰ کی توفیق کا نتیجہ ہے اس کے مقابلے میں فخر و غرور، نمود و نمائش اور اللہ تعالیٰ کی راہ میں رکاوٹ بننا شیطان کی طرف سے ہوتا ہے۔ شیطان برائی پر پکا رکھنے کے لیے رواج، خاندانی روایات اور برائی کو خوبصورت بنا کر فیشن کے طور پر دکھاتا ہے۔ اکثر اوقات شیطان انسانوں کے ذریعے ایسے کاموں کی حوصلہ افزائی کرتا ہے اور کبھی خود بھی کسی آدمی کی شکل میں آکر برائی کرنے والے کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ جس کابرائی کرنے والے کو علم نہیں ہوتا ایسی ہی صورت حال بدر کے میدان میں پیش آئی۔ پہلے تو شیطان نے مشرکین مکہ میں ایسا ماحول پیدا کیا کہ وہ یہ سمجھتے ہوئے میدان بدر کی طرف بڑھے کہ آج ہمارے سامنے کوئی نہیں ٹھہر سکتا۔ لیکن مسلمانوں کا کٹ مرنے کا جذبہ دیکھا تو پھر سوچنے پر مجبور ہوئے۔ قریب تھا کہ وہ جنگ سے پسپائی اختیار کرتے لیکن اس حالت میں شیطان سراقہ بن مالک بن جعشم مدلجی کی شکل میں آیا اور اس نے آکر کہا کہ مسلمانوں کے خلاف ڈٹ جاؤ۔ میرا قبیلہ بھی تمھاری مدد کے لیے پہنچنے والا ہے۔ لیکن جب دونوں جماعتوں نے صف بندی کی اور مسلمانوں کی حمایت میں ملائکہ قطار اندر قطار اترنا شروع ہوئے تو شیطان گھبرا کر پیچھے مڑا اور یہ کہتے ہوئے کفار کے لشکر سے نکل گیا کہ میرا تمھارے ساتھ کوئی واسطہ نہیں۔ جو کچھ میں دیکھ رہا ہوں تم نہیں دیکھتے۔ مجھے رب ذوالجلال سے ڈر لگ رہا ہے۔ کیونکہ جب وہ پکڑنے پر آتا ہے تو اس کی پکڑ بڑی شدید ہوا کرتی ہے۔ (الرحیق المختوم) اس سے ثابت ہوتا ہے کہ کبھی کبھی شیطان بھی رب ذوالجلال سے ڈرتا ہے حالانکہ اسے شیطنت کے لیے قیامت تک مہلت دی گئی ہے۔ مسائل ١۔ شیطان لوگوں کے لیے برے اعمال کو خوبصورت بنا کر پیش کرتا ہے۔ ٢۔ شیطان کے وسوسے اور خیالات دھوکے کے سوا کچھ نہیں ہوتے۔ ٣۔ کبھی کبھار شیطان انسان کی شکل اختیار کرکے لوگوں میں گمراہی پھیلاتا ہے۔ ٤۔ کبھی شیطان بھی اللہ تعالیٰ سے ڈر جاتا ہے۔ تفسیر القرآن شیطان کن لوگوں کے اعمال خوبصورت بناتا ہے : ١۔ اکثر مشرکین کے لئے قتل اولاد کا عمل مزین کردیا۔ (الانعام : ١٣٧) ٢۔ قوم عاد و ثمود کے اعمال بد کو شیطان نے مزین کردیا۔ (العنکبوت : ٣٨) ٣۔ ہر گروہ کے بد اعمال کو شیطان نے ان کے لیے مزین کردیا۔ (الانعام : ١٠٩) ٤۔ ظالموں کے دل سخت ہوگئے اور شیطان ان کے اعمال کو مزین کر دکھاتا ہے۔ (الانعام : ٤٣) ٥۔ اللہ کے علاوہ سورج کو سجدہ کرنے والوں کے برے اعمال کوشیطان نے ان کے لیے مزین کردیا۔ (النمل : ٢٤) الانفال
49 فہم القرآن ربط کلام : بدر کے موقع پر منافقین کا رد عمل۔ منافق کا لفظ ” نفق“ سے نکلا ہے جس کا معنی ہے کہ چوہے کی ایسی بل جس کے دو منہ ہوں۔ اگر ایک منہ بند کردیا جائے تو چوہا دوسری طرف سے نکل جائے جب تک بل کے دونوں منہ بند نہ کیے جائیں چوہا قابو نہیں آسکتا۔ منافق کو اس لیے منافق کہتے ہیں کہ اگر اسے مسلمانوں کی طرف سے فائدہ ہو تو وہ اسلام اسلام پکارتا ہے اگر دین کے حوالے سے کسی آزمائش سے واسطہ پڑے تو وہ کافروں کا ہمدرد بن کر ان سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتا ہے۔ انسانی جسم دو چیزوں سے مکمل ہوا ہے روح اور جسم، روح آفاقی ہے اور جسم زمین سے بنا ہے۔ جسم کی خوراک کا تعلق زمین سے ہے، روح کا تعلق اخلاقیات اور ایمانیات سے ہے۔ جس طرح جسم کو بیماریاں لاحق ہوتی ہیں۔ اسی طرح روح کو بھی بیماریاں لگتی ہیں۔ روح کی بیماریوں میں نفاق ایک بد ترین بیماری ہے۔ جو روحانی اور اخلاقی مرض ہے۔ جس کی وجہ سے انسان کا کردار دوغلا ہوجاتا ہے اور وہ مفاد کا بندہ ہونے کی وجہ سے ہمیشہ طاقتور دھڑے کا ساتھ دیتا ہے۔ یہی کردار بدر کے موقع پر منافقوں کا تھا۔ جب انھوں نے مسلمانوں کو بدر کی طرف جاتے ہوئے دیکھا تو آپس میں کہنے لگے کہ یہ وہ لوگ ہیں جنھیں ان کے دین نے دھوکے میں ڈال دیا ہے یہ سمجھتے ہیں کہ اللہ کی مدد ہمارے شامل حال ہوگی۔ کیونکہ ہم مسلمان ہیں۔ اس کے ساتھ منافق سمجھتے تھے کہ مسلمان جان بوجھ کر موت کے منہ میں جا رہے ہیں اور ان کا واپس آنا مشکل ہے لیکن انھیں کیا خبر تھی کہ جو اللہ تعالیٰ پر توکل کرتا ہے اللہ تعالیٰ اسے مشکلات میں سرخرو فرماتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ غالب، حکمت والا ہے۔ یہ بات پہلے بھی عرض کی جا چکی ہے کہ ہر آیت کے اختتامی الفاظ اس کے مفہوم کا خلاصہ ہوتے ہیں۔ اس معرکہ میں اللہ تعالیٰ کی حکمت یہ تھی کہ حق و باطل میں امتیاز ہوجائے۔ اس لیے بدر کا معرکہ ناگزیر ہوا۔ اللہ تعالیٰ نے یہاں ” العزیز“ صفت اس لیے لائی ہے تاکہ منافقوں کو معلوم ہوجائے کہ غلبہ اور کامیابی حربی طاقت اور افرادی قوت پر منحصر نہیں مدد تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوا کرتی ہے۔ (قَالَ أَبُو ہُرَیْرَۃَ (رض) إِنَّ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کَانَ یَدْعُو یَقُول اللَّہُمَّ إِنِّی أَعُوذُ بِکَ مِنَ الشِّقَاقِ وَالنِّفَاقِ وَسُوءِ الأَخْلاَقِ )[ رواہ ابوداوٗد : باب فِی الاِسْتِعَاذَۃِ] ” حضرت ابو ہریرۃ (رض) بیان کرتے ہیں کہ بے شک رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دعا فرمایا کرتے تھے۔ اے اللہ میں تیری پناہ میں آتا ہوں بدبختی، نفاق اور برے اخلاق سے۔“ مسائل ١۔ منافقت ایک روحانی بیماری ہے جس سے بچنا چاہیے۔ ٢۔ منافق ہمیشہ اپنے مفاد کو سامنے رکھتا ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ پر توکل کرنے والا حقیقی کامیابی حاصل کرتا ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرنے والی جماعت : ١۔ اللہ پر بھروسہ کرنے والوں کو اسی پر بھروسا کرنا چاہیے۔ (یوسف : ٦٧) ٢۔ مومن اللہ پر ہی بھروسہ کرتے ہیں۔ (المائدۃ: ١١) ٣۔ مومنوں کو اللہ پر ہی بھروسہ کرنا چاہیے۔ (التوبۃ: ٥١) ٤۔ جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کسی کام کا عز م کرلیں تو اللہ پر بھروسہ کریں۔ (آل عمران : ١٥٩) ٥۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان سے اعراض کریں پھر اللہ پربھروسہ کریں کیوں کہ اللہ ہی نگہبان ہے۔ (النساء : ٨١) ٦۔ سب کاموں کا انجام اللہ کی جانب ہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اسی کی عبادت کریں اور اسی پربھروسہ کریں۔ (ھود : ١٢٣) ٧۔ اگر تم مومن ہو تو اللہ پر ہی بھروسہ کرو۔ (المائدۃ: ٢٣) ٨۔ صابر لوگ اللہ پربھروسہ کرنے والے ہیں۔ (العنکبوت : ٥٩) الانفال
50 فہم القرآن ربط کلام : منافق کا انجام اور موت کے وقت اس کی سزا۔ ” تَرٰی“ کا معنی ہے بصیرت یا جسمانی آنکھوں کے ساتھ کسی چیز کو دیکھنا۔ یہاں صاحب ایمان شخص کو توجہ دلائی گئی ہے کہ اگر وہ بصیرت یا بصارت کے ساتھ منافقین کی موت کا وقت دیکھ سکے تو اسے معلوم ہو کہ ان کا انجام کتنا بد ترین ہوتا ہے۔ موت کے فرشتے ان کے چہروں اور کمروں پرتھپڑ مارتے ہوئے کہتے ہیں کہ اب جہنم کا جلا دینے والا عذاب ہمیشہ کے لیے چکھتے رہو۔ اس آیت سے پہلے منافقوں کا ذکر ہو رہا تھا لیکن ان کا انجام بیان کرتے ہوئے منافق کی بجائے کافر کا لفظ استعمال کیا ہے کیونکہ منافق بظاہر کلمہ گو اور مسلمانوں جیسے کام کرتا ہے لیکن اصلاً وہ اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا منکر ہوتا ہے۔ اس لیے حقیقتاً وہ کافر ہوتا ہے۔ اگر اس کا اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان ہو تو وہ نہ مسلمانوں کو دھوکہ دے اور نہ ہی آخرت کے بدلہ میں دنیاوی مفاد کو ترجیح دے۔ یہ سزا ان کے اپنے کردار کا نتیجہ ہوگی کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر ظلم نہیں کرتا۔ منافق دنیا میں اللہ کا مخلص بندہ بننے کی بجائے اپنے مفاد کے بندہ بن کر رہا۔ موت کے وقت اسے ہمدردی اور اللہ تعالیٰ کی رحمت کی ضرورت تھی لیکن یہ منافقت اور دوغلے کردار کی وجہ سے موت کے نازک لمحات میں بھی اللہ تعالیٰ کی رحمت سے محروم ٹھہرا اور قیامت کے دن اسے جہنم کے سب سے نچلے طبقہ میں پھینکا جائے گا۔ (سورۃ النساء : ١٤٥) سورۃ الانعام : آیت ٩٣ میں ہے کہ جب ایسے لوگوں کی جان قبض کی جاتی ہے تو موت کے فرشتے انہیں مارتے ہوئے کہتے ہیں کہ اپنی جان کیوں نہیں نکالتے ہو؟ ” حضرت برا بن عازب (رض) بیان کرتے ہیں ہم نبی مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ انصار کے کسی آدمی کے جنازہ کے لیے نکلے ہم قبرستان پہنچے تو ابھی قبر کھودی نہیں گئی تھی۔ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بیٹھ گئے ہم بھی ان کے ارد گرد بیٹھ گئے جیسے ہمارے سروں پر پرندے بیٹھے ہوں، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہاتھ میں ایک چھڑی تھی آپ اس کے ساتھ زمین کو کرید رہے تھے آپ نے اپنا سر اٹھاتے ہوئے دو یا تین مرتبہ فرمایا قبر کے عذاب سے پناہ مانگو پھر فرمایا۔۔ جب کافر دنیا کو چھوڑ کر آخرت کی طرف جا رہا ہوتا ہے تو اس کے پاس آسمان سے کالے چہروں والے فرشتے آتے ہیں ان کے ہاتھ میں بدبودار بوری ہوتی ہے وہ حد نگاہ تک اس کے؟ پاس بیٹھ جاتے ہیں، پھر اس کے پاس ملک الموت آتا ہے یہاں تک کہ اس کے سر کے پاس بیٹھ جاتا ہے وہ کہتا ہے اے خبیث نفس! اللہ تعالیٰ کی ناراضگی اور غضب کی طرف چل۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا وہ اس کی روح کو اس طرح نکالتے ہیں جس طرح گرم سلائی کو روئی سے نکالا جاتا ہے وہ اس کی روح کو نکال کر جس تھیلے میں ڈالتے ہیں اس سے اتنی بدبو نکلتی ہے جس طرح لاش سے گندی بدبو زمین پر پھیلتی ہے وہ اس کو لے کر آسمانوں کی طرف بڑھتے ہیں۔ فرشتوں کے جس گروہ کے پاس سے بھی گزرتے ہیں وہ کہتے ہیں یہ خبیث روح کون سی ہے۔ موت کے فرشتے کہتے ہیں یہ فلاں بن فلاں ہے اس کے برے نام لے کر اس کو بلاتے ہیں یہاں تک کہ وہ آسمان دنیا تک پہنچتے ہیں وہ اس کو کھلوانا چاہتے ہیں مگر اسے کھولا نہیں جاتا، پھر نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس آیت مبارکہ کی تلاوت فرمائی :” ان کے لیے آسمان کے دروازے نہیں کھولے جائیں گے نہ وہ جنت میں داخل ہوں گے یہاں تک کہ سوئی کے سوراخ میں اونٹ داخل ہوجائے“ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس کے لیے زمین کی تہہ میں ٹھکانہ بناؤ۔ پھر اس کی روح کو نیچے پھینک دیا جاتا ہے۔ نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس آیت مبارکہ کی تلاوت فرمائی ” جو کوئی اللہ کے ساتھ شرک کرے گا گویا کہ وہ آسمان سے گرا اور اسے پرندے اچک لیں یا اس کو ہوائیں کسی دور دراز مقام پر پھینک دیں“ پھر اس روح کو اس کے بدن میں لوٹا دیا جاتا ہے اور اس کے پاس دو فرشتے آتے ہیں جو اس کو بٹھاتے ہیں اور اس کو کہتے ہیں تیرا رب کون ہے ؟ وہ کہتا ہے ہائے ہائے میں نہیں جانتا، پھر فرشتے کہتے ہیں تیرا دین کیا ہے تو وہ کہتا ہے ہائے ہائے میں نہیں جانتا، پھر فرشتے کہتے ہیں یہ شخص کون ہے جو تم لوگوں میں نبی مبعوث کیا گیا ؟ تو وہ کہتا ہے ہائے ہائے میں نہیں جانتا۔ آسمانوں سے آواز دینے والا آواز دیتا ہے کہ یہ جھوٹ بول رہا ہے تم اس کا بچھونا آگ کا بنا دو اور آگ کا دروازہ اس کی طرف کھول دو۔ اس کے پاس اس آگ کی گرمی اور بدبو آتی ہے۔ اس کی قبر تنگ کردی جاتی ہے یہاں تک کہ اس کی پسلیاں ایک دوسرے میں گھس جاتی ہیں اور اس کے پاس بدصورت گندے کپڑے اور بدبو دار جسم کے ساتھ آدمی آتا ہے تو وہ کہتا ہے آج خوش ہوجا تجھے ذلیل کیا جائے گا وہ کہتا ہے کہ تم کون ہو اس طرح کی شکل والے جو اتنی بری بات کے ساتھ آئے ہو تو وہ کہے گا میں تیرا بد عمل ہوں وہ کہے گا اے میرے رب کبھی قیامت قائم نہ کرنا۔“ [ مسند احمد] مسائل ١۔ منافق اور کافر کی روح قبض کرتے وقت فرشتے نہایت ہی سختی کرتے ہیں۔ ٢۔ برے لوگوں کے لیے جلانے والا عذاب ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر ظلم نہیں کرتا۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر ظلم نہیں کرتا : ١۔ اللہ اپنے بندوں پر ظلم نہیں کرتا لیکن لوگ خود اپنی جانوں پر ظلم کرتے ہیں۔ (التوبۃ: ٧٠) ٢۔ اللہ اپنے بندوں پر ظلم نہیں کرتا لیکن وہ خود اپنی جانوں پر ظلم کرتے ہیں۔ (العنکبوت : ٤٠) ٣۔ اللہ اپنے بندوں پر ظلم نہیں کرتا لیکن وہ خود اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں۔ (الروم : ٩) ٤۔ اللہ لوگوں پر ذرہ بھر ظلم نہیں کرتا لیکن لوگ خود اپنی جانوں پر ظلم کرتے ہیں۔ (یونس : ٤٤) ٥۔ قیامت کے دن لوگ اپنے اعمال کو اپنے روبرو پائیں گے اور تیرا رب کسی پر ظلم نہیں کرے گا۔ (الکھف : ٤٩) ٦۔ قیامت کے دن انصاف کا ترازو قائم کیا جائیگا اور کسی پر کچھ ظلم نہیں ہوگا۔ (الانبیاء : ٤٧) ٧۔ آج کے دن کسی پر ظلم نہیں کیا جائیگا اور ہر کسی کو اس کے اعمال کا صلہ دیا جائیگا۔ یٓس : ٥٤) ٨۔ جو شخص نیک اعمال کرتا ہے اس کا صلہ اسی کے لیے ہے اور جو برے اعمال کرے گا اس کا وبال اسی پر ہوگا اور تیرا رب اپنے بندوں پر ظلم نہیں فرمائے گا۔ (حٰم السجدۃ: ٤٦) الانفال
51 الانفال
52 فہم القرآن ربط کلام : مشرکین مکہ کا انجام : جس طرح فرعون اور اس کے ساتھی تکبر اور غرور کی وجہ سے دنیا میں ذلیل اور آخرت میں اللہ کے عذاب میں مبتلا ہوئے اسی طرح مشرکین مکہ دنیا میں خوار ہوئے اور آخرت میں اللہ تعالیٰ کے عذاب میں گرفتار ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ نے سورۃ مزمل میں اہل مکہ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ ہم نے تمھاری طرف ایسا رسول بھیجا ہے جس طرح کا رسول فرعون کے پاس بھیجا تھا۔ اس اعتبار سے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کی قوم اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کی قوم کے انکار اور کردار میں گہری مماثلت پائی جاتی ہے۔ اسی بنا پر بدر کے واقعات، اہل مکہ اور منافقین کا کردار اور انجام بیان کرنے کے دوران فرعون اور آل فرعون کا ذکر ضروری سمجھا گیا ہے۔ جس طرح فرعون اپنے آپ کو رب اعلیٰ سمجھتا تھا۔ اللہ تعالیٰ کے احکام اور موسیٰ (علیہ السلام) کے معجزات کا مسلسل انکار کرکے اپنے انجام کو پہنچا اسی طرح ابو جہل اور اس کے ساتھی (اَنَا وَلَا غَیْرِیْ) کا دعویٰ کرتے ہوئے اللہ کی آیات کے منکرٹھہرے اور رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے معجزات کا متواتر انکار کرتے رہے۔ جس طرح فرعون اور اس کے ساتھی موسیٰ (علیہ السلام) کے تعاقب میں اندھے ہوئے تھے اسی طرح ابو جہل اور اس کے ساتھی اپنے غرور وتکبر اور طاقت کے زعم میں اندھے ہو کر بدر کی طرف نکلے تھے۔ چنانچہ ان کا انجام بھی آل فرعون کی طرح دنیا نے دیکھا فرعون نے ڈبکیاں لیتے ہوئے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور ہارون (علیہ السلام) کے رب پر ایمان لانے کا اظہار کیا تھا۔ لیکن ابو جہل نے مرتے وقت بھی یہ کہا کہ مجھے افسوس ہے کہ مجھے مارنے والے قریشی جوانوں کے بجائے انصار کے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں گویا کہ یہ آخری وقت فرعون سے بڑھ کر فرعون نکلا اس لیے اس کی لاش کو بدر کے ویران کنویں میں ڈالتے ہوئے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تھا کہ یہ میری امت کا فرعون تھا۔ ( البدایہ والنھایہ) جس طرح آل فرعون اپنے گناہوں کی وجہ سے پکڑے گئے اسی طرح ابو جہل اور اس کی ساتھی اپنے جرائم کی بنا پر اللہ کی گرفت میں آئے۔ اللہ تعالیٰ سخت ترین گرفت کرنے والا ہے۔ اللہ تعالیٰ کسی قوم پر کیے ہوئے اپنے انعام کو نہیں بدلتاجب وہ قوم اپنی بدکردارکے ذریعے اسے بدل نہ دے اللہ تعالیٰ ہر بات کو سننے والا اور کام کو جاننے والا ہے۔ مسائل ١۔ آل فرعون اور مشرکین کا کردار اور انجام ایک جیسا ہوا۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ لوگوں کو ان کے گناہوں کی وجہ سے عذاب دیتا ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ مجرموں کی شدید گرفت کرنے والا ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ سخت عذاب دینے والا ہے : ١۔ اچھی طرح ذہن نشین کرلو کہ اللہ تعالیٰ کی پکڑ بڑی سخت ہے۔ (المائدۃ: ٩٨) ٢۔ اللہ تعالیٰ کفر کرنے والوں کو سخت ترین عذاب سے دو چار کرے گا۔ (آل عمران : ٥٦) ٣۔ اللہ کی آیات کے ساتھ کفر کرنے والوں کے لیے سخت ترین عذاب ہے۔ (آل عمران : ٤) ٤۔ اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کرنے والوں کے لیے شدید عذاب ہے۔ (الانفال : ١٣) الانفال
53 الانفال
54 فہم القرآن ربط کلام : گزشتہ سے پیوستہ : آل فرعون کی طرح اہل مکہ کی تباہی ان کے گناہوں کی وجہ سے ہوئی ورنہ اللہ تعالیٰ کسی کو بے وجہ نہ تباہ کرتا ہے اور نہ ہی اپنے انعام کو عتاب میں تبدیل کرتا ہے۔ قرآن مجید اپنے طے شدہ اسلوب کے مطابق وضاحت کرتا ہے کہ آل فرعون کی اقتدار اور اختیار سے محرومی، مصر جیسے سبز و شاداب ملک سے بےدخلی اور انواع و اقسام کی نعمتوں کے بدلے مختلف قسم کی تنگیوں اور مصائب میں مبتلا ہونے کا سبب یہ نہیں تھا کہ اللہ تعالیٰ نے بلاوجہ انھیں اپنی نعمتوں سے محروم کردیا۔ یہ تو کسی قوم کا مسلسل منفی کردار ہوتا ہے جس کی وجہ سے وہ اجتماعی طور پر اللہ تعالیٰ کے انعام و کرام سے محروم ہو کر مصائب و آلام میں گھر جاتی ہے۔ یہاں تک کہ انھیں آنے والی نسلوں کے لیے عبرت کا نشان بنا دیا جاتا ہے۔ اس سے پہلی آیت میں آل فرعون کا جرم یہ بیان کیا ہے کہ وہ اللہ کی آیات یعنی اس کے احکام کا انکار کرنے والے تھے۔ یہاں آل فرعون اور اس سے پہلی اقوام کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا ہے کہ وہ اپنے رب کی آیات کا انکار کرنے والے تھے جس کی وجہ سے ہم نے انھیں غرق کردیا اور وہ سب کے سب ظالم تھے۔ ایسے لوگ اللہ تعالیٰ کے نزدیک زمین پر چلنے والے جانوروں سے بد ترین ہیں۔ لفظ رب کا ایک معنی ہے پالنے اور مختلف قسم کی نعمتوں سے نوازنے والا۔ یہاں رب کا لفظ استعمال فرما کر اپنی قربت کا احساس دلاتے ہوئے اپنی نعمتوں کی یاد دہانی کروائی ہے۔ یاد رہے اللہ کے نام میں جلال اور اسم رب میں محبت و قربت کا احساس پایا جاتا ہے۔ (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَ (رض) قَالَ کَانَ مِنْ دُعَاءِ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللّٰہُمَّ إِنِّی أَعُوذُ بِکَ مِنْ زَوَالِ نِعْمَتِکَ وَتَحَوُّلِ عَافِیَتِکَ وَفُجَاءَ ۃِ نِقْمَتِکَ وَجَمِیعِ سَخَطِکَ) [ رواہ مسلم : کتاب الذکر والدعاء ] ” حضرت عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں رسول مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعاؤں میں سے یہ ایک دعا ہے۔” اللّٰہُمَّ إِنِّی أَعُوذُ بِکَ مِنْ زَوَالِ نِعْمَتِکَ وَتَحَوُّلِ عَافِیَتِکَ وَفُجَاءَ ۃِ نِقْمَتِکَ وَجَمِیعِ سَخَطِک“ (اے اللہ میں تیری نعمتوں کے زوال، تیری عافیت کے پھرنے، اور تیرے اچانک عذاب اور ہر طرح کے غصے سے پناہ مانگتا ہوں۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ بلاوجہ اپنی نعمت واپس نہیں لیتا۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ ہر بات سننے والا اور ہر کسی کے ارادے کو جاننے والا ہے۔ ٣۔ آل فرعون نے اللہ تعالیٰ کی آیات کی تکذیب کی جس کی وجہ سے انھیں غرق کردیا گیا۔ ٤۔ مشرکین مکہ کا انجام بھی آل فرعون کی طرح ہوا۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کی بات کو نہ ماننے والے لوگ چوپاؤں سے بدتر ہیں۔ تفسیر بالقرآن فرعون اور آل فرعون کا انجام : ١۔ فرعون اور اس کے لاؤلشکر کو اللہ تعالیٰ قحط سالی میں مبتلا کردیا۔ (الاعراف : ١٣٠) ٢۔ فرعون اور اس کے لاؤلشکر کو اللہ تعالیٰ نے غر ق فرمادیا۔ ( البقرۃ: ٥٠) ٣۔ اللہ تعالیٰ نے آل فرعون کی گناہوں کی پاداش میں پکڑ فرمائی۔ (آل عمران : ١١) ٤۔ ہم نے انہیں انکے گناہوں کی وجہ سے ہلاک کردیا۔ ( الانفال : ٥٤) ٥۔ قیامت کے دن آ ل فرعون کو برے عذاب سے دو چار کیا جائے گا۔ (المومن : ٤٥) ٦۔ آل فرعون کو سخت عذاب میں مبتلا کیا جائے گا۔ (المومن : ٤٦) ٧۔ آسمان و زمین میں کوئی ان پر رونے والا نہیں تھا اور نہ وہ مہلت دئیے گئے۔ (الدخان : ٢٩) ٨۔ ہم نے اسے خزانوں سمیت زمین میں دھنسا دیا اور اس کا کوئی حامی اسے نہ بچاسکا۔ (القصص : ٧٩) الانفال
55 الانفال
56 فہم القرآن ربط کلام : گزشتہ سے پیو ستہ : آل فرعون جیسا کردار اختیار کرنے والے لوگ جانوروں سے بھی بدتر ہیں۔ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مدینہ پہنچنے کے فوراً بعد اہل مدینہ سے بقائے باہمی کا معاہدہ کیا جسے تاریخ میں میثاق مدینہ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اس میں آپ نے مدینے کے یہودیوں اور باسیوں سے طے کیا کہ اگر کوئی مدینہ پر حملہ آور ہوگا تو ہم سب مل کر شہر کا دفاع کریں گے۔ اس عہد کی رو سے یہودی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حلیف تھے لیکن جب کفار نے بدر کی طرف پیش قدمی کی تو اس موقع پر یہودیوں کی ہمدردیاں اہل مکہ کے ساتھ تھیں اور انھوں نے میثاق مدینہ کی پرواہ نہ کی۔ جب بدر میں مسلمان کا میاب ہوئے تو یہودیوں کے سب سے بڑا قبیلہ بنو قریظہ نے آپ سے معذرت کی اور دوبارہ معاہدہ کیا کہ آئندہم ایسی غلطی نہیں کریں گے لیکن غزوۂ خندق کے موقع پر انھوں نے دوبارہ اہل مکہ کے ساتھ ساز باز کی جس کے نتیجہ میں نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انھیں مدینہ سے نکل جانے کا حکم صادر فرمایا جس کی تفصیل تاریخ اور سیرت کی کتابوں میں موجود ہے یہاں یہودیوں کی اسی عہد شکنی کا ذکر کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ انھوں نے بار بار عہد شکنی کی اور آئندہ بھی یہ لوگ اس حرکت سے ڈرنے اور رکنے والے نہیں ہیں۔ اگر عہد شکن لوگ کسی جنگ میں قابو آجائیں تو ان پر خوب سختی کرنی چاہیے تاکہ جنگ سے پیچھے رہ جانے والے لوگ عبرت حاصل کریں اگر ان لوگوں سے یہ خطرہ ہو کہ یہ آڑے وقت میں پھر عہد شکنی کے مرتکب ہوں گے تو مسلمانوں کو بھی حق ہے کہ وہ ان سے کیے ہوئے عہد کو توڑ دیں لیکن اس موقع پر دوباتوں کا خیال رکھنا لازم ہے ایک تو بد عہد قوم سے عہد توڑتے وقت ضروری ہے کہ ان کی عہد شکنی بالکل عیاں ہوچکی ہو۔ دوسری بات یہ ہے کہ ان سے جنگ کرنے سے پہلے عہد توڑا جائے یعنی عہد توڑنے میں مسلمانوں کی طرف سے کسی قسم کا دھوکا اور بد نیتی شامل نہیں ہونی چاہیے کیونکہ اللہ تعالیٰ کفار کے ساتھ بھی خیانت کرنے کو پسند نہیں کرتا۔ یہاں خیانت سے پہلی مراد اخلاقی اور سیاسی خیانت ہے جس طرح مالی خیانت حرام ہے اسی طرح سیاسی اور اخلاقی خیانت بھی ناجائز ہے۔ اس ہدایت کے ساتھ ہی کفار کو خبر دار کردیا گیا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کو کبھی عاجز اور بے بس نہیں کرسکتے اور اس کا دوسرا مفہوم یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جو مسلمان حالت جنگ میں کفار کے ساتھ کسی قسم کی خیانت نہیں کرتے انھیں عاجز اور بے بس نہیں کیا جا سکتا۔ مؤرخین نے یہاں عجیب واقعہ نقل فرمایا ہے کہ حضرت معاویہ (رض) نے اہل روم کے ساتھ ایک معاہدہ کیا جب معاہدہ ختم ہونے کے قریب آیا تو انھوں نے عساکر اسلام کو رومیوں کی سرحد کی طرف پیش قدمی کا حکم دیا جونہی فوج حرکت میں آئی حضرت امیر معاویہ (رض) کو رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان سنا یا گیا کہ یہ دشمن سے بھی عہد شکنی جائز نہیں اخلاقی خیانت ہے جس سے منع کیا گیا ہے امیر المومنین معاویہ (رض) نے یہ حدیث سنتے ہی فوجوں کو واپس بلا لیا۔ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ آیَۃُ الْمُنَافِقِ ثَلَاثٌ إِذَا حَدَّثَ کَذَبَ وَإِذَا وَعَدَ أَخْلَفَ وَإِذَا اؤْتُمِنَ خَانَ) [ رواہ البخاری : کتاب الایمان، باب علامۃ المنافق] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا منافق کی تین نشانیاں ہیں۔1 جب بات کرتا ہے تو جھوٹ بولتا ہے۔2 جب وعدہ کرتا ہے تو وعدہ خلافی کرتا ہے۔3 جب اس کے پاس امانت رکھی جائے تو خیانت کرتا ہے۔“ (عَنْ ابْنِ عُمَر (رض) عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ مَثَلُ الْمُنَافِقِ کَمَثَلِ الشَّاۃِ الْعَاءِرَۃِ بَیْنَ الْغَنَمَیْنِ تَعِیرُ إِلٰی ہَذِہِ مَرَّۃً وَإِلٰی ہَذِہِ مَرَّۃً) [ رواہ مسلم : کتاب صفات المنافقین] ” حضرت عبداللہ بن عمر (رض) نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا بیان نقل کرتے ہیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا منافق کی مثال دو ریوڑوں کے درمیان بکری کی ہے کبھی ایک طرف جاتی ہے اور کبھی دوسری جانب۔“ مسائل ١۔ عہد شکن لوگوں پر سختی کرنی جائز ہے۔ ٢۔ کفار کی سیاسی اور جنگی خیانت کے مقابلے میں عہد شکنی کرنا جائز ہے کیونکہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اَلْحَرْبُ خُدْعَۃٌ۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ خیانت کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ ٤۔ کافر اللہ تعالیٰ کو کبھی بے بس اور عاجز نہیں کرسکتے۔ تفسیر بالقرآن بدترین لوگ : ١۔ مالدار بخل کو اپنے لیے اچھا تصور کرتے ہیں حالانکہ وہ ان کے لیے برا ہے۔ (آل عمران : ١٨٠) ٢۔ اللہ کے راستہ سے گمراہ لوگوں کا بد ترین ٹھکانہ ہے۔ (المائدۃ: ٦٠) ٣۔ بہرے، گونگے بے عقل لوگ چوپاؤں سے بدتر ہیں۔ (الانفال : ٢٢) ٤۔ بدترین لوگوں کو منہ کے بل جہنم میں پھینکا جائے گا۔ (الفرقان : ٣٤) ٥۔ بدترین ظالموں کا برا ٹھکانہ ہے۔ (ص : ٥٥) ٦۔ بدترین لوگ جہنم کی آگ میں ہمیشہ رہیں گے۔ (البینۃ : ٦) ٧۔ بدترین لوگوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے جہنم کی آگ کا وعدہ کیا ہے۔ (الحج : ٧٢) الانفال
57 الانفال
58 الانفال
59 الانفال
60 فہم القرآن ربط کلام : جب تک مسلمان اپنا دفاع مضبوط رکھیں گے کافر مسلمانوں کو کبھی عاجز اور بے بس نہیں کرسکتے۔ مسلمان اگر کفار کی سازشوں اور جارحیت سے بچنا چاہتے ہیں تو انھیں اپنا دفاع ہر وقت مضبوط رکھنا ہوگا قرآن مجید نے مضبوط دفاع کا اصول اس وقت پیش کیا جب دنیا کے بڑے بڑے جنگجو اس کا تصور بھی نہیں کرسکتے تھے اگر مسلمان دشمن کی جارحیت سے محفوظ رہنا چاہتے ہیں تو اس کے لیے بہترین اصول یہ ہے کہ مسلمان اپنے گھوڑے ہر وقت تیار رکھیں۔ جس سے اللہ اور مسلمانوں کے دشمن اور وہ دشمن بھی جو خفیہ سازشیں کرتے ہیں۔ خوف زدہ ہوں گے اور مسلمانوں پر جارحیت کرنے کا تصور بھی دل میں نہیں لائیں گے۔ مضبوط دفاع کے لیے جو کچھ بھی ہوسکے کرو۔ اللہ کی راہ میں خرچ کرو گے تو اس کا تمھیں پورا پورا صلہ دیا جائے گا اور تم پر کوئی زیادتی نہ ہوگی۔ زیادتی سے پہلی مراد دشمن کی جارحیت ہے۔ اس آیت کریمہ میں تین قسم کے دشمن بیان کیے گئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے دشمنوں سے مراد اس کی ذات کے ساتھ کفر و شرک کرنے والے، دین کے مخالف اور رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ دشمنی رکھنے والے۔ مسلمانوں کے دشمنوں سے مراد ان کی ذات اور دین کی بنیاد پر عداوت رکھنے والے ہیں۔ تیسرے دشمن منافق اور وہ لوگ ہیں جو دین کی سربلندی اور مسلمانوں کی ترقی نہیں چاہتے لیکن اپنی کمزوری اور مصلحت کی خاطر کھلی دشمنی سے پرہیز کرتے ہیں۔ دفاع کے لیے نقل و حمل کے ذرائع اور اسلحہ کی ضرورت ہوتی ہے جن کا حصول مال کے بغیر ممکن نہیں۔ اس لیے انفاق فی سبیل اللہ کا حکم دیا۔ یہ اتنا اہم عنصر ہے کہ قرآن مجید نے جہاد فی سبیل اللہ کے تذکرہ میں اکثر مقامات پر جہاد بالنفس سے پہلے جہاد بالمال کا حکم آیا ہے۔ یہاں دفاعی فنڈ میں حصہ لینے والوں کو تسلی دی گئی ہے کہ تمھیں اس کے بدلے پورا پورا صلہ دیا جائے گا اور تم پر کوئی زیادتی نہیں ہونے پائے گی۔ زیادتی سے مراد اجر و ثواب میں کمی ہے اور اس میں یہ اشارہ بھی موجود ہے کہ جب تم دل کھول کر اپنے دفاع میں خرچ کرو گے تو دشمن کے ظلم سے محفوظ رہو گے۔ دشمن کی جارحیت سے بچنے کے لیے حربی قوت بڑھانے اور کھلے عام جنگی گھوڑے باندھنے کا حکم دیا گیا ہے۔ قوت سے مراد ہر قسم کی طاقت اور جدید سے جدید ٹیکنالوجی کا حصول ہے۔ پرانے زمانے میں نقل و حمل کے لیے گھوڑا مضبوط اور تیز رفتار سواری تھی لیکن آج اس کی جگہ ٹینک اور بمبار طیاروں نے لے لی ہے۔ تاہم گھوڑے کی اہمیت اپنی جگہ پر قائم ہے اور قیامت تک باقی رہے گی۔ کیونکہ پہاڑی علاقے میں جیپ، ٹینک یہاں تک کہ بلند پہاڑوں میں جہاز اور ہیلی کا پٹر بھی کام نہیں دیتے۔ جس کی بنا پر دنیا میں کوئی ایسی فوج نہیں جن کے پاس جنگی گھوڑے موجود نہ ہوں۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دور میں تیر، تلوار اور گھوڑے جنگی ضروریات میں سب سے اہم تھے۔ اس وجہ سے آپ نے ان چیزوں کی اہمیت اور فضیلت بیان کی ہے۔ تاہم ان کے باوجود آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے دور کی جدید ٹیکنالوجی حاصل کرنے کے بارے میں پوری توجہ فرمائی۔ (عن عُقْبَۃَ بن عامِرٍ (رض) یَقُولُ سَمِعْتُ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وَہُوَ عَلٰی الْمِنْبَرِ یَقُولُ وَأَعِدُّوا لَہُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ مِنْ قُوَّۃٍ أَلَا إِنَّ الْقُوَّۃَ الرَّمْیُ أَلَا إِنَّ الْقُوَّۃَ الرَّمْیُ أَلَا إِنَّ الْقُوَّۃَ الرَّمْیُ) [ رواہ مسلم : کتاب الامارۃ، باب فضل الرمی] ” حضرت عقبہ بن عامر (رض) بیان کرتے ہیں میں نے رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے ہوئے سنا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) منبر پر تشریف فرمارہے تھے کافروں کے لیے حسب استطاعت طاقت تیار رکھو۔ آگاہ ہوجاؤ بلاشبہ قوت تیر پھینکنے میں ہے۔ آگاہ رہو بلاشبہ قوت تیر اندازی میں ہے۔“ (عن سَلَمَۃَ بن الْأَکْوَعِ (رض) قَالَ مَرَّ النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عَلٰی نَفَرٍ مِنْ أَسْلَمَ یَنْتَضِلُونَ فَقَال النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ارْمُوا بَنِی إِسْمَاعِیلَ فَإِنَّ أَبَاکُمْ کَانَ رَامِیًا ارْمُوا وَأَنَا مَعَ بَنِی فُلَانٍ قَالَ فَأَمْسَکَ أَحَدُ الْفَرِیقَیْنِ بِأَیْدِیہِمْ فَقَالَ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَا لَکُمْ لَا تَرْمُونَ قَالُوا کَیْفَ نَرْمِی وَأَنْتَ مَعَہُمْ قَال النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ارْمُوا فَأَنَا مَعَکُمْ کُلِّکُمْ) [ رواہ البخاری : کتاب الجہاد، باب التحریض علی الرمی] ” حضرت سلمہ بن اکوع (رض) بیان کرتے ہیں نبی مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اسلم قبیلہ کے لوگوں کے پاس سے گزرے جو تیر ٹھیک کررہے تھے نبی مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اے بنو اسماعیل تیر اندازی کرو بلاشبہ تمہارے والد تیر انداز تھے اور میں فلاں قبیلہ کے ساتھ ہوں۔ صحابی فرماتے ہیں مقابل فریق نے اپنے ہاتھ روک لیے۔ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا آپ کو کیا ہوا کہ آپ نے تیر اندازی چھوڑ دی ہے ؟ انہوں نے عرض کی ہم آپ کے مد مقابل کس طرح تیر اندازی کریں۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تیر اندازی کرو میں تم سب کے ساتھ ہوں۔“ (عن عُقْبَۃَ بن عامِرٍ الْجُہَنِی (رض) یَقُولُ سَمِعْتُ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَقُولُ مَنْ تَعَلَّمَ الرَّمْیَ ثُمَّ تَرَکَہٗ فَقَدْ عَصَانِی) [ رواہ ابن ماجۃ: کتاب الجہاد، باب الرمی فی سبیل اللہ] ” حضرت عقبہ بن عامر (رض) بیان کرتے ہیں میں نے رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے سنا جس نے نشانہ بازی سیکھی پھر اس کو چھوڑدیا اس نے میری نافرمانی کی۔“ (عَنْ عُرْوَۃَ بْنِ الْجَعْدِ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ الْخَیْلُ مَعْقُودٌ فِی نَوَاصِیہَا الْخَیْرُ إِلَی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ) [ رواہ البخاری : کتاب الجہاد، باب الخیل معقود فی نواصیہا الخیر] ” حضرت عروہ بن جعد (رض) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان نقل کرتے ہیں آپ نے فرمایا گھوڑوں کی پیشانی میں قیامت تک خیر رکھ دی گئی ہے۔“ (عَنْ جَرِیرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ (رض) قَالَ رَأَیْتُ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَلْوِی نَاصِیَۃَ فَرَسٍ بِإِصْبَعِہِ وَہُوَ یَقُولُ الْخَیْلُ مَعْقُودٌ بِنَوَاصِیہَا الْخَیْرُ إِلَی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ الْأَجْرُ وَالْغَنِیمَۃُ) [ رواہ مسلم : کتاب الامارۃ، باب الخیل معقود فی نواصیہا الخیر] ” حضرت جریر بن عبداللہ (رض) فرماتے ہیں میں نے رسول مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیکھا آپ نے اپنی انگلی سے گھوڑے کی پیشانی چھوتے ہوئے فرمایا گھوڑے کی پیشانی میں قیامت تک کے لیے بھلائی رکھ دی گئی ہے۔ وہ ثواب اور مال غنیمت ہے۔“ مسائل ١۔ کافروں کے خلاف جس قدر استطاعت ہو قوت جمع کرنی چاہیے۔ ٢۔ جو بھی اللہ کے راستے میں خرچ کیا جائے گا وہ پورے کا پورا واپس لوٹا دیا جائے گا۔ الانفال
61 فہم القرآن ربط کلام : مسلمانوں کی بھرپور دفاعی تیاری کے باوجود اگر دشمن صلح کے لیے آمادہ ہو تو مسلمانوں کو ان سے صلح کر لینی چاہیے۔ اسلام کے مخالف ہمیشہ سے یہ پراپیگنڈہ کرتے آرہے ہیں کہ اسلام جارحیت پسند اور مسلمان جنگ جو قوم ہے۔ حالانکہ اسلام کا نقطۂ نگاہ یہ ہے کہ جو کفار تبلیغ دین میں رکاوٹ اور کسی پر ظلم زیادتی نہیں کرتے ان کے ساتھ جنگ نہیں کرنی چاہیے اس آیت میں ایک قدم آگے بڑھاتے ہوئے یہاں تک کہ مسلمانوں کو حکم دیا گیا ہے کہ خواہ تم کتنے ہی مضبوط کیوں نہ ہو اگر دشمن تمھارے ساتھ صلح کرنے پر آمادہ ہو۔ تو کسی گھمنڈ میں آنے کے بجائے صلح کی طرف بڑھے ہوئے ہاتھ کو تھام لو اور اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرو وہ ہر بات سننے والا اور ہر چیز کو جاننے والا ہے۔ اگر صلح کرنے والادشمن بدنیتی کا مظاہرہ کرے گا تو اللہ تعالیٰ آپ کو کافی ہے۔ کیونکہ اللہ اور اس پر ایمان لانے والے مومن آپ کی مدد کریں گے۔ یہ اصول اس دشمن کے لیے ہے۔ جس کے بارے میں معلوم ہو کہ یہ کیے گئے معاہدے پر قائم رہے گا اور اگر کسی دشمن نے پہلے معاہدہ کی خلاف ورزی کی ہو تو اسے نہیں کہا جا سکتا۔ صلح کی اہمیت کے پیش نظر مومنوں کو مخاطب کرنے کی بجائے واحد حاضر کی ضمیر لا کر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مخاطب فرمایا گیا ہے۔ جس کا مفہوم یہ بھی ہے کہ صلح اور جنگ کا فیصلہ کرنا قیادت کا کام ہوتا ہے اس لیے قیادت کو اللہ تعالیٰ اور اپنے مخلص ساتھیوں پر اعتماد کرتے ہوئے صلح کر لینی چاہیے۔ کیونکہ مسلمانوں کو ہر حال میں اپنی دفاعی قوت بڑھانے کا حکم ہے لہٰذا صلح کرنے سے انھیں تیاری کا مزید موقع ملے گا۔ صلح کے اقدام سے دشمن کو وسعت ظرفی اعلیٰ اخلاق اور دلیری کا پیغام ملنے کے ساتھ مسلمانوں کے اخلاق اور کردار دیکھنے کا موقعہ ملے گا۔ اسی حکمت کے تحت نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مکہ والوں کے ساتھ صلح کا معاہدہ کیا تھا جس کے نتیجہ میں لوگ فوج درفوج اسلام میں داخل ہوئے اور اللہ تعالیٰ نے صلح حدیبیہ کو فتح مبین کا نام دیا۔ الانفال
62 الانفال
63 فہم القرآن ربط کلام : دشمن کے خلاف جہاد میں ہر قسم کی تیاری کے ساتھ قوم میں اتحاد اور محبت کی انتہائی ضرورت ہوتی ہے۔ اس سے پہلی آیت میں حکم تھا کہ کفار کی پیشکش کے پیش نظر مسلمانوں کو ان سے صلح کر لینی چاہیے۔ اب مسلمانوں کی باہمی محبت کا تذکرہ کرنے کے دو مقاصد معلوم ہوتے ہیں۔ بے شک تمھیں دشمن کے ساتھ صلح کرنے کا حکم دیا گیا ہے اس پر یہ سوچنے کی ضرورت نہیں کہ وہ تمھارے دشمن ہیں ذرا سوچو تو سہی ماضی میں تم بھی ایک دوسرے کے دشمن تھے لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل وکرم سے تمھارے دلوں میں الفت پیدا کی جس سے تم آپس میں شیر و شکر ہوگئے کیا ممکن نہیں کہ اللہ تعالیٰ آج کے دشمن کو تمھارا کل کا مسلمان بھائی بنادے۔ اے نبی آپ زمین بھر کی دولت خرچ کرکے بھی ان کے دلوں کو جوڑ نہیں سکتے تھے یہ تو اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں کو محبت کے رشتے سے باندھ دیا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ ہر کام کرنے پر غالب اور اس کے ہر قول و عمل میں حکمتیں پنہاں ہوتی ہیں۔ وہ غالب حکمت والا تمھارے اور تمھارے دشمن کے درمیان بھی محبت پیدا کرسکتا ہے۔ یہ الفت جس کی بنا پر حبشہ کے حضرت بلال (رض) فارس کے حضرت سلمان (رض) اور غفار قبیلے کے جناب ابوذر (رض) ایک دوسرے کے اس طرح بھائی بنے کہ حقیقی رشتے بھی پیچھے رہ گئے۔ اسی طرح مدینہ کے اوس اور خزرج کے قبائل شیرو شکر ہوئے جو نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مدینہ آمد سے تھوڑی ہی مدت پہلے جنگ بعاث میں ایک دوسرے کے سینکڑوں لوگوں کو قتل کرچکے تھے۔ ان کے درمیان صلح کی دور دور تک گنجائش نہیں تھی لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کے درمیان بھی حقیقی بھائیوں جیسی محبت پیدا فرما دی غزوہ بدر کے تذکرہ اور جہادی تیاریوں کے ضمن میں صحابہ (رض) کی باہمی محبت کا حوالہ دینے کا یہ مقصد بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس میں اشارہ ہے جب تک مسلمان آپس میں اتفاق اور اتحاد قائم رکھیں گے اس وقت تک ہی دشمن پر غالب آسکیں گے کیونکہ جو قوم آپس میں مختلف اور منتشر ہو وہ اسلحہ اور حربی قوت کی بنیاد پر دشمن پر غالب نہیں آسکتی۔ امام رازی اس آیت سے استدلال کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ یہاں اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حمایت کا کلی وعدہ فرمایا ہے۔ (عَنْ عَبْدِ اللّٰہ (رض)۔۔ قَالَ وَکَانَ یُعَلِّمُنَا کَلِمَاتٍ وَلَمْ یَکُنْ یُعَلِّمُنَاہُنَّ کَمَا یُعَلِّمُنَا التَّشَہُّدَ اللّٰہُمَّ أَلِّفْ بَیْنَ قُلُوبِنَا وَأَصْلِحْ ذَاتَ بَیْنِنَا وَاہْدِنَا سُبُلَ السَّلَامِ وَنَجِّنَا مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَی النُّورِ وَجَنِّبْنَا الْفَوَاحِشَ مَا ظَہَرَ مِنْہَا وَمَا بَطَنَ وَبَارِکْ لَنَا فِی أَسْمَاعِنَا وَأَبْصَارِنَا وَقُلُوبِنَا وَأَزْوَاجِنَا وَذُرِّیَّاتِنَا وَتُبْ عَلَیْنَا إِنَّکَ أَنْتَ التَّوَّاب الرَّحِیمُ وَاجْعَلْنَا شَاکِرِینَ لِنِعْمَتِکَ مُثْنِینَ بِہَا قَابِلِیہَا وَأَتِمَّہَا عَلَیْنَا) [ رواہ ابوداؤد، کتاب الصلاۃ باب التشہد] ” حضرت عبداللہ (رض) سے روایت ہے۔۔ فرماتے ہیں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمیں کلمات اس طرح سکھا یا کرتے تھے جس طرح وہ ہمیں تشہد سکھاتے تھے۔ اے اللہ ! ہمارے دلوں میں الفت ڈال دے اور ہمارے درمیان اصلاح فرمادے۔ اور ہمیں سلامتی کے راستوں کی طرف ہدایت دے۔ ہمیں اندھیروں سے روشنی کی طرف نجات دے۔ اور ہمیں پوشیدہ اور ظاہری فحاشی سے بچا۔ ہماری قوت سماعت، بصارت، ازواج اور اولاد میں برکت نصیب فرما۔ اور ہماری توبہ قبول فرما۔ بلاشبہ تو توبہ قبول کرنے والا رحم کرنے والا ہے۔ اور ہمیں اپنی نعمتوں کا شکر گزار اور ان کے قابل بنا۔ اور انہیں ہم پر پورا فرما۔“ مسائل ١۔ مسلمانوں کی باہمی محبت اللہ کے فضل کا نتیجہ ہے۔ ٢۔ اللہ کے سوا کوئی دلوں میں محبت نہیں ڈال سکتا۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر غالب اور اس کے ہر حکم اور کام میں حکمت ہوتی ہے۔ ٤۔ مومن کے لیے اللہ کی مدد کافی ہوتی ہے۔ الانفال
64 فہم القرآن ربط کلام : نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اللہ تعالیٰ نے مومنوں اور اپنی طرف سے اطمینان دلانے کے بعد قتال کا حکم دیا۔ سربراہ کو اللہ تعالیٰ پر بھروسہ اور اپنے ساتھیوں پر اعتماد کرتے ہوئے مسلمانوں کو جہاد کرنے کا حکم دینا چاہیے جب مسلمان کردار کے حوالے سے پختہ تھے تو اس وقت کفار کے خلاف تناسب یہ قائم کیا گیا کہ اگر کفار اپنی جارحیت سے باز نہ آئیں تو دس کفار کے مقابلے میں ایک مسلمان کافی ہے یہ تعداد اس لیے کافی ہے کہ کافر موت کی حقیقت سے واقف نہیں وہ قتال اور موت سے اس لیے ڈرتا ہے کہ اس کے سامنے کوئی مقصد اور منزل نہیں ہوتی۔ جس وجہ سے اس میں وہ جوش اور ولولہ پیدا نہیں ہوتا جو مجاہد کے سینے میں موجزن ہوتا ہے مجاہد موت سے ٹکرانے کے لیے ہر وقت تیار ہوتا ہے کیونکہ وہ اپنے مولا کی رضا کی خاطر اس کے دین کی سربلندی کے لیے میدان کا رزار میں اترتا ہے وہ اپنے خالق و مالک سے ملاقات کی تمنا اور اس کی جنت کے لیے جان کی بازی لگا دیتا ہے اسی بناء پر غزوہ احد کے موقع پر ایک صحابی کھجوریں کھا رہے تھے جونہی اس نے قتال فی سبیل اللہ کی آواز سنی تو یہ کہتے ہوئے کھجوریں پھینک دیں کہ اللہ کی قسم مجھے احد پہاڑ کی طرف سے جنت کی خوشبو آرہی ہے ایسا ہی خوبصورت منظر فرعون کی بیوی حضرت آسیہ نے اس وقت دیکھا۔ جب توحید کی پاداش میں اس کے نازک جسم پر میخیں ٹھونکی جا رہی تھیں۔ (قَالَتْ رَبِّ ابْنِ لِیْ عِنْدَکَ بَیْتًا فِی الْجَنَّۃِ وَنَجِّنِیْ مِنْ فِرْعَوْنَ وَعَمَلِہٖ وَنَجِّنِیْ مِنَ الْقَوْمِ الظَّالِمِیْنَ ) [ التحریم : ١١] ” اس نے دعا کی : ” اے میرے رب ! میرے لیے اپنے ہاں جنت میں ایک گھر بنا دے۔ مجھے فرعون اور اس کے عمل سے بچا اور ان ظالموں سے بھی نجات دے۔“ مفسرین نے لکھا کہ حضرت آسیہ کو اللہ تعالیٰ نے اس کی موت سے پہلے جنت میں اس کا گھر دکھلایا دیا تھا۔ یہی وہ فرق ہے جو مجاہد اور کافر کے درمیان ہوتا ہے۔ جس کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ کافر اس حقیقت کو نہیں سمجھتے۔ پہلے حکم کے بعد دوسرا حکم نازل ہوا۔ جس میں تخفیف کردی گئی جسے مضمون میں تسلسل کی خاطر یہاں رکھا گیا ہے۔ آج اس کی صورت یہ ہوگی کہ اگر کفار مسلمانوں پر جنگ مسلط کریں اور جنگی تناسب ایک کے مقابلے میں دس کا ہو تو پھر مسلمانوں پر قتال فرض ہوجائے گا۔ اگر تناسب میں اس سے زیادہ فرق ہو تو پھر مسلمانوں کو حق حاصل ہے کہ وہ کفار کے ساتھ اپنے وقار سے کم درجہ شرائط پر صلح کرسکتے ہیں۔ لیکن جب جنگی تناسب ایک اور دو کا ہو اور کافر تبلیغ اسلام میں رکاوٹ یا مسلمانوں پر جارحیت کرنے لگیں تو ایسی حالت میں مسلمانوں کو اللہ کا حکم سمجھ کر کفار کے خلاف ڈٹ جانا چاہیے کیونکہ فتح اور شکست اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے اگر مسلمان ثابت قدمی کا مظاہرہ کریں گے تو یقیناً اللہ تعالیٰ انھیں ضرور فتح سے سرفراز فرمائے گا۔ (عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ (رض) عَنْ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ لَغَدْوَۃٌ فِی سَبِیل اللّٰہِ أَوْ رَوْحَۃٌ خَیْرٌ مِنْ الدُّنْیَا وَمَا فیہَا) [ رواہ البخاری : کتاب الجہاد، باب الغدوۃ والروحۃ] ” حضرت انس بن مالک (رض) نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں آپ نے فرمایا اللہ کے راستے میں صبح یا شام کو نکلنا دنیا ومافیہا سے بہتر ہے۔“ (عن ابی ہُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ سَمِعْتُ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَقُولُ مَثَلُ الْمُجَاہِدِ فِی سَبِیل اللّٰہِ وَاللّٰہُ أَعْلَمُ بِمَنْ یُجَاہِدُ فِی سَبِیلِہِ کَمَثَلِ الصَّاءِمِ الْقَاءِمِ وَتَوَکَّلَ اللّٰہُ لِلْمُجَاہِدِ فِی سَبِیلِہِ بِأَنْ یَّتَوَفَّاہُ أَنْ یُّدْخِلَہٗ الْجَنَّۃَ أَوْ یَرْجِعَہُ سَالِمًا مَعَ أَجْرٍ أَوْ غَنِیمَۃٍ )[ رواہ البخاری : کتاب الجہاد، باب أفضل المؤمنین] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان فرماتے ہیں میں نے رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ کے راستے میں جہاد کرنے والے کی مثال اور اللہ تعالیٰ اس شخص کو بہتر جانتا ہے جو اللہ کی راہ میں جہاد کرتا ہے روزے رکھنے والے اور راتوں کو قیام کرنے والے کی طرح۔ اللہ تعالیٰ اپنے راستے میں جہاد کرنے والے کو یہ بدلہ دے گا کہ اسے جنت میں داخل کرے یا صحیح سلامت واپسی کی صورت میں ثواب اور مال غنیمت کے ساتھ لوٹائے گا۔“ مسائل ١۔ سربراہ کا فرض ہے کہ وہ مسلمانوں کو قتال کے لیے تیار رکھے۔ ٢۔ مجاہد کے سامنے اللہ کی رضا اور اس کی جنت ہوتی ہے۔ ٣۔ کافر کے سامنے وطن، قوم اور ذاتی مفاد ہوتا ہے۔ ٤۔ جب جنگی تناسب ایک کے مقابلے میں دو ہو تو قتال فرض ہوجاتا ہے۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ ثابت قدم رہنے والوں کے ساتھ ہوتا ہے۔ تفسیر بالقرآن کافر بے وقوف ہوتا ہے : ١۔ متقین کے لیے آخرت کا گھر بہتر ہے مگر کافر نہیں سمجھتے۔ (الاعراف : ١٦٩) ٢۔ میرا اجر میرے پیدا کرنے والے اللہ کے ذمہ ہے بے عقل نہیں سمجھتے۔ حضرت صالح کا اعلان۔ (ھود : ٥١) ٣۔ منافق بے سمجھ ہوتے ہیں۔ (المنافقون : ٧) ٤۔ اللہ نے ان کے دلوں کو پھیر دیا کیونکہ یہ بے عقل لوگ ہیں۔ (التوبۃ: ١٢٧) ٥۔ وہ اللہ پر جھوٹ باندھتے ہیں اور ان کی اکثریت بے عقل ہوتی ہے۔ ( المائدۃ : ١٠٣) ٦۔ وہ بہرے گونگے اور اندھے ہیں اور وہ عقل نہیں کرتے۔ (البقرۃ: ١٧١) الانفال
65 الانفال
66 الانفال
67 فہم القرآن ربط کلام : جنگ کے مسائل کا بیان جاری ہے اب قیدیوں اور مال غنیمت کے بارے میں وضاحت کی جاتی ہے۔ اس آیت مبارکہ میں تین الفاظ ایسے ہیں جن کا معنی جاننے سے آیت کا مفہوم بہتر طور پر ذہن نشین ہوجائے گا اسرٰی اس تسمے کو کہا جاتا ہے جس سے پرانے زمانے میں لوگ قیدیوں کو باندھا کرتے تھے اثخان کا معنی ہے خون کا گاڑھا ہونا مراد گھمسان کا رن پڑنا یعنی ایسی لڑائی کہ جس میں ایک فریق کی کمر ٹوٹ جائے عَرَضْ دنیا کے ساز و سامان کو کہا جاتا ہے۔ چنانچہ ارشاد ہوتا ہے۔ اے نبی! آپ کے لیے یہ مناسب نہیں تھا کہ آپ کفار کی کمر توڑے بغیر قیدیوں کو دنیا کے مال کے بدلے رہا کردیتے۔ یہاں قیدیوں کے بارے میں مخاطب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کیا گیا ہے لیکن فدیہ لینے کے بارے میں صحابہ کو مخاطب کیا ہے کیونکہ صحابہ (رض) کے مشورہ اور ان کے فائدے کے لیے ہی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قیدیوں سے فدیہ لینا قبول فرمایا تھا اس لیے صحابہ (رض) کو فرمایا کہ تم دنیا کا تھوڑا اور عارضی مال چاہتے ہو جبکہ اللہ تعالیٰ تمھارے لیے آخرت کی بیش بہا اور دائمی نعمتوں کا ارادہ رکھتا ہے اگر تم قیدیوں کا فدیہ لینے کی بجائے ان کو قتل کردیتے تو یہ تمھارے مستقبل کے لیے نہایت ہی بہتر ہوتا۔ جہاں تک غنیمت کا تعلق ہے اللہ تعالیٰ تمھیں آئندہ غزوات میں عطا فرماتا جیسا کہ مسلمانوں کو بے انتہاغنائم سے نوازا گیا۔ اللہ تعالیٰ اس بات پر غالب ہے۔ اس کے ہر حکم اور کام میں حکمت ہوتی ہے اگر اللہ تعالیٰ نے یہ فیصلہ پہلے سے نہ کر رکھا ہوتا کہ وہ تمھیں بدر کے قیدیوں سے فدیہ لینے پر عذاب نہیں کرے گا تو وہ تمہاری ضرور گرفت کرتا اب تم اس غنیمت سے کھاؤاور اسے استعمال کرو یہ تمھارے لیے حلال اور طیب ہے اور ہر حال میں اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو یقیناً اللہ تعالیٰ معاف کرنے والا انتہائی مہربان ہے۔ بدر کے قیدیوں کا فدیہ لینے کے بارے میں مفسرین کی دو آرا ہیں ایک فریق کا خیال ہے کہ اس وقت تک قیدیوں کے بارے میں کوئی حکم نازل نہیں ہوا تھا جس وجہ سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ کرام (رض) سے مشورہ کرکے فدیہ لے کر قیدیوں کو چھوڑ دیا لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ فدیہ لینے کے متعلق حکم ہی نازل نہیں ہوا تھا تو پھر اللہ تعالیٰ کی طرف سے عذاب نازل کرنے کا کیا معنی ؟ اس کا جواب یہ دیا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ بات اپنے ہاں لوح محفوظ پر لکھ رکھی ہے کہ بدر میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قیدیوں سے فدیہ لیں گے لیکن اس پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کوئی مواخذہ نہیں ہوگا۔ لیکن میرے خیال میں ان مفسرین کا نقطۂ نگاہ زیادہ مضبوط ہے جو یہ فرماتے ہیں کہ سورۃ محمد آیت ٤ میں یہ حکم پہلے نازل ہوچکا تھا کہ جب تم کفار کے ساتھ جنگ کرو تو ان کی اچھی طرح گردنیں مارو یہاں تک کہ ان کی کمر ٹوٹ جائے اور قیدیوں کو مضبوطی سے باندھ لو پھر چاہو تو انھیں یوں ہی رہا کر دو اور اگر چاہو تو ان سے فدیہ قبول کرو۔ لیکن شرط یہ ہے پہلے کفار کی کمر توڑ دی جائے بدر میں ایسا نہیں ہوسکا تھا۔ جب کفار بدر کا میدان چھوڑ کر بھاگ رہے تھے۔ چند صحابہ (رض) کو چھوڑ کرجو رسول معظم کی حفاظت کرتے رہے باقی مال غنیمت اکٹھا کرنے میں مصروف ہوگئے۔ بعد ازاں ان میں غالب اکثریت کی رائے یہ تھی کہ قیدیوں کو فدیہ لے کر چھوڑ دیا جائے جس سے ہماری اعانت ہوجائے گی اور شاید کفار بھی احسان شناسی کا مظاہرہ کریں اس رائے میں حضرت ابو بکر صدیق (رض) اپنی نرم طبع کی وجہ سے پیش پیش تھے لیکن حضرت عمر (رض) حضرت معاذ بن جبل (رض) اور کچھ صحابہ کا خیال تھا کہ ان کی گردنیں اڑا دینی چاہییں تاکہ کفار کی کمر ٹوٹ جائے۔ حضرت عمر (رض) نے یہاں تک عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول ! ہر شخص اپنے قریبی رشتہ دار قیدی کو قتل کرے سب سے پہلے میں اپنے عزیزوں کو قتل کروں گا لیکن رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اکثریت کی رائے کا احترام کرتے ہوئے فدیہ لینا قبول کیا جس پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ انتباہ نازل ہوا۔ (عَنْ اَبِی ہُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اِنَّ اللّٰہَ طَیِّبٌ لَا یَقْبَلُ اِلَّا طَیِّبًا وَاِنَّ اللّٰہَ اَمَرَ الْمُؤْمِنِیْنَ بِمَا اَمَرَبِہِ الْمُرْسَلِیْنَ فَقَالَ ” یَا اَیُّہَا الرُّسُلُ کُلُوْا مِنَ الطَّیِّبَاتِ وَاعْمَلُوا صالِحًا“ (پ ١٨۔ رکوع ٣) وَقَالَ یَا اَیُّھَاالَّذِیْنَ آمَنُوْا کُلُوْا مِنْ طَیِّبَاتِ مَا رَزَقْنٰکُمْ ثُمَّ ذَکَرَ الرَّجُلَ یُطِیْلُ السَّفَرَ اَشْعَثَ اِغْبَرَ یَمُدُّیَدَیْہِ اِلٰی السَّمَاءِیَارَبِّ وَمَطَعَمُہُ حَرَامٌ وَمَشْرَبُہُ حَرَامٌ وَمَلْبَسُہُ حَرَامٌ وَغُذِیَ بالحَرَامِ فَاَنّٰی یُسْتَجَابُ لِذٰلِکَ) [ رواہ مسلم : باب قَبُول الصَّدَقَۃِ مِنَ الْکَسْبِ الطَّیِّبِ وَتَرْبِیَتِہَا] حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول معظم نے فرمایا‘ بے شک اللہ تعالیٰ پاک ہے اور پاک صاف کے علاوہ کسی چیز کو قبول نہیں کرتا۔ اور اللہ تعالیٰ نے مومنین کو ان باتوں کا حکم دیا ہے جن باتوں کا اس نے اپنے رسولوں کو حکم دیا۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے۔ ” میرے رسولو! پاکیزہ چیزیں کھاؤ اور عمل صالح کرو۔“ اے ایمان والو! جو رزق ہم نے تمہیں عطا کیا ہے اس میں سے پاکیزہ چیزیں کھاؤ۔“ پھر آپ نے ایک ایسے شخص کا ذکر فرمایا جو لمبا سفر طے کرتا ہے۔۔ پراگندہ بال‘ اپنے ہاتھوں کو آسمان کی طرف اٹھائے دعا کرتا ہے۔ یارب! یارب! جب کہ اس کا کھانا حرام‘ اس کا پینا حرام‘ اس کالباس حرام اور حرام غذا سے اس کی نشوونما ہوئی اس حالت میں اس کی دعا کیسے قبول ہوسکتی ہے؟۔ مسائل ١۔ دنیا کے مقابلہ میں آخرت کو ترجیح دینی چاہیے۔ ٢۔ تمام انسانوں کی تقدیر پہلے لکھی جا چکی ہے۔ ٣۔ مال غنیمت امت محمدیہ کے لیے حلال ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ سے ڈرنے کا حکم : ١۔ اللہ سے ڈر جاؤ اور جان لو بے شک اللہ متقین کے ساتھ ہے۔ (البقرۃ: ١٩٤) ٢۔ اے ایمان والو! اللہ سے ڈر جاؤ اور سچی بات کرو۔ (الاحزاب : ٧٠) ٣۔ اللہ سے ڈر جاؤ اور جان لو بے شک اللہ سخت سزا دینے والا ہے۔ (البقرۃ: ١٩٦) ٤۔ اللہ سے ڈر جاؤ اور جان لو تم اسی کی طرف جمع کیے جاؤ گے۔ (البقرۃ: ٢٠٣) ٥۔ اللہ سے ڈر جاؤ اور جان لو کہ تم اس سے ملنے والے ہو۔ (البقرۃ: ٢٢٣) ٦۔ اللہ سے ڈر جاؤ اور جان لو کہ اللہ کو ہر چیز کا علم ہے۔ (البقرۃ: ٢٣١) ٧۔ اللہ سے ڈر جاؤ اور جان لو اللہ تمھارے اعمال کو دیکھتا ہے۔ (البقرۃ: ٢٣٣) ٨۔ اللہ سے ڈر جاؤ اے عقلمندو تاکہ تم فلاح پاؤ۔ (المائدۃ: ١٠٠) ٩۔ اے ایمان والو ! اللہ سے ڈر جاؤ جیسا کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے۔ (آل عمران : ١٠٢) ١٠۔ اللہ سے ڈر جاؤ کیونکہ وہ دلوں کے بھید جانتا ہے۔ (المائدۃ: ٧) الانفال
68 الانفال
69 الانفال
70 فہم القرآن ربط کلام : فیصلہ کن جنگ کرنے کا حکم دینے کے بعد قیدیوں کے بارے میں اصول بیان کیا اور بدر کے مال غنیمت کی اجازت دیتے ہوئے تسلی دی کہ اللہ تعالیٰ نے تمہاری کوتاہی کو معاف کردیا ہے۔ اب ان قیدیوں کو نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان اطہر سے نصیحت کی جا رہی ہے جن کے متعلق آپ نے بہترین سلوک کرنے کا حکم دیا تھا۔ اے نبی ! جو لوگ تمھارے ہاتھ آئے ہیں انھیں سمجھاؤ اور تسلی دو اگر اللہ تعالیٰ نے تمھارے دلوں میں خیر دیکھی۔ خیر سے مراد ایمان ہے تو اللہ تعالیٰ تمھیں اس فدیہ کے بدلے بہتر مال عنایت فرمائے گا۔ اگر تم ایمان لے آؤ تو تمھارے سابقہ جرائم اور گناہ معاف کردیے جائیں گے کیونکہ اللہ تعالیٰ معاف کرنے والا نہایت مہربان ہے۔ اس کے بعد نبی محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اطمینان دلایا گیا ہے کہ اگر یہ لوگ آپ سے خیانت کریں تو ان میں سے پہلے بھی کچھ لوگ اللہ تعالیٰ سے خیانت کرچکے ہیں اور جس طرح اللہ تعالیٰ نے انھیں پہلے آپ کا قیدی بنایا ہے اگر انھوں نے آئندہ خیانت کی تو اللہ تعالیٰ پھر انھیں تمھاری ملک میں دے گا اللہ تعالیٰ ہر بات کو جاننے والا اور اس کے ہر حکم میں حکمت مضمر ہوتی ہے۔ خیانت سے مراد عہد شکنی اور ہر قسم کی خیانت ہے یہ آیت بھی ایک وقفہ کے بعد نازل ہوئی لیکن مضمون کی مناسبت سے اسے یہاں رکھا گیا ہے۔ ہوا یہ کہ بدر کے قیدیوں میں کچھ لوگوں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اللہ کا واسطہ دے کر وعدہ کیا تھا کہ ہمارے ساتھ کچھ رعایت کی جائے ہم واپس جا کر اپنی قوم کو اسلام لانے پر آمادہ کریں گے لیکن واپس جا کر انھوں نے اپنا وعدہ پورا نہ کیا گویا کہ یہ عہد شکنی انھوں نے بالواسطہ اللہ تعالیٰ سے کی ہے اس میں بھی آپ کے لیے تسلی کا پہلو ہے۔ کہ آپ سے خیانت نہیں کی گئی بلکہ اللہ تعالیٰ سے انھوں نے خیانت کی ہے لہٰذا آپ کو افسردہ نہیں ہونا چاہیے۔ یہاں قیدیوں کے ساتھ مشروط وعدہ کیا گیا ہے کہ اگر ایمان لے آؤ تو تمھارے گناہ بخشنے کے ساتھ دنیا میں بھی بہتر بدلہ دیا جائے گا۔ اس سلسلے میں حضرت عباس (رض) کا واقعہ بیان کرنا کافی ہے بدر میں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے چچا حضرت عباس آپ کے چچا زاد عقیل اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے داماد ابو العاص بھی قیدیوں میں شامل تھے جن سے فدیہ لیا گیا تھا۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے ساتھیوں کو ہدایت فرمائی کہ میرے چچا کے ساتھ ایک اوقیہ وزن کے برابر بھی رعایت نہ کی جائے کیونکہ آپ جانتے تھے کہ یہ مال دار ہونے کے باوجود بخل کی طرف مائل ہیں۔ جب صحابہ نے ان سے چار ہزار درہم کا مطالبہ کیا تو جناب عباس نے کہا کہ میرے پاس تو کچھ بھی نہیں ہے جس پر نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انھیں مخاطب فرمایا کہ چچا وہ بات کس طرح ہے کہ جب آپ بدر کی طرف آنے لگے تھے تو میری چچی ام الفضل سے آپ نے کہا تھا کہ یہ درہم ودینار حفاظت سے رکھنا اگر بدر میں مجھے کچھ ہوگیا تو تیری گزران کے لیے کافی ہیں۔ یہ سنتے ہی حضرت عباس (رض) نے کلمہ پڑھا اور کہا کہ میرا دل مان گیا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) واقعی ہی اللہ کے رسول ہیں کیونکہ جب میں نے آپ کی چچی سے یہ بات کی تھی تو اس وقت کوئی تیسرا شخص موجود نہیں تھا اس کے بعد حضرت عباس نے اپنے دو بھتیجوں اور ایک حلیف عتبہ بن عمرو کا فدیہ بھی ادا کیا حضرت عباس فرمایا کرتے تھے میں نے بیس اوقیہ فدیہ ادا کیا تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے اس کے بدلے مجھے بہت ہی زیادہ مال عطا فرمایا اور نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے زمزم کی تولیت دی اور میں امید کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ میری بخشش بھی فرمائے گا۔ (تفسیر ماجدی) مسائل ١۔ مومن کے لیے ایمان سب سے بڑی دولت ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ گناہ معاف کرنے والا ہے کیونکہ وہ غفور و رحیم ہے۔ ٣۔ خائن بالآخر ذلیل ہوتا ہے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے اور اس کے حکم میں ہمیشہ حکمت پائی جاتی ہے۔ الانفال
71 الانفال
72 فہم القرآن ربط کلام : اللہ اور اس کے رسول کی خاطر ہجرت کرنا ہر کسی کے بس کا روگ نہیں۔ یہ ایسی پل صراط ہے جس کی دھار تلوار سے زیادہ تیز اور بال سے زیادہ باریک ہے۔ ہجرت کی تکالیف ومشکلات ایمان سے خالی دل کو ننگا کردیتی ہیں یہ ایسا ترازو ہے جس میں ہر آدمی نہیں بیٹھ سکتا۔ اس پیمانے سے کھرے کھوٹے کا اندازہ ہوجاتا ہے۔ قرآن مجید نے اسے ایمان کا معیار قرار دیا ہے۔ مہاجر اپنا وطن اور عزیز و اقربا کو چھوڑ کر تنہائی محسوس کرتا اس لیے آپ نے مہاجرین اور انصار کے درمیان مواخات کروائی تاکہ باہمی محبت پیدا ہونے سے مہاجرین کے معاشی، معاشرتی، اور خاندانی مسائل حل ہو سکیں۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ مہاجرین کے مسائل حل کرنا حکومت اور عام مسلمانوں کا فرض ہے۔ سورۃ النساء آیت نمبر ٨٩ میں صاف طور پر فرمادیا گیا ہے کہ جو لوگ اللہ کی راہ میں ہجرت نہیں کرتے ان سے تمھیں رشتے ناطے اور دوستی رکھنے کی اجازت نہیں ہے۔ یہاں ان لوگوں کو ایک دوسرے کا دوست اور وارث قرار دیا گیا ہے۔ جنھوں نے ایمان لانے کی پاداش میں ہجرت کی اور اللہ کے راستے میں اپنے مال و جان کے ساتھ جہاد کیا اور جن لوگوں نے مہاجروں کو جگہ دی اور ان کے ساتھ ہر طرح کا تعاون کیا یہ لوگ ایک دوسرے کے دوست اور وارث قرار پائے۔ جو لوگ ایمان لائے مگر مجبوری نہ ہونے کے باوجود ہجرت کے لیے آمادہ نہ ہوئے ان کے ساتھ مہاجرین اور انصار کی نہ دوستی ہونی چاہیے اور نہ وہ ایک دوسرے کے وارث ہو سکتے ہیں یہاں تک کہ وہ ہجرت کرکے مدینہ پہنچ جائیں۔ ہجرت کرنے کا ارادہ رکھنے والے لوگ دوسرے مسلمانوں سے دین کے بارے میں مدد طلب کریں۔ تو ان کی مدد کرنا مسلمانوں پر لازم ہے ہاں ان لوگوں کی مسلمان مدد نہیں کرسکتے کہ جس قوم میں وہ رہ رہے ہیں اس کے ساتھ تمھارا صلح اور آشتی کا معاہدہ قرار پا چکا ہو جو کچھ تم کرتے ہو اللہ تعالیٰ اسے اچھی طرح دیکھ رہا ہے یعنی تمھیں اللہ تعالیٰ کے فرمان کی عہد شکنی نہیں کرنی چاہیے۔ سورۃ النساء میں ہجرت کو ایمان اور دوستی کا معیار قرار دیا ہے اور یہاں ہجرت کو دوستی اور وراثت کے لیے بنیاد متعین فرمایا ہے کہ ہجرت نہ کرنے والوں کے ساتھ نہ تم دلی دوستی رکھ سکتے ہو اور نہ ہی تم کسی کے مرنے کے بعد اس کی وراثت کے وارث ہو سکتے ہو۔ یہاں وہ لوگ مستثنٰی ہیں جو دار الکفر میں ہیں مگر اس قوم کے ساتھ اچھے تعلقات رکھنے کا معاہدہ ہوچکا ہے ایسی صورت میں ہجرت نہ کرنے والوں کے ساتھ تعاون نہیں کرنا چاہیے۔ یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایسے لوگوں کے ساتھ تعاون کیوں نہیں کرنا چاہیے حالانکہ وہ مسلمان ہوچکے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس وقت مدینہ کی طرف ہجرت کرنا فرض ہونے کے ساتھ اسے ایمان کی کسوٹی قرار دیا گیا تھا۔ ایک شخص کلمہ پڑھ کر اللہ اور اس کے رسول کی مقرر کردہ کسوٹی پر پورا نہیں اترتا اور وہ دار کفر کو چھوڑ کر دارالسلام جانے کی بجائے اپنا مفاد، رشتہ داری اور دارالکفر کو مقدم سمجھتا ہے تو اس کی مدد کرنے کا اخلاقی، قانونی اور ایمان کے حوالے سے کیا جواز باقی رہتا ہے ؟ سوائے اس کے کہ جو لوگ کسی مجبوری کی وجہ سے دار الکفر میں رہنے پر مجبور ہوں ان کے بارے میں اسلامی حکومت پر فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ دارالکفرکی حکومت کو ان پر ظلم کرنے سے باز رکھے بصورت دیگر ان کے ساتھ کیے ہوئے معاہدے پر نظر ثانی کرنا ہوگی کیونکہ سورۃ النساء آیت نمبر ٧٥ میں قتال فی سبیل اللہ کا ایک جواز یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ تمھیں ایسے لوگوں کی خاطر بھی جہاد کرنا چاہیے کہ جو کمزور ہیں اور ان کے لیے دارالکفر سے نکلنے کی کوئی صورت نہیں ہے۔ (وَمَا لَکُمْ لَا تُقَاتِلُونَ فِی سَبِیْلِ اللّٰہِ وَالْمُسْتَضْعَفِیْنَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَآءِ وَالْوِلْدَانِ الَّذِینَ یَقُولُونَ رَبَّنَا أَخْرِجْنَا مِنْ ہَذِہِ الْقَرْیَۃِ الظَّالِمِ أَہْلُہَا وَاجْعَلْ لَنَا مِنْ لَدُنْکَ وَلِیًّا وَاجْعَلْ لَنَا مِنْ لَدُنْکَ نَصِیْرًا) [ النساء : ٧٥] ” مسلمانو! تمھیں کیا ہوگیا ہے کہ تم اللہ کی راہ میں جہاد نہیں کرتے جبکہ کئی کمزور مرد عورتیں اور بچے ایسے ہیں جو یہ فریاد کرتے ہیں اے ہمارے رب ! ہمیں اس بستی سے نکال جس کے باشندے ظالم ہیں اور اپنی جناب سے ہمارے لیے کوئی حامی مقرر کر دے اور اپنی جناب سے کوئی مددگار بھی پیدا فرما دے۔“ (عَنْ عَاءِشَۃ (رض) قَالَتْ سُءِلَ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عَنِ الْہِجْرَۃِ فَقَالَ لَا ہِجْرَۃَ بَعْدَ الْفَتْحِ وَلَکِنْ جِہَادٌ وَنِیَّۃٌ وَإِذَا اسْتُنْفِرْتُمْ فَانْفِرُوا)[ رواہ مسلم، کتاب الامارۃ، باب المبایعۃ بعد فتح مکہ] ” حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ہجرت کے بارے میں سوال کیا گیا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا فتح مکہ کے بعد ہجرت نہیں ہے لیکن جہاد کی نیت رکھنی چاہیے اور جب تم کو نکلنے کا کہا جائے تو تم نکل پڑو۔“ (یہ صحابہ (رض) کے لیے فرمان تھا ورنہ کسی ملک میں مسلمانوں کا رہنا اور ان کا ایمان بچانا مشکل ہوجائے تو ان کے لیے وہاں سے ہجرت کرنے کی اجازت ہے۔ اور ان کا اپنے گھروں سے نکلنا ہجرت میں کہلائے گا۔ مسائل ١۔ مہاجر اور انصار ایک دوسرے کے دوست اور وارث ہیں۔ ٢۔ ولایت کا معنی دوستی، بھائی چارہ اور ایک دوسرے کا وارث بننا ہے۔ ٣۔ معاہد قوم کے ساتھ کیے ہوئے وعدے کو دیانت داری کے ساتھ نبھانا چاہیے۔ ٤۔ دارالکفر میں رہنے والے لوگوں کی مشروط مدد کرنا فرض ہے۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ سب کے اعمال کو دیکھنے والا ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ سب کچھ جانتا اور دیکھتا ہے : ١۔ کیا آپ نہیں جانتے اللہ آسمان و زمین کی ہر چیز کو جانتا ہے۔ (الحج : ٧٠) ٢۔ اللہ تعالیٰ کے لیے مثالیں بیان نہ کرو اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔ (النحل : ٧٤) ٣۔ اس بات کو اچھی طرح جان لو کہ اللہ تمہارے دلوں میں پرورش پانے والے خیالوں سے بھی واقف ہے۔ (البقرۃ : ٢٣٥) ٤۔ اللہ سے ڈر جاؤ اور جان لو اللہ تمہارے اعمال کو دیکھنے والا ہے۔ (البقرۃ: ٢٣٣) الانفال
73 فہم القرآن ربط کلام : مسلمانوں کو ایک دوسرے کا دوست اور وارث قرار دینے کے بعد کفار کے بارے میں فیصلے کا اعلان۔ اس سے پہلے مسلمانوں کی آپس میں اخوت اور باہمی وارث ہونے کے بارے میں ارشاد تھا۔ اب کفار کے بارے میں فیصلہ سنایا جاتا ہے کہ کافر ایک دوسرے کے خیر خواہ، دوست اور وارث ہیں۔ اسی بنیاد پر پوری دنیا کے کفار کو ایک ملت قرار دیا گیا ہے۔ یہی وہ بنیاد ہے جس کی بنا پر دو قومی نظریہ کی اصطلاح معرض وجود میں آئی اور اسی سے ثابت ہوتا ہے کہ بنیادی طور پر کسی قوم کا تشخص علاقائی ٗلسانی اور جغرافیائی بنیاد پر نہیں ہوتا بلکہ حقیقی تشخص نظریہ کی بنیاد پر ہوتا ہے اور ہونا چاہیے۔ اس لیے اسلام نے کفار اور مشرکین سے قلبی دوستی، رشتہ داری اور ایک دوسرے کی موروثیت کو حرام قرار دیا ہے۔ اگر مسلمان معاہد قوم کے ساتھ عہد شکنی اور کفار کے ساتھ قلبی دوستی اور رشتہ داری قائم کریں گے تو دنیا میں دنگا فساد پیدا ہوگا۔ کیونکہ اس میں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی، دین میں بگاڑ، مسلمانوں کے وقار میں کمی اور ایک دوسرے کے معاملات میں بلا سبب مداخلت کرنے سے دنیا میں مسلسل جنگ وجدال جاری رہے گا۔ جو کسی کے لیے بھی بہتر نہیں ہے۔ یہاں تک کہ دارالکفر میں مسلمانوں کی مدد کا معاملہ ہے۔ اس کی کئی صورتیں ہیں اگر وہ منظم ہو کر اپنے حقوق منوائیں گے توجلد انھیں تحفظ مل جائے گا کیونکہ ہر ملک کے دستور میں اقلیتوں کے حقوق تحفظ کی ضمانت دی جاتی ہے بالخصوص جس کافر ملک کے ساتھ مسلمان حکومت کا معاہدہ ہو پہلے زمانے میں ایسی گارنٹی نہیں ہوتی تھی۔ تفسیر بالقرآن کافر ایک دوسرے کے دوست ہوتے ہیں : ١۔ کافر ایک دوسرے کے دوست ہوتے ہیں۔ (المائدۃ: ٥١) ٢۔ اے ایمان والو کفار کو اپنا دوست نہ بناؤ۔ (التوبۃ: ٢٣) ٣۔ جو بھی کفار کو اپنا دوست بنائے گا وہ ظالم ہوگا۔ (الممتحنۃ: ٩) ٤۔ کفار کے شیطان دوست ہیں۔ (البقرۃ: ٢٥٧) ٥۔ ظالم ایک دوسرے کے دوست ہیں۔ (الجاثیۃ : ١٩) الانفال
74 فہم القرآن ربط کلام : کفار کے مقابلہ میں مومنوں کا کردار اور ان کی آپس میں محبت۔ اوپر کی آیات میں مسلمانوں کو ایک دوسرے کا وارث اور دوست قرار دیا گیا ہے۔ کفار اور جان بوجھ کر ہجرت نہ کرنے والے مسلمانوں سے لاتعلقی کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ پھر ان مسلمانوں کے ایمان کی تصدیق فرمائی جو اللہ تعالیٰ کی خاطر ہجرت کرنے والے اور اس کفار سے تعلقات توڑتے ہیں اور جہاد فی سبیل اللہ میں مصروف رہتے ہوئے مہاجروں کی ہر قسم کی امداد کرتے ہیں۔ یہ لوگ اللہ کے ہاں پکے اور سچے مومن ہیں۔ ان کے گناہ معاف کردیے جائیں گے اور انھیں بہترین رزق سے نوازا جائے گا۔ تاریخ گواہ ہے کہ جن لوگوں نے بھی اللہ کی رضا کی خاطر ہجرت اور یہ کام کیے۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں دنیا میں بھی مال واسباب سے مالا مال فرمایا۔ (عَنْ أَنَسٍ (رض) قَالَ قَدِمَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ الْمَدِینَۃَ فَآخَی النَّبِیُّ َ بَیْنَہُ وَبَیْنَ سَعْدِ بْنِ الرَّبِیعِ الْأَنْصَارِیّ ِ وَکَانَ سَعْدٌ ذَا غِنًی فَقَالَ لِعَبْدِ الرَّحْمَنِ أُقَاسِمُکَ مَالِی نِصْفَیْنِ وَأُزَوِّجُکَ قَالَ بَارَکَ اللّٰہُ لَکَ فِی أَہْلِکَ وَمَالِکَ دُلُّونِی عَلٰی السُّوقِ فَمَا رَجَعَ حَتَّی اسْتَفْضَلَ أَقِطًا وَسَمْنًا فَأَتَی بِہٖ أَہْلَ مَنْزِلِہِ فَمَکَثْنَا یَسِیرًا أَوْ مَا شَاء اللّٰہُ فَجَاءَ وَعَلَیْہِ وَضَرٌ مِنْ صُفْرَۃٍ فَقَالَ لَہٗ النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَہْیَمْ قَالَ یَا رَسُول اللّٰہِ تَزَوَّجْتُ امْرَأَۃً مِنْ الْأَنْصَارِ قَالَ مَا سُقْتَ إِلَیْہَا قَالَ نَوَاۃً مِّنْ ذَہَبٍ أَوْ وَزْنَ نَوَاۃٍ مِنْ ذَہَبٍ قَالَ أَوْلِمْ وَلَوْ بِشَاۃٍ) [ رواہ البخاری، کتاب البیوع، باب قول اللہ تعالیٰ فإذا قضیت الصلاۃ] ” حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں عبدالرحمن بن عوف (رض) مدینہ منورہ آئے تو نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سعد بن ربیع انصاری (رض) اور ابن عوف (رض) کے درمیان مواخات قائم کی۔ سعد مال دار آدمی تھے۔ انھوں نے عبدالرحمن بن عوف (رض) سے کہا میں اپنے مال کو دو حصوں میں تقسیم کرتا ہوں اور آپ کے نکاح کا اہتمام کرتا ہوں عبدالرحمن بن عوف (رض) نے کہا۔ اللہ تعالیٰ تمھارے مال اور اہل میں برکت کرے۔ مجھے بازار کے بارے میں معلومات دیجیے وہ بازار گئے اور وہاں سے گھی اور پنیر لے کر واپس آئے۔ ہمیں مدینہ میں ٹھہرے کچھ دیر گزری تھی تو وہ آئے اور ان پر زرد رنگ کے نشانات تھے۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے فرمایا یہ کیا ہے ؟ انھوں نے کہا اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں نے انصاری عورت سے شادی کی ہے۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تم نے کتنا مہر ادا کیا ہے ؟ عبدالرحمن نے کہا گٹھلی کے برابر سونا یا اس کے کم و بیش سونا ادا کیا ہے۔ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ولیمہ کیجیے خواہ ایک بکری ہی ذبح کرو۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ کی راہ میں ہجرت اور جہاد کرنا باعث مغفرت ہے۔ ٢۔ مسلمانوں کی مدد کرنے والوں کے لیے باعزت رزق ہے۔ تفسیر بالقرآن کن لوگوں کے لیے مغفرت ہے : ١۔ اللہ سے بخشش طلب کرنے والوں کے لیے مغفرت ہے۔ (آل عمران : ١٣٦) ٢۔ اللہ کے راستے میں جان دینے والوں کے لیے مغفرت ہے۔ (آل عمران : ١٥٧) ٣۔ اللہ کے راستے میں جہاد کرنے والوں کے لیے مغفرت ہے۔ (النساء : ٩٦) ٤۔ صبر کرنے والوں کے لیے مغفرت ہے۔ (ہود : ١١) ٥۔ ایمان کے ساتھ صالح اعمال کرنے والوں کے لیے مغفرت ہے۔ (الحج : ٥٠) ٦۔ پاکباز لوگوں کے لیے مغفرت ہے۔ (النور : ٢٦) ٧۔ اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والوں کے لیے مغفرت ہے۔ (یٰسٓ : ١١) الانفال
75 فہم القرآن ربط کلام : پہلی آیات میں مہاجرین اور انصار کو ایک دوسرے کا وارث قرار دیا گیا تھا اب اس حکم کو منسوخ کرکے صرف رشتہ دار ایمانداروں کو ایک دوسرے کا وارث قرار دیا گیا ہے۔ اس فرمان میں دو حکم دئیے گئے ہیں۔ یہاں ان مسلمانوں کو بھی ملت اسلامیہ کا حصہ قرار دیا گیا ہے جو پہلی مرتبہ مدینہ کی طرف ہجرت نہ کرسکے لیکن بعدازاں وہ ہجرت کرکے مدینہ آگئے۔ ان کے بارے میں حکم دیا ہے کہ وہ جہاد اور ہجرت کرنے کی بناء پر تمھارے ساتھی اور ملت اسلامیہ کے رکن ہیں۔ تم ان کے ساتھ قلبی دوستی، اور مواخات قائم رکھو مگر تم ہجرت اور مواخات کی بنیاد پر ایک دوسرے کے وارث نہیں بن سکتے۔ اب وہی مسلمان وراثت میں حق دار ہوں گے جو آپس میں قریبی رشتہ دار ہیں۔ جن کی تفصیل اللہ کی کتاب یعنی سورۃ نساء کی آیات ١١، ١٢، ١٧٤ میں بیان ہوچکی ہے۔ مسائل ١۔ تمام مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ ہر معاملے کو خوب جانتا ہے۔ الانفال
1 تعارف سورۃ التوبۃ یہ مدنی سورۃ ١٦ رکوع ١٢٩ آیات اور ٤٠٧٨ کلمات پر محیط ہے۔ اس مبارک سورۃ کے دو نام ہیں التوبہ اور برأت۔ التوبۃ کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ اس سورۃ کی آیت ١١٨ میں غزوہ تبوک سے پیچھے رہ جانے والے مخلص صحابہ کی توبہ کی قبولیت کا ذکر ہے۔ اس سورت کو سورۃ البرأۃ اس لیے کہا جاتا ہے کہ اس کا آغاز ہی اس لفظ سے ہوا ہے کہ جس میں مشرکین مکہ اور ان کے گرد وپیش لوگوں سے کیے گئے معاہدات سے برأت کا اعلان کیا گیا ہے۔ اس سورۃ کا نزول ٩ ہجری کے قریب ہوا ہے جب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت ابو بکر صدیق کو حجاج کا امیر بنا کر روانہ کرچکے تھے ان کے رخصت کرنے کے فوراً بعد اس سورۃ کی ابتدائی آیات نازل ہوئیں تب اللہ کے پیغمبر نے اپنے چچا زاد بھائی حضرت علی کو مکہ روانہ فرمایا کہ وہ آپ کی طرف سے حج کے موقع پر مشرکین کے ساتھ معاہدہ سے برأت کا اعلان کریں چنانچہ حضرت علی (رض) نے حجاج میں سرعام یہ اعلان کیا کہ اس سال کے بعد کوئی مشرک بیت اللہ میں داخل نہیں ہوسکتا گویا کہ اس اعلان کا مدعا یہ تھا کہ اب وہ دور گزر چکا ہے جب مشرکین بیت اللہ کی تولیت کا دعوٰی کرتے تھے اور مسلمانوں کو اس کے داخلہ سے روکتے تھے۔ دوسرے الفاظ میں مسلمانوں کی طرف سے بیت اللہ کی تولیت اور اسلام کے مکمل غلبہ کا اعلان تھا۔ چنانچہ اعلان ہوتا ہے کہ آج کے بعد اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اعلان کرتے ہیں کہ ان کا مشرکین کے ساتھ کیے گئے عہد سے کوئی واسطہ نہیں تاہم اس اعلان میں یہ گنجائش رکھی گئی کہ جن مشرکین کے ساتھ کیے گئے عہد کی مدت باقی ہے اس کی پاسداری کی جائے گی جس کا مفہوم یہ ہے کہ آئندہ سر زمین حجاز میں مشرکوں کے ساتھ کوئی معاہدہ نہ ہوگا جس کے بنیادی طور پر دو اسباب تھے۔ ایک مشرکین کا بار بار مسلمانوں سے عہد شکنی کرنا اور دوسرا مرکز اسلام کو ہمیشہ کے لیے اغیار سے پاک کرنا تھا جس طرح آج بھی نظر یاتی حکومت اپنے دارالحکومت میں اغیار کو رہنے کا حق نہیں دیتی البتہ ایسے لوگ سچی توبہ کرکے دائرہ اسلام میں داخل ہو کر نماز اور زکوٰۃ کی ادائیگی کے ساتھ اپنی مسلمانی ثابت کریں تو وہ مسلمانوں کے بھائی تصور ہوں گے اور اسلامی مملکت میں جہاں چاہیں رہ سکتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی آیت ١٦ سے لے کر آیت ٢٤ میں واضح فرمایا مساجد کی تولیت اور نگرانی کا صرف ان لوگوں کو حق پہنچتا ہے جو عقیدہ توحید رکھنے کے ساتھ ارکان اسلام کی پابندی کرنے والے ہوں اگر وہ عقیدہ توحید اور ارکان اسلام سے لاپرواہی کرتے ہیں تو بیت اللہ اور حجاج کرام کی خدمت کرنا اللہ تعالیٰ کے ہاں کوئی حیثیت نہیں رکھتی اور نہ ہی ایسے لوگوں کے ساتھ دلی محبت اور رشتہ ناطہ قائم کرنے کی اجازت ہے، پھر مسلمانوں کو تسلی دیتے ہوئے انھیں غزوۂ بدر اور حنین کا واقعہ یاد کروایا کہ جب اللہ تعالیٰ نے خصوصی مدد کے ساتھ مسلمانوں کی تائید فرمائی تھی، پھر یہود و نصاریٰ کے علماء اور عوام کے دینی اور اخلاقی کردار کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ ان کی غالب اکثریت حرام خور اور دین اسلام کے راستے میں رکاوٹ بن چکی ہے۔ اس کے بعد غزوۂ تبوک کا پس منظر اور اس کے حالات کا ذکر کیا جس کا منظر یہ تھا ایک طرف مسلمانوں کی فصلیں تیار تھیں اور دوسری طرف موسم کی شدت اور تبوک کا دور دراز کا سفر سامنے تھا۔ ان حالات میں منافقوں نے ایک ایک کرکے اس غزوہ سے فرار کا راستہ اختیار کیا جن میں ایسے لوگ بھی تھے جنھوں نے مختلف بہانے بنا کر رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے جنگ سے پیچھے رہ جانے کی اجازت طلب کی آپ منافقین کی بد نیتی اور لشکر اسلام کو ان کی شرارتوں سے محفوظ رکھنے کے لیے اجازت دیتے رہے۔ منافقین کے سوا مدینہ میں مسلم خواتین اور معذور صحابہ باقی تھے جو چند صحابہ کسی عذر کے بغیر محض سستی کی بنا پر پیچھے رہ گئے۔ اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تبوک سے واپسی پر ان لوگوں کے ساتھ سوشل بائیکاٹ کا اعلان کیا جس پر صحابہ کرام (رض) نے اتنی سختی کے ساتھ عمل کیا جس کی مثال دنیاکی کسی منظم جماعت میں بھی نہیں پائی جاتی۔ اسی کا نتیجہ تھا کہ جنگ سے پیچھے رہ جانے والے صحابہ کے لیے مدینہ کی سرزمین اس طرح تنگ ہوگئی کہ ان کے لیے ان کے وجود بھی بوجھ بن گئے۔ بالآخر ان کی توبہ قبول ہوئی التوبہ کی آخری آیات میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ اعلان کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مومنوں کی جانوں کو جنت کے بدلے خرید لیا ہے اس لیے مومن اللہ کے راستے میں لڑنے مرنے سے جی نہیں چراتے ان کے ساتھ جنت کا وعدہ سچا اور پکا ہے جس کا ذکر تورات اور انجیل میں بھی پایا جاتا ہے ان لوگوں کی صفات یہ ہیں یہ سچی توبہ کرنے والے عبادت گزار، ذکر و فکر میں مشغول، روزے کے اہتمام کرنے والے اپنے رب کی بار گاہ میں رکوع، سجود کرنے کے ساتھ امر بالمعروف نہی عن المنکر کے ساتھ اپنی حیا اور حدود اللہ کی حفاظت کرنے والے ہیں اس سورۃ کی ابتدا میں مشرکین سے براءت کا اعلان ہوا ہے لہٰذا اس کے آخر میں دو ٹوک انداز میں حکم دیا ہے اے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ اور آپ پر ایمان لانے والوں کے لیے یہ جائز نہیں کہ کسی مشرک کی بخشش کے لیے دعا کریں۔ جہاں تک ابراہیم (علیہ السلام) کا معاملہ ہے انھوں نے اپنے باپ کے ساتھ ان کی بخشش کے لیے دعا کا وعدہ کیا تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا کو قبول نہیں کیا تھا۔ اس کے بعد غزوہ تبوک سے پیچھے رہ جانے والے صحابہ (رض) کی توبہ قبول کرنے کا اعلان فرماتے ہوئے مسلمانوں کو تلقین فرمائی کہ ذاتی تعلقات اور دنیاوی مفاد کی خاطر کسی کا ساتھ دینے کی بجائے ہمیشہ سچائی کی بنیاد پر لوگوں کا ساتھ دیا کرو۔ سورۃ کا اختتام سرور دو عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اوصاف حمیدہ پر کیا گیا کہ آپ اپنے ساتھیوں کے لیے نہایت مشفق و مہربان ان کی غلطیوں سے درگزر فرمانے والے اور ساتھیوں کی تکلیف کو ان سے بڑھ کر اپنی تکلیف محسوس کرنے والے ہیں۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عظیم جدوجہد، بے مثال کاوش اور شفقت و مہربانی کے باوجود اگر لوگ آپ سے اعراض کرتے ہیں تو آپ کو ان کی مخالفت اور بے اعتنائی کی پرواہ نہیں کرنی چاہیے بلکہ ایسی صورتحال پر آپ کو اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرنے کی تلقین کی گئی ہے کہ آپ کو رب عرش عظیم پر اعتماد کرنا چاہیے اس کے سوا کوئی معبود حق، حاجت روا اور مشکل کشا نہیں۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حوالے سے ہر داعی کو یہ فرمان ہے کہ وہ توحید اور دین کی دعوت دیتے ہوئے مشکلات اور پریشانیوں کی پروا کیے بغیر اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرتے ہوئے اپنا کام جاری رکھے۔ التوبہ
2 فہم القرآن ربط کلام : سورۃ انفال کے اختتام میں ایمان، ہجرت اور جہاد کو باہم بھائی چارے کی بنیاد قرار دیا گیا۔ جو اس معیاد پر پورا نہیں اترتا اس کے ساتھ مسلمانوں کا کوئی رشتہ ناطہ قائم نہیں رہ سکتا۔ اس بنا پرسورۃ التوبۃ کی ابتدا میں ایسے لوگوں سے برأت کا اعلان کیا گیا ہے۔ اس سورۃ کے تعارف میں اس کے نام کی وضاحت کردی گئی ہے تفصیل جاننے کے لیے اس کا تعارف ملاحظہ فرمائیں۔ اللہ کے رسول نے صلح حدیبیہ میں مشرکین مکہ سے اور دوسرے موقعوں پر مشرکین کے ساتھ بقائے باہمی کی بنیاد پر معاہدات کیے تھے۔ صلح حدیبیہ میں مشرکین مکہ کے ساتھ یہ شرائط طے پائی تھیں کہ آپس میں دس سال تک جنگ نہیں ہوگی۔ عرب کا جو قبیلہ ہمارا اور تمہارا حلیف بنے گا اس پر بھی اس معاہدہ کا اطلاق ہوگا۔ اس میں یہ شق بھی شامل تھی کہ اگر کوئی مسلمان مکہ والوں کے ساتھ آملے تو وہ اسے واپس نہیں کریں گے لیکن اگر کفار میں سے کوئی شخص مسلمانوں کے ساتھ آملے گا تو مسلمان اسے واپس کرنے کے پابند ہوں گے۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس معاہدہ کی پوری سختی کے ساتھ پابندی فرمائی۔ معاہدہ کی تحریر کے وقت ابو جندل (رض) کو واپس کیا اور کچھ عرصہ کے بعد ابوبصیر (رض) مسلمان ہو کر مدینہ آیا تو آپ نے اسے بھی واپس جانے کا حکم دیا لیکن مکہ والوں نے اس معاہدہ کے اس وقت پر خچے اڑا دیے جب ان کے حلیف قبیلہ بنو بکر نے مسلمانوں کے حلیف قبیلے بنو خزاعہ پر رات کے وقت شب خون مارا اور ان کا مالی و جانی نقصان کیا۔ چاہیے تو یہ تھا کہ اللہ کے رسول فی الفور معاہدہ ختم کرنے کا اعلان فرماتے لیکن آپ رحمۃ اللعالمین اور صلح جو شخصیت کے مالک تھے اس لیے آپ نے مکہ والوں کو پیغام بھیجا کہ معاہدہ کی رو سے بنو بکر کو مجبور کریں کہ وہ بنو خزاعہ کا مال واپس کریں اور ان کے مقتولوں کی دیت ادا کریں۔ مکہ والوں نے اس پیغام کا بڑا متکبرانہ جواب دیتے ہوئے اس شق کو ماننے سے انکار کردیا گویا کہ دوسرے لفظوں میں ان کی طرف سے معاہدہ ختم کرنے کا اعلان تھا۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حالات کی نزاکت کو بھانپتے ہوئے صحابہ کرام (رض) کو جہاد کی تیاری کا حکم صادر فرمایا۔ آٹھ ہجری دس رمضان المبارک کو دس ہزار کا لشکر جرار لے کر مکہ کی طرف پیش قدمی فرمائی اور اس طرح منصوبہ بندی کی کہ مکہ میں داخل ہوئے تو ایک معمولی واقعہ کے سوا کسی کو ہاتھ اٹھانے کی جرأت نہ ہوسکی اس موقع پر آپ نے بے پناہ شفقت و مہربانی فرماتے ہوئے چار پانچ قومی مجرموں کے سوا باقی سب کو معاف فرما دیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مکہ اور حجاز کے لوگ جوق در جوق اور فوج در فوج حلقہ اسلام میں داخل ہوئے۔ اس کے باوجود کچھ مشرکین ایسے تھے کہ جو اس امید پر رومیوں اور یہودیوں کے ساتھ مل کر ساز باز کرتے رہتے کہ عنقریب سلطنت رومہ کا حکمران قیصر مسلمانوں کو تہس نہس کر دے گا۔ خاص کر غزوۂ تبوک کے موقع پر مشرکین کے حوصلے اس قدر بڑھے کہ وہ سمجھتے تھے کہ اب مسلمانوں کا باقی رہنا چند دنوں کی بات ہے۔ ایسی صورت حال میں بیت اللہ کے تقدس اور اس کی مرکزیت کا تقاضا تھا کہ مشرکین کو ہمیشہ کے لیے یہاں سے نکال دیا جائے۔ چنانچہ ٨ ہجری میں مکہ فتح ہوا اور ٩ ہجری کو اللہ کے پاک نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت ابو بکر (رض) کو امیر حج بنا کر روانہ فرمایا ابھی حجاج کا قافلہ راستے میں تھا کہ مدینہ میں آپ پر اس سورۃ مبارکہ کی تیس کے قریب آیات نازل ہوئیں۔ جن میں دو ٹوک اور قطعی طور پر اعلان کیا گیا کہ اللہ اور اس کا رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مشرکین سے برأت کا اعلان کرتے ہیں۔ اس کے لیے آپ نے حضرت علی (رض) کو بھیجا کیونکہ اس زمانے میں کسی اہم عہد کی منسوخی، کے لیے قوم کا نمائندہ خود اعلان کرتا یا قریبی عزیز کے ذریعے اعلان کروایا جاتا تھا۔ آپ نے حضرت علی (رض) کو فرمایا کہ آپ میرے نمائندہ بن کر چار باتوں کا اعلان کریں حضرت علی (رض) تیز رفتاری کے ساتھ امیر حج حضرت ابو بکر صدیق (رض) کی خدمت میں پہنچے امیر حج نے ان سے استفسار فرمایا۔ امیرًاومامورًا کہ آپ امیر حج بن کر تشریف لائے ہیں یا مامورکی حیثیت سے ؟ حضرت علی (رض) نے عرض کی میں ماتحت کی حیثیت سے حاضر ہوا ہوں کیونکہ میرے ذمہ اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک اعلان کرنے کی ڈیوٹی لگائی ہے۔ چنانچہ انھوں نے جمرہ، عقبیٰ کے قریب کھڑے ہو کر اعلان فرمایا کہ یہ برأت کا اعلان اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے کیا جا رہا ہے۔ یہاں برأت کا اعلان اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے ہے جب کہ معاہدہ کی نسبت مسلمانوں کی طرف سے کی گئی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ حدیبیہ کا معاہدہ اللہ تعالیٰ کی منشاء کے مطابق ہوا تھا کیونکہ جب حضرت عمر (رض) نے اس پر اعتراض کیا تھا تو آپ نے فرمایا تھا کہ میں اللہ کا رسول ہوں لہٰذا یہ معاہدہ صرف آپ کی طرف سے ہی نہیں تھا بلکہ تمام صحابہ نے اسے تسلیم کیا جس وجہ سے اسے مسلمانوں کی طرف منسوب کیا گیا ہے۔ ١۔ اللہ اور اس کا رسول مشرکین سے کیے ہوئے عہد سے برأت کا اعلان کرتے ہیں۔ ٢۔ مشرکین چار مہینے کے اندر حدود حرم کو ہمیشہ کے لیے خالی کردیں۔ اس کے بعد کوئی مشرک حدود حرم میں داخل نہیں ہوسکتا۔ ٣۔ اگر تم ایمان لے آؤ تو دنیا اور آخرت میں تمھارے لیے بہتر ہوگا۔ ٤۔ اے مشرکو تم کبھی اللہ کو عاجز نہیں کرسکتے۔ تمھارے لیے دنیا میں ذلت اور آخرت میں شدید ترین عذاب ہوگا۔ ٥۔ جن مشرکوں نے اپنے عہد کی پاسداری کی ہے اس عہد کی تکمیل کی جائے گی۔ ٦۔ آئندہ کوئی شخص برہنہ طواف نہیں کرسکتا۔ ٧۔ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائے بغیر کوئی آدمی جنت میں داخل نہ ہو سکے گا۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے مشرکوں سے برأت کا اعلان فرما دیا۔ ٢۔ کوئی بھی مشرک حدود حرم میں داخل نہیں ہوسکتا۔ ٣۔ اللہ کافروں کو ذلیل و رسوا کرے گا۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ کفار اور مشرکوں کو دنیا میں ہی ذلیل کرتا ہے : ١۔ ہجرت کے موقعہ پر کفار ذلیل ہوئے۔ (التوبۃ: ٤٠) ٢۔ اللہ تعالیٰ نے جنگ بدر کے موقعہ پر مسلمانوں کو فتح سے ہمکنارفرما کر کفار کو ذلیل کیا۔ (آل عمران : ٢٣ اتا ١٢٧) ٣۔ فتح مکہ کے موقعہ پر اللہ تعالیٰ نے کفار کو ذلیل و خوار کیا۔ (الفتح : ١) ٤۔ غزوۂ حنین میں مشرک شکست فاش سے دو چار ہو کر ذلیل ہوئے۔ (التوبۃ: ٢٦) ٥۔ جنگ خندق میں کفار اور اہل کتاب ذلیل ہوئے۔ (الاحزاب : ٢٥ تا ٢٧) التوبہ
3 فہم القرآن ربط کلام : گزشتہ سے پیوستہ : مشرکین کی سازشوں اور بد عہدیوں کی ٹھیک ٹھیک سزا تو یہ تھی کہ انھیں فوری طور پر حدود حرم سے نکال باہر کیا جاتا لیکن اللہ تعالیٰ کی بے پایاں رحمت اور اس کے رسول کی شفقت کا نتیجہ تھا کہ ان کے لیے یہ اعلان کیا گیا کہ چار مہینے تک تم کھلے عام حدود حرم کے اندر رہتے ہوئے اپنے کام کاج اور معاملات کو سمیٹ کر نکل جاؤ اور ساتھ ہی انھیں یہ انتباہ فرمایا کہ وہ دن گزر گئے کہ جب تم سازشیں کیا کرتے تھے اب ایسا کرو گے تو انتہائی ذلیل کردیے جاؤ گے اور تم کسی طور پر بھی اللہ تعالیٰ کو بے بس نہیں کرسکتے۔ کفار اور مشرکین کی حرم کی تولیت سے محرومی اور ہمیشہ کے لیے اپنے گھروں سے بےدخل ہونا کچھ کم ذلت نہ تھی مگر اس کے باوجود انھیں متنبہ کردیا گیا کہ اگر تم باز نہ آئے تو دنیا میں ذلیل اور آخرت میں اذیت ناک عذاب میں مبتلا کیے جاؤ گے البتہ تم ایمان لے آؤ تو تمھارے لیے دنیا میں خیر ہی خیر اور آخرت میں بہترین جزا ہوگی۔ عام لوگ عرفہ کے دن جمعہ ہو تو اسے حج اکبر کہتے ہیں حالانکہ اس کی کوئی شرعی دلیل نہیں۔ حج اکبر کی اصطلاح عمرہ کے مقابلہ میں ہے کیونکہ عرب عمرہ کو حج اصغر اور حج کو حج اکبر کہا کرتے تھے۔ حدود حرم سے غیر مسلموں کو نکالنا اس لیے ضروری تھا تاکہ امت مسلمہ کا مرکز روحانی نجاست اور سیاسی سازشوں سے ہمیشہ کے لیے پاک ہوجائے۔ وفات سے پہلے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہودیوں کو ہمیشہ کے لیے جزیرہ نما عرب سے نکل جانے کا حکم دیا کیونکہ اس قوم نے بھی شرارتوں اور سازشوں کی حد کردی تھی۔ اس لیے آپ نے حکم صادر فرمایا کہ انھیں ہمیشہ کے لیے سر زمین حجاز سے نکال باہر کیا جائے۔ (عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ بَیْنَا نَحْنُ فِی الْمَسْجِد خَرَجَ النَّبِیُّ فَقَالَ انْطَلِقُوْا اِلٰی یَہُوْدَ فَخَرَجْنَا مَعَہٗ حَتّٰی جِءْنَا بَیْتَ الْمِدْرَاسِ فَقَام النَّبِیُّ فَقَالَ یَا مَعْشَرَ یَہُوْدَ اَسْلِمُوْا تَسلَمُوْا اِعْلَمُوْا اَنَّ الْاَرْضَ لِلّٰہِ وَلِرَسُوْلِہٖ وَاِنِّیْ اُرِیْدُ اَنْ اُجْلِیَکُمْ مِنْ ھٰذِہٖ الْاَرْضِ فَمَنْ وَّجَدَ مِنْکُمْ بِمَالِہٖ شَیْءًا فَلْیَبِعْہُ) [ رواہ البخاری : کتاب الجزیۃ، باب اخراج الیہود من جزیرۃ العرب ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں ہم مسجد میں موجود تھے کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لائے۔ آپ نے فرمایا یہودیوں کی جانب چلو۔ ہم آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ چلے اور ان کے مدرسہ میں پہنچے۔ نبی مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کھڑے ہو کر فرمایا اے یہود مسلمان ہوجاؤ تم محفوظ رہو گے اور یقین کرلو یہ زمین اللہ اور اس کے رسول کے قبضہ میں ہے میں تمہیں اس سرزمین سے جلا وطن کرنا چاہتا ہوں۔ تم میں سے جس شخص کو اس کے مال کے بدلے کچھ دستیاب ہوتا ہے تو وہ اسے فروخت کر دے۔“ مسائل ١۔ اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا مشرکین کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ ٢۔ عمرہ کے مقابلے میں حج کو حج اکبر کہا جاتا ہے۔ ٣۔ ایمان لانا اور اس کے تقاضے پورے کرنے والا دنیا اور آخرت میں بہترین اجر پائے گا۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ مشرکوں اور کافروں کو بالآخر ذلیل کرے گا۔ تفسیر بالقرآن کفار کی سزا : ١۔ بے شک وہ لوگ جنہوں نے ہماری آیات کی تکفیر کی ان کے لیے شدید عذاب ہے۔ ( آل عمران : ٤) ٢۔ کفار کے لیے دردناک عذاب ہے اور ان کا کوئی مددگار نہیں ہوگا۔ (آل عمران : ٩١) ٣۔ ان کے لیے دنیا میں رسوائی ہے اور آخرت میں بہت بڑا عذاب ہوگا۔ (البقرۃ: ١١٤) ٤۔ وہ لوگ جو ہماری آیات کی تکذیب کرتے ہیں وہ عذاب میں مبتلا ہونگے۔ (المائدۃ : ٧٣) ٥۔ کفار کے چمڑے جب جل جائیں گے تو ہم انہیں عذاب کا مزہ چکھانے کے لیے انکے چمڑے تبدیل کردیں گے۔ (النساء : ٥٦) التوبہ
4 ” مگر مشرکوں میں سے وہ لوگ جن سے تم نے عہد کیا، پھر انہوں نے تم سے عہد میں کچھ کمی نہیں کی اور نہ تمہارے خلاف کسی کی مدد کی ان کے ساتھ عہد کی مدت پوری کرو۔ بے شک اللہ متقی لوگوں سے محبت کرتا ہے۔ (٤) التوبہ
5 فہم القرآن ربط کلام : جن مشرکوں نے معاہدے کی خلاف ورزی کی تھی ان کو چار مہینے اور جنھوں نے مسلمانوں سے کیے ہوئے عہد کی پاسداری کی ان کو معاہدے کے اختتام تک مہلت دی گئی ہے۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے معاہدات کرنے والے کفار اور مشرکین کی دو قسمیں تھیں ایک وہ جنھوں نے حدیبیہ کے مقام پر صلح کا معاہدہ کرنے کے باوجود اسے توڑ دیاتھا۔ ان کو چار مہینے کی مہلت دی گئی لیکن جو لوگ آپ سے کیے ہوئے عہدکی پاسداری کر رہے تھے انھیں عہد کے اختتام تک مہلت دی گئی ہے۔ اس لیے انھیں برأتِ عہد سے مستثنٰی قرار دیتے ہوئے وضاحت فرمائی کہ ان مشرکوں کے ساتھ ابھی برأت کا اعلان نہیں ہے جنھوں نے نہ عہد کی خلاف ورزی کی اور نہ ہی مسلمانوں کے خلاف کسی کے ساتھ تعاون کیا۔ ان کے ساتھ کیے ہوئے عہد کی مکمل طور پر پاسداری ہونی چاہیے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ متقین کو پسند کرتا ہے یہاں تقویٰ سے پہلی مراد عہد شکنی سے بچنا ہے جب حرمت کے مہینے گزر جائیں تو پھر مشرکوں کو جہاں پاؤ قتل کرو اور ان کو ہر کمین گاہ سے گرفتار کرلو اور ان کے لیے پوری طرح مورچہ بندی کرو۔ اگر یہ ایمان لے آئیں اور اس کے ثبوت میں نماز قائم کریں اور زکوٰۃ ادا کریں تو پھر ان کا راستہ چھوڑ دو کیونکہ اللہ تعالیٰ معاف کرنے والا انتہائی مہربان ہے۔ گیا رہویں آیت میں فرمایا کہ اگر توبہ کرکے نماز اور زکوٰۃ ادا کریں تو یہ تمھارے دینی بھائی ہیں یہاں صرف نماز، زکوٰۃ کا اس لیے ذکر کیا ہے کہ نماز بدنی عبادات کی ترجمان ہے۔ جس میں روزہ اور حج بھی شامل ہیں اور زکوٰۃ مالی عبادات کا سرچشمہ ہے جس میں صدقہ و خیرات، حقوق العباد شامل ہیں۔ یادرہے کہ مشرکین کو ہر مقام پر قتل کرنے کا حکم حالت جنگ میں ہے۔ عام حالات میں کسی مشرک یا کافر کو قتل کرنے کی اجازت نہیں۔ (عَنْ ابْنِ عُمَرَ (رض) أَنَّ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتّٰی یَشْہَدُوا أَنْ لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُول اللّٰہِ وَیُقِیمُوا الصَّلَاۃَ وَیُؤْتُوا الزَّکَاۃَ فَإِذَا فَعَلُوا ذَلِکَ عَصَمُوا مِنِّی دِمَاءَ ہُمْ وَأَمْوَالَہُمْ إِلَّا بِحَقِّ الْإِسْلَامِ وَحِسَابُہُمْ عَلٰی اللّٰہِ) [ رواہ بخاری : کتاب الایمان، باب فان کان تابوا] ” حضرت عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں بلاشبہ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا مجھے لوگوں سے قتال کا حکم دیا گیا ہے یہاں تک کہ وہ گواہی دیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں ہے اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں اور وہ نماز قائم کریں، زکوٰۃ ادا کریں۔ جب انہوں نے یہ کام کرلیے تو انہوں نے مجھ سے اپنا خون اور مال بچا لیا سوائے اسلام کے حق کے اور اس کا حساب اللہ پر ہے۔“ (اسلام کے حقوق سے مراد حدود اللہ کا نفاذ ہے ) مسائل ١۔ عہد کی پاسداری کرنے والوں کے ساتھ عہد کا احترام کرنا چاہیے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ متقین کو پسند کرتا ہے۔ ٣۔ کفر و شرک سے توبہ کرنے کے بعد نماز اور زکوٰۃ کی ادائیگی توبہ کرنے کی نشانی ہے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ معاف کرنے والا انتہائی مہربان ہے۔ التوبہ
6 فہم القرآن ربط کلام : دین میں کفر و شرک سے بڑھ کر کوئی گناہ نہیں اس کے باوجود توبہ کا دروازہ کھلا رکھا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے توبہ کرنے، نماز اور زکوٰۃ ادا کرنے والے کو اپنی بخشش اور رحمت کی یقین دہانی کروائی ہے۔ اس کے لیے مشرکین کو موقع فراہم کیا جا رہا ہے جو کسی وجہ سے مسلمانوں کے ہاں پناہ گزیں ہونا چاہے۔ تو حکم ہے کہ انھیں پناہ دینی چاہیے تاکہ قرآن مجید سننے اور سمجھنے کے ساتھ انھیں مسلمانوں کا اخلاق اور کردار دیکھنے کا موقع ملے اگر وہ ایمان نہ لائیں گے تو ان پر پوری طرح اتمام حجت ہوجائے گی۔ پناہ کی مدت ختم ہونے کے بعد ان کی باسلامت واپسی بھی اسلامی حکومت کی ذمہ داری ہے۔ پناہ دینا اس لیے ضروری ہے کہ یہ ایسے لوگ ہیں جو اللہ کے دین کو براہ راست نہیں جانتے۔ اس فرمان میں مشرکین کو پناہ دینے کی حکمت یہ بیان فرمائی تاکہ یہ اللہ کا کلام براہ راست سنیں اور اسے سمجھنے کی کوشش کریں۔ دین سمجھنے اور اس کی ہدایت پانے کا پہلا اور بنیادی اصول یہی ہے کہ آدمی تعصب سے پاک ہو کر دل کے کانوں کے ساتھ سننے کی کوشش کرے جس کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ ایسے لوگوں کی اکثریت دین قبول کرنے کے لیے تیار ہوجائے گی۔ اس کی بے شمار مثالیں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دور میں اور ہزاروں امثال صحابہ (رض) اور ہر دور میں پائی جاتی ہیں۔ اسی حکم کے تحت آپ حالت جنگ میں بھی غیر مسلم کو پناہ دیا کرتے تھے یہاں تک کہ عام مسلمان کی دی ہوئی پناہ کو اپنی پناہ تصور فرماتے تھے۔ (عَنْ أَبِی النَّضْر أَخْبَرَہُ أَنَّہُ سَمِعَ أُمَّ ہَانِیءٍ بِنْتَ أَبِی طَالِبٍ تَقُولُ ذَہَبْتُ إِلٰی رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عَامَ الْفَتْحِ فَوَجَدْتُہُ یَغْتَسِلُ وَفَاطِمَۃُ ابْنَتُہُ تَسْتُرُہٗ فَسَلَّمْتُ عَلَیْہِ فَقَالَ مَنْ ہَذِہِ فَقُلْتُ أَنَا أُمُّ ہَانِیءٍ بِنْتُ أَبِی طَالِبٍ فَقَالَ مَرْحَبًا بِأُمِّ ہَانِءٍ فَلَمَّا فَرَغَ مِنْ غُسْلِہِ قَامَ فَصَلَّی ثَمَانِیَ رَکَعَاتٍ مُلْتَحِفًا فِی ثَوْبٍ وَاحِدٍ فَقُلْتُ یَا رَسُول اللّٰہِ زَعَمَ ابْنُ أُمِّی عَلِیٌّ أَنَّہُ قَاتِلٌ رَجُلًا قَدْ أَجَرْتُہُ فُلَانُ بْنُ ہُبَیْرَۃَ فَقَالَ رَسُول اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَدْ أَجَرْنَا مَنْ أَجَرْتِ یَا أُمَّ ہَانِیءٍ قَالَتْ أُمُّ ہَانِءٍ وَذَلِکَ ضُحًی )[ رواہ البخاری : کتاب المغازی باب، امان النساء وجوارہن] ” حضرت ابو نضر بیان کرتے ہیں انھوں نے ام ھانی (رض) کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ میں رسول مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس فتح مکہ کے سال گئی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) غسل فرما رہے تھے جبکہ ان کی بیٹی فاطمہ ان کے لیے پردہ کا اہتمام کیے ہوئے تھی۔ میں نے آپ کو سلام کیا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا کون ہے ؟ میں نے کہا میں ام ھانی ہوں آپ نے خوش آمدید کہا۔ جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) غسل سے فارغ ہوئے آپ نے آٹھ رکعت نماز ادا فرمائی۔ آپ نے ایک ہی کپڑے کو اپنے ارد گرد لپیٹا ہوا تھا۔ میں نے کہا اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میرا ماں جایا بھائی علی (رض) کہتا ہے کہ اس نے فلاں کافر کو قتل کرنا ہے جبکہ میں نے اسے امان دے دی ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اے ام ھانی جس کو تو نے امان دی ہم بھی اس کو امان دیتے ہیں۔ ام ھانی (رض) فرماتی ہیں یہ چاشت کا وقت تھا۔“ (عَنْ رِفَاعَۃَ بْنِ شَدَّادٍ الْقِتْبَانِیِّ قَالَ لَوْلَا کَلِمَۃٌ سَمِعْتُہَا مِنْ عَمْرِو بْنِ الْحَمِقِ الْخُزَاعِیِّ (رض) لَمَشَیْتُ فیمَا بَیْنَ رَأْسِ الْمُخْتَارِ وَجَسَدِہٖ سَمِعْتُہٗ یَقُولُ قَالَ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَنْ أَمِنَ رَجُلًا عَلٰی دَمِہِ فَقَتَلَہٗ فَإِنَّہُ یَحْمِلُ لِوَاءَ غَدْرٍ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ)[ رواہ ابن ماجہ : کتاب الدیات، باب من امن رجلا علی دمہ] ” رفاعہ بن شداد قتبانی بیان کرتے ہیں اگر وہ حدیث نہ ہوتی جو میں نے عمرو بن حمق خزاعی (رض) سے سنی تو میں مختار کے سر اور جسم کے درمیان چلتا میں نے سنا عمرو بیان کرتے تھے رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو شخص کسی کو جان کی امان دے کر قتل کر دے۔ قیامت کے دن اس کی پشت پر دھوکے باز کا جھنڈالگایا جائے گا۔“ مسائل ١۔ غیر مسلم پناہ مانگیں تو انھیں پناہ دینی چاہیے۔ ٢۔ وعدوں کی پاسداری کرنی چاہیے۔ ٣۔ قیدیوں کو دین کی دعوت دینی چاہیے۔ ٤۔ امان دے کر اس کو پورا کرنا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن نہ جاننے اور نہ سمجھنے والے لوگ : ١۔ متقین کے لیے آخرت کا گھر بہتر ہے مگر کافر نہیں سمجھتے۔ (الاعراف : ١٦٩) ٢۔ میرا اجر میرے پیدا کرنے والے اللہ کے ذمہ ہے بے عقل نہیں سمجھتے۔ حضرت صالح کا اعلان۔ (ھود : ٥١) ٣۔ منافق بے سمجھ ہوتے ہیں۔ (المنافقون : ٧) ٤۔ اللہ نے ان کے دلوں کو پھیر دیا کیونکہ یہ بے عقل لوگ ہیں۔ (التوبۃ: ١٢٧) ٥۔ وہ اللہ پر جھوٹ باندھتے ہیں اور ان کی اکثریت بے عقل ہوتی ہے۔ ( المائدۃ : ١٠٣) ٦۔ وہ بہرے گونگے اور اندھے ہیں اور وہ عقل نہیں کرتے۔ (البقرۃ: ١٧١) التوبہ
7 فہم القرآن ربط کلام : مشرکین سے کیے ہوئے معاہدات سے برأت کرنے کی وجوہات۔ اسلام اللہ تعالیٰ کا آخری اور مکمل دین ہے اسے اللہ تعالیٰ نے باقی ادیان پر غالب رہنے کے لیے نازل فرمایا ہے۔ اس کا غلبہ اس صورت میں ہی ہوسکتا ہے جب سچے مسلمان باہم متحد اور اپنے وسائل کو یکجا کرتے ہوئے جہاد کے لیے تیار رہیں گے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انھی بنیادوں پر صحابہ (رض) کی جماعت تیار فرمائی تھی جو جماعت اس قابل ہوئی کہ انھوں نے حدود حرم سے مشرکین کو نکال باہر کیا جب مشرکین کے دیس نکالے کا اعلان ہوا۔ تو انھوں نے اس پر مسلمانوں کے خلاف شدید پروپیگنڈہ کیا جس کا یہ جواب دیا گیا ہے کہ مشرکین کے عہد کی اللہ اور اس کے رسول کے نزدیک کوئی حیثیت نہیں کیونکہ مشرک کئی بار معاہدہ کرنے کے بعد توڑ چکے ہیں۔ سوائے ان لوگوں کے جنھوں نے مسجد حرام کے قریب رہتے ہوئے اپنے عہد کی پاسداری کی ان کے عہد کی مدت معینہ تک پاسداری کی جائے گی کیونکہ اللہ تعالیٰ عہد شکنی اور کسی پر زیادتی کرنے کو پسند نہیں کرتا۔ اسلام کی روشن خیالی اور وسعت طرفی کا عالم یہ ہے کہ وہ نہ صرف اپنوں کے ساتھ عہد شکنی اور زیادتی پسند نہیں کرتا بلکہ وہ بدترین دشمنوں اور مخالفوں کے ساتھ بھی ایفائے عہد اور صلہ رحمی کا حکم دیتا ہے۔ بشرطیکہ وہ بھی اخلاقی قدروں کا احترام اور ایفائے عہد کا خیال رکھیں۔ آپ کی نبوت سے پہلے مکے میں چند لوگوں نے یہ عہد کیا کہ آج کے بعد کسی شخص کو کمزور، پردیسی اور بے سہارا پر ظلم نہیں کرنے دیا جائے گا۔ اس کے لیے انھوں نے اجتماعی حلف اٹھایا جسے حلف الفضول کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ نبوت کے بعد آپ فرمایا کرتے تھے کہ اگر آج بھی مجھے کوئی اس حلف اور عہد کے لیے بلائے تو میں سب سے پہلے اس پر عمل کرنے کے لیے تیار ہوں گا۔ یہی تعلیم آپ نے صحابہ (رض) اور ہر امتی کو دی ہے۔ (الرحیق المختوم) (عن حُذَیْفَۃ بن الْیَمَانِ (رض) قَالَ مَا مَنَعَنِی أَنْ أَشْہَدَ بَدْرًا إِلَّا أَنِّی خَرَجْتُ أَنَا وَأَبِی حُسَیْلٌ قَالَ فَأَخَذَنَا کُفَّارُ قُرَیْشٍ قَالُوا إِنَّکُمْ تُرِیدُونَ مُحَمَّدًا فَقُلْنَا مَا نُرِیدُہُ مَا نُرِیدُ إِلَّا الْمَدِینَۃَ فَأَخَذُوا مِنَّا عَہْدَ اللّٰہِ وَمِیثَاقَہُ لَنَنْصَرِفَنَّ إِلَی الْمَدِینَۃِ وَلَا نُقَاتِلُ مَعَہُ فَأَتَیْنَا رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَأَخْبَرْنَاہُ الْخَبَرَ فَقَالَ انْصَرِفَا نَفِی لَہُمْ بِعَہْدِہِمْ وَنَسْتَعِین اللّٰہَ عَلَیْہِمْ) [ رواہ مسلم : کتاب الجہاد والسیر، باب الوفاء بالعہد] ” حضرت حذیفہ بن یمان (رض) بیان کرتے ہیں مجھے اور ابو حسیل کو غزوۂ بدر میں شرکت کرنے سے کسی نے نہیں روکا تھا۔ ہمیں قریش مکہ نے پکڑ لیا انھوں نے پوچھا کہ بلاشبہ تم محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مدد کرنے کا ارادہ رکھتے ہو ؟ ہم نے کہا نہیں ہمارا ان کی مدد کرنے کا کوئی ارادہ نہیں، ہم تو مدینہ کی طرف جا رہے ہیں۔ انھوں نے ہم سے اللہ کے نام پر حلف لیا ہم نے اس کی توثیق کردی کہ ہم مدینہ کی طرف ضرور جائیں گے مگر محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ مل کر قتال نہیں کریں گے۔ ہم رسول مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے ہم نے آپ کو راستہ میں پیش آنے والے واقعہ کی خبر دی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا دونوں چلے جاؤ ہم اس عہد کی پاسداری کریں گے اور کفار کے مقابلہ میں اللہ تعالیٰ سے مدد مانگیں گے۔“ مسائل ١۔ کفار اور مشرکین کی عہد شکنی کے مقابلے میں عہد توڑنا جائز ہے۔ ٢۔ اگر کوئی عہد کی پاسداری کرے تو مسلمانوں پر فرض ہے کہ وہ بھی عہد کو نبھائیں۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ پرہیزگار اور عہد کی پاسداری کرنے والے کو پسند کرتا ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ کن لوگوں سے محبت کرتا ہے : ١۔ جو اللہ سے ڈریں ان سے اللہ محبت کرتا ہے۔ (آل عمران : ٧٦) ٢۔ صبر کرنے والوں سے اللہ محبت کرتا ہے۔ (آل عمران : ١٤٦) ٣۔ نیکی کرنے والوں سے اللہ محبت کرتا ہے۔ (آل عمران : ١٤٨) ٤۔ توکل کرنے والوں سے اللہ محبت کرتا ہے۔ (آل عمران : ١٥٩) ٥۔ انصاف کرنے والوں سے اللہ محبت کرتا ہے۔ (الممتحنۃ: ٨) ٦۔ صاف ستھرا رہنے والوں سے اللہ محبت کرتا ہے۔ (التوبۃ: ١٠٨) التوبہ
8 فہم القرآن ربط کلام : عہد اور رشتہ داری کے بارے میں کفار اور مشرکین کا رویہ۔ مشرکین اور اسلام دشمن طاقتوں کا ہمیشہ سے رویہ رہا ہے کہ جب مسلمانوں کے مقابلے میں اپنے آپ کو کمزور پاتے ہیں تو صلح اور اتحاد کا پرچم اٹھاکر مسلمانوں کو زبانی کلامی راضی کرنے کی کوشش کرتے ہیں اس کے لیے، بقائے باہمی، انسانی ہمدردی اور مذاہب کے درمیان ہم آہنگی کے نعرے لگاتے ہیں۔ حالانکہ ان باتوں کی ان کے نزدیک کوئی حیثیت نہیں ہوتی اور دل ہی دل میں یہ انکار کررہے ہوتے ہیں۔ جونہی مشکل وقت گزر جائے اور اپنے آپ کو طاقت ورمحسوس کریں تو کسی معاہدے اور تعلق داری کا پاس نہیں کرتے اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ان کے سامنے ہمیشہ مالی فائدہ اور سیاسی مفاد رہتا ہے یہاں تک کہ وہ اللہ تعالیٰ کی آیات کے بدلے دنیا کمانے سے نہیں چوکتے اس طرح وہ اللہ کے راستے میں رکاوٹ بنتے ہیں مکہ کے مشرکین کا یہی رویہ تھا کہ جوں جوں اللہ کی آیات کا نزول ہوتا توں توں دنیا کے مفاد اور دین کی مخالفت میں آگے ہی بڑھتے گئے۔ ان کا فکر و کردار ہمیشہ بدترین رہا ہے یہ لوگ مسلمانوں کے بارے میں کسی رشتہ داری اور عہد کا خیال نہیں رکھتے دراصل یہ زیادتی کرنے والے لوگ ہیں مدینہ میں یہودیوں کی بار بار عہد شکنی اور مشرکین کا صلح حدیبیہ کو توڑنے سے لے کر تاریخ گواہ ہے کہ انھوں نے ہر دور میں مسلمانوں کے ساتھ عہد شکنی کی ہے۔ یہاں سقوط غرناطہ کا واقعہ عیسائیوں کی عہد شکنی کی ناقابل فراموش مثال پیش خدمت ہے : ابو عبداللہ نے قصر الحمرء میں ایک مجلس مشاورت منعقد کی۔ جس میں غرناطہ کے بڑے بڑے شیوخ وعمائد اور امراء ووزراء شریک تھے۔ ان میں جو بعض بڑے پرجوش اور غیرت مند تھے ان کی رائے قطعی طور پر یہی تھی کہ مسلمانوں کو اپنے آخری قطرہ خون تک لڑنا چاہیے چاہے انجام کچھ بھی ہو۔ بہر حال غرناطہ کو اس طرح دشمن کے حوالہ کردینا سخت ننگ وعار اور بزدلی کی بات ہے۔ لیکن اکثریت کے نقارخانہ میں اکیلے طوطی کی آواز کیا اثر پیدا کرسکتی ہے؟ آخر ابو عبداللہ نے اپنے وزیر ابو القاسم عبدالملک کی معرفت فرڈیننڈ سے صلح کی بات چیت شروع کی اور انجام کار ایک صلح نامہ مرتب ہوا جس پر شاہ کیسٹل اور ابو عبداللہ دونوں کے دستخط ہوگئے اور اس پر مسلمانوں کی حکومت کا جو تقریباً آٹھ سو سال قائم تھی بالکل خاتمہ ہوگیا۔ یہ صلح نامہ جو درحقیقت مسلمانان اندلس کی بدبختی کی آخری دستاویز تھا جیسا کہ امیر شکیب ارسلان نے اپنی کتاب ” آخر نبی سراج“ میں تصریح کی ہے کہ یہ پچپن دفعات پر مشتمل تھا۔ ان میں سے چند اہم دفعات کا خلاصہ یہ ہے کہ ” تمام چھوٹے بڑے مسلمانوں کو امن دیا جائے گا۔ ان کے اموال اور جاگیریں اور جائیدادیں سب محفوظ رہیں گی۔ ان کے مذہبی معاملات وخصومات کا تصفیہ خود مسلمان قاضی یا حاکم کرے گا۔ جنگ میں جو مال غنیمت مسلمانوں کے ہاتھ آگیا ہے اس کو غصب نہ کیا جائے گا۔ مقررہ ٹیکس کے علاوہ ان پر کوئی زائد ٹیکس نہ لگایا جائے گا۔ جو عیسائی مسلمان ہوگئے ہیں ان کو ترک اسلام پر مجبور نہ کیا جائے گا۔ اور اسی طرح کسی مسلمان کو بجز عیسائی بنانے کی کوشش نہ کی جائے گی۔ اگر کوئی مسلمان افریقہ جانا چاہے تو حکومت اس کو اپنے انتظام پر افریقہ پہنچائے گی۔ کوئی عیسائی کسی مسلمان کے گھر داخل نہ ہوگا اور نہ ہی اس کی دیوار پر چڑھے گا۔ مسلمانوں کو عیسائی فوجیوں کی دعوت کرنے پر مجبور نہ کیا جائے گا۔ مسلمانوں کو لباس میں پوری آزادی رہے گی۔ یعنی انہیں کسی خاص وضع قطع کے اختیار کرنے یا کوئی خاص علامت لگانے پر مجبور نہ کیا جائے گا۔ کوئی عیسائی کسی مسلمان کا راہ چلتے یا کہیں اور مذاق نہ اڑائے گا۔ اس پر فقرہ نہ کسے گا۔ اس کے ساتھ تمسخر نہ کرے گا۔ اور اگر کسی نے ایسا کیا تو اس کو سزا دی جائے گی جو مسلمان جنگی مجرم ہیں اس کو رہا کردیا جائے گا۔ اگر کوئی مسلمان غلام اپنے مالک کے پاس سے بھاگ کر غرناطہ آجائے تو اسے مامون سمجھاجائے گا۔ بادشاہ اس کی قیمت غلام کے مالک کو ادا کردے گا۔ یہ معاہدہ عیسوی تاریخ کے لحاظ سے ٣٠ دسمبر ١٤٩١ ؁ مطابق یکم ربیع الاول ٨٩٧ ھ ؁ کو ہوا تھا اور اس پر علاوہ فرڈیننڈ کے ملکہ ازبلا، شاہی خاندان کے شہزادے اور شہزادیاں پادری اور دیگر مذہبی پیشوا، امراء اور وزراء دربار وعمائدو ارکان سلطنت کے دستخط ثبت تھے۔ اور اس میں فرڈیننڈ اور اس کی بیوی ازبلا نے اس بات کا عہد کیا تھا کہ دونوں اس صلح نامہ کے ایک ایک لفظ اور ایک ایک حرف کی پابندی کریں گے اور جس طرح یہ عہد نامہ خود ان دونوں کے لیے اور ان کے تمام حکام وعمال اور امراء واعیان کے لیے واجب العمل ہے اسی طرح ان کے قائم مقام، ان کی اولاد، اور ان کی اولاد کی اولاد سب اس عہد نامہ کے مطابق عمل کریں گے اور اس سے سر موانحراف نہ کریں گے۔ یہ عہد نامہ تو وہ تھا جس کا تعلق عام مسلمانوں اور ان کے مفاد سے تھا۔ اس کے علاوہ ایک اور عہد نامہ ترتیب دیا گیا۔ جو خاص ابو عبداللہ کی ذات سے تعلق رکھتا تھا۔ اس عہد نامہ میں چودہ دفعات تھیں جن کا ماحصل یہ تھا کہ شاہ فرڈیننڈ اور ازبلا ان دونوں نے کچھ املاک واراضی اور شہر سلطان ابوعبداللہ کو دیے ہیں۔ انہیں میں سے ایک البشرات بھی تھا۔ علاوہ بریں اس بات کا بھی وعدہ کیا گیا تھا کہ ابو عبداللہ کو وہاں کے سکہ کے حساب سے جس کو ” یراوید“ کہا جاتا تھا ایک کڑور چالیس لاکھ اور پانچ سو کی رقم ادا کی جائے گی۔ لیکن شرط یہ تھی کہ یہ رقم اس وقت حوالے کی جائے گی جب کہ فرڈیننڈ اور ازبلا قلعہ الحمرء میں داخل ہوجائیں گے۔ پھر خاص ابو عبداللہ سے یہ وعدہ بھی کیا گیا تھا کہ جب تک وہ اندلس میں قیام کرے گا اس سے کوئی محصول نہیں لیا جائے گا۔ اور اگر اس نے کبھی اس ملک کو چھوڑ کر کہیں اور آباد ہونا چاہا تو اس کی زمینوں اور جائیدادوں کو مناسب قیمت پر خرید لیاجائے گا۔ اگر اس نے ان کو فروخت کرنا نہ چاہا تو وہ اپنا کوئی قائم مقام یا کارندہ ان کی دیکھ بھال اور نگرانی کے لیے چھوڑ جائے۔ وہ ہر سال جائیدادوں اور جاگیروں کی آمدنی وصول کر کے ابوعبداللہ کو بھیج دیا کریگا۔ ابو عبداللہ بحری سفر کرے گا تو اس کے تمام متعلقین کے لیے کشتیوں وغیرہ کا انتظام فرڈیننڈ کی حکومت کی جانب سے کیا جائے گا۔ امیر شکیب رسلان کی تحقیق کے مطابق یہ دوسرا معاہدہ بتاریخ ٢٥ دسمبر ١٤٩١ ء ؁ کو ہوا تھا۔ یہ یا در کھنا چاہیے ابو عبداللہ نے اپنے وزیر کے توسط سے یہ معاہدہ بالا بالا ہی کرلیا تھا۔ اہل غرناطہ کو اس کی کوئی خبر نہ تھی جب ان کو معلوم ہوا تو وہ سخت برہم اور پریشان ہوئے۔ حامد بن زرارۃ نامی ایک درویش کے جوش دلانے اور اکسانے پر بیس ہزار اہل غرناطہ مسلح ہو کر جنگ کرنے کے لیے نکلے بھی لیکن کچھ ایسے اسباب سماویہ پیش آئے کہ یہ اس مشکل سے عہدہ براء نہ ہوسکے اس واقعہ کے دوسرے دن ابوعبداللہ شہر کے روساء کی ایک جماعت کے ساتھ قلعہ الحمرء سے نکلا اور مسلمانوں کو خطاب کر کے کہا : ” مسلمانوں ! میں اقرار کرتا ہوں کہ اس ذلت ورسوائی میں کسی کا کوئی گناہ نہیں ہے گنہگار صرف میں ہوں میں نے اپنے باپ کے ساتھ نافرمانی اور سرکشی کا معاملہ کیا، اور دشمنوں کو ملک پر حملہ کرنے کی دعوت دی لیکن بہر حال خدانے مجھ کو میرے گناہوں کی سزادے دی ہے تاہم یہ باور کرنا چاہیے کہ میں نے اس وقت یہ معاہدہ جو قبول کیا ہے محض اس لیے کیا ہے کہ تم لوگوں اور تمہارے بچوں کے خون خواہ مخواہ نہ بہیں۔ تمہاری عورتیں لونڈیاں اور باندیاں نہ بنیں اور تمہاری شریعت اور تمہاری املاک ومتاع ان بادشاہوں کے زیر سایہ محفوظ رہیں جو بہرحال بد نصیب ابو عبداللہ سے بہتر ہوں گے۔“ فرڈیننڈ کی طرف سے دو ماہ دس دن کی مدت دی گئی تھی کہ ابو عبداللہ اس مدت کے اندر اندر فرڈیننڈ کا قبضہ الحمراء پر کرا دے گا۔ لیکن ابو عبداللہ اس درجہ پریشان اور سراسمیہ تھا کہ اس نے اس مدت سے پہلے ہی مندرجہ بالا تقریر کے دوسرے دن فریننڈ کو پیغام بھیجا کہ شہر پر قبضہ کر لیجیے۔ فرڈیننڈ نے ایک پادری کو مقرر کیا کہ سب سے پہلے وہ ایک جماعت کیساتھ غرناطہ میں داخل ہو کر قلعہ الحمراء کے سب سے بڑے برج سے اسلامی نشان کو گرا کر اس کی جگہ صلیب کا نشان نصب کرے تاکہ اسے دیکھتے ہی پرجوش طریقہ سے بادشاہ اور اس کی ملکہ شہر میں داخل ہوں۔ اسی قرارداد کے مطابق اب دونوں طرف غرناطہ کو الوداع کہنے اور اس میں داخل ہونے کی تیاریاں ہونے لگیں۔ ایک جانب بدنصیب ابو عبداللہ اور اس کا تمام خاندان تھا جو رات بھر اپنا سازوسامان درست کرتا رہا اور غرناطہ سے پیش آنے والی جدائی کے غم میں الحمراء کے ایک ایک درودیوار کو حسرت وافسوس سے تکتا اور ان پر آنسو بہاتا رہا اور دوسری طرف شاہ کیسٹل کے کیمپ میں خوشی کے شادیا نے بج رہے تھے کہ بس اب رات کا تاریک پر دہ درمیان میں حائل ہے۔ اس کے اٹھنے کی دیر ہے کہ علیٰ الصباح غرناطہ پر قبضہ ہوجائے گا۔ چنانچہ ابو عبداللہ علیٰ الصباح اپنے متعلقین کو لے کر الحمراء سے نکلا اور ابھی تھوڑی دور ہی گیا تھا کہ اس کو فرڈیننڈ کا فرستادہ پادری مع ایک جماعت کے ملا۔ ابو عبداللہ نے قلعہ کی کنجیاں اس کے سپرد کرتے ہوئے کہا ” جاؤ ! اب ان قلعوں پر قبضہ کرلو جن کو اللہ نے ہماری بد اعمالیوں کے باعث ہمارے قبضہ سے نکال کر تمہارے قبضہ میں دے دیا ہے“ پادری نے الحمراء میں داخل ہو کر امر شاہی کے مطابق اسلامی نشان کو گرا کر اس کی جگہ صلیبی پرچم لہرایا۔ فرڈیننڈ، ازبلا اور تمام عیسائی فوج نے اسے دیکھا تو ان کی خوشی کی حد نہ رہی فوراً بادشاہ اور ملکہ گھٹنوں کے بل بارگاہ خداوندی میں شکر بجا لائے۔ تمام فوج نے ان کی پیروی کی اس سے فارغ ہو کر یہ لوگ غرناطہ میں داخلہ کے لیے روانہ ہوئے دریا کے کنارے ایک چھوٹی جامع مسجد تھی ابھی وہاں پہنچے ہی تھے کہ یہاں ابو عبداللہ مل گیا۔ ابو عبداللہ نے فرڈیننڈ کو دیکھتے ہی چاہا کہ سواری سے اتر پڑے لیکن بادشاہ اور ملکہ دونوں نے منع کیا۔ اب ابو عبداللہ نے چاہا کہ بادشاہ کی دست بوسی کرے لیکن اس نے اسے یہ بھی نہ کرنے دیا۔ امیر شکیب ارسلان نے ایک روایت نقل کی ہے کہ ابو عبداللہ نے ملکہ ازبلا کے ہاتھوں کو چومنا چاہاتو اس نے اپنے ہاتھ نہ پھیلائے اور ابو عبداللہ کا اضطراب دیکھ کر اسے دلاسہ دیا۔ ابو عبداللہ کا جو بیٹا اس کے پاس بطور ضمانت گرفتار تھا۔ وہ اس کے سپرد کردیا اس کے بعد ابو عبداللہ نے شہر کی کنجیاں بادشاہ کے حوالے کرتے ہوئے کہا ” یہ کنجیاں اسپین میں عربوں کے اقتدار کی آخری نشانی ہیں۔ آپ انہیں لے لیجیے۔ کیونکہ اللہ کی مشیت کے مطابق اب ہمارا ملک، متاع اور ہمارے جسم یہ سب آپ کی ملکیت ہوگئے ہیں۔ امید ہے کہ آپ نے جیسا وعدہ کیا اسی طرح آپ ان کے ساتھ رحم وکرم اور رافت ونرمی کا معاملہ کریں گے۔“ فرڈیننڈ نے جواب دیا ” کوئی شبہ نہیں کہ ہم نے جو وعدہ کیا ہے اس کے مطابق ہی معاملہ کریں گے۔“ اس گفتگوکے بعدکنجیاں فرڈیننڈ نے ملکہ ازبلا کے سپرد کردیں اس نے اپنے بیٹے پرنس جو ن کو دیں اور جون نے کاؤنٹ ٹنڈل کے حوالے کردیں جو غرناطہ کا کمانڈر بنایا گیا تھا۔ اب فرڈیننڈ اس کی ملکہ ازبلا، اور اس کا تمام لاؤ لشکر غرناطہ کی طرف اس پر قبضہ کرنے کے لیے روانہ ہوئے ادھر بدبخت وبدنصیب ابو عبداللہ نے وادی برشانہ میں اس مقام کا رخ کیا جو اس کے لیے مقرر کردیا گیا تھا۔ تھوڑی دیر چلنے کے بعد ایک پہاڑی پر کھڑے ہوکراس نے اپنی پشت کی جانب ایک حسرت آمیز نگاہ سے غرناطہ کی آبادی اور قصر الحمراء کے میناروں اور گبندوں پر نظر ڈالی۔ اس کے تمام ساتھی بھی اس وقت اس کے ساتھ غرناطہ کو حسرت بھری نظروں سے دیکھ رہے تھے۔ لیکن ان کی زبانیں گنگ تھیں۔ منہ سے ایک حرف نہ بول سکے ابھی وہ اس حسرت انگیز اور درد ناک نظارہ میں محو ہی تھے کہ قلعہ الحمراء کے اوپر سے تو پوں اور گولوں کے چلنے کی آواز آئی۔ یہ اس بات کا اعلان تھا کہ اب غرناطہ سے مسلمانوں کی حکومت ختم ہوگئی اور عیسائیوں کی فوج نے اسے فتح کرلیا ہے۔ ابو عبداللہ اس وقت ضبط نہ کرسکا بے ساختہ اس کا جی بھر آیا اور زاروقطار رونے لگا۔ ابو عبداللہ کی ماں عائشہ جو نہایت عقل مند عورت تھی۔ اس نے بیٹے کو اس طرح روتے ہوئے دیکھا تو بولی ” اب عورتوں کی طرح رو رہا ہے۔ لیکن تجھ سے یہ نہ ہو سکاکہ مردوں کی طرح غرناطہ کا دفاع کرتا“ ابو عبداللہ کے وزیر نے بھی اسے دلاسہ دینے کی کوشش کی۔ البشرات کی پہاڑی جس پرکھڑے ہو کر ابو عبداللہ اور اس کے ساتھیوں نے غرناطہ پر حسرت آمیز نگاہ واپسیں ڈالی ” دم واپسیں عرب“ کے نام سے ہی مشہور ہوگئی۔ اور اب تک اسی نام سے یاد کی جاتی ہے۔ امیر شکیب ارسلان لکھتے ہیں۔ کہ انہوں نے اپنی سیاحت اسپین کے دوران اس مقام کو دیکھا۔ ابو عبداللہ کی وفات : فرڈیننڈ نے البشرات کا علاقہ ابو عبداللہ اور اس کے خاندان کی رہائش کے لیے متعین کردیا تھا۔ اور اس سلسلہ میں اس نے بہت کچھ عہد وپیماں بھی کیے تھے۔ لیکن غرناطہ پر اقتدار پانے کے بعد اس نے تمام عہود ومواثیق کو گلدستہ طاق نسیان بنا کر رکھ دیا۔ چنانچہ ابو عبداللہ پر اندلس کی وسیع سرزمین کا چپہ چپہ تنگ ہوگیا اور آخر کار انجام یہ ہواکہ فرڈیننڈ نے البشرات کا علاقہ بھی اونے پونے کر کے خرید لیا اور ابو عبداللہ اندلس کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے الوداع کہہ کر افریقہ چلا آیا۔ یہاں مراکش کے بادشاہ کا ملازم ہوگیا اور اسی حالت میں ٩٤٠ ھ ؁میں اس دنیا سے بھی رخصت ہوگیا۔ (بحوالہ مسلمانوں کا عروج وزوال) تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ کی آیات کو فروخت کرنے والے : ١۔ اللہ کی آیات کو تھوڑی قیمت پر فروخت نہ کرو اللہ سے ڈر جاؤ۔ (البقرۃ: ٤١) ٢۔ ان کے لیے دوزخ کا عذاب ہے جو اللہ کی آیات کو فروخت کرتے ہیں۔ (البقرۃ: ٧٩) ٣۔ اللہ کی آیات کو چھپانا اور تھوڑی قیمت کے بدلہ میں فروخت کرنا۔ پیٹ میں آگ بھرنا ہے۔ (البقرۃ: ١٧٤ تا ١٧٦) ٤۔ اللہ سے ڈر و لوگوں سے نہ ڈرو۔ اور اللہ کی آیات کو فروخت نہ کرو۔ (المائدۃ: ٤٤) التوبہ
9 التوبہ
10 التوبہ
11 فہم القرآن ربط کلام : اسلام کی وسعت ظرفی اور عفو درگزر کی بے مثال پالیسی۔ اسلام ہی ایسا دین ہے جس نے انسانوں کو انفرادی اور اجتماعی طور پر بار بار توبہ کا موقع فراہم فرمایا ہے اور یہ یقین دہانی کروائی ہے کہ کوئی فرد یا قوم جب بھی اپنے جرائم سے سچی توبہ کرلے تو انھیں صرف اللہ تعالیٰ ہی معاف نہیں کرتا ہے بلکہ حکم ہے کہ مسلمان بھی اسے معاف کردیں۔ مکہ میں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات آپ کے اعزاء و اقرباء اور صحابہ کرام (رض) پر مشرکین نے مظالم کی انتہا کی مگر جب بھی ان میں سے کوئی تائب ہو کر حلقہ اسلام میں داخل ہوا تو نہ صرف اسے معاف کردیا گیا بلکہ مسلمانوں کی طرف سے ایسی محبت کا اظہار ہوا کہ جس سے کل کا ظالم آج اسلام اور مسلمانوں پر جان نچھاور کرنا اپنے لیے دو جہانوں کی سعادت سمجھنے لگا۔ بدر، احد، احزاب اور دوسرے مواقعوں پر مسلمانوں کے خلاف تلواریں سونتنے والے جب بھی حلقہ اسلام میں داخل ہوئے تو انھیں پورا، پورا اعزاز دیا گیا اس سے بڑھ کر کیا مثال ہوگی جنھوں نے احد کے موقعہ پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے چچا حضرت حمزہ (رض) کا مثلہ کیا تھا۔ آپ نے انھیں بھی معاف فرما دیا۔ اس سے ثابت ہوتا ہے مسلمانوں کا جنگ و قتال کبھی بھی اپنی ذات کے لیے نہیں رہا۔ لیکن شرط یہ ہے کہ کافر کے لیے صرف کلمہ پڑھنا کافی نہیں۔ بلکہ کلمہ کے اقرار کے بعد نماز قائم کرنا اور زکوٰۃ ادا کرنا ہوگی یاد رہے نماز حقوق اللہ ادا کرنے کی ضمانت ہے اور زکوٰۃ حقوق العباد کی ترجمان ہے۔ جو شخص ان کا خیال رکھے گا اس کے لیے رمضان کے روزے رکھنا اور حج کرناآسان ہوجائے گا جہاں تک کہ اسلام میں توبہ کرنے کا تعلق ہے یہ تو حالت جنگ اور حالت نزع میں بھی قبول ہوجاتی ہے۔ (عَنْ أُسَامَۃَ بْنَ زَیْدٍ (رض) یَقُولُ بَعَثَنَا رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) إِلَی الْحُرَقَۃِ فَصَبَّحْنَا الْقَوْمَ فَہَزَمْنَاہُمْ وَلَحِقْتُ أَنَا وَرَجُلٌ مِنْ الْأَنْصَارِ رَجُلًا مِنْہُمْ فَلَمَّا غَشِینَاہُ قَالَ لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ فَکَفَّ الْأَنْصَارِیُّ فَطَعَنْتُہٗ بِرُمْحِی حَتّٰی قَتَلْتُہٗ فَلَمَّا قَدِمْنَا بَلَغَ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَقَالَ یَا أُسَامَۃُ أَقَتَلْتَہُ بَعْدَ مَا قَالَ لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ قُلْتُ کَانَ مُتَعَوِّذًا فَمَا زَالَ یُکَرِّرُہَا حَتّٰی تَمَنَّیْتُ أَنِّی لَمْ أَکُنْ أَسْلَمْتُ قَبْلَ ذَلِکَ الْیَوْمِ) [ رواہ البخاری : کتاب المغازی، باب بعث النبی اسامۃ] ” حضرت اسامہ بن زید (رض) بیان کرتے ہیں رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں حرقہ کی طرف بھیجا۔ ہم نے ان لوگوں کے ساتھ مقابلہ کیا اور انھیں شکست سے دو چار کیا۔ میں اور ایک انصاری نے دشمن کے ایک آدمی پر غلبہ پایا تو اس نے لا الہ الا اللہ کہہ دیا۔ انصاری نے یہ سنتے ہی اپنے ہاتھوں کو روک لیا مگر میں نے اسے اپنا نیزا مارا یہاں تک کہ اسے قتل کر ڈالا۔ جب ہم نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ کے سامنے تفصیل بیان کی۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اے اسامہ کیا تو نے اسے لا الہ الا اللہ کہنے کے بعد قتل کیا ؟ میں نے عرض کی کہ وہ تو مجھ سے بچنے کے لیے ایسا کر رہا تھا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے الفاظ بار بار دہراتے رہے یہاں تک کہ میں نے سوچا کاش میں نے آج سے پہلے اسلام قبول نہ کیا ہوتا۔“ (یعنی مسلمان ہوتے ہوئے مجھے یہ غلطی نہیں کرنی چاہیے تھی۔ ) (عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ (رض) قَالَ قَالَ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَنْ کَانَ آخِرُ کَلَامِہِ لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ دَخَلَ الْجَنَّۃَ) [ رواہ ابوداؤد : کتاب الجنائز، باب فی التلقین] ” حضرت معاذ بن جبل (رض) بیان کرتے ہیں رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس کا آخری کلام لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ ہو وہ جنت میں داخل ہوگا۔“ مسائل ١۔ توبہ کرنے سے شرک و کفر بھی معاف ہوجاتا ہے۔ ٢۔ ایمان لانے کے بعد نماز قائم کرنا اور زکوٰۃ ادا کرنا ایمان لانے کا عملی ثبوت ہے۔ ٣۔ دین باہمی اخوت کے لیے مضبوط ترین رشتہ ہے۔ تفسیر بالقرآن مسلمانوں کے باہمی تعلقات : ١۔ مومن آپس میں بھائی ہیں اگر وہ جھگڑپڑیں تو ان میں صلح کروادو۔ (الحجرات : ١٠) ٢۔ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے ساتھی آپس میں بڑے رحمد ل اور کفار پر بڑے سخت ہیں۔ (الفتح : ٢٩) ٣۔ اے ایمان والو! اگر تم مرتد ہو جاؤتو اللہ ایسی قوم لے آئے گا جو آپس میں محبت کرنے والے ہوں۔ (المائدۃ: ٥٤) التوبہ
12 فہم القرآن ربط کلام : دین دار لوگوں کی آپس میں محبت ہونی چاہیے جو لوگ عہد شکنی کریں اور دین اسلام کو طعن و تضحیک کا نشانہ بنائیں ان سے نہ صرف نفرت ہونی چاہیے بلکہ جنگ کے دوران انھیں خاص طور پر نشانہ بنانا چاہیے۔ کفار اور منافقین تائب ہونے کی بجائے عہد شکنی اور دین میں طعن و تشنیع کا سلسلہ جاری رکھیں۔ تو ان کی قسموں پر اعتماد کرنے کی بجائے کفر کے سرداروں کو قتل کر دو۔ شاید اس طرح باقی ماندہ لوگ کفر و شرک کی کھلم کھلا مخالفت سے باز آجائیں۔ دین میں طعن سے مراد اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شان میں گستاخی کرنا اور دین کے بارے میں غلط پروپیگنڈہ کرنا ہے۔ اس آیت میں دو باتیں بالخصوص کہی گئی ہیں۔ ائمۃ الکفر کے قتل کا حکم اور ان کے عہد کو بے حیثیت قرار دینے کی ہدایت۔ یہ اس لیے ہے کہ کفار جب اپنے آپ کو طاقتور سمجھتے ہیں۔ تو مسلمانوں کے ساتھ کیے گئے عہد کی پرواہ نہیں کرتے اور جب مسلمانوں کو مضبوط تصور کرتے ہیں تو پھر عہد کی پاسداری کا ڈھنڈورا پیٹتے ہیں۔ جس طرح حدیبیہ کا عہد توڑنے کے بعد انھوں نے محسوس کیا کہ مسلمان ہم پر حملہ آور ہونے والے ہیں تو انھوں نے اپنے سربراہ ابو سفیان کو تجدید عہد کے لیے مدینہ بھیجا لیکن نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سمجھتے تھے کہ یہ صرف دفع الوقتی کی خاطر ایسا کر رہے ہیں اور بنو بکر کو بنو خزاعہ کی دیت دینے کے لیے مجبور کرنے پر تیار نہیں ہیں جس بناء پر آپ تجدید عہد کے لیے تیار نہ ہوئے اور مکہ کی طرف پیش قدمی فرمائی جب آپ نے مکہ کا کنٹرول سنبھالا تو چار پانچ آدمیوں کے سوا باقی کے لیے عام معافی کا اعلان فرمایا جن لوگوں کو اس موقع پر قتل کیا گیا ان کے بارے میں اعلان یہ تھا کہ اگر یہ لوگ کعبہ کے غلاف کے ساتھ چمٹ جائیں تو پھر بھی انھیں معاف نہ کیا جائے۔ اس کاسبب یہی تھا کہ یہ لوگ ائمۃ الکفر تھے اور اللہ اور اس کے رسول کی گستاخیاں کرنے کے ساتھ دین پر غلیظ ترین طعن و تشنیع کرتے تھے۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حکم جاری فرمایا کہ ان لوگوں کو جہاں پاؤ قتل کر دو۔ فتح مکہ کے روز رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اکابر مجرمین میں سے نو آدمیوں کا خون رائیگاں قرار دے کر حکم دیا کہ اگر وہ کعبے کے پردے کے پیچھے بھی پائے جائیں تو انھیں قتل کردیا جائے ان کے نام یہ ہیں۔ (١) عبدالعزیٰ بن خطل (٢) عبداللہ سعد بن ابی سرح (٣) عکرمہ بن ابی جہل (٤) حارث بن نفیل بن وہب ( ٥) مقیس بن صبابہ (٦) ہبار بن اسود (٧، ٨) ابن خطل کی دو لونڈیاں جو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ہجو گایا کرتی تھیں (٩) سارہ، جو اولاد عبدالمطلب میں سے کسی کی لونڈی تھی۔ ابن ابی سرح کا معاملہ یہ ہوا کہ اسے حضرت عثمان بن عفان (رض) نے خدمت نبوی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں لے جا کر جان بخشی کی سفارش کردی اور آپ نے ان کی جان بخشی فرماتے ہوئے اس کا اسلام قبول کرلیا۔ لیکن اس سے پہلے آپ کچھ دیر تک اس امید میں خاموش رہے کہ کوئی صحابی اٹھ کر اسے قتل کردے گا۔ کیونکہ یہ شخص اس سے پہلے بھی ایک بار اسلام قبول کرچکا تھا اور ہجرت کرکے مدینہ آیا تھا لیکن پھر مرتد ہو کر بھاگ گیا تھا تاہم اس کے بعد یہ شخص مخلص مسلمان ثابت ہوا۔ عکرمہ بن ابی جہل نے بھاگ کر یمن کی راہ لی لیکن اس کی بیوی خدمت نبوی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں حاضر ہو کر اس کے لیے امان کی طالب ہوئی اور آپ نے اسے امان دے دی۔ اس کے بعد وہ عکرمہ کے پیچھے گئی اور اسے واپس لے آئی۔ اس نے اسلام قبول کیا۔ ابن خطل خانہ کعبہ کا پردہ پکڑ کر لٹکا ہوا تھا۔ ایک صحابی نے خدمت نبوی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں حاضر ہو کر اطلاع دی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اسے قتل کر دو۔ اس نے اسے قتل کردیا۔ مقیس بن صبابہ کو حضرت نمیلہ بن عبداللہ نے قتل کیا۔ مقیس بھی پہلے مسلمان ہوچکا تھا۔ لیکن پھر ایک انصاری کو قتل کرکے مرتد ہوگیا اور بھاگ کر مشرکین کے پاس چلا گیا تھا۔ حارث، مکہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سخت اذیت پہنچایا کرتا تھا۔ اسے حضرت علی (رض) نے قتل کیا۔ ہبار بن اسود وہی شخص ہے جس نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صاحبزادی حضرت زینب (رض) کو ان کی ہجرت کے موقع پر ایسا کچو کا مارا جس سے وہ ہودج سے نکل کر ایک چٹان پر جا گری تھیں اور اس کی وجہ سے ان کا حمل ساقط ہوگیا تھا۔ یہ شخص مکہ سے نکل بھاگا۔ بعد ازاں مسلمان ہوگیا اور اس کا اسلام اور کردار بہت اچھا رہا۔ ابن خطل کی دونوں لونڈیوں میں سے ایک قتل کی گئی۔ دوسری کے لیے امان طلب کی گئی اور اس نے اسلام قبول کرلیا۔ اسی طرح سارہ کے لیے امان طلب کی گئی اور وہ بھی مسلمان ہوگئی۔ (گویا کہ نو میں سے چار قتل کیے گئے، پانچ کی جان بخشی ہوئی اور انھوں نے اسلام قبول کرلیا۔) مسائل ١۔ جو لوگ بار بار عہد شکنی کریں ان کے عہد کی پرواہ نہیں کرنی چاہیے۔ ٢۔ اللہ اور اس کے رسول کی گستاخی اور دین میں طعن کرنے والوں کو قتل کردینا چاہیے۔ ٣۔ جنگ میں کفر کے لیڈروں کو قتل کردینا چاہیے۔ التوبہ
13 فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ اب پھر قتال فی سبیل اللہ کی تاکید کی جارہی ہے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ تم اللہ کی راہ میں قتال کیوں نہیں کرتے؟ جب کہ بار بار عہد شکنی کرنے کے علاوہ انھوں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مکہ سے نکالا اور پھر اس کے بعد مدینہ پر حملہ آور ہو کر جنگ میں پہل کی یہاں تک کہ منافقین کے ساتھ مل کر نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مدینہ سے بھی نکالنے کا منصوبہ بنایا ایسی صورت میں ان کے ساتھ قتال فی سبیل اللہ کا معرکہ ضرور ہونا چاہیے لیکن تمھاری کیفیت یہ ہے کہ تم میں سے کچھ لوگ اللہ تعالیٰ سے ڈرنے کی بجائے کفار سے زیادہ ڈرتے ہیں حالانکہ تمھیں اللہ تعالیٰ سے زیادہ ڈرنا چاہیے بشرطیکہ تم صدق دل کے ساتھ ایمان لانے والے ہو۔ جو مسلمان ہو کر کفار سے ڈرتے ہیں وہ غالب آنا تو درکنار کبھی کفار کے خلاف قتال کرنے کے لیے سوچ بھی نہیں سکتے۔ اللہ سے ڈرنے سے مسلمان کو بیک وقت دو فائدے پہنچتے ہیں۔ اس کے کردار میں نیکی، للہیت کا اضافہ ہوتا ہے اور دشمن کے مقابلے میں بہادر ثابت ہوتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ مسلمان اپنے سے دس گنا زیادہ طاقت ورکے ساتھ ٹکرانے میں ہچکچاہٹ نہیں سمجھتے تھے۔ سورۃ آل عمران ١٣٩ میں ایمان کا صلہ یہ بیان کیا گیا ہے کہ اگر تم ایمان کے تقاضے پورے کرو گے تو اللہ تعالیٰ تمھیں ہمیشہ سر بلند رکھے گا۔ مسائل ١۔ معاہدہ کی پاسداری نہ کرنے والوں کے ساتھ لڑائی کی اجازت ہے۔ ٢۔ ایمان داروں کو ہر حال میں اللہ سے ڈرنا چاہیے۔ التوبہ
14 فہم القرآن ربط کلام : اس سے پہلے کفار اور مشرکین سے قتال کرنے کے اسباب بیان کیے اور مسلمانوں کو حکم دیا کہ تمھیں اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرنا چاہیے لہٰذا تم اللہ کے راستے میں لڑو۔ اللہ تعالیٰ ضرور کفار اور مشرکوں کو تمھارے ہاتھوں ذلیل کرے گا۔ مسلمانوں کو قتال فی سبیل اللہ کا حکم دیتے ہوئے چار خوشخبریاں سنائی گئی ہیں جس میں پہلی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ فیصلہ کر رکھا ہے کہ تم دشمن کے مقابلے میں میدان کا رزار میں اترو اللہ تعالیٰ تمھارے ہاتھوں انھیں عبرت ناک سزا دے کر دنیا میں ہی ان کو ذلیل و خوار کرے گا تمھاری ان کے مقابلے میں اس قدر مدد فرمائے گا جس سے تمھارے سینے ٹھنڈے ہوجائیں گے۔ ماضی کے حوالے سے جو تمھارے دل میں ان کے بارے میں غصہ اور طیش ہے تم اس قدر ان کو مارو گے وہ بھی جاتا رہے گا اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ باقی ماندہ کفار مسلمانوں کی کامیابی اور اپنی ذلت اور رسوائی دیکھ کر انشرح صدر کے ساتھ اسلام کی حقانیت تسلیم کرکے اپنے رب کی بارگاہ میں تائب ہوجائیں اور اللہ تعالیٰ انھیں معاف فرما دے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ جس کی چاہتا ہے توبہ قبول کرتا ہے وہ لوگوں کے ظاہری اور باطنی حالات سے آگاہ ہے۔ اس کے ہر حکم اور کام میں حکمت ہوتی ہے۔ یہ قتال فی سبیل اللہ کا نتیجہ تھا کہ فتح مکہ کے بعد نہ صرف سرزمین حجاز پر اسلام کا پھریرا بلند ہوا بلکہ اس سے مشرق و مغرب اور شمال وجنوب میں اسلام کی پیش قدمی کے لیے راستے ہموار ہوئے اور نہایت قلیل عرصہ میں کافر اور مشرک دین کے سامنے سرنگوں ہوئے۔ مسائل ١۔ قتال فی سبیل اللہ کا ایک مقصد یہ ہے کہ دشمن ذلیل ہوجائے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ جہاد و قتال میں مسلمانوں کی مدد کرتا ہے۔ ٣۔ فتح اور کامیابی مجاہد کے لیے دل کا سکون اور سینے کی ٹھنڈک ہوتی ہے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ کے ہر کام اور حکم میں بے شمار حکمتیں ہوتی ہیں التوبہ
15 التوبہ
16 فہم القرآن ربط کلام : قتال فی سبیل اللہ کے ذریعے اللہ تعالیٰ مسلمانوں کے دلوں کو سکون اور سینوں کو ٹھنڈا کرنے کے ساتھ یہ بھی آزمانا چاہتا ہے کہ مسلمان کس حد تک کفار کے بارے میں اپنے دلوں میں نفرت رکھتے ہیں۔ دنیا کی زندگی ہر شخص کے لیے آزمائش اور امتحان گاہ کی حیثیت رکھتی ہے بالخصوص جب کوئی شخص حلقہ اسلام میں داخل ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے کئی قسم کی آزمائشوں میں مبتلا کرتا ہے تاکہ دنیا والوں پر ظاہر کیا جائے کہ اللہ اور اس کے رسول کا کلمہ پڑھنے والا کس حد تک ایمان میں پکا اور اپنے مشن میں سچا ہے جس طرح مسلمان کی انفرادی طور پر آزمائش کی جاتی ہے۔ اسی طرح ہی ان کو اجتماعی آزمائشوں کے ذریعے آزمایا جاتا ہے۔ اجتماعی آزمائشوں میں سب سے بڑی آزمائش اللہ کی رضا کی خاطر اپنے اعزاء و اقرباء سے جنگ کرنا ہے جو کفر اور شرک کی بناء پر اپنے رب کے باغی بن چکے ہوتے ہیں۔ مسلمانوں پہ آزمائش اس لیے بھی ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ انھیں اپنی فوج قرار دیتا ہے۔ دنیا کی کونسی فوج ہے جس کے لیے آزمائش کا اہتمام نہ کیا گیا ہو۔ فوج کو پرکھنے اور ایک خاص معیار پر لانے کے لیے لاکھوں، کروڑوں ڈالر اور بے شمار اسلحہ ضائع کرکے آپس میں نقلی جنگیں کروائی جاتی ہیں تاکہ دشمن کے مقابلے میں جنگی تیار یوں کا اندازہ اور فوج کا مورال پرکھا جاسکے۔ مجاہد بھی کفار اور مشرکین کے ساتھ مقابلہ اور مقاتلہ اسی صورت میں کرسکتا ہے۔ جب اس کے دل میں کفار اور مشرکین کے بارے میں کاروباری مفادات، معاشرتی تعلقات اور خونی رشتوں سے بڑھ کر اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی محبت اور جان نثاری کا جذبہ پیدا ہوجائے۔ یہاں قتال فی سبیل اللہ کا یہی مقصد بیان کیا گیا ہے۔ یہ آیت کریمہ ان لوگوں کے لیے نازل ہوئی جو فتح مکہ کے بعد مسلمان ہوئے اور ابھی تک مشرک اعزاء و اقرباء کے بارے میں نرم گوشہ رکھتے تھے جہاں تک سابقون الاولون مسلمانوں کا تعلق ہے انھوں نے بدرا وراُحد میں یہ ثابت کردیا تھا کہ اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات اور ان کی بات پر کسی شخص اور مفاد کو مقدم نہیں سمجھتے اسی لیے ان کی تعریف میں کہا گیا کہ ” جو لوگ اللہ اور آخرت پر یقین رکھتے ہیں آپ انھیں ہرگز نہ پائیں گے کہ وہ اللہ اور اس کے رسول کے مخالفوں کے ساتھ محبت رکھتے ہوں خواہ ان کے باپ ہوں یا بیٹے، بھائی اور رشتہ دار ہی کیوں نہ ہوں۔ یہی لوگ ہیں جن کے دلوں میں ایمان راسخ کردیا گیا ہے اللہ تعالیٰ اپنی طرف سے ان کی خصوصی مدد کرتا ہے اور انھیں ایسی جنت میں داخل کیا جائے گا جس کے نیچے نہریں جاری ہیں اللہ تعالیٰ ان سے ہمیشہ راضی ہوگا اور وہ بھی اپنے رب سے خوش ہوں گے یہ اللہ کی جماعت ہے اور لوگو! کان کھول کر سنو کہ اللہ کی جماعت ہی کامیاب اور کامران ہونے والی ہے۔ (المجادلۃ، آیت : ٢٢) “ مسائل ١۔ ایمان کے لیے آزمائش شرط ہے۔ ٢۔ مومن وہ ہے جو اللہ اور اس کے رسول کو سب سے مقدم جانتا ہو۔ ٣۔ کافر اور مشرک کے ساتھ دلی محبت نہیں ہونی چاہیے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ ہر کسی کے عمل کو جانتا ہے۔ تفسیر بالقرآن کن لوگوں سے دلی دوستی کرنا جائز نہیں : ١۔ کافروں سے دوستی نہیں کرنی چاہیے۔ (النساء : ٨٩) ٢۔ مومنوں کے علاوہ کسی کو دوست نہیں بنانا چاہیے۔ (النساء : ١٤٤) ٣۔ یہود و نصاریٰ سے دوستی جائز نہیں۔ (المائدۃ: ٥١) ٤۔ دین کو مذاق کرنے والوں سے دوستی جائز نہیں۔ (المائدۃ: ٥٧) ٥۔ ایمان پر کفر کو ترجیح دینے والوں سے دوستی جائز نہیں۔ (التوبۃ : ٢٣) ٦۔ اللہ کے دشمنوں سے دوستی نہیں کرنا چاہیے۔ (الممتحنۃ: ١) التوبہ
17 فہم القرآن ربط کلام : مشرکین اور کفار کے ساتھ اس لیے بھی قتال کرنے کا حکم ہوا۔ تاکہ ان سے حرم ہمیشہ کے لیے خالی کروالیا جائے۔ سورۃ التوبہ کے تعارف میں عرض کیا تھا کہ اس کی اکثر آیات فتح مکہ کے موقع پر نازل ہوئیں اس لیے قتال فی سبیل اللہ کا حکم دیتے ہوئے مشرکین مکہ کی اس حیثیت کو چیلنج کیا گیا ہے جس بناء پر وہ پوری دنیا میں بالخصوص سرزمین عرب میں معزز اور محترم جانے جاتے تھے۔ لوگوں کی نظروں میں یہ اللہ کے گھر کے متولی اور خدمت گارتھے جس وجہ سے ان کا احترام کیا جاتا تھا لوگ سمجھتے کہ ان میں کوئی خاص خوبی نہ ہوتی تو اللہ تعالیٰ انھیں کیونکر اپنے گھر کا متولی اور خدمت گار بناتا۔ اس بنا پر لوگ انھیں مقدس اور محترم سمجھتے تھے اور مکے والے بھی اس بات پر فخر کرتے تھے کہ ہم بیت اللہ اور مسجد حرام کے متولی اور حجاج کرام کے خادم ہیں لہٰذا ہم مسلمانوں سے افضل اور اعلیٰ ہیں۔ اہل مکہ اور لوگوں کی غلط فہمی دور کرنے کے لیے دو ٹوک الفاظ میں واضح کیا ہے کہ مشرکین کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ اللہ کی مسجدوں کو آباد کریں کیونکہ ان کا قول و فعل ان پر گواہ ہے کہ وہ مسجد حرام اور بیت اللہ کے مالک یعنی اللہ تعالیٰ کے ساتھ کفر اور شرک کرنے والے ہیں۔ جب کہ بیت اللہ اور مسجد حرام کا مقصد ہی اللہ تعالیٰ کی خالص عبادت کرنا ہے اور اسی مقصد کے لیے ہی مساجد بنائی جاتی ہیں۔ جب کافر اللہ تعالیٰ کو نہیں مانتا اور مشرک اس کی خالص عبادت کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتا پھر انھیں یہ حق کیونکر دیا جا سکتا ہے کہ وہ مسجد حرام اور دیگر مساجد کے متولی بن کر رہیں انھیں تو مسجد میں آنے کی بجائے بتوں، مزاروں اور آتش کدوں میں جا کر ہی خوار ہونا چاہیے۔ لہٰذا انھیں کوئی حق نہیں پہنچتا کہ وہ مسجد حرام یا کوئی اور مسجد تعمیر کریں اور اس کی تولیت یا خدمت و خطابت کے ذریعے لوگوں سے مراعات اور احترام حاصل کریں۔ ان کے اعمال ضائع ہوئے اور یہ لوگ ہمیشہ کے لیے جہنم رسید ہوں گے۔ لہٰذا مساجد کو وہی لوگ تعمیر کریں اور وہی انھیں آباد کریں جو اللہ اور آخرت پر خالصتاً ایمان رکھتے ہوئے نماز قائم کرنے اور زکوٰۃ دینے والے ہوں اور اللہ تعالیٰ کے سوا کسی سے نہ ڈرنے والے ہیں اگر ایسے لوگوں سے کوئی چوک ہوجائے تو اللہ تعالیٰ ضرور ان کی رہنمائی کرے گا غیر اللہ سے ڈرنے سے مراد حقیقی اور دائمی خوف ہے جو صرف مشرک کے دل میں ہوا کرتا ہے کیونکہ مشرک بتوں، مزارات اور یہاں تک کہ درختوں سے ڈرتا اور کانپتا ہے یہی وجہ ہے کہ بے شمار شرک کرنے والے مزارات اور بت خانوں میں لگے ہوئے درختوں سے پتہ توڑنے کی جرأت نہیں کرتے کہ کہیں بت یا قبر والا ناراض نہ ہوجائے ان کے مقابلے میں مواحد صرف اللہ تعالیٰ کا خوف ہی دل میں بٹھائے رکھتا ہے کیونکہ اس کا عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا نہ کوئی نفع دے سکتا ہے نہ نقصان پہنچا سکتا ہے۔ یہی لوگ ہدایت پانے والے ہیں ہدایت کے لیے اولین شرط یہ ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کے سوا کسی سے نہ ڈرے اگر وہ کسی دوسرے کا خوف اپنے دل میں محسوس کرے گا تو حقیقت سمجھنے کے باوجود اسے اپنانے سے خوف زدہ رہے گا۔ (عَنْ عَاءِشَۃَ (رض) قَالَتْ قُلْتُ یَا رَسُول اللّٰہِ ابْنُ جُدْعَانَ کَانَ فِی الْجَاہِلِیَّۃِ یَصِلُ الرَّحِمَ وَیُطْعِمُ الْمِسْکِینَ فَہَلْ ذَاکَ نَافِعُہُ قَالَ لَا یَنْفَعُہٗ إِنَّہٗ لَمْ یَقُلْ یَوْمًا رَبِّ اغْفِرْ لِی خَطِیءَتِی یَوْمَ الدِّینِ) [ رواہ مسلم : کتاب الایمان] ” حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں میں نے پوچھا اے اللہ کے رسول! ابن جدعان زمانہء جاہلیت میں صلہ رحمی کیا کرتا تھا اور مساکین کو کھانا کھلایا کرتا تھا کیا اس کو اس کا کوئی فائدہ ہوگا ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا نہیں، کیونکہ اس نے یہ نہیں کہا تھا کہ اے میرے رب ! قیامت کے دن میری خطائیں معاف کرنا۔“ گویا کہ وہ آخرت کا منکر تھا۔ مسائل ١۔ مشرکین کو بیت اللہ میں داخل ہونے کا کوئی حق نہیں۔ ٢۔ مشرک کو کسی مسجد کا متولی نہیں ہونا چاہیے۔ ٣۔ شرک اور کفر سے آدمی کے سارے اعمال ضائع ہوجاتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن مشرک انتہائی ذلیل ہوتا ہے : ١۔ مشرک پلید ہوتا ہے۔ (التوبۃ: ٢٨) ٢۔ مشرکوں کو لائق نہیں کہ مسجد حرام کے قریب آئیں۔ (التوبۃ: ١٧) ٣۔ مشرکوں کے اعمال برباد ہوجائیں گے۔ (الانعام : ٨٨) ٤۔ مشرکوں پر اللہ کی لعنت ہوتی ہے۔ (الفتح : ٦) ٥۔ مشرک پر جنت حرام ہے۔ (المائدۃ: ٧٢) التوبہ
18 فہم القرآن ربط کلام : پچھلی آیت میں مشرکین کے بارے میں کہا گیا ہے کہ یہ لوگ مساجد کے متولی نہیں ہو سکتے یہاں وضاحت کی گئی کہ مساجد کے متولی حضرات کے کیا اوصاف ہونے چاہئیں۔ روئے زمین پر اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ پسندیدہ جگہ اور مقام مسجد ہے جس کو ذکر وفکر اور اللہ کے حضور سجدہ گاہ بنایا گیا ہے۔ نبی محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس زمین کے ٹکرے کو اللہ کے باغوں میں سے ایک باغ قرار دیا ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرمایا کرتے تھے کہ لوگو! اللہ کے باغوں میں داخل ہو کر خوب سیر ہوکر کھایا کرو۔ لوگوں نے پوچھا اللہ کے باغ کون سے ہیں اور ان میں کھانا پینا کیسا؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں مسجدیں اللہ کا گھر ہیں اور روح کے لیے ذکرواذکار تازہ پھل کھانے کے مترادف ہیں۔ (مشکوٰۃ باب المساجد ومواضع الصلاۃ) جس طرح گلشن وباغیچے کو صاف ستھر ارکھا جاتا ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فرمان کے مطابق مسجد روح و نفس اور جسم وجان کے لیے روحانی اور خدائی باغ ہیں۔ انہیں تو ہر حال میں پاک صاف اور ستھرارکھنا چاہیے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے بیت اللہ کی تعمیر کرنے والے دوپیغمبروں سے یہی وعدہ لیاتھاکہ میرے گھر کو ہر طرح سے پاک صاف رکھنا۔ (وَعَھِدْنَآ اِآٰی اِبْرٰھِےْمَ وَاِسْمٰعِیْلَ اَنْ طَھِّرَا بَیْتِیَ للطَّآءِفِیْنَ وَالْعٰکِفِیْنَ وَالرُّکَّعِ السُّجُوْدِ) [ البقرۃ: ١٢٥] ” ہم نے ابراہیم اور اسماعیل سے وعدہ لیا تھا کہ میرے گھر کو طواف‘ رکوع اور سجدہ کرنے والوں کے لیے پاک رکھنا۔“ اللہ کے گھر کی ظاہری صفائی یہ ہے کہ اسے گردوغبار‘ جنگ وجدال اور فتنہ وفساد سے پاک رکھا جائے۔ پہلے پارے میں ارشاد ہے کہ جو لوگ مسجدوں کے ماحول کو خراب اور ان میں فتنہ وفساد پیدا کرتے ہیں ان کے لیے مسجدوں میں ایسی کڑی نگرانی کا ماحول اور اخلاقی دباؤ ہونا چاہیے کہ وہ مسجد میں شرارت کرتے ہوئے خوف محسوس کریں۔ مسجدوں میں سکون اور ان میں آنے والے تب ہی ذوق وشوق کے ساتھ آئیں گے کہ مساجد میں صفائی اور پاکیزگی کے ساتھ ساتھ پر سکون ماحول پیدا کیا جائے۔ مسجدوں میں بے وجہ گفتگو اور شوروغوغا نمازیوں کے سکون اور عبادت کے ذوق وشوق کو تباہ کردیتا ہے۔ ایک دفعہ حضرت عمر (رض) نے مسجد میں دو آدمیوں کو بلند آواز میں باتیں کرتے ہوئے سنا تو ان کو ہلکی سی ڈانٹ پلاتے ہوئے فرمایا کہ تم دیہاتی ہو اور تمہیں مسجد کے آداب کا علم نہیں اگر تم مدینے کے رہنے والے ہوتے تو میں تمہیں سخت سزا دیتا۔ (مشکوٰۃ : باب المساجد ومواضع الصلاۃ) اخلاقیات عالم کا مسلمہ اصول ہے کہ جب کوئی شخص دوسرے کے گھر جائے تو وہ اپنی عزت اور دوسرے کے احترام کی خاطر لڑائی جھگڑے حتیٰ کہ آواز اونچی کرنے سے بھی کتراتا ہے۔ مسجد تو رب ذوالجلال کا گھر ہے۔ اللہ کی سطوت وجبروت اور اس کے گھر کا احترام یہ ہے آدمی ہر اعتبار سے وقار اور سنجیدگی کا مظاہرہ کرے۔ جو شخص اللہ کے گھر کا احترام نہیں کرتا اس کے بارے میں یہ انتباہ ہے : ( لَھُمْ فِیْ الْدُنْیَا خِزْیٌ وَلَھُمْ فِی الْاٰخِرَۃِ عَذَابٌ عَظِیْمٌ) (البقرۃ: ١١٤) ” وہ دنیا وآخرت میں ضرور ذلیل وخوار ہو کر رہیں گے۔“ مسجد اللہ تعالیٰ کی عبادت اور اس کی سمع وطاعت کی تربیت گاہ‘ رحمت خداوندی کا مرکز اور اس کی تجلیات کی جگہ ہے۔ اس لیے یہاں آنے والے کو یہ تعلیم دی گئی کہ مسجد میں دایاں قدم رکھتے ہی اللہ کی رحمتوں کے حصول کے لیے یہ دعا کرتے ہوئے مسجد میں داخل ہوا جائے۔ (اِنَّمَایَعْمُرُ مَسٰجِدَاللّٰہِ مَنْ اٰمَنَ باللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰ خِرِ) [ التوبۃ: ١٨] ” بے شک مساجد کی تعمیر میں وہی لوگ حصہ لیتے ہیں جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہیں۔“ مسجد کا ما حول جس قدر پر سکون، صفائی اور اخلا ق کے اعتبار سے صاف ستھراہو گا اسی قدرنما زی حضرات کو روحانی اور نفسیاتی فا ئدہ اور سکون وقرار حا صل ہوگا۔ مسجد میں دل جمعی کے ساتھ بیٹھنا اور فکر و نظرکی یکسوئی کے ساتھ اللہ کا گھر سمجھ کر اس کی با رگاہ میں حا ضری کا تصور لیے ہوئے ٹھہرے رہنا بے پناہ روحانی اور نفسیاتی فوائد سے بھر پور عمل ہے۔ اس گئے گذرے دور میں کوئی شخص اس نیت و ارادے کے ساتھ بیٹھ کر اندازہ کرسکتا ہے کہ جو سکون مسکن دواؤں‘ راحت بخش فضاؤں اور طعام وقیام کی لذتوں سے حا صل نہیں ہوتا، وہ اللہ کے گھر میں چند لمحے گذا رنے سے اس طرح حاصل ہوتا ہے کہ آدمی کی بے چینی اور مضطرب طبیعت میں قرار واطمینان کے جھونکے اس کی طبیعت کو ڈھارس بندھاتے اور اس کی روح کو بہلا رہے ہوتے ہیں۔ اس سکون واطمینان اور روحانی اثرات کا تسلسل فقط اس دنیا تک ہی نہیں بلکہ اسکے نتا ئج لامتنا ہی مستقبل پر اس طرح مرتب ہوں گے کہ محشر کے دن سورج کی شدت و حرارت کی وجہ سے پسینے میں شرابور لوگ تپش اور گرمی کی بنا پر اس طرح دکھائی دیں گے جیسے کوئی بھا ری نشہ استعمال کرنے کے بعد لڑکھڑا رہا ہوتا ہے۔ اس ہولناک موقع پر عرش معلی سے سات قسم کے لوگوں کے لیے اعلان ہوگا۔ کہ فلاں، فلاں لوگ میرے عرش کے سائے میں آجائیں ان میں ایک طبقہ وہ ہوگا جو مسجد میں پروقار اور مکمل اطمینان کیساتھ بیٹھا کرتا تھا۔ (مشکوٰۃ: باب المساجد و مواضع الصلاۃ) دیکھنے والوں کے لیے یہ سچائی کسی دلیل کی محتا ج نہیں کہ جو افسران یا اثر ورسوخ اور سماجی لحاظ سے بڑے لوگ مسجدوں میں پا نچ وقت حا ضری کی سعادت سے سرفراز ہوتے ہیں‘ چند لوگوں کو چھوڑ کر ایسے افسران اور سر کردہ حضرات میں وہ رعونت اور تکبر نہیں پا یا جاتا جو مسجدوں سے دور رہنے والے اعلی حکام اور بڑے لوگوں میں پا یا جاتا ہے۔ ایسے افراد تک عوام کی رسائی ہزار پا بندیوں کے با وجود آج بھی بہت آسان دکھائی دیتی ہے۔ مسجدوں میں حاضری کی وجہ سے انکے رویہ میں شفقت اور محبت کا پہلو غا لب رہتا ہے۔ جب تک اقتدار میں شریک لوگ مسجد میں آیا کرتے تھے اس وقت تک عوام اور حکام کے درمیان اتنا بعد نہیں تھا۔ اس لیے ہم جس قدر بھی مسجدوں کے ساتھ وا بستگی پیدا کریں گے اسی قدر روحانی اور معاشرتی ترقیوں کو پانا ہمارے لیے آسان ہوگا۔ مسجد میں داخل ہونے کی دعا : (اَللّٰھُمَّ افْتَحْ لِیْ اَبْوَابَ رَحْمَتِکَ) [ مشکوٰۃ: باب المساجد ومواضع الصلاۃ] ” اے اللہ ! میرے لیے اپنی رحمت کے دروازے کھول دیجیے۔“ مسجد سے نکلنے کی دعا : (اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْءَلُکَ مِنْ فَضْلِکَ) [ مشکوٰۃ: باب المساجد ومواضع الصلاۃ] ” اے اللہ ! میں آپ کے فضل کا طلب گار ہوں۔“ آداب : اس رحمت گاہ کی تعمیر اور اسے ہر انداز سے آباد کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ نے اس بشارت سے سرفراز فرمایا ہے : مسائل ١۔ ایمان دار اور متقی لوگ ہی مساجد کی دیکھ بھال کرتے ہیں۔ ٢۔ مساجد کو آباد کرنا ہدایت یافتہ لوگوں کی نشانی ہے۔ التوبہ
19 فہم القرآن ربط کلام : اہل مکہ ہر قسم کے جرائم میں ملوث ہونے کے باوجود سمجھتے تھے کہ وہ حرم کے موروثی وارث اور حجاج کرام کے خدام ہیں اس لیے ہماری تولیت کو چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔ اس پر مؤاخذہ کرتے ہوئے حرم کے متولی کے اوصاف کا ذکر ضروری سمجھا گیا ہے۔ مسجد حرام اور دیگر مساجد کی تولیت کا استحقاق رکھنے والوں کے اوصاف بیان کرنے کے بعد مشرکین مکہ کے حوالے سے واضح کیا جا رہا ہے کہ کیا تم سمجھتے ہو کہ حجاج کرام کی خدمت کرنا، انھیں زمزم پلانا، مسجد حرام کی تولیت اور تعمیر کرنانیک کام ہیں۔ بے شک یہ عظیم کام ہیں لیکن ایمان باللہ، ایمان بالآخرت اور جہاد فی سبیل اللہ کے برابر نہیں ہو سکتے۔ مسجد حرام کی تعمیر و ترقی، حجاج کو زمزم پلانا اور ان کی خدمت کرنے کا انھی لوگوں کو اجر ملے گا جو اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھنے والے یعنی توحید خالص کا عقیدہ اپنانے اور آخرت کی جوابدہی پر ایمان رکھنے کے ساتھ اپنے مال اور نفس کے ساتھ دین کی سربلندی کے لیے جہاد کرنے والے ہوں۔ جو لوگ ان اوصاف سے تہی دامن ہوں بے شک وہ مسجد حرام کی خدمت اور حجاج کرام کو چلو بھر بھر کر پانی پلائیں اور ان کے لیے اپنے مکان خالی کردیں یا صبح و شام انھیں کھانا کھلائیں اگر ان کے عقیدہ میں شرک کی آمیزش ہوگی تو ان کا کوئی عمل بھی اللہ کی بارگاہ میں مستجاب نہیں ہوگا کیونکہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک مشرک اور مواحد برابر نہیں ہو سکتے مشرک ظالم ہوتا ہے اس لیے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے اختیارات اور اس کی صفات کو دوسروں میں تصور کرتا ہے جو پرلے درجے کی بے انصافی اور زیادتی ہے لہٰذا مشرک ظالم ہیں اس لیے اللہ تعالیٰ ظالموں کو ہدایت نہیں دیا کرتا۔ (عن عُمَر بن الْخَطَّابِ (رض) قَالَ لَمَّا کَانَ یَوْمُ خَیْبَرَ أَقْبَلَ نَفَرٌ مِنْ أَصْحَاب النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَقَالُوا فُلَانٌ شَہِیدٌ فُلَانٌ شَہِیدٌ حَتّٰی مَرُّوا عَلٰی رَجُلٍ فَقَالُوا فُلَانٌ شَہِیدٌ فَقَالَ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کَلَّا إِنِّی رَأَیْتُہُ فِی النَّارِ فِی بُرْدَۃٍ غَلَّہَا أَوْ عَبَاءَ ۃٍ ثُمَّ قَالَ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَا ابْنَ الْخَطَّابِ اذْہَبْ فَنَادِ فِی النَّاسِ أَنَّہُ لَا یَدْخُلُ الْجَنَّۃَ إِلَّا الْمُؤْمِنُونَ قَالَ فَخَرَجْتُ فَنَادَیْتُ أَلَا إِنَّہُ لَا یَدْخُلُ الْجَنَّۃَ إِلَّا الْمُؤْمِنُونَ) [ رواہ أحمد] ” حضرت عمربن خطاب (رض) بیان کرتے ہیں خیبر کے دن نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ کرام (رض) میں سے کچھ لوگ آئے انہوں نے کہا فلاں شہید ہے فلاں بھی شہید ہے یہاں تک کہ انہوں نے کسی آدمی کا تذکرہ کیا کہ فلاں بھی شہید ہے تو رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بلاشبہ میں اس کو مال غنیمت میں سے چرائی گئی چادر میں لپٹا دیکھ رہا ہوں جو کہ جہنم کی آگ سے جلائی جارہی ہے پھر رسول مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اے ابن خطاب لوگوں میں اعلان کردو جنت میں صرف مومنین ہی داخل ہوں گے عمر بن خطاب (رض) کہتے ہیں میں نے وہاں سے اٹھ کر لوگوں میں اعلان کردیا جنت میں صرف مومن ہی داخل ہوں گے۔“ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَنْ مَاتَ وَلَمْ یَغْزُ وَلَمْ یُحَدِّثْ بِہٖ نَفْسَہُ مَاتَ عَلٰی شُعْبَۃٍ مِنْ نِفَاقٍ) [ رواہ مسلم : کتاب الامارۃ، باب ذم من مات لم یغز ولم یحدث بہ نفسہ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو کوئی اس حالت میں فوت ہوا کہ اس نے نہ کبھی جہاد کیا اور نہ ہی کبھی اس کے دل میں اس کی خواہش پیدا ہوئی بلاشبہ وہ نفاق کی ایک علامت پر مرا۔“ مسائل ١۔ مسجد حرام کی خدمت اور حجاج کو زمزم پلانا ایمان باللہ، ایمان بالآخرت اور جہاد فی سبیل اللہ کے برابر نہیں ہو سکتے۔ ٢۔ مشرک ظالم ہوتا ہے اور ظلم کرنے والے کو اللہ ہدایت نہیں دیتا۔ ٣۔ جہاد فی سبیل اللہ کرنے والے کو دوسرے لوگوں پر فضیلت بخشی گئی ہے۔ ٤۔ کسی کو ہدایت نہ ملنا بہت بڑی بدبختی ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ کن لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا : ١۔ اللہ تعالیٰ فاسقوں کو ہدایت نہیں دیتا۔ (المائدۃ: ١٠٨) ٢۔ اللہ تعالیٰ ظالم قوم کو ہدایت نہیں دیتا۔ (القصص : ٥٠) ٣۔ اللہ تعالیٰ کفار کو ہدایت نہیں دیتا۔ (المائدۃ: ٦٧) ٤۔ اللہ تعالیٰ جھوٹے اور ناشکرے کو ہدایت نہیں دیتا۔ (الزمر : ٣) التوبہ
20 فہم القرآن ربط کلام : مسجد حرام کی تعمیر و ترقی اور حجاج کی خدمت کا ایمان اور کردار کے ساتھ موازنہ کرنے کے بعد حقیقی ایمان کے تقاضے بیان کیے گئے ہیں۔ ایمان صرف فکر اور عقیدہ کا نام نہیں یہ اس وقت تک مکمل اور اکمل نہیں ہوتا۔ جب تک اس کے تقاضے پورے نہ کیے جائیں۔ اس کا پہلا تقاضا یہ ہے کہ جب کوئی شخص اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کا دعویٰ کرتا ہے تو اس پر لازم ہوجاتا ہے کہ وہ اس نظریے کی خاطر ہر اس بات اور عمل کو چھوڑ دے جس سے اللہ اور اس کے رسول نے منع کیا ہے۔ ہجرت کا حقیقی اور جامع مفہوم بیان کرتے ہوئے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ حقیقی مہاجر وہ ہے کہ جو ہر اس کام کو چھوڑ دے جس سے اللہ نے منع کیا ہے۔ دوسرا مرکزی اور بنیادی تقاضا یہ ہے کہ مسلمان اس دعوت کے لیے اپنا مال اور جان کھپانے کی کوشش کرے جس کا اس نے کلمہ پڑھ کر اقرار اور اظہار کیا ہے اس کے بارے میں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان ہے کہ جہاد قیامت تک جاری رہے گا کسی ظالم کا ظلم اور عادل کا عدل اس راستے میں رکاوٹ نہیں بن سکتا۔ اہل علم نے جہاد کی چار اقسام بیان کی ہیں : ١۔ جہاد بالنفس : سب سے پہلے انسان اپنی خواہشات اور جذبات کے خلاف جہاد کرے تاآنکہ اس کا نفس اللہ اور اس کے رسول کی غلامی میں رہنے پر راضی ہوجائے۔ ایک غزوۂ سے واپسی پر آپ نے صحابہ (رض) کو فرمایا کہ جہاد اصغر سے جہاد اکبر کی طرف آؤ۔ صحابہ نے استفسار کیا کہ جہاد اکبر کیا ہے آپ نے فرمایا اپنے نفس کے خلاف جہاد کرنا۔ ٢۔ جہاد باللسان : نیکی کا حکم دینا اور برائی سے منع کرنا۔ یہ وہ جہاد ہے کہ جب تک اس کے تقاضے پورے نہ ہوجائیں اس وقت تک قتال فی سبیل اللہ کی اجازت نہیں ہوگی۔ اسی کے پیش نظر صحابہ (رض) کا معمول تھا کہ جب ایسے لوگوں کے ساتھ ان کا سامنا ہوتا جن تک اسلام کی دعوت نہیں پہنچی تھی صحابہ قتال فی سبیل اللہ سے پہلے انھیں دو باتوں کی دعوت دیتے تھے۔ اسلام قبول کرو یا جزیہ دینے کے لیے تیار ہوجاؤ جب لوگ انکار کرتے تو پھر ان کے ساتھ قتال فی سبیل اللہ کیا جاتا۔ اس لحاظ سے پہلے جہاد باللسان ہے پھر جہاد بالسیف۔ مکہ میں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تبلیغ کو جہاد اکبر قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ اے نبی کفار کے خلاف جہاد جاری رکھو۔ یہ بہت بڑا جہاد ہے۔ (الفرقان : ٥٢) اہل علم نے جہاد بالقلم کو بھی اس جہاد میں شامل کیا ہے۔ ٣۔ جہاد بالمال : قرآن مجید میں متعدد مقامات پر جہاد بالمال کا پہلے ذکر کیا گیا ہے کیونکہ مال کے بغیر اسلحہ اور مجاہدین کی ضروریات پوری نہیں ہو سکتیں۔ جہاد فی السیف سے پہلے جہاد بالمال کی ضرورت پیش آتی ہے۔ ٤۔ جہاد بالسیف : اس سے مراد میدان کار زار میں دشمن کے خلاف برسرپیکار ہونا ہے جو لوگ اس جہاد میں حصہ لیں گے وہ دنیا میں کامیاب اور آخرت میں ان کے رب نے انھیں اپنی رحمت، خوشنودی اور ہمیشہ ہمیش جنت میں داخلے کی بشارت دی ہے۔ یقیناً اللہ تعالیٰ کے ہاں ان کے لیے اجر عظیم ہوگا۔ (عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ (رض) قَالَ قَالَ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ثَلَاثٌ مِنْ أَصْلِ الْإِیمَانِ الْکَفُّ عَمَّنْ قَالَ لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَلَا نُکَفِّرُہُ بِذَنْبٍ وَلَا نُخْرِجُہُ مِنْ الْإِسْلَامِ بِعَمَلٍ وَالْجِہَادُ مَاضٍ مُنْذُ بَعَثَنِی اللّٰہُ إِلٰی أَنْ یُقَاتِلَ آخِرُ أُمَّتِی الدَّجَّالَ لَا یُبْطِلُہُ جَوْرُ جَاءِرٍ وَلَا عَدْلُ عَادِلٍ وَالْإِیمَان بالْأَقْدَارِ) [ رواہ ابو داؤد : کتاب الجہاد باب فی الغزو مع أئمۃ الجوار] ” حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تین چیزیں ایمان کی اصل ہیں 1 جس نے لا الہ الا اللہ کہا اس سے ہاتھ روک لینا۔2 کسی کے گناہ کی وجہ سے اسے کافر نہ قرار دینا۔ اس کی عملی غلطی سے دائرہ اسلام سے خارج قرار نہ دینا۔3 اور جہاد جب سے اللہ تعالیٰ نے مجھے بھیجا ہے اس وقت سے لے کر میری امت کے دجال سے لڑنے تک جاری رہے گا۔ اسے کسی ظالم کا ظلم اور عادل کا عدل نہیں روک سکے گا اور ایمان تقدیر کے مطابق ہے۔“ (عَنْ زَیْدِ بْنِ خَالِدٍ الْجُہَنِیّ (رض) قَالَ قَالَ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَنْ جَہَّزَ غَازِیًا فِی سَبِیل اللّٰہِ فَقَدْ غَزَا وَمَنْ خَلَفَ غَازِیًا فِی أَہْلِہِ فَقَدْ غَزَا) [ رواہ الترمذی : کتاب الجہاد باب فضل من جہز غازیا] ” حضرت زید بن خالد جہنی (رض) بیان کرتے ہیں بلاشبہ رسول مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس نے کسی اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے مجاہد کا سامان مہیا کیا بلاشبہ اس نے خود جہاد کیا۔ جس نے کسی مجاہد کے گھر کی خیر خواہی کی گویا اس نے بھی جہاد کیا۔“ مسائل ١۔ ایمان کا تقاضا ہے کہ اللہ کے راستے میں مال اور جان کے ساتھ جہاد کیا جائے۔ ٢۔ مجاہدین دنیا میں کامیاب اور آخرت میں اجر عظیم پائیں گے۔ ٣۔ مجاہدین ہمیشہ ہمیش جنت میں رہیں گے۔ تفسیر بالقرآن کامیاب ہونے والے لوگ : ١۔ اللہ تعالیٰ نے مومنوں، مومنات سے ہمیشہ کی جنت اور اپنی رضا مندی کا وعدہ فرمایا ہے یہ بڑی کامیابی ہے۔ (التوبۃ: ٧٢، ٨٩، ١٠٠) ٢۔ اللہ تعالیٰ نے مومنین سے جنت کے بدلے ان کے مال و جان خرید لیے ہیں، یہ بڑی کامیابی ہے۔ (التوبۃ: ١١١) ٣۔ اے اللہ نیک لوگوں کو برائی سے بچا جو برائی سے بچ گیا اس پر تیرا رحم ہوا۔ یہ بڑی کامیابی ہے۔ (المومن : ٩) ٤۔ ان کا جہنم کے عذاب سے بچنا اللہ کے فضل سے ہوگا اور یہی کامیابی ہے۔ (الدخان : ٥٧) ٥۔ اللہ تعالیٰ نیک لوگوں کو اپنی رحمت میں داخل کرے گا۔ یہ ظاہر کامیابی ہے۔ (الجاثیۃ : ٣٠) ٦۔ مومنوں کے لیے ہمیشہ کی جنت ہے جس میں پاک صاف مکان ہیں۔ یہ بڑی کامیابی ہے۔ (الصف : ١٢) ٧۔ جس کو آگ کے عذاب سے بچا دیا گیا اور جنت کا داخلہ مل گیا وہ کامیاب ہے۔ (آل عمران : ١٨٥) التوبہ
21 التوبہ
22 التوبہ
23 فہم القرآن ربط کلام : جہاد کا حق تب ادا ہوسکتا ہے جب مومن اللہ ہی کے لیے محبت کرے اور اسی کی خاطر کسی سے دشمنی رکھے۔ قرآن مجید نے مختلف الفاظ اور انداز میں یہ بات بار بار باور کروائی گئی ہے کہ مسلمانوں کو کفار اور مشرکین کے ساتھ قلبی محبت نہیں رکھنی چاہیے۔ جس کا بدیہی تقاضا ہے کہ ایمان اور مسلمانوں کو ہر چیز سے مقدم سمجھا جائے یہی امت کو متحد اور منظم رکھنے کا آخری اور بنیادی اصول ہے۔ اس کے لیے حکم دیا گیا ہے کہ اے مسلمانو! اگر تمھارے والدین اور بھائی ایمان پر کفر کو ترجیح دینے والے ہوں تو انھیں بھی اپنا رشتہ دار اور خیر خواہ مت سمجھو اگر تم نے اس حکم کے باوجود ان سے قلبی دوستی اور رشتے ناطے قائم رکھے تو پھر تم بھی ظالموں کے ساتھ شمار کیے جاؤ گے۔ مسئلہ کی اہمیت کے پیش نظر یہ بات سرور دو عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان سے کہلوائی گئی ہے کہ آپ واشگاف اعلان فرمائیں کہ اے مسلمانو! اگر تمھارے والدین، بیٹے، بھائی، تمھاری بیویاں، تمھارے رشتے دار اور جو مال تم کماتے ہو، تجارت جس کے نقصان سے تم ڈرتے ہو اور تمھارے مکانات جو تمھیں بہت پسند ہیں اللہ، اس کے رسول اور جہاد فی سبیل اللہ سے زیادہ محبوب ہیں تو پھر اللہ کے حکم کا انتظار کرو۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں ایسے مسلمان نافرمان ہیں۔ جنکی وہ کبھی رہنمائی نہیں کرتا۔ مال عزت کا باعث اور زندگی گزارنے کا مستحکم ذریعہ ہے مال کی بڑھوتری کے لیے تجارت لازمی چیز التوبہ
24 ہے مکان صرف سر چھپانے کی جگہ ہی نہیں غور کیا جائے توانسان کی حقیقی دنیا ہی اس کا مکان ہوا کرتا ہے۔ باقی جہاں چلنے، پھرنے اٹھنے بیٹھنے اور کاروبار کے لیے ہے۔ زندگی میں گھرکی ہر آدمی کو خواہش ہوتی ہے کہ اس کی رہائش گاہ بہتر سے بہتر اور آرام دہ ہوحتی کہ پرندے رات کے وقت اپنے گھونسلے اور کیڑے مکوڑے اپنی بل کی طرف پلٹتے ہیں۔ اس کے لیے تَرْضَوْنَھَا کا لفظ استعمال فرمایا کہ جنھیں تم نہایت پسند کرتے ہو یہ مکانات اور سب کی سب چیزیں اور رشتے ناطے جو تمھیں ایک سے ایک بڑھ کر محبوب اور پسند ہیں اگر یہ اللہ اور اس کے رسول اور جہاد فی سبیل اللہ سے بڑھ کر تمہیں عزیز ہیں تو اللہ کے عذاب کا انتظار کرو۔ (عَنْ ثَوْبَانَ (رض) مَوْلَی رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ قَالَ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یُوشِکُ أَنْ تَدَاعَی عَلَیْکُمْ الْأُمَمُ مِنْ کُلِّ أُفُقٍ کَمَا تَدَاعَی الْأَکَلَۃُ عَلٰی قَصْعَتِہَا قَالَ قُلْنَا یَا رَسُول اللّٰہِ أَمِنْ قِلَّۃٍ بِنَا یَوْمَءِذٍ قَالَ أَنْتُمْ یَوْمَءِذٍ کَثِیرٌ وَلَکِنْ تَکُونُونَ غُثَاءً کَغُثَاء السَّیْلِ یَنْتَزِعُ الْمَہَابَۃَ مِنْ قُلُوبِ عَدُوِّکُمْ وَیَجْعَلُ فِی قُلُوبِکُمْ الْوَہْنَ قَالَ قُلْنَا وَمَا الْوَہْنُ قَالَ حُبُّ الْحَیَاۃِ وَکَرَاہِیَۃُ الْمَوْتِ) [ رواہ احمد] ” حضرت ثوبان جو رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے غلام تھے فرماتے ہیں کہ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا وہ وقت قریب ہے کہ تم پر جماعتیں ہر افق سے ٹوٹ پڑیں گئی جس طرح کھانے والے پیالے پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔ ثوبان کہتے ہیں ہم نے پوچھا اے اللہ کے رسول ! کیا ہم اس وقت قلت میں ہوں گے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا نہیں بلکہ تم اس وقت کثیر تعداد میں ہوگے لیکن تمہاری مثال پانی کی جھاگ کی طرح ہوگی تمہارے دشمن کے دل سے تمہارا رعب اٹھالیا جائے گا اور تمہارے دلوں میں وھن پیدا ہوجائے گا ہم نے پوچھا وھن کیا ہے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا دنیا کی محبت اور موت سے نفرت۔“ اگر یہ چیزیں تمھیں اللہ، اس کا رسول اور جہاد فی سبیل اللہ سے محبوب ہیں تو پھر حکم کا انتظار کرو۔ مفسرین نے یہاں حکم سے مراد اللہ کا عذاب لیا ہے یعنی پھر تم پر اللہ کا عذاب نازل ہو کر رہے گا جس کی کئی صورتیں ہو سکتی ہیں جن میں پہلی صورت یہ ہوگی کہ دشمن نظریاتی اور حربی اعتبار سے تم پر غالب آئے گا۔ یہاں دنیا کی آٹھ بڑی نعمتوں کا ذکر کیا ہے جن پر انسان کی زندگی کا دارومدار ہے ان میں سے کوئی ایک چیز انسان کے پاس نہ ہو زندگی اجیرن محسوس ہوتی ہے۔ والدین سلسلۂ انسانی کی بقا کا ذریعہ ہیں بیویاں تخلیق انسانی کا وسیلہ بیٹے، بھائی، رشتہ دار درجہ بدرجہ انسان کے لیے معاون اور قوت کا باعث ہیں۔ مال اور کاروبار زندگی گزارنے کا ذریعہ، مکان جائے قیام ہے۔ مسائل ١۔ مسلمان کو کسی کافر اور مشرک کے ساتھ قلبی تعلق نہیں رکھنا چاہیے۔ بے شک وہ والدین اور قریبی عزیزہی کیوں نہ ہوں۔ ٢۔ کفار اور مشرکین کے ساتھ رشتے ناطے اور قلبی دوستی رکھنے والے مسلمان ظالم ہیں۔ ٣۔ اللہ، اس کے رسول اور جہاد فی سبیل اللہ دنیا کی ہر چیز سے عزیز تر ہونے چاہییں۔ ٤۔ جو مسلمان اللہ، اس کے رسول اور جہاد فی سبیل اللہ سے دنیا کے رشتے اور دوسری چیزوں کو مقدم جانتے ہیں وہ فاسق ہیں۔ تفسیر بالقرآن فاسق کی نشانیاں : ١۔ فاسق اللہ کی آیات کا انکار کرتے ہیں۔ (البقرۃ: ٩٩) ٢۔ مومن اور فاسق برابر نہیں ہو سکتے۔ (السجدۃ: ١٨) ٣۔ جو اقرار کرنے کے بعد بدل جائیں وہی فاسق ہیں۔ (آل عمران : ٨٢) ٤۔ جو اللہ کے نازل کردہ احکام کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہی فاسق ہیں۔ (المائدۃ: ٤٧) ٥۔ غلط اطلاعات فراہم کرنے اور ان کی تشھیر کرنے والے فاسق ہیں۔ (الحجرات : ٦) ٦۔ اللہ کی اطاعت سے منہ موڑنے والے فاسق ہیں۔ آل عمران : ٨٢) ٧۔ کتاب اللہ کے مطابق فیصلہ نہ کرنے والے فاسق ہیں۔ (المائدۃ: ٤٧) التوبہ
25 فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ دین کی سربلندی کے لیے کسی کا محتاج نہیں اگر وہ چاہے تو غائبانہ اسباب سے اپنے دین کو سربلند رکھ سکتا ہے۔ جیسا کہ اس نے ہجرت کے وقت نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حفاظت کا بندوبست فرمایا تھا۔ اس سے پہلے والدین، بیٹے، بھائی، بیویاں، رشتے دار اور سب چیزوں کو اللہ اور اس کے رسول اور جہاد فی سبیل اللہ کے مقابلہ میں ناچیز سمجھنے کا حکم دیا تھا۔ جس سے مسلمان ذہنی دباؤ میں آکر اپنے آپ کو تھوڑے اور کمزور سمجھنے لگے۔ اس فکری دباؤ کو ختم کرنے کے لیے مسلمانوں کو یاد دلایا گیا ہے کہ فکر مند ہونے کے بجائے وہ مواقع یاد کیجیے جب اللہ تعالیٰ نے تمھاری مدد فرمائی۔ حالانکہ تم افرادی قوت اور جنگی سازو سامان کے اعتبار سے کفار کے مقابلے میں تھوڑے تھے۔ اس لیے تمھیں بہر حال اللہ اور اس کے رسول اور جہاد فی سبیل اللہ کوتمام رشتوں اور ہر چیز سے مقدم رکھنا ہوگا۔ جہاں تک افرادی قوت اور کثرت کا تعلق ہے تم حنین میں پہلے غزوات سے زیادہ تھے۔ تمہاری تعداد ١٢٠٠٠ سے زیادہ تھی۔ اس کے باوجود دشمن کے مقابلے میں نہ ٹھہر سکے اور زمین وسعت و کشادگی کے باوجود تمھارے لیے تنگ ہوگئی تم پیٹھ پھیر کر بھاگنے لگے حالانکہ اس سے پہلے تمھیں اپنی عددی کثرت پر بڑا ناز تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول اور مومنوں پر سکون اور اعتماد نازل فرماکر ملائکہ کی فوج بھیجی تاکہ کفار کو ٹھیک ٹھیک سزا دی جائے۔ تمھارے پیٹھ پھیر کر بھاگنے کے باوجود اللہ تعالیٰ نے تم پر کرم فرمایا۔ اللہ تعالیٰ جس پر چاہتا ہے فضل و کرم فرماتا ہے اور اللہ معاف کرنے والا نہایت مہربان ہے۔ فتح مکہ کے متصل بعد حنین کا معرکہ ہوا جس میں مسلمانوں کی تعداد اہل حنین سے زیادہ تھی۔ اس کے ساتھ ہی فتح مکہ کی وجہ سے مسلمانوں کا مورال نہایت ہی اعلیٰ درجے پر تھا جس کی وجہ سے نووارد مسلمانوں اور کچھ جوانوں نے ایک دوسرے سے اس بات کا اظہار کیا کہ آج ہمیں کوئی شکست نہیں دے سکتا۔ ان جذبات کے ساتھ مسلمان حنین کی طرف پیش قدمی کرتے ہیں۔ لیکن ہوا یہ کہ اہل حنین نے راستے میں سحری کے وقت مسلمانوں پر شب خون مارا اور اس قدر اچانک اور یکبارگی حملہ کیا کہ مسلمانوں کے چھکے چھوٹ گئے جس کا جدھر منہ آیا بھاگنے لگے۔ یہاں تک کہ اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس صرف چند صحابہ باقی رہ گئے۔ اس نازک اور اچانک صورتحال کے باوجود آپ نہایت ثابت قدمی اور زبردست دلیری کے ساتھ یہ اعلان کر رہے تھے۔ اَنَا النَّبِیُ لَا کَذَبْ اَنَا ابْنُ عَبْدِ الْمُطْلِبْ کہ میں اللہ کا سچا نبی اور سردار عبدالمطلب کا بیٹا ہوں اس لیے میدان چھوڑ کر نہیں بھاگ سکتا۔ اس کے ساتھ ہی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے چچا عباس (رض) کو فرمایا کہ بدر، احد اور بیعت رضوان میں شرکت کرنے والوں کو آواز دیجیے۔ حضرت عباس (رض) آواز پر آواز دینے لگے اِلَیَّ عِبَاد اللّٰہِ اِلَیَّ عِبَاد اللّٰہِ اے اللہ کے بندو کہاں بھاگے جا رہے ہو اللہ کے رسول تو اپنی جگہ پر کھڑے اور ڈٹے ہوئے ہیں۔ پلٹ آؤ پلٹ آؤ صحابہ واپس آئے تو اللہ کے رسول نے اس طرح صف بندی اور منصوبہ بندی فرمائی کہ اہل حنین کے چھ ہزار قیدی بنا لیے کہ چالیس ہزار کے قریب بھیڑ بکریاں اور چوبیس ہزار اونٹ ہاتھ آئے۔ قیدیوں کو اہل حنین اور آپ کی سوتیلی بہن شیما کی سفارش پر چھوڑ دیا گیا اور بھیڑ بکریاں اور اونٹ مجاہدین میں تقسیم کردیے گئے۔ تفصیل کے لیے سیرت کی مستند کتابوں کا مطالعہ فرمائیں۔ (عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ قَالَ رَجُلٌ لِلْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ (رض) أَفَرَرْتُمْ عَنْ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَوْمَ حُنَیْنٍ قَالَ لَکِنَّ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لَمْ یَفِرَّ إِنَّ ہَوَازِنَ کَانُوا قَوْمًا رُمَاۃً وَإِنَّا لَمَّا لَقِینَاہُمْ حَمَلْنَا عَلَیْہِمْ فَانْہَزَمُوا فَأَقْبَلَ الْمُسْلِمُونَ عَلٰی الْغَنَاءِمِ وَاسْتَقْبَلُونَا بالسِّہَامِ فَأَمَّا رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَلَمْ یَفِرَّ فَلَقَدْ رَأَیْتُہُ وَإِنَّہُ لَعَلٰی بَغْلَتِہِ الْبَیْضَاءِ وَإِنَّ أَبَا سُفْیَانَ اخِذٌ بِلِجَامِہَا وَالنَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ أَنَا النَّبِیُّ لَا کَذِبْ أَنَا ابْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبْ) [ رواہ البخاری : کتاب الجہاد، باب من قاد دابۃ فی الحرب] ” حضرت ابو اسحاق بیان کرتے ہیں ایک آدمی نے براء بن عازب (رض) سے پوچھا کیا تم لوگ حنین کے دن رسول مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو چھوڑ کر بھاگ گئے تھے ؟ انہوں نے کہا لیکن رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میدان چھوڑ کر نہیں بھاگے تھے۔ ہوازن قبیلے کے لوگ تیر انداز تھے جب ہمارا اور ان کا آمنا سامنا ہوا تو ہم نے ان پر حملہ کیا اور انہیں شکست سے دوچار کیا۔ مسلمان مال غنیمت کی طرف متوجہ ہوئے اور ان لوگوں نے تیر اندازی شروع کردی مگر رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی جگہ نہیں چھوڑی تھی بلاشبہ میں نے انہیں دیکھا اور وہ اپنے سفید خچر پر تھے اور ابو سفیان اس کی لگام تھامے ہوئے تھے اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرمارہے تھے میں جھو ٹا نبی نہیں ہوں میں عبدالمطلب کا بیٹا ہوں۔“ مسائل ١۔ اللہ کی مدد کے بغیر عددی کثرت اور حربی قوت کام نہیں دیتی۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے حنین کی شکست کو فتح میں تبدیل کردیا۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ نے حنین کے موقع پر اپنے رسول اور مومنوں پر سکون اور اعتماد نازل فرمایا۔ ٤۔ حنین میں مسلمانوں کی مدد کے لیے فرشتے نازل کیے گئے جن کو مسلمانوں نے نہیں دیکھا تھا۔ تفسیر بالقرآن کفار کی سزا : ١۔ اگر کفار تم سے لڑیں تم بھی ان سے لڑو کافروں کی یہی سزا ہے۔ (البقرۃ: ١٩١) ٢۔ اللہ اسی طرح سزا دیتا ہے کفار کو۔ (الفاطر : ٣٦) ٣۔ اللہ نے کفار کو ان کے کفر کی وجہ سے سزا دی۔ (السباء : ١٧) ٤۔ کفار کی سزا ہمیشہ کی آگ ہے۔ (فصلت : ١٩) ٥۔ اللہ کی آیات اور رسولوں کے ساتھ مذاق کی سزا جہنم ہے۔ (الکہف : ١٠٦) ٦۔ اللہ کفار کو ان کے چہروں کے بل اوندھا کرکے اٹھائے گا یہ کفار کی سزا ہے۔ (الاسراء : ٩٧ تا ٩٨) ٧۔ اے کفار آج عذر نہ کرو جو کچھ تم نے کیا تھا اس کی سزا تمھیں مل گئی۔ (التحریم : ٧) ٨۔ کفار صبر کریں یا نہ کریں ان کی سزا جہنم ہے۔ (الطور : ١٥ تا ١٦) التوبہ
26 التوبہ
27 التوبہ
28 فہم القرآن ربط کلام : مشرک فکری اور اعتقادی طور پر پلید ہوتا ہے۔ اسی لیے انبیاء اور موحدّین کی مخالفت کرتا ہے جب یہ عقیدہ توحید کے مخالف ہے تو اسے بیت اللہ میں داخلے کا کوئی حق نہیں پہنچتا کیونکہ بیت اللہ تو اللہ کی وحدت کا ترجمان ہے۔ اس سورۃ کی ابتداء میں مشرکین کو الٹی میٹم دیا گیا ہے کہ تم چار مہینے سے زیادہ حدود حرم میں نہیں رہ سکتے سوائے ان لوگوں کے جن کا مسلمانوں کے ساتھ کیے ہوئے معاہدہ کی مدت باقی ہے۔ جونہی معاہدہ کی مدت پوری ہوگی انھیں بھی حدود حرم سے نکل جانا ہوگا۔ اس کے بعد مشرکین مکہ کو آگاہ کیا گیا کہ آئندہ تمھارے ساتھ کوئی عہد نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ تم نے بار بار عہد شکنی کی ہے پھر یہ ارشاد ہوا کہ مشرکین کو ہرگز حق نہیں پہنچتا کہ وہ بیت اللہ کی تولیت اور مساجد کی تعمیر و ترقی کی ذمہ داری سنبھالیں۔ ان احکام کے نفاذ کے رد عمل میں جو مشکلات اور مسائل پیدا ہوئے تھے ان کا تفصیلی حل بتایا گیا اور اس دوران مسلمانوں کی اعتقادی اور اخلاقی تربیت کے احکامات جاری کرتے ہوئے مشرکین کے کردار کا تفصیلی تجزیہ پیش کیا گیا۔ اب دو ٹوک انداز میں مشرک کی اعتقادی اور اخلاقی نجاستوں اور خباثتوں کے پیش نظر اس کی حیثیت بتلائی جا رہی ہے کہ مشرک نجس اور پلید ہوتا ہے اس لیے اس سال کے بعد انھیں ہمیشہ کے لیے حدود حرم میں داخل ہونے کی اجازت نہ ہوگی۔ یہاں پھر مسلمانوں کو اندیشہ پیدا ہوا کہ اگر یہ لوگ حدود حرم میں داخل نہیں ہو سکیں گے تو ہمیں اس کا معاشی نقصان اٹھانا پڑے گا جس پر تسلی دی جا رہی ہے تمھیں معیشت کی تنگی کا خطرہ لاحق نہیں ہونا چاہیے یقین رکھو کہ عنقریب اللہ تعالیٰ تمھیں اپنے فضل سے دولت مند کر دے گا یقیناً اللہ تعالیٰ علیم اور حکیم ہے۔ یہ بات پہلے بھی عرض کی جا چکی ہے کہ ہر آیت کے آخری الفاظ اس کے مفہوم کی جامع ترجمانی کرتے ہیں یہاں اللہ تعالیٰ نے علیم اور حکیم ہونے کی صفات اس لیے بیان فرمائیں کہ وہ اپنے ہر حکم کے نتائج کو جانتا اور اس کی حکمتوں سے باخبر ہے لہٰذا مسلمانوں کو اپنے رب کے احکام پر مکمل یکسوئی اور بے فکری کے ساتھ من و عن عمل کرنا چاہیے وہی غربت اور تونگری کا مالک ہے۔ چنانچہ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ حدود حرم سے مشرکین کے دیس نکالا کے باوجود اس وقت سے لے کر آج تک مکہ کی منڈیوں میں کسی چیز کی کمی واقع نہیں ہوئی جہاں تک مشرک کے نجس ہونے کا تعلق ہے اس نجاست سے مراد جسمانی نجاست نہیں بلکہ اس سے مراد اعتقادی، اخلاقی اور کردار کی نجاست ہے جس کی وجہ سے مشرک اور غیر مسلم کو حدود حرم میں داخل ہونے کی اجازت نہیں۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مدینہ کو بھی حرم قرار دیا اور اس کی حدود متعین فرمائیں مکہ اور مدینہ مسلمانوں کا روحانی مرکز ہیں۔ اس لیے ضروری سمجھا گیا کہ انھیں کفر و شرک سے پاک رکھا جائے جیسا کہ ہر حکومت اپنی مملکت کے دارالخلافہ کے معاملات میں زیادہ حساس ہوتی ہے اور وہ اس کے معاملات پر زیادہ توجہ دیتی ہے۔ حکومت کی کوشش ہوتی ہے کہ ملک کا دارالخلافہ ہر اعتبار سے سازشوں سے پاک رہے۔ (قَالَ عَلِیٌّ ُ مَا عِنْدَنَا کِتَابٌ نَقْرَؤُہُ إِلَّا کِتَاب اللّٰہِ غَیْرَ ہَذِہِ الصَّحِیفَۃِ قَالَ فَأَخْرَجَہَا فَإِذَا فیہَا أَشْیَاءُ مِنَ الْجِرَاحَاتِ وَأَسْنَانِ الْإِبِلِ قَالَ وَفِیہَا الْمَدِینَۃُ حَرَمٌ مَا بَیْنَ عَیْرٍ إِلٰی ثَوْرٍ) [ رواہ البخاری : کتاب الحج] ” حضرت علی (رض) فرماتے ہیں میرے پاس اللہ تعالیٰ کی کتاب کے علاوہ کوئی کتاب نہیں جس کو میں پڑھوں مگر یہ صحیفہ ہے۔ راوی کہتے ہیں انھوں نے اسے نکالا تو اس میں کچھ جراحی اور اونٹ کے دانت تھے کہتے ہیں اس میں لکھا ہوا تھا کہ مدینہ عیرمقام سے لے کر ثور تک حرم ہے۔“ اس آیت سے استدلال کرتے ہوئے امام مالک کا نقطۂ نظریہ ہے کہ مشرک کو کسی مسجد میں داخل ہونے کی اجازت نہیں ہے۔ جبکہ دوسرے آئمہ کا خیال ہے کہ حرمین کے سوا دوسری مساجد میں کسی اہم ضرورت کے پیش نظر مشرک اور کافر داخل ہوسکتا ہے۔ (قَالَ إِنَّ مَکَّۃَ حَرَّمَہَا اللّٰہُ وَلَمْ یُحَرِّمْہَا النَّاسُ فَلَا یَحِلُّ لامْرِءٍ یُؤْمِنُ باللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ أَنْ یَسْفِکَ بِہَا دَمًا وَلَا یَعْضِدَ بِہَا شَجَرَۃً فَإِنْ أَحَدٌ تَرَخَّصَ لِقِتَالِ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فِیہَا فَقُولُوا إِنَّ اللّٰہَ قَدْ أَذِنَ لِرَسُولِہِ وَلَمْ یَأْذَنْ لَکُمْ وَإِنَّمَا أَذِنَ لِی فیہَا سَاعَۃً مِنْ نَہَارٍ ثُمَّ عَادَتْ حُرْمَتُہَا الْیَوْمَ کَحُرْمَتِہَا بالْأَمْسِ وَلْیُبَلِّغْ الشَّاہِدُ الْغَاءِبٍ)[ رواہ البخاری : کتاب العلم، باب یبلغ العلم الشاہد الغائب] ” رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بلاشبہ مکہ کو اللہ تعالیٰ نے حرم قرار دیا ہے اس کو لوگوں نے حرم نہیں بنایا۔ کسی بھی شخص کے لیے یہ جائز نہیں جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو اس میں کسی کا خون بہائے۔ اور نہ ہی اس کا کوئی درخت کاٹا جائے۔ تو اگر کوئی شخص یہ بات کہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قتال کے بارے میں تو تم یہ کہو بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو کچھ دیر کے لیے اجازت دی تھی۔ تم میں سے کسی کو بھی یہ اجازت نہیں اور مجھے بھی دن کے کچھ حصے میں اجازت دی گئی اس کی حرمت پہلے کی طرح ہی لوٹ آئی ہے جو لوگ یہاں موجود ہیں وہ دوسرے لوگوں تک یہ بات پہنچا دیں۔“ مسائل ١۔ مشرک پلید ہوتا ہے اس لیے اسے حدود حرم میں داخل ہونے کی اجازت نہیں۔ ٢۔ غربت اور تونگری اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے۔ ٣۔ رزق حلال کی کشادگی اللہ تعالیٰ کے فضل کا نتیجہ ہوتا ہے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ اپنے ہر حکم کی حکمت اور اس کے نتائج کو جانتا ہے۔ تفسیر بالقرآن مال و اولاد کی حیثیت : ١۔ مال اور اولاد دنیا کی نمائش ہیں باقی رہنے والے نیک اعمال ہیں۔ (الکہف : ٤٦) ٢۔ قیامت کے روز مال اولاد کام نہیں آئے گی۔ (الشعراء : ٨٨) ٣۔ جان لو کہ مال، اولاد تمھارے لیے فتنہ ہیں۔ (الانفال : ٢٨) ٤۔ اے ایمان والو تمھیں مال اور اولاد اللہ کے ذکر سے غافل نہ کردیں۔ (المنافقون : ٩) ٥۔ مال اور اولاد تمھارے لیے آزمائش ہے اللہ کے پاس بڑا اجر ہے۔ (التغابن : ١٥) ٦۔ اپنی جان اور مال کے ساتھ جہاد کرنا بہترین تجارت ہے۔ (الصف : ١١) ٧۔ اللہ نے مومنین سے ان کے مال اور جان جنت کے بدلے خرید لیے ہیں۔ (التوبۃ: ١١١) التوبہ
29 فہم القرآن ربط کلام : جہاد فی سبیل اللہ کے مسائل کے دوران دیگر مسائل کا تذکرہ ہوا۔ اب پھر قتال فی سبیل اللہ کا حکم دیا جا رہا ہے۔ اللہ اور آخرت پر ایمان نہ لانے والوں سے پہلی مراد مشرک، دوسرے اہل کتاب اور کفار ہیں۔ کیونکہ مشرک اللہ تعالیٰ پر اس طرح ایمان نہیں رکھتا جس طرح اللہ پر بلا شرکت غیر ایمان لانا فرض ہے اور یہی صورت مشرک کی آخرت کے متعلق ہوتی ہے۔ بظاہر آخرت کو مانتا ہے لیکن وہ آخرت کے دن کے بارے میں بھی اللہ تعالیٰ کو بلا شرکت غیرے حاکم ماننے کے لیے تیار نہیں ہوتا اس کا عقیدہ ہوتا ہے کہ آخرت میں فلاں اور فلاں بزرگ ہمیں چھڑوا لیں گے۔ اللہ تعالیٰ ان کی بات ماننے پر مجبور ہوگا۔ اس حوالے سے مشرک نہ صرف دنیا میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرتا ہے بلکہ مرنے کے بعد بھی اس کا یہی اعتقاد ہوگا حدیث شریف میں آیا ہے کہ محشر کے میدان میں ایک مرحلہ ایسا آئے گا جب اللہ تعالیٰ مشرکوں کو موقع دیں گے کہ وہ دنیا میں جس جس کو مشکل کشا اور حاجت روا سمجھتے تھے ان کے پاس جانا چاہیں تو چلے جائیں۔ مشرک اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرنے کی بجائے اپنے معبودوں اور باطل خداؤں کے پاس چلے جائیں گے بخاری کتاب التفسیر سورۃ النساء تیسری وجہ مشرکوں کے ساتھ قتال کرنے کی یہ بیان فرمائی ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کی حرام کردہ چیزوں کو حرام نہیں سمجھتے۔ چوتھی وجہ یہ ہے کہ یہ اپنے باطل دین کو چھوڑ کر دین حق کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ یہاں اہل کتاب کے ساتھ بھی قتال فی سبیل اللہ کا حکم دیا۔ کیونکہ انھی جرائم کا ارتکاب وہ بھی کرتے ہیں لہٰذا ان کے خلاف بھی قتال فی سبیل اللہ ہونا چاہیے۔ یہاں تک کہ وہ اپنے ہاتھوں سے جزیہ دینے کی ذلت گوارا کریں۔ یہاں یہ ارشاد نہیں فرمایا کہ ان کے خلاف قتال کرو یہاں تک وہ دین حق قبول کرلیں بلکہ جزیہ قبول کرنے کا ذکر کیا ہے اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اگر وہ خوش دلی سے دین قبول نہیں کرتے تو انھیں اسی حال پر رہنے دیجیے مگر اسلامی حکومت کے دائرہ کار میں رہتے ہوئے انھیں جزیہ ادا کرنا ہوگا۔ جزیہ ادا کرنے کی اہل علم نے مختلف وجوہات بیان کی ہیں۔ جن میں بنیادی اور مرکزی یہ وجہ ہے کہ اسلامی حکومت ان کے حقوق پورے کرنے کی ذمہ دار ہوتی ہے اس لیے ان سے معمولی جزیہ بطور ٹیکس وصول کیا جائے گا تاہم عورتیں، بچے، بوڑھے اور معذور لوگ اس سے مستثنیٰ ہوں گے۔ یہاں تک کہ دشمن کے خلاف جنگ ہو تو اسلامی حکومت ان کو جنگ میں شریک ہونے پر مجبور نہیں کرسکتی یاد رہے حضرت عمر (رض) نے اپنے دور میں نہایت ہی معمولی جزیہ مقرر کیا تھا اس کے باوجود شام کے علاقے میں جب مسلمانوں نے فوجی حکمت عملی کے تحت حمص کا علاقہ چھوڑا تو حضرت ابو عبیدہ بن جراح (رض) جو اس محاذ کے کمانڈر تھے انھوں نے تمام جرنیلوں کو حکم دیا کہ جو جزیہ غیر مسلموں سے وصول کیا گیا ہے اس کی ایک ایک پائی واپس کی جائے۔ چنانچہ ایسا ہی کیا گیا جس پر غیر مسلموں کا رد عمل تھا کہ وہ تورات اور انجیل کو ہاتھوں میں اٹھا کر آسمان کی طرف منہ کرتے ہوئے یہ دعا کر رہے تھے جب تک ہم زندہ ہیں مسلمانوں کے سوا کوئی اور لوگ یہاں نہ آنے پائیں گے۔ یہ کہہ کر شہر پناہ کے دروازے بند کردیے اور ہر جگہ پہرہ بٹھادیا۔ عیسائیوں نے نہایت حسرت سے کہا خدا کی قسم تم رومیوں کی نسبت کہیں بڑھ کر ہم کو محبوب ہو۔ (الفاروق) یہاں ” صَاغِرْوُنَ“ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے جس کا معنی ذلیل اور چھوٹا ہونا ہے۔ بعض لوگ اس پر اعتراض کرتے ہیں کہ اسلام اپنی غیر مسلم رعایا کو ذلیل کرکے رکھنا پسند کرتا ہے حالانکہ اس کا یہ مفہوم نہیں اس کا صرف اتنا مطلب ہے کہ جب انھوں نے اللہ تعالیٰ کی حاکمیت اور اس کے رسول کی غلامی قبول کرنے سے انکار کردیا ہے تو اللہ اور اس کے رسول کے باغیوں کو اسلامی مملکت میں دندنا کر پھرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے البتہ انھیں ایک شہری اور انسان ہونے کے ناطے سے پورے تحفظ اور مکمل حقوق دیے جائیں گے۔ مسائل ١۔ اللہ اور آخرت پر ایمان نہ لانے والوں سے قتال کرنا چاہیے۔ ٢۔ دین حق کو نہ ماننے والوں سے بھی قتال کرنا چاہیے۔ التوبہ
30 التوبہ
31 فہم القرآن ربط کلام : اہل کتاب کے ساتھ اس لیے قتال کرنا ہے کیونکہ وہ واضح طور پر شرک کا ارتکاب کرتے ہیں۔ اہل کتاب سے مراد یہودی اور عیسائی ہیں۔ یہودیوں نے اپنی جہالت کی بناء پر یہ عقیدہ بنایا کہ عزیر (علیہ السلام) اللہ تعالیٰ کے بیٹے ہیں جس کے دو سبب مفسرین بیان کرتے ہیں۔ ایک یہ کہ جب موسیٰ (علیہ السلام) کی موت کے بعد یہودیوں پر بخت نصر نے حملہ کیا اور اس نے تورات کلی طور پر ختم کرنے کا حکم دیا۔ ایک وقت ایسا آیا کہ تورات دنیا میں بالکل ناپید ہوگئی۔ اللہ تعالیٰ نے دین موسوی کی تجدید کے لیے حضرت عزیر (علیہ السلام) کو مبعوث فرمایا۔ جنھوں نے وحی الہی کی روشنی میں تورات کو دوبارہ لکھوایا۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ حضرت عزیز (علیہ السلام) سو سال تک فوت رہے پھر اللہ تعالیٰ نے انھیں زندہ فرمایا جب وہ اٹھے تو ان کے سامنے ان کے گدھے کو زندہ کیا اور جو کھانا حضرت عزیر کے ساتھ تھا وہ سو سال گزرنے کے باوجود اسی طرح ترو تازہ رہا جس کی تفصیل سورۃ البقرۃ: آیت ٢٦٠ میں بیان کی گئی ہے اس معجزہ کی بناء پر یہودیوں نے عقیدتاً حضرت عزیر (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ کا بیٹا قرار دیا اور ان کی دیکھا دیکھی عیسائیوں نے حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کو اللہ کا بیٹا اور حضرت مریم [ کو اللہ کی بیوی قرار دیا جس کی تردید سورۃ المائدۃ: آیت ٧٥ میں کی گئی ہے۔ گویا کہ یہودیوں اور عیسائیوں نے اپنے اپنے انبیاء کے معجزات دیکھ کر انھیں اللہ تعالیٰ کا بیٹا قرار دیا جس کی ان کے پاس کوئی دلیل نہیں۔ یہ محض ان کی اعتقادی موشگافیاں ہیں۔ اللہ تعالیٰ انھیں غارت کرے۔ یہ کن ٹامک ٹوئیوں میں بھٹکے جا رہے ہیں۔ انسان جب گمراہی کے راستے پر چل پڑے تو اس کی کوئی انتہا نہیں رہتی یہی کیفیت یہود و نصاریٰ کی تھی اور ہے کہ انھوں نے اپنے علماء، درویشوں اور بزرگوں کو رب کا درجہ دے دیا تھا بالخصوص عیسائیوں نے مسیح ابن مریم (علیہ السلام) کو خدائی مقام پر پہنچا یا حالانکہ انھیں حکم دیا گیا تھا کہ وہ خالص ایک اللہ کی عبادت کریں جسکے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں جو اپنی ذات اور صفات کے لحاظ سے یکتا ہے اور وہ مبرا اور پاک ہے ان سے جن کو اس کے ساتھ شریک ٹھہراتے ہیں۔ عدی بن حاتم طائی جب مسلمان ہوئے تو انھوں نے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے اس آیت کی تلاوت کرکے عرض کی اے اللہ کے رسول! اس آیت میں یہ فرمایا گیا ہے کہ عیسائیوں نے اپنے علماء اور صلحاء کو رب بنا لیا ہے ہم نے تو کبھی انھیں رب نہیں بنایا۔ اس پر اللہ کے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا۔ (قَالَ أَمَا إِنَّہُمْ لَمْ یَکُونُوا یَعْبُدُونَہُمْ وَلَکِنَّہُمْ کَانُوا إِذَا أَحَلُّوا لَہُمْ شَیْءًا اسْتَحَلُّوہُ وَإِذَا حَرَّمُوا عَلَیْہِمْ شَیْءًا حَرَّمُوہُ )[ رواہ الترمذی : کتاب تفسیر القرآن عن رسول اللہ، باب من سورۃ التوبۃ] ” آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بلاشبہ وہ ان کی عبادت نہیں کرتے تھے لیکن جب کسی چیز کو ان کے لیے حلال کہتے تو وہ اس کو حلال گردانتے اور جب ان کے لیے حرام کہتے تو وہ اس کو حرام سمجھتے تھے۔“ امام رازی اپنے استاد کے حوالے سے کہتے ہیں کہ میری نظر سے ایسے مقلدین گزرے ہیں جن کے سامنے ان کے مسلک کے خلاف قرآن مجید کی آیات پڑھ کر سنائیں گئیں۔ توانھوں نے ان کی طرف التفات نہ کیا الٹے حیرت سے میری طرف دیکھتے رہے کہ ان کے مسلک کے خلاف یہ کیسی آیات ہیں۔ مسائل ١۔ یہودی حضرت عزیر (علیہ السلام) کو اور عیسائی حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ کا بیٹا قرار دیتے ہیں جس کے لیے ان کے پاس کوئی دلیل نہیں۔ ٢۔ کسی شخص کو اللہ تعالیٰ کا بیٹا قرار دینا اللہ تعالیٰ کے ساتھ کفر کرنا ہے۔ ٣۔ مشرک کے پاس شرک کی کوئی دلیل نہیں ہوتی۔ ٤۔ مشرک اپنے عقیدہ کے بارے میں بلا دلیل بحث و مباحثہ کرتا ہے۔ ٥۔ شرک کرنے والا گمراہ ہوتا ہے اور اس پر اللہ تعالیٰ کی لعنت برستی ہے۔ ٦۔ علماء اور صلحاء کو خدائی درجہ نہیں دینا چاہیے۔ ٧۔ اللہ تعالیٰ اکیلا ہے اور وہ مشرکوں کے شرک سے مبرا ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ لوگوں کے بنائے ہوئے شریکوں سے پاک ہے : ١۔ اللہ تعالیٰ بہت بلند ہے اس چیز سے جو لوگ شرک کرتے ہیں۔ (النحل : ٣) ٢۔ اللہ تعالیٰ کا حکم آچکا وہ پاک ہے اور بہت بلند ہے اس چیز سے جو وہ شرک کرتے ہیں۔ (النحل : ١) ٣۔ کیا اللہ کے علاوہ کوئی اور الٰہ ہے بہت بلند ہے اللہ اس سے جو وہ شرک کرتے ہیں۔ (النمل : ٦٣) ٤۔ اللہ پیدا کرتا ہے اور مختار کل ہے دوسروں کو کوئی اختیار نہیں ہے اللہ ان کے شرک سے پاک ہے۔ (القصص : ٦٨) ٥۔ قیامت کے دن آسمانوں کو اللہ اپنے دائیں ہاتھ پر لپیٹ لے گا۔ اللہ پاک ہے اور بہت بلند ہے اس چیز سے جو وہ شرک کرتے ہیں۔ ( الزمر : ٦٧) ٦۔ کیا ان کے لیے اللہ کے سوا کوئی اور الٰہ ہے۔ اللہ پاک ہے اس چیز سے جو وہ شرک کرتے ہیں۔ (الطور : ٤٣) ٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓ٧۔ انہوں نے کہا اللہ کی اولاد ہے اللہ اولاد سے پاک ہے بلکہ آسمان و زمین کی ہر چیز اسکے قبضہ قدرت میں ہے۔ (البقرۃ: ١١٦) ٨۔ کیا تم اللہ تعالیٰ کو ایسی چیزیں بتاتے ہو جس کا اسے علم نہیں ہے اللہ پاک ہے اور مشرکوں کے شرک سے بلند و بالا ہے۔ (یونس : ١٨) ٩۔ اللہ تعالیٰ کی اولاد نہیں ہے اور شراکت داری سے پاک ہے۔ (مریم : ٣٥) التوبہ
32 فہم القرآن ربط کلام : دین حق کے خلاف مشرکین کی مذموم کوششیں۔ مشرکین توحید کا نوربجھانا اور قرآن کی روشنی کو مٹانا چاہتے ہیں جبکہ اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہے۔ اسے مکمل فرماکر قیامت تک غالب رکھے۔ کفار، مشرکین اور اہل کتاب پہلے دن سے ہی اس کو شش میں ہیں کہ اللہ کے نور کو اپنی پھونکوں سے بجھا دیں جبکہ اللہ تعالیٰ کا قطعی فیصلہ ہے کہ وہ اپنے نور کو مکمل کرکے رہے گا۔ بے شک یہ کفار اور مشرکوں کے لیے کتنا ہی ناگوار کیوں نہ ہو۔ اس نے تو اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ اس لیے بھیجا ہے تاکہ دین اسلام تمام باطل ادیان پر غالب آجائے خواہ مشرکوں اور کفارکے لیے یہ بات کتنی ہی ناپسند کیوں نہ ہو۔ نور سے پہلی مراد اللہ کی توحید اور دوسری مراد قرآن مجید کی تعلیم اور رہنمائی ہے کیونکہ دونوں کو اللہ تعالیٰ نے نور قرار دیا ہے۔ (البقرہ : ٢٥٧) میں ارشاد ہوا ہے کہ اللہ ایمانداروں کا خیر خواہ اور دوست ہے وہ انھیں ہر قسم کے اندھیروں سے نکال کر نور کی طرف لاتا ہے اور کفار کے دوست شیطان ہیں وہ ان کو نور سے اندھیروں کی طرف لے جاتے ہیں اس آیت سے پہلے آیۃ الکرسی اور دین کا تذکرہ ہے۔ جس میں اللہ تعالیٰ نے اپنی توحید کو کھول کر بیان کرتے ہوئے اسے دین اور ہدایت قرار دیا ہے سورۃ المائدۃ میں قرآن مجید کو نور اور روشن کتاب قرار دیا گیا ہے۔ کافر چاہتے ہیں کہ اللہ کی توحید کے چراغ اور قرآن مجید کی تعلیمات اور روشنی کو اپنی پھونکوں سے بجھا دیں پھونکوں کا لفظ لا کر یہ ثابت کیا گیا ہے کہ جس طرح سورج کی روشنی اور چاند کی ضیاء پاشیوں کو پھونکوں سے نہیں بجھایا جا سکتا۔ توحید اور اللہ کے دین کی روشنی سورج اور چاند کی روشنی سے کہیں بڑھ کر ہے جس طرح سورج اور چاند کی طرف منہ کرکے تھوکنے اور پھونکنے والا پاگل پن کا مظاہرہ کرتا ہے، کفار، مشرکین اور اہل کتاب کی کوششیں بھی ان کے اخلاقی دیوالیہ پن کا مظہر ہیں۔ سورۃ الاحزاب : آیت ٤٦ اور ٤٧ میں اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت اور ذات کو چمکتے ہوئے سورج سے تشبیہ دیتے ہوئے فرمایا کہ جو لوگ اس پر ایمان لاتے ہیں انھیں اللہ کے بڑے فضل کی خوشخبری دیجیے۔ یہاں اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کی بعثت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ ہم نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ اس لیے بھیجا ہے تاکہ تمام باطل ادیان پر دین اسلام کو غالب کردے ہدایت سے مراد وہ رہنمائی اور طریقہ ہے جس کی روشنی میں اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دین کا ابلاغ اور نفاذ فرمایا یہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا طریقہ ہے کیونکہ کوئی دین اور قانون کتنا ہی مفصل کیوں نہ ہو اس کے سمجھنے اور نفاذ کے لیے رہنمائی کی ضرورت ہوتی ہے اس لیے یہاں بالہدیٰ کا لفظ استعمال فرما کر واضح کردیا ہے کہ جس رب نے یہ دین نازل فرمایا ہے اسی نے ہی اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رہنمائی کا بندوبست کیا تاکہ اس کی منشا کے مطابق دین کی تشریح اور اس کا نفاذ کرے۔ ” لِیُظْہِرَہٗ“ کا معنی ہے زبردست کشمکش جس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ دین آسانی کے ساتھ نافذ نہیں ہوگا جب تک کفار، مشرکین اور اہل کتاب کے ساتھ زبردست کشمکش اور معرکہ آرائی نہ ہوجائے چنانچہ یہی کچھ ہوا کہ اس دین کے ابلاغ اور نفاذ کے لیے کئی معرکے برپا ہوئے اور نہ معلوم قیامت تک کتنے معرکے پیش آئیں گے۔ دین کے غلبہ سے پہلی مراد اس کا دلائل اور براہین کے ساتھ باطل نظریات اور ادیان پر غالب رہنا ہے یہی وجہ ہے کہ آج تک یہ دین اپنی سچائی اور دلائل کے زور پر باطل ادیان پر غالب رہا اور رہے گا۔ جہاں تک اس کے سیاسی غلبے اور نفاذکا تعلق ہے اس کا دارومدار مسلمانوں کے اخلاص اور کردار پر ہے۔ جب مسلمان جان، مال کا ایثار کرکے دین کو غالب کرنا چاہیں گے تو یقیناً دین سیاسی طور پر بھی غالب رہے گا جس طرح کہ تقریباً ایک ہزار سال تک اس کا غلبہ رہا ہے اور قرب قیامت ایک دفعہ پھر اس کے غلبے کا دور آئے گا بے شک یہ بات کفار اور مشرکین کے لیے کتنی ہی ناپسند کیوں نہ ہو۔ ان آیات سے پہلے اور بعد میں اہل کتاب کا ذکر ہے۔ لیکن درمیان میں رسول کی بعثت اور دین کے غلبہ کا اعلان کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ کافر اور مشرک جتنا چاہیں زور لگالیں رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا میاب ہوں گے اور دین غالب آکر رہے گا۔ کفار اور مشرکین کے الفاظ استعمال فرما کر واضح کیا ہے کہ اہل کتاب کا کردار کفار اور مشرکین جیسا ہوچکا ہے۔ (عَنْ تَمِیمٍ الدَّارِیِّ قَالَ سَمِعْتُ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَقُولُ لَیَبْلُغَنَّ ہَذَا الْأَمْرُ مَا بَلَغَ اللَّیْلُ وَالنَّہَارُ وَلَا یَتْرُکُ اللّٰہُ بَیْتَ مَدَرٍ وَلَا وَبَرٍ إِلَّا أَدْخَلَہٗ اللّٰہُ ہَذَا الدِّینَ بِعِزِّ عَزِیزٍ أَوْ بِذُلِّ ذَلِیلٍ عِزًّا یُعِزُّ اللّٰہُ بِہِ الْإِسْلَامَ وَذُلًّا یُذِلُّ اللّٰہُ بِہِ الْکُفْرَ) [ رواہ أحمد] ” حضرت تمیم داری (رض) بیان کرتے ہیں میں نے رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا آپ فرمارہے تھے یہ دین وہاں تک پہنچے گا جہاں تک دن رات کا سلسلہ جاری ہے اللہ تعالیٰ ہر کچے پکے مکان میں اس کو داخل کر دے گا۔ معزز کو عزت دے گا اور ذلیل کو مزید ذلیل کرے گا۔ معزز کو اللہ تعالیٰ دین اسلام کے ساتھ عزت دے گا اور ذلیل کو مزید ذلت کفر سے ملے گی۔“ (عَنْ أبی ہُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِہِ لَیُوشِکَنَّ أَنْ یَنْزِلَ فیکُمْ ابْنُ مَرْیَمَ حَکَمًا عَدْلًا فَیَکْسِرَ الصَّلِیبَ وَیَقْتُلَ الْخِنْزِیرَ وَیَضَعَ الْجِزْیَۃَ وَیَفِیضَ الْمَالُ حَتّٰی لَا یَقْبَلَہٗ أَحَدٌ حَتّٰی تَکُون السَّجْدَۃُ الْوَاحِدَۃُ خَیْرًا مِنْ الدُّنْیَا وَمَا فیہَا) [ رواہ البخاری : کتاب احادیث الانبیاء] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! عنقریب تم میں عیسیٰ ابن مریم عادل حکمران کی حیثیت میں آئیں گے وہ صلیب کو توڑ دیں گے اور خنزیر کو قتل کر ڈالیں گے اور جزیہ ختم کریں گے مال ودولت کی اس قدر بہتات ہوگی کوئی اس کو لینے والا نہ ہوگا یہاں تک کہ ایک سجدہ کرنا دنیا ومافیہا سے بہتر ہوگا۔“ (عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ (رض) قَالَ قَالَ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) الْمَہْدِیُّ مِنِّی أَجْلَی الْجَبْہَۃِ أَقْنَی الْأَنْفِ یَمْلَأُ الْأَرْضَ قِسْطًا وَعَدْلًا کَمَا مُلِءَتْ جَوْرًا وَظُلْمًا یَمْلِکُ سَبْعَ سِنِینَ) [ رواہ ابو داؤد : کتاب المہدی] ” حضرت ابو سعید خدری (رض) بیان کرتے ہیں رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا مہدی میری اولاد سے ہوگا کشادہ پیشانی، اونچی ناک والا جو عدل وانصاف سے زمین کو بھر دے گا جیسے وہ ظلم وستم سے بھری تھی اور وہ سات برس تک حکمران رہے گا۔“ مسائل ١۔ کفار ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے دین کے دشمن رہے ہیں۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ اپنے دین اسلام کو پوری دنیا پر غالب کرے گا۔ ٣۔ مشرکین کی مخالفت اس دین کو غالب آنے سے نہیں روک سکے گی۔ تفسیر بالقرآن ” اللہ“ کا دین غالب آکر رہے گا : ١۔ وہ ذات جس نے رسولوں کو مبعوث کیا تاکہ دین اسلام تمام ادیان پر غالب آجائے۔ (الفتح : ٢٨) ٢۔ ان سے لڑائی کرو یہاں تک کہ فتنہ ختم ہوجائے اور خالصتادین اللہ کے لیے ہوجائے۔ (البقرۃ: ١٩٣) التوبہ
33 التوبہ
34 فہم القرآن ربط کلام : اہل کتاب نے اپنے علماء اور صلحاء کو خدائی کا درجہ دیا ہوا تھا ان صلحاء اور علماء نے اپنی مسند کو دنیا کمانے کا ذریعہ بنالیا اس طرح دین کے داعی ہی دین کے راستے میں رکاوٹ ثابت ہوئے۔ ایسے پادری، درویش اور علماء ہمیشہ دین اسلام کے مخالف رہے ہیں اور ہر زمانے میں رہیں گے۔ یہودیوں کے علماء کا مدینہ، خیبر اور ان کے گرد و نواح پر اور پادریوں کا روم شام وغیرہ پر مذہبی تسلط تھا۔ عوام علماء اور صلحاء کے ظاہری رکھ رکھاؤ اور تقدس سے بڑے مرعوب تھے جس وجہ سے لوگ سمجھتے تھے کہ اگر اتنے بڑے صلحاء، بڑے بڑے مربی اور پوپ، پادری، نامور علماء اسلام قبول نہیں کر رہے تو کوئی ایسی بات ہے جو اسلام کے بارے میں ان کی نفرت کا سبب ہے۔ اس تسلط کو توڑنے اور لوگوں کو حقیقت حال سے آگاہ کرنے کے لیے ایمانداروں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ اے صاحب ایمان لوگو! یہودیوں اور عیسائیوں کے علماء اور صلحاء سے مرعوب ہونے کی ضرورت نہیں۔ ان کی اکثریت دین کے پردے میں لوگوں سے ناجائز طریقے سے مال بٹورنے اور جمع کرنے کے ساتھ اللہ کے راستے میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔ یہودیوں کے علماء اور عیسائیوں کے صلحا کے مال جمع کرنے کے کئی طریقے تھے۔ ١۔ فتویٰ فروشی۔ ٢۔ حکام اور امراء کا تقرب حاصل کرکے مفادات اٹھانا۔ ٣۔ سرکاری مناصب پر فائز ہو کر مراعات حاصل کرنا۔ ٤۔ مذہبی بحث چھڑ جانے کی صورت میں کسی کے غلط مؤقف کی ناجائز تائید کرکے شہرت حاصل کرنا۔ ٥۔ دولت اور شہرت کی خاطر خود کو بدلنے کے بجائے تورات اور انجیل میں تبدیلیاں کرنا۔ ٦۔ معاشرے کے مؤثر اور بڑے لوگوں کو شرعی سزا سے بچانے کے لیے دین کی غلط تاویلات کرنا۔ ٧۔ دین کو صرف ملازمت کے طور پر اختیار کرنا۔ ٨۔ سیاسی برتری اور لیڈری کے شوق میں فرقہ پرستی کو ہوا دینا۔ بظاہر تو ان علماء اور صلحاء کا اوڑھنا بچھونا، رہنا سہنا، گفتار اور کردار دین ہی کی ترجمانی کرتا تھا لیکن حقیقت میں ظاہری لبادہ کے سوا کچھ نہیں تھا اس طرح ان لوگوں نے بڑی بڑی جائیدادیں بنائیں اور سرمایہ جمع کیا جس پر انھیں وعید سنائی جا رہی ہے کہ جس سونا اور چاندی کو انفاق فی سبیل اللہ کی بجائے اکٹھا کر رہے ہو۔ اس کو قیامت کے دن جہنم کی آگ میں تپاکر تمھاری جبینوں، کروٹوں اور پیٹھوں کو داغا جائے گا اور جہنم کے ملائکہ سزا دیتے ہوئے کہیں گے یہ وہی مال ہے جس کو تم اپنے لیے جمع کرتے تھے لہٰذا آج اس کا ذائقہ چکھتے رہو اور تمھیں مزید عذاب کی خوشخبری بھی دی جاتی ہے۔ ناجائز مال پر خوش ہونے کی بجائے تمھیں آخرت کے بارے میں فکر کرنی چاہیے تھی۔ یہاں یہودیوں کے علماء اور عیسائیوں کے صلحاء کے گھناؤنے کردار کا ذکر کرنے کے بعد عام اصول یہ بیان کیا ہے کہ مال جمع کرنے کی بجائے اللہ کی راہ میں خرچ کرنا چاہیے۔ سونا اور چاندی کا اس لیے خصوصی ذکر کیا کہ ہمیشہ دنیا کے مال و اسباب میں یہ سرفہرست رہے ہیں۔ سابقہ دور میں سونا یا چاندی کو کرنسی کے لیے معیار ٹھہرایا گیا ہے۔ پہلے دور میں کاغذ کے نوٹوں کی بجائے چاندی، سونے کے سکے ہوتے تھے۔ یاد رہے حبر کی جمع احبار اور راہب کی جمع رہبان ہے۔ کنز کے بارے میں صحابہ کرام (رض) کا اجتماعی موقف ہے کہ جس مال کی زکوٰۃ دی جائے وہ کنز میں شمار نہیں ہوگا۔ ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کوئی چاندی سونے کا مالک ایسا نہیں جو ان کی زکوٰۃ نہیں دیتا مگر وہ قیامت کے دن ایسا ہوگا کہ اس چاندی، سونے کی تختیاں بنائی جائیں گی۔ انھیں جہنم کی آگ میں گرم کیا جائے گا، پھر مال دار کی پیشانی اور کروٹیں اس سے داغی جائیں گی اور اس کی پیٹھ۔ جب تختیاں ٹھنڈی ہوجائیں گی تو پھر گرم کی جائیں گی پچاس ہزار برس کے دن میں اس کو یہی عذاب ہوگا یہاں تک کہ لوگوں کے بارے میں جنت اور جہنم کا فیصلہ ہو۔ صحابہ (رض) نے عرض کیا کہ اے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اونٹوں کا کیا ہوگا ؟ آپ نے فرمایا جو اونٹ والا اپنے اونٹوں کا حق ادا نہیں کرتا اور اس کے حق میں سے ایک یہ بھی ہے کہ دودھ دو ہے جس دن کو پانی پلائے جب قیامت کا دن ہوگا تو وہ برابر زمین پر اوندھا لیٹا یا جائے گا اور وہ اونٹ نہایت فربہ ہو کر آئیں گے ان میں سے کوئی بچہ بھی باقی نہ رہے گا اور اس کو اپنے پاؤں سے روندیں گے اور منہ سے کاٹیں گے جب ان میں پہلا روندتا ہوا چلا جائے گا پچھلا آجائے گا یوں ہی عذاب ہوتا رہے گا تمام دن جو پچاس ہزار برس کا ہوگا یہاں تک کہ فیصلہ ہوجائے لوگوں کا پس وہ دیکھے گاراستہ جنت یا دوزخ کی طرف پھر عرض کی اے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! اور گائے بکری کا کیا حال ہوگا ؟ آپ نے فرمایا کہ کوئی گائے بکری والا ایسا نہیں جو اس کی زکوٰۃ نہ دیتا ہو مگر جب قیامت کا دن ہوگا تو وہ اوندھا لٹایا جائے گا ایک پٹ پر صاف زمین پر اور ان گائے بکریوں میں سب آئیں گی کوئی باقی نہ رہے گی اور ایسی ہوں گی کہ ان میں سینگ مڑی ہوئی نہ ہوں گی نہ بے سینگ کی نہ سینگ ٹوٹی اور آکر اس کو ماریں گی۔ اپنے سینگوں سے اور روندیں گی اپنے کھروں سے جب اگلی اس پر سے گزر جائے گی پچاس ہزار برس کے دن پھر یہاں تک کہ فیصلہ ہوجائے بندوں کا پھر اس کی راہ کی جائے جنت یا دوزخ کی طرف پھر عرض کی کہ اے رسول اللہ اور گھوڑے ؟ آپ نے فرمایا گھوڑے تین طرح پر ہیں ایک اپنے مالک پر بار ہے یعنی وبال ہے دوسرا اپنے مالک کا عیب ڈھانپنے والا ہے تیسرا اپنے مالک کا ثواب کا سامان ہے اب اس وبال والے گھوڑے کا حال سنو جو باندھا ہے اس لیے کہ لوگوں کو دکھلاوے اور لوگوں میں بڑ مارے اور مسلمانوں سے عداوت کرے سو یہ اپنے مالک کے حق میں وبال ہے اور وہ جو عیب ڈھانپنے والا ہے وہ گھوڑا ہے کہ اس کو اللہ کی راہ میں باندھا ہے (یعنی جہاد کے لیے) اور اس کی سواری میں اللہ کا حق نہیں بھولتا اور نہ اس کے گھاس چارہ میں کمی کرتا ہے تو وہ اس کا عیب ڈھانپنے والا ہے اور جو ثواب کا سامان ہے اس کا کیا کہنا وہ گھوڑا ہے کہ باندھا اللہ کی راہ میں اہل اسلام کی مدد اور حمایت کے لیے کسی چراگاہ یا باغ میں پھر اس نے جو کھایا اس چراگاہ یا باغ سے اس کی گنتی کے موافق نیکیاں اس کے مالک کے لیے لکھی گئیں اور اس کی لید اور پیشاب تک نیکیوں میں لکھا گیا اور جب وہ اپنی لمبی رسی توڑ کر ایک دو ٹیلے پر چڑھ جاتا ہے تو اس کے قدموں اور اس کی لید کی گنتی کے موافق نیکیاں لکھی جاتی ہیں اور جب اس کا مالک کسی ندی پر لے جاتا ہے اور وہ گھوڑا اس میں سے پانی پی لیتا ہے اگرچہ مالک کا پلانے کا ارادہ بھی نہ تھا تب بھی اس کے لیے ان قطروں کے موافق نیکیاں لکھی جاتی ہیں جو اس نے پیے ہیں۔ پھر عرض کی کہ اے اللہ کے رسول گدھے کا حال فرمائیے آپ نے فرمایا گدھوں کے بارے میں میرے اوپر کوئی حکم نہیں اترا بجز اس آیت کے جو بے مثل اور جمع کرنے والی ہے۔ (فَمَن یَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ خَیْرًا یَّرَہُ وَمَن یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ شَرًّا یَّرَہُ)۔ جس نے ذرہ کے برابر نیکی کی وہ اسے دیکھے گا یعنی قیامت کے دن اور جس نے ذرہ برابر بدی کی وہ بھی اسے دیکھے گا۔“ [ رواہ مسلم : کتاب الزکاۃ، باب اثم مانع الزکاۃ] (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَنْ آتَاہ اللّٰہُ مَالًا فَلَمْ یُؤَدِّ زَکَاتَہُ مُثِّلَ لَہٗ مَالُہُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ شُجَاعًا أَقْرَعَ لَہٗ زَبِیبَتَانِ یُطَوَّقُہُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ ثُمَّ یَأْخُذُ بِلِہْزِمَتَیْہِ یَعْنِی بِشِدْقَیْہِ ثُمَّ یَقُولُ أَنَا مَالُکَ أَنَا کَنْزُکَ ثُمَّ تَلَا لَا یَحْسِبَنَّ الَّذِینَ یَبْخَلُونَ۔۔ الْآیَۃَ) [ رواہ البخاری : کتاب الزکاۃ، باب اثم مانع الزکاۃ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ تعالیٰ جس شخص کو مال عنایت کرے وہ اس کی زکوٰ ۃ ادا نہ کرے تو قیامت کے دن اس کے مال کو گنجے سانپ کی شکل دی جائے گی اس کی آنکھوں پر دو نشان ہوں گے اسے مال دار کے گلے کا طوق بنا دیا جائے گا جو اس کی دونوں باچھیں پکڑ کر کہے گا میں تمہارا مال ہوں، میں تمہارا خزانہ ہوں، پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ آیت تلاوت فرمائی لَا یَحْسِبَنَّ الَّذِینَ یَبْخَلُونَ الْآیَۃَ) (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) أَیُّہَا النَّاسُ إِنَّ اللّٰہَ طَیِّبٌ لَا یَقْبَلُ إِلَّا طَیِّبًا وَإِنَّ اللّٰہَ أَمَرَ الْمُؤْمِنِینَ بِمَا أَمَرَ بِہِ الْمُرْسَلِینَ فَقَالَ یَا أَیُّہَا الرُّسُلُ کُلُوا مِنْ الطَّیِّبَاتِ وَاعْمَلُوا صالِحًا إِنِّی بِمَا تَعْمَلُونَ عَلِیمٌ وَقَالَ یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا کُلُوا مِنْ طَیِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاکُمْ ثُمَّ ذَکَرَ الرَّجُلَ یُطِیل السَّفَرَ أَشْعَثَ أَغْبَرَ یَمُدُّ یَدَیْہِ إِلَی السَّمَاءِ یَا رَبِّ یَا رَبِّ وَمَطْعَمُہُ حَرَامٌ وَمَشْرَبُہُ حَرَامٌ وَمَلْبَسُہُ حَرَامٌ وَغُذِیَ بالْحَرَامِ فَأَنَّی یُسْتَجَابُ لِذَلِکَ) [ رواہ مسلم : کتاب الزکاۃ، باب قبول الصدقۃ من الکسب الطیب] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اے لوگو ! بلاشبہ اللہ تعالیٰ پاک ہے اور صرف پاک مال ہی قبول کرتا ہے اور بلا شبہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو حکم دیا ہے جو کہ اس نے اپنے رسولوں کو حکم دیا تھا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔ اے رسولو ! پاکیزہ مال سے کھاؤ اور نیک عمل کرو بلاشبہ جو تم کرتے ہو میں اس کو اچھی طرح جانتا ہوں۔ اور یہی ارشاد ایمان والوں کے لیے ہے! پاکیزہ چیزوں سے کھاؤ جو میں نے تم کو عنایت کی ہیں۔ پھر ایک ایسے شخص کا تذکرہ کیا جو کہ دور دراز کا سفر کرتا ہے اس کے سر کے بال پراگندہ ہیں وہ اپنے ہا تھوں کو آسمان کی طرف پھیلاتا ہے اور کہتا ہے اے میرے رب ! اے میرے رب ! اس کا کھانا اس کا پینا اس کا لباس حرام ہے اسکی پرورش بھی حرام مال سے ہوئی تو اسکی دعا کیسے قبول کی جائے گی۔“ حضرت ام سلمہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ میں سونے کی پازیب پہنتی تھی میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ! کیا یہ کنز ہے ؟ آپ نے فرمایا جو مال زکوٰۃ کی حد تک پہنچ گیا اور اس کی زکوٰۃ ادا کردی گئی وہ کنز نہیں ہے۔ (ابو داؤد) مسائل ١۔ یہود و نصاریٰ کے علماء کی اکثریت حرام خور ہے۔ ٢۔ یہود و نصاریٰ کے علماء دین کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ ٣۔ ناجائز طریقہ سے کمایا ہوا مال جہنم کی آگ بن جائے گا۔ ٤۔ زکوٰۃ نہ دینے اور ناجائز مال کمانے والوں کے لیے جہنم کی خوشخبری ہے۔ تفسیر بالقرآن حرام کھانے والے لوگ : ١۔ لوگوں کا مال ناجائز طریقہ سے کھانا حرام ہے۔ (البقرۃ: ١٨٨) ٢۔ اے لوگو! آپس میں اپنے مال کو حرام طریقہ سے نہ کھاؤ۔ (النساء : ٢٩) ٣۔ یتیموں کے مال کے ساتھ اپنا مال بدنیتی سے ملا کر کھانا حرام ہے۔ (النساء : ٢) ٤۔ جس چیز پر اللہ کا نام نہ لیا گیا ہو اس کا کھانا حرام ہے۔ (الانعام : ١٢١) ٥۔ یتیموں کا مال ظلم سے کھانا حرام ہے۔ (النساء : ١٠) ٦۔ اللہ کی آیات کو فروخت کرنے والے اپنے پیٹوں میں آگ بھر تے ہیں۔ (البقرۃ: ١٧٤) ٧۔ تمہارے اوپر مردار، خون، خنزیر اور غیر اللہ کے نام دی ہوئی چیز حرام ہے۔ (النحل : ١١٥) ٨۔ وہ لوگ اسے حرام قرار نہیں دیتے جسے اللہ اور اس کے رسول نے حرام قراردیا ہے۔ (التوبۃ: ٢٩) ٩۔ اے ایمان والو! اللہ کی حلال کردہ چیزوں کو حرام قرار نہ دو۔ (المائدۃ: ٨٧) ١٠۔ انہوں نے اللہ کے حلال کردہ رزق کو حرام ٹھہرایا۔ (الانعام : ١٤٠) ١١۔ اللہ تعالیٰ نے ظاہری اور باطنی فحاشی کو حرام قرار دیا ہے۔ (الاعراف : ٣٣) التوبہ
35 التوبہ
36 فہم القرآن ربط کلام : حرمت والے مہینے میں قتال ممنوع ہے۔ یہود و نصاریٰ اور ان کے علماء کا کردار اور انجام ذکر کرنے کے بعد خطاب کا رخ مشرکین مکہ کی طرف ہوچکا ہے۔ اسلامی سال کی تقویم اور تقسیم کسی انسان کے حساب و کتاب کا نتیجہ نہیں یہ تو اللہ تعالیٰ نے اس دن سے ہی ماہ، سنین اور ایام متعین فرما دیے تھے۔ جب اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان کو پیدا فرمایا تھا۔ گویا کہ زمین و آسمان کی پیدائش کے ساتھ ہی لیل و نہار اور سال کی تقویم شروع کردی گئی اور اسی وقت سے ہی اللہ تعالیٰ نے سال کے بارہ مہینے مقرر فرمائے ہیں جن میں چار مہینے محترم قرار دیے گئے۔ جن کے ناموں کی تصریح کرتے ہوئے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ یہ ذوالقعدہ، ذوالحجہ، محرم اور رجب کا مہینہ ہے گویا کہ اسلامی سال کا گیا رہواں، بارہواں، پہلا مہینہ محرم اور ساتواں مہینہ رجب حرمت والے ہیں۔ یاد رہے کہ اسلامی جنتری اور کیلنڈر قمری حساب پر مرتب ہوتا ہے اور اسلامی عبادات کے شمار اور حساب کا دارومدار بھی چاند کے حساب پر رکھا گیا ہے جب مسلمان سیاسی اعتبار سے دنیا میں غالب تھے تو ان کے حساب و کتاب کا معیار قمری مہینہ ہوا کرتا تھا۔ لیکن جب سے یہ سیاسی اعتبار سے پسپا ہوئے تو ان کا تہذیب و تمدن اور حساب و کتاب کا شمار اور معیار بھی پسپائی اختیار کرتا چلا گیا۔ یہاں تک کہ آج عام مسلمان ہی نہیں بلکہ دینی طبقہ بھی اپنی تقویم کو فراموش کرچکا ہے۔ حالانکہ ہماری زندگی کے لمحات اور ایام شمسی حساب سے نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے ہاں قمری حساب پر مشتمل ہیں۔ سال کے بارہ مہینوں میں چار مہینے اس لیے محترم قرار دیے گئے تاکہ معاشرے میں امن و امان، اخلاق اور بہتر کردار کی بنیادیں مستحکم رہ سکیں۔ اور دنیا کے کونے کونے سے آنے والے مسلمان امن و امان کے ساتھ حج کرسکیں چوتھا مہینہ رجب اس لیے مقرر کیا گیا۔ کہ حضرت ابراہیم کے زمانے سے رجب کے مہینہ میں لوگ عمرہ ادا کرتے تھے البتہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عمرہ رمضان المبارک میں ادا کرنا حج کے ثواب کے مترادف قرار دیا ہے۔ انہی بنیادوں پر اسے دین قیم قرار دیتے ہوئے حکم فرمایا کہ ان مہینوں میں خاص طور پر اپنے آپ پر ظلم نہ کیا کرو۔ عرب جہالت کے باوجود ان مہینوں کا اس قدر احترام کرتے کہ اگر کسی کے باپ کا قاتل اس کے سامنے آجاتا تو وہ غیرت انتقام سے آگ بگولہ ہوجاتا مگر اس کو یہ جرأت نہ ہوتی کہ وہ ہاتھ میں پکڑی ہوئی تلوار کو نیام سے باہر نکال سکے۔ لیکن قریش مکہ نے اسلام دشمنی میں آکر ملت ابراہیم کی اخلاقی قدروں اور حرمت والے مہینوں کی پاسداری کا لحاظ چھوڑ دیا۔ یہاں تک کہ انھوں نے ان مہینوں میں تغیر و تبدل کردیا۔ حرمت والے مہینوں کی پرواہ کیے بغیر وہ مسلمانوں کو انفرادی اور اجتماعی طور پر نقصان پہنچانے سے دریغ نہ کرتے۔ ان کے مقابلہ میں مسلمانوں کو اجازت دی گئی ہے کہ اگر کفار اور مشرکین ان مہینوں میں تم پر یلغار کریں تو تمھیں بھی انھیں منہ توڑ جواب دینا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ اچھی طرح جانتا ہے کہ کون اس کی حرمتوں کا خیال رکھنے والا ہے اور کون نہیں رکھتا۔ لیکن یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ ظلم سے بچنے اور گناہوں سے اجتناب کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔ (عَنْ أَبِی بَکْرَۃَ (رض) عَنْ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَال الزَّمَانُ قَدْ اسْتَدَارَ کَہَیْءَتِہِ یَوْمَ خَلَقَ اللّٰہُ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضَ السَّنَۃُ اثْنَا عَشَرَ شَہْرًا مِنْہَا أَرْبَعَۃٌ حُرُمٌ ثَلَاثَۃٌ مُتَوَالِیَاتٌ ذو الْقَعْدَۃِ وَذُو الْحِجَّۃِ وَالْمُحَرَّمُ وَرَجَبُ مُضَرَ الَّذِی بَیْنَ جُمَادَی وَشَعْبَانَ) [ رواہ البخاری : کتاب بدء الخلق، باب ماجاء فی سبع ارضین] ” حضرت ابو بکرہ (رض) نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا بیان نقل کرتے ہیں آپ نے فرمایا زمانہ گھوم کر بالکل اپنی اصل جگہ آگیا ہے جس دن اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا تھا۔ سال بارہ مہینوں کا ہے اس میں سے چار حرمت والے ہیں تین مہینے متواتر ہیں۔ ذوالقعدہ، ذوالحجہ اور محرم جبکہ رجب جمادی اور شعبان کے درمیان ہے۔“ مسائل ١۔ زمین و آسمان کی پیدائش کے وقت ہی سال کے بارہ مہینے تھے ان میں ذی القعدہ، ذوالحجہ محرم اور رجب حرمت والے مہینے ہیں۔ ٢۔ دین ٹھوس بنیادوں پر قائم ہے۔ ٣۔ حرمت والے مہینوں میں بالخصوص ظلم نہیں کرنا چاہیے۔ ٤۔ کافر حرمت والے مہینوں میں جنگ کرنا چاہیں تو مسلمانوں کو ان کے مقابلہ کی اجازت ہے۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ ظلم سے بچنے اور گناہوں سے پرہیز کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔ التوبہ
37 فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ مضمون جاری ہے۔ مشرکین اور کفار نے جس طرح اپنی اغراض کی خاطر دین ابراہیم کے دوسرے مسائل کو تبدیل کردیا تھا اسی طرح انھوں نے اپنے مفاد کے پیش نظر حرمت والے مہینوں کو بھی تبدیل کردیا تھا۔ جس کی مؤرخین نے دو وجوہات بیان فرمائی ہیں۔ ١۔ ان مہینوں میں اپنے دشمن کو کمزور سمجھتے تو حرمت والے مہینے کی پرواہ کیے بغیر اس پر حملہ کردیتے۔ ٢۔ قمری مہینوں کے حساب سے حج کا موسم تبدیل ہوتا رہتا ہے۔ جس سے مناسک حج کی ادائیگی میں دقت محسوس کرتے اور اس کے ساتھ ان کی تجارت پر بھی منفی اثرات پڑتے تھے کیونکہ حج کے موقع پر دنیا کے کونے کونے سے تاجر آتے اور شدت موسم کی وجہ سے کچھ لوگ ان دنوں آنے سے کتراتے۔ ان وجوہات کی بنا پر انھوں نے ” نسیء“ کا من ساختہ اصول بنایا نسیء کا معنیٰ ہے مؤخر کرنا یعنی اگر حرمت والے مہینوں میں انھیں مار دھاڑ اور جنگ و جدال کی ضرورت پیش آتی تو وہ ان مہینوں میں قتل و غارت اور جنگ وجدال کرلیتے اور اس کے بدلے میں سال کے کسی اور مہینے کو محترم مہینہ قرار دے لیتے۔ اس طرح اپنے فائدے کی خاطر اللہ تعالیٰ کے مقرر کیے ہوئے حرمت والے مہینوں کو تبدیل کردیتے۔ ان کی من ساختہ تقویم سے سال کا کیلنڈر تیار ہوتا۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ حج ذوالحجہ میں ہونے کی بجائے بارہ مہینوں میں تبدیل ہوتا رہتا۔ ان کی اس حرکت کو اللہ تعالیٰ نے کفر پر کفر کرنے کے مترادف قرار دیا ہے کیونکہ انھوں نے اللہ کے حلال کو حرام اور حرام کو حلال کیا اور اس حرکت پر نادم ہونے کی بجائے یہ سمجھ کر مطمئن ہوجاتے کہ ہم نے اللہ تعالیٰ کے مقرر کیے ہوئے حرمت والے چار مہینے پورے کردیے ہیں اور ان کی حرمت کو قائم رکھا ہے۔ اس لیے ہمارا حج بھی ملت ابراہیم کے مطابق ادا ہوتا ہے۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ کے ہاں وہی حج مقبول ہوتا ہے۔ جسے اس کے مقرر کردہ مناسک اور ایّام میں ادا کیا جائے۔ حج کے ایّام تبدیل کرنے اور اللہ تعالیٰ کی حرمتیں پامال کرنے کے باوجود ان کا عقیدہ تھا کہ ہم نیک کام کر رہے ہیں۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ کی حکمت یہ ہے کہ حج ہر موسم میں آئے تاکہ مسلمان مشقت کے عادی ہوں۔ جس سے ان کو دشمن کا مقابلہ کرنے کی تربیت حاصل ہو اور وہ اپنے رب کے مقررہ کردہ اصول کے پابند رہتے ہوئے اس کے تقاضے پورے کریں۔ دوسری حکمت یہ معلوم ہوتی ہے کہ تمام ممالک کے لیے حج کا موسم یکساں رہے۔ یہاں تک کفار کا بنایا ہوا ” نسی“ کا اصول تھا۔ یہ عقیدہ اور تصور شیطان کا پیدا کردہ ہے تاکہ انسان ایک رسم اور بدعت کو دین اور ثواب سمجھ کر کرے لیکن اللہ تعالیٰ کے ہاں ایسا عمل مردود اور گناہ ہی رہتا ہے بدعت و رسومات پر عمل کرنے والے لوگ حقیقتاً اللہ تعالیٰ کے دین کے ساتھ کفر کرتے ہیں کیونکہ وہ اسے دین اور ثواب سمجھ کر کرتے ہیں اس لیے اللہ تعالیٰ اور انھیں ہدایت نہیں دیتا۔ کفار کے بنائے ہوئے نسئی کے اصول اور اللہ تعالیٰ کے مقرر کیے ہوئے قانون کے مطابق حجۃ الوداع کا حج ٹھیک اس مہینہ اور ایام میں آیا جو اللہ تعالیٰ نے مقرر کر رکھا تھا۔ اسی موقعہ پر آپ نے یہ الفاظ ادا فرمائے : (عَنْ أَبِی بَکْرَۃَ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَال الزَّمَانُ قَدْ اسْتَدَارَ کَہَیْءَتِہِ یَوْمَ خَلَقَ اللّٰہُ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضَ السَّنَۃُ اثْنَا عَشَرَ شَہْرًا مِنْہَا أَرْبَعَۃٌ حُرُمٌ ثَلَاثَۃٌ مُتَوَالِیَاتٌ ذو الْقَعْدَۃِ وَذُو الْحِجَّۃِ وَالْمُحَرَّمُ وَرَجَبُ مُضَرَ الَّذِی بَیْنَ جُمَادَی وَشَعْبَانَ) [ رواہ البخاری : کتاب بدء الخلق] ” حضرت ابو بکرہ (رض) نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا بیان نقل کرتے ہیں آپ نے فرمایا زمانہ گھوم کر بالکل اپنی اصل جگہ پر آگیا ہے جس دن اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا تھا۔ سال بارہ مہینوں کا ہے اس میں سے چار حرمت والے ہیں تین مہینے متواتر ہیں۔ ذوالقعدہ، ذوالحجہ اور محرم جبکہ رجب جمادی اور شعبان کے درمیان ہے۔“ مسائل ١۔ نسیء پر عمل کرنا کفر کرنے کے مترادف ہے۔ ٢۔ دین میں رد و بدل کرنا پرلے درجے کا کفر ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ کے حرام کو حلال اور اس کے حلال کو حرام کرنا گمراہی ہے۔ ٤۔ شیطان برے اعمال اور بدعات کو خوبصورت اور دین بنا کر پیش کرتا ہے۔ تفسیر بالقرآن شیطان کن لوگوں کے اعمال خوبصورت بناتا ہے : ١۔ ظالموں کے دل سخت ہوگئے اور شیطان ان کے اعمال کو مزین کرکے دکھاتا ہے۔ (الانعام : ٤٣) ٢۔ اکثر مشرکین کے لیے قتل اولاد کا عمل مزین کردیا۔ (الانعام : ١٣٧) ٣۔ شیطان نے اللہ کے راستہ سے روکنے والوں کے برے اعمال کو مزین کردیا اور کہا تم ہی غالب ہو گے۔ (الانفال : ٤٨) ٤۔ اللہ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پہلے کئی امتوں کی طرف رسول بھیجے شیطان نے ان کے بد اعمال کو مزین کردیا۔ (النحل : ٦٣) ٥۔ اللہ کے علاوہ سورج کو سجدہ کرنے والوں کے برے اعمال کوشیطان نے ان کے لیے مزین کردیا۔ (النمل : ٢٤) ٦۔ قوم عاد و ثمود کے اعمال بد کو شیطان نے مزین کردیا۔ (العنکبوت : ٣٨) ٧۔ ہر گروہ کے بد اعمال کو شیطان نے ان کے لیے مزین کردیا۔ (الانعام : ١٠٩) ٨۔ شیطان نے کہا میں ضرور ان کے اعمال ان کے سامنے مزین کر کے پیش کروں گا اور انہیں گمراہ کرونگا۔ (الحجر : ٣٩) ٩۔ حد سے تجاوز کرنے والوں کے اعمال ان کے لیے مزین کیے جاتے ہیں۔ (یونس : ١٢) ١٠۔ کفار کے اعمال ان کے لیے مزین کیے جاتے ہیں۔ (الانعام : ١٢٢) ١١۔ انہوں نے اللہ کی حلال کردہ چیزوں کو حرام قرار دیا ان کے لیے برے اعمال مزین کر دئیے گئے۔ (التوبۃ: ٣٧) ١٢۔ کفار کے لیے ان کی تدابیر کو مزین کردیا گیا تو انہوں نے اللہ کی راہ سے روکنا شروع کردیا۔ (الرعد : ٣٣) ١٣۔ وہ شخص جس کے لیے برے اعمال مزین کردئیے گئے اور وہ انہیں اچھے اعمال تصور کرتا ہے اللہ جسے چاہتا ہے گمراہ کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے ہدایت سے نوازتا ہے۔ (فاطر : ٨) التوبہ
38 فہم القرآن ربط کلام : نئے خطاب کا آغاز، جہاد کی تحریص۔ اس سورۃ کا مرکزی مضمون قتال فی سبیل اللہ اور اس کے متعلقات ہیں لہٰذا قتال فی سبیل اللہ کا خطاب پھر شروع ہوتا ہے۔ اس خطاب کا پس منظر اور شان نزول یہ ہے کہ جب مکہ فتح ہوا اور سرزمین حجاز کے بڑے بڑے قبائل بڑے جوش و جذبہ کے ساتھ حلقہ اسلام میں داخل ہوئے تو مدینہ سے دور دراز کے لوگوں کے سامنے اسلام کی حقانیت واضح ہونے لگی۔ جس بنا پر شام، روم اور دیگر ممالک کے لوگوں نے مسلمانوں کے تہذیب و تمدن اور دین اسلام کی روشن تعلیمات کی طرف توجہ دینا شروع کی۔ جس سے ان ممالک کے حکمرانوں کو شدید خطرہ محسوس ہوا۔ خاص کر اس زمانے کی سب سے بڑی سیاسی قوت سلطنت رومہ نے محسوس کیا کہ اسلام کی پیش قدمی کو روکنا چاہیے۔ چنانچہ روم کے فرمانروا ہرقل نے مملکت اسلامیہ پر حملہ کرنے کی سرگرمیاں تیز کردیں۔ ان کی سرگرمیوں کو دیکھ کر مدینہ کے منافق بھی پھر سے حوصلہ پکڑنے لگے۔ اس صورتحال پر قابو پانے اور رومیوں کی پیش قدمی کو روکنے کے لیے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فیصلہ فرمایا کہ رومیوں کو پیش قدمی کا موقعہ دینے کی بجائے ان کے گھر جا کر سبق سکھانا چاہیے اس کے لیے آپ نے خلاف معمول ایک مہینہ پہلے رومیوں کے خلاف جہاد کا اعلان فرمایا حالانکہ اس سے پہلے آپ جہاد کے لیے توریہ کی پالیسی اختیار کیا کرتے تھے جس کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے اگر مدینہ کے شمال کی طرف پیش قدمی کرنا ہوتی تو آپ جنوب کے علاقے کی باتیں کرتے تاکہ مدینہ کے منافق اور دیگر لوگ دشمن کو خبردار نہ کردیں لیکن اس مرتبہ آپ نے دو ٹوک الفاظ میں رومیوں کے خلاف جہاد کا اعلان کیا۔ یہ اعلان اس وقت ہوا جب فصلیں کٹنے پہ آئی ہوئی تھیں اور دوسری طرف گرمی کا عالم یہ تھا کہ گھر سے باہر نکلتے وقت آدمی کا چہرہ جھلس جاتا تھا۔ حالانکہ دشمن کے خلاف جنگ کے وقت کا تعین کرتے ہوئے موسم اور قوم کے داخلی حالات کو ہمیشہ مد نظر رکھا جاتا ہے لیکن حالات تاخیر کی اجازت نہیں دیتے تھے جس بنا پر آپ نے کھلی جنگ کا اعلان کیا ان حالات میں اس جنگ کو کچھ صحابہ اپنے آپ پر بوجھ محسوس کرنے لگے۔ اس اعصابی دباؤ اور ذہنی بوجھ کو دور کرنے کے لیے خطاب کا انداز ایسا اختیار کیا گیا جو پہلے کسی غزوۂ کے لیے اختیار نہیں کیا چنانچہ حکم ہوا کہ اے مسلمانو ! تمھیں کیا ہوگیا ہے کہ جب تمھیں اللہ کے راستے میں نکلنے کے لیے کہا گیا تو تم زمین کے ساتھ چمٹے اور آخرت کے مقابلہ میں دنیا پر راضی ہوئے جا رہے ہو۔ یاد کرو کہ دنیا کے مال و اسباب کی آخرت کے مقابلے میں کوئی حیثیت نہیں ؟ دنیا کی زندگی نہایت مختصر اور اس کا سامان ناپائیدار اور معمولی ہے اس کے باوجود اگر تم نے دنیا کو مقدم جانا اور اللہ کے راستے میں نکلنے سے فرار اختیار کیا تو پھر اللہ تعالیٰ تمھیں اذیت ناک عذاب دے گا۔ تمہاری جگہ کوئی اور قوم لے آئے گا۔ پھرتم اللہ تعالیٰ کا کچھ نہیں بگاڑ سکو گے کیونکہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے۔ اس انتباہ سے ثابت ہوتا ہے کہ جب جہاد کا اعلان عام ہوجائے تو پھر کسی فرد کو پیچھے رہنے کی گنجائش باقی نہیں رہتی جہاد فرض کفایہ کے بجائے فرض عین ہوجایا کرتا ہے۔ ایسی صورت میں جو مسلمان پیچھے رہے گا اللہ تعالیٰ اسے دنیا اور آخرت میں سزا دینے کا اعلان کرتا ہے۔ عام طور پر دنیا کی سزا دشمن کے ہاتھوں ہوا کرتی ہے کیونکہ دشمن کے مقابلے میں نہ نکلنے والی قوم ذلت و رسوائی کے ساتھ اپنا سب کچھ کھو بیٹھتی ہے۔ (عَنْ ابْنِ عُمَرَ (رض) قَالَ سَمِعْتُ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَقُولُ إِذَا تَبَایَعْتُمْ بالْعِینَۃِ وَأَخَذْتُمْ أَذْنَابَ الْبَقَرِ وَرَضِیتُمْ بالزَّرْعِ وَتَرَکْتُمْ الْجِہَادَ سَلَّطَ اللّٰہُ عَلَیْکُمْ ذُلًّا لَا یَنْزِعُہُ حَتّٰی تَرْجِعُوا إِلٰی دینِکُمْ) [ رواہ ابوداؤد : کتاب البیوع، باب فی النہی عن العینۃ] ” حضرت عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں جب تم تجارت عینہ کیا کرو گے گاۓ کی دم کو پکڑ لو گے اور کھیتی باڑی پر راضی ہو کر جہاد کو چھوڑ دو گے تو اللہ تعالیٰ تم پر ذلت مسلط کر دے گا۔ وہ اس وقت تک تم پر مسلط رہے گی جب تک تم واپس دین کی طرف لوٹ نہ آؤ گے۔“ (عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَثَلُ الْمُجَاہِدِ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ کَمَثَلِ الصَّاءِمِ الْقَاءِمِ الْقَانِتِ بِاٰیٰتِ اللّٰہِ لَا یَفْتُرُ مِنْ صِیَامٍ وَلَا صَلٰوۃٍ حَتّٰی یَرْجِعَ الْمُجَاہِدُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ۔) [ متفق علیہ] حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا‘ اللہ کے راستے میں جہاد کرنے والا اس شخص کی طرح ہے‘ جو مسلسل روزے رکھتا ہے اور ہمہ وقت حالت قیام میں قرآن پاک کی تلاوت کرتا ہے۔ روزے اور نماز میں کوتاہی نہیں کرتا۔ حتّٰی کہ اللہ کے راستے میں جہاد کرنے والا مجاہد واپس لوٹ آئے۔ مسائل ١۔ جب جہاد کا اعلان ہو تو اس پر لبیک کہنا چاہیے۔ ٢۔ جہاد سے پیچھے رہ جانے والوں کے لیے وعید ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے۔ تفسیر بالقرآن کن لوگوں کو دردناک عذاب ہوگا : ١۔ منافقوں کے دلوں میں بیماری ہے۔ ان کو دردناک عذاب ہوگا۔ (البقرۃ: ٧) ٢۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی گستاخی کرنے والے کو دردناک عذاب ہوگا۔ (البقرۃ: ١٠٤) ٣۔ اللہ کی آیات چھپانے اور فروخت کرنے والے کو دردناک عذاب ہوگا۔ (البقرۃ: ١٧٤) ٤۔ زیادتی کرنے والے کو دردناک عذاب ہوگا۔ (البقرۃ: ١٧٨) ٥۔ اللہ کی آیات کے ساتھ کفر۔ انبیاء کو قتل کرنے والوں کو دردناک عذاب ہوگا۔ (آل عمران : ٢١) ٦۔ اللہ کے عہد اور قسموں کو فروخت کرنے والوں کو دردناک عذاب ہوگا۔ (آل عمران : ٧٧) ٧۔ ایمان کے بدلے کفر کو خریدنے والوں کو دردناک عذاب ہوگا۔ (آل عمران : ١٧٧) ٨۔ اللہ کے احکام کو پس پشت ڈالنے والوں کو دردناک عذاب ہوگا۔ (آل عمران : ١٨٧ ) التوبہ
39 التوبہ
40 فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ، مکہ کے نازک ترین حالات بتلا کر اللہ تعالیٰ کی نصرت کی یاد دہانی۔ اس سے پہلی آیات میں مسلمانوں کو جھنجوڑا گیا ہے کہ تمھیں کیا ہوگیا ہے کہ تم جہاد فی سبیل اللہ کے لیے نکلنے کی بجائے زمین کے ساتھ چمٹے جا رہے ہو اگر تم جہاد کے لیے نہیں نکلو گے تو اللہ تعالیٰ تمھاری جگہ کسی اور قوم کو لے آئے گا اور تم اللہ تعالیٰ کا کچھ نہیں بگاڑ سکو گے۔ اللہ تو وہ ذات ہے کہ جس نے اپنے رسول کی اس وقت مدد فرمائی جب اہل مکہ نے اسے مکہ سے نکال دیا تھا اور وہ غار میں پناہ گزیں ہوئے اور آپ کا ساتھی گھبرانے لگا تو آپ نے فرمایا گھبرانے کی ضرورت نہیں اللہ ہمارے ساتھ ہے پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی پر سکون و اطمینان نازل فرمایا اور آپ کی مدد ایسے لشکروں کے ساتھ کی جن کو تم نہیں دیکھتے تھے اس طرح کفار کی منصوبہ بندی ناکام رہی اور اللہ تعالیٰ کا حکم غالب رہا۔ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر غالب ہے اور اس کے ہر حکم اور کام میں حکمت مضمر ہوتی ہے۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے چالیس سال نبوت سے پہلے اور تیرہ سال نبوت کے بعد مکہ میں بسر کیے۔ تیرہ سال پیغمبر انہ زندگی میں آپ نے بے پناہ کوشش فرمائی کہ مکہ کے لوگ توحید خالص کے قائل ہوجائیں لیکن اہل مکہ باطل عقیدہ چھوڑنے کی بجائے دن بدن آپ کے دشمن ہوتے چلے گئے۔ یہاں تک کہ انھوں نے آپ کے ساتھیوں اور آپ کو مکہ چھوڑنے پر مجبور کردیا۔ اس صورتحال میں آپ نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے مسلمانوں کو مدینہ کی طرف ہجرت کرنے کی رہنمائی فرمائی لیکن آپ کو ہجرت کرنے کا براہ راست حکم نہیں آیا تھا جس وجہ سے آپ مکہ میں ہی ٹھہرے ہوئے تھے۔ کفار نے جب یہ دیکھا کہ نبی کے ساتھی ایک ایک کرکے مکہ چھوڑ چکے ہیں تو انھوں نے غنیمت سمجھا کہ آپ کو ختم کردیا جائے اس کے لیے دارالندوہ میں اجلاس ہوا۔ جس میں طویل بحث کے بعد یہ پاس کیا گیا کہ تمام قبائل میں سے ایک ایک آدمی رات کے وقت بیک وقت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے گھر کا گھیراؤ کرے اور آدھی رات کے وقت یکبارگی حملہ کرکے اسے ختم کردیا جائے اگر بنی ہاشم خون بہا کا مطالبہ کریں تو انھیں سب مل کر ادا کردیں گے۔ جب انھوں نے اپنے طے شدہ منصوبہ کے مطابق رات کو آپ کے گھر کا گھیراؤ کیا تو آپ نے اپنی چار پائی پر حضرت علی (رض) کو لیٹنے کا حکم دیا اور خود سورۃ یٰس کی تلاوت کرتے ہوئے مکان کے چاروں طرف مٹی پھینکی جس سے کفار کچھ وقت کے لیے اندھے ہوگئے اور آپ بسلامت نکل کر حضرت ابو بکر صدیق (رض) کے ساتھ غار ثور میں تین دن کے لیے پناہ گزین ہوئے۔ ان ایام میں ایک وقت ایسا بھی آیا کہ جب کفار ڈھونڈتے ہوئے غار کے دہانے پر پہنچ گئے۔ جن کو حضرت ابو بکر (رض) دیکھ کر آہستگی کے ساتھ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کرنے لگے اے اللہ کے رسول کفار تو ہمارے سر پر آپہنچے ہیں۔ اس پر آپ نے حضرت ابو بکر کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا گھبرانے کی ضرورت نہیں اللہ تعالیٰ ہمارے ساتھ ہے۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے کفار کو نامراد کیا اور اپنے حکم اور تدبیر کو غالب فرمایا۔ اس واقعہ کی طرف اشارہ فرماکر اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو متنبہ فرما رہا ہے کہ اگر تم جہاد کے لیے نہیں نکلو گے تو اللہ تعالیٰ تمھاری مدد کا محتاج نہیں کیونکہ اس نے اپنے رسول کی اس وقت مدد فرمائی تھی جب اس کے ساتھ صرف ایک ہی ساتھی تھا اس ساتھی سے مراد سب کے نزدیک حضرت ابوبکرصدیق (رض) ہیں جنھیں اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کی جلوت اور خلوت کا ساتھی ہونے کا شرف بخشا اس شرف میں حضرت ابو بکر صدیق (رض) کے ساتھ کوئی مقابلہ نہیں کرسکتا۔ بعض نادان دوست صحابہ کرام (رض) کی دشمنی میں آکر کہتے ہیں کہ ابو بکر خود نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ جانے پر مصر تھے آپ نے مجبوراً اسے ساتھ لیا تھا تاکہ ہجرت کا یہ راز افشاں نہ ہوجائے۔ یہ ایسی غلط بیانی ہے جس سے بڑھ کر کوئی جھوٹ اور الزام نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت ابو بکر (رض) کو پہلے ہجرت کی اجازت اس لیے نہیں دی تھی کہ تاکہ اللہ کا حکم آنے پر ابوبکر (رض) کو ساتھ لے کر ہجرت کی جائے۔ اس واقعہ سے حضرت ابو بکر (رض) پر آپ کے اعتماد کا بے پناہ ثبوت ملتا ہے۔ جس کی کوئی مثال پیش نہیں کرسکتا۔ (عن عاءِشَۃَ (رض) زَوْجَ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَتْ۔۔ قَالَ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَدْ أُرِیتُ دَارَ ہِجْرَتِکُمْ رَأَیْتُ سَبْخَۃً ذَاتَ نَخْلٍ بَیْنَ لَابَتَیْنِ وَہُمَا الْحَرَّتَانِ فَہَاجَرَ مَنْ ہَاجَرَ قِبَلَ الْمَدِینَۃِ حینَ ذَکَرَ ذَلِکَ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وَرَجَعَ إِلَی الْمَدِینَۃِ بَعْضُ مَنْ کَانَ ہَاجَرَ إِلَی أَرْضِ الْحَبَشَۃِ وَتَجَہَّزَ أَبُو بَکْرٍ مُہَاجِرًا فَقَالَ لَہٗ رَسُول اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلٰی رِسْلِکَ فَإِنِّی أَرْجُو أَنْ یُؤْذَنَ لِی قَالَ أَبُو بَکْرٍ ہَلْ تَرْجُو ذَلِکَ بِأَبِی أَنْتَ قَالَ نَعَمْ فَحَبَسَ أَبُو بَکْرٍ نَفْسَہُ عَلٰی رَسُول اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِیَصْحَبَہُ وَعَلَفَ رَاحِلَتَیْنِ کَانَتَا عِنْدَہُ وَرَقَ السَّمُرِ أَرْبَعَۃَ أَشْہُرٍ) [ رواہ البخاری : کتاب الحوالات، باب جوار ابی بکر فی عہد النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وعقدہ] ” حضرت عائشہ (رض) ام المومنین بیان کرتی ہیں رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ مجھ کو خواب میں تمھاری ہجرت کا مقام بتایا گیا میں نے ایک کیا ری زمین کھجوروں والی دیکھی جو کالی پتھریلی زمینوں کے بیچ میں ہے یعنی مدینہ کے دونوں پتھریلے کنارے یہ سن کر جس نے ہجرت کی اس نے مدینہ کی طرف ہجرت کی اور جو لوگ پہلے حبشہ کی جانب ہجرت کر گئے تھے وہ بھی مدینہ آگئے اور ابو بکر صدیق (رض) نے بھی ہجرت کی تیاری کی تب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے فرمایا ذرا ٹھہرو میں سمجھتا ہوں مجھے بھی خدا کی طرف سے ہجرت کی اجازت ملے گی ابو بکر (رض) نے عرض کیا میرے ماں باپ آپ پر قربان آپ کو امید ہے کہ اجازت ملے گی آپ نے فرمایا ہاں اس لیے ابوبکر (رض) رکے رہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ ہی ہجرت کریں گے اور اونٹنیوں کو چار مہینے تک ببول کے پتے کھلائے تاکہ وہ تیز بھاگنے لگیں۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے غار میں رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور حضرت ابو بکر (رض) کی دستگیری فرمائی۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ کی تدبیر ہمیشہ غالب رہتی ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ نے ہجرت کے موقعہ پر بھی کفار کو ذلیل کیا۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ غالب حکمت والا ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ ہی مسلمانوں کا مددگار اور خیر خواہ ہے : ١۔ اے ایماندار و تم اللہ کے دین کی مدد کرو گے اللہ تمھاری مدد کرے گا اور تمھارے قدم مضبوط کر دے گا۔ (محمد : ٧) ٢۔ اللہ نے اپنے حبیب (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مدد کی جب کفار نے آپ کو گھر سے نکالا۔ (التوبۃ: ٤٠) ٣۔ اگر اللہ تمھاری مدد کرے تو پھر تم پر کوئی غالب نہیں آسکتا۔ (آل عمران : ١٦٠) ٤۔ نہیں ہے کوئی بھی جماعت جو اللہ کے سوا تمھاری مدد کرسکے۔ (الکہف : ٤٣) ٥۔ نہیں ہے اللہ کے سوا کوئی مسلمانوں کی مدد کرنے والا۔ (الشوریٰ : ٤٦) ٦۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی مدد کرتا ہے۔ (الحشر : ٨) التوبہ
41 فہم القرآن ربط کلام : ہجرت کا واقعہ یاد دلوا کر اب پھر جہاد فی سبیل اللہ کا حکم دیا گیا ہے۔ ہجرت کے موقع پر نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ابو بکر صدیق (رض) کا نکلنا کوئی آسان کام نہیں تھا۔ اللہ تعالیٰ چاہتے تو اپنے نبی کو اس سے پہلے بھی ہجرت کرنے کا حکم دے سکتے تھے لیکن اس نے اپنی قدرت کاملہ کا نمونہ دکھانے کے لیے یہ کیا کہ جب کفار متحد ہو کر انتہائی قدم اٹھا چکے تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو بسلامت نکال کر یہ ثابت کر دکھایا کہ اللہ کے حکم کے مقابلہ میں کسی کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔ اسی پس منظر کی روشنی میں مسلمانوں کو حکم دیا جا رہا ہے کہ اللہ کا حکم سمجھ کر تمھیں اس کے راستے میں اپنے مال اور جان کے ساتھ جہاد کرنے کے لیے نکل کھڑے ہونا چاہیے۔ بے شک تم دشمن کے مقابلہ میں طاقتور ہو یا کمزور، تھوڑے ہو یا زیادہ ہلکے ہو یا بوجھل جب اللہ تعالیٰ کا حکم آجائے تو اس کے راستے میں نکلنا ہی بہتر ہے بشرطیکہ تم اس کی حقیقت جان سکو۔ غزوۂ تبوک کے حالات سے واضح ہوتا ہے اگر دشمن حملہ آور ہونے کی کوشش کرے تو پھر اس کے ساتھ افرادی اور جنگی سازو سامان کا موازنہ کرنے کی بجائے اس کے مقابلہ میں نکلنا ہی بہتر اور فرض ہوجا تا ہے۔ عَنْ اَبِیْ مَسْعُوْدِنِ الْاَنْصَارِیِّ (رض) قَالَ جَآءَ رَجُلٌ بِنَاقَۃٍ مَخْطُوْمَۃٍ فَقَالَ ھٰذِہٖ فِیْ سَبِےْلِ اللّٰہِ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لَکَ بِھَا ےَوْمَ الْقِےٰمَۃِ سَبْعُ ماءَۃِ نَاقَۃٍ کُلُّھَا مَخْطُوْمَۃٌ۔ (مسلم) حضرت ابومسعود انصاری (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص لگام والی اونٹنی لا کر کہنے لگا یہ اللہ کے لیے ہے۔ نبی مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا‘ قیامت کے دن تجھے اس کے بدلے سات سو اونٹنیاں ملیں گی اور وہ سب لگام والی ہونگی۔ (مسلم) مسائل ١۔ مسلمانوں کو ہر حال میں اللہ کے راستے میں نکلنا چاہیے۔ ٢۔ مال اور جان کے ساتھ جہاد کرنا لازم ہے۔ التوبہ
42 فہم القرآن ربط کلام : مخلص مسلمانوں سے خطاب کے بعد منافقوں کا کردارواضح کیا جارہا ہے۔ مکہ معظمہ میں اعتقاد کے اعتبار سے دوہی قسم کے لوگ تھے ایک کافر اور دوسرے مخلص مسلمان، لیکن مدینہ طیبہ میں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کفار کے ساتھ یہودیوں اور منافقین کے ساتھ بھی واسطہ پڑا ان میں خطرناک گروہ منافقین کا تھا جو مارِآستین تھے۔ کیونکہ یہ لوگ بظاہر کلمہ پڑھنے کی وجہ سے مسلمانوں جیسے کام کرتے اور ہرو قت مسلمانوں کے ساتھ جڑے رہتیتھے۔ ان کو پہچاننا اور ان سے کنارہ کش ہونا نہایت ہی مشکل کام تھا۔ یہ لوگ سوائے کڑی آزمائش کے پہچانے نہیں جاتے تھے۔ البتہ بدر، احد اور دیگر معرکوں کے وقت کافی حد تک نمایاں ہوچکے تھے لیکن وقت گزر جانے کے بعد یہ لوگ اپنی چرب لسانی اور جھوٹے حلف دے کر کچھ مسلمانوں کو اپنا ہمدرد بنا لیا کرتے تھے۔ غزوۂ تبوک کے ابتدائی ایام میں یہ لوگ شریک جنگ ہونے کے لیے مسلمانوں کی ہاں میں ہاں ملاتے رہے۔ لیکن جوں ہی وقت قریب آتا گیا تو ان کے حیلے بہانے سامنے آنے لگے چنانچہ ان میں کچھ لوگ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں آکر اللہ کو گواہ بنا کر کہتے کہ ہماری فلاں فلاں مجبوری نہ ہوتی تو ہم آپ کے ساتھ ضرور شریک جنگ ہوتے۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے حلم و بردباری اور وسعت قلبی کی بناء پر انھیں اجازت عنایت فرماتے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے منافقین کی قلبی خیانت کا ذکر کرتے ہوئے آپ کو آگاہ فرمایا کہ یہ لوگ دل کے کھوٹے ہیں اور دین کی خاطر کوئی مشقت اٹھانے کے لیے تیار نہیں اس سے کسی آزمائش میں اپنے آپ کو ڈالنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ اس لیے یہ حقیقت کہ کسی صورت بھی تمھارے ساتھ شریک ہونے کے لیے تیار نہیں ہیں جہاں تک ان کے حلف اٹھانے کا تعلق ہے اللہ اس پر گواہ ہے کہ یہ جھوٹ بول رہے ہیں۔ (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَمْرٍو (رض) أَنَّ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ أَرْبَعٌ مَّنْ کُنَّ فیہِ کَانَ مُنَافِقًا خَالِصًا وَمَنْ کَانَتْ فیہِ خَصْلَۃٌ مِّنْہُنَّ کَانَتْ فیہِ خَصْلَۃٌ مِّنْ النِّفَاقِ حَتّٰی یَدَعَہَا إِذَا اؤْتُمِنَ خَانَ وَإِذَا حَدَّثَ کَذَبَ وَإِذَا عَاہَدَ غَدَرَ وَإِذَا خَاصَمَ فَجَرَ) [ رواہ البخاری : کتاب الایمان، باب علامۃ المنافق] ” حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) بیان کرتے ہیں بلاشبہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس شخص میں چار خصلتیں ہوں گی وہ پکا منافق ہوگا اور جس میں ان میں سے کوئی ایک بھی ہو تو اس میں نفاق کی خصلت ہوگی یہاں تک کہ وہ اس کو چھوڑ دے۔ جب اسے امانت دی جائے وہ خیانت کرے اور جب بات کرے جھوٹ بولے اور جب وعدہ کرے تو وعدہ خلافی کرے اور جب کسی سے الجھاؤ ہو تو گالی گلوچ پر اتر آئے۔“ مسائل ١۔ دین کے لیے منافق کسی بڑی آزمائش کا سامنا کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ ٢۔ منافق کا حلف بھی جھوٹا ہوتا ہے۔ تفسیر بالقرآن ہلاک ہونے والے لوگ : ١۔ اللہ نے حق کی تکذیب کرنے والوں کو انکے گناہوں کی وجہ سے ہلاک کر کے دوسری قوم کو پیدا فرمایا۔ (الانعام : ٦) ٢۔ آل فرعون نے اللہ کی آیات کی تکذیب کی اللہ نے ان کو ان کے گناہوں کیوجہ سے ہلاک کردیا۔ (الانفال : ٥٤) ٣۔ بستی والوں نے جب ظلم کیا اللہ نے انھیں ہلاک کردیا۔ (الکہف : ٥٩) ٤۔ قوم عاد نے جھٹلایا تو اللہ نے ان کو ہلاک کردیا۔ (الشعراء : ١٣٩) ٥۔ قوم تبع اور ان سے پہلے مجرموں کو اللہ نے ہلاک کردیا۔ (الدخان : ٣٧) ٦۔ اللہ نے انبیاء کی طرف وحی کہ کہ ظالموں کو ضرور ہلاک کرے گا۔ (ابراہیم : ١٣) ٧۔ ہم کسی بستی والوں کو اس وقت تک ہلاک نہیں کرتے جب تک ان میں ڈرانے والے نہ بھیج دوں۔ (الشعراء ٢٠٨) ٨۔ کیا وہ نہیں جانتے اللہ نے ان سے بھی بڑے مجرموں کو ہلاک کردیا۔ (القصص : ٧٨) ٩۔ قوم عاد کو تند وتیز ہوا کے ساتھ ہلاک کردیا گیا۔ (الحاقۃ : ٦) التوبہ
43 فہم القرآن ربط کلام : منافقین کا کردار پیش کیا جا رہا ہے۔ منافق کی چکنی چپڑی باتوں میں آنے کے بجائے اسے اچھی طرح جاننا اور پرکھنا چاہیے۔ رسول رحمت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے حلم اور بردباری کی بناء پر منافقین کو غزوۂ تبوک سے پیچھے رہنے کی اجازت دی لیکن وقت آچکا تھا کہ انھیں بالکل آشکار کردیا جائے اس لیے اللہ تعالیٰ نے نہایت شفقت و مہربانی کے لہجے کے ساتھ آپ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا اے نبی! اللہ آپ کو معاف کرے جس کا دوسرا مطلب ہے کہ اللہ نے آپ کو معاف کردیا ہے۔ منافقین کو اس وقت تک اجازت نہیں دینا چاہیے تھی جب تک کھرے اور کھوٹے، سچے اور جھوٹے کا فرق نمایاں نہ ہوجاتا۔ آپ کے اجازت دینے کی وجہ سے منافقین آپس میں پروپیگنڈہ کر رہے ہیں کہ مسلمانوں کے نبی کو ہمارے عزائم کا علم نہیں ہے کیونکہ یہ دور اندیش اور زیادہ بصیرت رکھنے والا نہیں۔ منافق اس بات پر خوش ہیں کہ اس نے ہمیں خود ہی اجازت دے دی ہے ہمارے ذمہ اب کوئی گناہ نہیں بلکہ اس کی ذمہ داری رسول پر عائد ہوتی ہے۔ منافقین کی اس ہر زہ سرائی کو طشت ازبام کرتے ہوئے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر واضح کیا گیا ہے کہ آپ سے اجازت لینے والے وہ لوگ نہیں جو اللہ تعالیٰ اور آخرت پر ایمان رکھتے ہیں، اپنے مال اور جان کے ساتھ جہاد کرنے میں مخلص ہیں۔ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو خوب جانتا ہے جو حیلے بہانوں سے اجتناب کرنے والے ہیں۔ آپ سے جنگ میں عدم شرکت کی اجازت تو وہ لوگ مانگتے ہیں جن کا اللہ پر یقین نہیں اور ان کے دلوں میں اللہ اور آخرت کے بارے میں شک ہے اور وہ بےیقینی کی کشمکش میں مبتلا رہتے ہیں۔ 1 قارئین محترم ” عَفَا اللّٰہُ عَنْکَ“ لام عرب میں تعظیم اور تکریم کا کلمہ ہے۔ جس کو کلام کی ابتدا میں ذکر کیا جاتا ہے اور جو شخص متکلم کے نزدیک محترم اور مکرم ہو اس کے متعلق کہا جاتا ہے اللہ آپ کو معاف فرمائے آپ نے میرے معاملہ میں کیا کردیا ہے یا اللہ آپ سے راضی ہو۔ آپ نے میری بات کا کیا جواب دیا ہے لہٰذا اس آیت میں نبی مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے فرمایا ہے ” عَفَا اللّٰہُ عَنْکَ“ اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ آپ سے کوئی گناہ سرزد ہو اہو۔ 2 نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا منافقین کو جہاد میں عدم شرکت کی اجازت دینا کیا آپ کی خطا تھی۔ اگر یہ خطا تھی تو ” عَفَا اللّٰہُ عَنْکَ“ سے اللہ نے اس کو معاف فرمادیا۔ خلاصہ یہ ہے کہ ” آپ نے ان کو اجازت کیوں دی“ فرمانا خطا کو مستلزم نہیں کرتا۔ لہٰذا اس قول کو ترک اولیٰ اور ترک اکمل پر محمول کیا جائے۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ پر صدق دل سے ایمان لانے والے نیکی کرنے میں دیر نہیں کرتے۔ ٢۔ منافق لوگ نیکی کرنے میں تردد سے کام لیتے ہیں۔ ٣۔ منافق مشکل کے وقت مسلمانوں کا ساتھ نہیں دیتا۔ تفسیر بالقرآن کن کے دلوں میں مرض ہے : ١۔ منافقین کے دلوں میں بیماری ہے اللہ نے ان کی بیماری کو بڑھادیا۔ (البقرۃ: ١٠ ٢۔ منافقین اور ان کے ساتھیوں کے دلوں میں بیماری ہے۔ (الاحزاب : ١٢) التوبہ
44 التوبہ
45 التوبہ
46 فہم القرآن ربط کلام : منافقین کی مزید عادات۔ منافق نقصان کے خوف یا کسی مفاد کے حصول کے لیے ظاہری طور پر اسلام کا لبادہ اوڑھتا ہے اس کے دینی کاموں میں اخلاص نہیں پایا جاتا وہ مفاد کا بندہ اور ابن الوقت ہونے کی وجہ سے موقعہ کی تلاش میں رہتا ہے۔ جونہی اسے موقعہ ملتا ہے تو وہ معمولی مفاد کی خاطر ملت کو نقصان پہنچانے میں عار محسوس نہیں کرتا۔ یہی حال رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دور میں منافقین کا تھا۔ غزوۂ احد کے موقعہ پر جب کفار کا لشکر مسلمانوں کے خلاف مورچہ زن ہوچکا تھا تو مسلمانوں کے حوصلے پست کرنے کے لیے تین سو منافق ٹولیوں کی شکل میں مدینہ کی طرف بھاگ نکلے۔ غزوۂ احزاب کے موقع پر بھی منافقین کی ہمدردیاں اور خفیہ سرگرمیاں اہل مکہ اور مدینہ کے یہودیوں کے ساتھ تھیں۔ فتح مکہ کے موقع پر بھی انھوں نے اپنی مذموم حرکتیں جاری رکھیں۔ یہاں تک کہ غزوۂ تبوک کی تیاری کے وقت کھل کر سامنے آگئے اور حیلے بہانوں سے جان چھڑاتے رہے۔ جو منافق کسی مجبوری کے عالم میں لشکر کے ساتھ گئے انھوں نے تبوک سے واپسی پر رات کے وقت نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر حملہ کرنے کی کوشش کی جن کو آپ نے پہچان لیا اور حضرت حذیفہ کو ان کے نام بتلاتے ہوئے فرمایا کہ کسی کو بتلانے کی ضرورت نہیں ان کو انہی کے حال پر چھوڑ دو۔ منافقین کے اسی گھناؤنے کردار کی وجہ سے مسلمانوں کو بتلایا جا رہا ہے کہ حقیقت تو یہ ہے کہ یہ تمھارے ساتھ نکلنے کا ارادہ ہی نہیں رکھتے تھے۔ اگر انھوں نے جہاد کے لیے نکلنا ہوتا تو یہ اس کے لیے کچھ نہ کچھ تیاری کرتے۔ ان کا جہاد کے لیے تیاری نہ کرنا درحقیقت میں اللہ تعالیٰ کی منشاء کے مطابق تھا کیونکہ اللہ تعالیٰ ان کا تمھارے ساتھ نکلنا پسند نہیں کرتا تھا اس لیے ان کی سستی اور غفلت کو برقرار رہنے دیا اور کہہ دیا گیا کہ تم بیٹھنے والوں کے ساتھ ہی بیٹھے رہو۔ اللہ تعالیٰ اسی شخص کو نیکی کی توفیق دیتا ہے جو دل میں اس کی چاہت اور اس کے حصول کے لیے کوشاں ہوتا ہے۔ اگر منافق نکلتے بھی تو ماضی کی طرح مسلمانوں میں انتشار اور بددلی پیدا کرنے کے سوا کسی چیز کا اضافہ نہ کرتے۔ یہ تم میں ایسے لوگ ہیں جو غیروں کے لیے سنتے ہیں اور دشمن کے ایجنٹ کا کردار ادا کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان ظالموں کو خوب جانتا ہے۔ بعض مفسرین نے ” فِیْکُمْ سَمّٰعُوْنَ“ کا معنی یہ لیا ہے کہ مسلمانوں میں کچھ ایسے بھولے بھالے تھے جو ناعاقبت اندیشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے منافقوں کو راز کی باتیں بتلا دیا کرتے تھے انھیں یہ حکم دے کر آئندہ کے لیے متنبہ کیا گیا ہے۔ (عَنْ ابْنِ عُمَر َ عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ مَثَلُ الْمُنَافِقِ کَمَثَلِ الشَّاۃِ الْعَاءِرَۃِ بَیْنَ الْغَنَمَیْنِ تَعِیرُ إِلٰی ہَذِہِ مَرَّۃً وَإِلٰی ہَذِہِ مَرَّۃً) [ رواہ مسلم : کتاب صفات المنافقین] ” حضرت عبداللہ بن عمر (رض) نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا بیان نقل کرتے ہیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا منافق کی مثال دو ریوڑوں کے درمیان بکری کی ہے کبھی ایک طرف جاتی ہے اور کبھی دوسری جانب۔“ تفسیر بالقرآن فتنہ کیا ہے : ١۔ فتنہ قتل سے زیادہ سخت ہے۔ (البقرۃ: ١٩١) ٢۔ فتنہ کی موجودگی تک لڑتے رہو یہاں تک کہ دین پورے کا پورا اللہ کا ہوجائے۔ (البقرۃ: ١٩٣) ٣۔ جن لوگوں کے دلوں میں ٹیڑھا پن ہے وہ فتنہ تلاش کرتے ہیں۔ (آل عمران : ٧) ٤۔ جان لو تمھارے مال اور اولاد تمھارے لیے فتنہ ہیں۔ (الانفال : ٢٨) ٥۔ وہ کام نہ کرو جس سے زمین میں فساد اور فتنہ برپا ہو۔ (الانفال : ٧٣) التوبہ
47 التوبہ
48 فہم القرآن ربط کلام : منافقوں کی مزیدعادات کا بیان جاری ہے۔ اس سے پہلے یہ فرمایا گیا ہے کہ اگر منافق لشکر اسلام کے ساتھ شامل ہوتے تو فتنہ پر وری کے سوا کسی بات میں اضافہ نہ کرتے کیونکہ یہ پہلے بھی مختلف موقعوں پر شر انگیزی اور فتنہ پردازی کرچکے ہیں۔ جس کی مثالیں احد، احزاب، فتح مکہ کے حوالے سے دی جا چکی ہیں ان کی ہمیشہ سے کوشش رہی ہے کہ معاملات کو گڑ بڑ کردیا جائے اور مسلمان کامیابی کی بجائے ناکامیوں سے دو چار ہوتے رہیں۔ لیکن یہ اللہ تعالیٰ کا مسلمانوں پر فضل ہے کہ اس نے منافقوں اور کفار کی کوئی سازش بھی کارگر نہ ہونے دی اور وہی کچھ ہوا جس کا اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول سے وعدہ کر رکھا تھا۔ منافقین نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مسلمانوں کی کامیابیوں پر خوش ہونے کی بجائے ہمیشہ اسے ناپسند کرتے رہے۔ ان میں ایسا شخص بھی ہے جو یہ کہتا ہے کہ مجھے جنگ کے فتنہ میں نہ ڈالیے۔ کیا اسے خبر نہیں کہ یہ تو پہلے ہی منافقت کے فتنہ میں مبتلا ہوچکا ہے درحقیقت منافقت کفر کی ہی ایک صورت ہے یقیناً جہنم کفر کرنے والوں کو گھیرلے گی۔ ایک شخص سے مراد ایک کردار ہے۔ یہاں مفسرین نے منافقوں کے سردار جد بن قیس کا ذکر کیا ہے کہ وہ نبی محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آکر بڑی معصومیت کے ساتھ کہنے لگا کہ آپ مجھے تبوک کے محاذ سے پیچھے چھوڑجائیں اگر میں آپ کے ساتھ گیا تو رومی دوشیزاؤں کو دیکھ کر میرا ایمان خطرے میں پڑجائے گا۔ گویا کہ جنگ سے جان بچانے کے لیے اس نے مصنوعی تقدس کا بہانہ بنایا جس پر کہا گیا کہ کیا ایسے لوگ نہیں سوچتے کہ اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ منافقت کرنے سے بڑھ کر آدمی کے لیے کوئی اور آزمائش اور فتنہ کیا ہوسکتا ہے؟ ظاہر ہے منافقت سے بڑھ کر ایمان برباد کردینے والا کوئی اور فتنہ نہیں ہوسکتا۔ جو لوگ منافقت اختیار کرنے اور جہاد سے پیچھے رہنے کے لیے اس طرح کے بہانے بناتے ہیں دنیا میں تو شاید ان کی سازشوں اور شرارتوں کا کوئی احاطہ نہ کرسکے لیکن جہنم میں ان پر پوری طرح قابو پاکر ٹھیک ٹھیک سزا دی جائے گی۔ مسائل ١۔ منافقین ہر وقت دین اسلام سے راہ فرار ڈھونڈتے ہیں۔ ٢۔ منافق سرور دو عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی راہ میں رکاوٹیں ڈالا کرتے تھے۔ ٣۔ منافق فطرتاً شرارتی ہوتا ہے۔ ٤۔ منافق اسلام کی سربلندی کو پسند نہیں کرتا۔ ٥۔ فتنہ کا معنی شرارت اور آزمائش ہوتا ہے۔ ٦۔ اللہ تعالیٰ اپنے دین اور منصوبہ کو غالب کرنے والا ہے۔ تفسیر بالقرآن فتنہ کیا ہے ؟ ١۔ مال ودولت اور دنیا کی زندگی انسان کے لیے فتنہ ہے۔ (طٰہ : ١٣١ ٢۔ اللہ تعالیٰ کے گھروں سے روکنا بہت بڑا فتنہ ہے۔ (البقرۃ: ٢١٧) ٣۔ کیا وہ خیال نہیں کرتے کہ انہیں ہر سال ایک مرتبہ یا دو مرتبہ آزمائش میں مبتلا کیا جاتا ہے۔ (التوبۃ : ١٢٦) ٤۔ جن کے دلوں میں کجی ہے وہ فتنہ پھیلانے کے لیے متشابہ آیات کی پیروی کرتے ہیں۔ (آل عمران : ٧) ٥۔ تھور کا درخت جہنمیوں کے لیے آزمائش ہے۔ (الصٰفٰت : ٦٣) ٦۔ تمہارے مال اور اولاد تمہارے لیے فتنہ ہے۔ (التغابن : ١٥) التوبہ
49 التوبہ
50 فہم القرآن ربط کلام : منافقین کی اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں قلبی کیفیت اور ان کا حسد و بغض کا اظہار۔ منافقت کے بنیادی اسباب میں سے ایک سبب حسد بھی ہے۔ منافقوں کے سردار عبداللہ بن ابی کی منافقت کا بنیادی سبب حسد ہی تھا۔ جس کی وجہ یہ ہوئی کہ نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مدینہ تشریف آوری سے پہلے انصار کے قبیلے اوس اور خزرج نے یہودیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے عبداللہ بن ابی کو اپنا قائد بنانے کا فیصلہ کرلیا تھا۔ جب رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا مدینہ میں ورود مسعود ہوا تو لوگوں کی توجہ کا مرکز آپ کی ذات اقدس بن گئی جس کی وجہ سے عبداللہ بن ابی کی تاج پوشی کا پروگرام ہمیشہ کے لیے ختم ہوا۔ اس بنا پر عبداللہ بن ابی ہمیشہ کے لیے آپ اور مسلمانوں کا دشمن بنا لیکن مسلمانوں کی طاقت اور اوس وخزرج کے اسلام قبول کرنے کی وجہ سے وہ کھل کر مخالفت نہیں کرسکتا تھا۔ اس بنا پر اس نے اندر ہی اندر منافقوں کی اچھی خاصی تعداد تیار کرلی اور یہ لوگ ہر آڑے وقت میں خفیہ یا اعلانیہ مسلمانوں کی مخالفت کیا کرتے تھے۔ مسلمانوں کو بدر، احزاب، خیبر اور فتح مکہ میں کامیابی حاصل ہوئی۔ چاہیے تو یہ تھا کہ یہ لوگ شرح صدر کے ساتھ سمجھتے کہ مسلمان اسلام کی حقانیت کی وجہ سے کامیاب ہو رہے ہیں لیکن حسد وہ بیماری ہے کہ جب تک انسان اس سے سچی توبہ اور حاسدانہ حرکات سے اجتناب نہیں کرتا یہ مرض کینسر کی طرح پھیلتا ہی جاتا ہے یہی سبب تھا کہ منافقین ہر وقت اس انتظار میں رہتے تھے کہ مسلمانوں کو کب نقصان پہنچتا ہے۔ منافقین کے اسی برے جذبہ کی نشاندہی کرتے ہوئے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو باخبر کیا گیا ہے کہ اے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اگر آپ کو اچھائی نصیب ہو تو منافقین کہ انتہائی دکھ پہنچتا ہے اور اگر آپ کو کسی قسم کی مصیبت اور پریشانی لاحق ہو تو یہ خوش ہو کر کہتے ہیں کہ ہم بھی اس مصیبت سے دو چار ہوجاتے اگر ہم نے اس کے خلاف منصوبہ بندی نہ کرلی ہوتی۔ انھیں فرمادیجیے کہ جو ہمیں مصیبت یا پریشان پہنچتی ہے وہ اللہ تعالیٰ کی تقدیر کا نتیجہ ہے۔ وہی ہمارا مالک اور مولاہے ہمارا اسی پر بھروسہ اور اعتماد ہے اور ہم اپنے مالک کی تقدیر پر دل و جان کے ساتھ راضی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ہر صاحب ایمان کو اللہ تعالیٰ پر ہی اعتماد اور بھروسہ کرنا چاہیے۔ یہاں ” ہَوَ مُوَلَانَا“ کے الفاظ استعمال فرما کر منافقین کے مقابلے میں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مومن کامل کی دل کی کیفیت بیان کی گئی ہے مومن وہ ہوتا ہے جو عسرو یسر میں اپنے رب پر راضی رہتا ہے۔ (عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ (رض) قَالَ قَالَ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لَا یُؤْمِنُ عَبْدٌ حَتَّی یُؤْمِنَ بالْقَدَرِ خَیْرِہِ وَشَرِّہِ حَتَّی یَعْلَمَ أَنَّ مَا أَصَابَہُ لَمْ یَکُنْ لِیُخْطِءَہُ وَأَنَّ مَا أَخْطَأَہُ لَمْ یَکُنْ لِیُصِیبَہُ) [ رواہ الترمذی : کتاب القدر، باب ماجاء فی الایمان بالقدر] ” حضرت جابر بن عبداللہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کوئی بھی شخص ایماندار نہیں ہوسکتا جب تک وہ تقدیر کی اچھائی یا برائی پر ایمان نہ لے آئے۔ یہاں تک کہ وہ جان لے جو اس کو ملنے والا ہے وہ اس سے رک نہیں سکتا اور جو اس کو نہیں ملناوہ اس کو مل نہیں سکتا۔“ (عَنِ الْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ (رض) أَنَّہُ سَمِعَ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَقُولُ ذَاقَ طَعْمَ الْإِیمَانِ مَنْ رَضِیَ باللّٰہِ رَبًّا وَّبِا لإِْسْلَام دینًا وَّبِمُحَمَّدٍ رَسُولًا) [ رواہ مسلم : کتاب الایمان، باب الدلیل علی ان من رضی باللہ ربا] ” حضرت عباس بن عبدالمطلب (رض) بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا آپ نے فرمایا جو شخص اللہ کے رب ہونے پر، اسلام کے دین ہونے پر اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے رسول ہونے پر راضی ہوگیا اس نے ایمان کا لطف اٹھا لیا۔“ مسائل ١۔ منافق مسلمانوں کو مشقت میں دیکھ کر خوش ہوتے ہیں۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے تنگدستی و خوشحالی پہلے دن انسان کے لیے لکھ دی ہے۔ ٣۔ سچے مسلمان اللہ پر ہی توکل کرتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن اللہ پر توکل کے فائدے : ١۔ جو شخص اللہ پر توکل کرتا ہے اللہ اسے کافی ہوجاتا ہے۔ (الطلاق : ٣) ٢۔ اللہ توکل کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔ (آل عمران : ١٥٩) ٣۔ اللہ صبر کرنے والوں اور توکل کرنے والوں کو بہترین اجر عطا فرمائے گا۔ (العنکبوت : ٥٩) ٤۔ اللہ پر ایمان لانے والوں اور توکل کرنے والوں کے لیے خیر ہی خیر ہے۔ (الشوریٰ : ٣٦) التوبہ
51 التوبہ
52 فہم القرآن ربط کلام : منافقین کو دوسرا جواب۔ منافقین کو پہلا جواب یہ دیا گیا تھا کہ جو کچھ ہمیں مصیبت پہنچتی ہے وہ ہمارے رب نے ہماری قسمت میں پہلے سے لکھ رکھی ہے۔ ہم اپنے رب کے ہر فیصلے پر راضی ہیں۔ اب ان کو دوسرا جواب دیا جا رہا ہے کہ اے منافقو! تم ہمارے بارے میں دو میں سے کسی ایک بات کا انتظار کرتے ہو۔ یاد رکھو اگر ہمیں میدان کارزار میں موت آجائے یا فتح کی صورت میں کامیابی حاصل ہو۔ دونوں ہی ہمارے لیے بہتر ہیں ہاں ہم بھی تمھارے متعلق اس انتظار میں ہیں کہ اللہ تعالیٰ براہ راست تم پر اپنا غضب نازل فرمائے یا ہمارے ہاتھوں تمھیں ذلیل کرے۔ بس انتظار کرو ہم بھی تمھارے ساتھ انتظار کرنے والے ہیں، چنانچہ یہی کچھ ہوا کہ منافق دنیا میں ہی ایک ایک کرکے ذلیل ہوئے جن کے بارے میں حضرت عمر (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے ایک دن اللہ کے نبی کی خدمت میں عرض کی کہ اجازت ہو تو میں عبداللہ بن ابی کا سر قلم کردوں لیکن آپ نے فرمایا کیونکہ لوگ اس کے اصلی کردار کو نہیں جانتے اس لیے وہ پروپیگنڈہ کریں گے کہ ” اِنَّ مُحَمَّدًا یَقْتُلُ اَصْحَابَہٗ“۔ کہ ” محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے ساتھیوں کو قتل کرتا ہے۔“ حضرت عمر (رض) بیان کرتے ہیں کچھ ہی عرصہ گزرا تھا کہ عبداللہ بن ابی لوگوں کی نظر میں ذلیل اور بے اثر ہوگیا۔ (البدایہ والنہایہ) (عَنْ صُہَیْبٍ (رض) قَالَ قَالَ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عَجَبًا لِأَمْرِ الْمُؤْمِنِ إِنَّ أَمْرَہٗ کُلَّہٗ خَیْرٌ وَلَیْسَ ذَاکَ لِأَحَدٍ إِلَّا لِلْمُؤْمِنِ إِنْ أَصَابَتْہُ سَرَّاءُ شَکَرَ فَکَانَ خَیْرًا لَہٗ وَإِنْ أَصَابَتْہُ ضَرَّاءُ صَبَرَ فَکَانَ خَیْرًا لَہٗ) [ رواہ مسلم : کتاب الزہد والرقائق، باب المؤمن أمرہ کلہ خیر] ” حضرت صہیب (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا مومن کے معاملات عجیب ہیں۔ اس کے تمام معاملات میں خیر ہے اور یہ صرف مومن کے لیے ہے اگر اس کو آسانی ملتی ہے تو وہ اللہ کا شکر ادا کرتا ہے یہ اسکے لیے بہتر ہے اور اگر اسے تنگدستی آتی ہے تو وہ صبر کرتا ہے یہ بھی اس کے لیے بہتر ہے۔“ (عَنْ أبی ہُرَیْرَۃَ (رض) عَنْ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ انْتَدَبَ اللّٰہُ لِمَنْ خَرَجَ فِی سَبِیلِہٖ لَا یُخْرِجُہٗ إِلَّا إِیمَانٌ بِی وَتَصْدِیقٌ بِرُسُلِی أَنْ أُرْجِعَہٗ بِمَا نَالَ مِنْ أَجْرٍ أَوْ غَنِیمَۃٍ أَوْ أُدْخِلَہٗ الْجَنَّۃَ وَلَوْلَا أَنْ أَشُقَّ عَلَی أُمَّتِی مَا قَعَدْتُ خَلْفَ سَرِیَّۃٍ وَلَوَدِدْتُ أَنِّی أُقْتَلُ فِی سَبِیل اللّٰہِ ثُمَّ أُحْیَا ثُمَّ أُقْتَلُ ثُمَّ أُحْیَا ثُمَّ أُقْتَلُ) [ رواہ البخاری : کتاب الایمان، باب الجہاد من الایمان] ” حضرت ابوہریرہ (رض) نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان نقل کرتے ہیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ تعالیٰ اس شخص کے لیے اعلان کرتا ہے جو اللہ تعالیٰ کے لیے اس کے رستے میں نکلتا ہے اسے صرف اللہ تعالیٰ پر ایمان اور اس کے رسولوں کی تصدیق ہی نکالتی ہے میں اس کو ثواب یا مال غنیمت کے ساتھ لٹاؤں گا یا اسے جنت میں داخل کروں۔ اگر میں اپنی امت پر مشقت نہ محسوس کرتا تو میں کسی بھی غزوۂ سے پیچھے نہ رہتا۔ میں اس بات کی خواہش کرتا ہوں کہ میں اللہ کے راستے میں شہید کردیا جاؤں پھر زندہ کیا جاؤں پھر شہید کیا جاؤں پھر زندہ کیا جاؤں پھر شہید کیا جاؤں۔“ مسائل ١۔ مومن فتح یاب ہو یا شہید ہوجائے اس کے لیے اللہ کے ہاں اجر ہی اجر ہے۔ ٢۔ منافق دنیا اور آخرت میں ذلیل ہوتا ہے۔ ٣۔ منافق مومن کے لیے برائی کے سوا کچھ نہیں سوچتا۔ التوبہ
53 فہم القرآن ربط کلام : منافق کے طرزِعمل پر تبصرہ جاری ہے۔ منافق کی منافقت کی وجہ سے جس طرح اس کے دیگر اعمال ضائع ہوتے ہیں اسی طرح اس کا صدقہ و خیرات بھی ضائع ہوجاتا ہے۔ ایمان میں کھوٹے لوگ جب مسلمانوں کی طاقت محسوس کرتے ہیں تو منافقت کا وطیرہ اختیار کرتے ہیں تاکہ اسلام کا لبادہ اوڑھ کر مسلمانوں سے فائدہ اٹھائیں۔ یہ حال نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے کے منافقوں کا تھا اس کے لیے کفار کے خلاف جنگ میں مسلمانوں کے ساتھ مل کر میدان کار زار میں پہنچتے اور اپنی منافقت کو چھپانے کے لیے مال خرچ کرتے تھے تاکہ ان کی منافقت چھپ سکے۔ انھیں ان کے صدقہ و خیرات کے بارے میں بتلایا گیا ہے کہ بے شک تم خوشی سے خرچ کرو یا بادل نخواستہ۔ تمھاری منافقت کی وجہ سے اللہ کے ہاں اس کی دمڑی بھر بھی حیثیت نہیں ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ منافق اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ کفر کرنے والے، نماز میں جان بوجھ کر سستی اختیار کرنے کے ساتھ جو کچھ خرچ کرتے ہیں بادل نخواستہ خرچ کرتے ہیں۔ یہاں منافق کی تین خصلتیں بیان کرکے ان کے عقیدہ کو کفر قرار دیا گیا ہے گویا کہ منافق کلمہ پڑھنے اور بظاہر ارکان اسلام پر عمل کرنے کے باوجود حقیقتاً کافر ہوتا ہے۔ (عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اٰےَۃُ الْمُنَافِقِ ثَلٰثٌ زَادَ مُسْلِمٌ وَاِنْ صَامَ وَصَلّٰی وَزَعَمَ اَنَّہُ مُسْلِمٌ ثُمَّ اتَّفَقَا اِذَا حَدَّثَ کَذَبَ وَاِذَا وَعَدَ اَخْلَفَ وَاِذَا اءْتُمَنَّ خَانَ) (رواہ مسلم : باب خصائل المنافق) ” حضرت ابوہریرہ (رض) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان ذکر کرتے ہیں منافق کی تین نشانیاں ہیں۔1 جب وہ بات کرے تو جھوٹ بولے 2 جب وعدہ کرے تو وعدہ خلافی کرے 3 جب اسے امانت دی جائے تو خیانت کرے۔ (متفق علیہ) مسلم شریف میں ان الفاظ کا اضافہ ہے ” چاہے روزے رکھتا اور نماز پڑھتا ہو اور اپنے آپ کو مسلمان سمجھتا ہو۔“ مسائل ١۔ منافق کی کوئی نیکی قبول نہیں ہوتی۔ ٢۔ منافق اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ حقیقتاً کفر کرتا ہے۔ ٣۔ منافق جان بوجھ کر نماز میں بے توجہگی اور کاہلی اختیار کرتا ہے۔ ٤۔ منافق نمود و نمائش اور مجبوری کی بنا پر صدقہ کرتا ہے۔ تفسیر بالقرآن منافق کی نماز : ١۔ منافق اللہ کو دھوکہ دیتا ہے نماز میں سستی و کاہلی، ریاکاری اختیاری کرتا ہے، اللہ کو تھوڑا یاد کرتا ہے۔ (النساء : ١٤٢) ٢۔ دوزخ کا عذاب ان نمازیوں کے لیے جو اپنی نماز سے غافل اور ریا کار ہیں۔ (الماعون : ٤ تا ٦ ) ٣۔ ایسے کفار اور منافقین کے ساتھ اللہ کا وعدہ جہنم کا ہے۔ (التوبۃ: ٦٨) التوبہ
54 التوبہ
55 فہم القرآن ربط کلام : منافقین کی مزیدنشانیوں کا تذکرہ جاری ہے۔ مدینہ کے منافق مال اور اولاد کے اعتبار سے بے شمار لوگوں سے زیادہ حیثیت کے مالک تھے۔ لیکن کمینے اور منافق شخص کے پاس مال کی کثرت اور افرادی قوت ہو تو وہ اپنی خباثت میں آگے ہی بڑھتا جاتا ہے۔ کیونکہ معاشرے میں جس شخص کے پاس یہ دو چیزیں وافر ہوں تو اسے کوئی ٹوکنے اور روکنے والا نہیں ہوتا۔ جس کی وجہ سے وہ سمجھتا ہے کہ میں اپنے قول و فعل میں سچا ہوں۔ عوام الناس ایسے شخص سے متاثر اور مرعوب ہوجاتے ہیں اس تاثر کو ختم کرنے کے لیے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو براہ راست مخاطب کیا گیا ہے۔ تاکہ لوگوں کے سامنے منافقوں کی بے وقعتی ثابت ہوجائے۔ آپ کو حکم ہوتا ہے کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ کو منافقوں کے کاروبار، محلات، مال و اسباب اور افرادی قوت دیکھ کر تعجب نہیں کرنا چاہیے۔ یہ چیزیں انھیں بطور خیر کے عطا نہیں کی گئیں بلکہ اس لیے دی گئیں ہیں کہ ان کے مال اور اولاد دنیا میں ان کے لیے ذلت کا باعث اور آخرت میں ان کے لیے عذاب کا سبب ثابت ہوں اور یہ کفر کی حالت میں ہی جان دیں۔ یہ حلف دے دے کر آپ کو یقین دلاتے ہیں کہ یہ تمھارے ساتھی ہیں حالانکہ وہ ایمان، اخلاص اور ہمدردی کے حوالے سے تمھارے ساتھ کوئی تعلق نہیں رکھتے ایسی باتیں محض اپنی منافقت اور بزدلی چھپانے کے لیے کرتے ہیں۔ منافقین کو چاہیے تھا کہ وہ اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ نعمتوں پر اس کے شکر گزار ہوتے ہوئے، اخلاص اور تابعداری کا مظاہرہ کرتے لیکن منافق ان نعمتوں کو اللہ اور اس کے رسول کے خلاف استعمال کرتے ہیں جس کی وجہ سے انھی چیزوں کے ساتھ انھیں دنیا میں سزا دی جائے گی۔ اگر سوچا جائے تو کیا یہ سزا کم ہے ؟ کہ عبداللہ بن ابی نے جب غزوۂ بنی مصطلق سے واپسی پر اپنے مخصوص ساتھیوں میں یہ کہا کہ مدینہ پہنچ کر گھٹیا لوگوں یعنی صحابہ کرام (رض) کو شہر سے نکال دیا جائے گا۔ حالانکہ وہ اس قابل نہیں تھا۔ کیونکہ آج تو سلطنت رومہ کا حکمران بھی صحابہ کی تاب نہیں لا سکا۔ جس کی وجہ سے اس نے تبوک کے محاذ سے پسپائی اختیار کی تھی یہ صرف منافق کی یا وہ گوئی اور ہرزہ سرائی تھی۔ جس کو اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ میں بیان فرمایا : (ہُمُ الَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ لَا تُنْفِقُوْا عَلٰی مَنْ عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰہِ حَتّٰی یَنْفَضُّوْاطوَ لِلّٰہِ خَزَآءِنُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَلٰکِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ لَا یَفْقَہُوْنَ یَقُوْلُوْنَ لَءِنْ رَّجَعْنَآ اِلٰی الْمَدِیْنَۃِ لَیُخْرِجَنَّ الْاَعَزُّ مِنْہَا الْاَذَلَّطوَلِلّٰہِ الْعِزَّۃُ وَلِرَسُوْلِہٖ وَلِلْمُؤْمِنِیْنَ وَلٰکِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ )[ المنافقون : آیْت، ٧۔ ٨] ” یہی لوگ ہیں جو کہتے ہیں نہ خرچ کرو ان (درویشوں) پر جو اللہ کے رسول کے پاس ہوتے ہیں یہاں تک کہ وہ (بھوک سے تنگ آکر) تِتر بتر ہوجائیں، اور اللہ کے لیے ہی ہیں خزانے آسمانوں اور زمین کے لیکن منافقین ( اس حقیقت کو) سمجھتے ہی نہیں۔ منافق کہتے ہیں کہ اگر ہم لوٹ کر گئے مدینہ میں تو نکال دیں گے عزت والے وہاں سے ذلیلوں کو حالانکہ (ساری) عزت تو صرف اللہ کے لیے، اس کے رسول کے لیے اور ایمان والوں کے لیے ہے مگر منافقوں کو ( اس بات کا) علم ہی نہیں۔“ جو نہی وہ مدینہ داخل ہوا۔ اس کا بیٹا جس کا نام بھی عبداللہ تھا وہ تلوار سونت کر سامنے آیا اور اپنے باپ سے کہا کہ میں تم کو مدینہ داخل نہیں ہونے دوں گا جب تک آپ اپنے الفاظ واپس لے کر معذرت نہیں کرتے چنانچہ عبداللہ بن ابی نے اس سے معافی مانگی۔ اس کے باوجود یہ شخص منافقت کی حالت میں مرا تھا یہاں تک منافقوں کے مال کا تعلق ہے وہ بھی منافقین کی زندگی میں ختم ہوا۔ صحابہ کرام (رض) کو اللہ تعالیٰ نے عزت و اقبال کے ساتھ دنیا کی فراوانی سے ہم کنار فرمایا۔ مسائل ١۔ منافق اور کافر کے مال اور اولاد پر حیران نہیں ہونا چاہیے۔ ٢۔ منافق اور کافر کا مال اور اولاد اس کے لیے دنیا میں بھی ذلت کا باعث بنتے ہیں۔ ٣۔ منافق کا حلف جھوٹا اور یہ بزدل ہوتا ہے۔ ٤۔ منافق کی جان بھی منافقت کی حالت میں نکلتی ہے۔ التوبہ
56 التوبہ
57 فہم القرآن ربط کلام : مسلمانوں کو حلف دینے اور اس بات کی یقین دہانی کروانے کے باوجود کہ ہم کفار کی بجائے تمھارے ساتھی ہیں منافقوں کے دل کی کیفیت یہ تھی۔ منافقت کے دیگر اسباب کے ساتھ ایک سبب یہ بھی ہے کہ منافق بزدل اور ڈرپوک ہوتا ہے جس کی وجہ سے اس کے ظاہر اور باطن میں تضاد قائم رہتا ہے۔ خاص کر جب مسلمان طاقت ور ہوں تو منافق اپنی منافقت میں پکا اور گہرا ہوجاتا ہے۔ یہی صورت حال مدینہ کے منافقین کی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول اور مومنوں کو ہر میدان میں کامیابیاں عطا فرمائیں یہاں تک کہ اس زمانے کی واحد سیاسی سپر پاور روم بھی مسلمانوں کے مقابلہ میں آنے کی جرأت نہ کرسکی۔ ادھر پورا حجاز بھی اسلام کے زیر نگین ہوچکا تھا ایسی صورت حال میں منافق جائیں تو کہاں جائیں حالانکہ کہ ان کے دل کی کیفیت اور منفی جذبات کا عالم یہ تھا کہ اگر انھیں دنیا میں کوئی پناہ گاہ ملتی تو ضرور اس کی طرف نکل کھڑے ہوتے۔ ان کی حالت بیان کرتے ہوئے کہا جا رہا ہے اگر انھیں پناہ گاہ یا کوئی غار یا سرچھپانے کی معمولی جگہ ملے تو یہ وہاں جانے کے لیے بے تاب ہوں۔ اس سے اندازہ کیجیے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدہ کے مطابق منافقوں کو کس طرح حقیر اور ذلیل کیا کہ وہ اپنے اندر ہی اندر گھلتے جا رہے تھے اور اس فکر میں تھے کہ سرچھپانے کی کوئی جگہ مل جائے لیکن مسلمانوں کے بغیر انھیں کہیں بھی پناہ نہ مل سکی۔ اس طرح رب ذوالجلال کا یہ فرمان حرف بہ حرف پور اہو ا۔ (وَلِلّٰہِ الْعِزَّۃُ وَلِرَسُولِہِ وَلِلْمُؤْمِنِینَ وَلٰکِنَّ الْمُنَافِقِینَ لَا یَعْلَمُونَ)[ المنافقون : ٨] ” کہ عزت تو اللہ اور اس کے رسول اور مومنوں کے لیے ہے لیکن منافق اسے نہیں سمجھتے۔“ مسائل ١۔ منافق ہر وقت اپنے دل میں پریشان رہتا ہے۔ ٢۔ مسلمانوں کا غلبہ دیکھ کر منافق کسی پناہ گاہ کی تلاش میں رہتا ہے۔ التوبہ
58 فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ دنیا میں ذلیل ہونے کے باوجود مال کے بارے میں منافق کی حرص و ہوس کا حال۔ مدینہ کے منافقین چاروں طرف سے مایوس اور ہر سہارے سے بے سہارا ہونے کے باوجود دنیا کے مال میں اس قدر حریص تھے کہ جب بھی اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اللہ کے حکم اور اس کی حکمت کے مطابق مال غنیمت تقسیم فرمایا اور اس میں منافقوں کو مخلصین کے مقابلے میں کم حصہ دیا تو وہ اللہ کے رسول کی امانت و دیانت پر یقین رکھنے کے باوجود ہرزہ سرائی پر اتر آتے اور دیانت و امانت کے پیکر رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو الزام دیتے کہ یہ نبی غنائم کی تقسیم میں عدل و انصاف کا خیال نہیں رکھتا۔ حالانکہ ظالم کھلی آنکھوں کے ساتھ دیکھتے تھے کہ جب بھی مال غنیمت آتا تو رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سب کچھ تقسیم کرکے خالی ہاتھ اپنے گھر لوٹا کرتے تھے۔ منافقین کو ان کے مطالبہ کے مطابق مل جاتا تو بغلیں بجاتے ورنہ سخت ناراضگی کا اظہار اور منفی پروپیگنڈہ کرتے۔ ایسے لوگوں کو ہدایت کی گئی ہے کہ اگر یہ اللہ اور اس کے رسول کی تقسیم اور منشا پر خوش ہوجاتے اور کہتے کہ ہمیں اللہ ہی کافی ہے عنقریب ہمارا اللہ اپنے فضل سے مزید عطا کرے گا جس سے اس کا رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمیں خوش کر دے گا۔ لیکن منافقین نے مال کے حصول کو معیار بنا کر اللہ کے رسول کو ہدف تنقیدبنا لیا تھا یہاں فضل و کرم کی نسبت نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف کرنے کے بجائے اللہ تعالیٰ اپنی طرف کی ہے تاکہ آنے والے وقت میں کوئی شخص یہ عقیدہ اختیار نہ کرے کہ مشکلات کے حل اور فضل و کرم کی عطا کا اختیار اللہ کے رسول کو بھی حاصل ہے۔ اس لیے اس کی وضاحت کردی گئی ہے۔ فضل و کرم کا مالک اور حل المشکلات صرف اور صرف اللہ تعالیٰ ہے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تو اللہ تعالیٰ کے دیے ہوئے مال میں سے دیا کرتے تھے۔ اسی تناظر میں آپ نے وضاحت فرمائی ہے۔ (عَنْ مُعَاوِیَۃَ قَالَ سَمِعْتُ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَقُولُ مَنْ یُّرِدْ اللّٰہُ بِہٖ خَیْرًا یُّفَقِّہْہُ فِی الدِّینِ وَإِنَّمَا أَنَا قَاسِمٌ وَاللّٰہُ یُعْطِی وَلَنْ تَزَالَ ہَذِہِ الْأُمَّۃُ قَاءِمَۃً عَلَی أَمْرِ اللّٰہِ لَا یَضُرُّہُمْ مَنْ خَالَفَہُمْ حَتّٰی یَأْتِیَ أَمْرُ اللّٰہِ) [ رواہ البخاری : کتاب العلم، باب من یرد اللہ بہ خیرا] ” حضرت معاویہ (رض) بیان کرتے ہیں میں نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ جس کے ساتھ بھلائی کا ارادہ کرتا ہے اسے دین کی سمجھ عنایت کرتا ہے میں تو صرف تقسیم کرنے والا ہوں اللہ تعالیٰ دیتا ہے یہ امت ہمیشہ دین حق پر رہے گی یہاں تک کہ قیامت آجائے گی۔ اس کی مخالفت کرنے والا اسے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکے گا۔“ (عَن أَبِی سَعِیدِ الْخُدْرِیِّ (رض) یَقُولُ بَعَثَ عَلِیُّ بْنُ أَبِی طَالِبٍ (رض) إِلٰی رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مِنَ الْیَمَنِ بِذُہَیْبَۃٍ فِی أَدِیمٍ مَقْرُوظٍ لَمْ تُحَصَّلْ مِنْ تُرَابِہَا قَالَ فَقَسَمَہَا بَیْنَ أَرْبَعَۃِ نَفَرٍ بَیْنَ عُیَیْنَۃَ بْنِ بَدْرٍ وَأَقْرَعَ بْنِ حابِسٍ وَزَیْدِ الْخَیْلِ وَالرَّابِعُ إِمَّا عَلْقَمَۃُ وَإِمَّا عَامِرُ بْنُ الطُّفَیْلِ فَقَالَ رَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِہٖ کُنَّا نَحْنُ أَحَقَّ بِہَذَا مِنْ ہٰؤُلَاءِ قَالَ فَبَلَغَ ذَلِکَ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَقَالَ أَلَا تَأْمَنُونِی وَأَنَا أَمِینُ مَنْ فِی السَّمَاءِ یَأْتِینِی خَبَرُ السَّمَاءِ صَبَاحًا وَّمَسَاءً قَالَ فَقَامَ رَجُلٌ غَاءِرُ الْعَیْنَیْنِ مُشْرِفُ الْوَجْنَتَیْنِ نَاشِزُ الْجَبْہَۃِ کَثُّ اللِّحْیَۃِ مَحْلُوق الرَّأْسِ مُشَمَّرُ الْإِزَارِ فَقَالَ یَا رَسُول اللّٰہِ اتَّقِ اللّٰہَ قَالَ وَیْلَکَ أَوَلَسْتُ أَحَقَّ أَہْلِ الْأَرْضِ أَنْ یَتَّقِیَ اللّٰہَ قَالَ ثُمَّ وَلَّی الرَّجُلُ قَالَ خَالِدُ بْنُ الْوَلِیدِ یَا رَسُول اللّٰہِ أَلَا أَضْرِبُ عُنُقَہٗ قَالَ لَا لَعَلَّہُ أَنْ یَکُونَ یُصَلِّی فَقَالَ خَالِدٌ وَکَمْ مِنْ مُّصَلٍّ یَقُولُ بِلِسَانِہٖ مَا لَیْسَ فِی قَلْبِہٖ قَالَ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) إِنِّی لَمْ أُومَرْ أَنْ أَنْقُبَ عَنْ قُلُوب النَّاسِ وَلَا أَشُقَّ بُطُونَہُمْ قَالَ ثُمَّ نَظَرَ إِلَیْہِ وَہُوَ مُقَفٍّ فَقَالَ إِنَّہٗ یَخْرُجُ مِنْ ضِءْضِءِ ہَذَا قَوْمٌ یَتْلُونَ کِتَاب اللّٰہِ رَطْبًا لَا یُجَاوِزُ حَنَاجِرَہُمْ یَمْرُقُونَ مِنَ الدِّینِ کَمَا یَمْرُقُ السَّہْمُ مِنَ الرَّمِیَّۃِ وَأَظُنُّہٗ قَالَ لَءِنْ أَدْرَکْتُہُمْ لَأَقْتُلَنَّہُمْ قَتْلَ ثَمُودَ) [ رواہ البخاری : کتاب المغازی، باب بعث علی بن أبی طالب] ” حضرت ابو سعید خدری (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت علی (رض) نے رنگے ہوئے چمڑے میں کچھ سونا، جس سے مٹی علیحدہ نہیں کی گئی تھی یمن سے رسول مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں بھیجا۔ آپ نے اسے چار آدمیوں عیینہ بن بدر، اقرع بن حابس، زید الخیل اور علقمہ یا عامر بن طفیل (رض) کے درمیان تقسیم کردیا۔ آپ کے اصحاب میں سے کسی نے کہا اس مال کے تو ہم ان لوگوں سے زیادہ حقدار ہیں آپ کو جب یہ بات معلوم ہوئی تو آپ نے فرمایا کیا تم لوگوں کو مجھ پر اطمینان نہیں حالانکہ میں آسمان والے کا امین ہوں۔ میرے پاس صبح و شام آسمان کی خبریں آتی ہیں ایک آدمی جس کی آنکھیں دھنسی ہوئی، رخساروں کی ہڈیاں ابھری ہوئی، پیشانی باہر نکلی ہوئی، ڈاڑھی گھنی اور سرمنڈا ہوا تھا۔ اپنا تہبند پنڈلیوں سے اٹھاتے ہوئے کھڑا ہو کر کہنے لگا اللہ کے رسول! اللہ سے ڈریے۔ آپ نے فرمایا تیرا ستیاناس ہو۔ کیا میں روئے زمین پر اللہ سے سب سے زیادہ ڈرنے والا نہیں ہوں ؟ وہ آدمی چلا گیا تو خالد بن ولید (رض) نے عرض کیا اے اللہ کے رسول! میں اس کی گردن نہ اڑادوں ؟ آپ نے فرمایا نہیں شاید وہ نماز پڑھتا ہو۔ خالد (رض) کہنے لگے کتنے ہی نمازی ہیں جو زبان سے اچھی باتیں کہتے ہیں جو ان کے دل میں نہیں ہوتیں۔ آپ نے فرمایا مجھے لوگوں کے دلوں میں نقب لگانے اور ان کے پیٹوں کو چاک کرنے کا حکم نہیں دیا گیا۔ ابو سعید (رض) کہتے ہیں کہ جب وہ پیٹھ موڑے جا رہا تھا تو آپ نے فرمایا اس کی نسل سے وہ لوگ پیدا ہوں گے جو قرآن کو مزے لے کر پڑھیں گے مگر وہ ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا۔ دین سے اس طرح نکل جائیں گے جیسے تیر کمان سے نکل جاتا ہے۔ ابو سعید (رض) کہتے ہیں میرا خیال ہے آپ نے یہ بھی فرمایا کہ اگر میں اس قوم کے زمانہ میں موجود رہا تو قوم ثمود کی طرح انھیں ہلاک کر دوں گا۔“ (عن عَمْرو بن تَغْلِبَ (رض) أَنَّ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) أُتِیَ بِمَالٍ أَوْ سَبْیٍ فَقَسَمَہٗ فَأَعْطَی رِجَالًا وَتَرَکَ رِجَالًا فَبَلَغَہٗ أَنَّ الَّذِینَ تَرَکَ عَتَبُوا فَحَمِدَ اللّٰہَ ثُمَّ أَثْنَی عَلَیْہِ ثُمَّ قَالَ أَمَّا بَعْدُ فَوَاللّٰہِ إِنِّی لَأُعْطِی الرَّجُلَ وَأَدَعُ الرَّجُلَ وَالَّذِی أَدَعُ أَحَبُّ إِلَیَّ مِنَ الَّذِی أُعْطِی وَلٰکِنْ أُعْطِی أَقْوَامًا لِمَا أَرٰی فِی قُلُوبِہِمْ مِنَ الْجَزَعِ وَالْہَلَعِ وَأَکِلُ أَقْوَامًا إِلٰی مَا جَعَلَ اللّٰہُ فِی قُلُوبِہِمْ مِنَ الْغِنٰی وَالْخَیْرِ فیہِمْ عَمْرُو بْنُ تَغْلِبَ فَوَاللّٰہِ مَا أُحِبُّ أَنَّ لِی بِکَلِمَۃِ رَسُول اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حُمْرَ النَّعَمِ) [ رواہ البخاری : کتاب الجمعۃ، باب خطبۃ الجمعۃ] ” عمرو بن تغلب (رض) کہتے ہیں کہ ایک دفعہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس کچھ مال یا قیدی آئے۔ آپ نے اسے تقسیم کردیا۔ کسی کو آپ نے دیا اور کسی کو نہ دیا۔ آپ تک یہ بات پہنچی کہ جنھیں نہیں دیا گیا وہ ناراض ہیں۔ چنانچہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خطبہ میں اللہ کی حمد و ثنا بیان کرنے کے بعد فرمایا میں بعض لوگوں کو دیتا ہوں اور بعض کو نہیں دیتا۔ جنھیں میں دیتا ہوں وہ اس لیے نہیں دیتا کہ مجھے زیادہ محبوب ہیں بلکہ اس لیے دیتا ہوں کہ میں ان میں بے چینی اور بوکھلا ہٹ پاتا ہوں اور جنھیں نہیں دیتا ان کی سیر چشمی اور بھلائی پر بھروسہ کرتا ہوں جو اللہ نے انھیں دے رکھی ہے ایسے لوگوں میں سے ایک عمرو بن تغلب ہے۔ آپ کے منہ سے یہ بات سن کر مجھے اتنی خوشی ہوئی کہ اگر مجھے سرخ اونٹ بھی مل جاتے تو اتنی خوشی نہ ہوتی۔“ مسائل ١۔ منافق مال ودولت کا بہت حریص ہوتا ہے۔ ٢۔ منافق کے دل میں للہیت کے بجائے دنیاکا مفاد ہوتا ہے۔ ٣۔ منافق کو اگر مفادات ملتے رہیں تو راضی رہتا ہے اگر نہ ملیں تو ناراض ہوجاتا ہے۔ التوبہ
59 التوبہ
60 فہم القرآن ربط کلام : منافقین کا اعتراض اور ان کی عادت بیان کرنے کے بعد زکوٰۃ کے مستحق حضرات کی فہرست کا بیان۔ منافقین بلاا ستحقاق اپنے آپ کو صدقہ و خیرات کا مستحق سمجھتے اور نہ ملنے پر رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دیانت و امانت پر ہرزہ سرائی کرتے تھے۔ ان کے الزام کی شدید ترین الفاظ میں تردید کرنے کے بعد مناسب سمجھا گیا کہ صدقات کے مستحقین کی فہرست جاری کردی جائے تاکہ صدقہ کرنے والوں کی رہنمائی اور غیر مستحقین ہمیشہ کے لیے صدقات سے مایوس ہوجائیں۔ قرآن مجید میں زکوٰۃ کے لیے بھی صدقے کا لفظ استعمال ہوا ہے یہاں تمام اہل علم نے صدقات سے مراد زکوٰۃ کا مال لیا ہے جس کے آٹھ مصارف بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے کہ زکوٰۃ اللہ تعالیٰ کی طرف سے فرض ہے۔ جسے اس فہرست کے مطابق خرچ کرنا لازم ہے۔ ١۔ فقیر کی جمع ہے فقراء جس کا معنی ہے ایسا شخص جو کسی بھی حقیقی مصیبت، روز گار کی کمی یا وسائل نہ ہونے کی وجہ سے نہایت تنگ دست ہوچکا ہو۔ یہاں تک کہ اس کے پاس ایک وقت کے کھانے کے سوا کچھ نہ ہو ایسے فقیر کو زکوٰۃ دینی چاہیے۔ (عن أَبَی ہُرَیْرَۃَ عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ لَیْسَ الْمِسْکِینُ الَّذِی تَرُدُّہُ الْأُکْلَۃَ وَالْأُکْلَتَانِ وَلٰکِنِ الْمِسْکِینُ الَّذِی لَیْسَ لَہٗ غِنًی وَیَسْتَحْیِی أَوْ لَا یَسْأَلُ النَّاسَ إِلْحَافًا) [ رواہ البخاری : کتاب الزکاۃ، باب قول اللہ تعالیٰ لایسألون الناس الحافا] ” حضرت ابوہریرہ (رض) نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان نقل کرتے ہیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا مسکین وہ نہیں جو ایک یا دو لقموں کے ساتھ لوٹے۔ مسکین وہ ہے جس کے پاس مال نہ ہو اور وہ حیا کی وجہ سے لوگوں سے چمٹ کر سوال نہ کرے۔“ مساکین : ٢۔ مسکین کی جمع مساکین ہے۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مسکین کی حالت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ مسکین وہ نہیں جو دربدر مانگتا پھرتا ہے بلکہ مسکین وہ ہے جو خود داری کی بنا پر نہیں مانگتا لیکن بنیادی ضروریات پوری کرنے سے قاصر ہے۔ مثلاً بچوں کے تن ڈھانپنے کے لیے کپڑے نہیں۔ بیٹی کی شادی کرنے کے لیے معمولی سے معمولی سامان نہیں۔ ایسی بیماری اور بوجھ تلے دب گیا ہے جس سے نکلنا کسی کے تعاون کے بغیر اس کے لیے ممکن نہیں۔ عاملین زکوٰۃ: ٣۔ عامل کی جمع عاملین ہے ان سے مراد وہ افراد ہیں جو محکمہ زکوٰۃ کے تحت کام کرتے ہیں جس کے ذریعے زکوٰۃ کا حساب و کتاب، اس کی تقسیم اور دوسرے امور سر انجام دئیے جاتے ہیں بے شک وہ شخص خود بھی صاحب نصاب ہی کیوں نہ ہو اسے محکمہ سے تنخواہ لینی جائز ہے۔ مؤلفۃ القلوب : ٤۔ ان سے فقہاء اور محدثین نے وہ لوگ مراد لیے ہیں جو نئے نئے اسلام میں داخل ہوئے ہوں اور معاشی طور پر حکومت کے تعاون کے خواستگار ہوں یا وہ لوگ جن سے یہ امید ہو کہ اگر ان کے ساتھ مالی تعاون کیا جائے تو یہ حلقہ اسلام میں داخل ہوجائیں گے۔ لیکن بعض اہل علم ایسے لوگوں کو زکوٰۃ کا حق دار نہیں سمجھتے کیونکہ ان کے دلائل کے مطابق نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جس مال سے کفار کی مدد کی تھی وہ مال غنیمت کا مال تھا۔ میرے نزدیک حالات کے مطابق دونوں کو زکوٰۃ دی جا سکتی ہے۔ الرقاب : ٥۔ رقبۃ کی جمع الرقاب ہے جس کا مفہوم کسی شخص کی گردن چھڑانا ہے یعنی جو مسلمان کسی وجہ سے غلامی کے چنگل میں پھنس گیا ہو جس کی آج کل صورت یہ ہے کہ بے گناہ ہونے کے باوجود غیر مسلم کی قید میں جا چکا ہے جرمانہ دیے بغیر اس کی رہائی ممکن نہیں۔ جیسا کہ کوئی غلطی سے غیر مسلم حکومت کا بارڈر کراس کر جائے تو ایسی صورت میں اس کا جرمانہ دے کر رہائی دلوانا اس کی گردن چھڑوانے کے مترادف ہے۔ اس پر بھی زکوٰۃ خرچ کی جا سکتی ہے۔ غارم : ٦۔ اس کی جمع غارمین ہے۔ جس سے مراد وہ شخص جو کسی بیماری، ناگہانی آفت یا کسی ملزم کی ضمانت کے سلسلہ میں مقروض ہوچکا ہو۔ ایسے مقروض کا قرض بھی زکوٰۃ کے مال سے چکایاجا سکتا ہے۔ ٧۔ فی سبیل اللہ ایسی شق ہے جس کے بارے میں اہل علم کا بہت اختلاف ہے ایک مکتب فکر کا خیال ہے کہ اس میں دینی کتب کی اشاعت، تبلیغ، مدارس، جہاد یہاں تک کہ غریب مساجد اور ہسپتالوں پر بھی زکوٰۃ خرچ ہو سکتی ہے۔ دوسرے مکتب کا نقطۂ نگاہ یہ ہے کہ فی سبیل اللہ سے مراد صرف دشمن کے خلاف جہاد اور قتال کرنا ہے اس لیے دوسرے رفاہی کاموں پر زکوٰۃ صرف کرنا جائز نہیں۔ ابن السبیل : ٨۔ عربی میں عام طور پر ابن کا معنی بیٹا لیا جاتا ہے السبیل راستہ کو کہتے ہیں عربی محاورہ کے اعتبار سے مسافرکے لیے یہ لفظ بولا جاتا ہے۔ اگر کوئی مسافر کسی وجہ سے زاد سفر سے محروم ہوجائے یا منزل مقصود تک پہنچنے کے لیے زاد سفر تھوڑا ہو تو اسے بھی زکوٰۃ دی جا سکتی ہے بے شک وہ اپنے گھر میں صاحب نصاب ہی کیوں نہ ہو۔ تفصیل کے لیے میری کتاب ” زکوٰۃ کے مسائل ملاحظہ فرمائیں۔ مسائل ١۔ زکوٰۃ صرف مستحقین کو دینا چاہیے۔ ٢۔ زکوٰۃ اللہ تعالیٰ نے صاحب حیثیت لوگوں پر فرض قرار دی ہے۔ تفسیر بالقرآن زکوٰۃ کے مصارف : ١۔ وہ آپ سے سوال کرتے ہیں کہ کس طرح مال خرچ کریں؟ کہہ دو جو مال خرچ کرنا چاہووہ والدین، قریبی رشتہ داروں یتیم، مساکین اور مسافروں پر خرچ کرو۔ (البقرۃ: ٢١٥) ٢۔ صدقات مفلسوں، محتاجوں، عاملین، تالیف قلب، غلاموں کی آزادی، قرض داروں، اللہ کی راہ اور مسافروں کے لیے ہیں۔ (التوبۃ: ٦٠) ٣۔ اور اپنے مال اللہ کی رضا کے لیے قریبی رشتہ داروں، یتیموں، مسکینوں، مسافروں، سوال کرنے والوں اور قیدیوں کو چھوڑانے کے لیے سرف کرو۔ (البقرۃ: ١٧٧) التوبہ
61 فہم القرآن ربط کلام : منافقوں کی ہر زہ سرائی کا ایک اور انداز۔ منافقین اپنی سازشوں اور شرارتوں پر پردہ ڈالنے کے لیے کوئی نہ کوئی شوشہ چھوڑے رکھتے تھے بالخصوص رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات اطہر کے بارے میں یا وہ گوئی کرنے کے لیے نئے سے نیا اور اوچھے سے اوچھا انداز اختیار کرتے تاکہ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کسی بات میں ان کو سرزنش نہ کرسکیں۔ اگر کوئی مسلمان منافقین کی یا وہ گوئی اور خباثتوں سے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو آگاہ کرتا تو منافق آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے استفسار کرنے سے پہلے ہی پروپیگنڈہ شروع کردیتے کہ یہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) معاملہ فہمی سے عاری اور کانوں کا کچا ہے ان کے رد عمل میں رب ذوالجلال نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جواب دینے کے لیے فرمایا کہ ان سے فرما دیجیے کہ کان کھول کر سن لو جس رسول کو کانوں کا کچا کہتے ہو وہ تمھارے حق میں بہتر ہے اگر ہمارا نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمھاری باتوں اور حرکتوں پر گرفت کرنے پر آئے تو تمھارا جینا مشکل ہوجائے گا۔ اس لیے انھیں اپنے حق میں بہتر سمجھو۔ ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شان یہ ہے کہ وہ اپنی بردباری اور حکمت عملی کے تحت تمھارے منہ پر تمھیں جھوٹا نہیں کہتا حالانکہ وہ تمھاری حقیقت سے پوری طرح آگاہ ہے اگر وہ کانوں کا کچا اور نافہم ہوتا تو وہ تمھاری جھوٹی قسموں پر یقین کرلیتا اگر وہ تمھاری یا وہ گوئی کے مطابق کانوں کا کچا ہوتا تو تمھاری چاپلوسی کے فریب میں آجاتا وہ تو اپنے اللہ کے فرامین پر پختہ یقین اور مومنوں کی باتوں پر اعتماد کرنے والا ہے جو بات میں سچے ہیں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مومنوں کے لیے سراسر رحمت ہے۔ سن لو جو اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایذا دیتے ہیں ان کے لیے اذیت ناک عذاب تیار کیا گیا ہے۔ (عَنْ أَبِی ذَرٍّ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ ثَلَاثَۃٌ لَا یُکَلِّمُہُمُ اللّٰہُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ وَلَا یَنْظُرُ إِلَیْہِمْ وَلَا یُزَکِّیہِمْ وَلَہُمْ عَذَابٌ أَلِیمٌ قَالَ فَقَرَأَہَا رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ثَلَاثَ مِرَارًا قَالَ أَبُو ذَرٍّ خَابُوا وَخَسِرُوا مَنْ ہُمْ یَا رَسُول اللّٰہِ قَالَ الْمُسْبِلُ وَالْمَنَّانُ وَالْمُنَفِّقُ سِلْعَتَہٗ بالْحَلِفِ الْکَاذِبِ) [ رواہ مسلم : کتاب الإیمان، باب غلظ تحیرم اسبال الإزار] ” حضرت ابوذر (رض) نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان نقل کرتے ہیں آپ نے فرمایا تین اشخاص ایسے ہیں اللہ تعالیٰ ان سے بات نہیں کرے گا نہ ان کو قیامت کے دن دیکھے گا نہ ہی انہیں گناہوں سے پاک کرے گا ان کے لیے درد ناک عذاب ہوگا۔ ابوذر (رض) کہتے ہیں رسول اللہ نے اس آیت مبارکہ کو تین مرتبہ پڑھا۔ ابوذر (رض) نے کہا اے اللہ کے رسول! وہ برباد ہوگئے انہوں نے نقصان اٹھا یا یہ کون لوگ ہیں ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تہبند لٹکا کر چلنے والا، احسان جتلانے والا اور جھوٹی قسمیں کھا کر سودا فروخت کرنے والا۔“ مسائل ١۔ اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) منافقوں کو اچھی طرح سمجھتے تھے۔ ٢۔ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ تعالیٰ کے فرامین پر یقین رکھنے والے اور مومنوں کی باتوں پر اعتماد کرنے والے تھے۔ ٣۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صحابہ کرام (رض) کے لیے اللہ کی رحمت تھے۔ ٤۔ جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کی شان میں گستاخی کرتے ہیں ان کو اذیت ناک عذاب ہوگا۔ تفسیر بالقرآن اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تکلیف دینے والے لوگوں کی سز ا : ١۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تکلیف دینا حرام اور کبیرہ گناہ ہے۔ (الاحزاب : ٥٣) ٢۔ اللہ اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تکلیف دینے والے دنیا میں لعنت اور آخرت میں عذاب ذلیل کے مستحق ہیں۔ (الاحزاب : ٥٧) ٣۔ جو نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شان میں گستاخی کرتے ہیں وہ کافر ہیں ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔ (البقرۃ: ١٠٤) التوبہ
62 فہم القرآن ربط کلام : منافقین کے کردار اور گفتار کا بیان جاری ہے۔ منافق محض اپنی چرب لسانی سے مومنوں کو راضی کرنا چاہتے ہیں۔ حالانکہ انھیں اللہ اور اس کے رسول کو راضی کرنا چاہیے تھا۔ اگر اللہ اور اس کا رسول راضی ہوجاتا ہے تو مومن خود بخود راضی ہوجاتے لیکن اے منافقو! تمھاری حالت یہ ہے کہ جو کچھ بھی کر رہے ہو وہ کہ اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ مقابلہ کرنے کے مترادف ہے۔ یاد رکھو تمھیں دنیا میں مہلت دی جا رہی ہے لیکن بالآخر تم نے ہمیشہ جہنم میں جلنا ہے اس سے بڑھ کر کوئی اور تکلیف اور رسوائی نہیں ہو سکتی۔ منافق کو منافق اس لیے کہا جاتا ہے کہ وہ دوہرے کردار اور گفتار کا مالک ہوتا ہے۔ منافقین جب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شان میں کسی گستاخی کا ارتکاب کرتے تو مسلمانوں کے جذبات کو ٹھنڈا کرنے کے لیے ان کے سامنے قسمیں اٹھا اٹھا کر کہتے کہ ہماری بات کا فلاں شخص نے غلط مفہوم لیا ہے ہم تو اللہ کے رسول کے بارے میں کسی گستاخی کا تصور نہیں کرسکتے۔ اس طرح وہ مسلمانوں کو خوش کرنے کی کوشش کرتے اس پر انھیں سمجھایا گیا کہ اگر تم سچا ایمان رکھتے ہو تو اللہ اور اس کا رسول زیادہ حق دار ہیں کہ تم ان کو راضی کرو کیونکہ اللہ اور اس کا رسول تم پر راضی ہوں گے۔ تو صحابہ کرام (رض) خود بخود راضی ہوجائیں گے یہاں ضمیر تثنیہ کی آنی چاہیے تھی۔ لیکن ضمیر واحد کی لا کر ثابت کیا ہے کہ اصل رضا مندی اللہ تعالیٰ کی ہونی چاہیے رسول تو اپنے رب کی رضا کا پابند ہوتا ہے اور مومن رسول کے تابع ہوتے ہیں اس لیے اسی سورۃ کی آیت ٩٦ میں وضاحت فرمائی کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اگر منافقوں پر کسی وجہ سے راضی ہو بھی جائیں تو اللہ ان پر ہرگز راضی نہ ہوگا۔ جہنم کی سزا : (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ أَنَّ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ نَارُکُمْ جُزْءٌ مِنْ سَبْعِینَ جُزْءً ا مِنْ نَارِ جَہَنَّمَ قیلَ یَا رَسُول اللّٰہِ إِنْ کَانَتْ لَکَافِیَۃً قَالَ فُضِّلَتْ عَلَیْہِنَّ بِتِسْعَۃٍ وَسِتِّینَ جُزْءً ا کُلُّہُنَّ مِثْلُ حَرِّہَا) [ رواہ البخاری : کتاب بدء الخلق، باب صفۃ النار] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں ایک دفعہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تمھاری دنیاکی آگ جہنم کی آگ کے سترویں درجے پر ہے۔ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا گیا آگ ہی کافی تھی۔ آپ نے فرمایا وہ اس سے انہتر درجے زیادہ تیز ہے اور ہر درجہ دوسرے سے زیادہ تیز ہے۔“ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ أُوقِدَ عَلَی النَّارِ أَلْفَ سَنَۃٍ حَتَّی احْمَرَّتْ ثُمَّ أُوقِدَ عَلَیْہَا أَلْفَ سَنَۃٍ حَتَّی ابْیَضَّتْ ثُمَّ أُوقِدَ عَلَیْہَا أَلْفَ سَنَۃٍ حَتَّی اسْوَدَّتْ فَہِیَ سَوْدَاءُ مُظْلِمَۃٌ) [ رواہ الترمذی : کتاب صفۃ جہنم] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ایک ہزار سال تک دوزخ کی آگ کو بھڑکا یا گیا حتیٰ کہ وہ سرخ ہوگئی پھر اس کو ایک ہزار سال تک بھڑکا یا گیا یہاں تک کہ وہ سفید ہوگئی پھر اس کو ایک ہزار سال تک بھڑکایا گیا حتیٰکہ وہ سیاہ ہوگئی اب اس کا رنگ سیاہ ہے۔“ (عَنْ أَبِی أُمَامَۃَ عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فِی قَوْلِہٖ وَیُسْقٰی مِنْ مَّاءٍ صَدِیدٍ یَتَجَرَّعُہٗ قَالَ یُقَرَّبُ إِلَیْہِ فَیَتَکَرَّہُہٗ فَإِذَا دَنَا مِنْہُ شُوِیَ وَجْہُہٗ وَوَقَعَتْ فَرْوَۃُ رَأْسِہٖ وَإِذَا شَرِبَہٗ قَطَّعَ أَمْعَاءَ ہٗ حَتَّی خَرَجَ مِنْ دُبُرِہٖ) [ رواہ احمد ] ” حضرت ابو امامہ (رض) بیان کرتے ہیں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جہنمیوں کو کھولتا ہوا پانی پلایا جائے گا وہ ان کو جلا دے گا۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا وہ ان کے قریب کیا جائے گا تو وہ اس کو نا پسند کرے گا جونہی وہ اس کے قریب ہوگا تو اس کا چہرہ جھلس جائے گا اور اس کے سر کے بال بھی گر جائیں گے اور جب وہ پیے گا تو اس کی آنتیں کٹ جائیں گی یہاں تک کہ وہ پانی اس کی پشت سے نکل جائے گا۔“ مسائل ١۔ اللہ کی رضا میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مومنوں کی رضا ہے۔ ٢۔ انسان کو ہمیشہ اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ ٣۔ اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مخالفت کرنے والے ہمیشہ جہنم میں رہیں گے۔ التوبہ
63 التوبہ
64 فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ منافقوں کا اپنے دل ہی دل میں خوف زدہ رہنا۔ منافق دوغلا ہوتا ہے دو غلاشخص اخلاقی لحاظ سے اندر سے کھوکھلا اور ضمیر کا چور ہوتا ہے کیونکہ وہ مختلف لوگوں سے ایک ہی بات مختلف مفہوم اور مذموم مقاصد کے لیے کرتا ہے۔ اس لیے اسے ہر وقت اس بات کا دھڑکا لگا رہتا ہے کہ اگر لوگوں کو میری بات کی اصلیت کا پتہ چل گیا تو میں ہر طرف سے ذلیل اور لوگوں کی نظروں میں حقیر ہوجاؤں گا۔ یہ خوف اسے ہر وقت بے چین رکھتا ہے۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے میں منافقین کی یہی حالت تھی وہ ہر وقت ڈرے اور سہمے رہتے تھے کہ نہ معلوم اللہ کے رسول پر کب وحی نازل ہوجائے جس میں ہماری سازشوں کو طشت ازبام کردیا جائے اور ہماری باتوں کی قلعی کھول دی جائے۔ بالخصوص غزوۂ تبوک کے موقع پر انھوں نے مسلمانوں کا یہ کہہ کر مذاق اڑایا کہ یہ ہیں وہ جیالے جو سلطنت روما کو فتح کرنے کے لیے نکلے ہیں۔ ایک کہتا کہ ہونا تو یہ چاہیے کہ کل رومی جرنیل اچھی طرح ان کے ہاتھ پاؤں میں بیڑیاں پہنائے۔ دوسرا کہنے لگا مزا تو یہ ہے کہ ہم اپنی آنکھوں سے ان کی پیٹھوں پر کوڑے برستے ہوئے دیکھیں۔ اسی طرح وہ قرآن مجید کی پیش گوئیوں اور نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشاد ات کو استہزا کا نشانہ بناتے۔ جب ان کی باتیں رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تک پہنچتیں اور آپ کبھی کبھار ان کی تفتیش کرتے تو یہ لوگ جھوٹا حلف دے کر کہتے کہ ہم تو دل لگی اور شغل کے طور پر باتیں کر رہے تھے۔ اس پر انھیں ڈانٹا گیا ہے کہ تم کس قدر ناعاقبت اندیش ہو کہ اللہ کی آیات اور اس کے رسول کے ساتھ مذاق کرتے ہو؟ جب تم سے پوچھا جاتا ہے تو مختلف قسم کے بہانے بنا کر معذرت کرتے ہو۔ اب تمھاری معذرتوں کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ تم ایمان کے دعویدار ہو کر کفر کا مسلسل ارتکاب کرر ہے ہو۔ یہ تو اللہ تعالیٰ کا کرم ہے کہ وہ تم سے درگزر کرتا ہے لیکن ان لوگوں کو ضرور عذاب دے گا جو سرغنہ ہیں۔ یہاں معاف کردینے کا اشارہ فرما کر چھوٹے منافقین کے لیے ایک دفعہ پھر معافی کا دروازہ کھلا رکھا گیا ہے تاکہ وہ اپنے کردار پر نظرثانی کرسکیں۔ حضرت عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے منافقوں میں ایک شخص کو دیکھا کہ وہ اللہ کے رسول کی سواری کے پیچھے اس حال میں دوڑ رہا تھا کہ اس کے پاؤں زخمی ہوچکے تھے اور وہ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے فریاد کر رہا تھا کہ جو باتیں آپ تک پہنچی ہیں ہم نے محض خوش طبعی اور دل لگی کے لیے کی تھیں لیکن رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کے جواب میں فقط اتنا فرمایا کہ کیا تم اللہ کی آیات اور اس کے رسول کے ساتھ مذاق کرتے ہو ؟ (رازی) مسائل ١۔ منافق اللہ کی ذات، اس کی آیات اور اس کے رسول کا مذاق اڑاتے تھے۔ ٢۔ اللہ اس کی آیات اور اس کے رسول کو مذاق کرنا کفر ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ نے منافقین کے ایک ایک سرغنہ کو دنیا میں ذلیل کیا اور قیامت کو منافقوں کے لیے اذیت ناک عذاب ہوگا۔ تفسیر بالقرآن منافق دین کو کھیل تماشہ سمجھتے ہیں : ١۔ اے ایمان والو ! اہل کتاب اور کفار کی طرح دین کو کھیل تماشہ نہ سمجھ۔ (المائدۃ: ٥٧) ٢۔ جب منافقوں کو نماز کے لیے بلایا جاتا تو اسے کھیل تماشہ سمجھتے ہیں۔ (المائدۃ: ٥٨) ٣۔ کافروں نے میری آیات اور میرے ڈرانے کو کھیل تماشہ سمجھ لیا۔ (الکہف : ٥٦) ٤۔ ان کافروں کی سزا جہنم ہے جنھوں نے میری آیات اور رسولوں کو مذاق سمجھا۔ (الکہف : ١٠٦) التوبہ
65 التوبہ
66 التوبہ
67 فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ منافق اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ مخلص نہیں ہوتے۔ لیکن وہ ایک دوسرے کے ساتھ ضرور مخلص ہوتے ہیں۔ کیونکہ ان کا عقیدہ اور مشن ایک ہوتا ہے۔ منافق مرد اور منافق عورتیں ایک دوسرے کے ساتھی ہوتے ہیں کیونکہ ان کا مشن برے کاموں کی تلقین اور ان کی حوصلہ افزائی کرنا، نیکی کے معاملات میں رکاوٹ ڈالنا اور دین کی راہ میں روڑے اٹکانا، مسلمانوں کے صدقہ و خیرات کے بارے میں حوصلہ شکنی کرنا اور خود کنجوسی اختیار کرنے کے ساتھ اللہ تعالیٰ اور اس کے احکام کو فراموش کردینا۔ منافقین کا مشغلہ ہوتا ہے۔ ان اعمال کا بالآخر نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو بھلا دیتا ہے اللہ تعالیٰ کے بھلا دینے سے یہ مراد نہیں کہ اس کا حافظہ بھول جاتا ہے۔ بلکہ اس سے مرادیہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کو اپنے فضل و کرم سے دور کردیتا ہے۔ تاکہ گناہ کرنے میں ان کی حسرت باقی نہ رہے۔ کیونکہ یہ لوگ اللہ اور اس کے رسول کے نافرمان ہیں، اللہ تعالیٰ کو منافق مردوں اور منافق عورتوں اور کفار پر اس قدر ناراضگی ہے کہ سزا سناتے ہوئے چار تاکیدی الفاظ استعمال کرکے فرمایا کہ ان کے ساتھ اللہ کا وعدہ ہے کہ انھیں جہنم میں ضرور پھینکے گا۔ ظاہر ہے اللہ تعالیٰ سے بڑھ کرکسی کا وعدہ سچا اور پکا نہیں ہوسکتا۔ ان کو اس میں ہمیشہ رہنا ہوگا۔ جہنم ان کے لیے کافی ہے۔ یعنی اس میں انھیں پوری پوری سزا دی جائے گی۔ ان پر اللہ تعالیٰ کی پھٹکار برستی رہے گی اور ان پر عذاب جہنم قائم دائم رہے گا جس میں کبھی تخفیف نہ ہوگی۔ ایک جیسے الفاظ میں منافقین اور کفار کی سزا ذکر فرما کر اشارہ دیا ہے کہ منافق بے شک تمام کام بظاہر مسلمانوں کی طرح کرتے اور اسلام کا نام لیتے ہیں لیکن عملاً یہ کافر ہیں۔ اس لیے آخرت میں انھیں اکٹھا جہنم میں داخل کیا جائے گا۔ برائی کی بنیاد قائم کرنے والے کی سزا : (عن عاءِشَۃَ (رض) قَالَتْ قَالَ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رَأَیْتُ جَہَنَّمَ یَحْطِمُ بَعْضُہَا بَعْضًا وَرَأَیْتُ عَمْرًا یَجُرُّ قُصْبَہٗ وَہْوَ أَوَّلُ مَنْ سَیَّبَ السَّوَاءِبَ) [ رواہ البخاری : کتاب تفسیر القران، باب ماجعل اللہ من بحیرۃ ولاسائبۃ] ” حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میں نے جہنم کو دیکھا اس کا ایک حصہ دوسرے کو کھا رہا تھا اور میں نے اس میں عمرو کو دیکھا جو اپنی چادر کو گھسیٹ رہا تھا اور وہ پہلا شخص تھا جس نے ” بحیرہ اور سائبہ“ کا رواج ڈالاتھا“ مسائل ١۔ منافق مرد، منافق عورتیں اور کفار ہمیشہ جہنم میں رہیں گے۔ ٢۔ ان پر مسلسل اللہ تعالیٰ کی پھٹکار برستی رہے گی۔ ٣۔ ان پر ہمیشہ عذاب قائم رہے گا۔ تفسیر بالقرآن منافقوں کا کردار اور انجام : ١۔ منافق اللہ کو دھوکہ دینے والے ہوتے ہیں۔ (النساء : ١٤٢) ٢۔ منافق جہنم کے سب سے نچلے درجے میں ہوں گے۔ (النساء : ١٤٥) ٣۔ اے نبی منافقین اور کفار کے ساتھ سختی سے جہاد کریں۔ (التوبۃ: ٧٣، التحریم : ٩) ٤۔ کفار اور منافقین کے ساتھ اللہ کا وعدہ جہنم کا ہے۔ (التوبۃ: ٦٨) التوبہ
68 التوبہ
69 فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ منافقین بھی پہلی قوموں کی طرح مغضوب ہیں جس طرح ان کے اعمال دنیا اور آخرت میں غارت ہوئے اسی طرح منافقین کے اعمال دنیا اور آخرت میں ضائع ہوں گے۔ جس طرح ان پر دنیا میں اللہ کا غضب ہوا۔ منافقوں پر بھی اللہ کا غضب ہوگا۔ عربی زبان میں ” ک“ کا حرف تشبیہ اور مانند کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔ یہاں منافقین کی مغضوب اور ملعون قوموں کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے جو مال و اسباب، اولاد اور افرادی قوت کے لحاظ سے بڑے کشادہ ہاتھ اور طاقت ور تھے۔ لیکن جب ان پر اللہ تعالیٰ کے عذاب کا کوڑا برسا تو ان کے مال واسباب اور اولاد انھیں کچھ فائدہ نہ دے سکے بلکہ وہ بھی ان کے ساتھ تباہی کے گھاٹ اتر گئے۔ اس اشارے اور تشبیہ کے بعد منافقین کو وارننگ دی گئی ہے کہ جو کچھ تمھیں دیا گیا ہے۔ تم بھی ان چیزوں سے فائدہ اٹھالو جس طرح مغضوب اور ملعون لوگوں نے اٹھایا تھا۔ لیکن یاد رکھو جس طرح ان پر غضب ہوا تم پر بھی اسی طرح غضب ہوگا۔” خَلَاقُ“ کا معنی ہے حصہ جس طرح انھوں نے اپنے حصہ سے فائدہ اٹھایا تمھارے لیے بھی جو حصہ عمر اور وسائل کے حوالے سے مقرر کیا گیا ہے فائدہ اٹھالو۔ اس میں یہ اشارہ کرنا مقصود ہے کہ انسان جس قدر باغی ہو اور جتنا چاہے دنیا میں بھاگ دوڑ کرلے وہ اللہ تعالیٰ کی مقررکی ہوئی حدود اور وسائل سے آگے نہیں بڑھ سکتا ہے۔ بھلاہے وہ انسان جو اس سے فائدہ اٹھا کر اپنی دنیا اور آخرت سنوارلے۔ لیکن منافق اور خدا کے نافرمان اس کی طرف توجہ نہیں دیتے۔ وہ دنیا کے عارضی وقار اور وسائل کی خاطر اپنے رب کی نافرمانی میں آگے ہی بڑھتے جاتے ہیں جیسا کہ ان سے پہلے لوگ دنیا طلبی میں بڑھتے ہی چلے گئے ان کے دنیا اور آخرت دونوں میں اعمال ضائع ہوئے اور وہ نقصان پانے والے بنے۔ اسی طرح ہی منافقوں کا حال ہوگا۔ (عَنْ سَہْلِ بْنِ سَعْدِ السَّاعِدِیِّ أَنَّ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)۔۔ قَالَ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)۔۔إِنَّ الرَّجُلَ لَیَعْمَلُ عَمَلَ أَہْلِ الْجَنَّۃِ فیمَا یَبْدُو للنَّاسِ وَہُوَ مِنْ أَہْلِ النَّارِ وَإِنَّ الرَّجُلَ لَیَعْمَلُ عَمَلَ أَہْلِ النَّار فیمَا یَبْدُو للنَّاسِ وَہُوَ مِنْ أَہْلِ الْجَنَّۃِ) [ رواہ البخاری : کتاب الجہاد والسیر، باب لایقول فلان شہید] ” حضرت سہل بن سعد ساعدی (رض) بیان کرتے ہیں رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بلاشبہ بندہ بعض اوقات اہل جنت کے اعمال سر انجام دیتا ہے لوگوں کے لیے بھی ایسے ظاہر ہوتا ہے حالانکہ وہ جہنم والوں میں سے ہوتا ہے اور بلاشبہ کوئی بندہ جہنمیوں والے کام کرتا ہے اور لوگوں کو بھی ایسے ہی نظر آتا ہے جبکہ وہ اہل جنت سے ہوتا ہے۔“ مسائل ١۔ اللہ کی پکڑ آنے پر منافق کو اس کی اولاد اور مال کچھ فائدہ نہیں دیتے۔ ٢۔ منافقین کے اعمال پہلی مغضوب قوموں کی طرح ضائع ہوں گے۔ ٣۔ منافقین دنیا اور آخرت میں نقصان اٹھائیں گے۔ تفسیر بالقرآن مغضوب قومیں مال اور اولاد میں زیادہ ہوتی ہے : ١۔ لوگوں کو مال اور اولاد کی کثرت نے ہلاک کردیا۔ (التکاثر : ١) ٢۔ کافروں نے کہا ہم مال و اولاد کے لحاظ سے زیادہ ہیں۔ (سبا : ٣٥) ٣۔ قوم عاد نے زمین میں تکبر کیا اور کہا کہ ہم سے طاقت میں کون زیادہ ہے۔ (حٰمٓ السجدۃ: ١٥) ٤۔ دنیا کی زندگی کھیل، تماشہ، زینت، مال و اولاد کی کثرت ہے۔ (الحدید : ٢٠) التوبہ
70 فہم القرآن ربط کلام : منافقین کو پہلے اشارے کی زبان سے مغضوب قوموں کے حوالے سے وارننگ دی گئی اور اب دو ٹوک الفاظ میں ہلاک ہونے والی قوموں کاذ کر ہوتا ہے۔ پہلی آیت میں عربی کے حرف ” ک کے ذریعے مغضوب قوموں کی طرف اشارہ کیا تھا۔ اب منافقین کو کھلی وارننگ دیتے ہوئے دو ٹوک الفاظ میں مغضوب اور ملعون قوموں کا ذکر کیا ہے تاکہ انھیں معلوم ہو کہ نوح (علیہ السلام) کی قوم کی طویل عمر اور عاد، ثمود، اہل مدین کے مال و اسباب اور ان کی افرادی قوت انھیں رب ذوالجلال کے عذاب سے نہیں بچا سکی تھی اور نہ ہی ابراہیم (علیہ السلام) کی قوم کو ان کی تہذیب و تمدن اور دنیوی ترقی اللہ کی گرفت سے محفوظ رکھ سکی حالانکہ ان کے پاس انبیاء عظام تشریف لائے اور انھوں نے اپنی اپنی قوم کی اصلاح اور فلاح کے لیے بے پناہ کوشش کی لیکن نافرمان اقوام نے انبیاء کے ساتھ ناروا سلوک کیا اور ان کی دعوت کو ٹھکرا یا جس کے نتیجے میں انھیں اللہ کے عذاب نے آلیا اور وہ اپنے سے بعد والی اقوام کے لیے نشان عبرت بن گئے انھوں نے اپنی ہلاکت و بربادی کا خود ہی سامان مہیا کیا جبکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان پر ذرہ برابر بھی زیادتی نہیں کی گئی۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے ساتھ زیادتی نہیں کرتا۔ (مَنْ عَمِلَ صَالِحًا فَلِنَفْسِہٖ وَمَنْ أَسَآءَ فَعَلَیْہَا وَمَا رَبُّکَ بِظَلَّامٍ لِلْعَبِیْدِ)[ حم السجدۃ: ٤٦] ” جس نے کوئی نیک عمل کیا اس کا فائدہ اسی کو ہوگا اور جو برائی کرے اس کا وبال اسی پر ہے اور آپ کا رب بندوں پر ظلم کرنے والا نہیں۔“ (قُلْ أَغَیْرَ اللّٰہِ أَبْغِیْ رَبًّا وَّہُوَ رَبُّ کُلِّ شَیْءٍ وَلاَ تَکْسِبُ کُلُّ نَفْسٍ إِلاَّ عَلَیْہَا وَلاَ تَزِرُ وَازِرَۃٌ وِزْرَ أُخْرٰی ثُمَّ إِلٰی رَبِّکُم مَّرْجِعُکُمْ فَیُنَبِّءُکُم بِمَا کُنتُمْ فیہِ تَخْتَلِفُونَ)[ الأنعام : ١٦٤] ” کہیں : کیا میں اللہ کے علاوہ دوسرا رب تلاش کروں حالانکہ وہ ہر چیز کا رب ہے اور جو کوئی برا کام کرے گا تو اس کا بار اسی پر ہوگا۔ کوئی شخص کسی کا بوجھ نہ اٹھائے گا پھر تمھیں اپنے رب کے ہاں لوٹنا ہے اور جن باتوں میں تم اختلاف کرتے ہو وہ تمھیں بتلا دے گا۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے پہلی اقوام کو ان کے ظلم کی وجہ سے تباہ کیا۔ ٢۔ لوگ اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں اللہ تعالیٰ کسی پر زیادتی نہیں کرتا۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ کسی پر ظلم نہیں کرتا : ١۔ اللہ تعالیٰ کسی پر ظلم نہیں کرتا مگر لوگ اپنی جانوں پر ظلم کرتے ہیں۔ (العنکبوت : ٤٠) ٢۔ اللہ تعالیٰ لوگوں پر ذرہ بھر بھی ظلم نہیں کرتا لیکن لوگ خود اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں۔ (یونس : ٤٤) ٣۔ اللہ نے کسی پر کوئی ظلم نہیں کیا لیکن وہ خود اپنی جانوں پر ظلم کرتے ہیں۔ (البقرۃ: ٥٧) ٤۔ اللہ تعالیٰ کسی پر ذرہ بھر ظلم نہیں کرتا۔ (النساء : ٤٠) ٥۔ اللہ نے ان پر کوئی ظلم نہیں کیا مگر خود انھوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا ہے۔ (الروم : ٩) ٦۔ اللہ تعالیٰ کا قول تبدیل نہیں ہوا کرتا اور نہ وہ اپنے بندوں پر ظلم فرماتا ہے۔ (قٓ: ٢٩) ٧۔ نیک اعمال کرنے والے کو اس کی نیکی کا صلہ ملے گا اور برے کو برائی کا اور تیرا رب ظلم کرنے والا نہیں ہے۔ (حٰم السجدۃ: ٤٦) ٨۔ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن ان میں حق کے ساتھ فیصلہ فرمائے گا اور کسی پر ظلم نہ ہوگا۔ (الزمر : ٦٩) ٩۔ قیامت کے دن ہر کوئی اپنا نامہ اعمال پڑھ لے گا اور کسی پر ظلم نہیں کیا جائیگا۔ (بنی اسرائیل : ٧١) التوبہ
71 فہم القرآن ربط کلام : منافقین کے بعد مومنین کا تذکرہ۔ ان کے اوصاف اور اجر وثواب کا بیان۔ پہلے پانچ پاروں کی تفسیر کے دوران دو تین مرتبہ عرض کیا ہے کہ قرآن مجید کا مستقل اسلوب ہے کہ وہ جنت اور جہنم کا ایک دوسرے کے ساتھ ذکر کرتا ہے تاکہ قاری تلاوت قرآن کرتے ہوئے ایک لمحہ میں فیصلہ کرسکے کہ اس نے دونوں میں سے کس کا انتخاب کرنا ہے۔ اسی طرح قرآن مجید کا یہ بھی طرز بیان ہے کہ وہ کفار اور منافقین کے بعد اکثر مقامات پر مومنوں کے اوصاف کا تذکرہ کرتا ہے تاکہ قرآن مجید پڑھنے والا موقعہ پر فیصلہ کرپائے کہ مجھے کون سا کردار اختیار کرنا چاہیے۔ اسی اصول کے پیش نظر منافقوں کے بعد مخلص مسلمانوں کا ذکر کیا جا رہا ہے کہ اگر منافق ایک دوسرے کے ساتھی ہیں تو ایمان والے بھی ایک دوسرے کے جانثار اور خیر خواہ ہیں۔ اسی بھائی چارے اور خیر خواہی کا نتیجہ ہے کہ وہ ایک دوسرے کو نیکی کی تلقین کرتے اور حکم دیتے ہیں اور برائی سے ایک دوسرے کو روکتے ہیں۔ نماز قائم کرنے، زکوٰۃ دینے کے ساتھ وہ اللہ اور اس کے رسول کی ہر حال میں اطاعت کرتے ہیں۔ ایسے خوش بخت لوگوں پر اللہ ضرور کرم فرمائے گا اللہ تعالیٰ ہر فیصلہ کرنے پر غالب اور اس کے ہر حکم اور کام میں حکمت پنہاں ہوتی ہے۔ آیت کے آخر میں عزیز کا لفظ استعمال فرما کر مسلمانوں کو تسلی دی ہے کہ ایک دوسرے کی خیر خواہی اور نیکی کے کاموں پر عمل کرتے رہو۔ اللہ تعالیٰ تمھیں ضرور غالب کرے گا۔ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ أَنَّ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ مَنْ دَعَا إِلَی ہُدًی کَانَ لَہٗ مِنْ الْأَجْرِ مِثْلُ أُجُورِ مَنْ تَبِعَہٗ لَا یَنْقُصُ ذَلِکَ مِنْ أُجُورِہِمْ شَیْءًا وَّمَنْ دَعَا إِلَی ضَلَالَۃٍ کَانَ عَلَیْہِ مِنَ الْإِثْمِ مِثْلُ آثَامِ مَنْ تَبِعَہٗ لَا یَنْقُصُ ذَلِکَ مِنْ آثَامِہِمْ شَیْءًا) [ رواہ مسلم : کتاب العلم، باب من سن سنۃ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں بلاشبہ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو کوئی کسی کو ہدایت کی طرف بلاتا ہے اس کے لیے اتنا ہی اجر ہوگا جتنا اس کی پیروی کرنے والوں کو ملے گا اور اس کے اجر سے کچھ بھی کم نہیں ہوگا اور جو کوئی گمراہی کی طرف بلائے اس کے لیے بھی اتنا ہی گناہ ہے جتنا اس کی پیروی کرنے والوں پر۔ اور مجرموں کے گناہوں سے کچھ کم نہیں ہوگا۔“ مسائل ١۔ مومن ایک دوسرے کے خیر خواہ ہوتے ہیں۔ ٢۔ مومن وہ ہے جو نیکی کا حکم دے اور برائی سے منع کرے۔ ٣۔ مومن کی صفت یہ ہے کہ وہ نماز کی پابندی اور زکوٰۃ کی ادائیگی کا اہتمام کرتا ہے۔ ٤۔ مومن ہر حال میں اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتا ہے۔ تفسیر بالقرآن مومنوں کے کردارکی ایک جھلک : ١۔ مومن ایک دوسرے کے دوست ہیں۔ نیکی کا حکم دیتے ہیں اور برائی سے روکتے ہیں۔ نماز قائم کرتے ہیں، زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے ہیں۔ (التوبۃ: ٧١) ٢۔ مومنوں کے سامنے جب اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے تو ان کے دل میں اللہ کا خوف پیدا ہوجاتا ہے اور جب اللہ کی آیات کی تلاوت کی جاتی ہے تو ان کے ایمان میں اضافہ ہوجاتا ہے اور مومن اپنے رب پہ توکل کرتے ہیں۔ (الانفال : ٢) ٣۔ مومن ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں۔ (الانفال : ٧٤) ٤۔ مومن نمازوں میں خشوع و خضوع اختیار کرتے ہیں۔ (المؤمنون : ١ تا ٢) ٥۔ مومن دنیا کے لاؤ لشکر کو دیکھ کر ڈرتے نہیں بلکہ وہ کہتے ہیں۔ اللہ اور اس کے رسول کا وعدہ سچا ہے۔ (الاحزاب : ٢٢) ٦۔ مومن اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاتے ہیں اور مشکلات و مصائب کی وجہ سے ایمان سے پھرتے نہیں۔ (الحجرات : ١٥) التوبہ
72 فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ مومنوں کا انجام اور ان کا صلہ۔ مومن مرد اور عورتوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا سچا اور پکا وعدہ ہے کہ انھیں ایسی جنت میں داخل فرمائے گا جس میں آبشاریں اور نہریں جاری ہوں گی وہ اس میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے اور ان کے لیے صاف ستھرے اور بہترین محلات ہوں گے۔ ان نعمتوں کے ساتھ انھیں اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی کا ہمیشہ کے لیے سر ٹیفکیٹ دیا جائے گا۔ یاد رکھیں کہ اللہ کی رضا تمام نعمتوں سے اعلیٰ اور بڑھ کر ہے یہی وہ عظیم کامیابی ہے۔ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)۔۔إِنَّ فِی الْجَنَّۃِ ماءَۃَ دَرَجَۃٍ أَعَدَّہَا اللّٰہُ لِلْمُجَاہِدِینَ فِی سَبِیل اللّٰہِ مَا بَیْنَ الدَّرَجَتَیْنِ کَمَا بَیْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ فَإِذَا سَأَلْتُمُ اللّٰہَ فَاسْأَلُوہُ الْفِرْدَوْسَ فَإِنَّہٗ أَوْسَطُ الْجَنَّۃِ وَأَعْلَی الْجَنَّۃِ أُرَاہُ فَوْقَہٗ عَرْشُ الرَّحْمَنِ وَمِنْہُ تَفَجَّرُ أَنْہَارُ الْجَنَّۃِ) [ رواہ البخاری : کتاب الجہاد والسیر، باب درجات المجاہدین فی سبیل اللہ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔۔ بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے جنت میں سودرجے مجاہدین کے لیے تیار کیے ہیں دو درجوں کے درمیان زمین و آسمان کے برابر فاصلہ ہے۔ جب تم اللہ تعالیٰ سے سوال کرو تو اس سے جنت الفردوس کا سوال کرو۔ بلاشبہ وہ وسط اور سب سے بلند جنت ہے میں نے دیکھا کہ اس کے اوپر اللہ تعالیٰ کا عرش ہے اور اس سے ہی جنت کی نہریں پھوٹتی ہیں۔“ (عَنْ أَبِی سَعِیدِ الْخُدْرِیِّ قَالَ قَال النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) إِنَّ اللّٰہَ یَقُولُ لِأَہْلِ الْجَنَّۃِ یَا أَہْلَ الْجَنَّۃِ فَیَقُولُونَ لَبَّیْکَ رَبَّنَا وَسَعْدَیْکَ وَالْخَیْرُ فِی یَدَیْکَ فَیَقُولُ ہَلْ رَضِیتُمْ فَیَقُولُونَ وَمَا لَنَا لَا نَرْضٰی یَا رَبِّ وَقَدْ أَعْطَیْتَنَا مَا لَمْ تُعْطِ أَحَدًا مِّنْ خَلْقِکَ فَیَقُولُ أَلَا أُعْطِیکُمْ أَفْضَلَ مِنْ ذٰلِکَ فَیَقُولُونَ یَا رَبِّ وَأَیُّ شَیْءٍ أَفْضَلُ مِنْ ذٰلِکَ فَیَقُولُ أُحِلُّ عَلَیْکُمْ رِضْوَانِی فَلَا أَسْخَطُ عَلَیْکُمْ بَعْدَہٗ أَبَدًا) [ رواہ البخاری : کتاب التوحید، باب کلام الرب مع أہل الجنۃ] ” حضرت ابو سعید خدری (رض) بیان کرتے ہیں نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بلاشبہ اللہ تعالیٰ اہل جنت سے فرمائے گا اے جنت والو ! وہ کہیں گے اے ہمارے رب! ہم حاضر ہیں اور تمام بھلائی آپ ہی کے پاس ہے۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کیا تم راضی ہو ؟ جنتی کہیں گے۔ ہمارے رب ہمیں کیا ہے کہ ہم راضی نہ ہوں اے اللہ تو نے ہمیں وہ کچھ دیا ہے جو تو نے اپنی مخلوق میں سے کسی کو بھی نہیں دیا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کیا میں تمھیں اس سے بہتر نہ عطاکروں ؟ وہ کہیں گے اے باری تعالیٰ اس سے کون سی چیز بہتر ہو سکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا میں نے تم پر اپنی رضا واجب کردی ہے آج کے بعد کبھی تم سے ناراض نہیں ہوں گا۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے مومن مردوں اور عورتوں کے ساتھ جنت کا وعدہ فرمایا ہے۔ ٢۔ مومنوں کے لیے جنت میں عمدہ رہائش گاہیں ہوں گی۔ ٣۔ مومن اللہ کی رضا کے مستحق ہیں۔ تفسیر بالقرآن مومنوں کے ساتھ اللہ کے وعدے : ١۔ اللہ تعالیٰ نے مومنوں کے ساتھ باغات، نہروں، اچھی رہائش گاہوں اور اپنی رضا مندی کا وعدہ فرمایا ہے۔ (التوبۃ: ٧٢) ٢۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے ساتھ ہمیشگی کی جنت کا وعدہ فرمایا ہے۔ (مریم : ٦١) ٣۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے مومن بندوں کے ساتھ زمین کی خلافت کا وعدہ فرمایا ہے۔ (النور : ٥٥) ٤۔ اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں کے ساتھ بخشش اور اجر عظیم کا وعدہ فرمایا ہے۔ (الفتح : ٢٩) التوبہ
73 فہم القرآن ربط کلام : منافقوں کو انتباہ کرنے کے بعد مومنوں کے اوصاف اور ان کے انعامات کا ذکر فرمایا۔ درمیان میں آٹھ آیات چھوڑ کر ایک سو دس آیات تک مسلسل منافقین کے کردار اور انجام کا ذکر ہوگا۔ مدینہ پہنچنے کے بعد نبی محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو منافقین کے ساتھ واسطہ پڑا آپ آٹھ سال مسلسل انھیں سمجھاتے اور معاف کرتے رہے۔ اس کے باوجود یہ باز نہ آئے یہاں تک کہ آپ تبوک سے کامیاب واپس آئے۔ لیکن ان بدفطرت لوگوں نے تبوک کے سفر میں بھی اپنی سازشیں جاری رکھیں۔ اس کے باوجود آپ درگزر سے کام لیتے رہے۔ بالآخر اللہ تعالیٰ کا حکم آن پہنچاکہ اب پانی سر سے گزر چکا ہے۔ لہٰذا منافقین سے سختی اختیار کیجیے۔ یہاں منافقین پر سختی سے یہ مراد نہیں کہ سماجی اور معاشرتی زندگی میں ان کے ساتھ بد اخلاقی یا کسی قسم کی زیادتی کی جائے۔ اسلامی معاشرے میں منافق اور مسلمان کے معاشرتی حقوق یکساں ہوتے ہیں۔ جس طرح مسلمان کی جان و مال اور عزت و آبرو محترم ہے اسی طرح ہی کافر اور منافق کی عزت و آبرو اور مال و جان محفوظ ہونے چاہییں۔ منافقین پر سختی کا حکم اسلام نے پہلے دن سے ہی جاری نہیں کردیا تھا بلکہ انھیں مسلسل آٹھ سال موقعہ دیا کہ اپنی اصلاح کرلیں بار بار معافی دینے کے باوجود یہ لوگ اپنی منافقت میں دلیر ہوتے چلے گئے ہر جنگ میں کفار کا ساتھ دیتے مکہ فتح ہونے کے بعد رومیوں کے ساتھ ساز باز کی۔ مسلمانوں کو جنگ میں شرکت اور جہاد کے لیے صدقہ کرنے سے روکا۔ رسول محترم اور مسلمانوں کو خاکم بدہن ذلیل کیا۔ ام المومنین حضرت عائشہ (رض) پر تہمت لگائی مسلمانوں کو آپس میں لڑانے کی کوششیں کیں گویا کہ ان کے جرائم کی فہرست دن بدن طول پکڑتی جارہی تھی لہٰذا اب وقت آن پہنچا تھا کہ منافقین پر سختی کی جائے اس سختی سے مراد یہ ہے کہ آئندہ ایسے لوگوں کے ساتھ ایسا وطیرہ اختیار کیا جائے کہ انھیں پوری طرح احساس ہو کہ مسلمان ہماری منافقت کو اچھی طرح سمجھ چکے ہیں۔ ظاہر ہے ایسی صورت میں کوئی مسلمان ان کے ساتھ ہم مشرب اور ہم مجلس ہونے کے لیے تیار نہیں تھا یہ لوگ مسلم معاشرے میں خود بخود اچھوت بن کررہ گئے۔ اخلاقی دنیا میں اس سے بڑھ کر کوئی سزا نہیں ہو سکتی آخرت میں ان کے لیے جہنم ہوگی جو مجرموں کیلئے بدترین ٹھکانہ ہے۔ دنیا میں اس سے بڑھ کر کیا ذلت ہو سکتی ہے کہ اللہ کے رسول نے غزوۂ تبوک سے واپس آکر منافقین کی بنائی ہوئی مسجد کو جسے اللہ تعالیٰ نے مسجد ضرار قرار دیا آگ لگا کر ختم کردیا تھا جس کی تفصیل اسی سورۃ کی، آیت : ١٠٨ میں ملاحظہ فرمائیں۔ (عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اٰےَۃُ الْمُنَافِقِ ثَلٰثٌ زَادَ مُسْلِمٌ وَاِنْ صَامَ وَصَلّٰی وَزَعَمَ اَنَّہُ مُسْلِمٌ ثُمَّ اتَّفَقَا اِذَا حَدَّثَ کَذَبَ وَاِذَا وَعَدَ اَخْلَفَ وَاِذَا اءْتُمَنَّ خَانَ۔ )[ مسلم] حضرت ابوہریرہ (رض) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان ذکر کرتے ہیں منافق کی تین نشانیاں ہیں۔ (بخاری اور مسلم نے اس پر اتفاق کیا ہے) کہ (١) جب وہ بات کرے تو جھوٹ بولتا ہے (٢) اور جب وعدہ کرے تو وعدہ خلافی کرتا ہے (٣) جب اسے امانت دی جائے تو خیانت کرتا ہے۔ مسلم نے ان الفاظ کا اضافہ کیا ہے ” چاہے روزے رکھتا اور نماز پڑھتا ہو اور اپنے آپ کو مسلمان سمجھتا ہو۔“ مسائل ١۔ کفار کے خلاف جہاد کرنا چاہیے۔ ٢۔ منافقین کے ساتھ بے رخی اختیار کرنا لازم ہے۔ ٣۔ کفار اور منافقین کا ٹھکانہ جہنم ہوگا۔ تفسیر بالقرآن منافق کا انجام : ١۔ اللہ تعالیٰ نے منافقین کے ساتھ جہاد کرنے اور ان پر سختی کرنے کا حکم دیا ہے۔ اور ان کا ٹھکانہ جہنم ہے۔ (التوبۃ: ٧٣) ٢۔ منافق کے لیے دردناک عذاب ہوگا۔ (البقرۃ: ١٠) ٣۔ منافق جہنم کے نچلے گڑھے میں ہوں گے اور ان کا کوئی مددگار نہیں ہوگا۔ (النساء : ١٤٥) ٤۔ منافق جہنم میں ہمیشہ رہیں گے اور ان پر اللہ تعالیٰ کی لعنت و پھٹکار پڑتی رہے گی۔ (التوبۃ: ٦٨) ٥۔ اللہ تعالیٰ کی نظروں میں منافق لعنتی ہیں۔ (الاحزاب : ٦١) ٦۔ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کفار اور منافقین کے ساتھ جہاد کریں اور ان پر سختی کریں ان کا ٹھکانہ جہنم ہے۔ ( التحریم : ) التوبہ
74 فہم القرآن ربط کلام : منافقین کی کذب بیانی، جھوٹی قسمیں اور احسان فراموشی۔ پہلے بھی عرض کیا ہے کہ منافق اپنی منافقت کی وجہ سے اخلاقی طور پر اندر سے کھوکھلا ہوتا ہے اور اسے اپنی بات پر قرار اور اعتماد نہیں ہوتا۔ اس کے جھوٹے پن کی وجہ سے لوگ بھی اس پر اعتماد نہیں کرتے۔ جس کی وجہ سے وہ اپنا اعتماد قائم کرنے کے لیے جھوٹی قسموں کا سہارا لیتا ہے۔ یہی صورت حال اللہ کے رسول کے دور میں منافقین کی تھی جب بھی ان کی منافقت کا پر دہ چاک ہوتا تو وہ اللہ کے عظیم اور پاک نام کو ڈھال کے طور پر استعمال کرتے۔ غزوۂ تبوک کے موقع پر انھوں نے کئی بار ایسا کیا۔ جس کے لیے انھیں کہا گیا ہے تم تو وہ لوگ ہو کہ اسلام قبول کرنے کے باوجود بار بار کفر کی حرکات اور باتیں کرتے ہو اس لیے اب تمھاری قسموں پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔ پھر تم وہ لوگ ہو کہ تم نے ایسے کام کا ارادہ کیا جس کو تم نہ کرسکے یہ اشارہ اس سازش کی طرف ہے جو غزوۂ تبوک سے واپسی پر دس منافقین نے اپنے چہروں پر کپڑے لپیٹ کر رات کے وقت سفر کے دوران اللہ کے رسول کو قتل کرنے کی سازش کی تھی جب آپ نے انھیں پہچان کر للکارا تو وہ لشکر میں گھس گئے آپ نے ان کے نام حضرت حذیفہ (رض) کو بتلاتے ہوئے فرمایا کہ راز رکھنا اور انھیں نظر انداز کردیا جائے۔ منافقین کی سازشیں اور شرارتیں اس لیے تھیں کہ اللہ اور اس کے رسول نے ان سے بار بار درگزر کیا۔ ان میں اکثر غریب اور کنگلے تھے مال غنیمت ملنے پر یہ دولت مند ہوئے جس کی وجہ سے یہ منافقت میں آگے ہی بڑھتے گئے۔ چاہیے تو یہ تھا کہ ان کو ان کی دولت سمیت زمین میں دھنسا دیا جاتا مگر اس کے باوجود اللہ تعالیٰ اپنی بے پناہ شفقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ سب کچھ کرنے کے باوجود اگر یہ لوگ اب بھی توبہ کرلیں تو ان کے لیے میری طرف سے خیر کے دروازے کھول دیے جائیں گے۔ اگر پھر بھی باز نہ آئیں تو اللہ تعالیٰ انھیں دنیا اور آخرت میں اذیت ناک عذاب میں مبتلا کرے گا اور ان کے لیے کوئی خیر خواہ اور مددگار نہیں ہوگا۔ مسائل ١۔ منافق اپنا نفاق چھپانے کے لیے جھوٹی قسموں کا سہارالیتے ہیں۔ ٢۔ منافق ظاہری طور پر ایمان لانے کے بعد کفر کرتے ہیں۔ ٣۔ منافقین نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو شھید کرنے کا منصوبہ بنایا جس میں وہ بری طرح ناکام ہوئے۔ ٤۔ منافق بھی سچے دل سے توبہ کرلے تو اس کی توبہ قبول ہوجاتی ہے۔ ٥۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت سے منہ موڑنے والوں کے لیے دنیا وآخرت میں دردناک عذاب ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ اور اس کے رسول سے منہ پھیرنے والوں کی سزا : ١۔ دنیا اور آخرت میں ان کے لیے دردناک عذاب ہوگا اور ان کا دنیا میں کوئی دوست اور مددگار نہیں ہوگا۔ (التوبۃ: ٧٤) ٢۔ اللہ اور اس کے رسول سے منہ پھیرنے والوں کو دوزخ میں داخل کیا جائے گا اور ان کے لیے رسوا کن عذاب ہوگا۔ (النساء : ١٤) ٣۔ اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کرنے والے جہنم میں ڈالے جائیں گے۔ (النساء : ١١٥) ٤۔ قیامت کے دن مجرم اپنے ہاتھوں کو کاٹیں گے۔ (الفرقان : ٢٧) ٥۔ اللہ اور اس کے رسول کے احکام سے منہ موڑنے والے فتنے اور عذاب الیم میں مبتلا ہوں گے۔ (النور : ٦٣) ٦۔ اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرنے والے ہمیشہ جہنم میں رہیں گے۔ (الجن : ٢٣) التوبہ
75 فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ منافقین کا صدقہ کرنے کے بارے میں فکر و عمل۔ عام طور پر انسانی فطرت ہے کہ جب آدمی عسر اور تنگدستی کی حالت میں ہوتا ہے تو اپنے رب کی بار گاہ میں بار بار التجا کرتا ہے کہ اگر مجھے تو نگری عطا کردی جائے تو میں شکر ادا کرتے ہوئے تیری راہ میں بےدریغ خرچ کروں گا۔ لیکن جب اللہ تعالیٰ کا فضل ہوجائے تو پھر انسان کو کئی قسم کی سوچیں لاحق ہوجاتی ہیں۔ وہ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کے بجائے یہ کہہ کر اپنی ضروریات بڑھاتا چلا جاتا ہے کہ اگر فلاں کام مکمل ہونے کے بعد میں ضرور رب کی راہ میں خرچ کروں گا۔ بالآخر وہ بخل کی زنجیر میں اس طرح جکڑا جاتا ہے کہ جس سے نکلنا اس کے لیے زندگی بھر مشکل ہوجاتا ہے۔ یہی صورتحال مدینہ کے منافقین کی تھی۔ غنائم ملنے اور خوش حال ہونے سے پہلے اپنی مجالس میں بیٹھے ہوئے کہا کرتے تھے کہ قتال میں حصہ لینا تو مشکل ہے البتہ جب ہمارا ہاتھ کشادہ ہوا تو ہم بھرپور طریقے سے مجاہدین کی مدد اور غرباء کے ساتھ تعاون کریں گے۔ لیکن جوں جوں ان کے پاس مال کی فراوانی ہوتی گئی وہ کنجوس سے کنجوس تر ہوتے چلے گئے۔ اسی کیفیت کو یہاں بیان کیا گیا ہے کہ ان میں بہت سے لوگ ایسے ہیں جو دل اور زبان کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے عہد کرتے رہے کہ اگر اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے نواز دے تو ہم اس کی راہ میں ضرور صدقہ کریں گے اور اس کے صالح بندوں میں شمار ہوں گے۔ لیکن جب اللہ تعالیٰ نے انھیں کشادگی سے نوازا اور رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے غنیمت کے مال سے انھیں مالا مال کردیا۔ خرچ کرنا تو درکنار وہ اپنی منافقت اور کنجوسی میں آگے ہی بڑھتے چلے گئے۔ اس آیت کی تفسیر میں حضرت ثعلبہ (رض) کا واقعہ بیان جاتا کیا ہے کہ یہ آیت ان کے بارے میں نازل ہوئی تھی۔ التوبہ
76 التوبہ
77 التوبہ
78 جو پہلے اس قدر غریب تھے کہ غربت اور تنگدستی کی وجہ سے زیادہ وقت مسجد نبوی میں بسر کرتے یہاں تک کہ لوگوں نے انھیں حمامۃ المسجد کا لقب دیا یعنی مسجد میں رہنے والی کبوتری۔ ایک دن وہ اللہ کے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں عرض کرنے لگے کہ مجھے اللہ تعالیٰ مال عنایت فرما دے تو میں بھی دوسرے لوگوں کی طرح دل کھول کر صدقہ کروں گا۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اے ثعلبہ ! مال ایک آزمائش ہے اس لیے اس طرح ہی گزر بسر کرتے رہو۔ لیکن اس نے اصرار کیا۔ بالآخر آپ نے اس کے حق میں دعا کی نتیجتاً اس کی بھیڑ بکریاں اور اونٹ اس قدر زیادہ ہوگئے کہ پہلے جماعت کے ساتھ نماز چھوٹی پھر جمعہ بھی مسجد نبوی میں پڑھنا مشکل ہوگیا۔ زکوٰۃ کا مہینہ آیا۔ اللہ کے رسول کے نمائندے زکوٰۃ کی وصولی کے لیے پہنچے تو کہنے لگا یہ ایک چٹی اور جرمانے کے سوا کچھ نہیں۔ عاملین نے رسول معظم کو رپورٹ پیش کی تو آپ نے فرمایا۔ ثعلبہ ہلاک ہوگیا۔ جب اسے آپ کے الفاظ پہنچے تو وہ زکوٰۃ کا مال لے کر حاضر ہوا لیکن آپ نے اس کی زکوٰۃ وصول کرنے سے انکار کردیا۔ اگلا سال آنے سے پہلے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وفات پا گئے۔ وہ اپنی زکوٰۃ خلیفہ اول کے پاس لایا۔ خلیفہ نے یہ کہہ کر زکوٰۃ کی وصولی سے انکار کیا کہ جس مال کو رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قبول نہیں کیا میں قبول کرنے والا کون ہوتا ہوں۔ حضرت ابو بکر صدیق (رض) کے بعد خلیفہ ثانی حضرت عمر (رض) نے بھی اس کی زکوٰۃ قبول نہ کی۔ صحیح تحقیق کے مطابق یہ واقعہ ثابت نہیں ہے کیونکہ حضرت ثعلبہ (رض) بدری صحابی ہیں جو نہایت مخلص اور سچے مسلمان تھے۔ اس لیے ان آیات کو منافقین پر ہی چسپاں کرنا چاہیے اور وہی ایسی حرکات کے مرتکب ہوتے تھے۔ جہاں تک ان کی زکوٰۃ قبول نہ کرنے کا معاملہ ہے وہ اس لیے ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے میں یہ اعلان کردیا ہے کہ ان کے دلوں میں ان کے مرنے تک نفاق گھر کرچکا ہے۔ اب انھیں توبہ نصیب نہیں ہوگی کیونکہ یہ اپنے رب سے بار بار عہد شکنی اور کذب بیانی کرنے والے ہیں۔ انھیں اس بات کی خبر ہونی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ جلوت و خلوت اور ان کی زندگی کے خفیہ رازوں سے پوری طرح واقف ہے۔ (عَنْ اَبِیْ سَعِیْدٍ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ لِکُلِّ غَادِرٍ لِوَآءٌ عِنْدَ اِسْتِہٖ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ۔ وَفِیْ رَوَایَۃٍ لِکُلِّ غَادِرٍ لِوَآءٌ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ یُرْفَعُ لَہٗ بِقَدَرِ غَدْرِہٖ اَ لَاوَلَا غَادِرَ اَعْظَمُ غَدْرًا مِّنْ اَمِیْرِ عَامَّۃٍ)[ رواہ مسلم] ” حضرت ابو سعید (رض) بیان کرتے ہیں نبی مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا قیامت کے دن ہر عہد شکن انسان کی دبر کے قریب جھنڈا ہوگا۔ ایک روایت میں ہے ہر عہد شکن کے لیے قیامت کے دن جھنڈا ہوگا‘ جو اس کی عہد شکنی کے مطابق بلند کیا جائے گا۔ خبردار! سربراہ مملکت سے بڑھ کر کسی کی عہد شکنی نہیں ہوتی۔“ مسائل ١۔ منافق اللہ تعالیٰ سے جھوٹے وعدے کرتا ہے۔ ٢۔ خوشحالی ہوتے ہی منافق اللہ تعالیٰ سے کیے وعدوں کو بھول جاتے ہیں۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ پوشیدہ باتوں کو بھی خوب جانتا ہے۔ ٤۔ غیب کا علم صرف اللہ تعالیٰ کے پاس ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ ظاہر اور پوشیدہ کو جانتا ہے : ١۔ کیا وہ نہیں جانتے کہ اللہ تعالیٰ ظاہر اور پوشیدہ کو جانتا ہے۔ (البقرۃ: ٧٧) ٢۔ اللہ تعالیٰ آسمانوں اور زمین کی ہر ظاہر اور پوشیدہ چیز کو جانتا ہے۔ (الانعام : ٣) ٣۔ کیا وہ نہیں جانتے کہ اللہ تعالیٰ ان کی پوشیدہ سرگرشیوں کو بھی جانتا ہے۔ (التوبۃ: ٧٨) ٤۔ اللہ تعالیٰ جانتا ہے جو تم چھپاتے اور جو تم ظاہر کرتے ہو۔ (النحل : ١٩) ٥۔ اچھی طرح ذہن نشین کرلو کہ اللہ تعالیٰ پوشیدہ اور آہستہ کہی ہوئی بات جانتا ہے۔ (طٰہٰ: ٧) ٦۔ اس کتاب کو نازل کرنے والی وہ ذات ہے جو آسمانوں و زمین کے پوشیدہ رازوں سے واقف ہے۔ (الفرقان : ٦) التوبہ
79 فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ منافقین نہ صرف خود زکوٰۃ ا ور صدقات نہیں دیتے بلکہ وہ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے والوں پر غلط الزام لگاتے اور ان کی نیت پر شک کرتے تھے ہیں۔ اس سورۃ مبارکہ میں غزوۂ تبوک کے حوالے سے منافقین کی بری عادات کو کھول کھول کر بیان کیا گیا ہے۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے کے بدبخت منافقوں کی حالت یہ تھی کہ نہ صرف اللہ کی راہ میں صدقہ کرنے سے خود پیچھے رہتے بلکہ اپنی برادری کے مخلص صحابہ کی دل شکنی بھی کرتے تھے۔ اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تبوک کے معرکہ کا ایک مہینہ پہلے سر عام اعلان فرمایا تھا۔ اور لوگوں کو چوکنا کیا کہ ہم پہلی دفعہ عرب کی سرحد سے باہر اور دنیا کی منظم ترین فوج کے ساتھ ٹکر لینے کے لیے جا رہے ہیں۔ اس لیے ہر قسم کی تیاری کے ساتھ دفاعی فنڈ میں دل کھول کر حصہ لیجیے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کوئی شخص ایسا نہیں تھا جس نے اپنی طاقت سے بڑھ کر دامے درمے حصہ نہ لیا ہو۔ یہاں تک کہ ایک صحابی جن کا نام ابو عقیل (رض) تھا اس نے رات بھر ایک یہودی کے ہاں مزدوری کی اور صبح اس کے بدلے ملنے والی تقریباً دو کلو کھجوریں لے کر اللہ کے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں پیش کیں۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے برکت کی دعا دی۔ یہ ماجرا دیکھ کر منافقین نے باہر جا کر آوازے کسے کہ اب تو ضرور سلطنت رومہ ان کے سامنے ٹھہر نہیں سکے گی۔ کیونکہ ان لوگوں نے صدقہ کے ڈھیر لگا دیے ہیں۔ اس طرح انھوں نے صحابہ کرام (رض) کی جنگی تیاریوں کا تمسخر اڑا دیا۔ اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے غیرت میں آکر فرمایا ہے کہ یہ مسلمانوں سے مذاق نہیں کرتے درحقیقت اللہ تعالیٰ نے انھیں تمسخر کا نشانہ بنایا ہے اور اس کے لیے اذیت ناک عذاب ہوگا۔ چنانچہ مسلمان جب تبوک سے کامیاب ہو کر واپس آئے تو منافقین ذلت اور شرمندگی کی وجہ سے منہ چھپاتے پھرتے تھے۔ اس طرح یہ لوگ پورے عرب کے سامنے ذلت کا نشان بن کر رہ گئے۔ (عَنْ أَبِی مَسْعُودٍ (رض) قَالَ أُمِرْنَا بالصَّدَقَۃِ قَالَ کُنَّا نُحَامِلُ قَالَ فَتَصَدَّقَ أَبُو عَقِیلٍ (رض) بِنِصْفِ صَاعٍ قَالَ وَجَاءَ إِنْسَانٌ بِشَیْءٍ أَکْثَرَ مِنْہُ فَقَالَ الْمُنَافِقُونَ إِنَّ اللّٰہَ لَغَنِیٌّ عَنْ صَدَقَۃِ ہَذَا وَمَا فَعَلَ ہَذَا الْآخَرُ إِلَّا رِیَاءً فَنَزَلَتْ الَّذِینَ یَلْمِزُونَ الْمُطَّوِّعِینَ مِنْ الْمُؤْمِنِینَ فِی الصَّدَقَاتِ وَالَّذِینَ لَا یَجِدُونَ إِلَّا جُہْدَہُمْ ) [ رواہ مسلم : کتاب الزکوٰۃ، باب الحمل باجرۃ تیصدق بھا] ” حضرت ابو مسعود انصاری (رض) فرماتے ہیں جب ہمیں صدقہ کا حکم دیا گیا ہم اس وقت مزدوری کیا کرتے اور اپنے کندھوں پر بوجھ اٹھایا کرتے تھے۔ ابو عقیل (رض) اس مزدوری سے آدھا صاع کھجور لے کر آئے تو منافق کہنے لگے ابو عقیل کی خیرات کی بھلا اللہ کو کیا پروا تھی عبدالرحمن بن عوف بہت سامال لائے تو منافق کہنے لگے کہ اس نے تو ریاکاری کے لیے بھاری مال خیرات کیا ہے اس وقت یہ آیت نازل ہوئی۔“ مسائل ١۔ منافق مومنوں کی نیت پر شک کرتے ہیں۔ ٢۔ منافق مومنوں کا مذاق اڑاتے ہیں۔ ٣۔ قیامت کے دن اللہ منافقوں سے مذاق کرے گا۔ ٤۔ منافقوں کے لیے درد ناک عذاب ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ اور اس کے رسول کو مذاق کرنے والوں کی سزا : ١۔ اللہ تعالیٰ نے منافقوں کو دردناک عذاب میں مبتلا کریں گے۔ (التوبۃ: ٧٩) ٢۔ اللہ تعالیٰ مذاق کرنے والوں کے لیے کافی ہے۔ (الحجر : ٩٥) ٣۔ اللہ تعالیٰ نے رسولوں کے ساتھ مذاق کرنے کی وجہ سے بہت سی قوموں کو ہلاک کردیا۔ (یٰسٓ: ٣١) ٤۔ اللہ تعالیٰ مذاق کرنے والوں کو ڈھیل دیتا رہا اور پھر انھیں عذاب میں مبتلا کردیا۔ (الرعد : ٣٢) ٥۔ اللہ کے رسولوں کے ساتھ مذاق کرنے والوں کو تمسخر کی سزا نے آگھیر ا۔ (الانعام : ١٠) ٦۔ اللہ تعالیٰ کی آیات اور اس کے رسولوں کا مذاق اڑانے والوں کی سزا جہنم ہے۔ (الکہف : ١٠٦) التوبہ
80 فہم القرآن ربط کلام : منافقین پر مزید سختی اور ان کی محرومیاں۔ اس خطاب کے آغاز میں رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم ہوا تھا کہ کفار کے خلاف جہاد کرو اور منافقین پر سختی کرو۔ اب حکم ہوتا ہے کہ یہ جو کچھ بھی کرلیں ان کے لیے بخشش کی دعا نہیں کرنا۔ اگر آپ ستر (٧٠) مرتبہ بھی ان کے لیے بخشش کی دعا کریں گے تو اللہ تعالیٰ ہرگز انھیں معاف نہیں کرے گا۔ کیونکہ یہ اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ کفر کرنے والے ہیں۔ ایسے نافرمانوں کو اللہ تعالیٰ ہدایت نہیں دیتا۔ اس قوم پر اللہ تعالیٰ کے غضب کی انتہا ہوجاتی ہے جس کے لیے اللہ کا رسول یہ بد دعا کرے کہ اے اللہ ایسے لوگوں کو ہدایت کی توفیق نہ دے۔ جس طرح نوح (علیہ السلام) نے اپنی قوم کے بارے میں عذاب کی بد دعا کرتے ہوئے کہا تھا کہ اے اللہ اب کفار کا ایک شخص بھی باقی نہیں رہنا چاہیے ان میں جو بھی پیدا ہوا وہ فاسق اور کافر ہی پیدا ہوگا۔ اسی طرح موسیٰ (علیہ السلام) نے آل فرعون کے لیے بد دعا کی۔ الٰہی ! ان کے مال تباہ اور دل سخت کر دے اور انھیں ایمان کی توفیق نہ دے یہاں تک کہ اذیت ناک عذاب آلے۔ ( یونس آیت : ٨٨) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمام انبیاء کرام (علیہ السلام) سے حوصلہ والے تھے۔ اس لیے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مدینہ میں نو سال تک منافقین کی ہرزہ سرائی اور اذیتیں برداشت کرتے رہے۔ منافق جب بھی آپ کی خدمت میں آکر کوئی بہانہ یا معذرت کرتے آپ اسے قبول فرماتے۔ لیکن اب وہ وقت آچکا تھا کہ ان پر ہمیشہ کے لیے معافی کا دروازہ بند کردیا جائے۔ چنانچہ آپ کو حکم ہوا کہ آپ ان کے لیے ایک نہیں ستر بار معافی طلب کریں اللہ تعالیٰ پھر بھی انھیں معاف نہیں کرے گا۔ یاد رہے اس زمانے میں عربوں کے ہاں کسی بات کی اہمیت اور اس کو بڑھا کر بیان کرنے کے لیے ستر کا عدد استعمال کیا جاتا تھا۔ تاکہ سننے والے کو بات کی اہمیت یا اس کی برائی کا احساس ہوجائے۔ اس آیت کی تفسیر میں امام رازی (رح) نے یہ واقعہ نقل کیا ہے کہ غزوۂ تبوک کے بعد منافقین جب پوری طرح بے نقاب ہوگئے تو ان کا سردار عبداللہ بن ابی نے اپنے گناہوں پر پردہ ڈالنے اور اپنے وقار کو بحال کرنے کے لیے نماز کے بعد کھڑا ہو کر اللہ کے رسول کی تعریف کرنے لگا۔ جس پر حضرت عمر (رض) نے اسے ڈانٹتے ہوئے فرمایا ” بیٹھ جاؤ“ ہمیں تیری حقیقت اچھی طرح معلوم ہوچکی ہے۔ یہ بڑ بڑاتا ہوا مسجد سے باہر نکلا جس پر اس کی برادری کے مخلص مسلمانوں نے اسے سمجھایا۔ برباد کیوں ہوتے ہوجا کر اللہ کے رسول سے معافی مانگو۔ اس پر چلا کر کہنے لگا کہ مجھے معافی اور کسی کی دعا کی ضرورت نہیں۔ اس پر اس آیت کریمہ کا نزول ہوا۔ مسائل ١۔ منافقین کے لیے دعا کرنا اور نہ کرنا برابر ہے۔ ٢۔ اللہ منافقین کو کبھی معاف نہیں کرے گا۔ ٣۔ منافق کے جرائم کی وجہ سے اسے ہدایت نصیب نہیں ہوتی۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ کن لوگوں کو معاف نہیں کرے گا : ١۔ اللہ تعالیٰ منافقین کو معاف نہیں کرے گا۔ (التوبۃ: ٨٠) ٢۔ اللہ تعالیٰ مشرک کو معاف نہیں کرے گا۔ (النساء : ٤٨) ٣۔ اللہ تعالیٰ مشرک کو معاف نہیں کرے گا۔ (النساء : ١١٦) ٤۔ اللہ تعالیٰ مرتد کو معاف نہیں کرے گا۔ (النساء : ١٣٧) ٥۔ اللہ تعالیٰ کفر اور ظلم کرنے والوں کو معاف نہیں کرے گا۔ (النساء : ١٦٨) ٦۔ اللہ تعالیٰ منافقین کو معاف نہیں کرے گا۔ (المنافقون : ٦) ٧۔ اگر آپ منافق کے لیے ستر بار بھی بخشش طلب کریں اللہ انہیں معاف نہیں کرے گا۔ (التوبہ : ٨٠) ٨۔ آپ منافقوں کے لیے بخشش طلب کریں یا نہ کریں اللہ انہیں معاف نہیں کرئے گا۔ ( المنافقوں : ٦) التوبہ
81 فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ منافقین کے لیے بخشش کی دعا کرنا اس لیے بھی جائز نہیں یہ خود جان بوجھ کر جہاد سے پیچھے رہنے والے اور لوگوں کو جہاد سے بددل کرنے والے ہیں۔ مُخَلّفَ کی جمع مُخَلَّفُوْنَ ہے جس کا معنی ہے وہ لوگ جنھیں ان کے عذربہانوں اور شرارتوں کی وجہ سے پیچھے چھوڑ دیا گیا۔ منافقین کی کوشش ہوتی تھی کہ وہ کوئی نہ کوئی بہانہ بنا کر جہاد کے لیے نکلنے کے بجائے اپنے گھروں میں بیٹھے رہیں بظاہر تو وہ اپنے آپ میں خوش ہوتے کہ ہم نے پیچھے رہنے کی باضابطہ اجازت لی ہے لیکن حقیقت یہ تھی کہ اللہ کے رسول جانتے تھے کہ یہ لوگ جھوٹے بہانے اور خود ساختہ مجبوریاں پیش کرکے جہاد سے پیچھے رہنا چاہتے ہیں اس لیے آپ انھیں بیٹھ رہنے کی اجازت دیتے تاکہ ان کی شرارتوں سے اسلامی لشکر مامون ہوجائے اور دوسری طرف لوگوں کے سامنے یہ بات آشکار ہوجائے کہ یہ لوگ اسلام کے بارے میں مخلص نہیں ہیں اس کے باوجود مال غنیمت کے لالچ اور مسلمانوں کی مخبری کرنے کے لیے کچھ منافق شریک جہاد ہوجایا کرتے تھے۔ یہاں پیچھے رہنے والوں کے لیے مُخَلَّفُوْنَ کا لفظ استعمال فرما کر واضح کیا گیا ہے کہ ان کو ان کی شرارت اور بدنیتی کی وجہ سے پیچھے چھوڑ دیا گیا ہے کیونکہ انھوں نے اپنے مال اور جان کے ساتھ اللہ کی راہ میں جہاد کرنے کو ناپسند کیا اور لوگوں کو یہ کہہ کر ڈرایا کہ تبوک کا سفر طویل ہے اور شدید گرمی پڑ رہی ہے۔ جہاد کے لیے نکلنا گویا کہ اپنے آپ کو موت کے منہ میں دھکیلنا ہے۔ اس پر انھیں بتلایا گیا کہ تم دنیا کی گرمی کا بہانہ بناتے ہو ذرا اپنے مستقبل کی طرف جھانکو اور وہ وقت یاد کرو کہ جب جہنم میں تمھیں جھونکا جائے گا اس کی آگ کتنی شدید تر ہوگی کاش تم لوگ سمجھ جاؤ۔ منافق غزوۂ تبوک کی طرف نکلنے والے مسلمانوں کو یہ کہہ کر مذاق اڑاتے کہ یہ ہیں سلطنت رومہ کے فاتح جو اسے فتح کرنے کے لیے نکل رہے ہیں۔ اس پر منافقوں کو سمجھایا گیا کہ ہنسو تھوڑا اور روؤ زیادہ جو کچھ کر رہے ہو اس کی سزا پاؤ گے کیونکہ دنیا کی خوشیاں آخرت کے مقابلے میں نہایت قلیل ہیں اور جو لوگ کفر و شرک اور منافقت کی حالت میں مریں گے ان کے لیے جہنم میں رونا ہی رونا ہوگا۔ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ أُوقِدَ عَلَی النَّارِ أَلْفَ سَنَۃٍ حَتَّی احْمَرَّتْ ثُمَّ أُوقِدَ عَلَیْہَا أَلْفَ سَنَۃٍ حَتَّی ابْیَضَّتْ ثُمَّ أُوقِدَ عَلَیْہَا أَلْفَ سَنَۃٍ حَتَّی اسْوَدَّتْ فَہِیَ سَوْدَاءُ مُظْلِمَۃٌ) [ رواہ الترمذی : کتاب صفۃ جہنم] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ایک ہزار سال تک دوزخ کی آگ کو بھڑکایا گیا یہاں تک کہ وہ سرخ ہوگئی پھر اس کو ایک ہزار سال تک بھڑکا یا گیا حتیٰ کہ وہ سفید ہوگئی پھر اس کو ایک ہزار سال تک بھڑکایا گیا حتیٰ کہ وہ سیاہ ہوگئی اب وہ سیاہ ہے۔“ ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں بلاشبہ رسول مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تمہاری دنیاوی آگ جہنم کی آگ کے سترویں درجے کی ہے۔ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کی گئی یہ ہی کافی تھی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا وہ اس سے انہتر درجے زیادہ سخت ہے اور ہر درجہ دوسرے سے زیادہ تیزتر ہے۔“ [ رواہ البخاری : کتاب بدء الخلق] مسائل ١۔ منافق کی منافقت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ پسند نہیں کرتا کہ یہ اس کی راہ میں جہاد کرے۔ ٢۔ منافقوں کو پیچھے چھوڑ دینا چاہیے۔ ٣۔ جہنم کی آگ دنیا کی آگ سے انہتر گنا زیادہ ہے۔ ٤۔ انسان کو تھوڑا ہنسنا اور اللہ کے حضور زیادہ رونا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن جہنم کی آگ کی کیفیت : ١۔ جہنم کا ایندھن لوگ اور پتھر ہوں گے۔ (البقرۃ: ٢٤) ٢۔ جہنم کی آگ بہت زیادہ گرم ہوگی۔ (التوبۃ: ٨١) ٣۔ مجرم لوگ جہنم کے گرجنے برسنے کی آوازیں سنیں گے۔ (الفرقان : ١٢) ٤۔ جہنم بھرنے کا نام نہیں لے گی۔ (ق : ٣٠) ٥۔ جہنم کا ایندھن لوگ اور پتھر ہوں گے اور اس پر سخت گیر فرشتوں کی ڈیوٹی لگائی گئی ہے۔ (التحریم : ٦) ٦۔ مجرموں کو جب جہنم میں ڈالا جائے گا تو وہ اس کی گرج دار آواز سنیں گے۔ (الملک : ٧) ٧۔ جہنم سے بڑے بڑے محلات کے برابر شعلے اٹھیں گے۔ ( المرسلٰت : ٣٢) التوبہ
82 التوبہ
83 فہم القرآن ربط کلام : منافقوں کا ذکر جاری ہے۔ منافقین کو چھوڑجانے کی وجہ یہ بھی تھی کیونکہ وہ خود جھوٹے بہانوں کی وجہ سے جہاد سے پیچھے رہنا چاہتے تھے۔ معلوم ہوتا ہے کہ یہ آیت مبارکہ غزوۂ تبوک کے سفر کے دوران نازل ہوئی جس میں ایک طرف رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ خوشخبری سنائی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو کامیاب اور بامراد مدینہ واپس لائے گا اور دوسری طرف یہ ہدایت کی گئی جب آپ مدینہ تشریف لائیں تو منافقین کا ایک گروہ آپ کی خدمت میں آ کریہ کہے گا آئندہ ہمیں بھی ضرور اپنے ساتھ جہاد کے لیے لے جائیے صرف یہ ثابت کرنے کے لیے کہ تبوک کے محاذ سے حقیقی مجبوری کی وجہ سے ہم پیچھے رہے ہیں ورنہ ہم جہاد سے جی کترانے والے نہیں تھے۔ اس موقعہ پر آپ انھیں یہ جواب دیں کہ تم ایسے لوگ ہو کہ ہرگز ہمارے ساتھ نہیں نکل سکتے اور نہ ہی دشمن کے خلاف تم برسرپیکار ہونے کے لیے تیار ہو۔ زبانی جمع خرچ کے سوا تم کسی کام کے لیے تیار نہیں ہوتے کیونکہ ابتدا ہی سے میدان کارزار سے پیچھے رہنا بچوں، عورتوں اور معذور لوگوں کے ساتھ بیٹھے رہنا تمھاری خواہش اور عادت ہے۔ خالفین کا لفظ بول کر منافقین کو ایک طرح عار دلائی گئی ہے کہ تم صحت مند، مال دار اور ایمان کے بلند بانگ دعوے کرنے کے باوجود معذوروں اور عورتوں کے ساتھ بیٹھے رہنا پسند کرتے ہو جو ایک غیور اور مخلص مسلمان کو زیب نہیں دیتا۔ اس فرمان کا دوسرا مقصد یہ ہے کہ اب کبھی تمھیں شریک جہاد نہیں کیا جائے گا۔ اس اعلان سے یہ بات بھی واضح ہو رہی ہے کہ غزوۂ تبوک کے بعد اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اب کوئی بڑا معرکہ درپیش نہیں ہوگا کیونکہ تبوک کی طرف آپ کی پیش قدمی نے دنیا پر رعب اور دبدبہ طاری کردیا تھا۔ اسی بناء پر آپ کا ارشاد ہے : (عَنْ أَبِی ذَرٍّ (رض) قَالَ قَالَ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) أُعْطِیتُ خَمْسًا لَمْ یُعْطَہُنَّ أَحَدٌ قَبْلِی بُعِثْتُ إِلَی الْأَحْمَرِ وَالْأَسْوَدِ وَجُعِلَتْ لِیَ الْأَرْضُ طَہُورًا وَّمَسْجِدًا وَّأُحِلَّتْ لِیَ الْغَنَاءِمُ وَلَمْ تَحِلَّ لِأَحَدٍ قَبْلِی وَنُصِرْتُ بالرُّعْبِ فَیُرْعَبُ الْعَدُوُّ وَہُوَ مِنِّی مَسِیرَۃَ شَہْرٍ وَقِیلَ لِی سَلْ تُعْطَہْ وَاخْتَبَأْتُ دَعْوَتِی شَفَاعَۃً لِأُمَّتِی فَہِیَ نَاءِلَۃٌ مِنْکُمْ إِنْ شَاء اللّٰہُ تَعَالَی مَنْ لَمْ یُشْرِکْ باللّٰہِ شَیْءًا)[ مسند احمد] حضرت ابوذر (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ مجھے پانچ ایسی چیزیں عنایت کی گئی ہیں جو مجھ سے پہلے کسی نبی کو عطا نہیں ہوئیں۔ ١۔ مجھے اللہ تعالیٰ نے ہر کالے اور گورے کے لیے رسول بنایا ہے۔ ٢۔ میرے لیے ساری زمین مسجد بنادی گئی ہے۔ ٣۔ میرے لیے مال غنیمت حلال کیا گیا ہے جبکہ مجھ سے پہلے کسی رسول کے لیے حلال نہیں تھا۔ ٤۔ ایک مہینہ کی مسافت پر ہونے کے باوجود دشمن مجھ سے لرزاں رہتا ہے۔ ٥۔ مجھے قیامت کے دن سب سے پہلے شفاعت کا حق دیا جائے گا۔ مسائل ١۔ منافق جہاد سے بچنے کے لیے جھوٹے بہانے تلاش کرتا ہے۔ ٢۔ منافق کو بار بار موقع دینے کے بعد ہمیشہ کے لیے مسترد کردینا چاہیے۔ ٣۔ منافق کبھی میدان کارزار کے لیے نکلنا پسند نہیں کرتا۔ ٤۔ منافق عورتوں اور معذوروں کی طرح جہاد سے پیچھے بیٹھے رہنا پسند کرتا ہے۔ التوبہ
84 فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ دنیا میں منافق کے لیے آخری سزا۔ منافقین کو بار بار موقع دینے اور پے درپے آزمانے کے بعد مرحلہ وار سخت احکامات جاری ہوئے۔ اسی سورۃ کی آیت ٧٣ میں حکم ہوا کہ منافقین پر سختی کا وقت آگیا ہے۔ لہٰذا ان کے ساتھ سخت رویہ اختیار کیجیے۔ پھر آیت ٨٠ میں ارشاد ہوا کہ ان کے لیے دعائے مغفرت سے اجتناب فرمائیں بالفرض آپ ٧٠ مرتبہ بھی بخشش کی دعا کریں گے تو اللہ تعالیٰ انھیں ہرگز معاف نہیں کرے گا۔ ان کی نماز جنازہ سے روکنے سے پہلے فرمایا کہ اب ہمیشہ کے لیے انھیں شرکت جہاد سے روک دیجیے کیونکہ یہ کبھی مخلص ہو کر ساتھ دینے کے لیے تیار نہیں ہوں گے۔ اب آخری حکم صادر ہوتا ہے کہ اے نبی ! اگر منافقین میں سے کوئی مر جائے تو نہ اس کا جنازہ پڑھنا اور نہ ہی اس کی قبر پر تشریف لے جانا کیونکہ یہ اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ کفر کرنے والے اور اسی حالت میں مرنے والے ہیں۔ یہاں فسق سے مراد بھی کفر ہے اس آیت کا شان نزول یہ ہے کہ جب منافقین کا سردار عبداللہ بن ابی ابن سلول مرا تو اس کے بیٹے جن کا نام بھی عبداللہ (رض) تھا جو نہایت ہی مخلص، اسلام کے بارے میں خوددار، اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ دل کی اتھاہ گہرائیوں کے ساتھ محبت کرنے والا تھا۔ اس نے آکر عرض کی کہ اللہ کے رسول میرے باپ کے بارے میں آپ کو سب کچھ معلوم ہے اس کے باوجود آپ سے درخواست ہے کہ آپ اس کا جنازہ پڑھائیں۔ ممکن ہے اللہ تعالیٰ اس سے درگزر فرمائے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فطری طور پر نہایت ہی مہربان اور درگزر کرنے والے تھے۔ آپ نے فرمایا جب جنازہ تیار ہو تو مجھے اطلاع کرنا۔ آپ جنازہ پڑھنے کے لیے نکلے تو حضرت عمر (رض) نے عرض کی کہ اے اللہ کے نبی اس ظالم کا جنازہ نہیں پڑھنا چاہیے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے منافقین کے بارے میں فرمایا ہے کہ انھیں ہرگز معاف نہیں کیا جائے گا اس کے جواب میں رحمت عالم نے فرمایا کہ مجھے اس فرمان میں اللہ تعالیٰ نے اختیار دیا ہے کہ اگر میں چاہوں تو ان کے لیے بخشش کی دعا کرسکتا ہوں۔ لہٰذا میں ستر مرتبہ سے زائد بھی اس کے لیے دعا کرنے کے لیے تیارہوں۔ چنانچہ آپ نے جنازہ پڑھا اور اسے دفناتے ہوئے اس کے منہ میں اپنا لعاب مبارک ڈالا اور اپنا مبارک کرتہ اس کی لاش کے اوپر رکھا مفسرین نے لکھا ہے کہ آپ نے دو وجہ سے اس کے جسم پر اپنا کرتہ ڈالا تھا۔ ایک تو اس خواہش کے ساتھ کہ شاید اللہ تعالیٰ اسے معاف فرما دے اور دوسری وجہ یہ تھی کہ غزوۂ احد کے موقع پر حضرت عباس (رض) قیدیوں میں شامل تھے افراتفری میں ان کا کرتا پھٹ گیا جس کے لیے عبداللہ بن ابی ابن سلول نے اپنا کرتہ دیا تھا آپ نے اسی احسان کا بدلہ چکایا تھا۔ بعض مفسرین نے لکھا کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس موقع پر فرمایا تھا کہ میرے جنازہ پڑھنے کی وجہ سے اسے کچھ فائدہ نہیں پہنچے گا لیکن ایک ہزار منافق مسلمان ہوجائیں گے۔ چنانچہ ایسا ہوا لیکن مجھے اس روایت کا کوئی ٹھوس ثبوت نہیں ملا بہر صورت جب آپ جنازہ پڑھا کر واپس تشریف لائے تو یہ حکم صادر ہوا کہ آئندہ آپ کو کسی منافق کا جنازہ پڑھنے اور اس کی قبر پر کھڑا ہونے کی اجازت نہیں۔ ” حضرت عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں جب عبداللہ بن ابی فوت ہوا اس کا بیٹا عبداللہ بن عبداللہ بن ابی رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اس نے آپ سے قمیص کا مطالبہ کیا کہ اس میں اس کے والد کو کفن دیا جائے۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے قمیص عنایت کردی۔ پھر اس نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نماز جنازہ پڑھانے کی درخواست کی۔ جب رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نماز جنازہ کے لیے کھڑے ہوئے تو حضرت عمر (رض) نے رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے کپڑے کو پکڑکرعرض کی اے اللہ کے رسول! کیا آپ اس کی نماز جنازہ پڑھائیں گے جبکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو منع کیا ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے مجھے اختیار دیا ہے کہ آپ ان کے لیے استغفار کریں یا نہ کریں اگر آپ ان کے لیے ستر مرتبہ استغفار کریں میں ستر مرتبہ سے بھی زیادہ استغفار کروں گا۔ حضرت عمر (رض) نے کہا یہ تو منافق ہے۔ پھر رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کی نماز پڑھائی۔ تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت مبارکہ نازل فرمائی ” آپ منافقوں میں سے کسی پر بھی نماز نہ پڑھائیں اور نہ ہی اس کی قبر پر کھڑے ہوں۔“ [ رواہ البخاری : کتاب تفسیر القرآن ] (إِنَّ الْمُنَافِقِیْنَ فِی الدَّرْکِ الأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ وَلَنْ تَجِدَ لَہُمْ نَصِیْرًا)[ النساء : ١٤٥] ” بلاشبہ یہ منافق جہنم کے سب سے نچلے طبقہ میں ہوں گے اور آپ ان کا کوئی مددگار نہ پائیں گے۔“ مسائل ١۔ منافق اور بد عقیدہ شخص کی نماز جنازہ پڑھنا جائز نہیں۔ ٢۔ منافق بظاہر کلمہ پڑھنے کے باوجود اللہ اور اس کے رسول کا منکر ہوتا ہے۔ تفسیر بالقرآن مشرک اور منافق کے لیے دعا کرنا جائز نہیں : ١۔ اللہ تعالیٰ نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو منافقین کی نماز جنازہ اور ان کی قبر پر کھڑے ہونے سے منع فرمایا۔ (التوبۃ: ٨٤) ٢۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مومنوں کے لیے جائز نہیں کہ وہ مشرکوں کے لیے دعا کریں۔ (التوبۃ: ١١٣) ٣۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اپنے والد کے لیے وعدے کے مطابق دعا کرتے رہے۔ ٤۔ جب معلوم ہوا کہ یہ اللہ کا دشمن ہے تو پھر دعا نہیں کی۔ (التوبۃ: ١١٤) التوبہ
85 فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ منافق کے انجام میں اس کے مال اور اولاد کا کردار۔ منافقین کے مال اور اولاد پر تعجب نہ کرنے کا حکم اس سورۃ میں دوسری مرتبہ نازل ہوا ہے چند الفاظ کے اضافے کے ساتھ یہ حکم آیت ٥٥ میں گزر چکا ہے اب پھر قریب، قریب انھی الفاظ کے ساتھ حکم ہوتا ہے کہ اے نبی ! منافقین کے مال و اسباب اور ان کی اولاد پر تعجب نہیں کرنا چاہیے۔ ان کی مسلسل نافرمانیوں اور دائمی منافقت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ انھیں ان کے مال اور اولاد کے ساتھ دنیا میں سزا دے اور کفر کی حالت میں ہی ان کی جانیں نکل جائیں۔ یہ بات پہلے عرض ہوئی ہے کہ منافقین کے اکثر لوگ مال اور اولاد کے حوالے سے بہت سے مسلمانوں سے آگے تھے۔ لیکن انھوں نے اپنے مال سے آخرت کمانے کی بجائے جہنم خریدنا بہتر جانا۔ جہاں تک ان کی اولاد کا تعلق ہے چند کے سوا باقی اپنے بڑوں کی روش اختیار کیے ہوئے تھی۔ جن منافقوں کے بیٹے مخلص مسلمان تھے۔ ان کے باپ اپنے بیٹوں کے اخلاص پر نہایت پریشان رہتے اور انھیں اللہ کے رسول کی رفاقت اور جہاد فی سبیل اللہ سے روکتے۔ اس صورت حال کو وہ اپنے لیے ذلت سمجھتے تھے۔ گویا کہ دنیا اور آخرت میں ان کے مال اور اولاد عذاب کا باعث ثابت ہوئے۔ مسائل ١۔ محض دنیاوی مال ومتاع پر اکتفا کرنے کے بجائے آخرت کی تیاری کرنی چاہیے۔ ٢۔ منافقین کے لیے دنیاوی مال عذاب کا سبب ہے۔ ٣۔ کافرومنافق مال واولاد کے فتنے میں مبتلا رہتے ہیں۔ التوبہ
86 فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ کی آیات کے ساتھ منافقین کا رویہ۔ منافقین کی حالت یہ تھی کہ جب بھی کوئی آیت یا سورۃ نازل ہوتی جس میں اللہ تعالیٰ پر مخلصانہ ایمان لانے کی دعوت اور رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ جہاد کرنے کا حکم دیا جاتا تو یہ لوگ اس کے ساتھ سراسر انحراف کرتے اور نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آکر مختلف بہانے بنا کر کہتے کہ ہمیں بیٹھ رہنے والوں کے ساتھ ہی بیٹھ رہنے کی اجازت دیجیے حالانکہ ان میں ایسے لوگ بھی تھے جن کے پاس کوئی نام نہاد عذر بھی نہیں تھا کیونکہ وہ صحت مند اور وسائل رکھنے والے تھے۔ دراصل یہ اس بات پر خوش تھے کہ انھیں جہاد سے پیچھے رہنے والوں کے ساتھ چھوڑ دیا جائے گویا کہ وہ ہر حال میں جہاد سے پیچھے رہنا پسند کرتے تھے۔ ان کی اس روش اور منافقت کی وجہ سے ان کے دلوں پر مہر لگا دی گئی جس کی وجہ سے ایمان خالص اور جہاد کی عظمت کو سمجھنے سے قاصر ہوئے۔ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ أَنَّ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ إِنَّ الْمُؤْمِنَ إِذَا أَذْنَبَ کَانَتْ نُکْتَۃٌ سَوْدَاءُ فِی قَلْبِہٖ فَإِنْ تَابَ وَنَزَعَ وَاسْتَغْفَرَ صُقِلَ قَلْبُہٗ فَإِنْ زَادَ زَادَتْ فَذَلِکَ الرَّانُ الَّذِی ذَکَرَہُ اللّٰہُ فِی کِتَابِہٖ کَلَّا بَلْ رَانَ عَلٰی قُلُوبِہِمْ مَا کَانُوا یَکْسِبُونَ) [ رواہ ابن ماجۃ: کتاب الزہد، باب ذکر الذنوب] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں بلاشبہ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب مومن کوئی گناہ کرتا ہے تو اس کے دل پر ایک سیاہ نکتہ لگا دیا جاتا ہے اگر وہ توبہ کرتا ہے اس گناہ کو چھوڑ کر بخشش طلب کرتا ہے اس کا دل صاف کردیا جاتا ہے اگر وہ گناہ زیادہ کرتا ہے وہ نکتہ بھی بڑھا دیا جاتا ہے یہ وہی زنگ ہے جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں کیا ہے۔ خبر دار وہ زنگ ہے جو ان کے دلوں پر ہے اس وجہ سے جو وہ اعمال کرتے تھے۔“ (کَلَّا بَلْ رَانَ عَلٰی قُلُوبِہِمْ مَا کَانُوا یَکْسِبُونَ )[ المطففین : ١٤] ” ہرگز یہ بات نہیں بلکہ ان لوگوں کے دلوں پر انکے برے اعمال کا زنگ لگ گیا ہے۔“ مسائل ١۔ منافق بلا عذر جہاد سے پیچھے رہتا ہے۔ ٢۔ منافق کے دل پر گمراہی کی مہر لگ جاتی ہے جس کی وجہ سے وہ حقیقت سمجھنے سے قاصر ہوجاتا ہے۔ تفسیر بالقرآن کن کے دلوں پر مہریں ثبت ہوتی ہیں : ١۔ اللہ تعالیٰ کافروں کے دلوں پر مہریں لگا دیتا ہے۔ (البقرۃ: ٧) ٢۔ جھوٹوں کے دلوں پر اللہ تعالیٰ مہر لگا دے گا۔ (الشوریٰ : ٢٤) ٣۔ نفسانی خواہشات کی پیروی کرنے والے کے دل پر مہر لگ جاتی ہے۔ (الجاثیۃ : ٢٣) التوبہ
87 التوبہ
88 فہم القرآن ربط کلام : منافقین کے مقابلہ میں مخلص مسلمانوں کا کردار۔ منافق اپنے ایمان میں غیر مخلص ہونے کی وجہ سے جہاد اور نیکی کے کاموں میں پیچھے رہنا پسند کرتا ہے اس کے مقابلے میں حقیقی مسلمان ہر وقت اپنے مال اور جان کے ساتھ اللہ کے دین کی سربلندی کے لیے کوشاں رہتا ہے یہاں تک کہ وقت آنے پر وہ اپنا مال اور جان اللہ کی راہ میں قربان کرنے سے دریغ نہیں کرتا۔ ان لوگوں کے لیے دنیا میں خیر ہی خیر ہے اور آخرت میں فلاح اور کامیابی پائیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے ایسے باغات تیار کر رکھے ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی اور وہ اس میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔ حقیقت میں یہی سب سے بڑی کامیابی ہے۔ یہاں تک کہ نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات کا معاملہ، آپ نیکی کے معاملہ میں سب سے آگے اور جہاد فی سبیل اللہ کے بارے میں سب سے زیادہ ولولہ رکھتے تھے۔ (عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ (رض) قَالَ قَالَ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لَمَّا أُصِیبَ إِخْوَانُکُمْ بِأُحُدٍ جَعَلَ اللّٰہُ أَرْوَاحَہُمْ فِی جَوْفِ طَیْرٍ خُضْرٍ تَرِدُ أَنْہَارَ الْجَنَّۃِ تَأْکُلُ مِنْ ثِمَارِہَا وَتَأْوِی إِلَی قَنَادِیلَ مِنْ ذَہَبٍ مُّعَلَّقَۃٍ فِی ظِلِّ الْعَرْشِ فَلَمَّا وَجَدُوا طیبَ مَأْکَلِہِمْ وَمَشْرَبِہِمْ وَمَقِیلِہِمْ قَالُوا مَنْ یُبَلِّغُ إِخْوَانَنَا عَنَّا أَنَّا أَحْیَاءٌ فِی الْجَنَّۃِ نُرْزَقُ لِءَلَّا یَزْہَدُوا فِی الْجِہَادِ وَلَا یَنْکُلُوا عِنْدَ الْحَرْبِ فَقَال اللّٰہُ سُبْحَانَہُ أَنَا أُبَلِّغُہُمْ عَنْکُمْ قَالَ فَأَنْزَلَ اللّٰہُ وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِینَ قُتِلُوا فِی سَبِیل اللّٰہِ إِلَی آخِرِ الْآیَۃِ) [ رواہ ابوداؤد : کتاب الجہاد، باب فی فضل الشہادۃ] ” عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب تمھارے بھائی احد کے دن شہید کیے گئے تو اللہ نے ان کی روحوں کو سبز چڑیوں کے پیٹوں میں رکھ دیا وہ بہشت کی نہروں پر پھرتی ہیں اور اس کے میوے کھاتی ہیں اور عرش کے سایہ میں سونے کی قندیلوں میں بسیرا اور ٹھکانہ کرتی ہیں جب ان کی روحوں کو کھانے، پینے اور سونے کی خوشی حاصل ہوئی، تو کہا کون ہے جو ہماری طرف سے ہمارے بھائیوں کو یہ خبر پہنچا دے کہ ہم بہشت میں زندہ ہیں اور کھانا کھاتے ہیں تاکہ وہ بھی بہشت کے حاصل کرنے میں بے رغبتی نہ کریں اور قتال کے وقت سستی نہ کریں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا تمھاری خبر میں پہنچاؤں گا پس نازل کی اللہ تعالیٰ نے یہ آیت جو لوگ اللہ کی راہ میں مارے گئے ان کو مردہ مت سمجھو بلکہ وہ زندہ ہیں اپنے رب کے پاس کھانا کھلائے جاتے ہیں۔“ جنت کے درخت کا طول و عرض : (عَنْ اَنَسُ بْنُ مَالِکٍ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ إِنَّ فِی الْجَنَّۃِ لَشَجَرَۃً یَسِیر الرَّاکِبُ فِی ظِلِّہَا ماءَۃَ عَامٍ لَا یَقْطَعُہَا) [ رواہ البخاری : کتاب بدء الخلق، باب ماجاء فی صفۃ الجنۃ] ” حضرت انس بن مالک (رض) نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بلاشبہ جنت میں ایک درخت ہے جس کے سائے میں ایک سو سال تک سوار چلتا رہے تب بھی وہ سایہ ختم نہیں ہوگا۔“ مسائل ١۔ اللہ کی راہ میں اپنے مال و جان کے ساتھ جہاد کرنے والے دنیا اور آخرت میں کامیاب ہوں گے۔ ٢۔ مجاہدین کے لیے اللہ تعالیٰ نے جنت تیار کر رکھی ہے جس میں نہریں جاری ہیں۔ ٣۔ جسے جنت عطا کردی گئی اس نے عظیم کامیابی حاصل کی۔ تفسیر بالقرآن عظیم کامیابی کیا ہے : ١۔ اللہ تعالیٰ کامومنین کو ہمیشگی والی جنت میں داخل فرمائے گا۔ (التوبۃ: ٨٩) ٢۔ اللہ تعالیٰ کا مومنین کو باغات عطا کرنا اور اپنی رضا مندی کا سر ٹیفکیٹ عطا فرمانا۔ (التوبۃ: ٧٢) ٣۔ اللہ تعالیٰ کا مومنین کے ساتھ ان کی جانوں اور مالوں کے بدلے جنت کا سودا فرمانا۔ (التوبۃ: ١١١) ٤۔ اللہ تعالیٰ پہ ایمان لانا اور اسی سے ڈرنا اور اللہ تعالیٰ کا انھیں بشارت سے نوازنا۔ (یونس : ٦٣ تا ٦٤) ٥۔ اللہ تعالیٰ کی کرم نوازی سے برائی سے بچ جانا۔ (المؤمن : ٩) ٦۔ اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں کے گناہ معاف کرنا اور ہمیشہ رہنے والے باغات اور رہائش گاہوں کا وعدہ فرمانا۔ (الصف : ١٢) التوبہ
89 التوبہ
90 فہم القرآن ربط کلام : مدینہ کے منافقین کے بعد دیہاتی منافقین کا ذکر۔ مدینہ کے منافقین کی دیکھا دیکھی دیہات کے منافقین نے بھی جہاد فی سبیل اللہ سے جان چھڑانے کی پالیسی اختیار کر رکھی تھی۔ وہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہو کر عذر بہانے پیش کرتے آپ ان کے اطوار دیکھ کر ان سے صرف نظر فرماتے منافقین میں کچھ لوگ ایسے بھی تھے جنھوں نے یہ بھی گوارا نہ کیا کہ وہ اللہ کے رسول کے پاس حاضر ہو کر کوئی عذر پیش کرتے یا اتنے کڑے وقت میں پیچھے بیٹھے رہنے سے اجتناب کرتے۔ لیکن انھوں نے دونوں میں سے کوئی ایک کام بھی نہ کیا۔ اس کا بنیادی سبب یہ تھا کہ یہ لوگ اللہ اور اس کے رسول کی تکذیب کرنے والے تھے جنھیں کافر قرار دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ انھیں اذیت ناک عذاب پہنچے گا مُعَذِّرُوْنَ کا واحد مُعَذِّرُ ہے جس سے مراد ایسا شخص جس کے پاس کوئی حقیقی عذر نہ ہو اس کے باوجود وہ عذر پیش کرے۔ نیکی کے معاملہ میں جھوٹا عذر پیش کرنے والا مجرم ہوتا ہے لہٰذا مجرموں کو اذیت ناک عذاب دیا جائے گا۔ (عَنِ ابْنِ عُمَرَ (رض) قَالَ لَمَّا مَرَّ النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بِالْحِجْرِ قَالَ لَا تَدْخُلُوا مَسَاکِنَ الَّذِینَ ظَلَمُوا أَنْفُسَہُمْ أَنْ یُّصِیبَکُمْ مَا أَصَابَہُمْ إِلَّا أَنْ تَکُونُوا باکِینَ ثُمَّ قَنَّعَ رَأْسَہٗ وَأَسْرَعَ السَّیْرَ حَتَّی أَجَازَ الْوَادِیَ) [ رواہ البخاری، کتاب المغازی، باب نزول النبی الحجر] ” حضرت عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں جب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حجرکے مقام سے گزرے آپ نے فرمایا ان لوگوں کے مقام سے نہ گزرا کرو جن لوگوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا کہیں تم پر وہ آفت نہ آن پڑے۔ جو ان پر آن پڑی تھی۔ اگر گزرنا نا گزیر ہو تو روتے ہوئے گزرا کرو پھر آپ نے اپنا سر جھکایا اور سواری کو تیزچلایا یہاں تک کہ اس وادی سے گزر گئے۔“ التوبہ
91 فہم القرآن ربط کلام : جھوٹے عذر پیش کرنے والوں کے لیے اذیت ناک عذاب ہے اور حقیقی عذر رکھنے والوں پر کوئی گناہ نہیں۔ بعض حالات میں ہر مسلمان پر جہاد فرض عین ہوجاتا ہے تبوک کا جہاد بھی فرض عین ہوچکا تھا۔ جہاد فرض عین ہونے کے باوجود چار قسم کے لوگوں کو جہا د سے رخصت دی گئی ہے۔ ١۔ ایسا کمزور جو بڑھا پا، صغر سنی یا کسی جسمانی کمزوری کی وجہ سے جہاد میں شرکت کرنے سے قاصر ہو۔ ٢۔ وہ شخص جو دائمی مرض یا وقتی بیماری کی وجہ سے جہاد میں شامل نہ ہو سکے۔ ٣۔ جہاد مال اور جان کے ساتھ کرنا فرض ہے اگر کوئی غربت کی وجہ سے دفاعی فنڈ میں حصہ نہیں لے سکتا تو اس پر کوئی گناہ نہ ہوگا۔ ٤۔ جو شخص سواری نہ ہونے کی وجہ سے میدان کار زار میں نہیں پہنچ سکتا، باوجود اس کے کہ اس کے پاس کوئی اور عذر نہیں اسے مجبور سمجھ کر معاف کردیا گیا ہے کیونکہ محاذ جنگ دور ہونے کی وجہ سے وہ اس میں شریک نہیں ہوسکتا۔ غزوۂ تبوک کے موقعہ پر کچھ مخلص مسلمان ایسے بھی تھے جن کے پاس ٣٠٠ میل طویل سفر کرنے کے لیے سواری نہیں تھی وہ آپ کی خدمت میں آکر عرض کرتے کہ اے اللہ کے رسول ہماری جان حاضر ہے مگر محاذ پر پہنچنے کے لیے ہم سواری نہیں رکھتے۔ لہٰذا ہمارے لیے سواری کا بندوبست فرمائیں آپ نے فرمایا کہ ہمارے پاس مزید سواریوں کا انتظام نہیں ہے جواب سن کر یہ لوگ زار و قطار روتے ہوئے واپس ہوئے۔ اللہ تعالیٰ کو ان کا اخلاص اس قدر پسند آیا کہ رہتی دنیا تک ان کے اخلاص کو خراج تحسین عطا فرمایا اور ایسے لوگوں کی ڈھارس بند ھاتے ہوئے فرمایا کہ جو شرعی عذر کی بنا پر جہاد میں شرکت نہ کرسکیں ان پر کوئی گناہ نہیں ہے۔ اس کے ساتھ ایک دفعہ پھر ان لوگوں کا ذکر کیا گیا ہے جو مال دار اور وسائل رکھنے کے باوجود جہاد سے جی چراتے ہیں اور پیچھے رہنے والوں کے ساتھ بیٹھ رہنے پر راضی ہیں درحقیقت اللہ تعالیٰ نے ان کے جھوٹے بہانوں اور منافقت کی وجہ سے ان کے دلوں پر مہر ثبت کردی ہے اب یہ لوگ اللہ تعالیٰ کا حکم سمجھنے کے شعور سے محروم ہوچکے ہیں۔ معذور مخلصین کا مقام : (عَنْ جَابِرٍ قَالَ کُنَّا مَعَ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فِی غَزَاۃٍ فَقَالَ إِنَّ بالْمَدِینَۃِ لَرِجَالًا مَا سِرْتُمْ مَسِیرًا وَلَا قَطَعْتُمْ وَادِیًا إِلَّا کَانُوا مَعَکُمْ حَبَسَہُمْ الْمَرَضُ)[ رواہ مسلم : کتاب الامارۃ باب ثواب من جسہ عن النفر مرض اور عذر] ” حضرت جابر (رض) بیان کرتے ہیں ہم ایک غزوۂ میں رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ تھے آپ نے فرمایا بلاشبہ مدینہ میں کچھ ایسے لوگ ہیں وہ تمھارے ساتھ تھے جہاں تم لوگوں نے قیام کیا یا کسی وادی کو عبور کیا وہ مدینے میں اپنی بیماری کی وجہ سے ٹھہرے رہے۔“ اس فرمان میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان لوگوں کو غزوہ تبوک میں شریک تصور کیا ہے جو بیماری یا سواریاں نہ ہونے کی وجہ سے اس غزوہ میں عملاً ا شریک نہیں ہوسکے تھے بے شک وہ شریک سفر نہ تھے لیکن ان کے جذبات اور دعائیں ہمہ وقت مسلمانوں کی کامیابی کے لیے وقف تھیں۔ اس لیے آپ نے انہیں شریک ثواب گردانا ہے۔ غزوہ تبوک میں سواریوں کی قلت کا یہ عالم تھا کہ ایک اونٹ پر کئی کئی صحابہ سوار ہوتے اس کے باوجود انہوں نے باریاں مقرر کر رکھی تھیں جس بنا پر کچھ لوگ اپنی باری پر پیدل چلنے پر مجبور تھے۔ (عَنْ أَبِی مُوسَی (رض) قَالَ أَرْسَلَنِی أَصْحَابِی إِلَی رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سْأَلُہُ الْحُمْلاَنَ لَہُمْ، إِذْ ہُمْ مَعَہُ فِی جَیْشِ الْعُسْرَۃِ وَہْیَ غَزْوَۃُ تَبُوکَ فَقُلْتُ یَا نَبِیَّ اللَّہِ، إِنَّ أَصْحَابِی أَرْسَلُونِی إِلَیْکَ لِتَحْمِلَہُمْ فَقَالَ وَاللَّہِ لاَ أَحْمِلُکُمْ عَلَی شَیْءٍ وَوَافَقْتُہُ، وَہْوَ غَضْبَانُ وَلاَ أَشْعُرُ، وَرَجَعْتُ حَزِینًا مِنْ مَنْعِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وَمِنْ مَخَافَۃِ أَنْ یَکُون النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وَجَدَ فِی نَفْسِہِ عَلَیَّ، فَرَجَعْتُ إِلَی أَصْحَابِی فَأَخْبَرْتُہُمُ الَّذِی قَال النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَلَمْ أَلْبَثْ إِلاَّ سُوَیْعَۃً إِذْ سَمِعْتُ بلاَلاً یُنَادِی أَیْ عَبْدَ اللَّہِ بْنَ قَیْسٍ فَأَجَبْتُہُ، فَقَالَ أَجِبْ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَدْعوکَ، فَلَمَّا أَتَیْتُہُ، قَالَ خُذْ ہَذَیْنِ الْقَرِینَیْنِ وَہَذَیْنِ الْقَرِینَیْنِ لِسِتَّۃِ أَبْعِرَۃٍ ابْتَاعَہُنَّ حینَءِذٍ مِنْ سَعْدٍ فَانْطَلِقْ بِہِنَّ إِلَی أَصْحَابِکَ فَقُلْ إِنَّ اللَّہَ أَوْ قَالَ إِنَّ رَسُول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَحْمِلُکُمْ عَلَی ہَؤُلاَءِ فَارْکَبُوہُنَّ فَانْطَلَقْتُ إِلَیْہِمْ بِہِنَّ، فَقُلْتُ إِنَّ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حْمِلُکُمْ عَلَی ہَؤُلاَءِ وَلَکِنِّی وَاللَّہِ لاَ أَدَعُکُمْ حَتَّی یَنْطَلِقَ مَعِی بَعْضُکُمْ إِلَی مَنْ سَمِعَ مَقَالَۃَ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لاَ تَظُنُّوا أَنِّی حَدَّثْتُکُمْ شَیْءًا لَمْ یَقُلْہُ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فقالُوا لِی إِنَّکَ عِنْدَنَا لَمُصَدَّقٌ، وَلَنَفْعَلَنَّ مَا أَحْبَبْتَ فَانْطَلَقَ أَبُو مُوسَی بِنَفَرٍ مِنْہُمْ حَتَّی أَتَوُا الَّذِینَ سَمِعُوا قَوْلَ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَنْعَہُ إِیَّاہُمْ، ثُمَّ إِعْطَاءَ ہُمْ بَعْدُ )[ رواہ البخاری : باب غَزْوَۃُ تَبُوکَ، وَہْیَ غَزْوَۃُ الْعُسْرَۃِ] ” حضرت ابی موسیٰ (رض) بیان کرتے ہیں کہ مجھے میرے ساتھیوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس بھیجا تاکہ میں آپ سے سواریوں کا مطالبہکروں تاکہ وہ آپ کے ساتھ جنگ تبوک میں شریک ہو سکیں۔ میں نے عرض کی اللہ کے نبی مجھے میرے ساتھیوں نے آپ کے پاس بھیجا ہے تاکے آپ ہمارے لیے سواریوں کا انتظام فرمایں۔ آپ نے فرمایا اللہ کی قسم میں تمہیں سواری نہیں دونگا میں نے آپ کو غصے کے عالم میں پایا۔ میں آپ کی کیفیت نہ سمجھ سکا۔ میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ناراضگی اور نہ دینے کی وجہ سے پریشان لوٹا اور اپنے ساتھیوں کو صورتحال سے آگاہ کیا، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تھا۔ میں تھوڑی ہی دیر ٹھہراتھاکہ میں نے بلال کی آواز کو سنا وہ آوازیں دے رہا تھا اے عبداللہ بن قیس میں نے بلال کو جواب دیا اس نے کہا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا پیغام ہے کہ آپ کی بات سنیں۔ جب میں آپ کے پاس آیاتو آپ نے مجھے چھ اونٹ دیتے ہوئے فرمایا یہ سواریاں لے جا میں نے یہ ابھی ابھی سعد سے خریدی ہیں۔ جاکر اپنے ساتھیوں سے کہو کہ اللہ کے رسول نے یہ سواریاں دی ہیں۔ میں نے وہاں موجود صحابہ سے کہا اللہ کی قسم میں تب تلک یہاں سے نہیں جاؤنگا جب تک یہاں بیٹھنے والوں میں سے کوئی جاکر نہ کہ دے جس نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بات کو سنا ہے تاکہ میرے ساتھی یہ تصور نہ کریں کہ میں ایسی بات کر رہا ہوں جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نہیں فرمائی انہوں نے کہا ہم تیری بات کی تصدیق کرتے ہیں تو حضرت ابو موسیٰ ان لوگوں کو ساتھ لیکر آیا جنہوں نے آپ کی بات کو سنا تھا کہ آپ نے پہلے انکار کیا اس کے بعد سواریاں عطاکردیں۔“ مسائل ١۔ کمزوروں، مریضوں اور سواری نہ پانے والوں پر جہاد میں عدم شرکت پر کوئی گناہ نہیں۔ ٢۔ غربت کی بنا پر جہاد میں چندہ نہ دینے والے پر کوئی گناہ نہیں۔ ٣۔ شرعی عذر کے بغیر جہاد فرض ہونے کے باوجود جو لوگ شرکت نہیں کرتے ان کے دلوں پر اللہ تعالیٰ مہر ثبت کردیتا ہے۔ التوبہ
92 التوبہ
93 التوبہ
94 فہم القرآن ربط کلام : دسویں پارے کے آخر اور اس آیت سے پہلے یہ فرمایا گیا ہے کہ جن منافقوں نے غزوہ تبوک میں شرکت نہیں کی۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں پر مہر ثبت کردی ہے۔ اب وہ جہاد کی فضیلت اور دین کی حقیقت کو نہیں جان سکتے۔ لہٰذا یہ لوگ آپ کی واپسی پر معذرت کریں تو ان کی معذرت قبول نہ کی جائے۔ منافقوں کا اندازہ اور ان کی تمنا یہ تھی کہ سلطنت روما کا فرماں روا مسلمانوں کی طاقت کو اس طرح کچل ڈالے گا کہ یہ ہمیشہ کے لیے ختم ہوجائیں گے لیکن روم کے لشکر مسلمانوں کی تاب نہ لا سکے اور انھوں نے اپنی پسپائی میں خیر سمجھی۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے رومیوں کا تعاقب کرنے کی بجائے کچھ دن محاذ پر قیام فرمایا اور بالآخر لشکر اسلام کو واپسی کا حکم دیا۔ منافقین کو اس صورت حال کی خبر پہنچی تو انھوں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی واپسی پر روایتی حیلہ سازیوں سے آپ کی خدمت میں معذرتیں پیش کرنا التوبہ
95 شروع کیں۔ ادھر راستہ میں ہی رب کریم نے اپنے رسول کو آگاہ فرمادیا کہ آپ جوں ہی مدینہ ورود مسعود فرمائیں گے تو منافق ٹولیوں کی صورت میں آپ کے سامنے اپنی معذرتیں پیش کریں گے۔ لیکن اب ان کی کسی معذرت کو درخور اعتنا نہ سمجھا جائے بلکہ منافقین کو کھلے الفاظ میں بتلایا جائے کہ میرے رب نے مجھے تمہاری سازشوں اور ملمع سازیوں سے پوری طرح آگاہ فرما دیا ہے لہٰذا تمہارے کسی عذر اور بہانہ کو قبول نہیں کیا جائے گا البتہ تم آئندہ کے لیے اپنی اصلاح کی کوشش کرو تو اللہ اور اس کا رسول تمہارے کردار کو دیکھیں اور جانچیں گے کہ تم اپنے قول و فعل میں کتنے سچے ثابت ہوتے ہو۔ اے منافقو! نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے صحابہ (رض) سے کوئی بات چھپا سکتے ہو لیکن تم اللہ تعالیٰ سے کچھ بھی نہیں چھپا سکتے۔ دنیا میں اللہ تمہیں مہلت دیے ہوئے ہے لیکن آخرت میں تم اس کے حضور پیش کیے جاؤ گے۔ وہ تمہاری ایک ایک حرکت اور بات سے تمہیں آگاہ کرے گا اور اسی کے مطابق تمہیں سزا دی جائے گی۔ اس انتباہ کے ساتھ منافقوں کو پھر ایک موقع دیا گیا ہے۔ کہ وہ سچی توبہ کریں اور اپنے کردار کو بہتر بنائیں۔ البتہ اس موقعہ پر ان کا کوئی عذر قبول نہیں کیا جائے گا۔ خواہ یہ کتنی عاجزی کے ساتھ قسمیں اٹھائیں اور یقین دہانی کروائیں۔ ان سے اعراض ہی کرنا ہے۔ کیونکہ اب تک یہ دل کے برے اور کردار کے گندے ثابت ہوئے ہیں۔ ایسے لوگوں کے لیے جہنم ہے جس میں انھیں پوری پوری سزا دی جائے گی۔ منافق کی نشانیاں : (عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اٰےَۃُ الْمُنَافِقِ ثَلٰثٌ زَادَ مُسْلِمٌ وَاِنْ صَامَ وَصَلّٰی وَزَعَمَ اَنَّہٗ مُسْلِمٌ ثُمَّ اتَّفَقَا اِذَا حَدَّثَ کَذَبَ وَاِذَا وَعَدَ اَخْلَفَ وَاِذَا اءْتُمِنَ خَانَ) [ رواہ مسلم : باب الکبائر وعلامات النفاق] ” حضرت ابوہریرہ (رض) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان ذکر کرتے ہیں منافق کی تین نشانیاں ہیں۔ ( مسلم نے ان الفاظ کا اضافہ کیا ہے ” چاہے روزے رکھتا اور نماز پڑھتا ہو اور اپنے آپ کو مسلمان سمجھتا ہو۔“ ) (١) جب وہ بات کرے تو جھوٹ بولتا ہے (٢) اور جب وعدہ کرے تو وعدہ خلافی کرتا ہے (٣) جب اسے امانت دی جائے تو خیانت کرتا ہے۔“ (عَنْ اَنَسٍ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ لَا تَزَالُ جَھَنَّمُ یُلْقٰی فِیْھاَ وَتَقُوْلُ ھَلْ مِنْ مَّزِیْدٍ حَتّٰی یَضَعَ رَبُّ الْعِزَّۃِ فِیْھَا قَدَمَہٗ فَیَنْزَوِیْ بَعْضُھَا اِلٰی بَعْضٍ فَتَقُوْلُ قَطْ قَطْ بِعِزَّتِکَ وَکَرَمِکَ وَلَا یَزَالُ فِیْ الْجَنَّۃِ فَضْلٌ حَتّٰی یُنْشِئَ اللّٰہُ لَھَا خَلْقًا فَیُسْکِنُھُمْ فَضْلَ الْجَنَّۃِ) [ رواہ مسلم : کتاب الجنۃ وصفۃ نعیمھا وأھلھا، باب النار لایدخلھا الا الجبارون] ” حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جہنم میں مسلسل لوگوں کو ڈالا جاتا رہے گا اور جہنم کہتی رہے گی، کہ کچھ اور بھی؟ بالآخر اللہ تعالیٰ اپنا قدم جہنم میں رکھیں گے تو جہنم کا ایک حصہ دوسرے سے مل جائے گا۔ اور جہنم کہے گی بس! بس! تیری عزت اور تیرے کرم کی قسم! جنت میں ہمیشہ وسعت اور فراخی ہوگی حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ جنت کے لیے نئی مخلوق پیدا فرمائیں گے جنہیں جنت کے وسیع علاقے میں آباد کیا جائے گا۔“ مسائل ١۔ منافق جھوٹے عذر بہانے پیش کرتے ہیں۔ ٢۔ منافق قسم کو بہانے کے طور پر استعمال کرتا ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں ہے۔ ٤۔ ہرقسم اٹھانے والا سچا نہیں ہوتا۔ ٥۔ منافق عقیدہ اور کردار کے اعتبار سے گندہ ہوتا ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ غیب وحا ضر کو جاننے والا ہے : ١۔ اللہ ظاہر اور غائب کو جانتا ہے۔ (التوبۃ: ٩٤) ٢۔ اللہ جانتا ہے جو تم چھپاتے ہو اور جو تم ظاہر کرتے ہو۔ (النحل : ١٩) ٣۔ تم اپنی بات کو پوشیدہ رکھو یا ظاہر کرو اللہ سینوں کے بھید جانتا ہے۔ (الملک : ١٣) ٤۔ اللہ کے لیے برابر ہے جو انسان چھپاتے اور جو ظاہر کرتے ہیں۔ (الرعد : ١٠) ٥۔ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں وہ غائب اور حاضر کو جانتا ہے۔ (الحشر : ٢٢) ٦۔ کیا وہ نہیں جانتے کہ اللہ ظاہر اور پوشیدہ کو جانتا ہے؟ (البقرۃ: ٧٧) ٧۔ کیا انہیں اس بات کا علم نہیں کہ اللہ ان کی پوشیدہ سرگوشیوں سے بھی واقف ہے؟ (التوبۃ: ٧٨) التوبہ
96 فہم القرآن ربط کلام : گزشتہ سے پیوستہ منافقوں کے بارے میں مزید ناراضگی کا اظہار۔ منافقین کے بارے میں مزید سختی کرتے ہوئے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو متنبہ کیا گیا ہے کہ اگر آپ ان کی جھوٹی قسموں، مصنوعی عاجزی اور ظاہری درماندگی پر راضی ہو بھی جائیں تو یاد رکھیں اللہ تعالیٰ ہرگز ان پر راضی نہیں ہوگا۔ کیونکہ حقیقتاً یہ لوگ نافرمان ہیں اس آیت میں یہ اصول دو ٹوک انداز میں سمجھا دیا گیا ہے کہ اصل رضامندی اللہ ہی کی ہوتی ہے اگر نبی آخر الزماں بھی کسی شخص سے راضی ہوجائیں تو یہ لازم نہیں آتا کہ اللہ تعالیٰ بھی اس سے راضی ہوجائے۔ اس کی چند مثالیں پیش کی جاتی ہیں تاکہ لوگ اپنے باطل عقیدہ پر غور کرسکیں۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو ساڑھے نوسو سال سمجھا یا۔ لیکن قوم ایمان نہ لائی بالآخر خضرت نوح (علیہ السلام) کی بددعا کے نتیجہ میں قوم پر عذاب آیا اور انکا بیٹا ان کی آنکھوں کے سامنے غرقِآب ہوا حضرت نوح (علیہ السلام) نے بے ساختہ اپنے رب سے فریاد کی کہ الٰہی! آپ نے میرے اہل کو بچانے کا وعدہ کیا تھا مگر میرا بیٹا میرے سامنے ڈبکیاں لے رہا ہے۔ اس پر نوح (علیہ السلام) کو ان الفاظ میں وارننگ دی گئی کہ اے نوح یہ تیرے اہل میں سے نہیں کیونکہ یہ اعمال صالح کا خوگر نہیں۔ (ھود۔ ٤٦) جس سے ثابت ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ جس پر راضی نہ ہو اس پر وقت کا پیغمبر بے شک وہ اس کا باپ ہی کیوں نہ ہو راضی ہوجائے تو پیغمبر کی رضا ربِّ ذوالجلال کے سامنے کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اپنی بیٹی اور خاندان کو نصیحت کرنا : (عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ أَنَّ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ یَا بَنِیْ عَبْدِ مَنَافٍ، اشْتَرُوْا أَنْفُسَکُمْ مِنَ اللَّہِ، یَا بَنِی عَبْدِ الْمُطَّلِبِ اشْتَرُوْا أَنْفُسَکُمْ مِنَ اللَّہِ، یَآ أُمَّ الزُّبَیْرِ بْنِ الْعَوَّامِ عَمَّۃَ رَسُول اللَّہِ، یَا فَاطِمَۃُ بِنْتَ مُحَمَّدٍ، اشْتَرِیَا أَنْفُسَکُمَا مِنَ اللَّہِ، لاَ أَمْلِکُ لَکُمَا مِنَ اللَّہِ شَیْءًا، سَلاَنِی مِنْ مَّالِی مَا شِءْتُمَا) [ رواہ البخاری : کتاب المناقب باب من انتسب الی آباۂ فی الاسلام والجاہلیۃ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اے بنی عبد مناف اپنے آپ کو اللہ کے عذاب سے بچالو، اے بنی عبدالمطلب اپنے آپ کو اللہ سے بچا لو، اے زبیر بن عوام کی والدہ، رسول اللہ کی پھوپھی، اے فاطمہ بنت محمد اپنے آپ کو اللہ سے بچا لو۔ میں تمہیں کچھ فائدہ نہیں پہنچا سکتا۔ میرے مال میں سے جو لینا چاہتی ہو لے لو۔“ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعا کے باوجود عبداللہ بن ابی کا انجام : (عَنِ ابْنِ عُمَرَ (رض) قَالَ لَمَّا تُوُفِّیَ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ أُبَیٍّ جَاءَ ابْنُہُ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ إِلٰی رَسُول اللّٰہِ َ فَسَأَلَہٗ أَنْ یُّعْطِیَہٗ قَمِیصَہٗ یُکَفِّنُ فیہِ أَبَاہُ فَأَعْطَاہُ ثُمَّ سَأَلَہٗ أَنْ یُّصَلِّیَ عَلَیْہِ فَقَامَ رَسُول اللّٰہِ َ لِیُصَلِّیَ عَلَیْہِ فَقَامَ عُمَرُ فَأَخَذَ بِثَوْبِ رَسُوْلِ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَقَالَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ تُصَلِّی عَلَیْہِ وَقَدْ نَہَاکَ رَبُّکَ أَنْ تُصَلِّیَ عَلَیْہِ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) إِنَّمَا خَیَّرَنِی اللّٰہُ فَقَالَ اسْتَغْفِرْ لَہُمْ أَوْ لَا تَسْتَغْفِرْ لَہُمْ إِنْ تَسْتَغْفِرْ لَہُمْ سَبْعِیْنَ مَرَّۃً وَسَأَزِیدُہٗ عَلَی السَّبْعِیْنَ قَالَ إِنَّہٗ مُنَافِقٌ قَالَ فَصَلّٰی عَلَیْہِ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَأَنْزَلَ اللّٰہُ وَلَا تُصَلِّ عَلٰی أَحَدٍ مِّنْہُمْ مَاتَ أَبَدًا وَلَا تَقُمْ عَلَی قَبْرِہٖ) [ رواہ البخاری : کتاب تفسیر القران ] ” حضرت عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں جب عبداللہ بن ابی فوت ہوا۔ اس کا بیٹا عبداللہ بن عبداللہ بن ابی رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اس نے آپ سے قمیص کا مطالبہ کیا کہ اس میں اس کے والد کو کفن دیا جائے۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے قمیص عنایت کردی۔ پھر اس نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نماز جنازہ پڑھانے کی گزارش کی۔ جب رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نماز جنازہ کے لیے کھڑے ہوئے تو حضرت عمر (رض) نے رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے کپڑے کو پکڑکرعرض کی اے اللہ کے رسول! کیا آپ اس کی نماز جنازہ پڑھائیں گے جبکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو ان لوگوں کی نماز جنازہ پڑھانے سے منع کیا ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے مجھے اختیار دیا ہے کہ آپ ان کے لیے استغفار کریں یا نہ کریں میں ستر مرتبہ سے بھی زیادہ استغفار کروں گا۔ حضرت عمر (رض) نے کہا یہ تو منافق ہے۔ پھر رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کی نماز پڑھائی۔ تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت مبارکہ نازل فرمائی ” آپ ان میں سے کسی پر بھی نماز نہ پڑھائیں اور نہ ہی اس کی قبر پر کھڑے ہوں۔“ (التوبۃ: ٨٤) مسائل ١۔ منافق رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یقین دلانے کے لیے جھوٹی قسمیں اٹھاتے تھے۔ ٢۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کی رضا کے پابند تھے۔ اللہ تعالیٰ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رضا کا پابند نہیں۔ ٣۔ منافق اپنے رب کا نافرمان ہوتا ہے۔ ٤۔ منافق کی قسم پر اعتبار نہیں کرنا چاہیے۔ التوبہ
97 فہم القرآن ربط کلام : شہری منافقین کے ذکر کے بعد دیہاتی منافقوں کا ذکر۔ کفر اور منافقت بذات خود بد ترین روحانی اور اخلاقی امراض ہیں۔ مگر دیہاتی ماحول کی وجہ سے ان میں اور بھی شدت پیدا ہوجاتی ہے کیونکہ دیہات میں تہذیب و تمدن کا فقدان، تعلیم و تربیت کی کمی، آب و ہوا کی شدت اور جسمانی مشقت کی وجہ سے دیہات میں رہنے والوں کی طبیعت میں سختی اور اجڈپن پیدا ہوجاتا ہے۔ جس کی وجہ سے دیہات کے لوگ غلط یا صحیح جس نظریہ کو اپنا لیں اس پر اس قدر سخت ہوجاتے ہیں کہ اس کے خلاف کوئی بات سننا گوارا نہیں کرتے۔ پھر دیہات کے لوگوں میں خاندانی عصبیت اور قومی تعصب بھی شہروں کی نسبت زیادہ ہوتا ہے۔ ان وجوہات کی بنیاد پر وہ کفر و نفاق میں سخت تر ہوتے ہیں۔ یہی کیفیت رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے میں مدینے کے مضافات میں رہنے والے دیہاتیوں کی تھی۔ یہ لوگ جس قدر مدینہ سے دور رہتے تھے اسی قدر ان میں اسلام اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں نفرت اور دوری پائی جاتی تھی۔ کیونکہ عصبیت اور بعد مکانی کی وجہ سے انھیں اخلاقی قدروں اور دینی حدود کا علم نہیں تھا اور نہ ہی اپنی جہالت اور عصبیت کی وجہ سے حدود اللہ کو جاننے کی کوشش کرتے تھے۔ جس وجہ سے یہ دیہاتی کفرو نفاق میں متشدّد ہوتے چلے گئے کیونکہ یہ منافق تھے اپنی منافقت چھپانے کے لیے مسلمانوں جیسے اعمال کرتے تھے۔ لیکن جہاد کے موقع پر جب ان سے دفاعی فنڈ کی اپیل کی جاتی تو یہ لوگ نہ صرف اپنے آپ پر بوجھ محسوس کرتے بلکہ یہ اس انتظار میں رہتے کہ مسلمانوں پر کب کوئی افتاد پڑے۔ اور ہماری جان چھوٹ جائے اس لیے ظاہری طور پر اسلام کا لبادہ اوڑھ رکھا ہے اسے اتار پھینکیں۔ غزوۂ تبوک کے موقع پر یہ لوگ اسی انتظار میں تھے کہ مسلمانوں کو رومیوں کے ہاتھوں ذلت ناک شکست ہوگی اور ہمیں اسلام سے آزادی مل جائے گی۔ لیکن معاملہ ان کی امیدوں کے برعکس ہوا۔ اور یہ لوگ زندگی بھر اسی ذہنی کشمکش میں رہے۔ یہاں تک کہ انہیں موت نے آلیا۔ اس آیت میں ( عَلَیْھِمْ دَاءِرَۃُ السَّوْءِ) کے الفاظ میں منافقوں کو اسی بھیانک مستقبل کی وارننگ دی گئی ہے۔ مَغْرَمًا : معناہ غرما واصلہ لزوم الشی[ قرطبی] اس کا معنی جرمانہ ہے یعنی کسی چیز کو لازم کردینا۔ دَآءِرَۃُ السَّوْءِ۔ کا معنی ہے اچھی حالت کا بری حالت سے بدل جانا جسے گردش زمانہ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اب تو وہ دل پر جبر کرکے کچھ نہ کچھ اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں۔ لیکن وہ دلی طور پر اس بات کے خواہاں ہیں کہ گردش زمانہ مسلمانوں کی قوت ختم کر دے اور ہم چندہ دینے سے بچ جائیں اللہ تعالیٰ نے ان کے جواب میں فرمایا : ( عَلَیْھِمْ دَاءِرَۃُ السَّوْءِ ) ” برے ایام تمھارا ہی مقدر ہیں۔“ مسائل ١۔ دیہاتی نفاق میں زیادہ سخت ہوتے ہیں۔ ٢۔ دیہاتی احکام اور حدود و قیود کا زیادہ علم نہیں رکھتے۔ ٣۔ منافق انفاق فی سبیل اللہ کو جرمانہ سمجھتے ہیں۔ ٤۔ منافقین اسی انتظار میں رہتے ہیں کہ مسلمان کب گردش ایام کا شکار ہوتے ہیں۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ ہر بات کو سننے اور ہر چیز کو جاننے والا ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ کی راہ میں خرچ کرنا : ١۔ مومن اللہ کی رضا کے لیے خرچ کرتا ہے۔ ( التوبۃ: ٩٩) ٢۔ جو کچھ تم خرچ کرو گے اللہ تعالیٰ تمھیں اس سے زیادہ دے گا۔ (سبا : ٣٩) ٣۔ مومنین اللہ کے راستے میں خفیہ اور اعلانیہ خرچ کرتے ہیں۔ (الرعد : ٢٢) ٤۔ مسلمان تنگدستی اور خوشحالی میں خرچ کرتے ہیں۔ (آل عمران : ١٣٤) ٥۔ مسلمان کو اس کے دئیے ہوئے صدقہ پر سات سو گنا ثواب دیا جائے گا۔ ( البقرۃ: ٢٦١) ٦۔ منافق صدقہ کرنے کو جرمانہ سمجھتا ہے۔ (التوبۃ: ٩٨) التوبہ
98 التوبہ
99 فہم القرآن ربط کلام : دیہاتی منافقین کے بعد دیہاتی مومنوں کے ایمان اور کردار کا تذکرہ۔ یہ بات کئی مرتبہ عرض کی جا چکی ہے کہ قرآن مجید کی عدل پسندی اور طرز بیان ہے کہ جہنم کے ساتھ جنت، برے انجام کے ساتھ اچھے انجام، کفار اور منافقین کے بیان کے معاً بعد مخلص مسلمانوں اور مومنوں کا تذکرہ کرتا ہے۔ تاکہ قارئقرآن کو دونوں کردار اور انجام کا تجزیہ کرنے میں آسانی رہے چنانچہ اس بات کی وضاحت کردی گئی کہ دیہات میں رہنے والے سب کے سب کافر اور منافق نہیں بلکہ ان میں ایسے خوش بخت بھی ہیں جو اپنے رب پر کامل ایمان اور قیامت کے دن اس کی بارگاہ میں پیش ہونے کا پکا عقیدہ رکھتے ہیں۔ اور جو کچھ اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اس کے پیچھے ان کی صرف اور صرف یہی تمنا ہوتی ہے کہ انہیں اپنے رب کا قرب حاصل ہو۔ اور رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خوش ہو کر ان کے لیے دعائے خیر کریں کیونکہ اللہ تعالیٰ کی قربت اور رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعائیں ان کے لیے دنیا اور آخرت کا خزانہ ہیں۔ ان کے اخلاص اور نیک اعمال کی وجہ سے انہیں خوشخبری سنائی جارہی ہے کہ خوش ہوجاؤ کہ اللہ کی قربت و رحمت تمہارے لیے ہے اور عنقریب اللہ تعالیٰ تمہیں دنیا اور آخرت میں اپنی نعمتوں اور رحمتوں سے نوازے گا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنے مخلص بندوں کی کمزوریوں کو معاف کرتے ہوئے ان پر رحم و کرم فرمانے والا ہے۔ قرآن مجید کی تعلیم کے پیش نظر نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صدقہ کرنے والے صحابہ (رض) کے بارے میں یہ الفاظ استعمال فرمایا کرتے تھے۔ حضرت عبداللہ بن ابی اوفیٰ (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے ایک موقع پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں صدقہ پیش کیا جس پر آپ نے مجھے اس دعا سے نوازا۔ (عَنْ عَبْدِاللّٰہِ ابْنِ اَبِیْ اَوْفٰی (رض) قَالَ کَان النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اِذَا اَتَاہُ قَوْمٌ بِصَدَقَتِھِمْ قَال اللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی اٰلِ فُلَانٍ فَاَتَاہُ اَبِیْ بِصَدَقَتِہٖ فَقَالَ اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی اٰلِ اَبِیْ اَوْفٰی (مُتَّفَقٌ عَلَےْہِ) وَفِیْ رِوَاے َۃٍ اِذَا اَتَی الرَّجُلُ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بِصَدَقَتِہٖ قَالَ اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلَےْہِ)[ رواہ البخاری : کتاب الزکاۃ ] ” حضرت عبداللہ بن ابی اوفی ٰ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس جب لوگ زکوٰۃ لے کر آتے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کے لیے دعا فرماتے۔ اے اللہ فلاں کے اہل و عیال پر رحمت فرما۔ میرے والد آپ کی خدمت میں زکوٰۃ لے کر آئے تو آپ نے دعا فرمائی اے اللہ ابو اوفی ٰکے اہل وعیال پر رحمت نازل فرما۔ دوسری روایت میں ہے جب کوئی آدمی زکوٰۃ پیش کرتا تو آپ دعا کرتے کہ اے اللہ اس پر رحمت فرما۔“ مسائل ١۔ دیہاتیوں میں سے اللہ اور آخرت پر ایمان رکھنے والے بھی ہوتے ہیں۔ ٢۔ ہر نیک عمل اللہ تعالیٰ کی قربت کے حصول کے لیے ہونا چاہیے۔ ٣۔ اللہ کی رضا کے لیے خرچ کرنے والے اللہ کی رحمت کے حقدار ہوتے ہیں۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ بہت ہی رحمت فرمانے والا ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ کی رحمت میں داخل ہونے والے لوگ : ١۔ اللہ، انبیاء کو اپنی رحمت کے ساتھ مخصوص کرتا ہے۔ (الانبیاء : ٨٦) ٢۔ اللہ نیک لوگوں کو اپنی رحمت سے ہمکنار کرتا ہے۔ (الانبیاء : ٧٥) ٣۔ ایمان میں پختہ رہنے والے کو اللہ اپنی رحمت سے نوازتا ہے۔ (النساء : ١٧٥) ٤۔ اللہ جسے چاہتا ہے اپنی رحمت سے نوازتا ہے۔ (الشورٰی : ٨) ٥۔ اللہ کی رحمت ہر چیز کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ ( الاعراف : ١٥٦) ٦۔ اللہ کی رحمت نیکی کرنے والوں کے قریب ہوتی ہے۔ (الاعراف : ٥٦) ٧۔ اللہ مومن مردوں اور مومن عورتوں کو اپنی رحمت میں داخل فرمائے گا۔ (التوبۃ: ٩٩) التوبہ
100 فہم القرآن ربط کلام : منافقت سے اجتناب کرنے، نیکی کا حکم دینے کے بعد نیکی میں سبقت اختیار کرنے کی ترغیب : دیہاتی مخلصین کے تذکرہ کے بعد اسلام میں سبقت کرنے والے مہاجرین اور انصار کی فضیلت و منقبت کا بیان کیا گیا ہے۔ جس میں ان کی حوصلہ افزائی اور دوسروں کے لیے نیکیوں میں سبقت کرنے کی تلقین پائی جاتی ہے۔ اب ان پاکباز ہستیوں کی خدمات کا تذکرہ شروع ہوتا ہے جنہوں نے اسلام کی خاطر سب کچھ قربان کیا اور اپنا وطن چھوڑ کر بے خانماں ہوئے۔ مہاجرین اور انصار میں سابقون الاولون کے بارے میں اہل علم کی مختلف آراء پائی جاتی ہیں جن میں اکثریت کا خیال ہے کہ ” سابقون الاولون“ سے مراد وہ صحابہ کرام (رض) ہیں جو غزوہ بدر سے پہلے ایمان لائے۔ کیونکہ انہوں نے اسلام کے راستے میں وہ مصائب و آلام برداشت کیے جن کے ساتھ ان کے بعد آنے والے ایمان والوں کو واسطہ نہیں پڑا۔ اس لیے دیہاتی مخلصین کے تذکرہ کے بعد ضروری سمجھا گیا کہ ان لوگوں کی خدمات کا اعتراف کرکے قیامت تک کے لیے ان کے مرتبہ و مقام کو نمایاں اور ممتاز کردیا جائے۔ ان کے بعد ایمان لانے والے حضرات کی حوصلہ افزائی کرکے انہیں بھی عظیم خوشخبری سے نوازا گیا ہے۔ قرآن و حدیث اور تاریخ اسلام اس بات پر گواہ ہے کہ ” مردوں میں سابقون الاولون“ کے سرخیل حضرت ابوبکرصدیق (رض)، خواتین میں یہ شان ام المومنین حضرت خدیجہ (رض) کو حاصل ہوئی، نو عمر لوگوں میں یہ مرتبہ حضرت علی (رض) کو ملا، مجبور اور غلاموں میں یہ شان حضرت زید بن حارثہ (رض) کو حاصل ہوئی۔ جہاں تک ” سابقون الاولون“ کے بعد دائرہ اسلام میں داخل ہونے والوں کا تعلق ہے ان سے مراد وہ صحابہ (رض) ہیں جو غزوہ بدر کے بعد ایمان لائے قرآن مجید سب کے لیے انعام و اکرام کا اعلان کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان پر راضی ہوا، وہ اپنے رب پر راضی ہوگئے۔ ایمان کا درجہ حاصل ہوجائے تو انسان بے انتہا تکلیف، حد درجے کے رنج و غم اور بے پناہ تنگی میں بھی اپنے رب پر راضی رہتا ہے۔ ایسے حضرات کے لیے اللہ تعالیٰ نے ابدی باغات اور ہمیشہ رہنے والی نعمتیں تیار کر رکھی ہیں حقیقت یہ ہے کہ یہی دنیا اور آخرت کی سب سے بڑی کامیابی ہے۔ صحابہ (رض) کے بعد ان کی اولاد جو نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زیارت کا شرف نہ پا سکی، نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں بھی اعزاز بخشا ہے۔ (عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ (رض) قَالَ إِنِّیْ لَوَاقِفٌ فِیْ قَوْمٍ، فَدَعَوُا اللَّہَ لِعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ وَقَدْ وُضِعَ عَلَیْ سَرِیرِہِ، إِذَا رَجُلٌ مِنْ خَلْفِیْ قَدْ وَضَعَ مِرْفَقَہُ عَلَیْ مَنْکِبِیْ، یَقُوْلُ رَحِمَکَ اللَّہُ، إِنْ کُنْتُ لأَرْجُوْ أَنْ یَجْعَلَکَ اللَّہُ مَعَ صَاحِبَیْکَ، لأَنِّیْ کَثِیرًا مِمَّا کُنْتُ أَسْمَعُ رَسُوْلَ اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَقُوْلُ کُنْتُ وَأَبُوْ بَکْرٍ وَعُمَرُ، وَفَعَلْتُ وَأَبُوْ بَکْرٍ وَعُمَرُ، وَانْطَلَقْتُ وَأَبُو بَکْرٍ وَعُمَرُ فَإِنْ کُنْتُ لأَرْجُوْ أَنْ یَجْعَلَکَ اللَّہُ مَعَہُمَا فَالْتَفَتُّ فَإِذَا ہُوَ عَلِیُّ بْنُ أَبِیْ طَالِبٍ) [ رواہ البخاری : کتاب فضائل الصحابۃ ] ” حضرت عبداللہ بن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں لوگوں میں کھڑا تھا، حضرت عمر (رض) کی چار پائی رکھی ہوئی تھی ان کے لیے دعائیں کی جا رہی تھیں۔ ایک آدمی نے پیچھے سے میرے کندھے پر ہاتھ رکھا وہ کہہ رہا تھا اللہ تجھ پر رحم فرمائے یقیناً میں امید کرتا ہوں، اللہ تعالیٰ آپ کو آپ کے ساتھیوں کی معیت عطا فرمائے گا۔ میں اکثر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا کرتا تھا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرمایا کرتے تھے میں، ابو بکر اور عمر وہاں تھے میں نے اور ابو بکر اور عمر (رض) نے یہ کام کیا۔ میں ابو بکر اور عمر وہاں گئے یقیناً میں امید کرتا ہوں کہ اللہ تجھے تیرے ساتھیوں کا ساتھ عطا فرمائے گا۔ میں نے پلٹ کر دیکھا تو وہ علی بن ابی طالب (رض) تھے۔“ (عَنْ عَاءِشَۃَ (رض) قَالَتْ مَا غِرْتُ عَلَیْ امْرَأَۃٍ مَا غِرْتُ عَلَیْ خَدِیجَۃَ، مِنْ کَثْرَۃِ ذِکْرِ رَسُوْلِ اللَّہِ ِ اِیَّاہَا قَالَتْ وَتَزَوَّجَنِیْ بَعْدَہَا بِثَلاَثِ سِنِینَ، وَأَمَرَہُ رَبُّہُ عَزَّ وَجَلَّ أَوْ جِبْرِیلُ أَنْ یُبَشِّرَہَا بِبَیْتٍ فِیْ الْجَنَّۃِ مِنْ قَصَبٍ )[ رواہ البخاری : کتاب مناقب الأنصار، باب تزویج النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ] ” حضرت عائشہ صدیقہ (رض) بیان کرتی ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کثرت کے ساتھ ذکر کرنے کی وجہ سے میں نے سیدہ خدیجہ (رض) سے بڑھ کر کسی عورت پر رشک نہیں کیا، آپ فرماتی ہیں کہ آپ نے میرے ساتھ ان کی وفات کے تین سال بعد شادی کی، آپ کو اللہ تعالیٰ نے برائے راست یا جبرائیل (علیہ السلام) کے ذریعے حکم دیا کہ آپ خدیجہ کو جنت میں موتی کے گھر کی خوشخبری دے دیں۔“ (عن عِمْرَانَ بن حُصَیْنٍ (رض) قَالَ قَال النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خَیْرُکُمْ قَرْنِیْ، ثُمَّ الَّذِینَ یَلُوْنَہُمْ، ثُمَّ الَّذِیْنَ یَلُوْنَہُمْ) [ رواہ البخاری : کتاب الشہادات، باب لاَ یَشْہَدُ عَلَی شَہَادَۃِ جَوْرٍ إِذَا أُشْہِدَ] ” حضرت عمران بن حصین (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تم سے بہتر میرا زمانہ ہے، پھر ان کے بعد والوں کا اور پھر ان کے بعد والوں کا۔“ مسائل ١۔ صحابہ (رض) اللہ پر اور اللہ تعالیٰ صحابہ پر راضی ہوا۔ ٢۔ صحابہ (رض) میں سابقون الاولون صحابہ افضل ہیں۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام (رض) کو دنیا میں جنت کا سرٹیفکیٹ عنایت فرمایا۔ ٤۔ مہاجرین اور انصار کے نقش قدم پر چلنے والوں سے اللہ راضی ہوتا ہے۔ ٥۔ صحابہ (رض) کے نقش قدم پر چلنے والوں سے بھی اللہ نے جنت کا وعدہ فرمایا ہے۔ ٦۔ جنت نصیب ہونا مومن کے لیے سب سے بڑی کامیابی ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ صحابہ کرام (رض) پہ راضی ہوا اور صحابہ اللہ تعالیٰ پر راضی ہوگئے : ١۔ صحابہ اللہ پر راضی ہوئے اور اللہ ان سے راضی ہوا اور یہ بہت بڑی کامیابی ہے۔ (المائدۃ: ١١٩) ٢۔ صحابہ کے نقش قدم پر چلنے والوں پر اللہ راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوگئے۔ (التوبۃ: ١٠٠) ٣۔ اللہ اصحاب شجرہ پر راضی ہوگیا۔ (الفتح : ١٨) ٤۔ صحابہ اللہ کی جماعت ہیں اللہ ان سے راضی ہوا، اور وہ اپنے اللہ پر راضی ہوگئے۔ (مجادلۃ: ٢٢) ٥۔ صحابہ اللہ سے ڈرنے والے تھے اللہ ان سے راضی ہوگیا۔ (البینۃ: ٨) ٦۔ اللہ انہیں ایسی جگہ داخل فرمائے گا جس سے وہ خوش ہوجائیں گے۔ (الحج : ٥٩) ٧۔ اللہ انہیں اپنی رحمت، رضامندی اور جنت کی خوشخبری دیتا ہے۔ : التوبۃ: ٢١) التوبہ
101 فہم القرآن ربط کلام : منافقین کے دوسرے اور تیسرے طبقہ کا ذکر، مدینہ کے منافقین کا ذکر کرنے کے بعد اب ان منافقین کا بیان ہوتا ہے جو مدینہ اور اس کے مضافات میں رہتے تھے۔ مومنوں کے اعلیٰ طبقات بیان کرنے کے بعد منافقین کے اس گروہ کا ذکر کیا جاتا ہے جو مدینہ اور اس کے مضافات میں رہنے کی وجہ سے ہر وقت مسلمانوں کے ساتھ جڑے رہتے تھے لیکن حقیقتاً پکے منافق تھے مگر تمام کام مسلمانوں جیسے کرتے اور ہر کام میں مسلمانوں کی ہاں میں ہاں ملایا کرتے تھے۔ اس وجہ سے عام مسلمان ان کے اصلی کردارسے ناواقف تھے۔ یہ منافق مسلمانوں کے لیے آستین کے سانپ تھے۔ جنہیں پہچاننا عام مسلمانوں کے بس کی بات نہیں تھی اس لیے یہ گاہے بگاہے سازشیں کرتے رہتے تھے۔ غزوہ تبوک سے واپسی پر بارہ منافقین نے اپنے چہروں پر کپڑے لپیٹ کر رات کے وقت اللہ کے رسول کو قتل کرنے کی سازش کی تھی جب آپ نے انھیں پہچان کر للکارا تو وہ لشکر میں گھس گئے۔ آپ نے ان کے نام حضرت حذیفہ (رض) کو بتلاتے ہوئے فرمایا کہ یہ راز رکھنا اور انھیں نظر انداز کردیا جائے۔ منافقین کی سازشیں اور شرارتیں اس لیے تھیں کہ اللہ اور اس کے رسول نے ان سے بار بار درگزر کیا۔ ان میں اکثر غریب اور کنگلے تھے مال غنیمت ملنے پر دولت مند ہوئے جس کی وجہ سے یہ منافقت میں آگے ہی بڑھتے گئے۔ چاہیے تو یہ تھا کہ ان کو ان کی دولت سمیت زمین میں دھنسا دیا جاتا مگر اس کے باوجود اللہ تعالیٰ اپنی بے پناہ شفقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ سب کچھ کرنے کے باوجود اگر یہ لوگ اب بھی توبہ کرلیں تو ان کے لیے میری طرف سے خیر کے دروازے کھول دیے جائیں گے۔ اگر پھر بھی باز نہ آئیں تو اللہ تعالیٰ انھیں دنیا اور آخرت میں اذّیت ناک عذاب میں مبتلا کرے گا اور ان کے لیے کوئی خیر خواہ اور مددگار نہیں ہوگا۔ یہی منافقین کفار کو مسلمانوں کی سرگرمیوں سے پل پل باخبر رکھتے تھے۔ ان سے الگ تھلگ رہنا تمدنی لحاظ سے مشکل تھا کیونکہ ان کا رہن سہن بظاہر مسلمانوں جیسا تھا، پھر وہ مسلمانوں کے ساتھ پرانی رشتے داریوں کی وجہ سے جڑے ہوئے تھے ان کے نفاق اور سازشوں سے آگاہ کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے۔ مسلمانو! تم نہیں جانتے اللہ تعالیٰ انہیں خوب جانتا ہے۔ اس نشان دہی کے بعد مسلمانوں کو ایسے منافقوں کو پہچاننا آسان ہوگیا۔ اس کے ساتھ ہی منافقین کو انتباہ کیا گیا کہ عنقریب تمھیں دوگنا عذاب دیا جائے گا اور پھر مرنے کے بعد تمہیں عظیم عذاب میں مبتلا رہنا ہوگا۔ دوگنے عذاب سے مراد حضرت ابن عباس (رض) کے نزدیک یہ ہے کہ دنیا میں مہلک بیماریوں میں مبتلا ہوں گے اور آخرت میں شدید ترین عذاب سے دوچار ہوں گے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بیمار تو مومن بھی ہوا کرتا ہے جس کا جواب ابن عباس (رض) یہ دیا کرتے تھے کہ بیماری اور تکلیف کے وقت مومن کے گناہ جھڑتے اور آخرت میں اس کے درجات بلند ہوتے ہیں۔ اس کے مقابلہ میں بیماری اور تکلیف کے وقت منافق اپنی منافقت میں اور زیادہ ہوجاتا ہے اور آخرت میں اسے دوگنا عذاب ہوگا۔ کچھ اہل علم نے یہ لکھا ہے کہ اس آیت کے نزول کے بعد کچھ منافقین کو نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خطبہ جمعہ کے دوران مسجد سے نکل جانے کا حکم دیا تھا۔ (واللہ اعلم) اس طرح منافق دنیا میں ذلیل ہوئے اور مرنے کے وقت ملائکہ ان کے چہروں پر تھپڑ رسید کرتے اور انھیں جھڑکیاں دیتے ہوئے ذلیل کریں گے۔ ایسے لوگوں کو دوگنا عذاب اس لیے دیا جاتا ہے کہ یہ خود گمراہ ہیں اور دوسروں کی گمراہی کا سبب بنتے ہیں۔ گویا کہ گناہوں کے سرغنہہونے کی وجہ سے دوگنا عذاب پائیں گے۔ منافقین کا تیسرا طبقہ : یہ لوگ عقیدہ کے اعتبار سے منافق نہ تھے لیکن ان کے عمل مخلص مسلمانوں جیسے نہ تھے۔ گویا کہ اعتقادی نہیں عملی منافق تھے۔ ان کے بارے میں ارشاد فرمایا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کی عملی کمزوریوں کو معاف کر دے گا کیونکہ بڑا مہربان اور معاف کردینے والا ہے۔ منافقین کی سزا : (إِنَّ الْمُنَافِقِیْنَ فِی الدَّرْکِ الْأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ وَلَنْ تَجِدَ لَہُمْ نَصِیْرًا)[ النساء : ١٤٥] ” یقیناً منافق جہنم کے سب سے نچلے طبقہ میں ہوں گے تم ان کا کوئی مددگار نہیں پاؤ گے۔“ مسائل ١۔ منافق کو دنیا اور آخرت میں عذاب ہوگا۔ ٢۔ گناہ کا اعتراف کرنے اور معافی مانگنے سے اللہ تعالیٰ معاف کردیتا ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ ہی گناہوں کو معاف کرنے والا ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ ہی توبہ قبول کرتا ہے : ١۔ اللہ اپنے بندوں کی توبہ قبول کرتا ہے۔ (التوبۃ: ١٠٤) ٢۔ اللہ غلطیاں معاف کرکے توبہ قبول کرتا ہے۔ (الشورٰی : ٢٥) ٣۔ غزوہ تبوک سے پیچھے رہنے والوں کی اللہ نے توبہ قبول فرمائی۔ (التوبۃ : ١٠٢) ٤۔ غلطی کی اصلاح کرنے والوں کی اللہ توبہ قبول کرتا ہے۔ (البقرۃ: ١٦٠) ٥۔ اللہ توبہ کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔ (البقرۃ: ٢٢٢) ٦۔ جس نے ظلم کرنے کے بعد توبہ کی اور اپنی اصلاح کی، اللہ اس کی توبہ قبول فرمائے گا۔ (المائدۃ: ٣٩) ٧۔ اللہ ہر توبہ کرنے والے کو معاف فرما دیتا ہے۔ (طٰہٰ: ٨٢) ٨۔ جو گناہ کرنے کے بعد جلدی سے توبہ کرلیتے ہیں اللہ ان کی توبہ قبول فرماتا ہے۔ (النساء : ١٧) التوبہ
102 التوبہ
103 فہم القرآن ربط کلام : چھپے ہوئے منافقوں کے بیان کے بعد ان مسلمانوں کا ذکر جو معقول عذر نہ رکھنے کے باوجود غزوہ تبوک سے پیچھے رہ گئے تھے۔ نیز اس میں بھی اشارہ پایا جاتا ہے کہ اگر منافق بھی اخلاص کے ساتھ توبہ اور صدقہ کریں تو اللہ تعالیٰ ان کی توبہ قبول کرنے اور صدقہ منظور فرمانے والا ہے۔ اس سے پہلے منافقوں کے گھناؤنے کردار اور مخلص مسلمانوں کے درجات اور مقام کا ذکر فرمایا۔ ان کے بعد عملی منافقوں کو بخشش کی امید دلانے کے بعد ان مسلمانوں کا ذکر شروع ہوتا ہے۔ جنہوں نے تبوک کے موقع پر سستی کا مظاہرہ کیا تھا۔ چھپے ہوئے منافقوں کے بیان کے معاً بعد سستی کے مرتکب حضرات کا ذکر ایک طرح کی سرزنش ہے مزید یہ کہ انھیں دوسرے کہہ کر پکارا گیا ہے۔ جس میں واضح طور پر بیگانگی کا تصور پایا جاتا ہے۔ لیکن یہ لوگ اپنے ایمان میں نہایت مخلص تھے اور اسلام لانے کے بعد ان کا کردار بےداغ تھا۔ محض بشری سستی کی بنا پر عساکر اسلام سے پیچھے رہ گئے تھے۔ اس بنا پر انھوں نے جھوٹے عذر بہانے بنانے کی بجائے اپنی غلطی کا اعتراف کیا۔ اور خودہی اپنی سزا تجویز کی کہ اپنے آپ کو مسجد کے ستونوں سے جکڑ لیا۔ کہ جب تک نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمیں نہ کھولیں تادم مرگ اسی طرح اپنے آپ کو جکڑے رکھیں گے۔ جن کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ ان کے نیک اعمال بھی ہیں اور برے بھی۔ برے اعمال سے مراد جہاد کا حکم سننے کے باوجود سستی دکھانا یہاں تک کہ لشکر اسلام سے پیچھے رہ جانا اور پیچھے رہنے والے منافقوں کی تقویت کا باعث بننا۔ تاہم اپنے ایمان میں مخلص تھے۔ اس لیے اعلان ہوا۔ کہ بہت جلد اللہ تعالیٰ ان پر مہربان ہوگا۔ چنانچہ چند دنوں کے بعد ان کی توبہ قبول ہوئی۔ توبہ قبول ہوتے ہی ان لوگوں نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں سارا مال پیش کرتے ہوئے درخواست کی کہ اے اللہ کے حبیب (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ مال قبول فرمائیں۔ کیونکہ اس مال کی وجہ سے ہم اس غلطی کے مرتکب ہوئے۔ اس موقع پر یہ فرمان نازل ہوا۔ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کے مال سے کچھ حصہ قبول فرمائیں اور ان کے لیے دعا کریں۔ آپ کی دعا ان کے زخمی دلوں پر مرہم اور ان کی بیقرار روح کے لیے تسکین کا سبب ہوگی۔ ان کا صدقہ قبول کرنے سے ان کا مال پاک اور ان کی طبیعت سے بخل دور ہوگا اور انھیں یقین ہوجائے گا۔ کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول فرما لی ہے۔ اس سے لوگوں کو معلوم ہوگا کہ اللہ ہی توبہ قبول کرنے والا اور لوگوں کے صدقات منظور فرمانے والا ہے۔ جس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ اگر اللہ تعالیٰ اجازت نہ دے تو نبی بھی کسی کا صدقہ قبول نہیں کرسکتا۔ صرف اللہ ہی اپنے بندوں کی توبہ اور صدقات قبول کرنے والا ہے کیونکہ وہ نہایت ہی فضل و کرم کا مالک ہے۔ یاد رہے یہاں صدقہ سے مراد عام صدقہ ہے زکوٰۃ نہیں۔ (عَنِ ابْنِ عُمَرَ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ إِنَّ اللَّہَ یَقْبَلُ تَوْبَۃَ الْعَبْدِ مَا لَمْ یُغَرْغِرْ ) [ رواہ الترمذی : کتاب الدعوات، باب قبول توبۃ العبد مالم یغرغر ] ” حضرت عبداللہ بن عمر (رض) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا حالت نزع طاری ہونے سے پہلے پہلے اللہ بندے کی توبہ قبول فرماتا ہے۔“ مسائل ١۔ صدقہ دینے سے مال پاک ہوتا ہے۔ ٢۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعا صحابہ کے لیے باعث تسکین تھی۔ ٣۔ اللہ ہی بندوں کی توبہ قبول فرماتا ہے۔ ٤۔ صدقات و خیرات کو اللہ ہی شرف قبولیت سے نوازتا ہے۔ ٥۔ اللہ توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ رحم فرمانے والا ہے : ١۔ اللہ ہی رحم کرنے والا ہے۔ (الانعام : ١٣٣) ٢۔ مہربانی فرمانا اللہ نے اپنے آپ پر لازم کرلیا ہے۔ (الانعام : ٥٤) ٣۔ اللہ سب سے زیادہ رحم کرنے والا ہے۔ (یوسف : ٦٤) ٤۔ میرے بندوں کو میری طرف سے خبر کردو کہ میں بخشنے والا، رحم کرنے والا ہوں۔ (الحجر : ٤٩) ٥۔ اللہ مومنوں کو اندھیروں سے نکالتا ہے کیونکہ وہ رحم کرنے والا ہے۔ (الاحزاب : ٤٣) التوبہ
104 التوبہ
105 فہم القرآن ربط کلام : توبہ اور صدقات قبول کرنے کے باوجود وارننگ۔ غزوہ تبوک سے پیچھے رہنے والوں کی توبہ قبول کرلی گئی۔ مگر اس کے باوجود انھیں یہ کہہ کر وارننگ دی گئی۔ کہ آئندہ تمہیں دیکھا جائے گا کہ تم کیسا کردار پیش کرتے ہو۔ گویا اللہ اس کا رسول اور مومن تم پر کڑی نگاہ رکھیں گے۔ کہ تم دوبارہ ایسی غلطی تو نہیں کرتے۔ ہاں یاد رکھنا تم بالآخر اس ذات کبریا کے حضور پیش ہونے والے ہو۔ جس سے کسی کا ظاہر وباطن پوشیدہ نہیں ہے۔ باطن کا معنی جو چیز انسان کی نظروں سے اوجھل ہو۔ اللہ تعالیٰ کے لیے ظاہر اور باطن دونوں برابر ہیں۔ ان سات صحابہ کی توبہ قبول ہوئی مگر حضرت کعب بن مالک (رض) حضرت ھلال بن امیہ (رض) اور مرارہ بن ربیع (رض) کا معاملہ یہ فرما کر معلق کردیا گیا کہ اللہ چاہے انھیں سزادے یا انھیں معاف فرما دے۔ تاہم عذاب کے بعد معافی کا بیان فرماکر واضح اشارہ دیا کہ اللہ تعالیٰ انہیں بھی معاف فرما دیں گے، کیونکہ وہ ان کی نیتوں کو جانتا ہے۔ توبہ قبول کرنے کی تاخیر کی حکمت بھی اچھی طرح اس کے علم میں ہے۔ تفصیل کے لیے اسی سورۃ کی آیت ١١٨ کی تفسیر ملاحظہ فرمائیں۔ (عَنْ عَاءِشَۃَ (رض) قَالَتْ کَان النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اِذَا قَامَ مِنَ اللَّےْلِ افْتَتَحَ صَلٰوتَہُ (فَقَالَ اَللّٰھُمَّ رَبَّ جِبْرَآءِےْلَ وَمِےْکَآءِےْلَ وَاِسْرَافِےْلَ فَاطِرَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ عَالِمَ الْغَےْبِ وَالشَّھَادَ ۃِ اَنْتَ تَحْکُمُ بَےْنَ عِبَادِکَ فِےْمَا کَانُوْا فِےْہِ ےَخْتَلِفُوْنَ اِھْدِنِیْ لِمَا اخْتُلِفَ فِےْہِ مِنَ الْحَقِّ بِاِذْنِکَ اِنَّکَ تَھْدِیْ مَنْ تَشَآءُ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِےْمٍ)[ رواہ مسلم : باب الدعاء فی الصلوۃ اللیل] ” حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نماز پڑھنے سے پہلے یہ دعا پڑھا کرتے تھے۔ اے الٰہی! جبرائیل، میکائیل اور اسرافیل ( علیہ السلام) کے رب، تو ہی زمین و آسمانوں کا پیدا کرنے اور حاضر و غائب کا علم رکھنے والاہے اور تو ہی اپنے بندوں کے درمیان ان کے آپس کے اختلافات کا فیصلہ فرمائے گا۔ اختلافی معاملات میں حق اور سچ کے ساتھ میری رہنمائی فرما۔ یقیناً تو جسے چاہتا ہے صراط مستقیم کی ہدایت عطا کرتا ہے۔“ اللہ ہی توبہ قبول کرنے والا ہے : (عَنْ عَآءِشَۃَ (رض) قَالَتْ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اِنَّ الْعَبْدَ اِذَا اعْتَرَفَ ثُمَّ تَابَ تَاب اللّٰہُ عَلَےْہِ) [ رواہ البخاری : باب تعدیل النساء بعضھن بعضا] ” حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب کوئی بندہ گناہ کا اعتراف کر کے توبہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول فرما لیتا ہے۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ بہت جلد ہر کسی کو اس کے عمل سے آگاہ فرمائے گا۔ ٢۔ لوگوں کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے چاہے معاف فرما دے چاہے سزا دے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ ہر چیز کو جانتا اور اس کے ہر کام اور حکم میں حکمت ہوتی ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ غیب اور ظاہر کو جانتا ہے : ١۔ اللہ غیب اور ظاہر کو جانتا ہے۔ (التوبۃ: ١٠٥) ٢۔ اللہ جانتا ہے جو تم ظاہر کرتے اور چھپاتے ہو۔ وہ دل کے رازوں سے بھی واقف ہے۔ (ہود : ٥) ٣۔ اللہ پوشیدہ اور ظاہر کو جانتا ہے۔ (النحل : ١٩) ٤۔ اللہ غائب اور حاضر کو جانتا ہے۔ (الحشر : ٢٢) ٥۔ اللہ زمین و آسمانوں کی ہر ظاہر اور پوشیدہ بات کو جانتا ہے۔ (الانعام : ٣) ٦۔ جو تم چھپاتے ہو اور جو تم ظاہر کرتے ہو اللہ کے لیے برابر ہے۔ (الرعد : ١٠) التوبہ
106 التوبہ
107 فہم القرآن ربط کلام : منافقوں اور مومنوں کے کردار اور انجام کا تقابل جاری ہے۔ منافقوں کی ایک اور سازش کا ذکر شروع ہوتا ہے جس کی تفصیل اس طرح ہے۔ ابو عامر جو مدینہ کا ہی رہنے والا تھا۔ نبی محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مدینہ تشریف آوری سے پہلے اس کی مدینہ میں بڑی عزت و تکریم کی جاتی تھی۔ اس نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ورودِمدینہ سے پہلے عیسائیت قبول کی اور لوگوں میں راہب کے نام سے جانا پہچانا جاتا تھا۔ آپ کی آمد پر اس نے منافقت کا لبادہ اوڑھا اور آئے روز نئی سے نئی سازش تیار کرتا۔ اس شخص کو غسیل الملائکہ حضرت ابو حنظلہ (رض) کا باپ ہونے کا شرف حاصل ہے۔ اللہ کی شان بہترین بیٹے کا بد ترین باپ حضرت ابو حنظلہ (رض) کا منفرد اعزاز ہے کہ جب احد میں شہید ہوئے تو ان کی بیوی نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں بڑی حیا داری سے عرض کی کہ اللہ کے رسول مجھے معلوم ہوا ہے کہ آپ نے شہیدوں کو بغیر غسل کے دفنانے کا فیصلہ فرمایا ہے۔ لیکن میرا خاوند حنظلہ واجب الغسل ہے۔ آپ نے فرمایا بی بی فکر نہ کرو۔ میں نے دیکھا ہے کہ آپ کے خاوند کو ملائکہ نے غسل دے دیا ہے۔ اس فرمان کے بعد انھیں غسیل الملائکہ کہا جانے لگا۔ (سنن البیہقی) غسیل الملائکہ کے باپ ابو عامر نے منافقین کو مشورہ دیا کہ مدینہ میں ہمارے لیے کسی الگ جگہ اکٹھا ہونا مشکل ہوگیا ہے۔ تم مسجد کے نام پر ایک ایسی عمارت بناؤ جس میں ہم نبی کو ناکام کرنے کا منصوبہ بنایا کریں چنانچہ انھوں نے اس نیت اور غرض سے مسجد بنائی۔ ان کے پروگرام میں مسلمانوں کو التوبہ
108 ایذا دینا، کفر پر پکے رہنا اور مسلمانوں میں تفریق ڈالناتھا۔ اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلاف مورچہ بندی کرنا شامل تھا۔ مسجد بنانے کے بعد منافقین نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں درخواست پیش کی کہ آپ برکت کے طور پر اس مسجد میں ایک نماز پڑھائیں تاکہ ہم باقاعدہ اس میں نمازیں ادا کرنا شروع کریں۔ ان کے مذموم عزائم سے آگاہ کرنے کے لیے آپ کو حکم ہوا کہ : اے رسول ! آپ اس مسجد میں ہرگز داخل نہ ہوں۔ بعض روایات میں آیا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ تبوک سے واپسی پر اس مسجد میں نماز پڑھائیں گے لیکن تبوک سے واپسی پر آپ کو اس مسجد کی حقیقت بتلا کر منع کردیا گیا کہ آپ نے اس مسجد میں ہرگز قدم رنجہ نہیں فرمانا۔ کیوں کہ اس کی تعمیر کا مقصد اس میں اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنا نہیں بلکہ کفر کی ترویج، مسلمانوں میں تفریق ڈالنے کے ساتھ، اللہ اور آپ کے خلاف مورچہ بندی کرنا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے خلاف مورچہ بندی کرنے سے مراد کفر و شرک کی حمایت کرنا ہے۔ یہ حکم نازل ہونے کے بعد آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس مسجد کو مسمار کروادیا تھا۔ یاد رہے کہ منافقوں نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے قسمیں اٹھا اٹھا کر کہا تھا کہ مسجد قبا ہمارے گھروں سے دور ہے۔ ہم نے آنے جانے کی سہولت اور خالص عبادت کی غرض سے یہ مسجد تعمیر کی ہے۔ جس کی تردید کرتے ہوئے اسے مسمار کرنے کا حکم دیا گیا۔ اور فرمایا کہ اے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ کو اس مسجدکی بجائے اس مسجد میں جانا چاہیے جس کی بنیاد خدا خوفی اور یادِ الٰہی کے لیے رکھی گئی ہے۔ بعض اہل علم نے مسجد قبا کی بجائے اس سے مسجد نبوی مراد لی ہے اس میں کوئی شک نہیں مسجد نبوی مسجد قبا سے افضل ہے مگر قرآن مجید کے اشارات اور سیرت کی کتب سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ یہ مسجد قبا ہے جس کے نمازیوں کی تعریف کی گئی ہے۔ (عَنِ ابْنِ عُمَر (رض) قَالَ کَان النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ےَاْتِیْ مَسْجِدَ قُبَاءٍ کُلَّ سَبْتٍ مَّاشِےًا وَّرَاکِبًا فَےُصَلِّیْ فِےْہِ رَکْعَتَےْنِ)[ رواہ مسلم : کتاب الحج، باب فضل مسجد قباء و فضل الصلاۃ فیہ وزیادتہ ] ” حضرت عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہر ہفتے پیدل یا سوار ہو کر مسجد قباء تشریف لے جاتے اور اس میں دو نفل ادا کیا کرتے تھے۔“ (عن أُسَیْد بن حُضِیْرِنِ الأَنْصَارِی وَکَانَ مِنْ أَصْحَاب النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یُحَدِّثُ عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَال الصَّلاَۃُ فِی مَسْجِدِ قُبَاءٍ کَعُمْرَۃٍ )[ رواہ الترمذی : کتاب الصلاۃ، باب ماجاء فی الصلاۃ فی مسجد قباء ] ” حضرت اسید بن حضیر انصاری (رض) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ میں سے تھے وہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا مسجد قباء میں نماز پڑھنا عمرہ ادا کرنے کی مانند ہے۔“ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ نَزَلَتْ ہَذِہِ الآیَۃُ فِی أَہْلِ قُبَاءَ (فِیہِ رِجَالٌ یُحِبُّونَ أَنْ یَتَطَہَّرُوا واللَّہُ یُحِبُّ الْمُطَّہِّرِینَ) قَالَ کَانُوا یَسْتَنْجُون بالْمَاءِ فَنَزَلَتْ ہَذِہِ الآیَۃُ فیہِمْ) [ رواہ الترمذی : کتاب التفسیر، باب وَمِنْ سُورَۃِ التَّوْبَۃِ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا یہ آیت قباء والوں کے متعلق نازل ہوئی اس کے نمازی طہارت کو پسند کرتے ہیں اللہ تعالیٰ پاک صاف رہنے والوں کو پسند فرماتا ہے کیونکہ قباء والے پانی سے بھی استنجاء کیا کرتے تھے تب یہ آیت ان کے متعلق نازل ہوئی۔“ مسائل ١۔ منافقین شروع سے ہی دین اسلام کے خلاف سازشیں کرتے چلے آرہے ہیں۔ ٢۔ مسجد ضرار دین حق کے مقابلہ میں بنائی گئی۔ ٣۔ اہل کفر دین اسلام کے کبھی خیر خواہ نہیں ہوسکتے۔ ٤۔ ظاہر اور باطنی طور پر پاک رہنے والوں کو اللہ تعالیٰ پسند کرتا ہے۔ ٥۔ مسجد کی بنیاد خدا خوفی پر ہونی چاہیے۔ ٦۔ مسجد میں کفر و شرک اور تفرقہ بازی کی تبلیغ نہیں ہونی چاہیے۔ ٧۔ منافق کی قسم پر اعتبار نہیں کرنا چاہیے۔ ٨۔ جس مسجد میں کفرو شرک اور لڑائی جھگڑے کا ماحول پیدا کیا جائے اس میں نماز پڑھنے سے اجتناب کرنا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ پاک باز لوگوں کو پسند کرتا ہے : ١۔ اللہ پاک باز لوگوں کو پسند کرتا ہے۔ (التوبۃ: ١٠٨) ٢۔ اللہ تعالیٰ توبہ کرنے والوں اور پاک صاف رہنے والوں کو پسند کرتا ہے۔ (البقرۃ : ٢٢٢) ٣۔ اللہ تعالیٰ نے ابراہیم اور اسماعیل کو بیت اللہ کو پاک، صاف رکھنے کا حکم دیاتھا۔ (البقرۃ : ١٢٥) ٤۔ اللہ تعالیٰ نے آسمان سے پانی نازل فرمایا تاکہ تم طہارت حاصل کرو۔ (الانفال : ١١) ٥۔ اے نبی اپنے کپڑوں کو پاک صاف رکھیں۔ (المدثر : ٤) التوبہ
109 فہم القرآن ربط کلام : گزشتہ سے پیوستہ۔ پچھلی آیت میں حکم ہے کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ کو اس مسجد میں نماز پڑھنا ہے جس کی بنیاد تقویٰ پر اٹھائی گئی ہے۔ اس مسجد کو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مدینہ داخل ہونے سے پہلے قبا محلہ میں اس وقت تعمیر فرمایا تھا۔ جب آپ تقریبًا پندرہ دن کے لیے قبا میں قیام پذیر ہوئے تھے۔ یہاں نہ صرف اس مسجد کی تعریف فرمائی گئی ہے۔ بلکہ وہاں کے نمازیوں کے اوصاف بھی گنوائے گئے ہیں کہ یہ لوگ طہارت کا خیال رکھنے والے نہایت پاکباز ہیں۔ اللہ پاکباز لوگوں کو پسند کرتا ہے۔ اس کے بعد دونوں مسجدوں کا موازنہ کیا گیا ہے۔ کہ کیا دونوں برابر ہو سکتی ہیں؟ ایک کی بنیاد خدا خوفی اور اپنے رب کی خوشنودی پر اٹھائی گئی ہے اور نام نہاد مسجد کی اٹھان کفرو تفریق پر رکھی ہے۔ جس کی حیثیت یہ ہے گویا کہ یہ ایسی عمارت ہے جس کی بنیاد ہی نہیں۔” شَفَا جُرُفٍ ھَارٍ“ کا معنی ہے دریا کا وہ کنارہ جس کے نیچے سے زمین دریا برد ہوچکی ہو اور وہ گرنے ہی والا ہو۔ یہی حالت اس کے بنانے والوں کی ہے۔ ان کا کردار اس قدر گھناؤنا اور عقیدہ اس قدر گندہ ہے کہ یہ لوگ جہنم کے کنارے بیٹھے ہوئے ہیں۔ بس ان کے مرنے کی دیر ہے ادھر مرے اور ادھر جہنم میں دھڑام سے گرے۔ کیونکہ کفر ان کے دلوں میں اس طرح رچ بس گیا ہے کہ التوبہ
110 بے شک ان کے دلوں کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا جائے تو بھی ان کے دلوں سے کفر نکلنے والا نہیں۔ اللہ تعالیٰ کو خوب معلوم ہے کہ یہ اسی حالت میں مریں گے۔ لہٰذا ان کو اپنی حکمت کے مطابق مہلت دیے جارہا ہے۔” شَفَا جُرُفٍ ھَارٍ“ کے الفاظ استعمال فرما کر اس مسجد کے گرانے کا واضح اشارہ دیا گیا جس بناء پر رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے گرانے اور جلانے کا حکم صادر فرمایا۔ مسائل ١۔ ہر کام اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے کرنا چاہیے۔ ٢۔ ایمان اور نفاق کبھی برابر نہیں ہوسکتے۔ ٣۔ ایمان ایک عمارت کی طرح ہے جس کی بنیاد پختہ ہے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ ظالموں کو ہدایت نہیں دیتا۔ ٥۔ جس عمل کی بنیاد نفاق پر ہو خواہ کتنا ہی اچھا لگے وہ جہنم کا سبب ہوگا۔ ٦۔ اعتقادی منافق مرتے دم تک نفاق سے چھٹکارا نہیں پاتا۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ ظالم اور فاسق کو ہدایت نہیں دیتا : ١۔ اللہ تعالیٰ ظالموں کو ہدایت نہیں دیتا۔ (التوبۃ: ١٠٩) ٢۔ یہودیوں اور عیسائیوں سے دوستی کرنے والا انہی میں سے ہے اس کو اللہ ہدایت نہیں دیتا۔ ( المائدۃ: ٥١) ٣۔ اللہ منافقوں کو ہدایت نہیں دیتا۔ (الصف : ٥) ٤۔ اللہ منافقوں کو ہرگز معاف نہیں کرے گا اور اللہ فاسقوں کو ہدایت نہیں دیتا۔ (المنافقون : ٦) ٥۔ جو اللہ کی آیات کی تکذیب کرتے ہیں وہ برے لوگ ہیں۔ اللہ ایسے ظالموں کو ہدایت نہیں دیتا۔ (الجمعۃ: ٥) التوبہ
111 فہم القرآن ربط کلام : منافق اور مخلص مسلمان کے کردار میں فرق۔ منافق کفرو نفاق چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہوتا جبکہ مخلص مسلمان اپنے رب کی رضا جوئی کے لیے اپنی جان کو ہتھیلی پر لیے پھرتا ہے۔ یہاں نہایت ہی اچھوتے انداز میں منافق اور مسلمان کے کردار کا موازنہ پیش کیا جارہا ہے۔ منافق دنیا کے لیے اپنا ایمان اور غیرت داؤ پر لگا دیتا ہے اس کے مقابلے میں مومن اپنے خالق و مالک کی رضا کی خاطر مال، عزت و اقبال، اقتدار اور اختیار یہاں تک کہ اپنی جان بھی قربان کردیتا ہے۔ مومن کے اسی کردار کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مومنوں سے ان کی جانوں اور مالوں کے عوض جنت کا سودا کر رکھا ہے۔ مومن اس کے حصول کے لیے ہر چیز قربان کرنے اور بڑی سے بڑی دشمنی مول لینے کے لیے تیار ہوتے ہیں۔ یہاں تک کہ وہ اللہ کے حکم پر اللہ کے دشمنوں کو قتل کرتے ہیں اور ان کے ہاتھوں شہید بھی ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے جہاد اور ایثار کے بدلے جنت دینے کا وعدہ کر رکھا ہے۔ جس کا تذکرہ تورات، انجیل اور قرآن مجید میں پایا جاتا ہے۔ یہ اللہ کا وعدہ ہے یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ سے بڑھ کر کوئی اپنے وعدہ پورا کرنے والا نہیں ہے۔ لہٰذا اے مجاہدو اور مومنو! اس سوداگری پر خوش ہوجاؤ۔ یہی سب سے بڑی کامیابی ہے۔ دنیا میں اس کامیابی کا صلہ یہ ہے کہ اگر مسلمان کامیاب ہوں تو نہ صرف اللہ تعالیٰ کا دین سر بلند ہوتا ہے بلکہ مسلمانوں کی عزت و اقبال میں اضافہ اور انہیں کفار پر غلبہ اور اقتدار حاصل ہوتا ہے۔ آخرت میں غازیوں اور شہیدوں کو اس قدر اعلی مقام پر فائز کیا جائے گا کہ جنتی بھی ان کی طرف حسرت کی نگاہ سے دیکھا کریں گے امام قرطبی (رض) نے اپنی تفسیر میں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہاتھ پر انصار کی بیعت عقبہ کا ذکر کرتے ہوئے نقل کیا ہے کہ جب انصار کا وفد حج کے موقع پر بیعت کررہا تھا۔ عقبہ پہاڑ کے حصہ کو کہا جاتا ہے یہاں عقبہ سے مراد منیٰ میں جمرہ عقبہ کے ساتھ پہاڑ کا وہ حصہ جہاں نبوت کے گیا رہویں سال چھ آدمیوں نے بیعت کی تھی جیسے بیعت عقبہ کہا جاتا ہے۔ اس میں حضرت عبداللہ بن رواحہ (رض) نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کی کہ اللہ کے رسول ہمیں اپنی بیعت کی شرائط بتلائیں آپ نے فرمایا اللہ کے لیے یہ عہد کرو کہ صرف اسی کی عبادت کرو گے اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں بناؤ گے اور میری حفاظت اس طرح کرو گے جس طرح اپنے مال وجان کی کرتے ہو۔ ابن رواحہ نے عرض کی کہ اللہ کے رسول ہمیں اس کے بدلے میں کیا ملے گا؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ تمہیں اس کے بدلے اللہ جنت عطا فرمائے گا یہ سنتے ہی انصار نے بیک زبان ہو کر کہا کہ ہمیں یہ سودا منظور ہے ہم جیتے جی یہ بیع ٹوٹنے نہیں دیں گے۔ امام رازی (رض) نے یہاں ایک خاص نقطہ اٹھایا ہے۔ فرماتے ہیں کہ چیز وہ خریدی جاتی ہے جو خریدار کے پاس نہ ہو اللہ تعالیٰ تو ہر چیز کا خالق اور مالک ہے پھر خریداری کا کیا معنی؟ امام محترم (رض) خود ہی اس کا جواب دیتے ہیں کہ یہ اللہ تعالیٰ کی کرم نوازی ہے کہ مومن کو دی ہوئی چیز اس سے لیتے ہوئے بھی اس کا بدلہ عنایت کرتا ہے۔ (عَنْ اَنَسٍ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَا مِنْ اَحَدٍ ےَدْخُلُ الْجَنَّۃَ ےُحِبُّ اَنْ یَّرْجِعَ اِلَی الدُّنْےَا وَلَہٗ مَا فِی الْاَرْضِ مِنْ شَےْئٍ اِلَّا الشَّھِےْدُ ےَتَمَنّٰی اَنْ یَّرْجِعَ اِلَی الدُّنْےَا فَےُقْتَلَ عَشْرَ مَرَّاتٍ لِمَا ےَرٰی مِنَ الْکَرَامَۃِ)[ رواہ مسلم : کتاب الامارۃ، باب فضل الشھادۃ فی سبیل اللّٰہ] ” حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا، جنت میں داخل ہونے کے بعد کوئی بھی شخص دوبارہ دنیا میں آنا پسند نہیں کرے گا۔ اگرچہ اسے دنیاکی تمام چیزیں بھی دی جائیں۔ مگر شہید آرزو کرے گا کہ وہ دنیا میں جائے اور دس بار شہید کیا جائے۔ کیونکہ وہ عزت و شرف دیکھ چکا ہوتا ہے۔“ (أول ما یہراق من دم الشہید یغفر لہ ذنبہ کلہ إلا الدین )[ حدیث رقم : ٢٥٧٨، فی صحیح الجامع ] ” پہلے قطرہ خون سے شہید کے قرض کے سوا سب گناہ معاف کردیے جاتے ہیں۔“ (عَنْ سَلْمَانَ الْفَارِسِیِّ قَالَ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَقُوْلُ رِبَاطُ یَوْمٍ وَلَیْلَۃٍ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ خَیْرٌ مِّنْ صِیَامِ شَہْرٍ وَّ قِیَامِہٖ وَاِنْ مَّاتَ جَرٰی عَلَیْہِ عَمَلُہٗ الَّذِیْ کَانَ یَعْمَلُہٗ وَاُجْرِیَ عَلَیْہِ رِزْقُہٗ وَاَمِنَ الْفَتَّانَ) [ رواہ مسلم : باب فضل الرباط فی سبیل اللہ] ” حضرت سلمان فارسی (رض) بیان کرتے ہیں میں نے نبی گرامی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا کہ آپ فرمارہے تھے اللہ کے راستے میں ایک دن اور رات کا پہرہ دینا ایک مہینہ کے روزوں اور قیام سے بہتر ہے اگر وہ فوت ہوجائے تو اس کا عمل برابر جاری رہتا ہے اسے رزق دیا جاتا ہے اور وہ قبرکے فتنہ سے محفوظ رہتا ہے۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے جنت کے بدلے مومنوں کی جانوں اور مالوں کو خرید لیا ہے۔ ٢۔ اللہ کے ساتھ سودا کرنے والوں کو عظیم خوشخبری دی گئی ہے۔ ٣۔ انسان کی جان اور مال اللہ تعالیٰ کی امانت ہے۔ ٤۔ اللہ کے راستے میں قتال کرنا اللہ تعالیٰ سے تجارت کرنا ہے۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ مومنین کی آزمائش کرتا ہے۔ تفسیر بالقرآن مجاہدین کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے وعدے : ١۔ مجاہدین کے ساتھ اللہ نے جنت کا وعدہ فرمایا ہے۔ (التوبۃ: ١١١) ٢۔ مومنین میں سے مجاہد اور غیر مجاہد برابر نہیں ہوسکتے۔ (النساء : ٩٥) ٣۔ اللہ نے مجاہدین کو بیٹھنے والوں پر فضیلت دی ہے۔ (النساء : ٩٥) ٤۔ اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے اللہ کی رحمت کے امید وار ہیں۔ (البقرۃ: ٢١٨) ٥۔ اللہ کی راہ میں مال و جان سے جہاد کرنے والوں کے لیے اچھائیاں اور کامیابی ہے۔ (التوبۃ: ٨٨) ٦۔ اللہ نے مجاہدین کے ساتھ بلند درجات کا وعدہ فرمایا ہے۔ (النساء : ٩٦) ٧۔ ایمان لانے والوں، ہجرت کرنے والوں اور اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والوں کے لیے مغفرت اور رزق کریم ہے۔ (الانفال : ٧٤) التوبہ
112 فہم القرآن ربط کلام : مجاہد صرف اللہ تعالیٰ کی راہ میں لڑنے مرنے والے ہی نہیں ہوتے بلکہ وہ ان اوصاف حمیدہ کے حامل بھی ہوتے ہیں۔ یہاں مجاہدوں اور مومنوں کی نو صفات کا ذکر کیا گیا ہے جن میں پہلی اور بنیادی صفت کفرو شرک اور گناہوں سے اللہ تعالیٰ کے حضور توبہ کرنا ہے۔ ١۔ اَلتَّآءِبُوْنَ: توبہ کرنے والے کافر اور مشرک کے لیے پہلا حکم یہ ہے کہ وہ اپنے کفرو شرک سے سچی توبہ کرے اور حلقہ اسلام میں داخل ہوجائے۔ اسلام میں توبہ کا مرتبہ یہ ہے کہ جب کوئی شخص اللہ کے حضور سچی توبہ کرتا ہے تو اس کے سابقہ گناہوں کو بیک جنبش قلم معاف کردیا جاتا ہے وہ اپنے رب کے ہاں اس طرح ہوجاتا ہے جیسا کہ اس نے گناہ کیا ہی نہیں۔ توبہ کرنے سے انسان کے نہ صرف گناہ معاف ہوتے ہیں بلکہ وہ اپنے آپ کو ہلکا پھلکا محسوس کرتا ہے توبہ کی بنیادی شرائط یہ ہیں : ١۔ سابقہ گناہ پر شرمسار ہو کر معافی مانگنا۔ ٢۔ آئندہ کے لیے گناہ سے بچنے کا عزم بالجزم کرنا۔ ٣۔ اپنی اصلاح کرنا۔ (عَنْ أَبِیْ عُبَیْدَۃَ بْنِ عَبْدِ اللَّہِ عَنْ أَبِیْہِ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) التَّآءِبُ مِنَ الذَّنْبِ کَمَنْ لاَّ ذَنْبَ لَہُ) [ رواہ ابن ماجۃ: کتاب الزہد، باب ذکر التوبۃ] ” حضرت ابو عبیدہ بن عبداللہ اپنے باپ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا گناہوں سے توبہ کرنے والا اس طرح پاک ہوجاتا ہے گویا کہ اس نے گناہ کیا ہی نہیں۔“ ٢۔ اَلْعَابِدُوْنَ: عبادت کرنے والے عبادت کی تین قسمیں ہیں جن کا اقرار ہر نمازی تشہد میں کرتا ہے۔ ١۔ التَّحِیَّاتُ: دعا کرنا اور زبان سے ذکر واذکار کرنا ٢۔ وَالصَّلَواتُ: نماز میں آدمی چار حالتیں اختیار کرتا ہے۔ قیام، رکوع، سجدہ اور تشہد۔ ان میں سے کوئی ایک طریقہ بھی کسی بزرگ یا قبر کے سامنے اختیار کیا جائے تو وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک اور اس کی خالص عبادت کرنے سے انکار کے مترادف ہوگا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کے سامنے عبادت اور ثواب سمجھ کر یہ آداب بجا لانا حرام ہیں۔ ٣۔ والطَّیِّبَاتُ: مالی عبادت۔ یہ بھی صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کے لیے ہونی چاہیے اسی بناء پر غیر اللہ کے لیے نذرانہ پیش کرنا، بتوں یاقبروں پر چڑھاوے چڑھانا یا کوئی چیزنذرانہ کرنا۔ کلی طور پر ناجائز اور حرام ہے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے یہاں تک بچنے کی تلقین فرمائی ہے۔” حضرت ثابت بن ضحاک (رض) بیان کرتے ہیں رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ میں ایک شخص نے نذر مانی کہ وہ ” بوانہ“ مقام پر اونٹ ذبح کرے گا۔ سرور دو عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے دریافت فرمایا کیا وہاں جاہلیت کے بتوں میں سے کوئی بت تھا جس کی پوجا کی جاتی ہو؟ اس نے نفی میں جواب دیا۔ سرور کائنات نے استفسار فرمایا : بھلا وہاں جاہلیت کے میلوں میں سے کوئی میلہ لگتا تھا ؟ اس نے عرض کی کہ نہیں۔ حبیب کبریا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا پھر تجھے نذر پوری کرنا چاہے۔ اس نذر کو پورا نہ کیا جائے جس میں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی ہو اور نہ جس کو انسان پورا کرنے کی طاقت نہ رکھتا ہو۔“ [ رواہ ابو داؤد ] ٣۔ الْحَامِدُوْنَ: حمد کرنے والے اللہ تعالیٰ کی حمد کرنے والے۔ قرآن مجید نے ہمیں یہ حقیقت بتلائی ہے کہ زمین و آسمان کی ہر چیز اللہ تعالیٰ کی حمدو ستائش بیان کرنے میں لگی ہوئی ہیں چنانچہ ارشاد ہوتا ہے۔ ” تسبیح بیان کرتے ہیں اسی کی ساتوں آسمان اور زمین اور جو چیزان میں ہے۔ اور (اس کائنات میں) کوئی بھی ایسی چیز نہیں مگر وہ اس کی تسبیح اور حمد بیان کرتی ہے لیکن تم ان کی تسبیح کو سمجھ نہیں سکتے۔ بے شک اللہ بہت بردبار، بہت بخشنے والا ہے۔“ بنی اسرائیل : ٤٤ (عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَال النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کَلِمَتَانِ حَبِیْبَتَانِ إِلَی الرَّحْمَنِ، خَفِیْفَتَانِ عَلَیْ اللِّسَانِِ، ثَقِیْلَتَانِ فِیْ الْمِیْزَانِ سُبْحَان اللَّہِ وَبِحَمْدِہِ، سُبْحَان اللَّہِ الْعَظِیمِ ) [ رواہ البخاری : کتاب التوحید، باب قول اللہ تعالیٰ ونضع الموازین القسط] ” حضرت ابوہریرہ (رض) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا دو کلمے رحمٰن کو بڑے پسند ہیں، زبان سے ادا کرنے میں آسان اور وزن کے لحاظ سے بھاری ہیں۔ ” سُبْحَان اللّٰہِ وَبِحَمْدِہٖ، سُبْحَان اللّٰہِ العَظِیْم۔“ ٤۔ اَلسَّاءِحُوْنَ: روزے دار روزہ وہ عمل ہے جس کے بارے میں رسول محترم کا ارشاد ہے کہ جس شخص نے ایمان اور احتساب کے ساتھ رمضان کے روزے رکھے اس کے سب کے سب گناہ معاف کردیئے جاتے ہیں۔ جہاں تک نفلی روزے کا تعلق ہے اس کا اجروثواب بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ روزے دار جہنم سے کو سوں میل دور کردیا جاتا ہے۔ ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا آدم کے بیٹے کو تمام نیک اعمال کا بدلہ دس سے سات سو گنا تک دیا جائے گا لیکن اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے روزہ کے سوا کیونکہ روزہ میرے ٍ لیے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا روزہ دار اپنی خواہشات اور کھانے پینے کو میری خوشنودی کے ٍ لیے چھوڑتا ہے۔ روزہ دار کے لیے دو خوشیاں ہیں۔ ایک خوشی جب وہ روزہ افطار کرتا ہے .دوسری خوشی جب اس کی ملاقات اپنے رب سے ہوگی۔ روزے دار کے منہ کی بو، اللہ کے ہاں کستوری کی خوشبو سے بہتر ہے۔ روزہ ڈھال ہے جب تم روزہ رکھو تو فحش کلامی سے احتراز اور جھگڑے سے اجتناب کرو۔ اگر کوئی شخص روزہ دار کو گالی دے یا اس سے جھگڑا کرے تو روزے دار کو کہنا چاہیے میں روزہ دار ہوں۔“ راوہ البخاری : باب ھل یقول انی صا ئم (تفصیل کے لیے میری کتاب برکات رمضان کا مطالعہ فرمائیں۔ ) ٥۔ اَلرَّاکِعُوْنَ: رکوع کرنے والے نماز میں رکوع خاص اہمیت کا حامل رکن ہے اس کے بغیر رکعت مکمل نہیں ہوتی اگر رکعت میں رکوع رہ جائے تو رکعت لوٹانا پڑے گی یہودیوں نے اپنی نماز میں رکوع کو خارج کردیا تھا جس وجہ سے قرآن مجید میں بالخصوص رکوع کی فضیلت و فرضیت کا ذکر کیا گیا ہے۔ ٦۔ اَلسَّاجِدُوْنَ: سجدہ کرنے والے سجدہ مومن کے لیے سکون کا خزینہ اور اس کے رب کی قربت کا آخری زینہ ہے۔ اللہ کے سوا کسی کو سجدہ کرنا حرام اور شرک ہے۔ خواہ سجدہ کسی کی تعظیم کے لیے کیا جائے اور اس میں کوئی تسبیح نہ پڑھی جائے۔ (عَنْ مَّعْدَانَ ابْنِ طَلْحَۃَ (رض) قَالَ لَقِےْتُ ثَوْبَانَ مَوْلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَقُلْتُ اَخْبِرْنِیْ بِعَمَلٍ اَعْمَلُہُ ےُدْخِلُنِیَ اللّٰہُ بِہِ الْجَنَّۃَ فَسَکَتَ ثُمَّ سَاَلْتُہُ فَسَکَتَ ثُمَّ سَأَلْتُہُ الثَّالِثَۃَ فَقَالَ سَأَلْتُ عَنْ ذَالِکَ رَسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَقَالَ عَلَےْکَ بِکَثْرَۃِ السُّجُوْدِ لِلّٰہِ فَاِنَّکَ لَا تَسْجُدُ لِلّٰہِ سَجْدَۃً اِلَّا رَفَعَکَ اللّٰہُ بِھَا دَرَجَۃً وَّحَطَّ عَنْکَ بِھِمَا خَطِےْءَۃً قَالَ مَعْدَانُ ثُمَّ لَقِےْتُ اَبَا الدَّرْدَآءِ فَسَاَلْتُہُ فَقَالَ لِیْ مِثْلَ مَا قَالَ لِیْ ثَوْبَانُ)[ رواہ مسلم : کتاب الصلاۃ، باب فضل السجود والحث علیہ] ” حضرت معدان بن طلحہ (رض) کہتے ہیں میں نے نبی محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے غلام حضرت ثوبان (رض) سے عرض کی کہ مجھے ایسا عمل بتلائیے جس سے مجھے اللہ تعالیٰ جنت میں داخل فرمادیں۔ وہ خاموش ہوگئے۔ میں نے پھر سوال کیا تب بھی آپ نے خاموشی اختیار فرمائی۔ تیسری دفعہ میرے عرض کرنے پر فرمایا کہ میں نے یہی سوال رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا تھا۔ تو آپ نے فرمایا ثوبان تجھے کثرت کے ساتھ اللہ کے حضور سجدے کرنے چاہئیں۔ جب اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے سجدے کرے گا تو اللہ تعالیٰ تیرے درجات کو بلند اور تیرے گناہوں کو معاف فرمادیں گے۔ جناب معدان (رض) کہتے ہیں کہ اس کے بعد میں نے ابودرداء (رض) سے ملاقات کی اور ان سے یہی سوال عرض کیا اور انہوں نے بھی مجھے وہی جواب عنایت فرمایا جو حضرت ثوبان (رض) نے دیاتھا۔“ ٧، ٨۔ امر بالمعروف و نھی عن المنکر : امت محمدیہ کے وجود کی اہمیت و ضرورت کا ذکر کرتے ہوئے قرآن مجید نے متعدد مقام پر ارشاد فرمایا ہے کہ اے مسلمانو! اللہ نے تمہیں امر بالمعروف و نھی عن المنکر کے لیے بنایا ہے جس کا جامع مفہوم یہ ہے کہ نیکی پر عمل پیرا ہونا اور دوسروں کو نیکی کی تلقین کرنا، برائی سے بچنا اور دوسروں کو برائی سے بچنے کا حکم دینا۔ امر بالمعروف طاقت اور قوت کا تقاضا کرتا ہے۔ اس کام کو اجتماعی طور پر کرنے سے صحیح نتائج حاصل ہوتے ہیں اس لیے یہ کام حکومت وقت کا فریضہ قرار پایا ہے۔ (عَنْ اَبِیْ سَعِیْدِنِ الْخُدْرِیِّ (رض) عَنْ رَّسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ: مَنْ رَّاٰی مِنْکُمْ مُنْکَرًا فَلْیُغَیِّرْہُ بِیَدِہٖ فَاِنْ لَّمْ یَسْتَطِعْ فَبِلِسَانِہٖ، فَاِنْ لَّمْ یَسْتَطِعْ فَبِقَلْبِہٖ، وَذٰلِکَ اَضْعَفُ الْاِیْمَانِ) [ رواہ مسلم : کتاب الایمان، باب بیان کون النھی عن المنکر من الایمان] ” حضرت ابوسعید خدری (رض) نبی محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا، تم میں سے جو کوئی برائی دیکھے اسے چاہیے کہ وہ اس کو اپنے ہاتھ سے روکے۔ اور اگر اس کی طاقت نہ ہو تو زبان سے، اگر اس کی بھی طاقت نہ ہو تو پھر کم از کم دل سے نفرت کرے اور یہ سب سے کمزور ایمان ہے۔“ ٩۔ اَلْحَافِظُوْنَ: حفاظت کرنے والے مومنوں اور مجاہدوں کی یہاں آخری صفت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی حدود کی حفاظت کرتے ہیں انفرادی طور پر وہ حدود اللہ کے قریب بھی نہیں پھٹکتے کہ کہیں ان سے حدود اللہ کی خلاف ورزی نہ ہوجائے اور اجتماعی طور پر مسلمان حدود اللہ کا نفاذ کرتے ہیں۔ حدود اللہ سے مراد شریعت کے وہ قانون اور ضابطے ہیں جن کی حفاظت کا مسلمانوں کو انفرادی اور اجتماعی طور پر حکم دیا گیا ہے۔ (عَنِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَا مِنْ نَّبِیٍّ بَعَثَہُ اللّٰہُ فِیْ اُمَّتِہٖ قَبْلِیْ اِلَّا کَانَ لَہُ فِیْ اُمَّتِہٖ حَوَارِیُّوْنَ وَاَصْحٰبٌ یَّأْخُذُوْنَ بِسُنَّتِہٖ وَےَقْتَدُوْنَ بِاَمْرِہٖ ثُمَّ اِنَّھَا تَخْلُفُ مِنْ بَعْدِھِمْ خُلُوْفٌ یَّقُوْلُوْنَ مَالَا ےَفْعَلُوْنَ وَےَفْعَلُوْنَ مَا لَا ےُؤْمَرُوْنَ فَمَنْ جَاھَدَھُمْ بِےَدِہٖ فَھُوَ مُؤْمِنٌ وَمَنْ جَاھَدَھُمْ بِلِسَانِہٖ فَھُوَ مُؤْمِنٌ وَّمَنْ جَاھَدَھُمْ بِقَلْبِہٖ فَھُوَ مُؤْمِنٌ وَلَےْسَ وَرَآءَ ذَالِکَ مِنَ الْاِےْمَانِ حَبَّۃُ خَرْدَلٍٍ) [ رواہ مسلم : کتاب الایمان، باب کون النھی عن المنکر من الایمان] ” حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان ذکر کرتے ہیں کہ مجھ سے پہلے اللہ تعالیٰ نے جتنے انبیاء بھیجے ان کی امت میں ان کے خاص مددگار ہوا کرتے تھے۔ جو اس نبی کے طریقے پر گامزن رہتے اور اس کا حکم مانتے اور پھر ان کے بعد نالائق لوگ آئے وہ جو کچھ کہتے تھے اس پر خود عمل نہیں کرتے تھے بلکہ ایسے کام کرتے جن کی انہیں اجازت نہیں تھی جس نے ایسے لوگوں کو ہاتھ سے روکا وہ مومن ہے اور ان کو زبان سے روکنے والا ایمان دار ہوگا حتی کہ ان کو دل سے برا جاننے والا بھی مومن ہے۔ اس کے بعد رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان نہیں۔“ (عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِیْرٍ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَلْحَلَالُ بَیِّنٌ وَالْحَرَامُ بَیِّنٌ وَبَیْنَہُمَا مُشْتَبِھَاتٌ لَایَعْلَمُھُنَّ کَثِیْرٌ مِنَ النَّاسِ فَمَنِ اِتَّقٰی الشُّبُھَاتِ اِسْتَبْرَأَ لِدِیْنِہِ وَعِرْضِہِ وَمَنْ وَقَعَ فِی الشُّبُھَاتِ وَقَعَ فِی الحَرَامِ کَالرَّاعِی یَرْعٰی حَوْلَ الحِمٰی یُوْشِکُ اَنْ یَرْتَعَ فِیْہِ اَلَا وَاِنَّ لِکُلِّ مَلِکٍ حِمَی اَلَا وَاِنَّ حِمَی اللّٰہِ مَحَارِمُہُ اَلَا وَاِنَّ فِیْ الْجَسَدِ مُضْغَۃً اِذَا صَلُحَتْ صَلُحَ الْجَسَدُ کُلُّہُ وَاِذَا فَسَدَتْ فَسَدَ الْجَسَدُ کُلُّہُ اَلاَ وَہِیَ الْقَلْبُ) [ رواہ البخاری : کتاب الایمان] ” حضرت نعمان بن بشیر (رض) بیان کرتے ہیں رسول مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ حلال واضح ہے اور حرام بھی واضح ہے اور ان دونوں کے درمیان کچھ چیزیں مشتبہ ہیں جنہیں بہت سے لوگ نہیں جانتے جو ان مشتبہات سے بچا رہا۔ اس نے اپنے دین اور اپنی عزت کو بچالیا اور جو شخص مشتبہات میں پڑگیا وہ حرام کا مرتکب ہوا۔ اس کی مثال اس چرواہے کی ہے جو کسی محفوظ چراگاہ کے اردگرداپنے جانور چراتا ہے۔ عین ممکن ہے کہ وہ اس چراگاہ میں چرنے لگیں۔ سنو! ہر بادشاہ کی ایک چراگاہ ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ کی چراگاہ اس کی حرام کی گئی چیزیں ہیں۔ خبردار! جسم میں گوشت کا ایک لوتھڑا ہے، جب تک وہ درست ہوگا تمام جسم درست رہے گا۔ جب اس میں خرابی واقع ہوگی تو سارا جسم فساد زدہ ہوجائے گا۔ سنو! وہ لوتھڑا دل ہے۔“ (عَنِ ابِنْ عُمَرَ (رض) أَنَّ رَسُوْلَ اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ إِقَامَۃُ حَدٍّ مِنْ حُدُود اللَّہِ خَیْرٌ مِنْ مَطَرِ أَرْبَعِینَ لَیْلَۃً فِی بلاَدِ اللَّہِ عَزَّ وَجَلَّ )[ رواہ ابن ماجۃ: کتاب الحدود، باب اقامۃ الحدود] ” حضرت عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ تعالیٰ کی حدود میں سے ایک حد کو قائم کرنازمین پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے چالیس راتیں بارش نازل کرنے سے بہتر ہے۔“ مسائل ١۔ ایمان کے تقاضے پورے کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے جنت کی خوشخبری ہے۔ ٢۔ مومن ہر قسم کے گناہ سے توبہ کرتے ہیں۔ ٣۔ مومن اللہ کی عبادت کرتے ہیں۔ ٤۔ مومن اللہ کی حمدو ثنا بیان کرتے ہیں۔ ٥۔ مومن روزے رکھتے ہیں۔ ٦۔ مومن اللہ کے حضور رکوع کرتے ہیں۔ ٧۔ مومن اپنے رب کی بارگاہ میں سجدے کرتے ہیں۔ ٨۔ مومن نیکی کا حکم دیتے اور برائی سے روکتے ہیں۔ ٩۔ مومن اللہ تعالیٰ کی حدود و قیود کی حفاظت کرتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن متقین کے چند اوصاف : ١۔ توبہ کرنا، عبادت کرنا، حمد کرنا، روزے رکھنا، رکوع و سجود کرنا، نیکی کا حکم دینا، برائی سے روکنا اور اللہ کی حدود کی حفاظت کرنا۔ (التوبۃ: ١١٢) ٢۔ اللہ، آخرت کے دن، فرشتوں، کتابوں اور انبیاء پر ایمان لاتے ہیں۔ اللہ کی محبت کے لیے یتیموں، مسکینوں، مسافروں، سائلوں اور گردنوں کے آزاد کرانے کے لیے مال خرچ کرتے ہیں۔ نماز قائم کرتے اور زکوٰۃ ادا کرتے ہیں۔ وعدے کی پاسداری کرتے، تنگی، بیماری اور لڑائی کے وقت صبر کرتے ہیں۔ یہی اپنے ایمان میں سچے اور یہی متقین ہیں۔ (البقرۃ: ١٧٧) ٣۔ غیب پر ایمان لانا، نماز قائم کرنا، اللہ کے دیئے ہوئے مال سے خرچ کرنا، قرآن مجید اور سابقہ کتب سماویہ پر ایمان لانا اور آخرت پر یقین رکھنا۔ (البقرۃ: ٣۔ ٤) ٤۔ متقین تنگی اور فراخی میں خرچ کرتے ہیں، غصہ پی جاتے اور لوگوں کو معاف کردیتے ہیں۔ (آل عمران : ١٣٤) ٥۔ یقیناایمان والے کامیاب ہوگئے۔ (المو منون : ١) ٦۔ وہی جو اپنی نماز میں عاجزی کرنے والے ہیں۔ (المومنون : ٢) التوبہ
113 فہم القرآن ربط کلام : مومنوں کی صفات بیان کرنے سے پہلے جہاد و قتال کے ذکر کے دوران فرمایا تھا کہ مومنوں سے ان کی جان و مال کے بدلے اللہ تعالیٰ نے جنت کا وعدہ کر رکھا ہے۔ جبمسلمانوں کو کفار اور مشرکین کے خلاف جہاد کرنے کا حکم ہے تو پھر مشرکین کے لیے دعائے مغفرت کرنے کا کیا معنی؟ اسی سورۃ کی آیت ٨٠ میں منافقین کے حق میں استغفار سے منع کیا گیا ہے اور اب مشرکین کے حق میں استغفار کرنے سے روک دیا گیا ہے۔ اکثر مفسرین نے اس کا شان نزول بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ نبوت کے آٹھویں سال جناب ابو طالب شدید بیمار ہوئے اور ان کے جانبر ہونے کی کوئی امید باقی نہ رہی۔ نزع کے وقت رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے چچا ابو طالب کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے آپ کو احساس ہوا کہ چچا کا آخری وقت آن پہنچا ہے۔ جب آپ ان کے سرہانے کے قریب خالی جگہ پر بیٹھنے لگے تو ابو جہل جو اپنے ساتھیوں سمیت جناب ابو طالب کے ہاں بیٹھا ہوا تھا۔ وہ رسول محترم کو دیکھ کر اپنی جگہ سے اٹھ کر ابو طالب کے قریب خالی جگہ پر جا بیٹھا تاکہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے چچا سے کوئی خاص بات نہ کرسکیں۔ اس صورت حال میں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی جگہ پر کھڑے ہو کر اپنے محسن چچا کو مخاطب فرماتے ہوئے توجہ دلائی کہ چچا اگر اب بھی آپ میرا کلمہ طیبہ پڑھ لیں تو میں قیامت کے روز اللہ کے حضور آپ کی سفارش کروں گا۔ قریب تھا کہ جناب ابو طالب کلمہ شہادت پڑھ لیتے مگر ابوجہل اور اس کے دوسرے ساتھیوں نے اسے غیرت دلانے کے انداز میں کہا کیا آپ آخری وقت باپ دادا کے دین سے منحرف ہوجائیں گے؟ جناب ابو طالب نے نہایت نحیف آواز میں کہا کہ نہیں میں اپنے باپ دادا کے عقیدہ پر مرنا پسند کرتا ہوں۔ انہی الفاظ کے ساتھ ان کی روح پرواز کرگئی۔ اس پر رسول محترم نہایت رنجیدہ خاطر ہو کر اپنے گھر تشریف لائے۔ آپ کو اس حالت میں چچا کے مرنے کا انتہائی صدمہ ہوا بعض اہل علم نے لکھا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی طرف سے اپنے چچا سے وعدہ کیا تھا کہ میں بہرحال آپ کے لیے استغفار کی دعا کروں گا۔ اس پس منظر میں یہ آیت نازل ہوئی کہ نبی اور آپ کے ساتھیوں کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ مشرکوں کے لیے دعائے مغفرت کریں بے شک مشرک ان کے کتنے ہی عزیز کیوں نہ ہوں۔ مشرکوں کے لیے ابدی جہنم ہے شرک اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کی صفات میں غیروں کو شریک کرنے کا نام ہے۔ یہ جرم اللہ تعالیٰ سے غداری کے مترادف ہے غدّار کو کوئی بھی معاف نہیں کیا کرتا۔ (عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اَھْوَنُ اَھْلِ النَّارِ عَذَابًا اَبُوْطَالِبٍ وَھُوَمُتَنَعِّلٌ بِنَعْلَیْنِِِِ یَغْلِیْ مِنْھُمَا دِمَاغُہٗ)[ رواہ مسلم : کتاب الایمان، باب أھون أھل النار عذابا] ” حضرت عبداللہ بن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا، دوزخیوں میں سب سے ہلکا عذاب ابوطالب کو ہوگا وہ آگ کے دو جوتے پہنے ہوئے ہوگا جس کی وجہ سے اس کا دماغ ابل رہا ہوگا۔“ مسائل ١۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مشرکوں کے لیے مغفرت کی دعا کرنے کی اجازت نہ تھی۔ ٢۔ کسی مسلمان کی شان نہیں کہ وہ مشرک کے لیے مغفرت کی دعا کرے۔ ٣۔ ایمان کے مقابلہ میں رشتہ داری کی کوئی حیثیت نہیں۔ ٤۔ مشرک یقیناً جہنمی ہے۔ تفسیر بالقرآن مشرک اور منافق کے لیے دعائے مغفرت کرنے کی ممانعت : ١۔ نبی اور مومنین کے لیے جائز نہیں کہ وہ مشرکین کے لیے دعائے مغفرت کریں۔ (التوبۃ: ١١٣) ٢۔ آپ منافقین کے لیے بخشش طلب کریں یا نہ کریں اللہ انہیں معاف نہیں کرے گا۔ (المنافقون : ٦) ٣۔ آپ منافق کے لیے ستر بار بھی مغفرت طلب کریں اللہ اسے نہیں بخشے گا۔ (التوبۃ: ٨٠) ٤۔ منافقین میں سے جو مرے اس کی نماز جنازہ نہ پڑھائیں اور نہ ہی آپ ان کی قبر پر کھڑے ہوں۔ (التوبۃ: ٨٤) ٥۔ ابراہیم نے اپنے باپ کے لیے مغفرت کی دعا وعدے کی بنیاد پہ کی تھی۔ جب ان کے لیے واضح ہوگیا کہ وہ جہنمی ہے تو انہوں نے برأت کا اظہار کردیا۔ (التوبۃ: ١١٤) التوبہ
114 فہم القرآن ربط کلام : مشرک کے حق میں دعا نہ کرنے کی ٹھوس دلیل اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے حوالے سے ایک بات کی وضاحت۔ یہودو نصارٰی اور عربوں میں یہ بات معروف تھی کہ ابراہیم (علیہ السلام) کے والد دین حنیف پر نہیں تھے اس کے باوجود حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے باپ کے لیے استغفار کی دعا کی تھی۔ جس کی اس طرح وضاحت کی جارہی ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے باپ سے اس کے حق میں استغفار کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ کیونکہ ابراہیم (علیہ السلام) نہایت ہی خیر خواہ، نرم خو اور مہربان طبیعت کے مالک اور بڑے حوصلہ مند، حلیم الطبع تھے۔ جس بنا پر انھوں نے اپنے باپ کی زیادتیوں کے باوجود از راہ ہمدردی اور پدرانہ آداب کے تحت وعدہ کیا تھا کہ میں آپ کے لیے دعائے مغفرت کروں گا۔ قرآن مجید اس بات کی صراحت کرتا ہے کہ جب ابراہیم (علیہ السلام) پر واضح ہوگیا کہ میرا باپ اللہ کا دشمن ہے تو وہ اس سے بیزار ہوگئے سورۃ الممتحنہ آیت ٤ میں مزید وضاحت کی گئی ہے کہ لوگو ! تمھارے لیے ابراہیم (علیہ السلام) بہترین نمونہ ہیں لیکن ان کا اپنے باپ کے ساتھ استغفار کرنے کا وعدہ کرنا تمھارے لیے دلیل اور نمونہ نہیں ہوسکتا۔ ابراہیم (علیہ السلام) کے باپ کو عدواً للہ قرار دیا گیا ہے جس کا صاف معنیٰ ہے کہ مشرک اللہ کا دشمن ہوتا ہے اور کسی مومن کا یہ عقیدہ اور اس کی غیرت یہ گوارا نہیں کرسکتی کہ وہ اللہ کے دشمن کی سفارش اللہ کے سامنے پیش کرے یہ عقل حیا اور دینی غیرت کے منافی بات ہے اس لیے نبی آخر الزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور تمام مسلمانوں کو مشرک کے حق میں استغفار کرنے سے روک دیا گیا ہے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے باپ کا انجام : (عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ یَلْقٰی اِبْرَاھِیْمُ اَبَاہُ اٰزَرَ یَوْمَ الْقِیَا مَۃِ وَعَلٰی وَجْہِ اٰزَرَ قَتَرَۃٌ وَغَبَرَۃٌ فَیَقُوْلُ اِ بْرَاھِیْمُ اَلَمْ اَقُلْ لَّکَ لَاتَعْصِنِیْ فَیَقُوْلُ لَہٗ اَبُوْہُ اَ لْیَوْ مَ لَا اَعْصِیْکَ فَیَقُوْلُ اِبْرَاھِیْمُ یَارَبِّ اِنَّکَ وَعَدْتَّنِیْ اَنْ لَّا تُخْزِیَنِیْ یَوْمَ یُبْعَثُوْنَ فَاَیُّ خِزْیٍ اَخْزٰی مِنْ اَبِیْ الْاَبْعَدِ فَََیَقُوْلُ اللّٰہُ تَعَالٰی اِنِّی حَرَّمْتُ الْجَنَّۃَ عَلَی الْکَافِرِیْنَ ثُمَّ یُقَالُ لِاِبْرَاھِیْمَ اُنْظُرْ مَا تَحْتَ رِجْلَیْکَ فَیَنْظُرُ فَاِذَاھُوَ بِذِیْخٍ مُتَلَطِّخٍٍ فَیُؤْخَذُبِقَوَاءِمِہٖ فَیُلْقٰی فِیْ النَّارِ) [ رواہ البخاری : باب قول اللہ (واتخذ اللہ ابراھیم خلیلا)] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : قیامت کے دن ابراہیم (علیہ السلام) اپنے والد آزر سے ملیں گے اس کے چہرے پر سیاہی اور گردو غبار ہوگا حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ان سے فرمائیں گے۔ کیا میں نے تمہیں دنیا میں نہیں کہا تھا کہ میری نافرمانی نہ کرنا؟ ان کے والد جواب دیں گے آج کے دن میں آپ کی نافرمانی نہیں کروں گا۔ اس پر ابراہیم (علیہ السلام) اپنے رب کے حضور عرض کریں گے اے میرے پروردگا ر! بے شک آپ نے مجھ سے وعدہ فرمایا تھا کہ حشر کے دن آپ مجھ کو رسوا نہیں کریں گے اب اس سے بڑھ کر کیا ذلت ہو سکتی ہے کہ میرا باپ ذلیل ہواجا رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرمائیں گے‘ بلا شبہ میں نے کافروں پر جنت حرام کردی ہے پھر ابراہیم (علیہ السلام) سے کہا جائے گا اپنے قدموں کی طرف دیکھو۔ وہ دیکھیں گے تو آپ کا باپ گندگی میں لتھڑا ہوا بجو ہوگا‘ جس کو ٹانگوں سے پکڑ کر دوزخ میں پھینک دیا جائے گا۔“ مسائل ١۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے وعدہ کی بنیاد پر اپنے باپ کے لیے مغفرت کی دعا کی تھی۔ ٢۔ مشرک اللہ کا دشمن ہوتا ہے۔ ٣۔ عقیدہ توحید کے ساتھ دشمنی پر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے والد سے براءت کا اعلان کیا۔ ٤۔ حضرت ابراہیم نہایت نرم دل انسان تھے۔ تفسیر بالقرآن حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے اوصاف حمیدہ : ١۔ ابراہیم نرم دل اور بردبار تھے۔ (التوبۃ: ١١٤) ٢۔ ابراہیم نہایت راست باز نبی تھے۔ (مریم : ٤١) ٣۔ بے شک ابراہیم بڑے حلیم، بڑے خیر خواہ اور نرم دل تھے۔ (ہود : ٧٥) ٤۔ ابراہیم ہمارے مومن بندوں میں سے تھے۔ (الصٰفت : ١١١) ٥۔ ابراہیم معبودان باطل کے انکاری اور براءت کا اظہار کرتے تھے۔ (الممتحنہ : ٤) ٦۔ ابراہیم کو اللہ نے ابتداء سے ہی ہدایت سے سرفراز فرمایا تھا۔ (الانبیاء : ٥١) التوبہ
115 فہم القرآن ربط کلام : پچھلی دو آیات کے مفہوم کا تتمہ اور ایک غلط فہمی کا ازالہ : اس سے پہلے دو آیات میں مشرکین کے لیے استغفار کرنے سے منع کیا گیا ہے جس کے نتیجہ میں صحابہ کرام (رض) کے دلوں میں یہ خدشہ اور غلط فہمی پیدا ہوئی کہ جو صحابہ اپنے مشرک عزیز و اقرباء کے لیے دعائے مغفرت کرتے رہے ہیں ان کا کیا ہوگا۔ اس شبہ کے ازالہ کے لیے یہ آیات نازل ہوئیں کہ اللہ تعالیٰ کسی قوم کو ان کی ہدایت پا جانے کے بعد گمراہ نہیں کرتا اور نہ ہی ہدایت واضح کرنے سے پہلے لوگوں کی گمراہی پر گرفت کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے اور زمین و آسمان میں اسی کی حقیقی اور دائمی بادشاہی ہے۔ وہی موت و حیات پر اختیار رکھنے والا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے سوا تمہارا کوئی خیر خواہ اور مددگار نہیں ہوسکتا۔ یہاں ولی اور نصیر کی صفات ذکر کر کے واضح کیا ہے کہ مشرکوں کے ساتھ قلبی تعلق یا کسی مفاد کی بنیاد پر ان سے روحانی رشتہ استوار نہ کرو۔ کیونکہ اگر اللہ تعالیٰ تمہاری مدد اور خیر خواہی نہ کرے تو زمین و آسمان میں کوئی بھی تمہاری نصرت و مدد کرنے والا نہیں ہوگا۔ یہ بات پہلے بھی واضح کی جاچکی ہے کہ اللہ تعالیٰ جب ہدایت اور گمراہی کو اپنی طرف منسوب کرتا ہے تو اس کا یہ معنی نہیں ہوتاکہ اللہ تعالیٰ کسی کو جبراً ہدایت دیتا یا گمراہ کرتا ہے۔ اس سے مراد یہ ہوتی ہے کہ ہدایت اور گمراہی بھی اسی طرح ہی اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے جس طرح زمین و آسمان کی ہر چیز اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے۔ لہٰذا ربِّ کریم سے ہدایت کی طلب اور گمراہی سے بچنے کی دعا کرتے رہنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ کا ہدایت اور گمراہی کو اپنی طرف منسوب کرنے کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ جو کوئی جان بوجھ کر گمراہی اختیار کرتا ہے اللہ تعالیٰ اسے گمراہ رہنے دیتا ہے اور جو ہدایت کا طالب ہے اور اس کی جستجو کرتا ہے اسے وہ ہدایت کی توفیق دیتا ہے۔ جو ہدایت یافتہ ہو اسے اللہ تعالیٰ کبھی گمراہ نہیں کرتا۔ بلکہ وہ اسے ہدایت پر ثابت قدمی عطا کرتا ہے۔ (اللَّہُمَّ اہْدِنِی فیمَنْ ہَدَیْتَ وَعَافِنِی فیمَنْ عَافَیْتَ وَتَوَلَّنِی فیمَنْ تَوَلَّیْتَ وَبَارِکْ لِیْ فِیْمَا اَعْطَیْتَ) [ رواہ ابوداؤد : باب القنوت فی الوتر] ” اے اللہ مجھے ان کے ساتھ ہدایت دے جن کو تو نے ہدایت دی، اور مجھے عافیت دے ان میں جن کو تو نے عافیت دی اور کارساز بن میرا ان میں جن کی تو نے کارسازی کی اور جو کچھ مجھے دیا ہے اس میں برکت عطا فرما۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ کسی کو گمراہ نہیں کرتا۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ ہر چیز کو جاننے والا ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کے لیے ہدایت اور گمراہی کے راستے واضح کردیے ہیں۔ ٤۔ زمین و آسمان میں اللہ تعالیٰ کی حکومت ہے۔ ٥۔ موت و حیات اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ ہی موت و حیات کا مالک ہے : ١۔ اللہ ہی زندہ کرتا اور مارتا ہے۔ (التوبۃ: ١١٦) ٢۔ اللہ ہی معبود برحق ہے وہی مردوں کو زندہ کرتا ہے۔ (الحج : ٦) ٣۔ اللہ ہی زندہ کرتا ہے اور مارتا ہے اور وہی تمھارے اعمال کو دیکھنے والا ہے۔ (آل عمران : ١٥٦) ٤۔ اللہ کے علاوہ کوئی الٰہ نہیں وہی زندہ کرتا اور مارتا ہے۔ (الاعراف : ١٥٨) ٥۔ اللہ وہ ذات ہے جو زندہ کرتی اور مارتی ہے دن اور رات کا مختلف ہونا اسی کے حکم سے ہے (المومنون : ٨٠) ٦۔ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں وہی زندہ کرتا ہے اور مارتا ہے وہ تمہارا اور تمہارے آباء و اجداد کا رب ہے۔ (الدخان : ٨) ٧۔ زمین و آسمان کی بادشاہت اسی کی ہے وہ زندہ کرتا اور مارتا ہے۔ (الحدید : ٢) التوبہ
116 التوبہ
117 فہم القرآن ربط کلام : غزوہ تبوک سے پیچھے رہ جانے والے مخلص مسلمانوں کو معاف کرتے ہوئے اسی سورۃ کی آیت ١٠٦ میں تین مخلص مسلمانوں کے معاملے کو مؤخر کرنے کا اعلان کیا گیا تھا اب ان کے بارے میں فیصلہ صادر ہوتا ہے۔ غزوہ تبوک سے پیچھے رہ جانے والے تین قسم کے لوگ تھے۔ ١۔ جسمانی طور پر معذور اور اسباب آمدورفت کے میسر نہ ہونے کی وجہ سے مجبور۔ ٢۔ منافقین۔ ٣۔ بلاعذر پیچھے رہ جانے والے دس صحابہ کرام (رض) تھے۔ دس میں سے سات ایسے صحابہ تھے جنہوں نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تبوک سے واپسی پر اپنی سزا خود تجویز کرتے ہوئے اپنے آپ کو مسجد کے ستونوں کے ساتھ جکڑ لیا تھا۔ جن کی توبہ کے بارے میں آیت ١٠٥ کی تفسیر میں تفصیل سے عرض ہوچکا ہے۔ تین صحابہ کی حالت اب بیان کرنے اور تینوں کی توبہ مستجاب فرمانے سے پہلے بطور استحسان ذکر کیا جارہا ہے کہ اللہ نے انصار و مہاجرین اور ان مجاہدوں پر بڑا فضل و کرم فرمایا جو انتہائی تنگی اور خوف کے عالم میں تبوک کے لیے نکلے حالانکہ کچھ صحابہ (رض) کے دل اس صورت حال میں انشراح محسوس نہیں کر رہے تھے۔ کیونکہ شدیدترین گرمی، فصلیں کٹنے پر آئی ہوئیں اور دشمن زبردست طاقتور مزید یہ کہ سفردشوار اور طویل ترین تھا۔ اس صورت میں محض اللہ کی توفیق اور اس کی نظر کرم کا نتیجہ تھا کہ اللہ نے اپنے نبی کو بروقت اور جرأت مندانہ فیصلہ کرنے کی توفیق عطا فرمائی۔ حالانکہ منافقوں نے مسلمانوں کے حوصلے پست کرنے کی ہر قسم کی کوشش کی تھی۔ لیکن رب کریم کا کرم شامل حال تھا۔ اس لیے انصار، مہاجرین اور دیگر مسلمان اس ولولہ اور جذبہ کے ساتھ نکلے کہ دنیا کی واحد سیاسی اور فوجی سپر طاقت مسلمانوں کا سامنا کرنے کی بجائے پسپائی میں اپنی خیر سمجھتی ہے۔ جسے بیان کرتے ہوئے صحابہ کرام (رض) کو ( لقد تاب اللہ) کے الفاظ کا اعزاز بخشا گیا ہے۔ تین صحابہ (رض) نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تبوک سے واپسی پر صاف اور واضح بات کی کہ ہمارے پاس عذر نہیں محض سستی اور غفلت کی وجہ سے لشکر کے ساتھ شمولیت نہ کرسکے۔ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے بارے میں اعلان کیا کہ ان کے ساتھ تمام مسلمان سوشل بائیکاٹ کریں۔ آپ کا حکم صادر ہوتے ہی مسلمانوں نے اتنا سخت بائیکاٹ کیا کہ حضرت کعب (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک دن میں اپنے چچا زاد بھائی سے ملنے اس کے باغ میں پہنچا لیکن اس نے میرے ساتھ کلام نہیں کی۔ میں نے نہایت آزردگی کے ساتھ کہا کہ بھائی میں آپ کا رشتہ دار اور پکا مسلمان ہوں اس کے جواب میں اس نے صرف اتنی بات کہی اللہ اور اس کے رسول بہتر جانتے ہیں۔ لہٰذا میں تجھ سے کلام نہیں کرسکتا۔ حضرت کعب (رض) کہتے ہیں جب میں مسجد نبوی میں جاتا اور نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف دیکھتا تو آپ اپنا چہرۂ انور دوسری طرف پھیر لیتے تھے۔ کعب بن مالک، ھلال بن امیہ اور مرارہ بن ربیع (رض) اسی رنج و غم میں وقت گزار رہے تھے، یہاں تک کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دوسرا حکم صادر فرمایا کہ ان کے ساتھ ان کی بیویاں بھی نہ رہیں۔ چنانچہ اس حکم پر عمل کرتے ہوئے دو کی بیویاں اپنے میکے چلی گئیں۔ حضرت ہلال بن امیہ کہتے ہیں کہ میری بیوی نے اللہ کے نبی کی خدمت میں جا کر عرض کی کہ میرا خاوند بوڑھا ہے میرے سوا اس کی خدمت کرنے والا کوئی نہیں اگر آپ اجازت فرمائیں تو میں روٹی پانی دینے کی حد تک اس کی خدمت کرتی رہوں۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو اس حد تک خدمت کرنے کی اجازت فرمائی۔ ان تین صحابہ (رض) کی کیفیت اور اضطراب کا قرآن مجید ذکر کرتے ہوئے وضاحت کرتا ہے کہ تین پیچھے رہ جانے والوں پر زمین کشادہ ہونے کے باوجود تنگ ہوگئی یہاں تک کہ ان کے وجود بھی ان کے لیے بوجھ بن گئے اور انہیں ہر اعتبار سے یقین ہوگیا کہ اللہ تعالیٰ کے سوا ان کے لیے کوئی جائے پناہ نہیں دوسرے الفاظ میں زندگی کے باوجود وہ اپنے آپ کو مردہ تسلیم کررہے تھے۔ اس کڑی اور شدید ترین آزمائش میں تینوں صحابہ پورے اترے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول فرمائی کیونکہ اللہ توبہ قبول کرنے والا اور سب سے بڑا مہربان ہے۔ اس موقعہ پر یہ حکم نازل ہوا کہ مسلمانو! ہر حال میں اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو اور سچے لوگوں کے ساتھ معاونت اور ان کی معیت اختیار کرو جس میں یہ تلقین پائی جاتی ہے کہ آئندہ ایسی غلطیوں سے بچو۔ سستی اور غفلت کی بجائے ہر حال میں حق و صداقت کا ساتھ دینے والوں کی رفاقت اختیار کرو۔ m حضرت کعب (رض) پر ایک آزمائش یہ بھی آئی کہ غسّان کے حکمران نے ان کے پاس خط بھیجا کہ مجھے معلوم ہوا کہ آپ کے رسول نے آپ پر سختی کر رکھی ہے۔ میرا خط ملتے ہی آپ میرے پاس تشریف لے آئیں، یہاں آپ کو ہر طرح اقبال و مقام دیا جائے گا۔ حضرت کعب (رض) سمجھ گئے کہ یہ آزمائش پر آزمائش ہے۔ انہوں نے ٹھنڈی آہ بھری اور فرمایا کہ مجھ پر یہ وقت بھی آنا تھا کہ میرا دشمن مجھ سے اس بات کی توقع کرے کہ میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ساتھ چھوڑ دوں۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے ایلچی کی موجودگی میں غسان کے حاکم کا خط آگ میں پھینک دیا اور فرمایا کہ اس خط کا میرے نزدیک یہی جواب ہوسکتا ہے۔ ان آیات سے صحابہ کرام (رض) کی نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ وارفتگی اور آپ کی تابعداری اور نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جماعت کینظم و ضبط کا اندازہ ہوتا ہے کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کن اخلاقی بنیادوں پر صحابہ کرام (رض) کو منظم کیا تھا۔ جس بنا پر وہ عرب و عجم کے حکمران بنے۔ (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ ابِنْ مَسْعُوْدٍ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عَلَیْکُمْ بالصِّدْقِ فَإِنَّ الصِّدْقَ یَھْدِیْ اِلٰی الِبِرِّ وَاِنَّ الْبِرَّ یَھْدِیْ اِلَی الْجَنَّۃِ وَمَایَزَال الرَّجُلُ یَصْدُقُ وَیَتَحَرَّی الصِّدْقَ حَتّٰی یُکْتَبَ عِنْدَ اللّٰہِ صِدِّیْقًا وَاِیَّاکُمْ وَاْلکَذِبَ فَاِنَّ الْکَذِبَ یَھْدِیْ اِلَی الْفُجُوْرِ وَاِنَّ الْفُجُوْرَ یَھْدِیْ اِلَی النَّارِ وَمَا یَزَال الرَّجُلُ یَکْذِبُ وَیَتَحَرَّی الْکَذِبَ حَتّٰی یُکْتَبَ عِنْدَ اللّٰہِ کَذَّاباً۔ (متفق علیہ) وَفِیْ رِوَایَۃٍ لِّمُِسْلمٍ قَالَ اِنَّ الصّدْقَ بِرٌّ وَّ اِنَّ الِبرَّ یَھْدِیْ اِلَی الْجَنَّۃ، وَاِنَّ الْکَذِبَ فُجُوْرٌوَّ اِنَّ الفُجُوْرَ یَہْدِیْ اِلَی النَّارِ)[ رواہ مسلم : کتاب البروالصلۃ والاداب، باب قبیح الکذب وحسن الصدق] ” حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا! تم سچائی اختیار کرو۔ اس لیے کہ سچائی نیکی کی جانب رہنمائی کرتی ہے۔ اور نیکی جنت کی طرف لے جاتی ہے۔ یہاں تک کہ آدمی سچی بات کہنے کا عادی اور سچائی کا طلب گار ہوجاتا ہے۔ وہ اللہ کے نزدیک سچا لکھ دیا جاتا ہے۔ اور تم جھوٹ سے کنارہ کش رہو۔ اس لیے کہ جھوٹ گناہ کی جانب لے جاتا ہے۔ اور گناہ دوزخ میں پہنچا دیتے ہیں۔ ایک شخص ہمیشہ جھوٹ بولتا اور جھوٹ کا عادی ہوجاتا ہے یہاں تک کہ وہ اللہ کے ہاں کذاب لکھ دیا جاتا ہے۔ مسلم کی ایک روایت میں ہے، بلا شبہ سچ بولنا نیک کام ہے۔ اور نیکی جنت کی طرف رہنمائی کرتی ہے۔ اور جھوٹ بولنا برا کام ہے اور برا کام دوزخ کی طرف لے جاتا ہے۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ کا حکم ہر حال میں تسلیم کرنا چاہیے۔ ٢۔ انسان کو ہر حال میں اللہ تعالیٰ کی طرف ہی رجوع کرنا چاہیے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ بہت زیادہ رحم کرنے والا ہے۔ ٤۔ انسان کو ہمیشہ سچ کا ساتھ دینا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ نہایت مہربان اور رحم کرنے والا ہے : ١۔ اللہ بڑا شفیق اور رحم کرنے والا ہے۔ (التوبۃ: ١١٧) ٢۔ اللہ توبہ قبول کرنے اور رحم فرمانے والا ہے۔ (التوبۃ: ١١٨) ٣۔ اللہ سے بخشش طلب کرو بے شک وہ بخشنے اور رحم کرنے والا ہے (المزمل : ٢٠) ٤۔ اللہ سے ڈرو بے شک اللہ توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے۔ (الحجرات : ١٢) ٥۔ بے شک اللہ نرمی کرنے والا، رحم کرنے والا ہے۔ (الطور : ٢٨) ٦۔ میرا رب رحم کرنے اور محبت فرمانے والا ہے۔ (ہود : ٩٠) ٧۔ میرے رب مجھے معاف اور مجھ پر رحم فرما تو بہترین رحم کرنے والا ہے۔ (المومنون : ١١٨) التوبہ
118 التوبہ
119 التوبہ
120 فہم القرآن ربط کلام : غزوہ تبوک سے پیچھے رہنے والوں کی توبہ قبول کرتے ہوئے آئندہ کے لیے مسلمانوں کو ہدایت فرمائی کہ اب کے بعد ہرگز ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جہاد کا حکم دیں، یا بنفس نفیس نکلیں تو اے مسلمانو! تمھارے لیے جائز نہیں کہ تم آپ سے پیچھے بیٹھے رہو۔ اس آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ جب خلیفہ وقت جہاد کا اعلان عام کردے تو پھر جہاد فرض عین ہوتا جاتا ہے۔ اس سے پیچھے رہنا سنگین ترین جرم ہوگا۔ جس کی خلیفۂ وقت کوئی بھی سزا تجویز کرسکتا ہے۔ جس طرح نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تبوک سے پیچھے رہنے والوں کی تادیب کی تھی۔ اس لیے حکم صادر ہوا کہ جب نبی معظم جہاد کے لیے نکلیں تو کسی شہری اور دیہاتی کو پیچھے نہیں رہنا چاہیے۔ اور نہ ہی انھیں اپنے آپ کو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات سے مقدم سمجھنا چاہیے۔ اس سے یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ بعض معرکے ایسے ہونے چاہییں جن میں مسلمانوں کے حکمران کو کمانڈر انچیف کا کردار ادا کرنا چاہیے۔ تاکہ قوم میں انتہا درجے کا جوش و جذبہ پیدا ہو۔ اس کے ساتھ جہاد کی مشکلات گنوائیں ہیں تاکہ مجاہد ذھنی، جسمانی طور پر اور ہر طرح کے اسلحہ سے لیس ہو کر میدان کارزار میں اتریں۔ درج ذیل مشکلات میں سے کوئی ایک یا بیک وقت تمام کی تمام مشکلات پیش آسکتی ہیں۔ بھوک، پیاس، تھکان اور ہر قسم کی جسمانی مشقت، جنگ میں مشکل مراحل کا آنا، دشمن کے ساتھ آمنا سامنا اور ہر وقت ٹکراؤ کا خطرہ، گھمسان کا آن پڑنا۔ مالی وسائل کی کمی۔ ان مشکلات کے باوجود جہاد کرنا ہے اس کے بدلے مجاہد کو ہر قدم پر بہترین اجر سے نوازا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ چھوٹی سے چھوٹی نیکی اور خدمت کا اجر ضائع نہیں کرتا۔ (عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ لَغَدْوَۃٌ فِیْ سَبِیْلِ اللَّہِ أَوْ رَوْحَۃٌ خَیْرٌ مِنَ الدُّنْیَا وَمَا فِیْہَا) [ رواہ البخاری : کتاب الجہاد، باب الغدوۃ والروحۃ فی سبیل اللہ] ” حضرت انس بن مالک (رض) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا صبح یا شام اللہ تعالیٰ کی راہ میں لگانا دنیا و مافیھا سے بہتر ہے۔“ (عن عَبْد الرَّحْمَنِ بن جَبْرٍ (رض) أَنَّ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ مَا اغْبَرَّتْ قَدَمَا عَبْدٍ فِی سَبِیل اللَّہِ فَتَمَسَّہُ النَّارُ) [ رواہ البخاری : کتاب الجہاد والسیر، باب من اغبرت قدماہ فی سبیل اللّٰہ] ” حضرت عبدالرحمن بن جبر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو قدم اللہ تعالیٰ کی راہ میں غبار آلود ہوئے ہوں انہیں آگ نہیں چھوئے گی۔“ (عَنْ الْبَرَاءِ یَقُوْلُ أَتَی النَّبِیّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رَجُلٌ مُقَنَّعٌ بالْحَدِیْدِ فَقَالَ یَا رَسُوْلَ اللَّہِ أُقَاتِلُ وَأُسْلِمُ قَالَ أَسْلِمْ ثُمَّ قَاتِلْ فَأَسْلَمَ ثُمَّ قَاتَلَ، فَقُتِلَ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عَمِلَ قَلِیلاً وَأُجِرَ کَثِیرًا) [ رواہ البخاری : کتاب الجہاد، باب عمل صالح قبل القتال] ” حضرت براء (رض) بیان کرتے ہیں ایک زرہ پوش آدمی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا اس نے کہا اے اللہ کے رسول ! میں لڑائی کروں اور اسلام لاؤں آپ نے فرمایا اسلام لاؤ، پھر لڑائی کرو، وہ اسلام لایا، پھر لڑائی کی پس وہ شہید ہوگیا آپ نے فرمایا اس نے عمل تھوڑا کیا ہے اور اجر زیادہ پا گیا۔“ (عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَثَلُ الْمُجَاہِدِ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ کَمَثَلِ الصَّاءِمِ الْقَاءِمِ الْقَانِتِ بِاٰیٰتِ اللّٰہِ لَا یَفْتُرُ مِنْ صِیَامٍ وَّلَا صَلٰوۃٍ حَتّٰی یَرْجِعَ الْمُجَاہِدُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ) [ رواہ مسلم : کتاب الامارۃ، باب فضل الشہادۃ فی سبیل اللّٰہ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا، اللہ کے راستے میں جہاد کرنے والا اس شخص کی طرح ہے، جو مسلسل روزے رکھتا ہے اور اللہ کی آیات کے ساتھ قیام کرتا ہے۔ نفلی روزے اور نماز میں کوتاہی نہیں کرتا۔ حتی کہ اللہ کے راستے میں جہاد کرنے والا مجاہد واپس لوٹ آئے۔“ مسائل ١۔ مسلمان جو نیکی کا کام کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اسے بہترین اجردیتا ہے۔ ٢۔ اللہ کی راہ میں بھوک پیاس برداشت کرنا اور کفار کے خلاف جہاد کرنا اجر عظیم کا باعث ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ بہترین اجر دینے والا ہے : ١۔ اللہ نیک لوگوں کو ان کے اعمال کا بہترین صلہ دے گا۔ (التوبۃ: ١٢١) ٢۔ اللہ صابر لوگوں کو ان کے صبر کی بہترین جزا دے گا۔ (النحل : ٩٦) ٣۔ اللہ نیکوں کو ان کے اعمال سے بہتر جزا دے گا۔ (العنکبوت : ٧) ٤: اللہ اپنے فضل سے مزیداجر عطا کرے گا۔ (النور ؛ ٣٨) ٥۔ ایمان لانے والوں، نماز قائم کرنے والوں اور زکٰوۃ دینے والوں کے لیے اللہ کے ہاں اجر ہے۔ (البقرۃ: ٢٧٧) ٦۔ ہم ان کے اعمال سے انہیں بہتر صلہ عطاکریں گے۔ (النحل : ٩٧) ٧۔ ہم ایمان لانے والوں کو ان کا اجر دیں گے۔ (الحدید : ٢٧) ٨۔ صبر کرنے والوں کو بغیر حساب کے اجر دیا جائے گا۔ (الزمر : ١٠) التوبہ
121 التوبہ
122 فہم القرآن ربط کلام : جہاد میں بھی فہم دین اور علم کی طرف توجہ مبذول رکھنے کا حکم۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جہاد فی سبیل اللہ ہوتا ہی وہ ہے جس کا مقصد اعلاء کلمۃ اللہ ہو یعنی اللہ کے دین کی سربلندی کے لیے ہر محاذ پر کوشش کرنا۔ مگر جب کوئی قوم یا مجاہد مسلسل جہاد میں مصروف رہے گا تو دین کے بنیادی علم کی طرف اس قدر توجہ نہیں دے پائے گا۔ جس کا حصول ایک مسلمان کے لیے لازم ہے۔ اس لیے عین حالت جنگ میں حکم ہوا ہے کہ تم میں ایسی جماعت ضرور ہونی چاہیے جو جہاد میں مصروف کار ہونے کی بجائے صرف اور صرف دین سیکھنے سکھانے پر توجہ مبذول رکھے۔ تاکہ میدان کارزار سے واپس آنے والے مجاہد اپنے ایمان کی بیٹری چارج کرسکیں۔ اس کا دوسرا معنی یہ ہے کہ اگر پوری کی پوری قوم جہاد میں نکل کھڑی ہو تو علم و عرفان کے ادارے بند اور مملکت کے دیگر امور سست پڑجائیں گے۔ جس کا نتیجہ یہ نکل سکتا ہے کہ خارجی طور پر مسلمان پیش قدمی کر رہے ہوں گے۔ لیکن علمی، ایمانی اور اندرونی طور پر کمزور ہورہے ہوں گے۔ جس کی تلافی مشکل ہوجائے گی اس نقصان سے بچانے کے لیے حالت جہاد میں بھی اس اہم ترین فرض کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔ اس آیت مبارکہ کا دوسرا مفہوم یہ بھی ہے کہ میدان کارزار میں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ نکلو، تاکہ تمہیں دین کی سمجھ بوجھ حاصل ہوتی رہے۔ دوسرے الفاظ میں حالت جنگ میں بھی تعلیم و تعلم اور تربیت کا خیال رکھنا چاہیے۔ فہم دین سے مراد صرف قرآن و حدیث یاد کرنا نہیں بلکہ اس کی حقیقی فہم سیکھنا بھی ضروری ہے۔ حقیقی فہم سے مراد دین کی روح پر عمل کرنا ہے۔ جو حدیث رسول کے علم کے بغیر ممکن نہیں۔ جہاں تک موجودہ فقہ کا تعلق ہے۔ اس میں وہی فقہ مسلمان کی ضرورت ہے جو قرآن و سنت کا ترجمان ہو۔ بعض علماء یہاں سے اپنی اپنی مروجہ فقہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہوئے آئمہ کی تقلید کو اپنے لیے لازم ثابت کرتے ہیں، حالانکہ چاروں آئمہ نے ایسی فقہ کی تردید کی ہے جو قرآن و سنت کے منافی ہو۔ تقلید کے بارے میں ائمہ کے اقوال : امام ابو حنیفہ (رض) کا قول : (اِذَا صَحَّ الْحَدِیْثُ فَھُوَ مَذْھَبِیْ) [ تفسیر مظہری] ” جب صحیح حدیث موجود ہو تو وہی میرا مذہب ہے۔“ امام مالک (رح) کا قول : امام مالک نے روضۃ النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : ” ہر شخص کی بات تسلیم کی جاسکتی ہے اگر درست ہو۔ اور اسے ٹھکرایا جا سکتا ہے جب درست نہ ہو۔ مگر اس روضے والے کی بات کو ترک نہیں کیا جاسکتا۔“ [ حیات امام مالک۔ از امام زہری] امام شافعی (رح) کا قول : (اَجْمَعَ الْمُسْلِمُوْنَ عَلٰی اَنَّ مَنِ اسْتَبَانَ لَہٗ سُنَّۃٌ مِنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لَایَحِلُّ لَہٗ اَنْ یَّدَعَھَا لِقَوْلِ اَحَدٍ) [ اعلام المعوقین] ” اس بات پر تمام مسلمانوں کا اجماع ہے کہ جب رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سنت سامنے آجائے، پھر اس بات کی گنجائش نہیں رہتی کہ اسے کسی کے قول کی بنا پر حدیث رسول کو ترک کردیا جائے۔“ امام احمدبن حنبل (رح) کا قول : (مَنْ رَدَّ حَدِیْثَ رَسُوْلِ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَھُوَ عَلٰی شَفَا ھَلَکَتِہِ)[ ابن جوزی] ” جس نے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حدیث کو رد کیا وہ تباہی کے کنارے پر پہنچ گیا۔“ علم سے پہلی مراد علم دین ہے۔ باقی علوم اضافی اور عصری ضرورت ہیں قرآن مجید ان کی بھی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ (عَنْ کَثِیرِ بْنِ قَیْسٍ قَالَ کُنْتُ جَالِسًا مَعَ أَبِی الدَّرْدَآءِ فِی مَسْجِدِ دِمَشْقَ فَجَآءَ ہُ رَجُلٌ فَقَالَ یَا أَبَا الدَّرْدَآءِ إِنِّیْ جِءْتُکَ مِنْ مَدِیْنَۃِ الرَّسُوْلِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لِحَدِیْثٍ بَلَغَنِیْ أَنَّکَ تُحَدِّثُہُ عَنْ رَسُوْلِ اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَا جِءْتُ لِحَاجَۃٍ قَالَ فَإِنِّیْ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَقُوْلُ مَنْ سَلَکَ طَرِیْقًا یَطْلُبُ فِیْہِ عِلْمًا سَلَکَ اللَّہُ بِہِ طَرِیْقًا مِنْ طُرُقِ الْجَنَّۃِ وَإِنَّ الْمَلاَءِکَۃَ لَتَضَعُ أَجْنِحَتَہَا رِضًا لِطَالِبِ الْعِلْمِ وَإِنَّ الْعَالِمَ لَیَسْتَغْفِرُ لَہٗ مَنْ فِی السَّمَوَاتِ وَمَنْ فِی الأَرْضِ وَالْحِیْتَانُ فِی جَوْفِ الْمَآءِ وَإِنَّ فَضْلَ الْعَالِمِ عَلَی الْعَابِدِ کَفَضْلِ الْقَمَرِ لَیْلَۃَ الْبَدْرِ عَلَی سَاءِرِ الْکَوَاکِبِ وَإِنَّ الْعُلَمَآءَ وَرَثَۃُ الأَنْبِیَآءِ وَإِنَّ الأَنْبِیَآءَ لَمْ یُوَرِّثُوْا دِیْنَارًا وَلاَ دِرْہَمًا وَرَّثُوا الْعِلْمَ فَمَنْ أَخَذَہُ أَخَذَ بِحَظٍّ وَافِرٍ) [ رواہ ابوداؤد : کتاب العلم، باب الحث علی طلب العلم ] ” حضرت کثیر بن قیس کہتے ہیں میں ابو درداء کے ساتھ دمشق کی مسجد میں بیٹھا ہوا تھا ایک آدمی آیا اس نے کہا اے ابودرداء میں آپ کے پاس حدیث رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حاصل کرنے کے لیے مدینۃ الرسول سے آیا ہوں مجھے پتہ چلا ہے کہ آپ اسے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں اس کے علاوہ میں کسی غرض سے نہیں آیا۔ حضرت ابو دردا (رض) نے کہا میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا آپ نے فرمایا جو شخص علم کی طلب کے لیے نکلا اللہ تعالیٰ اسے جنت کے راستہ پر چلا تا ہے اور فرشتے طالب علم کی تکریم کے لیے اپنے پر بچھاتے ہیں اور یقیناً عالم کے لیے آسمانوں و زمین کی ہر چیز یہاں تک کہ پانی میں مچھلیاں بخشش کی دعائیں کرتی ہیں اور بے شک عالم کو عابد پر اس طرح فضیلت حاصل ہے جیسے چودھویں رات کے چاند کو ستاروں پر اور یقیناً علماء انبیاء (علیہ السلام) کے وارث ہیں اور انبیاء (علیہ السلام) درہم و دینار کے وارث نہیں ہوتے وہ وراثت میں علم چھوڑتے ہیں جس نے اسے حاصل کیا اس نے بہت کچھ حاصل کیا۔“ (وَلَقَدْ اٰتَیْنَا دَاوُوْدَ وَسُلَیْمَانَ عِلْمًا وَقَالَا الْحَمْدُ لِلَّہِ الَّذِیْ فَضَّلَنَا عَلٰی کَثِیْرٍ مِنْ عِبَادِہِ الْمُؤْمِنِیْنَ )[ النمل : ١٥] ” ہم نے داؤد اور سلیمان کو علم عطا کیا اور ان دونوں نے کہا تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جس نے ہمیں بہت سے مومن بندوں پر فضیلت عطا فرمائی۔“ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم : (وَقُلْ رَّبِّ زِدْنِیْ عِلْمًا)[ طٰہٰ: ١١٤] ” اور کہہ دیجیے اے میرے پروردگار ! میرے علم میں اضافہ فرما۔“ مسائل ١۔ تعلیم و تعلم کے لیے کچھ لوگوں کا وقف ہونا ضروری ہے۔ ٢۔ مجاہدین کے لیے تعلیم و تعلم کا اہتمام کرنا ضروری ہے۔ ٣۔ لوگوں کو وعظ و نصیحت کرتے رہنا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن علم اور اس کے فہم کی فضیلت : ١۔ جہاد کے ساتھ ساتھ دین کا فہم حاصل کرنا لازم ہے۔ (التوبۃ: ١١٢) ٢۔ صاحب علم اور جاہل برابر نہیں ہو سکتے۔ (الزمر : ٩) ٣۔ اللہ تعالیٰ ایمانداروں اور علم والوں کے درجات بلند فرماتا ہے۔ (المجادلۃ: ١١) ٤۔ اللہ تعالیٰ نے داؤد اور سلیمان کو علم عطا کیا۔ (النمل : ١٥) ٥۔ یقیناً اللہ سے علماء ہی ڈرتے ہیں۔ (فاطر : ٢٨) ٦۔ یہ مثالیں ہم لوگوں کے لیے بیان کرتے ہیں عالم لوگ ہی ان کو سمجھتے ہیں۔ (العنکبوت : ٤٣) التوبہ
123 فہم القرآن ربط کلام : جہاد کے مسائل کے دوران اہم امور کی طرف توجہ دلانے کے بعد اب پھر جہاد اور منافقوں کا ذکر ہوتا ہے۔ مملکت کے استحکام کا بنیادی اصول یہ ہے کہ ملک اندرونی سازشوں سے محفوظ ہو۔ اس کے لیے ملک و ملت کے غداروں سے آگاہی ضروری ہوتی ہے۔ جو ملک اور قوم کے لیے مار آستین ہوتے ہیں۔ اس لیے مسلسل کئی آیات میں منافقوں کے عقائد اور کردار کے بارے میں تفصیلبتا کر ان سے بچنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اب اسلامی سرحدات کے ارد گرد کے دشمنوں کی سرکوبی کے لیے ہدایات دی جارہی ہیں کہ مسلمانو! اپنے ملک کی سرحدوں کو دشمن سے محفوظ رکھو۔ جس کا بنیادی اصول یہ ہے کہ قریب کے دشمن پر نظر رکھو اگر وہ شرارتوں اور سازشوں سے باز نہیں آتا تو ان پر اس چابکدستی اور جوانمردی کے ساتھ حملہ کرو کہ وہ تمہاری طاقت کے سامنے ٹھہرنے نہ پائیں۔ ان پر حملہ کرتے ہوئے اپنی طاقت کا اس طرح مظاہرہ کرو کہ وہ تم میں کسی قسم کی کمزوری اور نرمی محسوس نہ کریں۔ لیکن یاد رکھنا کہ ان پر ظلم نہ ہونے پائے۔ یہاں متقین کا پہلا مفہوم یہ ہے جو ظلم کرنے سے اجتناب کرنے والے ہوں ایسے انصاف پسند لوگوں کی اللہ تعالیٰ معاونت کرتا ہے۔ ان کے ساتھ لڑنا چاہیے جو اسلام کے راستے میں رکاوٹ اور مسلمانوں کے خلاف سازشیں کرتے ہوں۔ اگر وہ تبلیغ دین کے راستے میں رکاوٹ پیدا نہ کریں اور بقائے باہمی کے اصول پر رہنا چاہیں تو ان پر کوئی تعارض نہیں ہونا چاہیے۔ (عَنِ ابْنِ عُمَرَ (رض) قَالَ وُجِدَتِ امْرَأَۃٌ مَقْتُوْلَۃً فِی بَعْضِ مَغَازِیْ رَسُوْلِ اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَنَہَی رَسُوْلُ اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عَنْ قَتْلِ النِّسَاءِ وَالصِّبْیَا نِ)[ رواہ البخاری : کتاب الجہاد، باب قتل النساء فی الحرب] ” حضرت ابن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے غزوات میں سے کسی غزوہ میں ایک مقتول عورت پائی گئی تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عورتوں اور بچوں کو قتل کرنے سے منع فرما دیا۔“ (وَعَنْ اَبِی ھُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ” مَنْ کَانَتْ لَہُ مَظْلَمَۃٌلِأَخِیْہِ مِنْ عِرْضِہٖ اَوْ شِیْءٍ فَلْیَتَحَلَّلْہُ الْیَوْمَ قَبْلَ أَنْ لَا یَکُونَ دِیْنَارٌ وَلَا دِرْھَمٌ إِنْ کَانَ لَہٗ عَمَلٌ صَالِحٌ اُخِذَ مِنْہُ بِقَدَرِ مَظْلِمَتِہٖ وَإِنْ لَّمْ یَکُنْ لَّہٗ حَسَنَاتٌ أُخِذَ مِنْ سَیِّءَاتِ صَاحِبِہٖ فَحُمِلَ عَلَیْہِ) [ رواہ البخاری : باب مَنْ کَانَتْ لَہُ مَظْلَمَۃٌ عِنْدَ الرَّجُلِ فَحَلَّلَہَا لَہُ، ہَلْ یُبَیِّنُ مَظْلَمَتَہُ ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا‘ جس کسی نے اپنے مسلمان بھائی کی بے عزتی کی اور اس پر زیادتی کی تو اسے چاہیے وہ اس سے آج ہی معافی مانگ لے اس سے پہلے کہ جب دینار اور درہم نہ ہوں گے۔ اگر اس کے نیک اعمال ہوں گے تو اس کی زیادتی کے مطابق ان میں سے (مظلوم کو دینے کے لیے) لیے جائیں گے۔ اور اگر اس کے نیک عمل نہیں ہوں گے تو مظلوم شخص کی برائیوں کو اس پر لاد دیا جائے گا۔“ مسائل ١۔ جہاد قریب کے دشمنوں سے شروع کرنا چاہیے۔ ٢۔ مسلمانوں کے ساتھ نرم خو اور کفار کے ساتھ سخت ہونا چاہیے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ تقویٰ اختیار کرنے والوں کا ساتھ دیتا ہے۔ ٤۔ ا یمان والوں کو کفار کے ساتھ جہاد کرنا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن متقین کے فضائل اور اللہ تعالیٰ کی رفاقت : ١۔ اللہ متقین کے ساتھ ہے۔ (التوبۃ: ١٢٣) ٢۔ اللہ سے ڈرو اور جان لو بے شک اللہ تعالیٰ متقین کے ساتھ ہے۔ (البقرۃ: ١٩٤) ٣۔ بے شک اللہ متقین کو پسند کرتا ہے۔ (آل عمران : ٧٦) ٤۔ اللہ متقین سے محبت کرتا ہے۔ (التوبۃ : ٤۔ ٧) ٥۔ متقین کے لیے کامیابی ہے۔ (النباء : ٣١) ٦۔ متقین گھنے سایوں اور چشموں والی جنت میں ہوں گے۔ (المرسلات : ٤١) التوبہ
124 فہم القرآن ربط کلام : قتال فی سبیل اللہ کی بنیادی پالیسی اور تربیتی بیان کے بعد منافقوں کی قرآن مجید کے بارے میں روش بیان کی جاتی ہے۔ منافق کا بنیادی مرض یہ ہوتا ہے کہ اس کا اللہ اور اس کے رسول پر حقیقی ایمان نہیں ہوتا۔ جس کی وجہ سے وہ ہر وقت شک اور تذبذب کا شکار رہتا ہے۔ اسی وجہ سے منافقین نئی آیات سنتے تو تمسخر کے طور پر مسلمانوں سے کہتے کہ بتائیں جناب ان آیات کے اترنے سے تمہارے ایمان میں کیا اضافہ ہوا ہے؟ جس کے جواب میں مسلمان کہتے کہ ہم تو اپنی راہنمائی اور ایمان میں اضافہ محسوس کررہے ہیں۔ اس پر منافق شرمندہ ہو کر رہ جاتے اور ان کی منافقت میں اور اضافہ ہوجاتا۔ یاد رہے البقرۃ آیت ١٠ میں منافقت کو مرض اور یہاں منافقت کو گندگی اور کفر قرار دیا گیا ہے۔ لہٰذا یہ لوگ کفر کی حالت میں مریں گے۔ جس کا دوسرا معنی یہ ہے کہ منافق حقیقی ایمان لانے کی بجائے تادم آخر نفاق پر ہی جان دیں گے۔ کفر اور نفاق مرض اور گندگی ہیں : (فِی قُلُوبِہِمْ مَرَضٌ فَزَادَہُمُ اللّٰہُ مَرَضًا وَلَہُمْ عَذَابٌ أَلِیْمٌ بِمَا کَانُوا یَکْذِبُوْنَ)[ البقرۃ: ١٠] ” ان کے دلوں میں بیماری ہے اللہ تعالیٰ نے انہیں بیماری میں زیادہ کردیا اور انہیں دردناک عذاب ہوگا کیونکہ وہ جھوٹ بولتے تھے۔“ (وَأَمَّا الَّذِیْنَ فِی قُلُوْبِہِمْ مَرَضٌ فَزَادَتْہُمْ رِجْسًا إِلٰی رِجْسِہِمْ وَمَاتُوْا وَہُمْ کٰفِرُوْنَ) [ التوبۃ: ١٢٥] ” اور رہے وہ لوگ جن کے دلوں میں بیماری ہے تو اس نے ان کی پلیدی کے ساتھ اور پلیدی کا اضافہ کردیا اور وہ اس حال میں مرے کہ وہ کافر تھے۔“ مومن کی حالت : (إِذَا تُلِیَتْ عَلَیْہِمْ اٰیَاتُہٗ زَادَتْہُمْ إِیْمَانًا)[ الانفال : ٢] ” جب ان کے سامنے اس کی آیات پڑھی جائیں تو ان کا ایمان بڑھا دیتی ہیں۔“ (وَإِذَا مَا أُنْزِلَتْ سُوْرَۃٌ فَمِنْہُمْ مَنْ یَّقُوْلُ أَیُّکُمْ زَادَتْہُ ہٰذِہِٓٓ إِیْمَانًا فَأَمَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا فَزَادَتْہُمْ إِیْمَانًا وَہُمْ یَسْتَبْشِرُوْنَ )[ التوبۃ: ١٢٤] ” اور جب بھی کوئی سورت نازل کی جاتی ہے تو ان میں سے کچھ لوگ ایسے ہیں جو کہتے ہیں اس نے تم میں سے کس کے ایمان میں اضافہ کیا ہے ؟ پس جو لوگ ایمان لائے، ان کے ایمان میں تو اس نے اضافہ کیا ہے اور وہ بہت خوش ہوتے ہیں۔“ مسائل ١۔ قرآن مجید کی تلاوت سے ایمان میں اضافہ ہوتا ہے۔ ٢۔ منافق عناد کی وجہ سے قرآن مجید کی تاثیر کا انکار کرتے ہیں۔ ٣۔ ایمان والے قرآن مجید کی تلاوت سے خوش ہوتے ہیں۔ ٤۔ قرآن مجید کے نزول سے منافقین کی منافقت میں اضافہ ہوجاتا تھا۔ ٥۔ منافق کا خاتمہ کفر پر ہوگا۔ تفسیر بالقرآن منافق کے نفاق میں اضافہ : ١۔ جن کے دلوں میں نفاق کی بیماری ہے اللہ ان کی پلیدی کو اور بڑھا دیتا ہے۔ (التوبۃ : ١٢٥) ٢۔ منافقوں کے دلوں میں بیماری ہے اللہ نے ان کی بیماری کو اور بڑھا دیا۔ (البقرۃ : ١٠) ٣۔ آپ دیکھیں گے ان لوگوں کو جن کے دلوں میں نفاق کی بیماری ہے وہ اس کی طرف جلدی کرتے ہیں۔ (المائدۃ: ٥٢) ٤۔ منافق اور جن کے دلوں میں بیماری ہے وہ اللہ اور اس کے رسول کے وعدے کو فراڈ سمجھتے ہیں۔ (الاحزاب : ١٢) التوبہ
125 التوبہ
126 فہم القرآن ربط کلام : منافقین کا دنیا میں انجام۔ منافق دوغلے کردار کا انسان ہوتا ہے۔ ظاہر ہے دوغلاپن کبھی نہ کبھی ظاہر ہوجاتا ہے۔ جب آدمی کا دوغلا پن ظاہر ہوتا ہے تو سوائے رسوائی اور شرمندگی کے اسے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ یہی حالت منافقین مدینہ کی تھی۔ ہر سال ایک یا دو مرتبہ انہیں اپنے کیے کا خمیازہ بھگتنا پڑتا تھا۔ جب یہ قسمیں اٹھا اٹھا کر اپنے آپ کو سچا ثابت کرنے کی کوشش کرتے تو اللہ تعالیٰ وحی کے ذریعے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو آگاہ فرما دیتے کہ یہ لوگ جھوٹی قسمیں اٹھا رہے ہیں۔ تبوک سے واپسی پر بھی ان کے جھوٹ کی قلعی کھول دی گئی۔ سورۃ التوبۃ: ٩٥۔ ٩٦۔ ان کی حرکتوں کی وجہ سے جب مسلمان ان کے ایمان پر شبہ کرتے تو یہ لوگ حلف دیتے نہیں تھکتے تھے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کے ایمان کی نفی کرتے ہوئے فرمایا کہ منافقین حلف دیتے ہیں کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) واقعی اللہ کا رسول ہے۔ لیکن یہ اپنی شہادت میں جھوٹے ہیں۔ جبکہ اللہ گواہی دیتا ہے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حقیقتاً اللہ کا رسول ہے۔ ( المنافقون : ١) یہی حالت غزوات اور صدقات کے موقع پر ان کی ہوا کرتی تھی۔ غزوہ احد کے موقع پر پوری دنیا کے سامنے رسوا ہوئے، غزوہ خندق کے موقعہ پر ہر اعتبار سے بے نقاب ہوئے۔ فتح مکہ کے دوران ان کی منافقت کی قلعی کھول دی گئی۔ تبوک کے محاذنے تو انہیں پوری طرح رسوا کردیا، رہی سہی کسر مسجد ضرار کے مسمار کرنے سے نکل گئی۔ اس طرح قرآن مجید کا فرمان ان پر صادق آیا کہ یہ سال میں ایک یا دو مرتبہ ملکی اور قومی سطح پر ذلیل ہوتے ہیں مگر اس کے باوجود نہ توبہ کرتے ہیں اور نہ نصیحت حاصل کرتے ہیں حالانکہ کم سے کم عقل رکھنے والا انسان بھی ایک دو دفعہ ذلیل ہونے کے بعد سنورنے کی کوشش کرتا ہے۔ لیکن منافق نظریات اور کردار کے حوالے سے نجس اور پلید ہوتا ہے جس وجہ سے وہ سدھرنے کی بجائے بگڑتا چلا جاتا ہے۔ جس وجہ سے انہوں نے دنیا کی رسوائی اور آخرت کی ذلت قبول کرلی مگر اخلاص نیت کے ساتھ اسلام قبول کرنا پسند نہ کیا۔ اللہ تعالیٰ نے بھی ان کی بدنیتی اور مذموم حرکات کی وجہ سے ان کے دلوں کو اسی طرف پھیر دیا۔ جس طرف یہ پھرنا پسند کرتے تھے۔ ایسے لوگ سمجھنے اور ہدایت پانے والے نہیں ہوتے۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ منافقوں کو آزمائش میں مبتلا کرتا ہے۔ ٢۔ منافقین منافقت کی وجہ سے نصیحت حاصل نہیں کرتے۔ ٣۔ منافقین بار بار مشکلات میں مبتلا ہونے کے باوجود توبہ نہیں کرتے۔ ٤۔ منافقین اللہ کی آیات سے منہ موڑتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کے دلوں کو پھیر دیتا ہے۔ ٥۔ منافق قرآن مجید کو سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے۔ تفسیر بالقرآن منافقین کا قرآن مجید کے ساتھ رویہّ: ١۔ جب قرآن مجید کا نزول ہوتا تھا تو منافقین ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگتے تھے۔ (التوبۃ: ١٢٧) ٢۔ منافقین قرآن مجید کے نزول کا مذاق اڑاتے اور کہتے ہیں اس سے کس کے ایمان میں اضافہ ہوا؟ (التوبۃ: ١٢٤) ٣۔ قرآن کا جب کوئی حصہ نازل ہوتا ہے کہ اللہ پر ایمان لاؤ اور اس کے رسول سے مل کر جہاد کرو تو وہ بہانے تراشنے لگتے ہیں۔ (التوبۃ: ٨٦) ٤۔ جب کوئی محکم سورۃ نازل ہوتی اور اس میں قتال کا تذکرہ ہوتا ہے تو منافق آپ کی طرف ایسے دیکھتے جیسے ان پر موت کی بیہوشی طاری ہوگئی ہو۔ (سورہ محمد : ٢٠) التوبہ
127 التوبہ
128 فہم القرآن ربط کلام : منافقین کا بار بار بد عہدی کرنا، ہر موقع پر سازشیں کرنا اور نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مجالس میں آنکھوں آنکھوں میں ایک دوسرے کو اشارے کرنا۔ ایک سے ایک بڑھ کر بدتمیزی اور برا عمل تھا۔ اس کے باوجود نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کے ساتھ بردباری و درگزر کا مظاہرہ فرماتے رہے جس کی یہاں شاندار الفاظ میں تعریف کی گئی اور آپ کو خراج تحسین سے نوازا گیا ہے۔ جہاں تک مخلص مسلمانوں کا معاملہ ہے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کے ساتھ اس قدر کرم فرما اور خیر خواہ تھے کہ آپ اپنے ساتھیوں کی تکلیف کو ان سے بڑھ کر اپنی تکلیف سمجھتے اور صبح و شام اس فکر میں رہتے کہ لوگوں کو کس طرح اصلاح اور فلاح کے راستے پر گامزن کیا جائے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حلم اور بردباری کا عالم یہ تھا کہ آپ اپنے ساتھیوں کی غلطیوں سے صرف نظر فرماتے اور ان کی کوتاہیوں کو معاف کردیا کرتے تھے۔ جہاں تک آپ کی ہمدردی اور خیر خواہی کا تعلق ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو طبعاً اور فطرتاً ہمدرد اور خیر خواہ پیدا فرمایا تھا۔ مزید یہ کہ آپ نے دنیا کی مشکلات اور مصائب کو براہ راست دیکھا اور اپنے آپ پر برداشت کیا تھا ابھی دنیا میں تشریف نہیں لائے تھے کہ والد گرامی کا سایہ سر سے اٹھ گیا۔ تقریباً چھ سال کے ہوئے تو والدہ ماجدہ مدینہ کے سفر کے دوران انتقال کر گئیں۔ آٹھ سال کے ہوئے تو مشفق اور مہربان دادا جناب عبدالمطلب دنیا سے کوچ کر گئے۔ اس طرح چھوٹی عمر میں آپ نے وہ صدمات برداشت کیے جس کے تصور سے کلیجہ دہل جاتا ہے۔ ان حالات میں جوں جوں عمر مبارک جوانی کے قریب پہنچی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہر وقت اس سوچ و بچار میں رہتے کہ لوگوں کی اصلاح اور فلاح کے لیے کون سا راستہ اختیار کرنا چاہیے۔ جب چالیس سال کے ہوئے تو حالت یہ ہوگئی کہ کئی کئی دن تک غار حرا میں بیٹھ کر سوچا کرتے کہ آخر یہ بگڑی ہوئی قوم کس طرح راہ راست پر آئے گی۔ ایک دن غار حرا میں اسی سوچ و بچار میں بیٹھے تھے۔ کہ اللہ کا آخری پیغام آپہنچا۔ جس کا آغاز اس طرح ہوا کہ اللہ کے نام سے ابتدا کیجیے جس نے انسان کو ایک لوتھڑے سے پیدا کیا ہے۔ (العلق : ١۔ ٢) آپ جب یہ پیغام لے کر سوئے قوم آئے تو پھر تئیس سال تک اسی غم اور کام میں زندگی گزاردی۔ لوگوں کی اصلاح کی خاطر بڑے بڑے مصائب اٹھائے، مشکلات کا سامنا کیا، طائف میں پتھر کھائے یہاں تک کہ حق اور سچ کی خاطر گھر بار اور وطن چھوڑنا پڑا۔ مدینہ پہنچنے کے بعد منافقوں کی سازشوں اور کفار کے ساتھ بدر، احد، خندق، مکہ اور تبوک کے محاذوں پر معرکے ہوئے، عزیزو اقرباء کی قربانیاں پیش کیں، کاروبار اور ہر قسم کا نقصان اٹھایا مگر لوگوں کی خیر خواہی اور ان کے ساتھ ہمدردی کرنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کیا۔ آپ سراپا ہمدرد اور خیر خواہ تھے اس لیے اللہ تعالیٰ نے آپ کو رحمۃ للعالمین کے خطاب اور روف و رحیم کے القاب سے نوازا ہے۔ یہاں ہم آپ کی ہمدردی اور خیر خواہی کے تین واقعات کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ ” حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو وحی کی ابتدا نیند میں سچے خوابوں سے ہوئی۔ آپ جو بھی خواب دیکھتے وہ صبح کی روشنی کی مانند سامنے آجاتا۔ پھر آپ تنہائی پسند ہوگئے اور غار حرا میں تنہائی میں وقت گزارنے لگے۔ وہاں آپ عبادت میں مشغول رہتے۔ اپنے اہل وعیال کے پاس واپس آنے سے پہلے آپ کئی کئی راتیں وہاں گزارتے۔ اس عرصہ کے لیے سامان خورد ونوش ساتھ لے جاتے۔ سامان ختم ہونے پر حضرت خدیجہ (رض) کے پاس آتے۔ وہ پھر پہلے کی طرح سامان آپ کے ساتھ کر دیتیں۔ حتّٰی کہ غار حرا میں وحی کا نزول شروع ہوا۔ جبرائیل (علیہ السلام) تشریف لائے اور فرمایا ” پڑھیے“ آپ نے جواب دیا میں پڑھنا نہیں جانتا۔ آپ فرماتے ہیں کہ جبریل (علیہ السلام) نے مجھے پکڑ کراتنا دبایا کہ مجھے سخت تکلیف ہوئی۔ پھر اس نے مجھے چھوڑ دیا اور کہا ” پڑھیں“۔ آپ نے جواب دیا میں پڑھنا نہیں جانتا۔ پھر اس نے دوسری بار اسی طرح زور سے دبایا۔ جس پر میں نے سخت تکلیف محسوس کی۔ پھر چھوڑ دیا اور کہا ” پڑھیں“۔ میں نے جواب دیا میں پڑھنا نہیں جانتا۔ پھر اس نے مجھے دبوچ لیا اور تیسری بار زور سے دبایا، یہاں تک کہ مجھے بہت تکلیف کا سامنا کرنا پڑا۔ پھر اس نے مجھے چھوڑ دیا اور کہا ” پڑھیں! اپنے رب کے نام سے جس نے انسان کی تخلیق کی جمے ہوئے خون کے ایک لوتھڑے سے۔ پڑھیے اور آپ رب بڑا کریم ہے۔ جس نے قلم کے ذریعہ علم سکھایا۔ انسان کو وہ علم دیا جسے وہ نہیں جانتا تھا۔“ چنانچہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس وحی کے ساتھ واپس لوٹے آپ کا دل گھبرا رہا تھا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت خدیجہ (رض) کے پاس آئے اور ان سے فرمایا، مجھے کمبل اوڑھا دو۔ چنانچہ انہوں نے آپ کو کپڑا اوڑھا دیا یہاں تک آپ سے خوف کی کیفیت دور ہوگئی۔ پھر آپ نے حضرت خدیجہ (رض) کو سارا ماجرا کہہ سنایا اور فرمایا، مجھے اپنی جان کا خطرہ ہے۔ انہوں نے تسلی دی کہ ہرگز نہیں۔ اللہ کی قسم ! اللہ تعالیٰ آپ کو کبھی رسوا نہیں کرے گا۔ آپ صلۂ رحمی کرتے ہیں، سچی بات کہتے ہیں، دوسروں کے بوجھ اٹھاتے ہیں، محتاج کی خبر گیری کرتے ہیں، مہمان کو کھاناکھلاتے ہیں اور مصیبت زدہ اور ضرورت مند کی مدد کرتے ہیں۔ بعد ازاں خدیجہ (رض) آپ کو ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں، جو خدیجہ (رض) کے چچا زاد بھائی تھے۔ انہوں نے ورقہ سے کہا، اے میرے چچا کے بیٹے! اپنے بھتیجے کا معاملہ سنیے۔ چنانچہ ورقہ نے آپ سے دریافت کیا، اے میرے بھتیجے! تجھے کیا نظر آتا ہے؟ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے تمام واقعہ کہہ سنایا۔ ورقہ نے کہا، یہ تو وہی فرشتہ ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) پر وحی دے کر بھیجتا تھا۔ اے کاش! میں تمہارے عہد نبوت میں جوان ہوتا اور کاش! میں اس وقت زندہ ہوتا جب تمہاری قوم تمہیں نکال دے گی۔ رسول اللہ نے پوچھا، کیا وہ مجھے نکال دیں گے؟ ورقہ نے کہا، ہاں ! کیوں کہ جب بھی کسی کو رسالت سے نوازا گیا تو اس کے ساتھ دشمنی کی گئی۔ اور اگر میں اس دن تک زندہ رہا، جب لوگ تمہیں نکالیں گے، تو میں تمہاری بھر پور معاونت کروں گا۔ اس کے بعد ورقہ بن نوفل زیادہ دیر زندہ نہ رہے اور آپ پر وحی کا سلسلہ کچھ عرصہ کے لیے منقطع رہا۔“ [ رواہ البخاری : باب کیف کان بدء الوحی] (عَنْ عُرْوَۃُ أَنَّ عَاءِشَۃَ (رض) زَوْجَ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حَدَّثَتْہٗ أَنَّہَا قَالَتْ للنَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہَلْ أَتَی عَلَیْکَ یَوْمٌ کَانَ أَشَدَّ مِنْ یَوْمِ أُحُدٍ قَالَ لَقَدْ لَقِیْتُ مِنْ قَوْمِکِ مَا لَقِیْتُ، وَکَانَ أَشَدُّ مَا لَقِیْتُ مِنْہُمْ یَوْمَ الْعَقَبَۃِ، إِذْ عَرَضْتُ نَفْسِیْ عَلَیْ ابْنِ عَبْدِ یَالِیْلَ بْنِ عَبْدِ کُلاَلٍ، فَلَمْ یُجِبْنِیْ إِلَی مَآ أَرَدْتُ، فَانْطَلَقْتُ وَأَنَا مَہْمُومٌ عَلٰی وَجْہِی، فَلَمْ أَسْتَفِقْ إِلاَّ وَأَنَا بِقَرْنِ الثَّعَالِبِ، فَرَفَعْتُ رَأْسِیْ، فَإِذَا أَنَا بِسَحَابَۃٍ قَدْ أَظَلَّتْنِی، فَنَظَرْتُ فَإِذَا فیہَا جِبْرِیلُ فَنَادَانِی فَقَالَ إِنَّ اللَّہَ قَدْ سَمِعَ قَوْلَ قَوْمِکَ لَکَ وَمَا رَدُّوا عَلَیْکَ، وَقَدْ بَعَثَ إِلَیْکَ مَلَکَ الْجِبَالِ لِتَأْمُرَہُ بِمَا شِءْتَ فیہِمْ، فَنَادَانِی مَلَکُ الْجِبَالِ، فَسَلَّمَ عَلَیَّ ثُمَّ قَالَ یَا مُحَمَّدُ، فَقَالَ ذَلِکَ فیمَا شِءْتَ، إِنْ شِءْتَ أَنْ أُطْبِقَ عَلَیْہِمِ الأَخْشَبَیْنِ، فَقَال النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بَلْ أَرْجُوْ أَنْ یُخْرِجَ اللَّہُ مِنْ أَصْلاَبِہِمْ مَنْ یَعْبُدُ اللَّہَ وَحْدَہُ لاَ یُشْرِکُ بِہِ شَیْءًا) [ رواہ البخاری : کتاب بدأ الخلق، باب اذا قال أحدکم آمین والملائکۃ فی السماء ] ” عروہ کہتے ہیں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زوجہ حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں۔ انہوں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا، کیا آپ پر احد سے بھی زیادہ سخت دن آیا ہے، آپ نے فرمایا عائشہ میں نے تیری قوم سے پایا ہے جو پایا ہے اور سب سے زیادہ سختی عقبہ والے دن پائی۔ جب میں نے اپنی دعوت ابن عبد یا لیل بن عبدکلال پر پیش کی۔ اس نے میری خواہش کے برعکس جواب دیا۔ میں انتہائی افسردہ چہرے کے ساتھ واپس ہوا۔ میرا غم ہلکا نہ ہوا تھا کہ میں قرن ثعا لب میں آگیا میں نے اپنا سر اٹھایا تو ایک بادل کو سایہ کیے ہوئے پایا میں نے دیکھا اس میں جبرائیل (علیہ السلام) تھے اس نے مجھے آواز دی اور کہا اللہ تعالیٰ نے آپ کی قوم کے جواب کو سن لیا ہے جو انہوں نے دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کی طرف پہاڑوں کے فرشتے کو بھیجا ہے اگر آپ ان کو جو حکم دینا چاہیں دیں۔ مجھے پہاڑوں کے فرشتہ نے آواز دی اس نے مجھے سلام کہتے ہوئے کہا اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ ان کے متعلق جو کہنا چاہتے ہیں کہیں اگر آپ چاہتے ہیں تو میں ان پر دو پہاڑوں کو ملادوں۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میں امید کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ان کی پشت سے ایسے لوگوں کو پیدا فرمائے گا جو ایک اللہ کی عبادت کرنے والے اور شرک نہ کرنے والے ہوں گے۔“ (ہِنْدَ بْنِ أبِیْ ہَالَۃَ یَصِفُ لَنَا رَسُوْلَ اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ ہِنْدٌ فِیْمَا قَالَ کَانَرَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مُتَوَاصِلُ الأحْزَانِِ، دَاءِمُ الْفَکْرَۃِ، لَیْسَتْ لَہٗ رَاحَۃٌ، وَلاَ یَتَکَلَّمُ فَیْ غَیْرِحَاجَۃٍ، طَوِیْلُ السُّکُوْتِ، یَفْتَتِحُ الْکَلَامِ وَیَخْتِمُہٗ بَأَشْدَاقِہِ لِا بِأطْرَافِ فَمِہِ وَیَتَکَلَّمُ بِجَوَامِعِ الْکَلَمِ، فَصْلاً، لَا فُضُوْلَ فِیْہِ وَلَا تَقْصِیْرِ، دَمَثاً لَیْسَ بالجَافِیْ وَلَا بالْمَہِیْنِ، یُعَظِّمْ النِعْمَۃِ وَإنْ دَقَتْ، لَایَذُمُّ شَیْئاً، وَلَمْ یَکُنْ یَذُمُّ ذَوَاقاً مَا یُطْعِمُ وَلَا یَمْدَحُہُ، وَلَا یُقَامُ لِغَضَبِہِ إذَا تَعَرَّضَ لِلْحَقِّ بِشَیْءٍ حَتّٰی یَنْتَصِرُ لَہٗ، لَا یَغْضِبُ لِنَفْسِہِ، وِلَا یَنْتَصِرُ لَہَا سَمَاحَۃً وَإذَا أشَارَ أشَارَ بِکَفِّہِ کُلِّہَا، وَإذَا تَعَجَّبَ قَلْبُہَا، وَإذَا غَضِبَ أعْرَضَ وَأشَاحَ، وَإذَا فَرحِ غَضَّ طَرْفَہٗ، جَلَّ ضِحْکَہٗ التَبَسُّمُ، وَیَفْتِرَ عَنْ مَثَل حَبِّ الغَمَامِ) [ الرحیق المختوم] ” ہند بن ابی ہالہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اوصاف بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پیہم غموں سے دوچار تھے، غور و فکر کرنے والے تھے، آرام طلب نہیں تھے بغیر ضرورت کے کلام نہ کرتے کم گو، آپ کلام شروع کرتے اور اس کا اختتام جبڑوں کے ساتھ کرتے، زبان کی نوک سے نہیں اور آپ جامع گفتگو کرتے مناسب وقفے کے ساتھ اس میں فضول اور ناقص گفتگو نہ ہوتی، نرم خو تھے، جفاجو اور حقیر نہ تھے، آپ چھوٹی نعمت کو بھی بڑا سمجھتے، کسی چیز کی مذمت نہ کرتے اور آپ کسی کھانے کے ذائقے کی مذمت نہ کرتے، نہ اسے کھاتے اور نہ اس کی تعریف کرتے، اور آپ غضب ناک نہ ہوتے مگر جب حق کا معاملہ آتا تو آپ بدلہ لیتے، اپنے لیے غصے میں نہ آتے اور نہ بدلہ لیتے، نرمی فرماتے اور جب اشارہ کرتے تو پورے ہاتھ سے اشارہ کرتے۔ اور جب تعجب کرتے تو اسے الٹ دیتے اور جب ناراض ہوتے اعراض کرتے اور پھر جاتے اور جب خوش ہوتے تو اپنی نگاہ کو جھکالیتے، آپ کا ہنسنا تبسم سے ظاہر ہوتا جب ختم ہوجاتا جیسے بادل چھٹ جاتا ہے۔“ مسائل ١۔ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی امت کے لیے رحمت بنا کر بھیجے گئے۔ ٢۔ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی امت کے لیے بہت فکر مند رہتے تھے۔ ٣۔ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نہایت اعلیٰ اخلاق کے مالک تھے۔ ٤۔ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنے ساتھیوں کی تکلیف بڑی گراں گزرتی تھی۔ ٥۔ رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے ساتھیوں کے ساتھ نرمی کرنے، رحم فرمانے والے تھے۔ تفسیر بالقرآن نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اوصاف حمیدہ کی ایک جھلک : ١۔ نبی اکرم مومنوں کے ساتھ شفیق و مہربان ہیں۔ (التوبۃ: ١٢٨) ٢۔ ہم نے آپ کا ذکر بلند کیا ہے۔ (الانشراح : ٤) ٣۔ ہم نے آپ کو جہان والوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔ (الانبیاء : ١٠٧) ٤۔ ہم نے آپ کو جہان والوں کے لیے بشیر اور نذیر بنا کر بھیجا ہے۔ (سبا : ٢٨) ٥۔ ہم نے آپ کو دعوت دینے والا اور روشن چراغ بنا کر بھیجا ہے۔ (الاحزاب : ٤٦) ٦۔ آپ تمام انسانوں کے نبی ہیں (الاعراف : ١٥٨) ٧۔ آپ خا تم المرسلین نبی ہیں۔ ( الاحزاب : ٤٠ ) ٨۔ آپ رسولوں میں سے ہیں، اور آپ صراط مستقیم پر گامزن ہیں۔ (یٰس : ٣۔ ٤) التوبہ
129 فہم القرآن ربط کلام : اے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ کے اخلاص، بے مثال جدوجہد، ہمدردی اور خیر خواہی کے باوجودلوگ انحراف کرتے ہیں تو آپ کو ان کی پروا نہیں کرنی چاہیے۔ آپ کو ہر حال میں اپنے اللہ پر بھروسہ کرنا چاہیے جو عرش عظیم کا مالک ہے۔ اس سورۃ مبارکہ کے آخر میں نبی پاک کو تسلی دینے کے ساتھ یہ تعلیم دی جارہی ہے کہ مشرکین اور کفار کی طرف سے اعراض ہویا ان کی طرف سے آپ کے بارے میں عدم توجہ اور انحراف۔ آپ کو کسی صورت میں بھی دل چھوٹا اور حوصلہ نہیں ہارنا کیونکہ آپ عرش عظیم کے مالک کے نمائندہ ہیں اس لیے آپ کو لوگوں کی مخالفت اور ان کی عدم توجہ سے گھبرانا نہیں چاہیے۔ بلکہ آپ کی دعا، عقیدہ اور عمل یہ ہونا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی مدد کرنے والا نہیں اور اسی پر میرا بھروسہ ہے جو عرش عظیم کا رب ہے۔ یہ وہ عقیدہ ہے جس بنا پر دنیا کا کوئی خوف اور لالچ مومن کے قدموں میں تزلزل پیدا نہیں کرسکتا یہی عقیدہ اور وظیفہ ہے کہ جب ابراہیم (علیہ السلام) کو آگ میں جھونکا جارہا تھا تو ملائکہ آکر ان کو پیش کش کرتے ہیں کہ اگر آپ حکم فرمائیں تو یہ آگ نمرود اور اس کے ساتھیوں پر الٹا دی جائے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے ملائکہ سے استفسار فرمایا کہ کیا ایسا کرنے کا میرے رب نے حکم دیا ہے ملائکہ نے کہا کہ اب تک حکم نازل نہیں ہوا۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمایا : ” حسبی اللّٰہ“ مجھے اللہ ہی کافی ہے۔ ادھرحضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے رب پر بھروسہ اور اعتماد کی انتہا کردی ادھر آسمان سے آگ کو حکم نازل ہوا۔ (وَقُلْنَا یَا نَارُوکُوْنِیْ بَرْدًا وَسَلاَمًا عَلٰی اِبْرَاھِیْمَ)[ الانبیاء : ٦٩] ” اور ہم نے کہا اے آگ ابراہیم کے لیے ٹھنڈی اور سلامتی والی بن جا۔“ یہی وہ وظیفہ اور عقیدہ ہے کہ جب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک غزوہ سے واپس آرہے تھے تو دوپہر کے وقت ایک درخت کے نیچے استراحت فرما تھے۔ اچانک ایک بدو نے آپ کی تلوار پکڑ کر یہ کہتے ہوئے آپ کے سر پر لہرائی کہ اے محمد! تجھے مجھ سے کون بچا سکتا ہے؟ آپ نے فرمایا مجھے اللہ بچانے والا ہے بدو کا وجود کانپنے لگا اتنے میں آپ نے اس سے تلوار اچک لی اور فرمایا تجھے کون بچائے گا ؟ اس نے معذرت کی اور حلقہ اسلام میں داخل ہوا۔ یہی وہ عمل اور ذکر ہے کہ جب احد کے میدان میں صحابہ کرام (رض) کو شکست ہوئی اور وہ زخمی حالت میں مدینہ پہنچے تو کفار کے سردار ابو سفیان کا پیغام آیا کہ ہم مدینہ میں پہنچ کر تمہیں تہس نہس کرنے والے ہیں۔ اس کے رد عمل میں صحابہ کرام (رض) ” حسبنا اللہ“ پڑھتے ہوئے کفار کے لشکر کے تعاقب میں نکلے جس کے نتیجہ میں ابوسفیان نے مکہ کی راہ لینے میں عافیت سمجھی اور صحابہ کرام (رض) اپنے مقصد میں کامیاب مدینہ پلٹے۔ (وَمَنْ یَتَوَکَّلْ عَلَی اللَّہِ فَہُوَ حَسْبُہُ إِنَّ اللَّہَ بَالِغُ أَمْرِہِ قَدْ جَعَلَ اللَّہُ لِکُلِّ شَیْءٍ قَدْرًا ) [ الطلاق : ٣] ” جو اللہ پر بھروسہ کرتا ہے اللہ اس کے لیے کافی ہے اللہ اپنے کام کو پورا کردیتا ہے اور ہر چیز کا اللہ نے اندازہ مقرر فرمایا ہے۔“ مسائل ١۔ مسلمان کو ہر حال میں اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرنا چاہیے۔ ٢۔ صرف اللہ ہی مشکل کشا اور حاجت روا ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ بہت بڑے عرش کا مالک ہے۔ ٤۔ سب لوگ منہ موڑ جائیں تو مومن کے لیے اللہ ہی کافی ہوتا ہے۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں۔ تفسیر بالقرآن مومن کو اللہ تعالیٰ پر ہی توکل کرنا چاہیے : ١۔ مومن کو اللہ پر توکل کرنے کا حکم ہے۔ (المجادلۃ: ١٠) ٢۔ انبیاء اور نیک لوگ اللہ پر توکل کرتے ہیں۔ (یوسف : ٦٧) ٣۔ اللہ کے علاوہ کوئی الٰہ نہیں میں اسی پر توکل کرتا ہوں اور وہی عرش عظیم کا مالک ہے۔ (التوبۃ: ١٢٩) ٤۔ جب کسی کام کا ارادہ کرلو تو اللہ پر توکل کرو۔ اللہ توکل کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔ (آل عمران : ٥٩) ٥۔ اللہ کی عبادت کرو اور اسی پر توکل کرو۔ (ہود : ١٢٣) ٦۔ اللہ پر توکل کرو اگر تم مومن ہو۔ (المائدۃ: ٢٣) ٧۔ اللہ پر توکل کیجیے، وہی کارساز کافی ہے۔ (الاحزاب : ٣) ٨۔ اللہ پر توکل کرو یقیناً آپ واضح حق پر ہیں۔ (النمل : ٧٩) ٩۔ اس ذات پر توکل کرو جو زندہ ہے اور اسے موت نہیں آئے گی۔ (الفرقان : ٥٨) التوبہ
0 سورۂ یونس کا تعارف سورۃ کا نام حضرت یونس (علیہ السلام) کے نام پر رکھا گیا حضرت یونس (علیہ السلام) کا اسم مبارک اس سورۃ کی آیت ٩٨ میں موجود ہے۔ سورۃ کے گیارہ رکوع ١٠٩ آیات ہیں۔ چند آیات مدنی ہیں باقی تمام آیات مکی دور میں نازل ہوئی ہیں۔ سب سے پہلے رسول کی بشریت کا انکار کرنے والوں کا رد کیا گیا ہے۔ رسول کی بشریت اور نبوت ثابت کرنے کے بعد توحید کے ٹھوس دلائل دیے گئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ زمین، آسمانوں کا پیدا کرنے والا اور وہی ان کا نظام چلانے والا ہے۔ زمین و آسمانوں کی تخلیق اور کائنات کے نظام چلانے میں اللہ کا کوئی شریک اور معاون نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ ہی نے سورج اور چاند بنائے، ان کی منزلیں مقرر کیں اور وہی رات اور دن کو بنانے والا ہے۔ مشرک کی عادت یہ ہے کہ وہ صرف مصیبت کے وقت اپنے رب کو پکارتا ہے مصیبت ٹل جانے کے بعد اللہ تعالیٰ کو بھول جاتا ہے۔ مشرک ان سے مدد طلب کرتا اور ان کو اللہ کے ہاں سفارشی بناتا ہے جو نفع و نقصان کا کچھ اختیار نہیں رکھتے۔ مشرک قرآن مجید کے دلائل کی تاب نہ لاکر مطالبہ کرتے ہیں کہ قرآن مجید کو بدل دیا جائے۔ دنیا عارضی ہے اور اس کی مثال گھاس پھونس کی مانند ہے۔ آخرت یقینی اور ابدی ہے۔ قرآن مجید کو جھٹلانے والوں کو اس سورۃ میں ایک سورۃ بنا لانے کا چیلنج دیا گیا ہے۔ اللہ کے رسول سے کہلوایا گیا ہے کہ میں بھی اپنے نفع و نقصان کا مالک نہیں ہوں۔ قرآن مجید بہترین نصیحت اور نسخۂ شفا ہے۔ اللہ تعالیٰ اولاد سے پاک اور بے نیاز ہے۔ سورۂ یونس میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور فرعون کی کشمکش کا مختصر بیان ہوا ہے۔ فرعون اور اس کے لشکر کو غرق کردیا گیا مگر فرعون کی لاش عبرت کے لیے باقی رکھی گئی۔ قوم یونس کی اجتماعی توبہ کی وجہ سے ان کے سروں پر منڈلانے والا عذاب ٹال دیا گیا۔ آخر میں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان سے مشرکوں کو چیلنج دیا گیا ہے کہ تم اللہ کی ذات میں شک کرتے ہو تو کرو میں تو صرف ایک اللہ کی عبادت کرنے والا ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے مومنوں کی مدد کرنا اپنے آپ پر لازم کر رکھا ہے۔ یونس
1 فہم القرآن اآرٰ۔ حروف مقطعات میں سے ہیں۔ حروف مقطعات کا معنی اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا اور نہ اس کا عملی زندگی سے تعلق ہے۔ جس بنا پر نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کا معنی نہیں بتلایا اور نہ ہی صحابہ (رض) نے آپ سے استفسارکیا۔ جن بزرگوں نے ان کے معنیٰ کیے ہیں۔ یہ ان کی ذہنی کاوش ہے۔ جس کی کوئی ٹھوس دلیل نہیں ہے۔ اس لیے آخر میں وہ بھی یہ لکھنے پر مجبور ہیں۔ کہ اللہ ہی حروف مقطعات کے معنی جانتا ہے۔ لیکن افسوس ہمارے دور کے ایک مفسر نے ایسا دعویٰ کیا ہے جس سے علم کے نام پر جہالت اور حروف مقطعات کے بہانے شرک پھیلانے کا دروازہ کھولا ہے چنانچہ لکھتے ہیں : کہ یہ حروف خود بول کر اپنا مفہوم اولیاء کرام سے بیان کردیتے ہیں جیسے یہ حروف اس ذات پاک سے گویا ہوتے تھے جس کی ہتھیلی میں کنکریوں نے اللہ کی تسبیح بیان کی تھی۔ معاذاللہ۔ (ضیاء القرآن، جلد ٢، ص : ٢٧٥) بہرحال یہ حروف ایسے ہیں جن کا معنی اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ چنانچہ ارشاد ہوتا ہے۔ یہ کتاب حکیم کی آیات ہیں۔ لوگوں نے تعجب کیا کہ ہم نے انہیں میں ایک آدمی پر قرآن مجید نازل کیا ہے۔ جو انھیں کفرو شرک اور برے اعمال کے انجام سے خبر دار کرتا ہے۔ اور مسرت و شادمانی کا پیغام دیتا ہے جو اس پر ایمان لائے ان کے لیے ان کے رب کے پاس عزت و عظمت کا مقام ہے۔ کفار کہتے ہیں کہ یہ جادوگر ہے۔ (یہاں قدم کا لفظ استعمال ہوا ہے جس کی جمع اقدام ہوتی ہے۔ جس کا مفہوم آگے بڑھنا ہے۔ یہاں قَدَمَ صِدْقٍ کے الفاظ لائے گئے ہیں یعنی یہ ترقی اور مرتبہ ان کو صدق نیت اور حق قبول کرنے اور اس پر عمل کرنے سے حاصل ہوگا، یہی نبوت کی دعوت کا خلاصہ ہے۔) * پہلی اقوام سے بھی جب کتاب الٰہی کا جواب نہ بن پایا تو انہوں نے اپنے انبیاء ( علیہ السلام) کو جادو گر قرار دیا۔ * کتاب الٰہی کی تاثیر سے متاثر ہونے کی وجہ سے کفار اسے جادو قرار دیتے ہیں۔ * سنجیدہ لوگوں کو جادو گروں سے نفرت ہوتی ہے۔ لوگوں کو متنفر کرنے کے لیے کفار انبیاء (علیہ السلام) کو جادوگر ہونے کا الزام دیتیتھے۔ * جادوکی کوئی حقیقت نہیں ہوتی کفار ثابت کرنا چاہتے تھے کہ نبی کی بات ویسے ہی آدمی کو متاثر کرتی ہے ورنہ اس میں کوئی حقیقت نہیں ہے۔ * جادو گر شعبدہ باز ہوتے ہیں۔ کفار نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے معجزہ کو جادو اور شعبدہ قرار دیتے تھے۔ حالانکہ : * وحی اللہ تعالیٰ کا کلام ہوتا ہے۔ مخلوق میں کوئی بھی اس جیسا کلام نہیں کرسکتا۔ * جادو کا اثر دیرپا نہیں ہوتا۔ جب کہ وحی دائمی اور اس پر ایمان لانے کے بعد آدمی مرنا قبول کرلیتا ہے اس سے انکار نہیں کرتا۔ * جادوگر روحانی اور جسمانی طور پر گندہ ہوتا ہے۔ پیغمبر پاکباز اور صاف ستھرا ہوتا ہے۔ * جادوگر پیٹ کے دھندے کے لیے کرتب دکھاتا ہے۔ نبی ساری عمر کسی سے ایک دمڑی کا روا دار نہیں ہوتا۔ * جادو ڈرامہ ہے۔ قرآن مجید ابدی حقیقت ہے۔ * جادوگر جھوٹ بولتا ہے۔ اللہ کارسول کبھی جھوٹ نہیں بولتا۔ * جادو سے دین ودنیا کا نقصان ہوتا ہے۔ نبی کی اتباع سے دین و دنیا کی بھلائی اور عزت حاصل ہوتی ہے۔ جادو کی اقسام، معنی اور حقیقت : مشہور مفسر امام رازی نے جادو کو آٹھ قسموں میں تقسیم کیا ہے۔ ان کی تقسیم سے معلوم ہوتا ہے کہ اس زمانے میں جادوگروں نے اپنے فن کے لیے کون کون سے طریقے ایجاد کر رکھے تھے۔ جادو کوئی مستقل اور مستند علم نہیں کہ جس کو کرنے کے لیے کوئی خاص طریقہ متعین کیا گیا ہو کیونکہ جادو تصنّع بازی کا نام ہے اس لیے ہر دور میں اس کی کرشمہ سازی اور اثر انگیزی میں اضافہ کرنے کے لیے نئے نئے طریقے ایجاد کیے گئے تاہم جدید وقدیم جادو کا خلاصہ درج ذیل ہے : ١۔ کفر یہ‘ شرکیہ الفاظ کے ہیر پھیر کے ذریعے جادو کرنا۔ ٢۔ برے لوگوں‘ خبیث جنّات اور شیاطین کے ذریعے کسی پر اثر انداز ہونا۔ ٣۔ علم نجوم کے ذریعے غیب کی خبریں دینا اور دوسرے کو متاثر کرنا۔ ٤۔ توجہ‘ مسمریزم کی مخصوص حرکات، (ہپناٹیزم) کے ذریعیحواس خمسہ کو قابو کرنا۔ مسائل ١۔ قرآن مجید کی آیات پُر حکمت ہیں۔ ٢۔ قرآن مجید ایمان داروں کے لیے خوشخبری کا پیغام ہے۔ ٣۔ کفار انبیاء کی بشریت پر اعتراض کرتے تھے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰلوگوں کو ڈرانے اور خوشخبری سنانے کے لیے انسانوں میں سے ہی نبی بناتا رہا ہے۔ ٥۔ مومنین کے لیے اللہ تعالیٰ کے ہاں بلند مرتبہ ہے۔ ٦۔ کفار نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جادوگر کہتے تھے۔ تفسیر بالقرآن نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر کفار کے الزامات : ١۔ کفار نبی کریم کو جادوگر کہا کرتے تھے۔ (یونس : ٣) ٢۔ کفار آپ کو کاہن اور مجنون کہتے تھے اللہ تعالیٰ نے جواباً فرمایا کہ آپ کاہن اور مجنون نہیں ہیں۔ (الطور : ٢٩) ٣۔ کفار آپ کو شاعر کہتے تھے۔ (الطور : ٣٠) ٤۔ کفار آپ پر الزام لگاتے تھے کہ آپ قرآن مجید خود بنا لیتے ہیں۔ (النحل : ١٠١) ٥۔ کفار نبی اکرم کو جادوگر اور کذاب کہتے تھے۔ (ص : ٤) ٦۔ کفار نے انبیاء کو جادو گر اور مجنوں قرار دیا۔ (الذاریات : ٥٢) ٧۔ ظالموں نے کہا تم جادو کیے گئے شخص کی پیروی کرتے ہو۔ (الفرقان : ٨) یونس
2 یونس
3 فہم القرآن ربط کلام : انبیاء کرام (علیہ السلام) کی نبوت کا انکار کرنے کی سب سے بڑی وجہ عقیدہ توحید تھا اس لیے نبی کی بشریت کا ذکر کرنے کے بعد توحید کے دلائل دیے جاتے ہیں۔ اے لوگو! تم نبی کے انسان ہونے پر تعجب کرتے ہو۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں یہ معمولی بات ہے کہ کسی شخص کو اپنے پیغام اور کام کے لیے منتخب فرمائے۔ اس کی ذات اتنی عظیم ہے کہ اس نے زمین و آسمان صرف چھ دن میں پیدا فرمائے اور پھر ذات کبریا عرش عظیم پر متمکن ہوئی جس طرح اس کی شان ہے۔ البتہ ہمارے لیے یہ سوچنا عظیم تر گناہ ہے کہ اللہ تعالیٰ فلاں وقت کس حالت میں ہوگا ایسی سوچ آنے پر اعوذ باللہ۔۔ پڑھنا چاہیے جہاں تک زمین و آسمان پیدا کرنے کا تعلق ہے اس کے بارے میں یہ وضاحت فرمائی کہ اللہ تعالیٰ نے اسے بغیر کسی Sample کے چھ دن میں پیدا فرمایا۔ اللہ تعالیٰ چاہتے تو وہ ایک لمحہ میں بھی زمین و آسمان پیدا کرسکتے تھے۔ لیکن اس میں یہ حکمت ہے کہ ہر کام کو مناسب وقت دینا فطری امر ہے جس کا خیال رکھنا چاہیے تاکہ ہر چیز یا کام اپنے فطرتی تقاضوں کے مطابق کما حقہ سر انجام پائے۔ وہی زمین و آسمان اور پوری کائنات کا نظام سنبھالے ہوئے ہے۔ زمین و آسمانوں کی پیدائش اور کائنات کا نظام سنبھالنے میں اس کا کوئی ساجھی، شریک اور مشیر نہ تھا، نہ ہے اور نہ ہوگا اور نہ اس نے کسی کو ذرہ برابر اختیار دے رکھا ہے۔ جب کائنات کی تخلیق اور نظام چلانے میں اللہ تعالیٰ کا کوئی شریک، معاون اور مشیر نہیں تو اس کے سامنے اس کے حضور اس کی اجازت کے بغیر کوئی سفارش کرنے کی جرأت کیسے کرسکتا ہے؟ لوگو اللہ ہی تمہارا رب ہے لہٰذا صرف اور صرف اسی ایک کی عبادت کیا کرو۔ اتنے بڑے حقائق اور ناقابل تردید دلائل کی موجودگی میں کیا تم نصیحت حاصل کرنے کے لیے تیار ہو؟ نصیحت سے مراد یہاں توحید کا عقیدہ اور خالصتاً اللہ کی عبادت کرنا ہے جو شخص اس کو نہیں مانتا وہ ہدایت یافتہ نہیں ہوسکتا۔ اس آیت مبارکہ میں تخلیقِ کائنات کا ثبوت دینے کے بعد اس بات کی پرزور تردید کی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی کی سفارش کا محتاج اور اسے ماننے پر مجبور نہیں ہیجبکہ مشرک کا عقیدہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بزرگوں کی ریاضت و عبادت سے خوش ہو کر انہیں کچھ اختیار دے رکھے ہیں جس بنا پر اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنی خدائی میں شریک کر رکھا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کی سفارش مسترد نہیں کرتا۔ یہ باطل عقیدہ انسان کو اللہ سے بے خوف، بدعمل اور اپنے رب سے دور کردیتا ہے جس سے معاشرتی، معاشی اور دینی برائیاں پیدا ہوتی ہیں۔ اسی لیے ہر نبی نے اس عقیدہ کی تردید کی۔ (عَنْ أَبِیْ أُمَامَۃَ قَالَ قَالَ عَمْرُو بْنُ عَبَسَۃَ السُّلَمِیُّ کُنْتُ وَأَنَا فِی الْجَاہِلِیَّۃِ أَظُنُّ أَنَّ النَّاسَ عَلَی ضَلاَلَۃٍ وَأَنَّہُمْ لَیْسُوْا عَلٰی شَیْءٍ وَہُمْ یَعْبُدُوْنَ الأَوْثَانَ فَسَمِعْتُ بِرَجُلٍ بِمَکَّۃَ یُخْبِرُ أَخْبَارًا فَقَعَدْتُ عَلٰی رَاحِلَتِی فَقَدِمْتُ عَلَیْہِ فَإِذَا رَسُوْلُ اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مُسْتَخْفِیًا جُرَءَ آءُ عَلَیْہِ قَوْمُہٗ فَتَلَطَّفْتُ حَتّٰی دَخَلْتُ عَلَیْہِ بِمَکَّۃَ فَقُلْتُ لَہٗ مَآ أَنْتَ قَالَ أَنَا نَبِیٌّ فَقُلْتُ وَمَا نَبِیٌّ قَالَ أَرْسَلَنِی اللَّہُ فَقُلْتُ وَبِأَیِّ شَیْءٍ أَرْسَلَکَ قَالَ أَرْسَلَنِیْ بِصِلَۃِ الأَرْحَامِ وَکَسْرِ الأَوْثَانِ وَأَنْ یُوَحَّدَ اللَّہُ لاَ یُشْرَکُ بِہِ شَیْءٌ قُلْتُ لَہٗ فَمَنْ مَّعَکَ عَلٰی ہَذَا قَالَ حُرٌّ وَعَبْدٌ) [ رواہ مسلم : کتاب صلاۃ المسافرین وقصرہا، باب اسلام عمرو بن عبسۃ] ” حضرت ابو امامۃ کہتے ہیں کہ عمرو بن عبسہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں جاہلیت میں لوگوں کو گمراہی پر تصور کیا کرتا تھا۔ میرا خیال تھا کہ وہ کسی مذہب پر بھی نہیں ہیں کیونکہ وہ بتوں کی عبادت کرتے تھے۔ میں نے سنا کہ ایک آدمی مکہ میں ہے جن کے متعلق خبریں مشہورتھیں۔ میں سواری پر بیٹھا اور آپ کے پاس آیا اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی قوم کے سرپھروں سے چھپ کر رہتے تھے۔ میں نے احتیاط برتی حتی کہ مکہ میں آپ کے پاس حاضر ہوا۔ میں نے کہا آپ کون ہیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ میں نبی ہوں، میں نے کہا نبی کون ہوتا ہے آپ نے فرمایا۔ اللہ نے مجھے اپنے پیغام کے لیے منتخب فرمایا ہے۔ میں نے کہا کس چیز کے ساتھ آپ نے فرمایا صلہ رحمی اور بتوں کو توڑنے کے لیے اور یہ کہ اللہ تعالیٰ کو ایک جانا جائے اور اس کے ساتھ شریک نہ ٹھہرایا جائے میں نے کہا آپ کے ساتھ کون ہے؟ آپ نے فرمایا آزاد اور غلام۔“ (عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ أَنَّ رَسُوْلَ اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ قَال اللَّہُ عَزَّ وَجَلَّ أَنْفِقْ أُنْفِقْ عَلَیْکَ وَقَالَ یَدُ اللَّہِ مَلأَی لاَ تَغِیْضُہَا نَفَقَۃٌ، سَحَّاء اللَّیْلَ وَالنَّہَارَ وَقَالَ أَرَأَیْتُمْ مَا أَنْفَقَ مُنْذُ خَلَقَ السَّمَآءَ وَالأَرْضَ فَإِنَّہٗ لَمْ یَغِضْ مَا فِیْ یَدِہِ، وَکَانَ عَرْشُہٗ عَلَی الْمَاءِ، وَبِیَدِہِ الْمِیْزَانُ یَخْفِضُ وَیَرْفَعُ) [ رواہ البخاری : کتاب التفسیر، باب قولہ تعالیٰ وکان عرشہ علی الماء ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ عزوجل فرماتے ہیں انسان خرچ کر تجھ پر خرچ کیا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ کے ہاتھ بھرے ہوئے ہیں۔ اس میں سے رات دن خرچ کرنے سے کمی نہیں آتی، آپ نے فرمایا کیا خیال ہے تمہارا کس قدر اللہ نے خرچ کیا ہوگا ؟ جب سے اللہ تعالیٰ نے آسمان و زمین بنائے ہیں یقیناً اس میں کسی قسم کی کمی نہیں آئی۔ اللہ تعالیٰ کا عرش پانی پر تھا، اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ترازو ہے وہ اسے اوپر کرتا اور نیچے کرتا ہے۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے آسمانوں و زمین کو چھ دن میں پیدا فرمایا۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ عرش پر مستوی ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ ہر کام کی تدبیر کرتا ہے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ کی اجازت کے بغیر کوئی سفارش نہیں کرسکے گا۔ ٥۔ ایک اللہ کی ہی عبادت کرنی چاہیے۔ تفسیر بالقرآن سفارش کے دلائل : ١۔ اللہ کی اجازت کے بغیر کوئی سفارش کا حقدار نہ ہوگا۔ (یونس : ٣) ٢۔ اللہ کی اجازت سے سفارش ہو سکے گی۔ (البقرۃ: ٢٥٥) ٣۔ سفارش کا اختیار اسی کو ہوگا جسے رحمٰن اجازت دے گا۔ (مریم : ٨٧) ٤۔ شفاعت اسی کے کام آئے گی جس پر رحمٰن راضی ہوا۔ (طٰہٰ: ١٠٩) ٥۔ اگر رحمٰن نقصان پہنچانا چاہے تو کسی کی سفارش کچھ کام نہ آئے گی۔ (یٰس : ٢٣) ٦۔ سفارشیوں کی سفارش ان کے کسی کام نہ آئے گی۔ (المدثر : ٤٨) ٧۔ وہی سفارش کرسکے گا جس کی سفارش پر رب راضی ہوگا۔ (الانبیاء : ٢٨) یونس
4 فہم القرآن ربط کلام : اللہ ہی نے ساری کائنات اور انسان کو پیدا کیا وہی اس کائنات کو ملیا میٹ کرکے نئی صورت میں پیدا کرے گا۔ ہر انسان کو اس کی بارگاہ میں حاضر ہونا اور اپنے اعمال کا جواب دینا ہے۔ ہر دور میں بے شمار ایسے لوگ رہے ہیں اور ہوں گے۔ جن کا یہ نظریہ ہے کہ کائنات کا نظام اسی طرح ہی چلتا رہتا ہے۔ انسان بھی مر کر مٹی کے ساتھ مٹی ہوجاتا ہے۔ ہندوؤں اور کچھ لوگوں کا یہ نظریہ ہے کہ کائنات کا نظام اس طرح چلتا رہے گا۔ مگر انسان جب مرجاتا ہے تو اس کی روح دنیا میں کسی دوسرے روپ میں پلٹ آتی ہے۔ جسے آواگون کا عقیدہ کہا جاتا ہے۔ آخرت کے منکرین میں ایک گروہ ایسا بھی ہے جو یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ کائنات اور انسان بالآخر ختم ہوجائیں گے اور انسان کو دنیا میں ہی مکافات عمل کے اصول کے تحت جزا اور سزا مل جاتی ہے۔ اسی طرح یہ لوگ موت کے بعد زندہ ہونا اور اللہ کے حضور پیش ہونے کے عقیدہ کا انکار کرتے ہیں۔ جبکہ قرآن مجید اور تمام آسمانی کتابیں اور عقل سلیم اس بات پر متفق ہیں کہ ایک دن ضرور ایسا آئے گا اور اسے آنا چاہیے کہ جب برے کو اس کی برائی کے برابر اور نیک کو اس کی نیکی کا پورا پورا اجر دیا جائے۔ ظاہر ہے کہ دنیا میں کتنے قاتل ہیں جنہیں عدالت ایک ہی دفعہ پھانسی دے سکتی ہے اور دوسرے مقتولوں کا بدلہ اور مظلوموں کو حق نہیں دلوا سکتی۔ اسی طرح انبیاء (علیہ السلام)، صحابہ کرام (رض) اور مصلحین کس قدر محنت کرتے اور تکلیفیں اٹھاتے رہے۔ جن کا پورا اجر دنیا میں ملنا مشکل ہے۔ اس بنا پر آخرت کی حاضری اور اپنے اپنے اعمال کی جوابدہی کا عقیدہ رکھنا فرض ہے۔ یہی عقیدہ انسان میں نیکی کا شوق اور برائی کا خوف پیدا کرتا ہے۔ اسی لیے ایمانیات میں بعثت بعد الموت کا تیسرا نمبر اور عقیدہ توحید کے ساتھ اس کا گہرا تعلق ہے۔ جو شخص آخرت کی حاضری اور حساب و کتاب کو نہیں مانتا۔ حقیقتاً وہ اللہ تعالیٰ کی دائمی خدائی اور اس کے جزا اور سزا کے نظام کا انکار کرتا ہے۔ کوئی مانے یا نہ مانے قیامت برپا کرنا اللہ کا سچا وعدہ ہے کہ ہر کسی نے ضرور اس کے حضور پیش ہونا ہے۔ جہاں تک بعض لوگوں کے بوسیدہ خیالات کا تعلق ہے کہ انسان مر کر مٹی کے ساتھ مٹی ہوجاتا ہے۔ دوبارہ کس طرح انسان بنے گا اور پیدا ہوگا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ جس اللہ نے تمہیں پہلی مرتبہ پیدا کیا۔ دوبارہ پیدا کرنا اس کے لیے آسان ہے یا مشکل؟ اور پھر سوچو کیا آدم کو مٹی سے نہیں پیدا کیا تھا۔ اللہ تمہارے باپ آدم کو پیدا کرسکتا ہے تو اس کی اولاد کو پیدا نہیں کرسکتا؟ وہ تمہیں پیدا ہی نہیں کرے گا بلکہ اپنی عدالت میں پیش کرے گا۔ جہاں نیکوں کو ان کی نیکی کی جزا دے گا اور منکروں کو جہنم میں کھولتا ہوا پانی پلانے کے ساتھ انہیں اذیت ناک عذاب میں مبتلا کیا جائے گا۔ سوچ لو ! اللہ کی ذات اور اس کے احکام کا انکار کرنا بہتر ہے یا اقرار۔ (عَنْ اَبِی ھُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لَتُؤَدُّنَّ الْحُقُوْقَ إِلٰی أَھْلِھَا یَوْمَ الْقِیَامَۃِ‘ حَتّٰی یُقَاد للشَّاۃِ الْجَلْحَاءِ مِنَ الشَّاۃِ الْقَرْنَاءِ) [ رواہ مسلم : کتاب البروالصلۃ، باب تحریم الظلم] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تمہیں قیامت کے دن لوگوں کے حقوق ان کے مالکوں کو ادا کرنا پڑیں گے، یہاں تک کہ جس بکری کے سینگ نہیں ہیں اس کو سینگ والی بکری سے بدلہ دلایا جائے گا۔“ مسائل ١۔ سب نے اللہ تعالیٰ ہی کی طرف لوٹنا ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ کا وعدہ سچا ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ نے تمام مخلوقات کو پہلی بار پیدا فرمایا اور وہی دوبارہ پیدا فرمائے گا۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ ایمان دار اور نیکی کرنے والے کو صلہ عطا فرمائے گا۔ ٥۔ کفار کو جہنم کے کھولتے ہوئے پانی کے ساتھ اذیت ناک عذاب دیا جائے گا۔ ٧۔ اللہ تعالیٰ کسی پر ظلم نہیں کرتا۔ تفسیر بالقرآن قیامت کے دلائل : ١۔ قیامت قریب ہے۔ (الانبیاء : ١) ٢۔ قیامت کی ہولناکیاں بڑی سخت ہوں گی۔ (الحج : ١) ٣۔ قیامت قریب آگئی اور اس کے آنے کو اللہ کے سوا کوئی نہیں روک سکتا۔ (النجم : ٥٧۔ ٥٨) ٤۔ قیامت واقع ہوگی اس کے واقع ہونے کو کوئی جھٹلا نہیں سکتا۔ (الواقعۃ : ٢٠١) ٥۔ اللہ مخلوق کو دوبارہ لوٹائے گا تاکہ نیک و بد کو جزاو سزا مل سکے۔ (یونس : ٤) ٦۔ جس نے ذرہ برابر نیکی کی اسے اجر ملے گا۔ جس نے ذرہ برابر برائی کی اسے اس کی سزا ملے گی۔ (الزلزال : ٧۔ ٨) یونس
5 فہم القرآن ربط کلام : پچھلی آیت میں مرنے کے بعد جی اٹھنے کی یہ دلیل دی تھی کہ وہ ذات تمہاری موت کے بعد تمہیں اٹھائے گی جس نے ابتدا میں تمہیں پیدا کیا اب شمس و قمر کے حوالے سے موت کے بعد اٹھنے اور اللہ تعالیٰ کے اقتدار اور اختیار کی دلیل سنو۔ وہی ایک ذات ہے جس نے زمین و آسمان اور انسان کو پیدا کیا۔ وہی ذات ہے جس نے سورج کو روشنی دی اور چاند کو چاندنی عطا فرمائی۔ سورج کی روشنی ہلکی سرخ اور تیز گرم ہوتی ہے۔ چاند کی روشنی سفید ٹھنڈی اور پر کشش ہوتی ہے۔ جس وجہ سے کچھ فصلیں سورج کی تیز روشنی میں اور کچھ فصلیں چاند کی پر کشش روشنی میں تیار ہوتی ہیں۔ دنیا کو دونوں قسم کی روشنی کی ضرورت تھی۔ جس کا دائمی انتظام کردیا گیا ہے۔ چاند اور سورج دو ہیں۔ لیکن خبر واحد کی لائی گئی جس میں اشارہ ہے کہ تم چاند کے حساب سے اپنے معاملات متعین کرو۔ اسی لیے مسلمانوں کی تقویم کی بنیاد چاند پر رکھی گئی ہے۔ پھر ان کی منازل متعین کیں جن پر یہ دن رات سفر کرتے ہیں۔ اے لوگو! جن کے مطابق تم اپنی زندگی کا حساب و کتاب اور دینی معاملات کو چلاتے ہو جس طرح کہ رمضان کے روزے، حج کی ادائیگی، صبح و شام کی نمازوں کا وقت یہ تمام امور شمسی حساب کی بجائے قمری حساب کی بنیاد پر مقرر اور ادا کیے جاتے ہیں۔ ایک معمولی عقل رکھنے والا انسان غور کرے تو اسے معلوم ہوجائے گا۔ کہ اللہ تعالیٰ کے سوا اس نظام کو کوئی پیدا کرنے والا اور چلانے والا نہیں۔ جب چاند اور سورج جیسے عظیم سیارے رات اور دن کا لامحدود نظام اللہ تعالیٰ کی قدرت اور قبضہ میں ہے اور وہی رات دن کو ایک دوسرے کے پیچھے لاتا ہے۔ کبھی رات طویل تر ہوجاتی ہے اور کبھی دن رات کے وجود کو چھوٹا کردیتا ہے۔ کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ رات اور دن وقت کے اعتبار سے یکساں ہوجاتے ہیں۔ اسی نظام کے مطابق ہی انسان کی زندگی ہے۔ پہلے چھوٹا ہوتا ہے پھر جوان ہو کر بھرپور صلاحیتوں کا پیکر بن جاتا ہے۔ آخر عمر میں بچوں کی طرح کمزور اور دوسروں کا محتاج ہوجاتا ہے۔ اسی طرح کبھی تندرستی کبھی بیماری کبھی خوشحالی اور تنگدستی ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ گویا کہ شمس و قمر کا غروب اور طلوع ہونا۔ زندگی اور موت اور جی اٹھنے کی واضح دلیل ہے۔ اسی طرح یہ اس بات کی واضح اور ٹھوس دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ انسانوں کی موت کے بعد انہیں زندہ کرنے پر قادرہے اور ان سے حساب ضرور لے گا۔ (اِنَّ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ لاَ یَخْسِفَانِ لِمَوْتِ اَحَدِ وَلاَ لِحَیَاتِہٖ وَلَکِنَّھُمَا اٰیَتَانِ مِنْ اٰیَات اللّٰہِ (وَفِیْ رِوَایَۃٍ یُخَوِّفُ بِھَا عِبَادَہٗ)۔)[ رواہ البخاری : کتاب الصلٰوۃ، باب قول النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ] ” سورج اور چاند کو کسی کی موت و زیست سے گر ہن نہیں لگتا بلکہ یہ تو اللہ تعالیٰ کی نشانیوں سے دو نشانیاں ہیں، ان کے ذریعہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو ڈراتا ہے۔“ مسائل ١۔ سورج کو ضیاء اور چاند کو چاندنی اللہ تعالیٰ نے عطا کی ہے۔ ٢۔ سورج اور چاند کی منازل اللہ تعالیٰ نے مقرر فرمائی ہیں۔ ٣۔ چاند اور سورج کی گردش اس لیے مقرر کی گئی کہ لوگ اس سے ایام، ماہ اور سال کا حساب لگائیں۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ جاننے والوں کے لیے اپنی نشانیاں کھول کر بیان کرتا ہے۔ ٥۔ رات اور دن کا مختلف ہونا اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں۔ ٦۔ آسمانوں و زمین کی تخلیق اللہ کی نشانیوں میں سے نشانیاں ہیں۔ تفسیر بالقرآن لیل و نہار کی گردش اللہ تعالیٰ کی قدرت کی نشانیاں ہیں : ١۔ دن اور ات کے مختلف ہونے اور زمین و آسمان کی پیدائش میں نشانیاں ہیں۔ (یونس : ٦) ٢۔ آسمانوں و زمین کی پیدائش، دن اور رات کی گردش، سمندر میں کشتیوں کے چلنے، آسمان سے بارش نازل ہونے، بارش سے زمین کو زندہ کرنے، چوپایوں کے پھیلنے، ہواؤں کے چلنے اور بادلوں کے مسخر ہونے میں نشانیاں ہیں۔ (البقرۃ : ١٦٤) ٣۔ آسمانوں و زمین کی پیدائش اور دن رات کے مختلف ہونے میں نشانیاں ہیں۔ (آل عمران : ١٩٠) ٤۔ رات اور دن کے مختلف ہونے، آسمان سے رزق اتارنے میں عقل والوں کے لیے نشانیاں ہیں۔ (الجاثیۃ: ٥) یونس
6 یونس
7 فہم القرآن ربط کلام : اتنے کھلے اور بھاری دلائل موجود ہونے کے باوجود کچھ لوگ آخرت کا انکار کرتے ہیں تو اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ یہ لوگ دنیا کو ہی سب کچھ سمجھ کر اس پر راضی ہوچکے ہیں۔ آخرت کے انکار کا پہلا اور بنیادی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ انسان دنیا کا بندہ بن کر رہ جاتا ہے۔ اس کی ساری محنت دنیا کی خاطر ہوتی ہے۔ انسان دنیا کی ہوس میں اس قدر آگے بڑھ جاتا ہے کہ اس کے سامنے اخلاقی قدروں اور اللہ تعالیٰ کے بنائے ہوئے ضابطوں کی کوئی پرواہ نہیں ہوتی، وہ معمولی مفاد کی خاطر ایمان اور اپنی عزت کو بیچ دیتا ہے۔ بسا اوقات دنیا کے لالچ میں اس قدر اندھا ہوجاتا ہے کہ اسے اپنے جگر گوشوں سے بھی زیادہ دولت، منصب اور شہرتپیاری ہوتی ہے۔ یہ مفاد پرستی اور غفلت کی انتہا ہے۔ بڑی سے بڑی دلیل اور عبرت ناک حادثات بھی اس کی آنکھوں سے غفلت کی پٹی ہٹا نے میں کامیاب نہیں ہوتے۔ ایسے لوگوں کے لیے جہنم کی آگ تیار کی گئی ہے جس میں انہیں ٹھیک ٹھیک سزا دی جائے گی۔ (عَنْ عَبْدِاللّٰہِ (رض)‘ قَالَ: خَطَّ النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خَطَّامُرَبَّعًا وَخَطَّ خَطًّا فِی الْوَسَطِ خَارِجًا مِنْہُ وَخَطَّ خُطَطًا صِغَارًا إِلٰی ھٰذَا الَّذِیْ فِی الْوَسَطِ مِنْ جَانِبِہِ الَّذِیْْ فِی الْوَسَطِ فَقَالَ ھٰذَا الْاِنْسَانُ وَھٰذَا أَجَلُہٗ مُحِیْطٌ بِہٖ وَھٰذَا الَّذِیْ ھُوَ خَارِجٌ اَمَلُہٗ وَھٰذِہِ الْخُطُوْطُ الصِّغَارُ الْاَعْرَاضُ فَاِنْ اَخْطَأَہٗ ھٰذَا نَھَسَہٗ ھٰذَا وَاِنْ اَخْطَأَہٗ ھٰذَا نَھَسَہٗ ھٰذَا) [ رواہ البخاری : باب فی الامل وطولہ] ” حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک دفعہ ایک مربع شکل کا خط کھینچا اور وسطی خط کے درمیان سے کچھ خطوط کھینچے۔ ایک درمیان سے باہر نکلنے والا خط کھینچا اور فرمایا‘ یہ انسان ہے۔ اور یہ مربع اس کی موت ہے جو اسے گھیرے ہوئے ہے۔ اور جو خط باہر نکل رہے ہیں‘ وہ اس کی خواہشات ہیں۔ اور یہ چھوٹے چھوٹے خطوط آفات وبیماریاں ہیں۔ اگر ایک سے محفوظ رہا تو یہ دوسری اسے آلے گی۔ اگر یہ بھی اس سے خطا کر جائے‘ تو تیسری آفت اسے اپنا نشانہ بنالے گی۔“ (عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ لَوْکَان لابْنِ اٰدَمَ وَادِیَانِ مِنْ مَّالٍ لَابْتَغٰی ثَالِثًا، وَلَا یَمْلَأُ جَوْفَ ابْنِ اٰدَمَ إِلَّاالتُّرَابُ وَیَتُوْبُ اللّٰہُ عَلٰی مَنْ تَابَ) [ رواہ البخاری : باب مایتقی من فتنۃ المال] ” حضرت ابن عباس (رض) نبی گرامی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں کہ اگر ابن آدم کے پاس مال کی دو وادیاں ہوں‘ تو وہ تیسری کی خواہش کرے گا۔ ابن آدم کے پیٹ کو مٹی ہی بھر سکتی ہے اور اللہ توبہ کرنے والے کی توبہ قبول کرتا ہے۔“ (عَنْ سَھْلِ ابْنِ سَعْدٍ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یُحْشَرُالنَّاسُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ عَلٰی اَرْضٍ بَیْضَاءَ عَفْرَاءَ کَقُرْصَۃِ النَقِیِّ لَیْسَ فِیْھَا عَلََمٌ لِاَحَدٍ) [ رواہ البخاری : باب یقبض اللہ الارض ] ” حضرت سہل بن سعد (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا قیامت کے روز لوگوں کو سرخی مائل سفید زمین پر جمع کیا جائے گا زمین میدے کی روٹی کی مانند ہوگی زمین پر کسی قسم کا نشیب و فراز نہ ہوگا۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ کی ملاقات کے منکر اور دنیا کی عیش و عشرت پر مطمئن ہونے والے لوگ اللہ تعالیٰ کی آیات سے غافل ہوتے ہیں۔ ٢۔ جو لوگ دنیا کے پیچھے لگ کر اللہ تعالیٰ کو بھول جاتے ہیں ان کا ٹھکانہ جہنم ہے۔ تفسیر بالقرآن جہنمیوں کا اپنے گناہوں کا اعتراف : ١۔ اللہ سے ملاقات کی امید نہ رکھنے اور اللہ کی آیات سے غفلت برتنے والوں کا ٹھکانہ جہنم ہے۔ (یونس ٧۔ ٨) ٢۔ جہنمی جہنم میں چلائیں گے اور کہیں گے اے ہمارے رب ہمیں جہنم سے نکال دے ہم برے اعمال کی بجائے نیک عمل کریں گے۔ (فاطر : ٣٧) ٣۔ اے ہمارے پروردگار ہماری بدبختی نے ہمیں گھیر لیا تھا اور ہم کافر ہوئے۔ (المومنون : ١٠٦) ٤۔ ہم اپنے گناہوں کا اعتراف کرتے ہیں کیا یہاں سے نکلنے کا راستہ ہے۔ (المومن : ١١) یونس
8 یونس
9 فہم القرآن ربط کلام : جہنمیوں کی چیخ وپکار اور ان کا انجام بیان کرنے کے بعد جنتیوں کا صلہ اور جنت میں ان کے اخلاق اور کلام کا ذکر ہوتا ہے۔ جنتی جنت میں اپنے تصوّرات سے کروڑ ہا گنا بیش بہا نعمتیں پا کر پکار اٹھیں گے کہ اے اللہ تو پاک ہے۔ ہم تو اس قابل نہ تھے کہ یہ مقام اور انعام پاتے۔ ہماری حقیر سی محنت کے بدلے جو کچھ آپ نے ہمیں عطا فرمایا ہے اس کا ہم تصوربھی نہیں کرسکتے تھے۔ بعض اہل علم نے یہ بھی لکھا ہے کہ جنتی کسی چیز کی خواہش کریں گے تو مانگنے کی بجائے لفظ سبحان استعمال کریں گے اور ان کی خواہش کے مطابق وہ چیز ان کی خدمت میں پیش کردی جائے گی۔ (واللہ اعلم) جنتی جب آپس میں ملاقات کریں گے تو ایک دوسرے کو سلام اور مبارک پیش کریں گے۔ اکل وشرب اور مجلس برخاست کرتے وقت اللہ تعالیٰ کی حمدو ستائش کے ترانے گائیں گے گویا کہ ہر طرف اور ہر حال میں اللہ تعالیٰ کی حمدو ثنا کی فضا ہوگی۔ یہاں تک کہ دنیا میں آپس میں سلام کہنے کے آداب ہیں۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے کہ جب آدم (علیہ السلام) کو پیدا کیا گیا تو اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم کو حکم دیا کہ دیکھو وہ ملائکہ کی جماعت بیٹھی ہوئی ہے ان کے پاس جاؤ، وہ تمہیں جو کلمات کہیں گے وہ تیری اولاد کے آپس میں ملنے کے آداب ہوں گے۔ جب آدم (علیہ السلام) ملائکہ کے پاس گئے تو انہوں نے ان کو سلام علیکم کہا۔ ملائکہ نے وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ کے الفاظ کہے۔ اسی وقت سے ایک دوسرے سے ملاقات کے وقت یہ کلمات اور آداب مقرر کردئیے گئے ہیں، جس بنا پر جنتی ایک دوسرے کو سلام کہیں گے۔ (عَنْ اَبِی ھُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خَلَقَ اللّٰہُ اٰدَمَ عَلَیٰ صُوْرَتِہٖ طُوْلُہٗ سِتُّوْنَ ذِرَاعاً فَلَمَّا خَلَقَہٗ قَالَ اذْھَبْ فَسَلِّمْ عَلٰی اُوْلٰٓءِکَ النَّفَرِ وَھُمْ نَفَرٌ مِّنَ الْمَلآ ءِکَۃِ جُلُوْسٌ فَاسْتَمِعْ مَایُحَیُّوْنَکَ فَاِنَّھاَ تَحِیَّتُکَ وَتَحِیَّۃُ ذُرِّیَّتِکَ فَذَھَبَ فَقَالَ اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ فَقَالُوْا اَلسَّلَاَمُ عَلَیْکَ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ قَالَ: فَزَادُوْہُمْ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ قَالَ فَکُلُّ مَنْ یَّدْخُلُ الجَنَّۃَ عَلٰی صُوْرَۃِ اٰدَمَ وَطُوْلُہٗ سِتُّوْنَ ذِرَاعاً فَلَمْ یَزَلِ الْخَلْقُ یَنْقُصُ بَعْدَہٗ حَتَّی اَلْآنَ)[ رواہ البخاری : باب بدء السلام] ” حضرت ابوہریرہ (رض) ذکر کرتے ہیں کہ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کو اپنی صورت پر تخلیق فرمایا۔ ان کا قد ساٹھ (٦٠) ہاتھ لمبا تھا۔ جب اللہ تعالیٰ ان کی تخلیق سے فارغ ہوا تو حکم فرمایا : آدم اس جماعت کے پاس جاکر سلام کہو۔ وہ فرشتوں کی مجلس ہے۔ جو وہ جواب دیں اسے سنو، وہی جواب تیرا اور تیری اولاد کا ہوگا۔ جب حضرت آدم نے جاکرالسلام علیکم کہا تو انہوں نے السلام علیکم ورحمۃ اللہ سے جواب دیا۔ نبی محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں کہ فرشتوں نے ورحمۃ اللہ کا اضافہ کیا۔ آپ فرماتے ہیں : جنت میں داخل ہونے والا ہر شخص آدم (علیہ السلام) کی شکل وصورت پر ہوگا اور ہر جنتی کا قد ساٹھ ہاتھ لمبا ہوگا۔ لیکن حضرت آدم (علیہ السلام) کے بعد انسانی قد میں مسلسل کمی ہوتی رہی یہاں تک کہ انسان کا قد اتنا رہ گیا۔“ اس گھڑی سے لے کرملاقات کا یہی طریقہ انسان کے لیے پسند کیا گیا۔ اس لیے ہمیں ادھر ادھر کے الفاظ استعمال کرنے کی بجائے فطری اور طبعی طریقے کو اختیار کرنا چاہیے۔ کیونکہ اس میں اس قدرجامعیت ہے کہ ملنے والے ایک دوسرے کیلئے ہر لحاظ سے خیرسگالی کے جذبات اور خیالات کا اظہار کرتے ہیں۔ دنیا کے کسی مذہب اور سوسائٹی میں ملاقات کے وقت اسقدر سلامتی کے جامع الفاظ نہیں پائے جاتے۔ ان کے انداز میں وقتی اور جزوی خیرخواہی کا اظہار ہوتا ہے۔ جیسے :Good Morning ،Goodevening، صباح الخیر، شب الخیروغیرہ۔ (عَنْ قَتَادَۃَ قَالَ قُلْتُ لأَنَسٍ أَکَانَتِ الْمُصَافَحَۃُ فِی أَصْحَاب النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ نَعَمْ ) [ رواہ البخاری : باب المصافحۃ] ” حضرت قتادہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت انس (رض) سے پوچھا کہ کیا آپ کے صحابہ (رض) آپس میں مصافحہ کرتے تھے۔ انہوں نے کہا ہاں۔“ ( اِذَا الْتَقٰی اَلْمُسْلِمَانِ فَتَصَافَحَا وَحَمِدَا اللّٰہَ وَاسْتَغْفَرَاہُ غُفِرَلَھُمَا) [ رواہ ابو داؤد : باب المصافحۃ و المعانقۃ] ” جب دو مسلمانوں کی باہم ملاقات ہو اور وہ مصافحہ کریں اور اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی حمد اور اپنے لیے مغفرت طلب کریں تو ان کی مغفرت ہو ہی جائے گی۔“ کچھ عرصہ اور مدت کے بعد ملنے پر بغل گیر ہونا اسلامی معا شرت کا حصہ قرارپایا۔ حضرت ابوذر غفاری (رض) اپنا واقعہ ذکر کرتے ہیں کہ ایک دفعہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے اپنے ہاں آنے کا پیغام بھیجا۔ میں اس وقت گھر میں موجود نہیں تھا بعد ازاں میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ مصافحہ کرتے ہوئے میرے ساتھ بغلگیر ہوئے : ( فَاَتَیْتُہٗ وَھُوَعَلَی سَرِیْرٍ فَالْتَزَمَنِیْ فَکَانَتْ تِلْکَ اَجْوَدَ وَالْجُوْدَ) [ رواہ ابو داؤد : باب المصافحۃ و المعانقۃ] ” آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھ سے معانقہ فرمایا اور آپ کا یہ اندازنہایت ہی شفقت سے لبریز تھا۔“ (عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَیْنٍ (رض) أَنَّ رَجُلاً جَاءَ إِلَی النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَقَال السَّلاَمُ عَلَیْکُمَْ قَال النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عَشْرٌ ثُمَّ جَاءَ آخَرُ فَقَال السَّلاَمُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَۃُ اللَّہِ فَقَال النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عِشْرُونَ ثُمَّ جَاءَ آخَرُ فَقَال السَّلاَمُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَۃُ اللَّہِ وَبَرَکَاتُہُ فَقَال النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ثَلاَثُونَ ) [ رواہ الترمذی : کتاب الاستئذان، باب ماذکر فی فضل السلام] ” حضرت عمران بن حصین (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا اس نے کہا السلام علیکم، آپ نے فرمایا اس کے لیے دس نیکیاں ہیں، پھر ایک اور آیا اس نے کہا السلام علیکم ورحمۃ اللہ آپ نے فرمایا بیس نیکیاں ہیں پھر ایک اور آیا اس نے کہا السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ آپ نے فرمایا تیس نیکیاں ہیں۔“ مسائل ١۔ ایمان دار عمل صالح کرنے والوں کی اللہ تعالیٰ رہنمائی کرتا ہے۔ ٢۔ ایمان والوں کو اللہ تعالیٰ جنت النعیم عطا فرمائے گا۔ ٣۔ جنتی جنت میں اللہ تعالیٰ کی تسبیح بیان کریں گے۔ ٤۔ جنت میں مومن باہم ملاقات کے وقت اول و آخر اللہ کی تعریف کریں گے۔ تفسیر بالقرآن جنتیوں کا جنت میں ایک دوسرے سے ملاقات کا طریقہ : ١۔ جنتی جنت میں باہم ملاقات کے وقت اللہ کی تسبیح بیان کریں گے اور سلام کہیں گے۔ (یونس : ١٠) ٢۔ جنتیوں کا ایک دوسرے کو تحفہ سلام ہوگا۔ (الاحزاب : ٤٤) ٣۔ جنتیوں کو بالاخانے ملیں گے اور وہ آپس میں ملتے وقت دعا و سلام کریں گے۔ (الفرقان : ٧٥) یونس
10 یونس
11 فہم القرآن ربط کلام : جہنمیوں اور جنتیوں کی سزا اور صلہ بیان کرنے کے بعد انسان کی فطرت بیان کی جارہی ہے۔ انسان جلد باز ہے لیکن اللہ تعالیٰ برد بار اور غفور الرحیم ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ لوگوں کی کو تاہیوں اور گناہوں پر پکڑنا چاہے تو کسی ایک کا بھی بچنا محال ہوجائے۔ لیکن اللہ تعالیٰ اپنی حکمت اور بردباری کی وجہ سے لوگوں کو ڈھیل اور مہلت دیتا ہے تاکہ لوگ اپنے افکار اور کردار پر نظر ثانی کریں اور اس کی بارگاہ میں تائب ہوجائیں۔ عادی مجرموں کو اس لیے ڈھیل دیتا ہے تاکہ انہیں گناہ اور جرائم کرنے میں کوئی حسرت باقی نہ رہے۔ ایسے لوگ اپنے گناہوں میں گھرے اور پریشان رہتے ہیں۔ یاد رہے نیکی میں سکون اور اطمینان ہے۔ جس کا لطف آدمی اللہ تعالیٰ کی عبادت اور کسی بھائی کے ساتھ تعاون کرکے فوری طور پر محسوس کرتا ہے۔ برائی بظاہر کتنی ہی اچھی اور وقتی طورپراس میں کتنی لذت اور فائدہ ہو۔ بالآخر اس میں پریشانی، مال اور صحت کا نقصان ہی ہوتا ہے۔ جس شخص کو گناہوں میں ڈھیل دی جائے اسے خوش ہونے کے بجائے۔ اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان (فِیْ طُغْیَانِھِمْ یَعْمَھُوْنَ) ” وہ اپنی نافرمانیوں میں بھٹکتے رہتے ہیں“ پڑھ کر سوچنا اور اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں توبہ کرنی چاہیے۔ انسان صرف جلد باز ہی نہیں بلکہ احسان فراموش بھی ہے۔ اگر اسے کوئی تکلیف پہنچے تو لیٹے ہوئے اور اٹھتے بیٹھتے اپنے رب کو یاد کرتا اور آہیں بھرتا ہے۔ جوں ہی اس کی تکلیف دور کردی جائے تو اپنے منعم حقیقی اور محسن ابدی کو بھول جاتا ہے۔ گویا کہ اس کو کبھی تکلیف پہنچی ہی نہیں اور نہ ہی اس نے اپنے خالق کو پکارا تھا۔ ایسا وہی کرتے ہیں جنہوں نے اسراف وتبذیر کا رویہ اختیار کر رکھا ہوتا ہے۔ جس میں کافر اور مشرک سر فہرست ہوتے ہیں۔ کیونکہ جب مشرک سمندر کا سفر کرتے ہیں تو صرف ایک اللہ کو پکارتے ہیں بھنور سے جب انہیں اللہ تعالیٰ نجات دیتا ہے تو اس کے ساتھ شرک کرنا شروع کردیتے ہیں۔ ( لقمان : ٣٢) یونس
12 اسراف کا معنی ہے : زیادتی کرنا، حد سے تجاوز کرنا، فضول خرچی کرنا۔ اسراف میں یہ جرم بھی شامل ہوتا ہے کہ کسی فرد، خاندان یا قوم کے لیے گناہ فیشن کا درجہ اختیار کر جائے اگر اسے روکا جائے تو وہ اس میں اپنی توہین اور گناہ کو چھوڑنے میں دقیانوسی ہونے کا طعنہ محسوس کرتا ہے۔ (إِنَّ الْمُبَذِّرِینَ کَانُوْا إِخْوَان الشَّیَاطِینِ وَکَان الشَّیْطَانُ لِرَبِّہِ کَفُوْرًا)[ بنی اسرائیل : ٢٧] ” بلاشبہ فضول خرچی کرنے والے شیطانوں کے بھائی ہیں اور شیطان اپنے رب کا نافرمان تھا۔“ فضول خرچی کی ممانعت : (عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَیْبٍ عَنْ أَبِیْہِ عَنْ جَدِّہٖ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کُلُوْا وَاشْرَبُوْا وَتَصَدَّقُوْا وَالْبَسُوْا مَا لَمْ یُخَالِطْ إِسْرَافٌ وَلَا مَخِیْلَۃٌ )[ رواہ ابن ماجہ : باب البس ماشئت] ” حضرت عمر بن شعیب اپنے باپ سے اور وہ اپنے باپ سے بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کھاؤ، پیو، صدقہ کرو اور پہنو جب تک اس میں فضول خرچی اور فخر نہ آئے۔“ (وَالَّذِیْنَ إِذَا أَنْفَقُوْا لَمْ یُسْرِفُوْا وَلَمْ یَقْتُرُوْا وَکَانَ بَیْنَ ذَلِکَ قَوَامًا )[ الفرقان : ٦٧] ” نیک لوگ جب خرچ کرتے ہیں تونہ اسراف کرتے ہیں اور نہ کنجوسی کرتے ہیں بلکہ میانہ روی اختیار کرتے ہیں۔“ جلد بازی شیطان کی حرکت : (حَدَّثَنَا أَبُو مُصْعَبٍ الْمَدَنِیُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمُہَیْمِنِ بْنُ عَبَّاسِ بْنِ سَہْلِ بْنِ سَعْدٍ السَّاعِدِیِّ عَنْ أَبِیہِ عَنْ جَدِّہِ قَالَ قَالَ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) الأَنَاۃُ مِنَ اللَّہِ وَالْعَجَلَۃُ مِنَ الشَّیْطَانِ ) [ رواہ الترمذی : باب ماجاء فی التانی] ” حضرت سہل بن سعد ساعدی (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بردباری اللہ کی طرف سے ہے اور جلد بازی شیطان کی طرف سے ہے۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ کسی کو عذاب دینے میں جلدی نہیں کرتا۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ رحم و کرم فرمانے میں جلدی کرتا ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ کی ملاقات کا منکر اپنے گناہوں میں پریشان رہتا ہے۔ ٤۔ دنیا دار انسان مصیبت کے وقت اللہ تعالیٰ کو پکارتا ہے۔ ٥۔ دنیا پرست اور مشرک مصیبت ٹل جانے کے بعد اللہ تعالیٰ کو بھول جاتا ہے۔ ٦۔ گناہ کرنے والوں کے لیے ان کے گناہ خوبصورت بنا دیے جاتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن انسان جلد باز اور احسان فراموش ہے : ١۔ انسان جلد باز ہے۔ (بنی اسرائیل : ١١) ٢۔ انسان فطرتاً جلد باز ہے۔ (الانبیاء : ٣٧) ٣۔ یقیناً انسان اپنے رب کا ناشکرا ہے۔ ( العادیات : ٦) ٣۔ لوگ عذاب طلب کرنے میں جلدی کرتے ہیں۔ (الحج : ٤٧) ٤۔ کیا وہ ہمارے عذاب کے معاملے میں جلدی کرتے ہیں۔ (الشعرا : ٢٠٤) ٥۔ میں عنقریب تمہیں اپنی نشانیاں دکھاؤں گا سو جلدی نہ کرو۔ (الانبیاء : ٣٧) ٦۔ اللہ کا حکم آنے والا ہے جلدی نہ کرو۔ (النحل : ١) یونس
13 فہم القرآن ربط کلام : حد سے گزر جانے والوں اور جرائم کا وطیرہ اختیار کرنے والوں کا تذکرہ کرنے کے بعد ان کی سزا بیان کی جارہی ہے۔ جن لوگوں نے گناہوں کو فیشن اور جرائم کو وطیرہ بنا لیا ہو اور وہ اللہ تعالیٰ کی مقرر کی ہوئی حد سے آگے گزر جائیں تو اللہ تعالیٰ ایسے مجرموں کی ضرور گرفت کرتا ہے۔ یاد رہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاں ظالموں اور مجرموں کی ایک حد مقرر کر رکھی ہے جب حد عبور کرنے سے دنیا کا نظام درہم برہم ہونا شروع ہوجاتا ہے تب اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کو تباہی کے گھاٹ اتار دیا۔ حالانکہ ان کے پاس رسول بھیجے گئے جنہوں نے روشن اور ٹھوس دلائل کے ساتھ انہیں راہ راست پر لانے کی بے پناہ کوششیں فرمائیں۔ جب وہ کسی طرح بھی ہدایت کو ماننے کے لیے تیار نہ ہوئے تو پھر اللہ تعالیٰ نے انہیں تہس نہس کردیا۔ ظلم سے مراد اللہ تعالیٰ کے ساتھ کفرو شرک کرنا اور لوگوں پر مظالم ڈھانا ہے۔ قرن کی جمع قرون ہے جس کے اہل علم نے تین معنی کیے ہیں۔ (١) ایک نسل۔ (٢) سو سال۔ (٣) کسی قوم کے اقتدار کا مخصوص دور۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ان کی دوسری نسل یا کسی اور قوم کو اس سرزمین کا خلیفہ بنایا۔ تاکہ وہ انہیں بھی آزمائے اور دیکھے کہ وہ کیا کردار ادا کرتے ہیں۔ یہاں مخاطب کی ضمیر لاکرہر دور کے انسانوں کو متنبہ کیا ہے کہ تم آزمائش گاہ میں ہو اور تمہارا رب تمہارے اعمال کو دیکھ رہا ہے۔ لہٰذا ہوش سے کام لو اور نیک بن کر رہو۔ دنیاکی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ ایک قوم کے بعد دوسری قوم نے کس طرح اس کی جگہ سنبھالی حالانکہ ظالموں کے بارے میں کوئی تصور بھی نہیں کرسکتا تھا۔ کہ ان کے جورو استبداد سے لوگوں کی جان چھوٹ جائے گی۔ لیکن جب اللہ کا فیصلہ صادر ہوا تو وہ اس طرح نَسْیًا مَنْسِیًِا ہوئے کہ کوئی ان کی مدد کرنے اور ان کو یاد کرنے والا نہ تھا۔ (عَنْ عَبْدِاللّٰہِ ابْنِ عُمَرَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اَلَا کُلُّکُمْ رَاعٍ وَکُلُّکُمْ مَسْءُوْلٌ عَنْ رَعِیَّتِہٖ فَالْاِمَامُ الَّذِیْ عَلَی النَّاسِ رَاعٍ وَھُوَ مَسْءُوْلٌ عَنْ رَعِیَّتِہٖ وَالرَّجُلُ رَاعٍ عَلٰی اَھْلِ بَیْتِہٖ وَھُوَ مَسْءُوْلٌ عَنْ رَعِیّتِہٖ وَالْمَرْأَۃُ رَاعِیَۃٌ عَلٰی بَیْتِ زَوْجِھَا وَوَلَدِہٖ وَھِیَ مَسْءُوْلَۃٌ عَنْھُمْ وَعَبْدُ الرَّجُلِ رَاعٍ عَلٰی مَالِ سَیِّدِہٖ وَھُوَ مَسْءُوْلٌ عَنْہُ اَ لَا فَکُلُّکُمْ رَاعٍ وَکُلُّکُمْ مَسْءُوْلٌ عَنْ رَّعِیَّتِہٖ) [ رواہ البخاری : باب الْمَرْأَۃُ رَاعِیَۃٌ فِی بَیْتِ زَوْجِہَا ] ” حضرت عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ خبردار! تم سب ذمہ دار ہو۔ تم سب سے تمہارے ماتحت لوگوں کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ لوگوں کا امیر ذمہ دار ہے‘ اس سے عوام کے بارے میں سوال ہوگا۔ گھر کا فرد اعلیٰ اپنے گھر والوں کے بارے میں جواب دہ ہے‘ اس سے اس کے گھر والوں کے متعلق پوچھا جائے گا۔ عورت اپنے خاوند کے گھر اور اس کی اولاد کی نگران ہے‘ اس سے ان کے بارے میں سوال ہوگا۔ آدمی کا غلام اپنے آقا کے مال کا محافظ ہے‘ اس سے اس کے متعلق سوال ہوگا۔ خبردار! تم میں سے ہر ایک شخص نگران ہے اور ہر ایک سے اس کے ما تحت کے بارے میں پوچھا جائے گا۔“ مسائل ١۔ اللہ نے لوگوں کی ظلم کی وجہ سے ان کو ہلاک کیا۔ ٣۔ کچھ لوگ واضح دلائل دیکھ کر بھی ایمان نہیں لاتے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ کسی قوم کی طرف رسول مبعوث کرنے سے پہلے اس کو عذاب نہیں دیتا۔ ٥۔ ظالم قوم کی جگہ اللہ دوسری قوم لے آتا ہے۔ ٦۔ اللہ تعالیٰ ہر ایک کے اعمال پر نظر رکھے ہوئے ہے۔ تفسیر بالقرآن خلافت اور اس کی ذمہ داریاں : ١۔ پھر ہم نے زمین میں ان کے بعد تمہیں خلافت دی تاکہ ہم دیکھیں تم کیسے عمل کرتے ہو۔ (یونس : ١٤) ٢۔ اگر اللہ چاہتا تو تمہیں لے جاتا اور تمہارے بعد کسی اور کو خلیفہ بنا دیتا۔ (الانعام : ١٣٣) ٣۔ میرا رب تمہارے سوا کسی اور کو خلافت دے دے تو تم اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ (ہود : ٥٧) ٤۔ عنقریب تمہارا رب تمہارے دشمن کو ہلاک کردے گا اور تمہیں زمین کی خلافت عطا کرے گا۔ (الاعراف : ١٢٩) ٥۔ اللہ نے مومنین اور عمل صالح کرنے والوں کے ساتھ خلافت کا وعدہ فرمایا ہے۔ (النور : ٥٥) یونس
14 یونس
15 فہم القرآن ربط کلام : مجر موں اور ہلاک ہونے والوں کا یہ بھی جرم تھا کہ وہ کتاب الٰہی کا انکار کرتے اور آخرت کے منکر تھے۔ پہلے ہلاک ہونے والوں کی طرح اہل مکہ کا کردار بھی یہی تھا کہ وہ قیامت کے دن کی جواب دہی کا تصور بھول چکے تھے۔ جس بنا پر اس قدر بے خوف اور دلیر ہوئے کہ جب بھی ان کے سامنے ٹھوس اور واضح آیات نازل ہوتیں یا نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کے سامنے کوئی معجزہ پیش کرتے تو وہ سر تسلیم خم کرنے کی بجائے گردن اکڑا کر یہ کہتے کہ ہم اسے ہرگز نہیں مانیں گے۔ اگر ہمیں منوانا چاہتے ہو تو۔ اس قرآن کی جگہ کوئی دوسری کتاب لے آؤ اگر یہ ممکن نہیں تو کم از کم اس میں اتنی تبدیلی ضرور کرو۔ جس میں ہمارے اور تمہارے درمیان مفاہمت کی کوئی راہ نکل آئے۔ اس کے لیے ان کی ایک تجویز یہ تھی کہ کچھ تم نرمی اختیار کرو اور کچھ ہم اپنے موقف سے ہٹ جاتے ہیں۔ (القلم : ٩) اس طرح ایک اللہ کی عبادت کے ساتھ ہمارے معبودوں کی عبادت کے لیے بھی گنجائش ہونی چاہیے۔ اس کے جواب میں رسول مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم ہوا کہ آپ ان سے فرمائیں کہ میں اپنی طرف سے قرآن میں کسی قسم کی تبدیلی کرنے کا مجاز نہیں ہوں۔ میں تو کلی طور پر اللہ تعالیٰ کے حکم اور اس کی طرف سے وحی کا پابند ہوں۔ میں اس قدر اللہ کے حکم کا تابع ہوں کہ اگر میں کوئی ایک بات چھپاؤں تو گویا کہ میں نے اس کی رسالت کا حق ادا نہیں کیا۔ (المائدہ : ٦٧) مجھے ڈر ہے کہ اگر میں اپنے رب کی نافرمانی کروں تو مجھے عظیم عذاب دبوچ لے گا۔ ہوش کرو! اللہ تعالیٰ کا حکم نہ ہوتا تو میں کبھی بھی تمہارے سامنے قرآن پڑھتا اور نہ ہی توحیدکی دعوت پیش کرتا۔ کیا تم غور نہیں کرتے کہ میں نے چالیس سال کا عرصہ تم میں گزارا ہے۔ اور اس پورے عرصہ میں نہ میں نے نبوت کا دعویٰ کیا اور نہ ہی اللہ کے ذمہ کوئی بات لگائی۔ اگر تم تھوڑا سا عقل سے کام لو تو میری سچائی اور قرآن کی صداقت کو سمجھ جاؤ گے۔ لیکن قرآن کے دلائل، نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صداقت اور عقلی دلیل کے باوجود کفار یہی پروپیگنڈہ کرتے رہے کہ ” محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) “ نے یہ کتاب اپنی طرف سے بنا ڈالی ہے۔ جس پر انہیں انتباہ کیا گیا ہے کہ اس شخص سے بڑھ کر کوئی ظالم نہیں ہوسکتا جو اللہ تعالیٰ پر جھوٹ بولے یا تمہاری طرح اس کی آیات کو جھٹلائے جس کا صاف معنیٰ ہے کہ حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سچے ہیں مگر تم جھوٹے اور کذّاب ہو۔ یاد رکھو اللہ تعالیٰ پر جھوٹ بولنا یا اس کی آیات اور ضابطوں کو ٹھکرانا سب سے بڑا جرم ہے۔ مجرم کبھی کامیاب نہیں ہوا کرتے۔ اس میں بیک وقت دو اشارے دیے جارہے ہیں۔ کہ رسول کامیاب ہوں گے اور اس کا انکار کرنے والے ہر صورت دنیا اور آخرت میں ناکام ہوں گے۔ دوسرا یہ کہ حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سچے رسول اور یہ قرآن من جانب اللہ اور تم اپنے موقف اور الزام میں سر اسر جھوٹے ہو۔ (عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ (رض) قَالَ لَمَّا نَزَلَتْ ” وَاَنْذِرْ عَشِیْرَتَکَ الْاَقْرَبِیْنَ“ خَرَجَ النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حَتّٰی صَعِدَ الصَّفَا فَجَعَلَ یُنَادِیْ یَابَنِیْ فِھْرٍ یَابَنِیْ عَدِیٍّ لِبُطُوْنِ قُرَیْشٍ حَتَّی اجْتَمَعُوْا فَجَعَلَ الرَّجُلُ اِذَا لَمْ یَسْتَطِعْ اَنْ یَّخْرُجَ اَرْسَلَ رَسُوْلًا لِیَنْظُرَ مَاھُوَ فَجَاءَ اَبُوْ لَھَبٍ وَقُرَیْشٌ فَقَالَ اَرَءَیْتُمْ اِنْ اَخْبَرْتُکُمْ اَنَّ خَیْلاً تَخْرُجُ مِنْ سَفْحِ ھٰذَا الْجَبَلِ وَفِیْ رِوَایَۃٍ اَنَّ خَیْلًا تَخْرُجُ بالْوَادِیْ تُرِیْدُ اَنْ تُغِیْرَ عَلَیْکُمْ اَکُنْتُمْ مُصَدِّقِیَّ قَالُوْا نَعَمْ مَا جَرَّبْنَا عَلَیْکَ اِلَّا صِدْقًا قَالَ فَاِنِّیْ نَذِیْرٌ لَّکُمْ بَیْنَ یَدَیْ عَذَابٍ شَدِیْدٍ قَالَ اَبُوْ لَھَبٍ تَبًّا لَّکَ اَلِھٰذَا جَمَعْتَنَا فَنَزَلَتْ تَبَّتْ یَدَااَبِیْ لَھَبٍ وَّتَبَّ) [ رواہ البخا ری : باب وانذرعشیرتک الاقربین] ” عبداللہ بن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی ” آپ اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈرائیں“ تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نکلے اور صفا پہاڑی پر چڑھ گئے‘ آپ پکارنے لگے‘ اے بنو فہر! اے بنوعدی! اسی طرح آپ نے قریش کے تمام قبائل کو مخاطب کیا۔ یہاں تک کہ وہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے گرد جمع ہوگئے۔ اور جو شخص نہ آسکا تو اس نے یہ معلوم کرنے کے لیے کہ کیا معاملہ ہے، اپنا نمائندہ بھیج دیا۔ چنانچہ ابولہب اور قریش کے لوگ آئے۔ آپ نے فرمایا‘ تم مجھے بتاؤ‘ اگر میں تمہیں یہ خبر دوں کہ ایک لشکر اس پہاڑ کی اوٹ سے نکل رہا ہے۔ اور دوسری روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ ایک لشکر وادیِ سے نکل رہا ہے وہ تم پر حملہ آور ہونا چاہتا ہے‘ تو کیا تم مجھے سچا سمجھو گے؟ ان سب نے اثبات میں جواب دیا اور کہا کہ ہم نے آپ کے بارے میں ہمیشہ سچائی کا تجربہ کیا ہے۔ آپ نے فرمایا‘ میں تمہیں اس شدید عذاب سے ڈرا رہا ہوں جو تمہیں پیش آنے والا ہے۔ یہ سن کر ابو لہب کہنے لگا‘ تباہ ہوجائے کیا تو نے ہمیں اسی لیے جمع کیا تھا؟ اس پر یہ سورت نازل ہوئی ” ابو لہب کے دونوں ہاتھ ٹوٹ جائیں اور وہ تباہ و بربادہو جائے۔“ مسائل ١۔ آخرت کے منکر اس قرآن کے علاوہ کسی اور قرآن کا مطالبہ کرتے ہیں۔ ٣۔ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی وحی کے تابع تھے۔ یونس
16 یونس
17 یونس
18 یونس
19 فہم القرآن ربط کلام : لوگوں کی وحدت بیان فرما کر ثابت کیا گیا ہے کہشرک سے پہلے لوگ توحید پر قائم تھے اور توحید ہی لوگوں کے درمیان اتحاد کے ذریعہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو فطرتاً توحید پر پیدا فرمایا ہے۔ یہ فطرت کی آواز اور اس کا تقاضا تھا کہ جب اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم (علیہ السلام) کو پیدا فرما کر اس کی پشت سے اس کی تمام اولاد کو پیدا کیا اور ان سے۔ ( اَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ) فرمایا کہ کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟ تمام بنی آدم نے توحید کا اقرار اور اس کا اظہار کرتے ہوئے عرض کی کہ کیوں نہیں، آپ ہی ہمارے رب ہیں فرمایا اس پر گواہ رہنا۔ قیامت کو یہ نہ کہنے پاؤ کہ ہمیں تو اس عہد کا علم ہی نہیں ہم تو اس لیے شرک کرتے رہے کہ ہمارے آباؤ اجداد شرک کرتے تھے۔ (الاعراف : ٧٣۔ ٧٤) اسی عہد کی ترجمانی کرتے ہوئے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ ہر بچہ فطرت اسلام یعنی عقیدہ توحید پر پیدا ہوتا ہے۔ پھر اسے جیسا ماحول ملتا ہے ویسا ہوجاتا ہے۔ یہی ارشاد اس آیت مبارکہ میں پایا جارہا ہے کہ لوگ پہلے ایک ہی امت تھے۔ انھوں نے بعد میں توحید کے بارے میں اختلاف کیا ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ کا یہ فیصلہ نہ ہوتا کہ لوگوں کو کفرو شرک، توحید اور ایمان میں سے کسی ایک کو اختیار کا حق دیا جاتا ہے۔ تو اللہ تعالیٰکفر و شرک، سرکشی اور بغاوت کرنے والوں کو موقع پر ہی تہس نہس کردیتا۔ فوری طور پر نہ پکڑنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ دنیا دارالعمل ہے، دارالجزاء نہیں اس اصول کے پیش نظر لوگوں کو مہلت دی جاتی ہے شاید وہ توبہ کرلیں۔ حالانکہ خدا کے باغی انبیاء سے پر زور مطالبہ کرتے رہے ہیں کہ اگر آپ سچے ہیں تو ہم پر عذاب نازل کیا جائے۔ اسی روش کے تحت مشرکین مکہ بھی نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مطالبہ کرتے تھے کہ ہم پر عذاب نازل کرو۔ یہاں تک کہ انہوں نے کعبہ کا غلاف پکڑ کر کہا کہ الٰہی! اگر تیرا نبی سچا ہے تو ہم پر پتھر برسایا ہمیں اذّیت ناک عذاب میں مبتلا کردے۔ جس کا جواب یہ دیا گیا کہ تم اسی لائق ہو مگر اللہ تعالیٰ تمھیں اس لیے عذاب نہیں کر رہا کہ اس کا رسول اور مسلمان تم میں موجود ہیں جو توبہ استغفار کرتے رہتے ہیں۔ (الانفال : ٣٢۔ ٣٣) اس کے جواب میں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فقط اتنا ہی حکم ہوا کہ آپ فرمائیں یہ اللہ تعالیٰ کو معلوم ہے کہ عذاب کب آئے گا۔ پس تم انتظار کرو میں بھی تمہارے ساتھ انتظار کررہا ہوں۔ (عَنْ اَبِیْ ہُرَےْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَا مِنْ مَّوْلُوْدٍ اِلَّا ےُوْلَدُ عَلَی الْفِطْرَۃِ فَاَبَوَاہُ ےُھَوِّدَانِہٖ اَوْ ےُنَصِّرَانِہٖ اَوْ ےُمَجِّسَانِہٖ کَمَا تُنْتَجُ الْبَھِےْمَۃُ بَھِےْمَۃً جَمْعَآءَ ھَلْ تُحِسُّوْنَ فِےْھَا مِنْ جَدْعَآءَ ثُمَّ ےَقُوْلُ ” فِطْرَۃَ اللّٰہِ الَّتِیْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَےْھَا لَا تَبْدِےْلَ لِخَلْقِ اللّٰہِ ذَالِکَ الدِّےْنُ الْقَےِّمُ“ ) [ رواہ البخاری : کتاب التفسیر، باب لاتبدیل لخلق اللّٰہ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہر بچہ فطرت اسلام پر پیدا ہوتا ہے۔ اس کے والدین اس کو یہودی‘ عیسائی یا مجوسی بنا دیتے ہیں جس طرح چارپائے اپنے بچے کو تام الخلقت پیدا کرتے ہیں کیا تم ان میں سے کسی بچے کو کان کٹا پاتے ہو؟ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے آیت تلاوت کی۔” اللہ کا طریقہ ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو پیدا کیا ہے اللہ کی تخلیق میں تبدیلی نہیں ہے یہ بالکل سیدھا اور صحیح دین ہے۔“ (عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ أَخَذَ اللَّہُ الْمِیثَاقَ مِنْ ظَہْرِ آدَمَ بِنَعْمَانَ یَعْنِی عَرَفَۃَ فَأَخْرَجَ مِنْ صُلْبِہِ کُلَّ ذُرِّیَّۃٍ ذَرَأَہَا فَنَثَرَہُمْ بَیْنَ یَدَیْہِ کَالذَّرِّ ثُمَّ کَلَّمَہُمْ قِبَلاً قَالَ (أَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ قَالُوا بَلَی شَہِدْنَا أَنْ تَقُولُوا یَوْمَ الْقِیَامَۃِ إِنَّا کُنَّا عَنْ ہَذَا غَافِلِینَ أَوْ تَقُولُوا إِنَّمَا أَشْرَکَ اٰبَاؤُنَا مِنْ قَبْلُ وَکُنَّا ذُرِّیَّۃً مِنْ بَعْدِہِمْ أَفَتُہْلِکُنَا بِمَا فَعَلَ الْمُبْطِلُوْنَ]) [ رواہ أحمد] ” حضرت عبداللہ بن عباس (رض) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کی اولاد سے نعمان یعنی عرفہ کے مقام پر عہدلیا اس کی صلب سے اس کی اولاد کو نکالا اور اسے اس کے سامنے پھیلا دیا، پھر ان کے سامنے کلام فرمایا، کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں ؟ بنی آدم نے کہا کیوں نہیں ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ ہی ہمارے رب ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ قیامت کے دن یہ نہ کہنا کہ ہمیں اس کی خبر نہ تھی یا شرک ہمارے آباؤ اجداد نے کیا ہم تو ان کی اولاد تھے کیا تو ہمیں باطل پرستوں کے شرک کی وجہ سے ہلاک کرتا ہے۔“ عقیدہ توحید وحدت کی علامت ہے : (یَا أَیُّہَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّکُمُ الَّذِی خَلَقَکُمْ مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَۃٍ وَخَلَقَ مِنْہَا زَوْجَہَا وَبَثَّ مِنْہُمَا رِجَالًا کَثِیْرًا وَنِسَاءً وَاتَّقُوْا اللّٰہَ الَّذِی تَسَاءَ لُونَ بِہِ وَالْأَرْحَامَ إِنَّ اللَّہَ کَانَ عَلَیْکُمْ رَقِیْبًا)[ النساء : ١] ” اے لوگو! ڈرو اپنے رب سے جس نے پیدا فرمایا تمہیں ایک جان سے اور اس سے اس کا جوڑا پیدا فرمایا اور پھیلائے اس سے مرد کثیر تعداد میں اور عورتیں اور ڈرو اللہ تعالیٰ سے وہ اللہ، مانگتے ہو جس کے واسطے سے اور قطع رحمی سے ڈرو یقیناً اللہ تعالیٰ تم پر نگران ہے۔“ (عَنْ أَبِی نَضْرَۃَ حَدَّثَنِی مَنْ سَمِعَ خُطْبَۃَ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فِی وَسَطِ أَیَّام التَّشْرِیقِ فَقَالَ یَا أَیُّہَا النَّاسُ أَلاَ إِنَّ رَبَّکُمْ وَاحِدٌ وَإِنَّ أَبَاکُمْ وَاحِدٌ أَلاَ لاَ فَضْلَ لِعَرَبِیٍّ عَلٰی أَعْجَمِیٍّ وَلاَ لِعَجَمِیٍّ عَلٰی عَرَبِیٍّ........)[ رواہ احمد] ” حضرت ابو نضرۃ بیان کرتے ہیں کہ مجھے اس شخص نے خبر دی جس نے ایام تشریق میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا خطبہ سنا آپ نے فرمایا اے لوگو! تمہار ارب اور تمہارا باپ ایک ہے۔ کسی عربی کو عجمی پر اور کسی عجمی کو عربی پر برتری حاصل نہیں....“ مسائل ١۔ ابتداءً تمام لوگ عقیدہ توحید اور ایک ہی طریقہ پر تھے۔ ٢۔ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کفار معجزے کا مطالبہ کرتے تھے۔ ٣۔ غیب کی خبر اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ ٤۔ نبی بھی اللہ کے فیصلے کا منتظر ہوتا تھا۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں اگر لوگوں کا معاملہ مقرر شدہ نہ ہو تو ان کا فیصلہ جلد چکادیا جائے۔ تفسیر بالقرآن کفار کا بار بار معجزات کا مطالبہ کرنا : ١۔ کافر کہتے ہیں کہنبی پر اس کے پروردگار کی طرف سے کوئی نشانی کیوں نہیں نازل ہوتی۔ (یونس : ٢٠) ٢۔ کفار کہتے ہیں کہ نبی پر اس کے رب کی طرف سے معجزات کیوں نازل نہیں ہوتے۔ (العنکبوت : ٥٠) ٣۔ کفار کہتے ہیں کہ نبی پر اس کے پروردگار کی طرف سے کوئی نشانی کیوں نہیں نازل کی گئی۔ (الانعام : ٣٧) ٤۔ کافر قسمیں اٹھاتے ہیں کہ اگر ان کے پاس کوئی معجزہ آیا تو وہ اس پر ضرور ایمان لائیں گے۔ (الانعام : ١٠٩) یونس
20 یونس
21 فہم القرآن ربط کلام : نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کفار عذاب لانے کا مطالبہ کرتے تھے انہیں آگاہ کیا کہ جس خبط میں تم مبتلا ہو وہ عذاب ہی تو ہے۔ اہل مکہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت قبول کرنے کی بجائے یہ مطالبہ کرتے کہ اگر آپ سچے ہیں تو ہم پر آسمان سے عذاب کیوں نازل نہیں ہوتا۔ اس کا اشارتًا جواب دیا گیا ہے کہ جس قحط سالی میں تم مبتلا ہو وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے تم پر عذاب نہیں تو کیا ہے؟ جس کی تفصیل یہ ہے کہ اہل مکہ کی ایذارسانیوں اور ان کے بار بار مطالبہ کی وجہ سے رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اللہ تعالیٰ کے حضور یہ بددعا کی کہ اے رب ذوالجلال ان پر ایسا قحط نازل فرما جس طرح تو نے یوسف (علیہ السلام) کے زمانے میں قوم مصر پر نازل کیا تھا۔ یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ آپ نے بددعا مکہ میں رہتے ہوئے کی تھی یا مدینہ جاکر۔ حالات و واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ اہل مکہ پر یہ عذاب اس وقت مسلط ہوا۔ جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مدینہ کی طرف ہجرت کرچکے تھے۔ اہل مکہ پر عذاب مسلط ہوا تو وہ اس قدر تنگ ہوئے کہ بڑے بڑے مالدار گھرانے بھی مردار کھانے اور سوکھا چمڑا چبانے پر مجبور ہوئے۔ بالآخر بے بس ہو کر ابو سفیان نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کرنے لگا کہ آپ لوگوں کے ساتھ مہربانی اور صلہ رحمی کرتے ہیں۔ ہماری درخواست ہے کہ آپ اپنے رب کے حضور ہمارے لیے بارش کی دعا کریں۔ تب آپ نے اللہ کی بارگاہ میں ہاتھ اٹھائے جس کے نتیجہ میں مکہ اور اس کے گردونواح میں موسلا دھار بارش ہوئی۔ اور پورا علاقہ سرسبز و شاداب ہوا۔ بدحالی خوشحالی میں تبدیل ہوگئی۔ مگر جوں ہی مکہ والوں کے حالات بدلے تو انہوں نے مزید سازشیں شروع کردیں۔ اللہ تعالیٰ کے شکر گزار ہونے کے بجائے کہنے لگے کہ ہمارے معبود کچھ مدت کے لیے ہم پر ناراض ہوئے تھے اب انہوں نے راضی ہو کر ہماری بدحالی کو خوشحالی میں تبدیل کردیا ہے۔ اس پر انہیں انتباہ کیا جارہا ہے کہ تم جو کچھ کہتے اور کرتے ہو انہیں ہمارے ملائکہ ریکارڈ کر رہے ہیں۔ یاد رکھو اللہ تعالیٰ عنقریب تمہارے مکرو فریب کا جواب دے گا۔ جب مکر کا لفظ لوگوں کی طرف منسوب ہو تو اس کا معنی مکرو فریب اور سازش و شرارت ہوا کرتا ہے۔ جب اس کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف ہو تو اس کا معنی منصوبہ یا عذاب ہوتا ہے۔ یہاں مکر سے مراداللہ تعالیٰ کا عذاب ہے۔ جس کی دنیا میں کئی شکلیں ہوا کرتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس سے محفوظ اور مامون فرمائے۔ آمین (عَنْ عَبْدِاللّٰہِ ابْنِ عُمَرَ (رض) قَالَ کَانَ مِنْ دُعَآءِ رَسُوْلِ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (اَللّٰھُمَّ اِنِّی اَعُوْذُبِکَ مِنْ زَوَالِ نِعْمَتِکَ وَتَحَوُّلِ عَافِےَتِکَ وَفُجَآءَ ۃِ نِقْمَتِکَ وَجَمِےْعِ سَخَطِکَ)[ رواہ مسلم : باب أَکْثَرُ أَہْلِ الْجَنَّۃِ الْفُقَرَاءُ وَأَکْثَرُ أَہْلِ النَّار النِّسَاءُ وَبَیَانُ الْفِتْنَۃِ بالنِّسَاءِ ] ” حضرت عبداللہ بن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی یہ دعا ہوا کرتی تھی۔ بارالٰہا! میں تیری نعمتوں کے زوال‘ تیری عافیت کے پھرجانے‘ تیرے اچانک عذاب اور تیری ہر طرح کی ناراضگی سے تیری پناہ طلب کرتا ہوں۔“ مسائل ١۔ اللہ کی رحمت سے ہمکنار ہونے کے بعد اکثر انسان کفر و شرک کرتے ہیں۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ سے بڑھ کر کوئی بہتر تدبیر نہیں کرسکتا۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقرر ہونے والے ملائکہ ہر چیز لکھ رہے ہیں۔ تفسیر بالقرآن ہر شخص کا اعمال نامہ اللہ کے ہاں درج ہے : ١۔ بے شک تمہاری چال بازیوں کو ہمارے قاصد لکھ رہے ہیں۔ (یونس : ٢١) ٢۔ ہم ان کی جزا لکھ لیں گے جو تقویٰ اختیار کرتے ہیں اور زکوٰۃ ادا کرتے ہیں۔ (الاعراف : ١٥٦) ٣۔ ہم لکھ لیتے ہیں جو لوگ بولتے ہیں۔ (آل عمران : ١٨١) ٤۔ ہم ان کی کہی ہوئی بات لکھ لیں گے اور ان کے عذاب کو بڑھا دیا جائے گا۔ (مریم : ٧٩) ٥۔ ہمارے قاصد ان کے اعمال لکھ رہے ہیں۔ (الزخرف : ٨٠) ٦۔ کسی کی کوشش رائیگاں نہیں جائے گی بے شک ہم اس کو لکھ لیں گے۔ (الانبیاء : ٩٤) یونس
22 فہم القرآن ربط کلام : مشرک اور کافر کی فطرت خبیثہ کا ذکر۔ اس سے پہلی آیات میں مسئلہ شفاعت کے حوالے توحید بیان کی گئی۔ درمیان میں کفار کے عذاب کا مطالبہ کرنے پر انہیں ہلکی سی سرزنش کی گئی۔ اب پھر توحید کے دلائل دیے جاتے ہیں۔ مضمون کا ربط قائم کرنے اور سابقہ دلائل کے استحضار کے لیے ( ھُوَالَّذِیْ) کے الفاظ استعمال فرمائے۔ اس اللہ کی ذات اور صفات ماننے کی دعوت دی جارہی ہے جو تمہیں خشکی اور سمندر میں چلاتا ہے۔ ذراغور کرو اور سوچو! کہ کتنے تمہارے جیسے انسان ہیں جن کی ٹانگیں ہیں مگر کسی بیماری کی وجہ سے چل نہیں سکتے، وجود ہیں مگر حرکت نہیں کرسکتے، روح ہے مگر زندگی سے بے زار ہوچکے ہیں۔ اسی طرح ملّاح اور کشتی موجود ہے۔ مگر بھنور میں پھنس چکی ہے۔ ملاح چپو پر چپو چلا رہا ہے لیکن کشتی بھنور سے نکلنے کی بجائے پھنستی چلی جارہی ہے۔ ملّاح مسافروں سے دعا کے لیے کہتا ہے۔ ان کو اپنی موت کا یقین ہوچلا ہے۔ جس وجہ سے شرک کے پردے ہٹ گئے اور دل نے شہادت دی کہ صرف اور صرف ایک رب کو پکارو۔ ہر مسافردل کی اتھاہ گہرائیوں، اور نہایت درماندگی کے ساتھ پکارنے لگا۔ اے زمین و آسمانوں کے مالک تیرا نہ کوئی ساجھی ہے اور نہ کوئی معاون۔ بس تو ہماری فریادکومستجاب کرکے ہمیں اس مصیبت سے نجات عطا فرما۔ آسمان سے آواز آتی ہے۔ جس میں نہ طعنہ ہے اور نہ کوئی جھڑک۔ (اَمَّنْ یُّجِیْبُ الْمُضْطَرَّ اِذَا دَعَاہُ وَیَکْشِفُ السُّوْٓءَ وَیَجْعَلُکُمْ خُلَفَآءَ الْاَرْضِطءَ اِلٰہٌ مَّعَ اللّٰہِطقَلِیْلاً مَّا تَذَکَّرُوْنَ)[ النمل : ٦٢] ” کون ہے جو لا چار کی دعا قبول کرتا ہے، جب وہ اسے پکارتا ہے اور تکلیف دور کرتا ہے اور تمہیں زمین میں جانشین بناتا ہے ؟ کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور معبود ہے ؟ بہت کم تم نصیحت قبول کرتے ہو۔“ یہاں اسی صورت حال کی منظر کشی کی گئی ہے۔ اے لوگو جب تم کشتی پر سوار ہوتے ہو، ٹھنڈی اور موافق ہوائیں چلتی ہیں جو کشتی کے تیز چلنے میں مددگار ثابت ہوتی ہیں۔ تو تم خوش ہوتے ہو۔ یہاں روح پر ور منظر کا نقشہ پیش کرکے اللہ تعالیٰ اپنی بے پایاں رحمت کا ثبوت دے رہے ہیں۔ لیکن اس کے بعد یک دم ہوا کا دباؤ بڑھا جس نے بھونچال کی شکل اختیار کرلی خوشگوار فضاء کی جگہ بھنور نے لی اور مسافروں کو جان کے لالے پڑگئے ہر کوئی موت کو اپنے سامنے دیکھنے لگا۔ کشتی کے ملاح اور مسافروں کو یقین ہوگیا کہ ساحل تک پہنچنے کی کوئی صورت باقی نہیں ہے۔ تمام مسافر ادھر ادھر کے سہاروں اور باطل معبودوں کو چھوڑ کر اخلاص کے ساتھ صرف ایک اللہ کو پکارنے لگے ہر کسی نے دل ہی دل میں عہد باندھا کہ اگر اللہ تعالیٰ نے بچا لیا تو اس کے شکر گزار بندے بن کر زندگی بھر اسی کو حاجت روا، مشکل کشا سمجھیں گے۔ یہاں اخلاص سے پہلی مراد عقیدہ توحید کی طرف رجوع ہے جوں ہی کشتی کنارے لگی۔ مشرک اللہ سے کیے ہوئے عہد کو بھول گئے اب کوئی خواجہ خضر کو نجات دہندہ سمجھ رہا ہے اور کسی نے پیر عبدالقادر جیلانی کو دستگیر بنالیا ہے۔ ایسی پکار اللہ تعالیٰ کے ساتھ بغاوت اور اس کی پرلے درجے کی ناشکری ہے۔ جس کی واضح مثال ١٩٦٥ ء میں ہندوستان کے ساتھ جنگ میں دیکھی اور سنی گئی۔ سترہ دن کی جنگ میں پاکستان کے مردوزن صرف اور صرف اللہ سے مدد طلب کرتے رہے۔ اللہ تعالیٰ نے پاکستان کو ہندوستان پر کامیابی اور برتری عنایت فرمائی۔ جوں ہی جنگ ختم ہوئی تو ایک مکتب فکر کے علماء اور عوام نے کہانیاں بنانا شروع کردیں کہ فلاں محاذ پر فلاں بزرگ نے ہندوستان کے بم دپوچ کرشہر کو بچا لیا۔ ١٩٧١ ء کی جنگ میں مشرقی پاکستان ہم سے الگ ہوا۔ نوے ہزار فوج کئی جرنیلوں سمیت ہندوستان کی غلام بنی۔ شکر گڑھ کا علاقہ ہندوستان کے قبضے میں چلا گیا۔ اس وقت کسی پیر، فقیر نے کیوں مدد نہ کی؟ عراق پر امریکہ نے مسلسل بمباری کی۔ جس میں پیر عبدالقادر شاہ جیلانی (رض) کے مزار کا ایک حصہ منہدم ہوا۔ نجف میں حضرت علی (رض) کے مرقد کا ایک حصہ بمباری کا نشانہ بنا۔ پوراعراق کئی سال سے اتحادی فوجوں کا نشانہ بنا ہوا ہے۔ نہ پیر جیلانی دفاع کرپائے اور نہ حضرت علی (رض) کسی کو بچا سکے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ کے سوا کوئی بھی مدد نہیں کرسکتا۔ کاش شرک کرنے والے بھائی اس حقیقت کو سمجھ جائیں۔ جس کے بارے میں فرمایا جارہا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی بادشاہی اور خدائی کو کچھ فرق نہیں پڑتا۔ لوگو! اس بغاوت کا تمہیں ہی نتیجہ بھگتنا پڑے گا۔ یاد رکھو یہ دنیا کی زندگی معمولی اور قلیل ہے بالآخر تم نے ہمارے پاس حاضر ہونا ہے ہم تمھیں بتائیں گے کہ تم دنیا میں کیا کچھ کرتے رہے ہو۔ عکرمہ بن ابوجہل کا واقعہ : مفسرین نے اس آیت کی تشریح کرتے ہوئے عکرمہ بن ابوجہل کا واقعہ نقل کیا ہے۔ جب مکہ فتح ہوا تو عکرمہ یہ سوچ کر بھاگ نکلا کہ مجھے کسی صورت بھی معافی نہیں مل سکتی۔ جدہ کی بندرگاہ پر پہنچا اور بیڑے میں سوار ہوا۔ لیکن اللہ کی قدرت کہ جوں ہی بیڑے نے ساحل چھوڑا تو وہ اتنے شدید بھنور میں پھنسا کہ ملاح اور مسافروں کو یقین ہوگیا کہ اب نجات کی کوئی صورت باقی نہیں ہے۔ مصیبت کی گھڑی میں ملاح نے مسافروں سے کہا کہ جب کبھی بیڑے کو ایسے طوفان کا واسطہ پڑتا ہے تو کسی اور کی بجائے صرف ایک اللہ کو پکارا جاتا ہے۔ اس لیے صرف ایک اللہ کے حضور فریادیں کرو اس کے سوا کوئی بیڑا پار لگانے والا نہیں۔ یہ بات حضرت عکرمہ (رض) کے دل پر اثر کرگئی اور اس نے سوچا کہ یہی تو ہمیں محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دعوت دیتا ہے لہٰذا اگر یہاں سے بچ نکلا تو میں حلقہ اسلام میں داخل ہوجاؤں گا چنانچہ حضرت عکرمہ (رض) حلقہ اسلام میں داخل ہوئے اور باقی زندگی اسلام اور رسول محترم کے ساتھ اخلاص کے ساتھ گزاری اور جنت کے وارث بنے۔ تفصیل کے لیے کسی مستند سیرت النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کتاب کا مطالعہ فرمائیں۔ (عَنْ اَبِیْ ذَرِّ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فِےْمَا ےَرْوِیْ عَنِ اللّٰہِ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی اَنَّہُ قَالَ ےَا عِبَادِیْ اِنِّیْ حَرَّمْتُ الظُّلْمَ عَلٰی نَفْسِیْ وَجَعَلْتُہُ بَےْنَکُمْ مُحَرَّمًا فَلَا تَظَالَمُوْا ےَا عِبَادِیْ کُلُّکُمْ ضَآلٌّ اِلَّا مَنْ ھَدَےْتُہُ۔۔ ےَا عِبَادِیْ لَوْ اَنَّ اَوَّلَکُمْ وَاٰخِرَکُمْ وَاِنْسَکُمْ وَجِنَّکُمْ کَانُوْا عَلٰی اَتْقٰی قَلْبِ رَجُلٍ وَّاحِدٍ مِّنْکُمْ مَّا زَادَ ذَالِکَ فِیْ مُلْکِیْ شَےْءًا ےَا عِبَادِیْ لَوْ اَنَّ اَوَّلَکُمْ وَاٰخِرَکُمْ وَاِنْسَکُمْ وَجِنَّکُمْ کَانُوْا عَلٰی اَفْجَرِ قَلْبِ رَجُلٍ وَّاحِدٍ مِّنْکُمْ مَّا نَقَصَ ذَالِکَ مِنْ مُّلْکِیْ شَےْءًا)[ رواہ مسلم : باب تحریم الظلم] ” حضرت ابوذر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا‘ اللہ تبارک وتعالیٰ فرماتا ہے۔ میرے بندو! میں نے ظلم کو اپنی ذات پر حرام کیا اور تمہارے درمیان بھی ظلم ناجائز قرار دیا ہے۔ اس لیے ایک دوسرے پر ظلم نہ کیا کرو۔ میرے بندو! تم میں سے ہر ایک گمراہ ہے ماسوا اس کے جس کو میں ہدایت سے سرفراز کروں۔۔ میرے بندو! تمہارے تمام اگلے پچھلے‘ جنّ وانس سب سے زیادہ متّقی انسان کے دل کی طرح ہوجائیں تو یہ میری سلطنت میں ذرّہ بھر اضافہ نہیں کرسکتے۔ میرے بندو! تمہارے اگلے پچھلے جنّ وانس سب سے بدترین فاسق وفاجر انسان کے دل کی طرح ہوجائیں تو یہ میری حکومت میں کچھ نقص واقع نہیں کرسکتے۔“ مسائل ١۔ اللہ ہی خشکی اور تری میں نجات دینے والا ہے۔ ٢۔ مصیبت کے وقت مشرکین بھی اللہ تعالیٰ کو پکارتے ہیں۔ ٣۔ مشکل دور ہوتے ہی مشرک اللہ کو بھول جاتے تھے۔ ٤۔ کسی شخص کی سرکشی اللہ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔ ٧۔ دنیاکا سازو سامان چند روزہ ہے ٨۔ ہر ایک نے اللہ کے حضور پیش ہونا ہے۔ ٩۔ اللہ تعالیٰ ہر کسی کو اس کے اعمال سے آگاہ فرمائے گا۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ کو ہر حال میں اخلاص کے ساتھ پکارنا چاہیے : ١۔ مشرک جب کسی مشکل میں گھر جاتے ہیں تو خالصتاً اللہ کو پکارتے ہیں۔ ( یونس : ٢٢) ٢۔ لوگو اللہ کی خالص عبادت کرو۔ (الزمر : ٣) ٣۔ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں اللہ کیخالص عبادت کروں۔ (الزمر : ١١) ٤۔ جب مشرکین کشتی پر سوار ہوتے ہیں خالصتاً اللہ کو پکارتے ہیں۔ (العنکبوت : ٦٥) ٥۔ مومنو! اللہ کو اخلاص کے ساتھ پکارو اگرچہ کفار کے لیے یہ ناپسند ہی کیوں نہ ہو۔ (المومن : ١٤) ٦۔ اللہ ہمیشہ زندہ ہے اس کے سوا کوئی الٰہ نہیں صرف اسی کو پکارو (المومن : ٦٥) یونس
23 یونس
24 فہم القرآن ربط کلام : پہلے بیان ہوا ہے کہ انسان جتنا چاہے باغی اور سرکش بن جائے بالآخر اسے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں پیش ہو کر اپنے اعمال کا جواب دینا ہے یہ بات مزید واضح کرنے کے لیے ارشاد ہوتا ہے کہ جس دنیا پر تم اتراتے ہو یہ بالکل عارضی اور ناپائیدار ہے۔ قرآن مجید انسان کو دنیا کی حقیقت سے آگاہ کرتے ہوئے یہ باور کراتا ہے۔ کہ اے انسان دنیا کی ہر چیز اور خود تیرا وجود اور قیام عارضی ہے۔ جس دنیا کی خاطر تو اپنے رب کو بھلاتا اور آخرت کا انکار کرتا ہے۔ اس دنیا کی مثال تو اس طرح ہے جس طرح موسم برسات کے بعد ہر جگہ ہریالی آجاتی ہے۔ اس سے انسان اور حیوان فائدہ اٹھاتے ہیں۔ ہر سو سبزہ ہونے کی وجہ سے دیکھنے والے کو یہ منظر بڑا سہانا اور دلربا لگتا ہے۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ ہمیں اس سے فائدہ پہنچے گا اور ہم خوشحال ہوجائیں گے اچانک اللہ تعالیٰ کی آئی ہوئی موسم کی سختی اسے تباہ کردیتی ہے۔ گویا کہ یہاں کبھی ہریالی اور شادابی نہ تھی۔ اللہ تعالیٰ لوگوں کے سامنے یہ حقائق اس لیے بیان کرتا ہے تاکہ لوگ غوروفکر کریں۔ یہی انسان کی زندگی کا حال ہے بچپن کی بھول بھلیاں، جوانی کی بہاریں، ادھیڑ پن کے مسائل اور بڑھاپے کی خزاؤں سے انسان کی زندگی عبارت ہے بالآخر انسان سپرد خاک ہوجاتا ہے۔ یہ مثال دے کر دنیا دار کو سمجھایا گیا ہے کہ جس دنیا پر تو فریفتہ ہو رہا ہے۔ اس کی حیثیت اس کے سوا کچھ نہیں ہے۔ جن اعمال اور اشغال کو خوش ہو کر کیے جا رہا ہے یہ تیری بربادی کا سامان ہے۔ خوش قسمت ہے وہ انسان جس نے اس حقیقت پر غور کیا اور اپنے آپ کو دنیا کی رعنائی اور دل فریبیوں سے بچائے رکھا۔ یہی سلامتی کا راستہ ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو اسی سلامتی کی طرف دعوت دیتا ہے۔ جب بندہ اپنی عاقبت کی فکر کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے ہدایت کے راستے پر گامزن کردیتا ہے۔ ایسے خوش نصیب کے لیے دنیا میں سلامتی اور آخرت میں جنت ہوگی۔ حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کا ارشاد ہے کہ دارالسلام جنت کے ناموں میں سے ایک نام ہے۔ مسائل ١۔ دنیا کی زندگی کی مثال بارش سے اگنے والی انگوری کی طرح ہے۔ ٢۔ جس طرح گھاس، پھونس اور کھیتی باڑی کی ایک مدت ہے اسی طرح دنیا کی زندگی کی مدت ہے۔ ٣۔ کھیتی پر کسی کو اختیار نہیں اسی طرح زندگی پر کسی کو اختیار نہیں۔ ٤۔ غوروفکر کرنے والوں کے لیے ان مثالوں میں عبرت کی نشانیاں ہیں۔ تفسیر بالقرآن یہ دنیا اور اس کی ہر چیز عارضی ہے : ١۔ جب اللہ کا حکم کسی چیز پر آجاتا ہے تو اس کا نام و نشان مٹ جاتا ہے۔ (یونس : ٢٤) ٢۔ ہر چیز فنا ہونے والی ہے۔ (الرحمن : ٢٦) ٣۔ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں ہر چیز ہلاک ہونے والی ہے۔ (القصص : ٨٨) ٤۔ ہر نفس نے موت کا ذائقہ چکھنا ہے۔ (الانبیاء : ٣٥) یونس
25 فہم القرآن ربط کلام : دنیا کی ناپائیداری اور بے ثباتی پر غور کرنے کا یہ نتیجہ نکلتا ہے اور نکلنا چاہیے کہ انسان عارضی اور ناپائیدار چیزوں پر دل لگانے کی بجائے دائمی اور مستقل چیز کی طرف توجہ کرے۔ وہ اللہ تعالیٰ کی رضا اور سلامتی کا گھر ہے۔ خوش قسمت ہے وہ انسان جس نے دنیا کی رعنائی اور دلفریبیوں سے اپنے آپ کو بچاکر صراط مستقیم پر گامزن رکھا جو سلامتی کا راستہ اور گھر ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو اسی سلامتی کی دعوت دیتا ہے جب بندہ اپنی عاقبت کی فکر کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے ہدایت کے راستے پر گامزن کردیتا ہے ایسے خوش نصیب کے لیے دنیا میں سلامتی اور آخرت میں جنت ہوگی حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کا ارشاد ہے کہ دارالسلام جنت کے ناموں میں سے ایک نام ہے۔ دنیا میں اچھے کام کرنے والوں کے لیے بہترین اجر ہوگا بلکہ ان کی نیکیوں سے کئی گنا زیادہ اجر عنایت کیا جائے گا۔ نہ یہ روسیاہ ہوں گے نہ ہی انہیں ذلت اٹھانا پڑے گی یہ لوگ جنتی ہیں اور اس میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔ بعض اہل علم نے الحسنیٰ سے مراد جنت اور زیادۃ سے مراد اللہ تعالیٰ کا دیدار لیا ہے اس کا ثبوت حدیث میں اس طرح پایا جاتا ہے کہ جب جنتی جنت میں داخل ہوجائیں گے اور اس کی بہاریں لوٹ رہے ہوں گے تو ایک دن اللہ تعالیٰ جنتیوں سے استفسار فرمائیں گے کہ اے میرے بندو! بتاؤ کہ کسی اور چیز کی ضرورت ہے؟ جنتی اللہ تعالیٰ کا شکریہ ادا کرتے ہوئے عرض کریں گے اے ہمارے رحیم و کریم رب ہم نے وہ کچھ پا لیا ہے جس کا تصور بھی نہیں کرسکتے تھے۔ اتنے میں نور کے حجاب اٹھ جائیں گے اور اللہ تعالیٰ اپنی ذات کی زیارت سے مشرف فرمائیں گے۔ (عَنْ صُھَیْبٍ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ اِذَا دَخَلَ اَھْلُ الْجَنَّۃِ الْجَنَّۃَ یَقُوْلُ اللّٰہُ تَعَالٰی تُرِیْدُوْنَ شَیْءًااَزِیْدُکُمْ فَیَقُوْلُوْنَ اَلَمْ تُبَیِّضْ وُجُوْھَنَا اَلَمْ تُدْخِلْنَا الْجَنَّۃَ وَتُنْجِنَا مِنَ النَّارِ قَالَ فَیُرْفَعُ الْحِجَابُ فَیَنْظُرُوْنَ اِلٰی وَجْہِ اللّٰہِ تَعَالٰی فَمَا اُعْطُوْا شَیْءًا اَحَبَّ اِلَیْھِمْ مِنَ النَّظَرِ اِلٰی رَبِّھِمْ ثُمَّ تَلَا ” لِلَّذِیْنَ اَحْسَنُوْا الْحُسْنٰی وَزِیَادَۃ“ ٌ)[ رواہ مسلم : کتاب الایمان، باب اثبات رویۃ المومنین فی الاخرۃ ربھم سبحانہ و تعالی] ” حضرت صہیب (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی گرامی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جب جنتی جنت میں داخل ہوجائیں گے تب اللہ تعالیٰ فرمائیں گے کیا تم مزید کوئی نعمت چاہتے ہو، جو تمہیں عطا کروں ؟ وہ عرض کریں گے، کیا آپ نے ہمارے چہروں کو روشن نہیں فرمایا؟ کیا آپ نے ہمیں جنت میں داخل نہیں کیا اور دوزخ سے نہیں بچایا ہے؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا، تب پردہ اٹھا دیا جائے گا۔ تمام جنتی رب العزت کے چہرے کا دیدار کریں گے۔ انہیں ایسی کوئی نعمت عطا نہیں ہوئی ہوگی‘ جو پر ور دگار کے دیدار سے انہیں زیادہ محبوب ہو۔ اس کے بعد آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی۔ ” جن لوگوں نے اچھے عمل کیے ان کے لیے جنت ہے اور مزید بھی۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ لوگوں کو سلامتی کے گھر کی طرف بلاتا ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے صراط مستقیم پر چلاتا ہے۔ ٣۔ نیکی کرنے والوں کے لیے بھلائی اور انعام و اکرام ہیں۔ ٤۔ نیکی کرنے والے ہمیشہ جنت میں رہیں گے۔ ٥۔ نیکی کرنے والوں کے چہرے ذلت و رسوائی سے محفوظ ہوں گے۔ تفسیر بالقرآن قیامت کے دن نیک اور بد لوگوں میں فرق : ١۔ قیامت کے دن نیک لوگوں کے چہروں پر ذلت اور نحوست نہ ہوگی اور وہ جنت میں رہیں گے۔ (یونس : ٢٦) ٢۔ برے لوگوں کے چہروں پر ذلت چھائی ہوگی انہیں اللہ سے کوئی نہ بچا سکے گا۔ (یونس : ٢٧) ٣۔ مومنوں کے چہرے تروتازہ ہوں گے (القیامۃ : ٢٢) ٤۔ کفار کے چہرے بگڑے ہوں ہو گے۔ (الحج : ٧٣) ٥۔ مومنوں کے چہرے خوش و خرم ہوں گے (عبس : ٣٨) ٦۔ کفار کے چہروں پر گردو غبار ہوگا۔ (عبس : ٤٠) ٧۔ مومنوں کا استقبال ہوگا۔ ( الزمر : ٧٣) ٨۔ خدا کے باغیوں پر پھٹکار ہوگی۔ (یونس : ٢٧ ) یونس
26 یونس
27 فہم القرآن ربط کلام : نیک لوگوں کے انجام کے بعد برے لوگوں کا انجام اور ان کی سزا کا بیان۔ فہم القرآن کا مطالعہ کرنے والے اصحاب کو یہ معلوم ہوچکا ہے کہ اللہ تعالیٰ نیک کے بعد بد اور جنت کی نعمتوں کے بعد جہنم کی ہولناکیوں کا تذکرہ کرتے ہیں تاکہ اچھے اور برے انجام کا تصور بیک وقت سامنے آئے اور قرآن کی تلاوت کرنے والا اپنے کردار کا تجزیہ کرسکے۔ پچھلی آیت میں نیک لوگوں کو ان کی نیکی کے بدلے جزا دینے کے ساتھ مزید عنایات کا اعلان ہوا ہے۔ یہاں برے لوگوں کو ان کے برے اعمال کی سزا بتلاتے ہوئے یہ وضاحت کی گئی کہ انہیں فقط اتنی سزا دی جائے گی جس درجے کے انہوں نے گناہ اور جرائم کیے ہوں گے۔ گناہوں کے مطابق ہی ان کے چہرے خوفناک، منحوس اور کالے ہوں گے۔ اتنے کالے جس طرح رات کا گھٹا ٹوپ اندھیرا ہوتا ہے یہ لوگ اپنے کفرو شرک کی وجہ سے ہمیشہ جہنم میں رہیں گے۔ (عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ یَقُوْلُ اللَّہُ تَبَارَکَ وَتَعَالَی لأَہْوَنِ أَہْلِ النَّارِ عَذَابًا لَوْ کَانَتْ لَکَ الدُّنْیَا وَمَا فِیْہَا أَکُنْتَ مُفْتَدِیًا بِہَا فَیَقُوْلُ نَعَمْ فَیَقُوْلُ قَدْ أَرَدْتُ مِنْکَ أَہْوَنَ مِنْ ہَذَا وَأَنْتَ فِیْ صُلْبِ اٰدَمَ أَنْ لاَ تُشْرِکَ أَحْسَبُہُ قَالَ وَلاَ أُدْخِلَکَ النَّارَ فَأَبَیْتَ إِلاَّ الشِّرْکَ) [ رواہ مسلم : کتاب صفۃ القیامۃ والجنۃ والنار، باب طَلَبِ الْکَافِرِ الْفِدَاءَ بِمِلْءِ الأَرْضِ ذَہَبًا] ” حضرت انس بن مالک (رض) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں اللہ تبارک و تعالیٰ جہنمیوں میں سے کم ترین عذاب والے سے کہے گا۔ دنیا اور جو کچھ اس میں ہے اگر تیرے لیے ہو۔ کیا تو اسے فدیہ کے طور پر دے گا وہ کہے گا جی ہاں ! اللہ تعالیٰ فرمائے گا میں نے تجھ سے اس سے بھی ہلکی بات کا مطالبہ کیا تھا جب تو آدم کی صلب میں تھا کہ میرے ساتھ شرک نہ کرناراوی کا خیال ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میں تجھے جہنم میں داخل نہ کرتا لیکن تو شرک سے باز نہ آیا۔“ مسائل ١۔ برے لوگوں کو ان کی برائی کے مطابق سزا دی جائے گی۔ ٢۔ برے لوگوں کے چہروں پر ذلت و ندامت ہوگی۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ کے عذاب سے برے لوگوں کو کوئی نہیں بچا سکتا۔ ٤۔ برے لوگ ہمیشہ جہنم میں رہیں گے۔ ٥۔ برائی کرنے والوں کے چہرے اندھیری رات کی طرح سیاہ ہوں گے۔ تفسیر بالقرآن برے لوگوں کا موت سے لے کر جہنم میں داخل ہونے تک انجام : ١۔ کاش آپ دیکھیں جب فرشتے ان کی روحیں قبض کرتے وقت ان کے منہ اور پیٹھوں پر ماریں گے۔ (الانفال : ٥٠) ٢۔ اس وقت دیکھیں جب ظالم موت کی سختیوں میں ہوں گے اور فرشتے ہاتھ بڑھا کر کہیں گے اپنی جان نکالو۔ آج تمہیں رسوا کن عذاب سے دوچار کیا جائے گا۔ ( الانعام : ٩٤) ٣۔ جس شخص نے برائی کی اور اس کو اس کی برائیوں نے گھیر لیا وہ جہنم میں ہمیشہ رہے گا۔ (البقرۃ: ٨١) ٤۔ جو شخص برے اعمال کے ساتھ آیا اسے اوندھے منہ جہنم میں پھینکا جائے گا۔ (النمل : ٩٠) ٥۔ برے لوگوں کو ان کی برائی کا بدلہ برائی کی مثل ملے گا اور ان کے چہروں پر ذلت چھائی ہوگی وہ جہنم میں ہمیشہ رہیں گے۔ (یونس : ٢٧) ٧۔ قیامت کے دن مجرموں کا عذاب ہلکا نہیں کیا جائے گا۔ (فاطر : ٣٦) یونس
28 فہم القرآن ربط کلام : جہنمیوں کو جہنم دھکیلنے سے پہلے ایک مقام پر ٹھہرا کر یہ سوال کیا جائے گا۔ لوگوں کے درمیان جب عدل و انصاف کے ساتھ فیصلہ صادر ہوجائے گا تو جنتیوں کو جنت میں داخلے کی اجازت دی جائے گی۔ وہ شاداں و فرحاں، خراماں خراماں جنت میں داخل ہوں گے اور جگہ جگہ ملائکہ انہیں سلام پیش کریں گے۔ ان کے مقابلے میں جب جہنمیوں کو جہنم کی طرف دھکیلا جائے گا تو لمحہ لمحہ اور قد م قدم پر ان پر اللہ کی پھٹکار اور ملائکہ کی جھڑکیاں ہوں گی۔ جہنم کے کنارے کھڑا کرکے ان سے پوچھا جائے گا کہ کیا تم ان معبودوں کی عبادت کرتے تھے؟ جہنم کی ہولناکیاں اور اللہ تعالیٰ کے غضب کو دیکھتے ہوئے مشرکین کے معبود واشگاف الفاظ میں انکار کرتے ہوئے مریدوں سے کہیں گے تم ہماری عبادت کب کیا کرتے تھے؟ جہنمی جن کی عبادت کیا کرتے تھے وہ تین قسم کے معبود ہوں گے۔ انبیاء عظام، اولیاء کرام۔، ملائکہ اور نیک جنات یہ سب کے سب مشرکین کی عبادت اور اپنی طرف منسوب شرکیہ اعمال کا انکار کریں گے۔ جب مشرکین اپنی جان بچانے کی خاطر بار بار اصرار کریں گے تو صالح لوگ کہیں گے کہ ہمارے اور تمہارے درمیان اللہ ہی گواہ ہے۔ ہمیں تو کوئی خبر نہیں کہہمارے بعد ہماری عبادت کرتے تھے۔ یونس
29 اللہ تعالیٰ کا قیامت کے دن معبودان باطل سے سوال کرنا اور ان کا جواب : (وَیَوْمَ یَحْشُرُہُمْ وَمَا یَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللَّہِ فَیَقُوْلُ أَأَنْتُمْ أَضْلَلْتُمْ عِبَادِیْ ہٰؤُلَاءِ أَمْ ہُمْ ضَلُّوْا السَّبِیْلَ۔ قَالُوْا سُبْحَانَکَ مَا کَانَ یَنْبَغِیْ لَنَا أَنْ نَتَّخِذَ مِنْ دُوْنِکَ مِنْ أَوْلِیَآءَ وَلَکِنْ مَتَّعْتَہُمْ وَاٰبَآءَ ہُمْ حَتّٰی نَسُوْا الذِّکْرَ وَکَانُوْا قَوْمًا بُوْرًا )[ الفرقان : ١٧۔ ١٨] ” اور جس دن اللہ انہیں اور جن کو وہ اللہ کے سوا پوجتے تھے اکٹھا کرے گا تو ان سے سوال کرے گا کیا تم نے میرے بندوں کو گمراہ کیا تھا یا خود ہی وہ راہ راست سے بھٹک گئے تھے وہ کہیں گے تیری ذات پاک ہے ہمارے لیے لائق نہیں تھا کہ ہم تیرے سوا کسی کو کارساز بناتے تو نے انہیں اور ان کے آباء کو فوائد عطا فرمائے یہاں تک کہ وہ تیری یاد کو بھول گئے یہ تھے ہی ہلاک ہونے کے قابل۔“ معبودوں کی دوسری قسم : دوسرے وہ لوگ ہوں گے جو ولایت کے پردے اور بزرگی کے لبادے میں شرک کی تلقین کرتے تھے یا انہوں نے زندگی میں ایسا انداز اختیار کیا جس سے شرک و بدعت کے دروازے کھلے وہ اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرتے ہوئے انکار کریں گے۔ لیکن انہیں ان کے مریدوں کے ساتھ جہنم رسید کیا جائے گا۔ تیسرے بے جان معبود جیسے پتھر وغیرہ کے بت انہیں بھی جہنم میں جلایا جائے گا۔ بعض اہل علم نے لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان پتھروں کو نطق کی طاقت دے گا یہ بول کر کہیں گے کہ ہم تو بے حس اور بے جان تھے تم ہماری نہیں بلکہ شیطان کی عبادت کرتے تھے۔ اس طرح ہر شخص اپنے کیے کو جان لے گا۔ ان کا معاملہ ان کے معبودوں کے حوالے ہونے کی بجائے مالک حقیقی کے سپرد ہوگا یعنی اللہ کے سوا کوئی بھی ان کی مدد نہیں کرسکے گا۔ جو دنیا میں ایک دوسرے کو جھوٹی تسلیاں دیتے تھے اور اللہ کے سوا جن کو مشکل کشا اور حاجت روا سمجھتے تھے۔ اللہ تعالیٰ کے خوف کی وجہ سے سب کچھ بھول جائیں گے۔ مسائل ١۔ قیامت کے دن اللہ سب کو جمع فرمائے گا۔ ٢۔ مشرکوں کو اپنی جگہ پر ٹھہرے رہنے کا حکم دیا جائے گا۔ ٣۔ مشرک اور ان کے معبودوں کے درمیان پھوٹ پڑجائے گی۔ ٤۔ معبودان اپنی عبادت کا انکار کردیں گے۔ ٥۔ قیامت کے دن ہر کسی کو اس کے اعمال کا پتہ چل جائے گا۔ ٦۔ قیامت کے دن ہر کسی نے اللہ تعالیٰ کی طرف لوٹنا ہے۔ ٧۔ قیامت کے دن معبودان باطل غائب ہوجائیں گے۔ تفسیربا لقرآن جہنمیوں کا اپنے معبودوں سے بحث و تکرار : ١۔ قیامت کے دن معبودان باطل اپنی عبادت کا انکار کردیں گے۔ (یونس : ٢٨) ٢۔ قیامت کے دن مشرک اپنے شرکاء کو دیکھ کر کہیں گے کہ ہم ان کی عبادت کرتے تھے اور معبود انکار کردیں گے۔ (النحل : ٨٦) ٣۔ قیامت کے دن مشرک اپنے معبودان کو دیکھ کر کہیں گے ہمیں یہ گمراہ کرنے والے تھے۔ (القصص : ٦٣) ٤۔ قیامت کے دن پیر اپنے مریدوں سے بیزاری کا اظہار کریں گے۔ (البقرۃ: ١٦٦) ٥۔ اس دن اللہ مشرکوں سے فرمائے گا میرے شریک کہاں ہیں وہ کہیں گے ہم میں سے کوئی اس کا دعویدار نہیں۔ (حٰم السجدۃ: ٤٧) ٦۔ قیامت کے دن مشرکوں سے کہا جائیگا اپنے معبودوں کو پکارو لیکن ان کے معبود ان کی پکار کا کوئی جواب نہیں دیں گے۔ (الکھف : ٥٢) ٧۔ جہنم میں داخل ہونے والے اپنے سے پہلوں کو دیکھ کرکہیں گے۔ ہمیں گمراہ کرنے والے یہی لوگ تھے انہیں دوگنا عذاب دیا جائے۔ (الاعراف : ٣٨) یونس
30 فہم القرآن ربط کلام : مشرکین کو ان کے شرک کے بارے میں قیامت کے دن سوال ہوگا لیکن دنیا میں بھی ان سے سوال کیا جاتا ہے۔ ان کے پاس نہ قیامت کو اپنے شرک کا جواب ہوگا اور نہ دنیا میں جواب دے سکتے ہیں۔ اس سے پہلے رکوع میں اللہ تعالیٰ نے اپنے مشکل کشا ہونے کے دلائل دیئے تھے۔ جس کا اقرار مشرک صرف سمندری سفر میں بھنور میں پھنسنے کے وقت کرتے تھے۔ یہی مشرک اور مؤاحد کے درمیان فرق ہے۔ مشرک جب اپنے مشکل کشاؤں سے مایوس ہوجاتا ہے تب خالصتاً ایک اللہ کو پکارتا ہے، مؤاحد ہر حال میں ایک اللہ کو پکارتا ہے۔ اب توحید کے وہ دلائل دیے جاتے ہیں۔ جن کا مشرک ہر حال میں اقرار کرتے ہیں۔ چنانچہ رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ہر مؤاحد کو کہا گیا ہے کہ آپ ان سے سوال کریں کہ زمین و آسمان سے تمہیں کون رزق دینے والا ہے؟ پھر ان سے پوچھیں کس نے تمہیں سننے کے لیے کان، دیکھنے کے لیے آنکھیں عطا فرمائیں ؟ کون ہے جو زندہ سے مردہ اور مردہ سے زندہ کو پیدا کرتا ہے؟ پھر پوری کائنات کے نظام کو سنبھالنے اور چلانے والا کون ہے؟ اس کے جواب میں کہتے ہیں کہ صرف اللہ ہی سب کچھ کرنے اور کائنات کا نظام چلانے والا ہے۔ ان سے پوچھیں پھر تم کیوں نہیں اللہ سے ڈر کر شرک و کفر چھوڑتے؟ لوگو! یہ ہے تمہارا ” اللہ“ اس کو چھوڑ کر کسی اور کی عبادت کرنا یا کسی کو اللہ کی ذات کے ساتھ کسی اعتبار سے شریک بنانا گمراہی کے سوا کچھ بھی نہیں۔ پھر کیوں زیادتی کرتے ہو۔ توحید فطرت کی آواز ہے۔ اس لیے انسان کو اس کا اقرار کیے بغیر چارہ نہیں رہتا۔ یہی وجہ ہے کہ ہر دور کا مشرک توحید کے ٹھوس اور واضح دلائل کے سامنے خاموش ہوجاتا ہے۔ یہی حالت مکہ کے مشرکین کی تھی جب ان سے اللہ تعالیٰ کے خالق، مالک، رازق اور قادر مطلق ہونے کے بارے میں سوال کیا جاتا تو وہ برملا اس کا اقرار اور اظہار کرتے تھے۔ یہاں ان کے اقرار کا ذکر کیا گیا ہے۔ لیکن مشرکین کا یہ اقرار لاجواب ہونے کی صورت میں ہے۔ ایمان لانے کی نیت سے نہیں کیونکہ مشرک حقیقتاً اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کی صفات کا منکر ہوتا ہے۔ اس لیے مشرک کو کافر بھی کہا گیا ہے۔ تفسیر بالقرآن مشرک اللہ تعالیٰ کی ہستی کا اقرار کرتا ہے : ١۔ مشرک سے سوال کیا جائے کہ آسمان و زمین سے رزق کون دیتا ہے کہتے ہیں اللہ ہی رزق دیتا ہے۔ (یونس : ٣١) ٢۔ مشرکین سے پوچھا جائے مخلوق کو پیدا کرنے والا کون ہے؟ جواب دیتے ہیں اللہ ہی پیدا کرنے والا ہے۔ (یونس : ٣٤) ٣۔ اگر ان سے پوچھا جائے کہ زمین و آسمان کا خالق کون ہے؟ کہتے ہیں اللہ ہی ہے۔ (الزمر : ٣٨) ٤۔ مشرکوں سے پوچھاجائے سات آسمانوں اور عرش عظیم کا مالک کون؟ جواباً کہتے ہیں، اللہ ہی ہے۔ (المومنون : ٨٦۔ ٨٧) ٥۔ اگر ان سے پوچھا جائے کہ ہر چیز پربادشاہت کس کی ہے ؟ جواب دیتے ہیں اللہ کی ہے۔ (المومنون : ٨٨۔ ٨٩) ٦۔ یقیناً اگر تو ان سے پوچھے کہ کس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور سورج اور چاند کو مسخر کیا ؟ تو وہ ضرور کہیں گے کہ اللہ نے، فرمائیں پھر کہاں سے بہکائے جا رہے ہیں۔ (العنکبوت : ٦١) یونس
31 یونس
32 یونس
33 یونس
34 فہم القرآن ربط کلام : گزشتہ سے پیوستہ توحید کے دلائل اور مشرکین سے سوالات جاری ہیں۔ اب باطل معبودوں کے بارے میں براہ راست پوچھا جارہا ہے کہ تمہارے معبودان باطل میں سے کون ہے جس نے ابتدا میں اس کائنات کو پیدا کیا اور پھر اسے دوبارہ وجود بخشے گا؟ ظاہر ہے اس کا جواب نفی میں تھا اور ہمیشہ اس کا جواب نفی میں ہی رہے گا۔ لہٰذا نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم ہوا کہ آپ بےدھڑک فرمائیں کہ اللہ ہی نے انھیں پہلی مرتبہ بغیر نمونے کے پیدا فرمایا اور وہی دوبارہ انھیں پیدا کرے گا۔ جب اللہ تعالیٰ کو ان کا خالق اور دوبارہ پیدا کرنے والا مانتے ہو تو پھر کہاں بھٹکے پھرتے ہو؟ جب پیدا کرنے والا اور تمہیں اپنے ہاں لوٹانے والا بھی ایک اللہ ہی ہے۔ پھر تمہارے معبودان باطل کہاں سے آٹپکے اور ان کا کیا اختیار ہے۔ جس بنا پر تم انہیں حاجت روا، مشکل کشا اور داتا و دستگیر کہتے ہو۔ مزید برآں سوال یہ ہے کہ تمہارے معبودوں میں کوئی ہے جو تمہاری حق کی طرف راہنمائی کرسکے۔ یہ بات بھی بالکل واضح ہے کہ پتھر، مٹی اور لکڑی کے بت ہدایت کی راہنمائی نہیں کرسکتے۔ نہ فرشتے اور جنات اور نہ ہی سورج، چاند، ستارے ہدایت کا راستہ دکھا سکتے ہیں۔ جہاں تک انبیاء اور اولیاء کا تعلقہے۔ صراط مستقیم کی طرف رہنمائی تو کرسکتے ہیں مگر کسی کو ہدایت پر گامزن نہیں کرسکتے۔ جب وہ فوت ہوگئے تو ان کا تعلق دنیا سے ٹوٹ گیا۔ اب وہ بھی کسی کی رہنمائی اور مدد نہیں کرسکتے۔ لہٰذا صرف اللہ ہی ہے جو ہدایت کی رہنمائی یونس
35 کرتا ہے اور اس پر چلنے کی توفیق دیتا ہے۔ اب بتاؤ جو ہدایت کی طرف رہنمائی کرے اس کی اتباع اور حکم ماننا چاہیے یا جو کسی کی رہنمائی کرنے کی بجائے خود رہنمائی کا محتاج ہو۔ اس کی اتباع کرنی چاہیے۔ ذرا سوچو کہ تم کیسے فیصلے کرتے ہو؟ ظاہر ہے۔ پیروی تو اس کی کرنی چاہیے جو ہدایت کی راہنمائی کرتا ہے اور خود ہدایت والا ہے۔ درحقیقت تم محض فرسودہ خیالات، صرف سنی سنائی باتوں اور اپنے وہم و گمان کے پیچھے لگے ہوئے ہو۔ لیکن یاد رکھو کہ اللہ جانتا ہے جو کچھ تم کررہے ہو۔ ظن کا معنی وہم و گمان، اٹکل پچو اور شک کے ہیں۔ البتہ عربی میں کبھی ظن، یقین کے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ لیکن یہاں اس کا معنی اٹکل پچو اور وہم و گمان ہے۔ ( عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لِعَمِّہِ عِنْدَ الْمَوْتِ قُلْ لاَ إِلَہَ إِلاَّ اللّٰہُ أَشْہَدُ لَکَ بِہَا یَوْمَ الْقِیَامَۃِ فَأَبَی فَأَنْزَلَ اللّٰہُ ”إِنَّکَ لاَ تَہْدِی مَنْ أَحْبَبْتَ۔۔ الآیَۃَ)[ رواہ مسلم : کتاب الایمان] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے چچا ابو طالب کو موت کے وقت کہا لا الہ الا للہ کہہ دو ! میں قیامت کے دن اس بات کی گواہی دوں گا۔ لیکن اس نے انکار کردیا اس وقت اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی : آپ اسے ہدایت نہیں دے سکتے جس کے لیے آپ ہدایت پسند کریں۔“ مسائل ١۔ معبودان باطل میں سے کوئی بھی مخلوق کو پہلی بار پیدا کرنے اور دوبارہ لوٹانے پر قادر نہیں ہے۔ ٢۔ اللہ ہی نے مخلوق کو پیدا کیا وہی اس کو دوبارہ وجود بخشے گا۔ ٣۔ مشرکین کے شریکوں میں کوئی ایسا نہیں جو حق کی طرف رہنمائی کرسکے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ حق کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔ ٥۔ حق کی طرف رہنمائی کرنے والا ہی پیروی کا حقدار ہوتا ہے۔ ٦۔ جس کو خود راستے کا علم نہیں وہ دوسرے کو کیا راستہ دکھلائے گا۔ ٧۔ شرک کا عقیدہ عدل و انصاف کے اصولوں کے خلاف ہے۔ ٨۔ اللہ تعالیٰ لوگوں کے افعال کو جاننے والا ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ کی تخلیق میں کوئی شریک نہیں : ١۔ کیا تمہارے شرکاء میں سے کوئی ایسا ہے جس نے مخلوق کو پیدا کیا ہے۔ (یونس : ٣٤) ٢۔ یہ اللہ کی پیدا کردہ مخلوق ہے جو تمہارے معبودوں نے پیدا کیا ہے۔ وہ دکھلاؤ۔ (لقمان : ١١) ٣۔ کیا تم ان کو اللہ کا شریک بناتے ہو جنہوں نے کسی چیز کو پیدا نہیں کیا۔ (الاعراف : ١٩١) ٤۔ جن کو تم اللہ کے سوا پکارتے ہو انہوں نے کوئی چیز پیدا نہیں کی وہ خود پیدا کیے گئے ہیں۔ (النحل : ٢٠) ٥۔ جن کو تم نے اللہ کے سوا معبود بنالیا ہے انہوں نے کوئی چیز پیدا نہیں کی بلکہ انہیں پیدا کیا گیا ہے۔ (الفرقان : ٣) ٦۔ کہہ دیجیے جنہیں تم اللہ کے سوا پکارتے ہو مجھے دکھاؤ انہوں نے کون سی چیز پیدا کی ہے۔ (الاحقاف : ٤) ٧۔ کیا یہ لوگ بغیر کسی کے پیدا ہوگئے یا خود اپنے خالق ہیں۔ (الطور : ٣٥) ٨۔ کیا تم ان کے پیدا کرنے والے ہو یا اللہ تعالیٰ پیدا کرنے والا ہے۔ (الواقعۃ: ٥٩) یونس
36 یونس
37 فہم القرآن ربط کلام : جس طرح مشرکوں کے پاس باطل عقیدہ کی ٹھوس دلیل نہیں صرف سنی سنائی باتوں اور وہم و گمان پر بنیاد ہے۔ اسی طرح قرآن مجید کا انکار اور نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر الزام کہ قرآن مجید اپنی طرف سے بنا لیتے ہیں۔ اس کی بنیاد بھی وہم و گمان اور الزام تراشی کے سوا کچھ نہیں۔ کفار مکہ اور منکرین اسلام کی ابتدا سے ہی یہ کوشش رہی ہے کہ کسی طرح قرآن کو من گھڑت اور جھوٹا ثابت کیا جائے۔ تاکہ اسلام کی بنیاد منہدم ہو کر رہ جائے، کبھی کہتے کہ یہ نبی کسی عجمی سے سیکھ کر ہمیں بتلاتا ہے۔ کبھی یہ الزام دیتے کہ اپنی طرف سے بنا لیتا ہے۔ اس طرح ان کی سرتوڑ کوشش تھی کہ یہ ثابت کیا جائے کہ قرآن اللہ کا کلام نہیں ہے۔ ان کا خیال تھا اور ہے کہ قرآن کے غلط ثابت ہونے سے نبوت کا قصہ خود بخود پاک ہوجائے گا۔ جس طرح منکرین حدیث رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حدیث کو بے سند اور غلط ثابت کرنے کے لیے مختلف بہانے اور افسانے تراشتے ہیں۔ تاکہ شریعت کے زیادہ حصہ سے جان چھوٹ جائے بظاہر مسلمان بھی رہیں اور اپنی مرضی بھی چلتی رہے۔ قرآن مجید کو منجانب اللہ ثابت کرنے کے لیے یہاں تین ثبوت دیے گئے ہیں۔ ١۔ قرآن مجید توراۃ اور انجیل کی تصدیق کرتا ہے۔ اگر تمہارے پاس اصلی تورات اور انجیل ہے تو قرآن مجید کے دلائل اور حوالہ جات کا تورات اور انجیل کے ساتھ مقابلہ کرو۔ تمہیں معلوم ہوجائے گا جو کچھ توراۃ اور انجیل میں ہے وہی قرآن مجید میں ہے۔ اسی طرح قرآن نہ انوکھی تعلیم دیتا ہے اور نہ ہی اس میں کوئی غلط بیانی کی گئی ہے۔ جب قرآن میں تمہاری کتابوں کی تصدیق پائی جاتی ہے تو اس کی مخالفت اور تکذیب کرنے کا کیا معنی؟ ٢۔ قرآن مجید نے مستقبل کے حوالے سے جو پیش گوئیاں کی ہیں اگر ان میں کوئی ایک بھی جھوٹی ثابت ہوئی ہے تو ثبوت پیش کرو۔ ٣۔ اگر پھر بھی تمہیں قرآن کے من جانب اللہ ہونے کا یقین نہیں آرہا ہے تو جاؤ تم اس جیسی جونسی چاہو، ایک سورۃ بنا لاؤ اس میں تمہیں یہ بھی رعایت دی جاتی ہے کہ زندہ اور مردہ شاعروں، ادیبوں، دانشوروں اور سخن وروں، جنوں، شیطانوں غرضیکہ جس جس سے مدد لے سکتے ہولے لو اور اس جیسی ایک سورت ہی بنا لاؤ۔ سورۃ البقرۃ آیت ٤ ٢ میں سمجھایا گیا ہے۔ کہ تم کبھی ایسا نہیں کرسکو گے لہٰذا جہنم کی آگ سے بچو جس میں پتھر اور خدا کی باغی اور قرآن کے منکروں کو جھونکا جائے گا۔ مسائل ١۔ جن وانس مل کر بھی قرآن مجید کی ایک سورۃ جیسی سورۃ نہیں لا سکتے۔ ٢۔ قرآن کریم پہلی کتابوں کی تصدیق کرنے والاہے۔ ٣۔ قرآن مجید کے احکام تفصیلی ہیں۔ ٤۔ قرآن کریم لا ریب کتاب ہے۔ ٥۔ قرآن مجید رب العالمین کی طرف سے نازل شدہ ہے۔ تفسیر بالقرآن قرآن کے چیلنج : ١۔ اے جن وانس ! تم سب مل کر اس قرآن جیسا قرآن لے آؤ۔ (بنی اسرائیل : ٨٨) ٢۔ سارے مل کر دس سورتیں بنالاؤ۔ (ہود : ١٣) ٣۔ ایک سورۃ اس کی مثل لے آؤ۔ (یونس : ٣٨) ٤۔ جن و انس مل کر قیامت تک ایک سورۃ بھی اس جیسی نہیں بناسکتے۔ (البقرۃ : ٢٣۔ ٢٤) یونس
38 یونس
39 فہم القرآن ربط کلام : کفار اور مخالفین نبوت کی قرآن مجید کے بارے میں جہالت۔ قرآن مجید کے بارے میں یہ کہنا کہ نبی کا بنایا ہوا ہے۔ حقیقتاً قرآن کو جھٹلانے کے مترادف ہے۔ جھٹلانے کی ایک وجہ یہ ہے کہ یہ لوگ اپنی جہالت اور کم فہمی کی وجہ سے قرآن مجید کی سچائی اور عظمت کا ادراک نہیں کرسکے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ قرآن مجید نے جس ہولناک عذاب سے انہیں ڈرایا ہے اس میں یہ لوگ ابھی تک مبتلا نہیں ہوئے۔ حالانکہ تاریخ کا مطالعہ کرتے اور اپنے سے پہلی اقوام کا انجام دیکھتے تو انہیں قرآن کی سچائی اور اس کی عظمت کا علم ہوجاتا کہ قرآن اللہ تعالیٰ کا نازل کردہ کلام ہے۔ اگر ہم نے اس کا انکار کیا تو ہمارے ساتھ بھی وہ کچھ ہوگا جو ہم سے پہلے ظالموں کے ساتھ ہوا ہے۔ بہرحال ان میں کچھ لوگ ایمان لائیں گے اور کچھ لوگ ہرگز نہیں مانیں گے۔ اے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ کا رب ظالموں کو خوب جانتا ہے۔ اگر ان کے ظلم کے باوجود ان پر گرفت نہیں کر رہا ہے تو یہ اس کا اصول ہے کہ وہ ایک مدت تک ظالموں کو مہلت دیا کرتا ہے۔ تاکہ انہیں ظلم و تعدی کرنے میں کوئی حسرت نہ رہے۔ دوسری طرف ایمان والوں کو اچھی طرح پرکھ لیا جائے کہ وہ اپنے دعویٰ ایمان میں کس حد تک سچے اور لوگوں کے لیے کس قدر قابل عمل نمونہ ثابت ہوتے ہیں۔ (وَلَا یَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا أَنَّمَا نُمْلِیْ لَہُمْ خَیْرٌ لِأَنْفُسِہِمْ إِنَّمَا نُمْلِیْ لَہُمْ لِیَزْدَادُوْا إِثْمًا وَلَہُمْ عَذَابٌ مُہِیْنٌ)[ آل عمران : ١٧٨] ” کافر لوگ ہرگز یہ نہ سمجھ بیٹھیں کہ ہم جو انہیں ڈھیل دے رہے ہیں یہ ان کے حق میں بہتر ہے بلاشبہ ہم انہیں صرف اس لیے ڈھیل دیتے ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ گناہ کرلیں اور ان کے لیے رسو اکن عذاب ہوگا۔“ مسائل ١۔ اس بات کو نہیں جھٹلانا چاہیے جس بات کا علم انسان کے احاطہ معلومات سے باہر ہو۔ ٢۔ اللہ کی کتابوں کی تکذیب پہلے لوگ بھی کیا کرتے تھے۔ ٣۔ قرآن مجید کی تکذیب کرنے والوں کو پہلے لوگوں کا انجام سامنے رکھنا چاہیے۔ ٤۔ کتاب اللہ پر ایمان لانے اور نہ لانے والے دونوں ہی ہمیشہ سے موجود ہیں۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ مفسدین کو اچھی طرح جانتا ہے۔ تفسیر بالقرآن فساد کرنے والے لوگ اور ان کا انجام : ١۔ اللہ تعالیٰ فساد کرنے والوں کو خوب جانتا ہے۔ (یونس : ٤٠) ٢۔ اللہ تعالیٰ فساد کرنے والوں کی اصلاح نہیں فرماتا۔ (یونس : ٨١) ٣۔ اللہ تعالیٰ فساد کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ (القصص : ٧٧) ٤۔ فساد کرنے والوں کا انجام دیکھیے۔ (النمل : ٤١) ٥۔ فساد کرنے والوں پر اللہ کی لعنت ہوتی ہے اور آخرت میں ان کا بد ترین ٹھکانہ ہے۔ (الرعد : ٢٥) ٦۔ اللہ تعالیٰ فساد کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتا۔ (البقرۃ: ٢٠٥) ٧۔ فساد پھیلانے والوں کو قتل کردیا جائے یا سولی پر لٹکا دیا جائے۔ (المائدۃ: ٣٣) یونس
40 یونس
41 فہم القرآن ربط کلام : قرآن مجید کا انکار کرنے والے حقیقت میں بہرے اور اندھے ہیں ان کو ان کے حال پر چھوڑنا ہی بہتر ہے۔ منکرین قرآن کو باربار چیلنج دیا گیا کہ اگر تم یہ الزام لگانے میں سچے ہو کہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قرآن مجید اپنی طرف سے بنالیا ہے تو پھر تم اس جیسی ایک سورت بنا لاؤ۔ لیکن اس چیلنج کا جواب دینے کی بجائے وہ یہی ہرزہ سرائی کرتے رہے۔ جس پر مزید بحث کرنے اور چیلنج دینے کی بجائے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ حکم ہوا کہ آپ ان سے یہ کہہ کر بے مقصد بحث سے دامن بچائیں کہ میرے لیے میرا عمل اور تمہارے لیے تمہارا عمل ہے۔ قیامت کے روز ہر کوئی اپنے عمل اور کردار کا انجام دیکھ لے گا۔ لہٰذا تمہیں ہمارے عمل کے بارے میں پوچھ گچھ نہیں ہوگی اور ہمیں تمہارے کردار کے بارے میں سوال نہیں کیا جائے گا۔ ہر کسی نے اپنے کیے کا صلہ پانا ہے۔ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ان میں ایسے لوگ بھی ہیں۔ جو بظاہر آپ کی بات سنتے ہیں۔ جو نہ سننے کے برابر ہے۔ اس طرح جیسے وہ بہرے ہوں یہ اس لیے ہے کہ وہ توجہ کے ساتھ سننے اور اس پر غور وفکر کرنے کے لیے تیار نہیں۔ ان میں وہ لوگ بھی ہیں جو ظاہری آنکھوں سے آپ کی طرف دیکھتے ہیں مگر ان کے دل کی آنکھیں بند ہوچکی ہیں۔ گویا کہ یہ بصیرت سے محروم ہیں۔ اس لیے آپ دل کے اندھوں کو ہدایت کی طرف نہیں لا سکتے۔ در حقیقت انہوں نے ظلم کرکے اپنے آپ پر گمراہی مسلط کرلیہے۔ اللہ تعالیٰ لوگوں پر ظلم نہیں کرتا وہ خود ہی اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں۔ قرآن مجید نے منکرین حق کے بارے میں یہ وضاحت بھی فرمائی ہے : (أَفَلَمْ یَسِیْرُوْا فِی الْأَرْضِ فَتَکُوْنَ لَہُمْ قُلُوْبٌ یَّعْقِلُوْنَ بِہَا أَوْ اٰذَانٌ یَسْمَعُوْنَ بِہَا فَإِنَّہَا لَا تَعْمَی الْأَبْصَارُ وَلَکِنْ تَعْمَی الْقُلُوْبُ الَّتِیْ فِی الصُّدُوْرِ )[ الحج : ٤٦] ” کیا یہ لوگ زمین میں چلے پھرے نہیں کہ ان کے دل ایسے ہوجاتے جو کچھ سمجھتے سوچتے اور کان ایسے جن سے وہ کچھ سن سکتے بات یہ ہے کہ آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں، اندھے تو دل ہوجاتے ہیں جو سینوں میں ہیں۔“ ان کے بارے میں سخت ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے : (وَلَقَدْ ذَرَأْنَا لِجَہَنَّمَ کَثِیْرًا مِنَ الْجِنِّ وَالْإِنْسِ لَہُمْ قُلُوْبٌ لَا یَفْقَہُوْنَ بِہَا وَلَہُمْ أَعْیُنٌ لَا یُبْصِرُوْنَ بِہَا وَلَہُمْ اٰذَانٌ لَا یَسْمَعُوْنَ بِہَا أُوْلٰءِکَ کَالْأَنْعَامِ بَلْ ہُمْ أَضَلُّ أُوْلٰءِکَ ہُمُ الْغَافِلُوْنَ)[ الاعراف : ١٧٩] ” ہم نے جہنم کے لیے بہت سی مخلوق جنوں اور انسانوں سے پیدا کی۔ ان لوگوں کو دل دیے گئے مگر وہ ان سے سوچتے نہیں ان کو آنکھیں عطا ہوئیں ان سے دیکھتے نہیں ان کے کان موجود ہیں مگر ان سے سنتے نہیں یہ لوگ چوپایوں سے بھی بدتر اور اپنے انجام سے غافل ہیں۔“ (عَنْ اَبِیْ ذَرِّ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فِےْمَا ےَرْوِیْ عَنِ اللّٰہِ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی اَنَّہٗ قَالَ ےَا عِبَادِیْ اِنِّیْ حَرَّمْتُ الظُّلْمَ عَلٰی نَفْسِیْ وَجَعَلْتُہٗ بَےْنَکُمْ مُحَرَّمًا فَلَا تَظَالَمُوْا ےَا عِبَادِیْ کُلُّکُمْ ضَآلٌّ اِلَّا مَنْ ھَدَےْتُہٗ فَاسْتَھْدُوْنِیْ اَھْدِکُمْ ےَا عِبَادِیْ کُلُّکُمْ جَاءِعٌ اِلَّا مَنْ اَطْعَمْتُہٗ فَاسْتَطْعِمُوْنِیْ اُطْعِمْکُمْ ےَا عِبَادِیْ کُلُّکُمْ عَارٍ اِلَّا مَنْ کَسَوْتُہٗ فَاسْتَکْسُوْنِیْ اَکْسُکُمْ ےَا عِبَادِیْ اِنَّکُمْ تُخْطِءُوْنَ باللَّےْلِ وَالنَّھَارِ وَاَنَا اَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِےْعًا فَاسْتَغْفِرُوْنِیْ اَغْفِرْ لَکُمْ ) [ رواہمسلم : کتاب البر والصلۃ، باب تحریم الظلم ] ” حضرت ابوذر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا‘ اللہ تبارک وتعالیٰ فرماتا ہے۔ میرے بندو! میں نے ظلم کو اپنی ذات پر حرام کرلیا ہے اور تمہارے درمیان بھی ظلم ناجائز قرار دیا ہے۔ اس لیے ایک دوسرے پر ظلم نہ کیا کرو۔ میرے بندو! تم میں سے ہر ایک گمراہ ہے ماسوا اس کے جس کو میں ہدایت سے سرفراز کروں۔ پس تم مجھ سے ہدایت مانگو میں تمہیں ہدایت دوں گا‘ تم میں سے ہر ایک بھوکا ہے سوائے اس کے جس کو میں کھلاؤں۔ پس تم مجھ سے کھانا مانگومیں تمہیں کھلاؤں گا۔ میرے بندو! تم سب ننگے ہو سوائے اس کے جس کو میں پہنا دوں گا۔ پس تم مجھ سے پہناوا طلب کرو میں تمہیں پہناؤں گا۔ میرے بندو! تم رات دن گناہ کرتے ہو‘ میں تمام گناہوں کو بخش دینے والا ہوں۔ مجھ سے بخشش طلب کرو‘ میں تمہیں بخش دوں گا۔“ مسائل ١۔ قرآن مجید جھٹلانے والوں کو ان کے جھوٹ کی سزا مل کر رہے گی۔ ٢۔ ہر کسی کو اس کے اعمال کے مطابق جزاو سزا ملے گی۔ ٣۔ جسے اللہ نہ سنانا چاہے اسے کوئی نہیں سنا سکتا۔ ٤۔ جسے اللہ راہ نہ دکھانا چاہے اسے کوئی راہ نہیں دکھلا سکتا۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ کسی پر ظلم نہیں کرتا۔ ٦۔ لوگ اپنی جانوں پر خود ہی ظلم کرتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق پر رحم کرتا ہے زیادتی نہیں کرتا : ١۔ اللہ تعالیٰ کسی پر ظلم نہیں کرتا لیکن لوگ اپنی جانوں پر خود ظلم کرتے ہیں۔ (یونس : ٤٤) ٢۔ اللہ تعالیٰ کسی پر ایک ذرہ کے برابر بھی ظلم نہیں کرتا۔ (النساء : ٤٠) ٣۔ ہر شخص اپنے اعمال کو حاضر پائے گا اور تیرا رب کسی پر ظلم نہیں کرے گا۔ (الکھف : ٣٩) ٤۔ قیامت کے دن ہر کسی کو اس کے اعمال کا صلہ دیا جائے گا اور کسی پر ظلم نہ ہوگا۔ (المومن : ١٧) یونس
42 یونس
43 یونس
44 یونس
45 فہم القرآن ربط کلام : ظالموں کا انجام۔ قرآن مجید کا انکار اور سرور دو عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے تکرار کرنے کی بنیادی وجہ آخرت کا انکار تھا۔ جس آدمی کا یہ عقیدہ ہو کہ میں نے مرنے کے بعد اٹھ کر رب ذوالجلال کی عدالت میں پیش ہونا ہے ایسا شخص زیادہ عرصہ تک قرآن مجید کے حقائق اور صاحب قرآن کی نبوت کا انکار نہیں کرسکتا۔ یہ بے باکی اور غفلت اسی شخص میں پیدا ہوا کرتی ہے جو اپنے رب کی ملاقات کا عملاً یا اعتقاداً منکر ہو۔ اس بناء پر منکرین قرآن کو احساس دلایا جارہا ہے کہ اس دن کو یاد کرو۔ جب سب کو اکٹھا کیا جائے گا تم ایک دوسرے کو اچھی طرح پہچانو گے۔ باوجود اس کے کہ تم ایک عرصہ تک دنیا میں رہے مگر قیامت کی ہولناکیوں کو دیکھ کر تمہاری کیفیت یہ ہوگی کہ تم یہ خیال کرو گے کہ ہم دنیا میں چند گھڑیوں کے سوا نہیں ٹھہرے۔ یاد رکھو! اللہ تعالیٰ کی ملاقات کو جھٹلانے والے نقصان میں رہیں گے اور ایسے لوگ ہدایت سے محروم ہوتے ہیں۔ انہیں عذاب کی دھمکی دی جائے یا برے انجام سے ڈرایا جائے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس کا مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ عذاب جلد آنا چاہیے انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ اگر اللہ تعالیٰ چاہے گا تو آپ کی زندگی میں یہ اس سے دوچار ہوں گے۔ نہیں تو آپ کی وفات کے بعد ان کو وہ کچھ دکھلائے گا جس کا ان کے ساتھ قرآن کے الفاظ میں وعدہ کیا جاتا ہے۔ یقیناً یہ کام ہو کر رہے گا۔ انہیں بہرصورت ہمارے پاس آنا ہے اور اللہ تعالیٰ ان کے ہر عمل اور بات پر گواہ ہے۔ درحقیقت ہر امت کے لیے رسول ہوتا ہے۔ جو انہیں کھول کھول کر اللہ تعالیٰ کے احکام سناتا اور اس کی نافرمانی سے ڈراتا ہے۔ جب لوگ رسول کی تکذیب کرتے ہیں تو ان کے درمیان نہایت عدل و انصاف کے ساتھ فیصلہ کردیا جاتا ہے۔ اس میں ان پر کوئی زیادتی نہیں کی جاتی۔ لہٰذا آپ انہیں سمجھاتے رہیں باوجوداس کے یہ جلد بازی کا مظاہرہ کرتے ہوئے آپ سے مطالبہ کرتے ہیں کہ عذاب کا وعدہ کب پورا ہوگا۔ کفار کا مطالبہ : (وَاِذْ قَالُوْا اللّٰھُمَّ اِنْ کَانَ ھَٰذَا ھُوَالْحَقَّ مِنْ عِنْدِکَ فَاَمْطِرْ عَلَیْنَا حِجَارَۃً مِّنَ السَّمَآءِ اَوِاءْتِنَا بَعَذَابٍ اَلِیْمٍ وَمَا کَان اللّٰہُ لِیُعَذِّبَھُمْ وَاَنْتَ فِیْھِمْ وَمَا کَان اللّٰہُ مُعَذِّبَھُمْ وَھُمْ یَسْتَغْفِرُوْنَ )[ الانفال : ٣٢۔ ٣٣] ” اور جب انہوں نے کہا اے اللہ ! اگر یہ تیری طرف سے حق ہے تو ہم پر آسمان سے پتھر برسا۔ یا ہم پر کوئی دردناک عذاب لے آ اور نہیں اللہ ہے کہ انہیں عذاب دے کہ آپ ان میں ہیں اور اللہ انہیں کبھی عذاب دینے والا نہیں جبکہ وہ بخشش مانگتے ہوں۔“ مسائل ١۔ دنیا کی زندگی آخرت کے مقابلہ میں ایک پل کی مانند ہے۔ ٢۔ قیامت کے دن لوگ ایک دوسرے کو پہچان لیں گے۔ ٣۔ قیامت کو جھٹلانے والے ناکام ہوں گے۔ ٤۔ آخرت کا انکار کرنے والے ہدایت یافتہ نہیں ہوسکتے۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ ہر ایک کے اعمال پر گواہ ہے۔ ٦۔ اللہ تعالیٰ رسول بھیجنے کے بعد عدل و انصاف کا فیصلہ فرماتا ہے۔ ٧۔ اللہ تعالیٰ کسی پر ظلم نہیں کرتا۔ ٨۔ کفار اللہ تعالیٰ کے عذاب کا مطالبہ کیا کرتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن جہنمی قیامت کے دن ایک دوسرے کو اچھی طرح پہچان لیں گے : ١۔ اس دن اللہ تعالیٰ انہیں جمع کرے گا اور وہ تصور کریں گے گویا کہ وہ دن کی ایک گھڑی ہی ٹھہرے ہیں اور وہ ایک دوسرے کو پہچان لیں گے۔ (یونس : ٤٥) ٢۔ جب سارے جہنم میں جمع ہوجائیں گے تو پچھلے اگلوں کی نسبت کہیں گے انہوں نے ہمیں گمراہ کیا تھا۔ (الاعراف : ٣٨) ٣۔ تم پر اللہ کی مار تمہاری وجہ سے اس مصیبت کا ہمیں سامنا کرنا پڑا ہے۔ (ص : ٦٠) ٤۔ اے کاش آپ ان ظالموں کو دیکھتے جب وہ اپنے رب کے حضور کھڑے ہوں گے اور ایک دوسرے کی بات کا جواب دیں گے۔ (سبا : ٣١) ٥۔ جب وہ جہنم میں ایک دوسرے سے جھگڑیں گے تو کمزور ان سے کہیں گے جو بڑے بنے ہوئے تھے کہ یقیناً ہم تو تمہارے پیچھے چلنے والے تھے، تو کیا تم ہم سے آگ کا کوئی حصہ ہٹاسکتے ہو۔“ (المومن : ٤٧) ٦۔ مجرم اپنے چہروں سے پہچانے جائیں گے۔ (الرحمٰن : ٤١) ٧۔ ظالموں اور ان کے ہم جنسوں اور جن کو وہ پوجتے تھے ان کو اکٹھا کیا جائے گا۔ پھر انہیں جہنم کے راستہ پر چلایا جائے گا۔ (الصٰفٰت : ٢٢ تا ٣١) یونس
46 یونس
47 یونس
48 یونس
49 فہم القرآن ربط کلام : نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بار بار عذاب لانے کا مطالبہ کرنے پر کفار کو اس کا جواب۔ کفار اور مشرکین کا ابتدا ہی سے انبیائے کرام کے ساتھ یہ وطیرہ رہا ہے کہ وہ ان سے ایسے مطالبات کرتے ہیں جن کا تعلق انبیاء کی نبوت کی بجائے اللہ تعالیٰ کی قدرت کے ساتھ ہوتا ہے۔ لیکن منکرین نبوت انبیاء سے اس لیے اپنے مطالبات منوانے پر زور دیتے تھے تاکہ عوام الناس کو ذہنی طور پر الجھا کر یہ مغالطہ دیا جائے کہ اگر یہ شخص واقعی اللہ کا رسول ہوتا تو ہمارا مطالبہ پورا کردیتا۔ اگر یہ ہمارا مطالبہ پورا کر دے تو ہم اپنی قوم کے ساتھ مل کر اس کے دست و بازو بن جائیں گے۔ لیکن یہ شخص ہمارا مطالبہ پورا کر نہیں سکتا خوامخواہ نبوت کا دعویٰ کررہا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہرگز رسول بنا کر نہیں بھیجا گیا۔ کفار کے اس پروپیگنڈہ کا مختلف انداز سے جواب دیا گیا جس کا ایک جواب یہ بھی ہے۔ اے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ان سے واشگاف الفاظ میں فرمائیں کہ میں نے کبھی خدا کی خدائی میں حصہ دار ہونے کا دعوی نہیں کیا۔ میرا اعلان تو یہ ہے کہ میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں میں وہی کچھ تمہارے سامنے پیش کرتا ہوں جس کا مجھے اللہ حکم دیتا ہے۔ خدا کی خدائی کے سامنے میں اس قدر بے بس اور بے اختیار ہوں کہ میں اپنے بارے میں بھی نفع و نقصان کا مالک نہیں۔ نفع اور نقصان کے بارے میں میرے رب کے فیصلے ہیں جو وہ چاہے وہی ہوتا ہے۔ جہاں تک تمہارا یہ مطالبہ ہے کہ میں اللہ کا عذاب لے آوں یہ بھی میرے رب کی مرضی پر منحصر ہے۔ وہ تمہارے مطالبہ کی وجہ سے اشتعال میں آکر وقت مقرر سے پہلے عذاب نہیں لاتا۔ کیونکہ وہ بندوں پر نہایت مہربان اور ان کی کوتاہیوں سے درگزر کرنے والا ہے۔ دوسرا سبب یہ ہے کہ اس نے ہر فرد اور قوم کے فیصلے کے لیے ایک وقت مقرر کر رکھا ہے۔ بے شک کوئی فردیا قوم اللہ تعالیٰ کی قدرت کو دن، رات چیلنج کرے اس کے باوجود مقررہ وقت سے پہلے اس قوم کا فیصلہ نہیں کیا جاتا البتہ جب فیصلے کا وقت آجاتا ہے تو پھر دنیا کی کوئی طاقت اللہ تعالیٰ کے فیصلے کو آگے پیچھے نہیں کرسکتی۔ یہاں واضح الفاظ میں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہلوایا گیا ہے۔ کہ آپ خود اعلان فرمائیں کہ میں اپنے نفع و نقصان کا مالک نہیں ہوں۔ لیکن فرقہ پرستی کا برا ہو۔ یہاں بھی ایک مفسر لکھتا ہے کہ آیت کا مقصد کفار کی یا وہ گوئیوں کو ختم کرنا ہے اور یارلوگوں نے اس آیت کی آڑ لے کر حضور رحمۃ للعالمین شفیع المذنبین (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فضائل و کمالات کا انکار شروع کردیا اور ایسی اناپ شناپ باتیں کرنے لگے جن سے دین و دانش دونوں شرمندگی محسوس کرتے ہیں کہ حضور کچھ نہیں دیتے، حضور کچھ نہیں کرسکتے۔ بارگاہ رسالت میں اپنے دکھ، دردوں کی فریاد کرنا شرک ہے وغیرہ۔ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اعلان : (عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ قَالَ لَمَّا نَزَلَتْ وَاَنْذِرْ عَشِیْرَتَکَ الْاَقْرَبِیْنَ دَعَا النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قُرَیْشًا فَاحْبَتَمَعُوْا فَعَمَّ وَخَصَّ فَقَالَ یَا بَنِیْ کَعْبِ ابْنِ لُؤَیٍّ اَنْقِذُوْا اَنْفُسَکُمْ مِّنَ النَّارِ‘ یَا بَنِیْ مُرَّۃََ ابْنِ کَعْبٍ اَنْقِذُوْا اَنْفُسَکُمْ مِّنَ النَّارِیَا بَنِیْ عَبْدِ شَمْسٍ اَنْقِذُوْا اَنْفُسَکُم مِّنَ النَّارِ‘ یَا بَنِیْ عَبْدِ مَنَافٍ اَنْقِذُوْا اَنْفُسَکُمْ مِّنَ النَّارِ‘ یَا بَنِیْ ہَاشِمٍ اَنْقِذُوْا اَنْفُسَکُمْ مِّنَ النَّارِ یَا بَنِیْ عَبْدِالْمُطَّلَبِ اَنْقِذُوْا اَنْفُسَکُمْ مِنَ النَّارِ یَا فَاطِمَۃُ اَنْقِذِیْ نَفْسَکِ مِنَ النَّارِ فَاِنِّیْ لَا اَمْلِکُ لَکُمْ مِنَ اللّٰہِ شَیْءًا غَیْرَاَنَّ لَکُمْ رَحِمًا سَاَبُلُّہَا بِبِلالِھَا [ رواہمُسْلِمٌ وَ فِی الْمُتَّفَقِ عَلَیْہِ] قَالَ یَا مَعْشَرَ قُرَیْشٍ اِشْتَرُوْا اَنْفُسَکُمْ لَا اُغْنِیْ عَنْکُمْ مِنَ اللّٰہِ شَیْءًا وَ یَا بَنِیْ عَبْدِمَنَافٍ لَا اُغْنِیْ عَنْکُمْ مِنَ اللّٰہِ شَیْءًا یَا عَبَّاسُ ابْنُ عَبْدِالْمُطَّلِبِ لَا اُغْنِیْ عَنْکَ مِنَ اللّٰہِ شَیْءًا یَا صَفِیَّۃُ عَمَّۃُ رَسُوْلِ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لَا اُغْنِیْ عَنْکِ مِنَ اللّٰہِ شَیْءًا یَا فَاطِمَۃُ بِنْتَ مُحَمَّدٍ سَلِیْنِیْ مَا شِءْتِ مِنْ مَالِیْ لَا اُغْنِیْ عَنْکِ مِنَ اللّٰہِ شَیْءًا) ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی ” اور اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈراؤ“ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قریش کو دعوت دی وہ جمع ہوگئے۔ آپ نے ان کے خاص و عام سبھی کو دعوت دی‘ آپ نے فرمایا‘ اے بنو کعب بن لُوْی ! اپنے آپ کو جہنم کی آگ سے بچاؤ اے بنو مرہ بن کعب! تم اپنے آپ کو جہنم سے بچاؤ اے بنو عبد شمس! تم خود کو دوزخ سے بچاؤ اے بنی عبد مناف‘ بنی ہاشم‘ بنی عبدالمطلب تم اپنے آپ کو دوزخ سے بچاؤ اے فاطمہ ! تو اپنے آپ کو جہنم کی آگ سے بچا۔ میں تمہارے لیے اللہ کے ہاں کسی چیز کا مالک نہیں۔ اگرچہ تمہارے ساتھ قرابت داری ہے۔ اس رشتہ داری کا احترام رہے گا (مسلم) اور بخاری‘ مسلم میں ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا‘ اے گروہ قریش ! تم اپنے آپ کو آزاد کرلو۔ میں تم سے اللہ کے عذاب سے کچھ دور نہیں کرسکتا اے بنی عبد مناف! میں اللہ کے ہاں تمہارے کچھ کام نہیں آؤں گا۔ اے عباس بن عبدالمطلب! میں اللہ کے ہاں تمہارے کچھ کام نہیں آؤں گا۔ اے رسول کی پھوپھی صفیہ ! میں تم سے اللہ کے عذاب سے کچھ دور نہیں کرسکتا۔ اے فاطمہ بنت محمد! تو مجھ سے جس قدر چاہے مال کا سوال کرلے لیکن میں اللہ کے ہاں تیرے کچھ کام نہیں آؤں گا۔“ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بے بس ہو کر مکہ سے ہجرت کی : (عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عَدِیِّ بْنِ حَمْرَاء الزُّہْرِیِّ قَالَ رَأَیْتُ رَسُوْلَ اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وَاقِفًا عَلَی الْحَزْوَرَۃِ فَقَالَ وَاللَّہِ إِنَّکِ لَخَیْرُ أَرْضِ اللَّہِ وَأَحَبُّ أَرْضِ اللَّہِ إِلَی اللَّہِ وَلَوْلاَ أَنِّی أُخْرِجْتُ مِنْکِ مَا خَرَجْتُ) [ رواہ الترمذی : کتاب المناقب، باب فی فضل مکۃ ] ” حضرت عبداللہ بن عدی بن حمراء زہری کہتے ہیں میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ٹیلے پر کھڑے ہوئے دیکھا، آپ نے فرمایا اللہ کی قسم یقیناً تو اللہ تعالیٰ کی بہترین زمین اور محبوب ترین زمین میں سے ہے اگر مجھے یہاں سے نہ نکالا جاتا تو میں نہ نکلتا۔“ مسائل ١۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے نفع و نقصان کے مالک نہیں تھے۔ ٢۔ آپ اتنا ہی اختیار رکھتے تھے جتنا اللہ نے عطا کیا ہوا تھا۔ ٣۔ ہر ایک کا وقت معین ہے۔ ٤۔ جب کسی کا وقت آجاتا ہے تو اس میں کمی و بیشی نہیں کی جاتی۔ تفسیر بالقرآن انبیاء ( علیہ السلام) نفع ونقصان کا اختیار نہیں رکھتے : ٢۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کہہ دیں کہ میں اپنے نفع و نقصان کا مالک نہیں ہوں۔ (یونس : ٤٩) ٣۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرما دیں کہ میں تمہارے نفع ونقصان کا کچھ اختیار نہیں رکھتا۔ (الجن : ٢١) ٤۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ میں اپنے نفع و نقصان کا بھی اختیار نہیں رکھتا۔ (الاعراف : ١٨٨) ٥۔ حضرت نوح (علیہ السلام) اور حضرت لوط (علیہ السلام) اپنی بیویوں کو کوئی فائدہ نہ پہنچا سکے۔ (التحریم : ١٠) ٦۔ ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا مجھے اللہ کے سامنے کسی قسم کا اختیار نہیں ہے۔ (الممتحنۃ: ٤) ٧۔ کہہ دیجئے اگر اللہ عیسیٰ بن مریم اور اس کی والدہ کو ہلاک کرنا چاہے تو انہیں کون بچا سکتا ہے ؟ (المائدۃ: ١٧) ٨۔ اگر میں غیب جانتا ہوتا تو میں اپنے لیے بھلائیاں جمع کرلیتا اور مجھے کوئی نقصان نہ ہوتا۔ (الاعراف : ١٨٨) یونس
50 فہم القرآن ربط کلام : گزشتہ سے پیوستہ۔ اے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ان سے استفسار فرمائیں کہ اگر ان پر اللہ کا عذاب دن کے وقت آئے یا رات کی کسی گھڑی میں آئے تو اسے کون ٹال سکتا ہے؟ ان سے یہ بھی سوال کیجیے کہ مجرمو! تم کس بات کی جلدی مچاتے ہو۔ مجرمانہ ذہن کی یہ علامت ہوتی ہے کہ وہ نہ صرف اچھی بات قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے بلکہ اکثر دفعہ اچھائی کی بجائے بری بات اور اس کے انجام کے لیے عجلت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو انتباہ کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ کیا انہیں معلوم نہیں کہ جب اللہ کا عذاب نازل ہوتا ہے تو پھر بڑے بڑے مجرم ایمان لانے کا اظہار کرتے ہیں۔ مگر اس وقت اللہ تعالیٰ کے ملائکہ جواب دیتے ہیں۔ اب تمہارے ایمان لانے کا کیا فائدہ ؟ جب کہ تم اس سے پہلے حقیقت قبول کرنے کی بجائے عذاب کا مطالبہ کرتے تھے۔ اس وقت ان کو یہ بھی کہا جاتا ہے اب ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اپنے کیے کی سزا پاؤ کیونکہ تم واقعی اس عذاب کے مستحق ہو۔ اے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! یہ آپ سے پوچھتے ہیں کیا واقعی ہم عذاب میں گرفتار ہوں گے؟ ان سے فرمائیے کہ مجھے اپنے رب کی قسم ہے کہ اللہ تعالیٰ کا عذاب برحق ہے۔ جب تم پر مسلط ہوگا تو تم کسی طرح بھی اسے ٹال نہیں سکو گے۔ کیا تم نے مجرم اقوام کی تاریخ پر غور نہیں کیا کہ جب ان پر اللہ تعالیٰ کا عذاب صبح یا رات کے وقت آیا تو وہ کس طرح چیخ و پکار کرتے ہوئے معافی مانگ رہے تھے۔ ذرا فرعون اور آل فرعون کے واقعہ پر ہی غور کرو کہ جب اللہ تعالیٰ نے انہیں دریا میں ڈبکیاں دیں تو فرعون نے کس طرح دہائی دیتے ہوئے کہا تھا : ( قَالَ آَمَنْتُ أَنَّہُ لَا إِلَہَ إِلَّا الَّذِی اٰمَنَتْ بِہِ بَنُوْ إِسْرَاءِیلَ وَأَنَا مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ )[ یونس : ٩٠] میں موسیٰ اور ہارون کے رب پر ایمان لاتا ہوں۔ لیکن اس کے ایمان کو مسترد کردیا گیا یہی حالت مجرم قوم کی ہوا کرتی ہے اور اسی کرب میں مجرم موت کے وقت مبتلا ہوتا ہے اس وقت مجرم دل ہی دل میں ایمان کا اظہار کرتا ہے مگر موت کے فرشتے اسے جھڑکیاں دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ اب تمہیں ہمیشہ عذاب میں رہنا ہے۔ (عَنِ ابْنِ عُمَرَ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ إِنَّ اللّٰہَ یَقْبَلُ تَوْبَۃَ الْعَبْدِ مَا لَمْ یُغَرْغِرْ ) [ رواہ الترمذی : کتاب الدعوات، باب قبول توبۃ العبد مالم یغرغر] ” حضرت عبداللہ بن عمر (رض) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ تعالیٰ بندے کی سانس اٹکنے سے پہلے پہلے توبہ قبول فرماتا ہے۔“ موت کے وقت مجرموں کے ساتھ ملائکہ کا سلوک : (وَلَوْتَرَی إِذِ الظَّالِمُوْنَ فِی غَمَرَاتِ الْمَوْتِ وَالْمَلَاءِکَۃُ بَاسِطُو أَیْدِیْہِمْ أَخْرِجُوْا أَنْفُسَکُمُ الْیَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذَابَ الْہُوْنِ بِمَا کُنْتُمْ تَقُولُوْنَ عَلَی اللَّہِ غَیْرَ الْحَقِّ وَکُنْتُمْ عَنْ اٰ یَا تِہِ تَسْتَکْبِرُوْنَ)[ الانعام : ٩٣] ” موت کے وقت ملائکہ کی جھڑکیاں جب مجرم موت کی بیہوشیوں میں ہوتے ہیں اور فرشتے ہاتھ پھیلاتے ہوئے کہتے ہیں اپنی جانیں نکالو آج تمہیں رسوا کن عذاب میں مبتلا کیا جائے گا۔ کیونکہ تم اللہ پرناحق باتیں بناتے ہو اور اس کی آیات سے تکبر کرتے ہو۔“ (وَلَوْتَرٰٓی إِذْ یَتَوَفَّی الَّذِیْنَ کَفَرُوْا الْمَلَاءِکَۃُ یَضْرِبُوْنَ وُجُوہَہُمْ وَأَدْبَارَہُمْ وَذُوْقُوْا عَذَابَ الْحَرِیْقِ)[ الانفال : ٥٠] ” اور کاش آپ اس حالت کو دیکھتے جب فرشتے کافروں کی روحیں قبض کر رہے ہوتے ہیں تو ان کے چہروں اور ان کی پشتوں پر ضربیں لگاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اب جلانے والے عذاب کا مزا چکھو۔“ مسائل ١۔ کچھ لوگ اللہ کے عذاب کے لیے جلدی مچاتے ہیں۔ ٢۔ مجرموں کو اللہ کے عذاب کا مزا چکھنا پڑے گا۔ ٣۔ انسان کو اسی کا بدلہ ملے گا جو وہ کرے گا۔ ٤۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کفار عذاب کے برحق ہونے کے متعلق پوچھتے تھے۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ کے عذاب کو کوئی بھی ٹال نہیں سکتا۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ کی پکڑ آجائے تو مجرموں کو کوئی نہیں بچا سکتا : ١۔ اللہ کا عذاب برحق ہے اور تم اللہ تعالیٰ کو عاجز نہیں کرسکتے۔ (یونس : ٥٣) ٢۔ کفار کے چہروں پر ذلت چھا جائے گی انہیں اللہ کے عذاب سے کوئی بچانے والا نہ ہوگا۔ (یونس : ٢٧) ٣۔ آج کے دن اللہ کے عذاب سے کوئی نہیں بچ سکتا مگر جس پر اللہ تعالیٰ رحم فرمائے۔ (ہود : ٤٣) ٤۔ اس دن وہ پیٹھیں پھیر کر بھاگیں گے اللہ کی پکڑ سے انہیں کوئی بچانے والا نہ ہوگا۔ (المومن : ٣٣) ٥۔ اگر اللہ کسی کو تکلیف دے تو کون ہے جو اسے اس سے بچا سکے۔ (الاحزاب : ١٧) ٦۔ حضرت نوح نے اپنے بیٹے کو فرمایا آج کے دن اللہ کے عذاب سے کوئی بچانے والا نہیں۔ (ہود : ٤٣) ٧۔ جسے اللہ رسوا کرے اسے کوئی عزت نہیں دے سکتا۔ (الحج : ١٨) یونس
51 یونس
52 یونس
53 یونس
54 فہم القرآن ربط کلام : گزشتہ سے پیوستہ، مجرم دنیا اور آخرت میں اللہ کے عذاب سے بچ نہیں سکتے۔ سورۃ المنافقون آیت ١٠۔ ١١ میں بیان ہوا ہے۔ کہ جو لوگ مال اور اولاد کو دین سے مقدم جانتے ہیں جب ان پر موت وارد ہوتی ہے تو وہ اس حسرت کا اظہار کرتے ہیں کہ کاش ہمیں کچھ مہلت مل جائے۔ ہم اللہ تعالیٰ کے راستے میں صدقہ اور نیکی کرکے صالحین میں شمار ہوجائیں۔ لیکن موت کا وقت آنے کے بعد کسی کو مہلت نہیں دی جاتی۔ یہی خواہش مجرم کی قیامت کے دن ہوگی وہ اپنی ندامت چھپاتے ہوئے اس بات کی خواہش کرے گا کہ کاش مجھ سے فدیہ لے کر چھوڑ دیا جائے۔ یہ پہلی دفعہ عذاب کو دیکھتے وقت مجرم کی ابتدائی کیفیت ہوگی۔ جوں ہی وہ عذاب میں مبتلا ہوگا۔ اس کی ندامت اور ذلت چیخ و پکار میں بدل جائے گی۔ ظالم اپنے ہاتھوں کو کاٹتے ہوئے واویلا کرے گا کہ ہائے افسوس میں رسول کا راستہ اختیار کرتا اور فلاں، فلاں کو اپنادوست اور خیر خواہ نہ سمجھتا۔ اس کے بعد اس کی حالت زار ایسی ہوگی کہ وہ خواہش کرے گا کہ کاش میری بیوی بچوں کو میری جگہ پکڑ لیا جائے کبھی کہے گا کہ میں مٹی کے ساتھ مٹی ہوجاؤں مگر وہ ہمیشہ اذیت ناک عذاب میں مبتلا رہے گا۔ قیامت کے دن مجرموں کی خواہش : (یَوَدُّ الْمُجْرِمُ لَوْیَفْتَدِیْ مِنْ عَذَابِ یَوْمِءِذٍم بِبَنِیَْہِ وَصَاحِبَتِہٖ وَاَخِیْہِ وَفَصِیْلَتِہِ الَّتِیْ تُءْوِیْہِ وَمَنْ فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا ثُمَّ یُنْجِیْہِ )[ المعارج : ١١ تا ١٤] ” مجرم چاہے گا کہ عذاب سے بچنے کے لیے اپنے بیٹوں، بیوی، بھائی اور کنبہ جس میں رہتا تھا اور تمام زمین فدیہ دے دے تاکہ اسے عذاب سے بچا لیا جائے۔“ (یَوْمَ یَفِرُّ الْمَرْءُ مِنْ أَخِیْہِ وَأُمِّہِ وَأَبِیْہِ وَصَاحِبَتِہِ وَبَنِیْہِ )[ عبس : ٣٤ تا ٣٦] ” اس دن انسان اپنے بھائی، ماں، باپ، بیوی اور اولاد سے بھاگے گا۔“ (اَلاَّ تَزِرُوَازِرَۃٌ وِّزْرَاُ خْرٰی)[ النجم : ٣٨] ” کوئی بوجھ اٹھانے والا دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھا سکتا۔“ مجرم کی آخری خواہش : (یٰلَیْتَنِیْ کُنْتُ تُرَابًا) [ النباء : ٤٠] ” کاش میں مٹی ہوجاتا۔“ مسائل ١۔ قیامت کے دن مجرم عذاب سے بچنے کے لیے پوری دنیا کا مال فدیہ کے طور پر دینے کے لیے تیار ہوگا۔ ٢۔ قیامت کے روز مجرم اپنی پشیمانی چھپانے کی کوشش کریں گے۔ ٣۔ قیامت کے روز انصاف کے ساتھ فیصلہ ہوگا۔ ٤۔ قیامت کے روز کسی پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ کی عدالت کے اصول : ١۔ اللہ تعالیٰ انصاف کے ساتھ فیصلہ فرمائیں گے اور لوگوں پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔ (یونس : ٥٤) ٢۔ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن حق کے ساتھ فیصلہ فرمائیں گے اور کسی پر ظلم نہ ہوگا۔ (الزمر : ٦٩) ٣۔ اللہ تعالیٰ ہر کسی کو پورا پورا اجر دے گا اور کسی پر ظلم نہ ہوگا۔ (البقرۃ: ٢٨١) ٤۔ اللہ تعالیٰ کی عدالت میں مجرم کی سفارش قبول نہ ہوگی۔ (البقرۃ : ٤٨) ٥۔ اللہ تعالیٰ کی عدالت میں خریدو فروخت، دوستی اور کسی کی سفارش کام نہ آئے گی۔ (البقرۃ : ٢٥٤) ٦۔ اس دن عدل وانصاف کا ترازو قائم کیا جائے گا اور کسی پر رائی کے دانے کے برابر بھی ظلم نہیں کیا جائے گا۔ (الانبیاء : ٤٧) یونس
55 فہم القرآن ربط کلام : گزشتہ سے پیوستہ۔ لوگوسنو! دنیا میں بھی زمین و آسمانوں اور جو کچھ ان میں ہے اس کا مالک اللہ تعالیٰ ہے اور قیامت کے دن بھی وہی مالک و مختار ہوگا۔ کان کھول کر سن لو! قیامت کا برپا ہونا یقینی اور حق ہے۔ یہ اللہ کا سچا اور پکا وعدہ ہے جو ٹل نہیں سکتا۔ لیکن اکثر لوگ اس کا ادراک نہیں کرتے وہی موت و حیات کا مالک ہے اور اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے۔ پہلے بھی عرض کیا گیا ہے کہ قرآن مجید کے مرکزی مضامین تین ہیں۔ ١۔ ایمان باللہ۔ ٢۔ ایمان با لرسا لۃ۔ ٣۔ ایمان بالآخرۃ۔ ایمان کے تینوں عناصر اس طرح لازم ملزوم اور باہم مربوط ہیں کہ ان میں کسی ایک کا انکار کرنا گویا کہ تینوں کا انکار کرنا ہے۔ حقیقت یہ ہے جس طرح ایمان باللہ اور ایمان بالرسالت کا صحیح اور پورا پورا صلہ قیامت کے بغیر مل نہیں سکتا۔ اسی طرح ایمان باللہ اور ایمان بالرسا لۃ کا منکر قیامت کے برپا ہوئے بغیر ٹھیک ٹھیک سزا نہیں پا سکتا۔ اس لیے ایمان بالآخرۃ لازم ہی نہیں بلکہ عین عدل و انصاف کا تقاضا ہے۔ چنانچہ ارشاد ہوتا ہے کہ اے لوگو! قیامت برپا کرنا۔ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے۔ جو ہر حال میں پورا ہو کر رہے گا اور اللہ ہی موت وحیات کا مالک ہے۔ بڑا ہی خوش نصیب ہے وہ شخص جو آخرت پر ایمان لائے اور اس کے لیے تیاری کرے۔ (عَنْ أَبِیْ سَعِیدٍ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) أَنَّ رَجُلاً کَانَ قَبْلَکُمْ رَغَسَہُ اللَّہُ مَالاً فَقَالَ لِبَنِیْہِ لَمَّا حُضِرَ أَیَّ أَبٍ کُنْتُ لَکُمْ قَالُوا خَیْرَ أَبٍ قَالَ فَإِنِّی لَمْ أَعْمَلْ خَیْرًا قَطُّ، فَإِذَا مُتُّ فَأَحْرِقُونِی ثُمَّ اسْحَقُونِی ثُمَّ ذَرُّونِی فِی یَوْمٍ عَاصِفٍ فَفَعَلُوا، فَجَمَعَہُ اللَّہُ عَزَّ وَجَلَّ، فَقَالَ مَا حَمَلَکَ قَالَ مَخَافَتُکَ فَتَلَقَّاہُ بِرَحْمَتِہِ )[ رواہ البخاری : باب حدثنا ابو الیمان] ” حضرت ابو سعید نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں کہ تم سے پہلے ایک آدمی گزرا ہے جسے اللہ نے مال کی فراوانی عطا کی تھی اس نے موت کے وقت اپنے بیٹوں کو کہا میں نے کبھی نیک عمل نہیں کیا جب میں مرجاؤں مجھے جلا کر میری راکھ بنا دینا، پھر اسے ہواؤں میں اڑا دینا، انہوں نے ایسا ہی کیا اللہ عزوجل نے اسے زندہ فکیا، فرمایا تجھے اس کام پر کس چیز نے ابھارا ؟ کہنے لگا آپ کے ڈر نے۔ اللہ تعالیٰ نے اسے اپنی رحمت کی لپیٹ میں لے لیا۔“ (عن سَہْلِ بن سَعْدٍ (رض) قَالَ سَمِعْتُ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَقُوْلُ یُحْشَرُ النَّاسُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ عَلَی أَرْضٍ بَیْضَاءَ عَفْرَاءَ کَقُرْصَۃِ نَقِیٍّ) [ رواہ البخاری : کتاب الرقاق، باب یقبض اللہ الأرض] ” حضرت سہل بن سعد (رض) کہتے ہیں میں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرمارہے تھے، قیامت کے دن لوگوں کو سفید چٹیل میدان میں جمع کیا جائے گا زمین صاف ٹکیہ کی مانند ہوگی۔“ منکرین قیامت کو چیلنج : (قُلْ کُوْنُوْا حِجَارَۃً أَوْ حَدِیْدًا۔أَوْ خَلْقًا مِمَّا یَکْبُرُ فِی صُدُوْرِکُمْ فَسَیَقُوْلُوْنَ مَنْ یُعِیْدُنَا قُلِ الَّذِیْ فَطَرَکُمْ أَوَّلَ مَرَّۃٍ فَسَیُنْغِضُوْنَ إِلَیْکَ رُءُ وْ سَہُمْ وَیَقُوْلُْوْنَ مَتَی ہُوَ قُلْ عَسٰی أَنْ یَّکُوْنَ قَرِیبًا۔ )[ بنی اسرائیل : ٥٠، ٥١] ” کہہ دیجیے کہ تم پتھر، لوہا یا کوئی اور چیز ہوجاؤ جو تمہارے نزدیک بڑی ہو تو وہ کہتے ہیں کہ ہمیں دوبارہ کون اٹھائے گا کہہ دیجیے جس نے تم کو پہلی بار پیدا کیا تو تمہارے سر ہلائیں گے اور پوچھیں گے کہ ایسا کب ہوگا؟ کہہ دیجیے امید ہے کہ وہ جلد ہوگا۔“ مسائل ١۔ زمین و آسمان اور جو کچھ ان میں ہے اللہ کی ملکیت ہے۔ ٢۔ اللہ کا وعدہ سچا ہے لوگوں کی اکثریت علم نہیں رکھتی۔ ٣۔ اللہ ہی زندہ کرتا اور مارتا ہے۔ ٤۔ اللہ ہی کی طرف سب نے لوٹنا ہے۔ تفسیر بالقرآن قیامت برپا ہو کر رہے گی : ١۔ سب نے اللہ کے ہاں لوٹنا ہے۔ (یونس : ٥٦) ٢۔ قیامت کے دن ہر کسی کو پورا پورا صلہ دیا جائے گا۔ (آل عمران : ١٨٥) ٣۔ اس دن سے ڈر جاؤ جس دن تم اللہ کے ہاں لوٹائے جاؤ گے۔ (البقرہ : ٢٨١) ٤۔ قیامت آنکھ جھپکنے کی طرح آجائے گی۔ (النحل : ٧٧) یونس
56 یونس
57 فہم القرآن ربط کلام : قرآن مجید کی صورت میں لوگوں کے پاس نصیحت پہنچ چکی ہے۔ جسے روحانی بیماریوں کے لیے شفاء اور مومنوں کے لیے ہدایت اور رحمت قرار دیا گیا ہے۔ قرآن مجید کے بے شمار اوصاف اور خصائص ہیں مگر یہاں چار اوصاف بیان فرمائے گئے ہیں۔ مَوْعِظَۃٌ: موعظتاس بات اور نصیحت کو کہتے ہیں جسے سن کر انسان حقیقت کی طرف متوجہ ہو اور اس پر غور کرنے پر مجبور ہوجائے۔ دوسرے لفظوں میں دل پر اثر انداز ہونے والی بات کو موعظۃ کہا جاتا ہے۔ جو اللہ کے کلام سے بڑھ کر کسی کی بات میں نہیں ہوسکتی۔ چنانچہ قرآن کے الفاظ کی تلاوت کی جائے یا اسے سمجھ کر پڑھا جائے۔ ١۔ قرآن مجید کی تلاوت دل کے لیے رحمت، سکون اور اطمینان کا باعث ہے۔ انسان جس قدر پریشان اور غم کی حالت میں ہو۔ اگر وہ توجہ اور ذرا اونچی آواز کے ساتھ قرآن کی تلاوت کرے تو قرآن مجید آدمی کے غموں کا مداوابن جاتا ہے۔ ٢۔ قرآن مجید اللہ تعالیٰ کا کلام ہے۔ اور نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قلب اطہر پر اتارا گیا ہے۔ اس کی تاثیر سب سے پہلے دل پر اثر انداز ہوتی ہے جو دل کے لیے رحمت اور سکون کا باعث بنتی ہے۔ ٣۔ قرآن مجید جس گھر میں تلاوت کیا جائے اس میں اللہ تعالیٰ کی رحمت کے ملائکہ اترتے ہیں۔ اس گھر میں شیطانی اثرات کا خاتمہ ہونے کے ساتھ خیر و برکت کا نزول ہوتا ہے۔ ٤۔ جس قوم میں اس کا نفاذ ہوگا۔ وہ قوم جنگ وجدال، حسد و بغض اور باہمی خلفشار سے محفوظ رہے گی۔ اس کے نفاذ سے بھائی چارہ اور مسلمانوں کی معیشت میں برکت پیدا ہوگی اور ملک خوشحال ہوگا۔ (عَنْ زَیْدِ بْنِ اَرْقَمَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ...........کِتَاب اللّٰہِ فِیْہِ بِہٖ الْھُدٰی وَالنُّوْرُ مَنِ السْتَمْسَکَ بِہٖ وَاَخذَبِہٖ کَانَ عَلَی الْھُدٰی وَمَنْ اَخْطَاَہُ ضَلَّ وَفِیْ رِوَایَۃٍ ھُوَحَبْلُ اللّٰہِ مَنِ التَّبْعَہٗ کَانَ عَلَی الْھُدیٰ وَمَنْ تَرَکَہٗ کَانَ عَلٰی ضَلاَلَۃٍ) [ رواہ مسلم : کتاب الفضائل، باب من فضائل علی ابن ابی طالب ] ” حضرت زید بن ارقم (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا............. اللہ تعالیٰ کی کتاب، اس میں ہدایت اور روشنی ہے۔ جس نے اس کو مضبوطی سے پکڑ لیا وہ ہدایت پا گیا اور جس نے اس سے غفلت کی وہ گمراہ ہوگیا۔ ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں : یہ اللہ تعالیٰ کی رسی ہے جس نے اس کی پیروی کی وہ ہدایت یافتہ ہوگا اور جس نے اسے چھوڑ دیا وہ گمراہ ہوجائے گا۔“ انقلابی کتاب : (عَنْ عُمَرَابْنِ الْخَطَّابِ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اِنَّ اللّٰہَ ےَرْفَعُ بِھٰذَا الْکِتَابِ اَقْوَامًا وَّےَضَعُ بِہٖ اٰخَرِےْنَ) [ رواہ مسلم : باب فضل من یقوم بالقرآن] ” حضرت عمر بن خطاب (رض) بیان کرتے ہیں نبی محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا بلاشبہ اللہ تعالیٰ اس کتاب کی بدولت کچھ کو عزت دے گا اور کچھ لوگوں کو ذلیل کرے گا۔“ (لَوْ أَنْزَلْنَا ہَذَا الْقُرْاٰنَ عَلٰی جَبَلٍ لَرَأَیْتَہُ خَاشِعًا مُتَصَدِّعًا مِنْ خَشْیَۃِ اللّٰہِ وَتِلْکَ الْأَمْثَالُ نَضْرِبُہَا للنَّاسِ لَعَلَّہُمْ یَتَفَکَّرُوْنَ)[ الحشر : ٢١] ” اگر ہم یہ قرآن کسی پہاڑ پر بھی اتار دیا ہوتا تو تم دیکھتے کہ اللہ کے خوف سے دباجا رہا ہے اور پھٹا جاتا ہے اور یہ مثالیں ہم لوگوں کے لیے بیان کرتے ہیں تاکہ وہ فکر کریں۔“ مسائل ١۔ اللہ ہی کے لیے ہے جو کچھ زمین و آسمانوں میں ہے۔ ٢۔ اللہ کا وعدہ سچا ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔ ٣۔ اللہ ہی زندہ کرتا اور مارتا ہے۔ ٤۔ اللہ ہی کی طرف تمام لوگوں نے لوٹنا ہے۔ تفسیر بالقرآن قرآن مجید کے اوصاف حمیدہ کی ایک جھلک : ١۔ اے لوگو! بے شک تمہارے پاس تمہارے پروردگار کی طرف سے نصیحت آگئی ہے۔ (یونس : ٥٧) ٢۔ قرآن مجید کی آیات محکم ہیں۔ (ھود : ١) ٣۔ قرآن مجید لوگوں کے لیے ہدایت، رحمت اور نصیحت ہے۔ (البقرۃ: ١٨٥) ٤۔ قرآن مجید برہان اور نور مبین ہے۔ (النساء : ١٧٤) ٥۔ قرآن مجید مومنوں کے دلوں کے لیے شفا ہے۔ (بنی اسرائیل : ٨٢) ٦۔ قرآن مجید لوگوں کو اندھیروں سے روشنی کی طرف لانے کا ذریعہ ہے۔ (ابراہیم : ١) یونس
58 فہم القرآن ربط کلام : اس سے پہلی آیت میں قرآن مجید کو موعظت اور شفاء قرار دیا ہے۔ جو اللہ تعالیٰ کا فضل ہے۔ اس پر مومنوں کو خوش اور مطمئن ہونا چاہیے۔ قرآن مجیددنیا میں واحد کتاب ہے جسے جتنی بار تلاوت کیا جائے اتنی ہی اس کی تاثیر بڑھتی جاتی ہے۔ اس کے نزول مسعود سے لے کر ہر دور میں ہزاروں اور لاکھوں لوگ صرف اس کی تلاوت سے متاثر ہو کر اس پر ایمان لے آئے اور ان کی زندگی کی کایا پلٹ گئی۔ قرآن مجید کے سب سے بڑے دشمن اہل مکہ تھے ان کی تاریخ اٹھا کر دیکھیے کہ جو لوگ آخر دم تک حلقہ اسلام میں داخل نہیں ہوئے وہ بھی قرآن مجید کی تاثیر کا برملا اقرار کرتے تھے۔ اسی بنا پر نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جادوگر کہتے تھے حضرت عمر فاروق (رض) کا واقعہ ہے کہ جب انہوں نے اپنی بہن سے براہ راست سورۃ طٰہٰ کی ابتدائی آیات سنیں تو قرآن کی تاثیر کی تاب نہ لاتے ہوئے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہو کر حلقہ بگوش اسلام ہوئے۔ ایک مرتبہ مکہ والوں نے ولید کو اپنا نمائندہ بنا کر نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں بھیجا گفتگو کے دوران نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سورۃ حٰم سجدہ کی چند آیات پڑھ کر سنائیں ولید کی حالت یہ ہوئی کہ وہ بے ساختہ کہنے لگا کہ اتنا موثر کلام کسی انسان کا نہیں ہوسکتا۔ جب اپنے ساتھیوں کے پاس پہنچا تو انہوں نے اس کا چہرہ دیکھ کر اندازہ لگا لیا کہ یہ نبی کی گفتگو سے بے حد متاثر ہوچکا ہے۔ قرآن مجید کی تاثیر کا عالم یہ کہ مخارج اور صفات کا لحاظ رکھ کر اس کی تلاوت کی جائے یا سادہ اور عجمی لہجے میں پڑھا جائے۔ یہ دل پر اثر انداز ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا کیونکہ اس کے نازل کرنے والے رب کا فرمان ہے کہ قرآن مجید کی تلاوت سے دل نرم ہوتے ہیں اور ایماندار کے ایمان میں اضافہ ہوتا ہے۔ جہاں تک قرآن مجید کو سمجھنے اور اس کے ساتھ وعظ و خطاب کا تعلق ہے۔ اگر وعظ کرنے میں تھوڑا سا بھی اخلاص ہو تو سننے والا اس کا اثر لیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ جس کی واضح مثال پورے عالم اسلام میں دیکھی جاسکتی ہے۔ اس وقت مسلمانوں کی ٥٦ حکومتوں میں سے سعودی عرب کو چھوڑ کر کون سا ملک ہے جس ملک میں دین کی سرپرستی کی جارہی ہو یہ قرآن کا معجزہ ہے کہ صرف خطیبوں کے وعظ کی وجہ سے کروڑوں مسلمان دین پر جان قربان کرنے کے لیے تیار ہیں۔ انشاء اللہ قیامت تک یہ سلسلہ جاری رہے گا اور لوگ قرآن مجید کی دعوت قبول کرتے رہیں گے۔ قرآن مجید کا دوسراوصف یہ بیان کیا گیا ہے۔ یہ دلوں کی بیماریوں کے لیے شفا ہے۔ دل کی بیماریوں میں کفرو شرک اور نفاق سب سے بری بیماریاں ہیں جوں ہی توجہ کے ساتھ قرآن مجید کی تلاوت کی جائے۔ یہ کفرو شرک کی بیماری کو جڑ سے اکھاڑ پھینکتا ہے۔ بشرطیکہ قرآن مجید کے حکم کے مطابق پرہیز بھی کیا جائے۔ کیونکہ علاج کے ساتھ پرہیز لازم ہے۔ قرآن مجید نے ابتداء ہی میں (ھُدًی لِلْمُتَّقِیْنَ) کہہ کر پرہیز لازم قرار دیا ہے۔ قرآن مجید ہدایت اور خزانہ ہے : قرآن مجید صرف فرد کی نہیں بلکہ قوموں کی ہدایت اور راہنمائی کا مکمل ضابطہ حیات ہے جس نے اسے زندگی کا آئینہ بنایا وہ دینی اخلاقی، معاشی اور معاشرتی اعتبار سے ہدایت پاجائے گا۔ قرآن مجید ایسا خزانہ ہے۔ جس کا موازنہ دنیا کی دولت اور کسی نعمت سے نہیں کیا جا سکتا۔ مسائل ١۔ قرآن مجید لوگوں کے لیے باعث نصیحت ہے۔ ٢۔ قرآن مجید روحانی بیماریوں کے لیے شفا ہے۔ ٣۔ قرآن کریم باعث ہدایت ہے۔ ٤۔ قرآن مجید باعث رحمت ہے۔ ٥۔ اللہ کا فضل و رحمت دنیا کے مال و منال سے بہتر ہے۔ تفسیر بالقرآن قرآن مجید کے فضائل کی جھلکیاں : ١۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں جو کچھ نازل کیا ہے وہ مومنوں کے لیے شفاء اور رحمت ہے۔ (بنی اسرائیل : ٨٢) ٢۔ قرآن مجید کو اللہ نے ہی نازل فرمایا ہے اور وہی اس کا محافظ ہے۔ (الحجر : ٩) ٣۔ جن و انس مل کر بھی اس قرآن کی مثل کوئی چیز نہیں لا سکتے۔ (بنی اسرائیل : ٨٨) ٤۔ یہ کتاب مبین ہے اس میں کسی قسم کا شک نہیں ہے۔ (البقرۃ: ٢) ٥۔ قرآن مجید میں کوئی کجی نہیں ہے۔ (الکہف : ١) ٦۔ قرآن مجید لوگوں کے لیے باعث نصیحت اور مومنوں کے لیے باعث ہدایت اور رحمت ہے۔ (یونس : ٥٧) یونس
59 فہم القرآن ربط کلام : قرآن مجید دنیا کی دولت سے بے بہا گنا بہتر ہے۔ لیکن دنیا دار لوگ اس کے مقابلہ میں دنیا کے مال کو ترجیح دیتے ہیں۔ وہ دنیا کی ہوس میں اس قدر آگے بڑھ چکے ہیں کہ اللہ کے حلال کو حرام اور اس کی حرام کردہ چیزوں کو حلال قرار دیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے حلال کو حرام اور اس کی حرام کردہ چیزوں کو حلال کرلینے والوں سے پوچھیں کہ انہوں نے کبھی غور کیا کہ انہیں کس نے یہ اختیار دیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے مقرر کیے ہوئے حرام و حلال کو تبدیل کریں۔ کیا اللہ تعالیٰ نے انہیں اس کی اجازت دی ہے؟ یا اللہ تعالیٰ پر جھوٹ بول رہے ہیں۔ کیا انہوں نے اس کی سزا پر کبھی غور کیا ہے کہ قیامت کے دن ان پر کیا گزرے گی۔ منکرین اسلام سے جب یہ بات پوچھی جائے تو وہ اپنی حرام خوری، بے حیائی اور کفرو شرک کو اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کرتے ہیں جس بناء پر انہیں بین السطور وارننگ دی گئی ہے کہ دنیا میں تم حرام و حلال کی تمیز کیے بغیر مزے اڑا رہے ہو۔ لیکن قیامت کے دن تمہیں اس کی سزا بھگتنا ہوگی۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر بے حدو حساب فضل و کرم کرتا ہے لیکن اس کے باوجود لوگ شکر گزار نہیں ہوتے۔ حلال و حرام کا مسئلہ بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل کا شاید اس لیے ذکر فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کچھ چیزیں حرام قرار دی ہیں اس میں بھی اس کا فضل کار فرما ہے۔ حرام و حلال کی فہرست پر انسان غور کرے تو وہ بے ساختہ پکار اٹھے گا کہ واقعی جن چیزوں کو حرام قرار دیا گیا وہ نہ صرف جسمانی اعتبار سے نقصان دہ ہیں بلکہ روحانی حوالے سے بھی انتہا درجے کی مضر ہیں۔ درندوں کا گوشت اسی لیے کھانے سے منع کیا گیا کہ ان میں شفقت اور مہربانی کا جذبہ کم ہوتا ہے اگر ان کا گوشت کھانے کی اجازت ہوتی تو انسانوں میں درندگی کے آثار بڑھ جاتے۔ خنزیر کا گوشت اس لیے حرام قراردیا یہ پرلے درجے کا بے غیرت جانور ہے۔ جانوروں میں کوئی ایسا جانور نہیں، جو اپنی جنم دینے والی مادہ کے ساتھ جفتی کرنے کے لیے تیار ہو۔ لیکن خنزیر اپنے جنم دینے والی مادہ کے ساتھ بھی جفتی کرلیتا ہے۔ جہاں تک غیر اللہ کے نام دی ہوئی چیز کھانے کا معاملہ ہے اس کا تعلق روحانی اور ایمانی غیرت کے ساتھ ہے جس کے کھانے کی توقع توحید کی غیرت رکھنے والے شخص سے نہیں کی جاتی۔ یہاں اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے فضل کا لفظ استعمال کیا ہے۔ اس فرمان کی دوسری وجہ یہ سمجھ آتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل کا ذکر فرما کر اشارہ دیا ہے کہ اگر دنیا میں حلال و حرام کے بارے میں اللہ کی حدود توڑنے والوں کو اللہ تعالیٰ نہیں پکڑتا جو اللہ کا عظیم فضل ہے۔ اس میں اس کی حکمت یہ ہے کہ شاید لوگ توبہ کرلیں تیسری وجہ بالکل واضح ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کے لیے بے شمار چیزیں حلال فرمائی ہیں مگر ان کے مقابلے میں حرام چیزوں کی فہرست بالکل مختصر رکھی ہے۔ ہر چیز کا مالک اور عطا کرنے والا صرف اللہ ہے۔ مگر مشرک اسے کسی اور کی عطا سمجھتا ہے اور اسے اللہ تعالیٰ کے حکم کے بر خلاف کسی مزار یا بت وغیرہ کے نام پر دیتا ہے۔ ایسی چیز کو توحید کی غیرت رکھنے والا شخص کس طرح کھا یا استعمال کرسکتا ہے۔ اسی غیرت کے پیش نظر غیر اللہ کے نام پر وقف کی ہوئی چیز کو کھانے سے منع کیا گیا ہے۔ مسائل ١۔ کچھ لوگ اپنی مرضی سے حلال و حرام بنا لیتے ہیں۔ جو اللہ پر جھوٹ باندھنے کے مترادف ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ پر افترا باندھنے والے قیامت کے دن عذاب سے نہیں بچ سکیں گے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ لوگوں پر اپنا فضل کرم نازل فرماتا ہے۔ ٤۔ اکثر لوگ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا نہیں کرتے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھنے والوں کا انجام : ١۔ ان لوگوں کا قیامت کے بارے میں کیا حال ہوگیا جو اللہ پر جھوٹ باندھتے ہیں۔ (یونس : ٦٠) ٢۔ بے شک وہ لوگ جو اللہ پر افترا بازی کرتے ہیں فلاح نہیں پائیں گے۔ (النحل : ١١٦) ٣۔ اس شخص سے بڑا ظالم کوئی نہیں جو اللہ پر جھوٹ باندھتا ہے۔ (ہود : ١٨) ٤۔ اس سے بڑا ظالم کوئی نہیں جو اللہ پر جھوٹ باندھتا ہے۔ (العنکبوت : ٦٨) یونس
60 یونس
61 فہم القرآن ربط کلام : منکرین اور مشرکین کی اللہ تعالیٰ کے بارے میں ہرزہ سرائی اور عقیدہ توحید کی وجہ سے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایذا دینے پر آپ کو تسلی دیتے ہوئے منکرین حق کو انتباہ کیا گیا ہے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ڈھارس بندھانے منکرین اور مشرکین کو انتباہ کرنے کے ساتھ آپ کی محنت اور مشن کو خراج تحسین سے نوازا جارہا ہے۔ کہ اے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ کا رات کو اٹھ اٹھ کر قرآن پڑھنا۔ دن کو اس کی تبلیغ کرنا اور اس کے رد عمل میں آپ کا غم زدہ ہونا ہماری نگاہوں سے اوجھل نہیں ہے۔ آپ کے شب وروز کا ایک ایک لمحہ ہمارے سامنے ہے۔ سورۃ الشعراء میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بڑے دلر با انداز میں اطمینان دلایا گیا ہے (الَّذِی یَرَاک حینَ تَقُومُ وَتَقَلُّبَکَ فِی السَّاجِدِینَ۔ إِنَّہُ ہُوَ السَّمِیعُ الْعَلِیمُ ) [ الشعراء : ٢١٨ تا ٢٢٠] ” آپ ہر حال میں ہمارے سامنے ہوتے ہیں۔ یہاں تک کہ جب آپ رات کی تاریکیوں میں اپنے رب کے حضور قیام کرتے اور سر بسجود ہوتے ہیں تو اس وقت بھی آپ کا رب آپ کو دیکھ رہا ہوتا ہے۔“ جب آپ اس کی جناب میں آہ زاریاں کرتے ہیں تو وہ سن رہا ہوتا ہے۔ اے نبی آپ کا رب آپ کو ہی نہیں بلکہ آپ کے دشمنوں کو بھی دیکھ رہا ہے کہ وہ اس کی توحید کی دشمنی میں آکر آپ اور آپ کے ساتھیوں کے ساتھ کیا سلوک کررہے ہیں۔ اس کے ساتھ لوگوں کو مخاطب کیا کہ اے لوگو! تم جیسے بھی عمل کرتے ہو یاد رکھو! ہم سے تمہارا کوئی عمل اور حرکت و سکوت پوشیدہ نہیں ہے۔ اس کے بعد پھر واحد مخاطب کی ضمیر لا کر رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کوتسلی دی گئی کہ آپ کے رب سے زمین و آسمانوں کا کوئی ایک ذرہ بھی پوشیدہ نہیں بے شک کوئی چیزذرہ سے چھوٹی ہویا بڑی اللہ تعالیٰ کے احاطہ نظر سے باہر نہیں ہے اس نے ہر چیز کی ابتدا، اور انتہا واضح طور پر لوح محفوظ میں عیاں کر رکھی ہے۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ ہر کسی کی حالت پر گواہ ہوتا ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ سے زمین و آسمان کی کوئی چیز مخفی نہیں ہے۔ ٣۔ ہر چھوٹی بڑی چیز کتاب مبین میں درج ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ ہر چیز کو جانتا اور اس پر نگران ہے : ١۔ تم جو بھی عمل کرتے ہو وہ اللہ کے علم میں ہوتا ہے۔ (یونس : ٦١) ٢۔ اللہ تعالیٰ تمام مخلوقات کو جاننے والا ہے۔ (یٰس : ٧٩) ٣۔ جو لوگ جہالت کی وجہ سے برائی کرتے ہیں، پھر جلدی سے توبہ کرلیتے ہیں اللہ ان کی توبہ قبول کرتا ہے اور اللہ ہر چیز کو جاننے اور حکمت والا ہے۔ (النساء : ١٧) ٤۔ اللہ سے اس کے فضل کا سوال کرو یقیناً اللہ ہر چیز کو جاننے والا ہے۔ (النساء : ٣٢) ٥۔ جو کچھ تم اللہ کے دیے ہوئے میں سے خرچ کرتے ہو اللہ اس کو جاننے والا ہے۔ (النساء : ٣٩) ٦۔ قیامت کا، بارش کے نازل ہونے کا، اور جو کچھ رحموں میں ہے اور انسان کل کیا کمائے گا اور اسے کہاں موت آئے گی اللہ تعالیٰ کے علم میں ہے۔ (لقمان : ٣٤) ٧۔ فرشتوں نے کہا تو پاک ہے ہمیں تو اتنا ہی علم ہے جتنا تو نے ہمیں سکھلایا ہے اور تو جاننے والا، حکمت والا ہے۔ (البقرۃ: ٣٢) ٨۔ اللہ جانتا ہے جو تم ظاہر کرتے ہو اور چھپاتے ہو وہ تو سینے کے رازوں کو بھی جاننے والا ہے۔ (ہود : ٥) یونس
62 فہم القرآن ربط کلام : نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلّی دینے اور آپ کے کام کو خراج تحسین سے نوازنے کے بعد توحید سے محبت کرنے والوں، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے جانثاروں اور حق پر قربان ہونے والوں کو اللہ تعالیٰ نے اپنا دوست قرار دیتے ہوئے انہیں تسلی دینے کے ساتھ تابناک مستقبل کی خوشخبری دی ہے۔ ولی کی جمع اولیاء ہے جس کا معنیٰ ہے دوست۔ اولیاء اللہ یعنی اللہ کے دوست جن کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ اللہ ایمانداروں کا دوست ہے۔ ان کو کفر و شرک اور بدعت و رسومات سے نکال کر نور کی طرف لاتا ہے اور کفار کے دوست شیطان ہیں وہ انھیں کو نور سے نکال کر کفرو شرک اور بدعت و رسومات کے اندھیروں میں لے جاتے ہیں یہ لوگ جہنم کی آگ میں جھونکے جائیں گے۔ اور اس میں ہمیشہ رہیں گے۔ (البقرۃ: ٢٥٧) قرآن مجید کے ارشاد سے بالکل واضح ہے کہ اولیاء اللہ کوئی الگ گروہ یا جماعت نہیں ہے بلکہ ان سے مراد وہ لوگ ہیں جو ایمان کے تقاضے پورے کرنے والے ہیں۔ جو صاحب ایمان جس قدر اخلاص اور خدا خوفی کے ساتھ ایمان کے تقاضے پورے کرے گا وہ اسی درجے کا اللہ تعالیٰ کا دوست قرار پائے گا۔ لیکن مفاد پرست گروہ ان لوگوں کو اولیاء اللہ شمار کرتا ہے۔ جن سے کوئی کرامت سرزد ہویا وہ ایک مخصوص لباس اور انداز میں رہتے ہوئے عام مسلمانوں سے میل جول سے پرہیز کریں۔ اگر کوئی شخص تارک الدنیا ہو کر گوشہ نشین ہوجائے تو ایسے لوگوں کی نظروں میں وہ ولی کامل سے کم درجہ نہیں رکھتا۔ ہندو ازم سے متاثر ہو کر جاہل مسلمان ان لوگوں کو بھی ولی سمجھتے ہیں جو نہ صرف شریعت سے کو سوں دور ہیں بلکہ انسانیت کے مقام سے بھی گر چکے ہیں۔ یہ اس لیے ہوا کہ جہلاء نے اس معیار کو معیار نہ سمجھا جو اللہ تعالیٰ نے اپنے دوستوں کے لیے مقرر فرمایا ہے۔ وہ معیار ہے۔ (اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَکاَنُوْا یَتَّقُوْنَ)[ یونس : ٦٣] ” جو ایمان لائے اور انہوں نے تقویٰ اختیار کیا۔“ مشہور مفسر امام ابن کثیر (رض) لکھتے ہیں : حضرت ابی بن کعب (رض) نے امیر المومنین حضرت عمر فاروق (رض) کے استفسار کے جواب میں تقویٰ کی تشریح یوں فرمائی کہ کوئی آدمی ایسی پگڈنڈی سے گزرے جس کے ارد گرد خار دار جھاڑیاں ہوں وہ ان سے اپنا دامن بچا کر گزر جائے گویا کہ دنیا کی آلائشوں اور نفسانی شہوات سے بچ کر صراط مستقیم پر چلنے کا نام تقویٰ ہے۔ لیکن افسوس آج بعض مسلمانوں نے ولایت کا معیار تقویٰ رکھنے کی بجائے جہالت اور جسمانی غلاظت قرار دے لیا۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ علماء میں بھی اسی عالم کو زیادہ نیک اور متقی سمجھا جاتا ہے جو صاف ستھرے لباس سے پرہیز اور حق گوئی کے تقاضے پورے کرنے سے احتراز کرتا ہو۔ حالانکہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس مسلمان کو زیادہ نیک قرار دیا ہے جو مشکلات میں عزیمت اختیار کرے اور لوگوں کے دکھ درد میں بھرپور طریقہ سے شرکت کرنے والا ہو۔ ایسے لوگوں کو اللہ تعالیٰ دنیا و آخرت کی خوشخبری دیتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے کہ انہیں عظیم کامیابی حاصل ہونے کے ساتھ آخرت میں کوئی خوف و خطر نہیں ہوگا۔ بعض لوگوں نے ولایت کی یہ نشانی بھی ذکر کی ہے کہ ولی کو دنیا میں کوئی خوف اور پریشانی لاحق نہیں ہوتی اگر اس سے مراد حقیقی پریشانی اور خوف لیا جائے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ کے دوست یعنی ولی اللہ کا دل ہر حال میں مطمئن رہتا ہے۔ بحیثیت انسان کسی چیز کے چھن جانے اور ناگہانی افتاد آنے پر خوف و غم لاحق ہونے کے باوجود اس کا دل اپنے رب کی رضا پر راضی اور مطمئن ہوتا ہے جو لوگ (وَلَا خَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَلاَھُمْ یَحْزَنُوْنَ) کا یہ مفہوم لیتے ہیں کہ ولی کامل کو قطعاً کسی قسم کا خوف و غم نہیں ہوتا یہ انسانی فطرت اور شریعت کے سراسر منافی ہے۔ رسول محترم سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کا کون دوست ہوسکتا ہے آپ اپنے اعزاء و اقربا کی موت پر زارو قطار روئے اور لوگوں کے مظالم کی وجہ سے بارہا دفعہ پریشان ہوئے۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ کے فرمان کا حقیقی اور صحیح مفہوم یہ ہے کہ موت کے بعد اللہ کے دوستوں کو کوئی خوف و خطر اور پریشانی لاحق نہیں ہوگی۔ یہ اللہ تعالیٰ کا اٹل فیصلہ ہے اور اس کے فیصلے میں کبھی تبدیلی نہیں ہوگی۔ یہی ایماندار اور صاحب تقویٰ کا اعزاز اور اولیاء اللہ کا مقام ہے۔ کہ وہ قیامت کے خوف و خطر سے مامون ہوں گے۔ اولیاء اللہ کا مقام اور ان کی خوبی : (عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اِنَّ اللّٰہَ تَعَالٰی قَالَ مَنْ عَادٰی لِیْ وَلِیًّا فَقَدْ اٰذَنْتُہٗ بالْحَرْبِ وَمَا تَقَرَّبَ اِلَیَّ عَبْدِیْ بِشَیْءٍ اَحَبَّ اِلَیَّ مِمَّا افْتَرَضْتُ عَلَیْہِ وَمَا یَزَالُ عَبْدِیْ یَتَقَرَّبُ اِلَیَّ باالنَّوَافِلِ حَتّٰی اَحْبَبْتُہُ فَاِذَا اَحْبَبْتُہُ فَکُنْتُ سَمْعَہٗ الَّذِیْ یَسْمَعُ بِہٖ وَبَصَرَہُ الَّذِیْ یَبْصُرُبِہٖ وَیَدَہُ الَّتِیْ یَبْطِشُ بِھَاوَ رِجْلَہُ الَّتِیْ یَمْشِیْ بِھَا وَاِنْ سَاَلَنِیْ لَاُعْطِیَنَّہٗ وَلَءِنِ اسْتَعَاذَنِیْ لَاُعِیْذَنَّہٗ وَمَا تَرَدَّدْتُ عَنْ شَیْءٍ اَنَا فَاعِلُہٗ تَرَدُّدِیْ عَنْ نَّفْسِ الْمُؤْ مِنِ یَکْرَہُ الْمَوْتَ وَاَنَا اَکْرَہُ مَسَاءَ تَہُ وَلَابُدَّلَہُ مِنْہُ)[ رواہ البخاری : کتاب الرقائق، باب التواضع] ” حضرت ابوہریرہ (رض) رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے حدیث قدسی بیان کرتے ہیں کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے‘ جس شخص نے میرے دوست کے ساتھ عداوت رکھی اس کا خلاف میرا اعلان جنگ ہے اور میرے کسی بندے کو میرا قرب اور کسی چیز کے ذریعے حاصل نہیں ہوتا جو قرب فرائض کی ادائیگی سے حاصل ہوتا ہے۔ بندہ جوں جوں نفل پڑھتا ہے توں توں اسے میرا قرب حاصل ہوتا ہے۔ حتیٰ کہ میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں۔ جب وہ میرا محبوب بن جاتا ہے تو میں اس کے کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے‘ اس کی آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے‘ اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے اور اس کا پاؤں بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے۔ اگر وہ مجھ سے کسی چیز کا طالب ہوتا ہے تو اس کو عطا کرتا ہوں۔ پناہ طلب کرتا ہے تو اس کو میں پناہ دیتا ہوں اور مجھے کسی کام کے کرنے میں اتنا تامل نہیں ہوتا جتنا ایک مومن کی جان قبض کرنے میں ہوتا ہے کیونکہ وہ موت سے کراہت کرتا ہے اور میں اس کو پہنچنے والی تکلیف کو برا سمجھتا ہوں۔ لیکن موت سے ہرگز چھٹکارا نہیں ہے۔“ ( أَلَآ إِنَّ أَوْلِیَآء اللّٰہِ لَا خَوْفٌ عَلَیْہِمْ وَلَا ہُمْ یَحْزَنُوْنَ)[ یونس : ٦٢] ” آگاہ رہو اولیاء اللہ پر کسی قسم کا خوف اور غم نہ ہوگا۔“ مسائل ١۔ اولیاء اللہ قیامت کے دن غمزدہ نہیں ہوں گے۔ ٢۔ اولیاء اللہ صاحب ایمان ہوتے ہیں۔ ٣۔ اولیاء اللہ پر ہیز گاری اختیار کرتے ہیں۔ ٤۔ اللہ کے ولی کے لیے دنیا و آخرت میں خوشخبری ہے۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ کے فرمان تبدیل نہیں ہوا کرتے۔ ٦۔ اللہ کا تابع دار ہونے میں بڑی کامیابی ہے۔ تفسیر بالقرآن اولیاء اللہ کا مقام : ١۔ اولیاء اللہ پر نہ خوف ہوگا اور نہ وہ غمزدہ ہوں گے۔ (یونس : ٢ ٦) ٢۔ اولیاء اللہ کے لیے دنیا و آخرت میں خوشخبری ہے۔ (یونس : ٦٤) ٣۔ اللہ مومنوں کا دوست ہے۔ وہ انہیں تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لاتا ہے۔ (البقرۃ : ٢٥٧) ٤۔ اللہ اپنے دوستوں کی مہمان نوازی فرمائے گا۔ ( حٰم السجدۃ: ٣٢) یونس
63 یونس
64 یونس
65 فہم القرآن ربط کلام : اولیاء اللہ کو آخرت کے خوف و خطر، غم اور پریشانی سے محفوظ رہنے کی خوشخبری دینے کے بعد بالخصوص رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دی گئی ہے کہ آپ کو دشمنوں اور ان کی ہرزہ سرائی سے غم زدہ اور دل برداشتہ نہیں ہونا چاہیے۔ کیونکہ آپ سب سے زیادہ اللہ کے قریب اور اس کے محبوب ہیں۔ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لوگوں کی اصلاح اور فلاح کے لیے دن رات جدوجہد کررہے تھے۔ چاہیے تو یہ تھا کہ آپ کا اخلاص اور کردار دیکھ کر منکرین حق اسلام کی سچائی اور نبی کی نبوت پر ایمان لاتے۔ لیکن انہوں نے صحیح اور فطری راستے کو چھوڑ کرنہ صرف کفرو شرک اور نبی کی بغاوت کا راستہ اختیار کیا بلکہ انہوں نے آپ کو پریشان اور ناکام کرنے کے لیے گھٹیا سے گھٹیا ترین سلوک کرنا اپنے لیے باعث فخر سمجھا۔ آپ کی مقدس ذات پر بد ترین الزامات لگائے۔ دانشوروں کے رہبر اور پیشوا ہونے کے باوجود آپ کو پاگل کہا گیا، کائنات کے سب سے بڑے خیر خواہ کو مجنون اور لوگوں کا دشمن قرار دیا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے گھر والوں کو ہراساں کیا گیا اور آپ کے ساتھیوں پر بے انتہا مظالم ڈھائے گئے۔ جن پر آپ کا پریشان ہونا طبعی اور فطری بات تھی مگر اس کے باوجود آپ کو حوصلہ دیتے ہوئے فرمایا گیا ہے کہ اے رحمت عالم آپ کو غمگین اور آزردہ نہیں ہونا چاہیے۔ کیونکہ عزت و اقبال کا مالک صرف اللہ تعالیٰ ہے۔ اسی کے اختیار میں عزت و سر بلندی اور کائنات کے اسباب و وسائل ہیں وہ ہر بات سننے والا اور ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے۔ اس فرمان میں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حوصلہ دینے کے ساتھ خوشخبری سنائی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کے دشمنوں کو ناکام کرے گا۔ آپ کو دنیا اور آخرت میں ایسی عزت و شرف سے سرفراز فرمائے گا۔ جس کا کوئی شخص تصور بھی نہیں کرسکتا۔ چنانچہ دنیا جانتی ہے کہ جو احترام و مقام اور عزت و سرفرازی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نصیب ہوئی وہ قیامت تک کسی کے مقدر کا حصہ نہیں بن سکتی اور قیامت کے دن آپ کو وہ مرتبہ اور شان دی جائے گی۔ جو آدم (علیہ السلام) کی اولاد میں سے کسی کے حصہ میں نہیں آئے گی۔ سورۃ المنافقون میں فرمایا کہ عزت ” اللہ“ اور رسول اور مومنوں کے لیے لیکن منافق نہیں سمجھتے۔ حیات مبارکہ میں سب سے بڑی پریشانی : غز وہ احد کے موقعہ پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دانت مبارک شہید ہوئے۔ پیشانی پر گہرا زخم آیا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بے ہوش کر گر پڑے۔ حضرت عائشہ (رض) نے نہایت غم کا اظہار کرتے ہوئے عرض کی کہ کیا اس سے بڑھ کر آپ کو کبھی کوئی تکلیف پہنچی ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا مجھے سب سے زیادہ تکلیف طائف میں پہنچی تھی۔ اس موقعہ پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ دعا کی : (اَللَّہُمَّ إلَیْکَ أشْکُوْ ضَعْفِ قُوَّتِیْ، وَقِلَّۃِ حِیْلَتِیْ، وَہَوَإنِیْ عَلَیْ النَّاسِ، یَا أرْحَمَ الرَّاحِمِیْنَ، أنْتَ رَبِّ المُسْتَضْعَفِیْنَ، وَأنْتَ رَبِّیْ، إلیٰ مَنْ تَکِلُنِیْ ؟ إلیٰ بَعِیْد یَتَجَہَّمُنِیْ ؟ أمْ إلیٰ عَدُوِّ مَلَکْتَہٗ أمْرِیْ ؟ إنْ لَّمْ یَکُنْ بِکَ عَلیَّ غَضَب فَلَا أُبَالِیْ، وَلٰکِنْ عَافِیَتُکَ ہِیَ أوْسَعُ لِیْ، أعُوْذُ بِنُوْرِ وَجْہِکَ الَّذِیْ أشْرَقْتَ لَہٗ الظُّلُمَاتِ، وَصَلِّحْ عَلَیْہِ أَمْرَ الدُّنْیَا وَالآخِرَۃُ مَنْ أنْ تُنَزِّلَ بِیْ غَضْبُکَ، أوْ یَحِلُّ عَلَیَّ سَخَطُکَ، لَکَ العُتْبَی حَتّٰی تَرْضٰی، وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ إلَّا بکَ) [ الرحیق المختوم] ” اے اللہ میں شکایت کرتا ہوں اپنی کمزوری کا اور وسائل کی کمی کا اور لوگوں کے مقابلے میں کمزور ہونے کا، اے رحم کرنے والے، آپ کمزوروں کے رب ہیں اور آپ میرے رب ہیں تو مجھے کس کے سپرد کرتا ہے دوری کی طرف جو مجھے غصہ میں مبتلا کر دے یا دشمن کی طرف جس کو تو نے میرے معاملے کا مالک بنایا اگر تو مجھ پر ناراض نہیں تو مجھے کوئی پروا نہیں لیکن تیری عافیت مجھے درکار ہے میں پناہ چاہتا ہوں تیرے چہرے کے نور سے جس کے ساتھ تو نے اندھیروں کو جلا بخشی اور اسی کے ساتھ دنیا اور آخرت کا معاملہ درست ہوا۔ اس چیز سے کہ مجھ پر تیرا غضب نازل ہو۔ یا تیری ناراضگی مجھ پر حلال ہو۔ تیرے ہی لیے دونوں جانب ہیں یہاں تک کہ تو راضی ہوجائے تیری توفیق کے بغیر نیکی کی طاقت اور گناہوں سے بچا نہیں جا سکتا۔“ مسائل ١۔ کفار کی باتوں سے غم زدہ ہونے کی ضرورت نہیں۔ ٢۔ عزت وسطوت اللہ کے لیے ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ ہر چیز کو جاننے اور ہر بات کو سننے والا ہے۔ تفسیر بالقرآن عزت اور ذلت اللہ کے اختیار میں ہے : ١۔ ہر قسم کی عزت اللہ کے لیے ہے وہ سننے اور جاننے والا ہے۔ (یونس : ٦٥) ٢۔ اللہ جسے چاہتا ہے عزت دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے ذلت دیتا ہے۔ (آل عمران : ٢٦) ٣۔ عزت اللہ ہی کے پاس ہے۔ (فاطر : ١٠) ٤۔ کیا اللہ کے ماسوا عزت تلاش کرتے ہوحالانکہ ہر قسم کی عزت اللہ ہی کے پاس ہے۔ (النساء : ١٣٩) یونس
66 فہم القرآن ربط کلام : نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مخالفوں کو خبر دار کرتے ہوئے ان کے عقیدہ کی قلعی کھولی جارہی ہے۔ نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دشمنوں اور دین کے منکروں کو خبر دار کیا جارہا ہے کہ ہوش کے ناخن لو اور یہ غلط فہمی دماغ سے نکال دو کہ تم اللہ تعالیٰ کی گرفت اور دسترس سے باہر ہو۔ ایسا ہرگز نہیں۔ کیونکہ زمین و آسمانوں میں کوئی چیز نہیں جو اللہ تعالیٰ کی ملک نہ ہو اور اس کے اختیار سے باہر ہو۔ کان کھول کر سن لو کہ یہ سب کچھ اسی کا ہے اگر تمہیں قابو نہیں کیا جارہا تو اس میں اس کا یہ اصول کار فرما ہے کہ وہ ہر شخص کو ایک حد تک مہلت دیتا ہے۔ رہی یہ بات کہ جو لوگ اللہ تعالیٰ کے سوا دوسروں کو پکارتے اور انہیں اللہ تعالیٰ کا شریک کار سمجھتے ہیں۔ ان کا یہ عقیدہ کسی آسمانی کتاب اور عقل سلیم کی بنیاد پر نہیں بلکہ صرف من گھڑت اور محض گمان کی بنیاد پر ہے۔ عربی زبان میں ظن کا یہ معنی بھی ہے کہ ایسی سوچ اور بات جس کی کوئی ٹھوس بنیاد نہ ہو۔ شرک کی ٹھوس بنیاد نہیں ہوتی جس بنا پر ہر دور کا مشرک اپنے ہاتھوں سے تراشے ہوئے بتوں، مورتیوں کو خدا کے ہاں سفارشی اور خدا کی خدائی میں شریک سمجھتا ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ آسمانی کتابوں پر ایمان لانے اور انبیاء کو تسلیم کرنے والے اور سرور دو عالم کا کلمہ پڑھنے والے حضرات مدفون بزرگوں کو اللہ کی حاکمیت میں شریک اور انہیں اللہ کے حضور اپنا سفارشی بناتے ہیں، اس خود ساختہ عقیدہ کو یہ کہہ کر سچ ثابت کرنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں کہ من دون اللہ سے مراد پتھر کے بت اور مٹی سے بنائی ہوئی مورتیاں ہیں، حالانکہ من یونس
67 دون اللہ سے مراد اللہ تعالیٰ کے سوا ہر چیز ہے۔ خواہ فرشتے، بت، مورتیاں اور مدفون بزرگ ہی کیوں نہ ہوں۔ کیونکہ مشرکین مکہ میں کچھ لوگ ملائکہ کو، عیسائی حضرت عیسیٰ اور مریم (علیہ السلام) کو، یہودی حضرت عزیر کو اللہ کے ہاں سفارشی بناتے تھے اور آج بھی ان کا یہی عقیدہ اور عمل ہے۔ حالانکہ اللہ وہ ذات ہے جس نے لوگوں کے لیے رات کو سکون اور نیند کا باعث بنایا اور دن کو روشن فرمایا تاکہ لوگ اپنی معاشی اور دیگر ضروریات کو پورا کرسکیں ان لوگوں کے لیے اس بات میں بڑے دلائل ہیں اگر وہ صحیح معنوں میں سننے کا حق ادا کریں۔ سننے کا حق یہ ہے کہ آدمی دل کی گہرائی اور کانوں کو کھول کر حق سنے اور اس پر غور کرے۔ (ق : ٣٧) یہاں رات کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ اسے سکون اور آرام کا ذریعہ بنایا ہے۔ غور فرمائیں کہ آدمی کتنا ہی تھکا ماندہ اور غم زدہ ہو صبح بیدا رہوتا ہے تو اس کا غم ہلکا اور نہ صرف تھکاوٹ دور ہوچکی ہوتی ہے بلکہ وہ اپنے آپ کو تازہ دم محسوس کرتا ہے۔ اس کے جسم کی صرف ہونے والی توانائی نیند کے بعد بحال ہوجاتی ہے اگر انسان کو کسی وجہ سے رات نیند نہ آئے تو جسم ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجاتا ہے۔ جہاں تک روز روشن کا مسئلہ ہے اگر دن کی روشنی ختم ہوجائے تو دنیا کا نظام چند دنوں کا مہمان ٹھہرے۔ کیونکہ گھٹا ٹوپ اندھیرے میں نہ صرف کاروبار نہیں ہوسکتا بلکہ انسان کی بینائی بھی کام نہیں دیتی اور بالآخر ختم ہوجاتی ہے۔ اگر رات اور دن اندھیرے میں ڈوب جائیں تو گھبراہٹ سے انسان کا کلیجہ پھٹ جائے۔ کاش مشرک اس بات پر غور کرتے اور اپنے رب کی ذات اور قدرت کا اعتراف کرکے بلا شرکت غیرے اس پر ایمان لاکراس کی بندگی میں سکون پاتے۔ رات، دن کی مثال دے کر شرک کی تاریکیوں اور توحید کی روشنی کی طرف اشارہ کیا گیا کہ شرک اور توحید میں رات اور دن کی مانند فرق ہے۔ لیکن یہ فرق وہی لوگ سمجھ سکتے ہیں جو حقیقت سننے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ من دون اللہ کی وضاحت قرآن مجیدکی روشنی میں : ” فرمائیے اے لوگو! اگر تمہیں کچھ شک ہو۔ میرے دین کے بارے میں۔ تو سن لو میں عبادت نہیں کرتا ان بتوں کی جن کی تم پوجا کرتے ہو اللہ تعالیٰ کے سوا۔ لیکن میں تو عبادت کرتاہوں اللہ تعالیٰ کی جو مارتا ہے تمہیں۔ اور مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں ہوجاؤں اہل ایمان سے۔“ [ یونس : ١٠٤] ” آپ فرمائیے مجھے منع کیا گیا ہے کہ میں پوجوں انہیں جن کی تم عبادت کرتے ہو اللہ کے سوا۔ آپ فرمائیے میں نہیں پیروی کرتا تمہاری خواہشوں کی ایسا کروں تو گمراہ ہوگیا میں۔ اور نہ رہا میں ہدایت پانے والوں سے۔“ [ الانعام : ٥٦] من دون اللہ سے مرادبت : ” آپ فرمائیے کیا ہم پوجیں اللہ تعالیٰ کے سوا اس کو جو نہ نفع پہنچا سکتا ہے ہمیں اور نہ ہمیں نقصان پہنچا سکتا ہے اور کیا ہم پھر جائیں الٹے پاؤں اس کے بعد کہ ہدایت دی ہمیں اللہ نے؟“ [ الانعام : ٧١] من دون اللہ سے مراد فوت شدگان بزرگ : ” اللہ کے سوا وہ نہیں پیدا کرسکتے کوئی چیز۔ بلکہ وہ خود پید اکیے گئے ہیں۔ وہ مردہ ہیں، وہ زندہ نہیں اور وہ نہیں سمجھتے کہ کب انہیں اٹھایا جائے گا۔“ [ النحل : ٢٠۔ ٢١] یہ الفاظ بتا رہے ہیں کہ ان سے مراد انبیاء، شہداء، صالحین اور فوت شدہ شخصیات ہیں۔ جن کو ان کے عقیدت مندحاجت روا اور مشکل کشاسمجھتے ہیں۔ یادر ہے قیامت کے دن پتھر اور لکڑی وغیرہ کے بتوں کو نہیں اٹھایا جائے گا اور نہ کوئی ان کے زندہ ہونے کا قائل ہے۔ (قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ (رض) اِنَّ ہَؤُلَآءِ کَانُوْا قَوْمًا صَالِحِیْنَ فِیْ قَوْمِ نُوْحٍ فَلَمَّا مَاتُوْا عَکَفُوْا عَلٰی قُبُوْرِہِمْ ثُمَّ صَوَّرُوْا تَمَاثِیْلَہُمْ فَعَبَدُوْہُمْ ثُمَّ صَارَتْ ہٰذِہ الَاوْثَانِ فِیْ قَبَاءِلِ العَرَبِ) [ مستفاض من کتب التفاسیر والبخاری] ” حضرت عبداللہ بن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ یہ سب ( وَدّ، سُواع وغیرہ) ” قوم نوح“ کے اولیاء اللہ تھے۔ جب وہ مر گئے تو لوگ ان کی قبروں سے وابستہ ہوگئے اور پھر ان کی عبادت کرنے لگے۔ پھر انھیں کے مجسمے بتوں کی صورت میں عرب کے قبائل میں پھیل گئے۔“ من دون اللہ سے مراد علماء اور اولیاء : ” انہوں نے بنا لیا اپنے پادریوں اور راہبوں کو (اپنے پروردگار) اللہ کو چھوڑ کر اور مسیح مریم کے فرزند کو بھی۔“ [ التوبۃ: ٣١] حضرت سید پیر نصیر الدین آف گولڑہ کے الفاظ میں من دون اللہ کی وضاحت : بعض درگاہی ملاؤں اور خانقاہی زلہ خوروں کا کہنا ہے کہ ہم اپنے مشائخ اور علماء کو معبود تو نہیں سمجھتے، ہم ان کی عبادت تو نہیں کرتے، پھر ہمیں کیوں مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے۔ آئیے ہم یہ کیس (Case) دربار رسالت میں پیش کرتے ہیں، تاکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کا فیصلہ فرما دیں کہ کیا علماء و مشائخ پر بھی أَرْبَابًا مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ کے الفاظ کا اطلاق کیا جاسکتا ہے یا نہیں؟ اس سلسلے میں ایک روایت معتبرہ ملاحظہ ہو۔ ” حضرت عدی بن حاتم (رض) سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا جبکہ میری گردن میں ایک سونے کی صلیب پڑی ہوئی تھی۔ آپ نے ارشاد فرمایا اے عدی! اس بت کو اپنے سے اتار پھینکو اور میں نے یہ سنا کہ آپ سورۃ براۃ کی یہ آیت تلاوت فرمارہے تھے کہ ” جن لوگوں نے اپنے علماء و مشائخ کو اللہ کے سوا رب بنا لیا۔“ پس میں نے عرض کی اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! وہ لوگ (یہودونصاریٰ) اپنے بزرگوں کی عبادت تو نہیں کرتے تھے۔ آپ نے فرمایا کیا وہ لوگ اللہ کی حلال کردہ چیزوں کو حرام نہیں کرتے تھے اور یہ معتقد انہیں حرام تسلیم کرلیتے تھے اور کیا وہ لوگ اللہ کی حرام کردہ چیزوں کو حلال نہیں کرتے تھے اور یہ انہیں حلال مان لیتے تھے۔ میں نے عرض کی یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ایساتو ہے پس آپ نے فرمایا یہی عبادت ہے۔“ جن حضرات کا نقطۂ نظر یہ ہے کہ جن آیات میں اصنام کو خطاب کیا گیا، ان آیات کو انبیاء واولیاء پر منطبق کرنا نہ صرف جہالت ہے، بلکہ تحریف قرآنی ہے۔ وہ ہماری تحقیق بھی ذہن نشین کرلیں کہ غیر اللہ، من دون اللہ، شریک اور انداد کے الفاظ قرآن میں جہاں بھی آئے ہیں، ان سے مراد ہر وہ چیز ہے جو اللہ تعالیٰ کے سوا ہو اور جو وصول الی اللہ میں رکاوٹ بنتی ہو۔ اگر اصنام رکاوٹ بن رہے ہوں تو ان الفاظ سے مراد اصنام ہوں گے اور اگر انسان بن رہے ہوں تو انسان مراد ہوں گے۔ اگر کوئی عالم یا شیخ اللہ کے راستے میں رکاوٹ بن رہا ہے تو وہ یصدون عن سبیل اللہ کے زمرے میں آئے گا۔ پس ایسا شخص غیر اللہ، من دون اللہ، شریک اور انداد کے الفاظ کا مصداق ٹھہرے گا۔ معلوم ہوا کہ جو چیز اللہ کے راستے میں رکاوٹ بنے وہ غیر اللہ ہے۔ چاہے وہ اصنام ہوں یا کوئی انسان۔[ اعانت واستعانت کی شرعی حقیقت ازقلم حضرت پیر سید نصیر الدین نصیرصاحب آف گولڑہ] مسائل ١۔ زمین و آسمان میں جو کچھ ہے اللہ ہی کا ہے۔ ٢۔ بد عقیدہ لوگ محض اپنے خیالات کی پیروی کرتے ہیں۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ نے سکون حاصل کرنے کے لیے رات کو بنایا ہے۔ ٤۔ علم رکھنے والوں کے لیے دن اور ات میں نشانیاں ہیں۔ تفسیر بالقرآن من دون اللہ کے دلائل : ١۔ میں ان کی عبادت نہیں کرتا جن کی تم اللہ کے سوا عبادت کرتے ہو۔ (یونس : ١٠٤) ٢۔ مجھے منع کیا گیا ہے کہ میں ان کی عبادت کروں جن کی تم اللہ کے سوا عبادت کرتے ہو۔ (الانعام : ٥٦) ٣۔ کیا میں اللہ کے سوا ان کو پکاروں جو نفع اور نقصان نہیں پہنچا سکتے۔ (الانعام : ٧١) ٤۔ جن کو لوگ اللہ کے سوا پکارتے ہیں انھوں نے کوئی چیز پیدا نہیں کی بلکہ وہ خود پیدا کیے گئے ہیں۔ (النحل : ٢٠) ٥۔ جن کو تم اللہ کے سوا پکارتے ہو وہ تمھارے جیسے بندے ہیں۔ (الاعراف : ١٩٤) ٦۔ انھوں نے اپنے پادریوں اور راہبوں اور مسیح ابن مریم کو اللہ کے سوا معبود بنا لیا۔ (التوبۃ: ٢١) انہوں نے کہا بنائی ہے اللہ نے اولاد وہ پاک ہے وہ تو بے پروا ہے اسی کے لیے ہے جو کچھ میں آسمانوں اور جو کچھ میں زمین نہیں ہے تمہارے پاس سے کوئی دلیل اس بات کی کیا تم کہتے ہو پر اللہ جس کا نہیں تم علم رکھتے؟ ” انھوں نے کہا اللہ نے اولاد بنا رکھی ہے۔ وہ پاک ہے، وہ بے پروا ہے، اسی کے لیے ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے، تمھارے پاس اس کی اولاد بنانے کی کوئی دلیل نہیں، کیا تم اللہ پر وہ کچھ کہتے ہو جو تم نہیں جانتے؟“ (٦٨) فہم القرآن ربط کلام : یہودیوں نے حضرت عزیر (علیہ السلام) اور عیسائیوں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ کا بیٹا قرار دے کر اس کے ہاں سفارشی بنا لیا ہے۔ حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کی حیات کا تذکرہ کرتے ہوئے ان کی نانی کے نذر ماننے سے لے کر ان کی والدہ حضرت مریم کی پیدائش حضرت مریم کا نذر کرنا، حضرت مریم کا جوان ہونا، بغیر خاوند کے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو جنم دینا، حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی پیدائش کے وقت قوم کا حضرت مریم پر تہمت لگانا، حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا گود میں اپنی والدہ کی صفائی پیش کرنا اور اپنی نبوت کا اعلان کرتے ہوئے کہنا کہ میں اللہ کا بندہ ہوں خدا نہیں ہوں، حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا بڑے ہو کر رسالت کا فریضہ سرانجام دینا، دشمنوں کا آپ کو تختہ دار پر لٹکانے کی کوشش کرنا، حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا مجبور ہو کر اپنے حواریوں کو مدد کے لیے بلانا، اللہ تعالیٰ کا انہیں صحیح سالم آسمانوں پر اٹھا لینا، قیامت کے قریب دنیا میں دوبارہ بھیجنا اور پھر انہیں موت دینا، ان میں سے ایک ایک بات ان کی عاجزی، بے بسی اور ان کے عاجز بندہ ہونے کی شہادت دیتی ہے۔ یہی یہودیوں کا حال ہے کہ وہ جانتے ہیں کہ حضرت عزیر (علیہ السلام) اللہ کے بندے اور اس کے رسول تھے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں سو سال تک مارے رکھا۔ جب انہیں سو سال کے بعد زندہ کیا اور پوچھا کہ آپ کتنی دیر ٹھہرے رہے۔ انہیں خبر نہ تھی کہ میں ایک سو سال مردہ پڑا رہا ہوں۔ حضرت عزیر (علیہ السلام) کہنے لگے کہ ایک دن یا اس کا کچھ حصہ ٹھہرا ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تم سو سال تک ٹھہرے رہے ہو۔ تفصیل کے لیے البقرۃ آیت (٢٥٩) کی تلاوت کریں۔ جو لوگ ملائکہ کو اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں قرار دیتے ہیں ان کا دامن بھی دلیل سے خالی ہے۔ اس کے باوجود عیسائی اپنی جہالت اور یہودی اپنی ضد ملائکہ کو خدا کی بیٹیاں قرار دینے اپنی بے علمی پر اڑے ہوئے ہیں، حالانکہ ان کے پاس کوئی عقلی اور نقلی دلیل نہیں ہے۔ اسی بنیاد پر فرمایا ہے۔ (اِنْ عِنْدَکُمْ مِنْ سُلْطَانٍ بِہٰذَا اَ تَقُوْلُوْنَ عَلَی اللَّہ مَالَا تَعْلَمُوْنَ)[ یونس : ٦٨] ” تمہارے پاس اس کی کوئی دلیل ہے یا تم اللہ پر وہ کہتے ہو جو تم نہیں جانتے۔“ اللہ تعالیٰ کی اولاد قرار دینا سنگین ترین جرم اور گناہ ہے : (وَقَالُوا اتَّخَذَ الرَّحْمَنُ وَلَدًا۔ لَقَدْ جِءْتُمْ شَیْءًا إِدًّا۔ تَکَاد السَّمٰوٰتُ یَتَفَطَّرْنَ مِنْہُ وَتَنْشَقُّ الْأَرْضُ وَتَخِرُّ الْجِبَالُ ہَدًّا۔أَنْ دَعَوْا للرَّحْمٰنِ وَلَدًا۔ وَمَا یَنْبَغِی للرَّحْمٰنِ أَنْ یَتَّخِذَ وَلَدًا۔)[ مریم : ٨٨۔ ٩٢] ” اور انہوں نے کہا رحمن کی اولاد ہے۔ یہ تو اتنی بری بات تم گھڑ لائے ہو جس سے آسمان پھٹ پڑیں، زمین شق ہوجائے، پہاڑ گر پڑیں۔ انہوں نے رحمن کے لیے اولاد کا دعویٰ کیا ہے۔ حالانکہ رحمن کے لیے لائق نہیں کہ وہ کسی کو اولاد بنائے۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ اولاد سے پاک ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ کو اولاد کی ضرورت نہیں۔ ٤۔ مشرک کہتے ہیں کہ اللہ کی اولاد ہے حالانکہ ان کے پاس اس کی کوئی دلیل نہیں ہے۔ ٥۔ زمین و آسمان میں جو کچھ ہے اسی کا ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ اولاد کی محتاجی سے پاک ہے : ١۔ انہوں نے کہا اللہ نے اولاد بنا رکھی ہے اللہ اولاد سے بے نیاز ہے۔ (یونس : ٦٨) ٢۔ انہوں نے کہا اللہ نے اولاد بنائی ہے حالانکہ اللہ اولاد سے پاک ہے۔ (البقرۃ: ١١٦) ٣۔ مشرکین نے کہا کہ اللہ کی اولاد ہے اللہ اولاد سے پاک ہے بلکہ سارے اسی کے بندے ہیں۔ (الانبیاء : ٢٦) ٤۔ اللہ کی کوئی اولاد نہیں اور نہ ہی اس کے ساتھ کوئی دوسرا الٰہ ہے۔ (المومنون : ٩١) ٥۔ ہمارے پروردگار کی شان بڑی ہے اس نے نہ کسی کو بیوی بنایا ہے نہ اس کی اولاد ہے۔ (الجن : ٣) یونس
68 فہم القرآن ربط کلام : یہودیوں نے حضرت عزیر (علیہ السلام) اور عیسائیوں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ کا بیٹا قرار دے کر اس کے ہاں سفارشی بنا لیا ہے۔ حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کی حیات کا تذکرہ کرتے ہوئے ان کی نانی کے نذر ماننے سے لے کر ان کی والدہ حضرت مریم کی پیدائش حضرت مریم کا نذر کرنا، حضرت مریم کا جوان ہونا، بغیر خاوند کے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو جنم دینا، حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی پیدائش کے وقت قوم کا حضرت مریم پر تہمت لگانا، حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا گود میں اپنی والدہ کی صفائی پیش کرنا اور اپنی نبوت کا اعلان کرتے ہوئے کہنا کہ میں اللہ کا بندہ ہوں خدا نہیں ہوں، حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا بڑے ہو کر رسالت کا فریضہ سرانجام دینا، دشمنوں کا آپ کو تختہ دار پر لٹکانے کی کوشش کرنا، حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا مجبور ہو کر اپنے حواریوں کو مدد کے لیے بلانا، اللہ تعالیٰ کا انہیں صحیح سالم آسمانوں پر اٹھا لینا، قیامت کے قریب دنیا میں دوبارہ بھیجنا اور پھر انہیں موت دینا، ان میں سے ایک ایک بات ان کی عاجزی، بے بسی اور ان کے عاجز بندہ ہونے کی شہادت دیتی ہے۔ یہی یہودیوں کا حال ہے کہ وہ جانتے ہیں کہ حضرت عزیر (علیہ السلام) اللہ کے بندے اور اس کے رسول تھے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں سو سال تک مارے رکھا۔ جب انہیں سو سال کے بعد زندہ کیا اور پوچھا کہ آپ کتنی دیر ٹھہرے رہے۔ انہیں خبر نہ تھی کہ میں ایک سو سال مردہ پڑا رہا ہوں۔ حضرت عزیر (علیہ السلام) کہنے لگے کہ ایک دن یا اس کا کچھ حصہ ٹھہرا ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تم سو سال تک ٹھہرے رہے ہو۔ تفصیل کے لیے البقرۃ آیت (٢٥٩) کی تلاوت کریں۔ جو لوگ ملائکہ کو اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں قرار دیتے ہیں ان کا دامن بھی دلیل سے خالی ہے۔ اس کے باوجود عیسائی اپنی جہالت اور یہودی اپنی ضد ملائکہ کو خدا کی بیٹیاں قرار دینے اپنی بے علمی پر اڑے ہوئے ہیں، حالانکہ ان کے پاس کوئی عقلی اور نقلی دلیل نہیں ہے۔ اسی بنیاد پر فرمایا ہے۔ (اِنْ عِنْدَکُمْ مِنْ سُلْطَانٍ بِہٰذَا اَ تَقُوْلُوْنَ عَلَی اللَّہ مَالَا تَعْلَمُوْنَ)[ یونس : ٦٨] ” تمہارے پاس اس کی کوئی دلیل ہے یا تم اللہ پر وہ کہتے ہو جو تم نہیں جانتے۔“ اللہ تعالیٰ کی اولاد قرار دینا سنگین ترین جرم اور گناہ ہے : (وَقَالُوا اتَّخَذَ الرَّحْمَنُ وَلَدًا۔ لَقَدْ جِءْتُمْ شَیْءًا إِدًّا۔ تَکَاد السَّمٰوٰتُ یَتَفَطَّرْنَ مِنْہُ وَتَنْشَقُّ الْأَرْضُ وَتَخِرُّ الْجِبَالُ ہَدًّا۔أَنْ دَعَوْا للرَّحْمٰنِ وَلَدًا۔ وَمَا یَنْبَغِی للرَّحْمٰنِ أَنْ یَتَّخِذَ وَلَدًا۔)[ مریم : ٨٨۔ ٩٢] ” اور انہوں نے کہا رحمن کی اولاد ہے۔ یہ تو اتنی بری بات تم گھڑ لائے ہو جس سے آسمان پھٹ پڑیں، زمین شق ہوجائے، پہاڑ گر پڑیں۔ انہوں نے رحمن کے لیے اولاد کا دعویٰ کیا ہے۔ حالانکہ رحمن کے لیے لائق نہیں کہ وہ کسی کو اولاد بنائے۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ اولاد سے پاک ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ کو اولاد کی ضرورت نہیں۔ ٤۔ مشرک کہتے ہیں کہ اللہ کی اولاد ہے حالانکہ ان کے پاس اس کی کوئی دلیل نہیں ہے۔ ٥۔ زمین و آسمان میں جو کچھ ہے اسی کا ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ اولاد کی محتاجی سے پاک ہے : ١۔ انہوں نے کہا اللہ نے اولاد بنا رکھی ہے اللہ اولاد سے بے نیاز ہے۔ (یونس : ٦٨) ٢۔ انہوں نے کہا اللہ نے اولاد بنائی ہے حالانکہ اللہ اولاد سے پاک ہے۔ (البقرۃ: ١١٦) ٣۔ مشرکین نے کہا کہ اللہ کی اولاد ہے اللہ اولاد سے پاک ہے بلکہ سارے اسی کے بندے ہیں۔ (الانبیاء : ٢٦) ٤۔ اللہ کی کوئی اولاد نہیں اور نہ ہی اس کے ساتھ کوئی دوسرا الٰہ ہے۔ (المومنون : ٩١) ٥۔ ہمارے پروردگار کی شان بڑی ہے اس نے نہ کسی کو بیوی بنایا ہے نہ اس کی اولاد ہے۔ (الجن : ٣) ” فرما دیں بے شک جو لوگ اللہ پر جھوٹ باندھتے ہیں وہ فلاح نہیں پائیں گے۔“ (٦٩) ” دنیا میں تھوڑا سا فائدہ ہے پھر ہماری ہی طرف ان کی واپسی ہے پھر ہم انھیں بہت سخت عذاب چکھائیں گے، اس وجہ سے جو وہ کفر کرتے ہیں۔“ (٧٠) فہم القرآن ربط کلام : زمین و آسمان اور ان کے درمیان ہر چیز پر اللہ کا اختیار اور اقتدار ہے۔ سب کچھ اس کی ملکیت میں ہونے کے باوجود مشرک نہ صرف اللہ تعالیٰ کی خدائی میں دوسروں کو شریک کرتا ہے بلکہ کچھ شخصیات کو اللہ کی اولاد قرار دیتا ہے۔ جو سب سے بڑا گناہ ہے۔ مشرک اپنے بلاثبوت اور من گھڑت عقیدہ میں اس قدر اندھا ہوچکا ہوتا ہے کہ وہ شخصیات کی محبت اور اپنے مفادات کی خاطر کسی کو اللہ کی اولاد قرار دینے سے بھی نہیں چوکتا۔ عرب کے کچھ لوگ ملائکہ کو اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں قرار دیتے تھے۔ جس کے لیے وہ یہ بات کہتے تھے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ نور ہے اسی طرح ہی ملائکہ بھی نوری ہیں۔ اللہ تعالیٰ کو کھانے پینے اور شادی بیاہ کی ضرورت نہیں اسی طرح ملائکہ بھی ان باتوں سے بے نیاز ہیں۔ یہودیوں نے حضرت عزیر (علیہ السلام) کے سو سال بعد زندہ ہونے کی بنا پر انہیں خدا کا بیٹا اور جز قرار دیا۔ عیسائی حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی شخصیت اور ان کے بے مثال معجزات اور حضرت مریم کی پاک دامنی سے متاثر ہو کر اس قدر عقیدت میں آگے بڑھ گئے کہ انہوں نے یہ عقیدہ بنایا اور پھیلایا ہے کہ رب کی خدائی حضرت مریم اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے بغیر مکمل نہیں ہوسکتی۔ اسی بنیاد پر تثلیث ان کے مذہب کی نشانی ٹھہری۔ اللہ تعالیٰ نے اس عقیدہ اور باطل نظریات کی تردید کرتے ہوئے ناقابل تردید تین دلائل دیتے ہوئے اسے بے بنیاد، جھوٹ اور جہالت قرار دے کر فرمایا ہے۔ کہ ان لوگوں کو دو ٹوک بتلا دیا جائے کہ یہ لوگ اللہ تعالیٰ پر بہت بڑا جھوٹ بولتے ہیں۔ جھوٹے لوگ کبھی فلاح نہیں پائیں گے کیونکہ ان کے پاس کوئی حقیقی اور ٹھوس دلیل نہیں ہے۔ اس جھوٹ اور باطل عقیدہ کے پیچھے ان کے دنیا کے مفادات ہیں جس نے بالآخر ختم ہونا ہے ان مفتروں اور مجرموں کی ہر صورت ہمارے پاس حاضری ہوگی۔ جھوٹے عقیدے اور حقائق کا انکار کرنے کی وجہ سے انہیں شدید ترین عذاب میں مبتلا کیا جائے گا۔ شرک کرنا اللہ تعالیٰ کو گالی دینے کے مترادف ہے : (عَنْ اَبِیْ ہُرَےْرَۃ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَال اللّٰہُ تَعَالٰی کَذَّبَنِیْ ابْنُ اٰدَمَ وَلَمْ ےَکُنْ لَّہٗ ذٰلِکَ وَشَتَمَنِیْ وَلَمْ ےَکُنْ لَّہٗ ذٰلِکَ فَاَمَّا تَکْذِےْبُہُ اِیَّایَ فَقَوْلُہٗ لَنْ یُّعِےْدَنِیْ کَمَا بَدَاَنِیْ وَلَےْسَ اَوّلُ الْخَلْقِ بِاَھْوَنَ عَلَیَّ مِنْ اِعَادَتِہٖ وَاَمَّا شَتْمُہُ اِیَّایَ فَقََوْلُہُ اتَّخَذَ اللّٰہُ وَلَدًا وَّاَنَا الْاَحَدُ الصَّمَدُ الَّذِیْ لَمْ اَلِدْ وَلَمْ اُوْلَدْ وَلَمْ ےَکُنْ لِّیْ کُفُوًا اَحَدٌ وَفِیْ رِوَاے َۃٍ: ابْنِ عَبَّاسٍ وَّاَمَّا شَتْمُہٗ اِیَّایَ فَقَوْلُہٗ لِیْ وَلَدٌ وَسُبْحَانِیْ اَنْ اَتَّخِذَصَاحِبَۃً اَوْ وَلَدًا)[ رواہ البخاری : باب قولہ قل ھواللہ احد] ” حضرت ابوہریرہ (رض) ذکر کرتے ہیں کہ رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان ہے کہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں ابن آدم مجھے جھٹلاتا ہے حالانکہ یہ اس کے لیے مناسب نہیں۔ وہ میرے بارے میں زبان درازی کرتا ہے یہ اس کے لیے ہرگز جائز نہیں۔ یہ اس کا مجھے جھٹلانا ہے کہ اللہ مجھے دوبارہ پیدا نہیں کرے گا جیساکہ اس نے پہلی بار پیدا کیا۔ حالانکہ میرے لیے دوسری بار پیدا کرنا پہلی دفعہ پیدا کرنے سے زیادہ آسان ہے۔ اس کا میرے بارے میں یہ کہنا بدکلامی ہے کہ اللہ کی اولاد ہے جبکہ میں اکیلا اور بے نیاز ہوں نہ میں نے کسی کو جنم دیا اور نہ مجھے کسی نے جنا ہے اور کوئی بھی میری برابری کرنے والا نہیں۔ بخاری میں حضرت ابن عباس (رض) کے حوالے سے یہ الفاظ پائے جاتے ہیں کہ ابن آدم کی میرے بارے میں بدکلامی یہ ہے کہ میری اولاد ہے جبکہ میں پاک ہوں نہ میری بیوی ہے نہ اولاد۔“ تین دلائل : ١۔ اللہ تعالیٰ ان کے خود ساختہ عقیدہ اور من گھڑت شریکوں سے پاک ہے کیونکہ اس کا فرمان ہے : ” کہو وہ پاک ذات جس کا نام اللہ ہے ایک ہے، وہ بے نیاز ہے، نہ کسی کا باپ ہے اور نہ کسی کا بیٹا اور کوئی اس کا ہمسر نہیں“ [ الاخلاص] سبحان کا لفظ تعجب اور پاکیزگی کے لیے آتا ہے یہاں لفظ سبحان بیک وقت دونوں معنوں کا احاطہ کررہا ہے۔ ١: اولاد کے لیے نفسانی خواہش اور بیوی کی ضرورت ہے اللہ تعالیٰ اس سے مبرا ہے۔ ٢: اولاد باپ کی معاون اور بڑھاپے میں اس کے کام آتی ہے اللہ تعالیٰ ہر قسم کی محتاجی سے پاک ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ غنی ہے۔ غنی کا معنی صرف دولت مند نہیں بلکہ غنی کا جامع معنی ہے ذاتی اور صفاتی اعتبار سے ہر چیز سے بے نیاز، ہے۔ باقی سب اس کے محتاج اور اس کے درکے فقیر ہیں۔ بے شک انبیاء ہوں یا اولیاء، فوت شدہ ہوں یا زندہ سب اللہ تعالیٰ کے محتاج ہیں۔ اس کا ارشاد ہے اے لوگو! تم تمام کے تمام اس کے در کے فقیر ہو۔ اللہ غنی اور ہر حوالے سے تعریف کے لائق ہے۔ اگر وہ چاہے تو تم سب کو ختم کرکے نئی مخلوق لے آئے تم اس کے سامنے دم نہیں مار سکتے۔ وہ ہر اعتبار سے غالب ہے۔ (فاطر : ١٥۔ ١٧) پھر ارشاد فرمایا کہ جن کو تم پکارتے ہو وہ تو ایک مکھی نہیں پیدا کرسکتے مکھی پیدا کرنا تو درکنار اگر مکھی کوئی چیز اٹھا کرلے جائے تو اس سے واپس نہیں لے سکتے۔ طالب اور مطلوب سب کے سب کمزور ہیں۔ در حقیقت ان لوگوں نے اللہ تعالیٰ کی قدر ہی نہیں جانی۔ (الحج آیت ٧٣۔ ٧٤) ٣۔ بیٹا باپ کا وارث ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ زمین و آسمانوں اور جو کچھ ان میں ہے سب کا مالک ہے جب سب کچھ اسی کا ہے وہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا تو وارث کی کیا ضرروت ہے۔ اس کا ارشاد ہے۔ (وَلِلّٰہ مِیْرَاث السَّمَوَاتِ وَالَارْضِ)[ الحدید : ١٠] ” اللہ تعالیٰ ہی زمین و آسمان کا وارث ہے۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ پر افترا کرنے والے فلاح نہیں پائیں گے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے جھوٹوں کو دنیا میں مہلت دے رکھی ہے۔ ٣۔ افتراء بازی کرنے والوں کے لیے شدید ترین عذاب ہے۔ تفسیر بالقرآن دنیا کی زندگی عارضی ہے : ١۔ دنیا کی زندگی تھوڑی ہے پھر تمہاری واپسی ہوگی۔ (یونس : ٧٠) ٢۔ کیا تم آخرت کے بدلے دنیا پر خوش ہوگئے ہو جب کہ آخرت کے مقابلہ میں دنیا بالکل قلیل ہے۔ (التوبۃ : ٣٨) ٣۔ نہیں ہے دنیا کی زندگی آخرت کے مقابلہ میں مگر نہایت تھوڑا فائدہ۔ (الرعد : ٢٦) ٤۔ دنیا کی زندگی کھیل تماشا ہے۔ (العنکبوت : ٦٤) ٥۔ نہیں ہے دنیا کی زندگی مگر دھوکے کا سامان۔ (الحدید : ٢٠) ٦۔ تم آخرت کے مقابلہ میں دنیا کی زندگی کو ترجیح دیتے ہو۔ (الاعلیٰ : ١٦) ٧۔ آخرت بہتر اور ہمیشہ رہنے والی ہے۔ (الاعلیٰ: ١٧) یونس
69 یونس
70 یونس
71 فہم القرآن ربط کلام : حضرت نوح کی قوم نے فوت شدہ بزرگوں کو اللہ کا شریک بنا رکھا تھا اور انہیں اللہ کے ہاں سفارشی بناتے تھے۔ حضرت نوح نے انہیں بہت روکا مگر وہ باز نہ آئے۔ جس کا یہاں ذکر کیا جاتا ہے۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو ساڑھے نو سو سال تک اپنی قوم کو سمجھایا مگر قوم سمجھنے کی بجائے گمراہی اور دشمنی میں آگے ہی بڑھتی گئی۔ حضرت نوح (علیہ السلام) قوم کو سمجھاتے رہے کہ میں اس محنت شاقہ اور صبح، شام کی محنت پر تم سے کوئی معاوضہ طلب نہیں کرتا۔ میرا معاملہ اور اجروثواب اللہ کے ہاں ہے۔ لیکن قوم نے ان کی ایک نہ سنی الٹا الزام پہ الزام دیتی اور ان سے عذاب کا مطالبہ کرتی رہے۔ اس صورت حال سے تنگ آکر جناب نوح (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو فرمایا کہ اے میری قوم اگر میرا رہنا اور سمجھانا تمہارے لیے بالکل ہی ناگوار ہوگیا ہے تو میرے خلاف اپنی تمام تدبیریں کرلو۔ الگ الگ نہیں سب مل کر بلکہ اپنے مشکل کشاؤں اور حاجت رواؤں کو بھی جمع کرلو۔ اپنی سازشوں اور شرارتوں میں کوئی کسرباقی نہ رہنے دو۔ اس میں تمہیں کوئی حسرت باقی نہیں رہنی چاہیے بس میرے خلاف کرلو جو کچھ کرنا چاہتے ہو۔ ہاں ہاں مجھے ایک لمحہ بھی مہلت نہیں چاہیے۔ میرا اللہ پر بھروسہ ہے اگر اس نے چاہاتم میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ چنانچہ پھر وہی کچھ ہوا جو حضرت نوح (علیہ السلام) نے فرمایا تھا۔ حضرت نوح (علیہ السلام) اور ان کے ایماندار ساتھی سلامت رہے۔ ان کی قوم حتی کہ ان کا ان کے بعد اللہ تعالیٰ نے قوم عاد کو زمین پر اقتدار دیا۔ نافرمان بیٹا ڈبکیاں دے دے کر ختم کردیا گیا۔ جس کی تفصیل بارہویں پارہ سورۃ ہود کی آیت ( ٤٣) میں پڑھیں گے۔ مشرکوں کے لیے دعوت توحید بھاری ہوا کرتی ہے۔ (إِنَّہُمْ کَانُوْا إِذَا قِیْلَ لَہُمْ لآإِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ یَسْتَکْبِرُوْنَ)[ الصافات : ٣٥] ” انہیں جب کہا جاتا ہے اللہ کے علاوہ کوئی الٰہ نہیں تو وہ تکبر کرتے ہیں۔“ (وَإِذَا ذُکِرَ اللّٰہُ وَحْدَہُ اشْمَأَزَّتْ قُلُوْبُ الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بالْاٰخِرَۃِ وَإِذَا ذُکِرَ الَّذِیْنَ مِنْ دُوْنِہِ ٓإِذَا ہُمْ یَسْتَبْشِرُوْنَ)[ الزمر : ٤٥] ” جب اللہ اکیلے کا ذکر کیا جائے تو وہ لوگ جو آخرت پر ایمان نہیں رکھتے ان کے دل تنگ ہوجاتے ہیں اور جب اللہ کے علاوہ دوسروں کا ذکر کیا جائے تو کھل اٹھتے ہیں۔“ (وَإِذَا ذَکَرْتَ رَبَّکَ فِی الْقُرْاٰنِ وَحْدَہٗ وَلَّوْا عَلی أَدْبَارِہِمْ نُفُوْرًا)[ الاسراء : ٤٦] ” اور جب قرآن میں اکیلے رب کا ذکر کرتے ہیں تو کافربدک کر پیٹھ پھیر لیتے ہیں۔“ مسائل ١۔ تمام انبیاء بلامعاوضہ تبلیغ دین کیا کرتے تھے۔ ٢۔ تمام انبیاء صرف اللہ پر توکل کرتے تھے۔ ٣۔ تمام انبیاء نے بالآخر نافرمانوں کو چیلنج دیا کہ جو چاہو کرلو تم ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ تفسیر بالقرآن قوم کے الزامات : ١۔ قوم نے نوح کو گمراہ قرار دیا۔ (الاعراف : ٦٠) ٢۔ نوح پاگل ہے۔ (المومنون : ٢٥) ٣۔ نوح تو ہم جیسا انسان ہے۔ (ہود : ٢٧) ٤۔ یہ ہم پر لیڈری چمکاتا ہے۔ (المومنون : ٢٤) ٥۔ ہم تو اس میں کوئی خوبی نہیں دیکھتے۔ (ہود : ٢٧) ٦۔ اس کے چاہنے والے نیچ لوگ ہیں۔ (ہود : ٢٧) ٧۔ اے نوح تجھے پتھر مار مار کر مار دیں گے۔ (الشعراء : ١١٦) ٨۔ قوم نے نوح سے اپنے چہرے چھپا لیے۔ (نوح : ٧) ٩۔ کفار نے حضرت نوح کے خلاف زبردست مکاریاں کیں۔ (نوح : ٧) ١٠۔ ہمارا تمہار جھگڑا طویل تر ہوگیا ہے نوح تو سچا ہے تو بس عذاب لے آ۔ (ہود : ٣٢) ١١۔ قوم نوح نے رسولوں کی تکذیب کی۔ (الشعراء : ١٠٥) یونس
72 یونس
73 یونس
74 فہم القرآن ربط کلام : حضرت نوح (علیہ السلام) کا ذکر، ان کی عدیم المثال اور پر خلوص جدوجہد کا خاکہ پیش فرما کر ان کی قوم کا انجام بیان کرنے کے بعد سلسلہ نبوت کے تسلسل کا اشارہ فرمایا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں جن انبیاء کا ذکر کیا ہے وہ نہ صرف اپنی اپنی قوم کے رہبر و رہنما تھے بلکہ یہ عالی مرتبت شخصیات اپنے سے پہلے انبیاء کی اقوام کے بھی رہنما تھے۔ اس لیے قرآن مجید میں رسول محترم کو مخاطب کرکے فرمایا گیا ہے کہ اے رسول! ہم آپ سے پہلے بہت سے رسول بھیج چکے ہیں جن میں سے بعض کے حالات تو بیان کردیئے گئے ہیں اور کچھ کے نہیں کیے کسی رسول کے پاس یہ طاقت نہ تھی کہ وہ اللہ تعالیٰ کے اذن کے بغیر کوئی معجزہ پیش کرتا۔ ( المؤمن : ٧٨) یہاں حضرت نوح (علیہ السلام) کے تذکرہ کے بعد فرمایا ہے کہ ہم نے نوح (علیہ السلام) کے بعد انبیاء کی بعثت کا سلسلہ جاری کیا۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کے بعد حضرت ہود (علیہ السلام) قوم عاد میں جلوہ گر کیے گئے جو انہی کی قوم کا ایک نمائندہ اور معتبر قبیلہ تھا یہ لوگ عمان اور حضرموت کے درمیان ریت کے ٹیلوں والے علاقہ میں رہتے تھے جو سمندر کے کنارے واقع تھا۔ حضرت ہود (علیہ السلام) کے قبیلہ کا نام مغیث تھا۔ (قصص الانبیاء) حضرت ہود (علیہ السلام) کے بعد حضرت صالح (علیہ السلام) اپنی قوم ثمود میں مبعوث کیے گئے یہ قوم تبوک اور حجاز کے درمیان حجر کے علاقہ میں رہتی تھی جسے مدائن صالح بھی کہا جاتا ہے۔ یہ علاقہ خلیج عقبہ کے مشرق میں واقع ہے۔ قوم ثمود صنعت و حرفت میں اس قدر ترقی یافتہ تھی کہ انہوں نے پہاڑ تراش، تراش کر بڑے بڑے بنگلے اور مکانات تیار کیے تھے۔ حضرت صالح (علیہ السلام) کے بعد حضرت ابراہیم خلیل اللہ ( علیہ السلام) عراق کی سرزمین میں جلوہ گر کیے گئے۔ جناب ابراہیم (علیہ السلام) کے بعد سلسلۂ نبوت اس وقت کی دنیا میں پھیلا دیا گیا۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے دور میں حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کو حجاز مقدس میں ٹھہرایا۔ حضرت اسحق (علیہ السلام) کو فلسطین کے علاقہ میں قیام کا حکم دیا۔ یہ علاقہ اس وقت مصر، شام پر مشتمل تھا۔ اپنے بھتیجے حضرت لوط (علیہ السلام) کو اردن کے گردو نواح میں لوگوں کی اصلاح کی ذمہ داری سونپی۔ خود خلیل اللہ ( علیہ السلام) فلسطین میں قیام پذیر ہوئے مگر وقفہ وقفہ سے ان مراکز کا دورہ کرتے رہتے تھے۔ ان کے بعد بے شمار انبیاء ( علیہ السلام) مبعوث کیے گئے جن میں حضرت شعیب، حضرت یعقوب، حضرت یوسف، حضرت ایوب، حضرت ذوالکفل، حضرت یونس، حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) مبعوث فرمائے گئے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد کئی پیغمبربھیجے گئے، پھر حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) مبعوث فرمائے گئے سب سے آخر میں خاتم النبیین سید المرسلین حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو قیامت تک کے لیے رسول بنایا گیا۔ یہ انبیائے کرام (علیہ السلام) اللہ تعالیٰ کی طرف سے ٹھوس، واضح دلائل اور عظیم الشان معجزات کے ساتھ بھیجے گئے۔ مگر لوگوں کی غالب اکثریت نے انبیاء ( علیہ السلام) کا پیغام قبول کرنے سے انکار کردیا۔ جس وجہ سے ان کے دلوں پر گمراہی کی مہر ثبت کردی گئی۔ مسائل ١۔ انبیاء (علیہ السلام) اپنی اقوام کے پاس واضح دلائل لے کر آئے تھے۔ ٢۔ بہت سے لوگ دلائل کی موجودگی میں بھی ایمان نہیں لاتے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ کی آیات کی تکذیب کرنے والوں کے دلوں پر مہریں ثبت کردی جاتی ہیں۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ نافرمانوں کے دلوں پر مہر ثبت کردیتا ہے : ١۔ ہم اسی طرح حد سے نکل جانے والوں کے دلوں پر مہر لگا دیا کرتے ہیں۔ (یونس : ٧٤) ٢۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے کفر کی وجہ سے ان کے دلوں پر مہر لگا دی۔ (النساء : ١٥٥) ٣۔ اللہ کفار کے دلوں پر مہر ثبت کرتا ہے۔ (الاعراف : ١٠١) ٤۔ جو لوگ ایمان لائے اور اس کے بعد کفر کیا ان کے دلوں پر اللہ نے مہر لگا دی۔ (المنافقون : ٣) ٥۔ اللہ ہر تکبر کرنے والے سرکش کے دل پر مہر لگا دیتا ہے۔ (المومن : ٣٥) ٦۔ اللہ نے ان کے دلوں پر مہر ثبت فرما دی سو وہ نہیں جانتے۔ (التوبۃ: ٩٣) یونس
75 فہم القرآن ربط کلام : عظیم المرتبت اور اولوالعزم انبیاء کی ایک جماعت کے بعد حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی نبوت کا آغاز ہوتا ہے۔ ارشاد ہوا کہ ہم نے بہت سے انبیاء کرام (علیہ السلام) کے بعد حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون (علیہ السلام) کو بڑے بڑے معجزات اور دلائل دے کر فرعون اور اس کے سرداروں کی طرف بھیجا مگر انہوں نے ان کے ساتھ تکبر کا رویہ اختیار کیا یہ لوگ بڑے مجرم اور سرکش تھے۔ قرآن مجید میں جابجا حضرت موسیٰ اور فرعون کی کشمکش کا تذکرہ پایا جاتا ہے۔ جس کی وجہ یہ بیان کی ہے کہ اے اہل حجاز ہم نے تمہاری طرف ایسا رسول بھیجا ہے جیسا فرعون کی طرف بھیجا تھا۔ فرعون نے موسیٰ (علیہ السلام) کی نافرمانی کی ہم نے پوری سختی کے ساتھ اس کی گرفت کی۔ ( المزمل : ١٥۔ ١٦) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی بعثت کا مقصد : (اذْہَبْ أَنْتَ وَأَخُوْکَ بِاٰ یَاتِیْ وَلَا تَنِیَا فِیْ ذِکْرِیْ۔ اذْہَبَا إِلٰی فِرْعَوْنَ إِنَّہُ طَغَی۔ فَقُوْلَا لَہُ قَوْلًا لَیِّنًا لَعَلَّہُ یَتَذَکَّرُأَوْ یَخْشَی۔ قَالَا رَبَّنَا إِنَّنَا نَخَافُ أَنْ یَفْرُطَ عَلَیْنَا أَوْ أَنْ یَطْغَی۔ قَالَ لَا تَخَافَا إِنَّنِیْ مَعَکُمَا أَسْمَعُ وَأَرَی۔ فَأْتِیَاہُ فَقُوْلَا إِنَّا رَسُوْلَا رَبِّکَ فَأَرْسِلْ مَعَنَا بَنِیْ إِسْرَاءِیْلَ وَلَا تُعَذِّبْہُمْ قَدْ جِءْنَاکَ بِاٰیَۃٍ مِنْ رَبِّکَ وَالسَّلَا مُ عَلٰی مَنِ اتَّبَعَ الْہُدَی۔ )[ طٰہٰ: ٤٢۔ ٤٧] ” اے موسیٰ ! تو اور تیرا بھائی میرے معجزات لے کر جاؤ اور میرے ذکر میں کوتاہی نہ کرنا تو دونوں فرعون کے ہاں جاؤ وہ بڑا سرکش ہوگیا ہے دیکھو اسے نرمی سے بات کہنا شاید وہ نصیحت قبول کرے یا ڈرجائے انھوں نے عرض کی اے پروردگار ہم اس بات سے ڈرتے ہیں کہ وہ ہم پر زیادتی کرے یا مزید سرکشی اختیار کرے اللہ نے فرمایا ڈرنے کی ضرورت نہیں میں تمھارے ساتھ ہوں سب کچھ سن رہا ہوں اور دیکھ رہا ہوں لہٰذا اس کے پاس جاؤ اور اسے کہنا ہم تیرے رب کے رسول ہیں بنی اسرائیل کو ہمارے ساتھ جانے کے لیے آزاد کر دے اور انھیں کسی قسم کی تکلیف نہ دے۔ ہم تیرے پاس تیرے پروردگار کی نشانی لے کر آئے ہیں اس شخص پر سلامتی ہو جو ہدایت کی پیروی اختیار کرتا ہے۔“ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو عطا ہونے والے معجزات : (وَلَقَدْ اٰتَیْنَا مُوسٰی تِسْعَ اٰیَاتٍ بَیِّنَاتٍ فَاسْأَلْ بَنِیْٓ إِسْرٓاءِیْلَ إِذْ جَآءَ ہُمْ فَقَالَ لَہٗ فِرْعَوْنُ إِنِّیْ لَأَظُنُّکَ یَا مُوسٰی مَسْحُوْرًا)[ الاسراء : ١٠١] ” ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو ٩ واضح نشانیاں دی تھیں بنی اسرائیل سے پوچھ لیجیے کہ جب موسیٰ (علیہ السلام) ان کے پاس آئے تو فرعون نے کہا کہ میں تجھے سحر زدہ سمجھتا ہوں۔“ (قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ وَمُجَاہِدُ، وَعِکْرَمَۃُ وَالشَّعْبِیُّ، وَقَتَادَۃُ ہِیَ یَدُہٗ، وَعَصَاہٗ، وَالسَّنِیْنُ، وَنَقْصُ الثَّمَرَاتِ، وَالطَّوْفَانُ، وَالْجَرَادُ، وَالقُمَّلُ، وَالضَّفَادِعُ، وَالدَّمُ)[ ابن کثیر] ” حضرت عبداللہ بن عباس (رض) مجاھد، عکرمہ، شعبی اور قتادہ کے قول کے مطابق حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو عطا کی جانے والی نشانیاں یہ تھیں۔ ١۔ یدِبیضاء، ٢۔ عصا، ٣۔ قحط سالی، ٤۔ پھلوں کی کمی، ٥۔ طوفان، ٦۔ ٹڈی دل، ٧۔ جوئیں کھٹمل، ٨۔ مینڈک اور ٩۔ خون کے عذاب۔“ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی اپنے بھائی کے لیے دعا : (قَالَ رَبِّ اشْرَحْ لِیْ صَدْرِیْ۔ وَیَسِّرْ لِیْ أَمْرِیْ وَاحْلُلْ عُقْدَۃً مِنْ لِسَانِیْ یَفْقَہُوْا قَوْلِیْ۔ وَاجْعَلْ لِیْ وَزِیْرًا مِنْ أَہْلِیْ۔ ہَارُوْنَ أَخِیْ۔ اشْدُدْ بِہٖ أَزْرِیْ۔ وَأَشْرِکْہُ فِیْ أَمْرِیْ )[ طٰہٰ: ٢٥۔ ٣٢] ” موسیٰ (علیہ السلام) نے عرض کی اے میرے پروردگار میرا سینہ کھول دے، میرے کام آسان کر دے، میری زبان کی گرہ کھول دے تاکہ وہ میری بات سمجھ سکیں اور میرے لیے میرے خاندان میں سے ایک مددگار مقرر کر دے ہارون کو جو میرا بھائی ہے اس سے میری قوت کو مضبوط کر اور اسے میرے کام میں شریک کار کر۔“ تکبر کیا ہے : (عَنِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لَا یَدْخُلُ الجَنَّۃَ مَنْ کَانَ فِیْ قَلْبِہٖ مِثْقَالُ ذَرَّۃٍ مِنْ کِبْرٍ فَقَالَ رَجُلٌ اِنَّ الرَّجُلَ یُحِبُّ اَنْ یَّکُوْنَ ثَوْبُہٗ حَسَنًا وَ نَعْلُہٗ حَسَنًا قَالَ اِنَّ اللّٰہَ تَعَالٰی جَمِیْلٌ یُّحِبُّ الجَمَالَ اَلْکِبْرُ بَطَرُ الْحَقِّ وَ غَمْطُ النَّاسِ)[ رواہ مسلم : کتاب الیمان، باب تحریم الکبر وبیانہ] ” حضرت ابن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا‘ جس شخص کے دل میں ذرہ برابر تکبر ہوگا‘ وہ جنت میں نہیں جائے گا۔ ایک شخص نے کہا کہ بے شک ہر شخص یہ پسند کرتا ہے کہ اس کا لباس اور جوتے اچھے ہوں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بلاشبہ اللہ تعالیٰ نہایت ہی خوب صورت ہے اور خوب صورتی کو پسند کرتا ہے۔ تکبر تو حق بات کا انکار کرنا اور لوگوں کو حقیر جاننا ہے۔“ قیامت کے دن رب ذوالجلال کا سوال کرنا : (عَنْ عَبْدُ اللَّہِ بْنُ عُمَرَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَطْوِی اللَّہُ عَزَّ وَجَلَّ السَّمَوَاتِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ ثُمَّ یَأْخُذُہُنَّ بِیَدِہِ الْیُمْنَی ثُمَّ یَقُولُ أَنَا الْمَلِکُ أَیْنَ الْجَبَّارُوْنَ أَیْنَ الْمُتَکَبِّرُوْنَ ثُمَّ یَطْوِی الأَرَضِینَ بِشِمَالِہِ ثُمَّ یَقُولُ أَنَا الْمَلِکُ أَیْنَ الْجَبَّارُوْنَ أَیْنَ الْمُتَکَبِّرُوْنَ)[ رواہ مسلم : باب صفۃ القیامۃ والجنۃ والنار] ” حضرت عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ آسمان کو قیامت کے دن لپیٹ لے گا پھر اس کو دائیں ہاتھ میں پکڑے گا، پھر فرمائے گا میں بادشاہ ہوں۔ کہاں ہیں جابر لوگ ؟ کہاں ہیں تکبر کرنے والے؟ پھر زمین کو بائیں ہاتھ میں لپیٹ لے گا، پھر اعلان ہوگا میں بادشاہ ہوں کہاں ہیں جابر لوگ؟ اور کہاں ہیں تکبر کرنے والے ؟“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ اور ہارون (علیہ السلام) کو معجزات دے کر بھیجا۔ ٢۔ اللہ کی آیات کی تکذیب کرنے والے لوگ مجرم ہوتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن فرعون اور اس کے سرداروں نے اللہ تعالیٰ کی آیات کے ساتھ تکبر کیا : ١۔ اللہ نے موسیٰ اور ہارون کو فرعون اور اس کے سرداروں کے پاس نشانیوں کے ساتھ بھیجا مگر انہوں نے تکبر کیا۔ (یونس : ٧٥) ٢۔ اللہ نے حضرت موسیٰ اور ہارون کو فرعون اور اس کے سرداروں کے پاس بھیجا پس انہوں نے تکبر کیا۔ (المومنون : ٤٦) ٣۔ حضرت موسیٰ، فرعون اور اس کے حواریوں کے پاس معجزات لے کر آئے مگر انہوں نے تکبر کیا۔ (العنکبوت : ٣٩) ٤۔ ہم نے ان پر طوفان، ٹڈیوں، جوؤں، مینڈک اور خون کتنی کھلی ہوئی نشانیاں بھیجیں مگر وہ تکبر ہی کرتے رہے اور وہ مجرم تھے۔ (الاعراف : ١٣٣) ٥۔ ان کے پاس موسیٰ (علیہ السلام) کھلی نشانیاں لے کر آئے تو وہ زمین میں مغرور ہوگئے وہ ہم سے سبقت لے جانے والے نہ تھے۔ (العنکبوت : ٣٩) ٦۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا میں ہر متکبر سے جو آخرت کے دن پر یقین نہیں رکھتا اپنے پروردگار کی پناہ میں ہوں۔ (المومن : ٢٧) یونس
76 فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ سورۃ طہٰ میں تفصیل ہے کہ جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) مدین سے واپسی پر شجر مبارکہ کے پاس روشنی کے قریب پہنچے تو اللہ تعالیٰ نے آواز دی کہ اے موسیٰ میں تیرا رب ہوں اور تو مقدس وادی میں داخل ہوچکا ہے۔ اس لیے اپنے جوتے اتار دے۔ میں نے تجھے نبوت کے لیے منتخب کرلیا ہے۔ لہٰذا جو تیری طرف وحی کی جاتی ہے اسے توجہ کے ساتھ سن، یقین کر! میں اللہ ہوں میرے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔ بس میری عبادت کر اور میری یاد کے لیے نماز قائم کر۔ بے شک قیامت آنے والی ہے جس کے برپا ہونے کو میں نے چھپا رکھا ہے۔ جب وہ برپا ہوگی تو ہر شخص کو اس کے کیے کا بدلا دیا جائے گا۔ جو شخص قیامت پر یقین نہیں رکھتا تجھے اس کے پیچھے نہیں لگنا چاہیے۔ جو اپنی خواہش کے پیچھے چلے گا وہ برباد ہوگا پھر استفسار فرمایا کہ تیرے ہاتھ میں کیا ہے موسیٰ (علیہ السلام) نے عرض کی میرے ہاتھ میں لاٹھی ہے۔ جس پر میں ٹیک لگا لیتا ہوں اور اپنی بکریوں کے لیے درختوں کے پتے جھاڑتا ہوں اور اس سے دوسرے کام بھی لیتا ہوں۔ ارشاد ہوا : اسے زمین پر پھینکیے موسیٰ (علیہ السلام) نے اسے زمین پر پھینکا تو وہ بہت بڑا سانپ بن کر دوڑنے لگا۔ ارشاد ہوا۔ ڈرنے کی بجائے اسے پکڑ لو۔ یہ پھر لاٹھی بن جائے گا۔ اب اپنے ہاتھ کو اپنی بغل میں دبا کر باہر نکالو۔ جو صحیح سالم چمکتا ہوا دکھائی دے گا۔ یہ دوسری نشانی ہے۔ ان کے ساتھ فرعون کی طرف جاؤ بلاشبہ وہ بڑا باغی انسان ہے۔ سورہ طٰہٰ میں میں بیان کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حکم دیا اے موسیٰ تو اور تیرا بھائی ان معجزات کے ساتھ فرعون کے پاس جاؤ اور میرے ذکر میں غفلت نہ کرنا بے شک فرعون بڑا سرکش اور باغی ہے۔ لیکن بات نہایت نرمی کے ساتھ کہنا ہوسکتا ہے وہ نصیحت قبول کرے اور ڈر جائے۔ دونوں بھائیوں نے اپنے رب سے عرض کی کہ ہمیں ڈر لگتا ہے کہ ہم پر وہ زیادتی کرے گا۔ ارشاد ہوا ہرگز نہیں ڈرنا کیونکہ میری رفاقت تمہارے ساتھ ہوگی اور میں تمہیں دیکھتے ہوئے تمہارے ساتھ ہوں گا۔ جب حضرت موسیٰ اور جناب ہارون (علیہ السلام) فرعون کے پاس پہنچے تو انہوں نے اسے فرمایا کہ بنی اسرائیل کو آزاد کردو اور اللہ تعالیٰ پر ایمان لاؤ۔ جو شخص اللہ تعالیٰ کی ہدایت کے مطابق چلے گا وہ سلامت رہے گا یقیناً ہمیں اللہ تعالیٰ نے تیرے پاس بھیجا ہے اور ہم پر وحی کی گئی ہے کہ جس نے اللہ تعالیٰ کی ہدایت کو جھٹلایا اور ٹھکرایا اسے شدید ترین عذاب ہوگا۔ ( طٰہٰ: ٤٧۔ ٤٨) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور فرعون کے مابین مکالمہ : (قَالَ فَمَنْ رَّبُّکُمَا یَا مُوسٰی)[ طٰہٰ: ٤٩] فرعون : ” حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے کہ تمہارا رب کون ہے؟“ (قَالَ رَبُّنَا الَّآِیْ أَعْطٰی کُلَّ شَیْءٍ خَلْقَہٗ ثُمَّ ہَدٰی)[ طٰہٰ: ٥٠] حضرت موسیٰ (علیہ السلام) : ” ہمارا رب وہ ہے جس نے ہر چیز کو پیدا کیا اور اس کی رہنمائی فرمائی۔“ (قَالَ فَمَا بَالُ الْقُرُوْنِ الْأُوْلَی)[ طٰہٰ: ٥١] فرعون : ” اے موسیٰ جو پہلے لوگ گزر چکے ان کا کیا حال ہوگا۔“ (قَالَ عِلْمُہَا عِنْدَ رَبِّی فِیْ کِتَابٍ لَا یَضِلُّ رَبِّیْ وَلَا یَنْسٰی)[ طٰہٰ: ٥٢] حضرت موسیٰ (علیہ السلام) : ” ان کا علم میرے رب کے پاس ہے جو لوح محفوظ میں لکھا ہوا ہے میرا رب نہ چوکتا ہے نہ بھولتا۔“ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ کا تفصیلی تعارف کرایا اور اس کی توحید بیان فرمائی اور قیامت کے دلائل دیئے لیکن اس نے نہ صرف دلائل کو ٹھکرایا بلکہ معجزات دیکھنے کے باوجود اللہ تعالیٰ کی توحید اور موسیٰ (علیہ السلام) کی رسالت کا انکار کرتے ہوئے اپنے حواریوں سے مخاطب ہو کر کہا کہ دونوں بھائی جادو کے ذریعے تمہارے ملک سے تمہیں نکالنا چاہتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی یہ چیلنج دیا کہ ہم تمہارے مقابلے میں اس سے بڑا جادو پیش کریں گے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اسے بہت سمجھایا کہ جادوگر کبھی کامیاب نہیں ہوتے کیونکہ ان کے کام میں سچائی نہیں ہوتی۔ یہاں اس کا اختصار ہے کہ جب فرعون اور اس کے ساتھیوں کے پاس حق پہنچ چکا تو انہوں نے کہا یہ تو جادو ہے۔ جس کا جواب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے یہ دیا کہ حق بات کو جادو کہتے ہو، جادوگر تو کبھی اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہوتا۔ گویا کہ دوسرے الفاظ میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے انہیں سمجھایا کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے حق ہے جو غالب آکر رہے گا۔ جادو کفر ہے : (وَاتَّبَعُوا مَا تَتْلُو الشَّیَاطِینُ عَلَی مُلْکِ سُلَیْمَانَ وَمَا کَفَرَ سُلَیْمَانُ وَلَکِنَّ الشَّیَاطِینَ کَفَرُوا یُعَلِّمُون النَّاس السِّحْرَ وَمَا أُنْزِلَ عَلَی الْمَلَکَیْنِ بِبَابِلَ ہَارُوتَ وَمَارُوتَ وَمَا یُعَلِّمَانِ مِنْ أَحَدٍ حَتَّی یَقُولَا إِنَّمَا نَحْنُ فِتْنَۃٌ فَلَا تَکْفُرْ )[ البقرۃ: ١٠٢] ” اور وہ اس چیز کے پیچھے لگ گئے جسے شیاطین حضرت سلیمان ( علیہ السلام) کی مملکت میں پڑھتے تھے۔ سلیمان ( علیہ السلام) نے تو کفر نہیں کیا تھا۔ یہ کفر تو شیطان کرتے تھے جو لوگوں کو جادو سکھایا کرتے تھے جو بابل میں ہاروت وماروت دو فرشتوں پر اتارا گیا۔ وہ دونوں بھی کسی شخص کو اس وقت تک نہیں سکھاتے تھے جب تک یہ نہ کہہ دیں کہ ہم تو ایک آزمائش میں ہیں تو کفر نہ کر۔“ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان ہے : ( لَیْسَ مِنَّا مَنْ تَطَیَّرَ اَوْتُطُیِّرَلَہٗ اَوْتَکَھَّنَ اَوْتُکُھِّنَ لَہُ اَوْ سَحَرَ اَوْ سُحِرَ لَہُ وَمَنْ اَتیٰ کَا ھِنًا فَصَدَّقَہُ بِمَا یَقُوْلُ فَقَدْ کَفَرَ بِمَااُنْزِلَ عَلٰی مُحَمَّدٍ) [ الترغیب و الترہیب] ” جو شخص فال نکالے یا اس کے لیے فال نکالی جائے‘ کوئی غیب کی خبریں دے یا اس کے لیے کوئی دوسرا ایسی خبر دے ایسے ہی کوئی خود جادوگر ہو یا دوسرا شخص اس کے لیے جادو کرے وہ ہم میں سے نہیں ہے۔ جو کوئی ایسے شخص کے پاس جائے اور اسکی باتوں کی تصدیق کرے اس نے ہر اس بات کا انکار کیا جو محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل ہوئی ہے۔“ مسائل ١۔ کفار حق کو جادو قرار دیتے ہیں۔ ٢۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو نصیحت کی۔ ٣۔ جادوگر کا میاب نہیں ہوتے۔ تفسیر بالقرآن فلاح نہ پانے والے لوگ : ١۔ جادو گرفلاح نہیں پاتے۔ (یونس : ٧٧) ٢۔ اس سے بڑا ظالم کون ہے جو اللہ کی آیات کی تکذیب کرتا ہے۔ بے شک ظالم فلاح نہیں پاتے۔ (الانعام : ٢١) ٣۔ یوسف (علیہ السلام) نے کہا اللہ کی پناہ مجھے میرے آقا نے بہتر ٹھکانہ دیا ہے یقیناً ظالم فلاح نہیں پاتے۔ (یوسف : ٢٣) ٤۔ اگر اللہ کا ہم پہ احسان نہ ہوتا تو ہم زمین میں دھنسا دیے جاتے کافر فلاح نہیں پاتے۔ ( القصص : ٨٢) ٥۔ بے شک وہ لوگ جو اللہ پر جھوٹ باندھتے ہیں فلاح نہیں پائیں گے۔ (یونس : ٦٩۔ النحل : ١١٦) ٦۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا میرا رب خوب جانتا ہے اس کی جناب سے کون ہدایت لے کر آیا ہے اور کس کے لیے آخرت کا گھر ہے یقیناً ظالم فلاح نہیں پائیں گے۔ (القصص : ٣٧) ٧۔ انہوں نے جادو کا کھیل کھیلا ہے اور جادوگر فلاح نہیں پاتے۔ (طٰہٰ: ٦٩) یونس
77 یونس
78 فہم القرآن ربط کلام : حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور فرعون کے درمیان گفتگو جاری ہے۔ فرعون کے حواری اس کی تائید کرتے ہوئے بات میں اضافہ کرتے ہیں کہ اے موسیٰ اور ہارون کیا تم ہمارے پاس اس لیے آئے ہو کہ ہمیں اپنے باپ دادا کے دین سے پھیر دو اور ملک میں تم بڑے لیڈر بن جاؤ؟ یاد رکھو ہم ہرگز تمہیں ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ حواریوں کی اس بات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے فرعون نے کہا کہ ان دونوں جادوگروں کا مقصد یہ ہے کہ جادو کے ذریعے تمہیں تمہارے ملک سے نکال دیں اور تمہارا مثالی تہذیب و تمدن ختم کردیں لہٰذا اپنی منصوبہ بندی کرو تاکہ ہم کامیاب رہیں۔ ( طہٰ: ٦٣۔ ٦٤) قرآن مجید اس بات کی وضاحت کرتا ہے کہ ابتدا ہی سے انبیائے کرام (علیہ السلام) کو یہ الزام دیا جاتا رہا ہے کہ یہ جادوگرہیں۔ (الذاریات : ٧٢) قرآن مجید یہ بھی بتلاتا ہے کہ انبیاء کے راستے میں آنے والی رکاوٹوں میں ایک رکاوٹ آباء کی تقلید ہوا کرتی تھی۔ یہی بات فرعون کے حواریوں نے کہی۔ اسی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے فرعون نے کہا تھا کہ اگر تمہارا عقیدہ اور دعوت صحیح ہے تو پھر ہمارے پہلے لوگوں کا کیا حال ہوگا؟ اس کا مقصد لوگوں کے جذبات کے ساتھ کھیلنا تھا۔ کیونکہ انسان خود کتنا برا کیوں نہ ہو۔ وہ اپنے فوت شدہ آباؤ اجداد اور بزرگوں کے نظریات کے حوالے سے کوئی تنقید سننا گوارا نہیں کرتا۔ خواہ کہنے والا اعلیٰ اخلاق، نہایت اخلاص اور خیر خواہی کے جذبے سے ہی کیوں نہ سمجھا رہا ہو۔ تقلیدایسی نازک رگ ہے جو معمولی ارتعاش کو بھی گوارا نہیں کرتی۔ اس لیے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرعون کو یہ جواب دیا جو آپکی فہم وفراست کا بے مثال نمونہ ہے : (قَالَ عِلْمُہَا عِنْدَ رَبِّیْ فِیْ کِتَابٍ لَا یَضِلُّ رَبِّیْ وَلَا یَنْسٰی)[ طٰہٰ: ٥٢] ” ان کا معاملہ میرے رب کو معلوم ہے جو نہ بھولتا ہے اور نہ اس کی نگاہ سے کوئی چیز چھپی ہوئی ہے۔“ آباء کی اندھی تقلید کا انجام : (وَقَالُوا رَبَّنَآ إِنَّآ أَطَعْنَا سَادَتَنَا وَکُبَرَآءََ نَا فَأَضَلُّوْنَا السَّبِیْلاً۔ رَبَّنَا اٰتِہِمْ ضِعْفَیْنِ مِنَ الْعَذَابِ وَالْعَنْہُمْ لَعْنًا کَبِیْرًا )[ الاحزاب : ٦٧۔ ٦٨] ” اور کہیں گے ہمارے رب ! ہم نے اپنے سرداروں اور بڑوں کا حکم مانا انہوں نے ہمیں سیدھی راہ سے بہکا دیا اے رب ان پر دوگنا عذاب کر اور ان پر سخت لعنت فرما۔“ بڑے لوگوں کا کردار : (وَکَذٰلِکَ مَآ أَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ فِی قَرْیَۃٍ مِنْ نَذِیرٍ إِلَّا قَالَ مُتْرَفُوہَا إِنَّا وَجَدْنَا اٰبَاءَ نَا عَلٰی أُمَّۃٍ وَّإِنَّا عَلٰی اٰثَارِہِمْ مُقْتَدُوْنَ۔ قَالَ أَوَلَوْ جِءْتُکُمْ بِأَہْدٰی مِمَّا وَجَدْتُمْ عَلَیْہِ اٰبَاءَ کُمْ قَالُوْا إِنَّا بِمَآ أُرْسِلْتُمْ بِہِ کَافِرُوْنَ فَانْتَقَمْنَا مِنْہُمْ فَانْظُرْ کَیْفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الْمُکَذِّبِیْنَ) [ الزخرف : ٢٣ تا ٢٥] ” اسی طرح ہم نے کسی بستی میں جب بھی کوئی ڈرانے والابھیجا تو اس بستی کے لوگوں نے یہی کہا ہم نے اپنے آباء و اجداد کو ایک طریقہ پر پایا ہے اور ہم ان کے نقش قدم کی اقتداء کر رہے ہیں۔ کہا خواہ میں تمہارے پاس اس سے زیادہ صحیح طریقہ لاؤں جس پر تم نے اپنے آباء کو پایا تھا کہنے لگے جو پیغام دے کر تمہیں بھیجا گیا ہے ہم اس کے منکر ہیں۔ چنانچہ ہم نے ان سے بدلہ لے لیا دیکھ لو جھوٹوں کا انجام کیسا ہوا۔“ مسائل ١۔ حق کے مقابلہ میں لوگ آباء کی تقلید چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ ٢۔ کفار انبیاء کو جادوگر کہا کرتے تھے۔ ٣۔ دنیا دار اپنی جاگیر اور چودھراہٹ کی خاطر ایمان نہیں لاتے۔ تفسیر بالقرآن حق کے مقابلہ میں آباء کی تقلید : ١۔ کفار نے کہا ہم تو اپنے آباؤ اجداد کی پیروی کریں گے۔ (البقرۃ: ١٧٠) ٢۔ کفار نے کہا ہمارے لیے اپنے آباؤ اجداد کا طریقہ ہی کافی ہے۔ (المائدۃ: ١٠٤) ٣۔ کفار نے کہا ہم تو اسی کی تابعداری کریں گے جس پر اپنے آباء کو پایا ہے۔ (لقمان : ٢١) ٤۔ کفار نے کہا ہم نے اپنے آباء کو ایک طریقہ پر پایا ہے ہم انہی کی اقتداء کرتے ہیں۔ (الزخرف : ٢٣) ٥۔ کہیں گے ہم نے اپنے سرداروں اور بڑوں کا حکم مانا انہوں نے ہمیں سیدھی راہ سے گمراہ کردیا۔ (الاحزاب : ٦٧) یونس
79 فہم القرآن ربط کلام : حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور فرعون کے درمیان مکالمہ جاری ہے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی دعوت فقط اتنی تھی کہ بنی اسرائیل پر مظالم ڈھانے کی بجائے انہیں آزاد کر دو اور اللہ تعالیٰ کی بغاوت کرنے کی بجائے اس پر سچا ایمان لاکراس کی غلامی اختیار کرو۔ مگر فرعون نے طاقت کے بل بوتے اور پروپیگنڈہ کے زور پر بات کا رخ موڑ دیا اور اپنے وزیروں اور مشیروں کو حکم صادر کیا۔ کہ پورے ملک سے ماہر جادوگروں کو میرے پاس حاضر کیا جائے۔ جس کی تفصیل سورۃ طٰہ میں یوں ہے کہ فرعون نے موسیٰ (علیہ السلام) سے کہا ہم بھی تیرے جادو جیسے جادوکا مظاہرہ کریں گے۔ بس ہمارے اور تمہارے درمیان ایک معاہدہ ہوا۔ نہ ہم اس کی مخالفت کریں گے اور نہ تجھے اس کی خلاف ورزی کرنی چاہیے اب لوگوں کے عظیم اجتماع میں صبح کے وقت عید کے دن معرکہ ہوگا (طٰہ : ٥٨۔ ٦٠) یہ معاہدہ ہوجانے کے بعد فرعون نے پورے ملک سے اپنے اہلکاروں کے ذریعے جادوگروں کو اکٹھا کیا۔ جب جادوگر میدان میں اترے تو انہوں نے فرعون سے مطالبہ کر ڈالا اگر ہم موسیٰ اور ہارون (علیہ السلام) پر غالب آگئے تو ہمیں کیا ملے گا۔ فرعون نے کہا تم میرے مقربین میں ہو گے گویا کہ انہیں وزیر اور مشیر بنانے کا وعدہ کیا پھر انہوں نے موسیٰ (علیہ السلام) سے کہا کہ آپ اپنا عصا پھینکتے ہیں یا جو کچھ ہم لائے ہیں وہ میدان میں پھینکیں۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا میں تمہیں پہلے موقع دیتا ہوں ساتھ ہی موسیٰ (علیہ السلام) نے انہیں سمجھایا کہ نہایت ہی افسوس ہے کہ تم اللہ تعالیٰ پر جھوٹ بولنے والے ہو یعنی اللہ تعالیٰ کی آیات کو جھٹلاتے اور مجھے عطا کیے گئے معجزات کو جادو قراردیتے ہو۔ یاد رکھو اگر تم باز نہ آئے تو تمہیں عنقریب اللہ کا عذاب آلے گا۔ جھوٹا آدمی بالآخر ناکام اور نامراد ہوجاتا ہے اور اللہ تعالیٰ مفسدین کو کامیاب نہیں ہونے دیتا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے یہ بات اتنے مؤثر اور بارعب انداز میں فرمائی کہ جادوگر سوچنے پر مجبور ہوگئے۔ قریب تھا کہ ان میں موسیٰ (علیہ السلام) سے مقابلہ کرنے پر اختلاف ہوجاتا۔ مگر انہوں نے اس پر کنٹرول کرلیا بالآخر اس بات پر اتفاق ہوا کہ یہ دونوں بھائی جادو کے ذریعے ہمارے دین کو بدلنا اور ہم کو ملک سے نکالنا چاہتے ہیں۔ پھر انہوں نے صف بندی کرتے ہوئے۔ (طہٰ: ٥٨۔ ٦٤) بڑے بڑے رسے اور لاٹھیاں میدان میں پھینکیں اور زبردست جادومنتر کا مظاہرہ کرتے ہوئے فلک شگاف نعرے لگائے کہ فرعون زندہ باد یقیناً ہم غالب آچکے ہیں۔ ( الشعراء : ٨٣۔ ٤٤) انہوں نے صف بندی کرتے ہوئے بھرپور طور پر جادو کا مظاہرہ کیا۔ ان کی لاٹھیاں اور رسیاں بڑے بڑے اژدہا بن کر میدان میں بل کھانے لگیں۔ یہ ایسا خوفناک منظر تھا کہ موسیٰ (علیہ السلام) اپنے دل میں ڈرگئے۔ جس پر اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ہم نے موسیٰ سے فرمایا ہرگز نہ ڈریں آپ ہی سر بلند اور کامیاب ہوں گے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے ہاتھ سے عصا پھینکا جس نے دیکھتے ہی دیکھتے سب کچھ نگل لیا جو کچھ جادو گروں نے کیا تھا اس کا صفایا کردیا۔ جادوگر کہیں بھی کامیاب نہیں ہوا کرتا۔ موسیٰ (علیہ السلام) کی کامیابی دیکھتے ہوئے جادوگر سجدہ ریز ہو کر پکار اٹھے کہ ہم موسیٰ (علیہ السلام) اور ہارون (علیہ السلام) کے رب پر ایمان لاتے ہیں۔ فرعون نے اس پر دھمکی دیتے ہوئے کہا دراصل یہ تمہارا استاد جادوگر ہے۔ میری اجازت کے بغیر تم نے اس پر ایمان لانے کا اعلان کیا ہے۔ یاد رکھو میں تمہارے مخالف سمت میں ہاتھ پاؤں کاٹ کر تمہیں کھجور کے درختوں پر لٹکاؤں گا۔ تاکہ تمہیں اور دیکھنے والوں کو معلوم ہو کہ ہم کیسی عبرت ناک اور دائمی سزا دیتے ہیں۔ جو جادو گر ایمان لائے انہوں نے کہا ہم کیوں نہ ایمان لاتے جبکہ ہمارے پاس ٹھوس دلائل اور واضح معجزات آچکے ہیں اب تم جو چاہو کرلو ہم ہر سزا بھگتنے کے لیے تیار ہیں۔ ہاں یاد رکھنا تمہاری سزائیں اور اذیتیں صرف دنیا کی زندگانی تک ہیں۔ ایمانداروں کے فرمان کا مقصد یہ تھا کہ تمہاری سزائیں صرف ہمارے آخری سانس تک ہیں مرنے کے بعد ہمیں کوئی تکلیف نہیں پہنچے گی۔ کیونکہ ہم اپنے رب پر ایمان لے آئے ہیں وہی ہماری خطاؤں کو معاف کرنے والا ہے۔ (طٰہٰ : ٦٤۔ ٧٣) جو کچھ موسیٰ (علیہ السلام) نے مقابلہ سے پہلے فرمایا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے فرمان کو سچ کر دکھایا۔ جادوگروں کا جادو جھوٹ اور فریب ثابت ہوا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کامیاب ہوئے۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ حق کو غالب کرتا ہے۔ خواہ یہ بات کفار کے لیے کتنی ہی ناگوار کیوں نہ ہو، کفار تو حق کے غلبہ کو ہمیشہ سے ناگوار ہی سمجھتے ہیں۔ مسائل ١۔ دنیا دار مادی و سائل کی بنیاد پر حق والوں کا مقابلہ کرتے ہیں۔ ٢۔ حق والے کسی کے وسائل سے مرعوب نہیں ہوتے۔ ٣۔ حق والے ہمیشہ اللہ پر نظر رکھتے ہیں۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ بالآخر باطل کو ملیا میٹ کردیتا ہے۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ فسادیوں کو کامیاب نہیں ہونے دیتا۔ ٦۔ اللہ تعالیٰ حق کو غلبہ عطا فرماتا ہے۔ تفسیر بالقرآن فساد کرنے والے لوگ حقیقی کامیابی نہیں پاتے : ١۔ بے شک اللہ فساد کرنے والوں کو کامیابی نہیں دیتا۔ (یونس : ٨١) ٢۔ فساد کرنے والے خسارہ اٹھائیں گے۔ (البقرۃ: ٢٧) ٣۔ اللہ فساد کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ (المائدۃ: ٦٤) ٤۔ اللہ فساد کرنے والوں کے عمل کو درست نہیں کرتا۔ (یونس : ٨١) ٥۔ دیکھو فساد کرنے والوں کا انجام کیسا ہوا۔ (الاعراف : ٨٦) ٦۔ جو زمین میں فساد پھیلاتے ہیں ان کے لیے لعنت اور برا گھر ہے۔ (الرعد : ٢٥) ٧۔ زمین میں فساد نہ کرو اللہ فساد کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتا۔ (القصص : ٧٧) ٨۔ وہ زمین میں فساد پھیلانا چاہتے ہیں، کھیتی اور جانوروں کو ہلاک کرنا چاہتے ہیں، اللہ فسا دکرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا۔ (البقرۃ: ٢٠٥) ٩۔ زمین میں فساد نہ کرتے پھرو۔ (البقرۃ: ٦٠) ١٠۔ دیکھیں فساد کرنے والوں کا انجام کیسا ہوا۔ (النمل : ١٤) یونس
80 یونس
81 یونس
82 یونس
83 فہم القرآن ربط کلام : حق ثابت ہونے اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے غالب آنے کے باوجود چند نوجوانوں کے سوا باقی لوگ ایمان نہ لائے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے معجزات دیکھ کر ملک کے نامی گرامی صاحب علم لاکھوں کے مجمع میں ہزاروں کی تعداد میں بیک وقت ایمان لے آئے، یاد رہے اس وقت مصر میں جادو ہی ترقی یافتہ علم سمجھا جاتا تھا۔ حق ثابت ہونے اور جادوگروں کے ایمان لانے کے باوجود فرعون کے جورو استبداد اور دبدبہ کی وجہ سے چند نوجوانوں کے سوا باقی لوگ ایمان نہ لائے کیونکہ فرعون بہت ظلم کرنے والا تھا۔ فرعون نے اس صورت حال پر قابو پانے کے لیے ایک دفعہ پھر موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھیوں کا قتل عام شروع کیا۔ جس میں مردوں کو قتل کرتا اور ان کی عورتوں کو زندہ رہنے دیتا تھا۔ سورۃ المومن میں بیان ہوا کہ جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کے پاس حق پہنچ چکا تو انہوں نے فیصلہ کیا کہ کہ ایمانداروں کو قتل کیا جائے اور ان کی عورتوں کو باقی رکھا جائے اور فرعون نے اپنی قوم کو یہ بھی کہا کہ مجھے چھوڑ دو کہ میں موسیٰ کو قتل بھی کرنا چاہتا ہوں وہ میرے مقابلے میں اپنے رب کو بلا لے اگر میں نے اسے قتل نہ کیا تو وہ تمہارا دین بدل دے گا اور ملک میں فساد برپا ہوجائے گا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اس کے جواب میں فقط اتنا فرمایا کہ میں ہر متکبر اور قیامت کے منکر سے اپنے اور تمہارے رب کی پناہ مانگتا ہوں۔ ( المومن : ٢٥۔ ٢٧) نازک اور پریشان کن حالات میں قوم حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے کہنے لگی اے موسیٰ آپ کی پیدائش کے وقت اور آپ کی نبوت کے بعد بھی ہمیں ان تکلیفوں کا سامنا ہے۔ حضرت موسیٰ نے انہیں سمجھایا کہ صبرو کرو۔ اللہ تعالیٰ سے مدد مانگو، بالآخر زمین کے وارث نیک لوگ ہی ہوں گے عنقریب تمہارا رب تمہارے دشمن کو نیست و نابود کرکے تمہیں وارثبنائے گا پھر تمہیں دیکھے گا کہ تم کیا کردار ادا کرتے ہو۔ ( الاعراف : ١٢٨۔ ١٢٩) دین میں نوجوانوں کا کردار : اس میں شک نہیں کہ عمر اور تجربے کے اعتبار سے آدمی جوانی کی نسبت ادھیڑ عمر میں زیادہ پختہ فکر ہوتا ہے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ سوچنے سمجھنے اور کسی موقف کو اختیار کرنے میں انسان بھرپور جوانی کے دور میں ہی صحیح فیصلہ کرسکتا ہے شرط یہ ہے کہ اس کی راہنمائی کا صحیح بندوبست ہو۔ یہ اصول اور سوچ ہمیں انبیائے کرام کی سیرت اور ان کے ابتدائی ساتھیوں سے ملتی ہے یہی وجہ ہے کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں قرآن مجید میں یہ الفاظ ملتے ہیں کہ جب وہ بھرپورجوان ہوئے تو ہم نے انہیں نبوت سے سرفراز فرمایا۔ (یوسف : ٢٢) یہاں تک کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے بارے میں بھی قرآن مجید میں موجود ہے کہ جب انہوں نے عراق کے سب سے بڑے بت خانے کو توڑا تھا تو اس وقت وہ بھرپور جوانی کے عالم میں تھے۔ اس لیے مشرکین نے اپنے معبودوں کو اس حال میں دیکھ کر کہا تھا کہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ کام اس جوان نے کیا ہے جسے ابراہیم کہا جاتا ہے۔ (الانبیاء : ٦٠) قرآن مجید نے اصحاب کہف کے واقعہ میں (٩) نوجوانوں کے کردار اور ایمان کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ اے رسول ! ہم آپ کے سامنے ٹھیک ٹھیک انداز میں ان نوجوانوں کا واقعہ بیان کرتے ہیں جو اپنے رب پر ایمان لے آئے اور ہم نے انہیں ہدایت میں مزید آگے بڑھایا اور ان کے دلوں کو مضبوط کردیا۔ چنانچہ جب انہوں نے کہا کہ ہمارا رب وہ ہے جو زمین و آسمان کا رب ہے ہم اس کے سوا کسی کو الٰہ ماننے کے لیے تیار نہیں اگر ہم دوسروں کو رب تسلیم کریں اور پکاریں تو یہ بڑی بے عقلی کی بات ہوگی۔ (الکہف : ١٣۔ ١٤) یہی کردار موسیٰ (علیہ السلام) کی قوم کے نوجوانوں کا تھا۔ نبی آخر الزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر سب سے پہلے ایمان لانے والوں نے بھی اسی کردار کا مظاہرہ کیا تھا۔ چنانچہ سیرت طیبہ اور تاریخ اسلام کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ جس شخصیت کو بزرگوں میں سب سے پہلے ایمان لانے والا شمار کیا جاتا وہ حضرت ابو بکر صدیق (رض) ہیں حالانکہ وہ بھرپور جوانی میں تھے جب وہ ایمان لے آئے تو ان کی عمر تقریباً پونے اڑتیس سال کی تھی۔ مسائل ١۔ لوگ مشکلات سے ڈرتے ہوئے ایمان نہیں لاتے۔ ٢۔ فرعون زیادتی کرنے والوں میں سے تھا۔ ٣۔ ایمان والوں کو ہر حال میں اللہ تعالیٰ پر توکل کرنا چاہیے۔ ٤۔ اللہ کے فرمانبردار بندے اللہ تعالیٰ پر ہی بھروسہ کرتے ہیں۔ ٥۔ ظالموں کے ظلم سے بچنے کے لیے اللہ تعالیٰ کی پناہ طلب کرنی چاہیے۔ ٦۔ اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے مسلمانوں کو کافروں کے ظلم سے بچاتا ہے۔ تفسیر بالقرآن مومن کو ہر حال میں اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرنا چاہیے۔ ١۔ حضرت موسیٰ کا ایمانداروں کو ارشادکہ اگر اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتے ہو تو اس پر بھروسہ کرو اگر تم مسلمان ہو۔ (یونس : ٨٤) ٢۔ مومنوں کو اللہ پر توکل کرنا چاہیے۔ (آل عمران : ١٢٢) ٣۔ مومن اپنے رب پر بھروسہ رکھتے ہیں۔ (الانفال : ٢) ٤۔ جب کسی کام کا ارادہ کر لوتو اللہ پر توکل کرو اللہ تعالیٰ توکل کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے۔ (آل عمران : ١٥٩) ٥۔ انبیاء کرام (علیہ السلام) اور نیک لوگ اللہ پرہی توکل کرتے ہیں۔ (یوسف : ٦٧) ٦۔ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں اسی پر مومنوں کو توکل کرنا چاہیے۔ (التغابن : ١٣) ٧۔ جو اللہ کے ہاں ہے وہ مومنوں کے لیے بہتر اور باقی رہنے والا ہے وہ اپنے رب پر توکل کرتے ہیں۔ (الشورٰی : ٣٦) یونس
84 یونس
85 یونس
86 یونس
87 فہم القرآن ربط کلام : جورو استبداد کے دور میں موسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت ہارون (علیہ السلام) کو خصوصی ہدایات۔ قرآن مجید حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھیوں پر ہونے والے جو رو استبدد کا اس طرح منظر پیش کرتا ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے مواحد ساتھیوں پر وہ وقت بھی آیا جب ان کے لیے عبادت گاہوں کے دروازے بند کردیئے گئے۔ یہاں تک کہ ان کے لیے نماز پڑھنا بھی مشکل ہوگیا۔ اس کر بناک صورت حال میں اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے بھائی حضرت ہارون (علیہ السلام) کو حکم دیا کہ وہ اپنے ساتھیوں کو حکم دیں کہ اپنے گھروں کو قبلہ رخ بنا کر نماز قائم رکھیں۔ دونوں بھائیوں کو یہ بھی ارشاد ہوا کہ ایمانداروں کو یہ خوشخبری سنائیں کہ عنقریب ان کی مشکلات کا خاتمہ ہونے والا ہے۔ یہاں بیوت کا لفظ دو دفعہ استعمال ہوا ہے جو بیت کی جمع ہے۔ جس کا معنی ہے گھر مفسرین نے یہ الفاظ دو دفعہ آنے کی وجہ سے دو مفہوم اخذ فرمائے ہیں۔ پہلی مرتبہ بیوت سے مراد ہے کہ کچھ گھر خفیہ طور پر منتخب کرلیے جائیں تاکہ وہاں حتی الامکان اجتماعی طور پر نماز ادا کی جائے۔ اگر یہ ممکن نہ ہو تو اپنے اپنے گھروں میں قبلہ رخ ہو کر نماز ادا کی جائے اس فرمان سے یہ ثابت ہورہا ہے کہ مسلمانوں کو مشکل ترین حالات میں بھی نماز باجماعت ادا کرنا چاہیے اگر نماز اور جماعت کے تقاضے سمجھ کر پورے کیے جائیں تو اس سے بہتر انفرادی اور اجتماعی تربیت اور باہم مربوط اور منظم ہونے کا کوئی اور جامع موثر ذریعہ نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ اس سے پہلے مومنوں نے اللہ تعالیٰ سے استدعا کی تھی کہ اے ہمارے رب ہمیں کفار کے مظالم سے نجات عطا فرما۔ اللہ تعالیٰ نے دعا قبول کرتے ہوئے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت ہارون (علیہ السلام) کو وحی فرمائی کہ اپنے ساتھیوں کو مستقبل قریب میں فرعون سے نجات پانے کی خوشخبری سنائیے۔ جہاں تک نماز باجماعت کا تعلق ہے۔ ہماری شریعت میں اس کا اس قدر اہتمام اور التزام کیا گیا ہے کہ حالت جنگ میں بھی نماز باجماعت ادا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ نماز باجماعت کی اہمیت : (عَنْ اَبِیْ ھُرَےْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِےَدِہٖ لَقَدْ ھَمَمْتُ اَنْ اٰمُرَ بِحَطَبٍ لَےُحْطَبَ ثُمَّ اٰمُرَبِالصَّلٰوۃِ فَےُؤَذَّنَ لَھَا ثُمَّ اٰمُرَ رَجُلًا فَےَؤُمَّ النَّاسَ ثُمَّ اُخَالِفَ اِلٰی رِجَالٍ وَفِیْ رِوَاے َۃٍ لَّا ےَشْھَدُوْنَ الصَّلٰوۃَ فَاُحَرِّقَ عَلَےْھِمْ بُےُوْتَھُمْ وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِےَدِہٖ لَوْ ےَعْلَمُ اَحَدُھُمْ اَنَّہُ ےَجِدُ عَرْقًا سَمِےْنًا اَوْ مِرْمَاتَےْنِ حَسَنَتَےْنِ لَشَھِدَ الْعِشَآءَ)[ رواہ البخاری : کتاب الاذان] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا مجھے اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ میں نے ارادہ کیا تھا کہ میں حکم دوں کہ لکڑیاں جمع کی جائیں پھر اذان کا حکم دوں کسی اور کو لوگوں کی جماعت کروانے کی ذمہ داری سونپوں پھر میں لوگوں کا محاسبہ کروں۔ دوسرے مقام پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ ارشاد ہے کہ جو لوگ جماعت کے ساتھ نماز نہیں پڑھتے میں ان کے گھروں کو جلا کرراکھ کا ڈھیر بنادوں۔ اللہ کی قسم! اگر لوگوں کو معلوم ہوجائے کہ انہیں عشاء کی جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے پر موٹی ہڈی یا دو پائے مل جائیں گے تو وہ عشاء کی نماز جماعت کے ساتھ ادا کریں۔“ حضرت عبداللہ بن مسعودنے فرمایا لوگ اس وقت ملت ابراہیم پر رہیں گے جب تک نماز باجماعت ادا کریں گے۔ (ابو داؤد : کتاب الصلوۃ) مسائل ١۔ دشمن کے خوف سے گھر میں نماز ادا کی جاسکتی ہے۔ ٢۔ نماز ہر حالت میں جماعت کے ساتھ ادا کرنی چاہیے۔ ٣۔ مومنین کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے خوشخبری ہے۔ تفسیر بالقرآن نماز کے فوائد : ١۔ وہ لوگ جو کتاب اللہ پر کار بند رہتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں ہم ان کے اجرکو ضائع نہیں کریں گے۔ (الاعراف : ١٧٠) ٢۔ اگر لوگ توبہ کریں اور نماز قائم کریں تو ان کی راہ چھوڑ دو۔ (التوبہ : ٥) ٣۔ بے شک نماز بے حیائی اور برے کاموں سے روکتی ہے۔ (العنکبوت : ٤٥) ٤۔ بے شک وہ لوگ جو ایمان لائے اور نیک اعمال کیے اور نماز قائم کی ان پر کسی قسم کا خوف نہ ہوگا۔ (البقرۃ : ٢٧٧) ٥۔ اے ایمان والو! نماز اور صبر کے ساتھ مدد طلب کرو یقیناً اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ (البقرۃ: ١٥٣) ٦۔ نمازوں کی حفاظت کرنے والے جنت کے وارث ہیں۔ (المومنون : ٩۔ ١٠) یونس
88 فہم القرآن ربط کلام : حضرت موسیٰ اور ان کی قوم پر فرعون کے مظالم کی انتہا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی ظالموں کے لیے بددعا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت ہارون (علیہ السلام) طویل عرصہ تک فرعون اور آل فرعون کو سمجھاتے رہے۔ اس دوران یکے بعد دیگرے آل فرعون پر طوفان، ٹڈی، جوئیں، مینڈک اور ہر چیز خون آلودہ ہوجانے کے عذاب آئے مگر یہ اس قدر بد ترین اور ظالم لوگ تھے۔ کہ بار بار حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے کیے ہوئے عہد توڑتے اور ہر بار ظلم کے نئے سے نئے انداز اختیار کرلیتے۔ اس طرح ظلم کا دور جب طویل سے طویل تر ہوا۔ صاحب ایمان لوگوں کی ہمتیں جواب دینے لگیں تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے رب کے حضور انتہائی بے بسی کے عالم میں نہایت عاجزانہ انداز میں التجا کی کہ اے رب ذوالجلال! ظالموں نے تیری توحید کے ماننے والوں پر ظلم کی انتہا کردی ہے اگر اب ظالموں کی گرفت نہ ہوئی۔ الٰہی تیرے مظلوم بندے اور بندیاں ڈگمگاجائیں گے اس لیے میری فریاد کو قبول فرما۔ الٰہی تو نے فرعون اور اس کے بڑے لوگوں کو دنیا کا مال اور جاہ و جلال اس لیے دیا ہے۔ کہ یہ تیری اطاعت گزاری کریں۔ مگر انہوں نے ان چیزوں کو تیری راہ کی طرف آنے والوں کے لیے رکاوٹ بنا دیا ہے۔ اے ہمارے رب ان کے جاہ و جلال اور مال اسباب کو تہس نہس کردے اور ان کے دل اتنے سخت ہوجائیں کہ تیرا عذاب دیکھنے کے باوجود انہیں ایمان لانے کی توفیق نصیب نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کی آہ و زاری کو قبول فرمایا اور حکم دیا اے موسیٰ اور ہارون (علیہ السلام) اب اس بات پر پکے رہنا۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ جب ہمارا عذاب آئے تو ان کے لیے نجات کی دعا کرنے لگو۔ اس کا دوسرا معنی ہے کہ آپ کی بددعا قبول ہوئی لیکن عذاب آنے تک تم اپنی ڈیوٹی ادا کرتے جاؤ۔ یہاں سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے بدعا ذاتی انتقام کے لیے نہیں بلکہ بدعا اس لیے کی تھی کہ فرعون اور اس کے ساتھی لوگوں کی ہدایت کے راستے میں رکاوٹ بن چکے تھے۔ قرآن مجید کے الفاظ سے معلوم ہورہا ہے کہ دعا تو حضرت موسیٰ نے کی لیکن اللہ تعالیٰ نے اسے قبولیت کا شرف بخشتے ہوئے فرمایا کہ میں نے تم دونوں کی دعا قبول کرلی ہے جس کا مفسرین نے یہ مفہوم متعین کیا ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) دعا کرتے تھے اور جناب ہارون (علیہ السلام) آمین کہتے تھے۔ مسائل ١۔ مال اور دنیا کی زیب و زیبائش دین سے دوری کا سبب بن جاتے ہیں۔ ٢۔ ظالموں کے لیے بددعا کی جاسکتی ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی دعا قبول فرماتا ہے۔ ٤۔ مشکلات کے باوجود آدمی کو دین پر قائم رہنا چاہیے۔ ٥۔ بے علم لوگوں کی پیروی نہیں کرنی چاہیے۔ تفسیر بالقرآن ظالموں کو انبیاء ( علیہ السلام) کی بددعائیں : ١۔ اے ہمارے پروردگار! ان کے اموال کو نابود کردے اور ان کے دلوں کو سخت فرما۔ (حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی بددعا)۔ (یونس : ٨٨) ٢۔ نوح نے بدعا کی کہ الٰہی زمین پر ایک بھی کافر نہ چھوڑیے۔ (نوح : ٢٦) ٣۔ اے اللہ! فساد کرنے والی قوم کے مقابلہ میں میری مدد فرما۔ (العنکبوت : ٣٠) ٤۔ اے ہمارے رب! تو ہمارے درمیان اور ہماری قوم کے درمیان فیصلہ فرما دے (حضرت شعیب (علیہ السلام) کی بد دعا)۔ (الاعراف : ٨٩) یونس
89 یونس
90 فہم القرآن ربط کلام : حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی بدعا کا نتیجہ۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی دعا اور ان کی قوم کی آہ و زاریوں کو قبول فرمایا اور بنی اسرائیل کو نجات دی۔ فرعون اور اس کے لشکروں کو ڈبکیاں دے دے کر مارا جس کی تفصیل یوں بیان کی گئی ہے کہ اے اہل مکہ ہم نے تم سے پہلے قوم فرعون کو آزمایا اور ان کے پاس معزز رسول یہ پیغام لے کر آیا کہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ذمہ دار اور امانت دار رسول بنا کر بھیجا گیا ہوں۔ لہٰذا اللہ کے بندوں کو میرے حوالے کردے یعنی انہیں آزاد کردیا جائے اللہ تعالیٰ کے ساتھ سرکشی نہ کرو میں تمہیں واضح طور پر دلائل دے رہا ہوں۔ فرعون نے موسیٰ (علیہ السلام) کو سنگسار کرنے کی دہمکی دی تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے بچانے کی ضمانت دی ہے اگر تم میری بات نہیں مانتے تو میرا راستہ چھوڑ دو ایک مدت کے بعد موسیٰ (علیہ السلام) نے ان کے لیے بددعا کی جس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے موسیٰ میرے بندوں کو لے کر راتوں رات نکل جاؤ۔ ہاں یہ بات یاد رکھنا کہ فرعون اور اس کا لشکر تمہارا پیچھا کریں گے۔ سمندر کے پانی کو کھڑا چھوڑ کر پار ہوجانا کیونکہ ہم انہیں غرق کردیں گے۔ (الدخان : ١٧۔ ٢٤) چنانچہ اس طرح فرعون اور اس کے لاؤ لشکر کو غرق کردیا گیا۔ جب فرعون ڈبکیاں لینے لگا تو اس نے موت و حیات کی کشمکش کے دوران دہائی دیتے ہوئے کہا کہ میں اس اللہ پر ایمان لاتے ہوئے مسلمان ہوتا ہوں جس پر بنی اسرائیل ایمان لائے ہیں یہاں تک کہ اس نے اس کا بھی اقرار کیا کہ میں موسیٰ اور ہارون کے رب پر ایمان لاتا ہوں۔ لیکن اس کے ایمان کو یہ کہہ کر مسترد کردیا گیا کہ کیا اب ایمان لاتا ہے؟ اس سے پہلے تو بار بار انکار کرچکا اور انتہا درجے کا فسادی تھا۔ بس آج تیرے وجود کو لوگوں کی عبرت کے لیے باقی رکھا جائے گا تاکہ آنے والوں کے لیے نشان عبرت بن جائے۔ بے شک لوگوں کی اکثریت اللہ تعالیٰ کے احکام سے غافل ہوتی ہے۔ بعض لوگ یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ جب فرعون نے آخری وقت کلمہ پڑھ لیا تھا تو اس کی توبہ کیوں قبول نہیں ہوئی؟ یہ سوال کرنے والوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ فرعون کی توبہ تین و جہ سے قبول نہیں کی گی۔ ١۔ سورۃ الاعراف کی آیت : ١٣٣۔ ١٣٥ میں گزر چکا ہے کہ یکے بعددیگرے کئی عذابوں میں مبتلا ہونے اور بار بار عہد کرنے کے باوجود یہ لوگ عہد شکنی کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ کو ان کا حال معلوم تھا کہ فرعون اور اس کے ساتھی اب بھی عہد شکنی کریں گے اس لیے ان کی توبہ قبول نہ کی گئی۔ ٢۔ طویل مدت تک موسیٰ (علیہ السلام) کے سمجھانے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے بار بار مہلت دینے کے باوجود یہ لوگ ایمان نہ لائے جس کی وجہ سے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے ان کے ایمان نہ لانے کی بددعا کی تھی گویا کہ اس بدعا کی وجہ سے اس کا ایمان قبول نہ ہوا۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہے کہ انسان کی توبہ نزع کے عالم سے پہلے قبول ہوتی ہے جب موت کی واردات کا آغاز ہوتا ہے تو آدمی کے لیے توبہ کا دروازہ بند ہوجاتا ہے اس بنا پر بھی فرعون کی توبہ مسترد کردی گئی۔ جہاں تک اس کی لاش محفوظ رکھنے کی حکمت ہے وہ قرآن مجید نے خود ہی بیان کردی ہے تاکہ اس کی لاش کو دیکھنے والے عبرت حاصل کریں۔ بعض مفسرین نے یہ بھی لکھا ہے کہ بنی اسرائیل کے کچھ لوگوں کو خوف کے مارے یہ یقین نہیں ہورہا تھا ان کے خوف کو دور کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے پانی کی لہروں کو حکم دیا کہ اس کی لاش کو پانی سے باہر اونچی جگہ پھینک دے جسے دیکھ کر بنی اسرائیل کو یقین ہوا کہ ان کا دشمن مرچکا ہے فرعون کی لاش کے بارے میں (فَالْیَوْمَ نُنَجِّیْکَ بِبَدَنِکَ) کہ آج ہم تیرے وجود کو باقی رکھیں گے کے بارے میں کچھ لوگوں نے لکھا کہ یہ قیامت تک محفوظ رہے گی جبکہ دوسرے اہل علم کا خیال ہے کہ یہ صرف اسی زمانے کے لوگوں کے لیے اعلان تھا۔ واللہ اعلم۔ (عَنِ ابْنِ عُمَرَ عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ إِنَّ اللَّہَ یَقْبَلُ تَوْبَۃَ الْعَبْدِ مَا لَمْ یُغَرْغِرْ ) [ رواہ الترمذی : کتاب الدعوات باب قبول توبۃ العبد مالم یغرغر] ” حضرت عبداللہ بن عمر (رض) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں اللہ تعالیٰ بندے کی توبہ سانس کے اٹکنے سے پہلے پہلے قبول کرتا ہے۔“ مسائل ١۔ ظلم کرنے والے تباہ ہوجاتے ہیں۔ ٢۔ نزع کے وقت ایمان قبول نہیں ہوتا۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ اپنے باغیوں کو نشان عبرت بنا دیتا ہے۔ ٤۔ اکثر لوگ اللہ کی نشانیوں سے غافل رہتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن فرعون اور اس کے حواریوں کا انجام : ١۔ آج ہم تیرے جسم کو بچائیں گے تاکہ بعد میں آنے والوں کے لیے نشان عبرت بنائیں۔ (یونس : ٩٢) ٢۔ ہم نے ان کو ان کے گناہوں کی وجہ سے ہلاک کردیا اور آل فرعون کو غرق کردیا۔ (الاعراف : ٦٤) ٣۔ ہم نے فرعونیوں سے انتقام لیا اور انہیں دریا برد کردیا۔ (الزخرف : ٥٥) ٤۔ ہم نے فرعون اور اس کے ساتھیوں کو غرق کردیا۔ (بنی اسرائیل : ١٠٣) ٥۔ ہم نے موسیٰ اور اس کے ساتھیوں کو نجات دی اور آل فرعون کو غرق کردیا۔ (الشعراء : ٦٦) ٦۔ قیامت کے دن (فرعون) اپنی قوم کے آگے آگے چلے گا اور وہ انہیں دوزخ میں لے جائے گا۔ (ہود : ٩٨) ٧۔ ہم نے انہیں اور ان کے لشکروں کو پکڑ کر دریا میں پھینک دیا۔ (الذاریات : ٤٠) یونس
91 یونس
92 یونس
93 فہم القرآن ربط کلام : فرعون اور اس کے ساتھیوں کی غرقابی کے بعد بنی اسرائیل کے مرتبہ و مقام کا بیان۔ فرعون اور اس کے لشکر و سپاہ کو غرقاب کرنے کے بعد بنی اسرائیل کے بارے میں ارشاد ہوتا ہے کہ ہم نے انہیں مقام صدق اور حلال و طیب رزق کی فراوانی سے ہم کنار کیا۔ لفظ صدق یہاں بڑے وسیع تر معانی میں استعمال ہوا ہے۔ صدق سے مراد وہ مرتبہ اور مقام ہے جو آل فرعون کی بربادی کے بعد بنی اسرائیل کو حاصل ہوا۔ دنیا میں بنی اسرائیل کی سچائی اور ان کی بزرگی کی دھوم مچ گئی۔ اقتدار کے اعتبار سے انہیں شام، مصر فلسطین اور اس پورے علاقے پر حکمرانی کا موقع ملا جس پر آل فرعون کا پھر یرا بلند ہوا کرتا تھا۔ کھانے پینے کے حوالے سے انہیں ہر پاک اور طیب نعمت سے نوازا گیا۔ انہی کے بارے میں قرآن مجید کا ارشاد ہے کہ بنی اسرائیل کو تورات، حکومت، نبوت، رزق طیب اور اس زمانے کی پوری دنیا پر فضیلت عطا کی گئی۔ (الجاثیہ : ١٦) چاہیے تو یہ تھا کہ یہ قوم اللہ تعالیٰ کی شکر گزار اور اس کے دین پر ثابت قدم رہتی لیکن کچھ ہی عرصہ کے بعد انہوں نے پے درپے انبیاء (علیہ السلام) کی گستاخیاں کیں اور اللہ تعالیٰ کی بغاوت کا راستہ اختیار کیا۔ بنی اسرائیل کی ناشکری اور متلون مزاجی کا حال یہ تھا کہ جونہی فرعون غرق ہوا اور یہ دریا عبور کرکے آگے چلے تو انہوں نے راستہ میں ایسے لوگ دیکھے کہ جو بتوں کے سامنے سجدہ کرتے اور اعتکاف کی حالت میں بیٹھے ہوئے تھے۔ ناشکری قوم سب کچھ بھول کر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے مطالبہ کرتی ہے کہ ہمارے لیے بھی اس قسم کے الٰہ بنادیں جس پر موسیٰ (علیہ السلام) نے ناراضگی کے عالم میں فرمایا کہ تم تو جاہل قوم ہو۔ کیا میں اللہ کو چھوڑ کر تمہیں ان کی عبادت کی اجازت دوں حالانکہ اس نے پوری دنیا میں تمہارے وقار کو بلند کیا ہے۔ (الاعراف ١٣٨۔ ١٤٠) (وَلَقَدْ اٰتَیْنَا مُوسَی الْکِتَابَ فَاخْتُلِفَ فِیْہِ وَلَوْلَا کَلِمَۃٌ سَبَقَتْ مِنْ رَبِّکَ لَقُضِیَ بَیْنَہُمْ وَإِنَّہُمْ لَفِیْ شَکٍّ مِنْہُ مُرِیْبٍ)[ ھود : ١١٠] ” ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو کتاب دی جس میں اختلاف کیا گیا اگر آپ کے رب کا حکم پہلے سے طے شدہ نہ ہوتا تو ان کے درمیان فیصلہ چکا دیا جاتا اور وہ اس کے بارے میں شک میں پڑے ہوئے ہیں۔“ اختلاف فی نفسہ بری بات ہے لیکن قرآن و سنت کا علم آجانے کے بعد مذہبی تعصب، ذاتی مفاد اور اپنی انا کی خاطر حقائق ٹھکرائے رکھنا، پرلے درجے کی گمراہی ہے ایسے لوگ بہت کم ہدایت پایا کرتے ہیں اللہ تعالیٰ ہی قیامت کے روز ان کا فیصلہ کرے گا۔ یہاں اختلاف سے پہلی مراد گمراہی اور العلم سے مراد قرآن و سنت کا علم ہے۔ (عَنِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ (رض) قَالَ سَمِعْتُ رَجُلًا قَرَأَ وَسَمِعْتُ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ےَقْرَأُخِلَافَھَا فَجِءْتُ بِہِ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَاَخْبَرْتُہُ فَعَرَفْتُ فِیْ وَجْھِہِ الْکَرَاھِےَۃَ فَقَالَ کِلَاکُمَامُحْسِنٌ فَلَا تَخْتَلِفُوْا فَاِنَّ مَنْ کَانَ قَبْلَکُمُ اخْتَلَفُوْا فَہَلَکُوْا)[ رواہ البخاری : کتاب الخصومات، باب مایذکر فی الاشخاص والخصومۃ بین المسلم والیھود] ” حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں۔ میں نے ایک آدمی کو تلاوت کرتے ہوئے سنا۔ جبکہ میں نے نبی مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس کی تلاوت کے برعکس تلاوت کرتے سنا تھا۔ میں اسے لے کر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا۔ میں نے آپ سے پوری بات عرض کی تو میں نے آپ کے چہرے پر ناراضگی کے اثرات دیکھے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تم دونوں کی تلاوت درست ہے۔ اس طرح اختلافات نہ کیا کرو۔ تم سے پہلے لوگ اس اختلاف کی وجہ سے برباد ہوئے تھے۔“ (عَنْ اَنَسٍ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لِاُبَیِّ بْنِ کَعْبٍ (رض) اِنَّ اللّٰہَ اَمَرَنِیْ اَنْ اَقْرَاَ عَلَےْکَ الْقُرْاٰنَ قَالَ اٰللّٰہُ سَمَّانِیْ لَکَ قَالَ نَعَمْ قَالَ وَقَدْ ذُکِرْتُ عِنْدَرَبِّ الْعٰلَمِےْنَ قَالَ نَعَمْ فَذَرَفَتْ عَےْنَاہُ وَفِیْ رِوَاے َۃٍ اِنَّ اللّٰہَ اَمَرَنِیْ اَنْ اَقْرَأَ عَلَےْکَ لَمْ ےَکُنِ الَّذِےْنَ کَفَرُوْا قَالَ وَسَمَّانِیْ قَالَ نَعَمْ فَبَکٰی)[ رواہ البخا ری : باب مناقب ابی بن کعب] ” حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ابی بن کعب (رض) سے فرمایا مجھے اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ میں قرآن مجیدکی تلاوت تجھ سے سنوں ابی (رض) نے عرض کیا کہ اللہ نے آپ کو میرا نام لے کر فرمایا ہے؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہاں میں جواب دیا۔ حضرت ابی (رض) نے پھر حیران ہو کر پوچھا کیا رب العالمین کے ہاں میرا ذکر ہوا ہے؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بالکل ذکر ہوا ہے۔ اس خوشی سے حضرت ابی (رض) کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے اور ایک روایت میں ہے اللہ تعالیٰ نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں ” لَمْ یَکُنِ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا“ کی تلاوت تجھ سے سنو۔ انہوں نے دریافت کیا کہ اللہ تعالیٰ نے میرا نام لیا ہے؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہاں تیرا نام لیا ہے۔ یہ سن کر حضرت ابی بن کعب (رض) خوشی سے روپڑے۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو اعلیٰ مقام عنایت فرمایا۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ اپنے فرمانبرداروں کو بہترین ٹھکانہ عطا فرماتا ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو پاک رزق عطا فرماتا ہے۔ ٤۔ کچھ لوگ حقیقت جاننے کے باوجود حقائق کے ساتھ اختلاف کرتے ہیں۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ اختلاف کرنے والوں میں فیصلہ فرمائے گا۔ تفسیر بالقرآن بنی اسرائیل پر اللہ تعالیٰ کے انعامات : ١۔ ہم نے بنی اسرائیل کو بہت اچھا ٹھکانہ دیا اور انہیں عمدہ چیزوں کارزق عطا کیا۔ (یونس : ٩٣) ٢۔ اے بنی اسرائیل میرے انعام یاد کرو جو میں نے تم پر کیے۔ (البقرۃ : ٤٠) ٣۔ اے بنی اسرائیل میری نعمتوں کو یاد کرو جو تم پر انعام کیں اور میں نے تمہیں ساری دنیا پر فضیلت دی۔ (البقرۃ : ٤٧) ٤۔ بنی اسرائیل کے لیے سمندر کو پھاڑا گیا۔ (البقرۃ : ٥٠) ٥۔ اللہ نے بنی اسرائیل کے لیے بارہ چشمے جاری فرمائے۔ (الاعراف : ١٦٠) ٦۔ ہم نے بنی اسرائیل کوا ذیت ناک عذاب سے نجات دی۔ (الدخان : ٣٠) ٧۔ اللہ نے بنی اسرائیل کو نبوت، کتاب، حکومت، رزق اور دنیا بھر میں عزت دی۔ (الجاثیہ : ١٦) ٨۔ تمام کھانے بنی اسرائیل کے لیے حلال تھے مگر جو انہوں نے اپنے اوپر حرام کرلیے۔ (آل عمران : ٩٣) ٩۔ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو ان کے صبر کی وجہ سے کامل بھلائیاں دیں۔ (الاعراف : ١٣٧) ١٠۔ ہم نے بنی اسرئیل پربادلوں کا سایہ کیا اور ان کے لیے آسمان سے من وسلویٰ نازل کیا۔ (البقرۃ: ٥٧) یونس
94 فہم القرآن ربط کلام : موسیٰ (علیہ السلام) اور اس کی قوم کے مصائب کا تذکرہ کرنے کے بعد آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کوتسلی اور تشفی دی گئی ہے۔ اے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! جو کچھ ہم نے آپ کی طرف نازل کیا ہے اگر آپ کو اس بارے میں کوئی شک ہے تو آپ ان لوگوں سے پوچھ لیں۔ جن کو آپ سے پہلے کتاب عنایت کی گئی ہے یقین فرمائیں کہ آپ کے پاس حق پہنچ چکا ہے لہٰذا آپ کو شک کرنے والوں کا ساتھی نہیں ہونا چاہیے اور نہ ہی ان لوگوں کا ساتھ دینا چاہیے جو اللہ کی آیات کو جھٹلاتے ہیں۔ یہ لوگ ضرور نقصان پائیں گے۔ یقیناً آپ کے رب کا فرمان سچ ہے کہ اکثر لوگ ایمان نہیں لائیں گے ان آیات میں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات کو مخاطب فرمانے کے کئی مقاصد ہیں۔ ١۔ قرآن مجید کا اسلوب بیان ہے کہ جب اہم اور مشکل ترین مسئلہ کی طرف توجہ دلانا مقصود ہوتا ہے تو رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مخاطب کیا جاتا ہے۔ تاکہ قرآن پڑھنے والا چونک اٹھے کہ جب اس مسئلہ میں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات بھی مستثنیٰ نہیں تو میری کیا حیثیت ہے۔ ٢۔ خطاب رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ہے مگر مقصود آپ کی امت ہے۔ بات کی اہمیت اور اس میں زور پیدا کرنے کے لیے کہا گیا ہے کہ آپ کو اس سچائی میں کوئی شک نہیں ہونا چاہیے۔ ٣۔ بات کی اہمیت کے پیش نظر اس میں مزید زور پیدا کرنے کے لیے بھی مخاطب کو کہا جاتا ہے کہ تمہیں اس سچائی میں کوئی شک نہیں ہونا چاہیے۔ ٤۔ حالات کے دباؤ اور پریشر ہونے کے ناطے سے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دل میں کسی خیال کا آجانا یہ ایمان اور نبوت کے منصب کے منافی نہیں ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ دل کے خیالات پر موخذاہ نہیں کرتا۔ ٥۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرمایا جانا کہ آپ کو اللہ تعالیٰ کی آیات جھٹلانے والوں کے ساتھ نہیں دینا چاہیے یہ ارشاد بھی پہلے فرمان کے تابع اور خاص کر امت کے لیے ہے کیونکہ دنیا میں کتنے ہی سچائی کا دم بھرنے والے ہیں۔ جو حق جاننے کے باوجود حق والوں کا ساتھ نہیں دیتے۔ مصلحت اور مفاد کی خاطر جھوٹے لوگوں کی معاونت کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے بارے میں حقیقی ایمان لانے کی توقع رکھناعبث ہوتا ہے۔ اگر ان کے سامنے حقائق کھول کھول کر رکھ دیئے جائیں تب بھی مصلحت اور مفاد کی خاطر سچائی قبول کرنے اور اس کی حمایت کے لیے کھڑے نہیں ہوتے۔ یہاں تک کہ انہیں اللہ کا عذاب آلے۔ (عَنْ عَبْدِاللّٰہِ ابْنِ عَمْرٍو (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اِنَّ قُلُوْبَ بَنِیْ اٰدَمَ کُلَّھَا بَےْنَ اِصْبَعَےْنِ مِنْ اَصَابِعِ الرَّحْمٰنِ کَقَلْبٍ وَّاحِدٍ یُّصَرِّفُہُ کَےْفَ ےَشَآءُ ثُمَّ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اَللّٰھُمَّ مُصَرِّفَ الْقُلُوْبِ صَرِّفْ قُلُوْبَنَا عَلٰی طَاعَتِکَ)[ رواہ مسلم : باب تصریف اللہ القلوب ] ” حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) بیان کرتے ہیں رسول مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تمام انسانوں کے دل رحمٰن کی دو انگلیوں کے درمیان ایک دل کی طرح ہیں جیسے وہ چاہتا ہے پھیرتا ہے۔ پھر رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دعا کی ” اے اللہ دلوں کو پھیرنے والے اللہ ہمارے دلوں کو اپنی فرماں برداری پر پھیرے رکھنا۔“ (عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ قَالَ کَانَ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یُکْثِرُ أَنْ یَقُول اللَّہُمَّ ثَبِّتْ قَلْبِی عَلَی دینِکَ فَقَالَ رَجُلٌ یَا رَسُول اللَّہِ تَخَافُ عَلَیْنَا وَقَدْ آمَنَّا بِکَ وَصَدَّقْنَاکَ بِمَا جِءْتَ بِہِ فَقَالَ إِنَّ الْقُلُوبَ بَیْنَ إِصْبَعَیْنِ مِنْ أَصَابِعِ الرَّحْمَنِ عَزَّ وَجَلَّ یُقَلِّبُہَا )[ رواہ ابن ماجہ، باب دعا رسول اللہ] ” حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اکثر دعا کرتے تھے اے اللہ ! میرے دل کو دین پر ثابت قدم فرما ایک آدمی نے کہا اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ ہمارے بارے میں ڈرتے ہیں حالانکہ ہم آپ پر ایمان لائے اور جو آپ لائے اس کی تصدیق کی آپ نے فرمایا یقیناً دل رحمن کی دو انگلیوں کے درمیان ہیں وہ جیسے چاہتا اسے پھیرتا ہے۔“ مسائل ١۔ اللہ کے نازل کردہ قرآن میں شک نہیں کرنا چاہیے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ کی آیات کو جھٹلانے والے خسارہ پائیں گے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ کے عذاب کے مستحق ایمان نہیں لائیں گے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ کی آیات کے بارے میں شک نہیں کرنا چاہیے : ١۔ آپ کے پاس حق آگیا ہے سو آپ شک کرنے والوں میں سے نہ ہوں۔ (یونس : ٩٤) ٢۔ آپ کے پروردگار کی طرف سے حق آچکا آپ شک کرنے والوں میں سے نہ ہوں۔ (آل عمران : ٦٠) ٣۔ اہل کتاب جانتے ہیں بے شک قرآن مجید اللہ کی طرف سے نازل شدہ ہے آپ شک کرنے والوں میں سے نہ ہوں۔ (الانعام : ١١١) ٤۔ حق آپ کے رب کی طرف سے ہے پس آپ شک کرنے والوں میں سے نہ ہوں۔ (البقرۃ: ١٤٧) ٥۔ پس آپ شک میں مبتلا نہ ہوں یقیناً حق آپ کے رب کی طرف سے ہے۔ (ھود : ١٧) ٦۔ یقیناً حق آپ کے رب کی طرف سے ہے آپ شک کرنے والوں میں سے نہ ہوں۔ (آل عمران : ٦٠) یونس
95 یونس
96 یونس
97 یونس
98 فہم القرآن ربط کلام : قرآن کے منکرو! اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی مہلت سے اس طرح فائدہ اٹھانا چاہیے جس طرح قوم یونس (علیہ السلام) نے مہلت سے فائدہ اٹھا کر سچی توبہ کی اور اپنے سروں پر منڈلاتے ہوئے عذاب سے بچ گئے تھے۔ حضرت یونس (علیہ السلام) عراق کی سرزمین نینوا کے علاقہ میں ٨٠٠ قبل مسیح مبعوث کیے گئے۔ اس زمانے میں نینوا دنیا کے ترقی یافتہ بڑے شہروں میں شمار ہوتا تھا۔ قرآن مجید نے اس شہر کی آبادی ایک لاکھ سے زائد بتلائی ہے۔ ( الصافات : ١٤٧) شہر اور علاقے کے لوگ اشوری قوم سے تعلق رکھتے تھے جو بت پرستی میں مبتلا تھی۔ حضرت یونس (علیہ السلام) انہیں ایک مدت تک وعظ و نصیحت کرتے رہے مگر قوم نے ان کے ساتھ وہی سلوک کیا جو مشرک اقوام کا وطیرہ رہا ہے۔ حضرت یونس (علیہ السلام) نے انہیں بار بار اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرایا۔ لیکن وہ لوگ تائب ہونے کی بجائے بگاڑ میں آگے ہی بڑھتے گئے۔ جس پر یونس (علیہ السلام) نے انہیں آخری بار انتباہ کیا کہ اگر تم اسی راستے پر چلتے رہے تو فلاں دن تمہیں اللہ تعالیٰ کا عذاب دبوچ لے گا۔ قوم نے آخری وارننگ کو بھی استہزا کا نشانہ بنایا۔ جس پر حضرت یونس (علیہ السلام) دلبرداشتہ اور خفا ہو کر ہجرت کے لیے نکل کھڑے ہوئے حالانکہ انہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہجرت کرنے کا حکم نہیں پہنچا تھا۔ کیونکہ پیغمبر اللہ تعالیٰ کی اجازت کے بغیر ہجرت نہیں کرسکتا۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس فعل پر ان کی گرفت فرمائی جس کے بارے میں فرمایا۔ جب وہ غصہ کے عالم میں شہر چھوڑ کر چلا گیا اسے خیال تھا (یعنی اسے خیال نہ آیا) کہ ہم اس پر گرفت نہ کریں گے۔ (الابنیاء : ٨٧) قوم یونس پر نظر کرم : حضرت یونس (علیہ السلام) کے شہر چھوڑنے کے بعد ان کی پیشگوئی کے مطابق قوم پر عذاب منڈلانے لگا۔ جس پر قوم کو احساس ہوا کہ حضرت یونس کا فرمان سچ تھا۔ اللہ کا پیغمبر ہماری گستاخیوں اور بداعمالیوں کی وجہ سے ناراض ہو کر چلا گیا ہے۔ ظاہر ہے انہوں نے حضرت کو تلاش کیا ہوگا لیکن حضرت زمین کی بجائے مچھلی کے پیٹ میں جاچکے تھے۔ قوم نے دن کے وقت دن کے وقت کالے بادل، کڑکتی ہوئی بجلیاں اور خوفناک گھٹا ٹوپ اندھیرا دیکھا تو یقین ہوگیا کہ یہ بارش برسانے والے بادل نہیں۔ یہ تو حضرت یونس (علیہ السلام) کی بددعا کا نتیجہ اور ہمیں ہلاک کردینے والا بادل ہے۔ اس خوفناک صورت حال کو دیکھ کر انہوں نے عورتوں، بچوں اور مردوں کو کھلے میدان میں الگ الگ کرکے کہا کہ اللہ تعالیٰ کے حضور گڑگڑا کر معافی مانگو۔ تمام کے تمام لوگوں نے اللہ تعالیٰ کے حضور پوری درماندگی اور عاجزی کے ساتھ زاروقطار روتے ہوئے معافی طلب کی جس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے انہیں معاف فرما دیا، جس کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے کہ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ اللہ تعالیٰ کا بھیجا ہوا عذاب ٹل جائے مگر یونس (علیہ السلام) کی قوم کے سوا۔ جس کے دو سبب معلوم ہوتے ہیں : ١۔ عذاب کا قطعی وقت آنے سے پہلے کوئی فرد یا قوم سچی توبہ کرے تو اللہ تعالیٰ بھیجے ہوئے عذاب کو ٹال دیتا ہے۔ ٢۔ قوم یونس پر ابھی تک حجت تمام نہیں ہوئی تھی۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا قانون ہے۔ کہ جب تک کسی قوم پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے پوری طرح حجت قائم نہ ہو۔ اس وقت تک انہیں تہس نہس نہیں کیا جاتا لہٰذا قوم یونس کو نہ صرف معاف کردیا۔ بلکہ حضرت یونس (علیہ السلام) کو مچھلی کے پیٹ سے نجات دے کر اسی قوم کی طرف دوبارہ بھیجا گیا۔ سو وہ لوگ ایمان لائے جس وجہ سے انہیں زندگی میں مزید فائدہ اٹھانے کا موقعہ دیا گیا۔ (الصٰفٰت : ١٤٧۔ ١٤٨) اس طرح اللہ تعالیٰ نے انہیں دنیا کے ذلت ناک عذاب سے بچا لیا اور مزید مہلت عطا فرمائی۔ عذاب نازل ہونے کے بعد ایمان لانے کا کچھ فائدہ نہیں ہوتا : (فَلَمْ یَکُ یَنْفَعُہُمْ إِیْمَانُہُمْ لَمَّا رَأَوْا بَأْسَنَا سُنَّۃَ اللّٰہِ الَّتِیْ قَدْ خَلَتْ فِیْ عِبَادِہِ وَخَسِرَ ہُنَالِکَ الْکَافِرُوْنَ)[ المومن : ٨٥] ” پھر یہ نہ تھا کہ ان کا ایمان انہیں فائدہ دیتا، جب انہوں نے ہمارا عذاب دیکھ لیا۔ یہ اللہ کا طریقہ ہے جو اس کے بندوں میں گزر چکا اور اس موقع پر کافر خسارے میں رہے۔“ توبہ واستغفار کے ثمرات : (عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عَبَّاسٍ (رض) قَالَ قَالَ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَنْ لَزِمَ الاِسْتِغْفَارَ جَعَلَ اللَّہُ لَہُ مِنْ کُلِّ ہَمٍّ فَرَجًا وَمِنْ کُلِّ ضیقٍ مَخْرَجًا وَرَزَقَہُ مِنْ حَیْثُ لاَ یَحْتَسِبُ) [ رواہ ابوداؤد : باب الاستغفار] ” حضرت عبداللہ بن عباس (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس نے استغفار کو لازم پکڑ ا، اللہ تعالیٰ اسے ہر غم سے نجات عطا فرما دیتا ہے اور ہر تنگی سے نکلنے کی جگہ بنا دیتا ہے اور اسے وہاں سے رزق عطا فرماتا ہے جہاں سے اسے خیال بھی نہ ہو۔“ مسائل ١۔ اللہ کے حضور سچی توبہ کرنے سے آیا ہوا عذاب ٹل جاتا ہے۔ ٢۔ ایمان والے اللہ کی عطا کردہ مہلت سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن توبہ استغفار کے فوائد : ١۔ حضرت یونس کی قوم کے سوا کسی قوم کو عذاب کے وقت ایمان لانے کا فائدہ نہ ہوا۔ (یونس : ٩٨) ٢۔ اللہ سے بخشش طلب کیجیے یقیناً وہ معاف کرنے والا، رحم فرمانے والا ہے۔ (النساء : ١٠٦) ٣۔ اگر تم استغفار کرو تو اللہ تمہیں اس کا بہتر صلہ دے گا۔ (ہود : ٣) ٤۔ تم اللہ سے مغفرت طلب کرو اور اس کی طرف رجوع کرو وہ آسمان سے تمہارے لیے بارش نازل فرمائے گا اور تمہاری قوت میں اضافہ فرما دے گا۔ (ہود : ٥٢) ٥۔ اللہ سے استغفار کرو اور اس کی طرف رجوع کرو میرا رب رحم کرنے اور شفقت فرمانے والا ہے۔ (ہود : ٩٠) ٦۔ اللہ سے بخشش طلب کرو وہ معاف کردے گا اور بارش نازل فرمائے گا اور تمہارے مال و اولاد میں اضافہ فرمائے گا۔ (نوح : ١٠۔ ١٢) ٧۔ اللہ سے استغفار کرو یقیناً وہ بخشنے والا، رحم کرنے والا ہے۔ (المزمل : ٢٠) ٨۔ جب تک لوگ اللہ سے بخشش طلب کرتے رہیں گے اللہ انہیں عذاب نہیں دے گا۔ (الانفال : ٣٣) ٩۔ اپنے رب کی تعریف وتسبیح بیان کرو اور اس سے مغفرت طلب کرو یقیناً وہ معاف کرنے والا ہے۔ (النصر : ٣) یونس
99 فہم القرآن ربط کلام : کیونکہ حضرت یونس (علیہ السلام) کی قوم عذاب دیکھ کر سچا ایمان لائی اور توبہ کی اس لیے مناسب سمجھا گیا کہ وضاحت کردی جائے کہ اللہ تعالیٰ جبراً کسی کو ایمان لانے پر مجبور نہیں کرتا۔ جس طرح کہ پہلی آیات کی تفسیر میں عرض کیا گیا ہے۔ کہ حضرت یونس (علیہ السلام) کی قوم پر عذاب بھیجنے کے باوجود اس لیے انہیں معاف کردیا گیا کہ ابھی پوری طرح ان پر اتمام حجت نہیں ہوئی تھی۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے اللہ کے حضور عجزو عاجزی کی ایک نئی مثال قائم کی تھی جس بنا پر ان پر آیا ہوا عذاب ٹال دیا گیا۔ قرآن مجید کی تلاوت کرنے والے کو یہ خیال آسکتا ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ ہر دور کے مجرموں کو راہ راست پر لانے کے لیے تھوڑا سا جبر اختیار فرما لے تو لوگ ہدایت پر آسکتے ہیں۔ اس خیال کی نفی کی خاطریہاں یہ اصول بیان کردیا ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کا ضابطہ نہیں کہ لوگوں کو جبر کے ذریعے اپنی ذات منوائے اور دین پر گامزن کرے۔ اگر اللہ تعالیٰ یہ انداز اختیار فرمائے تو زمین پر بسنے والے ہر دور کے انسان ایمان قبول کرلیتے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے انسان کو عقل و شعور کی صلاحیت سے سرفراز کیا ہے۔ جسے بروئے کار لانا ہر انسان کی ذمہ داری ہے۔ اگر لوگ عقل وخرد رکھتے ہوئے بھی نفع اور نقصان، برائی اور اچھائی، نیکی اور بدی میں فرق نہیں کرتے تو اس کا انجام انہیں بھگتنا پڑے گا۔ البتہ یہ بات ضرور ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایمان کی توفیق اسے ضرور مل جاتی ہے جو خلوص نیت کے ساتھ ایمان کی جستجو کرتا ہے۔ جو کسی قسم کا تعصب اور دنیوی مفاد پیش نظر رکھے گا اس پر عقیدے کی گندگی اور بدعملی کی نحوست مسلط کردی جاتی ہے۔ اس فرمان میں یہی اصول سمجھانے کے لیے یہ انداز اختیار کیا گیا ہے کہ ہدایت اللہ تعالیٰ کے اذن کا نتیجہ ہوتی ہے اور برائی بھی اسی کی جانب سے ہوتی ہے۔ جس کا سادہ مفہوم یہ ہے کہ کوئی ہدایت کا طالب ہو تو اللہ تعالیٰ اسے ہدایت دیتا ہے جو برائی کا طلبگار ہوتا ہے اس کے لیے برائی کا راستہ کھول دیا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اسے یوں بھی بیان کرتے ہیں : (إِنَّا ہَدَیْنَاہ السَّبِیْلَ إِمَّا شَاکِرًا وَإِمَّا کَفُوْرًا )[ الدھر : ٣] ” ہم نے انسان کو راستے کی راہنمائی کی۔ چاہے تو وہ ہدایت کا راستہ اختیار کرے۔ چاہیے تو گمراہی کا راستہ اختیار کرلے۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ جبر کرتے تو سارے لوگ ایمان لے آتے۔ ٢۔ آدمی ہدایت کے راستے کو چھوڑ دے تو اس پر گمراہی مسلط کردی جاتی ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ کسی کو جبراً ہدایت نہیں دیتا : ١۔ اگر تیرا رب چاہتا تو زمین کے تمام لوگ ایمان لے آتے۔ (یونس : ٩٩) ٢۔ کیا آپ لوگوں پر ایمان کے معاملہ میں جبر کرسکتے ہیں؟ (یونس : ٩٩) ٣۔ دین میں جبر نہیں ہے۔ (البقرۃ: ٢٥٦) ٤۔ ہم نے قوم ثمود کو ہدایت دی انہوں نے ہدایت کے بدلے جہالت کو پسند کیا۔ (حم السجدۃ: ١٧) ٥۔ اللہ ایسی قوم کو کیسے ہدایت دے جو ایمان لانے کے بعد کفر اختیار کرتی ہے۔ (آل عمران : ٨٦) ٦۔ اللہ تعالیٰ اس کو ہدایت دیتا ہے جو اس کی طرف رجوع کرتا ہے۔ (الشورٰی : ١٣) ٧۔ اگر اللہ چاہتا تو سبھی کو ہدایت دے دیتا اور کافر تو اسی حال میں ہی رہیں گے۔ (الرعد : ٣١) یونس
100 یونس
101 فہم القرآن ربط کلام : حضرت یونس (علیہ السلام) کی قوم کے تذکرہ کے بعد۔ انسان کو توجہ دلائی گئی ہے اگر تھوڑا سا عقل سے کام لے اور اللہ تعالیٰ کی قدرتوں پر غور کرے تو اس کے لیے ہدایت کے راستے کھل جائیں گے۔ اللہ کی قدرت کی نشانیاں زمین و آسمان میں اس قدر نمایاں اور پھیلی ہوئی ہیں کہ آدمی تھوڑی سی توجہ کرے تو وہ خود بخود اپنی طرف متوجہ کرلیتی ہیں۔ آسمان کی طرف دیکھیے کب سے جوں کا توں بلا ستون کھڑا ہے نہ اس کی رنگت میں کوئی فرق آیا ہے اور نہ ہی کہیں سے جھکا اور پھٹا ہے یہاں تک کہ اس میں دراڑ اور نشیب و فراز بھی نظر نہیں آتا۔ اب اپنے پاؤں تلے زمین پر غور فرمائیے کہ بظاہر ایک ہی دھرتی ہونے کے باوجود اس مٹی کی ہزاروں قسمیں ہیں۔ ایک زمین چنے کی فصل اگاتی ہے اگر آپ وہاں چاول کی فصل لگائیں تو وہ اسے ہرگز قبول نہیں کرے گی۔ زمین کا ایک قطعہ سبزیوں کے لیے مفید ہے جبکہ دوسرا گنے اور کپاس کی فصل زیادہ اگاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس زمین کو اتنا امانت دار اور فراخ دل بنایا ہے کہ آپ ایک کھیت میں بیس پچیس کلو بیج ڈالتے ہیں تو وہ نہ صرف اس کی حفاظت کرتی ہے بلکہ بیس پچیس کلو کی جگہ چالیس پچاس من گندم واپس کرتی ہے پھر غور فرمائیں زمین، پانی، موسم ایک ہونے کے باوجود پھلوں کے ذائقے اور رنگت میں زمین آسمان سے بھی زیادہ فر ق ہے۔ آپ جوں جوں قادرِمطلق کی قدرت پر غور کریں گے اسی انداز سے اپنے مالک کو پہچانتے جائیں گے۔ بے شمار نشانیاں اور ان گنت شواہد اس شخص کو کچھ فائدہ نہیں دیتے جو اللہ تعالیٰ کی ثبت کردہ نشانیوں سے بے اعتنائی اور اس کے خوف سے بے خوف ہوتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی حالت یہ ہے کہ یہ شعوری یا غیر شعوری طور پر اس برے وقت کا انتظار کرتے ہیں جو ان سے پہلے مجرم قوموں پر وارد کیا گیا تھا۔ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! بس ان ناعاقبت اندیش، خدا کے خوف سے تہی دامن اور عقل کے اندھوں کو یہی کہنا چاہیے کہ تم اپنے انجام کا انتظار کرو میں بھی تمہارے ساتھ اس کا انتظار کرتا ہوں۔ لیکن یاد رکھنا کہ جب اللہ تعالیٰ کا عذاب نازل ہوگا تو وہ مجھے اور میرے ساتھیوں کو اس سے محفوظ فرمائے گا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا طریقہ ہے جب نبی کی موجودگی میں اس کی قوم پر عذاب آتا ہے تو نبی اور اس کے ایماندار ساتھیوں کو اس بستی سے نکل جانے کا حکم دیا جاتا ہے۔ یہی اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے جو ہر صورت پورا ہوا کرتا ہے۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ کی نشانیوں سے بے ایمان لوگ عبرت حاصل نہیں کرتے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ اپنے عذاب سے اپنے رسولوں اور مومنین کو محفوظ رکھتا ہے۔ ٣۔ مومنوں کو نجات دینا اللہ تعالیٰ نے اپنے ذمہ لے رکھا ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ مومنوں کی مدد کرتا ہے : ١۔ پھر ہم اپنے پیغمبروں اور ایمان والوں کو نجات دیتے ہیں۔ (یونس : ١٠٣) ٢۔ مومنوں کی مدد کرنا ہمارے لیے لازم ہے۔ (الروم : ٤٧) ٣۔ بے شک ہم مدد کرتے ہیں اپنے رسولوں کی اور ایمان والوں کی دنیا کی زندگی میں۔ (المومن : ٥١) ٤۔ اے ایمان والو! تم اللہ کی مدد کرو (یعنی اللہ کے دین کی) اللہ تعالیٰ تمہاری مدد کرے گا۔ (محمد : ٧) ٥۔ ہم نے ان کی مدد کی سو وہ غالب آگئے۔ (الصٰفٰت : ١١٦) یونس
102 یونس
103 یونس
104 فہم القرآن ربط کلام : ( آپ کھل کر اعلان کردیں کہ) ” اللہ“ کی مدد انبیاء (علیہ السلام) اور مومنوں کے ساتھ ہوتی ہے۔ نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے ساتھیوں کو نصرت و حمایت کی خوشخبری دینے کے بعد حکم ہوا۔ کہ اے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ سرعام اعلان فرمائیں کہ اے لوگو! اگر تمہیں میرے دین کے بارے میں شک ہے اور تم کسی طرح بھی مطمئن ہونے کے لیے تیار نہیں ہو۔ تو یاد رکھو میں اللہ کے سوا تمہارے معبودان باطل کی عبادت کرنے کے لیے تیار نہیں ہوں۔ میں صرف اسی ایک اللہ کی عبادت کرتارہوں گا۔ جو تمہیں اور سب کو فوت کرنے والا ہے۔ کیونکہ میں ماننے والوں میں ہوں اس لیے مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں اپنے آپ کو کلی طور پر اس دین کے تابع کروں جو ہر اعتبار سے کامل، اکمل اور ہر قسم کی کمی کمزوری سے مبرا ہے۔ میرا مشرکوں کے ساتھ کوئی رشتہ نہیں۔ یہاں دین سے مراد توحید خالص اور اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنا ہے۔ مشرکین مکہ نے جب نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مخالفت میں ایڑی چوٹی کا زور لگالیا۔ اور وہ ہر اعتبار سے ناکام اور نامراد ٹھہرے تو انہوں نے اپنے رویے میں تبدیلی لاتے ہوئے یہ مطالبہ کیا کہ اے محمد! کچھ آپ نرم ہوجائیں اور کچھ ہم اپنا موقف چھوڑنے کے لیے تیار ہیں تاکہ ہماری کشمکش ختم ہوجائے۔ ( القلم : ٩) اس کے جواب میں یہ فرمان نازل ہوا کہ اے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ مشرکین کی پرواہ کیے بغیر صرف ایک اللہ کی عبادت کرتے ہوئے اس کی توحید کی دعوت دیتے رہیں۔ چنانچہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دشمنوں کی دشمنی اور مخالفوں کی مخالفت کی پرواہ کیے بغیر زندگی بھر اس کام کو جاری رکھا تاآنکہ اللہ تعالیٰ نے وہ وقت دکھایا کہ جب آپ اپنی زندگی کا آخری حج ادا کررہے تھے۔ تو ایک لاکھ سے زائد کے مجمع سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا : ” حضرت واقد بن محمد کہتے ہیں میں نے اپنے باپ سے سنا وہ کہتے ہیں کہ حضرت عبداللہ، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حجۃ الوداع کے موقعہ پر فرمایا کیا تم جانتے ہو حرمت کے لحاظ سے عظیم مہینہ کون سا ہے۔ صحابہ نے کہا یہ مہینہ۔ آپ نے فرمایا کیا تم جانتے ہو حرمت کے لحاظ سے عظیم شہر کون سا ہے صحابہ نے عرض کیا ہمارا شہر۔ آپ نے فرمایا کیا تم جانتے ہو حرمت کے لحاظ سے عظیم دن کون سا ہے صحابہ نے عرض کیا آج کا دن آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ تبارک و تعالیٰ نے تمہارے خون، تمہارے مال اور تمہاری عزت کو حرام قرار دیا ہے مگر حق کے ساتھ جس طرح کہ اس دن کی حرمت ہے تمہارے اس شہر اور مہینے کی کیا میں نے پیغام پہنچا دیا، آپ نے تین بار یہ کلمات دھرائے اور تمام نے کہا کیوں نہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا افسوس ہو تم پریا ویل ہو میرے بعد کافر نہ بن جانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں کاٹتے پھرو۔“ (رواہ البخاری : کتاب الحدود، باب ظھر المو من حمی الا فی حداو حق) مسائل ١۔ ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی ہی عبادت کرنی چاہیے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ ہر کسی کی موت پر اختیار رکھتا ہے۔ ٣۔ اپنے آپ کو دین کے لیے خالص کرلینا چاہیے۔ ٤۔ مشرکین کا ساتھی نہیں بننا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن صرف ایک اللہ کی ہی عبادت کرنی چاہیے : ١۔ آپ کو حکم ہے کہ آپ فرما دیں کہ میں تو صرف ایک اللہ کی عبادت کرتا ہوں۔ (یونس : ١٠٤) ٢۔ اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بناؤ۔ (الرعد : ٣٦) ٣۔ اللہ کے علاوہ کسی کی عبادت نہ کرو۔ (ہود : ٢) ٤۔ اے لوگو اپنے پروردگار کی عبادت کرو۔ (البقرۃ: ٢١) ٥۔ اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو۔ (یوسف : ٤٠) ٦۔ اللہ کی عبادت کرو اور اس کے شریک نہ بناؤ (النساء : ٣٦) ٧۔ نوح، ہود، صالح، اور شعیب نے اپنی قوم کو ایک اللہ کی عبادت کا حکم دیا۔ (ہود : ٥٠۔ ٦١۔ ٨٤) ٨۔ اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو۔ (بنی اسرائیل : ٢٣) یونس
105 یونس
106 فہم القرآن ربط کلام : صرف ایک اللہ کی عبادت اس لیے بھی کرنا ہے کیونکہ اس کے سوا کوئی نفع و نقصان کا مالک نہیں نہ ہی اس کے علاوہ کوئی حاجت روا اور مشکل کشا ہے۔ توحید یہ ہے کہ اللہ کی ذات اور اس کی صفات میں کسی زندہ یا مردہ کو شریک نہ سمجھا جائے۔ یہ عقیدہ دین کی ابتداء اور انتہا ہے۔ اسے سمجھانے کے لیے اللہ تعالیٰ بار بار مختلف انداز اور الفاظ استعمال کرتے ہوئے لوگوں کو حکم دیتا ہے کہ اس پر پکے ہوجاو۔ یہی دنیا میں انسان کی کامیابی اور آخرت کی فلاح کا راستہ ہے۔ اس عقیدہ کی اہمیت اور فرضیت کے لیے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے لے کر ہر انسان کو یہ حکم دیا گیا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے سوا نہ کسی کی عبادت کرے اور نہ ہی کسی کو اپنے نفع و نقصان کا مالک سمجھے۔ اسی سے انسان اور اللہ تعالیٰ کے درمیان رشتہ مضبوط ہوتا ہے۔ اس کا منطقی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ انسان ہر قسم کے نفع و نقصان سے بالا تر ہو کر محض اخلاص کی بنیاد پر دوسرے آدمی کے ساتھ تعلق قائم کرتا ہے۔ یہ عقیدہ زندگی کے ہر میدان میں انسان کو ایک دوسرے کے ساتھ مخلص ہو کر رہنے کا سبق دیتا ہے۔ کیونکہ اس کا یہ ایمان ہوتا ہے کہ نفع اور نقصان کا مالک صرف ایک اللہ ہے اگر وہ نہ چاہے تو کوئی مجھے نہ فائدہ دے سکتا ہے اور نہ نقصان پہنچا سکتا ہے۔ اس عظیم تصور اور عقیدے کو سمجھانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے براہ راست اپنے رسول کو مخاطب کیا ہے کہ اے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! اگر آپ بھی اس عقیدہ سے ہٹ جائیں تو آپ کا شمار ظالموں میں ہوگا۔ یہاں ظلم سے مراد شرک اور اس کا ارتکاب کرنے والے ظالم ہوں گے۔ کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کی بے مثال ہستی اور اس کی عظیم صفات کے ساتھ مردوں اور ادنیٰ چیزوں کو شریک بناتے ہیں۔ اس عقیدہ کی مزید وضاحت کرتے ہوئے پھر نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مخاطب کیا گیا ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ آپ کو کوئی تکلیف دینے کا فیصلہ کرے تو زمین و آسمان میں کوئی طاقت نہیں جو اس تکلیف کو آپ سے دور کردے۔ اگر اللہ تعالیٰ آپ کو خیر اور بھلائی عطا کرنا چاہیے ہے تو زمین و آسمان میں کوئی قوت نہیں جو اللہ کے فضل کو آپ سے دور کرسکے۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں جسے چاہتا ہے اپنے فضل و کرم سے نوازتا ہے۔ کیونکہ وہ بہت معاف کرنے اور رحم فرمانے والا ہے۔ اس عقیدہ کی تازگی اور پختگی کے لیے آپ نے اپنے چچا زاد بھائی عبداللہ بن عباس (رض) کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر یوں فرمایا۔ (عَنِ الْمُغِےْرَۃِ ابْنِ شُعْبَۃَ (رض) اَنَّ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کَانَ ےَقُوْلُ فِیْ دُبُرِ کُلِّ صَلٰوۃٍ مَّکْتُوْبَۃٍ (لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہُ لَا شَرِےْکَ لَہُ لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ وَھُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِےْرٌ اَللّٰھُمَّ لاَ مَانِعَ لِمَا اَعْطَےْتَ وَلَا مُعْطِیَ لِمَا مَنَعْتَ وَلَا ےَنْفَعُ ذَالْجَدِّ مِنْکَ الْجَدُّ)[ رواہ البخاری : باب الذکر بعد الصلٰوۃ] ” حضرت مغیرہ بن شعبہ (رض) ذکر کرتے ہیں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرض نماز کے بعد اکثر یہ کلمات ادا فرمایا کرتے تھے۔ ” صرف ایک اللہ ہی معبود حق ہے اس کا کسی لحاظ سے کوئی شریک نہیں اس کی حکمرانی ہے‘ وہی تعریفات کے لائق ہے اور وہ ہر چیز پر اقتدار اور اختیار رکھنے والاہے۔ الٰہی جسے تو کوئی چیز عنایت فرمائے اسے کوئی نہیں روک سکتا اور جو تو روک لے وہ کوئی دے نہیں سکتا۔ تیری کبریائی کے مقابلے میں کسی بڑے کی بڑائی فائدہ نہیں دے سکتی۔“ (عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ (رض) قَالَ کُنْتُ خَلْفَ رَسُوْلِ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَوْمًا فَقَالَ یَا غُلاَمُ اِحْفَظِ اللّٰہَ یَحْفَظْکُ اِحْفِظِ اللّٰہَ تَجِدْہٗ تَجَاہَکَ وَإِذَا سَأَلْتَ فَاَسْأَلِ اللّٰہَ وَإِذَا اسْتَعَنْتَ فَاسْتَعِنْ باللّٰہِ وَاعْلَمْ أَنَّ الْأُمَّۃَ لَوِاجْتَمَعَتْ عَلَی أَنْ یَّنْفَعُوْکَ بِشَیْءٍ لَمْ یَنْفَعُوْکَ إِلاَّ بَشَیْءٍ قَدْ کَتَبَہُ اللّٰہِ لَکَ وَلَوِاجْتَمَعُوْا عَلٰی أَنْ یَّضُرُّوْکَ بِشَیْءٍ لَمْ یَضُرُّوْکَ إِلاَّ بِشَیْءٍ قَدْ کَتَبَہُ اللّٰہُ عَلَیْکَ رُفِعَتِ الْأَقْلَامُ وَجُفَّتِ الصُّحُفُ )[ رواہ أحمد ] ” حضرت عبداللہ بن عباس (رض) بیان کرتے ہیں میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پیچھے سوار تھا آپ نے فرمایا اے بچے اللہ تعالیٰ کے احکامات کی حفاظت کر اللہ تیری حفاظت کرے گا۔ اللہ کو یاد کر اس کو اپنے سامنے پائے گا۔ جب مانگے تو فقط اللہ ہی سے سوال کر۔ مدد کی ضرورت ہو تو اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کرو۔ اس بات کو ذہن نشین کرلو اگر ساری دنیا والے تجھے نفع پہنچانے کے لیے جمع ہوجائیں تو نفع نہیں پہنچا سکتے مگر اتنا ہی جتنا اللہ نے تیرے مقدر میں لکھ دیا ہے۔ اگر تمام کے تمام تجھے نقصان پہنچانے کے درپے ہوجائیں تو تجھے نقصان نہیں پہنچا سکتے مگر اتنا ہی جتنا تیرے مقدر میں لکھ دیا گیا ہے۔ قلمیں اٹھا دی گئیں اور صحیفے خشک ہوچکے ہیں۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو نہیں پکارنا چاہیے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نفع نقصان کا مالک نہیں۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کو پکارنے والا ظالم ہے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ کسی کو نقصان پہچانا چاہے تو کوئی بچا نہیں سکتا۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ کے فضل کو کوئی ہٹا نہیں سکتا۔ ٦۔ اللہ جسے چاہتا ہے اپنا فضل کا عطا فرماتا ہے۔ ٧۔ اللہ معاف کرنے اور رحم فرمانے والا ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی حاجت روا اور مشکل کشا نہیں : ١۔ اللہ کے سوا کسی کو مت پکاریں جو نفع اور نقصان نہیں پہنچا سکتے۔ (یونس : ١٠٦) ٢۔ اللہ کے سوا کوئی تکلیف دور کرنے والا نہیں۔ (بنی اسرائیل : ٥٦) ٣۔ اللہ کے سوا مجبور کی دعا سننے والا اور اس کی مصیبت دور کرنے والا کون ہے؟ (النمل : ٦٢) ٤۔ اللہ ہی تکلیف دور کرتا ہے لہٰذا اسی کو پکارو۔ (الانعام : ٤١) ٥۔ اللہ کے سوا کوئی تمہار اولی اور مددگار نہیں۔ (البقرۃ: ١٠٧) ٦۔ لوگوں کا اللہ کے سوا کوئی مددگار نہیں جو ان کی مدد کرسکے۔ (الشورٰی : ٤٦) ٧۔ اس دن کافر لوگ جان لیں گے جب ان کے چہروں اور پشتوں سے آگ ہٹانے والا کوئی نہیں ہوگا اور نہ وہ مدد کیے جائیں گے۔ (الانبیاء : ٣٩) یونس
107 یونس
108 فہم القرآن ربط کلام : اس آیت سے چار آیات قبل حکم تھا کہ اے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لوگوں کو فرمائیں اگر تمہیں میرے عقیدہ اور دین کے بارے میں شک ہے تو میرے راستے میں رکاوٹ بننے کی بجائے مجھے اپنے طریقہ پر اللہ وحدہ لا شریک کی عبادت کرنے دیجیے۔ اب ارشاد ہوتا ہے یہی حق ہے جو تمہارے رب کی طرف سے تم تک پہنچ چکا ہے۔ جو حق کی پیروی کرے گا اس کا فائدہ اسے ہی پہنچے گا اور جس نے توحید کا عقیدہ چھوڑ دیا۔ اس کا وبال اسے ہی اٹھانا پڑے گا۔ اور مجھے تم پر وکیل بنا کر نہیں بھیجا گیا وکیل کا معنی ہے دوسرے کے کام کا ذمہ دارہونا۔ نبی کا کام حق پہنچانا ہوتا ہے منوانا نہیں۔ لہٰذا اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ اسی کی اتباع کریں جو آپ کی طرف وحی کیا جاتا ہے اور لوگوں کی مخالفت پر حوصلہ رکھیں اور پوری دلجمعی اور ثابت قدمی کے ساتھ اپنا کام کرتے جائیں۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کا حکم آپہنچے اللہ تعالیٰ بہترین حاکم ہے۔ اللہ کے حکم سے مراد ظالموں پر عذاب اور حق والوں کی کامیابی ہے۔ (عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ (رض) قَالَ سَمِعْتُ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَقُولُ إِنَّ اللَّہَ قَالَ إِذَا ابْتَلَیْتُ عَبْدِی بِحَبِیبَتَیْہِ فَصَبَرَ عَوَّضْتُہُ مِنْہُمَا الْجَنَّۃَ)[ رواہ البخاری : باب فضل من ذھب بصرہ] ” حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے ہوئے سنا جس کو اللہ تعالیٰ اس کی دو محبوب (آنکھوں) چیزوں کے ساتھ آزماتا ہے اور وہ اس پر صبر کرتا ہے۔ اللہ اس کے عوض اسے جنت عطا فرمائیں گے۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے حق پہنچ چکا ہے۔ ٢۔ حق کا راستہ اپنانے والے کو اس کا فائدہ ہوگا۔ ٣۔ گمراہی اختیار کرنے والے کو اس کا نقصان ہوگا۔ ٤۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کسی کی ہدایت کے ذمہ دار نہیں تھے۔ ٥۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو وحی کی تابعداری کا حکم دیا گیا۔ ٦۔ دین کے راستے میں مشکلات آئیں تو صبر سے کام لینا چاہیے۔ ٧۔ اللہ تعالیٰ سب سے بہتر فیصلہ فرمانے والا ہے۔ تفسیر بالقرآن سب لوگ اللہ تعالیٰ کے حکم کے پابند ہیں : ١۔ صبر کا دامن نہ چھوڑیں یہاں تک کہ اللہ فیصلہ صادر فرما دے۔ (یونس : ١٠٩) ٢۔ نہیں ہے حکم مگر اللہ کا۔ اس کا حکم ہے کہ عبادت صرف اسی کی کی جائے۔ (یوسف : ٤٠) ٣۔ بے شک اللہ جو چاہتا ہے فیصلہ فرماتا ہے۔ (المائدۃ: ١) ٤۔ اللہ قیامت کے دن لوگوں کے درمیان فیصلہ کرے گا جس میں وہ اختلاف کرتے ہیں۔ (البقرۃ : ١١٣) ٥۔ قیامت کے دن آپ کا پروردگار ان کے درمیان فیصلہ کرے گا۔ (النحل : ١٢٤، النساء : ١٤١) یونس
109 یونس
0 بسم اللہ الرحمن الرحیم تعارف سورۃ ھود اس سورۃ مبارکہ میں حضرت ھود (علیہ السلام) کا ذکر قدرے تفصیل کے ساتھ پایا جاتا ہے۔ اس حوالے سے اس سورت کا نام سورۃ ھود رکھا گیا۔ اس کا نزول مکہ معظمہ میں ہوا۔ یہ سورت (١٢٣) آیات پر مشتمل ہے۔ اس میں قرآن مجید کا تعارف کروانے کے بعد اللہ تعالیٰ کی توحید کی دعوت دی گئی ہے۔ اللہ کی توحید کی دعوت دینے کے ساتھ لوگوں کو حکم دیا گیا ہے کہ اگر وہ توبہ استغفار کا راستہ اختیار کریں تو انہیں دنیا میں بھی عزت و عظمت عطا کی جائے گی۔ جو لوگ توبہ استغفار کا راستہ اختیار کرنے کے لیے تیار نہیں تو انہیں قیامت کے دن کی ہولناکیوں کے بارے میں متنبہ کیا گیا ہے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اپنے رزاق ہونے کے دلائل دیے ہیں۔ ساتھ ہی شکوہ کیا ہے کہ انسان کو تکلیف پہنچے تو اپنے رب سے مایوسی کا اظہار کرتا ہے۔ اگر اسے فضل و کرم سے نوازا جائے تو وہ فخر و غرور کا اظہار کرتا ہے اس کے بعد۔ قرآن مجید کے بارے میں چیلنج دیا گیا ہے کہ اگر تم اس کو من جانب من اللہ تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں تو قرآن مجید کی کسی دس سورتوں کے مقابلے میں ان جیسی سورتیں بنا کر لاؤ۔ اگر تم یہ چیلنج قبول کرنے کے لیے تیار نہیں تو تمہیں کھلے دل کے ساتھ اعتراف کرنا چاہیے کہ قرآن مجید اللہ تعالیٰ کا کلام ہے۔ اس سورت کے تیسرے اور چوتھے رکوع میں حضرت نوح (علیہ السلام) کی بے مثال جدوجہد کا تذکرہ کرنے کے بعد ان کی قوم کا انجام ذکر کیا ہے۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کے بعد حضرت ھود کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ انہوں نے بھی اپنی قوم کو یہ بات ارشاد فرمائی تھی کہ اگر تم توبہ استغفار کا راستہ اختیار کرو گے تو اللہ تعالیٰ تمہیں معاشی طور پر مستحکم فرمائے گا۔ لیکن ان کی قوم نے اپنے رب کے حضور توبہ استغفار کرنے کی بجائے سرکشی اور نافرمانی کا راستہ اختیار کیا۔ جس کے نتیجہ میں اس قوم پر اللہ کی پھٹکار نازل ہوئی اور اسے نیست و نابود کردیا گیا۔ قوم ھود کے بعد حضرت صالح (علیہ السلام) کی قوم کا انجام بیان کیا گیا ہے۔ قوم صالح کے بعد حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس فرشتوں کی آمد، حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا ان سے خوفزدہ ہونا ملائکہ کا خوشخبری دینا کہ اللہ تعالیٰ آپ کو بیٹا اور پوتا عنایت فرمائیں گے۔ ان سے فارغ ہونے کے بعد ملائکہ حضرت لوط (علیہ السلام) کے پاس جاتے ہیں۔ لوط (علیہ السلام) کی قوم ہم جنسی کے جرم میں ملوث تھی۔ ملائکہ حضرت لوط (علیہ السلام) کے پاس خوبصورت لڑکوں کی شکل میں آئے۔ قوم نے مہمانوں کے ساتھ بدکرداری کا ارادہ کیا جس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کے حکم سے ملائکہ نے پوری بستی کو اٹھا کر آسمان کے قریب لے جا کر زمین پر دے مارا اور ان پر پتھروں کی بارش برسائی۔ قوم لوط کی تباہی کے تذکرہ کے بعد حضرت شعیب (علیہ السلام) کی قوم کے کردار کا بیان کیا ہے۔ جو لین دین اور ماپ تول میں خیانت کی مرتکب ہونے کے ساتھ شرک میں مبتلا تھی۔ حضرت شعیب (علیہ السلام) نے انھیں منع کیا تو قوم نے طعنہ دیا کہ اے شعیب تیری نمازیں تجھے یہی کچھ سکھاتی ہیں کہ ہم اپنے باپ دادا کے طریقہ کو چھوڑ دیں۔ جب قوم باز نہ آئی تو چیخ نے آلیا جس کی وجہ سے وہ صبح کے وقت اپنے گھروں میں اوندھے منہ تباہی کے گھاٹ اتر گئے۔ سورۃ ھود کا اختتام حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور فرعون کی کشمکش کے بیان پر ہوا۔ ارشاد فرمایا کہ اے لوگو! انجام کار اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔ اگر تم دنیا و آخرت میں اچھا انجام چاہتے ہو تو پھر ایک اللہ کی عبادت کرو اور اسی کی ذات پر بھروسہ کرو۔ ہمیشہ یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال سے بے خبر نہیں ہے۔ وہ تمہارے احوال سے لمحہ لمحہ آگاہ رہتا ہے۔ ( عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ (رض) قَالَ قَالَ أَبُوْ بَکْرِ الصِّدِیْقِ سَأَلْتُ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَا شَیْبَکَ ؟ قَالَ سُوْرَۃُ ہُوْدٍ وَالْوَاقِعَۃِ وَالْمُرْسَلاَتِ وَ عَمَّ یَتَسَاءَ لُوْنَ وَ إِذَا الشَّمْسُ کُوِّرَتْ) [ المستد رک للحاکم] ” حضرت عبداللہ بن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابو بکر صدیق (رض) نے ایک دن نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کی۔ اللہ کے محبوب پیغمبر آپ کو کس چیز نے بوڑھا کردیا ہے؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا مجھے سورۃ ھود، الواقعۃ، المرسلات، عما یتساء لون، اذا الشمس کورت نے بوڑھا کردیا ہے۔“ ھود
1 فہم القرآن ربط کلام : سورۃ یونس اور ہود کا باہمی ربط (تفسیر): سورۃ یونس کا اختتام اس ارشاد پر ہوا کہ اللہ تعالیٰ ہی حاکم ہے اور وہ بہترین حکم دینے والا ہے سورۃ ہود کی ابتدا اس بات سے ہوئی کہ اللہ تعالیٰ کی آیات اور اس کے احکام محکم اور تفصیلی ہیں۔ اآر۔ حروف مقطعات میں سے ہیں جن کے بارے میں سورۃ البقرۃ کی ابتدا میں عرض کیا جا چکا ہے۔ کہ ان کا حقیقی معنی اور مفہوم۔ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا تفصیل کے لیے سورۃ البقرۃ کی ابتدملاحظہ فرمائیں۔ ارشاد ہوتا ہے کہ قرآن مجید ایسی کتاب ہے جس کے احکام محکم ہیں جو پہلی کتابوں کی طرح منسوخ نہیں ہوسکتے۔ اس میں جامعیت کے ساتھ تفصیلات بھی ہیں تاکہ ہر دور کے تقاضے پورے ہوں اور لوگوں کو پیش آمدہ مسائل کا حل معلوم ہوسکے۔ ایسا اس لیے ہے کہ قرآن مجید کے احکام اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ ہیں جو لوگوں کے جذبات اور حالات کو پوری طرح جانتا ہے۔ اور اس کے ہر حکم میں حکمت موجود ہوتی ہے جو سچائی، دانائی اور علم کے معیار پر پورا اترتی ہے۔ (عَنْ عُمَرَبْنِ الخَطَّابِ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اِنَّ اللّٰہَ یَرْفَعُ بِھٰذَالْکِتَابِ اَقْوَامًاوَیَضَعُ بِہٖ اٰخَرِیْنَ)[ رواہ مسلم : کتاب الصلوٰۃ، باب فضل من یقوم بالقراٰن ] ” حضرت عمربن خطاب (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اس کتاب کے ذریعہ اللہ تعالیٰ بہت سی قوموں کو جو اس پر عمل کریں گی بام عروج پر پہنچائے گا اور بہت سی قوموں کو جو اس کو چھوڑ دیں گی قعر مذلت میں گرادے گا۔“ (ےَقُوْلُ الرَّبُ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی مَنْ شَغَلَہٗ الْقُرْآنُ عَنْ ذِکْرِیْ وَسُؤَالِیْ أعْطَےْتُہٗ أفْضَلَ مَا أَعْطَیَ السَّاءِلِےْنَ) [ رواہ الترمذی، باب فضائل القرآن] ” اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ جسے قرآن پاک کی تلاوت نے میرے اذکار اور مانگنے سے مصروف رکھا میں اسے سو ال کرنے والوں سے زیا دہ عطاکرونگا۔“ جس طرح اللہ تعالیٰ کی ذات عظمت و کبریائی اور خیرو برکت کے لحاظ سے یکتا اور تنہا ہے۔ ذکر واذ کار میں یہی حیثیت تلاوت قرآن مجید کو حاصل ہے۔ قرآن مجید کو زندگی کا رہنما بنانے سے دنیا و آخرت کے مسائل اور دکھوں کا مداوا ہونے کی ضمانت مل جاتی ہے۔ اس کتاب مقدس سے انحراف اور بے اعتنائی پریشانیوں اور مشکلات کو دعوت دینے کے مترادف سمجھنا چاہیے۔ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کتاب عظیم کے بارے میں فرمایا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ اس کی بدولت مسلمانوں کو عزت و عظمت سے نوازتا رہے گا اور اس کے چھوڑنے کی وجہ سے میری امت دنیا میں ہی ذلیل و خوار ہوجائے گی۔ مسائل ١۔ گمراہی اختیار کرنے والے کو گمراہی کا نقصان ہوگا۔ ٢۔ قرآن کریم کی آیات محکم ہیں۔ ٣۔ قرآن مجید میں ہدایت کے متعلق تفصیلات دی گئی ہیں۔ ٤۔ قرآن مجید اللہ حکیم و خبیر کی طرف سے نازل کیا گیا ہے۔ تفسیر بالقرآن قرآن مجید کے چند اوصاف : ١۔ قرآن مجید کی آیات محکم ہیں اس میں احکام کی تفصیلات ہیں۔ (ہود : ١) ٢۔ قرآن مجید لا ریب کتاب ہے۔ (البقرۃ : ٢) ٣۔ قرآن مجید برہان اور نور مبین ہے۔ (النساء : ١٧٤) ٤۔ قرآن مجید لوگوں کے لیے ہدایت اور نصیحت ہے۔ (آل عمران : ١٣٨) ٥۔ قرآن مجید لوگوں کے لیے ہدایت ہے، رحمت اور نصیحت ہے۔ (البقرۃ : ١٨٥) ٦۔ قرآن مجید برہان اور نور مبین ہے۔ (النساء : ١٧٤) ٧۔ قرآن مجید لوگوں کو اندھیروں سے روشنی کی طرف لانے کاذریعہ ہے۔ (ابراہیم : ١) ٨۔ قرآن مجید مومنوں کے لیے شفا اور رحمت ہے۔ (بنی اسرائیل : ٨٢) ٩۔ قرآن مجید لوگوں کے لیے باعث نصیحت اور مومنوں کے لیے ہدایت اور رحمت ہے۔ (یونس : ٥٧) ١٠۔ ہم نے ہی اسے نازل کیا اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔ (الحجر : ٩) ھود
2 فہم القرآن ربط کلام : سورۃ یونس کے اختتام میں حکم دیا گیا تھا کہ صرف ایک اللہ کی عبادت کی جائے سورۃ ہود کا آغاز قرآن مجید کے تعارف سے ہوا۔ پہلے کی طرح اس میں صرف اور صرف ایک اللہ کی عبادت کرنے کا حکم صادر فرمایا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسانوں اور جنات کی تخلیق کا مقصد بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے۔ کہ اے انسانو اور جنو! میں نے تمہیں صرف اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے۔ (الذاریات : ٥٦۔ ٥٨) انسان کو اس کی زندگی کا مقصد سمجھانے کے لیے کم وبیش ایک لاکھ چوبیس ہزار کے قریب انبیائے عظام مبعوث کیے گئے۔ قرآن مجید ہمیں آگاہ کرتا ہے کہ تمام کے تمام انبیاء اپنی دعوت کا آغاز اسی مقصد حیات سے کرتے تھے۔ آٹھویں پارے کے آخری پاؤ نکال کر دیکھیں کہ ہر رکوع کی ابتداء ان الفاظ سے ہوتی ہے کہ ہم نے نوح، ہود، صالح، شعیب کو ان کی قوم کی طرف بھیجا اور انہوں نے اپنی اپنی قوم کو یہی فرمایا کہ لوگو ! صرف ایک اللہ کی عبادت کرو اس کے سوا کسی کی عبادت کرنا جائز نہیں سورۃ الانبیاء آیت ٢٥ میں ارشادہوتا ہے کہ اے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ سے پہلے جتنے پیغمبر جلوہ گر کیے گئے۔ وہ لوگوں کو یہی بتلاتے اور سمجھاتے رہے کہ صرف ایک اللہ کی عبادت کرو۔ اکثر مفسرین نے عبادت کا معنی تذلل یعنی نہایت عاجزی کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی پرستش کرنا بیان کیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ عبادت میں عاجزی اور انتہا درجے کی انکساری ضروری ہے کہ آدمی اللہ کے حضور قیام کرے تو زبان سے اقرار کرے اور اس کا پورا جسم خاموش گواہی دے رہا ہو کہ میرے جسم کا ایک ایک ریشہ تیرے حضور عاجز و بے بس ہے۔ جبین نیاز جھکائے تو اپنے آپ کو عجز و انکساری کی انتہا تک لے جائے گویا کہ وہ پستیوں کے سمندر میں ڈوب چکا ہے۔ زبان جنبش کرے تو اس کی حمد و ثنا کے گیت گائے۔ دست سوال دراز کرے تو سراپا التجا بن جائے۔ مال خرچ کرے تو اس عاجزی کے ساتھ کہ میں تو مالک کی ملکیت ہی واپس لوٹا رہا ہوں نہ یہ میرا مال ہے اور نہ اس میں میرا کمال ہے۔ اس عہد کو نمازی پانچ وقت تشہد میں زبان سے دہراتا ہے کیونکہ عبادت تین ہی طریقوں سے ہو سکتی ہے۔ (اَلتَّحَیَاتُ لِلّٰہِ وَالصَّلَوٰاتُ وَالطَّیِّبَاتُ) ” تمام قسم کی قولی، فعلی اور مالی عبادات اللہ کے لیے ہیں۔“ (قُلْ إِنَّ صَلَاتِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِینَ لَا شَرِیْکَ لَہُ وَبِذٰلِکَ أُمِرْتُ وَأَنَا أَوَّلُ الْمُسْلِمِیْنَ )[ الانعام : ١٦٢۔ ١٦٣] ” کہہ دیجیے ! یقیناً میری نماز، قربانی، میری زندگی اور میری موت اللہ رب العالمین کے لیے ہے، اس کا کوئی شریک نہیں اسی بات کا مجھے حکم دیا گیا ہے اور میں پہلا اسلام لانے والا ہوں۔“ اس تصور کے ساتھ قرآن مجید نے عبادت کا وسیع تر تخیل پیش کیا ہے کہ آدمی منڈی یا بازار میں ہو تو امانت و دیانت کا ترجمان بن جائے، کسی کے ہاں مزدور اور خدمت گزار ہو تو وفا داری کا پیکر ہوجائے، حکمران ہو یا کوئی ذمہ داری اٹھائے تو قوم کا خادم اور مالک حقیقی کا غلام بن کر رہے۔ غرضیکہ زندگی کا ایک ایک لمحہ اور شعبہ رب کی غلامی اور سرافگندگی کے لیے وقف کرنے کا نام ہی عبادت ہے۔ یہی انسان کی تخلیق کا مقصد اور اسی کے لیے انسان کا ہر عمل وقف ہونا چاہیے۔ انبیائے عظام اپنی دعوت کا آغاز اسی سے کیا کرتے تھے۔ اس تصور عبادت سے ہٹنا مقصد حیات کی نفی اور غیر اللہ کی عبادت کرنے کے مترادف ہے۔ جس کا آدمی کو کسی حال میں بھی حق نہیں پہنچتا۔ عبادات میں سب سے پہلا درجہ نماز کا ہے۔ جسے اس کے تقاضوں کے ساتھ ادا کرنا چاہیے۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کی عبادت کرنا جائز نہیں۔ ٢۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بشیر و نذیر بناکر بھیجا گیا تھا۔ تفسیر بالقرآن انبیاء کرام (علیہ السلام) کی دعوت : ١۔ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو مجھے بشیر اور نذیر بنا کر بھیجا گیا ہے۔ (ہود : ٢) ٢۔ حضرت نوح نے اپنی قوم کو ایک اللہ کی عبادت کی دعوت دی اور شیاطین کی عبادت نہ کرو۔ (المومنون : ٢٣) ٣۔ حضرت ہودنے ایک اللہ کی عبادت کی دعوت دی۔ اور غیر اللہ کی عبادت سے روکا۔ (الاعراف : ٦٥) ٤۔ حضرت صالح نے ایک اللہ کی عبادت کے لیے بلایا اور ماسوائے اللہ کے دوسروں کی عبادت کو شیطان کی عبادت قرار دیا۔ (الاعراف : ٧٣) ٥۔ حضرت شعیب نے ایک اللہ کی عبادت کا حکم دیا اور اس کے سوا دوسروں کی عبادت سے منع کیا۔ (ہود : ٨٤) ٦۔ تمام امتوں کی طرف رسول بھیجے گئے اور سبھی نے ایک اللہ کی عبادت کی دعوت دی۔ (النمل : ٣٦) ھود
3 فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ کی عبادت تب ہی قبول ہوسکتی ہے جب انسان اپنے گناہوں بالخصوص شرک سے توبہ کرے گا۔ قرآن مجید اس بات پر بھی روشنی ڈالتا ہے کہ انبیاء کرام نہ صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت کا حکم دیتے تھے بلکہ وہ اللہ کی عبادت کرنے کے ساتھ گناہوں سے معافی مانگنے اور شرک سے توبہ کرنے کی تلقین کرتے تھے۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ لوگو! اپنے رب سے اپنے گناہوں کی معافی مانگو بے شک وہ معاف کرنے والا ہے۔ استغفار کے بدلے وہ تم پر رحمت کی برکھا برسائے گا اور تمہیں مال اور بیٹے عنایت فرمائے گا۔ (نوح : ١١۔ ١٢) استغفار کرنے کا یہ بھی فائدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں پر اپنا عذاب مسلط نہیں کرتا۔ ایک دفعہ مکہ کے سردار جمع ہو کر بیت اللہ کا غلاف پکڑ کر اپنے لیے بدعا کرتے ہیں کہ اے اللہ! اگر یہ رسول سچا ہے تو ہم پر پتھروں کی بارش برسا۔ اس کے جواب میں یہ فرمایا گیا کہ اللہ تعالیٰ اس لیے تم پر عذاب نازل نہیں کررہا کہ تم میں اس کا رسول اور استغفار کرنے والے مسلمان موجود ہیں۔ (الانفال ،: ٣٢۔ ٣٣) یہاں توبہ و استغفار کے تین فائدے بتائے گئے ہیں۔ ١۔ اللہ تعالیٰ توبہ و استغفار کرنے والوں کو دنیا کے بہترین اسباب عنایت فرمائے گا۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ انسان کی موت تک اسے مہلت دے گا اور کسی ذلیل کردینے والی آزمائش میں مبتلا نہیں کرے گا۔ ٣۔ توبہ و استغفار کرنے والے کو اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے مزید نوازے گا۔ اگر لوگ اللہ تعالیٰ کی بندگی سے انکار اور اس کے حضور توبہ و استغفار نہ کریں گے تو دنیا میں ذلیل کردینے والا عذاب اور آخرت میں بڑے اور لا متناہی مختلف قسم کے عذابوں میں مبتلا ہوں گے۔ کیونکہ بالآخر ہر کسی نے اللہ تعالیٰ کے حضور پیش ہونا ہے اور وہ لوگوں کو اپنے حضور پیش کرنے پر پوری طاقت رکھتا ہے۔ کیونکہ وہ ذرے ذرے پر قدرت رکھنے والا ہے۔ (عَنْ اَبِیْ ھُرَےْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْ لُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اِنَّ عَبْدًا اَذْنَبَ ذَنْبًا فَقَالَ رَبِّ اَذْنَبْتُ فَاغْفِرْہُ فَقَالَ رَبُّہُ اَعَلِمَ عَبْدِیْ اَنَّ لَہٗ رَبًّا یَّغْفِرُ الذَّنْبَ وَےَاْخُذُبِہٖ غَفَرْتُ لِعَبْدِیْ ثُمَّ مَکَثَ مَا شَآء اللّٰہُ ثُمَّ اَذْنَبَ ذَنْبًا فَقَالَ رَبِّ اَذْنَبْتُ ذَنْبًا فَاغْفِرْہُ فَقَالَ اَعَلِمَ عَبْدِیْ اَنَّ لَہٗ رَبًّا یَّغْفِرُ الذَّنْبَ وَ ےَاْخُذُ بِہٖ غَفَرْتُ لِعَبْدِیْ ثُمَّ مَکَثَ مَاشَآء اللّٰہُ ثُمَّ اَذْنَبَ ذَنْبًا قَالَ رَبِّ اَذْنَبْتُ ذَنْبًا اٰخَرَ فَاغْفِرْہُ لِیْ فَقَالَ اَعَلِمَ عَبْدِیْ اَنَّ لَہٗ رَبًّا یَّغْفِرُ الذَّنْبَ وَےَاْخُذُ بِہٖ غَفَرْتُ لِعَبْدِیْ فَلْےَفْعَلْ مَا شَآءَ) [ رواہ البخاری : کتاب التوحید، باب قول اللہ تعالیٰ یریدون ان یبدلوا کلام اللہ ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) کا بیان ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا‘ کوئی شخص گناہ کرتا ہے پھر اپنے رب سے عرض کرتا ہے کہ میں گناہ کر بیٹھا ہوں تو اے رب مجھے معاف فرما۔ اس کا رب فرشتوں سے کہتا ہے‘ کیا میرے بندے کو معلوم ہے کہ اس کا کوئی رب ہے جو گناہوں کو معاف کرتا ہے اور ان پر مؤاخذہ بھی کرتا ہے؟ لہٰذا میں نے اپنے بندے کو بخش دیا۔ پھر جب تک اللہ کی توفیق ہوتی ہے وہ گناہ سے باز رہتا ہے‘ پھر اس سے گناہ ہوجاتا ہے اور پھر اپنے رب کو پکارتا ہے۔ میرے پروردگار مجھ سے گناہ ہوگیا ہے۔ میرے اللہ! مجھے معاف فرما۔ اللہ تعالیٰ فرشتوں سے استفسار کرتا ہے کہ میرا بندہ جانتا ہے کہ کوئی اس کا مالک ہے جو گناہوں کو معاف بھی کرتا ہے اور ان پر پکڑتا بھی ہے؟ میں نے اپنے بندے کو معاف کردیا! اب وہ جو چاہے کرے۔“ (یعنی سابقہ گناہ پر کوئی مؤاخذہ نہیں ہوگا۔) “ توبہ استغفار کے چند وظائف : (رَبِّ اغْفِرْ وَارْحَمْ وَأَنْتَ خَیْرُ الرَّاحِمِیْنَ) [ المومنون : ١١٨] ” یارب معاف اور رحم فرما تو سب سے زیادہ رحم فرمانے والا ہے۔“ (أَسْتَغْفِرُاللّٰہَ رَبِّیْ مِنْ کُلِّ ذَنْبِ وَّأَتُوْبُ إِلَیْہِ) [ مشکوٰۃ‘ باب الاستغفار] ” میں اللہ سے ہر گناہ کی معافی مانگتا ہوں اور اسی کے حضور توبہ کرتا ہوں۔“ (اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلِیْ وَارْحَمْنِیْ) [ مشکوٰۃ‘ باب السجود] ” اے اللہ مجھے معاف اور مجھ پہ رحم فرما۔“ (اَللّٰھُمَّ إِنَّکَ عَفُوٌّ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّیْ) [ مشکوٰۃ‘ کتاب الصوم] ” اے اللہ آپ معاف کرنیوالے، معافی کو پسند کرتے ہیں اس لیے مجھے معاف فرما دیجیے۔“ یہاں قیامت کے دن کو یوم کبیر کہا گیا ہے جو اپنی طوالت کے اعتبار سے پچاس ہزارسال پر مشتمل ہوگا۔ (حم السجدۃ: ٥ ا) اور سختی کے حوالے سے اس قدر سخت ہوگا کہ بچہ جنم دینے والی ماؤں کے حمل ساقط ہوجائیں گے اور لوگ اس دن کی سختیوں سے مدہوش اور بدحواس ہوں گے۔ دیکھنے والا یوں سمجھے گا جیسے کسی نشے کی وجہ سے سر گرداں پھر رہے ہیں۔ لیکن درحقیقت یہ یوم عظیم کی سختی اور تلخی کا نتیجہ ہوگا۔ (الحج : ٢) مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی مغفرت طلب کرنی چاہیے۔ ٢۔ ہر شخص کو اللہ ہی کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔ ٣۔ استغفار کی برکت سے اللہ تعالیٰ دنیوی فوائد بھی عطا فرماتا ہے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ ہی اپنے فضل سے نوازنے والا ہے۔ ٥۔ انسان کو اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرتے رہنا چاہیے۔ ٦۔ سب نے اللہ ہی کی طرف لوٹنا ہے۔ ٧۔ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے۔ تفسیر بالقرآن توبہ و استغفار کا حکم اور فوائد : ١۔ اپنے پروردگار سے توبہ کرو اور اس کی طرف رجوع کرو وہ تمہیں خوشی و عیش دے گا۔ (ہود : ٣) ٢۔ اپنے رب سے بخشش طلب کرو وہ آسمان سے بارش نازل فرمائے گا اور تمہاری قوت میں اضافہ کرے گا۔ (ہود : ٥٢) ٣۔ تم اس سے بخشش طلب کرو میرا رب تمہاری توبہ قبول کرے گا۔ (ہود : ٦١) ٤۔ اپنے رب سے بخشش طلب کرو وہ تمہیں معاف کردے گا اور بارش، مال اور اولاد سے نوازے گا۔ (نوح : ١٠۔ ١٢) ٥۔ اللہ سے بخشش طلب کرو اللہ تعالیٰ معاف کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔ (المزمل : ٢٠) ٦۔ جب تک لوگ بخشش طلب کرتے رہیں گے ہم انہیں عذاب نہیں دیں گے۔ (الانفال : ٣٣) ھود
4 ھود
5 فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ کی عبادت اور اس کے حضور توبہ و استغفار کرنے کی بجائے منکرین کا رویہ۔ منکرین حق نہ صرف انبیاء کی دعوت کا انکار کرتے بلکہ ہر اعتبار سے انبیاء کو اذیت پہنچانے اور انہیں زچ کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ ان کا انبیاء ( علیہ السلام) کو اذیت دینے کا ایک طریقہ یہ بھی تھا کہ جب وقت کا پیغمبر انہیں اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے، شرک سے بچنے اور گناہوں کی معافی مانگنے کے لیے کہتا تو وہ لوگ وقت کے پیغمبر کا مذاق اڑانے کے ساتھ یہ بھی کرتے کہ جوں ہی پیغمبر کو اپنی طرف آتے ہوئے دیکھتے یا کہیں ملاقات ہوجاتی تو اپنے چہروں کو ڈھانپ لیا کرتے تھے۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کے بارے میں کفار اور مشرکین کا رویہ اس حد تک ناروا تھا کہ وہ حضرت نوح (علیہ السلام) کو دیکھتے ہی اپنے کانوں میں انگلیاں ڈالتے اور چہروں کو چھپائے ہوئے انتہائی نفرت اور نکیر کا اظہار کیا کرتے تھے۔ (نوح : ٧) ایسا ہی رویہ کفار مکہ میں سے کچھ لوگ رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ اختیار کرتے تھے۔ مکہ میں آنے والے ہر شخص کو یہ باور کرواتے کہ ہم میں ایک شخص نبوت کا دعوی کرتا ہے جو حقیقتاً جادوگر ہے اگر تم اس سے بچنا چاہتے ہو تو اس کے قریب نہ جانا۔ (کبھی یوں بھی کرتے کہ) آپ کی مجلس میں بیٹھتے تو اپنے سینوں کو اپنی رانوں میں سکیڑ لیتے تاکہ آپ کی بات سے بے پرواہی کا اظہار کیا جائے۔ اس پر انہیں انتباہ کیا جارہا ہے کہ تم ایک داعی سے چھپ سکتے ہو لیکن اللہ سے نہیں چھپ سکتے کیونکہ وہ سب کچھ جانتا ہے جو کچھ تم لوگوں سے چھپاتے ہو اور جو ظاہر کرتے ہو۔ اللہ تمہارے دلوں کے راز بھی جانتا ہے۔ طفیل دوسی جو قبیلہ دوس کا سردار تھا وہ عمرہ کی غرض سے مکہ آیا مکہ کے لوگوں نے حسب عادت رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں منفی پروپیگنڈہ کیا جس کے رد عمل میں طفیل دوسی نے اپنے کانوں میں روئی ٹھونس لی کہ کہیں اس شخص کی آواز اچانک مجھے متاثر نہ کردے۔ لیکن اللہ کی شان دیکھیے جوں ہی اس نے طواف شروع کیا تو کیا دیکھتا ہے کہ رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مطاف میں اللہ کے حضور کھڑے ہو کر نوافل میں قرآن مجید تلاوت کررہے ہیں۔ طفیل طواف کے ہر چکر میں آپ کو غور سے دیکھتا ہے۔ اس کا طواف مکمل ہوا تو وہ آپ کے چہر پر انوار اور قیام و سجود سے اس قدر متاثر ہوا۔ کہ اپنے آپ کو ملامت کرتے ہوئے دل ہی دل میں کہنے لگا کہ طفیل کیسی حماقت ہے؟ تو اپنی قوم کا مانا ہوا شاعر، اپنے قبیلے کا سردار، اور لوگوں کے تنازعات میں فیصلے کرنے والا ہے۔ تجھے اس شخص کی بات سن کر اندازہ تو کرنا چاہیے کہ اس کا کلام کیسا ہے؟ اس کے ساتھ ہی اس نے کانوں سے روئی نکالی اور ایک طرف کھڑا ہو کر رسول محترم کی تلاوت سنتا رہا جب آپ نوافل سے فارغ ہو کر گھر جانے لگے تو آپ کے پیچھے ہو لیا آپ اپنے دروازے کے قریب پہنچے تو عرض کرتا ہے۔ کہ اے محمد! مجھے وہ سناؤ جو آپ نماز میں پڑھ رہے تھے۔ آپ نے اس کی مہمان نوازی کرتے ہوئے قرآن مجید کی چند آیات کی تلاوت کی طفیل اسی وقت مسلمان ہوگیا۔ مسائل ١۔ منافق اللہ تعالیٰ سے اپنی باتوں کو چھپاتے ہیں۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ ہر پوشیدہ اور ظاہر بات کو جانتا ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ سینے کے رازوں سے بھی بخوبی آگاہ ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ ظاہر اور باطن کو جانتا ہے : ١۔ اللہ جانتا ہے جو تم ظاہر کرتے اور تم چھپاتے ہو وہ دل کے رازوں سے واقف ہے۔ (ہود : ٥) ٢۔ اللہ جانتا ہے جو تم خفیہ کرتے ہو اور جو تم سرعام کرتے ہو۔ (النحل : ١٩) ٣۔ اللہ غائب اور ظاہر کو جانتا ہے۔ (الحشر : ٢٢) ٦۔ اللہ کے لیے ظاہر اور پوشیدہ برابر ہے۔ (الرعد : ١٠) ٤۔ اللہ جانتا ہے جو تم چھپا کر کرتے ہو اور جو تم سر عام کرتے ہو۔ (البقرۃ : ٧٧) ٥۔ اللہ آسمان کی ہر ظاہر اور پوشیدہ بات کو جانتا ہے۔ (الانعام : ٣) ٧۔ کیا وہ نہیں جانتے کہ اللہ ان کی سرگوشیوں سے بھی واقف ہے۔ (التوبۃ: ٧٨) ٨۔ تم بات کو پوشیدہ رکھو یا ظاہر کرو اللہ دلوں میں پیدا ہونے والے خیالات کو بھی جانتا ہے۔ (الملک : ١٣) ٩۔ کہہ دیجیے اس (قرآن مجید) کو اس ذات نے نازل فرمایا ہے جو آسمان و زمین کے اسرار ورموز کو جانتا ہے۔ (الفرقان : ٦) ھود
6 فہم القرآن ربط کلام : گیا رہویں پارے کے آخر میں بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ انسان کے ظاہر اور خفیہ حالات سے واقف ہے اور دلوں کے بھید جاننے والا ہے۔ یہاں ارشاد فرمایا کہ وہ انسان کے مستقل ٹھہراؤ اور عارضی قیام گاہوں کو بھی جانتا ہے۔ ” دابۃ“ ہر جاندار کو کہا جاتا ہے لیکن یہاں خطاب انسانوں سے کیا جارہا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہی انسان کو پیدا کرنے والا ہے اور اس نے ہی اس کے رزق کا ذمہ لے رکھا ہے۔ رزق سے مراد صرف کھانے پینے والی چیزیں نہیں بلکہ اس سے مراد ہر وہ چیز ہے جو ایک ذی روح کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس میں ہوا، پانی، خوراک اور رہن سہن کی ضروریات شامل ہیں۔ یہ سب چیزیں عطا کرنے والا صرف اللہ تعالیٰ ہے۔ اس نے اپنا دسترخوان اتنا وسیع اور Mobile بنایا ہے کہ ہر کھانے والے کو اس کی خوراک مل رہی ہے گوشت کھانے والے درندے کو گوشت مل رہا ہے اور دانہ دنکا لینے والے کو دانہ دنکا صبح وشام میسر ہے۔ چند جمع کرنے والوں کے سوا باقی سب کے سب کھانے والے صبح وشام تازہ خوراک سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ جہاں تک انسان کا معاملہ ہے اس کا رزق بھی اللہ تعالیٰ نے اپنے ذمہ لیا ہے البتہ حکم ہے کہ اللہ کا رزق تلاش کیا کرو۔ اس کے لیے محنت ومشقت کرنا لازم ہے لیکن رزق کی کمی وبیشی کا انحصار انسان کی محنت پر نہیں۔ اگر رزق محنت کی بنیاد پر دیا جاتا تو معذور اور لاچار بھوکے مرجاتے۔ جہاں تک رزق کی کمی و بیشی کا تعلق ہے یہ اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ اصول کے مطابق ہے جس کے پیش نظر وہ لوگوں کا رزق بڑھاتا اور گھٹاتا رہتا ہے۔ اگر کہیں قحط سالی پیدا ہوجاتی ہے تو یہ اللہ تعالیٰ کے طے شدہ اصول کے مطابق ہوتی ہے جس کا سبب بنیادی طور پر انسان ہی ہوا کرتا ہے۔ بے شک وہ قحط سالی پانی کی قلت اور بارش کی کمی کی وجہ سے ہی کیوں نہ ہو۔ وہ بھی انسان کے اعمال کا نتیجہ ہوتی ہے۔ اس قانون کے مطابق اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کے رزق کا ذمہ لیا ہے۔ وہ لوگوں کی مستقل قیام گاہوں اور عارضی رہائش کو جانتا ہے۔ کیونکہ لوگوں کو رزق پہنچانا اور ان کے اعمال اور ضروریات سے باخبر رہنا اس کی صفت کاملہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نہ صرف ہر لحاظ سے باخبر رہتا ہے بلکہ اس نے انسان اور دنیا کی ہر چیز کے بارے میں سب کچھ لوح محفوظ میں ثبت کر رکھا ہے۔ مستقرہا و مستودعہا بالترتیب ان کا معنی ہے ” مستقل قیام گاہ اور عارضی ٹھہراؤ“۔ مفسرین نے مستقرہا سے مراد بطن مادر اور مستودعہا کا معنی دنیا کی زندگی لیا ہے اور کچھ اہل علم نے مستودعھا کا معنٰی دنیا کی زندگی اور مستقرھا قبر کا قیام سمجھا ہے۔ بہرحال اللہ تعالیٰ نہ صرف انسان کے ہر قول وفعل سے آگاہ ہوتا ہے بلکہ اس نے انسان کی زندگی کا پورا ریکارڈ اپنے ہاں محفوظ کر رکھا ہے۔ (عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لَوْ أَنَّکُمْ کُنْتُمْ تَوَکَّلُوْنَ عَلَی اللَّہِ حَقَّ تَوَکُّلِہِ لَرُزِقْتُمْ کَمَا تُرْزَقُ الطَّیْرُ تَغْدُوْ خِمَاصًا وَتَرُوْحُ بِطَانًا) [ رواہ الترمذی : کتاب الزہد، باب فی التوکل علی اللہ] ” حضرت عمر بن خطاب (رض) بیان کرتے ہیں فرمایا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اگر تم اللہ پر توکل کرو جس طرح توکل کرنے کا حق ہے تو تم پرندوں کی طرح زرق دیے جاؤ وہ صبح خالی پیٹ ہوتے ہیں اور شام کو بھرے ہوئے پیٹ ہوتے ہیں۔“ رزق حلال کے لیے دعا : (اَللّٰہُمَّ اکْفِنِی بِحَلَالِکَ عَنْ حَرَامِکَ وَأَغْنِنِی بِفَضْلِکَ عَمَّنْ سِوَاکَ) [ رواہ الترمذی : باب اللھم اکفنی حلالک عن حرامک] ” اے اللہ ! مجھے حرام سے بچا اور اپنے حلال کے ساتھ میری کفالت فرما اور اپنے فضل کے ساتھ مجھے بے نیاز کردے۔“ مسائل ١۔ ہر چیز کا رزق اللہ تعالیٰ کے ذمے ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ ہر چیز کے ٹھکانے کو جانتا ہے۔ ٣۔ ہر چیز کتاب مبین میں درج ہے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ سب کو رزق دیتا ہے۔ ٥۔ ہر جاندار کا رزق اللہ کے ذمہ ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ ہی رزق دینے والا ہے : ١۔ ہر جاندار کا رزق اللہ کے ذمہ ہے۔ (ھود : ٦) ٢۔ کتنے ہی چوپائے ہیں تم ان کے رزق کا بندوبست نہیں کرتے اللہ ہی انہیں رزق دیتا ہے۔ (العنکبوت : ٦٠) ٣۔ بے شک اللہ بغیر حساب کے جس کو چاہتا ہے رزق عطا کرتا ہے۔ (آل عمران : ٣٧) ٤۔ ہم تم سے رزق کے طالب نہیں بلکہ ہم ہی تمہیں رزق دیتے ہیں۔ (طٰہٰ : ١٣٢) ٥۔ بے شک اللہ ہی رزاق ہے اور بڑی قوت کا مالک ہے۔ (الذاریات : ٥٨) ھود
7 فہم القرآن ربط کلام : کھا نے پینے کے انتظام کے ساتھ ہر ذی روح کی رہائش کا بندوبست۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو خلیفہ بنا کر زمین کو فرش اور آسمان کو چھت بنایا اور انسان کی زندگی کے لیے تمام اسباب مہیا فرمائے زمین و آسمان کی تخلیق کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ ہم نے زمین و آسمان کو بغیر کسی نقشے اور میٹیریل کے پیدا فرمایا ہے۔ جس کے لیے بدیع کا لفظ استعمال کیا ہے۔ سورۃ الانعام آیت : ١٠١ ” بدیع“ کا معنی ہے کہ جس چیز کا اس سے پہلے کسی اعتبار سے وجود نہ ہو۔ پھر زمین و آسمان کو بننے کا حکم دیا جن کی حالت ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ زمین و آسمان دونوں آپس میں جڑے ہوئے تھے ہم نے انہیں الگ الگ کیا۔ جسے سائنسدان بگ ہینگ کا نام دیتے ہیں۔ سورۃ الانبیاء آیت : ٣٠ میں بیان کیا ہے کہ پھر زمین کو دو دن میں بنایا اور دو یوم میں اس پر پہاڑ نصب کیے اور باقی تمام چیزیں زمین میں رکھ دیں۔ اس کے بعد دو یوم میں سات آسمان اور آسمان دنیا کو مزین فرمایا۔ جبکہ اس سے پہلے اللہ تعالیٰ کا عرش پانی پر تھا۔ پانی زمین و آسمان سے بھی پہلے پیدا کیا۔ اس لیے ارشاد ہوا کہ ہم نے ہر چیز کو پانی سے پیدا کیا۔ (الانبیاء : ٣٠) پھر اللہ تعالیٰ ساتوں آسمانوں سے اوپر متمکن ہوا جس طرح اس کے شایان شان ہے۔ (البقرۃ : ٢٩) ہمیں یہ سوچنے کی اجازت نہیں کہ اللہ تعالیٰ عرش پر کس حالت میں ہے؟ زمین پر انسان کو خلافت اور مہلت اس لیے دی تاکہ وہ آزمائے کہ انسان تھوڑی سی مہلت اور معمولی سے اختیارات حاصل ہونے کے بعد کیا کردارا دا کرتا ہے یہی انسان کی موت وحیات کا مقصد ہے کہ وہ بہتر عمل کرنے کی کوشش کرے۔ (الملک : ٢) سورۃ التین میں انسان کی تخلیق کا ذکر کرنے سے پہلے چار قسمیں کھائیں اور فرمایا کہ ہم نے انسان کو بہترین شکل وصورت اور صلاحیتوں کے ساتھ پیدا کیا۔ لیکن انسان کی حالت یہ ہے کہ جب اسے نیک اعمال کرنے کا احساس دلا کر یہ کہا جائے کہ موت کے بعد ایک دن ایسا آنے والا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال کا محاسبہ کرے گا اس کے جواب میں خدا کے باغی اور قیامت کے منکر کہتے ہیں کہ یہ تو الفاظ کی جادوگری ہے۔ جو شخص مرنے کے بعد اٹھنے کا دعویٰ کرتا ہے درحقیقت یہ عقیدہ سحر کے سوا کچھ بھی نہیں گویا کہ قیامت کے منکرین کے نزدیک جس طرح جادوگر اپنے جادو کا مظاہرہ کرکے محض وقتی طور پر ایک تماشا کرتا ہے ان کے نزدیک اللہ تعالیٰ نے انسان اور دنیا کو محض تماشا کے طور پر پیدا کیا ہے۔ اس کا جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ ہم نے زمین و آسمان اور جو کچھ اس میں ہے۔ کھیل تماشا کے طور پر پیدا نہیں کیا اگر ہمارے نزدیک اس کی حیثیت ایک کھیل تماشا کی ہوتی تو ہم اس کا مظاہرہ اپنے پاس کرتے۔ (الانبیاء : ١٥، ١٦) اس لیے یہاں ارشاد ہوتا ہے کہ ہم تمہیں موت کے بعدضرور اٹھائیں گے۔ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا کہ منکرین قیامت سے کہہ دیجیے کہ بے شک تم پتھر بن جاؤ یا لوہا یا اس سے بڑھ کر کچھ اور ہوجاؤ۔ جس نے تمہیں پہلی مرتبہ پیدا کیا وہ تمہیں دوسری دفعہ بھی پیدا کرے گا۔ ( بنی اسرائیل : ٥٠، ٥١) مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان کو چھ دن میں تخلیق فرمایا۔ ٢۔ زمین و آسمان کی تخلیق سے قبل اللہ تعالیٰ کا عرش پانی پرتھا۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ لوگوں کو آزماتا ہے۔ ٤۔ کفار مرنے کے بعد جی اٹھنے کے قائل نہیں۔ تفسیربالقرآن اللہ تعالیٰ قیامت کے روز ہر جاندار کو پیدا کرے گا : ١۔ بے شک تمہیں مرنے کے بعد اٹھایا جائے گا۔ (ہود : ٧) ٢۔ بے شک جس نے پیدا کیا وہی مردوں کو زندہ کرے گا۔ (حٰم السجدہ : ٣٩) ٣۔ اللہ تمہارا ولی ہے اور وہی مردوں کو زندہ کرے گا اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ (الشورٰی : ٩) ٤۔ اللہ ہی مردوں کو زندہ کرے گا اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ (الروم : ٥٠) ٥۔ ہم ہی مردوں کو زندہ کریں گے۔ (یٰس : ١٢) ھود
8 فہم القرآن ربط کلام : منکرین حق نہ صرف قرآن مجید کو جادو قرار دیتے اور قیامت کا انکار کرتے تھے بلکہ وہ اللہ تعالیٰ کی گرفت اور عذاب کے بھی منکر تھے۔ جب انسان کا اللہ تعالیٰ پر ایمان کمزور ہوجائے تو وہ نہ صرف قیامت کا انکار کرتا ہے بلکہ اپنے آپ کو پہنچنے والی تکلیف اور آزمائش کو اپنے اعمال کی شامت اور ان کے نتیجہ میں آنے والی گرفت کو من جانب اللہ قرار دینے کی بجائے اسے حالات کا ردّعمل سمجھتا ہے۔ یہی حالت اہل مکہ کی تھی۔ جب سرور دو عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) انہیں اللہ تعالیٰ کی گرفت اور اس کے عذاب سے متنبہ کرتے تو وہ اس کا تمسخر اڑاتے ہوئے کہتے کہ جس عذاب کی آپ دھمکی دیتے ہیں۔ آخر کیا وجہ ہے؟ کہ اب تک ہم پر نازل نہیں ہوا۔ ایک طرف آپ ہمیں ہمارے اعمال کے نتیجہ سے ڈراتے ہیں دوسری طرف وہ عذاب ہمیں دوردور تک آتا دکھائی نہیں دیتا۔ آخر اس عذاب کو کس چیز نے روک رکھا ہے؟ اس پر انہیں وارننگ دی جارہی ہے کہ جس عذاب کو مذاق کانشانہ بنائے ہوئے ہو جب وارد ہوگا تو نہ اس کے راستے میں رکاوٹ حائل ہوگی اور نہ ہی کوئی روکنے والا اسے روک سکے گا۔ بس اس مہلت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے کردار اور عقیدہ پر نظرثانی کرو اور اپنے خالق ومالک کے سامنے آہ وزاری کے ساتھ تائب ہوجاؤ۔ یہی تمہاری دنیا اور آخرت کے لیے بہتر ہے۔ یاد رکھو اللہ تعالیٰ ظالموں کو مہلت دیتا ہے تو اس میں اس کی یہ حکمت بھی کارفرما ہوتی ہے کہ ظالموں کو ظلم کرنے میں کوئی حسرت باقی نہ رہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے : (وَلَا یَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا أَنَّمَا نُمْلِیْ لَہُمْ خَیْرٌ لِأَنْفُسِہِمْ إِنَّمَا نُمْلِیْ لَہُمْ لِیَزْدَادُوْا إِثْمًا وَلَہُمْ عَذَابٌ مُہِیْنٌ)[ آل عمران : ١٧٨] ” کافر لوگ ہرگز یہ نہ سمجھ بیٹھیں ہم جو انہیں ڈھیل دے رہے ہیں یہ ان کے حق میں بہتر ہے ہم انہیں صرف اس لیے ڈھیل دیتے ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ گناہ کرلیں اور انہیں رسوا کن عذاب ہوگا۔“ دوسری جگہ اس طرح ارشاد فرمایا : (فَلَمَّا نَسُوْا مَا ذُکِّرُوْا بِہِ فَتَحْنَا عَلَیْہِمْ أَبْوَابَ کُلِّ شَیْءٍ حَتَّی إِذَا فَرِحُوْا بِمَا أُوتُوْا أَخَذْنَاہُمْ بَغْتَۃً فَإِذَا ہُمْ مُبْلِسُوْنَ )[ الانعام : ٤٤] ” پھر جب انہوں نے وہ نصیحت بھلا دی جو انہیں کی گئی تھی تو ہم نے ان پر خوشحالی کے دروازے کھول دیے یہاں تک کہ جب وہ اس میں مگن ہوگئے تو ہم نے یک دم ہی انہیں پکڑ لیا تو وہ ہر چیز سے مایوس ہوگئے۔“ (إِنَّ بَطْشَ رَبِّکَ لَشَدِیْدٌ۔ إِنَّہُ ہُوَ یُبْدِئُ وَیُعِیْدُ )[ البروج : ١٢۔ ١٣] ” یقیناً تیرے رب کی پکڑ بڑی سخت ہے۔ وہی پہلی دفعہ پیدا کرتا ہے اور وہی دوبارہ لوٹائے گا۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ کا عذاب مؤخر ہونے پر کفار انبیاء (علیہ السلام) کا مذاق اڑایا کرتے تھے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ کے عذاب سے کوئی بچ نہیں سکتا۔ تفسیر بالقرآن اللہ اور اس کے رسول سے مذاق کرنے والوں کا انجام : ١۔ وہ چیز ان کو آہی گھیرے گی جس کی بنا پر یہ مذاق کرتے تھے۔ (ہود : ٨) ٢۔ جب وہ ہماری نشانیاں دیکھتے ہیں تو مذاق کرتے ہیں۔ (الصٰفت : ١٤) ٣۔ وہ تعجب کرتے ہیں اور مذاق کرتے ہیں۔ (الصٰفت : ١٢) ٤۔ جب ان کی قوم کے لوگ ان کے پاس سے گزرتے تھے تو مذاق کرتے تھے۔ (ہود : ٣٨) ٥۔ اور کافرلوگوں نے رسولوں سے باطل دلائل کے ساتھ جھگڑا کیا تاکہ وہ حق کو نیچا دکھائیں میری آیات اور تنبیہات کا مذاق اڑائیں۔ (الکہف : ٥٦) ٦۔ یہ جہنم ان کے کفر اختیار کرنے کا بدلاہے وہ میری آیات اور میرے رسولوں کا مذاق اڑاتے رہے۔ (الکہف : ١٠٦) ھود
9 فہم القرآن ربط کلام : جو لوگ اللہ تعالیٰ کے عذاب اور قیامت کو بھول جاتے ہیں ان کی طبیعت میں ناشکری اور فخروغرور پیدا ہوجاتا ہے۔ ایسے لوگوں کی حالت کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر ایسے آدمی کو ہم اپنی رحمت سے بہرہ ور کریں اور اس کے بعد اپنے کرم کا ہاتھ پیچھے ہٹائیں تو وہ حوصلہ کرنے کی بجائے ناشکری کا اظہار کرتا ہے۔ اگر تکلیف کے بعد اسے راحت اور خوشی عطا کریں تو وہ یہ کہتے ہوئے فخروغرور کا مظاہرہ کرتا ہے کہ میرے دکھ دور ہوگئے۔ گویا کہ اسے نعمت عطا ہو تو ناشکری کی صورت میں اور اس کا دکھ دور ہوجائے تو فخروغرور کی حالت میں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرتا ہے۔ اس طرح اللہ اور قیامت پر ایمان نہ ہونے کی وجہ سے نہ خوشی اسے اپنے رب کی طرف لاتی ہے اور نہ غم اسے اپنے رب کے قریب کرتا ہے۔ فخر اللہ تعالیٰ کی چادر ہے : (عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَقُوْلُ اللَّہُ سُبْحَانَہُ اَلْکِبْرِیَآءُ رِدَآءِیْ وَالْعَظَمَۃُ إِزَارِیْ مَنْ نَازَعَنِیْ وَاحِدًا مِنْہُمَا أَلْقَیْتُہٗ فِیْ جَہَنَّمَ) [ رواہ ابن ماجۃ: باب البراء ۃ من الکبر التواضع] ” حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تکبر میری چادر ہے اور عظمت میرا ازار ہے جو ان میں سے کوئی ایک مجھ سے چھیننے کی کوشش کرے گا میں اس کو جہنم میں پھینک دوں گا۔“ شکرو کفر کا انجام : (وَإِذْ تَأَذَّنَ رَبُّکُمْ لَءِنْ شَکَرْتُمْ لَأَزِیْدَنَّکُمْ وَلَءِنْ کَفَرْتُمْ إِنَّ عَذَابِیْ لَشَدِیْدٌ )[ ابراہیم : ٧] ” اور جب تمہارے رب نے اعلان کیا اگر تم شکر کرو گے تو میں تمہیں زیادہ دوں گا۔ اور اگر تم ناشکری کرو تو میرا عذاب بڑا سخت ہے۔“ (اِنَّمَا یُوَفَّی الصَّابِرُوْنَ أَجْرَہُمْ بِغَیْرِ حِسَابٍ)[ الزمر : ١٠] ” صبر کروگے تو اس کا بے حدوحساب اجرپاؤ گے۔“ مومن کا کردار : (عَنْ صُہَیْبٍ قَالَ قَالَ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عَجَبًا لأَمْرِ الْمُؤْمِنِ إِنَّ أَمْرَہُ کُلَّہُ خَیْرٌ وَلَیْسَ ذَاکَ لأَحَدٍ إِلاَّ لِلْمُؤْمِنِ إِنْ أَصَابَتْہُ سَرَّاءُ شَکَرَ فَکَانَ خَیْرًا لَہُ وَإِنْ أَصَابَتْہُ ضَرَّاءُ صَبَرَ فَکَانَ خَیْرًا لَہُ) [ رواہ مسلم : کتاب الزہد والرقائق، باب الْمُؤْمِنُ أَمْرُہُ کُلُّہُ خَیْرٌ] ” حضرت صہیب (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا مومن کا معاملہ عجب ہے بے شک اس کے تمام کاموں میں بہتری ہے۔ مومن کے سوا ایسا کسی کے لیے نہیں ہے اگر مومن کو کوئی خوش کردینے والی چیز پہنچتی ہے تو وہ شکر ادا کرتا ہے یہ اس کے لیے بہتر ہوتا ہے اور اگر اسے کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو وہ صبر کرتا ہے پس یہ بھی اس کے لیے بہتر ہوتا ہے۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ انسان کو اپنی نعمت دینے کے بعد چھین لے تو انسان ناامید اور ناشکرا ہوجاتا ہے۔ ٢۔ انسان کوتکلیف کے بعد آسائش آئے تو فخر کرنا شروع کردیتا ہے۔ تفسیر بالقرآن انسانوں کی اکثریت اللہ تعالیٰ کی ناشکری ہوتی ہے : ١۔ اگر انسان کو اللہ رحمت دے کر چھین لے تو یہ مایوس اور ناشکرا ہوجاتا ہے۔ (ہود : ٩) ٢۔ اگر انسان پر اس کے کرتوتوں کی وجہ سے مصیبت آجائے تو ناشکرا ہوجاتا ہے۔ (الشوریٰ: ٤٨) ٣۔ بے شک انسان بڑا ہی ناانصاف اور ناشکرا ہے۔ (ابراہیم : ٣٤) ٤۔ انسان بڑا ہی ناشکرا ہے۔ (بنی اسرائیل : ١٠٠) ٥۔ اللہ تعالیٰ انسانوں پر فضل فرماتا ہے لیکن ان کی اکثریت شکرادا نہیں کرتی۔ (یونس : ٦٠) ھود
10 ھود
11 فہم القرآن ربط کلام : کافر اور ناشکرگزار کے مقابلے میں اللہ تعالیٰ کے تابعدار اور قیامت پر یقین رکھنے والوں کا کردار۔ پہلی آیات میں ” الانسان“ کے حوالے سے قیامت کے منکر اور اللہ تعالیٰ کی ناشکری کرنے والا کا ذکر ہوا۔ اب ان لوگوں کا ذکر ہوتا ہے جو اپنے رب پر سچا ایمان رکھتے ہوئے نیک اعمال اختیار کرتے ہیں۔ یہاں ایمان کا لفظ استعمال کرنے کی بجائے فخروغرور کے مقابلے میں صبر کا لفظ استعمال کیا ہے۔ جس کا جامع معنی ہے کہ ” مصیبت کے وقت حوصلہ کرنا، خوشی اور کامیابی ملنے پر اپنے آپ پر قابو رکھنا“ دوسرے الفاظ میں صبر کا معنی ہے ” غم اور خوشی کے وقت شریعت کی مقرر کردہ حدود وقیود کا خیال رکھنا“ ایسے لوگوں سے بتقاضائے بشریت کوتاہی سرزد ہوجائے تو اللہ تعالیٰ اپنے کرم سے ان کی کوتاہیوں کو معاف کرے گا اور اپنی رحمت سے اجر کبیر عنایت فرمائے گا۔ صبر و استقامت : صبر بے بسی اور بے کسی کا نام نہیں۔ صبر قوت برداشت‘ قوت مدافعت کو بحال رکھنے اور طبیعت کو شریعت کا پابند بنانے کا نام ہے۔ دشمن کے مقابلے میں جرأت‘ بہادری اور مستقل مزاجی کے ساتھ مسائل ومصائب کا سامنا کرنے سے مسائل حل ہوتے ہیں۔ آخرت میں بغیرحساب و کتاب کے جنت میں داخلہ نصیب ہوگا اور دنیا میں اللہ تعالیٰ کی رفاقت ودستگیری حاصل ہوگی۔ ہر قسم کے مسائل اور مشکلات کو برداشت کرتے ہوئے سچ اور حقیقت پر قائم رہنے کا نام صبر واستقامت ہے۔ اس کے بغیر کسی شخص کی کامیابی کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ مشکلات زندگی کا حصہ ہیں ان سے نکلنے کے لیے روحانی اور الہامی طریقے اختیار کرنے کے ساتھ مادی وسائل اپنانے کا حکم ہے مگر جب تک پوری دلجمعی اور صبر واستقلال کے ساتھ اسباب کو استعمال اور ان کے اثرات و نتائج کا انتظا رنہ کیا جائے اس وقت تک مشکلات سے نکلنا ناممکن ہے۔ شریعت نے صبر و استقامت کو مشکلات سے نجات پانے کا اولین درجہ قرار دیا ہے۔ کیونکہ جب تک آدمی مشکلات سے چھٹکاراپانے کے لیے اسباب کو مستقل مزاجی اور حو صلے کے ساتھ اختیار نہیں کرے گا تو نہ صرف اس کی جسمانی اور روحانی تکلیف میں اضافہ ہوگا بلکہ وہ اپنے جذبات اور عجلت پسندی کی وجہ سے دنیا وآخرت میں بہتر نتائج سے محروم رہے گا جو صبر و استقامت کے سبب اس کو حاصل ہونے والے تھے۔ اس لیے مشکلات اور آزمائش کے وقت صبر و استقامت سے کام لینے کا حکم دیا گیا ہے۔ صبر واستقامت کی دعائیں : جب آدمی بیماری، پریشانی یا کسی مشکل اور غم میں مبتلا ہو تو اسے کثرت کے ساتھ یہ دعائیں پڑھنی چاہییں اللہ تعالیٰ اسے صبروحوصلہ دیتے ہوئے اس مصیبت سے نجات دے گا۔ (رَبَّنَا أَفْرِغْ عَلَیْنَا صَبْرًاوَّتَوَفَّنَا مُسْلِمِیْنَ) [ الاعراف : ١٢٦] ” اے اللہ ہمیں صبر عطا فرما اور مسلمانی کی حالت میں فوت کرنا۔“ (رَبَّنَا أَفرِغْ عَلَیْنَا صَبْرًا وَّثَبِّتْ أَقْدَامَنَا وَانْصُرْنَا عَلَی الْقَوْمِ الْکَافِرِیْنَ) [ البقرۃ: ٢٥٠] ” اے اللہ ہمیں صبر واستقامت نصیب فرماتے ہوئے دشمن پر غلبہ نصیب فرما۔“ مشکل میں صبر کرنے کا ثواب : (عَنْ اَبِیْ ھُرَےْرَۃَ ُ وَعَنْ اَبِیْ سَعِےْدٍ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ مَا ےُصِےْبُ الْمُسْلِمَ مِنْ نَّصَبٍ وَّلَا وَصَبٍ وَلَا ھَمِّ وَّلَا حُزْنٍ وَّلَا اَذًی وَّلَا غَمٍّ حَتَّی الشَّوْکَۃِ ےُشَاکُھَا اِلَّا کَفَّرَ اللّٰہُ بِھَا مِنْ خَطَاے اہُ)[ رواہ البخاری : باب ماجاء فی کفارۃ المرض] ” حضرت ابوہریرہ اور ابوسعید (رض) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ فرمان بیان کرتے ہیں کوئی بھی مسلمان کسی طرح کی تھکاوٹ، درد، فکر، غم، تکلیف اور پریشانی میں مبتلا ہو یہاں تک کہ اس کو کانٹا بھی چبھے تو اس کو اللہ تعالیٰ اس کے گناہوں کا کفارہ بنا دیتا ہے۔“ مسائل ١۔ مصیبت کے وقت صبر کا دامن نہیں چھوڑنا چاہیے۔ ٢۔ نیک اعمال کرنے والوں اور صابرلوگوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے مغفرت اور اجرکبیر کا وعدہ کیا ہے۔ تفسیر بالقرآن صبر کرنے والوں کا صلہ : ١۔ جو لوگ صبر اور نیک عمل کرتے ہیں ان کے لیے مغفرت اور اجرعظیم ہے۔ (ہود : ١١) ٢۔ صبربڑے کاموں میں سے ہے۔ (الاحقاف : ٣٥) ٣۔ صبر کرنے والوں کا انجام بہترین ہوتا ہے۔ (الحجرات : ٥) ٤۔ اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ (البقرۃ: ١٥٣) ٥۔ صبر کرنے والے کامیاب ہوں گے۔ (المومنون : ١١١) ٦۔ صبر کرنے والے بغیرحساب کے جنت میں جائیں گے۔ (الزمر : ١٠) ھود
12 فہم القرآن ربط کلام : صبر کا اجروثواب ذکر کرنے کے بعدرسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی اور اطمینان دلایا گیا ہے۔ جس میں بالواسطہ صبر کی ترغیب دی گئی ہے۔ رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بے پناہ اخلاص اور انتھک محنت کے ساتھ صبح وشام لوگوں کو سمجھاتے کہ جس راہ پر تم چلے جا رہے ہو یہ تمہیں تباہی کے گھاٹ اتار دے گا۔ لیکن لوگ سمجھنے کی بجائے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات اقدس پر مختلف قسم کے الزامات اور آپ سے الٹے سیدھے مطالبات کرتے۔ ان مطالبات میں یہ مطالبے بھی تھے کہ تم کیسے رسول ہو کہ نہ تیری تائید اور حمایت کے لیے فرشتہ بھیجا گیا اور نہ ہی تجھے خوشحالی حاصل ہے۔ تیرے پاس تو کثیر مال ہونا چاہیے تھا۔ اس کے جواب میں ایک طرف رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دی گئی کہ اے نبی! آپ کو لوگوں کی طرف اس لیے بھیجا ہے کہ آپ انہیں ان کے برے اعمال کے انجام سے متنبہ فرمائیں۔ ہم نے آپ کو چوکیدار مقرر نہیں کیا۔ لہٰذا ! نہ آپ کو دل تنگ کرنا چاہیے اور نہ ہی وحی میں سے کچھ حصہ چھوڑنے کا خیال آنا چاہیے۔ اس کا یہ معنی نہیں کہ آپ ایسا کرنے کے لیے سوچتے تھے۔ بلکہ اس سے آپ کے دل کی پریشانی اور غم بیان کرنا مقصود اور تسلی دینا مطلوب ہے، جس کا یہ بھی مفہوم ہے کہ کیا آپ ایسے الزامات اور اعتراضات سے پریشان ہو کر وحی کا کچھ حصہ چھوڑ دیں گے ظاہر ہے ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا۔ اسی بات کا المائدۃ آیت ٦٧ میں یوں حکم دیا : ” اے رسول جو کچھ آپ کے رب کی جانب سے آپ کی طرف نازل کیا گیا ہے اسے پہنچا دیجیے اور اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو آپ نے اللہ کا پیغام نہیں پہنچایا اور اللہ آپ کو لوگوں سے بچائے گا یقیناً اللہ انکار کرنے والوں کو ہدایت نہیں دیتا۔“ دوسری طرف کفار کو سمجھایا گیا کہ اگر ہم اپنے رسول کی تائید میں فرشتہ نازل کرتے۔ تو تمہارے انجام کا فیصلہ موقع پر ہی کردیا جاتا۔ یہ تو اللہ کا کرم ہے کہ وہ اپنے باغیوں کو بھی عرصہ دراز تک مہلت دیے رکھتا ہے۔ رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مخالف کس قدر بے اصول اور سفلی مزاج تھے کہ وہ بیک موقع اور زبان ایک طرف یہ مطالبہ کرتے کہ آپ کی تائید میں ایک فرشتہ کی ڈیوٹی ہونی چاہیے تھی۔ دوسری طرف کبھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جادوگر قرار دیتے اور اسی زبان سے یہ الزام دیتے کہ آپ پر جادو ہوچکا ہے۔ ایسے بے اصول اور بدزبان لوگوں کے بارے میں آپ کو یہ کہہ کر تسلی دی گئی ہے کہ آپ ان کے ساتھ بحث ومباحثہ کرنے کی بجائے فقط اتناہی فرمائیں کہ میں رسول ہوں چوکیدار نہیں۔ مسائل ١۔ وحی میں سے کوئی بات چھوڑدینا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اختیار میں نہ تھا۔ ٢۔ کفار نبی مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر خزانہ اترنے کا مطالبہ کرتے تھے۔ ٣۔ کفار آپ کے ساتھ فرشتے کی تائید کا مطالبہ کرتے تھے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر کارساز ہے۔ تفسیر بالقرآن نبی، مبلغ ہوتا ہے نہ کہ چوکیدار : ١۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تو ڈرانے والے ہیں اور اللہ ہر چیز پر کارساز ہے۔ (ہود : ١٢) ٢۔ آپ کا کام تبلیغ کرنا ہے اور حساب لیناہمارا کام ہے۔ (الرعد : ٤٠) ٣۔ رسولوں کا کام صرف تبلیغ کرنا ہے۔ (النحل : ٣٥) ٤۔ آپ کو ان پر نگران نہیں بنایا گیا آپ کا کام تبلیغ کرنا ہے۔ (الشوریٰ: ٤٨) ٥۔ (پیغمبروں نے کہا) ہمارے ذمہ دین کی تبلیغ کرنا ہے۔ (یٰس : ١٧) ٦۔ آپ نصیحت کریں آپ کا کام بس نصیحت کرنا ہے، آپ کو کو توال نہیں بنایا گیا۔ (الغاشیۃ: ٢١۔ ٢٢) ھود
13 فہم القرآن ربط کلام : کفار کی مزید ہرزہ سرائی۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مزید تسلی کے لیے کفار کو چیلنج کہ اس قرآن جیسی دس سورتیں بنالاؤ۔ انسان جب جان بوجھ کر ضد اور کفرکا راستہ اختیار کرلے۔ تو پھر اسے کسی دلیل سے مطمئن نہیں کیا جاسکتا۔ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مخالفوں کی یہی حالت تھی کہ وہ کسی صورت میں بھی آپ کو رسول ماننے کے لیے تیار نہ تھے۔ لیکن جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سیرت اور دلائل کے مقابلے میں لاجواب ہوجاتے تو پھر قرآن مجید کی تکذیب کرتے۔ اس میں بھی ان کا موقف تبدیل ہوتا رہتا تھا۔ ایک بار کہتے کہ یہ شخص اپنی طرف سے کلام بنا کر اللہ کے ذمہ لگاتا ہے۔ دوسری مرتبہ یہ کہتے کہ یہ روم کے فلاں شخص سے کلام سیکھ کر ہمارے سامنے قرآن کے نام سے پیش کرتا ہے۔ ان کے اس الزام کے جواب میں بالترتیب پانچ مرتبہ چیلنج دیا گیا۔ ١۔ اگر یہ سچے ہیں تو ایسا کلام بنا کے لائیں۔ (الطور : ٣٤) ٢۔ دس آیات بناکر پیش کرو۔ (ھود : ١٣) ٣۔ کہہ دو اگر سچے ہو تو تم بھی اس طرح کی ایک سورت بنالاؤ۔ (یونس : ٣٨) ٤۔ پورا قرآن مجید نہیں تو اس جیسی ایک سورت بنا کرلے آؤ۔ (البقرۃ: ٢٣) اے گروہ کفار و مشرکین ! اس چیلنج کو قبول نہیں کرتے ہو تو جان جاؤ کہ اسے اس اللہ نے اپنے علم کے ساتھ نازل فرمایا ہے۔ جس کے سوا کوئی ایسا کلام نہیں بناسکتا کیونکہ وہی معبود برحق ہے ان سے پوچھو کہ کیا تم ماننے کے لیے تیارہو؟ عیسائی ڈاکٹر کا اعتراف : فرانس کا مشہور مستشرق ڈاکٹر مارڈ ریس جس کو حکومت فرانس کی وزارت معارف نے قرآن حکیم کی باسٹھ سورتوں کا ترجمہ فرانسیسی زبان میں کرنے پر مامور کیا تھا اس نے اعتراف کیا : ” بے شک قرآن کا طرز بیان اللہ تعالیٰ کا طرز بیان ہے، بلاشبہ جن حقائق و معارف پر یہ کلام حاوی ہے وہ کلام الٰہی ہی ہوسکتا ہے، واقعہ یہ ہے کہ اس میں شک و شبہ کرنے والے بھی جب اس کی عظیم تاثیر کو دیکھتے ہیں تو تسلیم و اعتراف پر مجبور ہوجاتے ہیں، پچاس کروڑ مسلمان (اس تحریر کے وقت مسلمانوں کی تعداد اتنی ہی تھی 2005 ء میں یہ تعداد سوا ارب سے زائد ہے) جو روئے زمین کے ہر حصہ پر پھیلے ہوئے ہیں ان میں قرآن کی خاص تاثیر کو دیکھ کر مسیح مشن میں کام کرنے والے بالا جماع اس کا اعتراف کرتے ہیں کہ یہ اللہ تعالیٰ کی کتاب ہے۔“ (فہم القرآن : جلد ١ ) مسائل ١۔ کفار رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر الزام لگاتے کہ آپ قرآن مجید خود بنا کرلے آتے ہیں۔ ٢۔ دنیا والے قرآن مجید کی مثل لانے سے قاصر ہیں۔ ٣۔ قرآن مجید اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل شدہ ہے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی اِلٰہ نہیں ہے۔ تفسیربالقرآن قرآن مجید کا چیلنج : ١۔ اس جیسی کوئی آیت لے آؤ اگر تم سچے ہو۔ (الطور : ٣٤) ٢۔ جن اور انسان مل کر بھی اس جیسا قرآن نہیں لاسکتے۔ (بنی اسرائیل : ٨٨) ٣۔ آپ فرمادیں کہ اللہ کے سوا سبھی کو بلا لو اور دس سورتیں اس جیسی لے آؤ اگر تم سچے ہو۔ (ہود : ١٣) ٤۔ اس جیسی کوئی ایک سورۃ بنا لاؤ۔ (یونس : ٣٨) ٥۔ قیامت تک قرآن کی مثل نہیں بنا سکتے۔ (البقرۃ: ٢٣) ھود
14 ھود
15 فہم القرآن ربط کلام : لوگ دنیا کے مفاد اور اس کی زیب وزینت کے لیے حقائق کو ٹھکراتے ہیں جس بنا پر دنیا کی حقیقت کو واضح کردیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا بنیادی اصول یہ ہے کہ جو شخص جس نیت کے ساتھ کسی کام کے لیے کوشش کرے گا اسے اس کی نیت اور کوشش کے مطابق صلہ دے گا۔ اگر کوئی آدمی صرف دنیا اور اس کی اچھی شہرت کے لیے جدوجہد کرتا ہے تو اسے دنیا میں نیک نامی مل جائے گی۔ اگر وہ دنیا اور آخرت کے لیے کوشاں ہے تو اسے دنیا کے ساتھ آخرت میں بھی اس کی کوشش سے کئی گنازیادہ صلہ دیا جائے گا۔ دونوں قسم کے لوگوں کے بدلہ میں کوئی کمی نہیں کی جائے گی۔ یہاں اسی اصول کو یوں بیان فرمایا ہے کہ جو شخص دنیا اور اس کی آسایش وزیبایش یعنی اس کی ترقی کے لیے کوشش کرے گا۔ اس کے صلہ میں کوئی کمی نہیں کی جائے گی۔ چنانچہ مختلف مذاہب اور اقوام کے ساتھ تعلق رکھنے والے لوگوں نے اپنی اپنی قوم اور نظریہ کے لیے جس جس انداز میں محنت اور قربانیاں پیش کیں۔ اسی قدر ہی وہ لوگ اپنی اپنی قوم کے ہیرو ٹھہرے۔ جنہیں لوگ اپنے اپنے انداز میں خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔ گنگارام، میو اور لیڈی ولنگٹن نے لاہور میں ہسپتال بنائے۔ تو انہیں سرکاری خطاب دیا گیا اور آج تک لوگ انہیں اچھے الفاظ سے یاد کرتے ہیں۔ کبھی کسی نے برے الفاظ میں ان کا نام نہیں لیا۔ یہ شہرت اور نیک نامی اللہ تعالیٰ کے اسی اصول اور فرمان کا نتیجہ ہے کہ جو کوئی دنیا کے لیے اچھی کوشش کرے گا اس کی کوشش کے صلہ میں کوئی کمی نہیں رہنے دی جائے گی۔ اِلّا یہ کہ اس نے یہ کام اپنی قوم اور ملک کے لیے خلوص کے ساتھ کیا ہو۔ اس کے ساتھ وضاحت فرمادی کہ آخرت میں آگ کے سوا یہ کچھ نہیں پائیں گے۔ کیونکہ دنیا کی خاطرکوشش کرنے والا انسان آخرت کی جوابدہی پر ایمان نہیں رکھتا۔ اس لیے انہیں آخرت میں آگ کے سوا کچھ حاصل نہ ہوگا۔ انہوں نے دنیافانی کے لیے محنت کی دنیا بالآخر ختم ہوجائے گی۔ لہٰذا دنیا کے خاتمہ کے ساتھ ہی ان کے کارنامے اور ان کی شہرت ختم ہوجائے گی۔ دوسرے لفظوں میں یہ آخرت کی جزا اور اللہ تعالیٰ کے مالک یوم الدین ہونے پر یقین نہیں رکھتے تھے۔ اس لیے انھیں قیامت کے دن کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ عقیدہ آخرت کا تعلق اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کے عدل وانصاف کے ساتھ ہے۔ اس لیے آخرت کا منکر بیک وقت اسلام کے دوبنیادی عقائد کا انکار کرتا ہے۔ (عَنْ عَاءِشَۃَ (رض) قَالَتْ قُلْتُ یَا رَسُوْلَ اللَّہِ ابْنُ جُدْعَانَ کَانَ فِی الْجَاہِلِیَّۃِ یَصِلُ الرَّحِمَ وَیُطْعِمُ الْمِسْکِیْنَ فَہَلْ ذَاکَ نَافِعُہٗ قَالَ لاَ یَنْفَعُہٗ إِنَّہُ لَمْ یَقُلْ یَوْمًا رَبِّ اغْفِرْ لِی خَطِیْءَٓتِی یَوْمَ الدِّیْنِ) [ رواہ مسلم : باب الدلیل علی ان من مات علی الکفر لاینفعہ عمل] ” حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں میں نے کہا اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عبداللہ بن جدعان جاہلیت میں صلہ رحمی کیا کرتا تھا اور مسکینوں کو کھانا کھلاتا تھا کیا اس کے یہ اعمال اسے نفع دیں گے آپ نے فرمایا نہیں اس لیے کہ اس نے کبھی یہ بات نہیں کہی تھی کہ اے اللہ قیامت کے دن میری خطاؤں کو معاف کردینا۔“ مسائل ١۔ دنیا دار لوگوں کو دنیا میں ہی بدلہ دیا جاتا ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ کسی کے اجر میں کمی نہیں کرتا۔ ٣۔ صرف دنیا کے خواہش مند کو آخرت میں آگ کے سوا کچھ نہیں ملے گا۔ ٤۔ کفار کے اعمال تباہ وبرباد ہوجائیں گے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ ہر اچھے کام کا صلہ دیتا ہے : ١۔ اللہ تعالیٰ ہر اچھے کام کا اچھاصلہ دیتا ہے۔ (النجم : ٢٥) ٢۔ ہم ان کے اعمال کی جزا پوری دیں گے اور کوئی کمی نہیں کریں گے۔ (ہود : ١٥) ٣۔ اللہ ان کی نیکی کا صلہ اچھائی کی صورت میں دے گا۔ (النجم : ٣١) ٤۔ جو نیک اعمال کرتے رہے ہیں اللہ ان کا بدلہ دے گا۔ (الزمر : ٣٥) ٥۔ اللہ تعالیٰ ایمان لانے والوں اور نیک اعمال کرنے والوں کو جزا دے گا۔ (سبا : ٤) ٦۔ جو صبر کرتے رہے ہم ان کو بہترین صلہ عطا کریں گے۔ (النحل : ٩٦) ھود
16 ھود
17 فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ اور آخرت کا وہی شخص انکار کرسکتا ہے۔ جس کا ضمیر مردہ ہوچکا ہو۔ زندہ ضمیر شخص کی ہدایت کے لیے درج ذیل دلائل میں سے کوئی ایک دلیل بھی کافی ہے۔ یہاں اس سے پہلی آیات کا مضمون سامنے رکھتے ہوئے اس شخص کے ساتھ مقابلہ کیا جارہا ہے جو زندہ ضمیر ہو اور اس کے سامنے آسمانی کتابوں کے دلائل ہوں۔ وہ اللہ اور آخرت پر ایمان لاتے ہوئے قرآن مجید کی تصدیق کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ جو مردہ ضمیر ہونے کی وجہ سے حقائق کا انکار کرنے پر تل چکا ہو، اس کے ساتھ جہنم کے سوا کیا وعدہ کیا جاسکتا ہے؟ اے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ کے پاس آپ کے رب کی طرف سے حق پہنچ چکا ہے۔ جس میں شک کرنے کی ذرہ برابر گنجائش نہیں۔ لیکن لوگوں کی اکثریت کا عالم یہ ہے کہ وہ حقائق سننے اور جاننے کے باوجود ایمان نہیں لاتے۔ اس آیت کریمہ کے مفسرین نے دو مفہوم اخذ کیے ہیں۔ اہل علم کی ایک جماعت کا خیال یہ ہے کہ اس آیت میں رسول مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مخاطب ہیں۔ آپ کو نبوت سے پہلے ہی اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل ہوچکی تھی۔ پھر جبریل امین (علیہ السلام) نے آپ کے سامنے اللہ تعالیٰ کا کلام پڑھ کر سنایا اور گواہی دی کہ آپ اللہ کے رسول ہیں۔ آپ پر ویسی ہی کتاب نازل کی گئی ہے جیسی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر نازل کی گئی تھی۔ جو لوگوں کے لیے رہنما اور رحمت تھی۔ لہٰذا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کسی قسم کا شک نہیں ہونا چاہیے۔ لیکن لوگوں کی اکثریت نہیں مانے گی۔ اس طرح کچھ لوگ ایمان لائیں گے اور باقی جہنم کا ایندھن بنیں گے۔ دوسری جماعت کا خیال ہے :” اَفَمَنْ کَانَ عَلٰی بَیِّنَۃٍ“ سے مراد وہ شخص ہے جسے فطری طور پر اس شعور کی بیداری حاصل ہو۔ یعنی اسے ” اَلَسَتُ بِرَبِّکُمْ قَالُوْا بَلٰی“ (کیا میں تمہارا رب ہوں؟ لوگوں نے کہا کیوں نہیں آپ ہی ہمارے رب ہیں) کا وعدہ یاد ہو اور پھر اسے قرآن مجید کی صورت میں رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا پیغام پہنچ جائے جو اللہ کی رحمت اور ہدایت کا سرچشمہ ہے۔ جیساکہ اس سے پہلے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر نازل ہونے والی کتاب تورات جو لوگوں کے لیے رحمت اور پیشوا تھی۔ پھر کچھ لوگ ایمان لاتے ہیں اور اکثرانکار کرنے کی وجہ سے جہنم میں جائیں گے۔” فَلَا تَکُ فِیْ مِرْیَۃٍ مِنْہُ“ کا خطاب مسئلہ کی اہمیت کے پیش نظر نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ہے جیساکہ اور مقامات پر بھی ایسا اسلوب اختیار کیا گیا ہے۔ لیکن حقیقتاً ان الفاظ سے مراد ” آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی امت کے لوگ ہیں“۔ مسائل ١۔ قرآن مجید کا تابع دار اور انکار کرنے والا برابر نہیں ہوسکتے۔ ٢۔ قرآن کریم کے منزل من اللہ ہونے کی گواہی تورات نے دی ہے۔ ٣۔ قرآن کا انکار کرنے والوں کے لیے جہنم ہے۔ ٤۔ کلام اللہ کے متعلق کسی قسم کے شک میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے۔ ٥۔ قرآن مجیدبرحق ہے۔ ٦۔ لوگوں کی اکثریت قرآن مجید پر ایمان نہیں لاتی۔ تفسیر بالقرآن لوگوں کی اکثریت ایمان نہیں لایا کرتی : ١۔ تیرے پروردگار کا کلام سچا ہے۔ لیکن لوگوں کی اکثریت ایمان نہیں لاتی۔ (ہود : ١٧) ٢۔ لوگوں کی اکثریت ایمان نہیں لائے گی۔ اگرچہ آپ ان کے ایمان پر کو شاں ہوں۔ (یوسف : ١٠٣) ٣۔ قیامت کے آنے میں کوئی شک نہیں۔ لیکن لوگوں کی اکثریت ایمان نہیں لاتی۔ (المومن : ٥٩) ٤۔ بے شک اس میں نشانی اور عبرت ہے۔ لیکن اکثر لوگ ایمان نہیں لاتے۔ (الشعراء : ٨) ھود
18 فہم القرآن ربط کلام : قرآن مجید کی تکذیب، آخرت کا انکار کرنا۔ درحقیقت اللہ تعالیٰ پر جھوٹ بولنے کے مترادف ہے۔ کفار یہ الزام عائد کرتے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قرآن مجید اپنی طرف سے بنالیتا ہے۔ ان کا یہ الزام بھی تھا کہ مرنے کے بعد اللہ کے حضور پیش ہونے کا تصور اس شخص کے الفاظ کی جادوگری ہے حالانکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ باتیں من جانب اللہ کیا کرتے تھے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس کا جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ اے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! یہ لوگ آپ کو جھوٹا نہیں کہتے ! بلکہ اللہ کی آیات کو جھٹلاتے ہیں۔ جو حقیقت میں اللہ کو جھٹلانا ہے۔ جو شخص اللہ پر جھوٹ بولتا ہے اس سے بڑھ کر کون بڑا ظالم ہوسکتا ہے؟ ان جھوٹوں کا اس وقت کیا حال ہوگا جب انہیں اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کیا جائے گا اور ان پر شہادتیں قائم کی جائیں گی۔ تب یہ کوئی جواب نہیں دے پائیں گے۔ اس وقت گواہ کہیں گے کہ ظالموں پر اللہ کی پھٹکارہو۔ یہ لوگ قیامت کے بارے میں غلط فہمیاں پیدا کرنے کی وجہ سے یہ لوگ قولاً اور عملاً اللہ کی راہ میں رکاوٹ بننے کے ساتھ کفر کررہے ہیں۔ (عَنْ کَنَانَۃَ الْعَدَوِیِّ قَالََ دَخَلَ عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ (رض) عَلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَقَالَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ، أخْبَرَنِیْ عنِ الْعَبْدِ، کَمْ مَعَہٗ مِنْ مَلَکٍ ؟ فَقَالَ مَلَکٌ عَلٰی یَمِیْنِکَ عَلٰی حَسُنَاتِکَ، وَھُوَ آمِرٌ عَلٰی اَّلذِی عَلٰی الشِّمَالِ، إذَا عَمِلْتَ حَسَنَۃً کُتِبَتْ عَشْرًا، فَإذَا عَمِلْتَ سَیِّءَۃً قَالَ الَّذِی عَلٰی الشِّمَالِ لِلَّذِیْ عَلٰی الْیَمِیْنِ اَکْتُبُ ؟ قَالَ لَا لَعَلَّہٗ یَسْتَغْفِرُ اللّٰہَ وَیَتُوْبُ)[ ابن کثیر] ” کنانہ بن عدی کہتے ہیں کہ حضرت عثمان بن عفان (رض) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے اور کہنے لگے اللہ کے رسول آدمی کے ساتھ کتنے فرشتے ہوتے ہیں آپ نے فرمایا ایک فرشتہ دائیں جانب جو نیکیاں تحریر کرتا ہے اور وہ بائیں جانب والے فرشتے سے با اختیار ہوتا ہے۔ جب انسان نیکی کرتا ہے تو وہ دس نیکیاں لکھ لیتا ہے۔ جب برائی کرتا ہے تو بائیں جانب والا دائیں جانب والے سے کہتا ہے کیا میں لکھ لوں؟ وہ کہتا ہے نہیں شاید کہ استغفار کرلے اور توبہ کرلے۔“ مسائل ١۔ اس سے بڑا ظالم کوئی نہیں جو اللہ پر افترا بازی کرتا ہے۔ ٢۔ قیامت کے دن جھوٹے اللہ کے سامنے پیش کیے جائیں گے۔ ٣۔ جھوٹوں کے خلاف گواہ پیش کیے جائیں گے۔ ٤۔ ظالموں پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہوتی ہے۔ ٥۔ آخرت کا انکار کرنے والے لوگوں کو اللہ کی راہ سے روکتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن قیامت کے دن مجرم کے خلاف شہادتیں : ١۔ قیامت کے دن جھوٹ باندھنے والوں کے خلاف گواہ پیش کیے جائیں گے۔ (ہود : ١٨) ٢۔ قیامت کے دن مجرم کے ہاتھ، پاؤں اور زبان اس کے خلاف گواہی دیں گے۔ (النور : ٢٤) ٣۔ قیامت کے دن مجرموں کے مونہہ پر مہر لگادی جائے گی ہاتھ اور پاؤں اس کے خلاف گواہی دیں گے۔ (یٰس : ٦٥) ٤۔ یہاں تک کہ جب اس کے پاس پہنچ جائیں گے۔ تو ان کے کان، آنکھیں اور جسم ان کے خلاف گواہی دیں گے۔ (حٰم السجدۃ: ٢٠) ٥۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی امت کے بارے میں گواہی دیں گے۔ (البقرۃ: ١٤٣) ھود
19 ھود
20 فہم القرآن ربط کلام : آخرت کا انکار کرنے اور اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھنے والے لوگوں کی دنیا میں حیثیت اور آخرت میں ان کا انجام۔ آخرت کا انکار کرنے والے دنیا میں تو حقائق کا انکار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ مرنے کے بعد دوبارہ نہیں اٹھایا جانا۔ لیکن قیامت کے دن جی اٹھنے اور اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں پیش ہونے سے انکار نہیں کرسکتے۔ اللہ تعالیٰ انھیں اٹھائے گا اور انھیں اپنے رب کے حضور پیش ہونا ہے۔ یہ اپنی پیشی کے بارے میں اللہ تعالیٰ کو بے بس نہیں کرسکتے۔ انسان جب اللہ کی ذات کا منکر اور آخرت کا انکاری ہوجائے تو پھر اس کے گناہ اپنی ذات تک محدود نہیں رہتے۔ اللہ تعالیٰ کی ذات اور آخرت کے انکار کی وجہ سے وہ اس حد تک باغی بن جاتا ہے کہ اس کی ذات اور اس کے کام لوگوں کے لیے اللہ کے راستے میں رکاوٹ بن جاتے ہیں اور ایسے لوگ منفی فکر اور خودسری کی وجہ سے سرعام انبیاء سے مطالبہ کرتے تھے کہ اگر ہم واقعی مجرم ہیں تو ہماری گرفت کیوں نہیں ہوتی۔ ان کی ہرزہ سرائی کا جواب دیتے ہوئے فرمایا گیا ہے کہ انہیں ڈھیل دینا اللہ تعالیٰ کی حکمت کے عین مطابق ہے۔ ورنہ یہ اور ان کے پیرو مرشد اللہ کے سامنے دم نہیں مار سکتے۔ دنیا میں انہیں مہلت دینے کا یہ معنی نہیں کہ قیامت کے دن بھی یونہی چھوٹ جائیں گے، بلکہ انہیں اور ان کی وجہ سے جو لوگ گمراہ ہوئے انہیں دوگنا عذاب دیا جائے گا۔ جس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں سننے کے لیے کان دیے اور دیکھنے کے لیے آنکھیں عطا فرمائیں۔ لیکن انہوں نے اللہ تعالیٰ اور گم ہوگیا ان سے جو تھے وہ وہ افترا باندھتے ہی کی عطا کردہ صلاحیتوں سے حقیقی فائدہ نہ اٹھایا۔ مرید غلط پیروں کی وجہ سے اور ور کر اپنے لیڈروں کے پیچھے اندھے اور بہرے ہونے کی وجہ سے پیروں کی وجہ سے ان کے مرید گمراہ ہوئے اور پھر دوسروں کو گمراہ کرتے رہے۔ اس بنا پر یہ لوگ اپنے اور دوسروں کے گناہوں کے ذمہ دار ٹھہرے۔ جس وجہ سے انہیں دوگنا عذاب ہوگا۔ لہٰذا یہ لوگ نقصان میں ہونگے اور آخرت کا نقصان ناقابل تلافی اور سب سے بڑا نقصان ہے۔ بلاشبہ ایسے لوگ بھاری اور نہ ختم ہونے والا نشان پائیں گے۔ اس وقت پیر اپنے مرید اور لیڈر اپنے ور کروں کے کچھ کام نہیں آئیں گے۔ بلکہ جہنم کا عذاب دیکھ کر اس قدر حواس باختہ ہوں گے کہ دنیا کے تعلقات اور دعوے سب بھول جائیں گے۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ کو کوئی بھی عاجز نہیں کرسکتا۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ کے مقابلہ میں کسی کا کوئی مددگار نہیں ہوگا۔ ٣۔ گمراہی کے ذمہ دار لوگوں کو دوگنا عذاب دیا جائے گا۔ ٤۔ اللہ کی آیات کا انکار کرنے والے خسارہ پائیں گے۔ ٥۔ قیامت کے دن معبودان باطل نظر نہیں آئیں گے۔ تفسیر بالقرآن قیامت کے دن مجرموں کا کوئی مددگار نہ ہوگا : ١۔ اللہ کے مقابلہ میں ان کا کوئی مددگار نہ ہوگا۔ (ہود : ٢٠) ٢۔ تمہارے لیے اللہ کے سوا کوئی دوست اور مددگار نہیں ہے۔ (البقرۃ: ١٠٧) ٣۔ اللہ کے سوا کوئی ایسا نہیں جو تمہاری مدد کرسکے۔ (البقرۃ: ١٢٠) ٤۔ اللہ کے سوا کوئی ولی اور بچانے والا نہیں ہے۔ (الرعد : ٣٧) ٥۔ اللہ کے سوا تمہارا کوئی ولی اور مددگار نہیں۔ (العنکبوت : ٢٢) ٦۔ اللہ کے سوا تمہارا کوئی دوست اور مددگار نہیں ہے۔ (الشوریٰ: ٣١) ھود
21 ھود
22 ھود
23 فہم القرآن ربط کلام : ملعون لوگوں کے بعد نیک مخلصین کا ذکر۔ قرآن مجید حسب دستور دو قسم کے لوگوں اور کرداروں کے درمیان تقابل بیان کرتا ہے۔ کیا اندھے اور بہرے، دیکھنے والے اور سننے والے برابر ہوسکتے ہیں۔ حقائق نہ دیکھنے اور نہ سننے کی وجہ سے اندھوں اور بہروں کا انجام جہنم کی آگ ہے۔ جو ناقابل تلافی نقصان ہے۔ اتنا فرق ہونے کے باوجود لوگ نصیحت حاصل نہیں کرتے۔ اللہ کے حضور عاجزی کرنیوالے لوگ اپنے رب کی رضا کے لیے حقیقت کو بغور دیکھتے اور سنتے ہیں۔ عاجزی کرنے والوں سے مراد اس پر عمل کرنے والے ہیں۔ جس کی تاکید اور وضاحت ایمان اور عمل صالح سے کردی ہے۔ ” اَخْبَتُوْٓا“ کا لغوی معنی ” عاجزی اختیار کرنا“ جس کا اجر جنت ہے اور اللہ کے حضور عاجزی کرنے والے جنت میں ہمیشہ رہیں گے۔ قرآن مجید باربار بتلاتا اور سمجھاتا ہے کہ ایمان کے ساتھ صالح عمل کرنا لازم ہے۔ ایمان اور عمل صالح کا اتنا گہرا تعلق ہے کہ یہ ایک دوسرے کے بغیر مکمل نہیں ہوتے۔ نہ ہی ایک دوسرے سے جدا ہو کر ان کی کوئی حیثیت رہتی ہے۔ جنت کی سجاوٹ : (عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) الْجَنَّۃُ مَا بِنَاؤُہَا قَالَ لَبِنَۃٌ مِنْ فِضَّۃٍ وَلَبِنَۃٌ مِنْ ذَہَبٍ وَمِلاَطُہَا الْمِسْکُ الأَذْفَرُ وَحَصْبَاؤُہَا اللُّؤْلُؤُ وَالْیَاقُوتُ وَتُرْبَتُہَا الزَّعْفَرَانُ مَنْ یَّدْخُلْہَا یَنْعَمْ وَلاَ یَبْأَسْ وَیُخَلَّدْ وَلاَ یَمُوْتُ لاَ تَبْلَی ثِیَابُہُمْ وَلاَ یَفْنَی شَبَابُہُمْ) [ رواہ الترمذی : کتاب صفۃ الجنۃ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جنت کی بناوٹ اس طرح ہے کہ ایک اینٹ چاندی کی اور ایک سونے کی اور اس کا گارا خوشبودار کستوری ہے۔ اس کے کنکر لؤلؤ اور یاقوت ہیں اور اس کی مٹی زعفران کی ہے جو اس میں داخل ہوگا وہ خوش و خرم ہوگا اسے کوئی تکلیف نہ ہوگی وہ اس میں ہمیشہ رہے گا اسے موت نہیں آئے گی کپڑے بوسیدہ نہیں ہوں گے اور نہ جوانی ختم ہوگی۔“ (عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یُؤْتَی یَوْمَ الْقِیَامَۃِ بِأَنْعَمِ أَہْلِ الدُّنْیَا مِنَ الْکُفَّارِ فَیُقَالُ اغْمِسُوْہُ فِی النَّارِ غَمْسَۃً فَیُغْمَسُ فِیْہَا ثُمَّ یُقَالُ لَہُ أَیْ فُلاَنٌ ہَلْ أَصَابَکَ نَعِیْمٌ قَطُّ فَیَقُوْلُ لاَ مَا أَصَابَنِی نَعِیْمٌ قَطُّ وَیُؤْتَی بِأَشَدِّ الْمُؤْمِنِینَ ضُرًّا وَبَلاَءً فَیُقَالُ اغْمِسُوْہُ غَمْسَۃً فِی الْجَنَّۃِفَیُغْمَسُ فِیْہَا غَمْسَۃً فَیُقَالُ لَہُ أَیْ فُلاَنٌ ہَلْ أَصَابَکَ ضُرٌّ قَطُّ أَوْ بَلاَءٌ فَیَقُوْلُ مَا أَصَابَنِی قَطُّ ضُرٌّ وَلاَ بَلاَءٌ )[ رواہ ابن ماجۃ: کتاب الزہد، باب صفۃ النار] ” حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں فرمایا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قیامت کے دن کفار میں سے دنیا کے خوشحال ترین آدمی کو لایا جائے گا اور حکم ہوگا اسے جہنم میں غوطہ دلواؤ۔ اسے غوطہ دیا جائے گا پھر اس سے پوچھاجائے گا کیا تجھے دنیا میں کبھی کوئی نعمت حاصل ہوئی ہے۔ وہ کہے گا نہیں مجھے کبھی کوئی نعمت نہیں ملی۔ سخت تکالیف پھر آزمائشوں میں مبتلا رہنے والے مومن کو لایا جائے گا کہا جائے گا اسے جنت کی ایک جھلک دکھلاؤ پھر اس سے پوچھاجائے گا۔ کیا تجھے کبھی کوئی تکلیف لاحق ہوئی ؟ وہ کہے گا میں کبھی بھی تکلیف و آزمائش میں مبتلا نہیں کیا گیا۔“ مسائل ١۔ اللہ پر ایمان لانے والے، عمل صالح کرنے والے اور اپنے رب کی طرف جھکنے والے ہمیشہ جنت میں رہیں گے۔ ٢۔ اندھا اور بینا برابر نہیں ہو سکتے۔ ٣۔ بہرا اور سننے والا برابر نہیں ہوسکتے۔ ٤۔ اللہ کی آیات کا انکار کرنے والے نقصان اٹھائیں گے۔ تفسیربالقرآن نیک اور بد برابر نہیں ہوسکتے : ١۔ کیا اندھا اور بینا، بہرا اور سننے والا برابر ہوسکتے ہیں؟ (ہود : ٢٤) ٢۔ اندھا اور دیکھنے والا، نیک اور بدبرابر نہیں ہوسکتے۔ (المومن : ٥٨) ٣۔ مومن اور فاسق برابر نہیں ہو سکتے۔ (السجدۃ: ١٨) ٤۔ اللہ مجرموں اور مومنوں کو برابر نہیں رکھے گا۔ (القلم : ٣٥۔ ٣٦) ھود
24 ھود
25 فہم القرآن ربط کلام : نئے خطاب کا آغاز۔ قرآن پاک کے حوالے سے یہ بات پہلے بھی لکھی جاچکی ہے کہ لوگوں کی ہدایت کے لیے جتنے پیغمبر مبعوث کیے گئے ان سب نے اپنی دعوت کا آغاز اللہ کی توحید سمجھانے سے کیا۔ جس کا تقاضا ہے کہ ایک اللہ کی عبادت کی جائے۔ حضرت نوح (علیہ السلام) جن کو اوّلُ الرُّسُل بھی کہا جاتا ہے۔ انہوں نے اپنی قوم کو یہی فرمایا کہ اے میری قوم! صرف ایک اللہ کی عبادت کرو۔ میں تمہیں اس طریقہ عبادت کے انجام سے واشگاف الفاظ میں آگاہ کررہا ہوں جس طریقہ سے تم اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے ہو وہ نہ صرف اللہ تعالیٰ کو پسند نہیں بلکہ اگر تم اس طریقہ عبادت سے باز نہ آئے تو تم پر اذیت ناک عذاب نازل کیا جائے گا۔ یاد رہے کہ حضرت نوح (علیہ السلام) کی قوم نے فوت شدہ انبیاء اور بزرگوں کے مجسمے بنائے ہوئے تھے۔ جنہیں سامنے رکھ کر اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے تھے۔ ان کا عقیدہ تھا کہ اس طرح اللہ کی عبادت کرنے کا زیادہ لطف آتا ہے اور ان کی ارواح ہمیں اللہ تعالیٰ کے قریب کردیتی ہیں۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کے سمجھانے پر وہ لوگ سمجھنے کی بجائے یہ کہنے لگے کہ اے نوح ہم اپنے معبودوں کو ہرگز نہیں چھوڑیں گے۔ وہ لوگ ایک دوسرے کو پکا کرتے ہوئے کہتے کہ ود، سواع، یغوث، یعوق اور نسر کو ہرگز نہیں چھوڑنا۔ یہ اس قوم کے پانچ فوت شدہ بزرگ تھے۔ عبادت کا مفہوم : اکثر مفسرین نے عبادت کا معنی تذلل یعنی نہایت عاجزی کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی پرستش کرنا بیان کیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ عبادت میں عاجزی اور انتہا درجے کی انکساری ضروری ہے۔ آدمی اللہ کے حضور قیام کرے تو زبان سے اقرار کرے اور اس کا پورا جسم خاموش گواہی دے رہا ہو۔ اے اللہ میرے جسم کا ایک ایک ریشہ تیرے حضور عاجز و بے بس ہے۔ جبین نیاز جھکائے تو اپنے آپ کو عجز و انکساری کی انتہا تک لے جائے گویا کہ وہ پستیوں کے سمندر میں ڈوب چکا ہے۔ زبان جنبش کرے تو اس کی حمد و ثنا کے گیت گائے۔ دست سوال دراز کرے تو سراپا التجا بن جائے۔ مال خرچ کرے تو اس عاجزی کے ساتھ کہ میں تو مالک کی ملکیت ہی واپس لوٹا رہا ہوں نہ یہ میرا مال ہے ہے اور نہ اس میں میرا کمال ہے۔ اس عہد کو نمازی پانچ وقت تشہد میں دہراتا ہے : (اَلتَّحَیَّاتُ لِلّٰہِ وَالصَّلَوٰاتُ وَالطَّیِّبَاتُ) ” تمام قسم کی قولی، فعلی اور مالی عبادات اللہ کے لیے ہیں۔“ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم : (قُلْ إِنَّ صَلَاتِیْْ وَنُسُکِیْْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلَّہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ لَا شَرِیْکَ لَہُ وَبِذٰلِکَ أُمِرْتُ وَأَنَا أَوَّلُ الْمُسْلِمِیْنَ۔)[ الانعام : ١٦٢۔ ١٦٣] ” کہہ دیجیے ! یقیناً میری نماز، قربانی، میری زندگی اور میری موت اللہ رب العالمین کے لیے ہے، اس کا کوئی شریک نہیں اسی بات کا مجھے حکم دیا گیا ہے اور میں پہلا اسلام لانے والا ہوں۔“ مسائل ١۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کو ان کی قوم کی طرف ڈرانے والا بناکر بھیجا گیا۔ ٢۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے لوگوں کو اللہ کی توحید کی طرف بلایا۔ ٣۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرایا۔ تفسیر بالقرآن تمام انبیاء کرام (علیہ السلام) اپنی دعوت کا آغاز اللہ کی توحید سے کیا کرتے تھے : ١۔ تم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو۔ (ہود : ٢٦) ٢۔ حضرت ہود نے کہا اے میری قوم اللہ کی عبادت کرو اس کے سوا تمہارا کوئی اِلٰہ نہیں۔ (الاعراف : ٦٥) ٣۔ حضرت صالح نے کہا اللہ کے سوا تمہارا کوئی اِلٰہ نہیں اسی کی عبادت کرو۔ (الاعراف : ٧٣) ٤۔ حضرت شعیب نے اپنی قوم سے کہا اللہ کی عبادت کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں۔ (ہود : ٨٤) ٥۔ ہم نے ہر قوم کی طرف رسول بھیجے اور انہوں نے دعوت دی کہ اللہ کی عبادت کرو اور طاغوت کی عبادت سے بچو۔ (النحل : ٣٦) ٦۔ بیشک میرا اور تمہارا پروردگار اللہ ہے، اسی کی عبادت کرو۔ (الزخرف : ٦٤) ھود
26 ھود
27 فہم القرآن ربط کلام : قوم نوح کا حضرت نوح (علیہ السلام) کو جواب۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کی قوم کے نمائندوں یعنی سرداروں نے حضرت نوح (علیہ السلام) سے کہا کہ ہم تجھے اپنے ہی جیسا آدمی سمجھتے ہیں اور جو تیرے پیچھے چلنے والے ہیں۔ وہ ہم میں نہایت گھٹیا لوگ ہیں اور ہم اپنے آپ پر تم میں کوئی فوقیت نہیں دیکھتے بلکہ ہم تم کو جھوٹا سمجھتے ہیں۔ قرآن مجید اور تاریخ کا غورسے مطالعہ کیا جائے تو آدمی اس نتیجہ پر پہنچتا ہے کہ ہر پیغمبر کو اس کی قوم کی طرف سے سب سے پہلے ایسے ہی رد عمل کا سامنا کرنا پڑا۔ اسی بنا پر ہی اہل مکہ یہ کہا کرتے تھے کہ یہ نبی ہماری طرح کا انسان ہے۔ نبی تو انسان کی بجائے فرشتہ ہونا چاہیے تھا۔ جس کا جواب آپ کی زبان اطہر سے یوں کہلوایا گیا کہ ان سے فرمائیں کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ چلنے پھرنے، کھانے پینے، اٹھنے بیٹھنے اور دیگر حاجات انسانی کے حوالے سے میں تمہارے جیسا انسان ہوں۔ جو حاجات اور ضروریات تمہیں پیش آتی ہیں بحیثیت انسان میں ان حاجات سے مبرا نہیں ہوں۔ اس لحاظ سے میں تمہارے جیسا انسان ہوں یعنی بنی نوع انسان میں سے ہوں۔ لیکن مجھ پر اللہ تعالیٰ وحی کرتا ہے گویا کہ میں اس کا نامزد نمائندہ ہوں اور اسکا پیغام یہ ہے کہ لوگو! اللہ ایک کے سوا تمہارا کوئی اِلٰہ نہیں۔ (الکہف : ١١٠) حضرت نوح (علیہ السلام) کو دوسرا طعنہ یہ دیا گیا کہ تیرے ماننے والے ہماری سوسائٹی کے نچلے درجے کے لوگ ہیں۔ یہی طعنہ نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھی دیا گیا کہ تیرے قریب رہنے والے لوگ غریب کنگال اور نوکرچاکر قسم کے لوگ ہیں۔ اگر ان کو تو اپنے آپ سے دور ہٹائے تو ہم آپ کے قریب ہونے کے لیے تیار ہیں۔ قوم نوح کا یہ بھی کہنا تھا کہ تم لوگوں میں ہم اپنے پر کوئی فضیلت اور فوقیت نہیں دیکھتے یہ کہنا بھی ان کے تکبر اور رعونت کی وجہ سے تھا۔ ورنہ انبیاء کے پیروکار کردار کے سچے اور اعلیٰ اخلاق کے نمونے ہوا کرتے تھے جن میں سے کسی ایک کا مقابلہ ان کی پوری قوم سے نہیں کیا جاسکتا تھا۔ جہاں تک پیغمبر کی سیرت کا تعلق ہے وہ تو اپنے دور کا منفرد اور ممتاز انسان ہوا کرتا ہے اس لیے یہ کہنا کہ پیغمبر یا اس کے تابع فرماں لوگوں میں کوئی افضلیت کی بات نہیں۔ اس سے بڑا کوئی جھوٹ نہیں ہوسکتا۔ لیکن کفار بالخصوص ان کے لیڈروں کا یہی پروپیگنڈہ ہوا کرتا تھا کہ یہ لوگ جھوٹے ہیں۔ اہل مکہ کا وطیرہ : (عَنْ عَبْدِاللّٰہِ بْنِ مَسْعُوْدٍ (رض) أنَّہٗ قَالَ مَرَّ الْمَلأ مِنْ قُرَیْشٍ عَلٰی رَسُوْلِ اللّٰہ وَعِنْدَہٗ صُُہَیْبٌ وَخَبَابٌ وَبِلَالٌ وَعَمَّارٌ وَغَیْرُہُمْ مِنْ ضُعَفَاءِ الْمُسْلِمِیْنَ، فَقَالُوْا یَا مُحَمَّدُ اأرَضِیْتَ بِہَؤلَاءِ عَنْ قَوْمِکَ ؟ أفَنَحْنُ نَکُوْنُ تَبَعاً لِہَؤُلَاءِ ؟ أطْرُدْہُمْ عَنْ نَفْسِکَ، فَلَعَلَّکَ إنَ طَرَدْتَہُمْ اتَّبَعْنَاکَ، فَقَالَ عَلَیْہِ السَّلَامُ مَا أنَا بِطَارِدِ الْمُؤمِنِیْنَ فَقَالُوْا فَأقُمْہُمْ عَنَّا إذَا جِءْنَا، فَإذَا أقَمْنَا فَأقْعُدْہُمْ مَعَکَ إنْ شِءْتَ، فَقَالَ نَعَمْ طَمْعاً فِیْ إیْمَانِہِمْ) [ تفسیر الرازی] ” حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ قریش کے سردار رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس سے گزرے اور آپ کے پاس صہیب، خباب، بلال، عمار اور ان جیسے کمزور مسلمان بیٹھے ہوئے تھے قریش نے کہا کیا آپ اپنی قوم میں سے ان کے ساتھ راضی ہیں اور ہم ان کی وجہ سے آپ کی تابعداری کرنے والے نہیں ہیں ان کو اپنے آپ سے دور کردیجیے۔ ہوسکتا ہے کہ اگر آپ انہیں اپنے سے دور کردیں تو ہم آپ کی اطاعت کرلیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میں مومنوں کو دور نہیں کرسکتا۔ انہوں نے کہا جب ہم آئیں تب آپ انہیں اٹھا دیا کریں جب ہم اٹھ جائیں۔ پھر انہیں اپنے پاس بٹھانا چاہیں تو بٹھا لیں آپ نے ان کے ایمان لانے کے لالچ سے فرمایا ٹھیک ہے۔“ مسائل ١۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کو قوم نے اپنے جیسا انسان سمجھ کر جھٹلایا۔ ٢۔ انبیاء ( علیہ السلام) کے تابع فرماں اکثر غرباء ہوتے ہیں۔ ٣۔ کفار ایمانداروں کو حقیر جانتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن انبیاء کرام (علیہ السلام) پر کفار کے الزامات : ١۔ حضرت نوح کو ان کی قوم نے کہا کہ ہم تمہیں جھوٹا تصور کرتے ہیں۔ (ہود : ٢٧) ٢۔ کفار نے تمام انبیاء کو جادوگر اور دیوانہ قرار دیا۔ (الذاریات : ٥٢) ٣۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اہل مکہ نے جادوگر کہا۔ (الصف : ٦) ٤۔ کفار آپ کو شاعر قرار دیتے تھے۔ (الطور : ٣٠) ٥۔ قوم فرعون نے موسیٰ کو جادوگر ہونے کا الزام لگایا۔ (القصص : ٣٦) ھود
28 فہم القرآن ربط کلام : حضرت نوح (علیہ السلام) کا اپنی قوم کو جواب۔ حضرت نوح (علیہ السلام) قوم کی سطحی اور بے بنیاد گفتگو کا نہایت ہی مدبرانہ جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں۔ اے میری قوم کیا تم غور نہیں کرتے؟ کہ میں نے تمہارے سامنے جو دعوت پیش کی ہے اس کے کتنے واضح دلائل اپنے رب کی طرف سے پیش کیے ہیں، جہاں تک میرے بشرہونے کا تعلق ہے اس میں تو کوئی کلام نہیں کہ میں واقعی بشرہی ہوں۔ لیکن اس میں بھی غور کرو کہ اللہ تعالیٰ نے مجھ پر کتنافضل وکرم فرمایا ہے۔ اس نے تم سب میں سے مجھے ہی اپنے پیغام کے لیے منتخب فرمایا ہے۔ اگر تم جان بوجھ کر حقائق دیکھنے اور ان کو ماننے کے لیے تیار نہیں تو میں کس طرح تم پرہدایت مسلط کرسکتا ہوں۔ اللہ کی ہدایت کو قبول کرنا اس کی رحمت اور فضل کے بغیر ممکن نہیں ہوا کرتا۔ پھر اس بات پر بھی غور کرو کہ میں تمہیں یہ دعوت اس لیے نہیں دے رہا کہ اس کے بدلے مجھے کسی مال، منصب یا شہرت کی غرض ہے۔ میں آپ سے اجرکاطالب ہونے کی بجائے اپنے رب پر بھروسہ رکھتا ہوں کہ وہی مجھے اس کا اجر عنایت فرمائے۔ جہاں تک آپ کے اس مطالبے کا تعلق ہے کہ میں غریب اور کمزور ایمانداروں کو چھوڑدوں یہ کیسے ممکن ہوسکتا ہے کہ جو اپنے رب کی رضا اور ملاقات کی چاہت رکھتے ہیں۔ ان کے مقابلے میں۔ میں رب کے منکروں کو ترجیح دوں، تمہارا یہ مطالبہ سراسر جہالت پر مبنی ہے۔ اگر میں مخلص اور ایمان میں سچے لوگوں کو اپنے سے دور کردوں تو اس جرم کے بدلے اللہ تعالیٰ سے مجھے کون چھڑائے گا؟ کیا تم اس حقیقت اور دعوت کو سمجھنے کے لیے تیار نہیں ہو؟ مسائل ١۔ انبیاء ( علیہ السلام) اللہ تعالیٰ کی طرف سے معجزات لے کر آتے ہیں۔ ٢۔ کسی کو ہدایت دیناانبیاء کے اختیار میں نہیں تھا۔ ٣۔ انبیاء (علیہ السلام) لوگوں سے اجر کے خواہاں نہیں ہوتے تھے۔ ٤۔ انبیاء (علیہ السلام) مسکینوں کو التفات خاص سے محروم نہیں کرتے۔ ٥۔ ایمان والے اپنے رب سے ملاقات کریں گے۔ ٦۔ ایمان والوں کو کم تر اور حقیر جاننے والے جاہل ہوتے ہیں۔ ٧۔ اللہ تعالیٰ کے مقابلہ میں کوئی کسی کی مدد نہیں کرسکتا۔ ٨۔ اللہ تعالیٰ کے تابع داروں سے کبھی اعراض نہیں کرنا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن انبیاء کرام (علیہ السلام) نبوت کے کام پر کوئی معاوضہ نہیں لیتے تھے : ١۔ حضرت نوح نے فرمایا میں تم سے اس تبلیغ پر کوئی معاوضہ نہیں مانگتا۔ (ہود : ٢٩) ٢۔ حضرت ہود نے فرمایا کہ میں تم سے تبلیغ کا کوئی معاوضہ طلب نہیں کرتا۔ (الشعرا : ١٢٧) ٣۔ حضرت صالح نے فرمایا کہ میرا اجر اللہ رب العالمین پر ہے اور تم سے کچھ نہیں مانگتا۔ (الشعرا : ١٤١، ١٤٥) ٤۔ میرا اجر اللہ پر ہے اور وہی ہر چیز پر گواہ ہے۔ (سبا : ٤٧) ٥۔ میرا اجر اللہ پر ہے جس نے مجھے پیدا کیا ہے۔ (ہود : ٥١) ٦۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میں تجھ سے نہ اجر چاہتاہوں اور نہ کسی قسم کا تکلف کرتا ہوں۔ (ص : ٨٦) ھود
29 ھود
30 ھود
31 فہم القرآن ربط کلام : حضرت نوح (علیہ السلام) کا اپنی قوم کو چوتھا جواب۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے قوم کو فقط اتنی دعوت دی تھی کہ اے لوگو! اللہ ہی سب کا خالق، مالک اور رازق ہے۔ لہٰذا ادھر ادھر کے واسطے چھوڑ کر براہ راست صرف ایک اللہ کی عبادت کرو۔ مگر قوم نے ان کی دعوت قبول کرنے کی بجائے حضرت نوح (علیہ السلام) پر اعتراضات کیے اور ان سے مختلف قسم کے مطالبات کرنے شروع کردیئے۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے ان کے بالترتیب یہ جواب دیئے : ١۔ اے میری قوم! اللہ نے مجھے اپنی رحمت کے ساتھ منتخب فرماکر حق کے ٹھوس اور واضح دلائل دیئے ہیں۔ اگر تم جان بوجھ کر انہیں قبول کرنے کے لیے تیار نہیں تو میں ہدایت کو کس طرح تم پر مسلط کرسکتا ہوں۔ ٢۔ اے میری قوم کے لوگو! نہ تم سے اس کام کا معاوضہ طلب کرتا ہوں اور نہ ہی تمہارے کہنے پر صاحب ایمان لوگوں کو اپنے سے دور کرسکتا ہوں۔ ٣۔ اے میری قوم! اگر میں مخلص اور نیک لوگوں کو تمہاری وجہ سے اپنے آپ سے دور کردوں تو اس جرم پر اللہ تعالیٰ کے سامنے میری کون مدد کرسکتا ہے؟ باطل پرست لوگوں کا ہمیشہ سے یہ وطیرہ رہا ہے کہ وہ حق پرستوں کو الجھانے کے لیے وہ باتیں کرتے ہیں۔ جن کا حق والوں نے کبھی دعویٰ نہیں کیا اور ان باتوں کا سب سے پہلے نشانہ انبیائے کرام (علیہ السلام) کی مقدس شخصیات کو بنایا گیا، عجب بات یہ ہے کہ اس کی ابتدا حضرت نوح (علیہ السلام) سے ہی ہوگئی تھی۔ چنانچہ حضرت نوح (علیہ السلام) پر مذکورہ بالا اعتراضات کے ساتھ یہ مطالبات کیے گئے جن کے حضرت نوح (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو یہ جوابات دیئے : ١۔ اے میری قوم! میں نے یہ کب دعویٰ کیا تھا کہ میں اللہ کے خزانوں کا مالک ہوں اور تم میری نبوت کو تسلیم کرو میں تمہارے لیے شہد کی نہریں بہادوں گا۔ خزانوں کا مالک تو صرف اللہ تعالیٰ ہے وہ اپنی تقسیم کے مطابق جسے چاہتا ہے عنایت کرتا ہے۔ ٢۔ اے میری قوم : میں نے کبھی غیب دانی کا دعویٰ نہیں کیا۔ غیب کے معاملات اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی ولی اور نبی نہیں جانتا کسی کو کوئی خبر نہیں کی چند لمحوں کے بعد کیا کچھ ہونے والا ہے۔ ٣۔ اے قوم! تم مجھ پر یہ بھی اعتراض کرتے ہو میں شکل وصورت اور انسانی حاجات کے حوالے سے تمہارے جیسا انسان ہوں۔ جس طرح تمہارے ایک دوسرے کے ساتھ رشتے ناطے ہیں۔ اسی طرح میرا بھی تمہارے ساتھ ایک رشتہ ہے۔ البتہ اللہ تعالیٰ نے مجھے اپنا رسول منتخب کیا ہے۔ لہٰذا میں فقط اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں۔ اس لیے مجھ سے یہ امید رکھنا کہ میں فرشتہ بن جاؤں ایک بشر کے لیے یہ ممکن نہیں اور نہ ہی میں نے فرشتہ ہونے کا کبھی دعویٰ کیا ہے۔ ٤۔ اے لوگو! میں یہ بھی نہیں کہہ سکتا کہ جنہیں تم اپنے سے کم تر سمجھتے ہو اللہ تعالیٰ انہیں کسی خیر سے نہیں نوازے گا۔ اللہ تعالیٰ ان کے ایمان اور اخلاص کو جانتا ہے۔ اگر میں تمہارے مطالبہ پر انہیں اپنے آپ سے دور کردوں۔ تو یقیناً میں اس وقت ظالموں میں شمارہوں گا۔ جیساکہ اس سے پہلے آیت نمبر ٢٧ کی تفسیر میں ذکر کیا جاچکا ہے کہ منکرین حق نے حضرت نوح (علیہ السلام) سے یہ کہہ کر مطالبہ کیا تھا کہ اے نوح! تیرے ماننے والے سماجی زندگی کے اعتبار سے ادنیٰ لوگ ہیں اگر ہم سے ایمان لانے کی توقع رکھتے ہو تو ان کو اپنے آپ سے دور کردو جس کا نوح (علیہ السلام) نے یہ جواب دیا تھا کہ میں نیک لوگوں کو اپنے آپ سے کس طرح دور کرسکتا ہوں ؟ اس کے ساتھ انہوں نے یہ بھی جواب دیا کہ تمہارا یہ کہنا کہ اللہ تعالیٰ انہیں خیر سے نہیں نوازے گا۔ یہ اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے۔ ایمانداروں کو خیر سے نہ نوازنے کا کفار کا عقیدہ دو طرح سے تھا۔ ایک تو وہ سمجھتے تھے کہ یہ لوگ دین کے حوالے سے کاروبار میں جس طرح کی پابندیاں عائد کرتے ہیں اس طرح یہ کبھی بھی دنیا میں خوشحالی اور ترقی نہیں پاسکتے۔ دوسرا اس لیے کہتے تھے کہ جس طرح ہم ایمانداروں کے مقابلے میں دنیا میں بہتر ہیں اور آخرت میں بھی ان سے بہتر ہوں گے۔ مسائل ١۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کے پاس دنیا کے خزانے نہیں تھے۔ ٢۔ حضرت نوح (علیہ السلام) غیب نہیں جانتے تھے۔ ٣۔ حضرت نوح (علیہ السلام) فرشتہ نہیں تھے۔ ٤۔ دنیا دار نیک لوگوں کو حقیر سمجھتے ہیں۔ ٥۔ دلوں کی کیفیت جاننے والاصرف ایک اللہ ہے۔ ٦۔ دین والوں کو حقیر جاننے والا ظالم ہوتا ہے۔ تفسیر بالقرآن انبیاء کرام (علیہ السلام) غیب نہیں جانتے تھے : ١۔ حضرت نوح نے فرمایا میرے پاس خزانے نہیں اور نہ ہی میں غیب جانتا ہوں۔ (ہود : ٣١) ٢۔ آپ فرما دیں میں نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں اور نہ ہی میں غیب جانتاہوں۔ (الانعام : ٥٠) ٣۔ فرمادیجیے کہ زمین و آسمان کے غیب کو اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ (النمل : ٦٥) ٤۔ اگر میں غیب جانتا ہوتا تو میں اپنے لیے بہت سی بھلائیاں جمع کرلیتا۔ (الاعراف : ١٨٨) ٥۔ اللہ کے پاس غیب کی چابیاں ہیں اس کے سوا کوئی غیب نہیں جانتا۔ (الانعام : ٥٩) ھود
32 فہم القرآن ربط کلام : حضرت نوح (علیہ السلام) کے حکیمانہ جوابات کا قوم کی طرف سے بدترین ردِّعمل۔ حضرات! کفار اور مشرکین کے مزاج کا اندازہ لگائیں کہ حضرت نوح (علیہ السلام) کی دعوت کس قدر ناصحانہ اور ان کا انداز کتنا حکیمانہ ہے۔ لیکن ان کے مخالف کتنے کج فہم اور منفی سوچ کے حامل لوگ تھے کہ انہوں نے دعوت توحید اور حضرت نوح (علیہ السلام) کی مخلصانہ اور طویل ترین جدوجہد کو بحث وتکرار اور ایک جھگڑے سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں دی۔ ایسے لوگوں کا شروع سے یہ مزاج ہے کہ یہ دین کے بنیادی مسائل کو بھی علماء کا باہمی جھگڑا قرار دے کر اس کی طرف توجہ نہیں کرتے۔ جس کا نتیجہ تباہی کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ سوچ کا یہی انداز نوح (علیہ السلام) کی قوم کا تھا۔ چنانچہ انہوں نے حق تسلیم کرنے کی بجائے جناب نوح (علیہ السلام) سے کہا کہ اے نوح تو نے ہم سے بہت مدت تک بحث وتکرار اور جھگڑا کرلیا۔ اب اس کا ایک ہی حل ہے کہ جس عذاب کی تو دھمکیاں دیتا ہے۔ اسے ہم پر جلدی لے آو۔ اگر واقعی تو نبوت میں سچا ہے۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے جواب دیا عذاب لانا میرے بس میں نہیں۔ البتہ جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے عذاب نازل ہوگا تو تم کسی طرح بھی اس کو ٹال نہیں سکو گے۔ جہاں تک تمہارا یہ کہنا ہے کہ میں نے تمہارے ساتھ بہت جھگڑا کیا ہے یہ تمہاری منفی سوچ کا نتیجہ ہے۔ ورنہ میں نے طویل عرصہ تک نہایت خیرخواہی کے ساتھ تمہیں نصیحت کی ہے۔ اگر تم ہدایت پانے کے لیے تیار نہیں تو میری نصیحت کا تمہیں کیا فائدہ؟ جبکہ تم اپنی منفی سوچ اور بداعمالیوں کی وجہ سے اللہ کے علم میں گمراہ ٹھہر چکے ہو۔ میں پھر تمہیں یہی کہوں گا کہ اپنے رب کو پہچانو۔ بالآخر تم نے اسی کی طرف پلٹ کر جانا ہے۔ یہ بات پہلے بھی عرض کی جاچکی ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی کو گمراہ نہیں کرتا۔ اس نے ہدایت کا معاملہ جبری نہیں رکھا۔ لہٰذا جو گمراہ ہونا چاہتا ہے اسے وہ اس راستے پر کھلا چھوڑ دیتا ہے۔ مسائل ١۔ انبیاء (علیہ السلام) کی باتوں کی کفار پرواہ نہیں کرتے۔ ٢۔ انبیاء (علیہ السلام) سے کفارعذاب الہٰی کا مطالبہ کرتے ہیں۔ ٣۔ انبیاء کرام (علیہ السلام) اپنا ہر معاملہ اللہ کے سپرد کرتے تھے۔ ٤۔ اللہ کے عذاب کو کوئی نہیں ٹال سکتا۔ ٥۔ اللہ کی مرضی کے بغیر کسی کی خیر خواہی کام نہیں آتی ٦۔ اللہ تعالیٰ جس کو گمراہ کرے اسے کوئی ہدایت نہیں دے سکتا۔ ٧۔ اللہ تعالیٰ ساری کائنات کا پروردگار ہے۔ ٨۔ ہر کسی کو اللہ ہی کی طرف لوٹنا ہے۔ تفسیر بالقرآن انبیاء کرام (علیہ السلام) سے اقوام کا عذاب کا مطالبہ : ١۔ حضرت نوح کو قوم نے کہا کہ جو ہمارے ساتھ عذاب کا وعدہ کرتا ہے وہ لے آ۔ (ہود : ٣٢) ٢۔ قوم ثمود نے حضرت صالح (علیہ السلام) سے عذاب کا مطالبہ کیا۔ (الاعراف : ٧٧) ٣۔ مدین والوں نے شعیب (علیہ السلام) سے عذاب نازل کرنے کا مطالبہ کیا۔ (الشعرا : ١٨٧) ٤۔ قوم عاد نے ہود سے عذاب کا مطالبہ کیا۔ (الاحقاف : ٢٢) ٥۔ کفار نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا کہ تو ہم پر آسمان کا ٹکڑاگرادے۔ (بنی اسرائیل : ٩٢) ھود
33 ھود
34 ھود
35 فہم القرآن ربط کلام : حضرت نوح (علیہ السلام) اور ان کی قوم کے ردِّعمل کا ذکر کرنے کے بعد اہل مکہ کو خطاب۔ انبیائے کرام (علیہ السلام) اور ان کی اقوام کے واقعات بیان کرنے کا مقصد محض داستان گوئی اور تاریخ برائے تاریخ دہرانا نہیں۔ قرآن مجید موقع ومحل کے مطابق انبیاء اور ان کی اقوام کی تاریخ کا اتنا ہی ذکر کرتا ہے جتنا مخاطب کے لیے ضروری سمجھتا ہے۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کی عظیم جدوجہد کے بیان کے دورانیہ میں حقیقت کی نقاب کشائی اور رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حوصلہ دینے کی خاطر فرمایا جا رہا ہے کہ اے نبی! نوح (علیہ السلام) کی عظیم جدوجہد اور بے مثال حوصلے کو سامنے رکھ کراپنا کام جاری رکھو۔ قرآن مجید کے مخالفوں کو اس موقع پر صرف اتنا فرمائیں کہ تمہارا یہ کہنا کہ میں نے قرآن مجید اپنی طرف سے بنا لیا ہے تو اس کی ذمہ داری مجھ پر رہنے دو۔ لیکن یادرکھو جو کچھ تم بلا دلیل میری ذات اور قرآن پر الزام لگاتے ہو میں اس سے بری الذمہ ہوں۔ لیکن تمہیں اس جرم کا اس طرح خمیازہ بھگتنا پڑے گا جس طرح حضرت نوح (علیہ السلام) کی قوم کو اپنی کذب بیانی اور حق کی مخالفت کا خمیازہ بھگتنا پڑا تھا۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قرآن مجید میں ردّ و بدل نہیں کرسکتے : (وَإِذَا تُتْلٰی عَلَیْہِمْ اٰیَاتُنَا بَیِّنَاتٍ قَالَ الَّذِیْنَ لَا یَرْجُوْنَ لِقَاءَ نَا اءْتِ بِقُرْاَٰنٍ غَیْرِ ہَذَا أَوْ بَدِّلْہُ قُلْ مَا یَکُوْنُ لِیْ أَنْ أُبَدِّلَہُ مِنْ تِلْقَائِ نَفْسِیْ إِنْ أَتَّبِعُ إِلَّا مَا یُوْحٰی إِلَیَّ إِنِّیْ أَخَافُ إِنْ عَصَیْتُ رَبِّیْ عَذَابَ یَوْمٍ عَظِیْمٍ قُلْ لَوْ شَاء اللَّہُ مَا تَلَوْتُہُ عَلَیْکُمْ وَلَا أَدْرَاکُمْ بِہِ فَقَدْ لَبِثْتُ فِیْکُمْ عُمُرًا مِنْ قَبْلِہِ أَفَلَا تَعْقِلُوْنَ )[ یونس : ١٥۔ ١٦] ” اور جب ان کے سامنے آپ ہماری واضح آیات تلاوت کرتے ہیں۔ ہماری ملاقات کی امید نہ رکھنے والے کہتے ہیں اس قرآن کے علاوہ کوئی قرآن لے آیا اسے بدل ڈال۔ فرما دیجئے میرے لیے لائق نہیں کہ میں اسے اپنی طرف سے تبدیل کروں۔ میں تو اسی کی پیروی کرتا ہوں جو میری طرف وحی کی جاتی ہے۔ مجھے ڈر ہے کہ اگر میں اللہ کی نافرمانی کروں تو مجھے عذاب عظیم کا سامنا کرنا ہوگا۔ ہوش کرواگر اللہ تعالیٰ کا حکم نہ ہوتا تو میں کبھی تمہارے سامنے قرآن پڑھتا اور نہ ہی توحید لے کر اٹھتا۔ کیا تم غور نہیں کرتے ؟ میں نے چالیس سال کا عرصہ تم میں گزارا ہے اور اس پورے عرصہ میں نہ میں نے نبوت کا دعویٰ کیا اور نہ ہی اللہ کے ذمہ کوئی بات لگائی۔ اگر تم تھوڑا سا عقل سے کام لو تو میری سچائی اور قرآن کی صداقت کو سمجھ جاؤ گے۔“ (وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَیْنَا بَعْضَ الْأَقَاوِیْلِ، لَأَخَذْنَا مِنْہُ بالْیَمِیْنِ، ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْہُ الْوَتِیْنَ) [ الحاقۃ: ٤٤ تا ٤٦] ” اگر رسول کوئی بات گھڑ کر ہمارے ذمے لگا دیتا تو ہم اس کا دایاں ہاتھ پکڑ لیتے پھر اس کی شہ رگ کاٹ ڈالتے۔“ مسائل ١۔ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کفار پر قرآن مجید کے متعلق الزام لگاتے ہیں۔ ٢۔ افتراء پردازی کا وبال اسی پر ہے۔ ٣۔ کوئی کسی کے جرم کا ذمہ دار نہیں ہوگا۔ تفسیر بالقرآن نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر کفار کے الزامات : ١۔ کفار نے کہا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قرآن کو خودبنالیا ہے۔ (ہود : ٣٥) ٢۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کفار نے جادوگر کہا۔ (الصف : ٦) ٣۔ نبی اکرم کو کفارجادوزدہ کہا کرتے تھے۔ (الفرقان : ٨) ٤۔ کفار کے سامنے جب حق آیا تو انہوں نے کہا یہ تو جادو ہے۔ (سبا : ٤٣) ٥۔ کفارکہتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مجنوں ہیں۔ (القلم : ٥١) ٦۔ کفار نے کہا کیا ہم اپنے معبودوں کو شاعر ومجنوں کی خاطر چھوڑ دیں؟ (الصٰفٰت : ٣٦) ھود
36 فہم القرآن ربط کلام : رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حوصلہ دینے اور اہل مکہ کو انتباہ کرنے کے بعد بطور مثال حضرت نوح (علیہ السلام) اور ان کی قوم کا واقعہ ذکر کیا جاتا ہے۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کی انتھک اور شب وروز کی طویل کوشش کے باوجود قوم اس بات پر مصرہوجاتی ہے کہ اے نوح! تیرے اور ہمارے درمیان اب فیصلے کی ایک ہی صورت باقی ہے کہ حسب اعلان ہم پر اپنے رب کا عذاب نازل کرو۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے انتہائی مجبور ہو کر اپنے رب کے حضور یہ بددعا کی : (وَقَالَ نُوْحٌ رَبِّ لَا تَذَرْ عَلَی الْأَرْضِ مِنَ الْکَافِرِیْنَ دَیَّارًا۔ إِنَّکَ إِنْ تَذَرْہُمْ یُضِلُّوْا عِبَادَکَ وَلَا یَلِدُوْا إِلَّا فَاجِرًا کَفَّارًا)[ نوح : ٢٦۔ ٢٧] ” اور نوح نے کہا اے میرے رب ! کفار کا زمین پر کوئی گھر نہیں بچنا چاہیے۔ یقیناً اگر تو نے انہیں چھوڑ دیا تو یہ تیرے بندوں کو گمراہ کریں گے اور ان کی نسل بھی کافر ہی ہوگی۔“ آیت میں مذکورہ بددعا کے نتیجہ میں حضرت نوح (علیہ السلام) کو مخاطب کیا گیا۔ اے نوح! تیری قوم میں سے اب کوئی شخص ایمان نہیں لائے گا جو ایمان لانا چاہتے تھے سو لاچکے۔ لہٰذا جو کچھ یہ کررہے ہیں اب اس پر غمگین ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ آپ ہمارے سامنے ہماری ہدایات کے مطابق ایک کشتی تیار کریں۔ ظالموں کو سمجھانے کی اب ضرورت نہیں اور نہ ہی ان سے بحث کرنے کا کچھ فائدہ۔ کیونکہ یہ غرق ہو کر رہیں گے۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ کی نگرانی اور وحی کے مطابق کشتی بنانا شروع کی جوں ہی انکی قوم کے سردار قریب سے گزرتے تو انہیں ٹھٹھا اور مذاق کرتے کبھی کہتے کہ نبوت کے ساتھ ساتھ ترکھانہ کام بھی شروع کردیا ہے۔ کبھی کہتے یہاں کون سا دریا ہے جس میں کشتی چلاؤ گے ؟ نہ معلوم سردار اپنی قوم کو کن کن الفاظ میں یہ بات کہتے ہوں گے کہ دیکھ لیا کہ ہم پہلے ہی کہتے تھے کہ اس شخص کا دماغ خراب ہوگیا ہے۔ دیکھ لو! لوگ بارش کی ایک ایک بوند کے لیے ترس رہے ہیں۔ کوئی دریا بھی قریب نہیں مگر یہ بوڑھا دن رات کشتی بنانے پر لگا ہوا ہے اور ہمیں یہ کہتے ہوئے دھمکیاں دیتا ہے کہ میں کشتی اس لیے بنا رہا ہوں کہ عنقریب اس علاقہ میں بہت بڑا سیلاب آنے والا ہے۔ سرداروں کے ٹھٹھا اور مذاق کا حضرت نوح (علیہ السلام) صرف اتنا جواب دیتے کہ جس طرح تم آج میرا مذاق اڑاتے ہو عنقریب ہم بھی تمہارا ایسا ہی مذاق اڑائیں گے۔ تمہیں معلوم ہوجائے گا کہ کس پر ذلیل کردینے والا، دائمی عذاب نازل ہوتا ہے۔ پھر جب اللہ تعالیٰ کا عذاب آیا، چالیس دن اور چالیس رات تک برابر آسمان سے پانی برستا اور زمین کے چشموں سے پانی اچھلتا رہا۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کی کشتی کی ساخت : جو کشتی حضرت نوح (علیہ السلام) نے بنائی تھی اس کا طول (٢٠٠) ہاتھ، عرض (٥٠) ہاتھ، بلندی (٣٠) ہاتھ تھی اور اس کے اندر تین طبقے تھے یعنی یہ کشتی تین سٹوری تھی۔ (بحوالہ : رحمۃ للعالمین : مصنف قاضی سلیمان منصورپوری ) مسائل ١۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کو بتلادیا گیا کہ اب تیری قوم سے کوئی شخص ایمان نہیں لائے گا۔ ٢۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے کشتی تیار کرنے کا حکم دیا۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ نے نوح (علیہ السلام) کو تنبیہ فرمائی کہ غرق ہونے والوں کے متعلق سوال نہ کرنا۔ ٤۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کا کفار مذاق اڑاتے تھے۔ ٥۔ مصلحین کا مذاق اڑانے والے ایک دن خود مذاق بن جاتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن اقوام نے حضرت نوح (علیہ السلام) اور انبیاء کرام (علیہ السلام) کا مذاق اڑایا : ١۔ جب حضرت نوح کی قوم کے لوگ ان کے پاس سے گذرتے تھے تو ان سے مذاق کرتے۔ (ہود : ٣٨) ٢۔ یہ مذاق کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان سے مذاق کرے گا اور ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔ (التوبۃ: ٧٩) ٣۔ وہ تعجب کرتے اور مذاق کرتے ہیں۔ (الصٰفٰت : ١٢) ٤۔ جب وہ ہماری نشانی دیکھتے ہیں تو مذاق کرتے ہیں۔ (الصٰفٰت : ١٤) ٥۔ جب بھی ان کے پاس رسول آتا تو وہ اس کا مذاق اڑاتے۔ (الحجر : ١١) ٦۔ ان کے پاس کوئی نبی نہیں آیا مگر وہ اس کے ساتھ استہزاء کرتے تھے۔ (الزخرف : ٧) ٧۔ جب بھی ان کے پاس آپ سے پہلے رسول آئے انہوں نے انہیں جادو گر اور مجنوں قرار دیا۔ (الذاریات : ٥٢) ٨۔ لوگوں پر افسوس ہے کہ ان کے پاس جب کبھی رسول آئے تو انہوں نے ان کے ساتھ استہزاء کیا۔ (یٰس : ٣٠) ھود
37 ھود
38 ھود
39 ھود
40 فہم القرآن ربط کلام : حضرت نوح (علیہ السلام) کی بددعا کے نتیجہ میں بارش کا پانی سیلاب کی صورت میں عذاب کی شکل اختیار کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق حضرت نوح (علیہ السلام) کشتی تیار کرچکے تو اللہ کے غضب کا آغاز ہوا۔ جس کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ ہم نے زوردار بارش کے لیے آسمان کے دروازے کھول دیئے۔ جگہ جگہ زمین کو پھاڑ کر چشمے جاری کردیئے یہاں تک کہ زمین اور آسمان کا پانی مل کر طوفان کی شکل اختیار کرگیا۔ ( القمر : ١١۔ ١٢) اس کے ساتھ ہی اللہ کے حکم کے ساتھ تنور پھٹ گیا التنور کے مفسرین نے کئی معانی کیے ہیں۔ کچھ مفسرین نے صحابہ کرام (رض) کے حوالے سے لکھا کہ التنور سے مرادسطح زمین ہے جو مختلف مقامات سے پھٹی اور جگہ، جگہ چشمے جاری ہوگئے۔ بعض نے لکھا کہ التنورسے مراد اس بستی کا کوئی خاص مقام ہے۔ جس کی پہلے سے حضرت نوح (علیہ السلام) کو نشاندہی کردی گئی تھی کہ جب التنور پھٹ جائے تو اپنے ایماندار ساتھیوں اور ہر جاندار کے دو دو جوڑے کشتی میں بٹھانا شروع کرنا۔ کچھ اہل علم کا خیال ہے کہ التنورسے مراد یہی تنور ہے جس میں روٹیاں پکائی جاتی ہیں ” اللہ اعلم“ ممکن ہے کہ اس قوم پر اللہ تعالیٰ کا غضب اس انداز میں نازل ہوا ہو کہ التنور میں بھڑکنے والے انگارے پانی کے بلبلے بن چکے ہوں۔ کیونکہ اگر قوم لوط پرنامزد پتھروں کی بارش ہو سکتی ہے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے لیے دہکتی ہوئی آگ ٹھنڈی ہوسکتی ہے۔ تو التنورکے شعلے پانی کے بلبلے کیوں نہیں بن سکتے؟ بہرکیف جوں ہی زمین و آسمان کے پانی نے مل کر بے پناہ طوفان کی ابتدائی شکل اختیار کی۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کو حکم ہوا کہ ہر جاندار کا جوڑا جوڑا اور اپنے اہل کو بیڑے میں سوار کرلو۔ اس کے ساتھ ہی یہ وضاحت بھی فرمادی کہ حضرت نوح (علیہ السلام) پر ایمان لانے والے نہایت ہی تھوڑے لوگ تھے تاکہ آئندہ نسلوں کو معلوم ہو کہ حضرت نوح (علیہ السلام) کی عظیم اور طویل ترین کوشش کے باوجود لوگوں نے کفر و شرک نہیں چھوڑا تھا۔ جس بنا پر اللہ کا غضب نازل ہوا اور قوم نوح کو غرقاب کردیا گیا۔ (عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ (رض) قَالَ خَرَجَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَوْمًا فَقَالَ عُرِضَتْ عَلَیَّ الْاُمَمُ فَجَعَلَ یَمُرُّ النَّبِیُّ وَمَعَہٗ الرَّجُلُ وَالنَّبِیُّ وَمَعَہٗ الرَّجُلَانِ وَالنَّبِیُّ وَمَعَہٗ الرَّھْطُ وَالنَّبِیُّ وَلَیْسَ مَعَہٗ اَحَدٌ فَرَأَیْتُ سَوَادًا کَثِیْرًا سَدَّ الْاُفُقِ فَرَجَوْتُ اَن یَّکُوْنَ اُمَّتِیْ فَقِیْلَ ھٰذٰا مُوْسٰی فِیْ قَوْمِہٖ ثُمَّ قِیْلَ لِیَ أنْظُرْ فَرَأَیْتُ سَوَادًا کَثِیْرًا سَدَّ الْاُفُقِ فَقِیْلَ لِیَ انْظُرْ ھٰکَذَاوَھٰکَذَا فَرَأَیْتُ سَوَادًا کَثِیْرًا سَدَّ الْاُفُقُ فَقَالَ ھٰؤُلٰآءِ اُمَّتُکَ وَمَعَ ھٰؤُلَاءِ سَبْعُوْنَ اَلْفًا قُدَّامَھُمْ یَدْخُلُوْنَ الْجَنَّۃَ بِغَیْرِ حِسَابٍ ھُمُ الَّذِیْنَ لَا یَتَطَیَّرُوْنَ وَلَا یَسْتَرْقُوْنَ وَلَا یَکْتَوُوْنَ وَعَلٰی رَبِّھِمْ یَتَوَکَّلُوْنَ) [ رواہ البخاری : باب من لم یرق] ” حضرت عبداللہ بن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک روز نبی محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) گھر سے باہر تشریف لائے اور ارشاد فرمایا‘ مجھ پر امتیں پیش کی گئیں۔ ایک پیغمبر گزرا‘ اس کے ساتھ اس کا ایک پیروکار تھا۔ کسی کے ساتھ دو آدمی تھے۔ کسی کے ساتھ ایک جماعت تھی۔ اور بعض ایسے پیغمبر بھی ہوئے‘ جن کا کوئی پیروکار نہیں تھا۔ میں نے اپنے سامنے ایک بہت بڑا اجتماع دیکھا‘ جو آسمان کے کناروں تک پھیلا ہوا تھا۔ میں نے خیال کیا‘ شاید میری امت ہے لیکن بتایا گیا کہ یہ تو موسیٰ (علیہ السلام) کی امت ہے۔ پھر مجھے کہا گیا‘ آپ دیکھیں تو میں نے بہت بڑا اجتماع دیکھا۔ جس نے آسمان کے کناروں کو بھرا ہوا ہے۔ مجھ سے دائیں اور بائیں جانب بھی دیکھنے کے لیے کہا گیا۔ میں نے ہر طرف دیکھا بہت سے لوگ آسمان کے کناروں تک پھیلے ہوئے ہیں مجھے کہا گیا‘ یہ سب آپ کے امتی ہیں۔ ان کے ساتھ ستر ہزار وہ بھی ہیں۔ جو بغیر حساب کے جنت میں داخل ہوں گے۔ وہ ایسے لوگ ہیں‘ جو نہ بدفالی اور نہ دم کراتے ہیں اور نہ گرم لوہے سے داغتے ہیں۔ بلکہ صرف اپنے اللہ پر توکل کرتے ہیں۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح (علیہ السلام) کو عذاب کی نشانی سے آگاہ کردیا تھا۔ ٢۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کو ہرقسم کے جوڑوں میں سے دو، دو سوار کرنے کا حکم ملا تھا۔ ٣۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کی قوم میں سے بہت تھوڑے لوگ ایمان لائے تھے۔ ٤۔ عذاب کی ابتدا تنور سے ہوئی تھی۔ ھود
41 فہم القرآن ربط کلام : طوفان نوح کی کیفیت اور اس کی ہولناکیاں، حضرت نوح (علیہ السلام) کو حکم ہوا کہ آپ بسم اللّٰہ مجرہاومرسہا پڑھ کرکشتی میں سوار ہوجائیں اس بیڑے کا چلنا اور ٹھہرنا اللہ کے حکم سے ہی ہوگا یقیناً وہ نہایت رحم فرمانے اور معاف کرنے والا ہے۔ دنیا میں یہ پہلا بحری بیڑا تھا۔ چپو اور انجن کے بغیربے انتہا طوفان میں اپنی پوری سلامتی اور خیروبرکت کے ساتھ نا معلوم منزل کی طرف رواں دواں تھا۔ جس میں اللہ تعالیٰ کا پیغمبر اس کے مومن ساتھی اور جانوروں کے دو، دو جوڑے سوار تھے گویا کہ ایک دنیا بیڑے میں سوار کردی گئی۔ جوں ہی حضرت نوح (علیہ السلام) اور ان کے ایماندار ساتھی کشتی میں سوار ہوئے۔ تو یکدم پانی کے ریلے بڑے بڑے پہاڑوں کی شکل اختیار کرگئے۔ یہ ریلے اس قدر طاقتور اور تندوتیز تھے کہ جگہ جگہ پانی کے بھنور بننے لگے اور ہر لمحہ ان میں تلخی اور تیزی پیدا ہوتی گئی۔ یہاں تک کہ پانی کی موجیں پہاڑوں کی مانند ایک دوسرے سے اوپر اٹھتیں اور ٹکراتیں۔ طوفان کے جوش وخروش سے یوں خوفناک آوازیں بلند ہوئیں کہ لوگوں کے کلیجے دہل گئے اور موجیں پہاڑوں کی بلندیوں سے ٹکرانے لگیں، اس خطرناک اور ہولناک صورت حال میں اللہ کا عظیم پیغمبر اور اس کے مخلص ساتھی اپنے رب کے حضور سرفگندہ ہوئے اس کا شکرادا کرتے ہوئے اس سے رحمت اور بخشش کی دعائیں کر رہے تھے۔ سواری پر سوار ہونے کی دعائیں : (وَقَالَ ارْکَبُوْا فِیْہَا بِسْمِ اللَّہِ مَجْرٖہَا وَمُرْسَاہَا إِنَّ رَبِّی لَغَفُوْرٌ رَحِیْمٌ )[ ھود : ٤١] ” اور نوح نے کہا تم اس کشتی میں سوار ہوجاؤ اس کا چلنا اور اس کا ٹھہرنا اللہ کے نام سے ہے یقیناً میرا رب معاف فرمانے اور مہربانی کرنے والا ہے۔“ (وَقُلْ رَبِّ أَنْزِلْنِیْ مُنْزَلًا مُبَارَکًا وَأَنْتَ خَیْرُ الْمُنْزِلِیْنَ )[ المومنون : ٢٩] ” اور کہیے میرے رب مجھے برکت والی جگہ اتارنا اور تو سب سے بہتر اتارنے والا ہے۔“ (عَنِ ابْنِ عُمَرَ (رض) اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کَانَ اِذَا اسْتَوٰی عَلٰی بَعِےْرِہٖ خَارِجًا اِلَی السَّفَرِ کَبَّرَ ثَلٰثًا ثُمَّ قَالَ (سُبْحَانَ الَّذِیْ سَخَّرَ لَنَا ھٰذَا وَمَا کُنَّا لَہُ مُقْرِنِےْنَ وَاِنَّا اِلٰی رَبِّنَا لَمُنْقَلِبُوْنَ اَللّٰھُمَّ اِنَّا نَسْأَلُکَ فِیْ سَفَرِنَا ھٰذَاالْبِرَّ وَالتَّقْوٰی وَمِنَ الْعَمَلِ مَا تَرْضٰی اَللّٰھُمَّ ھَوِّنْ عَلَےْنَا سَفَرَنَا ھٰذَا وَاطْوِلَنَا بُعْدَہُ اَللّٰھُمَّ اَنْتَ الصَّاحِبُ فِی السَّفَرِ وَالْخَلِےْفَۃُ فِی الْاَھْلِ اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُبِکَ مِنْ وَّعْثَآء السَّفَرِ وَکَآبَّۃِ الْمَنْظَرِ وَسُوْٓءِ الْمُنْقَلَبِ فِی الْمَالِ وَالاَھْلِ) وَاِذَا رَجَعَ قَالَ ھُنَّ وَزَادَ فِےْھِنَّ (اآءِبُوْنَ تَآءِبُوْنَ عَابِدُوْنَ لِرَبِّنَا حَامِدُوْنَ) [ رواہ مسلم : باب مَا یَقُولُ إِذَا رَکِبَ إِلَی سَفَرٍ ا لْحَجِّ وَغَیْرِہِ] ” حضرت عبداللہ بن عمر (رض) فرماتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سفر پر روانہ ہوتے وقت جب اپنے اونٹ پربیٹھتے تو تین مرتبہ اللہ اکبر کہتے۔ پھر یہ دعا پڑھتے ” پاک ہے وہ ذات جس نے اس سواری کو ہمارے لیے مسخر کردیا۔ حالانکہ ہم اس پر قابو پانے کی طاقت نہ رکھتے تھے۔ بلاشبہ ہم اپنے رب کی طرف پلٹنے والے ہیں۔ بارالٰہا! ہم اس سفر میں نیکی، تقویٰ اور ایسے عمل کی آرزو کرتے ہیں جس میں تیری رضا ہو۔ اے ہمارے معبود ! ہمارے اس سفرکو آسان بنا دے۔ اس کی دوری کو سمیٹ دے۔ بارِ الٰہا! تو سفر میں ہمارا ساتھی ہے اور اہل وعیال کی حفاظت فرمانے والا ہے۔ بارِالٰہا! میں سفر کی مشقتوں، غمناک منظر اور اپنے اہل وعیال اور مال میں پریشان حالت میں واپسی سے تیری پناہ مانگتاہوں۔“ جب واپس آتے تو ان کلمات کا اضافہ فرماتے۔” ہم لوٹنے والے ہیں، توبہ کرنے والے ہیں، عبادت کرنے والے ہیں اور اپنے خالق ومالک کی حمدوثنا کے گن گانے والے ہیں۔“ مسائل ١۔ دعا پڑھ کر سواری پر سوار ہونا چاہیے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ ہیکشتیوں کو چلانے اور بچانے والا ہے۔ ٣۔ کشتیوں کو ٹھہرانے والی اللہ کی ذات ہے۔ ٤۔ اللہ بخشنے اور رحم کرنے والا ہے۔ تفسیر بالقرآن سواری پر بیٹھنے کی دعا : ١۔ اللہ ہی کے نام سے اس کا چلنا اور اس کا ٹھہرنا ہے، میرا رب بخشنے اور رحم کرنے والا ہے۔ (ہود : ٤١) ٢۔ پاک ہے وہ ذات جس نے ( اسے ہمارے) تابع کردیا۔ ہم تو اسے قابو کرنے کے قابل نہ تھے اور ہم نے اپنے پروردگار کی طرف لوٹنا ہے۔ (الزخرف : ١٣۔ ١٤) ھود
42 فہم القرآن ربط کلام : کشتی کا پانی کی موجوں کے ساتھ چلنا اور حضرت نوح (علیہ السلام) کا اپنے بیٹے کو سمجھانا۔ کشتی پانی کے ساتھ رواں ہوئی تو حضرت نوح (علیہ السلام) نے اپنے دور کھڑے اپنے لخت جگر کو آخری بار سمجھایا کہ میرے پیارے بیٹے! کلمہ پڑھو اور کشتی پر سوار ہوجاؤ۔ کفار کے ساتھی نہ بنو۔ لیکن گستاخ بیٹے نے بیزاری کے ساتھ کہا کہ مجھے آپ کے بیڑے کی ضرورت نہیں۔ پانی زیادہ ہوا تو میں پہاڑ پر چڑھ کر جان بچا لوں گا۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے پدرانہ شفقت کے ساتھ سمجھایا کہ بیٹا آج اللہ کے عذاب سے کوئی نہیں بچ سکے گا۔ سوائے اس کے جس پر اللہ رحم فرمائے۔ لیکن نافرمان بیٹے نے بوڑھے باپ کی شفقت اور خیرخواہی کا جواب گستاخانہ اور مشرکانہ انداز میں دیا۔ نہیں پہاڑ مجھے بچاۓ گا۔ باپ اور بیٹے کے درمیان گفتگو جاری تھی کہ پانی کی تندو تیز موج نے بیٹے کو آلیا اور وہ حضرت نوح (علیہ السلام) کے سامنے ان کا بیٹا ڈبکیاں لیتے ہوئے طوفان کی نظر ہوا۔ ہر کوئی اللہ کے رحم کا محتاج ہے یہاں تک کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی اللہ کی رحمت کے محتاج ہیں : (عَنْ اَبِیْ ھُرَےْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لَنْ یُّنْجِیَ اَحَدًا مِّنْکُمْ عَمَلُہُ قَالُوْا وَلَا اَنْتَ ےَا رَسُوْلَ اللّٰہِ قَالَ وَلَا اَنَا اِلَّا اَن یَّتَغَمَّدَنِیَ اللّٰہُ مِنْہُ بِرَحْمَتِہٖ فَسَدِّدُوْا وَقَارِبُوْا وَاغْدُوْا وَرُوْحُوْ ا وَشَیْءٌ مِّنَ الدُّلْجَۃِ وَالْقَصْدَ الْقَصْدَ تَبْلُغُوْا )[ رواہ البخاری : باب تمنی المریض الموت] آج اللہ کے حکم سے کوئی بچانے والانہیں۔ مگر جس پر وہ رحم کرے اور دونوں کے درمیان موج حائل ہوگئی تو وہ غرق ہونے والوں میں سے ہوگیا۔“ (٤٣) ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تم میں سے کسی شخص کو بھی اس کا عمل نجات نہیں دلا سکتا۔ صحابہ پوچھتے ہیں یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! کیا آپ کو بھی؟ فرمایا! مجھے بھی میرے عمل نہیں بچا سکتا الاَّ یہ کہ اللہ تعالیٰ مجھے اپنی رحمت کے دامن میں ڈھانپ لے۔ سو تم صحیح راستے پر چلو‘ اللہ تعالیٰ کی قربت اختیار کرو‘ صبح وشام اور رات کے کچھ حصہ میں نیک عمل کرولیکن میانہ روی اختیار کرومنزل مقصود پالو گے۔“ ہمیشہ اللہ کی رحمت کا طلب گار رہنا چاہیے : (اَللّٰہُمَّ رَحْمَتَکَ أَرْجُوْ فَلاَ تَکِلْنِیْ إِلٰی نَفْسِیْ طَرْفَۃَ عَیْنٍ وَّأَصْلِحْ لِی شَأْنِیْ کُلَّہُ لاَ إِلٰہَ إِلاَّ أَنْتَ) [ رواہ ابو داؤد : باب مایقول اذا اصبح] ” اے اللہ میں تیری رحمت کی امید رکھتاہوں مجھے ایک لمحے کے لیے بھی میرے نفس کے حوالے نہ کرنا اور میرے تمام معاملات درست فرما دے تیرے علاوہ کوئی الٰہ نہیں۔“ مسائل ١۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کی قوم پر جو سیلاب آیا اس کی موجیں پہاڑوں کی مانند تھیں۔ ٢۔ کفار عذاب الٰہی کے وقت بھی مادی وسائل پر نگاہ رکھتے ہیں۔ ٣۔ جسے اللہ غرق کرنا چاہے اسے کوئی نہیں بچاسکتا۔ ٤۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کا بیٹا ان کے سامنے غر قاب ہوگیا۔ تفسیر بالقرآن اللہ کے سوا کوئی بچانے والا نہیں : ١۔ حضرت نوح نے اپنے بیٹے کو فرمایا کہ آج کے دن اللہ کے عذاب سے کوئی نہیں بچ سکتا۔ (ھود : ٤٣) ٢۔ کافروں کے چہروں پر ذلت و رسوائی چھا جائے گی اللہ کے عذاب سے کوئی بچانے والا نہ ہوگا۔ (یونس : ٢٧) ٣۔ اس دن تم پیٹھیں پھیر کر بھاگو گے لیکن تمہیں اللہ کے عذاب سے کوئی نہیں بچاسکے گا۔ (المومن : ٣٣) ھود
43 ھود
44 فہم القرآن ربط کلام : طوفان کا تھمنا اور کشتی کا ٹھہرنا۔ مؤرخین اور مفسرین نے لکھا ہے کہ یہ سیلاب چالیس دن تک رہا۔ جس کی کیفیت یہ تھی کہ پانی سب سے بلند پہاڑ کی چوٹی سے بھی بیس فٹ اونچا بہتا رہا۔ علاقہ میں کوئی چیز زندہ نہ بچی گویا کہ زمین کو اچھی طرح شرک و کفر کی غلاظت سے دھودیا گیا۔ تب اللہ تعالیٰ نے حکم صادر فرمایا کہ : اے زمین پانی کو پی جا اور آسمان کو حکم ہوا کہ تھم جاؤ۔ اس طرح ظالم قوم کا صفایا ہوا۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کی کشتی جودی پہاڑ کی چوٹی پر لنگر انداز ہوئی۔ جودی پہاڑ کردستان کے علاقہ میں جزیرۂ ابن عمر کے شمال مشرقی جانب واقع ہے۔ بائبل میں اس کشتی کے ٹھہرنے کی جگہ ارارا ط بتائی گئی ہے جو آرمینیا کے ایک پہاڑ کا نام ہے جو ایک سلسلہ کوہستان کا نام بھی ہے۔ سلسلہ کوہستان کے معنی میں جس کو اراراط کہتے ہیں وہ آرمینیا کی سطح مرتفع سے شروع ہو کر جنوب میں کردستان تک چلتا ہے اور جبل الجودی اسی سلسلے کا ایک پہاڑ ہے جو آج بھی جودی ہی کے نام سے مشہور ہے۔ قدیم تاریخوں میں کشتی کے ٹھہرنے کی یہی جگہ بتائی گئی ہے۔ چنانچہ حضرت مسیح سے ڈھائی سو برس پہلے بابل کے ایک مذہبی پیشوا بریاسس (Berasus) نے پرانی کلدانی روایات کی بنا پر اپنے ملک کی تاریخ لکھی ہے اس میں وہ کشتی نوح کے ٹھہرنے کا مقام جودی ہی بتاتا ہے۔ ارسطو کا شاگرد ابیڈینوس (Abydenus) بھی اپنی تاریخ میں اس کی تصدیق کرتا ہے۔ نیز وہ اپنے زمانہ کا حال بیان کرتا ہے کہ عراق میں بہت سے لوگوں کے پاس اس کشتی کے ٹکڑے محفوظ ہیں جنہیں وہ گھول گھول کر بیماروں کو پلاتے ہیں۔ یہ طوفان، جس کا ذکر یہاں کیا گیا ہے، عالمگیر طوفان تھا یا اس خاص علاقے میں آیا تھا جہاں حضرت نوح (علیہ السلام) کی قوم آباد تھی۔ یہ ایسا سوال ہے جس کا فیصلہ آج تک نہیں ہوا۔ اسرائیلی روایات کی بنا پر عام خیال یہی ہے کہ یہ طوفان تمام روئے زمین پر آیا تھا (پیدائش ٧: ١٨۔ ٢٤) مگر قرآن میں یہ بات نہیں کہی گئی۔ قرآن کے اشارات سے یہ ضرور معلوم ہوتا ہے کہ بعد کی انسانی نسلیں انہی لوگوں کی اولاد سے ہیں جو طوفان نوح سے بچا لیے گئے تھے، لیکن اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ طوفان تمام روئے زمین پر آیا ہو، کیونکہ یہ بات اس طرح بھی صحیح ہو سکتی ہے کہ اس وقت تک بنی آدم کی آبادی اسی خطہ تک محدود رہی ہو جہاں طوفان آیا تھا، اور طوفان کے بعد جو نسلیں پیدا ہوئی ہوں وہ بتدریج تمام دنیا میں پھیل گئی ہوں۔ اس نظریہ کی تائید دوچیزوں سے ہوتی ہے۔ ایک یہ کہ دجلہ و فرات کی سرزمین میں تو ایک زبردست طوفان کا ثبوت نہیں ملتا جس سے کسی عالمگیر طوفان کا یقین کیا جا سکے۔ دوسری یہ کہ روئے زمین کی اکثر و بیشتر قوموں میں ایک طوفان عظیم کی روایات قدیم زمانے سے مشہور ہیں۔ حتی کہ آسٹریلیا، امریکہ اور نیو گنی جیسے دور دراز علاقوں کی پرانی روایات میں بھی اس کا ذکر ملتا ہے۔ اس سے یہ نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ کسی وقت ان سب قوموں کے آباء واجداد ایک ہی خطہ میں آباد ہوں گے جہاں یہ طوفان آیا تھا اور پھر جب ان کی نسلیں زمین کے مختلف حصوں میں پھیلیں تو یہ روایات ان کے ساتھ پھیل گئیں۔ (تفہیم القرآن، ج : ٢) بُعداً کا لغوی معنی ہے ہلاک ہونا۔ مرجانا۔ دور ہونا۔ اصطلاحاً اللہ کی رحمت سے دور ہونا مسائل ١۔ زمین و آسمان اللہ تعالیٰ کے حکم کے پابند ہیں۔ ٢۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کی کشتی جودی پہاڑ پر ٹھہری۔ ٣۔ ظالم لوگ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے دھتکار دیئے جاتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن ظالم دنیا اور آخرت میں اللہ کی رحمت سے دور ہوتے ہیں : ١۔ ظلم کرنے والے لوگ اللہ کی رحمت سے دور ہوگئے۔ (ھود : ٤٤) ٢۔ اللہ ظالم قوم کو ہدایت نہیں دیتا۔ (القصص : ٥٠) ٣۔ ظالموں کے لیے درد ناک عذاب ہے۔ (الشوریٰ: ٢١) ٤۔ بے شک اللہ ظالموں کو پسند نہیں فرماتا۔ (الشوریٰ : ٤٠) ٥۔ ظالم ہمیشہ جہنم میں رہیں گے۔ یہی ان کا بدلہ ہے۔ (الحشر : ١٧) ٦۔ اللہ تعالیٰ ظالموں کو پسند نہیں فرماتا۔ (آل عمران : ١٤٠) ٧۔ ان کا ٹھکانہ جہنم ہے اور ظالموں کا کوئی مددگار نہیں ہوگا۔ (المائدۃ: ٧٢) ھود
45 فہم القرآن ربط کلام : بیٹے کی غرقابی کے وقت حضرت نوح (علیہ السلام) کی بے ساختہ اللہ تعالیٰ سے فریاد۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے اپنے بیٹے کو بار بار سمجھایا کہ جان پدر کلمہ پڑھو اور کفار کا ساتھ چھوڑ کر میرے ساتھ ہم رکاب ہوجاؤ۔ لیکن بیٹے نے عظیم باپ کی ایک نہ مانی اور پانی میں ڈبکیاں لیتے ہوئے جان دے دی۔ جب یہ کربناک منظر بوڑھے باپ نے اپنی آنکھوں سے دیکھا تو پدرانہ شفقت جوش میں آئی اور بے ساختہ اپنے رب کی بارگاہ میں فریاد کناں ہوئے کہ اے میرے رب آپ نے ازراہ کرم میرے ساتھ وعدہ فرمایا تھا کہ میں آپ کے اہل کو بچالوں گا۔ آپ کا وعدہ ہمیشہ سچا ہوا کرتا ہے اور وعدہ پورا کرنے پر آپ ہر اعتبار سے قادر ہیں۔ کیونکہ آپ حاکموں کے حاکم اور آپ کا حکم ہی غالب آیا کرتا ہے۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کی اس درخواست کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے پرُجلال انداز میں فرمایا کہ اے نوح! تیرا بیٹا تیرے اہل میں سے نہیں کیونکہ اس کا عقیدہ اور اعمال اچھے نہیں۔ میں تجھے کو نصیحت کرتا ہوں اب کے بعد میرے حضور یہ درخواست نہ کرنا۔ ورنہ تم جاہلوں میں شمار کیے جاؤگے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد سنتے ہی نوح (علیہ السلام) کانپ اٹھے اور اپنے رب کے حضور نہایت عاجزانہ انداز میں استدعا کی کہ میرے رب! میں آپ کی حفظ وامان چاہتے ہوئے عرض کرتا ہوں کہ میں آئندہ ہرگز ایسا سوال نہیں کروں گا جس کے بارے میں مجھے علم نہ ہو۔ بس مجھے معاف کیجیے مجھ پر رحم فرمائیے۔ اگر آپ نے مجھے معاف نہ کیا اور مجھ پر رحم نہ فرمایا تو میں نقصان پانے والوں میں ہوں گا۔ اس فرمان میں چارباتیں عیاں ہوتی ہیں۔ ١۔ پیغمبر بھی مشرک اور کافر کے بارے میں بخشش کی دعا نہیں کرسکتاخواہ وہ اس کا بیٹا ہی کیوں نہ ہو۔ ٢۔ پیغمبر کسی کو بچانا چاہے بھی تو نہیں بچاسکتا۔ جب تک اللہ تعالیٰ کسی کو نہ بچائے۔ ٣۔ پیغمبر اللہ تعالیٰ کے حکم کا سب سے زیادہ پابند ہوتا ہے۔ وہ اپنی مرضی سے اللہ تعالیٰ کے طے شدہ ضابطے کے خلاف بات نہیں کرسکتا۔ بے شک اسے پہلے سے اس ضابطے کا علم نہ ہو۔ ٤۔ پیغمبر سے انجانے میں لغزش ہوجائے تو بھی اپنے رب سے استغفار کرتا اور پناہ مانگتا ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعا : (عَنْ عَاءِشَۃَ (رض) قَالَتْ کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ےَقُوْلُ اَللّٰھُمَّ اِنِّی اَعُوْذُبِکَ مِنْ شَرِّ مَا عَمِلْتُ وَمِنْ شَرِّمَا لَمْ اَعْمَلْ) [ رواہ مسلم : باب التعوذ من شرما عمل ] ” حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اکثر یہ دعا مانگا کرتے تھے۔ ” اے اللہ! میں اپنے کردہ اور ناکردہ اعمال کے شر سے تیری پناہ طلب کرتا ہوں۔“ مومنوں کی دعا : (رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَا إِنْ نَسِیْنَا أَوْ أَخْطَأْنَا رَبَّنَا وَلَا تَحْمِلْ عَلَیْنَا إِصْرًا کَمَا حَمَلْتَہُ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِنَا رَبَّنَا وَلَا تُحَمِّلْنَا مَا لَا طَاقَۃَ لَنَا بِہٖ وَاعْفُ عَنَّا وَاغْفِرْ لَنَا وَارْحَمْنَا أَنْتَ مَوْلَانَا فَانْصُرْنَا عَلَی الْقَوْمِ الْکَافِرِیْنَ )[ البقرۃ: ٢٨٦] ” اے ہمارے رب! اگر ہم بھول جائیں یا خطا کر بیٹھیں تو ہماری گرفت نہ کرنا۔ اے ہمارے رب! ہم پر وہ بوجھ نہ ڈالنا جو ہم سے پہلے لوگوں پر ڈالا تھا۔ اے ہمارے رب! ہم پر وہ بوجھ نہ ڈال جس کی ہمیں طاقت نہ ہو، ہم سے درگزر فرما اور ہمیں معاف فرما دے۔ اور ہم پر رحم فرما۔ تو ہی ہمارا مالک ہے، ہمیں کفار پر غلبہ عطا فرما۔‘ ‘ مسائل ١۔ انبیاء ( علیہ السلام) ہر مرحلے پر اللہ تعالیٰ سے فریاد کرتے تھے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ کا وعدہ سچا ہوتا ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ تمام حاکموں کا حاکم ہے۔ ٤۔ صالح عمل کرنے والے لوگ ہی انبیاء (علیہ السلام) کے اہل ہوتے ہیں۔ ٥۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کو ہر بات کا علم نہ تھا۔ ٦۔ اللہ تعالیٰ کے سامنے انبیاء (علیہ السلام) بھی دم نہیں مارسکتے۔ ٧۔ بے علمی میں اگر کوئی بات سرزد ہوجائے تو پھر بھی اللہ سے پناہ طلب کرنی چاہیے۔ ٨۔ جسے اللہ معاف نہ کرے اور رحم نہ فرمائے وہ خائب و خاسر ہوجاتا ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ کا فرمان اور وعدہ سچا ہوتا ہے : ١۔ بے شک اللہ کا وعدہ سچا ہے اور وہ حاکموں کا حاکم ہے۔ (ھود : ٤٥) ٢۔ اللہ کا فرمان سچ ہے۔ (الاحزاب : ٤) ٣۔ اللہ کا وعدہ سچا ہے۔ (القصص : ١٣) ٤۔ اللہ اپنے وعدے کے خلاف نہیں کرتا۔ (الروم : ٦) ٥۔ صبر کرو اللہ کا وعدہ سچا ہے۔ (الروم : ٦٠) ٦۔ اے لوگو! بے شک اللہ کا وعدہ سچا ہے۔ (فاطر : ٥) ٧۔ اللہ کا وعدہ حق ہے اور اللہ سے بات کرنے میں کون زیادہ سچا ہوسکتا ہے ؟ (النساء : ١٢٢) ٨۔ خبردار اللہ کا وعدہ سچا ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔ (یونس : ٥٥) ٩۔ قیامت کے دن شیطان کہے گا یقیناً اللہ نے تمہارے ساتھ سچا وعدہ کیا تھا (ابراہیم : ٢٢) ١٠۔ وہ کہیں گے پاک ہے ہمارا رب یقیناً اسکا وعدہ پورا ہونے والاہے۔ (بنی اسرائیل : ١٠٨) ھود
46 ھود
47 ھود
48 فہم القرآن ربط کلام : عذاب کے بعد حضرت نوح (علیہ السلام) اور ان کے ساتھیوں کا کشتی سے سلامت اترنا اور ان کے لیے برکات کے دروازے کھلنا۔ بارش تھم جانے اور زمین کے خشک ہونے کے بعد حضرت نوح (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہوا کہ اے نوح! آپ اور آپ کے ساتھی زمین پر اتر جائیں۔ ہماری طرف سے آپ اور آپ کے متبعین پر سلامتی اور برکات کا نزول ہوگا۔ جو لوگ کفرو شرک کا راستہ اختیار کریں گے، ہم انہیں دنیا میں اسباب ووسائل دیں گے پھر آخرت میں انہیں اذیّت ناک عذاب میں مبتلا کیا جائے گا۔ دنیا کی زندگی کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا بنیادی اصول ہے کہ جو لوگ ایمان لائیں اور اس کے تقاضے پورے کریں انہیں دنیا کی ترقی سے سرفراز کیا جائے گا۔ اس کے لیے قرآن مجید ” یُمَتِّعْکُمْ مَتَاعًا حَسَنًا“ یعنی انہیں متاع حسنہ سے نوازا جاتا ہے۔ حسنۃ کا لفظ جب دنیا کے بارے میں استعمال ہوتا ہے تو اس کا معنی ہے کہ دنیا کی ایسی ترقی جو انسان کو خوشحالی کے ساتھ ساتھ عزت دے۔ اور حسنۃ کا لفظ جب آخرت کے بارے میں استعمال ہوتا ہے تو اس کا معنی ہے وہ نیکی اور بھلائی جو انسان کو اللہ تعالیٰ کے قریب کردے۔ مسائل ١۔ انبیاء (علیہ السلام) اور ان کے ماننے والوں پر اللہ کی طرف سے سلامتی اور برکات کا نزول ہوتا ہے۔ ٢۔ کفر کرنے والوں کو عذاب کا سامنا کرنا ہوگا۔ ھود
49 فہم القرآن ربط کلام : حضرت نوح (علیہ السلام) اور ان کی قوم کے ذکر کے بعد نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تکالیف پر صبر کرنے کا حکم۔ قرآن مجید مختلف الفاظ اور انداز میں موقع بہ موقع یہ وضاحت کرتا ہے کہ رسول کا مقام، حدود کار اور اس کے علم کی کیا حقیقت ہے۔ کفار اور مشرک انبیاء کو الجھانے اور لوگوں کو ورغلانے کے لیے یہ پروپیگنڈہ کیا کرتے تھے کہ اسے تو فرشتہ ہونا چاہیے تھا یا اس کے پاس خدا کی خدائی میں سے کچھ اختیار ہونے چاہییں تھے۔ اسی بنا پر وہ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مطالبہ کرتے کہ آپ کے پاس دنیا کے خزانے ہونے چاہییں۔ ” فرما دیجیے میں اپنے نفع نقصان کا بھی کچھ اختیار نہیں رکھتا مگر جو اللہ چاہے اور اگر میں غیب جانتا ہوتا تو بہت سے فائدے جمع کرلیتا اور مجھ کو کوئی تکلیف نہ پہنچتی۔ میں تو لوگوں کو ڈرانے اور خوشخبری سنانے والا ہوں۔ (الاعراف : ١٨٨) ” فرما دیجئے میں تو اپنے نفع نقصان کا اختیار نہیں رکھتا مگر جو اللہ چاہے۔ ہر ایک امت کے لیے ایک وقت مقرر ہے جب وہ آجاتا ہے تو اس میں کمی بیشی نہیں کی جاتی۔“ (یونس : ٤٩) کفار اور مشرک رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو الجھانے اور لوگوں کو ورغلانے کے لیے یہ باتیں کیا کرتے تھے۔ جس کی قرآن مجید متعدد مقامات پر نفی کرتا ہے۔ لیکن افسوس آج کے کچھ مسلمان انہی باتوں کو رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی محبت کے دائرہ میں لاکر آپ کے ذمہ لگاتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مختار کل تھے۔ یعنی ہر چیز پر اختیار رکھنے والے تھے اور غیب کی باتیں جاننے والے تھے۔ پھر اس کی تقسیم کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ آپ کو ذاتی نہیں عطائی اختیار اور غیب کا علم تھا۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی زبان اطہر سے یہ بات کہلوائی ہے کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ خود اعلان فرمائیں۔” کہ میں اپنی ذات کے لیے کسی نفع اور نقصان کا اختیار نہیں رکھتا اللہ ہی جو کچھ چاہتا ہے وہی ہوتا ہے اگر مجھے غیب کا علم ہوتا تو میں بہت سے فائدے اپنے لیے حاصل کرلیتا اور مجھے کبھی کوئی نقصان نہ پہنچتا۔“ (الاعراف : ١٨٨) جبکہ قرآن مجید بار بار اس بات کی نفی کرتا ہے کہ نبی ہو یا ولی، ملائکہ ہوں یا جنات کوئی بھی غیب نہیں جانتا۔ غیب کا جاننا صرف اللہ تعالیٰ کی شان ہے۔ غیب سے مراد یہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ سے بھی کوئی چیز غیب یا پوشیدہ ہے۔ جب غیب کا لفظ بولا جاتا ہے تو اس سے مراد ملائکہ، جنات اور انسان ہوتے ہیں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنے بارے میں ارشاد فرماتا ہے کہ میرے لیے غیب اور ظاہر دونوں برابر ہیں۔ سورۃ الرعد آیت : ١٠ یہاں کھلے الفاظ میں آپ اور آپ کی قوم کو مخاطب کرتے ہوئے بتلایا جارہا ہے کہ اے رسول! تم اور تمہاری قوم، نوح کے زمانے میں موجود تھے اور نہ ہی تم نے قوم نوح کا براہ راست خوفناک انجام دیکھا۔ یہ تو ہم آپ کے سامنے یہ واقعات بیان کرتے ہیں تاکہ آپ صبرو شکر کے ساتھ اپنا کام جاری رکھیں۔ اگر آپ کے مخالف اپنے عقیدہ اور طرز زندگی سے باز نہ آئے تو ان کا انجام قوم نوح سے مختلف نہیں ہوگا۔ لہٰذا حوصلہ قائم رکھیں اور یاد رکھیں کہ انجام کار متقین کے حق میں ہوگا۔ ضیاء القرآن کے مفسرکا اعتراف : اگرچہ نوح (علیہ السلام) کے نام سے لوگ آگاہ تھے اور ان کے احوال کی بھی کچھ کچھ انہیں خبر تھی۔ لیکن وہ سب وہم و گمان کے تراشیدہ افسانے تھے۔ حقیقت حال سے کوئی واقف نہ تھا۔ اے میرے نبی ! تمہیں بھی ان کے صحیح حالات کا علم نہ تھا اور تیری قوم بھی جاہل اور اَن پڑھ تھی۔ اس غیب کو ہم نے آپ پر بذریعہ وحی کے ذریعہ منکشف فرمایا۔ (ضیاء القرآن، جلد : ٢، ص ٣٦٦) مسائل ١۔ غیب کا علم اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ ٢۔ انبیاء (علیہ السلام) کو اسی چیز کا علم ہوتا ہے جو اللہ تعالیٰ وحی کرتا ہے۔ ٣۔ مصائب و پریشانی میں صبر کرنا چاہیے۔ ٤۔ پرہیزگاروں کا بہتر انجام ہوگا۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی غیب نہیں جانتا : ١۔ یہ غیب کی خبریں ہیں جو ہم آپ کی طرف وحی کرتے ہیں۔ (ھود : ٤٩) ٢۔ اللہ آسمان و زمین کے غائب کو جانتا ہے۔ (البقرۃ: ٣٣) ٣۔ اللہ کے پاس ہی غیب کی چابیاں ہیں۔ (الانعام : ٥٩) ٤۔ نبی کریم غیب نہیں جانتے تھے۔ (الانعام : ٥٠) ٥۔ اللہ حاضر اور غائب کو جاننے والا ہے۔ (الانعام : ٧٣) ھود
50 فہم القرآن ربط کلام : حضرت نوح (علیہ السلام) کے واقعہ کے بعد حضرت ھود (علیہ السلام) اور ان کی قوم کا تذکرہ۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کی قوم کا سب سے بڑا جرم اللہ کے ساتھ شرک کرنا تھا۔ قوم عاد شرک کے گھناؤنے جرم کے ساتھ کمزور لوگوں پر ظلم ستم کرنے والے تھے۔ یہ قوم تہذیب و تمدن کے اعتبار سے اپنے زمانے کی سب سے زیادہ ترقی یافتہ قوم تھی۔ بڑے لینڈ لارڈ، باغات کے مالک اور پہاڑ تراش تراش کر عظیم الشان گھر تیار کرتے تھے۔ (الشعراء : ١٢٨ تا ١٣٤)۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ قدو قامت کے لحاظ سے دنیا میں ان کا کوئی ثانی نہیں پیدا کیا گیا۔ سورۃ الفجر : ٨ حضرت ھود (علیہ السلام) نے انہیں سمجھایا کہ صرف ایک اللہ کی عبادت کرو اور کمزوروں پر ظلم کرنے سے باز آجاؤ۔ اے میری قوم! میں اس کام کے بدلے تم سے کسی قسم کی ستائش اور صلہ نہیں چاہتا۔ میرا صلہ اس ذات کبریا کے پاس ہے۔ جس نے مجھے پیدا کیا ہے۔ میری مخالفت کرنے کی بجائے ٹھنڈے دل کے ساتھ سوچو! کہ اس دعوت میں میرا کیا مفاد اور تمہارا نقصان کیا ہے؟ میں تمہیں لوگوں پر ظلم کرنے اور غیر اللہ کی عبادت کرنے سے روکتا ہوں۔ جن کو تم بلاتے اور پکارتے ہو۔ وہ تو اللہ کے سوا کچھ بھی اختیار نہیں رکھتے۔ جو تم ان کے بارے میں دعوے کرتے ہو اس کی کوئی بنیاد نہیں یہ سراسر جھوٹ اور بناوٹی باتیں ہیں۔ کیا تم سوچنے کے لیے تیار ہو؟ یہاں دو سوال پیدا ہوتے ہیں کہ عقیدہ کا فرق ہونے کے باوجود حضرت ھود (علیہ السلام) اور آگے چل کر حضرت صالح، حضرت شعیب (علیہ السلام) کو ان کی اقوام کا بھائی قرار دیا گیا ہے۔ اس کی وجہ ظاہر ہے۔ یہ انبیاء اکرام (علیہ السلام) اپنی اپنی قوم میں سے تھے۔ یہاں اہل مکہ کو احساس دلایا گیا ہے۔ کہ جس طرح ان انبیاء کی اقوام نے اپنے انبیاء کے ساتھ ناروا سلوک کیا اور برا انجام دیکھا۔ اے اہل مکہ تم بھی دیکھ لو کہیہ نبی جو رشتہ کے اعتبار سے تمہارا بھائی لگتا ہے اس کے ساتھ کیا سلوک کر رہے ہو۔ یاد رکھو تمہارا انجام قوم ثمود اور قوم صالح سے مختلف نہ ہوگا۔ دوسرا سوال یہ ابھرتا ہے کہ حضرت ھود، حضرت نوح اور دیگر انبیاء ( علیہ السلام) نے سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کی ذات کا تعارف کیوں نہیں کرایا۔ اس کی وجہ امام رازی یہ کہہ کر بیان کرتے ہیں کیونکہ تمام اقوام اللہ کو اللہ یعنی اپنا خالق، مالک، رازق مانتے تھے۔ لیکن ایک الٰہ نہیں مانتے تھے۔ جس بنا پر انبیاء ( علیہ السلام) نے اپنی دعوت کا آغاز اس بات سے کیا ہے۔ جس کا وہ انکار کرتے تھے اس کے بعد امام موصوف لکھتے ہیں کہ میں ترکی اور ہند میں گیا اور وہاں دیکھا کہ یہاں کے لوگ اللہ کو ایک ماننے کے باوجود بتوں کی عبادت کرتے ہیں۔ یہی حالت عاد، ثمودو قوم مدین کی تھی۔ تفصیل جاننے کے لیے سورۃ الاعراف کے ١٦ رکوع کی تفسیر دیکھیں۔ مسائل ١۔ قوم عاد کی طرف ھود (علیہ السلام) کو نبی بنا کر بھیجا گیا۔ ٢۔ ھود (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو ایک اللہ کی عبادت کرنے کا حکم دیا۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں ہے۔ تفسیر بالقرآن تمام انبیاء کرام (علیہ السلام) کی دعوت : ١۔ حضرت ھودنے فرمایا اے میری قوم اللہ کی عبادت کرو اس کے سوا تمہارا کوئی الٰہ نہیں ہے۔ (ھود : ٥٠) ٢۔ حضرت صالح نے اپنی قوم کو ایک رب کی عبادت کرنے کا حکم دیا۔ (ھود : ٦١) ٣۔ حضرت شعیب نے فرمایا اے میری قوم اللہ کی عبادت کرو اس کے سواتمہارا کوئی معبود نہیں۔ (ھود : ٨٤) ٤۔ حضرت ابراہیم نے اپنی قوم کو فرمایا اے میری قوم اللہ کی عبادت کرو اور اسی سے ڈرو۔ (العنکبوت : ١٦) ٥۔ حضرت عیسیٰ نے فرمایا بے شک میرا اور تمہارا پروردگار اللہ ہے اسی کی عبادت کرو۔ (مریم : ٣٦) ٦۔ ہم نے ہر جماعت میں رسول بھیجے انہوں نے لوگوں کو کہا صرف ایک اللہ کی عبادت کرو۔ (النحل : ٣٦) ھود
51 ھود
52 فہم القرآن ربط کلام : حضرت ھود (علیہ السلام) کا قوم سے خطاب جاری ہے۔ حضرت ھود (علیہ السلام) نے اللہ کی عبادت کی دعوت دیتے ہوئے اپنی قوم کو یہ حکم بھی دیا کہ اے میری قوم! اپنے رب سے اپنے سابقہ گناہوں کی معافی مانگو اور آئندہ کے لیے کفرو شرک اور ظلم و زیادتی سے باز آجاؤ۔ تمہیں آخرت میں اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل ہونے کے ساتھ دنیا میں اللہ تعالیٰ تم پر رحمت کی بارش برسائے گا اور تمہاری قوت میں اور زیادہ اضافہ کرے گا۔ ان باتوں کا انکار کرکے مجرم نہ بنو۔ حضرت ھود (علیہ السلام) کے خطاب سے یہ بات بالکل عیاں ہے کہ انبیاء کرام (علیہ السلام) کی دعوت قبول کرنے کا فائدہ صرف آخرت میں ہی نہیں ہوگا بلکہ انبیاء کی دعوت قبول کرنے سے دنیا کی خوشحالی اور ترقی بھی حاصل ہوتی ہے۔ ترقی کے لیے جو چیزیں بنیادی حیثیت رکھتی ہیں وہ اسباب کی فراوانی اور جسمانی صحت کا بہترین ہوناہیں۔ حضرت ھود (علیہ السلام) نے ماضی کے گناہوں پر استغفار اور کفرو شرک اور ظلم سے بچنے پر اپنی قوم کو دونوں قسم کی ضمانتیں دی تھیں۔ اس سورت کی پہلی اور دوسری آیت میں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے ماننے والوں کو یہی ضمانت دی ہے کہ لوگو! صرف ایک اللہ کی عبادت کرو میں اس کی طرف سے تمہارے لیے نذیر اور بشیر بنایا گیا ہوں۔ اپنے رب کے حضور توبہ و استغفار کرو۔ وہ تمہیں دنیا میں بہترین اسباب اور اپنے فضل وکرم سے نوازے گا۔ اس سے یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ نفاذ دین سے تنگی اور مشکلات پیدا ہونے کی بجائے ہر قسم کی فراوانی اور خوشحالی پیدا ہوتی ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے : (وَلَوْ أَنَّ أَہْلَ الْقُرٰی اٰمَنُوْا وَاتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَیْہِمْ بَرَکَاتٍ مِّنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ وَلٰکِنْ کَذَّبُوْا فَأَخَذْنَاہُمْ بِمَا کَانُوْا یَکْسِبُوْنَ)[ الاعراف : ٩٦] ” اگر لوگ سچا ایمان لائیں۔ کفرو شرک اور جرائم سے بچیں۔ تو ہم زمین و آسمان کی برکات کے دروازے کھول دیں گے۔“ ایک حد نافذ کرنے کی برکات : (عَنِ ابِنْ عُمَرَ أَنَّ رَسُوْلَ اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ إِقَامَۃُ حَدٍّ مِنْ حُدُود اللَّہِ خَیْرٌ مِنْ مَطَرِ أَرْبَعِینَ لَیْلَۃً فِی بلاَدِ اللَّہِ عَزَّ وَجَلَّ )[ رواہ ابن ماجۃ: کتاب الحد ود، باب اقامۃ الحد ود] ” حضرت عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ تعالیٰ کی حدود میں سے ایک حد کو قائم کرنا۔ زمین پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے چالیس راتوں کی بارش سے بہتر ہے۔“ مسائل ١۔ اللہ سے اپنے گناہوں کی بخشش طلب کرنی چاہیے۔ ٢۔ ہر حال میں اللہ تعالیٰ کی طرف ہی متوجہ رہنا چاہیے۔ ٣۔ استغفار کی برکت سے اللہ تعالیٰ بارشیں نازل فرماتا ہے۔ ٤۔ استغفار کرنے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ لوگوں کی قوت میں اضافہ کرتا ہے۔ تفسیر بالقرآن توبہ و استغفار کی اہمیت اور فوائد : ١۔ اپنے پروردگار سے بخشش طلب کرو، اسی کی طرف متوجہ رہو۔ وہ تم پر بارش برسائے گا اور تمہاری قوت میں اضافہ کرے گا۔ (ھود : ٥٢) ٢۔ اللہ تعالیٰ استغفار کرنے والوں کو عذاب نہیں دیتا۔ (الانفال : ٣٣) ٣۔ اللہ تعالیٰ سے استغفار کرو اور اسی کی طرف متوجہ رہو۔ اللہ تمہیں اس کا بہترین صلہ عطا فرمائے گا۔ (ھود : ٣) ٤۔ اللہ تعالیٰ سے مغفرت طلب کرو۔ بے شک اللہ معاف کرنے اور رحم کرنے والا ہے۔ (المزمل : ٢٠) ٥۔ اللہ سے معافی طلب کرو اور اسی کی طرف متوجہ رہو۔ بے شک میرا رب نرمی کرنے اور شفقت کرنے والاہے۔ (ھود : ٩٠) ٦۔ اللہ سے مغفرت طلب کرو یقیناً وہ معاف کرنے والا ہے۔ (نوح : ١٠) ٧۔ اگر تم توبہ کرو تو یہ تمہارے لیے بہتر ہے۔ (التوبۃ: ٣٠) ھود
53 فہم القرآن ربط کلام : قوم عاد کا ردعمل۔ غور فرمائیں کہ حضرت ھود (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو اللہ تعالیٰ کی عبادت اور توبہ واستغفار کی دعوت دی۔ لیکن قوم نے اس کا کس قدر الٹا جواب دیا۔ قوم کہنے لگی کہ اے ھود! تو ہمارے پاس ٹھوس اور واضح دلائل نہیں لایا۔ تیری بے بنیاد باتوں پر ہم اپنے معبودوں کو چھوڑنے کے لیے تیار نہیں اور نہ ہی تجھ پر ایمان لائیں گے۔ ہم تو یہی سمجھتے ہیں کہ ہمارے معبودوں کی مخالفت کی وجہ سے کچھ معبودوں کی تجھ پر مار پڑگئی ہے۔ جس کی وجہ سے تو الٹی سیدھی باتیں کرتا ہے۔ حضرت ھود (علیہ السلام) نے فرمایا تم جو کچھ چاہو کہو۔ لیکن میں اس بات پر اللہ کو گواہ بناتا ہوں کہ جو کچھ میں کہہ رہا ہوں وہ سچ اور حق ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق اور حاجت روا، مشکل کشا نہیں۔ گواہ رہو کہ جن کو تم اللہ کا شریک بناتے ہو میں ان سے نفرت اور برأت کا اعلان کرتا ہوں۔ جہاں تک تمہاری اس بات کا تعلق ہے کہ مجھے تمہارے معبودوں نے کچھ کردیا ہے، اس میں کوئی حقیقت نہیں۔ میں تمہیں چیلنج کرتا ہوں کہ تم اور تمہارے الٰہ اکٹھے ہو کر جو اقدام میرے خلاف کرنا چاہتے ہو کرو۔ میں تم سے ایک لمحہ بھی مہلت مانگنے کے تیار نہیں ہوں۔ یاد رہے کہ یہ بھی مشرکین کی شروع سے عادت ہے کہ وہ اپنے باطل عقیدہ کو سچ ثابت کرنے کے لیے نہ صرف اپنے معبودوں کے متعلق جھوٹے دعوے اور پروپیگنڈہ کرتے ہیں۔ بلکہ وہ توحید کی دعوت دینے والوں کو یہ کہہ کر ڈراتے ہیں کہ اگر تم نے ہمارے حاجت روا اور مشکل کشاؤں کی توہین جاری رکھی تو وہ تمہارا قلع قمع کردیں گے۔ اگر کسی مواحد کو کوئی ناگہانی مشکل آن پڑے یا کوئی نقصان ہوجائے تو مشرکین یہ کہنے میں جھجک محسوس نہیں کرتے کہ یہ سب کچھ ہمارے بزرگوں کا کیا دھرا ہے۔ ایسا ہی دعویٰ حضرت ھود (علیہ السلام) کے مخالفوں نے کیا تھا حالانکہ ہر دور میں یہ مثالیں موجود رہی ہیں کہ مشرکین جن کو حاجت روا اور مشکل کشا سمجھتے ہیں وہ اپنے اور کسی دوسرے کے نفع و نقصان کے مالک نہیں ہیں۔ مسائل ١۔ قوم عاد نے نبی کے سمجھانے کے باوجود معبود ان باطل کو نہ چھوڑا۔ ٢۔ حضرت ھود (علیہ السلام) پر ان کی قوم ایمان نہ لائی۔ ٣۔ حضرت ھود (علیہ السلام) کی قوم سمجھتی تھی کہ حضرت ھود (علیہ السلام) کو ان کے دیوتاؤں نے مشکل میں مبتلا کیا ہے۔ ٤۔ انبیاء ( علیہ السلام) کا ہمیشہ اللہ کی ذات پربھروسہ ہوتا ہے۔ تفسیر بالقرآن انبیاء (علیہ السلام) کا اپنی اقوام کو چیلنج : ١۔ حضرت ھود نے اپنی قوم سے کہا اللہ کے علاوہ تم سارے کے سارے جو کرسکتے ہو میرے خلاف کرگزرو۔ (ھود : ٥٥) ٢۔ اللہ کے سوا کسی کو نہ پکارو نہ وہ نفع دے سکتے ہیں نہ نقصان۔ (یونس : ١٠٦) ٣۔ اللہ کے سوا کوئی ذرہ بھر بھی نفع و نقصان کا مالک نہیں ہے۔ (الانبیاء : ٦٦) ٤۔ اے نبی ! اعلان کردیں کہ میں اپنے نفع و نقصان کا بھی مالک نہیں ہوں۔ (الاعراف : ١٨٨) ٥۔ کیا تم ایسوں کو معبود مانتے ہو جو تمہارے نفع نقصان کے مالک نہیں ہیں۔ (الرعد : ١٦) ٦۔ کیا تم ان کی عبادت کرتے ہو جو تمہیں نفع اور نقصان نہیں پہنچا سکتے۔ (المائدۃ: ٧٦) ھود
54 ھود
55 فہم القرآن ربط کلام : حضرت ھود (علیہ السلام) کا اپنی قوم سے خطاب جاری ہے۔ حضرت ھود (علیہ السلام) نے نہ معلوم کتنی مدت تک قوم کو سمجھایا ہوگا۔ لیکن قوم نے ان کی دعوت کو نہصرف کوئی حیثیت نہ دی تھی بلکہ کہنے لگے کہ تیری بہکی بہکی باتیں کرنے کا سبب یہ ہے کہ ہمارے مدفون بزرگوں کی تم پر مار پڑی ہے لہٰذا ہمیں سمجھائے یا نہ سمجھاۓ ہم تجھ پر ہرگز ایمان لانے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ اس پر حضرت ھود (علیہ السلام) نے انہیں یہ چیلنج دیا کہ تم سب مل کر میرے خلاف جو کچھ کرنا چاہتے ہو کرلو۔ میرا تم کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ کیونکہ میرا بھروسہ اس ذات پر ہے جو میرا اور تمہارا رب ہے۔ وہ اتنا بااختیار اور طاقتور ہے کہ ہر جاندار کی پیشانی اس کے قبضہ قدرت میں ہے اور میرا رب صراط مستقیم پر ہے۔ یعنی اس کا ہر حکم اور فیصلہ ہر اعتبار سے صحیح اور عدل پر قائم ہوتا ہے۔ اس میں کسی قسم کی بے انصافی اور ٹیڑھا پن نہیں ہوتا۔ حضرت ھود (علیہ السلام) نے یہاں اللہ کی دو صفات کا ذکر کیا ہے۔ ١۔ ” اللہ“ میرا اور تمہارا رب ہے۔ (رب کا معنی : پیدا کرنے والا، روزی دینے والا، مالک، سردار، نگران، منتظم ) ٢۔ اتنا طاقتور ہے کہ ہر جاندار کی پیشانی اس کے قبضہ میں ہے۔ یہ ہر زبان میں محاورہ بھی ہے اور ایک حقیقت بھی۔ جب کسی کی طاقت کا اعتراف اور اپنی وفاداری جتلانا مقصود ہو تو آدمی کہتا ہے کہ میرے سر کے بال تیرے ہاتھ میں ہیں۔ میری پیشانی تیرے سامنے جھکی ہوئی ہے یعنی میں تیرا غلام مہمل ہوں۔ دوسرا ان کے فرمان کا مقصد یہ ہوسکتا ہے۔ کہ ہر کسی کی جان اللہ کے اختیار میں ہے۔ کیوں کہ مرتے وقت آدمی کی جان اس کے چہرے کی جانب سے نکلتی ہے۔ اس لیے انہوں نے پیشانی کا نام لیا۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ کے مقابلہ میں کسی کی تدبیر کارگر ثابت نہیں ہوتی : ١۔ اللہ کے علاوہ تم سارے میرے ساتھ تدابیر کرلو اور مجھے مہلت نہ دو۔ (ھود : ٥٥) ٢۔ کہہ دیجیے! تم اپنے شرکاء کو بلالو اور پھر تدابیر کرلو اور مجھ مہلت نہ دو۔ (الاعراف : ١٩٥) ٣۔ اللہ کفار کی تدابیر کو ناکام و نامراد کرنے والا ہے۔ (الانفال : ١٨) ٤۔ انہوں نے ابراہیم (علیہ السلام) کے ساتھ تدبیر کی۔ اللہ نے انہیں خائب و خاسر کردیا۔ (الانبیاء : ٧٠) ھود
56 فہم القرآن ربط کلام : حضرت ھود (علیہ السلام) کا اپنی قوم کو تیسرا جواب۔ قوم نے جب کھلے الفاظ میں بار بار یہ کہا کہ ہم تجھ پر ایمان لانے کے لیے تیار نہیں اور تمہاری دعوت کو دعوت حق سمجھنے کی بجائے اپنے بزرگوں کی بددعا اور ان کی سزا کا نتیجہ سمجھتے ہیں۔ تو حضرت ھود (علیہ السلام) نے یکے بعد تین جواب دئیے۔ ١۔ میں اللہ اور تمہیں گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ میرا تمہارے شرک کے ساتھ کوئی واسطہ نہیں۔ ٢۔ میرے خلاف جو کچھ کرنا چاہتے ہو کرگزرو۔ میرا اللہ تعالیٰ پر بھروسہ ہے، وہی میری حفاظت کرے گا۔ ٣۔ اگر تم نے واقعی مجھ سے دور رہنے کا فیصلہ کرلیا ہے تو یاد رکھو میں نے اپنے رب کا پیغام ٹھیک ٹھیک طریقہ سے پہنچا دیا ہے۔ لیکن یاد رکھنا اب تم زیادہ دیر تک زمین پر نہیں رہ سکو گے۔ میرا رب تمہیں مٹا کر کوئی دوسری قوم تمہاری جگہ لائے گا، تم اس کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکو گے۔ یقیناً میرا رب ہر چیز پر نگہبان ہے۔ حضرت ھود (علیہ السلام) نے یہاں اللہ تعالیٰ کی صفت ” حَفِیْظٌ“ استعمال کرکے یہ ثابت کیا ہے کہ کوئی چیز اللہ تعالیٰ کے علم اور اس کی طاقت سے باہر نہیں بے شک تم دنیاوی وسائل، افرادی قوت اور جسمانی طاقت کے اعتبار سے ساری دنیا سے بڑھ کر ہو لیکن اللہ تعالیٰ کی گرفت کے مقابلے میں تمہارا کوئی بس نہیں ھود
57 چلے گا۔ کیونکہ جب وہ اپنے حفظ و امان کا ہاتھ پیچھے ہٹا لیتا ہے تو پھر کوئی چیز بھی باقی نہیں رہتی۔ عنِ الْمُغِےْرَۃِ ابْنِ شُعْبَۃَ (رض) اَنَّ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کَانَ ےَقُوْلُ فِیْ دُبُرِ کُلِّ صَلٰوۃٍ مَّکْتُوْبَۃٍ (لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہُ لَا شَرِےْکَ لَہُ لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ وَھُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِےْرٌ اَللّٰھُمَّ لاَ مَانِعَ لِمَا اَعْطَےْتَ وَلَا مُعْطِیَ لِمَا مَنَعْتَ وَلَا ےَنْفَعُ ذَالْجَدِّ مِنْکَ الْجَدُّ) (متفق علیہ) ” حضرت مغیرہ بن شعبہ (رض) ذکر کرتے ہیں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرض نماز کے بعد اکثر یہ کلمات ادا فرمایا کرتے تھے۔ ” صرف ایک اللہ ہی معبود حق ہے اس کا کسی لحاظ سے کوئی شریک نہیں اس کی حکمرانی ہے‘ وہی تعریفات کے لائق ہے اور وہ ہر چیز پر اقتدار اور اختیار رکھنے والاہے۔ الٰہی جسے تو کوئی چیز عنایت فرمائے اسے کوئی نہیں روک سکتا اور جو تو روک لے وہ کوئی دے نہیں سکتا۔ تیری کبریائی کے مقابلے میں کسی بڑے کی بڑائی فائدہ نہیں دے سکتی۔“ مسائل ١۔ انبیاء (علیہ السلام) کسی کے گناہوں کے ذمہ دار نہیں ہوتے۔ ٢۔ انبیاء (علیہ السلام) کا کام اللہ تعالیٰ کے پیغام پہچانا ہوتا ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ جب چاہتا ہے ایک قوم کی جگہ دوسری قوم لے آتا ہے۔ ٤۔ کوئی بھی اللہ تعالیٰ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ ٥۔ اللہ ہی ہر چیز پر نگہبان ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ ہی ہر چیز کی حفاظت کرنے والا ہے : ١۔ بے شک میرا پروردگار ہر چیز پر نگہبان ہے۔ (ھود : ٥٧) ٤۔ اللہ تم پر نگہبان ہے۔ (الشوریٰ : ٦) ٢۔ تیرا رب ہر چیز کی حفاظت کرنے والا ہے۔ (سبا : ٢١) ٣۔ اللہ ہر چیز کو پیدا کرنے والا ہے اسی کی عبادت کرو اور وہ ہر چیز پر کارساز ہے۔ (آل عمران : ١٠٢) ٥۔ اللہ پر توکل کرو، اللہ بہترین کارساز ہے۔ (الاحزاب : ٣) ھود
58 فہم القرآن ربط کلام : قوم ھود کا انجام۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کے بعد اس قوم کا انجام ذکر کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ ہم نے ان میں رسول بھیجا۔ جس نے انہیں فرمایا کہ ایک اللہ کے سوا کسی دوسرے کی عبادت نہ کرو اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو۔ لیکن قوم کے سرداروں نے اس بات کا انکار کیا اور آخرت کو جھٹلایا۔ مال دار طبقے نے کہا یہ تو تمہارے جیسا ہی انسان ہے۔ جو تم کھاتے پیتے ہو یہ بھی وہی کچھ کھاتا پیتا ہے۔ سردار اپنے اپنے قبیلوں کو کہنے لگے کہ اگر تم نے اپنے جیسے انسان کی پیروی کی تو یاد رکھو تم بڑا نقصان پاؤ گے۔ ھود تمہیں یہ کہہ کر ڈراتا ہے کہ تم مر کر بوسیدہ ہڈیوں اور مٹی میں تبدیل ہوجاؤ گے۔ پھر اللہ تمہیں زندہ کرے گا۔ یہ بات ہمارے لیے بڑی ہی تعجب کا باعث ہے۔ حالانکہ ہم ہرگز نہیں اٹھائے جائیں گے یہ شخص اللہ پر جھوٹ بولتا ہے۔ اس کے ساتھ انھوں نے حضرت ھود کی نافرمانی کی اور ہر ظالم، جابر کے پیچھے لگے رہے اور صاف صاف کہا کہ اے ھود ہم تجھ پر کبھی ایمان نہیں لائیں گے۔ اس پر حضرت ھود (علیہ السلام) نے اپنے رب سے عرض کی کہ میرے رب انہوں نے مجھے کلی طور پر جھٹلادیا ہے۔ میری مدد فرما۔ اللہ تعالیٰ نے جواباً ارشاد فرمایا کہ اے ھود! اب یہ لوگ تھوڑی ہی مدت کے بعد پچھتائیں گے۔ چنانچہ انہیں اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق ایک دھماکے نے آلیا اور جس نے ظالموں کو خس و خاشاک بنا کر رکھ دیا۔ ( المومنون : ٣٢ تا ٤١) اس طرح قوم ھودتباہ ہوئی اور دنیا اور آخرت میں اللہ تعالیٰ کی لعنت کی مستحق قرار پائی۔ آخرت میں ہر صورت انھیں عذاب ہوگا۔ لیکن دنیا میں عذاب سے دو چار ہوئے اور قیامت تک ان کا اچھے طریقے سے نام لیوا کوئی نہ ہوگا۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت ھود (علیہ السلام) اور ان کے تابعداروں کو عذاب سے بچالیا۔ ٢۔ قوم عاد نے اللہ تعالیٰ کی آیات کا انکار کیا۔ ٣۔ قوم عاد نے اللہ کے رسول کی نافرمانی کی۔ ٤۔ قوم عاد ظالموں اور سرکشوں کے پیچھے لگتی تھی۔ تفسیر بالقرآن حضرت ھود (علیہ السلام) کی بددعا اور اللہ تعالیٰ کا عذاب : ١۔ میرے رب میری مدد فرما انھوں نے مجھے کلی طور پر جھٹلا دیا ہے۔ (المومنون : ٣٩) ٢۔ سات راتیں اور آٹھ دن زبردست آندھی اور ہوا کے بگولے چلے۔ (الحاقۃ : ٧) ٣۔ گرج چمک اور بادو باراں کا طوفان آیا۔ (الاحقاف : ٢٤) ٤۔ آندھی نے انھیں کھجور کے تنوں کی طرح پٹخ پٹخ کر دے مارا۔ (الحاقۃ: ٧) ٥۔ انھیں ریزہ ریزہ کردیا گیا۔ (الذاریات : ٤١۔ ٤٢) ٦۔ دنیا اور آخرت میں ان پر پھٹکار برستی رہے گی۔ (حٰم السجدۃ : ١٦) ٧۔ قوم ھود کو نیست و نابود کردیا گیا۔ (الاعراف : ٧٢) ٨۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت ھود اور ایمانداروں کو اس عذاب سے محفوظ رکھا۔ (ھود : ٥٨) ھود
59 ھود
60 ھود
61 فہم القرآن ربط کلام : قوم ھود کے بعد قوم ثمود کو دنیا کی فراوانی عطا کی گئی۔ مگر انہوں نے بھی قوم عاد کا رویہ اختیار کیا۔ قوم ثمود دنیا کی ترقی میں یدطولیٰ رکھتی تھی۔ یہ قوم اس قدر ترقی یافتہ تھی کہ انہوں نے پہاڑوں کو تراش تراش کر ان کے میں بڑے بڑے محلات بنا رکھے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے انہی میں سے ان کے بھائی حضرت صالح (علیہ السلام) کو رسول منتخب فرمایا۔ حضرت صالح (علیہ السلام) نے اپنی دعوت کا آغاز وہیں سے کیا جہاں سے حضرت نوح اور حضرت ھود ( علیہ السلام) نے کیا تھا۔ انہوں نے اپنی قوم کو فرمایا کہ اے میری قوم! صرف ایک اللہ کی عبادت کرو۔ یہ بات پہلے بھی عرض کی جاچکی ہے کہ عبادت کا جامع مفہوم یہ ہے کہ آدمی اپنے فکر و عمل کو پوری طرح اللہ کے حکم کے تابع کردے۔ چنانچہ حضرت صالح (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو اللہ کی عبادت کی تلقین کرتے ہوئے فرمایا کہ تمہیں اس اللہ کی عبادت کا حکم دیا جا رہا ہے، جس نے تمہیں زمین سے پیدا کیا اور پھر تمہیں اس میں آباد کیا۔ لیکن تم اللہ تعالیٰ کا شکر اور اس کی غلامی کی بجائے بغاوت پر اتر آئے ہو۔ تمہیں سابقہ گناہوں کی معافی مانگتے ہوئے آئندہ کے لیے سچی توبہ کرنی چاہیے۔ یقین کرو کہ میرا رب ہر انسان کے قریب ہے اور سچے دل سے توبہ کرنے والے کی جلدہی توبہ قبول کرلیتا ہے۔ حضرت صالح (علیہ السلام) نے اپنے خطاب میں ” ھو انشاکم فی الارض“ کے الفاظ استعمال فرمائے۔ جس کا معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بنیادی طور پر انسان یعنی آدم کو مٹی سے پیدا کیا ہے اور اس مٹی سے انسان کی خوراک کا بندوست کیا اور زمینی وسائل کی بنیاد پر ہی انسان نشوونما پاتا ہے۔ بالآخر اسی زمین میں اس نے دفن ہونا ہے اور دوبارہ اسی سے نکل کر اللہ کے حضور پیش ہونا اور اپنے اعمال کا جواب دینا ہے۔ حضرت صالح (علیہ السلام) نے اس خطاب میں اللہ تعالیٰ کی دو صفات کا ذکر کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ انسان کے قریب تر ہے اور اس کی عبادت اور توبہ و استغفار کو قبول کرتا ہے۔ قوم ثمود نے قوم نوح اور قوم ھود کی طرح اپنے بزرگوں کے مجسمے بنا رکھے تھے اور ان کا بھی یہ عقیدہ تھا کہ نہ صرف اس طرح اللہ کی عبادت کرنے میں لذت آتی ہے بلکہ ان کی ارواح ہماری فریادیں سن کر اللہ کے حضور پہنچاتی ہیں۔ یہ ہمیں اللہ کے قریب کردیتے ہیں۔ حضرت صالح (علیہ السلام) نے نہایت حکیمانہ طریقہ کے ساتھ انہیں سمجھایا کہ اللہ تعالیٰ کے قریب ہونے کے لیے صرف ایک ہی ذریعہ ہے کہ انسان سچے دل سے توبہ و استغفار کرتے ہوئے براہ راست ایک اللہ کی عبادت کرے۔ (عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَا أَیُّہَا النَّاسُ تُوْبُوْا إِلَی اللَّہِ فَإِنِّی أَتُوْبُ فِی الْیَوْمِ إِلَیْہِ ماءَۃَ مَرَّۃٍ) [ رواہ مسلم : کتاب الذکر والدعاء والتوبۃ، باب اسْتِحْبَاب الاِسْتِغْفَارِ وَالاِسْتِکْثَارِ مِنْہُ] ” حضرت ابن عمر (رض) سے ہی روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا لوگو! اللہ تعالیٰ کے حضور توبہ کرو۔ بلاشبہ میں ہر روز سو مرتبہ توبہ کرتا ہوں۔“ مسائل ١۔ حضرت صالح (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو ایک اللہ کی عبادت کی دعوت دی۔ ٣۔ حضرت صالح (علیہ السلام) نے معبود ان باطل کی نفی کی۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ بندے کے قریب تر ہے۔ ٦۔ اللہ تعالیٰ کے حضور توبہ اور اس سے بخشش طلب کرنی چاہیے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ بندے کے قریب تر ہے : ١۔ میرا پروردگار قریب ہے اور قبول کرنے والا ہے۔ (ھود : ٦١) ٢۔ جب میرے بندے آپ سے میرے بارے میں پوچھیں تو بتا دیں بے شک میں قریب ہوں۔ (البقرۃ: ١٨٦) ٣۔ ہم ان کی شاہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہیں۔ (ق : ١٦) ٤۔ ہم تم سے زیادہ قریب ہوتے ہیں لیکن تم دیکھتے نہیں۔ (الواقعۃ: ٨٥) ٥۔ آدمی جہاں کہیں ہو اللہ اس کے ساتھ ہوتا ہے۔ (الحدید : ٤) ٦۔ آدمی تین ہوں تو چوتھا ان کے ساتھ اللہ ہوتا ہے۔ پانچ ہوں تو چھٹا اللہ ہوتا ہے اس سے زیادہ ہوں یا کم ” اللہ“ ہر وقت آدمی کے ساتھ ہوتا ہے۔ (المجادلۃ: ٧) ھود
62 فہم القرآن ربط کلام : قوم کا حضرت صالح (علیہ السلام) سے مکالمہ۔ اللہ تعالیٰ نے دنیا میں جتنے پیغمبر جلوہ گر فرمائے ہیں وہ حسن و جمال، سیرت اور لیاقت کے اعتبار سے بچپن میں ہی اپنی قوم میں منفرد اور ممتاز ہوا کرتے تھے۔ حضرت صالح (علیہ السلام) بھی اپنی قوم میں ہر حوالے سے ممتاز اور منفرد تھے۔ اس بنا پر قوم ان کے بارے میں بڑی توقعات رکھتی تھی۔ لیکن حضرت صالح (علیہ السلام) نے جب انہیں ان کے طریقہ عبادت سے منع کیا اور فرمایا کہ تم بالواسطہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے کی بجائے بلاواسطہ اس کی عبادت کرو اور براہ راست اس سے مانگا کرو۔ قوم نے اس سیدھے اور صحیح طریقے کو اپنانے کی بجائے ان سے کہا کہ ہمیں تو تجھ پر بڑی توقعات اور اعتماد تھا کہ تم ہم میں اتحاد کی علامت اور ہماری دینی اور دنیوی ترقی کا ذریعہ بنو گے۔ لیکن تو نے ہمارے اعتماد کو ٹھیس پہنچائی اور ہماری توقعات کے خلاف طرز عمل اختیار کرلیا ہے۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ہم اپنے آباؤ اجداد کے طریقہ عبادت کو چھوڑ دیں۔ ہمیں تو تیری دعوت اور عقیدہ کے بارے میں تردُّد ہے۔ اس پر حضرت صالح (علیہ السلام) نے فرمایا کہ تمہیں اس دعوت کے بارے میں کسی تردد اور شک میں پڑنے کی ضرورت نہیں کیونکہ میرے رب نے مجھ پر کرم فرما کر مجھے اپنا رسول منتخب کیا ہے اور میں تمہیں اپنے رب کی طرف سے ٹھوس اور واضح دلائل کے ساتھی یہ دعوت پیش کرتا ہوں۔ لیکن قوم نے صحیح طریقہ سے عبادت اپنانے کی بجائے حضرت صالح (علیہ السلام) پر ہر طرف سے دباؤ ڈالا کہ تمہیں اس دعوت سے دستکش ہوجانا چاہیے۔ حضرت صالح (علیہ السلام) نے اس دباؤ کے جواب میں فرمایا کہ اگر میں دعوت توحید کو چھوڑ دوں تو یہ نہ صرف اللہ تعالیٰ کی نافرمانی ہوگی۔ بلکہ تم مجھے ناقابل تلافی نقصان میں ڈال دو گے۔ اگر میں ایسا کروں تو اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں کون میری مدد کرے گا؟ قوم ثمودنے حضرت صالح (علیہ السلام) کی تکذیب کی جب انہیں صالح (علیہ السلام) نے کہا کیا تم اللہ سے ڈرتے نہیں میں تمہارے لیے ایک امین رسول ہوں لہٰذا اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔ میں تم سے اس کام کا کوئی صلہ نہیں مانگتا، میرا اجر رب العالمین کے ذمہ ہے۔ کیا تم اسی طرح چھوڑ دیے جاؤ گے ان باغات، چشموں، کھیتوں، اور کھجوروں میں جن کے خوشے بہت ملائم ہیں اور تم پہاڑوں کو تراش تراش کر گھر بناتے ہو اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو اور حد سے گزرنے والوں کی اطاعت نہ کرو جو ملک میں فسادپھیلاتے ہیں اور اصلاح کا کام نہیں کرتے۔ کفار کے پاس حضرت صالح (علیہ السلام) کے دلائل کے مقابلہ میں اس کے سوا کوئی بات نہ تھی کہ ہم اپنے والدین کے طرز زندگی اور طریقہ عبادت کو تیرے کہنے پر کس طرح چھوڑ سکتے ہیں۔ دراصل یہی وہ بہانہ ہے جس کو لوگ مختلف الفاظ میں بزرگوں کے نام پر پیش کرتے آرہے ہیں جس کو مذہبی لوگ آئمہ کی تقلید کا نام دیتے ہیں۔ جس کا قرآن مجید نے ایک موقعہ پر یہ جواب دیا ہے کہ جب انہیں کہا جاتا ہے کہ تم اس بات کی اتباع کرو جو اللہ تعالیٰ نے نازل کی ہے۔ یہ کہتے ہیں ہم تو اس طریقہ پر چلیں گے جس پہ اپنے آباؤ اجداد کو پایا ہے۔ اگرچہ ان کے آباؤ اجداد دین کے بارے میں سمجھ اور ہدایت نہ رکھنے والے ہوں۔ تب بھی یہ ان کے راستے پر چلتے رہیں گے؟ مسائل ١۔ معبودان باطل کی عبادت سے روکنا مشرکین کو ناگوار گزرتا ہے۔ ٢۔ انبیاء (علیہ السلام) اللہ کے سوا کسی کو مددگار نہیں سمجھتے تھے۔ ٣۔ انبیاء ( علیہ السلام) اللہ تعالیٰ کی طرف سے دلائل لے کر آتے ہیں۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ جسے چاہے اپنی رحمت سے نوازتا ہے۔ تفسیر بالقرآن تقلید آباء پر اصرار : ١۔ کیا تو ہمیں ان معبودوں کی عبادت سے روکتا ہے جن کی عبادت ہمارے آباء کرتے رہے ہیں۔ (ھود : ٦١) ٢۔ جب انہیں اللہ اور اس کے رسول کی طرف بلایا جاتا ہے تو کہتے ہیں ہمیں ہمارے آباء و اجداد کافی ہیں۔ (المائدۃ: ١٠٤) ٣۔ جب قرآن کی طرف بلایا جاتا ہے کہتے ہیں ہم اپنے آباء کی پیروی کریں گے۔ (لقمان : ٢١) ٤۔ جب انہیں قرآن کی پیروی کے لیے کہا جاتا ہے تو جواب دیتے ہیں باپ دادا کافی ہیں۔ (البقرۃ: ١٧٠) ھود
63 ھود
64 فہم القرآن ربط کلام : گزشتہ سے پیوستہ۔ قوم نے حضرت صالح (علیہ السلام) کے شاندار ماضی، عمر بھر کی صداقت اور اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ دلائل پر ایمان لانے کی بجائے یہ مطالبہ کرڈالا۔ صالح ہم اس وقت تک تجھ پر ایمان نہیں لائیں گے جب تک ہمارے سامنے اس پہاڑ سے ایک گابھن اونٹنی ظاہر نہ ہو۔ حضرت صالح (علیہ السلام) نے انہیں بہت سمجھایا کہ معجزہ طلب کرنے کے بعد اگر تم ایمان نہ لائے تو پھر اللہ تعالیٰ کی طرف سے تمہیں مہلت نہ دی جائے گی۔ لیکن ان کی قوم نے صاف طور پر کہا کہ جس پر تم ایمان رکھتے ہو ہم اس کا انکار کرتے ہیں۔ (النحل : ٤٩)۔ تب حضرت صالح (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ کے حضور دعا کی کہ باری تعالیٰ ان کا یہ مطالبہ پورا فرما شاید یہ لوگ ایمان لے آئیں۔ حضرت صالح (علیہ السلام) کی دعا قبول ہوئی اور مطالبہ کرنے والوں کے سامنے پہاڑ سے ایک گابھن اونٹنی بلبلاتے ہوئے باہر نکلی۔ کچھ مدت کے بعد اس نے ایک بچہ جنم دیا۔ یہ تفصیلات مختلف ذرائع سے مفسرین نے جمع کی ہیں۔ جبکہ قرآن مجید سے فقط اتنا ثابت ہے کہ جب پہاڑ سے اونٹنی برآمد ہوئی تو حضرت صالح نے اپنی قوم کو فرمایا یہ اللہ کی اونٹنی ہے۔ جو معجزہ کے طور پر تمہارے سامنے لائی گئی ہے۔ جسے آپ نے ناقۃ اللہ قرار دیا‘ حضرت صالح کا اس اونٹنی کو ناقۃ اللّٰہ قرار دینا دو وجہ سے تھا۔ ایک تو قوم کے مطالبہ پر معجزہ کے طور پر پہاڑ کو دو ٹکڑے کرتے ہوئے نکلی تھی۔ دوسری وجہ ناقۃ اللّٰہ قرار دینے کی یہ تھی کہ وہ اونٹنی رنگ روپ، قدو قامت کے اعتبار سے عام اونٹنیوں سے بالکل ہی مختلف تھی۔ اس کا کھانا پینا بھی غیر معمولی تھا۔ مفسرین نے لکھا ہے کہ وہ کئی اونٹنیوں کے برابر اکیلی پانی پیتی اور منوں کے حساب سے چارہ ہڑپ کر جاتی۔ اونٹنی کے ظاہر ہونے پر حضرت صالح (علیہ السلام) نے قوم کو سمجھایا کہ اللہ کی اونٹنی کو اللہ کی زمین پر چلنے پھرنے اور کھانے پینے میں رکاوٹ نہ بننا اور نہ ہی اسے کسی قسم کی تکلیف دینا ورنہ تمہیں اللہ کا عذاب دبوچ لے گا۔ کیونکہ یہ اللہ کی اونٹنی ہے۔ بستی کے کنویں سے ایک دن تمہارے جانور پانی پئیں گے اور ایک دن یہ اونٹنی اکیلی پیا کرے گی۔ اسے تکلیف نہ دینا ورنہ تم پر عظیم عذاب آئے گا۔ (الشعراء : ١٥٥۔ ١٥٦) لیکن منہ مانگا معجزہ پانے کے باوجود کچھ لوگوں نے آپس میں مشورہ کرنے کے بعد اس اونٹنی کی ٹانگیں کاٹ دیں اور مفسرین نے لکھا ہے کہ وہ اونٹنی چیختی چلاتی ہوئی اپنے بچے کے ساتھ اسی پہاڑ میں داخل ہوگئی۔ اس واقعہ کے بعد حضرت صالح (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو فرمایا کہ بس تین دن تک اپنے گھروں میں رہو۔ چوتھے دن تم پر اللہ کا عذاب نازل ہوگا۔ یہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے جو کبھی جھوٹا نہیں ہوسکتا۔ چاہیے تو یہ تھا کہ اب بھی قوم حضرت صالح (علیہ السلام) سے معذرت کرتے ہوئے درخواست کرتی کہ ان کے لیے اللہ تعالیٰ سے فریاد کی جائے کہ وہ ان کے سنگین جرم کو معاف کردے۔ لیکن بدبخت قوم کہنے لگی کہ اے صالح ! تو جس عذاب سے ہمیں ڈراتا ہے اسے جلدی لے آؤ۔ ( الاعراف : ٧٧) مسائل ١۔ حضرت صالح (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے اونٹنی معجزہ کے طور پر عطا فرمائی تھی۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ کی نشانیوں کو پامال کرنا عذاب الٰہی کو دعوت دینا ہے۔ تفسیر بالقرآن مجرموں کا عذاب کا مطالبہ کرنا : ١۔ حضرت نوح کی قوم نے ان سے عذاب کا مطالبہ کیا۔ (ھود : ٣٢) ٢۔ قوم ثمود نے حضرت صالح کو عذاب لانے کا چیلنج دیا۔ (الاعراف : ٧٧) ٣۔ مدین والوں نے حضرت شعیب سے عذاب الٰہی کا مطالبہ کیا۔ (الشعراء : ١٨٧) ٤۔ قوم عاد نے حضرت ھود سے عذاب کے نزول کا مطالبہ کیا۔ (الاحقاف : ٢٢) ٥۔ کفار نے نبی کریم سے عذاب کا مطالبہ کیا۔ (بنی اسرائیل : ٩٢) ٦۔ اہل مکہ نے اللہ تعالیٰ سے عذاب کا مطالبہ کیا۔ ( الانفال : ٣١) ھود
65 ھود
66 فہم القرآن ربط کلام : حسب وعدہ عذاب کا نازل ہونا، حضرت صالح (علیہ السلام) اور ان کے ایماندار ساتھیوں کا نجات پانا۔ قرآن مجید اس واقعہ کی یوں تفصیل بیان کرتا ہے۔ کہ ثمود نے سرکشی کی بنا پر حضرت صالح (علیہ السلام) کو جھٹلا دیا۔ پھر ان کا سب سے بڑا بدبخت اٹھا اور اس نے حضرت صالح (علیہ السلام) کی اس بات کو مسترد کیا جو انہوں نے فرمائی تھی کہ اس اونٹنی کو پانی پینے دینا۔ اس بدبخت نے اونٹنی کی ٹانگیں کاٹ ڈالیں۔ جس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے ان پر عذاب نازل کیا اور ان کو زمین بوس کردیا۔ ( الشمس : ١١ تا ١٥) بدبخت قوم نے یہ قسمیں بھی اٹھائیں۔ کہ ہم صالح (علیہ السلام) کو اس کے اہل وعیال سمیت ختم کر ڈالیں گے۔ (النمل : ٤٩) چنانچہ ارشاد ہوتا ہے کہ ہم نے صالح اور اس کے ایماندار ساتھیوں کو اس دن کی ذلت سے بچالیا۔ یقیناً آپ کا رب بڑا طاقتور اور ہمیشہ غالب رہنے والا ہے۔ ظالموں کو ایک چیخ نے آلیا اور وہ اپنے گھروں میں الٹے منہ پڑے ہوئے اس طرح ہوگئے جیسے وہ کبھی آباد ہی نہ ہوئے تھے۔ خبردار! بلاشک ثمود نے اپنے رب کے ساتھ کفر کیا۔ خبردار! قوم ثمود کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے پھٹکار دیا گیا۔ مفسرین نے لکھا ہے کہ جب قوم صالح پر عذاب آیا اس کی کیفیت اس طرح سے تھی کہ پہلے دن ثمودیوں کے چہرے زرد ہوئے دوسرے دن سرخ ہوئے اور تیسرے دن سیاہ اور چوتھے دن انہیں چیخ نے آلیا جس کی ہیبت سے ان کے کلیجے پھٹ گئے اور وہ اپنے گھروں میں منہ کے بل گر پڑے۔ مسائل ١۔ اللہ کے عذاب سے وہی بچ سکتا ہے جسے اللہ محفوظ فرمائے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ بڑی قوت اور غلبہ والا ہے۔ ٣۔ قوم ثمود پر چیخ کی صورت میں عذاب آیا۔ ٤۔ قوم ثمود نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ کفر کیا۔ ٥۔ ثمودیوں کا اللہ تعالیٰ نے نام و نشان مٹا دیا۔ ٦۔ قوم ثمود اللہ تعالیٰ کی رحمت سے دور ہوگئی۔ تفسیر بالقرآن دھتکاری اور پھٹکاری ہوئی اقوام : ١۔ قوم ثمود کے لیے دوری ہے۔ (ھود : ٦٨) ٢۔ مدین والوں کا نام ونشان مٹ گیا۔ قوم ثمود کی طرح مدین والوں کے لیے دوری ہے۔ (ھود : ٩٥) ٣۔ قوم عاد نے اپنے پروردگار کے ساتھ کفر کیا۔ قوم عاد کے لیے دوری ہے۔ (ھود : ٦٠) ٤۔ یہودیوں پر اللہ نے ذلت و محتاجی مسلط کردی۔ (البقرۃ: ا ٦) ٥۔ یہودی اللہ کے غضب کے ساتھ لوٹے۔ (البقرۃ : ٩٠) ٦۔ بنی اسرائیل پر حضرت داؤد اور حضرت عیسیٰ نے لعنت کی۔ (المائدۃ: ٧٨) ٧۔ کفار پر اللہ، اس کے ملائکہ اور کائنات کی ہر چیز لعنت کرتی ہے۔ (البقرۃ: ١٦١) ھود
67 ھود
68 ھود
69 فہم القرآن ربط کلام : قوم ثمود کی تباہی کے بعد قوم لوط کا واقعہ مگر اس کے بیان کرنے سے پہلے ضمناً حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے ایک واقعہ کا ذکر ضروری سمجھا گیا ہے۔ قوم لوط کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لیے فرشتے بھیجے گئے۔ مگر پہلے ان کو حکم دیا گیا کہ وہ ابراہیم (علیہ السلام) کی خدمت میں حاضر ہوں۔ انہیں بیٹے اور پوتے کی خوشخبری سنائیں۔ جب یہ فرشتے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی خدمت میں حاضر ہوئے تو انہوں نے سلام عرض کیا۔ جواباً سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) بھی ملائکہ کو سلام کہتے ہیں۔ خیرو عافیت پوچھنے کے بعد کوئی تاخیر کیے بغیر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) مہمان نوازی کے لیے بھنا ہوا بچھڑا پیش کرتے ہیں۔ لیکن دیکھا کہ مہمان کھانے کی طرف ہاتھ بڑھانے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ یہ دیکھ کر سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) اپنے دل میں ان سے خوفزدہ ہوئے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی کیفیت بھانپ کر ملائکہ اپنے آپ کو ظاہر کرتے ہوئے تسلی دیتے ہیں کہ خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں۔ ہم اللہ کی طرف سے قوم لوط کی طرف بھیجے گئے ہیں اور اپنے بھیجے جانے کا مقصد بیان کیا کہ اس قوم کو ملیا میٹ کیا جا رہا ہے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا ملائکہ سے خوفزدہ ہونے کے بارے میں اہل علم نے مختلف آراء کا اظہار کیا ہے۔ ١۔ اس زمانے میں چوروں اور ڈاکوؤں میں بھی یہ اخلاق ہوا کرتا تھا کہ جس گھر میں نقب لگانا ہوتی۔ اس کا پانی تک نہیں پیا کرتے تھے تاکہ نمک حرامی نہ ہوجائے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سمجھے کہ یہ مہمان کی بجائے ڈاکوہیں۔ ٢۔ مہمانوں کی شکل میں ملائکہ کچھ دیر کے بعد قوم لوط کو تباہ کرنے والے تھے۔ اس لیے ان کے چہروں پر تلخی نمایاں تھی اور انہوں نے اب تک اپنا تعارف بھی نہیں کروایا تھا۔ جس وجہ سے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ان سے خوفزدہ ہوئے۔ یہ مفسر کا اپنا استنباط ہے۔ جس کے ساتھ اتفاق کرنا اس لیے مشکل ہے کہ یہ فرشتے نہ صرف حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے مہمان بن کر آئے بلکہ وہ انہیں بیٹے اور پوتے کی خوشخبری بھی سناتے ہیں۔ اس لیے ان کے چہروں پر تلخی کے آثار نمایاں ہونا ممکن نظر نہیں آتا۔ ٣۔ ایک مفسّر کا استدلال ہے کیونکہ ملائکہ نے ابھی تک انہیں خوشخبری نہیں سنائی تھی اس لیے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) خوفزدہ ہوئے کہ تین ملائکہ کا جڑ کر آنا کسی خطرے کے سوا نہیں ہوسکتا۔ یہ استدلال اس لیے بے جوڑ نظر آتا ہے کہ قرآن مجید نے فرشتوں کا اپنے آپ کو ظاہر کرنے سے پہلے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا خوفزدہ ہونے کا ذکر کیا ہے۔ اسی بناء پر فرشتوں نے حضرت ابراہیم کو اپنا تعارف کرواتے ہوئے عرض کیا تھا کہ ہمارے کھانا نہ کھانے کی وجہ سے آپ کو خوفزدہ نہیں ہونا چاہیے ہم تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھیجے ہوئے فرشتے ہیں۔ میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ مہمانوں کے کھانانہ کھانے کی وجہ سے ابراہیم (علیہ السلام) شاید اس لیے خوفزدہ ہوئے تھے ممکن ہے کہ ہماری مہمان نوازی میں کوئی فرق رہ گیا ہو۔ کیونکہ کھانا چننے کے بعد اگر مہمان کھانے کی طرف ہاتھ نہ بڑھائے تو میزبان کو خواہ مخواہ تشویش لاحق ہوجاتی ہے۔ یہی حالت سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) کی ہوگی جس کے پیش نظر ملائکہ نے انہیں اپنا تعارف کرواتے ہوئے تسلی دی کہ کسی قسم کے فکر اور ہم سے خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں۔ نوری مخلوق ہونے کی وجہ سے ہم کھانے پینے سے بے نیاز ہیں۔ اس واقعہ سے یہ حقیقت بھی نمایاں ہوتی ہے کہ اللہ کے پیغمبر بھی غیب نہیں جانتے۔ اگر سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) غیب جانتے ہوتے کہ یہ ملائکہ ہیں اور ہمیں بیٹے اور پوتے کی خوشخبری دینے کے لیے آئے ہیں تو انہیں ڈرنے کی بجائے خوش ہونا چاہیے تھا۔ لیکن افسوس اتنی واضح حقیقت ہونے کے باوجود ایک مفسر نے اس بات کو یوں توڑ مروڑ کر بیان کیا ہے۔ بعض صاحبان اپنی عادت سے مجبور ہو کر اس آیت سے حضرت ابراہیم کی بے علمی پر استدلال کرنے لگتے ہیں کہ دیکھو انہیں پتہ نہ چلا کہ یہ فرشتے ہیں۔[ ضیاء القرآن : ج ٢، ص ٣٧٧] مہمان نوازی کی اہمیت : (عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَنْ کَانَ یُؤْمِنُ باللّٰہِ وَالْیَوْمِ الاْٰخِرِ فَلْیُکْرِمْ ضَیْفَہٗ وَمَنْ کَانَ یُؤْمِنُ باللّٰہِ وَالْیَوْمِ الاْٰخِرِ فَلَا یُؤْذِ جَارَہٗ وَمَنْ کَانَ یُؤْمِنُ باللّٰہِ وَالْیَوْمِ الاْٰخِرِ فَلْیَقُلْ خَیْرًا اَوِلْیَصْمُتْ وَفِیْ رِوَایَۃٍ بَدْلَ الْجَارِ وَمَنْ کَانَ یُؤْمِنُ باللّٰہِ وَالْیَوْمِ الاْٰخِرِ فَلْیَصِلْ رَحِمَہٗ) [ رواہ البخاری : باب اکرام الضیف وخدمتہ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے وہ اپنے مہمان کی عزت کرے۔ جو آدمی اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے وہ اپنے پڑوسی کو تکلیف میں مبتلا نہ کرے اور جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے وہ اچھی بات کہے یا خاموش رہے۔ ایک روایت میں پڑ وسی کے بجائے یہ ہے کہ جو شخص اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتا ہے وہ صلہ رحمی کرے۔“ مسائل ١۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس فرشتے خوشخبری دینے کے لیے آئے۔ ٢۔ سلام کا جواب سلام سے دینا چاہیے۔ ٣۔ مہمان نوازی کرنا انبیاء ( علیہ السلام) کی سنت ہے۔ ٤۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) فرشتوں کو نہ پہچان سکے۔ ٥۔ نوری مخلوق کھانے پینے اور انسانی حاجات سے پاک ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی غیب نہیں جانتا : ١۔ حضرت ابراہیم کو فرشتوں کے متعلق علم نہ ہوسکا۔ (ھود : ٦٩) ٢۔ حضرت لوط فرشتوں کو نہ پہچان سکے۔ (ھود : ٧٧) ٣۔ نبی اکرم نے فرمایا اگر مجھے غیب کا علم ہوتا تو میں بہت سی بھلائیاں جمع کرلیتا۔ (الاعراف : ١٨٨) ٤۔ حضرت نوح نے فرمایا کہ میں غیب نہیں جانتا۔ (ھود : ٣١) ٥۔ جنات غیب نہیں جانتے۔ (سبا : ١٤) ٦۔ اللہ کے سوا کوئی بھی غیب نہیں جانتا۔ (الانعام : ٥٩) ھود
70 ھود
71 فہم القرآن ربط کلام : ملائکہ سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) کی خدمت میں حاضر ہونے کا مقصد بیان کرتے ہیں۔ سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) کی زوجہ مکرمہ اس موقعہ پر کھڑی ملائکہ کی گفتگو سن رہی تھیں۔ کچھ مفسرین نے ان کے اس طرح کھڑے ہونے کے بارے میں قیل وقال کی ہے۔ حالانکہ قریب کھڑے ہونے کا یہ معنی نہیں لیا جاسکتا کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی زوجہ مکرمہ جن کا اسم گرامی حضرت سارہ ہے کہ وہ بے پردہ اس مجلس میں آکھڑی ہو۔ کیا عورت اپنے خاوند کی موجودگی میں مہمانوں کو کھانا پیش کرنے کے وقت باپردہ حاضر نہیں ہوسکتی؟ کیا یہ ممکن نہیں کہ وہ پردے کے پیچھے کھڑی ہو کر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو کھانا پکڑا رہی ہوں اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) مہمانوں کو کھانا پیش کرنے کی خدمت سرانجام دے دیتے ہوں؟ بہرکیف قریب کھڑی ہوئی حضرت سارہ کو ملائکہ نے یہ خوشخبری سنائی کہ اللہ تعالیٰ آپ کو بیٹا اور پوتا عنایت فرمائے گا۔ بیٹے کا نام اسحق اور پوتے کا نام یعقوب رکھا ہے۔ یہاں ملائکہ نے خوشخبری حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو براہ راست پیش کرنے کی بجائے ان کی زوجہ مکرمہ کو اس لیے دی کیونکہ ابراہیم (علیہ السلام) کے ہاں حضرت ھاجرہ سے حضرت اسمٰعیل موجود تھے۔ حضرت سارہ ابراہیم (علیہ السلام) کی پہلی بیوی تھیں۔ جو ان کی چچا زاد تھیں اور یہ اسی (٨٠) سال سے زائد عمر ہونے کے باوجود اولاد سے محروم تھیں۔ جس بناء پر انہیں براہ راست بیٹے اور پوتے کی خوشخبری سنائی گئی۔ خوشخبری سنتے ہی بے ساختہ ان کے منہ سے نکلا کہ آہ آہ یہ کیسے ہوگا؟ جبکہ میں بانجھ اور میرے خاوند ابراہیم انتہائی بوڑھے ہوچکے ہیں۔ اس حالت میں یہ خوشخبری انوکھی معلوم ہوتی ہے۔ مؤرخین نے لکھا ہے کہ اس وقت حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی عمر (١٢٠) سال کے قریب تھی۔ حضرت سارہ کی حیرانگی اور تعجب دیکھ کر ملائکہ نے انہیں کہا کیا آپ اللہ کے حکم اور اس کی رحمت کے بارے میں تعجب کرتی ہیں۔ حالانکہ آپ کے گھرانے پر اللہ کی بے پناہ رحمتیں نازل ہو رہی ہیں۔ یقیناً اللہ تعالیٰ ہر اعتبار سے تعریف والا اور بڑا ہے۔ یہ بات فہم القرآن کی جلد اول اور جلد دوم میں بیان ہوچکی ہے کہ ہر آیت کے اختتامی الفاظ اس کے مرکزی مفہوم کے کسی نہ کسی انداز میں ترجمان ہوتے ہیں۔ ملائکہ نے اللہ تعالیٰ کی ان دو صفات کا ذکر فرما کر انہیں مزید تسلی دی کہ بے شک آپ کی اور ابراہیم (علیہ السلام) کی عمر زیادہ ہوچکی ہے مگر اللہ تعالیٰ کی بڑائی کے سامنے کوئی کام بھی مشکل اور بڑا نہیں ہوسکتا۔ اللہ تعالیٰ حمد و ستائش کے لائق ہے لہٰذا تمہیں تعجب کرنے کی بجائے اس کی حمد اور شکر ادا کرنا چاہیے۔ b حمید کا معنی : قابل تعریف، قابل ستائش، مستحسن، پسندیدہ۔ b مجید کا معنی : جلیل القدر، نمایاں، شاندار، معروف، محمود، قابل تعریف، عالی شان۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے خاندان پر اللہ کی رحمت کی چند جھلکیاں : ١۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے لیے اللہ تعالیٰ نے آگ کو گلزار بنا دیا۔ ٢۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو اللہ نے اپنا دوست قرار دیا۔ ٣۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور ان کے اہل خانہ کو بڑے وقار اور سلامتی کے ساتھ کفار کی سرزمین سے نجات دی۔ ٤۔ راستہ میں جب حضرت سارہ پر ایک ظالم حکمران نے دست درازی کی کوشش کی تو ظالم کو زمین پر گرا دیا گیا۔ ٥۔ حضرت سارہ نہ صرف بحفاظت حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس واپس آئی بلکہ انہیں حضرت ہاجرہ کی شکل میں کنیز بھی دی گئی۔ ٦۔ حضرت سارہ کو بیک وقت بیٹے اور پوتے کی خوشخبری دی گئی۔ ٧۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو رہتی دنیا تک سب کا امام بنایا گیا۔ ٨۔ حضرت ہاجرہ اور حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کی یاد گاروں کو اللہ تعالیٰ نے شعائر اللہ قرار دیا۔ ٩۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے بنائے ہوئے بیت اللہ کی زیارت لوگوں پر فرض قرار دی گئی۔ ١٠۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی قربانی کو ہمیشہ کے لیے ہر امت کے لیے سنت قرار دیا گیا۔ علیٰ ھذہٖ القیاس۔ ملائکہ سے تکرار کرنے کا ذکر کرنے کی بجائے اللہ تعالیٰ نے اس تکرار کو اپنی طرف منسوب فرمایا ہے۔ کیونکہ ملائکہ اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے اور اسی کے حکم کی تعمیل کے لیے قوم لوط کی طرف جانے والے تھے۔ پھر تکرار کی بجائے جھگڑے کا لفظ استعمال فرمایا جس میں ابراہیم (علیہ السلام) کے ساتھ پیار کی جھلک دکھائی دیتی۔ کیونکہ جھگڑے کی وجہ بیان کرتے ہوئے ناراضگی کا اظہار کرنے کی بجائے ان کی تعریف فرمائی گئی۔ ١۔ حَلِیْمٌ (خوش، غم اور غصہ میں حوصلہ رکھنے والا، اللہ کے حضور آہ زاری کرنے والا) ٢۔ اَوَّاہٌ (انتہائی خیر خواہ اور دوسرے کی تکلیف دیکھ کر تڑپ جانے والا) ٣۔ مُنِیْبٌ (غمی و خوشی اور ہر حال میں اپنے رب کی طرف رجوع کرنے والا) مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ جب اور جسے چاہتا ہے اولاد عطا فرماتا ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور ان کے اہل پر رحمت و برکت نازل فرمائی۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ سب سے زیادہ تعریف کے لائق ہے۔ ٤۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) بڑے حلیم اور نرم دل تھے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ تعریف والا اور بزرگی والا ہے : ١۔ بے شک اللہ تعریف کے لائق اور بڑی شان والا ہے۔ (ھود : ٧٣) ٢۔ زمین و آسمان میں سبھی کچھ اللہ کا ہے اور اللہ ہر تعریف کے لائق ہے۔ (النساء : ١٣١) ٣۔ اللہ قرآن مجید نازل کرنے والا حکمت والا اور تعریف کے لائق ہے۔ (حم السجدۃ: ٤٢) ٤۔ زمین و آسمان اور جو کچھ ان میں ہے سب اللہ کی حمد بیان کرتے ہیں۔ (الحشر : ١) ٥۔ تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جو جہانوں کو پالنے والا ہے۔ (الفاتحۃ: ١) ھود
72 ھود
73 ھود
74 ھود
75 ھود
76 فہم القرآن ربط کلام : ملائکہ کیحضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے فارغ ہونے کے بعد حضرت لوط (علیہ السلام) کی خدمت میں حاضری۔ جب ابراہیم (علیہ السلام) ملائکہ کی زبان سے بیٹے اور پوتے کی خوشخبری سن چکے۔ تو پھر قوم لوط کے بارے میں ملائکہ سے تکرار کرنے لگے۔ جس کی وجہ یہ نہیں تھی کہ وہ مجرموں کے حمایتی تھے۔ بلکہ وہ اس وجہ سے قوم لوط کے بارے میں تکرار کر رہے تھے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نہایت حوصلہ مند، دوسرے کی تکلیف دیکھ کر تڑپ جانے والے اور ہر حال میں اپنے رب کی طرف رجوع کرنے والے تھے۔ جس بناء پر وہ ملائکہ سے تکرار کرنے لگے کہ آپ انہیں کچھ اور مہلت دیں۔ شاید وہ سنبھل جائیں۔ حضرت نے یہ بھی فرمایا کہ آپ اس قوم کو عذاب کرنے چلے ہیں جن میں لوط بھی موجود ہیں۔ ملائکہ نے اس کا جواب دیا کہ ہمیں معلوم ہے کہ ان میں لوط موجود ہیں۔ لیکن ان کی بیوی کے سوا لوط اور ان کے ایماندار ساتھیوں کو بچالیاجائے گا۔ (العنکبوت : ٣٢) نہ معلوم حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کن الفاظ اور کس، کس انداز میں ملائکہ سے تکرار کرتے ہوں گے۔ لیکن بالآخر ملائکہ نے کہا کہ حضرت جانے دیجیے اب یہ عذاب ٹلنے والا نہیں۔ تب ملائکہ ان سے رخصت ہو کر حضرت لوط (علیہ السلام) کی خدمت میں پہنچے۔ مفسرین نے اسرائیلی روایات کے حوالے سے لکھا ہے کہ ملائکہ انتہائی خوبصورت لڑکوں کی شکل میں تھے۔ ملائکہ کی آمد پر حضرت لوط (علیہ السلام) نے ناگواری محسوس کی اپنی قوم کا کردار جانتے ہوئے اور دل ہی دل میں پریشان ہونے لگے۔ اس حالت میں ان کی زبان سے یہ الفاظ نکل گئے کہ آج تو بڑا مصیبت کا دن ہے۔ مہمانوں کی اطلاع پاکر ان کی قوم کے لوگ ان کے ہاں دوڑتے ہوئے آئے۔ کیونکہ وہ پہلے سے ہی بدکاری کے عادی تھے۔ حضرت لوط (علیہ السلام) نے انہیں شرم دلانے کے لیے فرمایا یہ میری بیٹیاں حاضر ہیں۔ اللہ سے ڈرو اور میرے مہمانوں میں مجھے ذلیل نہ کرو۔ جب اوباش بے حیائی کی باتیں اور بدمستی دکھانے لگے تو حضرت لوط (علیہ السلام) نے پھر شرم دلائی کہ کیا تم میں سے کوئی ایک بھی شریف آدمی نہیں ہے؟ بے شرم جواب دیتے ہیں۔ تو جانتا ہے کہ ہمیں تیری بیٹیوں کے بارے میں کوئی دلچسپی نہیں۔ تو یہ جانتا ہے کہ ہم کس ارادے سے آئے ہیں۔ یہاں ” یُھْرَعُوْنَ اِلَیْہِ“ کے لفظ استعمال ہوئے ہیں۔ جس کی تشریح کرتے ہوئے مفسرین نے لکھا ہے کہ جب اوباش لوگ دوڑتے ہوئے لوط (علیہ السلام) کے گھر کے سامنے پہنچے تو حضرت لوط (علیہ السلام) نے اپنے گھر کے کواڑ بند کرلیے لیکن وہ دیواریں پھلانگتے ہوئے اندر آگھسے۔ جس پر لوط (علیہ السلام) نے انہیں بار بار شرم دلائی مگر ان پر کوئی اثر نہ ہوا۔ حضرت لوط (علیہ السلام) کا یہ فرمان کہ میری بیٹیاں تمہارے لیے حاضر ہیں۔ اس کا یہ معنیٰ نہیں کہ حضرت لوط (علیہ السلام) نے ان کو اپنی بیٹیوں کے ساتھ بدکاری کی دعوت دی تھی۔ وہ ہرگزایسی بات نہیں کہہ سکتے تھے کیونکہ پیغمبر سب سے زیادہ غیرت والا اور سب سے بڑھ کر صاحب حوصلہ ہوتا ہے۔ پیغمبر نازک سے نازک ترین حالات میں بھی اپنی غیرت اور حیاء کے خلاف بات نہیں کرسکتا۔ ان کے فرمان کے مفسرین نے دو معنی لیے ہیں۔ ایک یہ کہ تمہارے گھروں میں جو تمہاری بیویاں ہیں۔ وہ تمہارے لیے حلال ہیں کیونکہ پیغمبر امت کا روحانی باپ ہوتا ہے اس لیے قوم کی بیٹیاں حضرت لوط (علیہ السلام) کی بیٹیاں تھیں۔ دوسرا ان کے فرمان کا مقصد یہ تھا کہ نکاح کے لیے میری بیٹیاں حاضر ہیں۔ جن کے ساتھ تعلقات قائم کرنا تمہارے لیے فطری اور حلال طریقہ ہوگا۔ لیکن بدمعاش کسی طرح بھی سمجھنے کے لیے تیار نہ تھے۔ لواطت کی سزا : ( عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَنْ وَجَدْتُمُوْہُ یَعْمَلُ عَمَلَ قَوْمِ لُوْطٍ فَاقْتُلُوْا الْفَاعِلَ وَالْمَفْعُوْلَ بِہِ )[ رواہ ابو داؤد : باب فیمن عمل عمل قوم لوط] ” حضرت عبداللہ بن عباس (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جسے قوم لوط والا عمل کرتے ہوئے پاؤ تو فاعل اور مفعول دونوں کو قتل کردو۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ کے عذاب کو کوئی نہیں روک سکتا۔ ٢۔ حضرت لوط (علیہ السلام) کو فرشتوں کے متعلق علم نہیں تھا۔ ٣۔ حضرت لوط (علیہ السلام) کی قوم پرلے درجے کی بدکار تھی۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ نے ظالموں کو تباہ و برباد کردیا : ١۔ تمہارے پروردگار کا حکم آچکا اور ان پر نہ ٹلنے والا عذاب آنے والا ہے۔ (ھود : ٧٦) ٢۔ ہم نے تم سے پہلے بستیوں والوں کو ہلاک کیا جب انہوں نے ظلم کیا۔ (یونس : ١٣) ٣۔ کتنی ہی بستیاں ہم نے ہلاک کیں اور وہ ظلم کرنے والی تھیں۔ (الحج : ٤٥) ٤۔ اللہ نے انبیاء کی طرف وحی کی کہ ہم ضرور ظالموں کو ہلاک کریں گے۔ (ابراہیم : ١٣) ٥۔ اللہ ظالم لوگوں کو ہلاک کرتا ہے۔ (الانعام : ٤٧) ٦۔ نہیں ہم نے ہلاک کیں بستیاں مگر ان کے رہنے والے ظالم تھے۔ (القصص : ٥٩) ھود
77 ھود
78 ھود
79 فہم القرآن ربط کلام : اوباشوں کی بے انتہا بدمعاشی پر حضرت لوط (علیہ السلام) کی انتہا درجے کی پریشانی اور اپنی کمزوری پر حسرت کا اظہار۔ حضرت لوط (علیہ السلام) نے انہیں بہت سمجھایا مگر اوباش کہنے لگے کہ ہمیں آپ کی بیٹیوں سے کوئی سروکار نہیں۔ ہم جس کام کے لیے آئے ہیں۔ تو اچھی طرح جانتا ہے۔ حضرت لوط (علیہ السلام) مہمانوں کے سامنے اپنی بے عزتی کو اس قدر محسوس کرتے ہیں کہ ان کی زبان سے بے ساختہ یہ الفاظ نکلے۔ کاش ان کے مقابلے میں میرے پاس طاقت ہوتی یا میں کسی مضبوط سہارے کی پناہ لیتا۔ قوم کی بدمعاشی پر حضرت لوط (علیہ السلام) کی بے بسی اور غم دیکھ کر ملائکہ نے انہیں تسلی دیتے ہوئے کہا اے اللہ کے پیغمبر! آپ کو ان کی بدمعاشی سے ڈرنے اور اس صورت حال پر غم کھانے کی ضرورت نہیں۔ آپ حوصلہ رکھیں۔ ہمیں اللہ تعالیٰ نے اس لیے بھیجا ہے کہ آپ اور آپ کے ایماندار ساتھیوں کے سوا باقی سب کو تہس نہس کردیا جائے۔ جن میں آپ کی بیوی بھی شامل ہوگی۔ کیونکہ یہ سب کے سب برے ہیں۔ ( العنکبوت : ٣٣۔ ٣٤) اے لوط ! ہم اللہ کی طرف سے بھیجے گئے ملائکہ ہیں اس لیے یہ بدمعاش آپ تک نہیں پہنچ سکیں گے۔ آپ رات کے پچھلے پہر اپنے ساتھیوں کو لے کر اس بستی سے نکل جائیں اور انمیں سے کوئی بھی پیچھے مڑ کر نہ دیکھے۔ آپ کی بیوی پر وہی عذاب نازل ہوگا جو بدمعاشوں پر رات کے پچھلے پہرصبح کے قریب نازل ہوگا۔ قرآن مجید کے الفاظ سے ظاہر ہو رہا ہے کہ حضرت لوط (علیہ السلام) اس صورت حال سے اس قدر پریشان تھے کہ وہ پوچھتے ہیں کہ صبح کب ہوگی؟ حالانکہ ملائکہ نے انہیں عذاب کا ٹھیک ٹھیک وقت بتا دیاتھا کہ وہ صبح کے وقت نازل ہوگا اس کے باوجود حضرت لوط (علیہ السلام) پوچھتے ہیں کہ صبح کب ہوگی۔ جس پر ملائکہ عرض کرتے ہیں کہ اے اللہ کے محبوب پیغمبر صبح تو ہوا چاہتی ہے یہ بتلانے کے بعد ملائکہ نے بدمعاشوں کی آنکھیں مسخ کردیں۔ حضرت لوط (علیہ السلام) کا انتہا درجے کی پریشانی اور گھبراہٹ میں یہ کہنا کہ کاش میرے پاس پناہ کے لیے مضبوط سہارا ہوتا۔ اس پر تبصرہ کرتے ہوئے رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تھا کہ اللہ لوط (علیہ السلام) پر رحم فرمائے ان کے پاس تو اللہ کی ذات کا بہت بڑا سہارا تھا۔ (عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نَحْنُ اَحَقُّ بالشَّکِّ مِنْ اِبْرَاھِیْمَ اِذْقَالَ رَبِّ اَرِنِیْ کَیْفَ تُحْیِ الْمَوْتٰی وَیَرْحَمُ اللّٰہُ لُوْطًالَقَدْکَانَ یَأْوِیْ اِلٰی رُکْنٍ شَدِیْدٍ وَلَوْ لَبِثْتُ فِیْ السِّجْنِ طُوْلَ مَا لَبِثَ یُوْسُفُ لَاَجَبْتُ الدَّاعِیَ) [ رواہ البخاری : باب زیادۃ طمانینۃ القلب] حضرت ابوہریرہ (رض) ہی بیان کرتے ہیں کہ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا، ہم حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے زیادہ شک کا حق رکھتے ہیں جب ابراہیم نے التجا کی تھی‘ اے میرے پروردگار مجھے دکھا کہ آپ کس طرح مردوں کو زندہ کرتے ہیں؟ حضرت لوط (علیہ السلام) پر اللہ کی رحمت ہو، وہ بڑی قوت والے کی پناہ میں تھے۔ اگر میں قید خانے میں حضرت یوسف (علیہ السلام) جتنا عرصہ رہتا‘ تو میں بلانے والے کی دعوت فوراً قبول کرلیتا۔ ھود
80 ھود
81 فہم القرآن ربط کلام : قوم لوط پرنازل ہونے والے عذاب کی کیفیت بیان کی جارہی ہے۔ قوم لوط نے نفسانی خواہش اپنی بیویوں سے پوری کرنے کے بجائے لڑکوں سے شروع کر رکھی تھی۔ گویا کہ یہ ہم جنسی کے بدترین گناہ میں مرتکب چکے تھے۔ حضرت لوط (علیہ السلام) کے بار بار سمجھانے کے باوجود باز آنے پر تیار نہ ہوئے۔ بلکہ حضرت لوط (علیہ السلام) کو رجم کردینے کی دھمکی دینے کے ساتھ عذاب الٰہی کا مطالبہ کرتے رہے۔ (أَءِنَّکُمْ لَتَأْتُوْنَ الرِّجَالَ وَتَقْطَعُوْنَ السَّبِیْلَ وَتَأْتُوْنَ فِیْ نَادِیْکُمُ الْمُنْکَرَ فَمَا کَانَ جَوَابَ قَوْمِہِ إِلَّا أَنْ قَالُوْا اءْتِنَا بِعَذَاب اللَّہِ إِنْ کُنْتَ مِنَ الصَّادِقِیْنَ)[ العنکبوت : ٢٩] ” کیا تم لوگ مردوں کے پاس جاتے ہو، راہزنی کرتے اور اپنی مجالس میں برے کام کرتے ہو۔ اس کی قوم کا اس کے سوا کوئی جواب نہ تھا کہنے لگے اگر تو سچا ہے تو ہم پر اللہ کا عذاب لے آ۔“ سورۃ الشعراء کی آیت ١٦٠ تا ١٦٦ میں یوں ارشاد ہوتا ہے کہ : قوم لوط نے بھی پیغمبر کو جھٹلایا جب ان سے ان کے بھائی لوط نے کہا کہ تم کیوں نہیں ڈرتے ؟ میں تمھارے لیے امانت دار پیغمبر ہوں۔ اللہ سے ڈرو اور میرا کہا مانو اور میں تم سے اس کا بدلہ نہیں مانگتا، میرا بدلہ رب العالمین کے ذمہ ہے۔ کیا تم لڑکوں پر مائل ہوتے ہو۔ جو تمھارے پروردگار نے تمھارے لیے جو بیویاں پیدا کی ہیں ان کو چھوڑ دیتے ہو؟ حقیقت یہ ہے کہ تم حد سے بڑھنے والے ہو۔ قوم لوط پر جس علاقے میں عذاب نازل ہوا اسے بحرِمردار کے نام سے جانا جاتا ہے۔ دنیا کے موجو دہ جغرافیے میں یہ بحر مردار اردن کی سر زمین میں واقع ہے۔ جو پچاس میل لمبا، گیارہ میل چوڑا ہے اسکی سطح کا کل رقبہ ٣٥١ مربع میل ہے۔ اسکی زیادہ سے زیادہ گہرائی تیرہ سو فٹ پیمائش کی گئی ہے۔ یہ اسرائیل اور اردن کی سرحد پر واقع ہے۔ اس کا کسی بڑے سمندر کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ گویا کہ یہ ایک بہت بڑی جھیل ہے۔ اس کی نمکیات اور کیمیائی اجزاء عام سمندروں سے کہیں زیادہ ہے۔ اس کے قریب ترین سمندر بحیرہ روم ہے۔ جدید محققین نے اسی جگہ پر لوط (علیہ السلام) کی قوم کی بستیوں کی نشاندہی کی ہے۔ کسی زمانے میں یہاں صدوم عمود کے نام سے بڑے شہر آباد تھے۔ مصرکے محقق شیخ عبدالوہاب البخار نے بھرپور دلائل کے ساتھ یہ ثابت کیا ہے کہ عذاب سے پہلے اس جگہ پر کوئی سمندر نہیں تھا۔ جب اللہ کے عذاب کی وجہ سے اس علاقے کو الٹ دیا گیا تو یہ ایک چھوٹے سے سمندر کی شکل اختیار کر گیا۔ اس کے پانی کی خصوصیت ہے کہ اس میں نمکیات کا تناسب پچیس فیصد ہے۔ جب کہ دنیا کے تمام سمندروں میں نمکیات کا تناسب چار سے چھ فیصد شمار کیا گیا ہے۔ اس کے کنارے نہ کوئی درخت ہے اور نہ ہی اس میں کوئی جانور زندہ رہ سکتا ہے حتی کہ سیلاب کے موقع پر دریائے اردن سے آنیوالی مچھلیاں اس میں داخل ہوتے ہی تڑپ تڑپ کر مر جاتی ہیں۔ اہل عرب اسکو بحیرہ لوط بھی کہتے ہیں۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے قوم لوط کے علاقے کو الٹا دیا۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے قوم لوط پر پتھروں کی بارش برسائی۔ ٣۔ ظالموں کے انجام سے عبرت حاصل کرنی چاہیے۔ ٤۔ حضرت لوط کی بیوی بھی اپنی قوم کے ساتھ تباہ ہوئی۔ تفسیر بالقرآن قوم لوط پر عذاب کی کیفیت : ١۔ جب ہمارا حکم آپہنچا تو ہم نے ان کی بستی کو الٹا دیا اور ان پر پتھروں کی بارش برسا دی۔ (ھود : ٨٢) ٢۔ قوم لوط کو ایک سخت آواز نے پکڑ لیا۔ (الحجر : ٧٣) ٣۔ ہم نے قوم لوط پر پتھروں کی بارش نازل کی دیکھیے مجرموں کا انجام کیسے ہوا۔ (الاعراف : ٨٤) ٤۔ ہم نے قوم لوط پر پتھر برسائے۔ (القمر : ٣٤) ٥۔ قوم لوط پر کنکر کے پتھر برسائے گئے۔ (الذاریات : ٣٣) ھود
82 ھود
83 ھود
84 فہم القرآن ربط کلام : قوم لوط کے انجام کے بعد قوم صالح کے کردار اور انجام کا ذکر۔ قوم مدین کی طرف انہیں میں سے حضرت شعیب (علیہ السلام) کو پیغمبر منتخب کیا گیا اور حضرت شعیب (علیہ السلام) نے اپنی دعوت کا آغاز اسی بات سے کیا جس کی دعوت ان سے پہلے انبیاء دیتے آرہے تھے۔ چنانچہ انہوں نے فرمایا کہ اے میری قوم صرف ایک اللہ کی عبادت کرو۔ اس کے سوا کوئی تمہارا الٰہ نہیں۔ قرآن مجید میں الٰہ کے کئی معانی ہیں۔ جن میں سب سے پہلا معنی ہے کہ وہ ہستی جس کی والہانہ طور پر بندگی کی جائے۔ انتہائی مشکل کے وقت صرف اس کو پکارا جائے اور اس کے سوا کسی کو مشکل کشا اور حاجت روا تسلیم نہ کیا جائے۔ ( سورۃ النحل : ٢ تا ٦٥) کیونکہ یہ صفات صرف ایک اللہ کی ذات میں ہیں اور کسی نبی، ولی، فرشتہ اور دیگر مخلوق میں نہیں ہیں۔ جس بناء پر ہر انسان کو اللہ کی ذات اور صفات پر مکمل ایمان لاکرصرف اسی کی عبادت کرنا چاہیے۔ عبادت کا معنی ہے کہ انسان اپنے آپ کو صرف اور صرف ایک اللہ کی غلامی کے لیے وقف کردے۔ یہی کلمہ طیبہ کے پہلے حصہ کا مفہوم اور تقاضا ہے۔ محمد رسول اللہ کا معنی ہے جو بات حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بتلائی اور کرکے دکھائی ہے ہر کام اس کے مطابق کیا جائے چنانچہ شعیب (علیہ السلام) اپنی قوم کو فرماتے ہیں اے قوم صرف ایک اللہ کی عبادت کرو۔ اس کی بندگی کا تقاضا ہے کہ صرف اسی کی اطاعت وپرستش کی جائے۔ حضرت شعیب (علیہ السلام) اپنی قوم سے فرماتے ہیں کہ ماپ اور تول میں کمی نہ کیا کرو میں دیکھ رہا ہوں حالانکہ تم مال دار ہو۔ یہاں خیر سے مراد دنیا کا مال و متاع ہے۔ حضرت شعیب (علیہ السلام) نے یہ بھی فرمایا کہ میں خطرہ محسوس کرتا ہوں کہ اگر تم کفرو شرک اور ماپ تول میں کمی وبیشی کرنے سے باز نہ آئے تو تم پر ایسا عذاب آئے گا جو تمہیں چاروں طرف سے گھیرلے گا۔ اس سے بچ نکلنا تمہارے بس کی بات نہ ہوگی۔ اے میری قوم ناپ تول میں خیانت کرنے کی بجائے اس کو عدل و انصاف کے ساتھ ناپا اور تولا کرو اور دوسروں کی چیزوں میں کسی طریقہ سے کمی و بیشی نہ کرو۔ یہ سراسر فساد کا راستہ ہے۔ تمہیں ملک میں فساد کرنے سے بچنا چاہیے۔ اللہ نے جو تمہیں خیر و برکت عطا کر رکھی ہے وہ تمہارے لیے کافی ہے اگر تم اس پر ایمان رکھنے والے ہو۔ میں تو تمہیں بار بار نصیحت ہی کرسکتا ہوں۔ کیونکہ میں تم پر نگران نہیں بنایا گیا۔ حضرت شعیب (علیہ السلام) نے اپنے پہلے خطاب میں تین باتیں ارشاد فرمائیں : ١۔ صرف ایک اللہ کی بندگی کرو اور اس کی بندگی میں کسی دوسرے کو شریک نہ کرو۔ ٢۔ لوگوں کا مال کم ناپنے اور تھوڑا تولنے کی بجائے اسے عدل وانصاف کے ساتھ ناپا اور تولاکرو۔ اس میں کسی قسم کی کمی وبیشی نہیں کرنا چاہیے۔ ٣۔ عدل و انصاف کے ساتھ ناپ تول کرنے کے بعد جو تمہارا حق بنتا ہے وہی تمہارے لیے بہتر ہے۔ جہاں تک ماپ تول کا معاملہ ہے کہ کسی کو چیز دیتے ہوئے مقرر شدہ وزن سے کم دینا اور اس سے لیتے ہوئے مقررہ شرائط سے زیادہ لینا یہ بدترین قسم کا معاشی استحاصل ہے۔ اس سے نہ صرف معیشت عدم توازن کا شکار ہوتی ہے بلکہ اس زیادتی سے آپس میں شدید نفرت پیدا ہوتی ہے۔ ظاہر ہے ہر فساد کی ابتدا نفرت سے ہی ہوا کرتی ہے۔ جس سے منع کرتے ہوئے حضرت شعیب (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو تین طریقوں سے سمجھایا۔ ١۔ اے میری قوم کے لوگو! تم مال دار ہو، اس لیے تمہیں خیانت نہیں کرنا چاہیے۔ اس فرمان کا مقصد یہ تھا کہ ایک غریب آدمی کسی وجہ سے خیانت کرے تو اس کے پاس ایک بہانہ ہوتا ہے گو ایسا بہانہ جائز نہیں لیکن تم کس بنیاد پر اس خیانت کے مرتکب ہو رہے ہو؟ تم تو مالدار ہو۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت شعیب (علیہ السلام) کی قوم سرمایہ دار ہونے کے باوجود خائن تھی۔ ٢۔ حلال اور جائز طریقے سے کمایا اور بچایا ہوا مال انسان کے لیے بہتر ہے یعنی بابرکت ہوا کرتا ہے۔ ٣۔ مجھے اللہ نے تمہیں سمجھانے کے لیے بھیجا ہے، تم پر نگران مقرر نہیں کیا۔ (مَا طَفِفَ قَوْمُ الْمِیْزَانَ إلَّا أخَذَہُمُ اللّٰہُ بالسِّنِیْنَ) [ السلسلۃ الصحیحۃ: ١٠٧] ” جو بھی قوم تولنے میں کمی کرتی ہے اللہ تعالیٰ ان پر قحط سالی مسلط فرما دیتا ہے۔“ (وَیْلٌ لِلْمُطَفِّفِینَ۔ الَّذِینَ إِذَا اکْتَالُوا عَلَی النَّاسِ یَسْتَوْفُونَ۔ وَإِذَا کَالُوہُمْ أَوْ وَزَنُوہُمْ یُخْسِرُونَ )[ المطففین : ١۔ ٣] ” ہلاکت ہے کم تولنے والوں کے لیے کہ وہ جب لوگوں سے تول کرلیتے ہیں تو زیادہ لیتے ہیں اور جب ان کے لیے تولتے ہیں یا وزن کرتے ہیں تو کمی کرتے ہیں۔“ مسائل ١۔ مدین والوں کی طرف شعیب (علیہ السلام) کو نبی بنا کر بھیجا گیا۔ ٢۔ حضرت شعیب (علیہ السلام) نے جھوٹے معبودوں کی نفی کی۔ ٣۔ حضرت شعیب (علیہ السلام) نے ایک اللہ کی عبادت کرنے کی دعوت دی۔ ٤۔ حضرت شعیب (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو ناپ تول میں کمی کرنے سے منع کیا۔ ٥۔ حضرت شعیب (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو اللہ کے عذاب سے ڈرایا۔ ٦۔ حضرت شعیب (علیہ السلام) نے قوم کو زمین میں فساد کرنے سے روکا۔ ٧۔ ماپ تول میں کمی کرنا ملک میں فساد کرنے کے مترادف ہے۔ تفسیر بالقرآن نبی نگران نہیں مبلغ ہوتا ہے : ١۔ میں تم پر نگراں نہیں ہوں۔ (ھود : ٨٦) ٢۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کے لیے نگران بنا کر نہیں بھیجے گئے۔ (النساء : ٨٠) ٣۔ اگر اللہ چاہتا تو وہ شرک نہ کرتے اور ہم نے آپ کو ان کے لیے نگران نہیں بنایا۔ (الانعام : ١٠٧) ٤۔ اگر وہ اعراض کریں تو آپ کو ان کا نگہبان بنا کر نہیں بھیجا گیا۔ (الشوریٰ: ٤٨) ٥۔ رسولوں کا کام صرف تبلیغ کرنا ہے۔ (النحل : ٣٥) ٦۔ آپ کا کام تبلیغ کرنا ہے اور حساب لینا ہمارا کام ہے۔ (الرعد : ٤٠) ھود
85 ھود
86 ھود
87 فہم القرآن ربط کلام : حضرت شعیب (علیہ السلام) کو قوم کا جواب۔ مشرکوں اور سچائی کے منکروں کا شروع سے یہ رویہ رہا ہے کہ وہ توحید کو قبول اور حق کو تسلیم کرنے کی بجائے عقیدہ توحید اور حق کے جواب میں نہ صرف انبیاء اور مصلحین پر مختلف قسم کے الزامات لگاتے ہیں بلکہ وہ انبیاء اور مصلحین کے نیک کاموں کو طعنہ کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ حضرت شعیب (علیہ السلام) کی قوم نے بھی یہ روّیہ اختیار کرتے ہوئے کہا کہ اے شعیب کیا تیری نمازیں تجھے یہی سبق سکھاتی ہیں کہ ہم اپنے باپ دادا کے طریقہ عبادت اور ان کے طرز زندگی کو چھوڑ دیں اور تیری وجہ سے ہم اپنا کاروبار اپنی مرضی اور طریقہ کے مطابق نہ کریں۔ یہ باتیں تجھے زیب نہیں دیتیں کیونکہ ہم تجھے بردبار اور نیک سمجھتے ہیں۔ حضرت شعیب (علیہ السلام) نے فرمایا کہ اے قوم! کیا آپ غور نہیں کرتے کہ میں جن کاموں سے تمہیں روکتا ہوں ان سے روکنے کا حکم اور دلائل میرے رب نے مجھے عطا فرمائے ہیں۔ کا مقصد یہ ہے کہ میں تمہیں ان برائیوں سے منع کروں۔ پھر تم یہ بھی غور کرو کہ مجھے تمہارے کاروبار کے ساتھ کوئی حسد اور رشک نہیں۔ کیونکہ میرے رب نے مجھے فراوانی کے ساتھ رزق حلال دے رکھا ہے۔ میں تمہیں کسی کاروباری رقابت یا ذاتی مفاد کی خاطر ان کاموں سے نہیں روکتا۔ بلکہ میرا مقصد تو اپنی ہمت کے مطابق اور محض اللہ کی توفیق سے تمہاری اصلاح کرنا ہے۔ اس کام کے ردّعمل پر میں اللہ پر بھروسہ کرتا ہوں اور ہر حال میں اسی کی طرف رجوع کرنے والا ہوں۔ قوم شعیب کا آپ کو نمازوں کا طعنہ دینا اور آپ کی تعریف کرنا اس لیے تھا کہ ایک شریف آدمی کو دوسرے کے معاملات میں دخل اندازی نہیں کرنی چاہیے اور اسے عبادات کو اپنی ذات کی حد تک رکھنا چاہیے۔ یہی وہ غلط فہمی اور پراپیگنڈہ ہے جو جرائم پیشہ لوگ ابتدا ہی سے کرتے آرہے ہیں۔ کہ جب بھی انہیں سمجھایا جائے تو وہ سمجھانے والے کے اچھے کاموں کا اسے طعنہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ دین کو کاروبار اور سیاست میں دخل انداز نہیں ہونا چاہیے۔ اس طرح تو دینوی اور سیاسی کاموں میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے۔ گویا کہ ان کے نزدیک دین ان کی ترقی میں حائل ہوتا ہے۔ جس بناء پر بالآخر حکمران سیکولر ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ جس کے پردے میں مادر پدر آزاد ہونے کے سوا کوئی بات نہیں ہوتی۔ رزقًا حسنًا : الحسنۃ اس چیز کو کہا جاتا ہے جو انتہائی خوبصورت ہو اور اس کی طرف انسان کا دل مائل ہوجائے یہ دنیا کی کوئی بھی نعمت ہو سکتی ہے اور یہ لفظ نیکی اور خیر کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے کیونکہ نیکی سے بڑھ کر نیک آدمی کو کوئی چیز مرغوب نہیں ہوتی۔ قوم کے طعنے کے جواب میں حضرت شعیب (علیہ السلام) نے قوم کے جواب میں نہایت حکیمانہ طریقے سے چھ باتیں ارشاد فرمائیں جوہر مبلغ کے لیے نہایت ضروری ہیں۔ ١۔ میں اپنے رب کی طرف سے واضح دلیل پر ہوں۔ ٢۔ میرے رب نے مجھے بہترین رزق عنایت فرمایا ہے۔ ٣۔ میں مخالفت برائے مخالفت کی بنیاد پر تمہیں برائی سے منع نہیں کرتا۔ ٤۔ میرا مقصد اپنی ہمت کے مطابق تمہاری اصلاح کرنا ہے۔ ٥۔ میں ہر حال میں اپنے رب پر بھروسہ کرتا ہوں۔ ٦۔ میں ہر حال میں اپنے رب کی طرف رجوع کرتا ہوں۔ مسائل ١۔ بدکار لوگ نیکو کاروں کو نیکیوں کا طعنہ دیتے ہیں۔ ٢۔ برے لوگ نیک لوگوں کا مذاق اڑاتے ہیں۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ انبیاء کو دلائل عطا فرماتا ہے۔ ٤۔ اللہ ہی رزق عطا فرمانے والاہے۔ ٥۔ اپنی ہمت کے مطابق لوگوں کی اصلاح کرتے رہنا چاہیے۔ ٦۔ نیکی کی توفیق اللہ کی طرف سے ملتی ہے۔ ٧۔ انسان کو اللہ پر توکل اور اس کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن مسلمان کو ہر حال میں اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع اور اسی پر بھروسہ کرنا چاہیے : ١۔ میں اللہ پر توکل کرتا ہوں اور اسی کی طرف رجوع کرتا ہوں۔ (ھود : ٨٨) ٢۔ جو شخص اللہ پر بھروسہ کرتا ہے اللہ اسے کافی ہوجاتا ہے۔ (الطلاق : ٣) ٣۔ مومن کو اللہ پر بھروسہ کرنا چاہیے۔ (آل عمران : ١٢٢) ٤۔ ایمان والے اللہ پر بھروسہ کرتے ہیں۔ (الشوریٰ: ٣٦) ٥۔ آپ کو اللہ پر ہی بھروسہ کرنا چاہیے۔ (الاحزاب : ١٨) ھود
88 ھود
89 فہم القرآن ربط کلام : حضرت شعیب (علیہ السلام) کا قوم کو دوسرا جواب اور خدشہ کا اظہار۔ اس سے پہلے حضرت شعیب (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو یہ سمجھایا تھا کہ میں مخالفت برائے مخالفت کی بنیاد پر تمہیں برائی سے نہیں منع کرتا۔ میرا مقصد تو تمہاری اصلاح کرنا ہے۔ مگر قوم ان کی بات سمجھنے کی بجائے تعصب اور ضد کی بنیاد پر مخالفت برائے مخالفت میں آگے ہی بڑھتی گئی۔ اس صورت حال پر جناب شعیب (علیہ السلام) نے انہیں فرمایا کہ اے میری قوم تمہاری مخالفت اور ہٹ دھرمی تمہیں اس مقام پر لاکر کھڑا نہ کردے جس جگہ پر پہنچ کر حضرت نوح، حضرت ھود، حضرت صالح اور حضرت لوط (علیہ السلام) کی قوم تباہ ہوئی تھی۔ جہاں تک قوم لوط کی تاریخ اور کھنڈرات کا تعلق ہے وہ تم سے دور نہیں ہیں۔ اے میری قوم! اپنے رب سے اپنے گناہوں کی معافی اور آئندہ کے لیے سچی توبہ کرو یقیناً میرا رب نہایت ہی مہربان اور بہت ہی زیادہ محبت کرنے والا ہے۔ کسی شخص یا قوم کی گمراہی کی اس وقت کوئی حد نہیں رہتی جب وہ حقیقت سمجھنے کے باوجود تعصب اور ہٹ دھرمی میں آکر مخالفت برائے مخالفت کا وطیرہ اختیار کرلے۔ انبیاء کرام (علیہ السلام) کے ساتھ ان کی اقوام یہی وطیرہ اختیار کرتی تھیں۔ ایسا ہی انداز اہل مکہ نے نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ اختیار کر رکھا تھا۔ بدر کے میدان میں مکی لشکرکے ایک شخص نے ابو جہل سے پوچھا کہ یہ بتائیں کہ کبھی محمد نے ہم سے جھوٹ بولا ہے؟ ابو جہل نے جواب دیا ہرگز نہیں۔ سوال کرنے والے نے کہا اب کیا اس کی عمر چوّ ن (٥٤) سال سے زائد ہونے والی ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کے بارے میں جھوٹ بول سکتا ہے؟ ابو جہل نے کہا بالکل نہیں۔ سوال کرنے والے نے پوچھا کہ ہم پھر اس کی مخالفت کیوں کرتے ہیں؟ ابو جہل نے کہا دراصل اس کے خاندان کے پاس زم زم کا کنٹرول، منیٰ اور عرفات میں حجاج کی خدمت اور دیگر اعزازات ہیں۔ اگر ہم اس کی نبوت کا بھی اقرار کرلیں تو ہمارے پلے کیا رہ جائے گا۔ یہ ہے وہ قومی اور شخصی تعصب جو حقیقت سمجھنے کے باوجود حق قبول کرنے میں رکاوٹ بن جاتا ہے۔ حضرت شعیب (علیہ السلام) نے اس قسم کی عصبیت اور خواہ مخواہ کی مخالفت سے منع کرتے ہوئے اپنی قوم کو فرمایا کہ تم ماضی پر استغفار اور مستقبل کے لیے سچے دل سے توبہ کرو۔ یقیناً میرا رب نہایت ہی مہربان اور بڑا محبت کرنے والا ہے۔ (عَنْ اَبِیْ ھُرَےْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ےَقُوْلُ اللّٰہُ تَعَالٰی اَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِیْ بِیْ وَاَنَا مَعَہُ اِذَا ذَکَرَنِیْ فَاِنْ ذَکَرَنِیْ فِیْ نَفْسِہٖ ذَکَرْتُہُ فِیْ نَفْسِیْ وَاِنْ ذَکَرَنِیْ فِیْ مَلَاأ ذَکَرْتُہُ فِیْ مَلَاأ خَےْرٍ مِّنْھُمْ) [ رواہ البخاری : باب یحذرکم اللہ نفسہ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے میں اپنے بندے کے ساتھ اپنے بارے میں اس کے ظن کے مطابق معاملہ کرتا ہوں۔ وہ جب میرا ذکر کرتا ہے تو میں اس کے ساتھ ہوتاہوں۔ اگر وہ میرا ذکر اپنے دل میں کرتا ہے تو میں اس کو اپنے دل میں یاد کرتا ہوں اور اگر وہ میرا ذکر کسی گروہ میں کرتا ہے تو میں اسکا ذکر اس سے بہتر گروہ میں کرتا ہوں۔“ مسائل ١۔ لوگوں کو اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرتے رہنا چاہیے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ سے ہر حال میں بخشش طلب کرنی چاہیے۔ ٣۔ انسان کو اللہ ہی کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ رحم فرمانے والا اور محبت کرنے والا ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ نہایت رحم فرمانے اور محبت کرنے والا ہے : ١۔ اگر لوگ شکر کریں تو اللہ کو لوگوں کو عذاب دینے سے کوئی فائدہ نہیں پہنچتا۔ (النساء : ١٤٧) ٢۔ میرا پروردگار بڑا رحم فرمانے اور محبت کرنے والا ہے۔ (ھود : ٩٠) ٣۔ اللہ بخشنے اور شفقت کرنے والا ہے۔ (البروج : ١٤) ٤۔ بے شک اللہ تعالیٰ لوگوں کے ساتھ نرمی کرنے اور رحم فرمانے والا ہے۔ (البقرۃ: ١٤٣) ٥۔ تمہارا پروردگار شفقت کرنے اور رحم کرنے والا ہے۔ (النحل : ٤٧) ٦۔ بے شک اللہ تعالیٰ توبہ قبول کرنے اور رحم کرنے والا ہے۔ (النساء : ١٦) ھود
90 ھود
91 فہم القرآن ربط کلام : قوم اور حضرت شعیب کے آپس میں سوال و جواب۔ توبہ استغفار کرنے کی بجائے قوم کے نمائندے حضرت شعیب (علیہ السلام) سے کہنے لگے۔ اے شعیب تیری اکثر باتیں ہماری سمجھ سے بالا تر ہیں۔ آپ ہر روز ہمیں روکتے ٹوکتے ہیں۔ ہم آپ سے نمٹ لیتے اگر آپ کی برادری مضبوط نہ ہوتی ورنہ تیری تو ہم میں کوئی حیثیت نہیں۔ ہم تجھے اپنے میں نہایت کمزور سمجھتے ہیں۔ تو کسی طرح بھی ہم پر غالب نہیں آسکتا۔ حضرت نے اپنی قوم کو جواب دیتے ہوئے فرمایا۔ کیا تمہارے لیے میری برادری اللہ سے زیادہ طاقتور ہے؟ جس اللہ کو تم نے میری برادری کے مقابلے میں پس پشت ڈال رکھا ہے۔ اگر تم باز نہیں آئے تو تم اپنا کام کرو اور مجھے اپنا کام کرنے دو۔ عنقریب تمھیں معلوم ہوجائے گا کہ جھوٹا کون ہے اور کس پر ذلیل کردینے والا عذاب نازل ہوتا ہے۔ یقین جانو کہ میرا رب تمہاری تمام حرکات کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ اس فرمان میں یہ کھلا اشارہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی مہلت سے غلط فائدہ نہ اٹھاؤ اور نہ یہ سمجھو تم اس کے احاطہ قدرت سے باہر ہو۔ یہ تو اس کا اصول ہے کہ وہ ظالموں کو ایک مدت معینہ تک مہلت دیتا ہے۔ تاکہ انہیں گناہ کرنے میں کوئی حسرت باقی نہ رہے۔ ثابت ہوتا ہے کہ دنیا پرست لوگوں کی ہمیشہ سے یہ سوچ رہی ہے کہ وہ رب ذوالجلال سے ڈرنے کی بجائے دنیا کے نقصان اور لوگوں کی طاقت سے ڈرتے ہیں۔ ورنہ کتنے لوگ ہیں جو حقیقت سمجھ جاتے ہیں۔ مگر منفی رائے عامہ کے خوف سے اسے قبول نہیں کرتے۔ اس خوف کو دور کرنے کے لیے حضرت شعیب (علیہ السلام) نے قوم کو سمجھایا کہ بددیانتی چھوڑ کر دیانت اختیار کرو اور شرک سے اجتناب کرتے ہوئے توحید خالص کا عقیدہ اختیار کرو۔ میری برادری سے ڈرنے کی بجائے اللہ تعالیٰ سے ڈرو۔ لوگوں سے ڈرنے کی بجائے اللہ سے ڈرنا چاہیے : (فَلَا تَخْشَوْہُمْ وَاخْشَوْنِی وَلِأُتِمَّ نِعْمَتِی عَلَیْکُمْ وَلَعَلَّکُمْ تَہْتَدُوْنَ )[ البقرۃ: ١٥٠] ” تم ان سے مت ڈرنا اور مجھ ہی سے ڈرتے رہنا تاکہ تم پر اپنی نعمتوں کو پورا کروں اور تم راہ راست پر چلو۔“ مسائل ١۔ حضرت شعیب (علیہ السلام) کی قوم نے انہیں کمزور جانا۔ ٢۔ کافر دنیا والوں کا لحاظ کرتے ہیں عرش والے کا نہیں۔ ٣۔ انبیاء (علیہ السلام) کی دنیاوی وسائل پر نہیں اللہ پر نظر ہوتی ہے۔ ٤۔ کوئی چیز بھی اللہ تعالیٰ کے احاطہ قدرت سے باہر نہیں۔ تفسیر بالقرآن ہر چیز اللہ تعالیٰ کے احاطہ قدرت میں ہے : ١۔ بے شک میرا پروردگار جو تم عمل کرتے ہو اس کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ (ھود : ٩٢) ٢۔ ہر چیز اللہ کے احاطہ علم میں ہے۔ (الطلاق : ١٢) ٣۔ ہمارے رب نے علم کے ذریعے ہر چیز کو گھیرے میں لیا ہوا ہے۔ (الاعراف : ٨٩) ٤۔ بے شک اللہ لوگوں کے اعمال کا احاطہ کرنے والا ہے۔ (آل عمران : ١٢٠) ٥۔ یقیناً اللہ ہر چیز کو گھیرنے والا ہے۔ (حٰم السجدۃ: ٥٤) ٦۔ اللہ ہر چیزکا احاطہ کرنے والا ہے۔ (النساء : ١٢٦) ھود
92 ھود
93 فہم القرآن ربط کلام : قوم کی پے درپے مخالفت اور الزامات کے بعد بالآخر حضرت شعیب (علیہ السلام) مجبور ہو کریہ جواب دیتے ہیں۔ اے میری قوم! تم میرے ساتھ مزید اختلاف کرنے اور میرے راستے میں رکاوٹ بننے کی بجائے اپنے انداز سے عمل کرو اور میں اپنی جگہ مستقل مزاجی سے کام کرتا ہوں۔ بہت جلد تمہیں معلوم ہوجائے گا کہ کس پر رسوا کردینے والا عذاب آتا ہے اور ہم میں سے کون جھوٹا ہے۔ بس تم انتظار کرو بے شک میں بھی تمہارے ساتھ انتظار کرتاہوں۔ انیسویں پارے میں موجود ہے کہ حضرت شعیب (علیہ السلام) نے انہیں یہ بھی فرمایا کہ میری برادری یا کسی اور سے ڈرنے کی بجائے اس ذات کبریا سے ڈرو جس نے تمہیں اور تم سے پہلے لوگوں کو پیدا کیا ہے اس کے جواب میں قوم نے انہیں کہا کہ تم پر تو جادو ہوچکا ہے۔ ہم تیری پیروی کیونکر کریں۔ تو ہمارے جیسا انسان ہے۔ ہم تجھے کذّاب سمجھتے ہیں۔ اگر تو واقعی سچا ہے تو ہم پر آسمان سے کوئی ٹکڑا گرا دے۔ حضرت شعیب (علیہ السلام) نے اس کے جواب میں صرف اتنا فرمایا کہ میرا رب جانتا ہے جو کچھ تم کر رہے ہو۔ انہوں نے شعیب (علیہ السلام) کو کلی طور پر جھٹلادیا۔ (الشعراء : ١٨٤ تا ١٨٩) چنانچہ حضرت شعیب (علیہ السلام) انہیں یہ فرما کر تم اپنی جگہ انتظار کرو۔ میں اپنی جگہ انتظار کرتا ہوں۔ ان سے الگ تھلگ ہوگئے۔ مسائل ١۔ ہر عمل کرنے والے کو اپنے اعمال کا پتہ چل جائے گا۔ ٢۔ قوم شعیب پر ذلیل کردینے والا عذاب آیا۔ ھود
94 فہم القرآن ربط کلام : قوم مدین جرائم سے تائب ہونے کی بجائے حضرت شعیب (علیہ السلام) سے عذاب کا مطالبہ کرتی ہے۔ قوم مدین نے حضرت شعیب (علیہ السلام) کو کلی طور پر ٹھکراتے ہوئے نہ صرف انہیں ان کیگھر سے نکال دینے کی دھمکیاں دیں بلکہ یہ بھی بار بار مطالبہ کیا کہ اگر تو اپنے وعدہ میں سچا ہے تو آسمان کا کوئی ٹکڑا ہم پر گرا دو۔ اس کے نتیجہ میں قوم مدین پر بیک وقت آسمان اور زمین سے عذاب نازل ہوا۔ جس کی کیفیت مفسرین نے یہ لکھی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سات دن تک اس علاقہ کی ہوا کو جامد کردیا۔ سورج کی گرمی اور حبس نے ان لوگوں کو ہلکان کردیا۔ دن کو سکون اور نہ ہی رات کو نیند، جس کی وجہ سے ان کے جسم اکڑ گئے۔ ہوا کی کمی اور گرمی کی شدت کی وجہ سے ان کے لیے سانس لینا اس طرح مشکل ہوگیا۔ جس طرح تپ دق یا دل کا مریض آکسیجن کی کمی کی وجہ سے کھینچ کھینچ کر سانس لیتا ہے۔ بسا اوقات اس طرح سانس لینے سے اس کے سینے کی ہڈیوں سے آوازیں نکلتی ہیں۔ قوم شعیب اس کربناک عذاب سے دوچار کی گئی۔ اس صورت حال میں ساتویں دن آسمان پر کالے بادل آئے اور ان لوگوں نے سمجھا کہ بارش ہونے والی ہے۔ گرمی کی شدت اور حبس کی گھٹن کی وجہ سے لوگ بادلوں کے سائے تلے جمع ہوئے۔ تو آسمان سے کان پھاڑ دینے والی گرج اور زمین سے کلیجہ ہلا دینے والا زلزلہ آیا۔ گویا کہ انہیں اوپر نیچے سے دبوچ لیا گیا۔ اس طرح حضرت شعیب (علیہ السلام) کا فرمان حرف بحرف سچ ثابت ہوا۔ اور ان کی قوم تباہ و برباد کردی گئی۔ انھیں اس طرح ہی رحمت خداوندی سے دور کردیا گیا جس طرح قوم ثمود کو اللہ تعالیٰ نے دھتکار دیا تھا۔ حضرت شعیب (علیہ السلام) کا اپنی قوم کو انتباہ : (وَإِنِّیْ أَخَافُ عَلَیْکُمْ عَذَابَ یَوْمٍ مُحِیْطٍ)[ ھود : ٨٤] ” یقیناً مجھے ڈر ہے تم پر ایسا عذاب آئے گا جو تمہیں ہر طرف سے گھیر لے گا۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت شعیب (علیہ السلام) اور مومنوں کو نجات عطا فرمائی۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ظالم بچ نہیں سکتے۔ ٣۔ مدین والوں کا نام و نشان مٹ گیا۔ ٤۔ مدین والے اللہ کی رحمت سے دور ہوگئے۔ تفسیر بالقرآن قوم مدین کے جرائم : ١۔ قوم مدین شرک جیسے سنگین جرم میں ملوث تھی۔ (ھود : ٨٤) ٢۔ ناپ تول میں کمی و بیشی کرنے والے لوگ تھے۔ (ھود : ٨٥) ٣۔ ڈاکو اور راہ زن تھے۔ (الاعراف : ٨٥) ٤۔ ایمانداروں کو کفر کرنے پر مجبور کرتے تھے۔ (الاعراف : ٨٩) ٥۔ حضرت شعیب پر جھوٹا ہونے کا الزام لگایا۔ ( الشعراء : ١٨٦) ٦۔ حضرت شعیب کو سحر زدہ قرار دیا۔ ( الشعراء : ١٨٥) ٧۔ حضرت شعیب کی پیروی کو نقصان کا باعث قرار دیا۔ (الاعراف : ٩٠) ٨۔ حضرت شعیب کی نماز کو ان کے لیے طعنہ بنایا۔ ( ھود : ٨٧) ٩۔ شعیب (علیہ السلام) کی مخالفت برائے مخالفت کرتے تھے۔ ( ھود : ٨٩) ١٠۔ شعیب (علیہ السلام) کو سنگسار کرنے کی دھمکیاں دیں۔ (ھود : ٩١) ھود
95 ھود
96 فہم القرآن ربط کلام : حضرت شعیب (علیہ السلام) کی قوم اور دوسری اقوام کا انجام بیان کرنے کے بعد حضرت موسیٰ کی قوم کا کردار اور انجام کا مختصر بیان۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کی قوم کی کئی اعتبار سے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کی قوم کے ساتھ مماثلت پائی جاتی ہے۔ جس کی ابتدا موقعہ کی مناسبت سے یوں فرمائی کہ ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو واضح دلائل اور کھلے معجزات کے ساتھ فرعون اور اس کے لیڈروں کی طرف بھیجا۔ کیونکہ فرعون کی قوم اس کے ہر کام کی پیروی کرتی تھی۔ جبکہ فرعون کا کوئی کام بھی اچھا نہ تھا ” الرشید“ کا معنیٰ ہے نیک یا اچھا کام۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے دو عظیم معجزوں سے نوازا۔ عصا پھینکتے تو اللہ کے حکم سے بہت بڑا اژدھا بن جاتا۔ اپنا دایاں ہاتھ بغل میں دبا کر باہر نکالتے تو وہ اس قدر چمکتا ہوا دکھائی دیتا کہ سورج کی روشنی بھی اس کے سامنے ماند پڑجاتی اور موسیٰ (علیہ السلام) جب بنی اسرائیل کی آزادی اور اللہ تعالیٰ کی توحید کے دلائل دیتے تو فرعون اور اس کے لیڈروں کی زبانیں گنگ ہوجاتیں۔ وہ دلائل کا جواب دلائل سے دینے کی بجائے الزامات لگانے کے سوا کچھ نہیں کہہ سکتے تھے۔ فرعون اور اس کے ساتھیوں کے مظالم جب حد سے گزر گئے تو موسیٰ (علیہ السلام) کی بددعا کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے آل فرعون پر یکے بعد دیگرے پانچ عذاب مسلط کیے۔ زبردست سیلاب، ہر جگہ ٹڈیوں کے دَل کے دَل، جوئیں، مینڈکوں کی بہتات اور ہر چیز کا خون سے بھرجانا۔ فرعون اور اس کے ساتھی ہر عذاب کے بعد موسیٰ (علیہ السلام) سے ایمان لانے کے وعدہ پر فریاد کرتے لیکن جب موسیٰ (علیہ السلام) کی دعا کے نتیجہ میں عذاب ٹل جاتا تو پھر پہلے سے زیادہ مظالم ڈھاتے۔ اور فرعون کی تابع داری میں آگے ہی بڑھتے چلے جاتے۔ جس کے بارے میں قرآن مجید واضح انداز میں بتلاتا ہے کہ فرعون اس قدر ظالم اور نافرمان ہوچکا تھا کہ اس کے کسی حکم اور کام میں خیرباقی نہ رہی۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو واضح نشانیاں دے کر بھیجا۔ ٢۔ فرعون کا کوئی کام درست نہ تھا۔ ھود
97 ھود
98 فہم القرآن ربط کلام : جس طرح فرعون اپنی قوم کا دنیا میں لیڈر بنا ہوا تھا اسی طرح ہی آخرت میں جہنم جاتے وقت ان کے آگے آگے ہوگا۔ قرآن مجید اس حقیقت کا انکشاف کرتا ہے کہ جو لوگ دنیا میں کسی جماعت یا قوم کو گمراہ کرنے کا سبب بنتے ہیں اگر یہ سچی توبہ کے بغیر مرجائیں تو قیامت کے دن اپنے گمراہ کردہ ساتھیوں کے ساتھ اللہ کے حضور پیش کیے جائیں گے۔ اسی صورتحال کا فرعون اور اہل فرعون کو سامنا کرنا پڑے گا۔ چنانچہ جب آل فرعون کو جہنم کی طرف جانے کا حکم ہوگا تو وہ فرعون کی قیادت میں جہنم کی طرف دھکیلے جائیں گے۔ قرآن مجید کے مفہوم سے یہ بات اخذ ہوتی ہے جب فرعون اور اس کی قوم کو جہنم جانے کا حکم ہوگا تو ابتدا کسی اچھی امید کے ساتھ وہ خراماں خراماں فرعون کے پیچھے دوڑتے ہوئے جائیں گے لیکن تھوڑی دیر کے بعد جب انہیں جہنم کی دہکتی ہوئی آگ نظر آئے گی۔ تو ایک دوسرے پر لعنت اور پھٹکار کریں گے۔ اس طرح ان کا جہنم میں داخل ہونا بد ترین انداز میں ہوگا۔ جس کے لیے قرآن مجید میں (الرِّفْدُالْمَرْفُوْدُ) کے الفاظ استعمال کیے ہیں جن کا معنی عربی ڈکشنری کے لحاظ سے ہے سہارا۔ گویا کہ جو دنیا میں ایک دوسرے کا سہارا بنے ہوئے تھے وہ سہارا بدترین ثابت ہوگا جس کی وجہ سے لیڈر اور ان کے پیروکار ایک دوسرے کو جہنم میں داخل کرنے کا سبب ثابت ہوں گے۔ لیڈر کا کردار اور انجام : (عَنْ اَبِیْ سَعِیْدٍ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ لِکُلِّ غَادِرٍ لِوَاءٌ عِنْدَ اِسْتِہٖ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ وَفِیْ رَوَایَۃٍ لِکُلِّ غَادِرٍ لِوَاءٌ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ یُرْفَعُ لَہٗ بِقَدَرِ غَدْرِہٖ اَ لَاوَلَا غَادِرَ اَعْظَمُ غَدْرًا مِنْ اَمِیْرِ عَامَّۃٍ) [ رواہ مسلم : باب تحریم الغدر] ” حضرت ابو سعید (رض) بیان کرتے ہیں نبی مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا قیامت کے دن ہر عہد شکن انسان کی مقعد کے نزدیک جھنڈا ہوگا۔ ایک روایت میں ہے ہر عہد شکن کے لیے قیامت کے دن جھنڈا ہوگا، جو اس کی عہد شکنی کے بقدر بلند کیا جائے گا۔ خبردار! سربراہ مملکت سے بڑھ کر کسی کی عہد شکنی نہیں ہوتی۔“ (عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ (رض) قَالَ مَا خَطَبَنَا نَبِیُّ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) إِلَّا قَالَ لَا إِیمَانَ لِمَنْ لَا أَمَانَۃَ لَہٗ وَلَا دینَ لِمَنْ لَا عَہْدَ لَہٗ)[ رواہ احمد] ” حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جب بھی ہمیں خطبہ دیا تو فرمایا جو بندہ امانت دار نہیں اس کا کوئی ایمان نہیں اور جو شخص وعدہ پورا نہیں کرتا اس کا کوئی دین نہیں۔“ مسائل ١۔ قیامت کے دن فرعون کو اس کے لشکر سمیت جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔ ٢۔ جہنم بدترین ٹھکانہ ہے۔ ٣۔ فرعونیوں پر دنیا اور آخرت میں لعنت ہے۔ تفسیر بالقرآن جہنمیوں کا ایک دوسرے پر لعنت بھیجنا : ١۔ دنیا میں بھی لعنت ان کے پیچھے لگی رہی اور قیامت کو بھی لگی رہے گی (ھود : ٩٩) ٢۔ دنیا میں بھی ان پر لعنت ہے اور قیامت کو بھی۔ (ھود : ٦٠) ٣۔ اے ہمارے پروردگار ان کو دوگنا عذاب دے اور ان کو لعنت سے دوچار فرما۔ (الاحزاب : ٦٨) ٤۔ قیامت والے دن بعض بعض کا انکار کریں گے اور ایک دوسرے پر لعنت بھیجیں گے۔ (العنکبوت : ٢٥) ٥۔ اللہ کی کافروں پر لعنت ہے اور اللہ نے ان کے لیے جہنم کو بھڑکا یا ہے۔ (الاحزاب : ٦٤) ھود
99 ھود
100 فہم القرآن ربط کلام : فرعون کا انجام بتلانے کے بعد ارشاد فرمایا کہ ہلاک شدہ اقوام کی دنیا میں بھی تباہی دیکھی جا سکتی ہے۔ یہ وہ بستیاں ہیں جن میں کچھ کے نشانات اور کھنڈرات باقی ہیں۔ کچھ ہیں جن کا نام ونشان مٹادیا گیا ہے یہ جس حالت میں بھی ہیں ہم نے انکے رہنے والوں پر ظلم نہیں کیا یہ تو خود ہی اپنے آپ پر ظلم کرنے والے تھے۔ جب ہمارے عتاب کا کوڑا برساتو جن کو اللہ کے سوا مشکل کشا اور حاجت روا سمجھا کرتے تھے۔ کسی ایک نے انکی مددنہ کی بلکہ یہ انکی بربادی میں اضافہ کا باعث بنے۔ مجرموں کی تباہی میں اضافہ بننے کے دو مفہوم ہیں۔ جن بتوں اور مزارات پر مریدوں کا بھروسہ تھا کہ مشکل آنے پر ہماری مدد کرینگے انہوں نے نہ انکی مددکی اور نہ وہ کرسکتے تھے۔ بلکہ ان سے مشکل کشائی کا عقیدہ رکھنے والے آخر دم تک اس عقیدہ سے توبہ نہ کرسکے۔ اس طرح ان کے مشکل کشا ان کی تباہی میں اضافہ کا سبب ثابت ہوئے۔ دوسرا ” غَیْرَتَتْبِیْبٍ“ کا معنی ہے کہ جن لیڈروں اور غلط پیروں کے پیچھے لگے ہوئے وہ فائدے کی بجائے اپنی اور مریدوں کی تباہی کا پیش خیمہ ثابت ہوئے۔ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! تیرے رب کی پکڑ جب کسی بستی پر نازل ہوتی ہے تو وہ بڑی شدید ہوا کرتی ہے۔ اس میں عبرت کا بڑا سامان ہوتا ہے ان لوگوں کے لیے جو آخرت کی فکر کرتے ہیں جس دن تمام لوگوں کو جمع کیا جائے گا ہر کسی پر گواہ لائے جائیں گے۔ یہ گواہ مجرم کے اپنے اعضاء، موقعہ واردات اور اس کے اعمال نامہ کے ساتھ وہ لوگ ہوں گے۔ جو کسی نہ کسی حوالے سے اس کی بداعمالیوں کو جانتے ہوں گے۔ یہاں تک کہ جس زمین پر گناہ کیا ہوگا وہ بھی گواہی دے گی۔ تفسیر بالقرآن قیامت کے دن مجرم کے بارے میں شہادتیں : ١۔ اس دن تمام لوگوں کو جمع کیا جائے گا اور وہ حاضری کا دن ہوگا۔ (ھود : ١٠٣) ٢۔ افترا پردازی کرنے والوں کے خلاف شہادتیں پیش کی جائیں گی۔ (ھود : ١٨) ٣۔ قیامت کے دن مجرم کے منہ پر مہر لگادی جائے گی ہاتھ اور پاؤں اس کے خلاف گواہی دیں گے۔ ( یٰس : ٦٥) ٤۔ قیامت کے روز ہاتھ، پاؤں اور زبان مجرم کے خلاف شہادت دیں گے۔ ( النور : ٢٤) ٥۔ قیامت کے دن مجرم کے خلاف اس کے کان، آنکھیں اور جسم گواہی دے گا۔ (حٰم السجدۃ: ٢٠) ٦۔ ان کا حساب کتاب لکھا ہوا ہے اور فرشتے ان پر گواہی دیں گے۔ (المطففین : ٢٠۔ ٢١) ٧۔ مجرم کہیں گے ہم اپنے گناہوں کا اعتراف کرتے ہیں وہ خود اپنے خلاف گواہی دیں گے کہ وہ کافرتھے۔ (الانعام : ١٣٠) ھود
101 ھود
102 ھود
103 ھود
104 فہم القرآن ربط کلام : جس دن تمام کے تمام لوگ حاضرہوں گے اور ان پر گواہ پیش کیے جائیں گے۔ اس دن کا پہلا قانون یہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ کی اجازت کے بغیر کوئی بھی بات نہ کر پائے گا۔ قیامت کے دن تمام کے تمام لوگ رب زوالجلال کی عدالت میں دست بستہ پیش کیے جائینگے۔ وہ دن اتنا بھاری اور خوفناک ہوگا۔ کہ حاملہ عورتوں کے حمل ساقط ہوجائیں گے۔ سب لوگوں کی حالت یوں ہوگی جیسے کسی نے انہیں نشہ پلارکھا ہو۔ یہ حالت کسی نشہ کی وجہ سے نہیں بلکہ رب ذوالجلال کے جلال اور خوف کی وجہ سے ہوگی۔ ( الحج : ٢) حضرت جبریل امین (علیہ السلام) اور تمام ملائکہ دم بخودقطار اندر قطار کھڑے ہوں گے۔ کوئی نبی، ولی اور فرشتہ۔ اللہ تعالیٰ سے بات کرنے کی جرأت نہیں کرپائے گا۔ سوائے اس کے جسے اللہ تعالیٰ اجازت عنایت فرمائیں گے اور وہ بھی وہی بات کرپائے گا جس کے کہنے کی اسے اجازت ہوگی۔ یہ دن آکے رہے گا یہ انسان کی مرضی پر ہے کہ وہ اپنے رب کی طرف جانے کے راستہ کو اختیار کرے (النساء : ٣٨۔ ٣٩) دنیا میں لوگوں نے اپنے امتیاز ات قائم کر رکھے ہیں۔ ایک گورا ہے دوسرا کالاہے، کوئی سیّد اور کوئی راجپوت، ایک امیر ہے دوسرا غریب، ایک حکمران ہے اور دوسرا محکوم علیٰ ہذا القیاس۔ قیامت کے دن صرف دو طبقے ہوں گے۔ ایک نیک اور دوسرا بد۔ جنہیں قرآن مجید شقی اور سعید کے لقب سے پکارتا ہے ان میں سے کوئی بھی اللہ جل جلالہ کی اجازت کے بغیر بات نہیں کرسکے گا یہاں تک کہ سرورِدوعالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی اللہ تعالیٰ کی اجازت کے بغیر سفارش نہیں کرسکیں گے۔ آپسفارش کرنے کے لیے پہلے اپنے رب کی بارگاہ میں طویل سجدہ کریں گے نہ معلوم وہ سجدہ کس قدر طویل ہوگا۔ آپ کا ارشاد ہے کہ میں اپنے رب کی وہ تعریف کروں گا جو اسی وقت مجھے القا کی جائے گی۔ یوں آپ کو اجازت مرحمت فرمائی جائے گی۔ قیامت کے دن آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سفارش کرنے کا انداز : ” حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں : نبی مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : قیامت کے دن ایمان دار لوگوں کو روک لیا جائے گا‘ یہاں تک کہ وہ اس وجہ سے پریشان ہو کر کہیں گے کہ کاش ! ہم کسی کو اپنے پروردگار کی خدمت میں سفارشی پیش کریں تاکہ وہ ہمیں اس سے نجات دلائے چنانچہ وہ حضرت آدم (علیہ السلام) کے پاس آئیں گے اور عرض کریں گے‘ کہ آپ آدم ہیں اور سب کے باپ ہیں‘ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنے ہاتھ سے پیدا فرمایا‘ آپ کو جنت میں ٹھہرایا‘ ملائکہ سے آپ کو سجدہ کروایا اور آپ کو تمام چیزوں کے نام بتائے۔ آپ اپنے پروردگار کے حضور ہمارے لیے سفارش کریں تاکہ وہ ہمیں اس مصیبت سے نجات عطا فرمائے حضرت آدم (علیہ السلام) کہیں گے کہ میرا یہ مقام نہیں ہے وہ عذر پیش کرتے ہوئے اپنی اس غلطی کا ذکر کریں گے جو انہوں نے ممنوعہ درخت سے تناول کرکے کی تھی جب کہ انہیں اس کے قریب جانے سے روکا گیا تھا۔ وہ فرمائیں گے کہ تم نوح (علیہ السلام) کے پاس جاؤ ! وہ پہلے پیغمبر ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے زمین پر نبی بناکر بھیجا۔ چنانچہ وہ نوح (علیہ السلام) کے پاس جائیں گے۔ وہ جواب دیں گے کہ میرا یہ مقام نہیں ہے اور وہ اپنی اس غلطی کا ذکر کریں گے جس کے وہ مرتکب ہوئے۔ انہوں نے اپنے پروردگار سے اپنے بیٹے کے بارے میں علم کے بغیرسوال کیا تھا۔ وہ فرمائیں گے کہ تم ابراہیم خلیل الرحمن کے پاس جاؤ۔ آپ نے فرمایا‘ لوگ ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس جائیں گے تو وہ جواب دیں گے‘ کہ میری یہ شان نہیں ہے اور وہ اپنے تین مرتبہ جھوٹ بولنے کا ذکر کریں گے‘ جو ان کی زبان سے نکلے تھے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) فرمائیں گے تم موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس جاؤ‘ وہ ایسے بندے ہیں‘ جن کو اللہ تعالیٰ نے تورات عطا کی اور اللہ تعالیٰ ان سے ہم کلام ہوئے اور ان سے قریب ہو کے سرگوشی فرمائی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تب لوگ موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس جائیں گے تو وہ جواب دیں گے کہ میرا یہ مقام نہیں ہے۔ وہ اپنی اس غلطی کا تذکرہ کریں گے جو ایک شخص کو قتل کرنے کی صورت میں ان سے سرزد ہوئی تھی تم عیسیٰ (علیہ السلام) کے پاس جاؤ جو اللہ تعالیٰ کے بندے ہیں‘ اس کے رسول ہیں‘ روح اللہ ہیں‘ اور اس کے کلمہ ہیں‘ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا‘ تب لوگ عیسیٰ (علیہ السلام) کے پاس جائیں گے‘ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) بھی معذرت کریں گے‘ کہ میرا یہ مرتبہ نہیں ہے۔ تم حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں جاؤ ! وہ ایسے بندے ہیں جن کے اللہ تعالیٰ نے پہلے اور پچھلے گناہ معاف کردیے ہیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا‘ چنانچہ لوگ میرے پاس آئیں گے‘ میں اپنے رب سے اس کی بارگاہ میں حاضر ہونے کی اجازت طلب کروں گا چنانچہ مجھے اللہ تعالیٰ کے ہاں اجازت دے دی جائے گی جب میں اللہ تعالیٰ کو دیکھوں گا تو سجدے میں گر پڑوں گا پس اللہ تعالیٰ مجھے سجدے میں پڑا رہنے دیں گے جب تک اللہ تعالیٰ چاہیں گے پھر اللہ تعالیٰ فرمائیں گے : محمد! سر اٹھاؤ اور کہو آپ کی بات کو سنا جائے گا اور سفارش کریں آپ کی سفارش قبول کی جائے گی اور مانگیں آپ کو عطا کیا جائے گا آپ نے فرمایا چنانچہ میں اپنا سر اٹھاؤں گا اور میں اپنے رب کی پھر حمد و ثنا بیان کروں گا‘ اس کے بعد میں سفارش کروں گا‘ چنانچہ میرے لیے ایک حد مقرر کردی جائے گی۔ میں واپس آؤں گا اور میں انہیں دوزخ سے نکال کر جنت میں داخل کروں گا پھر میں دوسری مرتبہ جاؤں گا اور اپنے رب سے اس کی بار گاہ میں حاضر ہونے کی اجازت طلب کروں گا حاضری کی اجازت عطا کی جائے گی۔ جب میں اپنے رب کو دیکھوں گا تو میں سجدے میں گر پڑوں گا۔ مجھے اللہ تعالیٰ سجدے میں رہنے دیں گے‘ جب تک اللہ تعالیٰ چاہیں گے۔ پھر اللہ تعالیٰ فرمائیں گے اے محمد! سر اٹھائیں اور عرض کریں‘ آپ کی بات سنی جائے گی اور سفارش کریں آپ کی سفارش قبول کی جائے گی اور سوال کریں آپ کا سوال پورا کیا جائے گا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میں اپنا سر اٹھاؤں گا اور میں اپنے رب کی حمد وثناء بیان کروں گا جو اللہ تعالیٰ مجھے سکھلائے گا۔ پھر میں سفارش کروں گا‘ تو میرے لیے ایک حد مقرر کردی جائے گی‘ تو میں بارگاہ عزت سے باہر آؤں گا اور میں لوگوں کو دوزخ سے نکال کر جنت میں داخل کروں گا پھر میں تیسری مرتبہ آؤں گا اور اپنے رب سے اس کی بار گاہ میں حاضر ہونے کی اجازت چاہوں گا تو مجھے اس میں حاضری کی اجازت عطا کی جائے گی جب میں اپنے رب کو دیکھوں گا تو میں سجدہ ریز ہوجاؤں گا پس مجھے اللہ تعالیٰ سجدے میں رہنے دیں گے‘ جب تک اللہ تعالیٰ چاہیں گے کہ وہ مجھے سجدے میں رہنے دیں۔ پھر اللہ تعالیٰ فرمائیں گے‘ اے محمد! سر اٹھائیں اور بات کریں‘ آپ کی بات سنی جائے گی اور سفارش کریں آپ کی سفارش قبول کی جائے گی اور سوال کریں آپ کا سوال پورا کیا جائے گا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میں اپنا سر اٹھاؤں گا اور میں اپنے رب کی حمد و ثناء بیان کروں گا جو اللہ تعالیٰ مجھے سکھلائے گا۔ پھر میں سفارش کروں گا اور میرے لیے ایک حد مقرر کردی جائے گی تو میں بارگاہ رب العزت سے باہر آؤں گا اور میں دوزخیوں کو دوزخ سے نکال کر جنت میں داخل کروں گا۔ یہاں تک کہ دوزخ میں صرف وہی لوگ رہ جائیں گے‘ جن کو قرآن نے روک رکھا ہوگا‘ یعنی ان کے لیے دوزخ میں ہمیشہ ہمیشہ رہنا ثابت ہوچکا ہوگا۔ اس کے بعد آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ آیت تلاوت فرمائی ” عنقریب آپ کو آپ کا رب مقام محمود پر فائز کرے گا اور یہی وہ مقام ہے جس کا اللہ تعالیٰ نے تمہارے نبی سے وعدہ کر رکھا ہے۔“ [ رواہ البخاری : باب قَوْلِ اللَّہِ تَعَالَی (وُجُوہٌ یَوْمَءِذٍ نَاضِرَۃٌ إِلَی رَبِّہَا نَاظِرَۃٌ )] مسائل ١۔ قیامت کا دن مقرر ہے۔ ٢۔ قیامت کے دن اللہ کے حکم کے بغیر کوئی بول نہیں سکے گا۔ ٣۔ محشر میں نیک و بد کو جمع کیا جائیگا۔ تفسیربالقرآن اللہ تعالیٰ کی اجازت کے بغیر کوئی بول نہیں سکے گا : ١۔ اس دن اللہ کی اجازت کے بغیر کوئی کلام نہیں کرسکے گا۔ (ھود : ١٠٥) ٢۔ اللہ تعالیٰ کے سامنے کوئی اس کی اجازت کے بغیر سفارش نہ کرسکے گا۔ ( البقرۃ: ٢٥٥) ٣۔ قیامت کے دن اس کی اجازت کے بغیر کوئی کلام نہیں کرسکے گا۔ (النباء : ٣٨) ھود
105 ھود
106 فہم القرآن ربط کلام : شقی یعنی بدعقیدہ اور برے اعمال والے لوگوں کا انجام۔ یہ بات پہلے بھی عرض کی ہے کہ قرآن مجید کا مستقل یہ اسلوب ہے کہ وہ نیک اور بد، اچھے اور برے، جنت اور جہنم کا ایک دوسرے کے ساتھ ذکر کرتا ہے تاکہ قرآن پاک کی تلاوت کرنے والاشخص بیک وقت اور برمحل فیصلہ کرسکے کہ اسے کونسا عقیدہ اور راستہ اختیار کرنا چاہیے۔ اسی اسلوب کے مطابق یہاں نیک وبد کا بیک محل ذکر کیا جارہا ہے۔ چنانچہ کفر و شرک اور کبیرہ گناہوں کے مرتکب مجرموں کو دہکتی ہوئی آگ میں جھونکا جائے گا جس آگ کے بارے میں قرآن مجید بتلاتا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی جلائی ہوئی آگ ہے جو لوگوں کے کلیجوں پر اتر جائے گی اور مجرموں کو آگ کے ستونوں کے ساتھ جکڑ دیا جائے گا۔ ( ابراہیم : ٤٩) اس آگ میں اس قدر جوش اور شدت ہوگی کہ اس سے گدھے کے ہینگنے کی طرح آوازیں نکلیں گی۔ ” زَفِیْرٌ“ گدھے کے ہینگنے کی ابتدائی آواز کو کہتے ہیں اور ” شَھِیْقٌ“ سے مراد گدھے کی وہ آواز ہے جب اسکے ہینگنے کا اختتام ہوتا ہے تو گلے کی آواز کے ساتھ اس کے سینے کی آواز بھی شامل ہوجاتی ہے۔ جہنم کی آگ کے جوش کی وجہ سے اس طرح آوازیں نکلیں گی۔ مجرم اس وقت تک جہنم میں رہیں گے جب تک زمین و آسمان قائم رہیں گے مگر جسے اللہ تعالیٰ چاہے۔ اللہ تعالیٰ وہی کچھ کرتا ہے جس کا وہ ارادہ فرماتا ہے۔ یہاں جہنمیوں کی سزا کی مدت کا ذکر کرتے ہوئے دو الفاظ استعمال فرمائے ہیں۔ ١۔ جب تک زمین و آسمان قائم رہیں گے جہنمی جہنم میں جلتے اور چلاتے رہیں گے۔ زمین و آسمان سے مراد دنیا کے زمین و آسمان نہیں ہیں یہ تو ختم کردیئے جائیں گے۔ قرآن مجید وضاحت کرتا ہے کہ اس دنیا کے خاتمے کے ساتھ قیامت کے دن دنیا کے زمین و آسمان کے علاوہ اور زمین و آسمان ہوں گے جن کے لیے کوئی فنا نہیں ہوگی۔ (ابراہیم : ٤٨) ٢۔ اس فرمان میں دوسرے الفاظ ” اِلََّامَاشَاءَ رَبُّکَ“ استعمال فرمائے ہیں۔ جن کا لفظی معنی ہے ” مگر تیرا رب جس طرح چاہے“ جس کا عمومی مفہوم یہ ظاہر ہوتا ہے کہ شاید کفار اور مشرکین کو بھی کسی وقت جہنم سے نکال لیا جائے گا۔ اس بارے میں اہل علم کے ذاتی اقوال اور استنباط ہیں۔ کہ ایک مدت کے بعد کفار اور مشرکین کو بھی جہنم سے نکال لیا جائے گا۔ جس کی قرآن و حدیث سے کوئی دلیل نہیں ملتی۔ البتہ عقیدۂ توحید رکھنے والے کبیرہ گناہوں کے مرتکب مجرموں کو ان کی سزا پوری ہونے کے بعد جنت میں داخلہ دیا جائے گا۔ جس کے بارے میں قرآن و حدیث میں مستند دلائل موجود ہیں۔ اس لیے اِلَّامَاشَاءَ رَبُّکَ‘ کا یہی مفہوم لینا چاہیے۔ (عَنْ أَبِیْ سَعِیْدٍ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یُجَاٗٗءُ بالْمَوْتِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ کَأَنَّہُ کَبْشٌ أَمْلَحُ۔۔ یَا أَہْلَ الْجَنَّۃِ ہَلْ تَعْرِفُوْنَ ہَذَا فَیَشْرَءِبُّوْنَ وَیَنْظُرُوْنَ وَیَقُوْلُوْنَ نَعَمْ ہَذَا الْمَوْتُ قَالَ وَیُقَالُ یَا أَہْلَ النَّارِ ہَلْ تَعْرِفُوْنَ ہَذَا قَالَ فَیَشْرَءِبُّوْنَ وَیَنْظُرُوْنَ وَیَقُوْلُوْنَ نَعَمْ ہَذَا الْمَوْتُ قَالَ فَیُؤْمَرُ بِہِ فَیُذْبَحُ قَالَ ثُمَّ یُقَالُ یَا أَہْلَ الْجَنَّۃِ خُلُوْدٌ فَلاَ مَوْتَ وَیَا أَہْلَ النَّارِ خُلُوْدٌ فَلاَ مَوْتَ )[ رواہ مسلم : کتاب الجنۃ] ” حضرت ابو سعید (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا موت قیامت کے دن مینڈھے کی شکل میں لائی جائے گی۔ ابو کریب نے کچھ الفاظ زیادہ بیان کیے ہیں کہ اسے جنت اور جہنم کے درمیان روک لیا جائے گا۔ پھر جنتیوں سے کہا جائے گا کیا تم اسے پہچانتے ہو تو وہ اسے پہچاننے کی کوشش کریں گے اور اس کی طرف دیکھیں گے اور کہیں گے ہاں یہ موت ہے۔ جہنمیوں سے کہا جائے گا کیا تم اسے پہچانتے ہو وہ بھی پہچاننے کی کوشش کریں گے۔ دیکھیں گے اور کہیں گے ہاں یہ موت ہے پھر حکم ہوگا اور اسے ذبح کردیا جائے گا پھر کہا جائے گا اے جنتیو! جنت میں ہمیشہ رہوتمہیں موت نہیں آئے گی۔ اے جہنمیو! جہنم میں ہمیشہ رہو تمھیں بھی موت نہیں آئے گی۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ آیت تلاوت کی اور انہیں حسرت والے دن سے ڈرایئے جب فیصلہ کیا جائے گا۔ وہ غفلت میں ہیں اور ایمان نہیں لائیں گے۔“ مسائل ١۔ بد بخت جہنم میں جائیں گے۔ ٢۔ جہنم میں مجرم چیخ و پکار کریں گے۔ ٣۔ جب تک اللہ چاہے گا مجرم جہنم میں رہیں گے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ جو چاہے سو کرسکتا ہے۔ تفسیر بالقرآن جہنم میں مشرک اور کفار کا ہمیشہ رہنا اور چلانا : ١۔ بدبخت لوگ جہنم میں ہمیشہ چیختے اور چلاتے رہیں گے۔ (ھود : ١٠٦) ٢۔ مجرم لوگ ہمیشہ جہنم میں رہیں گے۔ (الز خرف : ٧٤) ٣۔ جو لوگ ہماری آیات کی تکذیب کرتے ہیں وہ جہنمی ہیں اور اس میں ہمیشہ رہیں گے۔ (البقرۃ: ٣٩) ٤۔ جو لوگ اللہ کی آیات کو جھٹلاتے ہیں اور تکبر کرتے ہیں وہ ہمیشہ جہنم میں رہیں گے۔ (الاعراف : ٣٦) ھود
107 ھود
108 فہم القرآن ربط کلام : جہنمیوں کے بعدنیک لوگوں کا تذکرہ اور ان کا انعام۔ ایک طرف جہنمی اپنے برے عقیدہ اور گھناؤ نے اعمال کی سزا پاتے ہوئے جہنم کے دہکتے ہوئے انگاروں میں گدھے کی طرح آوازیں نکال رہے ہوں گے۔ دوسری طرف صحیح عقیدہ رکھنے اور اس کے مطابق نیک اعمال کرنے والے سعادت مند حضرات، اللہ تعالیٰ کی میزبانی اور جنت کی نعمتوں سے لطف اندوز ہوتے ہوئے اپنے رب کے شکریہ کے ترانے گارہے ہوں گے۔ جب یہ لوگ ایک دوسرے سے ملاقات کریں گے تو اظہار تشکر کے طور پر برملا اعتراف کریں گے کہ ہمارے رب نے ہمارے ساتھ دنیا میں جو وعدے کیے تھے۔ ان سے ہم کئی گنا زیادہ پا رہے ہیں۔ ان کے لیے یہ اعلان ہوگا کہ اب تم ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جنت میں قیام اور آرام کرو گے۔ تمہارے رب کی طرف سے تم پر نہ ختم ہونے والی عطا اور جزا کا سلسلہ جاری رہے گا۔ یہاں پھر ” اِلَّامَاشَآءَ رَبُّکَ“ کے الفاظ استعمال فرمائے ہیں ” مَا شَآءَ“ کا معنی عربی میں سَوَاءٌ کا بھی آتا ہے یعنی کسی چیز کے برابر ہونا جس کا مفہوم یہ ہے کہ جس طرح قیامت برپا ہونے کے بعد نئے زمین و آسمان کو دوام اور ہمیشگی ہوگی اسی طرح جنتیوں کا جنت میں ہمیشہ ہمیشہ قیام ہوگا۔ (عَنْ جَاِبٍر (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اِنَّ اَھْلَ الْجَنَّۃِ یَاْ کُلُوْنَ فِیْھَاوَیَشْرَبُوْنَ وَلَایَتْفُلُوْنَ وَلَایَبُوْلُوْنَ وَلَا یَتَغَوَّطُوْنَ وَلَا یَمْتَخِطُوْنَ قَالُوْا فَمَا بَال الطَّعَامِ قَالَ جُشَآءٌ وَرَشْحٌ کَرَشْحِ الْمِسْکِ یُلْھَمُوْنَ التَّسْبِیْحَ وَالتَّحْمِیْدَ کَمَا تُلْھَمُوْنَ النَّفَسَ) [ رواہ مسلم : باب فی صفات الجنۃ] ” حضرت جابر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا‘ جنتی لوگ جنت میں خوب کھائیں پیئیں گے، نہ تھوکیں گے‘ نہ پیشاب کریں گے‘ نہ رفع حاجت کریں گے اور نہ ہی ناک بہائیں گے۔ صحابہ کرام (رض) نے استفسار کیا تو پھر کھانے کا فضلہ کیا ہوگا؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا‘ کھانے کا فضلہ ڈکار سے ختم ہوجائے گا ان کا پسینہ کستوری کا طرح ہوگا۔ اہل جنت کے دل میں سبحان اللہ‘ الحمد للہ کا الہام کیا جائیگا جیسے تمہاری سانس جاری رہتی ہے۔“ (عَنْ صُھَیْبٍ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ اِذَا دَخَلَ اَھْلُ الْجَنَّۃِ الْجَنَّۃَ یَقُوْلُ اللّٰہُ تَعَالٰی تُرِیْدُوْنَ شَیْءًااَزِیْدُکُمْ فَیَقُوْلُوْنَ اَلَمْ تُبَیِّضْ وُجُوْھَنَا اَلَمْ تُدْخِلْنَا الْجَنَّۃَ وَتُنْجِنَا مِنَ النَّارِ قَالَ فَیُرْفَعُ الْحِجَابُ فَیَنْظُرُوْنَ اِلٰی وَجْہِ اللّٰہِ تَعَالٰی فَمَا اُعْطُوْا شَیْءًا اَحَبَّ اِلَیْھِمْ مِنَ النَّظَرِ اِلٰی رَبِّھِمْ ثُمَّ تَلَا لِلَّذِیْنَ اَحْسَنُوْا الْحُسْنٰی وَزِیَادَۃٌ)[ رواہ مسلم : باب اثبات رؤیۃ المؤمنین] ” حضرت صہیب (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جب جنتی جنت میں داخل ہوجائیں گے۔ اللہ تعالیٰ فرمائیں گے کیا تم مزید کسی نعمت کو چاہتے ہو‘ جو میں تمہیں عطا کروں۔ جنتی عرض کریں گے‘ کیا آپ نے ہمارے چہروں کو روشن نہیں کیا؟ کیا آپ نے ہمیں جنت میں داخل نہیں فرمایا اور دوزخ سے ہمیں نہیں بچایا ہے؟ آپ نے فرمایا‘ تب پردہ اٹھا دیا جائے گا۔ تمام جنتی رب العزت کے چہرے کا دیدار کریں گے۔ انہیں ایسی کوئی نعمت عطا نہیں ہوئی ہوگی‘ جو پر ور دگار کی زیارت سے انہیں زیادہ محبوب ہو۔ اس کے بعد آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ آیت تلاوت فرمائی۔ ” جن لوگوں نے اچھے عمل کیے ان کے لیے جنت ہے اور مزید بھی۔“ مسائل ١۔ نیکو کار جنت میں جائیں گے۔ ٢۔ سعادت مند ہمیشہ جنت میں رہیں گے۔ ٣۔ جنتیوں پر اللہ کی عطا ہمیشہ جاری رہے گی۔ تفسیر بالقرآن جنتیوں کا جنت میں قیام اور آرام ہمیشہ کے لیے ہوگا : ١۔ نیک لوگ جنت میں ہمیشہ رہیں گے اور جو کچھ اللہ نے ان کو عطا کیا ہے ختم نہ ہوگا۔ (ھود : ١٠٨) ٢۔ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرنے والوں کو ہمیشہ کیلئے جنت میں داخل کیا جائے گا۔ (الفتح : ١٧) ٣۔ ایمان والے اور عمل صالح کرنے والے ہمیشہ جنت میں رہیں گے۔ (البقرۃ: ٨٢) ٤۔ ایمان والوں کو جنت میں داخل کیا جائے گا جس میں نہریں بہتی ہیں اور وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔ ( النساء : ٥٧) ٥۔ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرنے والے کو جنت میں داخلہ نصیب ہوگا اور وہ اس میں ہمیشہ رہے گا۔ (النساء : ١٣) ھود
109 فہم القرآن ربط کلام : انبیاء کرام کی دعوت کی یاد دہانی۔ جہنمیوں اور جنتیوں کی سزا، جزا سے پہلے مسلسل انبیاء کرام (علیہ السلام) کی دعوت اور اس کے ردّ عمل کا ذکر ہو رہا تھا۔ جس کے آخر میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور فرعون کی آویزش کا ذکرہوا۔ اب درمیان میں رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مخاطب کرتے ہوئے توجہ دلائی جارہی ہے کہ اے نبی! جن کی یہ لوگ عبادت کرتے ہیں ان کے باطل ہونے کے بارے میں آپ کو کوئی شبہ نہیں ہونا چاہیے۔ یہ تو ان کی محض اس لیے عبادت کرتے ہیں کہ ان سے پہلے ان کے باپ داداعبادت کرتے آرہے ہیں۔ ہم ان کو کسی کمی و بیشی کے بغیر اس کا پورا پورا بدلہ چکائیں گے۔ اس فرمان میں بظاہر رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مخاطب کیا گیا ہے مگر تمام اہل علم کا نقطہ نظر ہے کہ اصل مخاطب اس سے آپ کی امت ہے۔ جس کا مقصد مسئلہ توحید کی افادیت اجاگر کرنا ہے۔ یہ بات سامنے رہے کہ ہر دور کے مشرک اور کفار جنکی وہ عبادت کرتے ہیں۔ جب انہیں اس سے روکا جاتا ہے تو وہ یہ کہہ کر انکار کرتے ہیں کہ ہم ان کی عبادت نہیں کرتے۔ یہ تو پتھر، مٹی یا لکڑی کے مجسمے ہیں۔ ہماری مراد تو ان کی ارواح ہیں۔ جن کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی قربت چاہتے ہیں اور یہ ہماری دعائیں اللہ کے حضور پیش کرتے ہیں۔ قرآن مجید اس طریقہ کو عبادت قرار دیتے ہوئے نہ صرف اس کی تردید اور مذمت کرتا ہے۔ بلکہ اسے اللہ کے ساتھ شرک قرار دیتا ہے۔ جو تمام گناہوں کا منبع اور سب سے بڑا ظلم اور جرم ہے۔ اس طرح کی عبادت کرنے والوں کو ٹھیک ٹھیک سزا دی جائے گی۔ جس کے بارے میں فرمایا ہے کہ انہیں اس کا پورا پورا حصہ دیا جائے گا جس میں کوئی کمی نہ ہونے پائے گی۔ (عَنْ اَنَسٍٖ عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ یَقُوْلُ اللّٰہُ لِاَھْوَنِ اَھْلِ النَّارِ عَذَابًا یَّوْمَ الْقِیَامَۃِ لَوْ اَنَّ لَکَ مَا فِیْ الْاَرْضِ مِنْ شَیْءٍ اَکُنْتَ تَفْتَدِیْ بِہٖ فَیَقُوْلُ نَعَمْ فَیَقُوْلُ اَرَدْتُّ مِنْکَ اَھْوَنَ مِنْ ھٰذَا وَاَنْتَ فِیْ صُلْبِ اٰدَمَ اَنْ لَّا تُشْرِکَ بِیْ شَیْءًا فَاَبَیْتَ اِلَّا اَنْ تُشْرِکَ بِیْ )[ رواہ البخاری : باب خلق آدم ] ” حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا‘ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ دوزخیوں میں سے سب سے ہلکے عذاب والے سے پوچھیں گے اگر تیرے پاس زمین کی چیزوں میں سے کوئی چیز ہوتی تو کیا تو اسے اس عذاب سے چھٹکارے کے بدلے میں دے دیتا ؟ وہ کہے گا کیوں نہیں ! اللہ تعالیٰ فرمائیں گے میں نے تجھ سے اس وقت بہت ہی معمولی مطالبہ کیا تھا۔ جب تو آدم (علیہ السلام) کی پشت میں تھا کہ میرے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہر انا‘ لیکن تو نے انکار کیا اور میرے ساتھ شریک ٹھہراتا رہا۔“ مسائل ١۔ کفار اپنے اباء واجداد کے طور طریقہ پر معبود ان باطل کی پرستش کرتے ہیں۔ ٢۔ ہر کسی کو اس کے اعمال کی پوری جزا یا سزا ملے گی۔ تفسیر با لقرآن ظالموں کو ٹھیک ٹھیک سزا دی جائے گی : ١۔ بے شک ہم ان کو ان کا حصہ بغیر کم و کاست دیں گے۔ (ھود : ١٠٩) ٢۔ قیامت کے دن ہر آدمی کو اس کی کمائی کا پورا پورا صلہ دیا جائیگا۔ ( المومن : ١٧) ٣۔ قیامت کے دن کسی پر ظلم نہ کیا جائیگا اور ہر کسی کو اس کے اعمال کے مطابق صلہ دیا جائیگا۔ ( یٰس : ٥٤) ٤۔ جو آدمی برائیاں کرتا رہا اس کو اسی کی مثل سزا دی جائیگی۔ ( المومن : ٤٠) ٥۔ اللہ بروں کو ان کی برائی کی ٹھیک ٹھیک سزا دے گا۔ (النجم : ٣١) ٦۔ قیامت کے دن تمہیں اسی چیز کا بدلہ دیا جائے گا جو تم عمل کرتے ہو۔ (النمل : ٩٠) ھود
110 فہم القرآن ربط کلام : چند آیات پہلے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے معجزات کے مقابلہ میں فرعون کا رد عمل اور اس کا انجام ذکر ہوا تھا اور اب پھر موسیٰ (علیہ السلام) کا حوالہ دے کر سورۃ ھود کا اختتام ہو رہا ہے۔ فرعون اور اس کی قوم نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی نبوت اور ان کے معجزات کا انکار کیا تھا۔ فرعون سے آزادی ملنے کے بعد جب بنی اسرائیل کو تختیوں کی شکل میں مفصل کتاب عنایت کی گئی تو انہوں نے یہ کہہ کر تورات کا انکار کیا کہ ہم اس وقت تک اس کے منجانب اللہ ہونے کا اقرار نہیں کریں گے۔ جب تک ہم براہ راست اللہ تعالیٰ سے ہم کلام ہونے کا شرف حاصل نہ کرلیں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے بنی اسرائیل کو بہت سمجھایا مگر وہ اپنی بات پر مصر رہے۔ تب مجبور ہو کر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ سے التجا کی۔ جس کے جواب میں موسیٰ (علیہ السلام) قوم کے ستر (٧٠) نمائندوں کو لے کر کوہ طور پر گئے وہاں ان لوگوں کو ایک مختصر مدت کے لیے موت نے آلیا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی دعا کے نتیجہ میں انہیں پھر زندگی عطا ہوئی تفصیل جاننے کیلئے الا عراف ١٥٥ کی تفسیر ملاحظہ فرمائیں۔ فرعون اور بنی اسرائیل کی طرح ہی اہل مکہ اور یہود و نصاریٰ قرآن مجید کے بارے میں اختلاف کرتے ہیں۔ اور بری طرح اس کتاب کے بارے میں ذہنی کشمکش کا شکار ہیں۔ آپ کا رب انہیں ان کے کردار کا پورا پورا بدلہ دے گا۔ کیونکہ وہ ان کے فکر و عمل سے پوری طرح باخبر ہے۔ یہاں اللہ تعالیٰ نے مجرموں کی گرفت کا ایک اصول بیان فرمایا ہے وہ یہ کہ قرآن مجید کے بارے میں اختلاف کرنے والے اور باغی، اللہ کی گرفت اور دسترس سے باہر نہیں ہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے ہر شخص کی سزا اور جزا کا وقت مقرر کر رکھا ہے جب یہ وقت پورا ہوجائے تو ہر کسی کو اس کے فکرو عمل کے مطابق دنیا میں ہی کچھ نہ کچھ جزا یا سزا مل جاتی ہے۔ البتہ کچھ لوگوں کی رسی اللہ تعالیٰ اس قدر دراز کردیتا ہے انہیں دنیا میں کوئی خاص سزا نہیں ملتی۔ ایسے لوگوں کو ان کی موت کے بعد ٹھیک ٹھیک سزا دی جائے گی۔ مسائل ١۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے کتاب دی۔ ٢۔ تورات کے بارے میں یہودیوں نے اختلاف کیا۔ ٣۔ کفار کتاب اللہ کے متعلق شک میں مبتلا رہتے ہیں۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ تمام لوگوں کو ان کے اعمال کا پورا بدلہ دے گا۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ سب کے اعمال کی خبر رکھنے والا ہے۔ تفسیر بالقرآن جزا و سزا کا ایک وقت مقرر ہے : ١۔ تیرے پروردگار کی طرف سے اگر ایک بات پہلے سے مقرر نہ ہوچکی ہوتی تو ان کے درمیان فیصلہ ہوچکا ہوتا۔ (ھود : ١١٠) ٢۔ اگر تیرے پروردگار کی طرف سے پہلے سے بات مقرر نہ چکی ہوتی تو ان کے اختلافات کا فیصلہ ہوچکا ہوتا۔ (یونس : ١٩) ٣۔ اگر تیرے رب کے کلمات سبقت نہ لے چکے ہوتے تو ان لوگوں کے درمیان فیصلہ ہوچکا ہوتا۔ ( حم السجدۃ: ٤٥) ٤۔ تیرے رب کے کلمات اگر سبقت نہ لے جا چکے ہوتے تو ان کے درمیان فیصلہ ہوجاتا۔ (الشوریٰ: ١٤) ٥۔ اگر ایک بات کی تمہارے پروردگار کی طرف سے میعاد مقرر نہ ہوچکی ہوتی تو عذاب لازم ہوجاتا۔ (طٰہٰ: ١٢٩) ٦۔ اس دن سے ڈر جاؤ جس دن تمہیں پورا پورا بدلہ دیا جائے گا اور کسی پر ظلم نہ ہوگا۔ (البقرۃ: ٢٨١) ھود
111 ھود
112 فہم القرآن ربط کلام : کفار کے رد عمل کے مقابلہ میں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو استقامت اختیار کرنے کا حکم۔ کفار، مشرکین اور یہود و نصاریٰ اس حد تک آپ کی مخالفت پر اتر آئے تھے کہ آپ کو صادق و امین ماننے کے باوجود آپ کو کذّاب اور جادو گر قرار دیتے تھے۔ جس کا بحیثیت انسان آپ کو بہت رنج ہوتا تھا۔ آپ کی ڈھارس بندھانے اور مستقل مزاجی کا سبق دینے کے لیے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے متبعین کو مسلسل ہدایات دی گئی ہیں۔ ١۔ جو کچھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوا ہے اس پر قائم رہیے۔ ٢۔ کسی حال میں بھی اللہ کی نازل کردہ وحی سے سرتابی نہیں کرنی۔ ٣۔ ہر دم یہ خیال رہنا چاہییکہ اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال کو دیکھ رہا ہے۔ ٤۔ ظالموں کی طرف کسی حال میں بھی جھکاؤ نہیں ہونا چاہیے۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی خیر خواہ اور مدد کرنے والا نہیں ہوتا۔ استقامت کا معنی ہے کسی طرف جھکنے کی بجائے سیدھا کھڑے رہنا۔ جس کا تقاضا یہ ہے کہ ایک داعی نہ کسی قسم کے دباؤ کی پرواہ کرے اور نہ ہی کسی مفاد اور لالچ کے سامنے جھکے۔ ایسا شخص ہی صحیح معنوں میں حق کا ترجمان اور اس کا پاسبان ہوسکتا ہے۔ اس کی مزید وضاحت کے لیے ” وَلَاتَرْکَنُوْا“ کے الفاظ استعمال فرمائے۔ جس کا معنی ہے کہ دنیا کا کوئی خوف آپ اور آپ کے متبعین کو باطل کے سامنے جھکنے پر مجبور نہ کرسکے۔ اگر تم لوگ جھک گئے تو پھر تمہیں جہنم کی آگ سے کوئی نہیں بچا سکتا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کے مقابلہ میں کوئی تمہارا خیر خواہ اور مددگار نہیں ہوسکتا۔ ظلم سے پہلی مراد اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرنا ہے۔ جس کی سزا جہنم ہوگی۔ ترکنو کا لغوی معنی ہے : محبت اور دلی میلان۔ اور یہاں اس سے مراد یہ ہے کہ ظالموں کی خوشامد مت کرو۔ (ضیاء القرآن، ج : ٢۔ ص : ٣٩٦) (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ (رض) قَالَ لَمَّا نَزَلَتِ (الَّذِینَ آمَنُوا وَلَمْ یَلْبِسُوْا إِیمَانَہُمْ بِظُلْمٍ) قَالَ أَصْحَابُ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) أَیُّنَا لَمْ یَظْلِمْ فَأَنْزَلَ اللّٰہُ (إِنَّ الشِّرْکَ لَظُلْمٌ عَظِیْمٌ) [ رواہ البخاری : کتاب الایمان] ” حضرت عبداللہ (رض) بیان کرتے ہیں جب یہ آیت نازل ہوئی وہ لوگ جو ایمان لائے اور انہوں نے اپنے ایمان کو ظلم کے ساتھ خلط ملط نہیں کیا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ (رض) کہنے لگے ہم میں سے کون ہے جو ظلم نہیں کرتا یعنی ہر انسان سے غلطی ہوجاتی ہے تو اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی ” یقیناً شرک بہت بڑا ظلم ہے۔“ (عَنِ ابْنِ عُمَرَ (رض) اَنَّ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ اَلظُّلْمُ ظُلُمَاتٌ یَّوْمَ الْقِیَامَۃِ) [ رواہ البخاری : باب الظلم] ” حضرت ابن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی گرامی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ظلم قیامت کے دن اندھیرے ہوں گے۔“ مسائل ١۔ اللہ کے حکم پر استقامت اختیار کرنی چاہیے۔ ٢۔ حق کے داعی کو اللہ تعالیٰ کے حکم سے بغاوت نہیں کرنی چاہیے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ ہر کسی کے اعمال کو دیکھنے والا ہے۔ ٤۔ ظالموں کی طرف جھکاؤ نہیں کرنا چاہیے۔ ٥۔ اللہ کے علاوہ کوئی رفیق اور مدد کرنے والا نہیں ہے۔ تفسیر بالقرآن ظلم اور ظالم : ١۔ ظالموں کی طرف نہ جھکیں ورنہ تمہیں بھی جہنم کی آگ چھوئے گی۔ (ھود : ١١٣) ٢۔ اللہ کی مساجد کو ویران کرنے والا ظالم ہے۔ ( البقرۃ: ١١٤) ٣۔ شرک سب سے بڑا ظلم ہے۔ ( لقمان : ١٣) ٤۔ نبی کے بعد نبوت کا دعویٰ کرنے والا ظالم ہے۔ (الانعام : ٩٣) ٥۔ اللہ کی آیات کو جھٹلانے والا ظالم ہے۔ (الاعراف : ٣٧) ٦۔ اللہ نے بستیوں والوں کو ظلم کی وجہ سے ہلاک کردیا۔ (یونس : ١٣) ھود
113 ھود
114 فہم القرآن ربط کلام : داعی کے لیے مزید ہدایات۔ حلقہ اسلام میں داخل ہونے کے بعد پہلا فرض مسلمان پرجو عائد ہوتا ہے۔ وہ پانچ وقت کی نماز کی ادائیگی ہے۔ یہ وہ فرض ہے جو ہوش و حواس قائم ہونے کی صورت میں مسلمان پر لازم ہے۔ نماز ایسا فرض ہے جس کی سب سے زیادہ تاکید کی گئی ہے۔ یہاں ایک خاص پس منظر کے تحت اس کی ادائیگی کا حکم دیا اور اس کا یہ عظیم فائدہ بیان فرمایا ہے کہ نماز کی ادائیگی سے انسان کی برائیاں دور ہوجاتی ہیں۔ یہ فائدہ اور نصیحت ان لوگوں کے لیے ہے جو اس سے مستفیض ہونے کی کوشش اور تمنا رکھتے ہیں۔ یہاں غم اور برائیوں سے بچنے کے لیے نماز کی ادائیگی کے دو اوقات ذکر کیے ہیں۔ جن کے بارے میں جمہور اہل علم کا خیال ہے کہ ان سے مراد صبح اور مغرب کی نماز کا وقت ہے۔ بعض اہل علم نے یہ نقطہ بھی اٹھایا ہے کہ ” زُلف“ کی جمع زُلُفاً ہے جو عربی میں جمع کا لفظ کم از کم تین کے لیے بولا جاتا ہے۔ لہٰذا اس میں عشاء کی نماز بھی شامل ہے۔ بہر حال حکم یہ ہے کہ دن کے اطراف یعنی اختتام اور آغاز پر نماز کا اہتمام کیجئے۔ جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ اگر مسلمان نماز کے تقاضے پورے کرتے ہوئے صبح شام کی نماز ادا کرے تو رات کی پریشانیاں صبح کی نماز کے وقت اور دن بھر کی غمناکیاں مغرب کی نماز کی ادائیگی کے ساتھ ہلکی ہوجائیں گی۔ نماز پڑھنے سے گناہ دور ہونے کے دو مفہوم ہیں۔ سابقہ گناہ معاف ہوجاتے ہیں اور اگر نماز کے تقاضے پیش نظر رہیں تو آدمی آئندہ کے گناہوں سے بھی بچ جاتا ہے۔ (عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَال الصَّلَوَاتُ الْخَمْسُ وَالْجُمُعَۃُ إِلَی الْجُمُعَۃِ کَفَّارَاتٌ لِمَا بَیْنَہُنَّ) [ رواہ مسلم : کتاب الطہارۃ، باب الصَّلَوَاتُ الْخَمْسُ وَالْجُمُعَۃُ إِلَی الْجُمعۃِ ” حضرت ابوہریرہ (رض) سے بیان کرتے ہیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا پانچ نمازیں اور جمعہ سے جمعہ تک کفارہ ہیں ان گناہوں کا، جو ان کے درمیان سرزدہوتے ہیں۔ (عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ۔أَنَّ رَجُلاً أَصَابَ مِنَ امْرَأَۃٍ قُبْلَۃً فَأَتَی النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَأَخْبَرَہُ فَأَنْزَلَ اللّٰہُ (أَقِمِ الصَّلاَۃَ طَرَفَیِ النَّہَارِ وَزُلَفًا مِنَ اللَّیْلِ إِنَّ الْحَسَنَاتِ یُذْہِبْنَ السَّیِّءَاتِ) فَقَال الرَّجُلُ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ أَلِی ہَذَا قَالَ لِجَمِیْعِ أُمَّتِی کُلِّہِمْ) [ رواہ ا لبخا ری : کتاب مواقیت الصلاۃ، باب الصلاۃ کفارۃ] ” حضرت ابن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے کسی عورت کابوسہ لیا۔ پھر وہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا اور اپنے گناہ کے بارے میں بتلایا۔ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی (نماز قائم کرو دن کے کناروں میں اور رات کی گھڑیوں میں بے شک نیکیاں برائیوں کو مٹا دیتی ہیں) پھر اس آدمی نے عرض کی۔ اے اللہ کے رسول ! یہ میرے لیے ہے یا تمام امت کے لیے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تمام امت کے لیے۔“ ” حضرت بریدہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نماز کے اوقات کے بارے میں سوال کیا۔ آپ فرماتے ہیں تم ہمارے ساتھ دو دن نمازیں ادا کرو۔ پہلے دن جب سورج ڈھلا ہی تھا تو بلال کو اذان کا حکم دیا۔ اس کے بعد اقامت ظہر ہوئی پھر بلال (رض) کو نماز عصر کی اقامت کا حکم فرمایا جبکہ سورج کافی بلند اور دھوپ تیز تھی پھر سورج غروب ہوتے ہی مغرب کی نماز کھڑی فرمائی ابھی سورج کی سرخی ختم ہونے ہی پائی تھی تو عشاء کی نماز قائم کرنے کا حکم فرمایا۔ پھر صبح کی نماز کا حکم دیاجبکہ فجر ابھی نمودارہی ہوئی تھی۔ جب دوسرا دن ہوا تو بلال (رض) کو نماز ظہر ٹھنڈی کرنے کا حکم صادر فرمایا۔ اس نے خوب ٹھنڈے وقت میں اذان کہی۔ نماز عصر تاخیر سے ادا فرمائی اسے پہلے دن سے قدرے مؤخر کیا لیکن سورج ابھی بلندی پر تھا۔ نماز مغرب سورج کی روشنی کے آثار ختم ہونے سے پہلے ادا کی۔ جب رات کا تیسرا حصہ گزر گیا تو نماز عشا ادا کی گئی، نماز فجر اس وقت ادا کی جب صبح کی روشنی خوب پھیل چکی تھی۔ اب ارشاد ہوا کہ نمازوں کے اوقات پوچھنے والا کہاں ہے؟ وہ عرض کرتا ہے کہ اللہ کے رسول میں حاضر ہوں۔ فرمایا کہ تمہاری نمازوں کے وقت ان اوقات کے درمیان ہیں۔“ [ رواہ البخاری : کتاب مواقیت الصلٰوۃ] مسائل ١۔ نمازوں کی پابندی کرنے کا حکم ہے۔ ٢۔ نیکیاں برائیوں کو ختم کردیتی ہیں۔ ٣۔ نصیحت حاصل کرنے والے ہی نصیحت حاصل کرتے ہیں۔ تفسیر باالقرآن نماز کے اوقات اور فوائد : ١۔ نماز کی پابندی کیجئے دن کے دونوں کناروں پر اور رات کے کچھ حصوں میں نیکیاں برائیوں کو ختم کردیتی ہیں بے شک نماز بے حیائی اور برے کاموں سے روکتی ہے۔ ( العنکبوت : ٤٥) ٢۔ جو لوگ اللہ کی خوشنودی کیلئے صبر کرتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں ہم ان کے اجر کو ضائع نہیں کرتے۔ (الرعد : ٢٢) ٣۔ نماز قائم کرنے والوں پر کسی قسم کا خوف نہ ہوگا اور نہ وہ غم زدہ ہوں گے۔ (البقرۃ: ٢٧٧) ٤۔ اگر کفار توبہ کریں، نماز قائم کریں، زکوٰۃ ادا کریں تو ان کا راستہ چھوڑ دو۔ (التوبۃ: ٥) ھود
115 فہم القرآن ربط کلام : مبلّغ کو ساتویں ہدایت۔ صبر کا جامع معنی ہے کہ ایک مسلمان ہر حال میں شریعت کے قواعد و ضوابط کی پابندی کرتا رہے اور ہمہ وقت اللہ تعالیٰ کے حضور صبر و شکر کا مظاہرہ کرے۔ لیکن سیاق و سباق کے حوالے سے یہاں صبر کا معنی یہ ہے کہ ایک داعی اور مسلمان پریشانیوں اور مشکلات کے مقابلے میں اپنا حوصلہ قائم رکھے۔ ایسے صابر شخص کو تسلی دینے کے ساتھ خوشخبری سنائی جارہی ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کا اجر کبھی ضائع نہیں کرے گا۔ صبر بے بسی اور بے کسی کا نام نہیں۔ صبر قوت برداشت‘ قوت مدافعت کو بحال رکھنے اور طبیعت کو شریعت کا پابند بنانے کا نام ہے۔ دشمن کے مقابلے میں جرأت‘ بہادری اور مستقل مزاجی کے ساتھ مسائل ومصائب کا سامنا کرنے سے مسائل حل ہوتے ہیں، آخرت میں بغیرحساب و کتاب کے جنت میں داخلہ نصیب ہوگا اور دنیا میں اللہ تعالیٰ کی رفاقت ودستگیری حاصل ہوگی۔ مسائل ١۔ صبر اختیار اختیار کرنے کا حکم ہے۔ ٢۔ نیکو کاروں اور صبر کرنے والوں کا اجر ضائع نہیں ہوتا۔ تفسیر بالقرآن صبر کی حقیقت اور اس کا اجر : ١۔ صبر کیجئے اللہ نیکو کاروں کا اجر ضائع نہیں کرتا۔ (ھود : ١١٥) ٢۔ اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ ( البقرۃ : ١٥٣) ٣۔ صبر کرنے والے کا میاب ہوں گے۔ (المومنون : ١١١) ٤۔ صبر کرنے والے کی آخرت اچھی ہوگی۔ (الرعد : ٢٤) ٥۔ صبر کرنے والوں کو جنت میں سلامتی کی دعائیں دی جائیں گی۔ ( الفرقان : ٧٥) ٦۔ صبر کرنے والے بغیر حساب کے جنت میں جائیں گے۔ ( الزمر : ١٠) ٧۔ اگر تم صبر کرو تو وہ صبر کرنے والوں کے لیے بہترین چیز ہے۔ (النحل : ١٢٦) ٨۔ صبر کرو یقیناً اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ (الانفال : ٤٦) ٩۔ بہت سی چھوٹی جماعتیں بڑی جماعتوں پر غالب آجاتی ہیں۔ یقیناً اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ (البقرۃ: ٢٤٩) ھود
116 فہم القرآن ربط کلام : پہلی اقوام کی تباہی کے دو بنیادی اسباب۔ اس سورۃ مبارکہ میں حضرت نوح، حضرت ھود، حضرت لوط، حضرت صالح، حضرت شعیب، اور حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کی اقوام کی تباہی اور اس کی وجوہات کا ذکر کیا گیا ہے۔ آخر میں موسیٰ (علیہ السلام) کے مقابلے میں فرعون کا انجام بیان کرنے کے بعد سرور دوعالم کو مخاطب کرتے ہوئے آپ اور آپ کی امت کے مبلغین کو چند بنیادی ہدایات دیتے ہوئے فرمایا کہ حق کے راستے میں آنے والی ذہنی جسمانی اور مالی مشکلات پر صبر کرتے رہیے۔ اس یقین کے ساتھ کہ اللہ تعالیٰ کسی نیکی کرنے والے کے اجرو ثواب کو ضائع نہیں کرتا۔ اس کے بعد پہلی اقوام کی تباہی کے دو بنیادی اسباب کی نشاندہی کرتے ہوئے فرمایا کہ ان لوگوں میں انبیاء کرام (علیہ السلام) کی بے مثال اور انتھک کوشش کے باوجود ایسے لوگ کیوں نہ تیار ہوئے جو ان کو ملک میں دنگا فساد کرنے سے روکتے۔ جنہوں نے دنیا پرست ظالموں کی پیروی کی اور مجرمانہ طرز عمل اختیار کیا۔ ان کی تباہی کا سبب ان کا اپنا کردار تھا۔ اگر یہ اپنے آپ پر ظلم نہ کرتے تو اللہ تعالیٰ کبھی انہیں اس انجام سے دو چار نہ کرتا کیونکہ وہ اصلاح کرنے والوں کو کبھی ہلاک نہیں کرتا۔ کسی قوم کی بقا اور اس کے ارتقاء کے لیے لازم ہے کہ اس میں اصلاح احوال کے لیے ایک منظم جماعت موجود ہو۔ اللہ تعالیٰ افراد کی انفرادی اور ذاتی کمزوریوں سے در گزر کرلیتا ہے لیکن جب انفرادی کمزوریاں جرائم کی صورت اختیار کرتے ہوئے اجتماعی شکل اختیار کرلیں اور ان کی اصلاح کرنے والی کوئی منظم جماعت بھی پیدا نہ ہو۔ تو اس قوم کا وجود دنیا میں کینسر کی صورت اختیار کرلیتا ہے۔ جس کے منفی اثرات ہر جاندار یہاں تک کہ بلوں میں رہنے والی چیونٹیاں بھی محسوس کرتی ہیں۔ اس صورت حال کو بدلنے اور دنیا کے نظام کو متوازن اور ہموار رکھنے کے لیے ظالم قوم کو تباہی کے گھاٹ اتار کرانبیاء اور ان کے ساتھیوں کو بچا لیا جاتا ہے۔ عذاب عام کے وقت نیک لوگوں کو بچانے کا وعدہ انبیاء اکرام کی ذات کے ساتھ مشروط ہوا کرتا تھا۔ جب تک نبی کسی قوم میں موجود ہو اللہ تعالیٰ اس کی موجودگی میں بد سے بد ترین قوم پر بھی عذاب نازل نہیں کرتا۔ جس کا ثبوت انبیاء کرام یکے بعد دیگرے رخصت ہوچکے۔ اب اللہ تعالیٰ کا اصول یہ ہے وہ چاہے تو برے لوگوں کے ساتھ نیک لوگ بھی اس تباہی اور عذاب میں سپرد خاک ہوجائیں۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا حکم : ” حضرت ابوسعید خدری (رض) نبی محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا‘ تم میں سے جو برائی دیکھے اسے چاہیے کہ وہ اس کو اپنے ہاتھ سے روکے۔ اگر اس کی طاقت نہ ہو تو زبان سے‘ اگر اس کی بھی طاقت نہ ہو تو پھر کم از کم دل سے نفرت کرے۔ یہ سب سے کمزور ایمان ہے۔“ [ رواہ مسلم : باب امر بالمعروف] مسائل ١۔ سابقہ امم میں فساد سے روکنے والے لوگ بہت کم تھے۔ ٢۔ ظالموں کو دنیا کی عیش پرستی سے فرصت نہیں ملتی۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ اصلاح کرنے والوں کو ہلاک نہیں کرتا۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ کسی پر ظلم نہیں کرتا : ١۔ اللہ کسی پر کوئی ظلم نہیں کرتا۔ (یونس : ٤٤) ٢۔ بے شک اللہ کسی پر رائی کے دانے کے برابر بھی ظلم نہیں کرتا۔ (النساء : ٤٠) ٣۔ اللہ اپنے بندوں کے ساتھ ظلم کا ارادہ نہیں رکھتا۔ (المومن : ٣١) ٤۔ بے شک اللہ بندوں کے ساتھ ظلم نہیں کرتا۔ (الحج : ١٠) ٥۔ قیامت کے دن ہم عدل وانصاف کا ترازو قائم کریں گے اور کسی جان پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔ (الانبیاء : ٤٧) ٦۔ جو تم اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہو اس کا تمہیں پورا پورا صلہ دیا جائے گا اور تم پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔ (البقرۃ: ٢٧٢) ٧۔ اللہ ان پر ظلم نہیں کرتا لیکن وہ اپنی جانوں پر خود ہی ظلم کرتے ہیں۔ (التوبۃ: ٧٠۔ العنکبوت : ٤٠۔ الروم : ٩) ھود
117 ھود
118 فہم القرآن ربط کلام : لوگوں کی ہدایت اور گمراہی کے معاملہ میں اللہ تعالیٰ کا اصول اور اس کی مشیّت۔ اس سے پہلے آیت نمبر ١١٥ میں اللہ تعالیٰ نے یہ فرما کر اپنے حبیب (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو صبر کی تلقین فرمائی کہ حوصلہ رکھیے اور صبر کیجیے کہ اللہ تعالیٰ نیک لوگوں کے اجر کو کبھی ضائع نہیں کرے گا۔ یہاں دوسرے پیرائے میں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دی جا رہی ہے کہ آپ کے رب کا اصول اور اس کی مشیت ہے کہ اس نے لوگوں کو جبراً ایک امت نہیں بنایا یعنی ہدایت پر اکٹھا نہیں کیا اسی اصول کے پیش نظر لوگ ہمیشہ سے حق والوں کے ساتھ اختلاف کرتے آئے ہیں اور تاقیام قیامت اختلاف کرتے رہیں گے سوائے اس فرد اور جماعت کے جس پر آپ کا رب رحم فرما دے۔ لوگوں کے اختلافات کی فطری وجہ بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو مختلف طبائع کے ساتھ پیدا کیا ہے۔ آپ کے رب کا فرمان سچ ثابت ہوگا کہ وہ بے شمار باغی جنوں اور انسانوں کے ساتھ جہنم کو بھرے گا۔ قرآن مجید میں یہ اصول مختلف الفاظ میں کئی مرتبہ بیان ہوا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہدایت کے بارے میں کسی پر جبر نہیں کرتا۔ اس نے ہر انسان کو عقل و فکر اور ایک حد تک آزادی عنایت فرمائی کہ جس میں رہ کر ہر انسان کو کفرو شرک، ہدایت اور گمراہی کے درمیان فیصلہ کرنا ہے۔ یہ آزادی فکر اس لیے عنایت کی ہے کیونکہ اس نے انسان کو عقل و فکر کے ساتھ پیدا فرمایا ہے۔ لیکن اس کا یہ معنی نہیں کہ کچھ انسان فطری طور پر گمراہ پیدا ہوتے ہیں۔ جس وجہ سے وہ زندگی بھر گمراہی کا راستہ اختیار کیے رکھتے ہیں ایسا ہرگز نہیں کیونکہ اللہ نے انسان کو فطری طور پر حق اور ہدایت پر پیدا فرمایا ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ ایک انسان میں طبیعت کے بعض پہلوؤں کے اعتبار سے منفی قوت زیادہ ہوتی ہے جو اس کے لیے بطور آزمائش ہوتی ہے۔ منفی قوت پر قابو پانے اور آزمائش میں سرخرو ہونے میں ہی کامیابی ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو عقل و شعور کی قوت دینے کے ساتھ قرآن و سنت کی شکل میں مفصل ہدایت نامہ عطا فرمایا ہے تاکہ ہر انسان اس کے مطابق اپنی منفی قوتوں پر قابو پائے اور طبعی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے ہدایت کے راستے پر گامزن رہے۔ (عَنْ اَبِیْ ہُرَےْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَا مِنْ مَّوْلُوْدٍ اِلَّا ےُوْلَدُ عَلَی الْفِطْرَۃِ فَاَبَوَاہُ ےُھَوِّدَانِہٖ اَوْ ےُنَصِّرَانِہٖ اَوْ ےُمَجِّسَانِہٖ کَمَا تُنْتَجُ الْبَھِےْمَۃُ بَھِےْمَۃً جَمْعَآءَ ھَلْ تُحِسُّوْنَ فِےْھَا مِنْ جَدْعَآءَ ثُمَّ ےَقُوْلُ ” فِطْرَۃَ اللّٰہِ الَّتِیْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَےْھَا لَا تَبْدِےْلَ لِخَلْقِ اللّٰہِ ذَالِکَ الدِّےْنُ الْقَےِّمُ“ ) [ رواہ البخاری : باب اذا اسلم الصبی فمات] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہر بچہ فطرت اسلام پر پیدا ہوتا ہے۔ اس کے والدین اس کو یہودی‘ عیسائی یا مجوسی بنا دیتے ہیں جس طرح چارپائے اپنے بچے کو تام الخلقتجنم دیتے ہیں۔ کیا تم ان میں سے کسی بچے کو کان کٹا پاتے ہو؟ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے آیت تلاوت کی۔” اللہ کی فطرت ہے جس پر اللہ نے لوگوں کو پیدا کیا ہے اللہ کی تخلیق میں تبدیلی نہیں ہے یہ بالکل سیدھا اور درست دین ہے۔“ مسائل ١۔ اختلاف کرنے والے ہمیشہ موجود رہیں گے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ کی ہر بات پوری ہوتی ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ جس پر رحمت فرماتا ہے وہ حق کے ساتھ اختلاف کرنے سے اجتناب برتتا ہے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ باغی جنوں اور انسانوں سے جہنم کو بھریں گے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ کسی کو جبراً ہدایت نہیں دیتا : ١۔ اگر آپ کا پروردگار چاہتا تو سب کو ایک ہی امت بنا دیتا لیکن لوگ ہمیشہ ہی اختلاف کرتے رہیں گے۔ (ھود : ١١٨) ٢۔ اگر اللہ چاہتا تو انہیں ہدایت پر جمع فرما دیتا پس آپ جاہلوں میں سے نہ ہوں۔ (الانعام : ٣٥) ٣۔ اگر اللہ چاہتا تو تمہیں ضرور ہدایت دیتا۔ (الانعام : ١٤٩) ٤۔ اگر تیرا رب چاہتا تو سارے کے سارے لوگ مومن ہوجاتے۔ (یونس : ٩٩) ٥۔ اللہ جسے چاہتا ہے صراط مستقیم کی طرف ہدایت دیتا ہے۔ (البقرۃ: ٢١٣) ھود
119 ھود
120 فہم القرآن ربط کلام : سرور دو عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تیسری مرتبہ پھر تسلّی اور حوصلہ دیا گیا ہے۔ دین کا داعی وقت کا پیغمبر ہو یا ایک عام مبلغ اس کے راستے میں بہرحال ایسے مشکل مقام آتے ہیں۔ جن کا سامنا کرتے ہوئے دل پسیجتا ہے اور اسے اپنا حوصلہ ٹوٹتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ ڈھارس اور اطمینان دلانے کے لیے اس کے سامنے دنیا سے رخصت ہونے والے عظیم لوگوں کے عظیم الشان کارنامے بیان کیے جائیں تو اس کے ایمان میں اضافہ ہوتا ہے۔ اور وہ اپنی قوت کار میں اضافہپاتے ہوئے منزل مقصود کے لیے ان واقعات کو اپنے لیے مشعل راہ سمجھتا ہے۔ بے شک نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سرور دو عالم تھے مگر ایک انسان ہونے کے ناطے حوصلہ افزا معاملات سے آپ کا دل ڈھارس حاصل کرتا۔ اور منفی رد عمل سے آپ کو غم اور پریشانی لاحق ہوتی تھی۔ جسے دور کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے پہلے انبیاء کرام کے واقعات بیان فرمائے ہیں۔ آپ کے حسب حال کچھ انبیاء کے واقعات مختصر اور باقی کے قدرے تفصیل کے ساتھ بیان کیے ہیں۔ جنہیں آپ کے لیے اطمینان کا باعث قرار دیتے ہوئے حق کی تائید میں ٹھوس دلائل دیے ہیں تاکہ لوگوں کے دل حق کی طرف مائل ہوں اور عبرت حاصل کرنے والوں کے لیے بہترین نصیحت کا مواد موجود ہے۔ اس کے باوجود اگر لوگ ایمان لانے کے لیے تیار نہیں ہوتے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ارشاد ہے کہ آپ انہیں فرمائیں کہ حق کا انکار کرنے والو! میرے ساتھ مزید الجھنے اور حق کے راستہ میں رکاوٹ بننے کی بجائے تم اپنے کام کیے جاؤ اور مجھے اپنا کام کرنے دو۔ اس کے نتیجے کا تم بھی انتظار کرو اور میں بھی اپنی جگہ انتظار کرتا ہوں۔ (عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ (رض) قَالَ کَانَ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یُکْثِرُ أَنْ یَّقُوْلَ اللَّہُمَّ ثَبِّتْ قَلْبِی عَلَی دینِکَ فَقَالَ رَجُلٌ یَا رَسُول اللَّہِ تَخَافُ عَلَیْنَا وَقَدْ آمَنَّا بِکَ وَصَدَّقْنَاکَ بِمَا جِءْتَ بِہِ فَقَالَ إِنَّ الْقُلُوبَ بَیْنَ إِصْبَعَیْنِ مِنْ أَصَابِعِ الرَّحْمَنِ عَزَّ وَجَلَّ یُقَلِّبُہَا وَأَشَا رَ الأَعْمَشُ بِإِصْبَعَیْہِ) [ رواہ ابن ماجۃ: باب دعاء الرسول] ” حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اکثر یہ دعا مانگا کرتے تھے اے اللہ میرے دل کو دین پر قائم فرما، ایک آدمی کہنے لگا اے اللہ کے رسول ! آپ ہمارے بارے میں ڈرتے ہیں جبکہ ہم آپ پر ایمان لائے ہیں اور آپ کی تصدیق کی ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا یقیناً دل رحمن کی دوانگلیوں کے درمیان ہیں وہ انہیں جدھر چاہتا ہے پھیر دیتا ہے اور اعمش نے اپنی انگلیوں کے ساتھ اشارہ کیا۔“ مسائل ١۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دل کو تقویت دینے کے لیے سابقہ انبیاء کے قصے بیان کیے گئے۔ ٢۔ سابقہ انبیاء و رسل کے قصے برحق ہیں۔ ٣۔ انبیاء (علیہ السلام) کے قصص میں مومنین کے لیے نصیحت ہے۔ ٤۔ ایمان نہ لانے والوں کو عنقریب سب کچھمعلوم ہوجائے گا۔ تفسیر بالقرآن قرآن مجید کے بیان کردہ واقعات کی حیثیت : ١۔ قرآن مجید کے بیان کردہ واقعات سچے ہیں ان میں اہل ایمان کے لیے نصیحت ہے۔ (ھود : ١٢٠) ٢۔ بے شک یہ قصے بالکل برحق ہیں اور اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں۔ (آل عمران : ٦٢) ٣۔ ہم ان کی خبریں آپ پر حق کے ساتھ بیان کرتے ہیں۔ (الکہف : ١٣) ٤۔ ہم آپ پر سابقہ امم کی خبریں بیان کرتے ہیں۔ (طہٰ: ٩٩) ٥۔ ہم نے آپ سے پہلے ان میں رسول بھیجے ان میں سے بعض کے واقعات ہم نے آپ پر بیان کیے۔ (المومن : ٧٨) ھود
121 ھود
122 ھود
123 فہم القرآن ربط کلام : گزشتہ سے پیوستہ۔ اس فرمان میں ایک طرف یہ بیان کیا گیا ہے کہ ایک مسلمان کا عقیدہ کیا ہونا چاہیے اور دوسری طرف داعی حق کے لیے تسلی ہے کہ جو خدمت وہ سرانجام دے رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس سے غافل نہیں ہے۔ انجام کار اور صلہ اس کی جناب میں موجود ہے۔ لہٰذا نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ آپ دل چھوٹا کرنے اور مخالفین کی مخالفت کی طرف دھیان دینے کی بجائے اپنے رب کی عبادت یعنی اس کی یاد میں مگن رہیں اور اس کی ذات پر بھروسہ اور اعتماد رکھیں۔ آپ کا رب نہ آپ کی بے مثال محنت واخلاص سے غافل ہے اور نہ ہی حق کے منکروں اور آپ کی مخالفت کرنے والوں کی سازشوں اور شرارتوں سے بے خبر ہے۔ توکل کا معنی ہے کسی پر اعتماد اور بھروسہ کرنا۔ توکل علی اللہ کا مفہوم ہے کہ بندہ اپنے خالق و مالک پر کامل اعتماد و یقین کا اظہار کر ے۔ جو اپنے رب پربھروسہ اور توکل کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے لیے کافی ہوجاتا ہے اور اس کی مشکلات آسان کردیتا ہے۔ لہٰذا تنگی اور آسانی‘ خوشی اور غمی میں اللہ تعالیٰ پر بھروسہ رکھیے۔ یہ غموں کا تریاق اور مشکلات کا مداوا ہے۔ (وَمَنْ یَّتَوَ کَّلْ عَلَی اللّٰہِ فَھُوَحَسْبُہُ إِنَّ اللّٰہَ بَالِغُ أَمرِہٖ قَد جَعَلَ اللّٰہُ لِکُلِّ شَیءٍ قَدرًا) [ الطلاق : ٣] ” جو اللہ پربھروسہ کرے اس کے لیے اللہ کافی ہے۔ اللہ اپنا حکم نافذ کرکے رہتا ہے اس نے ہر چیز کے لیے ایک اندازہ مقرر کر رکھا ہے۔“ (وَعَلَیْہِ فَلْیَتَوَکَّلِ الْمُتَوَکِّلُوْنَ) [ یوسف : ٦٧] ” اس پر ہی بھر وسہ کرنے والوں کو اعتماد کرنا چا ہیے۔“ قرآن و سنت کی روشنی میں توکل کا کامل تصور یہ بنتا ہے کہ وسائل اور اسباب کو استعمال کرتے ہوئے۔ کام کا نتیجہ اور انجام اللہ کے سپرد کیا جائے۔ توکل پریشانیوں سے نجات پانے کا پہلا ذریعہ ہے جس کا اللہ تعالیٰ پر اعتماد اور توکل ہی نہیں اس کے مسائل کس طرح حل ہوں گے۔ اس لیے حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے جب اپنے جواں سال بیٹوں کو شہرِمصر کی طرف روانہ کیا تو اس وقت کچھ ہدایات دیتے ہوئے فرما یا کہ تمہیں شہر میں داخل ہونے کے لیے ایک ہی راستہ اختیار نہیں کرنا چاہیے۔ میری طرف سے یہ احتیاطی تدابیر ہیں۔ انجام کار تو اللہ ہی کے اختیار میں ہوا کرتا ہے۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ زمین و آسمان کے غیب کو جانتا ہے۔ ٢۔ تمام معاملات اللہ تعالیٰ کی دسترس میں ہیں۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ کی ہی عبادت کی جائے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ پر ہی توکل کیا جائے۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ لوگوں کے اعمال سے غافل نہیں۔ تفسیر بالقرآن ہر حال میں اللہ تعالیٰ پر توکل کرنا چاہیے : ١۔ اللہ کی عبادت کرو اور اسی پر توکل کرو۔ (ھود : ١٢٣) ٢۔ جب کسی کام کا عزم کرو تو اللہ پر توکل کرو۔ (آل عمران : ١٥٩) ٣۔ جو شخص اللہ پر توکل کرتا ہے اللہ اس کو کافی ہوتا ہے۔ (الطلاق : ٣) ٤۔ مومنوں کو اللہ پر توکل کرنے کا حکم ہے۔ (المجادلۃ: ١٠) ٥۔ انبیاء اور نیک لوگ اللہ پر توکل کرتے ہیں۔ (یوسف : ٦٧) ٦۔ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اللہ پر توکل کرنے کی نصیحت کی گئی۔ (النمل : ٧٩) ٧۔ حضرت نوح نے فرمایا میں نے اللہ پر توکل کیا ہے تم اپنی تدبیریں اور شریک جمع کرکے زورلگالو۔ (یونس : ٧١) ٨۔ حضرت ہود نے فرمایا میں نے اپنے اللہ پر توکل کیا ہے جو میرا اور تمہارا رب ہے۔ (ہود : ٥٦) ھود
0 بسم اللہ الرحمن الرحیم تعارف سورۃ یوسف اس سورۃ مبارکہ کی ابتدا میں یہ فرما کر قرآن مجید کا تعارف کروایا گیا ہے کہ قرآن مجید ایسی کتاب ہے جو اپنا مدعا اور مفہوم کھلے انداز میں بیان کرتی ہے۔ جس کی تفسیر نہ بھی کی جائے تو انسان کی ہدایت کے لیے قرآن مجید کا متن ہی کافی ہے۔ اسے اللہ تعالیٰ نے عربی زبان میں نازل فرمایا تاکہ لوگ اس پر غور و خوض کریں۔ بالخصوص عربی جاننے والوں کو اس پر ضرور غور کرنا چاہیے۔ اس سورۃ میں حضرت یوسف (علیہ السلام) کی سیرت طیبہ، تاریخ اور واقعات کو نہایت ہی احسن انداز میں بیان کیا گیا ہے اور یہ وضاحت کردی گئی ہے کہ نزول قرآن سے پہلے اے پیغمبر آپ بھی یوسف (علیہ السلام) کی سیرت، تاریخ اور واقعات سے بے خبر تھے۔ جن لوگوں نے یوسف (علیہ السلام) اور ان کے بھائیوں کے بارے میں آپ سے استفسار کیا ہے۔ اگر وہ عقل سے کام لیں تو ان کے لیے اس واقعہ میں بہت ہی سامان عبرت ہے۔ اس واقعہ کی ابتدا اس طرح ہوئی کہ یوسف (علیہ السلام) نے بچپن کی عمر میں خواب دیکھا۔ جس میں گیارہ ستارے اور شمس و قمر انہیں سجدہ کر رہے ہیں۔ انہوں نے یہ خواب اپنے والد گرامی حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے سامنے بیان کیا۔ حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے یوسف (علیہ السلام) کے بھائیوں کے رویہ کے پیش نظر یوسف (علیہ السلام) کو فرمایا کہ یہ خواب اپنے بھائیوں سے ذکر نہ کرنا کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ حسد میں آکر آپ کے خلاف کوئی سازش کریں۔ ساتھ ہی خواب کی تعبیر کی طرف اشارہ فرمایا کہ ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو نبوت عطا فرمانے کے ساتھ بالخصوص خوابوں کی تعبیر کا علم عنایت فرمائے۔ چنانچہ وہی ہوا جس کا خدشہ حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے ظاہر کیا تھا۔ یوسف (علیہ السلام) کے بھائیوں نے ایک سازش کے تحت حضرت یوسف (علیہ السلام) کو حضرت یعقوب (علیہ السلام) سے اجازت لے کر اپنے ساتھ لیا اور انہیں کنویں میں پھینک ڈالا۔ ایک راہگیر قافلے نے انہیں کنویں سے نکالا اور مصر کے بازار میں بیچ دیا۔ انہیں عزیز مصر نے خریدا۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) اس کے گھر میں جوان ہوئے اور عزیز مصر کی بیوی نے انہیں بدکاری کے لیے آمادہ کرنے کی کوشش کی۔ لیکن حضرت یوسف (علیہ السلام) نے جیل کی کال کوٹھڑی میں جانا گوارا کرلیا مگر اپنی چادر عفت پر داغ نہ آنے دیا۔ ایک مدت کے بعد وقت کے بادشاہ کو ایک ایسا خواب آیا جس کی تعبیر مصر کے ارباب فکر و دانش بتلانے سے قاصر رہے۔ تب قید سے رہا پانے والے بادشاہ کا ایک ملازم جو قید میں حضرت یوسف کے ساتھ رہاتھا۔ اس نے حضرت یوسف (علیہ السلام) کی سیرت اور صلاحیت سے بادشاہ کو آگاہ کیا۔ بادشاہ سے اجازت لے کر حضرت یوسف (علیہ السلام) کی خدمت میں پہنچ کر خواب کی تعبیر پوچھی۔ جس سے بادشاہ کو یقین ہوگیا کہ میرے خواب کی یہی تعبیر ہے۔ خواب کی تعبیر جان کر بادشاہ اس قدر متاثر ہوا کہ اس نے یوسف (علیہ السلام) کو قید سے بلوا کر وزیر خزانہ بنایا۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) نے بہترین منصوبہ بندی سے ملک مصر کو معاشی بحران سے نکالا۔ اس دوران ملحقہ علاقوں میں بھی قحط پڑا۔ جس کے نتیجے میں ان کے بھائی غلہ لینے کے لیے حضرت یوسف (علیہ السلام) کے پاس پہنچے۔ لیکن وہ نہیں جانتے تھے کہ جن سے غلہ کی درخواست کر رہے ہیں وہ ان کا بھائی ہے۔ دوسری مرتبہ آئے تو حضرت یوسف (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ کی سجھائی ہوئی تدبیر کے مطابق اپنے حقیقی بھائی بنیامین کو اپنے پاس رکھ لیا۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) نے اپنے آپ کو بھائیوں کے سامنے ظاہر کیا جس سے ان کے بھائیوں نے ان سے معذرت کی۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) نے انہیں معاف فرماتے ہوئے انہیں اپنی قمیص عنایت کی اور کہا کہ اسے والد محترم کے چہرے پر رکھنا، انھوں نے ایسا ہی کیا جس سے یعقوب (علیہ السلام) کی بینائی لوٹ آئی۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) نے اپنے والدین اور بھائیوں کو اپنے پاس بلوایا جب ان کے والدین اور بھائی ان کے پاس پہنچے تو انہوں نے اس زمانے کی روایت کے مطابق یوسف (علیہ السلام) کو سجدہ کیا۔ اسی دوران حضرت یوسف (علیہ السلام) نے اپنے والد سے عرض کی والد محترم ! یہ اسی خواب کی تعبیر ہے جو بچپن میں میں نے آپ کے حضور عرض کیا تھا۔ اس واقعہ میں یہ حقیقت واضح کی گئی ہے کہ اگر انسان صبر و حوصلہ کے ساتھ مشکلات کا سامنا کرے اور اپنے دامن کو گناہ کی آلودگی سے محفوظ رکھے تو کسی کا حسد اور سازش آدمی کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کسی کا اجر ضائع نہیں کرتا۔ اس پر واضح اشارہ ہے کہ اے اہل مکہ تمھیں بھی یہ دن ضرور دیکھنا پڑے گا کہ تم بھی ایک دن جھکو گے اور اپنے مظالم پر محمد کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے معافی کے خواستگار ہو گے۔ اللہ کی شان ٹھیک تھوڑے عرصہ کے بعد فتح مکہ کے موقعہ پر کائنات عالم نے یہ منظر دیکھا کہ مکہ کے بڑے بڑے سردار آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے معافی کے خواستگار ہوئے اور آپ نے ان الفاظ سے انہیں معاف فرما کر یہ ثابت کیا کہ انبیاء کردار اور اخلاق کے حوالے سے ہمیشہ منفرد انسان ہوتے ہیں۔ ” حضرت عبداللہ بن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ یہودیوں کے علماء کا ایک گروہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا۔ وہ تورات کے قاری تھے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سورۃ یوسف کی تلاوت فرما رہے تھے انھوں نے اسے توراۃ کے مطابق پایا جس طرح حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر تورات نازل ہوئی تھی۔ ان علماء نے کہا اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ کو کس نے سکھلایا ہے ؟ آپ نے فرمایا میرے اللہ نے مجھے سکھلایا ہے۔ علماء کی جماعت نے تعجب کیا جب آپ سے اس بات کو سنا وہ یہودیوں کی طرف واپس آئے اور انھیں کہا کیا تم جانتے ہو اللہ کی قسم محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قرآن کو اس طرح پڑھتے ہیں جس طرح تورات نازل کی گئی تو کچھ لوگ ان کے ساتھ مل کر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے تو انھوں نے آپ کے اوصاف کو پہچان لیا اور مہر نبوت جو آپ کے کندھوں کے درمیان تھی اسے دیکھا اور آپ کو سورۃ یوسف کی قراءت کرتے ہوئے سنا۔ انھوں نے تعجب کیا اور کہا آپ کو کس نے سکھلایا ؟ آپ نے فرمایا مجھے اللہ نے سکھلایا اور اس وقت یہ آیت نازل ہوئی (یوسف اور اس کے بھائیوں کے واقعہ میں سوال کرنے والوں کے لیے نشانیاں ہیں) جو ان کے معاملے کے متعلق سوال کرتا ہے یا ان کے متعلق جاننا چاہتا ہے تو اس وقت قبیلے کے وہ لوگ مسلمان ہوگئے۔“ [ رواہ البیھقی فی دلائل النبوۃ] یوسف
1 فہم القرآن اآرٰ۔ حروف مقطعات ہیں۔ جن کے بارے میں عرض کیا جاچکا ہے کہ ان کا حقیقی معنیٰ اور مفہوم اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ عرب دانشوروں کا طریقہ تھا کہ شاعر اور ادیب اپنا کلام پیش کرنے سے پہلے ” طرح مصرعہ کے طور پر“ چند الفاظ کہتے جس کا مفہوم بیان کرنا ضروری خیال نہیں کرتے تھے۔ اسی روایت کے پیش نظر صحابہ (رض) نے اس کا معنیٰ جاننے اور اس کا مفہوم سمجھنے کے لیے نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے استفسار کرنا مناسب نہیں سمجھا اور نہ ہی نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حروف مقطعات کا مفہوم بتلانے کی ضرورت محسوس فرمائی۔ کیونکہ اس کا دین کی تفہیم اور عمل کے ساتھ کوئی تعلق نہ تھا۔ ورنہ آپ اس کا مفہوم ضرور بیان فرماتے۔ ارشاد ہوتا ہے کہ یہ کتاب مبین کی آیات ہیں۔ یعنی ایسی کتاب جس نے حق وباطل کے درمیان حدِّ فاصل قائم کردی ہے۔ اس کے احکام اور ارشادات بالکل غیر مبہم ہیں۔ اسے رب ذوالجلال نے واضح اور عربی زبان میں نازل فرمایا ہے تاکہ تم عقل و فکر کے ساتھ سمجھنے کی کوشش کرو۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ یہ کتاب اہل عرب کے لیے ہی نازل کی گئی ہے۔ بلکہ اس فقرے کا اصل مدعا یہ ہے کہ ” اے اہل عرب، تمہیں یہ باتیں کسی یونانی یا ایرانی زبان میں تو نہیں سنائی جا رہی ہیں، یہ تمہاری اپنی زبان میں ہیں، لہٰذا تم یہ عذر نہیں پیش کرسکتے کہ اس کی باتیں ہماری سمجھ میں نہیں آتیں، اور نہ ہی یہ ممکن ہے کہ اس کتاب میں اعجاز کے جو پہلو ہیں جو کلام الٰہی ہونے کی شہادت دیتے ہیں، وہ تمہاری نگاہوں سے پوشیدہ رہ جائیں۔“ بعض لوگ قرآن مجید میں اس طرح کے فقرے دیکھ کر اعتراض کرتے ہیں کہ یہ کتاب تو اہل عرب کے لیے ہے، غیر اہل عرب کے لیے نازل ہی نہیں کی گئی ہے، پھر اسے تمام انسانوں کے لیے ہدایت کیسے کہا جا سکتا ہے۔ لیکن یہ محض ایک سرسری سا اعتراض ہے جو حقیقت کو سمجھنے کی کوشش کیے بغیر جڑ دیا جاتا ہے۔ انسانوں کی ہدایت کے لیے جو چیز بھی پیش کی جائے گی وہ بہر حال انسانی زبانوں میں سے کسی ایک زبان ہی میں پیش کی جائے گی۔ اس کے پیش کرنے والے کی کوشش ہوگی کہ پہلے اس قوم کو متاثر کرے جس کی زبان میں کتاب نازل کی گئی ہے اس کے بعد پھر وہ قوم دوسری قوموں تک اس تعلیم کے پہنچانے کا وسیلہ بنے۔ یہی ایک فطری طریقہ ہے کسی دعوت و تحریک کے بین الاقوامی پیمانے پر پھیلنے کا۔ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ہم آپ کو قرآن کی زبان میں بہترین واقعہ سناتے ہیں جسے آپ پہلے سے نہیں جانتے۔ واقعہ کی اہمیت اور اس کے محکم اور سچا ہونے کے لیے چھ الفاظ استعمال فرمائے تاکہ معمولی عقل رکھنے والا انسان بھی اس کی حقیقت تک پہنچ سکے۔ ١۔ ” تِلْکَ“ عربی زبان میں دور کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اس زمانے میں اہل علم کا یہ طریقہ تھا کہ جب کسی عظیم چیز یا واقعہ کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہوتا بالخصوص جو چیز یا واقعہ سامع کے احاطۂ شعور میں ہوتا۔ اس کی یاد دہانی کے لیے دور کا اشارہ استعمال کرتے تاکہ سننے والا اس کی اہمیت کا فی الفور احساس کرے۔ لہٰذا اس احساس کو اجاگر کرنے کے لیے ارشاد ہوتا ہے۔ کہ یہ وہی کتاب ہے۔ جس کا تذکرہ تورات، انجیل اور زبور میں پڑھتے ہو۔ ٢۔ یہ واقعہ قرآن مجید کے الفاظ میں بیان کیا جا رہا ہے۔ جس کی آیات بالکل واضح اور اس کا مفہوم غیر مبہم ہے۔ ٣۔ اسے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نہ کسی سے سنا ہے اور نہ پڑھا ہے بلکہ اسے رب ذوالجلال نے آپ پر نازل فرمایا ہے۔ کلام میں رعب پیدا کرنے اور اسے سچ ثابت کرنے کے لیے ایک ہی آیت میں دو مرتبہ ’ ہم‘ کی ضمیراستعمال فرمائی ہے۔ ٤۔ قرآن مجید کو عربی زبان میں نازل فرمایا۔ جو قواعد و ضوابط، فصاحت و بلاغت اور اثر انگیزی کے اعتبار سے دنیا کی تمام زبانوں سے جامع اور موثر زبان ہے۔ نزول قرآن کے وقت دنیا میں سب سے زیادہ یہی زبان بولی اور لکھی جاتی تھی۔ لسانیات کے حوالے سے اب بھی عربی زبان پوری دنیا میں اپنی نظیر آپ ہے۔ ٥۔ قرآن مجید میں مختلف اقوام اور بڑے بڑے انبیاء کرام (علیہ السلام) کے واقعات بیان کیے گئے ہیں۔ جن میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کی قوم کے واقعات کو بڑی تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے۔ جو قرآن مجید کے مختلف مقامات پر موقعہ محل کے مطابق بیان ہوئے ہیں۔ لیکن جس ترتیب کے ساتھ حضرت یوسف (علیہ السلام) کا واقعہ شروع سے آخر تک بیان ہوا ہے یہ ترتیب کسی اور واقعہ میں نہیں پائی جاتی۔ اس لیے اس کے آغاز میں فرمایا ہے کہ ہم اس واقعہ کو بہترین انداز میں بیان کررہے ہیں۔ یہاں بھی جمع متکلم کی ضمیر دوبارہ استعمال فرمائی ہے۔ تاکہ سننے والے کو کامل یقین ہوجائے کہ اسے بیان کرنے والا کوئی عربی یا عجمی شخص نہیں بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے۔ جس میں شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں پائی جاتی۔ ٦۔ واقعہ کی سچائی اور اس کی اسنادی قوت میں مزید اضافہ کرنے کے لیے آخر میں پھر فرمایا کہ ہم ہی واقعہ کو بیان کرنے اور اس قرآن کو نازل کرنے والے ہیں۔ اے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ اس کے ذکر سے پہلے بالکل اس سے ناآشنا تھے۔ مسائل ١۔ قرآن مجید ایک واضح کتاب ہے۔ ٢۔ قرآن مجید عربی زبان میں نازل کیا گیا۔ ٣۔ کلام اللہ کو سمجھنے، پڑھنے اور اس پر عمل کرنے کے لیے نازل کیا گیا ہے۔ ٤۔ قرآن مجید میں بہترین واقعات موجود ہیں۔ ٥۔ قرآن کریم کے نزول سے پہلے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان واقعات سے بے خبر تھے۔ ٦۔ وحی الٰہی سے پہلے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی بے خبر ہوتا ہے۔ تفسیر بالقرآن قرآن مجید کے اوصاف : ١۔ قرآن مجید کی آیات واضح ہیں۔ (یوسف : ١) ٢۔ قرآن مجیدکی آیات محکم ہیں۔ (ھود : ١) ٣۔ قرآن مجید برہان اور نور مبین ہے۔ (النساء : ١٧٤) ٤۔ قرآن کریم لوگوں کے لیے ہدایت ہے۔ (البقرۃ: ١٨٥) ٥۔ قرآن مجید لوگوں کے لیے ہدایت اور نصیحت ہے۔ (آل عمران : ١٣٨) ٦۔ قرآن مجیدلاریب کتاب ہے۔ (البقرۃ: ٢) ٧۔ قرآن مجیددلوں کے لیے شفا ہے۔ (یونس : ٥٧) ٨۔ ہم نے قرآن کو نازل کیا جو مومنوں کے لیے شفاء اور رحمت ہے۔ (بنی اسرائیل : ٨٢) ٩۔ ہم ہی قرآن مجید کو نازل کرنے والے ہیں اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔ (الحجر : ٩) ١٠۔ جن و انس مل کراس قرآن جیسا قرآن نہیں لاسکتے۔ (بنی اسرائیل : ٨٨) ١١۔ رمضان وہ بابرکت مہینہ ہے جس میں قرآن مجید نازل ہوا۔ (البقرۃ: ١٨٥) ١٢۔ ہم نے اس قرآن کو لیلۃ القدر میں نازل کیا۔ (القدر : ١) یوسف
2 یوسف
3 یوسف
4 فہم القرآن ربط کلام : نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جس واقعہ سے ناآشنا تھے اس کی ابتدا یوں ہوتی ہے۔ مؤرخین نے لکھا ہے کہ حضرت یعقوب (علیہ السلام) کی دو بیویوں سے گیارہ بیٹے تھے۔ جن میں حضرت یوسف (علیہ السلام) اور ان سے چھوٹے بنیامین آپس میں حقیقی بھائی تھے۔ حضرت یوسف نہایت ہی خوبصورت، ذہین و فطین اور سمجھدار تھے۔ ان کی دانش مندی کا اس بات سے انداہ لگائیں کہ ابھی ان کی عمر مبارک آٹھ؍نوسال کی تھی کہ انہوں نے خواب میں دیکھا کہ میرے سامنے گیارہ ستارے، چاند اور سورج سجدہ کر رہے ہیں۔ انہوں نے یہ خواب کسی کے سامنے بیان کرنے کی بجائے اپنے والد گرامی کے سامنے بیان کیا۔ کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ اس خواب کی تعبیر میرے والد گرامی کے سوا کوئی اور نہیں جان سکتا۔ گویا کہ صغر سنی کے باوجود اپنے باپ کی سیرت طیبہ اور ان کی دانشمندی کا ادراک کرچکے تھے۔ اس لیے انہوں نے اپنے خواب کا تذکرہ صرف اپنے باپ کے سامنے کیا۔ حضرت یعقوب (علیہ السلام) معصوم لخت جگر کا خواب سنتے ہی چونک گئے اور فرمایا۔ پیارے بیٹے اس خواب کو اپنے بھائیوں کے سامنے ذکر نہ کرنا کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ آپ کے خلاف کوئی سازش کریں۔ کیونکہ شیطان انسان کا کھلم کھلا دشمن ہے۔ قرآن مجید کے الفاظ سے عیاں ہوتا ہے کہ حضرت یعقوب یوسف کے بارے میں ان کے بھائیوں کے رویے سے منفی اثرات محسوس کر رہے تھے۔ جس کی وجہ سے انہیں احساس ہوا کہ ماں کی طرف سے سوتیلے بھائیوں کو اس خواب کا علم ہوا تو ان کے لیے اسے برداشت کرنا مشکل ہوگا۔ لیکن حضرت یعقوب (علیہ السلام) نہایت دانشمندی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ یاد رہے کہ پیغمبر اپنے زمانے کا سب سے بڑا دانشور انسان ہوا کرتا تھا۔ اسی بنا پر حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے یہ الفاظ استعمال فرمائے ” اے یوسف اپنے خواب کا اپنے بھائیوں کے سامنے ذکر نہ کرنا۔ کیونکہ شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے۔“ ایک طرف حضرت یوسف (علیہ السلام) کو شیطان کی دشمنی سے آگاہ فرمایا اور دوسری طرف اس کے بھائیوں کے بارے میں کھلے الفاظ استعمال کرنے کی بجائے مبہم الفاظ کے ذریعے محتاط رہنے کی تلقین فرمائی۔ گیارہ ستاروں اور شمس و قمر کے سجدہ کرنے سے مراد یہ تھی۔ ایک وقت آئے گا کہ اللہ تعالیٰ حضرت یوسف (علیہ السلام) کو اس قدر بلند اقبال اور سرفرازی عطا کرے گا کہ اس کے گیارہ بھائی اور والدین اس کے سامنے سجدہ ریز ہوں گے۔ چنانچہ خواب کے تقریباً چالیس سال بعد حضرت یوسف (علیہ السلام) ملک مصر جیسی عظیم الشان ترقی یافتہ مملکت کے فرماں روا بنے تو ان کے گیارہ بھائیوں اور والدین نے اس زمانے کی شریعت اور پروٹوکول کے مطابق حضرت یوسف (علیہ السلام) کو سجدہ کیا۔ جس کی تفصیل اسی سورت کی آیت ١٠٠ سو میں بیان کی گئی ہے۔ سجدہ سے مراد حقیقی سجدہ بھی ہوسکتا ہے۔ کیونکہ اس وقت کی شریعت میں کسی بزرگ اور بڑے آدمی کو تکریمی سجدہ کرنا جائز تھا۔ لیکن شریعت محمدی میں اسے مطلقاً ناجائز اور حرام قرار دیا گیا ہے۔ (دیکھیں۔ فہم القرآن، جلد اول، البقرۃ: ٣٤) مسائل ١۔ یوسف (علیہ السلام) نے خواب میں گیارہ ستارے، چاند اور سورج کو اپنے سامنے سجدہ کرتے ہوئے پایا۔ ٢۔ ہر کسی سے خواب بیان نہیں کرنا چاہیے۔ ٣۔ شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو سجدہ کرنا جائز نہیں : ١۔ سورج اور چاند کو سجدہ نہ کرو، سجدہ اسے کرو جس نے انہیں پیدا کیا ہے۔ (حٰم السجدۃ: ٣٧) ٢۔ اللہ کی تسبیح بیان کرو اور سجدہ کرنے والوں میں سے ہوجاؤ۔ (الحجر : ٩٨) ٣۔ اے ایمان والو ! رکوع کرو اور سجدہ کرو اور اپنے رب کی عبادت کرو۔ (الحج : ٧٧) ٤۔ اللہ کو سجدہ کرو اور اسی کی عبادت کرو۔ (النجم : ٦٢) ٥۔ ہر چیز کا سایہ بھی اللہ کو سجدہ کرتا ہے۔ (النحل : ٤٥) ٦۔ اللہ کو زمین و آسمان کی ہر چیز سجدہ کرتی ہے۔ (النحل : ٤٦) ٧۔ ستارے اور درخت اللہ کو سجدہ کرتے ہیں۔ (الرحمٰن : ٦) ٨۔ یقیناً جو ملائکہ آپ کے رب کے پاس ہیں وہ اس کی عبادت سے تکبر نہیں کرتے، اس کی تسبیح بیان کرتے اور اس کو سجدہ کرتے ہیں۔ (الاعراف : ٢٠٦) یوسف
5 یوسف
6 فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ حضرت یعقوب (علیہ السلام) کھلے الفاظ میں خواب کی تعبیر کرنے کی بجائے اشارات کی زبان میں تعبیر کرتے ہیں۔ خواب کی تعبیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔ میرے بیٹے اللہ تعالیٰ تجھے اپنے پیغام اور کام کے لیے منتخب فرمائے گا اور تجھے خوابوں کی تعبیر، معاملات کو سمجھنے اور سمجھانے کی دانشمندی کی نعمت سے بدرجۂ اتم سرفراز کرئے گا جو انعام و اکرام رب کریم نے میرے خاندان یعنی تیرے دادا اور پڑ دادا حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور اسحاق (علیہ السلام) کو عنایت فرمائے تھے۔ یقیناً رب تعالیٰ سب کچھ جاننے والا ہے۔ اور اس کے فرمان اور کام میں بے حد و حساب حکمتیں مضمر ہوا کرتی ہیں۔ بیٹے کا خواب سننے کے بعد حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے اشاروں کی زبان میں اس کی تعبیر بتلائی کہ اے یوسف! اللہ تعالیٰ تجھے وقت کا نبی بنانے اور دنیا و آخرت کی عزت و عظمت عطاء کرنے کے ساتھ خصوصی طور پر ” تاویل الاحادیث“ کے علم سے مالا مال کرے گا۔ اہل علم ” تاویل الاحادیث“ کا مفہوم بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اس سے مراد صرف خوابوں کی تعبیر نہیں بلکہ معاملہ فہمی اور امور مملکت سے آگاہ کرنابھی ہے جس کے بغیر کوئی حکمران صحیح طریقے سے نظام حکومت نہیں چلا سکتا۔ چنانچہ حضرت یوسف (علیہ السلام) خواب کی صحیح تعبیر بتلانے کی وجہ سے جیل کی کال کوٹھری سے رہا ہوئے اور ان کے علم بصیرت سے متاثر ہو کر مصر کے حکمران نے انہیں مصر کی وزارت خزانہ کا اس وقت قلم دان سونپا جب مصر شدید قحط سالی اور معاشی بحران کا شکار ہونے والا تھا۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) نے خداداد فہم و فراست کی بنیاد پر آنے والے معاشی بحران پر کامیابی کے ساتھ قابوپایا کہ جس سے مصر کے عوام اور ان کے حکمران عش عش کر اٹھے۔ اس کی تفصیل آپ انشاء اللہ اسی سورۃ کی ٤١ تا ٤٩ آیات کی تفسیر میں ملاحظہ فرمائیں گے۔ حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے اپنے خاندان کی عزت و عظمت کا تذکرہ کرتے ہوئے اپنی ذات کی بجائے اپنے بزرگوں کا ذکر کیا ہے۔ جس سے مراد عاجزی کا اظہار اور پورے خاندان کی طرف سے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا اور اس کے انعام و اکرام کا اعتراف ہے۔ عظیم ترین خاندان : (عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عُمَرَ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ الْکَرِیمُ بْنُ الْکَرِیْمِ بْنِ الْکَرِیْمِ بْنِ الْکَرِیْمِ یُوسُفُ بْنُ یَعْقُوبَ بْنِ إِسْحَاقَ بْنِ إِبْرَاہِیمَ )[ رواہ البخاری : کتاب التفسیر، باب قَوْلِہِ (وَیُتِمُّ نِعْمَتَہُ عَلَیْکَ وَعَلٓی آلِ یَعْقُوبَ کَمَآ أَتَمَّہَا عَلَی أَبَوَیْکَ مِنْ قَبْلُ إِبْرَاہِیمَ وَإِسْحَاقَ )] ” حضرت عبداللہ بن عمر (رض) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا عزت مند یوسف بن یعقوب بن اسحاق بن ابراہیم (علیہ السلام) ہے۔“ مسائل ١۔ اللہ جسے چاہتا ہے خوابوں کی تعبیر اور علم وفہم عطا فرماتا ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ جس پر چاہتا ہے اپنا فضل نازل کرتا ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم، حضرت اسحق، حضرت یعقوب اور حضرت یوسف ( علیہ السلام) کو اپنی نعمتوں سے نوازا۔ تفسیر بالقرآن حضرت یوسف (علیہ السلام) پر اللہ تعالیٰ کے احسانات : ١۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت یوسف کو نبوت اور خوابوں کی تعبیر کا علم عطا فرمایا۔ (یوسف : ٦) ٢۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت یوسف پر وحی کی کہ ایک دن ضرور تو اپنے بھائیوں کو ان کی حرکت سے آگاہ کرے گا۔ (یوسف : ١٥) ٣۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت یوسف کو زمین میں اقتدار بخشا اور اسے خوابوں کی تعبیر سکھلائی۔ (یوسف : ٢١) ٤۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت یوسف کو حکومت اور علم عطا فرمایا۔ (یوسف : ٢٢) ٥۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت یوسف کی دعا قبول فرمائی اور اسے عورتوں کے فریب سے نجات عطا فرمائی۔ (یوسف : ٣٤) ٦۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت یوسف کو مصر میں با اختیار بنا دیا۔ (یوسف : ٥٦) ٧۔ اللہ تعالیٰ نے آل ابراہیم پر احسانات فرمائے۔ (یوسف : ٩٠) ٨۔ اللہ تعالیٰ نے قید خانہ سے نکال کرحضرت یوسف کو حکمران بنایا۔ (یوسف : ١٠٠) یوسف
7 فہم القرآن ربط کلام : اے اہل مکہ جس واقعہ کے بارے میں تم نے سوال کیا ہے۔ اس کو واقعہ برائے واقعہ کے طور پر سننے کی بجائے اسے سبق آموزی اور عبرت حاصل کرنے کے لیے سنو۔ اس سورۃ کے تعارف میں عرض کیا ہے کہ اہل مکہ نے حسب عادت رسول معظم کو لاجواب اور پریشان کرنے کے لیے سوال کیا تھا کہ حضرت یعقوب (علیہ السلام) کنعان میں رہائش پذیر تھے۔ ان کا بیٹا یوسف کس طرح مصر کا حکمران بنا۔ اور بنی اسرائیل کیونکہ مصر پہنچے؟ اس سوال کا تفصیلی جواب دینے سے پہلے اہل مکہ کو توجہ دلائی جا رہی ہے کہ یوسف (علیہ السلام) اور ان کے بھائیوں کے متعلق تم نے جو سوال کیا ہے۔ اگر تم اس کے جواب پر غور کرو تو تمہارے لیے اس واقعہ کی ایک ایک کڑی میں راہنمائی اور بے انتہا سامان عبرت موجود ہے۔ ١۔ جس طرح یوسف (علیہ السلام) کے بھائی سوتیلا پن اور اپنے بھائی یوسف کی صلاحیتوں کو دیکھ کر ان کے مخالف ہوئے تھے۔ اسی طرح تم حسد و بغض میں آکر اپنے بھائی یعنی محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مخالفت پر کمربستہ ہوچکے ہو۔ ٢۔ جس طرح یوسف (علیہ السلام) کے بھائیوں کی مخالفت اور سازش اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکی تھی ایسے ہی تمہاری مخالفت اور سازشیں رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کچھ نہیں بگاڑ پائیں گی۔ ٣۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) کو ان کے بھائیوں نے اپنی طرف سے ختم کرنے کی پوری کوشش کی تھی مگر اللہ تعالیٰ نے انہیں مامون اور محفوظ فرمایا۔ اسی طرح تم بھی رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ختم کرنے کے درپے ہو جس میں تم کبھی کامیاب نہیں ہوپاؤ گے۔ ٤۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) کا گھر سے نکلنا ان کے عروج و اقبال کا ذریعہ بنا تھا۔ تم بھی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مکہ سے نکالنا چاہتے ہو لیکن یاد رکھو یوسف (علیہ السلام) سے کئی گنا زیادہ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ہجرت ان کے عروج و اقبال کا زینہ ثابت ہوگی۔ ٥۔ جس طرح یوسف (علیہ السلام) کے بھائیوں نے مجبور اور لاچار ہو کر یوسف (علیہ السلام) کے سامنے دست سوال پھیلایا تھا وقت آئے گا کہ تمہیں بھی حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے دست سوال پھیلانا پڑے گا۔ ٦۔ یوسف (علیہ السلام) کے بھائیوں نے بالآخر اس سے معافی کی درخواست کی تھی۔ یہ وقت بھی آکر رہے گا کہ تم رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے نہایت عاجزی کے ساتھ معافی کے خواستگار ہو گے۔ ٧۔ یوسف (علیہ السلام) ملک مصر کے حکمران بنے تھے۔ ان کے بعد ان کی اولاد یعنی بنی اسرائیل ایک مدت تک مصر میں حکمرانی کرتے رہے۔ جس رسول کی مخالفت میں تم ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہو عنقریب وقت آنے والا ہے کہ نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے متبعین کی پوری دنیا میں عزت اور حکمرانی کا پھریرا بلند ہوگا۔ فضول سوال سے بچنا چاہیے : سوال کرتے وقت اس چیز کو مدنظر رکھنا چاہیے کہ فضول قسم کا سوال نہ کیا جائے اس سے اللہ تعالیٰ نے مومنین کو منع فرمایا ہے۔ (یَآأَیُّہَا الَّذِیْنَ اَمَنُوْا لَا تَسْأَلُوْا عَنْ أَشْیَآءَ إِنْ تُبْدَ لَکُمْ تَسُؤْکُمْ وَإِنْ تَسْأَلُوْا عَنْہَا حِیْنَ یُنَزَّلُ الْقُرْآنُ تُبْدَ لَکُمْ عَفَا اللّٰہُ عَنْہَا وَاللّٰہُ غَفُوْرٌ حَلِیْمٌ۔ قَدْ سَأَلَہَا قَوْمٌ مِّنْ قَبْلِکُمْ ثُمَّ أَصْبَحُوْا بِہَا کَافِرِیْنَ )[ المائدۃ: ١٠١۔ ١٠٢] ” اے ایمان والو! ان چیزوں کے بارے میں سوال نہ کرو جو تمہارے لیے ظاہر کردی جائیں تو تمہیں بری لگیں۔ اگر تم ان کے بارے میں اس وقت سوال کرو گے جب قرآن نازل کیا جا رہا ہے تو تمہارے لیے ظاہر کردی جائیں گی۔ اللہ نے ان سے درگزر فرمایا اور اللہ خوب بخشنے والا نہایت بردبار ہے۔ تم سے پہلے ان کے بارے میں کچھ لوگ سوال کرچکے، پھر وہ ان سے منکر ہوگئے۔“ مسائل ١۔ یوسف (علیہ السلام) اور ان کے بھائیوں کے واقعہ میں نشانیاں ہیں۔ تفسیر بالقرآن قرآن مجید کے بیان کردہ واقعات سے عبرت حاصل کرنی چاہیے : ١۔ حضرت یوسف اور ان کے بھائیوں کے قصہ میں پوچھنے والوں کے لیے نشانیاں ہیں۔ (یوسف : ٧) ٢۔ انبیاء کے قصے برحق ہیں مومنین کے لیے اس میں نصیحت ہے۔ (ھود : ١٢٠) ٣۔ یہ قصے برحق ہیں اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی الٰہ نہیں۔ (آل عمران : ٦٢) ٤۔ حضرت یوسف اور ان کے بھائیوں کے قصے میں عقل مندوں کے لیے عبرت ہے۔ (یوسف : ١١١) ٥۔ انبیاء کے واقعات میں نبی کریم اور آپ کے تابع داروں کے لیے تسلی کا سامان ہے۔ ( ہود : ١٢٠) یوسف
8 فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ یوسف (علیہ السلام) کے بارے میں حسد و بغض رکھنا۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) کے حسن و جمال، لیاقت و صلاحیت اور مستقبل میں ان کے نبی بننے کے آثار دیکھ کر ( جن کی نشاندہی خواب کی تعبیر میں حضرت یعقوب (علیہ السلام) کرچکے تھے۔) ان اوصاف حمیدہ کی بنیاد پر حضرت یعقوب کا دوسرے بیٹوں کی نسبت یوسف (علیہ السلام) سے زیادہ شفقت اور محبت کا اظہار کرتے تھے۔ بعض مفسرین نے ان سے حضرت یعقوب (علیہ السلام) کی محبت کا سبب حضرت یوسف (علیہ السلام) کا چھوٹا ہونا بیان کیا ہے۔ یہ وجہ اس لیے لائق توجہ نہیں کہ عمر کے لحاظ سے حضرت بنیامین سب سے چھوٹے تھے۔ بہرحال یوسف (علیہ السلام) کے ساتھ حضرت یعقوب (علیہ السلام) کی محبت کی وجہ سے یوسف (علیہ السلام) کے بھائی حسدو بغض کا شکار ہوئے۔ اور انہوں نے خفیہ مشاورت میں یہ بات طے کی کہ ہمارے والد واضح طور پر بھٹک چکے ہیں۔ کیونکہ وہ ہم سے زیادہ یوسف کے ساتھ محبت کرتے ہیں۔ حالانکہ ہم طاقتور ہیں۔ حسدو بغض اس قدر مہلک مرض ہے کہ جس شخص میں یہ پیدا ہوجائے وہ دوسرے کے بارے میں اس قدر منفی اور سطحی خیالات کا اظہار کرتا ہے جن کا کوئی معقول آدمی تصور بھی نہیں کرسکتا۔ حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے صاحبزادوں نے اپنے عظیم اور مشفق باپ جو وقت کے نبی ہونے کے علاوہ حضرت اسحاق (علیہ السلام) کے بیٹے اور حضرت ابراہیم خلیل اللہ کے پوتے ہیں۔ ایسے عظیم المرتبت باپ کے بارے کہنے لگے کہ ہمارا باپ واضح طور پر بھٹک چکا ہے۔ چاہیے تو یہ تھا کہ وہ بوڑھے باپ کی توجہ حاصل کرنے کے لیے خدمت اور ان کی تابعداری کا رویہ اختیار کرتے اور اپنے منفی کردار پر نظر ثانی کرتے۔ اس کی بجائے انہوں نے اپنی طاقت اور جتھا بندی پر فخر کا اظہار کیا۔ اور اس کے لیے جائز طریقہ استعمال کرنے کے بجائے غلط طریقہ کار اختیار کیا۔ جس سے نہ صرف ان کے بوڑھے باپ اور چھوٹے بھائی کو تکلیفیں پہنچیں بلکہ ان کے اپنے دامن پر بھی دھبہ لگا۔ انہوں نے حسد میں آکر یہ بھی نہ سوچا کسی کی الفت اور محبت حاصل کرنے کے لیے طاقت نہیں، اس کے لیے عاجزی، احترام اور بڑوں کی خدمت کرنا پڑتی ہے۔ کیونکہ محبت اور الفت کسی منڈی کا مال نہیں کہ اسے سرمایہ یا طاقت کی بنیاد پر حاصل کیا جاسکے۔ یہ تو دل کا معاملہ ہے اور تمام انسانوں کے دل اللہ کے اختیار میں ہیں۔ اس واقعہ سے یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ اچھے کام کے لیے اچھا طریقۂ کاراختیار کرنا لازم ہے۔ اسی لیے قرآن مجید میں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا ہے۔ کہ اے رسول! اگر آپ ساری زمین کے خزانے خرچ کردیتے تب بھی اپنے ساتھیوں کے دلوں میں محبت و الفت پیدا نہیں کرسکتے تھے۔ یہ تو اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم کا نتیجہ ہے کہ اس نے آپ کے اصحاب کے دلوں میں یکجہتی اور محبت پیدا فرمائی ہے۔ اللہ تعالیٰ غالب حکمت والا ہے۔ ( الانفال : ٦٣) باہمی محبت کے لیے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعا : (عَنْ أَبِیْ وَآءِلٍ عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بِمِثْلِہٖ قَالَ وَکَانَ یُعَلِّمُنَا کَلِمَاتٍ وَلَمْ یَکُنْ یُعَلِّمُنَاہُنَّ کَمَا یُعَلِّمُنَا التَّشَہُّدَ اللَّہُمَّ أَلِّفْ بَیْنَ قُلُوْبِنَا وَأَصْلِحْ ذَاتَ بَیْنِنَا وَاہْدِنَا سُبُلَ السَّلاَمِ وَنَجِّنَا مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَی النُّوْرِ وَجَنِّبْنَا الْفَوَاحِشَ مَا ظَہَرَ مِنْہَا وَمَا بَطَنَ وَبَارِکْ لَنَا فِیْٓ أَسْمَاعِنَا وَأَبْصَارِنَا وَقُلُوْبِنَا وَأَزْوَاجِنَا وَذُرِّیَّاتِنَا وَتُبْ عَلَیْنَا إِنَّکَ أَنْتَ التَّوَّاب الرَّحِیْمُ وَاجْعَلْنَا شَاکِرِیْنَ لِنِعْمَتِکَ مُثْنِیْنَ بِہَا قَابِلِیْہَا وَأَتِمَّہَا عَلَیْنَا )[ رواہ ابو داؤد، باب التشھد] ” حضرت ابو وائل اور حضرت عبداللہ (رض) بیان کرتے ہیں ہمیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ کلمات سکھلایا کرتے تھے جس طرح کہ آپ ہمیں تشہد کے کلمات سکھلاتے تھے۔ اے اللہ ہمارے معاملات درست فرما، ہمارے دلوں میں محبت پیدا فرما، ہمیں سیدھی راہ دکھا، ہمیں اندھیروں سے روشنی کی طرف رہنمائی عطا فرما اور ہمیں ظاہری اور باطنی فحاشی سے بچا۔ اے اللہ ہماری سماعت، بصارت، دلوں، بیویوں اور اولاد میں برکت عطا فرما اور ہم پر رجوع فرما۔ یقیناً تو توبہ قبول کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے اور ہمیں اپنی نعمتوں کا شکر گزار اور اپنی تعریف کرنے والے بنا اور ہمیں اس کے قابل بنا اور انہیں ہم پر پورا فرما۔“ مسائل ١۔ حسد بہت بری چیز ہے۔ ٢۔ یوسف (علیہ السلام) کے بھائی اپنے باپ کو غلطی پر سمجھتے تھے۔ تفسیر بالقرآن برادران یوسف کا اپنے عظیم باپ کے بارے میں روّیہ : ١۔ بے شک ہمارا باپ بہک گیا ہے۔ (یوسف : ٨) ٢۔ واللہ تم تو یوسف کی یاد میں لگے رہو گے یہاں تک کہ ہلاک ہوجاؤ۔ (یوسف : ٨٥) ٣۔ حضرت یعقوب کے بیٹوں نے کہا کہ اللہ کی قسم! آپ تو پرانے وہم میں مبتلا ہیں۔ (یوسف : ٩٥) یوسف
9 فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ بردران یوسف کا اپنے باپ اور بھائی کے بارے میں منفی خیالات کے تحت خفیہ اجلاس کرنا اور ایک گھناؤنے فعل پر متفق ہونا۔ حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے دس بیٹے اپنے بھائی کے خلاف سازش کرنے کے لیے ایک جگہ اکٹھے ہوئے اور یہ سوچ و بچار کرنے لگے کہ یوسف سے کس طرح چھٹکارا پایا جائے۔ جن میں ٩ (نو) بھائی اس بات پر متفق ہوئے کہ یوسف کو جان سے مار ڈالنا چاہیے یا کہیں دور پھینک دینا چاہیے۔ اس کے بعد باپ کی توجہ خود بخود تمہاری طرف ہوجائے گی۔ اس جرم کے بعد ہم اللہ تعالیٰ سے توبہ کرکے پھر نیکو کار بن جائیں گے۔ (یاد رہے کہ بعد میں توبہ کرنے کی نیت سے گناہ کرنے سے گناہ میں کئی گنا اضافہ ہوجاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ایسی فکر سے محفوظ فرمائے۔) برادران یوسف نے اسی سوچ کے تحت یہ سازش تیار کی تھی۔ دسویں بھائی جس کا نام یہودہ بیان کیا گیا ہے جو سب سے بڑا تھا۔ اس نے برادران کو قتل یوسف سے منع کیا اور انہیں سمجھایا کہ ہمارا مقصد تو اپنے باپ کی توجہ چاہنا ہے۔ اس لیے ہمیں قتل جیسا سنگین جرم نہیں کرنا چاہیے۔ اگر آپ یوسف سے ضرور چھٹکارا پانا چاہتے ہیں تو یوسف کو کسی گمنام کنویں میں پھینک دواسے کوئی راہ گذر قافلہ اٹھا کے لے جائے گا۔ اس بات پر متفق ہونے کے بعد وہ سب کے سب حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے پاس حاضر ہوئے۔ اسی طرح کی سوچ و بچار اور سازش اہل مکہ نے رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلاف کی تھی۔ جب انہوں نے یہ دیکھا کہ لوگوں کی توجہ روز بروز نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف ہو رہی ہے۔ اور ہر روز کسی نہ کسی خاندان سے کوئی نہ کوئی شخص حلقۂ اسلام میں داخل ہو رہا ہے۔ تو انہوں نے ایک خفیہ مشاورت میں طے کیا تھا۔ (وَإِذْ یَمْکُرُ بِکَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْالِیُثْبِتُوْکَ أَوْ یَقْتُلُوْکَ أَوْ یُخْرِجُوْکَ وَیَمْکُرُوْنَ وَیَمْکُرُ اللَّہُ وَاللَّہُ خَیْرُ الْمَاکِرِیْنَ)[ الانفال : ٣٠] ” اے رسول وہ وقت یاد کیجیے جب کافر آپ کے خلاف سازش کرتے ہوئے سوچ رہے تھے کہ اسے قید کردیا جائے یا قتل کردینا چاہیے یا اسے ہمیشہ کے لیے اپنی سرزمین سے نکال باہر کرنا چاہیے۔ وہ اس طرح کی سازشیں کر رہے تھے جبکہ اللہ تعالیٰ نے بھی ایک تدبیر کا فیصلہ کر رکھا تھا۔ اللہ تعالیٰ بہترین تدبیر کرنے والاہے۔“ مسائل ١۔ یوسف (علیہ السلام) کے بھائیوں نے انہیں قتل کرنے کا مشورہ کیا۔ ٢۔ بعض لوگ جرم اس بنیاد پر کرتے ہیں کہ بعد میں توبہ کرلیں گے جو پرلے درجے کا گناہ ہے۔ تفسیر بالقرآن کفار مکرو فریب کرتے ہیں جب کہ اللہ تعالیٰ بہترین تدبیر کرنے والا ہے : ١۔ کفار نے مکرو فریب کیا اور اللہ نے تدبیر کی، اللہ بہتر تدبیر کرنے والا ہے۔ (آل عمران : ٥٤) ٢۔ انہوں نے مکر کیا اور اللہ نے تدبیر کی اور اللہ بہتر تدبیر کرنے والا ہے۔ (الانفال : ٣٠) ٣۔ ان کے مکر کا انجام دیکھیں ہم نے مکر کرنے والوں اور ان کی قوم کو ہلاک کردیا۔ (النمل : ٥١) ٤۔ عنقریب جرائم اور مکر وفریب کرنے والوں کو اللہ کے ہاں سے ذلت اور سخت عذاب کا سامنا کرناپڑے گا۔ (الانعام : ١٢٤) ٥۔ انہوں نے مکر کیا اور ہم نے ان کے مکر کے مقابلہ میں تدبیر کی اور انہیں اس کا شعور بھی نہیں تھا۔ (النمل : ٥٠) یوسف
10 یوسف
11 فہم القرآن ربط کلام : سازش پر متفق ہونے کے بعد برادران یوسف کا اپنے باپ کی خدمت میں پیش ہو کر یوسف (علیہ السلام) کو اپنے ساتھ لے جانے کا مطالبہ کرنا۔ برادران یوسف اپنے باپ سے مطالبہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ابا جان کیا وجہ ہے کہ آپ یوسف کے بارے میں ہم پر اعتماد نہیں کرتے؟ حالانکہ ہم اس کے بارے میں نہایت ہی خیر خواہی کے جذبات رکھتے ہیں۔ لہٰذا ہماری درخواست ہے کہ اسے ہمارے ساتھ بھیجئے تاکہ کھلی فضا میں یوسف سیرو سیاحت اور کھیل کود میں ہمارے ساتھ شریک ہو۔ ہم آپ کو یقین دلاتے ہیں کہ ہم اس کی پوری طرح حفاظت کریں گے۔ بیٹوں کے مطالبہ کے جواب میں حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے اس بات کا اظہار کیا کہ میں خدشہ محسوس کرتا ہوں کہ تم یوسف کو اپنے ساتھ لے جانے کے بعد غفلت کا مظاہرہ کرو اور کوئی بھیڑیا یوسف کو کھا جائے۔ باپ کے جواب میں سب کے سب کہنے لگے کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ہمارے ہوتے ہوئے یوسف کو بھیڑیا کھا جائے۔ جبکہ ہم سب کے سب اکٹھے اور طاقتور ہیں۔ اگر یوسف کو ہمارے جیتے جی کوئی نقصان پہنچا تو ہم سے بڑھ کر کون نقصان پانے والا ہوگا۔ عُصْبَۃ کا معنیٰ گھوڑوں، پرندوں کا جھنڈ اور مردوں کی اس جماعت کو بھی کہا جاتا ہے جو دس افراد پر مشتمل اور ایک دوسرے کے ممدو معاون ہوں۔ قرآن مجید کے الفاظ اس حقیقت کی نقاب کشائی کر رہے ہیں کہ حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے دل میں اپنے بیٹوں کے بارے میں یوسف (علیہ السلام) کے متعلق منفی خیالات کا احساس موجود تھا۔ اور ان کے بیٹوں کو بھی احساس تھا کہ یوسف کے بارے میں ہمارے والد ہم پر پوری طرح مطمئن نہیں ہیں۔ جس بنا پر انہوں نے مثبت کے بجائے منفی انداز اختیار کرتے ہوئے کہا اے ہمارے والد آپ یوسف کے بارے میں ہم پر کیوں اعتماد نہیں کرتے؟ ان کے انداز گفتگو سے صاف ظاہر ہو رہا ہے کہ انہوں نے عاجزانہ اور مؤدبانہ انداز اختیار کرنے کی بجائے دباؤ ڈالنے کا طریقہ اختیار کرتے ہوئے باپ کو اطمینان دلانے اور اپنی سازش کو کامیاب کرنے کے لیے پے درپے ایسے الفاظ استعمال کیے کہ جن سے حضرت یعقوب (علیہ السلام) کو یقین آجائے اس لیے وہ بار بار کہتے ہیں کہ یقین فرمائیں کہ ہم اس کی پوری طرح حفاظت کریں گے۔ یقین دہانیوں کے باوجود حضرت یعقوب (علیہ السلام) ان پر اعتماد نہیں کرتے۔ لیکن پیغمبرانہ اور پدری اخلاق کا مظاہرہ کرتے ہوئے فقط اتنا ہی فرماتے ہیں کہ میرے بیٹو! میں ڈرتا ہوں کہیں تمہاری غفلت کی وجہ سے یوسف کو بھیڑیا نہ کھا جائے ! مسائل ١۔ یوسف (علیہ السلام) کے بھائیوں نے بظاہر ان کی حفاظت کا ذمہ لیا۔ ٢۔ یعقوب (علیہ السلام) نے یوسف (علیہ السلام) کے متعلق خوف کا اظہار کیا۔ ٣۔ یوسف (علیہ السلام) کے بھائیوں نے غلط انداز میں باپ کو اطمینان دلایا۔ تفسیر بالقرآن نقصان پانے والے لوگ : ١۔ انہوں نے کہا اگر یوسف کو بھیڑیا کھا گیا تو ہم نقصان پانے والے ہوجائیں گے۔ (یوسف : ١٤) ٢۔ اگر تو نے ہمیں معاف نہ کیا اور ہم پر رحم نہ فرمایا تو ہم نقصان پانے والے ہوں گے۔ (الاعراف : ٢٣) ٣۔ زمین میں فساد کرنے والے لوگ خسارہ اٹھائیں گے۔ (البقرۃ : ٢٧) ٤۔ اللہ کفار کے اعمال دنیا میں تباہ کرے گا اور وہ آخرت میں خسارہ پائیں گے۔ (التوبۃ: ٦٩) ٥۔ جس نے اللہ کے سوا شیطان کو دوست بنالیا اس نے بہت نقصان پایا۔ (النساء : ١١٩) ٦۔ ان لوگوں نے نقصان پایا جنہوں نے اللہ کی ملاقات کی تکذیب کی۔ (الانعام : ٣١) یوسف
12 یوسف
13 یوسف
14 یوسف
15 فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ حضرت یعقوب (علیہ السلام) کا مجبور ہو کر یوسف (علیہ السلام) کو ان کے بھائیوں کے سپرد کرنا۔ اور یوسف (علیہ السلام) کے بھائیوں کا انہیں ویران اور گمنام کنویں میں پھینکنا۔ برادران جب یوسف (علیہ السلام) کو ساتھ لے کر اپنے ہدف کے مقام پر پہنچے تو انہوں نے بالاتفاق یوسف (علیہ السلام) کو ایک ویران کنویں میں پھینک دیا۔ اس موقع پر بعض مفسرین نے غیر مستند تاریخی روایات کے حوالے سے لکھا ہے کہ جونہی یوسف (علیہ السلام) کے برادر اپنی بستی سے دور ہوئے تو انہوں نے یوسف کو مارنا پیٹنا شروع کیا۔ یوسف زار و قطار روتے ہوئے کبھی ایک اور کبھی دوسرے بھائی کے ساتھ چمٹ جاتے مگر وہ ترس کھانے کے بجائے اپنے سے اگلے کی طرف دھکیل دیتا۔ ممکن ہے یہی کچھ ہوا ہو کیونکہ قرآن مجید کسی واقعہ کی غیر اہم جزئیات بیان نہیں کرتا۔ اس لیے سب سے بڑے اور آخری اقدام کا ذکر کرتے ہوئے بتلایا ہے کہ انہوں نے جب یوسف کو ویران کنویں میں پھینک دیا تو ہم نے یوسف کو وحی کی کہ گھبرانے کی ضرورت نہیں۔ وقت آئے گا کہ جو کچھ انھوں نے کیا اس کے بارے میں تم ضرور اور ہر صورت انھیں بتلاؤ گے۔ ہندو پاک کے معروف اہل قلم اور ریاست پٹیالہ کے سیشن جج قاضی سلیمان منصور پوری تفسیر سورۃ یوسف المسمٰی بہ الجمال والکمال میں (لَتُنَبِّءَنَّھُمْ) کے بارے میں لکھتے ہیں کہ اس کا معنیٰ ہے۔ اے یوسف فکر نہ کر تو باعزت اس مصیبت سے نجات پائے گا۔ اور تجھے اعلیٰ منصب عطا کیا جائے گا۔ تیرے بھائی تیرے سامنے ذلیل ہو کر حاضر ہوں گے اور تجھے ان کے سامنے سب کچھ بیان کرنے کا موقع عنایت کیا جائے گا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے یوسف (علیہ السلام) کو مصر کی مملکت کا حکمران بنایا۔ قحط سالی سے تنگ آکر امداد کے لیے برادران یوسف ان کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انہوں نے اپنے جرم کا اعتراف کیا تو حضرت یوسف (علیہ السلام) نے انہیں معاف کرتے ہوئے، عزت و احترام سے نوازا۔ اس کی تفصیل آیت ٨٩ تا ٩٢ میں ملاحظہ فرمائیں۔ ارشاد ہوا ہے کہ ہم نے یعنی اللہ تعالیٰ نے حضرت یوسف (علیہ السلام) کی طرف وحی فرمائی۔ حالانکہ اس وقت حضرت یوسف کی عمر آٹھ، نو سال یا ١٦، ١٧ سال کی بتلائی جاتی ہے۔ میرا قلبی میلان یہ ہے کہ حضرت یوسف کی عمرآٹھ یانو سال تھی۔ ١٦ تا ١٧ سال کا بچہ جوان یا جوانی کے بالکل قریب ہوتا ہے۔ بالخصوص جس شخصیت کو اللہ تعالیٰ نے پیغمبر نامزد کرنا ہوتا ہے وہ صحت کے اعتبار سے اپنی عمر سے بہت زیادہ سمجھدار اور کافی حد تک جسمانی طور پر بڑا دکھائی دیتا ہے۔ لہٰذا نہایت چھوٹی عمر میں حضرت یوسف (علیہ السلام) کی طرف وحی کرنے کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قلبی طور پر اطمینان بخشا اور فکری اعتبار سے انہیں پرسکون کردیا کہ تجھے گھبرانا نہیں چاہیے۔ وقت آنے پر سب کچھ تیرے سامنے کردیا جائے گا۔ وحی کی اقسام میں ایک قسم یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی سے جو کام لینا چاہتا ہے اس کے کرنے کا اس کے دل میں القاء کردیتا ہے۔ جس کی قرآن مجید کے حوالے سے دو مثالیں پیش خدمت ہیں۔ اے انسان تیرے رب نے مکھی کی طرف وحی کی ہے کہ وہ پہاڑوں اور انگور کی بیلوں میں اپنا گھر بنائے پھر پھلوں سے رس چوس کر اپنے رب کی ہموار کردہ راہوں پر چلتی ہوئی اپنے پیٹ سے مختلف رنگوں کا شہد نکالے جس میں لوگوں کے لیے شفاء رکھ دی گئی ہے۔ یقیناً اس میں غور کرنے والے لوگوں کے لیے راہنمائی کا سامان موجود ہے۔ (النحل : ٦٨ تا ٦٩) موسیٰ (علیہ السلام) کی پیدائش کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ ہم نے موسیٰ کی والدہ کی طرف وحی کی (یعنی القا کیا) کہ اسے دریا میں ڈال دے، اس پر ڈرنے کی ضرورت نہیں۔ ہم موسیٰ کو آپ کی طرف لوٹائیں گے۔ اور اسے نبوت سے سرفراز کریں گے۔ ( القصص : ٧) مسائل ١۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) کو بھائیوں نے اندھیرے کنویں میں پھینک دیا۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ القا کے ذریعے جسے چاہے آگاہ فرماتا ہے۔ یوسف
16 فہم القرآن ربط کلام : برادران یوسف غلطی پر غلطی کا ارتکاب کرتے ہیں۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) کو ویران کنویں میں پھینک کر۔ برادران یوسف روتے ہوئے دانستہ تاخیر سے عشاء کے وقت گھر آئے تاکہ ان کی من گھڑت کہانی پر والد کو یقین آجائے۔ یاد رہے کہ عشاء کا وقت مغرب کے بعد اچھی طرح اندھیرا چھا جانے سے لے کر آدھی رات تک شمار ہوتا ہے۔ برادران یوسف گھر داخل ہوتے ہی ہچکیاں لیتے اور زارو قطار روتے ہوئے حضرت یعقوب (علیہ السلام) سے کہتے ہیں۔ اباجان! ہم یوسف کو اپنے سامان کے پاس چھوڑ کر کھیل کود میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش میں بہت دور نکل گئے۔ ہمارے پیچھے بھیڑئیے نے یوسف کو کھالیا۔ یہ حقیقت ہے مگر ہمارے سچا ہونے کے باوجود آپ ہم پر یقین نہیں کریں گے۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے حضرت یوسف کی خون آلود قمیص حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے سامنے رکھ دی۔ جس پر کسی جانور کا خون لگا رکھا تھا۔ حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے یہ صورت حال دیکھ کر صرف اتنا ہی فرمایا۔ جو کچھ تم کہہ رہے ہو اس پر میں اللہ ہی سے مدد کا طلب گار ہوں۔ حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے حضرت یوسف کو اس کے بھائیوں کے سپرد کرتے ہوئے جس بات کا خدشہ ظاہر کیا تھا برادران یوسف نے پورے غورو خوض کے بعد سوچا چونکہ ہمارے والد کے دل میں بھیڑئیے کا یوسف کو کھانے کے بارے میں اندیشہ پختہ ہوچکا ہے۔ اس لیے ہمیں بھی یہی بات ان کے سامنے کہنا چاہیے۔ اس کے لیے انہوں نے حضرت یوسف کی قمیص کو کسی جانور کے خون کے ساتھ آلودہ کرلیا۔ گویا کہ انہوں نے من گھڑت کہانی کو حقیقت کا رنگ دینے کے لیے یکے بعددیگرے چار غلط اقدام کیے۔ ١۔ بلا وجہ رات تاخیر سے گھر آنا۔ ٢۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) کی قمیص کو کسی جانور کے خون کے ساتھ لت پت کرنا۔ ٣۔ زار و قطار رونا اور مصنوعی ہچکیاں لینا۔ ٤۔ باپ کے خدشے کے مطابق جھوٹی کہانی بنانا۔ تحقیق و تفتیش کی تاریخ میں یہ بات بڑی مسلمہ ہے کہ واردات کرنے والے شخص سے کوئی نہ کوئی ایسی غلطی یا کوتاہی رہ جاتی ہے جس سے جرم کا سراغ لگانا آسان ہوجاتا ہے۔ جسے تفتیشی زبان میں کہا جاتا ہے کہ چور کوئی نہ کوئی نشان چھوڑجاتا ہے۔ کہانی بیان کرنے سے پہلے ہی اخلاقی دباؤ ڈالنے کے لیے حضرت یعقوب (علیہ السلام) کو یہ کہا ہمارے سچا ہونے کے باوجود آپ ہماری بات پر یقین نہیں کریں گے۔ بعض مفسرین نے بات میں وزن پیدا کرنے کے لیے لکھا ہے کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) کی قمیص پر جھوٹا خون لگانے کے وقت وہ بھول گئے تھے۔ کہ قمیص کو مخصوص انداز میں پھاڑنا بھی چاہیے۔ حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے حضرت یوسف (علیہ السلام) کی قمیص صحیح سالم دیکھی تو وہ فرمانے لگے کہ یہ کیسا بھیڑیا تھا؟ جس نے یوسف کو پھاڑ ڈالا مگر قمیص کو آنچ نہ آنے دی۔ ممکن ہے اس طرح ہوا ہو لیکن میرے خیال میں حقیقت کی تہہ تک پہنچنے کے لیے بھائیوں کا یوسف (علیہ السلام) کے ساتھ برتاؤ حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے سامنے تھا۔ جس بنا پر انہوں نے یوسف (علیہ السلام) کو ان کے سپرد کرتے ہوئے اس خدشہ کا اظہار فرمایا تھا کہ کہیں تمہاری غفلت کی وجہ سے بھیڑیا یوسف کو نقصان نہ پہنچائے۔ پھر جس انداز سے انہوں نے من گھڑت کہانی بیان کی اس سے ایک دانشور انسان کو حقیقت تک پہنچنے کے لیے کوئی خاص دشواری پیش نہیں آتی۔ کیونکہ قتل جیسا سانحہ رونما ہونے کے بعد مقتول کے قریبی اعزا و اقرباء کے رونے کا انداز اور ان کی طبیعت پر مرتب ہونے والے غم کے اثرات سے آدمی اچھی طرح اندازہ کرلیتا ہے کہ مقتول کے بارے میں رونے والے کے غم کی کیا کیفیت ہے۔ حضرت یعقوب (علیہ السلام) تو یوسف (علیہ السلام) کے باپ اور اللہ کے عظیم پیغمبر تھے۔ انہیں بات کی تہہ تک پہنچنے میں ذرا دیر نہ لگی فوراً فرمایا کہ تمہارے دلوں نے یوسف کے ساتھ زیادتی کرنے اور جھوٹی کہانی بنانے کو آسان بنا دیا ہے۔ کیونکہ بیٹوں نے اپنی طاقت پر ناز کرتے ہوئے یہ جرم کیا تھا۔ حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے نہایت ہی دانشمندی اور صبر کا مظاہرہ کرتے ہوئے جوان بیٹوں سے جھگڑنا مناسب نہیں سمجھا۔ ایسی صورت حال میں اللہ تعالیٰ سے ہی مدد طلب کرنی چاہیے۔ لہٰذاحضرت یعقوب (علیہ السلام) نے ” اللہ“ ہی سے مدد طلب کی۔ اس قسم کے حالات میں ایک دانشور باپ کو یہی طریقہ اختیار کرنا چاہیے ورنہ بدنامی کے ساتھ صورت حال اور گھمبیر ہوجایا کرتی ہے۔ حضرت یعقوب (علیہ السلام) صبر جمیل کے ساتھ اس غم کو پی جاتے ہیں۔ صبر جمیل سے مراد ایسا صبر جس میں کسی قسم کا گلہ شکوہ نہ پایا جائے۔ (عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ (رض) قَالَ مَرَّ النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بِامْرَأَۃٍ تَبْکِی عِنْدَ قَبْرٍ فَقَالَ اتَّقِی اللَّہَ وَاصْبِرِی قَالَتْ إِلَیْکَ عَنِّی، فَإِنَّکَ لَمْ تُصَبْ بِمُصِیبَتِی، وَلَمْ تَعْرِفْہُ فَقِیلَ لَہَا إِنَّہُ النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَأَتَتْ بَاب النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَلَمْ تَجِدْ عِنْدَہُ بَوَّابِینَ فَقَالَتْ لَمْ أَعْرِفْکَ فَقَالَ إِنَّمَا الصَّبْرُ عِنْدَ الصَّدْمَۃِ الأُولَی) [ رواہ البخاری : باب زِیَارَۃِ الْقُبُورِ ] ” حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا گزر ایک ایسی عورت کے پاس سے ہوا جو قبر پر بیٹھی رو رہی تھی آپ نے فرمایا اللہ سے ڈر اور صبر اختیار کر اس نے کہا تمھیں کیا جو مصیبت مجھے پہنچی ہے وہ آپ کو نہیں اور اس نے آپ کو پہچانا نہیں تھا اسے کہا گیا کہ بے شک آپ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تھے تو وہ آپ کے دروازے پر آئی تو کوئی دربان نہ پایا اور عرض کرنے لگی اے اللہ کے نبی میں آپ کو پہچان نہیں سکی تھی آپ نے فرمایا صبر وہی ہوتا ہے جو صدمے کے آغاز پر کیا جائے۔“ مسائل ١۔ مکارمجرم اکثر زیادہ رویا کرتے ہیں۔ ٢۔ صبر بہترین عمل ہے اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ تفسیر بالقرآن صبر کی فضیلت اور اجر : ١۔ صبر بہترین عمل ہے اور اللہ ہی اس پر مدد کرے گا جو تم بیان کرتے ہو۔ (یوسف : ١٨) ٢۔ اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ (البقرۃ: ١٥٣) ٣۔ صبر کرنے والے کامیاب ہوں گے۔ (المومنون : ١١١) ٤۔ صبر کرنے والوں کی آخرت اچھی ہوگی۔ (الرعد : ٢٤) ٥۔ صبر کرنے والوں کو جنت میں سلامتی کی دعائیں دی جائیں گی۔ (الفرقان : ٧٥) ٦۔ صبر کرنے والے بغیر حساب کے جنت میں جائیں گے۔ (الزمر : ١٠) یوسف
17 یوسف
18 فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) کو ان کے بھائی کنویں میں پھینک کر واپس چلے آئے۔ کچھ دنوں کے بعدایک قافلہ کنویں کے قریب اترا اور انھوں نے یوسف (علیہ السلام) کو کنویں سے نکال لیا۔ مفسرین کی غالب اکثریت اس بات پر متفق ہے کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) تین دن تک اس ویران کنویں میں پڑے رہے اور آخری دن ایک قافلہ وہاں سے گزرا جنہوں نے اس زمانے کے دستور کے مطابق ایک آدمی کو اپنے سے پہلے روانہ کیا تاکہ جہاں انہوں نے پڑاؤ ڈالنا ہے اس کے گردو جوار پانی تلاش کرے۔ پانی تلاش کرنے والے شخص نے جب کنویں میں ڈول ڈالا۔ تو حضرت یوسف (علیہ السلام) اس ڈول میں بیٹھ کر باہر نکلے۔ جنہیں دیکھتے ہی وہ شخص چلا اٹھا کہ قافلے والو! خوش ہوجاؤ۔ ہمیں ایک غلام مل گیا ہے۔ ظاہر ہے قافلے والوں نے آج تک ایسا غلام نہیں دیکھا ہوگا۔ کیونکہ حضرت یوسف (علیہ السلام) پیغمبروں کے عظیم خاندان کا صاحبزادہ تھا اور اللہ تعالیٰ نے انھیں ایسا حسن و جمال عنایت فرمایا تھا جس کی نظیر دنیا میں نہیں ملتی۔ آٹھ، نو سال کی عمر کا پیغمبر زادہ اس کے حسن و جمال اور چہرے کی نورانیت اور معصومیت چودھویں رات کے چاند کو شرما رہی تھی۔ قافلہ والوں کی خوشی کی کوئی انتہا نہ تھی مگر یہ لوگ بردہ فروش نہ تھے۔ اس لیے انہوں نے یوسف (علیہ السلام) کو چند درہموں کے عوض یعنی حقیر سی رقم پر بیچ ڈالا۔ کیونکہ انہیں بردہ فروشی کے کارو بارکے ساتھ کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ کچھ لوگوں نے اس کا مفہوم یہ لکھا ہے کہ بیچنے والے قافلے کی بجائے حضرت یوسف (علیہ السلام) کے بھائی تھے۔ جو کسی نہ کسی انداز میں ان کی نگرانی کر رہے تھے۔ کہ یوسف کا کیا انجام ہوتا ہے۔ جب انہوں نے دیکھا کہ قافلے والے اسے نکال کرلے جا رہے ہیں۔ تو انہوں نے مختلف بہانے بنا کر حضرت یوسف (علیہ السلام) کو ان سے حاصل کیا اور بعد ازاں انہیں کے ہاتھوں معمولی قیمت لے کر فروخت کردیا۔ لیکن پختہ اہل علم، اس بات کے ساتھ اتفاق نہیں کرتے انہوں نے فروخت کنند گان سے مراد قافلے کے لوگ سمجھا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہاں پہلی آیت کے آخر میں فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ خوب جانتا تھا جو وہ کررہے تھے۔ جس کے دو مفہوم ہوسکتے ہیں۔ ١۔ برادران یوسف کو یہ معلوم نہ تھا کہ جو کچھ وہ کر رہے ہیں اس کا انجام یوسف (علیہ السلام) کے بارے میں کتنا بہتر ہوگا۔ ٢۔ قافلے والوں کو بھی یہ خبر نہ تھی کہ جسے وہ عام بچہ اور غلام سمجھ رہے ہیں وہ کس قدر بڑے خاندان کا لخت جگر اور کس قدر عظیم الشان قسمت کا مالک ہوگا۔ غلام عربی زبان میں صرف زرخرید شخص کے لیے نہیں بلکہ غلام کا لفظ چھوٹے بچے سے لے کر ایسے نوجوان کے بارے میں بھی بولا جاتا ہے جس کے چہرے پر جوانی کا سبزہ نمودار ہورہاہو۔ مسائل ١۔ یوسف (علیہ السلام) کو دیکھ کر پانی لانے والا خوشی سے چلا اٹھا۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ ہر کسی کے عمل سے خوب واقف ہے۔ ٣۔ یوسف (علیہ السلام) کو معمولی قیمت پر فروخت کردیا گیا۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ لوگوں کے اعمال سے اچھی طرح باخبر ہے : ١۔ اللہ خوب واقف تھا جو کچھ وہ کر رہے تھے۔ (یوسف : ١٩) ٢۔ اللہ دیکھنے والا ہے جو لوگ عمل کرتے ہیں۔ (آل عمران : ١٦٣) ٣۔ نہیں ہے اللہ غافل اس سے جو لوگ عمل کرتے ہیں۔ (الانعام : ١٣٢) ٤۔ بے شک جو وہ عمل کرتے ہیں اللہ اس کی خبر رکھنے والا ہے۔ (ھود : ١١١) ٥۔ ہم ان کو خبر دیں گے جو وہ اعمال کرتے رہے۔ (الانعام : ١٠٩) ٦۔ اللہ کو ظالموں کے اعمال سے غافل تصور نہ کریں۔ (ابراہیم : ٤٢) یوسف
19 یوسف
20 یوسف
21 فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) کا بازار میں بکنا اور عزیز مصر کا انہیں خریدنا۔ جن اہل علم نے اس سے پہلی آیت کا یہ مفہوم لیا ہے کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) کو فروخت کرنے والے ان کے بھائی تھے۔ انھوں نے مختلف غیر مستند روایات سے ثابت کیا ہے کہ جب قافلہ والے حضرت یوسف کو بیچنے کی غرض سے بازار میں لائے۔ توہر خریدار ان پر اس قدر فریفتہ ہوا جس سے حضرت یوسف (علیہ السلام) کی بولی لگتے لگتے ڈھیروں درہم و دینار اور قیمتی کپڑوں کے انبار لگ گئے مگر عزیز مصر نے سب سے زیادہ بولی چکا کر حضرت یوسف (علیہ السلام) کو خرید لیا۔ آیات کے سیاق و سباق سے یہ بات زیادہ واضح ہوتی ہے کہ یوسف (علیہ السلام) کے بھائیوں سے قافلے والوں نے ہی حضرت یوسف (علیہ السلام) کو عزیز مصر کے ہاتھ فروخت کیا تھا کیونکہ یہ لوگ بنیادی طور پر بردہ فروش نہ تھے۔ جس و جہ سے انہوں نے حضرت یوسف (علیہ السلام) کی قیمت بڑھانے میں زیادہ دلچسپی نہ لی۔ بہرحال حضرت یوسف (علیہ السلام) کو عزیز مصر خرید کر اپنے گھر لے جاتا ہے۔ عزیز مصر کون تھا؟ اکثر مفسرین اور مؤرخین کا خیال ہے کہ مصر کا وزیر خزانہ تھا۔ سوسائٹی کا بڑا آدمی اور حکومت کے اہم عہدے پر فائز ہونے کی وجہ سے وہ حضرت یوسف (علیہ السلام) کو خریدتے وقت پہچان گیا کہ یہ بچہ کوئی عام بچہ نہیں ہے بلکہ کسی بڑے خاندان کا چشم وچراغ ہے لیکن زمانے کے حوادث نے اسے منڈی کا مال بنا دیا ہے۔ اسے یہ فیصلہ کرنا اس لیے بھی آسان ہوا کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) عمر کے اعتبار سے بچہ ہونے کے باوجود اپنے حسن وجمال میں سب سے نمایاں تھے۔ اس لیے اس نے گھر جاتے ہی اپنی بیوی سے کہا کہ اس کا خیال رکھنا۔ ہوسکتا ہے کہ ہمارے لیے بڑا مفید ثابت ہو یا ہم اسے اپنا بیٹا ہی بنالیں۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) کا عزیز مصر کے ہاں پہنچنا اللہ تعالیٰ کی حکمت بالغہ کا نتیجہ تھا۔ جس کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ ہم نے یوسف کو زمین میں یعنی مصر میں اچھا ٹھکانہ دیا تاکہ اسے معاملہ فہمی اور امور مملکت سکھلائیں۔ اللہ تعالیٰ اپنی تدبیر کامیاب کرنے اور ہر حکم کو نافذ کرنے پر قادر ہے لیکن لوگوں کی اکثریت اللہ کی تقدیر اور اس کے احکام کی حکمت کو نہیں جانتی۔ اس آیت کی تفسیر میں حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) فرمایا کرتے تھے کہ دنیا میں تین آدمی بڑے ہی عقلمند اور قیافہ شناس ثابت ہوئے ہیں۔ ١۔ عزیز مصر جس نے یوسف (علیہ السلام) کو دیکھتے ہی گوہر نایاب کے طور پر پہچان لیا اور اپنی اہلیہ سے فرمایا کہ اس بچے کا ہر لحاظ سے خیال رکھنا۔ یہ بڑا ہو کر ہمارے لیے بڑا ہی سود مند ثابت ہوگا۔ ٢۔ حضرت شعیب (علیہ السلام) کی دختر نیک اختر جس نے ایک مسافر یعنی موسیٰ (علیہ السلام) کو شرم وحیا کے ساتھ ایک نظر دیکھتے ہی پہچان لیا تھا کہ یہ جوان نہایت ہی باحیا، صاحب کردار، خیر خواہ اور دیانت دار ہے۔ بعد ازاں اسی کی رائے کے نتیجے میں حضرت شعیب (علیہ السلام) نے جناب موسیٰ (علیہ السلام) کو آٹھ سے دس سال کے لیے اپنے گھر رکھا پھر اسی بیٹی کو ان کے نکاح میں دیا۔ ٣۔ تیسرے ” سیدنا“ صدیق اکبر (رض) ہیں۔ جنہوں نے حضرت عمر بن خطاب (رض) کو اپنے بعد خلیفہ نامزد کیا۔ جنہوں نے اسلام اور مسلمانوں کی وہ خدمت کی جس کی مثال قیامت تک نہ مل سکے گی۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے یوسف (علیہ السلام) کو بہتر ٹھکانہ عطا فرمایا۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ ہر کام پر غالب ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ کا حکم ہر حال میں غالب ہوتا ہے : ١۔ اللہ اپنے ہر کام پر غالب ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔ (یوسف : ٢١) ٢۔ اللہ جب کسی کام کا ارادہ کرتا ہے تو حکم کرتا ہے۔ ہوجا تو وہ ہوجاتا ہے۔ (البقرۃ: ١١٧) ٣۔ بے شک اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔ (البقرۃ : ٢٠) یوسف
22 فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) کا عزیز مصر کے گھر امور مملکت کی تربیت پاتے ہوئے نوجوان ہونا۔ جب حضرت یوسف (علیہ السلام) جوان رعنا ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے انہیں عقل و دانش اور امور مملکت کی جان پہچان سے نوازا۔ جس کے بارے میں ارشاد ہو رہا ہے کہ ہم اسی طرح نیکی کرنے والوں کو جزا دیتے ہیں۔ مفسرین کا خیال ہے کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) ٢٣ سال کے لگ بھگ عزیز مصر کے ہاں ٹھہرے تھے۔ ظاہر ہے کہ اس عرصہ میں حضرت یوسف (علیہ السلام) کی لیاقت، دیانت اور احساس ذمہ داری سے عزیز مصر اور اس کے اہل خانہ اچھی طرح واقف ہوچکے تھے۔ وہ حضرت یوسف (علیہ السلام) کی سیرت طیبہ سے کیوں نہ متاثر ہوتے جبکہ حضرت یوسف (علیہ السلام) براہ راست اللہ تعالیٰ کی نگرانی میں پرورش پا رہے تھے۔ اللہ تعالیٰ جس شخصیت کو اپنا رسول بنانا چاہتا ہے وہ براہ راست اللہ تعالیٰ کی نگرانی میں ہوا کرتا ہے۔ جسے اللہ تعالیٰ بیان کرتا ہے کہ جونہی یوسف جوان ہوئے تو ہم نے اسے علم و حکمت سے نوازا۔ اس فرمان سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) کو عزیز مصر کے گھر ہی نبوت سے سرفراز کیا گیا تھا۔ علم و حکمت اور امور مملکت کے مشاہدات کیے۔ مؤرخین نے عزیز مصر کی بیوی راعیل اور زلیخا لکھا۔ لیکن قرآن مجیدنے اس کی پردہ پوشی کے لیے نام نہیں لیا۔ جب یوسف (علیہ السلام) حسن و جمال اور عالم شباب کو پہنچے تو عزیز مصر کی بیوی نے حضرت یوسف کو برائی کے لیے اپنی طرف مائل کرنے کی کوشش کی۔ نہ معلوم وہ کس کس انداز اور نخرے کے ساتھ حضرت یوسف (علیہ السلام) کو ورغلانے کی کوشش کرتی رہی۔ جب تمام کوششوں میں ناکام ہوئی تو اس نے آخری قدم اٹھاتے ہوئے ایک دن حضرت یوسف (علیہ السلام) کو کسی بہانے اپنے شب خانہ میں بلایا۔ جونہی حضرت یوسف (علیہ السلام) اس جگہ پہنچے تو اس نے نامعلوم طریقے کے ساتھ اس کمرے تک پہنچنے والی راہداری اور اس کے ملحقہ کمروں کو مقفل کردیا۔ عزیز مصر کے محل کا نقشہ سمجھنے کے لیے آج کے بنگلوں اور محلات کے نقشوں کو سامنے رکھنا چاہیے۔ جب اس نے ہر دروازہ مقفل کرلیا تو حضرت یوسف (علیہ السلام) کو ہیجانی اور جذباتی انداز میں کہا کہ آجاؤ اب تو کوئی نہیں دیکھتا۔ لیکن حضرت یوسف (علیہ السلام) نگاہیں نیچی رکھتے ہوئے بڑے ہی وقار اور حیادار لہجے میں فرماتے ہیں کہ ” اللہ کی پناہ“ یعنی اللہ مجھے بچائے۔ جس نے مجھے بہترین قیام وطعام بخشا ہے۔ میں ایسی حرکت کیونکر کرسکتا ہوں کیونکہ اللہ تعالیٰ زیادتی کرنے والوں کو کامیابی نہیں دیتا۔ یہاں ظلم سے مراد اللہ تعالیٰ کی حد کو توڑنا ہے اور بدکاری کرنا ہے۔ بدکار ایک طرف اللہ تعالیٰ کی حد کو توڑ کر ظلم کرتا ہے۔ دوسری طرف اپنی حیا کو تار تار کرتے ہوئے اپنے آپ پر ظلم کرتا ہے۔ جس سے زانی اور زانیہ دونوں کے خاندانوں کے وقار پر دھبہ لگتا ہے۔ اکثر اوقات مال ضائع ہونے کے علاوہ قتل جیسے سنگین جرائم جنم لیتے ہیں۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) نے اس لیے بھی اس حرکت کو ظلم قرار دیا کہ یہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی اور اس کی احسان فراموشی کے علاوہ عزیز مصر کے ساتھ بھی زیادتی ہوگی کہ اس نے مجھ جیسے غلام کو بیٹوں کی طرح پالا اور میں غلام ہو کر اپنے آقا کی عزت کو تار تار کروں یہ بڑا ہوگا۔ جس سے میں اللہ کی پناہ مانگتا ہوں۔ (إِنَّہٗ رَبِّیْٓ أَحْسَنَ مَثْوَایَ)[ یوسف : ٢٣] ” بے شک وہ میرا رب ہے۔ اس نے میرا ٹھکانہ اچھابنایا ہے۔“ رب سے مراد بعض مفسرین نے عزیز مصر لیا ہے۔ کیونکہ عربی میں یہ الفاظ عام استعمال ہوتے ہیں جیسے رب البیت وغیرہ۔ اسی کے پیش نظر حضرت یوسف (علیہ السلام) نے عمومی زبان استعمال کرتے ہوئے فرمایا کہ میرے رب یعنی عزیز مصر نے مجھے بہت بڑا مقام دیا ہے اگر میں اس کی اہلیہ کے ساتھ بدکاری کروں تو بہت بڑی زیادتی اور ظلم ہوگا۔ دوسرے اہل علم اس معنی کی نفی کرتے ہیں کہ ایک ایسا شخص جس کو اللہ تعالیٰ نے نبی بنانا ہے وہ اللہ تعالیٰ کے مقابلہ میں کسی بڑے سے بڑے شخص کو بھی ” میرا رب“ کے الفاظ نہیں کہہ سکتا۔ میرا ذاتی خیال بھی یہ ہے کہ پیغمبر کی شان اور اس کے عقیدہ کے خلاف ہے کہ وہ اللہ کے سوا کسی دوسرے کو ” میرا رب“ کہہ۔ بے شک رب کا لفظ دونوں معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ لیکن نبی کے لائق نہیں کہ وہ ” اللہ“ کے سوا کسی اور کے لیے یہ لفظ استعمال کرے۔ لہٰذا حضرت یوسف کی مراد حقیقی رب تھا۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے یوسف (علیہ السلام) کو علم و حکمت عطا فرمائی۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نیک لوگوں کو صلہ عطا فرماتا ہے۔ ٣۔ یوسف (علیہ السلام) نے گناہ سے بچنے کے لیے اللہ سے پناہ طلب کی۔ ٤۔ ظالم لوگ فلاح نہیں پاتے۔ تفسیر بالقرآن ظالم حقیقی کامیابی نہیں پایا کرتا : ١۔ بے شک ظالم فلاح نہیں پاتے۔ (یوسف : ٢٣) ٢۔ ظالموں کے لیے تباہی ہے۔ (نوح : ٢٨) ٣۔ ظالموں کی بستی کو الٹا کر پتھروں کی بارش برسائی گئی۔ (العنکبوت : ٣١) ٤۔ ظالموں کے لیے ہمیشہ کا عذاب ہے۔ (الحشر : ١٧) ٥۔ ظالم کامیابی نہیں پائیں گے۔ (الانعام : ٢١) ٦۔ مجرم فلاح نہیں پائیں گے۔ (یونس : ١٧) ٧۔ ظالموں کا کوئی ولی اور مددگار نہیں ہوگا۔ (الشعراء : ٨) ٨۔ قیامت کے دن ظالم اپنے ہاتھوں کو کاٹیں گے اور کہیں گے کاش ہم رسول کی راہ اختیار کرتے۔ (الفرقان : ٢٧) ٩۔ قیامت کے دن ظالم لوگ کھلی گمراہی میں ہوں گے۔ (مریم : ٣٨) یوسف
23 یوسف
24 فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ پچھلی آیت میں حضرت یوسف (علیہ السلام) کے عظیم امتحان کا ذکر ہوا۔ اس آیت میں اس کی مزید تفصیل ہے کہ زلیخا تو گناہ کے خیال میں لگی ہوئی تھی۔ یوسف (علیہ السلام) کے دل میں بھی انسانی فطرت کے تقاضے سے کچھ کچھ غیر اختیاری میلان پیدا ہونے لگا مگر اللہ تعالیٰ نے عین اس وقت اپنی برہان یوسف (علیہ السلام) کے سامنے کردی جس کی وجہ سے غیر اختیاری میلان آگے بڑھنے کی بجائے ختم ہوگیا۔ اس آیت میں لفظ ” ہَمَّّ“ بمعنی خیال یوسف (علیہ السلام) اور زلیخا دونوں کی طرف منسوب کیا گیا ہے۔ یہ تو معلوم ہے کہ زلیخاکو گناہ کا خیال تھا۔ یوسف (علیہ السلام) کے متعلق بھی اسے ہی خیال کا وہم ہوسکتا تھا اور یہ باجماع امت شان نبوت کے خلاف ہے۔ کیونکہ جمہورعلماء کا اس بات پر اجماع ہے کہ انبیاء کبیرہ، صغیرہ ہر قسم کے گناہوں سے معصوم ہوتے ہیں۔ کبیرہ گناہ نہ تو قصدًا ہوسکتا ہے اور نہ سہواً ہوسکتا ہے۔ البتہ صغیرہ گناہ سہواً وخطا کے طور پر سرزد ہونے کا امکان ہے۔ مگر اس پر بھی انبیاء (علیہ السلام) کو قائم نہیں رہنے دیا جاتا۔ عربی زبان میں لفظ ” ہَمَّ“ دو معنوں کے لیے بولا جاتا ہے۔ ١۔ کسیکام کا پختہ ارادہ اور عزم کرلینا۔ ٢۔ محض دل میں وسوسہ اور خیال کا پیدا ہونا جو انسان کے اختیار میں ہوتا نہ اس پر کوئی مواخذہ اور گناہ ہے۔ معلوم ہوا کہ اگرچہ آیت میں لفظ ” ہَمَّ“ زلیخا اور حضرت یوسف (علیہ السلام) دونوں کے لیے بولا گیا مگر ان دونوں کے ” ہَمَّ“ میں بڑا فرق ہے۔ پہلاہَمَّ گناہ ہے اور دوسرا ہَمَّ غیر اختیاری وسوسہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس کے بعد جو ارشاد فرمایا ” لولا ان لا برہان ربہ“ اس کی جزا محذوف ہے اور معنیٰ یہ ہے کہ اگر وہ اپنے رب کی برہان نہ دیکھتے تو اس خیال میں مبتلا ہوجاتے۔ قرآن کریم نے یہ واضح نہیں فرمایا کہ جو ” برہان ربی“ یوسف (علیہ السلام) کے سامنے آئی وہ کیا تھی؟ اسی لیے اس کے بارے میں مفسرین کے مختلف اقوال ہیں۔ حضرت عبداللہ بن عباس (رض) مجاہد، سعید بن جبیر، محمد بن سیرین، حسن بصری وغیرہ (رض) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے بطور معجزہ اس خلوت گاہ میں حضرت یعقوب (علیہ السلام) کی صورت اس طرح سامنے کی کہ وہ اپنی انگلی اپنے منہ میں دبائے ہوئے یوسف کو متنبہ کر رہے تھے۔ اور بعض مفسرین نے فرمایا کہ عزیز مصر کی صورت ان کے سامنے کردی۔ بعض نے فرمایا کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) کی نظر چھت پر پڑی جس پر لکھا ہوا تھا ” لَاتَقْرَ بُوْالزِنٰی اِنَّہٗ کَانَ فَاحِشَۃً وَسَاءَ سَبِیْلاً“ بعض مفسرین نے فرمایا کہ زلیخا کے کمرہ میں ایک بت تھا۔ اس نے بت پر پردہ ڈالا تو یوسف (علیہ السلام) نے وجہ پوچھی اس نے کہا کہ یہ میرا معبود ہے۔ اس کے سامنے گناہ کرنے کی اجازت نہیں۔ یوسف (علیہ السلام) نے کہا کہ میرا معبود اس سے زیادہ کا مستحق ہے۔ اس کی نظر کو کوئی پردہ نہیں روک سکتا۔ بہر حال حضرت یوسف (علیہ السلام) نے برہان دیکھی جس سے ان کے دل سے وسوسہ جاتارہا۔ (کَذٰلِکَ لِنَصْرِفَ عَنْہُ السُّوٓءَ وَالْفَحْشَاءَ إِنَّہٗ مِنْ عِبَادِنَا الْمُخْلَصِیْنَ )[ یوسف : ٢٤] ” یعنی ہم نے یوسف کو یہ برہان اس لیے دکھائی کہ ان سے برائی اور بے حیائی کو ہٹا دیں۔ کیونکہ یوسف (علیہ السلام) ہمارے برگزیدہ بندوں میں سے ہیں۔“ لفظ مخلصین اس جگہ بفتح لام مخلص کی جمع ہے۔ جس کے معنیٰ منتخب کے ہیں۔ مراد یہ ہے کہ یوسف (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے اصلاح خلق کے لیے انتخاب فرمایا ہے۔ ایسے لوگوں پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے حفاظتی پہرہ ہوتا ہے کہ وہ کسی برائی میں مبتلا نہ ہوسکیں۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے دو لفظ سوء اور فحشاء کے استعمال فرمائے ہیں۔ سوء کے لفظی معنیٰ برائی کے ہیں۔ مراد اس سے صغیرہ گناہ ہے اور فحشاء کے معنی بے حیائی کے ہیں اس سے مراد کبیرہ گناہ ہے۔ اس سے معلوم ہواکہ اللہ تعالیٰ نے حضرت یوسف (علیہ السلام) کو کبیرہ اور صغیرہ دونوں قسم کے گناہوں سے محفوظ رکھا۔ صحیح مسلم کی ایک حدیث میں ہے کہ جس وقت حضرت یوسف (علیہ السلام) کو یہ ابتلاء پیش آئی تو فرشتوں نے اللہ تعالیٰ سے عرض کی کہ آپ کا یہ مخلص بندہ گناہ کے خیال میں ہے حالانکہ وہ اس کے وبال کو خوب جانتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ انتظار کرو۔ اگر وہ گناہ کرلے تو جیسا کرے۔ وہ اس کے نامۂ اعمال میں لکھ دو اور اگر وہ اس کو چھوڑ دے تو اس کے نامۂ اعمال میں گناہ کے بجائے نیکی لکھ دو کیونکہ اس نے میرے خوف سے اپنی خواہش کو چھوڑدیا ہے۔ ( رواہ مسلم : باب اذا ہم العبد بحسنۃ ) صحیح مسلم کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے میری امت کے لیے گناہ کے وسوسہ اور خیال کو معاف کردیا ہے۔ جبکہ وہ اس پر عمل نہ کرے۔ (رواہ مسلم : تجاوز اللہ عن حدیث النفس والخواطر باتقلب اذالم تستقر) مسائل ١۔ عزیز مصر کی بیوی نے برائی کا ارادہ کرلیا تھا۔ ٢۔ یوسف (علیہ السلام) کو برہان کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے برائی سے بچالیا۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ پیغمبروں کو برائی اور بے حیائی سے دور رکھتا ہے۔ ٤۔ یوسف (علیہ السلام) اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ بندے اور پیغمبر تھے۔ تفسیر بالقرآن اللہ کے مخلص بندے : ١۔ اللہ اپنے مخلص بندوں کو برائی اور بے حیائی سے بچاتا ہے۔ (یوسف : ٢٤) ٢۔ رسول اللہ کو مخلص لوگوں کے ساتھ رہنے کا حکم دیا گیا۔ (الکہف : ٢٨) ٣۔ تم خالص اللہ کو پکارو اگرچہ یہ بات کفار کو ناگوار گزرے۔ (المومن : ١٤) ٤۔ شیطان نے کہا تیرے مخلص بندوں کے سوا تمام کو گمراہ کروں گا۔ (الحجر : ٤٠) ٥۔ شیطان نے کہا تیری عزت کی قسم تیرے مخلص بندوں کے علاوہ سبھی کو گمراہ کروں گا۔ (ص : ٨٣) ٦۔ فرما دیجیے مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں خالصتاً اللہ کی عبادت کروں۔ (الزمر : ١١) ٧۔ جنھوں نے رسولوں کو جھٹلایا وہ دوزخ میں داخل کیے جائیں گے۔ اللہ کے خاص بندوں کے سوا۔ (الصٰفٰت : ١٢٨) یوسف
25 فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ اللہ تعالیٰ کی توفیق سے حضرت یوسف (علیہ السلام) کا بے حیائی سے بچتے ہوئے دروازے کی طرف بھاگنا۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) اپنی عفت و عصمت بچاتے ہوئے دروازے کی طرف دوڑے۔ ان کو پکڑنے کے لیے عزیز مصر کی بیوی پیچھے بھاگتی ہے۔ لیکن حضرت یوسف (علیہ السلام) دوڑتے ہوئے دروازے تک پہنچ گئے۔ پیچھے سے عزیز مصر کی بیوی نے ان کیقمیص کھینچی۔ اس حالت میں حضرت یوسف دروازہ کھولنے میں کامیاب ہوئے جونہی دروازہ کھلا۔ دونوں نے عزیز مصر کو دروازے کے سامنے پایا۔ اپنے خاوند کو دیکھ کر عورت نے اپنی کرتوت کو یوسف (علیہ السلام) کے ذمہ لگاتے ہوئے اپنے خاوند سے مطالبہ کیا کہ اس مجرم کی کیا سزا ہونی چاہیے؟ جس نے آپ کی اہلیہ کے ساتھ برا ارادہ کیا ہو۔ ہاں اس کی سزا تو جیل بھیجنا یا اس سے بھی سخت ترین سزا ہونی چاہیے۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) فوراً فرماتے ہیں۔ ایسا ہرگز نہیں۔ بلکہ اس عورت نے مجھے ورغلانے کی کوشش کی ہے۔ عورت کے خاندان میں ایک شخص نے گواہی دی کہ اگر یوسف کی قمیص آگے سے پھٹی ہے۔ تو عورت سچی اور یوسف جھوٹا ہے۔ اگر اس کی قمیص پیچھے سے پھٹی ہے تو عورت جھوٹی اور یوسف سچ کہتا ہے۔ جب یوسف (علیہ السلام) کی قمیص دیکھی گئی تو وہ پیچھے سے پھٹی ہوئی تھی۔ جس پر عزیز مصر نے کہا یہ عورتوں کی ایک چال اور مکرو فریب ہے۔ بلاشبہ تمہارا مکرو فریب بڑا ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی اس نے حضرت یوسف (علیہ السلام) کو بڑی عاجزی سے کہا جو ہونا تھا ہوگیا۔ اس بات کو آگے بڑھانے کے بجائے جانے دیجیے پھر اپنی بیوی کو مخاطب کرکے کہنے لگا کہ تجھے اپنے گناہ کی معافی مانگنی چاہیے۔ یقیناً تو ہی خطاکار ہے۔ اس موقعہ پر عزیز مصر نے انتہائی دانش مندی اور حوصلہ سے کام لیتے ہوئے معاملے کو نپٹانے کی کوشش کی۔ تاکہ مزیدبدنامی سے بچا جاسکے۔ مگر معاملہ تین کے بجائے چوتھے آدمی تک پہنچ چکا تھا۔ ظاہر ہے کہ بڑے لوگوں کے محلات میں کئی نوکر اور خادمائیں ہوا کرتی ہیں۔ ان حالات میں بات کا پھیلنا یقینی ہوتا ہے۔ اس واقعہ پر تبصرہ کرتے ہوئے قاضی سلیمان منصور پوری سیشن جج آف ریاست پٹیالہ لکھتے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ ایک ہوشیار شخص تھا، اور اس نے جو طریق استدلال اختیار کیا۔ وہ صاف طور پر ظاہر کرتا ہے کہ یہ شخص بالکل عورت کی حمایت میں تھا۔ اگر ہم عورت کے اس بیان کو مروجہ قانون کے تحت لائیں تو یہ ایک استغاثہ اقدام زنا بالجبر کا تھا۔ استغاثہ کی صداقت خود مستغیثہ کے بیان اور حالت سے ہونی چاہیے تھی۔ جس میں عورت کے لباس اور جسم کو دیکھا جاتا۔ تشدد کے نشانات تلاش کیے جاتے ہیں۔ لیکن رائے دہندہ چونکہ عورت کے گھرانے کا تھا۔ اس لیے اس نے تحقیقات کا یہ حقیقی پہلو اختیار ہی نہیں کیا۔ بلکہ عورت کے خالی خولی بیان کو مان کر حضرت یوسف (علیہ السلام) پر صفائی کا بار ڈال دیا۔ یہ تو اللہ تعالیٰ نے اپنے برگزیدہ بندہ کی عفت و عصمت کو واضح کرنا تھا۔ ورنہ طریقہ تحقیقات خالی از تعصب ہرگز نہ تھا۔ اب قانون کی دوسری بات سمجھو کہ اس شاہد نے دریافت اصلیت کے لیے ایک قرینہ کو اختیار کیا ہے اور اللہ تعالیٰ نے ہم کو یہی امر سکھلانے کے لیے اس کا ذکر فرمایا ہے کہ جب شہادت واقعہ موجود نہ ہو تب قرائن کا استعمال کیا جا سکتا ہے اور فقدان شہادت اصلیہ کے وقت قرائن صحیحہ اور قیاسات قریبہ بھی شہادات کا کام دے جاتے ہیں۔ جن لوگوں نے عمر فاروق اور علی مرتضیٰ (رض) کے فیصلہ جات کو پڑھا ہے۔ جن لوگوں کی نظر قاضی کعب بن سرازدی اور قاضی شریح بن الحارث کندی اور قاضی ایاس بن معاویہ مزنی اور فقیہ محمد بن عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ کے فیصلہ جات تک پہنچی ہے وہ جانتے ہیں کہ آئمۂ اسلام نے کس عمدگی سے اس اصول کا استعمال کیا ہے اور وہ فراست صادقہ کی شمولیت سے حقیقت اصلیہ کا انکشاف عمدگی سے کیا کرتے تھے۔ (سیرت رحمت اللعلمین) مسائل ١۔ برائی سے بچنے کے لیے ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے۔ تفسیر بالقرآن مکر کا مفہوم : ١۔ بے شک یہ تیری تدبیر ہے عورتوں کا مکر بہت بڑا ہوتا ہے۔ (یوسف : ٢٨) ٢۔ بے شک یہ مکر ہے جو تم نے شہریوں کو ان کے گھروں سے نکالنے کے لیے کیا ہے۔ (الاعراف : ١٢٣) ٣۔ اللہ نے اسے ان کی خفیہ تدبیروں سے محفوظ رکھا۔ (المومن : ٤٥) ٤۔ انہوں نے مکر کیا اور اللہ نے بھی تدبیر کی اللہ بہترین تدبیر کرنے والا ہے۔ (الانفال : ٣٠) ٥۔ ان کے مکر کا انجام دیکھو ہم نے ان کو اور ان کی قوم کو ہلاک کردیا۔ (النمل : ٥١) یوسف
26 یوسف
27 یوسف
28 یوسف
29 یوسف
30 فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ عزیز مصر کے معاملہ کو رفع دفع کرنے کے باوجود بات امراء کے گھروں تک پہنچی۔ جوں جوں بات امراء کے گھرانوں میں پہنچتی گئی ہر عورت نے اپنے اپنے انداز سے اس پر تبصرہ کیا۔ سب نے اس بات پر اتفاق کیا کہ عزیز مصر کی بیوی کس قدر جذباتی اور بے وقوف ہے کہ وہ زر خرید غلام پر فریفتہ ہوچکی ہے۔ ” شَغَفَھَاحُبًّا“ کے بارے میں اہل لغت نے لکھا ہے کہ اس سے مراد دل کے اندر وہ خلا، حلقہ یا وہ ہلکی سی جھلی ہے جو دل کے اوپر دکھائی دیتی ہے۔ اس کا معنٰی دل پر محبت کی چوٹ لگنا بھی لیا گیا ہے۔ مراد یہ ہے کہ عزیز مصر کی بیوی پر حضرت یوسف کی غالب ہوچکی تھی اور وہ اپنے زر خرید غلام کے ہاتھ اپنا دل ہار بیٹھی۔ جب ان باتوں کا عزیز مصر کی بیوی کو علم ہوا تو اس نے تمام عورتوں کو ایک دعوت میں مدعو کیا۔ جس میں شاندار طریقے کے ساتھ تکیے سجائے گئے اور ہر کسی کے سامنے کھانے پینے کی اشیاء کے ساتھ پھل رکھتے ہوئے ایک ایک چھری رکھ دی گئی۔ ممکن ہے اس وقت بھی چھری کانٹے سے کھانے کا رواج ہو۔ اس کے بعد عزیز مصر کی بیوی نے کسی بہانے حضرت یوسف (علیہ السلام) کو ان عورتوں کے سامنے بلایا۔ جب یوسف (علیہ السلام) اندر آئے تو عورتوں نے نظریں اٹھا کر ان کی طرف دیکھا تو خودسپردگی کے عالم میں اپنے ہاتھ زخمی کرلیے۔ اس کے ساتھ ہی بے ساختہ ان کے منہ سے نکلا۔ یہ بشر نہیں بلکہ ایک معزز فرشتہ ہے۔ ان کے جذبات دیکھ کر اس عورت کو اور حوصلہ ملا۔ جس بنا پر اس نے سب کے سامنے کھل کر کہا کہ جس کے بارے میں تم مجھے ملامت کرتی تھیں۔ تم نے دیکھ لیا کہ یوں ہی نہیں میں نے اسے اپنی طرف مائل کرنے کی کوشش کی تھی۔ مگر یہ بچ نکلا۔ اگر اس نے اب میری حکم عدولی کی تو اسے جیل خانہ میں ڈال کر ذلیل کیا جائے گا۔ یوسف (علیہ السلام) کے حسن و جمال کو دیکھتے ہی نہ صرف انہوں نے اپنے ہاتھ زخمی کرلیے بلکہ یوسف (علیہ السلام) کے حسن و صورت سے متاثر ہو کر ایک دوسرے سے بڑھ کر فریفتہ ہو رہی تھیں۔ گویا کہ یہاں یک نہ شد دو شد سے بھی معاملہ کہیں آگے گزر چکا تھا۔ لیکن دوسری طرف اس ماہ جبیں کی کیفیت یہ تھی کہ نگاہیں زمین پر گڑھی ہوئی تھیں۔ گناہ کے ماحول سے پریشان اور اللہ کے ڈر سے خوفزدہ ہو کر دل ہی دل میں اللہ کی پناہ مانگ رہے ہیں۔ اس واقعہ سے صاف معلوم ہو رہا ہے کہ اس زمانے میں مصر کے پوش محلوں اور (ہائی جینٹری) High Gentry کی اخلاقی حالت کیا تھی کہ سر عام اور کھلے الفاظ میں ایک نہیں سب بیگمات خود سپردگی کی کیفیت میں ایک غیر محرم کے سامنے نسوانی جذبات کا اظہار کر رہی ہیں۔ لیکن آزادی نسواں کے پرستار انہیں روکنے ٹوکنے کے لیے تیار نہ تھے۔ جس طرح آج یورپ، امریکہ بلکہ بعض اسلامی ملکوں میں بھی یہ ماحول پیدا ہوچکا ہے جو کسی بھی معاشرے کی تباہی کے سوا کوئی نتیجہ برآمد نہیں کرسکتا۔ حسن یوسف : (عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ أَنَّ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)۔۔ ثُمَّ عَرَجَ بِیْٓ إِلَی السَّمَآء الثَّالِثَۃِ فَاسْتَفْتَحَ جِبْرِیْلُ فَقِیْلَ مَنْ أَنْتَ قَالَ جِبْرِیْلُ قِیْلَ وَمَنْ مَّعَکَ قَالَ مُحَمَّدٌ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قِیْلَ وَقَدْ بُعِثَ إِلَیْہِ قَالَ قَدْ بُعِثَ إِلَیْہِ فَفُتِحَ لَنَا فَإِذَا أَنَا بِیُوْسُفَ إِذَا ہُوَ قَدْ أُعْطِیَ شَطْرَ الْحُسْنِ فَرَحَّبَ وَدَعَا لِیْ بِخَیْرٍ) [ رواہ مسلم : کتاب الایمان، باب الاسرا] ” حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔۔ پھر مجھے تیسرے آسمان پر چڑھایا گیا جبرائیل (علیہ السلام) نے دروازہ کھلوانا چاہا پوچھا گیا کون ہے جواب ملا جبرائیل۔ پوچھا گیا تمہارے ساتھ کون ہے۔ جبرائیل (علیہ السلام) کہنے لگے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) انہوں نے دریافت کیا کہ آپ کو لینے کے لیے بھیجا گیا تھا جبرائیل (علیہ السلام) نے کہا ہاں انہیں لینے کے لیے بھیجا گیا تھا۔ دروازہ کھول دیا گیا وہاں یوسف (علیہ السلام) سے ملاقات ہوئی جبکہ اللہ تعالیٰ نے انہیں ساری کائنات کے حسن کا آدھا حصہ عطا فرمایا تھا۔ تو اس نے خوش آمدید کہا اور میرے لیے بھلائی کی دعا کی۔“ مسائل ١۔ یوسف (علیہ السلام) کو دیکھ کر عورتوں نے اپنے ہاتھ کاٹ لیے۔ ٢۔ اللہ کا نبی صورت و سیرت کے لحاظ سے اعلیٰ ترین انسان ہوتا ہے۔ ٣۔ بعض عورتیں جذبات کی خاطر اپنی عزت بھی داؤ پر لگادیتی ہیں۔ یوسف
31 یوسف
32 یوسف
33 فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) کی بے بسی کے عالم میں مانگی ہوئی دعا قبول ہوئی ہے۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) زر خرید غلام اور غریب الوطن ہونے کی وجہ سے ہر طرف سے بے بس اور مجبور تھے۔ اگر فرار کا راستہ اختیار کرتے تو ان کے سامنے جیل خانہ یا موت تھی۔ دوسری طرف ایک نہیں کئی عورتیں بے حیائی کے چنگل میں پھنسانا چاہتی تھیں۔ یوسف (علیہ السلام) جائیں تو جائیں کہاں۔ مزید یہ کہ اس عورت نے ذلیل کرنے یا جیل کی کال کوٹھڑی میں ڈالنے کی دھمکی دی تھی۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) نے ایک لمحہ کی تاخیر کے بغیر اس کا اظہار کیا کہ جس بے شرمی اور بے حیائی کی تو مجھے دعوت دیتی ہے اور اس کے نہ کرنے پر مجھے جیل جانے کی دھمکی سنا رہی ہے۔ شرم و حیا کے لٹ جانے سے میرے لیے یہ بڑا آسان راستہ ہے کہ میں جیل کی کوٹھڑی قبول کرلوں۔ مقصد یہ تھا کہ جس میں انسان کی حیا رخصت ہوجائے ایسی آزادی اور عزت کو پرکاہ برابر نہیں سمجھنا چاہیے۔ ان خیالات کے اظہار کے بعد یوسف (علیہ السلام) نے دل کی اتھاہ گہرائیوں کے ساتھ اپنے رب سے فریاد کی کہ اے رب کریم میں کب تک اس آزمائش میں پڑا رہوں گا۔ جس طرف یہ مجھے بلا رہی ہے۔ اے میرے رب اگر تو نے مجھے ان کے مکرو فریب سے نہ بچایا تو انسان ہونے کے ناتے ڈر ہے کہ کہیں میں ان کی طرف مائل ہو کر تیری بارگاہ میں جاہلوں میں شامل نہ ہوجاؤں۔ اللہ تعالیٰ نے یوسف (علیہ السلام) کی فریاد قبول کی اور انہیں عورتوں کے مکرو فریب، بے شرمی اور بے حیائی سے محفوظ کردیا۔ کیونکہ اللہ اپنے بندوں کی فریادیں قبول کرنے والا اور ان کے دلوں کے بھید جاننے والاہے۔ مسائل ١۔ یوسف (علیہ السلام) نے گناہ کے بجائے جیل کو ترجیح دی۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ سے برائی سے بچنے کی دعا کرنی چاہیے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی دعا قبول فرماتا ہے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ نے یوسف (علیہ السلام) کو گناہ سے محفوظ فرمالیا۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ سننے اور جاننے والا ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ دعا قبول کرنے اور دلوں کے بھید جاننے والا ہے : ١۔ اللہ نے اس کی دعا قبول فرمائی اور عورتوں کی تدبیر سے اسے دور رکھا بے شک وہ سننے اور جاننے والاہے۔ (یوسف : ٣٤) ٢۔ اللہ دعا کرنے والے کی دعا قبول کرتا ہے۔ (البقرۃ: ١٨٦) ٣۔ اللہ فرماتا ہے کہ مجھے پکارو میں تمہاری دعا قبول کروں گا۔ (المومن : ٦٠) ٤۔ بے شک میرا رب دعاؤں کو سننے والا ہے۔ (ابراہیم : ٣٩) ٥۔ بے شک اللہ دعاؤں کو سننے والا ہے۔ (آل عمران : ٣٨) ٦۔ نوح (علیہ السلام) نے پکارا اے میرے پروردگار میں مغلوب ہوں میری مدد فرما۔ (القمر : ١٠) ٧۔ کون ہے جو مجبور کی پکار کو سنتا ہے اور اس کی تکلیف کو دور کرتا ہے ؟ (النمل : ٦٢) ٨۔ جب لوگوں کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو وہ اللہ کی طرف جھکتے ہوئے اسے پکارتے ہیں۔ (الروم : ٣٣) یوسف
34 یوسف
35 یوسف
36 فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) کا بے بسی اور بے چارگی کے عالم میں بدکاری کے مقابلے میں جیل کو ترجیح دینا۔ حقائق جاننے اور عزیز مصر کی بیوی کے اعتراف جرم کے باوجودمصر کا حکمران طبقہ اور زعماء اپنی عورتوں کے ہاتھوں اس قدر مجبورہوا کہ انہوں نے نسوانی رائے عامہ کے خوف سے حضرت یوسف (علیہ السلام) جیسے عظیم کردار کے حامل، شرم وحیا کے پیکر، دیانت و امانت کے امین اور احساس ذمہ داری کے نگہبان کو جیل کی کال کوٹھڑی میں بند کردیا۔ جس کے بارے میں اللہ سبحانہ تعالیٰ فرما رہے ہیں کہ ان لوگوں نے سب حقائق جاننے اور دیکھنے کے باوجود ایک مدت تک حضرت یوسف (علیہ السلام) کو جیل میں بند رکھا۔ عربی شمار کے مطابق ” سنین“ کا لفظ دس سال کی مدت تک استعمال ہوتا ہے۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) بے گناہ اور ایک پردیسی کی حیثیت سے جیل کی صعوبتیں برداشت کر رہے تھے۔ ان کے ساتھ ہی جیل میں داخل ہونے والے دو جوان قیدیوں نے ان کے سامنے اپنا اپنا خواب بیان کیا۔ ان میں سے ایک نے کہا کہ میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ میں انگور نچوڑ رہا ہوں اور دوسرے نے کہا کہ میں نے خواب دیکھا ہے کہ میں اپنے سر پر روٹیاں اٹھائے ہوئے ہوں۔ جنہیں پرندے نوچ رہے ہیں۔ اے یوسف ہمیں اس کی تعبیر بتائیں؟ کیونکہ ہم آپ کو محسن سمجھتے ہیں محسن کے دو معنی ہیں۔ ١۔ نہایت اخلاص کے ساتھ اللہ کی عبادت کرنے والا۔ ٢۔ لوگوں پر احسان کرنے والا۔ ان الفاظ سے حضرت یوسف (علیہ السلام) کے کردار کے کمال و جمال کا پتا چلتا ہے کہ ایک پردیسی اور بے گناہ قیدی ہونے کے باوجود کتنے حوصلے کے ساتھ جیل کاٹتے ہوئے اپنے رب کے شکر گزار اور ساتھیوں کے کس قدر خدمت گار ہوں گے۔ حالانکہ ایک بے گناہ قیدی اپنی بے گناہی اور ظالموں کے ظلم کی وجہ سے قید میں نہایت ہی پریشان دن گزارتا ہے۔ لیکن حضرت یوسف (علیہ السلام) جیل میں ایسا کردار پیش کرتے ہیں کہ ان کے قید کے ساتھی ان کے صالح کردار اور حسن اخلاق کی تعریف کیے بغیر نہیں رہتے اور ان کے کردار اور صلاحیتوں سے متاثر اس قدرہیں کہ ان کو انتہائی نیک، سمجھ دار اور خیرخواہ سمجھ کر ان کے سامنے اپنے خواب ذکر کرتے ہیں۔ مفسرین نے لکھا ہے کہ یہ دونوں قیدی حاکم مصر کے شاہی مہمان خانے کے ملازم تھے۔ ایک باورچی خانے کا انچارج اور دوسرا حاکم مصر کے لیے مشروبات تیار کیا کرتا تھا۔ ایک دن اس نے شراب یا کوئی مشروب اپنے آقا کی خدمت میں پیش کیا اس میں کرواہٹ تھی اور دوسرے کے کھانے پکانے میں کوئی نقص واقع ہوا۔ بعض اہل علم نے اسرائیلی روایات یا ان جوانوں کی قید کی سزا کو سامنے رکھتے ہوئے اپنے اندازے سے لکھا کہ انہوں نے شراب اور کھانے میں زہر ملا دیا تھا۔ قرآن و حدیث اور تاریخ کی کسی بھی مستند کتاب سے ان کے زہر ملانے کا ثبوت نہیں ملتا۔ تاریخ بتلاتی ہے کہ اکثربادشاہ نازک مزاج اور مغضوب الغضب ہوتے ہیں۔ جو بعض دفعہ چھوٹی سی غلطی پر بڑی سے بڑی سزا دینے سے نہیں چوکتے۔ بہرحال غلطی کوئی بھی ہو انہیں جیل میں ڈال دیا گیا۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) نے ان کا خواب سنتے ہی فرمایا کہ قید میں تمہارا کھانا آنے سے پہلے ہی میں تمہارے خواب کی تعبیر بتاؤں گا۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) نے جب محسوس کیا کہ قیدی بھائی مجھ پر اعتماد اور میرے ساتھ حسن ظن رکھتے ہیں تو انہوں نے اس موقعہ کر غنیمت جانتے ہوئے انہیں دین کی دعوت دی۔ یہی داعی کی شان اور بصیرت ہونی چاہیے کہ وہ موقعہ محل کے مطابق دین کی دعوت پیش کرے۔ دین کی ابتدا اور انتہا تین بنیادوں پر قائم ہے۔ اللہ تعالیٰ کے حضور قیامت کے دن جواب دہی کا تصور اور عقیدۂ توحید پر ایمان لانا اور نبی کی ہدایت کے مطابق ان کے تقاضے پورے کرنا۔ چنانچہ حضرت یوسف (علیہ السلام) قیدیوں کو دین سمجھاتے ہوئے فرماتے ہیں کہ میرے رب نے مجھے خوابوں کی تعبیر کا ملکہ، معاملہ فہمی اور اپنی جناب سے علم عنایت فرمایا ہے۔ اس لیے میں نے ایسی قوم کے طرز فکر اور طریقۂ حیات کو چھوڑ دیا ہے۔ جو اللہ پر ایمان نہیں رکھتے اور قیامت کے روز اس کے حضور پیش ہونے کے عقیدے کا انکار کرتے ہوں۔ اس سے حضرت یوسف (علیہ السلام) نے اپنے نبی ہونے کی طرف بھی اشارہ کردیا۔ مسائل ١۔ خواب کی تعبیر، تعبیر جاننے والے سے پوچھنا چاہیے۔ ٢۔ بےدین لوگوں کی راہ نہیں اپنانی چاہیے۔ تفسیر بالقرآن ملت کفرو شرک کو چھوڑنے کا حکم : ١۔ میں ایسی ملت چھوڑتا ہوں جو اللہ اور آخرت پر ایمان نہ لائے۔ (یوسف : ٣٧) ٢۔ اے پروردگار ! اس کو امن والا شہر بنا، مجھے اور میری اولاد کو بت پرستی سے بچا۔ (ابراہیم : ٣٥) ٣۔ دین پر قائم رہو اور بے علموں کے راستہ کی پیروی نہ کرو۔ (یونس : ٧٩) ٤۔ ہم نے آپ کو دین کے ایک طریقہ پر کردیا آپ اسی پر چلے جائیں اور بے علموں کی خواہش کی پیروی نہ کریں۔ (الجاثیۃ: ١٨) ٥۔ بے وقوف ہی ملت ابراہیم سے منحرف ہوسکتا ہے۔ (البقرۃ: ١٣٠) ٦۔ کہہ دیجئے اللہ نے سچ فرمایا ہے کہ تم دین ابراہیم کی پیروی کرو۔ (آل عمران : ٩٥) ٧۔ ہم اس وقت اللہ پر افتراء بازی کریں گے۔ اگر ہم ملت کفر میں لوٹ آئیں۔ (الاعراف : ٨٩) یوسف
37 یوسف
38 فہم القرآن ربط کلام : قیدیوں سے حضرت یوسف (علیہ السلام) کا خطاب جاری ہے۔ ارشاد فرماتے ہیں کہ خوابوں کی تعبیر جاننا، اللہ اور آخرت پر ایمان لانا۔ میرے رب نے مجھے سکھلایا ہے۔ ان الفاظ سے یہ حقیقت بالکل واضح ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت یوسف (علیہ السلام) کو جیل جانے سے پہلے نبوت کے منصب پر فائز کردیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اپنی دعوت کی وضاحت اور سلسلۂ نبوت کو اپنے آباء حضرت ابراہیم، حضرت اسحق اور حضرت یعقوب ( علیہ السلام) کے ساتھ جوڑتے ہوئے فرماتے ہیں ہم اس کو ہرگز جائز نہیں سمجھتے کہ اللہ کی ذات کے ساتھ کسی کو شریک کریں۔ بے شک وہ جاندار ہو یا غیر جاندار۔ ” من شیءٍ“ کے الفاظ میں مردہ اور زندہ تمام شامل ہیں۔ اسی لیے میں نے اس طریقہ کو چھوڑ دیا ہے۔ اس کا یہ معنٰی نہیں کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) پہلے شرک کرتے تھے بعد میں اسے چھوڑ دیا۔ اس کا معنیٰ یہ ہے کہ میں نے اسے قبول ہی نہیں کیا۔ عقیدۂ توحید کی فضیلت اور فرضیت کے پیش نظر فرماتے ہیں کہ یہ اللہ کا ہم لوگوں پر بڑا فضل ہے۔” الناس“ سے مراد بالخصوص انبیائے کرام (علیہ السلام) ہیں۔ ان کے بعد وہ لوگ ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے عقیدۂ توحید کی سمجھ اور اس کے تقاضے پورے کرنے کی توفیق عنایت فرمائی ہے۔ پھر اتنہائی عاجزی اور حقیقت کے اظہار کے لیے فرماتے ہیں کہ میں اللہ ہی کے عطا کردہ علم سے خوابوں کی تاویل اور توحید کا عقیدہ بتلا رہا ہوں اس میں میرا کوئی کمال نہیں۔ الناس سے مراد عام لوگ بھی ہوسکتے ہیں۔ کیونکہ یہ اللہ کا بڑا فضل ہے کہ اس نے لوگوں کو عقیدۂ توحید کی تعلیم دے کر انسان کو اپنی چوکھٹ کے سوا ہر چوکھٹ اور درگاہ کے سامنے جھکنے سے منع کیا ہے۔ اور انسان کی فطرت میں یہ بات رکھ دی ہے۔ کہ وہ انتہائی بے بسی اور غلامی کی حالت میں بھی ایک سے زائد آقا گوارا نہیں کرتا لیکن جب توحید کی غیرت دب جاتی ہے تو وہ ایک خدا کے سامنے جھکنے کے بجائے بتوں، مزاروں اور غیروں کے سامنے جھکتا چلا جاتا ہے۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) نہایت سمجھ داری اور سوز مندی کے ساتھ عقیدۂ توحید سمجھانے اور اس کے دنیوی اور اخروی فوائد بتلانے کے بعد ان سے سوال کرتے ہیں کہ اے میرے قید کے ساتھیو! بتلاؤ کہ مختلف خداؤں پر ایمان لانا بہتر ہے یا ایک اللہ پر جو ہر قسم کے اقتدار، اختیار اور زبردست جلالت و جبروت کا مالک ہے۔ اندازہ فرمائیں کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) نے ان کا دل بہلانے اور اپنی قربت کا احساس دلانے کے لیے کتناپیارا انداز اختیار فرمایا ہے کہ انہیں یہ کہہ کر مخاطب کررہے ہیں کہ تم میرے قیدی ساتھی ہو۔ ذہنی قربت اور قلبی محبت پیدا کرنے کے بعد انہیں عقیدۂ توحید کا یہ فائدہ بھی بتلایا کہ اللہ واحد کے ہی اختیارات میں ہے کہ جب چاہے ظالموں کے دل موڑ دے اور ہماری رہائی عمل میں آجائے۔ اس کے سامنے کسی جابر کا جبر اور ظالم کا ظلم نہیں ٹھہر سکتا۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) کو جب قافلے والوں نے اٹھایا اور پھر بازار میں فروخت کیا۔ اس وقت انہیں یہ شعور اور علم تو تھا کہ میں حضرت یعقوب پیغمبرکا بیٹا حضرت اسحق کا پوتاہوں اور حضرت ابراہیم خلیل اللہ میرے پڑدادا ہیں۔ جب ان پر تہمت لگی تو اس وقت وہ تیس سال کے قریب تھے۔ بے گناہ ثابت ہونے کے باوجود انہیں جیل ڈال دیا گیا۔ مگر کسی ایک موقع پر بھی انہوں نے اپنے خاندان کا تعارف نہیں کروایا۔ لیکن جب عقیدۂ توحید بیان کرنے لگے تو اپنے بزرگوں کا تعارف کرواتے ہیں۔ اس سے پہلے تعارف نہ کروانے کی دو وجوہات میں سے کوئی ایک وجہ یقینی ہے۔ پہلی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہی انہیں اس وقت روک دیا ہو۔ دوسری وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ عظیم خانوادے کا فرزند ہونے کی وجہ سے خدا داد حوصلے کے سبب قافلے والوں کو اپنا تعارف کروانا مناسب نہ سمجھا۔ بے شک وہ عمر کے لحاظ سے چھوٹے تھے لیکن مستقبل میں نبی بنانے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ ان کی نگرانی کر رہا تھا۔ تہمت لگنے کے وقت ان کی عمر تیس سال کے قریب تھی لیکن انہوں نے اپنے خاندانی حوالے سے اپنی پاک دامنی کا ثبوت دینے کے بجائے اسے حالات پر چھوڑ دیا کہ وقت آئے گا کہ قرائن اور شواہد سے ثابت ہوجائے گا کہ میرا دامن ہر اعتبار سے پاک صاف ہے۔ توحید کی دعوت دیتے وقت اپنے بزرگوں کا اس لیے تعارف کروایا کہ مصرکے لوگ بھی ان شخصیات سے بہت حد تک واقف اور ان کے ساتھ عقیدت رکھتے تھے۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) اس لیے ان کا نام لیتے ہیں کہ عقیدۂ توحید کو اختیار کرنے اور اس کی دعوت دینے میں، میں اکیلا نہیں بڑے بڑے انبیاء اور بزرگ اس عقیدہ کے حامل اور اس کی دعوت دیتے آرہے ہیں۔ اس وضاحت کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ وہ شرک چھوڑنے اور توحید کا عقیدہ اپنانے میں آسانی محسوس کریں۔ مسائل ١۔ سب لوگوں کو ملت ابراہیم (علیہ السلام) کی اتباع کرنے کا حکم ہے۔ ٢۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا مشرکوں کے ساتھ کوئی واسطہ نہیں۔ ٣۔ عقیدۂ توحید در درکی ٹھوکروں اور کئی خداؤں سے نجات دیتا ہے۔ تفسیر بالقرآن ملت ابراہیم کی اتباع کا حکم : ١۔ ملت ابراہیم کی پیروی کرو جو یکسو ہے۔ (ا لنساء : ١٢٥) ٢۔ حضرت ابراہیم کے سب سے زیادہ قریب وہ لوگ ہیں جنہوں نے ان کی اطاعت کی۔ (آل عمران : ٦٨) ٣۔ سب یکسو ہوکرحضرت ابراہیم کی ملت کی پیروی کرو، وہ مشرک نہیں تھے۔ (آل عمران : ٩٥) ٤۔ نبی کریم کو بھی ملت ابراہیم کی اتباع کا حکم دیا گیا۔ (النحل : ١٢٣) یوسف
39 یوسف
40 فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ عقیدۂ توحید اس وقت تک مکمل نہیں ہوتا جب تک شرک کی نفی نہ کی جائے۔ اس لیے حضرت یوسف (علیہ السلام) توحید کے اثبات کے ساتھ شرک کی نفی کرنا ضروری خیال کرتے ہیں۔ مصر کے معاشرہ میں لوگ اپنے بڑوں کو رب کے لفظ سے پکارا کرتے تھے جیسا کہ اب بھی ہندوستان اور ایران میں ہزاروں شرک زدہ لوگ اپنے اپنے بزرگوں کو خداوند یا خدائیگان کہا کرتے ہیں۔ پاکستان میں مدفون بزرگوں، خاص کر حضرت علی ہجویری کو داتا اور بابا فرید آف پاکپتن کو فرید گنج، سندھ میں شہباز قلندر کو لجپال یعنی عزت دینے اور حفاظت کرنے والا کہتے ہیں۔ کسی نے وشنو، کسی نے برہما، کسی نے مہادیو، کسی نے ابو الہول، کسی نے تیان چینی، کسی نے غول بیابانی، کسی نے عارف عراق، کسی نے سلطان الہند، کسی نے ابدال شامی، کسی نے اوتاد مصری، غرض مختلف ملکوں میں ہر ایک شخص نے اپنے اپنے تعلق و محبت اور اپنے اپنے میلان طبع کی مناسبت سے خدائی اختیارات کسی نہ کسی کو دے رکھے ہیں۔ انہی کو اس آیت میں ( اَرْبَابٌ مُّتَفَرِّقُوْنَ) فرمایا گیا ہے۔ قیدی ساتھیوں کو توحید کا سبق پڑھاتے ہوئے حضرت یوسف (علیہ السلام) سمجھ گئے کہ اب یہ ذہنی طور پر اس مقام پر آکھڑے ہوئے ہیں کہ کھلے الفاظ کے ساتھ شرک کی نفی اور اس کے بنیادی اسباب کا ذکر کیا جائے۔ چنانچہ فرماتے ہیں کہ تم لوگ اللہ کے سوا جن کی عبادت کرتے ہو یہ تو تمہارے دماغ کی اختراع اور اپنی طرف سے تمہارے رکھے ہوئے نام ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے سوا کسی دوسرے کی عبادت کرنے اور ان کی تائید میں کوئی دلیل نازل نہیں کی ہے۔ توحید سمجھنا، اس پر ایمان لانا اور اس کے تقاضے پورے کرنا۔ دین کے باقی ارکان اس عقیدہ کے تقاضے ہیں۔ یہی اللہ تعالیٰ کا حکم اور اس کا دین ہے۔ جو ہمیشہ سے انھی اصولوں پر قائم ہے اور قیامت تک قائم رہے گا۔ لیکن اکثر لوگ اس حقیقت کو جاننے کی کوشش نہیں کرتے۔ اللہ تعالیٰ کا یہ بھی حکم ہے کہ صرف اسی ایک کی عبادت کرنے کے ساتھ تمام معبودان باطل کا انکار کیا جائے۔ اسی کا نام عقیدۂ توحید ہے۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) نے دین قیم کے الفاظ استعمال فرما کر یہ بھی سمجھایا کہ اگر کسی کے پاس عقیدۂ توحید نہیں تو اس کے پاس کچھ بھی نہیں۔ بے شک وہ کتنا دیندار ہونے کے دعوے کرتا رہے۔ یہی عقیدہ مضبوط اور دین ہمیشہ رہنے والا ہے۔ (عَنْ وَّھْبِ ابْنِ مُنَبِِِِّۃٍ قِےْلَ لَہٗ اَلَےْسَ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مِفْتَاحُ الْجَنَّۃِ قَالَ بَلٰی وَلٰکِنْ لَّےْسَ مِفْتَاحٌ اِلَّا وَلَہٗٓ اَسْنَانٌ فَاِنْ جِءْتَ بِمِفْتَاحٍ لَّہٗٓ اَسْنَانٌ فُتِحَ لَکَ)[ رواہ البخاری فی ترجمۃ الباب] ” حضرت وہب بن منبہ (رض) سے کسی نے یہ سوال کیا کیا لا الہ الا اللہ جنت کی چابی نہیں ہے؟ انہوں نے فرمایا کیوں نہیں؟ لیکن ہر چابی کے دندانے (پیچ) ہوا کرتے ہیں اگر تو پیچ دار چابی سے تالا کھولے گا تو کھل سکتا ہے (بصورت دیگر تیرے لیے دروازہ نہیں کھل سکتا۔) “ مسائل ١۔ عبادت صرف ایک اللہ ہی کی کرنی چاہیے، باقی سب معبود ان باطل ہیں۔ ٢۔ پوری کائنات میں صرف اللہ ہی کا حکم چلتا ہے۔ ٣۔ دین اسلام سیدھا، سچا اور مضبوط دین ہے۔ ٤۔ لوگوں کی اکثریت توحید کا علم نہیں رکھتی۔ تفسیر بالقرآن صرف ایک اللہ کی ہی عبادت کرنا چاہیے : ١۔ صرف اللہ ہی کی عبادت کرو۔ (ھود : ٢٦) ٢۔ اس اللہ کی عبادت کرو جو اکیلا ہے۔ ( الاعراف : ٧٠) ٣۔ اللہ کا شکر ادا کرو اور خاص اس کی ہی عبادت کرو۔ (البقرۃ:) ٤۔ اللہ کی نعمتوں کا شکریہ ادا کرو اور خاص اس کی ہی عبادت کرو۔ ( النحل : ١١٤) ٥۔ اللہ نے آپ سے پہلے جتنے بھی رسول بھیجے ان کو یہی حکم دیا کہ ایک اللہ ہی کی عبادت کریں۔ ( الانبیاء : ٢٥) ٦۔ اللہ نے ہر امت میں رسول بھیجے تاکہ لوگوں کو بتلائیں کہ اللہ کی عبادت کرو اور طاغوت کی عبادت سے بچو۔ (النحل : ٣٦) یوسف
41 ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) اپنے قید کے ساتھیوں کو عقیدۂ توحید سمجھانے اور شرک کی نفی کرنے کے بعد ان کے خواب کی تعبیر بتلاتے ہیں۔ اب پھر دلربا لہجے میں فرمایا کہ اے میرے قید کے ساتھیو! تم میں سے ایک تو جیل سے رہا ہو کر اپنی ڈیوٹی پر بحال ہوگا اور اپنے آقا کو شراب پلایا کرے گا۔ اور دوسرا تختۂ دار پر لٹکایا جائے گا۔ اس کا سر پرندے نوچیں گے۔ جن خوابوں کی تعبیر تم پوچھ رہے ہو ان کی حقیقت یہ ہے اور ایسا ہی ہوگا۔ کیونکہ اس کا فیصلہ ہوچکا ہے۔ یہ بات پہلے بھی عرض کی جاچکی ہے کہ پیغمبر ظاہری حسن و جمال اور صالح کردار ہونے کے ساتھ انتہائی ذہین اور سمجھ دار ہوا کرتا ہے۔ چنانچہ غور فرمائیں کہ تعبیر بتلاتے ہوئے حضرت یوسف (علیہ السلام) نے کس قدر دانائی اور ہوشمندی کا مظاہرہ کیا ہے۔ حالانکہ معلوم تھا کہ اس قیدی نے خواب میں اپنے آپ کو شراب کشید کرتے ہوئے دیکھا ہے اور دوسرے نے اپنے سر پر اٹھائی ہوئی روٹیاں پرندوں کو کھاتے ہوئے دیکھا ہے لیکن خواب کی تعبیر بتلاتے ہوئے پھانسی لگنے والے شخص کو براہ راست یہ نہیں فرمایا کہ تم پھانسی لگ جاؤ گے۔ حالانکہ وہ دو میں سے ایک تھا۔ اس کے باوجود ایسا انداز اختیار فرمایا۔ جس سے اسے کم سے کم صدمہ پہنچے۔ اپنی بتلائی ہوئی تعبیر پر اس قدر یقین ہے کہ فرمایا جو میں نے بتلایا ہے اس کا فیصلہ ہوچکا ہے۔ تعبیر پر اس لیے یقین تھا کیونکہ انہیں پہلے بتلا چکے تھے کہ میرے رب نے مجھے خوابوں کی تعبیر اور اپنی طرف سے علم عنایت فرمایا ہے۔ اسی وجہ سے قیدیوں نے کسی قسم کی بحث نہیں کی۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جناب یوسف (علیہ السلام) نے رہائی پانے والے قیدی کو شراب پلانے سے منع کیوں نہ کیا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اسے منع کرنے کا فائدہ تو تبھی ہوسکتا تھا کہ اگر وہ اللہ کی توحید کا اقرار اور آخرت پر ایمان لانے کا اظہار کرتا۔ اس کا ثبوت تاریخ کے کسی حوالے سے موجود نہیں ہے کہ اس نے حضرت یوسف (علیہ السلام) کا کلمہ پڑھ لیا ہو۔ دوسرا جواب یہ ہے کہ مشروب کے لیے بھی شراب کا لفظ بولا جاتا ہے۔ یعنی ہر پینے والی چیز شراب ہوتی ہے۔ جس سے منع کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ شراب پینے والے کی سزا : (عَنِ ابْنِ عُمَرَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کُلُّ مُسْکِرٍ خَمْرٌوَ کُلُّ مُسْکِرٍ حَرَامٌ وَ مَنْ شَرِبَ الْخَمْرَ فِی الدُّنْیَا فَمَاتَ وَ ھَوَ یُدْمِنُھَا لَمْ یَتُبْ لَمْ یَشْرَ بْھَا فِی الْاٰخِرَۃِ) [ رواہ مسلم : باب بیان ان کل مسکر خمر] ” حضرت ابن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا‘ ہر نشہ آور چیز شراب ہے اور ہر نشہ آور چیز حرام ہے۔ جو شخص دنیا میں شراب پیتا ہوا فوت ہوا، اس نے توبہ نہ کی آخرت میں اسے جنت کی شراب نہیں ملے گی۔“ (عَنِ السَّاءِبِ بْنِ یَزِیْدَ (رض) (رض) قَالَ کُنَّا نُؤْتٰی بالشَّارِبِ عَلٰی عَھْدِ رَسُوْلِ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وَإِمْرَۃِ أَبِیْ بَکْرٍوَصَدْرًا مِنْ خِلَافَۃِ عُمَرَفَنَقُوْمُ إِلَیْہِ بِأَیْدِیْنَا وَنِعَالِنَا وَأَرْدِیَتِنَا حَتّٰی کَانَ آخِرُإِمْرَۃِ عُمَرَ فَجَلَدَ أَرْبَعِیْنَ حَتّٰی إِذَا عَتَوْا وَفَسَقُوْا جَلَدَ ثَمَانِیْنَ) [ رواہ البخاری : کتاب الحدود، باب الضرب بالجرید والنعال] ” حضرت سائب بن یزید (رض) سے روایت ہے کہ ہمیں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے میں اور ابو بکر و عمر (رض) کے ابتدائی دور میں شرابی پکڑادیا جاتا۔ ہم اسے اپنے ہاتھوں، جوتوں اور چادروں کے ساتھ مارتے اور جب عمر (رض) کی خلافت کا آخری دور آیا تو انہوں نے چالیس کوڑے مارے۔ جب لوگ شراب نوشی میں بڑھ گئے تو پھر عمر (رض) نے اسی کوڑے مارے۔“ (عَنِ ابْنَ عُمَرَ (رض) یَقُولُ قَالَ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لَعَنَ اللَّہُ الْخَمْرَ وَشَارِبَہَا وَسَاقِیَہَا وَبَاءِعَہَا وَمُبْتَاعَہَا وَعَاصِرَہَا وَمُعْتَصِرَہَا وَحَامِلَہَا وَالْمَحْمُولَۃَ إِلَیْہِ )[ رواہ ابو داؤد : باب العنب یعصر للخمر] ” حضرت عبداللہ بن عباس (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے شراب پر اس کے پینے اور پلانے والے، بیچنے اور خریدنے والے، بنانے اور بنوانے والے اور اس کو اٹھانے اور اٹھوانے والوں پر لعنت فرمائی ہے۔“ مسائل ١۔ دین کی تبلیغ حکمت کے ساتھ کرنی چاہیے۔ ٢۔ دین کی بنیاد عقیدہ توحید ہے۔ دین مضبوط دلائل پر مبنی ہے۔ یوسف
42 فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ جس نے رہائی پانی تھی، خواب کی تعبیر بتلاتے ہوئے اسے حضرت یوسف (علیہ السلام) نے اسے ایک پیغام دیا۔ جس کے بارے میں حضرت یوسف (علیہ السلام) کو یقین تھا کہ یہ رہا ہوجائے گا۔ اسے فرمایا کہ جب تم رہا ہو کر تم اپنی ڈیوٹی پر جاؤ تو اپنے آقا کے سامنے میرے بے گناہ ہونے کا معاملہ پیش کرنا۔ اسے بتلانا کہ ایک بے گناہ اور پردیسی شخص اس طرح جیل کی صعوبتیں برداشت کر رہا ہے۔ جب وہ شخص رہا ہو کر اپنے منصب پر بحال ہوا تو وہ اس پیغام اور اپنے عہد کو اس طرح بھول گیا جیسے اس نے یہ بات سنی ہی نہ تھی کیونکہ اس کے ذہن سے شیطان نے اس بات کو بالکل فراموش کردیا۔ جس کے بارے میں قرآن مجید بتلاتا ہے کہ اسے یہ پیغام اور عہد شیطان نے بھلایا تھا۔ گویا کہ نسیان شیطان کی طرف سے ہوتی ہے۔ اس طرح یوسف (علیہ السلام) کئی سال تک جیل میں قید رہے۔ بعض علماء نے ” فانساہ“ کی ضمیر کا مرجع حضرت یوسف (علیہ السلام) کو قرار دیا ہے لیکن درست نہیں، حضرت یوسف (علیہ السلام) جن کے شب و روز ذکر الٰہی میں بسر ہو رہے تھے بلکہ دوسروں کو بھی یاد الٰہی کی تلقین کرنے میں مصروف رہتے تھے وہ اپنے رب کو کیسے فراموش کرسکتے ہیں۔ صحیح یہی ہے کہ اس کا مرجع وہ ساقی ہے جس کو یوسف (علیہ السلام) نے رہائی پانے اور اپنے منصب پر دوبارہ فائز ہونے کی خوشخبری دی تھی۔ ” سنین“ کا لفظ عربی گنتی کے اعتبار سے دس سال تک کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ مفسرین کا خیال ہے کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) نے اس قیدی کے رہا ہونے کے بعد سات سال جیل میں گزارے۔ اس طرح ان کی قید نو یا دس سال بنتی ہے۔ قرآن مجید نے رہائی پانے والے کے بارے میں فرمایا ہے کہ اسے شیطان نے بھلا دیا تھا۔ اس کی دو وجوہات میری سمجھ میں آتی ہیں۔ ١۔ اس سے بھولنے والے کی صفائی پیش کرنا مقصود ہے کہ اس نے اپنے آقا کے سامنے حضرت یوسف (علیہ السلام) کا ذکر جان بوجھ کر نہیں چھوڑا تھا بلکہ اس کو شیطان نے بھلا دیا تھا۔ ٢۔ شریعت کا بنیادی اصول یہ ہے کہ ہر قسم کی کوتاہی، غلطی اور کمزوری کا سبب شیطان ہوا کرتا ہے۔ اس لیے ہر قسم کی غلطی، کمزوری اور کوتاہی کی نسبت شیطان کی طرف کی جاتی ہے۔ اس شخص کے بھولنے کا سبب بیان کرتے ہوئے مستند مفسرین نے لکھا ہے۔ چونکہ حضرت یوسف (علیہ السلام) اللہ کے نبی تھے اس لیے ان کے مرتبہ اور شان کے منافی تھا کہ وہ بادشاہ کی خدمت میں عام آدمی کی طرح پیغام بھیجتے۔ وہ اللہ کے نبی اور انبیاء کی اولاد تھے اور اللہ تعالیٰ نے بڑے بڑے مشکل مقامات میں ان کی مدد اور رہنمائی فرمائی تھی۔ اس لیے انہیں ایک عام آدمی کی طرح یہ کام نہیں کرنا چاہیے تھا۔ اس پاداش میں انہیں تقریباً سات، آٹھ، سال تک مزید جیل میں ہی رہنا پڑا۔ لیکن اس بات کے ساتھ اتفاق کرنا ضروری نہیں کیونکہ مصیبت سے نکلنے کے لیے تدبیر کرنا ہر کسی پر لازم ہے۔ جیسے حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے اپنے بیٹوں کو نصیحت کی تھی کہ مصر کے ایک ہی دروازے سے داخل ہونے کی بجائے مختلف دروازوں سے داخل ہونا۔ ( یوسف : ٦٧) مسائل ١۔ شیطان انسان کو بھول میں مبتلا کردیتا ہے۔ ٢۔ یوسف (علیہ السلام) جیل میں کئی سال رہے۔ تفسیر بالقرآن شیطان لوگوں کو پھسلاتا ہے : ١۔ شیطان نے قیدی کو حضرت یوسف کا تذکرہ کرنا بھلا دیا۔ (یوسف : ٤٢) ٢۔ شیطان نے آدم اور حو اکو پھسلا دیا۔ (البقرۃ : ٣٦) ٣۔ شیطان نے حضرت یوسف اور ان کے بھائیوں کے درمیان اختلاف ڈلوا دیا۔ (یوسف : ١٠٠) ٤۔ شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے۔ (یوسف : ٥) ٥۔ شیطان کو اپنا دشمن سمجھ کر اس کی شیطنت سے بچنا چاہیے۔ (فاطر : ٦) یوسف
43 فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ اللہ تعالیٰ نے حاکم وقت کے خواب کو حضرت یوسف (علیہ السلام) کی رہائی کا ذریعہ بنا دیا ایک رات حاکم مصر ” جس کا نام“ الریان بن ولید“ بتلایا جاتا ہے۔ جو عربی النسل اور عمالقہ خاندان کے ساتھ تعلق رکھتا تھا۔“ اس نے خواب دیکھا کہ سات موٹی گائیں جنہیں سات دبلی پتلی گائیں کھائے جا رہی ہیں۔ اور گندم کی سات بالیاں ہری اور سات سوکھی ہوئی ہیں۔ صبح اٹھتے ہی اس نے اپنا خواب بڑے بڑے لوگوں کو بتلا کر پوچھا اگر تم خواب کی تعبیر جانتے ہو تو میرے خواب کے بارے میں بتلاؤ۔ وہ بڑی سوچ و بچار اور کئی دن کے غورو خوض کے بعد کہنے لگے۔ یہ کوئی خواب نہیں بلکہ پریشان خیالات ہیں۔ لہٰذا ہم ایسے خوابوں کی تعبیر نہیں جانتے۔ لیکن بادشاہ اس خواب کے قلق اور اس کے مندرجات سے اپنے ملک کا مستقبل بھیانک دیکھ رہا تھا۔ اس لیے اسے کسی طرح چین نہیں آرہا تھا۔ جس کے لیے اس نے ملک بھر کے دانشوروں، خواب کی تاویل جاننے والوں اور بڑے بڑے اہل علم کو بلا کر پوچھا کہ اس خواب نے میرے دل کا سکون چھین لیا ہے۔ مجھے کسی طرح بھی چین نہیں آرہا۔ یہ کوئی پراگندہ خیالی نہیں بلکہ میں اسے خوفناک حقیقت کے روپ میں دیکھ رہا ہوں اہل فکر کا ایک کے بعد دوسرا اجلاس بلایا جاتا ہے۔ مگر سب نے خواب کی تعبیر بتانے سے معذرت کردی۔ بالآخر رہائی پانے والے قیدی نے بادشاہ سے عرض کی کہ اگر مجھے جیل میں داخل ہونے کی اجازت ہو تو میں آپ کو یوسف نامی قیدی سے اس کیتعبیر پوچھ کر بتلاتا ہوں۔ بادشاہ وقت خواب کی تعبیر جاننے کے لیے بے قرار اور بے تاب تھا۔ جس وجہ سے اس نے ایک لمحہ کی تاخیر کیے بغیر اسے حکم دیا کہ وہ فوری طور پر جیل جاکر اس خواب کی تعبیر پوچھ کر آئے۔ ” الاحلام“ کا معنی :۔ احلام حلم کی جمع ہے جس کا معنی ہے جھوٹے اور بے اصل خواب۔ مسائل ١۔ بادشاہ نے خواب میں دیکھا سات موٹی گایوں کو سات دبلی گائیں کھا رہی ہیں۔ ٢۔ بادشاہ نے خواب میں سات سبز اور سات خشک ڈالیاں دیکھیں۔ ٣۔ ملک بھر کے دانشوربادشاہ کے خواب کی تعبیر بتانے سے قاصر رہے۔ تفسیر بالقرآن تاویل کا مفہوم : ١۔ میں ابھی اس کی تدبیربتلا دیتا ہوں مجھے جانے دیجیے۔ (یوسف : ٤٥) ٢۔ اگر تم اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتے ہو یہی بہتر ہے اور انجام کے لحاظ سے بھی خوب تر ہے۔ (النساء : ٥٩) ٣۔ گمراہ علماء اس کا غلط مطلب تلاش کرتے حالانکہ اس کا صحیح مطلب اللہ ہی جانتا ہے۔ (آل عمران : ٧) ٤۔ کیا وہ قیامت کا انتظار کرتے ہیں۔ (الاعراف : ٥٣) ٥۔ یہ حقیقت ہے ان باتوں کی جن پر تجھ سے صبر نہ ہوا۔ (الکہف : ٨٢) یوسف
44 یوسف
45 یوسف
46 فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ رہائی پانے والے قیدی کا جیل میں آنا اور یوسف (علیہ السلام) کو آواز دینا۔ بادشاہ کا غلام جو حضرت یوسف کا قید میں ساتھی تھا بھاگم بھاگ یوسف (علیہ السلام) کی بیرک کے دروازے پر پہنچ کر آواز دیتا ہے کہ اے سچ بولنے والے یوسف ہمیں اس خواب کی تعبیر بتلا کہ سات موٹی گائیں ہیں جنہیں پتلی دبلی سات گائیں کھائے جا رہی ہیں اور سات سبزو شاداب بالیاں ہیں اور سات بالیاں سوکھی ہوئی ہیں۔ ازراہ کرم مجھے ان کی حقیقت بتلا تاکہ میں واپس جا کرلوگوں کو بتلاؤں۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) نے خواب کی تعبیر بتلاتے ہوئے فرمایا ” کہ پہلے تم سات سال کھیتی باڑی کرو گے۔ ان سات سالوں میں تمہاری فصلیں خوب اناج دیں گی۔ مگر تمھیں یہ کرنا ہوگا کہ جو تمہارے کھانے سے بچ جائے اس اناج کو ڈالیوں میں ہی رہنے دو۔ اس کے بعد سات سال قحط سالی کے ہوں گے اور تم محفوظ کیا ہوا غلہ استعمال کرو گے۔ سوائے اس کے کہ جو اس میں سے بچ جائے۔ اس کے بعد اگلا سال نہایت ہی سبزو شاداب اور خوشحالی کا ہوگا اور تم لوگ خوب پھلوں کا رس نچوڑوگے۔“ معلوم ہوتا ہے کہ مصر کے لوگ پھلوں کا جوس بھی پیا کرتے تھے۔ سابقہ قیدی یعنی سرکاری اہلکار کا حضرت یوسف (علیہ السلام) کی خدمت میں آنا اور ان سے بادشاہ کے خواب کے بارے میں تعبیر پوچھنا اور حضرت یوسف (علیہ السلام) کا بلا تامل اسے نہ صرف خواب کی تعبیر بتلانا بلکہ نہایت فراخ دلی کے ساتھ ماضی کے کسی واقعہ کو ذہن میں رکھے بغیر بادشاہ کی ذہنی الجھن اور قوم کی مشکل کا حل پیش کرنا بے مثال اعلیٰ ظرفی کا ثبوت ہے۔ ورنہ سب سے پہلے رہا ہونے والے سرکاری اہلکار کو کہتے کہ تم کیسے آدمی ہو کہ میں نے اپنی مظلومیت کے بارے میں تجھے بادشاہ کے لیے ایک پیغام دیا تھا مگر تو نے غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کیا ہے۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) یہ بھی فرما سکتے تھے کہ پہلے جو مجھ پر زیادتیاں کی گئی ہیں ان کا مداوا کرو۔ پھر میں تمہیں خواب کی تعبیر اور اس کا حل بتلاؤں گا۔ لیکن حضرت یوسف (علیہ السلام) شکایت کا ایک حرف بھی زبان پر نہیں لائے۔ فی الفور اسے خواب کی تعبیر اور مستقبل میں قوم کو درپیش آنے والی مصیبت کا حل بتلایا۔ اس موقع پر یہ بات بھی کھل جاتی ہے کہ رہا ہونے والا سرکاری ملازم پوری طرح سمجھ چکا تھا کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) قول کے سچے اور کردار کے پکے ہیں۔ اس لیے اس نے آپ ( علیہ السلام) کو ” الصدیق“ کہہ کر پکارا تھا۔ اللہ تعالیٰ کے نزدیک صدیق کا مقام انبیاء کے بعد بیان کیا گیا۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) نہ صرف الصدیق تھے بلکہ اللہ کے جلیل القدر نبی اور انبیاء کی اولاد تھے۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) کے پڑدادا حضرت ابراہیم کا لقب بھی صدیق ہے۔ ” اس کتاب میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا قصہ بیان کیجیے بلاشبہ وہ صدیقنبی تھا۔“ (مریم : ٤١) ” اور حضرت ادریس (علیہ السلام) کا تذکرہ کیجیے بلاشبہ وہ صدیق نبی تھے۔“ (مریم : ٥٦) ” جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ ایمان لاتے ہیں وہ الصدیق ہیں۔“ (الحدید : ١٩) خوشحالی کی قدر کرنی چاہیے : (عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لِرَجُلٍ وَہُوَ یَعِظُہٗ اِغْتَنِمْ خَمْسًا قَبْلَ خَمْسٍ شَبَابَکَ قَبْلَ ہَرَمِکَ وَصِحَّتِکَ قَبْلَ سَقْمِکَ وَغِنَاکَ قَبْلَ فَقْرِکَ وَفِرَاغَکَ قَبْلَ شُغُلِکَ وَحَیَاتَکَ قَبْلَ مَوْتِکَ ([ رواہ الحاکم] ” حضرت عبداللہ بن عباس (رض) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک آدمی کو وعظ و نصیحت فرما رہے تھے آپ نے فرمایا پانچ چیزوں کو پانچ چیزوں سے پہلے غنیمت جانو، جوانی کو بڑھاپے سے پہلے، تندرستی کو بیماری سے پہلے، خوشحالی کو تنگدستی سے پہلے فارغ وقت کو مصروف ہونے سے پہلے اور زندگی کو موت سے پہلے۔“ مسائل ١۔ خاندانی لوگ اپنی ذات کے بجائے دوسروں کی خیر خواہی کا خیال رکھتے ہیں۔ ٢۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) نے قحط سے بچنے کی تدبیر بتائی۔ ٣۔ خاندانی لوگ اعلیٰ ظرف ہوتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن صدیقین اور صادقون کا تذکرہ : ١۔ اے سچے یوسف! ہمیں تعبیر بتلا۔ (یوسف : ٤٦) ٢۔ جنہوں نے اللہ اور اس کے رسول کی مدد کی وہی سچے ہیں۔ (الحشر : ٨) ٣۔ اللہ سچوں کو ان کی سچائی کا بدلا دے گا۔ (الاحزاب : ٢٤) ٤۔ جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے گا وہ نبیوں، صدیقین، شہداء اور صالحین کے ساتھ ہوگا۔ (النساء : ٦٩) ٥۔ قیامت کے دن سچوں کو ان کی سچائی کا صلہ ملے گا۔ (المائدۃ: ١١٩) ٦۔ سچے مومن وہ ہیں جو اپنے مال اور جانوں سے اللہ کی راہ میں جدوجہد (جہاد) کرتے رہتے ہیں۔ (الحجرات : ١٥) یوسف
47 یوسف
48 یوسف
49 یوسف
50 فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ بادشاہ کا خوش ہو کر سرکاری اہلکار کو رہائی کا پیغام دے کر جیل میں یوسف (علیہ السلام) کی خدمت میں بھیجنا۔ سرکاری اہلکار حضرت یوسف (علیہ السلام) کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کرتا ہے ” کہ اے الصدیق ! بادشاہ سلامت آپ کو طلب فرما رہے ہیں آپ کی رہائی کا حکم ہوچکا ہے۔ لہٰذا آپ میرے ساتھ تشریف لے چلیں۔“ کوئی عام قیدی ہوتا تو اس کی خوشی سے باچھیں کھل جاتیں اور وہ بادشاہ کے اہلکار کے ساتھ چل دوڑتا مگر یوسف (علیہ السلام) فرماتے ہیں ” آپ اپنے بادشاہ کے پاس واپس جائیں۔ اور اس سے پوچھیں کہ ان عورتوں کا کیا معاملہ ہے ؟ جنہوں نے اپنے ہاتھ کاٹ لیے تھے۔ میرا رب تو یقیناً ان کے مکرو فریب اور سازش کو جاننے والاہے۔“ حضرت یوسف (علیہ السلام) یہاں بھی اعلیٰ ظرف ہونے کا ثبوت دیتے ہیں۔ یہ نہیں فرمایا کہ عزیز مصر کی بیوی کا کیا معاملہ تھا۔ انہوں نے اس طرح کہنے کے بجائے عورتوں کے بارے میں جمع کا لفظ استعمال کیا۔ کیونکہ آپ ان کے گھر میں ایک عرصہ تک ٹھہرے تھے اس احسان مندی کی وجہ سے انہوں نے جمع کا لفظ استعمال کیا ہے۔ دوسری وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے، کہ عزیز مصر نے اپنی بیوی کی وجہ سے حضرت یوسف (علیہ السلام) سے اس وقت معذرت کرلی۔ (آیت ٣٩) لیکن جب عورتوں کے پراپیگنڈے کی وجہ سے معاملہ طول پکڑ گیا تو وہ یوسف (علیہ السلام) کو جیل بھیجنے پر مجبور ہوا۔ جس بنا پر حضرت یوسف (علیہ السلام) اس شخص کو فرماتے ہیں کہ واپس جا کر اپنے بادشاہ سے پوچھیے کہ ہاتھ کاٹنے والی عورتوں کا کیا معاملہ ہوا؟ یعنی جہاں تک میرے ” اللہ“ کا معاملہ ہے اسے تو پہلے ہی میری بے گناہی کا حال معلوم ہے مگر تمہارے رب (عزیز مصر) کو بھی میری رہائی سے پہلے اس معاملہ کی پوری تحقیق کر لینی چاہیے جس بنا پر مجھے جیل بھیجا گیا تھا۔ میں کسی شبہ اور بدگمانی کا داغ لیے ہوئے عوام کے سامنے نہیں آنا چاہتا، مجھے رہا کرنا ہے تو پہلے سر عام یہ ثابت کرنا ہوگا کہ میں بے قصور تھا۔ اصل قصوروار تمہاری سلطنت کے کارفرما تھے جنہوں نے اپنی بیگمات کی بداطواری کا خمیازہ، میری پاکدامنی پر ڈالا۔ اس مطالبے کو حضرت یوسف (علیہ السلام) جن الفاظ میں پیش کرتے ہیں ان سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ عزیز مصر اس پورے واقعہ سے پہلے ہی واقف تھا جو عزیز مصر کی بیوی کی دعوت کے موقع پر پیش آیا تھا بلکہ وہ ایسا مشہور واقعہ تھا کہ جس کی طرف اشارہ کرنا ہی کافی تھا۔ اس لیے حضرت یوسف (علیہ السلام) نے جوں کی توں حالت میں جیل سے نکلنے سے صاف انکار کر دیاتھا۔ اس فیصلہ سے ان کے کردار کی پختگی، پاک دامنی اور بصیرت کا پتا چلتا ہے۔ اگر وہ اسی طرح ہی جیل سے نکل کھڑے ہوتے تو ان کے دامن پاک پر لگے ہوئے جھوٹے دھبے کے کچھ نشان باقی رہ سکتے تھے۔ (عَنْ اَبُوْھُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نَحْنُ اَحَقُّ بالشَّکِّ مِنْ اِبْرَاھِیْمَ اِذْقَالَ رَبِّ اَرِنِیْ کَیْفَ تُحْیِ الْمَوْتٰی وَیَرْحَمُ اللّٰہُ لُوْطًالَقَدْکَانَ یَأْوِیْ اِلٰی رُکْنٍ شَدِیْدٍ وَلَوْ لَبِثْتُ فِیْ السِّجْنِ طُوْلَ مَا لَبِثَ یُوْسُفُ لَاَجَبْتُ الدَّاعِیَ) [ رواہ البخاری : کتاب التفسیر] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا‘ ہم حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے زیادہ شک کا حق رکھتے ہیں جب ابراہیم نے التجا کی تھی‘ اے میرے پروردگار مجھے دکھا کہ آپ کس طرح مردوں کو زندہ کرتے ہیں؟ حضرت لوط (علیہ السلام) پر اللہ کی رحمتیں ہوں۔ وہ بڑی قوت والے کی پناہ میں تھے۔ اگر میں قید خانے میں ہوتا تو حضرت یوسف (علیہ السلام) جتنا عرصہ رہے تو میں بلانیوالے کی دعوت فوراً قبول کرلیتا۔“ مسائل ١۔ بادشاہ نے حالات سے مجبور ہوکرحضرت یوسف کو طلب کیا۔ ٢۔ حضرت یوسف بڑے حوصلے والے تھے اس لیے انہوں نے قاصد کو واپس کردیا۔ ٣۔ اعلیٰ ظرف لوگ کسی کی مجبوری سے فائدہ نہیں اٹھاتے۔ ٤۔ نازک معاملات میں آدمی کو جلد بازی کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے۔ ٤۔ اللہ ہر کسی کے مکرو فریب سے بخوبی آگاہ ہے۔ یوسف
51 فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ اہلکار کا واپس جاکر بادشاہ کو حضرت یوسف (علیہ السلام) کا جواب بتلانا۔ اور بادشاہ کا ان عورتوں کو طلب کرنا۔ بادشاہ پہلے ہی خواب کی تعبیر اور اس کا حل جان کر حضرت یوسف (علیہ السلام) کی شخصیت اور صلاحیت سے بے حد متاثر ہوچکا تھا۔ جب اس کے اہلکار نے جاکر حضرت یوسف (علیہ السلام) کے بارے میں بتلایا کہ وہ اس حالت میں جیل سے نکلنے کے لیے تیار نہیں ہیں تو بادشاہ نے سوچا کہ ایسے شخص کو جیل میں رکھنا ملک و ملت کا نقصان کرنے کے مترادف ہے۔ اس لیے اس نے فی الفور ہاتھ کاٹنے والی عورتوں کو طلب کرکے ان سے استفسار کیا کہ مجھے ٹھیک ٹھیک بتاؤ تمہارے ہاتھ زخمی کرنے کا کیا سبب تھا؟ یہ عورتیں خطاکار تو تھیں کیونکہ انہوں نے اس وقت پروپیگنڈہ کرنے کے ساتھ مجلس میں یوسف (علیہ السلام) پر دباؤ ڈالا تھا کہ تجھے عزیز مصر کی بیوی کی بات مان لینی چاہیے۔ اس لیے بادشاہ کا غیظ و غضب دیکھ کر اپنے جرم کا اقرار کرتے ہوئے ان الفاظ میں یوسف (علیہ السلام) کی پاک دامنی کی گواہی دیتی ہیں۔ (مَا عَلِمْنَا عَلَیْہِ مِنْ سُوْٓءٍ)[ یوسف : ٥١] ” ہم نے اس میں کوئی برائی نہیں دیکھی۔“ جب باقی عورتوں نے بادشاہ کے سامنے یوسف (علیہ السلام) کی کھلے لفظوں میں صفائی پیش کی تو عزیز مصر کی بیوی کے پاس انکار کرنے کا کوئی چارہ کار باقی نہ تھا۔ لہٰذا اس نے کھلے الفاظ میں کہا ” کہ اب تو یہ حقیقت آشکارا ہوگئی ہے کہ میں نے ہی اسے اپنے لیے پھسلانے کی کوشش کی تھی۔ لیکن یوسف (علیہ السلام) نے انکار کیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ کردار کا پکا اور گفتار کا سچاہے۔ ” حصحص الحق“ حق کا پوری طرح واضح ہوجانا عرب اس طرح بھی بولتے ہیں۔ ” حصحص البعیر“ اونٹ نے پوری طرح زمین پر گھٹنے ٹیک دیے۔ عزیز مصر کی بیوی نے یہ الفاظ بول کر بتلایا کہ حق واضح ہوا۔ میں اس حقیقت کا اعتراف اور اقرار کرتی ہوں۔ ” ” حاش للّٰہ“ کہ ہم نے کسی اعتبار سے بھی اس میں ذرہ برابر برائی اور بے حیائی نہیں دیکھی۔“ ” حَاشَ“” حَوْشٌ“ سے ہے۔ اس کے لغوی معنی کسی جانور کو گھیر کرلانا ہے۔ ” حاش للّٰہ“ کا دوسرامعنی ہے۔ لوگوں سے توجہ ہٹا کر اللہ ہی کی طرف متوجہ ہوجانا یعنی یوسف (علیہ السلام) اس موقعہ پر اپنے رب کی طرف متوجہ رہے۔ (عَنْ أبِی أمَامَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَطْبَعُ الْمُؤمِنُ عَلٰی الْخِلَالِ کُلِّہَا اِلَّا الْخِیَانَۃَ وَالْکِذْبَ) [ رواہ أحمد] ” حضرت ابو امامہ بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا مومن میں ہر قسم کی خرابی پائی جا سکتی ہے مگر خیانت اور جھوٹ نہیں پائے جا سکتے۔“ مسائل ١۔ کسی پر الزام لگنے کی صورت میں ذمہ دار اتھارٹی کا فرض بنتا ہے کہ اس کی غیر جانبدرانہ انکوائری کرائے۔ ٢۔ اپنے ہاتھ زخمی کرنے والی عورتوں اور عزیز مصر کی بیوی نے کھل کر حضرت یوسف (علیہ السلام) کی پاک دامنی کا اقرار کیا۔ ٣۔ حقیقت واضح ہونے کے بعد آدمی کو اس کا برملا اقرار کرنا چاہیے بے شک اس کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔ تفسیر بالقرآن یوسف (علیہ السلام) نیک اور سچے پیغمبر تھے : ١۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت یوسف (علیہ السلام) کو قوت فیصلہ اور علم عطا کیا تھا۔ (یوسف : ٢٢) ٢۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) اللہ کے برگزیدہ بندے تھے۔ (یوسف : ٢٤) ٣۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت یوسف کو خوابوں کی تعبیر کا علم عطا کیا تھا۔ (یوسف : ٣٦) ٤۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) ہمیشہ سچ بولتے تھے۔ (یوسف : ٥١) ٥۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) امانت دار تھے۔ (یوسف : ٥٤) ٦۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) بڑے ہی اچھے مہمان نواز تھے۔ (یوسف : ٥٩) 3 3 3 3 3 3 3 یہ تاکہ وہ جان لیں یقیناً میں نہیں میں نے خیانت کی اس کی غیب کے ساتھ اور یقیناً یوسف
52 فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) کا رہا ہو کر بادشاہ کے ساتھ ملاقات کرنا۔ اس کے سامنے تاخیر سے آنے کی وضاحت فرمانا۔ جب قرائن اور ٹھوس شواہد کے ساتھ حقیقت ہر اعتبار سے واضح ہوچکی تو بادشاہ وقت نے ایک دفعہ پھر حضرت یوسف (علیہ السلام) کو جیل سے رہا ہونے اور اپنے ساتھ ملاقات کا پیغام بھیجا۔ تب حضرت یوسف (علیہ السلام) بادشاہ کے پاس تشریف لے گئے۔ انھوں نے پہلی دفعہ جیل سے نہ نکلنے کی نہایت وقار کے ساتھ وضاحت کرتے ہوئے فرمایا کہ میرے انکار کرنے کا مقصد یہ تھا کہ سب کو معلوم ہوجائے کہ میں نے عزیز مصر کی نہ احسان فراموشی کی اور نہ ہی کسی قسم کی خیانت کی تھی۔ کیونکہ میرا ایمان ہے کہ اللہ تعالیٰ خائن لوگوں کی کبھی رہنمائی نہیں کرتا۔ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ دعا فرمایا کرتے تھے : (عَنْ اأمّ مَعْبَدٍ قَالَتْ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَقُوْلُ اَللّٰہُمَّ طَہِّرْ قَلْبِیْ مِنَ النِّفَاقِ وَعَمَلِیْ مَنَ الرِّیَاءِ وَلِسَانِیْ مِنَ الْکَذِبِ وَعَیْنِیْ مِنَ الْخِیَانَۃِ فَإِنَّکَ تَعْلَمُ خَاءِنَۃُ الْأَعْیُنِ وَمَا تُخْفِی الصَّدُوْرِ) [ رواہ البیہقی فی الدعوات الکبیر] ” حضرت ام معبد (رض) بیان کرتی ہیں میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا، آپ دعا کیا کرتے تھے اے اللہ میرے دل کو نفاق، میرے عمل کو ریا سے اور میری زبان کو جھوٹ اور میری آنکھوں کو خیانت سے محفوظ فرما۔ یقیناً تو خیانت کرنے والی آنکھ اور جو کچھ دلوں میں پوشیدہ ہے اس کو جانتا ہے۔“ مسائل ١۔ آدمی کو حتی المقدور اپنا دامن پاک رکھنا چاہیے۔ ٢۔ اللہ خائن کو ہدایت نہیں دیتا۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ خائن کو پسند نہیں کرتا یوسف
53 فہم القرآن ربط کلام : حضرت یوسف (علیہ السلام) کی عاجزی کی انتہا۔ امانت و دیانت اور بے انتہاپاکدامنی کے باوجود حضرت یوسف (علیہ السلام) یہ دعویٰ نہیں کرتے کہ مجھ سے غلطی نہیں ہو سکتی۔ فرماتے ہیں کہ غلطی تو ہر انسان سے ہو سکتی ہے۔ کیونکہ نفس امارہ انسان کو ہمیشہ برائی کی طرف کھینچتا ہے۔ برائی سے وہی شخص بچ سکتا ہے جس پر میرا رب مہربانی فرمائے۔ کیونکہ میرا رب غلطیاں معاف کرنے والا اور نہایت ہی رحیم و کریم ہے۔ اگلی آیات سے یہ بات مترشح ہو رہی ہے کہ جب حضرت یوسف (علیہ السلام) بادشاہ کے پاس پہنچے تو درباری رواج کے مطابق بادشاہ نے ان کا والہانہ استقبال کیا ہو۔ حکمرانوں اور اعلیٰ سرکاری افسران کو ملنے والے احباب جانتے ہیں کہ جونہی بڑے لوگوں کی کسی شخص پر خاص توجہ ہوتی ہے تو درباری اور چھوٹے درجے کے لوگ کس طرح اس کے سامنے بچھے جاتے ہیں۔ وہ شخص تو مطلق العنان بادشاہ تھا۔ اس نے جس عقیدت اور تپاک سے حضرت یوسف (علیہ السلام) کو اپنے ہاں بلایا، یوسف (علیہ السلام) کو دیکھ کر بادشاہ کے حواریوں کی کیا کیفیت ہوگی۔ پھر جس حسن کردار کی گواہی کے ساتھ یوسف (علیہ السلام) نے جیل سے رہائی پائی اور یوسف (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے جس قدر بے مثال حسن و جمال عطا فرمایا تھا بڑے سے بڑا شاعر اور کہنہ مشق ادیب بھی اس کی منظر کشی نہیں کرسکتا۔ ظاہر ہے اس صورتحال میں ہر شخص حضرت یوسف (علیہ السلام) کے حسن و جمال اور ان کے کردار کو زبر دست خراج تحسین پیش کر رہا ہوگا۔ ہر آنکھ حضرت یوسف (علیہ السلام) کے چہرۂ انور پر جمی ہوگی مگر حضرت یوسف (علیہ السلام) اس پر پھولنے اور اترانے کے بجائے دل ہی دل میں اپنے رب کا شکریہ ادا کرتے، آنکھیں جھکائے بڑے وقار کے ساتھ تشر یف فرما ہوئے۔ ہر شخص سوچتا ہوگا کہ نامعلوم یہ شخص کس طمطراق کے ساتھ گفتگو کرے گا ابھی لوگ سوچ ہی رہے ہوں گے کہ سیدنا یوسف (علیہ السلام) بڑی عاجزی کے ساتھ فرماتے ہیں۔ میں اپنی پاک بازی پر فخر نہیں کرتا۔ (وَمَآ أُبَرِّءُ نَفْسِیْ إِنَّ النَّفْسَ لَأَمَّارَۃٌم بالسُّوْٓءِ إِلَّا مَا رَحِمَ رَبِّیْ إِنَّ رَبِّیْ غَفُورٌ رَحِیْمٌ) [ یوسف : ٥٣] ” اور میں اپنے نفس کو بری نہیں کرتا، بے شک نفس تو برائی کا حکم دینے والاہے۔ مگر جس پر میرا رب رحم فرمائے۔ یقیناً میرا رب بخشنے والا اور بہت رحم فرمانے والا ہے۔“ (عَنْ أَبِی سَعِیْدِنِالْخُدْرِیِّ (رض) قَالَ کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) إِذَا قَامَ مِنَ اللَّیْلِ کَبَّرَ ثُمَّ یَقُوْلُ سُبْحَانَکَ اللّٰہُمَّ وَبِحَمْدِکَ وَتَبَارَکَ اسْمُکَ وَتَعَالَی جَدُّکَ وَلاآإِلَہَ غَیْرُکَ ثُمَّ یَقُوْلُ لاآإِلَہَ إِلاَّ اللَّہُ ثَلاَثًا ثُمَّ یَقُول اللَّہُ أَکْبَرُ کَبِیْرًا ثَلاَثًا أَعُوذ باللَّہِ السَّمِیْعِ الْعَلِیمِ مِنَ الشَّیْطَان الرَّجِیْمِ مِنْ ہَمْزِہٖ وَنَفْخِہٖ وَنَفْثِہٖ)[ رواہ ابو داود : باب مَنْ رَأَی الاِسْتِفْتَاحَ بِسُبْحَانَکَ اللَّہُمَّ وَبِحَمْدِکَ] ” حضرت ابو سعید خدری (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب رات کو قیام کرتے تو اللہ اکبر کہتے پھریہ دعاپڑھتے اے اللہ ! تو پاک ہے۔ میں تیری تعریف بیان کرتاہوں بابرکت ہے نام تیرا اور بلند ہے تیری شان تیری علاوہ کوئی معبود نہیں۔ پھر تین بار کہتے اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں پھر تین بار اللہ اکبر کہتے۔ اللہ کے نام کے ساتھ جو سننے والا اور جاننے والا ہے۔ میں شیطان مردود کے وسوسہ، پھونک اور اس کی چھیڑ چھاڑ سے پناہ طلب کرتا ہوں۔“ (عَنْ أَبِیْ بَکْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دَعْوَاتِ الْمَکْرُوْبِ اللّٰہُمَّ رَحْمَتَکَ أَرْجُوْ فَلاَ تَکِلْنِیْ إِلٰی نَفْسِیْ طَرْفَۃَ عَیْنِ وَأَصْلِحْ لِیْ شَأْنِیْ کُلَّہُ لاَ إِلٰہَ إِلاَّ أَنْتَ )[ رواہ أبوداود : باب مایقول اذا اصبح] ” حضرت ابو بکر (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مضطرب کی دعا بیان کرتے ہوئے فرمایا اے اللہ ! میں تیری رحمت کا امیدوار ہوں مجھے میرے نفس کے سپرد نہ کر اور میرے تمام معاملات درست فرما تیرے علاوہ کوئی معبود نہیں۔“ مسائل ١۔ نفس امارہ انسان کو برائیوں پر ابھارتا ہے۔ ٢۔ گناہوں سے وہی شخص بچ سکتا ہے جس پر اللہ رحم فرمائے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ گناہ معاف کرنے اور نہایت رحم فرمانے والا ہے۔ تفسیر بالقرآن نفس انسانی کی تین حالتیں : ١۔ نفس مطمئنہ۔ ہر حال میں مطمئن یعنی نیکی پر قائم رہنے والا نفس۔ (الفجر : ٢٧) ٢۔ نفس لوّامہ۔ گناہ پر ملامت کرنے والا نفس۔ (القیامہ : ٢) ٣۔ نفس امّارہ۔ گناہ پر ابھارنے والا نفس۔ (یوسف : ٥٣) (تفصیل کے لیے دیکھیے فہم القرآن ج ٢، ص ١٣٠) یوسف
54 فہم القرآن ربط کلام : حضرت یوسف (علیہ السلام) کے ارشاد کے بعد بادشاہ وقت کی پیش کش۔ قرآن مجید کے مقدس انداز اور الفاظ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ مصر کے بادشاہ کی حضرت یوسف (علیہ السلام) کے ساتھ یہ پہلی ملاقات تھی۔ جس میں اس نے آپ سے درخواست کی کہ میں آپ کو اپنے کاموں کے لیے مخصوص کرنا چاہتا ہوں۔ آج کے بعد آپ ہمارے نزدیک نہایت ہی قابل اعتماد اور مقرب ہوں گے۔ یوسف (علیہ السلام) نے فرمایا کہ آپ مجھے ملک کے وسائل کی ذمہ داری سونپیں۔ یقیناً میں ان کے مصرف کو جانتا ہوں اور معاملات کی حفاظت کروں گا۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) نے یہ دعویٰ اس لیے کیا تھا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ناصرف انھیں خوابوں کی تعبیر کا علم دیا تھا بلکہ دیگر معاملات کو سمجھنے اور ان کی تہہ تک پہنچنے کی صلاحیت بھی عطا فرمائی تھی۔ بائبل کی عبارت سے معلوم ہوتا ہے کہ مصر کے بادشاہ نے اپنے وزراء اور ملک کے زعماء سے پہلے ہی یہ طے کر رکھا تھا کہ یوسف (علیہ السلام) کو کلی اختیار دیے جائیں۔ جس کے لیے اس نے حضرت یوسف (علیہ السلام) سے یہ درخواست کی کہ میں اپنے لیے آپ کو مخصوص کرنا چاہتا ہوں۔ جس کا یہ مفہوم بھی لیا جا سکتا ہے کہ میری ذاتی طور پر درخواست ہے کہ ملک کو مستقبل کے بحران سے نکلالنے کے لیے آپ عملی طور پر بھی ہمارے ساتھ تعاون کریں۔ اس سے بادشاہ کی اپنی قوم کے ساتھ خیر خواہی اور حب الوطنی کا اندازہ ہوتا ہے۔ اس پیش کش کے ردّ عمل میں حضرت یوسف (علیہ السلام) فرماتے ہیں کہ مجھے آپ ملک کے خزانوں کا اختیار دیں جسے انتظامی زبان میں وزیر خزانہ کہا جاسکتا ہے۔ میں اللہ کے فضل سے جانتا ہوں کہ معاشی بحران میں ملک کو کس طرح سنبھالادیا جاسکتا ہے۔ یہاں بہت سارے مفسرین نے لکھا ہے کہ یوسف (علیہ السلام) وزیر خزانہ کے بجائے ملک کے تمام امور کے ذمہ دار بنائے گئے تھے۔ ان بزرگوں کا خیال ہے کہ بادشاہ نے صرف نام کے طور پر بادشاہی رکھی تھی۔ گویا کہ موجودہ پارلیمانی نظام کی طرح حضرت یوسف (علیہ السلام) ملک کے وزیر اعظم تھے۔ ثبوت کے طور پر وہ اسی سورت کی آیت ٦٩، ٧٦ اور ٥٦ سے استدلال کرتے ہیں۔ جن میں حضرت یوسف (علیہ السلام) ملک کے کلی اختیارات کے مالک دکھائی دیتے ہیں۔ جبکہ قرآن مجید کے الفاظ سے یہ بالکل عیاں ہے کہ بادشاہ مصر نے اس موقعہ پر حضرت یوسف (علیہ السلام) کو ملک کے کلی اختیارات نہیں دیے تھے۔ ورنہ حضرت یوسف (علیہ السلام) کو بادشاہ کی پیش کش کے جواب میں یہ کہنے کی ضرورت نہ پیش آتی کہ آپ مجھے ملک کے وسائل کی تقسیم کار کا اختیار دیں جو آج کل کی انتظامی تقسیم کے مطابق وزارت خزانہ کا منصب بنتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جب حضرت یوسف (علیہ السلام) کے بھائی تیسری مرتبہ اپنے والدین کے ساتھ حضرت یوسف (علیہ السلام) کے پاس گئے تو اس وقت وہ مصر کے بادشاہ بن چکے تھے۔ مؤرخین کا خیال ہے کہ بادشاہ کے فوت ہونے کے بعد حضرت یوسف (علیہ السلام) ملک کے بادشاہ بنے تھے اور یہی بات قرآن مجید کے سیاق و سباق کے تناظر میں حقیقت کے زیادہ قریب لگتی ہے۔ جہاں تک اس بحث کا تعلق ہے، کہ یوسف (علیہ السلام) نے منصب کا خود مطالبہ کیا تھا قرآن مجید کے الفاظ سے بظاہر یہ بات ظاہر ہوتی ہے۔ لیکن اگر پچھلی بات کو ساتھ ملا کر اس بات کا مفہوم سمجھا جائے تو بات بالکل واضح ہے کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) نے از خود مطالبہ نہیں کیا بلکہ منصب کی پیش کش کے جواب میں انہوں نے ملک و قوم کی خیر خواہی اور خواب کی تعبیر کو عملی جامہ پہنانے کے لیے یہ مطالبہ کیا کہ اگر آپ مجھے ہر صورت اعیان حکومت میں شامل کرنا چاہتے ہیں تو ملک و قوم کے لیے یہ مناسب ہوگا کہ مجھے وزارت خزانہ کا قلمدان سونپا جائے تاکہ مستقبل کے معاشی بحران سے ملک و قوم کو نکالنے کے لیے میں خداداد صلاحیتوں کو بروئے کار لا سکوں۔ جہاں تک منصب کا مطالبہ کرنے کا معاملہ ہے ہماری شریعت میں ایسا مطالبہ ناجائز ہے۔ ممکن ہے کہ پہلی شریعتوں میں اس طرح کا مطالبہ کرناجائز ہو۔ (عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَنْ وَلِیَ الْقَضَآءَ أَوْ جُعِلَ قَاضِیًا بَیْنَ النَّاسِ فَقَدْ ذُبِحَ بِغَیْرِ سِکِّیْنٍ) [ رواہ الترمذی : کتاب الأحکام باب مَا جَآءَ عَنْ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فِی الْقَاضِی] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ جس کو فیصلہ کرنے کا حق دیا گیا یا اسے لوگوں کے درمیان قاضی مقرر کیا گیا یقیناً وہ بغیر چھری کے ذبح کیا گیا۔“ (عَنْ عَبْدِالرَّحْمٰنِ ابْنِ سَمُرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ لِیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لَا تَسْأَلِ الْاِمَارَۃَ فَاِنَّکَ اِنْ اُعْطِیْتَھَا عَنْ مَّسْءَلَۃٍ وَّکِلْتَ اِلَیْہَاوَاِنْ اُعْطِیْتَھَا عَنْ غَیْرِ مَسْءَلَۃٍ اُعِنْتَ عَلَیْہَا) [ متفق علیہ] ” حضرت عبدالرحمن بن سمرۃ (رض) بیان کرتے ہیں کہ مجھے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا، امارت کی خواہش نہ کرنا! کیونکہ اگر تیری خواہش پر امارت مل گئی تو تجھے تیرے حال پر چھوڑ دیا جائے گا۔ اگر بلا خواہش امارت تفویض کی گئی تو تیری معاونت کی جائے گی۔“ (عَنْ اَبِیْ ہُرِیْرَۃَ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ اِنَّکُمْ سَتَحْرِصُوْنَ عَلَی الْاِمَارَۃِ وَسَتَکُوْنُ نَدَامَۃً یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ فَنِعْمَ الْمُرْضِعَۃُ وَبِءْسَتِ الْفَاطِمَۃُ )[ رواہ البخاری : باب باب مَا یُکْرَہُ مِنَ الْحِرْصِ عَلَی الإِمَارَۃِ ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا‘ عنقریب تم امارت کی خواہش کرو گے‘ حالانکہ قیامت کے دن امارت باعث ندامت ہوگی۔ اقتدار بھلا لگتا ہے‘ اقتدار سے محرومی دل خراش ہوتی ہے۔ جیسے دودھ پلانے والی بھلی لگتی ہے اور دودھ چھڑانے والی بری لگتی ہے۔“ قیامت کے دن منصب دار لوگوں کی حالت : (عَنْ اَبِیْ ذَرٍّ (رض) قَالَ قُلْتُ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اَ لَا تَسْتَعْمِلُنِیْ قَالَ فَضَرَبَ بِیَدِہٖ عَلٰی مَنْکِبِیْ ثُمَّ قَالَ یَآ اَبَا ذَرٍّ اِنَّکَ ضَعِیْفٌ وَّاِنَّھَا اَمَانَۃٌ وَّاِنَّھَا یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ خِزْیٌ وَّنَدَامَۃٌ اِلَّامَنْ اَخَذَھَا بِحَقِّہَا وَاَدَّی الَّذِیْ عَلَیْہِ فِیْھَا) [ رواہ مسلم : باب کَرَاہَۃِ الإِمَارَۃِ بِغَیْرِ ضَرُورَۃٍ ] ” حضرت ابوذر (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے کہا‘ کہ اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ مجھے کوئی عہدہ کیوں نہیں دیتے؟ آپ نے اپنا ہاتھ میرے کندھے پر مارتے ہوئے فرمایا‘ اے ابوذر! یقیناً تو کمزور آدمی ہے۔ اور یہ عہدہ امانت ہے جو بلا شبہ قیامت کے دن رسوائی اور ذلت کا باعث ہوگا‘ سوائے ان لوگوں کے جنہوں نے اس کے حق کو سوچ سمجھ کر استعمال کیا۔ اور ذمہ داریوں کو صحیح طور پر نبھایا۔“ مسائل ١۔ بادشاہ نے یوسف (علیہ السلام) کو اپنا مشیر بنانے کی پیشکش کی۔ ٢۔ جیل سے نکلنے کے بعد یوسف (علیہ السلام) پہلے سے زیادہ معتبر اور معزز ہوگئے۔ ٣۔ معاشیات کے ماہر شخص کو وزیر خزانہ بنا نا چاہیے۔ یوسف
55 یوسف
56 فہم القرآن ربط کلام : حضرت یوسف (علیہ السلام) کا جیل سے رہا ہو کر وزارت خزانہ تک پہنچنا اللہ تعالیٰ کے کرم کا نتیجہ تھا۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) کے بھائی اپنے طور پر حضرت یوسف (علیہ السلام) کو ختم کرنے یا ہمیشہ کے لیے کسی کا محتاج یا غلام رہنے کے لیے چھوڑ گئے تھے۔ لیکن درحقیقت ان سے یہ کام اللہ تعالیٰ کی تقدیر نے کروایا تھا۔ کیونکہ اگر یوسف (علیہ السلام) کو کنویں میں نہ پھینکتے مار ڈالتے یا حضرت یوسف (علیہ السلام) اپنے ماں باپ کے پاس کنعان میں ہی رہتے تو وہ مصر کے بادشاہ کس طرح بن سکتے تھے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی منشا اور اس کی تقدیر کا نتیجہ تھا کہ بھائیوں نے قتل کرنے کے بجائے کنویں میں پھینکا۔ کنویں سے قافلے والوں نے نکالا اور انہوں نے مصر کے بازار میں فروخت کیا۔ اللہ کی تقدیر کے مطابق عزیز مصر خریدتا ہے۔ عزیز مصر کی اہلیہ انہیں بدکاری پر آمادہ کرتی ہے۔ یوسف (علیہ السلام) بدکاری سے انکار کرنے کی پاداش میں جیل جاتیہیں، وہاں بادشاہ کے قریبی ملازم متاثر ہوتے ہیں۔ ایک ملازم رہائی پاکر اپنی ڈیوٹی پر واپس جاتا ہے۔ جب اس نے بادشاہ کے خواب کا چرچا سناتو وہ بادشاہ سے اجازت لے کر جیل میں حضرت یوسف (علیہ السلام) سے خواب کی تعبیر پوچھتا ہے، خواب کی تعبیر صحیح پاکربادشاہ کا انہیں وزارت خزانہ کا منصب سونپنا اور بالآخر حضرت یوسف (علیہ السلام) کا مصر کا حکمران بننا۔ ان کے بھائیوں کا اپنی خطا کا اعتراف کرتے ہوئے معذرت خواہانہ انداز کے ساتھ پیش ہونا۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) کو والدین کی خدمت کرنے کا بہترین موقع میسر آنا۔ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم کا نتیجہ تھا۔ جس کے بارے میں ارشاد ہوتا ہے کہ ہم نے اس طریقہ سے یوسف (علیہ السلام) کو ملک مصر میں حکومت عنایت فرمائی۔ اللہ تعالیٰ جیسے چاہتا ہے زمین میں اقتدار عطا کرتا ہے۔ جس کے بارے میں فرمایا ہے کہ ہم جسے چاہتے ہیں اپنی رحمت سے سرفراز کرتے ہیں اور ہم نیک لوگوں کا اجر کبھی ضائع نہیں کرتے۔ اور صاحب ایمان اور اللہ سے ڈر کر زندگی بسر کرنے والوں کا اجر قیامت کے دن بہت ہی بہتر اور زیادہ ہوگا۔ (عن أبی أمامۃ (رض) یَقُوْلُ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَخْطُبُ فِیْ حَجَّۃِ الْوَدَاعِ فَقَالَ اتَّقُوا اللَّہَ رَبَّکُمْ وَصَلُّوا خَمْسَکُمْ وَصُوْمُوْا شَہْرَکُمْ وَأَدُّوْا زَکَاۃَ أَمْوَالِکُمْ وَأَطِیْعُوْا ذَآ أَمْرِکُمْ تَدْخُلُوا جَنَّۃَ رَبِّکُمْ )[ رواہ الترمذی : کتاب الصلاۃ، باب فضل الصلاۃ وہو حدیث صحیح] ” حضرت ابو امامہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حجۃ الودع کے موقع پر خطبہ دیتے ہوئے سنا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ سے ڈر جاؤ جو تمہارا رب ہے پانچ نمازیں پڑھو اور رمضان کے روزے رکھو۔ اپنے مالوں میں سے زکوٰۃ ادا کرو۔ اپنے امرا کی اطاعت کروتم اپنے رب کی جنت میں داخل ہوجاؤ گے۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے یوسف (علیہ السلام) کو ملک میں بااختیار بنا دیا۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ جس پر چاہتا ہے اپنی رحمت فرماتا ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ نیکوکاروں کے اجر کو ضائع نہیں کرتا۔ ٤۔ اللہ سے ڈرنے والوں کو آخرت میں بہتر صلہ دیا جائے گا۔ تفسیر بالقرآن عزت اور اقتدار اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے : ١۔ اللہ تعالیٰ نے یوسف (علیہ السلام) کو ملک میں بااختیار بنایا۔ (یوسف : ٥٦) ٢۔ اللہ بادشاہوں کا بادشاہ ہے جسے چاہے بادشاہت عنایت کرتا ہے۔ (آل عمران : ٢٦) ٣۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے دعا کی اللہ مجھے بخش دے اور مجھے بے مثال حکومت عطا فرما۔ (ص : ٣٥) ٤۔ بابرکت ہے وہ ذات جس کے ہاتھ میں زمین و آسمان کی بادشاہت ہے۔ (الملک : ١) ٥۔ زمین و آسمان کی بادشاہت اللہ کے لیے ہے۔ (الجاثیۃ : ٢٧) یوسف
57 یوسف
58 فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ قحط سالی کی وجہ سے حضرت یوسف (علیہ السلام) کے بھائیوں کا مجبور ہو کر مصر جانا۔ قرآن مجید کے مقدس الفاظ سے یہ بات مترشح ہو رہی ہے کہ بادشاہ کے خواب کے مطابق خوشحالی کے سات سال گزرنے کے بعد مصر میں قحط سالی شروع ہوچکی تھی۔ اور اس قحط کے اثرات شام، فلسطین اور کنعان تک پھیل چکے تھے۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) نے وزارت خزانہ کا قلمدان سنبھالتے ہی بہترین منصوبہ بندی کی۔ جس کی وجہ سے دوسرے علاقوں کے لوگ بھی غلہ حاصل کرنے کے لیے مصر کا رخ کر رہے تھے۔ اسی بنا پر حضرت یوسف (علیہ السلام) کے بھائی بھی غلہ لینے کے لیے حضرت یوسف (علیہ السلام) کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ لیکن وہ حضرت یوسف (علیہ السلام) کو نہ پہچان سکے۔ جب یوسف (علیہ السلام) نے ان کا سامان تیار کر وا دیا تو فرمایا۔ آئندہ غلہ لینے کیلیے آؤ تو اپنے سوتیلے بھائی کو ضرور ساتھ لانا۔ آپ نے دیکھ لیا ہے کہ میں پورا پورا تولنے کے ساتھ مہمان کی بہترین تکریم کرنے والا ہوں۔ اگر تم اپنے بھائی کو ساتھ نہ لائے تو میرے پاس نہ آنا اور نہ ہی تمھیں غلہ دیا جائے گا۔ بھائیوں کا حضرت یوسف (علیہ السلام) کو نہ پہچاننے کی دو وجوہات ہو سکتی ہیں۔ ایک یہ کہ جب انھوں نے یوسف (علیہ السلام) کو کنویں میں پھینکا تھا تو اس وقت حضرت یوسف (علیہ السلام) کی عمر نو یا دس سال سے زیادہ نہ تھی۔ اسی لیے حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے رخصت کرتے وقت فرمایا تھا کہ اس کا خیال رکھنا کہ کہیں اسے بھیڑیا نہ کھا جائے۔ اگر حضرت یوسف (علیہ السلام) کی عمر بقول بعض مفسرین کے ١٧ یا ٢٠ سال کی تھی تو اس عمر میں آدمی اتنا بچہ نہیں ہوتا کہ کسی درخت وغیرہ پر یا کسی اور طرح اپنی حفاظت نہ کرسکتا ہو۔ کنویں میں پھینکنے کے بعد اب تک تقریباً تیس سال سے زائد کا عرصہ گزر چکا تھا۔ جن کا اس طرح اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اگر یوسف (علیہ السلام) کی عمر کنویں کے وقت دس سال کی تھی تو وہ عزیز مصر کے ہاں کم ازکم بیس سال ٹھہرے ہوں گے۔ پھر وہ نو، دس سال جیل میں بھی رہے گویا کہ اب وہ چالیس کے لگ بھگ تھے۔ جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : (وَلَمَّا بَلَغَ اَشُدَّہٗ ) ” اور جب وہ ( یوسف (علیہ السلام) اپنی بھرپور جوانی کو پہنچے۔“ یوسف (علیہ السلام) کو اپنے بھائیوں سے جدا ہوئے کم و بیش چالیس سال کا عرصہ بنتا ہے۔ ظاہر ہے کہ چالیس سال کے بعد دس، بارہ سال کے بچے کے نقش ونگار اور قدوقامت میں غیر معمولی فرق واقع ہوجاتا ہے۔ دوسری وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ بھائی سوچتے ہوں گے کہ اگر یوسف (علیہ السلام) زندہ ہے تو وہ کسی کی نوکری چاکری کر رہا ہوگا۔ انھیں کیا معلوم تھا کہ جس یوسف کو ہم نے دنیا کی ٹھوکریں کھانے کے لیے کنویں میں پھینکا تھا۔ وہ کنویں کی گہرائیوں سے نکل کر مصر کے اقتدار کی بلندیوں تک پہنچ چکا ہے۔ ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں آ سکتا تھا کہ وہ مقتدر شخصیت ہمارا ہی سوتیلا بھائی ہے جس کو وہ پہچان نہ سکے۔ لیکن قرآن مجید کے الفاظ بتلا رہے ہیں کہ یوسف (علیہ السلام) نے انھیں پہچان لیا اور ان کو بھائیوں جیسی تکریم دیتے ہوئے بہترین مہمان نوازی کی۔ یہاں قرآن مجید کے الفاظ سے یہ مفہوم بھی آسانی کے ساتھ سمجھا جا سکتا ہے کہ یوسف (علیہ السلام) اپنے بھائیوں سے ایک سے زیادہ بار ملاقات کرچکے تھے۔ اور باتوں باتوں میں انھوں نے اپنے گھر کے حالات ان سے دریافت کرلیے تھے۔ جس وجہ سے فرما رہے ہیں کہ جب آئندہ غلہ لینے کے لیے آؤ تو اپنے سوتیلے بھائی کو ساتھ لانا ورنہ میرے پاس آنے کی ضرورت نہیں ہے۔ (عَنْ اَبِیْ شُرَیْحِ الْکَعْبِیِّ (رض) اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ مَنْ کَانَ یُؤْمِنُ باللّٰہِ وَالْیَوْمِ الاْٰخِرِ فَلْیُکْرِمْ ضَیْفَہٗ جَآءِزَتُہٗ یَوْمٌ وَّلَیْلَۃٌ وَّالضِّیَافَۃُ ثَلٰثَۃُ اَیّاَمٍ فَمَا بَعْدَ ذٰلِکَ فَھُوَ صَدَقَۃٌ وَّلَا یَحِلُّ لَہٗٓاَنْ یَثْوِیَ عِنْدَہٗ حتَیّٰ یُحَرِّجَہٗ) [ رواہ البخاری : باب إِکْرَام الضَّیْفِ وَخِدْمَتِہٖٓ إِیَّاہُ بِنَفْسِہٖ ] ” حضرت ابو شریح کعبی (رض) بیان کرتے ہیں رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے وہ اپنے مہمان کی عزت کرے۔ ایک دن ایک رات خوب اہتمام کرے مہمان نوازی تین دن تک ہے اس کے بعد صدقہ ہے۔ مہمان کے لیے جائز نہیں کہ میزبان کے ہاں بلاوجہ مقیم رہے کہ اسے تنگی میں مبتلا کر دے۔“ مسائل ١۔ یوسف (علیہ السلام) نے اپنے بھائیوں کو پہچان لیا۔ ٢۔ یوسف (علیہ السلام) کے بھائی انہیں نہ پہچان سکے۔ ٣۔ یوسف (علیہ السلام) ناپ تول میں کمی نہیں ہونے دیتے تھے۔ ٤۔ یوسف (علیہ السلام) بہت ہی مہمان نواز تھے۔ یوسف
59 یوسف
60 یوسف
61 فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) کے فرمان کے جواب میں ان کے بھائیوں کا چھوٹے بھائی کو ساتھ لانے کا وعدہ۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) نے اپنے بھائیوں کی بہترین مہمان نوازی کی اور انھیں رخصت کرتے ہوئے صاف صاف فرمادیا کہ اگر تم اپنے چھوٹے بھائی کو ساتھ نہ لائے تو ادھر کا رخ نہ کرنا۔ ان کے بھائیوں نے ان سے الوداع ہوتے ہوئے عرض کی کہ ہم اسے ساتھ لانے کے لیے اپنے والد کو آمادہ کریں گے کہ وہ ضرور اسے ہمارے ساتھ بھیجے۔ ہم ہر صورت ایسا کریں گے۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) نے یہ تاکید انہیں اس لیے کی تاکہ حقیقی بھائی سے ان کی ملاقات ہو اور انہیں براہ راست اپنے والد گرامی کے حالات سے آگاہی ہوجائے۔ اسی لیے وہ مختلف انداز میں تاکید کرتے ہیں کہ اپنے سوتیلے بھائی کو آئندہ ساتھ لانا اس کے ساتھ ہی انھوں نے اپنے خادموں سے فرمایا کہ ان کی رقم ان کے سامان میں رکھ دی جائے۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) نے غلہ کے ساتھ ان کی معمولی رقم درج ذیل وجوہات کی وجہ سے واپس کی۔ ٍٍ١۔ قحط زدہ اور کنگال لوگ تھے۔ اس لیے ان کی رقم واپس کی گئی۔ جس سے ثابت ہوتا ہے کہ قحط سالی کے وقت حکومت کا فرض ہے کہ وہ حتی المقدور لوگوں کو بلا معاوضہ غلہ مہیا کرے۔ ٢۔ یہ لوگ یوسف (علیہ السلام) کے بھائی اور مستحق بھی تھے۔ اس لیے ان کا زیادہ حق بنتا تھا کہ ان کی خدمت کی جاتی۔ ٣۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) نے غلے کی رقم اس لیے بھی واپس کی تاکہ ان کے بوڑھے باپ حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے ساتھ تعاون ہوا اور وہ خوش ہوجائیں۔ ٤۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) کے تعاون کا یہ مقصد بھی تھا تاکہ اس بنا پر دوسری بار مصر آتے ہوئے میرے بھائی کو ضرور ساتھ لائیں۔ گھر پہنچ کر غلّہ کی قیمت دیکھتے ہی ان کی خوشی کی انتہا نہ رہی اور اپنے والد سے کہنے لگے کہ اباجان! ہمیں اور کیا چاہیے ہماری رقم بھی واپس کردی گئی ہے لہٰذا آپ چھوٹے بھائی کو ضرور اجازت دیں تاکہ ہم پھر غلہ لائیں۔ ہم اپنے بھائی کی حفاظت کریں گے۔ اس کے جانے کی وجہ سے ہمیں ایک اونٹ مزید غلہ مل جائے گا اس میں کوئی مشکل پیش نہیں آئے گی۔ حضرت یعقوب (علیہ السلام) گھر کی تنگدستی، بیٹوں کے اصرار اور مصر کے بادشاہ کا حسن سلوک دیکھ کر دل ہی دل میں ایک ٹیس محسوس کرتے ہیں مگر اس کے ساتھ ہی ٹھنڈی سانس بھر کر کہتے ہیں۔ اللہ حفاظت کرنے والا وہ سب سے زیادہ مہربان ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ میں نے تو پہلے بھی یوسف کے بارے میں بڑی تاکیدیں کیں تھیں مگر حقیقی حفاظت تو اللہ کے اختیار میں ہے جب وہ اپنا کرم فرمائے گا تو ہماری پریشانیاں خودبخود ختم ہوجائیں گی۔ مکہ والوں کا نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں پیش ہونا : (عَنْ مَسْرُوْقٍ قَالَ کُنَّا عِنْدَ عَبْدِ اللّٰہِ فَقَالَ إِنَّ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لَمَّا رَأٰی مِنَ النَّاسِ إِدْبَارًا قَال اللَّہُمَّ سَبْعٌ کَسَبْعِ یُوْسُفَ فَأَخَذَتْہُمْ سَنَۃٌ حَصَّتْ کُلَّ شَیْءٍ حَتّٰی أَکَلُوا الْجُلُوْدَ وَالْمَیْتَۃَ وَالْجِیَفَ، وَیَنْظُرَ أَحَدُہُمْ إِلَی السَّمَآءِ فَیَرَی الدُّخَانَ مِنَ الْجُوْعِ، فَأَتَاہُ أَبُوْ سُفْیَانَ فَقَالَ یَا مُحَمَّدُ إِنَّکَ تَأْمُرُ بِطَاعَۃِ اللّٰہِ وَبِصِلَۃِ الرَّحِمِ وَإِنَّ قَوْمَکَ قَدْ ہَلَکُوْا، فَادْعُ اللَّہَ لَہُمْ قَال اللّٰہُ تَعَالٰی (فَارْتَقِبْ یَوْمَ تَأْتِی السَّمَآءُ بِدُخَانٍ مُّبِیْنٍ)إِلٰی قَوْلِہٖ (عَآءِدُونَ) (یَوْمَ نَبْطِشُ الْبَطْشَۃَ الْکُبْرٰی) [ رواہ البخاری : باب دُعَآء النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اجْعَلْہَا عَلَیْہِمْ سِنِیْنَ کَسِنِیْ یُوسُفَ ] ” مسروق بیان کرتے ہیں کہ ہم عبداللہ (رض) کے پاس تھے انھوں نے بیان کیا کہ جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دیکھا کہ مکہ کے لوگ ایمان نہیں لا رہے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دعا کی اے اللہ ! ان پر حضرت یوسف (علیہ السلام) کے قحط کی طرح قحط نازل فرما دے اس کے بعد ان کو قحط سالی نے آلیا ہر چیز ختم ہوگئی یہاں تک کہ وہ چمڑے اور مردار کھانے پر مجبور ہوگئے۔ جب ان میں سے کوئی آسمان کی طرف دیکھتا تو اسے بھوک کی وجہ سے دھواں نظر آتا۔ ابو سفیان آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا اور کہنے لگا اے محمد! آپ اللہ کی اطاعت اور صلہ رحمی کا حکم دیتے ہیں۔ آپ کی قوم ہلاک ہو رہی ہے۔ ان کے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا کیجیے تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائیں (فَارْتَقِبْ یَوْمَ تَأْ تِی السَّمَآءُ بِدُخَانٍ مُّبِیْنٍ) سے لے کر (عَآءِدُوْنَ) (یَوْمَ نَبْطِشُ الْبَطْشَۃَ الْکُبْرَیٰ) تک۔“ مسائل ١۔ یوسف (علیہ السلام) کے بھائیوں نے اپنے باپ کو اپنے چھوٹے بھائی کے بارے میں یقین دہائی کروائی۔ ٢۔ یوسف (علیہ السلام) نے اپنے بھائیوں کی نقدی لوٹا دی۔ یوسف
62 یوسف
63 فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ برادران یوسف (علیہ السلام) واپس اپنے گھر آکر اپنے والد سے حسب وعدہ اور ضرورت اپنے بھائی بنیامین کو آئندہ سفر میں ساتھ لے جانے کی درخواست کرتے ہیں۔ برادران یوسف (علیہ السلام) گھر آکر اپنے والد حضرت یعقوب (علیہ السلام) کو مصر کے بادشاہ کی مہمان نوازی، حسن سلوک اور اس کے فرمان کا ذکر کرتے ہوئے عرض کرتے ہیں کہ ابا جی ہمیں آئندہ غلہ دینے سے اس لیے انکار کیا گیا ہے کہ جب تک ہم اپنے بھائی بنیامین کو ساتھ نہ لے جائیں گے ہمیں غلہ نہیں مل سکتا۔ لہٰذا آپ سے درخواست ہے کہ آپ ہمارے بھائی بنیا میں کو ہمارے ساتھ روانہ فرمائیں ہم اس کی ضرور بضرور حفاظت کریں گے۔ حضرت یعقوب (علیہ السلام) یوسف (علیہ السلام) کے معاملے میں ان کے وعدے اور باتوں سے واقف تھے۔ انھوں نے صرف یہی کہنا مناسب سمجھا کہ کیا تم پر میں اسی طرح اعتبار کروں جس طرح اس سے پہلے اس کے بھائی کے بارے میں اعتبار کیا تھا ؟ اس کے ساتھ ہی فرمایا اللہ ہی بہترین حفاظت کرنے والا ہے۔ وہ سب سے زیادہ مہربان ہے۔ اس گفتگو کے بعد جب برادران یوسف نے اپنا سامان کھولا تو یہ دیکھ کر ان کے تعجب اور خوشی کی انتہا نہ رہی کہ غلہ کے ساتھ ان کی ادا کی ہوئی رقم بھی واپس کردی گئی ہے۔ کہنے لگے ! اباجان! اب تو ضرور آپ بنیامین کو ساتھ لے جانے میں اجازت مرحمت فرمائیں۔ آدمی کو ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کا طلبگار رہنا چاہیے : (عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ (رض) قَالَ کَان النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) إِذَا کَرَبَہُٓ أَمْرٌ قَالَ یَا حَیُّ یَا قَیُّوْمُ بِرَحْمَتِکَ أَسْتَغِیْثُ) [ رواہ الترمذی : باب یا حیی یا قیوم] ” حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ جب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کسی معاملے میں پریشانی ہوتی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ دعا کرتے اے زندہ اور قائم رہنے والے اللہ! میں تیری رحمت کے صدقے تیری مدد طلب کرتاہوں۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ سب سے بہتر حفاظت فرمانے والا ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ سب سے زیادہ رحم کرنے والا ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ ہی سب کی حفاظت کرنے والا ہے۔ ١۔ بے شک میرا رب ہر چیز پر نگہبان ہے۔ (ھود : ٥٧) ٢۔ اللہ ہی سب کی حفاظت کرنے والاہے۔ (الانبیاء : ٨٢) ٣۔ ہر ایک کی حفاظت کے لیے فرشتے مقرر ہیں۔ (الرعد : ١١) ٤۔ وہ اپنے بندوں پر غالب ہے اللہ نے اپنے بندوں کی حفاظت کے لیے فرشتے مقرر کیے ہیں۔ (الانعام : ٦١) یوسف
64 یوسف
65 یوسف
66 فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ بیٹوں کے اصرار پر حضرت یعقوب (علیہ السلام) کا مجبور ہو کربنیامین کو بھا ئیوں کے ساتھ بھیجنے پر آمادہ ہونا۔ حضرت یعقوب (علیہ السلام) یہ فرماتے ہوئے اپنی آمادگی کا اظہار کرتے ہیں کہ میں بنیامین کو اس وقت تک ہرگز تمھارے ساتھ نہ بھیجوں گا جب تک اللہ کا نام لے کر میرے ساتھ پختہ وعدہ نہ کرو کہ اسے ضرور میرے پاس واپس لاؤ گے۔ الا یہ کہ تم سب کے سب گھیر لیے جاؤ۔ جب انھوں نے قسمیں اٹھا اٹھا کر عہد دیا تو حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے فرمایا کہ اللہ ہی ہمارے قول و اقرار پر نگران ہے۔ پھر فرمانے لگے کہ بیٹا شہر کے ایک دروازے سے اندر داخل نہ ہونا بلکہ مختلف دروازوں سے شہر میں داخل ہونا۔ میں تمھیں اللہ کی تقدیر سے نہیں بچا سکتا۔ کیونکہ بالآخر حکم اللہ ہی کا غالب آیا کرتا ہے۔ اس تجویزکو پیش کرنے کا یہ مقصد نہیں کہ میرا اللہ پر بھروسہ نہیں ہے۔ میں اللہ ہی پر بھروسہ رکھتا ہوں اور ہر بھروسہ رکھنے والے کو اللہ کی ذات پر بھروسہ کرنا چاہیے۔ حضرت یعقوب (علیہ السلام) کا بیٹوں سے حلف لیتے ہوئے یہ فرمانا کہ تم ضرور میرے پاس بنیا میں کو واپس لاؤ گے الا یہ کہ تم سب کے سب گھیر لیے جاؤ۔ ان الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت مصر میں امن وامان کا مسئلہ بھی پیدا ہوچکا تھا جو قحط سالی کے دور میں پیدا ہوجایا کرتا ہے کیونکہ کچھ عناصر اپنی ضروریات کے حصول کے لیے مار دھاڑ کا طریقہ اختیار کرلیتے ہیں۔ ایسی صورت میں مضبوط سے مضبوط حکومت کا نظم و ضبط کمزور ہوجایا کرتا ہے۔ ان حالات میں گیارہ آدمیوں کا جتھا جو کہ ایک سے ایک بڑھ کر کڑیل جوان ہو ایسے اجنبیوں کو انتظامیہ مشکوک نگاہوں سے دیکھے بغیر نہیں رہ سکتی۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ انتظامیہ نے امن و امان برقرار رکھنے کے لیے دفعہ ایک سو چوالیس کی طرح کوئی قانون نافذ کر رکھا ہو۔ ایسی صورت حال کے پیش نظر حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے اپنے بیٹوں کو یہ مشورہ دیا کہ تم وہاں اجنبی اور پردیسی ہو گے اس لیے تمھیں جتھے کی شکل میں ایک ہی دروازے سے داخل ہونے کے بجائے مختلف دروازوں سے داخل ہونا چاہیے۔ اس تجویز پر عمل کرنے کے ساتھ تمھارا اللہ پر مضبوط ایمان اور بھروسہ ہونا چاہیے۔ اللہ اپنی ذات پر بھروسہ کرنے والوں کے معاملات آسان فرما دیتا ہے۔ توکل کا معنی ہے کسی پر اعتماد اور بھروسہ کرنا۔ توکل علی اللہ کا یہ مفہوم ہوا کہ بندہ اپنے خالق و مالک پر کامل اعتماد و یقین کا اظہار کر رہا ہے۔ جو اپنے رب پربھروسہ اور توکل کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے لیے کافی ہوجاتا ہے اور اس کی مشکلات آسان کردیتا ہے۔ لہٰذا تنگی اور آسانی‘ خوشی اور غمی میں اللہ تعالیٰ پر بھروسہ رکھنا چاہیے۔ یہ غموں کا تریاق اور مشکلات کا مداوا ہے۔ (وَمَنْ یَّتَوَ کَّلْ عَلٰی اللّٰہِ فَھُوَحَسْبُہٗ إِنَّ اللّٰہَ بَالِغُ أَمْرِہٖ قَدْ جَعَلَ اللّٰہُ لِکُلِّ شَیْءٍ قَدْرًا) [ الطلاق : ٣] ” جو اللہ پربھروسہ کرے اس کے لیے وہ کافی ہے۔ اللہ اپنا حکم نافذ کرکے رہتا ہے اللہ نے ہر چیز کے لیے ایک اندازہ مقرر کر رکھا ہے۔“ (وَعَلَیْہِ فَلْیَتَوَکَّلِ الْمُتَوَکِّلُوْنَ) [ یوسف : ٦٧] ” اس پر ہی بھر وسہ کرنے والوں کو اعتماد کرنا چا ہیے۔“ قرآن و سنت کی روشنی میں توکل کا کامل تصور یہ بنتا ہے کہ وسائل اور اسباب کو استعمال کرتے ہوئے کام کا نتیجہ اور انجام اللہ کے سپرد کیا جائے۔ توکل پریشانیوں سے نجات پانے کا پہلا ذریعہ ہے اگر کسی کا اللہ تعالیٰ پر اعتماد اور توکل ہی نہیں تو اس کے مسائل کس طرح حل ہوں گے؟ (عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لَوْ أَنَّکُمْ کُنْتُمْ تَوَکَّلُوْنَ عَلَی اللَّہِ حَقَّ تَوَکُّلِہٖ لَرُزِقْتُمْ کَمَا تُرْزَقُ الطَّیْرُ تَغْدُوْ خِمَاصًا وَتَرُوْحُ بِطَانًا)[ رواہ الترمذی : کتاب الزہد، باب فِی التَّوَکُّلِ عَلَی اللَّہِ] ” حضرت عمر بن خطاب (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اگر تم اللہ تعالیٰ پر توکل کرو جس طرح توکل کرنے کا حق ہے۔ تمہیں اسی طرح رزق دیا جائے جس طرح پرندوں کو رزق دیا جاتا ہے۔ وہ خالی پیٹوں کے ساتھ صبح کرتے ہیں اور شام کو بھرے پیٹوں کے ساتھ لوٹتے ہیں۔“ مسائل ١۔ حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے اپنے بیٹوں سے پختہ عہد لیا۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ ہر کسی کے قول وعمل پر گواہ ہوتا ہے۔ ٣۔ اپنی اولاد کو نصیحت کرنی چاہیے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ کے مقابلہ میں کوئی کسی کے کام نہیں آسکتا۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ پرہی ہر کسی کو توکل کرنا چاہے۔ تفسیر بالقرآن توکل علی اللہ کے فوائد : ١۔ میں اللہ پر توکل کرتا ہوں اور توکل کرنے والے اسی پر توکل کرتے ہیں۔ (یوسف : ٦٧) ٢۔ جو شخص اللہ پر توکل کرتا ہے اللہ اسے کافی ہوجاتا ہے۔ (الطلاق : ٣) ٣۔ اللہ توکل کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔ (آل عمران : ١٥٩) ٤۔ اللہ صبر کرنے والوں اور توکل کرنے والوں کو بہترین اجر عطا فرمائے گا۔ (العنکبوت : ٥٩) ٥۔ اللہ پر ایمان لانے والوں اور توکل کرنے والوں کے لیے خیر ہی خیر ہے۔ (الشوریٰ : ٣٦) یوسف
67 یوسف
68 فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے فرمان پر عمل کرتے ہوئے ان کے بیٹوں کا مختلف دروازوں سے شہر میں داخل ہونا۔ حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے صاحبزادے اپنے والد کی تجویز کے مطابق شہر کے مختلف دروازوں سے داخل ہوئے۔ یہ تو ان کی احتیاطی تدبیر تھی کیونکہ اللہ تعالیٰ کی عطا کی ہوئی تعلیم کی بدولت حضرت یعقوب (علیہ السلام) بڑے صاحب علم تھے۔ جبکہ اکثر لوگ علم نہیں رکھتے۔ پہلے واقعہ کے پیش نظر حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے بیٹوں کو رخصت کرتے ہوئے ان سے حلف لیا تاکہ انھیں پہلی غلطی کا احساس اور آئندہ کے لیے فکر مندی ہو کہ ہم نے پہلے جیسا جرم نہیں کرنا۔ اس کے ساتھ ہی احتیاط کے طور پر ایک تدبیربتلائی۔ اس تدبیر کے باوجود کئی دفعہ فرمایا کہ بیٹواپنے رب پر پوری طرح توکل رکھنا اور میرا بھی اس کی ذات پر توکل ہے۔ حضرت یعقوب (علیہ السلام) کی احتیاطی تدبیر اور اللہ پر توکل کرنے کی سوچ و فکر اور علم کے بارے میں ارشادہوا ہے کہ یہ ہم نے ہی یعقوب (علیہ السلام) کو علم اور سوچ عطا کی تھی۔ جسے اکثر لوگ نہیں جانتے۔ جس کا معنی یہ ہے کہ لوگوں کی اکثریت دنیا کے اسباب اور اپنے علم و ہنر پر ہی بھروسہ کرتی ہے۔ کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ اسباب و وسائل کو اختیار کیے بغیر اللہ پر توکل کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ حالانکہ توکل کا حقیقی معنیٰ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ وسائل کو استعمال کرتے ہوئے اس پر بھروسہ کیا جائے۔ تدبیر کی اہمیت : (عَنْ أَنَسَ بْنَ مَالِکٍ (رض) یَقُوْلُ قَالَ رَجُلٌ یَّا رَسُوْلَ اللّٰہِ أَعْقِلُہَا وَأَتَوَکَّلُ أَوْ أُطْلِقُہَا وَأَتَوَکَّلُ قَالَ اِعْقِلْہَا وَتَوَکَّلْ )[ رواہ الترمذی : باب اعقل وتوکل ] ” حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے کہا اے اللہ کے رسول ! میں سواری کو باندھوں اور توکل کروں یا اسے کھلا چھوڑ دوں اور توکل کروں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا پہلے اونٹ کا گھٹنا باندھو پھر توکل کرو۔“ مسائل ١۔ حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے بیٹے ان کے حکم کے مطابق شہر میں داخل ہوئے۔ ٢۔ حضرت یعقوب (علیہ السلام) بڑے صاحب علم تھے۔ ٣۔ لوگوں کی اکثریت حقائق سے آگاہ نہیں ہوتی۔ تفسیر بالقرآن لوگوں کی اکثریت کا حال : ١۔ اکثر لوگ نہیں جانتے۔ (یوسف : ٢١) ٢۔ لوگوں کی اکثریت شکر نہیں کرتی۔ (یوسف : ٣٨) ٣۔ آپ کے چاہنے کے باوجود لوگوں کی اکثریت ایمان نہیں لائے گی۔ (یوسف : ١٠٣) ٤۔ یہ آپ کے رب کی طرف سے برحق ہے لیکن اکثر لوگ ایمان نہیں لاتے۔ (ھود : ١٧) ٥۔ اہل کتاب میں سے کچھ لوگ مومن ہیں اور ان کی اکثریت نافرمان ہے۔ (آل عمران : ١١٠) ٦۔ وہ اللہ پر جھوٹ باندھتے اور ان کی اکثریت بے عقل ہے۔ (المائدۃ: ١٠٣) ٧۔ اللہ کی منشا کے بغیر کوئی ایمان نہیں لاتا لیکن لوگوں کی اکثریت جاہل ہے۔ (الانعام : ١١١) ٨۔ اللہ کے احسان کو پہچانتے ہیں پھر اس کا انکار کرتے ہیں اور ان میں سے بیشتر لوگ ایسے ہیں جو حق کو نہیں مانتے۔ (النحل : ٨٣) یوسف
69 فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ برادران یوسف کا مختلف دروازوں کے ذریعے گزر کر حضرت یوسف (علیہ السلام) کے ہاں جمع ہونا۔ مفسرین کرام لکھتے ہیں کہ جب حضرت یوسف (علیہ السلام) کے بھائی ان کے ہاں جمع ہوئے تو حضرت یوسف (علیہ السلام) نے ایک ایک کمرے میں دو دو بھائیوں کو ٹھہرایا اور بنیامین کو الگ کمرہ میں جگہ دی۔ پھر بنیامین کے پاس تشریف لے جا کر انھیں اپنا تعارف کروایا۔ ظاہر ہے اتنی مدت کے بعد ملنے پر دو بھائیوں کے جو جذبات ہوں گے انکاپوری طرح اندازہ کرنا کسی کے بس کی بات نہیں۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) نے اپنی زندگی کے نشیب و فراز کے بارے میں بتایا ہوگا اور حضرت بنیامین نے اپنے غم، گھریلو حالات اور اپنے والد گرامی کی پریشانیوں کا ذکر کیا ہوگا۔ جس پر حضرت یوسف (علیہ السلام) نے فرمایا کہ پیارے بھائی اب آپ کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اپنے فضل و کرم سے اکٹھا کردیا ہے۔ لہٰذا جو کچھ آپ کے ساتھ زیادتیاں ہوتی رہیں ہیں ان پر دل گرفتہ ہونے کی ضرورت نہیں، ساتھ انہیں فرمایا کہ میں آپ کو اپنے پاس رکھنے کی کوئی راہ نکالتا ہوں۔ چنانچہ صبح کے وقت بھائیوں کا سامان تیار کیا۔ تو چپکے سے پانی پینے والا مخصوص پیالہ بنیامین کے سامان میں رکھوا دیا۔ جب قافلہ غلہ لے کر شہر سے باہر نکل گیا تو حسب منصوبہ پیچھے سے انتظامیہ کے آدمی بھیجے کہ جانے والے قافلہ کی تلاشی لی جائے۔ انتظامیہ کے لوگوں نے قافلہ کا پیچھا کرتے ہوئے آواز دی کہ رک جاؤ تم تو چور معلوم ہوتے ہو۔ قافلے والے پیچھے پلٹ کر پوچھتے ہیں۔ جناب آپ کی کیا چیز گم ہوئی ہے ؟ جس وجہ سے آپ ہمیں چور کہہ رہے ہیں۔ انتظامیہ کے سربراہ نے کہا کہ ہمارے بادشاہ کا پانی پینے والا پیالہ گم ہوگیا ہے۔ جو شخص ڈھونڈ لائے گا اسے ایک اونٹ غلہ دیا جائے گا۔ میں اس کی ضمانت دیتا ہوں صواع سے مراد ہے پانی پینے کا پیالہ جو سونے یا چاندی کا ہو۔ یا درہے ہماری شریعت میں سونے چاندی کے برتن استعمال کرنا حرام ہیں، شریعت یوسفی میں حرام نہ تھے۔ (عن عَبْد اللّٰہِ بْنَ عُکَیْمٍ قَالَ کُنَّا مَعَ حُذَیْفَۃَ (رض) بِالْمَدَآءِنِ فَاسْتَسْقٰی حُذَیْفَۃُ فَجَآ ءَ ہٗ دِہْقَانٌ بِشَرَابٍ فِیْٓ إِنَاءٍ مِّنْ فِضَّۃٍ فَرَمَاہُ بِہٖ وَقَالَ إِنِّیْٓ أُخْبِرُکُمْ أَنِّیْ قَدْ أَمَرْتُہٗ أَنْ لاَّ یَسْقِیَنِیْ فِیْہِ فَإِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ لاَ تَشْرَبُوْا فِیْٓ إِنَآء الذَّہَبِ وَالْفِضَّۃِ وَلاَ تَلْبَسُوا الدِّیْبَاجَ وَالْحَرِیْرَ فَإِنَّہٗ لَہُمْ فِی الدُّنْیَا وَہُوَ لَکُمْ فِی الآخِرَۃِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ )[ رواہ مسلم : کتاب اللباس والزینۃ، باب تَحْرِیمِ اسْتِعْمَالِ إِنَاء الذَّہَبِ وَالْفِضَّۃِ عَلَی الرِّجَالِ وَالنِّسَاءِ ] ” حضرت عبداللہ بن عکیم (رض) بیان کرتے ہیں کہ ہم حذیفہ (رض) کے ساتھ مدائن میں تھے۔ حذیفہ (رض) نے پانی طلب کیا تو ایک کاشتکار چاندی کے برتن میں پانی لے کر حاضر ہوا توا نہوں نے اسے پھینک دیا اور فرمانے لگے کہ میں تمہیں آگاہ کرتے ہوئے حکم دیتاہوں کہ کوئی مجھے ایسے برتن میں مجھے نہ پلائے۔ کیونکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے کہ سونے اور چاندی کے برتنوں میں نہ پیو۔ زیور اور ریشمی لباس نہ پہنو (مرد) یقیناً یہ دنیا میں کافروں کے لیے ہے اور تمہارے لیے آخرت میں ہے۔“ مسائل ١۔ یوسف (علیہ السلام) نے اپنے بھائی کو اپنے پاس جگہ دی۔ ٢۔ یوسف (علیہ السلام) نے اپنے پینے کا برتن بھائی کی بوری میں رکھوا دیا۔ ٣۔ پختہ شک کی بنیاد پر چوری کا الزام لگایا جاسکتا ہے۔ ٤۔ گمشدہ چیز کے لیے انعام مقرر کیا جا سکتا ہے۔ یوسف
70 یوسف
71 یوسف
72 یوسف
73 فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ قافلے والوں کا انتظامیہ کو جواب اور حلف۔ قافلے والے رک کر کہنے لگے کہ جناب آپ کو معلوم ہے کہ ہم چوری کرنے نہیں آئے۔ ہم تو بھوک کے مارے ہوئے اپنے وطن سے آپ کے ملک میں غلہ لینے کے لیے آئے ہیں۔ ہمارا چوری چکاری سے کیا تعلق۔ لیکن انتظامیہ کے لوگ تلاشی لینے کے سوا کسی دلیل کو نہیں مانتے۔ یہ بیچارے قسم پر قسم اٹھائے جا رہے ہیں کہ یقین کرو کہ ہم نے چوری نہیں کی۔ ہمارا خاندان ایسا ویسا نہیں ہے ہم تو انبیاء کی اولاد ہیں۔ نہ معلوم انہوں نے کس کس انداز سے پولیس افسر کو یقین دلانے کی کوشش کی ہوگی۔ بالآخر پولیس والے کہنے لگے کہ چلو یہ بتاؤ کہ اگر تم جھوٹے ثابت ہوئے تو تمہاری کیا سزا ہونی چاہیے ؟ کیونکہ انہیں یقین تھا کہ ہم نے پیالہ نہیں اٹھایا۔ لہٰذا ہم کس طرح چور ثابت ہوسکتے ہیں۔ اس لیے فوراً کہنے لگے۔ ہمارے علاقے کا قانون ہے کہ اگر چور سے چوری کا مال برآمد ہوجائے تو اس کو ایک سال کے لیے مال کے مالک کے حوالے کردیا جاتا ہے۔ اگر ہم میں سے کسی کے پاس بادشاہ کا پیالہ نکل آئے تو ہم اسے آپ کے حوالے کرنے کے لیے تیار ہیں۔ اس شرط پر قافلے والوں کی تلاشی شروع کردی گئی۔ لیکن حسب ہدایت سب پہلے دوسرے لوگوں کی تلاشی لی گئی۔ تاکہ اصل منصوبہ کے بارے میں کسی کو شک نہ پڑے۔ اس کے پیش نظر آخر میں بنیامین کے سامان کی تلاشی لی گئی۔ ان سے پیالہ برآمد ہوا۔ اللہ تعالیٰ اس تدبیر کے بارے میں ارشاد فرماتے ہیں کہ ہم نے یوسف (علیہ السلام) کے لیے یہ تدبیر کی تھی۔ یعنی اسے سکھلائی تھی۔ ورنہ یوسف بادشاہ کے بنائے ہوئے قانون کے مطابق بھائی کو اپنے پاس نہیں رکھ سکتا تھا۔ اللہ جو چاہے کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے مراتب میں بلند کرتا ہے۔ اور ایک علم والا ایسا ہے جو سب علم رکھنے والوں سے بڑھ کر علم رکھنے والا ہے۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ہم نے یوسف (علیہ السلام) کے لیے تدبیر کی۔ سوچنا یہ ہے کہ یہ تدبیر کونسی تھی۔ کچھ اہل علم کا خیال ہے کہ اس سے مراد یوسف (علیہ السلام) کا بنیامین کے سامان میں پیالہ رکھنا ہے۔ دوسرے مکتبۂ فکر کا کہنا ہے کہ ” کدنا“ سے مراد وہ بات ہے جو تفتیش کے دوران یوسف (علیہ السلام) کے بھائیوں کے منہ سے نکلی تھی کہ اسرائیلی شریعت کے مطابق ہمارا یہ اصول ہے کہ چور کو ایک سال کے لیے مال کے مالک کے حوالے کردیا جائے۔ اسی بنیاد پر بنیامین کو یوسف (علیہ السلام) نے اپنے پاس رکھ لیا۔ جس کے بارے میں ارشاد فرمایا ہے : (فَوْقَ کُلِّ ذِیْ عِلْمٍ عَلِیْمٌ ) ” ایک ہستی ہر علم والے سے بڑھ کر علم رکھنے والی ہے۔“ دین کے معانی : دین اسلام اپنے کام اور نظام کے اعتبار سے کامل اور اکمل ہی نہیں بلکہ یہ تو اپنے نام کے دامن میں بھی پوری جامعیت اور دنیا وآخرت کے معاملات کا احاطہ کیے ہوئے ہے چنانچہ دین کا معنیٰ ہے (١) تابع دار ہونا (٢) دوسرے کو اپنا تابع فرمان بنانا۔ (٣) مکمل اخلاص اور یکسوئی کا اظہار کرنا۔ (٤) قانون (٥) مکمل ضابطۂ حیات (٦) جزا وسزا اور قیامت کے دن کے لیے بھی لفظ دین بولا جاتا ہے۔ دین کی فرضیت : (اَلْیَوْمَ أَکْمَلْتُ لَکُمْ دینَکُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِی وَرَضِیتُ لَکُمُ الْإِسْلَام دینًا )[ المائدۃ: ٣] ” آج کے دن تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کردیا اور تم پر اپنی نعمت کو پورا کردیا اور تمہارے لیے دین اسلام کو پسند کرلیا ہے۔“ (ثُمَّ أَوْحَیْنَآ إِلَیْکَ أَنِ اتَّبِعْ مِلَّۃَ إِبْرَاہِیْمَ حَنِیْفًا وَّمَا کَانَ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ )[ النحل : ١٢٣] ” پھر ہم نے آپ کی طرف وحی کی کہ یکسو رہنے والے ابراہیم کی ملت کی اتباع کیجئے اور وہ مشرک نہ تھے۔“ (وَمَنْ یَبْتَغِ غَیْرَ الْإِسْلَامِ دِیْنًا فَلَنْ یُّقْبَلَ مِنْہُ وَہُوَ فِی الْآَخِرَۃِ مِنَ الْخَاسِرِیْنَ )[ آل عمران : ٨٥] ” اور جو اسلام کے سوا کوئی اور دین چاہے تو اس سے ہرگز قبول نہ کیا جائے گا اور وہ آخرت میں نقصان اٹھائے گا۔“ مسائل ١۔ صفائی پیش کرنے کے لیے قسم اٹھائی جا سکتی ہے۔ ٢۔ شریعت اسرائیلی میں بھی چور کی سزا اسے غلام بنانا تھا۔ ٣۔ یوسف (علیہ السلام) اپنے بھائی کو بادشاہ کے دین کے مطابق نہ رکھ سکتے تھے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ جسے چاہے بلند مرتبہ عطا فرماتا ہے۔ ٥۔ ہر علم والے کے اوپر علم والا ہے۔ تفسیر بالقرآن دین کا معنٰی : ١۔ یوسف کے لیے ممکن نہ تھا کہ بادشاہ کے قانون (دین) کے مطابق اپنے بھائی کو روک لیتے۔ (یوسف : ٧٦) ٢۔ وہ مالک ہے قیامت (دین) کے دن کا۔ (الفاتحۃ: ٤) ٣۔ کیا اللہ کے دین کے سوا وہ کوئی اور دین (الاسلام) تلاش کرتے ہیں۔ (آل عمران : ٨٣) ٤۔ یہی مستقل (ضابطہ) دین ہے۔ (التوبۃ: ٣٦) ٥۔ اس نے تمہارے لیے وہی طریقہ (دین) مقرر کیا ہے۔ (الشورٰی : ١٣) یوسف
74 یوسف
75 یوسف
76 یوسف
77 فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ بنیامین کے سامان سے بادشاہ کا پیالہ برآمد ہونے پر بھائیوں کا رد عمل۔ سامان کی تلاشی لینے پر بنیامین کے سامان سے پیالہ نکلا۔ تلاشی لینے والوں نے کہا کہ اب بتائیں کہ ہمارا قیافہ صحیح نہیں نکلا؟ سب کو حضرت یوسف (علیہ السلام) کے سامنے پیش کیا گیا۔ چاہیے تو یہ تھا کہ براداران یوسف اس پر بنیابین کی طرف سے کوئی عذر اور معذرت کرتے۔ انہوں نے اس کے برعکس اپنے حسد کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اگر اس نے چوری کی ہے تو اس سے پہلے اس کے حقیقی بھائی نے بھی چوری کی تھی۔ یہ ہمارا حقیقی بھائی نہیں ہے باقی ہم سگے بھائی ہیں۔ ہم میں کوئی بھی ایسی حرکت کرنے والا نہیں ہے۔ یہ دونوں بھائی ایسی حرکات کرلیتے ہیں۔ اس کی وجہ سے ہمیں شرمندگی اٹھانی پڑی ہے۔ نہ معلوم انہوں نے اس موقع پر کیا کیا باتیں کی ہوں گی کیونکہ ان کے دلوں میں ان دونوں کے بارے میں حسدو بغض کا ایک طوفان چھپا ہوا تھا۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) بڑے حوصلے کے ساتھ ساری باتیں سنتے رہے اور اپنے دل میں کہا کہ تم خود برے لوگ ہو۔ تم مجھ پر چوری کا الزام لگار ہے ہو حالانکہ تم نے مجھ پر بڑی زیادتی کی تھی۔ حضرت یوسف چاہتے تو انہیں گرفتار کرلیتے اور ان سے ساری بات اگلواتے کہ تم نے کس طرح اپنے باپ کو دھوکا دے کر یوسف کو کنویں میں پھینکا تھا۔ اگر وہ انکار کرتے تو فرماتے کہ ظالمو! کیوں جھوٹ پر جھوٹ بولے جارہے ہو میں ہی یوسف ہوں۔ لیکن انہوں ایسا کرنے کی بجائے راز کو راز ہی رہنے دیا۔ بھائیوں نے جب دل کی بھڑاس نکال لی تو انہیں احساس ہوا کہ ہم نے معذرت کرنے کی بجائے نہ صرف بنیابین کوچور ثابت کردیا ہے بلکہ اس کے بھائی کو بھی چور بنا ڈالا ہے۔ اس کے بعد یوسف (علیہ السلام) سے عرض کرنے لگے۔ کہ اے بادشاہ سلامت! اس کا باپ بہت ہی کمزور اور بوڑھا ہے۔ اسے اس کے ساتھ بہت محبت ہے لہٰذا ہماری درخواست ہے کہ آپ اس کی جگہ ہم میں سے کسی ایک کو گرفتار کرلیں ہم نے دیکھا ہے کہ آپ بڑے ہی مہربان اور احسان کرنے والے ہیں۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) نے فرمایا کہ اللہ کی پناہ! کہ ہم ایسے شخص کو گرفتار کریں کہ جس سے مال برآمد نہیں ہوا۔ ایسا کرنا تو بہت بڑی زیادتی ہوگی۔ ہم تو اس شخص کو پکڑیں گے جس سے ہم نے مال بر آمد کیا تھا۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) کی احتیاط اور سمجھ داری کا اندازہ لگائیں کہ وہ یہ نہیں فرماتے کہ ہم چور کو پکڑیں گے۔ ” حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ کو کہتے ہوئے سنا کہ باپ کو بیٹے کے جرم میں قتل نہیں کیا جائے گا۔“ (مسند احمد) مسائل ١۔ یوسف (علیہ السلام) کے بھائیوں نے یوسف (علیہ السلام) پر چوری کا الزام لگادیا۔ ٢۔ مجرم کے بدلے کسی دوسرے کو سزا نہیں دی جاسکتی۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ ظالم کو ہدایت نہیں دیتا : ١۔ اللہ تعالیٰ ظالموں کو پسند نہیں کرتا۔ (آل عمران : ٥٧) ٢۔ ظالموں کے لیے تباہی ہے۔ (نوح : ٢٨) ٣۔ ظالموں کے لیے دردناک عذاب ہے۔ (الشورٰی : ٢١) ٤۔ ظالموں کے لیے ہمیشہ کا عذاب ہے۔ (الحشر : ١٧) یوسف
78 یوسف
79 یوسف
80 فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ برادران یوسف جب بنیامین کو رہا کروانے میں نا کام ہوئے تو علیحدہ ہو کر مشورہ کرنے لگے۔ نامعلوم برادران یوسف نے بنیامین کو رہا کروانے کے لیے کس قدر منت سماجت اور ترلے کیے ہوں گے۔ مگر بادشاہ نے ان کی کوئی بات تسلیم نہ کی۔ جب بادشاہ سے پوری طرح مایوس ہوگئے تو انہوں نے علیحدہ ہو کر آپس میں مشورہ کیا کر اب کیا کرنا چاہیے۔ بالآخر ان کا بڑا بھائی جس کا نام مؤرخین یہودہ بتلاتے ہیں کہنے لگا کیا تمہیں معلوم نہیں کہ تم سب سے والد صاحب نے قسمیں اٹھوا کر وعدہ لیا ہے کہ تم ہر صورت بنیامین کو اپنے ساتھ واپس لاؤ گے اور تمہیں یہ بھی معلوم ہے کہ تم اس سے پہلے یوسف کے ساتھ زیادتی کرچکے ہو۔ مجھے اس طرح واپس جاتے ہوئے حیا آتی ہے میں اپنے دکھی اور بوڑھے باپ کو کیا منہ دکھاؤں گا۔ لہٰذا تم جانا چاہتے ہو تو جاؤ۔ لیکن میں یہاں سے کبھی نہیں جاؤں گا۔ یہاں تک کہ والد گرامی مجھے پیغام بھیجیں یا اللہ تعالیٰ میرے لیے کوئی فیصلہ کر دے۔ وہی بہترین فیصلہ کرنے والا ہے۔ فیصلہ سے مراد بنیامین کی رہائی یا پھر مصر میں رہنا ہے۔ لہٰذا تم اپنے باپ کے پاس واپس جاؤ اور جاکر عرض کرنا ابا جان! آپ کے بیٹے نے چوری کا ارتکاب کیا اور ہم نے وہی گواہی دی جو کچھ ہمارے سامنے پیش آیا اور ہم غیب میں بنیامین کی حفاظت کرنے والے نہ تھے۔ بعض اہل لغت نے غیب سے مراد رات لی ہے کہ دن کے وقت تو ہم اکھٹے تھے لیکن جب بنیامین رات کے وقت ہم سے علیحدہ ہوا تو ہم نہیں جانتے کہ رات کے وقت اس نے چوری کرلی ہو اگر آپ کو ہماری باتوں پر یقین نہیں آرہا تو بستی کے اس قافلے والوں سے پوچھئے جن کے ساتھ ہم واپس آئے ہیں۔ یقین فرمائیں کہ ہم بالکل سچے ہیں۔ مسائل ١۔ ہر صورت وعدہ کی پاسداری کرنی چاہیے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ سب سے بہتر فیصلہ فرمانے والا ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ ہی بہترین فیصلہ کرنے والا ہے : ١۔ یا اللہ میرے حق میں فیصلہ فرمادے اللہ بہترین فیصلہ کرنے والا ہے۔ (یوسف : ٨٠) ٢۔ سن لو ! اللہ کا ہی حکم چلتا ہے اور وہ جلد حساب لینے والا ہے۔ (الانعام : ٦٢) ٣۔ بے شک تیرا وعدہ سچا ہے اور تو سب سے بہتر فیصلہ کرنے والا ہے۔ (ھود : ٤٥) ٤۔ وحی کی فرمانبرداری کرو اور صبر کرو کہ اللہ فیصلہ فرمادے اللہ بہترین فیصلہ کرنے والا ہے۔ (یونس : ١٠٩) یوسف
81 یوسف
82 یوسف
83 فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ حضرت یعقوب (علیہ السلام) کا اپنے بیٹوں پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے ارشاد۔ حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے دو وجہ سے بنیامین پر چوری کے الزام اور اپنے بیٹوں کی باتوں کو مسترد کیا۔ پہلی و جہ یہ تھی کہ وہ بحیثیت باپ اچھی طرح سمجھتے تھے کہ میرا بیٹا بنیامین چوری نہیں کرسکتا کیونکہ اس نے اس سے پہلے کبھی ایسی غلطی نہیں کی۔ ایسا نیک اور دیانتدار بچہ پردیس میں جاکر کس طرح غلطی کرسکتا ہے۔ پھر وہ وہاں رہنے کے لیے نہیں بلکہ مجبوری کے عالم میں غلہ لینے کے لیے گیا ہے۔ ایسی صورت میں چوری کرنے کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے اس لیے بھی اپنے بیٹوں کی باتوں پر اعتماد کا اظہار نہیں کیا کہ وہ جانتے تھے کہ یہ پہلے بھی یوسف (علیہ السلام) کے بارے میں بھی زیادتی کرچکے ہیں۔ اس وجہ سے ان پر اعتماد نہ کرنا ایک فطری بات تھی۔ اسی و جہ سے انہوں نے یہ فرمایا کہ تم خواہ مخواہ ایک کہانی بنا کر میرے سامنے پیش کر رہے ہو جسے بنانا اور بیان کرنا تمہارے دل نے تمہارے لیے آسان کردیا ہے۔ میں صبر جمیل کے سوا اور کیا کرسکتا ہوں۔ تاہم مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ ضرور تینوں کو میرے پاس لائے گا۔ اللہ تعالیٰ کے ہر حکم اور فیصلہ میں حکمت ہوتی ہے۔ (قَالَ بَلْ سَوَّلَتْ لَکُمْ أَنْفُسُکُمْ أَمْرًا فَصَبْرٌ جَمِیْلٌ )[ یوسف : ١٨] ” یعقوب (علیہ السلام) نے کہا بلکہ تم نے ایک بات کو بنا سنوار لیا ہے۔ خیر صبرہی بہتر ہے۔“ حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے اپنے بیٹوں کو یہ الفاظ اس وقت بھی کہے تھے جب انہوں نے حضرت یوسف (علیہ السلام) کی قمیص پر جھوٹا خون لگا کر کہا تھا۔ ابا جان! جب ہم کھیل کود میں ایک دوسرے سے بہت آگے نکل گئے پیچھے سے بھیڑیے نے یوسف کو کھالیا۔ حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے اس وقت بھی فرمایا تھا جو کچھ تم کہہ رہے ہو اس پر اللہ تعالیٰ میری مدد فرمائے گا۔ اللہ اللہ حضرت یعقوب (علیہ السلام) کا کتنا بڑا حوصلہ اور ایمان ہے کہ دوسرے بڑے سانحہ اور یوسف (علیہ السلام) کی طویل جدائی کے باوجود پہلے سے بڑھ کر نہ صرف صبر کا مظاہرہ کیا بلکہ بے انتہا پریشانی کے وقت بھی فرما رہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ضرور ہمیں ہماری زندگی میں جمع فرمائے گا۔ مجھے جو عظیم صدمہ کے بعد دوبارہ بڑا صدمہ پہنچا ہے اس کی حکمت اللہ ہی جانتا ہے۔ انشاء اللہ میں اس پر صبر جمیل کروں گا۔ پہلے بھی عرض کیا ہے کہ صبر جمیل سے مراد ایسا صبر جس میں کسی قسم کا گلہ شکوہ اور جزع فزع نہ پایا جائے۔ (عَنْ صُہَیْبٍ (رض) قَالَ قَالَ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عَجَبًا لأَمْرِ الْمُؤْمِنِ إِنَّ أَمْرَہُ کُلَّہُ خَیْرٌ وَلَیْسَ ذَاکَ لأَحَدٍ إِلاَّ لِلْمُؤْمِنِ إِنْ أَصَابَتْہُ سَرَّاءُ شَکَرَ فَکَانَ خَیْرًا لَہُ وَإِنْ أَصَابَتْہُ ضَرَّاءُ صَبَرَ فَکَانَ خَیْرًا لَہُ ) [ رواہ مسلم : باب الْمُؤْمِنُ أَمْرُہُ کُلُّہُ خَیْرٌ] ” حضرت صہیب (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا مومن کا عجیب معاملہ ہے اس کے تمام معاملات میں بھلائی ہی بھلائی ہے اور یہ سعادت کسی اور کے نصیبے میں نہیں اگر مومن کو خوشحالی ملے تو وہ شکر کرتا ہے تو وہ بھی اس کے لیے باعث خیر ہے اور اگر وہ پہنچنے والی تکلیف پر صبر کرے تو وہ بھی اس کے حق میں بہتر ہے۔“ اولاد منہ زور ہوجائے تو والدین کو درج ذیل ہدایات پر عمل کرنا چاہیے : (یَاأَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا إِنَّ مِنْ أَزْوَاجِکُمْ وَأَوْلَادِکُمْ عَدُوًّا لَکُمْ فَاحْذَرُوْہُمْ وَإِنْ تَعْفُوْا وَتَصْفَحُوْا وَتَغْفِرُوْا فَإِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَحِیْمٌ إِنَّمَا أَمْوَالُکُمْ وَأَوْلَادُکُمْ فِتْنَۃٌ وَاللّٰہُ عِنْدَہُ أَجْرٌ عَظِیْمٌ )[ التغابن : ١٤۔ ١٥] ” اے ایمان والو! تمہاری بیویوں میں سے اور تمہاری اولاد میں سے بعض تمہارے دشمن ہیں۔ ان سے ہوشیار رہو اور اگر تم معاف کرو اور درگزر کرو اور انہیں بخش دو تو اللہ یقیناً بخشنے اور رحم کرنے والا ہے۔ یقیناً تمھارے مال اور اولاد آزمائش ہیں اور اللہ کے ہاں بہترین اجر ہے۔“ مسائل ١۔ مومن کو صبر کا دامن کبھی نہیں چھوڑنا چاہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ سے حالات بدلنے کی امید اور دعا کرنی چاہیے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ ہر بات جاننے اور حکمت والا ہے۔ تفسیر بالقرآن صبر اور اس کا اجر : ١۔ صبر ہی بہتر ہے۔ (یوسف : ٨٣) ٢۔ اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کو بغیر حساب کے اجردے گا۔ (الزمر : ١٠) ٣۔ صبر کرنے والوں کو ان کے اعمال کا بہترین صلہ دیا جائے گا۔ (النحل : ٩٦) ٤۔ اللہ تعالیٰ صبر کا بدلہ جنت اور ریشم کی صورت میں دے گا۔ (الدھر : ١٢) ٥۔ صبر کیجیے اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے اجر کو ضائع نہیں کرتا۔ (ھود : ١١٥) یوسف
84 فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ حضرت یعقوب (علیہ السلام) اپنے بیٹوں سے یہ کہتے ہوئے رخ پھیر لیتے ہیں کہ میں تو صبر ہی کروں گا اور مجھے امید ہے کہ میرا رب مجھے یوسف، بنیامین اور یہودہ سے جلدہی ملائے گا۔ حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے ٹھنڈی سانس بھری اور اپنا چہرہ بیٹوں سے پھیرتے ہوئے کہا کہ ہائے یوسف میں اس غم کی شکایت اپنے رب کی بارگاہ میں عرض کرتا ہوں یہی انبیاء (علیہ السلام) اور صابر لوگوں کا طریقہ ہے۔ اس غم میں ان کی آنکھوں کی بینائی جاتی رہی اور ان کی حالت یہ تھی کہ ان کے جسم کا ایک ایک عضو یوسف کی یاد میں غم سے چور چور ہوچکا تھا۔ بیٹے باپ کو تسلی دینے کی بجائے قسم اٹھاتے ہوئے کہتے ہیں کہ آپ کو یوسف کا غم ہر وقت کھائے جا رہا ہے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی انتہائی غم کے وقت دعا : (اللّٰہُمَّ إِلَیْکَ أَشْکُوْ ضَعْفَ قُوَّتِیْ، وَقِلَّۃَ حِیْلَتِیْ، وَہَوَإِنِیْ عَلَی النَّاسِ، یَا أَرْحَمُ الرَّاحِمِیْنَ، أَنْتَ رَبُّ الْمُسْتَضْعَفِیْنَ، وَأَنْتَ رَبِّیْ.... فَلاَ أُبَالِیْ، وَلٰکِنْ عَافِیَتُکَ ہِیَ أَوْسَعُ لِیْ، أَعُوْذُ بِنُوْرِ وَجْہِکَ الَّذِیْ أَشْرَقَتْ لَہُ الظُّلُمَاتُ، وَصَلَحَ عَلَیْہِ أَمْرُ الدُّنِیَا وَالْاٰخِرَۃِ) [ الرحیق المختوم] ” بار الہا ! میں تجھ ہی سے اپنی کمزوری وبے بسی اور لوگوں کے نزدیک اپنی بے قدری کا شکوہ کرتا ہوں۔ یا ارحم الراحمین! تو کمزور لوگوں کا رب ہے اور تو ہی میرا بھی رب ہے۔۔ پس مجھے کوئی پروا نہیں لیکن تیری عافیت میرے لیے کافی ہے، میں تیرے چہرے کے جمال کی پناہ چاہتا ہوں جس سے تاریکیاں روشن ہوجائیں اور جس سے دنیا اور آخرت کے مسائل حل ہوجائیں۔“ مسائل ١۔ بیٹے کی جدائی ماں باپ کے لیے عظیم صدمہ ہوتا ہے۔ ٢۔ حضرت یقوب (علیہ السلام) کی غم کی وجہ سے بینائی چلی گئی۔ ٣۔ رنج وغم کی شکایت اللہ ہی سے کرنی چاہیے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ نے جو علم انبیاء (علیہ السلام) کو عطا کیا ہے وہ کسی اور کو عطا نہیں کیا۔ تفسیر بالقرآن انبیاء (علیہ السلام) اپنا دکھ اور فریاد اللہ ہی کے حضور پیش کرتے تھے : ١۔ یعقوب (علیہ السلام) نے کہا میں اپنی بے قراری اور غم کی شکایت صرف اللہ کے حضور پیش کرتا ہوں۔ (یوسف : ٨٦) ٢۔ آدم (علیہ السلام) نے کہا ہمارے رب ! ہم نے اپنے آپ پر ظلم کیا اگر تو ہمیں معاف نہیں کرے گا اور رحم نہیں فرمائے گا تو ہم یقیناً نقصان اٹھائیں گے۔ (الاعراف : ٢٣) ٣۔ ایوب (علیہ السلام) نے دعا کی اے میرے پروردگار ! مجھے بیماری لگ گئی ہے اور تو سب سے بڑھ کر رحم کرنے والا ہے۔ (الانبیاء : ٨٣) ٤۔ یونس (علیہ السلام) نے اندھیروں میں اللہ تعالیٰ کو پکارا۔ تیرے سوا کوئی الٰہ نہیں تو پاک ہے اور میں ہی قصور وار تھا۔ (الانبیاء : ٨٧) ٥۔ زکریا (علیہ السلام) نے کہا اے میرے پروردگار ! مجھے تنہا نہ چھوڑ اور تو ہی بہترین وارث ہے۔ (الانبیاء : ٨٩) ٦۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے دعا کی اے رب ! بلاشبہ میں نے اپنے اوپر ظلم کیا لہٰذا مجھے معاف کردے۔ (القصص : ١٦) یوسف
85 یوسف
86 یوسف
87 فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) کو لگ بھگ ٤٠ سال سے زائد عرصہ گزر چکا تھا۔ ان کی جدائی میں حضرت یعقوب (علیہ السلام) ہر وقت خاموش اور غمگین رہتے تھے۔ اس غم نے حضرت یعقوب (علیہ السلام) کو ان کی عمر سے پہلے ہی بوڑھا کردیا تھا۔ طویل مدت گزرنے کے باوجود ان کا غم پہلے دن کی طرح تازہ تھا کہ حضرت یعقوب (علیہ السلام) کو صدمے پر صدمہ پہنچتا ہے۔ پہلے یوسف (علیہ السلام) آنکھوں سے اوجھل ہوئے پھر بنیامین اور یہودہ بھی مصر میں رہ گئے۔ اس کے باوجود حضرت یعقوب (علیہ السلام) اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس نہیں ہوئے۔ جب بیٹوں نے انہیں یہ بات کہی کہ آپ یوسف کو یاد کرتے ہی رہیں گے یہاں تک کہ آپ ہلاک ہوجائیں۔ اس پر حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے فرمایا میرے بیٹو! مایوس ہونے کی ضرورت نہیں تم جاؤ یوسف اور اس کے بھائی کو تلاش کرو۔ اللہ کی رحمت سے مایوس نہیں ہونا چاہیے اس کی رحمت سے کافر ہی مایوس ہوا کرتے ہیں۔ حضرت یعقوب (علیہ السلام) کو خواب کی تعبیر پر یقین تھا کہ ایک وقت ضرور آئے گا کہ یوسف اور اس کے بھائی سے ملاقات ہوگی۔ کیونکہ وہ پہلے بھی فرما چکے تھے کہ اللہ تعالیٰ ضرور سب کو جمع کرے گا۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس ہونا کفر ہے : ١۔ اللہ کی رحمت سے کافر ہی مایوس ہوا کرتے ہیں۔ (یوسف : ٨٧) ٢۔ اللہ کی رحمت سے ناامید نہیں ہونا چاہیے۔ (الزمر : ٥٣) ٣۔ اللہ کی رحمت سے گمراہوں کے سوا کوئی ناامید نہیں ہوتا۔ (الحجر : ٥٦) ٤۔ اللہ کی آیات اور اس کی ملاقات کا انکار کرنے والے اللہ کی رحمت سے مایوس ہیں۔ (العنکبوت : ٢٣) ٥۔ مومن اللہ کی رحمت کے امیدوار ہوتے ہیں اور اللہ بخشنے والا رحم کرنے والا ہے۔ (البقرۃ: ٢١٨) ٦۔ ابراہیم نے کہا میں اپنے پروردگار کو پکاروں گا امید ہے کہ میں اس کو پکار کر محروم نہیں رہوں گا۔ (مریم : ٤٨) یوسف
88 فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ حضرت یعقوب کی ہدایت پر برادران یوسف کا مصر کی طرف جانا۔ برادران یوسف اب تیسری مرتبہ مصر پہنچ کر مصر کے بادشاہ ( یوسف (علیہ السلام) سے ملاقات کرتے ہیں۔ اب کی بار فاقہ مستی کی وجہ سے ان کی حالت یہ ہوچکی تھی کہ بادشاہ کے حضور پیش ہوتے ہی فریاد کرنے لگے۔ اے عزیزمصر! ہم اور ہمارے گھر والے قحط سالی اور فاقہ کشی کی و جہ سے انتہائی پریشان ہیں۔ غلہ لینے کے لیے جو رقم ہم لائے ہیں وہ بالکل ہی معمولی ہے لیکن آپ سے التجا ہے کہ آپ قیمت کے برابر غلہ دینے کی بجائے ہم پر صدقہ کریں۔ اللہ تعالیٰ صدقہ دینے والوں کو یقیناً جزا دیتا ہے۔ قرآن مجید کے الفاظ سے پتا چل رہا ہے کہ بردران یوسف نے کتنی بے بسی اور عاجزی میں آکر فریاد کی تھی۔ غیور اور پیغمبر زادے ہونے کے باوجود فریاد کرتے ہیں کہ ہم بڑی مشکل سے کچھ رقم لائے ہیں۔ مگر یہ اتنی تھوڑی ہے کہ اس کے عوض جو غلہ ملے گا۔ اس سے ہم اپنے بوڑھے ماں باپ اور چھوٹے چھوٹے بچوں کا پیٹ نہیں پال سکتے اس لیے ہماری عاجزانہ در خواست ہے کہ آپ اپنی طرف سے مزید غلہ عنایت فرمائیں۔ ہم اس قدر مجبور ہوچکے ہیں کہ ہم آپ سے صدقہ کرنے کی درخواست کرتے ہیں۔ آپ ضرور ہمیں صدقے کے طور پر غلہ دیں کیونکہ اللہ تعالیٰ صدقہ دینے والوں کو جزا دیتا ہے۔ قرآن مجید کا ایک ایک لفظ برادران یوسف کی حالت زار کی ترجمانی کر رہا ہے کہ انہوں کتنی عاجزی اور لجاجت کے ساتھ حضرت یوسف (علیہ السلام) کے سامنے فریاد پر فریاد کی تھی۔ یوسف (علیہ السلام) کے بھائی ایھا العزیز کہہ کر درخواست کرتے ہیں ” العزیز“ کا لفظ پچھلی آیات میں اس عورت کے خاوند کے لیے استعمال کیا گیا ہے۔ جس نے حضرت یوسف (علیہ السلام) کو پھسلانے اور ورغلانے کی کوشش کی تھی۔ جس کے بارے میں مفسرین اور مؤرخین کا مکمل اتفاق ہے کہ وہ مصر کی حکومت میں اعلیٰ افسریا کوئی وزیر تھا۔ جہاں تک بادشاہ کے نام کا تعلق ہے اس کو قرآن کریم نے اسی سورۃ کی آیت ٤٣ تا ٥٠ میں ” الملک“ کے نام سے متعارف کروایا ہے۔ لہٰذا تفہیم القرآن کے مؤلف سید ابواعلیٰ مودودی کے مطابق ” العزیز“ سے مرادمصر میں کسی خاص منصب کا نام نہ تھا بلکہ محض ” صاحب اقتدار“ کے معنیٰ میں استعمال کیا گیا ہے۔ غالباً مصر میں بڑے لوگوں کے لیے اس طرح کا کوئی لفظ اصطلاحاً رائج تھا جیسے ہمارے ملک میں لفظ سرکار بولا جاتا ہے۔ یوسف
89 فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ برادران یوسف کی بے بسی اور انتہا درجے کی عاجزی دیکھ کر حضرت یوسف (علیہ السلام) اپنا تعارف کرواتے ہیں۔ یوسف (علیہ السلام) کے بھائی انتہا درجہ عاجز ہو کر ان کے سامنے فریاد کرتے ہیں۔ یہاں سے حضرت یوسف (علیہ السلام) کے خواب کی عملی تعبیر کی ابتدا ہوتی ہے جو انہوں نے بچپن میں دیکھا تھا۔ یقیناً حضرت یوسف (علیہ السلام) ابھی سوچ ہی رہے ہوں گے کہ میں نے بچپن میں خواب میں گیارہ ستاروں کو اپنے سامنے جھکتے ہوئے دیکھا تھا ہوسکتا ہے کہ اس کی تعبیر یہی ہو تب اللہ تعالیٰ نے انہیں وحی کے ذریعے یہ اجازت عنایت فرمائی کہ اے یوسف ! اب وقت آگیا ہے کہ تم ان سے یہ سوال کرو اور پھر انہیں اپنا تعارف کرواؤ۔ چنانچہ حضرت یوسف (علیہ السلام) ان سے استفسار کرتے ہیں۔ کیا تم جانتے ہو کہ تم نے یوسف اور اس کے بھائی کے ساتھ کیا سلوک کیا تھا جب تم جاہل تھے ؟ انہوں نے اس کے جواب میں یہ عرض کی کہ کیا آپ ہی یوسف ہیں ؟ ارشاد فرمایا کہ میں ہی یوسف ہوں اور یہ میرا بھائی بنیامین ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہم پر عظیم احسان فرمایا ہے۔ جو بھی اللہ تعالیٰ سے ڈر کر زندگی بسر کرے اور صبر کرتا رہے یقیناً اللہ تعالیٰ ایسے نیکوکاروں کا اجر ضائع نہیں کرتا۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) کے بھائی، یوسف (علیہ السلام) کا حسن و جمال، اعلیٰ اخلاق، اپنے ساتھ مروّت اور میزبانی کا انداز، حکومت چلانے کا طریقہ، رعایا پروری اور ملک مصر کے ملحقہ علاقوں کے ساتھ بے لوث تعاون دیکھ چکے تھے۔ یقیناً احسان شناس لوگوں کی طرح اس نتیجے پر پہنچے ہوں گے کہ مصر کا بادشاہ کوئی عام انسان نہیں ہے۔ یقیناً یہ کسی عظیم خاندان کا فرزند اور منفرد انسان ہے۔ تیسری دفعہ ملاقات کی وجہ سے انہیں یہ بھی ادراک ہو چلا ہوگا کہ بادشاہ ہمارے ساتھ اس طرح ملتا ہے جس طرح خونی رشتہ رکھنے والا ملا کرتا ہے۔ قرائن اور جمال و کمال نے انہیں یوسف (علیہ السلام) کو پہچاننے کے بالکل قریب کردیا تھا۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) کے سوال پر چونک اٹھے کیونکہ اب پہچاننے میں کوئی حجاب باقی نہ رہا۔ جس بنا پر وہ عرض کرتے ہیں کہ کیا آپ یوسف ہیں ؟ لیکن سوالیہ انداز میں عرض کرتے ہیں جس کی وجہ بادشاہ کا دبدبہ، احترام اور اپنی غلطیوں کا احساس ہوسکتا ہے۔ چنانچہ جھجکتے ہوئے سوال کرتے ہیں کہ کیا آپ یوسف ہیں؟ سیدنا یوسف (علیہ السلام) فرماتے ہیں ہاں میں ہی یوسف ہوں۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے بنیامین کو بلا کر فرمایا یہ میرا بھائی ہے۔ یقیناً اس عروج و کمال میں ہمارا کوئی کمال اور دخل نہیں یہ محض اللہ تعالیٰ کا عظیم احسان ہے۔ مزید فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہر اس شخص پر ضرور کرم فرماتا ہے جو اللہ سے ڈر کر اس کی نافرمانیوں سے بچنے کی کوشش کرے اور اس کی فرمانبرداری کرتے ہوئے پریشانیوں پر صبر کرے۔ یقیناً ایسے صاحب کردار لوگوں کا اللہ تعالیٰ کبھی اجر ضائع نہیں کرتا۔ یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ یوسف (علیہ السلام) نے انہیں کسی قسم کا طعنہ اور جھڑک دینے کی بجائے صرف یہ فرمایا کہ کیا تمہیں یوسف اور اس کے بھائی کے ساتھ اپنا سلوک یاد ہے ؟ جب تم جاہل تھے۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) نے یہ لفظ بول کر ایک طرح ان کی شرمندگی کم کرنے کوشش کی کہ جو کچھ ہوا یہ جہالت کی وجہ سے ہوا جس میں یہ نقطہ سمجھایا کہ بھائیوں کے ساتھ زیادتی کرنا جہالت کا کام ہے جس سے بچنا چاہیے۔ مسائل ١۔ یوسف (علیہ السلام) نے اپنے بھائیوں کو ان کی جہالت یاد کروائی۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ تقویٰ اختیار کرنے اور صبر کرنے والوں کی نیکی ضائع نہیں کرتا۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ محسنین کا اجر ضائع نہیں کرتا : ١۔ بے شک اللہ محسنین کا اجر ضائع نہیں کرتا۔ (یوسف : ٩٠) ٢۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ میں کسی عمل کرنے والے کے عمل کو ضائع نہیں کروں گا۔ (آل عمران : ١٩٥) ٣۔ صبر کرو اللہ محسنین کے اجر کو ضائع نہیں کرتا۔ ( ھود : ١١٥) ٤۔ ہم تمھارے گناہ مٹا دیں گے اور عنقریب ہم احسان کرنے والوں کو زیادہ عطا کریں گے۔ (البقرۃ: ٥٨) ٥۔ احسان کرو یقیناً اللہ احسان کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے۔ (البقرۃ: ١٩٥) ٧۔ انھیں معاف کیجیے اور در گزر کیجیے یقیناً اللہ محسنین کو پسند فرماتا ہے۔ (المائدۃ: ١٣) یوسف
90 یوسف
91 فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) نے جونہی اپنا تعارف کروایا تو بھائی ان کے سامنے معذرت پیش کرنے لگے۔ برادران یوسف نے دل کی اتھاہ گہرائیوں کے ساتھ اللہ کی قسم اٹھاتے ہوئے حضرت یوسف (علیہ السلام) کی برتری کا اعتراف کیا کہ اللہ نے آپ کو ہم پربڑی عزت وعظمت عطا فرمائی ہے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ہم خطا کار ہیں۔ یوسف (علیہ السلام) نے فرمایا بے فکر ہوجاؤ آج تم پر کوئی مؤاخذہ نہیں۔ تمہیں اللہ معاف فرمائے وہ سب سے بڑھ کر مہربان ہے۔ یوسف (علیہ السلام) اور ان کے بھائی حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے صاحبزادے، حضرت اسحق (علیہ السلام) کے پوتے، حضرت ابراہیم (علیہ السلام) خلیل اللہ کے پڑ پوتے تھے۔ اس لیے اس موقع پر دونوں طرف سے بے مثال اور عظیم سے عظیم تر کردار کا مظاہرہ ہوا۔ برادران یوسف کو جب معلوم ہوا کہ یہی یوسف ہیں جن کے ساتھ ہم نے زیادتی کی تھی۔ ذرہ برابر تامل کرنے کی بجائے اللہ کی قسم اٹھا کر یوسف کی برتری کانہ صرف اعتراف کیا بلکہ نہایت عاجزی کے ساتھ اپنی زیادتی کی معافی مانگنے لگے۔ جس کے جواب میں بے مثال اور عظیم الشان اخلاق کے مظاہرہ کرتے ہوئے حضرت یوسف (علیہ السلام) نے فرمایا کہ ماضی کو بھول جائیں۔ آپ پر رائی برابر بھی زیادتی نہیں ہوگی۔ نہ صرف میں آپ کو معاف کرتا ہوں بلکہ اللہ تعالیٰ سے بھی التجا ہے کہ وہ بھی آپ کو معاف فرمائے۔ یقیناً اللہ تعالیٰ معاف کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) نے بھائیوں کو معاف کرتے ہوئے ” لاتثریب“ کا لفظ استعمال کیا جس کا معنی یہ ہے کہ کسی کو اس طرح معاف کیا جائے کہ جس میں اشارے کنایے میں بھی طعن کا مفہوم موجود نہ ہو۔ اسی اسوہ کا مظاہرہ سرور دوعالمِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فتح مکہ کے موقع پر کیا تھا۔ سرور دوعالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بیت اللہ میں داخل ہو کر دو نفل ادا کیے۔ اس کے بعد بیت اللہ کے صحن میں تشریف لائے یہاں مکہ کے بڑے بڑے سردار آپ کے انتظار میں بیٹھے سوچ رہے تھے کہ نہ معلوم کہ ہمارے ساتھ کیا سلوک کیا جائے گا۔ ان میں وہ بھی تھے جنہوں نے بیت اللہ میں نماز کے دوران آپ کی گردن پر گندی اوجڑی رکھی تھی۔ آپ کے ساتھیوں پر مظالم ڈھائے تھے۔ وہ شخص بھی موجود تھا جس نے مکی دور میں آپ کو کعبہ کی چابی دینے سے انکار کیا تھا۔ سرور دو عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حمد وثنا کے بعد مکہ کے سرداروں کو مخاطب کر کے فرمایا ” ھل تظنون“ کیا خیال ہے کہ تمہارے ساتھ کیا سلوک کیا جائے گا۔ مکہ کے سردار آنکھیں نیچے کر کے بڑے عاجزی سے کہتے ہیں ” انت کریم“ آپ انتہائی معزز ہیں اور عزت والے خاندان کے فرد ہیں۔ ہم آپ سے بہتر امید رکھتے ہیں۔ (عَنْ أبِیْ ہُرَیْرَۃَ (رض) اَنَ النَبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لَمَّا دَخَلَ مَکَّۃَ فَقَالَ مَنَ دَخَلَ دَارًا فَہُوَ اٰمِنٌ وَمَنْ اَلَقَی السَّلَاحَ فَہُوَ اٰمِنٌ وَعَمَدَ صَنَادِیْدَ قُرَیْشٍ فَدَخُلُوْا الْکَعْبَۃَ فَغَصَّ بِہِمْ وَطَاف النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وَصَلّٰی خَلْفَ الْمَقَامِ۔۔ أَتَی الْکَعْبَۃَ فَأَخَذَ بِعِضَادَتِی الْبَابِ فَقَالَ مَا تَقُوْلُوْنَ وَمَا تَظُنُّوْنَ قَالُوْا نَقُوْلُ اِبْنَ اَخٍ وَابْنَ عَمٍّ حَلِیْمٌ رَحِیْمٌ قَالَ وَقَا لُوْا ذٰ لِکَ ثَلَا ثا فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اَقُوْلُ کَمَا قَالَ یُوْسُفُ (لَا تَثْرِیْبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْمَ یَغْفِرُ اللّٰہُ لَکُمْ وَہُوَ اَرْحَمُ الرّٰاحِمِیْنَ)[ السنن الکبرٰی : جزء ٩] ” حضرت ابی ہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فتح مکہ کے دن جب مکہ میں داخل ہوئے تو فرمایا جو اپنے گھر میں داخل ہوجائے وہ امن میں رہے گا۔ جو اسلحہ پھینک دے اسے بھی پناہ دی جائے گی۔ قریش کے سردار کعبۃ اللہ میں داخل ہوگئے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے طواف کعبہ کیا۔۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پھر کعبۃ اللہ کے پاس آئے اور اس کی دہلیز پکڑ کر فرمایا تم میرے متعلق کیا کہتے اور کیا خیال کرتے ہو؟ کہنے لگے ہم کہتے ہیں آپ ہمارے بھائی کے بیٹے، چچا کے بیٹے ہیں۔ حلیم الطبع اور رحم کرنے والے ہیں۔ انہوں نے یہ الفاظ تین بار کہے۔ آپ نے فرمایا میں وہی بات کہتاہوں جو یوسف (علیہ السلام) نے کہی تھی۔ آج کے دن کوئی گرفت نہیں۔ اللہ تمہاری خطاؤں کو معاف فرمائے یقیناً وہ سب سے زیادہ رحم کرنے والا ہے۔“ مسائل ١۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) کے بھائیوں نے اپنے جرم کا اعتراف کیا۔ ٢۔ یوسف (علیہ السلام) نے اپنے بھائیوں کو معاف کردیا۔ ٣۔ بھائیوں کے لیے اللہ تعالیٰ سے بخشش طلب کی۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ سب سے زیادہ مہربان ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ معاف کرنے والا، مہربان ہے : ١۔ اللہ تمہیں معاف کرے، وہ سب سے زیادہ مہربان ہے۔ ( یوسف : ٢٢) ٢۔ تیرا پروردگار بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔ (الکہف : ٥٨) ٣۔ یہی لوگ اللہ تعالیٰ کی رحمت کے امیدوار ہیں اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔ (البقرۃ: ٢١٨) ٤۔ اے رب ہمیں معاف کردے اور ہم پر رحم فرما تو سب سے زیادہ رحم کرنے والا ہے۔ (المومنون : ١٠٩) یوسف
92 یوسف
93 فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) کا اپنے بھائیوں کو الوداع کہتے ہوئے اپنی قمیص حضرت یعقوب (علیہ السلام) کی خدمت میں پیش کرنے کا حکم۔ نہ معلوم حضرت یوسف (علیہ السلام) نے کتنے دنوں تک اپنے بھائیوں کو اپنے ہاں عزت و تکریم کے ساتھ ٹھہرایا۔ برادران جب اپنے وطن واپس جانے لگے تو انہیں الوداع کرتے ہوئے یوسف (علیہ السلام) نے اپنی قمیص دیتے ہوئے فرمایا کہ اسے والد گرامی کے چہرہ اقدس پر رکھنا۔ جس سے ان کی بنائی لوٹ آئے گی۔ کیونکہ بنیامین انہیں گھریلو حالات اور والد محترم کی صحت کے بارے میں بتلا چکا تھا کہ آپ کے غم میں والد گرامی کی بینائی جاتی رہی ہے۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) نے بھائیوں کو رخصت کرتے ہوئے یہ بھی فرمایا کہ تم سب کے سب میرے ہاں آکر قیام کرو۔ ادھر قافلہ مصر سے روانہ ہوا، ادھر حضرت یعقوب (علیہ السلام) اپنے گھر والوں سے فرمانے لگے اگر تم مجھے طعن نہ دو تو میں محسوس کرتا ہوں کہ مجھے یوسف کی خوشبو آرہی ہے۔ ان کے گھر والے پھر کہنے لگے کہ آپ تو مدت سے بھٹکے ہوئے ہیں۔ جب خوشخبری لانے والے نے آکر حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے چہرۂ اقدس پر یوسف (علیہ السلام) کی قمیص رکھی تو یکد م ان کی بینائی پلٹ آئیانہوں نے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہوئے فرمایا کہ میں تو پہلے ہی کہتا تھا کہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے وہ کچھ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے۔ ان الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ جب بھی حضرت یوسف (علیہ السلام) کا تذکرہ ہوتا تو حضرت یعقوب (علیہ السلام) گھر والوں کو فرماتے کہ ایک وقت آئے گا کہ جب یوسف کے ساتھ میری ضرور ملاقات ہوگی۔ اللہ تعالیٰ کی شان دیکھیے کہ جب بھائیوں نے یوسف (علیہ السلام) کو کنویں میں پھینک کر قمیص حضرت یعقوب (علیہ السلام) کو پیش کی تھی تو اس وقت انہوں نے یہ نہیں فرمایا تھا کہ یوسف زندہ ہے اور مجھے اس کی خوشبو آرہی ہے۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) مصر میں حکمران بن چکے ہیں یعقوب (علیہ السلام) کے بیٹے دو مرتبہ یوسف (علیہ السلام) سے ملاقات بھی کرچکے مگر حضرت یعقوب (علیہ السلام) کو کچھ معلوم نہیں ہوا۔ لیکن جب اللہ تعالیٰ نے چاہا اس وقت قمیص لانے والا ابھی مصر سے چلا ہے تو فرما رہے ہیں کہ مجھے اپنے پیارے بیٹے یوسف کی خوشبو آرہی ہے۔ یہ عقیدہ کا معاملہ ہے جس پر ہر مسلمان کا ایمان ہونا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نہ بتلائے تو نبی کو غیب کے معاملات کی خبر نہیں ہوتی۔ مسائل ١۔ انبیاء (علیہ السلام) کے معجزات برحق ہیں۔ ٢۔ آدمی کو اپنے عزیز واقارب کا خیال رکھنا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن اللہ ہی غیب جانتا ہے : ١۔ زمین و آسمان کا غیب اللہ ہی جانتا ہے۔ (النحل : ٧٧) ٢۔ کہہ دیجئے ہر قسم کا غیب اللہ ہی جانتا ہے۔ (یونس : ٢٠) ٣۔ اللہ تعالیٰ غائب اور ظاہر کو جانتا ہے۔ (السجدۃ: ٦) ٤۔ کیا میں نے تمہیں نہیں کہا تھا کہ میں ہی آسمان و زمین کے غائب کو جانتاہوں۔ (البقرۃ: ٣٣) ٥۔ اے نبی ! فرما دیں اگر میں غیب جانتا ہوتا تو اپنے لیے بہت سی بھلائی جمع کرلیتا اور مجھے کوئی تکلیف نہ پہنچتی۔ (الاعراف : ١٨٨) یوسف
94 یوسف
95 یوسف
96 یوسف
97 فہم القرآن ربط کلام : برادران یوسف کا گھر واپس جانا اور حضرت یعقوب (علیہ السلام) سے معافی کا خواستگار ہونا۔ حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے بیٹے واپس آئے تو کیا دیکھتے ہیں باپ انتہائی خوش وخرم‘ ہشاش بشاش ہے اور ان کی بینائی بھی صحیح ہوچکی ہے۔ والد گرامی کو سلام عرض کرنے کے بعد سب مل کر اپنے گناہ کا اعتراف کرکے درخواست کرتے ہیں کہ اباجان! ہم نے یوسف (علیہ السلام) پر بہت زیادتی کی جس سے آپ کو طویل عرصہ تک دکھ اٹھانا پڑا۔ ہم اس پر سچے دل کے ساتھ آپ سے معافی مانگتے ہیں۔ آپ ہمارے عظیم باپ ہیں اور ہم اپنے کیے پر انتہائی شرمندہ ہیں۔ ہماری عاجزانہ درخواست ہے کہ آپ ہمیں معاف کردیں۔ حضرت یعقوب (علیہ السلام) ایک مشفق باپ ہونے کے ساتھ اللہ کے نبی اور انبیاء ( علیہ السلام) کی اولاد تھے۔ انہوں نے کوئی بات کرنے کے بجائے فی الفور فرمایا کہ نہ صرف تمہیں معاف کرتا ہوں بلکہ عنقریب میں اپنے رب سے تمہارے لیے بخشش کی دعا کروں گا۔ میرا ایمان ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی مہربانی سے ہر گناہ معاف کرنے والا ہے۔ اہل تفسیر نے حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کے حوالے سے لکھا ہے۔ عنقریب معافی مانگنے سے تہجد کا وقت مراد تھا۔ کیونکہ دعا کی قبولیت کے اوقات میں یہ سب سے زیادہ اللہ کے ہاں قبولیت کا وقت ہوتا ہے۔ اس لیے حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے فرمایا کہ میں تمہارے لیے عنقریب دعا کروں گا۔ اس واقعہ میں اولاد کے لیے حکم ہے کہ اگر اس سے ماں باپ کی شان میں گستاخی ہوجائے تو اولاد کا فرض ہے کہ وہ جلد از جلد ماں باپ سے معافی مانگنے کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے معافی مانگے۔ کیونکہ والدین کی نافرمانی اللہ تعالیٰ کی نافرمانی ہوتی ہے والدین کے لیے یہ سبق ہے کہ بے شک اولاد کتنی ہی نافرمان کیوں نہ ہو وہ معافی اور درگزر کا رویہ اختیار کریں۔ (عَنِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ (رض) قَالَ سَاَلْتُ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اَیُّ الْاَعْمَالِ اَحَبُّ اِلَی اللّٰہِ تَعَالٰی قَال الصَّلٰوۃُ لِوَقْتِہَا قُلْتُ ثُمَّ اَیٌّ؟ قَالَ بِرُّ الْوَالِدَیْنِ قُلْتُ ثُمَّ اَیٌّ قَالَ الْجِہَادُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ قَالَ حَدَّثَنِیْ بِہِنَّ وَلَوِ اسْتَزَدْتُّہٗ لَزَادَنِیْ)[ رواہ البخاری : کتاب مواقیت الصلاۃ، باب فَضْلِ الصَّلاَۃِ لِوَقْتِہَا] ” حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ میں نے نبی محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ سوال کیا کہ اعمال میں اللہ تعالیٰ کو کون ساعمل زیا دہ پسند ہے؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ارشاد فرماتے ہیں فرض نماز اس کے وقت پر ادا کرنا۔ میں نے عرض کی اس کے بعد کون سا عمل بہتر ہے ؟ آپ نے فرمایا والدین کے ساتھ بہترسلوک کرنا۔ میں نے پھر عرض کی ان کے بعد کون ساعمل بہتر ہے؟ آپ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے راستے میں جہاد کرنا۔ ابن مسعود (رض) کہتے ہیں اگر میں اس موقعہ پر مزید سوال کرتا تو آپ اس کا بھی جواب عنایت فرماتے۔“ (عَنِ ابْنِ عُمَرَ (رض) أَنَّ رَجُلاً أَتَی النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَقَالَ یَا رَسُول اللّٰہِ إِنِّیْٓ أَصَبْتُ ذَنْبًا عَظِیْمًا فَہَلْ لِیْ مِنْ تَوْبَۃٍ قَالَ ہَلْ لَکَ مِنْ أُمٍّ قَال لاقَالَ ہَلْ لَکَ مِنْ خَالَۃٍقَالَ نَعَمْ قَالَ فَبِرَّہَا)[ باب مَا جَآءَ فِی بِرِّ الْخَالَۃِ] ” حضرت عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں ایک آدمی نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا اور عرض کی اے اللہ کے رسول ! مجھ سے بہت بڑا گناہ سرزد ہوگیا ہے۔ کیا میرے لیے توبہ ہے آپ نے فرمایا کیا تیری ماں ہے ؟ اس نے کہا نہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا کیا تیری خالہ ہے اس نے کہا ہاں۔ آپ نے فرمایا اس کی خدمت کرو۔“ مسائل ١۔ والدین سے دعا کروانی چاہیے۔ ٢۔ اپنی غلطی کا اعتراف کرلینا چاہیے۔ ٣۔ والدین کو بچوں کے لیے دعا کرنی چاہیے۔ ٤۔ ماں باپ کو اولاد کی غلطی معاف کردینی چاہیے۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ بخشنے اور رحم کرنے والا ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ بخشنے والا مہربان ہے : ١۔ میں اللہ سے مغفرت طلب کروں گا بے شک وہ بخشنے اور رحم کرنے والا ہے۔ (یوسف : ٩٨) ٢۔ بے شک تیرا رب بخشنے والا مہربان ہے۔ (الانعام : ١٤٥) ٣۔ اللہ جسے چاہے معاف کر دے، جسے چاہے عذاب دے، وہ بخشنے اور رحم کرنے والا ہے۔ (آل عمران : ١٢٩) ٤۔ اللہ نیک لوگوں کو اپنی رحمت میں داخل فرمائے گا یقیناً وہ بخشنے والا مہربان ہے۔ (التوبۃ: ٩٩) ٥۔ اللہ سے بخشش طلب کرو یقیناً وہ معاف کرنے والا مہربان ہے۔ (البقرۃ : ١٩٩) ٦۔ اگر تم اللہ کی نعمتوں کو شمار کرنا چاہو تو شمار نہیں سکتے اللہ بخشنے والا رحم کرنے والا ہے۔ ( النحل : ١٨) یوسف
98 یوسف
99 فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ یوسف (علیہ السلام) کی درخواست پر حضرت یعقوب (علیہ السلام) کا بمعہ اہل وعیال ملک مصر کی طرف روانہ ہونا۔ حضرت یعقوب (علیہ السلام) منزل بہ منزل سفر کرتے ہوئے اپنے اہل وعیال کے ساتھ مصر شہر کے قریب پہنچے۔ یاد رہے کہ آج سے ہزاروں سال پہلے بھی اس ملک کا نام مصر تھا۔ اس کے سب سے بڑے شہر کا نام بھی مصر ہے جو اس ملک کا قدیم سے دارالخلافہ ہے۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) دن رات اس انتظار میں تھے کہ والد گرامی کس دن تشریف لاتے ہیں۔ جونہی انہیں معلوم ہوا کہ والد گرامی کا قافلہ مصر شہر کی حدود میں داخل ہونے والا ہے۔ یوسف (علیہ السلام) اپنے عملہ سمیت استقبال کے لیے پہلے سے وہاں موجود تھے۔ والد گرامی سے بغل گیر ہوتے ہوئے انہیں خوش آمدید کہتے ہیں۔ قرآن مجید نے اس کی منظر کشی کرنے کے بجائے اسے فطری تصور کے حوالے کردیا ہے۔ ظاہر ہے کہ اتنی مدت کے بعد باپ بیٹے کی ملاقات زندگی کے ایسے موڑ پر ہو رہی ہے کہ بیٹا نہ صرف دنیا کی عظیم مملکت کا فرمانروا ہے بلکہ اللہ تعالیٰ نے اسے تاج نبوت سے بھی نواز رکھا ہے۔ ایسے موقعہ پر جذباتی کیفیت سے وہی واقف ہو سکتے ہیں جن کو کسی نہ کسی انداز میں اولاد کی جدائی کا صدمہ پہنچا ہو۔ مصافحہ، معانقہ اور محبت و عقیدت کا اظہار کرنے کے بعد یوسف (علیہ السلام) اپنے والد گرامی سے عرض کرتے ہیں میرے عظیم باپ آئیں شہر میں قدم رنجہ فرمائیں۔ آپ انشاء اللہ ہر جانب سے امن وامان، عزت واقبال، سکون اور اطمینان پائیں گے۔ گویا کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) نے خداداد صلاحیتوں سے مصر کو امن وامان اور خوشحالی کا گہوارا بنا دیا تھا۔ شاندار استقبال کے ساتھ حضرت یعقوب (علیہ السلام) اور ان کی زوجہ مکرمہ جو حضرت یوسف (علیہ السلام) کی حقیقی والدہ ہیں مصر کے پایۂ تخت پر جلوہ افروز ہوئے۔ برادران یوسف (علیہ السلام) سامنے براجمان ہوتے ہیں۔ جو نہی حضرت یوسف (علیہ السلام) اپنے مسند اقتدار پر تشریف رکھتے ہیں تو ان کے والدین اور بھائی ان کے حضور سجدہ کرتے ہیں۔ جب سب نے یوسف (علیہ السلام) کو سجدہ کیا تو حضرت یوسف (علیہ السلام) اپنے باپ سے عرض کرنے لگے۔ اے میرے عظیم باپ! بچپن میں جو میں نے خواب دیکھا تھا یہ اس کی تعبیر ہے میرے رب نے اسے حرف بہ حرف حقیقت بنا دیا ہے اور مجھ پر احسان کرکے مجھے جیل سے نکال کر اس منصب تک پہنچایا ہے۔ اسی رب نے آپ کو صحرا سے لاکر مجھ سے ملایا ہے۔ حالانکہ شیطان میرے اور میرے بھائیوں کے درمیان دوری پیدا کرچکا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ میرا رب نہایت ہی لطیف انداز میں اپنی مشیت پوری کرنے والا ہے۔ کیونکہ وہ سب کچھ جاننے والا ہے اور اس کے ہر حکم اور کام میں حکمت ہوتی ہے۔ قرآن مجید کے مقدس الفاظ سے معلوم ہو رہا ہے کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) نے اب تک اپنے والد کے بغیر خواب کسی کے سامنے بیان نہیں کیا تھا۔ تبھی تو فرما رہے ہیں کہ والد محترم یہ اسی خواب کی تعبیر ہے جو میں نے بچپن میں آپ کے سامنے بیان کیا تھا۔ پھر اپنے جیل جانے کا واقعہ بیان کیا۔ لیکن بھائیوں کے کنویں میں پھینکنے کے واقعہ کو بیان کرنے کی بجائے صرف اشارہ کیا ہے شیطان میرے اور میرے بھائیوں کے درمیان نزاع ڈال چکا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے شیطان کی سازش کو ناکام فرما کر ہمیں ملایا اور ہمارے دلوں میں محبت پیدا فرما دی ہے۔ سجدہ سے مراد جھکنا بھی ہوسکتا ہے لیکن قرآن مجید نے سجدہ کے ساتھخَرُّوْا کا لفظ بھی استعمال کیا ہے۔ جس کا صاف معنی ہے کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) کے والدین اور بھائیوں نے ان کے حضور سجدہ کیا تھا۔ یہ سجدۂ تعظیم تھا جو پہلی شریعتوں میں جائز تھا۔ اسی شاہی پروٹوکول کا خیال رکھتے ہوئے حضرت یوسف (علیہ السلام) کے والدین ان کی تعظیم کے لیے سجدہ کرتے ہیں جنہیں دیکھ کر یوسف (علیہ السلام) کے بھائی بھی سجدہ ریز ہوگئے۔ یاد رہے کہ اللہ کے سوا کسی کو سجدہ ہمارے دین میں بالکل حرام اور ناجائز ہے۔ تعظیمی سجدہ پیر محمد کرم شاہ صاحب الأزھری کی نظر میں : ” جب فرشتوں نے آدم (علیہ السلام) کی وسعت علم اور اپنے عجز کا اعتراف کرلیا تو پروردگار عالم نے انہیں حکم دیا کہ آدم کو سجدہ کرو۔ سجدہ کا لغوی معنی ہے تذلّل اور خضوع اور شریعت میں اس کا معنٰی ہے ” وضع الجبھۃ علی الأرض“ پیشانی کا زمین پر رکھنا۔ بعض علماء کے نزدیک یہاں سجدہ کا لغوی معنٰی مراد ہے کہ فرشتوں کو ادب واحترام کرنے کا حکم دیا گیا لیکن جمہور علماء کے نزدیک شرعی معنیٰ مراد ہے۔ یعنی فرشتوں کو حکم دیا گیا کہ آدم (علیہ السلام) کے سامنے پیشانی رکھ دیں۔ اب اس سجدہ کی دو صورتیں ہیں ایک تو یہ کہ پیشانی جھکانے والا یہ اعتقاد کرے کہ جس کے سامنے میں پیشانی جھکا رہا ہوں وہ خدا ہے تو یہ عبادت ہے اور یہ بھی کسی نبی کی شریعت میں جائز نہیں بلکہ انبیاء کی بعثت کا مقصد اولین تھاہی یہی کہ وہ انسانوں کو صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت کا حکم دیں اور دوسروں کی عبادت سے منع کریں تو یہ کیونکر ہوسکتا ہے کہ جس چیز سے روکنے کے لیے انبیاء تشریف لائے اس فعل کا ارتکاب خود کریں یا کسی کو اجازت دیں۔ دوسری صورت یہ ہے کہ جس کے سامنے سجدہ کیا جارہا ہے اس کی عزت واحترام کے لیے ہو عبادت کے لیے نہ ہو تو اس کو سجدہ تحیہ کہتے ہیں۔ یہ پہلے انبیاء کرام کی شریعتوں میں جائز تھا لیکن حضور کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے بھی منع فرمادیا۔ اب تعظیمی سجدہ بھی ہماری شریعت میں حرام ہے۔“ [ ضیاء القرآن، جلد اول‘ البقرہ : ٣٤] مسائل ١۔ والدین کی عزت و تو قیر کرنی چاہیے۔ ٢۔ ہر کام کرتے وقت انشاء اللہ کہنا چاہیے۔ ٣۔ انبیاء (علیہ السلام) کے خواب سچے ہیں۔ ٤۔ شیطان کا کام فساد ڈالنا ہے۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ علم وحکمت والا ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ جو چاہتا ہے کرتا ہے : ١۔ بے شک میرا اللہ جو چاہتا ہے تدبیر کرتا ہے۔ (یوسف : ١٠٠) ٢۔ اللہ جس کی چاہتا ہے مدد فرماتا ہے۔ (آل عمران : ١٣) ٣۔ جو تم چاہتے ہو وہ نہیں ہوتا مگر وہی ہوتا ہے جو اللہ تعالیٰ چاہتا ہے۔ (الدھر : ٣٠) ٤۔ جو تم چاہتے ہو وہ نہیں ہوتا مگر وہی ہوتا ہے جو جہانوں کا رب چاہتا ہے۔ (التکویر : ٢٩) ٥۔ اللہ جسے چاہتا ہے بغیر حساب کے رزق دیتا ہے۔ (آل عمران : ٣٧) یوسف
100 یوسف
101 فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ وا لد محترم کے سامنے خواب کی تعبیر کا تذکرہ کرنے کے بعد حضرت یوسف (علیہ السلام) کا اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) اپنے سامنیبھائیوں کا جھکنا دیکھ کر اکڑتے اور اس بات پر اتراتے نہیں بلکہ فوراً اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہوئے کہتے ہیں میرے رب یہ تیرے کرم کا نتیجہ ہے کہ تو نے مجھے بڑی بڑی مصیبتوں سے نکال کر دنیا کی عظیم مملکت کا حکمران بنایا۔ تو نے ہی مجھے خوابوں کی تعبیر اور معاملات کی فہم عطا فرمائی۔ اے میرے رب میں جو کچھ بھی ہوں تیرے کرم سے ہوں۔ تو میری دنیا اور آخرت کے کاموں کا والی اور مختار ہے۔ جو کچھ مجھے عطا ہوا بغیر مانگے عطا ہوا۔ میری تیرے حضور یہ فریاد ہے کہ مجھے مسلمان رکھنا، اسی حالت میں فوت کرنا اور صالحین کے ساتھ اٹھانا۔ اس دعا پر حضرت یوسف (علیہ السلام) کا واقعہ ختم ہوتا ہے۔ اسی عقیدہ اور عمل پر حضرت یوسف (علیہ السلام) کا خاتمہ ہوا۔ اور یہی حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے اپنی اولاد کو وصیت کی تھی۔ یہی مسلمان کی زندگی کا مقصد ہے اسی پر مسلمان کی موت آنی چاہیے۔ (الٰہی! مجھے بھی ایسی موت نصیب فرما۔ اٰمین یا ارحم الراحمین ) (وَوَصّٰی بِہَآ إِبْرَاہِیمُ بَنِیہِ وَیَعْقُوبُ یَا بَنِیَّ إِنَّ اللّٰہَ اصْطَفٰی لَکُمُ الدِّیْنَ فَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُوْنَ أَمْ کُنْتُمْ شُہَدَاءَ إِذْ حَضَرَ یَعْقُوْبَ الْمَوْتُ إِذْ قَالَ لِبَنِیہِ مَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ بَعْدِیْ قَالُوْا نَعْبُدُ إِلَہَکَ وَإِلَہَ اٰبَاءِکَ إِبْرَاہِیْمَ وَإِسْمَاعِیْلَ وَإِسْحَاقَ إِلَہًا وَّاحِدًا وَنَحْنُ لَہُ مُسْلِمُوْنَ )[ البقرۃ: ١٣٢۔ ١٣٣] ” ابراہیم اور یعقوب نے اپنے بیٹوں کو وصیت کی کہ اے میرے بیٹو! اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے دین کو پسند کیا ہے لہٰذا تم مرتے دم تک مسلمان ہی رہنا۔ کیا تم یعقوب کی موت کے وقت موجود تھے جب انھوں نے اپنے بیٹوں سے کہا کہ تم میرے بعد کس کی عبادت کرو گے انھوں نے کہا ہم تیرے الٰہ اور تیرے ابا ابراہیم، اسماعیل، اسحاق کے الٰہ کی عبادت کریں گے ان سبھی کا ایک ہی الٰہ ہے اور ہم اسی کے فرمانبردار ہیں۔“ (یَآأَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اتَّقُوْا اللّٰہَ حَقَّ تُقَاتِہٖ وَلَا تَمُوْتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُوْنَ )[ اٰل عمران : ١٠٢] ” اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو جیسے اس سے ڈرنے کا حق ہے اور تمہیں موت نہ آئے مگر اس حال میں کہ تم مسلمان ہو۔“ مسائل ١۔ بادشاہت عطا کرنے والی اللہ کی ذات ہے۔ ٢۔ دنیا اور آخرت میں اللہ ہی کارساز ہے۔ ٣۔ آدمی کو اللہ تعالیٰ سے نیک لوگوں کا ساتھ طلب کرنا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن اسلام ہی آخری دین ہے اور اسی پر قائم رہنے کا حکم ہے : ١۔ مجھے اسلام پر موت دے اور نیک لوگوں سے ملا دے۔ (یوسف : ١٠١) ٢۔ جو شخص اسلام کے علاوہ کوئی اور دین تلاش کرتا ہے اس سے ہرگز قبول نہ کیا جائے گا۔ (آل عمران : ٨٥) ٣۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں دین اسلام ہی ہے۔ (آل عمران : ١٩) ٤۔ اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے دین کو چن لیا ہے لوگو! تمہیں اسلام پر ہی موت آنی چاہیے۔ (البقرۃ : ١٣٢) ٥۔ آج کے دن تمھارے لیے تمھارا دین مکمل ہوا۔ میں نے اپنی نعمت تم پر تمام کی اور تمھارے لیے دین اسلام کو پسند کیا۔ (المائدۃ: ٣) ٦۔ کیا وہ اللہ کے دین کے علاوہ کوئی اور دین تلاش کرتے ہیں۔ (آل عمران : ٨٣) ٧۔ اپنے چہرے کو دین حنیف پر سیدھا کیے چلتے جاؤ۔ (الروم : ٣٠) یوسف
102 فہم القرآن ربط کلام : اس سورۃ کی آیت : ٧ میں اہل مکہ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ تم نے یوسف (علیہ السلام) کے بارے میں جو سوال کیا ہے اگر تم غور کرو تو اس میں تمہارے لیے سامان عبرت ہے۔ پورا قصہ بیان کرکے اس کو مشرکین مکہ پر منطبق کردیا ہے۔ اے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! یوسف (علیہ السلام) کا واقعہ بیان ہوا یہ ہم نے آپ کی طرف وحی کیا ہے۔ جو آپ کے لیے غیب تھا۔ یعنی آپ اس واقعہ کو نہیں جانتے تھے، نہ آپ اس وقت موجود تھے جب برادران یوسف (علیہ السلام) نے ایک جگہ جمع ہو کر یہ سازش کی تھی۔ یوسف (علیہ السلام) کے بارے میں مکہ والوں نے آپ سے سوال کیا۔ جس کے جواب میں ہم نے تفصیلی سورت آپ پر نازل فرمائی۔ یاد رکھیں آپ جتنا بھی ان کے ایمان کی کوشش اور تمنا کریں ان کی اکثریت ایمان نہیں لائے گی۔ یہ لوگ سوچتے نہیں کہ آپ ان کی ہدایت کے لیے نہایت دلسوزی کے ساتھ صبح وشام محنت کر رہے ہیں اس پر آپ نے ان سے کوئی اجروصول نہیں کرنا۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی انتہائی کوشش تھی کہ لوگ شرک وبدعت اور ہر قسم کی رسومات چھوڑ کر حلقہ اسلام میں داخل ہوجائیں۔ اس کے لیے رات کو اٹھ کر دعائیں کرتے اور دن کے وقت انتھک کوشش فرماتے کہ کسی نہ کسی طریقہ سے لوگ ہدایت قبول کرلیں۔ لیکن آپ کے مخاطبین کی اکثریت کی حالت یہ تھی کہ وہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دلیل یا معجزہ طلب کرتے جب ان کی خواہش پر کوئی معجزہ یا دلیل نازل ہوتی تو وہ قریب آنے کی بجائے پہلے سے بھی سے دور ہوجاتے تھے۔ اس پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مختلف الفاظ اور انداز میں تسلی دی جاتی کہ آپ دلگیر ہونے کی بجائے اپنا کام کرتے جائیں۔ یہاں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تسلی کے لیے فرمایا گیا ہے کہ آپ جس قدر چاہیں خواہش اور کوشش فرمائیں ان کی اکثریت ایمان نہیں لائے گی۔ یا درہے کہ ایمان ایسی گرانمایہ نعمت ہے جو خواہش اور کوشش کے بغیر حاصل نہیں ہوتی۔ اے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ کے لیے یہ بات بھی اطمینان بخش ہے کہ آپ ان سے کسی اجر کے طلب گار نہیں ہیں آپ کا اجر آپ کے رب کے پاس پوری طرح محفوظ ہے جو کسی طرح کم ہونے والا نہیں۔ اس کے ساتھ آپ کے مخالفین کو سمجھایا گیا ہے کہ ذرا سوچو اور غور کرو کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو بے لوث محنت کر رہے ہیں اس میں ان کا کیا مفاد ہے؟ وہ تو اپنے دن رات تمہارے فائدے کے لیے وقف کیے ہوئے ہیں۔ جو کچھ وہ فرماتے اور آپ کو بتلاتے ہیں اپنی طرف سے نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کیا جاتا ہے جس پر تمہیں ہر صورت غور کرنا چاہیے۔ مکر کا معنی دھوکہ، فریب، حیلہ وتدبیر اور سازش کرنا ہے اگر مکر کے لفظ کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف ہو تو اس کا معنی تدبیر کرنا ہوتا ہے۔ مسائل ١۔ غیب کا علم صرف اللہ تعالیٰ کو ہے۔ ٢۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس وقت موجودنہ تھے جب یوسف (علیہ السلام) کے بھائیوں نے مکر کیا تھا۔ ٣۔ لوگوں کی اکثریت ایمان نہیں لایا کرتی۔ ٤۔ قرآن مجید لوگوں کے لیے نصیحت ہے۔ تفسیر بالقرآن نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) غیب نہیں جانتے تھے : ١۔ یہ غیب کی خبریں ہیں جو ہم آپ کی طرف وحی کرتے ہیں آپ اس وقت موجود نہ تھے۔ (یوسف : ١٢) ٢۔ میں نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں اور نہ ہی میں غیب جانتا ہوں۔ (الانعام : ٥٠ ) ٣۔ اگر میں غیب جانتا ہوتا تو اپنے لیے ساری بھلائیاں جمع کرلیتا۔ (الاعراف : ١٨٨) ٤۔ اللہ تعالیٰ کے سوا آسمان و زمین کا غائب کوئی نہیں جانتا۔ ( النمل : ٦٥) ٥۔ اللہ تعالیٰ لوگوں کو غیب پر مطلع نہیں کرتا۔ (آل عمران : ١٧٩) ٦۔ اللہ کے پاس غیب کی چابیاں ہیں اللہ کے علاوہ انھیں کوئی نہیں جانتا۔ (الانعام : ٥٩) ٧۔ کہہ دیجیے غیب اللہ کے لیے ہے تم انتظار کرو میں بھی تمھارے ساتھ انتظار کرتا ہوں۔ (یونس : ٢٠) ٨۔ اللہ ہی غیب کو جاننے والا ہے اور وہ کسی پر غیب ظاہر نہیں ہوتا۔ (الجن : ٢٦) یوسف
103 یوسف
104 یوسف
105 فہم القرآن ربط کلام : یہودیوں نے اہل مکہ کو جو حضرت یوسف (علیہ السلام) کے بارے میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس لیے سوال کرنے کو کہا کہ اگر آپ حقیقتاً نبی ہیں تو جواب دے پائیں گے۔ بصورت دیگر جھوٹے ثابت ہوں گے۔ اس واقعہ کا اختتام اس بات پر کیا جارہا ہے کہ یہ واقعہ ہی عبرت کی نشانی نہیں بلکہ زمین و آسمان اور آفاق میں بے شمار نشانیاں ان کے لیے موجود ہیں۔ جنہیں دیکھ کر یہ لوگ رب کی ذات کا اقرار کرتے ہیں۔ مگر رب ماننے کے باوجود اسے ایک الٰہ ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مخالفین میں بالخصوص مشرکین مکہ کی حالت یہ تھی کہ پہلے وہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دلیل مانگتے جب انھیں دلیل دی جاتی، پھر اس سے یکسر اعراض کردیتے تھے۔ جس پر انہیں مخاطب کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے کہ تمھارے لیے زمین و آسمان میں کتنی ہی نشانیاں ہیں جن کو دیکھنے کے باوجود ان کی طرف توجہ نہیں دیتے ہو۔ مانتے ہو کہ سب کا خالق صرف ایک اللہ ہے۔ اللہ کو خالق ماننے کے باوجود اس کے ساتھ شرک کرتے ہو۔ آیت ١٠٦ میں بتایا گیا ہے کہ لوگوں کی اکثریت ایمان کا دعوے دار ہونے کے باوجود مشرک ہوتی ہے۔ کیا یہ لوگ اس بات سے بے پروا ہوگئے ہیں کہ ان کو اللہ کا عذاب گھیرلے یا اچانک ان پر قیامت ٹوٹ پڑے اس حال میں کہ انہیں اس کی توقع بھی نہ ہو۔ آیت کا معنی و مفہوم : آیت سے مراد قرآن مجید کے فرمان کا کچھ حصہ عقلی یا نقلی دلیل، نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو عطا ہونے والے معجزات، اللہ تعالیٰ کی قدرت وسطوت کے نشانات اور پہلی اقوام کے انجام کے واقعات ہیں۔ قرآن مجید نے اہل مکہ اور رہتی دنیا تک سب انسانوں کے لیے دلائل پیش فرمائے ہیں لیکن آپ کے مخالف اس قدرہٹ دھرم اور کم ظرف تھے کہ حقیقت جاننے کے باوجود اپنے کفرو شرک پر ڈٹے رہے حا لانکہ جب ان سے یہ پوچھا جاتا کہ زمین و آسمان کس نے پیدا کیے ہیں تو وہ واضح الفاظ میں کہتے کہ اللہ ہی ان کا خالق ہے۔ ( العنکبوت : ١٦) پھر ان سے سوال ہوتاکہ آسمان سے بارش نازل کرنے والا کون ہے؟ ان کا جواب ہوتا صرف اللہ ہی بارش نازل کرتا ہے۔ (العنکبوت : ٦٣ ) جب یہ پوچھا جا تاکہ زمین و آسمان سے تمہیں کون رزق دیتا ہے۔ تمہیں کان اور آنکھوں کی نعمتیں کس نے عطا فرمائیں ہیں؟ مردہ سے زندہ اور زندہ سے مردہ کون پیدا کرتا ہے ؟ کائنات کا نظام کون چلا رہا ہے؟ فوراً جواب دیتے کہ اللہ ہی یہ سب کچھ کرنے والا ہے۔ ( یونس : ٣١) اس طرح وہ اللہ تعالیٰ کی ایک ایک صفت کا اقرار کرتے تھے اس کے باوجود مشرکین اپنے ہی بنائے ہوئے بتوں کو خدا کا اوتار سمجھتے۔ یہود و نصاری انبیاء ( علیہ السلام) اور بزرگوں کی ارواح کو خدا کی خدائی میں شریک سمجھ کر انہیں اللہ تعالیٰ کے حضور وسیلہ مانتے اور ان کی طفیل مانگتے تھے۔ افسوس ان کی دیکھا دیکھی آج کے کروڑوں مسلمان بھی یہی عقیدہ اختیار کیے ہوئے ہیں حالانکہ اس عقیدہ اور طریقہ عبادت کی ان کے پاس کوئی دلیل نہ ہے اور نہ ہوگی۔ ایسے لوگوں کو متنبہ کیا گیا ہے کہ کیا یہ بے پروا اور بے خوف ہوچکے ہیں کہ انہیں اللہ کا عذاب ہر طرف سے گھیرلے یا پھر ان پر اچانک قیامت برپاہو جائے۔ جن کو یہ اپنا حاجت روا اور مشکل کشا سمجھتے ہیں ان میں سے کوئی بھی ان کو نہ عذاب سے بچاسکتا ہے اور نہ کوئی قیامت کو ٹال سکتا ہے۔ مسائل ١۔ کفار زمین و آسمان کی نشانیوں سے منہ پھیرتے ہیں۔ ٢۔ اکثر لوگ اللہ پر ایمان لانے کے باوجود شرک کرتے ہیں۔ ٣۔ اللہ کے عذاب سے بے خوف نہیں ہونا چاہیے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ کا عذاب اور قیامت کسی وقت بھی آسکتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن اللہ کا عذاب ظالموں کو اچانک آلیتا ہے : ١۔ کیا وہ بے فکر ہیں کہ انہیں اللہ کا عذاب یا قیامت اچانک آلے اور انہیں پتا بھی نہ ہو۔ (یوسف : ١٠٧) ٢۔ ہم نے ان کو اچانک پکڑ لیا اور وہ بے خبر تھے۔ ( الاعراف : ٩٥ ) ٣۔ ہم ان کے پاس اچانک عذاب لے آئیں گے اور انہیں پتا بھی نہیں چلے گا۔ (العنکبوت : ٥٣ ) یوسف
106 یوسف
107 یوسف
108 فہم القرآن ربط کلام : مشرکین کے ایمان کی نفی کرنے کے بعد نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت کی وضاحت اور آپ کے طریقہ دعوت کی تشریح پیش کی جاتی ہے۔ اے نبی! آپ وضاحت فرمائیں کہ میرا راستہ اور میری دعوت لوگوں کو اللہ کی طرف بلانا ہے۔ نہایت دانائی اور خدا دادبصیرت کے ساتھ یہی میرے متبعین کا راستہ اور دعوت ہے۔ ان کو بتادیں کہ ہمارا عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی ذات اور صفات کے حوالے سے ہر قسم کے شرک سے مبرا ہے اور ہم کسی طرح بھی مشرکین سے نہیں ہیں۔ اس آیت میں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان اطہر سے کہلوایا گیا ہے کہ آپ خود یہ اعلان فرمائیں کہ میرا راستہ اور میری دعوت یہ ہے کہ میں لوگوں کو نہایت دانائی کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی طرف بلاؤں۔ یہ بات پہلے بھی عرض کی جاچکی ہے کہ عقیدہ کے متعلق جتنی اہم باتیں ہیں۔ ان کے اظہار کے لیے پہلے قل کا لفظ لایا جاتا ہے۔ حالانکہ سارا قرآن اور شریعت نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہی بیان کی ہے۔ آپ کی بیان کردہ ہر بات اہم اور واجب الاتباع ہے لیکن اس کے باوجود بنیادی اور مرکزی باتوں کے لیے حکم ہوتا ہے کہ اے نبی! آپ اعلان فرمائیں کہ میری زندگی کا مشن یہ ہے کہ حالات جیسے بھی ہوں میں خدا داد بصیرت کے ساتھ لوگوں کو اللہ کی طرف بلاتا رہوں۔ اللہ کی طرف بلانے کا معنی اس کی توحید اور احکام کی طرف دعوت دینا ہے۔ جو میرا سچا فرمانبردار ہے اس کا بھی یہی راستہ ہے اور ہونا چاہیے۔ ہمارا مشرکوں کے ساتھ کوئی رشتہ ناطہ نہیں ہے۔ مشرک کے ساتھ رشتہ نہ رکھنے کا صرف یہ مطلب نہیں ایک سچے امتی کا مشرکوں جیسا عقیدہ اور عمل نہیں ہونا چاہیے۔ قرآن مجید نے مشرکوں سے نکاح حرام قرار دیا اور ان سے قلبی محبت سے منع کیا ہے۔ (البقرۃ: ٢٢١) داعی کی چیدہ چیدہ صفات : ١۔ داعی کو وحی الٰہی کی پیروی کرنا چاہیے۔ (یونس : ١٥) ٢۔ داعی کو سب سے پہلے مسلمان یعنی ” اللہ“ کا تابع دار ہونا چاہیے۔ (الانعام : ١٦٣) ٣۔ داعی کا لباس پاک صاف ہونا چاہیے۔ (المدثر : ٤) ٤۔ داعی کو لالچ سے گریز کرنا چاہیے۔ (المدثر : ٦) ٥۔ داعی کو ہر وقت کمر بستہ رہنا چاہیے۔ (المدثر : ٢) ٦۔ داعی کو حکمت اور خیر خواہی کے ساتھ دعوت دینا چاہیے۔ (النحل : ١٢٥) ٧۔ داعی کو برائی کا جواب برائی سے نہیں دینا چاہیے۔ (حم السجدۃ: ٣٤) ٨۔ داعی کو صابر ہونا چاہیے۔ ( المدثر : ٧) ٩۔ داعی کو عملی نمونہ پیش کرنا چاہیے۔ (یونس : ١٦) مسائل ١۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف بلاتے تھے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ ہر نقص اور عیب سے پاک ہے۔ ٣۔ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مشرکوں سے برأت کا اظہار فرماتے تھے۔ تفسیر بالقرآن انبیاء کرام (علیہ السلام) کا شرک سے براءت کا اظہار : ١۔ آپ فرما دیں اللہ تعالیٰ پاک ہے اور میں مشرکوں میں سے نہیں ہوں۔ (یوسف : ١٠٨ ) ٢۔ کہہ دیجیے اللہ ایک ہے بے شک میں تمہارے شرک سے بری ہوں۔ (الانعام : ١٩ ) ٣۔ حضرت ابراہیم نے کہا اے میری قوم! میں تمہارے شرک سے برأت کا اظہار کرتا ہوں۔ (الانعام : ٧٨ ) ٤۔ ھود (علیہ السلام) نے کہا میں اللہ کو گواہ بناتا ہوں اور تم بھی بنالو میں تمہارے شرک سے بیزار ہوں۔ (ہود : ٥٤ ) ٥۔ بے شک اللہ اور اس کا رسول مشرکوں سے بری ہے۔ (التوبۃ: ٣ ) ٦۔ ابراہیم نے اپنی قوم سے کہا ہم تم سے اور تمھارے باطل معبودوں سے بری الذمہ ہوں۔ (الممتحنۃ: ٤) یوسف
109 فہم القرآن ربط کلام : مشرکین، نہ صرف اللہ کو ایک الٰہ نہیں ماننے تھے بلکہ وہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بشر تسلیم کرنے کے لیے تیار نہ تھے۔ ان کا عقیدہ تھا کہ نبی انسان ہونے کی بجائے مافوق البشر ہستی ہونا چاہیے۔ جس کا جواب یہ دیا ہے کہ توحید اور بشریت کے بہانے نبوت کا انکار کرنے والوں کا انجام دیکھنا چاہو تو زمین پر چل پھر کر دیکھو کہ توحید ورسالت کا انکار کرنے والوں کا کیا انجام ہوا ہے۔ اگر تم بھی انکار کی روش اختیار کیے رکھو گے تو تمہارا انجام بھی پہلے لوگوں سے مختلف نہیں ہوگا۔ اے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ سے پہلے اللہ تعالیٰ نے جتنے بھی رسول بھیجے وہ سب کے سب انسان تھے۔ اور انہی علاقوں اور قوموں سے تعلق رکھتے تھے جن میں انہیں مبعوث کیا گیا تھا۔ کیا لوگ زمین میں چل پھر کر نہیں دیکھتے کہ دنیوی مفادات کی خاطر انبیاء (علیہ السلام) کو جھٹلانے والوں کا کیا انجام ہوا؟ آخرت کا گھر بہتر ہے ان لوگوں کے لیے جو اللہ سے ڈر کر زندگی بسر کرتے ہیں۔ کیا لوگ نہیں سوچتے کہ انہیں دنیا کی بجائے آخرت کو ترجیح دینا چاہیے۔ یہ حقیقت قرآن مجید با رہا دفعہ بیان کرتا ہے کہ جتنے رسول دنیا میں مبعوث کیے گئے وہ سب کے سب نہ صرف انسان تھے بلکہ اپنی اپنی قوم سے تعلق رکھتے اور انہی کی زبان میں بات کرنے والے تھے۔ قرآن مجید عربی میں اس لیے نازل کیا گیا ہے کہ نبی آخرالزماں (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عربی النسل تھے۔ اہل مکہ اس بات پر ناز کرنے کی بجائے تعجب کا اظہار کرتے تھے کہ عجیب معاملہ ہے کہ ہمارے جیسا انسان نبی بنا دیا گیا ہے اور وہ ہماری زبان میں بات کرتا ہے۔ قرآن مجید نے کئی مقامات پر اس بات کے ٹھوس دلائل دیے ہیں کہ نبی کے انسان ہونے اور اپنی قوم میں مبعوث ہونے کے کیا فوائد ہیں؟ اگر نبی قومی زبان کی بجائے کوئی اور زبان بولنے والا کسی دوسری جنس سے ہوتا تو نبی اور اس کی امت کو بات سمجھنے سمجھانے اور اس پر عمل کرنے میں جو مشکلات پیش آتیں ان کا یہ لوگ تصور بھی کرسکتے۔ یہ تو اللہ تعالیٰ کا بڑا احسان ہے کہ آدمیوں میں سے جس کو چاہے نبی بنائے اور جس قوم اور بستی میں نبی مبعوث کیا جائے اس کے لیے یہ طرۂ امتیاز ہے جس کا کوئی قوم مقابلہ نہیں کرسکتی قرآن مجید کے الفاظ سے یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ تمام نبی مرد تھے۔ جس کا دوسرا معنی یہ ہے کہ نبی نہ صرف فرشتوں میں نہیں تھے بلکہ کسی عورت کو بھی نبوت کے مقام پر فائز نہیں کیا گیا۔ مگر لوگ اس حقیقت اور اللہ تعالیٰ کے احسان عظیم پر غور نہیں کرتے۔ یہاں نبی کی بشریت کے دلائل دینے کی بجائے صرف اتنا فرمایا ہے کہ انہیں عقل سے کام لینا چاہیے کہ جن لوگوں نے نبی کی نبوت اور بشریت کو جھٹلایا ان کا دنیا میں کیا انجام ہوا ہے بلکہ دنیا کے ساتھ ان کی آخرت بھی برباد ہوگئی۔ (عَنْ أَبِیْ الدَّرْدَاءِ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تَفْرَغُوْا مِنْ ہَمُوْمِ الدُّنِیَا مَا اسْتَطَعْتُمْ فَاِنَّہٗ مَنْ کَانَتِ الدُّنِیَا اَکْبَرُ ہَمَّہٗ اَفْشَی اللّٰہُ ضَیِّعَتَہٗ وَجَعْلَ فَقْرَہٗ بَیْنَ عَیْنَیْہِ وَمَنْ کَانَتِ الْاٰخِرَۃِ اَکْبَرُ ہَمَّہٗ جَمَعَ اللّٰہُ لَہٗ اَمُوْرَہٗ وَجَعَلَ غِنَاہُ فِیْ قَلْبِہٖ وَمَا اَقْبَلَ عَبْدٌ بِقَلْبِہٖ إِلَی اللّٰہِ إِلاَّ جَعَلَ اللّٰہُ قُلُوْبَ الْمُؤْمِنِیْنَ تَفِدُّ إِلَیْہِ بالْوَدِّ وَالرَّحْمَۃِ وَکَان اللّٰہُ إِلَیْہِ بِکُلِّ خَیْرٍ اَسْرَعُ )[ معجم الاوسط] ” حضرت ابو درداء (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جہاں تک ہو سکے تم دنیا کے غموں سے چھٹکارا حاصل کرلو جس نے دنیا کی فکر کو بڑ اجان لیا اللہ تعالیٰ اس پر دنیا تنگ کردیں گے۔ محتاجی اس کی آنکھوں سے ٹپک رہی ہوگی۔ جس نے آخرت کو اپنے لیے بڑی فکر سمجھ لیا۔ اللہ تعالیٰ اس کے معاملات کو سنوار دے گا۔ اس کے دل میں غنا پیدا کردے گا۔ جو انسان اللہ تعالیٰ کی طرف سچے دل سے متوجہ ہوجائے اللہ تعالیٰ اس کے لیے مومنوں کے دلوں میں محبت اور رحمت پید افرما دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کے لیے ہر بھلائی میں جلدی کرتا ہے۔“ مسائل ١۔ تمام رسول مردوں میں سے تھے۔ ٢۔ تمام انبیاء ( علیہ السلام) کی طرف اللہ تعالیٰ وحی فرماتے تھے۔ ٣۔ زمین میں سیر وسیاحت کر کے پہلے لوگوں کا انجام دیکھنا چاہیے۔ ٤۔ آخرت کا گھر تمام دنیا سے بہتر ہے۔ ٥۔ آخرت کا گھر متقین کے لیے ہے۔ تفسیر بالقرآن آخرت کا گھر کن لوگوں کے لیے ہے : ١۔ آخرت کا گھر ان لوگوں کے لیے بہتر ہے جو تقویٰ اختیار کرتے ہیں۔ (یوسف : ١٠٩ ) ٢۔ مومنوں کے لیے سلامتی والا گھر ہے اور اللہ ان کا دوست ہوگا۔ (الانعام : ١٢٧ ) ٣۔ متقین کے لیے آخرت کا گھربہتر ہے کیا لوگ عقل نہیں کرتے۔ (الاعراف : ١٦٩ ) ٤۔ صبر کرنے والوں کے لیے آخرت کا گھر بہتر ہے۔ (الرعد : ٢٤ ) یوسف
110 فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ کی توحید، انبیاء کی نبوت اور بشریت کے واضح دلائل آنے کے باوجود کفار نے انبیاء کے ساتھ مقابلہ اور مکالمہ جاری رکھا۔ یہ کشمکش اس قدر شدید تھی کہ انبیاء (علیہ السلام) کو یقین ہونے لگا کہ انہیں یکسر طور پر جھٹلا دیا گیا ہے۔ تب اللہ تعالیٰ کی مدد نازل ہوئی۔ اس آیت مبارکہ کے ترجمہ اور تفسیر میں اہل علم کو بڑی الجھن پیش آئی ہے۔ تفسیر کے حوالے سے قرآن مجید کا یہ مشکل ترین مقام سمجھا جاتا ہے۔ (حَتّٰی اِذَا اسْتَیْءَسَ الرُّسُلُ وَظَنُّوْٓا اَنَّھُمْ قَدْ کُذِبُوْا )[ یوسف : ١١١] ” یہاں تک کہ رسول مایوس ہوگئے اور انہوں نے گمان کیا کہ وہ جھٹلادیے گئے ہیں۔“ بعض مترجمین نے (قَدْکُذِبُوْ ا) کا ترجمہ کیا ہے کہ انبیاء نے خیال کیا ان کے ساتھ جھوٹ بولا گیا ہے۔ اس آیت کریمہ کی تین طرح تفسیر کی گئی ہے۔ ١۔ جب اللہ کی رحمت سے رسول مایوس ہوگئے تو انہوں نے خیال کیا کہ ان سے جھوٹ بولا گیا ہے۔ بے شک کچھ لوگوں نے صرف نحو کے حوالے سے یہ معنی لینے کی کوشش کی ہے کہ لیکن انبیاء کے مرتبہ و مقام اور ایمان و ایقان کے پیش نظر یہ ترجمہ لینا مناسب نہیں۔ کیونکہ قرآن مجید نے اسی سورۃ میں حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے حوالے سے بتلایا ہے کہ جب یوسف (علیہ السلام) نے اپنے بھائی بنیامین کو مصر میں روک لیا اور باقی بھائی حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے پاس آئے تو انہوں نے سارا معاملہ سن کر فرمایا جاؤ۔ یوسف اور اس کے بھائی کو تلاش کرو۔ اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہونا۔ اللہ کی رحمت سے مایوس صرف کافر ہی ہوا کرتے ہیں۔ (یوسف : ٨٧) اس بنیاد پر مذکورہ بالا ترجمہ اور مفہوم لینا نہایت ہی غلط ہے۔ ٢۔ دوسری جماعت نے (قَدْکُذِبُوْاوَظَنُّوْا) یہ مفہوم لیا ہے کہ جب اللہ کے رسول کفار کے ایمان نہ لانے سے مایوس ہوگئے تو انہوں نے گمان کیا کہ انہیں جھٹلا دیا گیا ہے تب اللہ تعالیٰ کی مدد نازل ہوئی اور کفار کو تہس نہس کردیا گیا۔ ٣۔ تیسری جماعت نے اس سے مرادمومن لیے ہیں کہ جب ایمان والوں کو یقین ہوگیا کہ ان کے ساتھ جھوٹ بولا گیا ہے۔ باربار مطالبہ کے باوجود عذاب نہ آیا تو کفار نے یہ پروپیگنڈہ کیا کہ عذاب کا جو وعدہ کیا جاتا رہا ہے وہ جھوٹ تھا۔ کفار کے پروپیگنڈہ سے متاثر ہو کر ایمانداروں کے دلوں میں یہ گمان پیدا ہوا کہ واقعی عذاب کا وعدہ جھوٹا ثابت ہو رہا ہے۔ یعنی مومنوں نے انبیاء (علیہ السلام) کے بارے میں ایسا خیال کرنا شروع کردیا۔ تب اللہ کا عذاب آن پہنچا۔ یاد رہے کہ یہاں ظن کا لفظ استعمال ہوا ہے یہ لفظ عربی میں گمان اور یقین دونوں کے لیے استعمال ہوتا ہے لیکن یہاں اس کا معنی گمان لیا جائے۔ مومنوں کے دل میں ایسا گمان پیدا ہونا بعید از قیاس نہیں ہے۔ یاد رہے گمان پیدا ہونے پر اللہ تعالیٰ کے ہاں اس پر کوئی مؤاخذہ نہیں ہوگا۔ میرے نزدیک دوسرے نمبر والی تفسیر بہتر ہے۔ (اللہ اعلم ) (عَنْ اَبِیْ ہُرَےْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اِنَّ اللّٰہَ تَجَاوَزَ عَنْ اُمَّتِیْ مَا وَسْوَسَتْ بِہٖ صُدُوْرُھُا مَا لَمْ تَعْمَلْ بِہٖ اَوْ تَتَکَلَّمْ)[ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ: بَاب الطَّلاَقِ فِی الإِغْلاَقِ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے میری امت کے برے خیالات کو معاف کردیا ہے بشرطیکہ ان کے مطابق عمل اور گفتگو نہ کی جائے۔“ حضرت عائشہ (رض) کی تفسیر : ٣۔ حضرت عائشہ (رض) کے بھانجے حضرت عروہ بن زبیر (رض) نے حضرت عائشہ (رض) سے اس آیت کی تفسیر بالخصوص (قَدْکُذِبُوْا) کے الفاظ کی تشریح کے بارے میں سوال کیا جس کا تذکرہ حضرت امام بخاری (رح) نے ان الفاظ میں کیا ہے۔ (عَنِ ابْنِ شِہَابٍ قَالَ أَخْبَرَنِی عُرْوَۃُ بْنُ الزُّبَیْرِ عَنْ عَاءِشَۃَ قَالَتْ لَہٗ وَہُوَ یَسْأَلُہَا عَنْ قَوْلِ اللّٰہِ تَعَالَی (حَتّٰی إِذَا اسْتَیْأَسَ الرُّسُلُ) قَالَ قُلْتُ أَکُذِبُوا أَمْ کُذِّبُوْا قَالَتْ عَاءِشَۃُ کُذِّبُوْا قُلْتُ فَقَدِ اسْتَیْقَنُوْٓا أَنَّ قَوْمَہُمْ کَذَّبُوہُمْ فَمَا ہُوَ بالظَّنِّ قَالَتْ أَجَلْ لَعَمْرِیْ لَقَدِ اسْتَیْقَنُوْا بِذَلِکَ فَقُلْتُ لَہَا وَظَنُّوْٓا أَنَّہُمْ قَدْ کُذِبُوْا قَالَتْ مَعَاذ اللّٰہِ لَمْ تَکُنِ الرُّسُلُ تَظُنُّ ذٰلِکَ بِرَبِّہَا قُلْتُ فَمَا ہٰذِہِ الآیَۃُ قَالَتْ ہُمْ أَتْبَاع الرُّسُلِ الَّذِیْنَ آمَنُوْٓا بِرَبِّہِمْ وَصَدَّقُوْہُمْ، فَطَالَ عَلَیْہِمُ الْبَلاَءُ، وَاسْتَأْخَرَ عَنْہُمُ النَّصْرُ حَتَّی اسْتَیْأَسَ الرُّسُلُ مِمَّنْ کَذَّبَہُمْ مِنْ قَوْمِہِمْ وَظَنَّتِ الرُّسُلُ أَنَّ أَتْبَاعَہُمْ قَدْ کَذَّبُوہُمْ جَآءَ ہُمْ نَصْرُ اللّٰہِ عِنْدَ ذٰلِکَ) [ رواہ البخاری : کتاب التفسیر، باب قول حتی اذاستیاس] ” ابن شہاب کہتے ہیں۔ مجھے عروہ بن زبیر نے حضرت عائشہ سے بیان کرتے ہیں کہ حضرت عائشہ نے اس سے فرمایا۔ وہ اللہ کے اس فرمان (حَتّٰی إِذَا اسْتَیْأَسَ الرُّسُلُ) کے بارے میں سوال کررہے تھے۔ حضرت عروہ کہتے ہیں میں نے کہا کیا وہ جھوٹ بولے گئے یا پھر جھٹلائے گئے۔ حضرت عائشہ (رض) نے فرمایا کہ وہ جھٹلائے گئے۔ میں نے عرض کی کیا انہوں نے یقین کرلیا کہ وہ جھٹلائے گئے پھر ظن کیا ہے ؟ اس نے کہا ہاں میری عمر کی قسم ! انہوں نے اس بات کا یقین کرلیا۔ میں نے کہا تو پھر انبیاء نے بھی یقین کرلیا کہ ان سے جھوٹ بولا گیا ہے۔ حضرت عائشہ (رض) نے فرمایا اللہ کی پناہ رسول اپنے رب کے بارے میں ایسا گمان نہیں کرسکتے۔ میں نے پھر پوچھا تو اس آیت کا کیا مطلب ہے ؟ حضرت عائشہ (رض) نے فرمایا یہ آیت ان لوگوں کے بارے میں ہے جنہوں نے رسولوں کی اتباع اور تصدیق کی۔ جب طویل مدت تک مومنوں پر آفت اور مصیبت آتی رہی اور اللہ کی مدد آنے میں دیر ہوگئی۔ انبیاء (علیہ السلام) کفار کے ایمان لانے سے نا امید ہوگئے۔ (یعنی جب کفار کی طرف سے انبیاء مایوس ہوگئے اور ایمان والوں نے یہ خیال کیا کہ ان پر ایمان لانے والے بھی گمان کرنے لگے ہیں کہ شاید انبیاء ( علیہ السلام) نے جھوٹ بولا ہے) انہوں نے گمان کرلیا کہ ان کے متبعین نے ان کو جھٹلا دیا ہے تو اس وقت ان کے پاس اللہ تعالیٰ کی مدد آئی۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ اپنے برگزیدہ بندوں کی آزمائش کرتا ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ جب چاہتا ہے اپنی مدد نازل فرماتا ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے اپنے عذاب سے نجات عطا فرماتا ہے۔ ٤۔ مجرم لوگ اللہ تعالیٰ کے عذاب سے نہیں بچ سکتے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ نیک بندوں کی آزمائش فرماتا ہے : ١۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو اللہ نے چند باتوں کے ساتھ آزمایا۔ (البقرۃ: ١٢٤) ٢۔ مومنوں کو سخت آزمائش میں مبتلا کیا گیا اور ان کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا گیا۔ (الاحزاب : ١١) ٣۔ ہم تمہیں آزمائیں گے تاکہ جہاد کرنے والوں اور صبر کرنے والوں میں امتیاز ہو سکے۔ (محمد : ٣١) ٤۔ اگر اللہ چاہتاتو تمہاری ضرور مدد فرماتا۔ لیکن اللہ بعض کو بعض کے ساتھ آزماتا ہے۔ (محمد : ٤) ٥۔ اللہ تمہیں تمہارے مالوں اور جانوں کے ساتھ ضرور آزمائے گا۔ (آل عمران : ١٨٦) ٦۔ حضرت ابراہیم کا حضرت اسماعیل کو ذبح کرنابہت بڑی آزمائش تھی۔ (الصٰفٰت : ١٠٦) ٧۔ اللہ نے پہلے لوگوں کو آزمایا اور تمھیں بھی آزمائے گا۔ (العنکبوت : ٢) یوسف
111 فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ رسول مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اہل مکہ نے اس ذہن کے ساتھ حضرت یوسف (علیہ السلام) کے بارے میں سوال کیا تھا۔ کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کا ٹھیک ٹھیک جواب نہیں دے پائیں گے اور ہماری یہ بات سچ ثابت ہوگی کہ یہ نبی اپنی طرف سے باتیں بنا کر اللہ تعالیٰ کے ذمہ لگاتا ہے۔ اہل مکہ کے اس سوال کا جواب دینے سے پہلے یہ فرمادیا گیا کہ جن لوگوں نے حضرت یوسف (علیہ السلام) اور ان کے بھائیوں کے بارے میں سوال اٹھایا ہے۔ اس کے جواب میں ان کے لیے عبرت کی بہت سی باتیں پائی جاتی ہیں۔ (یوسف : ٧) اس سورۃ مبارکہ کا اختتام بھی اسی بات سے کیا جا رہا ہے۔ جس کا اشارہ ابتدا میں کیا گیا ہے۔ لہٰذا ارشاد ہوتا ہے کہ ان واقعات میں سوال کرنے والوں کے لیے بہت ساسامان عبرت موجود ہے۔ بشرطیکہ وہ اپنی عقل استعمال کریں۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) کے واقعہ کے بیان میں یہ بات پوری طرح واضح ہوچکی ہے کہ یہ قرآن حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے بنائی ہوئی باتیں نہیں ہیں بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے۔ جسے اس نے اپنے رسول حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل کیا ہے۔ قرآن مجید کے من جانب اللہ ہونے کا یہ بھی واضح ثبوت ہے کہ اس میں جو احکام اور واقعات بیان کیے گئے ہیں۔ وہ تورات، انجیل اور زبور کے حقیقی احکام اور واقعات کی تصدیق کرتے ہیں۔ اس قرآن میں ہدایت کے مفصل دلائل دیے گئے ہیں جو ایمان لانے والوں کے لیے ہدایت کا سرچشمہ اور اللہ تعالیٰ کی رحمت کا پیکر ہیں۔ سوال کرنے والوں کے لیے عبرت کے دلائل : ١۔ اہل مکہ نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو لاجواب کرنے کے لیے حضرت یوسف (علیہ السلام) کے بارے میں سوال کیا تھا۔ جس کے جواب میں خود لاجواب ہوئے اور انہیں شرمندگی اٹھانا پڑی۔ ٢۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) کے بھائیوں کی طرح اہل مکہ نے اپنی طاقت کے بل بوتے پر رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ناکام کرنے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت کو مٹانے کی کوشش کی۔ جس میں وہ برادران یوسف کی طرح ناکام رہے۔ ٣۔ بھائیوں نے حضرت یوسف (علیہ السلام) کے خلاف سازش کی۔ جس میں وہ ناکام ہوئے۔ اسی طرح اہل مکہ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلاف ہجرت اور دوسرے مواقعوں پر سازشیں کی۔ جس میں وہ ہر بار ناکام ہوئے۔ ٤۔ حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے حضرت یوسف (علیہ السلام) کے معاملہ میں صبر کیا۔ جس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے انہیں خوشیاں نصیب فرمائیں۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اہل مکہ کے جبرو تشدد کے مقابلہ میں صبر سے کام لیا۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو بھی خوشیاں اور کامیابیاں عطا فرمائیں۔ ٥۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) نے صبر و حوصلہ کے ساتھ مشکلات کا سامنا کیا۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں مصر کا اقتدار عطا فرمایا۔ نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کفار کے مظالم کے مقابلے میں مستقل مزاجی کا مظاہرہ فرمایا۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اہل مکہ اور پورے عرب پر غلبہ عطا فرمایا۔ ٦۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) کے بھائی ان سے معافی مانگنے پر مجبور ہوئے۔ فتح مکہ کے موقع پر اہل مکہ بھی نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بھی معافی کے خواستگار ہوئے۔ ٧۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) نے بھائیوں کی درخواست پر (لاَ تَثْرِیْبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْمَ) کہتے ہوئے معاف کردیا۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہی الفاظ کے ساتھ فتح مکہ کے موقعہ پر اہل مکہ کو معاف فرمایا۔ مسائل ١۔ حضرت یوسف کے واقعہ میں عقلمندوں کے لیے عبرت ہے۔ ٢۔ قرآنی واقعات لوگوں کے لیے باعث ہدایت ہیں۔ ٣۔ قرآن مجید پہلی کتابوں کی تصدیق کرنے والا ہے۔ ٤۔ قرآن مجید میں انسان کی ہدایت کے متعلق ہر بات کی تفصیل ہے۔ یوسف
0 بسم اللہ الرحمن الرحیم تعارف سورۃ الرعد اس سورۃ کا نام اس کی آیت ١٣ سے لیا گیا ہے۔ جس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ چمکنے اور کڑکنے والی آسمانی بجلی بھی اللہ کی تسبیح پڑھتی ہے۔ یہ سورۃ چھ رکوع اور ٤٣ آیات کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ اس میں اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان رات اور دن باغات اور نباتات کے حوالے سے اپنی وحدت کا ثبوت دیتے ہوئے انسان کو یہ بات باور کروائی ہے کہ اے انسان ! اللہ تعالیٰ تجھے اس وقت سے جانتا ہے جب تو اپنی ماں کے رحم میں تھا۔ وہ رحم میں پیدا ہونے والی تبدیلیوں سے بھی واقف ہے۔ اس کے سامنے غائب اور ظاہر دونوں برابر ہیں۔ وہ تیری جلوت اور خلوت کو نہ صرف جانتا ہے بلکہ اس نے ہر کسی پر نگران اور محافظ مقرر کر رکھے ہیں۔ سب کچھ جاننے اور ہر چیز پر قدرت رکھنے کے باوجودوہ لوگوں کی حالت اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک وہ اپنے آپ کو بدلنے کا عزم نہ کریں۔ اس نے انسان کو اپنی حالت بدلنے یا نہ بدلنے کے بارے میں اختیار دے رکھا ہے۔ انسان اس اختیار سے غلط فائدہ اٹھا کر اپنے رب کا نافرمان ہوجاتا ہے۔ حالانکہ انسان اس قدر کمزور ہے کہ وہ چمکنے اور کڑکنے والی بجلی کی تاب نہیں لا سکتا۔ بجلی کی جس آواز سے یہ کانپتا ہے حالانکہ وہ اپنی زبان میں اپنے رب کی حمد بیان کرتی ہے۔ توحید کے دلائل دینے کے بعد فرمایا کہ لوگوں تک حق پہنچ چکا ہے۔ خدا کے نافرمانوں کی حالت اس شخص کی مانند ہوچکی ہے۔ جو پانی پر کھڑا ہو کر ہاتھ پھیلا کر پانی کو آواز پر آواز دیتا ہے لیکن اس کے باوجود پانی اس کی زبان تک نہیں پہنچتا۔ یہی حالت خدا کے نافرمان اور مشرک کی ہوا کرتی ہے کہ اگر وہ خدا کی خدائی اور اس کی توحید کو سمجھنا چاہے تو ہر قسم کے دلائل اس کے سامنے موجود ہوتے ہیں۔ اگر نہ سمجھنا چاہے پانی کی طرح عقیدہ توحید کی عظیم نعمت خود اس تک نہیں پہنچ سکے گی۔ اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کی قدرت قریب ہونے کے باوجود پھر بھی مشرک دوسروں کو پکارتا ہے۔ حالانکہ وہ نفع و نقصان پر کوئی اختیار نہیں رکھتے۔ عقیدۂ توحید خالص سونے کی مانند ہے اور شرک جھاگ اور راکھ کے برابر ہے جس طرح جھاگ اور راکھ کا کوئی فائدہ نہیں اسی طرح شرک کرنے والے کو اس کا کوئی فائدہ نہیں پہنچے گا۔ جس طرح جھاگ اور راکھ کچھ مدت کے بعد اپنا وجود کھو بیٹھتی ہیں۔ اسی طرح مشرک اور کافر اپنے اچھے اعمال کا نتیجہ بھی کھوبیٹھیں گے۔ اس مثال کے بعد اس سورت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے اور لوگوں کے ساتھ عہد کی وفا کا حکم دیا ہے۔ پھر یہ بات ارشاد فرمائی کہ صاحب ایمان لوگ اللہ تعالیٰ کے عہد اور ذکر پر سکون پاتے ہیں۔ سورت کے آخر میں قرآن مجید کی عظمت کا ذکر کیا گیا ہے۔ الرعد
1 فہم القرآن ربط کلام : قرآن مجید کا تعارف۔ نبوت سے پہلے لوگوں کو نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نہ صرف مکمل اعتماد تھا کہ آپ ہمیشہ سچ بولتے ہیں بلکہ ان کا یہ بھی اعتقاد تھا کہ آپ سب سے بڑھ کر دیانتدار ہیں۔ اسی لیے وہ آپ کو صادق اور امین کہتے تھے۔ لیکن جونہی آپ پر قرآن مجید نازل ہوا، اس میں ان کے شرک کی نفی کی گئی تو وہ لوگ یکدم کہنے لگے کہ یہ شخص جھوٹ بولتا ہے۔ اس پر کوئی وحی نازل نہیں ہوتی۔ یہ اپنی طرف سے باتیں بنا کر اللہ کے ذمہ لگاتا ہے۔ جس سے ان کا منشا یہ تھا کہ قرآن کا انکار کرنے سے یہ شخص خود بخود ناکام ہوجائے گا۔ ان کی اس سازش کو ناکام کرنے اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سچا ثابت کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ بار بار قرآن مجید کا تعارف کرواتا ہے کہ یہ قرآن من جانب اللہ ہے۔ اس کی کسی بات میں شک کی کوئی گنجائش نہ ہے۔ جس کا اعتراف ہر دور کے منصف مزاج کافر بھی کیا کرتے ہیں جس کی ایک مثال پیش خدمت ہے۔ فرانس کا مشہور مستشرق ڈاکٹر مارڈریس جس کو حکومت فرانس کی وزارت معارف نے قرآن حکیم کی باسٹھ سورتوں کا ترجمہ فرانسیسی زبان میں کرنے پر مامور کیا تھا اس کا اعتراف : ” بے شک قرآن کا طرز بیان اللہ تعالیٰ کا طرز بیان ہے، بلا شبہ جن حقائق ومعارف پر یہ کلام حاوی ہے وہ کلام الٰہی ہی ہوسکتا ہے، اور واقعہ یہ ہے کہ اس میں شک وشبہ کرنے والے بھی جب اس کی عظیم تاثیر کو دیکھتے ہیں تو تسلیم واعتراف پر مجبور ہوجاتے ہیں، پچاس کروڑ مسلمان (اس تحریر کے وقت مسلمانوں کی تعداد اتنی ہی تھی 2008 میں یہ تعداد سوا ارب سے زائد ہے) جو سطح زمین کے ہر حصہ پر پھیلے ہوئے ہیں ان میں قرآن کی خاص تاثیر کو دیکھ کر مسیح مشن میں کام کرنے والے بالاجماع اس کا اعتراف کرتے ہیں کہ یہ اللہ تعالیٰ کی کتاب ہے۔“ ڈاکٹر گستادلی بان نے اپنی کتاب ” تمدن عرب“ میں قرآن کی حیرت انگیزی کا اعتراف، ان الفاظ کیا ہے : ” پیغمبر نبی امی اسلام کی ایک حیرت انگیز سر گزشت ہے، جس کی آواز نے ایک قوم ناہنجار کو جو اس وقت تک کسی ملک کے زیر حکومت نہ آئی تھی رام کیا اور اس درجہ پر پہنچا دیا کہ اس نے عالم کی بڑی بڑی سلطنتوں کو زیر و زبر کر ڈالا۔“ مسٹر وڈول جس نے قرآن مجید کا ترجمہ اپنی زبان میں کیا لکھتے ہیں : ” جتنا بھی ہم اس کتاب یعنی قرآن کو الٹ پلٹ کر دیکھیں اسی قدر پہلے مطالعہ میں اس کی مرغوبیت نئے نئے پہلوؤں سے اپنا رنگ جماتی ہے، فوراً ہمیں مسخر اور متحیر کردیتی ہے، اور آخر میں ہم سے تعظیم کرا کر چھوڑتی ہے، اس کا طرز بیان با عتبار اس کے مضامین کے، عفیف، عالی شان اور تہدید آمیز ہے اور جا بجا اس کے مضامین سخن کی غایت رفعت تک پہنچ جاتے ہیں، غرض یہ کتاب ہر زمانہ میں اپنا پر زور اثر دکھاتی رہے گی۔“ (شہادۃ الاقوام، ص ١٣) مسائل ١۔ قرآن مجید چھوٹی چھوٹی آیات اور حقائق پر مبنی کتاب ہے۔ ٢۔ قرآن مجید اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ کتاب ہے۔ ٣۔ قرآن مجید کے حق ہونے کے باوجود لوگوں کی اکثریت اس پر ایمان نہیں لاتی۔ تفسیر بالقرآن حق کیا ہے ؟ ١۔ جو کچھ آپ کے رب کی طرف سے آپ پر نازل کیا گیا وہ حق ہے۔ (الرعد : ١) ٢۔ تیرے رب کی طرف سے حق پہنچ گیا آپ شک کرنے والوں میں سے نہ ہوں جائیں۔ (البقرۃ: ١٤٧) ٣۔ اللہ نے قرآن مجید کو حق کے ساتھ نازل فرمایا ہے۔ (البقرۃ: ١٧٦) ٤۔ یہ اللہ کی آیات ہیں ہم ان کو آپ پر حق کے ساتھ تلاوت کرتے ہیں اور یقیناً آپ رسولوں میں سے ہیں۔ (البقرۃ: ٢٥٢) ٥۔ یقیناً جو اس کتاب میں قصے بیان کیے گئے ہیں وہ برحق ہیں۔ (آل عمران : ٦٢) ٦۔ حکم صرف اللہ کا ہے وہی حق بیان کرنے والا ہے۔ (الانعام : ٥٧) ٧۔ حق کو باطل کے ساتھ خلط ملط نہ کرو اور حق کو جانتے بوجھتے مت چھپاؤ۔ (البقرۃ: ٤٢) الرعد
2 فہم القرآن ربط کلام : جس ہستی نے قرآن نازل فرمایا اس کی صفات کا بیان۔ اللہ تعالیٰ کی تخلیق، تدبیر اور حکمتوں کو دیکھنے کے لیے ایک سرسری نظر کا ئنات کی تشکیل اور تدبیر پر ڈالیں۔ کائنات اور اس کا نظام : اب تک جو کائنات معلوم ہوئی ہے اسے اگر مکعب کلو میٹر میں ناپا جائے۔ ایک مکعب کلومیٹر ایک کلومیٹر لمبائی، ایک کلومیٹر چوڑائی اور ایک کلومیٹر اونچائی ہے تو پوری معلوم کائنات کا گھیراؤ نکالنے کے لیے ایک کے آگے 69 صفر لگانے پڑیں گے تب حساب پورا ہوگا۔ اس کے باوجود کائنات لامحدود ہے اس کا احاطہ نہیں کیا جا سکتا کیونکہ یہ مسلسل انتہائی تیز رفتاری سے مزید پھیل رہی ہے۔ ہماری زمین جس نظام شمسی میں شامل ہے اس کی وسعت کا یہ حال ہے کہ زمین سورج سے صرف 15 کروڑ کلومیٹر دور ہے جبکہ پلوٹو سیارے کا سورج سے فاصلہ 15 اَرب 91 کروڑ کلومیٹر ہے۔ ہماری زمین کا قطر 12754 کلومیٹر ہے۔ سورج کا قطر 14 لاکھ کلومیٹر ہے یعنی زمین سے 109 گنا بڑا ہے۔ قطر کی یہ وسعت تو کچھ بھی نہیں۔ ہماری کہکشاں کا قطر ایک لاکھ 17x کھرب کلو میٹر ہے۔ اس کہکشاں میں ایک کھرب ستارے پائے جاتے ہیں اور اب تک ایسی کھرب سے زائد کہکشائیں دریافت ہوچکی ہیں۔ سائنسدانوں کا خیال ہے کہ کائنات کے درمیان ایک کہکشاں ایسی ہے جس کے گرد تمام کہکشائیں چکر کاٹ رہی ہیں۔ ان کا ایک چکر 25 کروڑ سال میں پورا ہوتا ہے۔ سورج کا وزن دس کھرب 19889 کھرب ٹن ہے یعنی زمین سے تقریباً سوا تین لاکھ گنا زیادہ اور درجۂ حرارت تقریباً ڈیڑھ کروڑ ڈگری سینٹی گریڈ ہے۔ اس میں 40 لاکھ ٹن ہائیڈروجن گیس فی سکینڈ استعمال ہوتی ہے اور اس کی سطح کا درجہ حرارت 6000 ڈگری سینٹی گریڈ ہے۔ سورج کی حرارت ابھی مزید 5 اَرب سال کے لیے کافی ہے۔ ہماری کہکشاں کا وزن سورج سے 4 کھرب گنا زیادہ ہے اور اس کا فاصلہ کائنات کے مرکز سے اڑھائی لاکھ 10x کھرب کلومیٹر ہے۔ سب سے لمبی کہکشاں کی لمبائی تقریباً ایک ارب 10x کھرب کلو میٹر اور موٹائی دس کھرب 5x کروڑ 30 لاکھ کلومیٹر ہے۔ اس کی روشنی 20 کھرب سورجوں کی روشنی کے برابر اور اس کا قطر ہماری کہکشاں سے 80 گنا زیادہ ہے۔ روشنی ایک شمسی سال میں تقریباً 3 لاکھ کلومیٹر فی سیکنڈ کی رفتار سے 95 کھرب کلومیٹر فاصلہ طے کرتی ہے اسے نوری سال کہا جاتا ہے اور یہ کہکشاں ہماری زمین سے ایک ارب 7 کروڑ نوری سال دور ہے۔ اگر تمام ستارے ایک جیسے فاصلے سے دیکھے جا سکیں تو Carinaeta سب سے زیادہ روشن ہوگا۔ اس کی روشنی سورج سے 65 لاکھ گنا زیادہ ہے۔ 1989 ء میں فلکیات دانوں نے خلاء میں عظیم دیوار (Great Wall) کی دریافت کا اعلان کیا۔ یہ کہکشاؤں کا مجموعہ ہے۔ اس کی لمبائی دس کھرب x ساڑھے سات ارب کلومیٹر ہے۔ اس کی چوڑائی دس کھرب 2.6x ارب کلومیٹر ہے اور اس کی گہرائی دس کھرب 22x کروڑ کلومیٹر ہے۔ اندازہ ہے کہ ایک کہکشانی نظام ایسا ہے کہ اس کی جو شعاعیں اس کہکشاں سے چار ارب نوری سال پہلے روانہ ہوئی تھیں وہ آج پہنچی ہیں۔ یعنی اس کہکشاں کی روشنی نے زمین تک پہنچنے کے لیے چار ارب 95x کھرب کلومیٹر فاصلہ طے کیا ہے۔ ہماری قریب ترین کہکشاں Andromeda Galaxy M31 ہے۔ اس کا ہماری کہکشاں سے فاصلہ 22 لاکھ 99x کھرب کلومیٹر ہے۔ اس کا وزن 3 کھرب سورجوں کے برابر اور اس کا قطر 95x130000 کھرب کلومیٹر ہے۔ اس کا حجم ہماری کہکشاں سے دگنا ہے۔ اس میں تقریباً 4 کھرب ستارے ہیں۔ بعض کہکشاؤں کا قطر 2 ہزار سے 8 لاکھ نوری سال، وزن 10 لاکھ سے 100 کھرب سورجوں کے برابر اور روشنی دس لاکھ سے 1 کھرب سورجوں کی روشنی کے برابر ہے۔ کہکشائیں کیا سب سے بڑی چیزیں ہیں ؟ جی نہیں ! کہکشائیں مل کر Cluster بناتی ہیں۔ Cluster میں سینکڑوں سے لے کر ہزاروں کہکشائیں ہو سکتی ہیں۔ ہماری کہکشاں جس Cluster میں ہے یہ 30 کہکشاؤں کا مجموعہ ہے جبکہ Spiral Galaxy M100 تقریباً 2500 کہکشاؤں کا مجموعہ ہے۔ پھر Super Cluster درجنوں Clusters پر مشتمل ہوتا ہے۔ ابھی تک دکھائی دینے والی کائنات میں تقریباً 10 لاکھ Super Cluster ہیں۔ ایک Cluster کی کہکشاؤں کا آپس میں فاصلہ 10 لاکھ 95x کھرب کلومیٹر سے 20 لاکھ 95x کھرب کلومیٹر تک ہوتا ہے اور Clusters کے درمیان آپس کا فاصلہ اس سے سو گنا زیادہ ہے۔ Spherical Cluster میں 10 ہزار کہکشائیں ہیں۔ Quasars کائنات کے اب تک دریافت شدہ روشن ترین اجسام ہیں۔ زیادہ دور ہونے کی وجہ سے یہ بھی چھوٹے ستاروں کی طرح نظر آتے ہیں۔ ان کی روشنیاں جو آج ہم تک پہنچی ہیں یہ دراصل 10 ارب نوری سال پہلے وہاں سے چلی تھیں۔ ہمارے نظام شمسی جتنا Quasar دس کھرب سو رجوں سے زیادہ روشن جبکہ ہماری کہکشاں کی مجموعی روشنی سے سو گنا زیادہ روشن ہوتا ہے۔ 10 Quasar 3cg سے 16 اَرب نوری سال کے فاصلے پر ہے۔ اگر ہم 7 ہزار میل فی گھنٹہ کی رفتار سے سفر کریں تو کائنات عبور کرنے میں تین ہزار کھرب سال لگیں گے وہ بھی اگر کائنات محدود ہو تو جبکہ کائنات لامحدود ہے۔ زمین کی وسعت : زمین کا کرہ فضا میں سیدھا نہیں کھڑا بلکہ 23 درجے کا زاویہ بناتا ہوا ایک طرف جھکا ہوا ہے۔ یہ جھکاؤ ہمیں ہمارے موسم دیتا ہے۔ اس کے نتیجے میں زمین کا زیادہ سے زیادہ حصہ آبادکاری کے قابل ہوجاتا ہے اور مختلف نباتات اور پیداوار حاصل ہوتی ہے۔ زمین اپنے محور پر 1000 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے لٹو کی کی مانند گھوم رہی ہے۔ اگر زمین کی رفتار 100 میل فی گھنٹہ ہوتی تو ہمارے دن اور رات موجودہ دن اور رات سے دس گنا زیادہ لمبے ہوتے۔ زمین کی تمام ہریالی اور ہماری فصلیں سو گھنٹے کی مسلسل دھوپ میں جھلس جاتیں اور جو بچ رہتیں وہ لمبی سرد رات میں سردی کی نذر ہوجاتیں۔ اگر زمین کی اوپرکی پرت صرف دس فٹ اور موٹی ہوتی تو ہماری فضا میں آکسیجن کا وجود نہ ہوتا جس کے بغیر حیوانی اور انسانی زندگی ناممکن ہوتی۔ اسی طرح اگر سمندر چند فٹ اور گہرے ہوتے تو وہ کاربن ڈائی آکسائیڈ اور آکسیجن جذب کرلیتے اور زمین کی سطح پر کسی قسم کی نباتات زندہ نہ رہ سکتیں۔ اگر آکسیجن 21% کی بجائے 50% یا اس سے زیادہ مقدار میں فضا کا جزو ہوتی تو سطح زمین کی تمام چیزوں میں آتش پذیری کی صلاحیت اتنی بڑھ جاتی کہ ایک درخت کے آگ پکڑتے ہی سارا جنگل بھک سے اڑ جاتا۔ زمین کے گرد ہوا کا غلاف اس انداز سے رکھا گیا ہے کہ زمین پر اس کا دباؤ مناسب رہے تاکہ انسان سانس لینے میں دشواری محسوس نہ کرے۔ اور باہر سے آنے والے شہاب ثاقب رگڑ سے ہی جل جائیں۔ شہاب ثاقب ہر روز اوسطاً 2 کروڑ کی تعداد میں 6 سے 40 میل فی سیکنڈ کی رفتار سے کرۂ ہوائی (ہوا کے غلاف) میں داخل ہوتے ہیں۔ اگر یہ موجودہ غلاف کی نسبت لطیف ہوتا تو شہاب ثاقب زمین کے اوپر ہر آتش پذیر مادے کو جلا دیتے اور سطح زمین کو چھلنی کردیتے۔ اگر زمین کے اوپر سے ہوا کا یہ غلاف کھینچ لیا جائے تو تمام جاندار آکسیجن نہ ہونے کی وجہ سے ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مرجائیں۔ اگر زمین کا حجم کم یا زیادہ ہوتا تو اس پر زندگی محال ہوجاتی۔ مثلاً اگر زمین کا قطر موجودہ کی نسبت چوتھائی ہوتا تو کشش ثقل کی اس کمی کا نتیجہ یہ ہوتا کہ وہ پانی اور ہوا کو اپنے اوپر روک نہ سکتی۔ جیسا کہ جسامت کی اس کمی کی وجہ سے چاند میں واقع ہوا ہے۔ چاند پر اس وقت نہ تو پانی ہے اور نہ کوئی ہوائی کرہ ہے۔ ہوا کا غلاف نہ ہونے کی وجہ سے وہ رات کے وقت بے حد سرد ہوتا ہے اور دن کے وقت تنور کی مانند جلنے لگتا ہے۔ اس کے برعکس اگر زمین کا قطر موجودہ کی نسبت سے دگنا ہوتا تو اس کی کشش ثقل دگنی ہوجاتی۔ جس کے نتیجے میں ہوا جو اس وقت زمین کے اوپر 5 سو میل کی بلندی تک پائی جاتی ہے وہ کھنچ کر بہت نیچے تک سمٹ آتی۔ اس کے دباؤ میں فی مربع انچ 15 تا 30 پونڈ کا اضافہ ہوجاتا، جس کا رد عمل مختلف صورتوں میں زندگی کے لیے نہایت مہلک ثابت ہوتا۔ اور اگر زمین سورج جتنی بڑی ہوتی اور اس کی کثافت برقرار رہتی تو اس کی کشش ثقل ڈیڑھ سو گنا بڑھ جاتی۔ ہوا کے غلاف کی موٹائی گھٹ کر 5 سو میل کی بجائے صرف 4 میل رہ جاتی۔ نتیجہ یہ ہوتا کہ ہوا کا دباؤ ایک ٹن فی مربع انچ تک جا پہنچتا۔ اس غیر معمولی دباؤ کی وجہ سے زندہ اجسام کا نشوو نما ممکن نہ رہتا۔ ایک پونڈ وزنی جانور کا وزن ایک سو پچاس پونڈ ہوجاتا۔ انسان کا جسم گھٹ کر گلہری کے برابر ہوجاتا اور اس میں کسی قسم کی ذہنی زندگی ناممکن ہوجاتی کیونکہ انسانی ذہانت حاصل کرنے کے لیے بہت کثیر مقدار میں اعصابی ریشوں کی موجودگی ضروری ہے اور اس طرح پھیلے ہوئے ریشوں کا نظام ایک خاص درجہ کی جسامت میں ہی پایا جاسکتا ہے۔ سورج کی اہمیت : سب سے روشن کہکشاں کی مجموعی روشنی سورج سے 3 ہزار کھرب گنا زیادہ ہے۔ سورج جو ہماری زندگی کا سرچشمہ ہے، اس کی حرارت اتنی زیادہ ہے کہ بڑے بڑے پہاڑ بھی اس کے سامنے جل کر راکھ ہوجائیں مگر وہ ہماری زمین سے اتنے مناسب فاصلے پر ہے کہ یہ ” کائناتی انگیٹھی“ ہمیں ہماری ضرورت سے ذرا بھی زیادہ گرمی نہ دے سکے۔ اگر سورج دگنے فاصلے پر چلا جائے تو زمین پر اتنی سردی پیدا ہوجائے کہ ہم سب لوگ جم کر برف بن جائیں اور اگر وہ آدھے فاصلے پر آجائے تو زمین پر اتنی حرارت پیدا ہوگی کہ تمام جاندار اور پودے جل بھن کر خاک ہوجائیں گے۔ چاند کی حقیقت : چاند ہم سے تقریباً 384,400 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ اس کی بجائے اگر وہ صرف پچاس ہزار کلومیٹر دور ہوتا تو سمندروں میں مد و جزر کی لہریں اتنی بلند ہو تیں کہ تمام کرۂ ارض دن میں دو بار پانی میں ڈوب جاتا اور بڑے بڑے پہاڑ موجوں کے ٹکرانے سے رگڑ کر ختم ہوجاتے۔ چاند کی اس مناسب کشش کی وجہ سے سمندروں کا پانی متحرک رہتا ہے اسی وجہ سے پانی صاف ہوتا رہتا ہے۔ سورج اپنی غیر معمولی کشش سے ہماری زمین کو کھینچ رہا ہے اور زمین ایک مرکز گریز قوت کے ذریعے اس کی طرف کھنچ جانے سے اپنے آپ کو روکتی ہے۔ اس طرح وہ سورج سے دور رہ کر فضا کے اندر اپنا وجود باقی رکھے ہوئے ہے۔ اگر کسی دن زمین کی یہ قوت ختم ہوجائے تو وہ تقریباً 6000 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے سورج کی طرف کھنچنا شروع ہوجائے گی اور چند ہفتوں میں سورج کے اندر اس طرح جا گرے گی جیسے کسی بہت بڑے الاؤ کے اندر کوئی تنکا گرجاۓ۔ (بحوالہ : سائنس اور قرآن از ہارون یحیٰ) (عَنْ عَبْدِاللّٰہِ ابْنِ عَمْرٍو (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کَتَبَ اللّٰہُ مَقَادِےْرَ الْخَلَآءِقِ قَبْلَ اَنْ یَّخْلُقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ بِخَمْسِےْنَ اَلْفَ سَنَۃٍ قَالَ وَکَانَ عَرْشُہٗ عَلَی الْمَآءِ )[ رواہ مسلم : باب حِجَاجِ آدَمَ وَمُوسَی عَلَیْہِمَا السَّلاَمُ] ” حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) بیان کرتے ہیں رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان پیدا کرنے سے پچاس ہزار سال پہلے مخلوق کی تقدیریں لکھ دیں تھیں اور اس وقت اللہ کا عرش پانی پر تھا۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے آسمانوں کو بغیر ستونوں کے قائم کیا۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ عرش پر مستوی ہے۔ ٣۔ سورج اور چاند اللہ تعالیٰ کے حکم سے وقت مقرر کے مطابق چل رہے ہیں۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ اپنی نشانیاں تفصیل سے بیان فرماتا ہے۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ کی ملاقات کا یقین رکھنا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن آسمان کے بارے میں قرآنی معلومات : (یہاں ہم آسمان کے بارے میں چند آیات پیش کرتے ہیں ) ١۔ اللہ نے آسمانوں کو بغیر ستون کے قائم کیا۔ (الرعد : ٢) ٢۔ اللہ نے آسمان کو محفوظ چھت بنایا۔ (الانبیاء : ٣٢) ٣۔ آسمان اور زمین آپس میں ملے ہوئے تھے۔ (الانبیاء : ٣٠) ٤۔ اللہ نے زمین کو بچھونا اور آسمان کو چھت بنایا۔ (البقرۃ: ٢٢) ٥۔ پھر اللہ آسمان کی طرف متوجہ ہوئے اور وہ دھویں کی صورت میں تھا۔ ( حٰم السجدۃ: ١١) الرعد
3 فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ میخوں کی مانند پہاڑ : ارضیات میں ” بل پڑنے“ (Folding) کا مظہر حالیہ دریافت شدہ حقیقت ہے۔ قشر ارض (Crust) میں بل پڑنے کی وجہ سے پہاڑی سلسلے وجود میں آئے ہیں۔ قشر ارض جس پرہم رہتے ہیں، کسی ٹھوس چھلکے کی طرح ہے، جب کہ کرۂ ارض کی اندرونی پرتیں، (Layers) نہایت گرم اور مائع ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ زمین کا اندرون کسی بھی قسم کی زندگی کے لیے قطعًا غیر موزوں ہے۔ آج ہمیں یہ بھی معلوم ہوچکا ہے کہ پہاڑوں کی قیام پذیری (Stability) کا تعلق، قشر ارض میں بل پڑنے کے عمل سے بہت گہرا ہے۔ ماہرین ارضیات کا کہنا ہے کہ زمین کارداس (Radius) یعنی نصف قطر تقریباً ٠٣٥، ٦ کلومیٹر ہے اور قشر ارض، جس پر ہم رہتے ہیں، اس کے مقابلے میں بہت پتلی ہے، جس کی موٹائی ٢ کلومیٹر سے لے کر ٣٥ کلومیٹر تک ہے۔ چونکہ قشر ارض بہت پتلی ہے، لہٰذا اس کے تھرتھرانے یا ہلنے کا امکان بھی بہت قوی ہے، اس میں پہاڑ خیمے کی میخوں کا کام کرتے ہیں جو قشرِارض کو تھام لیتی ہیں اور اسے قیام پذیری عطا کرتے ہیں۔ قرآن پاک میں بھی عین یہی کہا گیا ہے : (اَلَمْ نَجْعَلِ الْاَرْضَ مِھٰدًا وََّالْجِبَالَ اَوْتَادًا۔)[ النباء : ٦۔ ٧] ” کیا یہ واقعہ نہیں ہے کہ ہم نے زمین کو فرش بنایا اور پہاڑوں کو میخوں کی طرح گاڑ دیا۔“ یہاں عربی لفظ ” اوتاد“ کا مطلب بھی میخیں ہی نکلتا ہے، ویسی ہی میخیں جیسی کہ خیمے کو باندھے رکھنے کے لیے لگائی جاتی ہیں۔ ارضیاتی تہوں (Folds) یا سلوٹوں کی گہری پوشیدہ بنیادیں بھی یہی ہیں۔ Earth نام کی ایک کتاب ہے جو دنیا بھر کی کئی جامعات میں ارضیات کی بنیادی حوالہ جاتی نصابی کتاب کا درجہ رکھتی ہے۔ اس کتاب کے مصنفین میں ایک نام ڈاکٹر فرینک پریس کا بھی ہے، جو ١٢ سال تک امریکہ کی اکیڈمی آف سائنسز کے سربراہ رہے ہیں۔ اس کتاب میں وہ پہاڑوں کی وضاحت، کلہاڑی کے پھل جیسی شکل (Wedge Shape) سے کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ پہاڑ بذات خود ایک وسیع تر وجود کا ایک چھوٹا حصہ ہوتا ہے۔ جس کی جڑیں زمین میں بہت گہرائی تک اتری ہوتی ہیں۔ (ملاحظہ ہو : Earth از : پریس اور سلور ڈاکٹر فرینک پریس کے مطابق، قشر ارض کی پائیداری اور قیام پذیری میں پہاڑ نہایت اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ پہاڑوں کے فائدے کی وضاحت کرتے ہوئے، قرآن پاک واضح طور پر یہ فرماتا ہے کہ انہیں اس لیے بنایا گیا ہے تاکہ یہ زمین کو لرز تے رہنے سے بچائیں : (وَجَعَلْنَا فِی الْاَرْضِ رَوَاسِیَ اَنْ تَمِیْدَبِھِمْ)[ الانبیاء : ٣١] ” اور ہم نے زمین میں پہاڑ جما دیے تاکہ وہ انہیں لے کر ڈھلک نہ جائے۔“ اسی طرح کے ارشادات سورۃ لقمان، آیت : ١٠ اور سورۃ النحل اور آیت ١٥ میں بھی وارد ہوئے ہیں۔ لہٰذا قرآن پاک کے فراہم کردہ بیانات جدید ارضیاتی معلومات سے مکمل طور پر ہم آہنگ ہیں۔ پہاڑوں کو مضبوطی سے جماد یا گیا ہے : سطح زمین متعدد ٹھوس ٹکڑوں، یعنی ” پلیٹوں“ میں بٹی ہوئی ہے جن کی اوسط موٹائی تقریباً ١٠٠ کلومیٹر ہے۔ یہ پلیٹیں، جزوی طور پر پگھلے ہوئے حصے کے اوپر گویا تیر رہی ہیں، اس حصے کو (Aesthenosphere) کہا جاتا ہے۔ پہاڑ عموماً پلیٹوں کی بیرونی حدود پر پائے جاتے ہیں۔ قشر ارض، سمندروں کے نیچے ٥ کلومیٹر موٹی ہوتی ہے، جب کہ خشکی پر اس کی اوسط موٹائی ٣٥ کلومیٹر تک ہوتی ہے البتہ پہاڑی سلسلوں میں قشر ارض کی موٹائی ٨٠ کلومیٹر تک جا پہنچتی ہے، یہی وہ مضبوط بنیادیں ہیں جن پر پہاڑ کھڑے ہیں۔ پہاڑوں میں برکات : اللہ تعالیٰ نے پہاڑوں کو صرف میخوں کے طور پر ہی نہیں بنایا بلکہ ان میں بے شمار فوائد رکھ دیے ہیں۔ پہاڑوں پر برف جمتی ہے جو اللہ کی طرف سے پانی ذخیرہ کرنے کا بہت بڑا ذریعہ ہیں۔ پہاڑوں میں چشمے جاری ہوتے ہیں۔ جو صاف شفاف پانی کا وسیلہ ہیں۔ تمام دریاؤں کا آغاز پہاڑوں سے ہوتا ہے۔ پہاڑوں میں بے شمار قسم کی معدنیات پائی جاتی ہیں جو زمین کی پیداوار سے ہزاروں گناقیمتی ہیں۔ پہاڑوں میں سونے کے ذخائر اور بے شمار قسم کے قیمتی پتھر بھی پائے جاتے ہیں۔ الرعد
4 فہم القرآن ربط کلام : پہاڑوں کے بعد نباتات کا بیان جو اللہ تعالیٰ کی قدرت کا مظہر ہونے کے ساتھ لوگوں کے لیے خوراک اور بے شمار فوائد کی حامل ہے۔ قرآن مجید نے پہلی دفعہ لوگوں کے سامنے یہ حقیقت پیش کی کہ جس طرح جاندار چیزوں کے جوڑے ہیں ویسے ہی پودوں، درختوں اور پوری نباتات کے جوڑے ہیں۔ یہاں تک کہ ان کے پھولوں کے بھی جوڑے پیدا کیے گئے ہیں۔ ایک ہی قسم کا پھل ہونے کے باوجود کوئی میٹھا ہے، کوئی کڑوا، کوئی ترش اور کوئی پھیکا ہے۔ ایک ناقص ہے اور ایک اعلیٰ قسم کا اور نہایت قیمتی اور مفید ہے۔ پرانے زمانے کے انسان کو یہ معلوم نہیں تھا کہ پودوں میں بھی جانوروں کی طرح نر اور مادہ ہوتے ہیں۔ البتہ جدید نباتیات کا علم یہ بتاتا ہے کہ ہر پودے کی نر اور مادہ صنف ہوتی ہے۔ حتی کہ وہ پودے جو یک صنفی (Uni Sexual) ہوتے ہیں ان میں بھی نر اور مادہ کے امتیازی اجزا یکجا ہوتے ہیں۔ کھجورکے بارے میں تفصیلات کے لیے دیکھیں (فہم القرآن جلد ٢ صفحہ۔ ٤٠٠) نباتات میں جوڑے : (وَّأَنْزَلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءً فَأَخْرَجْنَا بِہٖٓ أَزْوَاجًا مِّنْ نَبَاتٍ شَتَّی )[ طٰہٰ: ٥٣] ” اور اوپر سے پانی برسایا اور پھر اس کے ذریعہ سے مختلف اقسام کی پیداوار (جوڑا جوڑا) نکالی۔“ پھلوں میں جوڑے : (وَمِنْ کُلِّ الثَّمَرٰتِ جَعَلَ فِیْھَا زَوْجَیْنِ اثْنَیْنِ)[ الرعد : ٣] ” اسی نے ہر طرح کے پھلوں میں جوڑے پیدا کیے ہیں۔“ اعلیٰ درجہ کے پودوں (Superior Plants) میں نسل خیزی کی آخری پیداوار ان کے پھل (Fruits) ہوتے ہیں۔ پھل سے پہلے پھول کا مرحلہ ہوتا ہے جس میں نر اور مادہ اعضا (Organs) یعنی اسٹیمنز (Stamens) اور اوویولز (Ovules) ہوتے ہیں جب کوئی زردانہ (Pollen) کسی پھول تک پہنچتا ہے، تبھی وہ پھول ” بار آور“ ہو کر پھل میں بدلنے کے قابل ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ پھل پک جاتا ہے اور (اس پودے کی) اگلی نسل کو جنم دینے والے بیج سے لیس ہو کر تیار ہوجاتا ہے۔ لہٰذا تمام پھل اس امر کا پتا دیتے ہیں کہ (پودوں میں بھی) نر اور مادہ اعضا ہوتے ہیں۔ یہ ایک ایسی سچائی ہے جسے قرآن پاک بہت پہلے بیان فرما چکا ہے۔ پودوں کی بعض انواع غیر بار آور (Non Fertilized) پھولوں سے بھی پھل بن سکتے ہیں۔ (جنہیں مجموعی طور پر ” پارتھینو کارپک فروٹ“ کہا جاتا ہے) ان میں انناس، انجیر، نارنگی اور انگور وغیرہ کی بعض اقسام شامل ہیں۔ ان پودوں میں بھی بہت واضح صنفی خصوصیات (Sexual Characteristics) موجود ہوتی ہیں۔ ہر چیز کو جوڑوں میں بنایا گیا ہے : (وَمِنْ کُلِّ شَیْءٍ خَلَقْنَا زَوْجَیْنِ لَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُوْنَ)[ الذ ریت : ٤٩] ” اور ہر چیز کے ہم نے جوڑے بنائے ہیں شاید کہ تم اس سے سبق لو۔“ اس آیت مبارکہ میں ” ہر چیز“ کے جوڑوں کی شکل میں ہونے پر زور دیا گیا ہے۔ انسانوں، جانوروں، پودوں اور پھلوں کے علاوہ بہت ممکن ہے کہ یہ آیت مبارکہ بجلی کی طرف بھی اشارہ کر رہی ہو کہ جس میں ایٹم منفی بار والے الیکٹرونوں اور مثبت باروالے مرکزے پر مشتمل ہوتے ہی۔ ان کے علاوہ اور بھی بہت سے جوڑے ہو سکتے ہیں۔ (سُبْحَانَ الَّذِیْ خَلَقَ الْأَزْوَاجَ کُلَّہَا مِمَّا تُنْبِتُ الْأَرْضُ وَمِنْ أَنْفُسِہِمْ وَمِمَّا لَا یَعْلَمُوْنَ )[ یٰس : ٣٦] ” پاک ہے وہ ذات جس نے جملہ اقسام کے جوڑے پیدا کیے خواہ وہ زمین کی نباتات میں سے ہوں یا خود ان کی اپنی جنس (یعنی نوع انسانی) میں سے یا ان اشیا میں سے جن کو یہ جانتے تک نہیں۔“ یہاں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہر چیز جوڑوں کی شکل میں پیدا کی گئی ہے، جن میں وہ چیزیں بھی شامل ہیں جنہیں آج کا انسان نہیں جانتا اور ہوسکتا ہے کہ آنے والے کل میں انہیں دریافت کرلے۔ پودوں میں جنسی ملاپ : اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں پھلوں کے بارے غور فرمائیں ایک کھجور کو ہی دیکھیں کس طرح نر و مادہ درختوں کے ذریعہ سے اس کی بے شمار قسمیں وجود میں آرہی ہیں اور اسی طرح دیگر فصلوں کی نئی نئی اقسام پیدا کی جاتیں ہیں۔ مسائل ١۔ زمین میں مختلف ٹکڑے ہیں۔ ٢۔ زمین میں انگوروں اور کھجوروں کے بہت سے درخت ہیں۔ ٣۔ ایک ہی پانی سے سیراب ہونے والے درختوں کے پھل ذائقے کے لحاظ سے مختلف ہوتے ہیں۔ ٤۔ پھلوں میں ایک کو دوسرے پر برتری حاصل ہے۔ ٥۔ عقلمندوں کے لیے اللہ کی تخلیق میں نشان عبرت ہیں۔ الرعد
5 فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ اللہ تعالیٰ کی لا تعداد قدرتوں کو دیکھنے اور ان سے استفادہ کرنے کے باوجود یہ لوگ اس کی قدرت کا انکار کرتے ہیں کہ ہمارے مرنے کے بعد ہمیں کون اٹھائے گا۔ یہ کتنی بڑی حقیقت ہے جس پر یہ لوگ غور نہیں کرتے کہ اللہ تعالیٰ ایک چھوٹے سے بیج سے کس قدر تناور درخت پیدا کرتا ہے، پھر غور کریں کہ کتنے بیج ہیں جو کئی کئی سال تک زمین میں دفن رہتے ہیں لیکن اگنے کا نام نہیں لیتے۔ جب اللہ تعالیٰ کا حکم ہوتا ہے تو زمین سے نکل کر بڑے بڑے درختوں کی شکل اختیار کرلیتے ہیں۔ اسی طرح انسان کو متعین مدت کے بعد اٹھایا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے آفاق، جمادات اور نباتات کے حوالے سے اپنی صفات کا تذکرہ کرنے کے بعد فرمایا ہے کہ کفار اللہ تعالیٰ کی عظیم الشان قدرت اور صفات پر غور وفکر نہیں کرتے۔ اسی کا نتیجہ ہے یہ کہتے ہیں کہ ہم مرنے کے بعد مٹی ہوجائیں گے تو دوبارہ کس طرح اٹھائے جائیں گے۔ یہ بڑی نادانی اور حیرت انگیز بات ہونے کے ساتھ درحقیقت یہ اللہ تعالیٰ کی ذات کا انکار کرنا ہے جو لوگ اللہ کی ذات اور صفات کا انکار کرتے ہیں قیامت کے دن ان کی گردنوں میں جہنم کے طوق پہنائے جائیں گے اور انہیں ہمیشہ ہمیش جہنم میں رہنا ہوگا۔ دنیا میں بھی ایسے لوگوں کی زندگی بےیقینی کی کشمکش میں جکڑی رہتی ہے۔ توحید اور آخرت کا عقیدہ آپس میں اس طرح جڑے ہوئے اور لازم ملزوم ہیں کہ اگر کوئی شخص اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھنے کا دعوے دار ہے مگر آخرت کا انکار کرتا ہے تو اس کا صاف معنیٰ یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کو عادل، منصف اور جزاوسزا کا مالک تسلیم نہیں کرتا۔ حالانکہ آخرت کا برپا ہونا اور ہر انسان کا اللہ تعالیٰ کے حضور پیش ہو کر اپنے اعمال کا جواب دینا نہ صرف ہر آسمانی کتاب سے ثابت ہے بلکہ عام عقل کا تقاضا بھی یہی ہے کہ قیامت کا دن ضرور برپا ہونا چاہیے تاکہ نیک کو اس کی نیکی اور برے کو اس کی برائی کا بدلہ چکایا جائے۔ اگر آخرت کا برپا ہونا یقینی نہ ہو تو دنیا میں کتنے ظالم ہوئے اور ہوں گے جنہیں منصف سے منصف عدالت بھی پوری پوری سزا نہیں دے سکتی۔ مثال کے طور پر ایک آدمی دس آدمیوں کو قتل کرتا ہے تو اسے عدالت ایک قتل کے بدلے قتل کرسکتی ہے باقی مقتولوں کی سزا اسے کس طرح دی جائے گی؟ ایسے ظالم کو صرف قیامت کے دن ہی ٹھیک ٹھیک سزادی جاسکتی ہے کیونکہ وہاں موت کا تصور ختم ہوجائے گا۔ اسی طرح دنیا میں کتنے ہی ایماندار اور صالح کردار لوگ ہوئے اور ہوں گے جنہیں دنیا میں ان کے کردار اور خدمات کا اس طرح صلہ نہ مل پایا جس کا وہ استحقاق رکھتے تھے۔ ایسے لوگوں کو مرنے کے بعد دائمی زندگی سے نوازتے ہوئے نہ صرف ان کے صالح کردار کا اجردیا جائے گا بلکہ رب کریم اپنی طرف سے کئی گنا اجرعنایت فرمائے گا اور وہ ہمیشہ ہمیش جنت میں عیش وعشرت کی زندگی بسر کریں گے ان دلائل کا منطقی نتیجہ یہ ہے کہ جو شخص اللہ کی ذات اور صفات کو مانتا ہے اس کے لیے آخرت پر یقین رکھنا لازم ہے۔ (عَنْ عَاءِشَۃَ (رض) قَالَتْ قُلْتُ یَا رَسُوْلَ اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ابْنُ جُدْعَانَ کَانَ فِی الْجَاہِلِیَّۃِ یَصِلُ الرَّحِمَ وَیُطْعِمُ الْمِسْکِیْنَ فَہَلْ ذَاکَ نَافِعُہٗ قَالَ لاَ یَنْفَعُہٗ إِنَّہُ لَمْ یَقُلْ یَوْمًا رَبِّ اغْفِرْ لِیْ خَطِیْٓءَتِیْ یَوْمَ الدِّیْنِ) [ رواہ مسلم : باب الدَّلِیلِ عَلٰٓی أَنَّ مَنْ مَّاتَ عَلَی الْکُفْرِ لاَ یَنْفَعُہٗ عَمَلٌ ] ” حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں میں نے عرض کی اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ابن جدعان جاہلیت میں صلہ رحمی کیا کرتا، مسکینوں کو کھانا کھلاتا تھا کیا یہ اعمال اس کے لیے سود مند ہوں گے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا نہیں کیونکہ اس نے ایک دن بھی نہیں کہا تھا اے میرے رب ! میری خطائیں قیامت کے دن بخش دے۔“ مسائل ١۔ آخرت کا انکار کرنے والے کافر ہیں۔ ٢۔ کفار بعث بعد الموت کے قائل نہیں۔ ٣۔ کافروں کی گرد نوں میں طوق پہنائے جائیں گے۔ ٤۔ کافر جہنم میں ہمیشہ رہیں گے۔ تفسیر بالقرآن مرنے کے بعد جی اٹھنے کا ثبوت : ١۔ تعجب کے قابل ان کی یہ بات ہے کہ جب ہم مٹی ہوجائیں گے تو ہمیں دوبارہ اٹھایا جائے گا۔ (الرعد : ٥) ٢۔ مردوں کو اللہ تعالیٰ اٹھائے گا پھر اس کی طرف ہی لوٹائیں جائیں گے۔ (الانعام : ٣٦ ) ٣۔ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن تمام کو اٹھائے گا اور ہر کسی کو اس کے اعمال کے متعلق بتلائے گا۔ (المجادلۃ: ٦) الرعد
6 الرعد
7 فہم القرآن ربط کلام : آخرت کا منکر ہونے کی وجہ سے کفار جلد بازی کا مظاہرہ کرکے دنیا میں عذاب کا مطالبہ کیا کرتے ہیں۔ آخرت کا انکار کرنے والے شخص میں خدا خوفی کا تصور بالآخرختم ہوجاتا ہے۔ جس کی بنا پر اس سے ایسے گناہ اور جرائم سرزد ہوتے ہیں جس کا ایماندار شخص تصور بھی نہیں کرسکتا۔ آخرت کے انکار کی وجہ سے کفار جلد بازی کا مظاہرہ کرتے ہوئے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بار بار یہ مطالبہ کرتے تھے کہ اگر تو واقعی اللہ کا پیغمبر اور یہ قرآن من جانب اللہ ہے تو اس کا انکار کرنے کی وجہ سے ہم پر عذاب نازل کیوں نہیں ہوتا۔ قرآن مجید نے کفار کے اس مطالبے کا مختلف انداز میں جواب دیا ہے۔ یہاں اس کا جواب دیتے ہوئے ارشاد فرمایا : اے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! یہ لوگ کس قدر ناعاقبت اندیش ہیں۔ نیکی کی بجائے برائی اچھائی کی بجائے خرابی میں عجلت کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ کیا انہیں معلوم نہیں کہ ان سے پہلی اقوام جنہوں نے عذاب کا مطالبہ کیا ان کا انجام کیسا ہوا۔ آخرت کے منکر اپنے رب سے خیر اور اچھائی طلب کرنے کی بجائے بار بار آپ سے عذاب کا مطالبہ کرتے ہیں۔ ان سے فرمائیں کہ عذاب لانا میرے اختیار میں نہیں مجھے تو اللہ تعالیٰ نے انتباہ کرنے والا بنا کر بھیجا ہے۔ سو میں تمہیں مسلسل انتباہ کر رہا ہوں۔ اگر تم نے اپنی حالت نہ بدلی تو اللہ کا عذاب تمہیں آلے گا۔ انہیں یہ بھی فرمائیں کہ تم سے پہلے بھی اللہ تعالیٰ نے ہر قوم کے لیے ہادی مبعوث فرمائے تھے۔ جن کے ساتھ ایساہی رویہ اختیار کیا جاتا رہا ہے۔ رہی بات ان لوگوں کے فکرو عمل کی تو اس میں کوئی شک نہیں کہ ان کے جرائم اس قدر زیادہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان پر سخت عذاب نازل کرے۔ لیکن اللہ تعالیٰ لوگوں کو ان کے گناہوں پر فوری پکڑنے کی بجائے اپنے فضل وکرم سے بار بار درگزر کرتا اور مہلت دیتا ہے۔ اسی بنا پر انہیں ڈھیل پر ڈھیل دی جارہی ہے جس سے فائدہ اٹھانے کی بجائے یہ لوگ اس قدر دلیر ہوچکے ہیں کہ آپ سے عذاب کا مطالبہ کرتے ہیں۔ انہیں خبر ہونی چاہیے کہ آپ کا رب شدید گرفت کرنے والا ہے جب وہ کسی فردیا قوم کو پکڑتا ہے تو پھر ولی کی ولایت اور کسی طاقتور کی طاقت مجرموں کو اللہ تعالیٰ کی گرفت سے بچا نہیں سکتی اس لیے انہیں اپنے سے پہلی اقوام کا انجام سامنے رکھنا چاہیے۔ اے نبی تو انھیں اللہ کی پکڑ سے ڈرانے والے ہیں لہٰذا آپ انھیں ڈراتے جائیں ہر قوم کے لیے ایک ڈرانے والا ہوتا ہے۔ مسائل ١۔ کچھ لوگ اللہ تعالیٰ کی رحمت مانگنے کی بجائے عذاب مانگتے ہیں۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ سخت سزاد ینے والا ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ نے بہت سی قوموں کو ان کے جرائم کی وجہ سے ہلاک کردیا۔ ٤۔ ہر قوم کے لیے ایک ہادی ہوتا ہے۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ لوگوں کے ظلم کے باوجود درگزر کرنے والا ہے۔ ٦۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ڈرانے والا بناکر بھیجا گیا۔ تفسیر بالقرآن پہلی اقوام کا انجام : ١۔ یہ لوگ عذاب الٰہی میں جلدی کرتے ہیں حالانکہ اس سے پہلے عذاب آنے کے واقعات گزرچکے ہیں۔ (الرعد : ٦) ٢۔ تم سے پہلے لوگوں نے ظلم کیا تو ہم نے ان کو تباہ کردیا۔ (یونس : ١٣) ٣۔ اللہ نے بہت سی اقوام کو تباہ کیا۔ (الانعام : ٦) ٤۔ ثمود زور دار آواز کے ساتھ ہلاک کیے گئے۔ (الحاقہ : ٥) ٥۔ قوم لوط پر جب ہمارا عذاب آیا تو ہم نے ان پر ان کی بستی کو الٹا کر پتھروں کی بارش کی۔ (ھود : ٨٢) الرعد
8 فہم القرآن ربط کلام : سابقہ آیت میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دی گئی ہے کہ آپ ہادی ہیں لہٰذا لوگوں کو سمجھاتے جائیں۔ جہاں تک ان کے مال اور اعمال کا تعلق اللہ تعالیٰ ہر انسان کو اس کی پیدائش کے وقت سے جاتا اور اس کی نگرانی کر رہا ہے۔ اس عقیدہ کا تقاضا ہے کہ آدمی آخرت پر ایمان لائے اور ہر وقت اللہ تعالیٰ سے ڈرتا رہے۔ اللہ تعالیٰ انسان کو یہ باور کرواتا ہے کہ اے انسان! تجھے کسی وقت بھی یہ خیال نہیں کرنا چاہیے کہ میں تیری حرکات وسکنات سے بے خبر ہوں بلکہ میں تجھے اس وقت سے جان رہا ہوں جب تیرا تخم ماں کے رحم میں داخل ہوا تھا۔ پرانی طب اور جدید میڈیکل سائنس اس بات پر متفق ہیں کہ جب میاں بیوی کا آپس میں ملاپ ہوتا ہے تو مرد کے مادہ منویہ میں جو جرثومے ہوتے ہیں وہ عورت کے بیضا سے مل کر رحم میں داخل ہوجاتے ہیں پھر ان کا آپس میں ملاپ ہوتا ہے جس سے انسان کی تخلیق کی ابتدا ہوتی ہے۔ قرآن مجید اس کی اجمالی تفسیر بیان کرتا ہے پھر یہ قرآن کی زبان میں نطفہ امشاج (مخلوط نطفہ) ماں کے رحم میں ایک محفوظ مقام پر جا کر ٹھہر جاتا ہے، پھر اللہ تعالیٰ اس نطفہ کو لوتھڑے میں تبدیل کرتا ہے اس کے بعد اسے ایک گوشت کے ٹکڑے کی شکل دیتا ہے، پھر اس میں نہایت ہی باریک اور لطیف ہڈیاں تیار کرتا ہے اور پھر اس کے بعد ہڈیوں کو گوشت پہناتا ہے، پھر اللہ تعالیٰ اسے انسان کی شکل میں پیدا کرتا ہے اور اللہ تبارک وتعالیٰ بہترین پیدا کرنے والا ہے۔ (المومنون : ١٤) ” پھر انسان دنیا میں اپنی عمر گزارنے کے بعد فوت کیا جاتا ہے پھر سب کے مرنے کے بعد اللہ قیامت کے دن سب کو اٹھائے گا۔“ (المومنون : ١٣ تا ١٦) دوسرے مقام پر اسے یوں بیان کیا ہے کہ ” اللہ کی ذات سے زمین و آسمان میں کوئی چیز پوشیدہ نہیں، وہی ماؤں کے رحم میں تمہاری شکل وصورت بناتا ہے جس طرح وہ پسند کرتا ہے پس وہی معبود برحق ہے اور ہر چیز پر غالب حکمت والاہے۔“ (آل عمران : ٥ تا ٦) ” حضرت عبداللہ بن سالم اپنے باپ سے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا غیب کی پانچ چابیاں ہیں۔ اللہ تعالیٰ کو قیامت کا علم ہے اور وہی بارش نازل کرتا ہے اور وہی جانتا ہے کہ رحم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مادر میں کیا ہے ؟ کوئی نہیں جانتا کہ اس نے کل کیا کرنا ہے ؟ اور کسی کو علم نہیں کہ اسے کس سرزمین پر موت آئے گی۔ یقیناً اللہ جاننے والا، خبر رکھنے والا ہے۔“ [ رواہ البخاری : کتاب التفسیر، باب وَعِنْدَہُ مَفَاتِحُ الْغَیْبِ لاَ یَعْلَمُہَا إِلاَّ ہُوْ] مسائل ١۔ ہر مادہ کا حمل اللہ کے علم میں ہوتا ہے۔ ٢۔ رِحم میں جو کمی و بیشی ہوتی ہے اللہ تعالیٰ اس سے آگاہ ہے۔ ٣۔ ہر چیز کی مقدار اللہ تعالیٰ کے علم میں ہے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ پوشیدہ اور ظاہر کو جانتا ہے۔ ٥۔ رات کے اندھیروں اور دن کے اجالوں میں جو کچھ ہوتا ہے اللہ کے علم میں ہے۔ تفسیر بالقرآن غائب اور ظاہر کو جاننے والی اللہ تعالیٰ کی ذات ہے : ١۔ اللہ کے لیے غیب اور ظاہر برا برہیں وہ ہر چیز کو جانتا ہے وہ پوشیدہ اور ظاہر کو جاننے والا ہے، بلندو بالا اور عالی شان والا ہے۔ (الرعد : ٩) ٢۔ اچھی طرح ذہن نشین کر لوکہ اللہ پوشیدہ اور آہستہ کہی ہوئی بات کو جانتا ہے۔ (طہ : ٧) ٣۔ اللہ جانتا ہے جو تم چھپاتے اور ظاہر کرتے ہو۔ (النحل : ١٩) ٤۔ اللہ آسمان و زمین کے رازوں سے واقف ہے۔ (الفرقان : ٦) ٥۔ کیا وہ نہیں جانتے کہ اللہ ظاہر اور پوشیدہ کو جانتا ہے۔ (البقرۃ : ٧٧) الرعد
9 الرعد
10 الرعد
11 فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ نے براہ راست بندے کی نگرانی کرنے کے علاوہ ہر انسان پر محافظ بھی مقرر کر رکھے ہیں۔ اللہ تعالیٰ انسان کی ابتدا اور انتہا، اس کے ظاہر اور باطن سے پوری طرح باخبر ہے۔ اس نے ہر بات اپنے ہاں لوح محفوظ پر ثبت کر رکھی ہے۔ اس کے باو جود اس نے ہر انسان پر فرشتے تعینات کر رکھے ہیں جو اس کے تمام امور کی نگرانی کرتے ہیں۔ جن میں محافظ فرشتوں کے ساتھ کراماً کاتبین بھی ہیں۔ جو صبح وشام انسان کی تمام حرکات و سکنات کا اندراج کرتے ہیں اور ان کے ساتھ محافظ فرشتے ہیں۔ جو اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق ہر انسان کے آگے پیچھے رہتے ہیں اور ہر انسان کی حفاظت کرتے ہیں۔ لیکن جب اللہ کا حکم غالب آتا ہے تو فرشتے اللہ تعالیٰ کی تقدیر کے مقابلے میں پیچھے ہٹ جاتے ہیں۔ اس طرح انسان پر اللہ کا لکھا غالب آجاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کسی قوم کی حالت اس وقت تک نہیں بدلتا۔ جب تک وہ اپنی حالت خود نہیں بدلتی۔ جب اللہ تعالیٰ کسی قوم کو برے اعمال کے بدلے اس کے برے انجام میں مبتلا کرتا ہے تو پھر اس کے عذاب کو ٹالنے اور اس قوم کو بچانے والا کوئی نہیں ہوتا۔ اس فرمان کے مفسرین نے دو مفہوم اخد کیے ہیں۔ ١۔ اللہ تعالیٰ اپنی عطا کر وہ نعمت کو اس وقت تک زحمت میں تبدیل نہیں کرتاجب تک کوئی قوم اپنے کردار کی وجہ سے اسے تبدیل نہ کرے۔ ٢۔ ” جب تک کوئی قوم اپنی حالت سنوار نے کی کوشش نہ کرے اللہ تعالیٰ بھی اس کی بری عادت کو نیکی میں تبدیل نہیں کرتا۔ کیونکہ اس کا اصول ہے کہ جو لوگ اس کے راستے میں کوشش کرتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کے لیے ضرور راستے کھول دیتا ہے یقیناً اللہ تعالیٰ نیک کام کرنے والوں کا ساتھی ہے۔“ (الروم : ٦٩) اللہ تعالیٰ کا یہ بھی فرمان ہے کہ ” ہم نے انسان کو کفر و شرک کا راستہ بتلا یا ہے یہ انسان کی مرضی پر منحصر ہے کہ وہ کون سا راستہ اختیار کرتا ہے۔“ (الدھر : ٣) اس فرمان سے پہلے اللہ تعالیٰ نے اپنی توحید کے دلائل دیتے ہوئے یہ فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ انسان کو اس وقت سے جانتا ہے جب یہ ماں کے رحم میں تھا اور اس سے انسان کی کوئی خفیہ اور ظاہر بات پوشیدہ نہیں ہوتی۔ اللہ تعالیٰ انسان کی راتوں اور دنوں سے واقف ہے۔ جس کا واضح مفہوم یہ ہے کہ جب تک انسان عقیدہ توحید کے تقاضے پورے نہیں کرتا اس وقت تک اس کی اصلاح نہیں ہو سکتی۔ کرامًا کاتبین کی ڈیوٹی : (عَنْ اَبِیْ ھُرَےْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ےَتَعَاقَبُوْنَ فِےْکُمْ مَلَآءِکَۃٌ باللَّےْلِ وَمَلَآءِکَۃٌ بالنَّھَارِ وَےَجْتَمِعُوْنَ فِیْ صَلٰوۃِ الْفَجْرِ وَصَلٰوۃِ الْعَصْرِ ثُمَّ ےَعْرُجُ الَّذِےْنَ بَاتُوْا فِےْکُمْ فَےَسْأَلُھُمْ رَبُّھُمْ وَھُوَ اَعْلَمُ بِھِمْ کَےْفَ تَرَکْتُمْ عِبَادِیْ فَےَقُوْلُوْنَ تَرَکْنٰھُمْ وَھُمْ ےُصَلُّوْنَ وَاٰتَےْنٰھُمْ وَھُمْ ےُصَلُّوْنَ) [ رواہ البخاری : کتاب مواقیت الصلاۃ، باب فَضْلِ صَلاَۃِ الْعَصْر] ” حضرت ابو ہریرۃ (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تم میں رات اور دن کو آگے پیچھے فرشتے آتے ہیں۔ اور وہ فجر اور عصر کی نماز میں جمع ہوتے ہیں پھر رات والے فرشتے چلے جاتے ہیں تو ان سے پروردگار سوال کرتا ہے کہ تم نے میرے بندوں کو کس حال میں چھوڑ اوہ جواب دیتے ہیں کہ جب ہم ان کے پاس پہنچے تو وہ نماز ادا کررہے تھے اور جب ہم ان سے واپس آئے تو وہ نماز ہی کی حالت میں تھے۔ *** انسان پر ایک فرشتہ اور ایک شیطان مقرر ہے : (عَنِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَا مِنْکُمْ مِّنْ اَحَدٍ اِلَّا وَقَدْ وُکِّلَ بِہٖ قَرِےْنُہٗ مِنَ الْجِنِّ وَ قَرِےْنُہٗ مِنَ الْمَلآءِکَۃِ قَالُوْا وَاِیَّاکَ ےَا رَسُوْلَ اللّٰہِ قَالَ وَ اِیَّایَ وَلٰکِنَّ اللّٰہَ اَعَانَنِیْ عَلَےْہِ فَاَسْلَمَ فَلَا ےَاْمُرُنِیْ اِلَّا بِخَےْر)[ رواہ مسلم : کتاب صفۃ القیامۃ والجنۃ والنار، باب تحریش الشیطان وبعثہ سرایاہ لفتنۃ الناس] ” حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا تم میں سے ہر شخص کے ساتھ ایک جن اور ایک فرشتہ مقرر کیا گیا ہے۔ صحابہ (رض) نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ! آپ کے ساتھ بھی؟ فرمایا کیوں نہیں لیکن اللہ نے اس پر میری مدد فرمائی جس سے وہ میرے تابع ہوچکا ہے۔ وہ مجھے نیکی کے سوا کچھ نہیں کہہ سکتا۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کی حفاظت کے لیے فرشتے کو مقرر کیا ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ تب تلک کسی کے حالات نہیں بدلتا جب تک وہ خود تبدیل کرنے کا ارادہ نہ کرے۔ ٣۔ اللہ کے عذاب کو کوئی نہیں ٹال سکتا۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ کے مقابلہ میں کوئی کسی کا مددگار نہیں ہو سکتا۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ کا عذاب اور اس کا حکم کوئی نہیں ٹال سکتا : ١۔ جب اللہ کسی قوم پر مصیبت نازل کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو اس کے ہٹنے کی کوئی صورت نہیں اور نہ کوئی بچانے والاہے۔ (الرعد : ١١) ٢۔ اللہ کا عذاب بڑا سخت ہے اور انہیں اللہ تعالیٰ کے عذاب سے کوئی بچانے والا نہیں۔ (الرعد : ٣٤) ٣۔ اللہ نے ان کو ان کے گناہوں کی وجہ سے پکڑلیا اور انہیں کوئی بچانے والا نہیں تھا۔ ( المومن : ٢١) ٤۔ اللہ کے عذاب سے کوئی نہیں بچ سکتا مگر جس پر اللہ رحم فرمائے۔ (ہود : ٤٣) ٥۔ قوم لوط پر نہ ٹلنے والا عذاب آیا ہے۔ (ھود : ٧٦) ٦۔ اللہ کی گرفت بہت سخت ہوا کرتی ہے۔ (البروج : ١٢) الرعد
12 فہم القرآن ربط کلام : پہلی آیات میں یہ ارشاد ہے کہ اللہ تعالیٰ انسان کی ابتدا، انتہا سے باخبر ہے اور اسی نے انسان پرنگران مقرر کیے ہوئے ہیں۔ اب ارشاد ہوتا ہے، کہ وہی ذات ہے جو تمہیں آسمان سے گرجتی اور چمکتی ہوئی بجلی دکھاتا ہے۔ جس کے گرجنے چمکنے سے تم سہمے جاتے ہو، اس حال میں کہ اپنے دلوں میں بارش کی امید لیے ہوئے ہوتے ہو۔ وہی فضا اور ہوا میں بھاری بھر کم بادلوں کو اٹھائے اور چلائے رکھتا ہے جس بجلی کی کڑک سے تم ڈرتے ہو۔ درحقیقت وہ اپنی زبان میں اپنے رب کی حمد کرتی ہے اور فرشتے اپنے رب سے لرزاں اور ترساں رہتے ہیں۔ اللہ جہاں چاہتا ہے بجلی کو گرنے کا حکم صادر کرتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سب سے بڑھ کر تدبیر اور منصوبہ بندی کرنے والا ہے۔ لیکن مشرکوں اور منکروں کی حالت یہ ہے کہ وہ پھر بھی اللہ تعالیٰ کی ذات اور صفات کے بارے میں جھگڑا کرتے ہیں۔ کافر اللہ تعالیٰ کی ذات کا منکر ہوتا ہے اور مشرک اللہ تعالیٰ کو ماننے کے باوجود اس کی صفات میں دوسروں کو شریک کرتا ہے۔ جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے بارے میں جھگڑا کرنے کے مترادف قرار دیا ہے حالانکہ مشرک اور کافر جانتے ہیں کہ زمین و آسمان کو بنانے والا شمس و قمر کو تسخیر کرنے والا، پہاڑوں کو نصب کرنے والا اور ان کے درمیان دریا بہانے والا۔ پانی سے مختلف قسم کے پھل پیدا کرنے والا اور انسان کو اس کی ماں کے رحم سے لے کر موت تک پالنے اور اس کی نگرانی کرنے والا۔ موت کے بعد اٹھا کر محشر میں اپنے سامنے کھڑا کرنے والا صرف ایک اللہ ہے۔ ان تمام کاموں اور امور میں زمین و آسمان میں کوئی ہستی نہیں جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک وسہیم ہو۔ مشرک یہ حقیقت جاننے کے باوجود باطل معبودوں کے بارے میں بحث وتکرار کرتا ہے اور کافر اتنی بڑی حقیقت کا انکار کرنے میں شرم محسوس نہیں کرتا۔ (عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ (رض) قَالَ أَقْبَلَتْ یَہُودُ إِلَی النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَقَالُوْا یَآأَبَا الْقَاسِمِ أَخْبِرْنَا عَنِ الرَّعْدِ مَا ہُوَ قَالَ مَلَکٌ مِّنَ الْمَلاآءِکَۃِ مُوَکَّلٌ بالسَّحَابِ مَعَہٗ مَخَارِیْقُ مِّنْ نَارٍ یَّسُوقُ بِہَا السَّحَابَ حَیْثُ شَآء اللّٰہُ فَقَالُوْا فَمَا ہٰذَا الصَّوْتُ الَّذِیْ نَسْمَعُ قَالَ زَجْرُہٗ بالسَّحَابِ إِذَا زَجَرَہٗ حَتّٰی یَنْتَہِیَ إِلٰی حَیْثُ أُمِرَ قَا لُوْا صَدَقْتَ )[ رواہ الترمذی : کتاب التفسیر، باب ومن سورۃ الرعد وہو حدیث صحیح ] ” حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ یہودی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے۔ انہوں نے کہا اے ابو القاسم! ہمیں کڑک کے بارے میں خبر دیجئے کہ وہ کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا فرشتوں میں سے ایک فرشتہ بادلوں پر مقرر ہے۔ اس کے پاس آگ کے کوڑے ہوتے ہیں۔ وہ ان کے ساتھ بادلوں کو ہانکتا ہے جہاں اللہ تعالیٰ حکم دیتا ہے۔ انہوں نے کہا وہ آواز کیا ہے جو ہم سنتے ہیں۔ آپ نے فرمایا وہ فرشتہ بادلوں کو چلاتا ہے یہاں تک کہ وہ اس جگہ پہنچ جاتے ہیں جہاں ان کو حکم دیا جاتا ہے۔ یہودیوں نے کہا آپ نے سچ فرمایا۔“ مسائل ١۔ آسمانوں سے بجلیوں کی چمک دکھانے والا اور بھاری بادلوں کو بلند کرنے والا اللہ ہے۔ ٢۔ آسمانی بجلی بھی اللہ تعالیٰ کی تسبیح پڑھتی ہے۔ ٣۔ فرشتے اللہ تعالیٰ کی تسبیح بیان کرتے ہیں۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ جب اور جہاں چاہے بجلیاں گرا دیتا ہے۔ ٥۔ لوگ اللہ تعالیٰ کے بارے میں جھگڑا کرتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن ہر چیز اللہ تعالیٰ کی حمد بیان کر رہی ہے : ١۔ رعد اس کی حمد وتسبیح بیان کرتی ہے۔ (الرعد : ١٢) ٢۔ زمین و آسمان کی ہر چیز اللہ تعالیٰ کی تسبیح بیان کرتی ہے۔ (الحدید : ١) ٣۔ ساتوں آسمان اور زمین اور جو کچھ ان میں ہے اللہ تعالیٰ کی حمد بیان کرتے ہیں۔ (نبی اسرائیل : ٤٤) ٤۔ فرشتے اللہ تعالیٰ کی تسبیح اور حمد بیان کرتے ہیں اور مومنوں کے لیے مغفرت طلب کرتے ہیں۔ (الشوریٰ : ٥) ٥۔ مومن اللہ کی حمد اور تسبیح بیان کرتے ہیں اور تکبر نہیں کرتے۔ (السجدۃ: ١٥) الرعد
13 الرعد
14 فہم القرآن ربط کلام : کافر اور مشرک کو توحید کے ٹھوس دلائل دینے کے بعد اسے دعوت دی گئی ہے کہ وہ صرف ایک اللہ کو پکارے۔ لہٰذا ذات حق اور اس کی بات پر ایمان لاؤ۔ مشرک کا غیر اللہ کو پکارنا اس قدر بے فائدہ اور بے حیثیت ہے جس طرح کوئی شخص نہریا کنویں کے کنارے کھڑا ہو کر پانی کی طرف ہاتھ پھیلا کر آواز پر آواز دے کہ اے پانی میری پیاس بجھادے لیکن وہ پانی کو حاصل کرنے کی کوشش نہیں کرتا ایسا شخص پانی کے کنارے کھڑا ہو کر تڑپ تڑپ کر مرسکتا ہے مگر پانی اس کے منہ تک نہیں پہنچ سکتا۔ یہی صورت حال مشرک کی ہوتی ہے اس کی اپنے معبودوں کے سامنے آہ وپکار گمراہی کے سوا کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔ مشرک بظاہر اللہ تعالیٰ کو مانتا ہے لیکن حقیقت میں اللہ تعالیٰ کا منکر ہوتا ہے اس لیے یہاں لفظ کافر استعمال کیا گیا ہے۔ پہلے پارہ میں دین اسلام کو بارش کے ساتھ تشبیہ دی گئی جس میں اندھیرے بجلی اور گرج چمک بھی ہوا کرتی ہے۔ اس حالت میں لوگ موت کے ڈر کی وجہ سے اپنے کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیتے ہیں اسلام کے بارے میں منافق کا یہی رویہ ہوتا ہے۔ (البقرۃ : ١٩) یہاں عقیدۂ توحید کی مثال پانی کے ساتھ دی گئی ہے جس میں کئی حکمتیں پوشیدہ ہیں جس طرح پانی کے بغیر انسان کی زندگی محال ہے اسی طرح عقیدۂ توحید کے بغیر انسان روحانی طور پر مردہ ہوتا ہے۔ پانی کے بغیر کوئی چیز نشوونما نہیں پاسکتی عقیدۂ توحید کے بغیر انسان کا کوئی عمل شرف قبولیت نہیں پاسکتا۔ جس طرح پانی کے کنارے کھڑا ہوا انسان کوشش کے بغیر پانی نہیں پی سکتا اسی طرح عقیدہ توحید سمجھنے کے لیے توجہ اور کوشش کی ضرورت ہوتی ہے۔ جس طرح پانی پینے سے پیاسے کی روح تازہ ہوجاتی ہے اسی طرح توحید کے دلائل سے مومن کی روح میں نشاط پیدا ہوتی ہے۔ اس مثال سے یہ بھی ثابت کیا گیا ہے کہ جو لوگ اللہ تعالیٰ کے سوا دوسروں کو پکارتے ہیں ان کی پکار سوائے پکار کے کچھ نہیں۔ کیونکہ نہ فوت شدگان سنتے ہیں، نہ پتھر اور لکڑی کے بت سن سکتے ہیں۔ قرآن میں دوسری جگہ ایک اور مثال کے ذریعے یوں بیان کیا گیا ہے : اے لوگو تمہاری سامنے ایک مثال بیان کی جاتی ہے اسے پوری توجہ کے ساتھ سنو جن لوگوں کو تم اللہ کے سوا پکارتے ہو وہ سب کے سب اکٹھے ہو کر بھی ایک مکھی پیدا نہیں کرسکتے مکھی پیدا کرنا تو درکنار اگر مکھی ان سے کوئی چیز اٹھالے جائے تو وہ اس سے واپس نہیں لے سکتے۔ لہٰذا مدد کے طالب اور جن سے مدد طلب کی جاتی ہے یہ سب کے سب کمزور ہیں درحقیقت ایسے لوگوں نے اللہ کی قدر نہیں پہچانی جس طرح پہچاننی چاہیے تھی یقیناً اللہ تعالیٰ بڑا طاقت ور اور ہر چیز پر غالب ہے۔ (الحج : ٧٣ تا ٧٤) (عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَال اللّٰہُ تَعَالٰی اَنَا اَغْنَی الشُّرَکَاءِ عَنِ الشِّرْکِ، مَنْ عَمِلَ عَمَلًااَشْرَکَ فِیْہِ مَعِیَ غَیْرِیْ، تَرَکْتُہٗ وَشِرْکَہٗ وَفِیْ رِوَایَۃٍ فَاَنَا مِنْہُ بَرِیْءٌ ھُوَ لِلَّذِیْ عَمِلَہٗ)[ رواہ مسلم، باب من اشرک فی عملہ غیراللّٰہ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول گرامی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا‘ اللہ تبارک وتعالیٰ کا فرمان ہے میں شریکوں کے شرک سے پاک ہوں۔ جو شخص بھی کوئی شرکیہ عمل کرتا ہے، میرے ساتھ کسی کو شریک ٹھہراتا ہے تو میں اس کو اور اس کے شرک کو مسترد کردیتا ہوں۔ دوسری روایت میں ہے کہ میں اس سے بری ہوں اور اس نے جو عمل جس کے لیے کیا وہ اسی کے لیے ہے۔“ مسائل ١۔ پکارنے کے لائق صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔ ٢۔ پانی پانی کہنے سے پانی منہ میں نہیں آسکتا۔ ٣۔ فوت شدگان اور بت کسی کی پکار کا جواب نہیں دے سکتے۔ ٤۔ کافروں کا پکارنا بے کار ہی جاتا ہے۔ تفسیر بالقرآن مشرک کی عبادت اور پکار کی کوئی حیثیت نہیں : ١۔ کافروں کی پکار بے اثر ہے۔ (الرعد : ١٤) ٢۔ کافروں کی پکاربے کا رہی جائے گی۔ (المومن : ٥٠) ٣۔ معبودان باطل اپنے چاہنے والوں کی عبادت کا انکار کردیں گے۔ (مریم : ٨٢) ٤۔ اگر تم انھیں پکارو تو وہ تمھاری پکار کو نہیں سنتے اگر سن لیں تو جواب نہیں دے سکتے۔ (فاطر : ١٤) الرعد
15 فہم القرآن ربط کلام : اس سے پہلے مشرک کے شرک کی بے حیثیتی بیان کی گئی اور اب کافر کے کفر کو بے حیثیت قرار دیا جا رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی ذات یا اس کی کسی صفت کا انکار کرنے والا شخص اس قدر نافرمان اور باغی طبیعت کا ہوتا ہے۔ کہ وہ زمین و آسمان کی ہر چیز کے مخالف سمت میں چلنے کی کوشش کرتا ہے۔ اسی بات کو یہاں سمجھایا گیا ہے کہ اللہ وہ ذات کبریا ہے۔ جس کے سامنے زمین و آسمان کی ہر چیز طوعاً، کرھاً سجدہ ریز ہوتی ہے یہاں تک کہ ان کے سائے بھی صبح وشام اللہ تعالیٰ کے حضور سجدہ کرتے ہیں۔ سجدہ سے مراد حقیقی سجدہ بھی ہوسکتا ہے جو ہر چیز اللہ تعالیٰ کے حکم اور اس کے مقرر کردہ اصول کے مطابق اپنے اپنے مقام پر سجدہ کر رہی ہے جسے انسان کے لیے دیکھنا اور سمجھنا مشکل ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ زمین و آسماں کی ہر چیز اس کی حمد وثنا کرتی ہے مگر انسان ان کی حمد کو نہیں سمجھ سکتے۔ (بنی اسرائیل : ٤٤) یہاں سجدہ سے مراد اکثر مفسرین نے جھکنا اور تابعداری لی ہے۔ قرآن مجید کے الفاظ سے دونوں مفہوم لیے جاسکتے ہیں۔ جہاں تک ہر چیز کے سایہ کا سجدہ کرنا ہے۔ ظاہر ہے کہ ہر چیز کا سایہ صبح کے وقت مغرب کی جانب اور مغرب کے وقت مشرق کی جانب اوپر سے نیچے کی طرف آتا اور زمین پر پھیلتا ہے۔ جو درحقیقت اپنے رب کے حضور سجدہ کرنا ہے۔ ہر چیز کے سجدہ کے بارے میں طوعًا، کرھًا کے الفاظ استعمال کیے ہیں۔” طوعًا“ کا معنی ہے خوشی اور رغبت کے ساتھ جھکنا اور سجدہ کرنا۔ کافر کے سوا کائنات کی ہر چیز دل کی اتھاہ گہرائیوں اور اپنی فطرت کے مطابق اپنے خالق و مالک کو سجدہ کرنے کے ساتھ اس کی اطاعت میں لگی ہوئی ہے۔ صرف انسان ہی اس قدر باغی اور سرکش ہوجاتا ہے جو اپنے رب کی فرمانبرداری اور اس کے سامنے سجدہ کرنے سے گریز کرتا ہے۔ اگر کوئی شخص کلمہ پڑھ کر بھی اللہ تعالیٰ کا حکم نہیں مانتا اور اس کے حضور پانچ وقت نماز ادا نہیں کرتا تو اس کے بارے میں اہل علم متفق ہیں کہ ایسے شخص کا رویہ کفر کرنے کے متراوف سمجھا جائے گا۔ لیکن کافر کفر کرنے کے باوجود پوری زندگی بے شمار کاموں میں اللہ تعالیٰ کے حکم کے سامنے جھکنے پر مجبور رہتا ہے۔ جس میں مرنا، جینا، سونا، جاگنا، بیماری اور مشکل میں مبتلا ہونا۔ یہاں تک کہ صحت، زندگی اور رزق کے معاملے میں اللہ تعالیٰ کے حکم کے سامنے بے بس ہے۔ اس طرح مجبوراً کافر بھی اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرنے پر مجبور ہے جس کے لیے اللہ تعالیٰ نے ” کرھًا“ کا لفظ استعمال فرمایا ہے۔ (عَنْ اَبِیْ ذَرٍّ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حِیْنَ غَرَبَتِ الشَّمْسُ اَتَدْرِیْ اَیْنَ تَذْھَبُ ھٰذِہٖ قُلْتُ اَللّٰہُ وَرَسُوْلُہٗٓ اَعْلَمُ قَالَ فَاِنَّھَا تَذْھََبُ حَتّٰی تَسْجُدَتَحْتَ الْعَرْشِ فَتَسْتَاْذِنُ فَیُؤْذَنُ لَھَا وَیُوْشِکُ اَنْ تَسْجُدَوَلَاتُقْبَلُ مِنْھَا وَتَسْتَأْذِنُ فَلَا یُوؤذَنُ لَھَا وَیُقَالُ لَھَآ اِرْجِعِیْ مِنْ حَیْثُ جِءْتِ فَتَطْلُعُ مِنْ مَّغْرِبِھَا فَذَالِکَ قَوْلُہٗ وَالشَّمْسُ تَجْرِیْ لِمُسْتَقَرٍّلَّھَا قَالَ مُسْتَقَرُّھَا تَحْتَ الْعَرْشِ) [ رواہ البخاری : کتاب بدأ الخلق باب صِفَۃِ الشَّمْسِ وَالْقَمَرِ ] ” حضرت ابوذر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کیا تجھے معلوم ہے جب سورج غروب ہوتا ہے تو کہاں جاتا ہے؟ میں نے کہا‘ اللہ اور اس کے رسول کو علم ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا سورج عرش کے نیچے جاکر سجدہ کرتا ہے اور اجازت طلب کرتا ہے۔ اسے اجازت مل جاتی ہے قریب ہے کہ وہ سجدہ کرے گا اور اس کا سجدہ قبول نہ ہو وہ طلوع ہونے کی اجازت طلب کرے گا اس کو اجازت نہ ملے بلکہ اسے حکم ہو جدھر سے آیا اسی طرف سے طلوع ہوجا۔ چنانچہ سورج مغرب کی طرف سے طلوع ہوگا۔ یہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے سورج اپنے مستقر کی طرف چلا جاتا ہے آپ نے فرمایا اس کا ٹھکانا عرش کے نیچے ہے۔“ انسان کو ” اللہ“ کی عبادت کا حکم : ” اے لوگو! اپنے رب کی عبادت کرو جس نے تمہیں اور تم سے پہلے لوگوں کو پیدا کیا تاکہ تم پرہیزگار بن جاؤ۔“ (البقرۃ: ٢١) ” نماز قائم رکھو اور زکوٰۃ ادا کرو اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو۔“ (٤٣) ” اپنے پروردگار کی عبادت کرتے رہیں یہاں تک کہ آپ کو موت آجائے۔“ (الحجر : ٩٩) مسائل ١۔ زمین و آسمان کی ہر چیز اللہ تعالیٰ کو سجدہ کرتی ہے۔ ٢۔ ہر چیز کا سایہ بھی اللہ تعالیٰ کو سجدہ کرتا ہے۔ تفسیر بالقرآن ہر چیز تسبیح کرنے کے ساتھ اللہ تعالیٰ کو سجدہ کرتی ہے : ١۔ زمین و آسمان کی ہر چیز اللہ کو سجدہ کرتی ہے۔ (الر عد : ١٥) ٢۔ اللہ کو زمین و آسمان کی ہر چیز سجدہ کرتی ہے۔ (الخل : ٤٩) ٣۔ کیا وہ نہیں دیکھتے کہ اللہ کو زمین و آسمان کی ہر چیز سجدہ کرتی ہے۔ (الحج : ١٨) ٤۔ ہر چیز اللہ کی تسبیح بیان کرتی ہے لیکن انسان اس کی تسبیح کو نہیں سمجھتے۔ (بنی اسرائیل : ٤٤) ٥۔ زمین و آسمان کی ہر چیز اللہ تعالیٰ کی تسبیح بیان کرتی ہے وہ غالب، حکمت والا ہے۔ (الحشر : ١) الرعد
16 فہم القرآن ربط کلام : ہر چیز اللہ کی ملکیت ہے اور اس کے سامنے سجدہ ریز اور اس کی فرمانبرداری میں لگی ہوئی ہے مگر کافر اور مشرک اللہ تعالیٰ کی خالص فرمانبرداری سے گریز کرتے ہیں۔ اس لیے ان سے چند سوال کیے گئے ہیں۔ کافر اور مشرک اس لحاظ سے برابر ہیں کہ کافر مجبور ہو کر اللہ تعالیٰ کا اقرار کرتا ہے اور مشرک انتہائی مشکل کے وقت خالصتاً اللہ تعالیٰ کو پکارتا ہے گویا کہ مشرک اور کافر اپنے اپنے انداز میں اللہ تعالیٰ کی ذات کا مجبوراً اقرار کرتے ہیں۔ اسی لیے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ارشاد ہوا کہ آپ ان لوگوں سے استفسار فرمائیں کہ زمین و آسمان کا رب کون ہے؟ اگر یہ خاموشی اختیار کریں تو آپ انہیں فرمائیں کہ صرف ایک اللہ ہی زمین و آسمان کو پیدا کرنے والا ہے۔ مشرکین سے پھر پوچھیے کہ تم نے اللہ تعالیٰ کے سوا دوسروں کو اپنا خیر خواہ اور کارساز سمجھ لیا ہے جو اپنے بارے میں نفع اور نقصان کے مالک نہیں ہیں۔ کیا اندھا اور دیکھنے والا اندھیرے اور روشنی برابر ہو سکتے ہیں ؟ کیا جن کو اللہ کا شریک بنایا جاتا ہے انہوں نے کوئی ایسی چیز پیدا کی ہے جو اللہ تعالیٰ کی پیدا کردہ چیز کے مشابہ ہو ؟ اگر یہ لوگ ان باتوں کا جواب نہیں دیتے تو آپ ضرور جواب دیں کہ اللہ ہی ہر چیز کا پیدا کرنے والا اور اکیلا ہی قہار اور زبردست ہے۔ اس فرمان میں مشرکین سے براہ راست تین سوال کیے گئے ہیں کہ زمین و آسمان کا رب کون ہے؟ کیونکہ ہر دور کے مشرک کا یہ عقیدہ رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہی زمین و آسمان کو پیدا کیا ہے۔ لہٰذا ان کی خاموشی کو ہاں سمجھتے ہوئے اگلا سوال کیا گیا ہے۔ قرآن مجید میں اس سوال کا جواب مشرکین کی طرف سے یوں دیا گیا ہے۔ ١۔ اگر آپ ان سے پوچھیں کہ زمین و آسمان کو کس نے پیدا کیا سورج اور چاند کو کس نے مسخر فرمایا؟ ان کا جواب ہوگا کہ زمین و آسمان اللہ ہی نے پیدا کیے ہیں اور چاند، سورج کو بھی اسی نے مسخر کیا ہے۔ اس اقرار کے باوجود یہ لوگ کیوں بہک چکے ہیں۔ ٢۔ ان سے سوال کیا گیا کہ کون آسمان سے بارش نازل فرما کر مردہ زمین کو زندہ کرتا ہے۔ اس کا جواب بھی ان کی طرف سے یہی تھا اور ہے کہ صرف اللہ ہی سب کچھ کرتا ہے اے نبی! فرمائیں کہ سب کچھ اللہ ہی کرتا ہے تو پھر یہ تم کیوں نہیں سمجھتے۔ (العنکبوت : ٦١ تا ٦٣) ٣۔ ان سے یہ سوال کیا گیا کہ زمین اور جو کچھ اس میں ہے اس کا حقیقی مالک کون ہے؟ اگر تم جانتے ہو تو اس کا جواب دو۔ ان سے پوچھیے کہ پھر نصیحت حاصل کیوں نہیں کرتے؟ ٤۔ ان سے پھر سوال کیجئے کہ ساتوں آسمان اور عرش عظیم کا رب کون ہے؟ ان کا جواب ہے کہ اللہ ہی ان کا رب ہے۔ فرمائیے کہ پھر کیوں شرک سے باز نہیں آتے۔ ٥۔ سوال ہوا کہ ہر چیز کس کے قبضہ قدرت میں ہے۔ کون ہر چیزکی حفاظت کرتا ہے؟ اللہ کے سوا اور کوئی ہے۔ مشرکین اس کا یہی جواب دیا کرتے ہیں کہ اللہ ہی کے ہاتھ میں ہر چیز کا کنٹرول ہے۔ فرمائیں کہ پھر کیا تمہیں جادو ہوگیا ہے کہ حقیقت کو نہیں سمجھ سکتے۔ (المومنون ٨٥ تا ٨٩) مشرکین کے جواب کے بعد اب ان سے ان شریکوں کے بارے میں دوسوال کیے جاتے ہیں۔ کیا جن کو تم اللہ تعالیٰ کے سوا اپنا خیر خواہ اور نفع ونقصان کا مالک سمجھتے ہو وہ اپنے نفع ونقصان کا اختیار رکھتے ہیں؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ کیا اندھا اور دیکھنے والا‘ اندھیرے اور روشنی برابر ہو سکتے ہیں؟ ظاہر ہے یہ دونوں برابر نہیں ہو سکتے جب توحید کی حقیقت اور شرک کا بے حیثیت ہونا ظاہر ہوچکا ہے تو پھر یہ لوگ اللہ تعالیٰ کو اس کی ذات اور صفات کے حوالے سے ” وحدہ لاشریک“ کیوں نہیں سمجھتے؟ کیا دنیا میں کوئی ایسی مخلوق ہے۔ جو ان کے معبود ان باطل نے پیدا کی ہو یا یہ چیز اللہ تعالیٰ کی پیدا کردہ، کسی چیز کے مشابہ ہو۔ جس و جہ سے انہیں شرک اور توحید میں اختلاط نظر آتا ہے اور جسے سمجھنا ان کے لیے مشکل ہوچکا ہے۔ جس بنا پر یہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ دوسروں کو شریک بناتے ہیں۔ ظاہر ہے ایسا ہرگز نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کے سوا، بے شک اولیا، جنات یا ملائکہ ہوں کوئی بھی چھوٹی سے چھوٹی چیز بھی پیدا نہیں کرسکتا۔ لہٰذا اللہ ہی ہر چیز کا واحد خالق ہے اور وہ زبردست قدرت رکھنے والا ہے۔ یہاں یہ بات واضح کردی گئی ہے کہ توحید کا عقیدہ رکھنے والا شخص بینا ہے اور شرک کرنے والا اندھا ہے۔ کیونکہ اسے زبردست قدرت رکھنے والے اللہ کی قدرتیں دکھائی نہیں دیتیں۔ شرک ہر قسم کے اندھیرے ہیں اور توحید اللہ کا نور اور روشنی ہے۔ جو شخص اس روشنی کی تلاش کی جستجو کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اسے شرک وبدعت کے اندھیروں سے نکال کر توحید کی جلوہ گاہ میں پہنچنے کی توفیق دیتا ہے۔ (آل عمران : ٢٥٧) مسائل ١۔ مکہ کے مشرک زمین و آسمان کا خالق اور مالک اللہ تعالیٰ ہی کو مانتے تھے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ اکیلا ہے اور ہر کسی پر غالب ہے۔ ٣۔ مشرک اللہ تعالیٰ کوسب کچھ مان کر بھی دوسروں کو نفع ونقصان کا مالک سمجھتے ہیں۔ ٤۔ اندھا اور بینا، تاریکی اور روشنی برابر نہیں ہو سکتے، اسی طرح خالق اور مخلوق برابر نہیں ہیں۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی نے کوئی چیز پیدا نہیں کی ہے۔ ٦۔ ہر چیز کا خالق صرف اللہ تعالیٰ ہے۔ تفسیر بالقرآن نفع اور نقصان کا صرف اللہ ہی مالک ہے : ١۔ کیا تم اللہ کے سوا دوسروں کو خیر خواہ سمجھتیہو۔ جو اپنے بھی نفع ونقصان کے مالک نہیں ہیں۔ (الرعد : ١٦) ٢۔ میں انپے نفع ونقصان کا بھی مالک نہیں مگر جو اللہ چاہے؟ (یونس : ٤٩) ٣۔ کیا تم اللہ کے سوا ان کی عبادت کرتے ہو جو نفع ونقصان کے مالک نہیں ہیں؟ (المائدۃ: ٧٦) ٤۔ اگر اللہ تمہیں نفع ونقصان میں مبتلا کرنا چاہے کون ہے جو اس سے بچالے گا۔ (الفتح : ١١) ٥۔ معبودان باطل اپنی جانوں کے نفع ونقصان کے مالک نہیں۔ (الفرقان : ٣) ٦۔ فرما دیجیے میں اپنے نفس کے بھی نفع و نقصان کا مالک نہیں مگر جو اللہ چاہے۔ (الاعراف : ١٨٨) ٧۔ (اے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ فرما دیں کہ مجھے تمھارے کسی نفع و نقصان کا اختیار نہیں۔ (الجن : ٢١) الرعد
17 فہم القرآن ربط کلام : توحید اور شرک کے فرق کو سمجھنے کے لیے مزید دو مثالیں۔ دین اور اس کے مرکزی نقطہ یعنی توحید کی مثال آسمان سے بارش کی مانند ہے۔ جب موسلا دھار بارش برستی ہے تو ہر وادی اور ندی نالے اپنی اپنی وسعت وکشادگی کے مطابق اس سے سیر ہوتے ہیں۔ یہاں تک کہ ندی نالوں میں چلنے والا سیل رواں اپنے اوپر جھاگ اٹھائے ڈھلوان کی طرف رواں دواں ہوتا ہے۔ دیکھنے میں پانی کے بجائے جھاگ ہی جھاگ نظر آتی ہے لیکن کچھ وقت کے بعد جھاگ اپنا وجود کھو بیٹھتی ہے۔ بعض اوقات حق وباطل کی کشمکش توحید اور کفر و شرک کی آویزش میں ابتداءً یہی منظر آتا ہے جیسے باطل حق پر غالب آجائے گا۔ لیکن جب حق والے اپنے وسائل بروئے کار لاتے ہوئے پوری استقامت کے ساتھ جدوجہد کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ پانی کی جھاگ کی طرح کفر کو مٹا دیتا ہے۔ کیونکہ اس کا اعلان ہے کہ حق آچکا اور باطل بھاگ کھڑا ہوا باطل کا کام بھاگنے کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ (بنی اسرائیل۔ ٨١) اس ارشاد میں دوسری مثال توحید اور کفر و شرک کی کشمکش کو ایک کٹھالی کے ساتھ تشبیہ دیتے ہوئے فرمایا ہے کہ جس طرح کٹھالی میں سونا یا کوئی دھات رکھ کر اسے آگ دی جائے تو سونے سے اس کی ملاوٹ و کثافت الگ ہوجاتی ہے۔ خالص سونا پوری چمک دمک کے ساتھ باقی رہ جاتا ہے۔ اسی طرح حق وباطل کے معرکہ میں حق پر قائم رہنے اور اس کی خاطر قربانیاں دینے والے اللہ تعالیٰ کی نظر میں کندن بن جاتے ہیں اور ان کا کردار آنے والی نسلوں کے لیے تقویت کا باعث اور مشعل راہ ثابت ہوتا ہے۔ جس طرح سونے کی میل کچیل اور پانی کی جھاگ بے فائدہ اور فضول چیز ثابت ہوتی ہے۔ اسی طرح کفر و شرک کے لیے کوشش کرنے والوں کی محنت اور وسائل ضائع ہوجائیں گے۔ سونا زیب وزنیت کا باعث اور منافع بخش چیز ہے۔ پانی زمین میں جذب ہونے کی وجہ سے گل وگلزار اور اناج پیدا کرتا ہے۔ جس پر لوگوں کی زندگی کا انحصار پانی پر ہے۔ یہی مثال دین حق کی ہے کہ جس کے نفاذ سے ہر کسی کو فائدہ پہنچتا ہے۔ اس مثال سے یہ بھی ثابت ہوا کہ اصل چیز کو ہی بقا اور دوام حاصل ہوتا ہے۔ لہٰذا حق کو دوام اور باطل کے لیے فنا ہے۔ حق بات دنیا و آخرت میں مفید ہے اور باطل فضول اور ہمیشہ کے لیے نقصان دہ ہے۔ اللہ تعالیٰ یہ مثالیں اس لیے بیان فرماتا ہے تاکہ لوگ ان سے سبق حاصل کریں۔ مسائل ١۔ حق کے مقابلہ میں باطل کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ لوگوں کے لیے مثالیں بیان کرتا ہے تاکہ لوگ حقیقت کو سمجھ جائیں۔ تفسیر بالقرآن حق و باطل میں فرق : ١۔ اللہ تعالیٰ حق و باطل کی مثالیں بیان کرتا ہے۔ (الرعد : ١٧) ٢۔ حق آگیا اور باطل بھاگ گیا، باطل کا کام ہی بھاگ جانا ہے۔ (بنی اسرائیل : ٨١) ٣۔ اللہ تعالیٰ باطل کو مٹاتا اور حق کو واضح کرتا ہے۔ (الشوریٰ : ٢٤) ٤۔ اللہ تعالیٰ حق کو حق اور باطل کو باطل کردیتا ہے اگرچہ مجرم ناپسند جانیں۔ (الانفال : ٨) ٥۔ حق کو باطل سے نہ ملائیں۔ (البقرۃ: ٤٢) ٦۔ اے اہل کتاب حق کو باطل کے ساتھ کیوں ملاتے ہو؟ (آل عمران : ٧١) الرعد
18 فہم القرآن ربط کلام : حق واضح کرنے، دلائل اور مثال کے ذریعے سمجھانے کا مقصد یہ ہے کہ لوگ حق بات کو قبول کریں۔ جن لوگوں نے اپنے رب کی رضا کی خاطر اس کے حکم کو مانتے ہوئے سچائی کو قبول کیا اور اس پر عمل پیرا ہوگئے ان کے لیے دنیا اور آخرت میں بہتری ہے۔ جنہوں نے اپنے رب کے حکم کو تسلیم نہ کیا ان کے لیے دنیا میں نقصان اور آخرت میں سخت عذاب ہوگا۔ جس سے چھٹکارا پانے کے لیے زمین اور اس کی ہر چیز بلکہ اتنا کچھ اور بھی فدیہ کے طور پر دیں تو انہیں چھٹکارا حاصل نہ ہوگا۔ ان کا حساب و کتاب برا ہوگا اور انہیں جہنم میں جھونکا جائے گاجور ہنے کے اعتبار سے بدترین جگہ ہے۔ قرآن مجید کئی مقامات پر یہ حقیقت آشکار کرتا ہے کہ دنیا کے مال واسباب دنیا میں ہی رہ جائیں گے مرنے کے بعد انسان نے خالی ہاتھ اپنے رب کے حضور پیش ہونا ہے۔ وہاں نیکی وبدی کے سوا انسان کے پاس اور کچھ نہ ہوگا۔ اس حقیقت کے باوجود قرآن مجید نے یہاں اور آل عمران : ٩١ میں لوگوں کو سمجھانے کے لیے فرمایا کہ مجرم فدیہ میں زمین سے بھرا ہوا سونا بھی دے تو اس کا چھٹکارا نہیں ہو پائے گا۔ مقصد یہ ہے کہ کفر و شرک اس قدر سنگین جرم ہے کہ اس کا مرتکب شخص کسی صورت بھی عذاب سے نجات نہیں پاسکے گا۔ (عَنْ عَدِیِّ بْنِ حَاتِمٍ (رض) یَقُولُ کُنْتُ عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَجَاءَ ہُ رَجُلاَنِ أَحَدُہُمَا یَشْکُو الْعَیْلَۃَ وَالآخَرُ یَشْکُو قَطْعَ السَّبِیلِ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) أَمَّا قَطْعُ السَّبِیلِ فَإِنَّہُ لاَ یَأْتِی عَلَیْکَ إِلاَّ قَلِیلٌ حَتَّی تَخْرُجَ الْعِیرُ إِلٰی مَکَّۃَ بِغَیْرِخَفِیرٍ وَأَمَّا الْعَیْلَۃُ فَإِنَّ السَّاعَۃَ لاَ تَقُومُ حَتَّی یَطُوفَ أَحَدُکُمْ بِصَدَقَتِہِ لاَ یَجِدُ مَنْ یَقْبَلُہَا مِنْہُ، ثُمَّ لَیَقِفَنَّ أَحَدُکُمْ بَیْنَ یَدَیِ اللَّہِ لَیْسَ بَیْنَہُ وَبَیْنَہُ حِجَابٌ وَلاَ تُرْجُمَانٌ یُتَرْجِمُ لَہُ، ثُمَّ لَیَقُولَنَّ لَہُ أَلَمْ أُوتِکَ مَالاً فَلَیَقُولَنَّ بَلَی ثُمَّ لَیَقُولَنَّ أَلَمْ أُرْسِلْ إِلَیْکَ رَسُولاً فَلَیَقُولَنَّ بَلَی فَیَنْظُرُ عَنْ یَمِینِہِ فَلاَ یَرَی إِلاَّ النَّارَ، ثُمَّ یَنْظُرُ عَنْ شِمَالِہِ فَلاَ یَرَی إِلاَّ النَّارَ، فَلْیَتَّقِیَنَّ أَحَدُکُمُ النَّا رَ وَلَوْ بِشِقِّ تَمْرَۃٍ، فَإِنْ لَمْ یَجِدْ فَبِکَلِمَۃٍ طَیِّبَۃٍ) [ رواہ البخاری : باب صدقۃ قبل الرد] ” حضرت عدی بن حاتم (رض) بیان کرتے ہیں میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس موجود تھا کہ آپ کی خدمت میں دو آدمی آئے ایک نے فقر و فاقہ کی شکایت کی اور دوسرے نے راستوں کے غیر محفوظ ہونے کی شکایت کی اس پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جہاں تک راستوں کے غیر محفوظ ہونے کا تعلق ہے تو بہت جلد ایسا زمانہ آئے گا جب ایک قافلہ مکہ سے کسی محافظ کے بغیر نکلے گا اور اسے کوئی خطرہ نہیں ہوگا۔ رہافقر و فاقہ تو قیامت اس وقت تک نہیں آئے گی جب تک ایک شخص اپنا صدقہ لے کر نکلے گا لیکن اسے کوئی لینے والا نہ ہوگا، پھر اللہ کے سامنے ایک آدمی اس طرح کھڑا ہوگا اس کے اور اللہ کے درمیان کوئی پردہ نہ ہوگا اور نہ کوئی ترجمان، پھر اللہ تعالیٰ اس سے پوچھے گا میں نے تجھے دنیا میں مال نہیں دیا تھا وہ کہے گا کیوں نہیں۔ اللہ فرمائے گا کیا میں نے تیرے پاس پیغمبر نہیں بھیجا تھا وہ کہے گا کیوں نہیں، پھر وہ اپنے دائیں اور بائیں جانب دیکھے گا تو اسے آگ کے سوا کچھ نظر نہیں آئے گا سو جہنم سے بچ جاؤ خواہ ایک کھجور کے ٹکڑے سے ہی بچا جائے اگر یہ بھی میسر نہ ہو تو منہ سے اچھی بات کہو۔“ (لَا یَسْمَعُوْنَ حَسِیْسَہَا وَہُمْ فِی مَا اشْتَہَتْ أَنْفُسُہُمْ خَالِدُوْن)[ الانبیاء : ١٠٢] ” وہ جہنم کی آہٹ تک نہ سنیں گے اور جنت میں وہ اپنی پسند کی نعمتوں میں رہیں گے۔“ مسائل ١۔ اللہ کے فرما نبرداروں کے لیے اچھا بدلہ ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ کے نافرمانوں کا ٹھکانہ جہنم ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ کے نافرمان سب کچھ دے کر بھی عذاب سے نہیں بچ سکتے۔ تفسیر بالقرآن مجرم سے کسی قسم کا فدیہ اور سفارش قبول نہیں کی جائے گی۔ ١۔ مجرم دنیا بھر کی چیزیں اور ان کی مثل بطور فدیہ دے کر بھیعذاب سے نہیں بچ سکتے۔ (الرعد : ١٨) ٢۔ کسی سے قیامت کے دن کوئی فدیہ قبول نہ کیا جائے گا۔ (البقرۃ : ٤٨) ٣۔ کسی کی دوستی کسی کے کام نہ آئے گی۔ (البقرۃ : ٢٥٤) ٤۔ کفار سے عذاب کے بدلے زمین بھرکا سونا بھی قبول نہ ہوگا۔ (آل عمران : ٩١) الرعد
19 فہم القرآن ربط کلام : تابعدار بندوں کا بہترین انجام بیان اور کافرو مشرک کے بدترین انجام کا ذکر کرنے کے بعد ایمان دار کا مرتبہ اور اس کا کردار بیان کیا جاتا ہے۔ اس سے پہلے آیت : ١٦ میں مشرک کو اندھا اور موحد کو بینا قرار دیا تھا۔ اب حق کی پیروی کرنے والے موحد کا مقام اور شان بیان کرتے ہوئے اجمالاً فرمایا ہے کہ ایسا شخص جو حق کو پہچانتا ہے وہ اندھے شخص جیسا ہوسکتا ہے ؟ اس مختصر اشارے میں عقل مندوں کے لیے بے انتہا عبرت اور نصیحت کا سامان ہے اس فرمان کی تفصیل سورۃ السجدۃ میں یوں بیان فرمائی۔ کیا مواحد، فرمانبردار اور نافرمان شخص برابر ہو سکتے ہیں؟ (أَفَمَنْ کَانَ مُؤْمِنًا کَمَنْ کَانَ فَاسِقًا لَا یَسْتَوُوْنَ أَمَّا الَّذِیْنَ آَمَنُوْا وَعَمِلُوْا الصَّالِحَاتِ فَلَہُمْ جَنَّاتُ الْمَأْوٰی نُزُلًامبِمَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ وَأَمَّا الَّذِیْنَ فَسَقُوْا فَمَأْوٰہُمُ النَّارُ کُلَّمَا أَرَادُوْٓا أَنْ یَّخْرُجُوْا مِنْہَا أُعِیْدُوْا فِیْہَا وَقِیْلَ لَہُمْ ذُوْقُوْا عَذَاب النَّارِ الَّذِیْ کُنْتُمْ بِہٖ تُکَذِّبُوْنَ) [ السجدۃ: ١٨۔ ٢٠] ” مومن اور فاسق ہرگز برابر نہیں ہو سکتے۔ صاحب کردار مومن کے لئے جنت ہے اور اس میں ان کی اعلی مہمان نوازی ہوگی۔ اللہ کے نافرمانوں کے لیے جہنم ہے وہ جب بھی اس سے نکلنے کی کوشش کریں گے انہیں یہ کہتے ہوئے اسی میں پھینک دیا جائے گا کہ آگ کے عذاب میں ہمیشہ مبتلا رہو کیونکہ تم اللہ تعالیٰ کی آیات کو جھٹلانے والے تھے۔“ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لاَ یَدْخُلُ الْجَنَّۃَ إِلاَّمُؤْمِنٌ) [ رواہ البخاری : کتاب القدر] ” حضرت ابو ہر یرہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا کہ جنت میں صرف مومن ہی داخل ہوں گے۔“ (عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ الْمُوجِبَتَانِ مَنْ لَقِیَ اللَّہَ عَزَّ وَجَلَّ لاَ یُشْرِکُ بِہٖ شَیْئاً دَخَلَ الْجَنَّۃَ وَمَنْ لَقِیَ اللَّہَ عَزَّ وَجَلَّ وَہُوَ مُشْرِکٌ دَخَلَ النَّارَ)[ رواہ أحمد ] ” حضرت جابر بن عبداللہ (رض) نبی سے بیان کرتے ہیں آپ نے فرمایا دوچیزیں واجب کرنے والی ہیں جو شخص اللہ تعالیٰ کو اس حال میں ملا کہ اس نے اس کے ساتھ شرک نہ کیا ہو وہ جنت میں داخل ہوگا اور جس نے شرک کیا ہوگا وہ جہنم میں داخل ہوگا۔“ (قَالَ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَا ابْنَ الْخَطَّابِ اذْہَبْ فَنَادِ فِی النَّاسِ إِنَّہُ لاَ یَدْخُلُ الْجَنَّۃَ إِلاَّ الْمُؤْمِنُونَ قَالَ فَخَرَجْتُ فَنَادَیْتُ أَلاَ إِنَّہُ لاَ یَدْخُلُ الْجَنَّۃَ إِلاَّ الْمُؤْمِنُونَ )[ رواہ مسلم : باب غِلَظِ تَحْرِیمِ الْغُلُولِ وَأَنَّہُ لاَ یَدْخُلُ الْجَنَّۃَ إِلاَّ الْمُؤْمِنُونَ] ” رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اے ابن خطاب جاؤ لوگوں میں اعلان کر دو کہ بے شک مومنوں کے سوا کوئی جنت میں نہیں جائے گا حضرت عمر (رض) کہتے ہیں میں نکلا اور میں نے اس بات کا اعلان کیا کہ جنت میں صرف مومن ہی جائیں گے۔“ مسائل ١۔ کتاب اللہ کو ماننے والا اور انکار کرنے والا برابر نہیں ہو سکتے۔ ٢۔ عقلمند ہی نصیحت حاصل کرتے ہیں۔ ٣۔ تابع دار اور نافرمان برابر نہیں ہو سکتے۔ تفسیر بالقرآن مومن، کافر اور مشرک کے درمیان فرق : ١۔ کتاب اللہ پر ایمان لانے والا اور نہ لانے والا برابر نہیں ہو سکتے۔ (الرعد : ١٩) ٢۔ مومن اور فاسق برابر نہیں ہو سکتے۔ (السجدۃ: ١٨) ٣۔ اللہ مجرموں اور مومنوں کو برابر نہیں کرے گا۔ ( المومن : ٥٨) ٤۔ ایمان دار اور عمل صالح کرنے والا اور بدکار برابر نہیں ہو سکتے۔ (المومن : ٥٨) ٥۔ جنتی اور جہنمی برابر نہیں ہو سکتے۔ (الحشر : ٢٠) الرعد
20 فہم القرآن ربط کلام : سابقہ آیات میں عقیدہ توحید کے دلائل دیے گئے ہیں۔ توحید کا عقیدہ اللہ تعالیٰ سے انسان ایک عہد ہے۔ صاحب بصیرت اور حقیقی سمجھ رکھنے والے لوگ اس عہد کی پاسداری کرتے ہیں۔ صاحب بصیرت اور عقل سلیم رکھنے والوں کی پہلی صفت یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کیے ہوئے مضبوط عہد کا ایفا کرتے ہیں اور اسے کسی صورت بھی ٹوٹنے نہیں دیتے۔ اس عہد سے مراد پہلا عہد وہ ہے جس کا تذکرہ ان الفاظ میں کیا گیا ہے اے انسان جب تیرے رب نے بنی نوع انسان کی پشت سے نسل درنسل اس کی اولاد کو پیدا کیا اور ان کو انہی کے اوپر گواہ بناتے ہوئے استفسار فرمایا کہ ” کیا میں تمہارا رب نہیں؟“ آدم (علیہ السلام) کی ساری کی ساری اولاد نے اپنے رب کے حضور یہ اعتراف کیا۔ ” کیوں نہیں آپ ہی ہمارے رب ہیں۔ ہم اس کی گواہی دیتے ہیں۔ گواہی لینے کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اس عہد کو یاد رکھنا اور اس پر پکے رہنا کہیں ایسا نہ ہو کہ قیامت کے دن کہو کہ ہمیں تو اس عہد کی کوئی خبر نہیں۔“ (سورۃ الاعراف : ١٧٢) اسی عہد کا یہاں اختصار کے ساتھ ذکر کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ جو لوگ اس عہد یعنی توحید کی گواہی پر پکے رہے اور اس میں کوئی نقص نہیں آنے دیتے، یہ لوگ صاحب بصیرت اور صحیح عقل کے مالک ہیں۔ یہی وہ عہد ہے جس کا اقرار کرتے ہوئے آدمی حلقہ اسلام میں داخل ہوتا ہے اور اس کے تقاضے پورے کرنے سے مسلمان کی زندگی کے تمام زاویے صحیح سمت پر قائم رہتے ہیں۔ جس کو موت کے وقت اس کا اقرار نصیب ہوا وہ جنت میں داخل ہوگا۔ اس عہد کے ساتھ لوگوں سے کیے ہوئے عہد کی پابندی بھی فرض ہے۔ جو مسلمان اپنے مسلمان بھائی یا کسی غیر مسلم کے ساتھ انفرادی یا اجتماعی سطح پر کرتے ہیں۔ (عَنْ أَنَسٍ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ یَخْرُجُ مِنَ النَّارِ مَنْ قَال لاآ إِلَہَ إِلاَّ اللّٰہُ، وَفِیْ قَلْبِہٖ وَزْنُ شَعِیْرَۃٍ مِّنْ خَیْرٍ، وَیَخْرُجُ مِنَ النَّارِ مَنْ قَال لاآ إِلَہَ إِلاَّ اللَّہُ، وَفِی قَلْبِہٖ وَزْنُ بُرَّۃٍ مِّنْ خَیْرٍ، وَیَخْرُجُ مِنَ النَّارِ مَنْ قَال لاآ إِلَہَ إِلاَّ اللّٰہُ، وَفِیْ قَلْبِہٖ وَزْنُ ذَرَّۃٍ مِّنْ خَیْرٍ )[ رواہ البخاری، کتاب الایمان، باب زِیَادَۃِ الإِیمَانِ وَنُقْصَانِہِ] ” حضرت انس (رض) نبی کریم سے بیان کرتے ہیں۔ آپ نے فرمایا وہ جہنم سے نجات پا گیا جس نے لا الہ الا اللہ کہا اور اس کے دل میں جو کی مقدار کے برابر بھی بھلائی ہوگی۔ جس شخص نے لا الہ الا اللہ کہا اور اس کے دل میں چاول کے کے برابر بھلائی ہوگی وہ بھی جہنم سے نکل گیا۔ جس شخص نے لا الہ الا اللہ کہا، اس کے دل میں رائی کے ذرے کے برابر بھی بھلائی ہوگی تو وہ بھی جہنم سے چھٹکارا پا گیا۔“ (عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ (رض) قَالَ مَا خَطَبَنَا نَبِیُّ اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) إِلاَّ قَال لاآ إِیْمَانَ لِمَنْ لاّآأَمَانَۃَ لَہٗ وَلا دینَ لِمَنْ لاَّ عَہْدَ لَہٗ )[ رواہ أحمد] ” حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جب بھی ہمیں خطبہ دیا آپ نے فرمایا اس شخص کا کوئی ایمان نہیں جو امانت دار نہیں اور جو عہد کی پاسداری نہیں کرتا اس کا کوئی دین نہیں۔“ (عَنْ اَبِیْ سَعِیْدٍ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ لِکُلِّ غَادِرٍ لِوَآءٌ عِنْدَ اِسْتِہٖ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ۔ وَفِیْ رَوَایَۃٍ لِکُلِّ غَادِرٍ لِوَآءٌ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ یُرْفَعُ لَہٗ بِقَدَرِ غَدْرِہٖ اَ لَاوَلَا غَادِرَ اَعْظَمُ غَدْرًا مِّنْ اَمِیْرِ عَامَّۃٍ)[ رواہ مسلم] ” حضرت ابو سعید (رض) بیان کرتے ہیں نبی مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا قیامت کے دن ہر عہد شکن انسان کی دبر کے قریب جھنڈا ہوگا۔ ایک روایت میں ہے ہر عہد شکن کے لیے قیامت کے دن جھنڈا ہوگا‘ جو اس کی عہد شکنی کے مطابق بلند کیا جائے گا۔ خبردار! سربراہ مملکت سے بڑھ کر کسی کی عہد شکنی نہیں ہوتی۔“ مسائل ١۔ عقیدۂ توحید اللہ تعالیٰ سے کیا ہوا عہد ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کیے ہوئے عہد کی پاسداری کرنی چاہیے۔ ٣۔ عہد کو توڑنا نہیں چاہیے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ کے عہد سے پہلی مراد عقیدہ توحید ہے : ١۔ وہ لوگ جو اللہ کے عہد کو پورا کرتے ہیں اور اسے توڑتے نہیں۔ (الرعد : ٢٠) ٢۔ اللہ نے نسل انسانی سے اپنی ربوبیت کا عہد لے رکھا ہے۔ (الاعراف : ١٧٢) ٣۔ اللہ کے ساتھ کیے ہوئے عہد کو پورا کرو۔ (الانعام : ١٥٢) ٤۔ اللہ کا وعدہ پورا کرو۔ (البقرۃ : ٤٠) ٥۔ اللہ کے عہد کا پورا کرنا فرض ہے۔ (النحل : ٩١) الرعد
21 فہم القرآن ربط کلام : ” اللہ“ کے عہد کی پاسداری کے ساتھ آپس کے تعلقات اور عہد کی پاسداری کا حکم۔ بصیرت اور عقل سلیم رکھنے والے لوگ اپنے رب کے ڈر اور قیامت کے برے حساب کے خوف سے رشتوں کو جوڑتے اور ان کا احترام کرتے ہیں۔ جن کے جوڑنے اور احترام کرنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے۔ اس کے بارے میں ارشاد فرمایا ہے کہ اے لوگو! اپنے رب سے ڈرجاؤ جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا، پھر اسی سے اس کی بیوی کو پیدا فرمایا پھر ان دونوں سے بہت سے مرد اور عورتیں دنیا میں پھیلا دیں۔ بس اللہ سے ڈرو۔ جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنا حق مانگتے ہو اور رشتہ داریوں کو توڑنے سے بھی بچو یقین رکھو کہ اللہ تعالیٰ تمہاری ہر وقت نگرانی کر رہا ہے۔ (سورۃ النساء : ١) اللہ کے بندوں کی یہ صفت ہے کہ وہ کسی مفاد کی بنیاد پر نہیں بلکہ اللہ کے ڈر کی بنا پر رشتہ داریوں کا خیال اور ان کا احترام کرتے ہیں۔ ارحام کی واحد رحم ہے جس کے بارے میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یوں ارشاد فرمایا کرتے تھے۔ (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَمْرٍو (رض) عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ لَیْسَ الْوَاصِلُ بالْمُکَافِءِ وَلٰکِنَّ الْوَاصِلَ الَّذِیْٓ إِذَا انْقَطَعَتْ رَحِمُہٗ وَصَلَہَا )[ رواہ الترمذی : کتاب البر والصلۃ، باب مَا جَآءَ فِیْ صِلَۃِ الرَّحِم] ” حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں۔ آپ نے فرمایا برابری کرنے والا صلہ رحم نہیں ہے۔ صلہ رحمی کرنے والا وہ ہے جب اس سے تعلق توڑا جائے تو وہ اسے جوڑنے کی کوشش کرے۔“ (وَعَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خَلَقَ اللّٰہُ الْخَلْقَ فَلَمَّا فَرَغَ مِنْہُ قَامَتِ الرَّحِمُ فَاَخَذَتْ بِحَقْوَیِ الرَّحْمٰنِ فَقَاَل مَہْ قَالَتْ ھٰذَا مَقَامُ الْعَآءِذِ بِکَ مِنَ القَطِیْعَۃِ قاَلَ اَلاََترْضَیْنَ اَنْ اَصِلَ مَنْ وَّصَلَکِ وَاَقْطَعَ مَنْ قَطَعَکِ قَالَتْ بَلٰی یَا رَبِّ قَالَ فَذَاکِ) [ رواہ البخاری : کتاب التفسیر، باب (وَتُقَطِّعُوْٓا اأَرْحَامَکُمْ )] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا‘ اللہ تعالیٰ جب مخلوق کو پیدا فرما کر فارغ ہوا تو ” رحم“ (رشتہ داری) کھڑی ہوگئی۔ اس نے اللہ تعالیٰ کے دامن کو پکڑلیا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا‘ کیا ہے ؟ اس نے عرض کیا‘ یہ اس شخص کا مقام ہے جوتیرے ساتھ قطع رحمی سے پناہ مانگتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا‘ کیا تجھے یہ پسند نہیں کہ میں اس شخص کو اپنے قریب کروں جو تجھے کو ملاتا ہے اور اس شخص سے قطع تعلق کروں جو تجھے ترک کرتا ہے۔ رحم (رشتہ داری) نے عرض کیا‘ پروردگار کیوں نہیں! اللہ تعالیٰ نے فرمایا یہ تیرے لیے ہے۔“ (عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ (رض) قَالَ سَمِعْتُ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَقُوْلُ مَنْ سَرَّہٗٓ أَنْ یُّبْسَطَ لَہٗ رِزْقُہٗ أَوْ یُنْسَأَ لَہٗ فِیْٓ أَثَرِہِ فَلْیَصِلْ رَحِمَہٗ) [ رواہ البخاری : کتاب البیوع، باب مَنْ أَحَبَّ الْبَسْطَ فِی الرِّزْقِ] ” حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا‘ جو شخص اس بات کو پسند کرتا ہے‘ کہ اس کے رزق میں برکت اور اس کی عمر میں اضافہ ہو تو‘ اسے صلۂ رحمی کرنی چاہیے۔“ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ مَنْ کَانَ یُؤْمِنُ باللَّہِ وَالْیَوْمِ الآخِرِ فَلْیُکْرِمْ ضَیْفَہُ، وَمَنْ کَانَ یُؤْمِنُ باللَّہِ وَالْیَوْمِ الآخِرِ فَلْیَصِلْ رَحِمَہُ، وَمَنْ کَانَ یُؤْمِنُ باللَّہِ وَالْیَوْمِ الآخِرِ فَلْیَقُلْ خَیْرًا أَوْ لِیَصْمُتْ )[ رواہ البخاری : باب إِکْرَام الضَّیْفِ وَخِدْمَتِہِ إِیَّاہُ بِنَفْسِہِ ] ” حضرت ابو ہریرۃ (رض) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہیے کہ مہمان کی عزت کرے۔ جو شخص اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہیے کہ صلہ رحمی کرے۔ جو شخص اللہ اور آخرت پر یقین رکھتا ہے اسے چاہیے کہ بھلائی والی بات کہے یا خاموش رہے۔“ مسائل ١۔ آپس میں صلہ رحمی کرنی چاہیے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے صلہ رحمی کا حکم دیا ہے۔ ٣۔ باہمی تعلقات کا احترام کرنا چاہیے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ اور برے حساب سے ڈرتے رہنا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والوں کے اوصاف : ١۔ اللہ اور سخت حساب سے ڈرتے ہیں۔ (الرعد : ٢١) ٢۔ مومن اللہ کے عہد کو پورا کرتے ہیں۔ (الرعد : ٢٠) ٣۔ نیک لوگ صلہ رحمی کرتے ہیں۔ (الرعد : ٢١) ٤۔ اللہ کی رضا کے لیے صبر کرتے ہیں، نماز قائم کرتے، پوشیدہ اور اعلانیہ اللہ کی راہ میں خرچ کرتے اور برے سلوک کو حسن سلوک سے ٹالتے ہیں۔ (الرعد : ٢٢) الرعد
22 فہم القرآن ربط کلام : مومنوں کے مزید چار اوصاف۔ مومن وہ ہیں جو مشکلات اور پریشانیوں کے وقت اپنے رب کی رضا کی خاطر صبر کرتے ہیں اس کے حضور پانچ وقت نماز ادا کرتے ہیں۔ جو کچھ ان کے رب نے انہیں عطا فرمایا ہے، اس میں سے خفیہ اور اعلانیہ خرچ کرتے ہیں۔ برائی کا بدلہ برائی سے دینے کی بجائے اچھائی اور خیر خواہی سے دیتے ہیں۔ یہی لوگ ہیں جن کے لیے آخرت کا گھرتیار کیا گیا ہے۔ ان اوصاف حمیدہ کی فرضیت اور فضلیت کا مختصر ذکر کیا جاتا ہے۔ صبر : صبر کا معنی ہے مشکل اور پریشانی کے وقت حوصلہ قائم رکھنا اور شریعت کی حدود وقیود کا مستقل مزاجی کے ساتھ اتباع کرنا۔ اس سے پہلے مومنوں کی یہ صفات ذکر ہوئی ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ سے کیے ہوئے عہد یعنی عقیدۂ توحید پر پکے رہتے ہیں اور آپس کی رشتے داریوں کو جوڑے رکھتے ہیں۔ یہ دونوں کام ایسے ہیں جو مشکلات کا سامنا کیے بغیر کما حقہ پورے نہیں ہو سکتے۔ صبر کس وقت کرنا چاہیے : (عَنْ اَنَسٍ (رض) قَالَ مَرَّ النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بِاِمْرَاَۃٍ تَبْکِیْ عِنْدَ قَبْرٍ فَقَالَ اتَّقِی اللّٰہَ وَاصْبِرِیْ قَالَتْ اِلَےْکَ عَنِّی فَاِنَّکَ لَمْ تُصَبْ بِمُصِےْبَتِیْ وَلَمْ تَعْرِفْہٗ فَقِےْلَ لَھَا اِنَّہُ النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَاَتَتْ بَاب النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَلَمْ تَجِدْ عِنْدَہُ بَوَّابِےْنَ فَقَالَتْ لَمْ اَعْرِفْکَ فَقَالَ اِنَّمَا الصَّبْرُ عِنْدَالصَّدْمَۃِ الْاُوْلٰی) [ رواہ البخاری : کتاب الجنا ئز، باب زیارۃ القبور] ” حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا گزر ایک عورت کے پاس ہوا جو ایک قبر پر آہ و بکا کر رہی تھی۔ آپ نے اسے تلقین فرمائی‘ اللہ سے ڈرو اور صبر کرو۔ وہ کہنے لگی یہاں سے چلے جاؤ۔ تمہیں ایسی مصیبت نہیں پہنچی جس مصیبت میں میں مبتلا ہوں۔ وہ آپ کو پہچانتی نہیں تھی۔ جب اسے بتایا گیا کہ یہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں۔ وہ آپ کے دروازے پر آئی جس پر کوئی چوکیدار نہ تھا وہ معذرت خواہانہ عرض کرنے لگی میں نے آپ کو پہچانا نہیں تھا۔ آپ نے فرمایا‘ صبر تو وہ ہے جو صدمہ پہنچنے کے وقت کیا جائے۔“ مسائل ١۔ آدمی کو اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے صبر اختیار کرنا چاہیے۔ ٢۔ نماز قائم کرنا فرض ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ کی راہ میں اعلانیہ اور خفیہ طور پر خرچ کرنا چاہیے۔ ٤۔ برائی کو نیکی سے ٹالنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ ٥۔ نیک لوگوں کا اچھا انجام ہوگا۔ تفسیر بالقرآن ایمانداروں کے مختصر اوصاف : ١۔ وہ لوگ جو اللہ کی رضا کے لیے صبر کرتے، نماز قائم کرتے اور اللہ کی راہ میں اعلانیہ اور خفیہ طور پر خرچ کرتے ہیں۔ اور بدسلو کی کو حسن سلوک سے ٹالتے ہیں ان کا انجام بہتر ہے۔ (الرعد : ٢٢) ٢۔ ایمانداروں کے دل اللہ کے ذکر سے سہم جاتے ہیں جب ان کے سامنے اللہ کی آیات تلاوت کی جاتی ہیں تو ان کے ایمان میں اضافہ ہوجاتا ہے ایمان والے اللہ پر توکل کرتے ہیں۔ (الانفال : ٢) ٣۔ ایماندار نماز قائم کرتے ہیں اور اللہ کے عطا کیے ہوئے مال سے خرچ کرتے ہیں۔ (الانفال : ٣) ٤۔ مومن اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاتے ہیں اور اللہ کی راہ میں جہاد کرتے ہیں۔ (الحجرات : ١٥) ٥۔ مومن ایک دوسرے کے خیر خواہ ہوتے ہیں، نیکی کا حکم دیتے اور برائی سے روکتے ہیں، نماز قائم کرتے، زکوٰۃ ادا کرتے مومن اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے ہیں۔ (التوبۃ : ٧١) ٦۔ اللہ اور اس کے رسول اور مومن آپس میں دوست ہیں۔ (المائدۃ: ٥٥) ٧۔ ایمان والے نماز میں خشوع وخضوع اختیار کرتے ہیں۔ (المومنون : ١۔ ٢) ٨۔ ایماندار دنیا کے لاؤ لشکر کو خاطر میں نہیں لاتے۔ (الاحزاب : ٢٢) الرعد
23 فہم القرآن ربط کلام : مومنوں کا اجر اور ان کے لیے تیار کیے گئے گھر کی خوبیاں۔ ” عقبی الدار“ سے مراد مومنوں کے لیے جنت کا گھر ہے۔ جس میں تروتازہ اور ہمیشہ رہنے والے انواع واقسام کے پھلوں کے باغات ہوں گے۔ ان کے نیچے نہریں جاری ہوں گی۔ جن میں مومنوں کو داخل کرکے ان کے نیکو کار آباء واجداد اور ان کی بیویاں اور ان کے بیٹے، بیٹیوں کو بھی اکٹھا کیا جائے گا۔ جنتی جب جنت کے قریب پہنچیں گے تو ملائکہ آگے بڑھ کر انہیں جنت کے ہر دروازے پرسلام عرض کریں گے۔ اس لیے کہ انہوں نے مشکلات اور پریشانیوں کے وقت صبر کیا اور دنیا میں رہتے ہوئے شریعت کی حدو دوقیود کی پابندی کرتے رہے۔ انہیں ملائکہ موت کے وقت ہی خوشخبری سنائیں گے کہ تمہارے لیے جنت میں بہترین محل تیار کیے گئے ہیں لہٰذا تم ہمیشہ کے لیے جنت میں داخل ہوجاؤ۔ (إِنَّ الَّذِ یْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰہُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا تَتَنَزَّلُ عَلَیْہِمُ الْمَلَآءِکَۃُ أَلَّا تَخَافُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا وَأَبْشِرُوْا بالْجَنَّۃِ الَّتِیْ کُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ نَحْنُ أَوْلِیَآؤُکُمْ فِی الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا وَفِی الْاٰخِرَۃِ وَلَکُمْ فِیْہَا مَا تَشْتَہِیْٓ أَنْفُسُکُمْ وَلَکُمْ فِیْہَا مَا تَدَّعُوْنَ نُزُلاً مِّنْ غَفُوْرٍ رَحِیْمٍ )[ حم السجدۃ: ٣٠۔ ٣٢] ” یقیناً وہ لوگ جنہوں نے کہا ہمارا پروردگار اللہ ہے پھر اس پر استقامت اختیار کی ایسے لوگوں پر فرشتے اتریں گے کہ تم ڈر اور غم محسوس نہ کروتمھارے لیے جنت کی خوش خبری ہے جس کا تمہارے ساتھ وعدہ کیا جاتا رہا ہے ہم تمہارے دنیا اور آخرت میں رفیق رہیں گے اور تمہارے لیے جنت میں وہ سب کچھ موجود ہے جس کو تمھارا جی چاہے اور تمھارے لیے وہ کچھ موجود ہے جو تم مانگو یہ غفور الرحیم کی طرف سے مہمان نوازی ہے۔“ (عَنْ اَبِیْ ھُرَےْرَۃَ (رض) اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ اِذَا خَرَجَتْ رُوْحُ الْمُؤْمِنِ تَلَقَّاھَا مَلَکَانِ یُصْعِدَانِھَا قَالَ حَمَّادٌ فَذَکَرَمِنْ طِےْبِ رِےْحِھَا وَذَکَرَ الْمِسْکَ قَالَ وَےَقُوْلُ اَھْلُ السَّمَآءِ رُوْحٌ طَےِّبَۃٌ جَآءَ تْ مِنْ قِبَلِ الْاَرْضِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَےْکِ وَعَلٰی جَسَدٍ کُنْتِ تَعْمُرِےْنَہٗ فَےُنْطَلَقُ بِہٖ اِلٰی رَبِّہٖ ثُمَّ ےَقُوْلُ انْطَلِقُوْا بِہٖ اِلٰی اٰخِرِ الْاَجَلِ۔۔) [ رواہ مسلم : باب عَرْضِ مَقْعَدِ الْمَیِّتِ مِنَ الْجَنَّۃِ أَوِ النَّارِ عَلَیْہِ وَإِثْبَاتِ عَذَابِ الْقَبْرِ وَالتَّعَوُّذِ مِنْہُ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) نے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب مومن کی روح اس کے جسم سے نکلتی ہے تو دو فرشتے اس کو ہاتھوں ہاتھ لے کر آسمان کی طرف لے جاتے ہیں۔ راوی حماد (رح) بیان کرتے ہیں کہ ابوہریرہ (رض) نے بہترین خوشبو اور مشک کا ذکر کیا۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ آسمان کے فرشتے کہتے ہیں اے زمین سے آنے والی پاک باز روح! تجھ پر اور تیرے جسم پر جس کا تو نے خیال رکھا اللہ کی رحمتیں ہوں۔ چنانچہ اس روح کو اس کے رب کی بارگاہ میں لے جایا جاتا ہے۔ حکم ہوتا ہے اس کو برزخ کے آخری کنارے تک لے جاؤ۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نیکو کاروں کو ہمیشگی کی جنت میں داخل فرمائے گا۔ ٢۔ نیک لوگوں کو جنت میں فرشتے سلام عرض کریں گے۔ ٣۔ نیکو کاروں کے ماں، باپ اور بیوی بچوں میں سے جو نیک ہوں گے وہ بھی جنت میں داخل ہوں گے۔ ٤۔ صبر کرنے والوں کا بہت ہی اچھا انجام ہوگا۔ تفسیر بالقرآن ملائکہ کا جنتیوں کو سلام : ١۔ ملائکہ جنتیوں کو سلام کہتے ہوئے کہیں گے کہ جنت کے دروازوں سے داخل ہوجاؤ۔ (الرعد : ٢٣۔ ٢٤) ٢۔ فرشتے کہیں گے کہ تم پر سلامتی ہو اپنے اعمال کے بدلے جنت میں داخل ہوجاؤ۔ (النحل : ٣٢) ٣۔ جنت کے دربان کہیں گے کہ تم پر سلامتی ہو مزے سے رہو اور ہمیشہ کے لیے جنت میں داخل ہوجاؤ۔ (الزمر : ٧٣) الرعد
24 الرعد
25 فہم القرآن ربط کلام : جنتیوں کے مقابلہ میں۔۔ جہنمیوں کا کردار اور انجام۔ یہ بات کئی مرتبہ فہم القرآن میں عرض کی ہے کہ قرآن مجید کا یہ اسلوب بیان ہے کہ وہ نیکوں کے ساتھ بروں اور جنت کے ساتھ جہنم کا اکثر مقامات پر یکجا ذکر کرتا ہے۔ تاکہ قارئ قرآن کے لیے اچھے اور برے اعمال اور انجام میں فرق کرنا آسان ہوجائے۔ اسی اسلوب کے پیش نظر پہلے ایفائے عہد کرنے والے حضرات اور ان کے اوصاف حمیدہ کا ذکر فرمایا۔ اب عہد شکنی کرنے والوں اور رشتہ داریوں کو توڑ نے والوں کا بیان کیا ہے۔ اس موقع پر ان کے جرائم کی تفصیل دینے کی بجائے صرف ان کی عہد شکنی اور لوگوں کے ساتھ صلہ رحمی کی بجائے قطع رحمی کے جرائم کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ یہ لوگ زمین میں فساد کرنے والے ہیں۔ ان پر لعنت برستی ہے اور مرنے کے بعد ان کا بدترین گھر ہوگا۔ بلاوجہ قطع رحمی کرنے اور لوگوں کے حقوق چھیننے اور ان پر مظالم ڈھانے کی و جہ سے ظاہر بات ہے کہ ملک اور معاشرے میں ہر قسم کی خرابی اور فساد پھیلتا ہے۔ جہاں تک عہد شکنی کا تعلق ہے۔ یہ افراد کی آپس میں ہویا ایک قوم کی دوسری قوم کے ساتھ اس سے تعلقات ٹوٹنے کے ساتھ مروتیں ختم ہوجاتی ہیں جس کا منطقی نتیجہ نفرت، لڑائی جھگڑا اور دنگا فساد ہوتا ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرنا عہد شکنی کی بدترین صورت ہے جس سے تمام جرائم جنم لیتے ہیں جو شخص اللہ تعالیٰ کے ساتھ عہد پورا نہیں کرتاوہ لوگوں کے ساتھ کیے ہوئے عہد کی پاسداری کا حق ادا نہیں کرسکتا۔ ایسا شخص معاشرے میں فساد کا سبب بنتا ہے۔ اس پر ” اللہ“ کی لعنت برستی ہے۔ اس کا ٹھکانہ بدترین ہوگا۔ اللہ تعالیٰ کی ناشکری اور اس کے ساتھ عہد شکنی کرنے والے شخص سے بڑھ کر زیادہ فسادی کون ہوسکتا ہے؟ اس لیے عہد شکنی شرک کی صورت میں ہو یا لوگوں کے ساتھ، ایسے مجرم پر لعنت ہی برستی ہے۔ یہاں اس بات کی وضاحت نہیں کہ لعنت کرنے والا کون ہے۔ لیکن سورۃ البقرۃ میں حق کو چھپانے اور کفر کرنے والوں پر لعنت کا ذکر کرتے ہوئے وضاحت فرمائی ہے کہ ان پر اللہ، ملائکہ اور تمام لوگوں کی طرف سے لعنت برستی ہے۔ (عَنْ اأبِیْ ہُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَنْ لَّمْ یَشْکُرِ النَّاسَ لَمْ یَشْکُرِ اللّٰہَ) [ رواہ احمد] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو شخص لوگوں کا شکر گزار نہیں ہوتا وہ اللہ کا بھی شکر ادا نہیں کرسکتا۔“ (وَعَنِ النُّعْمَانِ ابْنِ بَشِیْرٍ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اِنَّ اَھْوَنَ اَھْلِ النَّارِ عَذَابًامَنْ لَّہٗ نَعْلَانِ وَشِرَاکَانِ مِنْ نَّارٍ یَغْلِیْ مِنْھُمَا دِمَاغُہٗ کَمَایَغْلِیْ الْمِرْجَلُ مَایَرٰی اَنَّ اَحَدًا اَشَدُّمِنْہُ عَذَابًا وَاِنَّہٗ لَاَھْوَنُھُمْ عَذَابًا) [ رواہ مسلم : باب أَہْوَنِ أَہْلِ النَّارِ عَذَابًا] ” حضرت نعمان بن بشیر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا‘ یقیناً دوزخیوں میں سب سے معمولی عذاب والے کے پاؤں میں آگ کے جوتے اور تسمے ہوں گے جس کی وجہ سے اس کا دماغ ہنڈیا کی طرح کھول رہا ہوگا وہ یہ خیال کرے گا کہ کسی دوسرے شخص کو اس سے زیادہ عذاب نہیں ہو رہا ہے‘ حالانکہ وہ سب سے ہلکے عذاب میں مبتلا ہوگا۔“ مسائل ١۔ کافر اللہ تعالیٰ کے عہد کو توڑتے ہیں۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے جن رشتوں کو ملانے کا حکم دیا ہے خدا کے نافرمان انھیں توڑتے ہیں۔ ٣۔ خدا کے نافرمان زمین میں فساد پھیلاتے ہیں۔ ٤۔ منکرین حق پر لعنت اور ان کے لیے برا گھر ہے۔ تفسیر بالقرآن لعنتی لوگوں کی نشانیاں : ١۔ اللہ کے منکرین پر لعنت اور ان کے لیے برا گھر ہے۔ (الرعد : ٢٥) ٢۔ اللہ اور اس کے رسول کو ایذا دینے والے لعنتی ہیں۔ (الاحزاب : ٥٧) ٣۔ حق چھپانے والے لعنتی ہیں۔ (البقرۃ: ١٥٩) ٤۔ جھوٹے لوگ لعنتی ہیں۔ (آل عمران : ٦١) ٥۔ یہودی لعنتی ہیں۔ (المائدۃ: ٦٤) ٦۔ کافر لعنتی ہیں۔ (الاحزاب : ٦٤) الرعد
26 فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ کے ساتھ عہد شکنی اور باہمی تعلقات کو توڑنے کی سب سے بڑی وجہ دنیا پرستی ہے۔ حالانکہ رزق کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔ منکرین حق جس دنیا پر اتراتے اور جس کی خاطر اپنے رب کو فراموش اور لوگوں سے عہد شکنی کرتے ہیں اگر دنیا کی حقیقت کو جاننے کی کوشش کریں انہیں معلوم ہوجائے گا کہ یہ آخرت کے مقابلے میں قلیل اور عارضی ہے۔ جس دنیا کی خاطر بدمعاملگی اور عہد شکنی کرتے ہیں۔ غور کریں کہ کیا رزق کی فراوانی اور اسباب کی کشادگی انسان کی صلاحیتوں کے بدولت ہے یا اللہ تعالیٰ کی قدرت اور اس کی حکمت کا نتیجہ ہے؟ رزق کی فرادانی اور اسباب کی وسعت اللہ تعالیٰ کے قبضہ میں ہے، وہ جسے چاہتا ہے رزق کی کشادگی سے نوازتا ہے اور جس کا چاہتا ہے رزق تنگ کردیتا ہے۔ انسان کو تلاش رزق کا حکم ضرور ہے مگر رزق کا انحصارصرف انسان کی محنت پر نہیں۔ اگر رزق کا دار ومدار انسان کی محنت پر ہوتا تو دنیا میں کوئی ہنرمند غریب نہ ہوتا اور کوئی لینڈلارڈ مقروض نہ ہوتا، نہ ہی کار خانے دار دیوالیہ ہوتے۔ حقیقت یہ ہے کہ رزق دینے والا صرف ایک اللہ ہے۔ اس نے اپنی حکمت، تقسیم اور لوگوں کے تعلقات کو مربوط رکھنے کے لیے رزق کی تقسیم اس طرح کر رکھی ہے کہ ایک شخص اپنی روزی کے لیے کئی انسانوں کے تعاون کا ضرورت مند ہوتا ہے۔ جس بنا پر لوگ ایک دوسرے کی روزی میں معاون بنتے ہیں۔ کار خانے دار کو دیکھیں کہ وہ کتنے لوگوں کے رزق کا وسیلہ بنتا ہے۔ یہی صورت حال زمیندار کی ہے کہ بظاہر وہ اپنی روزی کا بندوبست کرتا ہے۔ لیکن اپنے ساتھ درجنوں گھرانوں، سینکڑوں جانوروں اور ہزاروں کیڑے مکوڑوں کی روزی کا وسیلہ بنتا ہے۔ (عَنْ سَہْلِ بْنِ سَعْدٍ (رض) قَالَ کُنَّا مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بِذِی الْحُلَیْفَۃِ فَإِذَا ہُوَ بِشَاۃٍ مَّیِّتَۃٍ شَآءِلَۃٍ بِرِجْلِہَا فَقَالَ أَتُرَوْنَ ہٰذِہٖ ہَیِّنَۃً عَلٰی صَاحِبِہَا فَوَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہٖ لَلدُّنْیَا أَہْوَنُ عَلَی اللّٰہِ مِنْ ہٰذِہِ عَلَی صَاحِبِہَا وَلَوْ کَانَتِ الدُّنْیَا تَزِنُ عِنْدَ اللَّہِ جَنَاحَ بَعُوضَۃٍ مَا سَقَی کَافِرًا مِنْہَا قَطْرَۃً أَبَدًا )[ سنن ابن ماجہ : بَابُ مَثَلِ الدُّنَّیَا] ” حضرت سہل بن سعد (رض) بیان کرتے ہیں ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ ذوالحلیفہ کے مقام پر تھے جبکہ ایک مری ہوئی بکری جس کی ٹانگیں اوپر اٹھی ہوئی تھیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کیا تم سمجھتے ہو کہ یہ مردہ بکری اس کے مالک کے لیے حقیر ترین ہے۔ قسم ہے مجھے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے دنیا اللہ کے ہاں اس سے بھی زیادہ حقیر ہے۔ اگر دنیا کی وقعت اللہ کے ہاں مچھر کے پر کے برابر ہوتی تو اللہ کسی کافر کو ایک قطرہ پانی کا نہ دیتا۔“ (عَنْ أَبِیْ وَاءِلٍ (رض) عَنْ عَلَیٍّ (رض) أَنَّ مَکَاتِبَا جَاءَ ہٗ فَقَالَ إِنِّیْ قَدْ عَجَزْتُ عَنِ کِتَابَتِیْ فَأَعِنِّیْ قَالَ أَلاَّ أُعَلَّمُکً کَلِمَاتِ عَلَمَّنِیِِْہُنَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لَوْ کَانَ عَلَیْکَ مِثْلَ جَبْلِ ثَبَیْرٍ دَیْنًا أَدَاہُ اَللّٰہُ عَنْکَ ؟ قَالَ قُلْ اَللّٰہُمَّ اکْفِنِیْ بِحَلَالِکَ عَنْ حَرَامِکَ وَأَغْنِنِیْ بِفَضْلِکَ عَمَنْ سِوَاکَ ) [ رواہ الترمذی : باب فی دعاء النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ] ” حضرت ابو وائل (رض) حضرت علی (رض) سے بیان کرتے ہیں کہ ایک مکاتب غلام حضرت علی (رض) کے پاس آیا اور آکر عرض کی کہ میں اپنی غلامی کی رقم ادا کرنے سے عاجز آگیا ہوں میری مدد کیجیے۔ حضرت علی (رض) نے فرمایا کیا میں تجھ کو ایسے کلمات نہ سکھلادوں جو مجھے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سکھلائے تھے اگر تجھ پر ثبیر پہاڑ کے برابر قرض ہوگا تو اس کو بھی اللہ تعالیٰ اتار دے گا۔ فرمایا پڑھا کرو اے اللہ ! مجھے حلال رزق کے ساتھ حرام سے بچا لے اور مجھے اپنے فضل کے ساتھ غنی فرما کر دوسروں سے بے نیاز فرما۔“ مسائل ١۔ رزق تنگ اور کشادہ کرنا اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے۔ ٢۔ آخرت کا انکار کرنے والے دنیا کی زندگی پر خوش رہتے ہیں۔ ٣۔ آخرت کے مقابلہ میں دنیاکی کوئی حقیقت نہیں۔ تفسیر بالقرآن دنیا کی حقیقت : ١۔ آخرت کے مقابلہ میں دنیا کی کوئی حقیقت نہیں۔ (الرعد : ٢٦) ٢۔ دنیا کی زندگی آخرت کے مقابلہ میں نہایت مختصر ہے۔ (التوبۃ: ٣٨) ٣۔ دنیا کی زندگی تھوڑی ہے اور آخرت متقین کے لیے بہتر ہے۔ (النساء : ٧٧) ٤۔ یقیناً دنیا کی زندگی عارضی فائدہ ہے اور آخرت کا گھر ہی اصل رہنے کی جگہ ہے۔ (المؤمن : ٤٣) ٥۔ دنیا کے مقابلے میں آخرت بہتر اور ہمیشہ رہنے والی ہے۔ (الاعلیٰ: ١٧) الرعد
27 فہم القرآن ربط کلام : عقیدۂ آخرت سے انحراف اور دنیا کے مال ومتاع پر اترانے کی وجہ سے منکرین حق کی ہٹ دھرمی۔ اس سورۃ مبارکہ کی پہلی آیت میں قرآن مجید کو من جانب اللہ قرار دینے کے بعد اللہ تعالیٰ نے آفاق، جمادات اور نباتات کے حوالے سے اپنی ذات اور صفات کے بارے میں اتنے بھاری اور ٹھوس دلائل دیے ہیں کہ جن کا جواب دینا انسان کے تصور سے ماوراء ہے۔ یہ ایسے ٹھوس اور بھاری دلائل ہیں کہ ان کا انکار کرنے والے کو اندھا قرار دیا گیا ہے۔ اسی اندھے پن کا نتیجہ تھا کہ کفار ٹھوس اور واضح دلائل کو تسلیم کرنے کی بجائے ہر بار مطالبہ کرتے کہ کوئی نیا معجزہ نازل کیا جائے۔ یہاں کفار کی کوتاہ بینی اور ہٹ دھرمی کا صرف اتنا جواب دیا ہے کہ اے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ان سے فرما دیں دلائل اور معجزات تو بہت آچکے مگر تم انہیں تسلیم کرنے کی بجائے انکار کی روش اختیار کیے ہوئے ہو۔ در حقیقت ہدایت اور گمراہی اللہ کے اختیار میں ہے جو شخص تعصب اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے حق کا انکار کرتا جائے۔ اسے اللہ تعالیٰ گمراہی میں کھلا چھوڑ دیتا ہے اور جو شخص ہدایت کی تمنا اور اس کی جستجو کرتا ہے اسے ہدایت عطا کی جاتی ہے۔ کیونکہ ہدایت اس قدر گراں مایہ نعمت ہے جو تمنا اور جستجو کے بغیر حاصل نہیں ہوتی۔ جو لوگ اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہوتے ہیں انہیں ایمان کی دولت نصیب ہوتی ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کے ذکر سے اطمینان پاتے ہیں۔ اے لوگو! یاد رکھو کہ دل اللہ کے ذکر سے ہی سکون اور اطمینان پاتے ہیں۔ جو لوگ ایمان کے ساتھ صالح کردار اپناتے ہیں ان کے لیے ان کی موت کے بعد ہر قسم کی خوشحالی اور رہنے کا بہترین مقام ہوگا۔ ” الذکر“ سے مراد اللہ پر سچا ایمان لانا اس کی تسبیح پڑھنا، اس کی معرفت حاصل کرنا اور اس کے بتلائے ہوئے طریقے پر زندگی بسر کرنا ہے۔ اس لیے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حج کے موقعہ پر جمرات کو کنکریاں مارنا، صفا اور مروہ کے درمیان سعی کرنا اور بیت اللہ کے طواف کرنے کو اللہ کا ذکر قرار دیا ہے۔ ” اللہ“ کے ذکر سے مومن کا دل قرار اور سکون پا کر نیک اعمال کی طرف متوجہ رہتا ہے۔ ایسے لوگوں کو جنت میں بہترین مکان اور مقام عطا کیے جائیں گے۔ ” طوبیٰ“ کا معنی ہر قسم کی خوشحالی اور یہ جنت کے ایک درخت کا نام ہے۔ جس کے طول وعرض کے بارے میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ الفاظ استعمال فرمائے ہیں۔ (عَنْ أَبِیْ سَعِیْدٍ الْخُدْرِیِّ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) أَنَّ رَجُلاً قَالَ لَہٗ یَا رَسُول اللّٰہِ طُوْبٰی لِمَنْ رَّآکَ وَآمَنَ بِکَ قَالَ طُوْبٰی لِمَنْ رَّآنِی وَآمَنَ بِیْ ثُمَّ طُوْبٰی ثُمَّ طُوْبٰی ثُمَّ طُوْبٰی لِمَنْ آمَنَ بِیْ وَلَمْ یَرَنِیْ قَالَ لَہٗ رَجُلٌ وَمَا طُوبٰی قَالَ شَجَرَۃٌ فِی الْجَنَّۃِ مَسِیْرَۃُ ماءَۃِ عَامٍ ثِیَابُ أَہْلِ الْجَنَّۃِ تَخْرُجُ مِنْ أَکْمَامِہَا )[ رواہ أحمد وہو حدیث حسن ] ” حضرت ابو سعید خدری (رض) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے آپ سے عرض کی اے اللہ کے رسول ! اس آدمی کے لیے خوشخبری ہے جس نے آپ کو دیکھا اور آپ پر ایمان لایا۔ آپ نے فرمایا خوشخبری ہے اس کے لیے جس نے مجھے دیکھا اور مجھ پر ایمان لایا، پھر خوشخبری ہو، خوشخبری ہو، خوشخبری ہو اس شخص کے لیے جو مجھ پر ایمان لایا اور اس نے مجھے دیکھا نہیں۔ آدمی نے آپ سے پوچھا طوبیٰ کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا یہ جنت میں ایک درخت ہے جس کی مسافت سو سال ہے اس کے خوشوں سے جنتیوں کا لباس نکلتا ہے۔“ ذکر کی اہمیت و فضیلت : ذکر روحانی و جسمانی بیماریوں کا علاج، قلب و نظر کا سکون اور اطمینان، مشکلات سے نکلنے کا آسان راستہ، اللہ تعالیٰ کے قرب اور اس کی نصرت و حمایت کا ذریعہ، ذکر کرنے والے کا حریم کبریا میں تذکرہ اور فلاح و کامیابی کا زینہ ہے لہٰذا ہر حال میں اللہ تعالیٰ کو کثرت کے ساتھ یاد کیجیے۔ ذکر دنیاوآخرت کی کامیابیوں کا ذریعہ ہے۔ بشرطیکہ الفاظ اور انداز قرآن اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فرمان کے مطابق ہو۔ من گھڑت یا بزرگوں کے حوالے سے مصنوعی درودو وظائف سے ممکن ہے کہ مشکلات آسان ہوجائیں مگر قرآن اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے الفاظ کی برکت اور سنت رسول سے محرومی اس کا مقدر ہوگی۔ (عَنْ أَبِیْ الدَّرْدَاءِ (رض) قَالَ قَال النَّبِیُ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) أَلاَ أُنِبِءُکُمْ بِخَیْرِ أَعْمَالُکُمْ وَأَزْکَاہَا عِنْدَ مَلِیْکِکُمْ وَأَرْفَعَہًا فِیْ دَرَجَاتِکُمْ وَخَیْرٌ لَّکُمْ مِنْ إِنْفَاق الذَّہَبِ وَالْوَرَقِ وَخَیْرُ لَّکُمْ مِنْ اأنْ تَلْقُوْا عَدُوَّکُمْ فَتَضْرِبُوْا أَعْنَاقَہُمْ وَیَضْرِبُوْا أَعْنَاقَکُمْ ؟ قَالُوْا بَلٰی قَالَ ذِکْرَ اللّٰہِ تَعَالٰی فَقَالَ مُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ (رض) مَاشَیءٍ أَنْجٰی مِنْ عَذَاب اللّٰہِ مِنْ ذِکْرِ اللّٰہِ)[ رواہ الترمذی : باب ماجاء فی فضل الذکر] ” حضرت ابو درداء (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کیا میں تم کو وہ عمل نہ بتاؤں جو تمہارے سارے اعمال میں بہتر اور تمہارے درجات کو دوسرے اعمال سے زیادہ بلند کرنے والا ہے اور راہ خدا میں سونا اور چاندی خرچ کرنے اور اس جہاد سے بھی زیادہ تمہارے لیے بہتر ہے جس میں تم اپنے دشمنوں کی گردنیں مارو اور وہ تمھاری گردنیں ماریں؟۔ صحابہ (رض) نے عرض کیا کیوں نہیں اللہ کے رسول ضرور بتلائیں فرمایا وہ اللہ کا ذکر ہے۔ حضرت معاذ بن جبل (رض) نے کہا اللہ کے ذکر سے بڑھ کر کوئی چیز اللہ کے عذاب سے بچانے والی نہیں ہے۔“ مسائل ١۔ کفار معجزات کا مطالبہ کرتے ہیں۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ جسے چاہے گمراہ رکھتا اور جسے چاہے ہدایت دیتا ہے۔ ٣۔ اللہ کے ذکر سے دلوں کو سکون ملتا ہے۔ ٤۔ ایمان دار اور صالح کر دار لوگ اللہ کے ہاں خوش وخرم ہوں گے۔ تفسیر بالقرآن ذکر کا حکم اور فائدہ : ١۔ اللہ کے ذکر کے ساتھ دلوں کو اطمینان ملتا ہے۔ (الرعد : ٢٨) ٢۔ صبح اور شام کثرت سے اللہ کا ذکر کیا کرو۔ (آل عمران : ٤١) ٣۔ اے ایمان والو! کثرت سے اللہ کو یاد کرو۔ (الاحزاب : ٤١) ٤۔ اللہ کو کثرت کے ساتھ یاد کرو تاکہ تم کامیاب ہوجاؤ۔ (الجمعۃ: ١٠ ) ٥۔ اللہ کو کثرت سے یاد کرنے والوں کے لیے مغفرت اور بڑا اجر ہے۔ (الاحزاب : ٣٥) ٦۔ تم مجھے یاد کرو میں تمہیں یاد کروں گا۔ (البقرۃ : ١٥٢) الرعد
28 الرعد
29 الرعد
30 فہم القرآن ربط کلام : ہر دور کے منکرین حق کا ایک جیسا انداز اور سوچ۔ اس فرمان کی ابتداء ” کذ لک“ کے الفاظ سے کی گئی ہے جس کا مفہوم یہ ہے ” مانند“ اور ” اس جیسا“۔ یعنی جس طرح کا وطیرہ اہل مکہ اور قرآن کے منکروں نے اختیار کیا ہے۔ اس جیسا پہلے زمانے کے کفار بھی اختیار کیے ہوئے تھے انہوں نے اپنے انبیاء (علیہ السلام) سے معجزات کا مطالبہ کیا۔ جب ان کے مطالبہ پر انبیاء کرام (علیہ السلام) نے انہیں من جانب اللہ معجزے دکھائے تو منکرین حق نے تسلیم ورضا کا رویہ اختیار کرنے کی بجائے انکار اور مخالفت کا رویہ اختیار کیا۔ یہ لوگ بالآخر دنیا میں ذلیل ہوئے اور قیامت کے دن انہیں شدید ترین عذاب کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ کو ہم نے ایسی امت کی طرف بھیجا ہے جس جیسی پہلے امتیں گزر چکی ہیں۔ آپ کو بھیجنے کا مطلب یہ ہے کہ جو کچھ ہم آپ کی طرف وحی کر رہے ہیں آپ من وعن پڑھ کر انہیں سناتے اور سمجھاتے جائیں۔ جس طرح پہلی امتوں کے لوگ انکار کرتے رہے آپ جن لوگوں کی طرف مبعوث کیے گئے ان میں بھی لوگ ” الرحمان“ کا انکار کرتے ہیں۔ آپ ان کے انکار پر شکست خور دہ اور دل گرفتہ ہونے کی بجائے انہیں صاف صاف فرمائیں۔ کہ تم بے شک ” ا لرحمٰن“ کا انکار کرو۔ میرا اسی پر بھروسہ ہے اور اس کے سوا کوئی معبودِ حق، حاجت روا اور مشکل کشا نہیں ہے۔ بالآخر اسی کی طرف سب نے پلٹ کر جانا ہے۔ اہل مکہ اللہ تعالیٰ کو معبود، مشکل کشا اور حاجت روا مانتے تھے مگر اس شرط کے ساتھ کہ اللہ تعالیٰ نے کچھ اختیارات اپنے سوا دوسروں کو بھی دے رکھے ہیں۔ جس بنا پر وہ بتوں کو خدا کا اوتار اور شریک سمجھتے تھے۔ اللہ تعالیٰ کے مبارک نام ” ا لرحمٰن“ کا بالکل انکار کرتے تھے۔ جب انہیں کہا جاتا۔ اللہ ہی اور ” رحمٰن“ ہے اس ” الرحمٰن“ کو سجدہ کرو تو وہ کہتے، رحمن کون ہے کہ جسے ہم سجدہ کریں۔ (وَإِذَا قِیْلَ لَہُمُ اسْجُدُوْا للرَّحْمٰنِ قَالُوْا وَمَا الرَّحْمٰنُ أَنَسْجُدُ لِمَا تَأْمُرُنَا وَزَادَہُمْ نُفُوْرًا) [ الفرقان : ٦٠] ” اور جب انھیں کہا جاتا ہے کہ رحمن کے لیے سجدہ کرو۔ وہ کہتے ہیں الرحمن کون ہے ؟ کیا ہم اسے سجدہ کریں جسے آپ سجدہ کرنے کا حکم دیتے ہیں اور ان کی نفرت میں اضافہ ہوجاتا ہے۔“ وہ یہ بھی اعتراض کرتے تھے کہ اگر ہم، اللہ کے ساتھ اپنے معبودوں کو شریک کرتے ہیں تو آپ بھی ” رحمان“ کو اللہ کا شریک بناتے ہیں۔ قرآن مجید میں اس کی وضاحت کی گئی کہ اللہ کا دوسرا نام ” الرحمن“ ہے۔ اس لیے اللہ کو پکارو یا الرحمن کو، اسی کے بہترین نام ہیں۔ (بنی اسرائیل : ١١٠) مسائل ١۔ پہلی امتوں کی طرف بھی رسول بھیجے گئے تھے۔ ٢۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کام لوگوں کے سامنے کتاب اللہ پڑھنا اور اس کی تفسیر کرنا تھا۔ ٣۔ کافر ” الرحمن“ کا انکار کرتے ہیں۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی الٰہ نہیں۔ تفسیر بالقرآن توکل علی اللہ کے فائدے : ١۔ ” اللہ“ کے سوا کوئی الٰہ نہیں میں اسی پر توکل کرتا ہوں اور مجھے اسی کی طرف پلٹنا ہے۔ (الرعد : ٣٠) ٢۔ اللہ توکل کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔ (آل عمران : ١٥٩) ٣۔ جو شخص اللہ پر توکل کرتا ہے اللہ اس کے لئے کافی ہے۔ (الطلاق : ٣) ٤۔ عمل کرنے والوں کے لیے بہتر اجر ہے جو صبر کرتے ہیں اور اللہ پر توکل کرتے ہیں۔ (العنکبوت : ٥٩) الرعد
31 فہم القرآن ربط کلام : کفار کے انکار اور بار بار معجزہ طلب کرنے کا دوسرا جواب۔ کفار کو بنیادی طور پر نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بجائے قرآن مجید کے ساتھ اختلاف تھا کیونکہ نزول قرآن سے پہلے اہل مکہ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ” الامین“ اور ” الصادق“ کے لقب سے پکارا کرتے تھے۔ مگر جب آپ پر قرآن مجیدنازل ہوا اور آپ نے اللہ کے رسول کی حیثیت سے اس کا ابلاغ شروع کیا تو کفار نے آپ کو کذاب کہنا شروع کیا۔ جس پر تبصرہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے۔ اے پیغمبر! ہم جانتے ہیں کہ ان لوگوں کی ہرزہ سرائی آپ کو پریشان کرتی ہے۔ لیکن یقین جانیں کہ حقیقتاً یہ آپ کو جھوٹا نہیں سمجھتے بلکہ ظالم اللہ کی آیات کو جھٹلاتے اور ان کے ساتھ جھگڑا کرتے ہیں۔ (الانعام : ٣٣) قرآن مجید کی مخالفت پر وہ یہ بھی مطالبہ کرتے تھے کہ اس قرآن کی بجائے کوئی اور قرآن لاؤ۔ (یونس : ١٥) یہاں اسی بات کا جواب دیا گیا ہے اگر قرآن مجید سے پہاڑ چلائے جاتے یا زمین پھاڑ دی جاتی یا اس کے ذریعے یہ لوگ مردوں سے ہم کلام ہوتے۔ تب بھی یہ لوگ قرآن مجید کو ماننے کے لیے تیار نہ ہوتے۔ اللہ تعالیٰ کے لیے ایسا قرآن نازل کرنا مشکل نہیں۔ کیونکہ ہر قسم کی طاقت اور اختیارات اللہ تعالیٰ کے پاس ہیں لیکن وہ طاقت کے زور پر کسی شخص کو ایمان لانے پر مجبور نہیں کرتا۔ جہاں تک کفار کا بار بار دلائل اور معجزات طلب کرنا ہے۔ دلائل اور معجزات تو آچکے۔ لیکن کافر ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ کیا اس صورت حال کے باوجود ایماندار لوگ، کفار کے طرز عمل اور سوچ سے مایوس نہیں ہوئے؟ ایمانداروں کو تو سمجھ جانا چاہیے کہ کفار کبھی ایمان نہیں لائیں گے۔ اگر اللہ تعالیٰ طاقت کے زور پر چاہتا تو سب لوگوں کو ہدایت پر جمع کرسکتا تھا۔ لیکن اس نے ہدایت کا معاملہ لوگوں کے اختیار پرچھوڑ رکھا ہے۔ ہدایت کا انکار کرنے والے بالآخر اپنے کردار کا خمیازہ بھگتیں گے۔ جو دنیا میں ان پر براہ راست وارد ہوگا یا اس کے بھیانک اثرات ان کے گھروں تک پہنچیں گے۔ یہاں تک کہ اللہ کا وعدہ آ پہنچے۔ یقین جانو کہ اللہ تعالیٰ اپنے وعدے کی خلاف ورزی نہیں کرتا۔ وعدہ سے مراد دنیا میں تباہ کن عذاب اور قیامت کا عذاب ہے۔ مسائل ١۔ نہ ماننے والے ہر قسم کے معجزات کا انکار کردیتے ہیں۔ ٢۔ ہر چیز کا اختیار اللہ تعالیٰ کے پاس ہے۔ ٣۔ کافر اللہ تعالیٰ کا عذاب دیکھ کر بھی اپنے آپ کو نہیں بدلتے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ وعدہ کی خلاف ورزی نہیں کرتا۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ کا ارشاد اور وعدہ برحق ہے : ١۔ اللہ کا وعدہ پورا ہوگا کیونکہ اللہ اپنے وعدے کی خلاف ورزی نہیں کرتا۔ (الرعد : ٣١) ٢۔ بے شک اللہ نے تمہارے ساتھ سچا وعدہ کیا ہے۔ (ابراہیم : ٢٢) ٣۔ یہ وہی سچا وعدہ ہے جس کا تمہارے ساتھ وعدہ کیا گیا تھا۔ (الاحقاف : ٢٠) ٤۔ اللہ کا وعدہ سچا ہے تمہیں دنیا کی زندگی دھو کے میں نہ ڈال دے۔ (لقمان : ٣٣) ٥۔ صبر کیجیے اللہ کا وعدہ سچا ہے۔ ( الحج : ٥٥) الرعد
32 فہم القرآن ربط کلام : منکرین حق کی عجب حالت تھی۔ ان کے مطالبہ پر معجزہ ظاہر ہوتا تو نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جادوگرقرار دیتے۔ اگر معجزہ دکھانے کی بجائے دلائل سے سمجھایا جاتا تو مذاق اڑاتے کہ کیسا رسول ہے کہ ہم نے فلاں معجزہ کا مطالبہ کیا تھا لیکن یہ اس کو پورا نہیں کرسکا۔ کیا ہم ایسے رسول پر ایمان لائیں کفار کے مذاق کرنے پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دینے کے ساتھ صورت حال سے آگہی بخشی جارہی ہے کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ اطمینان خاطر رکھیں۔ یہ تو ہم کفار کی آزمائش کرتے ہیں کہ کبھی ان کا مطالبہ مان کر معجزہ دکھا دیتے ہیں اور کبھی ان کے مطالبہ کو مسترد کردیتے ہیں۔ پھر انکار اور آپ کا استہزا کرنے پر مہلت دیتے ہیں۔ اسی طرح ہم نے ان سے پہلے کفار کو آزمایا تھا۔ جب ان کی مہلت ختم ہوئی اور ہماری طرف سے حجتّ تمام ہوچکی ہم نے انہیں پکڑلیا۔ ہمارا پکڑنا خوب ہوا کرتا ہے سورۃ البروج آیت : ١٢ میں فرمایا کہ تیرے رب کی گرفت بڑی سخت ہوا کرتی ہے۔ جب ان کی مہلت پوری ہوگی تو ان پر ایسی گرفت ہوگی کہ انہیں چھڑانے اور بچانے والا کوئی نہ ہوگا۔ چنانچہ پہلی گرفت بدر کے میدان میں ہوئی کہ ان کے ستر سورماؤں کی لاشیں بدر کے کنویں میں پھینک دی گئیں۔ تفسیر بالقرآن انبیاء کرام (علیہ السلام) کو مذاق کرنے والے لوگ : ١۔ یقیناً رسولوں کے ساتھ اس سے پہلے بھی مذاق کیا گیا ہے۔ (الرعد : ٢٢) ٢۔ کیا تم اللہ، اس کی آیات اور اس کے رسولوں سے مذاق کرتے ہو۔ (التوبہ : ٦٥) ٣۔ نہیں آیا ان کے پاس کوئی رسول مگر انہوں نے اس کا مذاق اڑایا۔ (الحجر : ١١) ٤۔ افسوس ہے لوگوں پر جب بھی ان کے پاس کوئی رسول آیا تو انہوں نے اس کا مذاق اڑایا۔ (یٰس : ٣٠) ٥۔ نہیں آیا ان کے پاس کوئی نبی مگر وہ ان سے مذاق کرتے تھے۔ (الزخرف : ٧) ٦۔ آپ سے پہلے بھی انبیا سے مذاق کیا جاتا رہا تب ان پر اللہ کا عذاب نازل ہوا۔ (الانبیاء : ٤١) الرعد
33 فہم القرآن ربط کلام : اے رسول ! کیا آپ کو مذاق کرنے والے بھول گئے ہیں کہ کیا اللہ تعالیٰ ان پر نگران نہیں ہے؟ اے رسول ! انبیاء ( علیہ السلام) کے ساتھ مذاق کرنے والے مجرموں کو اس ذات حق نے پکڑا جوہر نفس پر نگران اور اسے پکڑنے پر پوری طرح قادر ہے۔ وہ ہر نفس کے کردار اور افکار پر نگران ہے۔ رقیب کے معنی نگران کے ہیں۔ اس کے لفظی معنی کھڑے ہونے کے بھی ہیں جو ہر زبان میں محاورہ ہے کہ فلاں شخص فلاں کے سر پر کھڑا ہے۔ پہلے لوگوں کے گناہوں کا بنیادی سبب شرک تھا اور ان لوگوں نے بھی اللہ کے شریک بنا رکھے ہیں۔ انہیں بتلائیں کہ جن کو تم حاجت روا سمجھے ہو یہ تو محض تمہارے رکھے ہوئے نام ہیں۔ ان کے پیچھے نہ کوئی وجود ہے اور نہ ہی ان کی کوئی حقیقت جب تم پر اللہ کی گرفت ہوگی تو کوئی تمہارے کام نہ آسکے گا۔ مشرکوں کے رکھے ہوئے ناموں کی حقیقت پر غور کریں تو معلوم ہوگا۔ یہ ایک دھوکہ اور افسانے کے سوا کچھ بھی نہیں۔ مثال کے طور پر پیر عبدالقادر جیلانی (رح) کو لیجیے۔ لوگ انھیں دستگیر کہتے ہیں کہ وہ ڈوبتے بیٹرے بچا لیتے ہیں۔ 2005 ء کی بات ہے پوری دنیا کے اخبارات اٹھا کر دیکھیں اور اس وقت ٹی وی بلیٹن نکلوا کر دیکھیں اور سنیں کہ امریکہ کی عراق پر بمباری سے پیر عبدالقادر جیلانی (رح) کے مزار کو کس قدر شدید نقصان پہنچا۔ اسی طرح نجف میں حضرت علی (رض) کے مزار کا ایک حصہ تباہ ہوا۔ پیر صاحب اور حضرت علی (رض) اپنے مزارات کو نہ چا سکے۔ گویا کہ علی مشکل کشا اور پیر دستگیر محض مشرکوں کے رکھے ہوئے نام ہیں جن کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ دراصل کفار کے لیے ان کے مکر و فریب خوبصورت بنا دیے گئے ہیں۔ (النحل : ٦٣) اور وہ راہ حق سے روک دیے گئے ہیں۔ یہاں مشرکوں کو کافر اور ان کے شرک کو مکر و فریب قرار دیا گیا ہے مکر کا مفہوم ہے کسی کے خلاف سازش کرنا یا حقیقت کے خلاف کوئی چیز پیش کرنا۔ 1 قولی اور فعلی طور شرک کا پر چار کرنے والے لوگ توحید کے عقیدہ کے خلاف سازش کرتے ہیں۔ 2 شرک کرنے والے ہمیشہ جھوٹی اور من گھڑت کہانیوں کے ذریعے لوگوں کا عقیدہ خراب کرتے ہیں جسے قرآن مجید نے مکرو فریب قرار دیتا ہے۔ 3 شرک جھوٹ، فریب اور مکرو ریا کا دوسرا نام ہے۔4 شرک کا پر چار کرنے والے من گھڑت بزرگوں کی کرامات کے حوالے سے جھوٹے قصے بیان کر کے لوگوں کو دھوکہ دے کر عقیدہ توحید سے روکتے ہیں۔ 5 مشرک ایک سازش اور گھناؤنے منصوبے کے تحت جھوٹی کرامات بیان کر کے لوگوں کا مال ہڑپ کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو دنیا میں بھی عذاب دے گا اور آخرت میں ان کے لیے سخت ترین عذاب ہوگا۔ انہیں بچانے والا کوئی نہ ہوگا۔ کسی فرد اور قوم کی گمراہی کی اس وقت کوئی حد نہیں رہتی جب اس کے گناہ اس کے لیے فیشن اور فخر کا ذریعہ بن جائیں۔ ایسے فرد یا قوم کو پھر کوئی راہ راست پر نہیں لا سکتا۔ پہلی قوموں کے عذاب کے واقعات قرآن مجید نے بڑی تفصیل کے ساتھ بیان کیے ہیں۔ اہل مکہ پر اس طرح کا عذاب نازل نہ ہوا۔ لیکن تباہی اور ذلت کے حوالے سے انہیں پہلی اقوام کے مقابلہ میں بہت بڑی سزا سے دوچار ہونا پڑا۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ کفار کو ان کا مکر وفریب خوشنما کر کے دکھاتا ہے۔ ٢۔ جسے اللہ گمراہ رکھنا چاہے اسے کوئی راہ راست پر نہیں لاسکتا۔ ٣۔ کفار کو دنیا اور آخرت میں عذاب ہوگا۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ کے عذاب سے کفار کوئی نہیں بچاسکتا۔ الرعد
34 الرعد
35 فہم القرآن ربط کلام : کفار اور مشرکوں کے مقابلہ میں توحید کا عقیدہ رکھنے اور نیک اعمال کرنے والوں کا بہتر انجام اور صلہ۔ قرآن مجید اپنے دلکش اور مفیدترین اسلوب کے مطابق دونوں قسم کے لوگوں اور کرداروں کا انجام بیان کرتے ہوئے واضح کرتا ہے جن لوگوں نے صرف ایک اللہ کو مشکل کشا اور حاجت رواجانا اور اس کے حکم کے تابع ہو کر زندگی بسرکی، مشرکوں اور کفارکے ظلم وستم کا نشانہ بنے ان کے لیے جنت کا وعدہ ہے جس کے نیچے سے نہریں جاری ہیں۔ اس کے گھنے پھل اور ٹھنڈے سائے ہمیشہ رہنے والے ہیں۔ متقین کا بہترین انجام ہوگا اور ان کے مقابلہ میں کفار کے لیے جہنم کی آگ کے دہکتے ہوئے انگارے ہوں گے۔ جنتیوں اور جہنمیوں کا فرق : (جَابِرُ بْنَ عَبْدِ اللّٰہِ یَقُوْلُ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَأْکُلُ أَہْلُ الْجَنَّۃِ فِیْہَا وَیَشْرَبُوْنَ وَلاَ یَتَغَوَّطُوْنَ وَلاَ یَمْتَخِطُوْنَ وَلاَ یَبُوْلُوْنَ وَلٰکِنْ طَعَامُہُمْ ذَاکَ جُشَآءٌ کَرَشْحِ الْمِسْکِ یُلْہَمُوْنَ التَّسْبِیْحَ وَالْحَمْدَ کَمَا یُلْہَمُوْنَ النَّفَسَ قَالَ وَفِیْ حَدِیثِ حَجَّاجٍ طَعَامُہُمْ ذٰلِکَ )[ رواہ مسلم : کتاب صفۃ القیامۃ والجنۃ النار، باب فِی صِفَاتِ الْجَنَّۃِ وَأَہْلِہَا وَتَسْبِیْحِہِمْ فِیْہَا بُکْرَۃً وَّعَشِیًّا] ” حضرت جابر بن عبداللہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ نے فرمایا جنتی جنت میں کھائیں پییں گے، نہ پاخانہ کریں گے اور نہ ان کی ناک سے فضلہ آئے گا اور نہ ہی وہ پیشاب کریں گے۔ ان کا کھانا کستوری کی مانند ایک ڈکار سے ہضم ہوگا، تسبیح اور تحمید ان میں اس طرح الہام کی جائیں گی جس طرح سانس چلتی ہے۔ ایک اور روایت میں ہے کہ تسبیح اور تحمید ان کی غذا ہوگی۔ (عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ یَقُوْلُ اللّٰہُ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی لأَہْوَنِ أَہْلِ النَّارِ عَذَابًا لَوْ کَانَتْ لَکَ الدُّنْیَا وَمَا فِیْہَا أَکُنْتَ مُفْتَدِیًا بِہَا فَیَقُوْلُ نَعَمْ فَیَقُوْلُ قَدْ أَ رَدْتُّ مِنْکَ أَہْوَنَ مِنْ ہٰذَا وَأَنْتَ فِیْ صُلْبِ آدَمَ أَنْ لاَّ تُشْرِکَ أَحْسَبُہٗ قَالَ وَلاَ أُدْخِلَکَ النَّارَ فَأَبَیْتَ إِلاَّ الشِّرْکَ) [ رواہ مسلم : کتاب صفۃ القیامۃ والجنۃ النار ] ” حضرت انس بن مالک (رض) نبی کریم سے بیان کرتے ہیں آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ جہنمیوں میں سے کم ترین عذاب والے سے کہے گا۔ دنیا اور جو کچھ اس میں ہے وہ تیرے لیے ہو تو کیا تو اسے فدیہ کے طور پردے دے گا وہ کہے گا جی ہاں! اللہ تعالیٰ فرمائے گا میں نے اس سے بھی زیادہ تجھ سے نرمی کی تھی جب کہ تو آدم کی پشت میں تھا کہ میرے ساتھ شرک نہ کرنا، راوی کا خیال ہے اللہ تعالیٰ نے فرمایا میں تجھے جہنم میں داخلنہ کرتا لیکن تو شرک سے باز نہیں آیا۔“ (عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ نَارُکُمْ جُزْءٌ مِّنْ سَبْعِیْنَ جُزْءً ا مِّنْ نَّارِ جَھَنَّمَ قِیْلَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ اِنْ کَانَتْ لَکَافِیَۃً قَالَ فُضِّلَتْ عَلَیْھِنَّ بِتِسْعَۃٍ وَّ سِتِّیْنَ جُزْءً اکُلُّھُنَّ مِثْلُ حَرِّھَا) [ رواہ البخاری : باب صِفَۃِ النَّارِ وَأَنَّہَا مَخْلُوقَۃٌ ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تمہاری آگ‘ دوزخ کی آگ کے ستر حصوں میں سے ایک ہے آپ سے عرض کیا گیا‘ اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! جلانے کو تو یہی آگ کافی تھی۔ آپ نے فرمایا دوزخ کی آگ کو دنیا کی آگ سے انہتر ڈگری بڑھا دیا گیا ہے، ہر ڈگری دنیا کی آگ کے برابر ہوگی۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے متقین کے ساتھ جنت کا وعدہ فرمایا ہے۔ ٢۔ جنت کے نیچے نہریں جاری ہوں گی۔ ٣۔ جنت کے پھل اور سائے ہمیشہ رہنے والے ہیں۔ ٤۔ کافروں کا انجام دوزخ کی آگ ہے۔ تفسیر بالقرآن متقین کا صلہ اور کفار کا انجام : ١۔ اللہ تعالیٰ نے متقین کے ساتھ جنت کا وعدہ فرمایا ہے اور کافروں کا انجام دوزخ کی آگ ہے۔ (الرعد : ٣٥) ٢۔ صبر کرو متقین کا بہتر انجام ہے۔ (ہود : ٤٩) ٣۔ متقین کے لیے جنت ہے۔ (الحجر : ٤٥) ٤۔ کفار کے چہرے کالے ہوں گے اور جنتیوں کے چہرے پرنور ہوں گے۔ (آل عمران : ١٠٦۔ ١٠٧) ٥۔ مجرم کے لیے جہنم ہے۔ (طٰہٰ: ٧٤) ٦۔ کافر ہمیشہ جہنم میں رہیں گے۔ (الزخرف : ٧٤) ٧۔ کفار کے چہروں پر ذلت چھائی ہوگی اور متقین کے چہرے ہشاش بشاش ہوں گے۔ (یونس : ٢٦۔ ٢٧) الرعد
36 فہم القرآن ربط کلام : موحدین کا صلہ، مشرکین اور کفار کا انجام بیان کرنے کے بعد اہل کتاب کو شرک کے بارے میں متنبہ کیا گیا ہے۔ اہل کتاب دو گر وہ تھے ایک وہ جماعت جس نے حق پہنچایا اور اس پر ایمان لائے اور دین اسلام پر خوش ہوگئے۔ دوسرے وہ لوگ تھے جنھوں نے حق جاننے کے باوجود تعصب کی وجہ سے اس کا انکار کیا۔ اس طرح یہ لوگ کفرو شرک میں مبتلا ہوئے اور مبتلا رہیں گے۔ شرک کرنے والوں کو مجموعی طور پر دو حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ پہلا گروہ کفار کا ہے جو ملائکہ، جنات، شمس و قمر، ستاروں، بتوں اور دیگر چیزوں کو مختلف انداز میں اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کی صفات میں شریک سمجھتے ہیں۔ دوسرے وہ لوگ ہیں جو اپنے آپ کو کسی نہ کسی نبی کا پیروکار اور آسمانی کتاب کا حامل سمجھتے ہیں۔ لیکن انبیاء (علیہ السلام) اور اپنے بزرگوں کی روحوں اور مزارات کو اللہ کے قرب کا ذریعہ اور اس کے حضور وسیلہ اور واسطہ کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ یہودیوں نے حضرت عزیر (علیہ السلام) کو اللہ کا بیٹا قرار دیا اور عیسائیوں کی اکثریت نے حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کو اللہ کا بیٹا اور حضرت مریم [ کو اللہ کی بیوی قرار دیا۔ آپ کو حکم ہے کہ اے رسول ! آپ فرمادیں کہ میں صرف اور صرف ایک اللہ کی دعوت دیتا ہوں اور اسی کے حضور مجھے پیش ہونا ہے۔ (عَنْ اَبِیْ ھُرَےْرَۃَ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اَتَی الْمَقْبَرَۃَ فَقَال السَّلَامُ عَلَےْکُمْ دَارَ قَوْمٍ مُّؤْمِنِےْنَ وَاِنَّآ اِنْ شَآء اللّٰہُ بِکُمْ لَاحِقُوْنَ وَدِدْتُّ اَنَّا قَدْ رَاَےْنَا اِخْوَانَنَا قَالُوْا اَوَلَسْنَا اِخْوَانَکَ ےَا رَسُوْلَ اللّٰہِ قَالَ اَنْتُمْ اَصْحَابِیْ وَاِخْوَانُنَا الّذِےْنَ لَمْ ےَاتُوْابَعْدُ فَقَالُوْا کَےْفَ تَعْرِفُ مَنْ لَّمْ ےَاْتِ بَعْدُ مِنْ اُمَّتِکَ ےَا رَسُوْلَ اللّٰہِ فَقَالَ اَرَأَ ےْتَ لَوْ اَنَّ رَجُلًا لَّہٗ خَےْلٌ غُرٌّ مُّحَجَّلَۃٌ بَےْنَ ظَہْرَیْ خَےْلٍ دُھْمٍ بُھْمٍ اَلَا ےَعْرِفُ خَےْلَہٗ قَالُوْا بَلٰی ےَا رَسُوْلَ اللّٰہِ قَالَ فَاِنَّھُمْ ےَاتُوْنَغُرًّا مُّحَجَّلِےْنَ مِنَ الْوُضُوْٓءِ وَاَنَا فَرَطُھُمْ عَلَی الْحَوْضِ)[ رواہ مسلم : کتاب الطہارۃ، باب اسْتِحْبَابِ إِطَالَۃِ الْغُرَّۃِ وَالتَّحْجِیْلِ فِی الْوُضُوْٓءِ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) ذکر کرتے ہیں رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک دن قبرستان میں تشریف لے گئے فرمایا السَّلَامُ عَلَےْکُمْ دَارَ قَوْمٍ مُّؤْمِنِےْنَ وَاِنَّا اِنْ شَآء اللّٰہُ بِکُمْ لَاحِقُوْنَ اے ایمان والو! تم پر سلام ہو ہم انشاء اللہ عنقریب تم سے ملنے والے ہیں۔ میری تمنا ہے کہ ہم اپنے بھائیوں کی زیارت کریں۔ ہم نے عرض کیا اے اللہ کے رسول! کیا ہم آپ کے بھائی نہیں ہیں۔ آپ نے فرمایا تم میرے ساتھی ہو۔ میری مراد وہ بھائی ہیں جو ہمارے بعد آئیں گے۔ ہم نے عرض کیا اے اللہ کے رسول! آپ اپنی امت کے بعد والے لوگوں کو کس طرح پہچانیں گے؟ آپ نے استفسار فرمایا اگر کسی شخص کے گھوڑے کی پیشانی اور چاروں پاؤں سفید ہوں کیا وہ بالکل سیاہ رنگ گھوڑوں میں اسے پہچان نہیں سکتا؟۔ ہم نے عرض کیا کیوں نہیں۔ فرمایا کہ بعد میں آنے والے لوگوں کے اعضا وضوکی وجہ سے چمکتے ہوں گے میں حوض کوثر پر ان کا استقبال کروں گا۔“ مسائل ١۔ کتاب اللہ کو تسلیم کرنے والے اس کے احکام سے خوش ہوتے ہیں۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو صرف اپنی عبادت کرنے کا حکم دیا۔ ٣۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لوگوں کو ایک اللہ کی طرف بلاتے تھے۔ ٤۔ ہر کسی نے اللہ تعالیٰ کے ہاں پلٹ کرجانا ہے۔ تفسیر بالقرآن سب نے اللہ تعالیٰ کے حضور پیش ہونا ہے : ١۔ میں اسی کی طرف بلاتا ہوں اور اسی کی طرف مجھے واپس جانا ہے۔ (الرعد : ٣٦) ٢۔ اللہ کو ہی قیامت کا علم ہے اور اسی کی طرف تم نے لوٹنا ہے۔ (الزخرف : ٨٥) ٣۔ زمین اور جو کچھ اس میں ہے ہم اس کے وارث ہیں اور وہ ہماری طرف لوٹیں گے (مریم : ٤٠) ٤۔ اللہ کے لیے زمین و آسمان کی بادشاہت ہے اور اسی کے سامنے پیش کیے جاتے۔ (الزمر : ٤٤) ٥۔ وہ زندہ کرتا اور مارتا ہے اور اسی کے حضور تم نے پیش ہونا ہے (یونس : ٥٦) الرعد
37 فہم القرآن ربط کلام : جس طرح پہلے انبیاء (علیہ السلام) کو آسمانی کتابیں عنایت کی گئیں۔ اسی طرح نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو قرآن مجید عطا ہوا جو عربی زبان میں ہے۔ آپ کو حکم تھا کہ لوگوں کی خواہشات کے پیچھے چلنے کی بجائے اللہ کے حکم کی اتباع کرنا ہے۔ اس خطاب کا آغاز آیت نمبر ٣٠ سے ان الفاظ سے شروع ہوا ہے کہ آپ کی امت جیسی پہلے بھی امتیں گزری ہیں۔ لہٰذا آپ اپنی امت کو پڑھ کر سنائیں۔ جو ہم نے آپ کی طرف نازل فرمایا ہے۔ یہ قرآن مجید عربی زبان میں نازل کیا گیا ہے۔ جو اللہ تعالیٰ کے حکم کی حیثیت رکھتا ہے یہ ایسا حکم ہے جس میں اچھے کاموں کے کرنے کا حکم ہے اور برے کاموں سے منع کیا گیا ہے۔ اچھے کام کرنے والوں کے لیے خوشخبریاں ہیں اور برے کام کرنے والوں کو ان کے برے انجام سے ڈرایا گیا ہے۔ جس کا خلاصہ یہ ہے کہ قرآن مجید امر بالمعروف اور نہی عن المنکر پر مشتمل ہے۔ اسے اللہ تعالیٰ نے عربی زبان میں نازل کیا ہے۔ جس طرح پہلی کتابیں جن لوگوں کے لیے نازل کی گئیں وہ انہی کی زبان میں تھیں۔ تاکہ لوگوں کو سمجھنے میں آسانی ہو۔ جس قوم کی زبان میں کتاب نازل ہوتی ہے ان کا فرض دوسری اقوام سے نسبتاً زیادہ ہوتا ہے اور جس شخصیت گرامی پر کتاب نازل ہوتی ہے اس شخصیت پر سب سے بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ لہٰذا اے پیغمبر! آپ پر ہم نے قرآن مجید نازل کیا جو سراسر علم و حکمت کا منبع ہے۔ اس کے باوجود اگر آپ نے ہمارے حکم کو چھوڑ کر خوف یا کسی وجہ سے ان لوگوں کی خواہشات کی پیروی کی تو یادرکھیں کہ اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں نہ کوئی آپ کا حمایتی ہوگا اور نہ ہی کوئی آپ کو بچانے والا ہوگا۔ آپ کو اور آپ کے حوالے سے آپ کی امت کو یہ بات سمجھائی گئی ہے کہ ہر حال میں اپنے رب کا حکم ماننا ہے۔ (عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) أَحِبُّوا الْعَرَبَ لِثَلاَثٍ لِأَنِّیْ عَرَبِیٌّ، وَالْقُرْاٰنَ عَرَبِیٌّ، وَکَلاَمَ أَہْلِ الْجَنَّۃِ عَرَبِیٌّ )[ شعب الایمان للبیھقی ] ” حضرت عبداللہ بن عباس (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میں عربوں سے تین وجہ سے محبت کرتا ہوں اس لیے کہ میں عربی ہوں، قرآن عربی زبان میں نازل ہوا اور جنتیوں کی زبان بھی عربی ہوگی۔“ (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَمْرٍو (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لاَ یُؤْمِنُ أَحَدُکُمْ حَتّٰی یَکُوْنَ ہَوَاہٗ تَبَعًا لِمَا جِءْتُ بِہٖ) [ رواہ فی شرح السنۃ وقال النووی فی أربعینہ : ہذا حدیث صحیح ] ” عبداللہ بن عمر و (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تم میں سے کوئی شخص مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ اس کی خواہشات اس چیز کے تابع نہ ہوجائیں جو میں لایا ہوں۔“ مسائل ١۔ قرآن مجید عربی زبان میں نازل کیا گیا ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ کے مقابلہ میں انسان کا کوئی مدگار نہیں ہوتا۔ ٣۔ دین کا علم حاصل ہوجانے کے بعد کسی کی خواہشات کی پیروی نہیں کرنی چاہیے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ کے عذاب سے کوئی نہیں بچاسکتا۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ کے مقابلہ میں انسان کو کوئی بچانے والا نہیں : ١۔ اگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کی خواہشات کی پیروی کریں گے تو آپ کا نہ کوئی مددگار ہوگا اور نہ کوئی اللہ سے بچانے والا ہوگا۔ (الرعد : ٣٧) ٢۔ اللہ کے عذاب سے کوئی نہیں بچاسکتا۔ (ہود : ٤٣) ٣۔ جب اللہ نے ان کے گناہوں کی پاداش میں انہیں پکڑ لیاتو انہیں کوئی بچانے والا نہ تھا۔ (المومن : ٢١) ٤۔ اس دن تم پیٹھوں کے بل واپس پلٹوگے اللہ تعالیٰ سے تمہیں کوئی بچانے والا نہ ہوگا۔ (المومن : ٣٣) ٥۔ کہہ دیجیے کون ہے جو تمہیں اللہ کے عذاب سے بچاۓ گا اگر وہ تمہیں اس میں مبتلا کرنا چاہے۔ (الاحزاب : ١٧) ٦۔ ان کے چہروں کو ذلت و رسوائی نے ڈھانپ رکھا ہوگا اور اللہ تعالیٰ سے انھیں کوئی بچانے والا نہ ہوگا۔ (یونس : ٢٧) الرعد
38 فہم القرآن ربط کلام : نئے خطاب کا آغاز اور کفار کے ایک اعتراض کا جواب۔ مکہ اور حجاز کے کافر جہالت اور عصبیت کی بناء پر رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر یہ اعتراض بھی کیا کرتے تھے کہ یہ کیسا رسول ہے؟ جو ہماری طرح کھانے پینے کا محتاج اور بیوی بچوں والا ہے۔ اس اعتراض کا جواب سورۃ یونس کی ابتدا میں یوں جواب دیا گیا کہ لوگوں کو اس بات پر تعجب ہوا ہے کہ انہی میں سے ایک شخص پر ہم نے کتاب نازل کی ہے حالانکہ اس میں تعجب کی بات نہیں بلکہ اس میں ایمان لانے والوں کے لیے خوشی اور آسانی کی بات ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انہی میں سے ایک شخص کو رسول بنایا تاکہ ایمان لانے اور اس پر عمل کرنے والوں کے لیے آسانی اور خوشخبری ہو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خوشخبری سنانے والا بناکر بھیجا گیا ہے۔ ( یونس : ٣) سورۃ آل عمران آیت : ١٦٤ میں ارشاد ہے کہ یہ تو اللہ تعالیٰ نے مومنوں پر بڑا احسان فرمایا ہے کہ انہی میں سے ایک شخصیت کو رسول بنایا ہے۔ سورۃ التوبۃ آیت : ١٢٨ میں فرمایا اے لوگو! تمہارے پاس تم ہی میں سے ایک رسول آیا ہے جسے تمہاری تکلیف بڑی گراں گزرتی ہے اور تمہارے ایمان لانے کے بارے میں وہ بڑی آرزو رکھتا ہے اور ایمان لانے والوں کے ساتھ نہایت شفقت کرنے والا، مہربان ہے۔ قرآن مجید کا دوسرا جواب : (قُلْ لَوْ کَانَ فِی الْأَرْضِ مَلَآءِکَۃٌ یَمْشُوْنَ مُطْمَءِنِّیْنَ لَنَزَّلْنَا عَلَیْہِمْ مِنَ السَّمَآءِ مَلَکًا رَّسُوْلًا) [ بنی اسرائیل : ٩٥] ” اگر زمین میں بسنے والے فرشتے ہوتے تو اللہ تعالیٰ ان لوگوں کے لیے فرشتہ ہی نبی بنا کر بھیجتا۔“ تیسرا جواب : (وَمَآ أَرْسَلْنَا قَبْلَکَ مِنَ الْمُرْسَلِیْنَ إِلَّآإِنَّہُمْ لَیَأْکُلُوْنَ الطَّعَامَ وَیَمْشُوْنَ فِی الْأَسْوَاقِ) [ الفرقان : ٢٠] ” اے پیغمبر! ہم نے آپ سے پہلے جتنے بھی رسول بھیجے وہ سب کے سب کھانا کھاتے اور بازاروں میں چلا پھرا کرتے تھے یعنی ایک چلتے پھرتے انسان ہی ہوا کرتے تھے۔“ جہاں تک کفار کے دوسرے اعتراض کے جواب کا معاملہ ہے کہ آپ ان کے لیے کوئی معجزہ نازل کریں اس کا بھی قرآن مجید نے بارہا دفعہ تفصیلی جواب دیا ہے۔ یہاں صرف اتنا ارشاد فرمایا کیونکہ پیغمبر ایک انسان ہوتا ہے اس لیے اللہ تعالیٰ کے حکم کے بغیر نبی کے بس کی بات نہیں کہ وہ جب چاہے اور جس طرح کا چاہے لوگوں کے سامنے معجزہ پیش کرسکے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اعتراض کرنے والوں کو یہ خبر ہونی چاہیے کہ ہر دور کے لیے ایک کتاب ہے۔ جس میں اللہ تعالیٰ جو چاہے مٹا دیتا ہے اور جو چاہے بر قرار رکھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے پاس ام الکتاب ہے۔ جو لوح محفوظ ہے۔ اس میں ہر چیز پوری تفصیل کے ساتھ اس کے پاس لکھی ہوئی ہے۔ کچھ باتوں کو مٹانے اور کچھ کو برقرار رکھنے کے دو مفہوم ہو سکتے ہیں۔ ١۔ کراماً کا تبین ہر انسان کے ہر قول وفعل کو لکھتے جارہے ہیں یہاں تک کہ کوئی انسان دل ہی دل میں کسی بات پر خوش ہوتا ہے تو اس کے چہرے پر عیاں ہونے والے خوشی کے اثرات کو بھی کراماً کا تبین ضبط تحریر میں لے آتے ہیں۔ گویا کہ انسان جو بھی اچھے برے، چھوٹے موٹے کام کرتا ہے کراما کا تبین اس کا مسلسل اندراج کر رہے ہوتے ہیں۔ جو جمعرات کے دن اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کیے جاتے ہیں اللہ تعالیٰ جس کے چاہتا ہے گناہ معاف کردیتا ہے اور کچھ گناہ ایسے ہیں جو بر قرارر کھے جاتے ہیں حتی کہ جن کا کرنے والا اپنے رب کے حضور توبہ کرلے۔ تاہم سب کچھ اللہ تعالیٰ کے ہاں محفوظ ہے۔ ٢۔ دوسرا مفہوم اہل علم نے یہ لیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو اس بات کا پورا پورا اختیار ہے کہ وہ اپنے احکام یعنی اپنی طرف سے نازل کردہ کتاب سے جس حکم کو چاہے ختم کردے اور جسے چاہے باقی رہنے دے۔ پیغمبر کو اس میں کسی قسم کے ردّو بدل کا ذرہ برابر اختیار نہیں۔ ( تفصیل کے لیے دیکھیں فہم القرآن جلد اول صفحہ : ١٨٣) (عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ إِنَّ أَعْمَالَ بَنِیْٓ آدَمَ تُعْرَضُ کُلَّ خَمِیْسٍ لَیْلَۃَ الْجُمُعَۃِ فَلاَ یُقْبَلُ عَمَلُ قَاطِعِ رَحِمٍ) [ رواہ أحمد وہوحدیث حسن ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے ہوئے سنا آپ نے فرمایا یقیناً انسان کے اعمال جمعرات کو یعنی جمعہ کی شام کو پیش کیے جاتے ہیں۔ پس رشتہ داری توڑنے والے کے اعمال قبول نہیں کیے جاتے۔“ مسائل ١۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پہلے بھی رسول مبعوث کیے گئے۔ ٢۔ تمام انبیاء (علیہ السلام) رشتے، ناطے رکھتے تھے۔ ٣۔ اللہ کے حکم کے بغیر کوئی رسول معجزہ نہیں دکھا سکتا تھا۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ جس حکم کو چاہے مٹا دے اور جس کو چاہے برقرار رکھے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ کے پاس سب کچھ لکھا ہوا اور محفوظ ہے : ١۔ اللہ تعالیٰ جس حکم کو چاہتا ہے مٹا دیتا ہے اور جس حکم کو چاہتا ہے باقی رکھتا ہے اور اسی کے پاس محفوظ کتاب ہے۔ (الرعد : ٣٩) ٢۔ اور ہم قیامت کے دن لکھا ہوا اعمالنامہ انسان کے سامنے کردیں گے اور ہر کوئی اسے کھلا ہوا دیکھ لے گا۔ (بنی اسرائیل : ١٣) ٣۔ کیا تم نہیں جانتے کہ جو کچھ آسمان و زمین میں ہے اللہ اس کو جانتا ہے۔ تمام چیزیں لکھی ہوئی ہیں۔ (الحج : ٧٠) ٤۔ تمہیں جو بھی تکلیف پہنچتی ہے وہ لکھی ہوئی ہے۔ (الحدید : ٢٢) ٥۔ یہ ہمارا لکھا ہوا ہے جو ٹھیک ٹھیک بول رہا ہے تم جو کچھ بھی کرتے تھے ہم لکھوائے جاتے تھے۔ (الجاثیۃ: ٢٩) ٦۔ وہ کہیں گے ہائے افسوس یہ اعمال نامہ کیسا ہے جس میں ہر چھوٹی بڑی بات موجود ہے۔ (الکہف : ٤٩) الرعد
39 الرعد
40 فہم القرآن ربط کلام : کفار کے اعتراض کا دوسرا جواب : منکرین حق کا سینکڑوں دلائل سننے اور درجنوں معجزات دیکھنے کے باوجود اس بات پر مصر رہنا اور تکرار کرنا کہ رسول ہمیں مزید معجزات کیوں نہیں دکھاتا یا ہمارے مطالبہ پر ہم پر سخت ترین عذاب نازل کیوں نہیں ہوتا ؟ اس کا بھی قرآن مجید نے متعدد مقامات پر جامع اور تفصیلی جواب دیا ہے۔ جس کے ثبوت حضرت نوح (علیہ السلام) سے لے کر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی امتوں کے حوالے سے پیش کیے ہیں۔ مگر پھر بھی منکرین حق آپ سے اس قسم کے مطالبات کرتے ہی رہتے تھے۔ جن کا اس مقام پر فقط اتنا ہی جواب دیا ہے کہ اے رسول ! جس بات کا یہ مطالبہ کرتے ہیں اور ہم نے آپ سے وعدہ کیا ہے۔ اس کا کچھ حصہ آپ کی حیات مبارکہ میں یا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کے بعد انہیں ضرور دکھا اور چکھا دیا جائے گا۔ ان کی حماقتوں کی طرف توجہ دینے کی بجائے جو کچھ آپ پر نازل کیا جا رہا ہے ان تک پہنچاتے جائیں۔ آپ کے ذمہ ان کو حق بات پہنچانا ہے اور ہمارے ذمہ ان سے حساب لینا ہے۔ یہ عذاب کے بارے میں جلد بازی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ کیا یہ نہیں دیکھتے کہ ہم زمین کو اس کے تمام اطراف سے گھٹاتے چلے جا رہے ہیں۔ انہیں خبر ہونی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ ہی فیصلہ کرنے والا ہے۔ جس کے فیصلے پر کوئی نظرثانی اور تعاقب کرنے والا نہیں۔ وہ جلد حساب لینے والا ہے۔ زمین کے چاروں اطراف کی طرف تنگ ہونے کا اس زمانے کے مطابق مفہوم یہ ہے کہ اہل مکہ اور دیگر مخالفین کی ہزار کوششوں کے باوجود اسلام کا پھریرہ دور دور تک پھیلتا جارہا تھا۔ یہاں تک کہ صحابہ کرام (رض) کے دور میں ہی وہ وقت آیا کہ جب مسلمان دنیا کی سب سے بڑی طاقت بن کر ابھرے اور مسلمان تقریباً آٹھ سو سال دنیا میں واحد سپر پاور کے طور پر حکومت کرتے رہے۔ اس طرح اللہ کا حکم اور اس کا فیصلہ دنیا میں پورا ہوا۔ جس کا قرآن مجید نے ان الفاظ میں ذکر کیا ہے۔ کفار چاہتے ہیں کہ اللہ کے نور کو پھونکوں سے بجھا دیں لیکن اللہ تعالیٰ اپنے نور کو پورا کر کے رہے گا خواہ یہ بات کفار کے لیے کتنی ہی ناگوار کیوں نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ اس لیے بھیجا تاکہ اسے تمام ادیان پر غالب کر دے۔ خواہ یہ بات مشرکوں کے لیے کتنی ہی ناپسند کیوں نہ ہو۔ (التوبۃ: ٣٢، ٣٣) اللہ تعالیٰ نے یہ بات لکھ چھوڑی ہے کہ میں اور میرے رسول ضرور غالب آئیں گے کیونکہ اللہ تعالیٰ بڑی قوت اور غلبہ والا ہے۔ (المجادلۃ : ٢١) (عَنْ أَبِیْ سُکَیْنَۃَ رَجُلٌ مِّنَ الْمُحَرَّرِیْنَ عَنْ رَّجُلٍ مِّنْ أَصْحَاب النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ لَمَّا أَمَرَ النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بِحَفْرِ الْخَنْدَقِ عَرَضَتْ لَہُمْ صَخْرَۃٌ حَالَتْ بَیْنَہُمْ وَبَیْنَ الْحَفْرِ فَقَامَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وَأَخَذَ الْمِعْوَلَ وَوَضَعَ رِدَآءَ ہٗ نَاحِیَۃَ الْخَنْدَقِ وَقَالَ (تَمَّتْ کَلِمَۃُ رَبِّکَ صِدْقًا وَّعَدْلاً لاَ مُبَدِّلَ لِکَلِمَاتِہٖ وَہُوَ السَّمِیعُ الْعَلِیمُ) ......[ رواہ النسائی : باب غزوۃ الترک والحبشۃ] حضرت ابو سکینہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ایک صحا بی سے بیان کرتے ہیں کہ جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خندق کھودنے کا حکم دیا تو خندق کھودتے ہوئے ایک چٹان درمیان میں حائل ہوگئی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کدال پکڑا اور اپنی چادر کو خندق کے کنارے رکھا اور کہا (تَمَّتْ کَلِمَۃُ رَبِّکَ صِدْقًا وَّعَدْلاً لاَ مُبَدِّلَ لِکَلِمَاتِہٖ وَہُوَ السَّمِیعُ الْعَلِیمُ) تو پتھر کا تہائی حصہ ٹوٹ گیا......... مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ جب چاہے عذاب لے آئے۔ ٢۔ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کام تبلیغ کرناتھا۔ ٣۔ حساب لینا اللہ تعالیٰ کا کام ہے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ کے حکم کو کوئی نہیں ٹال سکتا۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ جلد حساب لینے والا ہے۔ تفسیر بالقرآن انبیاء ( علیہ السلام) کا کام حق بات پہنچانا ہے : ١۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کام حق پہنچانا ہے اور حساب لینا ہمارا کام ہے۔ (الرعد : ٤٠) ٢۔ نہیں ہے رسولوں پر مگر حق بات پہنچانا۔ (النحل : ٣٥) ٣۔ اگر وہ منہ موڑلیں تو آپ کی ذمہ داری پہنچانا ہے۔ (آل عمران : ٢٠) ٤۔ نہیں ہے رسول پر مگر واضح طور پر پیغام پہنچانا۔ (النور : ٥٤) ٥۔ آپ نصیحت کرتے رہیں آپ کا کام نصیحت کرنا۔ (الغاشیہ : ٢١) ٦۔ اگر تم اعراض کرو تو جان لو ہمارے رسولوں پر فقط پہنچا نا ہے۔ (المائدۃ: ٩٢) ٧۔ رسولوں نے کہا ہمارا کام تو تبلیغ کرنا ہے۔ (یٰس : ١٧) الرعد
41 الرعد
42 فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ اے پیغمبر! ان لوگوں کا مخالفت کرنا کوئی انوکھی بات اور پہلا واقعہ نہیں۔ آپ سے پہلے جتنے پیغمبر ہوئے۔ مخالفین ان کے خلاف ہر قسم کا مکرو فریب اور ظلم و زیادتی کیا کرتے تھے۔ مکر کے معافی ہیں۔ ” فریب، دھوکہ، سازش اور تدبیر کرنا۔“ جب یہ لفظ اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب ہو تو تمام اہل علم کے نزدیک اس کا معنی تدبیر کرنا ہوتا ہے۔ جب اس کی نسبت کفار، منافقین اور حق کے منکرین کی طرف ہو تو اس کا معنی مکرو فریب ہوجایا کرتا ہے۔ یہاں رسول مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دینے اور حقیقت حال سے آگاہ کرنے کے لیے فرمایا ہے کہ اے پیغمبر! گھبرانے اور دل چھوٹا کرنے کی ضرورت نہیں۔ آپ سے پہلے انبیاء (علیہ السلام) کے جتنے مخالف گزرے ہیں انہوں نے انبیاء (علیہ السلام) کے خلاف مکرو فریب اور سازشیں کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔ جس کے ثبوت حضرت نوح (علیہ السلام) سے لے کر حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے مخالفین کے حوالے سے موجود ہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ کی تدبیر ان کے مکرو فریب پر غالب رہی۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ ہر اعتبار سے اپنی تدبیر کامیاب کرنے میں غالب ہے۔ اطمینان رکھیں کہ اللہ تعالیٰ آپ کے مخالفوں اور ہر شخص کے کردار کو پوری طرح جانتا ہے۔ عنقریب حق کا انکار کرنے والوں کو معلوم ہوجائے گا کہ انجام کار اور آخرت کا گھر کس کے لیے بہتر ہے۔ ہزاروں دلائل اور درجنوں معجزات دیکھنے اور سننے کے باوجود کافر کہتے ہیں کہ آپ اللہ کے رسول نہیں ہیں۔ پورے اطمینان کے ساتھ انہیں فرمائیں کہ تمہارے انکار کا مجھ پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ تم میری رسالت کی گواہی نہیں دینا چاہتے تو تمہاری مرضی، لیکن یاد رکھو کہ میرے اور تمہارے درمیان اللہ گواہ ہے اور وہ شخص بھی میرے حق میں گواہ ہے جس کے پاس کسی بھی آسمانی کتاب کا علم ہے یعنی تو رات، انجیل، زبور اور قرآن مجید میں میری رسالت کی جابجا شہادتیں پائی جاتی ہیں۔ برٹش اینڈ فارن بائیبل سوسائٹی لاہور ١٩٣١ ء کی چھپی ہوئی بائیبل میں یوحنا کی انجیل کے باب چودہ کی سولہویں آیت میں ہے۔ میں باپ سے درخواست کروں گا تو وہ تمھیں دوسرا مددگار بخشے گا کہ ابد تک تمھارے ساتھ رہے۔“ لفظ مددگار پر حاشیہ ہے۔ اس پر اس کے معنی وکیل یا شفیع لکھے ہیں۔ تو اب حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے بعد جو شفیع ہوا اور ابد تک رہے یعنی اس کا دین کبھی منسوخ نہ ہو بجزسید عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے کون ہے ؟ پھر انتیسویں تیسویں آیت میں ہے اور اب میں نے تم سے اس کے ہونے سے پہلے کہہ دیا ہے تاکہ جب ہوجائے تو تم یقین کرو اس کے بعد میں تم سے بہت سی باتیں نہ کروں گا۔ کیونکہ دنیا کا سردار آتا ہے اور مجھ میں اس کا کچھ نہیں۔“ (سورۃ الصف : ٦ تدبر قرآن، از قلم : امین احسن اصلاحی) (وَإِذْ قَالَ عِیْسٰی ابْنُ مَرْیَمَ یَا بَنِیْ إِسْرَاءِیلَ إِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ إِلَیْکُمْ مُصَدِّقًا لِمَا بَیْنَ یَدَیَّ مِنَ التَّوْرَاۃِ وَمُبَشِّرًا بِرَسُوْلٍ یَأْتِیْ مِنْ بَعْدِیْ اسْمُہُ أَحْمَدُ فَلَمَّا جَاءَ ہُمْ بالْبَیِّنَاتِ قَالُوْا ہٰذٰا سِحْرٌ مُبِیْنٌ)[ الصف : ٦] ” اور جب عیسیٰ نے کہا اے بنی اسرائیل میں تمھاری طرف رسول بنا کر بھیجا گیا ہوں تورات کی تصدیق کرنے والا اور ایک رسول کی بشارت سنانے والا ہوں جو میرے بعد آئے گا اور اس کا نام احمد ہوگا جب آپ ان کے پاس معجزات لے کر آگئے تو انھوں نے کہا یہ تو سراسر جاد وہے۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ کے مقابلہ میں کسی کی تدبیر کار گر نہیں ہوتی۔ ٢۔ ہر کسی کو اس کے اچھے اور بڑے انجام کا علم ہوجائے گا۔ ٣۔ تورایت، انجیل اور زبور کا علم رکھنے والا جانتا ہے کہ حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رسول حق ہیں۔ ٤۔ کافر جان لیں گے کہ اچھا انجام کس کا ہوتا ہے۔ تفسیر بالقرآن انبیاء (علیہ السلام) کے خلاف مجرموں کے مکرو فریب : ١۔ ان سے پہلے بھی مکر وفریب کرچکے ہیں حالانکہ اللہ کے مقابلہ میں کسی کی تدبیر کارگر نہیں ہوتی۔ (الرعد : ٤٢) ٢۔ انہوں نے مکر کیا اور ہم نے تدبیر کی اور انہیں اس تدبیرکا علم بھی نہ ہوسکا۔ (النمل : ٥٠) ٣۔ اللہ نے کفار کے لیے ان کے مکر کو مزین کردیا ہے۔ (الرعد : ٣٣) ٤۔ ان کے مکر کا انجام دیکھو ہم نے انہیں اور ان کی قوم کو ہلاک کردیا۔ (النمل : ٥١) الرعد
43 الرعد
0 بسم اللہ الرحمن الرحیم سورۃ ابراہیم کا تعارف یہ سورۃ مبارکہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے نام سے منسوب کی گئی ہے۔ جن کا اسم گرامی اس سورۃ کی آیت ٣٥ میں مذکورہے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا نام نامی قرآن مجید میں مجموعی طور پر ٦٢ مرتبہ ذکر ہوا ہے۔ اس عظیم سورت کی ابتدا میں قرآن مجید کا ان الفاظ میں تعارف کروایا گیا ہے کہ اے نبی آخر الزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! اللہ تعالیٰ نے آپ پر قرآن مجید اس لیے نازل کیا ہے تاکہ آپ لوگوں کو ہر قسم کی تاریکیوں سے نکال کر دنیا اور آخرت کی تابناکیوں میں لاکھڑا کریں۔ یہ اس ذات کبریا کی طرف سے آپ پر نازل ہوا ہے جو ہر اعتبار سے غالب رہنے والا اور لائق تعریف ہے۔ مگر لوگوں کی حالت یہ ہے کہ وہ آخرت کی لامتناہی زندگی اور بیش بہا نعمتوں کے بدلے میں دنیا کو ترجیح دیتے ہیں۔ درحقیقت یہ لوگ پرلے درجے کی گمراہی میں بھٹک چکے ہیں۔ آپ سے پہلے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو ایسی ہی کتاب اور فرض تفویض کیا گیا تھا۔ مگر فرعون اور اس کے ساتھیوں نے اسے یکسر طور پر مسترد کردیا۔ جس کے نتیجہ میں انھیں تباہی کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ دراصل کفار کے اعمال کی حیثیت ریت کے ذرّات کی طرح ہے۔ جس طرح آندھی کے مقابلے میں ریت کے ذرات کو ٹھہراؤ حاصل نہیں۔ اسی طرح کفار کے نظریات اور اعمال کی کوئی بنیاد نہ ہے۔ یہ لوگ شیطان کے جال میں پھنس چکے ہیں۔ قیامت کے دنشیطان کی حالت یہ ہوگی کہ وہ اپنے پیچھے لگنے والوں کو یہ کہے گا کہ میں تمھاری کوئی مدد نہیں کرسکتا کیونکہ میری اپنی نجات کی کوئی صورت نہیں ہے۔ اب ہمیں ہمیشہ ہمیش کے لیے جہنم میں رہنا ہے۔ اس کے بعد جنت کا تذکرہ ہے جس میں جنتیوں کے لیے ہمیشہ سلامتی ہوگی۔ پھر اللہ تعالیٰ نے کلمہ توحید کو ایک سدا بہار درخت کے ساتھ تشبیہ دی ہے۔ جو ہر موسم میں سدا بہار اور پھل دیتا ہے اس کے ساتھ شرک کو ناپاک درخت قرار دیا ہے۔ کلمہ طیبہ دنیا اور آخرت میں ایمانداروں کے لیے قرار اور ثبات کا ذریعہ ہے۔ شرک اور کفر مشرک اور کافر کے لیے دنیا اور آخرت میں تباہی کا سبب ہے۔ سورۃ ابراہیم کے آخر میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی اس دعا کا ذکر ہے جب انھوں نے حضرت ہاجرہ [ اور اپنے نو نہال اسماعیل (علیہ السلام) کو بیت اللہ کے پاس چھوڑا تھا۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اس دعا کے بعد حضرت ہاجرہ سے رخصت ہوئے۔ ” الٰہی! انھیں نماز پڑھنے کی توفیق عنایت کرنا، لوگوں کے دل ان کی طرف پھیردینا اور انھیں رزق حلال عطا فرماتے ہوئے اپنا شکریہ ادا کرنے کی توفیق عنایت فرمانا۔“ سورۃ کے اختتام میں جہنمیوں کی سزا کا ذکر ہوا ہے۔ ارشاد فرمایا ہے کہ لوگو! اگر تم جہنم سے بچنا چاہتے ہو تو ایک الٰہ کی عبادت کرو اور اس کی عبادت کے تقاضے پورے کرو۔ یہی عقل اور دانش مندی کا راستہ اور دنیا و آخرت میں مشکلات سے نجات پانے کا ذریعہ ہے۔ ابراھیم
1 فہم القرآن ربط کلام : ” اآرٰ“ حروف مقطعات ہیں۔ جن کے بارے میں پہلے بھی عرض کیا ہے کہ ان کا حقیقی معنی اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ البتہ بعض مفسرین کے استدلال کے مطابق یہ دنیا بھر کے لوگوں کو چیلنج ہے کہ قرآن مجید انہی حروف پر مشتمل ہے اگر تم قرآن مجید کو منجانب اللہ تسلیم نہیں کرتے تو پھر اس جیسا قرآن مجید بنا کر پیش کرو۔ جس کا قیامت تک، کوئی فرد، جماعت اور کوئی حکومت جواب نہیں دے سکتی۔ اس قرآن کو اللہ تعالیٰ نے رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات اقدس پر نازل فرمایا ہے۔ تاکہ لوگوں کو کفر وشرک، بدعت ورسومات اور ہر قسم کی تاریکیوں سے نکال کر ہدایت اور علم کی طرف لانے کی کوشش فرمائیں۔ اس رب کے راستے کی طرف لائیں۔ جو ہر اعتبار سے غالب اور تعریف کے لائق ہے۔ اسی کے لیے زمین و آسمان کی بادشاہی ہے۔ اس کی ذات اور کتاب کا انکار کرنے والوں کے لیے شدید ترین عذاب ہوگا۔ سورۃ ابراہیم کی پہلی آیت میں تین باتیں ارشاد فرمائی گئی ہیں۔ ١۔ قرآن مجید اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول پر نازل فرمایا ہے جس کا صاف مطلب ہے کہ یہ کسی شخص کا بتلایا ہوا یا نبی کا اپنی طرف سے بنایا ہوا نہیں بلکہ اللہ ہی نے اس قرآن کو محمد عربی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات اقدس پر نازل فرمایا ہے۔ ٢۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر قرآن مجید نازل کرنے کا مقصد یہ ہے کہ آپ اپنے رب کے حکم کے مطابق لوگوں کو کفر وشرک، بدعت رسومات اور جہالت کی تاریکیوں سے نکال کر اللہ کے بتلائے ہوئے راستے کی طرف لائیں یہی راستہ تابناک اور صراط مستقیم ہے۔ ٣۔ لوگوں کے رب کا بتلایا ہوا یہ روشن راستہ ہے جس سے مرادیہ ہے کہ جو شخص اپنے رب کی ملاقات اور اس کی خوشنودی کا طالب ہے اسے قرآن مجید کا بتلایا ہوا راستہ اختیار کرنا چاہیے۔ العزیز اور الحمید کی صفات کا ذکر فرما کر یہ اشارہ دیا گیا ہے کہ جو شخص اپنے رب کو غالب اور محمود سمجھ کر اس کے راستہ پر چلے گا اللہ تعالیٰ اسے بھی غلبہ اور تعریف کے لائق بنادے گا۔ روشن اور تابناک راستہ : (عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ عَمْرٍو السَّلَمِیِّ أَنَّہٗ سَمِعَ الْعِرْبَاضَ بْنَ سَارِیَۃ َ یَقُوْلُ وَعَظَنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَوْعِظَۃً ذَرَفَتْ مِنْہَا الْعُیُوْنُ وَوَجِلَتْ مِنْہَا الْقُلُوْبُ فَقُلْنَا یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ إِنَّ ہٰذِہٖ لَمَوْعِظَۃُ مُوَدِّعٍ فَمعَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ عَمْرٍو السَّلَمِیِّ أَنَّہٗ سَمِعَ الْعِرْبَاضَ بْنَ سَارِیَۃَ یَقُوْلُ وَعَظَنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَوْعِظَۃً ذَرَفَتْ مِنْہَا الْعُیُونُ وَوَجِلَتْ مِنْہَا الْقُلُوبُ فَقُلْنَا یَا رَسُول اللَّہِ إِنَّ ہَذِہِ لَمَوْعِظَۃُ مُوَدِّعٍ فَمَاذَا تَعْہَدُ إِلَیْنَا قَالَ قَدْ تَرَکْتُکُمْ عَلَی الْبَیْضَآءِ لَیْلُہَا کَنَہَارِہَا لاَ یَزِیْغُ عَنْہَا بَعْدِیْٓ إِلاَّ ہَالِکٌ مَنْ یَّعِشْ مِنْکُمْ فَسَیَرَی اخْتِلاَفًا کَثِیْرًا فَعَلَیْکُمْ بِمَا عَرَفْتُمْ مِنْ سُنَّتِیْ وَسُنَّۃِ الْخُلَفَآء الرَّاشِدِیْنَ الْمَہْدِیِّیْنَ عَضُّوا عَلَیْہَا بالنَّوَاجِذِ وَعَلَیْکُمْ بالطَّاعَۃِ وَإِنْ عَبْدًا حَبَشِیًّا فَإِنَّمَا الْمُؤْمِنُ کَالْجَمَلِ الأَنِفِ حَیْثُمَا قِیْدَ انْقَادَ ) [ رواہ ابن ماجۃ: فی المقدمۃ : باب اتِّبَاعِ سُنَّۃِ الْخُلَفَآء الرَّاشِدِیْنَ الْمَہْدِیِّیْن ] ” حضرت عبدالرحمٰن بن عمرو سلمی کہتے ہیں کہ انہوں نے عرباض بن ساریہ (رض) کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ ایک دفعہ ہمیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے وعظ فرمایا۔ ایساوعظ تھا کہ ہمارے آنسو جاری ہوگئے اور دل ڈر گئے۔ ہم نے کہا اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ایسا وعظ تو رخصت ہونے والے کا ہوتا ہے۔ آپ ہمیں کیا نصیحت کرتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا بے شک میں نے تمہیں ایسی چیز پر چھوڑے جا رہا ہوں جس کی رات دن کی مانند ہے۔ اس کو چھوڑنے والا ہلاک ہوجائے گا۔ تم میں سے جو کوئی زندہ رہا تو وہ بہت زیادہ اختلاف دیکھے گا۔ میری اور ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کی سنت کو لازم پکڑنا جسے تم پہچان لو۔ تم اسے دانتوں کے ساتھ مضبوطی سے پکڑنا۔ امیر کی اطاعت کو لازم جاننا۔ اگرچہ وہ حبشی غلام ہی ہو۔ یقیناً مومن ایک ایسے اونٹ کی مانند ہے جس کی ناک میں نکیل ڈالی گئی ہو۔ اسے جہاں باندھا جائے وہ بندھ جاتا ہے۔“ (عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ (رض) قَالَ کَان النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اِذَا قَامَ مِنَ اللَّےْلِ ےَتَھَجَّدُ قَالَ (اَللّٰھُمَّ لَکَ الْحَمْدُ اَنْتَ قَےِّمُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَمَنْ فِےْھِنَّ وَلَکَ الْحَمْدُ اَنْتَ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَمَنْ فِےْھِنَّ وَلَکَ الْحَمْدُ اَنْتَ مٰلِکُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَمَنْ فِےْھِنَّ وَلَکَ الْحَمْدُ اَنْتَ الْحَقُّ وَوَعْدُکَ الْحَقُّ وَ لِقَآءُکَ حَقٌّ وَقَوْلُکَ حَقٌّ وَالْجَنَّۃُ حَقٌّ وَّالنَّارُ حَقٌّ وَّالنَّبِیُّوْنَ حَقٌّ وَّمُحَمَّدٌ حَقٌّ وَّالسَّاعَۃُ حَقٌّ اَللّٰھُمَّ لَکَ اَسْلَمْتُ وَبِکَ اٰمَنْتُ وَعَلَےْکَ تَوَکَّلْتُ وَاِلَےْکَ اَنَبْتُ وَبِکَ خَاصَمْتُ وَاِلَےْکَ حَاکَمْتُ فَاغْفِرْلِیْ مَا قَدَّمْتُ وَمَآ اَخَّرْتُ وَمَآ اَسْرَرْتُ وَمَآ اَعْلَنْتُ وَمَآ اَنْتَ اَعْلَمُ بِہٖ مِنِّیْ اَنْتَ الْمُقَدِّمُ وَاَنْتَ الْمُؤَخِّرُ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اَنْتَ وَلَآاِلٰہَ غَےْرُکَ) [ رواہ البخاری : باب التَّہَجُّدِ باللَّیْلِ ] ” حضرت عبداللہ بن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رات کے وقت جب تہجد کے لیے اٹھتے تو یہ دعا پڑھتے۔ ” اے اللہ تیری ہی حمدوستائش‘ تو ہی زمین و آسمان اور جو کچھ ان میں ہے اس کو قائم رکھنے والاہے‘ تیرے لیے ہی حمد ہے اور تیری وجہ سے ہی زمین و آسمان اور ان کی ہر چیز روشن ہے‘ تیرے لیے ہی تعریف ہے اور تو ہی زمین و آسمان اور ان میں ہر چیز کا مالک ہے‘ تیرے ہی لیے حمدوثنا ہے تو ہی حق ہے تیرے وعدے سچ ہیں۔ تجھ سے ملاقات یقینی ہے۔ تیرا فرمان سچا ہے۔ جنت‘ دوزخ‘ انبیاء‘ محمد‘ قیامت یہ سب سچ اور حق ہیں۔ الٰہی میں تیرا ہی فرمانبردار اور تجھ پر ایمان رکھتاہوں‘ تیری ذات پر میرا بھروسہ ہے۔ تیری طرف ہی رجوع کرتا ہوں‘ تیری مدد سے ہی لوگوں سے لڑتاہوں۔ میں سب کچھ تیرے سپرد کرتاہوں۔ پس میرے اگلے پچھلے‘ پوشیدہ اور ظاہر گناہ معاف فرما۔ جن کو تو مجھ سے زیادہ جانتا ہے۔ تیری ذات ہی اول وآخر ہے۔ تو ہی الٰہ برحق ہے اور تیرے سوا کوئی معبود ومسجود نہیں۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر قرآن مجید نازل فرمایا ہے۔ ٢۔ قرآن مجید اندھیروں سے روشنی کی طرف نکالنے کا ذریعہ ہے۔ ٣۔ زمین و آسمان کی ہر چیز اللہ تعالیٰ کی ملکیت ہے۔ ٤۔ کافروں کے لیے سخت ترین عذاب ہے۔ تفسیر بالقرآن نور کیا ہے : ١۔ اللہ نور ہے۔ (النور : ٣٥) ٢۔ قرآن مجید نور ہے۔ (المائدۃ: ١٥) ٣۔ تورات نور ہے۔ ( المائدۃ: ٤٤) ٤۔ انجیل میں ہدایت اور نور ہے۔ (المائدۃ: ٤٦) ٥۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لوگوں کو نور کی طرف دعوت دیتے تھے۔ (الطلاق : ١١) ٦۔ اللہ لوگوں کو نور کی طرف بلاتا ہے۔ (الاحزاب : ٤٣) ٧۔ تمام انبیاء (علیہ السلام) نور کی طرف بلاتے تھے۔ (ابراہیم : ٥) ابراھیم
2 ابراھیم
3 فہم القرآن ربط کلام : قرآن مجید کا انکار اور لوگوں کے صراط مستقیم سے انحراف کی بڑی وجہ آخرت کے مقابلے میں دنیا کو ترجیح دینا ہے۔ جو لوگ آخرت کے مقابلے میں دنیا کی عیش و عشرت کو ترجیح دیتے ہیں وہی لوگ اللہ کے راستے میں رکاوٹ بننے کے ساتھ اس میں کج روی تلاش کرتے ہیں۔ ایسے لوگ گمراہی میں بہت دور نکل جاتے ہیں۔ ان کا صراط مستقیم کی طرف پلٹنا نہایت ہی مشکل ہے۔ قرآن مجید انسان کو دنیا سے لاتعلقی کا حکم نہیں دیتا اس کی تعلیم یہ ہے کہ دنیا میں رہ کر انسان آخرت کو مقدم رکھنے کی کوشش کرے۔ کیونکہ دنیا اور اس کی ہر چیز عارضی ہے اس کے مقابلے میں آخرت اور اس کی نعمتیں مستقل اور ہمیشہ رہنے والی ہیں۔ آخرت کو مقدم رکھنے والا ہر وقت اپنا احتساب کرتا ہے۔ لیکن لوگوں کی اکثریت کا عالم یہ ہے کہ لوگ آخرت کی بجائے دنیا کو ترجیح دیتے ہیں جو شخص دنیا کو آخرت کے مقابلے میں ترجیح دیتا ہے اس میں بیک وقت جو کمزوریاں پیدا ہوتی ہیں وہ یہ ہیں کہ ایسا شخص نہ صرف اپنے قول وفعل سے ہدایت کے راستے میں رکاوٹ بنتا ہے بلکہ وہ اس قدر گمراہ ہوجاتا ہے اور دین کو اپنی خواہشات کے تابع کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس حقیقت کو سمجھنے کے لئے علماء سوء اور دنیا پرست لوگوں کا کردار ہمارے سامنے ہونا چاہیے۔ معاشرے میں جتنی بے پردگی، بے حیائی اور بےدینی پھیلتی ہے اس کا موجدکافی حد تک وہ طبقہ ہے جو آزادی کی آڑ میں نئے سے نیا فیشن اور آزادی کے نام پر اسلام کی من مانی کی تاویلیں کرتا ہے۔ یہ طبقہ ہر معاملہ میں دنیا کو آخرت پر ترجیح دیتا ہے۔ یہ لوگ خود گمراہ ہونے کے ساتھ شعوری اور غیر شعوری طور پر معاشرے کی گمراہی کا سبب بنتے ہیں۔ ان میں بعض لوگ بالخصوص حکمران طبقہ مذہی لوگوں کی ہمدریاں حاصل کرنے کے لیے دین کے نام پر ہی بدعت، رسومات پھیلانے کی کوشش کرتا ہے۔ اس کام کے لیے علماء سوء ہر اول دستے کا کردار ادا کرتے ہیں۔ ایسے علما کے ذہن میں بھی دنیا پرستی کا عنصر ہی غالب ہوا کرتا ہے۔ جس کی قرآن مجید نے ان الفاظ میں نشاندہی کی ہے ” اے ایمان والو! علماء اور درویشوں کی اکثریت کا حال یہ ہے کہ یہ لوگوں کا مال باطل طریقے سے کھانے کے ساتھ ساتھ اللہ کے راستے میں رکاوٹ ڈالتے ہیں۔ جو لوگ سونا اور چاندی جمع کرتے ہیں اسے اللہ کے راستے میں خرچ نہیں کرتے انہیں اذیت ناک عذاب کی خوشخبری دیجئے۔ قیامت کے دن سونے اور چاندی کو جہنم کی آگ میں تپایا جائے گا پھر ان سے ان لوگوں کی پیشانیوں، کروٹوں اور پشتوں کو داغتے ہوئے کہا جائے گا کہ یہ ہے تمہارا خزانہ جو تم نے اپنے لیے جمع کر رکھا تھا اور اپنے جمع شدہ مال کی سزا پاتے رہو۔ (التوبۃ: ٣٥) (عَنْ عَبْدِاللّٰہِ (رض) قَالَ خَطَّ النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خَطَّامُرَبَّعًا وَخَطَّ خَطًّا فِی الْوَسَطِ خَارِجًا مِنْہُ وَخَطَّ خُطَطًا صِغَارًا إِلٰی ھٰذَا الَّذِیْ فِی الْوَسَطِ مِنْ جَانِبِہِ الَّذِیْْ فِی الْوَسَطِ فَقَالَ ھٰذَا الْاِنْسَانُ وَھٰذَٓا أَجَلُہٗ مُحِیْطٌ بِہٖ وَھٰذَا الَّذِیْ ھُوَ خَارِجٌ اَمَلُہٗ وَھٰذِہِ الْخُطُوْطُ الصِّغَارُ الْاَعْرَاضُ فَاِنْ اَخْطَأَہٗ ھٰذَا نَھَسَہٗ ھٰذَا وَاِنْ اَخْطَأَہٗ ھٰذَا نَھَسَہٗ ھٰذَا) [ رواہ البخاری : باب قَوْلِ النَّبِیِّ کُنْ فِی الدُّنْیَا کَأَنَّکَ غَرِیبٌ، أَوْ عَابِرُ سَبِیلٍ ] ” حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک دفعہ ایک مربع شکل کا خط کھینچا۔ اور وسطی خط کے درمیان سے کچھ خطوط کھینچے۔ ایک درمیان سے باہر نکلنے والا خط کھینچا اور فرمایا‘ یہ انسان ہے۔ اور یہ مربع اس کی موت ہے جو اسے گھیرے ہوئے ہے۔ جو خط باہر نکل رہے ہیں‘ وہ انسان اس کی خواہشات ہیں۔ یہ چھوٹے چھوٹے خطوط آفات اور بیماریاں ہیں۔ اگر ایک سے محفوظ رہا تو دوسری اسے آلے گی۔ اگر یہ بھی اس سے خطا کر جائے‘ تو تیسری آفت اسے اپنا نشانہ بنالے گی۔“ مسائل ١۔ کافر آخرت کے مقابلہ میں دنیا کو پسند کرتے ہیں۔ ٢۔ دنیا پرست لوگ قولاً اور عملاً لوگوں کو اللہ کی راہ سے روکتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن دین کے مقابلہ میں دنیا کو ترجیح دینے والوں کا انجام : ١۔ جو لوگ دنیا کو آخرت پر ترجیح دیتے ہیں اور اللہ کی راہ سے روکتے ہیں اور اس میں کجی تلاش کرتے ہیں یہی دور کی گمراہی میں ہیں۔ (ابراہیم : ٣) ٢۔ وہ لوگ جو دین کو کھیل تماشا بناتے ہیں اور دنیا کی زندگی نے انہیں دھوکے میں ڈال رکھا، قیامت کے دن ہم ان کو بھلا دیں گے۔ (الاعراف : ٥١) ٣۔ یہی ہیں وہ لوگ جنہوں نے دنیا کو آخرت پر ترجیح دی بے شک اللہ کافروں کو ہدایت نہیں دیتا۔ (النحل : ١٠٧) ٤۔ جس نے سرکشی اختیار کی اور دنیا کو ترجیح دی اس کا ٹھکانہ جہنم ہے۔ (الناز عات : ٣٨) ابراھیم
4 فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو گمراہی اور تاریکیوں سے نکالنے کے لیے جو آسانیاں عنایت فرمائی ہیں۔ ان میں ایک آسانی یہ ہے کہ جتنے پیغمبر مبعوث فرمائے وہ اپنی قومی زبان میں ہی وعظ ونصیحت کیا کرتے تھے تاکہ لوگوں کو ان کی بات سمجھنے میں آسانی رہے۔ اللہ تعالیٰ کی عنایات اور کرم فرمائیوں میں یہ بھی ایک عنایت اور کرم فرمائی ہے کہ اس نے جتنے پیغمبر مبعوث فرمائے وہ سب کے سب انسان تھے جو انسان ہونے کے ساتھ اپنی اپنی قوم کے فرد ہوا کرتے تھے۔ انہیں حکم تھا کہ وہ لوگوں کو انہی کی زبان میں اپنے رب کا پیغام پہنچائیں۔ لوگوں کی زبان میں بات کرنے کا معنی یہ ہے کہ انبیاء کرام (علیہ السلام) کسی غیر زبان میں وعظ ونصیحت کرنے کی بجائے اپنی قوم کی زبان میں ہی وعظ کیا کرتے تھے۔ اس کا یہ بھی مفہوم ہے کہ وہ مرقع، مسجع، پر تکلف الفاظ اور انداز اختیار کرنے کی بجائے لوگوں کی فہم اور علمی لیاقت کے مطابق صاف اور سادہ انداز میں سمجھایا کرتے تھے تاکہ لوگوں کو دین سمجھنے میں کوئی دقت پیش نہ آئے۔ لیکن انبیاء (علیہ السلام) کی انتھک اور پر خلوص کوشش کے باوجود لوگوں کی اکثریت نے ہدایت کے مقابلے میں گمراہی کو پسند کیا۔ اسی آیت کے پیش نظر خطبہ جمعہ بھی اپنی زبان میں ہونا چاہیے۔ ( تفصیل کے لیے دیکھیں روح الخطبہ از قلم شیخ عبدالعزیز نورستانی )۔ اللہ تعالیٰ چاہتا تو انہیں جبراً ہدایت پر جمع کرسکتا تھا لیکن اس کی حکمت یہ ہے کہ لوگوں کے سامنے ہدایت واضح کر کے انہیں اختیار دیا جائے کہ وہ ہدایت اور گمراہی میں سے جس کا چاہیں انتخاب کریں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ انسان کی پسند کے مطابق ہی اسے انتخاب کی توفیق بخشتا ہے اس لیے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے گمراہ کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے ہدایت سے سرفراز کرتا ہے۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تکلف نہیں کرتے تھے : (قُلْ مَآأَسْأَلُکُمْ عَلَیْہِ مِنْ أَجْرٍ وَمَا أَنَا مِنَ الْمُتَکَلِّفِیْنَ إِنْ ہُوَ إِلَّا ذِکْرٌ لِلْعَالَمِیْنَ )[ ص : ٨٦۔ ٨٧] ” فرما دیجیے کہ میں تم سے اس قرآن پر کوئی معاوضہ نہیں چاہتا اور نہ میں تکلف کرنے والوں میں سے ہوں یہ قرآن لوگوں کے لیے ایک نصیحت ہے۔“ (عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ مَسْعُوْدِ الْعَبَدِیِ قَالَ سَمِعْتُ سَلَمَانَ الْفَارَسِیَ (رض) یَقُوْلُ نَہَانَا رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) أَنْ نَتَکَلَّفَ للضَّیْفِ)[ رواہ الحاکم فی المستدرک وہو حدیث صحیح ] ” حضرت عبدالرحمٰن بن مسعود العبدی کہتے ہیں کہ میں نے سلمان فارسی (رض) کو فرماتے ہوئے سنا کہ ہمیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مہمانوں کے لیے تکلف کرنے سے منع کیا تھا۔“ (عَنْ أَنَسٍ (رض) قَالَ کُنَّا عِنْدَ عُمَرَ (رض) فَقَالَ نُہِیْنَا عَنِ التَّکَلُّفِ)[ رواہ البخاری : کتاب الاعتصام] ” حضرت انس (رض) کہتے ہیں کہ ہم حضرت عمر (رض) کے پاس تھے تو انہوں نے کہا کہ ہم تکلف کرنے سے منع کیے گئے تھے۔“ یعنی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صحابہ کو تکلف کرنے سے منع کرتے تھے۔ (عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ (رض) قَالَ فَانْظُرِ السَّجْعَ مِنَ الدُّعَآءِ فَاجْتَنِبْہُ، فَإِنِّی عَہِدْتُ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وَأَصْحَابَہٗ لاَ یَفْعَلُوْنَ إِلاَّ ذٰلِکَ یَعْنِی لاَ یَفْعَلُونَ إِلاَّ ذٰلِکَ الاِجْتِنَابَ )[ رواہ البخاری کتاب الدعوات، باب مَا یُکْرَہُ مِنَ السَّجْعِ فِی الدُّعَآءِ ] ” حضرت عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ دعا میں قافیہ بندی سے بچو۔ کیونکہ میں ایک عرصہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے صحابہ کے ساتھ رہا ہوں وہ اسی طرح نہیں کرتے تھے یعنی قافیہ بندی سے بچتے تھے۔“ مسائل ١۔ تمام رسول اپنی زبان میں ہی وعظ ونصیحت کرتے تھے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ غالب حکمت والا ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ جس کو چاہتا ہے گمراہ کرتا ہے اور جس کو چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے۔ تفسیر بالقرآن تمام انبیاء ( علیہ السلام) انسان تھے : ١۔ تمام رسولوں کو ان کی قوم میں انہی کی زبان میں بھیجا گیا۔ (ابراہیم : ٤) ٢۔ انبیاء اقرار کرتے تھے کہ ہم بشر ہیں۔ (ابراہیم : ١١) ٣۔ اللہ نے جتنے بھی رسول بھیجے وہ آدمی تھے۔ (یوسف : ١٠٩) ٤۔ اللہ نے آپ سے پہلے جتنے بھی نبی بھیجے وہ بشرہی تھے۔ (النحل : ٤٣) ٥۔ رسول اللہ کا اعتراف کہ میں تمہاری طرح بشرہوں۔ (الکہف : ١١٠) ابراھیم
5 فہم القرآن ربط کلام : حضرت موسیٰ (علیہ السلام) قومی زبان میں خطاب فرماتے اور ان کی دعوت کا مقصد لوگوں کو ہر قسم کی تاریکیوں سے نکال کر اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ روشنی کی طرف بلانا تھا۔ پیغمبرانہ جدوجہد کے اعتبار سے اور قوم کے مزاج کے حوالے سے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور سرور دوعالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے درمیاں گہری مماثلت پائی جاتی ہے۔ قرآن مجید کا ارشاد ہے کہ ” اے اہل مکہ! ہم نے تم پر حق کی شہادت قائم کرنے کے لیے تم ہی میں سے ایسا رسول بھیجا ہے جیسا ہم نے فرعون کے پاس رسول بھیجا تھا۔ فرعون نے اپنے رسول کی بات کا انکار کیا تب ہم نے اسے سختی کے ساتھ پکڑا۔ (المزمل : ١٥۔ ١٦) اس روحانی اور دعوتی تعلق اور مماثلت کی وجہ سے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت اور لوگوں کے مزاج کا ذکر کرنے کے بعد ارشاد ہوتا ہے کہ ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو دلائل دے کر ان کی قوم کی طرف بھیجا تاکہ وہ لوگوں کو تاریکیوں سے نکال کر اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ روشنی کی طرف لانے کی کوشش کریں اور انہیں اللہ کے ایام یاد دلائیں۔ یقیناً اس میں اس کے لیے عبرت کے نشانات ہیں جو مشکلات پر صبر کرنے والا اور اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی نعمتوں کا شکر ادا کرنے والا ہے۔ قرآن مجید نے موسیٰ (علیہ السلام) کی دعوت اور ان پر نازل ہونے والی کتاب تورات کو بھی النور فرمایا ہے اور اس کے مقابلے میں لوگوں کے عقائد ونظریات کو ظلمات سے تشبیہ دی ہے۔ ہدایت ایک ہی ہے جو ہمیشہ سے ایک ہی رہی ہے اور گمراہی اندھیرا ہے۔ جس کی ہر زمانے میں مختلف شکلیں اور صورتیں ہوتی ہیں۔ ایام اللہ سے مراد قوموں کے عروج و زوال کے واقعات اور وہ عتاب ہیں جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے مجرموں پر نازل ہوئے تھے۔ جس کی مثالیں حضرت نوح (علیہ السلام) اور دوسرے انبیاء (علیہ السلام) کے حوالے سے قرآن مجید اور تورات میں مذکور ہیں۔ ایام اللہ سے مراد وہ دن بھی ہو سکتے ہیں جن ایام میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے انبیاء (علیہ السلام) کو کامیابی نصیب ہوئی جیسا کہ محرم کی دس تاریخ کو فرعون اور اس کے لشکر وسپاہ کو غرق کیا گیا اور بنی اسرائیل کو سربلند کرتے ہوئے انھیں سرخروئی عطا کی گئی۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بدر، خندق، مکہ کے دن، حنین اور تبوک کے محاذ میں سرفراز کیا گیا۔ یہ واقعات اور ایام اس شخص کے لیے مشعل راہ اور عبرت کانشان ہیں جو مشکلات پر صبر کرنے اور حق پر مستقل مزاجی کے ساتھ قائم رہنے والا ہوتا ہے۔ ایسے شخص کو جب اللہ تعالیٰ کامیابی اور کسی نعمت سے سرفراز کرتا ہے تو وہ اترانے اور اللہ تعالیٰ کی ناشکری کرنے کی بجائے اس کے حضور عجزو عاجزی کا اظہار کرتا ہے اور اس کا شکربجالاتا ہے۔ قرآن مجید نے ہدایت اور گمراہی کو صبر اور شکر کے ساتھ تعبیر کیا ہے۔ (عَنْ صُہَیْبٍ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عَجَبًا لأَمْرِ الْمُؤْمِنِ إِنَّ أَمْرَہٗ کُلَّہٗ خَیْرٌ وَلَیْسَ ذَاکَ لأَحَدٍ إِلاَّ لِلْمُؤْمِنِ إِنْ أَصَابَتْہُ سَرَّآءُ شَکَرَ فَکَانَ خَیْرًا لَّہٗ وَإِنْ أَصَابَتْہُ ضَرَّآءُ صَبَرَ فَکَانَ خَیْرًا لَّہٗ) [ رواہ مسلم : کتاب الزہد والرقائق، باب الْمُؤْمِنُ أَمْرُہٗ کُلُّہٗ خَیْرٌ] ” حضرت صہیب (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا مومن کا معاملہ عجب ہے بے شک اس کے تمام کاموں میں بہتری ہے۔ جو مومن کے سوا کسی کے لیے نہیں ہے۔ مومن کو خوش کردینے والی چیز ملتی ہے تو وہ شکر ادا کرتا ہے یہ اس کے لیے بہتر ہوتا ہے۔ اگر اسے کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو وہ صبر کرتا ہے یہ بھی اس کے لیے بہتر ہوتا ہے۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو معجزات عطا فرمائے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو حکم دیا کہ اپنی قوم کو تاریکیوں سے نکال کر روشنی کی طرف لائیں۔ ٣۔ ہر صابرو شاکر کے لیے ایام اور واقعات میں نشانیاں ہیں۔ تفسیر بالقرآن آسمانی ہدایت نور ہے اور تمام انبیاء کرام (علیہ السلام) اس نور کی طرف لوگوں کو بلایا کرتے تھے : ١۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ کو اپنی نشانیوں کے ساتھ بھیجا تاکہ ان کے ذریعے اپنی قوم کو اندھیروں سے نکال کرروشنی کی طرف لائیں۔ (ابراہیم : ٥) ٢۔ یقیناً آیا ہے تمہارے پاس اللہ کی طرف سے نور اور واضح کتاب۔ (المائدۃ: ١٥) ٣۔ اللہ رہنمائی کرتا ہے نور کی طرف جس کو چاہتا ہے۔ (النور : ٣٥) ٤۔ ہم نے تو رات اتاری اس میں ہدایت اور نور ہے۔ (المائدۃ: ٤٤) ٥۔ ہم نے آپ کی طرف کتاب نازل کی تاکہ آپ لوگوں کو اندھیروں سے روشنی کی طرف لائیں۔ (ابراہیم : ١) ٦۔ اللہ اپنے دوستوں کو اندھیروں سے نکال کر روشنی کی طرف لاتا ہے شیطان اپنے دوستوں کو روشنی سے اندھیروں کی طرف لے جاتا ہے۔ (البقرۃ: ٢٥٧) ابراھیم
6 فہم القرآن ربط کلام : آزادی حاصل کرنے کے بعد حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا بنی اسرائیل کو خطاب۔ بنی اسرائیل اس قدر متلون مزاج اور احسان فراموش تھے کہ جب فرعون کی غرقابی کے بعد بیت المقدس کی طرف جارہے تھے تو راستے میں انہوں نے ایسے لوگوں کو دیکھا جو بتوں کے سامنے اعتکاف کرتے تھے۔ نبی اسرائیل کے ذہن میں شرک اس قدر سمایا ہوا تھا کہ وہ موسیٰ (علیہ السلام) سے مطالبہ کرتے ہیں کہ اے موسیٰ ! ہمارے لیے بھی اس قوم کے معبودوں کی طرح معبود بنا دیجئے جس پر موسیٰ (علیہ السلام) نے انہیں ڈانٹا کہ تم کیسے جاہل لوگ ہو۔ یہ لوگ تو برباد ہونے والے ہیں اور جو کچھ یہ کرتے ہیں یہ سب کا سب باطل ہے۔ کیا اللہ کے سوا میں تمہارے لیے کوئی اور الٰہ تلاش کروں حالانکہ اس نے تمہیں پوری دنیا پر فضیلت عطا فرمائی ہے۔ (الاعراف : ١٣٨۔ ١٤٠) آزادی کے بعد حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا قوم کو خطاب : (وَإِذْ أَنْجَیْنَاکُمْ مِنْ آلِ فِرْعَوْنَ یَسُوْمُوْنَکُمْ سُوْٓءَ الْعَذَابِ یُقَتِّلُوّنَ أَبْنَآءََ کُمْ وَیَسْتَحْیُوْنَ نِسَآءََ کُمْ وَفِیْ ذٰلِکُمْ بَلَآءٌ مِنْ رَّبِّکُمْ عَظِیْمٌ)[ الاعراف : ١٤١] ” وہ وقت یاد کرو جب اللہ تعالیٰ نے تمہیں آل فرعون کے مظالم سے نجات عطا فرمائی۔ آل فرعون تمہیں شدید ترین عذاب میں مبتلا رکھتے تھے حال یہ تھا کہ آل فرعون تمہارے بیٹوں کو قتل کرتے اور تمہاری بچیوں کو زندہ رہنے دیتے تھے اس میں تمہارے رب کی طرف سے سخت ترین آزمائش تھی۔“ اسی بات کو موسیٰ (علیہ السلام) کے حوالے سے بیان کیا جارہا ہے کہ انہوں نے اپنی قوم کو سمجھاتے ہوئے فرمایا کہ اے میری قوم! اللہ کے احسان کو یاد کرو، جب اس نے آل فرعون سے نجات دی جو تمہیں بدترین سزادیتے تھے۔ تمہارے بیٹوں کو مار ڈالتے اور تمہاری بیٹیوں کو زندہ رہنے دیتے تھے۔ اس میں تمہارے رب کی طرف سے بھاری آزمائش تھی۔ چند الفاظ اور سیاق و سباق کے فرق کے ساتھ یہ آیت مبارکہ قرآن مجید میں تین مرتبہ آئی ہے۔ جس میں بنی اسرائیل کو یہ یاد دلانا مقصود ہے کہ اہل کتاب! تم اپنے آپ کو بنی اسرائیل یعنی حضرت یعقوب (علیہ السلام) کی اولاد کہتے ہو۔ سوچو اور غور کرو کہ آج کس طرح تم حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے ساتھیوں کی مخالفت پر تلے ہوئے ہو حالانکہ وہ نسل کے اعتبار سے تمہارے جد امجد حضرت اسحاق (علیہ السلام) کے بڑے بھائی، حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کی اولاد میں سے ہیں، تمہارے انبیاء ( علیہ السلام) پر ایمان لانے والے اور تمہاری کتابوں کی تصدیق کرنے والے ہیں۔ حق تو یہ تھا کہ تم آگے بڑھ کر ان کے معاون بنتے۔ مگر تم حسدو بغض میں آکر ان کی مخالفت کیے جا رہے ہو۔ مسائل ١۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو آزادی کی نعمت یاد دلائی۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو آل فرعون سے نجات دلائی۔ ٣۔ فرعون نبی اسرائیل کے بیٹوں کو ذبح کرتا اور بیٹیوں کو زندہ چھوڑ دیتا تھا۔ تفسیر بالقرآن حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا بنی اسرائیل کو اللہ تعالیٰ کے انعام یا ددلانا : ١۔ موسیٰ نے اپنی قوم کو کہا کہ اللہ کی نعمتوں کو یاد کرو۔ (ابراہیم : ٦) ٢۔ موسیٰ نے اپنی قوم کو اللہ کے انعام یادرکھنے کی تلقین کی۔ (المائدۃ : ٢٠) ٣۔ اے بنی اسرائیل اللہ کی نعمتوں کو یاد کرو جو اس نے تم پر انعام کی ہیں۔ (البقرۃ : ٤٧) ٤۔ موسیٰ نے کہا کیا میں تمھیں کوئی اور معبود تلاش کرکے دوں حالانکہ اس نے تمھیں جہان والوں پر فضیلت دی ہے۔ (الاعراف : ١٤٠) ابراھیم
7 فہم القرآن ربط کلام : حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی زبان اطہر سے بنی اسرائیل کو آزادی کی نعمت یاد کروانے کے بعد سب لوگوں کو شکر گزار ہونے کی ہدایت۔ مذکورہ بالا آیت سے پہلے موسیٰ (علیہ السلام) کی بعثت کا مقصد بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ہم نے موسیٰ کو اس لیے بھیجا کہ وہ اپنی قوم کو ان کے ماضی کے ایام اور اللہ تعالیٰ کے انعام یاد کروا کر انہیں کفر و شرک اور بدعت ورسومات کی تاریکیوں سے نکال کر اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ نور کی طرف لانے کی کوشش کریں۔ یہ کوشش ہر اس شخص کے لیے مفید اور کارگرثابت ہوگی جو مشکلات پر صبر اور اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا شکریہ ادا کرنے والا ہے۔ اس کے بعد بنی اسرائیل کو ان کے اذیت ناک ماضی کا حوالہ دیا گیا۔ اب انہیں اور دنیا کے ہر انسان کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا جارہا ہے کہ لوگو! تمہارے رب کا یہ فرمان ہے کہ اگر تم اس کی نعمتوں کا شکریہ ادا کرو گے تو وہ تمہیں مزید نعمتوں سے نوازتا رہے گا۔ اگر تم نے ناشکری کا وطیرہ اختیار کیا تو اس کا عذاب شدید ترین ہوگا۔ صبر کا معنی مصیبت میں حوصلہ رکھنا اور دین کے بتلائے ہوئے راستے پر مستقل مزاجی کے ساتھ گامزن رہنا ہے۔ شکر کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ نعمتوں کا شکریہ ادا کرنے کے ساتھ اس کی فرما نبرداری میں زندگی بسر کرنا۔ شکرکی مختصر تشریح یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اقتدار دے تو رعایا کی خدمت بجالائے، مال دے تو اس کے بندوں پر خرچ کرے، علم عطا ہو تو لوگوں کی رہنمائی کرے۔ طاقت نصیب ہو تو لوگوں کی مدد کرے، صحت ہو تو اللہ تعالیٰ کی بندگی کرنے کے ساتھ اس کے بندوں کی خدمت کرتا رہے۔ شکر کی اہمیت اور فوائد : اللہ تعالیٰ کے احسانات کا اظہار اور اس کی نعمتوں کا اعتراف اور شکر کرنا مشکلات سے محفوظ رہنے کا طریقہ ہے، مزید ملنے کی گارنٹی اور زوال نعمت سے مامون رہنے کی ضمانت ہے، شکررب کی بارگاہ میں نہایت پسندیدہ عمل ہے، اس کے مقابلہ میں ناشکری کفر کے مترادف ہے۔ (بَلِ اللّٰہَ فَاعْبُدْ وَ کُنْ مِّنَ الشّٰکِرِیْنَ) [ الزمر : ٦٦] ” پس اللہ کی عبادت کرتے ہوئے شکر گزاربندوں میں شامل ہوجائیے۔“ (أَنِ اشْکُرْ لِیْ وَلِوَالِدَیْکَ إِلَیَّ الْمَصِیْرُ) [ لقمان : ١٤] ” میرا اور اپنے والدین کا شکریہ ادا کرتے رہیے‘ بالآخر تم نے میری طرف ہی لوٹ کر آنا ہے۔“ (لإَِنْ شَکَرْتُمْ لَأَزِیْدَنَّکُمْ) [ ابراہیم : ٧] ” اگر تم شکرکا رویہ اپناؤ گے تو ہر صورت مزید عنایات پاؤگے۔“ (مَایَفْعَلُ اللّٰہُ بِعَذَابِکُمْ إِنْ شَکَرْتُمْ وَآمَنْتُمْ وَکَان اللّٰہُ شَاکِرًا عَلِیْمًا) [ النساء : ١٤٧] ” اللہ کو تمہیں سزا دینے سے کیا فائدہ، اگر تم شکر اور تسلیمات کا انداز اختیار کرو۔ اللہ تونہایت ہی قدر افزائی کرنے والاہے۔“ (عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ (رض) قَالَ أَخَذَ بِیَدِیْ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَقَالَ إِنِّیْ لَأُحِبُّکَ یَا مُعَاذُ فَقُلْتُ وَأَنَا أُحِبُّکَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَلاَ تَدَعْ أَنْ تَقُوْلَ فِیْ کُلِّ صَلاَۃٍ رَبِّ أَعِنِّیْ عَلٰی ذِکْرِکَ وَشُکْرِکَ وَحُسْنِ عِبَادَتِکَ )[ سنن النسائی : باب نَوْعٌ آخَرُ مِنَ الدُّعَآءِ] ” حضرت معاذبن جبل (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے میرا ہاتھ پکڑ کر فرمایا اے معاذ! میں تجھ سے محبت کرتا ہوں۔ میں نے عرض کی اللہ کے رسول میں بھی آپ سے محبت کرتا ہوں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا نماز کے بعد اس دعا کو پڑھنا نہ چھوڑنا اے میرے پروردگار ! ذکر، شکر اور اچھی عبادت کرنے پر میری مدد فرما۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ شکر کرنے والوں کو مزید دیتا ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ کے انعام کی ناشکری نہیں کرنی چاہیے۔ ٣۔ ناشکری کرنے والوں کے لیے سخت عذاب ہے۔ ٤۔ شکر کے مقابلہ میں کفر ہے۔ تفسیر بالقرآن صبر اور شکر کی فضیلت : ١۔ اگر تم شکر کرو گے تو میں تمہیں زیادہ دوں گا۔ (ابراہیم : ٧) ٢۔ اللہ شکر گزار بندوں کا قدرد ان ہے (النساء : ١٤٧) ٣۔ اگر تم اس کا شکریہ ادا کرو تو وہ تم پر خوش ہوگا۔ (الزمر : ٧) ٤۔ اللہ شکر کرنے والوں کو جزادے گا۔ (آل عمران : ١٤٤) ٥۔ اگر تم اللہ کا شکریہ ادا کرو گے تو وہ تمہیں عذاب نہیں کرے گا۔ (النساء : ١٤٧) ابراھیم
8 فہم القرآن ربط کلام : حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا اپنی قوم کو رب تعالیٰ کا شکر ادا کرنے کا حکم دیتے ہوئے ایک بار پھر سمجھانا۔ انبیاء ( علیہ السلام) کی دعوت کا مرکزی نقطہ اللہ تعالیٰ کی توحید کی دعوت دینا تھا۔ کیونکہ توحید کو سمجھنے اور اس کے تقاضے پورے کیے بغیر ا ٩ نسان کی پائیدار بنیادوں پر اصلاح نہیں ہو سکتی۔ توحید کا یہ تقاضا ہے کہ انسان مشکلات پر صبر اور اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا شکر ادا کرتا رہے۔ شکرکا الٹ اللہ تعالیٰ کی ناقدری اور اس کے ساتھ کفر کرنا ہے۔ اس لیے موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو بتلایا اور سمجھایا کہ اگر تم اور جو بھی زمین پر انسان موجود ہیں اور ہوں گے وہ سب کے سب اللہ تعالیٰ کا انکار کریں تو اللہ تعالیٰ کو اس کی کوئی پروا نہیں ہے۔ وہ بندوں کے شکریہ اور ان کی فرما نبرداری کا محتاج نہیں کیونکہ وہ ہر اعتبار سے بے نیاز اور حمد وستائش کے لائق ہے۔ کیا تمہیں پہلے لوگوں کے واقعات کا علم نہیں ؟ جن میں حضرت نوح (علیہ السلام) کی قوم عاد، ثمود اور ان کے بعد لوگوں کا آسمانی اور تاریخ کی کتابوں میں ذکر موجود ہے۔ ان میں ایسی اقوام بھی ہیں جن کا علم اللہ تعالیٰ کے سوا کسی بشر کو نہیں کہ کونسی قوم کس علاقے اور کس انجام کے ساتھ دوچار ہوئی۔ ان کے پاس اللہ کے رسول بین دلائل کے ساتھ آئے۔ مگر ان قوموں نے انبیاء (علیہ السلام) کے اخلاص کی قدر کرنے، ان کی دعوت سمجھنے اور ان کی تائید کرنے کی بجائے اپنے ہاتھ اپنے چہروں پر رکھتے ہوئے کہنے لگے کہ جس دعوت کے ساتھ تم بھیجے گئے ہو ہم اس کا صاف صاف انکار کرتے ہیں کیونکہ جس عقیدہ کی تم دعوت دیتے ہو ابراھیم
9 ہم اس کے بارے میں شک و شبہات میں مبتلا ہیں۔ چہروں پر ہاتھ رکھنے کا مقصد انبیاء (علیہ السلام) کی دعوت سے نفرت کا اظہار کرنا تھا۔ جس طرح حضرت نوح (علیہ السلام) کی قوم کے منفی کردار کا ذکر کرتے ہوئے بیان ہوا ہے کہ جب حضرت نوح (علیہ السلام) اپنی قوم کو توحید کی دعوت دیتے اور سمجھاتے کہ اے میری قوم اگر تم شرک وخرافات کو چھوڑ دو تو اللہ تعالیٰ تمہارے سابقہ گناہ معاف کرے گا۔ لیکن قوم نے ان کی دعوت قبول کرنے کی بجائے کانوں میں انگلیاں ڈال دیں اور اپنے چہروں کو کپڑوں سے ڈھانپ لیا۔ ( نوح : ٧) مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ کی ناشکری نہیں کرنی چاہیے۔ ٢۔ ساری کائنات مل کر بھی اللہ تعالیٰ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ ساری کائنات سے بے پروا ہے۔ ٤۔ سابقہ امم کو اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ نے تمام اقوام کے پاس رسول بھیجے۔ تفسیر بالقرآن شکر کے فائدے اور ناشکری کے نقصانات : ١۔ اگر تم اس کی ناشکری کرو تو اللہ بے پروا ہے اور تعریف والا ہے۔ (ابراہیم : ٨) ٢۔ اگر تم شکر کرو گے تو میں تمہیں زیادہ دوں گا اگر ناشکری کرو تو اس کا عذاب بڑا سخت ہے۔ (ابراہیم : ٧) ٣۔ جو شخص شکر کرتا ہے اس کا فائدہ اسی کو ہے اور جو ناشکری کرتا ہے میرا رب اس سے بے پروا ہے۔ (النمل : ٤٠) ابراھیم
10 فہم القرآن ربط کلام : انبیاء (علیہ السلام) کے بار، بار سمجھانے کے باوجود لوگوں کا بلا دلیل اور بلا جواز توحید ورسالت کے بارے میں شک کرنا اور اس کا جواب۔ انبیاء کرام (علیہ السلام) کا طریقہ، توحید کا عقیدہ اور اس کے دلائل اتنے ٹھوس، واضح اور شفاف تھے اور ہیں کہ اگر کوئی شخص اخلاص کے ساتھ انہیں سمجھنا چاہے تو اسے کوئی دقّت پیش نہیں آتی۔ اللہ کی ذات اور اس کی قدرت کے شواہد اس قدر کھلے اور عام ہیں کہ ایک ان پڑھ سے ان پڑھ انسان بھی اس کا ادر اک کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ انبیاء کرام (علیہ السلام) ایک مرتبہ نہیں، زندگی بھر اللہ کی توحید کے دلائل دیتے رہے۔ مگر نہ ماننے والے یہ کہہ کر انکار کرتے تھے کہ ہمارے شک وشبہات ابھی تک دور نہیں ہوئے۔ جس پر انبیاء کرام (علیہ السلام) انہیں فرمایا کرتے کہ شک وشبہات کا بہانہ کرنے والو! کیا تم اللہ کی ذات کے بارے میں شک کرتے ہو؟ جس نے بغیر کسی پہلے سے موجود نقشے اور میٹریل کے زمین و آسمان کو پیدا فرمایا وہ تمہیں سمجھاتا اور بلاتا ہے کہ میرے بندو! میری طرف آجاؤ۔ میں تمہارے گناہوں کو معاف کرنے کے لیے تیار ہوں اور میں ہی تمہیں ایک معین مدت تک مہلت دیئے رکھتا ہوں۔ انسان جتنا بھی اللہ سے دور اور اس کا سرکش ہوجائے اللہ تعالیٰ پھر بھی اسے مدت مدید تک مہلت دیے رکھتا ہے تاکہ میرا بندہ میری رحمت کا حقدار ہوجائے۔ لیکن لوگوں نے توحید خالص کا عقیدہ قبول کرنے کی بجائے انبیاء ( علیہ السلام) کو یہ بھی جواب دیا کہ تم تو ہمارے جیسے انسان ہو۔ اس دعوت کے پیچھے تمہارا مقصد یہ ہے کہ ہمارے بزرگوں اور معبودوں کے عقیدہ اور طریقہ سے روک دیا جائے۔ ہم تمہاری دعوت اور باتوں پر مطمئن نہیں۔ اس لیے ہمارے سامنے کوئی بھاری معجزہ پیش کرو۔ کچھ اہل علم نے شک سے مراد فکری تذبذب لیا ہے اور بعض کا خیال ہے کہ لوگ انبیاء ( علیہ السلام) کی عظیم اور پر خلوص جدو جہد کے باوجود عقیدہ توحید کو نہ سمجھ سکے مگر شرک کے بارے میں ضرور شک کا شکار ہوگئے۔ صد احترام کے باوجود اس توجیہہ کے ساتھ اتفاق کرنے کو دل نہیں مانتا۔ کیونکہ قرآن مجید کے دوسرے مقامات سے واضح طور پر ثابت ہوتا ہے کہ کفار اللہ تعالیٰ کی ذات کے منکر تھے۔ جس طرح آج مادہ پرست سائنسدان اور عام لوگ انکار کرتے ہیں۔ اسی طرح ہر دور کے مشرک صرف ایک اللہ کو حاجت روا، مشکل کشا ماننے کی بجائے یہ خیال کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ تنہا ہماری مشکلات حل نہیں کرسکتا اور نہ ہی برائے راست ہماری فریادیں سنتا ہے۔ یہی وہ شک اور مشرکانہ عقیدہ ہے۔ جس میں ہلاک ہونے والی اقوام مبتلا تھیں۔ مسائل ١۔ کفار اللہ تعالیٰ کے بارے میں شک میں مبتلا تھے۔ ٢۔ زمین و آسمان کو اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ لوگوں کے گناہ معاف کردیتا ہے۔ ٤۔ کفار انبیاء (علیہ السلام) سے بار بارمعجزات طلب کرتے تھے۔ تفسیر بالقرآن کفار اور مشرکین کا انبیاء کرام (علیہ السلام) کے ساتھ رویہ : ١۔ کفار کہتے تھے کہ تم ہمارے جیسے بشر ہو تم چاہتے ہو کہ ہم اپنے آباء واجداد کے معبودوں کو چھوڑ دیں۔ (ابراہیم : ١٠) ٢۔ کفار نے انبیاء سے کہا کہ ہم تمہیں اپنی زمین سے نکال دیں گے۔ (ابراہیم : ١٣) ٣۔ حضرت نوح کو قوم کا جواب جب ان کے پاس رسول معجزات لے کر آئے تو انہوں نے انکار کیا۔ (المومن : ٢٢) ٤۔ حضرت نوح کو قوم کے سرداروں نے کہا تو تو ہمارے جیسا ہی ایک آدمی ہے اور تیری پیروی کرنے والے بھی ادنیٰ لوگ ہیں۔ (ھود : ٢٧) ٥۔ قوم عاد نے اللہ کی آیات کا انکار کیا اور رسولوں کی نافرمانی کی۔ (ھود : ٥٩) ٦۔ حضرت موسیٰ کو فرعون نے کہا کیا تم اپنے جادو سے ہمیں ہماری زمین سے نکالنا چاہتے ہو۔ (طٰہٰ: ٥٧ ) ٧۔ کافروں کے پاس جب حق آیا تو انہوں نے اسے واضح طور پر جادو قرار دیا۔ (سبا : ٤٣) ٨۔ کفار نے نبی اکرم کو جادو گر قرار دیا۔ (الفرقان : ٨) ابراھیم
11 فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ انبیاء ( علیہ السلام) کی بشریت کا جواب، انبیاء ( علیہ السلام) کی زبان اطہر سے۔ مشرکین کی عجب حالت ہے کہ اللہ تعالیٰ کو اس کی کامل صفات کے ساتھ ماننے کی بجائے دوسروں کو اس کی صفات میں بلادلیل شامل کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو سراسر شرک ہے۔ تمام پیغمبر اس شرک سے لوگوں کو منع کرنے کے لیے مبعوث کیے گئے۔ لیکن جب بھی اپنے اپنے دور میں پیغمبروں نے لوگوں کو توحید خالص کی دعوت دی تو لوگوں نے اس پر ایمان لانے کی بجائے پیغمبروں کی دعوت کو یہ کہہ کر مسترد کردیا کہ تم تو ہمارے جیسے انسان ہو۔ قرآن مجید کے ارشاد کے مطابق ہر پیغمبر نے اس بات کا یہی جواب دیا کہ ” اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم بھی تمہارے جیسے انسان ہیں۔ لیکن یہ اللہ تعالیٰ کا ہم پر خصوصی احسان ہے کہ اس نے ہمیں اپنے کام اور پیغام کے لیے منتخب فرمایا ہے۔ یہ اسی کا اختیار ہے کہ وہ اپنے بندوں میں سے جسے چاہے اپنے کام اور پیغام کے لیے منتخب کرلے۔ کیونکہ ہم اس کے بندے اور اس کے پیغام رساں ہیں۔ اس لیے ہمارے اختیار میں نہیں کہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے بغیر کوئی معجزہ تمہارے سامنے پیش کرسکیں۔ ایمان لانے والوں کو متزلزل ہونے کی بجائے اللہ پر ہی توکل کرنا چاہیے۔ اس آیت مبارکہ میں دو ٹوک الفاظ میں انبیاء کرام (علیہ السلام) کی زبان اطہر سے واضح کیا ہے کہ تمام کے تمام انبیاء کرام (علیہ السلام) ” بشر“ تھے اور ان کے پاس یہ اختیار نہیں تھا کہ جب چاہیں، جس طرح چاہیں کوئی معجزہ لوگوں کے سامنے پیش کرسکیں۔ اس آیت کے آخری الفاظ سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ انبیاء (علیہ السلام) کا جواب صرف کفار کے لیے ہی نہیں تھا۔ بلکہ وہ اپنے ماننے والوں کو بھی یہی بتلایا کرتے تھے کہ ہم بھی تمہارے جیسے انسان ہیں۔ لہٰذا کفار کے بار بارمطالبات کی بنیاد پر ہم سے ایسی توقع نہ رکھو جو ہمارے بس کی بات نہیں۔ بس اللہ تعالیٰ پر ایمان پختہ رکھو اور اسی کی ذات پر توکل کرو۔ جب وہ چاہے گا ہمارے ہاتھ پر کوئی معجزہ سرزد فرما کر کفار کو لاجواب کردے گا۔ یاد رہے کہ ہر دور کے کافر یہ بات کہہ کر پیغمبروں کی بشریت کا انکار کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ کو اپنے پیغام کے لیے انسان کی بجائے کسی فرشتے کو مقرر کرنا چاہیے تھا۔ جس کا جواب قرآن مجید نے یہ دیا ہے کہ اگر زمین میں بسنے والے فرشتے ہوتے تو اللہ تعالیٰ انہی میں سے ایک فرشتے کو رسول منتخب کرتا۔ چونکہ زمین میں انسان بستے ہیں اس لیے ان کی سہولت اور رہنمائی کے لیے بشر ہی کو رسول بنایا گیا ہے۔ (بنی اسرائیل : ٩٥) افسوس اس بات کا ہے کہ اتنی واضح حقیقت کے باوجود مسلمانوں کا ایک گروہ یہ کہہ کر بشریت کا انکار کرتا ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو انسانوں جیسا انسان کہنا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شان میں گستاخی کرنا ہے، حالانکہ دنیا میں کوئی ایک مسلمان بھی ایسا نہیں جو رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جمال وکمال، اخلاق اور اعمال مرتبہ اور شان کے حوالے سے اپنے جیسا سمجھتا ہو۔ ایسا سمجھنے والا شخص صرف گستاخ نہیں بلکہ پر لے درجے کا مرتد اور واجب القتل ہوگا۔ قرآن مجید کے فرمان اور انبیاء ( علیہ السلام) کے اعتراف کے مطابق انبیاء ( علیہ السلام) کی بشریت کا صرف یہ معنی ہے کہ تمام انبیاء ( علیہ السلام) بنی نوع انسانوں میں سے تھے اور وہ بھی کھانے پینے، چلنے پھرنے، اٹھنے بیٹھنے، سونے جاگنے اور موت وحیات کے انہی ضابطوں کے پابند تھے جو اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کے لیے مقرر فرمائے ہیں۔ مسائل ١۔ تمام رسول بشر ہی ہوا کرتے ہیں۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ جس پر چاہتا ہے احسان فرماتا ہے۔ ٣۔ انبیاء ( علیہ السلام) اپنی طرف سے کوئی معجزہ نہیں لاسکتے تھے۔ ٤۔ مومنوں کو اللہ تعالیٰ پرہی توکل کرنا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن تمام انبیاء کرام (علیہ السلام) بشر تھے : ١۔ انبیاء نے فرمایا کہ ہم تمہاری ہی طرح بشر ہیں لیکن اللہ جس پر چاہتا ہے احسان فرماتا ہے۔ (ابراہیم : ١١) ٢۔ نہیں ہے یہ مگر تمہارے جیسا بشر اور یہ تم پر فضیلت حاصل کرنا چاہتا ہے۔ (المومنون : ٢٤) ٣۔ نہیں ہے تو مگر ہمارے جیسا بشر کوئی نشانی لے کر آ اگر تو سچا ہے۔ (الشعراء : ١٥٤) ٤۔ نہیں ہے یہ مگر تمہارے جیسا بشر جیسا تم کھاتے ہو، ویسا وہ کھاتا ہے۔ (المومنون : ٣٣) ٥۔ ہم نے آپ سے پہلے جتنے بھی نبی بھیجے وہ بشر تھے۔ (النحل : ٤٣) ٦۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اعلان فرمائیں کہ میں تمھارے جیسا انسان ہوں۔ (الکہف : ١١٠) ابراھیم
12 فہم القرآن ربط کلام : انبیاء ( علیہ السلام) پر ایمان لانے والے کا اعلان اور عقیدہ۔ انبیاء کرام (علیہ السلام) ہر مصیبت اور مشکل کے وقت اللہ تعالیٰ پر توکل کرتے اور اپنے ماننے والوں کو بھی یہی تعلیم دیتے تھیکہ حالات جیسے بھی ہوں ہمیں اپنے رب پر ہی توکل کرنا چاہیے۔ اس عقیدہ اور تعلیم کا یہ اثر تھا کہ ان پر ایمان لانے والے حضرات بے پناہ مشکلات اور پریشانیوں کے باوجود ظلم کرنے والوں کو کہتے کہ تم جو چاہو کرگزرو۔ ہمارا ایمان اور اعتماد ہے کہ ہمارا رب ہماری ضرور مدد فرمائے گا۔ ہم کیوں نہ اپنے رب پر توکل کریں جب کہ اس نے کفرو شرک اور بدعت ورسومات کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں ہمیں صراط مستقیم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائی ہے۔ اس لیے ہم صبر کریں گے اور وہ ایک دوسرے کو یہی بات کہتے کہ ہمیں اللہ کی ذات پر ہی بھروسہ کرنا چاہیے۔ توکل کا معنی ٰہے کسی پر اعتماد اور بھروسہ کرنا۔ توکل علی اللہ کا یہ مفہوم ہے کہ بندہ اپنے خالق و مالک پر کامل اعتماد و یقین کا اظہار کرتا ہے۔ جو اپنے رب پربھروسہ اور توکل کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے لیے کافی ہوجاتا ہے اور اس کی مشکلات آسان کردیتا ہے۔ لہٰذا تنگی اور آسانی‘ خوشی اور غمی میں اللہ تعالیٰ پر بھروسہ رکھیے۔ یہ غموں کا تریاق اور مشکلات کا مداوا ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ پر توکل کرنے کا حکم اور فائدہ : ١۔ توکل کرنے والوں کو اللہ پر بھروسہ کرنا چاہیے۔ (ابراہیم : ١٢) ٢۔ اللہ توکل کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے۔ (آل عمران : ١٥٩) ٣۔ اللہ پر توکل کرو اگر تم مومن ہو۔ (المائدۃ : ٢٣) ٤۔ جو اللہ پر توکل کرتا ہے اللہ تعالیٰ اسے کافی ہوجاتا ہے۔ (الطلاق : ٣) ٤۔ اللہ صبر کرنے والوں اور توکل کرنے والوں کو بہترین اجر سے نوازے گا۔ (العنکبوت : ٥٩) ٦۔ جو شخص اللہ پر توکل کرتا ہے یقیناً اللہ غالب حکمت والا ہے۔ (الانفال : ٤٩) ابراھیم
13 فہم القرآن ربط کلام : انبیائے کرام (علیہ السلام) اور مومنین کے جواب میں کفار کی دھمکیاں۔ کفار اور مشرکین کی شروع ہی سے یہ عادت رہی ہے کہ دلیل کا جواب دلیل سے دینے کی بجائے انبیاء ( علیہ السلام) اور ان کے متبعین کے خلاف ہرزہ سرائی اور طاقت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ ان کی سر توڑ کوشش ہوتی ہے کہ انبیاء ( علیہ السلام) پر ایمان لانے والوں پر اس قدر جبرو ستم کیا جائے کہ وہ انبیاء ( علیہ السلام) کی دعوت قبول کرنے سے نہ صرف انکار کریں بلکہ اپنی جان کے خوف سے ایمان سے دست کش ہو کر کفر میں پلٹ آئیں۔ انبیاء (علیہ السلام) کے کردار اور ان کی استقامت کے بارے میں کفار کو یقین ہوتا تھا کہ یہ مرجائیں گے مگر اپنے عقیدے اور دعوت سے پیچھے نہیں ہٹ سکتے۔ اس لیے انبیاء (علیہ السلام) کے بارے میں کفار کا عمومی طور پر یہ روّیہ رہا ہے کہ انہیں قتل کردیا جائے یا اپنے ملک سے نکلنے پر مجبور کردیا جائے۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کو انہوں نے پتھر مار مار کر مار ڈالنے کی دھمکی دی ان کے بعد جتنے پیغمبر مبعوث کیے گئے۔ ان میں سے کچھ انبیاء (علیہ السلام) کو شہید کیا گیا اور چند ایک انبیاء (علیہ السلام) کو چھوڑ کر باقی کو ان کے وطن سے نکلنے پر مجبور کردیا گیا۔ یہی کچھ نبی آخر الزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے جانثار ساتھیوں کے ساتھ کیا گیا۔ جب بھی یہ صورت حال پیش آئی تو اللہ تعالیٰ نے انبیاء (علیہ السلام) کو وحی فرمائی کہ ثابت قدم رہیے اور ہمارے حکم کے مطابق کرتے جائیے۔ ہم ظلم کرنے والوں کو ہر صورت ہلاک کریں گے اور تمہیں ضرور زمین میں تمکنت عطا فرمائیں گے۔ یہ مرتبہ اور مقام ہر اس شخص کے لیے ہے جو اللہ کے سامنے کھڑا ہونے اور اس کی وعید سے ڈرتا رہے گا۔ بالآخر اللہ تعالیٰ نے ہر جابر اور ظالم کو نا کام کردیا۔ انبیاء کرام (علیہ السلام) اور ان کے ساتھیوں کو زمین میں عزت وعظمت اور برکات سے نوازا۔ حضرت نوح (علیہ السلام) سے لے کر نبی آخر الزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے اصحاب (رض) کی تاریخ اس پر پوری طرح گواہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے دشمنوں کو دنیا میں ذلیل وخوار کیا۔ اللہ تعالیٰ کا وعدہ : (وَالَّذِیْنَ جَاہَدُوْا فِیْنَا لَنَہْدِیَنَّہُمْ سُبُلَنَا وَإِنَّ اللّٰہَ لَمَعَ الْمُحْسِنِیْنَ)[ العنکبوت : ٦٩] ” جن لوگوں نے ہمارے لیے کوشش کی ہم ان کو ضرور اپنا راستہ دکھلائیں گے اور اللہ تعالیٰ نیکی کرنے والوں کے ساتھ ہے۔“ مسائل ١۔ کفار انبیاء ( علیہ السلام) کو راہ راست سے بھٹکانے کی ہر ممکن کوشش کرتے تھے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے انبیاء (علیہ السلام) کے ساتھ ان کے دشمنوں کو ہلاک کرنے کا وعدہ پورا فرمایا۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ نے انبیاء ( علیہ السلام) کو زمین میں عزت و تمکنت عطا فرمائی۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو زمین میں اقتدار دینے کا وعدہ فرمایا ہے۔ تفسیر بالقرآن انبیاء ( علیہ السلام) اور ان کے ساتھی کامیاب اور کفار ذلیل ہوئے : ١۔ ہم ظالموں کو ہلاک کریں گے اور تمہیں ان کے بعد زمین میں بسائیں گے یہ وعدہ ہر اس شخص کے لیے ہے جو میرے سامنے کھڑا ہونے سے ڈرجائے۔ (ابراہیم : ١٣۔ ١٤) ٢۔ کفارنے حضرت نوح کو جھٹلایا ہم نے نوح اور اس کے ماننے والوں کو نجات دی۔ (الاعراف : ٦٤) ٣۔ ہم نے موسیٰ اور ان کے ساتھیوں کو نجات دی۔ (الشعرا : ٦٥) ٤۔ ہم نے شعیب اور ایمان لانے والوں کو نجات دی۔ (ہود : ٩٤) ابراھیم
14 ابراھیم
15 ابراھیم
16 فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ انبیاء ( علیہ السلام) کی مخالفت کرنے والے دنیا میں ذلیل ہوئے اور آخرت میں بدترین عذاب میں مبتلا ہوں گے۔ کفار کے مظالم جب اپنی انتہا کو پہنچے تو انبیاء کرام (علیہ السلام) نے ان سے نجات اور اپنی کامیابی کے لیے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا کی۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے مخالفوں کو دنیا میں برباد کیا اور آخرت میں ان کے لیے جہنم ہوگی۔ جس میں انہیں پینے کے لیے انہی کے زخموں سے نکلنے والا گنداخون اور بدبو دار پیپ دی جائے گی۔ جہنم کی تپش اور بھوک پیاس کی شدت کی وجہ سے جہنمی انتہائی کرب اور مجبوری کی حالت میں پیپ والے ابلتے ہوئے پانی کو پینے کی کوشش کریں گے۔ مگر وہ ایک آدھ گھونٹ کے سوا پی نہیں سکیں گے۔ جونہی گھونٹ حلق میں اتاریں گے تو وہ حلق کو کاٹتے ہوئے پیٹ میں داخل ہوتے ہی درد کا طوفان برپا کردے گا۔ اس طرح وہ اپنے اندر اور باہر سے ناقابل برداشت تکلیف پائیں گے۔ اور یوں محسوس کریں گے کہ جیسے ان کو اندر اور باہر سے موت نے جکڑ لیا ہے مگر انہیں موت ہرگز نہیں آئے گی اس طرح انہیں ہر لمحہ پہلے عذاب سے شدید ترین عذاب دیا جائے گا۔ من ورآۂ جہنم اس کے پیچھے جہنم ہوگی کے الفاظ استعمال فرما کر ظلم کرنے والوں کو انتباہ کیا ہے کہ دنیا کی ذلت وہلاکت کے ساتھ ہی تمہیں جہنم میں جھونکا جائے گا گویا کہ جہنم تمہارے پیچھے لگی ہوئی ہے یعنی تمہارا انتظار کر رہی ہے۔ قرآن مجید نے یہ بھی بتلایا ہے : جہنم کا عذاب جہنمیوں کا پیچھا کرے گا۔ (الفرقان : ١٣) جہنم کی تپش : ” حضرت ابوہریرہ (رض) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان ذکر کرتے ہیں کہ جب گرمی زیادہ ہو تو نماز ٹھنڈی کرلیا کرو۔ بخاری کی دوسری روایت میں حضرت ابو سعید (رض) کہتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ظہر کی نماز کا نام لے کر فرمایا اس نماز کو ٹھنڈا کرو، جہنم کے سانس لینے کی وجہ سے گرمی میں اضافہ ہوتا ہے۔ جہنم کی آگ نے اللہ تعالیٰ کے حضور شکایت کی کہ میرے رب میں اپنے آپ میں ہی جلی جارہی ہوں۔ تب اللہ تعالیٰ نے اسے دوسانس لینے کی اجازت عنایت فرمائی ایک سردی میں اور دوسرا گرمی میں جب تم شدید گرمی اور شدیدسردی محسوس کرتے ہو تو یہ اسی وجہ سے ہوتا ہے۔“ (رواہ مسلم : کتاب المساجد‘ باب استحباب الابراد) جہنمی کا جسم کتنا بڑا ہوگا : (وَعَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَا بَیْنَ مَنْکِبَیِ الْکَافِرِ فِیْ النَّارِ مَسِیْرَۃُ ثَلٰثَۃِ اَیَّامٍ للرَّاکِبِ الْمُسْرِعِ وَفِیْ رِوَایَۃٍ ضِرْسُ الْکَافِرِ مِثْلُ اُحُدٍ وَغِلْظُ جِلْدِہٖ مَسِیْرَۃُ ثَلٰثٍ)[ رواہ مسلم : کتاب الجنۃ وصفۃ نعیمہا وأہلہا، باب النَّارُ یَدْخُلُہَا الْجَبَّارُوْنَ وَالْجَنَّۃُ یَدْخُلُہَا الضُّعَفَآءُ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جہنم میں کافر کے کندھوں کا درمیانی فاصلہ اتنا لمبا ہوگا کہ تیز رفتارسوار کے لیے تین دن کی مسافت ہوگی دوسری روایت میں ہے کہ دوزخ میں کافر کی داڑھ احد پہاڑ کے برابر ہوگی اور اس کی جلد کی موٹائی تین رات کی مسافت کے برابر ہوگی۔“ مسائل ١۔ کفار کو جہنم میں پینے کے لیے پیپ اور لہو دیا جائے گا۔ ٢۔ جہنم میں موت نہیں آئے گی۔ ٣۔ کفار کو آخرت میں سخت ترین عذاب کا سامنا کرنا ہوگا۔ تفسیر بالقرآن جہنم میں پینے کا پانی کیسا ہوگا : ١۔ ان کے پینے کے لیے کھولتا ہوا پانی اور درد ناک عذاب ہوگا۔ (الانعام : ٧٠) ٢۔ کفار کے لئے اُبلتا ہوا پانی اور دردناک عذاب ہوگا۔ (یونس : ٤) ٣۔ جہنمی گرم ہوا کی لپیٹ میں اور کھولتے ہوئے پانی میں ہوں گے۔ (الواقعۃ: ٤٢) ٤۔ ان کے لیے کھانے کی کوئی چیز نہیں ہوگی مگر ضریع ہے۔ جو ناموٹا کرے گا اور نہ بھوک میں کچھ کام آئے گا۔ (الغاشیۃ: ٦۔ ٧) ٥۔ جہنمیوں کو پیپ اور لہو پلایا جائے گا۔ (ابراہیم : ١٦) ٦۔ کھولتے ہوئے چشمے سے انھیں پانی پلایا جائے گا۔ (الغاشیۃ : ٥) ابراھیم
17 ابراھیم
18 فہم القرآن ربط کلام : ظالموں کو دنیا میں ذلت اور آخرت میں شدید ترین عذاب ہوگا۔ مشرک اور کافر دنیا میں جو نیک عمل کرتے رہے کفر و شرک کی وجہ سے ان کی حیثیت راکھ کے سوا کچھ نہیں ہوگی۔ کفر کا معنی ہے اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی ناقدری اور اس کی ذات اور صفات کا انکار کرنا۔ یہ ایسا گناہ اور جرم ہے کہ اگر اس کا مرتکب شخص کوئی اور گناہ نہ بھی کرے تو کفر و شرک سے بڑا گناہ اور گمراہی کوئی نہیں ہو سکتی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کی صفات کا انکار کرنے والے کچھ لوگ انسانی اقدار کے اعتبار سے شریف النفس اور دنیا میں لوگوں کی فلاح وبہبود کے لیے عظیم کار نامے سرانجام دیتے ہیں۔ خلق خدا ان کے کار ناموں سے صدیوں تک فائدہ اٹھاتی ہے۔ دنیوی اعتبار سے یہ بے مثال اور بھلے کام ہوتے ہیں چونکہ ایسے لوگ اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کی صفات کے منکر ہوتے ہیں اور وہ آخرت پر یقین نہیں رکھتے اس لیے عدل اور عقل وانصاف کا تقاضا ہے کہ انہیں قیامت کے دن کچھ صلہ نہ دیا جائے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ عادل اور مہربان ہے۔ اس لیے آخرت کے منکروں کو دنیا میں اچھی شہرت، وسائل واسباب کی فراوانی اور کئی مشکلات سے بچاؤ کی صورت میں صلہ دیتا ہے۔ کیونکہ یہ کفر جیسے سنگین گناہ اور جرم میں ملوث تھے۔ اس لیے آخرت کے حوالے سے ان کے اچھے اعمال کی حیثیت راکھ کے ڈھیر کی مانند ہوگی۔ جس طرح آگ کسی چیز کے وجود کو جلا کر راکھ بنا دیتی ہے اور اس راکھ کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی بے شک وہ کتنا بڑا ڈھیر ہی کیوں نہ ہو۔ یہی حالت قیامت کے دن کفار کے اچھے اعمال اور کار ناموں کی ہوگی۔ (عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ عَنْ رَّسُوْلِ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ إِنَّہٗ لَیَأْتِی الرَّجُلُ الْعَظِیْمُ السَّمِیْنُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ لاَ یَزِنُ عِنْدَ اللَّہِ جَنَاحَ بَعُوضَۃٍ وَقَالَ اقْرَءُ وْا (فَلاَ نُقِیْمُ لَہُمْ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ وَزْنًا )[ رواہ البخاری کتاب التفسیر، باب قولہ أولئک الذین حبطت أعمالہم فی الحیاۃ الدنیا] ” حضرت ابو ھریرہ (رض) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا قیامت کے دن ایک موٹا تازہ آدمی لایا جائے گا۔ اس کا وزن اللہ کے نزدیک مچھرکے پر کے برابر بھی نہ ہوگا اور آپ نے فرمایا پڑھو (فَلاَ نُقِیْمُ لَہُمْ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ وَزْنًا) ” ہم قیامت کے دن ان کے لیے ترازو قائم نہیں کریں گے۔“ (عَنْ عَاءِشَۃَ (رض) قَالَتْ قُلْتُ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ابْنُ جُدْعَانَ کَانَ فِی الْجَاہِلِیَّۃِ یَصِلُ الرَّحِمَ وَیُطْعِمُ الْمِسْکِینَ فَہَلْ ذَاکَ نَافِعُہٗ قَالَ لاَ یَنْفَعُہٗ إِنَّہُ لَمْ یَقُلْ یَوْمًا رَبِّ اغْفِرْ لِیْ خَطِیْٓءَتِی یَوْمَ الدِّیْنِ )[ رواہ مسلم : کتاب الایمان، باب الدلیل علی أن من مات علی الکفر لاینفعہ عمل] ” حضرت عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا اے اللہ کے رسول ! ابن جدعان زمانۂ جاہلیت میں صلہ رحمی کرتا تھا اور مسکینوں کو کھانا کھلاتا تھا۔ کیا یہ چیز اسے نفع دے گی ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا یہ کام اسے نفع نہیں دیں گے کیونکہ کبھی اس نے یہ نہیں کہا اے میرے رب ! قیامت کے دن میری خطاؤں کو معاف کردینا۔“ مسائل ١۔ کفار کے اعمال غارت جائیں گے۔ ٢۔ کفار کو کچھ بھی حاصل نہ ہوگا۔ تفسیر بالقرآن کفار اور مشرکین کے اعمال غارت کردیے جائیں گے : ١۔ کفار کے اعمال اس طرح غارت ہوجائیں گے جیسے تیز آندھی سب کچھ اڑا کرلے جاتی ہے (ابراہیم : ١٨) ٢۔ یہی لوگ ہیں جن کے اعمال تباہ کردیے گئے اور وہ ہمیشہ جہنم میں رہیں گے۔ (التوبۃ: ١٧) ٣۔ یہی ہیں وہ لوگ جن کے اعمال دنیا و آخرت میں تباہ وبرباد کردیے گئے۔ (التوبۃ: ٦٩) ٤۔ جو لوگ اللہ کی آیات اور اس کی ملاقات کے منکر ہیں ان کے اعمال ضائع ہوں گے۔ (الکھف : ١٠٥) ٥۔ جو لوگ ہماری آیات کی اور آخرت میں ملاقات کی تکذیب کرتے ہیں ان کے اعمال ضائع ہوجائیں گے۔ (الاعراف : ١٤٧) ٦۔ ایمان نہ لانے والے کے اعمال غارت جائیں گے اور وہ آخرت میں خسارہ اٹھانے والوں میں سے ہوگا۔ (المائدۃ : ٥) ابراھیم
19 فہم القرآن ربط کلام : کفار کو ان کے اعمال کی حیثیت اور انجام بتلانے کے بعد اللہ تعالیٰ اپنی قدرت وسطوت کا اظہار کرتا ہے۔ عربی زبان میں ” تَرٰی“ کا معنی صرف ” دیکھنا“ نہیں ہوتا بلکہ یہ لفظ غور کرنے کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ اکثر اہل علم نے ” اَلَمْ تَرَ“ کا معنی ” اَلَمْ تَعْلَمْ“ یعنی کیا ہے۔ کہ کیا آپ نہیں جانتے یا تو نے غور نہیں کیا کہ اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان کو حق کے ساتھ پیدا فرمایا ہے حق کے ساتھ پیدا کرنے کے دو مفہوم ہیں۔ ١۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں بلاوجہ اور بے مقصد پیدا نہیں فرمایا بلکہ زمین و آسمان اور ان میں بے شمار مخلوق کو پیدا فرما کر انہیں وسیع ترین نظام کے ساتھ مربوط کردیا ہے۔ جو اپنے اپنے مقام پر اللہ تعالیٰ کی تفویض کردہ ذمہ داری کو پورا کرنے کے ساتھ اس کی حمدوثنا کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ ٢۔ دوسرا مفہوم یہ ہے جس قادر مطلق نے زمین و آسمان کو وجود بخشا اور اس لامحدود نظام کو کنٹرول کر رکھا ہے اے انسان! تجھے غور کرنا چاہیے کہ اس لامحدود نظام کے اندر تیری بغاوت کی کیا حیثیت ہے؟ اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو تیرے وجود کو ناپید کر دے اور تمہاری جگہ نئی مخلوق لے آئے۔ کیونکہ زمین و آسمان کی تخلیق کے مقابلے میں تمہیں ختم کر کے دوسری نسل یامخلوق پیدا کرنا اللہ تعالیٰ کے نزدیک معمولی بات ہے۔ سورۃ یٰس میں ارشاد فرمایا : (أَوَلَیْسَ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْأَرْضَ بِقَادِرٍ عَلآی أَنْ یَّخْلُقَ مِثْلَہُمْ بَلٰی وَہُوَ الْخَلَّاقُ الْعَلِیْمُ۔إِنَّمَآ أَمْرُہٗٓ إِذَآ أَرَادَ شَیْءًا أَنْ یَّقُولَ لَہٗ کُنْ فَیَکُوْنُ )[ یٰس : ٨١] ” بھلا جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا، کیا وہ اس بات پر قادر نہیں کہ ان کو ویسے ہی پیدا کردے کیوں نہیں ! وہ تو بڑا پیدا کرنے والا اور علم والا ہے۔ اس کی شان یہ ہے کہ جب وہ کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے تو اسے فرما دیتا ہے کہ ہوجا تو وہ ہوجاتی ہے۔“ (عَنْ أَبِیْ سَعِیْدٍ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) أَنَّ رَجُلاً کَانَ قَبْلَکُمْ رَغَسَہُ اللّٰہُ مَالاً فَقَالَ لِبَنِیْہِ لَمَّا حُضِرَ أَیَّ أَبٍ کُنْتُ لَکُمْ قَالُوا خَیْرَ أَبٍ قَالَ فَإِنِّیْ لَمْ أَعْمَلْ خَیْرًا قَطُّ، فَإِذَا مُتُّ فَأَحْرِقُوْنِیْ ثُمَّ اسْحَقُوْنِیْ ثُمَّ ذَرُّونِیْ فِیْ یَوْمٍ عَاصِفٍ فَفَعَلُوْا، فَجَمَعَہُ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ، فَقَالَ مَا حَمَلَکَ قَالَ مَخَافَتُکَ فَتَلَقَّاہُ بِرَحْمَتِہٖ )[ رواہ البخاری : کتاب أحادیث الأنبیاء ] ” حضرت ابو سعید (رض) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں کہ تم سے پہلے ایک آدمی کو اللہ تعالیٰ نے مال کی فراوانی عطا کی تھی۔ جب اس کا آخری وقت آیا تو اس نے اپنے بیٹوں سے کہا کہ میں تمہارے لیے کیسا باپ ہوں ؟ انہوں نے کہا بہترین! اس نے کہا کہ میں نے کبھی نیک عمل نہیں کیا۔ جب میں مر جاؤں تو مجھے جلا کر میری راکھ ہواؤں میں اڑا دینا۔ انہوں نے ایسا ہی کیا۔ اللہ تعالیٰ نے اسے دوبارہ زندہ کر کے دریافت فرمایا۔ تجھے ایسا کرنے پر کس بات نے ابھاراتھا؟ وہ کہنے لگا آپ کے ڈر نے ! اللہ تعالیٰ نے اسے اپنی رحمت میں لے لیا۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان کو حق کے ساتھ پیدا فرمایا ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ چاہے تو ساری مخلوق تباہ کر دے اور نئی مخلوق کو بسا دے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ کے لیے کوئی کام مشکل نہیں ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ کے لیے کوئی چیز پیدا کرنا مشکل نہیں : ١۔ اگر اللہ چاہے تو تمہیں فنا کردے اور نئی مخلوق لے آئے۔ یہ اللہ کے لیے کچھ مشکل نہیں ہے۔ (ابراہیم : ١٩۔ ٢٠) ٢۔ اگر اللہ چاہے تو تم کو فنا کر کے دوسری مخلوق لے آئے یہ اللہ کے لیے مشکل نہ ہے۔ (فاطر : ١٦۔ ١٧) ٣۔ اگر اللہ چاہے تو تمہیں لے جائے اور تمہاری جگہ دوسروں کو لے آئے۔ (انساء : ١٢٣) ٤۔ اگر اللہ چاہے تو تمہیں لے جائے اور تمہارے بعد جسے چاہے لے آئے۔ (الانعام : ١٣٣) ٥۔ اے ایمان والو ! اگر تم دین سے مرتد ہوجاؤ تو اللہ تعالیٰ تمھارے جگہ دوسری قوم کو لے آئے گا۔ (المائدۃ : ٥٤) ابراھیم
20 ابراھیم
21 فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ جس طرح زمین و آسمانوں اور انسانوں کو پہلی مرتبہ پیدا کرنے والا ہے اسی طرح دوبارہ زندہ کرنے والا ہے۔ اللہ تعالیٰ انسانوں کو دوبارہ پیدا کرے گا جس کے لیے لفظ ” بَرَزُوْا“ استعمال کیا ہے جس کا معنی ہے پردے سے نکلنا۔ پردے سے مراد عالم برزخ ہے جسے عرف عام میں قبر کی زندگی کہا جاتا ہے۔ قیامت کے پہلے مرحلہ میں ساری مخلوق موت کے گھاٹ اتار دی جائے گی۔ یہاں تک کہ زمین و آسمان بھی ختم کردیے جائیں گے۔ پھر ایک خاص مدت کے بعداللہ تعالیٰ اسرافیل کو پیدا کر کے اسے صور پھونکنے کا حکم دے گا۔ جب اسرافیل صور پھونکے گا تو انسان اور ہر جاندار زندہ ہو کر اپنے اپنے مقام سے نکل کر محشر کے میدان میں جمع ہوجائیں گے۔ جس کی تفصیل احادیث کی کتب میں موجود ہے اس کے بعد حساب و کتاب ہوگا۔ جنتی جنت میں اور جہنمی جہنم میں داخل کیے جائیں گے۔ جب جہنمی جہنم میں اکٹھے ہوں گے تو مرید گمراہ پیروں، ور کر اپنے لیڈروں اور کار کن اپنے رہنماؤں سے پوچھیں گے کہ ہم تو تمہارے تابع تھے تمہاری وجہ سے گمراہ ہوئے۔ اب بتاؤ کہ عذاب سے چھٹکارا پانے کی کوئی صورت ہے؟ گمراہ پیر اور رہنما انتہائی درماندگی اور ذلت کے لہجہ میں جواب دیں گے کہ اگر اللہ تعالیٰ ہمیں ہدایت دیتا تو ہم ضرور تمہاری رہنمائی کرتے۔ آج ہم اسی طرح لاچار اور مجبور ہیں جس طرح تم لاچار اور مجبور ہو۔ لہٰذا ہمارے لیے برابر ہے کہ ہم جزع وفزع کریں یا صبر کریں۔ جہنم سے نکلنے کے لیے ہمارے لیے کوئی راستہ اور طریقہ نہیں ہے۔ جہاں تک رہنماؤں کا یہ کہنا ہے کہ اگر اللہ ہمیں ہدایت دیتا تو ہم تمہاری ضرور رہنمائی کرتے۔ یہ بھی ان کا مجرمانہ جواب اور جھوٹ ہوگا۔ ورنہ اگر وہ دنیا میں اللہ تعالیٰ سے ہدایت کی توفیق مانگتے تو انہیں ضرور ہدایت نصیب ہوجاتی۔ اللہ تعالیٰ نے ہر قوم تک ہدایت پہنچانے کا وعدہ اور بندوبست کر رکھا ہے۔ اس نے یہ وعدہ انبیاء ( علیہ السلام) اور ان کے سچے متبعین کے ذریعے پورا کردیا ہے۔ جہنم میں داخل ہونے والے لیڈروں اور مذہبی پیشواؤں نے اپنی ذات اور مفاد کے لیے گمراہی اختیار کی اور اسی سبب اپنے عقیدت مندوں اور مریدوں کو گمراہ کیا تھا۔ ایک وقت آئے گا جس کا جہنم میں برملا اعتراف کریں گے۔ جہاں تک ور کروں اور عقیدت مندوں کا تعلق ہے ان کا عذر قیامت کے دن اس لیے قبول نہیں ہوگا کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں عقل وشعور بخشا تھا جس سے ہدایت اور گمراہی، غلط اور صحیح رہنماؤں کے درمیان ٹھیک ٹھیک فیصلہ کرسکتے تھے۔ مذہی لوگوں نے اندھی تقلید اور ور کروں نے ذاتی اور پارٹی مفادات کی خاطر غلط رہنماؤں کی پیروی کی تھی جس کی وجہ سے ان کا کوئی عذر قبول نہیں کیا جائے گا۔ مسائل ١۔ سبھی لوگ اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش ہوں گے۔ ٢۔ جہنم میں جہنمیوں کا چیخنا چلانا اور صبر کرنا کسی کام نہ آئے گا۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بچنے کی کوئی صورت نہ ہوگی، گمراہ پیر اپنے مریدوں اور لیڈر اپنے کارکنوں کی مدد نہیں کرسکیں گے۔ تفسیر بالقرآن شیطان کی عبادت کرنے والوں کا انجام : ١۔ جہنم میں مرید، پیروں، ور کر، لیڈروں سے کہیں گے کہ ہم تمہارے تابع تھے کیا تم اللہ کے عذاب کا کچھ حصہ دور کرسکتے ہو۔ (ابراہیم : ٢١) ٢۔ وہ کہیں گے ہمارا چیخنا چلانا اور صبر کرنا برابر ہے۔ (ابراہیم : ٢١) ٣۔ جہنم میں چھوٹے، بڑوں سے کہیں گے کہ ہم تمہارے تابع تھے کیا تم ہمارے عذاب سے کچھ کم کرسکتے ہو۔ وہ کہیں گے ہم سب جہنم میں رہیں گے۔ (المومن : ٤٧۔ ٤٨) ٤۔ جب پہلے لوگوں کو دیکھیں گے تو کہیں گے انہوں نے ہمیں گمراہ کیا تھا انہیں دوگنا عذاب دیا جائے۔ (الاعراف : ٣٨) ٥۔ مجرم اپنے اہل و عیال کو پیش کریں گے تاکہ ہماری نجات ہوجائے۔ (المعارج : ١١ تا ٣) ابراھیم
22 فہم القرآن ربط کلام : جہنمیوں کا جمع ہو کر شیطان کے پاس جانا۔ قرآن مجید کے سیاق و سباق سے معلوم ہو رہا ہے کہ چھوٹے بڑے جہنمی آپس میں بحث و تکرار اور جھگڑنے کے بعد شیطان اکبر کے پاس جائیں گے۔ اس کے سامنے آہ وزاریاں کرتے ہوئے فریادیں کریں گے کہ ہم سب تیری وجہ سے گمراہ ہوئے اور جہنم میں پہنچے۔ تودنیا میں ہمیں بڑی امیدیں دلایا کرتا اور ہمارے دلوں میں جھوٹی تسلیاں پیدا کرتا تھا، اب بتاکہ ہمارے لیے جہنم سے نکلنے کا کوئی راستہ ہوسکتا ہے اس حال میں تو ہماری کیا مدد کرسکتا ہے؟ شیطان اکبر سب سے زیادہ اذیتوں اور عذاب میں مبتلا ہوگا۔ وہ ان سے بھی زیادہ درماندگی اور ذلت و رسوائی کے لہجے میں جواب دے گا کہ میں اپنے اور تمہارے لیے کچھ نہیں کرسکتا۔ کیونکہ اللہ احکم الحاکمین نے حق وانصاف کے ساتھ فیصلہ صادر کردیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جنتیوں کے لیے جنت اور جہنمیوں کے لیے جہنم کا جو وعدہ کیا تھا وہ سچا تھا اور اسے سچ کر دکھایا۔ جہاں تک میرے وعدے اور امیدیں دلانے کا تعلق ہے وہ امیدیں فریب تھیں اور میرے وعدے سب جھوٹے تھے۔ یہ سنتے ہی جہنمی اس پر پھٹکار کریں گے جب جہنمی اس پر لعنتیں بھیجیں گے تو وہ یہ کہتے ہوئے ان سے جان چھڑانے کی کوشش کرے گا کہ میں نے تمھارا ہاتھ کھینچ کریا کسی جبر کے ذریعے اپنے پیچھے نہیں لگایا تھا۔ میں تمہارے دل میں برے خیالات، جھوٹی امیدیں اور تسلیاں پیدا کرتا تھا۔ تم نے یقین کیا اور ان کے پیچھے لگے لہٰذا آج مجھے ملامت کرنے کی بجائے اپنے آپ کو لعن طعن اور ملامت کرو۔ نہ میں تمہاری مدد کرسکتا ہوں اور نہ تم میرے کام آسکتے ہو۔ دنیا میں میرے وسوسہ ڈالنے کی وجہ سے جو تم مجھے اللہ کا شریک بناتے اور میری پیروی کرتے رہے اس کا میں آج کھلم کھلا انکار کرتا ہوں۔ اس گفتگو کے دوران ملائیکہ ان پر لعنتیں برسائیں گے۔ اعلان ہوگا کہ ظالموں کے لیے اذیت ناک عذاب ہے۔ جہنم میں شیطان اکبر اپنی براءت کا اظہار کرتے ہوئے جہنمیوں کے شرک کو اپنی طرف منسوب کرے گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دنیا میں کفر و شرک کرنے والے بظاہر جس کسی کے سامنے جھکیں یا سجدہ کریں اللہ تعالیٰ کے سوا جسے بھی حاجت روا اور مشکل کشا سمجھیں ان کا ایسا کرنا شیطان کے حکم اور وسوسہ کے تابع ہوتا ہے۔ لہٰذا اللہ کے سوابظاہر کسی کی بھی عبادت کی جائے درحقیقت وہ شیطان کی عبادت ہوتی ہے۔ اس لیے قیامت کے دن ایک موقع ایسا بھی آئے گا جب اللہ تعالیٰ مجرموں کو الگ کر کے خطاب فرمائیں گے کہ اے آدم کی اولاد! کیا میں نے تم سے عہد نہیں لیا تھا کہ شیطان کی عبادت نہ کرنا وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔ صرف میری عبادت کرنا یہی سیدھا راستہ ہے مگر شیطان نے تم میں بہت سے لوگوں کو گمراہ کردیا۔ تم نے کچھ بھی عقل سے کام نہ لیا۔ لہٰذا یہ ہے وہ جہنم جس کا تمہارے ساتھ وعدہ کیا گیا تھا۔ اپنے کفر کی وجہ سے اس میں داخل ہوجاؤ۔ ( یٰس : ٥٩ تا ٦٤) مسائل ١۔ قیامت کے دن شیطان اللہ تعالیٰ کے وعدے کو سچا قرار دے گا۔ ٢۔ شیطان کے وعدے جھوٹے ہیں۔ ٣۔ قیامت کے دن شیطان شرک اور اپنی شرارتوں سے صاف انکار کرے گا۔ ٤۔ ظالموں کے لیے دردناک عذاب ہوگا۔ ابراھیم
23 فہم القرآن ربط کلام : جہنمیوں کے بعد جنتیوں کے مرتبہ و مقام کا تذکرہ۔ قرآن مجید کا کتنا مؤثر اور دلکش انداز ہے کہ جب کفار کا ذکر کرتا ہے تو ان کے ساتھ جنتیوں کے اوصاف کا بیان ہوتا ہے۔ جنت کے ذکر کے بعد جہنم کا بیان اور جہنم کے بیان کے بعد جنت کا تذکرہ کیا جاتا ہے۔ اسی دلرُبا اسلوب کے پیش نظر جہنمیوں کے ذکر کے بعد جنتیوں کا تذکرہ شروع ہوا۔ ارشاد ہوتا ہے۔ جو لوگ ایمان لائے اور صالح عمل کرتے رہے انہیں ایسے باغوں میں داخل کیا جائے گا جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی۔ وہ اپنے رب کے حکم سے ان میں ہمیشہ ہمیش رہیں گے۔ وہاں ان پر ہر طرف سے اللہ کی رحمتیں نازل ہوں گی۔ وہ ایک دوسرے کو سلامتی کی دعائیں دیں گے ” تحیّۃ“ کا معنی ہے بہترین ماحول میں ایک دوسرے کے ساتھ ملاقات کرنا۔ دنیا میں بھی یہ لوگ ایک دوسرے کی سلامتی اور خیر خواہی کے طالب تھے۔ کیونکہ انہیں حکم تھا کہ ایک دوسرے کو السلام علیکم کہا کریں خیر سگالی کے جذبات، عقیدۂ توحید اور نیک اعمال کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نہ صرف انہیں اپنی جنت میں داخل کرے گا بلکہ انہیں ہر قدم اور مقام پر چاروں طرف سے سلام اور سلامتی کی صدائیں اور پیغام آئیں گے۔ (عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَیْنٍ (رض) أَنَّ رَجُلاً جَآءَ إِلَی النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَقَال السَّلاَمُ عَلَیْکُمْ قَالَ قَال النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عَشْرٌ ثُمَّ جَآءَ آخَرُ فَقَال السَّلاَمُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَۃُ اللَّہِ فَقَال النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عِشْرُوْنَ ثُمَّ جَآءَ آخَرُ فَقَال السَّلاَمُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ وَبَرَکَاتُہٗ فَقَال النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ثَلاَ ثُوْنَ ) [ رواہ الترمذی : باب ماذکر فی فضل السلام ] ” حضرت عمران بن حصین (رض) کا بیان ہے کہ ایک آدمی نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا اس نے السلام علیکم کہا۔ آپ نے فرمایا دس نیکیاں ہیں۔ پھر دوسرا آدمی آیا اس نے السلام علیکم ورحمۃ اللہ کہا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اس کیلیے بیس نیکیاں ہیں پھر تیسرا آدمی آیا اس نے السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ کہا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اس کیلیے تیس نیکیاں ہیں۔“ (عن أبیْ ہُرَیْرَۃَ قال قالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خَلَقَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ آدَمَ عَلَی صُورَتِہٖ طُولُہٗ سِتُّوْنَ ذِرَاعًا فَلَمَّا خَلَقَہٗ قَالَ اذْہَبْ فَسَلِّمْ عَلٰٓی أُولَءِکَ النَّفَرِ وَہُمْ نَفَرٌ مِنَ الْمَلاآءِکَۃِ جُلُوْسٌ فَاسْتَمِعْ مَا یُجِیْبُونَکَ فَإِنَّہَا تَحِیَّتُکَ وَتَحِیَّۃُ ذُرِّیَّتِکَ قَالَ فَذَہَبَ فَقَال السَّلاَمُ عَلَیْکُمْ فَقَالُوْا السَّلاَمُ عَلَیْکَ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ قَالَ فَزَادُوہُ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ قَالَ فَکُلُّ مَنْ یَّدْخُلُ الْجَنَّۃَ عَلٰی صُورَۃِ آدَمَ وَطُولُہٗ سِتُّونَ ذِرَاعًا فَلَمْ یَزَلِ الْخَلْقُ یَنْقُصُ بَعْدَہٗ حَتَّی الآنَ )[ رواہ مسلم : کتاب الجنۃ وصفۃ نعیمہا وأہلہا، باب یَدْخُلُ الْجَنَّۃَ أَقْوَامٌ أَفْءِدَتُہُمْ مِثْلُ أَفْءِدَۃِ الطَّیْرِ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) ذکر کرتے ہیں کہ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کو اپنی صورت پر تخلیق فرمایا۔ ان کا قد ساٹھ ہاتھ لمبا تھا۔ جب اللہ تعالیٰ ان کی تخلیق سے فارغ ہوا تو حکم فرمایا : آدم اس جماعت کے پاس جاکر سلام کہو۔ وہ فرشتوں کی مجلس ہے۔ وہ جو جواب دیں اسے سنو، وہی جواب تیرا اور تیری اولاد کا ہوگا۔ جب حضرت آدم (علیہ السلام) نے جاکرالسلام علیکم کہا تو انہوں نے السلام علیکم ورحمۃ اللہ سے جواب دیا۔ نبی محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں کہ فرشتوں نے ورحمۃ اللہ کا اضافہ کیا۔ آپ فرماتے ہیں : جنت میں داخل ہونے والا ہر شخص آدم (علیہ السلام) کی شکل وصورت پر ہوگا اور ہر جنتی کا قد ساٹھ ہاتھ لمبا ہوگا۔ لیکن حضرت آدم (علیہ السلام) کے بعد انسانی قد میں مسلسل کمی ہوتی رہی یہاں تک کہ انسان کا قد اتنا رہ گیا۔“ مسائل ١۔ صاحب ایمان اور عمل صالح کرنے والوں کو جنت میں داخل کیا جائے گا۔ ٢۔ جنت کے نیچے نہریں جاری ہوں گی۔ ٣۔ مومن جنت میں ہمیشہ رہیں گے۔ ٤۔ جنتی با ہم ملاقات کے وقت ایک دوسرے کو سلام کہیں گے۔ تفسیر بالقرآن نیک لوگوں کے لیے موت کے بعد سلامتی ہی سلامتی ہے : ١۔ قیامت کے دن نیک لوگ جنت میں داخل کیے جائیں گے اس میں ان کی دعا سلام ہوگا۔ (ابراہیم : ٢٣) ٢۔ جب فرشتے نیک لوگوں کی روحیں قبض کرتے ہیں تو کہتے ہیں تم پر سلامتی ہو۔ (النحل : ٣٢) ٣۔ حکم ہوگا کہ جنت میں سلامتی کے ساتھ داخل ہوجاؤ۔ (ق : ٣٤) ٤۔ جنت کا دربان کہے گا تم پر سلامتی ہو۔ (الزمر : ٧٣) ٥۔ ان کے لیے اللہ کے ہاں سلامتی والا گھر ہے۔ (الانعام : ١٢٧) ابراھیم
24 فہم القرآن ربط کلام : نیا خطاب۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کی فطرت میں یہ بات ودیعت فرمائی ہے کہ اسے کوئی بات مثال دے کر سمجھائی جائے تو نہ صرف اسے سمجھ آجاتی ہے بلکہ وہ بات اسے زندگی بھر یاد رہتی ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اہم ترین مسائل کو امثال کے ذریعے سمجھایا ہے۔ پہلے پارے میں دین اسلام کو بارش کے ساتھ تشبیہ دی۔ بارش میں فوائد بھی ہیں اور کچھ نقصان کا اندیشہ بھی ہوتا ہے۔ گویا کہ دین میں فوائد کے ساتھ قربانی بھی دینا پڑتی ہے۔ (البقرۃ : ١٩) دین اسلام بارش کی طرح فائدہ مند چیز ہے لیکن جس طرح اچھی زمین بارش کا فائدہ اٹھا کر نباتات اگاتی ہے اور خراب زمین اس کا فائدہ نہیں اٹھا پاتی یہی مثال دین اسلام کی ہے سعادت مند اور عقلمند فائدہ اٹھاتے ہیں۔ دنیا کے طالب اور لاپروا فائدہ نہیں اٹھا پاتے۔ عقیدۂ توحید سمجھانے کے لیے مکھی کی مثال دی کہ اگر وہ کھانے سے کوئی چیز اٹھا کے لے جائے تو معبودان باطل اور ان کو مشکل کشا سمجھنے والے اس سے وہ چیز واپس نہیں لے سکتے۔ حقیقت یہ ہے کہ مدد مانگنے والے اور جن سے مدد طلب کی جاتی ہے دونوں ہی کمزور ہیں۔ (الحج : ٧٣) شرکیہ عقیدہ کی کمزوری کو واضح کرنے کے لیے مکڑی کی مثال دی کہ جس طرح مکڑی مضبوط چھت کے نیچے اپنے لیے جالا بن کر اسے محفوظ سمجھتی ہے یہی مشرک کی حالت ہے کہ وہ قادر مطلق پر یقین کرنے کی بجائے کمزور سہارے تلاش کرتا ہے اور ان پر بھروسہ کرتا ہے۔ (العنکبوت : ٤١) حالانکہ وہ کسی وقت بھی سہارا نہیں بن سکتے۔ سورۃ ابراہیم کے اس مقام پر عقیدہ توحید کو ایک درخت کے ساتھ تشبیہ دیتے ہوئے فرمایا ہے کہ اے لوگو! کیا تم غور نہیں کرتے کہ کلمہ طیبہ کو اللہ تعالیٰ ایک پاکیزہ درخت کے ساتھ تشبیہ دیتے ہوئے سمجھاتا ہے کہ یہ ایسا درخت ہے کہ جس کی جڑیں زمین میں جمی ہوئی ہیں اور اس کی شاخیں آسمان کی بلند یوں میں لہرا رہی ہیں۔ یہ درخت اپنے رب کے حکم سے ہر موسم میں پھل دے رہا ہے۔ یہ مثال اس لیے دی جا رہی ہے تاکہ لوگ اس سے سبق حاصل کریں۔ حقیقت ہے کہ ہر درخت کا ایک بیج ہوتا ہے بے شک وہ بیج کی شکل میں ہویا جڑ کی صورت میں درخت اسی کی بنیاد پر زمین میں جڑ پکڑتا، فضا میں پھیلتا اور پھل دیتا ہے۔ جس طرح کا بیج ہوگا اسی طرح کا درخت اور اس کا پھل ہوگا۔ یہی انسان کے عقیدہ اور اس کے کردار کی مثال ہے۔ اگر عقیدہ باطل یا کمزور ہے تو اس کا کردار بھی گھناؤنا اور کمزور ہوگا۔ اگر عقیدہ توحید پر مبنی اور مضبوط ہے تو اس کے کردار اور گفتار میں نکھار اور پختگی ہوگی۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے کلمہ طیبہ کو ایک ایسے درخت کے ساتھ تشبیہ دی ہے جس کی جڑیں زمین میں پھیلی ہوئی اور مضبوط ہیں اگر اسے پانی نہ بھی مل سکے تو اس کی جڑیں زمین سے پانی جذب کر کے درخت کی ہر یالی کو سدا بہار رکھتے ہوئے اسے ہر موسم میں بار آور بناتی ہیں۔ اس کی شاخیں فضا میں ہر سو لہلہاتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں۔ اس کا سایہ گھنا اور پھل میٹھا ہوتا ہے۔ یہی مثال عقیدۂ توحید کی ہے۔ جس کی بنیاد کلمہ طیبہ پر ہے جس میں آدمی یہ اقرار کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا نہ کوئی چیز دینے والا ہے اور نہ کوئی چیز لینے والا ہے۔ اسی بنیاد پر مواحد کے عقیدہ وعمل میں نکھار اور کمال ہوتا ہے۔ اس کے تعلقات میں اخلاص، معاملات میں نکھار، کردار میں عدل وانصاف، گفتار میں وقار اور اخلاق اعلیٰ ہوتا ہے اور ہونا چاہیے۔ حاکم ہے تو رعایا پروری کرے گا، مال دار ہے تو صدقہ وخیرات کرے گا، طاقتورہے تو دوسرے کی مدد کرے گا، علم و لیاقت کا مالک ہے تو لوگوں کے لیے علم ومعرفت کا ذریعہ بنے گا، رات کو اٹھے گا تو اپنی اور امت کی خیر مانگے گا، صبح کو گھر سے نکلے گا تو اپنوں بیگانوں کا بھلا کرے گا۔ گویا کہ جلوت وخلوت، رات اور دن میں کوئی گھڑی ایسی نہیں ہوگی جس میں یہ اپنے رب سے غافل اور اس کا ضمیر اپنے رب کے حضور جو ابدہی کے تصور سے خالی ہو۔ مصیبت آئے گی تو ثابت قدم رہے گا، نعمت چھن جائے تو صبر کرے گا۔ کچھ حاصل ہوگا تو اپنے رب کا شکر گزار ہوگا۔ مسائل ١۔ کلمہ طیبہ کی مثال پاکیزہ درخت کی سی ہے جس کی جڑیں مضبوط اور شاخیں اونچائی میں ہیں۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ لوگوں کی نصیحت کے لیے مثالیں بیان کرتا ہے۔ ابراھیم
25 فہم القرآن ربط کلام : کلمہ طیبہ کے بعد کلمہ خبیثہ کی مثال۔ کلمہ طیبہ کے مقابلہ میں کلمہ خبیثہ ہے۔ جس طرح کلمہ طیبہ کے دنیاو آخرت میں فوائد وثمرات ہیں۔ اسی طرح دنیا اور آخرت میں کلمہ خبیثہ کے مضمرات اور نقصانات ہیں۔ اگر تعمق نگاہی کے ساتھ دیکھا جائے تو عقیدہ کا سب سے پہلا اثر انسان کی سوچ پر پڑتا ہے۔ اگر عقیدہ ٹھیک ہے تو اس کی سوچ مثبت اور ٹھیک ہوگی، اگر عقیدہ غلط ہے تو اس کی سوچ بھی منفی اور غلط ہوگی۔ دوسرے الفاظ میں سوچ تبدیل ہوگی تو انسان تبدیل ہوگا۔ انسان تبدیل ہوگا تو پورا نظام تبدیل ہوگا۔ اس لیے دین سب سے زیادہ زورعقیدہ کی درستگی پر دیتا ہے، جسے قرآن و حدیث کی زبان میں ایمان کہا گیا ہے۔ ایمان کو درست رکھنے اور اس کو مضبوط کرنے کے لیے ارکان اسلام مقرر کیے گئے ہیں۔ ان کی ادائیگی سے ایمان مضبوط ہوتا ہے اور ایمان کی مضبوطی سے کردار میں نکھار اور پختگی پیدا ہوتی ہے۔ اس لیے کلمہ طیبہ کے ثمرات کے ذکر کے بعد کلمہ خبیثہ کی بات کی ہے۔ اگر عقیدہ باطل ہے تو سوچ بھی غلط اور باطل ہوگی، جب سوچ غلط ہوگی تو عمل لامحالہ غلط ہوگا۔ جس طرح اچھے بیج سے اچھا درخت اور اس سے میٹھا پھل حاصل ہوتا ہے، اسی طرح برے بیچ سے ناقص درخت پیدا ہوگا، اس کا پھل کڑوا اور بے فائدہ ہوگا، یہ ایسادرخت ہے جس کی نہ جڑیں مضبوط ہیں اور نہ ہی اس کا تنا۔ یہی باطل عقیدہ اور برے عمل کی مثال ہے۔ بے شک دیکھنے میں کتنا اچھا لگتا ہو، اس کا نتیجہ دنیا میں بھی برا ہوگا۔ آخرت میں تو ہر صورت اس کا انجام برا ہوگا۔ یہی اچھے اور برے عقیدہ کی مثال ہے۔ جیسے ایک پاکیزہ اور خبیثہ شجر کے ذریعے سمجھایا گیا ہے۔ ذات کبریا کا خوف اور آخرت کا ڈر اٹھ جائے تو انسان درندہ بن جاتا ہے۔ ذات اقدس کی حیا نہ رہے تو انسان سے ہر برائی کی توقع ہو سکتی ہے۔ قرآن مجید کھلے الفاظ میں بتلا رہا ہے کہ برائی کو قرار حاصل نہیں بشرطیکہ حق میں آگے بڑھنے کی ہمت ہو کیونکہ حق میں یہ خصوصیت ہے کہ اسے قرار اور ثبات ہے اور باطل میں یہ قوت اور صلاحیت نہیں پائی جاتی۔ (وَقُلْ جَاءَ الْحَقُّ وَزَہَقَ الْبَاطِلُ إِنَّ الْبَاطِلَ کَانَ زَہُوْقًا )[ بنی اسرائیل : ٨١] ” اور کہہ دو کہ حق آگیا اور باطل نابود ہوگیا بے شک باطل نابود ہونے والا ہے۔“ اللہ تعالیٰ پر ایمان مضبوط ہے تو بڑی سے بڑی پریشانی میں بھی انسان دین اسلام پر قائم اور اپنے رب پر راضی رہے گا۔ اگر عقیدہ یعنی ایمان کمزور ہے تو چھوٹی سی آزمائش اور معمولی نقصان کے اندیشہ سے انسان دین کے اصول کو چھوڑ دے گا۔ جیسے قرآن مجید نے یوں بیان فرمایا ہے : ” اور جو شخص اپنا چہرہ اللہ کی طرف سپرد کردے اور وہ نیکی کرنے والا ہو تو یقیناً اس نے مضبوط کڑے کو اچھی طرح پکڑ لیا۔ تمام کاموں کا انجام اللہ ہی کی طرف ہے۔“ (لقمان : ٢٢) برے عمل اور بری سوچ کا برا نتیجہ : (وَعَنِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اِنَّ مِمَّا اَدْرَکَ النَّاسُ مِنْ کَلَام النُّبُوَّۃِ الْاُوْلٰی اِذَا لَمْ تَسْتَحْیِ فَاصْنَعْ مَا شِءْتَ)[ رواہ البخاری : کتاب أحادیث الأنبیاء الباب الأخیر] ” حضرت عبداللہ مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا‘ لوگوں نے پہلے انبیاء کے کلام میں سے جو بھی پایا ہے‘ اس میں یہ بات ہے کہ جب تجھ میں شرم نہیں تو جو چاہے کرتا رہ۔“ مسائل ١۔ برے عقیدے کی مثال اس درخت کی سی ہے جس کا پھل کڑوا ہے۔ ٢۔ جس طرح زمین میں گہری جڑیں نہ رکھنے والا درخت قائم نہیں رہ سکتا، اسی طرح کمزور عقیدہ شخص آزمائش کے وقت دین پر قائم نہیں رہتا۔ تفسیر بالقرآن کفر و شرک کی مثال : ١۔ کفرو شرک کی مثال اس درخت کی سی ہے جو زمین کے اوپر ہی اوپر کھڑا ہو۔ (ابراہیم : ٢٦) ٢۔ اے لوگو! تمہارے لیے مثال بیان کی جاتی ہے اسے غور سے سنو جن کو تم اللہ کے سوا پکارتے ہو وہ مکھی بھی پیدا نہیں کرسکتے۔ (الحج : ٧٣) ٣۔ کفار کے اعمال کی مثال تیز آندھی کی سی ہے جس طرح تیز آندھی سب کچھ اڑا کرلے جاتی ہے ایسے ہی کفار کے اعمال غارت ہوجائیں گے۔ (ابراہیم : ١٨) ٤۔ کفار کا حال تو اس شخص کا سا ہے جو ایسے جانور کے پیچھے چلا آرہا ہے جو پکارنے اور بلانے کے باوجود کچھ سنتانہیں۔ (البقرۃ: ١٧١) ٥۔ حق کے فوائد ہمیشہ رہنے والے ہیں اور باطل مٹنے والا ہے۔ (الرعد : ١٧) ٦۔ اس کی مثال کتے کی سی ہے اگر حملہ کرو تو تب بھی زبان لٹکائے ہوئے اور اگر چھوڑدو پھر بھی وہی حالت۔ (الاعراف : ١٧٦) ابراھیم
26 ابراھیم
27 فہم القرآن ربط کلام : باطل عقیدہ کی بے ثباتی اور اس کی ناپائیداری کا ذکر کرنے کے بعد عقیدہ توحید کا دنیا اور آخرت میں فائدہ ذکر فرمایا ہے۔ عقیدۂ توحید اپنانے اور اس کے تقاضے پورے کرنے کا صرف آخرت میں نہیں بلکہ دنیا کی زندگی اور موت کے وقت بھی اس کے فوائد حاصل ہوتے ہیں۔ عقیدۂ توحید کا مختصر خلاصہ یہ ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ پر خالص ایمان لاتے ہوئے خوشی اور غمی، عسر اور یسر میں اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرے۔ اس کا دنیوی زندگی میں فائدہ یہ ہے کہ آدمی خوشی کے وقت اپنے آپ سے باہر نہیں ہوتا اور غم کے وقت مایوسی کا شکار نہیں ہوتا کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ اللہ تعالیٰ کلمہ توحید کی وجہ سے مسلمان کو دنیا اور آخرت کی آزمائشوں میں ثابت قدم رکھتا ہے۔ آخرت کی پہلی منزل انسان کی موت ہے، دوسری منزل قبر ہے جسے عالم برزخ کہا گیا ہے اور تیسری منزل محشر کے میدان میں جمع ہو کر رب ذوالجلال کے حضور پیش ہونا ہے۔ کلمہ توحید کے تقاضے پورے کرنے والے کو اللہ تعالیٰ ان منازل میں ثابت قدم رکھتا ہے۔ اور جو لوگ اس توحید خالص پر ایمان نہیں لاتے اور نہ اس کے تقاضے پورے کرنے کی کوشش کرتے ہیں، انہیں اللہ تعالیٰ گمراہی میں آگے بڑھنے کے لیے کھلا چھوڑ دیتا ہے کیونکہ ہدایت اور گمراہی اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے جس نے اس کو انسان کی مرضی پر چھوڑ رکھا ہے۔ عقیدہ کو صحیح طور پر نہ سمجھنے اور اس کے تقاضے پورے نہ کرنے والا شخص کسی آزمائش میں پورا نہیں اترسکتا۔ عقیدۂ توحید کے دنیا اور آخرت میں فائدے : (إِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰہُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا تَتَنَزَّلُ عَلَیْہِمُ الْمَلَآءِکَۃُ أَلَّا تَخَافُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا وَأَبْشِرُوْا بالْجَنَّۃِ الَّتِیْ کُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ نَحْنُ أَوْلِیَآؤُکُمْ فِی الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا وَفِی الْآخِرَۃِ وَلَکُمْ فِیْہَا مَا تَشْتَہِیْ أَنْفُسُکُمْ وَلَکُمْ فِیْہَا مَا تَدَّعُوْنَ نُزُلًا مِّنْ غَفُورٍ رَحِیْمٍ )[ حٰم السجدۃ: ٣٠ تا ٣٢] ” یقیناً وہ لوگ جنہوں نے کہا ہمارا پروردگار اللہ ہے پھر اس پر قائم رہے ان پر فرشتے اتریں گے اور کہیں گے خوف اور غم محسوس نہ کرو اور بہشت کی جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا خوشی مناؤ۔ ہم دنیا کی زندگی میں بھی تمھارے دوست تھے اور آخرت میں بھی اور تمھارے لیے اس میں وہ کچھ ہوگا جو تمھارا جی چاہے گا اور جو چیز تم طلب کرو گے موجود پاؤ گے یہ بخشنے والے مہربان کی طرف سے مہمانی ہے۔“ اچھے اور برے عقیدہ کا نتیجہ : (عَنِ الْبَرَآءِ بْنِ عَازِبٍ قَالَ خَرَجْنَا مَعَ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فِیْ جَنَازَۃِ رَجُلٍ مِنَ الأَنْصَارِ فَانْتَہَیْنَا إِلَی الْقَبْرِ وَلَمَّا یُلْحَدْ فَجَلَسَ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وَجَلَسْنَا حَوْلَہٗ کَأَنَّ عَلٰی رُءُ وْسِنَا الطَّیْرَ وَفِیْ یَدِہٖ عُودٌ یَنْکُتُ بِہٖ فِی الأَرْضِ فَرَفَعَ رَأْسَہٗ فَقَالَ اسْتَعِیْذُوْا باللّٰہِ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ مَرَّتَیْنِ أَوْ ثَلاَثاً........قَالَ فَتُعَادُ رُوحُہٗ فِیْ جَسَدِہٖ فَیَأْتِیْہِ مَلَکَانِ فَیُجْلِسَانِہٖ فَیَقُوْلاَنَ لَہٗ مَنْ رَّبُّکَ فَیَقُوْلُ رَبِّیَ اللّٰہُ فَیَقُوْلاَنِ لَہُ مَا دِیْنُکَ فَیَقُوْلُ دینِیَ الإِسْلاَمُ فَیَقُوْلاَنِ لَہُ مَا ہٰذَا الرَّجُلُ الَّذِیْ بُعِثَ فِیْکُمْ فَیَقُوْلُ ہُوَ رَسُوْلُ اللّٰہِ فَیَقُوْلاَنِ لَہٗ وَمَا عِلْمُکَ فَیَقُوْلُ قَرَأْتُ کِتَاب اللَّہِ فَآمَنْتُ بِہٖ وَصَدَّقْتُ فَیُنَادِیْ مُنَادٍ فِی السَّمَآءِ أَنْ صَدَقَ عَبْدِیْ فَأَفْرِشُوْہُ مِنَ الْجَنَّۃِ وَأَلْبِسُوْہُ مِنَ الْجَنَّۃِ وَافْتَحُوْا لَہٗ بَاباً إِلَی الْجَنَّۃِ قَالَ فَیَأْتِیْہِ مِنْ رَّوْحِہَا وَطِیْبِہَا وَیُفْسَحُ لَہٗ فِیْ قَبْرِہِ مَدَّ بَصَرِہٖ قَالَ وَیَأْتِیْہِ رَجُلٌ حَسَنُ الْوَجْہِ حَسَنُ الثِّیَابِ طَیِّبُ الرِّیْحِ فَیَقُولُ أَبْشِرْ بالَّذِیْ یَسُرُّکَ ہٰذَا یَوْمُکَ الَّذِیْ کُنْتَ تُوعَدُ فَیَقُوْلُ لَہٗ مَنْ أَنْتَ فَوَجْہُکَ الْوَجْہُ یَجِیْٓءُ بالْخَیْرِ فَیَقُوْلُ أَنَا عَمَلُکَ الصَّالِحُ فَیَقُوْلُ رَبِّ أَقِمِ السَّاعَۃَ حَتّٰی أَرْجِعَ إِلآی أَہْلِیْ وَمَالِیْ)[ رواہ أحمد وہو حدیث صحیح] ” حضرت براء بن عازب (رض) سے روایت ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ایک دن ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ ایک انصاری کے جنازے کے لیے نکلے۔ ہم قبرستان گئے تو ابھی تک قبر تیار نہیں ہوئی تھی۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ بیٹھ گئے اور ہم بھی آپ کے ارد گرد بیٹھ گئے۔ گویا کہ ہمارے سروں پر پرندے ہیں اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہاتھ میں ایک لکڑی تھی جس سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) زمین کرید رہے تھے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنا سر اٹھایا اور فرمایا قبر کے عذاب سے اللہ کی پناہ طلب کرو۔ دو مرتبہ فرمایا.......... اس کی روح اس کے جسم میں لوٹا دی جاتی ہے۔ دو فرشتے آکر اسے بٹھا لیتے ہیں۔ اس سے پوچھتے ہیں کہ تیرا رب کون ہے ؟ وہ کہتا ہے کہ میرا رب اللہ ہے۔ پھر پوچھتے ہیں کہ تیر ادین کیا ہے ؟ وہ جواب دیتا ہے کہ میرا دین اسلام ہے۔ پھر پوچھتے ہیں کہ وہ آدمی کون ہے جو تم میں مبعوث کیا گیا ؟ وہ کہتا ہے کہ وہ اللہ کے رسول ہیں۔ فرشتے اس سے کہتے ہیں تجھے کیسے علم ہوا؟ وہ کہتا ہے میں نے اس کے بارے میں اللہ کی کتاب میں پڑھا، اس پر ایمان لایا۔ میں نے اس کی تصدیق کی۔ پھر اعلان کرنے والا آسمان میں اعلان کرتا ہے۔ میرے بندے نے سچ کہا۔ تم اس کے لیے جنتی بستر بچھا دو، اسے جنت کا لباس پہنا دو اور اس کے لیے دروازہ کھول دو۔ راوی کہتے ہیں اس کے پاس جنت کی خوشبوئیں اور ہوائیں آتی ہیں۔ اس کی قبر کو اس کی حد نگاہ تک کشادہ کردیا جاتا ہے۔ اس کے پاس ایک خوبصورت چہرے اور بہترینلباس والاآدمی آئے گا۔ وہ کہے گا تو اس چیز سے خوش ہوجاؤ جس کا تجھ سے وعدہ کیا گیا تھا۔ وہ آدمی اس سے پوچھتا ہے کہ آپ کون ہیں ؟ آپ کا چہرہ تو ایسا ہے جو بھلائی لانے والا۔ پس وہ کہے گا میں تیرا نیک عمل ہوں۔ بندہ کہے گا اے میرے رب قیامت قائم کر دے۔ یہاں تک کہ میں اپنے گھر والوں اور اپنے مال کی طرف لوٹ جاؤں۔“ عقیدہ اور دین پر استقامت کی دعا : (عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ (رض) أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کَانَ یَقُوْلُ یَا وَلِیَ الإِْسْلَامِ وَأَہْلِہٖ ثَبِّتْنِیْ حَتّٰی أَلْقَاکَ )[ رواہ الطبرانی : فی الأوسط وہوحدیث صحیح ] ” حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دعا کرتے تھے کہ اے سلامتی کے مالک اور اس کے اہل ! مجھے اسلام پر ثابت قدم رکھ۔ یہاں تک کہ تجھ سے آملوں۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ ایمان والوں کو دنیا اور آخرت میں ثابت قدم رکھتا ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ ظالموں کو راہ راست نہیں دکھاتا۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ جو چاہتا ہے وہ کرتا ہے۔ تفسیر بالقرآن مومن اور کافر کا فرق : ١۔ مومن اور فاسق برابر نہیں ہیں۔ (السجدۃ: ١٨) ٢۔ جنتی اور جہنمی برابر نہیں ہیں۔ (الحشر : ٢٠) ٣۔ اللہ تعالیٰ ایمان والوں کو دنیا اور آخرت میں ثابت قدم فرماتا ہے اور اللہ تعالیٰ ظالموں کو بھٹکا دیتا ہے۔ (ابراہیم : ٢٧) ٤۔ فرشتے مومن کی روح قبض کرتے وقت سلام کہتے ہیں۔ (النحل : ٣٢) ٥۔ کافر ہمیشہ جہنم میں رہیں گے۔ (البقرۃ: ٣٩) ٦۔ کفار کی روح قبض کرتے وقت فرشتے ان کے چہروں اور پیٹھوں پر مارتے ہیں۔ (الانفال : ٥٠) ٧۔ ایمان لانے والے اور نیک عمل کرنے والے جنت میں جائیں گے۔ (البقرۃ: ٨٢) ٨۔ موت کے وقت فرشتے فاسق کو کہتے ہیں کہ آج تجھے عذاب دیا جائے گا۔ (الانعام : ٩٣) ابراھیم
28 فہم القرآن ربط کلام : عقیدہ توحید کو چھوڑنے والا نہ صرف گمراہ اور ظالم ہوتا ہے بلکہ وہ اللہ تعالیٰ کی عظیم نعمت کو بدلنے کا جرم بھی کرتا ہے۔ عقیدۂ توحید اللہ تعالیٰ کی عظیم نعمت ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ اس عقیدہ کے ذریعے انسان کو اپنے سوا سب کی محتاجی اور در در کی ٹھوکریں کھانے سے بچالیتا ہے۔ اس سے نہ صرف انسان کو دینی اور دنیوی فوائد حاصل ہوتے ہیں بلکہ انسان کی خودی اور غیرت میں اضافہ ہوتا ہے۔ جو شخص اس عظیم عقیدہ کو چھوڑ کر شرک اختیار کرتا ہے۔ وہ دردر کی ٹھوکریں کھانے کے ساتھ اپنی خودی بھی کھو بیٹھتا ہے۔ اس شخص کے کردار اور زیادتی کے بارے میں متنبہ کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ کیا آپ نے ایسے لوگوں کے بارے میں غور نہیں کیا جنہوں نے اللہ تعالیٰ کی عظیم نعمت یعنی عقیدۂ توحید کو کفر میں بدل ڈالا۔ نہ صرف خود گمراہ ہوئے بلکہ اپنے ساتھ اپنے خاندان اور قوم کو بھی ہلاکت کے گھر اتار دیا۔ ہلاکت کے گھر سے مراد جہنم ہے جو بدترین جگہ ہے، ان کا ظلم یہ ہے کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ دوسروں کو شریک بنایا۔ ذاتی اور گروہی فائدے کی خاطر لوگوں کو اللہ تعالیٰ کے راستے سے گمراہ کیا۔ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ان سے فرمائیں دنیا کی زندگی سے فائدہ اٹھا لو، لیکن یاد رکھو آخر میں تمہیں جہنم میں جانا ہے۔ ندکی جمع انداد ہے جس سے مراد ہر وہ ذات یا چیز جسے اللہ تعالیٰ کا ساجھی یا اسے اللہ تعالیٰ کی صفات میں شریک سمجھا جائے۔ عقیدۂ توحید اختیار کرنا اور شرک کو چھوڑ دینا اللہ کا فضل ہے : ( إِنِّیْ تَرَکْتُ مِلَّۃَ قَوْمٍ لاَّ یُؤْمِنُوْنَ باللّٰہِ وَہُمْ بالْاٰخِرَۃِ ہُمْ کَافِرُوْنَ وَاتَّبَعْتُ مِلَّۃَ اٰبَآءِ یْٓ إِبْرَاہِیْمَ وَإِسْحَاقَ وَیَعْقُوبَ مَا کَانَ لَنَا أَنْ نُّشْرِکَ باللّٰہِ مِنْ شَیْءٍ ذٰلِکَ مِنْ فَضْلِ اللّٰہِ عَلَیْنَا وَعَلَی النَّاسِ وَلَکِنَّ أَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَشْکُرُوْنَ )[ یوسف : ٣٧۔ ٣٨] ” جو لوگ اللہ پر ایمان نہیں لاتے اور روز آخرت کا انکار کرتے ہیں میں ان کا مذہب چھوڑے ہوئے ہوں اور اپنے باپ دادا ابراہیم، اسحاق اور یعقوب کے مذہب پر چلتا ہوں ہمیں زیب نہیں دیتا کہ کسی چیز کو اللہ کے ساتھ شریک بنائیں یہ اللہ تعالیٰ کا ہم پر اور لوگوں پر فضل ہے لیکن اکثر لوگ شکر نہیں کرتے۔“ (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ قَالَ قَال النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کَلِمَۃً وَقُلْتُ أُخْرٰی قَال النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَنْ مَّاتَ وَہْوَ یَدْعُوْ مِنْ دُون اللّٰہِ نِدًّا دَخَلَ النَّارَ وَقُلْتُ أَنَا مَنْ مَّاتَ وَہْوَ لاَ یَدْعُو لِلَّہِ نِدًّا دَخَلَ الْجَنَّۃَ )[ رواہ البخاری : کتاب التفسیر، باب قَوْلِہٖ (وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَتَّخِذُ مِنْ دُون اللَّہِ أَنْدَادًا )] ” حضرت عبداللہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک بات ارشاد فرمائی اور میں نے دوسری بات کہی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو فوت ہوگیا اس حال میں کہ وہ اللہ کے سوا دوسروں کو پکارتا رہاوہ جہنم میں داخل ہوگا اور میں نے کہا جو بندہ اس حال میں فوت ہوا کہ اس نے اللہ کے ساتھ شرک نہ کیا ہو وہ جنت میں داخل ہوگا۔“ مسائل ١۔ عقیدۂ توحید سب سے بڑی نعمت ہے۔ ٢۔ عقیدۂ توحید میں شرک کی آمیزش کرنا اس عظیم نعمت کو بدلنے کے مترادف ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ کے انعامات کی ناشکری نہیں کرنی چاہیے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ مشرکوں کو عیش پرستی کے لیے ڈھیل دیتا ہے۔ ٥۔ مشرکین کا ٹھکانہ جہنم ہے۔ تفسیر بالقرآن شرک کی سزا : ١۔ شرک سے تمام اعمال ضائع ہوجاتے ہیں۔ (الزمر : ٦٥) ٢۔ اللہ مشرک کو معاف نہیں کرے گا اس کے علاوہ جسے چاہے گا معاف کر دے گا۔ (النساء : ٤٨) ٣۔ شرک کرنے والا راہ راست سے بھٹک جاتا ہے۔ (النساء : ١١٦) ٤۔ جو شخص اللہ کے ساتھ شرک کرتا ہے گویا کہ وہ آسمان سے گرپڑا۔ (الحج : ٣١) ٥۔ شرک کرنے والے پر جنت حرام ہے۔ (المائدۃ : ٧٢) ٦۔ مشرکین کا ٹھکانہ جہنم ہے۔ (ابراہیم : ٣٠) ٧۔ اللہ اور اس کا رسول مشرکوں سے بری الزمہ ہے۔ (التوبۃ: ٣) ابراھیم
29 ابراھیم
30 ابراھیم
31 فہم القرآن ربط کلام : توحید کے فوائد اور شرک کے نقصانات کا ذکر کرنے کے بعد توحید کے تقاضوں کا بیان ہے۔ مخلوق ہونے کے ناطے تمام انسان اللہ تعالیٰ کے بندے ہیں مگر جن لوگوں نے کفر و شرک اختیار کیا وہ اللہ تعالیٰ کی بندگی سے نکل کر شیطان کے بندے بن جاتے ہیں۔ قرآن مجید نے انہیں ” عبدالطاغوت“ قرار دیا ہے۔ ان کے مقابلے میں جنہوں نے عقیدۂ توحید اپنایا انہیں قرآن مجید آمنوا کے اعزاز سے نوازتا ہے۔ انھیں اللہ تعالیٰ اپنے بندے قرار دیتا ہے۔ جن کے بارے میں سرور دو عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ارشاد ہوا :” آپ انہیں فرمائیں کہ اے اللہ کے بندو! توحید کا تقاضا ہے کہ پانچ وقت نماز قائم کرو جو کچھ اللہ نے تمہیں عطا فرمایا اس میں پوشیدہ اور اعلانیہ طور پر خرچ کرتے رہو۔ تاآنکہ وہ دن آپہنچے جس میں نہ خرید وفروخت ہوگی نہ کسی کی دوستی کام آئے گی۔“ اس فرمان میں واضح اشارہ ہے کہ یقیناً توحید اللہ تعالیٰ کی عظیم نعمت اور دنیا و آخرت کی کامیابی کی کلید ہے مگر جو شخص جان بوجھ کر اس کے تقاضے پورے نہیں کرتا، جنہیں قرآن و حدیث میں ارکان اسلام کے نام سے بیان کیا گیا ہے۔ بے شک بالآخر جنت میں داخل ہوگا لیکن ارکان اسلام پورے نہ کرنے کی وجہ سے اسے جہنم میں جانا پڑے گا۔ نہ معلوم وہ کتنی مدت تک سزا بھگتتا رہے گا اس لیے ایمان یعنی عقیدۂ توحید کے بعد قرآن و حدیث میں بار بار اس بات پرزور دیا گیا ہے کہ ایمان لانے کے بعد انسان کو ارکان اسلام کی پاپندی کرنا ہوگی۔ یہاں ایمان کے بعد اسلام کے بنیادی ارکان میں سے نماز اور انفاق فی سبیل اللہ کا ذکر کیا گیا ہے۔ نماز میں انسان اللہ تعالیٰ کے قریب ہوتا ہے اور باجماعت نماز پڑھنے سے ٢٧ گنا زیادہ ثواب پانے کے ساتھ اپنے بھائیوں کے قریب ہونے اور آپس کے حالات جاننے کا موقع ملتا ہے۔ نماز کے ساتھ زکوٰۃ انفاق فی سبیل اللہ کی لازمی صورت ہے اس سے صاحب ثروت حضرات کو حکم ہے کہ پانچ وقت مسجد میں اکٹھا ہونے والے ساتھیوں کی ضروریات کا بھی خیال رکھیں۔ نماز کی ادائیگی اور انفاق فی سبیل اللہ کا احساس اجا گر کرنے کے لیے فرمایا کہ اس دن کے آنے سے پہلے ان امورکا خیال رکھو، جس دن نہ لین دین ہوگا اور نہ مجرم کو کسی کا واسطہ اور دوستی کام آئے گی۔ (عن أُمَامَۃَ یَقُوْلُ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَخْطُبُ فِی حَجَّۃِ الْوَدَاعِ فَقَالَ اتَّقُوا اللَّہَ رَبَّکُمْ وَصَلُّوْا خَمْسَکُمْ وَصُوْمُوْا شَہْرَکُمْ وَأَدُّوْا زَکَاۃَ أَمْوَالِکُمْ وَأَطِیْعُوْا ذَا أَمْرِکُمْ تَدْخُلُوْا جَنَّۃَ رَبِّکُمْ)[ رواہ الترمذی : کتاب الصلاۃ، الباب الأخیر وہو حدیث صحیح ] ” حضرت امامہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حجۃ الوداع کے موقعہ پر خطبہ دیتے ہوئے سنا۔ آپ نے فرمایا اللہ سے ڈر جاؤ جو تمہار ارب ہے۔ پانچ نمازیں پڑھو، رمضان کے روزے رکھو، اپنے مالوں سے زکٰوۃ ادا کرو اور صاحب امر لوگوں کی اطاعت کرو۔ تم اپنے رب کی جنت میں داخل ہوجاؤ گے۔“ مسائل ١۔ ایمان والوں کو نماز قائم کرنے کا حکم ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ کی راہ میں پوشیدہ اور اعلانیہ خرچ کرنا چاہیے۔ ٣۔ قیامت کے دن خرید و فروخت ہوگی نہ دوستی کام آئے گی۔ تفسیر بالقرآن قیامت کے دن دوستی کام آئے گی اور نہ رشوت چلے گی : ١۔ اس دن نہ دوستی کام آئے گی نہ لین دین ہوگا۔ (ابراہیم : ٣١) ٢۔ قیامت کے دن سے ڈر جاؤ جس دن کوئی معاوضہ قبول نہیں کیا جائے گا۔ (البقرۃ: ٤٨) ٣۔ قیامت کے دن مجرم سونا بھر کر زمین دے، تب بھی قبول نہیں کیا جائے گا۔ (آل عمران : ٩١) ٤۔ مجرم خواہش کرے گا جو کچھ زمین میں ہے سب کچھ دے کر عذاب سے بچ جائے۔ (المائدۃ : ٣٦) ٥۔ قیامت کے دن مجرم اپنے اہل و عیال بطور فدیہ پیش کرے گا۔ ( المعارج : ١١ تا ١٣) ٦۔ اس دن کے آنے سے پہلے پہلے اللہ کی راہ میں خرچ کرو جس دن سفارش اور دوستی کام نہ آئے گی۔ (البقرۃ: ٢٥٤) ابراھیم
32 فہم القرآن ربط کلام : جس اللہ کی عبادت اور اس کی راہ میں خرچ کرنے کا تمہیں حکم دیا گیا ہے اس کی صفات یہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ چاہتا تو انسان کو صرف حکم دیتا کہ مجھ پر ایمان لاؤ اور میری عبادت کرو۔ اس نے حکم دینے کی بجائے اپنی ذات پر ایمان لانے اور اپنی عبادت کے استحقاق کے بے شمار دلائل دیے ہیں۔ جس میں یہ ثابت کیا گیا ہے کہ اے لوگو! اس رب کی عبادت کرو جس نے تمہیں اور تم سے پہلے لوگوں کو پیدا کیا۔ اسی نے تمہارے لیے زمین کو فرش اور آسمان کو چھت بنایا اور آسمان سے پانی برسایا جس سے تمہارے کھانے پینے کے لیے انواع واقسام کے پھل پیدا کیے۔ بس اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ بناؤ کیونکہ تم جانتے ہو زمین و آسمان کو بنانے اور تمہارے رزق کا بندوبست کرنے میں کوئی دوسرا اللہ کے ساتھ شامل نہیں ہے۔ (البقرۃ : ٢١) یہاں جسمانی اور مالی عبادت کا استحقاق ثابت کرنے کے لیے آٹھ دلائل دیئے ہیں۔ ١۔ اللہ ہی نے زمین و آسمان کو پیدا فرمایا۔ ٢۔ اللہ ہی آسمان سے بارش نازل کرتا ہے۔ ٣۔ اللہ ہی پانی کے ساتھ مختلف قسم کے پھل پیدا کرتے ہوئے لوگوں کے لیے رزق مہیا کرتا ہے۔ ٤۔ اللہ ہی نے جہازوں اور کشتیوں کو تمہارے لیے مسخر کیا جو اس کے حکم سے سمندر میں رواں دواں ہیں۔ ٥۔ اللہ ہی نے تمہارے لیے دریاؤں کو مسخر کیا۔ ٦۔ اللہ ہی نے چاند اور سورج کو مسخر فرمایا جو تمہاری خدمت کرنے کے لیے لگاتار ڈیوٹی ادا کر رہے ہیں۔ ٧۔ اللہ ہی نے رات اور دن کو تمہاری خدمت کے لیے پیدا کیا۔ رات آرام اور دن کام کاج کے لیے ہے۔ ٨۔ اللہ ہی تمہیں عطا کرتا ہے جو تم اس سے مانگتے ہو۔ اگر تم اللہ تعالیٰ کی عنایات کو شمار کرنا چاہو تو تم شمار نہیں کرسکتے، ہر چیز مسخر کرنے اور سب کچھ عنایت کرنے کے باوجود انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کفر و شرک کرکے زیادتی اور اس کی ناشکری کرتے ہیں۔ قرآن مجید کئی مقامات پر اس بات کا اظہار کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے لیل ونہار، شمس وقمر، دریاؤں، کشتیوں کو تمہارے لیے مسخر کیا ہے۔ یہاں تک فرمایا کہ : (وَسَخَّرَ لَکُمْ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْأَرْضِ جَمِیْعًا مِّنْہُ إِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیَاتٍ لِّقَوْمٍ یَّتَفَکَّرُوْنَ)[ الجاثیۃ: ١٣] ” زمین و آسمان میں جو کچھ بھی ہے اللہ نے اسے انسانوں کے لیے مسخر کردیا ہے۔ اس میں عبرت آموزی کے لیے بڑے دلائل ہیں ان لوگوں کے لیے جو غور وفکر کرتے ہیں۔“ تسخیر کائنات کے دلائل دینے کا مقصد یہ ہے کہ جس طرح ہر چیز اللہ تعالیٰ کی تقدیس وتحمید بیان کرنے کے علاوہ انسان کی خدمت میں لگی ہوئی ہے، اے انسان! تجھے زیادتی اور ناقدری کرنے کی بجائے اپنے خالق ومالک کا تابع فرمان ہونا اور اس کی راہ میں خرچ کرنا چاہیے مگر انسانوں کی اکثریت کا عالم یہ ہے کہ وہ بغاوت اور سرکشی میں اس قدر آگے بڑھ جاتے ہیں کہ کچھ ان میں اللہ تعالیٰ کی ذات کا انکار کرتے ہیں اور کچھ اس کی ذات اور صفات میں غیروں کو شریک کرتے ہیں، جو پرلے درجے کا ظلم اور ناقدری ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس ناقدری کا یوں شکوہ کیا ہے۔ (وَمَا قَدَرُوْا اللّٰہَ حَقَّ قَدْرِہٖ وَالْأَرْضُ جَمِیْعًا قَبْضَتُہٗ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ وَالسَّمٰوٰتُ مَطْوِیَّاتٌمبِیَمِینِہٖ سُبْحَانَہٗ وَتَعَالٰی عَمَّا یُشْرِکُوْنَ )[ الزمر : ٦٧] ” لوگوں نے اللہ کی قدر نہیں جانی، جس طرح قدر کرنے کا حق تھا حالانکہ قیامت کے دن زمین و آسمان اس کی مٹھی میں ہوں گے، وہ پاک اور بالا تر ہے ان سے جن کو لوگ اس کا شریک بناتے ہیں۔“ مسائل ١۔ زمین و آسمان کا خالق اللہ تعالیٰ ہے۔ ٢۔ آسمانوں سے اللہ تعالیٰ پانی نازل فرماتا ہے۔ ٣۔ پانی سے پھل پیدا کرنے والی اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔ ٤۔ کشتیاں اللہ تعالیٰ کے حکم سے مسخر ہیں۔ ٍٍ٥۔ اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے نہروں کو مسخر کردیا ہے۔ ٦۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کے لیے سورج، چاند، دن اور رات کو مسخر کیا ہے۔ ٧۔ اللہ تعالیٰ ہی عطا کرنے والا ہے۔ ٨۔ کوئی انسان اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو شمار نہیں کرسکتا۔ ٩۔ انسان اللہ تعالیٰ کی نا شکری کرتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن تسخیر کائنات : ١۔ اللہ نے کشتیوں، نہروں، چاند، سورج، دن اور رات کو تمہارے لیے مسخر کردیا ہے۔ (ابراہیم : ٣٢۔ ٣٣) ٢۔ اللہ نے تمہارے لیے رات اور دن، چاند اور سورج کو مسخر کردیا ہے۔ (النحل : ١٢) ٣۔ اللہ نے تمہارے لیے سمندر کو مسخر کردیا تاکہ تم تازہ گوشت حاصل کرسکو۔ (النحل : ١٤) ٤۔ اللہ نے تمہارے لیے چاند اور سورج کو مسخر کردیا ہے ہر ایک اپنے وقت پر آتا ہے۔ (لقمان : ٢٩) ٥۔ اللہ عرش پر مستوی ہے اور اس نے تمہارے لیے سورج اور چاند کو مسخر کیا۔ (الرعد : ٢) ٦۔ اللہ نے سورج اور چاند کو مسخر فرمایا ہے دونوں اپنے وقت مقررہ میں چلتے ہیں۔ (الزمر : ٥) ٧۔ اللہ وہ ذات ہے جس نے تمھارے لیے دریاؤں کو مسخر کردیا تاکہ اس میں اللہ کے حکم سے کشتیاں رواں دواں ہوں۔ (الجاثیۃ: ١٢) ٨۔ کیا وہ نہیں دیکھتے کہ اللہ نے تمھارے لیے جو کچھ زمین میں ہے مسخر کردیا ہے۔ (الحج : ٦٥) ٩۔ اللہ نے تمھارے لیے جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے مسخر کردیا ہے۔ (الجاثیۃ : ١٣) ابراھیم
33 ابراھیم
34 ابراھیم
35 فہم القرآن ربط کلام : اللہ کی توحید کا انکار کرنے والا شخص ظالم اور ناقدری کرنے والا ہوتا ہے قریش مکہ اپنے آپ کو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی اولاد تصور کرتے تھے۔ انہیں سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) کا عقیدہ بتلاکریہ احساس دلایا گیا ہے کہ ابراہیم (علیہ السلام) اپنے رب کے قدر دان اور صرف اسی کے تابع فرمان تھے۔ اے دنیا جہان کے انسانو بالخصوص مکہ میں بسنے والے لوگو! جس عالی مرتبت شخصیت کے ساتھ تم ناطہ جوڑتے اور اس کے بسائے ہوئے شہر میں رہتے ہو اس کا عقیدہ یہ تھا کہ جب اس نے اپنی زوجہ مکرمہ اور اکلوتے لخت جگر کو مکہ میں ٹھہرا کر اس شہر کی بنیاد رکھی تھی تو اس نے اپنے رب کے حضور سب سے پہلے یہ التجا کی تھی ” میرے رب میں اپنی اولاد کو تیرے حکم پر، تیرے محترم گھر کے قریب چھوڑے جا رہا ہوں۔ میری پہلی فریاد یہ ہے کہ الٰہی! اس شہر اور گھر کو امن وسکون کا گہوارا بنانا مجھے اور میری اولاد کو بتوں کی عبادت سے بچائے رکھنا، میرے رب! بتوں کی وجہ سے بے شمار لوگ گمراہ ہوئے ہیں۔ جو میری اتباع کرے یقیناً وہ میرا ساتھی ہے اور جس نے میری نافرمانی کی الٰہی! تو معاف کرنے اور رحم فرمانے والا ہے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی اس دعا سے تین باتیں سامنے آتی ہیں۔ پہلی دعا اور اس کا دنیوی فائدہ : آدمی جہاں رہ رہا ہو اس مقام اور شہر میں امن نہ ہو تو انسان کوئی کام بھی دلجمعی کے ساتھ نہیں کرسکتا۔ بلکہ ایک وقت آتا ہے کہ انسان اس علاقہ کو چھوڑ نے پر مجبور ہوجاتا ہے۔ فرد، قوم اور ملک کی ترقی کے لیے یہ بنیادی بات ہے کہ علاقہ میں امن وامان ہو، جسے تمدن کی زبان میں یوں کہا جاتا ہے کہ چادر اور چار دیواری کا تحفظ معاشرہ اور ملک کی ترقی کے لیے خشت اول ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی دعا مستجاب کرتے ہوئے رہتی دنیا تک اس شہر اور بیت اللہ کو امن کا گھر اور شہر قرار دیا ہے۔ مکہ کی آباد کاری کی ابتدا : حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اپنی اولاد کو چھوڑ کر چلے گئے تو کچھ عرصہ بعد یمن سے ایک قبیلہ آیا جسے تاریخ میں جرہم ثانی کہا جاتا ہے۔ یہ قبیلہ اسماعیل (علیہ السلام) کی والدہ سے اجازت لے کر مکہ میں ٹھہر گیا۔ کہا جاتا ہے کہ یہ قبیلہ پہلے مکہ کے گرد و پیش کی وادیوں میں سکونت پذیر تھا۔ صحیح بخاری میں اتنی صراحت موجود ہے کہ رہائش کی غرض سے یہ لوگ مکہ میں حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کی آمد کے بعد اور ان کے جوان ہونے سے پہلے وارد ہوئے تھے۔ لیکن اس وادی سے ان کا گزر اس سے پہلے بھی ہوا کرتا تھا۔ ( صحیح بخاری : کتاب الانبیاء) دوسری دعا : اے میرے پالنہار! مجھے اور میری اولاد کو بتوں کی عبادت سے بچائے رکھنا۔ یاد رہے کہ دنیا میں شرک کی ابتدا مٹی اور پتھروں کے مجسموں سے ہی ہوئی تھی۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کی قوم نے پہلے انبیاء (علیہ السلام) اور فوت شدگان بزرگوں کے مجسمے اس لیے بنائے تھے تاکہ بزرگوں کی یاد تازہ کرتے ہوئے ان کی ارواح کے واسطے سے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرکے اس کے حضور دعا اور عبادت کی جائے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو طبعًا اور شرعًا شرک اور ان کے ذرائع سے شدید نفرت تھی۔ اس بنا پر انہوں نے اپنے شہر کے سب سے بڑے بت خانہ کو پاش پاش کیا تھا۔ اس لیے دعا کرتے ہیں اے میرے پالنہار ! مجھے اور میری اولاد کو بتوں کی عبادت سے بچائے رکھنا۔ اپنے بارے میں بتوں کی عبادت سے بچنے کی دعا انہوں نے نفرت کا اظہار کرنے اور آئندہ نسلوں کو پیغام دینے کے لیے کی تھی تاکہ لوگوں کو ابراہیم (علیہ السلام) کا عقیدہ معلوم ہوجائے۔ اللہ تعالیٰ کو نہ صرف اپنے ساتھ شرک سے نفرت ہے بلکہ قیامت کے دن ان لوگوں کو بھی جہنم میں جھونکا جائے گا جنہوں نے کسی نہ کسی طریقہ سے شرک کی راہ ہموار کی تھی۔ یہاں تک کہ جن پتھروں کے مجسمے بنائے گئے یا برکت کے طور انہیں استعمال کیا گیا۔ جس طرح کچھ لوگ برکت کے طور پر بعض پتھروں کو انگوٹھی کے نگینہ کے طور پر استعمال کرتے ہیں ان پتھروں کو بھی جہنم میں تپایا جائے گا۔ ( الانبیاء : ٩٨) (عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ حَرَّمَ اللّٰہُ مَکَّۃَ، فَلَمْ تَحِلَّ لأَحَدٍ قَبْلِیْ وَلاَ لاأَحَدٍ بَعْدِیْ، أُحِلَّتْ لِیْ سَاعَۃً مِّنْ نَہَارٍ، لاَ یُخْتَلٰی خَلاَہَا، وَلاَ یُعْضَدُ شَجَرُہَا، وَلاَ یُنَفَّرُ صَیْدُہَا وَلاَ تُلْتَقَطُ لُقَطَتُہَا إِلاَّ لِمُعَرِّفٍ)[ رواہ البخاری : کتاب الجنائز، باب الإِذْخِرِ وَالْحَشِیشِ فِی الْقَبْر ] ” حضرت عبداللہ بن عباس (رض) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے مکہ کو محترم قرار دیا ہے۔ نہ مجھ سے پہلے کسی کے لیے جائز تھا اور نہ میرے بعد کسی کے لیے جائز ہے۔ میرے لیے دن کی ایک گھڑی میں جائز قرار دیا ہے، نہ اس کی گھاس کو کاٹاجائے اور نہ اس کے درختوں کو کاٹا جائے اور نہ اس کا شکار کیا جائے اور نہ اس کی گری ہوئی چیز کو اٹھایا جائے مگر اعلان کرنے کی غرض سے۔“ مکہ معظمہ کا مقام : یہ وادئ قدس‘ جلالت و عظمت‘ رفعت و بلندی اور علومرتبت کے لحاظ سے اپنا ثانی نہیں رکھتی۔ یہ دنیا و جہان کی تمام بستیوں، قصبوں اور شہروں میں نرالی حیثیت کی حامل ہے یہ ایسی نگری ہے جس میں داخل ہونے والے کو قرار اور سکون میسر ہوتا ہے، اس کی ہواؤں اور فضاؤں میں خالقِ کائنات نے طمانیت قلب کا وہ سامان پیدا فرمایا ہے جو دنیا میں ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتا۔ اس کا یوں تذکرہ کیا گیا ہے : (وَالتِّیْنِ وَالزَّیْتُوْن وَطُوْرِسِیْنِیْنَ وَھٰذَا الْبَلَدِ الْاَمِیْنِ) [ التین : ١۔ ٣] ” قسم ہے انجیر، زیتون، طور سینا اور اس پُر امن شہر (مکہ) کی“ مسائل ١۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے مکہ معظمہ کے لیے دعا مانگی الٰہی! اسے امن والا شہر بنادے۔ ٢۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے دعا کی الٰہی! مجھے اور میری اولاد کو بتوں کی عبادت سے بچائے رکھنا۔ ٣۔ بتوں کی وجہ سے بہت سارے لوگ گمراہ ہوئے۔ ٤۔ نبی کا امتی نبی کی فرمانبرداری کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ بخشنے والا مہربان ہے۔ تفسیر بالقرآن مکہ معظمہ اور بیت اللہ کا مرتبہ اور مقام : ١۔ دنیا میں پہلا گھر بیت اللہ تعمیر ہوا۔ (آل عمران : ٩٦) ٢۔ قسم ہے اس شہر کی۔ (البلد : ١) ٣۔ اے میرے رب اس گھر کو امن والا بنا۔ (ابراہیم : ٣٥) ٤۔ قسم ہے اس امن والے شہر کی۔ (والتین : ٣) ٥۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے دعا کی اے اللہ اس شہر کو امن والا بنا۔ (البقرۃ : ١٢٦) ابراھیم
36 ابراھیم
37 فہم القرآن ربط کلام : حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی مزیدد عائیں۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنی اولاد کو اللہ تعالیٰ کے حکم سے اس لیے بیت اللہ کے قریب ٹھہرایا تھا تاکہ حضرت ہاجرہ نماز قائم کریں اور جب اسماعیل (علیہ السلام) بڑے ہوں تو وہ بھی نماز پڑھتے رہیں۔ قرآن مجید کے مقدس الفاظ سے یہ حقیقت بالکل واضح ہے کہ جب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنی اولاد کو یہاں ٹھہرا یا تو اس وقت بیت اللہ کی مقدس جگہ اور بنیادیں موجود تھیں مگر گردش ایام کی وجہ سے بیت اللہ کی عمارت موجود نہ تھی۔ جسے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے ازسرنو تعمیر فرمایا۔ جس کا ذکر البقرۃ کی آیت : ١٢٧ میں ان الفاظ میں ہوا ہے : ” اور جب ابراہیم اور اسماعیل بیت اللہ کی بنیادیں اٹھا کر رہے تھے تو کہنے لگے اے پروردگار ہم سے یہ خدمت قبول فرما یقیناً تو سننے والا جاننے والا ہے۔“ [ البقرۃ: ١٢٧] ” حضرت ہاجرہ[ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے عرض کیا یہ اللہ کا حکم ہے؟ انہوں نے فرمایا ہاں! تب حضرت ہاجرہ[ نے عرض کی کہ پھر پروردگار ہمیں ہلاک نہیں کرے گا۔ یہ کہہ کر حضرت ہاجرہ[ واپس آئیں اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) چل دیئے حتی کہ اس پہاڑی پر پہنچے، جہاں سے حضرت ہاجرہ کو دکھائی نہیں دیتے تھے (اسی پہاڑی سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مکہ میں داخل ہوئے تھے) تو ادھر کا رخ کیا جہاں اب کعبہ ہے۔ پھر دونوں ہاتھ اٹھا کر یہ دعا کی۔ اے ہمارے پروردگار! میں نے اپنی اولاد ایسے میدان میں چھوڑی دی ہے جہاں کچھ نہیں اگتا۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے جانے کے بعد حضرت ہاجرہ[ اسماعیل (علیہ السلام) کو دودھ پلاتیں اور مشک میں سے پانی پیتی رہیں۔ جب پانی ختم ہوگیا تو خود بھی پیاسی ہوئیں، بچے کو بھی پیاس لگنے لگی دیکھا کہ وہ پیاس کے مارے تڑپ رہا ہے ذراپیچھے ہٹ کر بیٹھ گئیں کیونکہ بچے کی حالت دیکھی نہیں جاتی تھی۔ دیکھا کہ صفا پہاڑ قریب ہے اس پر چڑھیں شاید کوئی آدمی نظر آئے لیکن کوئی نہیں دکھائی دیا۔ وہاں سے اتریں اور اپنا کرتہ سمیٹ کر نالے کے نشیب میں اس طرح دوڑیں جیسے کوئی مصیبت زدہ دوڑتا ہے۔ نالے کے پار جا کر مروہ پہاڑ پر دوسری جانب چڑھیں۔ وہاں بھی دیکھا، کوئی آدمی نظر نہ آیا۔ انہوں نے اس طرح چکر لگائے۔“ (رواہ البخاری : باب قول اللہ تعالیٰ وا تخذ اللہ ابراہیم خلیلا) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی تیسری دعا : اے ہمارے رب! میں اس لیے تیرے گھر کے قریب اپنی اولاد کو ٹھہرائے جارہا ہوں یہ تیری توفیق سے نماز قائم کرتے رہیں، قائم کرنے سے مراد نماز باجماعت ادا کرنے کے ساتھ اس کے تقاضے پورے کرنا ہے۔ چوتھی دعا : الٰہی! لوگوں کے دلوں کو ان کی طرف مائل فرمادے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو معلوم تھا کہ یہ اللہ کا گھر ہے جو لوگوں کے لیے مرکز ہدایت بنایا گیا ہے۔ اس لیے ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنی اولاد کو یہاں ٹھہرایا تھا تاکہ آگے چل کر یہ اللہ کے گھر کو آباد کریں۔ اللہ کے گھر کی آبادی کے لیے ضروری ہے کہ نہ صرف اس کے ساتھ لوگوں کی محبت اور رغبت ہو بلکہ اس کے آباد کرنے والے لوگوں کے درمیان بھی محبت والفت کا رشتہ قائم ہونا چاہیے۔ جس سے نہ صرف اللہ کا گھر آباد ہوتا ہے بلکہ لوگوں میں امن وامان اور باہمی محبت کی فضا پروان چڑھتی ہے اس طرح اللہ کا گھر آباد ہونے کے ساتھ امت کی وحدت اور اتحاد کا ذریعہ بنتا ہے۔ پانچویں دعا : اللہ کے گھر کو آباد کرنے کے لیے جس طرح اس میں نماز پڑھنا، اس کے آباد کرنے والوں کی آپس میں محبت ہونا لازم ہے، اسی طرح اس کے رہائشی بالخصوص امام اور اس کے لیے ہمہ وقت وقف ہونے والے خدام کے خوردونوش کا انتظام کرنا بھی ضروری ہے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنی اولاد کے لیے دعا کرتے ہوئے مکہ کے باسیوں کے لیے بھی دعا کی۔ اے میرے رب ! انہیں پھلوں سے رزق عطا فرمانا تاکہ تیرا شکریہ ادا کرتے رہیں۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی دعا کو اللہ تعالیٰ نے اس طرح قبول فرمایا کہ ہزاروں سال بیت چکے ہیں۔ مکہ میں لوگوں کو نہ صرف رزق مہیا ہو رہا ہے بلکہ ہر سال اناج اور پھلوں کی درآمد میں اضافہ ہی ہوا جارہا ہے۔ دنیا میں شاید ہی کوئی ایسا پھل ہوگا جو وافر مقدار میں مکہ مکرمہ میں موجود نہ ہو۔ اناج اور پھلوں کی فراوانی کا مظاہرہ لاکھوں لوگ ہر سال عمرہ اور حج کے موقعہ پر کرتے ہیں۔ اس دعا میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) یہ بھی عرض کرتے ہیں کہ اے ہمارے رب! تو جانتا ہے جو کچھ ہم چھپاتے ہیں اور جس کا ہم اظہار کرتے ہیں۔ زمین و آسمان میں کوئی بات اور چیز ایسی نہیں جو تیری نظر سے پوشیدہ ہو۔ یہ الفاظ ادا کر کے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اپنے دل کی کیفیت بھی عرض کرتے ہیں جس کے دو مقصد ہوسکتے ہیں کہ الٰہی جو کچھ میں مانگ رہا ہوں اس کا مقصد تو جانتا ہے۔ اس کا مقصد ذاتی غرض نہیں بلکہ دین کی آبیاری ہے۔ اس دعا کا یہ مفہوم بھی ہوسکتا ہے کہ ہمارے رب جو کچھ ہمارے تحت الشعور میں پوشیدہ ہے اور ہمارے مستقبل کی ضروریات ہیں تو وہ بھی جانتا ہے۔ اس لیے جو مانگ لیا سومانگ لیا جو نہیں مانگ پایا اپنی جناب سے وہ بھی عطا فرما۔ مسائل ١۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اپنی بیوی اور بچے کو بے آب وگیاہ وادی میں بیت اللہ کے پاس چھوڑ آئے۔ ٢۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے بچے اور بیوی کو اس لیے چھوڑا تاکہ وہ نماز قائم کریں اور بیت اللہ کو آباد کریں۔ ٣۔ اپنی اولاد کے لیے نیکی کی دعا مانگنی چاہیے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا شکریہ ادا کرتے رہنا چاہیے۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ ظاہر اور پوشیدہ کو جانتا ہے۔ ٦۔ اللہ تعالیٰ سے زمین و آسمان کی کوئی چیز مخفی نہیں ہے۔ ابراھیم
38 ابراھیم
39 فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اپنے رب کا شکر ادا کرتے ہیں ہوئے مزید مانگتے ہیں۔ حضرت ابراہیم کے خاندان کا مختصر تعارف : حضرت اسمعیل (علیہ السلام) کے بارہ بیٹے اور ایک بچی تھی۔ جس کا نام مؤرخین نے بشامہ لکھا ہے۔ آپ کے بارہ بیٹوں کے نام ١۔ نیابوط، جن کو عرب نابت کہتے ہیں۔ ٢۔ قید ار حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کے اس صاحبزادے نے بڑی شہرت حاصل کی نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس قیدار کی نسل عدنان سے پیدا ہوئے۔ ٣۔ ادبایل ٤۔ بمشام ٥۔ سمع۔ ٦۔ دومہ ٧۔ مسا ٨۔ حدود ٩۔ یلتماد ١٠۔ جسطور ١١۔ نفیس ١٢۔ قدمہ (توراۃ پ ٢٥) حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کی اولاد میں سرورِدو عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سوا کوئی نبی نہیں ہوا۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی تیسری بیوی اور اولاد : حضرت سارہ کے انتقال کے بعد آپ نے حضرت قطورا سے نکاح کیا۔ جناب شعیب (علیہ السلام) کا نسب انہی سے ملتا ہے۔ حضرت قطورا سے اولاد : آپ کے بطن سے چھ لڑکے پیدا ہوئے جن کے اسمائے گرامی یہ ہیں۔ ١۔ زمران ٢۔ مقسان ٣۔ مدیان ٤۔ مدان ٥۔ اسباق ٦۔ سوخ بنی قطورا میں اہل مدین اور اصحاب الایکہ آتے ہیں۔ جناب شعیب (علیہ السلام) کا تعلق اسی شاخ سے ہے۔ زیادہ مشہور حضرت سارہ اور حضرت ہاجرہ (رض) ہیں اور انہی کے بیٹے اسحاق (علیہ السلام) اور اسماعیل (علیہ السلام) کو نبوت سے نوازا گیا اور ان کو شہرت دوام حاصل ہوئی۔ حضرت اسحاق (علیہ السلام) کی ولادت : تمام مؤرخین نے تحریر فرمایا ہے کہ جب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو اسحاق (علیہ السلام) کی ولادت کی خوشخبری دی گئی تو آپ کی عمر سو سال اور آپ کی زوجہ محترمہ حضرت سارہ[ کی عمر نوے سال تھی۔ قرآن مجید نے اسحاق (علیہ السلام) کی ولادت کا متعدد مقامات پر ذکر فرمایا ہے۔ فرشتے انسانوں کی شکل میں جناب خلیل (علیہ السلام) کے پاس حاضر ہوئے۔ آپ ان کی ضیافت کے لیے ایک بچھڑابھون لائے لیکن انسانی شکل میں آنے والے ملائکہ کھانے کی طرف متوجہ نہ ہوئے۔ تب حضرت نے اپنے آپ میں ایک خوف سا محسوس کیا۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی یہ کیفیت دیکھ کر فرشتوں نے اپنی آمد کا مقصد بیان کرتے ہوئے انہیں اسحاق (علیہ السلام) کی ولادت کی خوشخبری دی اور اس کے ساتھ ہی پوتے حضرت یعقوب (علیہ السلام) کی خبر بھی دی۔ (وَلَقَدْ جَآءَ تْ رُسُلُنَآ إِبْرَاہِیم بالْبُشْرٰی قَالُوْا سَلَامًا قَالَ سَلَامٌ فَمَا لَبِثَ أَنْ جَآءَ بِعِجْلٍ حَنِیْذٍ فَلَمَّا رَاآی أَیْدِیَہُمْ لَا تَصِلُ إِلَیْہِ نَکِرَہُمْ وَأَوْجَسَ مِنْہُمْ خِیْفَۃً قَالُوْا لَا تَخَفْ إِنَّآ أُرْسِلْنَا إِلٰی قَوْمِ لُوْطٍ )[ ھود : ٦٩، ٧٠] ” جب ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس ہمارے فرشتے خوشخبری لے کر پہنچے تو فرشتوں نے عرض کیا۔ اے ابراہیم آپ پر سلام ہو۔ ابراہیم نے جواب میں کہا تم پر بھی سلام ہو۔ پھر کچھ دیر نہ لگائی کہ ایک بھنا ہوا بچھڑا ضیافت کے لیے لے آئے۔ مگر جب دیکھا کہ ان کے ہاتھ کھانے کی طرف نہیں بڑھتے تو وہ ان سے مشتبہ ہوگئے اور دل میں ان سے خوف محسوس کیا۔ فرشتوں نے کہا آپ ڈریں نہیں ہم قوم لوط کی طرف بھیجے گئے ہیں۔“ بشارت سن کر حضرت سارہ[ مسکرائیں : ” اور آپ کی بیوی (آپ کے) پاس کھڑی تھی۔ وہ یہ سن کر ہنس پڑی، پھر ہم نے اس کو اسحاق اور اسحاق کے بعد یعقوب کی خوشخبری سنائی۔ اس نے کہا اف! کیا اب میرے ہاں بچہ ہوگا۔ جب کہ میں نہایت بوڑھی ہوچکی ہوں۔ اور میرا خاوند بھی بوڑھا ہوچکا ہے۔ یہ تو عجیب بات ہے۔ فرشتوں نے کہا۔ کیا اللہ کے حکم پر تعجب کرتی ہو۔ اے ابراہیم کے گھر والو! تم پر اللہ کی رحمتیں اور برکتیں ہیں۔ یقیناً اللہ نہایت تعریف والا اور بلند شان کا مالک ہے۔“ ابراہیم (علیہ السلام) کے معزز مہمان گرامی : ” اے نبی! آپ ان کو ابراہیم کے معزز مہمانوں کا واقعہ سنائیں۔ جب وہ آئے ابراہیم کے پاس اور کہا سلام ہو تم پر تو ابراہیم نے کہا ہمیں تو آپ سے ڈر لگتا ہے فرشتے کہنے لگے۔ آپ ڈریں نہیں! ہم آپ کو ذی علم لڑکے کی خوشخبری دیتے ہیں۔ ابراہیم فرمانے لگے۔ کیا آپ اس بڑھاپے میں مجھے اولاد کی بشارت دے رہے ہیں۔ یہ کیسی بشارت دے رہے ہو؟“ اللہ کی رحمت سے مایوس نہیں ہونا چاہیے : ” فرشتے کہنے لگے ہم آپ کو برحق خوشخبری دے رہے ہیں۔ آپ کو مایوس نہیں ہونا چاہیے۔ ابراہیم نے کہا۔ اپنے رب کی رحمت سے تو گمراہ لوگ ہی مایوس ہوا کرتے ہیں۔“ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے تو اظہار تفصیل کے لیے سوال کیا تھا ورنہ وہ تو اپنے رب کی رحمت سے مایوس نہیں تھے۔ انھوں نے فرمایا تھا کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس تو صرف گمراہ لوگ ہی ہوا کرتے ہیں۔ نبی تو اسباب کی ناپیدگی کے باوجود اپنے رب کی رحمت پر بھرپور بھروسہ کرنے والا ہوتا ہے۔ دوسرا اس واقعہ میں یہ بتانا مقصود ہے اے اہل مکہ! یہ حقیقت جان لو کہ تم فرشتوں کے نزول کا مطالبہ کرتے ہو کہ وہ نازل ہو کر اس نبی کی تائید کریں۔ تب ہم غور کرنے کے لیے تیار ہوں گے۔ یاد رکھو فرشتے یا تو کسی کے لیے رحمت لے کر آتے ہیں یا زحمت! تم سوچ لو تم کس چیز کے مستحق ہو؟ دوسری بات یہ ہے کہ اللہ بغیر اسباب کے سب کچھ کرسکتا ہے۔ جس طرح ابراہیم (علیہ السلام) کے ہاں اولاد کے بظاہر اسباب نہیں تھے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کو بیٹے عنایت فرمائے۔ اسی طرح حالات کتنے ہی نا مساعد کیوں نہ ہوں اللہ اپنے دین کو ضرور بر ضرور سرفراز فرمائے گا۔ اللہ اسباب کا پابند نہیں۔ اسباب اللہ کے حکم کے پابند ہیں۔ ”(فرشتوں) نے اس ( ابراہیم (علیہ السلام) کو علم والے بچے کی بشارت دی۔ یہ سن کر اس کی بیوی چلاتی ہوئی آگے بڑھی اور اس نے اپنا منہ ڈھانپ لیا۔ اور کہنے لگی بوڑھی بانجھ کو اولاد ہوگی فرشتوں نے کہا، یہی کچھ تمہارے رب نے فرمایا ہے۔ یقیناً وہ حکیم ہے اور سب کچھ جانتا ہے۔“ حضرت اسحاق (علیہ السلام) کا قیام : جناب ابراہیم (علیہ السلام) نے تبلیغ دین کے لیے مراکز قائم فرمائے۔ حضرت لوط (علیہ السلام) کو شرق اردن، حضرت ذبیح (علیہ السلام) کو حجاز مقدس اور جناب اسحاق (علیہ السلام) جب بڑے ہوئے تو ان کو شام وفلسطین میں تعینات فرمایا۔ تاریخ کی ورق گردانی سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) شام میں پیدا ہوئے اور ایک سو اسی سال کی عمر میں انتقال ہوا۔ مقام جرون جسے آج کل غرب اردن کہتے ہیں میں آپ ( علیہ السلام) کی آخری آرامگاہ ہے۔ جو فلسطین میں ہے۔ حضرت اسحاق (علیہ السلام) کی سیرت طیبہ کے چند پہلو قرآن حکیم نے ذکر فرمائے ہیں۔ سورۃ انبیاء میں ارشاد فرمایا، ہم نے ان کو پیشوا بنایا تھا جو ہمارے حکم کے مطابق لوگوں کی راہنمائی کیا کرتے تھے۔ مزید ارشاد ہوا کہ ہم نے ان کی طرف وحی کی جس میں ہدایت کی گئی کہ نیکی کے کام کریں نماز اور زکوٰۃ ادا کریں۔ آخر میں ارشاد فرمایا۔ وہ ہمارے عبادت گزار بندے ہیں۔ ” اور ہم نے ابراہیم کو اسحاق عطا کیا اور یعقوب اس پر مستزاد کہ ہم نے ہر ایک کو صالح بنایا۔ حضرت ہاجرہ اور آپ ( علیہ السلام) کے فرزند ارجمند : حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی دوسری رفیقہ حیات حضرت ہاجرہ[ ہیں۔ جن کی سیرت طیبہ کے مختلف پہلوؤں کو قرآن مجید نے اجاگر کرنے کے ساتھ ان کی زندگی سے وابستہ واقعات اور مقامات کو شعائرا اللہ کہہ کر برائے اجروثواب زیارت گاہ بنا دیا اور ان کے صبرورضا کے واقعات کا اس طرح ذکر کیا کہ رہتی دنیا تک ان کا تذکرہ ہوتا رہے گا۔ حضرت اسماعیل (علیہ السلام) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے فرزند اکبر ہیں۔ اس حقیقت کا اعتراف تورات میں تحریف ہونے کے باوجود کتاب پیدائش (باب ١٧، ٢٤، ٢٥) میں موجود ہے۔ اس تصریح کے ساتھ کہ اس وقت جناب خلیل (علیہ السلام) کی عمر ٨٦ سال کی تھی جب اسماعیل (علیہ السلام) پیدا ہوئے۔ اور جب حضرت اسحق (علیہ السلام) پیدا ہوئے تو آپ ( علیہ السلام) کی عمر ننانوے یا سو سال کی تھا۔ تحقیق کے مطابق آپ کنعان میں پیدا ہوئے اور آپ ( علیہ السلام) نے مکہ معظمہ میں ١٣٧ سال کی عمر میں وفات پائی۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے ابراہیم (علیہ السلام) کو بڑھاپے میں اولاد سے نوازا۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ ہی دعاؤں کو سنتا اور قبول فرماتا ہے۔ تفسیر بالقرآن حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی مستجاب دعائیں : ١۔ اے اللہ مجھے نیک بچہ عطا فرما۔ (الصٰفٰت : ١٠٠) ٢۔ اے میرے پروردگار اس شہر کو امن والا بنا۔ (ابراہیم : ٣٥) ٣۔ اے ہمارے پروردگار ہمیں مسلمان بنا دے اور ہماری نسل میں سے فرمانبردار امت پیدا فرما۔ (البقرۃ: ١٣٨) ٤۔ اے ہمارے رب مجھے اور میری اولاد کو نماز قائم کرنے والا بنا۔ اے ہمارے رب میری دعا قبول فرما۔ (ابراہیم : ٤٠) ٥۔ اے ہمارے پروردگار میں نے اپنی اولاد کو بے آب و گیاہ وادی میں تیرے حرمت والے گھر کے قریب ٹھہرایا ہے تاکہ وہ نماز قائم کریں لوگوں کے دل ان کی طرف مائل فرما دے اور انھیں پھلوں کا رزق عطا فرما۔ (ابراہیم : ٣٧) ٦۔ اے اللہ اس شہر کو امن والا بنا اور مجھے اور میری اولاد کو بتوں کی پرستش سے محفوظ فرما۔ (ابراہیم : ٣٥) ٧۔ اے پروردگار ! مجھے علم و دانش عطا فرما اور نیکوکاروں میں شامل فرما۔ (الشعراء : ٨٣) ٨۔ اے اللہ ! مجھے نعمتوں والی جنت کا وارث بنا۔ (الشعراء : ٨٥) ٩۔ اے اللہ انھی میں سے ایک پیغمبر مبعوث فرما جو ان پر تیری آیات تلاوت کرے انھیں کتاب وحکمت سکھلائے۔ (البقرۃ: ١٢٩) ابراھیم
40 فہم القرآن ربط کلام : آدمی ہر حال اور ہر وقت اللہ تعالیٰ کی رحمت و نصرت کا محتاج ہے اس کے لیے اسے وہی ذرائع اور طریقے اختیار کرنے چاہییں جن کا اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حکم فرمایا ہے۔ آدمیجن ذرائع سے اللہ کی مدد کا مستحق اور اس کی رحمت کا سزاوار ہوتا ہے ان میں مؤثر ترین ذریعہ نماز کی ادائیگی ہے۔ مؤذن چوبیس گھنٹوں میں ایک مقررہ وقفے کے بعد پانچ مرتبہ اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا نام لے کر مسلمانوں کو دنیا اور آخرت کی کامیابی کی نوید سناتے ہوئے دعوت دیتا ہے کہ اے کلمہ طیبہ کا اقرار اور اظہار کرنے والو! آؤ تمہاری کامیابی اللہ کی عبادت‘ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت اور جماعت بندی میں ہے۔ تابع فرمان مسلمان ہر چیز چھوڑ کر اللہ کے گھر حاضر ہو کر عملاً ثابت کرتے ہیں کہ ہم خدا کی جماعت ہیں جو ہر وقت اس کے حکم کے پا بند اور اس کی اطاعت پر کاربند ہیں۔ پھر پاؤں سے پاؤں اور کندھے سے کندھا ملا کر مسلمان غیر مسلموں کے سامنے ثابت کرتے ہیں کہ مسلم معاشرہ میں امیر، غریب، آقا اور غلام میں کوئی فرق نہیں۔ کاش امت نماز کی حقیقت کو سمجھ جائے تاکہ ان میں زندگی کی انقلابی روح پیدا ہوجائے۔ سیدنا حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے جگر گوشہ اور رفیقہ حیات کو عرب کے صحرا و بیابان میں چھوڑ کر دعائیں کرتے ہوئے الوداع ہوئے : ان دعاؤں میں ایک دعا یہ بھی تھی ” الٰہی مجھے اور میری اولاد کو نمازی بنا“ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) بارگاہِ الٰہی سے اس طرح التجا کرتے۔ اے ہمارے پروردگار مجھے اور میری اولاد کو نماز کا پابندبنا۔ دعاؤں کا نتیجہ : (وَاذْکُرْ فِیْ الْکِتَابِ اِسْمٰعِیْلَ اِنّہٗ کَانَ صَادِقَ الْوَعْدِ وَ کَانَ رَسُوْلاً نَّبِیّاً وَکَانَ یَاْمُرُاَھْلَہٗ بالصَّلوٰۃِ وَالزَّکَاۃِ وَکَانَ عِنْدَ رَبِّہٖ مَرْضِیّاً)[ مریم : ٥٤۔ ٥٥] ” اے نبی! قرآن مجید سے حضرت اسمٰعیل کا تذکرہ ضرور کرو کیونکہ وہ اللہ کا برگزیدہ نبی وعدے کا سچا اور نماز وزکوٰۃ کا اہل خانہ کو حکم دینے والا تھا۔“ اولاد کو نماز کا حکم دینا چاہیے : (عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَیْبٍ عَنْ أَبِیْہِ عَنْ جَدِّہٖ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مُرُوٓا أَوْلاَدَکُمْ بالصَّلاَۃِ وَہُمْ أَبْنَآءُ سَبْعِ سِنِیْنَ وَاضْرِبُوْہُمْ عَلَیْہَا وَہُمْ أَبْنَآءُ عَشْرِ سِنِیْنَ وَفَرِّقُوْا بَیْنَہُمْ فِی الْمَضَاجِعِ ) [ رواہ ابو داود : باب مَتٰی یُؤْمَرُ الْغُلاَمُ بالصَّلاَۃِ] ” حضرت عمرو بن شعیب اپنے باپ سے وہ اپنے دادا سے بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اپنی اولاد کو نماز پڑھنے کا حکم دو جب وہ سات سال کے ہوجائیں اور جب وہ دس سال کے ہوجائیں تو نماز نہ پڑھنے کی وجہ سے ان پر سختی کرو اور ان کے بستر الگ کر دو۔“ نماز کی فرضیت اور فضیلت : (عَنْ أَبِیْ سُفْیَانَ (رض) قَالَ سَمِعْتُ جَابِرًا یَقُولُ سَمِعْتُ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَقُوْلُ إِنَّ بَیْنَ الرَّجُلِ وَبَیْنَ الشِّرْکِ وَالْکُفْرِ تَرْکَ الصَّلاَۃِ) [ رواہ مسلم : باب بَیَانِ إِطْلاَقِ اسْمِ الْکُفْرِ عَلَی مَنْ تَرَکَ الصَّلاَۃَ ] ” حضرت ابو سفیان (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے جا بر (رض) سے سنا وہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا مسلمان اور کفر کے درمیان نماز کا فرق ہے۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ سے نماز کی پابندی کی توفیق مانگنی چاہیے۔ ٢۔ اللہ ہی دعاؤں کو قبول کرنے والا ہے۔ ٣۔ کوشش کے ساتھ والدین کو دعا بھی کرنی چاہیے کہ ان کی اولاد نمازی بن جائے۔ تفسیر بالقرآن نیک اولاد کے لیے انبیاء کرام (علیہ السلام) کی دعائیں : ١۔ اے میرے پروردگار! مجھے اور میری اولاد کو نماز کا پابند بنا۔ (ابراہیم : ٤٠) ٢۔ حضرت زکریانے اپنے پروردگار کو پکارا اور عرض کی کہ الٰہی مجھے نیک اولاد عطا فرما۔ (آل عمران : ٣٨) ٣۔ میں تجھے لوگوں کا امام بنا رہا ہوں ابراہیم نے کہا میری اولاد میں سے بھی بنائیں۔ (البقرۃ: ١٢٤) ٤۔ اے ہمارے پروردگار! ہماری اولاد میں ایک جماعت اپنی مطیع بنا۔ (البقرۃ: ١٣٨) ابراھیم
41 فہم القرآن ربط کلام : حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی مزید دعائیں۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے ساتھ برا سلوک کرنے کے باوجود باپ کے لیے بخشش کی دعا کا وعدہ : ” ابراہیم کا تذکرہ کیجیے یقیناً وہ سچا نبی تھا جب انھوں نے اپنے باپ سے کہا ابا جان آپ ایسی چیزوں کو کیوں پوجتے ہیں جو نہ سنتے ہیں نہ بولتے ہیں اور نہ آپ کے کچھ کام آسکتے ہیں ابا جان مجھے ایسا علم ملا ہے جو آپ کو نہیں ملا میری فرمانبرداری کیجیے میں آپ کو سیدھی راہ پر چلاؤں گا۔ ابا جان شیطان کی پرستش نہ کیجیے یقیناً شیطان اللہ کا نافرمان ہے۔ ابا جان مجھے ڈر لگتا ہے کہ آپ کو اللہ کا عذاب آپکڑے اور آپ شیطان کے ساتھی ہوجائیں۔ اس نے کہا ابراہیم کیا تو میرے معبودوں سے مجھے برگشتہ کرتا ہے اگر تو باز نہ آیا تو میں تجھے سنگسار کر دوں گا اور تو ہمیشہ کے لیے مجھ سے دور ہوجا۔ ابراہیم نے کہا آپ پر سلامتی ہو میں آپ کے لیے اپنے پروردگار سے بخشش مانگوں گا یقیناً وہ مجھ پر مہربان ہے۔“ (مریم : ٤١ تا ٤٧) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی دعا باپ کے حق میں قبول نہیں ہوئی : باپ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو یہ دھمکی دے کر گھر سے نکال باہر کیا کہ میری آنکھوں سے دور ہوجا ورنہ میں تجھے سنگسار کردوں گا۔ اس کے باوجود حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے باپ سے وعدہ کیا کہ میں اپنے رب سے آپ کی بخشش کی ضرور دعا کروں گا۔ (مریم : ٤٦ تا ٤٨) جس کے نتیجہ میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) محشر کے دن اپنے رب کے حضور فریاد کریں گے لیکن ان کی فریاد کو قبول نہیں کیا جائے گا۔ قرآن مجید نے اس بات کی یوں بھی وضاحت فرمائی ہے کہ اے امت مسلمہ کے لوگو! تمھارے لیے ابراہیم کا ہر عمل نمونہ ہے سوائے اس کے جو انھوں نے اپنے باپ کے لیے دعا کا وعدہ کیا تھا۔ (الممتحنۃ: ٤) ماں باپ اور نیک لوگوں کے لیے دعا کرنے کا حکم : حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی دعا باپ کے حق میں اس لیے قبول نہ ہوگی کہ وہ مشرک تھا۔ قرآن مجید نے مشرک کے حق میں بخشش کی دعا کرنے سے منع کیا ہے۔ البتہ مواحد والدین اور مواحد فوت شدگان کے لیے بخشش کی دعا کرنا انبیاء کی سنت، نیک لوگوں کا طریقہ اور اللہ تعالیٰ کا حکم ہے۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کی اپنے والدین اور فوت شدگان کے لیے دعا : ” اے میرے پروردگار ! مجھے اور میرے والدین کو بخش دے اور جو ایمان دار میرے گھر میں آئے اس کو اور تمام ایمان والے مردوں اور عورتوں کو معاف فرما اور ظالموں کی تباہی میں مزید اضافہ فرما۔“ [ نوح : ٢٨] نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی فوت شدگان کے لیے دعا : (عَنْ اَبِیْ ہُرَےْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اِذَا مَاتَ الْاِنْسَانُ اِنْقَطَعَ عَنْہُ عَمَلُہٗٓ اِلَّا مِنْ ثَلَاثَۃٍ الاَّمِنْ صَدَقَۃٍ جَارِےَۃٍ اَوْ عِلْمٍ یُّنْتَفَعُ بِہٖ اَوْ وَلَدٍ صَالِحٍ یَّدْعُوْ لَہٗ) [ رواہ مسلم : باب مَا یَلْحَقُ الإِنْسَانَ مِنَ الثَّوَابِ بَعْدَ وَفَاتِہٖ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ذکر کرتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا آدمی کے فوت ہونے سے اس کے عمل کا تسلسل ختم ہوجاتا ہے۔ مگر ان تین چیزوں کے علاوہ (١) صدقہ جاریہ۔ (٢) ایساعلم جس سے لوگ مستفید ہوتے رہیں۔ (٣) نیک اولاد جو اس کے لیے دعائیں کرتی رہے۔“ (وَالَّذِیْنَ جَآءُ وْا مِنْم بَعْدِہِمْ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِإِخْوَانِنَا الَّذِیْنَ سَبَقُونَا بالإِْیْمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِیْ قُلُوْبِنَا غِلًّا لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوا رَبَّنَآ إِنَّکَ رَءُ وْفٌ رَّحِیْمٌ)[ الحشر : ١٠] ” اور وہ لوگ جو ان کے بعد آئے وہ دعا کرتے ہیں اے ہمارے پروردگار ہمیں اور ہمارے بھائیوں کو بخش دے جو ہم سے پہلے ایمان لائے ہیں اور ہمارے دل میں کینہ ایمان داروں کے متعلق پیدا نہ فرما اے ہمارے پروردگار تو بڑا شفقت کرنے والا مہربان ہے۔ مسائل ١۔ پروردگار سے اپنے لیے بخشش کی دعا مانگنی چاہے۔ ٢۔ والدین اور مومنین کے لیے بھی بخشش طلب کرنی چاہیے۔ تفسیر بالقرآن موحّدفوت شدگان کے لیے مغفرت کی دعا : ١۔ اے ہمارے پروردگار مجھے، میرے والدین اور مومنوں کو بخش دے۔ (ابراہیم : ٤١) ٢۔ نوح نے کہا اے میرے پروردگار مجھے بخش دے اور میرے والدین کو اور مومن مردوں اور عورتوں کو (نوح : ٢٨) ٣۔ اے ہمارے پروردگار ہمیں بخشے دے اور ہمارے بھائیوں کو جو ہم سے پہلے ایمان لا چکے۔ (الحشر : ١٠) ٤۔ ابراہیم نے کہا میرے باپ کی مغفرت فرما یقیناً وہ گمراہوں میں سے تھا۔ (الشعراء : ٨٦) ابراھیم
42 فہم القرآن ربط کلام : نیا خطاب شروع ہوتا ہے جس میں حق کے منکروں کو ان کے انجام سے آگاہ کیا جاتا ہے۔ مسئلے کی اہمیت کے پیش نظر اکثر اوقات رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو براہ راست مخاطب کیا جاتا ہے۔ اسی اصول کے پیش نظر آپ کو مخاطب کرتے ہوئے آپ کے مخالفوں کو ان کے انجام سے ڈرایا جا رہا ہے۔ اے نبی! اس بات کا کبھی تصور بھی نہ کرنا کہ آپ کے مخالف حق کا انکار اور آپ کی مخالفت کر کے جو ظلم کر رہے ہیں اللہ تعالیٰ اس سے بے خبر ہے۔ ایسا ہرگز نہیں وہ تو انہیں اس دن کے لیے مہلت دیے ہوئے ہے۔ جس دن آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جائیں گی اور ظالم سراٹھائے اپنے سامنے نظریں جمائے دوڑے جارہے ہوں گے۔ ان کی نظریں ان کی اپنی طرف بھی نہ مڑپائیں گی۔ ان کے دل گھبراہٹ کے عالم میں اڑے جارہے ہوں گے۔ سورج دنیا کی حرارت سے لاکھوں ڈگری زیادہ حرارت اور حدت لیے ہوگا۔ زمین تابنے کی طرح ہوجائے گی اور سورج زمین سے ایک میل کے فاصلے پر آجائے گا۔ لوگ اپنے اپنے پسینے میں ڈبکیاں کھا رہے ہوں گے۔ اس عالم میں لوگ گردنیں اٹھائے، پھٹی آنکھوں کے ساتھ رب ذوالجلال کی بار گاہ میں پیش ہونے کے لیے اس حال میں بھاگ رہے ہوں گے کہ ان کے دل اس طرح ہوں گے کہ جیسے چند لمحوں کے بعد پھٹ جائیں گے لیکن ایسا بالکل نہیں ہوگا۔ (عَنِ الْمِقْدَادِ (رض) قَالَ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَقُوْلُ تُدْ نَیْ الشَّمْسُ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ مِنَ الْخَلْقِ حَتّٰی تَکُوْنَ مِنْھُمْ کَمِقْدَارِ مِیْلٍ فَیَکُوْنُ النَّا سُ عَلٰی قَدْرِ اَعْمَالِھِمْ فِیْ الْعََرَ قِ فَمِنْھُمْ مَنْ یَّکُوْنُ اِلٰی کَعْبَیْہِ وَمِنْھُمْ مَنْ یَّکُوْنُ اِلٰی رُکْبَتَیْہِ وَمِنْھُمْ مَنْ یَّکُوْنُ اِلٰی حَقْوَیْہِ وَمِنْھُمْ مَنْ یُّلْجِمُھُمُ الْعَرَقُ اِلْجَامًا وَاَشَارَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بِیَدِہٖ اِلٰی فِیْہِ)[ رواہ مسلم : کتاب الجنۃ وصفۃ نعیمہا وأہلہا، باب فِی صِفَۃِ یَوْمِ الْقِیَامَۃِ أَعَانَنَا اللّٰہُ عَلٰٓی أَہْوَالِہَا] ” حضرت مقداد (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے سرورِدو عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے سنا‘ آپ فرمارہے تھے قیامت کے دن سورج لوگوں سے ایک میل کی مسافت پر ہوگا لوگوں کا پسینہ ان کے اعمال کے مطابق ہوگا بعض لوگوں کے ٹخنوں تک‘ بعض کے گھٹنوں تک بعض کی کمر تک اور بعض کے منہ تک پسینہ ہوگا یہ بیان کرتے ہوئے رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے منہ کی طرف اشارہ کیا۔“ (عَنْ عَاءِشَۃَ (رض) قَالَتْ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَقُوْلُ یُحْشَرُالنَّا سُ یَوْمَ الْقِیاَمَۃِ حُفَاۃً عُرَاۃً غُرْلًا قُلْتُ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ اَلرِّجَالُ وَالنِّسَاءُ جَمِیْعًا یَنْظُرُ بَعْضُھُمْ اِلٰی بَعْضٍ فَقَالَ یَا عَاءِشَۃُ اَلْاَمْرُ اَشَدُّ مِنْ اَنْ یَّنْظُرَ بَعْضُھُمْ اِلٰی بَعْضٍ)[ رواہ البخاری : کتاب الرقاق، باب کَیْفَ الْحَشْر] ” حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ میں نے رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ لوگ قیامت کے دن ننگے پاؤں‘ ننگے بدن اور بلا ختنہ اٹھائے جائیں گے۔ میں نے کہا اے اللہ کے رسول کیا مرد اور عورتیں اکٹھے ہوں گے وہ ایک دوسرے کی جانب دیکھیں گے؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اس دن معاملہ اس کے برعکس ہوگا کہ کوئی ایک دوسرے کی طرف دیکھ سکے۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ سبھی کے اعمال سے باخبر ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ ظالموں کو ڈھیل دیتا ہے۔ ٣۔ قیامت کے دن ظالم سر اٹھاۓ دوڑ رہے ہوں گے۔ ٤۔ قیامت کے دن کوئی ایک دوسرے کو دیکھ نہیں سکے گا۔ تفسیر بالقرآن قیامت کے دن مجرم بدحواس ہوں گے : ١۔ قیامت کے دن مجرم سر اٹھاۓ بدحواسی کے عالم میں دوڑ رہے ہوں گے۔ (ابراہیم : ٤٣) ٢۔ قیامت کے دن آپ مجرموں کے چہروں کو سیاہ دیکھیں گے۔ (الزمر : ٦٠) ٣۔ برے لوگوں کے چہروں پر ذلت چھائی ہوئی ہوگی اور انہیں کوئی بچانے والا نہ ہوگا۔ (یونس : ٢٧) ٤۔ اس دن مجرموں کو ایک دوسرے کے ساتھ جکڑا ہوا دیکھیں گے اور آگ ان کے چہروں پر چھائی ہوگی۔ (ابراہیم : ٤٩۔ ٥٠) ٥۔ قیامت کے دن لوگ اس طرح بدحواس ہوں گے جیسے شراب سے مدہوش ہوں۔ (الحج : ٢) ابراھیم
43 ابراھیم
44 فہم القرآن ربط کلام : قیامت کی ہو لناکیاں بیان کرنے کے بعد ارشاد ہوتا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قیامت کا انکار کرنے والوں کو ڈرائیں اور اس کی حقیقت بتلائیں۔ دنیا پرستی میں مبتلا ہونے والے لوگ آخرت کو اس قدربھول جاتے ہیں کہ ان کی سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ اللہ تعالیٰ نے اس دنیا اور انسان کو محض کھیل تماشے کے طور پر پیدا نہیں کیا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ اگر دنیا کھیل تماشا ہوتی تو ہم یہ تماشا اپنے پاس کرتے۔ (الانبیاء : ١٦۔ ١٧) یہ دنیا آخرت کی کھیتی ہے انسان جو کچھ بوئے گا مرنے کے بعد وہی کچھ اپنے سامنے پائے گا۔ اس حقیقت کے باوجود دنیا پرست لوگ آخرت کا انکار کرتے ہیں اور وہ اس کے لیے اتنے بوسیدہ دلائل دیتے ہیں کہ اگر وہ خود معمولی ساغور کریں تو ان کے دلائل میں بھی آخرت کی حقیقت واضح ہوجاتی ہے۔ آخرت کا انکار کرنے والا ایک شخص سرور دو عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے ایک بوسیدہ ہڈی اپنے ہاتھ سے مسل کر کہتا ہے کہ اے محمد! بتلاؤ یہ ہڈی مٹی بن چکی ہے اسے کون زندہ کرے گا؟ قرآن مجید نے اس کا جواب دیا کہ کیا آخرت کے انکار کرنے والے نے اس بات پر غور نہیں کیا کہ ہم نے اسے ایک نطفہ سے پیدا کیا ہے جس سے بڑا ہو کر وہ اپنے رب کے ساتھ جھگڑا کرتا ہے اور اپنی تخلیق بھول کر ہمارے سامنے بوسیدہ ہڈی کی مثال پیش کر کے کہتا ہے کہ اسے کون زندہ کرے گا اے پیغمبر! انہیں فرمائیں اسے وہی خالق زندہ کرے گا جس نے اسے پہلی بار پیدا کیا تھا جو ہر چیز کا جاننے والا ہے۔ ( یٰس : ٧٠ تا ٧٧) قیامت کا انکار کرنے والوں کو یہ کہہ کر بھی لاجواب کیا گیا ہے کہ یہ بتاؤ تمہیں پہلی دفعہ پیدا کرنا مشکل تھا یا دوسری مرتبہ پیدا کرنا مشکل ہے۔ ( بنی اسرائل : ٥١) پھر دوٹوک الفاظ میں فرمایا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) انہیں کہیں کہ تم لوہا بن جاؤ یا پتھر ہوجاؤ یا تمہارے دل میں جو خیال آسکتا ہے اس سے بھی کوئی بڑی مخلوق بن جاؤ تمہیں وہی ذات پیدا کرے گی جس نے تمھیں پہلی مرتبہ پیدا کیا تھا۔ یہ دلائل سننے کے باوجود نفرت کی بنا پر سر ہلاتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ کب ہوگا انہیں فرمائیں ہوسکتا ہے کہ قیامت عنقریب برپا ہوجائے۔ ( بنی اسرائیل : ٤٩ تا ٥١) غور فرمائیں کہ مرنے کے بعد جی اٹھنے کے قرآن مجید نے کس قدر طبعی اور ٹھوس دلائل دیے ہیں لیکن اس کے باوجود قیامت کے منکرہٹ دھرمی کی بنا پر قسمیں کھایا کرتے تھے کہ یہ دنیا کبھی ختم نہیں ہوگی۔ اور ہمیں کبھی زوال نہیں آئے گا۔ کوئی طاقت ہمیں زندہ نہیں کرسکتی۔ اس باطل عقیدہ کی تردید یہاں یہ کہہ کر کی گئی ہے۔ اے پیغمبر! انہیں سمجھائیں اور ڈرائیں کہ جب اللہ کا عذاب یا قیامت آئے گی تم دھاڑیں مار مار کر فریادیں کرو گے کہ ہمارے رب ہمیں تھوڑی سی مہلت دیجئے تاکہ ہم تیری دعوت کو قبول کر کے رسول کی فرمانبرداری کریں لیکن اس وقت مہلت دینے کے بجائے یہ کہا جائے گا کہ کیا تم وہی ظالم نہیں ہو جو قسمیں کھا کھا کر آخرت کا انکار کرتے اور کہتے تھے کہ اس دنیا نے ہمیشہ رہنا ہے اور اسے کبھی زوال نہیں آئے گا۔ مسائل ١۔ کفار قیامت کے دن کہیں گے اے رب ہمیں مہلت دے ہم تیری بات مانیں گے اور تیرے رسول کی پیروی کریں گے۔ تفسیر بالقرآن جہنم میں جہنمیوں کی فریادیں : ١۔ اے ہمارے رب ہمیں تھوڑی دیر کے لیے مہلت دے ہم تیری دعوت کو قبول اور تیرے رسول کی بات کو تسلیم کریں گے۔ (ابراہیم : ٤٤) ٢۔ جہنمی کہیں گے اے اللہ ہم نے دیکھ لیا اور سن لیا اب ہم کو واپس لوٹا دے۔ (السجدۃ: ١٢) ٣۔ اے ہمارے پروردگار ہمیں یہاں سے نکال ہم پہلے سے نیک عمل کریں گے۔ (الفاطر : ٣٧) ٤۔ اے ہمارے رب! ہمیں یہاں سے نکال اگر دوبارہ ایسا کریں تو بڑے ظالم ہوں گے۔ (المومنون : ١٠٧) ابراھیم
45 فہم القرآن ربط کلام : آخرت کے منکرین کو خطاب جاری ہے۔ منکرین آخرت کو آخرت کے عذاب سے ڈرانے کے ساتھ پہلی اقوام کے انجام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انتباہ کیا ہے کیا یہ لوگ ان کے انجام پر غور نہیں کرتے کہ جن کی بستیوں اور علاقہ میں یہ لوگ رہ رہے ہیں۔ انہوں نے اپنے آپ پر ظلم کیا۔ جس وجہ سے انہیں ذلت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ انہیں معلوم نہیں کہ ہم نے کس طرح انہیں آناً فاناً اور شدّت کے ساتھ پکڑا تھا۔ ہم نے کھول کھول کر ان کے حالات اور واقعات لوگوں کے سامنے بیان کردیے ہیں کہ ان سے پہلے لوگوں نے انبیاء (علیہ السلام) کے ساتھ مکرو فریب اور سازش کی لیکن اللہ تعالیٰ کی تدبیرغالب رہی۔ حالانکہ ان کی سازشیں اور مکرو فریب اس قدر گہرے، بڑے اور مضبوط تھے کہ قریب تھا کہ پہاڑ ٹل جائیں۔ یہ بات پہلے بھی عرض کی جا چکی ہے کہ مکر کا معنی ہے سازش اور ہر قسم کا فریب۔ یہ لفظ جب منکرین حق کی طرف منسوب ہو تو اس کا معنی مکر و فریب ہوا کرتا ہے۔ جب مکر کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف ہو تو اس سے مراد اللہ تعالیٰ کا حکم اور اس کی تدبیر ہوتی ہے۔ پہاڑ ٹل جانے سے مراد یہ بتانا مقصود ہے کہ کفار نے انبیاء (علیہ السلام) کی مخالفت میں ایڑی چوٹی کا زور لگایا مگر اللہ تعالیٰ نے حق کو غالب فرمایا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے انبیاء (علیہ السلام) کے ساتھ وعدہ کیا تھا کہ تمہارے دشمنوں کو ذلیل کرے گا۔ اللہ کا وعدہ کبھی جھوٹا نہیں ہوتا۔ اللہ تعالیٰ سخت انتقام لینے والا ہے۔ اسی کا نتیجہ تھا کہ حضرت نوح (علیہ السلام) کی قوم سیلاب کی نذر ہوئی، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے دشمن دریا میں غرقاب ہوئے۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے خلاف سازش کرنے والا اپنوں کے ہاتھوں سولی چڑھ گیا۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلاف مکر وفریب اور سازشیں کرنے والے ایک ایک کر کے دنیا میں ذلیل وخوار ہوئے۔ آپ نے ان کی لاشوں کو یوں مخاطب کیا : جو باقی تھے انھیں فتح مکہ کے موقع پر سر عام سرور دو عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے معافی مانگنا پڑی۔ (عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ وَقَفَ النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عَلَی قَلِیْبِ بَدْرٍ فَقَالَ ہَلْ وَجَدْتُّمْ مَا وَعَدَ رَبُّکُمْ حَقًّا ثُمَّ قَالَ إِنَّہُمُ الآنَ یَسْمَعُوْنَ مَا أَقُوْلُ )[ رواہ البخاری : باب قَتْلِ أَبِی جَہْلٍ ] ” حضرت عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بدر کے کنویں پر کھڑے ہوئے آپ نے مرنے والے سرداروں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کیا تم نے اپنے پروردگار کے وعدے کو سچ پایا ہے؟ آپ نے فرمایا اب جو کچھ میں کہہ رہا ہوں اسے وہ سن رہے ہیں۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے پہلی قوموں کو نشان عبرت بنادیا۔ ٢۔ انسانوں کی رہنمائی کے لیے اللہ تعالیٰ پہلی قوموں کی مثالیں بیان کرتا ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ اپنے وعدے کے خلاف نہیں کرتا۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ سخت انتقام لینے پر غالب ہے۔ تفسیر بالقرآن مخالفین کا انبیاء (علیہ السلام) اور حق کے خلاف سازشیں کرنا : ١۔ کفار نے نبی اکرم کو قتل کرنے اور ملک بدر کرنے کی سازش کی۔ (الانفال : ٣٠) ٢۔ نبی کریم کو حق سے پھیر دینے کے لیے کافروں نے سازش کی۔ (البقرۃ: ١٠٩) ٣۔ آپ غمزدہ نہ ہوں اور کفار کے مکرو فریب سے تنگی محسوس نہ کریں۔ (النحل : ١٢٧) ابراھیم
46 ابراھیم
47 ابراھیم
48 فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ نے منکرین حق کو دنیا میں تباہ وبرباد کیا اور آخرت میں بھی انہیں شدید ترین عذاب دے گا۔ جب قیامت برپا ہوگی تو ایک دفعہ ہر چیز کو نیست ونابود کردیا جائے گا، پھر محشر کا میدان لگے گا اور اللہ تعالیٰ ساری مخلوق کو دوبارہ زندہ فرمائے گا۔ لیکن مخلوق کو زندہ کرنے سے پہلے زمین و آسمان بدل دیے جائیں گے اس کے بعد لوگوں کو صرف رب ذوالجلال کے سامنے پیش ہونا ہوگا۔ آج دنیا میں حق کے منکر، فاسق اور ظالم لوگ اپنے اثرورسوخ کی وجہ سے دندناتے پھرتے ہیں۔ مگر قیامت کے دن انہیں بھاری زنجیروں میں جکڑ کر اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کیا جائے گا۔ پھر انہیں جہنم میں دھکیلتے ہوئے تار کول کے کپڑے پہنا کر آگ میں جھونکاجائے گا۔ وہ آگ ان کے چہروں تک پہنچ جائے گی۔ یہ اس لیے ہوگا تاکہ مجرموں کو ان کے جرائم کی پوری طرح سزادی جائے۔ بلاشبہ اللہ تعالیٰ جلد حساب لینے والا ہے۔ دین کے بنیادی عقائد میں تیسرا عقیدہ فکرآخرت ہے۔ جسے قرآن مجید پوری شرح وبسط کے ساتھ بیان کرتا ہے۔ یہاں ہم قیامت کے مختلف مراحل کے بارے میں قرآن مجید کی چند آیات اور احادیث کی چند مستند روایات کا حوالہ دیں گے تاکہ موقع کی مناسبت سے قیامت کے منظر کی ایک جھلک ہمارے سامنے آجائے اور ہم رب ذوالجلال کی بارگاہ میں پیشی کی تیاری کرلیں اور اپنے گناہوں کی معافی مانگ لیں۔ (عن أَنَس بن مالِکٍ أَنَّ رَجُلاً قَالَ یَا نَبِیَّ اللّٰہِ یُحْشَرُ الْکَافِرُ عَلٰی وَجْہِہِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ قَالَ أَلَیْسَ الَّذِیْ أَمْشَاہُ عَلَی الرِّجْلَیْنِ فِی الدُّنْیَا قَادِرًا عَلَی أَنْ یُّمْشِیَہٗ عَلٰی وَجْہِہٖ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ قَالَ قَتَادَۃُ بَلٰی وَعِزَّۃِ رَبِّنَا)[ رواہ البخاری : کتاب التفسیر، باب قَوْلِہِ (الَّذِیْنَ یُحْشَرُوْنَ عَلٰی وُجُوہِہِمْ إِلٰی جَہَنَّمَ أُولٰٓءِکَ شَرٌّ مَّکَانًا وَّأَضَلُّ سَبِیْلاً ] ” حضرت انس بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے کہا اے اللہ کے نبی ! کافروں کو چہروں کے بل قیامت کے دن کیسے جمع کیا جائے گا؟ آپ نے فرمایا کیا وہ ذات جو دنیا میں ان کو قدموں پر چلانے پر قادر ہے کیا وہ ذات چہرے کے بل نہیں چلا سکتی؟ قتادہ نے کہا کیوں نہیں !“ (عَنْ سَھْلِ ابْنِ سَعْدٍ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یُحْشَرُالنَّاسُ یَوْ مَ الْقِیَامَۃِ عَلٰی اَرْضٍ بَیْضَآءَ عَفْرَآءَ کَقُرْصَۃِ النَقِیِّ لَیْسَ فِیْھَا عَلََمٌ لِاَحَدٍ) [ متفق علیہ] ” حضرت سہل بن سعد (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا قیامت کے روز لوگوں کو سرخی مائل سفید زمین پر جمع کیا جائے گا زمین میدے کی روٹی کی مانند ہوگی زمین پر کسی قسم کا ٹیلہ نہیں ہوگا۔“ (عَنِ الْمِقْدَادِ قَالَ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَقُوْلُ تُدْ نَیْ الشَّمْسُ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ مِنَ الْخَلْقِ حَتّٰی تَکُوْنَ مِنْھُمْ کَمِقْدَارِ مِیْلٍ فَیَکُوْنُ النَّا سُ عَلٰی قَدْرِ اَعْمَالِھِمْ فِیْ الْعََرَ قِ فَمِنْھُمْ مَنْ یَّکُوْنُ اِلٰی کَعْبَیْہِ وَمِنْھُمْ مَنْ یَّکُوْنُ اِلٰی رُکْبَتَیْہِ وَمِنْھُمْ مَنْ یَّکُوْنُ اِلٰی حَقْوَیْہِ وَمِنْھُمْ مَنْ یُّلْجِمُھُمُ الْعَرَقُ اِلْجَامًا وَاَشَارَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بِیَدِہٖ اِلٰی فِیْہِ)[ رواہ مسلم : کتاب الجنۃ وصفۃ نعیمہا وأہلہا، باب فِی صِفَۃِ یَوْمِ الْقِیَامَۃِ أَعَانَنَا اللَّہُ عَلَی أَہْوَالِہَا] ” حضرت مقداد (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے سرورِدو عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے سنا‘ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرمارہے تھے قیامت کے دن سورج لوگوں سے ایک میل کی مسافت پر ہوگا لوگوں کا پسینہ ان کے اعمال کے مطابق ہوگا بعض لوگوں کے ٹخنوں تک‘ بعض کے گھٹنوں تک بعض کی کمر تک اور بعض کے منہ تک پسینہ ہوگا یہ بیان کرتے ہوئے رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے منہ کی طرف اشارہ کیا۔“ مسائل ١۔ قیامت کے دن زمین و آسمان بدل دیے جائیں گے۔ ٢۔ تمام لوگ اللہ تعالیٰ واحد وقہار کے روبرو پیش ہوں گے۔ ٣۔ قیامت کے دن مجرموں کو زنجیروں میں جکڑ دیا جائے گا۔ ٤۔ قیامت کے دن مجرموں کو گندھک کے کپڑے پہنائے جائیں گے۔ ٥۔ مجرموں کے چہروں کو آگ ڈھانپ رہی ہوگی۔ ٦۔ اللہ تعالیٰ ہر شخص کو اس کے اعمال کا بدلہ دے گا۔ ٧۔ اللہ تعالیٰ جلد حساب لینے والا ہے۔ تفسیر بالقرآن قیامت کے دن مجرموں کا براحال ہوگا : ١۔ قیامت کے دن مجرموں کو با ہم زنجیروں میں جکڑدیا جائے گا۔ (ابراہیم : ٤٩) ٢۔ قیامت کے دن کفار کو طوق پہنا کر جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔ (الحاقۃ: ٣٠۔ ٣١) ٣۔ قیامت کے دن مجرموں کی آنکھیں جھکی ہوئی ہوں گی اور ان پر ذلت چھا رہی ہوگی۔ (المعارج : ٤٤) ٤۔ قیامت کے دن مجرموں کے ابرو پاؤں کے انگوٹھے کے بال سے باندھ دیے جائیں گے۔ (الرحمن : ٤١) ٥۔ اس دن آپ دیکھیں گے کہ مجرم اپنے سروں کو جھکائے پروردگار کے سامنے پیش ہوں گے۔ (السجدۃ: ١٢) ٦۔ بے شک مجرم ہمیشہ جہنم میں رہیں گے۔ (الزخرف : ٧٤) ٧۔ قیامت کے دن مجرم گرم ہوا اور کھولتے ہوئے پانی اور سیاہ دھویں میں ہوں گے۔ (الواقعۃ: ٤١۔ ٤٣) ٨۔ قیامت کے دن مجرموں کو دھکتی ہوئی آگ میں داخل کیا جائے گا۔ (الغاشیۃ : ٤) ٩۔ مجرموں کا کھانا تھور کا درخت ہوگا۔ (الدخان : ٤٣۔ ٤٤) ١٠۔ مجرم تھور کے درخت سے اپنے پیٹ بھریں گے اور کھولتا ہوا پانی پئیں گے۔ (الصٰفٰت : ٦٦۔ ٦٧) ابراھیم
49 ابراھیم
50 ابراھیم
51 ابراھیم
52 فہم القرآن ربط کلام : انبیاء (علیہ السلام) کی مخالفت کرنے والوں کو دنیا و آخرت میں ان کا انجام ذکر کرنے کے بعد بتلایا ہے کہ قرآن مجید سب کے لیے بالخصوص عقل مندوں کے لیے خیر خواہی ہے جو تم تک پہنچ چکی ہے۔ اس سورۃ مبارکہ کی پہلی آیت میں ارشاد فرمایا تھا کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ہم نے اس قرآن مجید کو آپ پر اس لیے نازل کیا ہے کہ آپ لوگوں کو کفر و شرک کے اندھیروں اور ہر قسم کی جہالت سے نکال کر اللہ تعالیٰ کی بتلائی ہوئی روشنی میں لاکھڑا کریں۔ کیونکہ یہی آپ کے رب کا بتلایا ہوا سیدھا راستہ ہے جو لوگ اس راستہ کی طرف نہیں آئیں گے ان کے لیے شدید ترین عذاب ہوگا۔ یہی پیغام موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو دیا اور اسی کی دعوت حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے دی۔ لہٰذا لوگوں کو چاہیے کہ وہ ایک اللہ پر ایمان لائیں، اس کا حکم مانیں جو لوگ ایک اللہ کو چھوڑ کر ادھر ادھر مشکل کشا اور حاحت رواتلاش کرتے اور آخرت کو بھول بیٹھے ہیں انہیں ان کے انجام سے ڈرائیں۔ نصیحت کی نعمت کو وہی لوگ پائیں گے جو حقیقی عقل سے بہرہ مند ہیں۔ گویا کہ آخرت کے لیے تیاری کرنا اور عقیدۂ توحید اپنانا اور اس کے تقاضے پورے کرنا عقل کی بات ہے۔ آخرت کو فراموش اور شرک کرنا پرلے درجے کی حماقت ہے۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کا بڑا مقصد اللہ تعالیٰ کی توحید بتلانا اور سمجھانا تھا : (وَمَآ أَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ مِنْ رَّسُولٍ إِلَّا نُوحِیْٓ إِلَیْہِ أَنَّہٗ لَآ إِلٰہَ إِلَّآأَنَا فَاعْبُدُوْنِ )[ الانبیاء : ٢٥] ” اور جو پیغمبر ہم نے آپ سے پہلے بھیجے ان کی طرف یہی وہی بھیجی کہ میرے سوا کوئی معبود نہیں تو میری ہی عبادت کرو۔ (کَمَآ أَرْسَلْنَا فِیْکُمْ رَسُوْ لا مِنْکُمْ یَتْلُوْا عَلَیْکُمْ آَیَاتِنَا وَیُزَکِّیْکُمْ وَیُعَلِّمُکُمُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَۃَ وَیُعَلِّمُکُمْ مَا لَمْ تَکُوْنُوْا تَعْلَمُوْنَ)[ البقرۃ: ١٥١] ” جس طرح ہم نے تم میں سے رسول بھیجے جو تم کو ہماری آیتیں پڑھ پڑھ کر سناتے اور تمھیں پاک کرتے اور کتاب اور حکمت سکھلاتے اور ایسی باتیں بتاتے ہیں جو تم جانتے نہ تھے۔“ (وَإِلَہُکُمْ إِلَہٌ وَاحِدٌ لَا إِلَہَ إِلَّا ہُوَ الرَّحْمَنُ الرَّحِیمُ )[ البقرۃ: ١٦٣] ” اور تمھارا الٰہ ایک ہی الٰہ ہے اس کے سوا کوئی الٰہ نہیں وہ بڑا مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے۔“ (اللَّہُ لَا إِلَہَ إِلَّا ہُوَ الْحَیُّ الْقَیُّومُ)[ آل عمران : ٢] ” اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں وہ زندہ اور قائم ہے۔“ (فَاعْلَمْ أَنَّہُ لَا إِلَہَ إِلَّا اللَّہُ وَاسْتَغْفِرْ لِذَنْبِکَ وَلِلْمُؤْمِنِینَ وَالْمُؤْمِنَاتِ وَاللَّہُ یَعْلَمُ مُتَقَلَّبَکُمْ وَمَثْوَاکُمْ)[ محمد : ١٩] ” پس جان لو کہ بے شک اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں اور اپنے گناہوں کی معافی مانگو اور مومن مردوں، عورتوں کے لیے بھی معافی طلب کرو اللہ تمھارے چلنے پھرنے اور ٹھہرنے سے واقف ہے۔“ (عَنْ أَبِیْ یَعْلٰی شَدَّادِ بْنِ أَوْسٍ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) الْکَیِّسُ مَنْ دَانَ نَفْسَہٗ وَعَمِلَ لِمَا بَعْدَ الْمَوْتِ وَالْعَاجِزُ مَنْ أَتْبَعَ نَفْسَہٗ ہَوَاہَا ثُمَّ تَمَنّٰی عَلَی اللّٰہِ )[ رواہ ابن ماجۃ : باب ذِکْرِ الْمَوْتِ وَالاِسْتِعْدَادِ لَہُ] ” حضرت ابویعلیٰ شداد بن اوس (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا عقلمند وہ ہے جو اپنے نفس کا محاسبہ کرے اور موت کے بعد کام آنے والے اعمال کرے۔ عاجز وہ ہے جو اپنے نفس کی خواہشات کی پیروی کرتا ہے اور پھر اللہ تعالیٰ سے بخشش کی امید رکھتا ہے۔“ مسائل ١۔ قرآن مجید لوگوں کے لیے نصیحت کا پیغام ہے۔ ٢۔ عقلمند ہی نصیحت حاصل کرتے ہیں۔ ٣۔ اللہ ایک ہی عبادت کے لائق اور سب کا حاجت روا، مشکل کشا ہے۔ تفسیر بالقرآن عقلمندوں کا کردار : ١۔ قرآن مجید لوگوں کے لیے پیغام ہے اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی الٰہ نہیں عقلمند ہی نصیحت حاصل کرتے ہیں۔ (ابراہیم : ٥٢) ٢۔ نصیحت تو بس عقل والے ہی قبول کرتے ہیں۔ (آل عمران : ٧) ٣۔ جاننے والے اور نہ جاننے والے برابر نہیں ہوسکتے عقلمند ہی نصیحت حاصل کرتے ہیں۔ (الزمر : ٩) ٤۔ اللہ تعالیٰ نے جو آپ کی طرف نازل فرمایا ہے وہ حق ہے عقلمند ہی نصیحت حاصل کرتے ہیں۔ (الرعد : ١٩) ابراھیم
0 بسم اللہ الرحمن الرحیم تعارف سورۃ الحجر حجاز سے ملک شام کی طرف جانے والے راستہ پر حجر کا علاقہ پایا جاتا ہے۔ اسی مناسبت سے اس سورت کا نام الحجر رکھا گیا ہے۔ جس کا ذکر اس سورت کی آیت ٨٠ میں موجود ہے۔ یہ سورت چھ رکوع اور ننانوے آیات پر مشتمل ہے۔ سورۃ الحجر مکہ معظمہ اور اس کے گرد نواح میں نازل ہوئی۔ سورت کی ابتدا میں قرآن مجید کو روشن کتاب قرار دینے کے بعد کفار کو اس بات کا انتباہ کیا گیا ہے۔ کھاؤ، پیو اور عیش کرو۔ مگر عنقریب تمھیں اس بات کا پچھتاوا ہوگا کہ کاش ! ہم مسلمان ہوتے یعنی اللہ تعالیٰ کے تابع فرمان بنتے۔ انہیں یہ بھی بتلایا گیا ہے کہ قرآن مجید کی تکذیب کرنے اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مجنون قرار دینے کے باوجود تم پر اللہ تعالیٰ کی گرفت نازل نہیں ہوئی۔ تو یہ مہلت اس لیے ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر فرد اور قوم کی اجل کا ایک وقت مقرر کر رکھا ہے جو کسی کی نیکی یا نافرمانی کی وجہ سے آگے پیچھے نہیں ہوسکتا۔ جہاں تک قرآن مجید کا منجانب اللہ ہونا اور اس کی سچائی کا تعلق ہے اللہ تعالیٰ ہی نے اسے نازل فرمایا ہے اور وہی اس کی حفاظت کرے گا۔ درحقیقت تم لوگ جس قسم کی الزام تراشی اور مطالبے کرتے ہو اسی طرح کے الزمات اور مطالبے تم سے پہلے مجرم کرچکے ہیں۔ اس کے بعد آسمان کا ذکر ہے کہ اس میں اللہ تعالیٰ نے برج بنائے اور ستاروں کے ذریعے اسے خوبصورت بنایا ہے۔ ستارے ایک طرف آسمان کی خوبصورتی کا سبب ہیں اور دوسری طرف شیاطین کے لیے بھڑکتے ہوئے شعلوں کا کام دیتے ہیں۔ تیسرے رکوع میں یہ بیان کیا ہے کہ انسان کو کھڑکھڑانے والی اور بدبودار مٹی سے اور جنات کو آگ کی لپیٹ سے پیدا کیا گیا ہے، پھر موقع کی مناسبت سے آدم (علیہ السلام) کے سامنے ملائکہ کا سجدہ کرنا اور شیطان کا سجدہ نہ کرنے کی وجہ سے لعین قرار پانا اور شیطان کی درخواست کو قبول کرتے ہوئے قیامت تک اسے مہلت دینے کا تذکرہ ہوا ہے۔ اس بیان کے بعد قوم لوط کی تباہی کے لیے بھیجے جانے والے ملائکہ کے سفر کی روداد بیان کرتے ہوئے ان کا حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس جانا۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا ان کی مہمان نوازی کا اہتمام کرنا۔ ملائکہ کا کھانے سے انکار اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو حضرت اسحق (علیہ السلام) کی خوشخبری دینے کا ذکر ہے۔ بعد ازاں ملائکہ کا حضرت لوط (علیہ السلام) کے پاس پہنچنا۔ ملائکہ کی آمد سے حضرت لوط (علیہ السلام) کا پریشان ہونا۔ ملائکہ کا حضرت لوط (علیہ السلام) کو تسلی دیتے ہوئے یہ اعلان کرنا کہ صبح کے وقت آپ کی قوم کے مجرموں کو نیست و نابود کردیا جائے گا۔ سورۃ الحجر کے آخر میں قوم حجر کی ترقی اور تباہی کا ذکر کرتے ہوئے آپ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ آپ کو دنیا کی عیش و عشرت کی طرف توجہ دینے کی بجائے اپنے ساتھیوں کی طرف توجہ مبذول رکھنی چاہیے۔ جہاں تک آپ کے مخالفوں کا تعلق ہے ان سے اعراض فرمائیں۔ کیونکہ مذاق اڑانے والوں کے مقابلے میں آپ کا رب آپ کے لیے کافی ہے۔ آپ کا رب جانتا ہے کہ ان کے الزامات اور استہزا کی وجہ سے آپ کا دل غمگین ہوتا ہے۔ آپ کو نصیحت کی جاتی ہے کہ آپ اپنے مخالفوں کی طرف توجہ دینے کی بجائے اپنے رب کی عبادت میں مصروف ہوجایا کریں۔ یہ کام آپ نے اپنی موت تک کرتے رہنا ہے۔ الحجر
1 فہم القرآن الم۔ حروف مقطعات میں سے ہیں۔ جن کے بارے میں پہلے ذکر ہوچکا ہے کہ ان کا حقیقی علم اور مفہوم اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا اور یہ بھی کسی کو معلوم نہیں کہ جن سورتوں کے شروع میں مقطعات لائے گئے ہیں اس میں کیا حکمت پنہاں ہے۔ ایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہمارا ایمان ہونا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے جن سورتوں کی ابتداء حروف مقطعات سے کی ہے۔ اس میں کوئی خاص حکمت مضمر ہے۔ جس کا علم اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ سورۃ الحجر کی ابتدا بھی حروف مقطعات سے ہوئی۔ ارشاد ہوتا ہے : یہ کتاب الٰہی ہے جس کا نام قرآن مجید ہے۔ یہ ایسی کتاب ہے جو اپنے احکام بالکل واضح طور پر بیان کرتی ہے۔ قرآن مجید کے بد ترین مخالفوں کا اعتراف : ڈاکٹر گستادلی بان نے اپنی کتاب ” تمدن عرب“ میں قرآن کی حیرت انگیزی کا اعتراف کیا، ان کے الفاظ یہ ہیں : ” پیغمبر نبی اُمّی اسلام کی ایک حیرت انگیز سر گزشت ہے، جس کی آواز نے ایک قوم ناہنجار کو جو اس وقت تک کسی ملک کے زیر حکومت نہ آئی تھی رام کیا، اور اس درجہ پر پہنچا دیا کہ اس نے عالم کی بڑی بڑی سلطنتوں کو زیر و زبر کر ڈالا۔“ مسٹر وڈول جو قرآن مجید کا ترجمہ اپنی زبان میں کیا لکھتا ہے : ” جتنا بھی ہم اس کتاب یعنی قرآن کو الٹ پلٹ کر دیکھیں اسی قدر پہلے مطالعہ میں اس کی مرغوبیت نئے نئے پہلوؤں سے اپنا رنگ جماتی ہے، فوراً ہمیں مسخر اور متحیر کردیتی ہے اور آخر میں ہم سے تعظیم کرا کر چھوڑتی ہے، اس کا طرز بیان با عتبار اس کے مضامین کے، عفیف، عالی شان اور تہدید آمیز ہے اور جا بجا اس کے مضامین سخن کی غایت رفعت تک پہنچ جاتے ہیں، غرض یہ کتاب ہر زمانہ میں اپنا پر زور اثر دکھاتی رہے گی۔“ (فہم القرآن جلد اول صفحہ ٦٥) مسائل ١۔ قرآن مجید ایک واضح کتاب ہے۔ الحجر
2 فہم القرآن ربط کلام : اگر کفار ایمان نہیں لاتے تو انہیں کھلے الفاظ میں انتباہ کیا جاتا ہے کہ وقت آئے گا کہ انہیں مسلمان نہ ہونے پر پچھتاوا ہوگا۔ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ کے اخلاص اور جہد مسلسل کے باوجود یہ لوگ اپنے رب کی خالص بندگی کرنے اور آپ کی رسالت کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں تو ان سے الجھنے کی بجائے ان کو ان کی حالت پر چھوڑتے ہوئے فرما دیجئے : اے حق کا انکار کرنے والو! تم کھاؤ، پیو اور عیش اڑاؤ۔ اپنے خوبصورت سپنوں اور امیدوں میں مگن رہو۔ لیکن یاد رکھنا وقت آئے گا کہ یہ خواب ایک دن چکنا چور ہوجائیں گے اور جس ذات کبریا کا تم انکار کرتے ہو قیامت کے دن اس کے سامنے تمہیں حاضر ہو کر اپنے اعمال کا انجام پانا ہوگا۔ جہاں تک ان کے اصرار اور تکرار کا تعلق ہے کہ ان کی بغاوت اور نافرمانیوں کے باوجودان کا احتساب کیوں نہیں ہو رہا، انہیں فرمائیں یہ تاخیر اللہ تعالیٰ کے مقرر کیے ہوئے ضابطے کے عین مطابق ہے۔ اس نے ہر قوم کے مواخذے کا ایک وقت مقرر کر رکھا ہے۔ جب اس قوم کی ہلاکت کا وقت آتا ہے تو اس میں لمحہ بھر کی تقدیم و تاخیر نہیں ہوتی۔ وہ وقت اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاں لوح محفوظ میں لکھ رکھا ہے۔ جب کسی قوم کی ہلاکت کا وقت آتا ہے۔ تو وہ لوگ حسرت و افسوس کا اظہار کرتے ہوئے صدائیں دیتے ہیں کہ کاش ہم اس سے پہلے اپنے رب کے تابع فرمان ہوجاتے۔ لیکن اس وقت ان کی آہ وزاریاں انہیں کچھ فائدہ نہیں دے سکتیں۔ (فَلَمْ یَکُ یَنْفَعُہُمْ إِیمَانُہُمْ لَمَّا رَأَوْا بَأْسَنَا سُنَّۃَ اللَّہِ الَّتِی قَدْ خَلَتْ فِی عِبَادِہِ وَخَسِرَ ہُنَالِکَ الْکَافِرُونَ )[ المومن : ٨٥] ” جب وہ ہمارا عذاب دیکھ چکے تو ان کے ایمان میں انھیں کچھ فائدہ نہ دیا یہ اللہ کا طریقہ ہے جو اس کے بندوں میں چلا آتا ہے اور وہاں کافر خسارے میں رہیں گے۔“ لوح محفوظ میں ہر چیز لکھی ہوئی ہے : (عَنْ عَبْدِاللّٰہِ ابْنِ عَمْرٍو (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کَتَبَ اللّٰہُ مَقَادِےْرَ الْخَلَآ ءِقِ قَبْلَ اَنْ یَّخْلُقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ بِخَمْسِےْنَ اَلْفَ سَنَۃٍ قَالَ وَکَانَ عَرْشُہٗ عَلَی الْمَاءِ) [ رواہ مسلم : باب حِجَاجِ آدَمَ وَمُوسٰی i] ” حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) بیان کرتے ہیں رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان پیدا کرنے سے پچاس ہزار سال پہلے مخلوق کی تقدیریں لکھ دیں تھیں اس وقت اللہ کا عرش پانی پر تھا۔“ (عَنْ عَاءِشَۃَ (رض) قَالَتْ دُعِیَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اِلٰی جَنَازَۃِ صَبِیٍّ مِّنَ الْاَنْصَارِ فَقُلْتُ ےَا رَسُوْلَ اللّٰہِ طُوْبٰی لِھٰذَا عُصْفُوْرٌ مِّنْ عَصَافِےْرِ الْجَنَّۃِ لَمْ ےَعْمَلِ السُّوْٓءَ وَلَمْ ےُدْرِکْہُ فَقَالَ اَوَغَےْرُ ذٰلِکَ ےَا عَاءِشَۃُ اِنَّ اللّٰہَ خَلَقَ لِلْجَنَّۃِ اَھْلًا خَلَقَھُمْ لَھَا وَھُمْ فِیْٓ اَصْلَابِ اٰبَآءِھِمْ وَخَلَقَ للنَّارِ اَھْلًا خَلَقَھُمْ لَھَا وَھُمْ فِیْٓ اَصْلَابِ اٰبَآءِھِمْ) [ رواہ مسلم : باب مَعْنَی کُلُّ مَوْلُودٍ یُولَدُ عَلَی الْفِطْرَۃِ] ” حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو انصار کے ایک بچے کے جنازے کے لیے بلایا گیا میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول! اس بچے کے لیے خوشی ہے یہ تو جنت کے پرندوں سے ایک پرندہ ہے اس نے کوئی برا کام نہیں کیا اور نہ ہی اس نے اس کی مہلت پائی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا عائشہ! حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جنت کے لیے کچھ لوگوں کو پیدا فرمایا وہ اسی کے لیے پیدا ہوئے جبکہ وہ اپنے آباء کی پشت میں تھے اور کچھ لوگوں کو دوزخ کے لیے پیدا فرمایا اور وہ دوزخ کے لیے ہی پیدا ہوئے جب وہ اپنے آباء کی پشت میں تھے۔“ مسائل ١۔ قرآن مجید واضح کتاب ہے۔ ٢۔ کافر قیامت کے دن تمنا کریں گے کاش ہم بھی مسلمان ہوتے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ دنیا میں کفار کو مہلت دیتا ہے۔ ٤۔ کوئی قوم اپنے مقررہ وقت سے آگے پیچھے نہیں ہو سکتی۔ تفسیر بالقرآن مجرموں کا افسوس کرنا : ١۔ عذاب کے وقت کفار کا حسرت و افسوس کرنا۔ (البقرۃ: ١٦٧) ٢۔ موت کے وقت آہ و زاریاں کرنا۔ (المومنون : ٩٩) ٣۔ محشر کے میدان میں حسرت و افسوس کا اظہار کرنا۔ (النباء : ٤٠) ٤۔ جہنم میں ان کا آہ و بکا کرنا۔ (فاطر : ٣٧) الحجر
3 الحجر
4 الحجر
5 الحجر
6 فہم القرآن ربط کلام : حق کا انکار اور دنیا پرستی کی وجہ سے لوگ انبیاء کرام (علیہ السلام) کو مجنوں کہا کرتے تھے۔ حق کے منکر اور دنیا پرست لوگوں کے سامنے دنیا کی جاہ و حشمت، وسائل اور ترقی ہی سب کچھ ہوا کرتی ہے۔ وہ انبیاء (علیہ السلام) اور مصلحین حضرات کو پاگل قرار دیتے ہیں۔ کیونکہ انبیاء کی تعلیم کا خلاصہ یہ ہے کہ دنیا کے مقابلے میں آخرت کو مقدم سمجھا جائے۔ ظاہر ہے یہ بات دنیا پرست شخص کو کسی صورت گوارا نہیں ہوتی۔ اس لیے حق کے منکر اور دنیا پرست لوگ درج ذیل وجوہات کی بناء پر انبیاء کرام (علیہ السلام) کو پاگل کہا کرتے تھے۔ ١۔ اللہ تعالیٰ نے جتنے انبیاء ( علیہ السلام) دنیا میں مبعوث فرمائے وہ نبوت سے پہلے اپنی برادری اور قوم میں انتہائی قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔ لیکن جو نہی وہ حق کی دعوت لے کر اٹھے۔ معاشرے میں احترام کی بجائے انہیں نفرت کی نگاہوں سے دیکھا جانے لگا۔ اس بناء پر دنیا دار لوگ انہیں پاگل قرار دیتے کہ یہ کیسا شخص ہے؟ کہ بنی بنائی عزت برباد کربیٹھا ہے۔ ٢۔ انبیاء کرام (علیہ السلام) اپنے مشن میں انتہا درجہ مخلص ہوا کرتے تھے۔ اس لیے وہ شب و روز اس کام میں مصروف رہتے۔ جس بناء پر انہیں مالی نقصان اٹھانا پڑتا۔ یہاں تک کہ وہ کئی کئی دن بھوکے رہ کر بھی اپنا کام جاری رکھتے۔ اس وجہ سے دنیا دار لوگ انھیں مجنون کہتے تھے۔ ٣۔ انبیاء کرام (علیہ السلام) دعوت حق کی خاطر کئی قسم کے الزامات برداشت کرتے۔ یہاں تک کہ بے شمار انبیاء (علیہ السلام) قتل کردیے گئے۔ دنیا پرست لوگ ان کی موت پر یہ تبصرہ کرتے کہ اس شخص نے خواہ مخواہ لوگوں کی دشمنی مول لی اور اپنے آپ کو ہلاک کرلیا۔ پہلے انبیاء کرام (علیہ السلام) کی طرح سرور دو عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی دعوت حق کی خاطر ہر قسم کا نقصان اٹھانے اور دشمنی مول لیتے ہوئے دن رات ایک کیے ہوئے تھے۔ جس بناء پر لوگ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پاگل کہتے تھے۔ لیکن اس کے باوجود آپ حق کے ابلاغ کے لیے دن رات کام کرتے تھے۔ جب لوگ آپ کی دعوت اور اخلاص کا مقابلہ نہ کر پائے تو انہوں نے یہ مطالبہ کر ڈالا کہ ہم اس وقت اس کی نبوت کو تسلیم نہیں کریں گے جب تک کوئی فرشتہ اس کی تائید اور تصدیق کے لیے ہمارے پاس نہیں آئے گا۔ یاد رہے اس بات میں بھی کفار کا موقف ایک نہیں رہتا تھا۔ ایک وقت میں یہ مطالبہ کرتے کہ اس نبی کو انسان کے بجائے فرشتہ ہونا چاہیے تھا۔ جب اس کا یہ جواب دیا گیا کہ اگر زمین میں بسنے والے لوگ فرشتے ہوتے تو ان کے لیے نبی بھی فرشتہ بھیجا جاتا۔ کیونکہ زمین میں بسنے والے انسان ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی سہولت اور راہنمائی کے لیے انسان کو ہی نبی مبعوث فرمایا ہے جب اس دلیل کے سامنے لاجواب ہوتے تو پھر یہ مطالبہ کرتے کہ اس کی تائید کے لیے ہمارے پاس فرشتہ آنا چاہیے۔ جس کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ جب فرشتے نازل ہوتے ہیں تو پھر حق کا انکار کرنے والوں کو مزید مہلت دینے کے بجائے ان کا صفایا کردیا جاتا ہے۔ مسائل ١۔ کفار آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مجنوں کہا کرتے تھے۔ ٢۔ کفار آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے فرشتوں کے نزول کا مطالبہ کرتے تھے۔ ٣۔ جب اللہ تعالیٰ فرشتوں کو بھیج دیتا ہے تو پھر کسی کو مہلت نہیں ملتی۔ تفسیر بالقرآن حق کا انکار کرنے والوں پر جب فرشتے نازل ہوئے تو ان کا صفایا کردیا گیا : ١۔ ہم نہیں اتارتے فرشتوں کو مگر حق کا فیصلہ کرنے کے لیے اور اس وقت ان کو مہلت نہیں دی جاتی۔ (الحجر : ٨) ٢۔ اگر ہم فرشتے اتار دیتے تو قصہ ختم ہوجاتا اور انہیں مہلت نہ دی جاتی۔ (الانعام : ٨) ٣۔ جب قوم لوط پر فرشتے آئے۔ تو اللہ نے انہیں ملیا میٹ کردیا۔ (ہود : ٨١ تا ٨٣) ٤۔ زمین پر بسنے والے انسان ہیں اس لیے ” اللہ“ نے انسان ہی پیغمبر مبعوث فرمائے۔ (بنی اسرائیل : ٩٥) ٥۔ کیا وہ اس انتظار میں ہیں کہ ان کے پاس فرشتے آئیں یا تیرا پروردگار آئے یا اس کی بعض آیات آئیں جس دن اس ہوگیا تو پھر کسی کو اس کا ایمان فائدہ نہیں دے گا۔ (الانعام : ١٥٨) الحجر
7 الحجر
8 الحجر
9 فہم القرآن ربط کلام : سرور دوعالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مخالفت قرآن مجید کی بناء پر تھی۔ اس لیے قرآن کے مخالفوں کو بالخصوص بتلایا گیا ہے کہ تم جو چاہو کر گزرو قرآن مجید ہمیشہ باقی رہے گا۔ سرور دوعالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ لوگوں کی مخالفت کا بنیادی سبب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا نبوت کا اعلان تھا۔ ورنہ مخالفت کرنے والے لوگ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ” الصادق“ اور ” الامین“ کہتے تھے۔ مگر جونہی قرآن مجید نازل ہوا اور آپ نے اسے لوگوں تک پہنچایا تو مکہ کے لوگوں کی اکثریت روز بروز مخالفت میں بڑھتی ہی چلی گئی۔ وہ اس بات کا مطالبہ کرتے کہ اس قرآن کی بجائے کوئی اور قرآن ہمارے سامنے پڑھا جائے۔ کبھی یہ کہتے قرآن مجید کے فلاں فلاں حصے کو تبدیل کردیا جائے۔ جب ان کے یہ مطالبات مسترد کردیے گئے تو انہوں نے ایڑی چوٹی کا زور لگایا کہ قرآن مجید کے نور کو بجھا دیا جائے۔ جس پر یہ اعلان ہوا کہ کافر اور مشرک چاہتے ہیں کہ اللہ کے نور کو بجھا دیا جائے لیکن اللہ تعالیٰ نے فیصلہ کر رکھا ہے کہ وہ اپنے نور کو پورا کر کے رہے گا۔ بے شک یہ بات کفار کے لیے کتنی ہی تکلیف دہ کیوں نہ ہو۔ (الصف : ٨) اس مقام پر قرآن مجید کو ” اَلذِّکْرْ“ قرار دے کر فرمایا ہے کہ ہم نے اسے نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے فرمان کے مطابق نہ صرف ہمیشہ کے لیے قرآن مجید کی حفاظت کا بندوبست فرمایا بلکہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق جو قرآن مجید کی تشریح حدیث مبارکہ کی صورت میں فرمائی اسے بھی قیامت تک کے لیے محفوظ فرمادیا گیا ہے۔ عرب میں پڑھنے لکھنے کا رواج بہت ہی کم تھا۔ مذہبی‘ ثقافتی اور تجارتی مرکز ہونے کے باوجود مکہ میں پڑھے لکھے لوگوں کی تعداد تقریباً بیس سے زیادہ نہ تھی اور یہ بھی معمولی لکھنا پڑھنا جانتے تھے۔ شدید علمی بحران اور پڑھائی لکھائی کا رواج نہ ہونے کے باوجود نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس بات کا اہتمام فرمایا کہ جوں ہی قرآن مجید کا کوئی حصہ نازل ہوتا اسے اپنی نگرانی میں مرتب کرواتے کاغذ کی عدم دستیابی کی وجہ سے قرآن مجید کو ہڈی‘ لکڑی‘ پتھر یہاں تک کہ بعض درختوں کے پتے اس طریقے سے تیار کیے جاتے کہ دیکھنے والا حیران رہ جاتا جیسا کہ پرانے زمانے کے کتبات اس کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ اس طرح مکمل قرآن مجید مختلف کتبات کی شکل میں محفوظ کرلیا گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ حفظ قرآن اور اس کی تبلیغ کا سلسلہ اس طرح ٹھوس بنیادوں پر شروع کیا گیا جو قیامت تک جاری و ساری رہے گا۔ تاہم کتابی شکل میں قرآن مجید اس وقت مرتب ہوا جب حضرت صدیق اکبر (رض) کے ابتدائی دور میں یمامہ کے مقام پر مسیلمہ کذّاب کے ساتھ صحابہ کرام (رض) کا مقابلہ ہوا۔ تحفظ ختم نبوت کے اس معرکہ میں دوسرے شہداء کے ساتھ تقریباً سات سو حفاظ صحابہ شہید ہوئے (القرطبی) اس سانحہ سے متاثر ہو کر حضرت عمر (رض) نے خلیفۃ المسلمین حضرت ابو بکر صدیق (رض) سے عرض کیا کہ اگر حفاظ کرام اسی طرح شہید ہوتے رہے تو کہیں ایسا نہ ہو کہ امت قرآن مجید کے کچھ حصہ سے محروم ہوجائے۔ میری درخواست ہے کہ قرآن مجید کو کتابی شکل میں یکجاکر دیا جائے۔ ابتداءً حضرت ابو بکر صدیق (رض) نے ایسا کرنے سے یہ کہہ کر معذرت کی کہ چونکہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس طرح کرنے کا حکم نہیں دیا لہٰذا ہمیں یہ کام نہیں کرنا چاہیے۔ حضرت عمر (رض) کے بار بار توجہ دلانے پر بعد ازاں آمادہ ہوئے تو انہوں نے کاتب وحی حضرت زید بن ثابت (رض) کو قرآن مجید جمع کرنے کی ہدایت فرمائی بالآخر قرآن مجید ایک نسخہ کی شکل میں مرتب کردیا گیا۔ جو حضرت ابوبکر (رض) پھر حضرت عمر (رض) اور ان کی وفات کے بعد ام المومنین حضرت حفصہ (رض) کے پاس محفوظ تھا۔ (بخاری : کتاب فضائل القرآن، باب جمع القرآن) حضرت عثمان (رض) کی خلافت میں عراق اور دوسرے ممالک میں قرآن مجید کے لہجہ اور تلفظ میں اختلاف رونما ہوا تو حضرت عثمان (رض) نے قریش کی کتابت اور لغت میں قرآن مجید کی متعدد نقول تیار کروا کر مملکت اسلامیہ کے دور دراز علاقوں میں ارسال فرمادیں۔ چنانچہ جو قرآن مجید رب عظیم نے اپنے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل فرمایا تھا من و عن کسی تحریف اور تغیر و تبدل کے بغیر اب تک محفوظ ہے اور قیامت تک محفوظ و موجود رہے گا جس کی تصدیق اسلام کے بدترین دشمن ان الفاظ میں کرتے ہیں۔ (انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا‘ بحوالہ ضیاء القرآن ) "THIS RECENSION OF UTHMAN THUS BECAME THE ONLY STANDARD TEXT FOR THE WHOLE MUSLIM WORLD UP TO THE PRESENT DAY." جو قرآن مجید اس وقت ہمارے ہاتھوں میں ہے وہ بعینہ وہی ہے جسے اللہ تعالیٰ نے حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کی معرفت اپنے رسول حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل فرمایا اور آپ نے اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق اسے موجودہ ترتیب کے مطابق لکھوایا، صحابہ (رض) کو یاد کرایا اور خود پڑھا۔ ( اِنَّ عَلَیْنَا جَمْعَہٗ وَقُرْآنَہٗ) [ القیامۃ: ١٧] ” بے شک ہماری ذمہ داری ہے اس کا جمع کرنا اور اس کا پڑھانا۔“ جمع و ترتیب : صحیح بخاری میں ہے کہ جب آیت (لَا یَسْتَوِی الْقَاعِدُوْنَ) نازل ہوئی تو رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : (اُدْعُ لِیْ زَیْدًا وَلْیَجِیْٓ ءُ بِا للَّوْحِ وَالدَّ وَاۃِ وَالْکَتِفِ) [ رواہ البخاری : کتاب فضائل القرآن] ” زید کو میرے پاس بلاؤ کہ وہ دوات اور شانہ کی ہڈی لے کر حاضر ہو۔“ حضرت عمر (رض) کے اسلام لانے کا واقعہ اور سبب تفصیل کے ساتھ سیرت کی تمام کتب میں درج ہے کہ وہ اپنی بہن اور بہنوئی کے گھر گئے اور ان کو لکھا ہوا قرآن پڑھتے ہوئے پایا تو کہنے لگے : (اَعْطُوْنِی الْکِتٰبَ الَّذِیْ عِنْدَکُمْ اَقْرَأُہٗ) [ دارقطنی] ” جو قرآن تمہارے پاس ہے اسے لاؤ تاکہ میں اسے پڑھوں۔“ (کَان النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مِمَّا تَنَزَّلُ عَلَیْہِ الْآیَاتُ فَیَدْعُوْ بَعْضُ مَنْ کَانَ لَہٗ یَکْتُبُ لَہٗ وَیَقُوْلُ لَہٗ ضَعْ ہٰذِہِ الْاٰیَۃَ فِی السُّوْرَۃِ الَّتِیْ یُذْکَرُ فِیْہَا کَذَا وَکذَا) [ رواہ ابوداؤد : کتاب الصلٰوۃ] ” جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر آیات اترتیں تو کاتب وحی کو بلا کر فرماتے اس آیت کو فلاں سورت میں فلاں جگہ لکھو۔“ مسائل ١۔ قرآن مجید اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا ہے۔ ٢۔ قرآن مجید کی حفاظت کی ذمہ داری بھی اللہ تعالیٰ نے لی ہے۔ تفسیر بالقرآن قرآن مجید میں قیامت تک ردو بدل نہیں ہوسکتا : ١۔ قرآن مجید کو ہم نے نازل کیا اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔ (الحجر : ٩) ٢۔ اللہ کے کلمات تبدیل نہیں ہو سکتے۔ (یونس : ٦٤) ٣۔ فرما دیجئے کہ میرے پاس کوئی اختیار نہیں کہ میں اس قرآن میں کسی قسم کی تبدیلی کر دوں۔ (یونس : ١٥) ٤۔ اپنے پروردگار کی کتاب جو تمھارے پاس بھیجی گئی ہے اسے پڑھتے رہا کرو اور کوئی اسے بدل نہیں سکتا۔ (الکہف : ٢٧) الحجر
10 الحجر
11 الحجر
12 الحجر
13 فہم القرآن ربط کلام : تحفظ اور ضبط قرآن کی گارنٹی دینے کے بعد رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی اور تشفی دی گئی ہے۔ سرورِ دو عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس بات کی تسلّی دینے کے بعد کہ جس قرآن مجید کی یہ لوگ مخالفت کرتے ہیں وہ تو ہمیشہ رہے گا۔ جس کا دوسرے الفاظ میں معنیٰ یہ ہے کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ اپنا کام اطمینان کے ساتھ کرتے جائیں کیونکہ آپ کا کام اور پیغام ہمیشہ رہے گا اور ان لوگوں کا نام و نشان مٹ جائے گا۔ ہم نے آپ سے پہلی اقوام کی طرف بھی رسول بھیجے اور انہوں نے اپنے رسولوں کو استہزءا کا نشانہ بنایا۔ اس رویہ کی پاداش میں وہ جرائم میں آگے ہی بڑھتے گئے۔ یہی حالت آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مخالفین کی ہے۔ یہ بھی پہلے لوگوں کی روش اختیار کرتے ہوئے ایمان نہیں لائیں گے۔ گویا کہ بعد زمانی کے باوجود ان کے دل اور کردار ایک جیسے ہوگئے ہیں۔ اگر ہم ان کے لیے آسمان کے دروازے کھول دیں اور یہ ان میں داخل ہوجائیں۔ سب کچھ اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھنے کے باوجود کہیں گے کہ جو کچھ ہم نے دیکھا وہ دھوکے اور جادو کے سوا کچھ نہیں ہے۔ چاند کا دو ٹکڑے ہونا : (عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ (رض) قَالَ انْشَقَّ الْقَمَرُ عَلَی عَہْدِ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فِرْقَتَیْنِ، فِرْقَۃً فَوْقَ الْجَبَلِ وَفِرْقَۃً دُونَہُ فَقَالَ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اشْہَدُوا)[ رواہ البخاری : باب (وَانْشَقَّ الْقَمَرُ وَإِنْ یَرَوْا آیَۃً یُعْرِضُوا)] ” حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ مبارک میں شق قمر کا واقعہ پیش آیا۔ چاند کے دو ٹکڑوں میں سے ایک ٹکڑا پہاڑ پر گرا اور ایک ٹکڑا اس کے علاوہ تھا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا لوگو ! گواہ ہوجاؤ۔“ معراج کا واقعہ اور مسجد اقصیٰ کا نقشہ : آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) معراج سے تشریف لائے تو کفار نے اسے یہ کہہ کر مسترد کردیا کہ ایک مہینہ کا سفر رات کے کچھ حصہ میں کس طرح طے ہوسکتا ہے۔ اگر آپ واقعی مسجد اقصیٰ میں گئے ہیں تو اسکی نشانیاں بتلائیں؟ آپ نے ایک ایک کرکے اس کی نشانیاں بتلادیں لیکن پھر بھی کفار نے معراج کا انکار کیے رکھا۔ (عَنْ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّہِ (رض) قَالَ سَمِعْتُ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَقُولُ لَمَّا کَذَّبَنِی قُرَیْشٌ قُمْتُ فِی الْحِجْرِ، فَجَلَّی اللَّہُ لِی بَیْتَ الْمَقْدِسِ فَطَفِقْتُ أُخْبِرُہُمْ عَنْ آیَاتِہِ وَأَنَا أَنْظُرُ إِلَیْہِ) [ رواہ البخاری : باب قَوْلِہِ ( أَسْرَی بِعَبْدِہِ لَیْلاً مِنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ) ” حضرت جابر بن عبدللہ (رض) بیان کرتے ہیں میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا آپ نے فرمایا جب کفار نے واقعہ معراج کے سلسلہ میں میری تکذیب کی تو میں مقام حجر میں کھڑا ہوا۔ اللہ نے بیت المقدس کو میرے سامنے کردیا میں نے اس کی طرف دیکھ کر اس کی ساری نشانیاں بتلا دیں۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے آپ سے پہلے بھی پیغمبر مبعوث فرمائے تھے۔ ٢۔ کفار انبیاء کا مذاق اڑاتے تھے۔ ٣۔ اکثریت اپنے بڑوں کے طور طریقوں کو اپناتی ہے۔ ٤۔ کچھ لوگ معجزات دیکھ کر بھی ایمان نہیں لاتے۔ ٥۔ کفار معجزات کو جادو سمجھتے تھے۔ تفسیر بالقرآن کفار کے انبیاء ( علیہ السلام) پر الزامات : ١۔ اگر ہم ان کے لیے آسمان سے کوئی دروازہ کھول دیں اور یہ اس میں سے چڑھ جائیں تو کہیں گے ہماری آنکھیں بند کردی گئی ہیں۔ بلکہ ہم پر جادو کردیا گیا ہے۔ (الحجر : ١٤۔ ١٥) ٢۔ آل فرعون نے موسیٰ (علیہ السلام) پر جادو کا الزام لگایا۔ (القصص : ٣٦) ٣۔ کفار تمام انبیاء کو جادوگر اور دیوانہ قرار دیتے تھے۔ (الذاریات : ٥٢) ٤۔ کفار نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جادوگر قرار دیا۔ (الصف : ٦) ٥۔ کفار نے قرآن کو جادو قرار دیا۔ (سبا : ٤٣) ٦۔ کفار نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سحر زدہ یعنی جس پر جادو کردیا گیا ہو بھی قرار دیا۔ (الفرقان : ٨) الحجر
14 الحجر
15 الحجر
16 فہم القرآن ربط کلام : قرآن مجید آسمان سے نازل کیا گیا ہے۔ اس لیے مناسب سمجھا کہ آسمان کے نظام کا مختصر ذکر کیا جائے۔ خالق کائنات کا ارشاد ہے کہ ہم نے آسمان میں برج بنائے اور دیکھنے والوں کے لیے خوبصورت بنایا اور شیطان مردود سے انہیں محفوظ کردیا۔ اگر کوئی شیطان چوری چھپے سننا چاہے تو ایک روشن اور بھڑکتا ہوا شعلہ اس کا تعاقب کرتا ہے۔ پرانے زمانے کے اہل ہئیت یعنی فلکیات کا علم رکھنے والے لوگوں نے آسمان دنیا کے بارہ برج متعین کر رکھے ہیں مگر قرآن مجید کے بروج سے مراد وہ برج نہیں ہیں۔ بروج سے مراد کچھ اہل علم نے پہلے آسمان کے دروازے لیے ہیں۔ جن دروازوں کے ذریعے ملائکہ زمین پر اترتے اور پھر آسمان میں داخل ہوتے ہیں۔ قرآن مجید کے الفاظ سے یہ نتیجہ اخذ کرنے کی گنجائش موجود ہے۔ ہوسکتا ہے کہ بروج سے مراد آسمان کے دروازوں میں ڈیوٹی دینے والے چوکیدار ملائکہ ہوں جن کو اللہ تعالیٰ نے شہاب ثاقب کی صورت میں اسلحہ دے رکھا ہوجن سے وہ شیاطین کو بھگاتے ہیں۔ اکثر علماء نے بروج سے مراد ستارے اور سیارے لیے ہیں۔ جن سے آسمان کو خوبصورت اور محفوظ بنایا گیا ہے۔ سرور دو عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے برج کے بارے میں ہمیں کوئی وضاحت نہیں ملتی۔ البتہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے آسمان کی حفاظت اور شیاطین کے تعاقب کے بارے میں یہ ارشاد فرمایا ہے۔ (رواہ البخاری : کتاب التفسیر سورۃ سبا) ” شہاب مبین“ کے لغوی معنی ” روشن شعلہ“ کے ہیں۔ دوسری جگہ قرآن مجید میں اس کے لیے ” شہاب ثاقب“ کا لفظ استعمال ہوا ہے، یعنی ” تاریکی کو چھیدنے والا شعلہ۔“ اس سے مراد ضروری نہیں کہ وہ ٹوٹنے والا تارہ ہی ہو جسے ہماری زبان میں شہاب ثاقب کہا جاتا ہے۔ ممکن ہے کہ یہ شعاعیں ہوں، مثلاً کائناتی شعائیں (Cosmic Rays) یا ان سے بھی زیادہ شدید قسم کی کوئی چیز جو ابھی ہمارے علم میں نہ آئی ہو۔ یہ بھی ممکن ہے کہ یہی شہاب ثاقب مراد ہوں جنہیں کبھی کبھی ہماری آنکھیں زمین کی طرف گرتے ہوئے دیکھتی ہیں۔ زمانۂ حال کے مشاہدات سے یہ معلوم ہوا ہے کہ دوربین سے دکھائی دینے والے شہاب ثاقب جو فضائے بسیط سے زمین کی طرف آتے نظر آتے ہیں، ان کی تعداد کا اوسط ١٠ کھرب روزانہ ہے، جن میں سے دو کروڑ کے قریب ہر روز زمین کے بالائی خطے میں داخل ہوتے ہیں اور بمشکل ایک زمین کی سطح تک پہنچتا ہے۔ ان کی رفتار بالائی فضا میں کم و بیش ٢٦ میل فی سیکنڈ ہوتی ہے جو بسا اوقات ٥٠ میل فی سیکنڈ تک دیکھی گئی ہے۔ بارہا ایسا بھی ہوا ہے کہ برہنہ آنکھوں نے بھی ٹوٹنے والے تاروں کی غیر معمولی بارش دیکھی ہے۔ چنانچہ یہ چیز ریکارڈ پر موجود ہے کہ ١٣ نومبر ١٨٣٣ ء کو شمالی امریکہ کے مشرقی علاقے میں صرف ایک مقام پر نصف شب سے لے کر صبح تک ٢ لاکھ شہاب ثاقب گرتے ہوئے دیکھے گئے۔ (انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا) ہوسکتا ہے کہ یہی بارش عالم بالا کی طرف شیاطین کی پرواز میں مانع ہوتی ہو، کیونکہ زمین کے بالائی حدود سے گزر کر فضائے بسیط میں ١٠ کھرب روزانہ کے اوسط سے ٹوٹنے والے تاروں کی برسات ان کے لیے اس فضا کو بالکل ناقابل عبور بنا دیتی ہے۔ (بحوالہ تفہیم القرآن) (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ یَبْلُغُ بِہِ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ إِذَا قَضَی اللّٰہُ الأَمْرَ فِی السَّمَاءِ ضَرَبَتِ الْمَلاَءِکَۃُ بِأَجْنِحَتِہَا خُضْعَانًا لِقَوْلِہِ کَالسِّلْسِلَۃِ عَلَی صَفْوَانٍ قَالَ عَلِیٌّ وَقَالَ غَیْرُہُ صَفْوَانٍ یَنْفُذُہُمْ ذَلِکَ فَإِذَا فُزِّعَ عَنْ قُلُوْبِہِمْ قَالُوْا مَاذَا قَالَ رَبُّکُمْ، قَالُوا لِلَّذِیْ قَالَ الْحَقَّ وَہْوَ الْعَلِیُّ الْکَبِیرُ، فَیَسْمَعُہَا مُسْتَرِقُو السَّمْعِ، وَمُسْتَرِقُو السَّمْعِ ہَکَذَا وَاحِدٌ فَوْقَ آخَرَ وَوَصَفَ سُفْیَانُ بِیَدِہِ، وَفَرَّجَ بَیْنَ أَصَابِعِ یَدِہٖ الْیُمْنَی، نَصَبَہَا بَعْضَہَا فَوْقَ بَعْضٍ فَرُبَّمَا أَدْرَکَ الشِّہَابُ الْمُسْتَمِعَ، قَبْلَ أَنْ یَرْمِیَ بِہَا إِلَی صَاحِبِہِ، فَیُحْرِقَہُ وَرُبَّمَا لَمْ یُدْرِکْہُ حَتّٰی یَرْمِیَ بِہَا إِلَی الَّذِیْ یَلِیہِ إِلَی الَّذِی ہُوَ أَسْفَلُ مِنْہُ حَتَّی یُلْقُوہَا إِلَی الأَرْضِ وَرُبَّمَا قَالَ سُفْیَانُ حَتّٰی تَنْتَہِیَ إِلَی الأَرْضِ فَتُلْقَی عَلَی فَمِ السَّاحِرِ، فَیَکْذِبُ مَعَہَا ماءَۃَ کَذْبَۃٍ فَیَصْدُقُ، فَیَقُوْلُوْنَ أَلَمْ یُخْبِرْنَا یَوْمَ کَذَا وَکَذَا یَکُوْنُ کَذَا وَکَذَا، فَوَجَدْنَاہُ حَقًّا لِلْکَلِمَۃِ الَّتِی سُمِعَتْ مِنَ السَّمَاءِ) [ رواہ البخاری : باب قَوْلِہِ (إِلاَّ مَنِ اسْتَرَقَ السَّمْعَ فَأَتْبَعَہُ شِہَابٌ مُبِینٌ)] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ ان کو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی یہ حدیث پہنچی جب اللہ تعالیٰ آسمان میں کسی کام کا فیصلہ فرماتا ہے تو فرشتے عاجزی کے ساتھ اپنے پر ہلاتے ہیں جس طرح کہ چٹان پر پھوار پڑتی ہے حضرت علی (رض) فرماتے ہیں کہ ملائکہ اس حکم کا نفاذ کرتے ہیں جب ان کے دلوں سے گھبراہٹ دور ہوجاتی ہے تو کہتے ہیں تمھارے رب نے کیا فرمایا وہ کہتے ہیں حق فرمایا۔ وہی سب سے بلند و بالا ہے پس شیاطین اسے چوری چھپے سنتے ہیں اور ان کے سننے کا طریقہ یہ ہے کہ ایک دوسرے کے کندھوں پر سوار ہوتے ہوئے آسمان تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ سفیان نے اپنے ہاتھوں کو ایک دوسرے کے اوپر رکھتے ہوئے سے اس کو بیان کرتے کیا بسا اوقات سننے والے شیطان پر شہاب ثاقب لپکتا ہے پہلے اس کے کہ وہ اس بات کو اپنے ساتھی تک پہنچائے وہ اس کو جلا دیتا ہے اور بسا اوقات شہاب ثاقب اسے نہیں پہنچتا یہاں تک کہ وہ شیطان اسے نیچے والوں تک پہنچا دیتا ہے۔ یہ بات چلتے چلتے زمین والوں تک پہنچ جاتی ہے ابو سفیان کہتے ہیں یہاں تک کہ وہ اس بات کو زمین والوں تک پہنچا دیتا اور اسے جادو گر کے منہ میں القاء کرتے ہیں۔ وہ اس کے ساتھ سو جھوٹ ملاتا ہے اس کی ایک بات کی وجہ سے اس کی تصدیق ہوجاتی ہے وہ کہتا ہے میں نے فلاں فلاں موقع پر تمھیں فلاں فلاں بات نہیں بتلائی تھی اور وہ حق ثابت ہوئی تھی اس وجہ سے کہ وہ بات انھوں نے آسمان سے سنی تھی۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے آسمان میں برج بنائے ہیں۔ ٢۔ آسمان کوستاروں سے آراستہ فرمادیا گیا ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ نے آسمان کو شیاطین سے محفوظ کردیا ہے۔ ٤۔ چوری کرنے والے شیطان کے پیچھے ایک روشن شعلہ لگ جاتا ہے۔ تفسیر بالقرآن برجوں اور ستاروں کا بیان : ١۔ ہم نے آسمان میں برج بنائے اور دیکھنے والوں کے لیے انھیں آراستہ کیا۔ (الحجر : ١٦) ٢۔ بابرکت ہے وہ ذات جس نے آسمان میں برج بنائے۔ (الفرقان : ٦١) ٣۔ اللہ تعالیٰ نے آسمان کو ستاروں سے سجایا۔ (البروج : ١) ٤۔ ہم نے آسمان دنیا کو ستاروں سے آراستہ کردیا ہے۔ (الصافات : ٦) ٥۔ ہم نے آسمان دنیا کو ستاروں سے مزین کیا اور شیطانوں سے محفوظ رکھا۔ (حٰم السجدۃ: ١٢) ٦۔ کیا انہوں نے اوپر آسمان کی طرف نگاہ نہیں کی کہ ہم نے اس کو کیسے بنایا اور سجایا۔ (ق : ٦) ٧۔ ہم نے آسمان کو ٹٹولا تو اسے مضبوط چوکیداروں اور انگاروں سے بھرا ہو اپایاجناب کا بیان۔ (الجن : ٨) الحجر
17 الحجر
18 الحجر
19 فہم القرآن ربط کلام : آسمان کے ذکر کے بعد زمین کا تذکرہ اور ظاہری جسامت کے حوالے سے سب سے بڑی مخلوق پہاڑوں کا بیان۔ سورۃ الانبیاء کی آیت ٣٠ میں زمین و آسمان کی ابتدائی ہیئت کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے کہ کیا اللہ کے منکر اس بات پر غور نہیں کرتے کہ اس نے زمین و آسمان کو کس طرح ایک دوسرے سے الگ کیا۔ حالانکہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے تھے۔ سورۃ السجدۃ کی آیت ٩ تا ١٣ میں قدرے تفصیل بیان فرمائی کہ اللہ تعالیٰ نے زمین کو دو دن میں بنایا۔ اس کے بعد اس پر پہاڑ نصب کیے پھر دو دن میں آسمانوں کی تکمیل کی اور ہر آسمان کے متعلقات کو انہیں اپنے اپنے مقام پر ٹھہرنے کا حکم صادر فرمایا۔ بعد ازاں آسمان دنیا کو ستاروں کے ساتھ خوبصورت کیا اور اس کی حفاظت کا بندوبست فرمایا۔ یہ سب غالب اور ہر چیز کا علم رکھنے والے اللہ کے فرمان کے عین مطابق ہوا۔ یہاں ارشاد ہوتا ہے کہ ہم نے زمین کو پھیلا کر اس میں پہاڑوں کا ایک وسیع سلسلہ جما دیا اور زمین میں ہر چیز کو مقررہ مقدار اور معیار سے پیدا کیا۔ اس میں لوگوں کی معیشت کا بندوبست فرمایا اور ان کے رزق کا بندو بست بھی کیا جن کا رزق تمہارے ذمہ نہیں ہے۔ یہاں زمین کو پھیلانے کا ذکر کرنے کے بعد پہاڑوں اور زمین کی نباتات کا ذکر فرمایا ہے۔ ان آیات میں دو باتوں کا ذکر آیا ہے۔ ایک تو ہر چیز کو نہایت متناسب اور موزوں انداز سے پیدا کیا گیا ہے۔ جس کا سادہ مفہوم یہ ہے کہ ہر چیز اپنے تخلیقی معیار کو پہنچ کر خود بخود ایک مقام پر جا کر کے ٹھہر جاتی ہے۔ انسان اپنی تخلیق پر غور کرے تو اس حقیقت کو جان کر ششدر رہ جاتا ہے۔ کہ اس کا ہر عضو تخلیق کے مقررہ معیار پر پہنچ کر ایک موزوں شکل و صورت میں ٹھہر جاتا ہے۔ اگر خالقِ کائنات کا ضابطۂ تخلیق اپنی موزونیت کے اصول پر نہ رہے تو انسان کے ناک، کان اور آنکھیں کتنی خوف ناک اور بے ڈھنگی ہو سکتی تھیں۔ ایک انسان کے باقی سب اعضاء موزوں اور مناسب شکل و صورت میں ہوں۔ لیکن اس کی ناک ہی صرف آدھا فٹ لمبی ہوجائے۔ تو وہ کتنا خوفناک انسان ہوگا۔ یہ اللہ تعالیٰ کی تخلیق کا کرشمہ اور اس کا ناقابل فراموش احسان ہے کہ اس نے ہر چیز کو ایک متعین شکل و صورت اور مقدار سے پیدا کیا ہے۔ جنس انسانی کے اعتبار سے اگر دنیا میں ہمیشہ مردوں یا عورتوں کی بہتات رہتی تو سلسلۂ تخلیق کس طرح متناسب رہ سکتا تھا۔ یہی صورت حال نباتات کی ہے۔ ایک علاقے میں ایک جنس کی پیداوار زیادہ ہے تو دوسرے علاقے میں کسی دوسری چیز کی پیداوار زیادہ ہوگی تاکہ رسد و نقل کے ذریعے لوگ ایک دوسرے کی ضرورتیں پوری کریں۔ اس کے ساتھ ہی اس بات کی طرف توجہ دلائی کہ زمین کو صرف فرش کے طور پر ہی نہیں پھیلایا گیا بلکہ اس میں انسانوں کی معیشت اور رزق کا نہایت مناسب نظام قائم کردیا گیا ہے۔ انسان تو اپنی روزی خود کمانے کی صلاحیت رکھتا ہے لیکن زمین اور اس کے اندر یہاں تک کہ فضاؤں میں بسنے والی مخلوق کو صرف اللہ تعالیٰ رزق مہیا کرتا ہے۔ ہر کسی کی روزی اس کی ضرورت کے مطابق پہنچائی جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں لا محدود خزانے ہیں جسے وہ ہر وقت اور ہر دور میں مناسب اور اپنے ہاں متعین مقدار کے مطابق نازل کرتا رہتا ہے۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے زمین کو پھیلایا اور اس میں مضبوط پہاڑ گاڑ دیئے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ زمین میں ہر چیز اندازے کے مطابق اگاتا ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ نے زمین میں ہر کھانے والے کا رزق پیدا کر رکھا ہے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ ہر چیز متعین مقدار کے مطابق نازل فرماتا ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ ہی رزق دینے والا ہے اور اس کے پاس ہر چیز کے لا محدود خزانے ہیں : ١۔ ہم نے اس زمین میں تمہارے لیے معاش کا سامان بنایا اور ان کے لیے بھی جنہیں تم روزی نہیں دیتے۔ (الحجر : ٢٠) ٢۔ کیا وہ نہیں جانتے کہ اللہ ہی رزق کو فراخ اور تنگ کرتا ہے۔ (الزمر : ٥٢) ٣۔ زمین میں ہر قسم کے چوپاؤں کا رزق اللہ کے ذمہ ہے۔ (ھود : ٢) ٤۔ بے شک اللہ ہی رزق دینے والا ہے۔ (الذاریات : ٥٨) الحجر
20 الحجر
21 الحجر
22 فہم القرآن ربط کلام : انسان کا رزق اور ہر چیز کی ضروریات اللہ تعالیٰ ہی پوری کرتا ہے۔ رزق کے اسباب میں پانی اور ہوا کا بنیادی کردار ہوتا ہے۔ اس لیے پانی اور ہواکا ذکر ضروری سمجھا۔ انسان اور حیوانات کا رزق، نباتات کی ضروریات اللہ تعالیٰ ہی پوری کرتا ہے۔ اس کے پاس کائنات کا نظام چلانے کے لیے ہر چیز کے لامحدود خزانے موجود ہیں۔ جہاں تک رزق کا معاملہ ہے اس میں زمین کا کردار بنیادی اور مرکزی ہے۔ کیونکہ انسان کی تخلیق میں بنیادی میٹریل مٹی ہے اور اس کی خوراک کا انتظام بھی مٹی یعنی زمین سے ہی کیا گیا ہے۔ اس میں بنیادی عوامل ہوا اور پانی ہیں ان کے ساتھ سورج کی حرارت اور چاند کی روشنی بھی معاون ہے۔ مگر بنیادی کردار ہوا اور پانی کا ہے۔ ہوا کے بغیر جاندار چیزوں کا چند لمحوں کے بعد مرنا یقینی ہے اور پانی کے بغیر انسان حیوان اور نباتات کا زندہ رہنا ناممکن ہے۔ سورۃ الانبیاء، آیت : ٣٠ میں فرمایا کہ ہم نے ہر چیز کی زندگی کا انحصار پانی پر رکھا ہے۔ انسان، جنات، حیوانات اور نباتات کو پانی فراہم کرنے کے تین ذرائع ہیں۔ ١۔ زمین کے اندر پانی کا بے انتہا ذخیرہ ہے۔ جو دریاؤں، چشموں اور سمندر کی شکل میں ہمارے سامنے ہے۔ جغرافیہ دانوں کا اندازہ ہے کہ دنیا میں تین حصے پانی اور ایک حصہ خشکی ہے جس میں پہاڑ بھی شامل ہیں۔ سمندر کے پانی کی کثیر مقدار پینے کے قابل نہیں جس وجہ سے زمین کے اندر کا پانی کنوؤں اور دوسرے ذرائع سے حاصل کیا جاتا ہے۔ اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔ اگر پانی کی سطح گہری کردی جائے تو اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جو پانی مہیا کرسکے۔ (الملک : ٣٠) ٢۔ اللہ تعالیٰ بعض علاقوں میں ہوا کا نقطۂ انجماد اس قدر زیادہ کرتا اور نیچے لے جاتا ہے کہ پہاڑ کئی کئی فٹ برف سے ڈھانپ دیے جاتے ہیں۔ پانی کی مقدار میں مزید اضافہ کرنے کے لیے سردیوں میں برف باری کا سلسلہ قائم فرمایا ہے۔ پانی ذخیرہ کرنے کا ایسا نظام ہے۔ جو امیر سے امیر حکومت بھی نہیں کرسکتی، پھر اللہ کی شان دیکھیں یہ پانی پہاڑوں کی چوٹیوں پر جمع کیا گیا ہے جس میں کسی غلاظت کے شامل ہونے کا اندیشہ نہیں۔ اس کو سورج کی تپش سے پگھلا کر ندی نالوں اور دریاؤں کی شکل میں دور دراز علاقوں تک پہنچانے کابندو بست فرمایا ہے۔ ٣۔ پانی کی کمی کو پورا کرنے اور اسے دور دور تک پہنچانے کے لیے ہواؤں اور سورج کی ڈیوٹی لگائی ہے کہ سورج کی تپش سے اٹھنے والے بخارات کو ہوائیں مختلف گیسوں کے ساتھ فلٹرائز کر کے فضا میں اتنا اونچا لے جاتی ہیں کہ بخارات بادلوں کی صورت اختیار کر جاتے ہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ کے حکم سے ہوائیں بادلوں کو دھکیل کر اس علاقے میں پانی برساتی ہیں جہاں برسنے کا انہیں حکم دیا جاتا ہے۔ جس سے مردہ زمین زندہ ہوجاتی ہے۔ اسی سے موت و حیات کا استدلال پیش کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ اے آخرت کے منکر انسانو! جو مردہ زمین کو زندہ کرتا ہے۔ وہی مالک تمہاری موت اور زندگی کا اختیار رکھتا ہے تم سب نے ایک دن مر جانا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہی ہر چیز کا وارث ہے اور ہوگا۔ وہ تم سے پہلے لوگوں کو بھی جانتا ہے اور تمہارے بعد آنے والے لوگوں کا بھی اسے علم ہے۔ تم آخرت کا اقرار کرو یا انکار بالآخر اللہ تعالیٰ تم سب کو اپنے ہاں جمع فرمائے گا۔ اگر آج تم اس کی ذات اور احکام کا انکار کرتے ہو اور وہ تمہیں پکڑتا نہیں تو یہ نہ سمجھنا کہ تم اس کے علم اور اختیارات سے باہر ہو اس نے اپنی حکمت کے تحت تمہیں مہلت دے رکھی ہے۔ وہ اپنے احکام اور فیصلوں کی حکمت جاننے کے ساتھ ہر بات اور چیز کا علم رکھتا ہے۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ ہی پانی سے لدی ہوئی ہواؤں کو بھیجتا ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ کے حکم سے آسمانوں سے بارش برستی ہوتی ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ ہی سب کو زندہ کرتا ہے اور مارتا ہے اور وہی ہر چیز کا وارث ہے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ فوت ہونے اور دنیا میں آنے والوں کو جانتا ہے۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن سب کو جمع کرے گا۔ ٦۔ اللہ تعالیٰ حکمت اور سب کچھ جاننے والا ہے۔ الحجر
23 الحجر
24 الحجر
25 الحجر
26 فہم القرآن ربط کلام : زمین و آسمانوں اور پہاڑوں کی تخلیق کے ذکر کے بعد انسان کی تخلیق کا بیان۔ یہاں بڑے لطیف انداز میں لوگوں کو موت کے بعد جی اٹھنے پھر حشر کے میدان میں اکٹھا ہونے کی دلیل دی ہے۔ ارشاد ہوتا ہے کہ اے لوگو! ذرا غور کرو جس نے تمہیں بدبودار گارے اور کھڑکھڑانے والی مٹی سے پیدا کیا ہے اور تم سے پہلے جنات کو آگ کی لو سے پیدا کیا۔ کیا وہ قیامت کے دن تمہیں دوبارہ پیدا نہیں کرسکتا؟ کیوں نہیں، یقیناً وہ پیدا ہی نہیں بلکہ سب کو اپنے حضور جمع کر کے تمہارے اعمال پر تمہیں جزا یا سزا بھی دے گا۔ قرآن مجید نے اس بات کو باربار بیان کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم (علیہ السلام) کو مٹی سے پیدا کیا ہے۔ مگر بعض لوگ اس حقیقت کو نہیں مانتے اور وہ اپنے مشاہدے اور غلط تجربات کی بنیاد پر اس حقیقت کو ٹھکراتے ہیں۔ حالانکہ نہ صرف اس نے حضرت آدم (علیہ السلام) کو مٹی سے پیدا کیا بلکہ اس سے پہلے جنوں کو آگ کی لو سے پیدا فرمایا ہے۔ اس فرمان کا مقصد یہ ہے کہ جس اللہ نے مٹی سے انسان کو پہلے بغیر کسی نمونے کے پیدا کیا ہے۔ کیا وہ اس مٹی سے دوبارہ پیدا نہیں کرسکتا ؟ ملائکہ، جن اور انسان کی تخلیق : (عَنْ عَاءِشَۃَ (رض) قَالَتْ قَالَ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خُلِقَتِ الْمَلاَ ءِکَۃُ مِنْ نُورٍ وَخُلِقَ الْجَانُّ مِنْ مَارِجٍ مِنْ نَارٍ وَخُلِقَ آدَمُ مِمَّا وُصِفَ لَکُمْ )[ رواہ مسلم : باب فِی أَحَادِیثَ مُتَفَرِّقَۃٍ] ” حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ملائکہ کو نور سے پیدا کیا گیا ہے اور جنوں کو بھڑکتی ہوئی آگ سے اور آدم کو مٹی سے پیدا کیا گیا ہے۔“ انسان ہر دیکھنے والے درند پرند کو نظر آتا ہے جبکہ جن کسی کو نظر نہیں آتے۔ (عَنْ اَنَسٍ (رض) اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ لَمَّاصَوَّرَ اللّٰہُ اٰدَمَ فِیْ الْجَنَّۃِ تَرَکَہٗ مَا شَاء اللّٰہُ اَنْ یَتْرُکَہٗ فَجَعَلَ اِبْلِیْسُ یُطِیْفُ بِہٖ یَنْظُرُ مَا ھُوَفَلَمَّارَاٰہُ اَجْوَفَ عَرَفَ اَنَّہٗ خُلِقَ خَلْقًا لَایَتَمَالَکُ) [ رواہ مسلم : باب خُلِقَ الإِنْسَانُ خَلْقًا لاَ یَتَمَالَکُ] ” حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا، جب اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم (علیہ السلام) کی جنت میں شکل و صورت بنائی تو اس کے پیکر کو جب تک اللہ تعالیٰ نے چاہا جنت میں اسی طرح رہنے دیا۔ ابلیس نے اس کے گرد گھومنا شروع کیا اور غور کرتا رہا کہ یہ کیا ہے؟ جب اس نے مجسمہ کو دیکھا کہ یہ اندر سے کھوکھلا ہے‘ تو وہ سمجھ گیا کہ یہ ایک ایسی مخلوق تخلیق کی جارہی ہے، جو مستقل مزاج نہیں ہوگی۔“ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ خَلَقَ اللَّہُ آدَمَ عَلَی صُورَتِہِ، طُولُہُ سِتُّونَ ذِرَاعًا، فَلَمَّا خَلَقَہُ قَالَ اذْہَبْ فَسَلِّمْ عَلَی أُولَءِکَ النَّفَرِ مِنَ الْمَلاَءِکَۃِ جُلُوسٌ، فَاسْتَمِعْ مَا یُحَیُّونَکَ، فَإِنَّہَا تَحِیَّتُکَ وَتَحِیَّۃُ ذُرِّیَّتِکَ فَقَال السَّلاَمُ عَلَیْکُمْ فَقَالُوا السَّلاَمُ عَلَیْکَ وَرَحْمَۃُ اللَّہِ فَزَادُوہُ وَرَحْمَۃُ اللَّہِ، فَکُلُّ مَنْ یَدْخُلُ الْجَنَّۃَ عَلَی صُورَۃِ آدَمَ، فَلَمْ یَزَلِ الْخَلْقُ یَنْقُصُ بَعْدُ حَتَّی الآنَ)[ رواہ البخاری : باب بَدْءِ السَّلاَمِ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے آ دم (علیہ السلام) کو اپنی صورت کے مطابق بنایا اور اس کا قد ساٹھ ہاتھ تھا۔ جب آدم کی تخلیق ہوچکی تو اللہ نے آ دم (علیہ السلام) کو حکم دیا کہ فرشتوں کی جماعت کے پاس جاؤ اور انہیں سلام کہو اور جو وہ جواب دیتے ہیں اسے سنووہ تیرے لیے اور تیری اولاد کے لیے تحفہ ہوگا۔ آدم (علیہ السلام) نے فرشتوں کو سلام کہا تو فرشتوں نے سلام کا جواب دیا اور حمۃ اللہ کا اضافہ کیا ہر انسان کی جنت میں آدم کی صورت ہوگی تب سے لے کر آج تک آدم کی اولاد کے قد میں کمی واقع ہوتی آرہی ہے“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو کھنکھناتی ہوئی مٹی سے پیدا کیا۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے جنوں کو انسانوں سے پہلے آگ کی لو سے پیدا فرمایا۔ تفسیر بالقرآن تخلیق انسانی کے مختلف مراحل : ١۔ یقیناً ہم نے انسان کو کھنکھناتی ہوئی مٹی سے پیدا کیا۔ (الحجر : ٢٦) ٢۔ انسان کو اللہ نے مٹی سے پیدا کیا۔ (آل عمران : ٥٩) ٣۔ اللہ نے انسان کو مٹی کے جوہر سے پیدا کیا۔ (المومنون : ١٢) ٤۔ حوا کو آدم سے پیدا فرمایا۔ (النساء : ١) ٥۔ اللہ نے انسان کو مخلوط نطفہ سے پیدا کیا۔ (الدھر : ٢) ٦۔ اللہ نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا، پھر اسے نطفہ بنایا، پھر اس سے خون کا لوتھڑا، پھر اس سے بوٹی بنا کر۔ (الحج : ٥) ٧۔ اللہ نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا، پھر نطفہ، پھر لوتھڑا بنا کر تمہیں پیدا کرتا ہے کہ تم بچے ہوتے ہو۔ (المومن : ٦٧) ٨۔ کیا تو اس ذات کا کفر کرتا ہے جس نے تجھے مٹی سے پیدا فرمایا۔ (الکہف : ٣٧) ٩۔ اللہ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی یہ بھی ہے کہ اس نے تمہیں مٹی سے پیدا فرمایا۔ (الروم : ٢٠) ١٠۔ اللہ نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا، پھر نطفہ سے، پھر تمہارے جوڑے جوڑے بنائے۔ (فاطر : ١١) الحجر
27 الحجر
28 فہم القرآن ربط کلام : تخلیق آدم کے بارے میں مختصر اشارہ کرنے کے بعد اس کے اعزاز کا تذکرہ۔ قرآن مجید کا یہ بھی اسلوب ہے کہ وہ کسی واقعہ کو کہانی اور زیب داستان کے لیے بیان نہیں کرتا۔ بلکہ ہر بات کو موقع محل کے مطابق اور مؤثر نصیحت کے طور پر بیان کرتا ہے۔ اثر آفرینی کے لیے کسی بات کا دوبارہ ذکر کرنا مقصود ہو تو اس کا انداز اور الفاظ پہلے بیان سے مختلف ہوتے ہیں۔ تاکہ پڑھنے والے کو نئے انداز کے ساتھ اس کی راہنمائی کے لیے نئی دلیل پیش کی جائے۔ اسی اصول کے پیش نظر حضرت آدم (علیہ السلام) کی تخلیق کا یوں بیان فرمایا ہے کہ اے انسان! جب تیرے رب نے ملائکہ کو حکم دیا کہ یقیناً میں بدبودار اور کھنکھناتی مٹی سے ایک انسان پیدا کرنے والا ہوں۔ جب میں اسے پوری طرح بنا دوں اور اس میں اپنی روح پھونک دوں تو اس کے سامنے سجدہ ریز ہوجانا۔ اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق سب کے سب ملائکہ نے سجدہ کیا۔ پہلے پارے میں اس کی یوں تفصیل بیان فرمائی کہ جب آپ کے رب نے ملائکہ سے فرمایا کہ میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں۔ خلیفہ سے مراد نمائندہ اور حکمران ہے۔ لیکن ملائکہ نے کہا، کیا آپ زمین میں اس کو خلیفہ بنائیں گے جو اس میں فساد کرے گا اور خون بہائے گا؟ ہم آپ کی حمد و ستائش کے ساتھ تسبیح اور پاکی عرض کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے جواباً فرمایا جو کچھ میں جانتا ہوں تم نہیں جانتے۔ پھر آدم (علیہ السلام) کو تمام چیزوں کے نام بتلائے گئے۔ اس کے بعد ان چیزوں کو ملائکہ کے سامنے پیش کر کے پوچھا اگر تم اپنی بات میں سچے ہو تو ان چیزوں کے نام بتلاؤ۔ ملائکہ نے معذرت پیش کرتے ہوئے عرض کی کہ اے اللہ! تو پاک ہے ہم اتنا ہی جانتے ہیں جتنا تو نے ہمیں بتلایا ہے۔ یقیناً تو ہی سب کچھ جاننے والاہے اور تیرے ہر کام اور فرمان میں حکمت پنہاں ہوتی ہے۔ پھر آدم (علیہ السلام) کو ان چیزوں کے نام بتلانے کا حکم دیا اور آدم (علیہ السلام) نے سب چیزوں کے نام بتلائے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ میں زمین و آسمان کے غیب کو جانتا ہوں اور میں وہ بھی جانتا ہوں جو تم ظاہر کرتے ہو اور جو کچھ تم چھپاتے ہو۔ اس کے بعد ملائکہ کو حکم دیا کہ وہ آدم (علیہ السلام) کو سجدہ کریں۔ ابلیس کے سوا سب نے سجدہ کیا۔ یہاں فرمایا کہ جب میں اس کا ڈھانچہ بنا لوں اور اپنی روح پھونک دوں پھر سب کے سب اسے سجدہ کرو۔ (حَدَّثَنَا أَبُو مُوسَی الأَشْعَرِیُّ (رض) قَالَ قَالَ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) إِنَّ اللّٰہَ خَلَقَ آدَمَ مِنْ قَبْضَۃٍ قَبَضَہَا مِنْ جَمِیْعِ الأَرْضِ فَجَاءَ بَنُو آدَمَ عَلَی قَدْرِ الأَرْضِ جَاءَ مِنْہُمُ الأَحْمَرُ وَالأَبْیَضُ وَالأَسْوَدُ وَبَیْنَ ذَلِکَ وَالسَّہْلُ وَالْحَزْنُ وَالْخَبِیثُ وَالطَّیِّبُ)[ رواہ ابوداؤد : باب فِی الْقَدَرِ] ” حضرت ابو موسیٰ اشعری (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کو مٹی کی ایک مٹھی سے پیدا فرمایا اسی لیے آدم کی اولاد زمین کی رنگت کے مطابق ہے بعض ان میں سے سرخ ہیں اور بعض سفید، اور بعض سیاہ اور انھی کے درمیان کچھ آرام اور سکون سے زندگی بسر کرنے والے ہیں اور کچھ غم زدہ اور کچھ خبیث النفس اور کچھ پاک ہیں۔“ روح کیا ہے؟ (وَیَسْأَلُوْنَکَ عَنِ الرُّوحِ قُلِ الرُّوْحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّیْ وَمَآأُوتِیتُمْ مِنَ الْعِلْمِ إِلَّا قَلِیْلاً) [ بنی اسرائیل : ٨٥] ” وہ آپ سے روح کے متعلق سوال کرتے ہیں فرما دیں روح میرے رب کے حکم سے ہے اور تمہیں بہت تھوڑا علم دیا گیا ہے۔“ (روح کی تفصیل سورۃ بنی اسرائیل کی آیت ٨٥ کی تفسیر میں بیان ہوگی۔ انشاء اللہ ) مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے تخلیق انسانی سے پہلے فرشتوں کو آگاہ فرمایا۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو سجدہ کرنے کا حکم دیا۔ ٣۔ شیطان کے سوا تمام فرشتوں نے حضرت آدم (علیہ السلام) کو سجدہ کیا۔ الحجر
29 الحجر
30 الحجر
31 الحجر
32 الحجر
33 الحجر
34 فہم القرآن ربط کلام : گزشتہ سے پیوستہ۔ اللہ تعالیٰ نے جونہی حکم صادر فرمایا تو تمام کے تمام ملائکہ حضرت آدم (علیہ السلام) کے سامنے سر بسجود ہوگئے۔ سوائے ابلیس کے وہ اکڑا رہا اور اس نے سجدہ کرنے سے انکار کردیا۔ اللہ تعالیٰ نے ابلیس سے استفسار فرمایا۔ تجھے کیا ہوا کہ تو نے سجدہ کرنے والوں کے ساتھ سجدہ نہیں کیا۔ چاہیے تو یہ تھا کہ وہ اس نافرمانی اور سرکشی پر رب ذوالجلال سے معافی طلب کرتا لیکن اس نے یہ کہہ کر اللہ تعالیٰ کی گستاخی اور حضرت آدم (علیہ السلام) کی عیب جوئی کی کہ میں ایک بشر کو کیوں سجدہ کروں جس کو تو نے بدبودار اور کھنکھناتی مٹی سے پیدا کیا ہے۔ مسائل ١۔ ابلیس نے حضرت آدم (علیہ السلام) کو سجدہ کرنے سے انکار کیا۔ ٢۔ شیطان نے تکبر کی بنیاد پر سجدہ کرنے سے انکار کیا۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ نے شیطان کو اپنی بارگاہ سے نکل جانے کا حکم دیا۔ ٤۔ قیامت تک شیطان پر لعنت و پھٹکار ہوگی۔ الحجر
35 الحجر
36 فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ اللہ تعالیٰ کے حضور ابلیس کی درخواست کہ مجھے مہلت دیں میں ابن آدم کو گمراہ کروں۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے ہمیشہ ہمیش محروم ہونے کے باوجود ابلیس نے ربِّ کریم کی بارگاہ میں درخواست پیش کی کہ اے میرے رب! مجھے قیامت تک زندہ رکھ اور مہلت دے کہ میں ابن آدم کو گمراہ کرتا رہوں۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی درخواست قبول کرتے ہوئے فرمایا تجھے اس دن تک مہلت دی جاتی ہے جس کا علم میرے سوا کسی کو نہیں ہے۔ چاہیے تو یہ تھا کہ رب کریم کی شفقت و مہربانی کو پیش نظر رکھتے ہوے ابلیس اللہ تعالیٰ سے معافی کا خواستگار ہوتا۔ مگر ابلیس معافی کا خواستگار ہونے کے بجائے مزید سر کشی اور گستاخی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہتا ہے کہ اے میرے رب! چونکہ تو نے مجھے آدم کی وجہ سے رسوا کیا ہے۔ اس لیے میں زمین پر جا کر آدم اور اس کی اولاد کو خوش فہمیوں اور فریب کاریوں کے ذریعے گمراہ کروں گا۔ البتہ تیرے مخلص بندے میرے چنگل سے بچ جائیں گے۔ میں ان کو گمراہ نہیں کرسکوں گا۔ یعنی مستقل طور پر شیطان اللہ کے مخلص بندوں کو گمراہ نہیں کرسکتا۔ مخلص کا معنی ہے جو اللہ تعالیٰ پر بلا شرکت غیر ایمان لائے اور اللہ تعالیٰ کی اخلاص کے ساتھ عبادت کرے اور اس کے رسول کے بتلائے ہوئے طریقے کے مطابق زندگی بسر کرے۔ ابلیس کو مہلت دینے کی حکمت یہ ہے تاکہ اس کے ذریعے لوگوں کو آزمایا جائے۔ (عَنْ أَبِیْ سَعَیْدٍ (رض) أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ إِنَّ الشَّیْطَانَ قَالَ وَعِزَّتِکَ یَا رَبِّ لَا أَبْرَحُ أَغْوِیْ عِبَادَکَ مَا دَامَتْ أَ رْوَاحُہُمْ فِیْ أَجْسَادِہِمْ، فَقَال الرَّبُّ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی وَعِزَّتِیْ وَجَلاَلِیْ لاَ أَزَالُ أَغْفِرُ لَہُمْ مَا اسْتَغْفَرُوْنِیْ )[ رواہ الحاکم فی المستدرک : کتاب التوبۃ والانابۃ ] ” حضرت ابو سعید (رض) بیان کرتے ہیں بے شک رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا شیطان نے کہا اے میرے رب! تیری عزت کی قسم میں ہمیشہ تیرے بندوں کو گمراہ کرتا رہوں گا جب تک ان کے جسموں میں روحیں موجود ہیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا مجھے میری عزت اور جلال کی قسم! میں ہمیشہ انہیں معاف کرتا رہوں گا جب تک یہ مجھ سے بخشش طلب کرتے رہیں گے۔“ (عَنْ أَنَسٍ (رض) أَنَّ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کَانَ مَعَ إِحْدٰی نِسَآءِہٖ فَمَرَّ بِہٖ رَجُلٌ فَدَعَاہُ فَجَآءَ فَقَالَ یَا فُلاَنُ ہٰذِہٖ زَوْجَتِیْ فُلاَنَۃُ فَقَالَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ مَنْ کُنْتُ أَظُنُّ بِہٖ فَلَمْ أَکُنْ أَظُنُّ بِکَ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) إِنَّ الشَّیْطَانَ یَجْرِیْ مِنَ الإِنْسَانِ مَجْرَی الدَّمِ) [ رواہ مسلم : باب تَحْرِیمِ الْخَلْوَۃِ بالأَجْنَبِیَّۃِ وَالدُّخُولِ عَلَیْہَا] ” حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں ایک دن نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی کسی بیوی کے ساتھ کھڑے تھے ایک آدمی آپ کے قریب سے گزرا، آپ نے اسے آواز دے کر کہا اے فلاں یہ میری بیوی ہے۔ اس نے عرض کی اے اللہ کے رسول ! میں آپ کے بارے میں کس طرح شک کر سکتاہوں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا یقیناً شیطان انسان کے جسم میں اس طرح گردش کرتا ہے جس طرح خون گرتا ہے۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے ابلیس کو قیامت تک کے لیے مہلت دے رکھی ہے۔ ٢۔ شیطان نے انسانوں کو گمراہ کرنے کی قسم اٹھا رکھی ہے۔ ٣۔ اللہ کے مخلص بندے شیطان کے جال سے محفوظ رہیں گے۔ الحجر
37 الحجر
38 الحجر
39 الحجر
40 الحجر
41 فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ ابلیس کے جواب میں رب ذوالجلال کا فرمان۔ اخلاص ہی وہ صراط مستقیم ہے جس پر گامزن رہنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا اور اسی راستے پر چل کر انسان اللہ تعالیٰ کی منشا اور رضا کو پا سکتا ہے۔ جو لوگ اس راستے کو اپنائیں گے ان کے بارے میں فرمایا کہ یہ میرے بندے ہیں۔ اے ابلیس! ان پر تیرا کبھی غلبہ نہ ہو پائے گا۔ ہاں! تیرا غلبہ ان لوگوں پر ہوگا جو صراط مستقیم سے بھٹک کر تیری اطاعت کریں گے۔ ان سب کے لیے میرا وعدہ ہے کہ میں ضرور انہیں جہنم میں داخل کروں گا۔ جہنم کے سات دروازے ہیں اور ہر دروازے میں مقررہ تقسیم کے مطابق مجرموں کو داخل کیا جائے گا۔ اہل علم نے مقررہ تقسیم سے یہ مراد لی ہے کہ اللہ تعالیٰ مختلف جرائم اور ان کی سنگینی کے مطابق مجرموں کو جہنم کے مختلف طبقات میں داخل کرے گا۔ (وَأَنَّ ہٰذَا صِرَاطِیْ مُسْتَقِیمًا فَاتَّبِعُوْہُ وَلَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِکُمْ عَنْ سَبِیْلِہٖ ذٰلِکُمْ وَصَّاکُمْ بِہٖ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ )[ الانعام : ١٥٣] ” یہی میرا راستہ ہے اس کی پیروی کرو، متفرق راستوں کو مت اپناؤ اس بات کی تمہیں وصیت کی جاتی ہے تاکہ تم پرہیزگار بن جاؤ۔“ جنت اور جہنم کے دروازے : (عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّہِ (رض) قَالَ کُنَّا عِنْدَ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَخَطَّ خَطًّا وَخَطَّ خَطَّیْنِ عَنْ یَمِینِہِ وَخَطَّ خَطَّیْنِ عَنْ یَسَارِہِ ثُمَّ وَضَعَ یَدَہُ فِی الْخَطِّ الأَوْسَطِ فَقَالَ ہَذَا سَبِیل اللَّہِ ثُمَّ تَلاَ ہَذِہِ الآیَۃَ (وَأَنَّ ہَذَا صِرَاطِی مُسْتَقِیمًا فَاتَّبِعُوہُ وَلاَ تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِکُمْ عَنْ سَبِیلِہِ )) [ رواہ ابن ماجۃ: باب اتِّبَاعِ سُنَّۃِ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ] ” حضرت جابر بن عبداللہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ ہم نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر تھے آپ نے ایک سیدھا خط کھینچا اور اس کی دائیں جانب دو خط اور بائیں دو خط کھینچے پھر اپنے ہاتھ کو درمیانے خط پر رکھتے ہوئے فرمایا یہ اللہ کا راستہ ہے پھر آپ نے اس آیت کی تلاوت فرمائی (بے شک یہی میرا سیدھا راستہ ہے اس کو اپنالو اور دوسرے راستوں پر نہ چلو وگرنہ تم سیدھی راہ سے بھٹک جاؤ گے۔) “ صراط مستقیم کے سنگ میل : ١۔ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرایا جائے۔ ٢۔ والدین کے ساتھ حسن سلوک کیا جائے۔ ٣۔ اولاد کو غربت کی وجہ سے قتل نہ کیا جائے۔ ٤۔ ظاہری اور باطنی فحاشی کے قریب نہ جائیں۔ ٥۔ کسی کو نا حق قتل نہ کریں۔ ٦۔ یتیم کے مال کے قریب نہ جائیں۔ ٧۔ ماپ تول کو پورا کریں۔ ٨۔ عد ل و انصاف کی گواہی دیں۔ ٩۔ اللہ تعالیٰ کے عہد کو پورا کریں۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں پر شیطان کا بس نہیں چلتا۔ ٢۔ شیطان کے پیرو کار جہنم میں جائیں گے۔ ٣۔ جہنم کے سات دروازے ہیں۔ ٤۔ ہر دروازہ کے لیے مجرموں کا مقرر حصہ ہے۔ تفسیر بالقرآن صراط مستقیم کے نشانات : ١۔ اللہ نے فرمایا ہے سیدھا راستہ مجھ تک پہنچتا ہے۔ (الحجر : ٤١) ٢۔ اللہ کی عبادت کرنے والا صراط مستقیم پر ہے۔ (یٰس : ٦١) ٣۔ اللہ کی خالص عبادت کرنا صراط مستقیم پر گامزن ہونا ہے۔ (آل عمران : ٥١) ٤۔ اللہ کے پاس قیامت کا علم ہے اس میں شک نہیں کرنا چاہیے یہی صراط مستقیم ہے۔ (الزخرف : ٦٨) ٥۔ یقیناً اللہ میرا اور تمہارا پروردگار ہے۔ اسی کی عبادت کرو یہی صراط مستقیم ہے۔ (الزخرف : ٦٤) الحجر
42 الحجر
43 الحجر
44 الحجر
45 فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ میرے مخلص بندوں پر شیطان کا تسلط نہیں ہو سکتا۔ اب مخلص بندوں کے اجرو ثواب کا اعلان کیا جا رہا ہے۔ مخلص بندوں کی پہلی اور بنیادی صفت یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہوئے اس کی نافرمانیوں سے بچتے ہیں۔ ان کے اجرو ثواب کا یوں تذکرہ فرمایا کہ یہ ایسی جنت میں داخل کئے جائیں گے جس میں چشمے اور آبشاریں جاری ہوں گی۔ وہ اس میں امن و سلامتی کے ساتھ داخل ہوں گے۔ جس میں انہیں نہ کوئی مشقت اٹھانا پڑے گی اور نہ ہی انہیں جنت سے نکالے جانے کا خطرہ ہوگا۔ دنیا میں رہتے ہوئے انسان ہونے کے ناطے سے اگر ان کی باہمی رنجش ہوگی تو اللہ ان کے دلوں سے عداوت و کدورت نکال دے گا۔ جنتی اخوت و بھائی چارے کی فضا میں ایک دوسرے کے ساتھ شیر و شکر ہو کر بیٹھا اور ٹہلا کریں گے۔ اسی آیت کی تلاوت کرتے ہوئے سیدنا حضرت علی (رض) نے فرمایا تھا کہ میں اللہ کی رحمت سے امید کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ میرے اور معاویہ کے درمیان ہونے والی رنجش کو دور فرمائے گا۔ ہم جنت میں بھائیوں کی طرح ایک دوسرے کے سامنے بیٹھا کریں گے۔ (عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَنْ اٰمَنَ باللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ وَاَقَام الصَّلٰوۃَ وَصَامَ رَمَضَانَ کَانَ حَقًّا عَلَی اللّٰہِ اَنْ یُّدْخِلَہُ الْجَنَّۃَ جَاھَدَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اَوْ جَلَسَ فِیْٓ اَرْضِہِ الَّتِیْ وُلِدَ فِیْھَا قَالُوْا اَفلَاَ نُبَشِّرُ بِہِ النَّاسَ قَالَ اِنَّ فِی الْجَنَّۃِ ماءَۃَ دَرَجَۃٍ اَعَدَّھَا اللّٰہُ لِلْمُجَاہِدِیْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ مَابَیْنَ دَرَجَتَیْنِ کَمَا بَیْنَ السَّمَآءِ وَالْاَرْضِ فَاِذَا سَاَلْتُمُ اللّٰہَ فَاسْءَلُوْہُ الْفِرْدَوْسَ فَاِنَّہٗ اَوْسَطُ الْجَنَّۃِ وَاَعْلَی الْجَنَّۃِ وَفَوْقَہٗ عَرْشُ الرَّحْمٰنِ وَمِنْہُ تَفَجَّرُ اَنْھَارُ الْجَنَّۃِ) [ رواہ البخاری : کتاب الجہاد] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جو شخص اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لایا، نماز قائم کی‘ رمضان کے روزے رکھے‘ اللہ تعالیٰ نے ذمّہ لے لیا ہے کہ وہ اسے جنت میں داخل فرمائے گا۔ خواہ اس نے اللہ کے راستے میں جہاد کیا یا اپنی آبادی میں رہا جہاں وہ پیدا ہوا۔ صحابۂ کرام (رض) نے عرض کیا‘ اے اللہ کے رسول! اجازت ہو تو ہم لوگوں کو یہ خوش خبری سنائیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا‘ بلاشبہ جنت کی سومنزلیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو ان لوگوں کے لیے تیار کیا ہے‘ جو اللہ کے راستے میں جہاد کرتے ہیں۔ ان میں سے ہر دو منزلوں کے درمیان زمین اور آسمان جتنا فاصلہ ہے۔ جب تم اللہ سے جنت کا سوال کرو تو اس سے جنت الفردوس کا سوال کرو۔ کیونکہ وہ اعلیٰ وافضل جنت ہے۔ اس کے اوپر اللہ تعالیٰ کا عرش ہے اور وہیں سے جنت کی نہریں نکلتی ہیں۔“ ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جنت میں سب سے پہلے داخل ہونے والے چودھویں رات کے چاند کی طرح روشن چہرہ ہوں گے۔ جو ان کے بعد داخل ہوں گے یہ آسمان پر بہت تیز چمکنے والے ستارے کی طرح ہوں گے تمام جنتیوں کے دل ایک جیسے ہوں گے نہ تو ان کے درمیان باہمی اختلاف ہوگا اور نہ ہی ایک دوسرے سے بغض رکھیں گے۔ ان میں سے ہر شخص کے لیے حوروں میں سے دو بیویاں ہوں گی۔ حسن کی وجہ سے جن کی پنڈ لیوں کا گودا‘ ہڈی اور گوشت کے پیچھے دکھائی دے گا۔ اہل جنت صبح شام اللہ تعالیٰ کی تسبیح بیان کریں گے۔ نہ وہ بیمار ہوں گے اور نہ ہی پیشاب کریں گے‘ نہ رفع حا جت کریں گے اور نہ ہی تھوکیں گے اور نہ ہی ناک سے رطوبت بہائیں گے۔ ان کے برتن سونے چاندی کے ہوں گے۔ ان کی کنگھیاں سونے کی ہوں گی۔ انگیٹھیوں کا ایندھن عود ہندی ہوگا اور ان کا پسینہ کستوری کی طرح ہوگا۔ سب کا اخلاق ایک جیسا ہوگا نیز وہ سب شکل و صورت میں اپنے باپ آدم (علیہ السلام) کی طرح ہوں گے۔ آدم کا قد ساٹھ ہاتھ لمبا تھا۔“ [ رواہ البخاری : باب خَلْقِ آدَمَ صَلَوَات اللّٰہِ عَلَیْہِ وَذُرِّیَّتِہِ ] تفسیر بالقرآن جنت کی نعمتوں کی ایک جھلک : ١۔ ہم ان کے دلوں سے کینہ نکال دیں گے اور سب ایک دوسرے کے سامنے تکیوں پر بیٹھے ہوں گے۔ انہیں کوئی تکلیف نہیں پہنچے گی اور نہ وہ اس سے نکالے جائیں گے۔ (الحجر : ٤٧۔ ٤٨) ٢۔ جنت کی مثال جس کا مومنوں کے ساتھ وعدہ کیا گیا ہے۔ اس کے نیچے سے نہریں جاری ہیں اور اس کے پھل اور سائے ہمیشہ کے لیے ہوں گے۔ (الرعد : ٣٥) ٣۔ جنت میں بے خار بیریاں، تہہ بہ تہہ کیلے، لمبا سایہ، چلتا ہوا پانی، اور کثرت سے میوے ہوں گے۔ (الواقعۃ : ٢٨ تا ٣٠) ٤۔ جنت کے میوے ٹپک رہے ہوں گے۔ (الحاقۃ: ٢٣) ٥۔ جنت میں وہ سب کچھ ہوگا جس کی جنتی خواہش کرے گا۔ (حٰم السجدۃ: ٣١) الحجر
46 الحجر
47 الحجر
48 الحجر
49 فہم القرآن ربط کلام : اس سے پہلے جنتیوں کا انعام اور جہنمیوں کے انجام کا ذکر ہوا ہے۔ اب اسی کے حوالے سے اللہ تعالیٰ نے اپنی دو صفات کا تذکرہ فرمایا۔ متقین اور ان کے انعامات کا ذکر کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے نہایت مشفقانہ انداز میں فرمایا اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! میرے بندوں کو فرما دیجئے کہ میں معاف کرنے والا نہایت مہربان ہوں اور انہیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ جو میری سر کشی و نافرمانی کرے گا تو میرا عذاب بھی شدید ہوا کرتا ہے۔ بخشش اور مہربانی کا ذکر کرنے کے ساتھ شدید عذاب کا اس لیے بیان کیا ہے تاکہ کوئی شخص اللہ تعالیٰ کی بخشش اور اس کی رحمت کو پیش نظر رکھ کر جان بوجھ کر سرکشی اور نافرمانی کا راستہ اختیار نہ کرے۔ اللہ تعالیٰ مومنوں کے لیے نہایت مہربان ہے اور ظالموں کے لیے جبار، قہار اور سخت عذاب دینے والا ہے۔ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ أَنَّ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ لَمَّا قَضَی اللَّہُ الْخَلْقَ کَتَبَ عِنْدَہُ فَوْقَ عَرْشِہِ، إِنَّ رَحْمَتِی سَبَقَتْ غَضَبِی) [ رواہ البخاری : باب قَوْلِہِ تَعَالَی (وَلَقَدْ سَبَقَتْ کَلِمَتُنَا لِعِبَادِنَا الْمُرْسَلِینَ)] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب اللہ نے مخلوقات کو پیدا کرنے کا فیصلہ فرمایا تو اس وقت اللہ کے عرش پر لکھا ہوا تھا بے شک میری رحمت میرے غضب سے سبقت لے جا چکی ہے۔“ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ إِنَّ لِلَّہِ ماءَۃَ رَحْمَۃٍ أَنْزَلَ مِنْہَا رَحْمَۃً وَاحِدَۃً بَیْنَ الْجِنِّ وَالإِنْسِ وَالْبَہَاءِمِ وَالْہَوَامِّ فَبِہَا یَتَعَاطَفُونَ وَبِہَا یَتَرَاحَمُونَ وَبِہَا تَعْطِفُ الْوَحْشُ عَلَی وَلَدِہَا وَأَخَّرَ اللَّہُ تِسْعًا وَتِسْعِینَ رَحْمَۃً یَرْحَمُ بِہَا عِبَادَہُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ )[ رواہ مسلم : باب فِی سَعَۃِ رَحْمَۃِ اللَّہِ تَعَالَی وَأَنَّہَا سَبَقَتْ غَضَبَہُ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں آپ نے فرمایا بے شک اللہ کی رحمت کے سو حصے ہیں ان میں سے ایک حصے کو اللہ نے جنوں، انسانوں، چوپاؤں اور پرندوں میں تقسیم فرمایا جس کے ساتھ وہ آپس میں شفقت اور رحم کرتے ہیں اور اسی کے ساتھ وحشی جانور بھی اپنی اولاد پر رحم کرتے ہیں اور اللہ نے اپنی رحمت کے ننانوے حصے اپنے پاس رکھے ہیں جن کے ساتھ اللہ قیامت کے دن رحم و کرم فرمائے گا۔“ (عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ (رض) قَالَ قَالَتْ قُرَیْشٌ للنَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ادْعُ لَنَا رَبَّکَ أَنْ یَجْعَلَ لَنَا الصَّفَا ذَہَباً وَنُؤْمِنَ بِکَ قَالَ وَتَفْعَلُونَ قَالُوا نَعَمْ قَالَ فَدَعَا فَأَتَاہُ جِبْرِیلُ فَقَالَ إِنَّ رَبَّکَ عَزَّ وَجَلَّ یَقْرَأُ عَلَیْکَ السَّلاَمَ وَیَقُولُ إِنْ شِءْتَ أَصْبَحَ لَہُمُ الصَّفَا ذَہَباً فَمَنْ کَفَرَ بَعْدَ ذَلِکَ مِنْہُمْ عَذَّبْتُہُ عَذَاباً لاَ أُعَذِّبُہُ أَحَداً مِنَ الْعَالَمِینَ وَإِنْ شِءْتَ فَتَحْتُ لَہُمْ بَاب التَّوْبَۃِ وَالرَّحْمَۃِ قَالَ بَلْ بَاب التَّوْبَۃِ وَالرَّحْمَۃِ )[ مسند احمد] ” حضرت عبداللہ بن عباس (رض) بیان کرتے ہیں قریش نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مطالبہ کیا کہ آپ ہمارے لیے صفا پہاڑی کو سونے کا بنادیں تو ہم آپ پر ایمان لے آئیں گے تو آپ نے فرمایا کیا تم ایسا کرو گے ؟ انھوں نے کہا ہاں۔ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دعا فرمانے پر جبرائیل (علیہ السلام) تشریف لائے اور عرض کی آپ کے رب نے آپ کو سلام کہا ہے اور فرمایا ہے کہ اگر آپ چاہیں تو ہم ان کے لیے صفا پہاڑی کو سونے کا بنادیں گے لیکن جو اس کے بعد کفر کرے گا میں اسے ایسے عذاب میں مبتلا کروں گا کہ اس سے پہلے کسی کو ایسا عذاب نہ ہوگا اور اگر آپ چاہیں تو میں ان کے لیے توبہ اور رحمت کا دروازہ کھول دیتا ہوں تو آپ نے فرمایا کہ اللہ ان کے لیے رحمت اور توبہ کا دروازہ کھول دے۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ بخشنے اور رحم کرنے والا ہے۔ ٢۔ اللہ کا عذاب بڑا درد ناک ہوتا ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ کی رحمت اور اس کے عذاب کی جھلکیاں : ١۔ میرے بندوں کو بتا دیں یقیناً میں بخشنے، رحم کرنے والا ہوں۔ میرا عذاب بڑا درد ناک ہے۔ (الحجر : ٤٩۔ ٥٠) ٢۔ اچھی طرح جان لو اللہ بہت سخت سزا دینے والا، بڑی مغفرت اور رحم فرمانے والا ہے۔ (المائدۃ: ٩٨) ٣۔ اللہ گناہوں کو بخشنے اور توبہ قبول کرنے والا ہے، سخت سزا دینے والا، قدرت والا ہے۔ (المومن : ٣) ٤۔ اللہ ان کو اپنی رحمت میں داخل کرے گا یقیناً وہ بخشنے والا، رحم والا ہے۔ (التوبۃ: ٩٩) ٥۔ جس کو چاہتا ہے اپنی رحمت میں داخل کرتا ہے اور ظالموں کے لیے درد ناک عذاب ہے۔ (الدہر : ٣١) الحجر
50 الحجر
51 فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ آیت میں رحمت کا بیان ہوا۔ اب اللہ کی رحمت کا عملی نمونہ پیش کیا جاتا ہے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے مہمانان گرامی کے ذکر سے پہلے اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت اور عذاب کا ذکر کیا۔ یہاں رحمت کا عملی نمونہ پیش کیا جاتا ہے جس کا پس منظر یہ ہے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس خوشخبری دینے والے ملائکہ حاضر ہوئے۔ انہوں نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی خدمت میں سلام پیش کیا۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے معمولی توقف کے بعد ان کی خدمت میں بھنا ہوا بچھڑا پیش کیا۔ جب مہمانوں نے کھانے کی طرف ہاتھ نہ بڑھائے تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) پریشان ہوئے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی پریشانی دیکھتے ہوئے ملائکہ نے انہیں تسلی دیتے ہوئے عرض کی کہ آپ کو ڈرنے کی ضرورت نہیں ہم قوم لوط کی طرف بھیجے گئے ہیں۔ یہ کہتے ہوئے انہوں نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے قریب کھڑی ہوئی ان کی بیوی کو بیٹے اور پوتے کی خوشخبری سنائی۔ جس پر بی بی صاحبہ نے بڑے تعجب کا اظہار کرتے ہوئے کہا کیا میرے ہاں بیٹا جنم لے گا؟ جبکہ میں بانجھ ہوں اور میرا خاوند بوڑھا ہوچکا ہے۔ یہ بات عجب معلوم ہوتی ہے۔ ملائکہ نے اسے تسلی دیتے ہوئے فرمایا اے ابراہیم کے اہل بیت ! کیا تم اللہ کی رحمت اور برکت پر تعجب کا اظہار کرتے ہو۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نہایت ہی قابل تعریف اور بڑی عظمت والاہے۔ ( ھود : ٦٩ تا ٧٣) یہاں اس واقعہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ اے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ اپنے مخا لفین کو ابراہیم (علیہ السلام) کے معزز مہمانوں کا واقعہ سنائیں۔ جب انہوں نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی خدمت میں پیش ہو کر سلام عرض کیا۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے انہیں فرمایا ہم تو آپ سے خوف محسوس کرتے ہیں۔ مہمان ملائکہ نے عرض کیا ہم سے خوف زدہ ہونے کی ضرورت نہیں ہم تو آپ کو ایک صاحب علم بیٹے کی خوشخبری سنانے کے لیے حاضر ہوئے ہیں۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے انہیں فرمایا یہ کیسی ہے؟ میں تو بڑھاپے کی آخری دہلیز پر کھڑا ہوں۔ ملائکہ نے عرض کیا آپ کو مایوس نہیں ہونا چاہیے۔ ابراہیم (علیہ السلام) فی الفور فرمانے لگے میں اللہ کی رحمت سے مایوس نہیں ہوں کیونکہ اس کی رحمت سے مایوس گمراہ لوگ ہی ہوا کرتے ہیں۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے جواب سے یہ حقیقت بالکل عیاں ہے کہ وہ اپنے رب کی رحمت پر پورا یقین رکھنے والے تھے لیکن اپنی اور اپنی رفیقۂ حیات کی عمر اور صحت کا خیال کرتے ہوئے خوشخبری پر تعجب کا اظہار فرمایا۔ جس سے ثابت ہوتا ہے وسائل کی کمی اور نا مساعد حالات کی بنا پر حقیقت کے بارے میں تعجب کا اظہار کرنا، اللہ کی رحمت پر مایوس ہونا نہیں ہے لہٰذا تعجب کا اظہار کرنا گناہ نہیں۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے تو اظہار تفصیل کے لئے سوال کیا تھا ورنہ وہ تو اپنے رب کی رحمت سے مایوس نہیں تھے۔ نبی تو اسباب کی ناپیدگی کے باوجود اپنے رب کی رحمت پر بھرپور بھروسہ کرنے والا ہوتا ہے۔ دوسرا اس واقعہ میں یہ بتانا مقصود ہے اے اہل مکہ! یہ حقیقت جان لوکہ تم فرشتوں کے نزول کا مطالبہ کرتے ہو کہ وہ آ کر اس نبی کی تائید کریں تب ہم غور کرنے کے لئے تیار ہوں گے۔ یاد رکھو فرشتے یا تو کسی کے لئے رحمت لے کر آتے ہیں یا زحمت! تم سوچ لو تم کس چیز کے مستحق ہو؟ دوسری بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ بغیر اسباب کے سب کچھ کرسکتا ہے۔ جس طرح ابراہیم (علیہ السلام) کے ہاں اولاد کے بظاہر اسباب نہیں تھے لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کو بچے عنایت فرمائے۔ اسی طرح حالات نامساعد ہی کیوں نہ ہوں اللہ تعالیٰ اپنے دین کو ضرور بر ضرور سرفراز فرمائے گا۔ اللہ اسباب کا پابند نہیں اسباب اللہ کے حکم کے پابند ہیں۔ الحجر
52 الحجر
53 الحجر
54 الحجر
55 الحجر
56 الحجر
57 فہم القرآن ربط کلام : حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے واقعہ میں اللہ تعالیٰ کی بے پایاں رحمت کا عملی ثبوت پیش کیا گیا ہے اور اب حضرت لوط (علیہ السلام) کے واقعہ میں اس کے غضب کی ایک مثال پیش کی جا رہی ہے۔ تاکہ ملائکہ کے نزول کا مطالبہ کرنے والے ملائکہ کے نزول کا پوری طرح فرق سمجھ لیں۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ملائکہ سے خوشخبری سننے اور اس پر اطمینان کا اظہار کرنے کے بعد ان سے استفسار فرماتے ہیں کہ تمہاری آمد کا اور مقصد کیا ہے؟ ملائکہ نے عرض کیا کہ ہم ایک مجرم قوم کی طرف بھیجے گئے ہیں۔ سوائے حضرت لوط (علیہ السلام) اور اس کی آل کے ان کو عذاب سے بچا لیا جائے گا۔ البتہ حضرت لوط (علیہ السلام) کی بیوی نہیں بچ سکے گی۔ کیونکہ ربِّ ذوالجلال کا یہی فیصلہ ہے کہ وہ تباہ وبرباد ہونے والوں میں شامل ہو۔ حضرت لوط (علیہ السلام) اور حضرت نوح (علیہ السلام) کی بیویوں کے بارے میں بتلایا گیا ہے کہ وہ دونوں اللہ کے صالح بندوں کی بیویاں ہونے کے باوجود خیانت کی مرتکب تھیں وہ اپنے خاوندوں جو کہ اپنے اپنے وقت میں اللہ کے رسول تھے۔ ان پر ایمان لانے کی بجائے کفر اختیار کیے ہوئے تھیں۔ جب اللہ تعالیٰ کا ان اقوام پر عذاب نازل ہوا تو حضرت نوح (علیہ السلام) اور حضرت لوط (علیہ السلام) اپنی بیویوں کو عذاب سے نہ بچا سکے۔ حکم ہوا کہ تم دونوں عورتیں جہنم میں داخل ہونے والوں کے ساتھ داخل ہوجاؤ۔ ان کے مقابلے میں ایک بدترین انسان اور حکمران فرعون کی بیوی جنت میں جائے گی بلکہ موت سے پہلے اسے جنت کا نظارہ کروا گیا۔ یہاں حضرت لوط (علیہ السلام) کی قوم کا انجام ذکر کرتے ہوئے واضح کیا گیا ہے کہ حضرت لوط (علیہ السلام) کی بیوی بھی ان کے ساتھ تباہی کے گھاٹ اتر گئی۔ (عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ (رض) قَالَ کَانَتْ خِیَانَتُہُمَا أنَّہُمَا کَانَتَا عَلٰی عَوْرَتَیْہِمَا فَکَانَتْ اِمْرَأۃُ نُوْحٍ تَطْلَعُ عَلٰی سِرِّ نُوْحٍ، فَإذَا آمَنَ مَعَ نُوْحٍ أحَدٌ أخْبَرَتِ الْجَبَابِرَۃَ مِنْ قَوْمِ نُوْحٍ بِہِ، وَأمَّا اِمْرَأۃُ لُوْطٍ فَکَانَتْ إذَا أضَافَ لُوْطُ أحَدًا أخْبَرَتْ بِہِ أہْلَ الْمَدِیْنَۃِ مِمَّنْ یَّعْمَلُ السُّوءَ )[ ابن کثیر] ” حضرت عبداللہ بن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ حضرت نوح اور حضرت لوط (علیہ السلام) کی بیویوں کی خیانت یہ تھی کہ حضرت نوح (علیہ السلام) کی بیوی ان کے راز فاش کرتی تھی۔ جب کوئی شخص حضرت نوح (علیہ السلام) پر ایمان لے آتا تو وہ اس کے بارے میں ظالموں کو بتاتی دیتی اور حضرت لوط (علیہ السلام) کی بیوی ان کے مہمانوں کے بارے میں شہر کے برے لوگوں کو خبر دیتی تھی۔“ اللہ تعالیٰ کے ہاں کردار : (ضَرَبَ اللَّہُ مَثَلاً لِّلَّذِیْنَ کَفَرُوْا امْرَأَۃَ نُوْحٍ وَّامْرَأَۃَ لُوْطٍ کَانَتَا تَحْتَ عَبْدَیْنِ مِنْ عِبَادِنَا صَالِحَیْنِ فَخَانَتَاہُمَا فَلَمْ یُغْنِیَا عَنْہُمَا مِنَ اللَّہِ شَیْءًا وَقِیلَ ادْخُلَا النَّارَمَعَ الدَّاخِلِیْنَ وَضَرَبَ اللَّہُ مَثَلاً لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا امْرَأَۃَ فِرْعَوْنَ إِذْ قَالَتْ رَبِّ ابْنِ لِیْ عِنْدَکَ بَیْتًا فِی الْجَنَّۃِ وَنَجِّنِیْ مِنْ فِرْعَوْنَ وَعَمَلِہٖ وَنَجِّنِیْ مِنَ الْقَوْمِ الظَّالِمِیْنَ) [ التحریم : ١٠] ” اللہ تعالیٰ کافروں کے لیے نوح اور لوط کی بیویوں کو بطور مثال بیان فرماتا ہے۔ وہ دونوں ہمارے بندوں میں سے دو صالح بندوں کے نکاح میں تھیں مگر انہوں نے اپنے شوہروں سے خیانت کی تو وہ اللہ کے مقابلہ میں ان دونوں کے کچھ کام نہ آسکے۔ اور دونوں عورتوں سے کہہ دیا گیا کہ جہنم میں داخل ہونے والوں کے ساتھ داخل ہوجاؤ۔ اہل ایمان کے معاملہ میں اللہ فرعون کی بیوی کی مثال پیش کرتا ہے جب اس نے دعا کی اے میرے رب میرے لیے اپنے ہاں جنت میں ایک گھر بنا دے۔ مجھے فرعون اور اس کے عمل سے بچا اور ظالم قوم سے مجھے نجات عطا فرما۔“ مسائل ١۔ حضرت لوط (علیہ السلام) کی بیوی کے سوا، ان کے ایمان دار ساتھیوں کو بچا لیا گیا۔ تفسیر بالقرآن حضرت لوط کی بیوی کا کردار اور انجام : ١۔ لوط کی بیوی کے سوا اللہ نے انہیں نجات دی۔ (الحجر : ٦٠) ٢۔ ہم نے لوط اور اس کے اہل کو نجات دی مگر لوط کی بیوی پر عذاب مسلط ہوا۔ (الاعراف : ٨٣) ٣۔ نوح اور لوط کی بیویوں نے خیانت کی اللہ انہیں جہنم میں داخل کرے گا۔ (التحریم : ١٠) ٤۔ ہم نے لوط اور اس کے اہل کو نجات دی مگر اس کی بیوی پیچھے رہ جانے والوں میں سے تھی۔ (النمل : ٥٧) الحجر
58 الحجر
59 الحجر
60 الحجر
61 فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ اللہ تعالیٰ کے غضب کی زندہ مثال۔ ملائکہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے الوداع ہونے کے بعد حضرت لوط (علیہ السلام) کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ حضرت لوط (علیہ السلام) بھی حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی طرح ملائکہ کو پہچان نہ سکے۔ فرمانے لگے آپ لوگ تو بالکل اجنبی معلوم ہوتے ہیں۔ ملائکہ عرض کرتے ہیں کہ ہم آپ کے پاس اس کام کے لیے آئے ہیں۔ جس کام کی آمد کے بارے میں آپ کی قوم بےیقینی کا شکار ہے۔ جس کام کے لیے ہم آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے ہیں وہ حقیقت اور ہو کر رہے گا۔ یقین جانیے کہ جو کچھ ہم کہہ رہے ہیں وہ سو فیصد سچ ہے۔ بس آپ جتنا جلدی ہو سکے رات کے آخری پہر اپنے اہل کو لے کر اس بستی سے نکل جائیں۔ آپ کے لیے خصوصی ہدایت یہ ہے کہ آپ نکلنے والے قافلے کے پیچھے پیچھے رہیں اور اپنے ساتھیوں کو حکم دیں کہ ان میں سے کوئی بھی پیچھے مڑ کر نہ دیکھے اور ادھر کی طرف چلے جاؤ جدھر جانے کا تمہیں حکم دیا گیا ہے۔ ہم نے لوط (علیہ السلام) کو یہ فیصلہ سنا دیا کہ صبح ہوتے ہی ان لوگوں کی جڑ کاٹ دی جائے گی۔ حضرت لوط (علیہ السلام) کی قوم ہلاک ہونے والی پہلی اقوام کی طرح نہ صرف حق کا انکار کرتی تھی بلکہ حضرت لوط (علیہ السلام) جب انہیں سمجھاتے تو وہ انہیں یہ کہہ کر طعنہ اور دھمکی دیتے کہ اسے اور اس کے ساتھیوں کو بستی سے نکال باہر پھینکو کیونکہ یہ اپنے آپ کو بڑے پاکباز اور حق پر سمجھتے ہیں۔ (الاعراف : ٨٢) لیکن حضرت لوط (علیہ السلام) ان کو بار بار سمجھاتے رہے۔ مگر قوم سمجھنے کی بجائے حضرت لوط (علیہ السلام) سے عذاب لانے کا مطالبہ کرتی ہے۔ حضرت لوط (علیہ السلام) نے انہیں پھر سمجھایا کہ برے کاموں سے باز آؤ اور اللہ تعالیٰ سے عذاب کا مطالبہ نہ کرو اگر تم برے اعمال سے باز نہیں آؤ گے تو اللہ تعالیٰ کا عذاب بالیقین آ کر رہے گا۔ لیکن قوم نے ان کی کسی بات پر یقین نہ کیا یہاں تک کہ غضب ناک عذاب کا وقت آن پہنچا۔ اس کے بارے میں حضرت لوط (علیہ السلام) کو نہ صرف اس کا وقت بتلا دیا گیا بلکہ یہ ہدایت بھی کردی گئی کہ اللہ تعالیٰ نے جس طرف نکل جانے کی آپ کو ہدایت کی ہے آپ اپنی کافر بیوی کے سوا اہل ایمان کو لے کر جلد از جلد نکل جائیں۔ قرآن مجید نے حضرت لوط (علیہ السلام) اور ان کے ساتھیوں کے جائے ہجرت کا ذکر نہیں کیا۔ حضرت عبداللہ بن عباس کا قول ہے کہ حضرت لوط (علیہ السلام) کوشام کی طرف جانے کا حکم ہوا تھا۔ (تفسیر رازی) مسائل ١۔ حضرت لوط (علیہ السلام) نے فرشتوں کو نہ پہچانا۔ ٢۔ فرشتوں نے حضرت لوط (علیہ السلام) کو رات کے اندھیرے میں نکل جانے کا حکم دیا۔ ٣۔ حضرت لوط (علیہ السلام) کو بتلایا دیا گیا کہ صبح ہونے سے پہلے ان کی قوم پر عذاب آ جائے گا۔ تفسیر بالقرآن ملائکہ کا مختلف مواقعوں پر انسانی شکل میں آنا : ١۔ جب ہمارے بھیجے ہوئے لوط کے پاس آئے تو انہوں نے کہا تم اجنبی معلوم ہوتے ہو۔ (الحجر : ٦١۔ ٦٢) ٢۔ ہمارے ملائکہ ابراہیم کے پاس آئے اور انہوں نے سلام کہا جواباََ ابراہیم نے بھی سلام کہا۔ (ھود : ٦٩) ٣۔ ابراہیم نے فرشتوں سے خوف محسوس کیا تو انہوں نے کہا خوف کھانے کی ضرورت نہیں (ہم ملائکہ ہیں)۔ (الذاریات : ٢٨) ٤۔ جب لوط کے پاس فرشتے آئے تو وہ ان کی وجہ سے مغموم ہوئے۔ (العنکبوت : ٣٣) الحجر
62 الحجر
63 الحجر
64 الحجر
65 الحجر
66 الحجر
67 فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ اوباشوں کا مہمانوں کو دیکھ کر حضرت لوط (علیہ السلام) کے گھر پر یلغار کرنا۔ بڑے بڑے مفسرین نے تاریخ کے حوالے سے یہ بات تحریر فرمائی ہے کہ حضرت لوط (علیہ السلام) کے پاس آنے والے ملائکہ انتہائی خوبصورت لڑکوں کی شکل میں تشریف لائے۔ کیونکہ لوط (علیہ السلام) کی قوم کے لوگ ہم جنسی کے مرض کا شکار تھے یہ لوگ اپنی بیویوں کے ساتھ ازدواجی تعلقات رکھنے اور نوجوان عورتوں سے شادی کرنے کے بجائے لڑکوں کے ساتھ بدکاری کرنے کو ترجیح دیتے تھے۔ حضرت لوط (علیہ السلام) نے انہیں بہت سمجھایا کہ دنیا میں تم پہلے لوگ ہوجو اس جرم میں ملوث ہو۔ اسی سبب جب انہیں معلوم ہوا کہ حضرت لوط (علیہ السلام) کے پاس خوبصورت مہمان آئے ہیں تو وہ مسٹنڈوں کی طرح اچھلتے کودتے حضرت لوط (علیہ السلام) کے گھر پہنچے حضرت لوط (علیہ السلام) اس صورت حال پر اس قدر پریشان ہوئے کہ بے ساختہ کہنے لگے کہ آج کا دن بڑا مشکل دن ہے۔ پھر انہیں سمجھایا ” اے میری قوم کے لوگو! یہ میری بیٹیاں ہیں جو تمہارے لیے جائز ہیں بس اللہ سے ڈرو۔ میرے مہمانوں میں مجھے رسوا نہ کرو۔ جب دیکھا کہ یہ لوگ باز نہیں آرہے تو فرمایا کیا تم میں کوئی بھی شریف آدمی نہیں ہے جو تمہیں اس کام سے منع کرے وہ کہنے لگے تو جانتا ہے کہ ہمیں تیری بیٹیوں میں کوئی دلچسپی نہیں۔ ہم جو کچھ کرنا چاہتے ہیں تو اسے جانتا ہے۔ حضرت لوط (علیہ السلام) انتہائی غمزدہ ہو کر ٹھنڈی آہ بھر کر فرماتے ہیں کہ اے کاش! میں تمہارا مقابلہ کرنے کے قابل ہوتا یا پھر میں مضبوط سہارے کی پناہ لیتا۔ اس پر ملائکہ نے حضرت لوط (علیہ السلام) کو تسلی دی کہ آپ فکر نہ کریں یہ لوگ آپ تک نہیں پہنچ سکیں گے۔ بس آپ نکلنے کی جلد تیاری کریں۔ انہیں صبح کے وقت عذاب آلے گا اور صبح ہونے ہی والی ہے۔ ( ھود : ٧٧۔ ٨١) حضرت لوط (علیہ السلام) کے بار بار سمجھانے کے باوجود وہ آپ کا دروازہ توڑنے کی پے در پے کوشش کرتے رہے جب دروازہ نہ کھلا تو دیواریں پھلانگ کر اندر آئے اور گستاخانہ لہجے میں کہا کہ کیا ہم نے آپ کو بارہا نہیں کہا کہ آپ ساری دنیا کا ٹھیکہ لینے کی کوشش نہ کیا کریں؟ اس پر حضرت لوط (علیہ السلام) نے فرمایا کہ یہ میری بیٹیاں حاضر ہیں۔ (الاعراف : ٨١ کی رو سے ان بدکاروں کی بیویوں کے لیے لوط (علیہ السلام) نے میری بیٹیوں کے الفاظ استعمال کیے۔ النساء کا لفظ قرآن میں بیویوں کے لیے بھی استعمال کیا گیا ہے۔ (النساء : ٤) (ا لطلاق : ١) بیٹیاں حاضر ہونے سے مراد نعوذ باللہ یہ نہیں کہ تم ان سے بدکاری کرسکتے ہو۔ اس جملے کا مقصد یہ ہے کہ تم جائز طریقہ اختیار کرکے ان سے نکاح کرسکتے ہو یہ بھی حقیقت ہے کہ نبی اپنی قوم کا روحانی باپ ہوتا ہے۔ اس لیے انہوں نے قوم کی بیٹیوں کو اپنی بیٹیاں قرار دیا۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ حضرت لوط (علیہ السلام) نے انہیں شرم دلانے کے لیے یہ الفاظ کہے تھے لیکن دل نہیں مانتا کہ حضرت لوط (علیہ السلام) نے اس ارادے سے یہ الفاظ استعمال کیے ہوں۔ کیونکہ عام شخص تو یہ الفاظ کہہ سکتا ہے مگر پیغمبر بے انتہا غیور ہوا کرتے ہیں جن سے ایسے الفاظ کے بارے میں سوچا نہیں جا سکتا۔ (عَنِ الْمُغِیرَۃِ قَالَ سَعْدُ بْنُ عُبَادَۃَ لَوْ رَأَیْتُ رَجُلاً مَعَ امْرَأَتِی لَضَرَبْتُہُ بالسَّیْفِ غَیْرَ مُصْفِحٍ، فَقَال النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) أَتَعْجَبُونَ مِنْ غَیْرَۃِ سَعْدٍ، لأَنَا أَغْیَرُ مِنْہُ وَاللَّہُ أَغْیَرُ مِنِّی)[ رواہ البخاری : باب الغیرۃ] ” حضرت مغیرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ حضرت سعد بن عبادہ (رض) نے کہا کہ میں کسی آدمی کو اپنی عورت کے پاس پاؤں‘ میں تو اسے قتل کردوں گا اور تلوار الٹی نہیں ماروں گا۔ جب نبی گرامی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس بات کی خبر ملی‘ تو آپ نے فرمایا تم سعد کی غیرت پر تعجب کررہے ہو۔ اللہ کی قسم! میں اس سے بھی زیادہ غیرت مند ہوں اور اللہ مجھ سے زیادہ غیرت والا ہے۔“ مسائل ١۔ مہمانوں کی عزت و آبرو کا خیال رکھنا معاشرے کے لیے لازم ہے۔ تفسیر بالقرآن انسانوں کو ہر حال میں اللہ سے ڈرنا چاہیے : ١۔ اللہ سے ڈرو اور مجھے رسوا نہ کرو۔ (الحجر : ٦٩) ٢۔ اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو جس طرح ڈرنے کا حق ہے۔ (آل عمران : ١٠٢) ٣۔ اللہ سے ڈرو اور اطاعت کرو۔ (التغابن : ١٦) ٤۔ اس اللہ سے ڈرو جس کے سامنے تم اکٹھے کیے جاؤ گے۔ (المائدۃ: ٩٦) ٥۔ اے مومن بندو! اپنے پروردگار سے ڈرو۔ (الاحزاب : ٧٠) ٦۔ اللہ سے ڈرو اگر تم مومن ہو۔ (المائدۃ : ٥٧) الحجر
68 الحجر
69 الحجر
70 الحجر
71 الحجر
72 فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ قوم لوط (علیہ السلام) کی بدمعاشی کی انتہا۔ قوم لوط (علیہ السلام) کے بدمعاشوں کی بے حیائی اور غنڈہ گردی اس قدر حد سے بڑھ چکی تھی کہ حضرت لوط (علیہ السلام) انتہائی پریشان ہو کر بے ساختہ پکار اٹھے کہ کاش تمہارے مقابلے کے لیے میرے پاس قوت ہوتی یا پھر کوئی مضبوط پناہ گاہ۔ (ھود : ٨٠) اس کے باوجود غنڈوں کو شرم نہ آئی تو انہوں نے فرمایا میری بیٹیاں حاضر ہیں۔ (لاعراف : ٨١) حالانکہ وہ لوگ کسی اعتبار سے بھی اس لائق نہ تھے کہ حضرت لوط (علیہ السلام) انھیں اپنی دامادی میں لینے کے لیے تیار ہوتے لیکن مہمانوں کی تکریم اور اپنی بے بسی کی وجہ سے حضرت لوط (علیہ السلام) نے انتہا درجے کی پریشانی میں یہ بات کہی۔ حضرت لوط (علیہ السلام) کے اضطراب اور بدمعاشوں کی غنڈہ گردی کی منظر کشی کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے نبی آخرالزماں (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عمر کی قسم کھا کر فرمایا ہے اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ کی عمر کی قسم! اس وقت وہ لوگ بے حیائی کے نشے میں اندھے ہوچکے تھے۔ اس فرمان میں ایک طرف ان کی انتہائی بدمعاشی اور غنڈہ گردی کی عکاسی کی گئی ہے تو دوسری طرف یہ اشارہ بھی موجود ہے کہ اے نبی! آپ کے مخالف بھی آپ کی مخالفت میں اندھے ہوچکے ہیں۔ ان لوگوں کو قوم لوط کا انجام اپنے سامنے رکھنا چاہیے۔ اس کے ساتھ ہی آپ کی عزت و عظمت کو دوبالا کرنے کے لیے آپ کی عمر کی قسم کھائی گئی ہے۔ جس سے بڑھ کر آپ کی پاکدامنی کا اور ثبوت نہیں ہو سکتا۔ مفسر قرآن حضرت عبداللہ بن عباس (رض) فرمایا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے پوری کائنات میں کسی کی عمر کی قسم نہیں کھائی یہ اعزاز و اکرام صرف ہمارے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بخشا گیا ہے۔ جہاں تک اللہ تعالیٰ کا مخلوق کی قسم کھانے کا معاملہ ہے یہ اس کی مرضی اور حکمت ہے وہ جس کی چاہے قسم کھائے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں ہے اسی لیے انسان کے ذہن میں کسی حقیقت کو دو چند کرنے کے کے لیے اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق میں کسی چیزکی قسم اٹھاتا ہے تو اس سے اس بات اور کام کی اہمیت میں اضافہ کرنا مقصود ہوتا ہے۔ قسم کا یہ مفہوم نہیں ہوتا کہ جس چیز کی قسم کھائی جا رہی ہے کہ وہ قسم کھانے والے سے لازماََ بڑی یا عظیم تر ہے۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عظمت : (عَنْ أبِی ذَرِّ الْغَفَّارِیِّ قَالَ قُلْتُ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ کَیْفَ عَلِمْتَ أنَّکَ نَبِیٌّ حَتّٰی اسْتَیْقَنْتُ ؟ فَقَالَ یَا أبَا ذَرٍّ أتَانِی مَلَکَانِ وَأنَا بَ بَعْضَ بَطْحَاءَ مَکَّۃَ فَوَقَعَ أحَدُہُمَا عَلٰی الأرْضِ وَکَان الآخَرُ بَیْنَ السَّمَاءِ وَالأرْضِ فَقَالَ أحَدُہُمَا لِصَاحِبِہِ أہُوَ ہُوَ ؟ قَالَ نَعَمْ قَالَ فَزِنْہٗ بَرَجُلٍ فَوَزَنَتْ بِہِ فَوَزَنَتْہٗ ثُمَّ قَالَ زِنْہٗ بِعَشْرَۃٍ فَوَزَنَتْ بِہِمْ فَرَجَحْتُہُمْ ثُمَّ قَالَ زِنْہٗ بِمِاءَۃِ فَوَزَنَتْ بِہِمْ فَرَجَحْتُہُمْ کَأنِّی أنْظُرُ إلَیْہِمْ یَنْتَثِرُوْنَ عَلٰی مَنْ خِفَّۃِ الْمِیْزَانِ قَالَ فَقَالَ أحَدُہُمَا لِصَاحِبِہِ لَوْ وَزَنْتَہٗ بِأمِّتِہِ لَرَجَحَہَا) [ رواہ الدارمی ] ” حضرت ابوذر غفاری (رض) بیان کرتے ہیں میں نے عرض کی اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ نے کیسے جانا کہ آپ اللہ کے نبی ہیں تاکہ میں بھی یقین کرسکوں آپ نے فرمایا اے ابوذر میرے پاس دو فرشتے آئے اور وہ بطحاء کی وادی میں گھومے پھرے، ایک ان میں سے زمین پر آیا اور دوسرا آسمان و زمین کے درمیان میں رہا۔ ان میں سے ایک نے اپنے ساتھی سے کہا کیا یہ وہی ہے اس نے کہا ہاں اس نے کہا پھر ان کا وزن ایک آدمی کے ساتھ کیجیے۔ میرا وزن ایک آدمی کے ساتھ کیا گیا میں بھاری نکلا، فرشتے نے کہا ان کا وزن دس آدمیوں کے ساتھ کیا جائے میں پھر بھی بھاری نکلا، پھر فرشتے نے کہا ان کا وزن سو آدمیوں کے ساتھ کیجیے تو میں پھر بھی بھاری نکلا۔ فرشتے نے کہا اگر تو ان کا وزن ان کی پوری امت کے ساتھ کرے گا تو یہ تب بھی بھاری نکلیں گے۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ جس کی چاہے قسم کھائے۔ ٢۔ مجرم اپنی مدہوشی میں بہکے رہتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ کی قسموں کے چند حوالے : ١۔ آپ کی جان کی قسم! وہ اپنی مدہوشی میں مست ہیں۔ (الحجر : ٧٢) ٢۔ قسم ہے ان ہواؤں کی! جو بھیجی جاتی ہیں۔ (المرسلات : ١) ٣۔ قسم ہے جان سختی سے نکالنے والے فرشتوں کی۔ (النازعات : ١) ٤۔ قسم ہے برجوں والے آسمان کی۔ (البروج : ١) ٥۔ قسم ہے آسمان کی اور رات کو نمودار ہونے والی چیز کی۔ (الطارق : ١) ٦۔ قسم ہے فجر کی۔ (الفجر : ١) ٧۔ میں قسم کھاتا ہوں مکہ شہر کی۔ (البلد : ١) ٨۔ قسم ہے آفتاب اور اس کی روشنی کی۔ (الشمس : ١) ٩۔ قسم ہے آپ کے رب کی وہ مومن نہیں ہو سکتے حتی کہ آپ اپنے درمیان فیصل تسلیم کرلیں۔ (النساء : ٦٥) الحجر
73 فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ بدمعاشوں کی بدمعاشی کا منظر پیش کرنے کے بعد ان کا انجام بیان کیا گیا ہے۔ ملائکہ نے حضرت لوط (علیہ السلام) کو پہلے ہی بتلا دیا تھا کہ صبح کے وقت آپ کی قوم کو اللہ کا عذاب آ لے گا۔ جونہی عذاب کی گھڑی آ پہنچی تو حضرت جبرئیل امین (علیہ السلام) نے پوری بستی کو اٹھایا اور اس قدر اونچا لے جا کر اسے الٹ کر زمین پر دے مارا کہ بستی والوں کے چیخنے کی آوازیں آسمان کے ملائکہ تک نے سنیں۔ جس پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ سورج نکلنے کے قریب ہی وہ پکڑے گئے اور ہم نے اس بستی کے اوپرکے حصہ کو نیچے کردیا اور پھر ان پر پتھر برسائے گئے جن پر مخصوص نشان لگے ہوئے تھے۔ (الذاریات : ٣٤) ارشاد ہوتا ہے کہ اس واقعہ میں صاحب بصیرت لوگوں کے لیے بڑی عبرت ہے اور یہ علاقہ شاہراہ عام پر واقع ہے۔ قوم لوط کی بستیاں مدینہ سے مدین جاتے ہوئے راستے میں پائی جاتی ہیں اور آج بھی ان کے کھنڈرات عبرت کا نقشہ پیش کر رہے ہیں۔[ رواہ البخاری : کتاب الانبیاء باب قولہٖ تعالیٰ والیٰ ثمود اخاھم صالحا] دنیا کے موجو دہ جغرافیے میں یہ بحر مردار اردن کی سر زمین میں واقع ہے۔ پچاس میل لمبا، گیارہ میل چوڑا ہے اس کا کل رقبہ ٣٥١ مربع میل ہے۔ اس کی زیادہ سے زیادہ گہرائی تیرہ سو فٹ پیمائش کی گئی ہے۔ یہ اسرائیل اور اردن کی سرحد پر واقع ہے اور اس کا کسی بڑے سمندر کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ گویا کہ یہ ایک بہت بڑی جھیل بن چکی ہے۔ اس کی نمکیات اور کیمیائی اجزاء عام سمندروں سے کہیں زیادہ ہے۔ اس کے قریب ترین سمندر بحر روم ہے۔ جدید محققین نے اسی جگہ پر لوط (علیہ السلام) کی قوم کی بستیوں کی نشاندہی کی ہے۔ جو کسی زمانے میں یہاں صدوم عمود کے نام سے بڑے شہر آباد تھے۔ مصرکے محقق عبدالوہاب البخار نے بھرپور دلائل کے ساتھ یہ ثابت کیا ہے کہ عذاب سے پہلے اس جگہ پر کوئی سمندر نہیں تھا۔ جب اللہ کے عذاب کی وجہ سے اس علاقے کو الٹ دیا گیا تو یہ ایک چھوٹے سے سمندر کی شکل اختیار کر گیا۔“ ١۔ اس کے پانی کی خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس میں نمکیات کا تناسب پچیس فیصد ہے جب کہ دنیا کے تمام سمندروں میں نمکیات کا تناسب چار سے چھ فیصد شمار کیا گیا ہے۔ ٢۔ اس کے کنارے نہ کوئی درخت ہے اور نہ ہی اس میں کوئی جانور زندہ رہ سکتا ہے حتی کہ سیلاب کے موقع پر دریائے اردن سے آنے والی مچھلیاں اس میں داخل ہوتے ہی تڑپ تڑپ کر مر جاتی ہیں۔ اہل عرب اس کو بحیرہ لوط بھی کہتے ہیں۔ اس صورت حال کو قرآن مجید نے ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے۔ مسائل ١۔ قوم لوط کو آواز نے پکڑ لیا۔ ٢۔ قوم لوط کی بستی کو الٹ دیا گیا۔ ٣۔ قوم لوط پر پتھروں کی بارش برسائی گئی۔ ٤۔ اہل بصیرت کے لئے اس واقعہ میں نشانیاں ہیں۔ ٥۔ قوم لوط کی بستی ایک آباد راستہ پر ہے۔ تفسیر بالقرآن قوم لوط کے واقعہ کی تفسیر : ١۔ ہم نے اس بستی کو الٹ کر ان پر پتھروں کی بارش برسائی۔ (الحجر : ٧٤) ٢۔ ان کے پاس ان کی قوم کے لوگ دوڑتے ہوئے آئے اور وہ پہلے سے ہی بدکاریاں کیا کرتے تھے۔ (ھود : ٧٨) ٣۔ لوط نے کہا کہ کاش میرے پاس طاقت ہوتی یا میں کوئی مضبوط پناہ گاہ پاتا۔ (ھود : ٨٠) ٤۔ ہم نے اوپر والی سطح کو نیچے کردیا اور ہم نے ان پر پتھروں کی بارش برسا دی جو تہہ بہ تہہ تھے خاص نشان لگے ہوئے۔ (ھود : ٨٢) الحجر
74 الحجر
75 الحجر
76 الحجر
77 الحجر
78 فہم القرآن ربط کلام : قوم لوط کے بعد اصحاب ایکہ کا انجام۔ ” اصحاب الایکۃ“ سے مراد حضرت شعیب (علیہ السلام) کی قوم ہے۔ جنہیں تاریخ میں قوم مدین کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اہل مدین عرب کے باشندے تھے۔ مدین حجاز کی سر زمین کے متصل اور بحیرۂ لوط کے قریب ہے۔ حضرت لوط (علیہ السلام) کی قوم کے بعد اپنے علاقہ میں نمایاں حیثیت کی حامل تھی۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف خطیب الانبیاء حضرت شعیب (علیہ السلام) کو مبعوث فرمایا تھا۔ یہ لوگ عقیدہ کے اعتبار سے کافر تھے۔ پرلے درجے کے راہزن، ناپ تول میں کمی بیشی کرنے والے، خیانت اور ملاوٹ میں ملوث اپنے علاقے کے خاص قسم کے درخت کو متبرک سمجھ کر اس کی پوجا کرتے۔ اس درخت کے ارد گرد درختوں کا بہت بڑا جھنڈ تھا۔ جس وجہ سے انہیں ” اصحاب الایکۃ“ کہا جاتا ہے۔ ان کے جرائم کی تفصیل دیکھنے کے لیے سورۃ الاعراف آیت : ٨٥ تا ٩٣ کی تفسیرملاحظہ فرمائیں۔ حضرت شعیب (علیہ السلام) نے انہیں جرائم سے باز رکھنے کی بڑی جدو جہد فرمائی۔ مگر یہ اس قدر ظالم اور سفاک لوگ تھے کہ انہوں نے حضرت شعیب (علیہ السلام) کے ساتھیوں پر مظالم کی انتہا کردی اور انہیں اپنے دین پر واپس لانے کے لیے دھمکیاں دیتے اور ظلم کرتے رہے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں شدید زلزلے سے دوچار کیا اور انہیں ایک ایسے دھماکہ نے آلیا کہ یہ لوگ اپنے گھروں میں اوندھے منہ موت کے گھاٹ اتر گئے۔ جس کے بارے میں فرمایا کہ ہم نے ان سے انتقام لیا ان کا علاقہ اور انجام تمہارے سامنے ہے۔ (عَنْ أَبِیْٓ أُمَامَۃَ، قَالَ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)، یَقُوْلُ إِذَا مَرَرْتُمْ عَلٰی أَرْضٍ قَدْ أُہْلِکَ أَہْلُہَا فَاعْدُوا السَّیْرَ) [ رواہ الطبرانی فی الکبیروہو حدیث صحیح ] ” حضرت ابو امامہ (رض) بیان کرتے ہیں میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا، آپ فرماتے تھے جب تم ایسی زمین سے گزرو جس کے بسنے والوں کو ہلاک کیا گیا ہو تو وہاں سے جلدی گزر جاؤ۔“ مسائل ١۔ ایکہ بستی والے ظالم تھے۔ ٢۔ دونوں بستیاں شاہراہ پر واقع ہیں۔ الحجر
79 الحجر
80 فہم القرآن ربط کلام : اصحاب الایکہ کے بعد اصحاب الحجر کی تاریخ اور ان کا انجام۔ اصحاب الحجر سے مراد وہ قوم اور علاقہ ہے جو مدینہ سے تبوک جاتے ہوئے راستے میں پڑتا ہے۔ یہ علاقہ جغرافیائی اعتبار سے خلیج اربعہ کے مشرق میں اور شہر مدین کے جنوب مشرق میں واقع ہے۔ یہ قوم اس قدر ٹیکنالوجی اور تعمیرات کے معاملے میں ترقی یافتہ تھی کہ انہوں نے پہاڑوں کو تراش تراش کر مکانات اور محلات تعمیر کیے تھے تاکہ کوئی زلزلہ اور طوفان انہیں نقصان نہ پہنچا سکے۔ یہ قوم بھی کفرو شرک کا عقیدہ رکھنے کے ساتھ ہر قسم کے جرائم میں ملوث تھی۔ حضرت صالح (علیہ السلام) نے بہت سمجھایا مگر یہ لوگ کفر و شرک اور برے اعمال سے باز نہ آئے۔ حضرت صالح (علیہ السلام) اور ان کے ایماندار ساتھیوں کے بارے میں یہ پروپیگنڈہ کرتے کہ تم ہمارے لیے نحوست کا سبب ہو اور حضرت صالح (علیہ السلام) پر جادو کا اثر ہوچکا ہے۔ (الشعراء : ١٤٢ تا ١٥٣) انھوں نے حضرت صالح (علیہ السلام) سے کہا کہ ہم اس وقت تک ایمان نہیں لائیں گے جب تک ہمارے سامنے اس پہاڑ سے گابھن اونٹنی نمودار نہ ہو۔ حضرت صالح (علیہ السلام) نے انہیں بہت سمجھایا کہ اس طرح معجزہ طلب نہ کرو۔ اگر تمہارا منہ مانگا معجزہ ظاہر کردیا گیا۔ اور تم نے اس کا انکار کیا تو پھر تمہارا بچنا مشکل ہوگا۔ لیکن قوم ثمود نے اونٹنی کاٹ دیں۔ جسکے سبب عذاب نا زل ہوا۔ جس کا یہاں ذکر کیا گیا ہے تفصیل جاننے کے لیے سورۃ الاعراف کی آیت : ٧٣ تا ٧٩ کی تفسیر ملاحظہ فرمائیں۔ الحجر
81 الحجر
82 الحجر
83 الحجر
84 الحجر
85 فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ مجرموں نے یہ سمجھ لیا ہے کہ یہ دنیا ہمیشہ رہے گی اور قیامت برپا نہیں ہوگی۔ حالانکہ قیامت یقیناً برپا ہو کر رہے گی۔ انبیاء کرام (علیہ السلام) توحید و رسالت کے بعد جس عقیدہ پر سب سے زیادہ زور دیتے تھے وہ مر کر اٹھنا اور اللہ کے حضور اپنے اعمال کا جواب دینا ہے۔ جسے عرف عام میں فکر آخرت کا عقیدہ کہا جاتا ہے۔ انسان جب آخرت کی جواب دہی کی فکر سے آزاد ہوجاتا ہے تو وہ نہ صرف دنیا کو ہی سب کچھ سمجھتا ہے بلکہ وہ ہر کام میں من مرضی کرنے کو اپنا حق سمجھتا ہے۔ دنیا پرستی اور لذت نفس کی خاطر وہ جرائم میں آگے ہی بڑھتا جاتا ہے۔ بالآخر وہ یہ سمجھ بیٹھتا ہے کہ یہ دنیا ہمیشہ رہنی ہے اور اللہ تعالیٰ نے محض اسے اپنی دل لگی کے لیے پیدا کیا۔ اس باطل اور بے بنیاد نظریہ کی تردید کے لیے قرآن مجید میں سینکڑوں دلائل دیے گئے ہیں۔ جن سے ثابت ہوتا ہے کہ اس دنیا نے ہمیشہ قائم نہیں رہنا اور بالآخر انسان نے اپنے رب کی بارگاہ میں پیش ہو کر اپنے اعمال کا جواب دینا اور اسے اچھے یا برے انجام کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس بات کو مختصر الفاظ میں یوں بیان کیا گیا ہے۔ ” ہم نے زمین و آسمانوں کو اور جو کچھ ان کے درمیان ہے اسے حق کے ساتھ تخلیق فرمایا ہے۔“ (الاحقاف : ٣) حق سے مراد ہے کہ انہیں بے مقصد پیدا نہیں کیا۔ بلکہ سب انسان کی خدمت کے لیے پیدا کئے گئے ہیں اور انسان کو اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے۔ جو لوگ اپنے رب کی عبادت میں زندگی صرف کریں گے وہ جزا پائیں گے اور جنہوں نے اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے کے بجائے اس کی نافرمانی کا راستہ اختیار کیا انہیں ٹھیک ٹھیک سزا دی جائے گی۔ لہٰذا اے پیغمبر ! قیامت کا برپا ہونا یقینی ہے جو لوگ اس کا انکار کرتے اور آخرت کو جھٹلاتے ہوئے لایعنی گفتگو کرتے ہیں ان سے الجھنے کی بجائے صبروتحمل اختیار کرکے انہیں ان کی حالت پر چھوڑ دیں۔ یقیناً آپ کا رب سب کو پیدا کرنے اور ہر چیز کا علم رکھنے والاہے۔ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ (رض) أَنَّ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ لاَ تَقُوم السَّاعَۃُ حَتَّی تَطْلُعَ الشَّمْسُ مِنْ مَغْرِبِہَا فَإِذَا طَلَعَتْ فَرَآہَا النَّاسُ آمَنُوا أَجْمَعُونَ، فَذَلِکَ حینَ لاَ یَنْفَعُ نَفْسًا إِیمَانُہَا، لَمْ تَکُنْ آمَنَتْ مِنْ قَبْلُ، أَوْ کَسَبَتْ فِی إِیمَانِہَا خَیْرًا، وَلَتَقُومَنَّ السَّاعَۃُ وَقَدْ نَشَرَ الرَّجُلاَنِ ثَوْبَہُمَا بَیْنَہُمَا فَلاَ یَتَبَایَعَانِہِ وَلاَ یَطْوِیَانِہِ، وَلَتَقُومَنَّ السَّاعَۃُ وَقَدِ انْصَرَفَ الرَّجُلُ بِلَبَنِ لِقْحَتِہِ فَلاَ یَطْعَمُہُ، وَلَتَقُومَنَّ السَّاعَۃُ وَہْوَ یَلِیطُ حَوْضَہُ فَلاَ یَسْقِی فیہِ، وَلَتَقُومَنَّ السَّاعَۃُ وَقَدْ رَفَعَ أُکْلَتَہُ إِلَی فیہِ فَلاَ یَطْعَمُہَا)[ رواہ البخاری : باب قَوْلِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بُعِثْتُ أَنَا وَالسَّاعَۃَ کَہَاتَیْنِ ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں آپ نے فرمایا قیامت قائم نہ ہوگی یہاں تک کہ سورج مغرب سے طلوع ہوجائے جب سورج مغرب سے طلوع ہوگا تو اسے دیکھ کرتمام کے تمام لوگ ایمان لے آئیں گے۔ لیکن اس وقت اس کے ایمان لانے کا کوئی فائدہ نہ ہوگا جو اس سے قبل نہ ایمان لایا اور نہ اس نے نیک اعمال کیے۔ دو آدمیوں نے کپڑا پھیلایا ہوگا دکاندار کپڑے کو بیچ اور سمیٹ نہیں پائے گا کہ قیامت قائم ہوجائے گی۔ دودھ دوہنے والادودھ پی نہیں سکے گا کہ قیامت قائم ہوجائے گی۔ حوض پروارد ہونے والا پانی نہیں پی سکے گا کہ قیامت قائم ہوجائے گی۔ انسان اپنے منہ میں ڈالا ہوا لقمہ کھا نہیں پائے گا کہ قیامت قائم ہوجائے گی۔“ مسائل ١۔ زمین و آسمان میں جو کچھ ہے، بے مقصدپیدا نہیں کیا گیا۔ ٢۔ قیامت ضرور آئے گی۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ ہی ہر چیز کا خالق ہے۔ تفسیر بالقرآن قیامت برپا ہو کر رہے گی : ١۔ یقیناً قیامت آنے والی ہے۔ (الحجر : ٨٥) ٢۔ یقیناً قیامت آنے والی ہے اور اللہ قبروالوں کو اٹھائے گا۔ (الحج : ٧) ٣۔ اللہ کا وعدہ سچا ہے اور قیامت برپا ہونے میں کوئی شک نہیں۔ (الکہف : ٢١) ٤۔ بے شک قیامت آنے والی ہے۔ میں اس کو پوشیدہ رکھنا چاہتا ہوں تاکہ ہر کسی کو جزا یا سزا ملے۔ (طہٰ: ١٥) ٥۔ اے لوگو! اللہ سے ڈر جاؤ بے شک قیامت کا زلزلہ بہت بڑی چیز ہے۔ (الحج : ١) ٦۔ کافر ہمیشہ شک میں رہیں گے، یہاں تک کہ قیامت اچانک آجائے۔ (الحج : ٥٥) ٧۔ ہم نے قیامت کے دن جھٹلانے والوں کے لیے آگ کا عذاب تیار کیا ہے۔ (الفرقان : ١١) الحجر
86 الحجر
87 فہم القرآن ربط کلام : سابقہ اقوام کے عبرت ناک انجام کے بعد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی و اطمینان دیتے ہوئے سورۃ کے اختتام میں گذشتہ تمام مضامین کو سمیٹا جا رہا ہے۔ اے پیغمبر! آپ کو منکرین کے ساتھ اس لئے بھی نہیں الجھنا چاہیے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو سورۃ الفاتحہ اور قرآن مجید کی صورت میں عظیم دولت سے مالا مال کیا ہے۔ جس میں منکرین کا انجام اور اللہ کے بندوں کا انعام بیان کیا گیا ہے۔ نبوت کا منصب بذات خود اس قدر اعلیٰ و ارفع ہے کہ دنیا کا کوئی منصب اور نعمت اس کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔ مزید انعام و احسان یہ کہ نبوت کے منصب کے ساتھ اللہ تعالیٰ اس شخصیت کو اپنی کتاب بھی عطا فرما دے۔ صاحب کتاب نبی جسے ” الرسول“ بھی کہا گیا ہے۔ یہ وہ منصب ہے کہ جس کا موازنہ اور مقابلہ کسی فرشتے کے ساتھ بھی نہیں کیا جا سکتا۔ بالخصوص ہمارے رسول مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا وہ منصب اور مقام ہے جس کی مثال کائنات کی کسی چیز سے نہیں دی جاسکتی۔ جس طرح آپ کی ذات اور مقام بے مثال اور عالی مرتبت ہے اسی طرح قرآن مجید کی صورت میں جو کتاب آپ کو عنایت کی گئی ہے۔ اس کی مثل کوئی دوسری کتاب نہیں ہو سکتی۔ اس لیے ارشاد ہوتا ہے کہ اے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ہم نے آپ کو بار بار دہرائی جانے والی سات آیات یعنی سورۃ الفاتحہ اور قرآن مجید، فرقان حمید عنایت فرمایا ہے۔ لہٰذا لوگوں کو بتلائیں کہ تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے ایسی نصیحت آچکی ہے جو دلوں کی بیماریوں کے لیے شفا، تمہاری زندگی کے لیے رہنما اور اس پر ایمان لانے والوں کے لیے رحمت ہے۔ لہٰذا اللہ کے فضل اور اس کی رحمت پر خوش ہوجاؤ۔ یہ سراسر بہتر ہے اس سے جو اپنے لیے جمع کرتے ہو۔ ( یونس : ٥٧۔ ٥٨) اس گراں مایہ خزانے کے ساتھ آپ کو سورۃ فاتحہ کی صورت میں سات آیات عنائت کی گئی ہیں۔ جو بار بار پڑھی جانے والی ہیں۔ قرآن مجید سورۃ فاتحہ کی زبان میں انعام یافتہ، مغضوب اور گمراہ لوگوں کے حوالے سے قوموں کے عروج وزوال بیان کرتا ہے تاکہ سمع واطاعت اور تسلیم ورضاکا رویّہ اختیار کرنے والوں کو بہترین انجام اور ان کا مرتبہ و مقام بتلایا جائے، باغیوں اور نافرمانوں کو ان کے انجام سے ڈرایاجائے۔ قرآن مجید کے باقی ارشادات واحکامات انہی مضامین کی تفصیلات اور تقاضے ہیں اور یہی قرآن کا پیغام ہے۔ اسی بنیاد پر سورۃ الحمد کو فاتحہ اور ام الکتاب کا نام دے کر اس کو کتاب مبین کی ابتدا میں رکھا گیا ہے۔ فاتحہ کی فضیلت : (عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ (رض) قَالَ بَیْنَمَا جِبْرِیْلُ قَاعِدٌ عِنْدَ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سَمِعَ نَقِیْضًا مِّنْ فَوْقِہٖ فَرَفَعَ رَأْسَہٗ فَقَالَ ہٰذَا بَابٌ مِّنَ السَّمَآءِ فُتِحَ الْیَوْمَ لَمْ یُفْتَحْ قَطُّ إِلَّا الْیَوْمَ فَنَزَلَ مِنْہُ مَلَکٌ فَقَالَ ہٰذَا مَلَکٌ نَزَلَ إِلَی الْأَرْضِ لَمْ یَنْزِلْ قَطُّ إِلَّا الْیَوْمَ فَسَلَّمَ فَقَالَ أَبْشِرْ بِنُوْرَیْنِ أُوْتِیْتَھُمَا لَمْ یُؤْتَھُمَا نَبِیٌّ قَبْلَکَ فَاتِحَۃِ الْکِتَابِ وَخَوَاتِیْمِ سُوْرَۃِ الْبَقَرَۃِ لَنْ تَقْرَأَ بِحَرْفٍ مِّنْھُمَا إِلَّآ أُعْطِیْتَہٗ) [ رواہ مسلم : کتاب صلاۃ المسافرین وقصرھا، باب فضل الفاتحۃ] ” حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک دن حضرت جبرائیل (علیہ السلام) رسول اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس بیٹھے ہوئے تھے۔ اس دوران انہوں نے اوپر سے ایک زور دار آواز سنی اور اپنا سر اٹھا کر فرمایا کہ آسمان کا جو دروازہ آج کھولا گیا ہے یہ اس سے پہلے کبھی نہیں کھولا گیا۔ اس دروازے سے ایک فرشتہ نازل ہوا یہ ایسا فرشتہ ہے جو آج ہی زمین پر نازل ہوا ہے اس سے پہلے کبھی نہیں اترا۔ پھر اس فرشتے نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سلام کیا اور کہا : دونوروں کی خوشخبری سنیے ! یہ دونوں نور آپ ہی کو عطا کیے گئے ہیں اور آپ سے پہلے کسی نبی کو عطا نہیں ہوئے۔ ایک فاتحۃ الکتاب اور دوسراسورۃ البقرۃ کی آخری آیات۔ آپ ان دونوں میں سے کوئی کلمہ تلاوت کریں گے تو آپ کی مانگی مراد پوری ہوجائے گی۔“ فاتحہ کی عظمت : (عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خَرَجَ عَلٰٓی أُبَیِّ بْنِ کَعْبٍ (رض) فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَا أُبَیُّ وَہُوَ یُصَلِّی فَالْتَفَتَ أُبَیٌّ وَلَمْ یُجِبْہُ وَصَلَّی أُبَیٌّ فَخَفَّفَ ثُمَّ انْصَرَفَ إِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَقَال السَّلاَمُ عَلَیْکَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وَعَلَیْکَ السَّلاَمُ مَا مَنَعَکَ یَا أُبَیُّ أَنْ تُجِیْبَنِیْٓ إِذْ دَعَوْتُکَ فَقَالَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ إِنِّیْ کُنْتُ فِی الصَّلاَۃِ قَالَ أَفَلَمْ تَجِدْ فِیْمَآ أَوْحَی اللّٰہُ إِلَیَّ أَنِ (اسْتَجِیْبُوْا لِلّٰہِ وَلِلرَّسُوْلِ إِذَا دَعَاکُمْ لِمَا یُحْیِیْکُمْ) قَالَ بَلٰی وَلاآأَعُودُ إِنْ شَآء اللّٰہُ قَالَ تُحِبُّ أَنْ أُعَلِّمَکَ سُورَۃً لَمْ یَنْزِلْ فِی التَّوْرَاۃِ وَلاَ فِی الإِنْجِیْلِ وَلاَ فِی الزَّبُوْرِ وَلاَ فِیْ الْفُرْقَانِ مِثْلُہَا قَالَ نَعَمْ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ کَیْفَ تَقْرَأُ فِی الصَّلاَۃِ قَالَ فَقَرَأَ أُمَّ الْقُرْآنِ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہٖ مَا أُنْزِلَتْ فِی التَّوْرَاۃِ وَلاَ فِی الإِنْجِیْلِ وَلاَ فِی الزَّبُوْرِ وَلاَ فِی الْفُرْقَانِ مِثْلُہَا وَإِنَّہَا سَبْعٌ مِّنَ الْمَثَانِیْ وَالْقُرْآنَ الْعَظِیْمُ الَّذِیْٓ أُعْطِیَتُہٗ) [ رواہ الترمذی : کتاب فضائل القرآن، باب مَآ جَاءَ فِی فَضْلِ فَاتِحَۃِ الْکِتَابِ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں بے شک رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ابی بن کعب کے ہاں تشریف لے گئے۔ آپ نے اسے آواز دی وہ نماز پڑھ رہے تھے۔ حضرت ابی (رض) نے التفات فرمایا اور جواب نہ دیا لیکن اپنی نماز کو ہلکا کردیا، پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف آیا۔ تو اس نے کہا آپ کو سلام کہا! رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سلام کا جواب دیا اے ابی ! کس چیز نے تجھے جواب دینے سے روکے رکھا، اس نے کہا اللہ کے رسول میں نماز ادا کر رہا تھا آپ نے فرمایا کیا تو قرآن مجید میں یہ بات نہیں پاتا کہ اللہ اور اس کے رسول کی پکار کا جواب دو۔ جب وہ تمہیں بلائیں ایسی چیز کی طرف جو تمھیں زندگی بخشنے والی ہے۔ اس نے کہا کیوں نہیں انشاء اللہ دوبارہ ایسے نہیں کروں گا۔ آپ نے فرمایا کیا تو پسند کرتا ہے کہ میں تجھے ایسی سورۃ سکھلاؤں جو توراۃ، انجیل، زبور اور قرآن مجید میں نہیں ہے اس نے کہا جی ہاں اے اللہ کے رسول ! آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دریافت کیا تو نماز میں کیا پڑھتا ہے حضرت ابی نے سورۃ فاتحہ پڑھی۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا قسم ہے مجھے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے۔ اس جیسی سورۃ توراۃ، انجیل، زبور اور قرآن مجید میں نازل نہیں ہوئی اور یقیناً یہ سات آیات ہیں اور عظمت والا قرآن ہے جو مجھے عطا کیا گیا ہے۔“ (عَنْ عُبَادَۃَ بْنِ الصَّامِتِ (رض) قَالَ کُنَّا خَلْفَ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فِی صَلاَۃِ الْفَجْرِ فَقَرَأَ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَثَقُلَتْ عَلَیْہِ الْقِرَاءَ ۃُ فَلَمَّا فَرَغَ قَالَ لَعَلَّکُمْ تَقْرَءُ ونَ خَلْفَ إِمَامِکُمْ قُلْنَا نَعَمْ ہَذَا یَا رَسُول اللَّہِ قَالَ لاَ تَفْعَلُوا إِلاَّ بِفَاتِحَۃِ الْکِتَابِ فَإِنَّہُ لاَ صَلاَۃَ لِمَنْ لَمْ یَقْرَأْ بِہَا ) [ رواہ ابوداؤد : باب مَنْ تَرَکَ الْقِرَاءَ ۃَ فِی صَلاَتِہِ بِفَاتِحَۃِ الْکِتَابِ] ” حضرت عبادہ بن صامت (رض) بیان کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پیچھے صبح کی نماز پڑھ رہے تھے آپ پر قرأت بھاری ہوگئی۔ جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا کیا تم امام کے پیچھے قرأت کرتے ہو ؟ ہم نے عرض کی جی ہاں۔ آپ نے فرمایا تم صرف سورۃ فاتحہ پڑھا کروکیونکہ اس کے بغیر نماز نہیں ہوتی۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو الفاتحہ کی صورت میں سات آیات دیں جو بار بار پڑھی جاتی ہیں۔ تفسیر بالقرآن قرآن مجید کے اوصاف اور عظمت : ١۔ اللہ نے رسول اللہ کو قرآن مجید اور سات آیات دیں جو باربار پڑھی جاتی ہیں۔ (الحجر : ٨٧) ٢۔ قرآن مجید ایسی کتاب ہے جس میں کوئی شک نہیں۔ (البقرۃ : ٢) ٣۔ قرآن مجید برھان اور نور مبین ہے۔ (النساء : ١٧٤) ٤۔ قرآن مجید لوگوں کے لیے ہدایت ہے۔ (البقرۃ: ١٨٥) ٥۔ قرآن مجید اللہ کی طرف سے کھلی کتاب ہے۔ (ھود : ١) ٦۔ قرآن مجید لوگوں کے لیے ہدایت اور نصیحت ہے۔ (آل عمران : ١٣٨) الحجر
88 الحجر
89 فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ اے نبی ! اللہ تعالیٰ نے آپ کو بے مثال منصب اور علمی، روحانی، دولت سے نوازا ہے۔ لہٰذا آپ کو کسی اور طرف نظر التفات نہیں کرنی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن عظیم اور سورۃ فاتحہ جیسی نعمتیں عطا فرما کر اپنے رسول کو یہ ہدایت فرمائی ہے کہ ہم نے دنیا داروں کو جو کچھ دے رکھا ہے، ان کی طرف نظر التفات نہیں کرنی اور نہ ہی ان کی باتوں پر غم زدہ ہونا چاہیے۔ ان کی باتوں اور دنیا داری کی طرف توجہ کرنے کے بجائے اپنے مومن ساتھیوں سے محبت اور ان کی طرف توجہ رکھیں۔ دنیا پرستوں کو بس اتنا فرمائیں کہ میں حق کا انکار کرنے والوں کو کھلے الفاظ میں ان کے انجام سے ڈرانے والا بنا کر بھیجا گیا ہوں۔ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں پر اس طرح ہی عذاب نازل کرے گا۔ جس طرح ان سے پہلے ” مُقْتَسِمِیْنَ“ پر عذاب نازل کیا گیا تھا۔ مُقْتَسِمِیْنَ : کے اہل علم نے دو مفہوم بیان کیے ہیں۔ ١۔ جھوٹی قسمیں اٹھانے والے۔ ٢۔ مُقْتَسِمِیْنَ حصے بخرے کرنے والے اہل علم نے اس سے مراد یہود و نصاریٰ لیے گئے ہیں۔ جنہوں نے مذہبی منافرت اور ذاتی مفادات کی بنا پر تورات اور انجیل کے حصے بخرے کردیے تھے۔ اسی طرح آپ کے مخالفین نے اپنے ذہن میں قرآن مجید کے حصے بخرے کر رکھے ہیں۔ توحید کی آیات سے انھیں سخت نفرت تھی۔ باقی آیات کو قدرے برداشت سمجھتے تھے۔ آپ کے رب کی قسم ہم ان سے ضرور باز پرس کریں گے اور ان کے اعمال کا ضرور احتساب ہوگا۔ اس بات کو قرآن مجید نے دوسرے مقام پر یوں بیان کیا ہے کہ بے شک جن لوگوں نے اپنے دین کو تقسیم کردیا اور کئی گروہوں میں تقسیم ہوگئے اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ کا ان کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ ان کا معاملہ اللہ کے حوالے ہے وہ انہیں بتلائے گا جن کاموں میں وہ مصروف تھے۔ (الانعام : ١٥٩) دین میں تفریق پیدا کرنا اور قرآن مجید کو تقسیم کرنے کے بنیادی طور پر دو مفہوم ہو سکتے ہیں۔ ١۔ ذاتی یا گروہی مفاد یا عناد کی بنا پر قرآن مجید کے کچھ احکام کا انکار کرنا اور کچھ کو تسلیم کرلینا۔ جس طرح اہل مکہ اور یہود و نصاریٰ نے رویہ اختیار کر رکھا تھا۔ اہل مکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مطالبہ کرتے کہ فلاں فلاں آیات کو چھوڑ یا بدل دیا جائے۔ تب ہم قرآن مجید اور آپ کی رسالت پر ایمان لائیں گے۔ یہود و نصاریٰ ان آیات کو تسلیم کرتے تھے اور ہیں جن میں ان کے انبیاء کی تائید اور تورات و انجیل کی تصدیق پائی جاتی ہے۔ جن آیات میں ان کی خود ساختہ شریعت کی مخالفت پائی جاتی ہے یہ لوگ ان آیات کا انکار کرتے ہیں۔ یہی صورت حال ملائکہ کے بارے میں تھی اور ہے۔ بالخصوص یہودی حضرت جبرئیل امین (علیہ السلام) کی ذات کے ساتھ یہ کہہ کر بغض رکھتے ہیں کہ جبرائیل نے ہمارے آباؤ اجداد پر عذاب نازل کیا تھا اس لیے وہ ہمارا دشمن ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کی حفاظت کا ذمہ لیا ہے۔ اس لیے نام نہاد علما اور مسلمان اس میں ترمیم و اضافہ نہیں کرسکتے۔ لیکن اس کے متعین مفہوم میں اپنے اپنے عقائد کی تائید میں قرآن مجید کی آیات پیش کر کے دین میں تفریق اور امت میں تقسیم کا سبب بنے ہوئے ہیں۔ حالانکہ قرآن مجید نے واضح طور پر اس بات کی نشاندہی کی ہے کہ قرآن مجید میں کچھ آیات محکم ہیں جو قرآن مجید کے مفہوم کی بنیاد ہیں اور دوسری آیات متشابہات ہیں۔ جن کے ایک سے زائد مفہوم بھی ہو سکتے ہیں۔ جن لوگوں کے دلوں میں ٹیڑھ ہے۔ وہ بنیادی آیات اور اس کے مفہوم کو چھوڑ کر فتنہ برپا کرنے کے لیے متشابہات کے پیچھے لگتے ہیں۔ حالانکہ متشابہات کا صحیح مفہوم اللہ تعالیٰ اور پختہ علم والوں کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ (آل عمران : ٧) دین کو تقسیم کرنا سنگین جرم ہے جس کی سنگینی کے پیش نظر فرمایا گیا ہے کہ اے پیغمبر ! تیرے رب کی قسم ان سے ان کے کردار کے بارے میں ضرور پوچھا جائے گا۔ (عَنِ ابْنِ عُمَرَ (رض) قَالَ خَطَبَنَا عُمَرُ (رض) بِالْجَابِیَۃِ فَقَالَ یَآ أَیُّہَا النَّاسُ إِنِّیْ قُمْتُ فِیْکُمْ کَمَقَامِ رَسُوْلِ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فِیْنَا فَقَالَ أُوصِیْکُمْ بِأَصْحَابِیْ ثُمَّ الَّذِینَ یَلُونَہُمْ ثُمَّ الَّذِیْنَ یَلُونَہُمْ ثُمَّ یَفْشُو الْکَذِبُ حَتّٰی یَحْلِفَ الرَّجُلُ وَلاَ یُسْتَحْلَفُ وَیَشْہَدَ الشَّاہِدُ وَلاَ یُسْتَشْہَدُ أَلاَ لاَ یَخْلُوَنَّ رَجُلٌ بامْرَأَۃٍ إِلاَّ کَانَ ثَالِثَہُمَا الشَّیْطَانُ عَلَیْکُمْ بالْجَمَاعَۃِ وَإِیَّاکُمْ وَالْفُرْقَۃَ فَإِنَّ الشَّیْطَانَ مَعَ الْوَاحِدِ وَہُوَ مِنَ الاِثْنَیْنِ أَبْعَدُ مَنْ أَرَادَ بِحَبُوْحَۃَ الْجَنَّۃِ فَلْیَلْزَمِ الْجَمَاعَۃَ مَنْ سَرَّتْہُ حَسَنَتُہٗ وَسَآءَ تْہُ سَیِّءَتُہٗ فَذَلِکَ الْمُؤْمِنُ) [ رواہ الترمذی : کتاب الفتن، باب مَا جَاءَ فِی لُزُومِ الْجَمَاعَۃِ] ” حضرت ابن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ ہمیں حضرت عمر (رض) نے جابیہ کے مقام پر خطبہ دیا کہا اے لوگو! میں تم میں کھڑا ہوا ہوں جس طرح رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمارے درمیان کھڑے ہوئے تھے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میں تمہیں اپنے صحابہ کے متعلق وصیت کرتا ہوں پھر ان کے بعد والوں کے لیے اور پھر ان سے بعد آنے والوں کے لیے۔ اس کے بعدجھوٹ پھیل جائے گا یہاں تک کہ آدمی قسم اٹھائے گا حالانکہ اس سے قسم طلب نہیں کی جائے گی۔ آدمی گواہی دے گا حالانکہ گواہی اس سے طلب نہیں کی جائے گی۔ آگاہ رہو! نہیں خلوت اختیار کرتا کوئی مرد کسی عورت کے ساتھ مگر تیسرا ان کے ساتھ شیطان ہوتا ہے۔ جماعت کو لازم پکڑو اور فرقوں میں بٹنے سے بچو یقیناً شیطان ایک کے ساتھ ہوتا ہے اور دوسے دور ہوتا ہے جو جنت کی خوشبو چاہتا ہے وہ جماعت کے ساتھ منسلک رہے۔ جس کو نیکی اچھی لگے اور برائی بری محسوس ہو وہ مومن ہے۔“ مسائل ١۔ کفار کے اموال کی طرف للچائی نظر سے نہیں دیکھنا چاہیے۔ ٢۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مومنوں کے ساتھ نرمی کرنے کا حکم دیا گیا۔ ٣۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ڈرانے والا بنا کر بھیجا گیا۔ ٤۔ کچھ لوگ عملاً قرآن مجید کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے کے درپے رہتے ہیں۔ ٥۔ ہر کسی سے اس کے اعمال کے متعلق پوچھا جائے گا۔ تفسیر بالقرآن دنیا کی اصلیّت اور اس کا انجام : ١۔ جو ہم نے کفار کو دے رکھا ہے اس کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھئے۔ (الحجر : ٨٨) ٢۔ نہیں ہے دنیا کی زندگی مگر کھیل تماشا۔ (العنکبوت : ٦٤) ٣۔ دنیاکی زندگی صرف دھوکے کا سامان ہے۔ (آل عمران : ١٨٥) ٤۔ آخرت کے مقابلے میں دنیا قلیل ہے۔ (التوبۃ : ٣٨) ٥۔ آپ فرما دیں کہ دنیا کا سامان تھوڑا ہے اور آخرت بہتر ہے۔ (النساء : ٧٧) الحجر
90 الحجر
91 الحجر
92 الحجر
93 الحجر
94 فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ قرآن مجید کے ٹکڑے کرنے والے لوگوں کو انتباہ کرنے کے بعد رسول اکرم کو کھل کر تبلیغ کرنے کا حکم۔ اہل مکہ کی شدید مخالفت کے پیش نظر اور ساتھیوں کی کمی کی بنا پر نبوت کے ابتدائی تین سالوں میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حد تک خفیہ تبلیغ کا طریقہ اپنایا۔ جونہی صحابہ کرام (رض) کی کچھ تعداد بڑھی اور اللہ تعالیٰ نے کافروں کی کٹ حجتیاں اور استہزا کے مقابلے میں آپ کی طرف سے مزاحمت کا اعلان فرمایا اور اس کے ساتھ حکم نازل ہوا کہ اے رسول! جو کچھ آپ کو بیان کرنے کا حکم دیا جا رہا ہے اسے دو ٹوک انداز اور کھلے الفاظ میں لوگوں کے سامنے بیان فرمائیں اور مشرکین کی مخالفت کو خاطر میں نہ لائیں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ ان کے استہزا اور حجتّ بازیوں کے مقابلے میں آپ کو کافی ہے۔ جو لوگ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی اور کو حاجت روا اور مشکل کشا سمجھتے ہیں عنقریب انہیں سب کچھ معلوم ہوجائے گا۔ مکہ معظمہ کے ابتدائی تین سالوں میں رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عام طور پر دار ارقم میں لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی توحید بتلایا اور سمجھایا کرتے تھے۔ لیکن توحید ایسی حقیقت ہے جس کے اثرات چھپ نہیں سکتے بشرطیکہ توحید کا اقرار اور ابلاغ کرنے والا اس کے تقاضے سمجھنے اور پورا کرنے کی کوشش کرے۔ یہی وجہ ہے کہ جونہی کوئی شخص مسلمان ہوتا اہل مکہ اس کی زندگی میں واضح انقلاب دیکھتے۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا مکہ کے بڑے بڑے خاندانوں میں شریف النفس نوجوان حلقۂ اسلام میں داخل ہونے لگے۔ اس صورت حال کو دیکھ کر مکہ کے لوگ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے ساتھیوں کو طعن و تشنیع اور استہزا کا نشانہ بنانے لگے۔ اس پر آپ کو براہ راست اور آپ کے حوالے سے بالواسطہ صاحب ایمان لوگوں کو تسلی دی جا رہی ہے کہ اللہ تعالیٰ مشرکین کے طعن و تشنیع اور استہزا کے مقابلے میں آپ کو کافی ہے۔ اور جو لوگ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی اور کو عبادت کے لائق اور حاجت روا اور مشکل کشا سمجھتے ہیں وہ عنقریب اس کا انجام دیکھیں گے چنانچہ ٹھیک ہجرت کے دوسرے سال غزوۂ بدر میں دنیا نے ان کا انجام دیکھا اور آخرت میں مشرکین کو ہمیشہ ہمیش جہنم کے عذاب میں مبتلا رہنا ہوگا۔ (عَنْ أَنَسٍ (رض) یَرْفَعُہُ أَنَّ اللَّہَ یَقُولُ لأَہْوَنِ أَہْلِ النَّارِ عَذَابًا لَوْ أَنَّ لَکَ مَا فِی الأَرْضِ مِنْ شَیْءٍ کُنْتَ تَفْتَدِی بِہِ قَالَ نَعَمْ قَالَ فَقَدْ سَأَلْتُکَ مَا ہُوَ أَہْوَنُ مِنْ ہَذَا وَأَنْتَ فِی صُلْبِ آدَمَ أَنْ لاَ تُشْرِکَ بِی فَأَبَیْتَ إِلاَّ الشِّرْکَ )[ رواہ البخاری : باب طلب الکافر الفداء] ” حضرت انس (رض) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مرفوع بیان کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ جہنمیوں میں سے سب سے ہلکے عذاب والے سے پوچھے گا کہ جو کچھ زمین میں ہے تو اس کا فدیہ دے گا؟ وہ ہاں میں جواب دے گا تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا میں نے دنیا میں تجھ سے اس سے بھی ہلکی چیز کا مطالبہ کیا تھا کہ تم میرے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرانا لیکن تو نے اس کا انکار کیا۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ تمسخر کرنے والوں کے مقابلہ میں اپنے بندوں کے لیے کافی ہے۔ ٢۔ مشرک کو مرنے کے بعد اس کے عقیدہ کے برے نتائج کا پتہ چل جائے گا۔ ٣۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مسلمانوں کو ہر حال میں اللہ کے احکام سنا دینے کا حکم دیا گیا۔ ٤۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مسلمانوں کو مشرکوں سے اعراض کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ کیساتھ کوئی اور الٰہ نہیں : ١۔ اللہ کے ساتھ کسی اور کو پکارنے کی کوئی دلیل نہیں۔ (المومنون : ١٧١) ٢۔ اللہ کے ساتھ کسی اور کو نا پکا رو وگرنہ عذاب میں مبتلا ہو جاؤگے۔ (الشعرآء : ٢١٣) ٣۔ اللہ کے ساتھ کسی اور الٰہ کو نا پکارو اس کے سوا کوئی الٰہ نہیں مگر وہی (القصص : ٨٨) ٤۔ اللہ نے زمین و آسمان کو پیدا کیا اور پھر آسمان سے پانی اتار کر باغات اگائے۔ کیا اس کے ساتھ کوئی اور بھی الٰہ ہے؟ (النمل : ٦٠) ٥۔ کون ہے جو لاچار کی فریادسنتا اور اس کی تکلیف کو دور کرتا ہے، کیا اللہ کیساتھ کوئی اور بھی الٰہ ہے؟ (النمل : ٦٢) ٦۔ خشکی اور سمندر کی تاریکیوں میں اللہ کے سوا رہنمائی کون کرتا ہے؟ کیا اللہ کیساتھ کوئی اور بھی الٰہ ہے۔ (النمل : ٦٣) ٧۔ پہلے اور دوبارہ پیدا کرنے اور زمین و آسمان سے تمہارے لیے روزی کا بندوبست کرنے والا کون ہے؟ کیا اللہ کیساتھ کوئی اور الٰہ ہے؟ (النمل : ٦٤) الحجر
95 الحجر
96 الحجر
97 فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ نے آپ کا دفاع کرنے کے ساتھ تسلی دی ہے۔ کفار کو انتباہ کرنے اور آپ کے دفاع کی ذمہ داری لینے کے بعد آپ کو مزید تسلی دینے کی خاطر ارشاد ہوتا ہے اے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ہم آپ کے حالات اور کیفیت کو بڑی اچھی طرح جانتے ہیں کہ کفار کے طعن و تشنیع اور استہزا سے آپ کے دل کو غم اور تکلیف پہنچتی ہے۔ جب بھی آپ غم اور تکلیف محسوس کریں تو مشرکین کے طعن و تشنیع اور استہزا کی طرف توجہ کرنے کے بجائے آپ اپنے رب کی حمد بیان کریں اور اس کے حضور سجدہ ریز ہوجائیں اور اپنے رب کی آخری دم تک عبادت کرتے رہیں۔ یہاں عبادت کے لیے ” الیقین“ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ جس سے اکثر مفسرین نے موت مراد لی ہے۔ انسان کو اپنی موت تک اللہ تعالیٰ کی عبادت اور اس کی فرمانبرداری کرنا ہے۔ اسی کے پیش نظر مومنوں کو مخاطب کرکے فرمایا گیا ہے اے صاحب ایمان لوگو! ہر حال میں اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو یہاں تک کہ تمہیں موت بھی مسلمان ہونے کی حیثیت سے آئے۔ (آل عمران : ١٠٢) لیکن اس کے مفہوم میں یہ بھی گنجائش نکلتی ہے کہ ” الیقین“ سے مراد عبادت میں وہ کیفیت اور اطمینان ہے۔ جس سے عبادت گزار کی طبیعت میں سکون اور دل میں اطمینان پیدا ہوجائے۔ کیونکہ ! دل اللہ کے ذکر سے ہی قرار پاتے ہیں۔ (عَنْ اَبِیْ ھُرَےْرَۃَ (رض) اَنَّ رَجُلًا دَخَلَ الْمَسْجِدَ وَرَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جَالِسٌ فِیْ نَاحِےَۃِ الْمَسْجِدِ فَصَلّٰی ثُمَّ جَآءَ فَسَلَّمَ عَلَےْہِ فَقَالَ لَہٗ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وَعَلَےْکَ السَّلَامُ ارْجِعْ فَصَلِّ فَاِنَّکَ لَمْ تُصَلِّ فَرَجَعَ فَصَلّٰی ثُمَّ جَآءَ فَسَلَّمَ فَقَالَ وَعَلَےْکَ السَّلاَمُ ارْجِعْ فَصَلِّ فَاِنَّکَ لَمْ تُصَلِّ فَقَالَ فِی الثَّالِثَۃِ اَوْ فِی الَّتِیْ بَعْدَھَا عَلِّمْنِیْ ےَا رَسُوْلَ اللّٰہِ فَقَالَ اِذَا قُمْتَ اِلَی الصَّلٰوۃِ فَاَسْبِغِ الْوُضُوْٓءَ ثُمَّ اسْتَقْبِلِ الْقِبْلَۃَ فَکَبِّرْ ثُمَّ اقْرَأْ بِمَا تَےَسَّرَ مَعَکَ مِنَ الْقُرْآنِ ثُمَّ ارْکَعْ حَتّٰی تَطْمَءِنَّ رَاکِعًا ثُمَّ ارْفَعْ حَتّٰی تَسْتَوِِیَ قَاءِمًآ ثُمَّ اسْجُدْ حَتّٰی تَطْمَءِنَّ سَاجِدًا ثُمَّ ارْفَعْ حَتّٰی تَطْمَءِنَّ جَالِسًا ثُمَّ اسْجُدْ حَتّٰی تَطْمَءِنَّ سَاجِدًا ثُمَّ ارْفَعْ حَتّٰی تَطْمَءِنَّ جَالِسًا وَّفِیْ رِوَاے َۃٍ ثُمَّ ارْفَعْ حَتّٰی تَسْتَوِیَ قَآءِمًا ثُمَّ افْعَلْ ذَالِکَ فِیْ صَلٰوتِکَ کُلِّھَا) [ رواہ البخاری : باب من رد فقال و علیکم السلام] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی مسجد میں داخل ہوا رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مسجد کے ایک کونے میں تشریف فرما تھے اس نے جلدی سے نماز پڑھی اور آکر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں سلام عرض کیا۔ آپ نے اسے سلام کا جواب دیتے ہوئے فرمایا پیچھے ہٹ کر دوبارہ نماز پڑھو کیونکہ آپ نے نماز نہیں پڑھی۔ اس نے واپس پلٹ کر نماز پڑھی اور پھر آکر سلام عرض کیا۔ آپ نے سلام کا جواب دے کر فرمایا۔ جاکر پھر نماز پڑھو یقینًاتیری نماز ادا نہیں ہوئی۔ اس طرح وہ تیسری یا چوتھی دفعہ نماز پڑھنے کے بعدآیا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے وہی ارشاد فرمایا تب وہ عرض کرتا ہے کہ اے اللہ کے رسول! مجھے نماز ادا کرنے کا طریقہ سمجھائیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں جب تم نماز کا ارادہ کرو تو اچھی طرح وضو کرو۔ قبلہ رخ کھڑے ہو کر اللہ اکبر کہو پھر قرآن کی تلاوت کرو جتنی تم آسانی کے ساتھ کرسکتے ہو۔ پھر اطمینان کے ساتھ رکوع کرو، رکوع کے بعد سر اٹھا کر اطمینان کے ساتھ کھڑے ہوجاؤ، پھر اطمینان کے ساتھ سجدہ کرو‘ سجدہ کے بعداطمینان کے ساتھ بیٹھو اب دوسرا سجدہ اطمینان کے ساتھ کرو۔ پھر دو سجدوں کے بعد اطمینان اور سکون کے ساتھ بیٹھ کر اٹھو۔ ایک روایت میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے یہ الفاظ موجود ہیں اس کے بعد پھر اطمینان کے ساتھ قیام کرو۔ اس طرح اپنی نماز کو مکمل کرو۔“ مسائل ١۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کفار کی باتیں سن کر دل میں تنگی محسوس کرتے تھے۔ ٢۔ انسان کو آخری دم تک اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنی چاہیے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کرنے سے دل کو سکون اور اطمینان حاصل ہوتا ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ کی عبادت اور اس کی تسبیح کے فوائد : ١۔ اے لوگو! آخری دم تک اللہ کی عبادت کرو۔ (الحجر : ٩٩) ٢۔ جن و انس کو اللہ نے اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا۔ (الذاریات : ٥٦) ٣۔ اپنے رب کی حمد و تسبیح بیان کرو اور سجدہ کرنے والوں میں سے ہوجاؤ۔ (الحجر : ٩٨) ٤۔ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو۔ میں تمھیں عذاب الیم سے ڈراتا ہوں۔ (ھود : ٢٦) ٥۔ اللہ کا ذکر دلوں کے لیے سکون و اطمینان کا باعث ہے۔ (الرعد : ٢٨) الحجر
98 الحجر
99 الحجر
0 تعارف سورۃ النحل سورۃ النحل مکی دور کے آخر میں نازل ہوئی۔ اس کے ١٦ رکوع اور ١٢٨ آیات ہیں۔ سورۃ کا نام، آیت ٦٨ سے لیا گیا ہے۔ النحل کا معنی ہے ” شہد کی مکھی۔“ مکہ اور اس کے گرد و نواح کے لوگ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اکثر یہ مطالبہ کرتے تھے کہ جس عذاب سے ہمیں ڈراتے ہو وہ ہم پر نازل کیوں نہیں ہوتا ؟ سورۃ کی ابتداء میں کفار کو چیلنج دیا گیا ہے کہ جس عذاب کا تم مطالبہ کرتے ہو وہ عنقریب تم پر نازل ہونے والا ہے۔ اس وارننگ کے بعد ہر انسان کو سمجھایا گیا ہے کہ تجھے اللہ تعالیٰ نے ایک نطفہ سے پیدا کیا ہے لیکن انسان اپنے خالق کے ساتھ جھگڑا کرتا ہے۔ اس کے ساتھ یہ باور کروایا ہے کہ قیامت کے دن کوئی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے ہر امت کی طرف رسول مبعوث فرمایا اور ہر نبی کا پیغام یہ تھا کہ ایک اللہ کی عبادت کرو اور شیطان کی پیروی سے بچ جاؤ۔ کچھ لوگ ہدایت پا گئے اور باقی پر گمراہی مسلط ہوگئی۔ گمراہوں کا انجام دیکھنا چاہو تو دنیا کی تاریخ اور جغرافیہ اس پر گواہ ہیں۔ اس کے بعد ہجرت کا دنیا اور آخرت میں صلہ ذکر کیا گیا ہے۔ ساتویں رکوع کی ابتداء میں یہ ارشاد فرمایا کہ زمین و آسمان میں دو الٰہ نہیں ہیں۔ الٰہ صرف ایک ہی ہے۔ اس لیے صرف ایک ہی سے ڈرو۔ اس کے بعد فرمایا کہ اگر اللہ تعالیٰ لوگوں کے ظلم کی وجہ سے انہیں فی الفور پکڑنا چاہے تو انسان تو درکنار زمین پر کوئی چوپایہ بھی باقی نہ رہے۔ پھر شرک کی حقیقت سمجھاتے ہوئے دو قسم کے آدمیوں کی مثال دی گئی ہے۔ اس خطاب کے آخر میں ارشاد فرمایا کہ قیامت کے دن ہر امت پر اس کا پیغمبر شہادت دے گا اور نبی آخر الزماں (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی امت پر گواہ ہوں گے۔ اٹھارہویں رکوع کے آغاز میں عدل و انصاف احسان اور رشتہ داروں کے ساتھ نیکی کرنے کا حکم دیا، برائی، بے حیائی اور ہر قسم کی سرکشی اور نافرمانی سے منع کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ لوگو ! اللہ تعالیٰ سے کیے ہوئے عہد کی پاسداری کرو۔ تمھارا کردار اس عورت کی طرح نہیں ہونا چاہیے جو شام کے وقت اپنے ہاتھوں سے کا تے ہوئے سوت کو ریزہ ریزہ کردیتی ہے، پھر قرآن مجید کی تلاوت کے آداب بتلاتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ جب قرآن مجید کی تلاوت کی جائے تو پہلے اَعُوْذُ باللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ پڑھ لیا کرو۔ اس سورۃ مبارکہ کا اختتام حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی حیات مبارکہ کے تذکرے کے ساتھ کیا گیا ہے کہ ابراہیم (علیہ السلام) اپنے رب کے نہایت ہی تابع فرماں اور اس کی اطاعت میں سراپا اخلاص ہونے کی وجہ سے مشرکوں کے ساتھ ان کا ہرگز تعلق نہ تھا وہ۔ اے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ کی طرف بھی ہم نے یہی وحی بھیجی ہے کہ آپ بھی پوری یکسوئی کے ساتھ ابراہیم (علیہ السلام) کے طریقے کو اپناتے ہوئے مشرکوں سے بے پروا ہوجائیں النحل
1 فہم القرآن ربط کلام : سورۃ الحجر کا اختتام ان آیات پر ہوا ہے کہ مشرکین سے مزید بحث و تکرار کرنے کی بجائے اعراض کیجئے۔ اللہ تعالیٰ آپ کے لیے ان کی کٹ حجتیاں اور استہزا کے مقابلے میں کافی ہے یہ لوگ جو ہرزہ سرائی کرتے ہیں اللہ تعالیٰ کو سب کچھ معلوم ہے اور وہ جانتا ہے کہ اس سے آپ کا دل پسیجتا ہے۔ بس آپ اپنے رب کو یاد کرتے رہیں اور کفار کو تنبیہ کریں کہ جس بات کی تم جلدی کرتے ہو وہ آن پہنچی ہے۔ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مشرکین کو اللہ تعالیٰ کی توحید سمجھاتے ہوئے فرمایا کرتے تھے کہ اگر تم نے اللہ تعالیٰ کی توحید کا انکار کیے رکھا تو اس کا عذاب تمہیں آلے گا۔ لیکن مشرکین آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ کہہ کر مذاق اڑاتے کہ سال پر سال گزر رہے ہیں، تیری دھمکیوں کے باوجود اب تک ہم پر کوئی عذاب نازل نہیں ہوا۔ اس دلیری میں وہ اس قدر آگے بڑھ گئے کہ ایک دن بیت اللہ میں جمع ہو کر اس کے غلاف کو کھینچتے ہوئے یہ الفاظ کہتے ہیں کہ اے اللہ اگر یہ دین حق اور یہ رسول تیری طرف سے ہے تو پھر ہم پر آسمان سے پتھر برسا یا ہمیں کسی ہولناک عذاب سے دوچار کر دے جس کا یہ جواب دیا گیا تھا کہ اللہ تعالیٰ انہیں اس لیے عذاب میں مبتلا نہیں کر رہا کہ اس کا رسول ان میں موجود ہے اور ان پر عذاب نہ آنے کی وجہ یہ بھی ہے کہ ان میں مسلمان موجود ہیں جو استغفار کرتے رہتے ہیں۔ (الانفال : ٣٢۔ ٣٣) لیکن اب وقت آگیا تھا کہ ان کی نافرمانیوں کے بدلے میں ان پر عذاب نازل کیا جائے۔ چنانچہ اعلان ہوتا ہے اپنے آپ سے باہر ہونے اور جلدی کرنے کی ضرورت نہیں بس اللہ کا حکم آہی پہنچا ہے۔ جب اللہ کا عذاب آئے گا تو اس کے سامنے تم اور تمہارے معبودان باطل یکسر بے بس ہوجائیں گے۔ اب تک اللہ تعالیٰ کا عذاب نازل نہیں ہوا تو اس کا معنیٰ یہ نہ سمجھو کہ تمہارے اور تمہارے معبودوں کے مقابلے میں اللہ تعالیٰ کمزور ہے۔ وہ ہر کمزوری سے مبرا، اور ہر قسم کی شراکت سے پاک اور تمہارے باطل عقیدہ اور تصورات سے کہیں اعلیٰ اور ارفع ہے۔ اس کے کمال کو کوئی زوال نہیں اور اس کی ذات میں کوئی نقص نہیں وہ ہمیشہ سے اعلیٰ اور صاحب کمال ہے اور رہے گا۔ (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ قَالَ سَأَلْتُ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) أَیُّ الذَّنْبِ أَعْظَمُ عِنْدَ اللَّہِ قَالَ أَنْ تَجْعَلَ لِلَّہِ نِدًّا وَّہْوَ خَلَقَکَ قُلْتُ إِنَّ ذٰلِکَ لَعَظِیْمٌ، قُلْتُ ثُمَّ أَیُّ قَالَ وَأَنْ تَقْتُلَ وَلَدَکَ تَخَافُ أَنْ یَّطْعَمَ مَعَکَ قُلْتُ ثُمَّ أَیُّ قَالَ أَنْ تُزَانِیَ حَلِیْلَۃَ جَارِکَ ) [ رواہ البخاری : کتاب التفسیر باب قَوْلُہُ تَعَالَی (فَلاَ تَجْعَلُوا لِلَّہِ أَنْدَادًا وَّأَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ ] ” حضرت عبداللہ (رض) بیان کرتے ہیں میں نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا کہ اللہ کے ہاں سب سے بڑا گناہ کونسا ہے آپ نے فرمایا تو اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرائے۔ میں نے کہا یہ تو بہت بڑا ہے۔ اس کے بعد کونسا ہے آپ نے فرمایا کہ تو اپنی اولاد کو اس ڈر سے قتل کردے کہ وہ تیرے ساتھ کھانا کھائے گی۔ میں نے عرض کی اس کے بعد کونسا گناہ ہے۔ آپ نے فرمایا کہ تو اپنے ہمسایہ کی بیوی سے زنا کرے۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرتے رہنا چاہیے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ شریکوں کی شراکت سے پاک اور مبرا ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ ہر قسم کی کمزوری اور شرک سے پاک ہے : ١۔ اللہ ان کے شرک سے پاک و برتر ہے۔ (النحل : ١) ٢۔ اللہ نے آسمان و زمین کو برحق پیدا کیا۔ اللہ شریکوں سے بلند و بالا ہے۔ (النمل : ٣) ٣۔ اللہ غائب اور حاضر کو جاننے والا ہے اللہ شریکوں کی شراکت سے بلند ہے۔ (المومنون : ٩٢) ٤۔ کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور بھی الٰہ ہے؟ اللہ ان کے شرک سے بالا ہے۔ (النمل : ٦٣) ٥۔ اللہ نے تمہیں پیدا کیا، رزق دیا، تمہیں مارے گا اور تمہیں زندہ کرے گا۔ کیا تمہارے شرکا میں سے بھی کوئی ہے جو یہ کام کرسکے؟ اللہ مشرکوں کے شرک سے پاک ہے۔ (الروم : ٤٠) ٦۔ قیامت کے دن آسمان اس کے داہنے ہاتھ میں لپٹے ہوں گے۔ اللہ لوگوں کے شرک سے پاک و برتر ہے۔ (الزمر : ٦٧) النحل
2 فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ ہرقسم کے شرک اور نقص سے مبرا ہونے کی وجہ سے اکیلا ہی معبودِ حق ہے۔ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کا انکار کفار کئی قسم کے اعتراضات اور بہانوں سے کیا کرتے تھے۔ ان میں ایک اعتراض اور بہانہ یہ تھا کہ اللہ نے واقعی عرب سے کسی کو رسول بنانا ہوتا تو وہ طائف یا مکہ کے فلاں امیر زادے کو رسول نامزد کرتا۔ اسے کیا ضرورت پڑی تھی کہ وہ ایک یتیم اور مالی اعتبار سے کمزور شخص کو اپنا رسول بناتا۔ اس کا جواب دوسرے مقامات پر مختلف الفاظ اور انداز میں دیا گیا ہے۔ لیکن یہاں اس کا جواب یہ دیا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر اعتبار سے اعلیٰ اور ہر قسم کے شرک سے مبرا ہے۔ اس لیے اسے نہ کسی کے مشورے اور تجویز کی حاجت ہے اور نہ ہی وہ کسی مالدار کی دولت کا محتاج ہے کہ اس کے بغیر اس کا پیغام لوگوں تک نہ پہنچ سکے۔ وہ تو ہر اعتبار سے بے نیاز اور طاقت ور ہے۔ اس لیے اس نے اپنے بندوں میں سے ایک بندے کو اپنے پیغام کے لیے منتخب فرمایا ہے۔ کیونکہ وہ جانتا ہے کہ کون سا سینہ اس کی وحی کا متحمل اور کون سے کندھے نبوت کی ذمہ داریاں اٹھا سکتے ہیں۔ وہ جسے چاہتا ہے اپنے بندوں میں منتخب کرتا ہے۔ لہٰذا اس نے حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنے پیغام اور کام کے لیے اس لیے منتخب کیا ہے کہ وہ لوگوں کو سمجھائیں اور بتلائیں کہ اے لوگو! رب ذوالجلال سے ڈر کر اس کی ذات اور صفات میں شرک کرنا چھوڑ دو۔ کیونکہ اس کے سوا کوئی معبودِ حق، حاجت روا اور مشکل کشا نہیں۔ لہٰذا ایرے غیرے سے ڈرنے کی بجائے صرف اسی سے ڈرتے رہو۔ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر وحی لانے والا فرشتہ ایک ہی تھا۔ جن کا نام نامی اسم گرامی حضرت جبریل امین (علیہ السلام) ہے۔ مگر یہاں جمع کا لفظ ” الملائکۃ“ استعمال ہوا ہے۔ اس لیے کہ حضرت جبریل امین (علیہ السلام) ملائکہ کے سردار ہیں اور اہل عرب تعظیم کی خاطر کسی قوم کے سربراہ کے لیے جمع کا لفظ بھی استعمال کرتے تھے۔ جس کی بنا پر الملک کے بجائے جمع کا لفظ لایا گیا ہے۔ الروح کا لفظ قرآن مجید میں تین معنوں میں استعمال ہوا ہے : ١۔ الروح سے مراد ہر جاندار میں حرکت کرنے والی قوت جسے اردو زبان میں جان اور عربی میں روح کہا جاتا ہے۔ ٢۔ قرآن مجید میں روح سے مراد حضرت جبرائیل (علیہ السلام) ہیں۔ (الشعراء : ١٩٣) ٣۔ روح سے مراد وحی، پیغام اور کسی کے دل میں القا کرنا بھی آیا ہے۔ (النحل : ٢۔ المومن : ١٥۔ الشعراء : ١٩٤) یہاں اس سے مراد روح نبوت یعنی وحی ہے۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ فرشتوں کو اپنے حکم کے ساتھ نازل کرتا ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ جس پر چاہتا ہے اپنی وحی کا نزول فرماتا ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی الٰہ نہیں۔ ٤۔ ہر حال میں اللہ سے ہی ڈرنا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں : ١۔ کیا اللہ کے سوا کوئی اور الٰہ ہے جو رات کے بعد دن لائے؟ (القصص : ٧١) ٢۔ انہوں نے اللہ کے سوا ان کو الٰہ بنا لیا ہے جنہوں نے کوئی چیز پیدا نہیں کی بلکہ وہ خود پیدا کیے گئے ہیں۔ (الفرقان : ٣) ٣۔ اگر یہ الٰہ ہوتے تو جہنم میں نہ جاتے۔ (الانبیاء : ٩٩) ٤۔ اللہ نے زمین و آسمان کو پیدا کیا اور پھر آسمان سے پانی اتار کر باغات اگائے۔ کیا اس کے ساتھ کوئی اور بھی الٰہ ہے؟ (النمل : ٦٠) ٥۔ کون ہے جو لاچار کی فریادسنتا اور اس کی تکلیف کو دور کرتا ہے، کیا کوئی اور بھی الٰہ ہے؟ (النمل : ٦٢) ٦۔ خشکی اور سمندر کی تاریکیوں میں اللہ کے سوا رہنمائی کون کرتا ہے؟ کیا کوئی اور بھی الٰہ ہے۔ (النمل : ٦٣) ٧۔ پہلے اور دوبارہ پیدا کرنے اور زمین و آسمان سے تمہارے لیے روزی کا بندوبست کرنے والا اللہ کے سوا کوئی اور الٰہ ہے؟ (النمل : ٦٤) النحل
3 فہم القرآن ربط کلام : ایک الٰہ سے ڈرنا اور اس ایک ہی کی عبادت کرنا اس لیے ہے کہ وہ ہر چیز کو پیدا کرنے والا ہے اور کائنات کی تخلیق میں اس کا کوئی شریک نہیں۔ لوگوں کو اس لیے بھی اللہ تعالیٰ کی ذات اور صفات میں کسی کو شریک سمجھنے اور بنانے سے منع کیا گیا ہے کہ زمین و آسمان کی تخلیق میں خالق حقیقی کے ساتھ اور کوئی شریک اور سھیم نہیں تھا۔ وہی زمین و آسمان اور ہر چیز کا خالق ہے۔ زمین و آسمان کالا محدود نظام اس بات کی گواہی دے رہا ہے کہ نہ صرف اس کی تخلیق میں کوئی شریک نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ نے انہیں بے مقصد پیدا کرنے کے بجائے ایک خاص مقصد اور ٹھیک ٹھیک انداز میں پیدا فرمایا ہے۔ زمین و آسمان کا چپہ چپہ اور ذرہ ذرہ اس کی خدائی کی تصدیق کرنے کے ساتھ ساتھ باطل خداؤں کی تردید کر رہا ہے۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے آسمان و زمین کو برحق پیدا فرمایا۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ ہر قسم کے شرک سے برتر ہے۔ تفسیر بالقرآن زمین و آسمان کی پیدائش کے مختلف مراحل : ١۔ اللہ نے آسمان و زمین کو برحق پیدا کیا ہے اللہ شرک سے بالا تر ہے۔ (النحل : ٣) ٢۔ اللہ نے بغیر نمونے اور میٹیریل کے زمین و آسمان کو پیدا کیا۔ (البقرۃ : ١١٦) ٣۔ زمین و آسمان پہلے باہم جڑے ہوئے تھے۔ پھر اللہ نے ان کو ایک دوسرے سے الگ کیا۔ (الانبیاء : ٣٠) ٤۔ اللہ نے دو دن میں آسمانوں کو پیدا کیا۔ (حٰم السجدۃ: ١٢) ٥۔ اللہ نے آسمان و زمین چھ دن میں بنائے۔ (الاعراف : ٥٤) النحل
4 فہم القرآن ربط کلام : زمین و آسمان کی تخلیق کے بعد انسان کی تخلیق کا بیان۔ اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان اور ان کے درمیان جو چیز ہے اسے انسان کی خدمت کے لیے پیدا کیا ہے۔ اس لیے انسان کی تخلیق کے بیان سے پہلے زمین و آسمان کی تخلیق کا ذکر فرمایا ہے۔ گویا کہ مکیں سے پہلے مکاں کا بیان ہوا۔ اب انسان کو توجہ دلائی جا رہی ہے کہ اے انسان تجھے اللہ تعالیٰ نے ایک حقیر پانی سے پیدا کیا ہے اور زمین و آسمان کی تخلیق کی طرح تیری تخلیق میں بھی کوئی شریک نہیں ہے۔ وہ چاہتا ہے تو مرد اور عورت کے ملاپ کے ذریعے ان کے نطفہ سے بچہ کو پیدا کرتا ہے، اگر نہ چاہے تو مرد اور عورت کے زندگی بھر کے ملاپ سے کچھ بھی نہ پیدا ہو اور نہ انہیں کوئی دوسرا اولاد عطا کرسکتا ہے۔ لیکن اس حقیقت کے باوجود انسان نہ صرف اللہ تعالیٰ کے ساتھ دوسروں کو اس کا شریک بناتا ہے بلکہ شرک جیسے عظیم گناہ کے من گھڑت دلائل بھی دیتا ہے۔ جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ کھلے الفاظ میں جھگڑا کرنے کے مترادف ہے۔ لہٰذا ہر انسان کو اپنی اوقات سامنے رکھنی چاہیے کہ وہ کیا تھا اور کہاں پہنچا اور کس ذات کبریا کے ساتھ اوروں کو شریک بنا کر اس کے ساتھ جھگڑا کرتا ہے۔ ( یٰس : ٧٧) (عَنِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ (رض) قَالَ حَدَّثَنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وَھُوَ الصَّادِقُ الْمَصْدُوْقُ اِنَّ خَلْقَ اَحَدِکُمْ ےُجْمَعُ فِیْ بَطْنِ اُمِّہٖ اَرْبَعِےْنَ ےَوْمًا نُّطْفَۃً ثُمَّ ےَکُوْنُ عَلَقَۃً مِثْلَ ذٰلِکَ ثُمَّ ےَکُوْنُ مُضْغَۃً مِثْلَ ذٰلِکَ ثُمَّ ےَبْعَثُ اللّٰہُ اِلَےْہِ مَلَکًا بِاَرْبَعِ کَلِمَاتٍ فَےَکْتُبُ عَمَلَہٗ وَاَجَلَہٗ وَ رِزْقَہٗ وَشَقِیٌّ اَوْ سَعِےْدٌ ثُمَّ ےُنْفَخُ فِےْہِ الرُّوْحُ فَوَالَّذِیْ لَآاِلٰہَ غَےْرُہُ اِنَّ اَحَدَکُمْ لَےَعْمَلُ بِعَمَلِ اَھْلِ الْجَنَّۃِ حَتّٰی مَا ےَکُوْنَ بَےْنَہُ وَبَےْنَھَا اِلَّا ذِرَاعٌ فَےَسْبِقُ عَلَےْہِ الْکِتَابُ فَےَعْمَلُ بِعَمَلِ اَھْلِ النَّارِ فَےَدْخُلُھَاوَاِنَّ اَحَدَکُمْ لَےَعْمَلُ بِعَمَلِ اَھْلِ النَّارِ حَتّٰی مَا ےَکُوْنَ بَےْنَہُ وَبَےْنَھَا اِلَّا ذِرَاعٌ فَےَسْبِقُ عَلَےْہِ الْکِتَابُ فَےَعْمَلُ بِعَمَلِ اَھْلِ الْجَنَّۃِ فَےَدْخُلُھَا)[ رواہ البخاری : باب خَلْقِ آدَمَ صَلَوَات اللَّہِ عَلَیْہِ وَذُرِّیَّتِہٖ ] ” حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں اللہ کے سچے اور مصدوق رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ تم میں ہر شخص کی تخلیق اس کی والدہ کے رحم میں چالیس دن ایک نطفہ کی صورت میں ہوتی ہے پھر چالیس دن جمے ہوئے خون کی شکل میں رہتا ہے پھر چالیس دن گوشت کی صورت میں رہتا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ فرشتے کو چار باتوں کے ساتھ بھیجتے ہیں وہ اس کا کردار، اس کی موت، اس کا رزق، اس کا بد یا نیک ہونا لکھتا ہے پھر اس میں روح پھونک دی جاتی ہے۔ اس اللہ کی قسم جس کا کوئی شریک نہیں تم میں سے کوئی جنتیوں والے عمل کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ جنت اور اس کے درمیان ایک ہاتھ کا فاصلہ رہ جاتا ہے پھر اس پر تقدیر غالب آتی ہے اور وہ ایسے کام کرتا ہے کہ وہ جہنم میں داخل ہوجاتا ہے۔ اسی طرح ایک شخص عمر بھر دوزخیوں والے کام کرتا ہے یہاں تک کہ دوزخ اور اس کے درمیان ایک ہاتھ کا فاصلہ باقی ہوتا ہے تو اس پر لکھا ہوا غالب آجاتا ہے۔ پھر وہ جنتیوں والے عمل کرکے جنت میں داخل ہوجاتا ہے۔ (عَنْ اَبِیْ ہُرَےْرَۃ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَال اللّٰہُ تَعَالٰی کَذَّبَنِیْ ابْنُ اٰدَمَ وَلَمْ ےَکُنْ لَّہٗ ذٰلِکَ وَشَتَمَنِیْ وَلَمْ ےَکُنْ لَّہٗ ذٰلِکَ فَاَمَّا تَکْذِےْبُہٗٓ اِیَّایَ فَقَوْلُہٗ لَنْ یُّعِےْدَنِیْ کَمَا بَدَاَنِیْ وَلَےْسَ اَوّلُ الْخَلْقِ بِاَھْوَنَ عَلَیَّ مِنْ اِعَادَتِہٖ وَاَمَّا شَتْمُہٗٓ اِیَّایَ فَقََوْلُہُ اتَّخَذَ اللّٰہُ وَلَدًا وَّاَنَا الْاَحَدُ الصَّمَدُ الَّذِیْ لَمْ اَلِدْ وَلَمْ اُوْلَدْ وَلَمْ ےَکُنْ لِّیْ کُفُوًا اَحَدٌ وَفِیْ رِوَاے َۃٍ: ابْنِ عَبَّاسٍ وَّاَمَّا شَتْمُہٗٓ اِیَّایَ فَقَوْلُہٗ لِیْ وَلَدٌ وَسُبْحَانِیْ اَنْ اَتَّخِذَصَاحِبَۃً اَوْ وَلَدًا) [ رواہ البخاری : باب قَوْلُہٗ قُلْ ہُوَ اللَّہُ أَحَدٌ ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) ذکر کرتے ہیں کہ رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان ہے کہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں ابن آدم مجھے جھٹلاتا ہے حالانکہ یہ اس کے لیے مناسب نہیں۔ وہ میرے بارے میں زبان درازی کرتا ہے یہ اس کے لیے ہرگز جائز نہیں۔ اس کا مجھے جھٹلانا یہ ہے کہ اللہ مجھے دوبارہ پیدا نہیں کرے گا جیساکہ اس نے پہلی بار پیدا کیا۔ حالانکہ میرے لیے دوسری دفعہ پیدا کرنا پہلی دفعہ پیدا کرنے سے زیادہ آسان ہے۔ اس کا میرے بارے میں یہ کہنا بدکلامی ہے کہ اللہ کی اولاد ہے جبکہ میں اکیلا اور بے نیاز ہوں۔ نہ میں نے کسی کو جنم دیا اور نہ مجھے کسی نے جنا ہے اور کوئی بھی میری ہر برابری کرنے والا نہیں۔ صحیح بخاری میں حضرت ابن عباس (رض) کے حوالے سے یہ الفاظ پائے جاتے ہیں کہ ابن آدم کی میرے بارے میں بدکلامی یہ ہے کہ میری اولاد ہے جبکہ میں پاک ہوں نہ میری بیوی ہے نہ اولاد۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو ایک نطفہ سے پیدا کیا۔ ٢۔ انسان جھگڑالو ہے۔ تفسیر بالقرآن انسانی تخلیق کے مختلف مراحل : ١۔ اللہ نے انسان کو نطفہ سے پیدا کیا۔ (النحل : ٤) ٢۔ اللہ نے آدم کو مٹی سے پیدا کیا۔ (آل عمران : ٥٩) ٣۔ حوا کو آدم سے پیدا کیا۔ (النساء : ١) ٤۔ ہم نے انسان کو مٹی کے جوہر سے پیدا کیا۔ (المومنون : ١٢) ٥۔ ہم نے انسان کو مخلوط نطفہ سے پیدا کیا۔ (الدھر : ٢) ٦۔ اے لوگو! اپنے پروردگار سے ڈرو جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا۔ (النساء : ١) النحل
5 فہم القرآن ربط کلام : انسان کی تخلیق کے، چوپاؤں کی تخلیق کا بیان یعنی اللہ کے خالق ہونے کے مزید دلائل۔ انسان کو اس کی تخلیق کا احساس دلانے کے بعد ان چیزوں کی تخلیق کا حوالہ دیا جا رہا ہے کہ جن کے بغیر انسان کا جینا، رہنا سہنا اور اس کا ایک مقام سے دوسرے مقام تک جانا انتہائی مشکل ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنا فضل و کرم فرماتے ہوئے نہ صرف انسان کو یہ نعمتیں عنایت فرمائیں بلکہ ان کو کلی طور پر انسان کے تابع فرمان کردیا۔ ان میں حلال قسم کے چوپائے ہیں۔ جن کے جسم کے بالوں اور اون سے آدمی سردیوں سے بچنے کے لیے گرم لباس بناتا اور استعمال کرتا ہے۔ بالخصوص عرب کا بیشتر علاقہ خانہ بدوش لوگوں پر مشتمل تھا۔ اس سے سفر کے دوران لباس اور جانوروں کی کھالوں، بالوں اور اون کے خیمے بناتے تھے۔ جاڑے کے موسم میں کھلے صحراؤں میں انہیں مکان کے طور پر استعمال کرتے تھے۔ اس طرح ہر دور میں انسان اپنی اپنی سمجھ کے مطابق اپنی زیب و زینت اور ضرورت کے لیے استعمال کرتا آرہا ہے اور کرتا رہے گا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے چوپایوں کو آمدنی کے حصول کا ذریعہ بنانے کے ساتھ ان کے لیے سہارا اور شان و شوکت کا ذریعہ بھی بنایا ہے۔ بالخصوص دیہاتی زندگی میں بھیڑ بکریاں ہوں یا اونٹ، بیل اور بھینسیں ہوں جب شام کے وقت چراگاہوں اور کھیتوں سے چروا کر ان کے مالک کے واپس پاس آتے ہیں تو مالک کی طبیعت میں خوشی کی عجب کیفیت پیدا ہوتی ہے۔ اس کیفیت کو بیان کرتے ہوئے چوپایوں کے صبح کے وقت نکلنے کا منظر بیان کرنے کے بجائے شام کے وقت پیٹ بھر کر واپس آنے کا منظر ذکر کیا گیا ہے۔ کیونکہ صبح کے وقت چوپائے خالی پیٹ نکلتے ہیں تو ان کے مالک کو یہ فکر دامن گیر ہوتی ہے کہ نہ معلوم چرنے کے لیے کہاں سے گھاس وغیرہ اور پینے کے لیے پانی میسر آتا ہے؟ بالخصوص جن مالکوں کی چراگاہیں اپنی نہیں ہوتیں ان کی کیفیت صبح کے وقت ایسی ہی ہوتی ہے۔ لیکن جب سیر ہو کر شام کو خیرو سلامتی کے ساتھ جانور واپس آتے ہیں تو مالک کے چہرے سے اطمینان عیاں ہوتا ہے۔ چوپایوں کے مزید فوائد : (وَإِنَّ لَکُمْ فِی الْأَنْعَامِ لَعِبْرَۃً نُسْقِیْکُمْ مِمَّا فِیْ بُطُونِہٖ مِنْم بَیْنِ فَرْثٍ وَّدَمٍ لَبَنًا خَالِصًا سَآءِغًا لِّلشَّارِبِیْنَ )[ النحل : ٦٦] ” اور تمہارے لیے مویشیوں میں بھی ایک سبق موجود ہے کہ ہم تمہیں ان کے پیٹ سے گوبر اور خون کے درمیان میں سے خالص دودھ پلاتے ہیں جو پینے والوں کے لیے نہایت خوشگوار ہے۔“ (اللّٰہُ الَّذِیْ جَعَلَ لَکُمُ الْأَنْعَامَ لِتَرْکَبُوْا مِنْہَا وَمِنْہَا تَأْکُلُونَ۔ وَلَکُمْ فِیْہَا مَنَافِعُ وَلِتَبْلُغُوْا عَلَیْہَا حَاجَۃً فِیْ صُدُوْرِکُمْ وَعَلَیْہَا وَعَلَی الْفُلْکِ تُحْمَلُوْنَ)[ المومن : ٧٩۔ ٨٠] ” اللہ وہ ذات ہے جس نے تمہاری سواری اور کھانے کے لیے چوپایوں کو پیدا کیا اور تمہارے لیے ان میں اور بھی فوائد ہیں۔ جو ضرورت تمہارے جی میں آئے۔ اس کے لیے ان پر اور کشتیوں پرسوار ہو کر وہاں پہنچ جاتے ہو۔“ مسائل ١۔ ہر قسم کے چوپائے اللہ تعالیٰ نے پیدا کیے ہیں۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے چوپایوں کو انسانی فوائد کے لیے پیدا کیا۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ نے چوپایوں کو انسان کے لیے زیب و زینت کا سامان بنایا ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ نے چوپائے انسان کے فائدے کے لیے پیدا فرمائے : ١۔ اللہ نے چوپایوں کو انسانی ضروریات اور زیب زیبائش کے لیے پیدا فرمایا ہے۔ (النحل : ٥۔ ٦) ٢۔ قربانی کے ایام میں ان پر اللہ کا نام لیں جو چوپائے اللہ نے تمھیں عطا کیے ہیں پس تم بھی اس میں سے کھاؤ اور محتاجوں کو بھی کھلاؤ۔ (الحج : ٢٨) ٣۔ تمہارے لیے چوپایوں میں بہت زیادہ فائدہ ہے اور اسی سے تم کھاتے ہو۔ (المومنون : ٢١) ٤۔ چوپایوں میں تمہارے لیے نفع ہے ان پر تم سواری کرتے ہو۔ (المومنون : ٨٠) النحل
6 النحل
7 فہم القرآن ربط کلام : حلال چوپایوں کے ذکر کے بعد بار برداری کے کام آنے والے چوپایوں کا تذکرہ۔ اللہ تعالیٰ کی یہ کرم فرمائی ہے کہ اس نے حلال چوپاؤں اور بار برداری کے کام آنے والے چوپاؤں کے درمیان حلال و حرام کے ذریعے فرق کردیا ہے۔ حلال چوپایوں میں بھیڑ اور بکریوں کا گوشت زیادہ استعمال ہوتا ہے۔ اور ان کی نسل دنیا کے تمام ممالک میں حسب ضرورت پائی جاتی ہے۔ ان کی افزائش اور پیدائش کا سلسلہ دوسرے چوپایوں کے مقابلے میں زود افزائش ہے۔ بھیڑچھ سے سات مہینے کے دوران ایک سے لے کر تین تک بچے جنم دیتی ہے۔ بکری پانچ سے چھ مہینے کی مدت میں عام طور پر دو سے چار بچے پیدا کرتی ہے۔ ان کے مقابلے میں بار برداری کے کام آنے والے جانوروں کی حلال جانوروں کے مقابلے میں نسبتاََ کم ضرورت ہوتی ہے اس لیے ان کی مدت پیدائش میں بھی خاصہ فرق رکھا گیا ہے۔ شاید اس کی ایک حکمت یہ ہے کہ انہوں نے بوجھ اٹھا کر طویل سفر کرنا ہوتا ہے۔ اس لیے گھوڑی اور گدھی بارہ ماہ کے بعد بچہ پیدا کرتی ہے۔ تاکہ ان کے جسم مضبوط ہوں اور ان کے تخلیقی ڈھانچے میں کسی قسم کی کمزوری واقع نہ رہے۔ اگر سواری اور باربرداری کے لیے یہ جانور پیدا نہ کیے جاتے تو انسان کے لیے ایک جگہ سے دوسری جگہ تک بھاری بھرکم اشیا کی منتقلی ناممکنات میں سے ہوجاتی۔ چوپائے سواری اور بار برداری کے کام آنے کے علاوہ آدمی کی زینت اور شوکت میں اضافہ کے باعث بھی ہیں۔ بالخصوص گھوڑے اور خچر کی سواری سوار کی شوکت میں اضافہ کا سبب بنتی ہے۔ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی شفقت اور مہربانی کا نتیجہ ہے کہ اس نے چوپایوں کو انسان کے تابع کردیا ہے۔ ورنہ انسان کے بس کی بات نہ تھی کہ وہ انہیں اپنے تابع کرلیتا۔ پھر ارشاد ہوتا ہے کہ تمہاری سواری اور باربرداری کے لیے اللہ تعالیٰ وہ کچھ پیدا کرے گا جس کو تم نہیں جانتے چنانچہ ہر زمانے میں اللہ تعالیٰ نے انسان کو اتنی عقل عنایت فرمائی کہ وہ سواری اور باربرداری کے لیے نئی سے نئی ایجادات کرتا رہے۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ آج فضا میں سینکڑوں من بوجھ اٹھائے ہوئے ہوائی جہاز پرواز کر رہے ہیں اور ہزاروں ٹن وزن اٹھائے بحری جہاز سمندر کا سینہ چیرتے ہوئے ہزاروں میل کی مسافت طے کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ اگر یہ ایجادات نہ ہوتیں تو انسان کبھی اتنی ترقی نہ کرسکتا۔ اس لیے ارشاد ہوتا ہے کہ تمہارا رب تم پر بڑا مہربان اور شفقت کرنے والا ہے۔ (عَنِ ابْنِ عُمَرَ (رض) اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کَانَ اِذَا اسْتَوٰی عَلٰی بَعِےْرِہٖ خَارِجًا اِلَی السَّفَرِ کَبَّرَ ثَلٰثًا ثُمَّ قَالَ (سُبْحَانَ الَّذِیْ سَخَّرَ لَنَا ھٰذَا وَمَا کُنَّا لَہٗ مُقْرِنِےْنَ وَاِنَّآ اِلٰی رَبِّنَا لَمُنْقَلِبُوْنَ اَللّٰھُمَّ اِنَّا نَسْأَلُکَ فِیْ سَفَرِنَا ھٰذَاالْبِرَّ وَالتَّقْوٰی وَمِنَ الْعَمَلِ مَا تَرْضٰی اَللّٰھُمَّ ھَوِّنْ عَلَےْنَا سَفَرَنَا ھٰذَا وَاطْوِلَنَا بُعْدَہٗ اَللّٰھُمَّ اَنْتَ الصَّاحِبُ فِی السَّفَرِ وَالْخَلِےْفَۃُ فِی الْاَھْلِ اَللّٰھُمَّ اِنِّیْٓ اَعُوْذُبِکَ مِنْ وَّعْثَآء السَّفَرِ وَکَآبَّۃِ الْمَنْظَرِ وَسُوْٓءِ الْمُنْقَلَبِ فِی الْمَالِ وَالاَھْلِ) وَاِذَا رَجَعَ قَالَ ھُنَّ وَزَادَ فِےْھِنَّ (اآءِبُوْنَ تَآءِبُوْنَ عَابِدُوْنَ لِرَبِّنَا حَامِدُوْنَ) [ رواہ مسلم : باب مایقول اذا رکب الی سفرالحج] ” حضرت عبداللہ بن عمر (رض) فرماتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سفر پر روانہ ہوتے وقت جب اپنے اونٹ پر سوار ہوتے تو تین مرتبہ اللہ اکبر کہتے پھر یہ دعا پڑھتے ” پاک ہے وہ ذات جس نے اس سواری کو ہمارے لیے مسخر کردیا حالانکہ ہم اس کو زیر کرنے کی طاقت نہ رکھتے تھے۔ بلاشبہ ہم اپنے رب کی طرف پلٹنے والے ہیں۔ بارِالٰہا! ہم اس سفر میں نیکی‘ تقویٰ اور ایسے عمل کا سوال کرتے ہیں جس میں تیری رضا ہو۔ اے ہمارے معبود ! ہمارے اس سفرکو آسان بنا دے‘ اس کی دوری کو سمیٹ دے۔ بارِ الٰہا! تو سفر میں ہمارا ساتھی ہے اور اہل وعیال کی حفاظت فرمانے والا ہے۔ بارِ الٰہا! میں سفر کی مشقتوں‘ غمناک منظر اور اپنے اہل وعیال اور مال میں پریشان واپسی سے تیری پناہ مانگتاہوں۔“ جب واپس آتے تو ان کلمات کا اضافہ فرماتے۔” ہم لوٹنے والے ہیں‘ توبہ کرنے والے ہیں‘ عبادت کرنے والے ہیں اور اپنے خالق ومالک کی حمدوثنا کے گن گانے والے ہیں۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کا بوجھ اٹھانے کے لیے چوپائیپیدا کیے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ بڑی شفقت اور رحمت فرمانے والا ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ نے گھوڑے، خچر اور گدھے سواری کے لیے پیدا کیے ہیں اور ان کو انسان کے تابع کردیا ہے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ وہ کچھ پیدا کرے گا جسے انسان نہیں جانتا۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ شفقت اور رحمت والا ہے : ١۔ اللہ بڑی شفقت اور رحمت والا ہے۔ (النحل : ٧) ٢۔ اللہ تمہارے ساتھ شفقت اور رحمت فرماتا ہے۔ (الحدید : ٩٠) ٣۔ اللہ لوگوں کے ساتھ شفقت اور رحم کرنے والا ہے۔ (البقرۃ : ١٤٣) ٤۔ اللہ نے ان کی توبہ قبول کی بے شک وہ شفقت کرنے اور رحم والا ہے۔ (التوبۃ: ١١٧) النحل
8 النحل
9 فہم القرآن ربط کلام : جس طرح اللہ تعالیٰ نے سواری اور باربرداری کے جانور پیدا فرماکر انسان کے لیے راستے آسان کردیے ہیں۔ اسی طرح ہی اس نے انسان کے لیے صراط مستقیم کی نشان دہی فرما کر ہدایت تک پہنچنے کے لیے آسانی پیدا کردی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی یہ بھی کرم فرمائی ہے کہ اس نے مادی وسائل کے ساتھ انسان کی روحانی خوراک اور راہنمائی کا بندوبست بھی فرمایا ہے۔ نزول آدم سے لے کرتا قیامت انبیائے کرام (علیہ السلام) کے ذریعے انسان کی، روحانی غذا اور فکری راہنمائی کا بندوبست فرما دیا ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ انسان کو اس کی عقل کے حوالے کردیتا تو اس کا صراط مستقیم کو پانا اور اس پر چلنا نہایت مشکل ہوجاتا۔ کیونکہ ہر انسان اپنی عقل اور سوچ کو حرف آخر سمجھ کر ایک دوسرے سے الگ الگ راستہ اختیار کرتا۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے انسان کی رہنمائی اس کی عقل پر چھوڑنے کے بجائے اسے وحی کا پابند کیا اور اس کی رہنمائی کا کام اپنے ذمے لیا ہے۔ اس لیے ارشاد فرمایا کہ صراط مستقیم بتلانا اللہ تعالیٰ نے اپنے ذمے لیا ہے جبکہ بے شمار ٹیڑھے راستے بھی ہیں۔ اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو سب لوگوں کو ہدایت پر جمع کرسکتا تھا۔ لیکن اس نے ہدایت کی طرف راہنمائی اور صراط مستقیم کی نشاندہی کرنے کے بعد انسان کو آزاد چھوڑ دیا ہے تاکہ اپنی عقل و فکر اور آزادی کے ساتھ گمراہی اور صراط مستقیم میں سے کسی ایک راستے کا انتخاب کرسکے۔ سیدھی راہ : (عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ قَالَ کُنَّا عِنْدَ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَخَطَّ خَطًّا وَخَطَّ خَطَّیْنِ عَنْ یَّمِینِہٖ وَخَطَّ خَطَّیْنِ عَنْ یَّسَارِہٖ ثُمَّ وَضَعَ یَدَہٗ فِی الْخَطِّ الأَوْسَطِ فَقَالَ ہَذَا سَبِیْلُ اللَّہِ ثُمَّ تَلاَ ہٰذِہِ الآیَۃَ (وَأَنَّ ہَذَا صِرَاطِیْ مُسْتَقِیْمًا فَاتَّبِعُوْہُ وَلاَ تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِکُمْ عَنْ سَبِیلِہٖ ) [ رواہ ابن ماجۃ : باب اتِّبَاعِ سُنَّۃِ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ] ” حضرت جابر بن عبداللہ (رض) بیان کرتے ہیں ہم نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس تھے۔ آپ نے ایک سیدھا خط کھینچا اور دو خط اس کی دائیں جانب اور دوبائیں جانب۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے درمیانی خط پر ہاتھ رکھ کر فرمایا کہ یہ اللہ کا راستہ ہے اور یہ آیت تلاوت کی یہ میرا سیدھا راستہ ہے اس کی پیروی کرو۔ اس کے علاوہ دوسری راہوں پر نہ چلو ورنہ وہ سیدھی راہوں سے تمہیں جدا کردیں گے۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ ہی راہ ہدایت دکھاتا ہے۔ ٢۔ اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو سبھی کو ہدایت پر جمع کردیتا۔ النحل
10 فہم القرآن ربط کلام : حیوانات کے بعد نباتات کے حوالے سے انسان کو غوروفکر کرنے کی دعوت۔ قرآن مجید میں ارشاد ہوا ہے کہ ہم نے ہر چیز کی زندگی کا انحصار پانی پر رکھا ہے۔ (الانبیاء : ٣٠) بالخصوص انسان اور حیوانات کی زندگی پانی کے سوا چند گھنٹوں کی مہمان ہوتی ہے۔ یہاں تک کہ ان کی خوراک، رہائش بھی پانی کے بغیر ممکن نہیں۔ دنیا جس قدر چاہے ترقی کر جائے اس کی تعمیر و ترقی میں پانی کا عنصر ہمیشہ بنیادی حیثیت کے طور پر شامل رہے گا۔ جہاں تک انسان اور حیوانات کی خوراک کا تعلق ہے۔ اس میں پانی کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ اس لیے نباتات اور پھلوں کا ذکر کرنے سے پہلے پانی کا ذکر کیا ہے اور پانی کی بڑی مقدار اور اس کی منتقلی کا سب سے بڑا ذریعہ بارش ہی ہوا کرتی ہے۔ بارش نہ ہو تو زمین کا پانی بھی نیچے چلا جاتا ہے۔ بارش کی نسبت آسمان کی طرف اس لیے کی جاتی ہے کہ یہ بلندی سے زمین کی طرف آتی ہے۔ جس کو ہوائیں سمندر سے اٹھا کر اوپر لے جاتی ہیں اور وہاں ایک خاص نکتۂ انجماد پر پہنچ کر پانی بارش کی صورت میں برستا ہے۔ جس سے نباتات اور فصلیں اگتی ہیں۔ انسان اور حیوانات اپنی اپنی خوراک حاصل کرتے ہیں۔ بالخصوص اللہ تعالیٰ انسان کے لیے پانی سے زیتون، کھجور، انگور اور ہر قسم کے پھل پیدا کرتا ہے۔ اس میں غوروفکر کرنے والے انسانوں کے لیے اللہ تعالیٰ کی قدرتوں کو پہچاننے اور صراط مستقیم پانے میں بصیرت کے واضح دلائل موجود ہیں۔ جس کی وضاحت یوں فرمائی گئی ہے (وَفِی الْأَرْضِ قِطَعٌ مُّتَجَاوِرَاتٌ وَجَنَّاتٌ مِّنْ أَعْنَابٍ وَّزَرْعٌ وَّنَخِیلٌ صِنْوَانٌ وَّغَیْرُ صِنْوَانٍ یُسْقٰی بِمَآءٍ وَّاحِدٍ وَنُفَضِّلُ بَعْضَہَا عَلٰی بَعْضٍ فِی الْأُکُلِ إِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیَاتٍ لِقَوْمٍ یَعْقِلُوْنَ )[ الرعد : ٤] ” اور زمین کے کئی قطعات ہیں جو آپس میں ملے جلے ہوتے ہیں۔ اس میں انگور کے باغات، مختلف فصلیں اور کھجوریں ہیں۔ جن میں سے کچھ اپنی جڑ سے ملی ہوتی ہیں اور کچھ جڑ سے اوپر ہوتی ہیں۔ ایک ہی پانی سے سیراب ہونے کے باوجود رنگ و نسل اور ذائقے کے اعتبار سے ان کے پھل ایک دوسرے سے بڑھ کر ہوتے ہیں۔ عقل مندوں کے لیے اس میں سوچنے کی بہت سی باتیں ہیں۔“ (أَوَلَمْ یَرَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا أَنَّ السَّمٰوٰتِ وَالْأَرْضَ کَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنَاہُمَا وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَاءِ کُلَّ شَیْءٍ حَیٍّ أَفَلَا یُؤْمِنُوْنَ)[ الانبیاء : ٣٠] ” کیا کافر لوگ غور نہیں کرتے کہ بے شک آسمان و زمین باہم ملے ہوئے تھے ہم نے ان کو جدا کیا اور ہم نے پانی سے ہر چیز کو زندہ کیا، کیا وہ ایمان نہیں لاتے ؟“ مسائل ١۔ آسمان سے پانی نازل کرنے والی اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ کا نازل کردہ پانی تم پیتے ہو اور اسی سے سبزہ اگتا ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ پانی سے انسانوں کے لیے کھیتی، زیتون، کھجور، انگور اور مختلف قسم کے پھل پیدا فرماتا ہے۔ ٤۔ غوروفکر کرنے والوں کے لیے اس میں بہت سے دلائل ہیں۔ تفسیر بالقرآن نباتات میں اللہ تعالیٰ کی نشانیاں : ١۔ اللہ پانی سے تمہارے لیے کھیتی، زیتون، کھجور اور انگور اگاتا ہے۔ (النحل : ١١) ٢۔ اللہ نے کھجوروں اور انگوروں کے باغات پیدا کیے۔ (المومنون : ١٩) ٣۔ اللہ نے زمین میں کھجوروں اور انگوروں کے باغات پیدا کیے۔ (یٰس : ٣٤) ٤۔ اللہ نے پانی سے ہر قسم کی نباتات کو پیدا کیا۔ (الانعام : ٩٩) ٥۔ اللہ نے باغات، کھجور کے درخت اور کھیتی پیدا کی جوذائقہ کے لحاظ سے مختلف ہیں۔ (الانعام : ١٤١) النحل
11 النحل
12 فہم القرآن ربط کلام : نباتات، کھیتوں اور پھلوں کی پیداوار میں رات اور دن، چاند اور سورج کا بڑا دخل ہے اسی لیے دانشور حضرات کو ان کی طرف توجہ دلائی جا رہی ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے بارہا یہ ارشاد فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے رات اور دن، سورج، چاند اور ستاروں کو اپنے حکم سے لوگوں کے لیے مسخر کردیا ہے۔ اس میں اللہ تعالیٰ کی قدرت و سطوت کی نشانیاں اور دانشوروں کے لیے ہدایت کے بے شمار دلائل موجود ہیں۔ رات اور دن، چاند، سورج اور ستاروں کو لوگوں کے لیے مسخر کرنے کا یہ معنیٰ نہیں کہ انسان کسی وقت اس قدر ترقی کر جائے گا کہ وہ رات دن کی گردش، سورج اور چاند کی آمدورفت اور ستاروں کی چمک دمک میں دخل انداز ہو سکے گا۔ یہ پورے کا پورا نظام اور اس کا کنٹرول صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے۔ اس میں سائنس اور کسی کی ولایت کو دخل کا اختیار نہیں ہوسکتا۔ تسخیر سے مراد یہ ہے کہ یہ سب چیزیں اللہ تعالیٰ کے حکم سے انسان کی خدمت میں لگی ہوئی ہیں۔ رات لوگوں کے سکون کے لیے ہے اور دن کام کاج کے لیے۔ اے انسان ذرا سوچ کہ کس طرح اللہ تعالیٰ نے اپنے حکم کے مطابق رات اور دن کا آنا جانا، سورج کا صبح کے وقت طلوع ہو کر مغرب کے وقت غروب ہونا، چاند اور ستاروں کا رات کو اپنے اپنے وقت میں نمودار ہونا یقینی بنا دیا ہے۔ قیامت کے روز اللہ تعالیٰ کا حکم صادر ہوگا تو نہ صرف یہ اپنے اپنے مقام پر جامد ہوجائیں گے بلکہ یہ بے حرکت ہو کر زمین پر گر پڑیں گے۔ اس نظام کی طرف اشارہ کرنے کا مرکزی نقطہ یہ ہے کہ ا انسان! تیرے لیے سوچنے کی بات ہے کہ یہ چیزیں وجود کے اعتبار سے تجھ سے کروڑوں گنا بڑی ہونے کے باوجود اپنے رب کے حکم کی بجا آوری اور تیری خدمت میں لگی ہوئی ہیں۔ تیرا وجود ان کے مقابلے میں کوئی حیثیت نہیں رکھتا مگر پھر بھی تو اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری کے بجائے نافرمانی سے نہیں چوکتا۔ تجھے اپنے فکر و عمل پر غور کرنا چاہیے۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے رات اور دن کو انسان کے لیے مسخر کردیا۔ ٢۔ نظامِ کائنات میں عقلمندوں کے لیے نشانیاں ہیں۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ نے چاند، سورج اور ستاروں کو اپنے حکم سے مسخر کردیا۔ النحل
13 فہم القرآن ربط کلام : آفاقی نشانیوں کے بعد زراعت اور نباتات کے حوالے سے غوروفکر کی دعوت۔ اسی سورۃ کی آیت : ١١ کی تفسیر میں سورۃ الرعد کی آیت : ٤ کے حوالے سے واضح کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ ایک ہی قسم کی زمین، پانی اور آب و ہوا کے ذریعے مختلف فصلیں اور نباتات پیدا کرتا ہے۔ یہ فصلیں اور نباتات جنس کے اعتبار سے ہی مختلف نہیں ہوتیں بلکہ ایک زمین ایک ہی پانی سے سیراب ہونے کے باوجود ایک ہی جنس کے مختلف رنگ اور شکل و صورت اور ذائقے میں واضح فرق ہوتا ہے۔ پودے کو دیکھو زمین، پانی اور سب کچھ ایک ہونے کے باوجود ایک پھول میں مختلف قسم کے رنگ کی پتیاں ہوتی ہیں۔ یہ کس کی قدرت کا کرشمہ ہے؟ اس خالق حقیقی کو پہچاننے اور شرک سے بچنے سے انسان کے لیے اتنی ہی دلیل کافی ہے۔ بشرطیکہ انسان نصیحت حاصل کرنے کے لیے تیار ہو۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے نباتات کی مختلف اقسام کو بھی انسان کے لیے مسخر کردیا۔ ٢۔ اس میں نصیحت حاصل کرنے والوں کے لیے نشانیاں ہیں۔ تفسیر بالقرآن انسان کے لیے نباتات کی مختلف اقسام : ١۔ تمہارے لیے مسخر کیا نباتات کو زمین پر پھیلاکر، ان کی اقسام مختلف ہیں۔ (النحل : ١٣) ٢۔ انہوں نے کھیتی اور مویشیوں میں سے کچھ حصہ اللہ کا مقرر کیا ہے جو اللہ ہی نے پیدا فرمائے ہیں۔ (الانعام : ١٣٦) ٣۔ اللہ نے آسمان سے پانی اتارا اور اس سے مختلف انواع کے پھل پیدا فرمائے۔ (فاطر : ٣٧) ٤۔ اللہ زمین سے کھیتی نکالتا ہے جس کے رنگ مختلف ہوتے ہیں۔ (الزمر : ٢١) النحل
14 فہم القرآن ربط کلام : آفاق اور نباتات کے بعد سمندری انعامات کی طرف توجہ دلائی جا رہی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے نہ صرف لیل و نہار، شمس و قمر اور ستاروں کو اپنے حکم سے انسان کے تابع بنایا ہے بلکہ اس نے زمین اور سمندر کو بھی انسان کے لیے مسخر کردیا ہے۔ لیکن ان چیزوں کی تسخیر میں بنیادی فرق ہے۔ آفاق سے متعلق کائنات انسان کی خدمت میں مصروف ہونے کے باوجود اس کی دسترس سے باہر ہے۔ جہاں تک زمین سے متعلقہ چیزوں کا تعلق ہے وہ کافی حد تک انسان کی دسترس میں کردی گئی ہیں۔ زمین کو انسان جس طرح چاہے استعمال کرسکتا ہے۔ پہاڑوں میں بڑے بڑے محل اور راستے بنا لیے جاتے ہیں، دریاؤں کے رخ موڑ دیے گئے ہیں۔ ١۔ نہروں کے ذریعے وہاں تک پانی پہنچا دیا جاتا ہے جہاں پہنچنے کا انسان تصور بھی نہیں کرسکتا تھا۔ دریاؤں کے پانی کو بڑے بڑے ڈیموں میں بند کرلیا جاتا ہے۔ ٢۔ سمندر کی سطح پر پلوں کی شکل میں بڑی بڑی سڑکیں بنا دی گئی ہیں یہاں تک کہ سمندر کے پانی کی گہرائیوں میں بحری اڈے قائم کردیے گئے ہیں۔ اس طرح مختلف سمندروں سے کروڑوں ٹن ہر روز تروتازہ مچھلی نکالی جاتی ہے۔ جسے انسان اپنی خوراک بنانے کے ساتھ ادویات اور دیگر ضروریات کے لیے استعمال کرتا ہے۔ اسی طرح سمندر کی تہہ سے بڑے بڑے قیمتی ہیرے، جواہرات ہمیشہ سے نکالے جا رہے ہیں جو بالخصوص عورتوں کی حسن و زیبائش کے لیے گراں قدر قیمت کے حامل ہیں۔ معدنیات جیسی خوبصورت چیزیں زمین کی سطح پر نہیں پائی جاتیں۔ اب تو سمندر کے پانی سے تیل اور گیس کے ذخائر تلاش کرلیے گئے ہیں۔ نہ معلوم قیامت تک کون کون سی قیمتی اشیا سمندر کے پانی سے حاصل کرلی جائیں گی۔ ان ذخائر جن کا کوئی اندازہ نہیں کرسکتا۔ اس کے بعد سطح سمندر کی طرف آئیں تو دنیا کی تجارت کا ستر فیصد سے زائد حصہ سمندری راستوں کے ساتھ وابستہ ہے جو پرانے زمانے میں کشتیوں کے ذریعے اور آج کل آبدوزوں اور بحری جہازوں کے ذریعے ایک ملک سے دوسرے ملک پہنچائی جا رہی ہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کے فضل کا نتیجہ ہے جس پر انسان کو اپنے رب کا شکر گزار ہونا چاہیے۔ اگر آدمی تھوڑی سی توجہ کے ساتھ غور کرے تو اسے معلوم ہوگا کہ آخر وہ کونسی وجہ ہے کہ جو پانی سوئی کے معمولی وزن کو اپنی چھاتی پر برداشت نہیں کرتا وہ ہزاروں ٹن وزنی جہازوں کو نہ صرف اپنے آپ پر برداشت کرتا ہے بلکہ اسے اٹھائے ہوئے ہزاروں میل تک منتقل کرنے میں مددگار ثابت ہو رہا ہے۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے انسانی فائدے کے لیے سمندر کو مسخر کر رکھا ہے۔ ٢۔ سمندر میں کشتیاں اللہ کے حکم سے چلتی ہیں۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں پر اس کا شکر ادا کرنا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن شکر کی فضیلت : ١۔ کشتیاں پانی چیرتی ہوئی چلتی ہیں تاکہ تم اس کا فضل تلاش کرو اور شکر کرو۔ (النحل : ١٤) ٢۔ اللہ تعالیٰ شکر گزار بندوں کا قدردان ہے۔ (النساء : ١٤٧) ٣۔ اللہ تعالیٰ شکر ادا کرنے والے کو مزید نوازتا ہے۔ (ابراہیم : ٧) ٤۔ تھوڑے ہی بندے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہیں۔ (سبا : ١٣) ٥۔ اللہ نے آنکھ، کان، دل، اس لیے دیے ہیں کہ اس کا شکر ادا کرو۔ (السجدۃ: ٩) ٦۔ اگر تم اللہ کا شکر کرو تو وہ تمہیں عذاب نہیں کرے گا۔ (النساء : ١٤٧) ٧۔ اللہ شکر کرنے والوں کو جزا دے گا۔ (آل عمران : ١٤٤۔ ١٤٥) ٨۔ شکر سے مراد اللہ کے احکام کی فرمانبرداری کرنا ہے۔ (البقرۃ: ١٥٢۔ ابراہیم : ٧) النحل
15 فہم القرآن ربط کلام : سمندر کے بعد پھر زمین کا تذکرہ۔ بارہویں پارے کی ابتدا میں ذکر ہوا ہے کہ اللہ ہی کی ذات ہے جس نے زمین و آسمان کو چھ دن میں پیدا کیا ہے اس سے پہلے اس کا عرش پانی پر تھا۔ ( ھود : ٧) جب زمین کو پانی پر استوار کیا گیا تو یہ ہچکولے کھاتی تھی جس طرح خالی کشتی پانی پر ہچکولے کھایا کرتی ہے۔ کشتی میں مناسب مقدار میں وزن ہو تو وہ ہچکولے کھانے اور ڈانواں ڈول ہونے کے بجائے پانی کی سطح پر متوازن رفتار میں ٹھہری رہتی ہے۔ یہی کیفیت پہاڑوں سے پہلے زمین کی تھی۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے زمین پر بڑے بڑے پہاڑ گاڑ دیے تاکہ ہچکولے کھانے سے رک جائے۔ پھر پہاڑوں کے درمیان دریا، نہریں اور راستے بنا دیے گئے تاکہ لوگ ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے کے لیے سہولت اور راہنمائی حاصل کریں۔ ان راستوں کو پہچاننے کے لیے زمین پر پہاڑ، ٹیلے، درخت اور دیگر نشانیاں قائم کرنے کے ساتھ رات کے سفر کے لیے آسمان پر چمکتے ہوئے ستاروں کاسلسلہ پھیلا دیا گیا ہے کہ آسمان کے نیچے بلب لٹکا دیے گئے ہیں۔ جس سے صحراؤں اور بیابانوں میں راستہ تلاش کرنا آسان ہوگیا۔ پھر ستاروں کی مدد سے زمین پر راستے متعین کیے جاتے ہیں۔ بڑی بڑی نشانیاں بیان کرنے اور ان کے حوالے سے اپنی ذات اور صفات کی وحدت کا ثبوت دینے کے بعداللہ تعالیٰ ہر انسان بالخصوص کافر اور مشرک سے سوال کرتا ہے۔ جن کو اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کی صفات میں شریک کرتے ہو وہ ان چیزوں کے مقابلے میں وجود کے اعتبار سے نہایت ہی چھوٹی مخلوق ہیں۔ انہیں اور سب کو اللہ تعالیٰ نے ہی پیدا کیا ہے۔ لہٰذا بتاؤ کہ خالق اور مخلوق دونوں برابر ہو سکتے ہیں ؟ ظاہر ہے کہ ہرگز برابر نہیں ہو سکتے پھر تم شرک کو سمجھنے اور اس سے بچنے کی کوشش کیوں نہیں کرتے۔ دوسرے مقام پر اس حقیقت کو یوں بیان کیا ہے کہ اے لوگو تمہارے سامنے ایک مثال بیان کی جاتی ہے اسے غور سے سنو۔ اللہ تعالیٰ کے سوا جن کو تم پکارتے ہو وہ سب جمع ہو کر ایک مکھی بھی پیدا نہیں کرسکتے۔ مکھی پیدا کرنا تو درکنار اگر مکھی ان کے کھانے سے کوئی چیز اٹھا کرلے جائے تو یہ اسے واپس نہیں لے سکتے۔ مدد طلب کرنے والے اور جن سے مدد طلب کی جاتی ہے دونوں ہی کمزور ہیں۔ درحقیقت لوگوں نے اللہ کی قدر ہی نہیں پہچانی۔ (الحج : ٧٣) ترقی یافتہ اقوام اپنے مقابلے میں دوسروں کو اجڈ‘ جاہل اور غیر مہذب تصور کرتی ہیں۔ بالخصوص مسلمانوں کے بارے میں ان کا خیال یہ ہے کہ مسلمان غیر مہذب‘ جاھل اور بنیاد پرست لوگ ہیں۔ حالانکہ اسلام ہی وہ دین ہے جس نے ان فرسودہ خیالات اور تصورات کی نہ صرف حوصلہ شکنی بلکہ مکمل نفی کی ہے۔ ستاروں اور چاند کو مسخر کرنے کا دعوے کرنے والی اقوام ایسے جاہلانہ تصورات رکھتے ہیں کہ انہوں نے ہفتے کے ایام کو انہی بروج اور سیاروں کی طرف منسوب کر رکھا ہے۔ یہاں پہاڑوں کا سب سے بڑا یہ فائدہ ذکر فرمایا ہے کہ ان کے ذریعے زمین کو متوازن بنا دیا گیا۔ اس کا اعتراف آج کے ماہر ارضیات بھی کرتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے پوری زمین پر پہاڑوں کا سلسلہ اس طرح قائم کیا ہے جس سے زمین میں ٹھہراؤ پیدا ہوگیا ہے۔ اس لحاظ سے پہاڑ زمین کو ہچکولے کھانے سے بچانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے زمین میں پہاڑگاڑ دیے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے زمین میں دریا اور راستے بنائے تاکہ تم راہ پا سکو۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ نے علامتیں بنائی ہیں۔ ٤۔ انسان ستاروں سے بھی راستہ تلاش کرتے ہیں۔ ٥۔ پیدا کرنے والا اور نہ کرنے والا برابر نہیں ہو سکتا۔ ٦۔ واضح دلائل کے باوجود لوگ نصیحت حاصل نہیں کرتے۔ تفسیر بالقرآن خالق اور مخلوق برابر نہیں ہو سکتے : ١۔ کیا پیدا کرنے والا اور پیدا نہ کرنے والے برابر ہیں؟ (النحل : ١٧) ٢۔ کیا تم ان کو شریک بناتے ہو جنہوں نے کوئی چیز پیدا نہیں کی بلکہ وہ خود پیدا کیے گئے ہیں۔ (الاعراف : ١٩١) ٣۔ اللہ کے سوا کیا وہ ان لوگوں پکارتے ہیں جنہوں نے کچھ پیدا نہیں کیا بلکہ انہیں پیدا کیا گیا ہے؟ (النحل : ٢٠) ٤۔ انہوں نے ان کو معبود بنا لیا جنہوں نے کوئی چیز پیدا نہیں کی۔ (الفرقان : ٣) ٥۔ بھلا دیکھو جو کچھ تم بوتے ہو تو کیا تم اسے اگاتے ہو یا ہم اگاتے ہیں۔ (الواقعۃ: ٦٣۔ ٦٤) ٦۔ تمہیں آسمان و زمین سے کون رزق دیتا ہے کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور بھی الٰہ ہے ؟ (النمل : ٦٤) النحل
16 النحل
17 النحل
18 فہم القرآن ربط کلام : بڑی بڑی نعمتوں کے ذکر کے بعد انسان کو احساس دلایا ہے کہ تو اگر اپنے رب کی نعمتوں کو شمار کرنا چاہے تو تمہارے لیے ان کا گننا اور شمار کرنا ممکن نہیں ہے۔ آفاقی، زمینی اور بحری نعمتوں کے تذکرے کے بعد ارشاد فرمایا ہے کہ یہ چند نعمتوں کا بیان ہوا ہے اگر تم اپنے رب کی نعمتوں کو شمار کرنا چاہو تم سب مل کر اپنے بنائے کمپیوٹرز اور دیگر ذرائع سے بھی ان کا شمار نہیں کرسکتے۔ اس کی نعمتوں میں سب سے بڑی نعمت عقیدۂ توحید ہے۔ جس کی نشاندہی اللہ کی نعمتیں کر رہی ہیں۔ تم اس کی نعمتوں کی ناشکری اور اس کی ذات اور صفات میں اس کی مخلوق کو شریک کرتے ہو لیکن پھر بھی وہ درگزر کرتا اور تم پر رحم فرماتا ہے۔ وہ سب کچھ جانتا ہے جو تم کھلے عام کہتے اور کرتے ہو اور جو تم اپنے دلوں میں لوگوں سے چھپاتے ہو۔ جن مدفون لوگوں کو تم اللہ کے سوا پکارتے اور حاجت روا، مشکل کشا سمجھتے ہو۔ بتاؤآسمانوں، زمین، فضاؤں اور سمندروں میں کونسی چیز انہوں نے پیدا کی ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے اس وسیع ترین کائنات میں ایک ذرہ بھی پیدا نہیں کیا۔ وہ تو خود پیدا کیے گئے ہیں۔ اب وہ مر چکے تمہاری مدد کس طرح کرسکتے ہیں؟ کیونکہ نہ سنتے ہیں اور نہ حرکت کرسکتے ہیں یہاں تک کہ انہیں یہ بھی خبر نہیں کہ وہ کب اٹھائے جائیں گے۔ یہ بات ہم پہلے بھی عرض کرچکے ہیں کہ ” من دون اللّٰہ“ سے مراد ہر جگہ بت مراد نہیں ہوتے۔ یہاں یہ حقیقت کس قدر کھلے الفاظ میں بیان کی گئی ہے کہ ” من دون اللّٰہ“ سے مراد یہاں بت نہیں ہیں۔ لیکن اس کے باوجود ایک مکتبۂ فکر کے مفسر نے یہاں بھی ” من دون اللّٰہ“ سے مراد بت ہی لیے ہیں۔ حالانکہ شرک کے پردے ہٹا کر دیکھتے اور معمولی سا غور کرتے تو انہیں معلوم ہوجاتا ہے کیا قیامت کے دن پتھروں کو پیدا کیا جائے گا۔ یہ عقیدہ تو دنیا میں کسی جاہل سے جاہل آدمی کا بھی نہیں ہے البتہ یہ ضرور ہے کہ خدا کے باغی لوگوں اور پتھروں کو جہنم میں پھینکا اور تپایا جائے گا۔ (البقرۃ : ٢٤) بالخصوص جن پتھروں کے بت بنائے گئے۔ انہیں تو ضرور جہنم میں جھونکا جائے گا تاکہ ان کے ماننے والے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں کہ جنہیں ہم بزرگوں کا اوتار سمجھ کر اللہ تعالیٰ کے حضور وسیلہ بناتے تھے وہ بھی ہماری طرح بے بس ہو کر جہنم کا ایندھن بن چکے ہیں۔ ( الانبیاء : ٩٨) مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو کوئی شمار نہیں کرسکتا۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ بخشنے والا، رحم کرنے والا ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ ظاہر اور پوشیدہ کو جانتا ہے۔ ٤۔ اللہ کے سوا کسی نے کچھ بھی پیدا نہیں کیا۔ بلکہ وہ خود پیدا کیے گئے ہیں۔ ٥۔ ” من دون اللّٰہ“ کو اتنا بھی علم نہیں کہ وہ کب اٹھائے جائیں گے۔ تفسیر بالقرآن ” من دون اللّٰہ“ نے کچھ پیدا نہیں کیا : ١۔ جن کو تم اللہ کے سوا پکارتے ہو وہ کوئی چیز پیدا نہیں کرسکتے بلکہ وہ خود مخلوق ہیں۔ (النحل : ٢٠) ٢۔ کیا تم ان کو شریک بناتے ہو؟ جنہوں نے کوئی چیز پیدا نہیں کی بلکہ وہ خود پیدا کیے گئے ہیں۔ (الاعراف : ١٩١) ٣۔ انہوں نے ان کو معبود بنا لیا جنہوں نے کوئی چیز پیدا نہیں کی حالانکہ وہ خود مخلوق ہیں۔ (الفرقان : ٣) ٤۔ بے شک جن لوگوں کو تم اللہ کے سوا پکارتے ہو وہ مکھی بھی نہیں پیدا کرسکتے اگرچہ سارے بھی جمع ہوجائیں۔ (الحج : ٧٣) ٥۔ کیا یہ لوگ بغیر کسی چیز کے پیدا ہوگئے ہیں یا یہ اپنے خالق خود ہی ہیں؟ (الطور : ٣٥) ٦۔ من دون اللہ یعنی ” غیر اللہ“ سے مت مانگو۔ (یونس : ١٠٦) النحل
19 النحل
20 النحل
21 النحل
22 فہم القرآن ربط کلام : دلائل کے ساتھ باطل معبودوں کی نفی کرتے ہوئے اللہ کا ایک الٰہ ہونا ثابت کیا گیا ہے۔ اہل علم جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا حقیقی نام اللہ اور الٰہ ہے۔ لفظ الٰہ اور اللہ میں کوئی خاص فرق نہیں ہے۔ الٰہ اللہ تعالیٰ کا نام ہونے کے ساتھ اس کی صفت کے طور پر بھی استعمال ہوتا ہے۔ اگر الٰہ کو صرف صفت کے معنیٰ میں لیا جائے تو یہ ایسا لفظ اور نام ہے جو اللہ تعالیٰ کی تمام بڑی بڑی صفات کا ترجمان ہے۔ قرآن مجید میں متعدد مقامات پر اللہ تعالیٰ کی مختلف صفات کا معنی لفظ الٰہ کے ذریعے ادا کیا گیا ہے۔ چنانچہ یہاں پہلی آیات میں یہ ثابت کیا گیا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔ جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں لاتے ان کے دل اس حقیقت سے انکار کرتے ہیں اور آخرت کے انکار کی وجہ سے یہ متکبر ہوگئے ہیں۔ حالانکہ آخرت میں شک کرنے کی رائی برابر گنجائش نہیں انھیں معلوم ہونا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ جانتا ہے جو کچھ وہ چھپاتے اور جس کا وہ اظہار کرتے ہیں۔ یقیناً اللہ تعالیٰ تکبر کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ یہاں توحید اور عقیدۂ آخرت کو یکجا اس لیے بیان کیا گیا ہے کہ عقیدۂ توحید اس وقت تک کامل اور اکمل نہیں ہوسکتا جب تک انسان موت کے بعد اٹھنا اور اٹھنے کے بعد اللہ تعالیٰ کے حضور پیش ہونا اور اپنے برے بھلے اعمال کی سزا اور جزا پر یقین نہ رکھے۔ کیوں کہ جو شخص آخرت کا انکار کرتا ہے اس کا منطقی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کو موت کے بعد زندہ کرنے پر قادر نہیں سمجھتا اور نہ ہی وہ اللہ تعالیٰ کو عادل اور منصف مانتا ہے حالانکہ اس کے عدل کا تقاضا یہ ہے کہ وہ ایک دن لوگوں کو زندہ کرے اور وہاں نیک لوگوں کو پوری پوری جزا دے اور مجرموں کو ٹھیک ٹھیک سزا دی جائے۔ پوری پوری جزا اور سزا کا عمل قیامت کے بغیر ممکن نہیں کیونکہ دنیا میں انبیاء (علیہ السلام) اور صالحین کی خدمات کا صلہ کما حقہ کوئی نہیں دے سکتا۔ اسی طرح ہی کتنے قاتل ہیں جنہیں دنیا میں ایک مقتول کے بدلے قتل کیا گیا۔ جب کہ باقی مقتول اور مظلوم لوگوں کی سزا اسے نہیں دی جا سکتی۔ ایسے مجرم کو قیامت کے دن ہی ٹھیک ٹھیک سزا دی جائے گی۔ انہیں خبر ہونی چاہیے کہ جو کچھ دنیا میں چھپاتے اور ظاہر کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سب کچھ جانتا ہے لہٰذا کان کھول کر سن لیں! کہ دنیا میں انہیں ڈھیل دینے کا یہ معنیٰ نہیں کہ اللہ تعالیٰ انہیں پسند کرتا ہے۔ ہرگز نہیں اللہ تعالیٰ متکبرین کو ہرگز پسند نہیں کرتا۔ (عَنْ عَبْدِاللّٰہِ بْنِ مَسْعُوْدٍ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لَا یَدْخُلُ الجَنَّۃَ مَنْ کَانَ فِیْ قَلْبِہٖ مِثْقَالُ ذَرَّۃٍ مِنْ کِبْرٍ فَقَالَ رَجُلٌ اِنَّ الرَّجُلَ یُحِبُّ اَنْ یَّکُوْنَ ثَوْبُہٗ حَسَنًا وَ نَعْلُہٗ حَسَنًا قَالَ اِنَّ اللّٰہَ تَعَالٰی جَمِیْلٌ یُّحِبُّ الجَمَالَ اَلْکِبْرُ بَطَرُ الْحَقِّ وَ غَمْطُ النَّاسِ)[ رواہمسلم : باب تحریم الکبر وبیانہ] ” حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس شخص کے دل میں رائی کے دانے کے برابر تکبر ہوگا وہ جنت میں داخل نہیں ہو سکے گا۔ ایک آدمی نے عرض کی ایک شخص پسند کرتا ہے کہ اس کے کپڑے اور جوتے اچھے ہوں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ خوبصورت ہے خوبصورتی کو پسند فرماتا ہے۔ تکبر حق بات کو چھپانا اور لوگوں کو حقیر جاننے کا نام ہے۔“ مسائل ١۔ الٰہ حق ایک ہی ہے۔ ٢۔ آخرت پر ایمان نہ لانے والوں کے دل منکر ہیں اور وہ تکبر کرتے ہیں۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ ظاہر اور پوشیدہ کو جانتا ہے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ تکبر کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ تفسیر بالقرآن الہٰ ایک ہی ہے ١۔ تمہارا الٰہ ایک ہی ہے اس کے سوا کوئی الٰہ نہیں وہ رحمن ورحیم ہے (البقرۃ۔ ١٦٣) ٢۔ یقیناً اللہ ایک ہی الٰہ ہے وہ اولاد سے پاک ہے آسمان و زمین کی ہر چیز اسی کے لیے ہے (النساء۔ ١٧١) ٣۔ اسکے سوا کوئی الٰہ نہیں مگر وہ اکیلا ہی ہے ( المائدۃ: ٧٣) ٤۔ کہہ دیجیے اللہ ایک ہی الٰہ ہے اور میں تمہارے شرک سے بری ہوں۔ (الانعام : ١٩) ٥۔ اللہ نے فرمایا دو الٰہ نہ بناؤ یقیناً الٰہ ایک ہی ہے۔ (النحل : ٥١) النحل
23 النحل
24 فہم القرآن ربط کلام : منکرین آخرت حقیقت میں متکبر ہوتے ہیں لہٰذا تکبر کرنے کا نتیجہ اور اس کا انجام۔ یہ تکبر کا ہی نتیجہ ہے کہ کفار سے جب یہ کہا جاتا کہ سوچو تمہارے رب نے کیا کیا ارشادات نازل فرمائے ہیں۔ اس کے جواب میں کہتے ہیں کہ ہم سے پہلے لوگوں کے قصے کہانیاں ہیں۔ اس طرح نہ صرف خود حق کا انکار کرتے ہیں بلکہ اس پروپیگنڈہ کے ذریعے دوسرے لوگوں کو بھی حق سے دور رکھتے ہیں۔ اس کا نتیجہ ہوگا کہ قیامت کے دن یہ اپنے گناہوں کا بوجھ اٹھانے کے علاوہ ان کا بوجھ بھی اٹھائے ہوئے ہوں گے جن کو انھوں نے گمراہ کیا ہوگا۔ کتنا ہی برا بوجھ ہے جسے اٹھائے ہوئے ہوں گے اور ہمیشہ کے لیے جہنم میں ذلیل ہوں گے۔ (الفرقان : ٦٩) جہاں تک اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے کہ کوئی کسی کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔ (النجم : ٣٨) اس میں کوئی شک نہیں کہ کوئی ایک دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔ لیکن جو لوگ دوسروں کی گمراہی کا سبب بنیں گے کیونکہ ان کا دوہرا گناہ ہوگا اس لیے انہیں بوجھ بھی دوگنا اٹھانا پڑے گا۔ اس فرمان سے ثابت ہوتا ہے کہ قیامت کے دن مجرموں کو ذلیل کرنے کے لیے ان کے گناہوں کو حجم کی شکل دے کر ان کے کندھوں پر لادا جائے گا تاکہ وہ ایک دوسرے کی نظروں میں ذلیل ہوتے رہیں۔ پہلے زمانے میں کچھ لوگ اس وجہ سے گمراہ ہوئے کہ نیکی اور بدی کا وزن نہیں ہوسکتا مگر آج سائنس نے یہ بات ثابت کردی ہے کہ انسان کے جسم کا ٹمپریچر ماپا اور ہوا کا وزن کیا جا سکتا ہے۔ کیا جس رب نے انسان کو یہ عقل اور صلاحیت دی ہے وہ اس کے اچھے اور برے اعمال کا وزن نہیں کرسکتا؟ یقیناً لوگوں کے اعمال کو تولا جائے گا۔ (أَنَّ أَبَا ہُرَیْرَۃَ قَالَ قَامَ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حِینَ أَنْزَلَ اللَّہُ (وَأَنْذِرْ عَشِیرَتَکَ الأَقْرَبِینَ) قَالَ یَا مَعْشَرَ قُرَیْشٍ أَوْکَلِمَۃً نَحْوَہَا۔۔ وَیَا فَاطِمَۃُ بِنْتَ مُحَمَّدٍ سَلِینِی مَا شِءْتِ مِنْ مَالِی، لاَ أُغْنِی عَنْکِ مِنَ اللَّہِ شَیْءًا)[ رواہ البخاری : باب (وَأَنْذِرْ عَشِیرَتَکَ الأَقْرَبِین۔۔)] ” حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوئے جب یہ آیت نازل ہوئی کہ اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈرائیں آپ نے فرمایا اے قریش کی جماعت یا اس طرح کہ دوسرے کلمات ادا فرمائے۔۔ اور کہا اے فاطمہ بنت محمد دنیا کا جو مال مجھ سے لینا چاہتی ہے لے لے میں اللہ کے ہاں تجھے کچھ فائدہ نہیں پہنچا سکوں گا۔“ مسائل ١۔ قرآن مجید کو کفار سابقہ امم کے قصے کہانیاں کہتے ہیں۔ ٢۔ قیامت والے دن اپنا اور جس کو گمراہ کیا ہوگا اس کا بھی بوجھ اٹھانا پڑے گا۔ تفسیر بالقرآن قیامت کے دن نیکی اور بدی کا وزن ہوگا : ١۔ قیامت کے دن اپنے اعمال کا بوجھ اٹھانا ہوگا۔ (النحل : ٢٥) ٢۔ قیامت کے دن اعمال کا وزن ضرور ہوگا۔ (الاعراف : ٨) ٤۔ قیامت کے دن ہم عدل کا میزان قائم کریں گے۔ (الانبیاء : ٤٧) ٥۔ جس کی نیکیوں کا بوجھ زیادہ ہوگا وہ عیش و عشرت میں ہوگا۔ (المومنون : ١٠٢) ٦۔ جس کی نیکیاں زیادہ ہوں گی وہ عیش وعشرت میں ہوگا۔ (القارعۃ: ٦۔ ٧) ٧۔ جن کی نیکیاں کم ہوں گی یہ وہ لوگ ہوں گے جنہوں نے اپنے آپ کو خسارے میں رکھا ہوگا۔ (المومنون : ١٠٣) ٨۔ جس کی نیکیوں کا وزن کم ہوا اس کا ٹھکانہ ہاویہ ہے۔ (القارعۃ: ٨۔ ٩) ٩۔ قیامت کے دن چھوٹی سے چھوٹی نیکی بھی اس کے سامنے آجائے گی اور چھوٹی سے چھوٹی برائی بھی۔ (الزلزال : ٧۔ ٨) النحل
25 النحل
26 فہم القرآن ربط کلام : گمراہوں اور ان کے راہنماؤں کا دنیا میں انجام۔ ” لفظ مکر“ کے بارے میں کئی بار وضاحت ہوچکی ہے کہ اگر اس لفظ کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف ہو تو اس کا معنی تدبیر اور منصوبہ بندی ہوتا ہے۔ اگر مکر کی نسبت کسی برے کام اور شخص کی طرف ہو تو پھر اس کا معنی فریب، دھوکا، سازش اور شرارت ہوتا ہے۔ جرائم پیشہ لوگوں، کفار اور مشرکین کی شروع سے یہ عادت رہی ہے کہ وہ لوگوں کو حق سے دور رکھنے اور اپنا ہمنوا بنانے کے لیے مختلف قسم کی سازشیں، شرارتیں اور ہتھکنڈے استعمال کرتے ہیں۔ ان میں غلط قسم کے الزامات اور مختلف قسم کا پروپیگنڈہ ہر دور میں انبیاء کرام (علیہ السلام) اور داعیانِ حق کے خلاف کیا گیا ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے حق کو اس طرح غالب کرتا ہے جس سے حق کے منکروں کے بنے ہوئے جال، الزامات اور ان کے جھوٹے پروپیگنڈے کی بنیاد پر کھڑی کی گئیں عمارتیں ریزہ ریزہ ہو کر دھڑام جاتی ہیں۔ گویا کہ ان کی بنائی ہوئی عمارتیں اور محلات انہی کے اوپر آگرتے ہیں۔ بالآخر اللہ کے عذاب نے انہیں ایسی حالت میں آلیا جس کے بارے میں وہ تصور بھی نہیں کرسکتے تھے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ کا اچانک عذاب آنے کی چند مثالیں : ١۔ مجرموں پر عذاب اس طرف سے آیا جدھر سے ان کو خیال بھی نہ تھا۔ (النحل : ٢٦) ٢۔ قوم ثمود کو زلزلے نے آپکڑا اور وہ اپنے گھروں میں اوندھے پڑے رہ گئے۔ (الاعراف : ٧٨) ٣۔ قوم لوط کو سورج نکلنے سے پہلے پہلے ایک آواز نے آلیا۔ (الحجر : ٧٣) ٤۔ اگر کفار کے پاس اچانک اللہ کا عذاب آئے تو وہ اسے ٹال نہ سکیں گے۔ (الانبیاء : ٤٠) ٥۔ کفار کے پاس اچانک عذاب آئے گا اور وہ شعور بھی نہیں رکھیں گے۔ (الشعراء : ٢٠٢) النحل
27 فہم القرآن ربط کلام : دنیا کے انجام کے ساتھ مجرموں کا آخرت میں انجام۔ گمراہ اقوام اور ان کے راہنماؤں کا دنیا میں بدترین انجام ہوا۔ قیامت کے روز بھی انہیں رسوا کیا جائے گا۔ قیامت کی رسوائیوں میں ایک رسوائی یہ ہوگی کہ غلط پیروں اور ان کے مریدوں، لیڈروں اور ان کے ور کروں، علماء اور ان کے پیروکاروں کو آمنے سامنے کھڑا کر کے اللہ تعالیٰ ان سے پوچھے گا کہ کہاں ہیں میرے وہ شریک جن کے بارے میں تم بحث و تکرار، جنگ و جدال اور جھوٹے دلائل دیا کرتے تھے۔ جب کوئی جواب نہیں دے پائیں گے تو اہل علم پکار اٹھیں گے۔ آج کے دن کافر اور مشرک ذلیل ہوجائیں گے۔ قرآن مجید میں کافروں اور مشرکوں کی رسوائیوں کا یوں ذکر کیا گیا ہے : تفسیر بالقرآن قیامت کے دن پیروں، مریدوں کی تقرار : ١۔ قیامت کے دن وہ ایک دوسرے کی تکفیر کریں گے اور ایک دوسرے پر پھٹکار کریں گے۔ (العنکبوت : ٢٥) ٢۔ قیامت کے دن پیشوا اپنے پیرو کاروں سے براءت کا اظھار کریں گے۔ (البقرۃ: ١٦٦) ٣۔ قیامت کے دن پیروکار کہیں گے اگر دنیا میں جانا ہمارے لیے ممکن ہو تو ہم تم سے براءت کا اظھار کریں گے (البقرۃ: ١٦٥) ٤۔ کاش آپ ظالموں کو اس وقت دیکھیں جب وہ اپنے رب کے سامنے کھڑے ہو نگے تو ایک دوسرے کے سامنے تردد کرتے ہوئے کمزوراپنے بڑوں سے کہیں گے کہ اگر تم نہ ہوتے تو ہم مومن ہوتے جب کہ ان کے بڑے اس سے انکاری ہونگے (سبا : ٣٢۔ ٣١) ٥۔ قیامت کے دن مجرم دوزخ میں جھگڑیں گے تو کم تر لوگ اپنے بڑوں سے کہیں گے کہ ہم تو تمہارے تابع تھے (المومن : ٤٨) النحل
28 فہم القرآن ربط کلام : آخرت میں کفار اور مشرکین کی ذلت کی ابتداء۔ کفار اور مشرکین کے بارے میں بتلایا جا رہا ہے کہ ان کی موت ذلت کے ساتھ ہوگی اور قیامت کے دن بھی ذلیل ہوں گے۔ اس سے قبل دو آیات میں یہ بتلایا ہے کہ کفار دنیا میں بھی ذلیل ہوتے ہیں۔ بالخصوص انبیاء کرام کا براہ راست مقابلہ کرنے والے کفار اور مشرک بالآخر دنیا میں ذلیل ہوئے۔ اب یہ بتلایا جاتا ہے کہ ان کی ذلت کی ابتدا اسی وقت ہوجاتی ہے جب ملائکہ ان کی روح قبض کرتے ہیں۔ ملائکہ پوچھتے ہیں کہ تم کس حال میں تھے؟ وہ خوف کے مارے کہتے ہیں ہم کوئی برے کام نہیں کررہے تھے۔ ملائکہ انہیں جھڑکیاں دیتے ہوئے کہتے ہیں کیوں نہیں! تم اپنے رب کے نافرمان اور باغی تھے۔ تم مانو یا نہ مانو اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال کو خوب جانتا ہے۔ بعض مفسرین نے ” فَاَلْقَوُاالسَّلَمَ“ کا یہ مفہوم لیا ہے کہ مرنے کے وقت یہ لوگ موت کے ملائکہ کو دیکھ کر ہتھیار ڈال دیں گے یعنی بے بس ہوجائیں گے یہاں تک کہ آہ وزاری کرنا چاہیں بھی تو نہیں کرسکیں گے۔ قرآن مجید نے دوسرے مقام پر یہ بھی بیان کیا ہے کہ موت کے وقت ملائکہ ان کے چہروں پر تھپڑ مارتے ہوئے کہتے ہیں کہ اپنی روح ہمارے حوالے کرو جب روح ان کے جسد عنصری سے باہر نہیں نکلتی تو وہ ان کے چہروں پر تھپڑ مارتے اور جھڑکیاں دیتے ہیں۔ اس ذلت اور رسوائی کے ساتھ ان کی روح قبض کی جاتی ہے۔ مرنے کے بعد ان کی قبر کو جہنم کے گڑھوں میں سے ایک گڑھا بنا دیا جاتا ہے۔ محشر کے دن حکم ہوگا کہ تم جہنم کے دروازوں میں ہمیشہ کے لیے داخل ہوجاؤ۔ جو تکبر کرنے والوں کے لیے بد ترین جگہ ہے۔ یہاں جہنم کے ایک دروازے کا ذکر کرنے کی بجائے جمع کا لفظ لا کر یہ بتایا گیا ہے کہ یہ ایسے مجرم ہیں کہ جہنم کے تمام دروازے اور اس کی بلائیں ان کا انتظار کر رہی ہوں گی۔ (عَنِ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) إِنَّ الْعَبْدَ الْکَافِرَ إِذَا کَانَ فِی انْقِطَاعٍ مِنَ الدُّنْیَا وَإِقْبَالٍ مِنَ الآخِرَۃِ نَزَلَ إِلَیْہِ مِنَ السَّمَآءِ مَلَآءِکَۃٌ سُوْدُ الْوُجُوْہِ مَعَہُمُ الْمُسُوْحُ فَیَجْلِسُوْنَ مِنْہُ مَدَّ الْبَصَرِ ثُمَّ یَجِیْٓءُ مَلَکُ الْمَوْتِ حَتّٰی یَجْلِسَ عِنْدَ رَأْسِہٖ فَیَقُولُ أَیَّتُہَا النَّفْسُ الْخَبِیْثَۃُ اخْرُجِیْٓ إِلَی سَخَطٍ مِّنَ اللّٰہِ وَغَضَبٍ قَالَ فَتُفَرَّقُ فِیْ جَسَدِہٖ فَیَنْتَزِعُہَا کَمَا یُنْتَزَعُ السَّفُّوْدُ مِنَ الصُّوْفِ الْمَبْلُوْلِ) [ رواہ أحمد] ” حضرت براء بن عازب (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب کافر کا دنیا سے رخصت ہونے کا اور موت کا وقت آ جاتا ہے تو آسمان سے کالے چہروں والے فرشتے اترتے ہیں۔ ان کے پاس کھردرا لباس ہوتا ہے۔ وہ فرشتے فوت ہونے والے کافر سے حد نگاہ تک دور بیٹھ جاتے ہیں۔ ملک الموت اس کے سرہانے آکر کہتا ہے۔ اے خبیث جان! اللہ کی ناراضگی اور غضب کا سامنا کر پھر روح اس کے جسم سے الگ ہوجاتی ہے۔ پھر اسے اس طرح کھینچتے ہیں جیسے گرم سلاخ کو روئی سے کھینچا جاتا ہے۔“ مسائل ١۔ ظالم اپنے برے اعمال کو درست سمجھتے ہیں۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ ہر کسی کے عمل سے باخبر ہے۔ ٣۔ کفار جہنم میں ہمیشہ رہیں گے۔ ٤۔ تکبر کرنے والوں کا بہت برا ٹھکانا ہے۔ تفسیر بالقرآن جہنم بدترین جگہ ہے : ١۔ جہنم کے دروازوں سے ہمیشہ کے لیے داخل ہوجاؤ تکبر کرنے والوں کا کیسا برا ٹھکانہ ہے۔ (النحل : ٢٩) ٢۔ ان کا ٹھکانہ جہنم ہے اور وہ برا ٹھکانہ ہے۔ (النساء : ٩٧) ٣۔ رسول کی مخالفت کرنے والوں کو جہنم میں ڈالا جائے گا اور وہ بہت برا ٹھکانہ ہے۔ (النساء : ١١٥) ٤۔ اللہ نے کفار کے لیے جہنم تیار کی ہے، وہ برا ٹھکانہ ہے۔ (الفتح : ٦) ٥۔ بے شک جہنم برا ٹھکانہ اور برا مقام ہے۔ (الفرقان : ٦٦) النحل
29 النحل
30 فہم القرآن ربط کلام : کفار، مشرکین اور مجرموں کے انجام کے بعد متقی حضرات کا صلہ اور ان کے انجام اور انعام کا بیان۔ اس خطاب کا آغاز اس بات سے ہوا تھا کہ لوگو! تمہارا الٰہ صرف ایک ہی الٰہ ہے۔ جس کے ردِّ عمل میں کافر اور مشرک یہ کہتے ہیں یہ تو پہلے لوگوں کے قصے کہانیاں ہیں۔ ان کے مقابلے میں جو لوگ کفر و شرک سے تائب ہوئے اور اللہ کی توحید کا اقرار کیا ان کا رد عمل یہ ہوتا ہے کہ جب ان سے پوچھا جائے کہ تمہارے رب نے تمہاری ہدایت کے لیے کیا نازل فرمایا ہے وہ بلا تاخیر کہتے ہیں کہ ہمارے رب نے جو کچھ نازل کیا ہے اس میں ہماری بھلائی اور رہنمائی ہے۔ ان کے لیے دنیا میں بھی بہتری ہے اور آخرت میں ان کے لیے خیر ہی خیر ہی ہوگی متقی حضرات کے لیے کتنا ہی اچھا گھر تیار کیا گیا ہے۔ جس میں یہ داخل کیے جائیں گے اس کے نیچے نہریں جاری ہوں گی جو کچھ چاہیں گے اللہ تعالیٰ کی طرف سے انہیں عنایت ہوگا۔ اس طرح متقی حضرات کو بہترین جزا دی جائے گی۔ (عَنِ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ (رض) قَالَ خَرَجْنَا مَعَ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) إِلٰی جِنَازَۃٍ فَجَلَسَ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عَلَی الْقَبْرِ وَجَلَسْنَا حَوْلَہٗ کَأَنَّ عَلٰی رُءُ وسِنَا الطَّیْرَ وَہُوَ یُلْحَدُ لَہٗ فَقَالَ أَعُوْذُ باللَّہِ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ ثَلاَثَ مِرَارٍ ثُمَّ قَالَ إِنَّ الْمُؤْمِنَ إِذَا کَانَ فِیْٓ إِقْبَالٍ مِنَ الآخِرَۃِ وَانْقِطَاعٍ مِنَ الدُّنْیَا تَنَزَّلَتْ إِلَیْہِ الْمَلاَءِکَۃُ کَأَنَّ عَلٰی وُجُوہِہِمُ الشَّمْسَ مَعَ کُلِّ وَاحِدٍ مِّنْہُمْ کَفَنٌ وَحَنُوْطٌ فَجَلَسُوْا مِنْہُ مَدَّ الْبَصَرِ حَتّٰی إِذَا خَرَجَ رُوحُہٗ صَلّٰی عَلَیْہِ کُلُّ مَلَکٍ بَیْنَ السَّمَآءِ وَالأَرْضِ وَکُلُّ مَلَکٍ فِی السَّمَآءِ) [ رواہ أحمد ] ” حضرت براء بن عازب (رض) بیان کرتے ہیں ہم رسول اللہ کے ساتھ ایک جنازہ کے لیے نکلے آپ ایک قبرکے قریب بیٹھ گئے اور ہم آپ کے اردگرد اس طرح بیٹھے۔ گویا کہ ہمارے سروں پر پرندے بیٹھے ہوں۔ میت کے لیے لحد بنائی جارہی تھی۔ آپ نے فرمایا میں قبر کے عذاب سے پناہ چاہتاہوں۔ پھر آپ نے فرمایا جب مومن کا دنیا سے رخصت ہونے اور موت کا وقت آتا ہے تو آسمان سے خوبصورت چہروں والے فرشتے نازل ہوتے ہیں ہر ایک کے پاس کفن اور خوشبو ہوتی ہے۔ فرشتے فوت ہونے والے مومن سے حد نگاہ تک اس سے دور بیٹھ جاتے ہیں۔ جب اس کی روح نکل جاتی ہے تو زمین و آسمان کے درمیان تمام فرشتے اس کے لیے دعا کرتے ہیں۔“ مسائل ١۔ قرآن مجید کو متقین اپنے لیے رہنمائی اور خیر ہی خیر سمجھتے ہیں۔ ٢۔ نیکی کرنے والوں کے لیے دنیا میں بھی بھلائی ہے۔ ٣۔ نیکو کاروں کے لیے آخرت کا گھر بہتر ہے۔ ٤۔ متقین کو ہمیشہ رہنے والے باغات میں داخل کیا جائے گا۔ ٥۔ جنت میں وہ کچھ ملے گا جو جنتی خواہش کریں گے۔ ٦۔ اللہ تعالیٰ متقین کو بہترین صلہ عطا فرمائے گا۔ تفسیر بالقرآن متقین کا دنیا اور آخرت میں صلہ : ١۔ اللہ تعالیٰ متقین کے ساتھ ہے۔ (النحل : ١٢٨) ٢۔ متقین امن و سلامتی والے گھر میں ہوں گے۔ (الدخان : ٥١) ٣۔ متقین کے لیے دنیا میں بھی بھلائی ہے اور آخرت ان کے لیے زیادہ بہتر ہے۔ (النحل : ٣٠) ٤۔ اللہ سے ڈرنے والوں کے لیے جنت ہے جس کے نیچے نہریں جاری ہیں۔ (آل عمران : ١٩٨) ٥۔ اللہ تعالیٰ متقین کو قیامت کے دن گروہ در گروہ جنت میں داخل کرے گا۔ (الزمر : ٧٣) ٦۔ ایمان لانے اور تقویٰ اختیار کرنے والوں کے لیے دنیا اور آخرت میں خوشخبری ہے۔ (یونس : ٦٣۔ ٦٤) النحل
31 النحل
32 فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ متقی حضرات کے ساتھ موت کے فرشتوں کا حسن سلوک۔ شرک سے بچنے اور اللہ تعالیٰ کی توحید کے تقاضے پورے کرنے والے حضرات ہی حقیقی معنوں میں متقی ہوتے ہیں۔ ایسے متقی حضرات کو دنیا میں ہر قسم کی اچھائی اور موت کے بعد جنت کے انعام و اکرام عطا کیے جائیں گے۔ جن کی ابتدا متقین کی موت کے وقت ہی ہوجاتی ہے۔ جس کا پہلا منظر یہ ہے کہ ملائکہ جب ان کی روح قبض کرنے کے لیے تشریف لاتے ہیں تو متقی حضرات کو سلام عرض کرتے ہوئے تسلی دیتے ہیں کہ آپ کو کسی قسم کا خوف و خطر نہیں ہوگا۔ جونہی تمہاری جان قبض کی جائے گی تمہیں جنت میں داخلہ مل جائے گا کیونکہ تم نیک عمل کیا کرتے تھے۔ اس خوشخبری کو اس طرح بھی بیان کیا گیا ہے کہ جن لوگوں نے اس بات کا اقرار کیا کہ ہمیں پیدا کرنے اور رزق دینے والا صرف ایک اللہ ہے پھر وہ تا دم آخر عقیدۂ توحید پر قائم رہے ملائکہ ان کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے خوشخبری سناتے ہیں کہ خوف اور غم نہ کرو تمہیں اس جنت کی خوشخبری دی جاتی ہے جس کا تمہارے ساتھ وعدہ کیا گیا تھا۔ ہم دنیا کی زندگی میں بھی تمہارے خیر خواہ تھے اور آخرت میں بھی تمھارے ساتھ ہیں۔ تمہارے لیے وہ سب کچھ ہے جس کی تم تمنا کرو گے۔ یہ غفور الرحیم رب کی طرف سے تمہاری مہمان نوازی ہے۔ (حٰم السجدۃ: ٣٠۔ ٣١۔ ٣٢) مسائل ١۔ مومن کو موت کے وقت اور قبر میں ملائکہ خوشخبری دیتے ہیں۔ ٢۔ متقین کو جنت میں داخل کیا جائے گا۔ ٣۔ فرشتے مومنین کی روحیں قبض کرتے ہوئے انہیں سلام کہتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن متقین حضرات کو موت سے لے کر جنت میں داخل ہونے تک ملائکہ کا سلام کرنا : ١۔ جب فرشتے پاکباز لوگوں کی روحیں قبض کرتے ہیں توانھیں سلام کہتے ہیں اور جنت کی خوشخبری دیتے ہیں۔ (النحل : ٣٢) ٢۔ فرشتے کہتے ہیں تم پر سلامتی ہو تم نے صبر کیا آخرت کا گھر بہت ہی بہتر ہے۔ (الرعد : ٢٤) ٣۔ داخل ہوجاؤ جنت میں سلامتی کے ساتھ آج تمھارے لیے داخلے کا دن ہے۔ (ق : ٣٤) ٤۔ فرشتے جب جنتیوں پر داخل ہوں گے تو سلام کہیں گے۔ (الزمر : ٨٩) النحل
33 فہم القرآن ربط کلام : متقی حضرات کو خوشخبری سنانے کے بعد خطاب کا رخ مشرکین کی طرف کیا گیا ہے۔ مشرکین اور خدا کے منکر جب حق کے مقابلے میں لا جواب ہوجاتے تو اس بات کا مطالبہ کرتے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ اللہ اس نبی کے پاس فرشتے بھیجتا ہے اور ملائکہ ہمارے پاس کیوں نہیں بھیجتا؟ بسا اوقات وہ اس بات کو یوں بھی کہتے کہ ہم اس وقت تک ایمان نہیں لائیں گے جب تک فرشتے آکر ہمارے سامنے اس کی تائید نہ کریں۔ بار بار سمجھانے کے باوجودیہ لوگ سمجھنے کے لیے تیار۔ ان کے ایک اعتراض کا مدلل جواب دیا جاتا ہے تو دوسرا اعتراض جوڑ دیتے۔ جب اس کے بارے میں تشفی کردی جاتی ہے تو تیسرا اعتراض کیے دیتے ہیں ان کا مقصد حق سمجھنا اور قبول کرنا نہیں تھا بلکہ یہ لوگ اپنے ساتھیوں کو ورغلانے اور حق والوں کو پریشان کرنے کے سوا کوئی ارادہ نہیں رکھتے۔ لہٰذا اب تو یہ عملاََ اس بات کے منتظر ہیں کہ ان کے پاس اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے فرشتے آئیں جو ان کا قلع قمع کردیں یا پھر اللہ کا عذاب آئے جو انہیں تہس نہس کر دے۔ یہی رویہ ان سے پہلے لوگوں نے اختیار کیا تھا۔ جس وجہ سے وہ ہلاک کردیے گئے۔ اللہ تعالیٰ نے ان پر کوئی زیادتی نہیں کی۔ وہ خود ہی اپنے آپ پر زیادتی کرنے والے تھے۔ اسی وجہ سے ان کو اپنے اعمال کا انجام دیکھنا پڑا اور جس عذاب کو وہ استہزاء کا نشانہ بناتے تھے اس نے انہیں اچانک دبوچ لیا۔ ظلم کی حرمت : (عَنْ أَبِی ذَرٍّ عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فِیمَا رَوَی عَنِ اللَّہِ تَبَارَکَ وَتَعَالَی أَنَّہُ قَالَ یَا عِبَادِی إِنِّی حَرَّمْتُ الظُّلْمَ عَلَی نَفْسِی وَجَعَلْتُہُ بَیْنَکُمْ مُحَرَّمًا فَلاَ تَظَالَمُوا....)[ رواہ البخاری : باب تحریم الظلم] ” حضرت ابوذر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے حدیث قدسی بیان کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا اے میرے بندو! میں نے اپنے آپ پر ظلم حرام قرار دیا ہے اور تم پر بھی، پس تم آپس میں ظلم نہ کرو.....۔“ ایک دوسرے پر ظلم کرنا حرام ہے مسائل ١۔ کفار منتظر تھے کہ فرشتے آئیں یا اللہ تعالیٰ کا عذاب آجائے۔ ٢۔ مشرکین مکہ سے پہلے بھی کفار کا یہی وطیرہ رہا۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ کسی پر ظلم نہیں کرتا۔ ٤۔ لوگ اپنے آپ پر خود ظلم کرتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن اللہ اور اس کے رسول کا مذاق اڑانے والوں کا انجام : ١۔ انہیں اسی عذاب نے گھیر لیا جس کا وہ تمسخر اڑاتے تھے۔ (النحل : ٣٤) ٢۔ اللہ تعالیٰ مذاق کرنے والوں کے لیے کافی ہے۔ (الحجر : ٩٥) ٣۔ اللہ تعالیٰ نے رسولوں کو مذاق کرنے والوں کو ہلاک کردیا۔ (یٰس : ٣٥) ٤۔ اللہ تعالیٰ نے مذاق کرنے والوں کو ڈھیل دی پھر انہیں عذاب میں مبتلا کردیا۔ (الرعد : ٣٢) ٥۔ اللہ کی آیات اور اس کے رسولوں کا مذاق اڑانے والوں کی سزا جہنم ہے۔ (الکہف : ١٠٦) ٦۔ اللہ تعالیٰ نے رسولوں کا مذاق اڑانے والوں کے لیے درد ناک عذاب تیار کیا ہے۔ (التوبۃ: ٧٩) النحل
34 النحل
35 فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ حق کا انکار کرنے کے لیے مشرکوں کا دوسرابہانہ اور انداز۔ مشرک کہتے ہیں کہ اگر اللہ تعالیٰ چاہتا کہ ہم اور ہمارے آباؤاجداد اس کے ساتھ کسی اور کو شریک نہ بنائیں اور نہ ہی اس کے حکم کے سوا کسی چیز کو حرام ٹھہرائیں تو کیا مجال تھی کہ ہم اور ہمارے باپ دادا ایسا کرسکتے؟ در اصل ہم وہی کچھ کر رہے ہیں جو اللہ تعالیٰ چاہتا ہے۔ یہاں اس کے دو جواب دیے گئے ہیں ایک یہ کہ ایسی بیہودہ باتیں ان سے پہلے لوگ بھی کیا کرتے تھے۔ دوسرا جواب یہ ہے کہ ہمارے رسولوں کے ذمے کسی کو منوانا نہیں ان کا کام حق پہچانا ہے۔ سو یہ کام رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اور آپ سے پہلے انبیاء نے پورے اخلاص اور بڑی ذمہ داری کے ساتھ پورا کیا ہے۔ آٹھویں پارے میں اسی بات کو یوں بیان کیا گیا ہے کہ عنقریب مشرک کہیں گے اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو ہم اور ہمارے باپ دادا شرک کے مرتکب نہ ہوتے اور نہ ہم کسی چیز کو حرام ٹھہرا تے۔ ان کی بات کا مطلب یہ ہے کہ ہم جو کچھ کررہے ہیں وہ اللہ تعالیٰ کی مرضی کے مطابق کررہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ان سے پہلے لوگوں نے بھی اسی طرح انبیاء کو جھٹلایا تھا۔ یہاں تک کہ انہیں ہمارا عذاب آ پہنچا۔ انہیں فرمائیں کیا تمہارے پاس اس دعویٰ کی کوئی دلیل ہے؟ تو اسے ہمارے سامنے پیش کرو۔ درحقیقت یہ لوگ اپنے خیالات کی پیروی کرتے ہیں جو سراسر من گھڑت ہیں۔ لہٰذا انہیں فرمائیں اللہ کی دلیل پہنچ چکی جو ہر اعتبار سے غالب ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو سب کو ہدایت پر اکٹھا کرسکتا تھا۔ (الانعام : ١٤٨۔ ١٤٩) مشرکین کے بہانوں میں سے یہ ایک بہانہ ہے جسے وہ ہمیشہ سے پیش کرتے آرہے ہیں۔ جو حقیقت میں اللہ تعالیٰ پر بہت بڑا الزام ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ اگر اپنے ساتھ شرک اور اپنی حرام کردہ چیزوں کو لوگوں کے لیے جائز رکھتا تو اسے کیا ضرورت پڑی تھی کہ وہ ایک لاکھ چوبیس ہزار کے قریب پیغمبر مبعوث کرتا۔ خاکم بدہن کیا اللہ تعالیٰ نے لوگوں کے ساتھ ڈرامہ کیا ہے کہ ایک طرف تو وہ شرک اور حرام خوری کو پسند کرتا ہے اور دوسری طرف لوگوں کو روکنے کے لیے انبیاء بھیجتا رہا۔ جنہوں نے اس مشن کی خاطر بڑے بڑے دکھ برداشت کیے اور مال و جان کی عظیم قربانیاں پیش کیں۔ کفار کا یہ کہنا کہ اللہ تعالیٰ کو ہمارا شرک اور حرام خوری پسند ہے یہ اس کی شان میں بہت بڑی گستاخی اور سنگین جرم ہے جس بنا پر انہیں دنیا میں تہس نہس کردیا گیا۔ مسائل ١۔ مشرکین اپنے شرک کو اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کرتے ہیں۔ ٢۔ رسولوں کے ذمہ دین پہنچانا تھا منوانا نہیں۔ تفسیر بالقرآن حق کے مقابلہ میں کفار اور مشرکین کے بہانے : ١۔ مشرکین نے کہا اگر اللہ چاہتا تو ہم اس کے علاوہ کسی کی عبادت نہ کرتے۔ (النحل : ٣٥) ٢۔ عنقریب مشرکین کہیں گے اگر اللہ چاہتا تو ہم شرک نہ کرتے۔ (الانعام : ١٤٨) ٣۔ کفار نے کہا ہم اس وقت تک ایمان نہیں لائیں گے جب تک تو زمین سے ہمارے لیے کوئی چشمہ جاری نہ کر دے۔ (بنی اسرائیل : ٩١) ٤۔ مشرکین نے آپ پر اعتراض کیا کہ آپ پر خزانہ کیوں نہیں نازل ہوتا۔ (ھود : ١٢) ٥۔ بنی اسرائیل نے کہا اے موسیٰ جب تک ہم اللہ کو اپنے سامنے نہیں دیکھ لیتے ہم ایمان نہیں لائیں گے۔ (البقرۃ: ٥٥) ٦۔ کہتے ہیں یہ پہلے لوگوں کی کہانیاں ہیں جس کو اس نے لکھ رکھا ہے اور وہ صبح وشام اس کو پڑھ پڑھ کر سنائی جاتی ہیں۔ (الفرقان : ٥) النحل
36 فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ انبیاء کا کام اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچانا اور لوگوں پر حجت قائم کرنا ہے اس لیے اللہ تعالیٰ نے ہر امت میں نبی مبعوث فرمایا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ہم اس وقت تک کسی قوم پر عذاب نازل نہیں کرتے جب تک اس میں رسول مبعوث نہ کیا جائے۔ (بنی اسرائیل : ١٥) دوسرے مقام پر یوں ارشاد فرمایا کہ رسول لوگوں کو خوشخبری دینے والے اور برے اعمال کے انجام سے ڈرانے والے تھے۔ تاکہ ان رسولوں کے آنے کے بعد لوگوں کے پاس اللہ تعالیٰ پر کوئی حجت یعنی بہانہ باقی نہ رہے۔ اللہ تعالیٰ بڑا زبردست اور حکمت والا ہے۔ (النساء : ١٦٥) اسی اصول کے پیش نظر یہاں ارشاد فرمایا کہ ہم نے ہر امت میں ایک رسول بھیجا۔ جو لوگوں کو یہی بتلاتا اور سمجھاتا رہا کہ صرف ایک اللہ کی عبادت کرو اور طاغوت کی عبادت سے بچو۔ ان میں سے کچھ لوگوں نے ہدایت پائی اور باقی پر گمراہی ثابت ہوگئی۔ گمراہوں کا انجام دیکھنے کے لیے زمین پر چل، پھر کر دیکھو تاکہ تمہیں معلوم ہو کہ حق کو جھٹلانے والوں کا کیا انجام ہوا۔ امت سے مراد وہ لوگ ہیں جن کے لیے رسول کو مبعوث کیا جاتا تھا۔ نبی کی تشریف آوری کے بعد یہ امت دو حصوں میں تقسیم ہوجایا کرتی تھی۔ خوش نصیب لوگ رسول پر ایمان لے آتے۔ حقیقی معنوں میں وہی اس رسول کی امت ہوتے تھے۔ اس امت کو امت ایجابہ کہا جاتا ہے۔” یعنی انبیا۔ کی دعوت قبول کرنے والے لوگ“۔ باقی لوگوں کو ” امت دعوت“ کہتے ہیں یعنی وہ لوگ جس کے لیے نبی بھیجا جاتا ہے۔ انبیاء ( علیہ السلام) کے پیغام کا خلاصہ یہ ہے کہ لوگ اللہ تعالیٰ کو اس کی ذات اور صفات کے حوالے سے ایک سمجھیں اور زندگی کے ہر معاملے میں اللہ تعالیٰ کے حکم کو مقدم جانیں۔ اس کے ساتھ ہر اس قوت کا انکار کریں جو انسان کو اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی طرف لے جانے والی ہو۔ بے شک انسان کا ضمیر ہو یا معاشرے کے رسم و رواج اور کسی پارلیمنٹ کا فیصلہ یا حکومت کا قانون، اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں یہ تمام کے تمام طاغوت سمجھے جائیں گے۔ عبادت کا یہی مفہوم انبیاء کرام (علیہ السلام) سمجھاتے اور کر کے دکھلایا کرتے تھے۔ لیکن پیغمبروں کے سمجھانے کے باوجود کچھ لوگ ہدایت یافتہ ہوئے اور باقی گمراہی پر جمے رہے۔ اے لوگو! ان کا انجام دیکھنے کے لیے ان کے علاقوں میں جا کر دیکھو کہ انبیاء ( علیہ السلام) کی تکذیب کرنے والوں کا کس قدر برا انجام ہوا۔ اس کے ساتھ ہی سرور دو عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دی گئی کہ آپ ان لوگوں کی ہدایت کے لیے جس قدر خواہش کا اظہار اور محنت کریں۔ آپ ان کو ہدایت یافتہ نہیں بنا سکتے کیونکہ جسے بد اعمالیوں کی وجہ سے اللہ تعالیٰ گمراہ کردے۔ اسے ہدایت دینے میں کوئی بھی مددگار ثابت نہیں ہو سکتا۔ ہدایت اسی شخص کو نصیب ہوتی ہے۔ جو اس کی تمنا اور کوشش کرتا ہے۔ بصورت دیگر اللہ تعالیٰ جبراََ کسی پر ہدایت مسلط نہیں کرتا۔ مسائل ١۔ ہر امت کی طرف رسول بھیجا گیا۔ ٢۔ ہر رسول نے اللہ تعالیٰ کی عبادت کا حکم دیا اور شیطان کی عبادت سے روکا۔ ٣۔ انبیاء (علیہ السلام) کو جھٹلانے والوں کے انجام پر نظر رکھنی چاہیے۔ ٤۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کسی پر ہدایت مسلط نہیں کرسکتے تھے۔ تفسیر بالقرآن توحید و رسالت کے منکرین کا انجام : ١۔ زمین میں چل، پھر کر دیکھو جھٹلانے والوں کا انجام کیسا ہوا۔ (النحل : ٣٦) ٢۔ ہم نے ان سے انتقام لیا دیکھئے جھٹلانے والوں کا انجام کیسا ہوا۔ (الزخرف : ٢٥) ٣۔ قیامت کے دن منکرین کے لیے ہلاکت ہے۔ (الطور : ١١) ٤۔ منکرین کے لیے جہنم کا کھولتا ہوا پانی ہے۔ (الواقعۃ: ٩٢) النحل
37 النحل
38 فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ گمراہ لوگوں کو ہدایت اس لیے نصیب نہیں ہوتی کیونکہ یہ اللہ کے حضور پیش ہونے کا انکار کرتے ہیں۔ ہدایت پانے اور گناہوں سے بچنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ انسان یہ عقیدہ رکھے کہ اگر میں ایمان لانے کے بعد اچھے اعمال کروں گا تو میرا رب مجھے آخرت میں اس کی جزادے گا۔ اگر میں نے ایمان لانے سے انکار کیا اور برے اعمال اختیار کیے تو مرنے کے بعد مجھے اس کی سخت سزا دی جائے گی۔ جب آدمی اس عقیدہ کا انکار کرتا ہے تو پھر وہ کفرو شرک اور جرائم کرنے میں دلیر ہوجاتا ہے۔ اسی دلیری کے پیش نظر آخرت کے منکر قسمیں اٹھا اٹھا کے کہتے تھے کہ اللہ کی قسم! جو مر گیا اللہ تعالیٰ اسے کبھی نہیں اٹھائے گا۔ یہاں ان کی قسموں اور عقیدے کی نفی کے لیے چار دلائل دیے گئے ہیں۔ ١۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان اور اس کا وعدہ ہے کہ میں ضرور قیامت برپا کروں گا اور اس دن نیکوں کو پوری پوری جزا ملے گی اور نافرمانوں کو ٹھیک ٹھیک سزا دی جائے گی۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان اور اس کا وعدہ سچا ہے۔ لیکن آخرت کے منکر نہیں مانتے۔ ٢۔ قیامت اس لیے بھی برپا کی جائے گی تاکہ اس دن لوگوں کے انبیاء ( علیہ السلام) اور صالحین کے ساتھ اور دیگر اختلافات کا فیصلہ کیا جائے۔ اگر حق اور باطل کے درمیان فیصلہ نہ ہو تو انبیاء اور صالحین اپنے حق سے محروم رہ جائیں گے اور ظالم دنیا میں مزیدظلم کرتے رہیں گے۔ یہاں حق سے مراد ” اللہ کی فرمانبردای ہے“۔ (یونس : ١٠٦۔ لقمان : ١٣) ٣۔ قیامت کا آنا اس لیے بھی ضروری ہے تاکہ اس کا انکار کرنے والے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں کہ جو کچھ انبیاء ( علیہ السلام) فرمایا کرتے تھے وہ سچ ہے اور جو کچھ ہم کہتے اور کرتے تھے وہ سراسر جھوٹ تھا۔ ٤۔ منکرین قیامت کا یہ عقیدہ جھوٹا ثابت کیا جائے گا کہ مرنے کے بعد ان کی بوسیدہ ہڈیوں کو اللہ تعالیٰ دوبارہ زندہ نہیں کرسکتا۔ اس کی تردید کے لیے یہاں صرف اتنا کہنا مناسب سمجھا گیا۔ اس بنیاد پر تمہارا آخرت کا انکار کرنا درحقیقت اللہ تعالیٰ کی خالقیت اور اس کی قوت و سطوت کا انکار کرنا ہے۔ تمہیں دوبارہ زندہ کر کے اپنے حضور پیش کرنا اس کے لیے کیونکر مشکل ہوسکتا ہے حالانکہ جب کسی کام کرنے کا ارادہ فرماتا ہے تو وہ صرف ” کن“ کہتا ہے یعنی ہوجا اور وہ کام اللہ تعالیٰ کے ارادہ اور فرمان کے عین مطابق پورا ہوجاتا ہے۔ مسائل ١۔ کفار قسمیں اٹھا، اٹھا کر لوگوں کو یقین دلاتے ہیں کہ مرنے کے بعد ہمیں دوبارہ زندہ نہیں کیا جائے گا۔ ٢۔ قیامت برپا کرنا اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے جو پورا ہو کر رہے گا۔ تفسیر بالقرآن قیامت کے برپا ہونے کے دلائل : ١۔ اللہ کا قیامت قائم کرنے کا وعدہ برحق ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔ (النحل : ٣٨) ٢۔ قیامت قریب ہے۔ (الانبیاء : ١) ٣۔ قیامت کے دن اللہ پوچھے گا آج کس کی بادشاہی ہے؟ (المومن : ١٦) ٤۔ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ لوگوں کے اعمال کے بارے میں بتائے گا جو وہ کیا کرتے تھے۔ (المجادلۃ: ٧) ٥۔ قیامت کے دن کوئی کسی کو فائدہ نہیں دے سکے گا۔ (الانفطار : ١٩) ٦۔ اے لوگو! اللہ سے ڈر جاؤ بے شک قیامت کا زلزلہ بہت ہی سخت ہوگا۔ (الحج : ١) النحل
39 النحل
40 النحل
41 فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ جب انسان آخرت کا منکر ہوجائے اور اللہ تعالیٰ کی قوت و سطوت کا فکری یا عملی طور پر انکار کردے تو وہ ظالم بن جاتا ہے اسی کا نتیجہ ہے کہ ظالم لوگ توحید کا عقیدہ رکھنے والے اور صاحب کردار لوگوں پر ظلم کیا کرتے ہیں۔ جس کی وجہ سے مظلوم ہجرت کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ جب سے دنیا معرض وجود میں آئی ہے اسی وقت سے توحید و رسالت اور آخرت کا عقیدہ رکھنے والوں پر مظالم ڈھائے جاتے رہے یہاں تک کہ انہیں اپنا گھر بار چھوڑنا پڑاصاحب عزیمت لوگوں نے سب کچھ برداشت کرلیا۔ مگر حق پر قائم اور دائم رہے۔ ان کو خوشخبری سنائی جا رہی ہے کہ اللہ تعالیٰ ضرور انہیں دنیا میں سرخرو کرنے کے ساتھ اپنی نعمتوں سے نوازتے ہوئے آخرت میں انہیں عظیم اجر سے نوازاجائے گا۔ کاش! لوگ اس حقیقت کو جان جائیں۔ یہ جزا ان لوگوں کو دی جائے گی جنہوں نے اپنے رب پر اعتماد کرتے ہوئے حق پر استقامت اور ظلم پر صبر و حوصلہ اختیار کیا۔ اللہ اور اس کے رسول کی خاطر ہجرت کرنا ہر کسی کے بس کا روگ نہیں۔ یہ ایسی پل صراط ہے جس کی دھار تلوار سے زیادہ تیز اور بال سے زیادہ باریک ہے۔ ہجرت کی تکالیف ومشکلات ایمان سے خالی دل کو ننگا کردیتی ہیں۔ یہ ایسا ترازو ہے جس میں ہر آدمی نہیں بیٹھ سکتا۔ اس پیمانے سے کھرے کھوٹے کا اندازہ ہوجاتا ہے۔ اس لیے قرآن مجید نے مہاجرین کو اصحاب صدق کے لقب سے نوازا ہے۔ (اَلَّذِیْنَ أُخْرِجُوْا مِنْ دِیَارِہِمْ وَأَمْوَالِہِمْ یَبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنَ اللّٰہِ وَرِضْوَانًا وَّیَنْصُرُوْنَ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ أُولٓءِکَ ہُمُ الصَّادِقُوْنَ )[ الحشر : ٨] ” اور جو اپنے گھروں اور جائیدادوں سے نکالے گئے یہ لوگ اللہ اور اس کے رسول کی خوشنودی چاہتے ہیں۔ اللہ اور اس کے رسول کی حمایت پر کمر بستہ رہتے ہیں۔ یہی لوگ سچے ہیں۔“ (وَالَّذِیْنَ ہَاجَرُوْا فِی اللّٰہِ مِنْم بَعْدِ مَا ظُلِمُوْا لَنُبَوِّءَنَّہُمْ فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّلَأَجْرُ الْآخِرَۃِ أَکْبَرُ لَوْ کَانُوْا یَعْلَمُوْنَ الَّذِیْنَ صَبَرُوا وَعَلٰی رَبِّہِمْ یَتَوَکَّلُوْنَ )[ النحل : ٤١، ٤٢] ” جو ظلم سہنے کے بعد اللہ کی خاطر ہجرت کرگئے، ان کو ہم دنیا ہی میں اچھا ٹھکانا دیں گے اور آخرت کا اجر تو بہت بڑا ہے۔ کاش وہ جان لیں۔ وہ لوگ جنہوں نے صبر کیا اور جو اپنے رب کے بھروسے پر کام کرتے ہیں۔“ (وَالَّذِیْنَ آمَنُوْا وَہَاجَرُوْا وَجَاہَدُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَالَّذِیْنَ آوَوْا وَّنَصَرُوْا أُولٓءِکَ ہُمُ الْمُؤْمِنُوْنَ حَقًّا لَہُمْ مَغْفِرَۃٌ وَّرِزْقٌ کَرِیْمٌ)[ الانفال : ٧٤] ” اور جو لوگ ایمان لائے اور جنہوں نے ہجرت کی اللہ کے راستے میں گھربار چھوڑا اور جہاد کیا اور جنہوں نے مہاجرین کو پناہ دی اور ان کی مدد کی یہی لوگ سچے اور ایمان دار ہیں۔ ان ہی کے لیے بخشش اور بہترین رزق ہے۔“ (عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عُمَرَ (رض) قَالَ اشْتَکَی فُقَرَاءُ الْمُہَاجِرِینَ إِلَی رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَا فَضَّلَ اللَّہُ بِہِ عَلَیْہِمْ أَغْنِیَاءَ ہُمْ فَقَالَ یَا مَعْشَرَ الْفُقَرَاءِ أَلاَ أُبَشِّرُکُمْ أَنَّ فُقَرَاءَ الْمُؤْمِنِینَ یَدْخُلُونَ الْجَنَّۃَ قَبْلَ أَغْنِیَاءِہِمْ بِنِصْفِ یَوْمٍ خَمْسِمِاءَۃِ عَامٍ )[ رواہ ابن ماجۃ: باب مَنْزِلَۃِ الْفُقَرَاءِ] ” حضرت عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ فقیر مہاجرین نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے شکایت کی کہ اغنیا کو ہم پر فضیلت حاصل ہے آپ نے فرمایا اے فقیروں کی جماعت کیا میں تمھیں خوشخبری نہ دے دوں کہ فقیر مومن جنت میں اغنیاء سے ڈھائی سو سال پہلے داخل ہوں گے۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ کی راہ میں ہجرت کرنے والوں کو دنیا میں بہترین ٹھکانہ ملے گا۔ ٢۔ مومنین کو ہجرت کے عوض آخرت میں عظیم اجر سے نوازا جائے گا۔ تفسیر بالقرآن صبر اور توکل علی اللہ کے فوائد : ١۔ اللہ صبر اور توکل کرنے والوں کو اجر عظیم سے نوازے گا۔ (النحل : ٤١۔ ٤٢) ٢۔ جو شخص اللہ پر توکل کرتا ہے اللہ اس کے لیے کافی ہے۔ (الطلاق : ٣) ٣۔ اللہ توکل کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے۔ (آل عمران : ١٥٩) النحل
42 النحل
43 فہم القرآن ربط کلام : عقیدۂ توحید اور آخرت کے انکار کے ساتھ اہل مکہ اس بات کے بھی منکر تھے کہ نبی بشر نہیں ہو سکتا۔ قرآن مجید نے توحید اور عقیدہ آخرت کے دلائل دینے کے ساتھ اس بات کے شرعی، عقلی، نقلی اور تاریخی حوالہ جات کے ساتھ درجنوں دلائل دیے ہیں کہ رسول آخر الزماں (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عبد، بشر اور آدمی ہیں۔ آپ سے پہلے جتنے رسول مبعوث کیے گئے۔ وہ عبد، بشر اور آدمی تھے۔ یہاں مختصر جواب یہ دیا گیا ہے کہ دلائل اور حقائق دینے کے باوجود رسالت مآب (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے منکروں کو کھلی دعوت دی جاتی ہے کہ وہ اپنی تسلی کے لیے اہل ذکر سے پوچھ لیں کہ حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پہلے جو رسول آئے وہ جنس کے اعتبار سے آدمی تھے یا کوئی اور؟ حقیقت یہ ہے کہ ہم نے انبیاء کو واضح دلائل اور کتابیں دے کر بھیجا۔ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ہم نے آپ کی طرف قرآن مجید نازل کیا ہے۔ تاکہ آپ لوگوں کو کھول کھول کر بتلائیں تاکہ وہ اس پر غور و فکر کریں۔ یہاں الذکر کا لفظ دو دفعہ مختلف معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ پہلی دفعہ اہل الذکر سے مراد تورات اور انجیل کے اہل علم ہیں۔ دوسری مرتبہ الذکر سے مراد قرآن مجید ہے۔ جو حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل کیا گیا ہے۔ یہاں اس بات کو بھی کھول دیا گیا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کام صرف قرآن مجید لوگوں تک پہنچانا ہی نہیں بلکہ اسے اللہ تعالیٰ کی منشاء کے مطابق کھول کر بیان بھی کرنا ہے۔ ظاہر ہے جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے عمل اور فرمان کے ذریعے قرآن مجید کی تبیین یعنی تفسیر فرمائی ہے اسے حدیث رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کہا جاتا ہے۔ جس کی تین قسمیں ہیں۔ ١۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد۔ ٢۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا عمل۔ ٣۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے کسی صحابی نے دین سمجھ کر کوئی کام کیا ہو اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے دیکھ کر خاموشی اختیار کی۔ اس بات کو محدثین تقریری حدیث کہتے ہیں۔ یہ حدیث اس لیے مستند ہوتی ہے کہ اللہ کے پیغمبر کی یہ شان نہیں کہ اس کے سامنے کوئی غلط کام ہو رہا ہو اور وہ اسے دیکھ کر خاموش رہیں۔ اس اعتبار سے حدیث کی تینوں صورتیں ہی محفوظ کرلی گئی ہیں۔ کیونکہ جس طرح قرآن مجید کی حفاظت کی اللہ تعالیٰ نے ضمانت دی ہے اسی طرح رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بتلائی ہوئی قرآن مجید کی تفسیر کا محفوظ رہنا بھی لازم تھا۔ جس کے لیے اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام (رض) محدثین کی شکل میں ایک ایسی جماعت پیدا فرمائی جنہوں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ایک ایک فرمان اور عمل کو قیامت تک امت کے لیے جمع کردیا۔ اسی تسلسل کو جاری رکھتے ہوئے حدیث کی پہلی ضخیم کتاب حضرت امام مالک (رض) نے مؤطا کے نام سے لکھی جس کو انہوں نے اپنے زمانے میں تابعین یعنی صحابہ کرام (رض) کے بیٹوں اور شاگردوں کے سامنے پیش کیا۔ جس کا ہر زاویہ سے علمی تجزیہ کرنے کے بعد اہل علم نے اسے صحیح قرار دیا۔ اس لیے اس کا نام موطا امام مالک (رح) رکھا گیا جس کا معنیٰ ہے روندی ہوئی گویا کہ علمی لحاظ سے شدید ترین تنقید سے گزری ہوئی کتاب“ امام مالک (رض) کے شاگرد، امام شافعی، امام شافعی کے شاگرد امام احمد بن حنبل۔ نے ” مسند احمد“ کے نام سے ضخیم کتاب تحریر فرمائی۔ امام احمد بن حنبل (رح) کے شاگرد عظیم امام بخاری (رض) نے صحیح بخاری اور ان کے شاگرد امام مسلم (رض) نے صحیح مسلم اور ان کے شاگردوں نے صحاح ستہ میں شامل باقی چار کتابیں تحریر فرمائیں۔ اس طرح حدیث کی چھ کتابیں تیار ہوئیں جنھیں صحاح ستہ کہا جاتا ہے۔ صحاح کا معنیٰ صحیح اور ستہ عربی میں چھ کے عدد کو کہتے ہیں۔ ان کتابوں میں دین کے 99% مسائل پائے جاتے ہیں۔ باقی مسائل حدیث کی دوسری کتب میں موجود ہیں۔ اس طرح تسلسل کے ساتھ حدیث کا عظیم الشان ذخیرۂ ہم تک پہنچا۔ حدیث کے بغیر قرآن فہمی ناممکن ہے : دین اور اس کے بنیادی ارکان جن کے بارے میں قرآن مجید مختلف الفاظ اور انداز میں بار بار عمل پیرا ہونے کا حکم دیتا ہے۔ حدیث کے بغیر ان پر عمل کرنا ناممکن ہے ؟ اگر حدیث کی محض مخالفت مقصود نہ ہو تو ایک معمولی عقل رکھنے والا شخص بھی یہ تسلیم کئے بغیر نہیں رہ سکتا کہ حدیث کے بغیر قرآن کے احکامات پر عمل کرنا ناممکن ہے۔ کیونکہ قرآن مجید نے اکثر مسائل کے بنیادی اصول ذکر کرنے کے بعد ان کی تفصیل رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر چھوڑ دی ہے۔ تاکہ حدیث کی اہمیت اور ضرورت لوگوں کے سامنے واضح ہوجائے۔ قرآن کے دلائل‘ حدیث کی ضرورت اور مستند تاریخی ریکارڈ کے سامنے لاجواب ہونے کے باوجود بعض لوگ اپنی کم علمی یا خبث باطن کی بنا پر محدثین کے خلاف یہ پراپیگنڈا کرتے ہوئے لوگوں کی نگاہوں میں حدیث کا مقام کم کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ فلاں محدث کے بقول اس نے اتنے لاکھ احادیث میں سے صرف چند ہزار حدیثیں اپنی کتاب میں نقل کی ہیں انہوں نے اتنی احادیث کو کیوں چھوڑا ؟ ایسی گفتگو اور اعتراضات اٹھانے والے در حقیقت فن حدیث اور محدثین کے حدیث جمع کرنے کے طریقہ کو نہیں سمجھتے۔ دنیا میں آج تک کوئی محدث ایسا نہیں ہوا جس نے جان بوجھ کر ایک بھی صحیح حدیث کو اپنی کتاب میں شامل کرنے سے انکار کیا ہو۔ مسائل ١۔ تمام رسول انسان تھے۔ ٢۔ جس چیز کا علم نہ ہو وہ اہل علم سے پوچھ لینی چاہیے۔ ٣۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر قرآن مجید نازل کیا گیا جو لوگوں کے لیے نصیحت ہے۔ ٤۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ذمہ قرآن مجید کا پیغام پہنچانا اور اس کی تفسیر کرنا تھا۔ ٥۔ قرآن مجید کی تفسیر حدیث ہے جو ہمیشہ محفوظ رہے گی۔ تفسیر بالقرآن نبوت کے مرکزی مقاصد : ١۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لوگوں پر بیان کریں جو کچھ ان کی طرف بھیجا گیا ہے۔ (النحل : ٤٤) ٢۔ ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو آیات دے کر بھیجا تاکہ وہ اپنی قوم کے لوگوں کو اندھیروں سے روشنی کی طرف لائیں۔ (ابراہیم : ٥) ٣۔ ہم نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پہلے جتنے بھی رسول بھیجے ان کی طرف یہی وحی کی کہ میرے سوا کوئی الٰہ نہیں۔ لہٰذا میری عبادت کرو۔ (الانبیاء : ٢٥) ٤۔ ہم نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خوشخبری دینے اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے۔ (الاحزاب : ٥٦) ٥۔ اللہ نے ان پڑھ لوگوں میں رسول مبعوث فرمایا۔ جو ان کو اللہ کی آیات پڑھ کر سناتا ہے، ان کا تزکیہ کرتا ہے، انہیں تعلیم دیتا ہے اور حکمت کی باتیں سکھاتا ہے۔ (الجمعۃ: ٢) النحل
44 النحل
45 فہم القرآن ربط کلام : توحید و رسالت اور عقیدہ آخرت کا انکار کرنے والوں کو زبر دست انتباہ۔ توحید و رسالت اور عقیدہ آخرت کے مختصر دلائل دینے کے بعد ان لوگوں کو انتباہ کیا جا رہا ہے جو توحید کا انکار، نبوت کے خلاف سازشیں اور قیامت برپا ہونے کا مذاق اڑاتے ہیں۔ اللہ کا فرمان ہے، کیا یہ لوگ اس بات سے بے خوف ہوگئے ہیں کہ اللہ انہیں زمین میں دھنسا دے یا ان پر اس وقت عذاب نازل کرے جس وقت انہیں وہم و گمان بھی نہ ہو؟ یا پھر انہیں چلتے پھرتے اور کام کاج کرتے ہوئے عذاب آلے جسے ٹالنے کی یہ کسی طرح بھی طاقت نہ رکھتے ہوں یا ان پر ایسا مسلط کر دے جس کے بارے میں انہوں نے کبھی سوچا تک نہ ہو۔ یہاں چار قسم کے عذابوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ جس سے یہ بتلانا مقصود ہے کہ یہ سب کے سب عذاب تم سے پہلے مجرموں پر نازل ہوچکے ہیں۔ عقیدے اور کردار کے حوالے سے تم ان لوگوں سے مختلف نہیں ہو۔ یہ تو اللہ تعالیٰ کی مہربانی ہے کہ وہ تمہیں مہلت دیئے ہوئے ہے۔ کیونکہ تمہارا رب بڑا مہربان اور شفقت فرمانے والا ہے۔ خوف سے مراد دشمن کا خوف ہے۔ جس قوم پر یہ مسلط کردیا جائے وہ قوم ضمیر کے حوالے سے مردہ ہوجاتی ہے۔ بالآخر اپنا سب کچھ کھو بیٹھتی ہے۔ (إِنَّ قَارُونَ کَانَ مِنْ قَوْمِ مُوسَی فَبَغَی عَلَیْہِمْ وَآَتَیْنَاہُ مِنَ الْکُنُوزِ مَا إِنَّ مَفَاتِحَہُ لَتَنُوء بالْعُصْبَۃِ أُولِی الْقُوَّۃِ إِذْ قَالَ لَہُ قَوْمُہُ لَا تَفْرَحْ إِنَّ اللَّہَ لَا یُحِبُّ الْفَرِحِینَ)[ القصص : ٧٦] ” بے شک قارون موسیٰ (علیہ السلام) کی قوم کا باغی تھا اور ہم نے اسے خزانوں سے نوازا تھا اس کے خزانے کی چابیاں ایک طاقتور جماعت اٹھاتی تھی اسے اس کی قوم نے کہا اترانے کی ضرورت نہیں اللہ اترانے والوں کو پسند نہیں کرتا۔“ ہم نے اسے اس کے خزانوں سمیت زمین میں دھنسا دیا تو اللہ کے سوا کوئی اس کا مددگار نہ ہوا اور نہ وہ اس کا بدلہ لے سکا۔ (القصص : ٨١) مسائل ١۔ اللہ کے عذاب سے غافل نہیں ہونا چاہیے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ لوگوں کو زمین میں دھنسانے پر قادر ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ جب چاہے لوگوں کو اپنے عذاب کی لپیٹ میں لے سکتا ہے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ انسان کو چلتے پھرتے پکڑ سکتا ہے۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ کو کوئی عاجز نہیں کرسکتا۔ ٦۔ اللہ تعالیٰ بڑا شفیق اور رحمت کرنے والا ہے۔ تفسیر بالقرآن پہلی اقوام پر عذاب کی اقسام : ١۔ کیا وہ لوگ بے فکر ہوگئے ہیں کہ اللہ انہیں زمین میں دھنسا دے؟ (النحل : ٤٥) ٢۔ قوم ثمود کو چیخ نے آپکڑا۔ وہ اپنے گھروں میں اوندھے پڑے رہ گئے۔ (ھود : ٦٧) ٣۔ قوم عاد کو تیز و تند ہوا نے ہلاک کیا۔ (الحاقۃ : ٦) ٤۔ قوم لوط کی بستی کو الٹاکر دیا اور ان پرکھنگر والے پتھر برسائے گئے۔ (الحجر : ٧٤) ٥۔ آل فرعون کو غرق کردیا گیا۔ (البقرۃ : ٥٠) ٦۔ ان کے گناہ کی پاداش میں پکڑ لیا کسی پر تند ہوا بھیجی، کسی کو ہولناک آواز نے آلیا، کسی کو ہم نے زمین میں دھنسا دیا اور کچھ کو غرق کردیا۔ (العنکبوت : ٤٠) ٧۔ بنی اسرائیل کو اللہ نے ذلیل بندر بنا دیا۔ (البقرۃ : ٦٥) النحل
46 النحل
47 النحل
48 فہم القرآن ربط کلام : کفار اور مشرکین کو عذاب کی وعید سنانے کے بعد یہ سمجھایا ہے کہ انہیں غور کرنا چاہیے کہ جس کائنات میں یہ رہ رہے ہیں اس کا ذرہ ذرہ اپنے خالق کے سامنے سر بسجود ہے۔ مگر کافر، مشرک اور نافرمان اللہ کی عبادت کرنے کے لیے تیار نہیں۔ قرآن مجید بار بار یہ بات انسان کو باور کرواتا ہے کہ اس کائنات میں جو کچھ پیدا کیا گیا ہے اس کے پیدا کرنے کا ایک مقصد یہ کہ وہ انسان کی خدمت بجا لائے اور دوسرا مقصد یہ ہے کہ وہ اپنے رب کے حکم کے مطابق اپنا اپنا کام کرتے رہیں۔ لیکن انسان نہ صرف اپنے رب کی نافرمانی کرتا ہے بلکہ وہ کفرو شرک کا ارتکاب کر کے ذات کبریا کا انکار کرتا ہے۔ ایسے لوگوں کو توجہ دلائی جا رہی ہے کہ کیا وہ غور نہیں کرتے کہ اللہ تعالیٰ نے جو کچھ پیدا کیا ہے ان کے سائے یہاں تک کہ انسان کا سایہ بھی دائیں بائیں اپنے رب کے حضور سر بسجودہوتا اور اس کے حضور عاجزی کا اظہار کرتا ہے۔ نہ صرف ہر چیز کا سایہ اپنے رب کی بارگاہ میں سجدہ کرتا ہے بلکہ زمین و آسمان میں جتنی جاندار مخلوق اور فرشتے ہیں وہ سب کے سب اپنے رب کے حضور سجدہ کرتے ہیں اور کبھی تکبر اور نافرمانی نہیں کرتے۔ وہ ہر وقت اپنے رب سے لرزاں و ترساں رہتے ہوئے وہی کچھ کرتے ہیں جو انہیں حکم دیا جاتا ہے۔ عربی لغت کے اعتبار سے سجدہ کا معنی جھکنا ہے۔ جس کے لیے ضروری نہیں کہ جھکنے والے کی پیشانی زمین کے ساتھ لگے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ ہی خوب جانتا ہے کہ اس کی مخلوق اسے کس کس انداز میں سجدہ کررہی ہے۔ مسائل ١۔ ساری مخلوق کو اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا ہے۔ ٢۔ سب کے سائے اللہ تعالیٰ کو سجدہ کرتے ہیں۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں تمام عاجز ہیں۔ ٤۔ زمین و آسمان کی ہر چیز اللہ تعالیٰ کو سجدہ کرتی ہے۔ ٥۔ فرشتے بھی اللہ تعالیٰ کو سجدہ کرتے ہیں۔ ٦۔ فرشتے کبھی تکبر نہیں کرتے۔ تفسیر بالقرآن زمین و آسمان کی ہر چیز اللہ کو یاد کرنے کے ساتھ اس کو سجدہ کرتی ہے : ١۔ چوپائے، فرشتے اور جو کچھ زمین و آسمان میں ہے اللہ کے سامنے سجدہ ریز ہوتے ہیں۔ (النحل : ٤٩) ٢۔ ستارے اور درخت اللہ کو سجدہ کرتے ہیں۔ (الرحمٰن : ٦) ٣۔ بے شک وہ لوگ جو تیرے رب کے پاس ہیں وہ اس کی عبادت سے تکبر نہیں کرتے۔ اس کی تسبیح بیان کرتے ہیں اور اسی کو سجدہ کرتے ہیں۔ (الاعراف : ٢٠٦) ٤۔ زمین و آسمان کی ہر چیز اللہ کو سجدہ کرتی ہے۔ (الرعد : ١٥) ٥۔ وہ لوگ جو تیرے رب کے پاس ہیں وہ تکبر نہیں کرتے وہ اللہ کی تسبیح بیان کرتے ہیں اور سجدہ کرتے ہیں۔ (الانفال : ٢٠٦) النحل
49 النحل
50 النحل
51 فہم القرآن ربط کلام : جب زمین و آسمان کی ہر چیز صرف ایک ہی خالق حقیقیکے سامنے سر بسجود اور اس کے حکم کے تابع ہے تو مشرک کو بھی کسی دوسرے الٰہ کا تصور اور اس کی عبادت نہیں کرنی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ اے لوگو! دو الٰہ نہ بناؤ۔ ایرانیوں نے دو خدا بنا رکھے تھے حالانکہ اس حقیقت میں رائی کے دانے کے برابر بھی شبہ نہیں کہ کائنات کا خالق ومالک ایک ہی اِلٰہ ہے۔ اس کا حکم ہے کہ صرف مجھ ہی سے ڈرتے رہو۔ کیونکہ زمین و آسمان اور جو کچھ ان میں ہے۔ اللہ ہی ان کا مالک اور خالق حقیقی ہے۔ اس کے باوجود کسی اور کی تم عبادت کرتے اور اس سے ڈرتے ہو۔ حالانکہ زمین و آسمان اسی کی ملک ہیں اور ہر چیز اسی کی عبادت اور اطاعت کر رہی ہے۔ لہٰذا انسان پر لازم ہے کہ وہ بھی کسی اور کی عبادت کرنے کی بجائے صرف ایک رب کی عبادت کرے۔ یہ تبھی ہوسکتا ہے جب انسان اپنے نفع و نقصان اور ہر چیز کا مالک ایک اللہ کو سمجھے۔ لیکن مشرک کا یہ ذہن ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا دوسرے بھی نفع و نقصان پہنچانے میں کچھ اختیارات رکھتے ہیں۔ اسی لیے کوئی مزاروں کے سامنے جھکتا ہے اور کوئی بتوں، جنات اور دوسری چیزوں سے ڈرتا ہے۔ ایسے لوگوں کو تنبیہ کی جا رہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا دوسروں سے ڈرتے ہو حالانکہ زمین و آسمان اور ان کے درمیان ہر چیز اللہ تعالیٰ کی نہ صرف ملک ہے بلکہ اس کی اطاعت اور بندگی میں مصروف عمل ہے۔ لیکن مشرک کا یہ حال ہے کہ جب اسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی نعمت حاصل ہوتی ہے تو پھر اس کا شکریہ ادا کرنے کے بجائے غیروں کے سامنے جھکتا ہے اور جب کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو پھر چیخ و پکار اور آہ و زاری کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے مانگتا ہے۔ لیکن جونہی اس کی تکلیف دور ہوتی ہے تو پھر اپنے رب کے ساتھ شرک کرتا ہے۔ جب کہ مواحد ہر حال میں اپنے رب سے مانگتا اور اس کے سامنے جھکتا ہے۔ مشرک کے عمل کو کفر قراردیتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو کچھ ہم نے ان کو عطا کیا ہے یہ شرک کا ارتکاب کر کے اللہ تعالیٰ کے ساتھ کفر اور اس کی ناشکری کر رہے ہیں۔ انہیں اپنے اعمال کا نتیجہ بہت جلد معلوم ہوجائے گا۔ تفسیر بالقرآن مشرک صرف تکلیف کے وقت خالصتاً اللہ کو پکارتا ہے : ١۔ جب وہ کشتیوں میں سوار ہوتے ہیں تو خالصتاً اللہ کو پکارتے ہیں۔ (العنکبوت : ٦٥) ٢۔ جب انھیں مصیبت پہنچتی ہے تو تم اسی کی طرف آہ و زاری کرتے ہو۔ (النحل : ٥٣) ٣۔ جب ہر طرف سے موجیں انھیں گھیر لیتی ہیں تو وہ خالصتاً اللہ کو پکارتے ہیں۔ (یونس : ٢٢) ٤۔ جب تمھیں سمندر میں تکلیف پہنچتی ہے اس وقت اللہ کے سوا سب کو بھول جاتے ہو۔ (بنی اسرائیل : ٦٧) ٥۔ جب اسے تکلیف پہنچتی ہے تو لمبی لمبی دعائیں کرتا ہے۔ (حٰم السجدۃ: ٥١) النحل
52 النحل
53 النحل
54 النحل
55 النحل
56 فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ مشرک اللہ کی ذات اور صفات میں دوسروں کو شریک کرتا ہے۔ اس بنا پر اس کا عقیدہ ہوتا ہے کہ اگر میں نے فلاں مزار یا بت کے لیے نذرانہ پیش نہ کیا تو وہ میرا رزق کم کر دے گا۔ اس لیے کچھ لوگ اللہ کی راہ میں صدقہ کرنے کے ساتھ مزارات کے نام پر بھی صدقہ کرتے ہیں تاکہ مدفون بزرگ خوش ہو کر ہمارے رزق میں اضافہ کریں۔ مشرک کا عقیدہ ہوتا ہے کہ جو کچھ مجھے ملا اور مل رہا ہے یہ بزرگوں کی طفیل اور انکی حرمت کے واسطے مل رہا ہے۔ بت پرست بتوں کی طفیل اور واسطے سے اور قبر پرست صاحب قبر کی طفیل سمجھتے ہیں۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ کسی بت یا صاحب قبر کی طفیل نہیں دیتا۔ وہ انسان کو براہ راست وہی کچھ دیتا ہے جو اس نے اس کے مقدر میں لکھ رکھا ہے۔ اس کی عطا نہ کوئی روک سکتا ہے (فاطر : ٢) اور نہ ہی اس میں کمی وبیشی کرسکتا ہے۔ اگر انسان کا یہ عقیدہ پختہ ہوجائے تو نہ صرف اس میں استغناپیدا ہوتی ہے بلکہ وہ یہ سوچ کر حرام کھانے سے بچ جاتا ہے کہ جو کچھ منعم حقیقی نے میرے مقدر میں لکھ چھوڑا ہے اس میں کوئی زندہ اور مردہ کمی وبیشی نہیں کرسکتا۔ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہر نماز کے بعد دعا کرتے تھے کہ الٰہی جو چیز تو عطا کرنا چاہے اسے کوئی روک نہیں سکتا اور جسے تو روک لے اسے کوئی عطا نہیں کرسکتا۔ (عَنِ الْمُغِےْرَۃِ ابْنِ شُعْبَۃَ (رض) اَنَّ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کَانَ ےَقُوْلُ فِیْ دُبُرِ کُلِّ صَلٰوۃٍ مَّکْتُوْبَۃٍ (لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہُ لَا شَرِےْکَ لَہٗ لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ وَھُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِےْرٌ اَللّٰھُمَّ لاَ مَانِعَ لِمَا اَعْطَےْتَ وَلَا مُعْطِیَ لِمَا مَنَعْتَ وَلَا ےَنْفَعُ ذَالْجَدِّ مِنْکَ الْجَدُّ)[ رواہ البخاری : باب الذکر بعد الصلوۃ] ” حضرت مغیرہ بن شعبہ (رض) ذکر کرتے ہیں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرض نماز کے بعد اکثر یہ کلمات ادا فرمایا کرتے تھے۔ صرف ایک اللہ ہی معبود حق ہے۔ اس کا کسی لحاظ سے کوئی شریک نہیں۔ اس کی حکمرانی ہے‘ وہی تعریفات کے لائق ہے اور وہ ہر چیز پر اقتدار اور اختیار رکھنے والاہے۔ الٰہی جسے تو کوئی چیز عنایت فرمائے اسے کوئی نہیں روک سکتا اور جو چیز تو روک لے وہ کوئی دے نہیں سکتا۔ تیری بڑائی کے مقابلے میں کسی بڑے کی بڑائی نہیں چلتی۔“ اس حقیقت کے باوجود مشرک یہ سمجھتا ہے کہ بت یا فوت شدہ بزرگ میرے رزق میں کمی وبیشی کرسکتے ہیں۔ اس بنا پر وہ بتوں اور مزارات پر جا کر چڑھاوے چڑھاتا ہے۔ جو اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس قدر سنگین جرم ہے کہ جس کے بارے میں رب ذوالجلال نے اپنی ذات کی قسم اٹھا کر فرمایا ہے کہ جن لوگوں نے یہ جھوٹا عقیدہ بنا رکھا ہے قیامت کے روز میں انہیں ضرور پوچھوں گا۔ (عَنْ طَارِقِ بْنِ شَہَابٍ (رض) أنَّ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ دَخَلَ الْجَنَّۃَ رَجُلٌ فِیْ ذُبَابٍ، وَدَخَلَ النَّارَ رَجُلٌ فِیْ ذُبَابٍ قَالُوْا وَکَیْفَ ذٰلِکَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ؟ قَالَ مَرَّ رَجُلَانِ عَلٰی قَوْمٍ لَہُمْ صَنَمٌ لَا یَجُوْزُہٗ أحَدٌ حَتّٰی یُقَرِّبَ لَہٗ شَیْءًا، فَقَالُوْا لأحَدِہِمَا قَرِّبْ، قَالَ لَیْسَ عِنْدِیْ شَیْءٌ أُقَرِّبُ، قَالُوْا لَہٗ قَرِّبْ وَلَوْ ذُبَابًا، فَقَرَّبَ ذُبَابًا فَخَلُّوْا سَبِیْلَہٗ، فَدَخَلَ النَّارَوَقَالُوْا للآخَرِقَرِّبْ، قَالَ مَا کُنْتُ لأُقَرِّبَ لأَحَدٍ شَیْءًا دُوْنَ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ، فَضَرَبُوْا عُنَقَہٗ، فَدَخَلَ الْجَنَّۃَ )[ رواہ أحمد ] ” حضرت طارق بن شہاب (رض) بیان کرتے ہیں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ایک آدمی مکھی کا نذرانہ کی وجہ سے جنت میں داخل ہوگیا اور دوسر امکھی کے نذرانہ کی وجہ سے جہنم میں۔ صحابہ (رض) نے عرض کی اللہ کے رسول ! وہ کس طرح ؟ آپ نے فرمایا دو آدمی ایک بت پرست قوم کے پاس سے گزرے وہ کسی کو بتوں کے نام نذرانہ دیے بغیر گزرنے نہیں دیتے تھے۔ انھوں نے ان دونوں میں سے ایک کو کہا نذرانہ دو۔ اس نے کہا میرے پاس نذرانے کے لیے کچھ نہیں۔ انہوں نے کہا ایک مکھی کا ہی نذرانہ دے دو۔ تو اس نے ایک مکھی کا نذرانہ دے دیا جس سے انہوں نے اس کا راستہ چھوڑ دیا۔ اس وجہ سے وہ جہنم میں داخل ہوا۔ انہوں نے دوسرے سے بھی نذرانہ دینے کے لیے کہا۔ اس نے جواب دیا میں اللہ کے سوا کسی کے لیے نذرانہ نہیں دوں گا۔ انہوں نے اس کی گردن کاٹ ڈالی تو وہ جنت میں داخل ہوا۔“ مسائل ١۔ مشرکین اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ چیزوں میں غیر اللہ کا حصہ مقرر کرتے ہیں۔ ٢۔ قیامت والے دن مشرکین سے ضرور باز پرس ہوگی۔ تفسیر بالقرآن مشرک اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ رزق میں غیر اللہ کا حصہ مقرر کرتے ہیں : ١۔ جن کے متعلق انہیں کوئی علم نہیں ان کا حصہ مقرر کرتے ہیں ان چیزوں میں جو ہم نے انہیں دی ہیں۔ (النحل : ٥٦) ٢۔ اور انہوں نے کھیتی اور چوپاؤں میں سے کچھ حصہ اللہ کا ٹھہرا رکھا ہے اور کچھ حصہ اپنے شرکا کا مقرر کر رکھا ہے۔ (الانعام : ١٣٦) النحل
57 فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ رزق میں دوسروں کو شریک کرنے کے ساتھ بعض مشرک اللہ تعالیٰ کی ذات میں دوسروں کو شریک کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرنے والے کئی قسم کا شرک کرتے ہیں۔ مشرکین کا ایک شرک یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی صفات میں دوسروں کو شریک بناتے ہیں۔ دوسری قسم یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی ذات کو وحدہ، لاشریک سمجھنے کے بجائے اس کی بیوی اور اولاد ثابت کرتے ہیں۔ جس طرح یہودیوں کا عقیدہ ہے کہ حضرت عزیر (علیہ السلام) اللہ کے بیٹے ہیں اور عیسائیوں کا عقیدہ یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اللہ کے بیٹے ہیں اور حضرت مریم اللہ کی بیوی ہے۔ کچھ عیسائی یہ بھی کہتے ہیں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت مریم (علیہ السلام) اللہ تعالیٰ کی ذات کے جزو ہیں۔ تینوں کے ملنے سے خدا کی ذات مکمل ہوتی ہے۔ افسوس! مسلمانوں میں کچھ لوگوں کا عقیدہ ہے کہ حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے نور میں سے نور ہیں۔ اسی طرح چائنہ، جاپان اور دنیا کے کسی ممالک میں کچھ لوگوں کا یہ بھی عقیدہ ہے اور تھا کہ فرشتے اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں ہیں جو اس کے نور سے پیدا ہوئی ہیں۔ جس کی قرآن مجید نے عقلی اور فطری حوالے سے یہ کہہ کر تردید کی ہے کہ یہ لوگ کس قدر ناعاقبت اندیش ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے لیے بیٹیاں مقرر کر رہے ہیں۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ کو اولاد کی حاجت نہیں اور وہ شرک سے پاک ہے۔ یہ لوگ کس قدر عقل سے عاری ہیں کہ اپنے لیے بیٹے پسند کرتے ہیں اور اللہ کے لیے بیٹیاں تجویز کرتے ہیں۔ حالانکہ ان کے ہاں بیٹی پیدا ہو تو اس پر انہیں مبارک اور خوشخبری دی جائے تو ان کے چہرے سیاہ اور غمزدہ ہوجاتے ہیں اس خوشخبری کو اپنے لیے ذلت اور عار سمجھتے ہیں۔ اس ذلت کی وجہ سے سوچتے ہیں کہ بیٹی کود زندہ رہنے دیں یا زمین میں گاڑ دیں۔ غور کریں کہ یہ کس قدر برا فیصلہ کرتے ہیں۔ یہاں پہلی بات یہ سمجھائی گئی ہے کہ بیٹی کو اس لیے ذلت سمجھنا کہ وہ کمانے کی بجائے صرف کھانے کے لیے پیدا ہوتی ہے یا اس کی وجہ سے دوسرا شخص اس کا داماد بن جائے گا۔ یہ سوچ کر بیٹی کو برا سمجھنا یا اسے زندہ درگور کردینا بدترین فیصلہ ہے۔ اس کے ساتھ ہی اس بات کی تردید کی گئی ہے کہ انسان اپنے لیے بیٹے پسند کرے اور اللہ تعالیٰ کے لیے بیٹیاں تجویز کرے گویا کہ یہ سوچ اخلاقی اور اعتقادی طور پر بدترین سوچ اور نظریہ ہے۔ مسائل ١۔ مشرک کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں ہیں۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ مشرکوں کی افترا بازی سے پاک ہے۔ ٣۔ مشرکین کو بیٹی کی خوشخبری دی جاتی ہے تو اس کا چہرہ سیاہ پڑجاتا ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ اولاد سے مبرّا اور پاک ہے : ١۔ مشرکین اللہ کے لیے بیٹیاں قرار دیتے ہیں حالانکہ اللہ اولاد سے پاک ہے۔ (النحل : ٥٧) ٢۔ ان سے پوچھیں کہ کیا تمہارے لیے بیٹے اور اللہ کے لیے بیٹیاں ہیں؟ (الصٰفٰت : ١٤٩) ٣۔ کیا اللہ کے لیے بیٹیاں اور تمہارے لیے بیٹے ہیں؟ (الطور : ٣٩) ٤۔ یہ کہتے ہیں کہ اللہ کی بیٹیاں ہیں اور ان کے لیے بیٹے۔ (الزخرف : ١٦) النحل
58 النحل
59 النحل
60 النحل
61 فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کی صفات میں کسی کو شریک کرنا اور فرشتوں کو اس کی بیٹیاں قرار دینا بدترین ظلم ہے مگر اللہ تعالیٰ اپنی حکمت کے مطابق ظالموں کی فی الفور گرفت نہیں کرتا۔ کفار، مشرک اور مجرم پیشہ لوگوں کو جب ان کے کفرو شرک اور ان کے مظالم کے بارے میں سمجھایا جائے تو وہ اپنے آپ کو سچاثابت کرنے کے لیے یہ دلیل بھی دیتے ہیں۔ کہ اگر اللہ کو ہمارے عقائد اور اعمال اتنے ہی ناپسند ہیں تو پھر وہ ہماری گرفت کیوں نہیں کرتا؟ بسا اوقات ضعیف الایمان لوگ اس غلط فہمی کا شکار ہوجاتے ہیں کہ آخر کوئی سبب تو ہے جس کی بنا پر کفر و شرک اور جرائم کے مرتکب لوگوں کو کھلی چھٹی دی گئی ہے۔ اس کا جواب دیتے ہوئے فرمایا گیا ہے کہ ایسا نہیں کہ یہ لوگ اللہ تعالیٰ کی قدرت اور گرفت سے باہر ہیں۔ بلکہ اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمت اور مقرر کردہ مدت کی وجہ سے ان لوگوں کو ڈھیل دے رکھی ہے۔ اگر لوگوں کے جرائم اور ان کی عجلت بازی کی و جہ سے اللہ تعالیٰ پکڑنا چاہے تو مجرم تو درکنار کوئی جاندار چیز بھی زمین پر باقی نہ رہے۔ اللہ تعالیٰ اپنی حکمت اور مقرر کردہ مدت کے مطابق انہیں ڈھیل دیے ہوئے ہے۔ جب اس کی گرفت کا وقت آپہنچے گا تو وہ ایک لمحہ بھی آگے پیچھے نہیں ہو سکے گا۔ (عَنْ أَبِی قَتَادَۃَ بْنِ رِبْعِیٍّ (رض) قَالَ مُرَّ عَلَی النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بِجَنَازَۃٍ قَالَ مُسْتَرِیْحٌ وَّمُسْتَرَاحُ مِنْہُ قَالُوْا یَا رَسُول اللّٰہِ ! مَا الْمُسْتَرِیْحُ والْمُسْتَرَاحُ مِنْہُ قَالَ الْمُؤْمِنُ اسْتَرَاحَ مِنْ نَصَبِ الدُّنْیَا وَأَذَاہَآ إِلٰی رَحْمَۃِ اللّٰہِ تَعَالٰی وَالْفَاجِرُ اسْتَرَاحَ مِنْہُ الْعِبَادُ وَالْبِلاَدُ وَالشَّجَرُ وَالدَّوَّابُّ )[ رواہ أحمد] ” حضرت ابی قتادہ بن ربعی بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے سے ایک جنازہ گزرا، آپ نے فرمایا آرام پا گیا اور اس سے آرام پا گئے۔ صحابہ کرام (رض) نے عرض کی اے اللہ کے رسول! آرام پا گیا اور آرام پا گئے، سے کیا مراد ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا مومن دنیا کے مصائب اور تکلیفوں سے نجات پا کر اللہ کی رحمت کا حق دار بن گیا اور فاسق و فاجر سے لوگ، شہر، درخت اور چوپائے آرام پا گئے۔“ النحل
62 فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ کافر، مشرک اور مجرم لوگ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی مہلت سے ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے بارے میں ہرزہ سرائی کرتے ہیں۔ چاہیے تو یہ تھا کہ کافر، مشرک اور مجرم لوگ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی مہلت سے فائدہ اٹھا کر اپنے عقائد اور جرائم سے توبہ کرتے۔ لیکن یہ لوگ اس مدت سے حقیقی فائدہ اٹھانے کے بجائے اس قدر دلیر ہوگئے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے لیے بیٹیاں تجویز کرتے ہیں اور اپنے لیے بیٹے پسند کرتے ہیں۔ جو سراسر زیادتی اور جھوٹ ہے۔ اس زیادتی اور کذب بیانی کے باوجود یہ خیال کرتے ہیں کہ جس طرح اللہ تعالیٰ نے ہمیں دنیا کے اسباب ووسائل دے رکھے ہیں۔ اسی طرح آخرت میں بھی ہمیں سب کچھ مل جائے گا۔ گویا کہ دنیا میں بھی ہم ایمانداروں سے بہتر ہیں اور آخرت میں بھی ان سے بہتر ہوں گے۔ یہ ایسی دیدہ دلیری اور لاف زنی ہے، جس کی سزادہکتی ہوئی آگ ہے، جس میں انہیں دھکیلا جائے گا۔ مزید ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ اپنی ذات کبریا کی قسم اٹھا کر فرماتا ہے کہ اے رسول! ہم نے آپ سے پہلے بھی رسول بھیجے۔ جن کے ساتھ کفار، مشرکین اور مجرم لوگوں نے یہی وطیرہ اختیار کیا۔ جس کی وجہ یہ ہے شیطان ان کے نظریات اور کردار کو ان کے لیے خوبصورت بنا کر پیش کرتا ہے۔ ان لوگوں کا شیطان ہی ولی اور سرپرست ہے جو انہیں ایسی باتیں بتلاتا ہے۔ اس پاداش میں انہیں اذیت ناک عذاب میں مبتلا کیا جائے گا۔ مسائل ١۔ مشرکین اللہ تعالیٰ کے ذمہ وہ باتیں اور چیزیں لگاتے ہیں۔ جنہیں اپنے لیے پسند نہیں کرتے۔ ٢۔ مشرکین جھوٹ بولتے ہیں۔ ٣۔ مشرکین کے لیے خیر نہیں بلکہ ان کے لیے آگ ہے۔ ٤۔ شیطان انسان کو اس کے غلط اعمال خوشنما کر کے پیش کرتا ہے۔ ٥۔ شیطان کے پیروکاروں کے لیے درد ناک عذاب ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھنے والوں کا انجام : ١۔ ان کی زبانیں جھوٹ کہتی ہیں کہ ان کے لیے بھلائی ہے حالانکہ ان کے لیے آگ ہے۔ (النحل : ٦٢) ٢۔ اللہ پر جھوٹ باندھنے والے ظالم ہیں۔ (آل عمران : ٩٤) ٣۔ اس سے بڑا ظالم کون ہوگا جو اللہ پرجھوٹ باندھتا ہے یا اس کی آیات کو جھٹلاتا ہے۔ (الانعام : ٢١) ٤۔ جھوٹ باندھنے والے نقصان اٹھائیں گے۔ (طٰہٰ: ٦١) ٥۔ قیامت کے دن جھوٹوں پر اللہ کی لعنت ہوگی۔ (ھود : ١٨) ٦۔ اس شخص سے زیادہ ظالم کون ہے ؟ جو اللہ پر جھوٹ باندھتا ہے اور اسکی آیات کو جھٹلاتا ہے۔ (الانعام : ٩٣) ٧۔ اس شخص سے زیادہ ظالم کون ہے ؟ جو اللہ پر افتراء بازی کرتا ہے اور اس کی آیات کی تکذیب کرتا ہے۔ یقیناً مجر م فلاح نہیں پائیں گے۔ (یونس : ١٧) ٨۔ اس شخص سے زیادہ ظالم کون ہے؟ جو اللہ پر جھوٹ باندھتا ہے اور حق کو جھٹلاتا ہے، کیا ایسے لوگوں کا ٹھکانہ جہنم نہیں ہے ؟ (العنکبوت : ٦٨) النحل
63 النحل
64 فہم القرآن ربط کلام : بے شک مشرکوں کے بد عقیدہ ہونے کی وجہ سے ان پر شیطان مسلّط ہوچکا ہے۔ لیکن اس کے باوجود آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لوگوں کو سمجھاتے رہیں۔ منصب نبّوت کی ذمہ داریوں میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پہلی ذمہ داری یہ تھی کہ آپ لوگوں کو اللہ کا قرآن سنائیں اور سمجھائیں۔ بے شک اس کے مقابلے میں کتنی ہی مشکلات برداشت کرنا پڑیں۔ بالخصوص عقیدۂ توحید اور ان مسائل کو کھول کر بیان کریں جن میں لوگ اختلاف کرتے ہیں۔ جو لوگ اخلاص نیت سے توحید سمجھنے اور دینی مسائل جاننے کی کوشش کریں گے اللہ تعالیٰ انہیں اپنی رحمت سے ضرور ہدایت عنایت فرمائے گا۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے قرآن مجید ان لوگوں کے لیے ہدایت اور رحمت بنا کر بھیجا گیا جو اس پر سچے دل سے ایمان لاتے ہیں۔ مسائل ١۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اللہ تعالیٰ نے کتاب نازل فرمائی۔ ٢۔ قرآن مجید کو لوگوں کے سامنے کھول کھول کر بیان کرنا چاہیے۔ ٣۔ ایمان والوں کے لیے کتاب اللہ با عث ہدایت اور رحمت ہے۔ تفسیر بالقرآن قرآن مجید کے اوصاف حمیدہ کا ایک منظر : ١۔ قرآن مجید ایمان والوں کے لیے باعث ہدایت و رحمت ہے۔ (النحل : ٦٤) ٢۔ قرآن مجید شک و شبہ سے بالا تر کتاب ہے۔ (البقرۃ : ٢) ٣۔ قرآن کریم برہان اور نور مبین ہے۔ (النساء : ١٨٥) ٤۔ قرآن حمید کے نزول کا مقصد لوگوں کو اندھیروں سے نکال کر روشنی کی طرف لانا ہے۔ (ابراہیم : ١) ٥۔ قرآن مجید اللہ کی طرف سے واضح کتاب ہے۔ قرآن مجید لوگوں کے لیے ہدایت ہے۔ (البقرۃ: ١٨٥) ٦۔ ہم نے قرآن کو نازل کیا جو مومنوں کے لیے باعث رحمت اور شفا ہے۔ (بنی اسرائیل : ٨٢) النحل
65 فہم القرآن ربط کلام : انسان کی زندگی اور دنیا کی بقا کے لیے پانی اس کی بقا کا ضامن ہے۔ اسی طرح انسان کی روحانی اور ایمانی زندگی کے لیے قرآن مجید تریاق اور آب حیات ہے۔ انسان کی روحانی اور ایمانی زندگی کا انحصار آسمانی وحی پر ہے آخری وحی قرآن مجید کی شکل میں نازل کی گئی ہے۔ اس کے بغیر انسان کی روح اور اس کا ایمان صحت مند اور توانا نہیں رہ سکتا۔ اسی طرح انسان کی مادی زندگی کی بنیاد پانی پر رکھی گئی ہے۔ (أَوَلَمْ یَرَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْٓا أَنَّ السَّمٰوٰتِ وَالْأَرْضَ کَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنَاہُمَا وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَآءِ کُلَّ شَیْءٍ حَیٍّ أَفَلَا یُؤْمِنُوْنَ )[ الانبیاء : ٣٠] ” کیا کافروں نے اس بات پر غور نہیں کیا کہ زمین و آسمان آپس میں ملے ہوئے تھے، پھر ہم نے انہیں الگ الگ کیا اور ہر جاندار چیز کو پانی سے زندگی بخشی کیا پھر بھی یہ لوگ اللہ پر ایمان نہیں لاتے۔“ آبیات (ہائیڈرولوجی): آج ہم جس تصور کو ” آبی چکر“ (واٹر سائیکل) کے نام سے جانتے ہیں اسے پہلے پہل ١٥٨٠ ء میں برنارڈ پیلیسی نامی ایک شخص نے پیش کیا۔ اس نے بتایا کہ سمندروں سے کس طرح پانی تبخیر ( Evaporation) ہوتا ہے اور کس طرح وہ سرد ہو کر بادلوں کی شکل اختیار کرتا ہے۔ یہ بادل خشکی پر آگے کی طرف بڑھتے ہیں، بلند تر ہوتے ہیں، ان میں پانی کی تکثیف (Condensation) ہوتی ہے اور بارش برستی ہے۔ یہ پانی جھیلوں، جھرنوں، ندیوں اور دریاؤں کی شکل میں آتا ہے اور بہتا ہوا واپس سمندر میں چلا جاتا ہے اس طرح پانی کا یہ چکر جاری رہتا ہے۔ ساتویں صدی قبل از مسیح میں تھیلز نامی ایک یونانی فلسفی کو یقین تھا کہ سطح سمندر پر باریک باریک آبی قطروں کی پھوار (اسپرے) پیدا ہوتی ہے۔ ہوا اسی پھوار کو اٹھا لیتی ہے اور خشکی کے دور افتادہ علاقوں پر لے جا کربارش کی صورت میں برساتی ہے۔ پرانے وقتوں میں لوگ یہ بھی نہیں جانتے تھے کہ زیر زمین پانی کا ماخذ کیا ہے۔ ان کا خیال تھا کہ ہوا کی زبردست قوت کے زیر اثر سمندر کا پانی براعظموں (خشکی) میں اندرونی حصوں تک داخل ہوتا ہے۔ انہیں یہ یقین بھی تھا کہ پانی ایک خفیہ راستے یا ” عظیم تاریکی“ (Great Abyss) سے آتا ہے، سمندر سے ملا ہوا یہ تصوراتی راستہ افلاطون کے زمانے سے میں ” ٹارٹارس“ کہلاتا تھا، حتی کہ اٹھارہویں صدی کے عظیم مفکر، ڈیکارتے (dEsvarts) نے بھی انہیں خیالات سے اتفاق کیا ہے۔ انیسویں صدی عیسوی تک ارسطو کانظریہ ہی زیادہ مقبول ومعروف رہا۔ اس نظریے کے مطابق، پہاڑوں کے سرد غاروں میں پانی تکثیف (Condensation) ہوتی ہے اور وہ زیر زمین جھیلیں بناتا ہے جو چشموں کا باعث بنتی ہیں۔ آج ہمیں معلوم ہوچکا ہے کہ بارش کا پانی زمین پر موجود دراڑوں کے راستے رِس رِس کر زیر زمین پہنچتا ہے اس سے چشمے بنتے ہیں۔ درج ذیل آیات قرآنی میں اس نکتے کی وضاحت فرمائی گئی ہے۔ ” کیا تم نہیں دیکھتے کہ اللہ نے آسمان سے پانی برسایا، پھر اس کو سوتوں اور چشموں اور دریاؤں کی شکل میں زمین کے اندر جاری کیا، پھر اس پانی کے ذریعہ سے وہ طرح طرح کی کھیتیاں نکالتا ہے جن کی مختلف قسمیں ہیں۔“ [ الزمر : ٢١] ” آسمان سے پانی برساتا ہے پھر اس کے ذریعے سے زمین کو اس کی موت کے بعد زندگی بخشتا ہے۔ یقیناً اس میں بہت سی نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو عقل سے کام لیتے ہیں۔“ [ الروم : ٢٤]” اور آسمان سے ہم نے ٹھیک حساب کے مطابق ایک خاص مقدار میں پانی اتارا اور اس کو زمین میں ٹھہرادیا، ہم اسے جس طرح چاہیں غائب کرسکتے ہیں۔“ [ ا لمؤمنون : ١٨]” قسم ہے بارش برسانے والے آسمان کی۔“ [ الطارق : ١١] (وَأَرْسَلْنَا الرِّیَاحَ لَوَاقِحَ فَأَنْزَلْنَا مِنَ السَّمَآءِ مَآءً فَأَسْقَیْنَاکُمُوْہُ)[ الحجر : ٢٢] ” اور ہم ہی ہواؤں کو بارآور بناکر چلاتے ہیں، پھر آسمان سے پانی برساتے اور تم کو اس سے سیراب کرتے ہیں۔“ یہاں عربی لفظ ” لواقح“ استعمال کیا گیا ہے، جو ” لاقح“ کی جمع ہے اور ” لاقحہ“ سے مشتق ہے، جس کا مطلب ” بارآور“ کرنا یا ” بھردینا“ ہے، اسی سیاق وسباق میں بار سے مراد یہ ہے کہ ہوا، بادلوں کو (ایک دوسرے کے) قریب دھکیلتی ہے جس کی وجہ سے ان پر تکثیف کا عمل بڑھتا ہے جس کا نتیجہ بجلی چمکنے اور بارش ہونے کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے۔ اسی طرح کی توضیحات، قرآن پاک کی دیگرآیات مبارکہ میں بھی موجود ہے۔ (از : خطبات ڈاکٹر ذاکر نائیکْ ” کیا تم دیکھتے نہیں کہ اللہ بادل کو آہستہ آہستہ چلاتا ہے اور پھر اس کے ٹکروں کو باہم جوڑتا ہے پھر اسے سمیٹ کر ایک کثیف ابر بنا دیتا ہے پھر تم دیکھتے ہو کہ اس کے خول میں سے بارش کے قطرے ٹپکتے چلے آتے ہیں اور وہ آسمان سے ان پہاڑوں کی بدولت جو اس میں بلند ہیں اولے برساتا ہے پھر جسے چاہتا ہے ان کا نقصان پہنچاتا ہے اور جسے چاہتا ہے ان سے بچالیتا ہے اس کی بجلی کی چمک نگاہوں کو خیرہ کیے دیتی ہے۔“ [ النور : ٤٣] ” اللہ ہی ہے جو ہواؤں کو بھیجتا ہے اور وہ بادلوں کو اٹھاتی ہیں، پھر وہ ان بادلوں کو آسمان میں پھیلاتا ہے جس طرح چاہتا ہے اور انہیں ٹکریوں میں تقسیم کرتا ہے، پھر تو دیکھتا ہے کہ بارش کے قطرے بادل میں سے ٹپکے چلے آتے ہیں۔ یہ بارش جب وہ اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے بھیجتا تو یکایک وہ خوش ہوجاتے ہیں۔“ [ الروم : ٤٨] النحل
66 فہم القرآن ربط کلام : حیوانات اور نباتات کے حوالے سے اللہ تعالیٰ کے خالق، رازق ہونے کے ناقابل تردید دلائل۔ دوران خون (بلڈ سرکولیشن) اور دودھ : قرآن پاک کا نزول، دوران خون کی وضاحت کرنے والے اولین مسلمان سائنس دان ابن نفیس سے ٦٠٠ سال پہلے اور اس دریافت کو مغرب میں روشناس کروایاتھا۔ تقریباً تیرہ صدیاں پہلے یہ معلوم ہوا کہ آنتوں کے اندر ایسا کیا کچھ ہوتا ہے جو نظام ہاضمہ میں انجام پانے والے افعال کے ذریعے دیگر جسمانی اعضا کی نشوونما کی ضمانت فراہم کرتا ہے قرآن پاک کی ایک آیت مبارک، جو دودھ کے اجزاء کے ماخذ کی وضاحت کرتی ہے، اس تصور کے عین مطابق ہے۔ مذکورہ بالاتصور کے حوالے سے آیت قرآنی کو سمجھنے کے لیے یہ جاننا اہم ہے کہ آنتوں میں کیمیائی تعاملات واقع ہوتے ہیں اور یہ آنتوں ہی سے ہضم کردہ غذا سے اخذ کیے ہوئے مادے ایک پیچیدہ نظام سے گزر کر دوران خون میں شامل ہوتے ہیں۔ کبھی وہ مادے جگر سے ہو کر گزرتے ہیں جس کا انحصار ان کی کیمیائی ترکیب پر ہوتا ہے۔ خون ان اجزاء (مادوں) کو تمام اعضا تک پہنچاتا ہے جن میں دودھ پیدا کرنے والے (چھاتیوں کے) غدود بھی شامل ہیں۔ سادہ الفاظ میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ آنتوں میں موجود غذا کے بعض مادے آنتوں کی دیوار سے سرایت کرتے ہوئے خون کی نالیوں (vEssEls) میں داخل ہوجاتے ہیں، اور پھر خون کے راستے یہ دوران خون کے ذریعے کئی اعضا تک جا پہنچتے ہیں۔ یہ فعلیاتی تصور ہماری سمجھ میں آجائے گا اگر ہم قرآن پاک کی درج ذیل آیات مبارکہ کو سمجھنے کی کوشش کریں گے : (وَإِنَّ لَکُمْ فِی الْأَنْعَامِ لَعِبْرَۃً نُسْقِیْکُمْ مِمَّا فِیْ بُطُونِہٖ مِنٌ بَیْنِ فَرْثٍ وَدَمٍ لَبَنًا خَالِصًا سَآءِغًا للشَّارِبِیْنَ)[ النحل : ٦٦] ” اور تمہارے لیے مویشیوں میں بھی ایک سبق موجود ہے ان کے پیٹ سے گوبر اور خون کے درمیان ہم ایک چیز تمہیں پلاتے ہیں، یعنی خالص دودھ، جو پینے والوں کے لیے نہایت خوشگوار ہے۔“ (وَإِنَّ لَکُمْ فِی الْأَنْعَامِ لَعِبْرَۃً نُسْقِیکُمْ مِمَّا فِیْ بُطُوْنِہَا وَلَکُمْ فِیْہَا مَنَافِعُ کَثِیْرَۃٌ وَمِنْہَا تَأْکُلُوْنَ)[ المومنون : ٢١] ” اور حقیقت یہ ہے کہ تمہارے لیے مویشیوں میں بھی ایک سبق ہے۔ ان کے پیٹوں میں جو کچھ ہے اسی میں سے ایک چیز ( دودھ) ہم تمہیں پلاتے ہیں اور تمہارے لیے ان میں بہت فوائد ہیں۔ ان کو تم کھاتے ہو۔“ ١٤٠٠ سال قبل، قرآن پاک کی فراہم کردہ یہ وضاحت جو گائے میں دودھ کے پیدا ہونے کے حوالے سے ہے، حیرت انگیز طور پر جدید معلومات سے بھر پور انداز میں ہم آہنگ ہے جس نے اس حقیقت کو حال ہی میں دریافت کیا۔ (قرآن اور سائنس : ازخطبات ڈاکٹر ذاکر نائیک) مسائل ١۔ چوپائے انسان کے لیے باعث عبرت ہیں۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ خون اور گوبر کے درمیان سے خالص دودھ پیدا کرتا ہے۔ ٣۔ پینے والوں کے لیے دودھ انتہائی مزے دار ہے۔ تفسیر بالقرآن دودھ کی حقیقت اور چوپاؤں کے فوائد : ١۔ ہم ان کے پیٹوں سے تمہیں خالص دودھ پلاتے ہیں۔ (النحل : ٦٦) ٢۔ اللہ وہ ذات ہے جس نے تمہارے لیے چوپائے پیدا فرمائے تاکہ تم ان پر سواری کرسکو اور کھا سکو۔ (المومن : ٧٩) ٣۔ چوپاؤں کو پیدا کیا جن کے ذریعے تم سردی سے بچتے ہو اور دیگر فوائد حاصل کرتے ہو۔ (النحل : ٥) ٤۔ تمہارے لیے چوپاؤں کی کھالوں سے ایسے گھر بنائے جنہیں تم نقل مکانی اور قیام دونوں حالتوں میں ہلکا پاتے ہو۔ (النحل : ٨٠) ٥۔ تمہارے لیے چوپاؤں میں عبرت ہے کہ ان کے پیٹوں میں سے ہم تمہیں دودھ پلاتے ہیں اور تمہارے لیے ان میں بہت سے فوائد ہیں اور انہی میں سے تم کھاتے بھی ہو۔ (المومنون : ٢١) النحل
67 فہم القرآن ربط کلام : اللہ کی قدرت کے مزید دلائل بشرطیکہ لوگ عقل و فکر سے کام لیں۔ معزز قاری کی سہولت کے لیے انگور کے بارے میں فہم القرآن جلد دوم کی معلومات درج کی جاتی ہیں۔ انگور : قرآنی نام : عِنَبٌ، اَعْنَابٌ (جمع) دیگر نام : Grape (انگریزی)، فرشک، انگور (فارسی)، عنب (عربی )، انگور (اردو، فارسی) قرآن مجید میں انگور کا تذکرہ : ١۔ البقرۃ، آیت : ٢٦٦ ٢۔ الانعام، آیت : ١٠٠ ٣۔ الرعد، آیت : ٤ ٤۔ النحل، آیت : ١١ ٥۔ النحل، آیت : ٦٧ ٦۔ بنی اسرائیل، آیت : ٩١ ٧۔ الکہف، آیت : ٣٢ ٨۔ المؤمنون، آیت : ١٩ ٩۔ یٰس ٓ، آیت : ٣٤ ١٠۔ النباء، آیت : ٣١۔ ٣٢ ١١۔ عبس، آیت : ٢٧۔ ٢٨ انگور کا شمار قدرت کی بہترین نعمتوں میں کیا جاتا ہے۔ اسی لیے قرآن حکیم میں اس کا ذکر عنب اور اعناب (جمع) کے نام سے مندرجہ بالا گیارہ آیات میں کیا گیا ہے۔ ( تفصیل کے لیے دیکھیے فہم القرآن جلد۔ ٢ صفحہ۔ ٤٠٣) النحل
68 فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ مکھی کے حوالے سے اللہ تعالیٰ کی رزاقی اور خلاقی کے دلائل۔ مکھیاں، کیڑے، مکوڑے دیوانہ وار منڈلاتے پھولوں کا طواف کرنے کے ساتھ ساتھ ”Polination“ کا وہ عمل کرتے ہیں جو سب انسان مل کر بھی نہیں کرسکتے۔ ارشاد ربانی ہے : ” تیرے رب نے شہد کی مکھی کو پیغام بھیجا کہ پہاڑوں، درختوں اور بیلوں میں اپنا گھر بنا۔ تمام پھلوں سے رس حاصل کر اور اپنے رب کے دیے ہوئے دستور عمل کو باقاعدگی سے نبھا اور دیکھو تو سہی اس (شہد کی) مکھی کے پیٹ سے رطوبت نکلتی ہے۔ جس کے رنگ طرح طرح کے ہوتے ہیں اور جس میں امراض کی شفا ہے۔ مکھی کے ان اعمال میں ان لوگوں کے لیے اسباق موجود ہیں جو صحیفۂ فطرت میں غور کرتے ہیں۔“ (النحل : ٦٨۔ ٦٩) مکھیوں کی بارہ ہزار لگ بھگ اقسام ہیں۔ جو ماہرین کے مطابق ”Apridea“ خاندان سے تعلق رکھتی ہیں۔ شہد کی مکھیاں اپنے رب کی وحی (پیغام) کے مطابق چلتی ہیں۔ ان کو اپنے رب کے بتائے ہوئے دستور عمل کا علم ہے شہد کی مکھیاں گندگی اور نجاست کے نزدیک تک نہیں جاتیں۔ یہ پھولوں اور پھلوں سے رس ”Nectar“ حاصل کرتی ہیں جسے طرح طرح کے عمل کے بعد خالص شہد میں تبدیل کرتی ہیں۔ جرمن سائنسدانوں نے تحقیق کے بعد بتایا ہے کہ ان مکھیوں سے وہی مادہ نکلتا ہے جسے ”Royal Jelly“ کہتے ہیں۔ شہد کی مکھیاں تین طرح کی ہوتی ہیں جن میں ملکہ، کارکن، شہد کی تلاش میں پھولوں، پھلوں تک جانے والیاں اور مادہ مکھیاں یہ چھتوں میں محصور ہوتی ہیں۔ ایک چھتے میں بیس ہزار سے بھی زیادہ شہد کی مکھیاں ہوسکتی ہیں۔ جبکہ ملکہ صرف ایک ہوتی ہے۔ ملکہ ہر روز تقریباً ایک ہزار انڈے دیتی ہے۔ عام مکھی کی عمر تقریباً ٤٥ دن کے لگ بھگ ہوتی ہے جبکہ ملائکہ کی عمر ایک سال کے قریب ہوتی ہے۔ شہد کی مکھیاں ملکہ کے ساتھ کنیزوں کی طرح رہتی ہیں۔ آیا مکھیاں ملکہ کے دیے ہوئے انڈوں والے خانوں کو ”Royal Jelly“ اور زرِ گل ”Pollen Grains“ سے بھر کر موم سے بند کردیتی ہیں اور پھر اس بند کمرے میں انڈے سے بالغ مکھی تک کے مراحل طے ہوتے ہیں۔ ملکہ مکھی کی غذا عام مکھیوں کے مقابلے میں بہت اچھی ہوتی ہے۔ اسے ”Royal Jelly“ ہمیشہ ملتی رہتی ہے۔ شہد کی مکھیاں عام طور پر قطرہ قطرہ کرکے سال میں پانچ سو کلو گرام رس ”Nectar“ حاصل کرتی ہے۔ چھتے میں شش کونے ”Hexagonal“ خانے اس ترتیب اور تناسب سے بنتے ہیں کہ عقل مکھیوں کی ”designing“ اور انجینئرنگ پر دنگ رہ جاتی ہے۔ مکھیاں موم بناتی ہیں جس سے چھتے کی تعمیر ہوتی ہے۔ کچھ مکھیاں چھتے کی صفائی اور ”Keeping House“ پر مامورہوتی ہیں۔ کارکن مکھیاں محنت مزدوری اور پھلوں، پھولوں سے رس اور زرِ گل لاتی ہیں جبکہ گھریلو مکھیاں خاتون خانہ کی طرح امور خانہ داری سنبھالتی ہیں۔ مکھیاں 120 سے لے کر 50 ڈگری فارن ہیٹ درجہ حرارت تک بآسانی اپنا کام انجام دیتی ہیں۔ چھتے میں درجہ حرارت 92 ڈگری فارن ہیٹ تک رکھتی ہیں۔ اگر ہنگامی طور پر موم کی زیادہ ضرورت ہو تو کچھ مکھیاں خود کو اذیّت میں ڈال کر الٹی لٹک جاتی ہیں۔ یوں موم سے تھیلیاں بھر کر نذر آشیاں کردیتی ہیں۔ یہ ایثار و قربانی کی عمدہ مثال ہے۔ ناکارہ اور کاہل مکھیوں کو نہ صرف چھتے سے نکال باہر کرتی ہیں بلکہ جان سے ختم کردیتی ہیں۔ مکھیوں کے چار پر اور دو آنکھیں ہوتی ہیں جو ساڑھے تین ہزار ننھی ننھی آنکھوں کا مجموعہ ہوتی ہیں۔ آنکھوں کے علاوہ مکھیوں کو دو نہایت عمدہ اینٹینے ملے ہوتے ہیں۔ جو خوشبو کو خوب پہچانتی ہیں۔ مکھی کی پچھلی دونوں ٹانگوں پر باریک باریک بال ہوتے ہیں جو زرِ گل جمع کرنے میں کام آتے ہیں۔ اللہ کی قدرت دیکھیے کہ شہد کی مکھیاں انسانی آنکھ سے بڑھ کر ”Ultra Voilet“ شعاعوں کو بھی اولاد نرینہ کی طرح پہچانتی ہیں سائنسدان مکھیوں کی اڑان، ان کے طریقہ کار، چھتے تک تیز رفتار سے سفر اور اپنی منزلوں کو پہچاننے جیسے امور پر انگشت بدنداں ہیں۔ کارکن مکھی کو ڈنگ کی قوت بھی ملی ہوتی ہے۔ مگر مکھی اپنا ڈنگ مارنے کے تھوڑی دیر بعد خود بھی مر جاتی ہے۔ شہد کی مکھیوں کے پر ملائم اور ریشم کی طرح ہوتے ہیں یہی وجہ ہے یہ خراب موسم اور بادوباران میں بھی اپنی ”Flight“ جاری رکھ سکتی ہیں۔ پروں کے نیچے نالیوں میں ہوا موجود ہوتی ہے۔ یوں مکھیوں کی ”Aerodynamics“ اور اڑنے کی کارکردگی بہت اچھی رہتی ہے۔ دنیا بھر میں ہر سال 50,000,000 کلو گرام شہد پیدا ہوتا ہے۔ شہد کی مختلف اقسام ہیں۔ اسی طرح ان کے خواص بھی بے حد ہیں۔ شہد کی مکھیاں بذات خود علاج معالجے میں استعمال کی جاتی ہیں۔ قرآن میں جنت کے حوالے سے شہد کو بہت اہمیت دی گئی ہے۔ شہد کی مکھیوں کے کام کی تقسیم : ٍ١۔ مکھیوں کو کھانا کھلانے کا کام۔ ٢۔ لاروے کی صفائی۔ ٣۔ چھتے میں نئے خانوں کی تعمیر۔ ٤۔ ملکہ کی خدمت۔ ٥۔ انڈوں کو سنبھالنا اور ان کی دیکھ بھال۔ ٦۔ چھتے میں ہوا کی آمد و رفت کا انتظام۔ ٧۔ پھولوں سے زرگل اور رس کا اکٹھا کرنا۔ ٨۔ خوراک کے نئے خزانوں کا پتا لگانا۔ شہد کی مکھیوں کی اہم خصوصیات : ٍ١۔ نگران کا مقصد ”Housekeeping“ اور بیماری سے بچاؤ کی تدبیر کرنا ہے یہ چھتے میں صرف دو فیصد ہوتی ہیں۔ بھلا ان کی انفرادی قوت کی یوں تقسیم کون کرسکتا ہے ؟ ٢۔ مردہ مکھیوں کو ایک گھنٹے کے اندر ہی چھتے سے باہر پھینک دیا جاتا ہے اور اسے تقریباً 400 فٹ دور پھینکتے ہیں۔ ٣۔ ایک چھتے میں زیادہ سے زیادہ پچاس ہزار مکھیاں ہوتی ہیں۔ ٤۔ چھتے میں تمام مکھیاں مادہ ہوتی ہیں اور ملکہ کی اولاد ہیں۔ جب کہ صرف چند نر مکھیاں جنہیں نکھٹو کہتے ہیں ہوتی ہیں۔ انہیں بھی مادہ مکھیاں مار دیتی ہیں نر مکھیاں کسی کو کاٹ نہیں سکتیں کیونکہ ان میں ڈنگ نہیں ہوتا۔ ٥۔ ایک مربع فٹ چھتہ بنانے کے لیے مکھیوں کو تین اونس موم کی ضرورت ہوتی ہے۔ ٦۔ کارکن مکھی کی عمر ایک سے دو ماہ ہوتی ہے۔ گیلن کی مقدار اور مکھی : ٧۔ پھولوں کے رس کا ایک گیلن مکھی میں اتنی توانائی پیدا کرتا ہے کہ وہ گیارہ کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چالیس لاکھ میل کا سفر طے کرسکتی ہے۔ ٨۔ چھتے کا درجہ حرارت 93 سے 95 ڈگری فارن ہیٹ رہتا ہے۔ اگر یہ 98 ڈگری فارن ہیٹ ہوجائے تو مکھیاں مر جاتی ہیں۔ مکھیاں اپنے پروں کی حرکت سے یہ درجہ حرارت قائم رکھتی ہیں ایگزاسٹ فین اسی اصول پر کام کرتا ہے۔ ٩۔ خوراک کی کمی کی صورت میں مل بانٹ کر کھاتے ہیں اس لیے زندہ رہتیں ہیں۔ ١٠۔ ملکہ مکھی کو یعسوب بھی کہا جاتا ہے۔ اس کی عمر تقریباً دو سال تک ہوتی ہے اس کے مرنے کے بعد اس کی بیٹی ملکہ بن جاتی ہے۔ ملکہ مکھی دن بھر میں 1500 انڈے دیتی ہے اور ساری عمر میں تقریباً دس لاکھ سے زائد انڈے دیتی ہے۔ ١١۔ مکھیاں آتشی شعاؤں ”Ultra Voilet Rays“ بھی دیکھ سکتی ہیں۔ چنانچہ ابر آلود موسم میں بھی ان کو طلوع آفتاب کا علم ہوجاتا ہے اور اپنا کام شروع کردیتی ہیں۔ ١٢۔ یہ زمین کے مقناطیسی نظام کے تحت سفر کرتی ہیں۔ لہٰذا اندھیرے میں بھی یہ راستہ نہیں بھولتیں۔ ١٣۔ چھتے میں ہر خانہ مسدس (چھ دیوار والا) ہوتا ہے۔ اس لیے جگہ بے کار نہیں جاتی۔ ١٤۔ شہد کی کمی ہو تو اس میں پانی ملاتی ہیں۔ ١٥۔ ہر شہد کی مکھی واپس اپنے ہی چھتے میں آتی ہے۔ مسائل ١۔ شہید کی مکھیاں پھلوں سے رس چوس کر شہد بناتی ہیں۔ ٢۔ شہد مختلف اقسام کا ہوتا ہے۔ ٣۔ شہد میں شفا ہے۔ النحل
69 النحل
70 فہم القرآن ربط کلام : دودھ اور شہد کی بناوٹ کا ذکر کرنے کے بعد انسان کو اس کی تخلیق اور اس کی زندگی کے مختلف مراحل کا احساس دلایا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اس کی پیدائش اور زندگی کے مختلف مراحل کی طرف توجہ دلانے سے پہلے تخلیق کے عجب کرشمے بیان کرتے ہوئے فرمایا۔ اے لوگو! ذرا غور کرو کہ اللہ تعالیٰ نے چوپائے کے پیٹ میں خون اور گوبر کے بیچ میں سے کس طرح تمہارے لیے صاف شفاف سفید اور میٹھا دودھ پیدا کیا ہے۔ پھر پھلوں کی طرف دیکھو بالخصوص کھجور اور انگور سے کتنا میٹھا اور عمدہ مشروب تمہارے لیے تیار کیا۔ اگر تھوڑی سی عقل استعمال کرو تو یقیناً اپنے رب پر ایمان لانے کے لیے تیار ہوجاؤ گے۔ مزید سوچو اور دیکھو کہ اللہ تعالیٰ نے شہد کی مکھی کو کس قدر بصیرت اور رہنمائی سے نوازا ہے کہ دور دراز سے پھلوں کا رس چوس کر تمہارے لیے مختلف رنگ اور ذائقوں کا شہد تیار کرتی ہے۔ غوروفکر کرنے والوں کے لیے مکھی اور اس کے بنائے ہوئے شہد میں کس قدر سبق آموزی کے دلائل ہیں۔ اب اپنے آپ پر غور کرو کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں کس طرح پیدا فرمایا۔ وہی تمہیں بچپن، جوانی اور ادھیڑ عمر میں موت دیتا ہے۔ تم میں کچھ لوگ عمر کے اس حصہ میں پہنچ جاتے ہیں جس میں ان کی جسمانی اور دماغی صلاحیتیں اس قدر کمزور ہوجاتی ہیں کہ انہیں گزرے ہوئے اوقات میں سے کچھ بھی یاد نہیں رہتا۔ یقیناً اللہ تعالیٰ سب کچھ جاننے والا اور ہر چیز پر قادر ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے انسان کی تخلیق اور اس کے مختلف مراحل کا تذکرہ کرنے کے بعد اسے یہ احساس دلانے کی کوشش فرمائی ہے کہ اے انسانو! اپنی تخلیق کی طرف توجہ کرو۔ تاکہ تمہیں اپنی حقیقت اور حیثیت کا ادراک ہو سکے۔ بالخصوص موت و حیات کے مسئلہ پر غور کرو کہ انسان اللہ تعالیٰ کے سوا نہ کسی کی مرضی سے پیدا ہوتا ہے اور نہ ہی اس کی موت کسی کے اختیار میں ہے کوئی دوسرا کجا خود انسان اپنی موت و حیات پر ذرّہ برابر اختیار نہیں رکھتا۔ یہاں تک کہ زندہ ہونے کے باوجود زندگی کے اس حصہ یعنی ارزل العمر میں پہنچ جاتا ہے کہ جس میں نہ صرف اسے اپنے گزرے ہوئے ماضی کی کوئی خبر نہیں رہتی بلکہ اس کی یادداشت اور اعضا اس قدر کمزور ہوجاتے ہیں کہ دوسروں کو پہچاننا تو درکنار اسے اپنی اولاد تک کو پہچاننا مشکل ہوجاتا ہے یہاں تک کہ اسے پاکی، پلیدی کی خبر نہیں ہوتی۔ ارذل العمر کے عوارض بیان کرنے کے بعد انسان کو احساس دلایا ہے کہ تو جیتے جی سب کچھ بھول گیا ہے۔ مگر تیرا رب تیری زندگی کے ایک ایک لمحے سے واقف ہے۔ لہٰذا تجھے صحت اور خوشحالی میں اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ جب چاہے اور جس طرح چاہے تیری گرفت کرنے پر قادر ہے۔ (عَنْ سَعْدٍ (رض) اَنَّہٗ کَانَ ےُعَلِّمُ بَنِےْہِ ھٓؤُلَآءِ الْکَلِمٰتِ وَےَقُوْلُ اِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کَانَ ےَتَعَوَّذُ بِھِنَّ دُبُرَ الصَّلٰوۃِ اَللّٰھُمَّ انیْْٓ اَعُوْذُبِکَ مِنَ الْجُبْنِ وَاَعُوْذُبِکَ مِنَ الْبُخْلِ وَاَعُوْذُبِکَ مِنْ اَرْذَلِ الْعُمُرِ وَاَعُوْذُبِکَ مِنْ فِتْنَۃِ الدُّنْےَا وَعَذَابِ الْقَبْرِ) [ رواہ البخاری : باب یتعوذ من الجبن] ” حضرت سعد (رض) اپنے بیٹوں کو یہ کلمات یاد کروایا کرتے تھے۔ سعد کہتے ہیں۔ اللہ کے رسول نماز کے بعدپناہ مانگا کرتے تھے۔” الٰہی میں بزدلی سے تیری پناہ چاہتا ہوں، الٰہی میں کنجوسی سے تیری پناہ طلب کرتا ہوں، الٰہی میں نہایت بے بس زندگی سے پناہ مانگتا ہوں الٰہی میں دنیا کے شر اور قبر کے عذاب سے تیری پناہ کا طلبگارہوں۔“ مسائل ١۔ موت و حیات کا مالک اللہ تعالیٰ ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ ہر چیز کو جاننے والا، قدرت والا ہے۔ تفسیر بالقرآن انسانی تخلیق کے مختلف مراحل : ١۔ انسان مٹی سے پیدا ہوا۔ (آل عمران : ٥٩) ٢۔ حوا آدم سے پیدا ہوئی۔ (النساء : ١) ٣۔ اللہ نے انسانوں میں سے ہی ان کی بیویاں بنائیں اور ان سے بچے پیدا فرمائے۔ (النحل : ٧٢) ٤۔ اللہ نے انسان کو کھنکھناتی ہوئی مٹی سے پیدا فرمایا۔ (الحجر : ٢٧) ٥۔ انسان کو مخلوط نطفہ سے پیدا کیا گیا۔ (الدھر : ٢) ٦۔ تخلیق انسانی کے مختلف مراحل۔ (المؤمنون : ١٢۔ ١٣۔ ١٤) النحل
71 فہم القرآن ربط کلام : جس طرح اللہ تعالیٰ موت وحیات کا مالک ہے اسی طرح وہ انسان کا رزق بڑھانے اور اسے کم کرنے کا اختیار رکھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جس طرح انسانوں کی زندگی کے مختلف مراحل مقرر کیے ہیں اسی طرح اس نے لوگوں کے درمیان جسمانی، روحانی اور معاشرتی اعتبار سے امتیازات قائم فرمائے ہیں۔ ایسے ہی اس نے معاشی حوالے سے لوگوں کے درمیان فرق قائم کیا ہے۔ تاکہ لوگ ایک دوسرے کی ضرورت بن کر زندگی بسر کریں۔ ایک شخص زمیندار ہے دوسرا اس کا مزارع، ایک کارخانہ دار ہے دوسرا اس کا ور کر۔ ایک مالدار ہے دوسرا اس کا ملازم گویا کہ معاشی اعتبار سے بھی اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو ایک دوسرے پر برتری عنایت فرمائی ہے۔ ملازم کے بغیر مالدار کا کاروبار آگے نہیں بڑھ سکتا۔ کاریگر اور ور کر کے بغیر فیکٹری کا پہیہ جام ہوجاتا ہے۔ مزارع کے بغیر زمین میں زراعت نہیں ہو سکتی۔ یہی اسباب رزق کی کمی وبیشی کا سبب ثابت ہوتے ہیں۔ یہاں رزق کے حوالے سے مشرک کو عقیدۂ توحید سمجھانے کی کوشش فرمائی ہے کہ ایک لینڈ لارڈمزارع کو اور کارخانہ دار ور کر کو اپنے کاروبار اور زمین میں حصہ دار بنانے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ مگر مشرکانہ ذہن رکھنے والے لوگ فطرت سلیم اور انصاف کے اصولوں کے برخلاف اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کی صفات میں دوسروں کو شریک بناکر شرم محسوس نہیں کرتے۔ یہاں ان کی مردہ فطرت کو جگانے کے بعد ان سے سوال کیا گیا ہے کہ اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھو اور اپنے ضمیر سے پوچھو۔ کیا تم اپنے غلاموں، نوکروں اور مزارعوں کو اپنے کاروبار میں شریک کرنے کے لیے تیار ہو؟ یقیناً تم ایسا کرنے کے لیے تیار نہیں ہو۔ مگر تم خدا کی خدائی میں زندہ اور مردہ یہاں تک کہ بتوں کو شریک بناتے ہوئے عار محسوس نہیں کرتے۔ حقیقت یہ ہے کہ شرک کرنے کی وجہ سے تمہارے ضمیر مردہ ہوچکے ہیں جس کی وجہ سے تم نہ صرف شرک سے اجتناب نہیں کرتے بلکہ شرکیہ عقیدہ کی خاطر جھگڑتے ہو۔ دراصل تم اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا انکار کرتے ہو۔ اللہ کی نعمتوں میں سب سے بڑی نعمت عقیدۂ توحید ہے جس سے انسان میں خودداری اور اللہ کے سوا باقی سب سے بے نیازی پیدا ہوتی ہے۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے رزق کے لحاظ سے بعض کو بعض پر برتری دی ہے۔ ٢۔ کوئی مالدار اپنے مال میں کسی کو حصہ دار بنانا پسند نہیں کرتا۔ ٣۔ اللہ کی نعمتوں کا انکار نہیں کرنا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن کافر اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا انکار کرتے ہیں : ١۔ کافر اللہ کی نعمت کا انکار کرتے ہیں۔ (النحل : ٧١) ٢۔ ہماری آیات کا صرف کافر ہی انکار کرتے ہیں۔ (العنکبوت : ٤٩) ٣۔ ظالم لوگ اللہ کی آیات کا انکار کرتے ہیں۔ (الانعام : ٣٣) ٤۔ اللہ کی آیات کا انکار کرنے کا بدلا آخرت میں آگ کا گھر ہے۔ (حم السجدۃ : ٢٨) ٥۔ کیا تم باطل کے ساتھ ایمان لاتے اور اللہ کی نعمتوں کا انکار کرتے ہو؟ (النحل : ٧٢) ٦۔ کافر اللہ کی نعمتوں کو پہچانتے ہیں۔ پھر ان کا انکار کرتے ہیں۔ (النحل : ٨٣) ٧۔ جو بھی اللہ کی نعمت کو تبدیل کرے اس کے لیے سخت عذاب ہے۔ (البقرۃ: ٢١١) ٨۔ قیامت کے دن ہم انہیں فرموش کردیں گے جس طرح وہ قیامت کی ملاقات کو بھول گئے کیونکہ وہ ہماری آیات کا انکار کرتے تھے۔ (الاعراف : ٥١) النحل
72 فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ اللہ تعالیٰ کے بلا شرکت غیرے خالق ہونے کی پانچویں دلیل : مشرک کے ضمیر کو جھنجھوڑنے اور رزق میں تفادت بیان کے بعداب ان کے نفوس کے حوالے سے عقیدۂ توحید سمجھایا جا رہا ہے۔ اللہ وہ خالق ہے جس نے مردوں میں سے ہی ان کی بیویوں کو پیدا فرمایا اور پھر ان کی بیویوں سے بیٹے اور پوتوں کا سلسلہ جاری کیا۔ وہی تمہیں پاک چیزوں سے روزی دیتا ہے لیکن اس کے باوجود لوگ باطل معبودوں پر ایمان لاتے ہیں۔ حقیقت میں مشرک اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کے ساتھ کفر کرتے ہیں اس آیت مبارکہ میں دو باتیں بیان فرمائی گئی ہیں۔ ١۔ اللہ تعالیٰ نے مردوں سے ان کی بیویوں کو پیدا فرمایا جسے قرآن مجید نے یوں بیان فرمایا ہے۔” اے لوگو! اپنے رب سے ڈرتے رہو جس نے تمہیں ایک جان ( آدم (علیہ السلام) سے پیدا کیا پھر آدم سے ہی اس کی بیوی کو پیدا فرمایا پھر دونوں سے بہت سے مرد اور عورتیں پیدا کیں۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ سے ڈرو۔ جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنا حق مانگتے ہو اور رشتہ داری میں بھی اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو یقیناً اللہ تعالیٰ تم پر نگران ہے۔“ (سورۃ النساء : ١) حضرت آدم (علیہ السلام) کا ذکر فرماکر یہاں تمام لوگوں کی تخلیق بیان کی گئی ہے۔ چنانچہ ارشاد ہوتا ہے کہ ” ہم نے تم سے تمہاری بیویوں کو پیدا کیا ہے۔“ جس کا پہلا مفہوم یہ ہے کہ وہ تمہاری جنس سے تعلق رکھتی ہیں۔ دوسرا مفہوم یہ لینے کی گنجائش بھی نکلتی ہے کہ ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے میاں بیوی کو ایک ہی مٹی سے پیدا کیا ہو۔ (الروم : ٢١) ٢۔ اللہ تعالیٰ ہی میاں بیوی کے ملاپ کے بعد بیٹے دیتا ہے اور کتنے ہی لوگ ہیں جنہیں پوتوں کی خوشیاں بھی دیکھنا نصیب ہوتی ہے۔ اس بات سے یہ حقیقت عیاں کرنا مقصود ہے کہ اے لوگو! اللہ تعالیٰ ہی تمہیں بیویاں اور اولاد عطا فرماتا ہے۔ اور وہی پاک چیزوں سے تمہاری روزی کا بندوبست کرتا ہے۔ اس کے باوجود مشرک اپنے معبودوں کی اللہ تعالیٰ کے ساتھ مثالیں دیتے ہیں۔ لیکن تم اس کی نعمتوں کا شکر یہ ادا کرنے کے بجائے اس کے ساتھ دوسروں کو حاجت روا، مشکل کشا سمجھتے اور عبادت کے لائق جانتے ہو۔ حالانکہ وہ تمھیں رزق کا ایک دانہ بھی مہیا نہیں کرسکتے۔ اور نہ ہی کسی کی حاجت پوری کرنے کے قابل اور مشکل حل کرسکتے ہیں۔ بلاشبہ اللہ تعالیٰ جانتا ہے لیکن تم نہیں جانتے۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے مرد کی نسل سے ہی عورت پیدا کی ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی رزق دینے کا اختیار نہیں رکھتا۔ ٣۔ مشرک اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی ناشکری کرتے ہیں۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ کے ساتھ بتوں اور مدفون بزرگوں کی مثالیں بیان نہیں کرنی چاہییں۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی کسی کے رزق کا مالک نہیں : ١۔ اللہ کے سوامشرک ان کی عبادت کرتے ہیں جو ان کو آسمان و زمین سے رزق دینے کا اختیار نہیں رکھتے۔ (النحل : ٧٣) ٢۔ اگر تم اللہ کے خزانوں کے مالک ہوتے تو اس کے خرچ ہوجانے کے ڈر سے ہاتھ روک لیتے۔ (الاسراء : ١٠٠) ٣۔ بے شک جن کی تم اللہ کے سوا عبادت کرتے ہو وہ تمہارے رزق کے مالک نہیں ہیں۔ (العنکبوت : ١٧) ٤۔ کتنے ہی چوپائے ایسے ہیں کہ تم انہیں رزق نہیں دیتے اللہ ہی ان کو رزق دینے والا ہے۔ (العنکبوت : ٦٠) النحل
73 النحل
74 فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ معبودان باطل کی مثالیں خالق حقیقی کے ساتھ بیان کی بجائے ان کا اپنے ساتھ موازنہ کرو اور اپنے ضمیر کے آئینہ میں دیکھو اور سوچو تاکہ تمہارے سامنے حقیقت منکشف ہوجائے کہ شرک کا عقیدہ کس قدر بے بنیاد اور بے انصافی پر مبنی ہے۔ مشرکین کی پرانی عادت ہے کہ جب انہیں اللہ تعالیٰ کی توحید اور اس کی قدرت سمجھائی جائے۔ تو مشرک اللہ تعالیٰ کی توحید اور اس کی قدرتوں کا اعتراف کرنے کے بجائے اپنے معبودان باطل کے حق میں دلائل دیتے اور ان کو اللہ تعالیٰ کے مشابہ قرار دیتے ہیں۔ بالخصوص جو لوگ مدفون بزرگوں کو حاجت روا اور مشکل کشا سمجھتے ہیں۔ ان کا عقیدہ اور دلائل یہ ہیں کہ جس طرح دنیا میں ایک حکمران اپنا نظام چلانے کے لیے مختلف لوگوں کو ذمہ داریاں تفویض کرتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ گو اللہ تعالیٰ قادر مطلق ہے مگر اس نے بھی کائنات کا نظام چلانے کے لیے اپنی خوشی سے مدفون بزرگوں کو کچھ اختیارات دے رکھے ہیں جس کی بنا پر ہم ان کے واسطے سے اللہ تعالیٰ سے اپنی حاجات طلب کرتے ہیں۔ اسی بنا پر وہ دلیل دیتے ہیں کہ جس طرح حاکم کو ملنے کے لیے اس کے P-A کو ملنا ضروری ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ تک رسائی حاصل کرنے اور اس کو اپنی فریاد پہنچانے کے لیے بزرگوں کے وسیلے کی ضرورت ہے۔ کچھ جاہل تو یہاں تک کہتے ہیں کہ جس طرح چھت پر چڑھنے کے لیے سیڑھی کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ کو اپنی فریاد پہنچانے کے لیے مدفون بزرگوں کی ارواح کا واسطہ دینا لازم ہے۔ ان مثالوں پر ذرا غور فرمائیں تو آپ کے سامنے ان کی حقیقت کھل جائے گی۔ چھت پر چڑھنے کے لیے سیڑھی کی ضرورت اس لیے ہے کہ چھت نیچے آنہیں سکتی اور چھت پر چڑھنے والا سیڑھی کے بغیر اس پر چڑھ نہیں سکتا، حاکم کو ملنے کے لیے اس لیے سفارش چاہیے کہ وہ غریب اور کمزور لوگوں کی فریاد کو براہ راست سننے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ یہی صورت حال قبروں میں مدفون بزرگوں کی ہے جو نہ کسی کی فریاد سن سکتے ہیں اور نہ ہی کسی کی مدد کرسکتے ہیں یہاں تک اپنی قبر پر ہونے والی غیر شرعی حرکات کو نہیں روک سکتے۔ حالانکہ ان میں ایسے مواحد بھی تھے جو اپنی زندگی میں شرک و بدعات سے سختی سے روکتے تھے۔ لیکن اب ان کی بے چارگی کا یہ عالم ہے ان کے نام پر شرک و بدعت اور خرافات کی جا رہی ہیں۔ لیکن روک نہیں سکتے۔ یہاں تک انہیں خبر نہیں کہ وہ کب اٹھائے جائیں گے۔ ان کی حالت ایسی ہے جیسی آقا کے مقابلے میں غلام کی ہوتی ہے جو مالک کے حکم کا پابند اور اس کا تابع مہمل ہوتا ہے۔ مالک کے مال سے ایک روپیہ بھی اپنی مرضی سے خرچ کرنے کا مجاز نہیں ہوتا۔ اس کے مقابلے میں ایسا شخص ہے جسے اللہ تعالیٰ نے وافر رزق عنایت فرما رکھا ہے وہ اپنی مرضی اور خوشی سے جہاں اور جتنا چاہتا ہے خفیہ اور اعلانیہ خرچ کرتا ہے۔ کیا مالک اور غلام، بے اختیار اور بااختیار کنگال اور سخی برابر ہو سکتے ہیں؟ ہرگز نہیں حقیقت یہ ہے کہ یہ اپنے خالق کے سامنے ایک غلام سے کہیں زیادہ بے بس ہیں۔ حق یہ ہے کہ تمام تعریفات اللہ کے لیے ہیں۔ جس کا کوئی شریک نہیں اور نہ اس کا شریک ثابت کرنے کے لیے کوئی معقول دلیل ہے۔ لیکن لوگوں کی اکثریت اس حقیقت کو جاننے اور ماننے کے لیے تیار نہیں ہے۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں مختلف مثالیں بیان فرمائیں۔ ٢۔ جس طرح غلام اور آقا برابر نہیں اسی طرح خالق اور مخلوق برابر نہیں۔ ٣۔ تمام تعریفات اللہ تعالیٰ کے لیے ہیں۔ تفسیر بالقرآن مشرک اور کافر حقیقی علم سے بے بہرہ ہوتے ہیں : ١۔ تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔ (النحل : ٧٥) ٢۔ آسمان و زمین کا پیدا کرنا انسانی تخلیق سے بڑا کام ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔ (المومن : ٥٧) ٣۔ یہی صحیح دین ہے لیکن لوگوں کی اکثریت علم نہیں رکھتی۔ (الروم : ٣٠) ٤۔ اللہ کا وعدہ سچا ہے اور اللہ اپنے وعدے کے خلاف نہیں کرے گا لیکن اکثر لوگ بے علم ہیں۔ (الروم : ٦) ٥۔ اکثریت حق کو نہیں پہچانتی۔ بلکہ اکثر لوگ حق سے اعراض کرتے ہیں۔ (الانبیاء : ٢٤) النحل
75 النحل
76 فہم القرآن لوگو! اللہ تعالیٰ توحید اور شرک واضح کرنے کے لیے ایک اور مثال بیان فرماتا ہے۔ اسے غور سے سنو! دو آدمی ہیں۔ ان میں ایک گونگا، بہرا ہے۔ جو اپنا مؤقف بیان نہیں کرسکتا اور نہ کسی قسم کی طاقت رکھتا ہے وہ سراسر اپنے آقا پر بوجھ بنا ہوا ہے۔ اس کا آقا اسے جدھر بھیجتا ہے وہ بھلائی کے بجائے نقصان کے ساتھ لوٹتا ہے اس کے مقابلے میں باصلاحیت غلام کو اس کا آقا جدھر بھیجتا ہے وہ انصاف کا حکم دیتا ہے اور خود بھی ٹھیک راستے پر گامزن ہے کیا اس کے ہر کام میں خیر وبرکت ہے۔ بتاؤ یہ دونوں برابر ہو سکتے ہیں ؟ بالکل نہیں۔ یہی فرق ہے مواحد اور مشرک کے درمیان۔ مشرک حقیقت سننے اور اس کا اعتراف کرنے سے قاصر ہے۔ دین کے نام پر جو کام بھی نیکی سمجھ کر کرے گا، نامراد اور نقصان میں رہے گا۔ مواحد ہمیشہ عدل پر قائم ہے اور انصاف کی بات کہتا ہے اور صراط مستقیم پر چلنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس کی چھوٹی سی نیکی بھی اس کے رب کے ہاں بڑا مقام رکھتی ہے۔ اس کے لیے اللہ کی طرف سے خیر ہی خیر ہے۔ اس مثال سے یہ بات واضح فرمائی ہے کہ توحید عدل ہے۔ جس کا پرچار کرنا، دنیا میں عدل قائم کرنا ہے۔ یہی صراط مستقیم ہے اس کے بغیر نہ عدل قائم ہوسکتا ہے اور نہ آدمی صراط مستقیم پا سکتا ہے۔ اس مثال سے ثابت ہوتا ہے کہ مشرک گونگا، بہرا اور گمراہ ہوتا ہے اور مواحد حق گو، صاحب بصیرت اور حق کا علمبردار ہوتا ہے۔ صراط مستقیم کے سنگ میل : ١۔ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرایا جائے۔ ٢۔ والدین کے ساتھ حسن سلوک کیا جائے۔ ٣۔ اولاد کو رزق کی کمی کی وجہ سے قتل نہ کیا جائے۔ ٤۔ کھلی اور پوشیدہ بے حیائی سے اجتناب کیا جائے۔ ٥۔ کسی کو ناحق قتل نہ کیا جائے۔ ٦۔ یتیم کے مال کو ناحق نہ کھایا جائے۔ ٧۔ ناپ تول کو پورا کیا جائے۔ ٨۔ عدل وانصاف کی بات کی جائے۔ ٩۔ اللہ کے عہد کو پورا کیا جائے۔ (عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ قَالَ کُنَّا عِنْدَ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَخَطَّ خَطًّا وَخَطَّ خَطَّیْنِ عَنْ یَّمِینِہٖ وَخَطَّ خَطَّیْنِ عَنْ یَّسَارِہٖ ثُمَّ وَضَعَ یَدَہٗ فِی الْخَطِّ الْأَوْسَطِ فَقَالَ ہَذَا سَبِیل اللّٰہِ ثُمَّ تَلَا ہٰذِہِ الْآیَۃَ (وَأَنَّ ہٰذَا صِرَاطِی مُسْتَقِیمًا فَاتَّبِعُوہُ وَلَا تَتَّبِعُوْا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِکُمْ عَنْ سَبِیْلِہٖ) [ رواہ ابن ماجۃ: باب اتباع سنۃ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ] ” حضرت جا بر بن عبداللہ (رض) بیان کرتے ہیں ہم نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس تھے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک سیدھا خط کھینچا پھر اس کے دائیں اور بائیں مختلف خطوط کھینچے پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنا دست مبارک درمیان والے سیدھے خط پر رکھتے ہوئے فرمایا یہ اللہ تعالیٰ کا راستہ ہے پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ آیت مبارکہ تلاوت فرمائی (وَأَنَّ ہٰذَا صِرَاطِی مُسْتَقِیمًا فَاتَّبِعُوہُ وَلَا تَتَّبِعُوْا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِکُمْ عَنْ سَبِیْلِہٖ) “ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں مختلف قسم کی مثالیں بیان فرماتا ہے۔ ٢۔ توحید عدل ہے۔ عدل کی تبلیغ کرنے والاصراط مستقیم پر ہوتا ہے۔ ٣۔ گونگا اور کسی بات پر قدرت نہ رکھنے والا اور صراط مستقیم پر چلنے والا برابر نہیں۔ ٤۔ مشرک اور مواحد برابر نہیں ہو سکتے۔ تفسیر بالقرآن صراط مستقیم : ١۔ کچھ نہ کرنے والا اور اچھی باتوں کی تعلیم دینے والا اور صراط مستقیم پر چلنے والا برابر ہو سکتے ہیں؟ (النحل : ٧٦) ٢۔ جس شخص نے اللہ کی رسی کو پکڑلیا اس کی صراط مستقیم کی طرف رہنمائی کی گئی۔ (آل عمران : ١٠١) ٣۔ اللہ کو ایک ماننا صراط مستقیم ہے۔ (آل عمران : ٥١) ٤۔ اللہ کی عبادت کرنے والا صراط مستقیم پر ہے۔ (یٰس : ٦١) ٥۔ اللہ مومنوں کی صراط مستقیم کی طرف راہنمائی کرتا ہے۔ (الانعام : ١٦١) ٦۔ اللہ کے رسول کی اطاعت کرنا صراط مستقیم پر چلنا ہے۔ (الزخرف : ٦١) النحل
77 فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ توحید کے انکار کی ایک بنیادی وجہ یہ بھی ہے کہ مشرک آخرت کی جوابدہی کا انکار کرتا ہے۔ لہٰذا توحید کے بعدعقیدہ آخرت کے ثبوت دیئے جاتے ہیں۔ گویا کہ توحید اور آخرت کا عقیدہ لازم وملزوم ہیں۔ آدمی کے کفرو شرک اختیار کرنے کی بنیادی وجہ یہ ہوتی ہے کہ کافر سرے سے اللہ تعالیٰ کی ذات کا منکر ہونے کی وجہ سے آخرت کا انکار کرتا ہے۔ مشرک آخرت کے بارے میں اس لیے دلیر ہوتا ہے کہ اس کا عقیدہ ہوتا ہے کہ جنکو وہ مشکل کشا اور حاجت روا سمجھتا ہے وہ قیامت کے دن ا سے بچا لیں گے۔ اس بنا پر کافر کفر سے اور مشرک شرک سے باز نہیں آتا۔ مکہ کے کفار کی حالت یہ تھی کہ وہ آخرت کا انکار کرنے کے ساتھ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مطالبہ کرتے تھے کہ آخرت برپا کیوں نہیں ہوتی؟ جس کے جواب میں قرآن مجید میں کئی دلائل دیئے گئے ہیں یہاں صرف یہ جواب دیا گیا ہے کہ جس طرح زمین و آسمان کے غیبی امور کا علم صرف اللہ تعالیٰ کے پاس ہے اسی طرح اس کے سوا کوئی نہیں جانتا کہ قیامت کب قائم ہوگی۔ البتہ جب اس کا وقت آئے گا تو آنکھ جھپکنے سے پہلے برپا ہوجائے گی۔ کیونکہ اللہ ہر بات پر قادر ہے۔ (مَنْ مَّاتَ فَقَدْ قَامَتَ قِیَامَتَہٗ) [ السلسلۃ الضعیفۃ و الموضوعۃ ] ” جو شخص مر گیا اس کے لیے قیامت قائم ہوگئی۔“ (عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ أَنَّ رَسُوْلَ اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ لاَ تَقُوم السَّاعَۃُ حَتّٰی تَطْلُعَ الشَّمْسُ مِنْ مَغْرِبِہَا، فَإِذَا طَلَعَتْ فَرَآہَا النَّاسُ آمَنُوْا أَجْمَعُوْنَ، فَذٰلِکَ حِیْنَ لاَ یَنْفَعُ نَفْسًا إِیْمَانُہَا، لَمْ تَکُنْ آمَنَتْ مِنْ قَبْلُ، أَوْ کَسَبَتْ فِیْٓ إِیمَانِہَا خَیْرًا، وَلَتَقُوْمَنَّ السَّاعَۃُ وَقَدْ نَشَرَ الرَّجُلاَنِ ثَوْبَہُمَا بَیْنَہُمَا فَلاَ یَتَبَایَعَانِہٖ وَلاَ یَطْوِیَانِہِ، وَلَتَقُوْمَنَّ السَّاعَۃُ وَقَدِ انْصَرَفَ الرَّجُلُ بِلَبَنِ لِقْحَتِہٖ فَلاَ یَطْعَمُہٗ، وَلَتَقُوْمَنَّ السَّاعَۃُ وَہْوَ یَلِیْطُ حَوْضَہٗ فَلاَ یَسْقِیْ فِیْہِ، وَلَتَقُوْمَنَّ السَّاعَۃُ وَقَدْ رَفَعَ أُکْلَتَہٗ إِلٰی فِیْہِ فَلاَ یَطْعَمُہَا) [ رواہ البخاری : کتاب الرقاق ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں آپ نے فرمایا قیامت قائم نہ ہوگی یہاں تک کہ سورج مغرب سے طلوع ہوجائے جب سورج مغرب سے طلوع ہوگا تو اسے دیکھ کرتمام کے تمام لوگ ایمان لے آئیں گے۔ لیکن اس وقت اس کے ایمان لانے کا کوئی فائدہ نہ ہوگا جو اس سے قبل ایمان نہیں لایا اور اس نے نیک اعمال نہ کیے ہوں۔ دو آدمیوں نے کپڑا پھیلایا ہوگا وہ اس کپڑے کو بیچ اور سمیٹ نہیں پائیں گے کہ قیامت قائم ہوجائے گی۔ دودھ دوہنے والادودھ پی نہیں سکے گا کہ قیامت قائم ہوجائے گی۔ حوض پر پہنچانے والا پانی نہیں پی سکے گا کہ قیامت قائم ہوجائے گی۔ کھانا کھانے والا اپنے منہ میں ڈالا ہوا لقمہ کھا نہیں پائے گا کہ قیامت قائم ہوجائے گی۔“ مسائل ١۔ آسمان و زمین کی پوشیدہ باتیں اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے۔ ٢۔ قیامت آنکھ جھپکنے سے پہلے برپا ہوجائے گی۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے۔ تفسیر بالقرآن قیامت برپا ہو کر رہے گی : ١۔ قیامت آنکھ جھپکنے کی مانند یا اس سے بھی پہلے برپا ہوجائے گی۔ (النحل : ٧٧) ٢۔ قیامت قریب تر ہے۔ (الانبیاء : ١) ٣۔ اللہ کا وعدہ سچا ہے اور قیامت برپا ہونے میں کسی قسم کا کوئی شک نہیں۔ (الکہف : ٢١) ٤۔ قیامت میں کوئی شک نہیں اللہ قبروں سے مردوں کو اٹھالے گا۔ (الحج : ٧) ٥۔ بے شک قیامت آنے والی ہے۔ (طٰہٰ : ١٥) النحل
78 فہم القرآن ربط کلام : قیامت کے منکرین کو قیامت کا منظر بتلانے کے بعد ان کی پیدائش کا منظر بتلایا ہے۔ قیامت کے منکر سب سے بڑی یہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ جب ہم مٹی کے ساتھ مٹی ہوجائیں گے تو اللہ تعالیٰ ہمیں کس طرح اٹھائے گا۔ اس کے ساتھ وہ یہ دلیل بھی دیتے ہیں۔ کہ انسان کے الفاظ اور اس کا کردار ہوا میں تحلیل ہوجاتا ہے اس لیے انسان کا دوبارہ زندہ ہونا اور اس کے اعمال کا محاسبہ کرنا نہ ممکنات میں سے ہے۔ موت کے بعد جی اٹھنے کا انکار کرنے والوں کو غور کرنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ وہ ذات ہے جو تمہاری ماؤں کے بطنوں سے تمہیں نکالتا ہے۔ اس حالت میں کہ اس سے پہلے تمہارا وجود نہ تھا۔ اسی نے تمہاری آنکھیں، کان، اور دل بنائے۔ تاکہ تم اس کی ذات کا اعتراف کرتے ہوئے اس کا شکریہ ادا کرو۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کی تخلیق کا مقام اس کی ماں کا رحم رکھا ہے۔ جو ازدوجی زندگی سے پہلے بالکل خالی ہوتا ہے۔ جب اللہ تعالیٰ انسان کی پیدائش کا فیصلہ فرماتا ہے۔ تو اس کے ماں باپ کے مادہ منویہ سے جرثومے اس کی ماں کے کے رحم میں ملاپ حاصل کرتے ہیں۔ جس سے انسان کی تخلیق کا آغاز ہوتا ہے۔ جس سے انسان بے خبر ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ پیدائش کے بعد بھی ایک مدت تک اسے اپنے بارے میں کچھ علم نہیں ہوتا۔ اس کے باوجود اللہ تعالیٰ اسے دو آنکھوں، دو کانوں اور ایک دل کے ساتھ پیدا کرتا ہے۔ مگر یہ اعضاء انسان کی پیدائش کے وقت اس قدر نازک اور اپنے گردو پیش کے ماحول سے بے خبر ہوتے ہیں کہ اسے یہ بھی پتہ نہیں ہوتا کہ مجھے جنم دینے والی مامتا کون ہے؟ اللہ تعالیٰ اسے القاء کرتا ہے جس بنا پر ہر نومولود بے شک جانور کا بچہ کیوں نہ ہو وہ اپنی ماں کی چھاتی کی طرف لپکتا ہے۔ جوں جوں انسان بڑا ہوتا ہے اس کی سماعت، بصارت اور سوچ و فکر کی صلاحیتیں بھی پروان چڑھتی ہیں۔ لیکن افسوس بڑا ہو کر وہ ہر بات سنتا، ہر چیز دیکھتا اور دینوی نفع و نقصان پر غور و خوض کرتا ہے۔ اس کے باوجود اپنے خالق حقیقی کو بھول جاتا ہے اور اس کے ساتھ دوسروں کو شریک بناتا ہے۔ یہ پرلے درجے کا کفر اور اللہ تعالیٰ کی نا شکری ہے۔ حالانکہ انسان کو غیروں کی بجائے اپنے خالق اور منعم حقیقی کو پہچاننا اور اس کا شکر گزار رہنا چاہیے۔ یہاں انسان کی پیدائش کو اس ماں کی طرف منسوب کیا گیا ہے جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ انسان کی تخلیق ماں کے رحم میں ہوتی ہے۔ اس لیے باپ کی بجائے ماں کا ذکر ہوا ہے۔ اسی بناء پر رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ماں کے حقوق والد کی نسبت زیادہ بیان فرمائے ہیں۔ (عَنْ اأبِیْ ہُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَنْ لَّمْ یَشْکُرِ النَّاسَ لَمْ یَشْکُرِ اللّٰہَ) [ رواہ احمد] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو شخص لوگوں کا شکر گزار نہیں ہوتا وہ اللہ کا بھی شکر ادا نہیں کرسکتا۔“ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فرمان کا مقصدیہ ہے کہ جو اپنے جیسے انسانوں کے چھوٹے چھوٹے احسانات کا شکریہ نہیں ادا کرتا حالانکہ اسے ان احسانات کا شکر ادا کرنا آسان ہے وہ خالق کائنات کے پہاڑوں جیسے اور ان گنت احسانات کا شکریہ کس طرح ادا کرسکتا ہے۔ شکر کے مقابلے میں ناشکری کو شریعت کی زبان میں تمام نا فرمانیوں اور بغاوتوں کا پیش خیمہ تصور کیا ہے۔ (لإَِ نْ شَکَرْتُمْ لَأَزِیْدَنَّکُمْ وَلَءِنْ کَفَرْتُمْ إِنَّ عَذَابِیْ لَشَدِیْدُ) [ ابراہیم۔ ٧] ” اگر تم شکریہ ادا کروگے تو تمہیں ضرور مزید عنایت کیا جائے گا اگر ناشکری کا رویہ اختیار کروگے تو پھر میرا عذاب بہت سخت ہے۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اس کی ماں کے پیٹ سے نکالا اور اسے کچھ خبر نہ تھی۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کی سماعت، بصارت اور دل بنایا ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ کا ہر حال میں شکر ادا کرنا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن شکر کی اہمیت اور اس کے فوائد : ١۔ اللہ نے تمہارے لیے سماعت، بصارت اور دل بنایا تاکہ تم شکر کرو۔ (النحل : ٧٨) ٢۔ اگر تم شکر کرو گے تو اللہ تمہیں زیادہ دے گا۔ (ابراہیم : ٧) ٣۔ اگر تم اللہ کا شکر کرو تو وہ تم سے خوش ہوگا۔ (الزمر : ٧) ٤۔ اگر تم اللہ کا شکر ادا کرو اور اس پر ایمان لاؤ تو تمہیں عذاب کرنے کا اسے کیا فائدہ؟ (النساء : ١٤٧) ٥۔ اللہ شکر کرنے والوں کو جزا دے گا۔ (آل عمران : ١٤٤) ٦۔ اللہ نے کفر اور شرک کا راستہ واضح فرمادیا ہے۔ (الدھر : ٣) النحل
79 فہم القرآن ربط کلام : پرندوں کے حوالے سے اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کا حوالہ دے کر انسان کو ایمان لانے کی دعوت دی ہے۔ جانوروں اور پرندروں میں معاشرے کا وجود : (وَمَا مِنْ دَابَّۃٍ فِی الْأَرْضِ وَلَا طَاءِرٍ یَطِیْرُ بِجَنَاحَیْہِ إِلَّا أُمَمٌ أَمْثَالُکُمْ مَا فَرَّطْنَا فِی الْکِتَابِ مِنْ شَیْءٍ ثُمَّ إِلَی رَبِّہِمْ یُحْشَرُوْنَ)[ الانعام : ٣٨] ” زمین میں چلنے والے کسی جانور اور ہوا میں پروں سے اڑنے والے کسی پرندے کو دیکھ لو یہ سب تمہاری ہی طرح کی اقسام ہیں اور ہم نے ان کی تقدیر کے نوشتے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے پھر یہ سب اپنے رب کی طرف سمیٹے جاتے ہیں۔“ جدیدتحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ جانور اور پرندے بھی معاشروں کی شکل میں رہتے ہیں۔ مطلب یہ کہ ان میں بھی اجتماعی نظم وضبط ہوتا ہے اور مل جل کر رہتے ہیں اور اپنا اپنا کام کرتے ہیں۔ پرندوں کی پرواز : (أَلَمْ یَرَوْا إِلَی الطَّیْرِ مُسَخَّرَاتٍ فِی جَوِّ السَّمَاءِ مَا یُمْسِکُہُنَّ إِلَّا اللَّہُ إِنَّ فِی ذَلِکَ لَآَیَاتٍ لِقَوْمٍ یُؤْمِنُوْنَ)[ النحل : ٧٩] ” کیا ان لوگوں نے کبھی پرندوں کو نہیں دیکھا کہ فضائے آسمانی میں کس طرح مسخر ہیں۔ اللہ کے سوا کس نے ان کو تھام رکھا ہے۔ اس میں بہت سی نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو ایمان لاتے ہیں۔“ ایک اور آیت مبارکہ میں پرندوں پر کچھ اس انداز سے بات کی گئی ہے : (أَوَلَمْ یَرَوْا إِلَی الطَّیْرِ فَوْقَہُمْ صَافَّاتٍ وَیَقْبِضْنَ مَا یُمْسِکُہُنَّ إِلَّا الرَّحْمَنُ إِنَّہُ بِکُلِّ شَیْءٍ بَصِیْرٌ )[ الملک : ١٩] ” یہ لوگ اپنے اوپر اڑنے والے پرندوں کو پر پھیلاتے اور سکیڑتے نہیں دیکھتے ؟ رحمان کے سوا کوئی نہیں جو انہیں تھامے ہوئے ہو وہی ہر چیز کا نگہبان ہے۔“ عربی لفظ ” امسک“ کا لغوی ترجمہ ” کسی کے ہاتھ میں ہاتھ دینا، روکنا، تھامنا، یا کسی کی کمر پکڑ لینا“ ہے۔ مذکورہ بالا آیت میں ” یُمسکُھُنَّ“ سے اس بات کا اظہار ہو رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی قدرت اور اپنے اختیار سے پرندوں کو ہوا میں تھامے رکھتا ہے، ان آیات ربانی میں اس پر زور دیا گیا ہے کہ پرندوں کے طرز کا مکمل انحصار انہی قوانین پر ہے جنہیں اللہ تعالیٰ نے تخلیق فرمایا ہے۔ اور جنہیں ہم قوانین فطرت کے نام سے جانتے ہیں جدید سائنسی معلومات سے ثابت ہوچکا ہے کہ بعض پرندوں میں پرواز کی بے مثل اور بے عیب صلاحیت کا تعلق اس وسیع تر اور مجموعی منصوبہ بندی (پروگرامنگ) سے ہے جو ان کی حرکات و سکنات سے متعلق ہے۔ مثلاً ہزاروں میل دور تک نقل مکانی کرنے والے پرندوں کی جینیاتی رموز (جینیٹک کو دز) میں ان کے سفر کی تمام تر تفصیلات و جزئیات موجود ہیں، جو ان پر ندوں کو اس قابل بناتی ہیں کہ وہ نہایت کم عمری میں بھی لمبے سفر کے کسی تجربے اور کسی رہنما کے بغیر ہزاروں میل کا فاصلہ طے کرلیں اور پیچیدہ راستوں سے پرواز کرتے چلے جائیں۔ بات صرف سفر کی یک طرفہ تکمیل ہی پر ختم نہیں ہوجاتی، بلکہ وہ ایک مخصوص تاریخ پر اپنے عارضی مسکن سے پرواز کرتے ہیں اور ہزاروں میل واپسی کا سفر کرکے ایک بار پھر اپنے گھونسلوں تک بالکل ٹھیک ٹھیک جا پہنچتے ہیں۔ پروفیسر ہیمبر گرنے اپنی کتاب ” پادر اینڈ فریجیلٹی“ میں ” مٹن برڈ“ نامی ایک پرندے کی مثال دی ہے جو بحرالکال کے علاقوں میں پایا جاتا ہے۔ نقل مکانی کرنے والا یہ پرندہ ٠٠٠، ٢٤ (چوبیس ہزار) کلومیٹر کا فاصلہ ٨ کی شکل میں چکر لگا کر طے کرتا ہے۔ یہ اپنا سفر چھ ماہ میں پورا کرتا ہے اور مقام ابتداء تک زیادہ سے زیادہ ایک ہفتے کی تاخیر سے واپس پہنچ جاتا ہے۔ ایسے کسی سفر کے لیے نہایت پیچیدہ معلومات کا ہونا ضروری ہے جو اس پرندے کے اعصابی خلیات میں محفوظ ہونی چاہیں۔ یعنی ایک باضابطہ ” پروگرام“ کی شکل میں پرندے کے جسم میں موجود اور ہمہ وقت دستیاب ہوتی ہے۔ اگر پرندے میں کوئی پروگرام ہے تو کیا اس سے یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ اسے تشکیل دینے والا کوئی ” پروگرامز“ بھی یقیناً ہے ؟ (از : خطبات ڈاکٹر ذاکر نائیک) مسائل ١۔ پرندوں کو فضا میں ٹھہرانے والی اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔ ٢۔ ایمانداروں کے لیے پرندوں میں بہت سی نشانیاں ہیں۔ النحل
80 فہم القرآن ربط کلام : پرندوں کے بعد چوپاؤں کے حوالے سے خدا کی قدرت کا شعور دیا جارہا ہے۔ اللہ تعالیٰ انسان کو اس کے ماحول کے حوالے سے اپنی قدرت کا شعور دیتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے کہ اللہ وہ ذات ہے جس نے تمہارے لیے تمہارے گھروں کو سکون اور سکونت کا باعث بنایا اور تمہیں صلاحیت عنایت فرمائی کہ تم چوپاؤں کی کھالوں سے گھر یعنی خیمے بناتے ہو جو نقل مکانی کی اور پڑاؤ ڈالنے کی شکل میں تمہارے لیے پھلکے ہوتے ہیں پھر چوپاؤں کی اون، پشم اور بالوں سے رہنے سہنے کے لیے سامان اور پہننے کے لیے اپنا لباس بنانے کے ساتھ اپنی زندگی کے لیے دیگر فوائد حاصل کرتے ہو۔ بھیڑ کی اون کو صوف کہا جاتا ہے جس کی جمع اصواف ہے اونٹ کے بالوں کو وبر کہتے ہیں جس کی جمع اوبار ہے، دنبے، بکری کے بالوں کو شعر کہتے ہیں جس کی جمع اشعار ہے۔ نزول قرآن کے وقت عربوں کی اکثریت پانی کی قلت اور اسباب زندگی کی کمی کی وجہ سے صحرا نوردوں کی زندگی بسر کرتے تھے۔ جس طرح ہمارے ملک میں بادیا نشین زندگی گزارتے ہیں ایسی حالت میں چوپاؤں کے چمڑے اور دیگر جانوروں کے بالوں اور اون سے بنے ہوئے خیمے ناصرف سائے گھنے اور اٹھانے میں سہل اور ہلکے ہوتے ہیں بلکہ چمڑے کے بنے ہوئے خیمے موسم کی حدّت اور برودت میں صحرا نشینوں کے لیے بہترین گھروں کا کام دیتے ہیں۔ گھر انسان ہی نہیں بلکہ درند پرند کے لیے سکون اور سکونت کا باعث ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ شام کے وقت پرندے اپنے گھونسلے کی طرف جاتے ہیں۔ درندے اپنے غاروں اور کیڑے مکوڑے اپنی بلوں میں داخل ہوجاتے ہیں۔ انسان اپنے گھر سے باہر کتنی اچھی رہائش گاہ میں قیام پذیر ہو اسے اس وقت تک چین نصیب نہیں ہوتا جب تک اپنے گھر واپس نہیں پلٹتا بے شک اس کا گھر کتنا ہی معمولی کیوں نہ ہو۔ اس کی زندہ مثال ہر ملک میں بادیا نشین لوگوں کی زندگی میں دیکھی جا سکتی ہے آپ ان کو شہر میں بہترین مکان مہیا کریں لیکن وہ اور ان کے بچے اپنی جھونپڑیوں میں جو سکون پاتے ہیں۔ وہ سکون انھیں محلاّت میں نہیں ملتا۔ درندوں، پرندوں اور انسانوں کا اپنے گھروں کی طرف پلٹنا اور سکون پانا اللہ تعالیٰ کی طرف سے ودیعت کردہ جذبے کی بنا پر ہے جس وجہ سے ہر جاندار کو اپناگھر پیارا ہوتا ہے اور وہ اس کی حفاظت کے لیے سب کچھ کرنے کے لیے تیار رہتا ہے۔ کیونکہ اپنا گھر اپنا ہی ہوتا ہے۔ گھر سے محبت اور اس کے سکون کو اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف منسوب کرتے ہوئے انسان کو اس طرف توجہ دلائی ہے تاکہ وہ دنیا کے گھر میں رہ کر جنت کے گھر کی تیاری کرے۔ مسائل ١۔ گھر انسان کے لیے باعث تسکین ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کے سکون کے لیے بہت کچھ پیدا فرمایا۔ تفسیر بالقرآن سکون حاصل کرنے کے ذرائع : ١۔ اللہ نے تمہارے گھر تمہارے لیے سکون کا باعث بنائے ہیں۔ (النحل : ٨٠) ٢۔ اللہ وہ ذات ہے جس نے تمہارے لیے رات کو بنایا تاکہ تم سکون حاصل کرو۔ (یونس : ٦٧) ٣۔ اللہ کی رحمت کا نتیجہ ہے کہ اس نے تمہارے لیے دن اور رات بنائے تاکہ تم تسکین حاصل کرو۔ (القصص : ٨٢) ٤۔ اللہ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی یہ ہے کہ اس نے تمہاری جانوں میں سے تمہارے لیے بیویاں پیدا فرمائیں تاکہ تم ان سے سکون حاصل کرو۔ (الروم : ٢١) ٥۔ آپ ان کے لیے دعا کیجئے آپ کی دعا ان کے لیے باعث تسکین ہے۔ (التوبۃ: ١٠٣) ٦۔ اللہ کے ذکر سے دلوں کو اطمینان حاصل ہوتا ہے۔ (الرعد : ٢٨) النحل
81 فہم القرآن ربط کلام : انسان کی مستقل قیام گاہ کے بعد اس کی عارضی پناہ گاہوں اور اس کے لباس کا تذکرہ۔ دنیا میں انسان کی مستقل قیام گاہ اس کا گھر ہوتا ہے جو انسان کے لیے سکون اور سکونت کا باعث ہونے کے ساتھ گرمی، سردی اور اس کے سازوسامان کی حفاظت کا ذریعہ ہوتا ہے۔ انسان کا گھر بے شک جھونپڑی کی صورت میں کیوں نہ ہو وہ اسے اٹھائے ہوئے ہر جگہ نقل و حرکت نہیں کرسکتا۔ اس نے اپنی روزی اور دیگر حاجات کے لیے گھر سے باہر جانا ہوتا ہے۔ اس لیے ضروری تھا کہ اس کے لیے عارضی طور پر ایسی قیام گاہیں ہوں جنہیں وہ گرمی، سردی اور سفری مشکلات کے وقت کچھ وقت کے لیے قیام کرسکے اس کے لیے اللہ تعالیٰ نے درختوں اور پہاڑوں کے سائے بنائے تاکہ تھکا ماندہ اور محنت کش انسان کچھ وقت کے لیے ان میں آرام کرسکے پہاڑوں کے دیگر فوائد کے ساتھ ایک فائدہ یہ بھی عطا فرمایا کہ انسان موسم ناہموار ہونے کی صورت میں عارضی طور پر ان میں پناہ لے سکے پھر انسان کو اللہ تعالیٰ نے یہ لیاقت عطا فرمائی کہ وہ گرمی اور جنگ کی صورت میں دشمن سے بچاؤ کے لیے اپنا لباس تیار کرے۔ حالات کے مطابق اپنی صحت اور جسم کی حفاظت کا خیال رکھ سکے۔ یہاں دو قسم کے ملبوسات کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ گرمی سے بچاؤ اور لڑائی کے وقت اپنی حفاظت کے لیے لباس تیار کرنا۔ سورۃ النحل کا نزول مکہ معظمہ میں ہوا۔ مکہ اور اس کے گردونواح میں ہمیشہ سخت یا نیم گرمی کا موسم رہتا ہے۔ جنگی لباس کا ذکر اس لیے کیا کہ اس زمانے میں دست بدست لڑائی ہوتی تھی۔ دشمن کے وار سے بچنے کے لیے لوہے کا ٹوپ اور سینہ ڈھانپنے کے لیے زرہ پہنی جاتی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے اس لباس کو اپنی نعمت قرار دیتے ہوئے فرمایا کیونکہ جنگی ٹیکنالوجی کا حصول کسی قوم اور ملک کے تحفظ کے لئے سب سے بڑی نعمت ہوا کرتا ہے۔ یہ انعامات تم پر اس لیے کیے گئے ہیں تاکہ تم اپنے رب کے تابع فرمان رہو۔ اللہ تعالیٰ کے انعامات سے مستفیض ہونے کے باوجود لوگ حق قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ پر صرف یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ آپ واشگاف الفاظ اور انداز میں لوگوں تک حق پہنچا دیں جہاں تک لوگوں کی اکثریت کا حال ہے وہ اپنے رب کی نعمتوں کو پہچاننے اور ان سے لطف اندوز ہونے کے باوجود اللہ تعالیٰ کی ناقدری اور اس کے ساتھ کفر کرتے ہیں۔ یہ حقیقت قرآن مجید نے کئی بار واضح کی ہے کہ نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کام حق بات پہنچانا ہے منوانا نہیں۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کے لیے سائے بنائے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کے لیے پہاڑوں میں پناہ گاہیں بنائیں۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کے لیے ایسے پیراہن بنائے جو انہیں گرمی، سردی اور جنگ کے وقت دشمن کے وار سے محفوظ رکھتے ہیں۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ نے لوگوں پر اپنی نعمتیں نازل فرمائیں تاکہ وہ فرمانبردار بن جائیں۔ ٥۔ انبیاء (علیہ السلام) کا کام دین کی تبلیغ کرنا ہے۔ ٦۔ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو پہچاننے کے باوجود لوگ اللہ کی ذات اور اس کی صفات کا انکار کرتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن انبیاء کا کام تبلیغ کرنا ہے : ١۔ اگر لوگ رو گردانی کریں تو آپ کا کام حق پہنچانا ہے۔ (النحل : ٨٢) ٢۔ اگر تم پھر جاؤ یقیناً ہمارے رسول کے ذمے حق بات پہنچانا ہے۔ (المائدۃ: ٩٢) ٣۔ نہیں ہے رسول کے ذمہ مگر حق پہنچادینا۔ (المائدۃ: ٩٩) ٤۔ اگر وہ اعراض کریں تو ہم نے آپ کو نگران بنا کر نہیں بھیجا آپ کا کام پہنچانا ہے۔ (الشوریٰ: ٤٨) النحل
82 النحل
83 النحل
84 فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی ناقدری اور اس کی ذات کے ساتھ کفر کرنے کا انجام۔ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی ناقدری اور اس کی ذات کا انکار کرنے والے لوگ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کیے جائیں گے۔ وہ جہنم کا عذاب اور رب کا جلال دیکھ کر اپنے گناہوں کا اعتراف کرنے سے انکار کردیں گے۔ اور بڑی ڈھٹائی کے ساتھ کہیں گے کہ اے ہمارے رب ہمارے پاس کوئی سمجھانے والا نہیں آیا تھا اگر کوئی ہمیں سمجھاتا تو ہم ضرور تیری ذات اور فرمان پر ایمان لاتے۔ اس انکار پر ہر امت کے نبی کو ان کے سامنے پیش کیا جائے گا۔ جب اس امت کا نبی اللہ تعالیٰ کے حضور اپنی قوم کے خلاف گواہی دے گا کہ اے رب میں نے پیغام من و عن پہنچا دیا تھا۔ مجرم لوگ اپنے نبی کی شہادت مسترد کردیں گے اس پر اللہ تعالیٰ نبی کو حکم فرمائیں گے کہ آپ اپنی تائید کے لیے گواہ پیش کریں وہ نبی امت محمدیہ کے لوگوں کو گواہ کے طور پر پیش کریں گے۔ نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی امت کے لوگ گواہی دیں گے کہ بار الٰہا ہم نے تیرے قرآن میں پڑھا تھا کہ پہلے انبیاء نے اپنی اپنی امتوں کو ٹھیک ٹھیک طریقے سے حق کا پیغام پہنچایا۔ انبیاء (علیہ السلام) کی گواہی دینے کے باوجود مجرم ہر گواہی کو مسترد کرتے جائیں گے۔ اس صورت حال میں اللہ تعالیٰ ان کی زبانوں پر مہر ثبت فرماکر ان کے عضاء کو حکم دے گا کہ تم گواہی دو کہ کیا یہ واقعی مجرم نہیں ہیں؟ مجرموں کے اعضاء اللہ تعالیٰ سے ہم کلام ہو کر اس کے حضور اپنی شہادت پیش کریں گے کہ یہ حقیقی مجرم ہیں۔ ( یٰس : ٦٥) جب مجرم لوگ ہر طرف سے لاجواب ہوجائیں گے تو پھر مزید انہیں عذر پیش کرنے کی اجازت نہ ہوگی اور نہ ہی ان کی معذرت قبول کی جائے گی ظالموں کو جس عذاب سے واسطہ پڑے گا اس میں نہ تخفیف کی جائے گی اور نہ ہی انہیں مہلت دی جائے گی۔ النحل
85 النحل
86 فہم القرآن ربط کلام : عذاب کا فیصلہ ہوجانے کے بعد مجرمین کا اپنے معبودان باطل کے بارے میں اقرار۔ قرآن مجید نے یہ حقیقت بھی کئی بار بیان کی ہے کہ محشر کے میدان میں مختلف مراحل پر مشرکین کا اپنے معبودوں کے ساتھ آمنا سامنا ہوگا۔ مشرک جن لوگوں کو دنیا میں مشکل کشا سمجھ کر نذرانے پیش کرتے اور ان کو سجدے کیا کرتے تھے ان کو پہچانتے ہوئے فریاد کے انداز میں کہیں گے کہ اے ہمارے رب ! یہ ہیں ہمارے معبود۔ جن کو ہم تیرے سوا حاجت روا، مشکل کشا سمجھتے تھے دوسرے مقام پر قرآن مجید نے ان کے اس مطالبے کا بھی ذکر کیا ہے کہ وہ اپنے معبودان باطل کو دیکھ کر رب ذوالجلال سے فریاد کریں گے کہ ان لوگوں کی وجہ سے ہم اس انجام تک پہنچے اے ہمارے رب انہیں دوگنا عذاب دیاجائے۔ (الاعراف : ٣٨) یہ سنتے ہی معبودان باطل اس بات کو اپنے مریدوں پر لوٹائیں گے کہ تم جھوٹ بولتے ہو۔ جب مجرم لوگ ہر طرف سے مایوس ہوجائیں گے تو سب کچھ بھول کر اللہ تعالیٰ کے حضور اپنی فرمانبرداری پیش کریں گے لیکن اس وقت گناہوں کا اعتراف کرنے اور فرمانبردار ہونے کا انہیں کوئی فائدہ نہ ہوگا۔ (١) یہاں جھوٹے عابدوں اور معبودوں کی گفتگو کا حوالہ دیتے ہوئے یہ الفاظ استعمال کیے ہیں کہ معبود اپنی عبادت کرنے والوں کو یہ کہیں گے کہ تم جھوٹے ہو۔ اس کے دو مفہوم ہو سکتے ہیں۔ ١۔ انکار کرنے والوں سے مراد اللہ کے وہ بندے ہوں گے جو دنیا میں اللہ تعالیٰ کی توحید کا پرچار کرنے کے ساتھ ہر قسم کے شرک کی مذمت کیا کرتے تھے۔ لیکن ان کے فوت ہوجانے کے بعد ان کے چاہنے والوں نے انھیں مشکل کشا بنا لیا اور ان کی قبروں پر شرکیہ اعمال کرنے لگے۔ اور ان سے دعائیں مانگنے لگے، وہ قیامت کے دن ان کے اس شرک کا صاف انکار کردیں گے۔ (فاطر : ١٣۔ ١٤) ٢۔ ان سے مراد یقیناً وہ لوگ ہیں جو مریدوں سے اپنے آپ کو سجدہ سجود کروایا کرتے اور جھوٹی امیدیں دلوایا کرتے تھے۔ مگر جب اللہ تعالیٰ کا عذاب دیکھیں گے تو اپنے مریدوں کو یہ کہیں گے کہ تم جھوٹے ہو ہم تو کسی کی حاجت روائی اور مشکل کشائی نہیں کرسکتے تھے۔ کیونکہ قرآن مجید نے بتلایا ہے کہ جب پیر عذاب دیکھیں گے تو اپنے مریدوں سے بیزاری کا اعلان کریں گے اس طرح ان کے درمیان تمام واسطے اور امیدیں منقطع ہوجائیں گی۔ مرید کہیں گے کاش! ہمیں دنیا میں واپس جانے کا موقع ملے تو ہم ان پیروں سے ایسے ہی بیزار ہوجائیں جیسے ہم سے یہ بیزار ہوئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی حسرت بڑھانے کے لیے ایسا کریں گے اور وہ کبھی جہنم سے نہیں نکل پائیں گے۔ (البقرہ : ١٦٦۔ ١٦٧) مسائل ١۔ قیامت کے دن مشرک اپنے معبودوں کو پہچان لیں گے۔ ٣۔ قیامت کے دن مشرک کا کوئی بہانہ قبول نہ کیا جائے گا۔ ٢۔ معبودان باطل اپنی عبادت کا انکار کریں گے اور مریدوں کو جھوٹا قرار دیں گے۔ تفسیر بالقرآن عہد اور قسم کی پاسداری کا حکم : ١۔ جب تم عہد کرو تو اللہ کے عہد کو پورا کرو اور پختہ قسموں کی حفاظت کرو۔ (النحل : ٩١) ٢۔ اللہ کے عہد کے متعلق سوال کیا جائے گا۔ (الاحزاب : ١٥) ٣۔ جو شخص اللہ کے عہد کی پاسداری کرتا ہے اسے بشارت دے دیں۔ (التوبۃ: ١١١) ٤۔ اللہ کا فرمان ہے تم میرے وعدے کو پورا کرو میں تمہارے وعدے کو پورا کروں گا۔ (البقرۃ : ٤٠) النحل
87 النحل
88 النحل
89 فہم القرآن ربط کلام : اس خطاب کا آغاز اس بات سے ہوا تھا کہ اللہ تعالیٰ ہر امت پر اس کے نبی کو گواہ کے طور پر پیش فرمائیں گے۔ اس کا اختتام بھی اسی مسئلے سے کیا جا رہا ہے۔ اے رسول! وہ وقت یاد کیجئے کہ جب ہر ا مّت سے ہم ایک گواہی دینے والا کھڑا کریں گے اور آپ کی امت پر آپ کو گواہ کے طور پر لایا جائے گا۔ ہم نے آپ پر ایسی کتاب نازل کی ہے جس میں ہدایت کے متعلق ہر بات کو کھول کر بیان کردیا گیا ہے۔ یہ کتاب مسلمانوں کے لیے سراسر ہدایت، رحمت اور خوشخبری بنا کر بھیجی گئی ہے۔ حدیث کی مقدس دستاویزات میں اس آیت کی تفسیر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان اطہر سے یوں بیان ہوئی ہے کہ ایک دن آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عبداللہ بن مسعود (رض) کو فرمایا کہ اے عبداللہ! میرا دل چاہتا ہے کہ آپ مجھے قرآن مجید کی تلاوت سنائیں۔ عبداللہ بن مسعود (رض) عرض کرنے لگے کہ اے رسول محترم! یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ میں آپ کے سامنے قرآن مجید کی تلاوت کروں جب کہ قرآن مجید آپ پر نازل ہوا ہے۔ لیکن آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حکم دیا، میں تجھ سے قرآن مجید سننا چاہتا ہوں۔ عبداللہ بن مسعود (رض) نے اس آیت کی تلاوت کی جس کی تفصیل جاننے کے لیے حدیث کے مقدس الفاظ پڑھیں تاکہ ہمیں معلوم ہو کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس آیت کو کس احساس کے ساتھ پڑھا اور سنا کرتے تھے۔ (عَنْ عَبْدِ اللَّہِ قَالَ یَحْیَی بَعْضُ الْحَدِیثِ عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّۃَ قَالَ قَالَ لِیَ النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اقْرَأْ عَلَیَّ قُلْتُ آقْرَأُ عَلَیْکَ وَعَلَیْکَ أُنْزِلَ قَالَ فَإِنِّیْٓ أُحِبُّ أَنْ أَسْمَعَہٗ مِنْ غَیْرِیْ فَقَرَأْتُ عَلَیْہِ سُورَۃَ النِّسَاءِ حَتَّی بَلَغْتُ (فَکَیْفَ إِذَا جِءْنَا مِنْ کُلِّ أُمَّۃٍم بِشَہِیْدٍ وَّجِءْنَا بِکَ عَلٰی ہٰٓؤُلاآءِ شَہِیْدًا) قَالَ أَمْسِکْ فَإِذَا عَیْنَاہُ تَذْرِفَانِ) [ رواہ البخاری : کتاب التفسیر، فَکَیْفَ إِذَا جِءْنَا مِنْ کُلِّ أُمَّۃٍم بِشَہِیدٍ وَّجِءْنَا بِکَ عَلَی ہٰٓؤُلاآءِ شَہِیْدًا] حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں رسول مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے فرمایا جب کہ آپ منبر پر تشریف فرماتھے۔ اے عبداللہ! میرے سامنے قرآن مجید کی تلاوت کرو۔ میں نے عرض کیا میں آپ کو پڑھ کرسناؤں؟ جبکہ آپ پر قرآن نازل ہوا ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میں پسند کرتا ہوں کہ کسی دوسرے سے قرآن مجید سنوں۔ پھر میں نے سورۃ نساء کی تلاوت شروع کردی۔ جب میں اس آیت پر پہنچا ” اس وقت کیا حال ہوگا۔ جب ہم ہر امت سے گواہ لائیں گے اور تجھے ہم ان پربطور گواہ لائیں گے۔“ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اب بس کیجیے۔ میں نے آپ کی طرف نظر اٹھائی تو آپ کی آنکھوں سے زاروقطار آنسو بہہ رہے تھے۔ مسائل ١۔ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ ہر امت سے ایک گواہ پیش کرے گا۔ ٢۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو آپ کی امت پر گواہ بنایا جائے گا۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایسی کتاب نازل فرمائی جو ہدایت کے متعلق جو ہر بات کھول کر بیان کرنے والی ہے۔ ٤۔ قرآن مجید مسلمانوں کے لیے باعث ہدایت، رحمت اور خوشخبری ہے۔ تفسیر بالقرآن انبیاء ( علیہ السلام) کی شہادت : ١۔ اس دن ہم ہر امت سے ایک گواہ لائیں گے۔ (النحل : ٨٩) ٢۔ جس دن ہم اٹھائیں گے ہر امت سے گواہ پھر کفار کو اجازت نہ دی جائے گی۔ (النحل : ٨٤) ٣۔ تاکہ رسول تم پر گواہ ہو اور اور تم لوگوں پر۔ (البقرۃ: ١٤٣) ٤۔ تاکہ رسول تم پر اور تم لوگوں پر گواہ ہوجاؤ۔ (الحج : ٧٨) النحل
90 فہم القرآن ربط کلام : قرآن مجید لوگوں کے لیے ہدایت کا سرچشمہ، اللہ کی رحمت اور ایمان لانے والوں کے لیے خوشخبری ہے ان لوگوں کے لیے جو درج ذیل ہدایات پر عمل پیرا ہوتے ہیں۔ قرآن مجید کی یہ آیات مبارکہ ان آیات میں شامل ہے جو انتہائی جامع احکامات کی حامل ہیں۔ اس کی جامعیت کے پیش نظر خلیفۃ المسلمین حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمتہ اللہ علیہ نے اپنے دور حکومت میں خطباء کو ہدایت کی تھی کہ وہ اسے ہر خطبۂ جمعہ میں پڑھا کریں۔ اس میں اللہ تعالیٰ نے تین باتوں کا حکم فرمایا اور تین کاموں سے منع کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ تمہیں نصیحت کی جاتی ہے تاکہ تم نصیحت قبول کرو۔ اب نصائح کا مختصر مفہوم پیش کیا جاتا ہے۔ عدل : ١۔ پہلا حکم عدل کے بارے میں دیا گیا ہے جس کا صحیح اور حقیقی معنٰی یہ ہے کہ ہر کسی کو اس کا اصولی حق دیا جائے۔ یہ عدل کا بنیادی اصول ہے۔ ہمارے ہاں عدل کے لیے انصاف کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے جو شریعت کا منشا پورا نہیں کرتی۔ کیونکہ انصاف کا معنٰی ہے کسی چیز کو دو برابر حصوں میں تقسیم کرنا۔ گویا کہ کسی چیز کو نصف نصف کردینے کا نام انصاف ہے۔ اسلام کا عدالتی نظام یہ ہے کہ حقدار کو اس کا پورا پوراحق دیاجائے۔ جس کے بارے میں رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہاں تک فرمایا ہے : ” حضرت ام سلمہ (رض) بیان کرتی ہیں رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میں انسان ہوں اور تم میرے پاس فیصلے لاتے ہو۔ شاید تم میں سے کچھ لوگ دوسروں کی نسبت اپنا مؤقف بیان کرنے میں زیادہ فصیح ہوں۔ ہوسکتا ہے کہ میں اس کی بات سن کر اس کے حق میں فیصلہ کر دوں۔ جس شخص کو اس کے بھائی کے حق میں سے کچھ دوں تو وہ اسے ہرگز قبول نہ کرے۔ بلا شبہ میں اسے دوزخ کا ایک ٹکڑادے رہا ہوں۔“ [ رواہ البخاری : باب موعظۃ الامام للخصوم] الاحسان : حدیث کی مقدس دستاویزات میں احسان کے دو مفہوم بیان ہوئے ہیں۔ ” انسان اللہ کی عبادت اس طرح کرے جیسے وہ خود اللہ تعالیٰ کو دیکھ رہا ہے۔ یہ ممکن نہیں تو اسے یہ یقین ضرور ہونا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ مجھے دیکھ رہا ہے۔“ [ رواہ البخاری : کتاب الایمان] حقوق العباد میں احسان کا مفہوم یہ ہے کہ انسان دوسرے کے ساتھ معاملہ کرتے ہوئے عدل کے بجائے شفقت اور نرمی کا مظاہرہ کرے ایتائے ذی القربیٰ : اس آیت مبارکہ میں پہلے عدل کا حکم دیا گیا پھر احسان کرنے کی تلقین فرمائی اب یہ بتایا جا رہا ہے کہ احسان کے حقدار سب سے پہلے انسان کے قریبی رشتہ دار ہیں اگر احسان کرنے کے بارے میں قرآن مجید کی متعین کردہ فہرست کا خیال رکھا جائے تو دنیا میں شاید ہی کوئی ایساانسان ہو جس کا قریبی یا قدرے دور کا کوئی رشتہ دار موجود نہ ہو گویا کہ قرآن مجید ایک نظم کے تحت احسان اور صلہ رحمی کا حکم دیتا ہے۔ تاکہ اسلامی معاشرے میں کوئی شخص محرومیت کا شکار نہ ہونے پائے۔ اگر کسی کا قریبی رشتہ دار نہ ہو تو اس کا دور کا رشتہ دار ہی اقرب قرار پائے گا۔ کسی سے تعاون کرنے کی ترتیب : ” حضرت بہز بن حکیم اپنے باپ اور وہ اپنے دادا سے بیان کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا اے اللہ کے رسول! نیکی کا سب سے زیادہ حقدار کون ہے ؟ آپ نے فرمایا تیری ماں۔ پھر تیری ماں۔ پھر تیری ماں۔ پھر تیرا باپ۔ پھر قریب والا پھر اس کے قریب والا۔“ [ رواہ أبودا ؤد : کتاب الأدب، باب فی بر الوالدین ] محرمات : مذکورہ بالا فرمان میں تین کاموں کا حکم دینے کے بعد تین برائیوں سے منع کیا گیا ہے۔ جس میں پہلی برائی فحش اور بے حیائی ہے۔ محرمات میں سب سے پہلے چھوٹی برائی سے اس لیے منع کیا گیا ہے کہ جب کوئی چھوٹی برائی سے بچنے کی کوشش کرے گا تو اس کے لیے بڑی برائی سے بچنا آسان ہوگا۔ اس لیے پہلے ہر قسم کی بے حیائی سے بچنے کا حکم دیا ہے۔ بے حیائی سے مراد ہر وہ حرکت ہے جسے شریف لوگ برا سمجھتے ہوں۔ بے شک شریعت میں اس کے بارے میں واضح حکم نہ پایا جاتا ہو۔ ایسے کاموں کی ہر معاشرے میں مثالیں پائی جاتی ہیں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دور میں اور آج بھی کچھ عربوں کے ہاں یہ رواج ہے کہ جس شخص کو رشتہ درکار ہو وہ لڑکی کے والد سے براہ راست رشتے کا سوال کرتا ہے لیکن ہمارے معاشرے میں اسے بے حیائی سمجھا جاتا ہے۔ اس لیے ایسی حرکت سے اجتناب کرنا چاہیے۔ بہر حال شریعت کے معیار کے علاوہ ہر معاشرے میں بے حیائی کا ایک معیار خود بخود مقرر ہوجاتا ہے۔ لہٰذا شریعت کی وضع کردہ بے حیائی سے بچنا فرض ہے۔ اور معاشرے کی ناپسندیدہ باتوں سے اجتناب کرنا شرافت اور عقلمندی کی دلیل ہے۔ المنکر : منکر سے مراد ہر وہ گناہ ہے جس سے شریعت نے منع کیا ہے بے شک وہ چھوٹا گناہ ہو یا بڑا گناہ۔ قرآن مجید کا ارشاد ہے کہ لوگو! کھلی اور پوشیدہ برائی کے قریب نہ جاؤ۔ ( الانعام : ١٥) البغی : بغی سے مراد ایسا گناہ جس میں زیادتی کا عنصر بھی شامل ہو۔ اس میں ہر قسم کی زیادتی اور گناہ شمار ہوگا۔ منکر سے رک جانے کا حکم دے کر مسلمانوں کو ایک دوسرے کے ساتھ معاشی، معاشرتی اور اخلاقی زیادتیوں سے روک دیا گیا ہے۔ یہ ہے اسلامی معاشرے کے حسن و جمال کا ایک خاکہ۔ اس لیے خلیفۂ راشد حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمتہ اللہ علیہ نے حکم دیا تھا کہ ہر خطیب اپنے خطبہ میں اس آیت کی تلاوت کا اہتمام کیا کرے۔ تاکہ لوگوں کے ذہن میں ہر وقت اسلامی معاشرے کا تصور تازہ رہے۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ عدل کا حکم دیتا ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ احسان کا حکم فرماتا ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ قریبی رشتہ داروں کے ساتھ تعاون کرنے کا حکم دیتا ہے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ بے حیائی اور برائی اور ظلم و سرکشی سے روکتا ہے۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ کی نصیحت کو قبول کرنا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن قرآن مجید میں عدل کا حکم اور بے حیائی کی حرمت : ١۔ یقیناً اللہ تمہیں عدل اور احسان اور قریبی رشتہ داروں کے ساتھ تعاون کا حکم دیتا ہے، بے حیائی اور برائی سے روکتا ہے۔ (النحل : ٩٠) ٢۔ نبی اکرم کو حکم دیا گیا کہ آپ لوگوں کے درمیان عدل قائم کریں۔ (الشوریٰ : ١٥) ٣۔ عدل کرو یہ تقویٰ کے قریب تر ہے۔ (المائدۃ: ٨) ٦۔ بے حیائی والے کاموں کے قریب نہ جاؤ۔ (الانعام : ١٥١) ٤۔ جب بات کرو تو عدل و انصاف کی کرو اگرچہ اپنے قریبی رشتہ دار ہی کے خلاف کیوں نہ ہوں۔ (الانعام : ١٥٢) ٥۔ جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل و انصاف کا کرو۔ (النساء : ٥٨) ٧۔ اللہ نے یقیناً بے حیائی کو حرام قرار دیا ہے۔ (الاعراف : ٣٣) النحل
91 فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ اللہ تعالیٰ کے ارشادات پر عمل کرنا اور اس کی نافرمانی کے کاموں سے رکنا حقیقت میں ایک عہد ہے جس کی پاسداری ہر شخص پر لازم ہے۔ پہلاعہد وہ عہد ہے جو کلمۂ طیبہ کے الفاظ میں ہر مسلمان اپنے رب سے کرتا ہے یہ اس عہد کی تجدید اور اعادہ ہے جو ازل کے دن قالُوْا بَلٰی کہہ کر ہر انسان نے اپنے رب کے ساتھ کیا تھا۔ جس کی عہد شکنی کرنا کفر ہے۔ دوسرا عہدوہ ہے جو ایک انسان یا افراد ایک دوسرے کے ساتھ کرتے ہیں۔ اس عہد کی پاسداری کرنا بھی ہر کسی پرلازم ہے۔ قسم اٹھانا بھی عہد کی ایک صورت ہے۔ بلکہ یہ پختہ عہد ہوتا ہے۔ اس کی پاسداری کا یہ کہہ کر حکم دیا گیا ہے کہ خاص کر جب تم اللہ کی قسم اٹھاؤ تو قسم کا احترام کرو۔ اس کا واضح مفہوم یہ ہے کہ تم اپنے معاملات میں اللہ تعالیٰ کو گواہ بنا رہے ہو۔ لہٰذا تمہاری اخلاقی اور دینی ذمہ داری ہے کہ تم اس عہد پر پکے رہو اور یاد رکھوکہ جو کچھ تم کرتے ہو اللہ تعالیٰ اسے اچھی طرح جانتا ہے۔ (عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ (رض) قَالَ مَا خَطَبَنَا نَبِیُّ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) إِلَّا قَالَ لَآ إِیْمَانَ لِمَنْ لَّا أَمَانَۃَ لَہٗ وَلَا دِیْنَ لِمَنْ لَا عَہْدَ لَہٗ)[ رواہ احمد] ” حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جب بھی ہمیں خطبہ دیا فرمایا جو امانت دار نہیں اس کا کوئی ایمان نہیں اور جو شخص وعدہ پورا نہیں کرتا اس کا کوئی دین نہیں۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ اور لوگوں سے کیا ہواعہد ہر حال میں پورا کرنا چاہیے۔ ٢۔ پختہ قسم کو توڑنا گناہ ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ ہر کسی کے اعمال کو جانتا ہے۔ النحل
92 فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ عہد کو توڑنا اور قسم کا احترام نہ کرنا اپنے اچھے کردار کی نفی کرتا ہے۔ انسان کتنا ہی صاحب کردار اور باوقار کیوں نہ ہو جب دوسرے سے کیے ہوئے عہد کو توڑتا ہے اور اپنی قسم کا خیال نہیں رکھتا تو ایساشخص اس حد تک لوگوں کی نظروں میں گر جاتا ہے کہ لوگ نہ صرف اس کے صالح کردار کی نفی کرتے ہیں بلکہ اس کی نماز روزہ کو بھی تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔ لوگوں کو ایسے شخص سے اس قدر نفرت ہوجاتی ہے کہ اس کا نام سنتے ہی لوگ اسے بے ایمان کہتے ہیں۔ ایسا شخص قسم کی بے حرمتی اور عہد شکنی کی وجہ سے اپنے ماضی کے اچھے کردار کی نفی کر بیٹھتا ہے۔ اس شخص کی مکہ کی اس عورت (یہ کوئی خاص عورت تھی یا ویسے ہی بطور مثال ذکر ہوا ہے) کے ساتھ مثال دی جا رہی ہے جس کا دماغی توازن ٹھیک نہ تھا۔ وہ سارا دن سوت کاتنے کے بعد مغرب کے بعد خود ہی اسے ریزہ ریزہ کردیتی تھی۔ عہد توڑنے اور اپنی قسم کی پاسداری نہ کرنے والے کا یہی حال ہوتا ہے۔ عام طور پر عہد شکنی اور قسم کی بے حرمتی آدمی اس وقت کرتا ہے جب وہ دوسرے کی مخالفت یا کسی فائدہ کے لالچ میں حد سے گزر جاتا ہے۔ اس لیے ایسی حرکت سے سختی کے ساتھ منع کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ تم ایک دوسرے کو نیچا دکھانے یا ایک دوسرے سے بڑھ کر فائدہ اٹھانے کی کوشش نہ کرو۔ ایسے کاموں سے تجھے رک جانا چاہیے جو لوگ کسی معاملہ میں غلط ہونے کے باوجود جھوٹی قسم اٹھاتے ہیں انہیں سمجھایا ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہیں معاملات میں آزماتا ہے کہ تم کس حد تک اپنی قسموں کا خیال اور اپنے درمیان عہد کی پاسداری کرتے ہو۔ اگر تم باز نہیں آؤ گے تو قیامت کے دن تمہارے اختلافات کا ٹھیک ٹھیک فیصلہ کردیا جائے گا۔ (عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عَمْرٍو (رض) عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ الْکَبَاءِرُ الإِشْرَاک باللَّہِ، وَعُقُوقُ الْوَالِدَیْنِ، وَقَتْلُ النَّفْسِ، وَالْیَمِینُ الْغَمُوسُ )[ رواہ البخاری : باب الْیَمِینِ الْغَمُوسِ] ” حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں آپ نے فرمایا اللہ کے ساتھ شرک کرنا، والدین کی نافرمانی کرنا، کسی کو ناحق قتل کرنا اور جھوٹی قسم اٹھانا کبیرہ گناہوں میں سے ہیں۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کیے ہوئے عہد اور قسم کو نہ توڑو۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی آزمائش کرتا ہے۔ ٣۔ قیامت کے دن لوگوں کے اختلافات کا فیصلہ کیا جائے گا۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ قیامت کے دن لوگوں کے درمیان فیصلہ کرے گا : ١۔ بے شک تیرا رب قیامت کے دن ان کے درمیان فیصلہ کرے گا جس میں وہ اختلاف کرتے تھے۔ (یونس : ٩٣) ٢۔ اللہ ان کے معاملات کا فیصلہ فرمائے گا۔ (البقرۃ : ٢١٠) ٣۔ یقیناً اللہ تمہارے درمیان اپنے حکم سے فیصلہ فرمائے گا۔ (النحل : ٧٨) ٤۔ اللہ عدل و انصاف کا فیصلہ فرماتا ہے۔ (المومن : ٢٠ ) ٥۔ اللہ ان کے درمیان انصاف کے ساتھ فیصلہ فرمائے گا۔ (یونس : ٥٤) ٦۔ اللہ قیامت کے دن تمہارے اختلافات کا فیصلہ فرمائے گا۔ (الحج : ٦٩) ٧۔ اللہ قیامت کے دن عدل وانصاف کا ترازو قائم فرمائے گا۔ (الانبیاء : ٤٧) ٨۔ یقیناً اللہ تمہارے درمیان فیصلہ فرمائے گا جو تم اختلاف کرتے تھے۔ (الزمر : ٣) ٩۔ اللہ قیامت کے دن تمہارے اختلاف کا فیصلہ فرمائے گا۔ (البقرۃ: ٢١٣) ١٠۔ اللہ قیامت کے دن تمہارے درمیان فیصلہ فرمائے گا اور کافر مومنوں پر کوئی راستہ نہیں پائیں گے۔ (النساء : ١٤١) النحل
93 فہم القرآن دنیوی مفاد اور باہمی اختلاف کی و جہ سے عہدتوڑنا اور قسم کی بے حرمتی کرنا گمراہ لوگوں کا کام ہے۔ لوگ دنیوی مفاد اور باہمی اختلاف میں آکر اللہ کی نازل کردہ ہدایت کو بھول جاتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو انتباہ کرنے اور ہدایت یافتہ لوگوں کو تسلی دینے کے لیے فرمایا ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کی مشیت میں سب کو ہدایت دینا لازم ہوتا۔ تو اللہ تعالیٰ بااختیار اور طاقتور ہے کہ تمام انسانوں کو ہدایت یافتہ بنا دیتا اور پوری دنیا کے انسان بہترین کردار کے حامل اور ایک ہی امت قرار پاتے۔ لیکن ” اللہ“ نے ہدایت اور گمراہی کے اختیار کرنے میں انسان کو کھلا چھوڑ دیا ہے۔ جو لوگ ہدایت واضح ہونے کے باوجود گمراہی اختیار کریں گے اللہ تعالیٰ ضرور ان سے پوچھ گچھ کرے گا۔ یہ بات کئی مرتبہ بیان کی جا چکی ہے کیونکہ ہدایت اور گمراہی بھی اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ ان کی نسبت اپنی طرف کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ وہ جسے چاہے ہدایت دے اور جسے چاہے گمراہ کرے۔ ہدایت کی طلب اور اس پر استقامت کی دعا کرنا چاہیے : (عَنْ عَبْدِاللّٰہِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اَنَّہٗ کَانَ ےَقُوْلُ (اَللّٰھُمَّ اِنِّیْْٓ اَسْاَلُکَ الْھُدٰی وَالتُّقٰی وَالْعَفَافَ وَالْغِنٰی) [ رواہ مسلم : باب التَّعَوُّذِ مِنْ شَرِّ مَا عَمِلَ وَمِنْ شَرِّ مَا لَمْ یَعْمَل] ” حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ دعا مانگا کرتے تھے۔ ” اے اللہ! میں تجھ سے ہدایت‘ تقویٰ‘ پاکیزگی اور استغناء کا طلب گار ہوں۔“ النحل
94 فہم القرآن ربط کلام : دنیا کی خاطر اللہ کے نام کو بدنام اور اپنا ایمان برباد نہ کرو دنیا تو ختم ہونے والی ہے، اور جو اللہ تعالیٰ کے ہاں تمھارا صلہ ہے وہ ہمیشہ رہنے والا ہے۔ انسان دنیوی مفاد کی خاطر جھوٹی قسم اس لیے کھاتا ہے کہ وہ نقصان سے بچ جائے یا اسے فائدہ پہنچے۔ اس برائی سے منع کرتے ہوئے سمجھایا ہے کہ جس جھوٹی انا اور دنیوی مفاد کی خاطر اپنے رب کے عظیم نام کو استعمال کرتے اور عملاً دین کی راہ میں رکاوٹ بنتے ہو۔ اس پر غور کرو کہ یہ دنیا تو عارضی اور ختم ہوجانے والی ہے۔ اگر تم جھوٹی انا اور عارضی مفاد کے مقابلہ میں اخلاقی قدروں اور دین کے اصولوں پر قائم رہو تو اللہ کے ہاں اس کا نہ ختم ہونے والا اجر ہے۔ استقامت اور دنیا کا معمولی مفاد چھوڑنے کے بدلے اللہ تعالیٰ تمھیں ایسی حیات طیبہ اور اجر عظیم عطا فرمائے گا۔ جس کا تم دنیا کی زندگی میں تصور بھی نہیں کرسکتے۔ اس میں مرد اور عورت کے درمیان کوئی فرق اور تخصیص نہیں ہے۔ دنیا میں حقوق و فرائض کے حوالے سے عورت اور مرد میں کچھ فرق ہے لیکن اجر و ثواب کے حوالے سے کوئی فرق نہیں۔ جہاں تک حیات طیبہ کا تعلق ہے یہ آخرت میں ہی نہیں دنیا میں بھی اللہ تعالیٰ عطا فرماتا ہے۔ جو اپنے رب کے حکم اور اس کی رضا کی خاطر اخلاقی قدروں اور دین کے اصولوں کا خیال رکھے ہوئے ہیں اللہ تعالیٰ ایسے مرد اور عورت کو اپنی نعمتیں عطا کرنے کے ساتھ اسے معاشرے میں وہ احترام و مقام عطا فرماتا ہے جس کی لوگ مثال پیش کرتے ہیں۔ (عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَال اللّٰہُ تَعَالٰی اَعْدَدْتُّ لِعِبَادِیَ الصَّالِحِیْنَ مَالَاعَیْنٌ رَاأتْ وَلَآ اُذُنٌ سَمِعَتْ وَلَاخَطَرَ عَلٰی قَلْبِ بَشَرٍ وَّاقْرَءُ وْٓا اِنْ شِءْتُمْ فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّآ اُخْفِیَ لَھُمْ مِنْ قُرَّۃِ اَعْیُنٍ) [ رواہ البخاری : باب ما جاء فی صفۃ الجنۃ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں‘ میں نے اپنے نیک بندوں کے لیے ایسی نعمتیں تیار کی ہیں‘ جن کو نہ کسی آنکھ نے دیکھا اور نہ ہی ان کے متعلق کسی کان نے سنا اور نہ کسی انسان کے دل میں ان کا خیال آیا اگر تمہیں پسند ہو تو اس آیت کی تلاوت کرو ” کوئی نہیں جانتا کہ ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک کے لیے کیا چیز چھپا کے رکھی گئی ہے۔“ (قُلْ بِفَضْلِ اللَّہِ وَبِرَحْمَتِہٖ فَبِذَلِکَ فَلْیَفْرَحُوْا ہُوَ خَیْرٌ مِّمَّا یَجْمَعُونَ )[ یونس : ٥٨] ” آپ فرما دیں یہ اللہ کے فضل اور اس کی مہربانی سے نازل ہوئی ہے لہٰذا انہیں اس پر خوش ہونا چاہیے یہ اس سے بہتر ہے جو وہ جمع کررہے ہیں۔“ مسلمان کی دعا : (وَمِنْہُمْ مَنْ یَّقُوْلُ رَبَّنَآ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّفِی الْاٰخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّقِنَا عَذَاب النَّارِ) [ البقرہ : ٢٠١] ” اور کچھ ایسے ہیں جو کہتے ہیں اے ہمارے رب ! ہمیں دنیا اور آخرت میں بھلائی سے نواز اور ہمیں جہنم کے عذاب سے بچا لے۔“ (عَنْ بُسْرِ بْنِ أَرْطَاۃَ الْقُرَشِیِّ (رض) یَقُولُ سَمِعْتُ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَدْعُواللَّہُمَّ أَحْسِنْ عَاقِبَتَنَا فِی الأُمُورِ کُلِّہَا وَأَجِرْنَا مِنْ خِزْیِ الدُّنْیَا وَعَذَاب الآخِرَۃِ )[ رواہ احمد] ” حضرت بسر بن ارطاۃ قرشی (رض) کہتے ہیں میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ دعا کرتے ہوئے سنا اے اللہ ! ہمارے تمام معاملات کا انجام اچھا فرما اور ہمیں دنیا اور آخرت کی رسوائی سے محفوظ فرما۔“ مسائل ١۔ قسموں کو مفاد اور فساد کا ذریعہ نہیں بنا نا چاہیے۔ ٢۔ اللہ کی راہ سے روکنے والوں کے لیے عذاب عظیم ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ کے عہد کو تھوڑے فائدے کے بدلے نہ بیچیں۔ ٤۔ انسان کے پاس جو کچھ ہے وہ ختم ہوجائے گا اور جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہ باقی رہے گا۔ ٥۔ صبر کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ ان کے اعمال کا بہتر صلہ عطا فرمائے گا۔ ٦۔ اچھے اعمال کرنے والوں کودنیا میں بھی پاکیزہ زندگی سے نوازا جائے گا۔ ٧۔ اچھے اعمال کرنے والوں کو قیامت کے دن ان کے اعمال کی بہترین جزا ملے گی۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ بہترین اجر دینے والا ہے : ١۔ ہم ان کو ان کے اعمال سے بہتر جزا دیں گے۔ (النحل : ٩٧) ٢۔ اللہ ان کو ان کے اعمال سے بہتر صلہ عطا فرمائے۔ ( الزمر : ٣٥) ٣۔ ہم ان کے اعمال سے بہتر جزا دیں گے۔ (العنکبوت : ٧) ٤۔ اللہ ان کو ان کے اعمال کا بہتر صلہ اور اپنے فضل سے مزید عنایت فرمائے گا۔ (النور : ٣٨) النحل
95 النحل
96 النحل
97 النحل
98 فہم القرآن ربط کلام : اس سے پہلی آیات میں نیک مرد اور عورتوں کے اجر کا ذکر ہوا۔ اب بتلایا ہے کہ نیکی کے کاموں کا علم قرآن مجید کی تلاوت سے حاصل ہوگا۔ قرآن کی تلاوت اور نیکی کرنے کے لیے ضروری ہے کہ سب سے پہلے اللہ کے حضور شیطان سے بچنے کی دعا کی جائے۔ قرآن مجید اللہ تعالیٰ کی عظیم، مقدس اور آخری کتاب ہے۔ اس سے استفادہ کرنے کے لیے ظاہری اور باطنی آداب مقرر کیے گئے ہیں۔ اگر انسان ان آداب کو ملحوظ خاطر نہ رکھے تو وہ قرآن مجید جیسی عظیم اور مقدس کتاب سے کماحقہ ٗفائدہ نہیں اٹھا سکتا، اس کا حقیقی اور پہلا ادب یہ ہے، اسے ہدایت کے لیے پڑھا جائے اور اس کے بتلائے ہوئے اصولوں کے مطابق نہ صرف زندگی بسر کی جائے بلکہ اس کے منع کردہ امور سے کلی طور پر اجتناب کیا جائے۔ اس اصول کو قرآن نے ابتدا میں ہی واضح کردیا ہے۔ یہ قرآن گناہوں سے پرہیز کرنے والوں کے لیے کتاب ہدایت ہے ( البقرہ : ٢) قرآن مجید کے ظاہری آداب میں پہلا ادب یہ ہے کہ اسے طہارت کی حالت میں پکڑاجائے اور اس کی تلاوت اعوذباللّٰہ من الشیطان الرجیم پڑھ کر کی جائے جو شخص ایمان اور طہارت کی حالت میں اس کی تلاوت اس نیت کے ساتھ کرے گا کہ اللہ تعالیٰ اس کی رہنمائی فرمائے تو اس پر شیطان زیادہ دیر تک غالب نہیں رہ سکتا۔ شیطان تو ان لوگوں پر غلبہ جماتا ہے جو اس سے دوستی اور تعلق قائم رکھتے اور اللہ کے ساتھ شرک کرتے ہیں۔ یہاں تلاوت قرآن مجید سے پہلے اَعُوْذُبِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطَان الرَّجِیْمِ پڑھنے کا حکم ہے۔ ذرا غور فرمائیں ایک شخص پاک جسم اور صاف نیت سے تلاوت قرآن سے پہلے نہایت عاجزی کے ساتھ تعوذ کے معنی کو سامنے رکھتا ہوا اس نیت کے ساتھ تلاوت کرتا ہے کہ الٰہی اس کتاب مقدس کے ذریعے اپنی رحمت سے میری رہنمائی فرما اس پر شیطان کس طرح غلبہ جما سکتا ہے ؟ تعوذ کا معنیٰ: عوذ چوپائے کے چھوٹے بچے کو کہتے ہیں جو اتنا چھوٹا ہو کہ پوری طرح اپنے پاؤں پر چل کر ماں کا دودھ نہ پی سکے۔ وہ گرتا اور سنبھلتا ہواماں کے تھنوں تک پہنچے۔ گویا کہ بندہ شیطان کے مقابلے میں اس قدر کمزور ہے جس لیے وہ اللہ کی پناہ کی درخواست کرتا ہے۔ مسائل ١۔ قرآن مجید کی تلاوت کرتے وقت تعوذ پڑھنا لازم ہے۔ ٢۔ ایمان والے شیطان کے داؤ سے بچ نکلتے ہیں۔ ٣۔ ایمان والے اللہ تعالیٰ پر توکل کرتے ہیں۔ ٤۔ شیطان کا داؤ انہی پر چلتا ہے جو اسے اپنا دوست بناۓ رکھتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن ہر حال میں اللہ تعالیٰ پر توکل کرنا چاہیے : ٍ١۔ ایمان والے اللہ پر توکل کرتے ہیں۔ (النحل : ٩٩) ٢۔ میں نے اسی پر توکل کیا ہے اور توکل کرنے والے اسی پر بھروسہ کرتے ہیں۔ (یوسف : ٦٧) ٣۔ اے نبی! فرما دیجیے مجھے اللہ ہی کافی ہے اسی پر توکل کرنے والے توکل کرتے ہیں۔ (الزمر : ٣٨) ٤۔ اللہ پر توکل کرو اگر تم مومن ہو۔ (المائدۃ: ٢٣) ٥۔ جب کسی کا کام کا ارادہ کرلو تو اللہ پر بھروسہ کرو بے شک اللہ توکل کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔ (آل عمران : ١٥٩) (رح) ٦۔ ہمیشہ زندہ رہنے والے اللہ پر توکل کرو جسے کبھی موت نہیں آئے گی۔ (الفرقان : ٥٨) ٧۔ اگر اللہ پر ایمان لائے ہو تو اسی پر توکل کرو۔ (یونس : ٨٤) ٨۔ مومنوں پر جب قرآنی آیات تلاوت کی جاتی ہیں تو ان کے ایمان میں اضافہ ہوتا ہے اور وہ اپنے رب پر توکل کرتے ہیں۔ (الانفال : ٢) النحل
99 النحل
100 النحل
101 فہم القرآن ربط کلام : قرآن مجید کے بارے میں ایک وضاحت اور اس حوالے سے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر لگائے جانے والے الزام کی تردید۔ کفار اور اہل کتاب کو قرآن مجید پر ایک اعتراض یہ بھی تھا کہ اس کی بعض آیات اور احکام میں ردوبدل کیوں پایا جاتا ہے۔ اس اعتراض کا یہاں اس طرح جواب دیا گیا کہ اللہ تعالیٰ اپنی آیات اور احکام میں جو ردوبدل فرماتا ہے اس کی حکمت کما حقہ وہی جانتا ہے۔ البتہ اس کے پیچھے لوگوں کی خیر خواہی مقصود ہوتی ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ لوگوں کے حالات کے مطابق اپنے احکام میں ردّوبدل نہ فرمائے تو اس سے لوگوں کو بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ سورۃ البقرۃ آیت ١٠٦، میں اس مسئلے کی وضاحت کرتے ہوئے یوں ارشاد فرمایا ہے کہ ہم کوئی آیت منسوخ کریں یا اس سے ملتی جلتی دوسری آیت لے آئیں تو یہ اللہ تعالیٰ کا اپنا انتخاب اور اس کا اختیار ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ ہر بات پر اختیار رکھتا ہے۔ یہ حاکم مطلق کی مرضی اور مشیت ہے کہ شریعت کے جس حکم کو چاہے معطل، منسوخ یا اس میں ردّوبدل فرمائے۔ اس میں مخلوق کا نہ تو عمل دخل ہے اور نہ ہی کسی کو اعتراض کرنے کی گنجائش ہے۔ یہاں تک کہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی اس میں زیروزبر کی تبدیلی کا اختیار نہیں رکھتے تھے یہ قادرمطلق اور شہنشاہ عالم کا اختیار ہے کہ وہ اپنے حکم کو جس طرح چاہے، جب چاہے اور جس قدر چاہے اس میں تبدیلی کرے لیکن اس کے باوجود قرآن مجید کے منکر رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر یہ الزام لگاتے تھے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ قرآن مجید خود گھڑ لیا ہے۔ کیونکہ ان کے اس الزام کی ایک وجہ یہ بھی تھی۔ اس لیے اس آیت کے آخر میں فرمایا ہے کہ لوگوں کی اکثریت آیات اور احکام کے ردّوبدل کی حکمت نہیں جانتی جس وجہ سے وہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات اقدس پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ یہ قرآن مجید اپنی طرف سے بنا لیتے ہیں۔ حالانکہ الزام لگانے والوں کو بارہا دفعہ چیلنج کیا گیا کہ اگر تم اپنے دعوی میں سچے ہو تمام کے تمام مل کراس جیسی چھوٹی سے چھوٹی سورت بنا لاؤ۔ تبدیلی اور نسخ کا فائدہ : نسخ کا معنٰی ہے کسی بات کو مٹانا یا اس کا ازالہ کرنا۔ اس کی تین صورتیں ہو سکتی ہیں : (١) ایک حکم خاص مدت کے لیے ہو، دوسری مدت کے لیے دوسرا حکم نازل ہوجائے۔ (٢) تربیت اور خاص مصلحت کی خاطر پہلے حکم میں نرمی اور کچھ گنجائش ہو بعد ازاں مکمل اور دائمی حکم نازل کردیا جائے۔ جس طرح شراب کی حرمت، قبلہ کی تبدیلی اور دوسرے معاملات کے بارے میں تدریجاً احکامات نازل ہوئے۔ قرآن مجید میں اس کے برعکس بھی مثال موجود ہے کہ قتال کے سلسلہ میں پہلا حکم سخت تھا لیکن اس کے بعد اس میں نرمی کردی گئی۔ (٣) پہلا حکم لوگوں کی خاص حالت کے بارے میں ہوبعدازاں حالات کی تبدیلی کی وجہ سے اسے کلیۃً منسوخ کردیا جائے اور اس کی جگہ اس سے ملتا جلتا یا اس سے جامع اور کثیر المقاصد حکم نازل کردیا جائے۔ قرآن مجید میں تینوں اقسام کی امثال موجود ہیں۔ جن علماء نے ان تینوں اقسام کو ناسخ اور منسوخ میں شامل کیا ہے انہوں نے درجنوں آیات کو اس زمرہ میں شامل کردیا حالانکہ ناسخ‘ منسوخ کو حقیقی اور کلی معنوں میں لیا جائے تو ان کی تعداد چند آیات سے زیادہ نہیں ہے۔ اس بنا پر شاہ ولی اللہ (رض) نے صرف پانچ آیات کو منسوخ شمار کیا ہے۔ (الفوز الکبیر : شاہ ولی اللہ ) مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ کو اپنے احکام منسوخ کرنے یا ان میں ردّ وبدل کرنے کا پورا حق ہے۔ ٢۔ زمین و آسمان کی ہر چیز اللہ تعالیٰ کی ملک ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ کے اذن کے بغیر کوئی کسی کی مدد نہیں کرسکتا۔ تفسیر باالقرآن لوگوں کی اکثریت دین کے بارے میں بے علم اور نا سمجھ ہوتی ہے : ١۔ اکثر ان کے بے علم ہیں۔ (النحل : ١٠١) ٢۔ اللہ تعالیٰ آیات اتارنے پر قادر ہے لیکن اکثر بے خبر ہیں۔ (الانعام : ٣٧) ٣۔ اللہ تعالیٰ ہی ہر چیز پر غالب ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔ (یوسف : ٢١) ٤۔ یہی سیدھا دین ہے لیکن اکثر بے خبر ہیں۔ (الروم : ٤٠) ٥۔ اللہ کا وعدہ سچا ہے لیکن اکثر لوگ بے علم ہیں۔ (النحل : ٣٨) ٦۔ اللہ اپنے وعدے کے خلاف نہیں کرتا لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔ (الروم : ٦) النحل
102 فہم القرآن ربط کلام : منکرین قرآن کے ایک اور الزام کا جواب۔ کفار یہ کہہ کر قرآن مجید کا انکار کرتے تھے کہ اس نبی نے اسے اپنی طرف سے گھڑ لیا ہے۔ جبکہ اہل کتاب کا یہ اعتراض تھا کہ اس رسول پر قرآن لانے والا جبرائیل (علیہ السلام) ہے جس کے ساتھ ہماری پرانی دشمنی ہے۔ یہودی یہاں تک ہرزہ سرائی کرتے ہیں کہ جبریل ظالم اور خائن فرشتہ ہے۔ اس نے ہماری کئی نسلوں کو تباہ کیا جو جبریل (علیہ السلام) کی ہم پر کھلی زیادتی ہے۔ سورۃ البقرہ آیت ٩٧، ٩٨ میں اس ہرزہ سرائی کا یہ جواب دیا گیا ہے کہ ” اے اللہ کے رسول ! آپ فرمادیں جو جبریل کا دشمن ہو وہ اللہ، اس کے ملائکہ، اس کے رسولوں اور میکائیل کا دشمن ہے۔“ جہاں تک جبریل امین (علیہ السلام) کا تعلق ہے اس نے اللہ کے حکم سے اس قرآن کو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قلب اطہر پر نازل کیا ہے جو مومنوں کے لیے ہدایت کا سر چشمہ اور سراسر خوشخبری ہے۔ یہاں حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کو روح القدس قرار دیتے ہوئے فرمایا ہے کہ یہ آپ کے رب کی طرف سے حق لے کر آیا ہے تاکہ اللہ تعالیٰ مومنوں کے ایمان کو مضبوط بنائے۔ قرآن مجید اپنے ماننے والوں کے لیے ہدایت کا سر چشمہ اور خوشخبری کا پیغام ہے۔ حق سے مراد قرآن مجید ہے۔ جو دلائل، الفاظ، انداز اور اپنے احکام کے حوالے سے سچائی کا سرچشمہ اور حق کا ترجمان ہے۔ اسے نازل کرنے والا اور لانے والا فرشتہ سچا ہے۔ روح القدس کا معنیٰ ” پاکیزہ روح“ یعنی وہ شخصیت جس کو اللہ تعالیٰ نے ہر قسم کی غلطی، زیادتی، بھول اور خیانت سے پاک پیدا کیا ہو۔ ظاہر ہے کہ وہ فرشتے کے سوا کوئی اور نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کوہر قسم کی آلائش اور غلطی سے پاک پیدا کیا ہے۔ اور حضرت جبرائیل (علیہ السلام) تمام ملائکہ کے سردار ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اسے اعزاز اور مقام بخشا کہ وہ تمام انبیاء ( علیہ السلام) پر اللہ تعالیٰ کے احکام لاتے اور پاک باز اور عظیم ترین ہستیوں سے بار بار شرف ملاقات پات رہے اس لیے اللہ تعالیٰ نے حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کو مختلف القابات سے نوازا ہے۔ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کے پر اور شخصیت : (عَنْ عَبْدِ اللَّہِ (رض) قَالَ رَأَی رَسُوْلُ اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جِبْرِیلَ فِی صُورَتِہِ وَلَہٗ سِتُّمِاءَۃِ جَنَاحٍ کُلُّ جَنَاحٍ مِّنْہَا قَدْ سَدَّ الأُفُقَ یَسْقُطُ مِنْ جَنَاحِہٖ مِنَ التَّہَاوِیْلِ وَالدُّرِّ وَالْیَاقُوتِ مَا اللَّہُ بِہٖ عَلِیْمٌ)[ رواہ احمد] ” حضرت عبداللہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جبرئیل (علیہ السلام) کو اس کی اصلی حالت میں دیکھا اس کے چھ سو پر تھے۔ ہر پرنے آسمان کے کناروں کو ڈھانپ رکھا تھا۔ اس کے پروں سے سرخ، زرد اور سبز رنگ کے موتی اور یاقوت گر رہے تھے۔ جن کے حسن و جمال کے بارے میں صرف اللہ ہی جانتا ہے۔“ قَالَ جَابِرٌ (رض) أُحَدِّثُکُمْ مَا حَدَّثَنَا رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ جَاوَرْتُ بِحِرَاءٍ شَہْرًا فَلَمَّا قَضَیْتُ جِوَارِی نَزَلْتُ فَاسْتَبْطَنْتُ بَطْنَ الْوَادِی فَنُودِیتُ فَنَظَرْتُ أَمَامِی وَخَلْفِی وَعَنْ یَمِینِی وَعَنْ شِمَالِی فَلَمْ أَرَ أَحَدًا ثُمَّ نُودِیتُ فَنَظَرْتُ فَلَمْ أَرَ أَحَدًا ثُمَّ نُودِیتُ فَرَفَعْتُ رَأْسِی فَإِذَا ہُوَ عَلَی الْعَرْشِ فِی الْہَوَاءِ یَعْنِی جِبْرِیلَ فَأَخَذَتْنِی رَجْفَۃٌ شَدِیدَۃٌ فَأَتَیْتُ خَدِیجَۃَ فَقُلْتُ دَثِّرُونِی فَدَثَّرُونِی فَصَبُّوا عَلَیَّ مَاءً فَأَنْزَلَ اللَّہُ عَزَّ وَجَلَّ (یَا أَیُّہَا الْمُدَّثِّرُ قُمْ فَأَنْذِرْ وَرَبَّکَ فَکَبِّرْ وَثِیَابَکَ فَطَہِّرْ)[ رواہ مسلم : باب بدء الوحی الی رسول اللہ] حضرت جابر (رض) کہنے لگے کہ میں تمہیں وہ حدیث سنا تا ہوں۔ جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بیان فرمائی آپ نے فرمایا میں ایک مہینے کے لیے غارِحرا میں گوشہ نشینی اختیار کی جب میں نے ایک مہینہ کی میعاد پوری کرلی تو میں وادی کی طرف اترا تو مجھے آواز دی گئی میں نے اپنے سر کو اٹھایا تو جبر ائیل امین کو ہوا میں عرش پر بیٹھے ہوئے پایا تو مجھے سخت خوف لاحق ہوا میں خدیجہ (رض) کے پاس آیا اور کہا کہ مجھے چادر اڑھادو اور مجھ پر پانی بہاؤ تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائیں (یَا أَیُّہَا الْمُدَّثِّرُ قُمْ فَأَنْذِرْ وَرَبَّکَ فَکَبِّرْ وَثِیَابَکَ فَطَہِّرْ) مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کو بذریعہ جبریل امین (علیہ السلام) نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل فرمایا۔ ٢۔ قرآن مجید مسلمانوں کے لیے باعث ہدایت وبشارت ہے۔ ٣۔ قرآن مجید کی آیات کو نازل کرنے کا مقصد مومنوں کو ثابت قدم رکھنا ہے۔ تفسیر بالقرآن حضرت جبریل (علیہ السلام) کے اوصاف اور القابات : ١۔ آپ فرما دیں کہ اسے روح القدس نے آپ کے پروردگار کی طرف سے حق کے ساتھ اتارا ہے۔ (النحل : ١٠٢) ٢۔ قرآن مجید کو روح الامین نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اتارا ہے۔ (الشعراء : ١٩٣) ٣۔ جبریل امین ملائکہ کے سردار ہیں۔ (التکویر : ٢١) ٤۔ شب قدر کی رات فرشتے اور روح (جبریل) اپنے پروردگار کے حکم سے اترتے ہیں۔ (القدر : ٤) ٥۔ اور ہم نے عیسیٰ (علیہ السلام) کی روح القدس سے مدد کی۔ (البقرۃ: ٨٧) ٦۔ جبریل امین مقرب ترین فرشتہ ہے۔ (النجم : ٨) ٧۔ جبریل امین طاقتور فرشتہ ہے۔ (النجم : ٥) ٨۔ جبریل امین نے آپ کے قلب اطہر پر قرآن اتارا ہے۔ (البقرۃ : ٩٧) النحل
103 فہم القرآن ربط کلام : منکرین قرآن کے تیسرے اعتراض کا جواب : حقیقت کا باربار انکار کرنے کی وجہ سے اکثر اوقات آدمی بوکھلاہٹ کا شکار ہوجاتا ہے۔ اسے اس بات کی خبر نہیں رہتی کہ میں نے اس حقیقت کا انکار کرتے ہوئے پہلے کونسی بات کی اور حقیقت پیش کرنے والے پر کونسا الزام لگایا تھا یہی حالت مکہ کے کفار کی تھی۔ کبھی یہ الزام لگاتے کہ یہ نبی اپنی طرف سے قرآن گھڑ لیتا ہے اور کبھی یہ کہتے کہ روم کے فلاں شخص سے بالواسطہ سیکھ کر ہمارے سامنے پیش کرتا ہے۔ قرآن مجید نے اس کا کئی پہلووں سے جواب دیا ہے جن میں سے ایک جواب یہ ہے کہ جس شخص یا جن افراد کو تم محمد عربی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا استاد کہتے ہو وہ سب کے سب عجمی ہیں یعنی وہ عربی کے حروف ابجد سے بھی واقف نہیں یہ کیونکر ہوسکتا ہے کہ جو شخص عربی زبان کی مبادیات اور اس کے حروف تہجی سے بھی واقف نہیں۔ اسے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کس طرح معلم قرار دیا جاسکتا ہے ؟ یہ بات اس سے بھی حیران کن اور احمقانہ ہے کہ ایک عجمی شخص قرآن مجیدجیسی متبحرالعلوم کتاب کا علم اور مستقبل میں ہونے والے واقعات کی من و عن خبر دے سکے۔ قرآن مجیدتو اتنی عظیم الشان کتاب اور اللہ تعالیٰ کا کلام ہے کہ اس جیسا کلام انسان تو درکنار روح القدس جبرایل امین (علیہ السلام) بھی نہیں بنا سکتا۔ چہ جائے کہ کلام مقدس اور عظیم کتاب کو کسی انسان کی طرف منسوب کیا جائے۔ دراصل جو لوگ اللہ تعالیٰ کی آیات پر ایمان نہیں لاتے وہی اس قدر بد ترین جھوٹ بول سکتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے پر جلال انداز میں مخاطب کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ ہم ان کی زبان، نیت اور مذموم مقاصد کو اچھی طرح جانتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو اللہ کبھی ہدایت نہیں دیتا۔ ان کے لیے اذیت ناک اور دائمی عذاب تیار کیا گیا ہے۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ دلوں میں پیدا ہونے والے خیالات سے اچھی طرح آگاہ ہے۔ ٢۔ کفار آپ پر یہ الزام لگاتے کہ آپ قرآن مجید کسی بشر سے سیکھ کر سناتے ہیں۔ ٤۔ قرآن مجید عربی زبان میں نازل کیا گیا۔ ٥۔ اللہ کی آیات کا انکار کرنے والوں کو ہدایت نہیں ملتی۔ ٦۔ اللہ کی آیات کا انکار کرنے والے عذاب کے حقدار ہوں گے۔ تفسیر باالقرآن قرآن مجید کے بارے میں کفار کے الزام اور ان کے جوابات : ١۔ ہم جانتے ہیں کہ یہ کہتے ہیں آپ کو تو ایک آدمی سکھا جاتا ہے۔ (النحل : ١٠٣) ٢۔ انہوں نے کہا قرآن تو پہلے لوگوں کے قصے کہانیاں ہیں۔ (الفرقان : ٥) ٣۔ اس نے کہا یہ تو اثر کرنے والا جادو ہے۔ (المدثر : ٢٤) ٤۔ فرما دیجیے جن و انس اکٹھے ہو کر اس قرآن جیسا قرآن لے آئیں۔ (بنی اسرائیل : ٨٨) ٥۔ فرما دیجیے دس سورتیں اس جیسی لے آؤاور اللہ کے سوا جن کو بلا سکتے ہو بلا لو۔ (ہود : ١٣) ٦۔ فرما دیجیے ایک سورۃ اس جیسی لے آؤ اور جن کو بلانا چاہتے ہو بلالو۔ (یونس : ٣٨) النحل
104 النحل
105 النحل
106 فہم القرآن ربط کلام : قرآن مجید کی تکذیب اور رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر مختلف الزام لگانے کا مقصد آپ پر دباؤ ڈالنا اور صحابہ کو دین سے متنفر کرنا مقصود تھا جس کے لیے کفار کمزور مسلمانوں پر ہر قسم کا ظلم کرنا جائز سمجھتے تھے ان حالات میں مظلوم صحابہ کو تسلی دینے کے ساتھ ان کے ایمان کی تائید اور حوصلہ افزائی کی جا رہی ہے۔ اہل مکہ نے کمزور مسلمانوں کا حلقۂ حیات اس طرح تنگ کر رکھا تھا کہ بیچارے مسلمان کسی سے فریاد بھی نہیں کرسکتے تھے۔ ابتدائی سالوں میں رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اپنی حالت یہ تھی کہ آپ دارِارقم میں خفیہ انداز میں اپنے ساتھیوں کی تعلیم و تربیت کا انتظام فرمایا کرتے تھے۔ ان نازک حالات میں کمزور اور غلام مسلمانوں پر اس قدر مظالم ڈھائے جاتے کہ جس کی روئداد لکھتے وقت کلیجہ پسیجنے کے ساتھ قلم لرز جاتا ہے۔ اس آیت کا پس منظر بیان کرتے ہوئے اکثر مفسرین نے آل یاسر کا تذکرہ کیا ہے۔ حضرت عمار (رض) کے سامنے ان کی والدہ ماجدہ حضرت سمیہ (رض) کو اس بے شرمی کے ساتھ ابو جہل نے شہید کیا کہ ان کے اندام نہانی پر نیزہ مارا۔ اسی حالت میں یہ عظیم خاتون دنیا سے رخصت ہوگئی۔ اس کے بعد حضرت عمار (رض) کے والد حضرت یاسر (رض) پر بے انتہا مظالم ڈھائے گئے۔ بالآخر وہ بھی اللہ کو پیارے ہوئے، شہادت کا یہ پہلا خون تھا جس سے مکہ کی زمین لالہ زار ہوئی۔ حضرت یاسر اور ان کی زوجہ مکرمہ کے بعد ابو جہل اور اس کے گماشتوں نے حضرت عمار (رض) پر مظالم کا سلسلہ جا ری رکھا کہ ایک دن کڑ کڑاتی دھوپ میں تپتی ہوئی ریت پر لٹا کر دہکتے ہوئے انگارے ان کی کمر پر رکھے گئے۔ اس حالت میں ابوجہل اور اس کے غنڈوں نے حضرت عمار (رض) کو اس وقت تک نہ چھوڑا جب تک ان کی زبان سے کفریہ کلمات نکلوانے میں کامیاب نہیں ہوئے۔ حضرت عمار (رض) کو جب وحشیانہ مظالم سے نجات ملی تو گھر جانے کی بجائے روتے ہوئے سیدھا رسالت مآب (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ حالت دیکھ کراستفسار فرماتے ہیں۔ کَیْفَ اَنْتَ یَا عَمَّارُ۔ حضرت عمار (رض) کی ہچکی بندھ گئی اس حالت میں عرض کرتے ہیں کہ اے اللہ کے رسول ! دل پوری طرح اللہ اور اس کے رسول کے بارے میں مطمئن ہے۔ حضرت عمار (رض) ابھی یہ الفاظ ادا کر رہے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کو یہ خوشخبری دے کر بھیجا کہ جس شخص نے بے حد مجبوری کی حالت میں ایمان لانے کے بعد کفر کا کلمہ کہا مگر اس کا دل ایمان پر مطمئن ہے اس پر کوئی گناہ نہیں البتہ جس نے بے حد مجبوری کے بغیر کلمۂ کفر کہا اس پر اللہ تعالیٰ کا غضب نازل ہوگا اور اسے عظیم عذاب میں مبتلا کیا جائے گا۔ لفظ ” اِکْرِہَ“ کی تشریح کرتے ہوئے اہل علم نے لکھا ہے۔ جب مظلوم کو یقینی طور پر اس بات کا علم ہوجائے کہ اب اس کا بچ نکلنا محال ہے اس وقت مظلوم کلمۂ کفر کہہ سکتا ہے لیکن یہ عزیمت کا راستہ نہیں۔ اس لیے صحابہ کرام (رض) نے کٹ مرنا گوارا کرلیا مگر انھوں نے اللہ کے دین کو نہیں چھوڑا۔ کیونکہ اگر ہر آدمی معرکۂ حق و باطل میں جان بچانے کی کوشش کرے تو اسلامی انقلاب برپا نہیں ہوسکتا۔ نہ دین آنے والی نسلوں تک پہنچ سکتا ہے۔ جہنم کے عذاب کی کیفیت : (عَنْ سَمُرَۃَ ابْنِ جُنْدُبٍ (رض) اَنَّ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ مِنْھُمْ مَنْ تَاْخُذُہُ النَّارُاِلٰی کَعْبَیْہِ وَمِنْھُمْ مَنْ تَاْخُذُُہُ النَّارُاِلٰی رُکْبَتَیْہِ وَمِنْھُمْ مَنْ تَاْخُذُہُ النَّارُ اِلٰی حُجْزَتِہٖ وَمِنْھُمْ مَنْ تَاْخُذُہُ النَّارُ اِلٰی تَرْقُوَتِہٖ) [ راہ مسلم : باب فی شدۃ حر النار] ” حضرت سمرہ بن جندب (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی گرامی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جہنم کی آگ نے بعض لوگوں کے ٹخنوں تک، بعض کے گھٹنوں تک اور بعض کو کمر تک گھیرا ہوگا اور بعض کی گردن تک پہنچی ہوگی۔“ مسائل ١۔ ایمان لانے کے بعد کفر اختیار نہیں کرنا چاہیے۔ ٢۔ مرتد کے لیے بہت بڑا عذاب ہے۔ ٣۔ مجبوری کی حالت میں جان بچانے کی خاطر کفریہ کلمات کہے جا سکتے ہیں۔ ٤۔ عملاً کفر اختیار کرنے والے پر اللہ کا غضب ہے۔ تفسیر بالقرآن کفار کے لیے اذیت ناک عذاب : ١۔ ایمان لانے کے بعد کفر کرنے والے کے لیے بہت بڑا عذاب ہے۔ (النحل : ١٠٦) ٢۔ کفارکے لیے آگ کا عذاب ہے۔ (الانفال : ١٤) ٣۔ عنقریب کفار کو درد ناک عذاب سے دوچار ہونا پڑے گا۔ (التوبۃ: ٩٠) ٤۔ ان کے کفر کی وجہ سے ہم انہیں شدید ترین عذاب چکھائیں گے۔ (یونس : ٧٠) النحل
107 فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ دین کی مخالفت اور کفر کو اختیار کیے رکھنے کی بنیادی وجہ۔ دین میں داخل ہونے والا شخص سب سے پہلے اپنی ” انا“ اور نظریات کی قربانی کرتا ہے۔ بسا اوقات اسے دنیاوی مفاد، برادری اور اعزاء و اقارب یہاں تک کہ اسے سماجی اور معاشرتی سٹیٹس چھوڑنا پڑتا ہے۔ ظاہر ہے یہ قربانیاں وہی شخص دے سکتا ہے جو دنیا کے فوائد چھوڑ کر دین کی دعوت پر خوش اور مطمئن ہوجائے۔ یہ کام دنیا پرست شخص نہیں کرسکتا بے شک وہ اسلام کا لبادہ اوڑھے ہوئے کتنا ہی اسلام کا پرچار کرنے والا ہو اس بات کو چند الفاظ میں بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے ” جس نے کسی حوالے سے بھی دنیا کو آخرت پر مقدم جانا اور اسلام کی عظیم نعمت کی طرف توجہ نہ دی ایسا کرنا کفر ہے اور کافر کو اللہ تعالیٰ صراط مستقیم کی طرف ہدایت نہیں دیتا۔ دینوی مفاد حق کے منکروں پر اس طرح غالب رہا ہے کہ بالآخر اس جرم کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں اور کانوں پر مہر لگا کر ان کی آنکھوں پر غفلت کا پردہ ڈال دیا۔ اسی حالت میں موت نے انھیں دبوچ لیا۔ ان کے مرنے کے بعد ان کے لیے نقصان ہی نقصان ہوگا۔ گناہ کی وجہ سے دل کا سیاہ ہونا : (عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ عَنْ رَّسُوْلِ اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ إِنَّ الْعَبْدَ إِذَا أَخْطَأَ خَطِیْٓءَۃً نُکِتَتْ فِیْ قَلْبِہٖ نُکْتَۃٌ سَوْدَآءُ فَإِذَا ہُوَ نَزَعَ وَاسْتَغْفَرَ وَتَابَ سُقِلَ قَلْبُہٗ وَإِنْ عَاد زیدَ فِیْہَا حَتّٰی تَعْلُوَ قَلْبَہٗ وَہُوَ الرَّانُ الَّذِیْ ذَکَرَ اللَّہُ (کَلاَّ بَلْ رَانَ عَلٰی قُلُوبِہِمْ مَا کَانُوْا یَکْسِبُوْنَ))[ رواہ الترمذی : کتاب تفسیر القرآن، باب وَمِنْ سُورَۃِ وَیْلٌ لِّلْمُطَفِّفِیْنَ (حسن )] ” حضرت ابوہریرہ (رض) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں آپ نے فرمایا بلاشبہ جب بندہ گناہ کرتا ہے اس کے دل پر سیاہ نکتہ لگا دیا جاتا ہے جب وہ اس گناہ کو چھوڑتا اور توبہ و استغفار کرتا ہے تو اس کا دل صاف ہوجاتا ہے اور اگر وہ دوبارہ گناہ کرتا ہے تو اس سیاہ نکتے میں اضافہ کردیا جاتا ہے یہاں تک کہ اس کی سیاہی دل پر غالب آجاتی ہے یہی وہ زنگ ہے جس کا تذکرہ اللہ نے کیا ہے ” کیوں نہیں ان کے اعمال کی وجہ سے ان کے دلوں پر زنگ پڑچکا ہے۔“ مسائل ١۔ دنیا کو آخرت پر ترجیح نہیں دینی چاہیے۔ ٢۔ اللہ کفار کو ہدایت نہیں دیتا۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ نے کفار کے دلوں، کانوں اور آنکھوں پر پردہ ڈال رکھا ہے۔ ٤۔ اللہ کے ساتھ کفر کرنے والے خائب و خاسر ہیں۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ کن لوگوں کے دلوں پر مہر ثبت کرتا ہے : ١۔ اللہ نے کفار کے دل، سماعت اور بصارت پر مہر لگا دی۔ (النحل : ١٠٨) ٢۔ اللہ نے ان کے کفر کی وجہ سے مہر لگا دی۔ وہ ایمان نہیں لائیں گے۔ (النساء : ١٥٥) ٣۔ اللہ نے ان کے دلوں پر مہر لگا دی اور انہوں نے اپنی خواہشات کی پیروی کی۔ (محمد : ١٦) ٤۔ اللہ زیادتی کرنے والوں کے دلوں پر مہر ثبت فرماتا ہے۔ (یونس : ٧٤) ٥۔ اللہ ہر جابر اور متکبر کے دل پر مہر لگا دیتا ہے۔ (المومن : ٣٥) النحل
108 النحل
109 النحل
110 فہم القرآن ربط کلام : اس سے پہلے آیت ١٠٦ میں بے حد مجبور شخص کو جان بچانے کی اجازت دی تھی اب مظلوم لوگوں کو یہ بتایا گیا ہے کہ ممکن طور پر دین اور جان بچاکر انہیں ہجرت کا راستہ اختیار کرنا چاہیے۔ جن لوگوں کو ناقابل برداشت اذیتوں کانشانہ بنایا جائے اس حالت میں کہ انہیں جان اور دین بچانا مشکل ہوجائے توانھیں ہجرت کرنے کی اجازت ہے تاکہ دین کی سربلندی کے لیے کوششیں جاری رکھیں اس راستہ میں انہیں جو بھی انفرادی اور اجتماعی طور پر مصائب سے واسطہ پڑے تو انہیں صبر و استقامت کا دامن تھامے رکھنا چاہیے۔ اس دوران بتقضائے بشریت غلطی ہوجائے تو اللہ تعالیٰ انھیں معاف کرنے والا نہایت مہربان ہے۔ ہجرت : اللہ تعالیٰ کی خاطر و طن عز یز چھوڑ نا اور گنا ہوں سے کنارہ کش ہونا، اللہ تعالیٰ کی بخشش اور رحمت کے حصول کے ساتھ مشکلات سے نجات پانے کا راستہ ہے۔ ہجرت بظا ہر ہر چیز کو چھوڑنا ہے۔ لیکن حقیقت میں ہر چیز کے پالینے کا نام ہے۔ ” جس نے اللہ تعالیٰ کے لیے ہجرت کی وہ اپنے لیے بڑی کشا دگی پائے گا۔“ [ النساء : ١٠٠] شر یعت کی زبان میں ہجرت ہر اس کام کو چھوڑنا ہے جو اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے راستے میں حائل اور رکا وٹ بنتاہو۔ ایسے جو انمرد کو مہاجر اور اس کے عمل کو ہجرت کہا گیا ہے۔ عرف عام میں دین و ایمان کی خا طر وطن عزیزکو چھوڑنا ہجرت کہلاتا ہے۔ یہ دنیاجب سے معر ضِ و جود میں آئی ہے اس وقت سے لے کر آج تک حق وباطل کے معرکے پیش آ رہے ہیں۔ حق وباطل کی اس معرکہ آرائی میں بے شمار ہجرتوں کی روداد تاریخ کے صفحات میں محفوظ ہے۔ دنیا میں شاید ہی کوئی نبی یا رسول ہوگا جس نے اللہ کی راہ میں ہجرت نہ کی ہو۔ شاید ہی کوئی فرد یا قوم ایسی ہوگی جس کی حالت ترک وطن کے بعد بہترنہ ہوئی ہو۔ تاریخ عالم میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے رفقا سے بڑھ کر کسی پر کسمپرسی کا عالم نہ گزرا ہوگا۔ مہاجرین کے پہلے قافلے کا عالم یہ تھا کہ وہ نہ صرف گھر بار سے محروم ہوئے بلکہ انہیں شیرخوار بچوں، بوڑھے والدین، جو ان بیٹوں اور وفادار بیویوں سے الگ کردیا گیا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے اخلاص اور دینی غیرت کی وجہ سے وسعت وکشادگی کے دروازے کھول دیے اور دنیاجہاں کی نعمتوں کو ان کے قدموں میں نچھاور کردیا۔ حضرت عبدالرحمن بن عوف (رض) جب اپنے مواخاتی سا تھی کا یہ کہہ کر شکریہ ادا کررہے تھے کہ اللہ تعالیٰ آپ کی ہر چیزکو سلامت رکھے میں آپ پر بوجھ بننے کے بجائے منڈی کی طرف جارہاہوں۔ مجھے یہاں کی منڈی کا راستہ اور طریقہ بتا دیں۔ اس تہی دامنی کے بعدوہ وقت بھی آیا کہ زکوٰ ۃ کے علاوہ لاکھوں روپے خرچ کرنے کے باوجود جب دنیا سے رخصت ہوئے۔ تو منقو لہ جائیداد کے علاوہ ان کے پاس ایک کروڑ نقد ی اور سونا چاندی موجود تھا۔ تاریخ کے اوراق پلٹنے کی بجائے افغان، کشمیر اور انڈیا سے ہجرت کرکے پاکستان آنے والوں کی اکثریت کے حالات و واقعات دیکھیں جو اس سچائی کی شہادت دے رہے ہیں کہ واقعتا ہجرت رزق کی کشادگی اور مسائل کاتریاق ثا بت ہوتی ہے۔ اور جو شخص گناہوں سے کنارہ کش ہوتا ہے ایسے پر ہیز گار کی مشکلات اللہ تعالیٰ اپنی مہربانی سے بہت جلد حل کردیتا ہے۔ ” جو لوگ مظالم کی وجہ سے اللہ کے لیے ہجرت کرتے ہیں۔ ان کو دنیا میں بہترین جائے قیام عطا کرنے کے ساتھ آخرت میں ان کے لیے بڑا اجر ہے۔ کاش وہ اس حقیقت کو پاجائیں۔ ایسے لوگوں کے لیے بھی یہی اجر ہے جو ثابت قدمی کے ساتھ اپنے رب پر مکمل اعتماد کا اظہار کرتے ہیں۔“ [ النمل : ٤١ تا ٤٢] ” اور جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے ہجرت کی اللہ کے راستے میں گھر بار چھو ڑا اور اللہ کے راستے میں جہاد کیا اور جنہوں نے مہاجرین کو پناہ دی اور ان کی مدد کی یہی لوگ سچے اور ایماند ار ہیں ان ہی کے لیے بخشش اور بہترین رزق ہے۔“ [ الانفال : ٤٧] مسائل ١۔ دین اور جان کو بچانے کی خاطر ہجرت اختیار کرنی چاہیے۔ ٢۔ دین کے لیے جہاد اور صبر کرنا چاہیے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ بخشنے والا رحم فرمانے والا ہے۔ تفسیر بالقرآن مہاجرین کا بہترین انجام اور ان کے فضائل : ١۔ اللہ تعالیٰ مہاجرین کی خطاؤں کو بخشنے اور رحم فرمانے والاہے۔ (النحل : ١١٠) ٢۔ اللہ کی راہ میں ہجرت کرنے والے اس کی رحمت کے امیدوار ہیں۔ (البقرۃ : ٢١٨) ٣۔ اللہ کی راہ میں ہجرت کرنے والوں کو بہترین ٹھکانہ میسر آئے گا۔ (النحل : ٤١) ٤۔ اللہ کی راہ میں ہجرت کرنے والوں کو بہترین رزق عطا کیا جائے گا۔ (الحج : ٥٨) النحل
111 فہم القرآن ربط کلام : صبر و استقامت کے ساتھ دین پر قائم رہنے والے لوگوں کو شفقت و مہربانی اور بخشش کی نوید سنانے کے بعد ظالموں اور دین کے منکرین کو ان کے انجام سے آگاہ کیا جارہا ہے۔ قرآن مجید کا یہ مؤثر اور دل ہلا دینے والا اسلوب ہے کہ وہ اکثر مقامات پر اس بات کا التزام کرتا ہے کہ نیکی اور بدی کا فرق سمجھاتے ہوئے برے لوگوں کو ان کا بدترین انجام اور دین کی خاطر قربانی دینے والوں کا بہترین انجام بیک وقت ذکر کیا جائے۔ اسی اسلوب کے پیش نظر پہلے برے لوگوں کے کردار اور ان کا انجام ذکر کیا ہے۔ ان کے مقابلے میں نیک لوگوں کی ایمان پر استقامت، ان کا حسن کردار اور ان کے بہترین انجام کا ذکر کیا جاتا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے کہ ” ظالموں کو وہ وقت یاد کرنا چاہیے کہ جب وہ اپنے بارے میں جھگڑا کر رہے ہوں گے۔ اس دن نیکوں کو پوری پوری جزا اور برے لوگوں کو ٹھیک ٹھیک سزا دی جائے گی۔ کسی پر کسی اعتبار سے بھی ذرہ برابر زیادتی نہیں کی جائے گی۔ مسائل ١۔ قیامت کے دن ہر کسی کو اپنی اپنی پڑی ہوگی۔ ٢۔ قیامت کے دن ہر کسی کو اس کے اعمال کے مطابق بدلہ دیا جائے گا۔ ٣۔ قیامت کے دن کسی پر ظلم نہ ہوگا۔ تفسیر بالقرآن مجرم کا اپنے آپ سے جھگڑا کرنے کی کئی صورتیں ہوں گی : ١۔ مجرم اپنے آپ کو جہنم سے بچانے کے لیے اپنے برے اعمال کا کلیتاً انکار کریں گے۔ (الانعام : ٢٣۔ ٢٤) ٢۔ مجر م اپنی جان بچانے کے لیے اپنے گناہوں کی ذمہ داری دوسروں پر ڈالیں گے۔ (الاحزاب : ٦٦۔ ٦٨) ٣۔ مجرموں سے سوال کیا جائیگا کہ تم ایک دوسرے کی مدد کیوں نہیں کرتے؟ تو وہ ایک دوسرے کی طرف متوجہ ہو کر باہم سوال کریں گے کہیں گے تم تو ہمارے پاس دائیں، بائیں سے آتے تھے وہ جواب دیں گے بلکہ تم خود ہی ایمان لانے والے نہ تھے اور ہمارا تم پر کچھ زور نہیں تھا بلکہ تم خود سر کش تھے (الصٰفٰت : ٢٢۔ ٣١) ٤۔ ظالم اپنے ہاتھوں کو کاٹیں گے اور کہیں گے کاش! میں نے رسول کے ساتھ ہی اپنی روش اختیار کی ہوتی۔ (الفرقان : ٢٧۔ ٣٠) النحل
112 فہم القرآن ربط کلام : قیامت کے دن ہر شخص کو اس کے اچھے برے اعمال کی پوری پوری جزا یا سزا دی جائے گی۔ بسا اوقات کچھ لوگوں کو دنیا میں بھی ان کے اعمال کی سزا دی جاتی ہے۔ جس کی ایک مثال پیش کی جارہی ہے۔ اللہ تعالیٰ ایک بستی کی مثال بیان فرماتا ہے جس میں ہر طرح کا امن وامان اور اسے ہر جانب سے کشادہ رزق فراہم کیا جارہا تھا۔ لیکن اس بستی والوں نے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے کے بجائے کفر اور ناشکری کا رویہ اختیار کیے رکھا۔ جس کی بنا پر اللہ تعالیٰ نے انہیں بھوک اور خوف کا لباس پہنا دیا تاکہ ان کے کردار کی انہیں سزا دی جائے۔ یہ سزا اس لیے بھی دی گئی کہ اللہ تعالیٰ نے انہی میں سے ایک رسول مبعوث فرمایا۔ مگر انہوں نے رسول کی نصرت وحمایت کرنے کے بجائے اسے کلی طور پر جھٹلا دیا۔ جس کی پاداش میں انہیں عذاب نے آلیا۔ کیونکہ وہ ظلم کررہے تھے۔ جس بستی کی یہاں مثال بیان کی گئی ہے۔ اس کی تعیین کے بارے میں اہل علم کا اختلاف ہے۔ کچھ اہل علم نے لکھا ہے کہ اس سے مراد ملک سبا کا دارالخلافہ ہے۔ مگر اکثر اہل علم کا رجحان اس طرف ہے کہ اس سے مراد مکہ معظمہ ہے۔ جو شدید افرا تفری کے دور میں بھی امن وسکون کا گہوارہ تھا۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی دعا اور بیت اللہ شریف کی برکت سے یہ شہر نہ صرف امن وامان کا گہوارہ تھا بلکہ پوری دنیا کے پھل اور اناج وافر مقدار میں یہاں پہنچ رہے تھے۔ حالانکہ عرب کی سرزمین انارکی اور قحط سالی کا شکار رہتی تھی۔ خشک پہاڑ، سنگلاخ زمین اور بارش نہ ہونے کی وجہ سے حدّنگاہ تک ہریالی کا تصورتک نہ تھا۔ دن دیہاڑے قافلے لوٹ لیے جاتے لیکن بیت اللہ کے متولی اور مکہ کے باسی ہونے کی وجہ سے اہل مکہ کا اس قدر مقام واحترام پایا جاتا تھا کہ نہ صرف ان کے قافلے محفوظ رہتے بلکہ ان کا جاری کیا ہوا پروانہ راہداری کے طور پر استعمال ہوتا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے خاص کرم کے ساتھ ان میں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مبعوث فرمایا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تیرہ سال نہایت اخلاص کے ساتھ شب وروز مکہ والوں کے عقائد اور کردار کی اصلاح کرنے کی کوشش فرمائی۔ لیکن اہل مکہ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پر خلوص جدوجہد کا صلہ بدترین مظالم کے ساتھ دیا۔ جس کے نتیجے میں آپ اور آپ کے ساتھی مکہ جیسے بابرکت شہر کو چھوڑ کر مدینہ میں پناہ گزیں ہوئے۔ جوں ہی سرور دوعالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور اہل ایمان نے مکہ سے ہجرت کی۔ اللہ تعالیٰ نے اہل مکہ پر سخت گرفت فرمائی۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ امن وامان کا گہوارہ اور بابرکت شہر خوف وہراس اور ہر قسم کی ویرانی کا منظر پیش کرنے لگا۔ عام لوگ تو درکنار قریشی سردار بھی بھوک کے ہاتھوں مجبور ہو کر جانوروں کے خشک چمڑے پانی میں بھگو کر کھانے پر مجبور ہوئے۔ یہاں بھوک اور خوف کے لیے لباس کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ گویا کہ جس طرح لباس چھوٹے، بڑے اور مرد وزن کے جسم کے ساتھ لگا ہوتا ہے۔ اسی طرح بھوک اور خوف ان کے ساتھ لگ چکے تھے جس سے چھٹکارا پانا ان کے بس کا روگ نہ تھا۔ جہاں تک خوف کا تعلق ہے۔ اہل مکہ بدر، احد اور خندق میں مدینہ پر جارحیت کرنے کے باوجود صبح وشام اس خوف میں مبتلا رہتے تھے کہ کسی وقت بھی محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور اس کے ساتھی ہم پر غالب آجائیں گے۔ تفسیر بالقرآن رسولوں کو جھٹلانے والوں کا انجام : ١۔ ان کے پاس ان میں سے رسول آئے تو انہوں نے تکذیب کی تو انہیں عذاب نے آلیا۔ (النحل : ١١٣) ٢۔ ان کے لیے کہا جائے گا تکذیب کرنے کی وجہ سے عذاب میں مبتلا رہو۔ (السجدۃ : ٢٠) ٣۔ انہوں نے رسولوں کو جھٹلایا تو ہم نے انہیں ہلاک کردیا۔ (الشعراء : ١٣٩) ٤۔ قوم نوح نے جب حضرت نوح کی تکذیب کی تو ہم نے انہیں غرق کردیا۔ (الفرقان : ٣٧) ٥۔ ہم نے آل فرعون سے انتقام لیا اور انہیں دریا میں غرق کردیا۔ (الاعراف : ١٣٦) ٦۔ ان کے جھٹلانے کی وجہ سے انہیں دردناک عذاب میں مبتلا کیا جائے گا۔ (البقرۃ: ١٠) ٧۔ پہلے لوگوں نے بھی رسولوں کو جھٹلایا تھا سو دیکھو میر اعذاب کیسا تھا؟ (الملک : ١٨) ٨۔ اس سے پہلے بھی کفار نے تکذیب کی تو ان کے پاس وہاں سے عذاب آیا جہاں سے انہیں تصور بھی نہ تھا۔ (الزمر : ٢٥) النحل
113 النحل
114 فہم القرآن ربط کلام : مکہ والوں نے اللہ تعالیٰ کے انعامات کی ناشکری کی جس کی بنا پر قحط سالی نے انہیں آلیا۔ اس لیے ہدایت کی جا رہی ہے کہ لوگو اللہ کا دیا ہوا رزق کھاؤ اور اس کا شکر ادا کرو۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے متعدد فرامین میں ارشاد فرمایا ہے کہ اے لوگو ! میرے سوا تمہیں کوئی رزق دینے والا نہیں۔ میں ہی اپنی حکمت کی بنا پر تمہا را رزق تنگ اور کشادہ کرتا ہوں۔ اگر تم میرا شکر ادا کرو گے تو میں تمہیں مزید عنایت کروں گا۔ اگر کفر اور ناشکری کا راستہ اختیار کرو گے تو میر اعذاب نہایت سخت ہوا کرتا ہے۔ (ابراہیم : ٧) اس بنا پر حکم ہے کہ جو پاک اور حلال رزق تمہیں عطا کیا جاتا ہے۔ اسے کھاؤ اور پیو۔ رزق کے ساتھ جو اور بھی نعمتیں تمہیں عطاکی جاتی ہیں ان کا شکر ادا کرو اگر واقعتا تم اسی کی بندگی کرنے والے ہو۔ اکل حلال کے ساتھ طیب کی شرط اس لیے لگائی ہے کہ بسا اوقات ایک چیز حلال ہوتی ہے مگر کسی وجہ سے وہ غلاظت آلود ہوجاتی ہے۔ مسلمان کا شیوہ یہ ہے کہ وہ حلال کے ساتھ صفائی اور طہارت کا خیال رکھے تاکہ مختلف قسم کی بیماریوں سے محفوظ رہے۔ یہاں شکر اور عبادت کو ایک حد تک لازم وملزوم قرار دیا ہے۔ جو شخص اللہ کا عبادت گزار ہے یقیناً وہ شکر گزا ربھی ہوگا اور جو اس کا شکر گزار بننا چاہتا ہے۔ اسے اللہ کی عبادت کرنا بھی لازم ہے۔ باالفاظ دیگر عبادت گزار ہی اللہ کے شکر گزار ہوتے ہیں۔ حلال کی اہمیت : (عَنِ الْمِقْدَامِ بْنِ مَعْدِ یْکرِبَ الزُّبَیْدِیِّ (رض) عَنْ رَّسُوْلِ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ مَا کَسَبَ الرَّجُلُ کَسْبًا أَطْیَبَ مِنْ عَمَلِ یَدِہٖ وَمَآ أَنْفَقَ الرَّجُلُ عَلٰی نَفْسِہٖ وَ أَہْلِہٖ وَوَلَدِہٖ وَخَادِمِہٖ فَہُوَ صَدَقَۃٌ)[ رواہ ابن ماجۃ: کتاب التجارات] ” حضرت مقدام بن معدیکرب (رض) رسول گرامی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں آپ نے فرمایا : آدمی کے ہاتھ کی کمائی سے بڑھ کر اور کوئی کمائی پاکیزہ نہیں اور آدمی اپنے نفس، اہل، اولاد اور خادم پر جو کچھ خرچ کرتا ہے وہ صدقہ ہے۔“ (عَنْ عَاءِشَۃَ (رض) قَالَتْ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) إِنَّ مِنْ أَطْیَبِ مَآ أَکَلَ الرَّجُلُ مِنْ کَسْبِہٖ وَوَلَدُہٗ مِنْ کَسْبِہٖ) [ رواہ أبوداوٗد : کتاب البیوع، باب فی الرجل یأکل من مال ولدہ] ” حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : بہترین اور پاکیزہ مال وہ ہے جو آدمی اپنی کمائی سے کھاتا ہے اور اس کی اولادبھی اس کی کمائی ہے۔“ (لَایَدْخُلُ الْجَنَّۃَ لَحْمٌ وَّ دَمٌ نَبْتَا عَلٰی سُحْتٍ فَالنَّارُ اَوْلٰی بِہٖ [ رواہ ترمذی : کتاب الصلاۃ باب ” جنت میں وہ گوشت اور خون داخل نہیں ہوگا جو حرام سے پلا ہوگا اس کے لیے دوزخ ہی مناسب ہے۔“ شکروحمد : اللہ تعالیٰ کے احسانات کا اظہار اور اس کی نعمتوں کا اعتراف کرنا مشکلات سے محفوظ رہنے کا طریقہ ہے، مزید ملنے کی گارنٹی اور زوال نعمت سے مامون رہنے کی ضمانت ہے۔ شکر رب کی بارگاہ میں نہایت پسندیدہ عمل ہے۔ اس کے مقابلہ میں ناشکری کفر کے مترادف ہے۔ (لإَِنْ شَکَرْتُمْ لَأََزِیْدَنَّکُمْ) [ ابراہیم : ٧] ” اگر تم شکرکا رویہ اپناؤ گے تو مزید عنایات پاؤگے۔“ اللہ تعالیٰ نے اپنی کسی عبادت اور دین کے کسی عمل کے بارے میں بیک وقت یہ نہیں فرمایا کہ اس کی ادائیگی سے تم عذاب سے محفوظ اور مزیدانعامات کے حقدار بن جاؤ گے۔ صرف شکر ایسا عمل ہے جس کے بارے میں فرمایا ہے کہ عذاب سے بچنے کے ساتھ مزید عطاؤں کا سلسلہ جاری رہے گا۔ ذرّہ ذرّہ شکر گزار ہے : کائنات کا ایک ایک ذرہ مالک حقیقی کی حمدوستائش اور اس کی نعمتوں کا اعتراف کرتے ہوئے شکرکے ترانے الاپ رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں سب سے بڑی نعمت ایمان ہے جس کے ہوتے ہوئے آدمی ہر مشکل کا سامنا اور ہرقسم کی پریشانی کو برداشت کرسکتا ہے، ایمان کا محورومرکز قرآن ہے اور قرآن کا خلاصہ فاتحہ ہے اسی بنا پر اس کا دوسرا نام ام الکتاب ہے سورۃ فاتحہ کا خلاصہ حمد کا لفظ قرار پایا اس میں یہ اشارہ دیا گیا ہے کہ انسان کو ہر حال میں اللہ تعالیٰ کا شکر اور مزید طلب کے لیے اس کی حمدو ستائش کرنی چاہیے۔ حمد پر ہی روزِمحشر عدالت کبریا کا اختتام ہوگا۔ (وَتَرَی الْمَآءِکَۃَ حَآفِّیْنَ مِنْ حَوْلِ الْعَرْشِ یُسَبِّحُوْنَ بِحَمْدِ رَبِّھِمْ وَقُضِیَ بَیْنَھُمْ بالْحَقِّ وَقِیْلَ الْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ )[ الزمر : ٧٥] ” اور تم دیکھو گے کہ فرشتے عرش کے گرد حلقہ بنائے ہوئے اپنے رب کی حمد وتسبیح کر رہے ہوں گے اور لوگوں کے درمیان ٹھیک ٹھیک حق کے ساتھ فیصلہ چکا دیا جائے گا اور صدائیں بلند ہوں گی اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَلَمِےْنَ کہ تمام تعریفات اللہ ہی کے لیے ہیں۔“ نیک لوگوں کی دعا اور شکر کا انداز : ” اے میرے رب! مجھے توفیق بخش کہ میں تیری ان نعمتوں کا شکر بجا لاؤں جو تو نے مجھے اور میرے والدین کو عطا فرمائی ہیں اور نیک عمل کروں جس سے آپ راضی ہوں۔ مجھے اور میری اولاد کو نیک فرما۔ میں تیرے حضور معافی کی درخوست کرتے ہوئے تابع فرمان ہوئی جا رہا ہوں۔“ ” حضرت معاذ بن جبل (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک دن نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے میرے ہاتھ کو پکڑا، پھر فرمایا اے معاذ میں تجھ سے محبت کر تاہوں تو میں نے آپ کے لیے کہا اے اللہ کے رسول میرے ماں باپ آپ ہر فداہوں میں بھی آپ سے محبت کرتا ہوں آپ نے فرمایا اے معاذ میں تجھے وصیت کرتاہوں کہ ہر نماز کے بعد یہ کلمات پڑھنا نہ چھورنا۔ اے اللہ! اپنے ذکر، شکر اور اچھی عبادت پر میری مدد فرما۔“ مسائل ١۔ کھانا حلال اور پاک کھانا چاہیے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا شکر ادا کرنا چاہیے۔ ٣۔ ایک اللہ کی عبادت کرنی چاہیے۔ تفسیرباالقرآن اللہ تعالیٰ کی ناشکری کرنے والوں کا انجام : ١۔ اللہ کی نعمتوں پر شکر ادا کرو اگر تم اسی کی عبادت کرنے والے ہو۔ (النحل : ١١٤) ٢۔ اگر تم شکر کرو گے تو میں تمہیں زیادہ دوں گا اور اگر ناشکری کرو گے تو میرا عذاب بڑا سخت ہے۔ (ابراہیم : ٧) ٣۔ اللہ تمہیں عذاب نہیں دے گا اگر تم شکر کرو اور ایمان لے آؤ۔ (النساء : ١٤٧) ٤۔ اکثر لوگ شکر نہیں کرتے۔ (یونس : ٦٠) ٥۔ بستی والوں نے اللہ کی نعمتوں کی ناشکری کی تو اللہ نے انہیں بھوک اور خوف کا لباس پہنا دیا۔ (النحل : ١١٢) ٦۔ قرآن میں شکر بمعنی ” اللہ کی فرمانبرداری کرنا“ بہت سی آیات میں استعمال ہوا ہے۔ (الزمر : ٧) النحل
115 فہم القرآن ربط کلام : پہلی آیت میں حکم ہوا ہے کہ اللہ کا دیا ہوا رزق کھاؤ اور پیوحرام خور آدمی اس فرمان سے غلط فائدہ اٹھا سکتا تھا۔ اس لیے ضروری سمجھا گیا کہ حرام کی وضاحت کردی جائے۔ مذکورہ بالا وجہ کے ساتھ حرام کردہ چیزوں کی نشاندہی اس لیے کی جا رہی ہے کہ یہودیوں نے بہت سی اللہ کی حلال کردہ چیزوں کو اپنے اوپر حرام اور حرام کردہ چیزوں کو اپنے لیے حلال کرلیا تھا۔ اپنے جرائم پر پردہ ڈالنے کے لیے یہودی رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر یہ بھی اعتراض کرتے تھے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ جو چیزیں تورات اور انجیل میں حلال ہیں آپ اسے حرام کیوں قرار دیتے ہیں ؟ ان کا یہ الزام تھا کہ حرام وحلال کی فہرست میں آپ نے اپنی مرضی سے ترمیم واضافہ کرلیا ہے۔ اس کی وضاحت میں مختلف سیاق و سباق کے تناظر میں چوتھی مرتبہ یہ آیت نازل کی گئی جس کے نزول کا مقصود یہ ہے کہ اے یہود ونصاریٰ ! جن حرام چیزوں کو تم اپنے لیے حرام سمجھ بیٹھے ہو یہ تورات اور انجیل میں بھی حرام تھیں۔ یہ رہتی دنیا تک سب کے لیے حرام ہیں سوائے اس شخص کے جو نہایت اضطراری حالت میں کھانے پر مجبور ہوجائے۔ اسے یقیناً اللہ تعالیٰ معاف فرمائے گا کیونکہ وہ معاف کرنے والا اور بخش دینے والاہے۔ مگر شرط یہ ہے کہ اضطراری حالت میں کھانے والا شخص نہ باغی ہو اور نہ ہی حد سے گزرنے والا ہو۔ ان شرط کے پیش نظر تمام فقہا کا اتفاق ہے کہ مجبور شخص مجبوری کے وقت حرام چیزوں کو اتنا ہی کھا سکتا ہے جس سے اس کی زندگی بچ جائے۔ (٤) غیر اللہ کے نام پر ذبح کی یا پکائی ہوئی چیز اس لیے حرام کی گئی کہ یہ ایمان کے خلاف ہے۔ ایک غیرت مند ایمان دار سے یہ کس طرح توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ گردانے گئے شریک کے نام پر چڑھائی گئی چیز کھانے یا اسے استعمال کرنے پر آمادہ ہوجائے ؟ یہ نہ صرف غیرت ایمانی کے منافی ہے بلکہ فطرت بھی اس بات کو گوارا نہیں کرتی بشرطیکہ کسی کی فطرت مسخ نہ ہوچکی ہو۔ فطرت سلیم کا ثبوت اس فرمان کے نازل ہونے سے پہلے مکہ میں پایا گیا ہے۔ (عَنْ رَّسُوْلِ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) أَ نَّہٗ لَقِیَ زَیْدَ بْنَ عَمْرِ و بْنِ نُفَیْلٍ بِأَسْفَلَ بَلْدَحٍ وَذَاکَ قَبْلَ أَنْ یُّنْزَلَ عَلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ الْوَحْیُ فَقُدِّمَتْ إِلَی النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سُفْرَۃٌ فَأَبٰی أَنْ یَّأْکُلَ مِنْھَا ثُمَّ قَالَ زَیْدٌ إِنِّیْ لَسْتُ آکُلُ مِمَّا تَذْبَحُوْنَ عََلٰٓی أَنْصَابِکُمْ وَلَآ آکُلُ إِلَّا مِمَّا ذُکِرَ اسْمُ اللّٰہِ عَلَیْہِ ) [ رواہ البخا ری : کتاب الذبائح والصید، باب ماذبح علی النصب والأصنام] ” وحی نازل ہونے سے پہلے بلدح کے نشیبی علاقے میں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ملاقات زید بن عمر وبن نفیل سے ہوئی۔ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے ایک دستر خوان لایا گیا جس پر غیر اللہ کے نام کی کوئی چیز تھی۔ آپ نے اسے کھانے سے انکار کردیا۔ اس کے ساتھ ہی جناب زید (رض) نے کہا کہ میں بھی ان ذبیحوں کا گوشت نہیں کھاتا جو تم اپنے آستانوں پر ذبح کرتے ہو اور نہ اس جیسی کوئی اور چیز کھاتاہوں سوائے اس چیز کے جس پر اللہ کا نام لیا گیا ہو۔“ ” ثابت بن ضحاک (رض) نے مجھے بیان کیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دور میں ایک آدمی نے بوانہ نامی جگہ پر اونٹ ذبح کرنے کی نذر مانی۔ اس نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آکر عرض کی میں نے نذر مانی ہے کہ میں بوانہ نامی جگہ پر اونٹ ذبح کروں گا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : کیا وہاں جاہلیت کے بتوں میں سے کوئی بت تھا جس کی عبادت کی جاتی تھی؟ صحابہ نے عرض کیا نہیں۔ آپ نے پوچھا : کیا وہاں کوئی میلہ لگتا تھا؟ صحابہ نے نفی میں جواب دیا آپ نے فرمایا : اپنی نذر پوری کرو کیونکہ اللہ کی نافرمانی والی نذر پوری نہیں کرنا چاہیے اور نہ ہی وہ نذر پوری کرنالازم ہے جس کی انسان طاقت نہیں رکھتا۔“ [ رواہ أبوداوٗد : کتاب الأیمان وا لنذور] اللہ تعالیٰ کا رحم وکرم دیکھیے کہ ان چار چیزوں سے سختی کے ساتھ منع کرنے کے باوجود ایسے شخص کے لیے ان کو کھانے کی اجازت دی ہے جسے زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھنے کا شدید خطرہ لاحق ہوگیا ہو۔ لیکن اس کے ساتھ یہ شرط رکھی کہ نہ وہ پہلے سے ان چیزوں کے کھانے کا عادی ہو اور نہ ہی حرام خوری کی طرف اس کا دل مائل ہو۔ عمومًا یہ سمجھا جاتا ہے کہ جس جانور پر ذبح کرتے وقت اللہ کے سوا کسی دوسرے کا نام لیا جائے، صرف وہی حرام ہوتا ہے۔ یہ تصور بالکل غلط ہے، کیونکہ قرآن کے الفاظ میں نہ جانور کا ذکر ہے نہ ذبح کا بلکہ ” ما“ کا لفظ ہے جس میں عمومیت پائی جاتی ہے۔ لہٰذا اس کا معنی یہ ہوگا کہ جو چیز کسی بزرگ، دیوی، دیوتا کا تقرب حاصل کرنے اور اس کے نام پر مشہور کردی جائے جیسے امام جعفر کے کو نڈے، بی بی کی صحنک، مزار کے لیے بکرا وغیرہ یہ سب چیزیں حرام ہیں۔ بعض علما لوگوں کو دھوکہ دینے کے لیے کہتے ہیں دودھ، چاول حلال ہیں اگر کھیر کسی کے نام کی پکائی جائے تو یہ حرام کیسے ہوگئی ؟ بے شک دودھ اور چاول چیز جو فی نفسہٖ حلال ہیں۔ لیکن جو کھیر غیر اللہ کے نام پر پکائی گئی ہے وہ حرام ہوگی۔ کیونکہ غیر اللہ کے نام کی نیت رکھنے سے ہی چیز حرام ہوجاتی ہے۔ ہاں اگر کوئی شخص صدقہ وخیرات یا قربانی کرتا ہے اور اس سے اس کی نیت یہ ہو کہ اس کا ثواب میرے فوت شدہ والدین یا فلاں رشتہ دار یا فلاں بزرگ کو پہنچے تو اس میں کوئی حرج نہیں، یہ نیک عمل ہے اور سنت سے ثابت ہے۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے مردار، خون، خنزیر کا گوشت حرام قرار دیا ہے۔ ٢۔ غیر اللہ کے نام پر دی ہوئی نذرونیاز حرام ہے۔ ٣۔ انسان کو جان کا خطرہ ہو تو مذکورہ بالا اشیا میں سے کچھ کھاسکتا ہے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ بخشنے والا، رحم کرنے والا ہے۔ تفسیر باالقرآن قرآن مجید میں حرام کردہ چیزیں : ١۔ اس نے تم پر خون، خنزیر کا گوشت اور غیر اللہ کے نام پر دی ہوئی چیز کو حرام قرار دیا ہے۔ (النحل : ١١٠) ٢۔ اللہ نے ظاہری اور باطنی فحاشی کو حرام قرار دیا ہے۔ (الاعراف : ٣٣) ٣۔ تم پر مردار، خون، خنزیر کا گوشت، غیر اللہ کے نام پر دی ہوئی چیز، گلا گھٹنے، کسی ضرب سے، گر کر، سینگ لگنے سے، جس کو درندوں نے کھایا ہو اور استھانوں پر ذبح کیا ہوا حرام ہیں۔ (المائدۃ: ٣) ٤۔ اور یہودیوں پر ناخن والے جانور حرام تھے اور گائے، بکری کی چربی بھی حرام تھی۔ (الانعام : ١٤٦) النحل
116 فہم القرآن ربط کلام : حرام کے بارے میں مزید احکامات اور یہودیوں کے کردار پر تبصرہ۔ اہل کتاب نے بالخصوص یہودیوں کے علما نے پیٹ پوجا اور معاشرے کے بڑے لوگوں کی خوشنودی کے لیے بہت سی حلال چیزوں کو حرام اور حرام کو حلال کرلیا تھا۔ جب اس جرم کی نشاندہی کی جاتی تو ان کے علما اس قدر مردہ ضمیر ہوگئے کہ اپنی حرام خوری پر پردہ ڈالنے کے لیے سرِعام یہ بات کہتے کہ یہ چیزیں اللہ تعالیٰ نے ہی حرام اور حلال قرار دی ہیں۔ اس سے منع کرتے ہوئے انہیں انتباہ کیا گیا ہے کہ اپنی مرضی سے حرام و حلال کی فہرست تیار کر کے اللہ تعالیٰ کے ذمہ نہ لگاؤ۔ یہ اللہ تعالیٰ پر صریح جھوٹ بولنے کے مترادف ہے۔ جو لوگ اپنی مرضی سے حرام کردہ چیزوں کو حلال اور حلال کو حرام قرار دے کر اللہ تعالیٰ کے ذمہ لگاتے ہیں وہ جھوٹے ہیں یقیناً وہ کبھی فلاح نہیں پائیں گے۔ یہ لوگ محض لذت دہن اور دنیا کے مفاد کے لیے ایسا کر رہے ہیں انہیں یاد ہونا چاہیے کہ دنیا اور اس کی ہر چیز آخرت کے مقابلے میں، مدت اور مقدار کے اعتبار سے عارضی اور تھوڑی ہے۔ اس کے باوجود جو لوگ اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھتے ہیں ان کے لیے اذیت ناک عذاب ہوگا۔ ( عَنْ عَدِیِّ بْنِ حَاتِمٍ (رض) قَالَ أَتَیْتُ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وَفِی عُنُقِی صَلِیبٌ مِنْ ذَہَبٍ فَقَالَ یَا عَدِیُّ اطْرَحْ عَنْکَ ہَذَا الْوَثَنَ مِنْ عُنُقِکَ قَالَ فَطَرَحْتُہٗ، وَانْتَہَیْتُ إِلَیْہِ وَہُوْ یَقْرَاأ فِیْ سُوْرَۃِ بَرَاءَ ۃَ فَقَرَاأ ہٰذِہِ الْآیَۃُ (اتَّخَذُوا أَحْبَارَہُمْ وَرُہْبَانَہُمْ أَرْبَابًا مِن دُون اللَّہِ) قَالَ قُلْتُ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ، إِنَّا لَسْنَا نَعْبُدُہُمْ فَقَالَ األَیْسَ یُحَرُِّْمُوْنَ مَا اأَحَلَّ اللّٰہُ فَتُحَرِّمُوْنَہٗ، وَیُحِلُّوْنَ مَا حَرَّمَ اللّٰہُ فَتُحِلُّوْنَہٗ ؟ قَالَ قُلْتُ بَلٰی قَالَ فَتِلْکَ عِبَادَتُہُمْ)[ تفسیر قر طبی : ج ١٤ رواہ الترمذی : باب وَمِنْ سُورَۃِ التَّوْبَۃِ] ” حضرت عدی (رض) بیان کرتے ہیں۔ میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا اور میرے گلے میں سونے کی صلیب لٹک رہی تھی۔ آپ نے فرمایا اے عدی اس بت کو اتار پھینکو تو میں نے اسے اتار پھینکا اور آپ کے قریب آگیا اور آپ سورۃ توبہ کی تلاوت فرما رہے تھے۔ آپ نے آیت تلاوت کی (اتخذوا أحبارہم ورُہبانہم أربابًا من دون اللہ) تو میں نے عرض کی اے اللہ کے رسول ہم تو انکی عبادت نہیں کرتے تھے۔ آپ نے فرمایا کیا جسے وہ حرام قراردیتے تھے اسے تم حرام نہیں سمجھتے تھے اور جسے وہ حلال قرار دیتے اسے تم حلال نہیں سمجھتے تھے ؟ میں نے کہا ہاں ! اللہ کے رسول آپ نے فرمایا یہی تو انکی عبادت ہے۔“ یہودی حلال وحرام کی من ساختہ فہرست اللہ تعالیٰ کے ذمہ لگاتے ہیں۔ جس کی نفی کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے کہ ہم نے مذکورہ بالا چار چیزیں حرام کرنے کے ساتھ یہودیوں کی نخوت اور بغاوت کی وجہ سے یہ چیزیں بھی حرام کیں تھیں۔ جن کا تذکرہ آپ کے سامنے ہم پہلے کرچکے ہیں۔ جن کی تفصیل سورۃ الانعام کی آیت ١٤٦ میں یوں بیان کی گئی ہے۔ ہم نے یہودیوں پر ہر ناخن والا جانور حرام کیا نیز ان پر گائے اور بکری کی چربی بھی حرام کی تھی اِلَّایہ کہ ان جانوروں کی پشت اور آنتوں کے ساتھ چپکی ہو یا ہڈیوں کے ساتھ چمٹی ہوئی ہو یہ ان کی مسلسل بغاوت کی سزا تھی۔ جو کچھ ہم نے بیان کیا ہے یقیناً وہ سچ ہے۔ ہم نے یہودیوں پر کوئی زیادتی نہیں کی۔ یہ خود ہی اپنے آپ پر ظلم کرنے والے تھے۔ ظاہر ہے جو قوم اپنے آپ پر مسلسل ظلم کرنے پر تل جائے اسے کوئی بھی تباہی کے گھاٹ سے نہیں بچا سکتا۔ (عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اِنَّ اللّٰہَ طَیِّبٌ لَا یَقْبَلُ اِلَّا طَیِّبًا وَاِنَّ اللّٰہَ اَمَرَ الْمُؤْمِنِیْنَ بِمَآ اَمَرَبِہِ الْمُرْسَلِیْنَ فَقَالَ (یَآاَیُّہَا الرُّسُلُ کُلُوْا مِنَ الطَّیِّبَاتِ وَاعْمَلُوْا صَالِحًا) [ المومنون : ٥١] وَقَالَ یَا اَیُّھَاالَّذِیْنَ آمَنُوْا کُلُوْا مِنْ طَیِّبَاتِ مَا رَزَقْنٰکُمْ ثُمَّ ذَکَرَ الرَّجُلَ یُطِیْلُ السَّفَرَ اَشْعَثَ اِغْبَرَ یَمُدُّیَدَیْہِ اِلَی السَّمَآءِ یَارَبِّ وَمَطَعَمُہٗ حَرَامٌ وَّمَشْرَبُہٗ حَرَامٌ وَمَلْبَسُہٗ حَرَامٌ وَّغُذِیَ بالحَرَامِ فَاَنّٰی یُسْتَجَابُ لِذٰلِکَ) [ رواہ مسلم : باب قَبُول الصَّدَقَۃِ مِنَ الْکَسْبِ الطَّیِّبِ وَتَرْبِیَتِہَا] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا‘ بے شک اللہ تعالیٰ پاک ہے اور پاک صاف کے علاوہ کسی چیز کو قبول نہیں کرتا۔ اور اللہ تعالیٰ نے مومنین کو ان باتوں کا حکم دیا ہے جن باتوں کا اس نے اپنے رسولوں کو حکم دیا۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے۔ ” میرے رسولو! پاکیزہ چیزیں کھاؤ اور صالح عمل کرو۔“ اے ایمان والو! جو رزق ہم نے تمہیں عطا کیا ہے اس میں سے پاکیزہ چیزیں کھاؤ۔“ پھر آپ نے ایک ایسے شخص کا ذکر فرمایا جو لمبا سفر طے کرتا ہے۔ پراگندہ بال ہے اور اپنے ہاتھوں کو آسمان کی طرف اٹھائے دعا کرتا ہے۔ یارب! یارب! جب کہ اس کا کھانا حرام‘ اس کا پینا حرام‘ اس کالباس حرام اور حرام غذا سے اس کی نشوونما ہوئی اس حالت میں اس کی دعا کیسے قبول ہوسکتی ہے؟“ مسائل ١۔ یہودیوں پر بعض چیزیں حرام کیں تھیں۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ کسی پر ظلم نہیں کرتا۔ ٣۔ لوگ خود اپنی جانوں پر ظلم کرتے ہیں۔ ٤۔ یہودیوں پر جو چیزیں حرام تھیں ان میں سے بعض کے متعلق رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مطلع کیا گیا۔ ٥۔ اپنی طرف سے کسی چیز کو حرام وحلال قرار نہیں دینا چاہیے۔ ٦۔ اللہ تعالیٰ کے ذمے جھوٹ لگانے والے فلاح نہیں پائیں گے۔ ٨۔ اللہ تعالیٰ کے نا فرمانوں کے لیے درد ناک عذاب ہے۔ تفسیر باالقرآن اللہ تعالیٰ پر جھوٹ بولنے والوں کا انجام : ١۔ اللہ کے ذمے جھوٹ لگانے والے فلاح نہیں پائیں گے ان کے لیے درد ناک عذاب ہے۔ (النحل : ١١٦۔ ١١٧) ٢۔ جو شخص اللہ پر جھوٹ باندھے گا وہی ظالم ہے۔ (آل عمران ؛ ٩٤) ٣۔ اس شخص سے زیادہ ظالم کون ہے جو اللہ پر جھوٹ باندھتا ہے۔ (الاعراف : ٣٧) ٤۔ اس شخص نے نقصان اٹھایا جس نے اللہ پر جھوٹ بولا۔ (طٰہٰ: ٦١) النحل
117 النحل
118 النحل
119 فہم القرآن ربط کلام : ظلم کرنے کے باوجود جن لوگوں کی توبہ قبول ہوتی ہے۔ بنیادی طور پر انسان خطا کا پتلاہے اور اللہ تعالیٰ اسے اس وقت تک معاف کرتا رہتا ہے۔ جب تک انسان اس کے حضور معافی کا خواستگار رہتا ہے۔ اگر کوئی شخص اپنے گناہوں پر اصرار کرتے ہوئے اس کا جواز پیش کرے تو پھر اسے توبہ کی توفیق نہیں ملتی۔ جس کے بارے میں یہ وضاحت کی گئی ہے کہ جس نے بھی برے کام کیے پھر اس کے گناہوں نے اسے گھیر لیا ایسے لوگ اہل جہنم ہیں جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ (البقرۃ : ٨١) البتہ جنہوں نے جہالت کی بناء پر گناہ کیے اور پھر توبہ کی یقیناً اللہ انہیں معاف کرنے والا، نہایت مہربان ہے یہاں توبہ کی قبولیت کے لیے ایک شرط عائد کی ہے کہ توبہ کرنے کے بعد وہ شخص نہ صرف اپنے عقیدہ اور کردار کی اصلاح کرے بلکہ اس کی وجہ سے جتنے لوگ گناہ کی طرف مائل ہوئے حتی المقدور ان کی اصلاح کرنا بھی اس کی ذمہ داری ہوگی۔ (عن عائشۃ .....فَإِنَّ الْعَبْدَ إِذَا اعْتَرَفَ بِذَنْبِہٖ ثُمَّ تَابَ تَاب اللَّہُ عَلَیْہِ) [ رواہ البخاری : کتاب الشہادات ] ” حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں۔۔ آپ نے فرمایا یقیناً جب بندہ اپنے گناہ کا اعتراف کرتا اور، توبہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس پر رجوع فرماتا ہے۔“ توبہ کا دروازہ قیامت تک کھلا ہے اور ہر شخص کی توبہ نزع کے وقت سے پہلے قبول ہو سکتی ہے۔ نزع سے مراد موت کی وہ گھڑی ہے جب مرنے والے کو دنیا کے بجائے آخرت نظر آنے لگتی ہے۔ (کُلُّ بَنِیْٓ آدَمَ خَطَّاءٌ وَّخَیْرُ الْخَطَّآءِیْنَ التَّوَّابُوْنَ) [ رواہ ابن ماجہ : کتاب الزھد، باب ذکر التوبۃ] ” آدم کی ساری اولاد خطا کار ہے اور بہترین خطا کار توبہ کرنے والے ہیں۔“ (مَنْ تَابَ قَبْلَ أَنْ یُغَرْغِرَ نَفْسُہٗ قَبِلَ اللّٰہُ مِنْہُ) [ رواہ احمد ] ” جس نے موت کے آثار ظاہرہونے سے پہلے توبہ کرلی اللہ اس کی توبہ قبول کرتا ہے۔“ ( اَلتَّآءِبُ مِنَ الذَّنْبِ کَمَنْ لَّا ذَنْبَ لَہٗ) [ رواہ ابن ماجۃ: کتاب الزھد] ” گناہ سے توبہ کرنے والا گناہ نہ کرنے کے برابر ہوجاتا ہے۔“ توبہ کی شرائط : توبہ کرنے والا اپنے گناہ پر نادم، آئندہ رک جانے کا عہد اور گناہ کے اثرات کو مٹانے کی کوشش کرے۔ جہالت کے بارے میں مفسرِقرآن حضرت عبداللہ بن عباس (رض) فرمایا کرتے تھے کہ انسان ہر گناہ جہالت کی وجہ سے ہی کیا کرتا ہے بے شک اسے معلوم ہو کہ فلاں کام کرنا گناہ اور اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا باعث ہے۔ البتہ اس بات میں کسی کو اختلاف نہیں کہ جو شخص گناہ کرنے سے پہلے یہ نیت کرے کہ جو کام میں کرنے لگا ہوں بے شک وہ گناہ ہے۔ مگر اس کے بعد میں توبہ کرلوں گا ایسی صورت میں گناہ کی سنگینی میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ جس سے سمجھدار اور صاحب ایمان شخص کو ہر حال میں بچنا چاہیے۔ مسائل ١۔ انسان سے برے اعمال سرزد ہوجاتے ہیں۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ بخشنے والا، رحم کرنے والاہے۔ ٣۔ برے اعمال سرزد ہونے کی صورت میں توبہ اور اپنی اصلاح کرنی چاہیے۔ تفسیر باالقرآن توبہ کی فضیلت اور شرائط : ١۔ وہ لوگ جو جہالت کی بنا پر برے عمل کرتے ہیں اور اس کے بعد توبہ اور اپنی اصلاح کرتے ہیں اللہ بخشنے والا، رحم کرنے والا ہے۔ (النحل : ١١٩) ٢۔ جو شخص جرم کرنے کے بعد توبہ کرلے اور اپنی اصلاح کرے بے شک اللہ بخشنے والا، رحم کرنے والا ہے۔ (المائدۃ : ٣٩) ٣۔ اگر وہ توبہ کرلیں تو ان کے لیے بہتر ہے۔ (التوبۃ : ٧٤) ٤۔ یقیناً میں اسے معاف کردوں گا جو توبہ کرے اور ایمان لائے اور نیک عمل کرے۔ (طٰہٰ: ٨٢) ٥۔ جو شخص توبہ کرے، ایمان لائے اور عمل صالح کرے تو میں اس کی برائیوں کو نیکیوں میں تبدیل کر دوں گا۔ (الفرقان : ٧٠) ٦۔ اے ایمان والو ! خالص توبہ کرو۔ (التحریم : ٨) ٨۔ اگر تم کبیرہ گناہوں سے بچتے رہو گے تو ہم (اللہ) تمھارے چھوٹے گناہ دور کردیں گے۔ (النساء : ٣١) النحل
120 فہم القرآن ربط کلام : اے لوگو! اگر تم اپنے رب کی رحمت اور بخشش کے طلب گار ہو تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی اتباع کرو۔ بے شک ان کی طرح تمھیں اکیلا ہی کیوں نہ رہنا پڑے۔ لیکن یاد رکھنا جس پر اللہ کی رحمت ہو اسے اپنے آپ کو اکیلا نہیں سمجھانا چاہیے۔ کفار مکہ اور اہل کتاب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو اپنا پیشوا سمجھتے تھے۔ اس لیے سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) کی ذات اور ان کی خدمات کے حوالے سے کفار مکہ اور اہل کتاب کو سمجھا یا گیا ہے کہ بات بات پر جس شخصیت کا تم حوالہ دیتے ہو اس گرامی قدر شخصیت کا عقیدہ اور کردار سنو۔ ابراہیم (علیہ السلام) اپنی ذات اور خدمات کے حوالے سے ایک پیشوا کی حیثیت رکھتے تھے۔ اللہ تعالیٰ کے انتہا درجے کے فرمانبردار تھے۔ وہ دین اور اللہ کی عبادت میں بھی نہایت یکسو تھے۔ مشرکین کے ساتھ ان کا کوئی واسطہ نہ تھا۔ اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ نعمتوں پر اس کے غایت درجہ شکر گزار تھے۔ ان اوصاف حمیدہ کی بنا پر اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنے خاص بندوں میں ایک خصوصی مقام سے نوازتے ہوئے ہر حالت میں صراط مستقیم پر گامزن رہنے کی ہمت عطا فرمائی تھی۔ دنیا میں انہیں ہر قسم کی خیر سے نوازا اور آخرت میں یقیناً وہ صالحین کے ساتھی ہوں گے۔ ١۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ایک امت کی حیثیت سے : اہل لغت نے امت کے کئی معنی ذکر کئے ہیں۔ جن میں جامع اور اہم معانی یہ ہیں۔ والدہ، قوم، عوام، تمام فضائل حمیدہ کا حامل انسان۔ حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) کا فرمان ہے کہ امت کا معنی ہے ” مُعَلِّمُ الْخَیْرِ“ (صحیح بخاری : کتاب التفسیر، سورۃ النحل) اس اعتبار سے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) میں وہ تمام اوصاف پائے جاتے ہیں جو ایک کامیاب قائد میں ہونے چاہییں۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) تنہا ہونے کے باوجود دنیا میں وہ کام کرگئے جو ایک کامیاب قوم اور قائد کیا کرتا ہے اسی وجہ سے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) دنیا کی ان شخصیات میں سرِفہرست ہیں جن کے اثرات قیامت تک باقی رہیں گے۔ دنیا میں کوئی آسمانی مذہب ایسا نہیں جو انہیں اپنا رہنما تسلیم نہیں کرتا۔ مذہب کے حوالے سے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ایک سند کی حیثیت رکھتے ہیں اس لیے اللہ تعالیٰ نے انہیں ایک امت قرار دیا ہے۔ ٢۔ انتہا درجے کی فرمانبرداریوں کی ایک جھلک : حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو حکم ہوا کہ اپنے رب کے تابع فرمان ہوجاؤ۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ایسے تابع فرمان ہوئے کہ انہوں نے ہر چیز اپنے رب کے حکم پر نچھاور کردی۔ ١۔ عقیدۂ توحید کی خاطر آگ میں چھلانگ لگا دی۔ ٢۔ عقیدہ توحید کی بنا پر دنیا کی ٹھاٹ باٹ، گھر بار اور ہمیشہ کے لیے عراق کی سرزمین کو چھوڑ دیا۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ کے حکم پر اپنی اہلیہ اور اپنے نو نہال کو مکہ کی سر زمین پر چھوڑا۔ ٤۔ خواب میں اشارہ پا کر حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کے حل قوم نازک پر چھری چلادی۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ کے حکم پر بیت اللہ تعمیر کیا۔ ٦۔ اللہ تعالیٰ کے ارشاد کے مطابق حج ادا کیا اور اس کے مناسک بیان فرمائے۔ ٧۔ انبیاء کرام (علیہ السلام) میں خصوصی مقام کے حامل : ٨۔ ہر حال میں صراط مستقیم پر گامزن رہنے والے : ٩۔ دنیا کے حوالے سے معتبر اور معزز شخصیت : ١٠۔ آخرت میں انبیاء کرام (علیہ السلام) کی جماعت کے ممتاز ترین رکن : ١١۔ تمام لوگوں کے امام قرار پائے۔ مسائل ١۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اللہ تعالیٰ کے فرمانبردار تھے۔ ٢۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) مؤاحد تھے مشرک نہ تھے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا شکر ادا کرنے والے تھے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابر اہیم (علیہ السلام) کو صراط مستقیم پر گامزن کیا تھا۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ نے دنیا میں بھی انہیں بھلائی کے ساتھ نوازا تھا۔ ٦۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) آخرت میں نیکو کاروں میں ہیں۔ النحل
121 النحل
122 النحل
123 فہم القرآن ربط کلام : حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے اوصاف حمیدہ اور ان کا مرتبہ ومقام ذکر کرنے کے بعد ان کی ملت کی اتباع کا حکم۔ اللہ تعالیٰ نے ہر پیغمبر کو ظاہری اور جوہری صلاحیتیوں کے اعتبار سے منفرد پیدا کیا تھا۔ ہر پیغمبر اپنے دور کے انسانوں میں سیرت اور صورت کے حوالے سے بھی ممتاز ہوتا تھا۔ ان اوصاف کے ساتھ ہر رسول میں کچھ ایسی خوبیاں ودیعت کی جاتی تھیں۔ جن کی بنا پر ہر رسول دوسرے سے منفرد ہوتا تھا۔ جس کا تذکرہ یوں کیا گیا ہے : ” یہ رسول ہیں ہم نے انہیں ایک ایک دوسرے پر فضیلت دی ان میں کچھ ایسے تھے جن سے اللہ تعالیٰ نے کلام فرمایا اور کچھ وہ تھے جن کے درجات بلند کیے اور حضرت عیسیٰ بن مریم کو روشن نشانیاں عطا کرنے کے ساتھ جبرایل امین (علیہ السلام) کے ذریعے مدد کی گئی۔“ (البقرۃ: ٢٥٣) اسی اصول کے تحت حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے ایسی خوبیاں عنایت فرمائیں جو انہیں دوسرے انبیاء (علیہ السلام) سے منفرد اور ممتاز کرتی ہیں۔ سب کے سب انبیاء کرام (علیہ السلام) اللہ تعالیٰ کے تابع فرماں، اپنے عقیدہ اور کام میں یکسو اور مشرکوں کے ساتھ ان کا کوئی تعلق نہ تھا۔ انبیاء عظام (علیہ السلام) اللہ تعالیٰ کے شکر گزار بندے، اس کے محبوب اور ہر حال میں صراط مستقیم پر قائم رہنے والے تھے۔ ان میں ایسے انبیاء بھی موجود ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے دیگر نعمتوں کے ساتھ سیاسی اقتدار بھی عنایت فرمایا تھا۔ اس طرح وہ دنیا کے حوالے سے بھی منفرد اور ممتاز تھے آخرت میں یقیناً وہ صالحین سے ہوں گے۔ اس مرتبہ ومقام کے باوجود کوئی نبی ایسا نہیں جس کی اتباع کا سرور دو عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کی امت کو حکم دیا گیا ہو۔ یہ مقام و مرتبہ صرف سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) کو حاصل ہوا۔ جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ” جب ابراہیم کو اس کے رب نے کئی باتوں میں آزمایا وہ ان میں پورے اترے۔ فرمایا کہ میں تمھیں لوگوں کا امام بناؤں گا۔ ابراہیم نے عرض کی کیا میری اولاد سے بھی یہی وعدہ ہے؟ ارشاد ہوا کہ ظالموں سے میرا کوئی وعدہ نہیں۔“ (البقرۃ: ١٢٤) جہاں تک ملت ابراہیم (علیہ السلام) کا معاملہ ہے دین اسلام کے تمام بنیادی مسائل اور احکام ملت ابراہیم کا تسلسل ہیں۔ قربانی کے بارے میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے استفسار ہوا تو ارشاد فرمایا کہ یہ تمہارے باپ ابراہیم (علیہ السلام) کی سنت ہے۔ حج اسلام کا بنیادی رکن ہے اس کے مناسک حج پر توجہ فرمائیں تو معلوم ہوگا کہ صفا مروہ کی سعی، زمزم کا پانی، اللہ کے حضور قربانی ذبح کرنا، شیطان کو کنکریاں مارنا یہ مناسک ملت ابراہیم (علیہ السلام) کے ترجمان ہیں۔ (عَنْ زَیْدِ بْنِ أَرْقَمَ قَالَ قَالَ أَصْحَابُ رَسُوْلِ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ مَا ہٰذِہِ الأَضَاحِیُّ قَالَ سُنَّۃُ أَبِیْکُمْ إِبْرَاہِیْمَ قَالُوْا فَمَا لَنَا فِیْہَا یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ قَالَ بِکُلِّ شَعَرَۃٍ حَسَنَۃٌ قَالُوْا فَالصُّوْفُ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ قَالَ بِکُلِّ شَعَرَۃٍ مِّنَ الصُّوفِ حَسَنَۃٌ )[ رواہ ابن ماجۃ: باب الاضحیۃ] ” حضرت زید بن ارقم (رض) بیان کرتے ہیں صحابہ کرام (رض) نے عرض کی اے اللہ کے رسول ! یہ قربانیاں کیا ہیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا یہ تمہارے باپ ابراہیم (علیہ السلام) کی سنت ہے۔ صحابہ (رض) نے پھر پوچھا اے اللہ کے رسول ! ہمارے لیے اس میں کیا ہے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہر ایک بال کے بدلے نیکی۔ صحابہ (رض) نے عرض کی جانور کی اون کا کیا حکم ہے ؟ آپ نے فرمایا اون کے بھی ہر بال کے بدلے نیکی ملے گی۔ مسائل ١۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ملت ابراہیم (علیہ السلام) کی پیروی کا حکم دیا گیا تھا۔ ٢۔ ابراہیم (علیہ السلام) مشرکوں میں سے نہ تھے۔ تفسیر بالقرآن ملت ابراہیم (علیہ السلام) کی اتباع کا حکم اور اس کی اتباع : ١۔ پھر ہم نے آپ کی طرف وحی کی کہ آپ ملت ابراہیم کی پیروی کریں۔ (النحل : ١٢٣) ٢۔ فرما دیجیے اللہ تعالیٰ نے سچ فرمایا ہے کہ تم ابراہیم کی ملت کی پیروی کرو۔ (آل عمران : ٩٥) ٣۔ ملت ابراہیم کی تابعداری کیجیے وہ یکسو تھا۔ (النساء : ١٢٥) ٤۔ ابراہیم کے دین سے کون روگردانی کرسکتا ہے سوائے اس کے کہ جو نادان ہو۔ (البقرۃ: ١٣٠) النحل
124 فہم القرآن ربط کلام : یہودی بڑی شد و مد کے ساتھ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم مذہب اور نسب کے اعتبار سے ابراہیم (علیہ السلام) کے سب سے زیادہ قریب ہیں۔ قرآن مجید دو ٹوک انداز میں اس بات کی وضاحت کرتا ہے کہ یہود ونصاریٰ کا حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے ساتھ کوئی واسطہ نہیں۔ چنانچہ ارشاد ہوا : ” اے اہل کتاب تم ابراہیم کے بارے میں کس بنیاد پر جھگڑا کرتے ہو۔ حالانکہ تورات اور انجیل ابراہیم کے بعد نازل کی گئی ہیں کیا تم پھر بھی سمجھنے کے لیے تیار نہیں ؟ تم وہ لوگ ہو جو ایسی باتوں کے بارے میں جھگڑا کرتے ہو جن کا تمہیں کچھ علم ہے مگر ایسی باتوں میں کیوں جھگڑتے ہو جن کا تمہیں کچھ علم نہیں۔ اللہ تعالیٰ جانتا ہے اور تم نہیں۔ حضرت ابراہیم یہودی تھے اور نہ ہی عیسائی وہ تو موحّد مسلمان تھے۔ ان کا مشرکوں کے ساتھ کوئی تعلق نہ تھا۔ حضرت ابراہیم کے قریب تر وہ لوگ تھے جنہوں نے ان کی اتباع کی ان کے بعد سرور دو عالم اور آپ کے متبعین ابراہیم کے زیادہ قریب ہیں اور اللہ مومنوں کا حامی وناصر ہے۔“ (آل عمران : ٦٥ تا ٦٨) اسی بات کی یہاں دوسرے انداز میں وضاحت کی گئی ہے۔ ہفتہ کا دن ان لوگوں پر لازم کیا گیا جنہوں نے اس کے بارے میں اختلاف کیا تھا۔ یقیناً آپ کا رب قیامت کے دن ضرور فیصلہ فرمائے گا، جس میں یہ لوگ اختلاف کرتے ہیں۔ یہود یوں کا دعویٰ ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے دین میں جمعہ کے بجائے ہفتہ کا دن عبادت کے لیے مخصوص کیا گیا ہے۔ اس دعویٰ کی بنیاد پر یہودی نبی محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر الزام لگاتے تھے کہ انہوں نے ہماری مخالفت کی بنیاد پر ہفتہ کا دن چھوڑ کر جمعہ کا دن مقرر کرلیا ہے۔ جس کی تردید کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے کہ ہفتہ کا دن یہودیوں نے اپنی مرضی سے اپنے آپ پر فرض کرلیا ہے اس سے یہ بتلانا مقصود ہے کہ ملت ابراہیم میں جمعہ کا دن ہی عبادت کے لیے مخصوص کیا گیا تھا۔ اس کی وضاحت سرور دو عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس طرح فرمائی ہے۔ (عَنْ اَبِیْ ھُرَےْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خَےْرُ ےَوْمٍ طَلَعَتْ عَلَےْہِ الشَّمْسُ ےَوْمُ الْجُمُعَۃِ فِےْہِ خُلِقَ اٰدَمُ وَفِےْہِ اُدْخِلَ الْجَنَّۃَ وَفِےْہِ اُخْرِجَ مِنْھَا وَلَا تَقُوْمُ السَّاعَۃُ اِلَّا فِیْ ےَوْمِ الْجُمُعَۃِ) [ رواہ مسلم : باب فضل یوم الجمعۃ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان نقل کرتے ہیں دنوں میں سب سے بہتر دن جمعہ کا دن ہے اس دن آدم (علیہ السلام) کو پیدا کیا گیا اسی دن ان کو جنت میں داخلہ ملا اور جمعہ کو ہی ان کا اخراج ہوا اور اسی دن قیامت برپا ہوگی۔“ (عَنْ سَلْمَانَ الْفَارِسِیِّ (رض) قَالَ قَال النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لاَ یَغْتَسِلُ رَجُلٌ یَوْمَ الْجُمُعَۃِ، وَیَتَطَہَّرُ مَا اسْتَطَاعَ مِنْ طُہْرٍ، وَیَدَّہِنُ مِنْ دُہْنِہِ، أَوْ یَمَسُّ مِنْ طیبِ بَیْتِہِ ثُمَّ یَخْرُجُ، فَلاَ یُفَرِّقُ بَیْنَ اثْنَیْنِ، ثُمَّ یُصَلِّی مَا کُتِبَ لَہُ، ثُمَّ یُنْصِتُ إِذَا تَکَلَّمَ الإِمَامُ، إِلاَّ غُفِرَ لَہُ مَا بَیْنَہُ وَبَیْنَ الْجُمُعَۃِ الأُخْرَی )[ رواہ البخاری : باب الدُّہْنِ لِلْجُمُعَۃِ ] ” حضرت سلمان فارسی (رض) بیان کرتے ہیں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو آدمی جمعہ کے دن غسل کرتا ہے اور استطاعت کے مطابق پاکیزگی حاصل کرتا ہے، بالوں کو تیل لگاتا ہے اور خوشبو لگاتا ہے، پھر وہ مسجد کی طرف نکلتا ہے اور لوگوں کے درمیان گھس کر نہیں بیٹھتا پھر جس قدر ممکن ہو وہ نماز پڑھتا ہے پھر خاموشی سے امام کا خطبہ سنتا تو اس کے آٹھ دنوں کے گناہ معاف کردیے جاتے ہیں۔“ مسائل ١۔ یہودیوں پر ہفتہ کے دن کا احترام لازم کیا گیا تھا۔ ٢۔ یہودیوں نے اس کے احترام کا خیال نہ کیا۔ ٣۔ اللہ قیامت کے دن ان کے درمیان فیصلہ فرمائے گا۔ تفسیر بالقرآن ہفتہ کے دن کا احترام نہ کرنے کی وجہ سے یہودیوں پر پھٹکار : ١۔ یہودیوں پر ہفتہ کے دن کا احترام لازم کیا گیا۔ (النحل : ١٢٤) ٢۔ ہم نے انہیں کہا کہ ہفتہ کے دن زیادتی نہ کرو۔ (النساء : ١٥٤) ٣۔ یہودی ہفتہ کے دن کا احترام نہیں کیا کرتے تھے۔ ( الاعراف : ١٦٣) ٤۔ یہودیوں نے ہفتہ کے دن زیادتی کی تو انہیں بندر بنا دیا گیا۔ (البقرۃ: ٦٥) النحل
125 فہم القرآن ربط کلام : بے شک کسی کا دعویٰ اور موقف کتنا ہی جھوٹا ہو اس کے باوجود اسے دین کی دعوت حکمت کے اور خیر خواہی کے ساتھ دینا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو طبعًا اور فطرتًا نرم خو اور ہمدرد پیدا فرمایا تھا۔ آپ مشکلات پر صبر کرنے والے، مخالفوں کی مخالفت کا جواب خندہ روئی کے ساتھ دینے والے، اور بدترین دشمن کے ساتھ بھی اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ کرنے والے تھے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے زندگی بھر کسی کو برائی کا جواب برائی سے نہیں دیا آپ کے اعلیٰ اخلاق کی قرآن مجید میں متعدد مقامات پر یوں تعریف کی گئی ہے : ” لوگو! تمہارے پاس تمھی میں سے ایک رسول آیا ہے تمہیں کوئی تکلیف پہنچے تو اسے نہایت ہی گراں گزرتی ہے وہ تمہاری کامیابی کی بہت ہی چاہت رکھتا ہے۔ مومنوں کے ساتھ نہایت مہربان اور شفقت کرنے والا ہے۔“ (التوبۃ: ١٢٨) اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ کو اعلیٰ اخلاق اور بے حساب صلاحیتوں کے ساتھ پیدا کیا گیا لیکن اس کے باوجود آپ کو حکم ہوا کہ آپ حکمت، دانائی اور بصیرت کے ساتھ لوگوں کو دین حنیف کی طرف دعوت دیں اگر کسی وقت بحث و تکرار کی نوبت آئے تو اس میں بھی حسن اخلاق کا دامن نہ چھوڑیں۔ آخر میں فرمایا کہ آپ کا رب خوب جانتا ہے کون اس کے راستے سے بھٹک چکا اور کون ہدایت پانے والوں میں شامل ہے۔ حکمت کا ایک تقاضا یہ بھی ہے کہ موقعہ محل اور لوگوں کی فکری استعداد کے مطابق بات کی جائے۔ اس کے ساتھ اس بات کا خیال بھی رکھا جائے کہ لوگ کس حد تک سننے میں آمادگی رکھتے ہیں۔ بالخصوص مسلمانوں کو وعظ و نصیحت کرتے ہوئے اس بات کا خیال رکھنا ضروری ہے۔ وعظ و نصیحت میں یہ بات بھی لازم ہے کہ خطیب کے لب و لہجہ اور انداز میں سنجیدگی، خیر خواہی اور ہمدردی کا جذبہ غالب ہو کیونکہ موعظت ایسی نصیحت کو کہتے ہیں جو سامع کے دل پر اثر انداز ہو سکے۔ (عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ (رض) قَالَ کَان النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَتَخَوَّلُنَا بالْمَوْعِظَۃِ فِی الأَیَّامِ، کَرَاہَۃَ السَّآمَۃِ عَلَیْنَا) [ رواہ البخاری : باب الموعظۃ ساعۃ بعد ساعۃ ] ” حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کچھ دن ہمیں وعظ ونصیحت کرنا چھوڑ دیتے کہ کہیں ہم اکتا نہ جائیں۔“ (عَنْ عُبَیْدِ اللّٰہِ بْنِ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عُتْبَۃَ أَنَّ عَبْدَ اللَّہِ بْنَ مَسْعُودٍ (رض) قَالَ مَآ أَنْتَ بِمُحَدِّثٍ قَوْمًا حَدِیْثًا لاَ تَبْلُغُہٗ عُقُولُہُمْ إِلاَّ کَانَ لِبَعْضِہِمْ فِتْنَۃً) [ رواہ مسلم فی المقدمۃ، باب النَّہْیِ عَنِ الْحَدِیثِ بِکُلِّ مَا سَمِعَ] ” حضرت عبید اللہ بن عبداللہ بن عتبہ بیان کرتے ہیں کہ عبداللہ بن مسعود (رض) فرماتے ہیں کہتم کسی قوم کو ایسی بات نہ کہو جو ان کی سمجھ سے بالا تر ہے جو لوگوں کے لیے الجھن کا باعث بن جائے۔“ (قَالَ عَلِیٌّ حَدِّثُوا النَّاسَ بِمَا یَعْرِفُوْنَ، أَتُحِبُّوْنَ أَنْ یُّکَذَّبَ اللّٰہُ وَرَسُولُہٗ ) [ رواہ البخاری : کتاب العلمِ، باب مَنْ خَصَّ بالْعِلْمِ قَوْمًا دُونَ قَوْمٍ ] ” حضرت علی (رض) بیان کرتے ہیں کہ لوگوں کو وہ بات کہو جو وہ سمجھتے ہوں کیا تم پسند کرتے ہو کہ اللہ اور اس کے رسول کو جھٹلایا جائے۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ کے دین کی دعوت حکمت سے دینی چاہیے۔ ٢۔ دین کی دعوت دیتے ہوئے نہایت اچھا طریقہ اختیار کرنا چاہیے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ گمراہ اور ہدایت یافتہ لوگوں کو خوب جانتا ہے۔ تفسیر بالقرآن داعی کے لیے ضابطۂ اخلاق : ١۔ اللہ کے دین کی طرف لوگوں کو حکمت اور اچھی نصیحت سے بلانا چاہیے۔ (النحل : ١٢٥) ٢۔ فرما دیجیے یہ میرا راستہ ہے میں اس کی طرف بصیرت کے ساتھ بلاتاہوں۔ (یوسف : ١٠٨) ٣۔ انہیں آپ کے ساتھ جھگڑا نہیں کرنا چاہیے حالانکہ آپ ان کو اپنے پروردگار کی طرف بلاتے ہیں۔ (الحج : ٦٧) ٤۔ جب اللہ کے احکام آپ پر نازل ہوں تو آپ ان کی طرف لوگوں کو بلائیں۔ (القصص : ٨٧) ٥۔ آپ انہیں دین حق کی طرف بلائیں اور اللہ کے حکم پر قائم رہیں۔ (الشوریٰ : ١٥) ٦۔ حضرت ابراہیم نے دعا کی کہ اے رب ان میں نبی بھیج جو ان کو علم اور عقل کی باتیں سکھلائے۔ ( البقرۃ: ١٢٩) ٧۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نبوت اور حکمت عنایت فرمائی۔ ( الجمعہ : ٢) النحل
126 فہم القرآن ربط کلام : مبلغ کو ہر حال میں حکمت اور حوصلہ سے کام لینا چاہیے اگر وہ انتہائی ظلم پر صبر و حوصلہ نہیں کرسکتا تو اسے ظلم سے بڑھ کر بدلہ لینے کی اجازت نہیں۔ مفسرین کا خیال ہے سورۃ النحل کی آخری تین آیات مدنی دور میں نازل ہوئیں جبکہ باقی پوری کی پوری سورۃ مکی دور میں نازل ہوئی تھی۔ آخری آیات کا شان نزول بیان کرتے ہوئے حضرت ابی بن کعب (رض) فرماتے ہیں کہ احد کے موقع پر انصار کے چونسٹھ اور مہاجرین کے چھ آدمی شہید ہوئے تھے۔ ان میں سید الشّہداء حضرت حمزہ (رض) بھی شہید ہوئے تھے۔ جن کے جسد اطہر کی بے حرمتی کرتے ہوئے کفار نے ان کے کان، ہونٹ، ناک کاٹنے کے ساتھ آنکھیں نکال دیں جس پر مسلمانوں نے ردّ عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا جب ہمیں کفار پر غلبہ ہوا تو ہم بھی ان کی لاشوں کا مثلہ کریں گے۔ اس پر مسلمانوں کو اس بات کی اجازت دی گئی ہے کہ اگر تم بدلہ لینا چاہو تو پھر اتنا ہی بدلہ لے سکتے ہو جتنا تم پر ظلم کیا گیا ہے۔ البتہ صبر کرو گے تو صبر کرنے والوں کے لیے یہ نہایت ہی بہتر بات ہے۔ اس آیت سے بعض لوگوں نے یہ استدلال کیا ہے کہ اگر کسی مبلغ پر ظلم ہو تو وہ ظلم کا بدلہ لے سکتا ہے لیکن تبلیغ کے میدان میں اگر مبلغ صبر سے کام لے تو یہ بات نہایت ہی مفید ثابت ہوتی ہے۔ جس کی تاریخ اسلام میں ہزاروں مثالیں موجود ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے سرورِدوعالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پہاڑ سے بڑھ کر استقامت، سمندر سے زیادہ کشادہ دلی اور زمین سے بڑھ کر وسعت ظرفی اور صبر و ہمت کی توفیق عنایت فرمائی تھی۔ لیکن ایک انسان ہونے کے ناطے کبھی کبھار آپ کا دل بھرجاتا اور یہ بات سوچنے پر مجبور ہوجاتے کہ لوگوں کو کیا ہوگیا ہے کہ میں ان کی دنیا کی بھلائی اور آخرت کی بہتری کے لیے ہر چیز قربان کیے ہوئے ہوں۔ مگر لوگ میری خیر خواہی کا جواب ظلم اور بدکلامی کے ساتھ دے رہے ہیں۔ اس پر آپ کا دل پریشان ہوتا اور آپ کا سینہ پسیج جاتا تھا، جس پر آپ کو تسلی دی گئی کہ اے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ کو ان لوگوں کے مکر و فریب، زیادتی اور بدکلامی پر زیادہ پریشان اور غمزدہ نہیں ہونا چاہیے۔ یقین رکھیں کہ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کے ساتھ ہے جو ہر حال میں اپنے رب سے ڈرتے ہوئے اچھے اعمال اور دوسروں کے ساتھ احسان کا رویہ اختیار کرتے ہیں۔ طائف میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وعظ اور تبلیغ کے لیے تشریف لے گئے تھے۔ وہاں کے باشندوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر کیچڑ پھینکا۔ آوازے لگائے، اتنے پتھر مارے کہ حضور لہو سے تر بہ تر اور بے ہوش ہوگئے۔ پھر بھی یہی فرمایا کہ میں ان لوگوں کی ہلاکت نہیں چاہتا۔ کیوں کہ اگر یہ ایمان نہیں لاتے تو امید ہے کہ ان کی اولاد مسلمان ہوجائے گی۔ (رحمۃ اللعالمین) مسائل ١۔ صبر اللہ کی توفیق سے حاصل ہوتا ہے۔ ٢۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کفار پر غم نہ کرنے کی تلقین کی گئی۔ ٣۔ کسی کی چالوں سے تنگ دل نہیں ہونا چاہیے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ متقین کے ساتھ ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ صبر اور تقویٰ اختیار کرنے والوں کے ساتھ ہے : ١۔ یقیناً اللہ متقین کے ساتھ ہے۔ (النحل : ١٢٨) ٢۔ اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ (البقرۃ: ١٥٣) ٣۔ اللہ سے ڈر جاؤ اور جان لو اللہ متقین کے ساتھ ہے۔ (البقرۃ : ١٩٤) ٤۔ اگر لوگ ایمان لائیں اور تقوی اختیار کریں تو اللہ کے ہاں ان کے لیے بہترین اجر ہے۔ (البقرۃ: ١٠٣) ٥۔ تقوی اختیار کرنے والوں اور نیکی کرنے والوں کو اللہ پسند فرماتا ہے۔ (المائدۃ: ٩٣) ٦۔ اللہ تقویٰ اختیار کرنے والوں کو نجات عطا فرماتا ہے۔ (الزمر : ٦١) النحل
127 النحل
128 النحل
0 تعارف سورۃ بنی اسرائیل اس سورۃ کو بنی اسرائیل کے علاوہ اسراء کے نام سے بھی لکھا اور پڑھا جاتا ہے۔ اس کے بارہ رکوع اور ١٢١ آیات ہیں۔ یہ سورۃ مکہ معظمہ کے آخری دور میں نازل ہوئی۔ اس کی ابتداء معراج النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کی گئی ہے۔ معراج کے بارے میں یہ فرما کر شکوک و شبہات دور کیے گئے ہیں کہ وہ ذات کبریا اپنے بندے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو رات کے نہایت مختصر حصہ میں آسمانوں پر لے گئی۔ جو ہر کمزوری سے پاک اور ہر نقص سے مبرا ہے۔ سب کچھ سننے اور دیکھنے والی ہے۔ اسی ذات نے اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مسجد حرام سے لے کر مسجد اقصیٰ کی سیر کروائی تاکہ اسے اپنی قدرت کے نشانات دکھلائے۔ یہاں مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک معراج کا تذکرہ فرمایا۔ سورۃ نجم میں سدرۃ المنتہیٰ تک کا بیان ہے۔ زیادہ تفصیلات احادیث کی کتب میں پائی جاتی ہیں۔ مسجد اقصیٰ کے ذکر کے فوراً بعد بنی اسرائیل کو متنبہ کیا گیا ہے کہ ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو کتاب عنایت فرمائی۔ جس کا پہلا حکم یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو کارساز نہ سمجھا جائے۔ بنی اسرائیل کو یہ بھی انتباہ کردیا گیا تھا کہ تم دو مرتبہ ملک میں بڑا فساد برپا کرو گے اور دونوں دفعہ تم پر ایسا دشمن مسلط کیا جائے گا جو مار مار کر نہ صرف تمھارے چہرے بگاڑدے گا بلکہ دونوں مرتبہ مسجد اقصیٰ کی بے حرمتی بھی کریں گے۔ اس کے بعد ارشاد فرمایا ہے کہ قرآن مجید لوگوں کی ہدایت کے لیے نازل کیا گیا ہے۔ جو لوگ اس پر حقیقی طور ایمان لائیں گے اور اپنی ہمت کے مطابق عمل کریں گے ان کو اجر عظیم اور ہر قسم کی کامیابی کی خوشخبری دی جاتی ہے۔ لیکن انسان اپنی جلدبازی کی وجہ سے دائمی خیر کو چھوڑ کر دنیا کی خاطر اپنے نقصان کے درپے ہوجاتا ہے۔ اسے یاد رکھنا چاہیے کہ اس کی تمام حرکات و سکنات کو ضبط تحریر میں لایا جا رہا ہے جو ایک کتاب کی شکل میں قیامت کے دن اس کے سامنے پیش کرتے ہوئے حکم ہوگا اسے پڑھ! تیرے حساب کے لیے یہی کافی ہے۔ انسان کو یہ بات بھی باور کروائی گئی ہے کہ قیامت کے دن کوئی کسی کے اعمال کا ذمہ دار نہیں ہوگا اور نہ ہی کوئی دوسرے کا بوجھ اٹھائے گا۔ پھر مسلمان معاشرے کو اعلیٰ اقدار اور مربوط رکھنے کے لیے والدین اور معاشرے کے کمزور طبقات کے حقوق کے تحفظ کا حکم دیا گیا ہے۔ اس کے بعد اخلاقی، معاشی اور ہر قسم کے استحاصل سے منع کرنے کے ساتھ انسان کو سمجھایا گیا ہے کہ تیرے اخلاق اور چال ڈھال میں تواضع اور انکساری کی جھلک غالب رہنی چاہیے۔ جس وجہ سے انسان سے اخلاقی اور دیگر کمزوریاں سرزد ہوتی ہیں اس کا بنیادی سبب بتلاتے ہوئے آگاہ کیا گیا ہے کہ یہ شیطان کی شیطنت کا نتیجہ ہوتا ہے کہ انسان اپنی حیثیت بھول کر فخر و غرور اختیار کرتا ہے۔ آدم (علیہ السلام) کے ساتھ شیطان کی دشمنی کا ذکر کیا ہے کہ شیطان تمھارا ازلی اور ابدی دشمن ہے جس نے نہ صرف فخر و غرور کی وجہ سے آدم (علیہ السلام) کو سجدہ کرنے سے انکار کیا تھا بلکہ اس نے بارگاہ اقدس میں یہ بھی گستاخی کی کہ مجھے آدم کی وجہ سے ذلیل ہونا پڑا ہے۔ لہٰذا میں آدم اور اس کی اولاد کو گمراہ کرنے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھوں گا۔ جس کا یہ جواب دیا گیا کہ اے راندۂ درگاہ ! تو اپنے چیلے چانٹوں کو جس طرح چاہے استعمال کر۔ لیکن میرے بندوں پر تیرا تسلط مستقل طور پر قائم نہیں ہو پائے گا، اس کے ساتھ ہی شیطان کے تسلط سے بچنے کا طریقہ بتلاتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ دن رات میں نماز کی پابندی کرتے ہوئے بالخصوص صبح کے وقت قرآن مجید کی تلاوت اہتمام کرو۔ کیونکہ صبح کے وقت قرآن مجید کی تلاوت کرنے پر مخصوص ملائکہ کا نزول ہوتا ہے۔ اس سورۃ کا اختتام کرنے سے پہلے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں ارشاد فرمایا ہے کہ ہم نے انھیں نو بڑی بڑی نشانیاں عطا کی تھیں۔ جس کے نتیجہ میں موسیٰ (علیہ السلام) کا میاب ہوئے اور ان کا دشمن اپنے لاؤ لشکر کے ساتھ غرق ہوا۔ سورۃ کا اختتام اس بات پر کیا گیا کہ اے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! دوٹوک انداز میں بنی اسرائیل کو فرما دیجیے کہ ایمان لاؤ یا نہ لاؤ جنھیں اللہ تعالیٰ نے حقیقی علم اور سمجھ عنایت فرمائی ہے وہ تو اپنے رب کے وعدے پر یقین رکھتے ہیں اور روتے ہوئے اس کے حضور سربسجود ہوتے ہیں۔ ان کا ایمان ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نہ کوئی اولاد ہے نہ اس کی بادشاہی میں کوئی شریک ہے اور اس کی ذات کو کسی اعتبار سے کمزوری لاحق نہیں ہوتی۔ اس کو کسی کی مدد درکار نہیں اس کو بڑا جانتے ہوئے اس کی بڑائی بیان کرتے رہیں۔ (عَنْ أَبِیْ لُبَابَۃَ، سَمِعْتُ عَاءِشَۃَ تَقُوْلُ کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَصُوْمُ حَتّٰی نَقُوْلَ مَا یُرِیْدُ أَنْ یُّفْطِرَ، وَیُفْطِرُ حَتّٰی نَقُوْلَ مَا یُرِیْدُ أَنْ یَّصُوْمَ، وَکَانَ یَقْرَأُ کُلْ لَّیْلَۃِ بَنِیْ إِسْرَاءِیْلَ، وَالزُّمُرَ ) [ رواہ ابن خزیمۃ فی صحیحہ] ” حضرت ابو لبابہ کہتے ہیں میں نے سیدہ عائشہ (رض) سے سنا انھوں نے فرمایا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مسلسل روزے رکھتے تھے اور ہم کہتے کہ آپ روزے چھوڑیں گے نہیں۔ آپ روزے رکھنا چھوڑدیتے تو ہم کہتے آپ روزہ نہیں رکھیں گے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہر رات سورۃ بنی اسرائیل اور سورۃ زمر کی تلاوت کرتے تھے۔“ الإسراء
1 فہم القرآن ربط کلام : نئے خطاب کا آغاز : اس سورۃ میں بنی اسرائیل کو متنبہ کیا ہے کہ اب تمھارا دور ختم ہوا۔ معراج کے دو حصے ہیں : پہلے حصے کو اسراء اور دوسرے کو معراج کہا جاتا ہے لیکن عرف عام میں دونوں ہی کو معراج کہا جاتا ہے۔” پاک ہے وہ ذات جو رات کے ایک مختصر حصّہ میں اپنے بندے کو مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک لے گئی۔ جس کے ارد گرد ہم نے برکت رکھی ہے تاکہ ہم اسے اپنی قدرت کے کچھ نمونے دیکھائیں۔“ مسجد حرام (خانہ کعبہ) مکہ میں ہے اور مسجد اقصیٰ فلسطین کے شہر ” القدس“ میں ہے۔ جس کا پرانا نام یروشلم اور ایلیا ہے۔ اس وقت مکہ سے القدس تک کی مسافت چالیس دن میں طے ہوتی تھی۔ لیکن معراج کی رات چالیس دن کی مسافت رات کے ایک مختصر حصہ میں طے ہوگئی۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے اس کا آغاز لفظِ ” سبحان“ سے کیا ہے۔ جس کا معنی ہے :” اللہ ہر نقص اور کمزوری سے پاک ہے۔“ لفظ سبحان کا استعمال ایسے موقعوں پر ہوتا ہے جب کسی عظیم الشان واقعے کا ذکر ہو۔ مطلب یہ ہوتا ہے کہ لوگوں کے نزدیک ظاہری اسباب کے اعتبار سے یہ واقعہ کتنا ہی محال ہو لیکن اللہ کے لیے کوئی مشکل نہیں۔ کیونکہ وہ اسباب کا پابند نہیں۔ لفظِ ” کُنْ“ کہنے کی دیر ہے جو چاہتا ہے پلک جھپکنے سے پہلے ہوجاتا ہے۔ اسباب انسانوں کے لیے ہیں۔ اللہ تعالیٰ مسبب الاسباب ہے۔ لہٰذا اسباب اس کے محتاج اور پابند ہیں۔ وہ اسباب کی پابندیوں اور کمزوریوں سے پاک ہے۔ حضرت مالک بن صعصعہ (رض) کی روایت کو ہم بامحاورہ بیان کرتے ہیں۔ تفصیل کے لیے حدیث کی کتب کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ ” اللہ کے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں اس رات کے متعلق بتلایا جس میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو معراج کرائی گئی۔ آپ نے فرمایا : ” میں ایک رات حطیم میں سویا ہوا تھا۔ ایک آنے والا میرے پاس آیا اور اس نے میرا پیٹ سینے سے ناف تک چاک کیا اور میرا دل باہر نکالا، پھر میرے قریب سونے کا ایک طشت لایا گیا جو ایمان وحکمت سے بھرا ہوا تھا۔ اس میں میرے دل کو دھویا گیا اور اسے ایمان وحکمت سے بھر کر اپنی جگہ رکھ دیا گیا۔ پھر ایک سفید جانور لایا گیا جو خچر سے چھوٹا اور گدھے سے بڑا تھا۔ وہ اپنا قدم وہاں رکھتا جہاں اس کی نگاہ کی آخری حد ہوتی۔ مجھے اس پر سوار کرا دیا گیا اور جبریل مجھے اپنے ساتھ لے چلے یہاں تک کہ آسمان دنیا پر پہنچ گئے۔ جبریل نے دروازہ کھولنے کے لیے کہا، پوچھا گیا : کون ہے؟ جبرائیل (علیہ السلام) نے بتایا کہ میں جبریل ہوں۔ پوچھا گیا : تمہارے ساتھ کون ہے؟ جبریل نے بتلایا : محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں پوچھا گیا : کیا انہیں بلوایا گیا ہے ؟ جبریل نے کہا ہاں ! کہا گیا : انہیں خوش آمدید ! کیا ہی مبارک آنے والے ہیں۔ دربان نے دروازہ کھول دیا۔ جب میں نے آسمان پر قدم رکھا تو دیکھا وہاں حضرت آدم (علیہ السلام) تشریف فرما ہیں۔ جبرائیل (علیہ السلام) نے کہا : یہ آپ کے باپ آدم ہیں، انہیں سلام کریں۔ میں نے انہیں سلام کیا۔ انہوں نے سلام کا جواب دیتے ہوئے فرمایا : نیک بیٹے اور صالح پیغمبر کو خوش آمدید، پھر جبریل (علیہ السلام) مجھے لے کر دوسرے آسمان پر چڑھے اور اس کا دروازہ کھولنے کو کہا۔ پوچھا گیا : کون ہے؟ کہا : میں جبریل ہوں۔ پوچھا گیا : تمہارے ساتھ کون ہے؟ کہا : محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں۔ پوچھا گیا : کیا انہیں بلوایا گیا ہے؟ جبریل نے کہا : ہاں! کہا گیا : خوش آمدید! جو آیا ہے کتنا اچھا ہے؟ دروازہ کھول دیا گیا۔ جب میں اندر داخل ہوا تو وہاں حضرت یحییٰ اور عیسیٰ (علیہ السلام) تھے جو دونوں خالہ زاد ہیں۔ جبریل نے کہا : یہ یحییٰ اور عیسیٰ (علیہ السلام) ہیں انہیں سلام کریں۔ میں نے انہیں سلام کیا۔ ان دونوں نے سلام کا جواب دیا اور فرمایا : صالح بھائی اور پیغمبر کو خوش آمدید۔ پھر جبریل مجھے تیسرے آسمان پر لے کر چڑھے اور دروازہ کھولنے کو کہا۔ پوچھا گیا : کون ہے؟ کہا : میں جبریل ہوں۔ کہا گیا : تمہارے ساتھ کون ہیں؟ کہا : محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں۔ پوچھا گیا : کیا انہیں بلوایا گیا ہے؟ جبریل نے کہا : ہاں! انہوں نے خوش آمدید کہتے ہوئے کہا جو آیا ہے کتنا اچھامہمان ہے؟ دروازہ کھول دیا گیا۔ جب میں وہاں پہنچا تو وہاں یوسف (علیہ السلام) تھے جبریل نے کہا : یہ یوسف ہیں انہیں سلام کریں۔ میں نے انہیں سلام کیا انہوں نے جواب دیا : صالح بھائی اور پیغمبر کو خوش آمدید۔ پھر جبریل مجھے چوتھے آسمان پر لے کر چڑھے۔ دروازہ کھولنے کو کہا۔ پوچھا گیا کون ہے؟ کہا : میں جبریل ہوں۔ پوچھا گیا : تمہارے ساتھ کون ہے کہا : محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں کہا گیا کیا انہیں بلوایا گیا ہے ؟ جبریل نے کہا : ہاں کہا گیا : خوش آمدید 249 پس آنے والا جو آیا ہے کتنا ہی اچھا ہے؟ دروازہ کھول دیا گیا۔ جب میں اندر داخل ہوا تو وہاں ادریس (علیہ السلام) تھے جبریل نے کہا : یہ ادریس (علیہ السلام) ہیں انہیں سلام کریں۔ میں نے انہیں سلام کیا۔ انہوں نے سلام کا جواب دیا اور کہا : صالح بھائی اور پیغمبر کو خوش آمدید۔ پھر جبریل مجھے پانچویں آسمان پر لے کر چڑھے۔ انہوں نے دروازہ کھولنے کو کہا۔ کہا گیا : کون ہے؟ کہا میں جبریل ہوں پوچھا گیا : تمہارے ساتھ کون ہے؟ کہا : محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں۔ پوچھا گیا : انہیں بلوایا گیا ہے؟ جبریل نے کہا : ہاں! کہا گیا : خوش آمدید جو آیا ہے کتنا اچھا ہے؟ جب میں اندر داخل ہوا تو وہاں ہارون (علیہ السلام) تھے جبریل نے کہا : یہ ہارون ہیں۔ انہیں سلام کریں۔ میں نے انہیں سلام کیا۔ انہوں نے سلام کا جواب دیا اور کہا : صالح بھائی اور پیغمبر کو خوش آمدید۔ پھر جبریل مجھے چھٹے آسمان پرلے کر چڑھے۔ تب انہوں نے دروازہ کھولنے کو کہا۔ پوچھا گیا : کون ہے؟ کہا میں جبریل ہوں۔ پوچھا گیا : تمہارے ساتھ کون ہے ؟ کہا : محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں کہا گیا : کیا انہیں بلوایا گیا ہے ؟ جبریل نے کہا : ہاں! کہا : خوش آمدید ! جو آیا ہے کتنا ہی اچھا ہے؟ جب میں اندر داخل ہوا تو وہاں موسیٰ (علیہ السلام) تھے جبریل نے کہا : یہ موسیٰ (علیہ السلام) ہیں انہیں سلام کریں میں نے انہیں سلام کیا۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے سلام کا جواب دیا اور کہا : صالح بھائی اور پیغمبر کو خوش آمدید۔ جب میں وہاں سے آگے چلا تو موسیٰ (علیہ السلام) روپڑے۔ پوچھا گیا : آپ کیوں روتے ہیں؟ انہوں نے کہا : میں اس لیے روتاہوں کہ یہ جوان جو میرے بعد نبی بنا کر بھیجا گیا، اس کی امت کے لوگ میری امت سے زیادہ تعداد میں جنت میں جائیں گے۔ پھر جبریل مجھے لے کر ساتویں آسمان پر چڑھے اور انہوں نے دروازہ کھولنے کو کہا، پوچھا گیا : کون ہے؟ کہا : میں جبریل ہوں۔ کہا گیا : تمہارے ساتھ کون ہے؟ جبریل نے کہا : محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں کہا گیا : کیا ان کی طرف یہاں آنے کا پیغام بھیجا گیا تھا؟ کہا : ہاں! کہا : خوش آمدید کتنا اچھا ہے جو آیا ہے۔ جب میں اندر داخل ہوا تو وہاں ابراہیم (علیہ السلام) تھے۔ جبریل نے کہا : یہ آپ کے باپ ہیں انہیں سلام کریں۔ میں نے انہیں سلام کیا۔ انہوں نے سلام کا جواب دیا اور فرمایا : صالح بیٹے اور پیغمبر کو خوش آمدید۔ پھر مجھے سدرۃ المنتہیٰ کی طرف لے جایا گیا۔ اس کا پھل (بیر) ہجر ” شہر“ کے مٹکوں جتنا تھا۔ اس کے پتے ہاتھی کے کانوں جیسے تھے۔ جبریل نے کہا : یہ سدرۃ المنتہیٰ ہے۔ وہاں چار نہریں تھیں، دونہریں جنت کے اندر اور دونہریں باہرہیں۔ میں نے پوچھا : اے جبریل ! یہ دونہریں کونسی ہیں؟ جبریل نے کہا : دواندروالی ہیں وہ جنت میں اور جو دو نہریں ظاہر ہیں وہ نیل اور فرات ہیں۔ پھر میرے لیے بیت المعمور بلند کیا گیا، یہاں میرے لیے تین برتن لائے گئے ایک شراب کا دوسرا دودھ کا تیسرا شہد کا تھا۔ میں نے ان میں سے دودھ کا پیالہ لے لیا۔ جبریل نے فرمایا : یہ فطرت ہے جس پر آپ اور آپ کی امت ہے۔ پھر مجھ پر رات اور دن میں پچاس نمازیں فرض کردی گئیں۔ جب میں واپس لوٹا اور دوبارہ موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس سے گزرا تو انہوں نے پوچھا : آپ کو کیا حکم دیا گیا ہے؟ میں نے کہا : مجھے ہر روز پچاس نمازیں پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا : آپ کی امت روزانہ پچاس نمازیں نہیں پڑھ سکے گی۔ اللہ کی قسم ! میں آپ سے پہلے لوگوں کا تجربہ کرچکا ہوں۔ بنی اسرائیل کو خوب اچھی طرح آزما چکا ہوں۔ پس آپ اپنے رب کی طرف جائیں اور اس سے اپنی امت کے لیے تخفیف کا سوال کریں۔ میں دوبارہ واپس گیا تو اللہ نے میرے لیے دس نمازیں کم کردیں۔ میں جب موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس آیا تو انہوں نے پھر پہلی والی باتیں کیں۔ میں پھر واپس گیا تو اللہ نے دس نمازیں کم کردیں۔ میں پھر موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس گیا تو انہوں نے پھر وہی باتیں کیں۔ میں پھر واپس گیا تو میرے لیے پھر دس نمازیں کم کردیں۔ میں موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس آیا تو انہوں نے پھر وہی باتیں کیں۔ میں پھر واپس گیا تو میرے لیے دس نمازیں کم کردیں گئیں۔ میں پھر موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس آیا تو انہوں نے مجھے پھر واپس بھیجا۔ میں واپس گیا تو میرے لیے پانچ نمازیں معاف کردیں۔ میں پھر موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس سے گزرا تو انہوں نے پھر واپس جانے کا مشورہ دیتے ہوئے فرمایا کہ آپ کی امت روزانہ پانچ نمازیں بھی نہیں پڑھے گی۔ میں آپ سے پہلے لوگوں کا تجربہ کرچکا ہوں اور میں بنی اسرائیل کو خوب آزما چکاہوں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پھر اپنے رب کے پاس جائیں اور اس سے اپنی امت کے لیے مزید تخفیف کا سوال کریں۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : میں باربار اپنے رب سے سوال کرچکاہوں اب مجھے شرم آرہی ہے۔ اب میں اسی پر راضی ہوں اور اسے ہی تسلیم کرتاہوں۔ آپ نے فرمایا : جب میں کچھ آگے گیا تو ایک منادی کرنے والے نے بلند آوازسے کہا : میں نے اپنا فریضہ جاری کردیا اور اپنے بندوں پر تخفیف کردی ہے۔“ معراج النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عظیم مشاہدات : شق صدر کے بعد نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قلب اطہر کا نکالنا اور پھر اسے دھو کر دوبارہ اپنے مقام پر رکھ دینا یہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کی عظیم نشانی ہے کیونکہ اس دور میں طب اور میڈیکل سائنس کی وہ ترقی نہیں تھی جو آج کل عام ہے۔ اس دور میں دل کا اپنے مقام سے باہر نکال لینا موت کے مترادف تھا لیکن نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کچھ نہیں ہوا۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے براق جیسی برق رفتار سواری کا انتظام کرنا جس نے ڈیڑھ مہینے کا سفر رات کے ایک نہایت قلیل حصے میں طے کر ادیا۔ سیڑھی کے ذریعے سے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو آسمانوں پر لے جانا۔ یہ بے مثال اور عظیم الشان لفٹ تھی جو آسمانوں پرچڑ ھنے کے لیے آپ کو مہیا کی گئی۔ یاد رہے معراج کا معنیٰ سیڑھی ہے۔ بیت المقدس میں تمام انبیاء ( علیہ السلام) کا جمع ہونا اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اقتداء میں نماز پڑھنا ہے۔ آپ کا امام الانبیاء کا اعزاز پانا۔ آسمانوں پر جلیل القدر انبیاء ( علیہ السلام) سے ملاقاتوں کا خصوصی اہتمام بھی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی امتیازی شان کا اظہار اور عظیم زیارات ہیں۔ سدرۃ المنتہیٰ کا مشاہدہ جو مقام انتہاء ہے۔ اس سے اوپر کی چیزیں جنہیں نیچے اترنا ہوتا ہے ان کا نزول پہلے یہاں ہوتا ہے : فرشتے اسے یہاں سے وصول کرکے اس کے مطابق کاروائی کرتے ہیں۔ زمین سے آسمانوں کو جانے والی چیزیں بھی یہاں ٹھہر جاتی ہیں۔ اس کے بعد ان کو جہاں لے جانا ہوتا ہے، لے جایا جاتا ہے۔ اس اعتبار سے یہ بہت ہی اہم مقام اور نہایت اہم مرکز ہے۔ علاوہ ازیں یہ مرکز تجلیات الٰہی بھی ہے۔ اس کے گرد سونے کے پروانے محو پرواز رہتے ہیں۔ اس کے حسن وجمال اور رعنائی کو بیان نہیں کیا جاسکتا۔ اسی کے پاس جنت الماویٰ ہے۔ اسی جگہ پرنبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قلموں کے چلنے کی آوازیں سنی تھیں۔ جس کا مطلب ہے کہ فرشتے لوح محفوظ سے قضاوقدر کے فیصلے نوٹ کرتے ہیں اسی مقام پر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو وہ چیزیں ملیں جو شب معراج کے خاص تحفے ہیں۔ اسی جگہ پر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت جبریل (علیہ السلام) کو دوسری مرتبہ ان کی اصلی صورت میں دیکھا یہاں چار نہریں بھی دیکھیں جن کے سوتے اسی مقام پر ہیں۔ گویا سدرۃ المنتہیٰ بہت سے مشاہدات کا مجموعہ اور عجائبات آسمانی کا مظہر ہے۔ ساتویں آسمان پر بیت المعمور دیکھا جو فرشتوں کی عبادت گاہ ہے جس سے اللہ تعالیٰ کی نورانی مخلوق کی عظمت وکثرت کا مشاہدہ ہوا کہ روزانہ ستر ہزار فرشتے اس میں عبادت کے لیے آتے ہیں جنکی قیامت تک دوبارہ باری نہیں آئے گی۔ جہنم کا داروغہ جس کا نام مالک ہے، دجّال جس کا خروج قیامت کے قریب ہوگا ان دونوں کا مشاہدہ بھی اسی رات نشانیوں کے طور پر کرایا گیا۔ (ثُمَّ أُدْخِلْتُ الْجَنَّۃَ فَإِذَا فیہَا جَنَابِذُ اللُّؤْلُؤِ وَإِذَا تُرَابُہَا الْمِسْکُ)[ رواہ مسلم : کتاب الایمان] ” پھر مجھے جنت میں لے جایا گیا۔ میں نے وہاں دیکھا کہ موتیوں کے خیمے ہیں اور اس کی مٹی کستوری ہے۔“ (أَتَیْتُ عَلَی نَہَرٍ حَافَتَاہُ قِبَاب اللُّؤْلُؤِ مُجَوَّفًا فَقُلْتُ مَا ہَذَا یَا جِبْرِیلُ قَالَ ہَذَا الْکَوْثَرُ) [ رواہ البخاری : کتاب التفسیر باب تفسیر سورۃ الکوثر] ” میں ایک نہر پر آیا اس کے دونوں کنارے موتیوں کے قبوں کے تھے، میں نے پوچھا، جبریل یہ کیا ہے؟ جبریل نے کہا یہ کو ثر ہے۔“ مسجد اقصٰی کا تعارف اور فضیلت : مسجد اقصیٰ کرۂ ارض پر مسلمانوں کا تیسرا مقدس مقام ہے۔ یہ تاریخی شہر میں واقع ہے اس کو احادیث اور تاریخ میں ’ بیت المقدس‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، بائبل میں یہ شہر ’ یروشلم اور ایلیا‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ مسجد اقصیٰ قدیمی شہر کے جنوب مشرقی طرف ایک نہایت وسیع رقبے پر مشتمل ہے۔ اس کے احاطے کے گرد ایک مستطیل شکل کی پر شکوہ فصیل ہے۔ مسجد کے احاطہ کی وسعت کا اندازہ اس سے کیجیے کہ اس کا رقبہ ١١٤ دونم ( ایک میٹر ١٠٠٠ میٹر مربع کے برابر ہے) ہے۔ مسجد اقصیٰ شہر کے جس حصہ میں واقع ہے وہ ایک ٹیلہ نما جگہ ہے۔ اس ٹیلہ کا تاریخی نام ’ موریا‘ ہے۔ صخرہ مشرفہ وہ چٹان ہے جہاں اسراء معراج کی رات رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قدم مبارک لگے تھے اور آپ نے براق باندھا تھا۔ مسجد کی پیمائش یوں ہے : جنوب کی طرف ٢٨١ میٹر، شمال کی طرف ٣١٠ میٹر، مشرق کی طرف ٤٦٢ میٹر اور مغرب کی جانب ٤٩١ میٹر۔ مسجد اقصیٰ کا یہ احاطہ قدیمی شہر کا چھٹا حصہ بنتا ہے۔ اس کی خاص بات یہ ہے کہ اس مسجد کی حدود آج بھی وہی ہیں جہاں جائے نماز کے طور پر پہلے دن اس کی تعمیر ہوئی تھی۔ احاطہ کے چودہ دروازے ہیں۔ صلاح الدین ایوبی (رض) نے جس وقت یہ مسجد آزاد کروائی، اس کے بعد بعض وجوہات کے پیش نظر مسجد کے کچھ دروازے بند کردیئے گئے۔ وہ دروازے جو اس وقت تک برقرار ہیں، دس ہیں۔ مسجد اقصیٰ کے چار مینار ہیں۔ باب المغاربہ والا مینار، جو کہ جنوب مغربی جانب ہے۔ باب السلسہ والا مینار جو کہ مغربی سمت باب السلسہ کے قریب واقع ہے۔ باب الغونمہ والا مینار جو کہ شمال مغربی سمت اور باب الاسباط والا مینار جو کہ شمالی سمت واقع ہے۔ اقصیٰ کا مطلب ہے طویل تر۔ مراد یہ ہے کہ اسلام کے تین مقدس مقامات میں سے یہ مقام باقی دو کی نسبت بعید تر ہے۔ کیونکہ یہ مکہ و مدینہ سے کافی فاصلے پر واقع ہے۔ اس مقام کا نام ” مسجد اقصیٰ“ نزول قرآن کے بعد ہی مشہور ہوا ہے۔ قرآن مجید کے نام سے پہلے اس کو مقدس یا بیت المقدس کہا جاتا تھا۔ بیت المقدس کا یہ علاقہ اس زمانہ میں ایلیاء کے نام سے بھی جانا جاتا تھا۔ (عَنْ اَبِیْ ذَرٍّ (رض) قَالَ قُلْتُ ےَا رَسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اَیُّ مَسْجِدٍ وُّضِعَ فِیْ الْاَرْضِ اَوَّلَ قَالَ الْمَسْجِدُ الْحَرَامُ قَالَ قُلْتُ ثُمَّ اَیٌّ قَالَ الْمَسْجِدُ الْاَقْصٰی قُلْتُ کَمْ بَےْنَھُمَا قَالَ اَرْبَعُوْنَ عَامًا ثُمَّ الْارَضُ لَکَ مَسْجِدٌ فَحَےْثُ مَا اَدْرَکَتْکَ الصَّلٰوۃُ فَصَلِّ) [ رواہ البخاری،: باب المساجد ومواضع الصلاۃ] ” حضرت ابوذر (رض) بیان کرتے ہیں میں نے رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا کہ زمین میں سب سے پہلے کونسی مسجد تعمیر ہوئی؟ آپ نے فرمایا بیت اللہ۔ میں نے پھر عرض کیا اس کے بعد آپ فرماتے ہیں مسجد اقصیٰ۔ میں نے عرض کیا ان کے درمیان کتنے سال کافرق ہے؟ آپ فرماتے ہیں کہ چالیس سال۔ پھر ارشاد فرمایا کہ تمہارے لیے پوری زمین مسجد بنا دی گئی ہے جس جگہ نماز کا وقت ہو، نماز ادا کرلیا کرو۔“ مسائل ١۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اللہ تعالیٰ نے مسجد حرام سے لیکر مسجد اقصیٰ تک سیر کرائی۔ ٢۔ مسجد اقصیٰ کے ارد گرد اللہ کی برکات کا نزول ہوتا ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ سننے والا، جاننے والا ہے۔ الإسراء
2 فہم القرآن ربط کلام : معراج کا واقعہ درحقیقت یہو دونصارٰی کے لیے یہ پیغام تھا کہ تمہارا دور گزر چکا۔ اب امت مسلمہ کا دور شروع ہونے والا ہے۔ اس لیے واقعہ معراج کی طرف مختصر اشارہ کرنے کے بعد بنی اسرائیل کو بتلایا اور سمجھایا گیا ہے کہ ہم نے موسیٰ کو ایسی کتاب دی تھی جو تمہارے لیے رہنمائی کا سرچشمہ تھی۔ توراۃ کا مرکزی پیغام یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو کا رساز اور اپنے معاملات کا ذمہ دار نہ بنانا۔ اس کے ساتھ ہی بنی اسرائیل کو بتلایا ہے کہ تم نوح (علیہ السلام) کے ساتھیوں کی اولاد ہو۔ حضرت نوح (علیہ السلام) اپنے رب کے شکر گزار بندے تھے حضرت نوح (علیہ السلام) کی تعلیم کا خلاصہ بھی یہی ہے کہ صرف ایک اللہ کے ہوجاؤ، اسی کے سامنے سر جھکاؤ، اسی سے رزق طلب کرو اور اسی پر بھروسہ کرو۔ جو قوم خدادادصلاحیتوں اور اپنے رب پر بھروسہ نہیں کرتی وہ ذلیل ہو کر رہ جاتی ہے۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کے واقعہ پر غور کرو۔ انہیں اور ان کے ساتھیوں کو اللہ تعالیٰ نے کس طرح بچاکر دنیا میں پھیلایا ؟ ان کے مخالفوں کو کس طرح ڈبکیاں دے دے کر مارا گیا ؟ اگر تم اللہ تعالیٰ پر بھروسہ اور اس کی عطا کردہ نعمتوں کا شکر ادا کرو گے۔ تو تمہار ادشمن ناکام اور تم دنیا وآخرت میں کا میاب ہو گے۔ لیکن بنی اسرائیل نے اپنے رب سے کیے گئے وعدوں کی پے در پے خلاف ورزی کی۔ جس کے نتیجے میں وہ ذلیل ہوئے۔ جس کی تفصیل اگلی آیات میں بیان کی گئی ہے۔ جن میں میں بنی اسرائیل کا انجام بیان ہوا ؟ مسلمانوں کے لیے ایک سبق ہے کہ تمہاری کسمپرسی کا دور ختم ہونے والا ہے۔ اب تم اقتدار اور اختیا رکے مالک بننے والے ہو۔ دیکھنا بنی اسرائیل کا گھناؤنا کردار اختیار کرنے کی بجائے حضرت نوح (علیہ السلام) اور ان کے ساتھیوں کی طرح شکر گزار بننے کی کوشش کرنا۔ جس کا لازماً نتیجہ ہوگا کہ تم کا میاب اور تمہارا دشمن دنیا وآخرت میں ذلیل خوار ہوگا۔ بنی اسرائیل سے لیے گئے عہد کا خلاصہ : (وَإِذْ أَخَذْنَا مِیْثَاقَکُمْ وَرَفَعْنَا فَوْقَکُمُ الطُّوْرَ خُذُوْا مَا اٰتَیْنَاکُمْ بِقُوَّۃٍ وَاذْکُرُوْا مَا فِیْہِ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ۔ُمَّ تَوَلَّیْتُمْ مِنْ بَعْدِ ذٰلِکَ فَلَوْلَا فَضْلُ اللَّہِ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَتُہُ لَکُنْتُمْ مِنَ الْخَاسِرِیْنَ ) [ البقرۃ: ٦٣۔ ٦٤] ” اور جب ہم نے تم سے عہد لیا اور کوہ طور کو تم پربلند کیا کہ جو کتاب ہم نے تم کو دی ہے۔ اس کو مضبوطی سے پکڑے رکھو اور اسے یادرکھو تا کہتممتقی بن جاؤ۔ لیکن تم اس کے بعد پھر گئے۔ اگر اللہ تعالیٰ کا فضل اور اس کی مہربانی نہ ہوتی تو تم خسارہ پانے والے ہوتے۔“ (وَإِذْ أَخَذْنَا مِیْثَاقَ بَنِیْ إِسْرَاءِیْلَ لَا تَعْبُدُوْنَ إِلَّا اللّٰہَ وَبِالْوَالِدَیْنِ إِحْسَانًا وَذِی الْقُرْبٰی وَالْیَتَامٰی وَالْمَسَاکِیْنِ وَقُوْلُوْا للنَّاسِ حُسْنًا وَأَقِیْمُوْا الصَّلَاۃَ وَاٰتُوْا الزَّکٰوۃَ ثُمَّ تَوَلَّیْتُمْ إِلَّا قَلِیْلًا مِنْکُمْ وَأَنْتُمْ مُعْرِضُوْنَ)[ البقرۃ: ٨٣] ” اور جب ہم نے بنی اسرائیل سے پختہ عہد لیا کہ تم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرنا، والدین، قریبی رشتے داروں، یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ حسن سلوک کرتے رہنا اور لوگوں سے اچھی باتیں کرنا، نماز قائم کرنا، زکٰوۃ ادا کرنا لیکن چند لوگوں کے سوا سب پھر گئے۔ اس حال میں کہ تم اعراض کرنے والے تھے۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو کتاب عنایت فرمائی۔ ٢۔ حضرت نوح (علیہ السلام) اللہ کے شکر گزار بندے تھے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو حکم دیا کہ میرے سوا کسی کو اپنا کارساز نہ بنانا۔ تفسیر بالقرآن مختلف ادوار میں بنی اسرائیل کا انجام : ١۔ بنی اسرائیل چالیس سال صحرا میں سرگرداں رہے۔ (المائدۃ: ٢٦) ٢۔ بنی اسرائیل پر داؤد (علیہ السلام) اور عیسیٰ (علیہ السلام) نے پھٹکار کی۔ (المائدۃ: ٧٨) ٣۔ بنی اسرائیل پر اللہ نے لعنت کی۔ (النساء : ٤٦) ٤۔ بنی اسرائیل دنیا میں ذلیل وخوار ہوئے۔ (بنی اسرائیل : ٥) ٥۔ بنی اسرائیل ذلیل بندر بنا دیئے گئے۔ (البقرۃ: ٦٥) الإسراء
3 الإسراء
4 فہم القرآن ربط کلام : بائبل کے مجموعۂ کتب مقدسہ میں یہ تنبیہات مختلف مقامات پر ملتی ہیں۔ پہلے فساد اور اس کے برے نتائج پر بنی اسرائیل کو متنبہ کیا گیا۔ دوسرے فساد اور اس کی سخت سزا کی پیشین گوئی حضرت مسیح (علیہ السلام) نے کی ہے جو متٰی اور لوقا کی انجیلوں میں موجود ہے۔ ذیل میں ہم ان کتابوں کی متعلقہ عبارتیں نقل کرتے ہیں تاکہ قرآن کے اس بیان کی تصدیق ہوجائے۔ پہلے فساد پر اولین تنبیہ حضرت داؤد (علیہ السلام) نے کی تھی جس کے الفاظ یہ ہیں : ” انہوں نے ان قوموں کو ہلاک نہ کیا جیسا خداوند نے ان کو حکم دیا تھا بلکہ ان قوموں کے ساتھ مل گئے اور ان جیسے کام سیکھ لیے اور ان کے بتوں کی پرستش کرنے لگے جو ان کے لیے پھندا بن گئے۔ بلکہ انہوں نے اپنی بیٹیوں کو شیاطین کے لیے قربان کیا اور معصوموں یعنی اپنے بیٹیوں کا خون بہایا۔۔ اس لیے خداوند کا قہر اپنے لوگوں پر بھڑکا یا اور اسے اپنی میراث سے نفرت ہوگئی اور اس نے ان قوموں کے قبضے میں کردیا اور ان سے عداوت رکھنے والے ان پر حکمران بن گئے۔“ [ زبور : باب ١٠٦ آیات ٣٤۔ ١٤] جب یہ فساد عظیم رونما ہوا۔ تو اس کے نتیجے میں آنے والی تباہی کی خبر حضرت یسعیاہ ( علیہ السلام) نبی اپنے صحیفے میں یوں دیتے ہیں : ” آہ! خطا کار گروہ، بدکرداری سے لدی ہوئی قوم، بدکرداروں کی نسل مکار اولاد جنہوں نے خداوند کو ترک کیا، اسرائیل کے قدوس کو حقیر جانا اور گمراہ وبرگشتہ ہوگئے، تم زیادہ بغاوت کر کے اور مار کھاؤ گے۔“ [ باب : ١، آیت ٤۔ ٥] ” وفادار بستی کیسی بد کار ہوگئی! وہ تو انصاف سے معمور تھی اور راست بازی اس میں بستی تھی لیکن اب خونی رہتے ہیں۔۔ تیرے سردار گردن کش اور چوروں کے ساتھی ہیں۔ ان میں سے ہر ایک رشوت دوست اور انعام طلب ہے۔ وہ یتیموں سے انصاف نہیں کرتے اور بیواؤں کی فریاد ان تک نہیں پہنچتی۔ اس لیے خدا وند رب الافواج اسرائیل کا قادر فرماتا ہے کہ آہ میں ضرور اپنے مخالفوں سے آرام پاؤں گا اور اپنے دشمنوں سے انتقام لوں گا۔“ [ باب : ١، آیت ٢١ تا ٢٤] ” وہ اہل مشرق کی رسوم سے پر ہیں اور فلسفیوں کی مانند شگون لیتے ہیں اور بیگانوں کی اولاد کے ساتھ ہاتھ پر ہاتھ مارتے ہیں۔۔ اور ان کی سر زمین بتوں سے پُر ہے۔ وہ اپنے ہی ہاتھوں کی صنعت یعنی اپنی ہی انگلیوں کی کاریگری کو سجدہ کرتے ہیں۔“ [ زبور : باب ٢ آیت ٦۔ ٨] ” اے بنو اسرائیل کے گھرانے! دیکھ میں ایک قوم کو دور سے تجھ پر چڑھالاؤں گا۔ خداوند فرماتا ہے وہ زبر دست قوم ہے وہ قدیم قوم ہے وہ ایسی قوم ہے جس کی زبان تو نہیں جانتا اور ان کی بات کو تو نہیں سمجھتا۔ ان کے ترکش کھلی قبریں ہیں۔ وہ سب بہادر مرد ہیں وہ تیری فصل کا ناج اور تیری روٹی جو تیرے بیٹوں بیٹیوں کے کھانے کی تھی کھا جائیں گے۔ تیرے گائے بیل اور تیری بکریوں کو چٹ کر جائیں گے۔ تیرے انگور اور انجیر نگل جائیں گے۔ تیرے مضبوط شہروں کو جن پر تیرا بھروسا ہے تلوار سے ویران کردیں گے۔“ [ زبور : باب ٥ آیت ١٥۔ ١٧] ” اس قوم کی لاشیں ہوائی پرندوں اور زمین کے درندوں کی خوارک ہوں گی اور ان کو کوئی نہ ہنکائے گا۔ میں یہوداہ کے شہروں میں اور یروشلم کے بازاروں میں خوشی اور شادمانی کی آواز، دولہا اور دلہن کی آواز موقوف کروں گا تاکہ یہ ملک ویران ہوجائے۔“ [ زبور : باب ٧ آیت ٣٣۔ ٣٤] ” ان کو میرے سامنے نکال دے کہ چلے جائیں اور جب وہ پوچھیں کہ ہم کدھر جائیں تو ان سے کہناکہ خدا وند فرماتا ہے کہ جو موت کے لیے وہ موت کی طرف اور جو تلوار کے لیے ہیں وہ تلوار کی طرف اور جو قحط کے لیے وہ قحط کی طرف اور جو اسیری کے لیے وہ اسیری میں۔“ [ زبور : باب ٥ آیت ٢۔ ٣] یہ تھیں وہ تنبیہات جو بنی اسرائیل کے پہلے فساد عظیم کے موقع پر کی گئی۔ (ماخوذ از تفہیم القرآن ) مسائل ١۔ بنی اسرائیل زمین میں فساد کرتے ہیں۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل پر سخت گیر بندے مسلط فرمائے۔ ٣۔ بنی اسرائیل کے گھروں کو تباہ وبرباد کردیا گیا۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے مال اور بیٹے عطا فرماتا ہے۔ ٥۔ نیکی کا صلہ نیکی کرنے والے کو ہی ملے گا۔ ٦۔ برے کو اس کی برائی کا بدلہ ضرور ملے گا۔ ٧۔ اللہ تعالیٰ جس پر چاہتا ہے اپنی رحمت کا نزول کرتا ہے۔ ٨۔ اللہ تعالیٰ نے کافروں کے لیے جہنم قید خانہ بنایا۔ تفسیر بالقرآن کفار کا ٹھکانہ : ١۔ کفار سے فرما دیں کہ عنقریب تم مغلوب ہوگے اور تمہیں جہنم کی طرف اکٹھا کیا جائے گا۔ (آل عمران : ١٢) ٢۔ کفار کا ٹھکانہ جہنم ہے اور وہ بہت ہی بری جگہ ہے۔ (النساء : ٩٧) ٣۔ کفار کے لیے جہنم کی آگ ہے۔ اس میں انہیں موت نہیں آئے گی۔ (فاطر : ٣٦) ٤۔ کفار کو جہنم کی طرف گروہ در گروہ ہانکا جائے گا۔ (الزمر : ٧١) ٥۔ مجرم لوگ ہمیشہ جہنم کے عذاب میں مبتلا رہیں گے۔ (الزخرف : ٧٤) ٦۔ کفار کا ٹھکانہ جہنم ہے جب اس کی آگ ہلکی ہونے لگے گی تو ہم اس کو اور بھڑکا دیں گے۔ (بنی اسرائیل : ٩٧) ٧۔ سرکشوں کے لیے انتہائی بری جگہ ہے ان کا ٹھکانہ جہنم ہے اور برا ہے ان کا بچھونا۔ (ص : ٥٦) ٨۔ وہ لوگ جنھوں نے اہل کتاب اور مشرکین میں سے کفر کیا وہ جہنم کی آگ میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔ (البینۃ: ٦) ٩۔ کفار کاٹھکانہ جہنم ہے اور وہ اس سے بچنے کی جگہ نہیں پائیں گے۔ (النساء : ١٢١) ١٠۔ اے نبی ! کفا رکے خلاف جہاد کیجیے اور ان پر سختی کریں ان کا ٹھکانہ جہنم ہے۔ (التحریم : ٩) الإسراء
5 الإسراء
6 الإسراء
7 الإسراء
8 الإسراء
9 فہم القرآن ربط کلام : بنی اسرائیل کی ہدایت کے لیے تورات، انجیل اور زبور نازل کی گئیں۔ مگر انہوں نے ان کی رہنمائی میں زندگی گزارنے کی بجائے من مرضی سے کام لیا۔ جس کی بناء پر دنیا میں ذلیل و خوار ہوئے اور آخرت میں ان کا ٹھکانہ جہنم ہوگا۔ اگر یہ لوگ دنیا کی ذلت اور جہنم کے عذاب سے بچنا چاہتے ہیں تو ان کو قرآن مجید کی ہدایت کے مطابق زندگی گزارنا ہوگی۔ جو تابناک مستقبل کی ضمانت دیتا ہے۔ قرآن مجید کے بے شمار اوصاف اور ان گنت فوائد ہیں۔ جن میں سے یہاں دو اوصاف اور فوائد ذکر کیے گئے ہیں۔ قرآن مجید سیدھی راہ بتلانے اور خوشخبری سنانے والا ہے۔ یہاں ہدایت کے لیے ” اَقْوَمُ“ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ جس کا معنیٰ سیدھا، آسان اور قریب ترین راستہ ہے۔ جو لوگ قرآن مجید کے بتلائے ہوئے صالح اعمال اختیار کریں گے۔ ان کے لیے دنیا میں بے شمار فوائد اور آخرت میں اجر عظیم ہوگا۔ جن لوگوں نے آخرت کا انکار کیا۔ ان کے لیے اللہ تعالیٰ نے اذّیت ناک عذاب تیار کیا ہے۔ یہاں بات ہو رہی تھی قرآن مجید کی ہدایت پر عمل کرنے اور اس کے بدلے دنیا و آخرت کے فوائد کی مگر انکار کے لیے قرآن مجید کا نام لینے کی بجائے آخرت کی بات کی ہے۔ جس کا صاف معنی ہے۔ جو شخص قرآن مجید کی ہدایات کا انکار کرتا ہے۔ حقیقت میں وہ آخرت کا منکر ہے۔ ایسے مجرم کے لیے اللہ تعالیٰ نے اذّیت ناک عذاب تیار کر رکھا ہے۔ جہاں تک قرآن مجید کے اوصاف اور فوائد کا تعلق ہے۔ اس کی ایک جھلک ملاحظہ فرمائیں۔ تلاوت قرآن کا عظیم فائدہ : (یَقُوْلُ الرَّبُّ عَزَّوَجَلَّ مَنْ شَغَلَہُ الْقُرْاٰنُ وَذِکْرِیْ عَنْ مَسْأَلَتِیْ اَعْطَیْتُہٗ اَفْضَلَ مَآ اُعْطِیَ السَّآءِلِیْنَ) [ رواہ الترمذی : کتاب فضائل القرآن، باب ماجاء کیف کانت قراء ۃ النبی] ” اللہ رب العزت فرماتے ہیں جسے قرآن پاک کی تلاوت اور میرے ذکر نے مجھ سے مانگنے سے مشغول رکھا۔ میں اسے مانگنے والوں سے زیادہ عطا کروں گا۔“ ” یقیناً اللہ تعالیٰ اس کتاب کے ذریعے قوموں کو بلند فرماتا ہے اور اسی کے سبب لوگوں کو ذلیل کرتا ہے۔“ کتاب ہدایت کا تقاضا یہ ہے کہ اخلاص نیت کے ساتھ حتی المقدور اس کے ہر حکم اور ہدایت پر عمل کرنے کی کوشش کی جائے۔ اگر کوئی فرد یا قوم مسلمان ہونے کے باوجود جان بوجھ کر اس کے کچھ احکامات چھوڑدے اور صرف من پسند باتوں کو اختیار کرے تو اس سے نہ مسائل حل ہو پائیں گے اور نہ ہی مشکلات رفع ہوں گی بلکہ اس منافقت اور دوغلے پن کی وجہ سییہ لوگ دنیا میں ذلیل اور آخرت میں عذاب الٰہی میں مبتلا ہوں گے۔ یہاں قرآن مجید کے دس اوصاف بیان کیے جاتے ہیں۔ ١۔ قرآن مجید اللہ کا نازل کردہ ہے۔ ٢۔ احکام و مسائل میں جامع اور مفصل کتاب ہے۔ ٣۔ اس کی رہنمائی اور ہدایت میں کسی قسم کا نقصان اور شک کی گنجائش نہیں۔ ٤۔ قرآن اللہ تعالیٰ کی آخری کتاب ہے۔ ٥۔ قرآن مجید کے احکام عدل و انصاف پر مبنی ہیں۔ ٦۔ قرآن مجید کے ارشادات اور اس کی پیش گوئیاں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے برحق ہیں۔ ٧۔ قرآن مجید ہر اعتبار سے تغیر و تبدل سے پاک ہے اور قیامت تک اس کے محفوظ رہنے کی ضمانت دی گئی ہے۔ ٨۔ قرآن مجید میں نیکی اور بدی کا انجام کھول کر بیان کردیا گیا ہے۔ ٩۔ قرآن مجید منجانب اللہ ہے اور اس میں جو کچھ بیان ہوا ہے اس میں ایک حرف بھی غلط نہیں ہے۔ ١٠۔ قرآن مجید سراسر ہدایت اور رحمت کا سر چشمہ ہے۔ مسائل ١۔ قرآن مجید سیدھی راہ کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔ ٢۔ قرآن مجید ایمان والوں کو خوشخبری دیتا ہے۔ ٣۔ مومنوں کے لیے بہت بڑا صلہ ہے۔ ٤۔ جو لوگ آخرت کے دن پر ایمان نہیں لاتے ان کو دردناک عذاب ہوگا۔ تفسیر بالقرآن قرآن مجید کے اوصاف حمیدہ کی ایک جھلک : ١۔ یقیناً قرآن مجید حق کی طرف رہنمائی کرتا ہے اور مومنوں کے لیے خوشخبری ہے۔ (بنی اسرائیل : ٩) ٢۔ قرآن مجید مومنوں کے لیے شفاء اور رحمت ہے۔ (بنی اسرائیل : ٨٢) ٣۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں لوگوں کے لیے ہر قسم کی مثال بیان کردی ہے۔ (بنی اسرائیل : ٨٩) ٤۔ اس کتاب میں کسی قسم کے شک کی گنجائش نہیں ہے۔ (البقرۃ: ٢) ٥۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کو عربی زبان میں نازل کیا تاکہ تم نصیحت حاصل کرو۔ (الزخرف : ٣) الإسراء
10 الإسراء
11 فہم القرآن ربط کلام : انسان کے لیے قرآن مجید ہدایت اور خوشخبری ہے۔ مگر ہدایت کے لیے کچھ محنت کرنا پڑتی ہے۔ لیکن انسان اس محنت سے جی چراتے ہوئے دنیا کے عارضی فائدے کے لیے جلد بازی کا مظاہرہ کرتا ہے۔ انسان اپنی جلد باز طبیعت کی وجہ سے اکثر اوقات یہ نہیں سوچتا کہ دنیا کے جس فائدے کی خاطر آخرت کی دائمی خیر کو فراموش کر رہا ہوں۔ وہ اس کے لیے کس قدر نقصان کا سودا ہے کیونکہ انسان جلد باز ہے۔ اس لیے انسان خیر کے لیے محنت کرنے کی بجائے شر کی طرف جلد راغب ہوتا ہے۔ جس بنا پر اچھے نتیجے اور خیر کا انتظار کرنے کی بجائے وہ شر کا متلاشی بن جاتا ہے۔ یہاں تک کہ دنیا کی معمولی تکلیف سے پریشان ہو کراپنے لیے شر کی دعا کرنے سے بھی نہیں جھجکتا۔ اس کی لوگوں کی زندگی میں کئی مثالیں پائی جاتی ہیں۔ بیماری سے نجات کی بجائے موت کی دعا کرنا، اولاد کی خیر مانگنے کی بجائے ان کو بربادی کی بدعا دینا، مشکلات پر قابو پانے کی بجائے خود کشی کے گھاٹ اتر جانا وغیرہ۔ یہ حرکات انسان کی جلد بازی کا نتیجہ ہیں۔ حالانکہ انسان ذرا غور و فکر کرے تو اسے اس بات کا ادراک ہوجائے گا کہ اس کی زندگی جس لیل و نہار سے عبارت ہے۔ ان میں نشیب و فراز کا پایا جانا قدرتی اور فطری معاملہ ہے۔ اس لیے یہاں رات اور دن کو دو نشانیاں قرار دیتے ہوئے فرمایا ہے : ” ہم نے رات اور دن کو دو نشانیاں بنایا ہے۔ رات کو اندھیری اور دن کو روشن بنایا تاکہ تم اپنے رب کا فضل تلاش کرسکو۔ رات اور دن بنانے کا ایک مقصد یہ بھی ہے تاکہ تم دن رات کے ذریعے مہینوں اور سالوں کا حساب کرو۔ ہم نے ہر چیز کو تفصیل سے بیان کردیا ہے۔“ ہر چیز کی تفصیل کا حقیقی مطلب یہ ہے کہ جو چیزیں اور باتیں انسان کی ہدایت اور اس کی آخرت کے فوائد کے ساتھ تعلق رکھتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں تفصیل کے ساتھ بیان فرمادیا ہے۔ اگر کہیں ایک بات کو اشارہ کی زبان میں ذکر کیا ہے۔ تو وہ اشارہ بھی عقل مندوں کے لیے کھلی تفصیل کا عنوان ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے نکتہ سنج دا نشوروں اور کائنات پر غور کرنے والے سائنس دانوں نے قدرت کے بھید پانے کے لیے قرآن مجید کے دیے ہوئے اشاروں سے روشن شاہرائیں پائیں اور اپنی اپنی ایجادات سے ایک دنیا کو مستفید فرمایا۔ جہاں تک رات کی تاریکی اور دن کی روشنی کا معاملہ ہے اس میں ایک اشارہ یہ بھی ہے کہ اے انسان ! جس طرح رات کا تاریک ہونا لازم ہے۔ اس طرح پریشانیاں اور مشکلات تیری زندگی کا حصہ ہیں۔ یہاں دن کے فوائد میں سے ایک فائدہ یہ ذکر کیا کہ دن کو اس لیے روشن بنایا تاکہ تم دن کے اجالوں میں اپنے رب کا فضل تلاش کرو۔ فضل تلاش کرنے سے مراد رزق حلال کے لیے محنت کرنے کے ساتھ دنیا کی ترقی کے اسباب کا حصول ہے۔ جس میں یہ کھلا اشارہ پایا جاتا ہے کہ مشکلات میں پریشان ہونے اور کسی شر کے بارے میں جلد بازی کرنے کی بجائے انسان کو یہ عقیدہ رکھتے ہوئے مشکلات پر قابو پانے کی جدوجہد کرنی چاہیے کہ جس طرح رات کے بعد دن کا آنا یقینی ہے۔ اسی طرح مشکلات کے بعد آسانیوں کا حاصل ہونا یقینی ہے۔ قرآن مجید نے اس اصول کا ان الفاظ میں ذکر فرمایا ہے۔ تفسیر بالقرآن رات اور دن قدرت کی نشانیاں ہیں : ١۔ رات اور دن کو اللہ نے نشانیاں بنایا ہے۔ (بنی اسرائیل : ١٢) ٢۔ دن، رات، سورج اور چاند اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں۔ ( حٰم السجدۃ: ٣٧) ٣۔ آسمان اور زمین کی پیدائش، دن اور رات کے آنے جانے میں عقلمندوں کے لیے نشانیاں ہیں۔ (آل عمران : ١٩٠) ٤۔ بے شک دن اور رات کے مختلف ہونے میں اور جو کچھ اللہ نے زمین و آسمان میں پیدا کیا ہے، اس میں لوگوں کے لیے نشانیاں ہیں۔ (یونس : ٦) الإسراء
12 الإسراء
13 فہم القرآن ربط کلام : زندگی میں انسان جو کچھ کرتا اور کماتا ہے۔ وہمٹ نہیں جاتا بلکہ اس کی زندگی کا ایک ایک لمحہ اور اس میں چھوٹے سے چھوٹا کیا ہوا عمل اس کے نامہ اعمال میں درج ہو رہا ہوتا ہے۔ انسان کو برائی اور شر کے بارے میں جلد بازی سے روکنے کے لیے یہ بتلایا جا رہا ہے کہ اے انسان جو کچھ تو رات کی تاریکیوں اور دن کے اجالوں میں کرتا ہے۔ وہ رائیگاں نہیں جاتا بلکہ ہم اس کو ہر انسان کے گلے میں لٹکائے دیتے ہیں۔ قیامت کے دن اسے ہم ایک کتاب یعنی اعمال نامہ کی شکل میں تیرے سامنے لا کر تجھے اسے پڑھنے کا حکم دیں گے۔ جسے تو اپنے سامنے بالکل عیاں پائے گا۔ تجھے حکم ہوگا اس اعمال نامے کو پڑھ لے جو تجھے اپنا حساب جاننے کے لیے کافی ہے۔ اس کتاب اور اعمال نامے کے بارے میں ارشاد فرمایا ہے کہ ہم نے اس کو ہر انسان کے گلے میں لٹکا رکھا ہے۔ کسی چیز کو گلے میں لٹکانا ایک محاورہ بھی ہے۔ جس کا معنی ہے کہ ایسی چیز جس سے انسان کسی صورت میں بھی چھٹکارا نہ پا سکے۔ ممکن ہے کہ عملاً اور حقیقتاً بھی ایسا ہو کہ اللہ تعالیٰ نے کراماً کاتبین کی دستاویزات کے ساتھ اس بات کا بھی التزام رکھا ہو کہ انسان کی گردن کے پاس جسم کا ایسا حصہ ہو جہاں انسان کے اچھے برے اعمال خود بخود مرتب ہوئے جا رہے ہوں۔ ممکن ہے وہ دل ہو جس کے بارے میں حدیث شریف میں موجود ہے کہ انسان کے گناہوں کا اثر اس کے دل پر ہوتا ہے۔ (واللہ اعلم) جہاں تک اعمال نامہ کا تعلق ہے۔ سورۃ الکہف آیت ٤٩ میں ارشاد ہوا کہ جب اعمال نامہ انسان کے سامنے رکھا جائے گا تو آپ مجرموں کو دیکھیں گے کہ وہ اس کے مندرجات سے ڈرتے ہوئے کہیں گے کہ ہائے بد بختی کہ اس کتاب نے کوئی چھوٹی بڑی بات نہیں چھوڑی۔ اس میں میری ہر بات لکھی ہوئی ہے۔ مجرم جو کام کرتے رہے وہ سب کے سب سامنے پائیں گے۔ آپ کا رب ذرہ برابر کسی پر زیادتی نہیں کرے گا۔ اعمال ناموں کے ساتھ خارجی شہادتیں بھی پیش کی جائیں گی۔ تاہم یہ اعمال نامہ اس قدر واضح اور حقیقت پر مبنی ہوگا کہ بالآخر مجرم اس کا اعتراف کیے بغیر نہیں رہ سکے گا۔ ہر مجرم کو اس کے اعمال نامہ کے مطابق ہی سزادی جائے گی۔ جس میں کسی درجے کا ظلم نہیں پایا جائے گا۔ کرامًا کاتبین کا ہرو قت ساتھ رہنا : (عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ (رض) ...إنَّ اللّٰہَ یَنْہَاکُمْ عَنِ التَّعَرّٰی فَاسْتَحْیُوْا مِنْ مَآاءِکَۃِ اللّٰہِ الَّذِیْنَ لاَ یُفَارِقُوْنَکُمْ إلَّا عِنْدَ ثَلَاثٍ حَالَاتٍ اَلْغَاءِطِ وَ الْجَنِابَۃِ وَ الْغُسْلِ فَإذَا اغْتَسَلَ أحَدُکُمْ بالْعُرَاءِ فَلْیَسْتَتِرْ بِثَوْبِہِ أوْ بِجَذْمَۃِ حَاءِطٍ أوْ بِبَعِیْرِہِ )[ رواہ البزار] ” حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں بے شک اللہ نے تمہیں ننگا ہونے سے منع کیا ہے۔ پس تم اللہ کے فرشتوں سے حیاکر و۔ فرشتے صرف تم سے تین حالتوں میں ہی جدا ہوتے ہیں۔ قضائے حاجت کے وقت، جنابت اور غسل کے وقت، جب تم میں سے کوئی چٹیل میدان میں غسل کرے تو اسے چاہیے کہ وہ خود کو کسی کپڑے سے یا کٹے ہوئے درخت کے تنے کے پیچھے ڈھانپے یا پھر اپنے اونٹ کے ساتھ پردہ کرلے۔“ مسائل ١۔ قیامت کے دن ہر کسی کا نامہ اعمال اس کے سامنے کھول کر رکھ دیا جائے گا۔ ٢۔ انسان کا نامہ اعمال اس کے حساب و کتاب کے لیے کافی ہوگا۔ تفسیر بالقرآن قیامت کے دن ہر انسان کو نامہ اعمال کا ملنا : ١۔ قیامت کے دن ہر کسی کا نامہ اعمال کھول کر اس کے سامنے رکھ دیا جائے گا۔ (بنی اسرائیل : ١٣) ٢۔ جب اعمال نامہ رکھا جائے گا، تو مجرم لوگ اس میں سب کچھ لکھا ہوا دیکھیں گے۔ (الکہف : ٤٩) ٣۔ جس کو نامہ اعمال اس کے دائیں ہاتھ میں دیا گیا، وہ اس کو پڑھے گا۔ (بنی اسرائیل : ٧١) ٤۔ جس کو نامہ اعمال دائیں ہاتھ میں دیا گیا، وہ کہے گا آؤ میرا نامہ اعمال پڑھو۔ (الحاقہ : ١٩) ٥۔ جس کو اعمال نامہ بائیں ہاتھ میں دیا جائے گا وہ کہے گا کاش کہ مجھے یہ نامہ اعمال نہ دیا جاتا۔ (الحاقہ : ٢٠) ٦۔ جس کو اعمال نامہ دائیں ہاتھ میں دیا گیا اس کا حساب آسان ہوگا۔ (الانشقاق : ٨۔ ٧) ٧۔ جس کا اعمال نامہ پیٹھ کے پیچھے سے دیا گیا وہ موت کو پکارے گا اور دوزخ میں داخل کیا جائے گا۔ (الانشقاق : ١٠ تا ١٢) الإسراء
14 الإسراء
15 فہم القرآن ربط کلام : انسان کو اس کے اعمال نامہ کی بنیاد پر اس کا احتساب یاد دلانے کے بعد اس میں احساس ذمہ داری پیدا کیا جارہا ہے۔ کہ جو ہدایت اختیار کرے گا اس کا فائدہ اسی کو ہوگا اور جوگمراہی اختیار کرے گا اس کا نقصان اسی کو ہوگا۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو عقل و شعور کی وافر صلاحیتیں دینے کے باوجود اس بات کا اہتمام فرمایا کہ اس میں احساس ذمہ داری پیدا کرنے اور اسے خود فراموشی سے نکالنے کے لیے ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کرام (علیہ السلام) مبعوث فرمائے۔ تاکہ انسان کو احساس ذمہ داری سے ہمکنار کرنے کی کوشش کریں۔ انبیاء (علیہ السلام) کی جدوجہد کا مقصد یہ تھا کہ انسان اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ رہنمائی کے مطابق زندگی بسر کرے۔ اس کے لیے انہوں نے لوگوں کو یہ باور کروایا۔ کہ اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ ہدایت پر چلنے سے دنیا اور آخرت میں انسان ہی کو فائدہ پہنچے گا۔ لہٰذا جس نے ہدایت کا راستہ اختیار کیا اس کے ثمرات اسے ہی حاصل ہوں گے اور جس نے گمراہی کو اختیار کیا۔ اس گمراہی کا اسے ہی نقصان پہنچے گا اور قیامت کے دن کوئی کسی کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔ اللہ تعالیٰ کسی قوم کو اس وقت تک عذاب نہیں دیتا جب تک ان تک اس کا پیغام دینے والا نہ پہنچ جائے۔ قرآن مجید نے یہ حقیقت بارہا دفعہ واضح کی ہے کہ انسان اپنے اعمال کا خود ذمہ دار ہے۔ اس کا حسب ونسب، جاہ و منصب اور مال و دولت قیامت کے دن اسے کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتے۔ یہ ایسا اصول ہے جسے سمجھنے اور اپنائے بغیر فرد اور معاشرے کی اصلاح ممکن نہیں ہو سکتی۔ جس فرد یا معاشرے میں اس اصول کا احساس ناپید ہوجائے اور مجرم اپنے اثر و رسوخ، جاہ و منصب اور وسائل و اسباب کی بنیاد پر چھوٹ جائے۔ اس معاشرے میں انارگی کی کوئی حد باقی نہیں رہتی۔ ملک و ملت کو انارگی سے بچانے کے لیے اس اصول اور اس کی پاسداری کا احساس پیدا کرنا انتہائی ضروری ہے۔ قرآن مجید اس بات کا بار بار احساس دلاتا ہے کہ دنیا میں مجرم کسی بہانے سے سزا سے بچ سکتا ہے۔ لیکن آخرت میں اسے کوئی بچانے اور چھڑانے والا نہیں ہوگا۔ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اپنے رشتہ داروں سے خطاب : (عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ قَالَ لَمَّا نَزَلَتْ وَاَنْذِرْ عَشِیْرَتَکَ الْاَقْرَبِیْنَ دَعَا النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قُرَیْشًا فَاحْبَتَمَعُوْا فَعَمَّ وَخَصَّ فَقَالَ یَا بَنِیْ کَعْبِ ابْنِ لُؤَیٍّ اَنْقِذُوْا اَنْفُسَکُمْ مِّنَ النَّارِ‘ یَا بَنِیْ مُرَّۃََ ابْنِ کَعْبٍ اَنْقِذُوْا اَنْفُسَکُمْ مِّنَ النَّارِیَا بَنِیْ عَبْدِ شَمْسٍ اَنْقِذُوْا اَنْفُسَکُم مِّنَ النَّارِ‘ یَا بَنِیْ عَبْدِ مَنَافٍ اَنْقِذُوْا اَنْفُسَکُمْ مِّنَ النَّارِ‘ یَا بَنِیْ ہَاشِمٍ اَنْقِذُوْا اَنْفُسَکُمْ مِّنَ النَّارِ یَا بَنِیْ عَبْدِالْمُطَّلَبِ اَنْقِذُوْا اَنْفُسَکُمْ مِنَ النَّارِ یَا فَاطِمَۃُ اَنْقِذِیْ نَفْسَکِ مِنَ النَّارِ فَاِنِّیْ لَا اَمْلِکُ لَکُمْ مِنَ اللّٰہِ شَیْءًا غَیْرَاَنَّ لَکُمْ رَحِمًا سَاَبُلُّہَا بِبِلالِھَا (رَوَاہٗ مُسْلِمٌ وَ فِی الْمُتَّفَقِ عَلَیْہِ) ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی ” اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈراؤ“ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قریش کو دعوت دی وہ جمع ہوگئے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے خاص و عام سبھی کو دعوت دی‘ آپ نے فرمایا، اے بنو کعب بن لُوْی ! اپنے آپ کو جہنم کی آگ سے بچاؤ اے بنو مرہ بن کعب! تم اپنے آپ کو جہنم سے بچاؤ۔ اے بنو عبد شمس! تم خود کو دوزخ سے بچاؤ۔ (اے بنی عبد مناف‘ بنی ہاشم‘ بنی عبدالمطلب) تم اپنے آپ کو دوزخ سے بچاؤ۔ اے فاطمہ ! تو اپنے آپ کو جہنم کی آگ سے بچا۔ میں تمہارے لیے اللہ کے ہاں کسی چیز کا مالک نہیں ہوگا۔ بیشک تیرت ساتھ رشتہ ہے۔ اس رشتہ داری کا خیال رہے گا (مسلم) مسائل ١۔ ہدایت کے فوائد ہدایت یافتہ کو ہی حاصل ہوں گے۔ ٢۔ گمراہی کا وبال گمراہ انسان پر ہوگا۔ ٣۔ کوئی کسی کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ اپنا پیغام پہچانے سے پہلے کسی قوم کو عذاب نہیں دیتا۔ تفسیر بالقرآن کوئی کسی کی ذمّہ داری اور بوجھ نہیں اٹھائے گا : ١۔ کوئی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔ (بنی اسرائیل : ١٠۔ الفاطر : ١٨) ٢۔ اگر تم شکر کرو گے تو اللہ تم سے راضی ہوگا۔ کوئی شخص کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔ (الزمر : ٧) ٣۔ جو بھی انسان کرتا ہے اس کابوجھ اسی پہ ہے۔ کوئی کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔ (الانعام : ١٦٤) ٤۔ خبر دار کوئی شخص کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔ (النجم : ٣٨) الإسراء
16 فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ کسی قوم کو اس وقت تک تباہ نہیں کرتا جب تک ان تک ہدایت کا پیغام نہ پہنچ جائے مگر ہدایت کے راستہ میں معاشرے کے بڑے لوگ اپنی چوہدراہٹ اور مفاد کی خاطر رکاوٹ ڈالتے ہیں۔ یہی لوگ ملک وملت کے بگاڑ اور تباہی کا سبب بنتے ہیں۔ قرآن مجید نے اقوام عالم کی تباہی کے اسباب کا ذکر کرتے ہوئے یہ حقیقت روز روشن کی طرح واضح کی ہے کہ تباہ ہونے والی اقوام میں اکثر قومیں مال و وسائل کے حوالے سے انتہائی ترقی یافتہ تھیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے جب ان کو عذاب میں گرفتار کیا تو دنیا کے وسائل و اسباب، اقتدار اور اختیار ان کے کچھ کام نہ آئے۔ اللہ کے عذاب نے انہیں اس طرح نیست و نابود کردیا کہ وہ دھرتی اور تاریخ کے اوراق میں نشان عبرت بن کر رہ گئے۔ ان قوموں کی تباہی میں جن لوگوں نے سب سے زیادہ مجرمانہ کردار ادا کیا وہ ان کا مال دار طبقہ تھا۔ جن کے بارے میں ارشاد فرمایا ہے کہ جب ہم کسی بستی کو تباہی کے گھاٹ اتارتے ہیں تو اس کے مالدار طبقے کو کھلی چھٹی (Free Hand) دے دیتے ہیں۔ جس کے نتیجہ میں ان کی پالیسیوں اور کردار سے فسق و فجور پیدا ہوتا ہے۔ تب ہمارا حکم نازل ہوتا ہے۔ جس کے سبب ان کو تباہ و برباد کردیا جاتا ہے۔ برباد ہونے والوں میں قوم نوح اور ان کے بعد آنے والی بے شمار اقوام ہیں۔ جنہیں تباہی کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ لوگوں کو اس بات کا احساس ہونا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے گناہوں کو اچھی طرح دیکھنے اور پوری طرح جاننے والا ہے۔ (عَنْ اَبِیْ سَعِیْدِنِ الْخُدْرِیِّ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اَ لدُّنْیَا حُلْوَۃٌ خَضِرَۃٌ وَاِنَّ اللّٰہَ مُسْتَخْلِفُکُمْ فِیْھَا فَیَنْظُرُ کَیْفَ تَعْمَلُوْنَ فَاتَّقُوا الدُّنْیَا وَا تَّقُوالنِّسَاءَ فَاِنَّ اَوَّلَ فِتْنَۃِ بَنِیْ اِسْرَاءِیْلَ کَانَتْ فِی النِّسَاءِ)[ رواہ مسلم : باب اکثر اہل الجنۃ الفقراء] ” حضرت ابوسعید خدری (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا بلاشبہ دنیا ہری بھری اور پر لطف ہے اور اللہ نے تمہیں زمین میں خلیفہ بنایا ہے وہ دیکھ رہا ہے تم کیا عمل کررہے ہو۔ تم دنیا اور عورت کے فتنے سے بچے رہنا کیونکہ بنی اسرائیل میں سب سے پہلا فتنہ عورتوں کی وجہ سے رونما ہوا تھا۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ کا عذاب لوگوں کے برے اعمال کی وجہ سے آتا ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ کا عذاب اتمام حجت کے بعد آتا ہے۔ ٣۔ جس بستی پر اللہ تعالیٰ کا عذاب آئے وہ تباہ و برباد ہوجاتی ہے۔ ٤۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کے بعد بہت سی بستیوں والے ہلاک کردیے گئے۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ انسانوں کے اعمال کی خبر رکھنے والا اور دیکھنے والا ہے۔ تفسیر بالقرآن تباہ و برباد ہونے والی اقوام کی مالی اور سیاسی حالت : ١۔ جب ہم کسی بستی کو ہلاک کرنا چاہتے ہیں تو خوشحال لوگوں کو ڈھیل دیتے ہیں تو وہ نافرمانی پر اتر آتے ہیں۔ (بنی اسرائیل : ١٧) ٢۔ ہم نے ان سے پہلے کئی بستیوں کو ہلاک کیا جو ٹھاٹھ باٹھ میں بہت اچھے تھے۔ (مریم : ٧٤) ٣۔ ہم نے ان سے پہلے کئی امتیں ہلاک کر ڈالیں، جو قوت میں مکہ والوں سے بڑھ کر تھیں۔ (ق : ٣٦) ٤۔ کیا وہ نہیں جانتے کہ اللہ نے ان سے پہلے بستیوں والوں کو ہلاک کیا جو طاقت، قوت اور مال کے لحاظ سے مکہ والوں سے بڑھ کرتھے۔ (القصص : ٧٨) ٥۔ بستیوں والوں کے ظلم کی وجہ سے اللہ نے انہیں ہلاک کردیا۔ (یونس : ١٣) الإسراء
17 الإسراء
18 فہم القرآن ربط کلام : اقوام کی تباہی میں بنیادی عنصر ان کی جلد بازی ہوا کرتا ہے۔ جس کی بناء پر وہ اصول کے مقابلے میں وقتی مفاد، صالح کردار کے مقابلہ میں دنیا کی لذّات، سہولیات اور آخرت کے بدلے دنیا کو ترجیح دیتے ہیں۔ جس بناء پر دنیا میں ذلت کے گھاٹ اتار دیے جاتے ہیں۔ یہاں دنیا دار کو جلد باز قرار دینے کے بعد اس کا انجام ذکر کیا جا رہا ہے۔ چنانچہ ارشاد ہوتا ہے کہ جو شخص دنیا کے لیے جلد بازی کرتا ہے۔ ہم جس قدر چاہتے ہیں اسے دنیا دے دیتے ہیں۔ لیکن اس کے لیے ہم نے جہنم تیار کی ہے۔ جس میں اسے ذلّت و پھٹکار کے ساتھ داخل کیا جائے گا۔ اس کے مقابلے میں جس شخص نے آخرت کو پسند کیا اور اس کے لیے کوشش کی اس حال میں کہ وہ اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان رکھنے والاہو۔ ایسے لوگوں کی کوشش کی قدر کی جائے گی۔ اللہ تعالیٰ دونوں قسم کے لوگوں کو مہلت دیتا ہے یہ اللہ تعالیٰ کی کرم نوازی ہے کہ وہ ہر کسی کو مہلت دیے ہوئے ہے۔ اس مہلت سے جو لوگ صحیح فائدہ اٹھائیں گے۔ اللہ تعالیٰ انہیں اپنی کرم نوازی سے مزید عنایت فرمائیں گے۔ اے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! غور فرمائیں کہ ہم کس طرح لوگوں کو ایک دوسرے پر فضیلت دیتے ہیں۔ جو لوگ دنیا کے حصول کے ساتھ آخرت کے لیے محنت کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں دنیا میں ترقی عنایت فرمانے کے ساتھ آخرت میں برتری اور بڑی فضیلت سے سرفراز فرمائے گا۔ یہاں دنیا کی جستجو کرنے والے کے لیے ” عجلت“ کا لفظ استعمال کیا ہے۔ جس کا معنی یہ ہے کہ دنیا دار آخرت کے اجر پر صبر کرنے کی بجائے دنیا کے مفاد کو مقدم سمجھتا ہے۔ جس وجہ سے وہ حق اور سچ پر قائم رہنے کی بجائے دنیا کے فائدے کو ترجیح دیتا ہے اور اس کے لیے جلدی کرتا ہے۔ حالانکہ انسان حق کو ترجیح دے تو دنیا کے فائدے کے ساتھ آخرت میں اجر کا بھی حق دار بن جائے لیکن دنیا پرست جلد بازی کا مظاہرہ کرتا ہے۔ اس لیے قرآن حکیم نے آخرت کے مقابلے میں دنیا کے لیے عاجلہ کا لفظ استعمال کیا۔ سورۃ القیامۃ آیت ٢٠ تا ٢١ میں فرمایا ہے کہ بے شک کوئی شخص دنیا کے لیے کتنی جلدی کرلے۔ دنیا میں اسے وہی کچھ حاصل ہوگا جو اللہ چاہے گا۔ آخرت کے لیے ” سعی“ کا لفظ استعمال فرمایا جس میں یہ کھلا اشارہ ہے کہ مومن کو دنیا کے مقابلے میں آخرت کو ترجیح دینی اور اس کے لیے کوشش کرنی چاہیے۔ آخرت کا صلہ کوشش کے بغیر نہیں ملے گا۔ (عَنْ اَبِیْ ھُرَےْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَنْ تَصَدَّقَ بِعَدْلِ تَمْرَۃٍ مِنْ کَسْبٍ طَےِّبٍ وَّلَا ےَقْبَلُ اللّٰہُ اِلَّا الطَّےِّبَ فَاِنَّ اللّٰہَ ےَتَقَبَّلُھَا بِےَمِےْنِہٖ ثُمَّ ےُرَبِّےْھَا لِصَاحِبِھَا کَمَا ےُرَبِّیْ اَحَدُکُمْ فَلُوَّہُ حَتّٰی تَکُوْنَ مِثْلَ الْجَبَلِ)[ رواہ البخاری : کتاب الزکاۃ باب الصدقۃ من کسب طیب] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس شخص نے حلال کمائی سے ایک کھجور کے برابر صدقہ کیا۔ بلاشبہ اللہ تعالیٰ صرف حلال چیزوں سے صدقہ قبول فرماتا ہے تو اللہ اسے اپنے دائیں ہاتھ میں لیتے ہوئے شرف قبولیت بخشتے ہیں۔ پھر اس کو اس طرح بڑھاتے ہیں جیسا کہ تم اپنے بچھڑے کی پرورش کرکے اسے بڑا کرتے ہو۔ یہاں تک کہ ایک کھجور کا ثواب پہاڑ کے برابر ہوجاتا ہے۔“ مسائل ١۔ جو دنیا کی چاہت رکھتا ہے اسے اس قدر دنیا ملتی ہے جتنی اللہ چاہتا ہے۔ ٢۔ آخرت کے مقابلہ میں دنیا کو ترجیح دینے والے کو عذاب کا سامنا کرنا ہوگا۔ ٣۔ آخرت کے لیے کوشش کرنے والے کی کوشش کو قدر کی نگاہ سے دیکھاجائے گا۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ کی عطا ختم ہونے والی نہیں۔ الإسراء
19 الإسراء
20 الإسراء
21 فہم القرآن ربط کلام : اللہ کے ہاں سب سے زیادہ مرتبے والے انبیاء ہیں اور وہی اللہ تعالیٰ کی عطاؤں کے سب سے بڑھ کر حق دار ہیں۔ جنہیں دنیا میں بھی عظمت وفضیلت سے نوازا گیا۔ یہی اصول درجہ بدرجہ عام لوگوں میں کارفرما ہے۔ تمام انبیاء ( علیہ السلام) خاندان نبوت کے افراد اور گلدستۂ رسالت کے پھول ہیں۔ انبیاء (علیہ السلام) کے درمیان مراتب کا تفاوت سمجھنے کے لیے طلبہ کی ایک کلاس کو سامنے رکھیں۔ استاد کی نظر میں تمام طلبہ عزیز ہوتے ہیں اور ہونے چاہییں۔ اس کی خواہش ہوتی ہے کہ ہر طالب علم ایک دوسرے پر سبقت لے جائے۔ اس کے باوجود پوری کلاس میں مجموعی طور پر ایک ہی طالب علم قابلیت اور لیاقت کے اعتبار سے سب سے آگے ہوتا ہے۔ جب کہ جزوی لیاقت اور صلاحیت کے لحاظ سے کئی طلبہ کو ایک دوسرے پر برتری حاصل ہوتی ہے۔ ہوسکتا ہے مجموعی طور پر سرفہرست آنے والے طالب علم سے دوسرا طالب علم سائنس کے مضمون میں اس سے زیادہ نمبر حاصل کرتا ہو۔ اور یہی کیفیت دوسرے طالب علم کی کسی دوسرے مضمون میں ہو سکتی ہے۔ لیکن مجموعی طور پر تو ایک فسٹ پوزیشن حاصل کرے گا۔ انبیاء کو ایک دوسرے پر فضیلت و عظمت دینے کا یہی مفہوم ہوسکتا ہے کہ حالات اور اقوام کے مزاج کے پیش نظر ایک نبی کو ایسے معجزات دیے گئے جو اس کے بعد آنے والے نبی کے دور اور مزاج کے لیے ضروری نہیں تھے۔ مثال کے طور پر موسیٰ (علیہ السلام) کے دور میں جادو کا علم اپنی انتہا کو پہنچا ہوا تھا۔ اس لیے موسیٰ (علیہ السلام) کو ایسے معجزات عطا ہوئے کہ دنیا کے قابل ترین جادوگر شکست ماننے پر مجبور ہوئے۔ ان کے بعد ہر دور کے مطابق انبیاء معجزات کے ساتھ مبعوث کیے گئے یہاں تک کہ عیسیٰ (علیہ السلام) کو ایسے معجزات عطا ہوئے کہ ان کے سامنے ارسطو اور افلاطون کی میڈیکل سائنس ماند پڑگئی۔ (عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَثَلِیْ وَمَثَلُ الْاَنْبِیَاءِ کَمَثَلِ قَصْرٍ اُحْسِنَ بُنْیَانُہٗ تُرِکَ مِنْہُ مَوْضِعُ لَبِنَۃٍ فَطَافَ بِہِ النُّظَارُیَتَعَجَّبُوْنَ مِنْ حُسْنِ بُنْیَانِہٖ اِلَّا مَوْضِعَ تِلْکَ اللَّبِنَۃِ فَکُنْتُ اَنَا سَدَدْتُّ مَوْضِعَ اللَّبِنَۃِ خُتِمَ بِیَ الْبُنْیَانُ وَخُتِمَ بِیَ الرُّسُلُ وَفِیْ رِوَایَۃٍ فَاَنَا اللَّبِنَۃُ وَاَنَا خَاتَمُ النَّبِیِّیْنَ ) [ رواہ البخاری : باب خاتم النبین] ” حضرت ابوہریرہ (رض) کا بیان ہے رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا‘ میری مثال اور دوسرے نبیوں کی مثال نہایت ہی اعلیٰ تعمیر شدہ محل کی سی ہے‘ جس میں ایک اینٹ کی جگہ چھوڑ دی گئی تھی۔ دیکھنے والے اس کے اردگرد گھومتے اور اس کے حسن کو دیکھ کر عش عش کر اٹھے۔ البتہ اس میں ایک اینٹ کی جگہ خالی تھی۔ چنانچہ میں نے اس اینٹ کے خلا کو پر کردیا۔ مجھ پر اس عمارت کی تکمیل ہوئی۔ رسولوں کا سلسلہ مجھ ہی پر ختم ہوا۔ دوسری روایت میں ہے‘ میں ہی وہ اینٹ ہوں اور میں ہی خاتم النبیّن ہوں۔“ (عَنْ ابِیْ ھُرَیْرَۃ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اَناَ اَوْلَی النَّاس بعیْسٰی ابْنِِِ مَرْیَمَ فِیْ الْاُوْلٰی وَالْاٰخِرَۃِ الْاَنْبِیَاءُ اِخْوَۃٌ مِّنْ عَلَّاتٍ وَّاُمَّھَاتُھُمْ شَتّٰی وَدِیْنُھُمْ وَاحِدٌ وَّلَیْسَ بَیْنَنَانَبِیٌّ) [ رواہ البخاری : باب (وَاذْکُرْ فِی الْکِتَابِ مَرْیَمَ إِذِ انْتَبَذَتْ مِنْ أَہْلِہَا )] ” حضرت ابوہریرہ (رض) ہی بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میں دنیا اور آخرت میں عیسیٰ بن مریم کے زیادہ قریب ہوں۔ سب انبیاء سوتیلے بھائی ہیں البتہ ان کی مائیں مختلف ہیں ان کا دین ایک ہے نیز ہم دونوں کے درمیان کوئی پیغمبر نہیں۔“ عام انسانوں میں مراتب کا فرق : یہی اصول باقی انسانوں میں جاری ہے ایک باپ کی اولاد میں ظاہری اور جوہری لحاظ سے زمین و آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ ایک بادشاہ ہے اور دوسرا گداگر، ایک نہایت خوبصورت ہے اور دوسرا مناسب صورت، ایک صاحب کردار ہے اور دوسرا بدکردار۔ علیٰ ھذا القیاس۔ (اَ لْرِ جَالُ قَوَّا مُوْنَ عَلَی النِّسَاءِ)[ النساء : ٣٤]” مرد عورتوں پر حاکم ہیں“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ بعض کو بعض پر فضیلت عطا فرماتا ہے۔ ٢۔ آخرت نعمتوں اور فضیلت کے اعتبار سے بہت اعلیٰ ہے۔ تفسیر بالقرآن انبیاء ( علیہ السلام) کے مراتب : ١۔ حضرت آدم کو اللہ نے خلیفہ بنایا۔ (البقرۃ: ٣٠) ٢۔ حضرت ادریس کو اللہ نے مقا مِ علیا سے سرفراز کیا۔ (مریم : ٥٧) ٣۔ حضرت ابراہیم کو اللہ نے اپنا خلیل بنایا۔ (النساء : ١٢٥) ٤۔ حضرت یعقوب کو اللہ نے صبر جمیل عطا فرمایا۔ (یوسف : ٨٣) ٥۔ حضرت یوسف کو اللہ نے حکمرانی اور پاک دامنی عطا فرمائی۔ (یوسف) ٦۔ حضرت داؤد کو اللہ نے قوت فیصلہ عطا فرمائی۔ (ص : ٢٠) ٧۔ حضرت سلیمان کو اللہ نے سب سے بڑا حکمران بنایا۔ (ص : ٣٥) ٨۔ حضرت موسیٰ کو اللہ نے ہم کلامی کا شرف بخشا۔ (طٰہٰ: ١٢۔ ١٣۔ ١٤) ٩۔ حضرت عیسیٰ کو اپنا کلمہ قرار دیا۔ (النساء : ١٧١) ١٠۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو رحمۃ للعالمین وخاتم النبیّین بنایا۔ (الاحزاب : ١٠٧) الإسراء
22 فہم القرآن ربط کلام : اس خطاب کا آغاز اس سورت کی آیت ٢ سے ہوا۔ جس میں بنی اسرائیل کے حوالے سے تمام انسانوں کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو حاجت روا اور مشکل کشا نہ سمجھیں۔ خطاب کا اختتام بھی اسی بات پر ہو رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو حاجت روا اور مشکل کشا اور عبادت کے لائق نہیں سمجھنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ کا حقیقی نام ” اللہ“ ہے۔ اس نام کا متبادل ” اِلٰہ“ ہے۔ جو متبادل نام ہونے کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا اسم صفت بھی ہے۔ یہ نام اللہ تعالیٰ کی اکثر صفات کی ترجمانی کرتا ہے۔ ہر دور کا مشرک اللہ تعالیٰ کو خالق، رازق اور مالک تسلیم کرتا ہے۔ مگر اللہ تعالیٰ کو بلا شرکت غیرے اِلٰہ ماننے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ اِلٰہ کا معنی ہے ایسی ذات جس کے ساتھ غایت درجے کی محبت کا اظہار کرتے ہوئے اس کی انتہائی عاجزی کے ساتھ عبادت کی جائے اور اس کی عبادت میں کسی اعتبار سے بھی کسی دوسرے کو شریک نہ سمجھا اور نہ بنایا جائے۔ دعا بھی عبادت کی ایک شکل ہے۔ جس میں کسی قسم کا واسطہ، حرمت، طفیل کے الفاظ نہیں بولنے چاہییں۔ سورۃ النمل آیت ٦٢ میں ارشاد ہوا ہے کہ بھلا کون ہے ؟ جو مجبور کی دعا قبول کرتے ہوئے اس کی تکلیف دور کرتا ہے اور کون ہے ؟ جو تمہیں زمین پر ایک دوسرے کا جانشین بناتا ہے۔ کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور الٰہ ہے ؟ اس حقیقت کے باوجود بہت کم لوگ اس بات پر غور و خوض کرتے ہیں۔ یہاں ” الٰہ“ کا لفظ حاجت روا اور مشکل کشا کے طور پر لایا گیا ہے۔ سورۃ النمل کی آیت ٦٠ سے لے کر ٦٣ تک اِلٰہ کے مختلف معانی بیان کیے گئے ہیں۔ البقرۃ آیت ١٦٣ میں دو ٹوک انداز میں ارشاد فرمایا ہے کہ : ” تمہارا ” اِلٰہ“ ایک ہی ” اِلٰہ“ ہے اس کے سوا تمہارا کوئی ” اِلٰہ“ نہیں وہ نہایت مہربان، رحم کرنے والا ہے۔ اس بناء پر یہاں ارشاد ہوا کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی اور کو ” اِلٰہ“ نہ بنانا۔ ورنہ تم برے حال اور بےیارو مددگار ہو کر بیٹھے رہ جاؤ گے۔ (عَنْ مُعَاذٍ (رض) قَالَ کُنْتُ رِدْفَ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عَلَی حِمَارٍ یُقَالُ لَہُ عُفَیْرٌ، فَقَالَ یَا مُعَاذُ، ہَلْ تَدْرِی حَقَّ اللّٰہِ عَلَی عِبَادِہِ وَمَا حَقُّ الْعِبَادِ عَلَی اللّٰہِ قُلْتُ اللّٰہُ وَرَسُولُہُ أَعْلَمُ قَالَ فَإِنَّ حَقَّ اللّٰہِ عَلَی الْعِبَادِ أَنْ یَعْبُدُوہُ وَلاَ یُشْرِکُوا بِہِ شَیْءًا، وَحَقَّ الْعِبَادِ عَلَی اللّٰہِ أَنْ لاَ یُعَذِّبَ مَنْ لاَ یُشْرِکُ بِہِ شَیْءًا فَقُلْتُ یَا رَسُول اللّٰہِ، أَفَلاَ أُبَشِّرُ بِہِ النَّاسَ قَالَ لاَ تُبَشِّرْہُمْ فَیَتَّکِلُوا) [ رواہ البخاری : باب اسْمِ الْفَرَسِ وَالْحِمَارِ] ” حضرت معاذ (رض) فرماتے ہیں میں رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پیچھے گدھے پر سوار تھا۔ میرے اور آپ کے درمیان صرف پلان کی آخری لکڑی تھی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا اے معاذ ! تجھے معلوم ہے کہ اللہ تعالیٰ کا اپنے بندے پر کیا حق ہے اور بندوں کے اللہ تعالیٰ پر کیا حقوق ہیں؟ میں نے عرض کیا اللہ اور اس کا رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بہتر جانتے ہیں۔ ارشاد ہوا بندوں پر اللہ کا حق یہ ہے کہ وہ اس کی عبادت کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں اور اللہ تعالیٰ پر بندوں کا حق یہ ہے جب تک وہ شرک نہیں کرتے وہ انہیں عذاب سے دوچار نہکرے۔ میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ خوشی کی بات میں لوگوں تک نہ پہنچاؤں؟ فرمایا کہ نہیں اس طرح وہ محنت کرنا چھوڑ دیں گے۔“ (عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ یَقُول اللَّہُ تَبَارَکَ وَتَعَالَی أَہْوَنِ أَہْلِ النَّارِ عَذَابًا لَوْ کَانَتْ لَکَ الدُّنْیَا وَمَا فیہَا أَکُنْتَ مُفْتَدِیًا بِہَا فَیَقُولُ نَعَمْ فَیَقُولُ قَدْ أَرَدْتُ مِنْکَ أَہْوَنَ مِنْ ہَذَا وَأَنْتَ فِی صُلْبِ اٰدَمَ أَنْ لاَ تُشْرِکَ أَحْسَبُہُ قَالَ وَلاَ أُدْخِلَکَ النَّارَ فَأَبَیْتَ إِلاَّ الشِّرْکَ) [ رواہ مسلم : کتاب صفۃ القیامۃ والجنۃ النار، باب طَلَبِ الْکَافِرِ الْفِدَاءَ بِمِلْءِ الأَرْضِ ذَہَبًا] ” حضرت انس بن مالک (رض) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ جہنمیوں میں سے کم ترین عذاب والے سے کہے گا۔ دنیا اور جو کچھ اس میں تیرے لیے ہے۔ کیا تو اسے فدیہ کے طور پر دینے کے لیے تیار ہے؟ وہ کہے گا جی ہاں! اللہ تعالیٰ فرمائے گا میں نے اس سے زیادہ تجھ سے نرمی کی تھی جب کہ تو آدم کی پشت میں تھا کہ میرے ساتھ شرک نہ کرنا، راوی کا خیال ہے اللہ تعالیٰ نے فرمایا میں تجھے جہنم میں داخل نہیں کروں گا لیکن تو شرک سے باز نہیں آیا۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو معبود نہیں بنانا چاہیے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک بنانے والا بدحال اور بےیار و مددگار ہوگا۔ تفسیر بالقرآن الٰہ کے مختلف معانی : ١۔ اللہ کے ساتھ دوسرا معبود نہ بناؤ ورنہ بدحال بےیارومددگار ہوجاؤ گے۔ (بنی اسرائیل : ٢٢) ٢۔ تمہارا اِلٰہ ایک ہی ہے اس کے سوا کوئی اِلٰہ نہیں وہ بڑا مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے۔ (البقرۃ: ١٦٣) ٣۔ اللہ کے سوا کسی اور کو نہ پکارو اس کے سوا کوئی الٰہ نہیں وہ عرش عظیم کا مالک ہے۔ (القصص : ٨٨) ٤۔ اگر یہ اِلٰہ ہوتے تو جہنم میں داخل نہ ہوتے۔ (الانبیاء : ٩٩) ٥۔ انہوں نے اللہ کے سوا اِلٰہ بنا لیے ہیں جنہوں نے کچھ بھی پیدا نہیں کیا۔ (الفرقان : ٣) ٦۔ کیا انہوں نے اللہ کے سوا اپنی مدد کے لیے الٰہ بنا لیے ہیں ؟ (یٰس : ٣٦) الإسراء
23 فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ کی توحید اور عبادت کے بعد والدین کا احترام اور تابعداری کرنے کا حکم۔ البقرۃ آیت ٨٣ کی تفسیر کرتے ہوئے عرض کیا ہے : ہر دور میں دین کے بنیادی ارکان و احکام ایک اور ان کی ترتیب بھی ایک جیسی ہی رہی ہے۔ سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کی خالص عبادت کرنا ہے۔ عبادت صرف اللہ تعالیٰ کا حق ہے۔ اللہ کے حق کے بعد والدین کی تابعداری اور ان کے ساتھ احسان کرنا ہے۔ بے شک اللہ تعالیٰ رب اور خالق ہے لیکن اس نے اپنی تخلیق اور ربوبیت کا ذریعہ والدین کو بنایا ہے۔ اس لیے اپنی ذات کے بعد اس نے اس مقدس رشتہ کو تقدیس و تکریم دیتے ہوئے ہدایات فرمائیں کہ اولاد کو چاہیے کہ اپنے والدین کے ساتھ ہر دم اچھا سلوک کرتی رہے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قرآن مجید کی اسی ترتیب کا خیال رکھتے ہوئے ارشادات فرمائے : (عن عَبْدِ اللّٰہِ (رض) قَالَ سَأَلْتُ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) أَیُّ الْعَمَلِ أَحَبُّ إِلَی اللّٰہِ قَال الصَّلاَۃُ عَلَی وَقْتِہَاقَالَ ثُمَّ أَیُّ قَالَ ثُمَّ بِرُّ الْوَالِدَیْنِ قَالَ ثُمَّ أَیُّ قَالَ الْجِہَادُ فِی سَبِیل اللّٰہِ) [ رواہ البخاری : کتاب مواقیت الصلوٰۃ] ” حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) فرماتے ہیں میں نے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں سب سے زیادہ پسندیدہ عمل کون سا ہے ؟ آپ نے فرمایا : نماز وقت پر ادا کرنا۔ پھر پوچھا تو فرمایا : والدین کے ساتھ اچھاسلوک کرنا۔ اس کے بعد پوچھنے پر آپ نے فرمایا اللہ کی راہ میں جہاد کرنا۔“ (عَنْ بَہْزِ بْنِ حَکِیمٍ عَنْ أَبِیہِ عَنْ جَدِّہِ قَالَ قُلْتُ یَا رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَنْ أَبَرُّ قَالَ أُمَّکَ ثُمَّ أُمَّکَ ثُمَّ أُمَّکَ ثُمَّ أَبَاکَ ثُمَّ الأَقْرَبَ فَالأَقْرَبَ)[ رواہ ابوداؤد : کتاب الأدب، باب فی برالوالدین] ” بہزبن حکیم اپنے باپ سے اور وہ اپنے والد سے بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا : میں نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول ! میں کس سے اچھا سلوک کروں ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اپنی ماں سے، پھر اپنی ماں سے، پھر اپنی ماں سے، پھر اپنے باپ سے اور پھر قریبی رشتہ داروں سے۔“ والدہ کی خدمت پہلے کیوں ؟ (وَوَصَّیْنَا الْإِنْسَانَ بِوَالِدَیْہِ إِحْسَانًا حَمَلَتْہُ أُمُّہُ کُرْہًا وَوَضَعَتْہُ کُرْہًا وَحَمْلُہُ وَفِصَالُہُ ثَلَاثُوْنَ شَہْرًا حَتّٰی إِذَا بَلَغَ أَشُدَّہُ وَبَلَغَ أَرْبَعِیْنَ سَنَۃً قَالَ رَبِّ أَوْزِعْنِیْ أَنْ أَشْکُرَ نِعْمَتَکَ الَّتِیْ أَنْعَمْتَ عَلَیَّ وَعَلٰی وَالِدَیَّ وَأَنْ أَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضَاہُ وَأَصْلِحْ لِیْ فِیْ ذُرِّیَّتِیْ إِنِّیْ تُبْتُ إِلَیْکَ وَإِنِّیْ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ)[ الاحقاف : ١٥] ” ہم نے انسان کو حکم دیا کہ وہ اپنے والدین سے اچھا سلوک کر ے۔ اس کی ماں نے مشقت سے اسے پیٹ میں رکھا اور پھر مشقت سے اسے جنا۔ اس کے حمل اور دودھ چھڑانے میں تیس ماہ لگے۔ جب وہ اپنی بھر پور جوانی کو پہنچا اور چالیس سال کا ہوا تو کہنے لگا۔ اے میرے رب ! مجھے تو فیق دے کہ میں تیرے احسان کا شکر ادا کروں جو تو نے مجھ پر اور میرے والدین پر کیا۔ یہ کہ میں نیک اعمال کروں جو تجھے پسند ہوں اور میری اور میری اولاد کی اصلاح فرما! میں تیرے حضور توبہ کرتا ہوں اور یقیناً میں فرمانبر دار ہوں۔“ اللہ تعالیٰ نے والدین کا احترام اور ان کی تابعداری کے لیے قرآن مجید میں پانچ الفاظ استعمال فرمائے ہیں۔ جن کا مختصر مفہوم پیش خدمت ہے۔ ١۔ والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنا : احسان کا لفظ حقوق العباد کے متعلق استعمال کیا جائے تو اس کا معنیٰ ہے کہ کسی کی بھلائی کے بدلہ کے بغیر اور اس کے ساتھ احسان کا رویہ اختیار کیا جائے۔ اگر عبادت کے لیے استعمال ہو تو احسان کا معنیٰ یکسوئی سے اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنا : (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ کَان النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بَارِزًا یَوْمًا للنَّاسِ، فَأَتَاہُ جِبْرِیلُ فَقَالَ .. .. مَا الإِحْسَانُ قَالَ أَنْ تَعْبُدَ اللَّہَ کَأَنَّکَ تَرَاہُ، فَإِنْ لَمْ تَکُنْ تَرَاہُ فَإِنَّہُ یَرَاکَ) [ رواہ البخاری : کتاب الایمان] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک دن نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لوگوں میں تشریف فرماتھے۔ آپ کے پاس جبریل (علیہ السلام) آئے۔ انہوں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا احسان کیا ہے ؟ آپ نے جواب دیا کہ تو اللہ کی عبادت اس طرح کرے گویا کہ اسے دیکھ رہا ہے، اگر یہ نہیں ہوسکتا تو یہ خیال کرے کہ اللہ تعالیٰ تجھے دیکھ رہا ہے۔“ ٢۔ والدین کو ” اُف“ کا لفظ کہنے اور ڈانٹنے کی ہرگز اجازت نہیں : والدین کو ان کی عمر کے کسی حصہ میں بھی اف کہنے اور ڈانٹ پلانے کی اجازت نہیں۔ جب وہ بڑھاپا کی عمر میں داخل ہوجائیں تو بالخصوص ان کے سامنے ان کی کسی حرکت اور عادت پر اف کہنا یعنی تاسف کا اظہار کرنا یا کرخت آواز سے بولنا ہرگز جائز نہیں۔ بڑھاپے میں والدین اکثر طور پر اولاد کے محتاج ہوجاتے ہیں۔ محتاجی اور جسمانی ضعف کی وجہ سے ان کا دل انتہائی حساس ہوجاتا ہے۔ جس کی وجہ سے ” اُف“ کا لفظ بھی ان کے کلیجہ پر نشتر بن کر اترتا ہے۔ اس لیے حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کا ارشاد ہے کہ اگر عربی میں اس سے بھی کوئی ہلکا لفظ ہوتا تو وہ بھی یہاں استعمال کیا جاتا۔ لہٰذا اولاد کو چاہیے کہ ماں باپ کی کسی خطا اور کمزوری پر ایسا انداز نہ اپنائے۔ جس سے ان کے دل کو دکھ پہنچنے کا اندیشہ ہو۔ ٣۔ قول کریم اختیار کرنا : والدین کے مرتبہ و مقام اور ان کے احترام و اکرام کی خاطر مزید ارشاد ہوا۔ کہ ناصرف ان کے سامنے ” اُف“ کہنے سے اجتناب کرنا ہے بلکہ جب ان کے ساتھ بات کی جائے تو اس میں ادب و احترام، محبت و عقیدت، نرمی اور شفقت کا پہلو غالب ہونا چاہیے تاکہ ان کی کمزور طبیعت کو سہارا اور دکھی دل کوتسکین حاصل ہو۔ ٤۔ والدین کے سامنے جھکتے ہوئے پیش ہونا : اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنے سوا کسی دوسرے کے سامنے عاجزی کے ساتھ پیش ہونے کا حکم نہیں دیا۔ سوائے والدین کے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے والدین کو اپنی ربوبیت کا پر تو ٹھہرایا ہے اس لیے حکم دیا ہے کہ اولاد اپنے ماں باپ کے سامنے انکساری کے ساتھ پیش ہوا کرے۔ یہاں صرف انکساری اختیار کرنے پر اکتفا نہیں کیا بلکہ مزید حکم دیا ہے کہ والدین کے سامنے انکساری، اور ادب و احترام کے کندھے جھکے ہوئے ہونے چاہییں یعنی اولاد ماں، باپ کے سامنے اس طرح پیش ہو جیسے غلام اپنے آقا کے سامنے پیش ہوتا ہے۔ ٥۔ والدین کے لیے دعا کرنا : اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو صرف اپنی بار گاہ سے مانگنے کا حکم دیا ہے۔ انسان کو اپنے لیے مانگنے کے بعد جس شخصیت کے لیے مانگنے کا سب سے پہلے حکم دیا وہ والدین کی ذات ہے۔ والدین کے لیے مانگتے وقت اولاد کے جو جذبات اور احساسات ہونے چاہئیں ان کی نشاندہی کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ جب اپنے رب سے والدین کے لیے مانگو تو تمہیں اپنا بچپن یاد کرتے ہوئے ان کی شفقت، محبت اور مشقت کا پوری طرح احساس ہونا چاہیے۔ والدین کے لیے دعا کرتے وقت اللہ تعالیٰ کو جو الفاظ پسند ہیں ان کا ان الفاظ میں ذکر کیا ہے اے رب! میرے والدین پر اس طرح مہربانی اور شفقت فرما جس طرح انہوں نے مجھے شفقت اور محبت سے پالاہے۔ اس کے ساتھ ہی یہ احساس دلایا جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے۔ تمہارا رب اسے خوب جانتا ہے اگر تم نیک نیتی اور اخلاص کے ساتھ صالح بننے کی کوشش کرو گے۔ تو وہ اپنی طرف رجوع کرنے والوں کو معاف کردینے والا ہے۔ گویا کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک صالح شخص وہ ہوگا جو صحیح عقیدہ کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرے اور اپنے والدین کی تابعداری کرے اور اللہ کی طرف رجوع کرنے والا ہوگا۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کی عبادت نہیں کرنی چاہیے۔ ٢۔ والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنا چاہیے۔ ٣۔ والدین کو اف تک نہیں کہنا چاہیے۔ ٤۔ والدین کو جھڑکنا نہیں چاہیے۔ ٥۔ والدین کے ساتھ ادب سے گفتگو کرنی چاہیے۔ ٦۔ والدین کے سامنے محبت و انکساری کے ساتھ جھکے رہنا چاہیے۔ ٧۔ والدین کے لیے رحمت کی دعا کرنی چاہیے۔ ٨۔ اللہ تعالیٰ توبہ کرنے والوں کو معاف کرتا ہے۔ تفسیر بالقرآن والدین کے ساتھ حسن سلوک کا حکم : ١۔ والدین کے ساتھ حسن سلوک کرو۔ (بنی اسرائیل : ٢٣) ٢۔ ہم نے انسان کو وصیت کی کہ وہ والدین کے ساتھ احسان کرے۔ (الاحقاف : ١٠) ٣۔ اللہ کی عبادت کرو اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ اور والدین کے ساتھ نیکی کرو۔ (النساء : ٢٦) ٤۔ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل سے عہد لیا کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں اور والدین سے حسن سلوک کریں۔ (البقرۃ: ٨٣) ٥۔ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ اور والدین کے ساتھ اچھاسلوک کرو۔ (الانعام : ١٥١) الإسراء
24 الإسراء
25 الإسراء
26 فہم القرآن ربط کلام : والدین کی خدمت کے بعد عزیز و اقرباء اور کمزور لوگوں کی خدمت کا حکم۔ والدین کے احترام و اکرام اور ان کی خدمت کا حکم دیتے ہوئے ان کی شان اور مرتبہ کے پیش نظر احسان کا لفظ استعمال فرمایا ہے۔ جس میں ہر قسم کا تعاون اور نیکی شامل ہے۔ لیکن رشتہ داروں پر خرچ کرنے کے لیے حق کا لفظ استعمال کیا ہے۔ جس میں ایک قسم کی تاکید کے ساتھ یہ باور کروایا گیا ہے کہ رشتہ داری کے حوالے سے تمہارے مال میں ان کا حق ہے جو تمہیں ادا کرنا چاہیے۔ رشتہ داروں کے بعد مسکین اور مسافر پر خرچ کرنے کا حکم دیا اور فرمایا کہ فضول خرچی سے بچو کیونکہ فضول خرچی کرنے والے شیاطین کے ساتھی ہیں۔ ہمیشہ یاد رکھو کہ شیطان اپنے رب کا ناقدردان اور ناشکرا ہے۔ اہل علم نے لکھا ہے کہ تبذیر کا معنی ہے نیکی کے کاموں پر خرچ کرتے وقت ضرورت سے زیادہ خرچ کرنا جیسے مسجدوں کے میناروں اور ان کی زیب و زیبائش پر سرمایہ لگایا جاتا ہے۔ برائی کے کاموں پر مال خرچ کرنے کو اسراف کہا جاتا ہے جس سے ہر صورت بچنے کا حکم دیا گیا ہے۔ قیامت کے دن سوالات : (عَنْ اَبِیْ ھُرَےْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اِنَّ اللّٰہَ تَعَالٰی ےَقُوْلُ ےَوْمَ الْقِےٰمَۃِ ےَا ابْنَ اٰدَمَ مَرِضْتُ فَلَمْ تَعُدْنِیْ قَالَ ےَا رَبِّ کَےْفَ اَعُوْدُکَ وَاَنْتَ رَبُّ الْعٰلَمِےْنَ قَالَ اَمَا عَلِمْتَ اَنَّ عَبْدِی فُلَانًا مَّرِضَ فَلَمْ تَعُدْہُ اَمَا عَلِمْتَ اَنَّکَ لَوْعُدْتَّہُ لَوَجَدْتَّنِیْ عِنْدَہُ ےَا ابْنَ اٰدَمَ اسْتَطْعَمْتُکَ فَلَمْ تُطْعِمْنِیْ قَالَ ےَا رَبِّ کَےْفَ اُطْعِمُکَ وَاَنْتَ رَبُّ الْعٰلَمِےْنَ قَالَ اَمَا عَلِمْتَ اَنَّہُ اسْتَطْعَمَکَ عَبْدِیْ فُلَانٌ فَلَمْ تُطْعِمْہُ اَمَاعَلِمْتَ اَنَّکَ لَوْ اَطْعَمْتَہُ لَوَجَدْتَّ ذَالِکَ عِنْدِیْ ےَا ابْنَ اٰدَمَ اسْتَسْقَےْتُکَ فَلَمْ تَسْقِنِیْ قَالَ ےَا رَبِّ کَےْفَ اَسْقِےْکَ وَاَنْتَ رَبُّ الْعٰلَمِےْنَ قَالَ اسْتَسْقَاکَ عَبْدِیْ فُلَانٌ فَلَمْ تَسْقِہٖ اَمَا عَلِمْتَ اَنَّکَ لَوْ سَقَےْتَہُ وَجَدْتَّ ذَالِکَ عِنْدِیْ)[ رواہ مسلم : کتاب البر والصلۃ والآداب، باب فی فضل عیادۃ المریض] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن فرمائے گا اے آدم کے بیٹے! میں بیمار پڑا تو تو نے میری بیمارپرسی نہ کی۔ بندہ عرض کرے گا۔ میرے پروردگار میں آپ کی بیمار پرسی کیسے کرتا؟ کیونکہ تو رب العالمین ہے اللہ فرمائے گا۔ تو نہیں جانتا کہ میرا فلاں بندہ بیمار ہوا تو نے اس کی بیمار پرسی نہ کی۔ اگر تو اس کی بیمار پرسی کے لیے جاتا تو مجھے اس کے پاس پاتا۔ اے ابن آدم! میں نے تجھ سے کھانا مانگا لیکن تو نے مجھے کھانا نہ کھلایا؟ بندہ جواب دے گا‘ اے میرے رب! میں تجھے کھانا کیسے کھلاتا تو تو جہانوں کو کھلانے والا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا تجھے معلوم نہیں میرے فلاں بندے نے تجھ سے کھانا مانگا مگر تو نے اس کو کھلانے سے انکار کردیا تھا۔ تجھے معلوم نہیں کہ اگر تو اسے کھانا کھلاتا تو اس کا بدلہ میرے پاس پاتا۔ آدم کے بیٹے ! میں نے تجھ سے پانی طلب کیا لیکن تو نے مجھے پانی نہ پلایا۔ بندہ عرض کرے گا‘ اے میرے رب! میں تجھے کیسے پانی پلاتا جب کہ تو جہانوں کو پلانے والا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ میرے فلاں بندے نے تجھ سے پانی مانگا تھا لیکن تو نے اسے پانی نہیں پلایا۔ تو نہیں جانتا کہ؟ اگر تو نے اسے کھلایا، پلایا ہوتا تو آج میرے پاس اپنے لیے کھانا پینا پاتا۔“ (عَنْ فَاطِمَۃَ بِنْتِ حُسَیْنٍ عَنْ حُسَیْنِ بْنِ عَلِیٍّ (رض) قَالَ قَالَ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لِلسَّاءِلِ حَقٌّ وَإِنْ جَاءَ عَلَی فَرَسٍ )[ رواہ أبوداود : کتاب الزکاۃ، باب فی حق السائل ] ” فاطمہ بنت حسین حضرت حسین بن علی (رض) سے بیان کرتی ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا سائل کا حق ہے اگرچہ وہ گھوڑے پر سوار ہو کر آئے۔“ بخل سے بچو : (قَال النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کُلُوا واشْرَبُوا والْبَسُوا وَتَصَدَّ قُوْا، فِی غَیْرِ إِسْرَافٍ وَلاَ مَخِیلَۃٍ ) [ رواہ البخاری : کتاب اللباس] ” نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کھاؤ اور پیو، پہنو اور صدقہ کرو لیکن فضول خرچی اور بخیلی سے اجتناب کرو۔“ (عَنِ الْمُغِیْرَۃِ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اِنَّ اللّٰہَ حَرَّمَ عَلَیْکُمْ عُقُوْقَ الْاُمَّھَاتِ وَوَأُدَ الْبَنَاتِ وَمَنْعًا وَّھَاتِ وَکَرِہَ لَکُمْ قِیْلَ وَقَالَ وَکَثْرَۃَ السُّؤَالِ وَاِضَاعَۃَ الْمَالِِ) [ رواہ البخاری : کتاب الاستقراض] ” حضرت مغیرہ (رض) ذکر کرتے ہیں کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا‘ بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے تم پر ماں کی نافرمانی کرنے‘ بیٹیوں کو زندہ درگور کرنے‘ خود نہ دینے اور لوگوں سے عطیہ طلب کرنے کو حرام قراردیا ہے۔ اور بے مقصد باتوں سے اجتناب، زیادہ سوالات کرنے اور مال کو ضائع کرنے سے بھی منع فرمایا ہے۔“ مسائل ١۔ قریبی رشتہ داروں، مسکینوں اور مسافروں کا حق ادا کریں۔ ٢۔ فضول خرچی نہیں کرنی چاہیے۔ ٣۔ فضول خرچی کرنے والا شیطان کا بھائی ہے۔ ٤۔ شیطان اپنے رب کا ناشکرا ہے۔ تفسیر بالقرآن فضول خرچی اور اسراف کی ممانعت : ١۔ فضول خرچی نہ کرو۔ (بنی اسرائیل : ٢٦) ٢۔ فضول خرچی کرنے والا شیطان کا بھائی ہے۔ (بنی اسرائیل : ٢٧) ٣۔ کھاؤ اور پیو اور اسراف نہ کرو، اللہ اسراف کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ (الاعراف : ٣١) ٤۔ فصل کی کٹائی کے وقت اس کا حق ادا کرو اور اسراف نہ کرو۔ (الانعام : ١٤١) ٥۔ اللہ کے بندے جب خرچ کرتے ہیں نہ فضول خرچی کرتے ہیں اور نہ بخیلی۔ (الفرقان : ٦٧) ٦۔ اسراف کرنے والوں کے پیچھے نہ چلو۔ (الشعراء : ١٥١) ٧۔ ہم اسی طرح حد سے تجاوز کرنے والوں کے لیے اعمال مزین کرتے ہیں۔ (یونس : ١٢) ٨۔ اللہ حد سے تجاوز کرنے والے جھوٹے کو ہدایت نہیں دیتا۔ (المومن : ٢٨) ٩۔ ہم حد سے تجاوز کرنے والوں اور اللہ کی آیات پر ایمان نہ لانے والوں کو ایسے ہی سزا دیتے ہیں۔ (طٰہٰ: ١٢٨) الإسراء
27 الإسراء
28 فہم القرآن ربط کلام : فضول خرچی سے روکنے کے ساتھ بخیلی اور کنجوسی سے بھی منع کیا گیا ہے۔ دین اسلام کی یہ بھی خوبی ہے کہ دین عبادات اور معاملات دونوں میں اعتدال کا حکم دیتا ہے۔ اس لیے حکم ہوا ہے کہ فضول خرچی سے بچنے کے ساتھ بخیلی سے بھی مکمل اجتناب کیا جائے۔ مسئلہ کی اہمیت کے پیش نظر رسول مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مخاطب کیا گیا ہے کہ اپنا ہاتھ نہ گردن کے ساتھ لٹکائیں اور نہ اسے کلی طور پر کھول دیں۔ اگر آپ اپنا ہاتھ پورے کا پورا کھول دیں گے تو ملامت زدہ اور درماندہ ہو کر بیٹھ جائیں گے۔ اس کے ساتھ یہ رہنمائی بھی کی گئی کہ اگر آپ کے پاس کسی کو دینے کے لیے کوئی چیز نہ ہو۔ لیکن آپ کو اپنے رب کی طرف سے کوئی چیز ملنے کی توقع ہو تو سائل کو خالی ہاتھ واپس لٹاتے ہوئے نرمی کے ساتھ جواب دیں۔ اعتدال کے ساتھ خرچ کرنے کے بارے میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرمایا کرتے تھے کہ جس نے اخراجات میں میانہ روی اختیار کی وہ کبھی کنگال نہیں ہوگا۔ کچھ نہ ہونے کی صورت میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تعلیم یہ ہے کہ سائل کو ڈانٹنے کی بجائے اسے نرمی اور خوش اسلوبی کے ساتھ جواب دینا چاہیے۔ قرآن مجید نے عباد الرحمن کے اوصاف بیان کرتے ہوئے ان کی یہ خوبی بیان کی ہے۔ ” کہ جب وہ خرچ کرتے ہیں تو اس میں اسراف اور بخل نہیں پایا جاتا۔ اللہ کے بندے خرچ کرتے ہوئے اعتدال کا راستہ اختیار کرتے ہیں۔“ (الفرقان : ٦٧) (عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ مَسْعُودٍ (رض) قَالَ قَالَ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَا عَالَ مَنِ اقْتَصَدَ )[ رواہ أحمد ] ” حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس شخص نے میانہ روی اختیار کی وہ کنگال نہیں ہوگا“ (عَنْ اَبِیْ مُوْسٰی (رض) عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) أَنَّہٗ کَانَ اِذَا أَتَاہ السَّاءِلُ أَوْصَاحِبُ الْحَاجَۃِ قَالَ اشْفَعُوْا فَلْتُوْجَرُوْا وَیَقْضِیْ اللَّہُ عَلَی لِسَانِ نَبِیِّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَا شَاءَ) [ رواہ البخاری : باب التَّحْرِیضِ عَلَی الصَّدَقَۃِ وَالشَّفَاعَۃِ فیہَا ] ” حضرت ابو موسیٰ (رض) ہی نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان نقل کرتے ہیں کہ جب آپ کے پاس سائل یا ضرورت مند آتا تو آپ فرماتے‘ اس کی سفارش کرو تمہیں ثواب ملے گا۔ اللہ تعالیٰ اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان پر جو چاہتا ہے کہلواتا ہے۔“ مسائل ١۔ سائل کے ساتھ نرمی سیبات کرنی چاہیے۔ ٢۔ فضول خرچی نہیں کرنی چاہیے۔ ٣۔ بخل نہیں کرنا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن دین اسلام کسی معاملہ میں غلو اور افراط وتفریط پسند نہیں کرتا : ١۔ نہ تو اپنے ہاتھ گردن ہی سے باندھ لے اور نہ اسے بالکل کھول دے۔ (بنی اسرائیل : ٢٨) ٢۔ وہ لوگ جب خرچ کرتے ہیں تو نہ اسراف کرتے ہیں نہ بخیلی کرتے ہیں۔ (الفرقان : ٦٧) ٣۔ اپنی چال میں اعتدال اور اپنی آواز کو پست رکھیں۔ (لقمان : ١٩) ٤۔ کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرنے والے ہیں اور کچھ میانہ روہیں۔ (فاطر : ٣٢) ٥۔ ان میں سے درمیانی امت ہے اور زیادہ ان میں سے برے اعمال کرنے والے ہیں۔ (المائدۃ: ٦٦) ٦۔ نماز نہ بلند آواز سے پڑھو نہ آہستہ بلکہ درمیانہ انداز اختیار کرو۔ (بنی اسرائیل : ١١٠) الإسراء
29 الإسراء
30 فہم القرآن ربط کلام : اخراجات میں اعتدال اختیار کرنے کے ساتھ غربت کی وجہ سے اولاد کو قتل کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ بخل کا بنیادی سبب مال کم ہوجانے کا اندیشہ ہوتا ہے۔ اسی اندیشہ کی وجہ سے لوگ اپنی اولاد کو قتل کرتے آرہے ہیں۔ بخل اور اولاد کا قتل اپنی اپنی نوعیت کے اعتبار سے ناصرف سنگین جرم ہیں۔ بلکہ ان کے پیچھے آدمی کے عقیدہ کی کمزوری کا بڑا عمل دخل ہوا کرتا ہے۔ ایسے سنگین جرائم سے روکنے اور عقیدہ توحید کے ضعف سے بچانے کے لیے یہ بات سمجھائی ہے کہ رزق کی کمی وبیشی انسان کے بس کی بات نہیں۔ یہ صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کا اختیار ہے۔ اللہ تعالیٰ جس کا رزق چاہے کشادہ فرمائے اور جس کا چاہے تنگ کر دے۔ وہ اپنے بندوں کی ضروریات اور فطرت کو اچھی طرح جانتا اور دیکھتا ہے۔ رزق کی تنگی کے ڈر سے اولاد کو قتل کرنے والے کو اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ جس رب نے میری پرورش کی ہے۔ وہی میری اولاد کو بھی روزی مہیا کرنے والا ہے۔ اولاد کو معیشت کی تنگی کی وجہ سے قتل کرنا بہت بڑا جرم ہے۔ قتل اولاد کے پیچھے ہمیشہ سے یہ فکر رہی ہے کہ اگر اولاد زیادہ ہوگی تو اس سے معیشت پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ اسی کے پیش نظر پہلے لوگ اپنی اولاد کو قتل کیا کرتے تھے۔ اور آج ترقی یافتہ دور میں پڑھے لکھے لوگ انفرادی طور پر نہیں بلکہ بڑی بڑی حکومتوں نے بچے قتل کرنے کے لیے مستقل وزارتیں قائم کر رکھی ہیں۔ جو صبح شام میڈیا کے ذریعے کروڑوں روپے خرچ کرکے لوگوں کو یہ باور کروانے میں مصروف ہیں کہ ” بچے دو ہی اچھے“، ” چھوٹا خاندان زندگی آسان“، ” چھوٹا خاندان خوشحالی کی ضمانت ہے“ وغیرہ وغیرہ۔ اس کے ساتھ ہی خطیر سرمایہ میڈیسن پر خرچ کیا جاتا ہے۔ اس کے باوجود ہر سال نسل انسانی میں اضافہ کی رپورٹس شائع ہوتی ہیں۔ حالانکہ اگر یہی سرمایہ زراعت اور آمدنی کے حصول کے دیگر ذرائع پر خرچ کیا جائے تو اناج کی قلت سے بچا جا سکتا ہے۔ اولاد کو قتل کرنا صرف اخلاقی جرم نہیں بلکہ اس کے پیچھے شرک جیسا ناقابل معافی گناہ بھی پایا جاتا ہے۔ جس سے اللہ کے رزاق ہونے کی نفی ہوتی ہے۔ حالانکہ ہمارے خالق کا اعلان ہے کہ زمین میں چلنے والا کوئی ایسا نہیں جس کا رزق اللہ کے ذمہ نہ ہو۔ وہ کھانے والے کی مستقل اور عارضی قیام گاہ کو پوری طرح جانتا ہے۔ اس نے سب کچھ لوح محفوظ میں لکھ رکھا ہے۔ ( ہود : ٦) یہی وجہ ہے کہ جوں جوں آبادی میں اضافہ ہوتا ہے اللہ تعالیٰ لوگوں کے اناج میں بھی اضافہ کرتا جا رہا ہے۔ ١٩٦٥ ء تک پاکستان میں گندم کی فی ایکڑ پیداوار پندرہ، سولہ من سے زیادہ نہیں تھی۔ لیکن آج فی ایکڑ پیداوار دگنی سے بڑھ چکی ہے۔ یہی رفتارچاول اور دیگر اجناس کی ریکارڈ کی گئی ہے۔ قتل اولاد کا دوسرا سبب ہمیشہ سے یہ رہا ہے کہ لوگ بیٹیوں کی ذمہ داریوں سے بچنے کے لیے ان کو قتل کرتے ہیں۔ جس کا تذکرہ ان الفاظ میں کیا گیا ہے۔ (وَإِذَا بُشِّرَ أَحَدُہُمْ بالْأُنْثَی ظَلَّ وَجْہُہُ مُسْوَدًّا وَہُوَ کَظِیْمٌ۔ یَتَوَارٰی مِنَ الْقَوْمِ مِنْ سُوْءٍ مَا بُشِّرَ بِہِ أَیُمْسِکُہُ عَلٰی ہُوْنٍ أَمْ یَدُسُّہُ فِیْ التُّرَابِ أَلَا سَاءَ مَا یَحْکُمُوْنَ )[ النحل : ٥٨، ٥٩] ” حالانکہ جب ان میں سے کسی کو بیٹی کے پیدا ہونے کی خبر ملتی ہے۔ تو اس کا منہ غم کے سبب کے کالا پڑجاتا ہے اور وہ اندوھناک ہوجاتا ہے اور اس بری خبر سے وہ چھپتا پھرتا ہے اور سوچتا ہے کہ آیا ذلت برداشت کرکے لڑکی کو زندہ رہنے دے یا زمین میں گاڑ دے۔ دیکھو جو تجویز کرتے ہیں بہت بری ہے۔“ (وَإِذَا بُشِّرَ أَحَدُہُمْ بِمَا ضَرَبَ للرَّحْمَنِ مَثَلًا ظَلَّ وَجْہُہُ مُسْوَدًّا وَہُوَ کَظِیْمٌ )[ الزخرف : ١٧] ” جب ان میں سے کسی کو بیٹی کی خوشخبری دی جاتی ہے جو وہ رحمن کے لیے منسوب کرتے ہیں تو اس کا منہ غم کے سبب کالا پڑجاتا ہے۔ (رحمٰن کے لیے بیان کرنے کا مفہوم یہ ہے کہ لوگ ملائکہ کو اللہ کی بیٹیاں قرار دیتے ہیں۔) قیامت کے دن بیٹی باپ سے سوال کرے گی : ( وَإِذَا الْمَوْءُ ودَۃُ سُءِلَتْ بِأَیِّ ذَنْبٍ قُتِلَتْ )[ التکویر : ٨۔ ٩] ” جب زندہ درگور کی گئی بچی سے سوال کیا جائے گا۔ تجھے کس جرم کی پاداش میں قتل کیا گیا؟“ (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ (رض) قَالَ سَأَلْتُ أَوْ سُءِلَ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) أَیُّ الذَّنْبِ عِنْدَ اللّٰہِ أَکْبَرُ قَالَ أَنْ تَجْعَلَ لِلّٰہِ نِدًّا وَہْوَ خَلَقَکَ قُلْتُ ثُمَّ أَیٌّ قَالَ ثُمَّ أَنْ تَقْتُلَ وَلَدَکَ خَشْیَۃَ أَنْ یَطْعَمَ مَعَکَ قُلْتُ ثُمَّ أَیٌّ قَالَ أَنْ تُزَانِیَ بِحَلِیلَۃِ جَارِکَ )[ رواہ البخاری : کتاب التفسیر، باب قولہ الذین لایدعون مع اللہ ....] ” حضرت عبداللہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا گیا کہ کونسا گناہ اللہ کے نزدیک سب سے بڑا ہے ؟ آپ نے فرمایا کہ تو اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرائے حالانکہ اس نے تجھے پیدا کیا ہے۔ میں نے پھر سوال کیا اس کے بعد ؟ آپ نے فرمایا کہ اپنی اولاد کو اس ڈر سے قتل کرے کہ وہ تیرے ساتھ کھائے گی۔ میں نے پھر عرض کی اس کے بعد کونسا گناہ بڑا ہے ؟ آپ نے فرمایا کہ تو اپنے پڑوسی کی بیوی کے ساتھ زنا کرے۔“ (یَا أَیُّہَا النَّبِیُّ إِذَا جَاءَ کَ الْمُؤْمِنَاتُ یُبَایِعْنَکَ عَلٰی أَنْ لَا یُشْرِکْنَ باللّٰہِ شَیْءًا وَلَا یَسْرِقْنَ وَلَا یَزْنِیْنَ وَلَا یَقْتُلْنَ أَوْلَادَہُنَّ وَلَا یَأْتِیْنَ بِبُہْتَانٍ یَفْتَرِیْنَہُ بَیْنَ أَیْدِیْہِنَّ وَأَرْجُلِہِنَّ وَلَا یَعْصِیْنَکَ فِیْ مَعْرُوْفٍ فَبَایِعْہُنَّ وَاسْتَغْفِرْ لَہُنَّ اللّٰہَ إِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَحِیْمٌ )[ الممتحنۃ: ١٢] ” اے نبی ! جب مومن عورتیں آپ کی بیعت کرنے آئیں کہ وہ اللہ کے ساتھ شرک نہیں کریں گی، چوری اور بدکاری نہیں کریں گی اور نہ اپنی اولاد کو قتل کریں گی اور اپنے ہاتھ پاؤں سے کوئی بہتان باندھ کر نہیں لائیں گی اور نیکی کے کاموں میں آپ کی نافرمانی نہیں کریں گی تو ان سے بیعت لے لیں اور ان کے لیے اللہ سے بخشش مانگیں یقیناً اللہ بخشنے والا، رحم کرنے والاہے۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ جس کا چاہتا ہے رزق بڑھا دیتا ہے۔ ٢۔ رزق تنگ کرنا اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی خبر رکھنے والا اور دیکھنے والا ہے۔ ٤۔ اولاد کو غربت کی وجہ سے قتل نہیں کرنا چاہیے۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ سب کو روزی دینے والاہے۔ ٦۔ قتل اولاد بہت بڑا جرم ہے۔ تفسیر بالقرآن قتل اولاد کا جرم : ١۔ نہ اسراف کرو، نہ زنا کرو اور نہ اپنی اولاد کو قتل کرو۔ (الممتحنۃ: ١٢) ٢۔ اولاد کو قتل کرنا بہت بڑا ظلم ہے۔ (بنی اسرائیل : ٣١) ٣۔ اپنی اولاد کو غربت کی وجہ سے قتل نہ کرو۔ (الانعام : ١٥١) ٤۔ وہ لوگ جنہوں نے اپنی اولاد کو قتل کیا نقصان پائیں گے۔ (الانعام : ١٤٠) الإسراء
31 فہم القرآن ربط کلام : ضبط اولاد کے مصنوعی اور غیر شرعی طریقوں سے بدکاری کو رواج ملتا ہے۔ لہٰذا زنا کے راستوں اور طریقوں سے منع کیا گیا ہے۔ زنا کے نتیجہ میں حمل ٹھہر جائے تو بچہ ضائع کردیا جاتا ہے۔ اس لیے قتل اولاد سے منع کرنے کے بعد زنا سے بھی منع کیا گیا ہے۔ دین اسلام نہ صرف زنا سے منع کرتا ہے بلکہ وہ زنا کی قربتوں اور راستوں سے بھی روکتا ہے اور زنا کو بے حیائی اور برا راستہ قرار دیتا ہے۔ اس لیے جن راستوں اور واسطوں کے ذریعے آدمی زنا کا مرتکب ہوتا ہے۔ ان سے اجتناب کرنے کا سختی کے ساتھ حکم دیا گیا ہے۔ زنا ایسا برا عمل ہے جو آدمی سے یکدم سرزد نہیں ہوتا بلکہ پہلے کچھ اقدامات اور حرکات کرنا پڑتی ہیں۔ پہلے ایک دوسرے کو دیکھا دیکھی ہوتی ہے، پھر قربت کے راستے تلاش کیے جاتے ہیں۔ بسا اوقات ایک دوسرے کو دیکھے بغیر صرف آواز کے جادو سے متاثر ہو کر مرد عورت کا گرویدہ ہوجاتا ہے۔ دین نے اس لیے غیر محرم مرد اور عورت کو ایک دوسرے کو ارادتًا دیکھنے سے منع کیا ہے حتیٰ کہ عورتوں کو حکم دیا کہ وہ بازار میں نکلیں تو ان کا چلنے کا انداز شریفانہ ہونا چاہیے۔ اگر کسی غیر محرم سے بات کرنا ناگزیرہو تو عورت کی آواز میں لوچ نہیں ہونی چاہیے۔ (الاحزاب : ٣٢) گانا بجانا اور موسیقی کی آواز بھی آدمی کے دل میں بے حیائی پیدا کرتی ہے اس لیے ایسی تمام چیزوں کے استعمال اور ان کے قریب جانے سے روک دیا گیا ہے تاکہ مسلمان معاشرہ شرم و حیا کا پیکر بن جائے۔ اسی بنا پر حکم دیا ہے کہ زنا کے قریب تک نہ جانا کیونکہ یہ بے حیائی کے ساتھ بدترین راستہ ہے۔ اس راستہ پر چل کر آدمی کا مال، عزت، یہاں تک کہ قتل کے واقعات بھی رونما ہوتے ہیں۔ یہ ایسا برا راستہ ہے کہ آدمی کے کردار پر ہمیشہ کے لیے بد نما دھبہ لگ جاتا ہے بالخصوص بدکاری کرنے والی عورت نہ صرف اپنے والدین، بہن بھائیوں، خاندان کے لیے عار کا سبب بنتی ہے بلکہ شادی کے بعد بھی یہ حرکت اس کی اولاد کے لیے مستقل طعنہ بنا رہتا ہے۔ غیر شادی شدہ ہونے کی صورت میں اگر اس فعل کے نتیجہ میں حمل ٹھہر جائے تو بچہ ضائع کیے بغیر کوئی چارہ کار نہیں ہوتا جو واضح طور پر ایک جان کا قتل ہے۔ کئی مرتبہ ایسے بچوں کو گندگی کے ڈھیر پر پھینک دیا جاتا ہے۔ اس طرح زنا ہر قسم کی زیادتی اور بے حیائی کو فروغ دیتا ہے۔ ان برائیوں کی وجہ سے حکم دیا ہے کہ زنا کے قریب نہ پھٹکنا کیونکہ یہ سراسر بے حیائی اور برائی کا راستہ ہے۔ بدکاری سے بچنے کے احکام : (وَلَا تَقْرَبُوْا الزِّنَا إِنَّہُ کَانَ فَاحِشَۃً وَسَاءَ سَبِیْلاً)[ الاسراء : ٣٢] ” اور تم زنا کے قریب نہ جاؤیقیناً یہ فحاشی اور بری راہ ہے۔“ ” مومنوں کو فرما دیجیے اپنی نظروں کو جھکا کر رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں یہ ان کے لیے بہتر ہے۔ یقیناً اللہ تمہارے اعمال سے باخبر ہے۔“ [ النور : ٣٠] ” اے پیغمبر ! اپنی بیویوں، بیٹیوں اور مومن عورتوں سے فرما دیں کہ وہ اپنی اوڑھنیاں اپنے اوپر لٹکا لیں۔ یہ امر ان کے لیے موجب شناخت ہوگا تو کوئی ان کو ایذاء نہ دے گا اور اللہ تعالیٰ بخشنے والا مہربان ہے۔“ [ الاحزاب : ٥٩] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کے بیٹے پر اس کے حصّے کا زنا لکھ دیا ہے وہ ضروراس کو پائے گا۔ آنکھ کا زنا دیکھنا ہے، زبان کا زنا بولنا ہے اور انسان کے نفس میں بری خواہش پیدا ہوتی ہے۔ وہ شہوت پر آمادہ ہوتا ہے۔ شرم گاہ اس کی تصدیق یا تکذیب کرتی ہے۔ (بخاری ومسلم) مسلم کی روایت میں ہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا آدم کے بیٹے پر اس کے زنا کا حصہ ثبت ہے وہ ضروراس کو پانے والا ہے۔ آنکھوں کا زنا دیکھنا ہے، کانوں کا زنا سننا ہے اور زبان کا زنا کلام کرنا ہے۔ ہاتھ کا زناپکڑنا ہے اور پاؤں کا زنا چل کر جانا ہے۔ دل خواہشات اور آرزوئیں پیدا کرتا ہے۔ شرم گاہ اس کی تصدیق یا تکذیب کرتی ہے۔“ یعنی زنا کرنے سے اس کی تصدیق ہوجائے گی۔ زنا کرنے سے دل کی خواہش کی نفی ہوگی۔ [ رواہ مسلم : کتاب القدر، باب قدر علی ابن آدم حظہ من الزنا وغیرہ] زانی کی سزا : (عَنْ اَبِی ھُرَیْرَۃَ وَ زَیْدِ بْنِ خَالِدٍ (رض) اَنَّ رَجُلَیْنِ اخْتَصَمَا اِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَقَالَ اَحَدُھُمَا اقْضِ بَیْنَنَا بِکِتَاب اللّٰہِ وَ قَالَ الْاٰخَرُ اَجَلْ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَاقْضِ بَیْنَنَا بِکِتَاب اللّٰہِ وَ أءْذَنْ لِیْ اَنْ اَتَکَلَّمَ قَالَ تَکَلَّمْ قَالَ اِنَّ ابْنِیْ کَانَ عَسِیْفًا عَلٰی ھٰذَا فَزَنٰی بامْرَاَتِہٖ فَاَخْبَرُوْنِیْ اَنَّ عَلٰی ابْنِیَ الرَّجْمَ فَافْتَدَیْتُ مِنْہُ بِمِاءَۃِ شَاۃٍ وَ بِجَارِیَۃٍ لِیْ ثُمَّ اِنِّی سَاَلْتُ اَھْلَ الْعِلْمِ فَاَخْبَرُوْنِی اَنَّ عَلَی ابْنِی جَلْدَ مِا ءَۃٍ وَ تَغْرِیْبَ عَامٍ وَ اِنَّمَا الْرَّجْمُ عَلَی امْرَاَتِہٖ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اَمَا وَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِہٖ لَاَ قْضِیَنَّ بَیْنَکُمَا بِکِتَاب اللّٰہِ اَمَّا غَنَمُکَ وَ جَارِیَتُکَ فَرَدٌّ عَلَیْکَ وَاَمَّا ابْنُکَ فَعَلَیْہِ جَلْدُ ماءَۃٍ وَ تَغْرَیْبُ عَامٍ وَاَمَّا اَنْتَ یَا اُنَیْسُ فَاغْدُ اِلَی امْرَاَۃِ ھٰذَا فَاِنِ اعْتَرَفَتْ فَارْجُمْھَا فَاعْتَرَفَتْ فَرَجَمَھَا) [ رواہ البخاری : باب إِذَا اصْطَلَحُوا عَلَی صُلْحِ جَوْرٍ فَالصُّلْحُ مَرْدُودٌ ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) اور زید بن خالد (رض) بیان کرتے ہیں کہ دو شخص رسول مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس مقدمہ لے کر آئے۔ ایک نے کہا ہمارے درمیان اللہ کی کتاب کے موافق فیصلہ فرمائیں۔ دوسرے نے اس کی تائید کرتے ہوئے کہا‘ کہ اللہ کے رسول! ہمارے درمیان اللہ کی کتاب کے مطابق فیصلہ فرمائیں اور مجھے بات کرنے کی اجازت دیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : بات کرو۔ اس نے کہا میرا بیٹا اس کے ہاں مزدور تھا‘ اس نے اس کی بیوی کے ساتھ زنا کیا۔ مجھے بتایا گیا کہ میرے بیٹے کی سزا رجم ہے۔ میں نے اس کی طرف سے سو بکریاں اور ایک لونڈی بطور فدیہ دی۔ بعد ازاں میں نے علماء (یہود) سے دریافت کیا تو انہوں نے بتایا کہ میرے بیٹے کو سو کوڑے بطور حد لگائے جائیں گے اور ایک سال کے لیے اسے جلا وطن کردیا جائے گا۔ البتہ اس کی بیوی کو رجم کیا جائے گا۔ رسول مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا یاد رکھو۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے‘ میں تمہارے درمیان کتاب اللہ کے مطابق فیصلہ کروں گا۔ بکریاں اور لونڈی تجھے واپس کی جائیں۔ تیرے بیٹے کو سو کوڑے لگائے جائیں اور ایک سال کے لیے جلا وطن کردیا جائے گا۔ اے انیس! صبح اس کی بیوی کے پاس جائیں اگر وہ زنا کا اقرار کرے تو اسے رجم کردیں۔ اس عورت نے زنا کا اقرار کیا لہٰذا اسے رجم کردیا گیا۔“ (عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ (رض) قَالَ لَمَّا اَتٰی مَاعِزُ ابْنُ مَالِکٍ (رض) النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَقَالَ لَہٗ لَعَلَّکَ قَبَّلْتَ اَوْ غَمَزْتَ اَوْ نَظَرْتَ قَالَ لَا یَا رَسُوْلَ ا للّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ اَنِکْتَھَا لَا یَکْنِیْ قَالَ نَعَمْ فَعِنْدَ ذٰلِکَ اَمَرَ بِرَجْمِہٖ ) [ رواہ البخاری : باب ہَلْ یَقُولُ الإِمَامُ لِلْمُقِرِّ لَعَلَّکَ لَمَسْتَ أَوْ غَمَزْتَ ] ” حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ جب ماعز بن مالک (رض) نبی گرامی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا‘ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے پوچھا‘ شاید تو نے بوس و کنار اور ملاپ کیا ہو یا اسے دیکھا ہو۔ اس نے کہا نہیں! آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا‘ کیا تو نے اس سے جماع کیا ہے؟ آپ کنایہ نہیں کر رہے تھے۔ اس نے کہا‘ جی ہاں! تو آپ نے اسے رجم کرنے کا حکم دیا۔“ مسائل ١۔ زنا کے قریب بھی نہیں جانا چاہیے۔ ٢۔ زنا بے حیائی اور بری راہ ہے۔ تفسیر بالقرآن زنا کی برائیاں : ١۔ زنا کے قریب نہ جاؤ یقیناً یہ بے حیائی اور برا راستہ ہے۔ (بنی اسرائیل : ٣٢) ٢۔ نیک لوگ کسی کو ناحق قتل نہیں کرتے اور نہ زنا کرتے ہیں۔ (الفرقان : ٦٨) ٣۔ زانی مرد اور عورت کو سو کوڑے لگائیں۔ (النور : ٢) ٤۔ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں، چوری نہ کریں اور زنا نہ کریں۔ (الممتحنۃ: ١٢) الإسراء
32 الإسراء
33 فہم القرآن ربط کلام : قتل اولاد، زنا اور عفت گری سے روکنے کے بعد انسانی جان کے قتل سے روکا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی ساری مخلوق میں انسان کو ظاہری اور جوہری صلاحیتوں کے لحاظ سے بہترین تخلیق فرما کر ارشاد فرمایا کہ میں نے انسان کو بحر و بر میں عزت و عظمت عنایت فرمائی ہے۔ (بنی اسرائیل : ٧٠) اس کے مقام و مرتبہ اور ہر طرح سے امن و امان قائم رکھنے کے لیے اس کو شرم و حیا اور عفت و عصمت کی رکھوالی کا حکم دیا اور یہ بھی حکم صادر فرمایا ہے کہ نفس انسانی کا احترام اور تحفظ ہونا چاہیے۔ کسی شخص کے لیے جائز نہیں کہ وہ دوسرے کو جائز حق کے بغیر قتل کرے۔ (المائدہ : ٣٢) میں ارشاد فرمایا کہ جس نے کسی ایک کو قتل کیا گویا کہ اس نے سب لوگوں کو مار ڈالا اور جس نے کسی جان کو تحفظ دیا۔ گویا کہ اس نے سب لوگوں کو تحفظ فراہم کیا اور جس شخص کو ناحق قتل کیا گیا اس کے وارثوں کو پورا اختیار دیا گیا ہے کہ وہ اس کا بدلہ لیں یا معاف کردیں۔ یہ اختیار اللہ تعالیٰ نے انہیں دیا ہے۔ لہٰذا معاشرہ اور اسلامی حکومت کا فرض ہے کہ بدلہ لینے میں اس کی مدد کرے۔ البتہ بدلہ لینے کی صورت میں انہیں کسی قسم کی زیادتی کرنے کا حق نہیں پہنچتا۔ زیادتی سے مراد ایک کے بدلے زیادہ لوگوں کو قتل کرنا۔ لاش کا مثلہ کرنا، اصل قاتل کی بجائے کسی دوسرے کو قتل کرنا، قتل کرتے وقت اذیتیں دینا۔ یاد رہے کہ مقتول کے وارث دیت لیں یا معاف کرسکتے ہیں۔ لیکن قصاص خود نہیں لے سکتے۔ قصاص حکومت کے ذریعہ ہی لیا جا نا چاہیے۔ بصورت دیگر قتل در قتل کا سلسلہ چل نکلتا ہے۔ قرآن مجید نے لوگوں کو ہر قسم کی قتل و غارت سے منع کرتے ہوئے اِلَّا بالْحَقِّ کے الفاظ استعمال کیے ہیں جس کا معنٰی ہے کہ کچھ ایسے مجرم ہیں جن کی جان کو تحفظ نہیں دیا جا سکتا۔ کیونکہ ایسے لوگ معاشرے کی حیا اور امن و امان کے دشمن ہیں۔ انہیں کھلا چھوڑنا ملک و ملت کو ہلاکت میں ڈالنے کے مترادف ہے۔ قرآن و حدیث کی روشنی میں وہ درج ذیل پانچ جرم ہیں۔ ١۔ قتل کے بدلہ قتل کرنا البتہ مقتول کے وارث کو دیت لینے اور معاف کردینے کا پورا پورا حق ہے۔ یہ حق وارث کے بغیر کسی شخص اور حکومت کو حاصل نہیں ہوگا۔ ٢۔ شادی شدہ زانی کو سنگسار کرنا۔ ٣۔ اسلامی حکومت کے خلاف بغاوت کرنے والا بھی قتل کیا جائے گا۔ ٤۔ دین اسلام سے مرتد ہونے والا واجب القتل ہوگا اس میں گستاخ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی شامل ہے۔ ٥۔ راہزنی اور اسلامی حکومت میں دنگاو فساد برپا کرنے والا بھی تہ تیغ کیا جائے گا۔ (عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عَمْرٍو (رض) أَنَّ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ لَزَوَال الدُّنْیَا أَہْوَنُ عَلَی اللّٰہِ مِنْ قَتْلِ رَجُلٍ مُسْلِمٍ ) [ رواہ الترمذی : کتاب الدیات، باب ماجاء فی تشدید قتل المؤمن ] ” عبداللہ بن عمرو (رض) بیان کرتے ہیں کہ بے شک نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ تعالیٰ کے نزدیک دنیا کی تباہی ایک مسلمان کو قتل کرنے سے زیادہکم درجہ رکھتی ہے۔“ (عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عَمْرٍو (رض) عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) أَنَّہُ قَالَ الْکَبَاءِرُ الإِشْرَاک باللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ وَعُقُوقُ الْوَالِدَیْنِ أَوْ قَتْلُ النَّفْسِ شُعْبَۃُ الشَّاکُّ وَالْیَمِیْنُ الْغَمُوْسُ) [ رواہ أحمد ] ” عبداللہ بن عمرو (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا یہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرنا، والدین کی نافرمانی کرنا یا کسی جان کو قتل کرنا۔ کبیرہ گناہ ہیں راوی کو اس میں شک ہے، جھوٹی قسم کھانا۔“ بھی ان میں شامل ہے۔ (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَسُعُوْدٍ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سِبَابُ الْمُسْلِمِ فُسُوْقٌ وَقتِاَلُہٗ کُفْرٌ ) [ رواہ البخاری : باب اتِّبَاعُ الْجَنَاءِزِ مِنَ الإِیمَانِ ] ” حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا‘ مسلمان کو گالی دینا فسق ہے اور اسے قتل کرنا کفر ہے۔“ مسائل ١۔ کسی کو ناحق قتل نہیں کرنا چاہیے۔ ٢۔ مقتول کے وارث کو قصاص لینے کا حق حاصل ہوگا۔ ٣۔ مقتول کے وارث کو حد سے نہیں بڑھنا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن قتل کا گناہ : ١۔ جس جان کو اللہ نے تحفظ دیا ہے اسے ناحق قتل نہیں کرنا چاہیے۔ (بنی اسرائیل : ٣٣) ٢۔ جس نے کسی کو بغیر حق کے قتل کردیا گویا کہ اس نے تمام لوگوں کو قتل کردیا۔ (المائدۃ: ٣٢) ٣۔ قابیل کو اس کے نفس نے اپنے بھائی کے قتل پر ابھارا۔ اس نے قتل کردیا پس خسارہ پانے والا ہوا۔ (المائدۃ: ٣٠) ٤۔ جو کسی مومن کو جان بوجھ کر قتل کرتا ہے اس کا ٹھکانہ جہنم ہے۔ (النساء : ٩٣) ٥۔ کسی کو ناحق قتل نہ کرو۔ (الانعام : ١٥١) الإسراء
34 فہم القرآن ربط کلام : حیا اور جان کے تحفظ کے بعد کمزور طبقہ کے مالی حقوق کے تحفظ کا حکم : قرآن مجید معاشرے کے مظلوم طبقات کے حقوق کے تحفظ کا حکم دیتے ہوئے یہ بھی ہدایت کرتا ہے کہ جائز طریقے کے سوا یتیم کے مال کے قریب نہیں جانا چاہیے۔ یہاں تک یتیم اپنی جوانی کو پہنچ جائے۔ یتیم کو مالی تحفظ دینے کے بعد ہر کسی کو حکم دیا ہے کہ وہ اپنے کیے ہوئے عہد کی پاسداری کرے۔ کیونکہ عہد کے بارے میں اللہ کے ہاں سوال کیا جائے گا۔ شریعت میں انسان اس وقت تک یتیم ہوتا ہے جب تک بالغ نہ ہوجائے۔ بلوغت سے پہلے کی عمر بچپن میں شمار ہوتی ہے۔ اس عمر میں کاروبار کو سمجھنا اور چلانا بچے کے لیے بالخصوص یتیم کے لیے مشکل ہوتا ہے۔ اس لیے اس کا قریبی یا کوئی دوسرا آدمی کاروبار چلائے گا۔ یہاں یتیم کے کفیل کو یہ ہدایت کی گئی ہے کہ وہ کوشش کرے کہ حتی المقدور یتیم کا مال نہ کھائے۔ اگر اس کا اپنا کوئی معقول روز گار نہیں تو وہ گزران کی حد تک یتیم کے مال سے کھا سکتا ہے۔ جس کے لیے احسن کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ یعنی یتیم کا کفیل اس طریقہ اور حساب سے اس کے مال سے استفادہ کرے کہ دیانت و ایمانداری کے ساتھ ساتھ اس کی عزت پر کوئی حرف نہ آنے پائے۔ اس آیت مبارکہ میں دوسرا حکم ایفائے عہد کا دیا ہے۔ یہ عہد ایک فرد کا دوسرے فرد کے ساتھ اور ایک قوم کا دوسری قوم کے ساتھ ہوسکتا ہے جس کی انفرادی اور اجتماعی طور پر پاسداری ہونی چاہیے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ہر کسی سے عہد کے بارے میں پوچھ گچھ کرنی ہے۔ اس عہد سے مراد وہ عہد بھی لیا جا سکتا ہے جو روز آفر ینش اللہ تعالیٰ نے بنی آدم سے یہ کہہ کرلیا تھا کہ کیا میں تمہارا رب ہوں یا نہیں ؟ اس کی تفصیل جاننے کے لیے سورۃ الاعراف آیت ١٧٢ کی تفسیر ملاحظہ فرمائیں۔ اس عہد کی پاسداری نہ کرنا اللہ تعالیٰ کے ساتھ کفر اور شرک کرنا ہے۔ ایک دوسرے سے کیے ہوئے عہد کو توڑنا اللہ تعالیٰ کے ہاں بڑا گناہ ہے۔ دنیا میں بھی عہد شکنی کرنے والے کی عزت کو شدید دھچکا لگتا ہے۔ یہاں تک کہ اس کی نماز، حج اور ہر قسم کی نیکی لوگوں کی نظروں میں طعنہ بن جاتی ہے۔ (عَنْ اَبِیْ ذَرٍّ (رض) قَالَ قُلْتُ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اَ لَا تَسْتَعْمِلُنِیْ قَالَ فَضَرَبَ بِیَدِہٖ عَلٰی مَنْکِبِیْ ثُمَّ قَالَ یَا اَبَا ذَرٍّ اِنَّکَ ضَعِیْفٌ وَاِنَّھَا اَمَانَۃٌ وَاِنَّھَا یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ خِزْیٌ وَنَدَامَۃٌ اِلَّامَنْ اَخَذَھَا بِحَقِّہَا وَاَدَّی الَّذِیْ عَلَیْہِ فِیْھَاوَفِی رِوَایَۃٍ قَالَ لَہٗ یَا اَبَاذَرٍّ اِنِّیْ اَرَاکَ ضَعِیْفًا وَاِنِّیْ اُحِبُّ لَکَ مَا اُحِبُّ لِنَفْسِیْ لَا تَأَمَّرَنَّ عَلَی اثْنَیْنِ وَلَا تَوَلَّیَنَّ مَالَ یَتِیْم) [ رواہ مسلم : کتاب الامارۃ، باب کَرَاہَۃِ الإِمَارَۃِ بِغَیْرِ ضَرُورَۃٍ] ” حضرت ابوذر (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے عرض کی‘ کہ اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ مجھے کوئی عہدہ کیوں نہیں عنایت فرماتے ؟ آپ نے اپنا ہاتھ میرے کندھے پر رکھتے ہوئے فرمایا اے ابوذر! یقیناً تو کمزور آدمی ہے اور یہ عہدہ امانت ہے جو قیامت کے دن رسوائی اور ذلت کا باعث ہوگا۔ سوائے ان لوگوں کے جنہوں نے اس کے حقوق کو پورا کیا اور ذمہ داریوں کو صحیح طور پر نبھایا۔ ایک روایت میں ہے۔ آپ نے اس سے مخاطب ہوتے ہوئے فرمایا : اے ابوذر! میرے خیال میں تم کمزور آدمی ہو۔ میں تیرے لیے وہی کچھ پسند کرتا ہوں‘ جو اپنے لیے پسند کرتا ہوں۔ دو آدمیوں کی بھی ذمّہ داری نہ اٹھانا اور نہ ہی یتیم کے مال کی ذمّہ داری لینا۔“ (عَنْ اَبِیْ سَعِیْدٍ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ لِکُلِّ غَادِرٍ لِوَاءٌ عِنْدَ اِسْتِہٖ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِوَفِیْ رَوَایَۃٍ لِکُلِّ غَادِرٍ لِوَاءٌ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ یُرْفَعُ لَہٗ بِقَدَرِ غَدْرِہٖ اَ لَاوَلَا غَادِرَ اَعْظَمُ غَدْرًا مِنْ اَمِیْرِ عَامَّۃٍ ) [ رواہ مسلم : کتاب الجہاد والسیر، باب تحریم الغدر] ” حضرت ابو سعید (رض) بیان کرتے ہیں نبی مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا قیامت کے دن ہر عہد شکن انسان کی مقعد کے نزدیک جھنڈا ہوگا۔ ایک روایت میں ہے ہر عہد شکن کے لیے قیامت کے دن جھنڈا ہوگا‘ جو اس کی عہد شکنی کے مطابق بلند کیا جائے گا۔ خبردار! سربراہ مملکت کی عہد شکنی سب سے بڑی ہوتی ہے۔“ (عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ (رض) قَالَ مَا خَطَبَنَا نَبِیُّ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) إِلَّا قَالَ لَا إِیمَانَ لِمَنْ لَا أَمَانَۃَ لَہٗ وَلَا دینَ لِمَنْ لَا عَہْدَ لَہٗ)[ رواہ احمد] ” حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جب بھی ہمیں خطبہ دیا تو فرمایا جو بندہ امانت دار نہیں اس کا کوئی ایمان نہیں اور جو شخص وعدہ پورا نہیں کرتا اس کا کوئی دین نہیں۔“ (عَنْ سَہْلٍ (رض) قَالَ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) أَنَا وَکَافِلُ الْیَتِیمِ فِی الْجَنَّۃِ ہَکَذَا وَأَشَار بالسَّبَّابَۃِ وَالْوُسْطٰی، وَفَرَّجَ بَیْنَہُمَا شَیْءًا )[ رواہ البخاری : باب فضل من یعول یتیما] ” حضرت سہل (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میں اور یتیم کی کفالت کرنے والا جنت میں اس طرح ہوں گے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سبابہ اور درمیانی انگلی سے اشارہ فرمایا اور ان کے درمیان تھوڑا سا فاصلہ رکھا۔“ مسائل ١۔ یتیم کے مال کے قریب بھی نہیں جانا چاہیے۔ ٢۔ یتیم کے مال میں تصرف کرتے ہوئے احسن انداز اپنانا چاہیے۔ ٣۔ وعدہ کی پاسداری کرنی چاہیے۔ ٤۔ عہد و پیمان کے متعلق پوچھا جائے گا۔ تفسیر بالقرآن یتیم کے مال اور عہد کی پاسداری کا حکم : ١۔ یتیم کے مال کے قریب نہ جاؤ مگر احسن طریقہ سے اور وعدہ وفا کرو۔ (بنی اسرائیل : ٣٤) ٢۔ یتیم کے مال کے قریب نہ جاؤ یہاں تک کہ وہ جوانی کو پہنچ جائے۔ (الانعام : ١٥٢) ٣۔ یتیموں کو ان کے مال واپس کرو۔ ناپاک کو پاک سے نہ ملاؤ۔ (النساء : ٢) ٤۔ جو لوگ یتیم کا مال ظلم سے کھاتے ہیں وہ اپنے پیٹوں میں آگ بھر تے ہیں۔ (النساء : ١٠) ٥۔ عہد کو پورا کرو یقیناً عہد کے متعلق سوال کیا جائے گا۔ (بنی اسرائیل : ٣٤) ٦۔ اللہ کے وعدے کو پورا کرو۔ (النحل : ٩١) ٧۔ نیک لوگ جب عہد کرتے ہیں تو عہد کی پاسداری کرتے ہیں۔ (البقرۃ: ١٧٧) ٨۔ جو اللہ کے ساتھ کیے ہوئے وعدوں اور قسموں کو تھوڑی قیمت میں بیچ دیتے ہیں ان کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہوگا۔ (آل عمران : ٧٧) ٩۔ تم میرے وعدے کو پورا کرو میں تمھارے وعدے کو پورا کروں گا اور مجھ ہی سے ڈرو۔ (البقرۃ: ٤٠) الإسراء
35 فہم القرآن ربط کلام : یتیم کے مال کے بارے میں حکم دینے کے بعد سب لوگوں کے مال کے تحفظ کا حکم دیا گیا ہے۔ کاروبار میں یہ بات بڑی اہمیت رکھتی ہے کہ دکاندار گاہگ کو وہی چیز اور اسی کو الٹی کا مال دے جس کا گاہگ کے ساتھ سودا کیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی یہ بات بڑی اہم ہے کہ جس چیز کا سودا ہوا ہے۔ وہ ماپ تول میں پوری ہونی چاہیے وزن یا پیمائش میں کمی کرنے سے ناصرف خریدار کو نقصان ہوتا ہے بلکہ اس کے دل میں شدید نفرت پیدا ہوجاتی ہے۔ جس سے معاشرہ میں منفی اثرات پیدا ہوتے ہیں۔ دوسری طرف دکاندار کے رزق سے برکت اٹھالی جاتی ہے۔ ان نقصانات کے پیش نظر ارشاد فرمایا ہے کہ لوگو! جب ماپ کرو تو پورا پورا کیا کرو۔ ایسا کرنا کاروبار کی ترقی اور دیانت و امانت کے حوالے سے انتہائی بہتر ہے۔ اس سے نہ صرف خریدار اور دکاندار کے درمیان محبت کا رشتہ قائم ہوتا ہے بلکہ اس سے کاروبار بھی ترقی کرتا ہے۔ جس معاشرے میں ماپ تول میں کمی بیشی کرنے کا رواج عام ہوجائے اس قوم کی ساکھ اور تجارت ختم ہوجاتی ہے۔ ایسی قوم بالآخر قوم مدین کی طرح تباہی کے گھاٹ اتر جائے گی۔ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک دکاندار کو یہ ہدایت فرمائی کہ تولتے وقت ترازو جھکا ہوا رکھو۔ ماپ تول میں کمی کرنے والے کے بارے میں قرآن نے شدید الفاظ میں انتباہ کیا ہے۔ (وَیْلٌ لِلْمُطَفِّفِیْنَ۔ الَّذِیْنَ إِذَا اکْتَالُوْا عَلٰی النَّاسِ یَسْتَوْفُوْنَ۔ وَإِذَا کَالُوْہُمْ أَوْ وَزَنُوْہُمْ یُخْسِرُوْنَ۔أَلَا یَظُنُّ أُولَءِکَ أَنَّہُمْ مَبْعُوْثُوْنَ۔ لِیَوْمٍ عَظِیْمٍ۔ یَوْمَ یَقُوْمُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ )[ المطففین : ١۔ ٦] ” ناپ اور تول میں کمی کرنے والوں کے لیے بربادی ہے جو لوگوں سے ناپ کرلیں تو پورا لیں اور جب ان کو ناپ کر یا تول کردیں تو کم کردیں کیا یہ لوگ نہیں جانتے کہ انھیں ایک بڑے سخت دن میں اٹھایا جائے گا جس دن تمام لوگ رب العالمین کے سامنے کھڑے ہوں گے۔“ (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَسْعُوْدٍ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَنْ غَشَّنَا فَلَیْسَ مِنَّا وَالْمَکْرُ وَالْخِدَاعُ فِیْ النَّارِ)[ اخرجہ ابن حبان : ھذاحدیث حسن ] ” عبداللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس نے دھوکہ کیا وہ ہم میں سے نہیں، مکر کرنے اور دھوکہ دینے والا آگ میں جائے گا۔“ (قَال النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اکْتَالُوا حَتَّی تَسْتَوْفُوا )[ رواہ البخاری : باب الکیل علی البائع والمعطی] ” نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب ناپ تول کرو تو اسے پورا کرو۔“ ماپ تول میں کمی کرنے کی سزا : (مَا طَفِفَ قَوْمُ الْمِیْزَانَ إلَّا أخَذَہُمُ اللّٰہُ بالسِّنِیْنَ) [ السلسلۃ الصحیحۃ: ١٠٧] ” جو بھی قوم تولنے میں کمی کرتی ہے اللہ تعالیٰ ان پر قحط سالی مسلط فرما دیتا ہے۔“ (وَیَا قَوْمِ أَوْفُوا الْمِکْیَالَ وَالْمِیزَان بالْقِسْطِ وَلَا تَبْخَسُوا النَّاسَ أَشْیَاءَ ہُمْ وَلَا تَعْثَوْا فِی الْأَرْضِ مُفْسِدِینَ)[ ھود : ٨٥] ” اے میری قوم ! انصاف کے ساتھ پورا پورا ناپو اور تولو اور لوگوں کو ان کی چیزوں میں گھاٹا نہ دیا کرو اور زمین میں فساد نہ پھیلاؤ۔“ مسائل ١۔ ماپ پورا پورا ماپنا چاہیے۔ ٢۔ ماپ سیدھے ترازو سے تولنا چاہیے۔ ٣۔ ماپ تول کو پورا کرنا کاروبار اور آخرت کے لحاظ سے بہتر ہے۔ تفسیر بالقرآن ماپ تول میں کمی کرنے کا انجام : ١۔ ماپ کو پورا کرو اور سیدھے ترازو سے تولو۔ (بنی اسرائیل : ٣٥) ٢۔ ماپ تول انصاف سے پورا کرو۔ (الانعام : ١٥٢) ٣۔ ماپ تول پورا کرو اور لوگوں کو اشیاء کم نہ دو۔ (الاعراف : ٨٥) ٤۔ تول کو پورا کرو اور کمی کرنے والوں میں سے نہ ہوجاؤ۔ (الشعراء : ١٨٢) ٥۔ اے میری قوم ماپ، تول کو انصاف کے ساتھ پورا کرو۔ (ھود : ٨٥) ٦۔ ماپ تول میں کمی نہ کرو۔ (ھود : ٨٤) الإسراء
36 فہم القرآن ربط کلام : معاملات میں درستگی کا حکم دینے کے بعد بات چیت، اخلاق اور خیالات میں پاکیزگی کا حکم دیا ہے۔ دانش مندی اور حقیقی دینداری کا تقاضا ہے کہ مسلمان ان باتوں اور کاموں کے پیچھے نہ پڑے۔ جس سے آدمی کے اخلاق اور دین میں نقص واقع ہو۔ اس نقصان سے مسلمان کو بچانے کے لیے یہ حکم دیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں تمہارے کان، آنکھیں اور دل مسؤل ٹھہرائے گئے ہیں۔ اس لیے مسلمان کے لیے لازم ہے کہ وہ دانستہ طور پر اپنے کانوں سے وہ بات سننے کی کوشش نہ کرے جس بات میں شریعت کی خلاف ورزی پائی جا رہی ہو۔ اپنی آنکھوں کو ان چیزوں سے پھیرلے جن کو دیکھنے سے روکا گیا ہے۔ ہر شخص کو یہ حقیقت دل میں بٹھا لینی چاہیے کہ ایک وقت آئے گا کہ جب انسان کے اعضاء اور اس کا پورا جسم اس کے خلاف گواہی دے گا۔ (حَتّٰی إِذَا مَا جَاءُ وْہَا شَہِدَ عَلَیْہِمْ سَمْعُہُمْ وَأَبْصَارُہُمْ وَجُلُوْدُہُمْ بِمَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ وَقَالُوْا لِجُلُوْدِہِمْ لِمَ شَہِدْتُمْ عَلَیْنَا قَالُوْا أَنْطَقَنَا اللّٰہُ الَّذِی أَنْطَقَ کُلَّ شَیْءٍ وَہُوَ خَلَقَکُمْ أَوَّلَ مَرَّۃٍ وَإِلَیْہِ تُرْجَعُوْنَ )[ حٰمٰ السجدۃ: ٢٠۔ ٢١] ” یہاں تک کہ جب سب اللہ کے پاس پہنچ جائیں گے تو ان کے کان، آنکھیں اور جسم ان کے خلاف ان کے اعمال کی شہادت دیں گے اور وہ اپنے جسم سے کہیں گے کہ تم نے ہمارے خلاف کیوں شہادت دی وہ کہیں گے کہ جس اللہ نے سب چیزوں کو بولنا سکھایا ہے اس نے ہم کو بھی گویائی دی اور اسی نے تمھیں پہلی بار پیدا کیا تھا اور اسی کی طرف تمھیں لوٹ کر جانا ہے۔“ جہاں تک دل کا معاملہ ہے اس میں پیدا ہونے والے برے خیالات کو رب کریم نے معاف کردیا ہے۔ البتہ شرکیہ اعتقاد، حسد، بغض اور کفریہ خیالات دل میں جمائے رکھے تو ان کے بارے میں شدید پکڑ ہوگی۔ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَال النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) إِنَّ اللّٰہَ تَجَاوَزَ لِیْ عَنْ أُمَّتِیْ مَا وَسْوَسَتْ بِہِ صُدُورُہَا، مَا لَمْ تَعْمَلْ أَوْ تَکَلَّمْ )[ رواہ البخاری : کتاب العتق، باب الْخَطَإِ وَالنِّسْیَانِ فِی الْعَتَاقَۃِ وَالطَّلاَقِِ] ” حضرت ابو ہریرۃ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بے شک اللہ تعالیٰ نے میرے لیے میری امت کے دلوں میں پیدا ہونے والے وسوسوں سے در گزر فرما دیا ہے۔ جب تک ان خیالات پر عمل نہ کریں یا ان کے مطابق کلام نہ کرلیں۔“ (عَنْ عَلِیِّ بْنِ الْحُسَیْنِ (رض) قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مِنْ حُسْنِ إِسْلاَمِ الْمَرْءِ تَرْکُہٗ مَا لَا یَعْنِیْہِ) [ رواہ مالک وأحمد ] ” علی بن حسین (رض) فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کسی بھی شخص کا بے مقصد باتوں کو چھوڑ دینا اس کے اچھے اسلام کی دلیل ہے۔“ (عَنْ أُمِ مَعْبَدٍ قَالَتْ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَقُوْلُ اَللّٰہُمَّ طَہِّرْ قَلْبِیْ مِنَ النِّفَاِقِ وَعمَلِیْ مِنَ الرِّیَاءِ وَلِسَانِیْ مِنَ الْکَذِبِ وَعَیْنِیْ مِنَ الْخِیَانَۃَ فَإِنَّکَ تَعْلَمْ خَاءِنَۃَ الْأَعَیْنِ وَمَا تُخْفِی الصُّدُوْرِ) [ رواہ البیہقی فی الدعوات الکبیر] ” حضرت ام معبد (رض) بیان کرتی ہیں میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دعا کرتے ہوئے سنا آپ دعا کیا کرتے تھے۔ اے اللہ ! میرے دل کو نفاق سے، میرے عمل کو ریاء کاری سے، میری زبان کو جھوٹ سے اور میری آنکھوں کو خیانت سے محفوظ فرما۔ یقیناً آپ خیانت کرنے والی آنکھ اور دل کے خیالات سے واقف ہیں۔“ مسائل ١۔ ایسی بات کے پیچھے نہیں پڑنا چاہیے جو انسان کے احاطہ علم میں آنے والی نہ ہو۔ ٢۔ قیامت کے دن کان، آنکھ اور دل کے متعلق سوال کیا جائے گا۔ تفسیر بالقرآن قیامت کے دن اعضاء سے سوال اور ان کا جواب : ١۔ قیامت کے دن کان، آنکھ اور دل سے سوال کیا جائے گا۔ (بنی اسرائیل : ٣٦) ٢۔ قیامت کے دن مجرموں کے خلاف ان کے کان، آنکھیں اور جسم گواہی دیں گے۔ (حٰم السجدۃ: ٢٠) ٣۔ مجرموں کے ہاتھ اور پاؤں گواہی دیں گے۔ (یٰس : ٦٥) ٤۔ قیامت کے دن ان کی زبانیں، ہاتھ اور پاؤں ان کے خلاف گواہی دیں گے۔ (النور : ٢٤) الإسراء
37 فہم القرآن ربط کلام : فضولیات میں پڑنے اور برے خیالات سے روکنے کے بعد متکبرانہ چال ڈھال اختیار کرنے سے روکا گیا ہے۔ حقیقتاً یہ بھی فضول حرکت ہے کیونکہ متکبر انسان اللہ تعالیٰ کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتا۔ انسان جب ذہنی طور پر پراگندہ اور قلبی لحاظ سے برا ہوجائے تو وہ اپنے سوا کسی کو اچھا نہیں سمجھتا۔ ایسے شخص کے دل میں غرور اور تکبرکا پیدا ہونا یقینی بات ہے۔ بالخصوص جب ایسے شخصکو مال کی فراوانی، اقتدار اور اختیار دیا جائے یا اسے کسی قسم کی برتری حاصل ہوجائے تو وہ فخر و غرور اور تکبر میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ ایسا شخص ناصرف اپنی گفتگو میں شیخی بگھار تا ہے۔ بلکہ اس کی چال ڈھال میں غرور اور تکبر نمایاں دکھائی دیتا ہے۔ ایسے شخص کو سرزنش کے انداز میں کہا جا رہا ہے کہ زمین پر اکڑ، اکڑکر مت چل کیونکہ اس طرح چلنے سے نہ تو زمین پھاڑ سکتا ہے اور نہ ہی تن کر چلنے سے پہاڑوں کی بلندیوں کو پہنچ سکتا ہے۔ اے انسان ! یہ کام تیرے رب کے نزدیک نہایت ناپسندیدہ ہے۔ یہاں ” کل ذلک“ کے الفاظ استعمال فرما کر سابقہ آیات میں کی گئی تمام ممنوعات کا احاطہ کرلیا ہے تاکہ قرآن مجید کی تلاوت کرنے والا اللہ تعالیٰ کے ناپسندیدہ کاموں کو ہمیشہ اپنے سامنے رکھے۔ دنیا کی رسوائی اور نقصان سے بچنے کے ساتھ آخرت کی ذلت ور سوائی سے مامون ہونے کی کوشش کرے۔ (عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الْخُدَرِیِّ وَأَبِی ہُرَیْرَۃَ (رض) قَالاَ قَالَ رَسُوْلُ اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) الْعِزُّ إِزَارُہُ وَالْکِبْرِیَاءُ رِدَاؤُہُ فَمَنْ یُنَازِعُنِی عَذَّبْتُہُ )[ رواہ مسلم : کتاب البر والصلۃ والآداب باب تحریم الکبر ) ” حضرت ابو سعید خدری اور حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا عزت اللہ کا ازار ہے اور کبریائی اس کی چادر ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں جو ان کو مجھ سے چھینے گا میں اس کو عذاب دوں گا۔“ (عَنِ ابْنِ عُمَر (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بَیْنَمَا رَجُلٌ یَجُرُّ اِزَارَہٗ مِنَ الْخُیَلَاءِ خُسِفَ بِہٖ فَھُوَ یَتَجَلْجَلُ فِی الْاَرْضِ اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ )[ رواہ البخاری : کتاب أحادیث الأنبیاء ] ” حضرت عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا‘ ایک دفعہ ایک شخص تکبر کے ساتھ چادر گھسیٹ کر چل رہا تھا تو اسے زمین میں دھنسا دیا گیا۔ اب وہ قیامت تک زمین میں دھنستا جائے گا۔“ تکبر کیا ہے؟ (عَنِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ ہُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لَا یَدْخُلُ الجَنَّۃَ مَنْ کَانَ فِیْ قَلْبِہٖ مِثْقَالُ ذَرَّۃٍ مِنْ کِبْرٍ فَقَالَ رَجُلٌ اِنَّ الرَّجُلَ یُحِبُّ اَنْ یَّکُوْنَ ثَوْبُہٗ حَسَنًا وَ نَعْلُہٗ حَسَنًا قَالَ اِنَّ اللّٰہَ تَعَالٰی جَمِیْلٌ یُّحِبُّ الجَمَالَ اَلْکِبْرُ بَطَرُ الْحَقِّ وَ غَمْطُ النَّاسِ) [ رواہ مسلم : باب تَحْرِیمِ الْکِبْرِ وَبَیَانِہِ] ” حضرت ابن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا‘ جس شخص کے دل میں ذرہ برابر تکبر ہوگا‘ وہ جنت میں نہیں جائے گا۔ ایک شخص نے کہا کہ بے شک ہر شخص یہ پسند کرتا ہے کہ اس کا لباس اور جوتے اچھے ہوں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ بلاشبہ اللہ تعالیٰ نہایت ہی خوب صورت ہے اور خوبصورتی کو پسند کرتا ہے۔ تکبر تو حق بات کا انکار کرنا اور لوگوں کو حقیر جاننا ہے۔“ مسائل ١۔ تکبر و غرور اختیار نہیں کرنا چاہیے۔ ٢۔ فخر و تکبر سے نہ تو کوئی زمین پھاڑ سکتا ہے اور نہ پہاڑوں کی بلندیوں کو پاسکتا ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ کو معصیت کے تمام کام ناپسند ہیں۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ تکبر کرنے والے کو پسند نہیں کرتا : ١۔ زمین میں اکڑ کر نہ چل! نہ تو زمین کو پھاڑ سکتا ہے اور نہ پہاڑوں کی بلندیوں کو پہنچ سکتا ہے۔ (بنی اسرائیل : ٣٧) ٢۔ اللہ تکبر کرنے والے، فخر کرنے والے کو پسند نہیں فرماتا۔ (لقمان : ١٨) ٣۔ جو کچھ اللہ نے تمہیں عطا کیا ہے، اس پر نہ اتراؤ اور اللہ فخر کرنے والے کو پسند نہیں کرتا۔ (الحدید : ٢٣) ٤۔ یقیناً اللہ تکبر کرنے والے اور فخر کرنے والے کو پسند نہیں فرماتا۔ (النساء : ٣٦) الإسراء
38 الإسراء
39 فہم القرآن ربط کلام : خطاب کا اختتام اور اس خطاب میں بیان کی گئی ہدایات۔ اس خطاب کا آغاز آیت ٢٣ سے ہوا جس میں اللہ تعالیٰ نے گیارہ کاموں کا حکم دیا اور گیارہ باتوں سے منع فرمایا ہے۔ جن باتوں کے کرنے کا حکم دیا گیا ہے : ١۔ اللہ تعالیٰ کا اٹل فیصلہ ہے کہ صرف اسی کی عبادت کی جائے۔ ٢۔ والدین کے ساتھ احسان کا رویہ اختیار کیا جائے۔ ٣۔ والدین کے ساتھ نرمی کے ساتھ بات کی جائے۔ ٤۔ والدین کے سامنے عاجزی کے ساتھ پیش ہوا جائے۔ ٥۔ والدین کے لیے دعائیں کی جائیں۔ ٦۔ عزیز و اقرباء کا حق ادا کیا جائے۔ ٧۔ مساکین کی معاونت کی جائے۔ ٨۔ مسافر کی مددکی جائے۔ ٩۔ اخراجات میں میانہ روی اختیار کی جائے۔ ١٠۔ عہد کو پورا کیا جائے۔ ١١۔ ماپ تول پورا ہونا چاہیے۔ وہ باتیں جن سے منع کیا گیا ہے : ١۔ والدین کے سامنے اف کا لفظ نہ بولا جائے۔ ٢۔ والدین کو کسی صورت میں جھڑکناجائز نہیں۔ ٣۔ فضول خرچی سے بچنا چاہیے کیونکہ فضول خرچی کرنے والے شیطان کے ساتھی ہیں۔ ٤۔ غربت کی وجہ سے اولاد کو قتل کرنے کی ہرگز اجازت نہیں۔ ٥۔ اولاد کو قتل کرنا کبیرہ گناہ ہے۔ ٦۔ زنا کے قریب نہیں جانا چاہیے کیونکہ یہ برا راستہ ہے۔ ٧۔ کسی کو ناحق قتل کرنا حرام ہے۔ ٨۔ قصاص لینے میں زیادتی نہیں ہونی چاہیے۔ ٩۔ یتیم کے مال کے قریب نہیں جانا چاہیے۔ ١٠۔ بے مقصدبات کے پیچھے نہیں پڑنا چاہیے۔ ١١۔ زمین پر اکڑ کر چلنا جائز نہیں۔ ” ذٰلِکَ“ کا لفظ استعمال فرما کر مذکورہ باتوں کا احاطہ کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ یہ حکمت و دانائی کی باتیں ہیں۔ جو آپ کے رب نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف وحی فرمائی ہیں۔ ان میں سب سے بڑی حکمت کی بات عقیدہ توحید پر پکے رہ کر صرف ایک اللہ کی عبادت کرنا ہے۔ اس لیے خطاب کے آغاز اور اس کے آخر میں ارشاد ہوا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی اور کی عبادت نہ کرنا ورنہ ملامت زدہ اور دھتکارے ہوئے جہنم میں ڈالے جاؤ گے۔ مسائل ١۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر حکمت والی باتیں وحی کی گئیں۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرانا چاہیے۔ ٣۔ مشرک کو ملامت زدہ اور دھتکار کر جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔ تفسیر بالقرآن مشرک کی سزا : ١۔ اللہ کے ساتھ کوئی دوسرا لٰہ نہ بنانا وگرنہ دھتکار کر جہنم میں داخل کردیا جائے گا۔ (بنی اسرائیل : ٣٩) ٢۔ اللہ کے ساتھ شرک کرنے والے پر جنت حرام، اور اس کا ٹھکانہ جہنم ہے۔ (المائدۃ: ٧٢) ٣۔ جس نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کیا گویا کہ وہ آسمان سے گرپڑا۔ (الحج : ٣١) ٤۔ جو شخص اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرتا ہے وہ دور کی گمراہی میں مبتلا ہوگیا۔ (النساء : ١١٦) ٥۔ شرک بہت بڑا ظلم ہے۔ (لقمان : ١٣) ٦۔ اللہ تعالیٰ مشرک کو معاف نہیں کرے گا۔ (النساء : ٤٨) الإسراء
40 فہم القرآن ربط کلام : توحید کائنات کی سب سے بڑی حقیقت ہے۔ لیکن اس کے باوجود مشرک ڈھٹائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے نہ صرف اللہ کی صفات میں دوسروں کو شریک کرتا ہے بلکہ اس کی ذات میں بھی دوسروں کو شریک سمجھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنی ذات اور صفات کے اعتبار سے ” وحدہ لا شریک“ ہے۔ سورۃ اخلاص میں دو ٹوک الفاظ میں فرمایا ہے کہ اے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! لوگوں کو کھول کر بتلادیں کہ وہ اللہ ایک ہے۔ نہ اس نے کسی کو جنا ہے اور نہ اسے کسی نے جنم دیا ہے اور اس کی کوئی بھی کسی اعتبار سے برابری کرنے والا نہیں۔ سورۃ المائدۃ آیت ٧٥ میں فطری اور عقلی دلیل کے ساتھ عیسائیوں کو سمجھایا ہے کہ مسیح ابن مریم ( علیہ السلام) ایک رسول ہی تھے۔ جن سے پہلے کئی رسول گزر چکے اور ان کی والدہ صدیقہ تھیں۔ دونوں کھانا کھاتے تھے۔ ہم مشرکوں کے لیے کس طرح حقیقت کھول کر بیان کرتے ہیں۔ لیکن دیکھیں پھر بھی بہکے جاتے ہیں۔ سورۃ النحل آیت ٥٧ تا ٥٩ میں ملائکہ کو اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں قرار دینے والوں کو سمجھایا کہ جب ان میں سے کسی کو بیٹی کی خوشخبری سنائی جاتی ہے تو اس کا چہرہ سیاہ ہونے کے ساتھ غم سے بھر جاتا ہے اور وہ لوگوں میں اس بری خبر کی وجہ سے عار محسوس کرتا ہے اور یہ سوچتا ہے آیا اسے زندہ رہنے دے یا زمین میں دھنسا دے ؟ یہاں سوالیہ انداز میں فرمایا ہے کہ کیا تمھارے رب نے تمہارے لیے بیٹے منتخب کیے ہیں اور اپنے لیے ملائکہ کو بیٹیاں منتخب کیا ہے ؟ درحقیقت یہ بہت ہی گناہ کی بات ہے جو تم کہتے ہو۔ سورۃ مریم آیت ٨٨ تا ٩٢ میں اس جرم کی سنگینی کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا وہ کہتے ہیں : ” الرحمن“ کی اولاد ہے یہ اتنی بری بات کہہ رہے ہیں قریب ہے کہ اس سے آسمان پھٹ جائیں اور زمین شق ہوجائے اور پہاڑ سرکے بل نیچے گر پڑیں۔ ربِّ رحمٰن کو کسی طرح لائق نہیں کہ وہ کسی کو اپنی اولاد بنائے۔“ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو اس حد تک گناہ قرار دیا ہے کہ جو شخص یا فرقہ یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اولاد ہے ایسا شخص اللہ تعالیٰ کو گالی دیتا ہے۔ ظاہر ہے اس سے بڑھ کر کوئی گناہ نہیں ہوسکتا۔ (عَنْ اَبِیْ ہُرَےْرَۃ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَال اللّٰہُ تَعَالٰی کَذَّبَنِیْ ابْنُ اٰدَمَ وَلَمْ ےَکُنْ لَّہُ ذٰلِکَ وَشَتَمَنِیْ وَلَمْ ےَکُنْ لَّہُ ذٰلِکَ فَاَمَّا تَکْذِےْبُہُ اِیَّایَ فَقَوْلُہُ لَنْ یُّعِےْدَنِیْ کَمَا بَدَاَنِیْ وَلَےْسَ اَوّلُ الْخَلْقِ بِاَھْوَنَ عَلَیَّ مِنْ اِعَادَتِہٖ وَاَمَّا شَتْمُہُ اِیَّایَ فَقََوْلُہُ اتَّخَذَ اللّٰہُ وَلَدًا وَّاَنَا الْاَحَدُ الصَّمَدُ الَّذِیْ لَمْ اَلِدْ وَلَمْ اُوْلَدْ وَلَمْ ےَکُنْ لِّیْ کُفُوًا اَحَدٌ وَفِیْ رِوَاے َۃٍ: ابْنِ عَبَّاسٍ وَّاَمَّا شَتْمُہُ اِیَّایَ فَقَوْلُہُ لِیْ وَلَدٌ وَسُبْحَانِیْ اَنْ اَتَّخِذَصَاحِبَۃً اَوْ وَلَدًا)[ رواہ البخاری : کتاب بدء الخلق ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان ہے کہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں ابن آدم مجھے جھٹلاتا ہے حالانکہ یہ اس کے لیے مناسب نہیں۔ وہ میرے بارے میں زبان درازی کرتا ہے یہ اس کے لیے ہرگز جائز نہیں۔ اس کا مجھے جھٹلانا یہ ہے کہ اللہ مجھے دوبارہ پیدا نہیں کریگا جس طرح اس نے پہلی بار پیدا کیا ہے۔ حالانکہ میرے لیے دوسری دفعہ پیدا کرنا پہلی دفعہ پیدا کرنے سے زیادہ آسان ہے۔ اس کا میرے بارے میں یہ کہنا بدکلامی ہے کہ اللہ کی اولاد ہے جبکہ میں اکیلا اور بے نیاز ہوں۔ نہ میں نے کسی کو جنم دیا اور نہ مجھے کسی نے جنا ہے اور کوئی میری برابری کرنے والا نہیں ہے۔ بخاری شریف میں حضرت ابن عباس (رض) کے حوالے سے یہ الفاظ پائے جاتے ہیں کہ ابن آدم کی میرے بارے میں بدکلامی یہ ہے کہ میری اولاد ہے جبکہ میں پاک ہوں میری نہ بیوی ہے نہ اولاد۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ کی اولاد نہیں ہے۔ ٢۔ کسی کو اللہ کی اولاد قرار دینا بدترین گناہ ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ اولاد سے مبرا اور پاک ہے : ١۔ کیا تمہارے رب نے تمہیں بیٹے دئیے ہیں اور خود فرشتوں کو بیٹیاں بنایا ہے؟ یہ بڑی نامعقول بات ہے۔ (بنی اسرائیل : ٤٠) ٢۔ انہوں نے کہا اللہ کی اولاد ہے وہ اس سے پاک ہے۔ (البقرۃ: ١١٦) ٣۔ انہوں نے کہا ” الرحمن“ کی اولاد ہے وہ اس سے پاک ہے۔ (الانبیاء : ٢٦) ٤۔ اللہ کی اولاد نہیں ہے نہ اس کے ساتھ کوئی اور الٰہ ہے۔ (المومنون : ٩١) ٥۔ اللہ کی نہ بیوی ہے اور نہ اولاد۔ (الجن : ٣) ٦۔ انہوں نے کہا اللہ کی اولاد ہے حالانکہ اللہ تعالیٰ اس سے پاک اور بے نیاز ہے۔ (یونس : ٦٨) الإسراء
41 فہم القرآن ربط کلام : کسی کو اللہ تعالیٰ کی اولاد ٹھہرانا اس کی ذات کے ساتھ شریک بنانے کے مترادف ہے۔ اس بات کی تردید کے لیے یہ بتلایا گیا ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کا کوئی شریک ہوتا تو وہ ضرور اس کے خلاف کوئی راستہ تلاش کرتا۔ اللہ تعالیٰ نے مسئلہ توحید سمجھانے کے لیے قرآن مجید میں بڑی تفصیل کے ساتھ ہر قسم کے دلائل دیئے ہیں۔ لیکن مشرک نے اپنی فطرت کو اس طرح مسخ کرلیا ہوتا ہے کہ وہ توحید خالص کو سننا گورا نہیں کرتا۔ مشرک کی طبیعت اور فطرت کا ذکر کرتے ہوئے قرآن مجید نے بتلایا ہے کہ جب انہیں کہا جاتا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق، حاجت روا اور مشکل کشا نہیں تو یہ سن کر مشرک تکبر کا اظہار کرتے ہیں۔ ( الصٰفٰت : ٣٥) دوسرے مقام پر مشرک کی فطرت کا یوں ذکر کیا ہے کہ جب انہیں ایک اللہ کی طرف بلایا جاتا ہے تو انکار کرتے ہیں اور اگر اس کے ساتھ دوسروں کو شریک کیا جائے تو فوراً مان جاتے ہیں۔ حالانکہ حکم تو صرف اللہ عالی مرتبت کا چلتا ہے۔ (المومن : ١٢) سورۃ الزمر آیت ٤٥ میں مشرک کی حالت یوں بیان کی ہے کہ جب ایک اللہ وحدہ لا شریک کا ذکر کیا جاتا ہے تو ان کے چہرے بگڑ جاتے ہیں اور جب اس کے سوا دوسروں کا تذکرہ ہوتا ہے تو خوش ہوجاتے ہیں۔ قرآن مجید کا توحید ہی سب سے بڑا اور مرکزی مضمون ہے۔ اس لیے جب عقیدہ توحید کا بیان ہوتا ہے تو مشرک قرآن مجید سے مزید نفرت کا اظہار کرتے ہیں۔ انہیں سمجھانے کے لیے یہ انداز اختیار کیا گیا کہ اگر اللہ تعالیٰ کے ساتھ کوئی اور اِلٰہ ہوتا جس کا یہ دعویٰ کرتے ہیں تو وہ ضرور اللہ تعالیٰ سے کچھ اختیار لینے کی کوشش کرتا۔ یعنی اللہ تعالیٰ کی اولاد ہوتی تو وہ اس سے کچھ نہ کچھ اختیار مانگتی اگر کوئی اس کا شریک ہوتا تو ہر صورت اختیارات کا مطالبہ کرتا۔ ایک الٰہ ایک فیصلہ کرتا دوسرا خدا کوئی اور حکم دیتا۔ جس سے زمین و آسمان کے نظام میں خلل واقع ہوتا۔ کائنات کے نظام کا مربوط اور یکسوئی کے ساتھ چلنا اس بات کا ثبوت ہے۔ ایک ہی ذات وحدہ لاشریک ہے۔ جو پورے نظام کو سنبھالے اور چلائے جارہا ہے۔ اللہ تعالیٰ اولاد اور ہر قسم کے شریک سے پاک ہے اور وہ مشرکوں کی بیہودہ اور فرسودہ باتوں، پراگندہ خیالات اور گندے عقیدے سے بہت ہی بلند و بالا ہے۔ مسائل ١۔ قرآن مجید کی نصیحت آموز باتیں سن کر کفار کی نفرت میں اضافہ ہی ہوتا ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کوئی اور الٰہ نہیں ہے۔ ٣۔ اگر اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی الٰہ ہوتا تو یہ اللہ تعالیٰ کے عرش تک رسائی حاصل کرنے کی کوشش کرتا۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ کفار کی باتوں سے پاک اور بلند و بالا ہے۔ تفسیر بالقرآن قرآن مجید باعث نصیحت ہے : ١۔ ہم نے قرآن میں طرح طرح کے دلائل دیے ہیں تاکہ لوگ نصیحت حاصل کریں۔ (بنی اسرائیل : ٤١) ٢۔ یہ کتاب برحق ہے کیا اس کا علم رکھنے والا شخص کی طرح ہوسکتا ہے جو اندھا ہے ؟ عقلمند ہی نصیحت حاصل کرتے ہیں۔ (الرعد : ١٩) ٣۔ ہم نے بابرکت کتاب نازل کی تاکہ لوگ اس کی آیات میں غور و فکر کریں اور نصیحت حاصل کریں۔ (ص : ٢٩) ٤۔ ہم نے قرآن میں ہر قسم کی مثالیں بیان کی ہیں تاکہ کفار نصیحت حاصل کریں۔ (الزمر : ٢٧) ٥۔ اللہ تعالیٰ اپنی آیات لوگوں کے لیے بیان فرماتا ہے تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں۔ (البقرۃ: ٢٤٢) الإسراء
42 الإسراء
43 الإسراء
44 فہم القرآن ربط کلام : مشرک اللہ تعالیٰ کے ساتھ دوسروں کو شریک بنا کر اللہ تعالیٰ کی توہین کرتا ہے۔ اس طرح وہ نہ صرف سنگین جرم کا مرتکب ہوتا ہے بلکہ وہ نظامِ کائنات سے بغاوت کا راستہ اختیار کرتا ہے کیونکہ پوری کائنات اپنے خالق و مالک کے تابع فرمان اور اس کی حمد سرا ہے۔ قرآن مجید سب لوگوں بالخصوص کافر، مشرک اور نافرمانوں کے سامنے یہ حقیقت عیاں کرتا ہے۔ اے رب کے نافرمانو! تم جس طرح چاہو نافرمانی کرو۔ مگر یہ یادرکھنا کہ جس دھرتی کے اوپر اور جس آسمان کے نیچے اور جس فضا میں تم رہتے ہو۔ وہ سب کے سب اللہ تعالیٰ کی حمد و ستائش بیان کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ ساتوں آسمان اور زمینیں اور جو کچھ ان میں ہے وہ اپنے خالق و مالک کو بہترین الفاظ اور انداز کے ساتھ یاد کر رہے ہیں۔ لیکن انسان ان کی تسبیح کو سمجھ نہیں سکتے۔ اگر حمد و ثناء کی فضا میں انسان اشرف المخلوقات ہونے کے باوجود اپنے رب کی اس کے فرمان کے مطابق حمد و ثناء نہیں کرتا اور اس کے باوجود اللہ تعالیٰ اسے مہلت دئیے ہوئے ہے تو اس کا یہ معنی نہیں کہ انسان اللہ تعالیٰ کی قدرت اور دسترس سے باہر ہے۔ ہرگز نہیں یہ اللہ تعالیٰ کی حکمت اور بخشش کا نتیجہ ہے کہ وہ انسان کو مہلت پہ مہلت دئیے جاتا ہے۔ جہاں تک کائنات کی ہر چیز کا اپنے رب کی حمد و ثناء کے پڑھنے کا تعلق ہے۔ قرآن مجید واضح الفاظ میں یہ بھی بیان کرتا ہے کہ ہر چیز اللہ تعالیٰ کو یاد کرنے کے ساتھ اس کے حضور سجدہ بھی کرتی ہے۔ حتیٰ کہ ان کے سائے بھی اپنے رب کی بارگاہ میں سجدہ ریز ہوتے ہیں۔ اس حقیقت کا اقرار کسی نہ کسی حد تک موجودہ سائنسدانوں نے کرلیا ہے ان کا کہنا ہے کہ درخت بھی ایک دوسرے سے باتیں کرتے ہیں۔ ایمان کی حلاوت کے لیے اپنے رب کا ارشاد بار بار پڑھیے : (أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللّٰہَ یَسْجُدُ لَہُ مَنْ فِی السَّمٰوٰاتِ وَمَنْ فِی الْأَرْضِ وَالشَّمْسُ وَالْقَمَرُ وَالنُّجُوْمُ وَالْجِبَالُ وَالشَّجَرُ وَالدَّوَابُّ وَکَثِیْرٌ مِنَ النَّاسُ )[ الحج : ١٨] ” کیا تم دیکھتے نہیں؟ جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے۔ سورج، چاند، ستارے، پہاڑ، درخت، چوپائے اور لوگوں کی ایک کثیر تعداد اللہ کے حضور سربسجود ہوتی ہے۔“ (عَنْ اَبِیْ ذَرٍّ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حِیْنَ غَرَبَتِ الشَّمْسُ اَتَدْرِیْ اَیْنَ تَذْھَبُ ھٰذِہٖ قُلْتُ اَللّٰہُ وَرَسُوْلُہُ اَعْلَمُ قَالَ فَاِنَّھَا تَذْھََبُ حَتّٰی تَسْجُدَتَحْتَ الْعَرْشِ فَتَسْتَاْذِنُ فَیُؤْذَنُ لَھَا وَیُوْشِکُ اَنْ تَسْجُدَ وَلَاتُقْبَلُ مِنْھَا وَتَسْتَأْذِنُ فَلَا یُوؤذَنُ لَھَا وَیُقَالُ لَھَا اِرْجِعِیْ مِنْ حَیْثُ جِءْتِ فَتَطْلُعُ مِنْ مَّغْرِبِھَا فَذَالِکَ قَوْلُہُ وَالشَّمْسُ تَجْرِیْ لِمُسْتَقَرٍّلَّھَا قَالَ مُسْتَقَرُّھَا تَحْتَ الْعَرْش) [ رواہ البخاری : کتاب التوحید، باب وکان عرشہ علی الماء ] ” حضرت ابوذر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کیا تجھے معلوم ہے جب سورج غروب ہوتا ہے تو کہاں جاتا ہے؟ میں نے عرض کی‘ اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو علم ہے۔ آپ نے فرمایا سورج عرش کے نیچے جاکر سجدہ کرتا اور اجازت طلب کرتا ہے۔ اسے اجازت مل جاتی ہے۔ قریب ہے کہ وہ سجدہ کرے اور اس کا سجدہ قبول نہ ہو وہ طلوع ہونے کی اجازت چاہے لیکن اس کو اجازت نہ ملے بلکہ اسے حکم ہو کہ جدھر سے آیا اسی طرف سے طلوع ہوجا۔ چنانچہ سورج مغرب کی طرف سے طلوع ہوگا۔ یہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے سورج اپنے مستقر کی طرف چلا جاتا ہے آپ نے فرمایا اس کا ٹھکانہ عرش کے نیچے ہے۔“ مسائل ١۔ ساتوں آسمان اور ساتوں زمین اور جو کچھ ان میں ہے اللہ تعالیٰ کی تسبیح بیان کرتے ہیں۔ ٢۔ ہر چیز اللہ تعالیٰ کی تسبیح بیان کرتی ہے لیکن لوگ نہیں سمجھتے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ بہت برد بار اور بخشنے والا ہے۔ تفسیر بالقرآن ہر چیز اللہ تعالیٰ کی تسبیح بیان کرتی ہے : ١۔ ساتوں آسمان اور زمین اور جو کچھ اس میں ہے اللہ کی تسبیح بیان کرتے ہیں۔ (بنی اسرائیل : ٤٤) ٢۔ جو کچھ آسمان اور زمین میں ہے اللہ کی تسبیح بیان کرتے ہیں۔ (الحدید : ١) ٣۔ اللہ کے عرش کو اٹھانے والے فرشتے اس کی تسبیح بیان کرتے ہیں۔ (المومن : ٧) ٤۔ جو تیرے رب کے پاس ہیں وہ اس کی عبادت سے تکبر نہیں کرتے اس کی تسبیح بیان کرتے ہیں اور اسی کو سجدہ کرتے ہیں۔ (الاعراف : ٢٠٦) ٥۔ ہم نے داؤد (علیہ السلام) کے ساتھ پہاڑوں کو مسخر کیا اور وہ بھی صبح و شام اللہ کی تسبیح بیان کرتے۔ (الانبیاء : ٧٩) الإسراء
45 فہم القرآن ربط کلام : قرآن مجید اللہ تعالیٰ کا عظیم ذکر اور اس کی حمد کی ایک صورت ہے۔ لیکن قرآن مجید کی تلاوت کی جائے توکفار کے لیے ایک پردہ حائل ہوجاتا ہے اور وہ اس سے نفرت کرتے ہیں۔ قرآن مجید انسان کے دل کے لیے ایک بارش کی حیثیت رکھتا ہے۔ مگر اس بارش کا اثر اسی دل پر ہوتا ہے۔ جو کفر و نفاق اور ہر قسم کی عصبیت سے صاف ہوتا ہے۔ اس صفت کا حامل شخص جب قرآن مجیدکی تلاوت کرتا اور سنتا ہے تو اس کے ایمان میں کئی گنا اضافہ ہوجاتا ہے۔ اس پر ایمان لانے والے کا دل نرم اور اس کا اپنے رب پر توکل بڑھ جاتا ہے۔ (الانفال : ٢) اس کے برعکس جس کے دل میں کفر و نفاق اور تعصب ہوتا ہے۔ اس پر قرآن مجید کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔ کیونکہ کفر و نفاق اور تعصب کے پردے قرآن اور اس کے دل کے درمیان حائل ہوجاتے ہیں۔ جس وجہ سے اس کے کفر و نفاق میں اور زیادہ اضافہ ہوجاتا ہے۔ جس طرح بارش کو ڑا کرکٹ پر ہو تو تعفن میں تیزی آجاتی ہے۔ یہی بارش فصلوں پر ہو تو وہ لہلہانے لگتی ہیں۔ اس سے پھول مہکتے ہیں، درختوں کے سبزے میں اضافہ ہوتا ہے، ہر چیز کا چہرہ گرد و غبار سے دھل جاتا ہے اور ہر چیز ہشاش بشاش نظر آتی ہے۔ یہی قرآن مجید کی تاثیر ہے کہ وہ کفر و نفاق سے پاک دل میں ایمان کے اضافے کا باعث بنتا ہے۔ لیکن کافر کے کفر اور مشرک کے شرک و نفاق کی وجہ سے قرآن اور ان کے درمیان پردے حائل ہوجاتے ہیں۔ جس کے بارے میں مشرک ان الفاظ میں اقرار کرتے ہوئے کہتے تھے کہ جس کی طرف تو ہمیں بلاتا ہے۔ اس سے ہمارے دل پردے میں، ہمارے کان بہرے ہیں اور ہمارے اور تیرے درمیان ایک پردہ حائل ہے۔ لہٰذا تم اپنا کام کیے جاؤ اور ہم اپنا کام کیے جائیں گے۔ (حٰم السجدۃ: ٥) اسی بات کو اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف منسوب کرتے ہوئے فرمایا ہے ہم نے ان کے دلوں پر پردہ ڈال دیا ہے کہ وہ اس قرآن کو سمجھ ہی نہ سکیں۔ ان کے کانوں میں بوجھ ہے، جب آپ قرآن میں اپنے اکیلے رب کا ذکر کرتے ہیں تو مشرک بدک کر پیٹھ پھیر لیتے ہیں۔ یہ بات پہلے بھی عرض ہوچکی ہے کہ ہدایت اور گمراہی اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے۔ اس لیے اس کا تذکرہ کرتے ہوئے بعض دفعہ اللہ تعالیٰ اسے اپنی طرف منسوب فرماتا ہے۔ مسائل ١۔ جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قرآن پڑھتے ہیں تو آپ کے اور کفارکے درمیان پردہ حائل کردیا جاتا۔ ٢۔ اللہ کی توحید کا ذکر سن کر کفار پیٹھ پھیر جاتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن کفار کے دل، کانوں اور آنکھوں پر پردہ ڈال دیا جاتا ہے : ١۔ ہم نے ان کے دلوں اور کانوں پر پردہ ڈال دیا ہے کہ وہ اسے سمجھیں۔ (بنی اسرائیل : ٤٦) ٢۔ وہ لوگ جو ایمان نہیں لاتے ان کے کانون پر بوجھ ہے۔ (حٰم السجدۃ : ٤٤) ٣۔ ہم نے ان کے دلوں پر پردہ اور ان کے کانوں پر بوجھ ڈال دیا ہے۔ (الانعام : ٢٥) ٤۔ جب ان کے سامنے ہماری آیات تلاوت کی جاتی ہیں تو وہ تکبر سے منہ موڑتے ہیں گویا کہ انھوں نے سنا ہی نہیں ان کے کانوں میں بوجھ ہے۔ (لقمان : ٧) ٥۔ ہم نے ان کے دلوں پر پردہ اور کانوں میں بوجھ پیدا کردیا وہ ہدایت نہیں پاتے۔ (الکہف : ٥٧) ٦۔ اللہ نے کفار کے دلوں اور کانوں پر مہر لگا رکھی ہے اور ان کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا ہے۔ (البقرۃ: ٧) الإسراء
46 الإسراء
47 فہم القرآن ربط کلام : عقیدہ توحید سے نفرت کی بناء پر کفار قرآن مجید کو سننے کے لیے تیار نہیں ہوتے تھے۔ اگر کہیں انہیں قرآن مجید سننا پڑجائے۔ تو وہ عیب جوئی کی نیت سے سنا کرتے ہیں۔ اس کے بارے میں رب ذوالجلال کا فرمان ہے کہ ہم خوب جانتے ہیں کہ یہ لوگ قرآن مجید کو کس نیت سے سنتے ہیں۔ کفار اور مشرکین کو قرآن مجید میں جس بات سے سب سے زیادہ چڑ تھی اور ہے۔ وہ توحید کا مضمون ہے۔ اس بناء پر کفار قرآن مجید سننے کے بعد آپس میں سرگوشیاں کرتے اور قرآن مجید سے متاثر ہونے والے حضرات کو کہتے کہ تم ایسے شخص کی پیروی کرتے ہو جس پر جادو ہوچکا ہے۔ اس پر رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا گیا ہے۔ کہ اے پیغمبر! دیکھیں یہ لوگ آپ کے بارے میں کیسی باتیں کرتے ہیں ؟ یہ گمراہ ہوچکے ہیں، اب سیدھا راستہ نہیں پا سکتے۔ عقیدہ توحید سے انحراف اور قرآن مجید سے نفرت کی وجہ سے کفار اور مشرکین اس قدر بوکھلاہٹ کا شکار ہوچکے تھے۔ ایک طرف وہ آپ کو جادو گر قرار دیتے اور پھر اسی زبان سے یہ الزام دیتے کہ آپ جادو زدہ ہیں۔ جب کوئی شخص گمراہ ہونے کے ساتھ حق کی مخالفت میں بوکھلاہٹ کا شکار ہوجائے۔ تو اس کا ہدایت پانا ناممکن ہوجاتا ہے۔ اسی بناء پر ارشاد ہوا کہ اے رسول! یہ لوگ سیدھا راستہ نہیں پا سکتے۔ اللہ تعالیٰ لوگوں کے لیے کھول کھول کر ہدایت کے متعلقہ دلائل اور امثال بیان کرتا ہے تاکہ لوگ ان پر غور کریں۔ مگر لوگ ان پر غور کرنے کی بجائے عیب جوئی کرتے ہیں۔ جس کی وجہ سے ان کو ہدایت کی توفیق نہیں ملتی۔ جادو اور جادو گر کی حالت : جادو کفر یہ‘ شرکیہ‘ اوٹ پٹانگ الفاظ اور جس طریقے سے کیا جائے وہ کفر ہے۔ ( وَمَا کَفَرَ سُلَیْمٰنُ وَلٰکِنَّ الشَّیَاطِیْنَ کَفَرُوْ ایُعَلِّمُوْنَ النَّاس السِّحْرَ) [ البقرۃ١٠٢] ” سلیمان نے کفر کبھی نہیں کیا بلکہ کفر تو وہ شیطان کرتے تھے جو لوگوں کو جادو سکھلاتے تھے۔“ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان ہے : ( لَیْسَ مِنَّا مَنْ تَطَیَّرَ اَوْتُطُیِّرَلَہٗ اَوْتَکَھَّنَ اَوْتُکُھِّنَ لَہُ اَوْ سَحَرَ اَوْ سُحِرَ لَہُ وَمَنْ اَتیٰ کَا ھِنًا فَصَدَّقَہُ بِمَا یَقُوْلُ فَقَدْ کَفَرَ بِمَااُنْزِلَ عَلٰی مُحَمَّدٍ) [ الترغیب و الترہیب] ” جو شخص فال نکالے یا اس کے لیے فال نکالی جائے‘ کوئی غیب کی خبریں دے یا اس کے لیے کوئی دوسرا ایسی خبر دے ایسے ہی کوئی خود جادوگر ہو یا دوسرا شخص اس کے لیے جادو کرے وہ ہم میں سے نہیں ہے۔ جو کوئی ایسے شخص کے پاس جائے اور اسکی باتوں کی تصدیق کرے اس نے ہر اس بات کا انکار کیا جو محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل ہوئی ہے۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ ہر ایک کے مقاصد اور نیتوں سے بخوبی آگاہ ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ لوگوں کی سرگوشیوں کو بھی سنتا ہے۔ ٣۔ کفار آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سحر زدہ قرار دیتے تھے۔ ٤۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر الزام لگانے والے گمراہ لوگ ہیں یہ راہ راست نہیں پاسکتے۔ تفسیر بالقرآن نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر کفار کے الزامات : ١۔ ظالم کہتے ہیں تم ایسے شخص کی پیروی کرتے ہو جس پر جادو کیا گیا ہے۔ (بنی اسرائیل : ٤٧) ٢۔ انہوں نے کہا جو رسول تمہاری طرف بھیجا گیا ہے وہ مجنون ہے۔ (الشعراء : ٢٧) ٣۔ اور وہ کہتے ہیں آپ مجنون ہیں۔ (القلم : ٥١) ٤۔ وہ کہتے ہیں کیا شاعر اور مجنون کے لیے ہم اپنے معبودوں کو چھوڑ دیں۔ (الصٰفٰت : ٣٦) ٥۔ یہ اللہ پر جھوٹ باندھتا ہے یا اسے جنون ہے۔ (سبا : ٨) ٦۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے فضل سے مجنون نہیں۔ (القلم : ٢) الإسراء
48 الإسراء
49 فہم القرآن ربط کلام : قرآن مجید سے دوری اور عقیدہ توحید سے انحراف کا منطقی نتیجہ آخرت کا انکار ہوتا ہے۔ جس بناء پر مکہ کے کفار مرنے کے بعد جی اٹھنے کا انکار کرتے تھے۔ آخرت کے منکرین کی سب سے بڑی دلیل یہ ہوا کرتی ہے کہ جب ہم مر کر بوسیدہ ہڈیاں ہوجائیں گے۔ تو پھر ہمیں کون از سر نو پیدا کرے گا؟ قرآن مجید کے دوسرے مقام پر آخرت کے منکرین کا عقیدہ یوں بیان کیا گیا ہے۔ کیا انسان غور نہیں کرتا؟ کہ ہم نے اس کو ایک نطفہ سے پیدا کیا ہے۔ پھر وہ بڑی بے باکی کے ساتھ جھگڑا کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے سامنے مختلف قسم کی باتیں اور مثالیں بیان کرتا ہے۔ وہ اپنی پیدائش کو بھول کر کہتا ہے کہ جب ہڈیاں ریزہ ریزہ ہوجائیں گی تو کون انہیں زندہ کرے گا ؟ اے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! انھیں فرمائیں کہ جس نے پہلی مرتبہ پیدا کیا تھا وہی سب کو جاننے والا، پیدا کرنے والا ہے۔ (یٰس : ٧٧ تا ٧٩) سورۃ القیامۃ کی آیت ٣٤ تا ٤٠ میں انسان کی اس سوچ اور رویہ پر یوں افسوس کا اظہار کیا گیا ہے۔ ” اے انسان ! افسوس ہے تجھ پر افسوس، پھر تجھ پر افسوس کیا جاتا ہے۔ اے انسان ! کیا تو سمجھتا ہے ؟ کہ تجھے یوں ہی چھوڑ دیا جائے گا۔ کیا تو رحم میں داخل ہونے والا منی کا ایک قطرہ نہ تھا ؟ پھر اللہ نے تجھے لوتھڑابنایا۔ پھر اعضاء درست کیے۔ پھر اس سے مرد اور عورت کی قسمیں بنائیں۔ کیا اس خالق کو یہ قدرت نہیں ؟ کہ وہ مردوں کو دوبارہ زندہ کرے۔“ ان دلائل کی بنیاد پر نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ارشاد ہوا کہ آپ انہیں فرما دیں کہ تم پتھر بن جاؤ یا لوہا یا کوئی اور چیز۔ جس کا خیال تمہارے دلوں میں آتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ بھلا ہمیں کون اٹھائے گا ؟ انہیں فرما دیں۔ وہی تمہیں اٹھائے گا جس نے تمھیں پہلی مرتبہ پیدا کیا ہے۔ یہ نخوت وتکبر کی وجہ سے سر ہلا کر پوچھتے ہیں کہ کب ایسا ہوگا ؟ انہیں فرما دیں کہ عنقریب یہ ہو کر رہے گا۔ جس دن تمہیں اللہ تعالیٰ آواز دے گا اور تم اس کی تعریف کرتے ہوئے حاضر ہو گے اور اس وقت تم خیال کرو گے کہ دنیا میں بہت ہی تھوڑ اعرصہ رہے تھے۔ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کا جلال اور دبدبہ دیکھ کر آخرت کے منکروں کو نہ صرف اپنی لایعنی باتیں اور جھوٹے دلائل بھول جائیں گے۔ بلکہ انہیں یہ بھی یاد نہ ہوگا کہ وہ کتنی مدت تک دنیا میں ٹھہرے رہے تھے۔ تفسیر بالقرآن مرنے کے بعد زندہ ہونے کے دلائل : ١۔ وہ کہتے ہیں ہمیں کون دوبارہ زندہ کرے گا ؟ فرما دیجیے جس نے پہلی بار پیدا کیا تھا۔ (بنی اسرائیل : ٥١) ٢۔ ہم نے زمین سے تمہیں پیدا کیا اسی میں لوٹائیں گے اور اسی سے دوبارہ اٹھائیں گے۔ (طٰہٰ: ٥٥) ٣۔ اللہ ہی مخلوق کو پیدا کرنے والا ہے، پھر وہی اسے دوبارہ لوٹائے گا۔ (یونس : ٤) ٤۔ اللہ وہ ذات ہے جس نے مخلوق کو پہلی بار پیدا کیا، پھر وہ اسے لوٹائے گا اور یہ کام اس کے لیے آسان ہے۔ (الروم : ٢٧) ٥۔ اللہ ہی نے مخلوق کو پیدا کیا، پھر وہ اسے دوبارہ پیدا کرے گا، پھر تم اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔ (الروم : ١١) ٦۔ کیا اللہ کو اس بات پر قدرت نہیں ؟ کہ وہ مردوں کو زندہ فرمائے۔ (القیامۃ: ٤٠) الإسراء
50 الإسراء
51 الإسراء
52 الإسراء
53 فہم القرآن ربط کلام : عقیدہ توحید اور آخرت کا انکار کرنے والے لوگ باطل عقیدہ رکھنے کے باوجود اپنے عقیدے کی حمایت میں خواہ مخواہ بحث کرتے اور جھوٹے دلائل دیتے ہیں۔ اکثر اوقات لڑنے جھگڑنے پر اتر آتے ہیں۔ ایسی صورت میں داعی حق کو صبرو تحمل کے ساتھ بہتر سے بہترین گفتگو کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ارشاد ہوا کہ آپ میرے بندوں کو بتلائیں اور سمجھائیں کہ وہ لوگوں سے ایسی گفتگو کریں جودل پذیر اور پسندیدہ ہو۔ کیونکہ شیطان اشتعال دلاکر لوگوں کے درمیان فساد برپا کرتا ہے۔ یقیناً شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے۔ داعی حق جب منکرین حق کو اخلاص اور جان سوزی کے ساتھ حق کی طرف دعوت دیتا ہے۔ اس کے جواب میں منکرین حق جھوٹے دلائل دینے کے ساتھ ساتھ ایسا رویہ اختیار کرتے ہیں۔ جس سے داعی حق کا نہ صرف دل پسیجتا ہے بلکہ بعض دفعہ غیرتِ حق کی وجہ سے اسکی زبان سے ایسے الفاظ نکل جاتے ہیں۔ جس سے نہ صرف اس کی محنت رائیگاں جاتی ہے۔ بلکہ معاملہ جنگ وجدال تک پہنچ جاتا ہے۔ اس صورت حال سے بچنے کے لیے یہاں تک حکم دیا گیا کہ مشرکین کے جھوٹے خداؤں کو گالی نہ دو۔ کیونکہ وہ جہالت اور عداوت میں آکر تمہارے سچے رب کو گالی دیں گے۔ (الانعام : ١٠٨) اس نقصان اور برے حالات سے بچنے کے لیے قرآن مجید مبلغ کو یہ ہدایت کرتا ہے : (ادْعُ إِلَی سَبِیْلِ رَبِّکَ بالْحِکْمَۃِ وَالْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ وَجَادِلْہُمْ بالَّتِی ہِیَ أَحْسَنُ إِنَّ رَبَّکَ ہُوَ أَعْلَمُ بِمَنْ ضَلَّ عَنْ سَبِیْلِہِ وَہُوَ أَعْلَمُ بالْمُہْتَدِیْنَ )[ النحل : ١٢٥] ” اپنے رب کی طرف اور خیر خواہی کے جذبے کے ساتھ لوگوں کو بلاؤ۔ اگر کہیں بحث وتکرارکی نوبت آئے تو پھر بھی اچھا انداز اختیار کرو۔ آپ کا رب خوب جانتا ہے جو اس کے راستے سے گمراہ ہوا اور وہ ہدایت یافتہ لوگوں سے اچھی طرح واقف ہے۔“ جو مبلغ اس طریقہ اور انداز سے لوگوں کو حق بات کی طرف بلاتا ہے۔ اس کی ان الفاظ میں تعریف کی گئی ہے۔ دعوت دینے کی فضیلت : (وَمَنْ اَحْسَنُ قَوْلاً مِمَّنْ دَعَا اِِلَی اللّٰہِ وَعَمِلَ صَالِحًا وَّقَالَ اِِنَّنِی مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ)[ حٰم السجدۃ: ٣٣] ” اور اس شخص سے بڑھ کر کس کی بات اچھی ہو سکتی ہے ؟ جو لوگوں کو اللہ کی طرف بلاتا اور نیک عمل کرتا ہے اور اس بات کا اظہار کرتا ہے کہ میں مسلمان ہوں۔“ (عَنْ اَبِیْ ھُرَےْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَنْ دَعَا اِلٰی ھُدًی کَانَ لَہُ مِنَ الْاَجْرِ مِثْلُ اُجُوْرِ مَنْ تَبِعَہُ لَا ےَنْقُصُ ذَلِکَ مِنْ اُجُوْرِھِمْ شَےْءًا وَّمَنْ دَعَا اِلٰی ضَلَالَۃٍ کَانَ عَلَےْہِ مِنَ الْاِثْمِ مِثْلَ اٰثَامِ مَنْ تَبِعَہُ لَا ےَنْقُصُ ذَلِکَ مِنْ اٰثَامِھِمْ شَےْءًا)[ رواہ مسلم : کتاب العلم، باب مَنْ سَنَّ سُنَّۃً حَسَنَۃً أَوْ سَیِّءَۃً وَمَنْ دَعَا إِلَی ہُدًی أَوْ ضَلاَلَۃٍ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان نقل کرتے ہیں کہ خیر کی دعوت دینے والے کو اس پر عمل کرنے والے کے برابر ثواب ملے گا جبکہ ان لوگوں کے اجر میں کوئی کمی واقع نہیں ہوگی۔ جس نے برائی کا پرچار کیا وہ اس پر عمل کرنے والے کے برابر گنہگار ہوگا۔ اس سے ان کے گناہوں میں کوئی کمی نہیں ہوگی۔“ مسائل ١۔ انسان کو ہمیشہ اچھی بات کہنی چاہیے۔ ٢۔ شیطان لوگوں میں فساد ڈالتا ہے۔ ٣۔ شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے۔ ٤۔ داعی کو ہمیشہ اچھا انداز اور بہترین الفاظ استعمال کرنے چاہییں۔ تفسیر بالقرآن داعیِ حق کے اوصاف : ١۔ میرے بندوں کو فرمادیں کہ اچھی بات کہیں۔ (بنی اسرائیل : ٥٣) ٢۔ اللہ کے راستہ کی طرف حکمت اور دانائی سے دعوت دیں۔ (النحل : ١٢٥) ٣۔ آپ پر اللہ تعالیٰ کی رحمت ہے کہ آپ ان کے لیے نرم دل ہیں۔ (آل عمران : ١٥٩) ٤۔ آپ خلق عظیم کے مالک ہیں۔ (القلم : ٤) ٥۔ اچھائی اور برائی برابر نہیں ہو سکتے۔ (حٰم السجدۃ: ٣٤) الإسراء
54 فہم القرآن ربط کلام : اس سے پہلے داعی کو صبر واستقامت اور حسن گفتار کا حکم دیا گیا ہے۔ اب دوسرے انداز میں داعی کو یہ حقیقت سمجھائی گئی ہے کہ ہدایت اور گمراہی اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے اور اس نے اپنے رسول کو الداعی بناکر بھیجا ہے۔ کسی پر چوکیدار بنا کر مبعوث نہیں فرمایا۔ لہٰذا داعی کو لڑنے جھگڑنے کی بجائے اپنا کام اچھے انداز میں کرتے رہنا چاہیے۔ اس حقیقت کو یوں بیان فرمایا کہ تمہارا رب خوب جانتا ہے کہ کس پر کرم فرمانا چاہیے اور کس کو اس کے گناہوں اور جرائم کی سزا ملنی چاہیے۔ آپ کا رب زمینوں آسمانوں کی ہر چیز کی پوری طرح خبر رکھے ہوئے ہے۔ اسی نے بعض انبیاء کو ایک دوسرے پر فضیلت عنایت فرمائی۔ اس کا ارشاد ہے کہ ہم نے داؤد کو زبور عطا فرمائی۔ اس فرمان میں ہدایت کا لفظ استعمال کرنے کی بجائے ” رحم“ کا لفظ استعمال کیا ہے کیونکہ گناہ سے بچ کر نیکی کا راستہ اختیار کرنا صرف اللہ تعالیٰ کی توفیق اور اس کی مہربانی سے ممکن ہوا کرتا ہے۔ اس حقیقت کی ترجمانی حضرت یوسف (علیہ السلام) نے ان الفاظ میں کی تھی۔ جب ایک مدت کے بعد جیل کی کال کوٹھری سے نکلے اور ہر طرف سے ان کو خراج تحسین پیش کیا جارہا تھا۔ یہاں تک کہ عزیزمصر کی بیوی بھی یہ کہنے پر مجبور ہوئی۔ (قَالَتِ امْرَأَۃُ الْعَزِیْزِ الْاٰنَ حَصْحَصَ الْحَقُّ أَنَا رَاوَدْتُہُ عَنْ نَفْسِہِ وَإِنَّہُ لَمِنَ الصَّادِقِیْنَ )[ یوسف : ٥١] ” عزیز مصر کی بیوی نے کہا اب تو حق واضح ہوا۔ میں نے ہی اسے اپنی طرف ورغلانے کی کوشش کی تھی اور یقیناً وہ سچے لوگوں میں سے ہے۔“ اس موقعہ پر پوری عاجزی کے ساتھ حضرت یوسف (علیہ السلام) نے فرمایا تھا : ” اور میں اپنے آپ کو پاک صاف نہیں کہتا کیونکہ نفس امارہ برائی ہی سکھاتا رہتا ہے۔ مگر یہ کہ میرا پروردگار رحم کرے، بے شک میرا پروردگار بخشنے والا، مہربان ہے۔“ [ یوسف : ٥٣] یہی حقیقت رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مخاطب کرتے ہوئے داعی حق کو سمجھائی جا رہی ہے کہ برائی کے مقابلے میں صبر کرنا اور ہر حال میں اچھی بات کہنی چاہیے۔ داعی کو یہ حقیقت بھی ہمیشہ اپنے سامنے رکھنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ سے زمین و آسمان میں کوئی چیز پوشیدہ نہیں۔ وہ جانتا ہے کو ن، کس نیت کے ساتھ حق کی مخالفت کررہا ہے۔ گویا یہ بات بھی ایک لحاظ سے داعی کے لیے تسکین کا باعث ہے۔ آخر میں یہ ارشاد فرمایا کہ ہم نے بعض انبیاء کو ایک دوسرے پر فضلیت عنایت فرمائی۔ اس کا مفہوم یہ ہے کہ ایک داعی کو اس بات سے بے پرواہ ہو کر دین حق کی تبلیغ کرنا ہے۔ کہ اس کی بات قبول کرنے والے کتنے لوگ ہیں ؟ کیونکہ کئی انبیاء ایسے تھے کہ جن کی بات کو بہت سے لوگوں نے قبول کیا اور کچھ ایسے تھے جن کے اخلاص اور محنت کے باوجود لوگوں نے ان کی دعوت کو مسترد کردیا۔ حضرت داؤد (علیہ السلام) کا حوالہ دے کر دو باتوں کی طرف اشارہ کیا ہے کہ کسی داعی کو وسائل کی کم مائیگی کی طرف دھیان نہیں کرنا چاہیے۔ کیونکہ ضروری نہیں کہ وسائل کی دستیابی کی صورت میں دعوت حق کو پذیرائی ہوجائے۔ حضرت داؤد (علیہ السلام) اپنے وقت کے پیغمبر اور بادشاہ ہونے کے باوجود سب لوگوں کو عقیدہ توحید منوانے میں کامیاب نہ ہوسکے۔ حضرت داؤد (علیہ السلام) کا اس حوالے سے بھی ذکر کیا کہ اہل مکہ اور یہودی یہ پروپیگنڈہ کیا کرتے تھے کہ یہ کیسا رسول ہے؟ کہ بال بچہ بھی رکھتا ہے اور کاروبار بھی کرتا ہے۔ ان کے بقول رسول تو تارک الدنیا شخص ہونا چاہیے۔ حضرت داؤد (علیہ السلام) کا حوالہ دے کر یہ ثابت کیا ہے کہ وہ ناصرف وقت کے صاحب کتاب رسول تھے بلکہ بادشاہ بھی تھے۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ لوگوں کے احوال کو اچھی طرح جانتا ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ آسمانوں و زمین کی ہر چیز کو جانتا ہے۔ ٣۔ بعض انبیاء (علیہ السلام) کو بعض پر فضیلت دی گئی۔ ٤۔ حضرت داؤد (علیہ السلام) کو زبورعطا کی گئی۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ جسے چاہے عذاب دے، جسے چاہے معاف کرے : ١۔ تمہارا پروردگار خوب جانتا ہے اگر چاہے تو رحم کرے، اگر چاہے تو عذاب دے۔ (بنی اسرائیل : ٥٤) ٢۔ اللہ جسے چاہے عذاب دے اور جس پر چاہے رحم کرے تم اسی کی طرف پھیرے جاؤ گے۔ (العنکبوت : ٢١) ٣۔ اللہ جسے چاہے معاف کر دے جسے چاہے عذاب دے، اللہ بخشنے والا، رحم کرنے والا ہے۔ (آل عمران : ١٢٩) ٤۔ جسے چاہے بخش دے جسے چاہے عذاب دے زمین و آسمان کی بادشاہت اور جو کچھ ان میں ہے اللہ کا ہے۔ (المائدۃ: ١٨) الإسراء
55 الإسراء
56 فہم القرآن ربط کلام : اس خطاب کا آغاز آیت ٣٩ سے ہوا تھا۔ اس میں رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مخاطب کرتے ہوا فرمایا گیا کہ اگر آپ بھی اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو معبود اور حاجت روا، مشکل کشا سمجھیں گے تو آپ کو بھی راندہ درگاہ کرکے جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔ اس خطاب کا اختتام بھی توحید کے اسی پہلو پر کیا جارہا ہے۔ اے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ان لوگوں کو کہیں کہ جن لوگوں کو تم اللہ کے سوا مشکل کشا، حاجت روا سمجھتے ہو۔ ان کو بلاؤ۔ وہ تمہاری تکالیف دور کرنے یا ان کو بدل دینے کا کوئی اختیار نہیں رکھتے۔ جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ کے سوا یا اس کے ساتھ اپنی مدد کے لیے پکارتے ہو۔ وہ تو اپنے رب کے ہاں قرب کے متلاشی ہیں۔ کہ کون ان میں سے اپنے رب کا مقرب بندہ ہے اور کون اس کے عذاب سے ڈرنے والا ہے؟ کیونکہ آپ کے رب کا عذاب ڈرنے کے لیے ہے۔ یاد رہے کہ مکہ کے مشرک پتھر، لکڑی اور مٹی کے بتوں کو اللہ تعالیٰ کے ہاں وسیلہ اور حرمت کے طور پر پیش کرتے تھے۔ ان کا عقیدہ تھا اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ انسان کے ہاتھوں کے بنائے ہوئے ہیں۔ مگر ان میں ان بزرگوں کی روح حلول کرگئی ہے۔ جن کی عبادت سے خوش ہو کر اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنی خدائی میں سے کچھ اختیارات دے رکھے ہیں۔ اہل مکہ کے عقیدہ کے مقابلے میں یہود و نصاریٰ بتوں کو وسیلہ بنانے کی بجائے انبیاء اور صلحاء کی قبروں کو وسیلہ بنایا کرتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید نے ” اَلَّذِیْنَ“ کا لفظ استعمال کیا ہے۔ اس کے بارے میں تمام اہل علم کا اتفاق ہے کہ ” اَلَّذِیْنَ“ کا لفظ ” ذی روح“ اور ” ذوی العقول“ کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ یعنی روح اور عقل رکھنے والے۔ ظاہر ہے بت نہیں انسان ہیں۔ اس کا معنیٰ ہوا کہ جن بزرگوں کو اللہ تعالیٰ کے سوا یا اس کے ساتھ مشکل کشا، حاجت روا اور وسیلہ سمجھتے ہو۔ وہ تو خود اللہ تعالیٰ کا قرب چاہتے ہیں۔ ان کی حالت یہ تھی کہ وہ اپنے رب کی رحمت کے طلبگار اور اس کے عذاب سے لرزاں وترساں رہتے تھے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا عذاب ایسی خوفناک چیز ہے جس سے ہر حال میں ڈرنا ہی چاہیے۔ اس آیت مبارکہ میں لفظ ” وسیلہ“ استعمال کیا گیا ہے۔ جس کا اردو میں معنیٰ ” ذریعہ“ ہوتا ہے۔ لیکن عربی میں وسیلہ کا معنیٰ ” قربت چاہنا یا ڈھونڈنا“ ہے۔ بعض لوگ وسیلہ کا معنیٰ ” ذریعہ“ لے کر لوگوں کو شرک کی تبلیغ کرتے ہیں۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے اس کی نفی کی ہے۔ وسیلہ کی حقیقت : اردو میں وسیلہ کا معنی ہے ذریعہ اور واسطہ جس سے بے شمار مسلمانوں کو قرآن کے لفظ وسیلہ کے بارے میں غلط فہمی ہوئی ہے جبکہ قرآن مجید میں اس کا معنی اللہ تعالیٰ کا قرب چاہنا ہے۔ ادھر ادھر کے واسطوں کے ذریعے نہیں بلکہ تقوٰی اور نیکی کے کاموں کے ذریعے۔ لہٰذا حکم ہے کہ اللہ تعالیٰ کے قریب ہونے کی کوشش کرو۔ حدیث میں وسیلہ کا معنی مقام علیا ہے جس پر فائز ہو کر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قیامت کے دن رب کریم کے حضور سجدہ ریز ہوتے ہوئے امت کی سفارش کریں گے۔ اس کا تذکرہ اذان کے بعد کی دعا میں موجود ہے۔ آپ نے اسی مقام کے لیے دعا کرنے کی تلقین فرمائی ہے۔ یہ دنیا عالم اسباب ہے اس کا پورا نظام اسباب اور وسائل پر چل رہا ہے جب تک وسائل کو بروئے کار نہیں لایا جائے گا۔ اس وقت تک دنیا کے معاملات صحیح سمت پر چلنے تو درکنار زندگی کا باقی رہنا ناممکن ہے۔ ایک شخص کتنا ہی متوکل علی اللہ کیوں نہ ہوا گر پیاس کے وقت پانی نہیں پیتا اور بھوک کے وقت کھانا نہیں کھاتا تو موت کا لقمہ بن جائے گا۔ بیمار کے لیے پرہیز اور دوائی لازم ہے۔ بغیر اسباب کے کسی چیز کو باقی رکھنا یہ صرف خالق کائنات کی قدرت کا کرشمہ ہے۔ لہٰذا شریعت نے کمزور کے ساتھ تعاون اور بے سہارا کو سہارا دینا اور بے وسیلہ کا وسیلہ بننے کا حکم دیا ہے۔ اس وسیلہ اور اسباب کو اللہ تعالیٰ کی ذات اور اختیارات کے بارے میں دلیل نہیں بنایا جا سکتا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کو کسی وسیلہ اور واسطہ کی ضرورت نہیں وہ مسبب الاسباب اور انسان کی شہ رگ سے زیادہ قریب اور دلوں کی دھڑکنوں کو جاننے والا ہے۔ مدفون بزرگوں کے وسیلہ کی حقیقت : بندے کو اللہ تعالیٰ سے دور رکھنے کے لیے یہ گھٹیا اور سطحی تصور بھی دیا جاتا ہے۔ اس کے لیے اتنی کمزور اور سطحی مثالیں دی جاتی ہیں کہ جس پر آدمی حیرت کا اظہار کئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ ایسے علماء کا کہنا ہے کہ ڈی سی سے ملنے کے لیے چپڑاسی کی ضرورت ہے مکان کی چھت پر سیڑھی کے بغیر نہیں چڑھا جا سکتا۔ اس باطل عقیدے کو اس شدومد کے ساتھ پھیلایا جا رہا ہے کہ اچھے بھلے پڑھے لکھے حضرات حتیٰ کہ عدالتوں میں بیٹھنے والے جج ہی نہیں چیف جسٹس، قانون کی باریکیوں اور موشگافیوں سے واقف ماہر وکلاء، اندرون اور بیرون ملک یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل سکالر، الجھے ہوئے مسائل کو سمجھنے اور سمجھانے والے دانشور اس قدراس پروپیگنڈہ سے متاثر ہوئے کہ وہ صحیح بات ماننا تو درکنار اسے ٹھنڈے دل و دماغ سے سننے کے لیے بھی تیار نہیں ہوتے۔ حالانکہ ذرا غور کیا جائے کہ جس مدفون بزرگ کا وسیلہ تلاش کیا جا رہا ہے اس کی زندگی اور مرنے کے بعد کی حالت میں کتنا فرق ہے؟ .1 بزرگ بیمار ہوئے۔ ہزار دعاؤں اور دواؤں کے باوجود صحت حاصل نہ کرسکے۔ .2 فوت ہوئے تو گھر میں میت ہونے کے باوجود روتی ہوئی بیٹیوں‘ تڑپتی ہوئی والدہ‘ بلکتی ہوئی بیوی‘ سسکتے ہوئے بیٹے اور آہ وبکا کرنے والے مریدوں کو تسلی نہ دے سکے۔ .3 شرم و حیا کے پیکر ہونے کے باوجود انتہائی بیماری اور فوت ہونے کے بعد نہ استنجا کرنے کی سکت ہے اور نہ غسل کرنے کی ہمت۔ .4 اپنی زندگی میں خود اپنی قبر بنوانے والے بھی چل کر قبر تک نہ پہنچ سکے۔ .5 جو زندگی میں صرف ایک زبان مثال کے طور پر صرف پنجابی زبان جانتے تھے فوت ہونے کے بعد اپنی قبر پر آنے والے سندھی‘ پشتو اور دوسری زبانوں میں فریاد کرنے والوں کی زبانوں سے کس طرح واقف ہوگئے؟ .6 جو خوداولاد سے محروم تھے وہ دوسرے کو کس طرح اولاد عطا کرسکتے ہیں؟ .7 جو زندگی میں خراٹے لینے والی نیند یا کسی بیماری کی وجہ سے بے ہوشی کے عالم میں دیکھ اور سن نہیں سکتے موت کے بعد کس طرح سننے اور دیکھنے کے قابل ہوئے؟ .8 جو زندگی میں دیوار کی دوسری طرف نہیں دیکھ سکتے تھے اب قبر کی منوں مٹی اور مضبوط پتھروں کے درمیان کس طرح دیکھ سکتے ہیں؟ .9 جو اپنی حالت سے کسی کو آگاہ نہیں کرسکتے۔ دوسرے کی حالت رب کے حضور کس طرح پیش کرسکتے ہیں؟ توہین آمیز اور مضحکہ خیز مثال واعظ کا یہ کہنا ہے کہ چھت پر چڑھنے کے لیے سیڑھی کی ضرورت ہے۔ اس حد تک تو اس بات میں کوئی شبہ نہیں مگر غور و فکر کے ساتھ سوچیے چھت تو جامد اور ساکت ہے وہ چڑھنے والے کے قریب نہیں آ سکتی اس لیے سیڑھی کی ضرورت ہے۔ اللہ کی قدرت و سطوت تو ہر جگہ موجود ہے اور وہ سب سے زیادہ انسان کے قریب حتیٰ کے دل اور شہ رگ پر اس کا اختیار ہے یہاں تو کسی وسیلے و سفا رش اور سیڑھی کی ضرورت نہیں۔ وہ انسان کی شہ رگ سے زیادہ قریب اور سینے کے راز جاننے والا ہے۔ خالق کائنات کے لیے یہ مثالیں اور تشبیہ اس کی توہین کے مترادف ہے۔ (فَلَا تَضْرِبُوْا لِلّٰہِ الْاَمْثَالَ)[ النحل : ٧٤] ” اللہ کے لیے ایسی مثالیں بیان نہ کیا کرو“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ کے سوا معبودان باطل کسی کی تکلیف دور نہیں کرسکتے۔ ٢۔ مشرکین اللہ تعالیٰ کا تقرب حاصل کرنے کے لیے غیر اللہ کو پکارتے ہیں۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ سے رحمت کی امید رکھنی چاہیے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرنا چاہیے۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ کا عذاب ڈرنے کے لیے ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نفع و نقصان کا مالک نہیں : ١۔ فرما دیجیے جن کو تم معبود تصور کرتے ہو ان کو بلا کردیکھو وہ تمہاری تکلیف دور کرنے پر اختیار رکھتے ہیں؟ (بنی اسرائیل : ١٠٧) ٢۔ اللہ کے سوا ان کو نہ پکارو جو تمہارے نفع و نقصان کے مالک نہیں ہیں۔ (یونس : ١٠٦) ٣۔ کیا تم اللہ کے علاوہ ان کی عبادت کرتے ہو جو تمہیں نہ نفع پہنچا سکتے ہیں نہ نقصان ؟ (الانبیاء : ٦٦) ٤۔ فرما دیجیے میں اپنے نفع و نقصان کا مالک نہیں مگر جو اللہ چاہے۔ (الاعراف : ١٨٨، یونس : ٤٩) ٥۔ فرما دیجیے کیا تم اللہ کے سوا ان کو دوست بناتے ہو ؟ جو اپنے نفع و نقصان کے مالک نہیں۔ (الرعد : ١٦) ٦۔ وہ اپنے آپ کے بھی نفع و نقصان کا اختیار نہیں رکھتے۔ (الفرقان : ٣) ٧۔ کیا ہم اللہ کے سوا انہیں پکاریں جو ہمیں نفع اور نقصان نہیں پہنچا سکتے ؟ (الانعام : ٧١) ٨۔ کیا تم اللہ کے سوا ان کی عبادت کرتے ہو جو تمہارے نفع ونقصان کے مالک نہیں ؟ (المائدۃ: ٨٦) ٩۔ اللہ کے ہاں کون ایسا ہے جو اللہ کی طرف سے آئے ہوئے نفع ونقصان کو روک سکے۔ (الفتح : ١١) ١٠۔ قیامت کے دن تم ایک دوسرے کے نفع ونقصان کے مالک نہیں ہوگے۔ (سبا : ٤٢) الإسراء
57 الإسراء
58 فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ کا عذاب صرف ڈرنے کی چیز ہی نہیں بلکہ حقیقتاً بھی نازل ہوتا ہے۔ جس طرح قوم ثمود پر نازل ہو اتھا۔ اللہ تعالیٰ کو یہ بات انتہائی ناپسند ہے کہ اسے براہ راست پکارنے اور اس کی خالص عبادت کرنے کی بجائے بالواسطہ عبادت کی جائے اور اس کے ساتھ کسی اور کو پکارا جائے۔ شرک کی یہی بڑی اور عالمگیر قسم ہے۔ جس میں ہر زمانے کی اکثریت اور بڑی بڑی اقوام مبتلارہی ہیں۔ اسی سے انبیاء کرام منع کرتے رہے۔ سب سے پہلے حضرت نوح (علیہ السلام) کی قوم نے پانچ بتوں کو وسیلہ بنایا۔ جن کے بارے میں حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کا فرمان ہے۔ یہ قوم نوح کے فوت ہونے والے پانچ بزرگوں کے نام ہیں۔ جن کی محبت وعقیدت اور احترام میں آکر انہوں نے اللہ تعالیٰ کی قربت چاہنے کے لیے ان کے مجسمے بنائے۔ جب حضرت نوح (علیہ السلام) نے انہیں ان سے منع کیا۔ تو قوم نے صاف طور پر کہا کہ ہم اپنے معبودوں بالخصوص ود، سواع، یغوث، یعوق اور نصرکو ہرگز نہیں چھوڑیں گے۔ اسی طرح قوم نوح کے بعد آنے والی اقوام نے دیگر جرائم اور شرک کا ارتکاب کیا۔ شرک کی پاداش میں اللہ تعالیٰ نے پہلی قوموں کو ذلت آمیز عذاب کے ساتھ تہس نہس کیا۔ اب بھی اس کا اعلان ہے کہ قیامت سے پہلے ایسی بستیوں کو تہس نہس کرے گا یا پھر انہیں شدید ترین عذاب سے دوچار کیا جائے گا۔ یہ فیصلہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاں لوح محفوظ پر ثبت کر رکھا ہے۔ رہی یہ بات کہ پہلے انبیاء کی طرح رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اس قسم کے معجزات کیوں نازل نہیں کیے گئے۔ جو پہلے انبیاء پر نازل کیے گئے تھے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پہلی اقوام منہ مانگے معجزات الإسراء
59 جھٹلا کر تباہ ہوئیں۔ اللہ تعالیٰ تم لوگوں کو مہلت دینا چاہتا ہے۔ اگر تمہارے مطالبے پر من وعن معجزہ نازل کر دے تو پہلی اقوام کی طرح مہلت کی گنجائش نہ ہوگی۔ البتہ تم غور کرو تو تمہیں معلوم ہوگا جو معجزے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیئے گئے ہیں۔ وہ اپنی تاثیر اور نتائج کے لحاظ سے پہلے معجزات کے اعتبار سے بہت بڑے ہیں۔ پہلے جیسے معجزات نازل نہ کرنے کی بڑی وجہ یہ ہے کہ پہلے لوگوں نے ان معجزات کو جھٹلا دیا تھا اور تم بھی ایسا کرو گے۔ اب تمھارے سامنے قوم ثمود کی مثال پیش کی جاتی ہے۔ قوم ثمود کے مطالبہ پر ان کے سامنے اونٹنی کا معجزہ ظاہر ہوا۔ جو پہاڑ کو چیرتی، لوگوں کے سامنے ہنہناتی ہوئی ظاہر ہوئی۔ حضرت صالح (علیہ السلام) نے انہیں سمجھایا کہ یہ اونٹنی اللہ تعالیٰ کی بھیجی ہوئی اونٹنی ہے۔ اسے تکلیف پہنچانے کی نیت سے ہاتھ نہ لگانا ورنہ تمہیں اذیت ناک عذاب آلے گا۔ (الاعراف : ٧٣) مگر ان لوگوں نے حضرت صالح کو جھٹلایا اور اونٹنی کی ٹانگیں کاٹ دیں۔ تب ان کے اس جرم کی وجہ سے عذاب نازل کیا گیا۔ جس نے انہیں زمین کے برابر کردیا۔ (الشمس : ١٤) جس کا بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ ہم نے قوم ثمود کو اونٹنی کا کھلا معجزہ دیا۔ انہوں نے اونٹنی پر ظلم کیا۔ حا لا نکہ اللہ تعالیٰ نے یہ نشانیاں لوگوں کو ڈرانے کے لیے بھیجی تھیں۔ مسائل ١۔ ہر بستی کی تباہی و بربادی کے متعلق لوح محفوظ میں لکھا ہوا ہے۔ ٢۔ کفار معجزات سے بصیرت حاصل نہیں کرتے۔ تفسیر بالقرآن ہر ایک چیز کتاب میں لکھی ہوئی ہے : ١۔ کوئی بستی نہیں مگر ہم اسے قیامت سے پہلے ہلاک یا پھر عذاب میں مبتلا کریں گے یہ کتاب میں لکھا ہوا ہے۔ (بنی اسرائیل : ٥٨) ٢۔ کیا تم نہیں جانتے جو کچھ آسمان اور زمین میں ہے اللہ اسے جانتا ہے یہ سب کچھ کتاب میں موجود ہے۔ (الحج : ٧٠) ٣۔ کوئی بھی مصیبت جو زمین سے آتی اور تمھیں پہنچتی ہے وہ پہلے ہی کتاب میں لکھی ہوئی ہے۔ (الحدید : ٢٢) الإسراء
60 فہم القرآن ربط کلام : نیا خطاب۔ اس آیت مبارکہ میں جس خواب کا ذکر کیا گیا ہے۔ اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔ کہ ہم نے آپ کو پہلے ہی بتلادیا تھا کہ آپ کا رب لوگوں کا احاطہ کیے ہوئے ہے اور جو خواب ہم نے آپ کو دکھلایا ہے وہ لوگوں کے لیے آزمائش ہے۔ اس آیت مبارکہ میں جس خواب کا تذکرہ کیا گیا ہے اس کے بارے میں صحابہ کرام (رض) کی دو آراء ہیں۔ ١۔ صحابہ کرام (رض) کی ایک جماعت کا موقف یہ ہے کہ یہ خواب غزوہ بدر سے پہلے آپ کو دکھلایا گیا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس معرکہ میں کامیاب ہوں گے اور آپ کا دشمن ناکام ہوگا۔ یہ خواب مشرکین کے لیے کڑی آزمائش ثابت ہوا۔ جسے کفار اور مشرکین نے مذاق کا نشانہ بنایا۔ ٢۔ مفسر قرآن حضرت عبداللہ بن عباس ْکا فرمان ہے۔ یہاں ” رؤیا“ سے مراد آنکھوں سے دیکھنا ہے۔ اس سے مراد نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا معراج ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب معراج سے واپس تشریف لائے تو کفار نے اسے تنقید کا نشانہ بنایا۔ اللہ تعالیٰ نے مسجد اقصیٰ کو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے کردیا۔ جو لوگ لفظ رؤیاسے یہ استدلال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جسمانی معراج کی بجائے خواب میں معراج کروایا گیا ہے۔ ان کا نقطہ نظر اس لیے درست نہیں کہ اگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کفار سے خواب میں مسجد اقصیٰ اور آسمانوں کی سیر کا ذکر کرتے۔ تو اس میں کفار کے لیے کون سی آزمائش اور اعتراض کی بات ہوسکتی تھی۔ کیونکہ خواب میں تو انسان بڑی سے بڑی چیز دیکھنے کا تصور کرسکتا ہے۔ جس طرح معراج کفار کے لیے آزمائش بنایا گیا۔ اسی طرح ہی وہ درخت بھی ان کے لیے آزمائش ثابت ہوا۔ جس کا تذکرہ ان الفاظ میں کیا گیا ہے۔ (أَذٰلِکَ خَیْرٌ نُزُلًا أَمْ شَجَرَۃُ الزَّقُّومِ۔إِنَّا جَعَلْنَاہَا فِتْنَۃً للظَّالِمِیْنَ إِنَّہَا شَجَرَۃٌ تَخْرُجُ فِی أَصْلِ الْجَحِیْمِ۔ طَلْعُہَا کَأَنَّہُ رُءُ وْسُ الشَّیَاطِیْنِ )[ الصٰفٰت : ٦٢ تا ٦٥] ” کیا یہ اچھی ہے یا تھور کا درخت ہم نے اسے ظالموں کے لیے آزمائش بنایا ہے۔ وہ ایک ایسا درخت ہے جو جہنم کی تہہ سے نکلتا ہے۔ اس کے خوشے ایسے ہیں جیسے شیطانوں کے سر۔“ کفار نے یہ کہہ کر اس حقیقت کا مذاق اڑایا کہ کبھی آگ میں بھی درخت اگا کرتے ہیں۔ یہ کفار کی جہالت اور ہٹ دھرمی تھی ورنہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے بارے میں ان کا بھی عقیدہ تھا کہ انہیں آگ میں پھینکا گیا۔ لیکن حضرت ابراہیم (علیہ السلام) آگ سے صحیح سالم باہر آئے۔ نمرود کی آگ انہیں کوئی گزند نہ پہنچا سکی۔ کفار یہ بھی جانتے تھے کہ عرب کے علاقے میں ایک ایسا بھی درخت ہے جس سے آگ نکلتی ہے۔ لیکن جس تھوہر کے درخت کا قرآن مجید نے ذکر کیا ہے کہ وہ جہنم میں ہوگا۔ یہ کہہ کر اس کا مذاق اڑایا کرتے تھے کہ کبھی آگ میں بھی درخت اگا کرتے ہیں۔ انہیں کیا خبر تھی کہ آنے والے وقت میں سائنس ہمارا مذاق اڑائے گی۔ جس نے یہ ثابت کردیا ہے کہ سمندر کے پانی کے نیچے بھی آگ کے الاؤ بھڑک رہے ہیں۔ جبکہ قرآن نے یہ حقیقت آج سے چودہ سو سال پہلے آشکارا کردی تھی۔ (عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ہُرَیْرَۃَ (وَمَا جَعَلْنَا الرُّؤْیَا الَّتِی أَرَیْنَاکَ إِلاَّ فِتْنَۃً للنَّاسِ) قَالَ ہِیَ رُؤْیَا عَیْنٍ أُرِیَہَا رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لَیْلَۃَ أُسْرِیَ بِہِ (وَالشَّجَرَۃَ الْمَلْعُونَۃَ) شَجَرَۃُ الزَّقُّومِ) [ رواہ البخاری : کتاب التفسیر، باب (وَمَا جَعَلْنَا الرُّؤْیَا الَّتِی أَرَیْنَاکَ إِلاَّ فِتْنَۃً للنَّاسِ ] ” حضرت عبداللہ بن عباس سے مروی ہے (وَمَا جَعَلْنَا الرُّؤْیَا الَّتِی أَرَیْنَاکَ إِلاَّ فِتْنَۃً للنَّاسِوہ آنکھ کا خواب ہے جو نبی کریم کو دکھائی گئی۔ اس رات جب آپ کو سیر کرائی گئی اور (وَالشَّجَرَۃَ الْمَلْعُونَۃَ) سے مراد زقوم کا درخت ہے۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ لوگوں کا ہر طرف سے احاطہ کرنے والا ہے۔ ٢۔ بعض چیزیں اللہ تعالیٰ نے آزمائش کے لیے پیدا کی ہیں۔ تفسیر بالقرآن شجر ملعونہ سے مراد ؟ ١۔ تھوہر کے درخت پر قرآن میں لعنت کی گئی ہے۔ (بنی اسرائیل : ٦٠) ٢۔ ہم نے تھوہر کے درخت کو ظالموں کے لیے عذاب بنایا ہے۔ (الصٰفٰت : ٦٢۔ ٦٣) ٣۔ تھوہر کا درخت جہنم کی تہہ سے اگے گا۔ (الصٰفٰت : ٦٤) ٤۔ یقیناً تھوہر کا درخت مجرموں کا کھانا ہوگا۔ (الدخان : ٤٣) الإسراء
61 فہم القرآن ربط کلام : کفار کی قرآن مجید سے عداوت اور بغاوت شیطان کی پیروی کی وجہ سے ہے۔ شیطان اپنے رب کا سب سے بڑاباغی اور نافرمان ہے۔ جس کی واضح اور پہلی دلیل حضرت آدم (علیہ السلام) کو سجدہ کرنے سے انکار کرنا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے تخلیق آدم سے پہلے ملائکہ کے سامنے اعلان فرمایا کہ میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں۔ ملائکہ نے عرض کی کیا آپ زمین میں اس شخص کو خلیفہ بنائیں گے جو اس میں فساد کرے گا اور خون بہائے گا؟ ہم تیری حمد وثناء کے ساتھ تسبیح وتقدیس بیان کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا جو کچھ میں جانتا ہوں تم نہیں جانتے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کو پیدا فرما کر تمام چیزوں کے نام بتلائے پھر ان چیزوں کو فرشتوں کے سامنے کرکے ارشاد فرمایا۔ اگر تم سچے ہو تو مجھے ان چیزوں کے نام بتلاؤ۔ ملائکہ نے عرض کی اے اللہ ! تیری ذات پاک ہے ہمیں تو اتنا ہی علم ہے جتنا آپ نے ہمیں سکھایا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں تو ہر بات کو جاننے والا ہے اور تیرے ہر حکم میں حکمت پائی جاتی ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کو حکم فرمایا کہ تم ان چیزوں کے نام بتاؤ۔ جب آدم (علیہ السلام) نے ان چیزوں کے نام بتا دئیے۔ تو اللہ تعالیٰ نے ملائکہ سے فرمایا۔ کیا میں نے تمہیں نہیں فرمایا تھا کہ میں ہی زمین و آسمانوں کے غیب کو جانتا ہوں۔ مجھے معلوم ہے جو تم ظاہر کررہے ہو اور جو تم چھپاتے ہو۔ اس کے بعد ملائکہ کو حکم دیا کہ تم آدم کو سجدہ کرو۔ ابلیس کے سوا سب نے سجدہ کیا۔ ابلیس نے تکبر اور انکار کیا۔ وہ انکار کرنے والوں میں ہوا۔ (البقرۃ: ٣٠ تا ٣٤) ابلیس نے کفر وتکبر کا اظہار کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ کیا میں اس شخص کو سجدہ کروں؟ جس کو تو نے مٹی سے پیدا کیا ہے۔ تو نے اس کو مجھ پر فضلیت دی ہے۔ بلکہ اس سے بڑھ کر کہنے لگا کہ میں آدم سے بہتر ہوں۔ تو نے مجھے آگ سے اور آدم کو مٹی سے پیدا کیا ہے۔ (بنی اسرائیل : ٦١) اس کے بعد ابلیس اللہ تعالیٰ کے سامنے گستاخی کرتے ہوئے یہ بھی کہتا ہے کہ یہ کیونکر ہوسکتا ہے کہ میں آدم کو سجدہ کروں۔ تو نے آدم کو سیاہ اور سڑی ہوئی کھنکھناتی مٹی سے پیدا کیا ہے۔ چاہیے تو یہ تھا کہ ملائکہ کی طرح ابلیس بھی اپنے رب کے سامنے معذرت خواہ ہوتا۔ لیکن وہ حسدوبغض کی وجہ سے بغاوت پہ بغاوت کرتا چلا گیا۔ یہاں تک کہ اس نے یہ جسارت بھی کرڈالی کہ اگر مجھے قیامت تک مہلت دے تو میں چند لوگوں کو چھوڑ کر آدم کی تمام اولاد کو گمراہ کردوں گا۔ ابلیس کا انکار تکبر اور حسدکی وجہ سے تھا۔ تکبر وہ بری چیز ہے کہ جس سے انسان کے تمام اعمال غارت ہوجاتے ہیں اور انسان دنیا میں ہی ذلت ورسوائی سے دوچار ہوجاتا ہے۔۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو آدم (علیہ السلام) کے سامنے سجدہ کرنے کا حکم دیا۔ ٢۔ شیطان نے حضرت آدم (علیہ السلام) کوتکبر کی بناء پر سجدہ کرنے سے انکار کیا۔ ٣۔ شیطان نے قیامت تک اللہ تعالیٰ سے مہلت مانگی، جواسے دے دی گئی۔ ٤۔ شیطان نے حضرت آدم (علیہ السلام) کی اولاد کو گمراہ کرنے کا اعلان کر رکھا ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں شیطان کی گستاخیاں : ١۔ جب ہم نے فرشتوں کو حکم دیا آدم کو سجدہ کرو تو ابلیس اس سے انکاری ہوا۔ (بنی اسرائیل : ٦١) ٢۔ تمام فرشتوں نے سجدہ کیا مگر ابلیس نے انکار کیا۔ (الحجر : ٣٠۔ ٣١) ٣۔ کہنے لگا کیا میں اسے سجدہ کروں جسے تو نے مٹی سے پیدا کیا ہے۔ (بنی اسرائیل : ٦١) ٤۔ شیطان نے کہا میں اس سے بہتر ہوں تو نے مجھے آگ سے اور اسے مٹی سے پیدا کیا۔ (الاعراف : ١٢) ٥۔ اگر تو مجھے قیامت تک مہلت دے تو میں تھوڑے لوگوں کے علاوہ اس کی اولاد کی جڑ کاٹتا رہوں گا۔ (بنی اسرائیل : ٦٢) ٦۔ شیطان نے کہا تو نے مجھے اس کی وجہ سے گمراہ کیا ہے میں بھی ان کے راستے میں بیٹھوں گا۔ (الاعراف : ١٦) الإسراء
62 الإسراء
63 فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ ابلیس نے گستاخی اور بغاوت کی حدیں پھیلانگتے ہوئے یہ بھی کہا کہ اے رب! تیری عزت کی قسم میں چند مخلص لوگوں کے علاوہ سب کو گمراہ کر کے چھوڑوں گا۔ رب ذوالجلال نے ارشاد فرمایا۔ ٹھیک ہے۔ لیکن میرا فرمان بھی سچ اور اٹل ہے کہ میں تجھے اور تیری تابعداری کرنے والوں کو جہنم میں داخل کروں گا (آ : ٨٢ تا ٨٥) اللہ تعالیٰ نے فرمایا میری بارگاہ سے نکل جا۔ تو ہمیشہ کے لیے راندہ درگاہ ہوا اور تجھ پر قیامت تک پھٹکار برستی رہے گی۔ (الحجر : ٣٤، ٣٥) رب ذوالجلال نے یہ بھی ارشاد فرمایا۔ اے ابلیس! تو نکل جا، جو شخص تیری پیروی کرے گا اس کی سزا جہنم ہوگی۔ جس میں سب کو پوری پوری سزا ملے گی۔ اے ابلیس ! تجھے اختیار دیا جاتا ہے۔ ان میں سے جس کو چاہے اپنی آواز کے ذریعے بہکا لے۔ اپنے پیادوں اور سواروں کے ساتھ چڑھائی کرلے اور ان کے مال اور اولاد میں شریک ہوجا، ان سے وعدہ وعید کر تیرے وعدے مکروفریب کے سوا کچھ نہیں ہوں گے۔ لیکن یاد رکھنا میرے بندوں پر تیرا تسلط قائم نہیں ہو سکے گا۔ کیونکہ تیرا رب ان کا وکیل اور کفیل ہے۔ یہاں شیطان کے ہتھکنڈوں سے بچ نکلنے والوں کو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندے قرار دیا ہے۔ جن کی صفت یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے مخلص بندے ہوتے ہیں۔ مخلص کا معنیٰ ہے ” وفادار، صاف دل، سچاانسان“ (القاموس) کیونکہ اللہ تعالیٰ کے بندے ان اوصاف حمیدہ کے حامل ہوتے ہیں۔ اس لیے انہیں شیطان مستقل طور پر نہیں بہکا سکتا۔ اسی بناء پر شیطان نے اللہ تعالیٰ کے حضور یہ کہا تھا کہ تیرے مخلص بندوں کے سوا میں سب کو گمراہ کردوں گا۔ (الحجر : ٤٠، آ : ٨٣) شیطان کو راندہ درگاہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے ” وَاسْتَفْزِزْ“ کا لفظ استعمال فرمایا۔ جس کا معنیٰ ہے ” جوش دلانا، پریشان اور خوفزدہ کرنا، ذلیل سمجھنا اور کرنا“ قرآن مجید کی بلاغت پر قربان جائیں کہ ایک ہی لفظ میں شیطان کے ہتھکنڈوں کو بیان کردیا ہے۔ شیطان، انسان کو جوش دلا کر قتل وغارت کرواتا ہے۔ جذباتی بنا کر بدکاری میں مبتلا کرتا ہے۔ اشتعال دلا کر جو چاہے انسان سے فعل سرزد کروا لیتا ہے۔ اگر جوش سے کام نہ بنتا ہو۔ تو وہ کسی چیز کے چھن جانے کا خوف دلاتا ہے۔ یہ سارے کام انسان سے اس لیے کرواتا ہے کہ شیطان پہلے دن سے انسان کو حقیر سمجھتا ہے اور اس کو ذلیل کرنے کے لیے کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتا۔ شیطان گانا بجانا، بے حیائی کی باتوں اور ہر قسم کے دھوکہ فریب سے انسان کو گمراہ کرتا ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا۔” تو اپنے پیادوں اور لشکروں کے ذریعے زور لگا کر لوگوں کے مال اور اولاد میں شریک ہوجا۔“ کیونکہ ظاہر ہے کہ انسان سواری استعمال کرتا ہے یہاں سے ثابت ہوتا ہے شیطان انسان کو گمراہ کرنے کے لیے ہر قسم کے ذرائع استعمال کرتا ہے۔ اس کے ساتھ یہ حقیقت بھی ذہن میں رکھنی چاہیے کہ شیطان صرف جنات سے ہی نہیں ہوتے بلکہ انسانوں سے بھی ہوتے ہیں۔ جن سے پناہ مانگنے کا حکم دیا گیا ہے۔ (قُلْ أَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِ۔ مَلِکِ النَّاسِ۔إِلٰہِ النَّاسِ۔ مِنْ شَرِّالْوَسْوَاسِ الْخَنَّاسِ۔ الَّذِیْ یُوَسْوِسُ فِیْ صُدُوْرِ النَّاسِ۔ مِنَ الْجِنَّۃِ وَالنَّاسِ۔)[ الناس : ١ تا ٦] ” آپ کہہ دیجیے کہ میں لوگوں کے رب کی پناہ مانگتا ہوں، جو لوگوں کا بادشاہ ہے، جو لوگوں کا اِلٰہ ہے، وسوسہ ڈالنے والے کے شر سے، جو (وسوسہ ڈال کر) پیچھے ہٹ جاتا ہے۔ جو لوگوں کے دلوں میں وسوسے ڈالتا رہتا ہے وہ جنوں اور انسانوں میں سے ہے۔“ مال میں شریک ہونے کا معنیٰ یہ ہے کہ انسان اپنا مال بے حیائی، اللہ تعالیٰ کی نافرمانی، شرک کی حمایت اور اس کے مرکزوں پر خرچ کرنے کے ساتھ فضول کاموں پر خرچ کرے۔ اولاد میں شریک کرنے کا مفہوم یہ ہے کہ آدمی یہ عقیدہ رکھے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی اور بھی اولاد دے سکتا ہے یا اولاد دینے میں پیروں، فقیروں اور مزارات کا بھی عمل دخل ہے۔ اولا دکی پیدائش کے بعد انہیں مزارات کے نام منسوب کرنا یا ان کا نام ” پیراں دتہ“ یا کسی بت کے نام پرنام رکھنا۔ اولاد میں شیطان کو شریک کرنا ہے۔ اولاد کو برے کاموں میں لگانا یا اس کو شرک وبدعت اور بے حیائی کا ماحول دینا۔ یہ بھی اولاد میں شیطان کو شریک کرنا ہے۔ (وَقُلْ رَبِّ أَعُوْذُ بِکَ مِنْ ہَمَزَات الشَّیَاطِیْنِ۔ وَأَعُوذُ بِکَ رَبِّ أَنْ یَحْضُرُوْنِ) [ المومنون : ٩٧۔ ٩٨] ” کہہ دیجیے اے میرے پروردگار ! میں شیاطین کے وسوسوں سے تیری پناہ مانگتا ہوں اور اس سے بھی پناہ مانگتا ہوں کہ وہ میرے پاس آئیں۔“ مسائل ١۔ شیطان کے تابعدار کی سزا جہنم ہے۔ ٢۔ شیطان کے پیرو کار کو پوری پوری سزا دی جائے گی۔ ٣۔ شیطان کو اللہ تعالیٰ نے قیامت تک مہلت دی۔ ٤۔ شیطان انسان سے جھوٹے وعدے کرتا ہے۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ کے نیک بندے شیطان کے قابو میں نہیں آتے۔ ٦۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے لیے کافی ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے لیے کافی ہے : ١۔ میرے بندوں پر شیطان کی کوئی دلیل کار گر نہ ہوگی تیرا رب تجھے کافی ہے۔ (بنی اسرائیل : ٦٥) ٢۔ اللہ تمہارے دشمنوں کو خوب جانتا ہے، اللہ ولی اور مددگارکافی ہے۔ (النساء : ٤٥) ٣۔ ان سے اعراض کیجیے اور اللہ پر توکل کیجیے اللہ ہی کارساز کافی ہے۔ (النساء : ١٣٢) ٤۔ اللہ ہی کے لیے آسمان و زمین کی بادشاہت ہے اور اللہ ہی کارساز کافی ہے۔ (النساء : ١٧١) ٥۔ اللہ پر توکل کیجیے، اللہ ہی کارساز کافی ہے۔ (الاحزاب : ٣) الإسراء
64 الإسراء
65 الإسراء
66 فہم القرآن ربط کلام : جو ذات اپنے بندوں کو شیطان کے تسلط سے محفوظ رکھتی ہے وہی تمہارا رب ہے جو تمہیں سمندر کی طغیانیوں سے بچاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنی قدرت وسطوت کا حوالہ دیتے ہوئے دلیل دیتا ہے کہ تمہارا رب وہ ہے جو تمہارے لیے سمندر میں کشتیاں چلاتا ہے تاکہ تم اس کا فضل تلاش کرو بے شک وہ تم پر بڑا مہر بان ہے۔ جب تمہیں سمندر میں کوئی پریشانی آتی ہے تو جنہیں تم مشکل کشا سمجھ کر پکارتے ہو۔ وہ تمہیں بھول جاتے ہیں۔ جب اللہ تعالیٰ تمہیں خشکی پر پہنچا دیتا ہے تو اپنے رب سے انحراف کرتے ہو وجہ یہ کہ انسان اپنے رب کا ناقدر دان اور ناشکرا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں کئی مرتبہ سمندر میں چلنے والی کشتیوں کو اپنی قدرت کی نشانی کے طور پر بیان فرمایا ہے۔ سمندر کے سینے پر چلنے والی کشتیوں اور بڑے بڑے جہازوں کی طرف توجہ کی جائے تو دیکھ کر عقل دنگ رہ جاتی ہے کہ جو پانی اپنے اوپر ایک سوئی کو برداشت نہیں کرتا۔ اسی پانی کی لہریں کشتیوں اور جہازوں کو ساحل مراد تک پہنچانے میں خدّام کا کام دیتی ہیں۔ کشتیاں اور بحری جہاز ٹنوں کے حساب سے بوجھ اٹھائے ہوئے ہیں‘ اور نقل وحمل کا یہ سب سے بڑا اور مفید ترین ذریعہ ہیں۔ ابتدائے آفرینش سے دنیا کی سب سے بڑی تجارت بحری راستوں کے ذریعے ہی ہورہی ہے اور قیامت تک یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ یہاں مشرک کی عادت بیان کی گئی ہے کہ وہ صرف انتہائی مشکل کے وقت اللہ تعالیٰ سے فریاد کرتا ہے لیکن جب مشکل ٹل جاتی ہے تو پھر دوسروں کو اللہ تعالیٰ کا شریک ٹھہراتا ہے۔ اس کاسبب یہ ہے کہ مشرک اللہ تعالیٰ کا ناقدر دان اور ناشکرا ہے اسی بات کو اللہ تعالیٰ نے دوسرے مقام پر یوں بیان فرمایا ہے۔ اے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! صرف ایک اللہ کی عبادت کرو اور اس کے شکر گزار بندوں میں سے ہوجاؤ۔ مشرک کو جس طرح اللہ تعالیٰ کی قدر کرنی چاہیے تھی اس طرح نہیں کی۔ قیامت کے دن ساتوں زمینیں اور آسمان اللہ کے دائیں ہاتھ میں ہوں گے اللہ لوگوں کے شرک کرنے سے پاک اور عالی مرتبت ہے۔ (الزمر : ٦٧) جہاں تک مشرکین مکہ کے عقیدہ کا تعلق ہے۔ ان کے بارے میں قرآن مجید بار با رگواہی دیتا ہے کہ وہ انتہائی مشکل کے وقت صرف ایک اللہ کو پکارا کرتے۔ جب انہیں مشکل سے نجات حاصل ہوتی تو پھر وہ اپنے بتوں اور دوسروں کے طفیل حرمت اور واسطے سے دعا کرتے تھے۔ جسے اللہ تعالیٰ نے شرک قرار دیا ہے۔ افسوس آج بے شمار کلمہ پڑھنے والے حضرات انتہائی مشکل کے وقت بھی صرف اللہ سے براہ راست مانگنے کی بجائے اپنے فوت شدہ بزرگوں کی حرمت، طفیل، صدقہ اور وسیلہ سے مانگتے ہیں حالانکہ یہی وہ شرک کی عالمگیر قسم ہے جس سے انبیاء کرام لوگوں کو منع کرتے رہے ہیں۔ مسائل ١۔ اللہ ہی سمندروں میں کشتیوں کو چلانے والا ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ بندوں کے ساتھ رحم فرمانے والا ہے۔ ٣۔ مشرک مشکل میں صرف اللہ تعالیٰ کو پکارتے تھے۔ ٤۔ انسان اپنے رب کانا شکرا ہے۔ ٥۔ نجات ملنے کے بعد مشرک اللہ تعالیٰ کی وحدانیت سے اعراض کرتے تھے۔ تفسیر بالقرآن مشرک انتہائی مشکل کے وقت ایک اللہ کو پکارتا ہے : ١۔ جب دریا میں تمہیں تکلیف پہنچتی ہے تو تم اللہ کے سواسب کو بھول جاتے ہو۔ (بنی اسرائیل : ٦٧) ٢۔ انہوں نے خیال کیا کہ وہ گھیرے میں آگئے ہیں تو خالصتًا اللہ کو پکارتے ہیں۔ (یونس : ٢٢) ٣۔ جب وہ کشتی میں سوار ہوتے ہیں تو خالصتًا اللہ کو پکارتے ہیں۔ (العنکبوت : ٦٥) ٤۔ جب انہیں موجیں سائبان کی طرح ڈھانپ لیتی ہیں تو خالص اللہ کو پکارتے ہیں۔ (لقمان : ٣٢) ٥۔ وہ زندہ ہے اس کے سوا کوئی الٰہ نہیں خالصتاً اسی کو پکارو۔ (المومن : ٦٥) ٦۔ انہیں صرف اسی بات کا حکم دیا گیا ہے کہ صرف ایک اللہ کو پکارو۔ (البینۃ: ٥) الإسراء
67 الإسراء
68 فہم القرآن ربط کلام : مشرکین کو پے درپے تین چیلنج دیئے گئے ہیں۔ پہلے مشرکین کی عادت کا ذکر ہوا ہے کہ جب دریائی سفر میں طوفان سے دوچار ہوتے ہیں تو صرف ایک اللہ کو پکارتے ہیں اور اسی کے حضور فریادیں کرتے ہیں۔ اس سے وعدے کرتے ہیں کہ اے ہمارے رب! اگر تو نے ہمیں اس گرداب سے نکال لیا تو ہم صرف تیرے ہی حضور جھکیں گے اور تجھ ہی سے فریاد کریں گے۔ یقیناتو ہی مشکل کشا ہے تیرے سوا کوئی بھی اس بھنور سے نہیں نکال سکتا مگر جب خشکی پر اترتے ہیں تو فوراً اللہ تعالیٰ کو بھول جاتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو پے در پے تین چیلنج کیے گئے ہیں کہ یہ لوگ بھول گئے ہیں کہ اللہ تعالیٰ انہیں خشکی ہی میں دھنسا دے۔ کیا رب ذوالجلال اس بات پر قادر نہیں ؟ کہ تمہیں دوبارہ ایسے حالات اور گرداب سے دوچار کردے پھرتم اس کے سوا کوئی نہ اپنا مددگار پاؤ گے اور نہ ہی اس کی گرفت پر اس کے خلاف کوئی تعاقب نہیں کرسکتا ہے۔ جس طرح اس نے قارون کو اس کی دولت کے ساتھ زمین میں دھنسا دیا اور قوم لوط کو ان کی بستی سمیت اٹھا کر زمین پر دے مارا اور اوپر سے پتھر برسائے۔ (فَلَمَّا جَاءَ أَمْرُنَا جَعَلْنَا عَالِیَہَا سَافِلَہَا وَأَمْطَرْنَا عَلَیْہَا حِجَارَۃً مِنْ سِجِّیْلٍ مَنْضُوْدٍ مُسَوَّمَۃً عِنْدَ رَبِّکَ وَمَا ہِیَ مِنَ الظَّالِمِیْنَ بِبَعِیْدٍ )[ ھود : ٨٢، ٨٣] ” پھر جب ہم نے حکم نافذ کیا، ہم نے اس بستی کو اوپر نیچے کردیا اور تابڑ توڑ پکی مٹی کے پتھر برسائے تیرے رب کی طرف سے ہر پتھر پر نشان (نام) لکھا ہوا تھا اور ظالموں سے یہ سزا دور نہیں ہے۔“ قوم مدین کو ایک کڑک نے آلیا اور وہ اپنے گھروں میں اوندھے منہ پڑے ہوئے تھے اور ان کے گھر ایسے ویران ہوئے جیسے ان میں کوئی بسا ہی نہ ہو یاد رکھو اہل مدین پر ایسی ہی پھٹکار ہوئی جس طرح قوم ثمود پھٹکاری گئی۔ مفسرین نے لکھا ہے اللہ تعالیٰ نے ان پر سات راتیں آٹھ دن گرمی اور حبس کا ایسا عذاب مسلط کیا کہ وہ نہ تہہ خانوں میں آرام کرسکتے تھے اور نہ ہی کسی درخت کے سائے تلے ٹھہر سکتے تھے وہ انتہائی کرب کے عالم میں اپنے گھروں سے باہر نکلے تو ایک بادل ان کے اوپر سایہ فگن ہوا۔ جب سب کے سب بادل تلے جمع ہوگئے تو بادل سے آگ کے شعلے برسنے لگے اور زمین زلزلہ سے لرزنے لگی پھر ایسی دھماکہ خیز چنگھاڑ گونجی کہ ان کے کلیجے پھٹ گئے اور اوندھے منہ تڑپ تڑپ کر ذلیل ہو کر مرے۔ مسائل ا۔ اللہ تعالیٰ جس طرح چاہے عذاب مسلط کرسکتا ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی کارساز نہیں ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ دوبارہ بھنور میں مبتلا کرنے پر قادر ہے۔ ٤۔ اللہ کے سامنے کوئی دم نہیں مار سکتا۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ ہی ہر چیز کا کارساز ہے : ١۔ اللہ ہر چیز کو پیدا کرنے والا ہے، سو تم اس کی عبادت کرو اور وہ ہر چیز پر کارساز ہے۔ (الانعام : ١٠٢) ٢۔ بے شک آپ ڈرانے والے ہیں اور اللہ ہی ہر چیز پر کارساز ہے۔ (ہود : ١٢) ٣۔ اللہ ہر چیز کا پروردگار ہے اور وہ ہر چیز پر کارساز ہے۔ (الزمر : ٤١) ٤۔ جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے اللہ ہی کا ہے اور وہی کارساز کافی ہے۔ (النساء : ١٣٢) ٥۔ میرے بندوں پر شیطان کا داؤ پیچ نہیں چلے گا اللہ اپنے بندوں کے لیے کار ساز ہے۔ (بنی اسرائیل : ٦٥) ٦۔ وہ مشرق ومغرب کا رب ہے اس کے سوا کوئی الٰہ نہیں اسی کو کار سازمانو۔ (المزمل : ٩) الإسراء
69 الإسراء
70 فہم القرآن ربط کلام : برے لوگوں کا انجام بتانے کے بعد انسان کو اس کا مرتبہ ومقام یاد دلایا گیا ہے۔ کیونکہ انسان کو بحر وبر پر فضیلت دی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنے دست مبارک کے ساتھ بنایا اور اس میں اپنی روح القاء فرمائی۔ پھر اس کی خلافت کا اعلان فرمایا اور تمام ملائکہ کو اسے سجدہ کرنے کا حکم دیا۔ ابلیس کے سواحضرت آدم (علیہ السلام) کو تمام ملائکہ نے سجدہ کیا۔ سجدہ نہ کرنے کی وجہ سے شیطان کو ہمیشہ کے لیے اللہ تعالیٰ نے اپنی بارگاہ سے راندہ درگاہ کرنے کے ساتھ لعنتی قرار دیا۔ ” جب تمہارے پروردگار نے فرشتوں سے کہا کہ میں مٹی سے انسان بنانے والا ہوں۔ جب اس کو بنالوں اور اس میں اپنی روح پھونک لوں تو اس کے آگے سجدے میں گرپڑنا۔ تمام فرشتوں نے سجدہ کیا۔ مگر شیطان اکڑ بیٹھا اور کافروں میں سے ہوگیا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے ابلیس جس شخص کو میں نے اپنے ہاتھوں سے بنایا۔ اس کے آگے سجدہ کرنے سے تجھے کس چیز نے منع کیا۔ کیا تو غرور میں آگیا یا اونچے درجے والوں میں سے تھا؟ بولا کہ میں اس سے بہتر ہوں کیونکہ تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا اور اسے مٹی سے بنایا۔ فرمایا یہاں سے نکل جا تو مردود ہے اور تجھ پر قیامت کے دن تک میری لعنت پڑتی رہے گی۔“ (ص : ٧١ تا ٧٨) پھر آدم (علیہ السلام) کو زمین پر بھیجا اور ہر چیز کو اس کی خدمت کرنے کا حکم دیا۔ جس کے نتیجے میں شمس وقمر، صحراودریا غرضیکہ ہر چیز اس کی نوکری اور چاکری میں لگی ہوئی ہے۔ اسی غلامی کا نتیجہ ہے کہ انسان نے ہوا پر کنٹرول حاصل کیا ہے۔ سینکڑوں من بوجھ اٹھائے ہوائی جہاز فضا میں پرواز کرتے ہوئے مہینوں کا سفر گھنٹوں میں طے کر رہے ہیں۔ سمندروں کے رخ تبدیل کیے جارہے ہیں۔ چاند، ستاروں پر کمندیں ڈالی جا رہی ہیں۔ نہ معلوم آنے والے وقت میں انسان خداداد عقل ودانش سے اس کائنات کو کس کس انداز میں اپنے مطیع کرنے کی کوششیں کرے اور خلیفہ ہونے کی حیثیت سے کیا کیا کرتب دکھائے گا۔ لیکن افسوس جتنا انسان بااختیارہوتا جاتا ہے۔ اتنا ہی اپنے رب کا نافرمان بنتا جا رہے۔ جس کے نتیجہ میں بیماریوں میں مبتلا اور کئی قسم کی مشکلات میں پھنسا جا رہا ہے۔ اگر انسان نے یہی طور طریقے اپنائے رکھے تو آخرت میں ہی نہیں دنیا میں بھی ذلیل ہو کر رہ جائے گا۔ اگر انسان اپنا کھویا ہوا مقام اور اعزاز واپس لینا چاہتا ہے تو اس کا ایک ہی راستہ ہے کہ وہ بلاشرکت غیرے اپنے رب کی غلامی میں آجائے۔ انسان نہ صرف اپنی قدوقامت اور شکل وصورت کے لحاظ سے باقی مخلوق سے اعلیٰ اور بہتر ہے بلکہ یہ خوردو نوش، رہائش اور زیبائش کے اعتبار سے سب سے بہتر اور خوبصورت ہے۔ اب انسان کا یہ فرض ہے کہ وہ اپنے عقیدہ، اخلاق اور کردار کے حوالے سے ثابت کرے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ مرتبہ اور مقام کا اہل ہے۔ مگر انسان کی بد قسمتی ہے کہ اس کی اکثریت نے ہر دور میں اپنے آپ کو نااہل ثابت کیا۔ جس کا تذکرہ ان الفاظ میں کیا گیا ہے۔ (وَالتِّیْنِ وَالزَّیْتُونِ۔ وَطُوْرِ سِیْنِیْنَ۔ وَہٰذَا الْبَلَدِ الْأَمِیْنِ۔ لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ فِی أَحْسَنِ تَقْوِیْمٍ۔ ثُمَّ رَدَدْنَاہُ أَسْفَلَ سَافِلِیْنَ۔إِلَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوْا الصَّالِحَاتِ فَلَہُمْ أَجْرٌ غَیْرُ مَمْنُوْنٍ۔ فَمَا یُکَذِّبُکَ بَعْدُ بالدِّیْنِ۔أَلَیْسَ اللَّہُ بِأَحْکَمِ الْحَاکِمِیْنَ )[ التین : ١ تا ٨] ” قسم ہے انجیر اور زیتون کی اور طور سینا اور اس پر امن شہر (مکہ) کی۔ ہم نے انسان کو بہترین ساخت پر پیدا کیا پھر اسے الٹا پھیر کر ہم نے سب نیچوں سے نیچ کردیا۔ سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور نیک اعمال کرتے رہے کہ ان کے لیے کبھی نہ ختم ہونے والا اجر ہے۔ پس (اے نبی!) اس کے بعد کون جزا اور سز اکے معاملہ میں تم کو جھٹلا سکتا ہے۔ کیا اللہ سب حاکموں سے بڑا حاکم نہیں ہے ؟“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو ساری مخلوق پر فضیلت عظمت عطا فرمائی ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو بحر وبر پر برتری عنایت فرمائی ہے۔ تفسیربالقرآن انسان کی پوری مخلوق پر فضیلت وبرتری : ١۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنے ہاتھ سے پیدا فرمایا ہے۔ (ص : ٧٥) ٢۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو خلیفہ بنایا۔ (البقرۃ: ٣٠) ٣۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم کو ملائکہ سے سجدہ کروایا۔ (البقرۃ: ٣٤) ٤۔ سجدہ نہ کرنے کی وجہ سے ابلیس کو ہمیشہ کے لیے اپنی بارگاہ سے راندہ درگاہ اور لعنتی قرار دیا۔ (الحجر : ٣٤۔ ٣٥) ٥۔ اللہ تعالیٰ نے پوری کائنات کو انسان کے لیے مسخر فرمایا۔ (الجا ثیۃ: ١٣) الإسراء
71 فہم القرآن ربط کلام : انسان کو اشرف المخلوقات اور بحروبر میں عزت و عظمت سے نوازنے کے ساتھ کھلا نہیں چھوڑ دیا گیا۔ بلکہ اس کا پورا پورامحاسبہ ہوگا۔ قرآن مجید بار بار یہ حقیقت ازبر کرواتا ہے کہ اے انسان! تیرے ایک ایک عمل اور لفظ کو ضبط تحریر میں لایا جارہا ہے۔ کراماً کاتبین صبح و شام تیرے اعمال کا اندارج کر کے اسے اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کر رہے ہیں۔ قیامت کے دن پورے کا پورا ریکارڈ کتاب کی شکل میں تیرے سامنے رکھ دیا جائے گا پھر حکم ہو گا (اقْرَأْ کِتَابَکَ کَفَی بِنَفْسِکَ الْیَوْمَ عَلَیْکَ حَسِیْبًا )[ بنی اسرائیل : ١٤] ” اپنی کتاب یعنی اعمال نامے کو پڑھ۔ جو تیرے حساب کے لیے کافی ہے۔“ انسان اپنا اعمال نامہ دیکھ کر پکا راٹھے گا کہ ہائے افسوس ! اس میں ہر چھوٹی بڑی بات لکھ دی گئی ہے۔ اس نے تو کسی بات کو نہیں چھوڑا۔ (الکہف : ٤٩) قیامت کے دن ہر شخص کو اس کے اعمال نامہ کی طرف بلایا جائے گا جس کو اس کا اعمال نامہ دائیں ہاتھ میں دیا گیا۔ وہ اپنا اعمال نامہ پڑھ کر خوش ہوگا اور کسی پر دھاگے کے برابر بھی ظلم نہیں کیا جائے گا۔ جو دنیا میں ہدایت سے اندھا رہا وہ آخرت میں اندھا ہوگا اور۔ یہاں پہلی آیت میں یہ ارشاد ہوا ہے کہ لوگوں کو ان کے امام کے ساتھ اٹھایا جائے گا۔ لفظ امام کے صحابہ کرام (رض) نے تین معنی لیے ہیں۔ ١۔ صحابہ اور تابعین کی ایک جماعت کا خیال ہے کہ امام سے مراد ہر امت کا نبی ہوگا۔ جن کو اللہ تعالیٰ حکم فرمائیں گے کہ اپنی امت کو لے کر میری بارگاہ میں فلاں وقت حاضر ہوجاؤ۔ چنانچہ ہر نبی اپنی امت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں پیش ہو کر جواب دہ ہوگا۔ (بنی اسرائیل : ٧١) ٢۔ دوسری جماعت نے امام سے مرادہر شخص کا اعمال نامہ لیا ہے۔ کیونکہ ” بِاِمَامِھِمْ“ کے بعد یہ الفاظ آئے ہیں کہ جس شخص کو اس کا اعمال نامہ دائیں ہاتھ میں دیا گیا۔ لہٰذا صحابہ کرام (رض) اور تابعین کی دوسری جماعت کا خیال ہے کہ اس آیت کے سیاق وسباق کے حوالے سے یہاں ” امام“ سے مراد ہر شخص کا اعمال نامہ ہے۔ اور اسی کی طرف سب کو بلایا جائے گا۔ ٣۔ صحابہ کرام کی تیسری جماعت نے ” بِاِمَامِھِمْ“ کا یہ معنیٰ لیا ہے کہ ہر شخص کو اس کے امام یعنی پیشوا کے ساتھ بلایا جائے گا۔ جن لوگوں نے قرآن وسنت کے حاملین کو اپنا رہبر اور پیشوابنایا۔ وہ ان کے ساتھ پیش ہوں گے اور جن لوگوں نے برے لوگوں کو اپنا رہبر اور پیشوامانا۔ وہ ان کے ساتھ اٹھائے جائیں گے۔ ٤۔ جب سے مسلمانوں میں چار آئمہ کی تقلید کا رجحان پیدا ہوا ہے۔ اس وقت سے لیکر بعض علماء اپنے اپنے امام کی اہمیت اور اس کی تقلید ثابت کرنے کے لیے کہتے ہیں۔ کہ اس آیت کی بنیاد پر آئمہ کی تقلید ثابت ہوتی ہے لہٰذا مسلمانوں کو کسی ایک امام کا مقلد ہونا ضروری ہے۔ مسائل ١۔ قیامت کے دن سب کو ان کے نامہ اعمال کے ساتھ بلایا جائے گا۔ ٢۔ ہر امت کو اس کے نبی کے ساتھ بلایا جائے گا۔ ٣۔ جن کو نامہ اعمال داہنے ہاتھ میں ملے گا وہ اسے پڑھ کر خوش ہوگا۔ ٤۔ جس کو اعمال نامہ بائیں ہاتھ میں ملے گا وہ پچھتائے گا۔ تفسیر بالقرآن قیامت کے دن کسی پر ظلم نہیں کیا جائے گا : ١۔ ہر جان کو اس کی کمائی کا پورا پورا صلہ دیا جائے گا اور کسی پر ظلم نہ ہوگا۔ (البقرۃ: ٢٨) ٢۔ لوگوں کے درمیان انصاف کے ساتھ فیصلہ کیا جائے گا اور کسی پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔ (یونس : ٥٤) ٣۔ نیک لوگوں کو جنت میں داخل کیا جائے گا اور ان پر کچھ ظلم نہ ہوگا۔ (مریم : ٦٠) ٤۔ لوگوں کے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ کیا جائے گا اور کسی پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔ (الزمر : ٦٩) ٥۔ ہر انسان کو اس کے اعمال کا پورا صلہ دیا جائے گا اور کسی پر ظلم نہیں ہوگا۔ (النحل : ١١١) ٦۔ قیامت کے دن ہر کسی کو پورا پورا بدلہ دیا جائے گا اور کسی پر ظلم نہ ہوگا۔ (البقرۃ: ١٨١) ٧۔ ایمان لانے والوں اور نیک اعمال کرنے والوں کو جنت میں داخل کیا جائے گا اور کسی پردھاگے کے برابر ظلم نہیں کیا جائے گا۔ (النساء : ١٢٤) ٨۔ ہر کسی کو اس کے اعمال کا صلہ دیا جائے گا اور کسی پر ظلم نہ ہوگا۔ (آل عمران : ١٦١) الإسراء
72 فہم القرآن ربط کلام : ہدایت سے اندھے لوگ صرف خود گمراہ اور اندھے نہیں ہوتے۔ بلکہ دوسروں کو بھی گمراہ اور اندھا کرنے کی کو شش کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ گمراہ لوگ انبیاء (علیہ السلام) کو ورغلانے کی ناکام کوشش کرتے تھے۔ نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مخالفوں کی بھی یہی کوشش تھی کی کسی طرح آپ کو بہکا دیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مخالفوں کی ہمیشہ یہ کوشش رہی کہ کسی نہ کسی طریقہ سے آپ کو بہکانے میں کامیاب ہوجائیں۔ ان کی سازشوں اور کوششوں کے پیش نظر آپ کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے یہ الفاظ استعمال فرمائے۔ ان آیات کا ترجمہ بریلوی مکتبہ فکرکے ایک عالم نے اپنی تفسیر میں یوں کیا ہے۔ اے پیغمبر! اللہ تعالیٰ نے آپ کو ثابت قدم رکھا۔ اگر اس کی رحمت شامل حال نہ ہوتی۔ تو کفار کی سازشیں اور مخالفت اس قدر شدید تھیں کہ آپ بھی ان کی طرف جھک جاتے۔ اگر آپ جھک جاتے تو اللہ تعالیٰ آپ کو دنیا اور آخرت میں دوگنا عذاب کرتا۔ اللہ تعالیٰ نے اس طرح کے الفاظ آپ کی ازواج مطہرات کے بارے میں بھی استعمال فرمائے ہیں۔ اے پیغمبر کے گھر والو! اگر تم میں سے کوئی کھلی بے حیائی کا ارتکاب کرے تو اسے دوگنا عذاب دیا جائے گا۔ ایسا کرنا اللہ تعالیٰ کے لیے مشکل نہیں۔ (الاحزاب : ٣٠) (ضیاء القرآن) انہوں نے پختہ ارادہ کیا کہ وہ آپ کو بر گشتہ کردیں۔ اس کتاب سے جو ہم نے آپ کی طرف وحی کی ہے تاکہ آپ ہماری طرف بہتان منسوب کریں۔ اس صورت میں وہ آپ کو اپنا گہرادوست بنا لیں گے (٧٣) اور اگر ہم نے آپ کو ثابت قدم نہ رکھا ہوتا تو آپ ضرور مائل ہوجاتے ان کی طرف کچھ نہ کچھ۔ (٧٤) بفرض محال اگر آپ ایسا کرتے تو اس وقت ہم آپ کو چکھاتے دوگنا عذاب، موت کے بعد۔ پھر آپ نہ پاتے اپنے لیے ہمارے مقابلے میں کوئی مددگار۔ ان آیات میں ایک طرف کفار کی سازشوں اور مذموم کوششوں کا ذکر ہے اور دوسری طرف ان الفاظ میں رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ثابت قدمی اور استقامت کا تذکرہ پایا جاتا ہے۔ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عظیم جدوجہد اور بے مثال استقامت دیکھ کر بالآخر کفار ہتھیار ڈال دیتے ہیں۔ مسائل ١۔ جو کوئی اس دنیا میں اندھا رہا وہ آخرت میں بھی اندھا رہے گا۔ ٢۔ کفار آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو راہ حق سے بھٹکانہ چاہتے تھے۔ ٣۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے حق پر قائم رہے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ سے کوئی کسی کو نہیں بچا سکتا۔ ٥۔ اگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کفار کے پیچھے لگتے تو آپ کو دوگنا عذاب کا سامنا کرنا پڑتا۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ کے عذاب کو کوئی نہیں ٹال سکتا : ١۔ پھر ہم تجھے دنیا اور آخرت میں دو گنے عذاب سے دو چار کرتے اور آپ ہمارے مقابلہ میں کوئی مددگار نہ پاتے۔ (بنی اسرائیل : ٧٥) ٢۔ پھر وہ اپنا کوئی دوست اور مددگار نہیں پائیں گے۔ (الفتح : ٢٢) ٣۔ اگر اللہ تعالیٰ تمہارے ساتھ بھلائی یا برائی کا ارادہ کرے تو کوئی اس سے آپ کو بچا نہیں سکتا۔ (الاحزاب : ١٧) ٤۔ وہ جہنم میں ہمیشہ رہیں گے اور کسی کو اپنا دوست اور مددگار نہیں پائیں گے۔ (الاحزاب : ٦٥) الإسراء
73 الإسراء
74 الإسراء
75 الإسراء
76 فہم القرآن ربط کلام : نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلاف کفار کا نظریاتی سازشوں اور شرارتوں کے بعد معاشرتی بائیکاٹ اور جلا وطن کردینے کی سازش کرنا۔ اہل مکہ اور ان کے گردونواح کے کفار نے آپ کو اعتقادی اور نظریاتی طور پر پسپا کرنے اور پھسلانے کی کوشش کی۔ جب اس میں سراسر ناکام ہوئے تو انہوں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)، آپ کے خاندان اور صحابہ کرام (رض) کا سوشل بائیکاٹ کیا۔ جس کی بناء پر تین سال تک آپ اور آپ کے ساتھی شعب ابی طالب میں محصور رہے۔ بائیکاٹ اس قدر سخت تھا کہ بعض اوقات بھوک کی وجہ سے چھوٹے چھوٹے بچوں کے رونے کی آوازیں مکہ شہر میں سنائی دیتی تھیں لیکن کفار آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے ساتھیوں کے پایہ استقلال میں لغزش پیدا نہ کرسکے۔ اس کے بعد انہوں نے آپ کو مکہ سے نکال دینے کے بارے میں کئی دفعہ سوچا۔ جب آپ تبلیغ کے لیے طائف تشریف لے گئے۔ تو واپسی پر مکہ والوں نے آپ کو شہر میں داخل ہونے سے روک دیا۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے انہی میں سے ایک قریشی سردارجناب مطعم کو یہ ہمت دی کہ جس نے کافر ہونے کے باوجود مکہ کے چورا ہے میں کھڑے ہو کر اعلان کیا کہ میں محمد کو شہر میں واپس لارہا ہوں۔ اگر کسی میں ہمت ہے تو مجھے آگے بڑھ کر روک لے۔ ممکن ہے اسی واقعہ کی طرف اس آیت کریمہ میں اشارہ کیا گیا ہو۔ جس کے بارے میں یہ فرمایا ہے کہ قریب تھا کہ آپ کو مکہ سے دربدر کردیتے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے انہیں ناکام کردیا۔ اگر آپ کو مکہ سے نکال دیتے تو یہ لوگ بھی زیادہ دیر تک مکہ میں نہ ٹھہر پاتے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا انبیاء ( علیہ السلام) کے بارے میں ایک طے شدہ طریقہ ہے کہ کسی نبی کو اس کے شہر سے نکال دیا جائے تو وہ قوم خود بھی زیادہ دیر تک وہاں نہیں ٹھہر سکتی۔ اللہ تعالیٰ کسی نہ کسی شکل میں اس قوم کو تباہ کردیتا ہے۔ مکہ والوں نے جب آپ کو نبوت کے تیرھویں سال مکہ سے نکلنے پر مجبور کیا۔ تو ٹھیک ایک سال کے بعد مکہ کے بڑے بڑے سردار غزوہ بدر میں مارے گئے۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے اپنا ضابطہ نافذ کیا۔ جس کے بارے میں فرمایا ہے کہ ہمارا ضابطہ اور طریقہ کبھی تبدیل نہیں ہوتا۔ حضرت ابراہیم کو ان کے باپ نے گھر سے نکل جانے کا کہا : (قَالَ أَرَاغِبٌ أَنْتَ عَنْ آَلِہَتِی یَا إِبْرَاہِیْمُ لَءِنْ لَمْ تَنْتَہِ لَأَرْجُمَنَّکَ وَاہْجُرْنِی مَلِیًّا۔)[ مریم : ٤٦] ” اس نے کہا اے ابراہیم! کیا تو میرے معبودوں سے برگشتہ ہے ؟ اگر تو باز نہ آیا تو میں تجھے سنگسار کردوں گا اور تو ہمیشہ کے لیے مجھ سے دور ہوجا۔“ حضرت لوط اور انکے ساتھیوں کو نکال دینے کی دھمکی : (وَقَالَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لِرُسُلِہِمْ لَنُخْرِجَنَّکُمْ مِنْ أَرْضِنَا أَوْ لَتَعُوْدُنَّ فِی مِلَّتِنَا فَأَوْحٰی إِلَیْہِمْ رَبُّہُمْ لَنُہْلِکَنَّ الظَّالِمِیْنَ )[ ابراہیم : ١٣] ” اور جو لوگ کافر تھے انہوں نے اپنے پیغمبروں سے کہا کہ ہم تمہیں اپنے ملک سے باہر نکال دیں گے یا ہمارے مذہب میں داخل ہوجاؤ۔ تو پر ور دگار نے ان کی طرف وحی بھیجی کہ ہم ظالموں کو ہلاک کردیں گے۔“ مسائل ١۔ کفار آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سرزمین حجاز سے نکالنے کے درپے تھے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ کے دستور میں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی۔ ٣۔ پہلے انبیاء کرام کیساتھ ایسا معاملہ پیش آتا رہا ہے۔ ٤۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلاف ہر وقت اہل مکہ سازشیں کیا کرتے تھے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ کی سنت اور طریقہ کبھی تبدیل نہیں ہوتا : ١۔ آپ اللہ کے دستور میں کوئی تبدیلی نہیں پائیں گے۔ (بنی اسرائیل : ٧٧) ٢۔ کیا وہ پہلوں کے انجام کا انتظار کرتے ہیں ؟ یہ اللہ کے طریقہ میں کوئی تبدیلی نہیں پائیں گے۔ (فاطر : ٤٣) ٣۔ اللہ کے طریقہ میں ہرگز کوئی تبدیلی نہیں پائیں گے۔ (الاحزاب : ٦٢) ٤۔ آپ اللہ کے طریقہ کو تبدیل ہونے والا نہیں پائیں گے۔ (الفتح : ٢٣) الإسراء
77 الإسراء
78 فہم القرآن ربط کلام : مشکل کے وقت نماز کی اہمیت اور اس کا فائدہ : جب بھی نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پریشانی اور مشکلات کا ذکر ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے محبوب پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنے ذکر اور نماز کی طرف توجہ دلاتے ہیں۔ کیونکہ ذکر اور نماز قائم کرنے سے اللہ تعالیٰ کا قرب اور اس کی طرف سے اطمینان حاصل ہوتا ہے۔ اس لیے یہاں بھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مشکلات کے ذکر کے بعد حکم ہوا ہے۔ کہ آپ سورج ڈھلنے کے ساتھ ہی نماز قائم کریں اور رات کے اندھیرے میں بھی نماز پڑھیں اور فجر کے وقت قرآن کی تلاوت کریں۔ کیونکہ صبح کے وقت قرآن مجید کی تلاوت کرنے پر فرشتے حاضر ہوتے ہیں۔ اس آیت کی تفسیر میں مفسرین کی غالب اکثریت نے ثابت کیا ہے کہ اس آیت سے تین نمازیں پڑھنے کا ثبوت ملتا ہے۔ قرآن مجید میں نماز پڑھنے کی بجائے قائم کرنے کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ اقامت صلوٰۃ سے مراد اس کے ظاہری آداب و شرائط بجا لانے کے ساتھ ساتھ معاشرتی اور روحانی فوائد کا حصول ہے۔ اس لیے یہاں صرف ” صَلُّوْا“ کا لفظ استعمال نہیں کیا بلکہ ” اَقِیْمُوْا الصَّلٰوۃَ“ کا جامع لفظ استعمال فرما کر واضح کیا گیا ہے کہ نماز پڑھنے اور ادا کرنے کے لحاظ سے جامع اور مکمل ہونی چاہیے۔ اس میں طہارت، ارکان کی صحیح ادائیگی، اخلاص اور جماعت کے ساتھ پڑھنے کا حکم شامل ہے۔ اس طرح یہ پانچ وقت کا اجتماعی عمل ہے۔ ” اَقِیْمُوْاالدِّیْنَ“ (الشورٰی : 13) کا لفظ پورے دین کے لیے بھی استعمال ہوا۔ جس طرح دین کا تقاضا صرف اس کے احکامات پڑھ لینے سے پورا نہیں ہوتا جب تک اسے پورے طور پر نافذ نہ کیا جائے ایسے ہی نماز پوری جامعیت کے ساتھ اس وقت قائم ہوگی جب اس کے تقاضے پورے کیے جائیں گے۔ نمازی کو حکم ہے کہ نماز میں نظر کو ادھر ادھر نہ اٹھائے۔ یہی حکم نماز کے بعد ہے کہ چلتے پھرتے اپنی نگاہوں کو نیچے رکھا کریں۔ تشہد میں نمازی درود اور التحیات میں سب کی سلامتی کی دعائیں مانگتا ہے نماز سے فارغ ہوتے ہوئے بھی دائیں بائیں السلام وعلیکم ورحمۃ اللہ کہتا ہے۔ یہی جذبہ اور انداز نماز کے بعد بھی اختیار کرنا چاہیے۔ گویا کہ نماز اللہ تعالیٰ اور مسلمانوں کے درمیان تعلق قائم رکھنے کا موثر ترین ذریعہ ہے۔ نماز میں اس قدر انہماک اور تعلق باللہ قائم ہونا چاہیے جیسے بندہ اپنے رب کی زیارت کر رہا ہو۔ ” حضرت عبداللہ بن عباس (رض) سے مروی ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ بیت اللہ کے قریب جبرائیل (علیہ السلام) نے دو دفعہ میری امامت کروائی۔ اس نے میرے ساتھ ظہر کی نماز اس وقت پڑھی جب سورج تھوڑا ساڈھل گیا اور اس کا سایہ تسمے کے برابر ہوگیا۔ پھر اس نے میرے ساتھ عصر کی نماز پڑھی۔ جب ہر چیز کا سایہ اس کے برابر ہوا۔ مجھے مغرب کی نماز پڑھائی جس وقت روزہ دار روزہ افطار کرتا ہے۔ پھر میرے ساتھ عشاء کی نماز پڑھی جب سورج کی سرخی غائب ہوگئی اور فجر کی نماز میرے ساتھ اس وقت پڑھی جب روزہ دار پر کھانا، پینا حرام ہوجاتا ہے۔ پھر اگلا دن آیا تو میرے ساتھ ظہرکی نماز پڑھی اس وقت جب ہر شے کا سایہ اس کے برابر ہوگیا اور عصر کی نماز پڑھائی جب ہر شے کا سایہ اس سے دوگناہو گیا اور مغرب کی نماز اس وقت میرے ساتھ پڑھی جب رو زہ دار روزہ افطار کرتا ہے۔ پھر عشاء کی نماز رات کے تہائی حصے میں ادا کی اور فجر کی نماز اس وقت ادا کی جب صبح خوب روشن ہوگئی پھر میری طرف متوجہ ہو کر جبریل نے فرمایا اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! یہ وقت آپ سے پہلے انبیاء کا ہے اور آپ کی نماز کا وقت ان دونوں وقتوں کے درمیان ہے۔“ جماعت کی اہمیت : ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے ہوئے سنا جماعت کے ساتھ نماز ادا کرنا اکیلے نماز پڑھنے سے پچیس درجے بہتر ہے۔ رات اور دن کے فرشتے فجر کی نماز میں حاضر ہوتے ہیں۔ حضرت ابو ھریرہ (رض) کہتے ہیں اگر چاہتے ہو تو قرآن مجیدکی آیت پڑھو (إِنَّ قُرْآنَ الْفَجْرِ کَانَ مَشْہُودًا ) “ مسائل ١۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سورج ڈھلنے سے اندھیرے تک نماز قائم کرنے کا حکم دیا گیا۔ ٢۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو صبح کی نماز قائم کرنے کا حکم دیا گیا۔ ٣۔ صبح کا وقت فرشتوں کی حضوری کا وقت ہے۔ تفسیر بالقرآن نماز کے اوقات قرآن مجید کی روشنی میں : ١۔ نماز قائم کرو سورج کے ڈھلنے سے لیکر رات تک اور فجر کے وقت قرآن پڑھا کریں۔ (بنی اسرائیل : ٧٨) ٢۔ دن کے دونوں سروں (یعنی صبح شام کے اوقات میں) اور رات کی ساعات میں نماز پڑھا کرو۔ (ہود : ١١٤) ٣۔ اللہ کی تسبیح صبح شام بیان کرو آسمان و زمین میں اسی کی تعریف ہے اور تیسرے پہر بھی اور جب دوپہر ہو۔ (الروم : ١٧۔ ١٨) ٤۔ سورج نکلنے اور غروب ہونے سے پہلے اور رات کی گھڑیوں میں اور دن کے اطراف میں تسبیح وتحمید بیان کریں۔ (طٰہٰ: ١٣٠) ٥۔ سورج طلوع ہونے سے پہلے اور غروب ہونے سے پہلے اللہ کی تسبیح بیان کریں رات کے کچھ اوقات میں اور نماز کے بعد بھی۔ (ق : ٣٩۔ ٤٠) الإسراء
79 فہم القرآن ربط کلام : فرض نماز کے بعد تہجد کی تلقین۔ عبادات میں سب سے افضل عبادت فرض نماز ہے۔ فرض نماز کے بعد سب سے افضل نماز تہجد کی نماز ہے۔ جسے نفل نماز قرار دیا گیا ہے۔ نفل کا معنیٰ ہوتا ہے ” زائد چیز“۔ رسول محترم نے نوافل کا فائدہ ذکر کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ قیامت کے دن فرض نماز کی کمی، بیشی نفل نماز سے پوری کی جائے گی۔ بعض اہل علم کے نزدیک پہلے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر تہجد فرض تھی۔ بعد ازاں اسے نفل قرار دے دیا گیا۔ تہجد کا لفظ ” جہد“ سے نکلاہے۔ جس کا مطلب ہے ” نیند کے بعد بیدار ہونا“ ظاہر ہے یہ کام ہمت اور کوشش کے بغیر نہیں ہوتا۔ اس لیے کچھ اہل علم ضروری سمجھتے ہیں کہ تہجدکچھ دیر سونے کے بعداٹھ کر پڑھنی چاہیے۔ ان کے بقول سونے سے پہلے پڑھے جانے والے نوافل تہجد شمار نہیں ہوتے۔ لیکن احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ آدمی اپنی صحت اور فرصت کے پیش نظر رات کے کسی پہر میں تہجد پڑھ سکتا ہے۔ البتہ تہجد کے لیے افضل ترین وقت آدھی رات کے بعد شروع ہوتا ہے۔ سحری کا وقت حاجات و مناجات اور سکون و اطمینان کے لیے ایسا وقت ہے کہ لیل و نہار کا کوئی لمحہ ان لمحات کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔ زمین و آسمان کی وسعتیں نورانی کیفیت سے لبریز دکھائی دیتی ہیں۔ ہر طرف سکون و سکوت انسان کی فکر و نظر کو جلابخشنے کے ساتھ خالق حقیقی کی طرف متوجہ کر رہا ہوتا ہے۔ ایک طرف رات اپنے سیاہ فام دامن میں ہر ذی روح کو سلائے ہوئے ہے اور دوسری طرف بندۂ مومن اپنے خالق حقیقی کی بارگاہ میں پیش ہونے کے لیے کروٹیں بدلتا ہوا اٹھ کھڑا ہوتا ہے کہ کہیں نیند کی غفلت میں پرنور لمحات گذرنہ جائیں۔ وہ ٹھنڈی راتوں میں یخ پانی سے وضو کرکے رات کی تاریکیوں میں لرزتے ہوئے وجود اور کانپتی ہوئی آواز کے ساتھ شکر و حمد اور فقر و حاجت کے جذبات میں زار و قطار روتا ہوا فریاد کناں ہوتا ہے۔ وہ آنسوؤں کے پانی سے اس طرح اپنی ردائے حیات کو دھو ڈالتا ہے کہ اس کا دامن گناہوں کی آلودگی سے پاک اور وجود دنیا کی تھکن سے ہلکا ہوجاتا ہے۔ طویل ترین قیام اور دیر تک رکوع وسجود میں پڑارہنے سے تہجد بندۂ مومن کو ذہنی اور جسمانی طور پر طاقت و توانائی سے ہمکنار کردیتی ہے۔ اگر وہ خورد و نوش میں مسنون طریقوں کو اپنائے تو اس کو کسی قسم کی سیر و سیاحت حتیٰ کہ معمولی ورزش کی بھی حاجت نہیں رہتی۔ اللہ تعالیٰ تہجد گزار بندوں کی اس طرح تعریف فرماتا ہے۔ (تَتَجَا فٰی جُنُوْبُھُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ یَدْعُوْنَ رَبَّھُمْ خَوْفًا وَّطَمَعاً وَّمِمَّا رَزَقْنٰھُمْ یُنْفِقُوْنَ) [ السجدۃ: ١٦] ” وہ اپنے بستروں سے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں اپنے رب کو خوف اور امید کے ساتھ پکارتے ہیں اور جو ہم نے انہیں دیا ہے اس سے خرچ کرتے ہیں۔“ (عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَ ۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَنْزِلُ رَبُّنَا تَبَارَکَ وَتَعَالٰی کُلَّ لَیْلَۃٍ اِلَی السَّمَآء الدُّنْیَا حِیْنَ یَبْقَی ثُلُثُ اللَّیْلِ الْاٰخِرِ یَقُوْلُ مَنْ یَدْعُوْنِیْ فَأسْتَجِیْبَ لَہُ مَنْ یَسْاَلنِیْ فأُعْطِیَہٗ مَنْ یَسْتَغْفِرُنِیْ فَأَغْفِرَلَہُ) [ رواہ البخاری : باب التحریض علی قیام الیل] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ رب تعالیٰ رات کے آخری حصے میں آسمان دنیا پر تشر یف لاکر فرماتے ہیں : کون ہے مجھ سے طلب کرنے والا میں اسکو عطاکروں اور کون ہے جو مجھ سے بخشش اور مغفرت چاہے میں اسکوبخش دوں۔“ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ (رض) یَرْفَعُہُ قَالَ سُءِلَ أَیُّ الصَّلاَۃِ أَفْضَلُ بَعْدَ الْمَکْتُوبَۃِ وَأَیُّ الصِّیَامِ أَفْضَلُ بَعْدَ شَہْرِ رَمَضَانَ فَقَالَ أَفْضَلُ الصَّلاَۃِ بَعْدَ الصَّلاَۃِ الْمَکْتُوبَۃِ الصَّلاَۃُ فِی جَوْفِ اللَّیْلِ وَأَفْضَلُ الصِّیَامِ بَعْدَ شَہْرِ رَمَضَانَ صِیَامُ شَہْرِ اللَّہِ الْمُحَرَّمِ )[ رواہ مسلم : کتاب الصیام، باب فَضْلِ صَوْمِ الْمُحَرَّمِ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) سے مروی ہے اور وہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مرفوعاً بیان کرتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا گیا کہ فرض نماز کے بعد کونسی نماز افضل ہے اور رمضان کے روزوں کے بعد کون سے روزے افضل ہیں۔ آپ نے فرمایا فرض نمازوں کے بعد افضل نماز آدھی رات کے وقت پڑھی جانے والی نماز ہے اور رمضان کے روزوں کے بعد افضل روزہ ماہ محرم کا روزہ ہے۔“ (عَنْ أَبِی سَلَمَۃَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَنَّہُ أَخْبَرَہُ أَنَّہُ سَأَلَ عَاءِشَۃَ کَیْفَ کَانَتْ صَلاَۃُ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فِی رَمَضَانَ فَقَالَتْ مَا کَانَ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَزِیدُ فِی رَمَضَانَ وَلاَ فِی غَیْرِہِ عَلَی إِحْدٰی عَشْرَۃَ رَکْعَۃً، یُصَلِّی أَرْبَعًا فَلاَ تَسَلْ عَنْ حُسْنِہِنَّ وَطُولِہِنَّ، ثُمَّ یُصَلِّی أَرْبَعًا فَلاَ تَسَلْ عَنْ حُسْنِہِنَّ وَطُولِہِنَّ، ثُمَّ یُصَلِّی ثَلاَثًا، قَالَتْ عَاءِشَۃُ فَقُلْتُ یَا رَسُول اللَّہِ أَتَنَامُ قَبْلَ أَنْ تُوتِرَ فَقَالَ یَا عَاءِشَۃُ، إِنَّ عَیْنَیَّ تَنَامَانِ وَلاَ یَنَامُ قَلْبِی )[ رواہ البخاری : کتاب التہجد] ” حضرت ابو سلمہ بن عبدالرحمٰن اپنے باپ سے بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے حضرت عائشہ (رض) سے سوال کیا کہ آپ کی رمضان میں نماز کیسی ہوتی تھی ؟ حضرت عائشہ نے جواب دیا کہ آپ رمضان اور غیر رمضان میں گیارہ رکعتوں سے زیادہ نماز نہیں پڑھتے تھے۔ آپ پہلے چار کعات پڑھتے تو ان کے حسن اور طوالت کے متعلق مت پوچھ۔ پھر آپ چار رکعات پڑھتے تو ان کے اچھے اور طویل ہونے کے بارے میں نہ پوچھ پھر آپ تین رکعات پڑھتے۔ حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ میں نے پوچھا اے اللہ کے رسول ! کیا آپ وتر پڑھنے سے پہلے سوجا تے ہیں ؟ آپ نے فرمایا اے عائشہ! یقیناً میری آنکھیں سوتی ہیں مگر میرا دل نہیں سوتا۔“ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تہجد کی کیفیت : (عَنْ عَآءِشَۃَ قَالَتْ کَان النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ےُصَلِّیْ فِےْمَا بَےْنَ اَنْ یَّفْرُغَ مِنْ صَلٰوۃِ الْعِشَآءِ اِلَی الْفَجْرِ اِحْدٰی عَشْرَۃَ رَکْعَۃً یُّسَلِّمُ مِنْ کُلِّ رَکْعَتَےْنِ وَےُؤْتِرُ بِوَاحِدَۃٍ فَےَسْجُدُ السَّجْدَۃَ مِنْ ذَالِکَ قَدْرَ مَا ےَقْرَاُ اَحَدُکُمْ خَمْسِےْنَ اٰےَۃً قَبْلَ اَنْ یَّرْفَعَ رَاْسَہُ فَاِذَا سَکَتَ الْمُؤَذِّنُ مِنْ صَلٰوۃِ الْفَجْرِ وَتَبَیَّنَ لَہُ الْفَجْرُ قَامَ فَرَکَعَ رَکْعَتَےْنِ خَفِےْفَتَےْنِ ثُمَّ اضْطَجَعَ عَلٰی شِقِّہِ الْاَےْمَنِ حَتّٰی ےَأْتِےَہُ الْمُؤَذِّنُ لِلْاِقَامَۃِ فَےَخْرُجُ)[ رواہ البخاری : باب ایذان المؤذنین الائمۃ الصلٰوۃ] ” حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عشاء کی نماز کے بعد اور فجر سے پہلے گیارہ رکعت ادا کیا کرتے تھے ہر دو رکعت کے بعد سلام پھیرتے اور ایک وتر ادا کرتے۔ اس قدر لمباسجدہ کرتے کہ اس دورانیہ میں اگر تم میں سے کوئی پچاس آیات کی تلاوت کرنا چاہے تو کرسکتا تھا۔ جب مؤذن فجر کی اذان کہتا اور صبح نمایاں ہوجاتی آپ مختصر دورکعتیں ادا کرتے اور پھر دائیں جانب چند لمحے لیٹ جاتے پھر مؤذن نماز کی اطلاع کرتا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) گھر سے تشریف لے جاتے۔“ مسائل ١۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نماز تہجد ادا کرنے کا حکم تھا۔ ٢۔ تہجد آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے نفل بنا دی گئی۔ ٣۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ مقام محمود کا وعدہ کیا گیا ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ کے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ وعدے : ١۔ قریب ہے کہ اللہ آپ کو مقام محمود میں داخل فرمائے۔ (بنی اسرائیل : ٧٩) ٢۔ عنقریب تیرا رب تجھے وہ کچھ عطا کرے گا کہ آپ خوش ہوجائیں گے۔ ( الضحیٰ : ٥) الإسراء
80 فہم القرآن ربط کلام : سابقہ آیات میں مکہ معظمہ میں رہتے ہوئے بنی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مشکلات کا ذکر ہوا اور اس کے بعد آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نماز اور تہجد کا حکم دیا۔ اب آپ کو ہجرت کی طرف اشارہ کیا گیا اور اس کی دعا سکھلائی گئی ہے۔ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مکہ میں نبوت کے تیرہ سال بڑی مشکلات سے گزارے۔ سجدے کی حالت میں آپ کی گردن پر اونٹ کی گندی اوجڑی رکھی گئی۔ کئی بار قاتلانہ حملے ہوئے۔ آپ اور آپ کے ساتھیوں کا تین سال تک سوشل بائیکاٹ ہوا۔ ابو لہب کے بیٹوں نے آپ کی بیٹیوں کے ساتھ نکاح کی نسبت منقطع کی۔ آپ کے راستے میں کانٹے بچھائے گئے۔ آپ کی ننھی منی بیٹی حضرت فاطمہ (رض) کے چہرے پر ابوجہل نے تھپڑ مارا۔ آپ کے بیٹے کی وفات پر آپ کے پڑوسی اور حقیقی چچا ابو لہب نے خوشیاں منائیں۔ غرض یہ کہ دنیا کی کوئی پریشانی اور مشکل ایسی نہ تھی جس کا آپ نے ثابت قدمی کے ساتھ سا منا نہ کیا ہو۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بیٹی، داماد اور ساتھیوں کو حبشہ کی طرف ہجرت کرنے پر مجبور کیا گیا۔ آپ کے ساتھیوں کو سر بازار پیٹا گیا۔ حضرت بلال (رض) اور حضرت خباب (رض) کو آگ پر لٹایا گیا۔ حضرت یاسر (رض) کی بیوی کو کھلے بازار میں دواونٹوں سے باندھ کر دوٹکڑے کیا گیا۔ ان مظالم کے باوجود آپ کے ساتھیوں کے پایہ استقلال میں کوئی لغزش واقع نہ ہوئی۔ جب مظالم کا سلسلہ اپنی انتہا کو پہنچا اور مکہ والوں پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے کفر کی مہر ثبت کردی گئی تو یہ دعا اور خوشخبری نازل ہوئی کہ اے پیغمبر ! رات کی تایکیوں میں اپنے رب کے حضور یہ دعا کیجیے کہ اے میرے رب! مجھے جہاں اور جن حالات میں داخل فرماؤ اور جہاں سے مجھے نکالا جائے۔ سچائی کے ساتھ نکالنا اور میرے لیے اپنی طرف سے ہر حال میں مدد کا سامان مہیا فرما۔ اس دعا کے ساتھ ہی آپ کو خوشخبری دی گئی کہ آپ اعلان فرمائیں۔ حق پہنچ چکا اور باطل کا جانا ٹھہر چکا۔ اس حقیقت میں کوئی شبہ نہیں کہ باطل جایا ہی کرتا ہے۔ یہ خوشخبری اور اعلان اس وقت ہوا جب کوئی شخص آپ کی کامیابی کا تصور بھی نہیں کرسکتا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کی جدوجہد اور دعا کے صلہ میں آپ کو وہ کامیابیاں عنایت فرمائیں کہ جو کسی نبی اور بادشاہ کے حصہ میں نہیں آئیں۔ ہجرت کے موقع پر کفار ہزار کوششوں کے باوجود آپ کو کسی قسم کا نقصان پہنچانے میں ناکام ہوئے۔ بدر کے موقع پر قریش کے بڑے بڑے سردار جہنم رسید ہوئے۔ یہاں تک کہ مکہ فتح ہوا۔ آپ اس شان کے ساتھ مکہ میں داخل ہوئے کہ کسی کو سر اٹھانے کی ہمت نہ تھی۔ آپ کی جان کے دشمن بیت اللہ کے صحن میں مجرم کی حیثیت سے کھڑے ہو کر رحم کی اپیل کررہے تھے۔ اس طرح آپ کی دعا اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے حق کے غلبہ کا اعلان اپنی سچائی، سطوت اور جلالت کے ساتھ نصف النہار کی طرح دشمن کی آنکھیں چندھیارہا تھا۔ ہجرت اور مشکلات سے نکلنے کی دعا : (وَقُلْ رَبِّ أَدْخِلْنِیْ مُدْخَلَ صِدْقٍ وَأَخْرِجْنِیْ مُخْرَجَ صِدْقٍ وَاجْعَلْ لِیْ مِنْ لَدُنْکَ سُلْطَانًا نَصِیْرًا )[ بنی اسرائیل : ٨٠] ” اور دعا کیجیے میرے رب ! داخل کر مجھے سچائی کے ساتھ داخل کرنا اور مجھے سچائی کے ساتھ نکالنا اور بنا میرے لیے اپنی طرف سے ایسا غلبہ جو مددگار ہو۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ سے اچھائی طلب کرنی چاہیے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ کی مدد کے سوا غلبہ حاصل نہیں ہوسکتا۔ ٣۔ حق کے مقابلہ میں باطل کا ٹھہرنا محال ہے۔ ٤۔ حق والے حق پر قائم رہیں تو بالآخر باطل مٹ جایا کرتا ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی مددگار نہیں : ١۔ الٰہی اپنی طرف سے میرے لیے مددگار بنا۔ (بنی اسرائیل : ٨٠) ٢۔ اللہ کی طرف سے ہی مدد حاصل ہوتی ہے۔ (آل عمران : ١٢٦) ٣۔ اللہ اپنی مدد کے ساتھ جس کی چاہتا ہے نصرت فرماتا ہے۔ (الروم : ٥) ٤۔ اللہ حق والوں کی مدد کرنے پر قادر ہے۔ (الحج : ٣٩) ٥۔ اللہ ہی تمہارا مولا ہے اور وہی بہتر مدد کرنے والا ہے۔ (آل عمران : ١٥٠) ٦۔ وہ ذات جس نے آپ کی اور مومنوں کی مدد فرمائی۔ (الانفال : ٦٢) الإسراء
81 الإسراء
82 فہم القرآن ربط کلام : قرآن مجید کا دوسرا نام ” الفرقان“ ہے۔ جس کا معنیٰ ہے ” حق وباطل میں فرق کردینے والی کتاب“۔ جس طرح دلائل کے حوالے سے اس کے سامنے باطل نہیں ٹھہر سکتا۔ اسی طرح ہی اس کی غور و فکر کے ساتھ تلاوت کرنے سے کفرو شرک اور نفاق کی بیماریاں دل میں جگہ نہیں پا سکتیں۔ قرآن کے بے شما راوصاف حمیدہ اور اس کے دنیا وآخرت میں لاتعداد فوائد ہیں۔ ان فوائد میں سے دو کا یہاں ذکر کیا گیا ہے۔ قرآن مجید پر جو شخص حقیقی طور پر ایمان لائے گا۔ قرآن مجید اس کے لیے رحمت بن جائے گا۔ جو معاشرہ جنگ وجدال، برائی و بے حیائی اور ہر قسم کی ناہمواری کا شکار تھا۔ جو نہی قرآن کا راج نافذ ہوا۔ ہر طبقہ انسانی کو اپنے اپنے حقوق ملے اور معاشرہ مذہبی، معاشی اور معاشرتی بے اعتدالیوں سے پاک ہوا۔ جنت بے نظیر کا نمونہ بن گیا۔ حالانکہ قرآن مجید کے نزول سے پہلے اس معاشرہ کا یہ نقشہ تھا۔ تم آگ کے گڑھے کے اوپر کھڑے تھے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے تمہیں آگ میں گرنے سے بچالیا اور اللہ کے فضل وکرم سے تم آپس میں بھائی بھائی ہوگئے۔ (آل عمران : ١٠٣) جہاں تک قرآن مجید کا ” شفاء“ ہونے کا تعلق ہے۔ اگر اس کے بتلائے ہوئے حفظان صحت کے اصولوں کا خیال رکھا جائے۔ تو آدمی جسمانی بیماریوں سے محفوظ رہ سکتا ہے۔ سورۃ المدثر کی ابتداء میں یہ تعلیم دی گئی کہ انسان کو لباس اور جسمانی طور پر پاک صاف رہنا چاہیے۔ (المدثر : ٤، ٥) جسمانی پاکیزگی کا خیال رکھنے والوں کو اس شرف کے ساتھ نوازتے ہوئے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ پاک رہنے والوں کو محبوب رکھتا ہے۔“ (التوبہ : ١٠٨) انسان کو جسمانی بیماریاں لاحق ہوتی ہیں۔ تو اس سے روحانی اور جسمانی طور پر تکلیف محسوس کرتا ہے۔ اسی طرح روح کو بھی بیماریاں لاحق ہوتی ہیں۔ جس سے نا صرف روحانی موت واقع ہوتی ہے بلکہ اس سے جسمانی بیماریاں بھی جنم لیتی ہیں۔ عقیدہ توحید کی کمزوری کی وجہ سے آدمی بزدل، فکری انحطاط اور وہم کا شکار ہونے کی وجہ سے دربدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہوجاتا ہے۔ حسد ایک حد سے آگے بڑھ جائے تو آدمی بلڈ پریشر اور ڈپریشن کا شکار ہوجاتا ہے۔ کسی کے ساتھ بغض اپنی حد سے تجاوز کر جائے تو جنگ وجدال کی نوبت پیش آتی ہے۔ جس سے مالی جانی نقصان کے ساتھ پورا خاندان پر یشانیوں کا شکار رہتا ہے۔ غرض کہ روحانی بیماریاں دنیا وآخرت کے نتائج کے اعتبار سے زیادہ نقصان دہ اور خطر ناک ہوتی ہیں۔ یہاں صرف ” اَلشِّفَا“ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ جب کہ سورۃ یو نس میں فرمایا ہے۔ (یَا أَیُّہَا النَّاسُ قَدْ جَاءَ تْکُمْ مَوْعِظَۃٌ مِنْ رَبِّکُمْ وَشِفَاءٌ لِمَا فِیْ الصُّدُوْرِ وَہُدًی وَرَحْمَۃٌ لِلْمُؤْمِنِیْنَ) [ یونس : ٥٧] ” اے لوگو! یقیناً تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے نصیحت آگئیجو سینوں کے لیے سراسر شفاء اور ایمان والوں کے لیے ہدایت اور رحمت ہے۔“ (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَ عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) أنَّہٗ کَانَ یَقُوْلُ لِکُلِّ شَیءٍ صِقَالَۃٌ وَصِقَالَۃُ القُلُوْبِ ذِکْرُ اللّٰہِ وَمَا مِنْ شَیءٍ أنجٰی مِنْ عَذَاب اللّٰہِ مِنْ ذِکْرِ اللّٰہِ قَالُوْاوَلا الجِہَادُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ ؟ قَالَ وَلَا أن یَضْرِبَ بِسَیْفِہِ حَتّٰی یَنْقَطِعَ )[ رواہ البیہقی فی الدعوات الکبیر ] ” حضرت عبداللہ بن عمر (رض) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں۔ آپ نے فرمایا ہر چیز کو صاف کرنے کے لیے ایک پالش ہوتی ہے۔ دلوں کی پالش اللہ کا ذکر ہے۔ اللہ کے ذکر سے بڑھ کر عذاب سے نجات دلوانے والی کوئی چیز نہیں۔ صحابہ کرام (رض) نے عرض کی کیا اللہ کے راستے میں جہادبھی؟ آپ نے جواب دیا : ہاں ! چاہے کوئی تلوار کے ساتھ لڑے اور اس کی گردن تن سے جدا ہوجائے۔“ مسائل ١۔ قرآن مجید مومنوں کے لیے شفار اور رحمت ہے۔ ٢۔ ظالم لوگ خسارہ میں آگے ہی بڑھا کرتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن قرآن مجید کے اوصاف حمیدہ کی ایک جھلک : ١۔ قرآن مومنوں کے لیے باعث شفاء اور رحمت ہے۔ (بنی اسرائیل : ٨٢) ٢۔ اس کتاب میں کوئی شک نہیں ہے۔ (البقرۃ: ٢) ٣۔ اس کتاب کی آیات محکم ہیں اور یہ حکیم وخبیر کی طرف سے نازل کی گئی ہے۔ (ھود : ١) ٤۔ یقیناً قرآن سیدھی راہ کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔ (بنی اسرائیل : ٩) ٥۔ جن و انس مل کر بھی اس قرآن جیسا قرآن نہیں لا سکتے۔ (بنی اسرائیل : ٨٨) ٦۔ اگر قرآن کو پہاڑوں پر نازل کیا جاتا تو وہ بھی اللہ کے ڈر کی وجہ سے ریزہ ریزہ ہوجاتے۔ (الحشر : ٢١) الإسراء
83 فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ کی سب سے بڑی نعمت قرآن مجید ہے لیکن اس کے منکر اس سے فیض یاب ہونے کی بجائے اپنے آپ کو نقصان میں آگے ہی آگے لے جارہے ہیں اور اکثر انسانوں کی یہی کیفیت ہے کہ جب انہیں کوئی نعمت عطا کی جاتی ہے تو اپنے رب کا شکر ادا کرنے کی بجائے کفرو شرک میں آگے ہی بڑھتے جاتے ہیں۔ انسان کی طبعی کمزوریوں میں سے ایک کمزوری یہ بھی ہے کہ انسان صحت اور وسائل کے حوالے سے خوشحال ہوتا ہے۔ تو نا صرف اپنے رب سے ناطہ توڑ لیتا ہے بلکہ وہ اپنے رب کی نافرمانی اور بغاوت پر اتر آتا ہے۔ انسان کی اس کمزوری کا ان الفاظ میں ذکر کیا گیا ہے ” یقیناً انسان سرکش ہوجاتا ہے۔ جب اپنے آپ کو مستغنی سمجھتا ہے۔ حالانکہ بالآخر اس نے اپنے رب کے پاس جانا ہے۔“ (العلق : ٦ تا ٨) انسان کو جو کچھ حاصل ہوتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم کا نتیجہ ہے۔ لیکن اس کے باوجود انسان اپنے رب سے پہلو پھیر لیتا ہے۔ جب اسے کسی مشکل کے ساتھ واسطہ پڑتا ہے تو وہ مایوس ہوجاتا ہے۔ اے پیغمبر ! فرما دیجیے کہ ہر شخص اپنی سوچ اور طریقے کے مطابق عمل کرتا ہے۔ تمہار ارب خوب واقف ہے۔ جو سیدھے راستے پر چلنے والاہے۔ یہاں پہلی آیت میں انسان کی افتادہ طبع کا ذکر کیا گیا ہے کہ خوشحال ہو تو اپنے رب کی ناقدری اور ناشکری کرتا ہے۔ پریشان حال ہو تو اپنے رب کی رحمت سے مایوسی کا اظہار کرتا ہے۔ تنگدستی آئے تو کہتا ہے میں نے کبھی خوشحالی دیکھی ہی نہیں۔ بیمار ہوجائے تو صحت و تندرستی کا طویل دور بھول جاتا ہے۔ پریشانی میں مبتلا ہو تو اسے خوشی کا کوئی لمحہ یاد نہیں رہتا۔ ایسے لوگوں کے بارے میں ارشاد ہوا کہ انہیں آپ اپنے طریقے کے مطابق عمل کرنے دیں۔ کیونکہ ہر کوئی اپنے اپنے طریقے کو پسند کرتا اور اس پر عمل کرتا ہے۔ طریقہ سے مراد مذہبی رسومات اور انسان کا زندگی گزارنے کا انداز ہے۔ لیکن سب کو جان لینا چاہیے کہ تمہارا رب خوب جانتا ہے کہ کون ہدایت کے راستہ پر ہے۔” شاکلہ“ کا معنیٰ ” نیت“ بھی کیا گیا ہے لہٰذا ہر شخص کو اس کی نیت کے مطابق اجر ملے گا۔ (کُلُّ حِزْبٍ بِمَا لَدَیْہِمْ فَرِحُوْنَ )[ المومنون : ٥٣] ” ہر گروہ کے پاس جو ہے وہ اسی میں مگن ہے۔“ (عَنْ عُمَرَبْنِ الْخَطَّابِ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اِنَّمَا الْاَعْمَال بالنِّیَّاتِ وَاِنَّمَا لِاِمْرِئٍ مَّا نَوٰی فَمَنْ کَانَتْ ھِجْرَتُہُ الی اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ فَہِجْرَتُہُ اِلَی اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ وَمَنْ کَانَتْ ھِجْرَتُہُ اِلٰی دُنْےَا ےُصِےْبُھَا اَوِامْرَاَۃٍ ےَتَزَوَّجُھَا فَہِجْرَتُہٗ اِلٰی مَا ھَاجَرَ اِلَےْہِ)[ رواہ البخاری : کتاب الایمان] ” حضرت عمر بن خطاب (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تمام اعمال کا انحصار نیت پر ہے اور آدمی اپنی نیت کے مطابق ہی صلہ پائے گا۔ جس نے اللہ اور اس کے رسول کے لیے ہجرت کی اس کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول کے لیے ہے جس شخص نے دنیا کے فائدے یا کسی عورت سے نکاح کرنے کے لیے ہجرت کی اس کی ہجرت اسی کے لیے ہوگی۔“ مسائل ١۔ انسان کو نعمت ملے تو منہ موڑ لیتا ہے۔ ٢۔ انسان کو تکلیف پہنچے تو ناامید ہوجاتا ہے۔ ٣۔ ہر انسان اپنے طریقہ پر کام کرتا ہے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ راہ راست پر کون ہے۔ تفسیر بالقرآن اکثر لوگوں کی عادت : ١۔ جب ہم انسان کو نعمت بخشتے ہیں تو وہ اعراض کرتا ہے اور جب تکلیف پہنچے تو ناامید ہوجاتا ہے۔ (بنی اسرائیل : ٨٣) ٢۔ جب انسان کو تکلیف پہنچتی ہے تو وہ ہمیں کھڑے، بیٹھے اور لیٹ کر پکارتا ہے جب ہم تکلیف دور کردیتے ہیں تو وہ ایسے ہوجاتا ہے جیسے اس نے تکلیف کے وقت ہمیں پکارا ہی نہیں۔ (یونس : ١٢) ٣۔ جب انسان کو تکلیف پہنچتی ہے تو اپنے رب کو پکارتا ہے اور دل سے اس کی طرف رجوع کرتا ہے۔ جب اس کو اللہ کی طرف سے کوئی نعمت ملتی ہے تو اسے بھول جاتا ہے۔ (الزمر : ٨) ٤۔ جب انسان کو ہماری طرف سے رحمت ملتی ہے تو وہ خوش ہوتا ہے۔ (الشوریٰ : ٤٨) الإسراء
84 الإسراء
85 فہم القرآن ربط کلام : اس سے پہلے قرآن مجید کے فضائل اور اوصاف کا ذکر ہوا۔ اب اسی کے بارے میں ایک سوال کا جواب دیا گیا ہے۔ اس آیت میں روح کے بارے میں سوال کیا گیا ہے کہ روح کیا چیز ہے ؟ روح کے بارے میں اہل علم کی دو آراء ہیں۔ ایک جماعت کا کہنا ہے کہ یہاں روح سے مراد نفس انسانی ہے۔ جس کے بارے میں صرف یہ جواب دیا گیا ہے۔ کہ اے پیغمبر ! لوگ آپ سے استفسار کرتے ہیں کہ ” اَلرُّوْحُ“ کیا چیز ہے ؟ انہیں فرمائیں کہ ” روح“ اللہ کا حکم ہے۔ جب چاہتا ہے اپنا حکم واپس لیلیتا ہے۔ روح نکلنے سے انسان کا جسد خاکی ایک ڈھا نچے کے سوا کچھ نہیں رہتا۔ جسم بالآخر مٹی کے ساتھ مٹی ہوجاتا ہے۔ اہل علم کی دوسری جماعت کا نقطہ نظر یہ ہے کہ یہاں روح سے مراد نفس انسانی نہیں بلکہ اس سے مراد قرآن مجید ہے۔ کیونکہ قرآن مجید میں نفس انسانی کے لیے اکثر مقامات پر ” روح“ کی بجائے ” نفس“ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ جس طرح کہ انسان کی موت کا ذکر کرتے ہوئے اس کی روح کے بارے میں قرآن مجیدبار بار نفس کا لفظ استعمال کرتا ہے۔ (کُلُّ نَفْسٍ ذَاءِقَۃُالْمَوْت)[ اٰل عمران : ١٨٥] بے شک قرآن مجید میں ” روح“ کے لیے ” نفس“ کا لفظ کئی بار استعمال ہوا ہے۔ لیکن اس کا یہ ہرگز معنیٰ نہیں کہ قرآن میں ” نفس“ کے لیے روح کا لفظ استعمال ہی نہیں ہوا۔ قرآن مجید نے آدم کی تخلیق کا ذکر کرتے ہوئے یہ حقیقت واضح کی ہے۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کو پیدا فرمایا تو فرشتوں کو حکم دیا : (فَإِذَا سَوَّیْتُہُ وَنَفَخْتُ فِیْہِ مِنْ رُوحِیْ فَقَعُوْا لَہُ سَاجِدِیْنَ )[ صٓ: ٧٢] ” جب میں اس میں اپنی روح پھونک لوں تو آدم کے سامنے سجدہ کرنا“ یہاں الروح سے مراد انسان کا نفس ہے۔ لہٰذا جن اہل علم نے ” روح“ سے مراد صرف ” نفس انسانی“ لیا ہے۔ ان کا موقف مستند دکھائی نہیں دیتا۔ لہٰذایہاں روح سے مراد ” روح انسانی“ ہے۔ کیونکہ اگر سوال قرآن مجید کے بارے میں ہوتا تویقیناً سوال کرنے والے قرآن مجید کا نام لیتے۔ اگر یہ سوال جبریل امین کے بارے میں تھا تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خاموش رہنے کی ضرورت نہ تھی۔ کیونکہ دن رات آپ کے پاس تشریف لاتے اور آپ کو قرآن کی نئی وحی سے آگاہ فرماتے تھے۔ اس لیے یہ سوال ” انسانی روح“ کے بارے میں کیا گیا۔ جس کی تائید سیدنا عبداللہ بن مسعود (رض) کی روایت سے ہوتی ہے۔ جس میں آپ کے چند لمحے خاموش رہنے کا ذکر موجود ہے۔ ” حضرت عبداللہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ ایک کھیت میں تھا اور آپ لکڑی کے ساتھ ٹیک لگائے ہوئے تھے۔ اتنے میں یہودی گزرے۔ وہ ایک دوسرے سے کہنے لگے۔ نبی سے روح کے بارے میں سوال کرو۔ بعض نے کہا تمہاری اس کے بارے میں کیا رائے ہے ؟ بعض نے کہا وہ تمہیں ایسی بات نہ کہہ دے جو تمہیں بری لگے۔ انہوں نے کہا سوال کرو۔ پھر انہوں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روح کے بارے میں سوال کیا۔ آپ کچھ دیر ٹھہرے رہے اور کوئی جواب نہ دیا۔ میں جان گیا کہ آپ کی طرف وحی کی جارہی ہے۔ میں اپنی جگہپر کھڑا رہا۔ جب وحی کا نزول ختم ہو اتو آپ نے یہ آیت تلاوت کی (وَیَسْأَلُوْنَکَ عَنِ الرُّوْحِ قُلِ الرُّوْحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّیْ وَمَا أُوتِیْتُمْ مِنَ الْعِلْمِ إِلاَّ قَلِیْلاً ) “ [ رواہ البخاری : کتاب التفسیر] اس فرمان میں انسان کو یہ تعلیم دی گئی ہے۔ کہ اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی چیزوں کی حقیقت کو کما حقہ جاننا انسان کے بس کا روگ نہیں۔ جہاں انسان کی عقل نہ پہنچ سکتی ہو۔ اس حقیقت کو ٹھکرانے کی بجائے انسان کو اللہ تعالیٰ کے فرمان پر اکتفا کرنا چاہیے۔ یہی وہ بنیادی اصول ہے جو ایک مسلمان اور بےدین سائنسدانوں کے درمیان امتیاز قائم کرتا ہے۔ بےدین سا ئنسدان کو جب کوئی چیز سمجھ نہ آئے تو وہ اس کے وجود کا سرے سے ہی انکار کردیتا ہے۔ اسی بنیاد پر بے شمار سائنسدان ناصرف اللہ تعالیٰ کی تخلیق کردہ چیزوں کا انکار کرتے ہیں۔ بلکہ سرے سے اللہ تعالیٰ کی ذات کا انکار کردیتے ہیں۔ اس انکار کی وجہ سے ان کا عقیدہ ہے کہ مادہ یعنی ایٹم میں خود بخود تبدیلیاں رونما ہونے کی وجہ سے چیزیں اپنے آپ بنتی اور ختم ہوتی رہتی ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ بے شک انسان کتنی ترقی کرجائے۔ وہ اللہ تعالیٰ کی تخلیق کردہ چیزوں کا پوری طرح احاطہ نہیں کرسکتا۔ کیونکہ اس آیت میں دو ٹوک اند از میں ارشاد ہوا ہے۔ کہ لوگو! اپنے علم پر اترانے کی کوشش نہ کرو۔ کیونکہ تمہیں بہت کم علم دیا گیا ہے۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ کے حکم کا نام روح ہے۔ ٢۔ لوگوں کو بہت تھوڑا علم عطا کیا گیا ہے۔ الإسراء
86 فہم القرآن ربط کلام : الروح کا جواب دیتے ہوئے فرمایا ہے کہ لوگو تمہیں بہت کم علم دیا گیا ہے۔ رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو بھی لوگوں کے سامنے بیان فرماتے تھے وہ من جانب اللہ تھا۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے یہ ارشاد فرمایا ہے۔ اے نبی ! جو کچھ ہم آپ کی طرف وحی کرتے ہیں۔ ہم اسے واپس لے جانے میں پوری طرح قادر ہیں۔ اس سے پہلی آیت میں یہ ارشاد ہوا ہے کہ لوگوں کو جو تھوڑا ساعلم دیا گیا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے۔ یہاں یہ ثابت کیا ہے کہ جو کچھ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو وحی کی صورت میں علم دیا گیا ہے۔ وہ بھی من جانب اللہ ہے اور آپ کو منصب نبوت پر فائز کرنا اللہ تعالیٰ کا عظیم ترین فضل ہے۔ منصب نبوت اللہ تعالیٰ کا اتنا بڑا فضل ہے کہ دنیا کا کوئی منصب اور دولت اس کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔ اے نبی ! یہ یاد رکھیں اللہ نے جو وحی کی صورت میں آپ پر اپنا فضل نازل کیا ہے۔ وہ اس پر پوری طرح قادر ہے کہ اپنے فضل کو واپس لے جائے۔ واپس لے جانے کی صورت میں اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں آپ کوئی مددگار نہیں پا سکتے۔ وحی کا علم واپس لے جانے کا تذکرہ فرما کر بالواسطہ طور پر کفار کے اس الزام کی تردید کی گئی ہے۔ جو وہ آپ پر الزام لگاتے تھے کہ آپ قرآن اپنی طرف سے بنا لیتے ہیں۔ پھر اس بات کی بھی نفی کی گئی کہ نبوت کسی شخص کے ذاتی کمال یا محنت کی وجہ سے عطا نہیں کی جاتی بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے جس پر وہ چاہتا ہے نازل کرتا ہے۔ جس کے مقابلے میں تمام نعمتیں فروتر ہیں۔ ان الفاظ سے کفار کے اس فکر کی تردید ہوتی ہے جو کہا کرتے تھے کہ نبوت تو کسی مالدار اور بڑے آدمی کو ملنی چاہیے تھی۔ کفار کے فکر کی تردید کرنے کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے یہ بات بھی واضح فرمادی ہے کہ میر اپیغمبر وحی پر بھی کسی قسم کا اختیار نہیں رکھتا۔ (وَمَا کُنْتَ تَتْلُوْا مِنْ قَبْلِہٖ مِنْ کِتٰبٍ وَّ لَا تَخُطُّہٗ بِیَمِیْنِکَ اِذًا لَّارْتَابَ الْمُبْطِلُوْنَ)[ العکنبوت : ٤٨] ” اور تم اس سے پہلے کوئی کتاب نہیں پڑھتے تھے اور نہ ہی اسے اپنے ہاتھ سے لکھ سکتے تھے ایسا ہوتا تو اہل باطل ضرور شک کرتے۔“ (وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَیْنَا بَعْضَ الْأَقَاوِیلِ لَأَخَذْنَا مِنْہُ بالْیَمِینِ ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْہُ الْوَتِینَ فَمَا مِنْکُمْ مِنْ أَحَدٍ عَنْہُ حَاجِزِینَ )[ الحاقۃ: ٤٤۔ ٤٧] ” اگر یہ پیغمبر ہماری نسبت کوئی جھوٹی بات بنا لاتے تو ہم ان کا دائیاں ہاتھ پکڑ لیتے، پھر ان کی شہ رگ کاٹ ڈالتے تم میں سے کوئی ہمیں روکنے والا نہ ہوتا۔“ (وَلَوْلَا فَضْلُ اللّٰہِ عَلَیْکَ وَرَحْمَتُہُ لَہَمَّتْ طَاءِفَۃٌ مِنْہُمْ أَنْ یُضِلُّوْکَ وَمَا یُضِلُّوْنَ إِلَّا أَنْفُسَہُمْ وَمَا یَضُرُّوْنَکَ مِنْ شَیْءٍ وَأَنْزَلَ اللّٰہُ عَلَیْکَ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَۃَ وَعَلَّمَکَ مَا لَمْ تَکُنْ تَعْلَمُ وَکَانَ فَضْلُ اللّٰہِ عَلَیْکَ عَظِیْمًا۔)[ النساء : ١١٣] ” اور اگر تم پر اللہ کی مہربانی اور فضل نہ ہوتا تو ان میں سے ایک جماعت تمہیں بہکانے کا قصد کر ہی چکی ہوتی اور یہ اپنے سو ا (کسی کو) بہکا نہیں سکتے اور نہ تمہارا کچھ بگاڑ سکتے ہیں۔ اللہ نے تم پر کتاب اور دانائی نازل فرمائی ہے۔ تمہیں وہ باتیں سکھائی ہیں جو تم نہیں جانتے تھے اور تم پر اللہ کا بڑا فضل ہے۔“ مسائل ١۔ اگر اللہ چاہتا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے وحی سلب کرلیتا۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں کوئی کسی کا مددگار نہیں ہوتا۔ ٣۔ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی رحمت وفضل سے ہی ممکن ہوتا ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں کوئی کسی کا مددگار نہیں ہوسکتا : ١۔ اگر ہم چاہتے تو وحی سلب کرلیتے، پھر اللہ کے مقابلہ میں کوئی مددگار نہ پاتے۔ (بنی اسرائیل : ٨٦) ٢۔ پھر آپ نہیں پائیں گے ہم پر کوئی مددگار۔ (بنی اسرائیل : ٧٥) ٣۔ آپ ان کے لیے کوئی مددگار نہیں پائیں گے۔ (النساء : ١٤٥) ٤۔ جن پر اللہ کی طرف سے لعنت ہو آپ ان کا کوئی مددگار نہیں پائیں گے۔ (النساء : ٥٢) ٥۔ جس کو اللہ گمراہ کرے اس کے لیے آپ کوئی راہ نہیں پائیں گے۔ (النساء : ٨٨) الإسراء
87 الإسراء
88 فہم القرآن ربط کلام : رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر وحی کے ذریعے قرآن نازل ہوا کرتا تھا۔ جس کے بارے میں کفار یہ الزام لگاتے کہ آپ اپنی طرف سے بنا لیتے ہیں۔ جس پر انہیں ایک دفعہ پھر چیلنج دیا گیا ہے۔ حق کے مقابلے میں انسان جب ہٹ دھرمی اور مسلسل تکبر کا رویہ اختیار کرتا ہے۔ تو اسے حق قبول کرنے سے الرجی سی ہوجاتی ہے۔ جس بناء پر وہ بہکی بہکی باتیں کرنے لگ جاتا ہے۔ کفار مکہ کی بھی یہی حالت ہوچکی تھی۔ ایک وقت میں وہ الزام لگاتے کہ روم کے فلاں شخص سے بالواسطہ سیکھ کر اس کا کلام ہمارے سامنے قرآن کی شکل میں پیش کرتا ہے۔ دوسرے وقت یہ الزام دیتے کہ یہ نبی اپنی طرف سے کلام بنا کر ہمارے سامنے سناتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے الزمات کا جواب دیتے ہوئے یکے بعد دیگرچار چیلنج دئیے۔ جن میں پہلا چیلنج یہ تھا کہ اے پیغمبر ! آپ انہیں چیلنج کریں کہ اگر تم اپنے الزام میں سچے ہو تو اس جیسا قرآن بنا کر پیش کرو۔ اگر جن وانس سب کے سب جمع ہوجائیں کہ قرآن جیسا کلام لے آئیں۔ تو بھی ایسا نہیں کرسکیں گے۔ بے شک یہ ایک دوسرے کی معاونت بھی کریں۔ ہم نے انہیں سمجھانے کے لیے قرآن مجید میں توحیدو رسالت اور آخرت کے بارے میں مختلف الفاظ اور انداز میں کئی مثالیں پیش کی ہیں۔ مگر لوگوں کی اکثریت اس کے ساتھ کفر کا رویہ ہی اختیار کرتی ہے۔ قرآن مجید کے چیلنج : ١۔ اگر یہ سچے ہیں تو ایسا کلام بنا کے لائیں۔ (الطور : ٣٤) ٢۔ دس آیات بناکر پیش کرو۔ (ھود : ١٣) ٣۔ کیا یہ لوگ کہتے ہیں؟ کہ آپ نے اسے اپنی طرف سے بنا لیا ہے۔ کہہ دو اگر سچے ہو تو تم بھی اس طرح کی ایک سورۃ بنالاؤ۔ (یونس : ٣٨) ٤۔ پورا قرآن مجید نہیں تو اس جیسی ایک سورۃ بنا کرلے آؤ۔ (البقرۃ: ٢٣) مسائل ١۔ جن وانس مل کر بھی اس قرآن جیسی کتاب نہیں لاسکتے۔ ٢۔ سارے ایک دوسرے کے مددگار بن کر بھی قرآن کا جواب پیش نہیں کرسکتے۔ ٣۔ قرآن مجید میں طرح طرح کے مضامین بیان کیے گئے ہیں۔ ٤۔ اکثر لوگ بار بار سمجھانے کے باوجود انکار کرتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن قرآن مجید کا مختلف الفاظ اور انداز میں سمجھانے کا طریقہ : ١۔ ہم نے اس قرآن میں تمام باتیں ہر طرح سے بیان کردی ہیں۔ (بنی اسرائیل : ٨٩) ٢۔ یقیناً ہم نے قرآن میں تمام باتیں بیان کردیں تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں۔ (بنی اسرائیل : ٤١) ٣۔ ہم نے اسے لوگوں میں بیان کیا تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں مگر بہت سے لوگوں نے انکار کے سوا کچھ قبول نہ کیا۔ (الفرقان : ٥٠) ٤۔ دیکھیں ہم کس طرح آیات بیان کرتے ہیں تاکہ وہ سمجھیں۔ (الانعام : ٦٥) ٥۔ اسی طرح ہم اپنی آیات پھیر پھیر کر بیان کرتے ہیں تاکہ وہ یہ نہ کہیں کہ آپ نے یہ کسی سے پڑھی ہیں۔ سمجھنے والوں کے لیے آپ واضح کردیں۔ (الانعام : ١٠٦) الإسراء
89 الإسراء
90 فہم القرآن ربط کلام : قرآن مجید کے بار بار کے چیلنج کے باوجود کفار اس کا جواب نہ دے سکے۔ مگر اس کے باوجود رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مزید مطالبات کرتے رہے۔ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عظیم جدوجہد اور قرآن مجید کے ٹھوس دلائل کی تاب نہ لانے کا نتیجہ تھا کہ کفار اپنی کسی بات پر قائم نہیں رہتے تھے۔ ہر بار پہلے سے بڑھ کر مطالبہ کرتے۔ جب اس کا مثبت اور موثر جواب دیا جاتا تو ہلکان ہونے کی کیفیت میں کوئی اور مطالبہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہم ہرگز آپ پر ایمان نہیں لائیں گے۔ جب تک ہمارے یہ مطالبات پورے نہیں ہوتے۔ ١۔ زمین سے ہمارے لیے چشمے جاری کیے جائیں۔ ٢۔ آپ کے لیے کجھوروں اور انگوروں کے ایسے باغ ہوں۔ جن کے درمیان نہریں جاری ہوں۔ ٣۔ ہم پر آسمان کا ٹکڑا گرا دے۔ ٤۔ ملائکہ اور اللہ تعالیٰ کو ہمارے سامنے لایاجائے۔ ٥۔ آپ کے لیے سونے کا گھر ہونا چاہیے۔ ٦۔ آپ کے آسمان پر چڑھ جانے کے باوجود ہم ایمان نہیں لائیں گے یہاں تک کہ آپ لکھی ہوئی کتاب لائیں جس کو ہم خود پڑھ سکیں۔ غور فرمائیں یہ کس قدر متضاد اور بے ہودہ مطالبات ہیں۔ جن کا جواب دینے کی بجائے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فقط یہی کہنے کا حکم ہوا ہے۔ آپ انہیں فرمائیں میرا رب ہر قسم کی کمزوری سے پاک ہے۔ نہ میں نے ان باتوں کا دعوی کیا ہے اور نہ ہی تمہارے مطالبات میرے منصب کے مطابق ہیں۔ میں تو اپنے رب کا پیغام پہنچانے والاہوں وہ تم تک پہنچا رہا ہوں۔ ” سُبْحَانَ رَبِّی“ کے الفاظ سے یہ واضح کیا گیا ہے۔ اے کفار ! تمہارے مطالبات پورے کرنا میرے رب کے لیے کوئی مشکل بات نہیں۔ کیونکہ وہ خالقِ کل اور قادر مطلق ہونے کی بناء پر یہ مطالبات کیا ان سے بڑے مطالبات تمہاری آنکھ جھپکنے سے پہلے پورے کرسکتا ہے۔ تم مطالبہ کرتے ہو تمھارے لیے چشمے جاری ہوں، غور کرو کیا اس نے پہاڑوں میں چشمے جاری نہیں کر رکھے ؟ کیا اس نے کھجوروں اور انگوروں کے باغ پیدا فرماکر ان میں چشمے جاری نہیں کیے ؟ جس سے تم ان باغوں کو سیراب کرتے ہو۔ تم اپنے اوپر آسمان کا ٹکڑا گرانے کا مطالبہ کرتے ہو۔ کیا اس نے قوم لوط پر آسمان سے پتھر برساکر ان کوتباہ نہیں کیا تھا؟ کیا قوم لوط پر فرشتے نہیں آئے تھے ؟ جنہوں نے ان کو سحری کے وقت نیست ونابود کردیا تھا۔ کیا تمہارے مطالبہ پر چاند دو ٹکڑے نہیں ہوا ؟ کیا آسمان کا ٹکڑا تم پر گرانا اللہ تعالیٰ کے لیے مشکل ہے ؟ جہاں تک اللہ تعالیٰ کے جلوہ نما ہونے کا تعلق ہے اس کے نور کی ایک جھلک کوہ طور برداشت نہیں کرسکا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) بے ہوش ہو کر گر پڑے۔ تم بتاؤ کہ اس کا جلال کس طرح برداشت کرسکتے ہو۔ ؟ قیامت کے دن جب اللہ اپنی مخلوق کے سامنے جلالت وتمکنت کے ساتھ جلوہ افروز ہوگا۔ تمہاری کیا مجال کہ آنکھ اٹھا سکو۔ وہاں تو بڑے بڑے انبیاء بھی سر جھکائے ” رَبِّ نَفْسِیْ رَبِّ نَفْسِیْ“ کی فریاد کررہے ہوں گے۔ تمہارا یہ مطالبہ ہے کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس کھجوروں اور انگوروں کے باغ ہونے چاہییں۔ ذرا غور کرو کہ وسائل کے اعتبار سے غریب نبی کو تم قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہو۔ جب وہ تم سے بڑھ کر امیر ہوگا تو پھر اس پر دنیا دار ہونے کا الزام لگاکر اس کی نبوت کا انکار نہیں کرو گے؟ تمہیں معلوم نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر کو کیا کیا پیش کش کی اور آپ نے ان سے کس عاجزی کے ساتھ استغناء کا اظہار فرمایا۔ تمہارا یہ مطالبہ آپ آسمان پر چڑھ جائیں اور وہاں سے لکھی ہوئی کتاب لائیں۔ کیا رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مکہ سے مسجد اقصیٰ اور مسجد اقصیٰ سے ساتوں آسمانوں کی سیر کرکے رات کے مختصر حصہ میں واپس آکر آپ کو یہ واقعہ نہیں بتا چکے۔ تم نے اس پر کیا ردعمل دیا ؟ تمہارا یہ مطالبہ کرنا کہ آسمان سے لکھی ہوئی کتاب لائی جائے۔ کیا اس سے پہلے موسیٰ (علیہ السلام) لکھی ہوئی کتاب اپنی قوم کے پاس نہیں لائے تھے اور اس کی قوم نے اس کے ساتھ جو سلوک کیا وہ تمہیں معلوم نہیں؟ مسائل ١۔ کفارنے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مختلف معجزات کا مطالبہ کیا۔ تفسیر بالقرآن کفار کا انبیاء (علیہ السلام) سے معجزات کا مطالبہ : ١۔ کہنے لگے ہم آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان نہیں لائیں گے یہاں تک کہ تو ہمارے لیے زمین سے چشمہ جاری کردے۔ (بنی اسرائیل : ٩٠) ٢۔ بنی اسرائیل نے موسیٰ سے کہا ہم ہرگز ایمان نہیں لائیں گے یہاں تک کہ اللہ کو سامنے دیکھ لیں۔ (البقرۃ: ٥٥) ٣۔ کہنے لگے ہم ہرگز ایمان نہیں لائیں گے یہاں تک کہ ہمیں بھی وہ کچھ دیا جائے جو رسولوں کو دیا گیا ہے۔ (الانعام : ١٢٤) ٤۔ اگر اللہ ہم سے عذاب ٹال دے تو ہم تجھ پر ایمان لے آئیں گے۔ (الاعراف : ١٣٤) الإسراء
91 الإسراء
92 الإسراء
93 الإسراء
94 فہم القرآن ربط کلام : رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کفار مکہ نے متضاد قسم کے مطالبات کیے۔ جس کا جواب آپ کی زبان اطہر سے یہ دیا گیا کہ آپ فرمائیں کہ میں تو اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچانے والا ایک انسان ہوں۔ یہاں آپ کی بشریت کے بارے میں وضاحت کی گئی ہے۔ کیونکہ انبیاء کی بشریت کو بھی کفار اپنے انکا رکا بہانہ بنایا کرتے تھے۔ چنانچہ ارشادہوا کہ جب لوگوں کے پاس ہدایت آگئی تو انہوں نے یہ کہہ کر ایمان لانے سے انکار کیا کہ عجب بات ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک بشر کو رسول بنا دیا ہے۔ یہی اعتراض کفار مکہ نے آپ پر کیا۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو ارشاد فرمایا۔ کہ آپ انہیں فرمائیں کہ اگر زمین میں رہنے، سہنے والے فرشتے ہوتے۔ تو ہم ضرور ان کے پاس فرشتہ ہی رسول بنا کر بھیجتے۔ کیونکہ زمین میں انسان رہتے ہیں۔ لہٰذا نبی بھی انسان ہونا چاہیے تھا۔ اس لیے تمام انبیاء انسان تھے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی انسان اور نبی ہیں۔ اتنی سچی، ٹھوس اور عقلی دلیل کے باوجود اگر یہ لوگ نہیں مانتے۔ تو انہیں بتلائیں کہ میرے اور تمہارے درمیان اللہ ہی گواہ کافی ہے۔ وہ اپنے بندوں کے اعمال کو دیکھنے والا اور ان کی نیتوں سے باخبر ہے۔ حق کے منکرانبیاء کرام (علیہ السلام) کی ذات کے بارے میں ہمیشہ سے یہ اعتراض کرتے رہے ہیں کہ نبی انسان کی بجائے فرشتہ ہونا چاہیے تھا۔ گویا کہ کفار کے نزدیک نبوت انسان کی بجائے فرشتے کا حق ہے۔ ان کے نزدیک نبی کا کھانا پینا، رہنا سہنا اور انسانی حاجات کے حوالے سے دوسرے انسانوں جیسا ہونا منصب نبوت کی شان کے خلاف ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں یہ بات سمجھائی ہے کہ اگر زمین پر ملائکہ رہائش پذیر ہوتے تو یقیناً کسی فرشتے کو رسول بنایا جاتا۔ کیونکہ فرشتہ ہی نورانی مخلوق کی ضروریات اور مشکلات کو سمجھ سکتا ہے۔ لیکن زمین پر انسان بستے ہیں۔ لہٰذا ان کی ضروریات اور حاجات کو سمجھنے کے لیے نبی ان کا ہم جنس ہونا چاہیے تھا تاکہ کسی کو یہ بہانہ نہ مل سکے کہ نوری مخلوق کو خاکی مخلوق کی مشکلات وضروریات کا کس طرح ادراک اور احساس ہوسکتا ہے۔ اس اعتراض کو دور کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے جتنے انبیاء مبعوث فرمائے۔ ناصرف وہ انسان تھے بلکہ اپنی قوم کے ایک فرد ہوا کرتے تھے تاکہ صرف انسان کے حوالے سے نہیں بلکہ اپنی قوم کے مزاج اور علاقے کے حالات کے مطابق ان کی ضروریات اور مشکلات کو سامنے رکھتے ہوئے ان کے مسائل کا قابل عمل حل پیش کریں اور زندگی کے تمام معاملات میں ان کے سامنے اپنے آپ کو ایک نمونہ کے طور پر پیش کریں۔ ان حقائق کے باوجود جو لوگ انکار کرتے ہیں انہیں کان کھول کرسن لینا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نا صرف ان کے اعمال کو دیکھتا ہے بلکہ ان کی نیتّوں سے بھی پوری طرح واقف ہے۔ مسائل ١۔ رسول کے بشرہونے کی وجہ سے کفاران کی نبوت کا انکار کرتے تھے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ کی گواہی سب سے بڑی اور کافی ہے۔ ٢۔ اگر زمین میں فرشتے رہائش پذیر ہوتے تو فرشتے کو رسول بنا کر بھیجا جاتا۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ خبیر وبصیر ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ کی گواہی : ١۔ فرما دیجیے میرے اور تمہارے درمیان اللہ ہی گواہ کافی ہے۔ (بنی اسرائیل : ٩٦) ٢۔ قیامت کے دن حضرت عیسیٰ عرض کریں گے جب تو نے مجھے فوت کرلیا تو تو ہی ان پر نگران تھا اور تو ہر ایک پر گواہ ہے۔ (المائدۃ: ١١٧) ٣۔ ہماری طرف ان کا لوٹنا ہے، پھر اللہ اس پر گواہ ہے جو وہ کرتے ہیں۔ (یونس : ٤٦) ٤۔ یقیناً اللہ قیامت کے دن ان میں فیصلہ فرمائیں گے اللہ ہر چیز پر گواہ ہے۔ (الحج : ١٧) ٥۔ میرا اجر اللہ کے ذمّہ ہے اور وہ ہر چیز پر گواہ ہے۔ (سبا : ٤٧) ٦۔ آسمان و زمین کی بادشاہت اللہ کے لیے ہے اور وہ ہر چیز پر گواہ ہے۔ (البروج : ٩) الإسراء
95 الإسراء
96 الإسراء
97 فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ سب کچھ جاننے کے ساتھ یہ بات بھی جانتا ہے۔ کہ کون ہدایت کا طالب اور کون گمراہی کے در پہ ہوچکا ہے۔ یہ حقیقت کئی بار عرض کی جاچکی ہے کہ اللہ تعالیٰ نہ کسی کو گمراہ کرتا ہے اور نہ ہی کسی پر ہدایت مسلط کرتا ہے۔ اس کا اصول یہ ہے جو شخص ہدایت کا طلبگار ہوگا۔ وہ اس کے لیے ہدایت کا راستہ کھول دے گا۔ جو کوئی گمراہی کو پسند کرے گا اسے کھلا چھوڑ دیا جائے گا۔ اس کا یہ بھی فرمان ہے کہ ہم نے انسان کو دوراستے دکھلا دیئے ہیں۔ انسان چاہے تو شکر ادا کرے اگر چاہے تو ناشکری کاراستہ اختیار کرے۔ (الدھر : ٤) اسی مفہوم کے پیش نظر فرمایا ہے کہ جسے اللہ ہدایت دے۔ وہی ہدایت یافتہ ہے اور جسے اللہ گمراہ کردے آپ اس کا کوئی بھی خیرخواہ نہیں پائیں گے یعنی انھیں کوئی بھی ہدایت نہیں دے سکتا۔ ایسے لوگوں کے بارے میں فرمایا ہے کہ ہم ان کو گونگے، بہرے اور اندھے بناکر چہروں کے بل اٹھائیں گے۔ ان کا ٹھکانہ جہنم ہوگا۔ جب جہنم کی آگ ذرا ہلکی ہونے لگے گی تو ہم اس کو اور بھڑکا دیں گے۔ ان کی یہ سزا اس لیے ہے کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کے احکام اور ارشادات کا انکار کرتے تھے اور یہ کہتے تھے کہ جب ہماری ہڈیاں بوسیدہ اور ریزہ ریزہ ہوجائیں گی تو کیا ہم از سر نوپیدا کیے جائیں گے ؟ توحید ورسالت کے ساتھ قرآن مجید کا تیسرا مضمون بعث بعدالموت ہے۔ جس کے بارے میں نہ صرف ٹھوس دلائل دیئے گئے ہیں۔ بلکہ پہلے انبیاء کے دور میں دنیا میں لوگوں کو زندہ کرنے کی مثالیں بھی پیش کی گئی ہیں۔ جن سے ثابت ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر صورت لوگوں کو دوبارہ زندہ کرکے اپنے حضور پیش کرے گا۔ مسائل ١۔ جس کو اللہ تعالیٰ ہدایت دے وہی ہدایت پا تا ہے۔ ٢۔ جسے اللہ گمراہ کرنا چاہے اسے کوئی ہدا یت نہیں دے سکتا۔ ٣۔ گمراہوں کو قیامت کے دن اندھا، گونگا اور بہرا کرکے منہ کے بل اٹھایا اور چلایا جائے گا۔ ٤۔ گمراہ لوگوں کا ٹھکانہ جہنم ہے۔ ٥۔ جہنم کی آگ جب ہلکی ہونے لگے گی تو اسے مزید بھڑکایا جائے گا۔ تفسیر بالقرآن موت کے بعد دوبارہ زندہ کیے جانے کے دلائل : ١۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم کے سامنے چار پرندوں کو زندہ کیا۔ (البقرہ : ٢٦٠ ) ٢۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ کے سامنے ان کی قوم کے ستر سرداروں کو موت دے کر دوبارہ زندہ کیا۔ (الاعراف : ١٥٥ ) ٣۔ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کے ہزاروں لوگوں کو موت دے کر دنیا میں دوبارہ زندہ کیا۔ (البقرۃ: ٢٤٣ ) ٤۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ کے ہاتھوں مردوں کو زندہ فرمایا۔ (المائدۃ : ١١٠) ٥۔ اللہ تعالیٰ نے اصحاب کہف کو تین سو نو سال سلاکر بیدار فرمایا۔ (الکہف : ٢٥) ٦۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت عزیر کوسو سال مارنے کے بعد زندہ فرمایا۔ (البقرۃ: ٢٥٩ ) ٧۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت عزیرکے گدھے کو ان کے سامنے دوبارہ زندہ فرمایا۔ (البقرۃ: ٢٥٩) الإسراء
98 الإسراء
99 فہم القرآن ربط کلام : آخرت کے منکر کہتے ہیں کہ ہماری ہڈیاں ریزہ، ریزہ ہوجانے کے بعد ہمیں کون زندہ کرے گا ؟ ایسے لوگوں کو زمین و آسمان کی تخلیق پر غور کرنے کی دعوت دی گئی ہے۔ آخرت کا انکار کرنے کے لیے منکرین کے پاس بڑی سے بڑی دلیل یہ ہے کہ جب ہماری ہڈیاں ریزہ ریزہ ہو کر مٹی کے ساتھ مل جائیں گی۔ تو ہمیں کس طرح زندہ کیا جائے گا؟ قرآن مجید نے دیگر دلائل کے ساتھ یہ دلیل بھی پیش فرمائی ہے کیا آخرت کے منکر اس بات پر غور نہیں کرتے کہ جس اللہ نے زمین و آسمانوں کو پیدا کیا ہے۔ وہ اس بات پر بھی قادر ہے کہ ان جیسے اور لوگ پیدا کرے۔ اس نے لوگوں کو دوبارہ پیدا کرنے کے لیے ایک وقت مقرر کر رکھا ہے۔ جس کے آنے میں شک وشبہ کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ لیکن اس کے باوجود ظالم اس دن کا انکار کرتے ہیں۔ یہ حقیقت بھی کئی دفعہ قرآن نے واضح کی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے زمینوں و آسمانوں کو بغیرنمونے کے پیدا کیا ہے۔ یعنی ان کے پیدا کرنے سے پہلے نہ زمین و آسمان کا میٹریل تھا اور نہ ہی نمونہ موجود تھا۔ اللہ تعالیٰ نے ناصرف ان کا میٹریل پیدا کیا۔ بلکہ اس کے حکم سے زمین و آسمان معرض وجود میں آئے کیونکہ جب وہ کسی کام کا ارادہ کرتا ہے۔ تو فقط اتنا فرماتا ہے کہ ” ہوجا“ وہ کام اور چیز اللہ کی منشاء کے مطابق وجود میں آجاتی ہے۔ (البقرۃ: ١١٧) یہاں زمین و آسمان کی تخلیق کا حوالہ دے کر انسان کو اس پر غور کرنے کا اشارہ دیا ہے۔ تاکہ اسے معلوم ہو کہ زمین و آسمان کے پیدا کرنے کے مقابلے میں انسان کو دوبارہ پیدا کرنا کیونکر مشکل ہے۔ یعنی انسان کی پیدائش زمین و آسمان کی پیدائش سے کھربوں کے حساب سے زیادہ آسان ہے۔ لیکن انسان کے ظلم کی انتہا یہ ہے کہ جب وہ کسی حقیقت کا انکار کرنے پر ضد اختیار کرلے تو اسے کوئی دلیل قائل نہیں سکتی۔ (عَنْ أَبِی سَعِیدٍ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) أَنَّ رَجُلاً کَانَ قَبْلَکُمْ رَغَسَہُ اللَّہُ مَالاً فَقَالَ لِبَنِیہِ لَمَّا حُضِرَ أَیَّ أَبٍ کُنْتُ لَکُمْ قَالُوا خَیْرَ أَبٍ قَالَ فَإِنِّی لَمْ أَعْمَلْ خَیْرًا قَطُّ، فَإِذَا مُتُّ فَأَحْرِقُونِی ثُمَّ اسْحَقُونِی ثُمَّ ذَرُّونِی فِی یَوْمٍ عَاصِفٍ فَفَعَلُوا، فَجَمَعَہُ اللَّہُ عَزَّ وَجَلَّ، فَقَالَ مَا حَمَلَکَ قَالَ مَخَافَتُکَ فَتَلَقَّاہُ بِرَحْمَتِہِ )[ رواہ البخاری : کتاب احادیث الأنبیاء، الباب الأخیر] ” حضرت ابو سعید خدری (رض) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں کہ تم سے پہلے ایک آدمی تھا اللہ نے اس کو مال کے اعتبار سے بڑی فراوانی دی تھی۔ اس نے اپنے بیٹوں کو حاضر کرکے کہا کہ میں تمہارا کیسا باپ تھا ؟ انہوں نے کہا بہترین! اس نے کہا یقیناً میں نے کبھی نیک عمل نہیں کیا۔ جب میں مر جاؤں تو تم مجھے جلا دینا۔ پھر میری راکھ کو دور لے جاکر ہواؤں میں اڑا دینا۔ بیٹوں نے اس کے مرنے کے بعد ایسا ہی کیا۔ پس اللہ تعالیٰ نے اس کو جمع کیا اور فرمایا تجھے کس چیزنے اس کام پر ابھارا تھا؟ اس نے کہا تیرے خوف نے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کو اپنی رحمت میں لے لیا۔“ مسائل ١۔ زمین و آسمان کا خالق اللہ ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ انسانوں کو دوبارہ زندہ کرنے پر قادرہے اور وہ دوبارہ پیدا کرے گا۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کی تخلیق اور موت کا وقت مقرر کر رکھا ہے۔ ٤۔ کافرقیامت کا انکار کرتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ کا زمین و آسمان کو بغیر نمونے کے پیدا فرمانا : ١۔ اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان کو بغیر نمونے کے پیدا فرمایا ہے۔ (البقرۃ: ١١٧) ٢۔ اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان کو بغیر نمونے کے پیدا کیا، اس کی نہ اولاد ہے اور نہ اس کی بیوی۔ (الانعام : ١٠١) ٣۔ اللہ تعالیٰ نے زمین کو دو دن میں پیدا کیا۔ (حٰم السجدۃ: ٩) ٤۔ اللہ تعالیٰ نے سات آسمانوں کو دو دن میں پیدا کیا۔ (حٰم السجدۃ: ١٢) ٥۔ اللہ تعالیٰ وہ ذات ہے جس نے ساتوں آسمانوں کو اوپر تلے بنایا۔ (الملک : ٣) ٦۔ وہ ذات جس نے تمہارے لیے زمین کو فرش اور آسمان کو چھت بنایا۔ (البقرۃ: ٢٢) الإسراء
100 فہم القرآن ربط کلام : اس خطاب کا آغاز آیت نمبر ٨٥ سے ہوا تھا۔ اس سے اگلی دو آیات میں اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کو عظیم نعمت قرار دیتے ہوئے فرمایا۔ اے نبی ! اللہ تعالیٰ کا آپ پر یہ عظیم فضل ہے کہ اس نے آپ کو اپنے پیغام کے لیے منتخب کیا ہے اور قرآن مجید جیسی عظیم نعمت عطا فرمائی اب اس خطاب کا اختتام کرتے ہوئے کفار کو مخاطب کیا گیا ہے۔ کہ حق کا انکار کرنے والا صرف روحانی اور اخلاقی طور پر کم ظرف نہیں ہوتا۔ بلکہ وہ دنیوی طور پر بھی بخیل اور کم ظرف ہوتا ہے۔ دیگر فرسودہ دلائل کے ساتھ اہل مکہ اس لیے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کا انکار کرتے تھے کہ یہ بشر ہے اور ہم اس جیسے چلتے پھرتے انسان کو اپنے آپ پر کس طرح بڑاتسلیم کرسکتے ہیں۔ اس بات کا اظہار ابو جہل نے اپنے ایک ساتھی کے سامنے یوں کیا تھا کہ زم زم کا انتظام، حجاج کی خدمت اور فلاں فلاں کام بنو ہاشم نے سنبھال رکھے ہیں۔ اگر ہم ان کے آدمی کی نبوت کا اعتراف کرلیں تو خاندانی طور پر ہمارے پلے کیا رہ جاتا ہے ؟ اس لیے میں اسکی نبوت کا انکار کرتا ہوں اور تا دم آخر کرتارہوں گا۔ گویا کہ کفار اپنی طبیعت کا انقباض اور چھوٹا پن چھوڑنے کے لیے تیار نہ تھے۔ ان کے چھوٹے پن اور کم ظرفی کو اس حوالے سے ذکر کیا گیا ہے۔ جس میں بین السطور آپ کو یہ تسلی دی گئی ہے کہ آپ کو پریشان ہونے کی بجائے اپنا کام جاری رکھنا چاہیے۔ یہ تو اس قدرکم ظرف لوگ ہیں کہ اگر ان کے پاس آپ کے رب کے خزانے جمع ہوجائیں تو یہ خرچ کرنے کی بجائے ان پر سانپ بن کربیٹھ جائیں۔ کیونکہ انسان بنیادی طور پر تنگ دل واقع ہوا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہر انسان کا کچھ نہ کچھ طبعی رجحان بخل کی طرف ہوتا ہے لیکن کافر اس لیے زیادہ بخیل ہوتا ہے کہ اسے آخرت میں کسی اجروثواب کی امید نہیں ہوتی مال کے حوالے سے کافر کے بخیل ہونے کا ذکر فرماکر یہ واضح کیا گیا ہے۔ یہ اس کی کم ظرفی کا نتیجہ ہے کہ جس طرح وہ اپنے ہاتھ سے کوئی چیز دینا پسند نہیں کرتا اسی طرح ہی اپنا باطل نظریہ چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ کیونکہ اسلام قبول کرنے میں کافر کو اپنے مال اور دنیوی عزت کے بارے میں نقصان کا اندیشہ ہوتا۔ الإسراء
101 فہم القرآن ربط کلام : جس طرح اہل مکہ نے اپنی طاقت اور دولت کے گھمنڈ میں آکر نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کا انکار کیا اسی طرح ہی فرعون نے مال واسباب اور اقتدار کے نشے میں آکر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی نبوت کا انکار کیا تھا۔ حالانکہ اس کے سامنے بڑے بڑے معجزات پیش کیے گئے۔ سورۃ مزمل کی آیت : ١٥ میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی نبوت سے مماثل قرار دیا ہے۔ اس لیے قرآن میں جابجا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور فرعون کی کشمکش کا تذکرہ پایا جاتا ہے۔ اس میں ایک طرف نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دی گئی ہے اور دوسری طرف اہل مکہ کے انجام کی طرف اشارہ اور مومنوں کو سمجھایا گیا ہے۔ تاکہ ان لوگوں کو حق وباطل کی کشمکش کو سمجھنے میں آسانی ہو۔ اسی حوالے سے امّتِ مسلمہ بالخصوص کفار کے سامنے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور فرعون کی کشمکش کا ذکر کیا جاتا ہے۔ اگر کفار کو اس میں کوئی شک ہے تو انہیں اہل کتاب سے اس بارے میں پوچھ لینا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو نوبڑی بڑی نشانیاں دے کر فرعون کے پاس بھیجافرعون نے اقتدار کے نشے اور مال و اسباب کے گھمنڈ میں آکر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے کہا کہ اے موسیٰ میں سمجھتاہوں کہ تجھ پر جادو ہوگیا ہے۔ یہی بات اہل مکہ نبی محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں کہا کرتے تھے کہ اس پر جادو کردیا ہے۔ جس وجہ سے نہ اسے ہماری مخالفت کی پروا ہے نہ ہی ہماری پیش کشوں کی طرف توجہ دیتا ہے۔ موسیٰ (علیہ السلام) کو دی جانے والی نو نشانیاں : اسی آیت کی تفسیر کرتے ہوئے علامہ ابن کثیر (رض) نے حضرت موسیٰ کو دی جانے والی نشانیوں کے بارے میں یہ الفاظ نقل کیے ہیں۔ ” حضرت عبداللہ بن عباس (رض) مجاھد، عکرمہ، شعبی اور قتادہ کے قول کے مطابق حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو عطا کی جانے والی نشانیاں یہ تھیں۔ ١۔ یدِبیضاء، ٢۔ عصا، ٣۔ قحط سالی، ٤۔ پھلوں کی کمی، ٥۔ طوفان، ٦۔ ٹڈی دل، ٧۔ جوئیں کھٹمل، ٨۔ مینڈک اور ٩۔ خون کے عذاب۔“ [ ابن کثیر] الإسراء
102 فہم القرآن ربط کلام : حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور فرعون کی کشمکش کا ذکر جاری ہے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرعون کا الزام سننے کے بعد نہایت حوصلہ اور سمجھ داری کے ساتھ فرمایا۔ اے فرعون ! تو اچھی طرح جانتا ہے کہ جو معجزے میں تیرے سامنے پیش کر رہاہوں وہ میرے اور کسی انسان کے بس کا روگ نہیں۔ یہ تو اس رب کی طرف سے ہیں جس نے زمین و آسمان کو پیدا کیا ہے۔ میں سمجھتاہوں کہ جس راستے پر تم چل رہے ہو۔ یہ راستہ تیری اور تیری قوم کی تباہی کا راستہ ہے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرعون کے سامنے معجزات پیش کرتے ہوئے ” بَصَاءِرُ“ کا لفظ استعمال کیا ہے۔ جس کا واحد بَصِیْرَۃٌہے۔ یہ بات ذہن میں رہے کہ آنکھوں کی بینائی کو بصارت اور دل ودماغ کے ساتھ کسی بات کو جاننے کو بصیرت کہا جاتا ہے۔ بصیرت میں وہ قوت ہے۔ جس سے انسان اچھے برے کی تمیز کرتا ہے۔ بصیرت پر جب اقتدار، مال واسباب اور دنیا کے کسی مفاد کا پردہ پڑجائے تو کھلی آنکھوں اور اپنے کانوں سے سننے کے باوجود آدمی حقیقت تک نہیں پہنچ سکتا۔ یہی وجہ تھی کہ فرعون اور اس کے ساتھیوں نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ نشانیوں کو یکے بعد دیگرے دیکھنے اور جاننے کے باوجود انکار کردیا تھا۔ بالآخر اپنی قوم کے ساتھ تباہی کے گھاٹ اتر گیا۔ فرعون اور اس کے ساتھیوں کی کوشش تھی کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور آپ کے ساتھیوں کو مصر سے باہر نکال پھینکے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے اسے اور اس کے ساتھیوں کو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے ساتھیوں کے سامنے ڈبکیاں دے دے کر مارا اور فرعون کی لاش کو دنیا کے لیے نشان عبرت بنا دیا گیا۔ جس طرح فرعون اور اس کے ساتھیوں کی خواہش اور کوشش تھی کہ موسیٰ اور اس کے ساتھیوں کو مصر سے نکال دیا جائے، یہی کوشش اہل مکہ کی تھی کہ اس نبی اور اس کے ساتھیوں کو مکہ سے نکال دیا جائے۔ جس طرح حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے دشمن ناکام ہوئے اسی طرح نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دشمن اپنے عزائم میں نامراد ہوئے۔ (فَالْیَوْمَ نُنَجِّیکَ بِبَدَنِکَ لِتَکُوْنَ لِمَنْ خَلْفَکَ اٰیَۃً وَإِنَّ کَثِیْرًا مِنَ النَّاسِ عَنْ اٰیَاتِنَا لَغَافِلُوْنَ )[ یونس : ٩٢] ” آج ہم تیرے بدن کو نکال لیں گے تاکہ تو آنے والوں کے لیے عبرت بنے۔ بہت سے لوگ ہماری نشانیوں سے بے خبر ہیں۔“ نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دشمن بھی ہلاک ہوئے : (عَنْ أَنَسٍ (رض) قَالَ قَال النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَوْمَ بَدْرٍ مَنْ یَنْظُرُ مَا فَعَلَ أَبُو جَہْلٍ فَانْطَلَقَ ابْنُ مَسْعُودٍ، فَوَجَدَہُ قَدْ ضَرَبَہُ ابْنَا عَفْرَاءَ حَتَّی بَرَدَ، فَأَخَذَ بِلِحْیَتِہِ فَقَالَ أَنْتَ أَبَا جَہْلٍ قَالَ وَہَلْ فَوْقَ رَجُلٍ قَتَلَہُ قَوْمُہُ أَوْ قَالَ قَتَلْتُمُوہُ )[ رواہ البخاری : باب قتل ابی جہل] ” حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بدر کے موقع پر فرمایا ابو جہل کی کون خبرلائے گا کہ اس کے ساتھ کیا ہوا؟ عبدا للہ بن مسعود (رض) تو انہوں نے دیکھا کہ عفراء کے بیٹوں نے اسے قتل کردیا ہے۔ انہوں نے اس کی داڑھی سے پکڑ کر پوچھا تو ابوجہل ہے۔ اس نے جواب دیا تم نے بڑے آدمی کو قتل کیا ہے یا کہا تم نے اسے قتل کیا ہے جو قوم کا سردارہے ؟ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو بڑی بڑی نشانیاں اور معجزات عطا فرمائے۔ ٢۔ فرعون نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور اس کے ساتھیوں کے قدم اکھاڑنے چاہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ نے فرعون اور اس کے لاؤ لشکر کو غرق کردیا۔ تفسیر بالقرآن فرعون اور اس کے ساتھیوں کی غرقابی : ١۔ ہم نے فرعون اور اس کے ساتھیوں کو غرق کردیا۔ (بنی اسرائیل : ١٠٣) ٢۔ ہم نے ان کو ان کے گناہوں کی وجہ سے ہلاک کردیا اور آل فرعون کو غرق کردیا۔ (الانفال : ٥٤) ٣۔ ہم نے موسیٰ اور اس کے ساتھیوں کو نجات دی اور دوسروں کو ہم نے غرق کردیا۔ (الشعراء : ٦٦۔ ٦٧) ٤۔ ہم نے ان سے انتقام لیا اور انہیں دریا میں غرق کردیا۔ (الاعراف : ١٣٦) ٥۔ ہم نے تمہیں نجات دی اور آل فرعون کو غرق کردیا۔ (البقرۃ: ٥٠) الإسراء
103 الإسراء
104 فہم القرآن ربط کلام : فرعون اور اس کے ساتھیوں کی غرقابی کے بعد اللہ تعالیٰ کا بنی اسرائیل کو حکم۔ اللہ تعالیٰ نے اسی سورۃ میں فرمایا ہے کہ ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو کتاب عنایت کی اور اس کتاب کو بنی اسرائیل کے لیے ہدایت کا سرچشمہ قرار دیا۔ جس میں پہلا حکم یہ تھا کہ میرے سوا کسی کو اپنا کارساز اور مشکل کشا نہ سمجھنا۔ سورۃ البقرۃ آیت ٨٣، ٨٤ میں اس فرمان کی تفصیل ہے ” ہم نے بنی اسرائیل سے عہد لیا کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرنا، ماں باپ کے ساتھ احسان کرنا، رشتہ داروں، یتیموں اور مسکینوں کی خیر خواہی کرنا، لوگوں کو اچھی بات کہنا، نماز قائم کرنا اور زکٰو ۃ ادا کرنا۔ لیکن تھوڑے لوگوں کے سوابنی اسرائیل کی اکثریت نے اس عہد سے منہ پھیر لیا“ اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے یہ حکم بھی دیا تھا کہ آپس میں کشت وخون کرنے سے بچنا اور کمزور لوگوں کو ان کے گھروں سے نہ نکالنا۔ بنی اسرائیل نے وعدہ کیا اور وہ اس پر گواہ ہیں۔ اس فرمان کے بعد انہیں یہ بھی کہہ دیا گیا تھا کہ تم ضرور پہلے کی طرح ملک میں فساد اور انتہا درجے کی سرکشی کرو گے۔ اس کی پاداش میں اللہ تعالیٰ اپنے وعدے کے مطابق پہلی مرتبہ تم پر اپنے سخت گیر بندے مسلط کرے گا۔ جو اس قدر سخت گیر ہوں گے کہ تمھیں قتل کرنے کے لیے تمہارے گھروں میں گھس جائیں گے۔ دوسری مرتبہ اپنے ایسے بندے تم پر غالب کرے گا کہ جو مار مار کر تمہارے چہرے بگاڑ دیں گے۔ یہاں تک کہ مسجد اقصیٰ کی بے حرمتی کریں گے۔ تفصیل جاننے کے لیے اسی سورۃ کی آیت ٢ تا ٨ اور بنی اسرائیل کی آیت ٥ تا ٧ کی تلاوت کریں۔ دنیا کی اس سز اکے ساتھ یہ بھی کہا گیا کہ اللہ تعالیٰ تمہیں آخرت میں جمع کرے گا جس میں ہر کسی کا پورا پور احساب چکادیا جائے گا۔ مسائل ١۔ فرعون اور اس کے لشکر کی ہلاکت کے بعد بنی اسرائیل کو ان کی زمین کا وارث بنایا گیا۔ ٢۔ قیامت کے دن سبھی لوگوں کو اکٹھا کیا جائے گا۔ فہم القرآن ربط کلام : بنی اسرائیل کو ان کی عزت رفتہ کا حوالہ دیتے ہوئے آخرت کا خوف دلاکر قرآن مجید کی دعوت، رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت اور منصب کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔ سورۂ بنی اسرائیل کے آغاز میں معراج کا ذکر فرماکر اہل مکہ کو بین السطور یہ سمجھایا گیا کہ تم جس قد رچاہو رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مخالفت کرلو۔ لیکن غور کرو کہ واقعہ معراج میں تمہارے لیے یہ سبق ہے کہ پیغمبر اور اس کی امت کا مستقبل روشن ہے یہ دنیا اور آخرت میں اس قدر ترقی پائیں گے کہ اے نبی کے مخالفو ! تم اس کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔ اس کے بعد بنی اسرائیل کا ذکر کیا اور بنی اسرئیل کو ان کا ماضی یادد لانے کے بعد مسلسل ایسی ہدایات اور احکام نازل فرمائے۔ جن میں کفار کے ساتھ گاہے بگاہے اہل کتاب کو بھی مخاطب کیا ہے۔ اب سورۃ کا اختتام کرنے سے پہلے کفار اور بنی اسرائیل دونوں کو بیک وقت مخاطب کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ یہ قرآن جو حق کا ترجمان ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسے حق کے ساتھ نازل کیا ہے یعنی اس کتاب اور اس کے نزول کے کسی مرحلہ میں باطل کی آمیزش کی رتی برابر گنجائش نہیں ہے۔ اے رسول! جو لوگ اس حق کو مانتے ہیں۔ آپ ان کو خوشخبری کا پیغام سنائیں اور جو حق کو نہیں مانتے آپ ان کو ان کے انجام سے ڈرائیں یہی آپ کے منصب کا تقاضا اور آپ کی تبلیغ کا خلاصہ ہے۔ اسی خاطر قرآن مجید کو ہم نے یکبارگی نازل کرنے کی بجائے تھوڑا تھوڑا کر کے نازل فرمایا ہے تاکہ آپ لوگوں کو پڑھ کر سنائیں اور سمجھائیں۔ مسائل ١۔ قرآن مجید کو حق کے ساتھ نازل کیا گیا۔ ٢۔ آپ کو خوشخبری دینے اور ڈرانے کے لیے بھیجا گیا۔ ٣۔ قرآن مجیدکو بتدریج نازل کیا گیا۔ ٤۔ قرآن مجید کو ٹھہر ٹھہر کر پڑھنا چاہیے۔ الإسراء
105 الإسراء
106 الإسراء
107 فہم القرآن ربط کلام : قرآن مجید کے من جانب اللہ ہونے اور اس کے احکام، حقائق اور اس کے بیان کردہ واقعات میں شک کی کوئی گنجائش نہیں۔ اگر منکر اسے کتاب اللہ تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں تو انھیں چھوڑدیں جہاں تک حقیقی اہل علم کا تعلق ہے وہ تو ہر وقت اس کے سامنے سر تسلیم خم رہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر کو قرآن مجید عطا فرماکر یہ بات واضح کردی کہ آپ کا کام لوگوں تک حق پہنچانا ہے منوانا نہیں۔ جو حق مان جائیں انہیں خوشخبری پہنچائیں اور جو انکار کریں انہیں ان کے برے انجام سے ڈرائیں۔ اسی کے پیش نظر ارشاد فرمایا کہ آپ لوگوں میں کھلے الفاظ میں اعلان فرمائیں کہ لوگو! تمہارے پاس حق پہنچ چکا ہے جس کے حق ہونے میں کسی طرح بھی کوئی شبہ نہیں۔ لہٰذا اب تمہاری مرضی ہے کہ اس پر ایمان لاؤ یا اس کا انکار کرو۔ لیکن جن لوگوں کو قرآن مجید نازل ہونے سے پہلے اللہ تعالیٰ نے علم عطا فرمایا ہے۔ وہ تورات، انجیل اور زبور کے حوالے سے جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو آخری نبی مبعوث ہوگا اس پر قرآن مجید نازل کیا جائے گا۔ جس کے وجود اور نزول میں رتی برابر شک کی گنجائش نہیں ہوگی اہل کتاب میں سے اور جو لوگ اس پر ایمان لاتے ہیں۔ جب ان کے سامنے قرآن مجید پڑھا جاتا ہے تو وہ پیشانی کے بل سجدے میں گر کر اس حقیقت کا اقرار کرتے ہیں کہ ہمارا رب ہر عیب اور کمزوری سے پاک ہے۔ یقیناً ہمارے رب کا وعدہ پورا ہوچکا اور وہ ٹھوڑیوں کے بل گر کر اپنے رب کے حضور زاروقطار روتے ہیں۔ ان کی حق گوئی اور عاجزی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ ان کے خشوع و خضوع اور ایمان میں اضافہ کرتا ہے۔ ان آیات میں اہل علم کی یہ صفت بیان ہوئی ہے کہ وہ قرآن مجید کو حق اور سچ مانتے ہوئے نبی آخرالزماں (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو رسول بر حق مانتے ہیں اور انھیں دل کی اتھاہ گہرائیوں سے یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ برحق ہے، اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو بے انتہا اجر و ثواب دے گا اور ظالموں کو پوری پوری سزا دے گا۔ اسی بنا پر مومن شکروعاجزی کے جذبات میں اپنے رب کی عبادت میں مصروف رہتے ہیں یہ حقیقی علم کا تقاضا ہے اور یہی ایک عالم کی شان ہونی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ایسا علم اور فکر وعمل نصیب فرمائے۔ (آمین) سجدہ تلاوت کی دعا : (عَنْ عَاءِشَۃَ (رض) قَالَتْ کَانَ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَقُوْلُ فِیْ سُجُوْدِ الْقُرْاٰنِ بالَّلیْلِ سَجَدَ وَجْہِیَ لِلَّذِیْ خَلَقَہٗ وَشَقَّ سَمْعَہٗ وَبَصَرَہٗ بِحَوْلِہِ وَقُوَّتِہِ فَتَبارَکَ اللّٰہُ أحْسَنَ الْخَالِقِیْنَ) [ المستد رک علی الصحیحین للحاکم] ” حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قیام اللیل میں سجدہ تلاوت کے وقت یہ دعا کرتے تھے۔ میرا چہرہ اس ذات کا مطیع ہوا جس نے اپنی قدرت سے اسے بنا کرکان اور آنکھیں عطاکیے۔ اللہ تعالیٰ بہترین پیدا کرنے والا ہے۔“ مسائل ١۔ قرآن مجید من جانب اللہ ہے کسی کے ایمان لانے اور نہ لانے سے اس کی سچائی میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ٢۔ حقیقی علم رکھنے والوں کے سامنے جب قرآن پڑھا جاتا ہے۔ تو وہ سجدے میں گر پڑتے ہیں۔ ٣۔ قرآن مجید کی تلاوت علم والوں کے خشوع و خضوع میں اضافہ کرتی ہے۔ ٤۔ اللہ کا وعدہ پورا ہونے والاہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ کا وعدہ برحق ہے : ١۔ اللہ کا وعدہ یقیناً پورا ہو کررہے گا۔ (بنی اسرائیل : ١٠٨) ٢۔ صبر کیجیے اللہ کا وعدہ برحق ہے۔ (المومن : ٧٧) ٣۔ اللہ کا وعدہ سچا ہے اور اللہ تعالیٰ کی بات سے کس کی بات سچی ہو سکتی ہے؟ (النساء : ١٢٢) ٤۔ آگاہ رہو اللہ کا وعدہ برحق ہے لیکن اکثر علم نہیں رکھتے۔ (یونس : ٥٥) ٥۔ شیطان قیامت کے دن کہے گا اللہ نے تمہارے ساتھ سچا وعدہ کیا تھا۔ (ابراہیم : ٢٢) ٦۔ یقیناً اللہ کا وعدہ سچا ہے تمہیں دنیا کی زندگی دھوکے میں نہ ڈال دے۔ (لقمان : ٣٣) الإسراء
108 الإسراء
109 الإسراء
110 فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ نے لوگوں کی سہولت کے لیے تھوڑا تھوڑا کر کے قرآن مجید نازل کیا تاکہ اس پر ایمان لانے والوں کو اس پر عمل کرنا آسان ہو۔ لیکن منکرین قرآن نے اس سہولت کو عیب بنا کر لوگوں کے سامنے پیش کیا اس کے ساتھ انھوں نے ” الرحمن“ کے نام کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ جس کا جواب دیا گیا ہے۔ مکہ کے لوگ اپنی دعاؤں میں ” اللہ“ کا نام استعمال کرتے تھے۔ مدینہ کے یہودی ” اللہ“ کی بجائے ” الرحمن“ کے نام سے رب تعالیٰ کا ذکر کرتے اور اپنی دعاؤں میں الرحمن کا لفظ استعمال کرتے تھے۔ رسول کریم نے اسمِ ” اللہ“ کے ساتھ جب ” الرحمن“ کا لفظ استعمال کرنا شروع کیا تو مکہ کے مشرکوں کو آپ کے خلاف پروپیگنڈا کا بہانہ ہاتھ آیا۔ انہوں نے یہ الزام لگایا کہ ہمارے ساتھ ایک الٰہ پر صبح وشام تکرار کرتا ہے۔ اس کا اپنا یہ حال ہے کہ ” اللہ“ کے ساتھ ” الرحمن“ کو شریک بنا تا ہے۔ اس پر انہیں یہ جواب دیا گیا کہ لوگو ! اپنے رب کو ” اللہ“ کے نام سے پکارو یا اس کو ” الرحمن“ کے نام سے یاد کرو۔ اللہ کے جس نام سے پکارو اس کے تمام نام ہی بہترین ہیں۔ کیونکہ سورۃ الاعراف آیت ١٨٠ میں یہ تعلیم دی گئی کہ اللہ کے سب نام بہترین ہیں لہٰذا جس نام کے ساتھ چاہواسے پکارو۔ لیکن اس کے اسماء میں کسی قسم کا الحادنہ کرو۔ جو لوگ ایساکریں گے انہیں اپنے اعمال کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔ جہاں تک اللہ کے اسمائے گرامی کا تعلق ہے۔ اس میں اسم جنس ” اللہ“ ہے۔ باقی اسمائے گرامی اللہ تعالیٰ کے وصفی یعنی تعریفی نام ہیں۔ ایک روایت کے مطابق ننانوے نام ہیں جبکہ دوسری روایات کو جمع کیا جائے توایک سو سے زیادہ بنتے ہیں۔ قرآن مجیدکی تلاوت کا عام اصول : (عَنْ أَبِی قَتَادَۃَ (رض) أَنَّ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خَرَجَ لَیْلَۃً فَإِذَا ہُوَ بِأَبِی بَکْرٍ (رض) یُصَلِّی یَخْفِضُ مِنْ صَوْتِہِ قَالَ وَمَرَّ بِعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ وَہُوَ یُصَلِّی رَافِعًا صَوْتَہُ قَالَ فَلَمَّا اجْتَمَعَا عِنْدَ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَال النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَا أَبَا بَکْرٍ مَرَرْتُ بِکَ وَأَنْتَ تُصَلِّی تَخْفِضُ صَوْتَکَ قَالَ قَدْ أَسْمَعْتُ مَنْ نَاجَیْتُ یَا رَسُول اللَّہِ قَالَ وَقَالَ لِعُمَرَ مَرَرْتُ بِکَ وَأَنْتَ تُصَلِّی رَافِعًا صَوْتَکَ قَالَ فَقَالَ یَا رَسُول اللَّہِ أُوقِظُ الْوَسْنَانَ وَأَطْرُدُ الشَّیْطَانَ زَادَ الْحَسَنُ فِی حَدِیثِہِ فَقَال النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَا أَبَا بَکْرٍ ارْفَعْ مِنْ صَوْتِکَ شَیْءًا وَقَالَ لِعُمَرَ اخْفِضْ مِنْ صَوْتِکَ شَیْءًا )[ رواہ البخاری : باب فی الرفع الصوت بالقراء ۃ] ” حضرت ابو قتادۃ (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک رات نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) باہر نکلے۔ ابو بکر (رض) کو دھیمی آواز میں نماز پڑھتے ہوئے پایا پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا گزر عمر بن خطاب (رض) کے پاس سے ہوا وہ بلند آواز میں قرأت کر رہے تھے، جب دونوں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس حاضر ہوئے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ابو بکر (رض) کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا ابوبکر! میں رات کو آپ کے پاس سے گزراتھا آپ بالکل ہلکی آواز میں قرأت کر رہے تھے ابو بکر نے عرض کی اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! میں اس لیے آہستہ آواز میں قرأت کر رہا تھا تاکہ جس سے میں سرگوشی کر رہا ہوں اسے سنا سکوں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت عمر (رض) سے فرمایا میں آپ کے پاس سے گزرا آپ اونچی آواز میں قرأت کر رہے تھے انہوں نے جواب دیا اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! میں اس لیے بلند آوازسے قرأت کررہا تھا تاکہ میں سونے والوں کو جگا سکوں اور شیطان کو بھگا سکوں۔ حسن کی روایت میں یہ الفاظ زیادہ ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ابو بکر سے فرمایا کہ اپنی آواز کو تھوڑا سا بلند کرو اور عمر (رض) سے کہا اپنی آواز کو تھوڑا سا دھیما رکھو۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ کو اس کے ناموں میں سے جس نام کے ساتھ چاہوپکارو۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ کے اچھے اور بہترین نام ہیں۔ ٣۔ عبادت میں میانہ روی ہونی چاہیے۔ تفسیر بالقرآن میانہ روی اختیار کرنی چاہیے : ١۔ نماز بلند آواز سے نہ پڑھو نہ آہستہ بلکہ درمیانہ انداز اختیار کرو۔ (بنی اسرائیل : ١١٠) ٢۔ رحمٰن کے بندے جب خرچ کرتے ہیں۔ نہ اسراف کرتے ہیں نہ بخیلی۔ بلکہ درمیانی طریقہ اختیار کرتے ہیں۔ (الفرقان : ٦٧) ٣۔ چال میں اعتدال اور آواز کو پست رکھو۔ (لقمان : ١٩) ٤۔ کچھ لوگ اپنے آپ پر ظلم کرنے والے ہیں اور کچھ میانہ رو ہیں۔ (فاطر : ٣٢) ٥۔ لوگوں میں سے کچھ میانہ رو ہیں اور بہت سے ایسے ہیں جن کے اعمال برے ہیں۔ (المائدۃ: ٦٦) الإسراء
111 فہم القرآن ربط کلام : اس سورۃ مبارکہ کی ابتداء ” سُبْحَانَ الَّذِیْ“ کے الفاظ سے ہوئی۔ جس کا معنیٰ ہے وہ ذات جو ہر قسم کے عیب، کمزوری اور شرک سے پاک ہے۔ سورۃ کا اختتام بھی اسی بات پر ہورہا ہے کہ اللہ وہ ہے جو ہر قسم کے شرک اور کمزوری سے پاک ہے۔ عربی گرائمر سے واقف حضرات جانتے ہیں کہ لفظ ” حمد“ کے ساتھ ” ال“ شامل ہو تو یہ استغراق کا فائدہ دیتا ہے۔ جس کا معنیٰ ہے کہ تمام قسم کی تعریفات اللہ کے لیے ہیں۔” حمد“ میں دوسرے کی ذات کی بڑائی اور اس کے احسانات کا احساس اور اعتراف پایا جاتا ہے۔ قرآن مجید کی ابتداء میں انسان کو یہ تعلیم دی گئی ہے۔ کہ کائنات کا ذرہ ذرہ اپنے رب کی تعریف اور حمدو شکر کرنے میں لگا ہوا ہے۔ اے انسان ! اشرف المخلوقات ہونے کے حوالے سے تجھے بھی ہر حال میں اپنے رب کا شکر گزار رہنا چاہیے۔ شکر گزار لوگ ہی اللہ کے تابع فرماں ہوتے ہیں۔ حمد کی فضلیت اور فرضیت کے پیش نظر رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ارشاد ہوا ہے۔ کہ آپ دنیا والوں کو بتلائیں کہ ہر قسم کی حمدوستائش اللہ کے لیے ہے۔ جس نے نہ کسی کو بیٹا بنایا ہے اور نہ ہی اسکی بادشاہی میں کوئی شریک ہے۔ نہ اس میں کسی قسم کا ضعف اور کمزوری ہے۔ کہ جس بناء پر اسے کسی مددگار کی مدد کی ضرورت پیش آئے۔ وہ اپنی ذات اور صفات میں بڑا ہی بلندوبالا ہے۔ اس لیے اس کی بڑائی کا اعتراف اور تذکرہ کرتے رہیے۔ یہاں ہر قسم کے شرک کی نفی کرنے کے ساتھ ” اللہ“ کی کبریائی کے بیان اور اعتراف کا حکم دیا گیا ہے۔ یہی حکم سورۃ المدثرکی ابتدائی آیات میں ہے جو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل ہونے والی دوسری وحی ہے، اس کی تیسری آیت میں یہ حکم دیا گیا ہے کہ اپنے رب کی کبریائی کا ذکر کیجیے۔ یاد رہے کہ انسان کے دل میں اللہ تعالیٰ کی کبریائی کا احساس پید اہوجائے۔ تو بیک وقت اس کے تین فائدے ہوتے ہیں۔ ١۔ انسان میں فخرو غرور کی بجائے انکساری اور عاجزی پیدا ہوتی ہے۔ جس کی بناء پر آدمی کا اخلاق اور دوسروں کے ساتھ اس کا رویہ بہتر ہوتا ہے۔ ٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓ٢۔ انسان اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرنے کی بجائے اسکی بارگاہ میں جھکتا ہے۔ ٣۔ مسلمان کے دل میں اللہ کی کبریائی کا تصور مضبوط ہوجائے تو مسلمان دشمن کے مقابلے میں بہادر ثابت ہوتا ہے۔ حمد وثناء کی فضیلت : (قَال النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) أَفْضَلُ الْکَلاَمِ أَرْبَعٌ سُبْحَان اللَّہِ، وَالْحَمْدُ لِلَّہِ، وَلاَ إِلَہَ إِلاَّ اللَّہُ، وَاللَّہُ أَکْبَرُ ) [ رواہ البخاری : باب إِذَا قَالَ وَاللَّہِ لاَ أَتَکَلَّمُ الْیَوْمَ ] ” نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بہترین کلمات چارہیں۔ ١۔ سبحان اللہ۔ ٢۔ الحمداللہ۔ ٣۔ لا الٰہ الا اللہ۔ ٤۔ اللہ اکبر“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ کی ہر حال میں تعریف کرنی چاہیے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ کی کوئی اولاد نہیں۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ کا کوئی شریک نہیں ہے ٤۔ اللہ تعالیٰ کی کبریائی کا اعتراف اور اس کی بڑائی بیان کرنی چاہیے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ کی تعریف اور بڑائی : ١۔ کہہ دیجئے تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں نہ اس کی کوئی اولاد ہے اور نہ کوئی اس کا شریک ہے۔ (بنی اسرائیل : ١١١) ٢۔ تمام تعریفات اللہ کے لیے ہیں جو تمام جہانوں کا پالنے والاہے۔ (الفاتحہ : ١) ٣۔ تمام تعریفات اللہ کے لیے ہیں جس نے آسمان و زمین کو پیدا کیا۔ (الانعام : ١) ٤۔ تمام تعریفات اللہ کے لیے ہیں جس نے ہمیں ہدایت سے نوازا۔ (الاعراف : ٤٣) ٥۔ تمام تعر یفات اس ذات کے لیے ہیں جس نے ہمیں ظالموں سے نجات دی۔ (المومنون : ٢٨) ٦۔ تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جس نے اپنا وعدہ سچ فرمایا۔ (الزمر : ٨٤) ٧۔ ہر چیز اپنے رب کو سجدہ کرتی ہے۔ (النحل : ٤٩) ٨۔ کائنات کی ہر چیز اپنے رب کی تسبیح بیان کرتی ہے۔ (الحشر : ١) ٩۔ ہر چیز کا سایہ اپنے رب کو سجدہ کرتا ہے۔ (النحل : ٤٨) الإسراء
0 تعارف سورۃ کہف اس سورۃ مبارکہ کا نام اس کی نویں آیت سے لیا گیا ہے۔ یہ سورۃ پوری کی پوری مکہ معظمہ میں نازل ہوئی۔ یہ سورت ایک سو دس آیات اور بارہ رکوع پر مشتمل ہے۔ سورۃ کی ابتداء اللہ تعالیٰ کی حمد و ستائش سے کی گئی ہے کہ ہر قسم کی تحمید و تقدیس اللہ تعالیٰ کے لیے ہے جس نے اپنے بندے حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایسی کتاب نازل فرمائی جس کے مطالب، احکام اور ارشادات میں کسی قسم کا تضاد اور تعارض نہیں ہے۔ اس کے ارشادات اثر انگیز اور اس کے احکام ٹھوس، واضح اور نتائج کے اعتبار سے بے حد و حساب مفید اور قابل عمل ہیں۔ یہ سورۃ مبارکہ ہجرت مدینہ سے پہلے نازل ہوئی۔ اس میں یہودیوں کے سکھلانے پر اہل مکہ نے رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے تین سوال کیے۔ ١۔ اصحاب کہف کون تھے ؟ ٢۔ ذوالقرنین کون تھا ؟ ٣۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت خضر کے واقعہ کی کیا حقیقت ہے ؟ اصحاب کہف کے واقعہ میں ایک طرف اہل مکہ کو یہ بتلایا اور سمجھایا گیا کہ تم لوگ اپنی کثرت اور طاقت کیگھمنڈ میں آکر مسلمانوں کو مکہ سے نکالنے کے درپے ہو لیکن یاد رکھنا کہ جس طرح اصحاب کہف کو ان کے وطن سے نکالنے والے ان کے مشن کو ختم نہیں کرسکے تھے۔ اسی طرح تم رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ان کے ساتھیوں کو مکہ سے نکال باہر کرنے کے باوجود ان کی دعوت کو ختم نہیں کرسکو گے۔ جس طرح اصحاب کہف کا مشن عام ہوا تھا اسی طرح ہی نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے ساتھیوں کا مشن دنیا میں غلبہ حاصل کرے گا۔ جہاں تک ذوالقرنین کے واقعہ کا تعلق ہے اس میں تمہارے لیے یہ سبق ہے کہ بے پناہ وسائل اور اختیارات ہونے کے باوجود اس نے مغلوب اور مفتوح قوم پر ظلم کرنے سے اجتناب کیا تھا۔ جس کے بدلہ میں اللہ تعالیٰ نے اسے دنیا کے کثیر حصہ پر اقتدار دیا اور اس کے اقتدار کو استحکام بخشا تھا۔ اس کے منصفانہ اور مشفقانہ کردار کی و جہ سے اسے دنیا میں شہرت دوام حاصل ہوئی اور آخرت میں اسے اجر عظیم سے نوازا جائے گا۔ اے اہل مکہ ! اگر تم دنیا کی نیک نامی اور آخرت کی خیر چاہتے ہو تو تمہیں ذوالقرنین کے کردار سے سبق حاصل کرنا چاہیے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور خضر کی ملاقات اور گفتگو میں سب سے بڑی حکمت یہ ہے کہ دنیا میں بے شمار واقعات ایسے ہوتے ہیں جن کی حکمت اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جان سکتا۔ اگر تمہیں مسلمانوں پر کچھ تسلط حاصل ہے تو جان لو کہ اس میں بیک وقت تمہاری اور مسلمانوں کی آزمائش ہے۔ تم ظالمانہ کردار کے حوالے سے پہچانے جا رہے ہو اور مسلمان مظلومانہ حالت میں اجر کے مستحق قرارٹھہرائے جارہے ہیں۔ لیکن یاد رکھنا اس دنیا کی زیب و زیبائش عارضی ہے۔ جس مال اور اولاد پر اتر رہے ہو یہ سب کچھ فنا کے گھاٹ اتر جائے گا۔ آخرت میں کردار کے حوالے سے فیصلہ ہوگا۔ جس نے نیک اعمال کیے وہ کامیاب ٹھہرے گا اور جنت میں ہمیشہ کے لیے عیش کرے گا۔ جس نے ظلم و تعدی کا رویہ اختیار کیا وہ ہمیشہ کے لیے جہنم میں پھینکا جائے گا۔ آخر میں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بشریت اور اللہ تعالیٰ کی توحید کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ جو اپنے رب سے ملاقات کی تمنا رکھتا ہے اسے چاہیے کہ وہ رب تعالیٰ کی عبادت میں کسی کو کسی انداز میں شریک نہ بنائے۔ سورۃ الکھف کی فضیلت : (عَنْ أَبِی الدَّرْدَاءِ أَنَّ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ مَنْ حَفِظَ عَشْرَ آیَاتٍ مِنْ أَوَّلِ سُورَۃِ الْکَہْفِ عُصِمَ مِنَ الدَّجَّالِ )[ رواہ مسلم : باب فضل سورۃ الکھف : ” حضرت ابودرداء (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس نے سورۃ کہف کی پہلی دس آیات حفظ کیں، وہ دجال کے فتنے سے محفوظ رہے گا۔“ (عَنْ سَہْلِ بْنِ مُعَاذٍ عَنْ أَبِیہِ عَنْ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) أَنَّہُ قَالَ مَنْ قَرَأَ أَوَّلَ سُورَۃِ الْکَہْفِ وَآخِرَہَا کَانَتْ لَہُ نُوراً مِنْ قَدَمِہِ إِلَی رَأْسِہِ وَمَنْ قَرَأَہَا کُلَّہَا کَانَتْ لَہُ نُوراً مَا بَیْنَ السَّمَاءِ إِلَی الأَرْضِ)[ رواہ احمد] ” حضرت سہل بن معاذ اپنے باپ سے بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو شخص سورۃ کہف کو اول اور آخر سے تلاوت کرتا ہے۔ اس کے قدموں سے لے کر سر تک نور ہوجاتا ہے اور جو مکمل سورۃ پڑھتا ہے تو اس کے لیے زمین اور آسمان کا مابین نور سے بھر دیا جاتا ہے۔“ (عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ سَمِعْتُ الْبَرَاءَ بْنَ عَازِبٍ (رض) قَرَأَ رَجُلٌ الْکَہْفَ وَفِی الدَّار الدَّابَّۃُ فَجَعَلَتْ تَنْفِرُ فَسَلَّمَ، فَإِذَا ضَبَابَۃٌ أَوْ سَحَابَۃٌ غَشِیَتْہُ، فَذَکَرَہُ للنَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَقَالَ اقْرَأْ فُلاَنُ، فَإِنَّہَا السَّکِینَۃُ نَزَلَتْ لِلْقُرْآنِ، أَوْ تَنَزَّلَتْ لِلْقُرْآنِ )[ رواہ البخاری : باب علاَمَات النُّبُوَّۃِ فِی الإِسْلاَمِ] ” حضرت ابی اسحاق کہتے ہیں کہ میں نے براء بن عازب (رض) سے سنا کہ ایک آدمی اپنے گھر میں سورۃ الکہف کی تلاوت کر رہا تھا تو اس کے گھوڑے نے بدکنا شروع کردیا تو اس نے سلام پھیر کر آسمان کی طرف نظر اٹھائی تو اسے بادلوں کا ایک ٹکڑا نظر آیا جو اسے ڈھانپے ہوئے تھا اس نے اس کا تذکرہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے کیا آپ نے فرمایا اے فلاں پڑھتے رہو یہ سکینت تھی جو قرآن کے لیے نازل ہوئی تھی یا قرآن کی وجہ سے نازل ہو رہی تھی۔“ الكهف
1 فہم القرآن ربط کلام : سورۃ بنی اسرائیل کا اختتام اس حکم کے ساتھ ہوا ہے۔ اے پیغمبر ! اللہ کی حمد وثناء کیجیے۔ جس کا کسی حوالے سے بھی کوئی شریک نہیں۔ وہ اپنی ذات، صفات اور شان کے اعتبار سے ہر کسی سے بلند وبالا ہے۔ سورۃ الکھف کی ابتداء اللہ کی حمد سے ہورہی ہے جس نے اپنے بندے حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایسی کتاب نازل فرمائی جس میں کوئی نقص اور جھول نہیں ہے۔ تمام تعریفات اللہ کے لیے ہیں جس نے اپنے بندے حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر قرآن مجید نازل فرمایا۔ جس میں کسی قسم کی جھول، تضاد اور پچیدگی نہیں پائی جاتی۔ جس کے فرمان واضح، ٹھوس، سیدھے سادھے، صراط مستقیم کے ترجمان اور ہر قسم کے الجھاؤ، عیب اور نقصان سے پاک ہیں۔ قرآن مجید اس لیے نازل کیا گیا تاکہ لوگوں کو عذاب شدید سے ڈرایا جائے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کیا گیا ہے۔ اس میں صالح کردار مومنوں کے لیے بہترین اجر کی خوشخبری دی گئی ہے۔ جن کا صلہ جنت ہے جس میں صالح اعمال کرنے والے لوگوں کو داخل کیا جائے گا وہ اس میں ہمیشہ ہمیش رہیں گے۔ یہاں قرآن مجید کے تین اوصاف کا ذکر کیا گیا ہے۔ ١۔ قرآن مجید میں برے اعمال کی نشاندہی اور اس کے انجام سے ڈرایا گیا ہے۔ ٢۔ قرآن مجید صالح کردار ایمان داروں کو جنت میں ہمیشہ ہمیشہ رہنے کی خوشخبری دیتا ہے۔ ٣۔ قرآن مجید کے من جانب اللہ ہونے کی ایک دلیل یہ بھی ہے۔ کہ اس کے احکام اور مضامین میں کسی قسم کی پیچیدگی، الجھاؤ ، الكهف
2 تضاد اور تعارض نہیں پایا جاتا۔ ناصرف اس میں الجھاؤ اور تعارض نہیں پایا جاتا بلکہ اس کی یہ بھی صفت ہے کہ اس کے ارشادات سادہ اور ٹھوس ہیں جن پر عمل پیرا ہونا آسان ہے اور اس کے بدلے دنیا اور آخرت کی کا میابی نصیب ہوتی ہے۔ مسائل ١۔ حقیقی تعریفات کے لائق صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔ ٢۔ قرآن مجید میں کسی قسم کی کجی نہیں ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندے پر کتاب نازل فرمائی۔ ٤۔ قرآن مجید اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرانے کاموثرذریعہ ہے۔ ٥۔ قرآن مجید مومنوں کے لیے باعث رحمت اور بشارت ہے۔ ٦۔ اعمال صالحہ کرنے والے مومنین کے لیے بہترین اجر اور خوشیوں کا پیغام ہے۔ تفسیر بالقرآن عمل صالح کا صلہ : ١۔ عمل صالح کرنے والے مومنوں کے لیے خوشخبری اور ان کے لیے بہترین اجر ہے۔ (الکھف : ٢) ٢۔ جو بھی مومن صالح عمل کرے گا اس کی محنت کو رائیگاں نہیں کیا جائے گا۔ (الانبیاء : ٩٤) ٣۔ ایمان دار اور عمل صالح کرنے والوں کے لیے بخشش اور رزق کریم ہے۔ (الحج : ٥) ٤۔ عمل صالح کرنے والے مومنوں کے گناہوں کو اللہ ختم کردیں گے۔ (العنکبوت : ٧) ٥۔ بے شک وہ لوگ جو ایمان لائے اور نیک عمل کیے ان کے لیے نعمتوں والی جنت ہے۔ (لقمان : ٨) ٦۔ ایمان دار اور عمل صالح کرنے والوں کے لیے جنت الفردوس میں مہمانی کا اہتمام ہوگا۔ (الکھف : ١٠٧) الكهف
3 الكهف
4 فہم القرآن ربط کلام : اس سے پہلی آیات میں مومنوں کو خوشخبری دی گئی ہے اور اب ان لوگوں کو انتباہ کیا جاتا ہے جو مخلوق میں سے کسی کو اللہ تعالیٰ کی اولاد قرار دیتے ہیں۔ قرآن مجید ان لوگوں کو سخت ترین انتباہ کرتا ہے جو ہرزہ سرائی کرتے ہیں کہ اللہ کی اولاد ہے۔ حالانکہ ان کے پاس نہ اس کی دلیل ہے اور نہ ہی ان کے آباؤ اجداد علم کی بنیاد پر یہ عقیدہ رکھتے تھے گویا کہ یہ عقیدہ اور بات سراسر جہالت پر مبنی ہے۔ یہ لوگ نہیں سوچتے کہ جو بات اپنی زبان سے نکال رہے ہیں یہ جھوٹ ہونے کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی کتنی بڑی گستاخی ہے۔ سورۃ بنی اسرائیل کی آخری آیت کی تشریح میں عرض کیا جا چکا ہے کہ عیسائی حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو اور یہودی حضرت عزیر (علیہ السلام) کو اللہ کا بیٹا اور کفار میں سے ایک گروہ ملائکہ کو اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں قرار دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی ذات کسی کی شراکت سے مبرّا اور اولاد کی حاجت سے بے نیاز ہے۔ کسی کو اللہ تعالیٰ کی اولاد یا شریک ٹھہرانا مشرکوں کی ذہنی پستی اور فکری دیوانگی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ ان کے باطل تصور ات اور ہر قسم کی یاوا گوئی سے پاک اور مبرّا ہے۔ کائنات کی تخلیق کے لیے بدیع کا لفظ استعمال فرما کر واضح کیا کہ جس اللہ نے بغیر کسی پہلے سے موجود نقشے اور میٹریل کے اوپر نیچے سات آسماں اور تہ بہ تہ سات زمینیں پیدا کی ہیں اسے اولاد کی کیا حاجت ہے ؟ اولاد انسان کی آنکھوں کی ٹھنڈک، قلبی سکون کا باعث، اس کی زندگی کا سہارا، معاملات میں اس کی معاون اور اس کے سلسلۂ نسب قائم رہنے کا ذریعہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کو ان باتوں میں سے کسی بات کی ضرورت نہیں ہے۔ اولاد ہونے کا منطقی نتیجہ ہے کہ اس کی بیوی ہو کیونکہ بیوی کے بغیر اولاد کا تصور محال ہے۔ فرشتوں اور جنات کو خدا کی بیٹیاں، انبیاء کو خدا کا بیٹا قرار دینے سے اللہ تعالیٰ کی بیوی ثابت کرنا لازم ہوجاتا ہے۔ اولاد کسی نہ کسی طرح باپ کے مشابہ اور اس کی ہم جنس اور ہم نسل ہوتی ہے اللہ تعالیٰ ان حاجات اور تمثیلات سے پاک ہے۔ (عَنْ اَبِیْ ہُرَےْرَۃ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَال اللّٰہُ تَعَالٰی کَذَّبَنِیْ ابْنُ اٰدَمَ وَلَمْ ےَکُنْ لَّہُ ذٰلِکَ وَشَتَمَنِیْ وَلَمْ ےَکُنْ لَّہُ ذٰلِکَ فَاَمَّا تَکْذِےْبُہُ اِیَّایَ فَقَوْلُہُ لَنْ یُّعِےْدَنِیْ کَمَا بَدَاَنِیْ وَلَےْسَ اَوّلُ الْخَلْقِ بِاَھْوَنَ عَلَیَّ مِنْ اِعَادَتِہٖ وَاَمَّا شَتْمُہُ اِیَّایَ فَقََوْلُہُ اتَّخَذَ اللّٰہُ وَلَدًا وَّاَنَا الْاَحَدُ الصَّمَدُ الَّذِیْ لَمْ اَلِدْ وَلَمْ اُوْلَدْ وَلَمْ ےَکُنْ لِّیْ کُفُوًا اَحَدٌ وَفِیْ رِوَاے َۃٍ: ابْنِ عَبَّاسٍ وَّاَمَّا شَتْمُہُ اِیَّایَ فَقَوْلُہُ لِیْ وَلَدٌ وَسُبْحَانِیْ اَنْ اَتَّخِذَصَاحِبَۃً اَوْ وَلَدًا)[ رواہ البخاری : باب وقالوا اتخذاللہ ولدا] ” حضرت ابوہریرہ (رض) ذکر کرتے ہیں کہ رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان ہے کہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں ابن آدم مجھے جھٹلاتا ہے حالانکہ یہ اس کے لیے مناسب نہیں۔ وہ میرے بارے میں زبان درازی کرتا ہے یہ اسے ہرگز جائز نہیں۔ اس کا مجھے جھٹلانا یہ ہے کہ اللہ مجھے دوبارہ پیدا نہیں کریگاجیساکہ اس نے پہلی بار پیدا کیا۔ حالانکہ میرے لیے دوسری دفعہ پیدا کرنا پہلی دفعہ پیدا کرنے سے زیادہ آسان ہے۔ اس کا میرے بارے میں یہ کہنا بدکلامی ہے کہ اللہ کی اولاد ہے جبکہ میں اکیلا اور بے نیاز ہوں نہ میں نے کسی کو جنم دیا اور نہ مجھے کسی نے جنا ہے اور کوئی بھی میری برابری کرنے والا نہیں۔ بخاری شریف میں حضرت ابن عباس (رض) کے حوالے سے یہ الفاظ پائے جاتے ہیں کہ ابن آدم کی میرے بارے میں بدکلامی یہ ہے کہ میری اولاد ہے جبکہ میں پاک ہوں نہ میری بیوی ہے نہ اولاد۔ مسائل ١۔ ایسے لوگوں کو ڈرانا چاہیے جو کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی اولاد ہے۔ ٢۔ مشرکین اور ان کے آباؤ اجداد کے پاس اللہ تعالیٰ کی اولاد ہونے کی کوئی دلیلنہ تھی اور نہ ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ پرکفار جھوٹ باندھتے ہیں۔ تفسیربالقرآن اللہ تعالیٰ کی اولاد نہیں ہے : ١۔ ان لوگوں کو ڈرائیے جو کہتے ہیں کہ اللہ کی اولاد ہے۔ (الکھف : ٤۔ ٥) ٢۔ انہوں نے کہا کہ رحمٰن کی اولاد ہے یہ تم بہت ہی بری بات کہتے ہو۔ (مریم : ٨٨ تا ٨٩) ٣۔ اللہ کے لیے لائق نہیں کہ اس کی اولاد ہو وہ اولاد سے پاک ہے۔ (مریم : ٣٥) ٤۔ اللہ ہی کے لیے زمین و آسمان کی بادشاہت ہے اور اس کی کوئی اولاد نہیں۔ (الفرقان : ٢) ٥۔ انہوں نے کہا اللہ کی اولاد ہے حالانکہ اللہ اولاد سے پاک اور بے نیاز ہے۔ (یونس : ٦٨) الكهف
5 الكهف
6 فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ کے بارے میں لوگوں کی ہرزہ سرائی اور کفر و شرک پر قائم رہنے کی وجہ سے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا غم زدہ ہونا۔ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مشرکین کو دن رات بڑی دلسوزی اور محنت کے ساتھ سمجھانے کی کوشش کرتے مگر ان کی حالت یہ تھی کہ وہ آپ کی جان کے دشمن ہونے کے ساتھ کفر و شرک میں آگے ہی آگے بڑھتے جارہے تھے۔ اس صورت حال پر آپ اس قدر دل گرفتہ ہوجاتے کہ قریب تھا کہ آپ کو کوئی جسمانی عارضہ لاحق ہوجائے۔ اس حالت میں اللہ تعالیٰ آپ کو اطمینان دلاتے کہ اے نبی ! اگر یہ لوگ اللہ تعالیٰ کو اس کی ذات اور صفات کے حوالے سے ایک ماننے اور اس کے ارشادات تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں تو کیا آپ ان پر اپنے آپ کو ہلاک کرلیں گے۔ کبھی آپ کی ان الفاظ کے ساتھ ڈھارس بندھائی جاتی کہ آپ اللہ کے رسول ہیں آپ کو ان پر کو توال بنا کر نہیں بھیجا گیا۔ لہٰذا آپ انہیں نصیحت کرتے جائیں۔ آپ کو نصیحت کرنے والا بنا کر بھیجا گیا ہے۔ (الغاشیہ : ٢١، ٢٢) آپ کو ان الفاظ کے ساتھ بھی تسلی دی گئی : ” کچھ لوگوں پر آپ جس قدر چاہیں محنت کرلیں وہ کبھی ایمان نہیں لائیں گے۔ کفر و شرک اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں اور کانوں پر مہر لگا رکھی ہے۔ اور ان کی آنکھوں پر پردہ پڑچکا ہے۔ ان کے لیے بڑاعذاب تیار کیا گیا ہے۔“ (البقرۃ: ٦۔ ٧) سورۃ کہف میں آپ کو اطمینان دلانے کے ساتھ لوگوں کے کفرو شرک کی یہ وجہ بیان کی گئی ہے کہ یہ دنیاکی زیب وزینت میں محو ہو کر رہ گئے ہیں۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے زمین پر جو آسائش اور زیب وزینت کا سامان پیدا کیا ہے۔ وہ اس لیے ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے ساتھ لوگوں کی آزمائش کرتا ہے کہ کون دنیاکی آلائش سے بچ کر اچھے اعمال کرتا ہے۔ جہاں تک دنیا اور زمین کی زیب وزینت کا تعلق ہے بالآخر اللہ تعالیٰ سب کچھ نیست ونابود کرکے زمین کو چٹیل مید ان بنا دے گا۔ اگر کوئی چیز باقی رہنی ہے تو وہ انسان کے اچھے اور برے اعمال ہیں۔ ہر کسی کو اس کو اس کے اچھے اور برے اعمال کے مطابق جزا اور سزا دی جائے گی۔ (عَنْ سَہْلِ بْنِ سَعْدٍ قَالَ قَالَ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لَوْ کَانَتِ الدُّنْیَا تَعْدِلُ عِنْدَ اللَّہِ جَنَاحَ بَعُوضَۃٍ مَا سَقٰیکَافِرًا مِنْہَا شَرْبَۃَ مَاءٍ )[ رواہ الترمذی : کتاب الزہد وہو حدیث صحیح] ” حضرت سہل بن سعد کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا اگر دنیا کی وقعت اللہ کے نزدیک مچھر کے پر کے برابر ہوتی تو وہ کافر کو ایک گھونٹ پانی کا بھی نہ دیتا۔“ (یعنی آخرت کے مقابلے میں دنیا کی کچھ حقیقت نہیں ہے۔ ) مسائل ١۔ لوگوں کی آزمائش کے لیے زمین کو باعث رونق بنایا گیا ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ دیکھنا چاہتا ہے کہ کون اچھے اعمال کرتا ہے۔ ٣۔ قیامت کے دن زمین کو چٹیل مید ان بنادیا جائے گا۔ تفسیر بالقرآن دنیاکی حقیقت : ١۔ جو کچھ زمین میں ہے وہ باعث آزمائش ہے۔ (الکہف : ٧) ٢۔ دنیا کی زندگی کا سامان آخرت کے مقابلے میں قلیل اور حقیر ہے۔ (التوبۃ: ٣٨) ٣۔ دنیا کی زندگی صرف کھیل کود ہے۔ (العنکبوت : ٦٤) ٤۔ دنیاکی زندگی دھوکے کا سامان ہے۔ (آل عمران : ١٨٥) ٥۔ لوگ دنیا کی زندگی پر خوش ہوگئے، نہیں ہے دنیا کی زندگی مگر معمولی فائدہ۔ (الرعد : ٢٦) ٦۔ دنیا کی زندگی کھیل تماشا ہے۔ (الحدید : ٢٠) ٧۔ دنیا کی زندگی کی مثال آسمان سے نازل ہونے والی کی طرح ہے۔ (یونس : ٢٤) الكهف
7 الكهف
8 الكهف
9 فہم القرآن ربط کلام : اہل مکہ دنیا کی بدولت رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے ساتھیوں کی مخالفت کررہے تھے۔ ان کے ایک سوال کے جواب میں اصحاب کہف کا واقعہ بیان کیا ہے۔ جس میں اہل کفر کو یہ بتلایا ہے کہ اس طرح کا سلوک اصحاب کہف کے ساتھ بھی کیا گیا تھا۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے بالآخر ان کی دعوت کو شہرت عام اور دوام بخشا۔ اصحاب کہف کے واقعہ میں سب سے بڑی تعجب خیز بات یہ ہے کہ چند نوجوان اپنی جان اور ایمان بچانے کے لیے ایک غار میں داخل ہوئے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں تین سونو سال تک سلائے رکھا۔ جو انسانی تاریخ میں پہلا واقعہ تھا۔ اس سے پہلے حضرت عزیر (علیہ السلام) کو ایک سو سال تک موت کی آغوش میں رکھا تھا۔ (أَوْکَالَّذِیْ مَرَّ عَلٰی قَرْیَۃٍ وَہِیَ خَاوِیَۃٌ عَلٰی عُرُوْشِہَا قَالَ أَنّٰی یُحْیِی ہٰذِہِ اللّٰہُ بَعْدَ مَوْتِہَا فَأَمَاتَہُ اللّٰہُ مِاَءَۃَ عَامٍ ثُمَّ بَعَثَہُ قَالَ کَمْ لَبِثْتَ قَالَ لَبِثْتُ یَوْمًا أَوْ بَعْضَ یَوْمٍ قَالَ بَلْ لَبِثْتَ مِءَۃَ عَامٍ فَانْظُرْ إِلٰی طَعَامِکَ وَشَرَابِکَ لَمْ یَتَسَنَّہْ وَانْظُرْ إِلٰی حِمَارِکَ وَلِنَجْعَلَکَ اٰیَۃً للنَّاسِ وَانْظُرْ إِلَی الْعِظَامِ کَیْفَ نُنْشِزُہَا ثُمَّ نَکْسُوْہَا لَحْمًا فَلَمَّا تَبَیَّنَ لَہُ قَالَ أَعْلَمُ أَنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ )[ البقرۃ: ٢٥٩] ” یا اس شخص کی طرح جس کا گزر ایک بستی سے ہوا جو اپنی چھتوں کے بَل گری ہوئی تھی۔ اس نے کہا اللہ تعالیٰ اس کو فنا کے بعد کس طرح زندہ کرے گا۔ اللہ نے اس کی روح سو سال تک کے لیے قبض کرلی، پھر اس کو اٹھایا اور پوچھا تم کتنی دیر ٹھہرے ہو۔ اس نے جواب دیا ایک دن یا اس سے کم اللہ تعالیٰ نے فرمایا بلکہ تم سو برس ٹھہرے رہے ہو اپنے کھانے پینے کی چیزوں کو دیکھو، وہ خراب نہیں ہوئیں اور اپنے گدھے کو بھی دیکھو تاکہ ہم تمھیں لوگوں کے لیے نشانی بنائیں اور ہڈیوں کو دیکھو ہم انھیں کس طرح جوڑتے اور ان پر گوشت چڑھاتے ہیں جب یہ بات اس کے مشاہدے میں آئی تو بول اٹھا یقیناً اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔“ اس لیے اصحاب کہف کا واقعہ بیان کرنے سے پہلے ارشاد فرمایا ہے کہ کیا آپ خیال کرتے ہیں ؟ کہ اصحاب کہف اور الرقیم والے ہماری قدرت کی نشانیوں میں سے عجب نشانی ہیں۔ جن کا واقعہ اور حقیقت یہ ہے کہ وہ چند نوجوان تھے جب توحید کا عقیدہ اپنانے اور اس کی تبلیغ کرنے پر ان کا عرصہ حیات تنگ کردیا گیا تو وہ یہ دعا کرتے ہوئے غار میں داخل ہوئے۔ اے ہمارے پروردگار ! ہم پر اپنی رحمت فرما اور ہمیں کامیابی کے لیے اسباب عنایت فرما۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں تین سونو سال تک سلائے رکھا۔ یہاں ان کے سونے کے بارے میں فرمایا ہے کہ ہم نے ان کے کانوں کو تھپکائے رکھا۔ شدید آندھیاں، موسلادھار بارشیں، پرندوں کی آوازیں اور درندوں کی دھاڑیں غرض کہ کوئی چیز ان کو بیدار نہ کرسکی۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں تین سو نو سال کے بعد اٹھایا۔ تاکہ آپس میں معلوم کریں کہ وہ کتنی مدت غار میں رہے ہیں۔ قرآن مجید تاریخ کی کتاب نہیں اسی وجہ سے قرآن ان جزئیات اور تفصیلات کا ذکر نہیں کرتاجن کا تعلق براہ راست ہدایت کے ساتھ نہ ہو۔ اس لیے یہ نہیں بتلایا کہ وہ کون لوگ تھے اور کس علاقے کے رہنے والے تھے۔ البتہ یہ بات اس واقعہ میں کھول کر بیان کردی گئی ہے کہ یہ عمر کے لحاظ سے جوان لوگ تھے اور عقیدہ توحید کی بنیاد پر ان کا لوگوں کے ساتھ شدید اختلاف ہوا۔ وقت کی حکومت نے انہیں گرفتار اور سنگسار کرنے کی کوشش کی وہ اپنا ایمان اور جان بچانے کے لیے ایک غار میں داخل ہوئے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں غار میں تین سو نو سال تک سلائے رکھا ایک کتا جو راستے میں ان کے ساتھ مانوس ہو اوہ ان کے پیچھے پیچھے آرہا تھا۔ جب یہ نوجوان دعا کرتے ہوئے غار میں لیٹ گئے تو کتا غار کے دھانے پر بیٹھ گیا۔ اللہ تعالیٰ نے اس کتے کو بھی تین سو نو سال تک اسی حالت میں وہاں بٹھائے رکھا کبھی کبھار اگر کوئی شخص اس غار کے قریب جاتا تو پہاڑوں کے درمیان عجیب قسم کی غار، اس میں لیٹے اور کروٹیں لیتے ہوئے انسان اور غار کے دہانے پر بیٹھے ہوئے کتے کو دیکھ کر ڈر کے مارے قریب جانے کی کوشش نہ کرتا تھا۔ قرآن مجید نے اس بات کی وضاحت نہیں فرمائی کہ اتنی دیر کتا زندہ رہا یا مرنے کے باوجود اس حالت میں بیٹھا رہا۔ بہر حال دیکھنے والا یوں محسوس کرتاکہ اگر اس نے غار کی طرف بڑھنے کی کوشش کی تو کتا اس پر حملہ آور ہوگا۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں تین سو نو سال سلانے کے بعد اٹھایا تاکہ ایک دوسرے سے پوچھیں کہ ہم کتنی دیر تک سوئے رہے ہیں ؟ ان جوانوں کو اصحاب کہف اور الرقیم کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔” الرَّقِیْمُ“ کے بارے میں اہل علم کے دو خیال ہیں۔ ایک جماعت کا نقطہ نظر ہے کہ ” الرَّقِیْمُ“ اس بستی کا نام ہے جہاں کے یہ لوگ رہنے والے تھے دوسرے فریق کا کہنا ہے۔” الرَّقِیْمُ“ اس تختی کا نام ہے جو تین سو نو سال کے بعد ایک بادشاہ نے غار کے دھانے پر آویزاں کی تھی۔ مسائل ١۔ اصحاب کہف اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے تھے۔ ٢۔ اصحاب کہف نے غار میں پناہ لی۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ نے غار میں ان کے کانوں پر پردہ ڈال دیا۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ سے اس کی رحمت اور ہدایت کا طلبگا ررہنا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن رحمت اور ہدایت کا سرچشمہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔ ١۔ انہوں نے دعا کی اے اللہ! ہمیں رحمت عطا فرما اور ہمارے کام میں آسانی فرما۔ (الکھف : ١٠) ٢۔ اے ہمارے پرو ردگار ! ہمارے دلوں کو ہدایت کے بعد ٹیڑھا نہ کر اور ہمیں رحمت عطا فرما۔ (آل عمران : ٨) ٣۔ تیر ارب بے پرواہ اور رحمت والا ہے۔ (الانعام : ١٣٣) ٤۔ اللہ کی رحمت ہر چیز پر حاوی ہے۔ (الاعراف : ١٥٦) ٥۔ اللہ کی رحمت محسنین کے قریب ہوتی ہے۔ (الاعراف : ٥٦) ٦۔ وہ جسے چاہے عذاب دے اور جس پر چاہے رحم فرمائے۔ (العنکبوت : ٢١) ٧۔ فرما دیجیے اے میرے رب! معاف فرما اور رحم فرماتو سب سے بہتر رحم کرنے والاہے۔ (المومنون : ١١٨) ٨۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس نہیں ہونا چاہیے۔ (الزمر : ٥٣) الكهف
10 الكهف
11 الكهف
12 الكهف
13 فہم القرآن ربط کلام : تمہید کے بعد اب واقعہ کی تفصیلات بیان ہوتی ہیں۔ قرآن مجید کا ہر لفظ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے۔ اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعے اسے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل فرمایا ہے۔ لیکن بعض واقعات اور احکام کی مرکزیت اور اہمیت ثابت کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ انہیں اپنی طرف منسوب فرماتا ہے۔ اس واقعہ میں توحید کے اثبات اور نوجوانوں کے کردار کو نمایاں کرنے، شرک کے ابطال اور قیامت کا انکار کرنے والوں کے موقف کو بے حیثیت اور بعث بعد الموت ثابت کرنے کے لیے اس بات کو اپنی ذات اقدس کی طرف منسوب کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ ہم اس واقعہ کو آپ کے سامنے ٹھیک ٹھیک بیان کرتے ہیں۔ چند نوجوان اپنے رب پر ایمان لائے اور ہم نے ان کو ایمان اور ہدایت میں مزید آگے بڑھادیا۔ ان کے دلوں کو مضبوط کیا۔ جب وہ عزم بالجزم کے ساتھ اس دعوت کو لے کر اٹھے اور کہا کہ لوگو! ہمارا رب وہ رب ہے جو زمین آسمان کا خالق ہے۔ ہم اس کے سوا کسی دوسرے کو خالق، مالک اور عبادت کے لائق نہیں سمجھتے۔ اگر ہم اس کے سوا کسی اور کو عبادت کے لائق، حاجت روا اور مشکل کشا سمجھیں۔ تو ہمارا اس طرح سمجھنا پرلے درجے کی حماقت ہوگا۔ ہماری قوم کی یہ حالت ہے کہ انہوں نے زمین و آسمان کے خالق و مالک کے سوا دوسروں کو معبود بنا کر حاجت روا اور مشکل کشا سمجھ لیا ہے۔ یہ لوگ ان کے بارے میں کوئی ٹھوس، شرعی، اور عقلی دلیل پیش نہیں کرسکتے۔ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کی عبادت کرنا اور اسے حاجت روا اور مشکل کشا سمجھنا درحقیقت اللہ تعالیٰ پر جھوٹ بولنے کے مترادف ہے۔ ایسے شخص سے زیادہ ظالم کوئی نہیں ہوسکتا۔ اس واقعہ میں پہلی حقیقت یہ ہے کہ زمین و آسمان کا خالق، مالک صرف ایک اللہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک سمجھنا اور کہنا پرلے درجے کا ظلم اور حماقت ہے۔ کیونکہ ایسے شخص کے پاس شرعی اور عقلی لحاظ سے کوئی دلیل نہیں ہوتی۔ اسی طرح دوسری حقیقت یہ واضح کی گئی ہے کہ جب کوئی جواں مرد اللہ پر ایمان اور اس پر بھروسہ رکھتے ہوئے توحید کی دعوت لے کر اٹھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے جذبہ ایمان میں کئی گنااضافہ فرماکر اس کے کام کو آسان کردیتا ہے۔ تیسری حقیقت یہ ہے کہ نوجوان طبقہ نیکی اور برائی میں ہر اول دستہ کا کام دیتا ہے۔ انبیاء کرام کے ابتدائی ساتھی ہمیشہ نوجوان طبقہ ہی ہوا کرتا ہے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی دعوت کا تذکرہ کرتے ہوئے قرآن مجید نے دوٹوک انداز میں فرمایا ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) پر ان کی قوم کے جوانوں کے سوا کوئی ایمان نہ لایا۔ کیونکہ وہ فرعون اور اس کے وزیروں مشیروں کے مظالم سے ڈرتے تھے۔ فرعون ملک میں بڑا متکبر اور کفر میں حد سے بڑھا ہوا تھا۔ (یونس : ٨٣) دوسرے مقام پر فرمایا کہ فرعون کی قوم اس سے ڈر کر اس کی تابع دار ہوگی۔ حقیقت میں یہ لوگ نافرمان تھے۔ (الزخرف : ٥٤) رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سیرت طیبہ سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ مکہ معظمہ میں آپ پر ایمان لانے والوں کی اکثریت نوجوانوں پر مشتمل تھی۔ سیرت نگار لکھتے ہیں بزرگوں میں سب سے پہلے حضرت ابوبکر (رض) ایمان لائے۔ غور فرمائیں حالانکہ حضرت ابوبکر (رض) کی عمر پونے اٹھتیس سال کے قریب تھی۔ جب حضرت عمر (رض) نے کلمہ پڑھا تو وہ ستائیس اور اٹھائیس سال کے درمیان تھے۔ حضرت سعد (رض) انیس سال کی عمر میں مسلمان ہوئے۔ حضرت عثمان (رض) ستائیس سال کے قریب تھے۔ حضرت علی (رض) دس بارہ سال کے تھے۔ اصحاب کہف کی عمر کے بارے میں ” فتیۃ“ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ لغت کے لحاظ سے اس کا معنیٰ ہے ” چودہ سال سے لے کر اٹھائیس سال کے جوان تک بولا جاتا ہے“۔ جوانی کی عبادت کا مقام : (عَنْ اَبِیْ ھُرَےْرَۃَ ہُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سَبْعَۃٌ ےُظِلُّھُمُ اللّٰہُ فِیْ ظِلِّہٖ ےَوْمَ لَا ظِلَّ اِلَّا ظِلُّہُ اِمَامٌ عَادِلٌ وَّشَآبٌّ نَشَأَ فِیْ عِبَادَۃِ اللّٰہِ وَرَجُلٌ قَلْبُہُ مُعَلَّقٌ بالْمَسْجِدِ اِذَا خَرَجَ مِنْہُ حَتّٰی ےَعُوْدَ اِلَےْہِ وَرَجُلَانِ تَحَآبَّا فِی اللّٰہِ اجْتَمَعَا عَلَےْہِ وَتَفَرَّقَا عَلَےْہِ وَرَجُلٌ ذَکَرَاللّٰہَ خَالِےًا فَفَاضَتْ عَےْنَاہُ وَرَجُلٌ دَعَتْہُ امْرَاَۃٌ ذَاتُ حَسَبٍ وَّجَمَالٍ فَقَالَ اِنِّیْ اَخَاف اللّٰہَ وَرَجُلٌ تَصَدَّقَ بِصَدَقَۃٍ فَاَخْفَاھَا حَتّٰی لَا تَعْلَمَ شِمَالُہٗ مَا تُنْفِقُ ےَمِےْنُہٗ)[ رواہ البخاری : باب من جلس فی المسجد] ” حضرت ابوہریرہ (رض) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان ذکر کرتے ہیں اللہ تعالیٰ سات آدمیوں کو اپنے عرش کا سایہ عطا فرمائیں گے جس دن کوئی چیز سایہ فگن نہ ہوگی۔ (١) عدل کرنے والا حکمران (٢) اللہ تعالیٰ کی عبادت میں ذوق وشوق رکھنے والا جوان (٣) وہ شخص جس کا دل مسجد کے ساتھ منسلک رہے جب وہ مسجد سے باہر جاتا ہے تو واپس مسجد میں جانے کے لیے فکر مند رہتا ہے (٤) دو آدمی جو باہم اللہ کے لیے محبت رکھتے ہیں اور اسی بنیاد پر ہی ایک دوسرے سے میل جول رکھتے اور الگ ہوتے ہیں (٥) جس آدمی نے تنہائی میں اللہ تعالیٰ کو یاد کیا اور اس کی آنکھوں سے آنسو نکل آئے (٦) ایسا شخص جس کو ایک خاندانی حسین وجمیل عورت نے گناہ کی دعوت دی مگر اس نے یہ کہہ کر اپنے آپ کو بچائے رکھا کہ میں اللہ سے ڈرتا ہوں اور (٧) وہ جس نے صدقہ کیا کہ اس کے بائیں ہاتھ کو بھی خبر نہ ہوپائی کہ اس کے دائیں ہاتھ نے کیا خرچ کیا ہے۔ مسائل ١۔ قرآن مجید میں جو قصص بیان ہوئے ہیں وہ برحق ہیں۔ ٢۔ اصحاب کہف چند نوجوان تھے جو ایمان لائے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ نے اصحاب کہف کو ہدایت میں آگے بڑھایا۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ نے اصحاب کہف کے دل مضبوط کردیئے۔ ٥۔ اصحاب کہف نے اعلان کیا کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو نہیں پکارنا چاہیے۔ ٧۔ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی دوسرے کو پکارنا بڑے گناہ اور ظلم کی بات ہے۔ تفسیر بالقرآن نو جوانوں کا کردار : ١۔ وہ کچھ جوان تھے جو اپنے پروردگار پر ایمان لائے ہم نے انکی ہدایت میں اضافہ کردیا۔ (الکہف : ١٣) ٢۔ ہم نے ایک نوجوان کا تذکرہ سنا ہے جسے ابراہیم کہتے ہیں۔ (الانبیاء : ٦٠) ٣۔ جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) جوانی کو پہنچے تو ہم نے حکمت اور علم عطا کیا۔ (القصص : ١٤) ٤۔ جب حضرت یوسف (علیہ السلام) جوانی کو پہنچے تو ہم نے ان کو دانائی اور علم عطا کیا۔ (یوسف : ٢٢) الكهف
14 الكهف
15 الكهف
16 فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ، بالآخر مجبور ہو کر نوجوانوں کا قوم سے علیحدہ ہونے کا فیصلہ۔ نامعلوم نوجوانوں نے کتنی مدّت اور کس قدر مظالم برداشت کیے ہوں گے۔ یہاں تک کہ وہ ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے۔ یقیناً انہوں نے با ربا رسوچا ہوگا کہ جائیں تو کہاں جائیں ؟ سلطنت رومہ میں ہر جگہ شرک کا غوغہ مچ رہا ہے۔ وقت کی حکومت ان کی دشمن ہوچکی ہے۔ جب حکومت اور عوام اس بات پر متفق ہوگئے کہ ان کو پتھر مارمار کر جان سے مار دینا چاہیے تو اس صورت حال میں اللہ کی توحید کے متوالوں اور اس کی عظمت پر سب کچھ قربان کردینے والوں نے یہ فیصلہ کیا کہ ہمیں ان لوگوں سے اپنی جان اور ایمان بچانا چاہیے۔ جو اللہ کے سوا دوسروں کی عبادت کرتے ہیں۔ یہ بات طے کرنے اور ایک دوسرے کو تسلی دیتے ہوئے غار میں داخل ہوئے کہ تمہار ارب تم پر کرم فرمائے گا اور ہمارے کام میں آسانی پیدا کرنے کے لیے اسباب مہیا فرمائے گا۔ بعض مفسرین نے ان الفاظ کو اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں میں یہ بات القاء کردی تھی۔ جس بناء پر انہیں یقین ہوگیا کہ ہمارا رب اپنے کرم سے ہماری مشکلات کو ضرور آسان فرمائے گا کیونکہ اس سے پہلے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے کہ جب وہ توحید کی دعوت لے کر اٹھے تو ہم نے ان کے دلوں کو مضبوط کردیا۔ کیونکہ مواحد کا اللہ پر بھروسہ ہوتا ہے اور وہ اسی سے مدد کا طلبگار ہوتا ہے۔ مسائل ١۔ اصحاب کہف نے معبودان باطل کو چھوڑ کر غار میں پناہ لینے کا فیصلہ کیا۔ ٢۔ جو اللہ کی راہ میں نکلتا ہے وہ اللہ کی رحمت کا حقدار ہوجاتا ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو کامیابی سے ہمکنار کرتا ہے۔ الكهف
17 فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ، جس غار میں نوجوان داخل ہوئے اس کا نقشہ۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی خاص رہنمائی سے انہیں ایسی غارکا انتخاب کرنے کی توفیق عنایت فرمائی کہ جس کا اندرونی اور بیرونی نقشہ یوں بیان فرمایا ہے کہ صبح کے وقت سورج غار کے دہانے پردائیں طرف مڑجاتا اور غروب کے وقت دہانے سے بائیں سمت ہوجاتا۔ اس طرح وہ دوپہر اور پچھلے پہر سورج کی تمازت سے محفوظ کردیئے گئے۔ اس غار کو اللہ تعالیٰ نے اپنی نشانیوں میں سے ایک نشانی قرار دیا ہے۔ گویا کہ غار ہر اعتبا رسے محفوظ ہونے کے ساتھ تازہ ہوا اور مناسب روشنی کی مرکز بنادی گئی۔ غار اندر سے اس قد رکشادہ اور ہموار تھی جس کے لیے ” فجوۃ“ کا لفظ استعمال کیا ہے۔ اس کا معنیٰ ہے ” چٹیل میدان“۔ اسکے ساتھ ہی غار پر اس قدر اللہ تعالیٰ نے اپنی جلالت وجبروت کا رعب ڈال دیاتھا۔ کہ عام شخص تو درکنار رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرمایا ہے کہ آپ بھی اس غارکی ہیبت دیکھ کراس کے اندر جانے کی ہمت نہیں کرسکیں گے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی کرم فرمائی ہے کہ جو اس سے ہدایت کا طالب ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اسے ہدایت سے سرفراز کرتا ہے اور جوگمراہی کو پسند کرتا ہے اسے وہ گمراہ رہنے دیتا ہے۔ اسی اصول کے تحت اللہ تعالیٰ ہدایت اور گمراہی کو اپنی طرف منسوب کرتا ہے۔ کیونکہ ہدایت اور گمراہی بھی اسی کی ملک ہیں۔ لہٰذا جسے اللہ تعالیٰ گمراہ کردے وہ اپنے لیے کسی کو ولی اور مرشد نہیں پائے گا۔ سبحان اللہ یہاں کیسے الفاظ استعمال فرمائے ہیں کہ دنیا میں گمراہ لوگوں کی اکثریت کا عالم یہ ہے کہ وہ ایسے لوگوں کو ولی اور مرشد سمجھتے ہیں جو حقیقتاً ان کے دشمن اور خود گمراہ ہوتے ہیں۔ وہ ولایت کے پردے اور مرشد ہونے کی آڑ میں لوگوں کے مال، جان اور ایمان پر ڈاکہ ڈالتے ہیں۔ یہ غار نہ صرف اللہ کی قدرت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے۔ بلکہ اس میں آرام کرنے والے توحید کے علمبرداروں کی حالت یہ ہے کہ مدت تک وہ پر سکون نیند میں محو خواب رہے۔ مگر دیکھنے والا ان کے چہروں کی تروتازگی دیکھ کر سمجھتا کہ یہ جاگ رہے ہیں نہ صرف وہ جاگ رہے ہیں بلکہ اللہ تعالیٰ ان کی کروٹیں بھی تبدیل کرتارہا۔ مسائل ١۔ اصحاب کہف اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ہیں۔ ٢۔ جس کو اللہ تعالیٰ ہدایت دے وہی ہدایت پاتا ہے۔ ٣۔ جس کو اللہ تعالیٰ گمراہ کردے اس کا کوئی مددگار نہیں ہوتا۔ تفسیر بالقرآن ہدایت وگمراہی اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے۔ ١۔ جسے اللہ ہدایت دے وہ ہدایت یافتہ ہے اور جس کو وہ گمراہ کر دے اس کا کوئی دوست اور راہ بتانے والا نہیں پاؤ گے۔ (الکہف : ٧ ١) ٢۔ جس کو آپ چا ہیں ہدایت نہیں دے سکتے۔ ہدایت اسی کو ملتی ہے جسے اللہ ہدایت دیتا ہے۔ (القصص : ٥٦) ٣۔ جس کو اللہ ہدایت دے وہی ہدایت پر ہے۔ جس کو وہ گمراہ کردے وہ نقصان اٹھائیں گے۔ (الاعراف : ١٧٨) ٤۔ اللہ تعالیٰ جس کو چاہتا ہے گمراہ کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے۔ (ابراہیم : ٤) الكهف
18 فہم القرآن ربط کلام : اصحاب کہف کا اٹھایا جانا، ان کا ایک دوسرے سے اپنے قیام کے بارے میں پوچھنا اور اپنی قوم کے ظلم سے ڈرنا۔ اللہ تعالیٰ نے اصحاب کہف کو تین سو نو سال کے بعد اٹھایا۔ تاکہ یہ ایک دوسرے سے پوچھیں کہ یہاں کتنی دیر ٹھہرے رہے ہیں۔ اس کے ساتھ اس بات کو منکرین آخرت کے لیے حجت قرار دیا ہے۔ اصحاب کہف کو تین سو نو سال سلانے کے بعد اللہ تعالیٰ نے اٹھایا، جونہی وہ لوگ اپنی اپنی جگہ سے اٹھے تو ایک دوسرے سے پوچھنے لگے کہ بھائی! ہم کتنی دیر یہاں ٹھہرے رہے ہیں ؟ ہر کسی نے سورج کا حساب لگا کر بتایا کہ ہم چند گھنٹے یا ایک دن سوئے رہے ہیں۔ اس اندازے کی دو وجہ تھیں۔ جب وہ سورج کو دیکھتے تو انہیں گمان ہوتا کیونکہ سورج غروب ہونے میں ابھی وقت باقی ہے اس بناء پر کچھ ساتھی کہتے ہیں کہ ہم چند گھنٹے سوئے ہیں۔ لیکن جب اپنی طبیعت کے سکون اور جسمانی آرام پر توجہ دیتے تو کہتے ہیں نہیں ہم ایک دن سوئے ہیں۔ گویا کہ ان کا اس بات پر اتفاق نہ ہوسکا کہ وہ کتنی دیر سوئے ہیں۔ قرآن مجید نے ان کی برادرانہ بحث کو من وعن اسی طرح نقل فرمایا ہے۔ اس کے بعد انہیں بھوک محسوس ہوئی اور انہوں نے فیصلہ کیا۔ اپنے میں سے ایک ساتھیکو کچھ رقم دے کر قریب کے شہر میں بھیجاجائے اور اسے سمجھایا کہ وہ صاف ستھراکھا نا لانا اور آنے جانے میں بھی احتیاط کرنا تاکہ ہمارے بارے میں کسی شخص کو کوئی خبر نہ ہونے پائے اگر لوگوں کو خبر ہوگئی تو وہ ہمیں پکڑ کر سنگسار کردیں گے۔ یا ہمیں شرک کرنے پر مجبور کریں گے۔ شرک کرنے اور مرتد ہونے کی صورت میں ہم کبھی فلاح نہیں پائیں گے۔ غار میں اصحاب کہف کی گفتگو کے چند نکات۔ ١۔ اصحاب کہف اس بات پر متفق نہ ہوئے کہ ہم کتنی دیر تک سوئے رہے ہیں۔ یہی حالت حضرت عزیر (علیہ السلام) کی بیان کی گئی ہے کہ جب ان کو اللہ تعالیٰ نے ایک سو سال سلائے رکھا۔ جس کے بارے میں موت کا لفظ استعمال کیا ہے۔ اصحاب کہف کو بھی یہ معلوم نہ تھا کہ ہم کتنی دیرتک سوئے رہے ہیں۔ ٢۔ اصحاب کہف کا اپنے ساتھی کو صاف ستھرا کھانا لانے کی تاکید کرنا، ان کی نفاست اور رزق حلال کھانے کی ترجمانی کرتا ہے۔ ٣۔ ساتھی کو آنے جانے میں احتیاط کا پہلو اختیار کرنے کی تلقین کرنا، ان کی سمجھداری اور جن حالات میں انہوں نے اپنا علاقہ چھوڑا تھا۔ اس سے نازک ترین حالات اور شدید خطرات کا پتہ چلتا ہے۔ ٤۔ جن حالات کے پیش نظر انہوں نے اپنا وطن چھوڑا تھا کہ اگر وہ غار میں پناہ نہ لیتے تو مشرک انہیں سنگسار کردیتے یا انہیں شرک میں مبتلا کردیتے جو ہلاکت کا راستہ ہے۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے اصحاب کہف کوتین سو نوسال کے بعد اٹھایا۔ ٢۔ کھانا پاکیزہ کھانا چاہیے۔ ٤۔ اہم کام میں راز داری کا خیال رکھنا چاہیے۔ ٥۔ مشرک اور مرتد کبھی فلاح نہیں پائیں گے۔ الكهف
19 الكهف
20 الكهف
21 فہم القرآن ربط کلام : اصحاب کہف کو تین سو نو سال کے بعد اٹھانے کی حکمت اور عقیدہ آخرت کا ایک اور ٹھوس ثبوت۔ یہ حقیقت پہلے بھی کئی بار عرض کی جاچکی ہے کہ عقیدہ آخرت اسلام کا تیسر ابنیادی عقیدہ اور اصول ہے جس کے لیے ناصرف قرآن مجید نے عقلی اور نقلی دلائل دیئے ہیں۔ بلکہ اس حقیقت کے اثبات کے لیے انسانی تاریخ میں پھیلے ہوئے ایسے واقعات بیان فرمائے ہیں کہ جن سے ثابت کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن ضرور انسان کو پیدا فرمائے گا۔ اصحاب کہف کو بھی تین سونو سال کے بعد اس لیے جگایا اور اٹھایا گیا تاکہ انہیں اور ان کے حوالے سے لوگوں کو معلوم ہو کہ اللہ تعالیٰ ہر صورت قیامت برپا کرنے کا وعدہ پور اکرے گا۔ جس کے برپا ہونے میں کوئی شک نہیں۔ اصحاب کہف نے مشورہ کرنے کے بعد جس ساتھی کو شہر میں کھانے کے لیے بھیجا تھا جب وہ شہر گیا۔ تو اس نے شہر اور لوگوں کو بالکلبدلا ہو اپایا۔ جب اس نے تین سو نو سال پہلے کی کرنسی پیش کی تو دکان دار کا کیا ردعمل تھا۔ وہ کھانا لے کر غار میں واپس آیا اور اسکے ساتھ کیا کیا واقعات پیش آئے۔ اس کے بارے میں قرآن و حدیث میں کوئی تفصیل نہیں ملتی۔ کیونکہ ان باتوں پر رد عمل کا ہونا ایک فطری بات ہے۔ لہٰذا اس کے ذکر کی چنداں ضرورت نہیں تھی جس پر اس کی تفصیلات بیان نہیں کی گئی ہیں۔ البتہ مفسرین اور مؤرخین نے یہ واقعات درج کیے ہیں کہ جب وہ غار سے نکلا، شہر میں داخل ہو اتو شہر کی حالت، لوگوں کا رہن سہن اور ان کے نظریات میں تبدیلی محسوس کی۔ جب اس نے کھانے کی قیمت پیش کی تو دکاندارنے کہا یہ کرنسی تو بہت پرانی ہے۔ اس نے کہا کل تو یہ کرنسی استعمال ہوتی تھی راتوں رات اسے کیا ہوگیا ہے۔ ان کی آپس میں ہونے والی تکرار سن کر لوگ اکٹھے ہوئے۔ مفسرین نے یہ بھی لکھا ہے۔ بالآخر لوگوں نے عجوبہ سمجھ کر غار تک اس کا پیچھا کیا وہ لوگوں کے سامنے غار میں داخل ہوا لیکن اس کا پیچھا کرنے والوں کو یہ ہمت نہ ہوئی کہ وہ آگے بڑھ کر غار میں جھانک سکیں۔ جب یہ بات حکمرانوں تک پہنچی تو ذمّہ داران حکومت غار کے دہانے پر پہنچے بعدازاں ان میں اس بات پر تنازعہ ہواکہ ان کی یادگار کیسی ہونی چاہیے ؟ بالآخر جو طبقہ اپنی رائے میں غالب رہا انہوں نے فیصلہ کیا کہ غار کے قریب مسجدتعمیر کی جائے۔ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ (رض) أَنَّ رَسُول اللَّہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ قَاتَلَ اللَّہُ الْیَہُودَ اتَّخَذُوا قُبُورَ أَنْبِیَاءِہِمْ مَسَاجِدَ) [ رواہ البخاری : باب حدثنا ابو الیمان] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ تعالیٰ یھودیوں کو ہلاک کرے انہوں نے انبیاء کی قبروں کو مسجدیں بنا لیا۔“ مسائل ١۔ قیامت آنے والی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں۔ اللہ تعالیٰ کا وعدہ سچاہے۔ ٢۔ اصحاب کہف کے غار کے پاس ایک مسجد تعمیرکی گئی۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ کا وعدہ برحق ہے : ١۔ ہم نے ان کو ان کے حال سے خبردار کردیا تاکہ جان لیں کہ اللہ کا وعدہ برحق ہے۔ (الکھف : ٢١) ٢۔ اللہ کا وعدہ یقیناً پوراہو کر رہے گا۔ (بنی اسر ائیل : ١٠٨) ٣۔ اللہ کا وعدہ برحق ہے اور اللہ تعالیٰ کی بات سے کس کی بات سچی ہو سکتی ہے؟ (النساء : ١٢٢) ٤۔ آگاہ رہو ! اللہ کا وعدہ سچاہے لیکن اکثر لوگ بے علم ہیں۔ (یونس : ٥٥) ٥۔ بلاشبہ اللہ کا وعدہ برحق ہے لہٰذا تمہیں دنیاکی زندگی دھوکے میں نہ ڈالے۔ (لقمان : ٣٣) ٦۔ صبر کیجئے اللہ کا وعدہ سچاہے۔ (المومن : ٥٥۔ ٧٧) ٧۔ قیامت کے دن شیطان کہے گا یقیناً اللہ نے تمہارے ساتھ برحق وعدہ فرمایا تھا۔ (ابراہیم : ٢٢) ٨۔ اے لوگو! یقیناً اللہ کا وعدہ برحق ہے تمہیں دنیاکی زندگی دھوکے میں نہ ڈالے۔ (فاطر : ٥) الكهف
22 فہم القرآن ربط کلام : لوگوں کے درمیان اصحاب کہف کی تعداد کے بارے میں اختلاف رہا ہے، اس بارے میں خصوصی ہدایت۔ اصحاب کہف کے بارے میں شروع سے لوگوں میں یہ اختلاف رہا ہے کہ ان کی تعداد کتنی تھی ؟ یہی اختلاف نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے میں بھی تھا۔ کچھ لوگ کہتے تھے کہ وہ تین آدمی تھے اور چوتھا ان کا کتا تھا۔ دوسروں کا خیال تھا کہ وہ پانچ تھے اور چھٹا ان کا کتا تھا۔ تیسرے گروہ کا خیال تھا کہ وہ سات جوان تھے اور آٹھواں ان کا کتا تھا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ کہہ کر اس بحث سے لاتعلق رہنے کی تلقین فرمائی گئی ہے کہ آپ فرمائیں کہ میرا رب ان کی تعداد کو خوب جانتا ہے۔ ان کی صحیح تعداد کو بہت تھوڑے لوگ جانتے ہیں لہٰذا آپ کو اس معاملے میں سرسری گفتگو سے بڑھ کرزیادہ بات نہیں کرنی چاہیے اور نہ ہی اصحاب کہف کے بارے میں کسی سے جاننے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ نوجوان تھوڑے ہوں یا زیادہ اصل بات تو ان کا عقیدہ اور کردار ہے۔ (مَایَعْلَمُھُمْ الاَّ قَلِیْلٌ)[ الکھف : ٢٢] ” چند لوگوں کے سوا اصحاب کہف کے بارے میں کوئی نہیں جانتا۔“ حضرت عبداللہ بن عباس (رض) فرمایا کرتے تھے کہ میں ان قلیل لوگوں میں سے ہوں جو جانتے ہیں کہ ان کی اصل تعداد کیا تھی۔ اپنے موقف کی تائید کے لیے وہ یہ دلیل دیتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے اسی آیت میں پہلی دو تعداد کا یہ کہہ کر رد فرمایا ہے کہ اس کے بارے میں لوگ اٹکل پچوسے باتیں کرتے ہیں۔ اصحاب کہف کی تعداد سات تھی اور آٹھواں ان کا کتا تھا یہ بتلاکر اس کی تردید نہیں کی گئی۔ اس بنیاد پر معلوم ہوتا ہے کہ ان کی تعداد سات تھی اور آٹھواں ان کا کتا تھا۔ (واللہ اعلم) اس آیت مبارکہ میں رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مخاطب کرتے ہوئے مسلمانوں کو یہ تعلیم دی گئی ہے کہ جن باتوں کا براہ راست شریعت اور عمل کے ساتھ تعلق نہ ہو۔ انکے بارے میں بحث مباحثہ اور پوچھ گچھ کرنا مناسب نہیں کیونکہ جن لوگوں کو لایعنی باتوں میں پوچھ گچھ اور بحث ومباحثہ کرنے کی عادت ہوجائے۔ دیکھا گیا ہے کہ ان لوگوں کی اکثریت بے عمل ہوتی ہے۔ بلکہ ان کی غالب اکثریت گمراہ ہوجایا کرتی ہے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایسے لوگوں کے بارے میں ارشاد فرمایا ہے۔ ’ حضرت علی (رض) کہتے ہیں جب میں تمہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کوئی حدیث بیان کروں تو اللہ کی قسم ! مجھے آسمان سے گرنا زیادہ پسند ہے اس بات سے کہ میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پرجھوٹ بولوں۔ جب میں تمہارے اور اپنے درمیان بات کرتا ہوں تو یقیناً جنگ دھوکہ ہے۔ یقیناً میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا آپ فرما رہے تھے۔ آخری زمانے میں لوگ ہوں گے، چرب زبان، نادان ہوں گے، اچھی اور بھلائی کی بات کرنے والے ہوں گے، ان کا ایمان ان کی حلقوم سے تجاوز نہیں کرے گا۔ وہ دین سے اس طرح نکل جائیں گے جیسے تیر کمان سے نکلتا ہے۔ جہاں بھی تم انہیں پاؤقتل کردو۔ یقیناً ان کو قتل کرنے والے آدمی کے لیے قیامت کے دن اجر ہوگا۔“ [ رواہ البخاری : کتاب استتابۃ المرتدین] (عَنْ عَلِیِّ إِنِّی سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ےَقُوْلُ سَےَخْرُجُ قُوْمٌ فِی اٰخِرِ الزَّمَانِ حُدَّاثُ الْاَنْسنَانِِ سُفَھَآءُ الْاَحْلَامِ ےَقُولُوْنَ مِنْ قَوْلِ خَےْرِ الْبَرِیَّۃِ لَا ےُجَاوِزُ اِےْمَانُھُمْ حَنَاجِرَھُمْ ےَمْرُقُوْنَ مِنَ الَّدِےْنَ کَمَا ےَمْرُقُ السُّھْمُ مِنَ الرَّمْےَۃِ) [ رواہ ا لبخاری : کتاب استتابۃ المرتدین باب قتل الخوارج] ” حضرت علی (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا ہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں کہ آخری زمانے میں ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو نوعمر، عقل ودانش کے لحاظ سے نادان، کتاب وسنت کو پیش کریں گے مگر حقیقتاً نور ایمان سے ایسے خالی ہوں گے کیونکہ ایمان ان کے حلقوں سے نیچے نہیں اترے گا۔ دین سے ایسے نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے پار ہوجاتا ہے۔“ تفسیربالقرآن ہر چیزکا علم اللہ تعالیٰ کے پاس ہے : ١۔ فرما دیجیے ! میرا پروردگار ہی ان کی تعداد کا علم رکھتا ہے۔ (الکھف : ٢٢) ٢۔ اصحاب کہف نے کہا تمہارا رب جانتا ہے تم کتنی دیر ٹھہرے ہو؟ (الکھف : ١٩) ٣۔ اللہ جانتا ہے رسالت کسے عطا کرنی ہے ؟ (الانعام : ١٢٤) ٤۔ اللہ تعالیٰ دلوں کے بھید جانتا ہے۔ (ھود : ٥) ٥۔ اللہ جانتا ہے جو ان کے دلوں میں ہے۔ (ھود : ٣١) ٦۔ اللہ ہدایت یافتہ لوگوں کو جانتا ہے۔ (القلم : ٧) الكهف
23 فہم القرآن ربط کلام : نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دوسری تلقین۔ سورۃ الکہف کے تعارف میں یہ بات بیان ہوچکی ہے کہ اہل مکہ نے مدینہ کے یہودیوں کے پاس ایک وفد بھیجا۔ یہودیوں نے انہیں تین سوالات بتلائے کہ اگر محمد نے ان سوالوں کا ٹھیک ٹھیک جواب دیا تو وہ حقیقی نبی ہے۔ اگر ٹھیک جواب نہ دے سکا تو نبوت کے دعوی میں جھوٹا ہے۔ وفد نے مکہ سے واپس آکر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ سوالات کیے۔ آپ نے فرمایا کہ میں کل تمہیں جواب دوں گا لیکن کئی دن تک وحی نہ آئی۔ جس پر کفار نے بغلیں بجائیں اور پروپیگنڈہ کیا کہ یہ شخص جھو ٹا ہے اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ فرمان جاری کیا ” اے نبی! کسی کام کے بارے میں آئندہ اس طرح نہ کہنا کہ میں اسے کل کروں گا ایسی بات کہتے وقت انشاء اللہ کہا کریں۔ جب اپنے رب کا نام لینا بھول جاؤ تو یاد آنے پر فوراً انشاء اللہ کہا کرو۔ اور فرما دیں عنقریب میر ارب میری اس سے زیادہ رہنمائی کرے گا۔“ اس فرمان میں اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب پیغمبر کو اور آپ کے حوالے سے آپ کی امت کو یہ ہدایت فرمائی ہے۔ مستقبل کے بارے میں کسی سے عہد کرنا ہو تو اس وقت انشاء اللہ کہہ لینا چاہیے۔ کیونکہ وہی ہوتا ہے جو اللہ چاہتا ہے۔ (وَمَا تَشَاءُ وْنَ إِلَّا أَنْ یَشَاء اللّٰہُ رَبُّ الْعَالَمِیْنَ )[ التکویر : ٢٩] ” اور تم کچھ بھی نہیں چاہ سکتے مگر وہی جو اللہ جہانوں کا رب چاہے۔“ (وَمَا تَشَاءُ وْنَ إِلَّا أَنْ یَشَاء اللّٰہُ إِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلِیْمًا حَکِیْمًا)[ الدھر : ٣٠] ” اور تم کچھ بھی نہیں چاہ سکتے مگر جو اللہ کو منظور ہو، بے شک اللہ جاننے والا، حکمت والا ہے۔“ انشاء اللہ کا مقام اور احترام : انشاء اللہ میں دو باتیں پائی جاتی ہیں۔ ایک طرف انشاء اللہ پڑھنے والا اس لیے پڑھتا ہے کہ میرا کام کوشش کرنا ہے کام کو پایہ تکمیل تک پہنچانا اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے۔ گویا کہ وہ اپنے عقیدے کا اظہار کرتا ہے کہ کام کرنے کی اصل طاقت اللہ تعالیٰ کے پاس ہے۔ دوسرے الفاظ میں انشاء اللہ کہنے والا اللہ کو گواہ بنا کر دوسرے کو یقین دلاتا ہے کہ میں یہ کام کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کروں گا۔ لیکن افسوس آج کئی علماء اور مسلمان انشاء اللہ تاکید کے طور پر نہیں بلکہ تعلیق کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ تعلیق کا معنٰی ہے کسی بات کو لٹکاناحالانکہ وعدہ کرتے ہوئے انہیں یقین کی حد تک معلوم ہوتا ہے کہ یہ کام میں نہیں کرپاؤں گا لیکن وقت ٹالنے کے لیے انشاء اللہ کہتے ہیں۔ جو شخص اس طرح انشاء اللہ کہتا ہے اسے خود ہی سوچنا چاہیے کہ وہ کس قدر ظالم ہے ؟ اپنے اور اپنے بھائی پر ظلم کرنے کے ساتھ اللہ کے مقدس نام کو کس نیت کے ساتھ استعمال کررہا ہے۔ مسائل ١۔ کسی کام کے متعلق یہ نہیں کہنا چاہیے کہ میں کل کروں گا۔ ٢۔ جب اللہ تعالیٰ کا نام لینا بھول جائیں تو یا دآنے پر انشاء اللہ کہنا چاہیے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ ہی حق کی جانب رہنمائی کرنے والا ہے۔ تفسیر بالقرآن ہر حال میں اللہ تعالیٰ کو یاد کرنا چاہیے : ١۔ اپنے رب کو یاد کرو جب اس کا نام لینابھول جاؤ۔ (الکھف : ٢٤) ٢۔ اے ایمان والو! اللہ کو کثرت سے یاد کرو اور اس کی صبح وشام تسبیح بیان کرو۔ (الاحزاب : ٤١) ٣۔ جب نماز پوری کرچکو تو اللہ کا کھڑے، بیٹھ اور لیٹ کر ذکر کرو۔ (النساء : ١٠٣) ٤۔ اپنے رب کو اپنے دل میں عاجزی اور انکساری سے یاد کرو۔ (الاعراف : ٢٠٥) ٥۔ خبردار اللہ کے ذکر سے دل مطمئن ہوتے ہیں۔ (الرعد : ٢٨) الكهف
24 الكهف
25 فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ اصحاب کہف کی غار میں مدت قیام تین سونو سال بتلانے کے بعد پھر یہ ہدایت کی گئی ہے کہ اے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! لوگوں کو بتلا دیں کہ اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ وہ اس میں کتنی مدت ٹھہرے رہے۔ وہی زمین و آسمان کی پوشیدہ باتوں کو جاننے والا ہے۔ وہ ہر چیز کو خوب دیکھتا اور ہر بات کو اچھی طرح سننے والا ہے۔ پھر ارشاد فرمایا کہ ایسی باتوں کے پیچھے پڑنے کی ضرورت نہیں ہاں یہ یاد رکھیں کہ اللہ اپنے حکم میں کسی کو شریک نہیں کرتا۔ اللہ تعالیٰ جس طرح اپنی ذات اور صفات میں وحدہ لاشریک ہے اسی طرح کائنات کا خالق ومالک ہونے کے ساتھ واحد حاکم ہے۔ اس کے ہر حکم میں حکمتیں پنہاں ہوتی ہیں۔ زمین و آسمانوں میں کوئی ہستی نہیں جو اس کے حکم میں مداخلت کرسکے وہ حاکم مطلق ہے۔ اس کا ارشاد ہے کہ اس کے بندوں پر اسی کا حکم چلنا چاہیے۔ (وَمَنْ لَمْ یَحْکُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللّٰہُ فَأُولَءِکَ ہُمُ الْکَافِرُوْنَ)[ المائدۃ: ٤٤] ” جو اللہ کے نازل کردہ حکم کے مطابق فیصلہ نہیں کرتے وہ کافر ہیں۔“ (وَمَنْ لَمْ یَحْکُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللّٰہُ فَأُولَءِکَ ہُمُ الظَّالِمُوْنَ)[ المائدۃ: ٤٥] ” جو اس کے حکم کو نافذ نہیں کرتا جو اللہ نے نازل کیا ہے وہ ظالم ہے۔“ (وَمَنْ لَمْ یَحْکُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللّٰہُ فَأُولَءِکَ ہُمُ الْفَاسِقُوْنَ )[ المائدۃ: ٤٧] ” جو اللہ کے حکم کے مطابق فیصلہ نہیں کرتے وہ فاسق ہیں۔“ اللہ تعالیٰ کے حکم کے نفاذ کے فوائد : (عَنِ ابِنْ عُمَرَ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ إِقَامَۃُ حَدٍّ مِنْ حُدُوْدِ اللّٰہِ خَیْرٌ مِنْ مَطَرِ أَرْبَعِیْنَ لَیْلَۃً فِی بلاَدِ اللَّہِ عَزَّ وَجَلَّ )[ رواہ ابن ماجۃ: کتاب الحدود، باب اقامۃ الحدود] ” حضرت عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ تعالیٰ کی حدود میں سے ایک حد کو قائم کرنا۔ زمین پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے چالیس راتیں بارش نازل کرنے سے بہتر ہے۔“ مسائل ١۔ اصحاب کہف غار میں تین سو نو سال ٹھہرے رہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ زمین و آسمانوں کے غائب کو جانتا ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی کار ساز نہیں۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ کے حکم میں کسی کو شریک نہیں بنانا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن اللہ کی زمین پر اللہ ہی کا حکم نافذہونا چاہیے : ١۔ اللہ اپنے حکم میں کسی کو شریک نہیں کرتا۔ (الکھف : ٢٦) ٢۔ اللہ جیسا چاہتا ہے حکم کرتا ہے کوئی اس کے حکم کو رد کرنے والا نہیں۔ (الرعد : ٤١) ٣۔ آپ ان کے درمیان کتاب اللہ کے مطابق فیصلہ کریں۔ (المائدۃ: ٤٩) ٤۔ خبردار اسی کے لیے حکم ہے اور وہ جلد حساب لینے والا ہے۔ (الانعام : ٦٢) ٥۔ حکم صرف اللہ ہی کا ہے وہ حق بیان کرتا ہے۔ (الانعام : ٥٧) ٦۔ نہیں ہے حکم مگر اللہ کا اس نے حکم دیا ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو۔ (یوسف : ٤٠) ٧۔ اچھی طرح سنو ! کہ ساری کائنات کا خالق اللہ ہی ہے اور وہی حاکم مطلق ہے۔ (الاعراف : ٥٤) الكهف
26 الكهف
27 فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ حاکم ہے اور اس کا حکم قرآن مجید کی صورت میں مکمل ہوا، اس لیے اس کے حکم کو جاننے کے لیے قرآن مجید کی تلاوت کرنا لازم ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر وحی کے ذریعے قرآن مجید نازل فرمایا جو اللہ تعالیٰ کا کلام ہے۔ اللہ تعالیٰ کے کلام میں کوئی ردوبدل نہیں کرسکتا۔ اس میں ردو بدل اور ترمیم واضافہ کرنے کی کسی کو ہرگز اجازت نہیں یہاں تک کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی اس کی زیر زبر میں تبدیلی نہیں کرسکتے تھے۔ اس کے احکام حق پر مبنی، حق کے ترجمان اور قیامت تک قائم دائم رہنے والے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی حفاظت کا خود ذمہ لیا ہے۔ (الحجر : ٩) اللہ کے کلام میں تبدیلی نہ ہونے کا یہ بھی مقصد ہے کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! لوگ اسے پسند کریں یا نہ کریں آپ نے ہر حال میں انہیں قرآن سنانا ہے۔ دنیا میں یہ واحد کتاب ہے جو شخص ایمان کی حالت میں اس کی تلاوت کرے گا۔ اسے ایک ایک حرف کے بدلے اجروثواب دیا جائے گا۔ (عَنْ أَبِی مُوسَی (رض) عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ الْمُؤْمِنُ الَّذِی یَقْرَأُ الْقُرْآنَ وَیَعْمَلُ بِہِ کَالأُتْرُجَّۃِ، طَعْمُہَا طَیِّبٌ وَرِیحُہَا طَیِّبٌ، وَالْمُؤْمِنُ الَّذِی لاَ یَقْرَأُ الْقُرْاٰنَ وَیَعْمَلُ بِہِ کَالتَّمْرَۃِ، طَعْمُہَا طَیِّبٌ وَلاَ رِیْحَ لَہَا، وَمَثَلُ الْمُنَافِقِ الَّذِی یَقْرَأُ الْقُرْآنَ کَالرَّیْحَانَۃِ، رِیحُہَا طَیِّبٌ وَطَعْمُہَا مُرٌّ، وَمَثَلُ الْمُنَافِقِ الَّذِی لاَ یَقْرَأُ الْقُرْاٰنَ کَالْحَنْظَلَۃِ، طَعْمُہَا مُرٌّ أَوْخَبِیْثٌ وَرِیحُہَا مُرٌّ) [ رواہ البخاری : کتاب فضائل القرآن، باب مَنْ رَایَا بِقِرَاءَ ۃِ الْقُرْآنِ أَوْ تَأَکَّلَ بِہِ أَوْ فَخَرَ بِہِ] ” حضرت ابو موسیٰ (رض) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا مومن وہ ہے جو قرآن پڑھتا ہے اور اس پر عمل کرتا ہے۔ وہ سنگترے کی طرح ہے اس کا کھانا بھی پاکیزہ ہے اور اس کی خوشبو بھی پاکیزہ ہے اور وہ مومن جو قرآن نہیں پڑھتا لیکن اس پر عمل کرتا ہے وہ اس کھجور کی طرح ہے۔ اس کا ذائقہ اچھا ہے لیکن اس کی خوشبو نہیں اور اس منافق کی مثال جو قرآن پڑھتا ہے اس کی مثال پھول کی طرح ہے جس کی خوشبو تو اچھی ہے مگر اس کا ذائقہ کڑوا ہے اور جو منافق قرآن نہیں پڑھتا۔ وہ اندرائن کے پھل کی طرح ہے اس کا ذائقہ گندہ ہے اور اس کی بو بھی بڑی ہے۔“ (عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ مَسْعُودٍ ہُرَیْرَۃَ یَقُولُ قَالَ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَنْ قَرَأَ حَرْفًا مِنْ کِتَاب اللّٰہِ فَلَہُ بِہِ حَسَنَۃٌ وَالْحَسَنَۃُ بِعَشْرِ أَمْثَالِہَا لاَ أَقُول الم حَرْفٌ وَلَکِنْ أَلِفٌ حَرْفٌ وَلاَمٌ حَرْفٌ وَمِیمٌ حَرْفٌ) [ رواہ الترمذی : کتاب فضائل القرآن] ” حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس نے قرآن کا ایک حرف پڑھا اسکے لیے ایک نیکی ہے اور ایک نیکی دس نیکیوں کے برابر ہے۔ میں یہ نہیں کہتاکہ الم ایک حرف ہے بلکہ الف ایک حرف، میم دوسرا حرف اور لام تیسراحرف ہے۔“ قیامت کے دن حافظ قرآن کا اعزاز : (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَمْرٍو (رض) قَالَ قَالَ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یُقَالُ لِصَاحِبِ الْقُرْآنِ اقْرَأْ وَارْتَقِ وَرَتِّلْ کَمَا کُنْتَ تُرَتِّلُ فِی الدُّنْیَا فَإِنَّ مَنْزِلَکَ عِنْدَ اٰخِرِ اٰیَۃٍ تَقْرَؤُہَا )[ رواہ ابوداود : باب اسْتِحْبَاب التَّرْتِیلِ فِی الْقِرَاءَ ۃِ] ” حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا حافظ قرآن کو کہا جائے گا قرآن کو پڑھتے جاؤ اور اوپر چڑھتے جاؤ اور قرآن کو ٹھہر ٹھہر کر پڑھو جس طرح دنیا میں پڑھا کرتے تھے۔ قرآن مجید کی آخری آیت کے اختتام پر تیری منزل ہوگی۔“ مسائل ١۔ کتاب اللہ کی تلاوت کرنی چاہیے۔ ٢۔ کتاب اللہ میں کوئی تبدیلی نہیں کرسکتا۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی جائے پناہ نہیں۔ تفسیربالقرآن قرآن مجید کے آداب : ١۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پڑھیے جو آپ پر آپ کے رب کی طرف سے وحی کی جاتی ہے۔ (الکھف : ٢٧) ٢۔ ہم نے قرآن کو حق کے ساتھ نازل کیا تاکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لوگوں کے سامنے ٹھہر ٹھہر کر پڑھیں۔ (بنی اسرائیل : ١٠٥) ٣۔ قرآن کو ترتیل کے ساتھ پڑھیں۔ (المزمل : ٤) ٤۔ جب قرآن پڑھاجائے تو اسے خاموشی سے سنو۔ (الاعراف : ٢٠٤) ٥۔ قرآن بڑی شان والا ہے اور لوح محفوظ میں لکھا ہوا ہے۔ (الواقعۃ: ٧٧ تا ٧٩) ٦۔ جن کو کتاب دی گئی وہ اس کی تلاوت اسی طرح کرتے ہیں جس طرح تلاوت کرنے کا حق ہے۔ (البقرۃ: ١٣١) الكهف
28 فہم القرآن ربط کلام : کفار کے بے جا اعتراضات اور مطالبات پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو صبر کی تلقین اور اپنے ساتھیوں کے ساتھ وابستہ رہنے کا حکم : کفار مکہ کا مسلسل مطالبہ تھا کہ اگر قرآن مجید میں ردوبدل کردیا جائے تو ہم تجھ پر ایمان لانے کے لیے تیار ہیں۔ جب یہ مطالبہ کلیتاً مسترد کردیا گیا تو انہوں نے یہ مطالبہ کرڈالا کہ جب ہم آپ کے پاس حاضر ہوں تو جو لوگ معاشی اور معاشرتی اعتبار سے کمزور ہیں وہ آپ کی مجلس میں نہیں ہونے چاہییں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے پہلے مطالبہ کو مسترد کرتے ہوئے بتلایا کہ اللہ کے کلام میں کوئی تبدیلی نہیں ہوسکتی۔ اگر آپ اس میں ردوبدل کا خیال کریں کہیہ لوگ اس پر راضی ہوجائیں تو یادرکھنا ایسی صورت میں آپ کو اللہ تعالیٰ کی گرفت سے کوئی نہیں بچا سکے گا۔ جہاں تک ان لوگوں کا یہ مطالبہ ہے کہ آپ اپنی مجلس میں کمزور مسلمانوں کو نکال باہر کریں۔ اللہ کا حکم تو یہ ہے کہ ان لوگوں کے ساتھ اپنے آپ کو وابستہ رکھیں جو صبح وشام اپنے رب کی عبادت کرنے والے اور اس کی رضا کے متلاشی ہیں۔ جو لوگ دنیا کی زیب وزینت میں محو ہو کر اپنے رب کی یاد سے غافل ہوچکے ہیں۔ ایسے لوگوں کی بات کبھی نہیں ماننا اور نہ ہی ان کی جاہ، شوکت دیکھ کر کسی حسرت کا اظہار کرنا چاہیے۔ سورۃ آل عمران کی آیت ١٩٦، ١٩٧ میں فرمایا کہ اے نبی! شہروں میں کفار کا چلنا پھرنا آپ کو دھوکہ میں مبتلانہ کردے۔ یہ تو دنیا کا معمولی سامان ہے بالآخر ان کا ٹھکانہ جہنم ہوگا، جو بدترین رہنے کی جگہ ہے۔ یہ انجام اس لیے ہوگا کہ ایسے لوگوں نے اپنے نفس کو خدا بنا رکھا ہے اور دنیا کے بندے ہو کر رہ گئے ہیں یہ پرلے درجے کی گمراہی ہے حالانکہ دنیا کی حقیقت یہ ہے۔ دنیا کی حقیقت : (إِنَّمَا مَثَلُ الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا کَمَاءٍ أَنْزَلْنَاہُ مِنَ السَّمَاءِ فَاخْتَلَطَ بِہِ نَبَاتُ الْأَرْضِ مِمَّا یَأْکُلُ النَّاسُ وَالْأَنْعَامُ حَتّٰی إِذَا أَخَذَتِ الْأَرْضُ زُخْرُفَہَا وَازَّیَّنَتْ وَظَنَّ أَہْلُہَا أَنَّہُمْ قَادِرُوْنَ عَلَیْہَا أَتٰہَا أَمْرُنَا لَیْلًا أَوْ نَہَارًا فَجَعَلْنَاہَا حَصِیْدًا کَأَنْ لَمْ تَغْنَ بالْأَمْسِ کَذٰلِکَ نُفَصِّلُ الْاٰیَاتِ لِقَوْمٍ یَتَفَکَّرُوْنَ)[ یونس : ٢٤] ” دنیا کی زندگی کی مثال تو بس اس پانی کی سی ہے جسے ہم نے آسمان سے اتارا تو اس کے ساتھ زمین کی روئیدگی سے (اگنے والی چیزیں) خوب گنجان ہوگئیں، جس سے انسان اور چوپائے کھاتے ہیں، یہاں تک کہ جب زمین شاداب اور خوب مزین ہوگئی اور اس کے رہنے والے گمان کر بیٹھے کہ یقیناً وہ اس پر قادر ہیں رات یا دن کے وقت اس پر ہمارا حکم آگیا تو ہم نے اسے جڑ سے کاٹی ہوئی کردیا، جیسے وہ کل تھی ہی نہیں۔ اسی طرح ہم ان لوگوں کے لیے نشانیاں مفصل بیان کرتے ہیں جو سوچتے ہیں۔“ مسائل ١۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نیک لوگوں کے ساتھ وابستہ رہنے کا حکم دیا گیا تھا۔ ٢۔ دنیا عارضی ہے۔ ٣۔ اللہ کے نافرمانوں کی تابعداری نہیں کرنی چاہیے۔ ٤۔ اپنی یا لوگوں کی خواہشات کی پیروی نہیں کرنی چاہیے۔ تفسیر بالقرآن اپنی یا کسی کی غلط خواہش کے پیچھے نہیں لگنا چاہیے : ١۔ اس شخص کا کہنا نہ مانیے جس کے دل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کردیا ہے۔ (الکھف : ٢٨) ٢۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ کریں اور خوا ہش کے پیچھے نہ لگیں۔ (ص : ٢٦) ٣۔ اس سے بڑا گمراہ کون ہو سکتا ہے جو اپنی خواہشات کے تابع ہوچکا ہے۔ (القصص : ٥٠) ٤۔ ان کی خواہشات کی پیروی نہ کریں جو گمراہ ہوچکے ہیں۔ (المائدۃ: ٧٧) ٥۔ فرما دیجیے! میں تمہاری خواہشات کی پیروی نہیں کروں گا اگر پیروی کروں تو میں گمراہ ہوجاؤں گا۔ (الانعام : ٥٦) ٦۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کی خواہشات کی پیروی نہ کریں۔ کیونکہ آپ کے پاس حق آچکا ہے۔ (المائدۃ: ٤٩) الكهف
29 فہم القرآن ربط کلام : جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے حق پہنچ چکا ہے۔ تو پھر دنیاکی عیش وعشرت کی خاطر حق سے تغافل نہیں کرنا چاہیے۔ حق سے تغافل کرنے والوں کا انجام بدترین ہوگا۔ اللہ تعالیٰ نے حق نازل کرنے اور اس پر ایمان لانے کا حکم دینے کے باوجود حق کو انسان پر مسلط نہیں فرمایا۔ بلکہ اسے اختیار دیا کہ وہ چاہے تو حق پر ایمان لے آئے نہ چاہے تو کفر اختیار کیے رکھے کیونکہ اس کا اصول ہے۔ (لَا إِکْرَاہَ فِیْ الدِّیْنِ قَدْ تَبَیَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَیِّ فَمَنْ یَکْفُرْ بالطَّاغُوْتِ وَیُؤْمِنْ باللّٰہِ فَقَدِ اسْتَمْسَکَ بالْعُرْوَۃِ الْوُثْقٰی لَا انْفِصَامَ لَہَا وَاللّٰہُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ )[ البقرۃ: ٢٥٦] ” دین میں کوئی زبردستی نہیں ہدایت گمراہی سے واضح ہوچکی ہے اس لیے جو شخص باطل معبودوں کا انکار کر کے اور اللہ تعالیٰ پر ایمان لائے اس نے مضبوط کڑے کو تھام لیا جو کبھی ٹوٹنے والا نہیں ہے اور اللہ تعالیٰ خوب سننے، جاننے والا ہے۔“ (إِنَّا ہَدَیْنَاہ السَّبِیْلَ إِمَّا شَاکِرًا وَّإِمَّا کَفُوْرًا)[ الدھر : ٣] ” ہم نے (انسان) کو راستہ دکھلادیا خواہ وہ شکر گزار ہوجائے اور خواہ ناشکرا۔“ البتہ کفر اختیار کرنیوالے کو یہ بات ضرور ذہن میں رکھنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کو کفر کاراستہ پسند نہیں ہے جو لوگ کفر اختیار کریں گے وہ ظالم شمار ہوں گے۔ ظالموں کے لیے اللہ تعالیٰ نے جہنم کی آگ تیار کر رکھی ہے جس کی قناتیں اسے گھیرے ہوئے ہوں گی وہ پیاس کے مارے پانی کے لیے فریاد کریں گے لیکن انہیں گرم ترین تیل کی مانندابلتا ہوا پانی دیا جائے گا۔ جس سے ناصرف ان کے ہونٹ زخمی ہوں گے بلکہ ان کے چہرے جھلس کر بدترین شکل اختیار کرلیں گے۔ ان کا کھانا پینا اور رہنا سہنابدترین صورت میں ہوگا۔ قرآن مجید کے دوسرے مقام میں جہنمیوں کو دیئے جانے والے پانی کا ان الفاظ میں ذکر ہو اہے۔ (مِنْ وَرَاءِہِ جَہَنَّمُ وَیُسْقٰی مِنْ مَاءٍ صَدِیْدٍ یَتَجَرَّعُہُ وَلَا یَکَادُ یُسِیْغُہُ وَیَأْتِیْہِ الْمَوْتُ مِنْ کُلِّ مَکَانٍ وَمَا ہُوَ بِمَیِّتٍ وَمِنْ وَرَاءِہِ عَذَابٌ غَلِیْظٌ )[ ابراہیم : ١٦۔ ١٧] ” جہنم میں جہنمیوں کو خون اور پیپ سے ملا ہوا مشروب دیا جائے گا۔ جہنمی اس کا ایک گھونٹ لینے کی کوشش کرے گا لیکن وہ پی نہ سکے گا۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے حق پہنچ چکا ہے۔ ٢۔ ایمان کے معاملے میں کسی پر زبر دستی نہیں کی جاسکتی۔ ٣۔ ظالموں کے لیے آگ ہے۔ ٤۔ ظالموں کو جہنم کی آگ گھیرے ہوئے ہوگی۔ ٥۔ جہنمیوں کو پانی کی بجائے پگھلے ہوئے تانبے کا سیال دیا جائے گا۔ ٦۔ جہنم بہت ہی بد ترین جگہ ہے۔ تفسیربالقرآن جہنم میں عذاب کی مختلف شکلیں : ١۔ اس دن ہم ان کا مال جہنم کی آگ میں گرم کریں گے اس کے ساتھ ان کی پیشانیوں، کروٹوں اور پیٹھوں کو داغا جائے گا۔ (التوبہ : ٣٥) ٢۔ ان کا ٹھکانہ جہنم ہے جب وہ ہلکی ہونے لگے گی تو ہم اسے مذید بھڑکا دیں گے۔ (بنی اسرائیل : ٩٧) ٣۔ تھور کا درخت گنہگاروں کا کھانا ہوگا۔ (الدخان : ٤٣) ٤۔ اس میں وہ کھولتا ہوا پانی پیئیں گے اور اس طرح پیئیں گے جس طرح پیا سا اونٹ پانی پیتا ہے۔ (الواقعہ : ٥٤ تا ٥٥) ٥۔ ہم نے ظالموں کے لیے آگ تیار کی ہے جو انہیں گھیرے ہوئے ہوگی اور انہیں پانی کی جگہ پگھلا ہو اتانبا دیا جائے گا جو ان کے چہروں کو جلا دے گا۔ (الکھف : ٢٩) ٦۔ جہنمیوں کے جسم بار بار بدلے جائیں گے تاکہ انہیں پوری پوری سزامل سکے۔ (النساء : ٥٦) الكهف
30 فہم القرآن ربط کلام : جہنمیوں کی سزا کے بعد جنتیوں کے انعام کا ذکر۔ فہم القرآن میں یہ بات کئی مرتبہ عرض ہوئی ہے کہ قرآن مجید کا اصول ہے کہ وہ نیک لوگوں کے بعد برے لوگوں کا، جنت کے ساتھ جہنم کا اور سزا کے ساتھ نیک لوگوں کے انعام کا ذکر کرتا ہے۔ اسی اسلوب کے پیش نظر جہنم کے عذاب کیساتھ نیک لوگوں کے بہترین اجر، جنت میں ان کے مقام اور اس کی نعمتوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ جنتیوں کے لیے ہمیشگی کے باغات ہیں۔ جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی۔ جنتیوں کوسونے کے کنگن پہنائے جائیں گے وہ باریک دیبا اور اطلس کے سبز کپڑے پہن کراونچی جگہوں پر تکیہ لگاکر بیٹھا کریں گے۔ کتنا ہی اچھا ان کا صلہ اور آرام گاہیں ہوں گی۔ یاد رہے کہ دنیا میں مرد کے لیے سونا پہننا حرام ہے۔ لیکن جنت میں سونا پہننا اور شراب پینا ان کے لیے جائز ہوگا لیکن شراب میں نشہ نہیں ہوگا۔ (عَنْ أَبِی حَازِمٍ قَالَ کُنْتُ خَلْفَ أَبِی ہُرَیْرَۃ َ وَہُوَ یَتَوَضَّأُ للصَّلاَۃِ فَکَانَ یَمُدُّ یَدَہُ حَتّٰی تَبْلُغَ إِبْطَہُ فَقُلْتُ لَہُ یَا أَبَا ہُرَیْرَۃَ مَا ہَذَا الْوُضُوءُ فَقَالَ یَا بَنِی فَرُّوخَ أَنْتُمْ ہَا ہُنَا لَوْ عَلِمْتُ أَنَّکُمْ ہَا ہُنَا مَا تَوَضَّأْتُ ہَذَا الْوُضُوءَ سَمِعْتُ خَلِیلِی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَقُولُ تَبْلُغُ الْحِلْیَۃُ مِنَ الْمُؤْمِنِ حَیْثُ یَبْلُغُ الْوَضُوءُ) [ رواہ مسلم : کتاب الطہارۃ، باب تَبْلُغُ الْحِلْیَۃُ حَیْثُ یَبْلُغُ الْوَضُوءُ] ” حضرت ابوحازم کہتے ہیں کہ میں حضرت ابو ھریرہ (رض) کے پیچھے تھا اور آپ نماز کے لیے وضو کر رہے تھے۔ انہوں نے اپنے ہاتھوں کو پھیلایا یہاں تک کہ ان کی بغلوں کی سفیدی ظاہر ہوگئی (یعنی بازوؤں کو کہنیوں سے آگے تک دھویا۔ یاد رہے یہ حضرت ابوہریرہ (رض) کا اپنا استدلال ہے۔ حدیث سے ثابت نہیں) میں نے ان سے کہا ابوھریرہ یہ کیسا وضو ہے ؟ ابوہریرہ کہنے لگے اے ابو فروخ ! تم یہاں کھڑے ہو اگر مجھے اس بات کا علم ہو تاتو میں ایسا وضو نہ کرتا۔ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا آپ فرما رہے تھے کہ مومن کو اس کے وضو کے پانی کی جگہ تک زیور پہنایا جائے گا۔“ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ مَنْ یَدْخُلُ الْجَنَّۃَ یَنْعَمُ لاَ یَبْأَسُ لاَ تَبْلَی ثِیَابُہُ وَلاَ یَفْنَی شَبَابُہُ )[ رواہ مسلم : کتاب الجنۃ وصفۃ نعیمہا وأہلہا ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں آپ نے فرمایا جو بندہ جنت میں داخل ہوگا وہ نر م ونازک ہوگا، بدحال نہ ہوگا اور نہ ہی اس کے کپڑے بوسیدہ ہوں گے اور نہ اس کی جوانی ختم ہوگی۔“ مسائل ١۔ ایمان دار اور صالح عمل کرنے والوں کے اعمال ضائع نہیں کیے جائیں گے۔ ٢۔ ایمان والوں کے لیے ہمیشگی کے باغات ہوں گے۔ ٣۔ ایمان والوں کو جنت میں سونے کے کنگن پہنائے جائیں گے۔ ٤۔ ایمان والوں کو جنت میں سبز رنگ کے ریشم کے کپڑے پہنچائیں جائیں گے۔ ٥۔ جنت بڑی اعلیٰ اور بہترین جگہ ہے۔ ٦۔ جنت میں جنتی ایک دوسرے کے سامنے صوفوں پر ٹیک لگائے تشریف فرما ہوں گے۔ تفسیر بالقرآن جنتیوں کا مقام اور ان کے انعامات کی ایک جھلک : ١۔ ہم نے اس میں کھجوروں، انگوروں کے باغ بنائے ہیں اور ان میں چشمے جاری کیے ہیں۔ (یٰس : ٣٤) ٣۔ یقیناً متقین باغات اور چشموں میں ہوں گے۔ (الذاریات : ١٥) ٤۔ یقیناً متقی نعمتوں والی جنت میں ہوں گے۔ (الطور : ١٧) ٥۔ جنت میں سونے اور لولو کے زیور پہنائے جائیں گے۔ (فاطر : ٣٣) ٦۔ جنت میں تمام پھل دو، دو قسم کے ہوں گے۔ (الرحمٰن : ٥٢) ٧۔ جنتی سبز قالینوں اور مسندوں پر تکیہ لگا کر بیٹھے ہوں گے۔ (الرحمٰن : ٧٦) ٨۔ جنتیوں کو شراب طہور دی جائے گی۔ (الدھر : ٢١) الكهف
31 الكهف
32 فہم القرآن ربط کلام : جہنمیوں اور جنتیوں کے ذکر سے پہلے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے حوالے سے مومنوں کو سمجھایا گیا کہ وہ دنیا پرست لوگوں کے پیچھے لگنے سے بچیں۔ اب نیک اور دنیا دار کی مثال پیش فرما کر دونوں کے کردار اور انجام کافرق بیان کیا جاتا ہے۔ اے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! لوگوں کے سامنے دو آدمیوں کا واقعہ بیان کریں۔ جن میں ایک کو ہم نے انگوروں کے دو باغ عنایت فرمائے اور ان کی حفاظت کھجور کے درختوں کے ساتھ کی اور ان کے درمیان فصل پیدا کی باغوں کو سیراب کرنے کے لیے ان کے درمیان نہریں جاری کیں۔ یہ باغ بھر پور طریقے سے پھل دیتے تھے ان کی پیداوار میں کسی قسم کی کمی واقع نہ ہوتی۔ اس مثال میں بیک وقت دوباتیں سمجھائی جا رہی ہیں۔ ایک دنیوی اعتبار سے اور دوسری آخرت کے حوالے سے۔ دنیا کے اعتبار سے باغبانی کی طرف اشارہ ہے کہ زمیندار کس طرح زمین سے بیک وقت زیادہ فصلیں اگا سکتا ہے۔ آخرت کے حوالے سے یہ سمجھایا جارہا ہے کہ آدمی کو اترانے کی بجائے عاجزی اختیار کرنی چاہیے۔ اس کا یہ عقیدہ ہونا چاہیے جس طرح لہلہاتا باغ خاکستر ہو سکتا ہے اسی طرح وقت آئے گا جب دنیاکی چہل پہل بھی ختم ہوجائے گی۔ باغ کے مالک کی طرح دنیا پرست کو بھی پچھتانا پڑے گا۔ چنانچہ جس شخص کے پاس یہ باغ تھے وہ اپنے ساتھی سے اس بات پر اترا رہا تھا کہ میں تجھ سے مال اور افرادی قوت کے اعتبار سے بڑا ہوں۔ ہوا یہ کہ ایک دن وہ متکبرانہ انداز میں اپنے باغ میں داخل ہو کر کہنے لگا۔ میں یہ سوچ بھی نہیں سکتا کہ یہ باغ کبھی اجڑ جائیں گے اور نہ ہی میں یہ خیال کرتا ہوں کہ قیامت بر پا ہوگی۔ بالفرض اگر قیامت قائم ہوئی اور میں اپنے رب کے حضور پیش کیا گیا۔ تو مجھے یقین ہے کہ میں اس سے اچھا مقام اور بہترین انعام پاؤں گا۔ یہاں مال دار متکبر کی مالدارانہ ذہن کی عکاسی کی جارہی ہے کہ جب انسان دولت میں مست ہوجائے۔ تو وہ اس قدر متکبر اور اللہ کے خوف سے غافل ہوجاتا ہے کہ وہ سمجھتا ہے کہ دنیاکی عیش وعشرت اور مال ودولت ہمیشہ رہنے والے ہیں اور آخرت کا فیصلہ بھی دنیا کو پیش نظر رکھ کر کیا جائے گا کہ دنیا میں جو مال دارہے یا منصب دار ہے۔ آخرت میں بھی اسے سب کچھ دیا جائے گا۔ اس سوچ کی وجہ سے وہ صالح کردار کی بجائے دنیا کے مال اور اقتدار کو عزت کا معیا رسمجھتا ہے۔ اس وجہ سے اپنے سے کم ترلوگوں کو حقیر سمجھتا ہے۔ اس قسم کے لوگوں کو یہ غلط فہمی ہوجاتی ہے کہ جو دنیا کا مال و اسباب ہمیں ملاہے۔ یہ ہماری ذاتی محنت کا نتیجہ اور اللہ تعالیٰ کے ہم پر راضی ہونے کی دلیل ہے۔ اس خوش فہمی کی وجہ سے فخروغرور میں آکر کہتے ہیں کہ ہم دنیا میں دوسروں سے بہتر ہیں اگر ہم اپنے رب کے حضور لوٹائے گئے تو آخرت میں بھی نیک لوگوں سے بہتر ہوں گے۔ دنیا کے اقتدار اور اسباب کی مستی میں وہ بھول جاتے ہیں جو مال انہیں دیا گیا ہے یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آزمائش اور اس کی ناراضگی کاسبب ہے۔ وہ اس لیے ایسے لوگوں کو دنیا کے مال واسباب زیادہ دیتا ہے تاکہ انہیں گناہ کرنے میں کوئی حسرت باقی نہ رہے۔ یہی قریش کا حال تھا وہ مال اور افرادی قوت کی بنیاد پر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے ساتھیوں کو حقیرسمجھتے اور ان پر ظلم کرتے تھے۔ بالآخر باغ والے شخص کی طرح برباد ہوئے ہیں۔ قرآن مجیدنے اس بات کو یوں بیان فرماتا ہے کہ کفار یہ خیال نہ کریں کہ ہم انھیں جو مہلت دے رہے ہیں یہ ان کے حق میں اچھی ہے۔ ہرگز نہیں ہم ان کو اس لیے مہلت دیتے ہیں کہ وہ اور زیادہ گناہ کرلیں بالآخران کے لیے ذلیل کردینے والا عذاب ہوگا۔ (آل عمران : ١٧٨) دنیا پر اترانے والے قارون کا انجام : (فَخَسَفْنَا بِہِ وَبِدَارِہِ الْأَرْضَ فَمَا کَانَ لَہُ مِنْ فِءَۃٍ یَنْصُرُوْنَہُ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ وَمَا کَانَ مِنَ الْمُنْتَصِرِیْنَ)[ القصص : ٨١] ” ہم نے اسے اس کے گھر سمیت زمین میں دھنسا دیا۔ اللہ کے سوا کوئی جماعت اس کی مددگار نہ ہوسکی اور نہ وہ بدلہ لے سکا۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ لوگوں کو سمجھانے کے لیے مثالیں بیان کرتا ہے۔ ٢۔ مال ودولت پر فخرو غرور نہیں کرنا چاہیے۔ ٣۔ دنیا کا مال ہمیشہ رہنے والا نہیں ہے۔ تفسیر بالقرآن غرور وتکبر نہیں کرنا چاہیے : ١۔ دنیا دار نے اپنے نیک ساتھی سے کہا کہمیں تم سے مال ودولت کے لحاظ سے بہتر ہوں۔ (الکھف : ٣٤) ٢۔ اللہ فخر وغرور کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا۔ (النساء : ٣٦) ٣۔ اللہ نے جو تمہیں دیا ہے اس پر نہ اتراؤ اللہ فخر کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ (الحدید : ٢٣) ٤۔ زمین میں اکڑ اکڑ کر نہ چل تو زمین کو پھاڑ نہیں سکتا۔ (بنی اسرائیل : ٣٧) ٥۔ زمین میں اکڑاکڑکر نہ چل اللہ اترانے والے کو پسند نہیں کرتا۔ (لقمان : ١٨) ٦۔ آخرت کا گھر ان لوگوں کے لیے تیار کیا گیا ہے جودنیا میں تکبر وفساد نہیں کرتے۔ (القصص : ٨٣) الكهف
33 الكهف
34 الكهف
35 الكهف
36 الكهف
37 فہم القرآن ربط کلام : آخرت کے منکر کو اس کے مخلص ساتھی کی نصیحت۔ آخرت کے منکر کو اس کے مخلص ساتھی نے سمجھایا کہ کیا تو اس ذات حق کا انکار کرتا ہے۔ جس نے تجھے مٹی سے پیدا کیا۔ پھر ایک نطفے سے کامل انسان بنایا۔ یعنی حضرت آدم (علیہ السلام) کو مٹی سے پیدا کیا اور اس کے بعد تمام انسان نطفہ سے پیدا کیے جاتے ہیں۔ جب آخرت کا منکر ہر دلیل سے انکار کرتارہا تو اس کے مواحد ساتھی نے اسے کہا کہ اگر توحق تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں تو تیری مرضی۔ لیکن میرا عقیدہ تو یہ ہے کہ ” اللہ“ ہی میرا رب ہے۔ میں اپنے رب کے ساتھ کسی کو کسی اعتبار سے شریک نہیں سمجھتا۔ یا درہے کہ رب کا معنی ہے ” خالق، مالک، بادشاہ“ اور ہر چیز عطا فرمانے والا ہے۔ یہاں آخرت کے منکر کے لیے کافر کا لفظ استعمال کیا گیا ہے کیونکہ جو شخص آخرت کا انکار کرتا ہے۔ وہ حقیقت میں اللہ تعالیٰ کے حاکم اور عادل ہونے اور اس کی جزا وسزا کا انکار کرتا ہے۔ آخرت کا انکار کرنا دین کے تیسرے بنیادی رکن کا انکار کرنا ہے۔ اس لیے جو شخص آخرت کا منکر ہے۔ وہ اللہ تعالیٰ کا بھی منکر ہے۔ آخرت کا منکر اجر و ثواب سے محروم رہتا ہے : (عَنْ عَاءِشَۃَ قَالَتْ قُلْتُ یَا رَسُول اللّٰہِ ابْنُ جُدْعَانَ کَانَ فِی الْجَاہِلِیَّۃِ یَصِلُ الرَّحِمَ وَیُطْعِمُ الْمِسْکِینَ فَہَلْ ذَاکَ نَافِعُہُ قَالَ لاَ یَنْفَعُہُ إِنَّہُ لَمْ یَقُلْ یَوْمًا رَبِّ اغْفِرْ لِی خَطِیءَتِی یَوْمَ الدِّینِ) [ رواہ مسلم : کتاب الایمان، باب الدَّلِیلِ عَلَی أَنَّ مَنْ مَاتَ عَلَی الْکُفْرِ لاَ یَنْفَعُہُ عَمَلٌ] ” حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں میں نے رسول اللہ سے پوچھا اے اللہ کے رسول! ابن جدعان زمانہ جاہلیت میں صلہ رحمی کرتا اور مسکینوں کو کھانا کھلاتا تھا۔ کیا یہ عمل اس کے لیے سود مند ہوگا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ان اعمال کا فائدہ نہیں ہوگا۔ کیونکہ وہ آخرت پر یقین نہیں رکھتا تھا۔“ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وصیت : (عَنْ أَبِی الدَّرْدَاءِ ہُرَیْرَۃَ قَالَ أَوْصَانِی خَلِیلِی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) أَنْ لاَ تُشْرِکْ باللّٰہِ شَیْءًا وَإِنْ قُطِّعْتَ وَحُرِّقْتَ وَلاَ تَتْرُکْ صَلاَۃً مَکْتُوبَۃً مُتَعَمِّدًا فَمَنْ تَرَکَہَا مُتَعَمِّدًا فَقَدْ بَرِءَتْ مِنْہُ الذِّمَّۃُ وَلاَ تَشْرَبِ الْخَمْرَ فَإِنَّہَا مِفْتَاحُ کُلِّ شَرٍّ )[ رواہ ابن ماجۃ : باب الصَّبْرِ عَلَی الْبَلاَءِ] ” حضرت ابودرداء (رض) بیان کرتے ہیں کہ مجھے میرے خلیل (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے وصیت کی کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرانا اگرچہ تیرے ٹکڑے ٹکڑے کردیے جائیں اور تجھے آگ میں جلا دیا جائے۔ فرض نماز کو جان بوجھ کر نہیں چھوڑنا جس نے اس کو جان بوجھ کر چھوڑ دیا وہ مجھ سے بری الذمہ ہوگیا اور شراب نہیں پینی اس لیے کہ یہ ہر برائی کی چابی ہے۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو پہلے مٹی سے پیدا کیا۔ ٢۔ پھر اللہ تعالیٰ نے انسان کو نطفہ سے پیدا کیا۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ ہی انسان کا پروردگار ہے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرانا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن تخلیق انسانی کے مختلف مراحل : ١۔ کیا تو اس ذات کا کفر کرتا ہے جس نے انسان کو مٹی سے پیدا کیا پھر نطفہ سے تجھے آدمی بنایا۔ (الکھف : ٣٧) ٢۔ انسان کو اللہ نے مٹی سے پیدا کیا۔ (آل عمران : ٥٩) ٣۔ حوا آدم سے پید اہوئیں۔ (النساء : ١) ٤۔ ہم نے انسان کو کھنکھناتی ہوئی مٹی سے پیدا کیا۔ (الحجر : ٢٦) ٥۔ ہم نے انسان کو مٹی کے جوہر سے پیدا کیا۔ پھر ہم نے اسے نطفہ بنایا۔ (المومنون : ١٢۔ ١٣) ٦۔ ہم نے انسان کو مخلوط نطفے سے پیدا کیا۔ (الدھر : ٢) الكهف
38 الكهف
39 فہم القرآن ربط کلام : آخرت کے منکر کو اس کے ایمان دار ساتھی کی مزید نصیحتیں۔ صاحب ایمان ساتھی نے آخرت کے منکر کو پانچ نصیحتیں کیں : ١۔ اللہ تعالیٰ نے آدم کو مٹی سے پیدا کیا اور اس کے بعد ہر انسان کو اس کے باپ کے نطفے سے پیدا کیا۔ اے میرے ساتھی تجھے بھی ” اللہ“ نے ایک نطفے سے پیدا فرماکر کامل انسان بنایا ہے۔ ٢۔ تو مانے یا نہ مانے میر اعقیدہ تو یہ ہے کہ آدمی کو اپنے رب کے ساتھ کسی کو شریک نہیں سمجھنا چاہیے۔ ٣۔ لہلہاتا ہواباغ دیکھ کر غرورو تکبر کرنے کی بجائے تجھے ” ماشاء اللہ، لاقوۃ الا باللہ“ کہنا چاہیے کیونکہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کے پاس کوئی چیز پیدا کرنے اور دینے کی طاقت نہیں ہے۔ وہی کچھ ہوتا ہے جو اللہ چاہتا ہے۔ ٤۔ تو مجھے غریب اور حقیر سمجھتا ہے کسی کو حقیر نہیں سمجھنا چاہیے ہوسکتا ہے میر ارب مجھے تیرے باغ سے بہتر باغ عنایت فرمادے۔ ٥۔ یہ بھی ہوسکتا ہے اللہ تعالیٰ آسمان سے کوئی آفت بھیج دے کر تیرا باغ نیست و نابود کردے یا اس میں جاری چشمے کا پانی اس قدر نیچے لے جائے کہ تو اسے کسی طرح بھی حاصل نہ کرسکے۔ ” فرما دیجیے کہ دیکھو اگر تمہار ا پانی خشک ہوجائے تو کون ہے جو تمہارے لیے شیریں پانی کا چشمہ بہا لائے۔“ (الملک : ٣٠) وَاللّٰہِ مَا رَأَیْتُ کَالْیَوْمُ وَلَاجِلْدَ مَخْبَأَۃٍ قَالَ فَلَبِطَ سَہْلٌ فَأُتِیَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَقِیْلَ لَہٗ یَا رَسُوْلُ اللّٰہِ ہَلْ لَکَ فِیْ سَہْلِ بْنِ حَنَیْفٍ ؟ وَاللّٰہِ مَا یَرْفَعُ رَأْ سَہٗ فَقَالَ ہَلْ تَتَّہِمُوْنَ لَہٗ أَحَدًا ؟ فَقَا لُوْا نَتَّہِمُ عَامِرَ بْنَ رَبِیْعَۃَ قَالَ فَدَعَا رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عَامِرًا فَتَغَلَّظَ عَلَیْہِ وَقَالَ عَلاَمَ یَقْتُلُ أَحَدُکُمْ أَخَاہُ ؟ أَلاَ بَرَکْتَ ؟ اِغْتَسِلْ لَہٗ فَغَسَلَ لَہٗ عَامِرٌ وَجَہْہٗ وَیَدَیْہِ وَمِرْفَقَیْہِ وَرُکْبَتَیْہِ وَأَطْرَافُ رِجْلَیْہِ وَدَاخِلۃٌ إِزَارُہٗ فِیْ قَدَحٍ ثُمَّ صُبَّ عَلَیْہِ فَرَاحَ مَعَ النَّاسِ لَیْسَ لَہٗ بَأْسٌ) [ رواہ فی شرح السنۃ ورواہ مالک ] ” حضرت ابو امامہ بن سہل بن حنیف کہتے ہیں کہ عامر بن ربیعہ نے سہل بن حنیف کو غسل کرتے ہوئے دیکھا۔ اس نے کہا۔ اللہ کی قسم! میں نے آج تک اس جیسا آدمی نہیں دیکھا اور نہ ایسا خوبصورت جسم دیکھا ہے۔ راوی کہتے ہیں اس بات پر سہل زمین پر گر پڑے۔ سہل کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس لایا گیا۔ لانے والوں نے عرض کی اے اللہ کے رسول ! سہل کو دیکھیں اللہ کی قسم ! یہ سر نہیں اٹھا سکتا۔ آپ نے پوچھا کیا تم کسی کو الزام دیتے ہو؟ انہوں نے کہا ہم عامر بن ربیعہ پر الزام لگاتے ہیں۔ راوی کہتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عامر بن ربیعہ کو بلایا اور ڈانٹ کر فرمایا۔ کیوں تم میں سے کوئی اپنے بھائی کو قتل کرتا ہے ؟ تم نے اس کے لیے برکت کی دعا کیوں نہ کی ؟ اس کے لیے غسل کرو۔ عامر نے اپنا چہرہ، ہاتھ، کہنیاں، گھٹنے اور پاؤں دھوئے اور اپنی چادر کو برتن میں ڈالا۔ وہ پانی سہل پہ انڈیلا گیا جس سے وہ بالکل ٹھیک ہوگئے جیسے اسے کوئی تکلیف ہی نہ ہو۔“ مسائل ١۔ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی مرضی اور منشاء سے ہوتا ہے۔ ٢۔ انسان کو اللہ تعالیٰ سے بہتر امید رکھنی چاہیے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ جب چاہے لہلہاتے باغات کو چٹیل مید ان بنا دے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ چاہے تو پانی کو نیچے لے جائے۔ الكهف
40 الكهف
41 الكهف
42 فہم القرآن ربط کلام : باغ کا تباہ ہونا اور آخرت کے منکر کا حسرت وافسوس سے ہاتھ ملنا۔ آخرت کے منکر کا غرور توڑنے اور اسے اپنی قدرت دکھلانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے عین اس وقت باغ کو خاکستر بنا دیاجب باغ پھل سے لدا ہوا تھا۔ اس کا مالک تصور نہیں کرسکتا تھا کہ اب یہ باغ اپنے پھل سمیت تباہ ہوجائے گا۔ باغ کے درخت کثرت پھل کی وجہ سے زمین پر جھکے ہوئے تھے جونہی اس کے پھل پکنے کے قریب آئے تو اللہ تعالیٰ کا ایسا غضب نازل ہوا کہ دیکھنے والا یہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ اس قدر شاندار لہلہاتا ہوا باغ کس طرح تباہ ہوگیا ہے۔ باغ کا مالک جب وہاں پہنچا تو جلے ہوئے پودے دیکھ کر لرزتے ہوئے ہونٹوں اور کانپتے ہوئے وجود کے ساتھ انتہائی غم کی حالت میں اپنے ہاتھوں کو پسیجتے ہوئے زاروقطار روتا ہوا حسرت وافسوس کے ساتھ کہتا ہے۔ ہائے کاش ! میں اپنے رب کے ساتھ کسی کو شریک نہ سمجھتا اس حالت میں کوئی بھی اسکی مدد نہ کرسکا۔ اسے یقین ہوگیا کہ حقیقی اقتدار اور اختیار اللہ ہی کے لیے ہیں جس کی ذات اور فرمان حق ہیں۔ جس طرح اس کی ذات حق ہے اسی طرح ہی قیامت کے بارے میں اس کا فرمان حق ہے وہی بہتر صلہ دینے اور ہر چیز کا اچھا انجام کرنے والاہے۔ جس مشرک کا باغ تباہ کیا گیا اس کے بارے میں یہ وضاحت موجود نہیں کہ وہ کس قسم کا شرک کرتا تھا۔ تاہم سیاق سباق سے معلوم ہوتا ہے۔ اس نے دنیا کے اسباب و وسائل کو سب کچھ سمجھ رکھا تھا۔ جس بناء پر آخرت کا انکار کرتا تھا یہ انداز اور سوچ اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرنے کے مترادف ہے۔ (عَنْ بُسْرِ بْنِ أَرْطَاۃَ الْقُرَشِیِّ یَقُولُ سَمِعْتُ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَدْعُو اللَّہُمَّ أَحْسِنْ عَاقِبَتَنَا فِی الأُمُورِ کُلِّہَا وَأَجِرْنَا مِنْ خِزْیِ الدُّنْیَا وَعَذَاب الآخِرَۃِ )[ رواہ احمد] ” بسر بن ارطاۃ قرشی کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ کو یہ دعا کرتے ہوئے سنا۔ اے اللہ! ہمارے تمام معاملات کا انجام بہتر بنا اور ہم کو دنیا کی رسوائی اور آخرت کے عذاب سے محفوظ فرما۔“ مسائل ١۔ نعمت چھن جانے پر انسان حسرت و افسوس کرتا ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرانا چاہیے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں کوئی کسی کا مددگار نہیں۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ بہتر صلہ اور بدلہ دینے والا ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ ہی اجروثواب دینے والا ہے : ١۔ حقیقی اقتدارصرف اللہ کا ہے۔ وہ بہتر صلہ اور اچھا اجر دینے والا ہے۔ (الکھف : ٤٤) ٢۔ نیکی کو اللہ بڑھا دے گا اور اپنی طرف سے اجر عظیم عطا فرمائے گا۔ (النساء : ٤٠) ٣۔ ہم انہیں اپنی طرف سے اجر عظیم عطا فرمائیں گے۔ (النساء : ٦٧) ٤۔ عنقریب اللہ مومنوں کو اجر عظیم سے نوازے گا۔ (النساء : ١٤٦) ٥۔ اگر تم اسکی اطاعت کرو گے اللہ تمہیں اچھا اجر عطا کرے گا۔ (الفتح : ١٦) ٦۔ جو ایمان لائے اور اچھے اعمال کیے اللہ انہیں پورے پورے اجر سے نوازے گا اور اپنی طرف سے مزید عطا فرمائے گا۔ (آل عمران : ٥٧۔ النساء : ١٧٣) الكهف
43 الكهف
44 الكهف
45 فہم القرآن ربط کلام : باغ کی تباہی کے بیان کے بعد دنیا کی زندگی کے انجام کا ذکر۔ جس طرح لہلہاتا ہو اباغ اجڑ گیا اسی طرح ہی ایک دن آئے گا کہ جب پوری دنیا اجڑ جائے گی۔ جس طرح کسی فصل اور باغ کے لیے پہلے زمین ہموار اور ساز گار بنائی جاتی ہے۔ پھر اس زمین میں بیج یا پودے لگاۓ جاتے ہیں یہی اس دنیاکی زندگی کی مثال ہے۔ اللہ تعالیٰ آسمان سے بارش نازل کرتا ہے جس سے زمین میں ہر قسم کی نباتات اگتی ہیں ان میں گھاس اور ایسی جڑی بوٹیاں ہوتی ہیں جن سے صحر ا، بیابان ہرے بھرے اور شاندار منظر پیش کرتے ہیں ہر طرف ہریالی اور شادابی نظر آتی ہے۔ جونہی ان کا موسم اور مدت پوری ہوجاتیتو گھاس اور جڑی بوٹیاں تنکوں کے سوا کچھ دکھائی نہیں دیتیں۔ ہوا کے جھونکے انہیں ادھر سے ادھر اڑائے پھرتے ہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کا نتیجہ ہے کہ زمین پہلے صحرا اور بیابان تھی۔ اللہ تعالیٰ نے اس پر بارش برسائی پھر اس سے سبزہ اگایا اور اس سبزے کو تھوڑی مدّت کے بعد ریزہ ریزہ کردیا یہی انسان کی زندگی کا حال ہے کہ اسے ایک نطفہ سے پیدا فرمایا۔ اس کے بچپن کو جوانی میں بدلا، شادی ہوئی، اللہ تعالیٰ نے اولاد سے نوازا اور دنیا کا مال عنایت فرمایا، انسان کی اولاد نہ ہو تو وہ گھر اجڑا اجڑا محسوس کرتا ہے۔ اگر مال سے تہی دست ہو تو انسان دنیا کی زیب وزینت اور آرام سے محروم رہتا ہے۔ لہٰذا مال اور اولاد انسان کی زندگی کا سہارا اور زینت ہیں مگر حقیقی زینت اور لذّت تبھی حاصل ہوگی۔ جب انسان اولاد کی نیک تربیت کرے اور مال کو اللہ کے راستے میں خرچ کرے۔ جو شخص مال اور اولاد کی نگرانی اور ان کی صحیح طریقہ سے حفاظت کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نہ صرف اس کے لیے دنیا کو بہتر بناتا ہے بلکہ اس کی آخرت بھی بہتر بنا دی جاتی ہے اور یہی انسان کی صالح باقیات ہیں۔ جس کا اس کے رب کے ہاں اس کو بہترین صلہ اور روشن مستقبل کی امید دلائی گئی ہے۔ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ أَنَّ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ إِذَا مَاتَ الإِنْسَانُ انْقَطَعَ عَنْہُ عَمَلُہُ إِلاَّ مِنْ ثَلاَثَۃٍ إِلاَّ مِنْ صَدَقَۃٍ جَارِیَۃٍ أَوْ عِلْمٍ یُنْتَفَعُ بِہِ أَوْ وَلَدٍ صَالِحٍ یَدْعُو لَہُ) [ رواہ مسلم : باب ما یلحق الانسان من الثواب بعد وفاتہ] ” حضرت ابوہریرہ بیان کرتے ہیں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب انسان مر جاتا ہے تو تین اعمال کے علاوہ اس کے تمام عمل منقطع ہوجاتے ہیں۔1 صدقہ جاریہ 2 ایسا علم جس سے نفع حاصل کیا جائے 3 نیک اولاد جو بعد میں اس کے لیے دعا کرے۔“ مسائل ١۔ دنیا کی مثال آسمان سے نازل ہونے والی بارش کی طرح ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔ ٣۔ مال اور بیٹے دنیا کی زندگی کی زینت ہیں۔ ٤۔ نیکیاں ثواب اور اعمال کے لحاظ سے بہت ہی بہتر ہیں۔ تفسیر بالقرآن دنیا کی حقیقت : ١۔ دنیا کا فائدہ قلیل ہے۔ (النساء : ٧٧) ٢۔ اللہ کی آیات کے مقابلے میں پوری دنیا حقیر ہے۔ (البقرۃ: ١٧٤) ٣۔ آخرت کے مقابلے میں دنیا کی کوئی حیثیت نہیں۔ (التوبۃ: ٣٨) ٤۔ دنیا کی زندگی کھیل کود کے علاوہ کچھ نہیں۔ (العنکبوت : ٦٤) الكهف
46 الكهف
47 الكهف
48 فہم القرآن ربط کلام : لوگوں کی حالت کا بیان جب دنیا ختم کرکے جزا سزا کا دن مقرر کیا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے قیامت کا دن اس لیے مقرر فرمایا ہے کہ اس دن برے لوگوں کو ان کے برے اعمال کی ٹھیک ٹھیک سزا دی جائے اور نیک لوگوں کو بہترین جزا سے سرفراز کیا جائے۔ اس دن کی ابتداء شدید ترین زلزلوں اور خوفناک دھماکوں سے ہوگی۔ زلزلوں اور دھماکوں سے بالآخر پہاڑ ریت کے ذرات بن کر مٹی کے ساتھ مل جائیں گے۔ زمین کے نشیب وفراز کو ہموار اور چٹیل مید ان میں تبدیل کردیا جائے گا۔ جب یہ آیت نازل ہوئی تو کفار نے رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا کہ لامتناہی اور فلک بوس پہاڑوں کا کیا ہوگا ؟ جس کا یہ جواب دیا گیا کہ اے پیغمبر ! انہیں یہ بتلائیں کہ میر ارب ان پہاڑوں کو اڑا کر ریزہ ریزہ کردے گا۔ زمین کو ہموار اور چٹیل میدان بنادے گا۔ جس میں تم کسی قسم کا گڑھا اور ٹیلہ نہیں دیکھو گے۔ اس دن لوگ ایک آواز دینے والے کی آواز کے پیچھے بے چوں چراں بھاگتے آئیں گے۔ لوگ رب رحمٰن کے سامنے اس قدر عاجزی اور آہستہ آواز کے ساتھ بات کریں گے کہ گنگناہٹ کے سوا کچھ نہیں سنا جائے گا۔ (طٰہٰ: ١٠٥ تا ١٠٨) اللہ تعالیٰ لوگوں کو اس طرح اکٹھا کرے گا کہ کوئی ایک شخص بھی اللہ تعالیٰ کے حضور حاضری سے پیچھے نہیں رہے گا۔ لوگ اپنے رب کے حضور سر جھکائے ” رب نفسی رب نفسی“ کی فریاد کرتے ہوئے قطار اندر قطار کھڑے ہوں گے۔ تمام انسان برہنہ جسم کے ساتھ پیش ہوں گے۔ اعلان ہوگا کہ یہ ہے وہ دن جس کے بارے میں منکرخیال کرتے تھے کہ ہم نے انہیں اکٹھا کرنے کا کوئی وعدہ نہیں کیا تھا۔ (عَنْ عَاءِشَۃَ (رض) قَالَتْ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَقُوْلُ یُحْشَرُالنَّا سُ یَوْمَ الْقِیاَمَۃِ حُفَاۃً عُرَاۃً غُرْلًا قُلْتُ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ اَلرِّجَالُ وَالنِّسَاءُ جَمِیْعًا یَنْظُرُ بَعْضُھُمْ اِلٰی بَعْضٍ فَقَالَ یَا عَاءِشَۃُ اَلْاَمْرُ اَشَدُّ مِنْ اَنْ یَّنْظُرَ بَعْضُھُمْ اِلٰی بَعْضٍ) [ رواہ مسلم : باب فَنَاء الدُّنْیَا وَبَیَانِ الْحَشْرِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ] ” حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ میں نے رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے ہوئے سنا لوگ قیامت کے دن ننگے پاؤں‘ ننگے بدن اور بلا ختنہ اٹھائے جائیں گے میں نے کہا اے اللہ کے رسول کیا مرد اور عورتیں اکٹھے ہوں گے اور وہ ایک دوسرے کی جانب نہیں دیکھیں گے؟ آپ نے فرمایا : اس دن کا معاملہ اس کے برعکس ہوگا کہ کوئی دوسرے کی طرف دیکھے۔“ مسائل ١۔ قیامت کے دن پہاڑوں کو ریزہ ریزہ کردیا جائے گا۔ ٢۔ قیامت کے دن زمین چٹیل میدان بنا دی جائے گی۔ ٣۔ قیامت کے دن سبھی کو اللہ کے حضور جمع کیا جائے گا۔ ٤۔ قیامت کے دن لوگ اس طرح آئیں گے جس طرح پہلی با رپیدا کیے گئے تھے۔ تفسیر بالقرآن قیامت کی کیفیت : ١۔ اس دن ہم پہاڑوں کو چلائیں گے اور زمین چٹیل میدان ہوگی اور ہم تمام لوگوں کو جمع کریں گے اور کسی کو نہیں چھوڑیں گے۔ (الکھف : ٤٧) ٢۔ اس دن زمین اور پہاڑ کانپنے لگیں گے اور پہاڑ ریت کے ٹیلوں کی طرح ہوجائیں گے۔ (المزمّل : ١٤) ٣۔ اس دن آنکھیں چندھیا جائیں گی اور چاند گہنا دیا جائے گا اور سورج چاند کو جمع کردیا جائے گا۔ (القیامۃ: ٦ تا ٨) ٤۔ جب سورج لپیٹ لیا جائے گا۔ تارے بے نور ہوجائیں گے۔ پہاڑچلائے جائیں گے۔ (التکویر : ١ تا ٣) ٥۔ جب آسمان پھٹ جائے گا۔ جب تارے جھڑجائیں گے۔ جب دریا مل جائیں گے۔ جب قبریں اکھیڑ دی جائیں گی۔ (الانفطار : ١ تا ٤) ٦۔ اس دن لوگ قبروں سے نکل کر ایسے دوڑیں گے جس طرح شکاری شکار کی طرف دوڑتا ہے۔ (المعارج : ٤٣) الكهف
49 فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہونے کے بعد ہر شخص کو اس کا اعمال نامہ دیا جائے گا۔ تمام جنات اور انسان سر جھکائے قطار اندر قطار کھڑے ہوں گے۔ حضرت جبریل امین (علیہ السلام) اور تمام ملائکہ بھی قطار اندر قطار حاضر ہوں گے۔ کوئی بھی بات کرنے کی ہمت نہیں کرسکے گا۔ (النباء : ٣٨) اس کے بعد رب ذوالجلال جلوہ نما ہوں گے اور آٹھ فرشتے رب ذوالجلال کا عرش اٹھائے ہوں گے۔ (الحاقۃ: ١٧) اللہ تعالیٰ کے جمال سے ہر چیز روشن ہوجائے گی۔ لوگوں کو اعمال نامے دئیے جائیں گے۔ انبیاء کرام (علیہ السلام) اور دوسرے لوگوں کی شہادتیں پیش ہوں گی۔ لوگوں کے درمیان حق وانصاف سے فیصلہ کیا جائے گا اور کسی کے ساتھ رائی کے دانے کے برابر بھی ظلم نہ ہوگا۔ (الزمر : ٦٩) لیکن مجرموں کی حالت یہ ہوگی کہ وہ اپنے اعمال نامے سے خوفزدہ ہوں گے۔ جونہی وہ اعمال نامے پڑھیں گے۔ آہ وزاری اور آہ وبکاکریں گے کہ ہائے افسوس ! اس کتاب نے ہماری کسی چھوٹی، بڑی بات کو نہیں چھوڑا۔ اس میں تو ہر بات کا اندراج کردیا گیا ہے۔ اس طرح وہ اپنے اعمال کو اپنے سامنے پائیں گے۔ آپ کے رب کی طرف سے کوئی زیادتی نہ ہوپائے گی۔ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یُعْرَضُ النَّاسُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ ثَلاَثَ عَرَضَاتٍ فَأَمَّا عَرْضَتَانِ فَجِدَالٌ وَمَعَاذِیرُ وَأَمَّا الْعَرْضَۃُ الثَّالِثَۃُ فَعِنْدَ ذَلِکَ تَطِیر الصُّحُفُ فِی الأَیْدِی فَآخِذٌ بِیَمِینِہِ وَآخِذٌ بِشِمَالِہِ )[ رواہ الترمذی : باب ماجاء فی العرض] ” حضرت ابو ھریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا قیامت کے دن لوگوں کو تین پیشیوں کے لیے پیش کیا جائے گا۔ دو پیشیاں لڑائی جھگڑوں اور عذروں کے بارے میں ہوں گی اور تیسری پیشی اس وقت ہوگی جب صحیفے اڑ کر ہاتھوں میں پہنچ جائیں گے۔ کچھ لوگ اسے دائیں ہاتھ سے پکڑنے والے ہوں گے اور کچھ لوگ اسے بائیں ہاتھ سے پکڑنے والے ہوں گے۔“ مسائل ١۔ قیامت کے دن اعمال نامے کھول کر رکھ دی جائیں گے۔ ٣۔ نامہ اعمال میں ہر چھوٹا بڑا عمل درج ہوگا۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ کسی پر ظلم نہیں کرے گا۔ تفسیر بالقرآن ہر شخص کو اس کے نامہ اعمال کا ملنا اور اس کی حالت : ١۔ اس دن نامہ اعمال رکھ دیا جائے گا ہر کوئی اپنا اعمال نامہ دیکھے گا اور کہے گا یہ کیسا اعمال نامہ ہے ؟ جس میں کوئی چھوٹی بڑی بات نہیں چھوڑی گئی۔ (الکھف : ٤٩) ٢۔ قیامت کے دن ہر کسی کا اعمال نامہ اس کے سامنے کھول کر رکھ دیا جائے گا۔ (بنی اسرائیل : ١٣) ٣۔ ہر گروہ کو اس کے اعمال نامے کی طرف بلایا جائے گا۔ آج کے دن تمہیں تمہارے اعمال کا صلہ دیا جائے گا۔ (الجاثیۃ: ٢٨) ٤۔ جس کو اعمال نامہ اس کے دائیں ہاتھ میں دیا گیا وہ اپنے اعمال نامے کو پڑھے گا اور اس پر ظلم نہ ہوگا۔ (بنی اسرائیل : ٧١) ٥۔ جس کو اعمال نامہ بائیں ہاتھ میں دیا جائے گا وہ کہے گا کاش مجھے اعمال نامہ نہ دیا جاتا۔ (الحاقۃ: ٢٥) ٦۔ جس کو اعمال نامہ دائیں ہاتھ میں دیا گیا اس کا حساب و کتاب آسان ہوگا۔ (الانشقاق : ٧۔ ٨) ٧۔ جس کو نامہ اعمال پیٹھ کے پیچھے سے دیا گیا وہ موت کو پکارے گا اور اسے دوزخ میں داخل کیا جائے گا۔ (الانشقاق : ١٠ تا ١٢) ٨۔ ہر کسی کو اس کے نامہ اعمال کی طرف بلایا جائے گا آج کے دن تمہارے اعمال کا بدلہ چکایا جائے گا۔ (الجاثیۃ: ٢٨) الكهف
50 فہم القرآن ربط کلام : مجرموں کو ان کا حساب و کتاب اور آخرت کا منظر دکھاکر یہ بتلایا گیا ہے کہ انسان کی گمراہی کا بنیادی محرک ابلیس ہے۔ جس سے بچنا چاہیے۔ قرآن مجید کا یہ اسلوب بیان ہے کہ وہ کسی واقعہ کو داستان گوئی کے انداز میں بیان نہیں کرتا۔ وہ ہر واقعہ کو موقع محل کے مطابق اتاب ہی بیان کرتا ہے۔ جتنا بیان کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسی اسلوب کے مطابق حضرت آدم اور ابلیس کا واقعہ مختلف الفاظ اور انداز میں قرآن مجید کے مختلف مقامات پر بیان کیا گیا ہے۔ یاد رہے شیطان کے بارے میں اس سے پہلے یہ الفاظ استعمال نہیں ہوئے کہ شیطان جنس کے اعتبار سے جنات میں سے ہے۔ البتہ آگے چل کر سورۃ صٓ میں ” کَانَ مِنَ الْجِنِّ“ کے الفاظ موجود ہیں۔ یہاں شیطان کی جنس بتا کر یہ اشارہ دیا ہے۔ کیونکہ وہ ملائکہ کی جنس میں سے نہ تھا جس کی وجہ سے اس نے آدم کو سجدہ کرنے سے انکار کیا۔ جنوں اور انسانوں میں اطاعت گزاری اور حکم عدولی دونوں طرح کے جذبات موجود ہیں۔ اس لیے جنوں اور انسانوں کو یہ اختیا ردیا گیا ہے کہ وہ اپنی خوشی سے اللہ تعالیٰ کے حکم کی تابعداری کریں اگر وہ تابعداری کی بجائے نافرمانی کرنا چاہتے ہیں تو انہیں ایسا کرنے کی مہلت دی گئی ہے۔ لیکن ملائکہ کی سرشت میں منفی عنصر ہے ہی نہیں وہ ہر حال میں اللہ تعالیٰ کی تابعداری کرتے ہیں۔ چنانچہ جب اللہ تعالیٰ نے ملائکہ کو حضرت آدم کو سجدہ کرنے کا حکم دیا تو انہوں نے اپنی فطرت کے مطابق حکم کی بجاآوری کی۔ لیکن شیطان نے فطرت کے صحیح جذبے کو استعمال کرنے کی بجائے منفی جذبے کی بدولت حضرت آدم کو سجدہ کرنے سے انکار کردیا۔ یہاں ابن آدم کو غیرت دلانے کے انداز میں سمجھایا گیا ہے کہ کیا تم اسے اور اس کی اولاد کو اللہ تعالیٰ کے سوا اپنا خیر خواہ اور دوست سمجھتے ہو؟ حالانکہ شیطان اور اس کی ذرّیت تمہارے کھلے دشمن ہیں۔ شیطان اور اس کی اولاد کو دوست بنانے والے ظالم ہیں اور ظالموں نے اللہ تعالیٰ کی دوستی کے مقابلے میں کس قدر بری دوستی اختیار کی ہے۔ کیونکہ شیطان جنّات میں سے ہے دنیا میں بے شمار ایسے لوگ موجود ہیں جوجنّات سے مدد طلب کرتے ہیں۔ عربوں کے ہاں بھی رواج تھا کہ وہ پہاڑی سفر کے دوران رہنمائی اور مشکل میں جنات کو پکارا کرتے تھے۔ اس عقیدہ کی نفی کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے کہ جن کو تم مشکل کے وقت پکارتے ہو نہ میں نے ان کو زمین و آسمان کی تخلیق کے وقت بلایا اور شامل کیا اور نہ ہی ان کی اپنی تخلیق میں ان کا یا کسی اور کا عمل دخل ہے۔ لوگوں کو گمراہ کرنیوالوں کو اللہ تعالیٰ اپنا معاون نہیں بنا سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کو کسی کی معاونت کی حاجت نہیں۔ وہ ہر قسم کی کمزوری سے پاک اور مبرا ہے۔ یہاں صرف سمجھانے اور لوگوں کو شیطان سے نفرت دلانے کے لیے یہ اسلوب اختیار کیا گیا ہے۔ یہاں ابلیس کو جنات کی جنس قرار دیا گیا ہے۔ اس پر بحث کرتے ہوئے اہل علم نے لکھا ہے کہ گو اللہ تعالیٰ نے ملائکہ کو سجدہ کرنے کا حکم دیاتھا لیکن ابلیس افضلیت کے اعتبار سے کم ہونے کی وجہ سے اس حکم میں شامل تھا اگر ایسا نہ ہوتا تو شیطان ادھر ادھرکی باتیں کرنے کی بجائے اللہ تعالیٰ کے حضور یہ عذر پیش کرتا کہ آپ نے تو حکم ملائکہ کو دیا ہے مجھے تو حکم دیا ہی نہیں گیا میں سجدہ کیوں کرتا؟ مجھے راندہ درگاہ کیوں کیا جارہا ہے؟ لہٰذاجن لوگوں نے لفظی مو شگافیوں میں آکر ابلیس کی وکالت کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان کا موقف مضحکہ خیز ہونے کے سوا کچھ بھی نہیں۔ یہ گواہ چست اور مدعی سست ہونے کی بات ہے۔ اللہ تعالیٰ ایسی مو شگافیوں سے بچائے۔ آمین یا ارحم الرٰحمین۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو حکم دیا کہ وہ آدم کو سجدہ کریں۔ ٢۔ فرشتوں نے آدم کو سجدہ کیا۔ ٣۔ ابلیس نے سجدہ کرنے سے انکار کیا تھا۔ ٤۔ ابلیس جنوں میں سے تھا۔ الكهف
51 الكهف
52 فہم القرآن ربط کلام : غیر اللہ کو پکارنا شیطان کی شیطنت کا نتیجہ ہے کہ لوگ غیر اللہ کو پکارتے ہیں۔ ایسے لوگوں کا قیامت کے دن انجام۔ غیر اللہ کو پکارنے والوں کو قیامت کے دن رب ذوالجلال آواز دے گا۔ تم جن کو میرا شریک سمجھ کر پکارتے تھے۔ آج وہ تمہاری مدد کرسکتے ہیں تو انہیں بلاؤ۔ مشرکین آواز پہ آواز دیں گے لیکن دنیا میں جن کو مشکل کشا اور حاجت روا سمجھ کر ان کے حضور قیام، رکوع، سجدہ، اعتکاف کرتے، ہاتھ جوڑتے اور نذرانہ پیش کرتے تھے۔ وہ ان کو کچھ جواب نہ دیں گے۔ جب ان کو آواز پہ آواز دے رہے ہوں گے تو اچانک جہنم ان کے سامنے کردی جائے گی۔ اسے دیکھتے ہی مشرکین کو یقین ہوجائے گا کہ وہ جہنم میں پھینکے جانے والے ہیں۔ اس سے بچنے کے لیے ان کے پاس کوئی راستہ نہ ہوگا۔ جہنم کی آگ گمراہ پیروں اور مریدوں کے درمیان اس لیے حائل کردی جائے گی تاکہ ان کے دکھ میں اور اضافہ ہوجائے۔ کیونکہ وہ تو امید لگائے بیٹھے تھے کہ مشکل کشاؤں کو اس لیے ہمارے قریب کیا گیا ہے تاکہ وہ ہماری مدد کرسکیں۔ جب وہ اپنی امیدوں میں خوش، خوش دکھائی دیں گے تو اچانک ان کے درمیان جہنم کی آگ کھڑی کر کے گمراہ پیروں اور مریدوں کو آگ میں جھونک دیا جائے گا۔ البتہ جن بزرگوں نے اپنی زندگی میں لوگوں کو شرک وبدعت سے منع کیا لیکن ان کے مرنے کے بعد لوگوں نے ان کو حاجت روا اور مشکل کشا سمجھ کر ان کے مزارات کو عبادت گاہ بنالیا ایسے بزرگوں کو جہنم سے بچاکر جنت میں داخل کیا جائے گا۔ (عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ (رض) صَارَتِ الأَوْثَانُ الَّتِی کَانَتْ فِی قَوْمِ نُوحٍ فِی الْعَرَبِ بَعْدُ، أَمَّا وُدٌّ کَانَتْ لِکَلْبٍ بِدَوْمَۃِ الْجَنْدَلِ، وَأَمَّا سُوَاعٌ کَانَتْ لِہُذَیْلٍ، وَأَمَّا یَغُوثُ فَکَانَتْ لِمُرَادٍ ثُمَّ لِبَنِی غُطَیْفٍ بالْجُرُفِ عِنْدَ سَبَا، وَأَمَّا یَعُوقُ فَکَانَتْ لِہَمْدَانَ، وَأَمَّا نَسْرٌ فَکَانَتْ لِحَمِیْرِ، لآلِ ذِی الْکَلاَعِ أَسْمَاءُ رِجَالٍ صَالِحِینَ مِنْ قَوْمِ نُوحٍ، فَلَمَّا ہَلَکُوا أَوْحَی الشَّیْطَانُ إِلَی قَوْمِہِمْ أَنِ انْصِبُوا إِلَی مَجَالِسِہِمُ الَّتِی کَانُوا یَجْلِسُونَ أَنْصَابًا، وَسَمُّوہَا بِأَسْمَاءِہِمْ فَفَعَلُوا فَلَمْ تُعْبَدْ حَتّٰی إِذَا ہَلَکَ أُولَءِکَ وَتَنَسَّخَ الْعِلْمُ عُبِدَتْ )[ رواہ البخاری : باب (وَدًّا وَلاَ سُوَاعًا وَلاَ یَغُوثَ وَیَعُوقَ)] ” حضرت عبداللہ بن عباس (رض) بیان کرتے ہیں جن بتوں کی پوجا نوح (علیہ السلام) کی قوم کیا کرتی تھی بعد میں انہیں لوگ عرب میں لے آئے۔ ودّ کو دومۃ الجندل والوں نے اپنا معبود بنا لیا اور سواع کو ھذیل والوں نے، یغوث کو مراد قبیلے والوں نے اور ان کے بعد بنی غطیف نے سبا بستی میں جرف مقام پر اور یعوق کو ہمدان والوں نے اور نسر کو قبیلہ حمیر والوں نے، جوذی الکلاع کی اولاد تھے اپنا معبود بنا لیا۔ یہ تمام نام نوح (علیہ السلام) کی قوم کے برگزیدہ لوگوں کے تھے، جب وہ فوت ہوگئے تو شیطان نے ان کی قوم کو القاء کیا۔ انہوں نے ان کے مجسموں کو اس جگہ پر نصب کیا، جہاں وہ بیٹھا کرتے تھے اور ان کے نام نیک لوگوں کے ناموں کی نسبت سے رکھ دیئے گئے، پہلے لوگ ان کی عبادت نہیں کیا کرتے تھے جبیہ لوگ مر گئے تو ان کے بعدوالوں نے ان مورتیوں کی عبادت شروع کردی۔“ مسائل ١۔ قیامت کے دن مشرکوں سے کہا جائے گا کہ اپنے مشکل کشاؤں کو بلاؤ۔ ٢۔ جہنم سے مجرم بچ نہیں پائیں گے۔ ٣۔ مشرک اپنے معبودوں کو بلائیں گے لیکن ان کی طرف سے کوئی جواب نہیں پائیں گے۔ تفسیر بالقرآن قیامت کے دن مشرکوں کو حکم ہوگا کہ اپنے شریکوں کو بلاؤ: ١۔ اس دن اللہ فرمائے گا بلاؤ! میرے شرکاء کو جن کو تم میرا شریک سمجھتے تھے۔ وہ انہیں بلائیں گے تو وہ جواب نہیں دیں گے۔ (الکھف : ٥٢) ٢۔ پھر ہم مشرکوں سے کہیں گے تمہارے شریک کہاں ہیں جن کو تم شریک تصوّر کرتے تھے۔ (الانعام : ٢٢) ٣۔ اس دن ہم انہیں آواز دیں گے کہ میرے شریک کہاں ہیں ؟ جنہیں تم شریک بناتے تھے۔ (القصص : ٦٢) ٤۔ کیا ان کے شرکاء ہیں تو وہ اپنے شریکوں کو لائیں اگر وہ سچے ہیں۔ (القلم : ٤١) ٥۔ قیامت کے دن ظلم کرنے والوں اور ان کے ہم جنس اور جن کی وہ پوجا کرتے تھے سب کو جمع کیا جائے گا۔ (الصٰفٰت : ٢٢) الكهف
53 الكهف
54 فہم القرآن ربط کلام : لوگوں کو شرک سے بچانے کے لیے اللہ تعالیٰ مختلف انداز سے سمجھاتا ہے۔ لیکن اس کے باجود مشرک لوگ سمجھنے کے لیے تیار نہیں بلکہ جھگڑا کرتے ہیں۔ عقیدہ توحید سمجھانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے کئی قسم کی مثالیں بیان فرمائی ہیں۔ تاکہ لوگ شرک کی سنگینی کو سمجھ کر اس سے تائب ہوجائیں لیکن شرک ایسا گناہ ہے۔ جس سے مشرک ناصرف بازآنے کے لیے تیار نہیں ہوتا بلکہ اپنا با طل عقیدہ ثابت کرنے کے لیے جھگڑا کرنے پر اتر آتا ہے حا لانکہ اللہ تعالیٰ انہیں بار با رسمجھاتا ہے کہ ہدایت قبول کرو اور سابقہ گناہوں کی معافی مانگو تمہارا رب معاف کرنے والا ہے۔ لیکن مشرک شرک سے باز آنے کی بجائے بحث وتکرار میں آگے ہی بڑھتا چلا جاتا ہے تاآنکہ پہلے لوگوں کی طرح اسے عذاب آلیتا ہے۔ جس طرح قوم نوح اور دوسری اقوام تباہی کے گھاٹ اترگئیں شرک کی عام طور پر بنیاد کسی زندہ یا فوت شدہ بزرگ کی عقیدت پر ہوتی ہے عقیدت شریعت کی حدود سے تجاوز کر جائے تو انسان حقائق کے بارے میں اندھا ہوجاتا ہے۔ ایسے شخص کو سمجھایا جائے تو حقیقت جاننا تو درکناروہ اس بات کو توجہ سے سننا بھی بزرگوں کی توہین سمجھتا ہے جس بناء پر وہ ناصرف بحث وتکرار کرتا ہے بلکہ جھگڑا کرنے پر اتر آتا ہے۔ جس کے لیے فرمایا گیا ہے کہ انسان بڑا جھگڑالو ہے یہ روش اسے شرک وبدعت سے تائب نہیں ہونے دیتی۔ یہی وطیرہ ہر دور کے مشرک کا ہوا کرتا ہے۔ ایسے لوگوں کے بارے میں فرمایا ہے کہ یہ پہلے لوگوں کے طریقہ کو اپنائے ہوئے ہیں۔ جس کا واضح مطلب ہے کہ یہ لوگ اپنے پہلے لوگوں کا انجام دیکھنا چاہتے ہیں جو بالآخر دیکھ لیں گے۔ حالانکہ ان کے لیے اللہ تعالیٰ کھول کھول کر مثالیں بیان کرتا ہے یہاں دو مثالیں پیش کی جاتی ہیں۔ (یَا أَیُّہَا النَّاسُ ضُرِبَ مَثَلٌ فَاسْتَمِعُوْا لَہُ إِنَّ الَّذِیْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ لَنْ یَخْلُقُوْا ذُبَابًا وَلَوِ اجْتَمَعُوْا لَہُ وَإِنْ یَسْلُبْہُمُ الذُّبَابُ شَیْءًا لَا یَسْتَنْقِذُوْہُ مِنْہُ ضَعُفَ الطَّالِبُ وَالْمَطْلُوْبُ)[ الحج : ٧٣] ” اے لوگو ! مثال بیان کی جاتی ہے اسے غور سے سنو وہ لوگ جن کو تم اللہ کے سوا پکارتے ہو وہ سب کے سب جمع ہو کر ایک مکھی بھی نہیں بنا سکتے اور اگر مکھی ان کے کھانے میں سے کوئی چیز لے جائے تو وہ واپس نہیں لے سکتے مانگنے والا بھی کمزور اور جس سے مانگا جارہا ہے وہ بھی کمزور۔“ (وَلَوْ شِءْنَا لَرَفَعْنَاہُ بِہَا وَلَکِنَّہُ أَخْلَدَ إِلَی الْأَرْضِ وَاتَّبَعَ ہَوَاہُ فَمَثَلُہُ کَمَثَلِ الْکَلْبِ إِنْ تَحْمِلْ عَلَیْہِ یَلْہَثْ أَوْ تَتْرُکْہُ یَلْہَثْ ذٰلِکَ مَثَلُ الْقَوْمِ الَّذِیْنَ کَذَّبُوْا بِآَیَاتِنَا فَاقْصُصِ الْقَصَصَ لَعَلَّہُمْ یَتَفَکَّرُوْنَ)[ الاعراف : ١٧٦] ” اور اگر ہم چاہتے تو اسے ان کے ذریعے بلند کردیتے مگر وہ زمین کی طرف چمٹ گیا اور اپنی خواہش کے پیچھے لگ گیا۔ اس کی مثال کتے کی طرح ہے کہ اگر آپ اس پر حملہ کریں تو زبان نکالے ہانپتا ہے۔ اسے چھوڑ دیں تو بھی زبان نکالے ہانپتا ہے۔ یہ ان لوگوں کی مثال ہے جنہوں نے ہماری آیات کو جھٹلایا آپ ان کو آیات سنائیں تاکہ وہ غوروفکر کریں۔“ مسائل ١۔ قرآن مجید میں ہدایت کے متعلق ہر قسم کے مضامین اور امثال بیان کی گئی ہیں۔ ٢۔ اپنے رب کے بارے میں انسان بڑا جھگڑ الو ہے۔ تفسیر بالقرآن قرآن مجید کا مختلف انداز اور الفاظ میں سمجھانے کا طریقہ : ١۔ ہم نے اس قرآن میں لوگوں کے لیے طرح طرح کی مثالیں بیان کی ہیں۔ (الکھف : ٥٤) ٢۔ ہم نے اس قرآن میں ہدایت کے متعلقہ تمام باتیں بیان کردیں ہیں۔ (بنی اسرائیل : ٤١) ٣۔ دیکھیں ہم کس طرح آیات بیان کرتے ہیں تاکہ لوگ سمجھیں۔ (الانعام : ٦٥) ٤۔ یقیناً ہم نے قرآن میں تمام باتیں بیان کردیں تاکہ لوگ نصیحت حاصل کریں۔ (بنی اسرائیل : ٨٩) الكهف
55 الكهف
56 فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ نے اقوام کو دنیا کی ہلاکت اور آخرت کے عذاب سے بچانے کے لیے انبیاء ( علیہ السلام) مبعوث فرمائے۔ لیکن لوگوں نے ان کے ساتھ جھگڑا کیا۔ قرآن مجید نے انبیاء کی تشریف آوری کا مقصد بیان کرتے ہوئے کئی بار وضاحت فرمائی ہے کہ انبیاء کرام (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے اس لیے مبعوث فرمایا ہے کہ وہ حق قبول کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ کی خوشنودی اور اس کی نعمتوں کی خوشخبری دیں اور حق ٹھکرانے والوں کو دنیا میں ہلاکت اور آخرت کے عذاب سے ڈرائیں۔ لیکن حق کا انکار کرنے والے ناجائز طریقوں اور باطل دلیلوں کے ساتھ انبیاء کرام کے ساتھ جھگڑتے رہے تاکہ حق کو ناحق ثابت کرسکیں۔ انبیاء جو باتیں ڈرانے کے لیے ان سے کرتے تھے۔ انہوں نے اس کو بھی استہزاء کا کا نشانہ بنایا۔ ظاہر بات ہے کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کی نصیحت کے ساتھ ایسا رویہ اختیار کرے اور قیامت کے حوالے سے اپنے اعمال اور انجام کو بھول جائے اس سے بڑھ کر بڑا ظالم کون ہوسکتا ہے ؟ ایسے لوگ جھوٹے دلائل اور اوچھے ہتھکنڈوں کے ساتھ حق کو اس لیے دباتے اور انبیاء سے استہزاء کرتے ہیں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان سے ناراض ہو کر ان کے کا نوں میں حق کے بارے میں ناگواری کا بوجھ ڈال اور ان کے دلوں کو فہم وفراست کی صلاحیت سے عاری کردیا ہے اب ان کے دلوں پر پردہ ہے ان کے کان حق بات سننے کو بوجھ سمجھتے ہیں۔ اگر تم ان کو ہدایت کی طرف بلاؤ تو وہ کبھی بھی ہدایت قبول نہیں کریں گے۔ ایسے لوگوں کے بارے میں فرمان ہے۔ مسائل ١۔ رسولوں کو خوشخبری دینے اور ڈرانے کے لیے بھیجا گیا۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ کی آیات اور رسولوں سے کفار مذاق کرتے تھے۔ ٣۔ اس شخص سے بڑا ظالم کوئی نہیں جو اللہ کی آیات سے اعراض کرتا ہے۔ ٤۔ کفار کے دل اور کانوں پر پردے ہیں وہ حق کو سنتے اور پہچانتے نہیں۔ ٥۔ اگر کفار کو ہدایت کی طرف بلایا جائے تو وہ اسے قبول نہیں کرتے۔ تفسیر بالقرآن سب سے بڑا ظالم کون؟ ١۔ اس سے بڑا ظالم کون ہے ؟ جسے اللہ کی آیات سمجھائی گئیں لیکن اس نے اعراض کیا۔ (الکھف : ٥٧) ٢۔ اس سے بڑا ظالم کون ہے ؟ جو اللہ کی مسجدوں سے روکتا ہے کہ ان میں اللہ کا ذکر کیا جائے۔ (البقرۃ: ١١٤) ٣۔ اس سے بڑا ظالم کون ہے؟ جو شہادت حق کو چھپاتا ہے۔ (البقرۃ: ١٤٠) ٤۔ اس سے بڑا ظالم کون ہے؟ جو اللہ پر جھوٹ باندھتا ہے۔ (الانعام : ٢١) ٥۔ اس سے بڑا ظالم کون ہے ؟ جو اللہ کی آیات کی تکذیب کرتا ہے۔ (الاعراف : ١٥٨ ) الكهف
57 الكهف
58 فہم القرآن ربط کلام : انبیاء سے مذاق کرنے، حقائق سننے اور انہیں تسلیم نہ کرنے کے باوجود لوگوں کو نہیں پکڑتا تو اس کا ایک بڑا سبب یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ بہت ہی رحیم ہے اس نے مجرموں کی گرفت کے لیے ایک وقت مقرر کر رکھا ہے۔ رب کریم نے اپنے گنہگار بندوں کو نہایت شفقت آمیز الفاظ کے ساتھ تسلی دیتے ہوئے دعوت دی ہے۔ کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میرے بندوں کو فرمائیں جنہوں نے اپنے آپ پر ظلم کیے ہیں کہ وہ اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہوں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ سب گناہوں کو معاف کرنے والا، نہایت مہربان اور بخشنے والاہے۔ (الزمر : ٥٣) اللہ تعالیٰ لوگوں کے گناہوں اور جرائم کی وجہ سے فی الفور گرفت کرے تو کوئی اس کے عذ اب سے نہیں بچ سکتا۔ وہ اپنی رحمت کی وجہ سے گنہگاروں کو بار بار معافی کا موقع اور مہلت دیتا ہے۔ اس نے گنہگاروں کی گرفت کے لیے ایک وقت مقرر کر رکھا ہے۔ اللہ تعالیٰ مقررہ وقت سے پہلے کسی فرد یا قوم کو عذاب میں مبتلا نہیں کرتا۔ البتہ جب عذاب کا وقت آجاتا ہے۔ تو پھر کسی کو پناہ نہیں ملتی جس کی مثالیں پہلے سے موجود ہیں۔ جب اللہ تعالیٰ نے ظالموں کو ان کی مقررہ معیاد پر پکڑا تو انہیں اس ہلاکت سے بچانے والا کوئی نہ تھا۔ (وَإِذَا جَاءَ کَ الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِاٰیَاتِنَا فَقُلْ سَلَامٌ عَلَیْکُمْ کَتَبَ رَبُّکُمْ عَلٰی نَفْسِہِ الرَّحْمَۃَ أَنَّہُ مَنْ عَمِلَ مِنْکُمْ سُوءً ا بِجَہَالَۃٍ ثُمَّ تَابَ مِنْ بَعْدِہِ وَأَصْلَحَ فَأَنَّہُ غَفُوْرٌ رَحِیْمٌ)[ الانعام : ٥٤] ” اور جب وہ لوگ آپ کے پاس آئیں جو ہماری آیات پر ایمان رکھتے ہیں تو کہیں تم پر سلامتی ہو۔ تمہارے رب نے رحم کرنا اپنے آپ پرلازم کرلیا ہے بلاشبہ تم میں سے جو شخص جہالت سے کوئی برائی کربیٹھے، پھر اس کے بعد توبہ کرے اور اصلاح کرلے تو یقیناً وہ بے حد بخشنے والا نہایت رحم والا ہے۔“ (عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ ہُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اِنَّ اللّٰہَ تَعَالٰی کَتَبَ کِتَابًا قَبْلَ اَنْ یَخْلُقَ الْخَلْقَ اِنَّ رَحْمَتِیْ سَبَقَتْ غَضَبِیْ فَھُوَ مَکْتُوْبٌ عِنْدَہٗ فَوْقَ الْعَرْشِ) [ رواہ مسلم : باب فِی سَعَۃِ رَحْمَۃِ اللّٰہِ تَعَالَی وَأَنَّہَا سَبَقَتْ غَضَبَہُ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا اللہ تعالیٰ نے کائنات کی تخلیق سے پہلے لوح محفوظ میں تحریر فرمایا کہ ” میری رحمت میرے غضب پر سبقت لے گئی ہے“ یہ اللہ کے عرش پر تحریر ہے۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ بخشنے اور رحمت فرمانے والا ہے۔ ٢۔ اگر اللہ تعالیٰ گناہوں کی وجہ سے جلد مواخذہ کرتا تو لوگ بہت جلد عذاب میں مبتلا ہوجاتے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ نے عذاب کے لیے ایک وقت معین کر رکھا ہے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ کے عذاب سے کوئی بچانے والا نہیں ہوتا۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ نے بستیوں والوں کو ان کے ظلم کی وجہ سے ہلاک کیا۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ نے ہر فرد اور قوم کے لیے وقت مقرر کر رکھا ہے : ١۔ ہم نے ان بستیوں کو ان کے ظلم کی وجہ سے ہلاک کیا اور ہم نے ہر ایک کی ہلاکت کا وقت مقرر کر رکھا ہے۔ (الکھف : ٥٩) ٢۔ ہر امت کا ایک وقت مقرر ہے۔ جب وہ وقت آتا ہے تو اس میں کمی بیشی نہیں کی جاتی۔ (الاعراف : ٣٤) ٣۔ جب اللہ کا مقرر کیا ہواوقت آجاتا ہے۔ اس میں آگا پیچھا نہیں کیا جاتا۔ (یونس : ٤٩) ٤۔ جب اللہ کا مقرر کیا ہوا وقت آجاتا ہے۔ اسے موخر نہیں کیا جاتا کاش لوگ جان لیں۔ (نوح : ٤) ٥۔ کفار عذاب کی جلدی مچاتے ہیں اگر اللہ کی طرف سے وقت مقرر کیا ہوانہ ہوتاتوان پر عذاب آجاتا۔ (العنکبوت : ٢٩) ٦۔ اگر اللہ لوگوں کیظلم کی وجہ سے گرفت کرے تو زمین میں کوئی جاندار نہ بچے۔ (النحل : ٦١) الكهف
59 الكهف
60 فہم القرآن ربط کلام : نئے خطاب کا آغاز جس میں اللہ تعالیٰ نے اپنے ایک بندے کے ذریعہ سے چند کاموں کے حوالے سے تکوینی امور کی حکمتیں بیان کی ہیں۔ تاکہ لوگ ان کو پیش نگاہ رکھ کر اللہ تعالیٰ کی تقدیر پر صابر، شاکر رہیں بات پر ایمان لائیں۔ اس خطاب میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے ایک سفرکی روداد بیان کی ہے۔ جس میں ان کی ملاقات حضرت خضر (علیہ السلام) سے کروائی گئی تاکہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ کے تکوینی امور کی حکمتوں سے کچھ نہ کچھ آگاہی حاصل ہو۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے سفر کا سبب بیان کرتے ہوئے رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ ایک دن موسیٰ (علیہ السلام) اپنی قوم سے خطاب کر رہے تھے۔ اچانک مجمع سے ایک آدمی اٹھا اس نے سوال کیا۔ جناب موسیٰ ! کیا دنیا میں آپ سے بڑھ کر کوئی عالم ہے؟ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا کہ دنیا میں سب سے بڑاعالم میں ہوں حالانکہ انہیں یہ الفاظ کہنے کی بجائے پیغمبرانہ شان کے مطابق اللہ اعلم کے الفاظ کہنے چاہییں تھے۔ اللہ تعالیٰ کو موسیٰ (علیہ السلام) کی زبان سے نکلے ہوئے الفاظ پسندنہ آئے۔ جس بناء پر انہیں حکم ہوا کہ اے موسیٰ ! میرے بندوں میں ایسا بندہ موجود ہے جس کے پاس وہ علم ہے جو آپ کے پاس نہیں۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اس بندے سے ملنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ اللہ تعالیٰ نے اس بندے کی نشاندھی فرمائی۔ اس سے ملنے کے لیے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے یہ سفر اختیار کیا۔ جس کا تذکرہ یہاں کیا گیا ہے۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے شاگرد سے فرمایا کہ جب تک ہم دو دریاؤں کے سنگم پر نہ پہنچ جائیں اپنا سفر جاری رکھیں گے بے شک ہمیں برسوں تک چلنا پڑے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو حکم ہوا کہ تلی ہوئی مچھلی اپنے پاس رکھو۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اپنے شاگرد یوشع بن نون کے ساتھ سفر کے لیے نکلے راستہ میں انہوں نے دریاؤں کے سنگھم کے پاس قیلولہ کیا۔ جب موسیٰ (علیہ السلام) استراحت فرما رہے تھے تو یوشع بن نون کے سامنے تلی ہوئی مچھلی زندہ ہو کر دریا میں کود گئی جونہی مچھلی نے دریا میں چھلانگ لگائی تو اس نے دریا میں سرنگ کی طرح راستہ بنالیا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے شاگرد یہ واقعہ اور مچھلی بھول گئے۔ جب موسیٰ (علیہ السلام) اٹھے اور بہت آگے نکل گئے تو انہوں نے اپنے شاگرد کو حکم دیا کہ ناشتہ کے لیے مچھلی پیش کی جائے۔ ساتھ یہ بھی فرمایا کہ ہمیں اس سفر نے تھکا دیا ہے تب ان کے شاگرد نے عرض کی۔ کیا آپ نے نہیں دیکھا ؟ کہ جب ہم ایک چٹان کے پاس آرام کررہے تھے تو مچھلی دریا میں کود گئی اور اس نے عجب طریقے کے ساتھ دریا میں راستہ بنایا یہ واقعہ شیطان نے مجھے فراموش کردیا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا یہی تو وہ مقام ہے جس کی تلاش کے لیے ہم نکلے تھے۔[ رواہ البخاری : باب الْخُرُوجِ فِی طَلَبِ الْعِلْمِ ] تفسیر بالقرآن شیطان کی انسان سے دشمنی : ١۔ مجھے اس کا ذکر کرنا شیطان نے بھلا دیا۔ (الکہف : ٦٣) ٢۔ یقیناً شیطان تمہارا کھلا دشمن ہے۔ (الاعراف : ٢٢) ٣۔ یقیناً شیطان انسان کا واضح دشمن ہے۔ (یوسف : ٥) ٤۔ یقیناً شیطان تمہارا دشمن ہے اسے دشمن ہی سمجھو۔ (فاطر : ٦) ٥۔ یقیناً شیطان انسان کے ساتھ واضح دشمنی کرنے والا ہے۔ (بنی اسرائیل : ٥٣) ٦۔ شیطان انسان کو رسوا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ (الفرقان : ٢٩) ٧۔ شیطان لوگوں کے درمیان دشمنی ڈالنا چاہتا ہے۔ (المائدۃ: ٩١) ٨۔ شیطان نے آدم اور حوّا کو پھسلا دیا، وہ انسانوں کا کھلا دشمن ہے۔ (الاعراف : ٣٢) الكهف
61 الكهف
62 الكهف
63 الكهف
64 فہم القرآن ربط کلام : حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا بھول کر دریا کے سنگھم سے آگے گزر جانا اور معلوم ہونے پر واپس پلٹنا۔ یوشع بن نون نے جب عرض کی کہ حضرت جہاں آپ نے آرام کیا تھا وہاں مچھلی دریا میں کود گئی۔ لیکن میں آپ سے عرض کرنا بھول گیا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فوراً فرمایا یہی تو ہماری منزل تھی۔ پھر انہی قدموں پر منزل تلاش کرتے ہوئے واپس پلٹے۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ دونوں نے وہاں ہمارے بندوں میں سے ایک بندے کو پایا۔ جس کو ہم نے اپنی رحمت سے نواز رکھا تھا اور اپنی طرف سے خصوصی علم عطا کیا تھا۔ قرآن مجید نے اس بندے کا نام نہیں بتلایا البتہ حدیث شریف میں اس کا نام خضر آیا ہے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے حضرت خضر (علیہ السلام) سے اپنی حاضری کا مقصد بیان کیا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے حضرت خضر (علیہ السلام) سے فرمایا۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو جو علم عطا فرمایا ہے میں چاہتا ہوں کہ آپ کے ساتھ رہ کر اس سے استفادہ کروں۔ حضرت خضر (علیہ السلام) نے فرمایا آپ میرے کاموں پر صبر نہیں کر پائیں گے کیونکہ جس کام کی حقیقت سے آپ واقف نہیں اس پر کیونکر صبر کرسکتے ہیں۔ مفسرین نے دونوں شخصیات کی ملاقات کی تفصیل بتلاتے ہوئے لکھا ہے کہ جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اپنے شاگرد خاص یوشع بن نون کے ساتھ دریاؤں کے سنگم کے پاس پہنچے تو انہوں نے حضرت خضر (علیہ السلام) کو چادرلیے ہوئے لیٹا ہوا پایا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے السلام علیکم کہا۔ حضرت خضر (علیہ السلام) نے چہرے سے کپڑا ہٹاتے ہوئے فرمایا اس علاقہ میں السلام علیکم کہنے والے آپ پہلے شخص ہیں۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنا نام بتایا۔ حضرت خضر (علیہ السلام) پوچھتے ہیں کیا آپ بنی اسرائیل کے موسیٰ ہیں ؟ حضر 3 ت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا۔ جی ہاں ! میں وہی موسیٰ ہوں۔ جسے اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کے لیے مبعوث فرمایا ہے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی آمد کا مقصد بیان کیا حضرت خضر نے فرمایا کہ آپ اس بات پر کس طرح صبر کر پائیں گے، جس کی حقیقت سے آپ آگاہ نہیں ہیں۔ حضرت خضر (علیہ السلام) کا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو یہ فرماناکہ آپ ان کاموں پر کس طرح صبر کرسکیں گے ؟ جن کی حقیقت سے آپ واقف نہیں۔ ان کے فرمان کا مقصد یہ تھا کہ جو کام آپ کے نزدیک خلاف شرع ہیں وہ میرے لیے جائز ہیں۔ ظاہر ہے کہ ایک نبی ہونے کی حیثیت سے آپ انہیں برداشت نہیں کرسکیں گے۔ کیونکہ پیغمبر کی یہ شان ہوتی ہے کہ وہ اپنے سامنے خلاف شرع کام دیکھ کر خاموش نہیں رہ سکتا۔ پیغمبر کی خاموشی اس کام کے جائز ہونے کی دلیل بن جاتی ہے۔ اس خاموشی کو محدثین نے تقریری حدیث قرار دیا ہے یعنی ایسی بات یا کام جو رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے ہو اور آپ اس پر خاموش رہے ہوں وہ کام امت کے لیے حدیث کا درجہ رکھتا ہے۔ یعنی ایسی بات یا کام جس کو پیغمبر نے برقرار رکھا ہو۔ مسائل ١۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور اس کا ساتھی اپنے قدموں کے نشانات پر واپس پلٹے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے علم سے نوازتا ہے۔ ٣۔ حضرت خضر (علیہ السلام) پر اللہ تعالیٰ نے فضل و کرم فرمایا تھا۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے علم سے نوازتا ہے : ١۔ انہوں نے ہمارے بندوں میں سے ایک بندہ پایا جسے ہم نے رحمت اور علم عطا کیا تھا۔ (الکہف : ٦٥) ٢۔ اللہ نے انسان کو وہ کچھ سکھلایا جو وہ نہیں جانتا تھا۔ (العلق : ٥) ٣۔ اللہ تعالیٰ حضرت آدم (علیہ السلام) کو علم الاسماء سکھلایا۔ (البقرۃ: ٣٧) ٤۔ جب حضرت موسیٰ جوانی کو پہنچے تو اللہ نے انہیں حکمت اور علم عنایت فرمایا۔ (القصص : ١٤) ٥۔ جب حضرت یوسف جوانی کو پہنچے اللہ نے انہیں دانائی اور علم بخشا۔ (یوسف : ٢٢) ٦۔ بلاشبہ اللہ نے داؤد اور سلیمان کو علم عطا کیا۔ (النمل : ١٥) ٧۔ علم کے لیے دعا کرنی چاہیے۔ (طٰہٰ: ١١٤) الكهف
65 الكهف
66 الكهف
67 الكهف
68 الكهف
69 فہم القرآن ربط کلام : خضر (علیہ السلام) کو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا جواب۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے جواب دیا کہ انشاء اللہ آپ مجھے حوصلہ کرنے والا پائیں گے میں آپ کی مخالفت نہیں کروں گا۔ حضرت خضر (علیہ السلام) نے فرمایا کہ اگر آپ میرے ساتھ رہنا چاہتے ہیں تو میرے کسی کام کے بارے میں سوال نہ کرنایہاں تک کہ میں خود اس کی وضاحت کروں۔ یہ بات طے کرنے کے بعد دونوں چل پڑے ا وردریاعبور کرنے کے لیے کشتی پر سوار ہوئے۔ حضرت خضر (علیہ السلام) نے کشتی کا ایک تختہ توڑدیا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) چونک اٹھے اور فرمایا کیا آپ کشتی والوں کو ڈبو نا چاہتے ہیں؟ آپ نے عجب کام کر دکھایا ہے۔ حضرت خضر (علیہ السلام) نے فرمایا میں نے آپ سے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ آپ میرے کاموں پر صبر نہیں کر پائیں گے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا کہ میں بھول گیا اس لیے میری گرفت نہ کیجیے۔ اسکے بعد دونوں نے سفر جاری رکھاراستہ میں ایک بچے کو کھیلتے ہوئے پایا۔ حضرت خضر (علیہ السلام) نے آگے بڑھ کر بچے کا گلہ اس زور سے دبایا کہ بچے کی چیخ نکلی اور اس کے ساتھ ہی اس کی روح پرواز کرگئی۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے احتجاج کرتے ہوئے فرمایا کہ آپ نے ایک بے گناہ بچے کو ناحق قتل کردیا ہے یہ تو آپ نے بہت ہی برا کام کیا ہے ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا۔ خلاف شرع بات پر ٹوکنا چاہیے : (عَنْ اَبِیْ سَعِیْدِنِ الْخُدْرِیِّ ہُرَیْرَۃَ عَنْ رَّسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ: مَنْ رَّاٰی مِنْکُمْ مُنْکَرًا فَلْیُغَیِّرْہُ بِیَدِہٖ فَاِنْ لَّمْ یَسْتَطِعْ فَبِلِسَانِہٖ‘ فَاِنْ لَّمْ یَسْتَطِعْ فَبِقَلْبِہٖ‘ وَذٰلِکَ اَضْعَفُ الْاِیْمَانِ) [ رواہ مسلم : باب بَیَانِ کَوْنِ النَّہْیِ عَنِ الْمُنْکَرِ مِنَ الإِیمَانِِ ] ” حضرت ابوسعید خدری (رض) نبی محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا‘ تم میں سے جو کوئی برائی دیکھے اسے چاہیے کہ وہ اس کو اپنے ہاتھ سے روکے۔ اگر اس کی طاقت نہ ہو تو زبان سے‘ اگر اس کی بھی طاقت نہ ہو تو پھر کم از کم دل سے نفرت کرے۔ یہ سب سے کمزور ایمان ہے۔“ صبر اور شکر کا اجر و ثواب : (عَنْ صُھَیْبٍ ہُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عَجَبًا لِاَمْرِ الْمُؤْمِنِ اِنَّ اَمْرَہٗ کُلَّہٗ لَہٗ خَیْرٌ وَلَیْسَ ذَالِکَ لِاَحَدٍ اِلَّا لِلْمُؤْمِنِ اِنْ اَصَابَتْہُ سَرَّاءُ شَکَرَفَکَانَ خَیْرًا لَہٗ وَاِنْ اَصَابَتْہُ ضَرَّاءُ صَبَرَ فَکَا نَ خَیْرًا لَّہُ)[ رواہ مسلم : باب الْمُؤْمِنُ أَمْرُہُ کُلُّہُ خَیْرٌ] ” حضرت صہیب (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا‘ ایمان دار شخص کی حالت پر تعجب ہے کہ وہ اپنے معاملات میں‘ ہر حال میں بہتر ہے اور یہ اعزاز صرف ایمان دار کو حاصل ہوتا ہے۔ اگر اسے خوشی حاصل ہو تو شکر کرتا ہے اس کا شکر اس کے لیے بہتر ہوتا ہے۔ اگر اسے تکلیف پہنچے تو صبر کرتا ہے‘ یہ بھی اس کے لیے بہتر ہوتا ہے۔“ مسائل ١۔ صبر بھی اللہ تعالیٰ کی توفیق سے حاصل ہوتا ہے۔ تفسیر بالقرآن صبر کا حکم اور اس کا اجر : ١۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا اگر اللہ نے چاہا تو آپ مجھے صبر کرنے والا پائیں گے۔ (الکہف : ٦٩) ٢۔ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! کفار کی باتوں پر صبر کیجیے اور صبح و شام اللہ کی تسبیح بیان کیجیے۔ (طٰہٰ: ١٣٠) ٣۔ صبر کیجیے اللہ کا وعدہ برحق ہے۔ (الروم : ٦٠) ٤۔ اپنے رب کے حکم کے مطابق صبر کیجیے۔ (الدھر : ٢٤) ٥۔ تکلیف پر صبر کیجیے یقیناً یہ بڑے کاموں میں سے ہے۔ (لقمان : ١٧) ٦۔ صبر کرو یہاں تک کہ اللہ ہمارے اور تمہارے درمیان فیصلہ فرما دے اور وہ بہتر فیصلہ کرنے والا ہے۔ (الاعراف : ٨٧) الكهف
70 الكهف
71 الكهف
72 الكهف
73 الكهف
74 الكهف
75 فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق حضرت موسیٰ (علیہ السلام) جناب خضر (علیہ السلام) کے ہم سفر ہوئے۔ حضرت خضر نے انہیں پہلے سے ہی یہ بات کہہ دی کہ آپ اس شرط پر میرے ہمسفر ہو سکتے ہیں کہ دوران سفر جو کچھ میں کروں آپ کو اس پر اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔ ہوا یہ کہ بحری سفر کے دوران خضر (علیہ السلام) نے بیڑے کا ایک تختہ توڑ دیا۔ موسیٰ (علیہ السلام) چونک اٹھے اور کہا کہ کیا آپ سب کو غرق کرنا چاہتے ہیں۔ جس پر خضر (علیہ السلام) نے موسیٰ (علیہ السلام) کو اعتراض نہ کرنے کا وعدہ یاد کروایا۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا کہ آئندہ ایسا نہیں ہوگا۔ کشتی سے اتر کر جب ان کا گزر ایک بستی کے قریب سے ہوا تو خضر (علیہ السلام) نے ایک نونہال کا اس زور سے گلہ دبوچا جس سے چند لمحوں میں بچے کی جان نکل گئی۔ اللہ کے پیغمبر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اس المیہ پر تڑپ اٹھے اور خضر (علیہ السلام) کو یہ کہہ کر ٹوکا کہ آپ نے ناقابل برداشت ظلم کیا ہے۔ آپ نے ایک معصوم بچے کو قتل کر ڈالا ہے اس پر پھر خضر نے موسیٰ ( علیہ السلام) کو وعدہ یاد دلایا کہ آپ نے سفر کے آغاز میں عہد کیا تھا کہ میں آپ کے کسی کام پر اعتراض نہیں کروں گا لیکن آپ نے دوسری دفعہ مجھ سے سوال کر ڈالا ہے اس پر موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا کہ ایک دفعہ پھر جانے دیجئے۔ آئندہ آپ کے کسی کام پر اعتراض کروں تو ہماری رفاقت ختم ہوجائے گی کیونکہ آپ کی طرف سے حجّت پوری ہوجائے گی۔ اس اقرار کے بعد جب دونوں بزرگ ایک بستی سے گزرے تو انہوں نے بستی والوں سے کھانا طلب کیا لیکن بستی والوں نے انہیں کھانا کھلانے سے انکار کردیا۔ اس کے باوجود حضرت خضر (علیہ السلام) نے ایک مکان کی گرتی ہوئی دیوار کو مرمّت کیا۔ جس پر موسیٰ (علیہ السلام) نے انہیں توجہ دلائی کہ ہمیں ان سے مزدوری کے عوض کوئی چیز کھانے کے لیے طلب کرنا چاہیے تھی۔ جونہی موسیٰ (علیہ السلام) نے یہ بات کہی تو خضر (علیہ السلام) بول اٹھے کہ اب ہم اکٹھے سفر نہیں کرسکتے۔ لہٰذا میرے اور آپ کے درمیان علیحدگی ہے، تاہم جو میں نے سفر کے دوران کام کیے ہیں ان کی حقیقت آپ کو بتلائے دیتا ہوں۔ مہمان نوازی کا اجر : (عَنِ الْمِقْدَامِ بْنِ مَعْدِیکَرِبَ ہُرَیْرَۃَ عَنْ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ۔۔ وَأَیُّمَا رَجُلٍ ضَافَ قَوْمًا فَلَمْ یَقْرُوہُ فَإِنَّ لَہُ أَنْ یُعْقِبَہُمْ بِمِثْلِ قِرَاہُ )[ رواہ ابوداود : باب النَّہْیِ عَنْ أَکْلِ السِّبَاعِ] ” حضرت مقدام بن معدی کرب سے روایت ہے وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں آپ نے فرمایا۔۔ جو مہمان کسی قوم سے اپنی مہمانی نوازی کا مطالبہ کرے اور وہ اس سے انکاری ہو تو مہمان ان سے اپنی مہمان نوازی کے مطابق لے سکتا ہے۔“ (لِلسَّاءِلِ حَقٌّ وَإِنْ جَاءَ عَلٰی فَرَسٍ) [ رواہ أبو داوٗد : کتاب الزکوٰۃ، باب حق السائل ] ” اگر سائل گھوڑے پر سوار ہو کر کسی کے ہاں آکر سوال کرے تو اس کے ساتھ تعاون کرنا چاہیے۔“ (عَنْ اَبِیْ شُرَیْحِ الْکَعْبِیِّ ہُرَیْرَۃَ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ مَنْ کَانَ یُؤْمِنُ باللّٰہِ وَالْیَوْمِ الاْٰخِرِ فَلْیُکْرِمْ ضَیْفَہٗ جَآءِزَتُہٗ یَوْمٌ وَّلَیْلَۃٌ وَّالضِّیَافَۃُ ثَلٰثَۃُ اَیّاَمٍ فَمَا بَعْدَ ذٰلِکَ فَھُوَ صَدَقَۃٌ وَّلَا یَحِلُّ لَہٗ اَنْ یَثْوِیَ عِنْدَہٗ حتَیّٰ یُحَرِّجَہٗ) [ رواہ البخاری : باب إِکْرَام الضَّیْفِ وَخِدْمَتِہٖٓ إِیَّاہُ بِنَفْسِہٖ ] ” حضرت ابو شریح کعبی (رض) بیان کرتے ہیں رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے وہ اپنے مہمان کی عزت کرے۔ ایک دن ایک رات خوب اہتمام کرے۔ مہمان نوازی تین دن تک ہے اس کے بعد صدقہ ہے۔ مہمان کے لیے جائز نہیں کہ میزبان کے ہاں بلاوجہ مقیم رہے کہ اسے تنگی میں مبتلا کرے۔“ الكهف
76 الكهف
77 الكهف
78 فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ ہاں جو کام میں نے سفر کے دوران کیے ہیں۔ ان کے بارے میں عرض کیے دیتا ہوں تاکہ آپ کو ان کی حکمت کا علم ہو سکے جن کے بارے میں آپ صبر نہ کرسکے۔ کشتی کا تختہ میں نے اس لیے توڑا تھا کہ ظالم بادشاہ، ملاحوں کی کشتیاں جبرًا پکڑ رہا تھا۔ میں نے کشتی کو عیب دار کیا۔ تاکہ بادشاہ کے کارندے کشتی کو غیر معیاری سمجھ کر چھوڑ دیں اس طرح ان غریبوں کی مزدوری چلتی رہے۔ ثابت ہوتا ہے کہ ظالموں، حکمرانوں کا پرانا وطیرہ ہے کہ وہ ذاتی مفاد یا کسی اجتماعی مہم کے لیے بلامعاوضہ اور بلاتمیز لوگوں کے مال پر تصرف کرتے ہیں۔ جو ہرگز جائز نہیں البتہ ہنگامی حالات اور ملکی مفاد میں کچھ وقت کے لیے پبلک پراپرٹی سے فائدہ اٹھانا ناگزیر ہو تو رعایا کو اعتماد میں لے کر ایسا کرنا جائز ہے۔ اس کے باوجود غریبوں اور مجبور لوگوں کا خیال رکھنا لازم ہے۔ ورنہ شرعاً اور اخلاقاً حکومت کو حق نہیں پہنچتا کہ وہ لوگوں کی ذاتی جائیداد پر قبضہ کرے اس کے لیے سیدنا عمر فاروق (رض) اور حضرت عمر بن عبدالعزیز (رح) کی مثال حکمران طبقہ کے سامنے ہونی چاہیے۔ جس سے اشتراکی اور اسلامی نظام میں فرق کا پتہ چلتا ہے۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عہد میں جو مسجد نبوی کی عمارت تیار کی گئی تھی وہ اس عہد کے لیے کافی تھی۔ لیکن مدینہ منورہ کی آبادی روزبروز بڑھتی جا رہی تھی۔ اس وجہ سے نمازیوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔17 ھ میں حضرت عمر (رض) نے مسجد کو وسیع کرنا چاہا جس کے لیے گردوپیش کے مکانات قیمت دے کر خرید لیے، لیکن حضرت عباس (رض) نے اپنا مکان بیچنے سے انکار کیا۔ حضرت عمر (رض) نے کافی معاوضہ دینے کی پیشکش کی لیکن حضرت عباس (رض) کسی طرح راضی نہ ہوئے تھے۔ آخر مقدمہ ابی بن کعب (رض) کے پاس آیا۔ انہوں نے فیصلہ کیا کہ حضرت عمر (رض) کو جبراً مکان خریدنے کا کوئی حق نہیں۔ حضرت عباس (رض) نے فرمایا کہ اب میں بلا قیمت عامۃ المسلمین کے لیے دیتا ہوں۔ اس طرح ازواج مطہرات کے مکانات کو چھوڑ کر باقی جس قدر عمارتیں تھیں انہیں گرا کر مسجد کو وسعت دی گئی۔ پہلے طول 10 گز تھا انہوں نے 140 گز کردیا۔ اسی طرح عرض میں بھی 20 گز کا اضافہ ہوا لیکن عمارت میں کچھ تکلف نہیں کیا گیا، آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عہد میں جس طرح ستون وغیرہ لکڑی کے تھے، اب بھی لکڑی کے رہے، حضرت عمر (رض) نے مسجد کی تجدید کے ساتھ ایک کونے میں ایک چبوترہ بنوایا اور لوگوں سے کہا کہ جس نے بات چیت کرناہو اس کے لیے یہ جگہ ہے۔ (الفاروق : مصنف شبلی نعمانی (رض) مسائل ١۔ بہتر ہے کہ ناواقف ہمسفر کو راستے کی مشکلات سے آگاہ کردیا جائے۔ ٢۔ غیر شرعی کام دیکھ کر بڑے سے بڑے بزرگ کو روکنے کی کوشش کرنا چاہیے۔ ٣۔ کسی کام میں شراکت قائم رکھنا مشکل ہو تو ساتھی کو آگاہ کردینا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن صبر کے معانی : ١۔ خضر نے کہا اب میرا اور تمھارا ساتھ ختم ہوا میں آپ کو ان باتوں کی حقیقت بتاتا ہوں جن پر آپ صبر نہیں کرسکے۔ (الکہف : ٧٨) ٢۔ آپ اپنے آپ کو ان لوگوں کے ساتھ مطمئن رکھیے جو صبح و شام اپنے پروردگار کو یاد کرتے ہیں۔ (الکہف : ٢٨) ٣۔ سردار مکہ اپنے ساتھیوں سے کہنے لگے کہ اپنے معبودوں کی پرستش پر قائم رہو۔ (ص : ٦) ٤۔ جہنمی کس طرح جہنم کی آگ کو برداشت کریں گے۔ (البقرۃ: ١٧٥) ٥۔ تم کفار کی باتوں کو ہمت کے ساتھ برداشت کرو۔ (المعارج : ٥) ٦۔ یقیناً اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ (البقرۃ: ١٥٣) الكهف
79 الكهف
80 فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ، بچے کو قتل کرنے کی حکمت۔ حضرت خضر (علیہ السلام) بچے کو قتل کرنے کی حکمت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔ رہا بچے کو قتل کرنے کا معاملہ۔ تو میں نے اس بچے کو اس لیے قتل کیا کہ اس کے ماں باپ مومن اور نہایت ہی اچھے لوگ ہیں۔ ہم نے خطرہ جانا کہ یہ بچہ بڑا ہو کر نہ صرف کفر و شرک کرے گا بلکہ اپنی سرکشی اور نافرمانی کی وجہ سے اپنے ماں باپ کو بھی کفر اور نافرمانی پر مجبور کرے گا اس لیے میں نے اسے قتل کردیا کیونکہ ہم نے چاہا ان کا رب اس کے بدلے میں اس سے نیک، رحمدل اور شریف النفس بیٹا عطا فرمائے۔ حضرت خضر کو اللہ تعالیٰ نے اپنے بعض امور کی حکمت کا علم دے کر کچھ ایسے کام کرنے کا حکم دے رکھا تھا جو ظاہری طور پر شریعت کے ضابطوں کے خلاف تھے۔ اسی وجہ سے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) بچے کے قتل پر چپ نہ رہ سکے کیونکہ تمام شریعتوں میں بچہ ہو یا بڑا کسی کو ناحق قتل نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن حضرت خضر (علیہ السلام) نے اس بچے کو عین اللہ تعالیٰ کی حکمت اور اجازت کے مطابق قتل کیا تھا۔ اس لیے انھوں نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا : ہم نے چاہا اس کے ماں باپ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے نیک اور نرم خو بیٹا عنایت کیا جائے۔ کسی کو اولاد عنایت کرنا خالصتاً اللہ تعالیٰ کا کام ہے۔ اللہ تعالیٰ کے کام میں اس کا کوئی شریک اور سہیم نہیں ہوتا۔ اس لیے حضرت خضر (علیہ السلام) نے بیٹے کی تخلیق کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کی ہے۔ جہاں تک اسے جان سے مار دینے کا تعلق ہے اس کے بارے میں ” ہم نے چاہا“ کا لفظ استعمال کیا ہے۔ کیونکہ کسی کو قتل کرنا سنگین جرم ہے۔ اس لیے حضرت خضر یہ کام اللہ تعالیٰ کے حکم کے بغیر نہیں کرسکتے تھے۔ اس لیے انھوں نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو یقین دلانے اور اس کام کی پوری طرح حکمت منکشف کرنے کے لیے ” ہم“ کی ضمیر استعمال فرمائی جس میں اشارہ ہے کہ میں نے یہ کام اپنی مرضی سے نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی منشاء اور اس کے حکم سے کیے ہیں۔ میں شامل کیا ہے۔ اس کام میں یہ حکمت بھی بتلا دی کہ نیک اولاد کے اوصاف میں یہ وصف بھی ہونا چاہیے کہ وہ کردار کے لحاظ سے پاکیزہ اور روّیے کے اعتبار سے اپنے ماں باپ کے ساتھ انتہائی شفقت کرنے والی ہو۔ والدین کو حکم : (وَ لَا تَقْتُلُوْٓا اَوْلَادَکُمْ خَشْیَۃَ اِمْلَاقٍ نَحْنُ نَرْزُقُھُمْ وَ اِیَّاکُمْ اِنَّ قَتْلَھُمْ کَانَ خِطْاً کَبِیْرًا) [ بنی اسرائیل : ٣١] ” اور اپنی اولاد کو مفلسی کے ڈر سے قتل نہ کرو، ہم ہی انھیں اور تمھیں رزق دیتے ہیں۔ بے شک ان کو قتل کرنا بہت بڑا گناہ ہے۔“ ( اولاد نافرمان ہونے کی صورت میں بھی ماں باپ کو اسے قتل کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ ) (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ (رض) قَالَ سَأَلْتُ أَوْ سُءِلَ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) أَیُّ الذَّنْبِ عِنْدَ اللّٰہِ أَکْبَرُ قَالَ أَنْ تَجْعَلَ لِلّٰہِ نِدًّا وَہْوَ خَلَقَکَ قُلْتُ ثُمَّ أَیٌّ قَالَ ثُمَّ أَنْ تَقْتُلَ وَلَدَکَ خَشْیَۃَ أَنْ یَطْعَمَ مَعَکَ قُلْتُ ثُمَّ أَیٌّ قَالَ أَنْ تُزَانِیَ بِحَلِیلَۃِ جَارِکَ) [ رواہ البخاری : کتاب التفسیر، باب قولہ الذین لایدعون مع اللہ ....] ” حضرت عبداللہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا گیا کہ کونسا گناہ اللہ کے نزدیک سب سے بڑا ہے ؟ آپ نے فرمایا کہ تو اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرائے حالانکہ اس نے تجھے پیدا کیا ہے۔ میں نے پھر سوال کیا اس کے بعد ؟ آپ نے فرمایا کہ اپنی اولاد کو اس ڈر سے قتل کرے کہ وہ تیرے ساتھ کھائے گی۔ میں نے پھر عرض کی اس کے بعد کونسا گناہ بڑا ہے ؟ آپ نے فرمایا کہ تو اپنے پڑوسی کی بیوی کے ساتھ زنا کرے۔“ مسائل ١۔ بری اولاد بسا اوقات ماں باپ کو بھی برے کاموں پر مجبور کرتی ہے۔ ٢۔ اولاد کو اپنے ماں باپ کے ساتھ شفقت اور مہربانی کا رویہ اختیار کرنا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن ماں باپ کے لیے اولاد آزمائش ہے : ١۔ یقیناً تمھارے مال اور اولاد آزمائش ہیں اللہ کے ہاں بہت بڑا اجر ہے۔ (الانفال : ٢٨) ٢۔ اے ایمان والو! تمھارے مال اور اولاد تمھیں ہلاکت میں مبتلا نہ کردیں۔ (المنافقون : ٩) ٣۔ یقیناً تمھاری بیویوں اور اولاد میں سے تمھارے دشمن ہیں ان سے بچ کر رہو۔ (التغابن : ١٤) ٤۔ مال اور اولاد دنیا کی زندگی کی خوبصورتی ہیں نیک اعمال باقی رہنے والے ہیں اور ان کا ثواب اللہ کے بہترین ہے۔ (الکہف : ٤٦) الكهف
81 الكهف
82 فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ حضرت خضر (علیہ السلام) اپنے تیسرے کام کے بارے میں وضاحت کرتے ہیں۔ حضرت خضر دیوار تعمیر کرنے کی وضاحت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اس شہر میں یہ یتیموں کا مکان تھا جس کی دیوار گرنے ہی والی تھی۔ اس دیوار کے نیچے ایک خزانہ ہے جو ان بچوں کے نیک ماں باپ نے ان کے لیے چھپا رکھا تھا۔ قریب تھا یہ دیوار گر جائے اور خزانہ لوگوں کے ہاتھ لگ جائے۔ اس لیے ہم نے یہ دیوار درست کردی ہے۔ اے موسیٰ (علیہ السلام) ! بے شک آپ کو بھوک کی حالت میں یہ مشقت اٹھانی پڑی ہے مگر تیرے رب نے یہی چاہا کہ یہ دیوار درست کردی جائے تاکہ یتیم جوان ہو کر اس خزانے کو نکال لیں۔ یہ خزانہ تیرے رب کی رحمت اور ہمارا یتیموں کی خدمت کرنا اس کی مہربانی کا نتیجہ ہے یاد رکھیں کہ یہ کام بھی میں نے اپنی مرضی سے نہیں کیا۔ یہ ہے ان کاموں کی حقیقت جس پر آپ صبر نہ کرسکے حضرت خضر کا وضاحت کردینا کہ یہ کام میں نے اپنی مرضی سے نہیں کیے اس بات کا ثبوت ہیں کہ انہوں نے یہ کام اپنی شریعت کے مطابق یعنی وحی کی روشنی میں کیے تھے۔ جس پر قیل وقال کرنے کا حق ختم ہوجاتا ہے۔ حضرت خضر (علیہ السلام) کے بارے میں جہالت اور مشرکانہ عقائد : دائرہ المعارف الاسلامیہ مطبوعہ پنجاب یونیورسٹی لاہور میں زیر عنوان طریقت جلد ١٢ صفحہ ٤٦٠ پر درج ہے کہ ” راسخ مقدس ہستی (سیدناخضر) کے مظاہر سے فیضان حاصل ہوتا ہے جو پراسرار اور غیر فانی ہے یعنی الخضر جن کی ہادی طریقت کی حیثیت سے سب فرقے توقیروتعظیم کرتے ہیں کیونکہ وہ سیدنا موسیٰ کے رہنما اور صوفی کی روح کو حقیقت علیا سے آشنا کرانے کے اہل ہیں۔ خواجہ خضر کے عنوان کے تحت لکھا ہے کہ ” ہندوستان میں سیدناخضر (علیہ السلام) کو کنوؤں اور چشموں کی روح کا روپ سمجھا جاتا ہے دریائے سندھ کے آرپار انہیں دریا کا اوتار سمجھا جاتا ہے سیدناخضر کی خانقاہ سندھ کے ایک جزیرے میں بھکر کے پاس ہے جہاں ہر مذہب کے عقیدت مند زیارت کو جاتے ہیں (ایضاً دائر ۃ المعاف : جلد، ٥ ص، ٢٢) اس طرح سیدنا خضر کے نام سے شرک کا ایک دروازہ کھل گیا اور اب تو سیدنا خضر کی نماز بھی پڑھی جانے لگی ہے جس کی برکت سے سیدنا خضر سے ملاقات بھی ہوجاتی ہے (تفصیل کے لیے دیکھیے تلقین مرشد کامل از صادق فرغانی ص ٢٤٠) اور بعض لوگ خواجہ خراج خضر کی نیازدریا میں پھینکتے ہیں تاکہ کشتی یا جہاز بخیر وعافیت کنارے پرلگ جائے گویا ایسے مشرکوں کے لیے خواجہ خضر ایک مستقل اوتار یا معبود بن گیا ہے۔ بعض مفسرین نے حضرت خضر کو انسان ماننے کی بجائے مافوق الفطرت ہستی قرار دیا ہے لیکن ان کا مؤقف غلط ہے۔ کیونکہ ملائکہ یا کوئی بھی مافوق الفطرت ہستی سے یہ ثابت نہیں کہ اس نے انسانی شکل اختیار کرنے کے باوجود کسی سے کھانے پینے کا مطالبہ کیا ہو۔ یہاں تو قرآن مجید دو ٹوک الفاظ میں بیان کر رہا ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور جناب خضر نے اہل قریہ سے کھانے کا مطالبہ کیا مگر انہوں نے انہیں کھانے کے لیے کچھ نہ دیا اس کے باوجود دونوں نے یتیموں کی چار دیواری کو مرمّت کیا۔ جہاں تک ملائکہ کا انسانی شکل میں کسی کے پاس آنے کا تعلق ہے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا واقعہ ہمارے سامنے ہے جب ملائکہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس انہیں بیٹے اور پوتے کی خوشخبری دینے کے لیے آئے تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے انسان سمجھ کر ان کے سامنے بھنا ہوا بچھڑا پیش کیا لیکن ملائکہ نے کھانے کی طرف ہاتھ نہ بڑھایا کیونکہ مافوق الفطرت مخلوق ہونے کی بنا پر وہ کھانے سے بے نیازتھے۔ اگر کوئی صاحب علم یہ بات کہتا ہے کہ کہ حضرت خضر نے آزمائشی طور پر کھانا طلب کیا تھا کیا موسیٰ (علیہ السلام) نے بھی کھانے کا مطالبہ فرضی طور پر کیا تھا؟ یتیم کی خدمت کا ثواب : (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ خَیْرُ بَیْتٍ فِی الْمُسْلِمِیْنَ بَیْتٌ فِیْہِ یَتِیْمٌ یُحْسَنُ إِلَیْہِ وَشَرُّ بَیْتٍ فِی الْمُسْلِمِیْنَ بَیْتٌ فِیْہِ یَتِیْمٌ یُسَاءُ إِلَیْہِ) [ رواہ ابن ماجۃ: کتاب الأدب، باب حق الیتیم] ” حضرت ابوہریرہ (رض) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں آپ نے فرمایا : مسلمانوں میں بہترین گھرانہ وہ ہے جس میں یتیموں کے ساتھ اچھا سلوک کیا جاتاہو۔ مسلمانوں میں بدترین گھر وہ ہے جس میں یتیم کے ساتھ بدسلوکی کی جاتی ہو۔“ کیا خضر (علیہ السلام) زندہ ہیں؟ (عَبْدَ اللَّہِ بْنَ عُمَرَ (رض) قَالَ صَلَّی بِنَا النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) الْعِشَاءَ فِی آخِرِ حَیَاتِہِ، فَلَمَّا سَلَّمَ قَامَ فَقَالَ أَرَأَیْتَکُمْ لَیْلَتَکُمْ ہَذِہِ، فَإِنَّ رَأْسَ ماءَۃِ سَنَۃٍ مِنْہَا لاَ یَبْقَی مِمَّنْ ہُوَ عَلَی ظَہْرِ الأَرْضِ أَحَدٌ ) [ رواہ البخاری : باب السَّمَرِ بالْعِلْمِ] ” عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں ہمیں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی زندگی کے آخری ایام میں عشاء کی نماز پڑھائی آپ نے سلام پھیرا تو کھڑے ہوئے اور فرمایا۔ کیا میں تمہیں اس رات کے بارے نہ بتلاؤں یقیناً آج سے سو سال بعد جو اس وقت زندہ ہیں ان میں سے کوئی بھی باقی نہیں رہے گا۔“ (اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ خضر (علیہ السلام) زندہ نہیں بلکہ فوت ہوچکے ہیں۔) مسائل ١۔ یتامٰی کی خدمت کرنے کا حکم ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ کی مہربانی کے بغیر آدمی کسی کی خدمت نہیں کرسکتا۔ ٣۔ رزق حلال کی فراوانی اللہ تعالیٰ کی رحمت ہوا کرتی ہے۔ تفسیر بالقرآن لفظ تأویل کے مختلف معانی : ١۔ اسی طرح تمھارا پروردگار تمھیں منتخب کرے گا اور خوابوں کی تعبیر سکھلائے گا۔ (یوسف : ٦) ٢۔ اگر تمھارا کسی معاملہ میں اختلاف ہوجائے تو اسے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی طرف لوٹا دو اگر تم اللہ اور آخرت پر ایمان لانے والے ہو، یہ بہتر ہے اور انجام کے لحاظ سے خوب تر ہے۔ (النساء : ٥٩) ٣۔ وہ لوگ جن کے دلوں میں کجی ہے وہ فتنہ اور غلط مطلب کی تلاش میں متشابہ آیات کے پیچھے پڑتے ہیں۔ (آل عمران : ٧) ٤۔ وہ لوگ اس کے مصداق کا انتظار کر رہے ہیں۔ (الاعراف : ٥٣) الكهف
83 فہم القرآن ربط کلام : الکہف کے تعارف میں عرض کیا ہے کہ یہ سورۃ اہل مکہ کے سوالات کے جواب میں نازل ہوئی تھی۔ اہل مکہ نے رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جھوٹا ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رکھا تھا۔ ان کی دن رات کوشش تھی کہ کسی ایک بات میں سہی اس نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو لوگوں کی نظروں میں جھوٹا یا کم از کم لاجواب کردیا جائے۔ اس کے لیے انھوں نے مدینہ میں یہودیوں کے پاس وفد بھیجا۔ یہودیوں نے اس سورۃ میں ذکردوسرے سوالات کے ساتھ ایک سوال یہ بھی بتلایا کہ واپس جا کر محمد سے یہ بھی پوچھنا کہ ” ذوالقرنین“ کون تھا اور اس نے مشرق سے لے کر مغرب تک جو فتوحات حاصل کیں ان کی تفصیلات کیا ہیں۔ اہل مکہ نے واپس آکر آپ سے ذوالقرنین کے بارے میں بھی استفسار کیا۔ جس کا جواب دینے سے پہلے یہ ارشاد ہوا ہے کہ یہ لوگ آپ سے ذوالقرنین کے بارے میں پوچھتے ہیں لہٰذا ہم آپ کو ذوالقرنین کے بارے میں کچھ باتیں بتلاتے ہیں۔ یاد رہے کہ قرآن مجید تاریخ، جغرافیہ اور دنیوی علوم و فنون کی کتاب نہیں ہے۔ تاریخ، جغرافیہ اور دنیوی علوم و فنون کے بارے میں قرآن مجید اتنا ہی اشارہ اور بات کرتا ہے جس کا تعلق کسی نہ کسی حوالے سے انسان کی ہدایت اور فائدے کے ساتھ ہوتا ہے اس سے آگے قرآن کچھ بھی ذکر نہیں کرتا۔ اس لیے ذوالقرنین کے بارے میں جواب دینے سے پہلے ” مِنْہُ ذِکْرًا“ کے لفظ استعمال کرکے واضح کردیا گیا ہے۔ کہ ہم اس کے واقعات میں سے کچھ واقعات کا ذکر آپ کے سامنے کریں گے۔ لفظ ذکر کا ایک معنٰی نصیحت بھی ہے۔ اس لیے یہ حقیقت بھی بتلا دی گئی کہ ذوالقرنین کے بارے میں سوال کرنے والوں کے لیے اس کے کردار اور واقعات میں ایک عبرت اور نصیحت ہے بشرطیکہ یہ اسے پانے کی کوشش کریں۔ ذوالقرنین وہ شخص تھا جسے اللہ تعالیٰ نے زمین پر بہت سے اختیارات دیے تھے اسے وسیع و عریض مملکت اور ہر قسم کے وسائل سے مالا مال کیا تھا۔ ذوالقرنین کون تھا ؟ یہ مسئلہ قدیم زمانے سے اب تک مختلف فیہ رہا ہے کہ یہ ” ذوالقرنین“ جس کا یہاں ذکر ہو رہا ہے کون تھا۔ قدیم زمانے میں بالعموم مفسرین کا میلان سکندر کی طرف تھا، لیکن قرآن میں اس کی جو صفات وخصوصیات بیان کی گئی ہیں وہ مشکل ہی سے سکندر پر چسپاں ہوتی ہیں۔ جدید زمانے میں تاریخی معلومات کی بنا پر مفسرین کا میلان زیادہ تر ایران کے فرماں روا خورس (خسردیا سائرس) کی طرف ہے اور یہ نسبتاً زیادہ قرین قیاس ہے مگر بہرحال ابھی تک یقین کے ساتھ کسی شخصیت کو اس کا مصداق نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ قرآن مجید جس طرح اس کا ذکر کرتا ہے اس سے ہم کو چار باتیں وضاحت کے ساتھ معلوم ہوتی ہیں : ١۔ اس کا لقب ذوالقرنین ( لغوی معنی ( دو سینگوں والا) کم از کم یہودیوں میں جن کے اشارے سے کفار مکہ نے اس کے بارے میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا تھا، ضرور معروف ہونا چاہیے۔ اس لیے لا محالہ ہمیں یہ معلوم کرنے کے لیے اسرائیلی لٹریچر کی طرف رجوع کرنا پڑے گا کہ وہ ” دو سینگوں والے“ کی حیثیت سے کس شخصیت یا سلطنت کو جانتے تھے۔ ٢۔ وہ ضرور کوئی بڑا فرمانروا اور فاتح ہونا چاہیے جس کی فتوحات مشرق سے مغرب تک پہنچی ہوں اور تیسری جانب شمال یا جنوب میں بھی وسیع ہوئی ہوں، ایسی شخصیتیں نزول قرآن سے پہلے چند ہی گزری ہیں اور لامحالہ انہی میں سے کسی ایک میں اس کی دوسری خصوصیات ہمیں تلاش کرنی ہوں گی۔ ٣۔ اس کا مصداق ضرور کوئی ایسا فرمانروا ہونا چاہیے جس نے اپنی مملکت کو یاجوج وماجوج کے حملوں سے بچانے کے لیے کسی پہاڑی درے پر ایک مستحکم دیوار بنائی ہو۔ اس علامت کی تحقیق کے لیے ہمیں یہ بھی معلوم کرنا ہوگا کہ یاجوج وماجوج سے مراد کونسی قومیں ہیں اور پھر یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ ان کے علاقے سے متصل کونسی ایسی دیوار کبھی دنیا میں بنائی گئی ہے اور وہ کس نے بنائی ہے۔ ٤۔ اس میں مذکورۂ بالا خصوصیات کے ساتھ ایک یہ خصوصیت بھی پائی جانی چاہیے کہ وہ خدا پرست اور عادل فرمانروا ہو، کیونکہ قرآن یہاں سب سے بڑھ کر اس کی اسی خصوصیت کو نمایاں کرتا ہے۔ ان میں سے پہلی علامت آسانی کے ساتھ خورس پر چسپاں کی جا سکتی ہے کیونکہ بائیبل کے صحیفہ دانی ایل میں دانیال نبی کا جو خواب بیان کیا گیا ہے اس میں وہ یونانیوں کے عروج سے قبل میڈیا اور فارس کی متحدہ سلطنت کو ایک مینڈھے کی شکل میں دیکھتے ہیں جس کے دو سینگ تھے، یہودیوں میں اس ” دو سینگوں والے“ کا بڑا چرچا تھا کیونکہ اسی کی ٹکر نے آخر کار بابل کی سلطنت کو پاش پاش کیا اور بنی اسرائیل کو اسیری سے نجات دلائی۔ دوسری علامت بڑی حد تک اس پر چسپاں ہوتی ہے مگر پوری طرح نہیں اس کی فتوحات بلاشبہ مغرب میں ایشیائے کوچک اور شام کے سواحل تک اور مشرق میں باختر ( بلخ) تک وسیع ہوئی مگر شمال یا جنوب میں اس کی کسی بڑی مہم کا سراغ ابھی تک تاریخ سے نہیں ملا ہے۔ حالانکہ قرآن صراحت کے ساتھ ایک تیسری مہم کا بھی ذکر کرتا ہے تاہم اس مہم کا پیش آنا بعید از قیاس نہیں ہے کیونکہ تاریخ کی رو سے خورس کی سلطنت شمال میں کا کیشیا ( قفقاز) تک وسیع تھی۔ تیسری علامت کے بارے میں یہ تو قریب قریب متحقق ہے کہ یا جوج ماجوج سے مراد روس اور شمالی چین کے وہ قبائل ہیں جو تا تاری منگولی، ھن اور سیتھین وغیرہ ناموں سے مشہور ہیں اور قدیم زمانے سے متمدن ممالک پر حملے کرتے رہے ہیں، نیز یہ بھی معلوم ہے کہ ان کے حملوں سے بچنے کے لیے قفقاز کے جنوبی علاقے میں دربند اور داریال کے استحکامات تعمیر کیے گئے تھے لیکن یہ ابھی تک ثابت نہیں ہوسکا ہے کہ خورس ہی نے یہ استحکامات تعمیر کیے تھے۔ آخری علامت قدیم زمانے کے معروف فاتحوں میں اگر کسی پر چسپاں کی جا سکتی ہے تو وہ خورس ہی ہے کیونکہ اس کے دشمنوں تک نے اس کے عدل کی تعریف کی ہے اور بائیبل کی کتاب عزرا اس بات پر شاہد ہے کہ وہ ضرور ایک خدا پرست اور خدا ترس بادشاہ تھا جس نے بنی اسرائیل کو ان کی خدا پرستی ہی کی بنا پر بابل کی اسیری سے رہا کیا اور اللہ وحدہ لاشریک کی عبادت کے لیے بیت المقدس میں دوبارہ ہیکل سلیمانی کی تعمیر کا حکم دیا۔ اس بنا پر ہم یہ تو ضرور تسلیم کرتے ہیں کہ نزول قرآن سے پہلے جتنے مشہور فاتحین عالم گزرے ہیں ان میں سے خورس ہی کے اندر ” ذوالقرنین“ کی علامات زیادہ پائی جاتی ہیں لیکن تعین کے ساتھ اسے ذوالقرنین قرار دے دینے کے لیے ابھی مزید شہادتوں کی ضرورت ہے تاہم دوسرا کوئی فاتح قرآن کی بتائی ہوئی علامات کا اتنا بھی مصداق نہیں ہے جتنا خورس ہے۔ تاریخی بیان کے لیے صرف اتنا ذکر کافی ہے کہ خورس ایک ایرانی فرمانروا تھا جس کا عروج ٥٤٩ ق م کے قریب زمانے میں شروع ہوا۔ اس نے چند سال کے عرصے میں میڈیا (الجبال) اور لیڈیا ( ایشیائے کوچک کی) سلطنتوں کو مسخر کرنے کے بعد ٥٣٩ ق م میں بابل کو بھی فتح کرلیا جس کے بعد کوئی طاقت اس کے راستہ میں مزاحم نہیں رہی۔ اس کی فتوحات کا سلسلہ سندھ اور صُغْد ( موجودہ ترکستان) سے لے کر ایک طرف مصر اور لیبیا تک اور دوسری طرف تھریس اور مقدونیہ تک وسیع ہوگیا اور شمال میں اس کی سلطنت قفقاز (کاکیشیا) اور خوارزم تک پھیل گئی۔ عملاً اس وقت کی پوری مہذب دنیا اس کی تابع فرمان تھی۔ (بحوالہ : تفہیم القرآن) مسائل ١۔ ذوالقرنین ایک عظیم حکمران تھا۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے اسے وسیع مملکت اور ہر قسم کے وسائل عنایت فرمائے تھے۔ ٣۔ ذوالقرنین کے کردار اور واقعات میں معاشرے کے بڑے لوگوں بالخصوص حکمرانوں کے لیے بڑی رہنمائی ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ ہی اقتدار اور وسائل دینے والا ہے : ١۔ ہم نے اسے (ذوالقرنین) زمین میں اقتدار بخشا اور ہر طرح کا ساز و سامان بھی دیا۔ (الکہف : ٨٤) ٢۔ کہہ دیجیے اللہ ہی بادشاہوں کا بادشاہ ہے جسے چاہتا ہے اقتدار سے نوازتا ہے جس سے چاہتا چھین لیتا ہے (آل عمران : ٢٦) ٣۔ ہم نے آل ابراہیم کو کتاب و حکمت اور ملک عظیم عطا کیا۔ (النساء : ٥٤) ٤۔ زمین و آسمان کی بادشاہت اللہ کے لیے ہے اس کی اولاد نہیں اور اس کی بادشاہت میں کوئی اس کا شریک نہیں۔ (الفرقان : ٢) ٥۔ آسمان و زمین کی بادشاہت اللہ کے لیے ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ (آل عمران : ١٨٩) الكهف
84 الكهف
85 فہم القرآن ربط کلام : ذوالقرنین کی پہلی مہم اور اس کی فتوحات۔ قرآن مجید نے ذوالقرنین کی مملکت اور اس کے اسباب و وسائل کا ذکر کرتے ہوئے یہ لفظ استعمال فرمائے ہیں۔” فَأَتْبَعَ سَبَبًا“ اس کے دو ترجمے کیے گئے ہیں۔ ایک جماعت نے اس کا معنیٰ کیا ہے کہ وہ اسباب کے پیچھے چلا جس کا مفہوم یہ نکلتا ہے کہ اس نے اپنی مملکت میں وسائل کے حصول کے لیے ٹھیک ٹھیک اقدامات کیے اور وسائل کی خوب منصوبہ بندی کی۔ ترقی یافتہ مملکت اور کامیاب حکمران کی یہی خوبی ہوتی ہے کہ وہ وسائل کے حصول کے ساتھ اس کی پلاننگ میں کوئی کسر باقی نہ رہنے دیتا۔ ” فَأَتْبَعَ سَبَبًا“ کا دوسرا معنٰی یہ لیا گیا ہے کہ اس نے ایک راہ اختیار کی۔ جس کا مطلب یہ ہوگا کہ اس نے فتح حاصل کرنے کے لیے ایک علاقے کو سامنے رکھا اور اس کے بارے میں بڑی حکمت عملی کے ساتھ فوجی مہم کا نقشہ تیار کیا۔ یہی بات فتح کی کلید ہوا کرتی ہے۔ اس پیش بندی کے ساتھ جدید اسلحہ، تربیت یافتہ اور منظم فوج، بہترین منصوبہ بندی اور مصمم ارادہ کے ساتھ لشکر جرار کی کمان کرتا ہے۔ ان وسائل کے ساتھ ذوالقرنین علاقے پر علاقہ اور بڑی بڑی حکومتوں کو فتح کرتے ہوئے آگے ہی بڑھتا گیا۔ یہاں تک اپنی مملکت کے مغرب میں اس مقام پر جاپہنچا جس سے آگے سمندر ہی سمندر تھا۔ اس نے ساحل سمندر پر کھڑے ہو کر فتح یاب آنکھوں کے ساتھ سورج کا نظارہ کیا۔ جو مغرب کے وقت یوں دکھائی دیا جیسے وہ سمندر کی دلدل میں غوطہ زن اور دھنس رہا ہے۔ اس علاقہ کے لوگ ذوالقرنین کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض گذار ہوتے ہیں کہ اے بادشاہ سلامت آپ غالب ہیں اور ہم مغلوب ہیں۔ لہٰذا ہم کلی طور پر سرنگوں اور آپ کے سامنے تابع فرماں ہیں۔ ہم اپنے آپ کو آپ کے حوالے کرتے ہیں آپ چاہیں ہمارے ساتھ حسن سلوک کریں اگر چاہیں تو ہمیں گرفتار کریں اور سزا دیں۔ اگلی گفتگو کو اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف منسوب کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ ہم نے ذوالقرنین کو یہ ارشاد فرمایا کہ تو ان لوگوں کو سزا دے یا ان کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آئے اس نے کہا جس نے کسی کے ساتھ ظلم کیا تو بہت جلد اسے ” اللہ“ دنیا میں سزا دے گا، پھر وہ اپنے رب کی طرف لوٹایا جائے گا وہ اسے سخت ترین عذاب دے گا۔ لیکن جو شخص ایمان لایا اور اس نے صالح اعمال کیے اس کے لیے بہترین بدلہ ہے اور عنقریب اس کے لیے ان کے کام کو آسان کردیں گے۔ اس گفتگو کے بارے میں اہل علم کا استدلال ہے کہ ذوالقرنین حکمران ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے وقت کا پیغمبر بھی تھا۔ لیکن جید اہل علم کا خیال ہے کہ فقط ان الفاظ سے ذوالقرنین کا پیغمبر ہونا ثابت نہیں ہوتا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے جن شخصیات اور شہد کی مکھی کے بارے میں بھی یہ الفاظ استعمال فرمائے ہیں کہ ہم نے ان کی طرف وحی کی، ظاہر ہے کہ ساری شخصیات اور شہد کی مکھی پیغمبر نہیں ہو سکتی۔ اس لیے اہل علم اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ ! للہ تعالیٰ نے ذوالقرنین کے دل میں یہ الفاظ القاء فرمائے جس کے نتیجہ میں اس نے خود کلامی کی یا اس کے عقیدہ کی ترجمانی کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے اسے اپنی طرف منسوب فرمایا ہے تاکہ لوگ بالخصوص حکمرانوں کو اس کے عقیدہ اور کردار کی اہمیّت جتلائی جائے۔ ہر دو صورتوں میں بات کا خلاصہ یہ ہے کہ نیک حکمران کی خوبیوں میں ایک خوبی یہ بھی ہونی چاہیے کہ وہ جو اقدام اٹھائے اس کے پیچھے یہ عقیدہ کار فرما ہو کہ اگر وہ کسی پر ظلم کرے گا تو اسے آخرت میں اس کی سزا بھگتنا پڑے گی۔ اگر وہ مفتوح قوم اور اپنی رعایا کے ساتھ حسن سلوک کرے گا تو اللہ تعالیٰ دنیا میں اسے نیک نامی اور آخرت میں اجر عظیم سے سرفراز فرمائے گا۔ یہی وہ نصیحت ہے جو ذوالقرنین کے بارے میں معلومات دینے سے پہلے اہل مکہ کو کی گئی ہے کہ اے سوال کرنے والو! اس واقعہ میں تمھارے لیے بڑی ہی نصیحت کا سامان ہے۔ غور کرو کہ ذوالقرنین اتنا بڑا بادشاہ اور فاتح ہونے کے باوجود مفتوح اور کمزور لوگوں کے ساتھ کس قدر رحم دل اور مہربان تھا لیکن تمھاری حالت یہ ہے کہ تم اس کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں لیکن اس کے باوجود اپنے عزیز اقرباء پر ظلم کا بازار گرم کیے ہوئے ہو۔ یاد رکھو عنقریب تمھیں اس ظلم کا انجام دیکھنا پڑے گا۔ اور یہ بھی عقیدہ رکھو کہ جو نیک اعمال کرے گا اللہ تعالیٰ اس کے لیے دنیا میں بھی آسانی پیدا کرے گا۔ مشفق اور ظالم بادشاہ کا فرق : (عَنْ أَبِی سَعِیدٍ (رض) قَالَ قَالَ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) إِنَّ أَحَبَّ النَّاسِ إِلَی اللَّہِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ وَأَدْنَاہُمْ مِنْہُ مَجْلِسًا إِمَامٌ عَادِلٌ وَأَبْغَضَ النَّاسِ إِلَی اللَّہِ وَأَبْعَدَہُمْ مِنْہُ مَجْلِسًا إِمَامٌ جَاءِرٌ) [ رواہ الترمذی : باب مَا جَاءَ فِی الإِمَامِ الْعَادِلِ] ” حضرت ابی سعید (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا قیامت کے دن اللہ کے ہاں لوگوں میں سے محبوب اور قریب ترین شخص عادل بادشاہ ہوگا۔ لوگوں میں سے مبغوض اور اللہ سے دور شخص ظلم کرنے والا بادشاہ ہوگا“ سورج ڈوبتا نہیں : (عَنْ أَبِی ذَرٍّ ہُرَیْرَۃَقَالَ قَال النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لأَبِی ذَرٍّ حینَ غَرَبَتِ الشَّمْسُ تَدْرِی أَیْنَ تَذْہَبُ قُلْتُ اللَّہُ وَرَسُولُہُ أَعْلَمُ قَالَ فَإِنَّہَا تَذْہَبُ حَتَّی تَسْجُدَ تَحْتَ الْعَرْشِ، فَتَسْتَأْذِنَ فَیُؤْذَنَ لَہَا، وَیُوشِکُ أَنْ تَسْجُدَ فَلاَ یُقْبَلُ مِنْہَا، وَتَسْتَأْذِنَ فَلاَ یُؤْذَنُ لَہَا، یُقَالُ لَہَا ارْجِعِی مِنْ حَیْثُ جِءْتِ فَتَطْلُعُ مِنْ مَغْرِبِہَا، فَذَلِکَ قَوْلُہُ تَعَالٰی (وَالشَّمْسُ تَجْرِی لِمُسْتَقَرٍّ لَہَا ذَلِکَ تَقْدِیرُ الْعَزِیزِ الْعَلِیمِ) [ رواہ البخاری : باب صِفَۃِ الشَّمْسِ وَالْقَمَرِ] ” حضرت ابوذر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کیا تجھے معلوم ہے جب سورج غروب ہوتا ہے تو کہاں جاتا ہے؟ میں نے کہا‘ اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو علم ہے۔ آپ نے فرمایا سورج عرش کے نیچے جاکر سجدہ کرتا ہے اور اجازت طلب کرتا ہے اسے اجازت مل جاتی ہے۔ قریب ہے کہ وہ سجدہ کرے گا اور اس کا سجدہ قبول نہ ہو۔ وہ طلوع ہونے کی اجازت طلب کرے گا اور اس کو اجازت نہ ملے اسے حکم ہو جدھر سے آیا اسی طرف سے طلوع ہوجا۔ چنانچہ سورج مغرب کی طرف سے طلوع ہوگا یہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے سورج اپنے مستقر کی طرف چلا جاتا ہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اس کا ٹھکانا عرش کے نیچے ہے۔“ ( الحمد اللہ آج سائنس نے ثابت کردیا ہے کہ واقعتاً سورج نہیں ڈوبتا) مسائل ١۔ ذوالقرنین دنیا کے عظیم حکمرانوں میں سے ایک حکمران تھا اس نے وسائل جمع کیے اور ان کی خوب منصوبہ بندی کی۔ ٢۔ ذوالقرنین اپنے ملک کے مغرب میں پیش قدمی کرتے ہوئے ساحل سمندر تک پہنچ گیا۔ ٣۔ وہ ظلم کرنے کی بجائے رعایا پر احسان اور نرمی کرنے والا تھا۔ ٤۔ ذوالقرنین صحیح العقیدہ اور آخرت کی جزا و سزا پر یقین رکھنے والا بادشاہ تھا۔ الكهف
86 الكهف
87 الكهف
88 الكهف
89 فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ ذوالقرنین کی مشرق کی جانب دوسری فوجی مہم۔ ذوالقرنین نے دوسری فوجی مہم کے لیے بھی پہلے کی طرح ٹھیک ٹھیک منصوبہ بندی کرتے ہوئے فوج کو اپنے ملک کے مشرقی علاقوں پر یلغار کرنے کا حکم دیا اور پہلے کی طرح فوج کی خود کمان سنبھالی۔ وہ ملک پر ملک زیر نگیں کرتا ہوا زمین کی اس حد تک پہنچا کہ جہاں سے آگے کوئی ملک باقی نہ رہا۔ گویا کہ سورج کے طلوع اور غروب کے درمیان اس کی فرمانروائی کا پرچم لہرانے لگا۔ زمین کی مشرقی سرحد پر اس کا واسطہ ایسی قوم کے ساتھ پڑا جو اس قدر غیر ترقی یافتہ اور غیر مہذب تھی کہ انھیں بودوباش اور رہن سہن کا بھی علم نہیں تھا۔ جس طرح آج بھی افریقہ کے کچھ علاقوں کے لوگ نیم برہنہ اور درختوں کے نیچے رہتے ہیں۔ حرام و حلال کی تمیز کے بغیر اور کھانا پکانے کی بجائے جانوروں کا کچا گوشت کھاتے ہیں۔ یہاں تک کہ کچھ نہ ملنے کی صورت میں اپنے بچے بھی کھا جاتے ہیں۔ 2005 ء میں میرے قریبی ساتھی صدر کرنل قذافی کی دعوت پر لیبیا گئے انھیں لیبیا کے ملحقہ ملک کے ایسے علاقے میں لے جایا گیا جہاں انھوں نے ایسے انسان دیکھے جو صحراؤں اور جنگلوں میں رہتے ہیں۔ ان کے جسم اور شکلیں دیکھ کر انسان کو یقین نہیں آتا کہ آدم زاد ہیں۔ صرف ہاتھ، منہ اور انسانی اعضاء کے ناطے سے انسان معلوم ہوتے ہیں۔ یہ تو ترقی یافتہ دور کے انسان کی حالت ہے۔ آج سے ہزاروں سال پہلے جن لوگوں سے ذوالقرنین کو واسطہ پڑا۔ وہ کس طرح کے انسان اور کس قدر غیر مہذب ہوں گے۔ ذوالقرنین نے ایسے لوگوں کے ساتھ شریفانہ اور ہمدردانہ رویہ اختیار کیا ان پر کسی قسم کی زیادتی نہ کی۔ اس لیے اللہ تعالیٰ ذوالقرنین کو خراج تحسین سے نوازتے ہوئے فرماتا ہے کہ ہم اس کے حالات اور کردار کو خوب جانتے ہیں۔ الكهف
90 الكهف
91 الكهف
92 فہم القرآن ربط کلام : ذوالقرنین کی تیسری عسکری مہم۔ مفسرین کا خیال ہے کہ مشرق و مغرب کو فتح کرنے کے بعد ذوالقرنین اپنے ملک سے ملحقہ اس زمانے کی موجود دنیا کے شمال مشرقی علاقے میں پہنچا جسے بعض مؤرخ ترکستان کے قریب کا علاقہ شمار کرتے ہیں۔ یہاں حضرت نوح (علیہ السلام) کے بیٹے یافث کی اولاد آباد تھی۔ جہاں بحرقرز اور بحر اسود کے درمیان پہاڑی سلسلہ ہے یہاں کے لوگوں کو مؤرخ منگول قوم کے نام سے یاد کرتے ہیں یہ قریب قریب وہی علاقے ہیں جہاں چائینہ کا ملک ہے۔ کیونکہ یہاں کوہ قفقاز کے دامن میں آ ہنی دیوار موجود ہے۔ ذوالقرنین کی تعمیر کردہ دیوار کے متعلق بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اس سے مراد مشہور دیوار چین ہے۔ حالانکہ دراصل یہ دیوار قفقاز (Caucasus) کے علاقہ داغستان میں دربند اور داریاں (Darial) کے درمیان بنائی گئی تھی۔ قفقاز اس ملک کو کہتے ہیں جو بحیرۂ اسود (Black Sea) اور بحیرۂ خَزر (Caspian Sea) کے درمیان واقع ہے۔ اس ملک میں بحیرۂ اسود سے داریال تک تو نہایت بلند پہاڑ ہیں اور ان کے درمیان اتنے تنگ درے ہیں کہ ان سے کوئی بڑی فوج نہیں گزر سکتی۔ البتہ در بند اور داریال کے درمیان جو علاقہ ہے اس میں پہاڑ بھی زیادہ بلند نہیں ہیں اور ان میں کوہستانی راستے بھی خاصے وسیع ہیں۔ قدیم زمانے میں شمال کی وحشی قومیں اسی طرف سے جنوب کی طرف غارت گرانہ حملے کرتی تھیں اور ایرانی فرمانرواؤں کو اسی طرف سے اپنی مملکت پر شمالی حملوں کا خطرہ لاحق رہتا تھا۔ انہی حملوں کو روکنے کے لیے ایک نہایت مضبوط دیوار بنائی گئی تھی جو ٥٠ میل لمبی ٢٩٠ فٹ بلند اور دس فٹ چوڑی تھی۔ ابھی تک تاریخی طور پر یہ تحقیق نہیں ہوسکی ہے کہ یہ دیوار ابتداً کب اور کس نے بنائی۔ مگر مسلمان مؤرخین اور جغرافیہ نویس اسی کو سدِّ ذوالقرنین قرار دیتے ہیں۔ ابن جریر طبری اور ابن کثیر نے اپنی تاریخوں میں یہ واقعہ لکھا ہے اور یاقوت نے بھی مُعْجم البلدان میں اس کا حوالہ دیا ہے کہ حضرت عمر (رض) نے آذر بائیجان کی فتح کے بعد ٢٢ ہجری میں سُرَاقہ بن عمرو کو باب الابواب ( دربند) کی مہم پر روانہ کیا اور سراقہ نے عبدالرحمن بن ربیعہ کو مقدمۃ الجیش کا افسر بنا کر آگے بھیجا۔ عبدالرحمن جب رمینیہ کے علاقے میں داخل ہوئے تو وہاں کے فرمانروا شہر براز نے جنگ کے بغیر اطاعت قبول کرلی۔ اس کے بعد انہوں نے باب الابواب کی طرف پیش قدمی کا ارادہ کیا۔ اس موقع پر شہر براز نے ان سے کہا کہ میں نے اپنے ایک آدمی کو سدِّ ذوالقرنین کا مشاہدہ اور اس علاقے کے حالات کا مطالعہ کرنے کے لیے بھیجا تھا، وہ آپ کو تفصیلات سے آگاہ کرسکتا ہے۔ چنانچہ اس نے عبدالرحمن کے سامنے اس شخص کو پیش کیا۔ (طبری، ج، ٣ : البدایۃ والنہایہ ج ٧ : معجم البلدان، ذکر باب الابواب) اس واقعہ کے دو سو سال بعد عباسی خلیفہ واثق (٢٢٧۔ ٢٣٣ ھ) نے سدّ ذوالقرنین کا مشاہدہ کرنے کے لیے سلام الترجمان کی قیادت میں ٥٠ آدمیوں کی ایک مہم روانہ کی جس کے حالات یاقوت نے معجم البلدان اور ابن کثیر نے البدایہ والنہایہ میں خاصی تفصیل کے ساتھ بیان کیے ہیں لکھتے ہیں کہ یہ وفد سامَرّہ (سُرَّمَنْ رَأیٰ) سے تفلیس وہاں سے السر یر وہاں سے اللان ہوتا ہوا فیلان شاہ کے علاقے میں پہنچا، پھر خَزَر کے ملک میں داخل ہوا۔ اس کے بعد دربند پہنچ کر اس نے سدّ کا مشاہدہ کیا۔ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ تیسری صدی ہجری میں بھی مسلمان عام طور پر قفقاز کی اس دیوار ہی کو سدّ ذوالقرنین سمجھتے تھے۔ یاقوت نے معجم البلدان میں متعدد دوسرے مقامات پر بھی اسی امر کی تصریح کی ہے۔ (ہِیَ بِلَاد التُرَکِ خَلَفَ بَابِ الْاَبْوَابِ الْمَعْرُوْفِ بالدَّْرْ بَنْدَ قَرِیْبٌ مِنْ سَدِّ ذِی الْقَرْنَیْنِ) یہ ترکوں کا علاقہ ہے جو سد ذوالقرنین کے قریب باب الابواب کے پیچھے واقع ہے جسے دربند بھی کہتے ہیں۔“ اسی سلسلہ میں خلیفہ المقتدر باللہ کے سفیر، احمد بن فضلان کی ایک رپورٹ نقل کرتا ہے جن میں مملکت خزر کی تفصیلی کیفیت بیان کی گئی ہے۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ خزر ایک مملکت کا نام ہے جس کا صدر مقام اتل ہے۔ دریائے اِتِل اس شہر کے درمیان سے گزرتا ہے اور یہ دریا روس اور بلغار سے آکر بحر خزر میں گرتا ہے۔ باب الابواب کے زیر عنوان لکھتا ہے کہ اس کو الباب اور دربند بھی کہتے ہیں، یہ بحر خزر کے کنارے واقع ہے۔ بلاد کفر سے بلاد مسلمین کی طرف آنے والوں کے لیے یہ راستہ انتہائی دشوار گزار ہے۔ ایک زمانہ میں یہ نوشیروان کی مملکت میں شامل تھا اور شاہان ایران اس سرحد کی حفاظت کو غایت درجہ اہمیت دیتے تھے۔ (تفہیم القرآن : جلد، ٣) یہاں ذوالقرنین نے ایسی قوم کو پایا۔ جن کی زبان سے وہ واقف نہ تھا۔ ظاہر ہے اس قوم کے نمائندوں نے کسی ترجمان یا اشاروں کی زبان سے اپنی صورت حال بادشاہ سلامت کے سامنے پیش کی ہوگی یہاں یا جوج ماجوج قوم رہتی ہے۔ جو اس علاقے پر شب و خون مارتے اور ہر قسم کا دنگا فساد کرتے ہیں انھوں نے ہمارا جینا حرام کر رکھا ہے۔ ان سے ہماری حفاظت کا کوئی بندوبست فرمائیں۔ ہمارے اور ان کے درمیان کوئی رکاوٹ کھڑی کریں۔ ہم اس کے لیے آپ کی خدمت میں ٹیکس بھی پیش کرنے کے لیے تیار ہیں۔ ان کی گفتگو سے ثابت ہوتا ہے کہ ذوالقرنین نے ان پر کسی قسم کی زیادتی نہیں کی تھی اور نہ ہی ان کے مال میں تصرف کیا جس وجہ سے وہ از خود مال کی پیشکش کرتے ہیں۔ رحم دل بادشاہ نے کہا کہ مجھے آپ کے مال کی ضرورت نہیں۔” اللہ“ کا مجھ پر کرم ہے اس نے مجھے سب کچھ دے رکھا ہے۔ آپ صرف افرادی قوت مہیا کریں یعنی لیبر دیں میں تمھارے اور ان کے درمیان ایک بند بنائے دیتا ہوں۔ تم لوہے کی چادریں اٹھا اٹھا کر لاؤ۔ میں دونوں پہاڑوں کے درمیان آ ہنی دیوارکھڑی کردیتا ہوں۔ چنانچہ اس نے پہاڑوں کے دونوں جانب لوہے کی موٹی موٹی دیواریں کھڑی کرکے ان کو آگ سے تپا یا جب وہ ایک خاص ڈگری تک گرم ہوگئیں تو حکم دیا ان کے درمیان پگھلا ہوا تانبا بھر دیا جائے۔ اس طرح دونوں پہاڑوں کے درمیانی حصے کو لوہے اور تانبے کے کنکریٹ سے بند کردیا۔ اس موقعہ پر بادشادہ نے اختتامی کلمات کہتے ہوئے فرمایا کہ یاجوج ماجوج نہ اس پر چڑھ سکتے ہیں اور نہ ہی اس میں نقب لگا سکتے ہیں ظاہر ہے اتنے بڑے منصوبہ کی تکمیل پر لوگوں نے ذوالقرنین کی تعریف کی ہوگی۔ نیک دل بادشاہ اس پر اترانے کی بجائے کہتا ہے کہ یہ میرے رب کے فضل و کرم کا نتیجہ ہے اس میں میرا کوئی کمال نہیں۔ البتہ جب میرے رب کا وعدہ آن پہنچے گا تو وہ اسے پیوندِخاک کر دے گا اور اس کا وعدہ حق اور سچ ہے۔ وعدہ سے مراد قیامت یا دیوار کی مدّتِ عمر ہے۔ یہاں پھر ذوالقرنین کے حسن کردار اور عقیدہ کی پختگی کا پتہ چلتا ہے کہ عظیم فاتح اور بلاشرکت غیرے دنیا کا حکمران ہونے کے باوجود رعایا کے ساتھ کس قدر مہربان اور قیامت پر کتنا پختہ عقیدہ رکھنے والا شخص تھا جس کی کلام حمید میں تعریف کی گئی ہے۔ الكهف
93 الكهف
94 الكهف
95 الكهف
96 الكهف
97 الكهف
98 الكهف
99 فہم القرآن ربط کلام : گزشتہ سے پیوستہ مفسرین نے یاجوج ماجوج کے بارے میں لکھا ہے کہ حضرت نوح (علیہ السلام) کے بیٹے یافث کی اولاد ہیں۔ ان کے بارے میں اختلاف ہے کہ ماضی اور موجودہ زمانے میں اس کا کون سی قوم کے ساتھ تعلق بنتا ہے اور یہ قوم کس ملک اور علاقے میں پائی جاتی تھی بہرحال اللہ“ کا حکم نافذ ہوگا تو نہ صرف سدِّ ذوالقرنین ٹوٹ جائی گی بلکہ پوری دنیا الٹ پلٹ ہوجائے گی، اس دن تمام لوگوں کو محشر کے میدان میں جمع کرلیا جائے گا۔ یاجوج ماجوج سے مراد ایشیا کے شمالی مشرقی علاقے کی وہ قومیں ہیں جو قدیم زمانے سے متمدن ممالک پر غارت گرانہ حملے کرتی رہی ہیں اور جن کے سیلاب وقتاً فوقتاً اٹھ کر ایشیاء اور یورپ دونوں طرف رخ کرتے رہے ہیں۔ بائیبل کی کتاب پیدائش (باب ١٠) میں ان کو حضرت نوح (علیہ السلام) کے بیٹے یافث کی نسل میں شمار کیا گیا ہے اور یہی بیان مسلمان مؤرخین کا بھی ہے حزتی ایل کے صیحفے ( باب ٣٨، ٣٩) میں ان کا علاقہ روس اور توبل ( موجودہ تو بالسک) اور مسک ( موجودہ ماسکو) بتایا گیا ہے۔ اسرائیلی مؤرخ یوسیفوس ان سے مراد سیتھیئن قوم لیتا ہے جس کا علاقہ بحرِاسود کے شمال اور مشرق میں واقع تھا۔ جیروم کے بیان کے مطابق ماجوج کا کیشیا کے شمال میں بحر خزر کے قریب آباد تھے۔ یاجوج ماجوج کے بارے میں مفسرین نے بہت ہی رطب یا بس جمع کیا اور لکھنے والوں نے یہاں تک لکھا ہے کہ یاجوج ماجوج قد کے لحاظ سے فٹ ڈیڑھ فٹ لمبے اور ان کے کان اتنے بڑے بڑے ہیں کہ ایک نیچے اور دوسرا کان اوپر لے کر سوتے ہیں ایک مادہ کم ازکم سو بچے جنم دیتی ہے۔ حدیث کی بعض کتب میں یہ روایات بھی ملتی ہیں کہ وہ سارا دن اس دیوار کو چاٹتے رہتے ہیں۔ جب مغرب کا وقت ہوتا تو تھک ہار کر کہتے ہیں کہ کل ہم اس دیوار کو چاٹ چاٹ کر ختم کردیں اور اس حصار سے باہر نکل آئیں گے یہ بھی ایک روایت میں درج ہے کہ قرب قیامت جب باہر نکلیں گے تو آسمان کی طرف تیر چلائیں گے جو خون آلود ہو کر نیچے آئیں گے۔ جن کو دیکھ کر یاجوج ماجوج کہیں گے کہ ہم نے مسلمانوں کے رب کو قتل کردیا ہے وہ اتنی تعداد میں ہوں گے کہ ان کا پہلا قافلہ بڑے بڑے دریاؤں کا پانی پی جائے گا۔ بعد کے قافلے دریاؤں اور چشموں کی مٹی بھی چاٹ جائیں وغیرہ وغیرہ۔ یاجوج ماجوج کی اصلیّت اور ان کے بارے میں روایات کی حقیقت : (عَنْ زَیْنَبَ ابْنَۃِ جَحْشٍ أَنَّ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دَخَلَ عَلَیْہَا یَوْمًا فَزِعًا یَقُولُ لاَ إِلَہَ إِلاَّ اللَّہُ، وَیْلٌ لِلْعَرَبِ مِنْ شَرٍّ قَدِ اقْتَرَبَ، فُتِحَ الْیَوْمَ مِنْ رَدْمِ یَأْجُوجَ وَمَأْجُوجَ مِثْلُ ہَذِہِ وَحَلَّقَ بِإِصْبَعَیْہِ الإِبْہَامِ وَالَّتِی تَلِیہَاقَالَتْ زَیْنَبُ ابْنَۃُ جَحْشٍ فَقُلْتُ یَا رَسُول اللَّہِ أَفَنَہْلِکُ وَفِینَا الصَّالِحُونَ قَالَ نَعَمْ إِذَا کَثُرَ الْخَبَثُ) [ رواہ البخاری : باب یَأْجُوجَ وَمَأْجُوجَ ] حضرت زینب بنت جحش بیان کرتی ہیں کہ ایک دن رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) گھبراہٹ کے عالم میں ان کے ہاں تشریف لائے اور فرمانے لگے۔” اللہ“ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں عربوں کے لیے ایک بڑا ہلاکت خیز فتنہ بالکل قریب آ پہنچاہے۔ یا جوج وماجوج کی دیوار میں اس قدر سوراخ ہوگیا ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے وضاحت کے لیے اپنے انگوٹھے اور ساتھ والی انگلی سے حلقہ بنایا۔ آپ کی زوجہ محترمہ حضرت زینب (رض) بیان کرتی ہیں کہ میں نے پوچھا‘ اے اللہ کے رسول ا! کیا ہم ہلاک کردیے جائیں گے‘ جبکہ ہم میں نیک لوگ موجود ہوں گے؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہاں ! جب خباثتیں زیادہ ہوجائیں گی۔ (عَنْ حُذَیْفَۃَ بْنِ أَسِیدٍ الْغِفَارِیِّ ہُرَیْرَۃَ قَالَ اطَّلَعَ النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عَلَیْنَا وَنَحْنُ نَتَذَاکَرُ فَقَالَ مَا تَذَاکَرُونَ قَالُوا نَذْکُرُ السَّاعَۃَقَالَ إِنَّہَا لَنْ تَقُومَ حَتَّی تَرَوْنَ قَبْلَہَا عَشْرَ آیَاتٍ فَذَکَرَ الدُّخَانَ وَالدَّجَّالَ وَالدَّابَّۃَ وَطُلُوع الشَّمْسِ مِنْ مَغْرِبِہَا وَنُزُول عیسَی ابْنِ مَرْیَمَ وَیَأْجُوجَ وَمَأْجُوجَ وَثَلاَثَۃَ خُسُوفٍ خَسْفٌ بالْمَشْرِقِ وَخَسْفٌ بالْمَغْرِبِ وَخَسْفٌ بِجَزِیرَۃِ الْعَرَبِ وَآخِرُ ذَلِکَ نَارٌ تَخْرُجُ مِنَ الْیَمَنِ تَطْرُدُ النَّاسَ إِلَی مَحْشَرِہِمْ)[ رواہ مسلم : باب فِی الآیَاتِ الَّتِی تَکُونُ قَبْلَ السَّاعَۃِ] ” حضرت حذیفہ بن اسید غفاری (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمارے پاس تشریف لاۓ اور ہم آپس میں قیامت کا ذکر کر رہے تھے آپ نے استفسار فرمایا کہ کس چیز کا ذکر کرر ہے ہو۔ ہم نے عرض کیا ہم قیامت کا ذکر کر رہے ہیں‘ آپ نے فرمایا قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی‘ جب تک تم اس کی دس نشایناں نہ دیکھ لو پھر آپ نے یہ نشانیاں ذکر فرمائیں : دھواں‘ دجال‘ دابۃ الارض‘ سورج کا مغرب کی جانب سے طلوع ہونا‘ حضرت عیسیٰ ابن مریم کا نزول، یا جوج وماجوج کا خروج اور لوگوں کا تین دفعہ دھنسائے جانا 249 ان میں سے ایک بار دھنسنا مشرق میں‘ ایک مغرب میں اور ایک جزیرۃ العرب میں ہوگا۔ ان کے آخر میں یمن سے ایک آگ نکلے گی جو لوگوں کو میدان محشر کی طرف دھکیلے گی۔ ایک اور روایت میں ہے آگ عدن کے آخری کنارے سے نکلے گی جو لوگوں کو میدان حشر کی طرف دھکیل کرلے جائے گی تیسری روایت میں دسویں علامت کے طور پر آندھی کا ذکر ہے جو لوگوں کو سمندر میں گرا دے گی۔“ صور کا پھونکا جانا : ” حضرت ابو سعید (رض) بیان کرتے ہیں رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میں کیسے نعمتوں سے لذّت اٹھاؤں؟ جبکہ سینگ والے نے سینگ منہ میں ڈالا ہوا ہے اور اجازت کا منتظر ہے کب اس کو پھونکنے کا حکم ملے تو وہ پھونک مار دے۔ نبی محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ (رض) پر یہ بات گراں گزری نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے فرمایا تم کہو ہمیں اللہ ہی کافی ہے اور وہ بہتر کار ساز ہے اور ہم اپنے اللہ پر ہی توکل کرتے ہیں۔“ [ رواہ الترمذی : کتاب صفۃ القیا مۃ، باب ما جاء فی صفۃ الصور] الكهف
100 فہم القرآن ربط کلام : یاجوج ماجوج اور اللہ کے منکروں کا انجام۔ جب قیامت کی بڑی بڑی نشانیاں ظاہر ہوچکی ہوں گی تو اسرافیل کو پہلا صور پھونکنے کا حکم ہوگا۔ جس سے تمام مخلوق مرجائے گی صرف رب ذوالجلال کی ذات باقی رہے گی نہ معلوم کتنے عرصہ تک لوگ مرے رہیں گے۔ اس عرصہ میں پوری کائنات بدل دی جائے گی۔ اس کے بعد اللہ کے حکم سے اسرافیل زندہ ہوگا اور پھر دوسری مرتبہ صور پھونکے گا۔ جس سے تمام لوگ حتیٰ کہ بعض روایات سے ثابت ہوتا ہے کہ جانور بھی زندہ کردیے جائیں گے جنہیں ایک دوسرے سے بدلہ کا دلوایا جائے گا۔ یہاں تک سینگ والی بکری جس نے دوسری کو مارا ہوگا وہ اس سے بدلہ لے گی۔ لوگوں کو محشر کے میدان میں اکٹھا کیا جائے گا اور جنت اور جہنم سامنے لا کھڑی کی جائے گی۔ (عَنْ اَبِی ھُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لَتُؤَدُّنَّ الْحُقُوْقَ إِلٰی أَھْلِھَا یَوْمَ الْقِیَامَۃِ‘ حَتّٰی یُقَاد للشَّاۃِ الْجَلْحَاءِ مِنَ الشَّاۃِ الْقَرْنَاءِ) [ رواہ مسلم : کتاب البروالصلۃ، باب تحریم الظلم] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تمہیں قیامت کے دن لوگوں کے حقوق ان کے مالکوں کو ادا کرنا پڑیں گے، یہاں تک کہ جس بکری کے سینگ نہیں اس کو سینگ والی بکری سے بدلہ دلایا جائے گا۔“ قیامت کے دن لوگوں کو آگ اکٹھا کرے گی : (عَنْ حُذَیْفَۃَ بْنِ أَسِیدٍ عَنْ أَبِی ذَرٍّ قَالَ إِنَّ الصَّادِقَ الْمَصْدُوق (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حَدَّثَنِی أَنَّ النَّاسَ یُحْشَرُونَ ثَلاَثَۃَ أَفْوَاجٍ فَوْجٌ رَاکِبِینَ طَاعِمِینَ کَاسِینَ وَفَوْجٌ تَسْحَبُہُمُ الْمَلاَءِکَۃُ عَلَی وُجُوہِہِمْ وَتَحْشُرُہُمُ النَّارُ وَفَوْجٌ یَمْشُونَ وَیَسْعَوْنَ یُلْقِی اللَّہُ الآفَۃَ عَلَی الظَّہْرِ فَلاَ یَبْقَی حَتَّی إِنَّ الرَّجُلَ لَتَکُونُ لَہُ الْحَدِیقَۃُ یُعْطِیہَا بِذَاتِ الْقَتَبِ لاَ یَقْدِرُ عَلَیْہَا) [ رواہ النسائی : باب البعث] حضرت حذیفہ بن اسید حضرت ابوذر (رض) سے بیان کرتے ہیں بے شک کائنات میں سے سچے انسان نے مجھے خبر دی کہ قیامت کے دن لوگوں کو تین طریقوں سے جمع کیا جائیگا۔ ان میں سے ایک جماعت سوارہو گی، کھانا کھاتے ہوئے کپڑے پہنچے ہوئے، ایک جماعت کو فرشتے چہروں کے بل گھسیٹیں گے اور آگ ان کو اکٹھا کرے گی اور ایک جماعت بھاگ دوڑ میں مصروف ہوگی اللہ تعالیٰ ان پر آفت مسلط فرمائیں گے اس سے کوئی بھی بچ نہیں پائے گا حتیٰ کہ ایک آدمی کا باغ ہوگا وہ اس باغ کو ایسی سواری کے بدلے میں دے گا جس پر اسے کچھ اختیار نہیں ہوگا۔ (وَعَنِ ابْنْ مَسْعُوْدٍ ہُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یُوؤتٰی بِجَھَنَّمَ یَوْمَءِذٍ لَھَا سَبْعُوْنَ اَلْفَ زِمَامٍ مَعَ کُلِّ زِمَامٍ سَبْعُوْنَ اَلْفَ مَلَکٍ یَّجُرُّوْنَھَا۔) [ رواہ مسلم : باب فِی شِدَّۃِ حَرِّ نَارِ جَہَنَّمَ۔۔] ” حضرت ابن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ قیامت کے دن دوزخ کو لایا جائے گا اس کی ستر ہزار لگامیں ہوں گی اور ہر لگام کے ساتھ ستر ہزار فرشتے ہوں گے‘ جو اسے کھینچ کر لائیں گے۔“ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ أَنَّ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ نَارُکُمْ جُزْءٌ مِنْ سَبْعِینَ جُزْءً ا مِنْ نَارِ جَہَنَّمَ قیلَ یَا رَسُول اللّٰہِ إِنْ کَانَتْ لَکَافِیَۃً قَالَ فُضِّلَتْ عَلَیْہِنَّ بِتِسْعَۃٍ وَسِتِّینَ جُزْءً ا کُلُّہُنَّ مِثْلُ حَرِّہَا) [ رواہ البخاری : کتاب بدء الخلق، باب صفۃ النار] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں ایک دفعہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا دنیاکی آگ جہنم کی آگ کے سترویں درجے پر ہے۔ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا گیا جلانے کے لیے آگ یہی کافی تھی۔ آپ نے فرمایا وہ اس سے انہتر درجے زیادہ تیز ہے اس کا ہر درجہ ایک دوسرے کے برابر ہے۔“ مسائل ١۔ محشر کے میدان میں جہنم کفار کے سامنے لاکھڑی کی جائے گی۔ ٢۔ جہنم کو دیکھ کر کفار کی آنکھوں سے غفلت کے پردے اٹھ جائیں گے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ کی نصیحت سے لاپرواہی کرنے والوں کی سزا جہنم ہے۔ الكهف
101 الكهف
102 فہم القرآن ربط کلام : کفار اور اللہ تعالیٰ کو بھول جانے والوں کا انجام۔ جس طرح پہلے بھی عرض کیا ہے کہ یہ سورت اہل مکہ کے سوالات کے جواب میں نازل ہوئی تھی۔ اہل مکہ کے سوالات کا جواب دینے کے بعد سورۃ کے اختتام میں انھیں براہ راست مخاطب کیا جا رہا ہے کہ جو لوگ اللہ تعالیٰ کے سوا اس کے بندوں کو حاجت روا، اور مشکل کشا سمجھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے جہنم کو مہمان نوازی کے طور پر تیار کر رکھا ہے۔ اس مختصر فرمان میں تین باتیں ارشاد فرمائی گئی ہیں۔ ١۔ شرک کرنے والوں کو کافر کے لفظ سے مخاطب کیا گیا ہے۔ ٢۔ جن فوت شدگان کو یہ لوگ حاجت روا، اور مشکل کشا سمجھ کر پکارتے ہیں۔ ان کے لیے قرآن مجید میں کئی مرتبہ اولیاء کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ جس کے مشہور اور مستند معانی ہیں۔ نگران، مددگار، دوست اور محبوب آقا۔ ظاہر ہے کہ جن فوت شدگان کو پکارا جاتا ہے ان کے بارے میں مشرکین ایسا ہی عقیدہ رکھتے ہیں حالانکہ وہ اللہ کے نیک بندے تھے جو قیامت کے دن اپنی عبادت کا صاف طور پر انکار کریں گے۔ یعنی ایسے بزرگ جو مواحد تھے اور اپنی زندگی میں شرک کی مذمت کرتے تھے لیکن ان کے بعد مشرک انہیں مشکل کشا، حاجت روا کہہ کر پکارتے رہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ کو شرک کے ساتھ اس قدر نفرت ہے کہ اس نے مشرکین کے لیے جہنم کو میزبانی کے طور پر تیار کر رکھا ہے۔ ان الفاظ سے اللہ تعالیٰ کے غضب اور اس کی ناراضگی کا اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اس کے ہاں مشرکین کا کیا مقام ہے اس لیے اس کا فرمان ہے۔ (إِنَّ اللَّہَ لَا یَغْفِرُ أَنْ یُشْرَکَ بِہِ وَیَغْفِرُ مَا دُونَ ذَلِکَ لِمَنْ یَشَاءُ وَمَنْ یُشْرِکْ باللَّہِ فَقَدِ افْتَرَی إِثْمًا عَظِیمًا)[ النساء : ٤٨] ” یقیناً اللہ تعالیٰ اپنے ساتھ شرک کرنے کو نہیں بخشتا اور اس کے سوا جسے چاہے بخش دیتا ہے۔ جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک مقرر کرے اس نے بہتان باندھا اور بہت بڑا گناہ کیا۔“ (إِنَّ الَّذِیْنَ کَذَّبُوْا باٰ یَاتِنَا وَاسْتَکْبَرُوْا عَنْہَا لَا تُفَتَّحُ لَہُمْ أَبْوَاب السَّمَاءِ وَلَا یَدْخُلُوْنَ الْجَنَّۃَ حَتّٰی یَلِجَ الْجَمَلُ فِی سَمِّ الْخِیَاطِ وَکَذٰلِکَ نَجْزِی الْمُجْرِمِیْنَ) [ الاعراف : ٤٠] ” بے شک جن لوگوں نے ہماری آیات کو جھٹلایا اور انہیں قبول کرنے سے تکبر کیا ان کے لیے نہ آسمان کے دروازے کھولے جائیں گے اور نہ وہ جنت میں داخل ہوں گے یہاں تک کہ اونٹ سوئی کے ناکے سے نہ گزر جائے اور ہم مجرموں کو اسی طرح بدلہ دیتے ہیں۔“ (إِنَّہُُ مَنْ یُشْرِکْ باللّٰہِ فَقَدْ حَرَّمَ اللّٰہُ عَلَیْہِ الْجَنَّۃَ وَمَأْوَاہ النَّارُ وَمَا للظَّالِمِیْنَ مِنْ أَنْصَارٍ) [ المائدۃ: ٧٢] ” بیشک جو بھی اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرائے گا اس پر جنت حرام ہے اور اس کا ٹھکانہ جہنم ہے اور ظالموں کا کوئی مددگار نہیں۔“ (عَنْ سَمُرَۃَ بْنِ جُنْدُبٍ ہُرَیْرَۃَ اَنَّ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ مِنْھُمْ مَنْ تَاْخُذُہُ النَّارُاِلٰی کَعْبَیْہِ وَمِنْھُمْ مَنْ تَاْخُذُُہُ النَّارُاِلٰی رُکْبَتَیْہِ وَمِنْھُمْ مَنْ تَاْخُذُہُ النَّارُ اِلٰی حُجْزَتِہٖ وَمِنْھُمْ مَنْ تَاْخُذُہُ النَّارُ اِلٰی تَرْقُوَتِہٖ) [ راہ مسلم : باب فی شدۃ حر النار] ” حضرت سمرہ بن جندب (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی گرامی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جہنم کی آگ نے بعض لوگوں کے ٹخنوں تک، بعض کے گھٹنوں تک اور بعض کو کمر تک گھیرا ہوگا اور بعض کی گردن تک پہنچی ہوگی۔“ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ کے سوا مشرک جن کو پکارتے ہیں : ١۔ کیا کافر لوگ یہ تصور کرتے ہیں کہ وہ میرے بندوں کو میرے سوا کار ساز بنا لیں گے۔ (الکہف : ١٠٢) ٢۔ جن کو تم اللہ کے سوا پکارتے ہو وہ تمھاری طرح کے ہی بندے ہیں۔ (الاعراف : ١٩٤) ٣۔ جن کو تم اللہ کے سوا پکارتے ہو وہ تمھاری مدد کرنے کی طاقت نہیں رکھتے۔ (الاعراف : ١٩٧) ٤۔ سوال کیجیے کہ جنھیں تم اللہ کے سوا پکارتے ہو انھوں نے زمین میں کیا پیدا کیا ہے ؟ (الاحقاف : ٤) ٥۔ جنھیں تم اللہ کے سوا پکارتے ہو وہ مکھی بھی پیدا نہیں کرسکتے۔ (الحج : ٧٣) ٦۔ کیا تم بعل (بت) کو پکارتے ہو اور احسن الخالقین کو چھوڑتے ہو۔ (الصّٰفٰت : ١٢٥) الكهف
103 فہم القرآن ربط کلام : مشرکین کے اعمال کی دنیا اور آخرت میں حیثیت۔ اللہ تعالیٰ کو مشرکین کے ساتھ اس قدر نفرت ہے کہ انھیں براہ راست مخاطب کرنے کی بجائے رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیا جا رہا ہے کہ آپ استفسار کرنے کی صورت میں انہیں بتلائیں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا اس کے بندوں کو حاجت روا، مشکل کشا سمجھنے والو! کیا میں تمھیں یہ نہ بتلاؤں کہ فکر و عمل کے اعتبار سے کون لوگ سب سے زیادہ نقصان پانے والے ہیں۔ ہاں یہ وہی لوگ ہیں جن کے دنیا اور آخرت میں تمام اعمال ضائع ہوئے حالانکہ وہ سمجھتے ہیں کہ ہم بڑے نیکی کے کام کر رہے ہیں۔ ایسے لوگوں کی بدقسمتی یہ ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ دنیا میں جو ہمیں اچھی شہرت اور مال و اسباب دیے گئے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم پر راضی ہے۔ یہ وہ بات ہے جو کافر، مشرک، حرام خو اور باغی انسان اپنی زبان سے اکثر کہتے ہیں کہ ہم پر اللہ کا بڑا ہی فضل و کرم ہے حالانکہ اللہ تعالیٰ نے انھیں یہ فراوانی اس لیے عنایت کی ہوتی ہے تاکہ یہ لوگ کھل کر برے اعمال کرسکیں۔ دنیا میں ان کے اعمال ضائع ہونے کا یہ بھی ایک مفہوم ہے کہ دنیا آخرت کی کھیتی ہے، مشرک کو ان کے اچھے اعمال کا قیامت کے دن کوئی صلہ نہیں ملے گا کیونکہ ان کا اللہ اور آخرت پر ایمان نہیں تھا۔ جس طرح دنیا کی ہر چیز بالآخر فنا ہوجائے گی اسی طرح ہی ان کے اعمال اس دنیا میں ہی مٹ جائیں گے۔ یعنی ان کا نیکی کے حوالے سے ذکر خیر کرنے والا کوئی نہیں ہوگا یہی وجہ ہے کہ جن غیر مسلموں نے کار خیر کے جو کام کیے ان کا ذکر نیکی کے طور پر نہیں بلکہ محض یاد گار کے طور پر کیا جاتا ہے۔ ان میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو بظاہر نیکی کے کام کرتے ہیں لیکن ان کے اعمال سنت رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ثابت نہیں ہیں ایسے لوگوں کے بارے میں بتلایا گیا ہے۔ (عَامِلَۃٌ نَاصِبَۃٌ۔ تَصْلَی نَارًا حَامِیَۃً )[ الغاشیہ : ٣۔ ٤] ” سخت محنت کرنے والے تھکے ہوں گے۔ لیکن دہکتی آگ میں داخل ہوں گے۔“ (عَنْ عَاءِشَۃَ قَالَتْ قُلْتُ یَا رَسُول اللّٰہِ ابْنُ جُدْعَانَ کَانَ فِی الْجَاہِلِیَّۃِ یَصِلُ الرَّحِمَ وَیُطْعِمُ الْمِسْکِینَ فَہَلْ ذَاکَ نَافِعُہُ قَالَ لَا یَنْفَعُہٗ إِنَّہٗ لَمْ یَقُلْ یَوْمًا رَبِّ اغْفِرْ لِی خَطِیءَتِی یَوْمَ الدِّینِ) [ رواہ مسلم : کتاب الایمان] ” حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں میں نے پوچھا اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ابن جدعان زمانہء جاہلیت میں صلہ رحمی کیا کرتا تھا اور مساکین کو کھانا کھلایا کرتا تھا کیا اس کو اس کے اعمال کا کوئی فائدہ ہوگا ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا نہیں، کیونکہ اس نے یہ نہیں کہا تھا کہ اے میرے رب ! قیامت کے دن میری خطائیں معاف کرنا۔“ گویا کہ وہ آخرت کا منکر تھا۔ (عَنْ عَاءِشَۃَ (رض) قَالَتْ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَنْ اَحْدَثَ فِیْ اَمْرِنَا ھٰذَا مَا لَےْسَ مِنْہُ فَھُوَ رَدٌّ) [ رواہ مسلم : باب نَقْضِ الأَحْکَامِ الْبَاطِلَۃِ وَرَدِّ مُحْدَثَاتِ الأُمُورِ] ” حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس نے ہمارے دین میں نئی بات ایجاد کی جو اس میں نہیں ہے وہ ردّ کردی جائے گی۔“ (عَنْ حُذَیْفَۃَ قَالَ قَالَ رَسُول اللَّہِ لاَ یَقْبَلُ اللَّہُ لِصَاحِبِ بِدْعَۃٍ صَوْمًا وَلاَ صَلاَۃً وَلاَ صَدَقَۃً وَلاَ حَجًّا وَلاَ عُمْرَۃً وَلاَ جِہَادًا وَلاَ صَرْفًا وَلاَ عَدْلاً یَخْرُجُ مِنَ الإِسْلاَمِ کَمَا تَخْرُجُ الشَّعَرَۃُ مِنَ الْعَجِینِ) [ رواہ ابن ماجہ : باب اجْتِنَابِ الْبِدَعِ وَالْجَدَلِ] ” حضرت حذیفۃ (رض) سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ تعالیٰ بدعتی کا روزہ، نماز، حج، عمرہ، جہاد، اور کوئی چھوٹی بڑی نیکی قبول نہیں کرتا ایسا شخص اسلام سے اس طرح نکل جاتا ہے جیسے گوندھے ہوئے آٹے سے بال نکل جاتا ہے۔“ مسائل ١۔ بعض لوگوں کے دنیا اور آخرت میں اعمال ضائع کردیے جاتے ہیں۔ ٢۔ جن کے دنیا اور آخرت میں اعمال ضائع ہوئے وہ بڑا ہی نقصان پائیں گے۔ ٣۔ بد قسمت ہے وہ انسان جو برائی کو نیکی سمجھ کر کرتا ہے۔ الكهف
104 الكهف
105 فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ مشرکین کے ساتھ کفار کا انجام ذکر کیا جاتا ہے۔ اس آیت میں بظاہر کفار کا تذکرہ اور ان کی سزا کا بیان ہے لیکن اس کی ابتداء ” اُوْلٰٓءِکَ“ کے لفظ سے کی گئی ہے۔ جس کا معنیٰ ” وہ“ یا ” یہی لوگ“ گویا کہ کفار کے ساتھ مشرکین کا ایک ایسا گروہ بھی ہے جو اپنے رب کی آیات کا انکار کرنے کے ساتھ اپنے رب کی ملاقات کے منکر ہیں۔ ان کے اعمال تو اس طرح ضائع ہوں گے کہ ان کے لیے قیامت کے دن ترازو ہی نہیں رکھا جائے گا۔ یہ سزا اس لیے ہوگی کہ انھوں نے کفر کیا اور اللہ تعالیٰ کی آیات اور اس کے رسولوں کے ساتھ مذاق کیا تھا۔ حساب و کتاب کے حوالے سے تین قسم کے لوگ : قرآن مجید سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ قیامت کے دن حساب و کتاب کے حوالے سے لوگوں کو تین حصوں میں تقسیم کیا جائے گا۔ ان میں ایک خوش نصیب جماعت ایسی ہوگی جنھیں بغیر حساب کے جنت میں داخل کیا جائے گا۔ دوسرے وہ لوگ ہوں گے جن کے لیے ترازو ہی نہیں رکھا جائے گا انہیں یوں ہی جہنم داخل کردیا جائے گا۔ تیسری قسم کے لوگوں سے ان کے اعمال کے مطابق ہلکا یا بھاری حساب لیا جائے گا۔ (عَنْ عَاءِشَۃَ (رض) اَنَّ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ لَیْسَ اَحَدٌ یُّحَا سَبُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ اِلَّاھَلَکَ قُلْتُ اَوَلَیْسَ یَقُوْلُ اللّٰہُ فَسَوْفَ یُّحَاسَبُ حِسَابًا یَّسِیْرًا فَقَالَ اِنَّمَا ذٰلِکَ الْعَرْضُ وَلٰکِنْ مَّنْ نُوْقِشَ فِیْ الْحِسَابِ یَھْلِکُ) [ رواہ البخاری : باب مَنْ سَمِعَ شَیْءًا فَرَاجَعَ حَتَّی یَعْرِفَہُ] ” حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ نبی گرامی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا قیامت کے دن جس سے حساب لے لیا گیا وہ ہلاک ہوا میں نے پوچھا اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! کیا اللہ تعالیٰ کا ارشاد نہیں ” عنقریب اس کا آسان حساب ہوگا“ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا یہ تو معمولی پیشی ہے جس شخص سے باز پرس ہوئی وہ ہلاک ہوگیا۔“ عَنْ اَبِیْ ذَرٍّ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اِنِّی لَاَعْلَمُ اٰخِرَ اَھْلِ الْجَنَّۃِ دُخُوْلاَ نِ اَلجَنَّۃَ وَاٰخِرَ اَھْلِ النَّارِ خُرُوْجًا مِّنْھَا رَجُلٌ یُؤْتٰی بِہٖ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ فَیُقَالُ اَعْرِضُوْ عَلَیْہِ صِغَارَ ذُنُوْبِہٖ وَارْفَعُوْاعَنْہٗ کِبَارَھَا فَتُعْرَضُ اعَلَیْہِ صِغَارُ ذُنُوْبِہٖ فَیُقَالُ عَمِلْتَ یَوْمَ کَذَا وَکَذَا‘ کَذَ ا وَکَذَا وَعَمِلْتَ یَوْمَ کَذَا‘ کَذَا کَذَا وَکَذَا فَیَقُوْلُ نَعَمْ لَا یَسْتَطِیْعُ اَنْ یُّنْکِرَ وَھُوَمُشْفِقٌ مِّنْ کِبَارِ ذُنُوْبِہٖ اَنْ تُعْرَضَ عَلَیْہِ فَیُقَالُ لَہٗ فَاِنَّ لَکَ مَکَانَ کُلِّ سَیِّءَۃٍحَسَنَۃً فَیَقُوْلُ رَبِّ قَدْ عَمِلْتُ اَشْیَاءَ لَا اَرٰھَا ھٰھُنَا وَلَقَدْ رَاَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ضَحِکَ حَتّٰی بَدَتْ نَوَاجِذُہٗ۔) [ رواہ مسلم : باب أَدْنَی أَہْلِ الْجَنَّۃِ مَنْزِلَۃً فیہَا] ” حضرت ابوذر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : بلا شبہ میں جانتا ہوں کہ اہل جنت میں سے سب سے آخر میں جنت میں کون داخل ہوگا؟ اور اہل جہنم میں سے سب سے آخر میں جہنم میں سے کون نکالا جائے گا؟ وہ ایسا شخص ہوگا‘ جسے قیامت کے دن پیش کیا جائے گا اور کہا جائے گا کہ اس کے سامنے اس کے صغیرہ گناہ پیش کرو اور اس کے کبیرہ گناہوں کو چھپائے رکھوچنانچہ اس کے سامنے صغیرہ گناہ پیش کئے جائیں گے اور اسے کہا جائیگا کہ تو نے فلاں دن‘ فلاں کام کیا؟ اور فلاں دن فلاں عمل کیا ؟ وہ اقرار کرے گا‘ اس میں انکار کرنے کی جرأت نہ ہوگی البتہ وہ اپنے کبیرہ گناہوں سے خائف ہوگا کہ کہیں وہ اس کے سامنے نہ لائے جائیں تب اس سے کہا جائے گا‘ بیشک تیرے لیے ہر برائی کے بدلہ میں ایک نیکی ہے وہ عرض کرے گا‘ اے میرے پروردگار! میں نے بہت سے اور بھی گناہ کیے تھے جن کو میں یہاں نہیں دیکھ رہا۔ ابوذر (رض) کہتے ہیں : اللہ کی قسم! میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیکھا کہ یہ بیان کرتے ہوئے اتنا ہنسے یہاں تک کہ آپ کی داڑھیں نظر آنے لگیں۔“ تفسیر بالقرآن حساب و کتاب کے حوالے سے تین قسم کے لوگ : ١۔ یقیناً صبر کرنے والوں کو بغیر حساب کے اجر عطا کیا جائے گا۔ (الزمر : ١٠) ٢۔ مذکر و مؤنث میں سے جو بھی نیک اعمال کرے گا اسے جنت میں داخل کیا جائے گا اور اسے بغیر حساب کے رزق عطا ہوگا۔ (المومن : ٤٠) ٣۔ جس کا نیکیوں والا پلڑا بھاری ہوگیا وہ کامیاب ہوا۔ (المومنون : ١٠٢) ٤۔ وہ لوگ جو اللہ کی آیات اور اس کی ملاقات کے منکر ہیں ہم ان کے لیے ترازو قائم نہیں کریں گے۔ (الکہف : ١٠٥) ٥۔ جس کا نیکیوں والا پلڑا ہلکا ہوا یہ وہ لوگ ہوں گے جنھوں نے اپنے آپ کو خسارے میں مبتلا کیا۔ (الاعراف : ٩) الكهف
106 الكهف
107 فہم القرآن ربط کلام : کفار اور مشرکین کے انجام کے ذکر کے بعد ایماندار اور صاحب کردار لوگوں کا تذکرہ۔ اللہ اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آخرت پر سچا ایمان والے اور جنہوں نے نیک اعمال کیے ان کی مہمان نوازی جنت الفردوس میں کی جائے گی۔ جس میں وہ ہمیشہ ہمیش رہیں گے اور ان کو کبھی اس سے نکالا نہیں جائے گا۔ نہ ہی وہ خود نکلیں گے۔ جنت کی ایک جھلک اور اس کی چھوٹی سے چھوٹی نعمت ” دنیا و ما فیھا“ سے کھرب ہا درجہ بہتر ہے۔ ” جنت الفردوس“ جنت کا وہ اعلیٰ حصہ اور مقام ہے جس کے مقابلہ میں باقی جنت کی نعمتیں معمولی تصور ہوں گی۔ اس میں انبیاء کرام (علیہ السلام)، ان کے اصحاب، شہدآء، صدیقین، صلحآء اور وہ لوگ داخل ہوں گے جو اللہ کی خوشنودی کی خاطر نیکی کرنے میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کرتے تھے۔ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرمایا کرتے تھے کہ لوگو! جب اپنے رب کے حضور جنت کی التجاء کرو تو جنت الفردوس طلب کیا کرو۔ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ ہُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَنْ اٰمَنَ باللّٰہِ وَبِرَسُوْلِہٖ وَأَقَام الصَّلٰوۃَ وَصَامَ رَمَضَانَ کَانَ حَقًّا عَلَی اللّٰہِ أَنْ یُّدْخِلَہُ الْجَنَّۃَ جَاھَدَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ أَوْجَلَسَ فِیْ أَرْضِہِ الَّتِیْ وُلِدَ فِیْھَا فَقَالُوْا یَارَسُوْلَ اللّٰہِ ! أَفَلَا نُبَشِّرُ النَّاسَ قَالَ : إِنَّ فِی الْجَنَّۃِ ماءَۃَ دَرَجَۃٍ أَعَدَّھَا اللّٰہُ لِلْمُجَاھِدِیْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ مَابَیْنَ الدَّرَجَتَیْنِ کَمَا بَیْنَ السَّمَآءِ وَالْأَرْضِ فَإِذَا سَأَلْتُمُ اللّٰہَ فَاسْأَلُوْہُ الْفِرْدَوْسَ فَإِنَّہٗ أَوْسَطُ الْجَنَّۃِ وَأَعْلَی الْجَنَّۃِ أُرَاہُ قَالَ وَ فَوْقَہٗ عَرْشُ الرَّحْمٰنِ وَمِنْہُ تَفَجَّرُ أَنْھَارُ الْجَنَّۃِ) [ رواہ البخاری : کتاب الجھاد والسیر] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جو اللہ و رسول پر ایمان لایا، اس نے نماز قائم کی اور رمضان کے روزے رکھے۔ اسے جنت میں داخل کرنا اللہ پر حق ہے اس نے اللہ کی راہ میں جہاد کیا ہو یا اپنے گھر بیٹھا رہا صحابہ نے عرض ! کی اللہ کے رسول! تو کیا ہم لوگوں کو خوشخبری نہ دے دیں؟ آپ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے فی سبیل اللہ جہاد کرنے والوں کے لیے جنت میں سو درجات بنائے ہیں ہر دو درجے کا درمیانی فاصلہ زمین و آسمان کے درمیانی فاصلہ کے برابر ہے۔ جب تم اللہ سے جنت کا سوال کرو تو جنت الفردوس مانگا کرو کیونکہ یہ جنت کا وسط اور اعلیٰ جگہ ہے راوی کہتے ہیں میرا خیال ہے آپ نے یہ بھی فرمایا کہ اس کے اوپررحمان کا عرش ہے اور وہاں سے جنت کی نہریں نکلتی ہیں۔“ (روایت میں اختصار ہے ورنہ اسلام کے پانچ ارکان پر عمل کرنا فرض ہے) (عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَال اللّٰہُ تَعَالٰی اَعْدَدْتُّ لِعِبَادِیَ الصَّالِحِیْنَ مَالَاعَیْنٌ رَاأتْ وَلَا اُذُنٌ سَمِعَتْ وَلَاخَطَرَ عَلٰی قَلْبِ بَشَرٍ وَّاقْرَءُ وْا اِنْ شِءْتُمْ فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّا اُخْفِیَ لَھُمْ مِنْ قُرَّۃِ اَعْیُنٍ) [ رواہ البخاری : باب مَا جَاءَ فِی صِفَۃِ الْجَنَّۃِ وَأَنَّہَا مَخْلُوقَۃٌ ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں‘ میں نے اپنے نیک بندوں کے لیے ایسی نعمتیں تیار کی ہیں‘ جن کو نہ کسی آنکھ نے دیکھا اور نہ ہی ان کے متعلق کسی کان نے سنا اور نہ کسی انسان کے دل میں ان کا خیال آیا اگر تمہیں پسند ہو تو اس آیت کی تلاوت کرو ” کوئی نہیں جانتا کہ ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک کے لیے کیا چیز چھپا کے رکھی گئی ہے۔“ (عَنْ سَہْلِ بْنِ سَعْدٍ السَّاعِدِیِّ قَالَ قَالَ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَوْضِعُ سَوْطٍ فِی الْجَنَّۃِ خَیْرٌ مِنَ الدُّنْیَا وَمَا فیہَا) [ رواہ البخاری : باب مَا جَاءَ فِی صِفَۃِ الْجَنَّۃِ وَأَنَّہَا مَخْلُوقَۃٌ ] حضرت سہل بن ساعدی (رض) بیان کرتے ہیں رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا جنت میں ایک کوڑے کے برابر (گزبھر) جگہ دنیا اور جو کچھ اس میں ہے‘ سب سے بہتر ہے۔ تفسیر بالقرآن جنت اور اس کی نعمتوں کی ایک جھلک : ١۔ ایمان والوں اور عمل صالح کرنے والوں کے لیے جنت الفردوس ہے۔ (الکہف : ١٠٧) ٢۔ تمھارے لیے جنت میں وہ کچھ ہوگا جو تم چاہو گے۔ (حٰم السجدۃ: ٣١) ٣۔ یقیناً متقیّن سایوں اور چشموں اور پسندیدہ میوہ جات میں رہیں گے۔ (المرسلات : ٤١۔ ٤٢) ٤۔ اللہ کے مخلص بندے نعمتوں والی جنت میں ہوں گے ایک دوسرے کے سامنے تختوں پربیٹھے ہونگے۔ (الصٰفٰت : ٤٣۔ ٤٤) ٥۔ پرہیزگاروں کے لیے عمدہ مقام ہے۔ ہمیشہ رہنے کے باغ ہیں جن کے دروازے ان کے لیے کھلے ہوں گے اور ان میں تکیے لگا کر بیٹھے ہوں گے۔ (ص : ٤٩ تا ٥٠) الكهف
108 الكهف
109 فہم القرآن ربط کلام : جس طرح جنت کی نعمتوں کا تصور اور اس کا شمار کرنا محال ہے اسی طرح ہی دنیا میں اللہ تعالیٰ کی قدرتوں، نعمتوں اور اس کی تعریفات کا شمار کرنا ناممکنات میں سے ہے۔ سورۃ ابراہیم آیت ٣٤ میں ارشاد ہے کہ اے لوگو! اگر تم اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو شمار کرنا چاہو تو ان کا احاطہ نہیں کرسکتے۔ ظاہر بات ہے کہ جب کوئی اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا احاطہ نہیں کرسکتا تو اس کی حمد و ثناء اور تعریفات کا شمار اور حق کس طرح ادا کرسکتا ہے۔ اس لیے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ارشاد ہوا کہ آپ مومنوں کے ساتھ بالخصوص کفار کو فرمائیں کہ تم اپنے رب کی ذات، صفات اور اس کی تعریفات کرو یا نہ کرو۔ وہ ایسی ہستی ہے کہ جس کی قدرتوں، نعمتوں اور تعریفات کو احاطۂ تحریر میں نہیں لایا جا سکتا۔ (وَلَوْ أَنَّمَا فِی الْأَرْضِ مِنْ شَجَرَۃٍ أَقْلَامٌ وَالْبَحْرُ یَمُدُّہُ مِنْ بَعْدِہِ سَبْعَۃُ أَبْحُرٍ مَا نَفِدَتْ کَلِمَات اللّٰہِ إِنَّ اللّٰہَ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ )[ لقمان : ٢٧] ” اور اگر زمین کے درخت قلمیں اور سمندر سیاہی بن جائیں اور اس کے بعد سات سمندر اور بھی ہوں تو اللہ کی تعریفات ختم نہیں ہو سکتی بیشک اللہ غالب حکمت والا ہے۔“ اسی حقیقت کے پیش نظر رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے رب کی تعریف اس طرح کیا کرتے تھے۔ (عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عُمَرَ (رض) أَنَّ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حَدَّثَہُمْ أَنَّ عَبْدًا مِنْ عِبَاد اللَّہِ قَالَ یَا رَبِّ لَکَ الْحَمْدُ کَمَا یَنْبَغِی لِجَلاَلِ وَجْہِکَ وَلِعَظِیمِ سُلْطَانِکَ فَعَضَّلَتْ بالْمَلَکَیْنِ فَلَمْ یَدْرِیَا کَیْفَ یَکْتُبَانِہَا فَصَعِدَا إِلَی السَّمَاءِ وَقَالاَ یَا رَبَّنَا إِنَّ عَبْدَکَ قَدْ قَالَ مَقَالَۃً لاَ نَدْرِی کَیْفَ نَکْتُبُہَا قَال اللَّہُ عَزَّ وَجَلَّ وَہُوَ أَعْلَمُ بِمَا قَالَ عَبْدُہُ مَاذَا قَالَ عَبْدِی قَالاَ یَا رَبِّ إِنَّہُ قَالَ یَا رَبِّ لَکَ الْحَمْدُ کَمَا یَنْبَغِی لِجَلاَلِ وَجْہِکَ وَعَظِیمِ سُلْطَانِکَ فَقَال اللَّہُ عَزَّ وَجَلَّ لَہُمَا اکْتُبَاہَا کَمَا قَالَ عَبْدِی حَتَّی یَلْقَانِی فَأَجْزِیَہُ بِہَا) [ رواہ ابن ماجۃ: باب فَضْلِ الْحَامِدِینَ] ” حضرت عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ ہمیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بتلایا کہ اللہ کے بندوں میں سے ایک بندے نے یہ کلمات کہے اے میرے پروردگار تیرے لیے تعریف ہے ایسی تعریف جیسی تیرے پرجلال چہرے کے لیے زیبا اور تیری عظیم سلطنت کے لائق ہو، پس دو فرشتوں نے ان کلمات کا اجر لکھنے میں تنگی محسوس کی کہ وہ کیسے لکھیں ؟ تو وہ دونوں آسماں کی طرف گئے اور اللہ کے سامنے عرض کی اے ہمارے پروردگار تیرے بندے نے ایسے کلمات کہے ہیں کہ جن کا اجر لکھنا ہم نہیں جانتے۔ اللہ عزوجل نے ان سے پوچھا میرے بندے نے کیا کہا حالانکہ اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ اس نے کیا کہا فرشتے کہتے ہیں کہ اس نے یہ کلمات کہیہیں (یَا رَبِّ لَکَ الْحَمْدُ کَمَا یَنْبَغِی لِجَلاَلِ وَجْہِکَ وَعَظِیمِ سُلْطَانِکَ) اللہ عزوجل نے فرمایا تم یہی کلمات لکھ دو جو کلمات میرے بندے نے ادا کیے ہیں یہاں تک کہ وہ مجھے آ ملے تو پھر میں اسے ان کلمات کا صلہ عطا کروں گا۔“ (عَنْ اَبِیْ سَعِےْدنِ الْخُدْرِیِّ ہُرَیْرَۃَ قَالَ کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اِذَا رَفَعَ رَأْسَہُ مِنَ الرُّکُوْعِ قَالَ (اَللّٰھُمَّ رَبَّنَا لَکَ الْحَمْدُ مِلْأُالسَّمٰوٰتِ وَمِلْأُ الْاَرْضِ وَمِلْأُ مَا شِءْتَ مِنْ شَئٍ بَعْدُ اَھْلَ الثَّنَآءِ وَالْمَجْدِ اَحَقُّ مَا قَالَ الْعَبْدُ وَکُلُّنَا لَکَ عَبْدٌ اَللّٰھُمَّ لَا مَانِعَ لِمَا اَعْطَےْتَ وَلَا مُعْطِیَ لِمَا مَنَعْتَ وَلَا ےَنْفَعُ ذَا الْجَدِّمِنْکَ الْجَدُّ) [ رواہ مسلم : باب اعْتِدَالِ أَرْکَان الصَّلاَۃِ وَتَخْفِیفِہَا فِی تَمَامٍ] ” حضرت ابو سعیدخدری (رض) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے رکوع کے متعلق ذکر کرتے ہیں کہ آپ رکوع میں یہ دعا بھی پڑھا کرتے تھے اے اللہ تیری حمدوستائش اس قدر ہے جس طرح زمین و آسمان اور ہر چیز کو تو نے بھرپور وجود بخشا ہے۔ تو ہی تعریف و توصیف اور عظمت کے لائق ہے۔ تو اپنے بندے کی تعریف کا زیادہ حقدار ہے ہم سب تیرے ہی بندے ہیں۔ الٰہی جو چیز تو روک لے وہ کوئی نہیں دے سکتا اور جس کو تو عطا کرنا چاہے اس میں کوئی رکاوٹ نہیں بن سکتا۔ کسی کا حسب ونسب اور مال ومتاع تیرے حکم کے بغیر فائدہ نہیں پہنچا سکتے۔“ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ عَنْ عَاءِشَۃَ (رض) قَالَتْ فَقَدْتُ رَسُول اللَّہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لَیْلَۃً مِنَ الْفِرَاشِ فَالْتَمَسْتُہُ فَوَقَعَتْ یَدِی عَلَی بَطْنِ قَدَمَیْہِ وَہُوَ فِی الْمَسْجِدِ وَہُمَا مَنْصُوبَتَانِ وَہُوَ یَقُول اللَّہُمَّ أَعُوذُ بِرِضَاکَ مِنْ سَخَطِکَ وَبِمُعَافَاتِکَ مِنْ عُقُوبَتِکَ وَأَعُوذُ بِکَ مِنْکَ لاَ أُحْصِی ثَنَاءً عَلَیْکَ أَنْتَ کَمَا أَثْنَیْتَ عَلَی نَفْسِکَ) [ رواہ مسلم : باب مَا یُقَالُ فِی الرُّکُوعِ وَالسُّجُودِ] حضرت عائشہ (رض) بیان فرماتی ہیں میں نے رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایک رات ان کے بستر سے الگ پایا۔ میں نے اپنے ہاتھوں سے آپ کو ٹٹولا میرے ہاتھ آپ کے دونوں قدموں کے درمیان آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاؤں کو لگے آپ کے دونوں پاؤں مصلّے پر کھڑے تھے اور آپ دعا کر رہے تھے۔” اے اللہ! میں تیری ناراضگی کی بجائے تیری رضاکا طلب گار ہوں۔“ سزاکی بجائے معافی کا خواست گار ہوں اور میں تیری پناہ چاہتاہوں۔ مجھ میں تیری شایان شان تعریف کرنے کی طاقت وصلاحیتنہیں۔“ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ قَالَ قَال النَّبِیُّ کَلِمَتَانِ حَبِیبَتَانِ إِلَی الرَّحْمَنِ، خَفِیفَتَانِ عَلَی اللِّسَانِ، ثَقِیلَتَانِ فِی الْمِیزَانِ سُبْحَان اللَّہِ وَبِحَمْدِہِ، سُبْحَان اللَّہِ الْعَظِیمِ) [ رواہ البخاری : باب قَوْلِ اللَّہِ تَعَالَی (وَنَضَعُ الْمَوَازِینَ الْقِسْطَ )] ” ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے انہوں نے کہا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا دو کلمے ایسے ہیں جو اللہ تعالیٰ کو بڑے محبوب ہیں، نہایت آسانی سے ادا ہوجاتے ہیں اور ترازو میں بہت وزنی ہیں۔ اللہ تعالیٰ اپنی حمد اور عظمت کے ساتھ پاک ہے۔“ تفسیر بالقرآن زمین و آسمان کی ہر چیز اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء اور اس کے ہاں سربسجود رہتی ہے : ١۔ زمین و آسمان اور جو کچھ ان کے درمیان ہے وہ اللہ تعالیٰ کو یاد کرتی ہے۔ ( الصٰفٰت : ١) ٢۔ زمین و آسمان کی ہر چیز اللہ کو سجدہ کرتی ہے۔ (الرعد : ١٥) ٣۔ کیا آپ نے نہیں دیکھا اللہ کی مخلوق میں سے ہر چیز اسے سجدہ کرتی ہے اور وہ عاجزی کرتے ہیں اللہ کو زمین و آسمان کی ہر چیز چوپائے اور فرشتے سجدہ کرتے ہیں۔ (النحل : ٤٨۔ ٤٩) ٤۔ کیا آپ نے نہیں دیکھا ؟ کہ زمین و آسمان کی ہر چیز، چاند، سورج اور ستارے، پہاڑ، درخت اور چوپائے اللہ کو سجدہ کرتے ہیں۔ (الحج : ١٨) ٥۔ ستارے اور درخت اللہ کو سجدہ کرتے ہیں۔ (الرحمن : ٦) ٦۔ ہر چیز کا سایہ بھی اللہ کو سجدہ کرتا ہے۔ (النحل : ٤٥) ٧۔ اے ایمان والو! رکوع و سجدہ کرو اپنے رب کی عبادت کرو اور نیکی کے کام کرو تاکہ تم فلاح پاؤ۔ (الحج : ٧٧) الكهف
110 فہم القرآن ربط کلام : کفار اس لیے بھی رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کا انکار کرتے تھے کہ یہ تو انسانوں میں سے ایک انسان ہے۔ وضاحت کے لیے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان اطہر سے ہی انھیں سمجھایا اور بتلایا گیا ہے کہ میں نسل انسانی کے اعتبار سے تمہارے جیسا چلنے پھرنے، کھانے، پینے اور اٹھنے، بیٹھنے والا انسان ہوں۔ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کفار مختلف قسم کے مطالبات کرتے رہتے تھے کبھی کہتے کہ ہمارے لیے چشمے جاری کیے جائیں۔ کبھی کہتے آپ کے لیے سونے کا گھر ہونا چاہیے۔ اس طرح اوٹ پٹانگ مطالبات کرتے رہتے تھے۔ جس کے جواب میں آپ کو حکم ہوا کہ آپ انھیں فرمائیں کہ میں بھی گوشت پوست کا بنا ہوا تمھارے جیسا انسان ہوں۔ انسان ہونے کے حوالے سے جو تمھاری ضروریات اور حاجات ہیں میں ان سے مبّرا نہیں ہوں۔ البتہ مجھے اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغام کے لیے منتخب فرمایا ہے میں اس کا رسول اور بندہ ہوں۔ خدا کی خدائی میں میرا کوئی عمل دخل نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنی ذات، صفات اور اختیارات میں خودمختارہے وہ کسی کے تعاون کا محتاج نہیں ہے۔ اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق اور حاجت روا مشکل کشا نہیں۔ جو شخص اپنے رب کی ملاقات پر یقین اور اس کی امید رکھتا ہے۔ اسے چاہیے کہ صالح اعمال کرے اور اپنے رب کی بندگی میں کسی کو کسی حوالے سے بھی شریک سمجھے اور نہ بنائے۔ قرآن مجید کے دوسرے مقامات پر بھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور انبیاء (علیہ السلام) کے بارے میں واضح کیا گیا کہ تمام انبیاء کرام انسان تھے۔ لیکن یہاں تو (قُلْ) کے لفظ کے ساتھ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیا گیا ہے کہ آپ فرمائیں کہ میں بشر ہونے کے ناطے سے تمھارے جیسا انسان ہوں۔ لیکن ستیاناس ہو فرقہ واریت کا کہ جس میں انسان اس قدر اندھا ہوجاتا ہے کہ اسے کوئی دلیل اور حقیقت اپنی طرف نہیں کھینچ سکتی۔ غور فرمائیں کہ کہاں قرآن مجید اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فرامین اور کہاں ایک مفسر کی دیدہ دلیری۔ جاننا چاہیے کہ پیدائش محمدی تمام افراد انسان کی پیدائش کی طرح نہیں بلکہ افراد عالم میں سے کسی فرد کی پیدائش کے ساتھ نسبت نہیں رکھتی، کیونکہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) باوجود عنصری پیدائش کے حق تعالیٰ کے نور سے پیدا ہوئے ہیں۔ جیسے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے ” خُلِقْتُ مِنْ نُوْرِ اللّٰہِ“ کشف صریح سے معلوم ہوا ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پیدائش اس امکان سے پیدا ہوئی ہے جو صفات اضافیہ کے ساتھ تعلق رکھتا ہے اور نہ کہ اس امکان سے جو تمام ممکنات عالم میں ثابت ہے۔ ممکنات عالم کے صحیفہ کو خواہ کتنا ہی باریک نظر سے مطالعہ کیا جائے لیکن آنحضرت کا وجود مشہود نہیں ہوتا۔ بلکہ ان کی خلقت وامکان کا منشاء عالم ممکنات میں ہے ہی نہیں، کیونکہ اس عالم سے برتر ہے یہی وجہ ہے کہ ان کا سایہ نہ تھا نیز عالم شہادت میں ہر ایک شخص کا سایہ اس کے وجود کی نسبت زیادہ لطیف ہوتا ہے اور جب جہاں میں ان سے لطیف کوئی نہیں تو پھر ان کا سایہ کیسے متصور ہوسکتا ہے۔“ (ضیاء القرآن : جلد ٣، صفحہ ٥٩) نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا بار، بار اقرار کہ میں بشر ہوں : ” سیدنا عبداللہ بن مسعود ہُرَیْرَۃَفرماتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نماز پڑھائی تو نماز میں کچھ کمی بیشی ہوگئی جب سلام پھیرا تو لوگوں نے عرض کیا ” یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نماز کے متعلق کوئی نیا حکم آیا ہے؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ٗکیا بات ہے لوگوں نے کہا آپ نے اتنی رکعت پڑھی ہیں یہ سن کر آپ الٹے پاؤں پھرے قبلہ کی طرف چہرہ کیا ( سہو کے) دوسجدے کیے پھر سلام پھیرا پھر ہماری طرف چہرہ کر کے فرمایا : اگر نماز کے بارے میں کوئی نیا حکم آتا تو میں ضرور تمہیں بتا دیتا لیکن بات یہ ہے کہ میں بھی تمہاری طرح آدمی ہوں جیسے تم بھول جاتے ہو میں بھی بھول جاتا ہوں۔ جب میں بھول جاؤں تو مجھے یاد دلا دیا کرو اور جب تم میں سے کسی کو اپنی نماز میں شک پڑجائے تو ظن غالب کے مطابق اپنی نماز پوری کرے پھر سلام پھیرے اور سہو کے دو سجدے کرلے۔“ [ رواہ البخاری، کتاب الصلوٰۃ : باب التوجہ نحوالقبلۃ] (عَنْ أُمِّ سَلَمَۃَ عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ وَإِنَّکُمْ تَخْتَصِمُوْنَ إِلَیَّ وَلَعَلَّ بَعْضَکُمْ أَنْ یَّکُوْنَ أَلْحَنَ بِحُجَّتِہٖ مِنْ بَعْضٍ وَأَقْضِیَ لَہٗ عَلٰی نَحْوِ مَا أَسْمَعُ فَمَنْ قَضَیْتُ لَہٗ مِنْ حَقِّ أَخِیْہِ شَیْءًا فَلَایَأْخُذْ فَإِنَّمَا أَقْطَعُ لَہٗ قِطْعَۃً مِّنَ النَّارِ) [ رواہ البخاری : کتاب الحیل، باب إذا غضب جاریۃ فزعم أنھا ماتت ] ” حضرت ام سلمہ (رض) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتی ہیں کہ آپ نے فرمایا : تم میرے پاس اپنے فیصلے لے کر آتے ہومیں ایک بشر ہوں۔ ہو سکتا ہے کہ تم میں کوئی دوسرے سے دلائل پیش کرنے میں زیادہ مہارت رکھتاہو۔ میں تو اسی بنیاد پر فیصلہ کرتاہوں جو بات سنتا ہوں۔ میں جس کے لیے اس کے بھائی کے حق کا فیصلہ کردوں۔ تو وہ اسے نہ لے کیونکہ میں اسے آگ کا ٹکڑا کاٹ کر دے رہا ہوتاہوں۔“ ” سیدنا رافع بن خدیج ہُرَیْرَۃَفرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مدینہ تشریف لائے تو اس وقت لوگ کھجور کی پیوندکاری کرتے تھے آپ نے فرمایا : یہ کیا کرتے ہو؟ صحابہ کرام (رض) نے جواب دیا ہم ایسا ہی کیا کرتے ہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اگر تم یہ کام نہ کرو تو شاید بہتر ہو۔ لوگوں نے پیوند کاری کرنا چھوڑ دی تو کھجوریں پھل کم لائی۔ صحابہ (رض) نے یہ بات رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرضکی تو آپ نے فرمایا : میں بھی ایک بشر ہی ہوں جب میں تمہیں تمہارے دین کی کسی بات کا حکم دوں تو اس پر عمل کرو اور جب میں کوئی بات اپنی رائے سے کہوں تو میں بھی آخر آدمی ہوں۔[ مسلم، کتاب الفضائل باب وجوب امتثال] (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ قَالَ قَالَ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَنْ مَّاتَ یُشْرِکُ باللّٰہِ شَیْءًا دَخَلَ النَّارَ وَقُلْتُ أَنَا مَنْ مَّاتَ لَا یُشْرِکُ باللّٰہِ شَیْءًا دَخَلَ الْجَنَّۃَ) [ رواہ البخاری : کتاب الجنائز، باب ماجاء فی الجنائز] ” حضرت عبداللہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو کوئی اس حال میں مرا کہ اس نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کیا وہ جہنم میں جائے گا۔ میں یہ بھی کہتا ہوں جس شخص نے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرایا اور اسی حال میں فوت ہوا وہ جنت میں جائے گا۔“ تفسیر بالقرآن نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور تمام انبیاء (علیہ السلام) انسان تھے وہ بشر ہونے کا اقرار کرتے تھے : ١۔ نوح کی قوم نے کہا کہ ہم تجھے اپنا جیسا بشر تصور کرتے ہیں۔ (ھود : ٢٧) ٢۔ اگر تم اپنے جیسے بشر کی اطاعت کرو گے تو نقصان اٹھاؤ گے۔ (المومنون : ٣٤) ٣۔ کیا ہم اپنے میں سے ایک بشر کی اطاعت کریں یقیناً یہ تو بڑی گمراہ کن بات ہوگی۔ (القمر : ٤٤) ٤۔ کفار نے کہا تو تو ہمارے جیسا بشر ہے اور ہم تجھے جھوٹا تصور کرتے ہیں۔ (الشعراء : ١٨٦) ٥۔ کفار نے کہا نہیں ہے یہ مگر تمھارے جیسا بشر جو کچھ تم کھاتے ہو وہی کھاتا ہے۔ (المومنون : ٣٣) ٦۔ کسی بشر کے لیے لائق نہیں کہ اللہ اسے کتاب و حکمت اور نبوت دے تو وہ لوگوں کو کہتا پھرے کہ میری عبادت کرنے والے بن جاؤ۔ (آل عمران : ٧٩) ٧۔ تمام انبیاء نے فرمایا کہ اے لوگو! ہم تمہاری طرح کے بشر ہیں۔ (ابراہیم : ١١) غور فرمائیں! کفار کہتے تھے کہ بشر نبی نہیں ہوسکتا اور کلمہ پڑھنے والے کچھ حضرات کہتے ہیں کہ نبی بشر نہیں ہو سکتا۔ الكهف
0 سورۃ مریم کا تعارف ربط سورۃ: الکہف کا اختتام اس بات پر ہوا کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ لوگوں کو فرما دیں کہ میں تمہارے جیسا بشر ہوں۔ لیکن ” اللہ“ نے مجھے اپنا رسول منتخب فرمایا ہے تاکہ اس کی الوہیّت کا پرچار کروں یہی بات سورۃ مریم کے آغاز بیان ہوئی ہے کہ حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) بھی ایک بشر اور نبی تھے۔ اور اپنے رب کی توحید اور اس کی عبادت کی طرف بلانے والے تھے۔ سورۃ مریم کا نام اسی سورۃ کی آیت ١٦ سے لیا گیا ہے یہ سورۃ ہجرت حبشہ سے پہلے مکہ میں نازل ہوئی۔ سورۃ مریم 6 رکوع اور 98 آیات پر مشتمل ہے۔ اہل مکہ نے مسلمانوں پر اس قدر مظالم ڈھائے کہ مسلمانوں کا مکہ میں رہنا ناممکن ہوگیا۔ اس صورت حال میں اللہ کے پیغمبر نے اپنے ساتھیوں کو مشورہ دیا کہ تم کچھ مدت کے لیے حبشہ کی طرف ہجرت کر جاؤ۔ کیونکہ وہاں کا بادشاہ نہایت ہی منصف مزاج اور شفیق انسان ہے۔ حالات بہتر ہوں گے تو واپس آجانا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مشورہ کے مطابق پہلی مرتبہ گیارہ صحابہ اور چار صحابیات نے حبشہ کی طرف ہجرت کی۔ کچھ دنوں کے بعد ہجرت کرنے والوں کو یہ خبر پہنچی کہ مکہ کے حالات نسبتاً بہتر ہوگئے ہیں۔ جب یہ لوگ مکہ واپس آئے تو انہیں معلوم ہوا کہ حالات پہلے سے زیادہ نازک صورت اختیار کرچکے ہیں۔ ہوسکتا ہے مکہ والوں کو مہاجرین کی واپسی پر یہ یقین ہوگیا ہو کہ ان لوگوں کے لیے کوئی جائے پناہ نہیں۔ اس لیے انہوں نے اپنے مظالم میں کئی گنا اضافہ کردیا۔ اس صورت حال میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے ساتھیوں کو دوبارہ حبشہ کی طرف ہجرت کر جانے کا مشورہ دیا اس وقت پر ٨٣ مرد اور گیارہ خواتین نے حبشہ کی طرف ہجرت کی۔ اہل تحقیق کے نزدیک مہاجرین کے بعد نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ مکہ میں صرف چالیس مسلمان باقی رہ گئے۔ تاہم مکہ کے بڑے بڑے گھرانوں میں کوئی ایسا گھر نہیں تھا جس کے کسی عزیز نے ہجرت نہ کی ہو، اس وجہ سے اس ہجرت کے مکہ پر گہرے اثرات مرتب ہوئے۔ مکہ کے سردار دل ہی دل میں اس کرب کو محسوس کرنے لگے۔ یہاں تک کہ عمر بن خطاب کی ایک قریبی رشتہ دار لیلہ (رض) بنت حشمہ ہجرت کی تیاری کر رہی تھیں کہ اس دوران عمر بن خطاب ان کے گھر آئے دیکھا کہ لیلہ بنت حشمہ ہجرت کی تیاری کر رہی ہیں پوچھا کدھر کی تیاری ہے ؟ بہن نے رقت آمیز لہجہ میں جواب دیا بھائی جب تم نے ہمارا جینا حرام کردیا ہے تو ہم نے یہاں رہ کر کیا کرنا ہے۔ عمر بن خطاب اپنی عزیزہ کی بات سن کر خاموش ہوگئے مگر ان کے چہرے سے نمایاں طور پر دکھائی دے رہا تھا کہ وہ اندر سے ہل چکے ہیں۔ اس اضطراب کے باوجود مکہ والوں کے رویّے میں کوئی فرق نہیں آیا تھا۔ جس بنا پر انہوں نے عبداللہ بن ابی ربیعہ ابوجہل کے سوتیلے بھائی اور عمر بن عاص پر مشتمل ایک وفد تیار کیا اور انہیں قیمتی تحائف دئے تاکہ حبشہ کے حکمران کی خدمت میں پیش کریں اور اس سے مسلمانوں کی واپسی کا مطالبہ کریں۔ مکی وفد حبشہ کے حکمران کی خدمت میں پہنچ کر پرزور مطالبہ کرتا ہے کہ مہاجرین کو ان کے حوالے کیا جائے۔ کیونکہ یہ اپنے دین سے منحرف ہوچکے ہیں۔ مکہ والوں کا مؤقف سن کر نجاشی نے مہاجرین کو بلاکر پوچھا کہ اس مسئلہ میں تمہارا مؤقف کیا ہے؟ مہاجرین نے کہا کہ اے بادشاہ ! اللہ نے ہم ہی سے ایک شخص کو اپنا رسول منتخب فرمایا ہے جس نے ہمیں سچے دین کی دعوت دی اور ہم اس پر ایمان لے آئے جس وجہ سے یہ لوگ ہم پر ظلم ڈھارہے ہیں۔ یہ بات سن کر نجاشی نے اہل مکہ کا مؤقف مسترد کردیا اور اپنے اہل کاروں کو حکم دیا کہ ہمارے ملک میں مہاجرین مہمان ہیں انہیں کسی قسم کی تکلیف نہیں پہنچنا چاہیے۔ مکہ کا وفد مایوس ہو کر اپنی قیام گاہ میں واپس لوٹا، اور ساری رات پیچ وتاب کھاتے رہے۔ بالآخر انہوں نے اگلے دن نجاشی سے ملاقات کی اور اسے کہا کہ یہ لوگ مریم (علیہ السلام) اور عیسیٰ (علیہ السلام) کی توہین کرتے ہیں، اس پر نجاشی نے مسلمانوں کی طرف دوبارہ قاصد بھیجا کہ وہ حاضر ہوجائیں۔ مسلمان نجاشی کے پاس تشریف لے گئے تو اس نے حضرت مریم اور عیسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں مسلمانوں سے استفسار کیا کہ تمہارا ان ہستیوں کے بارے میں کیا خیال ہے ؟ مسلمانوں نے باہم مشورہ کر کے حضرت جعفر (رض) بن ابی طالب کو اپنا نمائندہ مقرر کیا۔ اور ان سے کہا کہ ہمیں ہر حال میں سچ بات کہنا ہے۔ حضرت جعفر (رض) طیار نے اپنے ساتھیوں کی نمائندگی کرتے ہوئے سورۃ مریم کی ان آیات کی تلاوت کی جس میں یہ وضاحت کی گئی ہے کہ حضرت مریم کے ہاں کس طرح حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) پیدا ہوئے اور عیسیٰ (علیہ السلام) نے گہوارے میں اپنے بارے میں کیا گفتگو فرمائی۔ نجاشی نے ان آیات کی تلاوت سنی تو اس نے زمین سے ایک تنکا اٹھا کر کہا کہ عیسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں جو کچھ فرمایا گیا ہے وہ سو فیصد ٹھیک ہے ان کی شان میں ایک تنکا کے برابر بھی کمی، بیشی نہیں کی گئی۔ اس طرح مسلمان سرخرو ہوئے اور مکہ کا وفد ناکام اور نامراد ٹھہرا۔ اس سورۃ مبارکہ میں حضرت مریم اور عیسیٰ (علیہ السلام) کے ذکر کے بعد حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے خطاب کے بارے میں تفصیلات دی گئی ہیں، جس میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اپنے والد کے سامنے توحید کے واضح دلائل اور اس کا کھلے الفاظ میں ابلاغ کرتے ہیں۔ مگر باپ کے ادب میں فرق نہیں آنے دیتے۔ جس میں یہ بتلایا گیا ہے توحید کی سچائی اور غیرت اپنی جگہ لیکن اہل توحید کو ادب کا دامن کبھی نہیں چھوڑنا چاہیے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے بعد حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا مختصر تذکرہ ہے ان کے بیان کے بعد اسماعیل (علیہ السلام) کا ذکر اور ان کے اوصاف حمیدہ کا تذکرہ ان الفاظ میں کیا گیا ہے کہ وہ وعدے کے سچے رسول اور نبی تھے۔ حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کا وعدہ کے بارے میں سچا ہونے کی صفت شائد اس لیے ذکر کی گئی ہے کہ انہوں نے بارہ تیرا سال کی عمر اپنے باپ ابراہیم (علیہ السلام) سے عرض کی تھی کہ والد محترم آپ نے خواب میں مجھے ذبح کرتے ہوئے دیکھا ہے تو مجھے ذبح کردیجیے آپ مجھے حوصلہ کرنے والا پائیں گے یعنی مجھے اس عہد پر پکا پائیں گے۔ حضرت اسماعیل نے انتہائی چھوٹی عمر میں باپ سے کیے ہوئے وعدے کو کمال درجے میں پورا کیا۔ جس وجہ سے ان کی اس صفت کا بالخصوص ذکر ہوا ہے۔ اس کے بعد برے لوگوں کا انجام اور متقین کے انعام کا بیان ہوا ہے۔ سورۃ کا اختتام اس بات پر ہوا کسی کو اللہ تعالیٰ کی اولاد ٹھہرانااتنا بڑا جرم ہے کہ قریب ہے آسمان پھٹ جائے، زمین شک ہوجائے، اور پہاڑ گر پڑیں۔ ان لوگوں کی حماقت کی انتہا ہے کہ یہ نہیں سوچتے اللہ کے ہاں اولاد کس طرح ہو سکتی ہے۔ اس کی تو کوئی بیوی نہیں وہ ہر قسم کی حاجت سے مبّرا ہے۔ اولاد کی ضرورت اسے ہوتی ہے جسے اپنا نسب جاری رکھنے کی خواہش یا کسی قسم کی معاونت کی ضرورت ہو۔ اللہ تعالیٰ ہر ضرورت سے بے نیاز ہے کیونکہ زمین و آسمانوں کی ہر چیز اس کی ملکیت اور اس کے تابع فرمان ہے۔ مريم
1 فہم القرآن ربط کلام : سورۃ مریم بھی حروف مقطعات سے شروع ہوئی ہے۔ ان کے بارے میں پہلے بیان ہوچکا ہے کہ حروف مقطعات کا حقیقی معنٰی اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ جن لوگوں نے بزرگوں کے اقوال سے ان کا معنٰی متعین کرنے کی کوشش کی ہے اسے فکری کاوش کے سوا کوئی حیثیت نہیں دی جا سکتی۔ حقیقت یہی ہے کہ اس کا معنٰی اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ مکہ معظمہ میں مسلمانوں کے حالات اس قدر مخدوش ہوچکے تھے کہ دور دور تک روشنی کی کوئی کرن دکھائی نہیں دیتی تھی جس سے یہ واضح ہو کہ اللہ کی توحید کا غلبہ اور اسلام کی تحریک کامیاب ہو سکے گی۔ ان حالات میں سورۃ مریم نازل ہوئی جس کی ابتداء اس بات سے کی جا رہی ہے کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ہم آپ کے سامنے زکریاکا واقعہ ذکر کرتے ہیں جو میرا بندہ تھا۔ آپ کے رب نے اس وقت اس پر اپنی رحمت اور شفقت کا نزول فرمایا جب وہ اپنی عمر کے اعتبار سے اولاد کے قابل نہ تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اسے بڑھاپے میں بیٹا عنایت فرمایا۔ آپ بھی میرے بندے اور رسول ہیں۔ اس لیے آپ کو اسباب کے فقدان اور ظاہری حالات سے مایوس نہیں ہونا چاہیے۔ کیونکہ اسباب آپ کے رب کے محتاج اور حالات اس کے حکم کے تابع ہیں۔ عنقریب وقت آئے گا کہ اللہ تعالیٰ توحید کے منکروں، اسلام کے مخالفوں اور آپ کے دشمنوں کو ناکام اور آپ کو دنیا اور آخرت کی کامیابیوں سے سرفراز فرمائے گا۔ سیدنا زکریا (علیہ السلام) قرآن حکیم حضرت زکریا (علیہ السلام) کا ذکر خیر چار سورتوں میں سات مرتبہ آیا ہے جن کے حوالے درج ذیل ہیں : سورۂ آل عمران : ٣٧ تا ٤١ الانعام : ٨٥ مریم : ٢ تا ١١ الانبیاء : ٨٩۔ ٩٠ حضرت زکریا (علیہ السلام) کا پیشہ : (عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ کَانَ زَکَرِیَّا نَجَّارًا) [ رواہ المسلم : کتاب الانبیاء] ” حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا زکریا (علیہ السلام) نجاری کا پیشہ کرتے تھے۔“ مسائل ١۔ حروف مقطعات کا معنٰی اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ ٢۔ حضرت زکریا (علیہ السلام)، حضرت یحییٰ (علیہ السلام) کے والد گرامی اور اپنے وقت کے عظیم نبی تھے۔ مريم
2 مريم
3 فہم القرآن ربط کلام : حضرت زکریا (علیہ السلام) پر اللہ تعالیٰ نے جو خاص الخاص رحمت فرمائی اس کا ذکر۔ حضرت زکریا (علیہ السلام) کی عمر مبارک 120 سال کے قریب ہوچکی تھی اور ان کی زوجۂ مکرمہ 98 سال کے قریب اور جسمانی طور پر اولاد جنم دینے کے قابل نہ تھیں یعنی وہ کلیتاً بانجھ تھیں۔ ان حالات کے باوجود حضرت زکریا (علیہ السلام) ” اللہ“ کی رحمت سے مایوس نہیں تھے۔ یہی انبیاء (علیہ السلام) اور نیک لوگوں کا شیوہ ہے کہ حالات جیسے بھی ہوں وہ اپنے رب کی رحمت سے مایوس نہیں ہوا کرتے۔ اس لیے حضرت زکریا (علیہ السلام) پورے اعتماد اور یقین کے ساتھ اپنے رب کے حضور دعائیں کیے جا رہے تھے۔ سورۃ آل عمران آیت ٣٧ تا ٣٩ میں ذکر ہے کہ ایک دن ان کے سامنے عجب واقعہ پیش آیا۔ جب وہ مسجد اقصیٰ کے ایک حجرہ میں اپنی اہلیہ کی بھانجی حضرت مریم جو زکریا (علیہ السلام) کی زیر کفالت تھیں۔ ان کے پاس تشریف لائے تو یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ معصوم بچی کے پاس ایسے پھل موجود ہیں جن کا موسم نہیں تھا۔ فرمانے لگے۔ مریم ! یہ پھل کہاں سے آئے ؟ حضرت مریم [ نے عرض کیا خالو! یہ اللہ تعالیٰ کی عطا ہے یہ سنتے ہی زکریا (علیہ السلام) کے دل پر چوٹ لگی جس سے دل کے زخم تازہ ہوئے جذبات کا طلاطم بہہ نکلا اور اسی وقت دبی زبان میں اللہ تعالیٰ سے فریاد کرنے لگے الٰہی میں بوڑھا ہوں میری ہڈیاں کمزور ہوچکی ہیں میرے بال سفیدی سے چمک رہے ہیں، میری بیوی بانجھ ہے اس کے باوجود میں تیری رحمت سے مایوس نہیں ہوا۔ الٰہی مجھے اپنی طرف سے ایک وارث عطا فرما جو میرا اور آل یعقوب کا وارث ہو۔ میرے رب ! بیٹا نیک سیرت اور تیرا پسندیدہ ہونا چاہیے۔ میرے رب! مجھے اپنی جناب سے صالح اولاد عنایت فرما اور تو ہی دعاؤں کو سننے والا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسی وقت فرشتے کے ذریعے خوشخبری دی کہ تجھے بیٹا عنایت کیا جاتا ہے۔ جس کا نام یحییٰ ہوگا جو سردار، پاک باز اور نبی ہوگا۔ حضرت زکریا (علیہ السلام) نے تعجب سے پوچھا یہ بات کس طرح پوری ہوگی ؟ فرشتے نے جواب دیا میں صرف اسی قدر کہہ سکتا ہوں کہ حالات کچھ بھی ہوں تمہارے ہاں ضرور بیٹا ہوگا۔ کیونکہ اللہ کا فیصلہ ہے اس کا فرمان ہے کہ میرے لیے یہ بہت آسان ہے۔ حضرت زکریا (علیہ السلام) نے بارگاہِ الٰہی میں عرض کی پروردگار کوئی نشانی عطا فرما جس سے بشارت کے ظہور کا علم ہو سکے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا تم تین دن تک بات نہ کرسکو صرف اشاروں سے ہی اپنا مطلب ادا کر پاؤ گے۔ اس لیے ان ایام میں اللہ کی تسبیح وتقدیس میں زیادہ مشغول رہنا۔ زکریا (علیہ السلام) کا انداز اور عاجزی اللہ تعالیٰ کو اس قدر پسند آئی کہ ہمیشہ ہمیش کے لیے اس کا تذکرہ قرآن مجید میں محفوظ کردیا گیا۔ دعا کرنے کے آداب : (اُدْعُوْا رَبَّکُمْ تَضَرُّعًا وَّخُےْفَۃً) [ الاعراف : ٥٥] ” اپنے رب کو خوف اور طمع کے ساتھ پکارو۔“ (وَادْعُوْہُ خَوْفًا وَّ طَمَعًااِنَّ رَحْمَتَ اللّٰہِ قَرِیْبٌ مِّنَ الْمُحْسِنِیْنَ) [ الاعراف : ٥٦] ” اللہ کو خوف اور امید سے پکارو یقیناً اللہ کی رحمت نیک کردار لوگوں سے قریب ہوتی ہے۔“ (قُلْ یٰعِبَا دِیَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْا عَلآی اَنْفُسِہِمْ لاَ تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَۃِ اللّٰہِ اِِنَّ اللّٰہَ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِیْعًا اِِنَّہٗ ہُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ) [ الزمر : ٥٣] ” اے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میرے بندوں سے فرما دیجیے جو گناہ کر بیٹھے ہیں اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہونا یقیناً اللہ تعالیٰ ہی سب گناہوں کو بخشتا ہے اور اللہ تعالیٰ معاف کرنے والا اور رحم کرنے والاہے۔“ دعا کے آداب میں شکرو حمد، درود اور توبہ استغفار کے ساتھ فقیر کی شان اور اللہ تعالیٰ کی جلالت ومنزلت کا تقاضا ہے کہ رب کریم سے مانگتے وقت غایت درجے کی انکساری درماندگی کا اظہار کرتے ہوئے اسکے سامنے دست سوال دراز کرنا چاہیے۔ شاہ ولی اللہ (رض) نے لکھا ہے کہ دعا مانگنے والا اس بے بسی اور بے چارگی کا اظہار کرے جس طرح مردہ غساّل کے ہاتھ میں ہو۔ (رُوْحُ الدُّعَاءِ اَنْ یَّرَیٰ کُلَّ حَوْلٍ وَقُوَّۃٍ مِنَ اللّٰہِ وَےَصِےْرُ کَا لْمَیِّتِ فِیْ ےَدِ الْغُسَّالِ) [ حجۃ اللّٰہ] ” دعا کی روح یہ ہے کہ دعا کرنے والا ہر قسم کی طاقت وقوت کا سر چشمہ اللہ تعالیٰ کی ذات کو تصور کرے اور اس کی قوت و عظمت کے سامنے اپنے آپ کو اس طرح بے بس سمجھے جس طرح نہلانے والے کے ہاتھوں میت ہوتی ہے۔“ (عَنْ سَلْمَانَ الْفَارِسِیِّ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) إِنَّ رَبَّکُمْ حَیِیٌّ کَرِےْمٌ ےَسْتَحْیِیْ مِنْ عَبْدِہٖ إِذَارَفَعَ ےَدَےْہِ اَنْ یَّرُدَّھُمَا صِفْرًا) [ رواہ أبوداوٗد : کتاب الصلاۃ، باب الدعاء] ” حضرت سلمان فارسی (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تمہارا رب نہایت ہی مہربان اور بڑا ہی حیا والا ہے۔ بندہ جب اس کی بارگاہ میں ہاتھ اٹھاتا ہے تو اللہ کو خالی ہاتھ لوٹاتے ہوئے شرم آتی ہے۔“ مسائل ١۔ حضرت زکریا نے بڑی آہستگی کے ساتھ اپنے رب کو پکارا۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ بوڑھے اور بانجھ عورت کو اولاد عنایت کرسکتا ہے۔ ٣۔ دعا یقین اور اعتماد کے ساتھ مسلسل کرنی چاہیے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس نہیں ہونا چاہیے۔ مريم
4 مريم
5 فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ جیسا کہ اس سے پہلے عرض کیا ہے کہ حضرت زکریا (علیہ السلام) نے مریم [ کے پاس بے موسم پھل دیکھ کر اسی وقت اور اسی جگہ نیک بیٹے کی دعا کی۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت زکریا (علیہ السلام) کو فرشتے کے ذریعہ حضرت یحییٰ (علیہ السلام) کی خوشخبری دی۔ یہاں زکریا (علیہ السلام) کی دعا کے تذکرہ میں یہ اضافہ موجود ہے کہ انھوں نے جب دعا کی تو وہ آہستہ الفاظ یعنی دبی زبان میں دعا کر رہے تھے۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مریم [ کی موجودگی اور انتہائی غم، بے بسی کی وجہ سے انھوں نے دل ہی دل میں دعا کی۔ حضرت زکریا (علیہ السلام) کے انداز سے یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ دعا کرتے ہوئے آدمی کو اپنے رب کے حضور اپنی کم مائیگی اور بے بسی کا الفاظ میں بھی اظہار کرنا چاہیے۔ اس سے ایک طرف انسان کی طبیعت میں رقت پیدا ہوتی ہے اور دوسری طرف عقیدہ کی پختگی کا اظہار ہوتا ہے کہ میں محتاج ہوں اور میرا رب داتا ہے جس سے دعا کی قبولیت میں یقینی صورت پیدا ہوجاتی ہے۔ حضرت زکریا (علیہ السلام) نے جب اس کیفیت کے ساتھ عاجزی اور بے بسی کی دعا کی الٰہی مجھے بیٹا عطا فرما جو تیرا محبوب اور میرا خلف الرشید بنے تو اللہ تعالیٰ نے اسی وقت ان کی دعا قبول فرمائی اور ان کی زوجۂ مکرمہ کو صحت عطا کرتے ہوئے یحییٰ (علیہ السلام) عنایت فرمائے۔ جن کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ وہ نیکی کے کاموں میں آگے بڑھنے والے، اپنے رب کی انتہائی توجہ اور عاجزی کے ساتھ عبادت کرنے اور اللہ تعالیٰ سے بہت ہی ڈرنے والے تھے۔ دعا میں حضرت زکریا (علیہ السلام) نے اپنے اور آل یعقوب کے وارث کی حیثیت سے بیٹا طلب کیا تھا۔ وراثت پر بحث کرتے ہوئے اہل علم نے لکھا ہے یہاں وارثت سے مراد دنیوی وراثت نہیں ہے کیونکہ حضرت زکریا (علیہ السلام) محنت مزدوری کرکے اپنی ضروریات پوری کیا کرتے تھے۔ ظاہر ہے کہ ایک غریب پیغمبر کو اپنی دنیوی وراثت کی کیا فکر ہو سکتی ہے ؟ یہاں وراثت سے مراد نبوت کا علم اور مشن ہے۔ جس کے انبیاء (علیہ السلام) داعی اور وارث ہوتے ہیں۔ اسی لیے زکریا (علیہ السلام) نے اپنی دعا میں آل یعقوب کا ذکر کیا ہے۔ حضرت زکریا (علیہ السلام) خاندانی طور پر حضرت یعقوب (علیہ السلام) سے تعلق رکھتے تھے۔ مريم
6 مريم
7 فہم القرآن ربط کلام : حضرت زکریا (علیہ السلام) کی دعا قبول ہوئی اور انھیں فی الفور یحییٰ (علیہ السلام) کی خوشخبری دی گئی، حضرت زکریا کا نشانی طلب کرنا۔ سورۃ آل عمران میں ذکر ہے کہ حضرت زکریا (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے ملائکہ کے ذریعہ یحییٰ (علیہ السلام) کی خوشخبری سنائی گئی۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی اولاد دینے والا نہیں اور زکریا (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہی ملائکہ نے یحییٰ (علیہ السلام) کی خوشخبری دی تھی۔ اس لیے یہاں اللہ تعالیٰ نے یہ ارشاد فرمایا ہے کہ ہم نے زکریا (علیہ السلام) کو بیٹے کی خوشخبری دی اور اس کا نام یحییٰ رکھا۔ اس سے پہلے اس نام کا کوئی شخص نہیں ہوا۔ جب زکریا (علیہ السلام) کو بیٹے کی خوشخبری ملی تو عرض کرنے لگے میرے رب ! میرے ہاں کس طرح بیٹا ہوگا جبکہ میں اور میری بیوی صحت کے اعتبار سے اولاد جنم دینے کے قابل نہیں ہیں۔ میں بڑھاپے کی آخری حد کو پہنچ چکا ہوں۔ یہاں تک کہ میری ہڈیاں کھوکھلی ہوچکی ہیں اور میرے بال سفیدی سے چمک رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس کا جواب ارشاد فرمایا کہ اے میرے بندے زکریا! کیا تو نے اپنے آپ پر غور نہیں کیا کہ میں نے تجھے پیدا کیا ہے جبکہ تیرا ذکر اور وجود ہی نہیں تھا۔ بے شک تو اور تیری بیوی بچہ جنم دینے کے قابل نہیں لیکن میرے لیے تجھے بچہ عنایت کرنا کوئی مشکل نہیں۔ کیونکہ میں خالقِ کل اور مسبب الاسباب ہوں۔ مخلوق اور اسباب میرے محتاج ہیں میں مخلوق اور اسباب کا محتاج نہیں ہوں۔ بیٹے کی خوشخبری دیتے۔ ہوئے ناصرف اللہ تعالیٰ نے اس کا نام یحییٰ بتلایا بلکہ یہ بھی وضاحت فرمائی کہ اس سے پہلے آج تک یہ کسی کا نام نہیں رکھا گیا۔ سَمِیًّا کا لفظ اوصاف کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ حضرت زکریا (علیہ السلام) کو بیٹے کا نام بتلانے کے ساتھ اس کے بڑے بڑے اوصاف سے بھی آگاہ کردیا گیا۔ یاد رہے کہ عربی میں غلام کے چار مشہور معانی ہیں۔ ١۔ بیٹا۔ ٢۔ نوعمر لڑکا۔ ٣۔ زر خرید آدمی غلام۔ ٤۔ تابع دار انبیاء کرام (علیہ السلام) اللہ کے بندے اور انسان ہوتے ہیں۔ حضرت زکریا (علیہ السلام) بھی اللہ کے نبی ہونے کے ساتھ ایک انسان ہی تھے۔ جو کام انسان کی سوچ سے ماورآ اور اس کے خیال میں ناممکن ہو۔ اس کے بارے میں اسے خوشخبری دی جائے تو وہ اس کے ظہور کے قرائن اور شواہد کا طلب گار ہوتا ہے تاکہ اس کی طبیعت اسے قبول کرنے کے لیے آمادہ اور دل کی اتھاہ گہرائیوں کے ساتھ اس پر یقین آ جائے۔ اس کی مثال حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے حوالے سے بھی موجود ہے۔ جب انھوں نے عرض کی کہ میرے رب ! آپ کس طرح مردوں کو زندہ کریں گے ؟ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا اے ابراہیم ! کیا تو بھی ایمان نہیں رکھتا ؟ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے جواباً عرض کیا ” کیوں نہیں“ میرا پوری طرح ایمان ہے کہ آپ مردوں کو زندہ کرسکتے ہیں اور کریں گے لیکن میں نے اپنے دل کے اطمینان کے لیے یہ عرض کی ہے۔ جس کے جواب میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو چار مختلف پرندے اپنے ساتھ مانوس کرنے کے بعد انھیں ذبح کرکے ان کا گوشت پہاڑ کی مختلف جگہوں پر رکھنے کا حکم ہوا۔ جس کی تفصیل دیکھنے کے لیے سورۃ البقرۃ آیت ٢٦٠ کی تلاوت کیجیے۔ ایسی ہی کیفیت میں حضرت زکریا (علیہ السلام) نے بیٹے کی ولادت کی نشانی عطا کرنے کی درخواست کی۔ اللہ تعالیٰ نے یہ دعا قبول کرتے ہوئے فرمایا کہ بچے کی ولادت کی نشانی یہ ہے کہ آپ تین راتیں تندرست ہونے کے باوجود بات چیت نہیں کرسکیں گے لہٰذا آپ اللہ تعالیٰ کی صبح و شام خوب حمد و ثناء کریں۔ سورہ آل عمران میں تین ایام کا ذکر ہے کہ آپ تین دن رات تک اشارے کے سوا بات نہیں کر پائیں گے۔ اہل تفسیر نے لکھا ہے کہ جب زکریا (علیہ السلام) کو بیٹے کی خوشخبری دی گئی تو اسی رات اللہ تعالیٰ نے ان کی بیوی کو صاحب امید کردیا قرآن مجید کے الفاظ سے یہ مفہوم اخذ کیا جا سکتا ہے کہ جو نہی زکریا (علیہ السلام) کی اہلیہ صاحب امید ہوئیں تو اللہ تعالیٰ نے حضرت زکریا کی تین دن کے لیے زبان بند کردی تاکہ زکریا (علیہ السلام) بیٹے کی خوشخبری پاکر تین دن تک معمولات سے ہٹ کر اپنے رب کی غیر معمولی حمد و ثناء اور اس کا شکر ادا کرسکیں۔ اللہ تعالیٰ کے ذکر و فکر کی فضیلت : (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ ہُرَیْرَۃَ عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَال اللّٰہُ تَعَالٰی أَنَا مَعَ عَبْدِیْ حَیْثُمَا ذَکَرَنِیْ وَتَحَرَّکَتْ بِیْ شَفَتَاہُ) [ رواہ البخاری : کتاب التوحید، باب قول اللہ تعالیٰ لاتحرک بہ لسانک الخ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں میں اپنے بندے کے ساتھ ہوتاہوں جب اس کے ہونٹ میرے ذکر میں حرکت کریں اور وہ جہاں کہیں بھی میرا ذکر کرے۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ کسی سبب کے بغیر سب کچھ کرسکتا ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ سے اس کی قدرت کی نشانی طلب کرنا جائز ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ اولاد اور کوئی نعمت عطا فرمائے تو اس کی حمد وشکر کرنا چاہیے۔ ٤۔ انسان کو صرف اللہ تعالیٰ سے ہی مانگنا چاہیے اس کے علاوہ کوئی کچھ نہیں دے سکتا۔ تفسیر بالقرآن یحییٰ ( علیہ السلام) کے اوصاف حمیدہ : ١۔ ہم نے اسے لڑکپن میں دانائی عطا فرمائی تھی اور اپنی جناب سے پاکیزگی اور شفقت عطا فرمائی تھی وہ پرہیزگار تھے اور ماں باپ کے ساتھ نیکی کرنے والے، سرکش اور نافرمان نہ تھے۔ (مریم : ١٢ تا ١٤) ٢۔ یقیناً اللہ تجھے یحییٰ کی خوشخبری دیتا ہے جو عیسیٰ (علیہ السلام) کی تصدیق کریں گے، سردار ہوں گے اور عورتوں سے رغبت نہ رکھنے والے، نیکوکاروں میں سے ہوں گے۔ (آل عمران : ٣٩) ٣۔ زکریا، یحییٰ، عیسیٰ اور الیاس سب کے سب نیکوکاروں میں سے تھے۔ (الانعام : ٨٩) مريم
8 مريم
9 مريم
10 مريم
11 مريم
12 فہم القرآن ربط کلام : حضرت یحییٰ (علیہ السلام) کو ہدایات : قرآن مجید کے الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ یحییٰ (علیہ السلام) کو بچپن میں نبوت کے منصب پر فائز کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے کتاب سے سرفراز فرمایا تھا۔ کیونکہ اس آیت میں ارشاد ہوا ہے کہ ہم نے اسے بچپن میں ہی حکمت و دانائی اور قوت فیصلہ عنایت کی تھی اور انھیں حکم دیا تھا کہ کتاب اللہ کو فکری اور عملی طور پر پوری قوت کے ساتھ پکڑے رکھنا یعنی اس کے ابلاغ، نفاذ اور اس پر عمل کرنے میں آپ سے دانستہ طور پر سستی اور کوتاہی سرزد نہیں ہونا چاہیے۔ قرآن مجید کے ظاہری الفاظ سے تو یہی پتہ چلتا ہے کہ یحییٰ (علیہ السلام) کو بچپن میں یہ چیزیں عنایت کی گئیں تھیں۔ قریب قریب اس طرح کے الفاظ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے بارے میں بھی استعمال ہوئے ہیں۔ ان کے بارے میں یہ ارشاد ہے کہ ہم نے ابراہیم (علیہ السلام) کو بچپن میں ہی رشد و ہدایت سے سرفراز فرمایا تھا اور ہم ابراہیم کو اچھی طرح جاننے والے ہیں۔ (الانبیاء : ٥١) اس کا مفہوم نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فرمان سے سمجھنا چاہیے آپ نے فرمایا کہ مجھے اس وقت نبوت عطا کی گئی تھی جب آدم (علیہ السلام) کا خمیر اٹھایا جا رہا تھا۔ حالانکہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر پہلی وحی ٤٠ سال کے بعد نازل ہوئی تھی۔ لہٰذا یہ بات حقیقت کے قریب لگتی ہے کہ حضرت یحییٰ (علیہ السلام) کو بچپن کی عمر میں نہیں، بلکہ باضابطہ طور پر بھرپور جوانی کے عالم میں نبوت سے سرفراز کیا گیا تھا۔ حضرت یحییٰ (علیہ السلام) کے بارے میں روایات موجود ہیں کہ انھیں ٣٥ سال کے بعد کتاب عنایت کی گئی تھی۔ حضرت یحییٰ (علیہ السلام) کی کتاب میں انہی باتوں پر زور دیا گیا تھا جو ہمیشہ سے آسمانی کتب اور ہر نبی کی نبوت کا مرکزی پیغام رہا ہے۔ کیونکہ حضرت یحییٰ (علیہ السلام) بنی اسرائیل کے نبی ہیں جن کی شریعت کے بنیاد ی اصولوں کا تذکرہ سورۃ البقرۃ میں یوں کیا گیا ہے۔ (وَإِذْ أَخَذْنَا مِیْثَاقَ بَنِیْ إِسْرَاءِیْلَ لَا تَعْبُدُوْنَ إِلَّا اللّٰہَ وَبِالْوَالِدَیْنِ إِحْسَانًا وَذِی الْقُرْبٰی وَالْیَتَامٰی وَالْمَسَاکِیْنِ وَقُوْلُوا للنَّاسِ حُسْنًا وَأَقِیمُوْا الصَّلَاۃَ وَاٰتُوا الزَّکَاۃَ ثُمَّ تَوَلَّیْتُمْ إِلَّا قَلِیْلاً مِنْکُمْ وَأَنْتُمْ مُعْرِضُوْنَ) [ البقرۃ: ٨٣] ” اور یاد کرو جب ہم نے بنی اسرائیل سے پختہ وعدہ لیا تھا کہ نہ عبادت کرنا اللہ کے سوا۔ اور ماں باپ سے اچھا سلوک کرنا نیز رشتہ داروں‘ یتیموں اور مسکینوں سے بھی حسن سلوک کا مظاہرہ کرنا، لوگوں سے اچھی باتیں کہنا اور نماز قائم رکھنا اور زکوٰۃ دیتے رہنا مگر سب نے منہ موڑ لیا صرف چند آدمی تم سے ثابت قدم رہے۔ تم تو رو گردانی کرنے والے ہو۔“ جب حضرت یحییٰ (علیہ السلام) کو منصب نبوت پر فائز کیا گیا تو انہیں کتاب پر پوری تندہی سے عمل کرنے کی تلقین کی گئی آپ کی زندگی بتاتی ہے کہ آپ نے اس حکم خداوندی کی تعمیل کا حق ادا کردیا۔ دورافتادہ آبادیوں، صحراؤں اور دشوار گزار پہاڑوں میں جا جا کر لوگوں کو پیغام حق سنایا اور انہیں گناہوں سے تائب ہونے کی ترغیب دی۔ بے شمار لوگ آپ کی تبلیغ کی برکت سے راہ حق پر آگئے۔ فسق وفسجور کی زندگی ترک کرکے زہدو تقویٰ کو اپنا شعار بنایا۔ قوم کے ہر طبقہ کو آپ نے ان کی کوتاہیوں اور خامیوں پر متنبہ کیا۔ بنی اسرائیل کے جو علماء دنیا کی محبت میں گرفتار ہوچکے تھے اور احکام الٰہی کی تحریف میں کوئی جھجک محسوس نہ کرتے تھے انہیں بڑی سختی سے جھنجھوڑا۔ (أَنَّ الْحَارِثَ الأَشْعَرِیَّ حَدَّثَہُ أَنَّ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ إِنَّ اللَّہَ أَمَرَ یَحْیَی بْنَ زَکَرِیَّا بِخَمْسِ کَلِمَاتٍ أَنْ یَعْمَلَ بِہَا وَیَأْمُرَ بَنِی إِسْرَاءِیلَ أَنْ یَعْمَلُوا بِہَا وَإِنَّہُ کَادَ أَنْ یُبْطِءَ بِہَا فَقَال عیسَی إِنَّ اللَّہَ أَمَرَکَ بِخَمْسِ کَلِمَاتٍ لِتَعْمَلَ بِہَا وَتَأْمُرَ بَنِی إِسْرَاءِیلَ أَنْ یَعْمَلُوا بِہَا فَإِمَّا أَنْ تَأْمُرَہُمْ وَإِمَّا أَنَا آمُرُہُمْ فَقَالَ یَحْیَی أَخْشَی إِنْ سَبَقْتَنِی بِہَا أَنْ یُخْسَفَ بِی أَوْ أُعَذَّبَ فَجَمَعَ النَّاسَ فِی بَیْتِ الْمَقْدِسِ فَامْتَلأَ الْمَسْجِدُ وَقَعَدُوا عَلَی الشُّرَفِ فَقَالَ إِنَّ اللَّہَ أَمَرَنِی بِخَمْسِ کَلِمَاتٍ أَنْ أَعْمَلَ بِہِنَّ وَآمُرَکُمْ أَنْ تَعْمَلُوا بِہِنَّ أَوَّلُہُنَّ أَنْ تَعْبُدُوا اللَّہَ وَلاَ تُشْرِکُوا بِہِ شَیْءًا وَإِنَّ مَثَلَ مَنْ أَشْرَکَ باللَّہِ کَمَثَلِ رَجُلٍ اشْتَرَی عَبْدًا مِنْ خَالِصِ مَالِہِ بِذَہَبٍ أَوْ وَرِقٍ فَقَالَ ہَذِہِ دَارِی وَہَذَا عَمَلِی فَاعْمَلْ وَأَدِّ إِلَیَّ فَکَانَ یَعْمَلُ وَیُؤَدِّی إِلَی غَیْرِ سَیِّدِہِ فَأَیُّکُمْ یَرْضَی أَنْ یَکُونَ عَبْدُہُ کَذَلِکَ وَإِنَّ اللَّہَ أَمَرَکُمْ بالصَّلاَۃِ فَإِذَا صَلَّیْتُمْ فَلاَ تَلْتَفِتُوا فَإِنَّ اللَّہَ یَنْصِبُ وَجْہَہُ لِوَجْہِ عَبْدِہِ فِی صَلاَتِہِ مَا لَمْ یَلْتَفِتْ وَآمُرُکُمْ بالصِّیَامِ فَإِنَّ مَثَلَ ذَلِکَ کَمَثَلِ رَجُلٍ فِی عِصَابَۃٍ مَعَہُ صُرَّۃٌ فیہَا مِسْکٌ فَکُلُّہُمْ یَعْجَبُ أَوْ یُعْجِبُہُ ریحُہَا وَإِنَّ ریح الصَّاءِمِ أَطْیَبُ عِنْدَ اللَّہِ مِنْ ریحِ الْمِسْکِ وَآمُرُکُمْ بالصَّدَقَۃِ فَإِنَّ مَثَلَ ذَلِکَ کَمَثَلِ رَجُلٍ أَسَرَہُ الْعَدُوُّ فَأَوْثَقُوا یَدَہُ إِلَی عُنُقِہِ وَقَدَّمُوہُ لِیَضْرِبُوا عُنُقَہُ فَقَالَ أَنَا أَفْدِیہِ مِنْکُمْ بالْقَلِیلِ وَالْکَثِیرِفَفَدَی نَفْسَہُ مِنْہُمْ وَآمُرُکُمْ أَنْ تَذْکُرُوا اللَّہَ فَإِنَّ مَثَلَ ذَلِکَ کَمَثَلِ رَجُلٍ خَرَجَ الْعَدُوُّ فِی أَثَرِہِ سِرَاعًا حَتَّی إِذَا أَتَی عَلَی حِصْنٍ حَصِینٍ فَأَحْرَزَ نَفْسَہُ مِنْہُمْ کَذَلِکَ الْعَبْدُ لاَ یُحْرِزُ نَفْسَہُ مِنَ الشَّیْطَانِ إِلاَّ بِذِکْرِ اللَّہِ قَال النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وَأَنَا آمُرُکُمْ بِخَمْسٍ اللَّہُ أَمَرَنِی بِہِنَّ السَّمْعُ وَالطَّاعَۃُ وَالْجِہَادُ وَالْہِجْرَۃُ وَالْجَمَاعَۃُ فَإِنَّہُ مَنْ فَارَقَ الْجَمَاعَۃَ قیدَ شِبْرٍ فَقَدْ خَلَعَ رِبْقَۃَ الإِسْلاَمِ مِنْ عُنُقِہِ إِلاَّ أَنْ یَرْجِعَ وَمَنِ ادَّعَی دَعْوَی الْجَاہِلِیَّۃِ فَإِنَّہُ مِنْ جُثَا جَہَنَّمَ فَقَالَ رَجُلٌ یَا رَسُول اللَّہِ وَإِنْ صَلَّی وَصَامَ قَالَ وَإِنْ صَلَّی وَصَامَ فَادْعُوا بِدَعْوَی اللَّہِ الَّذِی سَمَّاکُمُ الْمُسْلِمِینَ الْمُؤْمِنِینَ عِبَاد اللَّہِ) [ رواہ الترمذی : باب مَا جَاءَ فِی مَثَلِ الصَّلاَۃِ وَالصِّیَامِ وَالصَّدَقَۃِ] ” حارث الاشعری نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے یحییٰ بن زکریا کو پانچ کلمات پر عمل کرنے کا اور بنی اسرائیل کو عمل کروانے کا حکم دیا ہے۔ قریب تھا کہ حضرت یحییٰ (علیہ السلام) اس میں تاخیر کرتے تو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے انہیں یاد دلاتے ہوئے کہا کہ اللہ نے آپ کو پانچ کلمات سونپے ہیں اور ان پر عمل کرنے کا اور عمل کروانے کا حکم دیا ہے۔ یا تو ان کلمات سے آپ لوگوں کو آگاہ کریں یا میں کرتا ہوں مجھے ڈر ہے کہیں سستی کی بنیاد پر اللہ کا عذاب ہم پر مسلط نہ ہوجائے یا اللہ ہمیں زمین میں نہ دھنسا دے۔ انہوں نے لوگوں کو بیت المقدس میں جمع کیا جب مسجد لوگوں سے بھر گئی تو بلند مقام پر بیٹھ کر انہیں خطبہ ارشاد فرماتے ہوئے کہا اللہ نے مجھے پانچ کلمات پر عمل کرنے کا حکم دیا ہے اور ذمہ داری عائد کی ہے کہ تمہیں بھی ان پر عمل کرنے کا حکم دوں۔ وہ پانچ باتیں یہ ہیں۔ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہیں کرنی اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرانا جو شخص اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہراتا ہے اس کی مثال اس آدمی کی ہے جس نے اپنے خالص مال سونے اور چاندی سے ایک غلام خریدا اور اسے کہا یہ میرا گھر ہے اور یہ میرا کام ہے۔ کام کرو اور اس کا معاوضہ مجھے دو۔ وہ غلام مزدوری کر کے مزدوری اپنے مالک کے سوا کسی اور آدمی کو دیتا ہے۔ تم میں ایسے غلام پر کون راضی ہوگا؟ اسی طرح اللہ نے تمہیں نماز پڑھنے کا حکم دیا ہے۔ جب تم نماز پڑھو تو نماز میں ادھر ادھر نہ جھانکو۔ جب تک کوئی انسان پوری توجہ سے نماز پڑھتا رہتا ہے اللہ اس کی طرف پوری طرح متوجہ رہتے ہیں، اور میں تمہیں روزے رکھنے کا حکم دیتا ہوں روزہ رکھنے والے کی مثال اس آدمی کی سی ہے جو کسی جماعت کے ساتھ ہو اور اس کے پاس کستوری کی ایک تھیلی ہو۔ جماعت میں سے ہر آدمی اس کی خوشبو کو پسند کرے گا اور وہ بھی اسے پسند کرے گا اور بے شک روزے دار کے منہ کی خوشبو۔ اللہ کے ہاں کستوری سے بڑھ کر ہے۔ میں تمہیں صدقہ دینے کا حکم دیتا ہوں بے شک جو آدمی صدقہ دیتا ہے اس کی مثال اس آدمی کی سی ہے جس کو دشمن نے قید کرلیا اور مضبوطی سے اس کے ہاتھ اس کی گردن پر باندھ دیے اور اس کی گردن تن سے جدا کرنے کے لیے آگے بڑھے تو اس نے کہا میں تمہیں تھوڑا بہت فدیہ دیتا ہوں۔ وہ اس سے فدیہ قبول کرلیتا ہے۔ اور میں تمہیں حکم دیتا ہوں کہ تم ہر حال میں اللہ کو یاد رکھو بے شک جو آدمی اللہ کے ذکر میں مصروف رہتا ہے اس کی مثال اس آدمی کی سی ہے جس کی کھوج میں دشمن لگا ہوا ہے یہاں تک کہ وہ قلعے میں داخلہ ہو کر اپنے اپنا کو بچا لیتا ہے اسی طرح انسان اپنے آپ کو اللہ کے ذکر کے بغیر شیطان سے نہیں بچا سکتا۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میں بھی تمہیں پانچ چیزوں کا حکم دیتا ہوں اور یہ پانچ چیزوں وہ ہیں جن کا اللہ نے مجھے حکم دیا ہے 1 امیر کی بات سننا 2 اطاعت امیر 3 جہاد 4 ہجرت 5 جماعت کے ساتھ منسلک رہنا۔ جو آدمی جماعت کو چھوڑ کر ایک بالشت ادھر ادھر ہوا اس نے اپنی گردن سے اسلام کے طوق کو اتار دیا الا کہ وہ جماعت میں واپس آ جائے اور جس نے جاہلیت کا دعویٰ کیا وہ جہنم کا انگارا بنے گا۔ ایک آدمی نے کہا اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اگرچہ وہ نماز پڑھتا ہو روزہ رکھتا ہو۔ آپ نے فرمایا اگرچہ نماز روزے کا پابند ہو۔ میں تمہیں ان چیزوں کی دعوت دیتا ہوں جن کی دعوت دینے کا اللہ نے مجھے حکم دیا ہے۔ اللہ وہ ہے جس نے تمہارا نام مسلمان، مؤمن اور اللہ کے بندے رکھا ہے۔“ کتاب اللہ کے بارے میں سرور دوعالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اپنی امت کو ہدایت : ” حضرت مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ انہیں یہ حدیث پہنچی کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میں تم میں دوچیزیں چھوڑے جا رہا ہوں جب تک ان کو مضبوطی سے تھامے رکھو گے کبھی گمراہ نہیں ہو گے ایک اللہ کی کتاب ہے اور دوسری اس کے نبی کی سنت۔“ [ موطا امام مالک : باب النَّہْیِ عَنِ الْقَوْلِ بالْقَدَرِ] مريم
13 فہم القرآن ربط کلام : حضرت یحییٰ (علیہ السلام) کا تذکرہ جاری ہے۔ حضرت یحییٰ (علیہ السلام) کو کتاب، حکمت ودانشمندی اور قوت فیصلہ عطا کرنے کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے ان اوصاف سے بھی متصف فرمایا تھا۔ ارشاد ہوا کہ ہم نے اسے اپنی طرف سے طبیعت کی نرمی، فکر و عمل کی پاکیزگی اور ہر قسم کے گناہ سے بچنے کی توفیق دی تھی۔ وہ اپنے ماں باپ کے ساتھ نیکی کرنے والے تھے سرکش اور نافرمان نہیں تھے۔ یہی باتیں انبیاء کرام (علیہ السلام) کی سیرت طیبہ اور حیات مبارکہ کا جوہر ہوتی ہیں اور انھیں باتوں کی اپنی امت کو تلقین فرمایا کرتے تھے۔ مسائل ١۔ حضرت یحییٰ (علیہ السلام) اللہ کے نبی اور انتہائی پاکباز شخصیت تھے۔ ٢۔ حضرت یحییٰ (علیہ السلام) نبی ہونے کے باوجود اپنے والدین کے انتہا درجہ کے فرمانبردار تھے۔ تفسیر بالقرآن والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنے کا حکم : ١۔ ہم نے بنی اسرائیل سے پختہ عہد لیا کہ تم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور والدین کے ساتھ حسن سلوک کرو۔ (البقرۃ: ٨٣) ٢۔ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ اور والدین کے ساتھ احسان کرو۔ (النساء : ٣٦) ٣۔ فرما دیجیے آؤ! میں تمھیں ایسی باتیں پڑھ کر سناؤں جو تمھارے رب نے تم پر حرام کی ہیں، اللہ کے ساتھ کسی اور کو شریک نہ بناؤ اور والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔ (الانعام : ١٥١) ٤۔ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور والدین کے ساتھ حسن سلوک کرو۔ (بنی اسرائیل : ٢٣) ٥۔ ہم نے انسان کو وصیت کی کہ وہ اپنے والدین کے ساتھ احسان کرے۔ (الاحقاف : ١٥) ٦۔ ہم نے انسان کو وصیت کی کہ وہ اپنے والدین کے ساتھ حسن سلوک کرے۔ اگر والدین شرک پر ابھاریں تو ان کی اطاعت نہ کی جائے۔ (العنکبوت : ٨) مريم
14 مريم
15 فہم القرآن ربط کلام : حضرت یحییٰ (علیہ السلام) پر پیدائش سے لے کر تادم واپیس اللہ تعالیٰ کی رحمتیں اور برکتیں۔ یہ مسلمّہ حقیقت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جتنے پیغمبر دنیا میں جلوہ گر فرمائے ان کی پیدائش سے لے کر وفات تک اور قبر سے لے کر حشر تک، حشر سے لے کر جنت الفردوس میں پہنچنے تک ہر لمحہ ان پر اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کا نزول رہتا ہے۔ لیکن بعض انبیاء کرام (علیہ السلام) کے خصوصی حالات کے پیش نظر ان کے بارے میں خاص طور پر ذکر فرمایا ہے کہ ان پر ان کی پیدائش سے لے کر ان کی موت اور دوبارہ زندہ ہونے تک اللہ کی رحمت ان کے شامل حال رہی اور رہے گی۔ ان میں بالخصوص حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت یحییٰ (علیہ السلام) کا نام لے کر ذکر کیا گیا ہے کہ سلام ہے اس پر جس دن وہ پیدا ہوا۔ جس دن اسے موت آئے گی اور جس دن وہ اٹھایا جائے گا۔ یاد رہے کہ انسانی زندگی میں تین مرحلے ایسے ہیں جن میں کسی نبی، ولی، امیر، فقیر، شاہ و گدا، اعلیٰ اور ادنیٰ کو اختیار نہیں ہوتا ان اوقات میں وہ ناتواں اور بالکل بے بس ہوتا ہے۔ ١۔ ولادت کے وقت ہر نومولود اس قدر نازک اندام، ناتواں اور بے بس ہوتا ہے کہ پھول کی پنکھڑی کی طرح معمولی سے معمولی سختی بھی برداشت نہیں کرسکتا۔ ٢۔ موت کا وقت اس قدر شدید اور سخت ہوتا ہے کہ بہادر سے بہادر انسان گھبراہٹ میں مبتلا ہوجاتا ہے (وَعَنْ عَاءِشَۃَ (رض) قَالَتْ اِنَّ مِنْ نِّعَمِ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیَّ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تُوُفِّیَ فِیْ بَیْتِیْ وَفِیْ یَوْمِیْ وَبَیْنَ سَحْرِیْ وَنَحْرِیْ۔۔ فَجَعَلَ یُدْخِلُ یَدَیْہِ فِی الْمَاءِ فَیَمْسَحُ بِھِمَا وََجْہَہٗ وَیَقُوْلُ لَااِلٰہَ اِلَّااللّٰہُ اِنَّ لِلْمَوْتِ سَکَرَاتٌ ثُمَّ نَصَبَ یَدَہٗ فَجَعَلَ یَقُوْلُ فِی الرَّفِیْقِ الْاَعْلٰی حَتّٰی قُبِضَ وَمَالَتْ یَدُہٗ۔) [ رواہ البخاری : باب مَرَضِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وَوَفَاتِہِ ] ” حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے مجھ پر بے پناہ انعامات میں سے ایک یہ ہے‘ کہ رسول اکرم میرے گھر میں‘ میری باری کے دن‘ میرے سینے اور حلق کے درمیان فوت کیے گئے۔۔ آپ پانی میں اپنے ہاتھ ڈالتے اور اپنے چہرے پر دونوں ہاتھ ملتے رہے اور کہتے لاَ اِ لٰہ اِ لَّا اللّٰہ بلا شبہ سکرات موت بر حق ہیں۔ پھر اپنا ہاتھ بلند کیا اور رفیق اعلیٰ کی دعا کر رہے تھے۔ حتیٰ کہ آپ کی روح قبض کرلی گئی اور آپ کا دست مبارک جھک گیا۔ ٣۔ حشرکا دن سخت ہوگا۔ ” کوئی دوست کسی دوست کا پرسان حال نہ ہوگا۔ حالانکہ ایک دوسرے کو سامنے دیکھ رہے ہونگے۔ گنہگار خواہش کرے گا کہ کسی طرح اس دن کے عذاب کے بدلے میں سب کچھ دے دے یعنی اپنے بیٹے اور اپنی بیوی اور اپنے بھائی اور اپنا خاندان جس میں وہ رہتا تھا۔ اور جتنے آدمی زمین میں ہیں غرض سب کچھ دے دے اور اپنے آپ کو عذاب سے چھڑا لے۔[ المعارج : ١٠ تا ١٤] مريم
16 فہم القرآن ربط کلام : حضرت یحییٰ (علیہ السلام) کا انتہائی بڑھاپے کے عالم میں زکریا (علیہ السلام) کے ہاں پیدا ہونا غیر معمولی پیدائش اور مشکلات کے حوالہ سے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ گہری مماثلت اور ان کے خالہ زاد بھائی ہونے کی وجہ سے حضرت مریم [ اور عیسیٰ (علیہ السلام) کا تذکرہ شروع ہوتا ہے۔ قرآن مجید میں انبیاء کرام (علیہ السلام) اور ان کے علاوہ دوسری شخصیات کے ذکر کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ سرور دو عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کی امت کے لوگوں کی ڈھارس بندھائی جائے۔ (وَکُلًّا نَقُصُّ عَلَیْکَ مِنْ أَنْبَاء الرُّسُلِ مَا نُثَبِّتُ بِہِ فُؤَادَکَ وَجَاءَ کَ فِیْ ہَذِہِ الْحَقُّ وَمَوْعِظَۃٌ وَذِکْرٰی لِلْمُؤْمِنِیْنَ) [ ھود : ١٢٠] ” رسولوں کی خبروں میں سے ہر وہ خبر جو ہم آپ سے بیان کرتے ہیں اس کا مقصد یہ ہے کہ اس سے ہم آپ کے دل کو مضبوط کریں اور آپ کے پاس اس سلسلہ میں حق آگیا جو مومنوں کے لیے باعث نصیحت اور یاد دہانی ہے۔ اس مقصد کے پیش نظر بعض انبیاء (علیہ السلام) اور شخصیات کا تذکرہ کرنے سے پہلے آپ کو مخاطب کرتے ہوئے حکم دیا گیا کہ اے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! وَاذْکُرْ فِی الْکِتٰبِ۔ قرآن مجید میں سے حضرت مریم (علیہ السلام) کی سیرت طیبہ کا بیان کریں تاکہ حضرت مریم [ اور عیسیٰ (علیہ السلام) کو خدا کا جزو ٹھہرانے والوں کو معلوم ہو کہمریم [ اور عیسیٰ (علیہ السلام) کی حقیقت اور حیثیت کیا ہے۔ حضرت مریم [ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی والدہ ماجدہ ہیں۔ جن کی سوانح یہ ہے کہ ان کی والدہ حضرت عمران کی بیوی ہیں وہ میاں بیوی انتہائی بوڑھے ہوچکے تھے۔ بڑھاپے کے عالم میں حضرت مریم [ کی والدہ نے منت مانی کہ میرے رب! اگر تو مجھے بیٹا عطا فرمائے تو میں اسے تیرے لیے وقف کردوں گی لیکن ہوا یہ کہ بیٹے کی بجائے اللہ تعالیٰ نے اسے بیٹی عنایت فرمائی جس کا نام اس نے مریم رکھا، مریم کا معنی ہے (بلند وبالا) حضرت مریم [ کی والدہ نے عرض کی کہ بار الہا! یہ تو بیٹی پیداہوئی ہے۔ ظاہر ہے بیٹی، بیٹے کی مانند نہیں ہوتی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں اس بات کو بہت اچھی طرح جانتا ہوں (آل عمران، آیت : ٣٦) حضرت مریم [ بڑی ہوئی تو والدہ نے اپنی منت کے مطابق اسے مسجد اقصیٰ میں اللہ کی عبادت کے لیے وقف کردیا۔ کیونکہ وہاں مردوں سے الگ مقام میں عورتیں اعتکاف، انجیل کی تلاوت اور اللہ کی عبادت میں مصروف رہتی تھیں۔ ایک دن مریم [ پردہ میں بیٹھ کر جس طرح اعتکاف کیا جاتا ہے اللہ کے ذکر و فکر میں مشغول تھی کہ اچانک ان کے حجرہ میں نہایت ہی خوبصورت آدمی وارد ہوا۔ یہاں پردہ کا ذکر ہے لیکن تیسرے پارہ میں حضرت مریم [ کے حجرہ کا ذکر موجود ہے جس میں بیٹھ کر وہ اللہ کی عبادت کیا کرتی تھیں۔ (آل عمران : ٣٧) دونوں آیات کی تطبیق کرتے ہوئے اہل علم نے لکھا ہے کہ حضرت مریم [ ماہواری کی وجہ سے مسجد اقصیٰ سے باہر پردے میں بیٹھی ہوئی تھیں کہ ان کے پاس خوبصورت انسانی شکل میں فرشتہ آیا۔ یہ بات اس لیے دل کو لگتی ہے کہ حدیث میں حائضہ عورت کو مسجد میں آنے سے روکا گیا ہے۔ غالب امکان یہی ہے کہ اس وقت کی شریعت میں بھی یہی اصول ہوگا۔ مسائل ١۔ انبیاء (علیہ السلام) کی سیرت اور صلحاء کے اچھے واقعات کا ذکر کرنا چاہیے۔ ٢۔ حضرت مریم [ مسجد اقصیٰ کے مشرقی جانب پردہ میں تشریف فرما تھیں جب ان کے پاس فرشتہ آیا۔ تفسیر بالقرآن ملائکہ کا انسانی شکل میں آنا : ١۔ ہم نے اس کی طرف (مریم) فرشتہ بھیجا تو وہ ان کے سامنے ٹھیک انسانی شکل اختیار کر گیا۔ (مریم : ١٧) ٢۔ ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس ہمارے فرشتے خوشخبری لے کر آئے۔ (ھود : ٦٩) ٣۔ جب ہمارے فرشتے لوط (علیہ السلام) کے پاس آئے تو وہ ان کی آمد سے غمناک اور تنگ دل ہوئے۔ (ھود : ٧٧) ٤۔ جب ہمارے فرشتے لوط کے پاس آئے تو انھوں نے کہا تم تو نا آشنا سے لوگ ہو۔ (الحجر : ٦١۔ ٦٢) ٥۔ انھیں ابراہیم (علیہ السلام) کے مہمانوں کے متعلق خبر دیں جب وہ سلام کہتے ہوئے داخل ہوئے تو ابراہیم نے کہا ہم تم سے خوف محسوس کرتے ہیں۔ (الحجر : ٥١۔ ٥٢) مريم
17 مريم
18 فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ حضرت مریم (علیہ السلام) نے حجرہ میں وارد ہونے والے انسان سے سختی کے ساتھ پوچھا تم کون ہو؟ میں تجھے رب رحمن کا واسطہ دے کر کہتی ہوں اگر تم اللہ سے ڈرنے والے ہو تو یہاں سے نکل جاؤ۔ فرشتہ نے جواب دیا کہ میں آپ کے رب کا بھیجا ہوا ہوں تاکہ آپ کو پاکباز بیٹے کی خوشخبری دوں۔ حضرت مریم [ پہلے سے زیادہ حیران اور سراسیمگی کے عالم میں پوچھتی ہیں کہ میرے ہاں بیٹا کیسے ہوگا ؟ نہ کسی مرد نے مجھے چھوا اور نہ ہی میں بدکار ہوں۔ فرشتے نے کہا کہ اسی حالت میں تجھے بیٹا عطا کیا جائے گا کیونکہ تیرے رب کا فرمان ہے اس طرح بیٹا عطا کرنا اس کے لیے مشکل نہیں۔ یہ اس لیے ہوگا کہ اللہ تعالیٰ لوگوں کے لیے اپنی قدرت کی نشانی ظاہر کرنا چاہتا ہے سمجھ لو کہ یہ کام ہوچکا ہے۔ یہاں روح کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ جس کے کئی معانی ہیں جن میں ایک معنٰی جبرائیل امین (علیہ السلام) ہے۔ کیونکہ ان کا دوسرا نام روح الامین ہے۔ (الشعراء : ١٩٣) مسائل ١۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی پیدائش سے پہلے ان کی والدہ کو بتلا دیا گیا تھا کہ تیرے ہاں پاکباز بیٹا پیدا ہوگا۔ ٢۔ حضرت مریم [ پاکدامن بی بی تھیں اور انھیں زندگی بھر کسی مرد نے نہیں چھوا۔ ٣۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو بن باپ پیدا فرما کر اللہ تعالیٰ نے اپنی انوکھی قدرت کا ثبوت دیا۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ کے لیے بن باپ بیٹا پیدا کرنا مشکل نہیں ہے۔ تفسیر بالقرآن تخلیق انسان کے طرق : ١۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم (علیہ السلام) کو بن باپ اور ماں کے پیدا کیا۔ ( ص : ٧٠) ٢۔ حضرت حوّاماں کی بجائے حضرت آدم (علیہ السلام) سے پیدا ہوئیں۔ (النساء : ١) ٣۔ حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) بغیر باپ کے پیدا ہوئے۔ ( آل عمران : ٤٦) مريم
19 مريم
20 مريم
21 مريم
22 فہم القرآن ربط کلام : فرشتے نے حضرت مریم [ کے جسم پر پھونک ماری جس سے وہ حاملہ ہوگئیں۔ اٹھائیسویں پارہ سورۃ التحریم کی آخری آیت میں جبرائیل امین (علیہ السلام) کی پھونک کو اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف منسوب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے عمران کی بیٹی مریم [ جس نے اپنی شرم و حیاء کی حفاظت فرمائی۔ ہم نے اس میں اپنی روح پھونک دی۔ جبرئیل امین کی پھونک کے ساتھ وہ حاملہ ہوگئیں تو اس حالت میں مسجد اقصیٰ سے دور ایک مکان میں جا ٹھہریں۔ جب اسے زچگی کی تکلیف محسوس ہوئی تو وہ ایک کھجور کے تنے کے قریب آئیں۔ تکلیف اور ولادت کی وجہ سے بے ساختہ کہنے لگی ہائے کاش! میں اس سے پہلے مرچکی ہوتی اور لوگوں کے ذہن میں بھولی بسری ہوچکی ہوتی۔ اس مشکل وقت میں کھجور کے نیچے سے فرشتے نے آواز دی اے مریم [! تجھے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ آپ کے رب نے تیرے پاؤں کے نیچے ایک چشمہ جاری کردیا ہے اور کھجور کے تنے کو ہلاؤ تیرے سامنے ترو تازہ کھجوریں آگریں گی۔ کھجوریں کھاؤ، پانی پیو اور بیٹے سے اپنی آنکھیں ٹھنڈی کرو۔ اگر اپنی طرف کسی آدمی کو آتے ہوئے دیکھو تو اسے کہو کہ میں نے رب رحمن کے لیے روزے کی منت مانی ہے اس لیے میں آج کسی مرد و زن سے بات نہیں کروں گی۔ قرآن مجید کے الفاظ سے یہ بات واضح ہو رہی ہے کہ حضرت مریم [ زچگی کے وقت مسجد اقصیٰ سے دور ایک مکان میں چلی گئی تھیں۔ جس کے متعلق مفسرین نے مختلف باتیں لکھیں ہیں جن میں اقرب ترین بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ یہی وہ مقام ہے جسے تاریخ میں بیت لحم کہا جاتا ہے۔ معراج کے واقعے میں سیرت نگاروں نے لکھا ہے کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب اس مقام سے گزرے تو جبرئیل امین (علیہ السلام) نے آپ کو توجہ دلائی یہ وہ بیت اللحم ہے جہاں عیسیٰ ( علیہ السلام) پیدا ہوئے تھے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے براق سے اتر کر یہاں دو نفل ادا کیے۔ اسی مقام پر حضرت مریم [ کو یہ ہدایات دی جا رہی ہیں کہ آپ تازہ کھجوریں کھائیں، ٹھنڈا پانی پئیں اور بیٹے سے پیار کرکے اپنی آنکھیں ٹھنڈی کریں۔ اگر کوئی آپ سے بات کرنا چاہے تو کہیں کہ میں نے نہ بولنے کی منت مانی ہوئی ہے۔ بنی اسرائیل کی شریعت میں چپ کا روزہ رکھنا جائز تھا مگر ہماری شریعت میں چپ کا روزہ رکھنا اور ایسی نذر ماننا جائز نہیں، یہاں تک کہ مصیبت کے وقت موت مانگنا یا خود کشی کرنا بھی حرام قرار دیا گیا ہے۔ حضرت مریم [ نے ارادتاً نہیں بلکہ لوگوں کی طعنہ وتشنیع کے خوف سے انتہائی کرب کے عالم میں یہ الفاظ کہے تھے۔ مصیبت کے وقت ایسے الفاظ بڑے بڑے نیک لوگوں کی زبان سے بے ساختہ نکل جایا کرتے ہیں۔ ان الفاظ کا معنٰی موت مانگنا نہیں ہوتا بلکہ انتہا درجہ کے غم کا اظہار کرنا ہوتا ہے۔ نذر کے مسائل : (عَنْ عَاءِشَۃَ عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ مَنْ نَذَرَ أَنْ یُطِیع اللَّہَ فَلْیُطِعْہُ، وَمَنْ نَذَرَ أَنْ باب النَّذْرِ فِی الطَّاعَۃِ یَعْصِیَہُ فَلاَ یَعْصِہِ)[ رواہ البخاری : باب النَّذْرِ فِی الطَّاعَۃِ] ” سیدہ عائشہ (رض) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بیان کرتی ہیں جو شخص اللہ کی اطاعت کی نذر مانتا ہے اس چاہیے کہ وہ نذر پوری کرے اور جس نذر میں اللہ کی نافرمانی ہو اسے پورا نہیں کرنا چاہیے۔“ (عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ (رض) قَالَ بَیْنَا النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَخْطُبُ إِذَا ہُوَ بِرَجُلٍ قَاءِمٍ فَسَأَلَ عَنْہُ فَقَالُوا أَبُو إِسْرَاءِیلَ نَذَرَ أَنْ یَقُومَ وَلاَ یَقْعُدَ وَلاَ یَسْتَظِلَّ وَلاَ یَتَکَلَّمَ وَیَصُومَ فَقَال النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مُرْہُ فَلْیَتَکَلَّمْ وَلْیَسْتَظِلَّ وَلْیَقْعُدْ وَلْیُتِمَّ صَوْمَہُ) [ رواہ البخاری : باب النَّذْرِ فیمَا لاَ یَمْلِکُ وَفِی مَعْصِیَۃٍ] ” حضرت عبداللہ بن عباس (رض) بیان کرتے ہیں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خطبہ ارشاد فرما رہے تھے کہ آپ نے ایک آدمی کو دیکھا کہ وہ کھڑا ہوا ہے آپ نے اس کے بارے میں لوگوں سے پوچھالوگوں نے عرض کیکہ یہ ابواسرائیل ہے اس نے نذر مانی ہے کہ وہ کھڑا رہے گا بیٹھے گا نہیں نہ سایہ میں جائے گا، نہ کلام کرے گا اور ہمیشہ روزے کی حالت میں رہے گا، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اسے کہو کلام کرے سایہ میں جائے، بیٹھے اور اپنا روزہ پورا کرے۔“ (عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ عُمَرَ ہُرَیْرَۃَنَذَرَ فِی الْجَاہِلِیَّۃِ أَنْ یَعْتَکِفَ فِی الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ قَالَ أُرَاہُ قَالَ لَیْلَۃً قَالَ لَہُ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) أَوْفِ بِنَذْرِکَ) [ رواہ البخاری : باب إِذَا نَذَرَ فِی الْجَاہِلِیَّۃِ أَنْ یَعْتَکِفَ ثُمَّ أَسْلَمَ] ” حضرت عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے دور جاہلیت میں نذر مانی تھی کہ وہ مسجد حرام میں اعتکاف کریں گے راوی کہتا ہے میرا خیال ہے انہوں نے ایک رات کی نذر مانی تھی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اپنی نذر پوری کرو۔“ (عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ ہُرَیْرَۃَقَال النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لاَ یَتَمَنَّیَنَّ أَحَدُکُمُ الْمَوْتَ مِنْ ضُرٍّ أَصَابَہُ، فَإِنْ کَانَ لاَ بُدَّ فَاعِلاً فَلْیَقُلِ اللَّہُمَّ أَحْیِنِی مَا کَانَتِ الْحَیَاۃُ خَیْرًا لِی، وَتَوَفَّنِی إِذَا کَانَتِ الْوَفَاۃُ خَیْرًا لِی) [ رواہ البخاری : باب تَمَنِّی الْمَرِیضِ الْمَوْتَ] ” حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تکلیف کی وجہ سے کوئی آدمی موت کی تمنا نہ کرے اگر وہ ایسا کرنا چاہتا ہے تو اسے چاہیے کہ یہ دعا کریں۔ اے اللہ! جب تک میرا زندہ رہنا بہتر ہے مجھے زندہ رکھ اور جب میرا فوت ہونا بہتر ہو تو مجھے فوت فرما لے۔“ کون سی نذر نہیں ماننا چاہیے : (حَدَّثَنِیْ ثَابِتُ بْنُ الضَّحَاکِ ہُرَیْرَۃَ قَالَ نذَرَ رَجُلٌ عَلٰی عَھْدِ رَسُوْلِ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) أَنْ یَنْحَرَ إِبِلًا بِبُوَانَۃَ فَأَتَی النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَقَالَ إِنِّیْ نَذَرْتُ أَنْ أَنْحَرَ إِبِلًا بِبُوَانَۃَ فَقَال النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ھَلْ کَانَ فِیْھَا وَثَنٌ مِنْ أَوْثَانِ الْجَاھِلِیَّۃِ یُعْبَدُ قَالُوْا لَا قَالَ ھَلْ کَانَ فِیْھَا عِیْدٌ مِنْ أَعْیَادِھِمْ قَالُوْا لَا قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) أَوْفِ بِنَذْرِکَ فَإِنَّہٗ لَاوَفَاءَ لِنَذْرٍ فِیْ مَعْصِیَۃِ اللّٰہِ وَلَا فِیْمَا لَا یَمْلِکُ ابْنُ آدَمَ) [ رواہ أبوداوٗد : کتاب الأیمان والنذور باب مایؤمربہ من وفاء النذر] ” مجھے ثابت بن ضحاک (رض) نے بتایا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دور میں ایک آدمی نے بوانہ نامی جگہ پر اونٹ ذبح کرنے کی نذر مانی۔ اس نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آکر عرض کی میں نے نذر مانی ہے کہ میں بوانہ نامی جگہ پر اونٹ ذبح کروں گا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : کیا وہاں جاہلیت کے بتوں میں سے کوئی بت تھا جس کی عبادت کی جاتی تھی؟ صحابہ نے عرض کیا نہیں۔ آپ نے پھر پوچھا : کیا وہاں کوئی ان کا میلہ لگتا تھا؟ صحابہ نے نفی میں جواب دیا تو آپ نے فرمایا : اپنی نذر پوری کرو کیونکہ اللہ کی نافرمانی والی نذر پوری نہیں کرنا چاہیے اور نہ ہی وہ نذر پوری کرنالازم ہے جس کی انسان طاقت نہیں رکھتا۔“ (عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ ہُرَیْرَۃَ وَ ابْنِ عُمَرَ (رض) قَالَا قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لَا تَنْذُرُوْا فَإِنَّ النَّذْرَ لَا یُغْنِیْ مِنَ الْقَدْرِ شَیْءًا وَإِنَّمَا یُسْتَخْرَجُ بِہٖ مِنَ الْبَخِیْلِ) [ رواہ مسلم : باب النَّہْیِ عَنِ النَّذْرِ وَأَنَّہُ لاَ یَرُدُّ شَیْءًا] ” حضرت ابوہریرہ (رض) اور عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تم نذر نہ مانا کرو‘ اس لیے کہ نذر تقدیر کو نہیں ٹال سکتی اس طرح صرف بخیل سے کچھ نہ کچھ مال نکلوایا جاتا ہے۔“ مسائل ١۔ حضرت مریم [ زچگی کے عالم میں مسجد اقصیٰ سے دور چلی گئیں تھیں۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے زچگی کے وقت حضرت مریم [ کو چشمہ کا پانی اور تازہ کھجوریں عنایت فرمائی تھیں۔ ٣۔ نذر شریعت کے مطابق ماننا اور اسے پورا کرنا چاہیے۔ ٤۔ ہارون سے مراد حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے بھائی ہارون نہیں۔ تفسیر بالقرآن قرآن مجید کی نظر میں نذر : ١۔ میں نے رحمٰن کے لیے نذر مانی ہے میں کسی سے کلام نہیں کروں گی۔ (مریم : ٢٦ ) ٢۔ جو تم اللہ کی راہ میں خرچ کرنا چاہتے ہو یا تم نذر مانتے ہو اللہ اسے خوب جانتا ہے۔ (البقرۃ: ٢٧٠) ٣۔ عمران (علیہ السلام) کی بیوی نے کہا جو کچھ میرے بطن میں ہے میں اس کی نذر مانتی ہوں۔ (آل عمران : ٢٥) مريم
23 مريم
24 مريم
25 مريم
26 مريم
27 فہم القرآن ربط کلام : حضرت مریم [ کا عیسیٰ ( علیہ السلام) کو گود میں اٹھا کر اپنے خاندان کے لوگوں کے پاس آنا۔ قرآن مجید یہ بتلا رہا ہے کہ حضرت مریم [ عیسیٰ (علیہ السلام) کو گود میں لیے اپنی قوم کے پاس آئیں۔ قوم نے انھیں طعنے دیے۔ یہاں قوم سے مراد ان کے خاندان کے لوگ ہیں۔ خاندان کے لوگوں نے حضرت مریم [ کی گود میں معصوم بچہ دیکھا تو حیران رہ گئے۔ ظاہر بات ہے کہ حضرت مریم [ عام لوگوں کی بجائے پہلی مرتبہ قریبی رشتہ داروں میں آئی ہوں گی پھر خاندان کے ذریعے بات محلے اور معاشرے کے لوگوں تک پہنچی ہوگی۔ جنھوں نے حضرت مریم [ کو ایسی ویسی باتیں کیں اور طعنے دیے۔ یہاں تک کہا کہ اے ہارون کی بہن !” نہ تیری ماں بری تھی اور نہ ہی تیرا باپ بدکار تھا تو نے یہ کیا کر دکھایا ؟“ حضرت مریم [ جواب دے تو کیا ؟ کیونکہ بچہ گود میں ہے۔ نکاح کسی کے ساتھ ہوا نہیں تھا مریم [ لوگوں کو کیسے مطمئن کرسکتی تھیں۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت مریم [ کے دل میں القاء کیا اور جرأت عطا فرمائی۔ انھوں نے صرف اتنی بات کہی یا اپنے منہ کی طرف انگلی کی کہ میں نے چپ کا روزہ رکھا ہوا ہے۔ اس کے ساتھ ہی معصوم بچے کی طرف اشارہ کیا کہ میری بجائے میرا بیٹا جواب دے گا۔ نہ معلوم کہ دل ہی دل میں حضرت مریم [ کسی طرح دعا کرتی ہوگی کہ میرے لاڈلے تیرے سوا میری کوئی صفائی پیش کرنے والا نہیں بیٹا بول تاکہ انھیں میری پاکدامنی کا یقین ہوجائے۔ حضرت مریم [ قوم کو یہ بات کہہ ہی پائی تھی کہ ان کی قوم شور مچانے لگی یہ گود کا بچہ ہمیں کیا جواب دے گا۔ نہ معلوم لوگ کس انداز اور زبان میں طعنے دے رہے ہوں گے۔ مريم
28 مريم
29 مريم
30 فہم القرآن ربط کلام : ابھی لوگوں کا شور و غل ختم نہیں ہوا تھا کہ والدہ کا اشارہ پاکر حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) جواب دیتے ہیں۔ حضرت مریم [ کا اشارہ ہوا ہی تھا کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) بول اٹھے کہ میں اللہ کا بندہ ہوں اس نے مجھے کتاب دی اور نبی بنایا ہے۔ میں جہاں کہیں ہوں اس نے اپنی برکات سے نوازا ہے۔ میرے رب نے مجھے وصیت کی ہے کہ جب تک زندہ رہوں نماز پڑھوں اور زکوٰۃ ادا کروں۔ مجھے یہ بھی وصیت کی گئی ہے کہ میں اپنی والدہ ماجدہ کے ساتھ بہتر سے بہتر سلوک کرتا رہوں اور میرے رب نے مجھے باغی اور منحوس نہیں بنایا۔ میرے رب نے میری پیدائش، موت اور موت کے بعد اٹھنے کے دن مجھے اپنی رحمت کے دامن میں لے لیا ہے۔ اہل علم نے لکھا ہے کہ جب حضرت مریم [ نے عیسیٰ ( علیہ السلام) کو بولنے کا اشارہ کیا تھا تو وہ ان کی گود میں دودھ پی رہے تھے۔ جونہی ان کی والدہ نے اشارہ کیا تو دودھ چھوڑ کر پیغمبرانہ انداز میں گفتگو کرتے ہیں۔ جس میں ان کی شریعت کے بنیادی اور مرکزی مسائل کا بیان ہے۔ جسے قرآن مجید نے اپنے الفاظ میں ذکر کیا ہے۔ یہاں دو باتیں غور طلب ہیں کہ چند دنوں کے بچے کو اپنی ماں کے اشارے کا کس طرح علم ہوا؟ دوسری بات یہ کہ کیا عیسیٰ (علیہ السلام) کو اتنی چھوٹی عمر میں صاحب کتاب نبی بنا دیا گیا تھا ؟ جہاں تک چھوٹی عمر میں نبوت ملنے کا تعلق ہے اس کے بارے میں سب اہل علم کا اتفاق ہے کہ یہ تو اللہ تعالیٰ کی قدرت کا کرشمہ اور عیسیٰ (علیہ السلام) کی معجزانہ گفتگو تھی۔ نبوت انھیں جوانی میں عطا کی گئی تھی۔ رہی بات اپنی والدہ کا اشارہ پاکر شہادت دینے کی تو یہ بھی ایک معجزہ ہے ورنہ اتنا چھوٹا بچہ اشارہ کیا اپنی ماں کی زبان بھی نہیں سمجھ سکتا۔ مريم
31 مريم
32 مريم
33 مريم
34 فہم القرآن ربط کلام : خلاصہ کلام یہ ہے کہ عیسیٰ ابن مریم [ ایک بندہ تھے۔ خدا نہیں تھے۔ یہاں سارے خطاب کا نچوڑ پیش کرتے ہوئے ذَالِکَ کا لفظ استعمال ہوا۔ جو دور اور نزدیک کے لیے اشارہ کے طور پر بولا جاتا ہے۔ اس کا مقصد اس حقیقت کو واضح کرنا ہے کہ حضرت مریم [ اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور جن کو لوگ خدا یا خدا کا جزء ٹھہراتے ہیں اور جہاں تک کہ عیسائیوں کا کہنا ہے کہ عیسیٰ ( علیہ السلام) اللہ کا بیٹا ہے۔ انھیں قرآن مجید کی بتلائی ہوئی حقیقت کو پوری طرح سمجھ لینا چاہیے۔ کہ اللہ تعالیٰ بیوی، اولاد اور کسی قسم کی حاجت اور کمزوری سے بے نیاز۔ پاک ہے اور وہ ہر قسم کی شراکت اور لوگوں کی یاوا گوئی سے مبرّا ہے اسے اولاد اور کسی سے شراکت کی کیا ضرورت ہے۔ کیونکہ اولاد یا کسی کو اپنے کام میں شریک بنانا کمزوری کی علامت ہے۔ اللہ تعالیٰ وہ کسی کام کے بارے میں فیصلہ کرتا ہے تو اسے صرف یہ کہتا ہے کہ ” ہوجا“ تو وہ اس کی منشاء کے مطابق ہوجاتا ہے۔ اس نے عیسیٰ کے متعلق ” کُنْ“ فرمایا اور عیسیٰ (علیہ السلام) بغیر باپ کے پیدا ہوگئے۔ مسائل ١۔ عیسیٰ ( علیہ السلام) کے متعلق لوگ شکوک وشبہات میں مبتلا ہیں۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ کو اولاد کی ضرورت نہیں وہ اس سے مبّرا اور پاک ہے۔ مريم
35 مريم
36 فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ کو کسی نے جنم نہیں دیا ہے اور نہ ہی کسی نے اس سے جنم لیا ہے۔ وہ تو پوری مخلوق کا خالق ومالک اور بادشاہ ہے۔ اس بنا پر اس کا فرمان ہے کہ صرف میری ہی عبادت کرو۔ حضرت مریم [ اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی حیثیت اور حقیقت بتلانے کے بعد اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات اور قدرت کے بارے میں بتلایا ہے کہ اسے کسی کو بیٹا یا شریک بنانے کی ضرورت نہیں کیونکہ وہ قادر مطلق ہے اس کا صرف حکم چلتا ہے۔ اس کی ذات کسی حوالے سے بھی کسی کی محتاج نہیں ہے۔ لہٰذا نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیا کہ آپ لوگوں کو بتلائیں اور سمجھائیں کہ ” اللہ“ ہی میرا اور تمھارا رب ہے۔ صرف اسی ایک کی عبادت کرنی چاہیے یہی صحیح عقیدہ اور صراط مستقیم ہے۔ یاد رہے ” رَبّ“ کا معنٰی ہے، ہر چیز کو پیدا کرنے والا، ہر ذی روح کو روزی پہنچانے والا، اور زمین و آسمانوں اور جو کچھ ان کے درمیان ہے سب کا مالک، بادشادہ اور ہر چیز پر ہر اعتبار سے مکمل اختیار رکھنے والا ہے۔ جناب عیسیٰ (علیہ السلام) بنی اسرائیل کو ایک ہی دعوت دیا کرتے تھے۔ اس اللہ کی عبادت کرو جو تمہارا اور میرا رب ہے۔ یاد رہے کہ وہ میرا اور تمہارا باپ نہیں کہتے تھے جس طرح انجیل میں ان کی طرف بار بار اللہ تعالیٰ کے بارے میں باپ کے الفاظ منسوب کیے گئے ہیں۔ حالانکہ وہ میرا اور تمہارے رب کے مقدس اور واضح الفاظ استعمال فرماتے تاکہ لوگوں کو عیسیٰ اور ان کی والدہ کے بارے میں کوئی غلط فہمی نہ پیدا ہو۔ فرمایا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ سے ڈرنا اور صرف اسی ایک کی عبادت کرنا صراط مستقیم ہے۔ پرانے عہد نامہ کی کتاب استثناء میں مرقوم ہے قوم اسرائیل کا مشہور کلمہ شمع (Shama) (عربی : اسمع) اپنے مفہوم کے اعتبار سے اسلام کے کلمۂ شہادت اور قرآن مجیدکی سورۃ اخلاص کی پہلی آیت سے چنداں مختلف نہیں ہے۔ خصوصًا اپنے عربی و عبرانی متن میں اس کے الفاظ مبارک اس آیت کی باز گشت ہیں ملاحظہ فرمائیے : عربی : اِسْمَعْ یَااِسْرَاءِیْلُ اِن الرَّبَ اِلٰہُنَا رَبَّ وَاحِدٍ عبرانی :Shama Yisrael Adonoielohem.Adonoiehod شمع یاسرائیل ادونائی الوھیم ادونائی احاد [ بائبل عبرانی واردو، کتاب استثناء ٦: ٤۔ الکتاب المقدس عربی ٠ اط۔ بیروت ١٨٩٩ ء) پرانے اور نئے عہد نامہ کی وضاحت کے لیے دیکھئے باب ہفتم۔] ” سن اے اسرائیل ! خداوند ہمارا ایک ہی خدا ہے۔“ کتاب استثناء میں دوسری جگہ ہے : ” خدا وند ہی خدا ہے اور اس کے سوا کوئی اور خدا نہیں۔“ [ استثناء : ٤، ٣٥] پرانے عہد نامہ میں ہے حضرت داوٗد (علیہ السلام) کی دعا میں یہ الفاظ موجود ہیں : ” تو ہی واحد خدا ہے۔“ [ زبور : ٨٦: ١٠] عہد نامہ قدیم میں ایک اور جگہ لکھا ہے : ” خدا وند فرماتا ہے میں ہی خدا ہوں مجھ سے پہلے کوئی خدا نہ ہے اور میرے بعد بھی کوئی نہ ہوگا۔۔“ [ یسعیاہ : ٤٣: ١٠، ١٢] یعنی اوّل وآخر اس کی ذات ہے۔ نیز فرمایا :” میں خدا وند سب کا خالق ہوں، میں ہی اکیلا آسمان کو تاننے اور زمین کو بچھانے والا ہوں، کون میرا شریک ہے۔“ [ یسعیاہ : ٤٤: ٢٤] برناباس۔ باب ١١ میں ہے : تو اس خدا کی عبادت کر جس نے تجھے پیدا کیا ہے اور وہی تجھے صحت عطا کرے گا کیونکہ میں ویسا ہی ایک انسان ہوں جیسا تو ہے۔ اکثر مفسرین نے عبادت کا معنی تذلّل یعنی نہایت عاجزی کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی پرستش کرنا بیان کیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ عبادت میں عاجزی اور انتہا درجے کی انکساری ضروری ہے کہ آدمی اللہ کے حضور قیام کرے تو نا صرف زبان سے اقرار کرے بلکہ اس کا پورا جسم خاموش گواہی دے رہا ہو کہ میرے جسم کا ایک ایک ریشہ تیرے حضور عاجز و بے بس ہے۔ جبین نیاز جھکائے تو اپنے آپ کو عجز و انکساری کی انتہا تک لے جائے گویا کہ وہ پستیوں کے سمندر میں ڈوب چکا ہے۔ زبان جنبش کرے تو اس کی حمد و ثنا کے گیت گائے۔ دست سوال دراز کرے تو سراپا التجا بن جائے۔ مال خرچ کرے تو اس عاجزی کے ساتھ کہ میں تو مالک کی ملکیت ہی واپس لوٹا رہا ہوں نہ یہ میرا مال ہے اور نہ اس میں میرا کمال ہے۔ تفسیر بالقرآن صراط مستقیم : ١۔ کیا صراط مستقیم پر چلنے والا اور نہ چلنے والا برابر ہو سکتے ہیں؟ (النحل : ٧٦) ٢۔ جس شخص نے اللہ کی رسی کو پکڑلیا اس نے صراط مستقیم کی رہنمائی پالی۔ (آل عمران : ١٠١) ٣۔ صراط مستقیم یہ ہے کہ اللہ کو ایک ماناجائے۔ (آل عمران : ٥١) ٤۔ اللہ واحد کی عبادت کرنے والا ہی صراط مستقیم پر ہے۔ (یٰس : ٦١) مريم
37 فہم القرآن ربط کلام : حقیقت واضح ہونے کے باوجود عیسائی اور یہودی اختلاف کرتے ہیں۔ عیسائیوں، یہودیوں اور حق کا انکار کرنے والوں کا انجام۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے حضرت مریم [ اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی ذات، کردار اور عقیدہ کے بارے میں علمی، عقلی اور تاریخی حقائق کے حوالے سے کھول کر بیان کیا ہے کہ مریم [ کے ماں باپ کون اور کس قدر صالح کردار لوگ تھے۔ حضرت مریم [ کی پیدائش، ان کی تربیت، ان کا عیسیٰ (علیہ السلام) کو جنم دینا، حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا اپنی والدہ کی صفائی پیش کرنا اور اپنی ذات کے بارے میں وضاحت کرنے کے ساتھ، اپنا عقیدہ بتلا تے ہوئے لوگوں کو ایک رب کی عبادت کی دعوت دینا، اس کے باوجود عیسائی اور یہودی ان کی ذات اور عقیدہ کے بارے میں اختلاف کرتے ہیں۔ جن کے بارے میں فرمایا ہے کہ یہ لوگ حقائق کا انکار اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرتے ہیں ان کے لیے اس دن ہلاکت اور بربادی ہوگی۔ جس دن لوگوں کے درمیان فیصلہ کیا جائے گا۔ حقائق کے منکر آج سچ سننے اور اسے قبول کرنے کے لیے تیار نہیں لیکن جس دن اپنے رب کی بارگاہ میں حاضر ہوں گے تو اس دن سب کچھ دیکھ لیں گے اور ہر بات اچھی طرح سنیں گے۔ انھیں پتہ چل جائے گا اور پوری طرح یقین ہوجائے گا۔ کہ آج کے دن تباہی ہی تباہی ہے۔ اے پیغمبر! ان کے انکار کے باوجود انھیں اس دن کے حسرت و نقصان سے ڈرائیے کیونکہ وہ اپنی غفلت کی وجہ سے آخرت پر ایمان نہیں لاتے۔ انھیں اس حقیقت سے بھی آگاہ فرمائیے کہ یہ زمین اور جو کچھ اس میں ہے ہم ہی اس کے حقیقی وارث ہیں لہٰذا کوئی ایمان لائے یا نہ لائے سب نے ہماری بارگاہ میں حاضر ہونا ہے۔ (عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَقْبِضُ اللّٰہُ الْاَرْضَ یَوْمَ الْقِیَا مَۃِ وَیَطْوِی السَّمَاءَ بِیَمِیْنِہٖ ثُمَّ یَقُوْلُ اَنَا الْمَلِکُ اَیْنَ مُلُوْکُ الْاَرْضِ) [ رواہ البخاری : باب یقبض اللّٰہ الارض] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا قیامت کے دن اللہ تعالیٰ زمین کو اپنے قبضہ میں لے لے گا اور آسمانوں کو لپیٹ کر اپنے دائیں ہاتھ میں لیتے ہوئے فرمائے گا کہ میں ہی بادشاہ ہوں آج زمین کے بادشاہ کہاں ہیں۔ ؟“ مسائل ١۔ آخرت کا انکار کرنے والوں کے لیے ہلاکت ہے۔ ٢۔ قیامت کے دن کفار کے لیے ِ حسرت بربادی ہوگی۔ ٣۔ زمین و آسمانوں اور جو کچھ ان کے درمیان ہے اس کا حقیقی اور دائمی وارث صرف ” اللہ“ ہے۔ ٥۔ زمین اور اس کی ہر چیز اللہ تعالیٰ کے قبضۂ قدرت میں ہے۔ ٦۔ ہر کسی کو اللہ کی طرف لوٹنا ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ ہی وارث ہے : ١۔ زکریا (علیہ السلام) نے کہا اے میرے پروردگار ! مجھے تنہا نہ چھوڑ اور تو ہی بہترین وارث ہے۔ (الانبیاء : ٨٩) ٢۔ زمین اور جو کچھ اس میں ہے ہم اس کے وارث ہیں اور وہ ہماری طرف لوٹیں گے (مریم : ٤٠) ٣۔ اللہ تعالیٰ جیسے چاہتا ہے زمین میں خلیفہ بناتا ہے۔ (الانعام : ١٣٣) مريم
38 مريم
39 مريم
40 مريم
41 فہم القرآن ربط کلام : تین شخصیات میں قدر مشترک یہ ہے کہ زکریا (علیہ السلام) اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اولاد پیدا کرنے کی عمر سے گزر چکے تھے۔ حضرت مریم [ کا معاملہ سب کے سامنے ہے کہ وہ کنواری تھیں انہیں بیٹا پیدا ہونے کا تصور بھی نہیں آسکتا تھا۔ اس لیے حضرت زکریا (علیہ السلام) اور مریم [ کے تذکرہ کے بعد حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا ذکر کیا جاتا ہے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی شخصیت، ان کی بے مثال قربانیاں اور عظیم جدوجہد کا تذکرہ کرنے سے پہلے انھیں صدیق کے لقب سے نوازا گیا ہے۔ نبی تمام کے تمام صدیق ہوتے ہیں مگر ابراہیم (علیہ السلام) کی صداقت سب سے اونچے مقام پر ہے۔ کیونکہ ہر نبی کسی ایک خوبی میں دوسرے انبیاء ( علیہ السلام) سے ممتازہوا کرتا تھا۔ جس کا ذکر ان الفاظ میں کیا گیا ہے، کہ یہ رسول ہیں جنہیں ہم نے ایک دوسرے پر فضیلت دی البقرۃ: ٢٥٣۔ صدیق کے کئی معانی ہیں جن میں امتیازی معنٰی یہ ہے کہ قول و فعل میں یکسانیت ہونے کے ساتھ اس کے دل میں اپنے عقیدہ اور مشن کے بارے میں کسی لچک کا خیال نہ آئے۔ قول و فعل کی یکسانیت کے ساتھ دل کی صداقت کا یہ منفرد مقام ہے جس سے اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو بدرجہ اتم سرفراز فرمایا تھا۔ شاید اس لیے بھی انھیں صدیق کا لقب عطا کیا گیا کیونکہ انھوں نے اپنی زندگی میں تین باتیں ایسی کہی تھیں جن کا مفہوم بظاہر الفاظ کے کچھ خلاف دکھائی دیتا ہے اس بنا پر بالواسطہ تردید کی گئی ہے۔ امت کے اکثر اہل علم نے اس روایت کے ان الفاظ کو تعریض اور توریہ پر محمول کیا تاکہ حدیث کی اسناد پر اعتماد بحال رہے اور قرآن و سنت میں تعارض پیدا کیے بغیر خلیل خدا کی صداقت پر آنچ نہ آنے پائے بلکہ اس روایت سے بھی ان کی تائید و تصدیق ہوجائے۔ بعض علماء نے ان الفاظ ” لَمْ یَکْذِبْ اَبْرَاہِیْمُ اِلَّا ثَلَاثَ کَذِبَاتٍ“ کی حقیقی معنوں میں لیا ہے اور پھر اس کی وضاحت فرمائی ہے جو کہ عنقریب آپ کی خدمت میں پیش کی جا رہی ہے۔ اس کے ساتھ چند علماء ایسے بھی گزرے ہیں جنہوں نے یہ کہا کہ ابراہیم (علیہ السلام) کو جھوٹا کہنے کی بجائے راوی کو جھوٹا کہنا زیادہ آسان اور بہتر ہے۔ ظاہر ہے تمام علماء نے نیک نیتی اور حضرت خلیل کی صداقت کی خاطر یہ انداز اختیار فرمایا ہے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فرمان کے مطابق اجتہاد کرنے والے کو دو میں سے ایک ثواب ضرور مل جائے گا۔ بشرطیکہ نیک نیتی سے یہ کام کیا گیا ہو۔ قرآن مجید کا حضرت خلیل (علیہ السلام) کی حیات طیبہ کے مختلف گوشوں پر تفصیلی روشنی ڈالنے کا منشا یہ ہے کہ اہل عرب بالعموم اور قریش بالخصوص حضرت والا کی ذات بابرکات کے ساتھ اپنا تعلق بڑے فخریہ انداز میں بیان کرتے اور انکے متبع ہونے کا دعویٰ کرتے تھے، ساتھ ہی ساتھ یہ دعویٰ بھی کرتے کہ صرف ہم ہی ملت حنیف کے فدائی اور شیدائی ہیں۔ مشرکین عرب کے علاوہ یہود ونصاری بھی اپنی اپنی جگہ ان کو اپنا پیشوا گردانتے اور مانتے ہیں۔ (قُلْ صَدَقَ اللّٰہُ فَاتَّبِعُوْامِلَّۃَاِبْرٰھِیْمَ حَنِیْفًاوَمَاکَانَ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ) [ آل عمران : ٩٥] ” آپ اعلان فرما دیں کہ اللہ نے سچ فرمایا ہے۔ آپ یکسو ہو کر عبادت کرنے والے ابراہیم کے طریقہ کی اتباع کرتے جائیں۔ ابراہیم شرک کرنے والوں میں سے نہ تھے۔“ (مَا کَانَ اِبْرٰھِیْمُ یَھُوْدِیًّا وَّ لَا نَصْرَانِیًّا وَّ لٰکِنْ کَانَ حَنِیْفًا مُّسْلِمًاوَمَا کَانَ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ) [ آل عمران : ٦٧] ” ابراہیم (علیہ السلام) نہ تو یہودی تھے اور نہ نصرانی بلکہ وہ تو یک سو مسلمان تھے اور نہ ہی وہ مشرکین میں سے تھے۔ مسائل ١۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) صدیقیت کے اعلیٰ مقام پر فائز تھے۔ ٢۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی حیات مبارکہ لوگوں کے سامنے بیان کرنالازم ہے تفسیر بالقرآن حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے اوصاف حمیدہ : حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا تذکرہ قرآن مجید میں (٦٣) مرتبہ ہوا ہے۔ ١۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اللہ تعالیٰ کے سچے نبی تھے۔ (مریم : ٥٨) ٢۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان کہ ہم نے ابراہیم (علیہ السلام) کو پہلے سے ہی ہدایت نواز رکھا تھا۔ (الانبیاء : ٥١) ٣۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اکیلے ہی ایک جماعت تھے۔ (النحل : ١٢٠) ٤۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) بڑے نرم دل اور متحمل مزاج تھے۔ (التوبۃ: ١١٤) ٥۔ یقیناً ابراہیم (علیہ السلام) بڑے متحمل مزاج، نرم دل اور اللہ تعالیٰ کی رجوع کرنے والے تھے۔ (ھود : ٧٥) ٦۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) امت محمدیہ کے مقتدیٰ ہیں۔ (آل عمران : ٩٥) مريم
42 فہم القرآن ربط کلام : حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے دعوت کا آغاز اپنے گھر سے فرمایا یہی بہترین اور فطری طریقہ ہے کہ داعی اپنی دعوت کا آغاز اپنے گھر سے کرے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی قوم اور ان کے والد آذر بتوں کی پرستش کرتے تھے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے پیغمبرانہ طریقہ کے مطابق تبلیغ کا آغاز اپنے گھر سے کیا۔ چنانچہ باپ کے مرتبہ کا خیال رکھتے ہوئے نہایت ادب کے ساتھ فرماتے ہیں کہ اے والد گرامی ! آپ بتوں کی کیوں عبادت کرتے ہیں ؟ جو نہ سن سکتے ہیں، نہ دیکھتے ہیں اور نہ ہی آپ کو کوئی فائدہ پہنچا سکتے ہیں۔ اے والد گرامی ! یقیناً میرے پاس ایساعلم آیا ہے جو آپ کے پاس موجود نہیں۔ میری بات مانیں میں آپ کو سیدھے راستے کی رہنمائی کروں گا۔ اے میرے والد آپ شیطان کی عبادت نہ کریں شیطان رب رحمن کا نافرمان ہے۔ اے میرے باپ ! مجھے ڈر ہے کہ شرک کی وجہ سے رب رحمن کا آپ پر عذاب نازل نہ ہوجائے اور آپ شیطان کے ساتھی قرار پائیں۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے باپ کو یہ بھی فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے ایسا علم عطا فرمایا ہے جو آپ کے پاس نہیں۔ مرادنبوت کا علم ہے۔ نبی کی نبوت اور اس کی اتباع کے بغیر کوئی شخص حقیقی رہنمائی حاصل نہیں کرسکتا اور نہ ہی اسے ہدایت یافتہ قرار دیا جا سکتا ہے جو شخص اس راستہ سے ہٹے گا وہ شیطان کا ساتھی قرار پائے گا۔ اسے اللہ تعالیٰ کے عذاب سے کوئی چیز بچا نہیں سکتی۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے باپ کے سامنے توحید کی دعوت پیش کرتے ہوئے جو پہلی بات فرمائی وہ یہ تھی کہ پتھر اور مٹی کی بنی ہوئی مورتیاں نہ سن سکتی ہیں نہ دیکھتی ہیں اور نہ ہی کسی کو کچھ فائدہ پہنچا سکتی ہیں۔ یاد رہے کہ بتوں کے سامنے جھکنے اور ان کے سامنے اپنی حاجات پیش کرنے والوں سے بات کی جائے تو وہ یہ جواب دیتے ہیں کہ ہم اِ ن کی عبادت نہیں کرتے۔ چونکہ اِ ن میں ہمارے بزرگوں کی روح حلول کرچکی ہے جنہیں اللہ تعالیٰ نے خوش ہو کر کچھ اختیارات دے رکھے ہیں۔ جس وجہ سے یہ ہماری فرمادیں رب کے حضور پہنچاتے اور ہمیں رب تعالیٰ کے قریب کردیتے ہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ تک پہنچنے کا وسیلہ ہیں۔ ہم ان کے وسیلہ اور برکت سے مانگتے ہیں۔ ایسے لوگ کا یہ بھی نظر یہ ہے کہ اس طرح ذکر اور عبادت کرنے میں سکون ملتا اور یکسوئی حاصل ہوتی ہے۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے اس طریقہ عبادت کو شیطان کی عبادت قرار دیا ہے۔ یہی بات حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے والد کو سمجھائی تھی۔ اسی طریقۂ عبادت سے نبی آخر الزماں (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اہل مکہ اور لوگوں کو روکا کرتے تھے۔ فرق یہ ہے کہ مکہ کے لوگ بتوں کو عبادت کا ذریعہ بناتے، یہودی اور عیسائی انبیاء اور اولیاء کی قبروں کو قرب کا ذریعہ بناتے تھے۔ جبکہ فوت شدگان کے بارے میں قرآن مجید دو ٹوک الفاظ میں وضاحت کرتا ہے کہ یہ نہ کوئی بات سنتے ہیں اور نہ ہی کسی کی مدد کرسکتے ہیں انہیں تو یہ بھی خبر نہیں کہ انہیں موت کے بعد کب اٹھا جائے گا۔ (وَالَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ لَا یَخْلُقُوْنَ شَیْءًا وَّ ھُمْ یُخْلَقُوْنَ۔ اَمْوَاتٌ غَیْرُ اَحْیَآءٍ وَ مَا یَشْعُرُوْنَ اَیَّانَ یُبْعَثُوْنَ) [ النحل : ٢٠] ” اور وہ لوگ جو اللہ کے سوا غیر اللہ کو پکارتے ہیں انہوں نے کسی چیز کو پیدا نہیں کیا بلکہ وہ خود پیدا کیے گئے ہیں۔ وہ مردہ ہیں زندہ نہیں اور انہیں یہ بھی خبر نہیں کہ انہیں کب اٹھایا جائے گا۔“ جہاں تک بتوں یا مدفون لوگوں کے وسیلہ کا معاملہ ہے یہی بات تو کفار مکہ کہا کرتے تھے۔ (وَالَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِہِ أَوْلِیَاءَ مَا نَعْبُدُہُمْ إِلَّا لِیُقَرِّبُوْنَا إِلَی اللّٰہِ زُلْفٰی )[ الزمر : ٣] ” وہ لوگ جنہوں نے اللہ کے علاوہ کار ساز بنا رکھے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم تو ان کی عبادت صرف اس لیے کرتے ہیں کہ وہ ہمیں اللہ کے قریب کردیں۔“ (وَإِذَا قِیْلَ لَہُمُ اتَّبِعُوْا مَا أَنْزَلَ اللّٰہُ قَالُوْا بَلْ نَتَّبِعُ مَا أَلْفَیْنَا عَلَیْہِ اٰبَاءَ نَا) [ البقرۃ: ١٧٠] ” اور جب کہا جاتا ہے کہ اس کی پیروی کرو جو اللہ نے نازل فرمایا ہے تو کہتے ہیں نہیں بلکہ ہم اس کی پیروی کریں گے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے۔“ مسائل ١۔ توحید کی دعوت ہر چھوٹے، بڑے کو دینا چاہیے۔ ٢۔ دعوت کا آغاز اپنے اقرباء سے کرنا چاہیے۔ ٣۔ نبی آخر الزّماں (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اتباع کے بغیر کوئی شخص ہدایت نہیں پا سکتا۔ ٤۔ توحید اور رسالت کا انکار کرنے والا شیطان کا ساتھی ہوتا ہے۔ تفسیر بالقرآن شیطان کے ساتھی کون؟: ١۔ اے میرے باپ شیطان کی عبادت نہ کرو یقیناً شیطان رحمن کا نافرمان ہے اے میرے باپ مجھے ڈر لگتا ہے کہ آپ کو رحمن کا عذاب آلے اور آپ شیطان کے ساتھی بن جائیں۔ (مریم : ٤٤۔ ٤٥) ٢۔ فضول خرچی کرنے والے شیطان کے بھائی ہیں۔ (بنی اسرائیل : ٢٧) ٣۔ یقیناً شیطان تمھیں اپنے دوستوں سے ڈراتا ہے ان سے نہ ڈرو۔ (آل عمران : ١٧٥) ٤۔ جس کا ساتھی شیطان ہوا وہ بدترین ساتھی ہے۔ (النساء : ٣٨) ٥۔ تم شیطان کے دوستوں سے لڑائی کرو یقیناً شیطان کی تدبیر کمزور ہے۔ (النساء : ٧٦) ٦۔ جس نے شیطان کو اپنا دوست بنایا وہ خائب و خاسر ہوا۔ (النساء : ١١٩) ٧۔ شیطان انسان کا دشمن ہے۔ (البقرۃ : ١٦٨) ٨۔ شیطان کی رفاقت کا بدترین انجام۔ (الفرقان : ٢٧، ٢٩) مريم
43 مريم
44 مريم
45 مريم
46 فہم القرآن ربط کلام : باپ کا حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو جواب۔ غور فرمائیں کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے کس قدر ادب و احترام اور سوز مندی کے ساتھ اپنے والد کو توحید سمجھائی اور بحیثیت نبی اپنی اتباع کی دعوت دی مگر باپ نے کہا کہ میری آنکھوں سے ہمیشہ کے لیے دور ہوجا۔ ورنہ میں تمھیں پتھر مار مار کر سنگسار کر دوں گا۔ ” مَلِیَّا“ کا معنی ہے کسی کو ہمیشہ کے لیے دور کردینا ہے۔ ہر معاشرے میں یہ مقولہ ہے کہ اولاد ماں باپ کو چھوڑ سکتی ہے لیکن ماں باپ اولاد کو نہیں چھوڑ سکتے۔ لیکن مشرک اس قدر سخت مزاج، بداخلاق اور کم ظرف ہوتا ہے کہ توحید قبول کرنا تو درکنا توحید کی دعوت سننے کا حوصلہ بھی نہیں رکھتا۔ مشرکین نے ہمیشہ انبیاء (علیہ السلام) اور توحید کی دعوت دینے والے مبلّغینکے ساتھ یہی روّیہ اختیار کیا۔ حضرت نوح (علیہ السلام) سے لے کر نبی آخر الزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے متبعین کے ساتھ یہی کچھ ہوتا رہا ہے۔ یہاں تک کہ مشرکوں نے اپنے اہل خانہ اور عزیز و اقرباء کے ساتھ مظالم کی انتہا کردی اور قیامت تک ایسا ہی ہوتا رہے گا۔ مسائل ١۔ والد نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو سنگسار کرنے کی دھمکی دی۔ ٢۔ مشرک بڑ امتشدد ہوتا ہے۔ تفسیر بالقرآن انبیاء (علیہ السلام) اور ایمان والوں کو مشرکوں کی دھمکیاں : ١۔ ابراہیم (علیہ السلام) کے باپ نے کہا اگر تو باز نہ آیا تو تجھے سنگسار کردوں گا بس تو ہمیشہ کے لیے مجھ سے دور ہوجا۔ (مریم : ٤٦) ٢۔ مشرکوں کی حضرت نوح (علیہ السلام) کو دھمکی اگر تو باز نہ آیا تو تجھے سنگسار کردیا جائے گا۔ (الشعراء : ١١٦) ٣۔ مشرکوں کی حضرت لوط (علیہ السلام) کو دھمکی کہ اگر تو باز نہ آیا تو تمھیں شہر بدر کردیں گے۔ (الشعراء : ١٦٧) ٤۔ فرعون کی ایمانداروں کو دھمکیاں کہ میں تمھارے ہاتھ پاؤں مخالف سمت سے کاٹ دوں گا اور تمھیں کھجور کے تنوں پر سولی چڑھا دوں گا۔ (طٰہٰ : ٧١) ٥۔ مشرکوں نے حضرت شعیب (علیہ السلام) سے کہا کہ ہم تجھے اور تیرے ساتھ ایمان لانے والوں کو شہر سے نکال دیں گے۔ (الاعراف : ٨٨) مريم
47 مريم
48 فہم القرآن ربط کلام : حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا اپنے والد کو مؤدبانہ جواب۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے والد کو سخت جواب دینے کی بجائے نہایت ادب کے ساتھ فرمایا آپ میری دعوت قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں تو میرا آپ کو سلام ہو۔ میں آپ کے لیے اپنے رب سے بخشش کی دعا کروں گا کیونکہ وہ بڑا ہی مہربان ہے۔ اب میں آپ اور جن کو بھی تم اللہ تعالیٰ کے سوا پکارتے ہو ان سے کنارہ کش ہوتا ہوں۔ میں تو اپنے رب کو ہی پکارتا رہوں گا۔ میرا ایمان ہے کہ میرا رب مجھے کبھی محروم نہیں کرے گا۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے باپ سے رخصت ہوتے ہوئے انھیں سلام کیا۔ ظاہر ہے کہ ان کی شریعت میں مشرک کو سلام کرنے کی اجازت ہوگی یا پھر اس سلام سے مراد وہی سلام ہے جو جھگڑالو شخص کو کہنے کا حکم ہے۔ (وَعِبَاد الرَّحْمٰنِ الَّذِیْنَ یَمْشُونَ عَلَی الْاَرْضِ ہَوْنًا وَّاِِذَا خَاطَبَہُمُ الْجَاہِلُوْنَ قَالُوْا سَلاَمًا) [ الفرقان : ٦٣] ” اور رحمن کے بندے وہ ہیں جو زمین پر وقار کے ساتھ چلتے ہیں جب ان سے جاہل گفتگو کرتے ہیں تو وہ صرف یہ کہتے ہیں کہ تمہیں سلام۔“ جہاں تک باپ کے حق میں دعا کرنے کا تعلق ہے جب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے سامنے یہ حقیقت واضح ہوگئی کہ میرا والد اللہ کا دشمن ہے تو وہ اپنے باپ سے پوری طرح بیزار ہوگئے۔ ابراہیم (علیہ السلام) نے باپ کی سختی اور دھمکی کے باوجود اس لیے دعا کرنے کا وعدہ کیا تھا کہ ابراہیم (علیہ السلام) دوسرے کا دکھ دیکھ کر تڑپ جانے والے اور بڑے ہی حوصلہ والے تھے۔ (التوبۃ: ١١٤) نہ معلوم حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کتنی مدت باپ اور اپنی قوم کو سمجھاتے رہے۔ جب انھیں یقین ہوگیا کہ میرا باپ اور قوم میری دعوت ماننے کے لیے تیار نہیں تو انہوں نے باپ اور قوم سے علیحدگی کا اعلان کردیا۔ ( الصٰفٰت : ٩٩) قرآن مجید کے اسلوب بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے باپ اور قوم سے علیحدگی کا اعلان آگ میں جھونکے جانے کے بعد کیا۔ دوسرے الفاظ میں ابراہیم (علیہ السلام) نے ہجرت کا اعلان کیا۔ ایسے موقعہ پر کفار اور مشرکین کے ساتھ مقاطعہ کی اجازت ہوتی ہے تاکہ وقت ضائع کرنے کی بجائے ان لوگوں کو دعوت دی جائے۔ جن تک پہلے دعوت نہ پہنچ پائی ہو۔ مسائل ١۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اپنے باپ اور قوم سے کنارہ کش ہوگئے۔ ٢۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو اپنی دعاؤں کے بارے میں اپنے رب پر پورا یقین تھا۔ تفسیر بالقرآن کفار اور مشرکین کے ساتھ مقاطعہ کرنے کا حکم : ١۔ ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا میں آپ لوگوں سے اور جنھیں تم اللہ کے سوا پکارتے ہو ان سے کنارہ کش ہوتا ہوں۔ (مریم : ٤٧) ٢۔ اے ایمان والو! یہودیوں اور عیسائیوں کو اپنا دوست نہ بناؤ۔ (المائدۃ: ٥١) ٣۔ اے ایمان والو! اگر تمہارے آباء اسلام پر کفر کو ترجیح دیں تو اپنے آباء اور بھائیوں کو دوست نہ بناؤ۔ (التوبۃ: ٢٣) ٤۔ اے ایمان والو! کفار کو مومنوں کے مقابلہ میں دوست نہ بناؤ۔ (النساء : ١٤٤) ٥۔ اے ایمان والو! جن لوگوں نے تمھارے دین کو کھیل تماشہ بنا رکھا ہے انہیں دوست نہ بناؤ۔ (المائدۃ: ٥٧) ٦۔ اللہ تمھیں منع کرتا ہے کہ تم ان سے دوستی کرو جنھوں نے تمھارے دین میں جھگڑا کیا اور تمھیں تمہارے گھروں سے نکالا۔ (الممتحنۃ: ٩) ٧۔ ابراہیم معبودان باطل کے انکاری اور براءت کا اظہار کرتے تھے۔ (الممتحنہ : ٤) ٨۔ ھود (علیہ السلام) نے کہا میں اللہ کو گواہ بناتا ہوں میں تمہارے شرک سے بیزار ہوں۔ (ہود : ٥٤ ) ٩۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرما دیں اللہ تعالیٰ پاک ہے اور میں مشرکوں میں سے نہیں ہوں۔ (یوسف : ١٠٨ ) ١٠۔ اے کافرو تمہارے لیے تمہارا دین میرے لیے میرا دین ہے۔ (الکافرون) مريم
49 فہم القرآن ربط کلام : حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی ہجرت اور ان پر اللہ تعالیٰ کا انعام۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) دعائیں کرتے ہوئے عراق کی سرزمین سے رخصت ہوئے۔ یہاں ان کی دو دعاؤں کا ذکر کیا جاتا ہے۔ پہلی دعا یہ تھی کہ میں اپنے رب کی خاطر سب کچھ چھوڑ رہا ہوں وہی ہجرت کے دوران میری رہنمائی فرمائے گا۔ ( الصّٰفٰت : ٩٩) دوسری دعا انھوں نے یہ کی کہ میرے رب ! مجھے نیک اولاد عطا فرما۔ اس دعا کے صلہ میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو خوشخبری دی گئی کہ اللہ تعالیٰ آپ کو بیٹا اور پوتا عنایت کرے گا اور دونوں کو نبی بنائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے ابراہیم (علیہ السلام) کو اپنی بے پناہ رحمت سے نوازا اور ان کے نام اور کام کو شہرت دوام بخشی۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے یہ بھی دعا کی تھی۔ میرے رب مجھے حکمت و دانائی اور قوت فیصلہ عطا فرمانے کے ساتھ نیک لوگوں کی رفاقت عنایت فرما۔ میری یہ بھی دعا ہے کہ موت کے بعد میرا تذکرہ دنیا میں خیر کے ساتھ ہوتا رہے۔ (الشعراء : ٨٣، ٨٤) اسی دعا کا صلہ ہے کہ دنیا کے تمام آسمانی مذاہب اور ہر دور کے مذہبی لوگ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو اپنا پیشوا مانتے ہیں۔ ان کے ساتھ تعلق کا اظہار کرنا اپنے لیے قابل افتخارسمجھتے ہیں اور ہر کوئی ان کا تذکرہ اچھے الفاظ میں کرتا ہے۔ یہاں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے بیٹے حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کا تذکرہ شاید اس لیے نہیں کیا گیا کیونکہ ان کا ذکر دو آیات کے بعد آرہا ہے۔ جس سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت اسماعیل (علیہ السلام) نا صرف حضرت اسحاق سے عمر میں بڑے تھے بلکہ ان کا مرتبہ اور مقام بھی حضرت اسحاق سے بڑا ہے۔ مريم
50 مريم
51 فہم القرآن ربط کلام : حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے ذکر کے بعد حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا تذکرہ۔ جس طرح حضرت زکریا (علیہ السلام)، حضرت مریم [ اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی سیرت طیبہ بیان کرنے کا حکم ہے اسی طرح موسیٰ (علیہ السلام) کی حیات طیبہ بیان کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) صاحب کتاب رسول تھے۔ جنھیں مخلص ہونے کے لقب سے نوازا گیا ہے۔ حضرت زکریا (علیہ السلام) اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی دعائیں اس وقت قبول ہوئیں۔ جب وہ بے بس اور ظاہری اسباب سے مایوس ہوچکے تھے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی دعا بھی اس وقت قبول ہوئی جب وہ غریب الوطن اور سفر کی صعوبتوں میں مبتلا تھے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) مدین سے اپنی اہلیہ کے ساتھ آٹھ یا دس سال کے عرصہ کے بعد مصر کی طرف انتہائی غم کے عالم میں واپس آرہے تھے۔ کیونکہ فرعون نے انھیں قتل کرنے کا حکم دے رکھا تھا۔ جس بناء پر انھوں نے مصر چھوڑا تھا۔ واپس جب طور پہاڑ کے قریب آئے تو طور کی دائیں جانب سے ایک آواز آئی۔ جسے اللہ تعالیٰ نے اپنی آواز قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ ہم نے کوہ طور کی دائیں جانب موسیٰ (علیہ السلام) کو اپنے قریب کیا اور اس سے سرگوشی کی۔ اس طرح موسیٰ (علیہ السلام) کو اپنی رحمت کے دامن میں جگہ دی اور اس کے بھائی کو بھی نبوت کے منصب پر فائز فرمایا۔ سفر کے دوران انھیں فرعون کی طرف جانے کا حکم ہوا تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے دو عذر پیش کیے تھے۔ جن میں ایک یہ تھا کہ میرے رب ! خدشہ ہے کہ فرعون مجھے قتل نہ کر دے۔ میں چاہتا ہوں کہ میرے بھائی ہارون کو میرا معاون بنایا جائے۔ کیونکہ وہ فصاحت وبلاغت کے اعتبار سے مجھ سے زیادہ صاحب زبان ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی دعا قبول کرتے ہوئے ان کے بھائی کو نبوت کا منصب عطا فرمایا۔ جس کا یہاں مختصر تذکرہ ہے۔ (الشعراء : ١٠ تا ١٤) یہاں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے ایک ایسے وصف کا ذکر کیا گیا ہے جس بناء پر وہ دوسرے انبیاء (علیہ السلام) سے منفرد اور ممتاز دکھائی دیتے ہیں۔ وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سوائے موسیٰ (علیہ السلام) کے کسی پیغمبر کے ساتھ براہ راست گفتگو نہیں فرمائی۔ (النساء : ١٦٤) اسی بنیاد پر انھیں مُخْلَصًاکے لقب سے نوازا گیا ہے۔ جس کا اکثر اہل علم نے یہی معنٰی لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو اپنے ساتھ بات کرنے میں مخصوص فرمایا تھا۔ مخلص کا معنی ہے۔ خالص دوستی کرنا، نجات پانا، محفوظ رہنا، صاف ہونا۔ مسائل ١۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی سیرت بیان کرنے کا حکم ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو اپنے ساتھ ہم کلامی کا شرف بخشا۔ ٣۔ موسیٰ (علیہ السلام) کی دعا کے صلہ میں ان کے بھائی ہارون کو بھی نبی بنایا گیا۔ تفسیر بالقرآن موسیٰ (علیہ السلام) کے اوصاف حمیدہ کا مختصر تذکرہ : ١۔ موسیٰ (علیہ السلام) کا تذکرہ قرآن مجید میں ١٣٥ مرتبہ آیا ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو واضح دلائل سے نوازا۔ (النساء : ١٥٣) ٣۔ اللہ تعالیٰ موسیٰ (علیہ السلام) سے ہم کلام ہوئے۔ (النساء : ١٦٤) ٤۔ اے موسیٰ میں نے تجھے اپنی رسالت اور کلام کے لیے چن لیا ہے۔ (الاعراف : ١٤٤) ٥۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو آیات اور واضح دلائل دے کر فرعون کے پاس بھیجا۔ (ھود : ٩٦) ٦۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو نو واضح نشانیاں دیں۔ (بنی اسرائیل : ١٠١) ٧۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نور ہدایت کی طرف بلاتے تھے۔ (ابراہیم : ٥) ٨۔ اللہ تعالیٰ موسیٰ (علیہ السلام) سے پر دے میں بات کرتا تھا۔ ( الشورٰی : ٥١) مريم
52 مريم
53 فہم القرآن ربط کلام : انبیاء کرام (علیہ السلام) کے اوصاف حمیدہ کا بیان جاری ہے۔ حضرت اسماعیل (علیہ السلام)، حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے بڑے بیٹے ہیں۔ جو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے ہاں تقریباً چھیاسی سال کے بعد پیدا ہوئے۔ یہ واحد پیغمبر ہیں جنھیں ذبیح اللہ ہونے کا اعزاز حاصل ہوا۔ اسی بنیاد پر انھیں وعدے کا سچا اور بیک وقت نبی اور رسول کے لقب سے نوازا گیا ہے۔ ان کے بارے میں یہ روایت بھی ملتی ہے کہ انھوں نے کسی آدمی سے ملاقات کا وعدہ فرمایا۔ اس کے نہ پہنچنے کی وجہ سے تین دن تک اس کا انتظار کرتے رہے۔ ایسی ہی روایت نبی آخر الزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں بھی موجود ہے۔ تین دن انتظار کرنے کا یہ معنٰی نہیں کہ آپ تین دن وہیں کھڑے رہے۔ اس کا مفہوم یہی ہوسکتا ہے کہ وقت مقررہ پر آپ وہاں موجود ہوتے تھے۔ [ رواہ ابوداؤد : باب فی العدۃ] حضرت ہاجرہ[ اور آپ ( علیہ السلام) کے فرزند ارجمند : حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی دوسری رفیقہ حیات حضرت ہاجرہ[ ہیں۔ جن کی سیرت طیبہ کے مختلف پہلوؤں کو قرآن مجید نے اجاگر کرنے کے ساتھ ان کی زندگی سے وابستہ واقعات اور مقامات کو شعائرا اللہ قرار دیا ہے۔ حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کے فضائل ومناقب : یہودیوں نے ایڑی چوٹی کا زور لگا کر یہ بات ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ ذبیح اللہ اسماعیل (علیہ السلام)، نہیں بلکہ اسحاق (علیہ السلام) ہیں۔ حالانکہ تورات کتاب پیدائش باب ١٧ تا ٣٠ میں موجود ہے۔ کہ حضرت اسماعیل (علیہ السلام) حضرت اسحاق (علیہ السلام) سے بڑے تھے اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے اکلوتے بیٹے کی قربانی پیش کی تھی۔ ظاہر ہے اسماعیل (علیہ السلام) ذبیح اللہ ہوئے ہیں نہ کہ اسحاق (علیہ السلام)۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا خراج تحسین : (إِنَّ اللّٰہَ اصْطَفٰی مِنْ وَلَدِ إِبْرَاہِیمَ إِسْمَعِیلَ )[ رواہ الترمذی : باب فی فضل النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ] ” اللہ تعالیٰ نے ابراہیم (علیہ السلام) کی اولاد میں اسمٰعیل کو سب سے معزز فرمایا۔“ حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کا ذکر دوسرے انبیاء کے ساتھ : (وَإِسْمَاعِیْلَ وَإِدْرِیْسَ وَذَا الْکِفْلِ کُلٌّ مِّنَ الصَّابِرِیْن وَأَدْخَلْنَاہُمْ فِیْ رَحْمَتِنَا إِنَّہُمْ مِّنَ الصَّالِحِیْنَ) [ الانبیاء : ٨٥، ٨٦] ” اور اسمٰعیل وادریس اور ذوالکفل کا ذکر کرو، کہ سب صبر کرنے والے تھے۔ اور ہم نے ان کو اپنی رحمت میں داخل کیا۔ بلاشک وہ نیکو کارتھے۔“ اولاد اسماعیل (علیہ السلام) : حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کے بارہ بیٹے اور ایک بچی تھی۔ جس کا نام مورخ نے بشامہ لکھا ہے۔ آپ کے بارہ بیٹوں کے مندرجہ ذیل نام ہیں۔ ١۔ نیا بوط، جن کو عرب نابت کہتے ہیں۔ ٢۔ قیدار حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کے اس صاحبزادے نے بڑی شہرت حاصل کی نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس قیدار کی نسل عدنان سے پیدا ہوئے۔ ٣۔ ادبایل ٤۔ بمشام۔ ٥ سمع۔ ٦ دومہ ٧۔ مسا ٨۔ حدود ٩۔ یلتماد ١٠۔ جسطور ١١۔ نفیس ١٢۔ قدمہ (توراۃ، پ ٢٥) مسائل ١۔ حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کی حیات مبارکہ کا امت کے سامنے تذکرہ کرنا ضروری ہے۔ ٢۔ حضرت اسماعیل (علیہ السلام) قول کے سچے اور وعدے کے پکے پیغمبر تھے۔ تفسیر بالقرآن حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کے اوصاف حمیدہ کا مختصر تذکرہ : ١۔ حضرت اسماعیل کا تذکرہ قرآن مجید میں ١٢ مرتبہ آیا ہے۔ ٢۔ اللہ نے اسماعیل، یسع، یونس اور لوط ( علیہ السلام) کو جہاں والوں پر فضیلت دی۔ (الانعام : ٨٦) ٣۔ اسماعیل (علیہ السلام) وعدے کے سچے تھے۔ (مریم : ٥٤) ٤۔ اسماعیل، ادریس اور ذالکفل صبر کرنے والوں میں سے تھے۔ (الانبیاء : ٨٥) مريم
54 مريم
55 فہم القرآن ربط کلام : حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کی دعوت کا خلاصہ : اللہ کی توحید کے بعد دین میں سب سے پہلے جس بات پر زور دیا گیا ہے وہ نماز اور زکوٰۃ ہے انھی سے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ہوتا ہے۔ ان کا اہتمام اور ابلاغ کرنے کی بناء پر حضرت اسماعیل (علیہ السلام) اپنے رب کے مقرب ترین بندے بن گئے۔ نماز اللہ اور بندے کے درمیان عابد اور معبود ہونے کی ترجمان ہے۔ نماز سے بڑھ کر انسان کا اپنے رب کے قریب ہونے کا کوئی اور ذریعہ نہیں۔ پنجگانہ نماز سے قلبی اطمینان، جسمانی طہارت اور یہ مسلمانوں کا آپس میں رابطے کا قریب ترین ذریعہ ہے۔ زکوٰۃ طبیعت کے بخل اور سرمایہ داری کے خلاف ایک طرح کی سالانہ مہم ہے۔ جس سے ایک طرف مالدار کا مال پاک ہوتا ہے اور دوسری طرف غرباء، مساکین اور دیگر کمزور طبقات کے ساتھ مالی معاونت ہوتی ہے۔ اس لیے اسے اسلام کا خزانہ کہا گیا ہے۔ (عَنْ ابْنِ عُمَرَ (رض) أَنَّ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتّٰی یَشْہَدُوا أَنْ لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُول اللّٰہِ وَیُقِیمُوا الصَّلَاۃَ وَیُؤْتُوا الزَّکَاۃَ فَإِذَا فَعَلُوا ذَلِکَ عَصَمُوا مِنِّی دِمَاءَ ہُمْ وَأَمْوَالَہُمْ إِلَّا بِحَقِّ الْإِسْلَامِ وَحِسَابُہُمْ عَلٰی اللّٰہِ) [ رواہ بخاری : کتاب الایمان، باب فان کان تابوا] ” حضرت عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں بلاشبہ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا مجھے لوگوں سے قتال کا حکم دیا گیا ہے یہاں تک کہ وہ گواہی دیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں ہے اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کا رسول ہے۔ وہ نماز قائم کریں، زکوٰۃ ادا کریں جو یہ کام کریں گے انہوں نے اپنا خون اور مال مجھ سے بچا لیا سوائے اسلام کے حق کے اور اس کا حساب اللہ پر ہے۔“ (اسلام کے حقوق سے مراد حدود اللہ ہیں ) مريم
56 فہم القرآن ربط کلام : حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کے تذکرہ کے بعد حضرت ادریس (علیہ السلام) کی سیرت کا بیان۔ حضرت ادریس (علیہ السلام) کے بارے میں کافی حد تک اہل علم کا خیال ہے کہ آپ نوح (علیہ السلام) سے پہلے مبعوث کیے گئے۔ حضرت ادریس (علیہ السلام) نسل اور مدت کے اعتبار سے حضرت آدم (علیہ السلام) کے قریب تر ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں بھی سچے نبی ہونے کے لقب سے نوازا ہے اور ان کے بارے میں ارشاد فرمایا ہے کہ ہم نے اس کو بلند مقام پر اٹھا لیا۔ حضرت ادریس (علیہ السلام) کے دو اوصاف بالخصوص ذکر کیے گئے ہیں۔ مسائل ١۔ حضرت ادریس (علیہ السلام) نہایت ہی سچے اللہ کے پیغمبر تھے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں بلند ترین مقام عنایت کیا تھا۔ تفسیر بالقرآن حضرت ادریس (علیہ السلام) کے اوصاف حمیدہ : حضرت ادریس کا قرآن مجید میں ٢ بار تذکرہ ہوا ہے۔ ١۔ ادریس (علیہ السلام) نہایت سچے نبی تھے۔ (مریم : ٥٦) ٢۔ اسماعیل، ادریس، ذالکفل تمام صبر کرنے والوں میں سے تھے۔ (الانبیاء : ٨٥) حضرت ادریس (علیہ السلام) قرآن عزیز میں حضرت ادریس (علیہ السلام) کا ذکر صرف سورۃ مریم اور سورۃ الانبیاء میں آیا ہے۔ نام ونسب اور زمانہ : حضرت ادریس (علیہ السلام) کے نام ونسب اور زمانہ کے متعلق مورخین کو شدید اختلاف ہے۔ تمام اختلافی دلائل کو سامنے رکھنے کے بعد بھی کوئی فیصلہ کن یا کم از کم راجح رائے قائم نہیں کی جاسکتی ہے۔ قرآن عزیز نے رشد وہدایت کے پیش نظر صرف ان کی نبوت رفعت مرتبت کا ذکر کیا ہے اور اسی طرح حدیث کی روایات بھی اس سے آگے نہیں جاتیں ایک جماعت کہتی ہے کہ وہ نوح کے جد امجد ہیں اور ان کا نام اخنوخ ہے۔ اور ادریس لقب ہے یاعربی زبان میں ادریس اور عبرانی یاسریانی میں ان کا نام اخنوخ ہے اور ان کانسب نامہ یہ ہے۔ خنوخ یا اخنوخ بن یارد بن مہلائیل بن قینان بن انوش بن شیث بن آدم (علیہ السلام)۔ ابن اسحاق کا رجحان اسی جانب ہے اور دوسری جماعت کا خیال ہے کہ وہ انبیاء بنی اسرائیل میں سے ہیں اور الیاس وادریس ایک ہی شخصیت کے نام اور لقب ہیں ان دونوں روایات کے پیش نظر بعض علماء نے یہ تطبیق دینے کی کوشش کی ہے کہ جد نوح (علیہ السلام) کا نام اخنوخ ہے اور ادریس لقب اور بنی اسرائیل کے پیغمبر کا نام ادریس ہے اور الیاس لقب مگر یہ رائے بھی بے سند اور بےدلیل ہے۔ صحیح ابن حبان میں روایت ہے کہ حضرت ادریس (علیہ السلام) پہلے شخص ہیں جنہوں نے قلم کو استعمال کیا۔ ایک حدیث میں ہے کہ نبی اکر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کسی نے رمل کے خطوط کے متعلق سوال کیا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :” یہ علم ایک نبی کو دیا گیا تھا۔ اگر کسی شخص کے نقوش اس کے مطابق ہوجاتے ہیں تو اندازہ صحیح نکلتا ہے ورنہ نہیں۔“ [ رواہ مسلم : باب تحریم الکہانۃ واتیان الکہان] معراج کے واقعہ میں صرف اس قدر ذکر ہے کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت ادریس (علیہ السلام) سے چوتھے آسمان پر ملاقات کی۔ حضرت ادریس (علیہ السلام) کی تعلیم کا خلاصہ : اللہ کی ہستی اور اس کی توحید پر ایمان لانا، صرف خالقِ کائنات کی پرستش کرنا، آخرت کے عذاب سے رستگاری کے لیے اعمال صالحہ کو ڈھال بنانا، دنیا سے بے التفاتی اور تمام امور میں عدل وانصاف کو پیش نظر رکھنا اور مقررہ طریقہ پر عبادت الٰہی ادا کرنا، اور ایام بیض کے روزے رکھنا، دشمنان اسلام سے جہاد کرنا، زکوٰۃ ادا کرنا، طہارت ونظافت سے رہنا، خصوصیت کے ساتھ جنات، کتے اور سور سے اجتناب کرنا ہر نشہ آورشے سے پرہیز کرنا ان کی تعلیم کا لب لباب ہے۔ حضرت ادریس (علیہ السلام) کا حلیہ مبارک : حضرت ادریس (علیہ السلام) کا حلیہ یہ ہے کہ گندم گوں رنگ، پورا قدوقامت، خوبصورت وخوبرو، گھنی ڈاڑھی، سرمگیں چمکدار آنکھیں، گفتگو باقار، خاموشی پسند سنجیدہ اور متین چلتے ہوئے نیچی نظر انتہائی فکر وخوض کے عادی حضرت ادریس (علیہ السلام) نے بیاسی سال کی عمر پائی۔ ان کی انگوٹھی پر یہ عبارت کندہ تھی۔ اَلصَّبْرُ مَعَ الْاِیْمَان باللّہِ یُوْرِثُ الظَّفَرَ ” اللہ پر ایمان کے ساتھ صبر فتح مندی کا باعث ہے۔“ اور کمر سے باندھنے والے پٹکہ پر یہ تحریر تھا۔ الَاَْعْیَادُ فِیْ حِِفْظِ الْفُرُوْضِ وَالشَّرِیْعَۃِ مِنْ تَمَام الدِّیْنِ وَتَمام الدِّیْنِ کَمَالُ الْمُرُوَّۃِ ” حقیقی عیدیں اللہ تعالیٰ کے فرائض کی حفاظت میں مضمرہیں اور دین کا کمال شریعت سے وابستہ ہے اور مروت میں دین کی تکمیل ہے۔“ حضرت ادریس (علیہ السلام) کے بہت سے پند ونصائح اور آداب واخلاق کے جملے مشہور ہیں جو مختلف زبانوں میں ضرب المثل ہیں ان میں سے بعض یہ ہیں : اللہ کی بیکراں نعمتوں کا شکر یہ انسانی طاقت سے باہر ہے۔ جو علم میں کمال اور عمل صالح کا خواہش مند ہو اس کو جہالت کے اسباب اور بد کرداری کے قریب بھی نہیں جانا چاہیے۔ دنیا کی بھلائی ” حسرت“ ہے اور برائی ” ندامت“۔ اللہ کی یاد اور عمل صالح کے لیے خلوص نیت شرط ہے۔ نہ جھوٹی قسمیں کھاؤ، نہ اللہ تعالیٰ کے نام کو قسموں کے لیے تختہ مشق بناؤ اور نہ جھوٹوں کو قسمیں کھانے پر آمادہ کرو کیونکہ ایسا کرنے سے تم بھی شریک گناہ ہوجاؤ گے۔ اطاعت کرو اور اپنے بڑوں کے سامنے پست رہو اور ہر وقت ذکر الٰہی میں زبان تر رکھو۔ دوسروں کی خوشی پر حسد نہ کرو اس لیے کہ یہ مسرور زندگی چند روزہ ہے۔ جو ضروریات زندگی سے زیادہ طالب ہو اور وہ کبھی قانع نہیں ہوتا۔ مريم
57 مريم
58 فہم القرآن ربط کلام : اس خطاب کے اختتام پر انبیاء اور ان کی صالح اولاد کی خاص الخاص خوبی کا ذکر۔ چند انبیاء اور ان کی اولادوں میں ممتاز اور پسندیدہ شخصیات کا ذکر کرنے کے بعد ارشاد فرمایا ہے کہ یہ سب کے سب اللہ تعالیٰ کے انعام یافتہ لوگ تھے۔ جو آدم (علیہ السلام) کی اولاد ہیں اور آدم (علیہ السلام) کے بعد ان کا نسب حضرت نوح (علیہ السلام) اور ان کے ساتھ کشتی میں نجات پانے والوں کے ساتھ ملتا ہے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی اولاد سے حضرت یعقوب (علیہ السلام) ہیں۔ جنہیں اللہ تعالیٰ نے ہدایت سے نوازا اور اپنی جناب میں برگزیدہ بنایا۔ یہ ایسے باوفا اور صاحب تقویٰ لوگ تھے۔ جب ان کے سامنے ان کے رب کے ارشادات پڑھے جاتے تو وہ خوف اور شکر کے جذبات میں سجدہ ریز ہوجاتے تھے۔ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ طوفان نوح کے وقت نسل انسانی بہت محدود تھی اور جو عرب کے علاقہ تک محدود تھی۔ جب نوح (علیہ السلام) کے زمانہ میں طوفان آیا تو صرف وہی لوگ بچ سکے تھے جو کشتی میں سوار تھے اور اسی سے نسل انسانی کی افزائش ہوئی تھی۔ (أَنَّ أَبَا ہُرَیْرَۃَ أَخْبَرَہُمَا أَنَّ النَّاسَ قَالُوا یَا رَسُول اللَّہِ، ہَلْ نَرَی رَبَّنَا یَوْمَ الْقِیَامَۃِ قَالَ ہَلْ تُمَارُونَ فِی الْقَمَرِ لَیْلَۃَ الْبَدْرِ لَیْسَ دُونَہُ سَحَابٌقَالُوا لاَ یَا رَسُول اللَّہ قَالَ فَہَلْ تُمَارُونَ فِی الشَّمْسِ لَیْسَ دُونَہَا سَحَابٌقَالُوا لاَقَالَ فَإِنَّکُمْ تَرَوْنَہُ کَذَلِکَ۔۔ حَتَّی إِذَا أَرَاد اللَّہُ رَحْمَۃَ مَنْ أَرَادَ مِنْ أَہْلِ النَّارِ، أَمَرَ اللَّہُ الْمَلاَءِکَۃَ أَنْ یُخْرِجُوا مَنْ کَانَ یَعْبُدُ اللَّہَ، فَیُخْرِجُونَہُمْ وَیَعْرِفُونَہُمْ بآثَار السُّجُودِ، وَحَرَّمَ اللَّہُ عَلَی النَّارِ أَنْ تَأْکُلَ أَثَرَ السُّجُودِ فَیَخْرُجُونَ مِنَ النَّارِ، فَکُلُّ ابْنِ آدَمَ تَأْکُلُہُ النَّارُ إِلاَّ أَثَرَ السُّجُودِ) [ رواہ البخاری : باب فَضْلِ السُّجُودِ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) نے بتلایا کہ لوگوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا کیا قیامت کے دن ہم اپنے رب کو دیکھیں گے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کیا تم چودھویں رات کے چاند کے بارے میں شک کرسکتے ہو جب بادل نہ ہوں انہوں نے عرض کی نہیں اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ نے فرمایا کیا تم سورج کو دیکھنے میں شک کرسکتے ہو جب بادل نہ ہوں انہوں نے عرض کی نہیں اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ نے فرمایا اسی طرح اللہ کی رویت میں کوئی شک نہیں۔۔ یہاں تک کہ جب اللہ جہنمیوں کے ساتھ رحمت کا ارادہ فرمائیں گے اللہ فرشتوں کو حکم دیں گے ہر اس بندے کو جہنم سے نکال دو جو اللہ کی عبادت کیا کرتا تھا فرشتے انہیں سجدوں کے نشانات سے پہنچانیں گے‘ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے سجدوں کے نشانات کو جلانا آگ پر حرام قرار دیا ہے۔ انہیں فرشتے آگ سے نکالیں گے۔ آدم کے بیٹے کو آگ کھائے گی مگر سجدے والے نشانات محفوظ رہیں گے۔ یہ وہ لوگ ہونگے جو عقیدۂ توحید پر قائم تھے مگر بڑے بڑے گناہ کرتے تھے۔“ (حَدَّثَنِی مَعْدَانُ بْنُ أَبِی طَلْحَۃَ الْیَعْمَرِیُّ قَالَ لَقِیتُ ثَوْبَان َ مَوْلَی رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَقُلْتُ أَخْبِرْنِی بِعَمَلٍ أَعْمَلُہُ یُدْخِلُنِی اللَّہُ بِہِ الْجَنَّۃَأَوْ قَالَ قُلْتُ بِأَحَبِّ الأَعْمَالِ إِلَی اللَّہِ فَسَکَتَ ثُمَّ سَأَلْتُہُ فَسَکَتَ ثُمَّ سَأَلْتُہُ الثَّالِثَۃَ فَقَالَ سَأَلْتُ عَنْ ذَلِکَ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَقَالَ عَلَیْکَ بِکَثْرَۃِ السُّجُودِ لِلَّہِ فَإِنَّکَ لاَ تَسْجُدُ لِلَّہِ سَجْدَۃً إِلاَّ رَفَعَکَ اللَّہُ بِہَا دَرَجَۃً وَحَطَّ عَنْکَ بِہَا خَطِیءَۃً قَالَ مَعْدَانُ ثُمَّ لَقِیتُ أَبَا الدَّرْدَاءِ فَسَأَلْتُہُ فَقَالَ لِی مِثْلَ مَا قَالَ لِی ثَوْبَانُ) [ رواہ مسلم : باب فَضْلِ السُّجُودِ وَالْحَثِّ عَلَیْہِ] ” حضرت معدان بن طلحہ (رض) کہتے ہیں میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے غلام ثوبان (رض) سے ملا اور عرض کی کہ مجھے ایسا عمل بتلائیے جو اللہ کو بہت پسند ہو۔ جس سے مجھے اللہ تعالیٰ جنت میں داخل فرمادے وہ خاموش ہوگئے۔ میں نے پھر سوال کیا تب بھی انہوں نے خاموشی اختیار فرمائی۔ تیسری دفعہ میرے عرض کرنے پر فرمایا تجھے کثرت کے ساتھ اللہ کے حضور سجدے کرنے چاہییں۔ جب تو اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے سجدے کرے گا‘ اللہ تعالیٰ تیرے درجات کو بلند اور تیرے گناہوں کو معاف فرمائے گا۔ جناب معدان (رض) کہتے ہیں کہ اس کے بعد میں نے ابودرداء (رض) سے ملاقات کی اور ان سے یہی سوال عرض کیا۔ اور انہوں نے بھی مجھے وہی جواب دیا جو حضرت ثوبان (رض) نے دیاتھا۔“ (حَدَّثَنِی رَبِیعَۃُ بْنُ کَعْبٍ الأَسْلَمِیُّ قَالَ کُنْتُ أَبِیتُ مَعَ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَأَتَیْتُہُ بِوَضُوءِہِ وَحَاجَتِہِ فَقَالَ لِی سَلْ فَقُلْتُ أَسْأَلُکَ مُرَافَقَتَکَ فِی الْجَنَّۃِ قَالَ أَوَغَیْرَ ذَلِکَ قُلْتُ ہُوَ ذَاکَ قَالَ فَأَعِنِّی عَلَی نَفْسِکَ بِکَثْرَۃِ السُّجُودِ) [ رواہ مسلم : باب فَضْلِ السُّجُودِ وَالْحَثِّ عَلَیْہِ ] ” حضرت ربیعہ بن کعب (رض) بیان کرتے ہیں میں رات کے وقت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے وضو کا پانی لے کر حاضر ہوا کرتا تھا۔ ایک دن ارشاد ہوا ربیعہ کچھ مانگنا چاہوتو مانگ لو۔ میں نے عرض کیا کہ میں جنت میں آپ کی رفاقت کا خواہش مندہوں فرمایا کچھ اور مانگنا چاہو؟ میں نے عرض کیا پھر بھی یہی خواہش ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا پھر کثرت سجود سے میری معاونت کرو۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے بعض انبیاء (علیہ السلام) کی اولاد میں بھی سلسلہ نبوت جاری فرمایا۔ ٢۔ صلحاء کی خوبی ہے کہ جب ان کے سامنے قرآن مجید کی آیات پڑھی جائیں تو وہ اپنے رب کے حضور روتے ہوئے سجدہ ریز ہوجاتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن جن انبیاء (علیہ السلام) کی اولاد کو نبی بنایا گیا : ١۔ یہ وہ لوگ ہیں جن پر اللہ نے پیغمبروں میں سے فضل و کرم فرمایا یہ اولاد آدم میں سے ہیں۔ (مریم : ٥٨) ٢۔ ہم نے نوح اور پیغمبر بھیجے ہم نے ان کی اولاد کو نبوت عطا کی۔ (الحدید : ٢٦) ٣۔ ہم نے ابراہیم کو اسحق و یعقوب عطا کیے اور ہم نے ان کو نبوت عطا کی۔ (العنکبوت : ٢٧) ٤۔ حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے بعد ان کے بیٹے حضرت یوسف کو نبی بنایا گیا۔ ( یوسف : ٢٢) ٥۔ فرشتوں نے زکریا (علیہ السلام) سے کہا اللہ تجھے یحییٰ کی بشارت دیتا ہے جو نیکو کار اور پیغمبروں میں سے ہوں گے۔ (آل عمران : ٣٩) ٦۔ حضرت داؤد کے بعد ان کے بیٹے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو نبی بنایا۔ ( النمل : ١٦) مريم
59 فہم القرآن ربط کلام : انبیاء کرام کی اولاد میں ان کے خلف الرشید بھی ہوئے اور ناخلف بھی ہوئے۔ ناخلف اولاد کا انجام۔ اللہ تعالیٰ اپنے اصول کے مطابق دین کی نعمت اور حقیقی احترام اسی شخص دیتا ہے جو دین کی قدر اور اس پر عمل کرتا ہے۔ بے شک وہ کسی غیر معروف باپ کا بیٹا اور غریب کیوں نہ ہو۔ اس کے مقابلے میں کوئی نبی کا صاحبزادہ ہو کر اللہ اور اس کے نبی کی اطاعت کا انکاری ہے تو وہ دنیا و آخرت کی رسوائی سے نہیں بچ سکتا۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کے بیٹے کی مثال سب کے سامنے ہے۔ وہ پانی میں ڈبکیاں لینے لگا تو حضرت نوح (علیہ السلام) نے پدرانہ شفقت کی بناء پر اللہ تعالیٰ سے درخواست کی کہ یہ میرا بیٹا ہے اور آپ نے وعدہ فرمایا تھا کہ میں تیری آل کو بچالوں گا جس کا جواب دیا گیا کہ اے نوح (علیہ السلام) ! تیرا بیٹا تیرے اہل میں نہیں رہا کیونکہ اس کے اعمال اچھے نہیں۔ اگر آئندہ آپ نے اس کے بارے میں سوال کیا تو ہم آپ کو جاہلوں میں شمار کریں گے۔ (سورۃ ہود : ٤٦) اسی اصول کو یہاں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے کہ بعض انبیائے کرام (علیہ السلام) کی اولاد میں ایسے ناخلف پیدا ہوئے جنھوں نے نماز کو ضائع کیا اور اپنی بری خواہشات کے پیچھے لگے۔ عنقریب انھیں ہلاکت کے گڑھے میں پھینک دیا جائے گا۔ ” غیًا“ سے مراد جہنم کا ایک مخصوص گڑھا ہے۔ جس سے جہنم بھی پناہ مانگتی ہے جہنم سے ان لوگوں کو بچا لیا جائے گا۔ جنھوں نے کفر و شرک اور برے اعمال سے توبہ کی۔ اپنے رب پر سچے دل کے ساتھ ایمان لائے اور ایمان کے تقاضے پورے کرتے ہوئے صالح اعمال کیے انھیں جنت میں داخل کیا جائے گا ان کے اعمال اور جزا میں کسی قسم کی کمی نہیں کی جائے گی۔ ١۔ جب الحزن سے پناہ مانگو (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تَعَوَّذُوا باللَّہِ مِنْ جُبِّ الْحُزْنِ قَالُوا یَا رَسُول اللَّہِ وَمَا جُبُّ الْحُزْنِ قَالَ وَادٍ فِی جَہَنَّمَ تَتَعَوَّذُ مِنْہُ جَہَنَّمُ کُلَّ یَوْمٍ ماءَۃَ مَرَّۃٍ قُلْنَا یَا رَسُول اللَّہِ وَمَنْ یَدْخُلُہُ قَالَ الْقُرَّاءُ الْمُرَاءُ ونَ بِأَعْمَالِہِمْ) [ رواہ الترمذی : باب مَا جَاءَ فِی الرِّیَاءِ وَالسُّمْعَۃِ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ جب الحزن سے اللہ کی پناہ مانگو صحابہ نے عرض کی اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب الحزن کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا جہنم کی ایک وادی ہے جس سے جہنم بھی ایک دن میں سو بار پناہ مانگتی ہے ہم نے عرض کی اے اللہ کے رسول اس میں کون داخل ہوگا آپ نے فرمایا قراء جو اپنے اعمال میں دکھلاوا کرتے ہیں۔“ ٢۔ نماز ضائع کرنے والے کا گناہ : (عَنْ عُبَادَۃَ بْنِ الصَّامِتِ قَالَ قَالَ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مِنْ فیہِ إِلَی فِیَّ لاَ أَقُولُ حَدَّثَنِی فُلاَنٌ وَلاَ فُلاَنٌ خَمْسُ صَلَوَاتٍ افْتَرَضَہُنَّ اللَّہُ عَلَی عِبَادِہِ فَمَنْ لَقِیَہُ بِہِنَّ لَمْ یُضَیِّعْ مِنْہُنَّ شَیْئاً لَقِیَہُ وَلَہُ عِنْدَہُ عَہْدٌ یُدْخِلُہُ بِہِ الْجَنَّۃَ وَمَنْ لَقِیَہُ وَقَدِ انْتَقَصَ مِنْہُنَّ شَیْئاً اسْتِخْفَافاً بِحَقِّہِنَّ لَقِیَہُ وَلاَ عَہْدَ لَہُ إِنْ شَاءَ عَذَّبَہُ وَإِنْ شَاءَ غَفَرَ لَہُ) [ رواہ احمد : مسند عبادۃ بن صامت] ” حضرت عبادہ بن صامت ہُرَیْرَۃَبیان کرتے ہیں کہتے ہیں میں یہ نہیں کہتا کہ مجھے فلاں، فلاں نے بیان کیا بلکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بذات خود مجھے فرمایا، کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر پانچ نمازیں فرض کیں ہیں، جو شخص اللہ تعالیٰ کو اس حال میں ملے گا کہ اس نے نمازوں میں سے کوئی نماز ضائع نہ کی ہوگی۔ جب اللہ سے ملے گا تو اللہ تعالیٰ کا عہد ہے کہ وہ اسے جنت میں داخل کرے گا، اور جو شخص اللہ تعالیٰ سے اس حال میں ملے کہ اس نے نماز ترک کر رکھی تھی۔ وہ اللہ سے ملے گا تو اللہ کا اس کے ساتھ کوئی عہد نہیں اگر چاہے اسے عذاب دے اور اگر چاہے تو معاف فرما دے۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے اور نیک عمل کرنے والوں کو جنت میں داخل کیا جائے گا۔ ٢۔ نیک لوگوں کی جزا میں کسی قسم کی کمی نہیں ہونے پائے گی۔ ٣۔ نماز ضائع کرنے اور اپنی خواہش کے پیچھے لگنے والوں کو جہنم میں داخل کیا جائے گا۔ تفسیر بالقرآن نماز کی اہمیّت اور فضیلت : ١۔ نماز کی حفاظت کرو خصوصاً درمیانی نماز کی۔ (البقرۃ: ٢٣٨) ٢۔ نماز بے حیائی اور برے کاموں سے روکتی ہے۔ (العنکبوت : ٤٥) ٣۔ ایمان لانے والے اور نیک اعمال کرنے والے نماز قائم کرنے والے اور زکوٰۃ ادا کرنے والوں پر کسی قسم کا خوف نہیں ہوگا۔ ( البقرۃ: ٢٢٧) مريم
60 مريم
61 فہم القرآن ربط کلام : نیک لوگوں کو جس جنت میں داخل کیا جائے گا۔ اس کے چند اوصاف کا تذکرہ۔ جنت کی جمع جنات ہے۔ جس کا معنٰی باغات ہیں۔ جنت وہ مقام ہے جس کے حسن و جمال اور نعمتوں کا کوئی شخص تصور نہیں کرسکتا۔ اللہ تعالیٰ اس میں اپنے بندوں کو داخل فرمائے گا۔ جس کا وعدہ ہر صورت مومنوں کے ساتھ پورا ہو کر رہے گا۔ اس جنت میں کسی قسم کا لغو، پریشانی اور تکلیف نہیں ہوگی۔ اس میں ہر جنتی ہر اعتبار سے سلامت اور خوش ہوگا۔ جنتی ایک دوسرے کو سلام کہیں گے اور اس کی نعمتیں بھی سلامت رہیں گی۔ ان کے لیے صبح و شام اللہ تعالیٰ کی نعمتیں وافر ہوں گی۔ جن کے بارے میں فرمایا ہے کہ جنتیوں کے لیے اعلان ہوگا جہاں چاہو جتنا چاہو، جس وقت چاہو کھاؤ اور پیو۔ صبح شام سے مراد یہ نہیں کہ انھیں صرف صبح و شام جنت کی نعمتیں دی جائیں گی۔ صبح وشام سے مراد رات اور دن کے پورے اوقات کا احاطہ کرنا ہے۔ جنت کی نعمتوں کا تصور کرنا محال ہے : (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ ہُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَال اللّٰہُ تَعَالٰی اَعْدَدْتُّ لِعِبَادِیَ الصَّالِحِیْنَ مَالَا عَیْنٌ رَأَتْ وَلَآ اُذُنٌ سَمِعَتْ وَلَا خَطَرَ عَلٰی قَلْبِ بَشَرٍ وَّاقْرَءُ وْٓا إِنْ شِءْتُمْ (فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّآاُخْفِیَ لَھُمْ مِّنْ قُرَّۃِ اَعْیُنٍ) [ رواہ البخاری : کتاب بدء الخلق، باب ماجاء فی صفۃ الجنۃ وأنھا مخلوقۃ ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں میں نے اپنے نیک بندوں کے لیے وہ نعمتیں تیار کی ہیں، جن کو نہ کسی آنکھ نے دیکھا اور نہ ہی ان کے متعلق کسی کان نے سنا اور نہ کسی انسان کے دل میں ان کا خیال پیدا ہوا۔ اگر چاہو تو اس آیت کی تلاوت کرو۔ (کوئی نہیں جانتا کہ ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک کے لیے کیا چیز چھپا کے رکھی گئی ہے)۔“ خاتون جنت کا حسن وجمال : (وَلَوْ اَنَّ اِمْرَاَۃً مِّنْ نِّسَآءِ أَھْلِ الْجَنَّۃِ اطَّلَعَتْ اِلَی الْاَرْضِ لَاَضَآءَ تْ مَا بَیْنَھُمَا وَلَمَلَاَتْ مَا بَیْنَھُمَا رِیْحًا وَلَنَصِیْفُھَا یَعْنِی الْخِمَارَ خَیْرٌ مِّنَ الدُّنْیَا وَمَا فِیْھَا) [ رواہ البخاری : کتاب الرقاق، باب صفۃ الجنۃ والنار ] ” اگر اہل جنت کی عورتوں سے کوئی زمین کی طرف جھانک لے تو مشرق و مغرب اور جو کچھ اس میں ہے روشن اور معطر ہوجائے۔ نیز اس کے سر کا دوپٹہ دنیا اور جو کچھ دنیا میں ہے اس سے قیمتی ہے۔“ جنتی ایک دوسرے کو سلام کہیں گے : (اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ یَھْدِیْھِمْ رَبُّھُمْ بِاِیْمَانِھِمْ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھِمُ الْاَنْھٰرُ فِیْ جَنّٰتِ النَّعِیْمِ دَعْوٰھُمْ فِیْھَا سُبْحٰنَکَ اللّٰھُمَّ وَتَحِیَّتُھُمْ فِیْھَا سَلٰمٌ وَاٰخِرُ دَعْوٰھُمْ اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن) [ یونس : ٩۔ ١٠] ” بے شک جو لوگ ایمان لائے اور انھوں نے نیک اعمال کیے، ان کا رب ان کے ایمان کی وجہ سے ان کی رہنمائی کرے گا، ان کے نیچے سے جنت کے باغوں میں نہریں بہتی ہوں گی۔ ان کی دعا یہ ہوگی ” کہ اے اللہ تو پاک ہے!“ اور ان کی آپس کی دعا سلام ہوگی اور ان کی دعاؤں کا خاتمہ اس بات پر ہوگا کہ سب تعریف اللہ کے لیے ہے جو تمام جہانوں کا پالنے والا ہے۔“ (وَعَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ ہُرَیْرَۃَ اَنَّ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کَانَ یَتَحَدَّثُ، وَعِنْدَہٗ رَجُلٌ مِّنْ اَھْلِ الْبَادِیَۃِ، اِنَّ رَجُلًا مِّنْ اَھْلِالْجَنَّۃِ اسْتَأذَنَ رَبَّہٗ فِیْ الزَّرْعِ فَقَالَ لَہٗ اَلَسْتَ فِیْمَا شِءْتَ قَالَ بَلٰی وَلٰکِنِّیْ اُحِبُّ اَنْ اَزْرَعَ فَبَذَرَ فَبَادَ رَالطَّرْفَ نَبَاتُہٗ وَاسْتِوَاءُ ہٗ وَاسْتِحْصَادُہٗ فَکَانَ اَمْثَالَ الْجِبَالِ فَیَقُوْلُ اللّٰہُ تَعَالٰی دُوْنَکَ یَابْنَ اٰدَمَ فَاِنَّہٗ لَایُشْبِعُکَ شَیْءٌ فَقَالَ الْاَعْرَابِیُّ وَاللّٰہِ لَاتَجِدُہُ اِلَّا قُرَشِیًا اَوْ اَنْصَارِیًّافَاِنَّھُمْ اَصْحاَبُ زَرْعٍ وَاَمَّا نَحْنُ فَلَسْنَا بِاَصْحَابِ زَرْعٍٍٍ فَضَحِکَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) [ رواہ البخاری : باب کلاَمِ الرَّبِّ مَعَ أَہْلِ الْجَنَّۃِ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی گرامی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس ایک دیہاتی بیٹھا ہوا تھا آپ اس وقت فرمارہے تھے کہ جنتیوں میں سے ایک بندے نے اپنے رب سے کھیتی باڑی کی اجازت مانگی۔ اللہ رب العزت نے فرمایا۔ کیا تیرے پاس تیری پسند کی ہر چیز نہیں ہے؟ اس دیہاتی نے کہا کیوں نہیں؟ لیکن مجھے یہ بھی پسند ہے کہ میں کھیتی باڑی کروں چنانچہ وہ بیج ڈالے گا۔ پلک جھپکتے ہی فصل اگ آئے گی کھیتی تیارہو جائے گی‘ اور کٹ جائے گی‘ پہاڑ کے برابر انبار لگ جائے گا اللہ تعالیٰ فرمائیں گے کہ اے ابن آدم! لے تیری خواہش پو ری ہوگئی۔ حقیقتاً تیرا پیٹ کوئی چیز نہیں بھر سکتی۔ دیہاتی کہنے لگا‘ اللہ کی قسم! وہ شخص قریشی یا انصاری ہوگا کیونکہ وہی لوگ کھیتی باڑی کرتے ہیں۔ جہاں تک ہمارا تعلق ہے ہم تو کھیتی باڑی کرنے والے نہیں۔ نبی مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مسکرادیے۔“ جنت عدن کی تعریف : جب کوئی چیز کسی جگہ ہمیشہ کے لیے اقامت گزیں ہوجائے تو عربی میں کہتے ہیں : ” عَدْنَ بِمَکَانِ کَذَا“ اسی لیے کان کو بھی معدن کہتے ہیں کیونکہ یہ جگہ اسی دھات کی قرار گاہ ہوتی ہے۔ جنت کے اعلیٰ درجہ کا نام بھی عدن ہے جو جنت کے وسط میں ہے اسی میں تسنیم کا چشمہ ہے۔ انبیاء کرام، شہداء، صدیقین کے لیے مخصوص ہے۔ ( وَقَالَ مَقَاتَلُ وَالْکَلْبِیْ عَدْنٌ اَعْلَی دَرَجَۃٍ فِیْ الْجَنْۃِ وَفِیْہَا عُیْنٌ تَسْنِیْمٍ وَالْجِنَانَ حَوْلَہَا) [ قرطبی : جلد ٨] مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لیے جنت تیار کر رکھی ہے۔ جس کی نعمتوں کا کوئی تصور نہیں کرسکتا۔ ٢۔ صاحب ایمان اور نیک لوگوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا جنت کا وعدہ پورا ہو کر رہے گا۔ ٣۔ جنت میں کسی قسم کی لغویات، دکھ اور تکلیف نہیں ہوگی۔ ٤۔ جنتیوں کے لیے ہر وقت نعمتیں حاضر رہیں گی۔ تفسیر باالقرآن جنت کی نعمتوں کی ایک جھلک : ١۔ ہم ان کے دلوں سے کینہ نکال دیں گے اور سب ایک دوسرے کے سامنے تکیوں پر بیٹھے ہوں گے۔ انہیں کوئی تکلیف نہیں پہنچے گی اور نہ وہ اس سے نکالے جائیں گے۔ (الحجر : ٤٧۔ ٤٨) ٢۔ جنت کی مثال جس کا مومنوں کے ساتھ وعدہ کیا گیا ہے۔ اس کے نیچے سے نہریں جاری ہیں اور اس کے پھل اور سائے ہمیشہ کے لیے ہوں گے۔ (الرعد : ٣٥) ٣۔ جنت میں بے خار بیریاں، تہہ بہ تہہ کیلے، لمبا سایہ، چلتا ہوا پانی، اور کثرت سے پھل ہوں گے۔ (الواقعۃ : ٢٨ تا ٣٠) ٤۔ جنت کے پھل ٹپک رہے ہوں گے۔ (الحاقۃ: ٢٣) ٥۔ مومنوں کے ساتھ جس جنت کا وعدہ کیا گیا ہے اس میں چار قسم کی نہریں ہوں گی۔ ( محمد : ١٠) مريم
62 مريم
63 مريم
64 فہم القرآن ربط کلام : نئے خطاب کا آغاز مکہ معظمہ میں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تن تنہا کفار اور مشرکین کا مقابلہ کر رہے تھے۔ حضرت عمر اور حضرت حمزہ کے اسلام لانے سے پہلے جتنے لوگ مسلمان ہوئے تھے وہ شخصی قوت کے لحاظ سے انتہائی کمزور تھے دوسری طرف آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سب سے بڑے پشتی بان جناب ابو طالب بھی دنیا سے چل بسے تھے۔ گھریلو حالات یہ تھے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی غم خوار بیوی حضرت خدیجہ (رض) بھی داغ مفارقت دے چکی تھیں۔ ان حالات میں ایک انسان ہونے کے ناطے سے آپ کا دل پسیج جاتا۔ جس پر اللہ تعالیٰ جبرئیل امین (علیہ السلام) کو بھیج کر تسلی دیتے۔ جب کبھی جبرئیل امین (علیہ السلام) کی آمد کا وقفہ زیادہ ہوجاتا تو آپ انتہائی رنجیدہ ہوجاتے تھے۔ ایسی ہی صورت حال میں ایک دن آپ نے جبرئیل امین (علیہ السلام) سے فرمایا کہ آپ جلدی تشریف لا یا کریں۔ جس کے جواب میں جبرئیل امین نے عرض کی کہ ” اے محبوب خدا ! ہم اللہ تعالیٰ کے حکم کے بغیر آپ کی خدمت میں حاضر نہیں ہو سکتے۔“ جو کچھ ہمارے آگے اور جو ہمارے پیچھے اور جو کچھ ان کے درمیان ہے یعنی زمین کا زرّہ، زرّہ آسمانوں کا چپہ، چپہ اور جو کچھ ان میں ہے اور تمام ملائکہ آپ کے رب کے غلام اور سب کچھ ” رب“ کے اختیار میں ہے۔ آپ کا رب کوئی بات بھی بھولنے والا نہیں۔ آیت کے آخری الفاظ میں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ کہہ کر تسلی دی گئی ہے کہ آپ یہ خیال نہ کریں کہ اللہ تعالیٰ آپ کے حالات سے غافل اور کوئی بات بھول جانے والا ہے۔ اسی بات کو قدرے تفصیل کے ساتھ گیا رہویں پارے میں یوں بیان کیا گیا ہے۔ ” اور نہیں ہوتے آپ کسی حالت میں اور نہ اس کی طرف سے آنے والے قرآن میں سے کچھ تلاوت کرتے ہیں اور نہ آپ کوئی عمل کرتے ہیں مگر ہم آپ پر گواہ ہوتے ہیں،۔ تیرے رب سے کوئی ذرہ بھر چیز نہ زمین میں پوشیدہ ہوتی ہے اور نہ آسمان میں اور نہ اس سے کوئی چھوٹی چیز اور نہ بڑی مگر واضح کتاب میں موجود ہے۔“ (یونس : ٦١) ” وہ تمہیں اس وقت دیکھ رہا ہوتا ہے جب تم اٹھتے ہو۔ اور سجدہ گزار لوگوں میں تمہاری نقل وحرکت پر نگاہ رکھتا ہے۔ وہ سب کچھ سننے اور جاننے والا ہے۔“ [ الشعراء : ٢١٨ تا ٢٢٠] (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ یَبْلُغُ بِہِ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ إِذَا قَضَی اللَّہُ الأَمْرَ فِی السَّمَاءِ ضَرَبَتِ الْمَلاَءِکَۃُ بِأَجْنِحَتِہَا خُضْعَانًا لِقَوْلِہِ کَالسِّلْسِلَۃِ عَلَی صَفْوَانٍ قَالَ عَلِیٌّ وَقَالَ غَیْرُہُ صَفْوَانٍ یَنْفُذُہُمْ ذَلِکَ فَإِذَا فُزِّعَ عَنْ قُلُوبِہِمْ قَالُوا ماذَا قَالَ رَبُّکُمْ، قَالُوا لِلَّذِی قَالَ الْحَقَّ وَہْوَ الْعَلِیُّ الْکَبِیرُ) [ رواہ البخاری : باب قَوْلِہِ (إِلاَّ مَنِ اسْتَرَقَ السَّمْعَ فَأَتْبَعَہُ شِہَابٌ مُبِینٌ ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا‘ اللہ تعالیٰ جب آسمان پر کوئی فیصلہ صادر فرماتا ہے تو اللہ کے حکم کے ڈر کی وجہ سے فرشتوں کے پروں میں آواز پیدا ہوتی ہے جیسے صاف پتھر پر لوہے کی زنجیر کھنچنے سے آواز پیدا ہوتی ہے۔ جب ان کے دلوں سے گھبراہٹ دورہوتی ہے تو وہ پوچھتے ہیں‘ تمہارے پروردگار نے کیا فرمایا؟ اوپر والے ملائکہ اللہ کے ارشاد کو بیان کرتے اور اس کی تصدیق کرتے ہوئے کہتے ہیں یہ ہے اللہ کا ارشاد ہے جو بلند وبالا۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ کے حکم کے بغیر کوئی فرشتہ بھی حرکت نہیں کرسکتا۔ ٢۔ زمین و آسمان اور جو کچھ ان کے درمیان ہے وہ اللہ تعالیٰ کی ملکیت ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ سے کوئی چیز اوجھل نہیں اور نہ ہی اس کے علم سے کوئی بات فراموش ہوتی ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ کو ہر بات اور اس پر قدرت رکھنے والا ہے : ١۔ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے (البقرۃ: ٢٠) ٢۔ اللہ آسمانوں و زمین کی ہر چیز کو جانتا ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ (آل عمراٰن : ٢٩) ٣۔ اللہ تعالیٰ ہر اس چیز کو جانتا ہے جو زمین میں داخل ہوتی اور نکلتی ہے۔ ( الحدید : ٤) ٤۔ اللہ تعالیٰ آسمانون و زمین کی ہر چیز کو جانتا ہے۔ ( المجادلۃ: ٧) ٥۔ اللہ تعالیٰ حاضر اور غیب کو جاننے والا ہے۔ ( الرعد : ٩) ٦۔ تم جہاں کہیں بھی ہوگے اللہ تمہیں قیامت کے دن جمع فرمائیگا وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ (البقرۃ: ١٤٨) ٧۔ اللہ جسے چاہے عذاب دے جسے چاہے معاف کردے وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ (البقرۃ: ٢٨٤) مريم
65 فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ زمین و آسمان اور جو کچھ ان میں موجود ہے اور جو وہ پیدا کرنے والا ہے، سب کو جانتا ہے۔ لہٰذا اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! مخالفوں کی مخالفت اور دشمنوں کی دشمنی کی طرف توجہ کرنے کی بجائے میری عبادت میں مصروف رہیے۔ قرآن مجید میں متعدد مقامات پر رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ڈھارس بندھانے کے لیے یہ اسلوب اختیار کیا گیا ہے کہ جب بھی کفار اور مشرکین کی مخالفت اور ہٹ دھرمی کا ذکر ہوتا ہے تو اس کے ساتھ ہی رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نماز پڑھنے یا ذکر و اذکار کرنے کا حکم دیا جاتا ہے۔ جس کا صاف معنٰی ہے کہ ان لوگوں سے الجھنے اور پریشان ہونے کی بجائے آپ اپنے رب کے ذکر و فکر میں مصروف ہوجایا کریں۔ تاکہ آپ پر اس کی رحمت نازل ہو جس سے آپ کا غم دور ہوجائے۔ اسی اسلوب اور ضرورت کے پیش نظر یہاں آپ کو حکم دیا گیا ہے کہ آپ اپنے رب کی عبادت کریں اور اس کی عبادت کرنے پر قائم رہیں اسی کا نام لیتے رہیں۔ وہ ایسی لازوال اور بے مثال ہستی ہے جس کا ہمسر ہونا تو درکنار کوئی اس کا ہم نام ہی نہیں۔ اسم ” اللہ“ کی خصوصیت : (اللہ تعالیٰ کے ننانوے سے زیادہ اسمائے گرامی ہیں۔ اس کا ہر نام اس کی خاص صفت کا ترجمان ہے لیکن قرآن مجید میں تین اسماء گرامی ایک دوسرے کے مترادف کے طور پر استعمال ہوتے ہیں، وہ اسماء گرامی یہ ہیں اللہ، الٰہ، رب، ذات کبریا کا اسم اعظم ” اللہ“ ہے۔ باقی دو نام صفاتی ہیں قرآن مجید میں انہیں ناموں کے ساتھ ان تمام صفات کا ذکر پایا جاتا ہے جو اللہ کے نام کے ساتھ ذکر کئی گئی ہیں یہاں رب کا اسم استعمال ہوا ہے جس میں پہلی صفت ربوبیت ہے جس میں اللہ کا اپنے بندے کے ساتھ اپنا ئیت کا تعلق نمایاں ہوتا ہے کیونکہ رب کا معنٰی خالق اور پالنہار ہے اس کے سوا کوئی خالق اور مخلوق کی ضروریات پوری کرنے والا نہیں۔) اللہ تعالیٰ کی عبادت پر ہمیشگی اختیار کرنے کے لیے ” وَاصْطَبِرْ“ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ جس کا معنی ہے ” مشکل اور پریشانی کے باوجود مستقل مزاجی کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی عبادت میں مصروف رہنا۔“ جس کے لیے یہ تسلی دی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ سب کچھ دیکھنے اور جاننے والا ہے۔ اس کے احاطہ علم سے کوئی چیز باہر نہیں۔ جب اس سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں ہے تو اے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ کی ریاضت و عبادت، پریشانیوں اور مسائل سے آپ کا رب کس طرح غافل ہوسکتا ہے۔ کائنات کے رب نے اپنی مخلوق کی پرورش کا بندوبست ایسے مضبوط نظام کے ساتھ فرمایا ہے کہ ہر چیز کو زندگی اور اس کی بقا کے لیے جو کچھ اور جس قد رچاہیے اسے اسی حالت اور مقام پر پہنچایا جارہا ہے۔ پتھر کا کیڑا چاروں طرف بند چٹان کے اندر اپنی خوراک لے رہا ہے، مرغی کا بچہ انڈے میں پل رہا ہے، مچھلیاں دریا میں، پرندے ہوا میں، ستارے فضا میں، اور درندے صحرا میں اپنی اپنی خوراک اور ماحول میں مطمئن اور خوش وخرم دکھائی دیتے ہیں۔ ہر دانہ اپنی آغوش میں زندگی اور ہر بیج اپنے سینے میں نشوونما کا سامان لیے ہوئے ہے۔ زندگی کے لیے ہوا اور پانی اس قدر لازمی عناصر ہیں کہ ان کے بغیر زندگی لمحوں کی مہمان ہوتی ہے۔ یہ اتنے ارزاں اور وافر ہیں کہ اس کا اندازہ ہی نہیں کیا جاسکتا۔ یہاں تک کہ پھول کی کلی کو جس ہوا اور فضا کی ضرورت ہے اسے مہیا کی جارہی ہے۔ اس لیے قرآن نے اللہ کی ہستی اور اس کے نظام ربوبیت سے بات کا آغاز کیا ہے تاکہ انسان کا وجدان پکار اٹھے کہ مجھے اس ہستی کا شکر ادا کرنا اور تابع فرمان رہنا ہے جس نے مجھے پیدا کیا ہے۔ ایک زندہ ضمیر شخص جب اپنے چاروں طرف رب کی ربوبیت کے اثرات ونشانات دیکھتا ہے تو اس کے دل کا ایک ایک گوشہ پکار اٹھتا ہے۔ (فَتَبَارَکَ اللّٰہُ أَحْسَنُ الْخَالِقِیْنَ) [ المؤمنون : ١٤] ” اللہ تعالیٰ برکت والا اور بہترین پیدا کرنے والا ہے۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ سے زمین و آسمان اور جو کچھ ان کے درمیان ہے کوئی چیز پوشیدہ نہیں ہے۔ ٢۔ صرف ایک اللہ کی عبادت کرنا چاہیے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے میں ہمیشگی ہونی چاہیے۔ ٤۔ جو کچھ زمین و آسمانوں میں ہے ان میں کوئی بھی اللہ تعالیٰ کا ہمسر اور ہم نام نہیں۔ تفسیر بالقرآن رب کا معنٰی اور اس کی صفات : ١۔ لوگو اس رب سے ڈر جاؤ جس نے تمہیں پیدا کیا ہے۔ (النساء : ١) ٢۔ تمہارا رب ہر چیز کو پیدا کرنے والاہے اس کے علاوہ کوئی معبود نہیں تم کہاں بہک گئے ہو ؟ (المومن : ٦٢) ٣۔ اگر انھوں نے آپ کو جھٹلا دیا ہے تو آپ فرما دیں تمھارا رب وسیع رحمت والا ہے۔ (الانعام : ١٤٧) ٤۔ یہ تمھارا رب ہے اس کے سوا دوسرا کوئی خالق نہیں۔ (الانعام : ١٠٢) مريم
66 فہم القرآن ربط کلام : انسان اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کی عبادت سے قولاً یا فعلاً تبھی انکار کرتا ہے جب وہ آخرت کے عقیدہ کو بھول جاتا ہے۔ اسی بنا پر مکہ کے کافر نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بحث کرتے تھے کہ ہماری عقل نہیں مانتی کہ انسان جب مر کر مٹی کے ساتھ مٹی بن جاتا ہے تو پھر دوبارہ کس طرح اٹھایا جائے گا۔ اس عقیدہ کی تائید میں ایک دن ایک آدمی نے ایک بوسیدہ ہڈی ہاتھ میں ملتے ہوئے کہا کہ اس کو کس طرح دوبارہ زندہ کیا جائے گا ؟ جس کا ان الفاظ میں جواب دیا گیا۔ ” ہمارے بارے میں مثالیں بیان کرنے لگا اور اپنی پیدائش کو بھول گیا کہتا ہے کہ جب ہڈیاں بوسیدہ ہوجائیں گی تو ان کو کون زندہ کرے گا۔ کہہ دو کہ ان کو وہ زندہ کرے گا جس نے ان کو پہلی بار پیدا کیا تھا، اور وہ سب کچھ پیدا کرنا جانتا ہے۔ وہی ہے جس نے تمہارے لیے سبز درخت سے آگ پیدا کی اور تم اس سے آگ نکالتے ہو۔ بھلا جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا کیا وہ اس بات پر قادر نہیں کہ ان کو پھر ویسے ہی پیدا کر دے کیوں نہیں اور وہ تو بڑا پیدا کرنے والا اور علم والا ہے۔ اس کی شان یہ ہے کہ جب وہ کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے تو اسے کہتا ہے ہوجا تو وہ ہوجاتی ہے۔“ (سورۃ یٰس ٧٨، ٧٩ تا ٨٢ ) دوسرا جواب یہاں یہ دیا گیا ہے کہ کیا انسان کو یہ معلوم نہیں کہ ہم نے اسے پہلی مرتبہ پیدا کیا جبکہ اس کا وجود تک نہ تھا۔ انسان سے مراد آدم (علیہ السلام) ہیں۔ ان کی پیدائش سے پہلے انسان نام کی کوئی چیز نہ تھی۔ اگر غور سے دیکھا جائے تو ہر انسان کی تخلیق کا یہی معاملہ ہے کہ اس کی پیدائش سے پہلے اسے اور اس کے ماں باپ کو بھی اس کی خبر نہیں تھی کہ بیٹا ہوگا یا بیٹی۔ مسائل ١۔ انسان کی پیدائش سے پہلے اسے کوئی نہیں جانتا۔ ٢۔ انسان کی پیدائش اس کے دوبارہ اٹھنے کی دلیل ہے۔ مريم
67 مريم
68 فہم القرآن ربط کلام : کوئی قیامت کا انکار کرے یا اقرار کرے اللہ تعالیٰ قیامت کے روز سب کو اپنی بارگاہ میں جمع کرے گا۔ مرنے کے بعد قیامت کے دن زندہ ہونے کی حقیقت اس قدر عقلی اور شرعی دلائل پر مبنی ہے جس کا انکار کرنا ہٹ دھرمی کے سوا کچھ نہیں۔ اس سے پہلی آیت میں انسان کی تخلیق کے حوالے سے اسے سمجھایا ہے کہ انسان اپنی پیدائش پر غور کرے تو اسے معلوم ہوجائے گا جس رب نے اسے عدم سے وجود بخشا ہے کہ وہ دوبارہ اسے کیونکہ زندہ نہیں کرسکتا؟ اس لیے رب ذوالجلال نے اپنی ذات کی قسم اٹھا کر فرمایا ہے کہ اے نبی آپ کا رب نہ صرف انھیں اپنے حضور اکٹھا کرے گا بلکہ جس شیطان نے انسان کو گمراہ کیا ہوگا۔ اللہ تعالیٰ اسے بھی ہر مجرم کے ساتھ عدالت کے کٹہرے میں کھڑا کرے گا۔ مجرم جہنم کے پاس گھٹنوں کے بل کھڑے ہوں گے۔ یعنی جہنم کی ہولناکیوں اور اس کی چٹخار سن کر خوف کے مارے ان سے کھڑا نہیں ہوا جائے گا۔ شیاطین کے ساتھ کفر و شرک کے ان سرداروں اور نمائندوں کو بھی مجرم کے ساتھ کھڑا کیا جائے گا جو رب رحمٰن کی نافرمانی میں دنیا میں آگے آگے تھے۔ یہ ائمۃ الکفر اپنے کارکنان اور مریدوں کے آگے آگے ہوں گے جب جہنم میں داخل ہونے والے ہوں گے تو اللہ تعالیٰ انھیں رک جانے کا حکم دیں گے۔ ان سے پوچھا جائے گا کہ تم ایک دوسرے کی کیوں نہیں مدد کرتے۔ اسی بات کو قرآن مجیدنے دوسرے مقام پر یوں بیان کیا ہے۔ ” جو لوگ ظلم کرتے تھے ان کو اور ان کے ساتھیوں اور جن کو وہ پوجا کرتے تھے سب کو جمع کرلو اور انہیں ان کو جہنم کے رستے پر چلا دو۔ اور ان کو ٹھیرائے رکھو کہ ان سے پوچھنا ہے۔ تمہیں کیا ہوا ہے کہ ایک دوسرے کی مدد نہیں کرتے بلکہ آج تو وہ فرمانبردار بنے ہوئے ہیں۔“ (الصافات : ٢٢ تا ٢٧) (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) امْرُؤُ الْقَیْسِ صَاحِبُ لِوَاء الشُّعَرَاءِ إِلَی النَّارِ) [ رواہ احمد : مسندابی ہریرہ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ زمانہ جاہلیت کے شاعروں کا جھنڈا امراء القیس کے ہاتھ میں ہوگا وہ ان کو لے کر جہنم داخل ہوگا۔“ مسائل ١۔ قیامت ہر صورت برپا ہو کر رہے گی۔ ٢۔ قیامت کے دن مجرم کے ساتھ اس کو بہکانے والے شیاطین اور گمراہ رہنماؤں کو بھی اکٹھا کیا جائے گا۔ ٣۔ مجرم جہنم کے کنارے گھٹنوں کے بل گرے ہوئے ہوں گے۔ تفسیر بالقرآن جہنّم میں داخلہ کے وقت جہنمیوں کی کیفیت : ١۔ اے ہمارے رب ہمیں تھوڑی دیر کے لیے مہلت دے ہم تیری حکم کو قبول اور تیرے رسول کی بات کو تسلیم کریں گے۔ (ابراہیم : ٤٤) ٢۔ جہنمی کہیں گے اے اللہ ہم نے دیکھ لیا اور سن لیا اب ہم کو واپس لوٹا دے۔ (السجدۃ: ١٢) ٣۔ اے ہمارے پروردگار ہمیں یہاں سے نکال ہم برے اعمال کی بجائے نیک عمل کریں گے۔ (الفاطر : ٣٧) ٤۔ اے ہمارے رب! ہمیں یہاں سے نکال اگر دوبارہ ایسا کریں تو بڑے ظالم ہوں گے۔ (المومنون : ١٠٧) ٥۔ اے اللہ جنہوں نے ہمیں گمراہ کیا انہیں دوگنا عذاب کیا جائے۔ ( الاحزاب : ٦٨) ٦۔ جب بھی جہنم سے نکلنے کا ارادہ کریں گے تو دوبارہ لوٹائے جائیں گے۔ (السجدۃ: ٢٠) ٧۔ ہر جہنمی کی خواہش ہوگی کہ دنیا میں واپس بھیج دیا جائے۔ (الانعام : ٢٧ تا ٢٨) مريم
69 مريم
70 مريم
71 فہم القرآن ربط کلام : جس جہنم میں مجرموں کو پھینکا جائے گا اس پر متقین کو بھی گزرنا ہوگا۔ جس طرح اللہ تعالیٰ کا یہ اٹل فیصلہ ہے کہ وہ کفار، مشرکین کو جہنم میں داخل کرے گا اسی طرح ہی اس کا قطعی فیصلہ ہے کہ وہ نیک لوگوں کو بھی جہنم میں وارد کرے گا۔ پھر انہیں جہنم سے محفوظ فرمائے گا۔ جس جہنم میں مجرم گھٹنوں کے بل گرے ہوئے ہوں گے۔ وَارِدْ کا معنی گرنا ہے سورۃ القصص آیت ٢٣ میں وارِدْ کا معنی کسی کنویں یا گھاٹ کے قریب آنا ہے۔ حدیث میں وارِدْ سے مراد پل صراط سے گزرنا ہے۔ جس کی کیفیت رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان الفاظ میں بیان فرمائی ہے۔ (عَنْ حُذَیْفَۃَ ہُرَیْرَۃَ وَاَبِیْ ھُرَیْرَۃَ ہُرَیْرَۃَ قَالَا قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَجْمَعُ اللّٰہُ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی النَّاسَ فَیَقُوْمُ الْمُؤْمِنُؤْنَ حَتّٰی تُزْلَفَ لَھُمُ الْجَنَّۃُ فَیَأْتُوْنَ اٰدَمَ فَیَقُوْلُوْنَ یَا اَبَانَا اسْتَفْتِحْ لَنَا الْجَنَّۃَ فَیَقُوْلُ وَھَلْ اَخْرَجَکُمْ مِّنَ الْجَنَّۃِ اِلَّاخَطِیْءَۃُ اَبِیْکُمْ لَسْتُ بِصَاحِبِ ذَالِکَ اِذْھَبُوْااِلَی ابْنِیْ اِبْرَاھِیْمَ خَلِیْلِ اللّٰہِ قَالَ فَیَقُوْلُ اِبْرَاھِیْمُ لَسْتُ بِصَاحِبِ ذَالِکَ اِنَّمَا کُنْتُ خَلِیْلًا مِنْ وَّرَاءٍ وَّرَاءٍ اِعْمِدُوْا اِلٰی مُوْسٰی الَّذِیْ کَلَّمَہٗ اللّٰہُ تَکْلِیْمًا فَیَاْتُوْنَ مُوْسٰی فَیَقُوْلُ لَسْتُ بِصَاحِبِ ذَالِکَ اِذْھَبُوْا اِلٰی عِیْسٰی کَلِمَۃِ اللّٰہِ وَرُوْحِہٖ فَیَقُوْلُ عِیْسٰی لَسْتُ بِصَاحِبِ ذَالِکَ فَیَاْتُونَ مُحَمَّدًا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَیَقُوْمُ فَیُؤْذَنُ لَہٗ وَتُرْسَلُ الْاَمَانَۃُ وَالرَّحِمُ فَتَقُوْمَانِ جَنْبَتَی الصِّرَاطِ یَمِیْنًا وَّشِمَالًا فَیَمُرُّ اَوَّلُکُمْ کَالْبَرْقِ قَالَ قُلْتُ بِاَبِیْ اَنْتَ وَاُمِّیْ اَیُّ شَیْءٍ کَمَرِّ الْبَرْقِ قَالَ اَلَمْ تَرَوْااِلَی الْبَرْقِ کَیْفَ یَمُرُّ وَیَرْجِعُ فِیْ طَرْفَۃِ عَیْنٍ ثُمَّ کَمَرِّ الرِّیْحِ ثُمَّ کَمَرِّ الطَّیْرِ وَشَدِّ الرِّجَالِ تَجْرِیْ بِھِمْ اَعْمَالُھُمْ وَنَبِیُّکُمْ قَاءِمٌ عَلَی الصِّرَاطِ یَقُوْلُ یَا رَبِّ سَلِّمْ سَلِّمْ حَتّٰی تَعْجِزَ اَعْمَالُ الْعِبَادِحَتّٰی یَجِیْئَ الرَّجُلُ فَلاَ یَسْتَطِیْعُ السَّیْرَ اِلَّازَحْفًا قَالَ وَفِی حَافَتَیِ الصِّرَاطِ کَلَا لِیْبُ مُعَلَّقَۃٌ مَاْمُوْرَۃٌ تَاْخُذُ مَنْ اُمِرَتْ بِہٖ فَمَخْدُوْشٌنَاجٍ وَمَکْدُوْشٌ فِی النَّارِ وَالَّذِیْ نَفْسُ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ بِیَدِہٖ اَنَّ قَعْرَ جَھَنَّمَ لَسَبْعِیْنَ خَرِیْفًا۔) [ رواہ مسلم : باب أَدْنَی أَہْلِ الْجَنَّۃِ مَنْزِلَۃً فیہَا] ” حضرت حذیفہ اور حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ تبارک وتعالیٰ لوگوں کو جمع کریں گے‘ ایماندار شخص کھڑے ہوں گے‘ جنت کو ان کے قریب کردیا جائے گا۔ وہ حضرت آدم (علیہ السلام) کے پاس آکر کہیں گے اے ہمارے باپ! ہمارے لیے جنت کا دروازہ کھلوا دیجیے۔ حضرت آدم (علیہ السلام) عذر پیش کرتے ہوئے کہیں گے کہ تمہیں جنت سے تمہارے باپ کی غلطی نے ہی نکلوایا تھا‘ میں سفارش کرنے کا اہل نہیں ہوں۔ تم میرے بیٹے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) خلیل اللہ کے پاس جاؤ۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا‘ ابراہیم (علیہ السلام) کہیں گے کہ میں اس شفاعت کا اہل نہیں ہوں‘ میں تو آج سے پہلے پہلے خلیل تھا۔ تم موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس جاؤ‘ جن سے اللہ تعالیٰ بلا واسطہ ہم کلام ہوئے چنانچہ وہ موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس جائیں گے تو وہ کہیں گے کہ میں اس کا اہل نہیں ہوں۔ تم عیسیٰ (علیہ السلام) کے پاس جاؤ جو اللہ تعالیٰ کا کلمہ اور روح اللہ ہیں وہ کہیں گے کہ میں اس کا اہل نہیں ہوں لوگ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئیں گے آپ عرش کی جانب کھڑے ہوں گے‘ آپ کو شفاعت کی اجازت دی جائے گی پھر امانت اور رشتہ داری کو لایا جائے گا وہ دونوں پل صراط کی دونوں جانب دائیں اور بائیں کھڑی ہوں گی۔ پھر تم میں سے ایک طبقہ بجلی کی مانند گزر جائے گا۔ ابوہریرہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے عرض کیا : میرے ماں باپ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر قربان ہوں! بجلی کی مانند گزرنے کی صورت کیا ہوگی ؟ آپ نے فرمایا‘ کیا تم دیکھتے نہیں کہ آسمانی بجلی کس قدر تیزی کے ساتھ آتی ہے اور پلک جھپکنے میں واپس چلی جاتی ہے کچھ لوگ پرندوں کی طرح اور کچھ آدمیوں کے دوڑنے کی طرح گزریں گے‘ ان کے اعمال ان کو چلائیں گے اور تمہارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پل صراط پر کھڑے ہوئے‘ یہ کہے جا رہے ہوں گے اے رب! سلامتی عطا کر‘ سلامتی عطا فرما حتیٰ کہ لوگوں کے اعمال انہیں چلانے سے عاجز آجائیں گے‘ آخر ایک شخص آئے گا‘ وہ پل صراط پر سے اپنے کو لہوں کے بل سرکتا ہوا گزرے گا اس کے بعد آپ نے فرمایا‘ پل صراط کے دونوں کناروں پر کنڈیاں لٹک رہی ہوں گی‘ جنہیں حکم ہوگا کہ وہ ان لوگوں کو کھینچ لیں جو قابل گرفت قرار ہوں گے کچھ لوگ زخمی ہو کر نجات پا جائیں گے۔ اور کچھ لوگ دوزخ میں گر جائیں گے اس ذات کی قسم ! جس کے ہاتھ میں ابوہریرہ (رض) کی جان ہے بلا شبہ جہنم کی گہرائی ستر برس کی مسافت کے برابر ہے۔“ مسائل ١۔ مجرموں کو جہنم میں گرا دیا جائے گا۔ ٢۔ متقین کو جہنم سے بچا لیا جائے گا۔ مريم
72 مريم
73 فہم القرآن ربط کلام : مجرم اس لیے بھی جہنم میں پھینکے جائیں گے کیونکہ آخرت کے مقابلہ میں دنیا کو ترجیح دیتے اور اس پر اتراتے تھے۔ مجرموں کا جہنم میں داخل ہونے کا بنیادی سبب یہ بھی ہوگا کہ وہ آخرت کے مقابلہ میں دنیا کو ترجیح دیتے ہوئے اس پر اتراتے ہیں۔ انبیاء کرام ( علیہ السلام) کے مخالفین کا یہی وطیرہ رہا ہے۔ جب ان کے سامنے ٹھوس اور واضح دلائل اور اللہ تعالیٰ کی آیات پڑھی جاتی ہیں تو انکار کرنے والے لوگ رعونت کی بنا پر ایمانداروں سے پوچھتے ہیں کہ بتاؤ کہ دنیوی مقام و مرتبہ، اور رہنے سہنے میں ہم میں سے کون بہتر ہے ؟ یہی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مخالفین کا رویہ تھا ان کے بارے میں فرمایا گیا ہے کیا انھیں معلوم نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان سے پہلے ایسی قوموں کو تباہ و برباد کیا۔ جو شان و شوکت اور اسباب و وسائل کے اعتبار سے ان سے بہت آگے تھیں۔ (وَکَأَیِّنْ مِنْ قَرْیَۃٍ ہِیَ أَشَدُّ قُوَّۃً مِنْ قَرْیَتِکَ الَّتِی أَخْرَجَتْکَ أَہْلَکْنَاہُمْ فَلَا نَاصِرَ لَہُمْ) [ محمد : ١٣] ” اور کتنی ہی بستیاں تھیں جو آپ کی اس بستی سے بڑھ کر طاقتور تھیں، جس کے رہنے والوں نے آپ کو نکال دیا ہے۔ ہم نے انہیں ہلاک کیا تو ان کا کوئی بھی مددگار نہ ہوا۔“ (وَکَذَّبَ الَّذِینَ مِنْ قَبْلِہِمْ وَمَا بَلَغُوْا مِعْشَارَ مَا اٰتَیْنَاہُمْ فَکَذَّبُوا رُسُلِی فَکَیْفَ کَانَ نَکِیرِ) [ السبا : ٤٥] ” ان سے پہلے لوگوں نے بھی جھٹلایا اور یہ لوگ اس ترقی کو نہیں پہنچے جو ہم نے انہیں عطا کی تھی پھر انہوں میرے رسولوں کو جھٹلایا تو میرے ساتھ انکار کرنے کی وجہ سے انہیں کس انجام سے دوچار ہونا پڑا۔“ منکرین حق کی شروع سے یہ سوچ اور طریقہ رہا ہے کہ وہ ایمانداروں کے ساتھ صالح کردار کی بجائے دنیا کی ترقی اور اسباب کے ساتھ موازنہ کرتے ہیں۔ اس منفی سوچ میں اس قدر گمراہی میں وہ آگے چلے جاتے ہیں کہ جس سے انھیں غلط فہمی ہوجاتی ہے کہ دنیا میں جو مقام، شہرت اور ترقی ہمیں حاصل ہوئی ہے یہ اس وجہ سے ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم پر راضی ہے تبھی تو اس نے ہمیں دنیا میں ایک مقام اور یہ سہولتیں دے رکھی ہیں۔ مسائل ١۔ منکرین حق اور دنیا دار لوگ، ایمانداروں کے مقابلہ میں دنیا کی شہرت اور آسائش سے مقابلہ کرتے ہیں۔ ٢۔ دنیا کے اسباب پر اترانے والوں کو اللہ تعالیٰ تباہ کردیتا ہے۔ تفسیر بالقرآن دنیا اور اس کے وسائل کی حقیقت : ١۔ آخرت بہتر اور باقی رہنے والی ہے۔ (الاعلیٰ: ١٧) ٢۔ آخرت کے مقابلے میں دنیا کی زندگی عارضی ہے۔ (الرعد : ٢٦) ٣۔ دنیا عارضی اور آخرت پائیدار ہے۔ (المؤمن : ٣٩) ٤۔ مال اور اولاد دنیا کی زندگی کی زینت ہیں ہمیشہ رہنے والے نیک اعمال ہیں۔ ( الکہف : ٤٦) ٥۔ یقیناً دنیا کی زندگی عارضی فائدہ ہے اور آخرت کا گھر ہی اصل رہنے کی جگہ ہے۔ (المؤمن : ٤٣) ٦۔ دنیا کی زندگی تھوڑی ہے اور آخرت متقین کے لیے بہتر ہے۔ (النساء : ٧٧) ٧۔ جو کچھ زمین میں ہے وہ باعث آزمائش ہے۔ (الکہف : ٧) ٨۔ دنیاکی زندگی دھوکے کا سامان ہے۔ (آل عمران : ١٨٥) ٩۔ دنیا کی زندگی کی مثال آسمان سے نازل ہونے والی کی طرح ہے۔ (یونس : ٢٤) ١٠۔ دنیا کی زندگی صرف کھیل کود ہے۔ (العنکبوت : ٦٤) ١١۔ اللہ کی آیات کے مقابلے میں پوری دنیا حقیر ہے۔ (البقرۃ: ١٧٤) ١٢۔ آخرت کے مقابلے میں دنیا کی کوئی حیثیت نہیں۔ (التوبۃ: ٣٨) مريم
74 فہم القرآن ربط کلام : منکرین حق کو دنیوی وسائل ملنے کی وجہ۔ حق والوں کی اکثریت دنیا کی ترقی کے اعتبار سے منکرین حق سے پیچھے رہتی ہے۔ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ حق والے شریعت کی حدود و قیود کے پابند ہوتے ہیں۔ ان کے مقابلہ میں حق اور سچ کی پرواہ نہ کرنے والے دنیا کی ترقی میں آگے بڑھ جاتے ہیں۔ اس ترقی کی وجہ سے وہ سمجھ بیٹھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہمارے اعمال اور معاملات پر راضی ہے جس وجہ سے اس نے ہمیں ترقی کے مواقع فراہم کیے ہیں۔ ایسے لوگوں کے بارے میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرمایا ہے کہ انھیں متنبہ فرما دیں۔ رب رحمٰن انھیں اس لیے ڈھیل دیے جا رہا ہے تاکہ قیامت یا اس سے پہلے ان سے جس عذاب کا وعدہ کیا ہے انہیں اس سے دوچار کرے۔ جب اللہ تعالیٰ کا وعدہ دنیا میں عذاب کی شکل میں یا قیامت کا دن آئے گا تو وہ ہر صورت دیکھ لیں گے کہ کون مقام اور افرادی قوت کے اعتبار سے کمزور ترین تھا۔ اللہ تعالیٰ نے یہاں اپنے اسماء الحسنیٰ میں رحمٰن کا لفظ استعمال فرمایا ہے جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ یہ اس کی شفقت اور مہربانی کا نتیجہ ہے کہ اس نے منکرین کو نہ صرف ڈھیل دے رکھی ہے بلکہ انھیں دنیاوی وسائل سے بھی مالا مال کیا ہے۔ جس کے بارے میں فرمایا ہے۔ یہ اللہ کا شکر ادا کرنے کی بجائے اس کے سامنے تکبر کا اظہار اور ایمانداروں کے ساتھ ظلم کا رویہ اختیار کرتے ہیں۔ (فَلَمَّا نَسُوْا مَا ذُکِّرُوْا بِہٖ فَتَحْنَا عَلَیْھِمْ اَبْوَابَ کُلِّ شَیْءٍ حَتّٰٓی اِذَا فَرِحُوْا بِمَآ اُوْتُوْٓا اَخَذْنٰھُمْ بَغْتَۃً فَاِذَا ھُمْ مُّبْلِسُوْنَ) [ الانعام : ٤٤] ” پھر جب وہ اس کو بھول گئے جو انہیں نصیحت کی گئی تھی تو ہم نے ان پر ہر چیز کے دروازے کھول دیے یہاں تک کہ جب وہ ان چیزوں کے ساتھ خوش ہوگئے جو انہیں دی گئی تھیں ہم نے انہیں اچانک پکڑ لیا تو وہ ناامیدہوگے۔“ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ ہُرَیْرَۃَعَنْ رَسُول اللَّہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ إِنَّہُ لَیَأْتِی الرَّجُلُ الْعَظِیم السَّمِینُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ لاَ یَزِنُ عِنْدَ اللَّہِ جَنَاحَ بَعُوضَۃٍ وَقَالَ اقْرَءُ وا (فَلاَ نُقِیمُ لَہُمْ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ وَزْنًا) [ رواہ البخاری : باب (أُولَءِکَ الَّذِینَ کَفَرُوا بآیَاتِ رَبِّہِمْ وَلِقَاءِہِ فَحَبِطَتْ أَعْمَالُہُمْ) الآیَۃَ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں آپ نے فرمایا : یقیناً روز قیامت ایک بڑا اور موٹا آدمی لایا جائے گا۔ لیکن اللہ کے ہاں اس کا مچھر کے پر کے برا بر بھی وزن نہ ہوگا۔ فرمایا : یہ آیت پڑھو ( قیامت کے دن ہم ان کافروں کے لیے ترازوقائم نہیں کریں گے)۔“ ” حضرت جابر بن عبداللہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بازار کی ایک طرف سے داخل ہوئے آپ کے ساتھ کچھ لوگ بھی تھے آپ ایک مردہ بکری کے بچے کے پاس سے گزرے آپ نے اس کے ایک کان کو پکڑ کر پوچھا کون اسے ایک درہم کے بدلے لینا چاہے گا؟ صحابہ کرام (رض) نے کہا : ہم اسے کسی چیز کے بدلے بھی لینا نہیں چاہتے اور ہم اس کا کیا کریں گے؟ آپ نے فرمایا : کیا تم اسے پسند کرتے ہو کہ یہ بکری کا بچہ تمہارا ہوتا؟ صحابہ کرام (رض) نے کہا : اللہ کی قسم ! اگر یہ زندہ بھی ہوتا تو کان چھوٹے ہونے کی وجہ سے اسے قبول نہ کیا جاتا۔ اب یہ مرا ہوا ہے تو ہم کیسے اسے پسند کریں گے۔ آپ نے فرمایا : جیسے تمہارے نزدیک یہ بکری کا مردہ بچہ بڑا ہی حقیر اور بے فائدہ ہے۔ اللہ کی قسم! دنیا اللہ کے نزدیک اس سے بھی زیادہ حقیر اور ذلیل ہے۔“ [ رواہ مسلم : کتاب الزھد والرقائق ] مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ ایک وقت معیّن تک ظالموں کو ڈھیل دیتا ہے۔ ٢۔ اللہ کے عذاب یا قیامت کے دن مجرموں کو معلوم ہوگا کہ ان کی کیا حیثیت ہے۔ تفسیر بالقرآن قیامت کے دن منکرین کا حال : ١۔ ہم مجرموں سے انتقام لیا کرتے ہیں۔ ( سجدہ : ٢٢) ٢۔ قیامت کے دن منکرین کے لیے ہلاکت ہے۔ (الطور : ١١) ٣۔ منکرین کے لیے جہنم کا کھولتا ہوا پانی ہے۔ (الواقعۃ: ٩٢) ٤۔ جہنم میں جہنمی اس بات کا اقرار کریں گے کہ کاش عقل وفکر سے کام لیتے۔ ( الملک : ١٠) مريم
75 مريم
76 فہم القرآن ربط کلام : منکرین حق کے مقابلہ میں اللہ تعالیٰ مؤمنوں کو ہدایت میں زیادہ کرتا ہے۔ منکرین حق کے مقابلہ میں اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو ہدایت میں زیادہ کرتا ہے اچھے اعمال کرنے کی مزید توفیق عطا فرماتا ہے اچھے اعمال ہی ہمیشہ رہنے والے ہیں۔ ایسے لوگ ہی آپ کے رب کے نزدیک اجر و ثواب اور نتیجہ کے اعتبار سے بہتر ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ منکرین حق کے مقابلہ میں نہ صرف ہدایت میں اپنے بندوں کو مضبوط اور زیادہ کرتا ہے۔ بلکہ انھیں صالح اعمال کی توفیق بخشتا ہے جو ہمیشہ رہنے والے ہیں۔ (مَنْ کَانَ یُرِیْدُ حَرْثَ الْآخِرَۃِ نَزِدْ لَہٗ فِیْ حَرْثِہِ وَمَنْ کَانَ یُرِیْدُ حَرْثَ الدُّنْیَا نُؤتِہِ مِنْہَا وَمَا لَہٗ فِی الْآخِرَۃِ مِنْ نَّصِیبٍ) [ الشوریٰ: ٢٠] ” جو شخص آخرت کا خواہاں ہے ہم اس کی آخرت کی کھیتی میں اضافہ کردیں گے اور جو دنیا کا طلب گار ہے ہم اسے دنیا عطا کریں گے اور آخرت میں اس کا کوئی حصہ نہیں ہوگا۔“ (عَنْ اَبِیْ ہُرَےْرَۃَ ہُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اِذَا مَاتَ الْاِنْسَانُ اِنْقَطَعَ عَنْہُ عَمَلُہٗٓ اِلَّا مِنْ ثَلَاثَۃٍ الاَّمِنْ صَدَقَۃٍ جَارِےَۃٍ اَوْ عِلْمٍ یُّنْتَفَعُ بِہٖ اَوْ وَلَدٍ صَالِحٍ یَّدْعُوْ لَہٗ) [ رواہ مسلم : باب مَا یَلْحَقُ الإِنْسَانَ مِنَ الثَّوَابِ بَعْدَ وَفَاتِہٖ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ذکر کرتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا آدمی کے فوت ہونے سے اس کے عمل کا تسلسل ختم ہوجاتا ہے۔ مگر تین اعمال کے علاوہ (١) صدقہ جاریہ۔ (٢) ایساعلم جس سے لوگ مستفید ہوتے رہیں۔ (٣) نیک اولاد جو اس کے لیے دعائیں کرتی رہے۔“ مسائل ١۔ ہدایت دینا اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نیکو کاروں کو نیکی کا بہترین صلہ عطا فرمائیگا۔ مريم
77 فہم القرآن ربط کلام : سابقہ آیات میں کفر اور سرمایہ دارانہ ذہن کی عکاسی کی جا رہی تھی۔ جس میں یہ کہا گیا کہ اللہ تعالیٰ دنیا میں ظالموں کو مہلت دیتا ہے اس کے بعد مختصر طور پر ہدایت یافتہ لوگوں کا ذکر اور ان کے بہترین انجام کا بیان فرمایا۔ اب پھر کفر و شرک اور سرمایہ دارانہ ذہن کی ترجمانی کی جا رہی ہے۔ کفر و شرک اور سرمایہ دارانہ خیال رکھنے والا شخص یہ سوچتا ہے کہ جس طرح دنیا میں اسے نوازا گیا ہے اسی طرح ہی آخرت میں اسے نوازا جائے گا۔ مکہ میں بھی ایسے لوگ موجود تھے جو نہ صرف یہ ذہن رکھتے تھے بلکہ اس بات کا برملا اظہار کرتے تھے جس بنا پر نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرمایا گیا ہے کیا آپ نے اس شخص کی گفتگو نہیں سنی جو یہ کہتا ہے کہ میں آخرت میں بھی مال اور اولاد میں زیادہ ہوں گا۔ اس سے پوچھیے کیا اس نے پردہ غیب سے سب کچھ دیکھ لیا ہے یا رب رحمٰن سے عہد لے رکھا ہے؟ کہ وہ اسے آخرت میں بھی نوازے گا۔ ایسا ہرگز نہیں ہوگا۔ البتہ جو کچھ وہ کہہ رہا ہے ہم لکھ رہے ہیں اور ہم اس کے لیے عذاب کو بڑھائیں گے۔ جس مال اور اسباب کے بارے میں یہ غرور کرتا ہے اس کے ہم ہی حقیقی مالک ہیں اور وارث ہوں گے۔ قیامت کے دن اسے تنہا ہمارے پاس حاضر ہونا ہوگا۔ اس کا مال اور اولاد اسے کچھ فائدہ نہیں دے سکیں گے۔ یہ بات عیاں ہے کہ اللہ کے ہاں انسان کا ہر اچھا اور برا عمل لکھا جاتا ہے، اس کے باوجود لکھنے کا کا ذکر کیا ہے۔ جس کا مقصد ایک تنبیہ اور دھمکی ہے۔ مسائل ١۔ کافر یہ سمجھتا ہے کہ دنیا کی طرح آخرت میں بھی نوازا جائے گا۔ ٣۔ انسان جو کچھ بولتا اور کرتا ہے اسے لکھ لیا جاتا ہے۔ ٢۔ قیامت کے دن مجرم کو اس کا مال اور اولاد اسے کوئی فائدہ نہیں دیں گے۔ مريم
78 مريم
79 مريم
80 مريم
81 فہم القرآن ربط کلام : شرک کرنے کا بنیادی سبب یہ ہوتا ہے کہ انسان صرف اللہ تعالیٰ کو کارساز، خود مختار اور ایک جاننے کی بجائے دوسروں کو بھی حاجت روا اور مشکل کشا سمجھتا ہے۔ اسی وجہ سے مشرک اور کافر اللہ تعالیٰ کے سوا دوسروں کے سامنے ہاتھ جوڑتے، جھکتے، سجدے کرتے اور نذ ونیاز پیش کرتے ہیں۔ ذات کبریا کا اصل نام ” اللہ“ ہے اس کا متبادل نام الٰہ ہے۔ جو متبادل نام ہونے کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی تمام بڑی بڑی صفات کا ترجمان ہے۔ اس کا ایک معنٰی حاجت روا، مشکل کشا ہے۔ (النمل : ٦٢) اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں بار بار اس بات سے منع کیا ہے کہ لوگو! اللہ کے سوا نہ کسی کی عبادت کرو اور نہ کسی کو پکارو اور نہ اللہ کے ساتھ کسی کی عبادت کرو کیونکہ (تمھارا الٰہ ایک ہی ہے۔ وہ بڑا مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے۔ البقرۃ: ١٦٣) لیکن مشرک یہ بات ماننے اور سمجھنے کی بجائے ان بزرگوں کے سامنے اپنی حاجات پیش کرتے ہیں۔ جن کو یہ معلوم بھی نہیں کہ وہ کب اٹھائے جائیں گے۔ جب انھیں اٹھا کر اللہ کی بارگاہ میں پیش کیا جائے گا تو نہ صرف وہ مشرکوں کے شرک سے انکار کریں گے بلکہ ان کے مخالف شہادت دیتے ہوئے کہیں گے کہ بارِالٰہ نہ صرف ہم ان کے شرک کی مذمت اور انکار کرتے ہیں بلکہ ہماری درخواست ہے کہ شرک کرنے والوں کو جہنم میں جھونکا جائے۔ یہاں یہ بات بھی یاد رہنی چاہیے کہ جو علماء یہ کہہ کر لوگوں کو دھوکا دیتے ہیں کہ من دون اللہ سے مراد پتھر، مٹی اور لکڑی کے بت ہیں انھیں معلوم ہونا چاہیے قرآن و حدیث میں کہیں نہیں آیا کہ قیامت کے دن بتوں میں جان ڈالی جائے گی۔ البتہ جن پتھر کے بتوں کی پوجا کی جاتی تھی انھیں مشرکوں کے ساتھ ہی جہنم میں پھینکا جائے گا۔ یہاں من دون اللہ کا معنٰی وہ فوت شدگان بزرگ ہیں۔ جن کو لوگوں نے داتا، دستگیر، حاجت روا اور مشکل کشا بنالیا تھا۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی الٰہ نہیں۔ کوئی عبادت کے لائق، حاجت روا اور مشکل کشا نہیں۔ ٢۔ جن انبیاء اور اولیاء کو لوگ حاجت روا، مشکل کشا سمجھ کر پکارتے تھے وہ قیامت کے دن پکارنے والوں کا صاف انکار کریں گے۔ مريم
82 مريم
83 فہم القرآن ربط کلام : کفر و شرک کا بنیادی محرّک اور سبب شیطان ہوتا ہے۔ جب شیطان انسان پر مسلط ہوجائے تو انسان غیر اللہ کی عبادت کرنے میں لذت محسوس کرتا ہے۔ یہاں اللہ تعالیٰ نے یہ بات ارشاد فرمائی ہے کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! کیا آپ نے غور نہیں کیا کہ ہم شیاطین کو کفار کی طرف بھیجتے ہیں جو انھیں کفر و شرک پر ابھارتے ہیں۔ شیاطین سے مراد جناّت اور وہ انسان ہیں جو لوگوں کو برائی اور کفر و شرک پر آمادہ کرتے ہیں۔ ان میں وہ علماء، پیر اور حکمران بھی شامل ہیں جو لوگوں کو شرک وبدعت کا سبق دیتے ہیں یا ایساماحول بناتے ہیں جس سے شرک وبدعت کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔ ایسے لوگوں کی سزا کے بارے میں جلد بازی کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں مہلت دے رکھی ہے لیکن اس کا یہ معنٰی نہیں کہ یہ لوگ اللہ تعالیٰ کی دسترس سے باہر اور اس کے علم میں نہیں ہیں، ایسا ہرگز نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کے اعمال اور دن شمار کر رہا ہے۔ قیامت کے دن انھیں ایک ایک عمل کا حساب چکا دیا جائے گا۔ دن شمار کرنا ہر زبان میں ایک محاورہ ہے جو دھمکی کے معنٰی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے شیطان بھیجنے کا معنی ڈھیل دینے کے مترادف ہے۔ (وَمَنْ یَّعْشُ عَنْ ذِکْرِ الرَّحْمٰنِ نُقَیِّضْ لَہٗ شَیْطٰنًا فَہُوَ لَہٗ قَرِیْنٌ وَاِِنَّہُمْ لَیَصُدُّونَہُمْ عَنْ السَّبِیْلِ وَیَحْسَبُوْنَ اَنَّہُمْ مُہْتَدُوْنَ )[ الزخرف : ٣٦۔ ٣٧] ” اور جو شخص اللہ کی یاد سے منہ موڑتا ہے ہم اس پر ایک شیطان مسلّط کردیتے ہیں۔ وہ اس کا ساتھی ہوجاتا ہے۔ اور یقیناً شیطان ان کو راستے سے روکتے رہتے ہیں۔ گمراہ لو گسمجھتے ہیں کہ وہ سیدھی راہ پر گامزن ہیں۔“ مسائل ١۔ کفر و شرک اختیار کرنے والوں پر شیطان مسلّط ہوتا ہے۔ ٢۔ شیطان انسان کو شرک و بدعت اور برائی کے راستہ پر ڈالتا ہے۔ مريم
84 مريم
85 فہم القرآن ربط کلام : کفار اور مشرکین کا موازنہ جاری ہے۔ کفار اور مشرکین کے عقیدہ اور کردار کی وجہ سے ان پر شیطان مسلّط کردیے جاتے ہیں۔ کفر و شرک سے اجتناب اور کبیرہ گناہوں سے بچنے والوں کی اللہ تعالیٰ رہنمائی اور دستگیری کرتا ہے۔ جس بنا پر ان پر شیطان کا تسلط نہیں ہوتا۔ وہ دنیا میں اس طرح زندگی گزارتے ہیں جس طرح ان کے رب نے حکم دیا ہے۔ ایسے لوگوں پر ان کے رب کا یہ انعام ہوگا کہ جب وہ دنیا سے کوچ کریں گے تو موت سے پہلے ملائکہ انھیں ان الفاظ میں خوشخبری سنائیں گے۔ جن لوگوں نے یہ کہا کہ ہمارا رب اللہ ہے پھر اس پر پکے ہوگئے ان پر ملائکہ کا نزول ہوگا جو انھیں تسلّی دیں گے اب تمھیں خوف اور غم کرنے کی بجائے اللہ کے کیے ہوئے وعدہ کے مطابق جنت پر خوش ہونا چاہیے۔ اللہ دنیا کی زندگی میں بھی تمھارا خیر خواہ اور کارساز تھا اور آخرت میں بھی ہوگا۔ تمھیں سب کچھ ملے گا جو تم چاہو گے۔ تمھاری مہمان نوازی تمھارا غفور رحیم رب فرمائے گا۔ (حٰم السجدۃ : ٣٠ تا ٣٢) متقی لوگ اس تسلی اور خوشخبری کے ساتھ اپنے رب کی بارگاہ میں وفود کی صورت میں پیش ہوں گے انھیں ہر قسم کا سکون اور اطمینان نصیب ہوگا۔ یاد رہے کہ کفار، مشرکین اور اللہ کے باغیوں کو ملائکہ رنجیروں میں جکڑ کر اللہ تعالیٰ کے سامنے کھڑا کرینگے لیکن متقین کو ملائکہ بڑے ادب واحترام کے ساتھ رب رحمن کے سامنے پیش فرمائیں گے۔ متقین کو اس طرح پیش کرنے کو ازراہ کرم رب رحمن نے اپنی طرف منسوب کیا ہے۔ مسائل ١۔ متقی حضرات کی رب رحمٰن مہمان نوازی فرمائیں گے۔ ٢۔ متقین کو موت کے بعد کوئی غم اور خوف نہ ہوگا۔ تفسیر بالقرآن متقین کا مقام اور مرتبہ : ١۔ اللہ تعالیٰ متقین کے ساتھ ہے۔ (النحل : ١٢٨) ٢۔ متقین امن و سلامتی والے گھر میں ہوں گے۔ (الدخان : ٥١) ٣۔ متقین کے لیے دنیا میں بھلائی ہے اور آخرت ان کے لیے زیادہ بہتر ہے۔ (النحل : ٣٠) ٤۔ متقین کے لیے جنت ہے جس کے نیچے نہریں جاری ہیں۔ (آل عمران : ١٩٨) ٥۔ اللہ تعالیٰ متقین کو قیامت کے دن گروہ در گروہ جنت میں داخل فرمائے گا۔ (الزمر : ٧٣) مريم
86 فہم القرآن ربط کلام : متقین کے مقابلہ میں مجرمین کا انجام۔ ایک طرف متقین کو انعام و اکرام کے ساتھ نوازا جارہا ہوگا اور دوسری طرف مجرمین کو ملائکہ بیڑیوں میں جکڑ کر آگ کے کوڑوں سے ہانکتے ہوئے جہنم کی طرف دھکیل رہے ہوں گے۔ مجرم خوف اور پیاس کی شدت کی وجہ سے ہلکان ہو رہے ہوں گے۔ کیونکہ قیامت کا دن پچاس ہزار سال کا ہوگا۔ مجرمین تانبے جیسی زمین پر کھڑے ہونگے جس پر سورج اپنی پوری تپش اور شدت کے ساتھ ایک میل کے فاصلہ پر ہوگا۔ مزید یہ کہ مجرم جہنم کو اپنے سامنے دیکھیں گے۔ اس خوف اور سورج کی حدّت کی وجہ سے پیاس کے مارے ان کے کلیجے کٹ رہے ہوں گے اور زبانیں منہ سے باہر نکلی ہوں گی۔ اس کیفیت میں انھیں جہنم کی طرف دھکیلا جائے گا۔ دنیا میں جن لوگوں پر یہ اعتماد اور بھروسہ کرتے تھے وہ ان کی کوئی سفارش نہیں کرسکیں گے۔ سفارش تو ان لوگوں کے حق میں وہی لوگ کرسکیں گے جن کو اللہ تعالیٰ اجازت عنایت فرمائے گا۔ ظاہر ہے مشرک اور کافر کی کوئی بھی سفارش نہیں کرسکے گا اور نہ یہ ایک دوسرے کی مدد کرسکیں گے۔ اَلرَّحْمٰنَ سے عہد لینے سے مراد اس کی طرف سے سفارش کی اجازت ملنا ہے۔ مسائل ١۔ مجرمین کو جہنم میں دھکیلا جائے گا۔ ٢۔ مجرموں کی کوئی سفارش کرنے والا نہیں ہوگا۔ ٣۔ سفارش وہی شخص کرسکے گا جس کو رب رحمٰن اجازت عنایت فرمائیں گے۔ تفسیر بالقرآن قیامت کے دن سفارش و شفاعت کے اصول : ١۔ اللہ تعالیٰ کی اجازت کے بغیر کوئی سفارش کا حقدار نہ ہوگا۔ (یونس : ٣) ٢۔ صرف اللہ تعالیٰ کی اجازت سے سفارش ہو سکے گی۔ (البقرۃ: ٢٥٥) ٣۔ سفارش کا اختیار اسی کو ہوگا جسے رحمن اجازت دے گا۔ (مریم : ٨٧) ٤۔ شفاعت اسی کے حق میں ہوگی جس پر رحمن راضی ہوا۔ (طٰہٰ: ١٠٩) مريم
87 مريم
88 فہم القرآن ربط کلام : جو لوگ یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ کچھ بزرگ اللہ تعالیٰ کو اپنی بات منواسکتے ہیں انھوں نے اسی وجہ سے ہی یہ عقیدہ بنا رکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ بھی اولاد رکھتا ہے۔ قیامت کے دن اللہ کی بارگاہ میں انبیاء کرام (علیہ السلام) اور بزرگوں کو یہاں تک کہ معصوم بچوں کو بھی سفارش کا حق دیا جائے گا لیکن یہ لوگ اسی کے حق میں سفارش کرسکیں گے۔ جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ اجازت عنایت فرمائے گا۔ سفارش کرنے والی کتنی بڑی شخصیت کیوں نہ ہو وہ اس حد تک ہی سفارش کرپائے گی جس حد تک اسے سفارش کرنے کی اجازت ملے گی اس پر پوری امت کا اتفاق ہے۔ لیکن کچھ لوگوں نے اس سے بڑھ کر یہ عقیدہ اختیار کرلیا ہے کہ کچھ بزرگ اللہ تعالیٰ سے اپنی منوا سکتے ہیں بلکہ جسے چاہیں چھڑا سکتے ہیں۔ اسی وجہ سے یہودیوں نے حضرت عزیر کو اور عیسائیوں نے عیسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ کے بیٹے قرار دیا۔ کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کسی اور کی بات رد کرسکتا ہے مگر اپنے چہیتے بیٹوں کی بات رد نہیں کرسکتا۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ کے لائق ہی نہیں اور نہ اس کی ضرورت ہے کہ وہ کسی کو اپنی اولاد بنائے۔ کیونکہ نہ اس کی بیوی ہے نہ وہ محبت کرنے یا کسی سے خدمت کروانے کا محتاج اور نہ اسے سلسلہ نسب رکھنے کی حاجت ہے۔ زمین و آسمانوں میں جو کچھ ہے وہ اس کا تابع فرمان اور عاجز غلام ہے۔ اس نے ہر چیز شمار اور ہر بات کا اندراج کر رکھا ہے۔ ہر کوئی اس کی بارگاہ میں اکیلا ہی پیش ہوگا یعنی اس کے ساتھ کوئی حمایتی اور سفارشی نہیں ہوگا۔ اس کے خلاف عقیدہ رکھنا اللہ تعالیٰ کے ہاں اتنا سنگین جرم اور بڑا گناہ ہے۔ اس کے بارے میں فرمایا ہے قریب ہے کہ آسمان پھٹ جائیں، زمین شق ہوجائے اور پہاڑ ٹکڑے ٹکڑے ہو کر نیچے گر پڑیں۔ اولاد تو اسے رکھنے کی ضرورت ہے، جو سہارے کا محتاج ہو یا اسے کسی وارث کی حاجت ہو اللہ تعالیٰ ان ضرورتوں اور کمزوریوں سے مبّرا ہے وہ ہمیشہ سے قائم ہے اور ہمیشہ قائم دائم رہے گا۔ اسے کسی لحاظ سے کوئی کمزوری لاحق نہیں ہوتی وہ ہر کمزوری سے پاک ہے۔ نہ ہی وہ کسی کی محبت کے ہاتھوں مجبور ہے کہ وہ اسے بیٹا بنائے یا اسے اپنی خدائی میں کسی کو شریک کرے اس لیے آپ کو حکم ہوا ” کہو کہ وہ ذات پاک ہے جس کا نام اللہ ہے ایک ہے وہ معبودِ بر حق بے نیاز ہے۔ نہ کسی کا باپ ہے اور نہ کسی کا بیٹا اور کوئی اس کا ہمسر نہیں۔“ [ الاخلاص] مسائل ١۔ کسی کو اللہ تعالیٰ کی اولاد گرداننا سنگین ترین گناہ ہے۔ ٢۔ کسی کو اولاد بنانا اللہ تعالیٰ کے لائق نہیں۔ ٣۔ اس ظالمانہ اور مشرکانہ عقیدہ کی وجہ سے ہوسکتا ہے کہ زمین پھٹ جائے، آسمان شق ہوجائیں اور پہاڑ ٹکڑے ٹکڑے ہو کر گر پڑیں۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ کی اولاد نہیں : ١۔ انہوں نے کہا اللہ نے اولاد بنا رکھی ہے حالانکہ اللہ اولاد سے بے نیاز ہے۔ (یونس : ٦٨) ٢۔ انہوں نے کہا اللہ نے اولاد بنائی ہے حالانکہ اللہ اولاد سے پاک ہے۔ (البقرۃ: ١١٦) ٣۔ مشرکین نے کہا کہ اللہ کی اولاد ہے اللہ اولاد سے پاک ہے بلکہ سارے اسی کے بندے ہیں۔ (الانبیاء : ٢٦) ٤۔ اللہ کی کوئی اولاد نہیں اور نہ ہی اس کے ساتھ کوئی دوسرا الٰہ ہے۔ (المومنون : ٩١) ٥۔ ہمارے پروردگار کی شان بڑی ہے اس نے نہ کسی کو بیوی بنایا ہے نہ اس کی اولاد ہے۔ (الجن : ٣) مريم
89 مريم
90 مريم
91 مريم
92 مريم
93 مريم
94 مريم
95 مريم
96 فہم القرآن ربط کلام : مجرم قیامت کے دن اکیلے اکیلے اپنے رب کے حضور پیش ہونگے اور ان کے درمیان کسی قسم کی کوئی محبت اور تعلق باقی نہیں رہے گا وہ ایک دوسرے کے دشمن بن جائیں ان کے مقابلے میں مومنوں کے دل میں محبت پیدا کردی جائے گی۔ قرآن مجید اپنے مؤثر ترین انداز کے مطابق یہاں بھی کفار اور مشرکین کے کردار اور انجام کا ذکر کرنے کے بعد ایماندار بندوں کا کردار اور ان کا صلہ ذکر کرتا ہے۔ ایمان سے مراد خالی خولی دعویٰ نہیں بلکہ ایمان ایک جامع لفظ ہے جس کا مختصر مفہوم یہ ہے کہ انسان عقیدہ توحید، سرور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دو عالم کی اطاعت اور آخرت پر یقین رکھنے کے ساتھ ساتھ ان کے تقاضے پورے کرنے کی کوشش کرئے۔ اس لیے قرآن مجید ایمان کے ساتھ صالح اعمال کا اکثر ذکر کرتا ہے۔ جو لوگ اس طرح کا ایمان اور کردار اختیار کریں گے۔ بہت جلد اللہ تعالیٰ انھیں اپنی محبت کے دامن میں جگہ دے گا۔ بعض اہل علم نے اس کا یہ مفہوم بھی لینے کی کوشش کی ہے کہ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کے دلوں میں ایک دوسرے کی محبت پیدا کرے گا۔ گرائمر کے اعتبار سے اس کی گنجائش نہ بھی ہو۔ لیکن حقیقی ایماندار اور باکردار لوگوں کے درمیان محبت ہونا لازم اور فطری بات ہے۔ ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا‘ بلاشبہ اللہ تعالیٰ جب کسی بندے کو پسند کرتا ہے تو جبرائیل (علیہ السلام) کو بلا کر فرماتا ہے کہ میں فلاں آدمی سے محبت کرتا ہوں، تم بھی اس سے محبت کرو۔ راوی بیان کرتا ہے : پھر جبرائیل (علیہ السلام) اس شخص سے محبت کرتے ہیں اس کے بعد آسمان پر اس بات کا اعلان کرتے ہیں کہ سب اس کے ساتھ محبت کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ فلاں شخص سے محبت کرتا ہے۔ آسمان والے اس سے محبت کرتے ہیں اس کے بعد زمین میں بھی اس کی محبت بڑھ جاتی ہے۔ جب اللہ تعالیٰ کسی بندے کو برا سمجھتا ہے تو جبرائیل (علیہ السلام) کو بلا کر حکم دیتا ہے کہ میں فلاں شخص کو برا سمجھتا ہوں تم بھی اسے برا جانو۔ راوی نے بیان کیا‘ پھر جبرائیل (علیہ السلام) اسے برا سمجھتے ہیں اور پھر آسمان والوں میں اعلان کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ فلاں شخص کو برا جانتا ہے تم بھی اس سے بغض رکھو۔ چنانچہ وہ اس سے بغض کرنا شروع کردیتے ہیں پھر زمین میں اس کے لیے نفرت پھیلا دی جاتی ہے۔“ [ رواہ مسلم : باب إِذَا أَحَبَّ اللَّہُ عَبْدًا حَبَّبَہُ إِلَی عِبَادِہِ] مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ صحیح عقیدہ اور صالح کردار اختیار کرنے والوں کے ساتھ محبت کرتا ہے۔ مريم
97 فہم القرآن ربط کلام : نزول قرآن کا مقصد، متقین کو خوشخبری سنانا اور مجرمین کو ان کے انجام سے آگاہ کرنا ہے۔ قرآن مجید میں بار ہا دفعہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کا مقصد بیان ہوا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بشیر اور نذیر بنا کر بھیجا ہے۔ یہی قرآن مجید کی دعوت اور اس میں بیان ہونے والے واقعات کا مدّعا ہے کہ لوگوں کے سامنے متقین کا عقیدہ اور کردار بیان کیا جائے ان کے مقابلہ میں کفار اور مشرکین کا عقیدہ کردار اور ان کا انجام ذکر کیا جائے تاکہ جرائم پیشہ لوگ اپنے برے عقیدہ اور گھناؤنے کردار سے باز آئیں۔ جن لوگوں نے اللہ تعالیٰ کی بغاوت کا راستہ اختیار کیا ان میں بڑی بڑی اقوام کو اس طرح تہس نہس کیا کہ آج دیکھنے والا کوئی ان کا نشان، آہٹ اور بھنک نہیں پا سکتا ان کی بستیاں اور قبریں زبان حال سے بول بول کر یہ پیغام دے رہی ہیں کہ اے دنیا میں رہنے والو! اقتدار، اختیار اور کسی گھمنڈ میں آکر اپنے رب کی نافرمانی نہ کرنا اگر تمھیں کسی بات پرناز ہے تو ہمارے حال کو نگاہ عبرت سے دیکھو۔ (فَاعْتَبِرُوا یَا أُولِی الْأَبْصَارِ) [ الحشر : ٢] ” اے عقل والوں نگاہ عبرت سے دیکھو۔“ (عَنْ أَبِیْٓ أُمَامَۃَ، قَالَ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)، یَقُوْلُ إِذَا مَرَرْتُمْ عَلٰی أَرْضٍ قَدْ أُہْلِکَ أَہْلُہَا فَاعْدُوا السَّیْرَ) [ رواہ الطبرانی فی الکبیروہو حدیث صحیح ] ” حضرت ابو امامہ (رض) بیان کرتے ہیں میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا، آپ فرماتے تھے جب تم ایسی زمین سے گزرو جس کے بسنے والوں کو ہلاک کیا گیا ہو تو وہاں سے جلدی گزر جایا کرو۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اس لیے قرآن نازل کیا تاکہ نیک لوگوں کو خوشخبری دی جائے۔ ٢۔ قرآن مجید کے نازل کرنے کا مقصد یہ بھی ہے کہ حق بات ٹھکرانے والوں کو ان کے برے انجام سے ڈرایا جائے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ نے جن اقوام کو تباہ و برباد کیا آج ان کی کوئی بھنک بھی نہیں پاتا۔ مريم
98 مريم
0 سورۃ طٰہٰ کا تعارف ربط سورۃ: سورۃ مریم کا اختتام ان الفاظ میں ہوا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان پر قرآن مجید کو آسان کردیا گیا ہے جس کا مرکزی پیغام ” اللہ“ کی توحید ہے، سورۃ طٰہٰ کا آغاز اس بات سے کیا ہے کہ آپ قرآن کو مشکل نہ سمجھیں اور اپنے رب کی توحید بیان کرتے جائیں۔ یہ سورۃ اپنے نام یعنی طٰہٰ کے لفظ سے شروع ہوتی ہے، 8 رکوع اور 135 آیات پر مشتمل ہے۔ یہ سورۃ مکہ میں نازل ہوئی تمام مفسرین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ سورۃ طٰہٰ مکہ میں اس وقت نازل ہوئی جب عمر بن خطاب مسلمان نہیں ہوئے تھے۔ ایک دن عمر بن خطاب یہ عزم لے کر گھر سے نکلے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کام تمام کردیا جائے۔ راستہ میں ان کی برادری کا ایک آدمی ملا اور اس نے عمر کے تیور دیکھ کر پوچھا کہ کدھر کا ارادہ ہے؟ عمر بن خطاب کہنے لگا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو قتل کرنے جا رہا ہوں۔ بزرگ نے فرمایا انہیں قتل کرنے کے لیے چڑھ دوڑے ہوپہلے اپنے گھر کو تو سنبھالو۔ تیرا بہنوئی سعید اور تیری بہن فاطمہ مسلمان ہوچکے ہیں یہ سنتے ہی عمر اپنے بہنوئی کے گھر پہنچے دروازے پر سنا کہ ان کی بہن سورۃ طٰہٰ کی تلاوت کر رہی ہے۔ اندر گئے بہنوئی اور بہن کو مارا وہ بہن جس نے بھائی کے سامنے کبھی آنکھ نہیں اٹھائی تھی زخمی ہونے کے باوجود کہنے لگی جس قدر چاہو مار لو ہم دین نہیں چھوڑ سکتے۔ بہن کی ایمانی جُرأت پر حیران ہو کر کہتے ہیں کہ جو پڑھ رہی تھی مجھے بھی سناؤ۔ بہن نے سورۃ طٰہٰ کی ابتدائی آیات پڑھ کر سنائیں۔ زخمی بہن کی دکھ بھری آواز اور قرآن کی جلالت کی تاب نہ لا کر بالآخر حضرت عمر (رض) مسلمان ہوئے۔ تفصیل کے لیے سیرت عمر (رض) کا مطالعہ فرمائیں۔ اس سورۃ مبارکہ کی ابتداء ان الفاظ سے ہوئی ہے کہ اے پیغمبر ! ہم نے یہ قرآن آپ کی مشکلات کو بڑھانے کے لیے نازل نہیں کیا۔ اس کے نزول کا مقصد تو یہ ہے کہ آپ اس شخص کو نصیحت فرمائیں جو اپنے رب سے ڈرنے والا ہے۔ قرآن کو اس ذات کبیریا نے نازل کیا ہے جس نے زمین کو پیدا فرمایا ور آسمان کو بلند وبالا کیا وہ ذات بڑی الرّحمان ہے۔ زمین و آسمان اور ان کے درمیان جو چیز ہے وہ اسی کی ملکیت ہے۔ انسان اپنی بات کو خفیہ رکھے یا اس کا الفاظ میں اظہار کرے، وہ ذات سب کچھ جانتی ہے۔ اس کا نام اللہ ہے۔ اس کے سوا کوئی بندگی کے لائق نہیں اور اس کے بہترین نام ہیں وہ آپ کو موسیٰ (علیہ السلام) اور فرعون کے درمیان ہونے والے طویل اور شدید کشمکش سے آگاہ کرتا ہے جس کا آپ کو پہلے سے کچھ علم نہیں۔ اس کے ساتھ ہی موسیٰ (علیہ السلام) کا واقعہ قدرے تفصیل کے ساتھ ذکر کیا گیا جس میں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے رہنما اصول اور آپ کی امت کے لیے بہترین نصائح بیان کرنے کے ساتھ بتلایا گیا ہے کہ بے شک باطل جس قدر چاہے طاقتور ہو بالآخر وہ ناکام رہتا ہے۔ بشرطیکہ حق والے حق پر قائم رہتے ہوئے اپنی جدوجہد جاری رکھیں۔ اس سورۃ کے آخر میں حضرت آدم (علیہ السلام) کے بارے میں شیطان کی سازش اور شرارت کا ذکر فرما کر اولاد آدم کو نصیحت کی گئی ہے کہ جو شخص اپنے رب کی نصیحت سے اعراض کرے گا اور شیطان کے پیچھے لگے گا اس کی دنیا تنگ کردی جائے گی اور آخرت میں اس حالت میں پیش ہوگا کہ اپنے رب کے حضور کوئی حجّت پیش نہیں کرسکے گا۔ ایسے لوگوں کو دنیا میں عذاب سے دوچار کیا جائے تو کہتے ہیں کہ کاش ہمارے پاس رسول آتا۔ ہم اس کی پیروی کر کے ذلّت سے بچ جاتے۔ اے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ تو ان میں موجود ہیں لیکن پھر بھی یہ ایمان لانے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ انہیں فرما دیں کہ تم اپنی جگہ اپنے انجام کا انتظار کرو میں اپنے مقام پر اپنے کام کے انجام کا منتظر ہوں۔ اس میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مسلمانوں کو تسلّی دی گئی ہے کہ تمہارا دشمن فرعون سے زیادہ باوسائل اور طاقتور نہیں اور تم حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے ساتھیوں سے بڑھ کر کمزور اور مظلوم نہیں ہو۔ لہٰذا پورے حوصلے سے اپنا کام جاری رکھو۔ فتح تمہاری ہوگی کیونکہ انجام کار متقی حضرات کے لیے ہے۔ طه
1 فہم القرآن سورۃ طٰہٰ مکہ معظمہ میں اس وقت نازل ہوئی جب کفار مکہ کا جور و استبداد اپنے عروج پر تھا۔ مسلمانوں کے حوصلے پست ہونے کے قریب تھے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور فرعون کی کشمکش کا قدرے تفصیل سے تذکرہ فرمایا ہے تاکہ مسلمانوں کو معلوم ہو کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے ساتھی کن مشکلات میں دین کا کام کرتے رہے۔ لفظ طٰہٰ بھی حروف مقطعات ہیں۔ حسب عادت کچھ اہل علم نے اس کے بھی مفہوم نقل کیے ہیں۔ جو علمی موشگافیوں کے سوا کچھ نہیں کیونکہ بالآخر وہ بھی ثقہ اہل علم کی طرح یہ لکھنے پر مجبور ہوئے ہیں کہ اس کا حقیقی مفہوم صرف اللہ ہی جانتا ہے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مشکل اور سخت ترین حالات میں پوری جان سوزی اور اخلاص کے ساتھ تبلیغ دین کا فریضہ ادا فرما رہے تھے۔ آپ رات کی تاریکیوں میں تہجد کی نماز میں لوگوں کی ہدایت کے لیے رو رو کر دعائیں کرتے۔ دن کے وقت تندہی کے ساتھ اصلاح احوال کی کوشش میں مصروف رہتے۔ لیکن مشرکین ناصرف دن بدن کفر و شرک میں آگے ہی بڑھے جا رہے تھے بلکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام (رض) پر ظلم کے پہاڑ توڑ رہے تھے۔ جس پر آپ کا دل پسیج جاتا اور آپ غمگین رہتے۔ اس صورت حال میں یہ سورۃ مبارکہ نازل ہوئی۔ جس کی ابتدا میں آپ کو تسلّی دیتے ہوئے ارشاد ہوا کہ اے پیارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ کے رب نے قرآن مجید اس لیے تو نہیں اتارا کہ آپ اپنی استعداد سے بڑھ کر مشقت میں پڑجائیں۔ دوسرے مقام پر فرمایا کہ اگر یہ لوگ ایمان نہیں لا رہے تو آپ اپنی جان کو ہلاک کرلیں گے۔ الشعراء آیت : ٣ بے شک قرآن مجید سراپا نصیحت ہے۔ یقین رکھو قرآن مسائل بڑھانے نہیں کم کرنے کے لیے نازل ہوا ہے۔ لیکن اس سے نعمت سے وہی شخص مستفید ہوتا ہے جو اپنے رب کا خوف اور برے انجام سے ڈر نے والا ہے۔ یہی بات قرآن مجید کی پہلی آیت میں کہی گئی ہے۔ یہ کتاب ہدایت ہے۔ مگر ان لوگوں کے لیے جو گناہوں سے بچنے اور اپنے رب سے ڈرنے والے ہیں۔ طه
2 طه
3 طه
4 فہم القرآن ربط کلام : جس ذات کبریا نے یہ قرآن نازل کیا ہے اس کا تعارف۔ قرآن مجید اس ذات کبریا نے نازل کیا ہے جس نے زمین اور بلند و بالا آسمانوں کو پیدا کیا ہے۔ زمین و آسمان کو پیدا کرنے کے بعد الرحمن عرش پر مستوی ہوا۔ جس طرح اس کی شایان شان ہے۔ زمین و آسمانوں اور جو کچھ ان کے درمیان ہے اور جو کچھ زمین کے نیچے ہے سب کا سب اسی مالک کی ملکیت ہے۔ لہٰذا آپ اونچی آواز سے بات کریں یا آہستہ انداز میں دل ہی دل میں کہیں وہ خفیہ اور آہستہ سے آہستہ آواز کو سنتا ہی نہیں بلکہ دل میں پیدا ہونے والے خیالات اور احساسات کو جانتا ہے۔ یہاں پہلے یہ بات سمجھائی ہے کہ اے پیغمبر آپ کفار کے ظلم اور تسلّط کے بارے میں یہ نہ سوچیں کہ یہ ہمیشہ رہے گا۔ ہرگز نہیں کیونکہ زمین و آسمان اور جو کچھ ان کے درمیان ہے یہاں تک کہ جو کچھ زمین کے نیچے ہے سب کا سب اسی مالک کی ملک اور اس کے تابع فرمان ہیں اسی نے یہ قرآن نازل کیا ہے۔ لہٰذا نہ آپ کے مخالفین کی کوئی بات اور ظلم اس سے پوشیدہ ہے اور نہ آپ اور آپ کے ساتھیوں کی آہ زاریاں تمھارے رب سے اوجھل ہیں۔ عنقریب وقت آنے والا ہے۔ جب کفار کی گردنیں نیچی ہونگی اور ظلم کی چکی میں پسنے والے مظلوم سربلند ہوں گے۔ یہاں ذات کبریا نے اپنا نام الرحمن لاکر آپ کو تسلی دی ہے کہ آپ اپنا کام کرتے جائیں آپ کا رب الرحمن ہے۔ وہ ضرور آپ پر رحم و کرم فرمائے گا۔ آپ کی دعائیں مستجاب اور آپ کی محنتیں ثمر آور ہوں گی۔ وہ عرش پر جلوہ گر ہے۔ جس طرح اس کی شان ہے۔ اللہ تعالیٰ کے عرش پر جلوہ نما ہونے کے بارے میں بحث کرنا کہ رب ذوالجلال کس حالت اور کس انداز میں جلوہ نما ہے ہمارا کام نہیں۔ ایسی سوچ پیدا ہونے پر لاحَوْلَ وَلَاقُوَّۃً اِلَّا باللّٰہِ پڑھنا چاہیے۔ آسمانوں کی بلندی کا ذکر فرما کر اشارہ دیا کہ عنقریب سرفرازی اور بلندی آپ اور آپ کے ساتھیوں کو نصیب ہوگی اور کفار کے لیے پستی ہوگی۔ (عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَیْنٍ ہُرَیْرَۃَ قَالَ اِنِّیْ کُنْتُ عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اِذْجَاءَ ہٗ قَوْمٌ مِّنْ بَنِیْ تَمِیْمٍ فَقَالَ اقْبَلُوْاالْبُشْرٰی یَا بَنِیْ تَمِیْمٍ قَالُوْا بَشَّرْتَنَا فَاَعْطِنَا فَدَخَلَ نَاسٌ مِّنْ اَھْلِ الْیََمَنِ فَقَالَ اقْبَلُوْا الْبُشْرٰی یَا اَھْلَ الْیَمَنِ اِذْ لَمْ یَقْبَلْھَا بَنُوْ تَمِیْمٍ قَالُوْا قَبِلْنَاجِءْنَاکَ لِنَتَفَقَّہَ فِیْ الدِّیْنِ وَلِنَسْاَلَکَ عَنْ اَوَّلِ ھٰذَا الْاَمْرِ مَا کَانَ قَالَ کَان اللّٰہُ وَلَمْ یَکُنْ شَیْءٌ قَبْلَہٗ وَکَانْ عَرْشُہٗ عَلْی الْمَاءِ ثُمَّ خَلَقَ السَّمٰوَاتِ وَالْاَرْضَ وَکَتَبَ فِیْ الذِّکْرِ کُلَّ شَیْءٍ ثُمَّ اَتَانِیْ رَجُلٌ فَقَالَ یَاعِمْرَانُ اَدْرِکْ نَاقَََتَکََ فَقَدْ ذَھَبَتْ فَانْطَلَقْتُ اَطْلُبُھَا وَاَیْمُ اللّٰہِ لَوَدِدْتُّ اَنَّھَا قَدْ ذَھَبَتْ وَلَمْ اَقُمْ) [ رواہ البخاری : باب قَوْلِہِ (وَکَانَ عَرْشُہُ عَلَی الْمَاءِ )] ” حضرت عمران بن حصین (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس تھا جب آپ کے پاس بنو تمیم کے کچھ لوگ آئے۔ آپ نے فرمایا‘ اے بنو تمیم! خوشخبری قبول کرو انہوں نے کہا آپ نے ہمیں خوشخبری تو دے دی‘ ہمیں کچھ عطا بھی کریں۔ ان کے بعد اہل یمن کے کچھ لوگ آئے آپ نے فرمایا کہ اے اہل یمن ! خوشخبری قبول کرو‘ آپ سے پہلے بنو تمیم نے اسے قبول نہیں کیا۔ انہوں نے کہا ہم قبول کرتے ہیں آپ کی خدمت میں ہم اس لیے حاضر ہوئے ہیں تاکہ ہم دین کی سمجھ حاصل کریں اور ہم آپ سے کائنات کی ابتداء کے بارے میں پوچھنا چاہیں گے کہ سب سے پہلے کیا چیز تھی؟ آپ نے فرمایا کہ اللہ تھا‘ اور اس سے پہلے کوئی چیز نہیں تھی اس کا عرش پانی پر تھا اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمینوں کو پیدا فرمایا۔ پھر لوح محفوظ میں تمام امور لکھے۔ عمران (رض) کہتے ہیں اتنے میں ایک شخص میرے پاس آیا اور اس نے کہا، اے عمران! اپنی اونٹنی کا پتا کرو وہ بھاگ گئی ہے میں اسے ڈھونڈنے لگا۔ اللہ تعالیٰ کی قسم مجھے یہ پسند تھا کہ اونٹنی بے شک چلی جاتی‘ لیکن میں آپ کی مجلس سے نہ اٹھتا۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ عرش پر جلوہ نما ہے جس طرح اس کی شان ہے۔ ٢۔ زمین و آسمان میں جو کچھ ہے سب اللہ کی ملکیت ہے۔ ٣۔ انسان کوئی بات دل میں کہے یا اس کا اظہار کرے اللہ تعالیٰ ہر بات سے باخبر رہتا ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ ظاہر اور پوشیدہ ہر بات اور چیز کو جانتا ہے : ١۔ کیا وہ نہیں جانتے کہ اللہ تعالیٰ ظاہر اور پوشیدہ کو جانتا ہے۔ (البقرۃ: ٧٧) ٢۔ اللہ تعالیٰ آسمانوں اور زمین کی ظاہر اور پوشیدہ چیز کو جانتا ہے۔ (الانعام : ٣) ٣۔ کیا وہ نہیں جانتے کہ اللہ تعالیٰ ان کی پوشیدہ سرگوشیوں کو بھی جانتا ہے۔ (التوبۃ: ٧٨) ٤۔ اللہ تعالیٰ جانتا ہے جو تم چھپاتے اور جو تم ظاہر کرتے ہو۔ (النحل : ١٩) ٥۔ اچھی طرح ذہن نشین کرلو کہ اللہ تعالیٰ پوشیدہ اور آہستہ کہی ہوئی بات جانتا ہے۔ (طٰہٰ: ٧) طه
5 طه
6 طه
7 طه
8 فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ کی مزید صفات اور اسمائے گرامی۔ ہر چیز کا خالق، پوشیدہ اور ظاہر باتوں کو جاننے والا صرف ایک ” اللہ“ ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں۔ لہٰذا وہی ایک عبادت کے لائق ہے۔ اس کے تمام نام بہترین اور بابرکت ہیں۔ اسے ” اللہ“ کے نام سے پکارا جائے یا الرحمن کے نام سے۔ اس کے تو سارے نام ہی بہترین اور بابرکت ہیں۔ یاد رہے کہ کفار مکہ اللہ تعالیٰ کے اسم پاک الرحمن سے چڑتے اور کہتے تھے کہ ہم نہیں جانتے رحمن کون ہے اس وجہ سے نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو طعنہ دیتے کہ آپ ہمیں تو کسی دوسرے کو ” اللہ“ کا شریک بنانے سے منع کرتے ہیں۔ خود الرحمن کو اس کا شریک بناتے ہیں۔ اس چڑ کی وجہ سے وہ آپ کی اور مخالفت کرتے تھے سورۃ الفرقان، آیت : ٦٠۔ میں عرض کیا گیا ہے کہ ” الٰہ“ اللہ تعالیٰ کا متبادل نام بھی ہے اور یہ اس کی ایسی صفت ہے جس میں اس کی بڑی بڑی تمام صفات شامل ہیں۔ الٰہ کا پہلا معنی یہ ہے وہ ذات جس سے سب سے زیادہ محبت کی جائے ضرورت اور عاجزی کے ساتھ اس کی عبادت کی جائے۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ کے بہترین نام ہیں۔ ٢۔ ” اللہ“ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔ ٣۔ ” اللہ“ ہی حاجت روا، مشکل کشا ہے۔ تفسیر بالقرآن ” اللہ“ کی صفت الٰہ کی ایک جھلک : ١۔ اللہ کے سوا کوئی الٰہ بر حق نہیں۔ (النساء : ٨٧) ٢۔ الٰہ حقیقی صرف اللہ ہے۔ (النساء : ١٧١) ٣۔ کون ہے جو لاچار کی فریاد رسی کرتا ہے اور اس کی تکلیف کو دور کرتا ہے کیا کوئی اور بھی الٰہ ہے ؟ (النمل : ٦٢) ٤۔ خشکی اور سمندر کی تاریکیوں میں اللہ کے سواکون رہنمائی کرتا ہے کیا کوئی اور بھی اس کے ساتھ الٰہ ہے۔ (النمل : ٦٣) ٥۔ آپ فرما دیں سوائے ایک الٰہ کے آسمان وز میں کے غیب کو کوئی نہیں جانتا۔ (النمل : ٦٥) ٦۔ بس اس ایک الٰہ کے سوا کسی دوسرے الٰہ کو نہ پکارو۔ (القصص : ٨٨) ٧۔ تمھارا الٰہ ایک ہی ہے وہ الرّحمن اور الرّحیم ہے۔ (البقرۃ: ١٦٣) طه
9 فہم القرآن ربط کلام : اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ جس ایک اللہ کی عبادت کرنے کی دعوت دیتے ہیں یہی دعوت موسیٰ (علیہ السلام) دیا کرتے تھے۔ اس لیے آپ کو ان کے حالات سے آگاہ کیا جاتا ہے۔ رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پوری طرح متوجہ فرمانے کے لیے یہ اسلوب اختیار کیا گیا ہے کہ کیا آپ کے پاس موسیٰ (علیہ السلام) کی خبر نہیں پہنچی ؟ لو اب سماعت فرمائیں کہ موسیٰ (علیہ السلام) نے آگ دیکھی تو اپنے گھر والوں سے فرمایا ٹھہریں میں آپ کے تاپنے کے لیے آگ کا انگارہ لاتا ہوں یا پھر اس روشنی سے راستے کا پتہ معلوم کرتا ہوں۔ جب موسیٰ (علیہ السلام) آگ کے قریب آئے تو انھیں آواز دی گئی۔ اے موسیٰ میں آپ کا رب ہوں آپ مقدس وادی میں پہنچ چکے ہیں۔ اس لیے اپنے جوتے اتار دیں، یہ بات پہلے معلوم ہونا چاہیے کہ بے مثال جدوجہد اور لوگوں کی مخالفت کے لحاظ سے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سب سے زیادہ موسیٰ (علیہ السلام) کے قریب ہیں اس لیے قرآن مجید میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی جدوجہد اور فرعون کی مخالفت کا تفصیلی بیان ہوا ہے۔ یہاں اس بات کا جوں آغاز فرمایا کہ موسیٰ (علیہ السلام) کی خبر آپ کو نہیں پہنچی ؟ شاید اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ تو مکہ میں محترم اور قابل اعتماد ہیں تبھی تو لوگ آپ کو صادق اور امین کہتے ہیں تھوڑے ہی سہی لیکن آپ کے جانثار ساتھی بھی موجود ہیں۔ لہٰذا آپ کو تودل چھوٹا اور آپ کے ساتھیوں کو حوصلہ نہیں ہارنا چاہیے۔ موسیٰ (علیہ السلام) کے حالات جانیں کہ کن حالات میں پیدا ہوئے۔ اس کی والدہ نے اپنے رب کے حکم پر عمل کرتے ہوئے کس دل گردے کے ساتھ موسیٰ (علیہ السلام) کو دریا کی لہروں کے سپرد کیا۔ موسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے کس طرح اس کے جانی دشمن فرعون کے گھر پالا۔ جب موسیٰ (علیہ السلام) بڑے ہوئے تو ان کے ہاتھوں غیرارادی طور پر ایک شخص قتل ہوا۔ موسیٰ (علیہ السلام) خوف کے مارے مدین کی طرف بھاگ گئے۔ وہاں آٹھ، دس سال رہنے کے بعد اپنی اہلیہ کے ساتھ اپنے وطن مصر واپس آرہے تھے کہ انھوں نے آگ جلتی ہوئی دیکھی۔ راستہ معلوم کرنے اور سردی کی وجہ سے موسیٰ (علیہ السلام) آگ کی طرف گئے۔ اللہ تعالیٰ نے آوازدی کہ آپ مقدس زمین پر پہنچ گئے ہیں۔ لہٰذا جوتے اتار دیں اور جو کچھ آپ کی طرف نازل کیا جاتا ہے اسے توجہ سے سنیں۔ اس خوف اور کسمپرسی کے عالم میں موسیٰ (علیہ السلام) مصرواپس پہنچ کر اپنے کام کا آغاز کرتے ہیں۔ موسیٰ (علیہ السلام) کے مقابلے میں اپنے حالات پر غور فرمائیں کہ وہ کتنے آسان اور سازگار ہیں۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) بحکم خداوندی جوتا اتار کر وادئ مقدس میں آگے بڑھے تو آواز آئی اے موسیٰ (علیہ السلام) ! میں نے تجھے اپنی ذات اور کام کے لیے پسند کرلیا ہے۔ جو آپ کی طرف وحی کی جاتی ہے اسے پوری توجہ کے ساتھ سنو۔ یقین کرو کہ میں ہی اللہ ہوں میرے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔ بس میری ہی عبادت کرنا اور مجھے یاد رکھنے کے لے نماز ادا کرتے رہنا۔ بیسویں پارہ میں اس واقعہ کی یوں تفصیل بیان ہوئی ہے کہ جب موسیٰ (علیہ السلام)، حضرت شعیب (علیہ السلام) کے پاس معاہدہ کے تحت اپنی مدت پوری کرچکے تو وہ اپنی اہلیہ کو لے کر اپنے وطن مصر کی طرف چل پڑے۔ راستہ میں موسیٰ (علیہ السلام) نے طور پہاڑ کے دائیں جانب ایک روشنی دیکھی۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی اہلیہ کو فرمایا آپ یہاں ٹھہریں میں اس روشنی کے پاس جا کر آپ کے تانپنے کے لیے آگ لاتاہوں یا راستہ کے بارے میں معلومات لاؤں گا۔ جب موسیٰ (علیہ السلام) طور پہاڑ کے قریب اس کے دائیں جانب پہنچے تو ایک درخت تجلیات اور اللہ کی برکات کا مرکز بنا ہوا تھا۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے آواز سنی جس میں یہ پیغام تھا کہ میں ہی رب العالمین ہوں۔ (فَلَمَّا قَضٰی مُوْسَی الْاَجَلَ وَ سَارَ بِاَھْلِہٖٓ اٰنَسَ مِنْ جَانِبِ الطُّوْرِ نَارًا قَالَ لِاَھْلِہِ امْکُثُوْٓا اِنِّیْٓ اٰنَسْتُ نَارًا لَّعَلِّیْٓ اٰتِیْکُمْ مِنْھَا بِخَبَرٍ اَوْ جَذْوَۃٍ مِّنَ النَّارِ لَعَلَّکُمْ تَصْطَلُوْنَ فَلَمَّآ اَتٰھَا نُوْدِیَ مِنْ شَاطِئِ الْوَادِ الْاَیْمَنِ فِی الْبُقْعَۃِ الْمُبٰرَکَۃِ مِنَ الشَّجَرَۃِ اَنْ یّٰمُوْسٰٓی اِنِّیْٓ اَنَا اللّٰہُ رَبُّ الْعٰلَمِیْن) [ القصص : ٢٩، ٣٠] ” پھر جب موسیٰ (علیہ السلام) نے مقرر مدت پوری کردی اور وہاں سے اپنی اہلیہ کو ساتھ لے کر چلے تو طور کے ایک جانب آگ دیکھی موسیٰ نے اپنے اہل خانہ سے کہا تم ٹھہرو میں نے آگ دیکھی ہے میں وہاں جاتا ہوں شاید میں تمہارے پاس وہاں سے کوئی خبریا آگ کی کوئی چنگاری لاؤں تاکہ تم اسے تاپ سکو۔ جب موسیٰ وہاں گئے تو وادی کے دائیں کنارہ سے اس بابرکت مقام میں ایک درخت سے آواز آئی کہ اے موسیٰ ! بلاشبہ میں ہی اللہ رب العالمین ہوں۔“ یہاں موسیٰ (علیہ السلام) کو یہ ارشاد ہوا کہ میں ہی اللہ ہوں میرے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور میری یاد کے لیے نماز قائم کرو۔ اللہ تعالیٰ کی صفت ” اِلٰہ“ کے بارے میں کئی مرتبہ بیان ہوچکا ہے۔ اس موقعہ پر مختصر مفہوم جاننے کے لیے درج ذیل تفسیربالقرآن ملاحظہ فرمائیں۔ یاد رہے کہ عقیدۂ توحید کے بعد انسان پر جو سب سے پہلا فرض عائد ہوتا ہے وہ پانچ وقت کی نماز ہے۔ یہ ایسی عبادت اور ذکر ہے جس سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کو کوئی عبادت اور ذکر محبوب نہیں۔ (عن عَبْدِ اللّٰہِ ہُرَیْرَۃَ قَالَ سَأَلْتُ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) أَیُّ الْعَمَلِ أَحَبُّ إِلَی اللّٰہِ قَال الصَّلاَۃُ عَلَی وَقْتِہَاقَالَ ثُمَّ أَیُّ قَالَ ثُمَّ بِرُّ الْوَالِدَیْنِ قَالَ ثُمَّ أَیُّ قَالَ الْجِہَادُ فِی سَبِیل اللّٰہِ) [ رواہ البخاری : کتاب مواقیت الصلوٰۃ] ” حضرت عبداللہ بن مسعود ہُرَیْرَۃَفرماتے ہیں میں نے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں سب سے زیادہ پسندیدہ عمل کون سا ہے ؟ آپ نے فرمایا : نماز وقت پر ادا کرنا۔ پھر پوچھا تو فرمایا : والدین کے ساتھ اچھاسلوک کرنا۔ اس کے بعد پوچھنے پر آپ نے فرمایا اللہ کی راہ میں جہاد کرنا۔“ تفسیر بالقرآن اِلٰہ کے چیدہ چیدہ مرکزی معانی : ١۔ تمہارا الٰہ ایک ہی ہے اس کے سوا کوئی الٰہ نہیں وہ رحمن ورحیم ہے (البقرۃ۔ ١٦٣) ٢۔ یقیناً اللہ ایک ہی الٰہ ہے وہ اولاد سے پاک ہے آسمان و زمین کی ہر چیز اسی کے لیے ہے (النساء۔ ١٧١) ٣۔ اسکے سوا کوئی الٰہ نہیں مگر وہ اکیلا ہی ہے ( المائدۃ: ٧٣) ٤۔ فرما دیجیے کہ اللہ ایک ہی الٰہ ہے اور میں تمہارے شرک سے بری ہوں۔ (الانعام : ١٩) ٥۔ اللہ نے فرمایا دو الٰہ نہ بناؤ یقیناً الٰہ ایک ہی ہے۔ (النحل : ٥١) طه
10 طه
11 طه
12 طه
13 فہم القرآن ربط کلام : حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر نازل ہونے والی پہلی وحی میں دین کے تیسرے بنیادی عقیدہ کا یوں تعارف کروایا گیا ہے کہ اے موسیٰ (علیہ السلام) ! قیامت ہر صورت برپا ہونے والی ہے لیکن اس کے وقت کو میں نے چھپا رکھا ہے۔ قیامت کابرپا کرنے کا مقصد یہ ہے کہ تاکہ ہر شخص کو اس کی اچھی بری کوشش کا بدلہ چکایا جائے۔ اے موسیٰ ! وہ شخص یعنی فرعون جو اللہ اور آخرت پر ایمان نہیں رکھتا تجھے نبوت کے کام سے نہ روک دے کیونکہ اس نے اپنے آپ کو اپنی خواہشات کا بندہ بنا لیا ہے۔ اگر آپ توحید کی دعوت دینے اور نبوت کے کام سے رک گئے تو آپ ہلاک ہوجائیں گے۔ یہ بات پہلے بھی عرض ہوچکی ہے کہ دین کے اعتقادات میں توحید، رسالت اور آخرت کا عقیدہ بنیادی اور مرکزی حیثیت رکھتے ہیں۔ باقی امور انہی کے متعلقات اور ان کا عملی تقاضا ہیں۔ یہاں موسیٰ (علیہ السلام) کو نبوت سے سرفراز کرتے ہوئے عقیدہ توحید کا پہلا تقاضا یہ بتلایا ہے کہ اللہ کی بندگی کی جائے۔ اس کے بعد قیامت برپا کرنے کا مقصد بیان کیا ہے تاکہ ہر انسان اپنے اچھے برے اعمال کی جزا اور سزا پاۓ۔ یاد رہے کہ جو شخص عقیدۂ توحید کا دعویٰ کرتا ہے اسے نبی آخر الزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت اور قیامت کے قیام اور اس کی جزا، سزا پر بھی ایمان لانا ہوگا۔ ان میں کسی ایک بات کا انکار کرنا پوری کی پوری دعوت کا انکار کرنا ہے۔ اس فرمان سے یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ کسی ظالم کے خوف کی وجہ سے اللہ کی توحید کو نہ ماننا اور اس کا پرچار نہ کرنا اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنا ہے۔ طه
14 طه
15 طه
16 طه
17 فہم القرآن ربط کلام : حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو فکر آخرت کا سبق دے کر یہ بات سمجھائی گئی کہ اے موسیٰ (علیہ السلام) ! جو شخص آخرت پر ایمان نہیں رکھتا اس کے پیچھے لگنے اور اس سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ فرعون پرلے درجے کا نافرمان، باغی اور ظالم انسان تھا جس وجہ سے موسیٰ (علیہ السلام) کو پہلی وحی کے وقت بتلا یا اور سمجھایا گیا کہ اے موسیٰ (علیہ السلام) ! بے شک فرعون حد سے بڑھا ہوا ظالم اور نافرمان ہے۔ لیکن اس کے باوجود اس کے خوف کی وجہ سے آپ کو اس کی کسی بات کو نہیں ماننا چاہیے۔ اگر آپ خوف یا کسی وجہ سے حق بات کہنے سے رک گئے یا خوف کی وجہ سے اس کے سامنے جھک گئے تو یاد رکھیں آپ بھی ہلاک ہونے والوں میں شامل ہوں گے۔ اس کے بعد موسیٰ (علیہ السلام) کو از راہ محبت اور ان کی تربیت کی خاطر یہ سوال کیا کہ اے موسیٰ تیرے ہاتھ میں کیا ہے موسیٰ (علیہ السلام) نے عرض کیا میرے رب میرے ہاتھ میں لاٹھی ہے میں اس کے ساتھ بھیڑ بکریوں کے لیے درختوں سے پتے جھاڑتا ہوں جب تھک جاؤں تو اس کا سہارا لیتا ہوں میرے لیے اس میں اور بھی کئی فائدے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے صرف اتنا ہی استفسار فرمایا تھا کہ اے موسیٰ تیرے ہاتھ میں کیا ہے ؟ لیکن موسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ کی قربت اور محبت کی وجہ سے ایک سوال کے جواب میں تین جوابات عرض کیے جس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ بندے کو دعا اور اللہ کی عبادت کرتے ہوئے جب اس کی رحمت اور قرب کی لذت محسوس ہوتی ہے تو پھر اس پر وجد کی کیفیت طاری ہوجاتی ہے اگر قیام میں ہو تو اللہ تعالیٰ کو اس قدر یاد کرتا ہے کہ اسے اپنے قیام کی طوالت کا احساس نہیں رہتا۔ اگر رکوع اور سجود میں اللہ تعالیٰ کی قربت کا احساس ہوجائے تو دیر تک رکوع میں جھکا اور سجدے میں پڑا رہتا ہے۔ اسی قرب اور لذت کی وجہ سے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس قدر طویل قیام کرتے کہ آپ کے پاؤں پر سوجن پڑجاتی تھی۔ اسی سبب ہی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے ایک استفسار کے بدلے تین جواب عرض کیے تاکہ میں اپنے رب کے ساتھ دیر تک محو گفتگو رہ سکوں۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو معلوم تھا کہ میرے ہاتھ میں لاٹھی ہے اور اللہ تعالیٰ سے بھی کوئی چیز پوشیدہ نہیں ہے۔ مگر اس کے باوجود موسیٰ (علیہ السلام) کو ذہنی طور پر تیار کرنے کے لیے ارشاد فرمایا کہ اے موسیٰ ! تیرے ہاتھ میں کیا ہے ؟ موسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ کی محبت کے سرور میں آکر پے درپے کئی جواب عرض کیے۔ جب موسیٰ (علیہ السلام) کی بات پوری ہوئی اور ان کی کامل توجہ اپنی لاٹھی کی طرف مرکوز ہوگئی تو اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ اے موسیٰ ! اپنی لاٹھی کو زمین پر پھینکیں جو نہی موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے ہاتھ سے لاٹھی پھینکی تو وہ بہت بڑا اژدھا بن کر لہرانے لگا۔ موسیٰ (علیہ السلام) کو حکم ہوا کہ اس اژدھا سے ڈرنے کی ضرورت نہیں آگے بڑھ کر اسے پکڑ لیں یہ پہلے کی طرح پھر لاٹھی بن جائے گا۔ یاد رہے کہ سیرت کا معنی ہے حالت اور کیفیت سیرت طیبہ سے مراد پاکیزہ زندگی اور عمدہ کردار۔ اس کے اوّلین اور کامل ترین مصداق سرور دو عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سیرت کو پوری امت کے لیے اسوہ حسنہ قرار دیا گیا ہے۔ مسائل ١۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ کی محبت اور قربت محسوس کرتے ہوئے ایک سوال کے کئی جواب عرض کیے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو چوکنا کرنے کے لیے ان کے عصا کے بارے میں سوال کیا۔ تفسیر بالقرآن حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے عصا کا تذکرہ : حضرت موسیٰ کے عصا کا تذکرہ قرآن میں ١٠ بار آیا ہے۔ جو مندرجہ ذیل ہے۔ البقرۃ، ٦٠، الاعراف : ١٠٨، ١١٨، ١٦٠، الشعراء : ٢٣، ٤٥، ٦٣ النمل : ١٠، القصص : ٣١، طٰہٰ: ١٨ ١۔ موسیٰ (علیہ السلام) کی قوم نے جب پانی طلب کیا تو موسیٰ کو اپنا عصا پتھر پر مارنے کا حکم دیا گیا۔ (البقرۃ: ٦٠) ٢۔ جب فرعون لاؤ لشکر سمیت بنی اسرائیل کے خلاف چڑھ دوڑا تو موسیٰ کو اپنا عصا دریا پر مارنے کا حکم ہوا۔ (الشعراء : ٦٣) ٣۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) سے پوچھا کہ تیرے ہاتھ میں کیا ہے موسیٰ (علیہ السلام) نے جواب دیا کہ یہ میرا عصا ہے۔ (طٰہٰ: ١٧، ١٨) ٤۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے عصا کو جب زمین پر پھینکا تو وہ بہت بڑا اژدھا بن گیا۔ (النمل : ١٠) ٥۔ موسیٰ (علیہ السلام) عصا کو سانپ بنتا ہوا دیکھ کر ڈر کے مارے بھاگ کھڑے ہوئے۔ ( القصص : ٣١) طه
18 طه
19 طه
20 طه
21 طه
22 فہم القرآن ربط کلام : موسیٰ (علیہ السلام) کو اژدھا کا معجزہ دکھلانے کے بعد دوسرا معجزہ عطا کیا گیا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو جب پوری طرح اطمینان ہوا کہ یہ وہی لاٹھی ہے جو میرے ہاتھ میں تھی جس سے میں مذکورہ بالا کام لیا کرتا ہوں تو اس کے بعد موسیٰ (علیہ السلام) کو حکم ہوا کہ اپنا ہاتھ اپنی بغل میں رکھیں جب اسے بغل سے نکالیں گے تو وہ کسی تکلیف اور نقص کے بغیر تیرے سامنے چمک رہا ہوگا۔ اس طرح موسیٰ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے دو عظیم معجزے عنایت کیے گئے جن کے بعد موسیٰ کو حکم ہوا کہ اب فرعون کی طرف جائیں کیونکہ وہ بڑا ہی باغی اور نافرمان شخص ہے۔ اسی سورۃ کی چند آیات کے بعد موسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت ہارون کو یہ اطمینان بھی دلایا گیا کہ دونوں فرعون کے پاس جاؤ اس سے ڈرنے کی ضرورت نہیں۔ میں تمھارا رب ہوں تمھارے ساتھ ہوں گا اور تم میری نگاہوں کے سامنے ہو گے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے ہاتھ کے بارے میں مفسرین نے لکھا کہ جب وہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے اپنا ہاتھ اپنی بغل میں دبا کر باہر نکالتے تو سورج کی روشنی بھی اس کے سامنے چند ھیائی ہوئی نظر آتی تھی۔ مسائل ١۔ موسیٰ (علیہ السلام) کو فرعون کے سامنے دعوت توحید پیش کرنے کے لیے دو عظیم معجزات دئیے گئے۔ ٢۔ لاٹھی کا اژدھا بننا اور ہاتھ سورج کی مانند چمکنا۔ ٣۔ فرعون بڑا ہی ظالم اور خدا کا نافرمان تھا۔ تفسیر بالقرآن فرعون کے مظالم اور اس کی بغاوت : ١۔ فرعون نے اپنی قوم میں طبقاتی کشمکش پیدا کر رکھی تھی۔ (القصص : ٤) ٢۔ فرعون نے لوگوں پر ظلم کرنے کے لیے میخیں تیار کی ہوئی تھیں۔ (الفجر : ١٠) ٣۔ بنی اسرائیل قتل وغارت کے عذاب میں دو مرتبہ مبتلا کئے گئے۔ (الاعراف : ١٢٧ تا ١٢٩) طه
23 طه
24 طه
25 فہم القرآن ربط کلام : حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی فرعون کے پاس جانے سے پہلے اپنے رب کے حضور دو التجائیں۔ دعوت توحید کا کام ہر دور میں مشکل رہا ہے لیکن کچھ انبیائے کرام (علیہ السلام) کو یہ کام بالکل ہی غیر معمولی اور انتہائی مشکل حالات میں کرنا پڑا۔ جن میں چار انبیائے کرام (علیہ السلام) سرفہرست ہیں۔ حضرت نوح (علیہ السلام)، حضرت ابراہیم (علیہ السلام)، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور نبی آخرالزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جن حالات میں دعوت توحید کا کام کیا وہ تاریخ عالم میں مشکل ترین ادوار سمجھے جاتے ہیں۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے ساڑھے نو سو سال محنت فرمائی بالآخر دعا کی کہ الٰہی اب تو کفار کا ایک گھر بھی باقی نہیں رہنا چاہیے۔ (نوح : ٢٦) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نبوت ملنے کے باوجود انشراح صدر اور اطمینان قلب کے لیے ایک مشاہدہ کی درخواست کرتے ہیں جس کو اللہ تعالیٰ نے منظور کرتے ہوئے ان کے ہاتھوں چار پرندے ذبح کروانے کے بعد ان کے سامنے زندہ کیا۔ تفصیل کے لیے سورۃ البقرۃ کی آیت ٢٦٠ ملاحظہ فرمائیں۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو فرعون کے پاس جانے سے پہلے دو عظیم معجزے عنایت کیے گئے لیکن اس کے باوجود حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اپنے رب کے حضور مزید التجائیں کرتے ہیں۔ جہاں تک سرور دو عالم نبی آخر الزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا تعلق ہے آپ کو جونہی توحید کی دعوت دینے کا حکم ہوا آپ نے حالات کی پرواہ کیے بغیر اپنے کام کا آغاز کردیا حالانکہ اقتدار کے سوا فرعون اور ابو جہل کے درمیان خاص فرق نہ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ آپ نے بدر کے موقعہ پر ابو جہل کی لاش کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ یہ میری امت کا فرعون تھا۔ (سیرت ابن ہشا م) موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے رب کے حضور یہ درخواست کی کہ میرے رب میرا سینہ کھول دے میرے لیے میرا کام آسان کر دے اور میری زبان کی گرہ کھول دے تاکہ میرے مخاطب میری بات کو اچھی طرح سمجھ سکیں۔ یاد رہے کہ جب تک انسان کو اپنے کام کے بارے میں انشراح صدر نہ ہو وہ کام انسان اطمینان اور پوری یکسوئی سے نہیں کر پاتا۔ توحید کی دعوت ایسا کام ہے جس کے لیے انتہا درجے کا انشراح ضروری ہے بصورت دیگر انسان میں وہ ہمّت یا داعیہ پیدا نہیں ہوتا، جو اس اہم اور مشکل ترین کام کے لیے ضروری ہے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو اس عظیم دعوت کے مقابلہ میں اپنی کم مائیگی اور بے بضاعتی کا اور فرعون کے جورواستبداد کا اچھی طرح علم تھا اس لیے انھوں نے یہ بھی دعا کی کہ اے رب! اس مشکل کام کو میرے لیے آسان بنا دے اس کے ساتھ ہی انھوں نے اپنی قوت گویائی کے بارے میں دعا کی کہ بارے الٰہا! میری زبان پوری طرح واضح نہیں ہے اس کی گرہ بھی کھول دیجیے تاکہ میں مؤثر اور واضح انداز میں گفتگو کرسکوں زبان کی گرہ کے بارے میں مفسرین نے دو آراء کا اظہار کیا ہے کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ زبان کی گرہ سے مراد یہ ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) دس سال تک مدین میں ٹھہرے رہے تھے جس وجہ سے انھیں اپنی زبان بالخصوص اعلیٰ طبقہ کے انداز کے مطابق بات کرنے میں وہ روانی حاصل نہیں تھی جو دعوت توحید کا تقاضا تھا۔ دوسرے اہل علم کا خیال ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) جب چھوٹی عمر میں فرعون کے ہاں پرورش پار ہے تھے تو ایک دن انھوں نے معصومانہ ہاتھوں کے ساتھ فرعون کی داڑھی نوچ لی جس سے فرعون کو شک گزرا کہ یہ وہی بچہ ہے جو بڑا ہو کر میرے اقتدار کو چیلنج کرے گا۔ اس نے موسیٰ (علیہ السلام) کو قتل کرنا چاہا تو اس کی بیوی نے کہا کہ یہ معصوم ہے اسے کیا خبر کہ کس چیز کو پکڑنا ہے اور کس کو ہاتھ نہیں لگانا۔ جس پر آزمانے کے لیے موسیٰ کے سامنے ایک طرف چمکتے ہوئے ہیرے اور دوسری طرف آگ کے انگارے رکھ دیے گئے۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے آگ کے انگارے پکڑ کر منہ میں ڈال لیے جس وجہ سے ان کی زبان میں کچھ لکنت پیدا ہوگئی تھی اس کے لیے انھوں نے یہ دعا کی تھی۔ واللہ اعلم۔ مسائل ١۔ عقیدۂ توحید اور نیکی کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے انشراح صدر کی دعا کرنی چاہیے۔ ٢۔ ہر مشکل کے لیے اللہ تعالیٰ سے آسانی طلب کرنا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن حق ماننے اور اس کی اتّباع کے لیے انشراح صدر ضروری ہے : ١۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے انشراح صدر کی دعا کی۔ (طٰہٰ: ٢٥) ٢۔ اللہ تعالیٰ نے حق سمجھنے اور سمجھانے کے لیے نبی آخر الزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا سینہ کھول دیا۔ (الم نشرح : ١) ٣۔ اللہ تعالیٰ حق بات کے لیے جس کا سینا کھول دے اسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے نور بصیرت ہوجاتا ہے۔ (الزمر : ٢٢) ٤۔ حق جاننے اور اسے کما حقہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے۔ ( رَبِّ زِدْنِیْ عِلْمًا) پڑھنا چاہیے۔ (طٰہٰ: ١١٤) طه
26 طه
27 طه
28 طه
29 فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی اپنے رب کے حضور دوسری التجا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے رب کے حضور یہ التجا بھی کی کہ میرے رب میرے اہل میں سے میرے بھائی ہارون کو میرا وزیر بنا دیجیے میرے بھائی کے ساتھ میری کمر کو مضبوط کیجئے اور اسے میرے کام میں شریک بنا دیں تاکہ ہم کثرت کے ساتھ تیری حمد اور ذکر کریں بلاشبہ تو ہمیں اچھی طرح دیکھنے والا ہے۔ حضرت ہارون موسیٰ (علیہ السلام) سے تقریباً تین سال بڑے تھے فرعون کے مظالم اور حالات کی سنگینی کے باعث حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے پشتی بانی اور کام میں وسعت پیدا کرنے کے لیے اپنے رب کے حضور یہ دعا کی کہ میرے رب میرے بھائی کو میرے کام میں شریک بنا دے تاکہ ہم تیری حمد، اور ذکر زیادہ سے زیادہ کرسکیں تو ہر حال میں ہمیں دیکھنے والا ہے۔ حمد سے مراد زبانی اور جسمانی طور پر اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا اعتراف اور اس کا شکر ادا کرنا ہے ذکر سے مراد اللہ تعالیٰ کو یاد کرنا، نصیحت حاصل کرنا اور اللہ کی توحید بیان کرنا ہے ذکر کی وسعت کا ذکر کرتے ہوئے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یوں ارشاد فرمایا : رمی اور طواف بھی اللہ کے ذکر کے لیے : (عَنْ عَاءِشَۃَ (رض) عَنِ النَّبِیِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ إِنَّمَاجُعِلَ رَمْیُ الْجِمَارِ وَالسَّعْیُ بَیْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَۃِ لإِقَامَۃِ ذِکْرِ اللَّہِ قَالَ أَبُو عیسَی وَہَذَا حَدِیثٌ حَسَنٌ صَحِیحٌ)[ رواہ الترمذی : باب مَا جَاءَ کَیْفَ تُرْمَی الْجِمَارُ] ” حضرت عائشہ (رض) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتی ہیں آپ نے فرمایا رمی جمار اور صفامروہ کی سعی کو اللہ تعالیٰ کے ذکر کے لیے مقرر کیا گیا۔“ (عَنْ اَبِیْ مُوْسٰی (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَثَلُ الَّذِیْ ےَذْکُرُ رَبَّہُ وَالَّذِیْ لَا ےَذْکُرُ مَثَلُ الْحَیِّ وَالْمَےِّتِ) [ رواہ البخاری : باب فَضْلِ ذِکْرِ اللَّہِ عَزَّ وَجَلَّ] ” حضرت ابو موسیٰ اشعری (رض) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان بیان کرتے ہیں کہ اپنے رب کا ذکر کرنے والے کی مثال زندہ اور نہ کرنے والے کی مثال مردہ شخص کی سی ہے۔“ (عَنْ عَاءِشَۃَ قَالَتْ کَان النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَذْکُرُ اللَّہَ عَلَی کُلِّ أَحْیَانِہِ) [ رواہ مسلم : باب ذِکْرِ اللَّہِ تَعَالَی فِی حَالِ الْجَنَابَۃِ وَغَیْرِہَا] ” حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہر حال میں اللہ کا ذکر کرتے تھے۔“ (اَللّٰھُمَّ أَعِنِّیْ عَلٰی ذِکْرِ کَ وَشُکْرِکَ وَحُسْنِ عِبَادَتِکَ) [ رواہ ابوداوٗد : کتاب الصلاۃ] ” الٰہی! اپنے ذکر، شکر اور اچھی طرح عبادت کرنے پر میری مدد فرما۔“ مسائل ١۔ نیکی کے کام میں ایک دوسرے کی پشتی بانی کرنا چاہیے۔ ٢۔ دین کا داعی اپنے ساتھیوں کے ساتھ تقویّت محسوس کرتا ہے۔ ٣۔ توحید کا پرچار کرنا سب سے بڑا ذکر ہے۔ ٤۔ آدمی کو ہر حال اللہ کی حمد و ثنا اور اس کا ذکر کرنا چاہیے۔ ٥۔ آدمی کسی حالت میں بھی ہو اللہ تعالیٰ اسے دیکھ رہا ہوتا ہے۔ تفسیر بالقرآن ذکر کے معانی، اس کا حکم اور فضیلت : ١۔ اللہ کا ذکر صبح اور شام کثرت سے کرو۔ (آل عمران : ٤١) ٢۔ نماز جمعہ کی ادائیگی کے بعد زمین میں نکل جاؤ اور اللہ کو کثرت سے یاد کرو۔ (الجمعۃ: ١٠) ٣۔ ایام تشریق میں اللہ کو زیادہ یاد کرو۔ (البقرۃ: ٢٠٣) ٤۔ جب حج کے مناسک ادا کر چکو تو اللہ کو یاد کرو۔ (البقرۃ: ٢٠٠) ٥۔ جنگ کے دوران۔ اللہ کو کثرت سے یاد کرو تاکہ تم کامیاب ہوجاؤ۔ (الانفال : ٤٥) ٦۔ اے ایمان والو ! اللہ کو کثرت سے یاد کرو۔ (الاحزاب : ٤١) ٧۔ جب نماز ادا کر چکو تو اللہ کو یاد کرو۔ (النساء : ١٠٣) ٨۔ اللہ کو کثرت سے یاد کرنے والوں کے لیے مغفرت اور بڑا اجر ہے۔ (الاحزاب : ٣٥) ٩۔ اللہ کو کثرت سے یاد کرنے والے کامیاب ہونگے۔ ( الجمعہ : ١٠) طه
30 طه
31 طه
32 طه
33 طه
34 طه
35 طه
36 فہم القرآن ربط کلام : حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی دونوں دعائیں قبول ہونے کا اعلان اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کے دونوں مطالبے منظور کرلیے جس کے صلہ میں ان کی زبان کی گرہ کھل گئی اور وہ پیغمبرانہ شان کے ساتھ کلام اور خطاب کرنے لگے۔ اس کے ساتھ ان کے بھائی حضرت ہارون کو نبوت کے منصب سے سرفراز کیا گیا جو ہر کام میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی پیروی اور تائید کرتے تھے۔ موسیٰ (علیہ السلام) کے دونوں سوال پورے کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ اے موسیٰ ہم نے یہ دوسری مرتبہ تجھ پر احسان فرمایا ہے پہلا احسان یہ تھا کہ جب تیری والدہ کو ہم نے الہام کیا کہ جب موسیٰ (علیہ السلام) کی جان کا خطرہ محسوس ہو تو اسے صندوق میں ڈال کر دریا کے حوالے کر دے تاکہ اسے میرا اور موسیٰ (علیہ السلام) کا دشمن پکڑ لے دشمن سے مراد فرعون ہے جو سرکشی اور بغاوت کی انتہا کو پہنچا ہوا تھا۔ یہ پہلا شخص تھا جس نے اپنے آپ کو ” اَنَا رَبُّکُمُ الْاَعْلٰی“ سمجھا اور لوگوں سے کہلوایا اور اس نے محض نجومیوں کے کہنے پر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی وجہ سے بنی اسرائیل کے ہزاروں بچوں کو قتل کروا دیا تھا۔ لیکن اللہ تعالیٰ کی شان دیکھیے کہ اللہ تعالیٰ نے فرعون کے ہاتھوں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی پرورش کروائی۔ موسیٰ (علیہ السلام) ناصرف فرعون کے گھر پر ورش پاتے ہیں بلکہ ان کی والدہ ہی ان کی داعیہ اور مربیہ ٹھہرتی ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے انھیں صندوق دریا کے حوالے کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ اے اُمِّ موسیٰ فکر نہ کرنا ہم اسے تیرے پاس لے آئیں گے۔ اللہ تعالیٰ کا حکم جان کر اس نے موسیٰ (علیہ السلام) کو دریا کے حوالے کردیا۔ لیکن جب ماں کی مامتا تڑپ اٹھی تو ماں نے اپنی بیٹی یعنی موسیٰ (علیہ السلام) کی بہن کو بھیجا کہ بیٹی دریا کے کنارے کنارے جاؤ اور دیکھو تیرے بھائی کا صندوق کہاں پہنچتا ہے اور اسے کون پکڑتا ہے۔ دریا کی لہریں موسیٰ (علیہ السلام) کو لوریاں دیتے ہوئے فرعون کے محل تک پہنچا دیتی ہیں۔ دریا میں اٹکیلیاں کھاتا ہوا صندوق دیکھ کر فرعون کے خدام نے اسے پکڑلیا۔ جب صندوق کھولا تو اس میں موسیٰ (علیہ السلام) اپنے معصوم اور پر نور چہرے کے ساتھ مسکراتے ہوئے پائے۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) پر اپنی رحمت کا پرتو اس طرح ڈال رکھا تھا کہ جو بھی انھیں دیکھتا فریفتہ ہوجاتا۔ یہی حالت فرعون اور اس کی بیوی آسیہ کی تھی۔ جو نہی فرعون نے موسیٰ (علیہ السلام) کے چہرے پر نظر ڈالی تو دل ہار بیٹھا۔ اسے یہ احساس اور خیال تک نہ رہا کہ اس طرح دریا میں تیرتا ہوا۔ جو بچہ میں نے پکڑا ہے ہوسکتا ہے کہ یہ وہی بچہ ہو جس کی وجہ سے میں نے ہزاروں بچوں کو قتل کیا ہے۔ وہ ایسا کیوں نہ سوچ سکا اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ اے موسیٰ میں نے تجھ پر اپنی محبت ڈال دی تاکہ تو میری آنکھوں کے سامنے پرورش پائے۔ حضرت موسیٰ کی والدہ کے بارے میں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد : (عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ جُبَیْرِ بْنِ نُفَیْرٍ عَنْ اَبِیْہِ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَثَلُ الَّذِیْنِ یَغْزُوْنَ مَنْ اُمَّتِیْ وَیَأْخُذُوْنَ الْجُعْلَ یَتََقَوَّوْنَ عَلٰی عَدُوِّہِمْ مِثْلَ اُمِّ مُوْسٰی تُرْضِعُ وَلَدَہَا وَتَاأخُذُ اَجََرَہَا ) [ سنن الکبری للبیہقی] ” حضرت عبدالرحمن بن جبیر بن نفیر اپنے باپ سے بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میری امت کے غازیوں کی مثال جو مال غنیمت لیتے ہیں اور اپنے دشمن پہ جھپٹتے ہیں موسیٰ کی ماں کی طرح ہے جس نے اپنے بچے کو دودھ پلایا اور اجرت حاصل کی۔“ موسیٰ (علیہ السلام) پر اللہ تعالیٰ کا دوسرا احسان عظیم : بیسویں پارہ میں ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) جب بڑے ہوئے تو ایک دن دوپہر کے وقت انھوں نے دو آدمیوں کو باہم جھگڑتے ہوئے پایا جن میں ایک کا تعلق موسیٰ (علیہ السلام) کی قوم سے تھا اور دوسرا موسیٰ (علیہ السلام) کے دشمن فرعون کی قوم سے تعلق رکھتا تھا۔ موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھی نے اپنے دشمن کے مقابلے میں ان سے مدد چاہی موسیٰ (علیہ السلام) نے اس کے دشمن کو پیچھے دھکیلنے کے لیے دھکا دیا تو اس کے ساتھ ہی اس کی جان نکل گئی۔ اس پر موسیٰ (علیہ السلام) نے انتہائی افسوس اور غم کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا یہ تو شیطان کی طرف سے ایسا ہوا ہے۔ بلاشبہ شیطان انسان کا کھلا دشمن اور گمراہ کرنے والا ہے۔ اس کے ساتھ ہی موسیٰ (علیہ السلام) نے دعا کی کہ اے میرے رب میں نے اپنے آپ پر ظلم کیا ہے تو مجھے معاف کر دے۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو معاف کردیا کیونکہ وہ بخشنے اور رحم کرنے والا ہے۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ کا شکریہ ادا کرتے ہوئے عرض کی اے اللہ تو نے مجھ پر بہت کرم فرمایا ہے۔ آئندہ میں کسی مجرم کی مدد نہیں کروں گا۔ (القصص : ١٤ تا ١٧) اسی واقعہ کو یہاں مختصریوں بیان فرمایا کہ اے موسیٰ (علیہ السلام) تجھ پر اللہ تعالیٰ نے اس وقت بھی احسان فرمایا جب تو نے ایک شخص کو قتل کیا تھا ہم نے تجھے اس کے ساتھ اچھی طرح آزمایا اور نجات دی پھر تو کئی سال تک مدین میں ٹھہرا رہا پھر ہم اپنے فیصلہ کے مطابق تجھے بروقت مصرلے آئے۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر اپنی محبت ڈال دی۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو ان کی والدہ کے ہاں لوٹا دیا۔ ٣۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) آٹھ سے دس سال تک مدین میں قیام پذیر رہے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو اپنے لیے منتخب فرمالیا۔ طه
37 طه
38 طه
39 طه
40 طه
41 طه
42 فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ نے جس کام کے لیے موسیٰ (علیہ السلام) کو منتخب کیا تھا اس کے لیے موسیٰ (علیہ السلام) کو پہلا حکم۔ انبیاء (علیہ السلام) میں موسیٰ (علیہ السلام) پہلے پیغمبر ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے نبوت عطا کرنے کے ساتھ ہی دو عظیم معجزے عنایت فرمائے۔ موسیٰ (علیہ السلام) اپنی بغل میں ہاتھ دبا کر باہر نکالتے تو وہ سورج سے زیادہ روشن دکھائی دیتا اپنا عصا پھینکتے تو اللہ کے حکم سے وہ اژدھا بن جاتا اس کے ساتھ کئی کام لیتے اس کے باوجود حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ سے اپنے بھائی ہارون کو نبوت دینے اور اپنی زبان کی لکنت دور کرنے کی درخواست کی دونوں درخواستوں کو من و عن قبول کرلیا گیا۔ اب موسیٰ (علیہ السلام) کو حکم ہوا کہ تو اور تیرا بھائی دلائل اور معجزات کے ساتھ فرعون کے پاس جاؤ۔ لیکن کسی لمحہ میری یاد سے سستی نہ کرنا۔ فرعون کے پاس جاؤ مگر یاد رکھنا وہ بڑا ہی باغی اور سرکش ہے۔ اس کے باوجود اس کے ساتھ نہایت ہی نرم لب و لہجہ کے ساتھ بات کرنا۔ ممکن ہے کہ وہ اس پر غور کرے یا اپنے رب سے ڈر جائے۔ اس موقع پر موسیٰ (علیہ السلام) کو بالخصوص دو نصیحتیں کی گئیں۔ ١۔ فرعون کی طرف جاتے ہوئے اور اس سے گفتگو کے دوران اپنے رب کو مسلسل یاد کرتے رہنا۔ کیونکہ رب کی یاد ہی انسان کو دشمن کے خوف اور ہر قسم کی گھبراہٹ سے محفوظ رکھتی ہے۔ اس لیے قرآن مجید کا ارشاد ہے کہ لوگو! اللہ کا ذکر دلوں کے لیے اطمینان اور تسکین کا باعث ہے۔ (الرعد : ٢٨) ٢۔ فرعون کو توحید کی دعوت دیتے ہوئے سخت لب ولہجہ اور ترش الفاظ استعمال کرنے کی بجائے نرم انداز اور الفاظ میں سمجھانا کیونکہ جو بات اچھے انداز میں کی جائے اس کا بہتر نتیجہ نکلنے کی امید ہوتی ہے اگر اچھی بات برے انداز اور تلخ لہجہ میں کی جائے تو اس کا نتیجہ اکثر منفی نکلتا ہے۔ اس لیے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو تلقین کی گئی کہ وہ فرعون کی تلخی کا جواب تلخی سے دینے کے بجائے نرمی اختیار کریں۔ (اُدْعُ اِلٰی سَبِیْلِ رَبِّکَ بالْحِکْمَۃِ وَ الْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ وَ جَادِلْھُمْ بالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ اِنَّ رَبَّکَ ھُوَ اَعْلَمُ بِمَنْ ضَلَّ عَنْ سَبِیْلِہٖ وَ ھُوَ اَعْلَمُ بالْمُھْتَدِیْنَ) [ النحل : ١٢٥] ” اے پیغمبر لوگوں کو دانش اور اچھی نصیحت سے اپنے پروردگار کے راستے کی طرف بلاؤ۔ بہت ہی اچھے طریق سے ان سے بحث کرو۔ جو اس کے رستے سے بھٹک گیا تمہارا پروردگار اسے خوب جانتا ہے اور جو راستے پر چلنے والے ہیں ان سے بھی خوب واقف ہے۔“ (وَلاَ تَسْتَوِی الْحَسَنَۃُ وَلا السَّیِئَۃُادْفَعْ بالَّتِیْ ہِیَ اَحْسَنُ فَاِِذَا الَّذِیْ بَیْنَکَ وَبَیْنَہٗ عَدَاوَۃٌ کَاَنَّہٗ وَلِیٌّ حَمِیْمٌ) [ حم السجدۃ: ٣٤] ” اور بھلائی اور برائی برابر نہیں ہو سکتی۔ ایسے طریق سے جواب دو جو بہت اچھا ہو۔ ایسا کرنے سے تم دیکھو گے کہ جس میں اور تم میں دشمنی تھی گویا وہ تمہارا گرم جوش دوست ہے۔“ مسائل ١۔ مخالف کس قدر ہی مغرور اور متکبر کیوں نہ ہو دعوت کے دوران اسے بھی نرمی کے ساتھ سمجھانا چاہیے۔ ٢۔ فرعون پرلے درجے کا باغی اور اپنے رب کا نافرمان تھا۔ ٣۔ مبلغ کو اپنے رب کے ذکر سے غافل نہیں رہنا چاہیے۔ ٤۔ اللہ کو بہت زیادہ یاد کیا کرو تاکہ تم کامیاب ہوجاؤ۔ تفسیر بالقرآن ذکر کے مختصر دینی اور دنیوی فوائد : ١۔ اللہ کا ذکر دلوں کے لیے سکون و اطمینان کا باعث ہے۔ (الرعد : ٢٨) ٢۔ اپنے رب کی حمد و تسبیح بیان کرو اور سجدہ کرنے والوں میں سے ہوجاؤ۔ (الحجر : ٩٨) ٣۔ اللہ کے ذکر سے غافل لوگ گھاٹے میں رہتے ہیں۔ (المنافقون : ٩) ٤۔ اللہ کے ذکر سے اعراض کرنا اس کے عذاب کو دعوت دینا ہے۔ (الجن : ١٧) ٥۔ اللہ کو کثرت کے ساتھ یاد کرو تاکہ تم کامیاب ہوجاؤ۔ (الجمعۃ: ١٠ ) ٦۔ اللہ کو کثرت سے یاد کرنے والوں کے لیے مغفرت اور بڑا اجر ہے۔ (الاحزاب : ٣٥) ٧۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ تم مجھے یاد کرو میں تمہیں یاد کروں گا۔ (البقرۃ : ١٥٢) طه
43 طه
44 طه
45 فہم القرآن ربط کلام : گزشتہ سے پیوستہ عظیم معجزات پانے کے باوجود حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا فرعون سے خوفزدہ ہونا۔ حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون ( علیہ السلام) کو فرعون کی طرف بھیجنے سے پہلے بتلا دیا گیا تھا کہ فرعون بغاوت اور نافرمانی میں تمام حدیں پھلانگ چکا ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرعون کے ہاں پرورش پائی تھی وہ اسے بہت قریب سے جانتے تھے کہ فرعون بڑا ہی ظالم اور سفاک انسان ہے۔ اس کے ساتھ یہ بھی سچ ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے مصر کو اس لیے چھوڑا تھا کہ وہاں ان کے ہاتھوں حکمران پارٹی کا سھوًا ایک آدمی قتل ہوگیا تھا۔ ان وجوہات کی بنا پر حضرت موسیٰ اور ہارون نے اپنے رب کے حضور اپنے دل کی کیفیت عرض کرتے ہوئے فریاد کی کہ اے ہمارے رب ہمیں شدید خطرہ ہے کہ فرعون ہم پر زیادتی کرے گا۔ اس کے جواب میں حضرت موسیٰ اور ہارون ( علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے اطمینان دلاتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ آپ دونوں کو فرعون سے ڈرنے کی ضرورت نہیں یقین رکھو کہ میں تمھاری باتیں سن رہا ہوں گا اور ہر لمحہ تمھاری دستگیری کروں گا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ ہر کسی کی بات سنتا ہے اور ہر چیز اس کے سامنے ہے لیکن یہاں یہ الفاظ استعمال فرما کر حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون ( علیہ السلام) کو بالخصوص یہ تسلی دی گئی ہے کہ فرعون سے ڈرنے اور دبنے کی ضرورت نہیں کیونکہ میری معیت اور نگرانی ہر وقت تمھارے ساتھ ہوگی۔ جس کو اللہ تعالیٰ کی معیت اور خصوصی توجہ نصیب ہوجائے وہ اپنے دشمن سے کبھی مرعوب نہیں ہوتا۔ اس سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ وقت کا نبی بھی چند لمحوں کے لیے کسی دشمن سے خوفزدہ ہوسکتا ہے۔ حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون ( علیہ السلام) کو اس بات کی تسلی دینے کے بعد حکم فرمایا کہ اب فرعون کے پاس جاؤ اور اسے بتلاؤ کہ ہمیں ہمارے رب نے رسول منتخب کیا ہے۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ بنی اسرائیل کو ہمارے ساتھ جانے کی اجازت دو اور ان پر ظلم کرنے سے باز آجاؤ۔ ہم تیرے پاس تیرے رب کی نشانیوں کے ساتھ آئے ہیں۔ جو اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ ہدایت کی اتباع کرے گا وہ سلامت رہے گا۔ ہمیں اللہ تعالیٰ نے بذریعہ وحی بتلایا ہے کہ جس نے اللہ تعالیٰ کی ہدایت کو جھٹلایا اور اس سے منہ پھیر لیا اسے عذاب میں مبتلا کیا جائے گا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی پہلی ملاقات میں فرعون کو دین کے تین بنیادی امور سے آگاہ فرمایا اور بنی اسرائیل کی آزادی کا مطالبہ کیا۔ ١۔ رسول کا معنٰی ہے لوگوں کو اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچانے اور اس پر عمل کرکے دکھلانے والا۔ ٢۔ رب کا معنٰی ہے کائنات کا خالق، مالک اور ہر کسی کی ضرورت پوری کرنے والا۔ ٣۔ جو شخص اللہ تعالیٰ کی ہدایت کو ٹھکرائے گا وہ قیامت کے دن عذاب میں مبتلا ہوگا۔ ٤۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور ہارون (علیہ السلام) نے اپنی قوم کی آزدی کا بھی مطالبہ کیا کیونکہ آزاد قوم ہی فکر و عمل کے حوالے سے اسلامی اقدار پر عمل اور انقلاب برپا کرسکتی ہے۔ گویا کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا پہلا خطاب عقیدہ توحید، نبوت کے اغراض و مقاصد، فکرآخرت اور قوم کی آزادی کے مطالبہ پر مشتمل تھا۔ یہی دین کے بنیادی عناصر ہیں باقی مسائل انہی کی تشریح اور تقاضے ہیں۔ مسائل ١۔ جب اللہ کی معیت حاصل ہو تو کسی سے ڈرنے کی ضرورت نہیں۔ ١۔ جو شخص ہدایت کی اتباع کرے گا اس کے لیے دنیا اور آخرت میں سلامتی ہوگی۔ ٢۔ جو اللہ تعالیٰ کی ہدایت سے انحراف کرے گا وہ دنیا میں پریشان اور آخرت میں عذاب میں مبتلا ہوگا۔ تفسیر بالقرآن اتّباع ہدایت کے دنیا اور آخرت میں فوائد : ١۔ اللہ کی ہدایت پر عمل کرنے والا بے خوف ہوگا۔ (البقرۃ: ٣٨) ٢۔ امت کو قرآن کی اتباع کا حکم دیا گیا ہے قرآن وسنت کو چھوڑ کر دوسرے کی اتباع نہیں کرنی چاہیے (الاعراف : ٣) ٣۔ میں تو اسی بات کی پیروی کرتا ہوں جس کی میری طرف وحی کی گئی ہے۔ (یونس : ١٥۔ الاعراف : ٢٠٣) ٤۔ اپنے رب کی ہدایت پر چلنے والے ہی فلاح پانے والے ہیں۔ (لقمان : ٥، البقرۃ: ٥) ٥۔ اے ایمان والو! اگر تم ہدایت پر رہو تو گمراہوں کی گمراہی تمھیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتی۔ (المائدۃ: ١٠٥) ٦۔ قرآن مجید سرا پارحمت اور کتاب ہدایت ہے۔ (لقمان : ٣) ٧۔ اللہ کے لیے خرچ کرنے والے کو کوئی خوف نہیں۔ (البقرۃ : ٢٦٢) ٨۔ نماز اور زکوٰۃ ادا کرنے والے کو کوئی خوف نہیں۔ (البقرۃ : ٢٧٧) ٩۔ ایمان پر استقامت دکھلانے والوں کو کوئی خوف نہیں۔ (الاحقاف : ١٣) ١٠۔ اللہ کے دوستوں کو کوئی خوف نہیں۔ (یونس : ٦٢) طه
46 طه
47 طه
48 طه
49 فہم القرآن ربط کلام : فرعون کا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ تکرار۔ فرعون نے حقیقت تسلیم کرنے کی بجائے موسیٰ (علیہ السلام) کو الجھانے اور حواریوں کے سامنے اپنی برتری ثابت کرنے کے لیے دو سوال کیے۔ پہلا سوال یہ تھا اے موسیٰ ! تمھارا رب کون ہے ؟ فرعون اس بات سے یہ ثابت کرنا چاہتا تھا کہ میں لوگوں کی ضرورتیں پوری کرتا ہوں اس لیے کسی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ میرے سوا کسی کو رب مانے اور اس کا حکم تسلیم کرے۔ اسی سوچ کی وجہ سے فرعون نے اپنی عوام میں ” اَنَا رَبُّکُمُ الْاَعْلٰی“ کا نظریہ پیش کیا اور اسے تسلیم کروانے کے لیے لوگوں پر جبر کرتا تھا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے موقعہ کی نزاکت اور اس کے سوال کی حقیقت جانتے ہوئے۔ اللہ تعالیٰ کی دو ایسی صفات کا ذکر فرمایا جس کا انکار کرنا اس کے بس کی بات نہ تھی۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا کہ ہمارا رب وہ ہے جس نے ہر چیز کو اس کے حقیقی وجود اور اس کی صحیح شکل و صورت کے ساتھ پیدا فرما کر اس کی راہنمائی کا بندوبست فرمایا ہے۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ بطخ کا بچہ انڈے سے نکل کر پانی کی طرف جاتا ہے۔ مرغی کا بچہ انڈے سے نکلتے ہی مرغی کے قدموں کی طرف لپکتا ہے۔ انسان پیدا ہوتے ہی ماں کی چھاتی کے ساتھ چمٹتا ہے۔ اس طرح ہر نومولود کو نہ صرف اپنے جنم دینے والی کا علم ہوتا ہے بلکہ وہ اپنی مامتا کی بولی سمجھنے کے ساتھ خود بخود اس ماحول کی تلاش میں نکل کھڑا ہوتا ہے۔ جس میں رہنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے اسے پیدا کیا ہے۔ یہاں ہدایت سے پہلی مراد فطری رہنمائی ہے جس بنا پر گونگا بہر ابچہ بھی چہرے کے اتار اور چڑھاؤ اور آنکھوں کے اشارے سے مامتا کو اپنی ضرورتوں سے آگاہ کرلیتا ہے۔ فرعون کا دوسرا سوال یہ تھا کہ جو لوگ توحید و رسالت اور آخرت کی جزا، سزا کے قائل نہ تھے اور اس دنیا سے چل بسے ان کا انجام کیا ہوگا ؟ فرعون کا خیال تھا کہ موسیٰ (علیہ السلام) اس کا جواب یہ دے گا کہ وہ سب کے سب جہنم میں جائیں گے۔ جس سے فائدہ اٹھا کر میں لوگوں کو اس کے خلاف بھڑکا ؤنگا کہ یہ شخص کس قدر گستاخ اور ظالم ہے کہ ہمارے فوت شدہ بزرگوں کو گمراہ اور جہنمی قرار دیتا ہے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اس سوال کا پس منظر سمجھ چکے تھے۔ لہٰذا پیغمبرانہ بصیرت سے کام لیتے ہوئے فرمایا ان کا حال رب جانتا ہے جو نہ بھولتا ہے اور نہ اس کے احاطۂ علم سے کوئی چیز غائب ہوتی ہے یہاں تک کہ اس نے ہر چیز کے بارے میں سب کچھ لوح محفوظ میں لکھ رکھا ہے۔ (سَوَآءٌ مِّنْکُمْ مَّنْ اَسَرَّ الْقَوْلَ وَ مَنْ جَھَرَ بِہٖ وَ مَنْ ھُوَ مُسْتَخْفٍ بالَّیْلِ وَ سَارِبٌ بالنَّھَارِ لَہٗ مُعَقِّبٰتٌ مِّنْ بَیْنِ یَدَیْہِ وَ مِنْ خَلْفِہٖ یَحْفَظُوْنَہٗ مِنْ اَمْرِ اللّٰہِ اِنَّ اللّٰہَ لَا یُغَیِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰی یُغَیِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِھِمْ وَ اِذَآ اَرَاد اللّٰہُ بِقَوْمٍ سُوْٓءً افَلَا مَرَدَّلَہٗ وَمَا لَھُمْ مِّنْ دُوْنِہٖ مِنْ وَّال) [ الرعد : ١٠۔ ١١] ” کوئی تم سے چپکے سے بات کہے یا پکار کر یا رات کو کہیں چھپ جائے یا دن کی روشنی میں کھلم کھلا چلے پھرے اس کے نزدیک برابر ہے۔ اس کے آگے اور پیچھے اللہ کے چوکیدار ہیں جو اللہ کے حکم سے اس کی حفاظت کرتے ہیں اللہ اس نعمت کو جو کسی قوم کو حاصل ہے نہیں بدلتا جب تک کہ وہ اپنی حالت کو نہ بدلے اور جب اللہ کسی قوم کے ساتھ برائی کا ارادہ کرتا ہے تو پھر وہ پھر نہیں سکتی۔“ مسائل ١۔ ہر چیز اللہ تعالیٰ کے علم میں ہے۔ وہ نہ بھولتا ہے نہ ہی اس سے بے خبر ہوتا ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کے بارے میں لوح محفوظ میں سب کچھ لکھ رکھا ہے۔ ٣۔ مبلغ کو سوال کا جواب خداداد بصیرت کے ساتھ دینا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن ہر چیز اللہ تعالیٰ کے احاطہ علم میں ہے : ١۔ اللہ تعالیٰ وسیع علم والا ہے۔ (البقرۃ: ١١٥) ٢۔ اللہ تعالیٰ ہر چیز کو جانتا ہے۔ (البقرۃ: ٢٩) ٣۔ ہمارے رب کا علم ہر چیز کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ (الاعراف : ٨٩) ٤۔ ہر چیز اللہ تعالیٰ کے احاطۂ علم میں ہے۔ (الطلاق : ١٢) ٥۔ بے شک اللہ لوگوں کے اعمال کا احاطہ کرنے والا ہے۔ (آل عمران : ١٢٠) ٦۔ یقیناً اللہ ہر چیز کو گھیرنے والا ہے۔ (حٰم السجدۃ: ٥٤) ٧۔ اللہ ہر چیزکا احاطہ کرنے والا ہے۔ (النساء : ١٢٦) طه
50 طه
51 طه
52 طه
53 فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ کی صفات کا مزید تذکرہ۔ فرعون اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی گفتگو کا ایک حصہ بیان کرنے کے بعد یہاں بھی اللہ تعالیٰ نے اپنے بہترین اسلوب بیان اور کلام کے موقع محل کے مطابق اپنی توحید کے دلائل دیتے ہوئے انسان کو سمجھایا ہے کہ اے انسان اللہ وہ ذات ہے جس نے تمھارے لیے زمین کو فرش بنایا۔ پھر اس میں آمد و رفت کے لیے تمھارے لیے راستے بنائے۔ وہی آسمان سے بارش برساتا ہے اور پھر اس بارش کے ساتھ مختلف قسم کے نباتات پیدا کرتا ہے۔ ان کو اگانے کا مقصد یہ ہے کہ خود کھاؤ اور اپنے جانوروں کو کھلاؤ۔ اگر تم عقل سے کام لو تو ان میں تمھارے لیے اپنے رب کو پہچاننے کے بہت سے دلائل ہیں۔ اس فرمان میں توحید کے اس قدر ٹھوس اور سادہ دلائل دیے گئے ہیں جن کا متعصب آدمی کے سوا کوئی شخص انکار نہیں کرسکتا۔ کیونکہ زمین کو فرش بنانے، اس میں راستے نکالنے، آسمان سے بارش برسانے اور اس سے نباتات اگانے میں اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کا عمل دخل نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کے کلام پر قربان جائیں یہاں اس لیے یہ دلائل دیے گئے ہیں کیونکہ فرعون نے خاص و عوام کا عقیدہ بنا رکھا تھا کہ ملک کی شادابی، خوشحالی اور ترقی میرے وجود کی برکت اور منصوبہ بندی کا نتیجہ ہے۔ اسی بنا پر اس نے اپنی قوم کو باطل عقیدہ پر پختہ رکھنے اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی دعوت کو ناکام کرنے کے لیے کہا تھا۔ ” اے میری قوم ! کیا میں مصر کا بلاشرکت غیرے حکمران نہیں ہوں ؟ اور میں نے اپنے پاؤں تلے بھی نہریں جاری کر رکھی ہیں تمھیں اس پر غور کرنا چاہیے۔ فرعون کے الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس نے شہروں میں زیر زمین (Water System) زراعت کے لیے آبپاشی کا منفرد نظام قائم کر رکھا تھا بے شک میں موسیٰ کے مقابلہ میں ہر اعتبار سے بہتر ہوں۔ موسیٰ تو نہ کوئی عزت رکھتا ہے اور نہ ہی صاف گفتگو کرسکتا ہے۔ (الزخرف : ٥٢) یاد رہے یہاں عقل کے لیے ” نُہٰی“ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے جس کا معنی ہے ” روکنے والی چیز۔“ کیونکہ عقل سلیم انسان کو برائی اور بے حیائی سے روکتی ہے اس لیے اس کے لیے ” النُّھٰی“ کا لفظ استعمال کیا ہے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے یہ لفظ استعمال فرما کر فرعون اور اس کے ساتھیوں کو بتلایا کہ اگر تمہاری عقل کام کرتی ہے تو تمہیں اپنے باطل عقیدہ اور ظالمانہ رویے سے باز آجا نا چاہیے۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے ہی لوگوں کے لیے زمین کو فرش بنایا اور راستوں کی رہنمائی کی۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ ہی آسمان سے بارش برسا کر مختلف قسم کی نباتات پیدا کرتا ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ نے نباتات، فصلیں اور ہر قسم کا اناج اور پھل اس لیے پیدا کیا تاکہ انسان خود کھائے اور اپنے جانوروں کو کھلائے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ کو پہچاننے کے لیے نباتات میں اس کی قدرت کے بے شمار دلائل ہیں۔ ٥۔ عقل سلیم وہ ہے جو انسان کو ہر قسم کی برائی اور نقصان سے روکے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ کس طرح اناج، پھل اور نباتات کو پیدا کرتا ہے : ١۔ اللہ پانی سے تمہارے لیے کھیتی، زیتون، کھجور اور انگور اگاتا ہے۔ (النحل : ١١) ٢۔ اللہ نے کھجوروں اور انگوروں کے باغات پیدا کیے۔ (المومنون : ١٩) ٣۔ اللہ نے زمین میں کھجوروں اور انگوروں کے باغات پیدا کیے۔ (یٰس : ٣٤) ٤۔ اللہ نے پانی سے ہر قسم کی نباتات کو پیدا کیا۔ (الانعام : ٩٩) ٥۔ اللہ نے باغات، کھجور کے درخت اور کھیتی پیدا کی جوذائقہ کے لحاظ سے مختلف ہیں۔ (الانعام : ١٤١) ٦۔ تمہارے لیے مسخر کیا نباتات کو زمین پر پھیلاکر، ان کی اقسام مختلف ہیں۔ (النحل : ١٣) ٧۔ انہوں نے کھیتی اور مویشیوں میں سے کچھ حصہ اللہ کا مقرر کیا ہے جو اللہ ہی نے پیدا فرمائے ہیں۔ (الانعام : ١٣٦) طه
54 طه
55 فہم القرآن ربط کلام : جس زمین کو فرش بنایا گیا ہے اسی سے نباتات اگتی ہیں اور اسی سے انسان کو پیدا کیا گیا۔ اسی میں انسان نے جانا ہے اور اسی سے دوسری مرتبہ اسے نکالا جائے گا۔ اے لوگو! یہ حقیقت ہمیشہ یاد رکھو کہ جو زمین تمھارے لیے فرش بنائی گئی اور جس کو تم اپنے پاؤں تلے روندتے ہو۔ اسی زمین سے تمھیں پیدا کیا گیا ہے اسی میں تم نے دفن ہونا ہے اسی سے تمھیں دوبارہ زندہ کیا جائے گا۔ گویا کہ انسان کی پوری زندگی کو تین مراحل میں تقسیم کردیا گیا ہے۔ جس سے بڑے سے بڑے باغی اور فرعون کو بھی مفرّحاصل نہیں تھا۔ زمین سے نباتات اگانے کا حوالہ دے کر ثابت کیا ہے کہ جس طرح زمین میں پڑا بیج اپنے وقت پر اللہ کے حکم سے اگتا ہے اسی طرح اس زمین سے لوگوں کو قیامت کے دن نکال لیا جائے گا۔ پہلا مرحلہ : حضرت آدم (علیہ السلام) کا مٹی سے پیدا کیا جانا اور اس کی تمام ضروریات کا تعلق مٹی سے قائم کیا جانا ہے۔ بے شک اس کی کوئی بھی صورت ہو بالآخر اس کا تعلق مٹی سے ہی جڑتا ہے۔ جہاں تک جمادات، معدنیات، نباتات حتی کہ انسان جو کچھ کھاتا، پیتا اور پہنتا ہے اس کا تعلق بھی بالواسطہ یا بلا واسطہ زمین سے ہی ہوتا ہے۔ دوسرا مرحلہ : انسان کی موت جس صورت میں ہو بے شک وہ پانی میں ڈوب کر مرے یا اسے جلا دیا جائے بالآخر اس نے خاک کے ساتھ ملنا ہے۔ تیسرا مرحلہ : کوئی مر کر جی اٹھنے پر یقین کرے یا اس کا انکار کرے اسے ہر صورت دوبارہ زندہ کیا جائے گا۔ اس لیے ارشاد ہوا ہے کہ اے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آخرت کے منکروں کو خبردار کردوکہ تم لوہابن جاؤ، پتھر یا تمھارے دل میں جو آتا ہے اس کے مطابق بن جاؤ اللہ تعالیٰ تمھیں پہلے کی طرح ضرور زندہ کرے گا۔ (بنی اسرائیل ،: ٤٩‘ ٥٠‘ ٥١) اس آیت سے یہ استدلال کرنے کی گنجائش بھی موجود ہے۔ جس کی بعض ضعیف روایات سے تائید بھی ہوتی ہے کہ انسان جس مٹی سے پیدا کیا گیا اسی خطۂ زمین ہی میں دفن کیا جائے گا۔ (واللہ اعلم) (عَنْ عَاءِشَۃَ (رض) قَالَتْ قَالَ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خُلِقَتِ الْمَلاَ ءِکَۃُ مِنْ نُورٍ وَخُلِقَ الْجَانُّ مِنْ مَارِجٍ مِنْ نَارٍ وَخُلِقَ آدَمُ مِمَّا وُصِفَ لَکُمْ )[ رواہ مسلم : باب فِی أَحَادِیثَ مُتَفَرِّقَۃٍ] ” حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ملائکہ کو نور سے پیدا کیا گیا ہے اور جنوں کو بھڑکتی ہوئی آگ سے اور آدم کو مٹی سے پیدا کیا گیا ہے۔“ مسائل ١۔ انسان مٹی سے ہی پیدا کیا گیا ہے۔ اسی میں اس نے جانا ہے اور اسی سے ہی دوسری مرتبہ اٹھایا جائے گا۔ تفسیر بالقرآن انسانی تخلیق کے مختلف مراحل : ١۔ تخلیق انسان کے مختلف مراحل۔ (المؤمنون : ١٢ تا ١٤) ٢۔ حضرت آدم (علیہ السلام) مٹی سے پیدا ہوئے۔ (آل عمران : ٥٩) ٣۔ ہم نے انسان کو مٹی کے جوہر سے پیدا کیا۔ (المومنون : ١٢) ٤۔ یقیناً ہم نے انسان کو کھنکھناتی ہوئی مٹی سے پیدا کیا۔ (الحجر : ٢٦) ٥۔ کیا تو اس ذات کا کفر کرتا ہے جس نے تجھے مٹی سے پیدا فرمایا۔ (الکہف : ٣٧) ٦۔ اللہ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی یہ بھی ہے کہ اس نے تمہیں مٹی سے پیدا فرمایا۔ (الروم : ٢٠) ٧۔ اللہ نے انسان کو نطفہ سے پیدا کیا۔ (النحل : ٤) ٨۔ اللہ نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا، پھر اسے نطفہ بنایا، پھر اس سے خون کا لوتھڑا، پھر اس سے بوٹی بنا کر انسان بنایا۔ (الحج : ٥) ٩۔ اللہ نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا، پھر نطفہ، پھر لوتھڑا بنا کر تمہیں پیدا کرتا ہے کہ تم بچے ہوتے ہو۔ (المومن : ٦٧) ١٠۔ حضرت حواحضرت آدم سے پیدا ہوئی۔ (النساء : ١) ١١۔ ہم نے انسان کو مخلوط نطفہ سے پیدا کیا۔ (الدھر : ٢) ١٢۔ اللہ نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا، پھر نطفہ سے، پھر تمہارے جوڑے جوڑے بنائے۔ (فاطر : ١١) طه
56 طه
57 فہم القرآن ربط کلام : حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور فرعون کے درمیان کشمکش کا دوسرا مرحلہ۔ فرعون نے اقتدار کے نشہ میں آکر موسیٰ (علیہ السلام) کی طرف سے پیش کیے ہوئے تمام دلائل اور بڑے بڑے معجزات ٹھکرا دئیے۔ اقتدار بچانے، عوام اور لیڈروں کو ساتھ رکھنے کے لیے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت ہارون (علیہ السلام) پر الزام لگایا کہ یہ رسول ہونے کی بجائے جادوگر ہیں اور جادو کے زور پر ہمارے اقتدار پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں۔ ان کا مقصد ہے کہ ہمیں ملک سے نکال کر یوسف (علیہ السلام) کی طرح بنی اسرائیل کو مصر میں برسراقتدار لائیں۔ فرعون جانتا تھا کہ جادو میں اس طرح کی طاقت نہیں ہوتی کہ کوئی اس کے زور پر اقتدار یا کسی کی چیز پر قبضہ کرسکے۔ فرعون نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور ہارون (علیہ السلام) کو چیلنج کیا ہم اس طرح اقتدار چھوڑنے والے نہیں بلکہ ہم تمھارے جادو کا مقابلہ جادو کے ساتھ کریں گے۔ بس ہمارے اور تمھارے درمیان ایک معاہدہ طے پانا چاہیے جس کی نہ ہم مخالفت کریں گے اور نہ تمھیں مخالفت کرنا چاہیے۔ گویا کہ دونوں فریقوں کو اس کی پوری پوری پاسداری کرنا ہوگی۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا کہ بالکل ایسا ہی ہونا چاہیے۔ لیکن قومی تہوار کا دن مقرر کیا جائے اور وقت بھی سورج نکلنے کے بعد کا ہو۔ تاکہ لوگ کثیر تعداد میں جمع ہو کر دن کی روشنی میں کھلی آنکھوں کے ساتھ دیکھ سکیں کہ حقیقت کیا ہے۔ یہ موسیٰ (علیہ السلام) کے دل کی مراد تھی کیونکہ موسیٰ (علیہ السلام) اتنا بڑا اجتماع کرنے کے وسائل اور اثر رسوخ کہاں رکھتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے فرعون کے ہاتھوں ہی یہ کام کر دکھایا تاکہ موسیٰ (علیہ السلام) کی نبوت کا چرچا اور ان کا پیغام پوری قوم تک پہنچ جائے۔ یاد رہے بڑے بڑے انبیاء کرام (علیہ السلام) پر ان کی قوم نے یہی الزام لگایا کہ یہ جادوگر ہے۔ اس الزام کا بنیادی سبب یہ ہے کہ لوگ انبیاء (علیہ السلام) کی صورت و سیرت اور ان کی دعوت کی طرف متوجہ ہوجایا کرتے تھے جس بنا پر ان کے مخالف ان پر جادوگر ہونے کا الزام لگایا کرتے تھے۔ حالانکہ جادو کرنا، کروانا کفر ہے جس کا انبیاء (علیہ السلام) کے بارے میں تصور نہیں کیا جا سکتا۔ (لَیْسَ مِنَّا مَنْ تَطَیَّرَ اَوْتُطُیِّرَلَہٗ اَوْتَکَھَّنَ اَوْتُکُھِّنَ لَہُ اَوْ سَحَرَ اَوْ سُحِرَ لَہُ وَمَنْ اَتیٰ کَا ھِنًا فَصَدَّقَہُ بِمَا یَقُوْلُ فَقَدْ کَفَرَ بِمَااُنْزِلَ عَلٰی مُحَمَّدٍ) (الترغیب والترہیب) ” جو شخص فال نکالے یا اس کے لیے فال نکالی جائے‘ کوئی غیب کی خبریں دے یا اس کے لیے کوئی دوسرا ایسی خبر دے ایسے ہی کوئی خود جادوگر ہو یا دوسرا شخص اس کے لیے جادو کرے وہ ہم میں سے نہیں ہے۔ جو کوئی ایسے شخص کے پاس جائے اور اسکی باتوں کی تصدیق کرے اس نے ہر اس بات کا انکار کیا جو محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل ہوئی ہے۔“ مسائل ١۔ انبیاء کے معجزات کو کفار جادو تصور کرتے تھے۔ تفسیر بالقرآن انبیاء (علیہ السلام) پر الزام اور جادو کی حقیقت : ١۔ آل فرعون نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر جادو گرہونے کا الزام لگایا۔ (القصص : ٣٦) ٢۔ کفار نے تمام انبیاء (علیہ السلام) کو جادوگر اور دیوانہ قرار دیا۔ (الذاریات : ٥٢) ٣۔ کفار کے پاس حق بات آئی تو انھوں نے اسے جادو قرار دیا۔ (سباء : ٤٣) ٤۔ جب لوگوں کے پاس حق آیا تو انھوں نے کہا یہ تو جادو ہے ہم اسے نہیں مانتے۔ (الزخرف : ٣٠) ٥۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اہل مکہ نے جادوگر کہا۔ ( الصف : ٦) ٦۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جادو زدہ کہا گیا۔ (الفرقان : ٨۔ بنی اسرائیل : ٤٧) ٧۔ قرآن جادو ہے کیا تم غور نہیں کرتے۔ (الطور : ١٥) ٨۔ جادوکفر ہے۔ (البقرۃ: ١٠٢) ٩۔ جادو کی اصلیت نہیں ہوتی۔ (الاعراف : ١١٦) ١٠۔ جادو شیاطین کے ذریعے ہوتا ہے۔ (البقرۃ : ١٠٢) ١١۔ جادوگر کامیاب نہیں ہوتا۔ (طٰہٰ: ٦٩) طه
58 طه
59 طه
60 فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے معاہدہ طے پانے کے بعد فرعون نے لوگوں کو اکٹھا کرنے کے لیے اپنی حکومت کے تمام وسائل جھونک دیے۔ مؤرخین نے لکھا ہے کہ مصر کے قومی دن کے موقع پر پہلے ہی ملک کے دارالحکومت میں بہت بڑا اجتماع ہوتا تھا۔ جس میں مختلف قسم کے پروگرام پیش کیے جاتے اور پورے ملک میں جشن کا عالم ہوتا تھا۔ لیکن اس مرتبہ حکومت نے بہت بڑے اجتماع کو اپنے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ بنالیا اور ایسا اجتماع منعقد کیا جس کی مثال مصر کی تاریخ میں پہلے سے موجود نہ تھی جب کثیر تعداد میں لوگ جمع ہوگئے۔ فرعون پورے شان وشکوہ اور دبدبہ کے ساتھ انتظامیہ اور پورے ملک کے جادوگروں کے ساتھ اجتماع میں نمودار ہوا۔ لوگوں کے جذبات انتہائی مشتعل تھے۔ ایک طرف جادوگروں کی فوج اور دوسری طرف صرف حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے بھائی ہارون (علیہ السلام) تھے۔ مگر اس تنہائی اور کسمپرسی کے باوجود حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت ہارون (علیہ السلام) بڑے اعتماد کے ساتھ تشریف فرما تھے۔ جونہی ماحول قدرے پر سکون ہوا تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے جادوگروں اور حکمرانوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ تم پر نہایت افسوس کہ تم اللہ تعالیٰ پر کذب بیانی کرتے ہو۔ اگر تم اپنی ضد پر قائم رہے تو وہ تمھیں تباہ و برباد کر دے گا۔ یاد رکھو جس نے اللہ تعالیٰ پر جھوٹ بولا وہ ناکام ہوا۔ اللہ تعالیٰ پر جھوٹ بولنے سے مراد موسیٰ (علیہ السلام) کی نبوت کا انکار کرنا اور ان کے معجزات کو جادو قرار دینا تھا۔ رسول اپنے رب کی طرف سے بات کرتا ہے اس لیے رسول کو جھٹلانا اللہ تعالیٰ کو جھٹلانے کے مترادف ہے۔ یہاں فرعون کی کوشش اور اسباب کے لیے کَیْدَ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ جس کا معنی مکر و فریب ہوتا ہے۔ کیونکہ فرعون نے حقیقت جاننے کے باوجود موسیٰ (علیہ السلام) کی مخالفت میں سب کچھ کیا تھا اس لیے اسے فریب قرار دیا گیا ہے۔ مسائل ١۔ رسول کو جھٹلانا اللہ تعالیٰ پر جھوٹ بولنے کے مترادف ہے۔ ٢۔ جھوٹ بولنے والا بالآخر نامراد ہوتا ہے۔ طه
61 طه
62 فہم القرآن ربط کلام : حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے خطاب کا اثر۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرعون اور اس کے ساتھیوں کو اس قدر مؤثر انداز میں خطاب فرمایا کہ وہ یہ بات سوچنے پر مجبور ہوئے کہ فی الواقع ہم باطل پر ہیں۔ قریب تھا کہ وہ دھڑوں میں تقسیم ہوجاتے لیکن بالآخر فرعون اور اس کے حواری جادوگر غالب رہے انھوں نے یہ کہہ کر عام وخاص کو مطمئن کیا کہ یہ دونوں جادوگر ہیں اور چاہتے ہیں کہ اپنے جادو کے ذریعے تمھیں ملک سے نکلنے پر مجبور کردیں اور تمھاری تہذیب، شاندار ترقی اور ملک کے نظام کو بدل ڈالیں۔ اس لیے لازم ہوگیا ہے کہ تم آخری معرکہ سمجھ کر پوری طرح صلاحیتوں اور اسباب کو مجتمع کرتے ہوئے منظم طریقے کے ساتھ صف بندی کرو۔ یادرکھو کہ جو آج غالب رہا وہی کامیاب سمجھا جائیگا۔ فرعون نے اپنی پارٹی کو متحد رکھنے کے لیے دو حربے استعمال کیے تھے جو ہمیشہ سے برسر اقتدار لوگ حق والوں کے خلاف استعمال کیا کرتے ہیں۔ ١۔ حضرت موسیٰ اور ہارون ( علیہ السلام) پر ہوس اقتدار کا الزام لگایا اور اپنے ساتھیوں کو اقتدار کی محرومی سے ڈرایا۔ ٢۔ باطل حکمران ہمیشہ سے عوام میں یہ تاثر پیدا کرتے ہیں کہ ہمیں اقتدار سے الگ کردیا گیا تو ملک کی ترقی رک جائے گی اور قوم کی تہذیب و تمدن کو بڑا نقصان ہوگا۔ ان کی تہذیب و تمدن سے مراد وہ عیاشی اور فحاشی ہوتی ہے جس میں قوم کو مبتلا کر کے یہ لوگ اپنے اقتدار کو طول دیا کرتے ہیں۔ مسائل ١۔ ہر باطل حکمران اپنے آپ کو ناگزیر سمجھتا ہے۔ ٢۔ برے لوگ اپنی تہذیب و تمدن کو مثالی قرار دیتے ہیں۔ ٣۔ حق کی جدوجہد میں ایک وقت ضرور آتا ہے کہ جب لوگ حقیقت جاننے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ طه
63 طه
64 طه
65 فہم القرآن ربط کلام : معرکہ آرائی کا آخری مرحلہ۔ ملک بھر کے جادوگر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے بھائی کے خلاف صف آراء ہوئے تو انھوں نے بڑے غرور میں آکر موسیٰ (علیہ السلام) سے کہا کہ تم لاٹھی پھینکتے ہو یا ہم اپنی چیزیں پھینکیں؟ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے بڑے اعتماد اور پُر وقار لہجے میں فرمایا کہ تمھیں ہی پہل کرنا چاہیے۔ جب انھوں نے اپنی رسیاں اور لاٹھیاں میدان میں پھینکیں تو موسیٰ (علیہ السلام) کو یوں لگا کہ جیسے رسیاں اور لاٹھیاں چھوٹے بڑے سانپ بن کرادھر ادھر دوڑ رہے ہیں۔ رسیاں اور لاٹھیاں میدان میں پھینکتے ہی جادوگروں نے چلا چلا کر فرعون زندہ باد کے نعرے لگاتے ہوئے کہا کہ آج ہم ہی کامیاب ٹھہرئیں گے۔ (الشعراء : ٤٤) جادوگروں کے نعروں کے ساتھ ہی لاکھوں کا مجمع، فرعون اور اس کی انتظامیہ نعرہ زن ہوئی۔ یک دم ایسا ماحول بنا کہ جس سے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) بھی خوفزدہ ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ قریب تھا کہ موسیٰ (علیہ السلام) خوف کے مارے پیچھے ہٹ جاتے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے انہیں یہ کہہ کر حوصلہ بخشا کہ اے موسیٰ (علیہ السلام) ڈرنے کی ضرورت نہیں یقیناً آپ ہی غالب آئیں گے یہی بات موسیٰ (علیہ السلام) کو اس وقت کہی گئی تھی جب آپ کو مدین سے واپس ہوتے ہوئے سفر کے دوران نبوت عطا کی گئی تھی۔ (وَاَلْقِ عَصَاکَ فَلَمَّا رَاٰہَا تَہْتَزُّ کَاَنَّہَا جَآنٌّ وَّلّٰی مُدْبِرًا وَّلَمْ یُعَقِّبْ یٰمُوْسٰی لاَ تَخَفْ اِِنِّی لاَ یَخَافُ لَدَیَّ الْمُرْسَلُوْنَ) [ النمل : ١٠] ” اور پھینک اپنی لاٹھی موسیٰ نے دیکھا کہ لاٹھی سانپ کی طرح بل کھارہی ہے تو پیٹھ پھیر کر بھاگا اور پیچھے مڑکربھی نہ دیکھا، اے موسیٰ ڈرو نہیں میرے حضور رسول ڈرا نہیں کرتے۔“ مسائل ١۔ معرکہ حق و باطل میں بالاخر حق والے ہی غالب آیا کرتے ہیں۔ ٢۔ جادوگر جادو کے ذریعے آنکھوں پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ نے دشمن کے مقابلے میں رسولوں کو غالب فرمایا : ١۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اپنی قوم کے مقابلے میں غالب ہوئے۔ (ہود : ٤٨) ٢۔ تمہارا رب جلد ہی تمہارے دشمن کو ہلاک کر دے اور ان کے بعد تم کو خلیفہ بنائے گا۔ ( الاعراف : ١٢٩) ٣۔ اللہ تمھاری مدد کرے تو پھر تم پر کوئی غالب نہیں آسکتا۔ (آل عمران : ١٦٠) ٤۔ مومن اللہ کا لشکر ہیں اور وہ غالب رہیں گے۔ (المجادلۃ: ٢٢) ٥۔ غم نہ کرو تم ہی غالب آؤ گے اگر تم ایماندار ہو۔ (آل عمران : ١٣٩) ٦۔ ہم نے ان کی مدد کی سو وہ غالب آگئے۔ (الصٰفٰت : ١١٦) ٧۔ بہت سی چھوٹی جماعتیں بڑی جماعتوں پر غالب آجاتی ہیں۔ یقیناً اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ (البقرۃ: ٢٤٩) طه
66 طه
67 طه
68 طه
69 فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو اپنی لاٹھی میدان میں پھینکنے کا حکم۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو اطمینان اور کامیابی کا یقین دلانے کے بعد حکم فرمایا آپ کے دائیں ہاتھ میں لاٹھی ہے اسے فی الفور میدان میں پھینک دیں۔ جونہی آپ اسے میدان میں پھینکیں گے تو آپ کی لاٹھی ان کے کیے دھرے کو نگل جائے گی۔ یقین رکھو جادوگرجہاں کہیں ہوں اور جس قدر جادو کا مظاہرہ کریں وہ کامیاب نہیں ہوتے۔ جونہی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی لاٹھی کو زمین پر پھینکا تو وہ بہت بڑا اژدھا بن کر میدان میں کودنے والے سانپوں کو نگل گیا۔ یہ منظر اس قدر ہیبت ناک اور عجیب تھا کہ دیکھنے والے لوگ دنگ رہ گئے۔ جادوگروں نے دیکھا کہ موسیٰ (علیہ السلام) کا اژدھا جدھر جاتا ہے ہر چیز ہضم کیے جاتا ہے تو وہ اس حقیقت کو دل کی اتھاہ گہرائی سے سمجھ گئے کہ موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کا بھائی جادوگر نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے سچے رسول ہیں۔ کیونکہ وہ جادو کی حقیقت کو سمجھتے تھے کہ جادو کے ذریعے بڑی بڑی لاٹھیوں اور رسیوں کے وجود کو ختم نہیں کیا جا سکتا۔ جادو تو انسان کی آنکھوں اور اس کے دل و دماغ پر اثر انداز ہوتا ہے جس سے وہ چیز عارضی طور پر دیکھنے میں بدل جاتی ہے کچھ اہل علم نے ” صَنَعُوْا“ کے لفظ کا یہ مفہوم لینے کی کوشش کی ہے کہ جونہی موسیٰ (علیہ السلام) کا عصا اژدھا کی شکل میں کسی لاٹھی یارسی کے قریب پہنچتا تو اس پر اثر انداز ہونے والا جادو ختم ہوجاتا اور دیکھنے والوں کی نظر میں وہ رسی اور لاٹھی ہی رہ جاتی یہاں کسی حد تک یہ مفہوم لینے کی گنجائش ہے۔ لیکن قرآن مجید نے دوسرے مقام پر ” صَنَعُوْا“ کی بجائے ” تَلْقَفُ“ کا لفظ استعمال کیا ہے جس کا معنی ہے کسی چیز کو نگل جانا۔ (الشعراء : ٤٥) لہٰذا اس کا صحیح مفہوم یہ ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا عصا، رسیوں، بڑے بڑے بانسوں اور لاٹھیوں کو کھا گیا۔ جونہی رسیاں اور لاٹھیاں ختم ہوئیں تو جادوگر یہ کہتے ہوئے سجدہ میں گر گئے کہ ہم موسیٰ اور ہارون ( علیہ السلام) کے رب پر ایمان لاتے ہیں۔ اگر وہ اس موقعہ پر اپنے رب یا رب العالمین کا لفظ استعمال کرتے تو فرعون لوگوں کو یہ کہہ کر دھوکہ دے سکتا تھا کہ جادوگر مجھے ہی رب العالمین سمجھ کر سجدہ کر رہے ہیں۔ لیکن جادوگروں نے بڑی بصیرت سے کام لیتے ہوئے یہ کہہ کر اپنے ایمان کا اعلان کیا کہ ہم حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون ( علیہ السلام) کے رب پر ایمان لاتے ہیں تاکہ کسی قسم کا شبہ باقی نہ رہے۔ یہی سچے اور خالص ایمان کی نشانی ہے کہ اس میں کسی قسم کی کھوٹ اور شرک کی آمیزش نہیں ہوتی۔ جادوگر اس لیے بھی سجدہ ریز ہوئے تاکہ دیکھنے والوں کو معلوم ہو کہ جادوگروں نے اپنی شکست تسلیم کرلی ہے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا معجزہ اور اپنی ناکامی دیکھ کر جادوگر سجدہ میں گِر گئے۔ جس کے لئے گرا دینے کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ گویا کہ جادوگر اس قدر مغلوب ہوئے کہ بے ساختہ سجدہ میں گِر پڑے۔ جونہی فرعون نے دیکھا کہ جادوگر حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون ( علیہ السلام) کے رب پر ایمان لا چکے ہیں تو اس نے اپنی خفت مٹانے اور عوام پر کنٹرول رکھنے کے لیے یہ کہہ کر اعلان کیا کہ تم میری اجازت کے بغیر ایمان لائے ہو جو میرے خلاف بہت بڑی سازش ہے۔ یقیناً موسیٰ تمھارا بڑا استاد ہے جس نے تمھیں جادو سکھلایا ہے۔ اس جرم کے بدلے میں تمھارے مخالف سمت پر ہاتھ پاؤں کاٹ ڈالوں گا اور کھجور کے تنوں پر تمھیں پھانسی دی جائے گی۔ تمھیں اچھی طرح معلوم ہوجائے گا کس کا عذاب سخت اور دیر پا ہے۔ اندازہ فرمائیں کہ فرعون کس قدر کذّاب اور سفاک انسان تھا کہ خود ہی جادوگروں کو موسیٰ (علیہ السلام) کے مقابلے میں لاکھڑا کیا۔ جب جادوگر اپنی شکست تسلیم کرکے اپنے حقیقی رب پر ایمان لا چکے۔ چاہیے تو یہ تھا کہ فرعون اور اس کے وزیر، مشیر بھی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی نبوت کو تسلیم کرکے اپنے حقیقی رب پر ایمان لے آتے لیکن اس کے برعکس فرعون نے جور و استبداد کا رویہ اختیار کیا اور کہا تمھیں معلوم ہوجائے گا کہ سزا دینے میں کس کا عذاب دیرپا اور سخت ہے۔ فرعون نے یہ الفاظ اس لیے استعمال کیے کیونکہ وہ سمجھتا تھا کہ جادوگر قیامت کے عذاب سے خوفزدہ ہو کر اپنے حقیقی رب پر ایمان لائے ہیں۔ اس لیے اس نے یہ دھمکی دی کہ میں مخالف سمت پر تمھارے ہاتھ پاؤں کاٹتے ہوئے تمھیں کھجوروں کے تنوں پر پھانسی پر لٹکاؤں گا۔ پھر تمہیں معلوم ہوگا کہ کس کا عذاب دیرپا اور سخت ہے کیونکہ اس زمانے میں بڑے بڑے مجرموں کو اس طرح ہی موت کے گھاٹ اتارا جاتا تھا۔ اور کئی کئی دن کھجور کے تنوں پر ان کی لاشیں لٹکتی رہتی تھیں تاکہ عوام پر حکمرانوں کا رعب اور دبدبہ قائم ہوجائے۔ جادوگروں کے حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون پرسر عام ایمان لانے کی وجہ سے فرعون اس قدر بدحواس ہوا کہ اس نے سب کے سامنے جادوگروں کو عبرت ناک انجام کی دھمکیاں دیں لیکن ایمان لانے والے حضرات نے یہ کہہ کر اس کی دھمکیوں کو مسترد کیا کہ اے فرعون ہم تیری مرضی اور حکم کی کیونکر پرواہ کریں۔ جبکہ ہمارے پاس ہمارے رب کی طرف سے روشن دلائل آچکے ہیں۔ لہٰذا جو کچھ ہمارے ساتھ کرنا چاہتا ہے کر گزر۔ لیکن یہ حقیقت یاد رکھنا کہ تیری سزائیں اس وقت تک ہیں جب تک ہمارے جسم میں جان ہے۔ ہم ہر قسم کا خوف اور مفادات کو چھوڑ کر اپنے رب پر ایمان لائے ہیں۔ ہماری آرزو ہے کہ ہمارے سابقہ گناہوں اور ہم نے مجبوری کے عالم میں موسیٰ (علیہ السلام) کے مقابلے میں جادو کا مظاہرہ کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں معاف کر دے۔ ہاں تو اور تیرا اقتدار تو عارضی ہے مگر اللہ تعالیٰ کی جزا اور اس کی ذات ہمیشہ رہنے والی ہے۔ جادوگر پہلے ہی سمجھ گئے تھے کہ حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون ( علیہ السلام) حقیقتاً اللہ کے رسول ہیں ہمیں ان کا مقابلہ نہیں کرنا چاہیے۔ لیکن فرعون کے مجبور کرنے پر موسیٰ (علیہ السلام) کے مد مقابل آکھڑے ہوئے تھے۔ جونہی انھوں نے کھلی آنکھوں کے ساتھ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے عصا کا معجزہ دیکھا تو وہ اپنے رب پر ایمان لے آئے کیونکہ وہ دل کی سچائی کے ساتھ ایمان لائے تھے۔ اس لیے حقیقی ایمان نے انھیں جرأت و استقامت کے اس مقام پر پہنچا دیا۔ جس کا رسمی یا نسلی طور پر ایمان لانے والا شخص تصور نہیں کرسکتا۔ حقیقی ایمان کی یہی نشانی ہے کہ وہ آدمی کو چند لمحوں میں کہیں سے کہیں پہنچا دیتا ہے۔ مسائل ١۔ اہل ایمان، حق کے مقابلہ میں کسی مفاد اور ظلم کی پرواہ نہیں کرتے۔ ٢۔ ایماندار شخص کو اپنے رب سے ہر قسم کے گناہوں کی معافی مانگتے رہنا چاہیے۔ ٣۔ مومن کے لیے جنت کی خوشخبری ہر چیز سے افضل ہوتی ہے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ اپنی ذات اور صفات کے حوالے سے ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہنے والا ہے۔ اسے کسی اعتبار سے بھی ضعف اور فنا نہیں ہے۔ طه
70 طه
71 طه
72 طه
73 طه
74 فہم القرآن ربط کلام : جس طرح ذات کبریا نے باقی رہنا ہے اسی طرح ہی اس کے فیصلے باقی رہیں گے۔ ایمان لانے والے حضرات فرعون کے سامنے یہ کہہ کر ڈٹ گئے کہ تیری سزائیں صرف دنیا تک ہیں جبکہ اللہ تعالیٰ اپنی ذات اور اجر عطا فرمانے میں سب سے بہتر اور ہمیشہ رہنے والا ہے۔ ایمانداروں کی اس گفتگو کو قرآن مجید حسب دستور نصیحت کے طور پر یوں بیان کرتا ہے۔ جو شخص اپنے رب کی بارگاہ میں مجرم بن کر پیش ہوا۔ اس کے لیے جہنم ہے جس میں نہ موت ہوگی اور نہ ہی زندگی گویا کہ وہ موت و حیات کی کشمکش میں رہے گا۔ جو خوش نصیب سچے ایمان اور پاکیزہ کردار کے ساتھ اپنے رب کے حضور حاضر ہوا اس کے لیے اعلیٰ درجات اور ہمیشہ ہمیش رہنے والے باغات ہیں، جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی جنتی لوگ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔ یہ اس شخص کا صلہ ہے جس نے اپنے آپ کو کفر و شرک اور برے کاموں سے بچائے رکھا۔ ” عبد اللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا‘ جب جنتی جنت میں اور دوزخی دوزخ میں چلے جائیں گے تو موت کو (مینڈھے کی شکل میں) لایا جائے گا‘ یہاں تک کہ اسے جنت اور دوزخ کے درمیان لٹا کر ذبح کردیا جائے گا۔ اس کے بعد منادی کرنیوالا اعلان کرے گا‘ اے جنت والو ! اب موت نہیں آئے گی اے دوزخ والو! اب تمہیں بھی موت نہیں ہے اس اعلان سے اہل جنت کی خوشیوں میں مزید اضافہ ہوگا۔ اور اہل دوزخ کے غموں میں بے پناہ اضافہ ہوگا۔“ [ رواہ البخاری : باب صِفَۃِ الْجَنَّۃِ وَالنَّارِ] ” حضرت عمرو بن شعیب اپنے باپ سے سے بیان کرتے ہیں کہ وہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : قیامت کے دن متکبر لوگ چیونٹیوں کی صورت میں لائے جائیں گے انہیں ہر طرف سے ذلت ڈھانپے ہوئے ہوگی اور انہیں بولس نامی جہنم کی جیل میں لے جایا جائے گا ان پر آگ کے شعلے بلند ہورہے ہوں گے اور انہیں جہنمیوں کی زخموں کی پیپ پلائی جائے گی۔“ [ رواہ الترمذی : کتاب صفۃ القیامۃ والرقائق والورع، باب منہ ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں پہلا گروہ جنت میں چودھویں رات کے چاند کی صورت میں داخل ہوگا ان کے بعد کے لوگ آسمان میں چمکدار اور حسین ستارے کی مانند ہوں گے ان کے دل ایک ہی آدمی کے دل کی طرح ہوں گے ان کے درمیان نہ کوئی بغض ہوگا اور نہ ہی حسد۔ جنتی کے لیے حور العین میں سے دو بیویاں ہوں گی جن کی ہڈیوں کا گودا، گوشت اور ہڈیوں کے درمیان سے نظر آئے گا۔“ [ رواہ البخاری : کتاب بدء الخلق، باب ماجاء فی صفۃ الجنۃ وأنھامخلوقۃ] مسائل ١۔ کافر اور مشرک ہمیشہ جہنم میں موت و حیات کی کشمکش میں رہیں گے۔ ٢۔ مومنوں کے لیے اپنے رب کے ہاں اعلیٰ درجات ہوں گے۔ ٣۔ مومن جنت میں ہمیشہ ہمیش رہیں گے۔ تفسیر بالقرآن جہنمیوں کا بدترین انجام : ١۔ اس دن ہم ان کا مال جہنم کی آگ میں گرم کریں گے اس کے ساتھ ان کی پیشانیوں، کروٹوں اور پیٹھوں کو داغا جاۓ گا۔ (التوبہ : ٣٥) ٢۔ ان کا ٹھکانہ جہنم ہے جب وہ ہلکی ہونے لگے گی تو ہم اسے مزید بھڑکا دیں گے۔ (بنی اسرائیل : ٩٧) ٣۔ تھور کا درخت گنہگاروں کا کھانا ہوگا۔ (الدخان : ٤٣) ٤۔ اس میں وہ کھولتا ہوا پانی پیئیں گے اور اس طرح پیئیں گے جس طرح پیا سا اونٹ پیتا ہے۔ (الواقعہ : ٥٤ تا ٥٥) ٥۔ ہم نے ظالموں کے لیے آگ تیار کی ہے جو انہیں گھیرے ہوئے ہوگی اور انہیں پانی کی جگہ پگھلا ہو اتانبا دیا جائے گا جو ان کے چہروں کو جلا دے گا۔ (الکھف : ٢٩) طه
75 طه
76 طه
77 فہم القرآن ربط کلام : فرعون کے مظالم کی انتہا اور بنی اسرائیل کا مصر سے ہجرت کرنا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے مؤثر ترین خطاب اور ان کے عظیم معجزہ کی وجہ سے ہزاروں لوگ ایمان لائے۔ جس بناء پر فرعون نے مظالم کا نیا سلسلہ شروع کیا۔ جس کے نتیجہ میں بنی اسرائیل کے مردوں کو قتل کیا جاتا اور ان کی عورتوں کو باقی رہنے دیا جاتا۔ مظالم کا یہ دور اس قدر اذّیت ناک اور سنگین تھا کہ مظلوم لوگ موسیٰ (علیہ السلام) سے ان الفاظ میں فریاد کرتے ہیں کہ اے موسیٰ (علیہ السلام) ! آپ کی نبوت سے پہلے بھی ہم پر مظالم کیے گئے اور آپ کے نبی بننے کے بعد بھی ہم پر ظلم کے پہاڑ ڈھائے جا رہے ہیں۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے انھیں تسلی دیتے ہوئے فرمایا عنقریب تمھارا رب تمھارے دشمن کو ہلاک کرے گا اور تمھیں زمین پر حکمرانی دے گا۔ پھر وہ دیکھے گا کہ تم کیسا کردار پیش کرتے ہو۔ (الاعراف : ١٢٩) جب موسیٰ (علیہ السلام) کی پیش گوئی کا وقت آن پہنچا تو اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو وحی فرمائی کہ میرے بندوں کو رات کے وقت لے کر مصر سے نکل جاؤ۔ جب تم دریا کے کنارے پہنچو تو پانی پر لاٹھی مار نا جس سے دریا عبور کرنے کے لیے تمھارے لیے خشک راستے بناۓ جائیں گے۔ ہاں فرعون اور اس کے لشکر تمھارا پیچھا کریں گے۔ لیکن ان سے خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں۔ کیونکہ فرعون اور اس کے لشکر و سپاہ کو غرق کردیا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے پوری رازداری کے ساتھ اپنے ساتھیوں کو ناصرف ہجرت سے آگاہ فرمایا بلکہ انھیں یہ بھی بتلا دیا کہ ہم فلاں وقت اور فلاں مقام پر دریا عبور کریں گے۔ موسیٰ (علیہ السلام) اور آپ کے ساتھیوں کا تعاقب کرتے ہوئے فرعون بھی اس مقام پر پہنچ گیا۔ جہاں بنی اسرائیل دریا عبور کر رہے تھے۔ نامعلوم فرعون نے اپنے ساتھیوں کو کیا کچھ کہہ کر دریا میں اترنے کا حکم دیا ہوگا۔ جونہی فرعون کی قیادت میں لشکر دریا میں داخل ہوا۔ اللہ تعالیٰ کے حکم سے دریا کی موجوں نے انھیں آلیا اور انھیں ڈبکیاں دے دے کر مار ڈالا۔ فرعون نے بار بار اس بات کی دہائی دی کہ میں موسیٰ (علیہ السلام) اور بنی اسرائیل کے رب پر ایمان لاتاہوں لیکن اس کے ایمان کو یہ کہہ کر مسترد کیا گیا۔ تیرے ایمان لانے کا تجھے کیا فائدہ ؟ اب تیرے وجود کو عبرت کے طور پر رہتی دنیا کے لوگوں کے لیے باقی رکھا جائے گا۔ (یونس : ٩٢) اس موقع پر قرآن مجید صرف یہ بیان کرتا ہے کہ فرعون نے اپنی قوم کو گمراہ کیا اور اس نے کسی صورت بھی قوم کو راہ راست پر نہ آنے دیا۔ جس وجہ سے اپنے لاؤ لشکر کے ساتھ غرق ہوا۔ مسائل ١۔ فرعون خود بھی گمراہ تھا اور اس نے اپنی قوم کو بھی گمراہ کیا۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے فرعون اور اس کے لاؤ ولشکر کو غرق کردیا۔ تفسیر بالقرآن فرعون اور اس کے حواریوں کا انجام : ١۔ آج ہم تیرے جسم کو بچائیں گے تاکہ بعد میں آنے والوں کے لیے نشان عبرت بنایا جائے۔ (یونس : ٩٢) ٢۔ ہم نے انہیں ان کے گناہوں کی وجہ سے ہلاک کردیا۔ (الاعراف : ١٦٤) ٣۔ ہم نے فرعونیوں سے انتقام لیا اور انہیں سمندر میں غرق کردیا۔ (الزخرف : ٥٥) ٤۔ ہم نے فرعون اور اس کے ساتھیوں کو غرق کردیا۔ (بنی اسرائیل : ١٠٣) ٥۔ ہم نے موسیٰ اور اس کے ساتھیوں کو نجات دی اور آل فرعون کو غرق کردیا۔ (الشعراء : ٦٦) ٦۔ قیامت کے دن (فرعون) اپنی قوم کے آگے آگے چلے گا اور وہ انہیں دوزخ میں لے جائے گا۔ (ہود : ٩٨) طه
78 طه
79 طه
80 فہم القرآن ربط کلام : فرعون اور اس کے ساتھیوں کی غرقابی کے بعد بنی اسرائیل کے احوال کا ذکر۔ اللہ تعالیٰ نے آل فرعون کو غرق کرنے کے بعد بنی اسرائیل کو ارشاد فرمایا کہ ہم نے تمہارے دشمن سے تمہیں نجات دی اور اور پر اپنی طرف سے من اور سلویٰ نازل کرنے کے بعد تمھیں حکم دیا کہ جو کچھ ہم نے تمھیں حلال طیب عطا فرمایا ہے۔ اسے کھاؤ اور حد سے گزرنے کی کوشش نہ کرو۔ اگر تم حد سے آگے بڑھنے کی کوشش کروگے تو میرا غضب تم پر نازل ہوگا۔ جس پر میرا غضب نازل ہوا وہ ہلاک ہوگیا۔ پہلی آیت میں نہایت اختصار کے ساتھ تین واقعات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ ١۔ بنی اسرائیل کو ان کے دشمن فرعون اور اس کے ساتھیوں سے نجات دلانا۔ دیگر مقامات پر اس کی تفصیل بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے کہ اے بنی اسرائیل! اپنے رب کے اس احسان کو یاد کرو جب اس نے تمھیں فرعون اور اس کے ساتھیوں کے مظالم سے نجات دی۔ فرعون تمھیں بدترین سزائیں دینے کے ساتھ تمھارے بیٹوں کو قتل کرتا اور تمھاری بیٹیوں کو باقی رہنے دیتا تھا۔ یہ تمھارے لیے بہت بڑی آزمائش تھی۔ ہم نے تمھارے لیے سمندر کو پھاڑ دیا تاکہ تم سلامتی کے ساتھ اس سے گزر جاؤ اور تمھارے سامنے فرعون اور اس کے لاؤ و لشکر کو غرق کردیا۔ (البقرۃ: ٤٩۔ ٥٠) ٢۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے بنی اسرائیل کو حکم دیا کہ بیت المقدس میں داخل ہوجاؤ۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی فتح تمھارے مقدر میں لکھ دی ہے۔ لیکن تم نے یہ کہہ کر انکار کیا کہ ہم بیت المقدس میں داخل نہیں ہوں گے کیونکہ وہاں بڑے طاقتور لوگ رہتے ہیں۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے تمہیں بار بار سمجھایا لیکن تم نے ان کا حکم ماننے کی بجائے اس حد تک گستاخی کی کہ اے موسیٰ تو اور تیرا خدا جا کر لڑو ہم تو یہاں بیٹھے رہیں گے۔ تفصیل کے لیے المائدۃ: ٢٠ تا ٢٤ آیات کی تلاوت کریں۔ لیکن اس کے باوجود اللہ تعالیٰ نے تم پر من و سلویٰ نازل کیا اور حکم فرمایا اللہ کے دیے ہوئے حلال و طیب کو کھاؤ اور سرکشی اختیار نہ کرنا۔ جس نے سرکشی اختیار کی اس پر اللہ تعالیٰ کا غضب نازل ہوگا اور جس پر اس کا غضب نازل ہوا وہ دنیا میں برباد ہوا اور آخرت میں اسے اذیّت ناک عذاب ہوگا۔ جس نے تائب ہو کر اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی معافی طلب کی اور صالح اعمال کرتا رہا۔ اللہ تعالیٰ اسے معاف کرتے ہوئے ہدایت سے سرفراز کرے گا۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو حکم فرمایا کہ اے موسیٰ ! طورپہاڑ کی دائیں جانب فلاں جگہ پر پہنچ جاؤ تاکہ تمھیں تورات عنایت کی جائے۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے بھائی ہارون (علیہ السلام) کو بنی اسرائیل کی ذمہ داری دے کر کوہ طور کے دامن میں مقررہ وقت اور مقام پر پہنچے تو ان کے پیچھے بنی اسرائیل نے بچھڑے کی عبادت شروع کردی۔ اس کے باوجود اللہ تعالیٰ نے تمہاری توبہ قبول فرمائی۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو ان کے دشمن سے نجات دی۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل پر من و سلویٰ نازل کیا۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو کوہ طور کے دامن میں تورات عطا فرمائی۔ ٤۔ اللہ کے باغیوں کے لیے دنیا میں بربادی اور آخرت میں ذلت ہوگی۔ ٥۔ جو اپنے رب کے حضور تائب ہوگا وہ مزید ہدایت پائے گا۔ تفسیر بالقرآن بنی اسرائیل پر اللہ تعالیٰ کے احسانات کی ایک جھلک : ١۔ اے بنی اسرائیل میری نعمتوں کو یاد کرو جو میں نے تم پر انعام فرمائیں۔ (البقرۃ: ٤٧) ٢۔ بنی اسرائیل کو ساری دنیا پر فضیلت دی گئی۔ (البقرۃ: ٤٧) ٣۔ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو آل فرعون سے نجات دی۔ (البقرۃ: ٤٩) ٤۔ بنی اسرائیل کے لیے سمندر کو پھاڑا گیا۔ ( البقرۃ: ٥٠) ٥۔ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل پر من وسلویٰ نازل کیا۔ ( طٰہٰ: ٨٦) ٦۔ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کے لیے بارہ چشمے جاری فرمائے۔ (الاعراف : ١٦٠) طه
81 طه
82 طه
83 فہم القرآن ربط کلام : حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا کوہ طور کی طرف جانا اور ان کی عدم موجودگی میں ان کی قوم کا گمراہ ہونا۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے بنی اسرائیل کو بتلایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے کوہ طور کی دائیں جانب فلاں مقام پر فلاں وقت حاضر ہونے کا حکم دیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی حضرت ہارون (علیہ السلام) کو ہدایت فرمائی کہ وہ ان کی نیابت کرتے ہوئے بنی اسرائیل کی اصلاح کا فریضہ انجام دیتے رہیں یہ کہہ کر موسیٰ (علیہ السلام) اللہ تعالیٰ کی ملاقات کے لیے کوہ طورکی دائیں جانب پہنچ کر عبادت میں مصروف ہوگئے۔ جونہی موسیٰ (علیہ السلام) اپنی قوم کو چھوڑ کر کوہ طور کے دامن میں معتکف ہوئے تو پیچھے سے ان کی قوم کے لوگوں نے بچھڑے کی پرستش شروع کردی۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو استفسار فرمایا کہ اے موسیٰ ! آپ نے اس قدر یہاں آنے کی کیوں جلدی کی ؟ موسیٰ (علیہ السلام) نے عرض کی کہ اے میرے رب آپ کی ملاقات کی خواہش نے مجھے بے تاب کردیا۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا اے موسیٰ ! ہم نے آپ کے بعد آپ کی قوم کی آزمائش کی جنہیں سامری نے گمراہ کردیا ہے۔ ثابت ہوا کہ بنی اسرائیل بڑے ہی متلون مزاج اور طوطا چشم لوگ تھے۔ کیونکہ جب دریا عبور کرنے کے بعد بیت المقدس کی طرف سفر کر رہے تھے تو راستے میں انھوں نے ایسی قوم دیکھی جو اپنے بتوں کے سامنے اعتکاف کر رہی تھی۔ انھوں نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے مطالبہ کر ڈالا کہ اے موسیٰ ہمارے لیے بھی ایسے خدا بنا دیجیے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا تم بڑے جاہل لوگ ہو۔ (وَ جٰوَزْنَا بِبَنِیْٓ اِسْرَآءِ یْلَ الْبَحْرَ فَاَتَوْا عَلٰی قَوْمٍ یَّعْکُفُوْنَ عَلٰٓی اَصْنَامٍ لَّھُمْ قَالُوْا یٰمُوْسَی اجْعَلْ لَّنَآ اِلٰھًا کَمَا لَھُمْ اٰلِھَۃٌ قَالَ اِنَّکُمْ قَوْمٌ تَجْھَلُوْن۔ اِنَّ ھآؤُلَآءِ مُتَبَّرٌ مَّا ھُمْ فِیْہِ وَ بٰطِلٌ مَّا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ قَالَ اَغَیْرَ اللّٰہِ اَبْغِیْکُمْ اِلٰھًا وَّ ھُوَ فَضَّلَکُمْ عَلَی الْعٰلَمِیْنَ) [ الاعراف : ١٣٨] ” اور ہم نے بنی اسرائیل کو سمندر سے پاراتارا۔ وہ ایسے لوگوں کے پاس سے گزرے جو اپنے بتوں پر جمے بیٹھے تھے کہنے لگے اے موسیٰ ہمارے لیے بھی کوئی معبود بنادے، جیسے ان کے معبود ہیں ! اس نے کہا تم تو جاہل لوگ ہو۔ بے شک یہ لوگ جس کام میں لگے ہوئے ہیں وہ تباہ کیا جانے والا ہے اور جو کچھ کرتے آرہے ہیں وہ باطل ہے۔ کیا میں اللہ کے سوا تمہارے لیے کوئی معبود تلاش کروں؟ حالانکہ اس نے تمہیں پوری دنیا پر فضیلت عطا فرمائی ہے۔“ بنی اسرائیل نے اللہ تعالیٰ کے دیگر احسانات کے ساتھ یہ احسان بھی فراموش کردیا اور لمحہ بھر سوچنے کی زحمت نہ کی کہ ابھی تو اللہ تعالیٰ نے ہمیں دشمن سے نجات دی ہے اور ہمارے دشمن کو ذلیل و خوار کرکے موت کے گھاٹ اتار دیا۔ سامری کے بارے میں اہل قلم نے لکھا ہے کہ اس کا تعلق سامرہ قبیلہ کے ساتھ تھا۔ جس کی وجہ سے اسے سامری کہا گیا ہے۔ اس کا تعلق سامرہ شہر کے ساتھ نہیں تھا۔ جو بہت مدّت بعدفلسطین کا دارالحکومت بنا تھا۔ مسائل ١۔ رب کی رضا حاصل کرنے کے لیے جلدی کرنا چاہیے۔ ٢۔ بنی اسرائیل کو سامری نے راہ راست سے بھٹکا دیا۔ تفسیر بالقرآن بنی اسرائیل کی جلد بازیاں : ١۔ بنی اسرائیل نے کھانے کی چیزیں طلب کرنے میں جلدبازی سے کام لیا۔ ( البقرۃ: ٦١) ٢۔ بنی اسرائیل نے اپنے رب کے حکم میں جلدی کی اور بچھڑے کی عبادت شروع کردی۔ ( الاعراف : ١٥٠) ٣۔ بنی اسرائیل نے جلد بازی میں مطالبہ کیا کہ ہم اللہ تعالیٰ کو دیکھنا چاہتے ہیں۔ ( البقرۃ: ٥٥) ٤۔ بنی اسرائیل سوالات کرنے میں بڑے جلد باز تھے۔ ( البقرۃ: ٦٨ تا ٧٠) ٥۔ اللہ تعالیٰ کے احکام پامال کرنے میں بنی اسرائیل جلد باز تھے۔ ( الاعراف : ١٦٦) طه
84 طه
85 طه
86 فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس بات کی اطلاع پا کر کہ قوم گمراہ ہوچکی ہے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا فوری طور پر اپنی قوم کی طرف پلٹنا۔ مدّت پوری ہوتے ہی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) فی الفور اپنی قوم کی طرف آئے اور غضب ناک ہو کر پے درپے ان سے تین سوال کیے۔ کیا تمھارے رب نے تمھاری ہدایت اور بھلائی کے لیے مجھے تورات دینے کے لیے طور پہاڑ پر نہیں بلایا تھا اور میں تمھیں بتلا کر نہیں گیا تھا؟ کیا میرے جانے کی مدت بہت طویل ہوگئی تھی ؟ یا پھر تم نے دانستہ طور پر چاہا کہ تم پر اللہ کا غضب نازل ہو؟ بہر حال تم نے میرے ساتھ وعدہ خلافی کی ہے۔ گمراہ ہونے والے لوگوں نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا کلمہ پڑھا تھا۔ کلمہ کا معنی ہی یہ ہے کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور اس وقت کے مطابق موسیٰ اللہ کے رسول تھے۔ رسول کا معنی ہے جس کی پوری یکسوئی کے ساتھ تابعداری کی جائے۔ اس کے باوجود بنی اسرائیل کی غالب اکثریت نے موسیٰ (علیہ السلام) کی صرف چالیس دن کی غیر حاضری پر اس عہد کو توڑ دیا حالانکہ ان کی رہنمائی کے لیے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اپنے بڑے بھائی حضرت ہارون (علیہ السلام) کو چھوڑ گئے تھے۔ جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے معاون اور نبی تھے۔ حضرت ہارون (علیہ السلام) کی سرتوڑ کوشش کے باوجود یہ لوگ گمراہ ہوگئے۔ مسائل ١۔ بنی اسرائیل بہت ہی تھوڑی مدت میں گمراہ ہوگئے۔ ٢۔ بنی اسرائیل نہایت احسان فراموش اور جلد بازقوم ہے۔ طه
87 فہم القرآن ربط کلام : قوم کا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو بے ہودہ جواب۔ چاہیے تو یہ تھا بنی اسرائیل حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے معذرت کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے حضور توبہ کرتے لیکن انھوں نے حسب عادت بہانہ سازی سے کام لیتے ہوئے یہ عذر لنگ پیش کیا کہ اے موسیٰ دراصل ہم اپنی مرضی سے اس سنگین جرم کے مرتکب نہیں ہوئے۔ اے موسیٰ ہوا یوں کہ ہمارے پاس لوگوں کے زیورات تھے وہ ہمارے لیے بوجھ بن چکے تھے۔ ہم نے سوچا ان سے جان چھڑائی جائے ہم نے انھیں پھینک دیا۔ ہمارے ساتھ سامری نے بھی اپنا زیور پھینک دیا۔ پھر سامری نے انھیں آگ میں ڈال کر ایک ایسا بچھڑا بنایا۔ جس کے منہ سے عجب آوازیں آنے لگیں۔ سامری نے ہمیں کہا یہی تو تمہارا اور موسیٰ کا رب ہے۔ موسیٰ (علیہ السلام) اسی کی تلاش میں کوہ طور کی جانب گئے ہیں۔ ہمارا رب تو خود بخود ہمارے پاس چل کر پہنچاہے۔ ہم اس سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے لہٰذا ہم نے مجبور ہو کر اس کی پرستش شروع کی ہے اس میں ہمارا کیا قصور ہے ؟ ” حضرت موسیٰ (علیہ السلام) تو کوہ طور پر تشریف لے گئے آپ کی غیر حاضری کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے بنی اسرائیل کی غالب اکثریت نے اللہ تعالیٰ کی توحید سے ہی منہ موڑ لیا، جس خالق نے فرعون کی غلامی سے ان کو آزادی دی۔ جس کی قدرت سے سمندر کی موجوں نے سمٹ کر ان کے لیے راستے بنا دئیے تھے، جس مالک نے ان کے سامنے ان کے دشمن کو ذلیل کر کے مارا اس وحدہ لا شریک کو بھول گئے۔ اس محسن حقیقی سے بندگی کا رشتہ توڑ کر ایک بچھڑے کی پرستش شروع کردی۔ ان کی عقلیں اتنی اندھی تھیں کہ الٰہ بنانے کے لیے ان کی نظر انتخاب جس چیز پر پڑی وہ دھات کی بنی ہوئی بچھڑے کی مورتی تھی جو نہ بول سکتی تھی اور نہ کچھ سن سکتی تھی یہ اس کے سامنے شورو غل مچاتے ہیں اس کے منہ سے ایک بے معنی آواز کے بغیر کچھ سنائی نہ دیتا۔ جس قوم نے ہر قدم پر آیات الٰہی کا مشاہدہ کیا تھا اس نیے یہ کیسے باور کرلیا کہ یہ ہمارا الٰہ ہے جس کا ڈھانچہ ان کے سامنے سامری نے تیار کیا تھا؟۔ اس کی توجیہہ بجز اس کے اور کیا کی جا سکتی ہے کہ غلامانہ زندگی کا طویل عرصہ جو انہوں نے سر زمین مصر میں بسر کیا تھا۔ وہاں وہ اپنے قبطی آقاؤں کو گائے کی پوجا کرتے ہوئے اور ان کی مورتیوں کو سجدہ کرتے ہوئے دیکھا کرتے تھے۔ اس چیز نے گائے کے تقدس کا ایسا نقشہ ان کو لوح ذہن پر کندہ کردیا تھا کہ جہاں گائے یا بچھڑے کی کوئی مورتی نظر آئی وہاں وہ بے ساختہ اس کے سامنے بچھتے چلے گئے۔ اور عقل وفہم کے تمام تقاضوں کو نظر انداز کرتے ہوئے اس کو الٰہ تسلیم کرلیا۔ موجودہ تورات میں بچھڑا بنانے کا الزام حضرت ہارون (علیہ السلام) پر لگایا گیا ہے لیکن قرآن جو تمام سابقہ انبیاء کی صداقت اور ان کی عظمت وپاکیزگی کا نقیب ہے۔ اس نے ہمیں صراحت سے بتا دیا کہ حضرت ہارون (علیہ السلام) کا دامن اس الزام سے بالکل پاک ہے یہ کارستانی سامری کی تھی جس نے بنی اسرائیل سے سونے کے زیور جمع کیے انہیں گلایا اور اس سے بچھڑے کا ڈھانچہ تیار کرلیا اور اپنی فنی مہارت سے اس میں یہ بات پیدا کردی کہ جب اس میں ہوا کا گزر ہوتا تو ایک بے معنی سی بیں بیں کی آواز نکلتی اور یہ کوئی مشکل نہیں آج ہم بیسیوں کھلونے ایسے دیکھتے ہیں جو بے جان ہوتے ہوئے طرح طرح کی حرکتیں کرتے ہیں اور مختلف نوعیت کی آوازیں نکالتے ہیں۔“ (ماخوذ از ضیاء القرآن ) مسائل ١۔ بنی اسرائیل احسان فراموش اور جلد باز قوم ہے۔ ٢۔ بنی اسرائیل کی وجہ سے دنیا میں گائے پرستی کا شرک پھیلا۔ تفسیر بالقرآن الٰہ کے اوصاف : ١۔ الٰہ کا معنٰی معبود وہ ایک ہی ہے۔ ( البقرۃ: ١٦٣) ٢۔ الٰہ کا معنٰی مشکل کشا، حاجت روا۔ ( المؤمن : ٦٥) ٣۔ اللہ تمھارا رب ہے اس کے سوا کوئی الٰہ نہیں وہی ہر چیز کا خالق ہے۔ (الانعام : ١٠٢) ٤۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا دو الٰہ نہ بناؤ الٰہ ایک ہی ہے (النحل : ٥١) ٥۔ الٰہ تمھارا ایک اللہ ہی ہے۔ (طہ : ٩٨) ٦۔ کیا اللہ کے سوا کوئی الٰہ ہے؟ اللہ تعالیٰ شراکت داری سے پاک ہے۔ (الطور : ٤٣) طه
88 طه
89 فہم القرآن ربط کلام : بنی اسرائیل کے بے ہودہ بہانے کا جواب۔ بنی اسرائیل کی خدا فراموشی اور جہالت کا اندازہ لگائیں کہ انہیں کے زیورات سے ایک شخص بچھڑا بنا کر کہتا ہے کہ یہ ہے وہ الٰہ جس کی تلاش کے لیے موسیٰ (علیہ السلام) کوہ طور پر گئے ہیں۔ جاہل قوم نے یہ سوچنے کی زحمت ہی گوارا نہ کی کہ یہ تو سامری کے کرتب کا کرشمہ ہے اور اس نے ہمارے زیورات سے اسے بنایا ہے۔ انھوں نے آنکھیں بند کرکے اس کی پوجا شروع کردی۔ درحقیقت گمراہ اقوام کا ابتدا ہی سے یہ وطیرہ رہا ہے کہ وہ سوچا ہی نہیں کرتے کہ ہمارے ہاتھوں سے تراشے ہوئے بت اور ہم نے جن بزرگوں کو غسل دے کر اپنے ہاتھوں قبر میں اتارا ہے۔ دفن ہونے کے بعد اب کس طرح مدد کرسکتے ہیں۔ اگر وہ اس قابل ہوتے تو خود غسل کرکے اپنے قدموں پر چل کر قبر میں جاکر لیٹ جاتے۔ اسی طرح بت پرستوں کا معاملہ ہے جن بتوں اور مجسموں کو اپنے ہاتھوں سے تراشتے ہیں۔ ان کے بارے میں عقیدہ رکھتے ہیں کہ مدفون بزرگوں کی روح ان میں حلول کرگئی ہے جس وجہ سے ان کے سامنے ہاتھ جوڑتے، اعتکاف اور سجدہ کرتے اور نذرانے پیش کرتے ہیں۔ کہاں سے ثابت ہوا کہ ان میں بزرگوں کی روح حلول کرگئی ہے۔ اور پھر روحوں کے بارے میں کیا ثبوت ہے کہ یہ سنتے اور مدد کرتے ہیں؟ سب کچھ جاننے اور دیکھنے کے باوجود لوگ انھیں داتا، دستگیر، حاجت روا، مشکل کشا کہتے اور مانتے ہیں۔ افسوس کس قدر جہالت کی انتہا ہے۔ اسی جہالت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے کہ بچھڑے کی پوجا کرنے والوں نے یہ بھی نہ سوچا کہ یہ نہ ان کی بات کا جواب دیتا ہے نہ انھیں نقصان پہنچا سکتا ہے اور نہ ہی فائدہ دے سکتا ہے۔ پھر یہ کیسا معبود ہے ؟ افسوس جب انسان شرک میں مبتلا ہوجائے تو اس کی عقل کام نہیں کرتی اسی حقیقت کی قرآن مجید نے نشاندہی فرمائی ہے۔ ” کیا ان کے پاؤں ہیں جن سے وہ چلتے ہیں یا ان کے ہاتھ ہیں جن سے وہ پکڑتے ہیں یا ان کی آنکھیں ہیں جن سے وہ دیکھتے ہیں کیا ان کے کان ہیں جن سے وہ سنتے ہیں ؟ اے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرما دیجیے تم اپنے شرکاء کو بلاؤاور میرے بارے میں تدبیر کرو اور مجھے مہلت نہ دو“ [ الاعراف : ١٩٥] مسائل ١۔ بت اور مدفون بزرگ کسی بات کا جواب نہیں دے سکتے ہیں اور نہ قیامت تک جواب دے سکیں گے۔ ٢۔ بت اور مدفون بزرگ کسی کے نفع و نقصان کے مالک نہیں ہیں۔ طه
90 فہم القرآن ربط کلام : بنی اسرائیل کے جھوٹے معبود کی حقیقت بتلانے کے بعد حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی حضرت ہارون (علیہ السلام) کے ساتھ تلخی۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) قوم اور ان کے نمائندوں کو انتباہ کرنے کے بعد فارغ ہوئے تو انھوں نے توحید کی غیرت میں آکر اپنے بھائی حضرت ہارون (علیہ السلام) کی داڑھی اور سر کے بالوں کو کھینچتے ہوئے کہا اے ہارون ! جب یہ لوگ آپ کے سامنے شرک کر رہے تھے تو آپ کو کس بات نے منع کیا تھا کہ ان کو شرک کرنے سے نہ روکے اور تجھے کون سی رکاوٹ پیش آئی کہ نیابت کرنے کی بجائے میری نافرمانی کرے۔ حضرت ہارون (علیہ السلام) نے فرمایا اے میرے مادر زاد بھائی ! میری داڑھی اور سر کے بال چھوڑ کر میری بات سنیں۔ حقیقت یہ ہے کہ میں اس بات سے ڈر گیا کہ آپ یہ نہ کہیں کہ میں نے آپ کا انتظار کرنے کی بجائے بنی اسرائیل کے درمیان تفرقہ پیدا کردیا ہے۔ میں نے اپنی حد تک انھیں بچھڑے کی پوجا سے بہت روکا مگر یہ رکنے کی بجائے اور زیادہ بڑھ گئے۔ قریب تھا کہ یہ مجھے جان سے مار ڈالتے۔ لہٰذا آپ یہ انداز اختیار کرکے مجھے ظالموں کے ساتھ شریک نہ کریں اور نہ ہی دشمنوں کو مجھ پر خوش ہونے کا موقع دیں۔ بعض لوگوں نے حضرت ہارون (علیہ السلام) کے اس فرمان کہ میں اس بات سے ڈر گیا کہ قوم میں تفرقہ پیدا نہ ہو سے یہ استدلال کرنے کی کوشش کی ہے کہ قوم کے اتحاد کی خاطر کچھ عرصہ کے لیے شرک بھی گوارا کیا جا سکتا ہے۔ یہ ایسا استدلال ہے کہ جس سے پورے دین کی بنیاد منہدم اور نبوت کا مقصد ہی فوت ہوجاتا ہے۔ کیونکہ انبیاء (علیہ السلام) کی تشریف آوری کا مقصد اللہ تعالیٰ کی توحید کا ابلاغ کرنا اور لوگوں کو شرک سے روکنا تھا اسی لیے قرآن مجید میں اتحاد کا حکم دیتے ہوئے فرمایا ہے : کہ اللہ کی رسّی کے ساتھ چمٹے رہو گویا توحید ہی اتحاد کی بنیاد ہے۔ سب کے سب انبیاء ( علیہ السلام) اسی غرض کے لیے مبعوث کیے گئے اور یہی انبیاء (علیہ السلام) کے ساتھ لوگوں کا بنیادی اختلاف تھا۔ (وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ مِنْ رَسُوْلٍ إِلَّا نُوحِیْ إِلَیْہِ أَنَّہُ لَا إِلَہَ إِلَّا أَنَا فَاعْبُدُوْنِ) [ الانبیاء : ٢٥] ” اور نہیں بھیجا ہم نے آپ سے پہلے کوئی رسول مگر یہ کہ ہم نے وحی بھیجی اس کی طرف کہ بلاشبہ نہیں ہے کوئی الٰہ نہیں میرے سوا بس میری عبادت کیا کرو۔“ یہاں تفرقہ سے مراد عام قسم کے اختلافات اور فرقہ بندی نہیں بلکہ قتل و غارت ہے۔ جس سے حضرت ہارون (علیہ السلام) خوفزدہ ہوئے اور انھوں نے سوچا کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) چند دنوں کے لیے کوہ طور سے واپس آجائیں گے۔ جونہی واپس تشریف لائیں گے تو ہم مل کر ان لوگوں کو شرک سے روکیں گے۔ چنانچہ جب موسیٰ (علیہ السلام) واپس تشریف لائے تو انھوں نے فرمایا کہ اے میری قوم ! تمھارا بچھڑے کو معبود بنانا بہت بڑا ظلم ہے۔ جس کی اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ سزا ہے کہ تم ایک دوسرے کو قتل کرو۔ تمھارے لیے تمھارے رب کے ہاں یہی توبہ ہے۔ اس پر عمل کرو یہی تمھارے رب کے نزدیک بہتر ہے۔ (البقرۃ: ٥٤) طه
91 طه
92 طه
93 طه
94 طه
95 فہم القرآن ربط کلام : حضرت ہارون (علیہ السلام) سے وضاحت طلب کرنے کے بعد موسیٰ (علیہ السلام) کا سامری کو مخاطب کرنا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو یقین ہوگیا کہ یہ سامری نے جرم کیا ہے۔ انھوں نے بڑے جلال میں آکر سامری سے استفسار فرمایا کہ اے سامری! تو نے بنی اسرائیل کو کیوں گمراہ کیا ؟ سامری نے کہا میں نے ایک ایسی چیز دیکھی جسے لوگ نہ دیکھ پائے۔ میں نے وہاں سے ایک مٹھی بھر مٹی اٹھائی اور اسے پگھلے ہوئے زیورات میں ڈال کر بچھڑا بنایا اور یہ سب کچھ میرے اپنے دل و دماغ کا کیا دھرا ہے۔ سامری کے الفاظ اور انداز سے معلو ہوتا ہے کہ اس نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے جلال سے ڈر کر اس بات کا اعتراف کیا کہ اس جرم میں کسی اور کا کوئی حصہ نہیں بلکہ یہ میرے ہی نفس کی شرارت ہے۔ اس آیت کی تشریح کرتے ہوئے مفسرین نے بڑی معرکہ آراء بحث کی ہے۔ ایک طبقہ کا خیال ہے ” اَثَرَ الرُّسُوْلِ“ سے مراد حضرت جبرئیل امین (علیہ السلام) کے نقش قدم ہیں۔ جب انھوں نے ڈوبتے ہوئے فرعون کے منہ میں مٹی ڈالی تھی تو جبرئیل امین (علیہ السلام) کی سواری جہاں قدم رکھتی وہاں سبزہ اگ آتا۔ سامری نے یہ منظر دیکھ کر وہ مٹی اٹھائی اور بعد ازاں بنی اسرائیل کے زیورات کو پگھلا کر ایک بچھڑا بنایا جس کے منہ میں یہ مٹی ڈالی تو وہ بولنے لگا۔ دوسرا طبقہ اس معاملے میں اس حد تک آگے گزر گیا کہ انھوں نے اسرائیلی روایات کو بنیاد بنا کر حضرت ہارون کو اس کام میں ملوث کر ڈالا حالانکہ بات صرف اتنی ہے کہ بنی اسرائیل کے زیورات سے سامری نے بچھڑا بنایا اور لوگوں کو گمراہ کرنے کے لیے جبرئیل امین (علیہ السلام) کے ساتھ اس مٹی کی نسبت جوڑی جس کو اس نے بچھڑے کے منہ میں ڈالا تھا۔ اس میں مٹی کا کوئی کمال نہ تھا یہ سامری کی فنکاری کا نتیجہ تھا کہ اس نے زیورات کو ڈھال کر اس تکنیک کے ساتھ بچھڑے کا پتلا تیار کیا کہ جب اس کی ناک کی طرف سے ہوا داخل ہوتی تو اس کے منہ سے مختلف قسم کی آوازیں آتی۔ جس سے متاثر ہو کر جاہل اور ضعیف الاعتقاد لوگوں نے اسے معبود سمجھ لیا۔ طه
96 طه
97 فہم القرآن ربط کلام : سامری اور اس کے بنائے ہوئے بچھڑے کا انجام۔ جب سامری نے اعتراف جرم کرلیا تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اسے بد دعا دی کہ تو زندگی بھر یہ کہتا پھرے گا۔ کہ لوگو! میرے قریب نہ آنا۔ اس کے ساتھ ہی موسیٰ (علیہ السلام) نے اسے آخرت کے عذاب کی تنبیہ کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ ایسا دن اور ایسا عذاب ہوگا جو ٹلنے والا نہیں پھر اسے کہا کہ اب اپنے ہاتھوں سے بنائے ہوئے اپنے معبود کی طرف دیکھ جس کے سامنے تو اعتکاف کرتا تھا۔ ہم اسے ہر صورت جلا کر راکھ بنا دیں گے اور پھر اس راکھ کو تیرے سامنے سمندر میں پھینک دیا جائے گا۔ جہاں تک سامری کی سزا کا تعلق ہے موسیٰ (علیہ السلام) کی بددعا سے اس کی یہ حالت ہوگئی کہ پہلے تو کوئی شخص اس کے قریب نہیں جاتا تھا اگر کوئی بھول کر اس کے قریب جاتا تو سامری چیخ چیخ کر کہتا کہ خدارا میرے قریب نہ آنا کیونکہ تیرے قریب آنے سے میری اذّیت میں اضافہ ہوجاتا ہے بالآخر سامری اسی اذّیت ناک تکلیف میں مرا۔ قیامت کے دن جہنم میں پھینکا جائے گا کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ اس نے مشرک کو کبھی معاف نہیں کرنا۔ مسائل ١۔ سامری اور اس کے پیروکار بچھڑے کے سامنے اعتکاف کی شکل میں بیٹھتے تھے اور شروع سے مشرکین کا یہی طریقہ رہا ہے۔ ٢۔ جھوٹے اِلٰہ کو جب نیست و نابود کیا گیا تو وہ کسی کا کچھ نہیں بگاڑ سکا تھا۔ طه
98 فہم القرآن ربط کلام : معبود باطل کی حیثیت بتلانے اور اس کا انجام دکھلانے کے بعد سچے معبود کا تعارف کر وایا گیا ہے۔ یہ کتنی عظیم حقیقت ہے کہ قرآن مجید میں کوئی ایک واقعہ بھی داستاں گوئی کے طور پر بیان نہیں کیا گیا۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) کے واقعہ کے سوا باقی تمام واقعات کو اجزاء کی شکل میں مختلف مقامات پر بیان کرتے ہوئے موقع اور مضمون کی مناسبت سے ایسی نصیحت کی جاتی ہے جو انسان کے دل پر اثر کیے بغیر نہیں رہ سکتی۔ اسی اصول کے پیش نظر یہاں پہلے معبود باطل یعنی بچھڑے کے بارے میں بتلایا کہ ناعاقبت اندیش لوگوں نے یہ سوچنے کی زحمت گوارا نہ کی کہ بچھڑے کا مجسمہ نہ ان کی بات کا جواب دیتا ہے اور نہ ہی نفع و نقصان کا مالک ہے۔ جس کے ثبوت کے لیے یہ بھی وضاحت کردی گئی کہ اسے موسیٰ (علیہ السلام) نے سامری کے سامنے ہی ریزہ ریزہ کرتے ہوئے سمندر میں پھینک دیا۔ جسے لوگ حاجت روا، مشکل کشا سمجھ کر پکاررہے تھے وہ اپنا وجود بھی نہ بچا سکا۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کا تعارف کرواتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے کہ لوگو! اللہ ہی تمھارا حقیقی معبود ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ اس کا علم ہر چیز کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ اس کے بعد ارشاد ہوا کہ اے پیغمبر! یہ گزرے ہوئے واقعات ہم آپ کے سامنے بیان کرتے ہیں کیونکہ اس میں نصیحت ہے اور اس نصیحت کو قرآن مجید کی صورت میں ہم نے آپ پر نازل کیا ہے۔ جس نے اس نصیحت سے اعراض کیا وہ قیامت کے دن اس گناہ کا بوجھ اٹھائے ہوئے ہوگا۔ یہ لوگ ہمیشہ اپنے گناہوں کابوجھ اٹھائے ہوئے بدترین سزاؤں میں مبتلاہوں گے۔ یاد رہے کہ یہاں ذکر سے پہلی مراد عقیدۂ توحید ہے جو قرآن مجید کی اولین بنیادی نصیحت ہے۔ باقی نصیحتیں اور اعمال اسی کی تفصیل اور تقاضے ہیں (وَعَنْ اَبِیْ ذَرٍّ (رض) قَالَ اَتَےْتُ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وَعَلَےْہِ ثَوْبٌ اَبْےَضُ وَھُوَ نَآءِمٌ ثُمَّ اَتَےْتُہُ وَقَدِ اسْتَےْقَظَ فَقَالَ مَا مِنْ عَبْدٍ قَالَ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ ثُمَّ مَاتَ عَلٰی ذٰلِکَ اِلَّا دَخَلَ الْجَنَّۃَ قُلْتُ وَاِنْ زَنٰی وَاِنْ سَرَقَ قَالَ وَاِنْ زَنٰی وَاِنْ سَرَقَ قُلْتُ وَاِنْ زَنٰی وَاِنْ سَرَقَ قَالَ وَاِنْ زَنٰی وَاِنْ سَرَقَ قُلْتُ وَاِنْ زَنٰی وَاِنْ سَرَقَ قَالَ وَاِنْ زَنٰی وَاِنْ سَرَقَ عَلٰی رَغْمِ اَنْفِ اَبِی ذَرٍّ وَّکَانَ اَبُوْ ذَرٍّ اِذَا حَدَّثَ بِھٰذَا قَالَ وَاِنْ رَغِمَ اَنْفُ اَبِیْ ذَرٍّ) [ رواہ البخاری : باب الثیاب البیض] ” حضرت ابوذر (رض) فرماتے ہیں کہ میں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ اس وقت سفید چادر لیے ہوئے آرام فرما رہے تھے۔ میں دوبارہ حاضر ہوا تو آپ جاگ چکے تھے۔ ارشاد ہوا جس شخص نے لا الہ الا اللہ پڑھا اور پھر اسی عقیدے پر فوت ہوا وہ ضرور جنت میں داخل ہوگا۔ میں نے عرض کیا چاہے وہ چور ہو یا زانی؟ فرمایا ہاں چور ہو یا بدکار۔ میں نے دوبارہ تعجب سے پوچھا اگر وہ چور اور بدکار ہو تب بھی؟ فرمایا اگرچہ وہ زانی اور چور ہو تب بھی میرے تیسری دفعہ پوچھنے پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں الفاظ کا اعادہ کرتے ہوئے یہ محاورہ استعمال فرمایا۔ اگرچہ ابوذر کی ناک خاک آلود ہو۔ توحید والا تو ضرور جنت میں داخل ہوگا)۔ حضرت ابوذر (رض) جب بھی آپ کا فرمان نقل کرتے تو اعزاز کے طور پر یہ الفاظ دہرایا کرتے تھے کہ اگرچہ ابوذر کی ناک خاک آلود ہوجائے۔“ مسائل ١۔ اللہ کے سوا کوئی معبودِ حق نہیں۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ کا علم ہر چیز کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کو ذکر اور نصیحت کے طور پر نازل فرمایا ہے۔ ٤۔ جس نے اس ذکر سے انحراف کیا وہ اس جرم کی قیامت کے دن سزا پائے گا۔ طه
99 طه
100 طه
101 طه
102 فہم القرآن ربط کلام : جس دن مجرموں نے اپنے اعمال کا بوجھ اٹھانا ہے اس دن کے برپا ہونے کی کیفیت اور مجرموں کا حال۔ مجرموں کے لیے قیامت کا دن اس قدر سخت اور بھاری ہوگا کہ اس دن ان کی آنکھوں کی سفیدی نیلی ہوجائے گی۔ اور ان کے ڈیلیپتھرا جائیں گے وہ سرگوشی اور گنگناہٹ کے انداز میں ایک دوسرے سے کہیں گے کہ دنیا میں ہم دس دن سے زیادہ نہیں رہے تھے۔ جو ان میں سب سے زیادہ اعتماد کے ساتھ بات کرے گا وہ دوسروں کو کہے گا کہ ہم صرف ایک ہی دن دنیا میں ٹھہرے تھے۔ جو کچھ وہ کہیں گے اللہ تعالیٰ ان کی ہر بات کو اچھی طرح جانتا ہے۔ قیامت کا آغاز صور میں پھونک مارنے سے ہوگا جونہی اسرافیل (علیہ السلام) فرشتہ صور میں پھونک مارے گا تو لوگ جہاں جہاں دفن اور دبے ہوئے ہوں گے اپنی اپنی جگہ سے اٹھ کر محشر کے میدان کی طرف اس طرح دوڑیں گے جس طرح شکاری اپنے شکار کی طرف دوڑتا ہے۔ (یٰس : ٥١) جب لوگ محشر کے میدان میں اکٹھے کیے جائیں گے تو رب ذوالجلال کی جلالت اور تمکنت کے خوف کی وجہ سے مجرموں کی آنکھیں نیلی ہونے کے ساتھ پتھرا جائیں گی۔ مجرم اپنے اپنے گناہوں کے مطابق اپنے پسینے میں ڈبکیاں لے رہے ہوں گے۔ اس حالت میں نہ صرف وہ دنیا کی عیش و عشرت کو بھول جائیں گے بلکہ انھیں یہ بھی یاد نہیں ہوگا کہ وہ دنیا میں کتنی مدت ٹھہرے ہیں۔ خوف کی حالت میں سرگوشی اور کنگناہٹ کے انداز میں ایک دوسرے سے کہیں گے ہم دنیا میں دس دن ٹھہرے ہونگے لیکن ان میں جس کی بات قابل اعتماد سمجھی جائے گی وہ کہے گا کہ دس دن کی بجائے ہم صرف ایک دن ٹھہرے ہیں۔ (عَنْ عَاءِشَۃَ (رض) قَالَتْ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَقُوْلُ یُحْشَرُالنَّا سُ یَوْمَ الْقِیاَمَۃِ حُفَاۃً عُرَاۃً غُرْلًا قُلْتُ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ اَلرِّجَالُ وَالنِّسَاءُ جَمِیْعًا یَنْظُرُ بَعْضُھُمْ اِلٰی بَعْضٍ فَقَالَ یَا عَاءِشَۃُ اَلْاَمْرُ اَشَدُّ مِنْ اَنْ یَّنْظُرَ بَعْضُھُمْ اِلٰی بَعْضٍ) [ رواہ البخاری : کتاب الرقاق، باب کَیْفَ الْحَشْر] ” حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ میں نے رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ لوگ قیامت کے دن ننگے پاؤں‘ ننگے بدن اور بلا ختنہ اٹھائے جائیں گے۔ میں نے کہا اے اللہ کے رسول کیا مرد اور عورتیں اکٹھے ہوں گے وہ ایک دوسرے کی طرف دیکھیں گے نہیں؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اس دن معاملہ اس کے برعکس ہوگا کہ کوئی ایک دوسرے کی طرف دیکھ نہیں سکے گا۔“ مسائل ١۔ محشر کے دن کی سختی کی وجہ سے مجرموں کی آنکھیں نیلی اور پتھرا جائیں گی۔ ٢۔ مجرم خوف کی حالت میں نہایت ہی آہستہ آواز میں کہیں گے ہم دنیا میں دس دن یا صرف ایک ہی دن ٹھہرے تھے۔ تفسیر بالقرآن محشر کے دن کی ہولناکیاں : ١۔ جب واقعہ ہوگی واقعہ ہونے والی۔ (الواقعۃ: ١) ٢۔ جب زمین کو ہلا دیا جائے گا پوری طرح ہلا دینا۔ (الزلزال : ١) ٣۔ قیامت زمین و آسمانوں پر بھاری ہوگی۔ (الاعراف : ١٨٧) ٤۔ لوگو! اپنے رب سے ڈر جاؤ قیامت کا زلزلہ بہت سخت ہے۔ (الحج : ١) ٥۔ قیامت کے دن لوگ اڑتے ہوئے پروانوں کی طرح ہوں گے۔ (القارعۃ : ٤) ٦۔ قیامت کے دن پہاڑ اون کی طرح ہوں گے۔ (القارعۃ: ٥) ٧۔ قیامت کا دن انتہائی دردناک ہوگا۔ (ھود : ٢٦) ٨۔ زمین کو ہلا کر تہہ و بالا کردیا جائے گا۔ (واقعۃ : ٣، ٤) ٩۔ پہاڑ ریزہ ریزہ ہو کر غبار کی طرح ہوجائیں گے۔ (الواقعۃ: ٥، ٦) طه
103 طه
104 طه
105 فہم القرآن ربط کلام : منکرین قیامت کی غلط فہمی کا ازالہ۔ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کفار کے سامنے حشر کی ہولناکیوں کا تذکرہ کیا تو انھوں نے سوال اٹھایا۔ بتائیں کہ پہاڑوں کا لامتناہی سلسلہ اور جن کی بلندیاں آسمان کو چھو رہی ہیں۔ اتنے بڑے، بڑے پہاڑوں کا کیا بنے گا ؟ جس کا جواب دینے کے لیے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ارشاد ہوا کہ آپ انھیں فرمائیں کہ میرا رب انھیں دھول کی طرح اڑا دے گا اور زمین کو اس طرح ہموار اور چٹیل میدان بنائے گا کہ اس میں کوئی نشیب و فراز نہیں دیکھ پاؤ گے۔ قرآن مجید نے یہ حقیقت کئی مقامات پر بیان فرمائی ہے کہ یہ پہاڑ ٹوٹ پھوٹ جائیں گے، اور یہ روئی کے گالوں کی طرح ہوا میں اڑنا شروع کردیں گے۔ (القارعۃ: ٥) اس دن اللہ تعالیٰ زمین و آسمان کو بدل ڈالیں گے اور ہر کسی کو اپنے رب کے حضور پیش ہونا ہوگا۔ ( ابراہیم : ٤٨) مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن پہاڑوں کو ریت کے ذرات بنا کر اڑا دے گا۔ ٢۔ زمین چٹیل میدان بنا دی جائے گی۔ ٣۔ دیکھنے والا زمین میں کوئی نشیب و فراز نہیں دیکھ پائے گا۔ تفسیر بالقرآن قیامت کے دن پہاڑوں کی کیفیّت : ١۔ اس دن ہم پہاڑوں کو چلائیں گے اور زمین چٹیل میدان ہوگی اور ہم تمام لوگوں کو جمع کریں گے اور کسی کو نہیں چھوڑیں گے۔ (الکھف : ٤٧) ٢۔ اس دن زمین اور پہاڑ کانپنے لگیں گے اور پہاڑ ریت کے ٹیلوں کی طرح ہوجائیں گے۔ (المزمّل : ١٤) ٣۔ اس دن آنکھیں چندھیا جائیں گی اور چاند گہنا دیا جائے گا اور سورج چاند کو جمع کردیا جائے گا۔ (القیامۃ: ٦ تا ٨) ٤۔ جب سورج لپیٹ لیا جائے گا۔ تارے بے نور ہوجائیں گے۔ پہاڑچلائے جائیں گے۔ (التکویر : ١ تا ٣) طه
106 طه
107 طه
108 فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ محشر کے دن لوگوں کی حالت۔ جونہی اسرافیل صور میں پھونک مارے گا تو جن و انس اس آواز کی طرف بھاگے جا رہے ہوں گے۔ اس آواز میں اس قدر کشش اور خوف ہوگا کہ کوئی شخص دائیں، بائیں جانے اور ادھر ادھر دیکھنے کی بجائے صرف اس آواز کی طرف ہی سرپٹ چلا جا رہا ہوگا۔ لوگوں پر محشر کا خوف اس قدر حاوی ہوگا کہ کوئی بھی رب رحمٰن کے سامنے اونچی بولنے کی سکت نہیں کر پائے گا۔ لوگ اس قدر خوفزدہ ہوں گے کہ ان کے چلنے اور بولنے کی آواز ایک سرسراہٹ کے سوا کچھ نہیں ہوگی۔ اس دن مشرک اور کافر کو کسی کی سفارش کچھ فائدہ نہیں دے گی اور نہ کوئی ان کے حق میں سفارش کرسکے گا۔ البتہ ایسے لوگوں کے لیے سفارش کرنے والے کی سفارش مفید ثابت ہوگی جن سے بتقاضائے بشریت چھوٹے بڑے گناہ ہوئے ہوں گے مگر ان کے لیے بھی وہی شخص سفارش کر پائے گا جس کو رب رحمٰن اجازت دے گا اور سفارشی وہی انداز اور الفاظ اختیار کرے گا۔ جیسے اللہ تعالیٰ سننا پسند فرمائیں گے۔ اس فرمان میں ایک طرف یہ بات واضح کردی گئی ہے کہ اے لوگو! آج تم داعی حق کی بات سننے اور قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہو۔ لیکن ایساوقت آنے والا ہے کہ جب تم ایک داعی کی آواز پر بے چوں و چراں اپنے رب کے حضور دوڑے چلے آؤ گے۔ لیکن مجرموں کو اس دن داعی کی دعوت قبول کرنے کا عذاب کے سوا کچھ فائدہ نہ ہوگا۔ یہاں مجرموں کے اس عقیدہ کی نفی بھی کردی گئی ہے۔ جو لوگ سمجھتے ہیں کہ قیامت کے دن ہمارے معبود اور بزرگ ہمیں اللہ کی گرفت سے بچالیں گے اور اللہ تعالیٰ ان کی سفارش کو مسترد نہیں کر پائے گا۔ ان کی نفی کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے کوئی چھوٹا ہو یا بڑا، بزرگ ہو یا اللہ کا رسول۔ کوئی بھی رب رحمٰن کی اجازت کے بغیر اس کے حضور سفارش کرنے کی جرأت نہیں کرسکے گا۔ سفارش وہی کرسکے گا جسے رحمٰن اپنے کرم سے اجازت عطا فرمائے گا۔ اجازت ملنے کے باوجود سفارش کرنے والا اسی کے حق میں سفارش کرپائے گا جس کے لیے اللہ تعالیٰ اجازت مرحمت فرمائے گا۔ اس کے لیے یہ شرط بھی لازم ہوگی کہ وہ وہی الفاظ اور انداز اختیار کرے جو انداز اور الفاظ آداب خداوندی کے مطابق ہوں گے۔ کسی کو سفارش کرنے کی اجازت دینے کا یہ معنی نہیں کہ اللہ تعالیٰ مجرم کے حالات سے بے خبر ہوگا۔ وہ تو لوگوں کے ماضی، حال اور مستقبل کو پوری طرح جانتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے علم کا کوئی بھی احاطہ نہیں کرسکتا۔ غلط سفارش کی نفی کرتے ہوئے قرآن مجید نے گفتگو کا ایسا پر جلال اور دو ٹوک انداز اختیار فرمایا ہے جس میں ابہام کا دور دور تک تصور نہیں پایا جاتا۔ اس نفی میں اس قدر انتباہ اور خوف کا انداز پایا جاتا ہے کہ جس کے دل میں کھوٹ اور اس کے سامنے کوئی مفاد نہیں وہ اس عقیدہ کے خلاف زبان کھولنے کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔ آئیں قرآن مجید کی تلاوت کرتے ہوئے ان پر ایمانداری کے ساتھ غور کریں۔ (مَنْ ذَالَّذِیْ ےَشْفَعُ عِنْدَہُ إِلَّا بِإِذْنِہٖ) [ البقرۃ: ٢٥٥] کون ہے جو اسکی جناب میں اسکی اجازت کے بغیرسفارش کرے۔ (ےَوْمَءِذٍ لَّا تَنْفَعُ الشَّفَاعَۃُ إلِاَّ مَنْ اَذِنَ لَہُ الَّرحْمٰنُ وَرَضِیَ لَہُ قَوْلًا۔) [ طہ : ١٠٩] ” اس روز شفاعت فائدہ مندنہ ہوگی، اِلا یہ کہ کسی کو رحمٰن اس کی اجازت دے اور اسکی بات سننا پسند کرے۔“ (ےَوْمَ ےَقُوْمُ الرُّوْحُ وَالْمَلٰءِکَۃُ صَفًّا لَّا ےَتَکَلَّمُوْنَ إِلَّا مَنْ اَذِنَ لَہُ الرَّحْمٰنُ وَقَالَ صَوَابًا۔ ذَالِکَ الْےَوْمُ الْحَقُّ فَمَنْ شَآءَ اتَّخَذَ إِلٰی رَبِّہٖ مَاٰ با۔) [ النبا : ٣٨ تا ٣٩] ” جس دن جبریل اور ملائکہ صف بستہ کھڑے ہونگے کوئی نہ بولے گا سوائے اس کے جسے رحمٰن اجازت دے اور وہ ٹھیک بات کہے۔ وہ دن برحق ہے اب جس کا جی چاہے اپنے رب کی طرف پلٹنے کا راستہ اختیار کرے۔“ (ےَوْمَءِذٍ ےَتَّبِعُوْنَ الدَّاعِیَ لَا عِوَجَ لَہُ وَخَشَعَتِ الْاَصْوَات للرَّحْمٰنِ فَلَا تَسْمَعُ إِلَّا ھَمْسًا۔ ےَوْمَءِذٍ لَّا تَنْفَعُ الشَّفَاعَۃُ إِلَّا مَنْ اَذِنَ لَہُ الرَّحْمٰنُ وَرَضِیَ لَہُ قَوْلًا۔) [ طہ : ١٠٨، ١٠٩] ” اس روز سب لوگ منادی کی پکار پر سیدھے چلے آئیں گے کوئی ذرا اکڑ نہ دکھا سکے گا اور آوازیں رحمٰن کے آگے دب جائیں گی ایک سرسراہٹ کے سوا تم کچھ نہ سنو گے۔ اس روز شفاعت فائدہ مندنہ ہوگی إلا یہ کہ کسی کو رحمٰن اسکی اجازت دے اور اسکی بات سننا پسند کرے۔“ (اَ ےُشْرِکُوْنَ مَا لَا ےَخْلُقُ شَےْأً وَّ ھُمْ ےُخْلَقُوْنَ وَلَا ےَسْتَطِےْعُوْنَ لَھُمْ نَصْرًا وَّلَآ اَنْفُسَھُمْ ےَنْصُرُوْنَ وَإِنْ تَدْعُوْھُمْ إِلَی الْھُدٰی لَا ےَتَّبِعُوْکُمْ سَوَآءٌ عَلَےْکُمْ اََدَعَوْتُمُوْ ھُمْ اَمْ اَنْتُمْ صَامِتُوْنَ إِنَّ الَّذِےْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ عِبَادٌ اَمْثَالُکُمْ فَادْعُوْھُمْ فَلْےَسْتَجِےْبُوْا لَکُمْ إِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِےْنَ) [ الاعراف : ١٩١ تا ١٩٤] ” کیسے نادان ہیں یہ لوگ کہ ان کو اللہ کا شریک ٹھہراتے ہیں جو کسی چیز کو بھی پیدا نہیں کرتے بلکہ خود پیدا کیے جاتے ہیں۔ جونہ ان کی مدد کرسکتے ہیں اور نہ اپنی مدد ہی پر قادر ہیں۔ اگر تم انہیں سیدھی راہ پر آنے کی دعوت دو تو وہ تمہارے پیچھے نہ آئیں تم خواہ انہیں پکارو یا خاموش رہودونوں صورتوں میں تمہارے لیے یکساں ہی ہے۔ تم لوگ اللہ کو چھوڑ کر جنہیں پکارتے ہو وہ تو محض بندے ہیں جیسے تم بندے ہو۔ ان سے مانگ کردیکھو یہ تمہاری دعاؤں کا جواب دیں اگر ان کے بارے میں تمہارے خیالات صحیح ہیں۔“ روز محشر نیک لوگوں کی سفارش گنہگاروں کے بارے میں سوفیصد برحق ہے۔ شفاعت کا انکار کرنا کسی صاحب علم کے لیے ممکن نہیں مگر کچھ علما یہ مسئلہ بیان کرتے ہوئے شعوری یا غیر شعوری طور پر ان اصولوں کو فراموش کردیتے ہیں حالانکہ سفارش کرنے والا بال برابر بھی ان سے انحراف نہیں کرسکے گا۔ مسائل ١۔ قیامت کے دن لوگ داعی کی آواز پر بے چوں و چراں اکٹھے ہوں گے۔ ٢۔ کوئی شخص رب رحمٰن کے سامنے اونچی آواز سے بولنے کی سکت نہیں پائے گا۔ ٣۔ قیامت کے دن کوئی بھی رب رحمٰن کی اجازت کے بغیر سفارش نہیں کرسکے گا۔ ٤۔ سفارش کرنے والا رب رحمٰن کی اجازت کے مطابق ہی سفارش کرے گا۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ کے علم کا کوئی بھی احاطہ نہیں کرسکتا۔ تفسیر بالقرآن سفارش کے بارے میں اللہ تعالیٰ کے ضابطے : ١۔ اللہ تعالیٰ کی اجازت کے بغیر سفارش نہیں ہوسکے گی۔ (البقرۃ: ٢٥٥) ٢۔ سفارش بھی اللہ تعالیٰ کی مرضی کے مطابق ہوگی۔ (النبا : ٣٨) ٣۔ اللہ تعالیٰ اپنی پسندکی بات ہی قبول فرمائیں گے۔ (طٰہٰ: ١٠٩) طه
109 طه
110 طه
111 فہم القرآن ربط کلام : محشر کے دن لوگوں کی جسمانی کیفیت۔ حشر کے دن ناصرف لوگوں کی آواز پست ہوگی بلکہ ہر کوئی ” رَبِّ نَفْسِیْ، رَبِّ نَفْسِیْ“ کہتا ہوا رب ذوالجلال کے سامنے جھکا جا رہا ہوگا۔ لیکن اس وقت جھکنے اور معافی مانگنے کا ظالم کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ یہاں اللہ تعالیٰ نے اپنی دو صفات کا ذکر فرما کر یہ ثابت کیا ہے کہ لوگو! تم قیامت کا انکار کرو یا اقرار۔ بہر صورت تمھیں اس رب کے حضور پیش ہونا ہے جو ہمیشہ سے زندہ اور قائم رہنے والا ہے۔ اس کی ذات، صفات اور اقتدار میں کبھی کمزوری واقع ہوئی اور نہ ہوگی۔ بالآخر تمھیں اسی ذات کے سامنے جھکنا اور پیش ہونا ہے۔ لیکن یاد رکھو جو شخص دنیا میں اس کی ذات اور حکم کے سامنے نہ جھکا اسے قیامت کے دن جھکنے کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ ہر ظالم اپنے گناہوں کا بوجھ اٹھائے ہوئے ہوگا۔ ہاں جس شخص نے حقیقی ایمان کے ساتھ صالح اعمال اختیار کیے اسے کسی ظلم یا حق تلفی کا خطرہ نہیں ہوگا۔ گویا کہ ظالم کو اس کے ظلم کی سزا اور نیک کو اس کی نیکی کی پوری پوری جزا دی جائے گی۔ یہاں ظلم سے پہلی مراد کفر اور شرک ہے جو کسی صورت بھی معاف نہیں ہوگا۔ اسی بات کو قرآن مجید نے اس طرح بھی بیان فرمایا کہ جس نے ذرہ برابر نیکی کی وہ اسے پائے گا اور جس نے ذرہ برابر برائی کی وہ بھی اسے اپنے سامنے پائے گا۔ (الزلزال : ٧۔ ٨) مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ زندہ اور قائم و دائم ہے اور وہ ہمیشہ زندہ اور قائم دائم رہے گا۔ ٢۔ جس نے ظلم کیا وہ نامراد ہوگا۔ ٣۔ جس نے حقیقی ایمان کے ساتھ نیک اعمال کیے اسے کسی زیادتی یاحق تلفی کا اندیشہ نہیں ہوگا۔ طه
112 طه
113 فہم القرآن ربط کلام : اس خطاب کے آخر میں نزول قرآن کا مقصد بیان کرتے ہوئے رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حصول علم کے آداب اور ایک دعا سکھائی گئی ہے۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے براہ راست اور اولیّن مخاطب عرب تھے جن کی زبان میں اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید نازل فرمایا۔ نزول قرآن کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ لوگ اس سے نصیحت حاصل کرکے کفر و شرک اور ہر قسم کے گناہ سے بچنے کی کوشش کریں۔ معلوم ہونا چاہیے کہ لوگ جس رب کے ساتھ دوسروں کو شریک کرتے ہیں وہ کسی نسبت اور حوالے سے بھی اللہ تعالیٰ کے شریک نہیں ہو سکتے کیونکہ اللہ تعالیٰ مقام، شان، ذات اور اپنی صفات کے لحاظ سے اعلیٰ و ارفع ہے۔ وہی بادشاہ حقیقی ہے اس کی ملک اور حکمرانی میں نہ کائنات میں کوئی شریک کار ہے اور نہ آخرت میں کوئی شریک ہوگا۔ اس حقیقت کے باوجود اگر لوگ اللہ تعالیٰ کو بلاشرکت غیر اِلٰہ نہیں مانتے تو آپ کو نزول قرآن کے بارے میں عجلت کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ قرآن مجید کو اپنی حکمت کے ساتھ وقفہ وقفہ کے ساتھ نازل کر رہا ہے تاکہ آپ کو اس کے ابلاغ اور لوگوں کو اس پر عمل کرنے میں کوئی دقت پیش نہ آئے۔ عجلت سے کام لینے کی بجائے آپ کو اپنے رب کے حضور مسلسل دعا کرنی چاہیے۔ اے میرے پروردگار ! میرے علم میں مزید اضافہ فرما۔ نزول قرآن کے بارے میں آپ کی طرف سے جلدی کرنے کا دوسرا مطلب مفسرین نے یہ لیا ہے کہ نزول قرآن کے ابتدائی دور میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس غرض کے ساتھ جلدی جلد ی تلاوت کرتے کہ کہیں وحی کا کوئی حصہ عدم ضبط کا شکار نہ ہوجائے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے آپ کو ” رَبِّ زِدْنِیْ عِلْمًا“ کی دعا سکھلانے کے ساتھ یہ بھی ہدایت فرمائی کہ ضبط قرآن کی فکر میں اپنی زبان کو جلدی جلدی حرکت دینے کی ضرورت نہیں۔ آپ غور سے سنتے جائیں آپ کو قرآن مجید ضبط کروانا اور آپ کی زبان اطہر سے اس کا ابلاغ کروانا ہماری ذمہ داری ہے۔ (القیٰمۃ: ١٧) سورۃ اعلیٰ میں فرمایا۔ ہم آپ پر قرآن پڑھیں گے اور آپ بھول نہیں پائیں گے۔ [ اعلیٰ: ٦] (حَدَّثَنَا أَبُو مُصْعَبٍ الْمَدَنِیُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمُہَیْمِنِ بْنُ عَبَّاسِ بْنِ سَہْلِ بْنِ سَعْدٍ السَّاعِدِیِّ عَنْ أَبِیہِ عَنْ جَدِّہِ قَالَ قَالَ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) الأَنَاۃُ مِنَ اللَّہِ وَالْعَجَلَۃُ مِنَ الشَّیْطَانِ) [ رواہ الترمذی : باب ماجاء فی التانی] ” حضرت سہل بن سعد ساعدی (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بردباری اللہ کی طرف سے ہے اور جلد بازی شیطان کی طرف سے ہے۔“ مسائل ١۔ قرآن مجید کو اللہ تعالیٰ نے عربی زبان میں نازل فرمایا۔ ٢۔ قرآن مجید میں لوگوں کو ان کی برائیوں پر تنبیہات کی گئی ہیں۔ ٣۔ قرآن مجید باعث نصیحت ہے۔ ٤۔ اللہ ذات اور صفات کے اعتبار سے سب سے بلند وبالا ہے۔ ٥۔ کسی کام میں جلد بازی نہیں کرنی چاہیے۔ ٦۔ علم کے اضافے کے لیے رب کے حضور مسلسل دعا کرنی چاہیے۔ تفسیر بالقرآن علم اور اہل علم کی فضیلت : ١۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو لکھنا سکھایا۔ (العلق : ٤) ٢۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو بولنا اور بیان کرنا سکھلایا۔ (الرحمن : ٤) ٣۔ انسان کو رحمٰن نے قرآن سکھایا۔ (الرحمن : ٢) ٤۔ آدم (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے علم دیا۔ (البقرۃ: ٣١) ٥۔ فرشتوں نے بھی سب کچھ اللہ تعالیٰ سے سیکھا۔ (البقرۃ: ٣٢) ٦۔ سدھائے ہوئے جانوروں کا علم اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے۔ (المائدۃ: ٤) ٧۔ اللہ نے اہل علم کے درجات کو بلند فرمایا ہے۔ (المجادلۃ : ١١) ٨۔ کیا علم والے اور بے علم برابر ہو سکتے ہیں۔ ( الزمر : ٩) طه
114 طه
115 فہم القرآن ربط کلام : اس سے پہلے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جلد بازی سے منع کیا گیا ہے۔ اب آدم (علیہ السلام) کے حوالے سے جلد بازی کی مثال اور اس کا نقصان ذکر کیا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم (علیہ السلام) کو جنت میں داخل کرتے وقت عہد لیا تھا کہ اے آدم (علیہ السلام) ! تو اور تیری بیوی جنت میں قیام کرو۔ تمھیں اس بات کی کھلی اجازت ہے جہاں سے چاہو اور جو چاہو کھاؤ اور پیو۔ لیکن جس درخت کی نشاندہی کی گئی ہے اس کے قریب نہیں جانا۔ اگر تم اس درخت کے قریب جاؤ گے تو ظالموں میں شمار ہوگے۔ (البقرۃ: ٣٥) لیکن آدم (علیہ السلام) اس عہد کو بھول گئے اور اس پر استقامت نہ دکھا سکے۔ حضرت آدم (علیہ السلام) کا واقعہ موقع کی مناسبت سے قرآن مجید کے کئی مقامات پر بیان ہوا ہے۔ لیکن قرآن مجید کا حسن اسلوب ہے کہ کہیں بھی الفاظ اور انداز کا تکرار نہیں پایا جاتا۔ جہاں بھی یہ واقعہ بیان ہوا ہے اس کے الفاظ، انداز میں نمایاں فرق ہونے کے ساتھ ساتھ استدلال کی نئی شکل میں انسان کو رہنمائی کے لیے ایک الگ سبق دیا گیا ہے۔ جس کی اس موقع پر واضح مثال یہ ہے کہ قرآن مجید کے کسی دوسرے مقام پر حضرت آدم (علیہ السلام) کے بارے میں یہ بیان نہیں ہوا کہ آدم (علیہ السلام) نے درخت کے قریب جانے کی غلطی عزم بالجزم کے ساتھ کی تھی۔ صرف یہاں قرآن مجید نے اس بات کی وضاحت کی ہے کہ آدم (علیہ السلام) نے یہ خطا بھول کر کی تھی اور وہ اپنے کیے ہوئے عہد پر عزم دکھلانے میں ناکام رہے۔ کیونکہ آدم (علیہ السلام) بھول گئے ان کی اولاد بھی بھول جائے گی۔ [ رواہ الترمذی : کتاب تفسیر القران، باب ومن سورۃ المعوذتین ] مسائل ١۔ حضرت آدم (علیہ السلام) بھول گئے اور بھول جانا انسان کی فطرت ہے۔ ٢۔ حضرت آدم (علیہ السلام) اللہ تعالیٰ سے کیے ہوئے عہد پر قائم نہ رہ سکے۔ تفسیر بالقرآن قرآن مجید میں حضرت آدم (علیہ السلام) کا واقعہ کہاں کہاں بیان ہوا ہے : ١۔ حضرت آدم کی تخلیق کا اور ان کی خلافت کا اعلان۔ (البقرۃ: ٣٠) ٢۔ حضرت آدم کو مٹی سے پیدا کیا گیا۔ (نوح : ١٧) ٣۔ حضرت آدم بد بودار مٹی سے پیدا کیے گئے۔ (الحجر : ٢٦) ٤۔ انسان یعنی آدم (علیہ السلام) کو بجنے والی مٹی سے پیدا کیا۔ (الرحمن : ١٤) ٥۔ حضرت آدم (علیہ السلام) مٹی سے پیدا ہوئے۔ (آل عمران : ٥٩) طه
116 فہم القرآن ربط کلام : حضرت آدم (علیہ السلام) کا اپنے عہد پر عزم بالجزم کے ساتھ قائم نہ رہنا شیطان کی وجہ سے تھا اور شیطان انسان کا ازلی دشمن ہے۔ حضرت آدم (علیہ السلام) کے ساتھ شیطان کی دشمنی کی ابتداء اس وقت ہوئی جب اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کو پیدا فرما کر تمام ملائکہ جن میں ابلیس بھی شامل تھا حکم دیا کہ آدم (علیہ السلام) کو سجدہ کرو۔ لیکن ابلیس نے آدم (علیہ السلام) کو سجدہ کرنے سے انکار کردیا۔ جس پر اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کو کھلے الفاظ میں بتلایا کہ اے آدم ! شیطان تیرا اور تیری بیوی کا دشمن ہے۔ خیال رکھنا کہیں وہ تم دونوں کو اس جنت سے نکلوا کر تمھیں دنیا کی مشقت میں نہ ڈال دے۔ بلاشبہ اس جنت میں نہ تو بھوکا رہے گا اور نہ ہی ننگا ہوگا اور اس جنت میں نہ تمھیں پیاس لگی اور نہ ہی تم پر دھوپ آئے گی۔ اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے یہ حقیقت بھی عیاں فرما دی کہ جنت میں تمھارے لیے ہر قسم کا آرام اور نعمتیں موجود ہیں۔ تمھیں صرف ایک درخت کے قریب جانے سے روکا گیا ہے اگر تم اس کے قریب جاؤ گے تو تمھیں جنت سے نکال باہر کیا جائے گا۔ جنت کے بعد تمھارا ٹھکانہ ایک مدت تک دنیا میں رہنا ہے۔ یہاں جنت کی نعمتوں کا ذکر فرما کر دنیا کی مشقت کے بارے میں بتلادیا گیا کہ دنیا میں بھوک، پیاس، دھوپ ہر قسم کی تلخی اور مشقت کا تمھیں سامنا کرنا پڑے گا۔ چنانچہ دنیا کی یہی حقیقت ہے کہ یہاں مومن کے لیے دکھ زیادہ اور سکھ تھوڑے ہیں۔ جنت میں صرف ایک پابندی تھی کہ درخت کے قریب نہیں جانا۔ دنیا میں مومن کے لیے بے شمار پابندیاں ہیں جن کی طرف اشارہ کرتے ہوئے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یوں فرمایا تھا۔ (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ قَالَ خَطَّ النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مُرَبَّعًا وَخَطَّ خَطًّا فِی الْوَسْطِ خَارِجًا مِّنْہُ وَخَطَّ خُطَطًا صِغَارًا إِلٰی ھٰذَا الَّذِیْ فِی الْوَسْطِ مِنْ جَانِبِہِ الَّذِیْ فِی الْوَسْطِ وَقََالَ ھٰذَا الْإِنْسَانُ وَھٰذَا أَجَلُہٗ مُحِیْطٌ بِہٖ أَوْ قَدْ أَحَاطَ بِہٖ وَھٰذَا الَّذِیْ ھُوَ خَارِجٌ أَمَلُہٗ وَھٰذِہِ الْخُطَطُ الصِّغَارُ الْأَعْرَاضُ فَإِنْ أَخْطَأَہٗ ھٰذَا نَھَشَہٗ ھٰذَا وَإِنْ أَخْطَأَہٗ ھٰذَا نَھَشَہٗ ھٰذَا) [ رواہ البخاری : کتاب الرقاق، باب فی الأمل وطولہ] ” حضرت عبداللہ (رض) بیان کرتے ہیں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک مربع نمالکیر کھینچی اور اس کے درمیان باہر تک لکیر لگائی پھر اس درمیانی لکیر کے ارد گرد چھوٹی چھوٹی لکیریں کھینچیں اور فرمایا یہ انسان ہے اور یہ اس کی موت ہے جو اسے گھیرے ہوئے ہے اور جو اس خانے سے باہر لکیر ہے یہ اس کی خواہشات ہیں اور یہ چھوٹی لکیریں آفات ہیں اگر ایک سے بچتا ہے تو دوسری اسے دبوچ لیتی ہے۔ اس سے بچتا ہے تو کوئی اور اسے آ لیتی ہے۔“ مسائل ١۔ شیطان نے حضرت آدم (علیہ السلام) کو سجدہ کرنے سے انکار کیا۔ ٢۔ شیطان آدم، حوّا اور ان کی اولاد کا ازلی دشمن ہے۔ ٣۔ جنت میں بھوک، پیاس، دھوپ، مشقت نہیں ہوگی اور نہ کوئی شخص بے لباس ہوگا۔ تفسیر بالقرآن جنت کی نعمتوں کی ایک جھلک : ١۔ ہم ان کے دلوں سے کینہ نکال دیں گے اور سب ایک دوسرے کے سامنے تکیوں پر بیٹھے ہوں گے۔ انہیں کوئی تکلیف نہیں پہنچے گی اور نہ وہ اس سے نکالے جائیں گے۔ (الحجر : ٤٧۔ ٤٨) ٢۔ جس جنت کا مومنوں کے ساتھ وعدہ کیا گیا ہے۔ اس کے نیچے سے نہریں جاری ہیں اور اس کے پھل اور سائے ہمیشہ کے لیے ہوں گے۔ (الرعد : ٣٥) ٣۔ جنت میں بے خار بیریاں، تہہ بہ تہہ کیلے، لمبے سائے، چلتا ہوا پانی، اور کثرت سے میوے ہوں گے۔ (الواقعۃ : ٢٨ تا ٣٠) ٤۔ جنت کے میوے ٹپک رہے ہوں گے۔ (الحاقۃ: ٢٣) ٥۔ جنت میں نیچی نگاہ رکھنے والی حوریں ہوں گی جنہیں کسی جن وانس نے چھوا تک نہیں ہوگا۔ ( الرحمن : ٥٦) ٦۔ جنت میں محبت کرنے والی ہم عمر حوریں ہوں گی۔ ( الواقعہ : ٣٧) طه
117 طه
118 طه
119 طه
120 فہم القرآن ربط کلام : شیطان کا حضرت آدم (علیہ السلام) کو پھسلانے میں کامیاب ہونا۔ حضرت آدم (علیہ السلام) اور حضرت حوا [ بڑے آرام و سکون کے ساتھ جنت میں رہ رہے تھے۔ جہاں چاہتے، جو چاہتے، کھاتے پیتے اور ہر جگہ ملائکہ انہیں آداب و سلام پیش کرتے۔ شیطان سے یہ منظر دیکھا نہیں جاتا تھا۔ اس نے اپنے خبث باطن اور ازلی دشمنی کی بنا پر حضرت آدم (علیہ السلام) کو یہ کہہ کر ورغلانا شروع کیا کہ جناب آدم ! بے شک آپ جنت میں عیش و عشرت کے ساتھ رہ رہے ہیں لیکن یہ چار دن کی بات ہے بالآخر تجھے اس سے نکال باہر کیا جائے گا۔ اس لیے میں چاہتا ہوں کہ آپ کو اس درخت کے متعلق بتلاؤں جسے کھا کر آپ ایسی بادشاہی پائیں گے جسے کبھی زوال نہ ہوگا۔ مگر حضرت آدم (علیہ السلام) شیطان کی باتوں میں آنے کے لیے تیار نہ ہوئے۔ نامعلوم کتنا عرصہ شیطان کس کس انداز کے ساتھ انھیں ورغلانے کی کوشش کرتا رہا۔ بالآخر ایک دن آدم (علیہ السلام) کو یہ کہہ کر ورغلانے میں کامیاب ہوا کہ اے آدم (علیہ السلام) ! مجھے اپنے رب کی قسم ہے کہ میں مخالفت کی بجائے آپ کو اخلاص اور خیر خواہی کے ساتھ مشورہ دیتا ہوں کہ آپ اس درخت کا پھل کھائیں تاکہ ہمیشہ ہمیش کے لیے جنت کے وارث بن جائیں۔ حضرت آدم (علیہ السلام) شیطان کی قسموں پر یقین کر بیٹھے اور اللہ تعالیٰ کے حکم کو فراموش کردیا جس کی پاداش میں حضرت آدم (علیہ السلام) اور حضرت حوا [ کا جنتی لباس اتر گیا اور وہ برہنہ ہوگئے۔ جو نہی وہ برہنہ ہوئے جنت کے پتے توڑ کر اپنی شرمگاہوں کو چھپانے لگے۔ جب جنت کے پتوں سے اپنی شرمگاہوں کو ڈھانپتے ہوئے گھبراہٹ کے عالم میں ادھر ادھر بھاگے پھر رہے تھے تو اللہ تعالیٰ نے انھیں آواز دی کہ اے آدم (علیہ السلام) کیا میں نے تمھیں اس درخت کے قریب جانے سے نہیں روکا تھا ؟ اور کیا میں نے تمھیں نہیں بتلایا تھا کہ شیطان تم دونوں کا کھلا دشمن ہے ؟ اللہ تعالیٰ کا فرمان سنتے ہی حضرت آدم (علیہ السلام) اور حضرت حوا [ اپنے رب سے یہ کہہ کر معافی مانگنے لگے : (قَالَ رَبَّنَا ظَلَمْنَآ اَنْفُسَنَاسکتہوَ اِنْ لَّمْ تَغْفِرْلَنَا وَ تَرْحَمْنَا لَنَکُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ) [ الاعراف : ٢٣] کہ اے ہمارے رب! ہم نے اپنے آپ پر ظلم کیا ہے اگر تو نے ہم کو معاف نہ کیا اور رحم نہ فرمایا تو ہم ہر صورت نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوں گے۔ بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ شیطان نے پہلے حضرت حوا [ کو ورغلایا تھا اور حضرت حوا [ نے حضرت حضرت آدم (علیہ السلام) کو پھسلایا۔ قرآن مجید اس کی تائید کرنے کی بجائے کھلے الفاظ میں بیان کرتا ہے کہ شیطان نے براہ راست حضرت آدم (علیہ السلام) کو ورغلایا تھا۔ مسائل ١۔ حضرت آدم (علیہ السلام) کو شیطان پھسلانے میں کامیاب ہوگیا۔ ٢۔ جونہی حضرت آدم (علیہ السلام) اور حضرت حوا [ نے ممنوعہ درخت کا پھل کھایا تو ان کا لباس اتر گیا۔ ٣۔ حضرت آدم (علیہ السلام) اور حوا [ شرم کے مارے اپنی شرمگاہوں کو جنت کے پتوں سے ڈھانپنے لگے۔ تفسیر بالقرآن شیطان انسان کا ابدی دشمن ہے : ١۔ شیطان نے آدم اور حوا کو پھسلا دیا۔ (البقرۃ : ٣٦) ٢۔ شیطان نے قیدی کو حضرت یوسف کا تذکرہ کرنا بھلا دیا۔ (یوسف : ٤٢) ٣۔ شیطان نے حضرت یوسف اور ان کے بھائیوں کے درمیان اختلاف ڈلوا دیا۔ (یوسف : ١٠٠) ٤۔ شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے۔ (یوسف : ٥) ٥۔ شیطان کو اپنا دشمن سمجھ کر اس کی شیطنت سے بچنا چاہیے۔ (فاطر : ٦) طه
121 طه
122 فہم القرآن ربط کلام : حضرت آدم کے بارے میں گفتگو جاری ہے چنانچہ حضرت حوا [ حضرت آدم (علیہ السلام) کی توبہ قبول ہوجانے کے باوجود انھیں زمین پر اتر جانے کا حکم۔ پہلی آیات میں بیان ہوا ہے کہ حضرت آدم (علیہ السلام) کو شیطان نے ورغلایا تھا مگر آدم (علیہ السلام) نے اپنے رب کے حضور توبہ کی اللہ تعالیٰ نے اس کی توبہ قبول کی اور اپنی ہدایت سے نوازا۔ حضرت حوا [، حضرت آدم (علیہ السلام) کے ماتحت تھیں۔ حضرت آدم (علیہ السلام) اور حضرت حوا [ سے خطا کروانے والا ابلیس تھا۔ اس لیے تینوں کو حکم ہوا کہ تم زمین پر اتر جاؤ تم ایک دوسرے کے دشمن ہو۔ تاہم آدم (علیہ السلام) کو فرمایا کہ جب تمھارے پاس میری طرف سے ہدایت آئے جس نے میری ہدایت کی پیروی کی نہ وہ گمراہ ہوگا اور نہ ہی قیامت کے دن اسے کوئی تکلیف پہنچے گی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تمہاری توبہ قبول ہوئی لیکن آسمان سے اترنا تمہارا یقینی ہے لہٰذا جنت سے نکل جاؤ اور تم زمین پر جا کر شیطان کی سازشوں کا مقابلہ کرتے ہوئے اپنی ذمہ داریاں احسن طریقہ سے نبھانے کی کوشش کرو۔ یاد رکھنا تمہارا زمین پر جانے کا یہ معنٰی نہیں کہ تم شتر بے مہار کی طرح جدھر چاہو نکل کھڑے ہو بلکہ تمہیں ایک دستور حیات اور مسلسل ہدایات دی جائیں گی۔ جس نے اس نصیحت اور دستور حیات سے منہ پھیرلیا اس کے لیے اس کی زندگی تنگ کر دوں گا اور اسے قیامت کے دن طه
123 اندھا کرکے اٹھائیں گے۔ اعراض سے مراد کفر و شرک اور کبیرہ گناہوں کا ارتکاب کرنا ہے۔ ایسے لوگ دنیا میں کشادہ دست ہونے کے باوجود پریشان رہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کے رزق سے برکت اٹھا لیتا ہے۔ سب کچھ ہونے کے باوجود یہ دنیا کے حصول کے لیے ہلکان رہتے ہیں۔ انھیں دل کی تونگری حاصل نہیں ہوتی۔ جس کی وجہ سے بہت کچھ ہوتے ہوئے بھی ان کے مال کی ہوس دن بدن بڑھتی جاتی ہے یہاں تک کہ قبر کنارے پہنچ جاتے ہیں۔ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ لَیْسَ الْغِنَی عَنْ کَثْرَۃِ الْعَرَضِ، وَلَکِنَّ الْغِنَی غِنَی النَّفْسِ) [ رواہ البخاری : باب الْغِنَی غِنَی النَّفْسِ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے وہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہتونگری دولت کی بہتات سے نہیں بلکہ دل کے غنٰی سے حاصل ہوتی ہے۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ کی نصیحت سے منہ پھیرنے والے ہمیشہ تنگ رہتے ہیں۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ دنیا پرست لوگوں کو قیامت کے دن اندھا کرکے اٹھائے گا۔ تفسیر بالقرآن ذکر کا مفہوم اور اس کے فائدے : ١۔ قرآن ذکر ہے۔ ( الحجر : ٩) ٢۔ نماز ذکر ہے۔ ( العنکبوت : ٤٥) ٣۔ اللہ کے ذکر سے دل مطمئن ہوتے ہیں۔ (الرعد : ٢٨) ٤۔ نصیحت ذکر ہے۔ ( طٰہٰ: ١٤٤) ٥۔ اللہ کے ذکر سے غافل لوگوں پر شیطان کا تسلط ہوتا ہے۔ (الزخرف : ٣٦) ٦۔ صبح اور شام کثرت سے اللہ کا ذکر کیا کرو۔ (آل عمران : ٤١) ٧۔ اے ایمان والو! کثرت سے اللہ کو یاد کرو۔ (الاحزاب : ٤١) ٨۔ اللہ کو کثرت کے ساتھ یاد کرو تاکہ تم کامیاب ہوجاؤ۔ (الجمعۃ: ١٠ ) ٩۔ اللہ کو کثرت سے یاد کرنے والوں کے لیے مغفرت اور بڑا اجر ہے۔ (الاحزاب : ٣٥) طه
124 طه
125 فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کو حکم دیا تھا کہ میرے ذکر کو نہ بھولنا جس نے اپنے رب کے ذکر اور نصیحت کو بھولا دیا اس کی سزا یہ ہوگی کہ اسے قیامت کے دن اندھا کر کے اٹھایا جائے گا اور وہ اپنے رب سے ان الفاظ میں فریاد کرے گا۔ جس شخص کو قیامت کے دن اندھا کرکے اٹھایا جائے گا وہ اپنے رب کے حضور التجا کی صورت میں سوال کرے گا کہ میرے رب مجھے آج اندھا کرکے کیوں اٹھایا گیا ہے۔ جبکہ دنیا میں میں سب کچھ دیکھا کرتا تھا۔ رب ذوالجلال کی طرف سے اسے جواب دیا جائے گا کہ یہ سزا تجھے اس لیے دی گئی ہے کیونکہ تو نے ہماری آیات کو بھلا دیا تھا۔ اس لیے آج تمھیں بھی بھلا دیا گیا ہے۔ یہ اس شخص کی سزا ہے جس نے حدود سے تجاوز کیا اور اپنے رب کے احکام کو ماننے سے انکار کردیا۔ آخرت کا عذاب بہت سخت اور ہمیشہ رہنے والا ہے۔ پہلی آیت میں اس شخص کی سزا دنیا کی تنگی کے حوالے سے بیان ہوئی۔ اس کے مقابلے میں یہاں فرمایا کہ دنیا کے مقابلے میں آخرت کی تنگی اذیت ناک عذاب کی صورت میں ہوگی جو ہمیشہ رہنے والا ہوگا۔ دوسرا اس کا مفہوم یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اسے یہ بتلایا جائے گا کہ تو اندھا ہونے پر پریشانی کا اظہار کررہا ہے۔ یہ تو تیری پریشانی کی ابتداء ہے۔ اس کے بعد جو تجھے سزا ملنے والی ہے وہ بڑی ہی سخت اور ہمیشہ رہنے والی ہے۔ ایسے لوگ اللہ تعالیٰ سے جب فریاد کریں گے تو انھیں یہ کہہ کر ٹھکرا دیا جائے گا کہ آج تمھیں اس طرح ہی فراموش کیا جاتا ہے۔ جس طرح تم نے دنیا میں اپنے رب اور اس کے احکام کو فراموش کیا تھا۔ مسائل ١۔ اللہ اور اس کے احکام کو فراموش کرنے والے کو قیامت کے دن فراموش کردیا جائے گا۔ ٢۔ اللہ کو فراموش کرنے والے کو قیامت کے دن اندھا کرکے اٹھایا جائے گا۔ طه
126 طه
127 طه
128 فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ کے احکام سے انحراف کرنے والوں کو ناصرف آخرت میں عذاب ہوگا بلکہ انھیں دنیا میں بھی کسی نہ کسی صورت عذاب سے دوچار ہونا پڑے گا۔ مشرکین مکہ کے سامنے جب آخرت کے عذاب اور پہلی قوموں کی تباہی کا ذکر کیا جاتا تو وہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو چیلنج کے انداز میں کہتے کہ جس عذاب سے آپ ہمیں ڈراتے ہیں۔ اس کے آنے میں کیا رکاوٹ ہے ؟ اس پر انہیں سمجھایا گیا کہ اللہ تعالیٰ نے جس طرح ہر کام کا وقت مقرر کر رکھا ہے اسی طرح ہی مجرم کی گرفت اور عذاب کا وقت متعین کیا ہوا ہے۔ اس میں آگا پیچھا نہیں ہوتا۔ اگر یہ وقت مقرر نہ کیا ہوتا تو ان لوگوں پر اللہ کا غضب نازل ہوچکا ہوتا۔ کیونکہ ان کے اعمال ان لوگوں جیسے ہوچکے ہیں جن پر اللہ تعالیٰ نے عذاب نازل کیا تھا۔ کیا ان لوگوں کے لیے یہ دلیل کافی نہیں کہ ان سے پہلے اللہ تعالیٰ نے بہت سی قوموں کو ہلاک کیا۔ جن کے رہنے سہنے کی جگہوں پر یہ چلتے پھرتے ہیں۔ اگر یہ عقل سے کام لیں تو ان کے لیے رہنمائی کے دلائل موجود ہیں۔ ” قَرَنْ“ کی جمع ’ ’ قُرُوْنَ“ ہے۔ ” قَرَنَ“ کے بارے میں اہل علم کے تین خیالات ہیں۔ ١۔ قَرَنْ سے مراد ” ایک سو سال“ ٢۔ ” انسانوں کی ایک نسل“ ٣۔ کسی قوم کا مخصوص دور۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے ہر کام کا وقت مقرر کر رکھا ہے۔ ٢۔ افراد اور قوموں کی تباہی کا وقت بھی متعین ہے۔ ٣۔ اگر عقل سے کام لیا جائے انسان کی ہدایت کے لیے تاریخ اور جغرافیہ کے حوالے کافی ہیں۔ طه
129 طه
130 فہم القرآن ربط کلام : مخالفین کے عذاب کے مطالبہ پر رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نماز پڑھنے اور صبر کرنے کی تلقین۔ قرآن مجید کی تلاوت اور سیرت طیبہ کا مطالعہ کرنے والا ہر شخص جانتا ہے کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بے انتہا جانفشانی، خلوص اور پر سوز طریقے کے ساتھ لوگوں کی ہدایت کے لیے دن رات ایک کیے ہوئے تھے۔ لیکن مخالفین کی حالت یہ تھی کہ وہ آپ کی پرخلوص کوششوں کا بدتر سے بدترین جواب دیتے۔ یہاں تک کہ وہ آپ سے بار بار مطالبہ کرتے کہ جس عذاب کی ہمیں دھمکی دی جاتی ہے۔ اس کے آنے میں کیا رکاوٹ ہے ؟ انسان ہونے کے ناطے سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس صورت حال سے رنج پہنچتا جس سے آپ دل گرفتہ ہوجاتے۔ ان حالات میں آپ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ارشاد ہوتا کہ اے محبوب ! ہمت ہارنے اور دل چھوٹا کرنے کی بجائے صبر و حوصلہ سے کام لیں۔ دل کے سکون اور اپنے رب کی مدد کے حصول کے لیے نماز پڑھتے رہیں۔ کیونکہ نماز پڑھنے اور صبر کرنے سے اللہ تعالیٰ کی مدد نازل ہوتی ہے۔ بالخصوص سورج نکلنے سے پہلے اور اس کے غروب ہونے کے وقت، رات کی ابتداء اور دن کے اطراف کے وقت اللہ کی یاد کے لیے نماز قائم کیجیے تاکہ آپ خوش ہوجائیں۔ خوش ہونے سے مرادطبیعت کا سکون اور دل کا اطمینان حاصل ہونا ہے اس کے ساتھ ہی آپ کو تابناک مستقبل کی پیشگوئی کی گئی ہے۔ سورۃ والضحیٰ میں آفتاب کی روشنی اور رات کی تاریکی کی قسم اٹھا کر اللہ تعالیٰ نے یہ بات ارشاد فرمائی ہے کہ اے پیغمبر آپ کے رب نے نہ تو آپ کو چھوڑا ہے اور نہ ہی آپ سے ناراض ہوا ہے۔ آپ کی آخرت دنیا کی زندگی سے کہیں زیادہ بہتر ہے وہ آپ کو دنیا اور آخرت میں اس قدر عطا فرمائے گا کہ آپ خوش ہوجائیں گے۔ (الضحیٰ: ١ تا ٧) یہاں تہجد اور اشراق کی نماز کے اوقات کے ساتھ پنجگانہ فرض نماز کے اوقات کا تعین کردیا گیا ہے۔ اوقات نماز : صبح کی نماز سورج نکلنے سے پہلے، عصر کی نماز غروب آفتاب سے قبل، عشاء اور مغرب کی نماز رات کی ابتدائی گھڑیوں میں، فجر اور ظہر کی نماز دن کے اطراف میں۔ طَرْفَ کی جمع اَطْرَافَ ہے۔ جس کا معنٰی ہے کسی چیز کا کنارہ۔” اَطْرَاف النَّہَارَ“ کا معنی ہے صبح اور دوپہر کا وقت۔ دوپہر کا وقت دن کا کنارہ اس لیے شمار کیا جاتا ہے کہ آفتاب صبح سے لمحہ بہ لمحہ اوپر چڑھتا ہے اور نصف النہار کے بعد اترنا شروع ہوجاتا ہے۔ اس سے مراد عصر کا وقت بھی ہوسکتا ہے۔ ” حضرت بریدہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نماز کے اوقات کے بارے میں سوال کیا۔ آپ فرماتے ہیں تم ہمارے ساتھ دو دن نمازیں ادا کرو۔ پہلے دن جب سورج ڈھلا ہی تھا تو بلال کو اذان کا حکم دیا۔ اس کے بعد اقامت ظہر ہوئی پھر بلال (رض) کو نماز عصر کی اقامت کا حکم فرمایا جبکہ سورج کافی بلند اور دھوپ تیز تھی پھر سورج غروب ہوتے ہی مغرب کی نماز کھڑی فرمائی ابھی سورج کی سرخی ختم ہونے ہی پائی تھی تو عشاء کی نماز قائم کرنے کا حکم فرمایا۔ پھر صبح کی نماز کا حکم دیاجبکہ فجر ابھی نمودارہی ہوئی تھی۔ جب دوسرا دن ہوا تو بلال (رض) کو نماز ظہر ٹھنڈی کرنے کا حکم صادر فرمایا۔ اس نے ٹھنڈے وقت میں اذان کہی۔ نماز عصر تاخیر سے ادا فرمائی اسے پہلے دن سے قدرے مؤخر کیا لیکن سورج ابھی بلندی پر تھا۔ نماز مغرب سورج کی روشنی کے آثار ختم ہونے سے پہلے ادا کی۔ جب رات کا تیسرا حصہ گزر گیا تو نماز عشا ادا کی گئی، نماز فجر اس وقت ادا کی جب صبح کی روشنی خوب پھیل چکی تھی۔ اب ارشاد ہوا کہ نمازوں کے اوقات پوچھنے والا کہاں ہے؟ وہ عرض کرتا ہے کہ اللہ کے رسول میں حاضر ہوں۔ فرمایا کہ تمہاری نمازوں کے وقت ان اوقات کے درمیان ہیں۔“ [ رواہ البخاری : کتاب مواقیت الصلٰوۃ] مسائل ١۔ دین کے لیے لوگوں کے طعن وتشنیع پر صبر کرنا چاہیے۔ ٢ اللہ کی رضا مندی کے لیے نماز قائم کرنی چاہیے۔ تفسیر بالقرآن نماز اور ذکر کے فوائد : ١۔ وہ لوگ جو کتاب اللہ پر کار بند رہتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں ہم ان کے اجرکو ضائع نہیں کریں گے۔ (الاعراف : ١٧٠) ٢۔ اگر کفار توبہ کریں اور نماز قائم کریں تو ان کی راہ چھوڑ دو۔ (التوبہ : ٥) ٣۔ بے شک نماز بے حیائی اور برے کاموں سے روکتی ہے۔ (العنکبوت : ٤٥) ٤۔ بے شک وہ لوگ جو ایمان لائے اور نیک اعمال کیے اور نماز قائم کی انہیں کسی قسم کا خوف نہیں ہوگا۔ (البقرۃ : ٢٧٧) ٥۔ اے ایمان والو! نماز اور صبر کے ساتھ مدد طلب کرو یقیناً اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ (البقرۃ: ١٥٣) طه
131 فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تیسری تلقین۔ اللہ تعالیٰ نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فطری اور طبعی طور پر مستغنی طبیعت پیدا فرمایا تھا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یتیمی اور انتہائی غربت کا دور دیکھا لیکن کسی کے سامنے دست سوال نہیں پھیلایا۔ نبوت کے دور میں بھی ایسے مواقع آئے کہ کئی کئی دن تک گھر میں چولہا نہیں جلتا تھا۔ اس کے باوجود اپنے اور بیگانے سے کچھ مانگنا تو درکنار کبھی کسی سے اپنی تنگدستی کا اشارتاً بھی ذکر نہیں کیا۔ اسی لیے مفسرین نے اس آیت کا یہ مفہوم لیا ہے کہ آپ کو ان الفاظ سے مخاطب کرنے کا معنٰییہ ہے کہ آپ مالدار طبقے کے بارے میں ایک حد سے زیادہ امید نہ رکھیں کہ یہ لوگ اسلام میں داخل ہوجائیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں انواع و اقسام کی نعمتیں اور دنیا کی زیب و زینت اس لیے دی ہے تاکہ ان کو اچھی طرح آزمایا جائے۔ تیرے رب کا بہتر اور حقیقی رزق وہ ہے جو ہمیشہ رہنے والا ہے۔ عام طور پر رزق کا معنٰیکھانے پینے والی چیز لیا جاتا ہے۔ لیکن اس سے مراد ہر وہ چیز ہے جو اللہ تعالیٰ نے انسان کے لیے پیدا فرمائی ہے۔ یہاں ” رِزْقُ رَبِّک“ کے الفاظ استعمال فرما کر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اور آپ کے ذریعے یہ بات سمجھائی ہے کہ حقیقی رزق وہ ہے جو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ جنت میں اپنے بندوں کو عنایت فرمائے گا۔ (عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنُ بُرَیْدَۃَ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا بُرَیْدَۃَ یَقُولُ کَانَ رَسُول اللَّہ یَخْطُبُنَا إِذْ جَاءَ الْحَسَنُ وَالْحُسَیْنُ عَلَیْہِمَا السَّلاَمُ عَلَیْہِمَا قَمِیصَانِ أَحْمَرَانِ یَمْشِیَانِ وَیَعْثُرَانِ فَنَزَلَ رَسُول اللَّہِ مِنَ الْمِنْبَرِ فَحَمَلَہُمَا وَوَضَعَہُمَا بَیْنَ یَدَیْہِ ثُمَّ قَالَ صَدَقَ اللَّہُ (إِنَّمَا أَمْوَالُکُمْ وَأَوْلاَدُکُمْ فِتْنَۃٌ) فَنَظَرْتُ إِلَی ہَذَیْنِ الصَّبِیَّیْنِ یَمْشِیَانِ وَیَعْثُرَانِ فَلَمْ أَصْبِرْ حَتَّی قَطَعْتُ حَدِیثِی وَرَفَعْتُہُمَا) [ رواہ الترمذی : باب مَنَاقِبِ الْحَسَنِ وَالْحُسَیْنِ عَلَیْہِمَا السَّلاَمُ ] ” حضرت عبداللہ بن بریدہ (رض) سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میں نے اپنے باپ بریدہ کو کہتے ہوئے سنا کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم کو واعظ کر رہے تھے اچانک حسن اور حسین (رض) آئے انہوں نے چھوٹی چھوٹی سرخ قمیض پہن رکھی تھیں وہ چلتے ہوئے گر رہے تھے۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) منبر سے نیچے اترے اور ان کو اپنے ہاتھوں پر اٹھا کر فرمایا۔ اللہ نے سچ کہا ہے (کہ بے شک تمہارے مال واولاد تمہارے لیے فتنہ ہیں) میں نے ان دونوں بچوں کو دیکھا کہ وہ گرتے گراتے آرہے تھے تو میں ضبط نہ کرسکا میں نے اپنی بات کاٹ کر انہیں اٹھا لیا۔“ (عَنْ مُطَرِّفَ بْنَ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ الشِّخِّیرِ یُحَدِّثُ عَنْ رَجُلٍ مِنْ أَصْحَاب النَّبِی ِّ قَالَ کَان بالْکُوفَۃِ أَمِیرٌ قَالَ فَخَطَبَ یَوْماً فَقَالَ إِنَّ فِی إِعْطَاءِ ہَذَا الْمَالِ فِتْنَۃً وَفِی إِمْسَاکِہِ فِتْنَۃً وَبِذَلِکَ قَامَ بِہِ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فِی خُطْبَتِہِ حَتَّی فَرَغَ ثُمَّ نَزَلَ) [ رواہ احمد : مسند عبداللہ بن الشخیر] ” مطرف بن عبداللہ بن شخیر سے روایت ہے وہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ایک صحابی کے بارے میں بیان کرتے ہیں جو کوفہ میں امیر تھے انہوں نے ایک دن اپنے خطبے میں کہا کہ مال کے عطا کیے جانے میں بھی فتنہ ہے اور اس کے روک لیے جانے میں بھی فتنہ ہے اسی بات کو بیان کرنے کے لیے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) منبر پر چڑھے اور بیان کرنے کے بعد نیچے اتر آئے۔“ (روک لیے جانے سے مراد غربت ہے جو انسان کے لیے بہت بڑی آزمائش ہے۔) مسائل ١۔ دنیا داروں کے مال و دولت کو للچائی آنکھ سے نہیں دیکھنا چاہیے۔ ٢۔ دنیا کا مال ہر انسان بالخصوص کافر کے لیے بڑی آزمائش ہے۔ ٣۔ حقیقی اور ہمیشہ رہنے والا رزق جنت کی نعمتیں ہیں۔ تفسیر بالقرآن مال اور اولاد آزمائش ہیں : ١۔ مال اور اولاد دنیا کی زندگی کی زینت ہیں۔ (الکہف : ٤٦) ٢۔ مال اور اولاد تمھارے لیے فتنہ ہے۔ (التغابن : ١٥) ٣۔ مال واولاد انسان کے لیے آزمائش ہے اللہ کے ہاں بہت بڑا اجر ہے۔ (التغابن : ١٥) ٤۔ یقیناً مال اور اولاد تمہارے لیے فتنہ ہیں اور اللہ کے ہاں ہی بہتر اجر ہے۔ ( الانفال : ٢٨) ٥۔ اے ایمان والو! تمہیں تمہارے مال اور اولاد ہلاکت میں میں مبتلا نہ کردیں۔ ( المنافقون : ٩) طه
132 فہم القرآن ربط کلام : اس سے پہلے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نماز کی تلقین کی گئی اور اس آیت میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ارشاد ہوا کہ اپنے گھر والوں کو بھی نماز پڑھنے کا حکم دیں۔ ہر مسلمان بالخصوص ایک راہنما کے بنیادی فرائض میں یہ بات شامل ہے کہ وہ اپنی اصلاح کے ساتھ اپنے اہل و عیال کی اصلاح کے لیے بھی کوشش کرتا رہے تاکہ اس کی اور اس کے اہل خانہ کی ذات معاشرے کے لیے ایک مثال ثابت ہو۔ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنی امت اور پوری دنیا کے لیے نمونہ کے طور پر مبعوث کیا گیا ہے۔ اس لیے پہلے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ارشاد ہوا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پانچ وقت نماز قائم کریں۔ اب حکم ہوا کہ اپنے گھر والوں کو بھی حکم فرمائیں کہ وہ نماز پر قائم رہیں جہاں تک رزق کا معاملہ ہے اللہ تعالیٰ تم سے رزق کا مطالبہ نہیں کرتا۔ بلکہ وہ تمھیں روزی دینے والا ہے۔ بالآخر پرہیزگاری اختیار کرنے والوں کا انجام بہتر ہوگا۔ (عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَیْبٍ عَنْ أَبِیْہِ عَنْ جَدِّہٖ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مُرُوْا أَوْلَادَکُمْ بالصَّلَاۃِ وَھُمْ أَبْنَاءُ سَبْعِ سِنِیْنَ وَاضْرِبُوْھُمْ عَلَیْھَا وَھُمْ أَبْنَاءُ عَشْرٍ وَفَرِّقُوْا بَیْنَھُمْ فِی الْمَضَاجِعِ) [ رواہ ابوداوٗد : کتاب الصلاۃ، باب متی یؤمر الغلام بالصلاۃ] ” حضرت عمر و بن شعیب اپنے باپ سے وہ اپنے دادا (رض) سے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اپنی اولاد کو سات سال کی عمر میں نماز کا حکم دو اور دس سال کی عمر میں انہیں نماز نہ پڑھنے کی وجہ سے سزا دو۔ اور ان کے بستر الگ کردو۔“ مسائل ١۔ اپنے گھر والوں کو نماز کا حکم دینا چاہیے۔ ٢۔ نماز پر ہمیشگی ہونی چاہیے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ کسی چیز کا محتاج نہیں بلکہ کائنات اس کی محتاج ہے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی رزق دینے والا نہیں۔ طه
133 فہم القرآن ربط کلام : تقویٰ اختیار کرنے والوں کے مقابلے میں دنیا دار لوگوں کی روش اور ان کا انجام۔ کفار کی عادت تھی اور ہے کہ وہ بار بار ایک ہی بات دھراتے جاتے ہیں۔ اسی بری عادت اور نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پریشان کرنے کی خاطر کفار وقفے، وقفے کے بعد مطالبہ کرتے کہ اگر آپ واقعی سچے نبی ہیں تو کوئی ایسی دلیل اور معجزہ پیش کریں جس سے ہم مجبور ہوجائیں کہ آپ واقعی ہی نبی ہیں۔ قرآن مجید میں اس کے کئی جواب دیے گئے ہیں۔ لیکن اس موقعہ پر صرف اتنا کہنا ہی کافی سمجھا گیا کہ کیا آپ کی نبوت کے ثبوت تورات، انجیل، زبور میں نہیں پائے جاتے۔ مثال کے طور پر توراۃ اور انجیل کے حسب ذیل مقامات ملاحظہ ہوں جہاں حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آمد کے متعلق صاف اشارات موجود ہیں : استثناء، باب ١٨، آیت ١٥ تا ١٩۔ متی، باب ٢١، آیت ٣٣ تا ٤٦۔ یوحنا، باب، آیت ١٩ تا ٢١۔ یوحنا، باب ١٤، آیت ١٥ تا ١٧ و آیت ٢٥ تا ٣٠، یوحنا، باب ١٥، آیت ٢٥ تا ٢٦۔ یوحنا، باب ١٦، آیت ٧ تا ١٥۔ مسائل ١۔ کفار آپ سے نت نئے معجزات طلب کرتے۔ ٢۔ آپ کا تذکرہ پہلی کتابوں میں موجود ہے۔ تفسیر بالقرآن نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کے ثبوت : ١۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پوری دنیا کے رسول ہیں۔ (الاعراف : ١٥٨) ٢۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سب کے رسول ہیں۔ (سباء : ٢٨) ٣۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مبشر اور نذیر ہیں۔ (الاحزاب : ٤٥) ٤۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رحمت عالم ہیں۔ (الانبیاء : ١٠٧) ٥۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خاتم النبیین ہیں۔ (الاحزاب : ٤٠) طه
134 فہم القرآن ربط کلام : نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کی ضرورت اور اس کی دلیل۔ اللہ تعالیٰ نے از راہ کرم یہ ضابطہ اپنے لیے طے کر رکھا ہے کہ اس وقت تک لوگوں کو ہلاک نہ کیا جائے جب تک ان پر اتمام حجّت نہ ہوجائے۔ اسی لیے انبیاء (علیہ السلام) کو مبعوث کیا گیا اور یہی نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو آخری نبی کے طور پر مبعوث کرنے کا مقصد ہے تاکہ اہل کتاب اور قیامت تک کے لیے پیدا ہونے والے لوگوں پر حجت قائم ہوجائے۔ اگر ایسا نہ کیا جاتا تو لوگ بہانہ بناتے اور کہتے کہ اے رب ہمارے پاس کوئی سمجھانے والا آتا تو ہم اس کی بات مان کر اس ذلّت اور عذاب سے بچ جاتے۔ کیونکہ اب نبی آخرالزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مبعوث ہوچکے ہیں۔ لہٰذا نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت اور دعوت کو ماننا تمام لوگوں کا فرض ہے۔ اگر آپ کی بے پناہ کوشش کے باوجود لوگ حق بات کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ تو نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ارشاد ہوا کہ آپ ان لوگوں پر مزید وقت صرف کرنے کی بجائے صرف یہ ارشاد فرمائیں کہ حق کا انکار کرنے والو! مجھ سے مزید الجھنے کی بجائے آخری فیصلے کا انتظار کرو۔ میں بھی اللہ تعالیٰ کے فیصلہ کا انتظار کرتا ہوں۔ عنقریب تمھیں معلوم ہوجائے گا کہ کون صراط مستقیم اور ہدایت پر ہے۔ (مَنِ اھْتَدٰی فَاِنَّمَا یَھْتَدِیْ لِنَفْسِہٖ وَ مَنْ ضَلَّ فَاِنَّمَا یَضِلُّ عَلَیْھَاوَ لَا تَزِرُ وَازِرَۃٌ وِّزْرَ اُخْرٰی وَ مَا کُنَّا مُعَذِّبِیْنَ حَتّٰی نَبْعَثَ رَسُوْلًا)[ بنی اسرائیل : ١٥] ” جس نے ہدایت پائی اس نے اپنے ہی لیے ہدایت پائی اور جو گمراہ ہوا اس کا وبال اسی پر ہے اور کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا اور ہم پیغام پہنچانے سے پہلے کسی کو عذاب نہیں دیتے۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو آخری نبی کے طور پر اس لیے مبعوث فرمایا تاکہ لوگوں پر حجّت تمام ہوجائے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ لوگوں پر حجّت قائم کیے بغیر عذاب نہیں کرتا۔ ٣۔ دنیا کی ذلّت اور آخرت کے عذاب سے بچنے کا طریقہ یہ ہے کہ لوگ نبی آخر الزمان کی اتباع کریں۔ ٤۔ منکرین حق کے ساتھ ہر وقت بحث و تقرار کرنے کی بجائے معاملہ اللہ تعالیٰ کے حوالے کردینا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن داعی کو کفار کے ساتھ کیا رویہّ اختیار کرنا چاہیے : ١۔ داعی اور قائد کو ہمدرد ہونا چاہیے۔ (التوبۃ: ١٢٨) ٢۔ اللہ کے دین کی طرف لوگوں کو حکمت اور اچھی نصیحت کے ساتھ بلانا چاہیے۔ (النحل : ١٢٥) ٣۔ فرما دیجیے یہ میرا راستہ ہے میں اس کی طرف بصیرت کے ساتھ بلاتاہوں۔ (یوسف : ١٠٨) ٤۔ انہیں آپ کے ساتھ جھگڑا نہیں کرنا چاہیے کیونکہ آپ ان کو اپنے پروردگار کی طرف بلاتے ہیں۔ (الحج : ٦٧) ٥۔ جب اللہ کے احکام آپ پر نازل ہوں تو آپ ان کی طرف لوگوں کو بلائیں۔ (القصص : ٨٧) ٦۔ آپ انہیں دین حق کی طرف بلائیں اور اللہ کے حکم پر قائم رہیں۔ (الشوریٰ : ١٥) ٧۔ برائی کا بدلہ اچھائی سے دینا چاہیے۔ ( حٰم السجدۃ: ٣٤) طه
135 طه
0 سورۃ الانبیاء کا تعارف ربط سورۃ: سورۃ طٰہٰ ان الفاظ پر ختم ہوئی ہے کہ اگر یہ لوگ حقائق ماننے کے لیے تیار نہیں تو اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ انہیں فرمادیں کہ میں بھی انتظار کرتا ہوں اور تم بھی انتظار کرو کہ کون سیدھے راستے پر ہے اور کس کا انجام اچھا ہوتا اور کون ” اللہ“ کی گرفت میں آتا ہے۔ سورۃ الانبیاء کا آغاز ان الفاظ سے ہوتا ہے کہ یہ لوگ برے انجام کے منتظر ہیں تو انہیں فرما دیں کہ ممکن ہے کہ دنیا میں تمہیں پوری زندگی ڈھیل مل جائے لیکن قیامت تو قریب آن پہنچی ہے مگر ان لوگوں کا حال یہ ہے کہ وہ اپنے حساب و کتاب کے بارے میں غفلت میں پڑے ہوئے ہیں۔ سورۃ الانبیاء مکی سورۃ ہے اس کے 7 رکوع اور 112 آیات ہیں۔ اس سورۃ مبارکہ میں بڑے بڑے انبیاء کا ذکر ہوا ہے اس لیے اس کا نام سورۃ الانبیاء رکھا گیا ہے ان کے پاس جب بھی کوئی نئی نصیحت آتی ہے تو یہ اسے شغل کے طور پر لیتے اور کہتے ہیں یہ تو پراگندہ خیالات ہیں جنہیں جوڑ جاڑ کر ایک عنوان اور کہانی کی شکل دی جاتی ہے۔ بلکہ یہ شاعرانہ تخیّلات ہیں، جسے ہمارے جیسا آدمی بنا کر پیش کرتا ہے۔ بھلا یہ بھی ہوسکتا ہے کہ انسان، رب ذوالجلال جیسی ہستی سے ہم کلام ہوا۔ ان کی غلط فہمی اور کج بحثی کا جواب یہ کہہ کردیا گیا ہے جن لوگوں سے تم مختلف قسم کے اعتراض سیکھتے ہو انہی سے پوچھ لو کہ پہلے انبیاء کرام انسان تھے یا کوئی اور مخلوق تھے؟ وہ تو کھانے پینے والے انسان تھے ان کے مخالفوں نے بشریت کی بنا پر انبیاء کی تکذیب کی جس کے نتیجہ میں انہیں گلی کے تنکوں سے بھی حقیر کردیا گیا۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے دنیا کو کھیل تماشا کے طور پر پیدا کیا ہے۔ کیا انہیں ہوش نہیں کہ اگر ہم دنیا کو کھیل تماشا اور اپنی دل لگی کے لیے پیدا کرتے تو یہ تماشا ہمیں اپنے پاس کرنا چاہیے تھا یا زمین پر؟ انہیں پیدا کرنے اور انبیاء بھیجنے کا مقصد یہ ہے کہ لوگوں پر حق واضح کر دیاجائے۔ سب سے بڑا حق یہ ہے کہ ” اللہ“ اکیلا ہی معبود برحق ہے اس کے سوا کوئی خالق ومالک، رازق اور عبادت کے لائق نہیں اگر اس کے ساتھ کوئی اور بھی الٰہ ہوتا تو ان کا آپس میں دنگا وفساد ہوجاتا۔ اس کے بعد زمین و آسمانوں کی تخلیق اور لیل ونہار کی گردش کے حوالے سے ” اللہ“ نے اپنے وحدہ لا شریک ہونے کے ثبوت دئیے ہیں۔ اے نبی آپ کے رب نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنا رسول منتخب کیا ہے تاکہ آپ لوگوں کو بتلائیں اور سمجھائیں کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق، حاجت روا اور مشکل کشا نہیں۔ اس کا فرمان ہے کہ صرف میری ہی عبادت کی جائے۔ اسی ذات نے زمین و آسمانوں کو ایک دوسرے سے الگ کیا جو پہلے باہم ملے ہوئے تھے اور اسی نے ہر جاندار کی زندگی کا دارومدار پانی پر قائم فرمایا۔ اسی نے ہر نفس کے لیے موت کا ایک وقت مقرر کیا ہے اس نے کسی بشر کو ہمیشہ رہنے کے لیے پیدا نہیں کیا۔ کیا آپ کو موت آئے گی اور آپ کے مخالف ہمیشہ رہیں گے ؟ ہرگز نہیں بلکہ ہر شخص نے اپنے رب کے حضور پیش ہونا ہے اور وہی اس کا حساب لے گا۔ اس کے بعد حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی دعوت کا خلاصہ بیان کیا گیا ہے جس کے رد عمل میں انہیں آگ میں جھونکا گیا لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے آگ کو گلزار بنا دیا۔ نہ صرف ان کے لیے آگ جائے آرام اور پناہ بن گئی بلکہ اللہ تعالیٰ نے انہیں ظالموں سے بچا کر بابرکت زمین یعنی فلسطین میں قیام اور مقام عنایت فرمایا اور ان کی دعوت میں برکت دی۔ انہیں اسحاق اور یعقوب (علیہ السلام) جیسی عظیم المرتبت اولاد سے سرفراز فرمایا۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے بعد حضرت نوح (علیہ السلام) کی مشکلات کا ذکر کیا جو بالآخراپنے رب کی مدد سے منکرین حق پر غالب آئے۔ ان کے بعد حضرت داؤد حضرت سلیمان کے اقتدار اور اختیار کا ذکر کیا گیا جس میں یہ اشارہ ہے کہ اقتدار اور اختیار حاصل ہونے کے باوجود کوئی آدمی کسی کے دل میں ہدایت داخل نہیں کرسکتا۔ ورنہ ان کی وفات کے بعد جنّات بغاوت نہ کرتے۔ پھر حضرت ایوب (علیہ السلام) کی جسمانی تکلیف کا ذکر کیا ہے تاکہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلّی ہو کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو صحت اور جسمانی توانائی سے نوازا ہے۔ حضرت ایوب (علیہ السلام) نہ صرف جسمانی تکلیف میں مبتلا تھے بلکہ مال، اولاد ختم ہونے کی وجہ سے انتہا درجے کی روحانی پریشانی سے بھی مدت تک آزمائے گئے مگر انہوں نے صبر کیا جس کے صلہ میں انہیں دنیا میں ہی نعمتوں سے نوازا گیا۔ حضرت ایوب (علیہ السلام) کے بعد حضرت اسماعیل (علیہ السلام)، حضرت ادریس (علیہ السلام)، حضرت ذالکفل (علیہ السلام)، حضرت یونس (علیہ السلام)، حضرت زکریا (علیہ السلام) کا ذکر گرامی ہوا۔ ان سب کو ایک امت قرار دیا گیا ہے جو صرف ایک ہی رب کی عبادت کرنے والے اور اسی کی طرف بلانے والے تھے۔ اس سورۃ کے آخر میں قرب قیامت اور اس کے برپا ہونے کے وقت زمینوں و آسمانوں کی جو حالت ہوگی اس کا ہلکا سا ایک منظر پیش کیا ہے۔ دوسرے انبیاء کے ذکر کے بعد حضرت داؤد (علیہ السلام) کے حوالے سے فرمایا ہے کہ ہم نے زبور میں لکھ دیا تھا کہ زمین میں اقتدار صالح لوگوں کو دیا جائے گا۔ سورۃ کے آخر میں نبی آخر الزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو رحمۃ العالمین کے لقب سے نوازا گیا ہے۔ اور آپ کو یہ تعلیم دی گئی کہ لوگوں کے مقابلے میں اللہ تعالیٰ ہی آپ کی مدد کرنے والا ہے۔ لہٰذا اسی پر توکل رکھو۔ الأنبياء
1 فہم القرآن ربط کلام : سورۃ طٰہٰ کا اختتام اس بات پر ہوا تھا۔ اے لوگو! جس عذاب کا تم مطالبہ کرتے ہو اس کا انتظار کرو۔ میں بھی تمھارے ساتھ انتظار کرتا ہوں۔ سورۃ الانبیاء کی ابتداء اس بات سے ہو رہی ہے کہ منکرین حق جس عذاب کا انتظار کر رہے ہیں وہ تو قریب آن پہنچا ہے۔ احتساب اور عذاب کا دن قریب آپہنچا ہے۔ لیکن منکرین حق غفلت کی بناء پر اس سے اعراض کیے ہوئے ہیں۔ ان کے پاس ان کے رب کی طرف سے جب بھی کوئی نئی نصیحت آتی ہے تو اسے شغل کے طور پر لیتے اور سنتے ہیں۔ انھیں متنبہ کیا جا رہا ہے کہ جس عذاب کا تم مطالبہ کرتے ہو قیامت کے دن تم اس میں مبتلا کیے جاؤ گے۔ منکرین حق کے لیے یہ انتقام اور سخت عذاب کا دن ہوگا جو قریب ہی آن پہنچا ہے۔ اس فرمان کا مفہوم یہ ہے کہ قیامت پہلے لوگوں کی نسبت تمھارے زیادہ قریب آچکی ہے قیامت سے مراد قیامت کبریٰ بھی ہے اور ہر انسان کی موت بھی جو اس کے لیے قیامت ہی ہوا کرتی ہے۔ اگر انسان اپنی زندگی پر غور کرے تو ہر آنے والا دن اسے موت کے قریب کر رہا ہے۔ اس طرح ہر شخص دن بدن قیامت کے قریب تر ہوا جا رہا ہے لیکن لوگ غفلت کی بنا پر اس سے لاپرواہی کیے ہوئے ہیں۔ ایسے لوگوں کو جب بھی نصیحت کی جائے تو وہ اسے شغل کے طور پر سنتے ہیں۔ یہی حالت نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مخاطبین کی تھی کہ جب بھی ان کے سامنے نازل ہونے والی نئی آیات پڑھی جاتی ہیں تو وہ اس سے یہ کہہ کر اعراض کرتے ہیں کہ یہ تو اس شخص کا روز مرّہ کا کام ہے اور یہ نئی سے نئی پیشگوئی اور دھمکی دیتا ہے۔ اس پر انھیں انتباہ کیا گیا کہ وہ وقت دور نہیں کہ جب تمہاری یا وہ گوئی کا حساب چکا دیا جائے گا۔ (مَنْ مَاتَ فَقَدْ قَامَتْ قِیَامَتُہٗ )[ لسلسلۃ الضعیفۃ و الموضوعۃ ] ” جو شخص مر گیا اس پر قیامت قائم ہوگئی“ (عَنْ شُعْبَۃَ (رض) عَنْ قَتَادَۃَ عَنْ اَنَسٍ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بُعِثْتُ اَنَاو السَّاعَۃُ کَھَاتَیْنِ قَالَ شُعْبَۃُ وَسَمِعْتُ قَتَادَۃَیَقُوْلُ فِیْ قَصَصِہٖ کَفَضْلِ اِحْدٰھُمَا عَلَی الْاُخْرٰی فَلَا اَدْرِیْ اَذَکَرَہُ عَنْ اَنَسٍٍٍ اَوْ قَالَہُ قَتَادَۃُ) [ رواہ البخاری : کتاب الرقاق] حضرت شعبہ، قتادہ ;سے اور وہ حضرت انس (رض) سے بیان کرتے ہیں رسول مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا مجھے اور قیامت کو ان دو انگلیوں کی طرح بھیجا گیا ہے شعبہ کہتے ہیں میں نے قتادہ کو یہ بیان کرتے ہوئے سنا جیسا کہ ان دونوں انگلیوں میں سے ایک کو دوسری پر بر تری حاصل ہے شعبہ کہتے ہیں کہ مجھے معلوم نہیں کہ انہوں نے حضرت انس (رض) سے بیان کیا ہے یا قتادہ کا قولنقل ہے۔“ (یعنی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قیامت کے دن کے درمیان کوئی اور نبی نہیں آنا) مسائل ١۔ قیامت ہر شخص کے قریب سے قریب تر ہو رہی ہے۔ ٢۔ قیامت کے دن ہر شخص کا حساب چکا دیا جائے گا۔ ٣۔ لوگ قیامت کے بارے میں غفلت کا روّیہ اختیار کیے ہوئے ہیں۔ ٤۔ حق کے منکر حق بات کو بھی شغل کے طور پر لیتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن منکرین کا حق کے ساتھ رویہّ : ١۔ منکرین کے پاس جب نصیحت آتی ہے تو اسے ہنسی کھیل کے طور پر لیتے ہیں۔ (الانبیاء : ٢) ٢۔ جب ان کے پاس حق آتا ہے تو کہتے ہیں یہ سراسر جادو ہے۔ (یونس : ٧٦) ٣۔ منکرین نے حق کی تکذیب کی اور یہ لوگ بے بنیاد بات پر جمے ہوئے ہیں۔ (ق : ٥) ٤۔ منکرین حق کے مقابلہ میں ظن کی پیروی کرتے ہیں اور ظن حق کے مقابلہ میں کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ (النجم : ٢٨) ٥۔ جب ان کے پاس حق آیا تو انہوں نے کہا کہ یہ جادو ہے ہم اس کو نہیں مانتے۔ ( الزخرف : ٣٠) ٦۔ جب ان کے پاس ہماری طرف سے حق آیا تو کہنے لگے کاش کہ ہمیں بھی وہ چیز عطا کی جاتی جو موسیٰ (علیہ السلام) کو عطا کی گئی۔ (القصص : ٤٨) الأنبياء
2 الأنبياء
3 فہم القرآن ربط کلام : قیامت کے بارے میں لاپرواہی اور حق بات کو شغل کے طور پر لینے کا بنیادی سبب دل کی غفلت ہے۔ انسان کا دل، حق بات کے بارے میں غفلت کا شکار ہوجائے تو مؤثر ترین بات بھی اس پر اثر انداز نہیں ہوتی۔ یہی حالت سرور دو عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مخالفین کی تھی۔ جس کا ” قَالُوْا قُلُوْا بُنَا غُلْفٌ“ کہہ کر برملا اعتراف کرتے تھے۔ (البقرۃ: ٨٨) کہ ہمارے دل پر دہ میں ہیں۔ اسی بناء پر انھوں نے اپنی خفیہ مجالس میں پوری راز داری کے ساتھ ایک منظم پراپیگنڈہ کا فیصلہ کیا جس کے پیش نظر وہ لوگوں کو کہتے کہ محمد یوں ہی نبوت کا دعویٰ کرتا ہے۔ حالانکہ ہمارے جیسا انسان ہے اس میں کوئی خاص خوبی نہیں ہے۔ وہ یہ کہہ کر بھی لوگوں کو متنفر کرتے کہ لوگو! کیا تم جیتے جاگتے اور اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہوئے اس کے جادو میں مبتلا ہوجاؤ گے۔ حالانکہ وہ جانتے تھے کہ جادو کی کوئی حقیقت نہیں ہوتی۔ جادوگر پیٹ کے دھندے کی خاطر نہ صرف الٹے سیدھے کرتب دکھاتا ہے بلکہ اسے جادو کرنے کے لیے دانستہ طور پر گندا اور ناپاک رہنا پڑتا ہے۔ اس کے بغیر جادوگر کامیاب نہیں ہوسکتا۔ نبی محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں ایسی کوئی کمزوری موجود نہ تھی۔ لیکن اس کے باوجود وہ آپ کو جادوگر کہتے کیونکہ آپ کی ذات اور دعوت میں اس قدر تاثیر تھی کہ آپ پر ایمان نہ لانے والے لوگ بھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات اور بات سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے تھے۔ یہی وہ الزام ہے جو پہلے انبیاء کرام (علیہ السلام) پر بھی لگایا جاتا تھا۔ جہاں تک آپ کے بشر ہونے کا تعلق ہے اس بات کا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ سے پہلے انبیاء (علیہ السلام) برملا اعتراف کرتے تھے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم تمھارے جیسے انسان ہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے ہم پر احسان فرمایا کہ ہمیں اپنے کام کے لیے منتخب فرمایا ہے۔ (ابراہیم : ١١) اس اعتراف کے باوجود مخالفین آپ کے بشر ہونے کو بہانہ بنا کر لوگوں کو دین سے دور کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ بے شک آپ بشر تھے لیکن پوری بنی نوع سے اعلیٰ اور افضل تھے، مگر پھر بھی مشرکین مکہ آپ کو جادوگر کے طور پر پیش کرتے تھے۔ جس کا یہ کہہ کر جواب دیا گیا کہ میرا رب نہ صرف زمین پر ہونے والی باتوں کو جانتا ہے بلکہ وہ زمین و آسمان کی ہر بات کو سننے اور جاننے والا ہے۔ جادو کیا ہے ؟ (اَلسِّحْرُ ہُوَ عَقْدٌ وَرُقیً وَکَلَامٌ یُتَکَلَّمُ بِہٖ اَوْ یَکْتُبُہُ اَوْیَعْمَلُ شَیْءًا یُؤَثَّرُ فِیْ بَدَنِ الْمَسْحُوْرِ اَوْ قَلْبِہٖ اَوْ عَقْلِہٖ) [ المغنی ابن قدامہ] ” جادو، دم گرہیں‘ دم اور ایسی تحریر یا حرکات پر مشتمل ہوتا ہے۔ جس کے ذریعے دوسرے کے وجود اور دل و دماغ پر اثر انداز ہوا جاتا ہے۔“ (وَالسِّحْرُہُوَ مُرَکَّبُ مِّنْ تَأْ ثِیْرَاتِ الْاَرْوَاحِ الْخَبِیْثَۃِ وَانْفِعَالِ الْقُوٰی الطَّبِیْعِیَّۃِ عَنْھَا) [ زاد المعاد] ” جادو خبیث جنات کے ذریعے کیا جاتا ہے جس سے لوگوں پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔“ جادو کوئی مستقل اور مستند علم نہیں کہ جس کو کرنے کے لیے کوئی خاص طریقہ متعین کیا گیا ہو کیونکہ جادو تصنّع بازی کا نام ہے اس لیے ہر دور میں اس کی کرشمہ سازی اور اثر انگیزی میں اضافہ کرنے کے لیے نئے نئے طریقے ایجاد کیے گئے۔ ١۔ کفر یہ، شرکیہ الفاظ کے ہیر پھیر کے ذریعے جادو کرنا۔ ٢۔ خبیث جنّات اور شیاطین کے ذریعے کسی پر اثر انداز ہونا۔ ٣۔ علم نجوم کے ذریعے غیب کی خبریں دینا اور دوسرے کو متاثر کرنا۔ ٤۔ توجہ، مسمریز کی مخصوص حرکات، (ہیپناٹیزم) کیساتھ حواس خمسہ کو قابو کرنا۔ تفصیل کے لیے البقرۃ آیت 103 کی تفسیر دیکھیں۔ مسائل ١۔ قرآن مجید کی تاثیر سے مرعوب ہو کر کفار اسے جادو قرار دیتے تھے۔ ٢۔ کفار آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلاف منظم پر اپیگنڈہ کیا کرتے کہ آپ ایک عام انسان اور جادوگر ہیں۔ ٣۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نبی نوع کے اعتبار سے انسان تھے مگر پوری کائنات سے اعلیٰ اور افضل ہیں۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ سب کچھ جانتا ہے : ١۔ اللہ دلوں کے راز جانتا ہے۔ (ہود : ٥) ٢۔ جوا للہ جانتا ہے تم نہیں جانتے۔ (البقرہ : ٢١٦) ٣۔ اللہ کا علم فرشتے بھی نہیں جانتے۔ (البقرہ : ٣٠) ٤۔ اللہ تعالیٰ دلوں کے بھید جانتا ہے۔ (المائدۃ: ٧) ٥۔ اللہ آنکھوں کی خیانت کو جانتا ہے۔ (المومن : ١٩) ٦۔ اللہ خشکی اور تری کی پوشیدہ چیزوں سے واقف ہے۔ (الانعام : ٥٩) ٧۔ کیا آپ نہیں جانتے اللہ آسمان و زمین کی ہر چیز کو جانتا ہے۔ (الحج : ٧٠) ٨۔ اللہ تعالیٰ کے لیے مثالیں بیان نہ کرو اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔ (النحل : ٧٤) ٩۔ اس بات کو اچھی طرح جان لو کہ اللہ تمہارے دلوں میں پرورش پانے والے خیالوں سے بھی واقف ہے۔ (البقرۃ : ٢٣٥) الأنبياء
4 الأنبياء
5 فہم القرآن ربط کلام : نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات پر کفار کا دوسرا اور تیسرا الزام۔ سرورِ دو عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مخالفت میں کفار اس حد تک بدحواس ہوچکے تھے کہ وہ قرآن مجید کی تاثیر اور اس کی فصاحت و بلاغت ماننے کے باوجود لوگوں کے سامنے یہ پراپیگنڈہ کرتے کہ یہ تو خواب میں دیکھے جانے والے پراگندہ خیالات ہیں۔ جنھیں اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کیا جاتا ہے جو سراسر جھوٹ ہے۔ کبھی کہتے یہ شخص توشاعر ہے۔ اگر یہ واقعی ہی رسول ہوتا تو جس طرح پہلے انبیاء (علیہ السلام) معجزات کے ساتھ بھیجے گئے یہ بھی کوئی معجزہ پیش کرتا۔ یہاں ان الزامات کا فقط یہ جواب دیا گیا ہے کہ جنھیں ہم نے ہلاک کیا تھا۔ وہ بھی معجزات دیکھنے کے باوجود اپنے انبیاء پر ایمان نہیں لائے تھے اگر ان کے پاس ان کا منہ مانگا معجزہ آجائے تو کیا پھر یہ ایمان لے آئیں گے ؟ ایسا ہرگز نہیں ہوگا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس سے پہلے چاند کا دو ٹکڑے ہونا، معراج کے موقعہ پر مسجد اقصیٰ کا نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے لایا جانا اور اس کو دیکھ دیکھ کر کفار کو ٹھیک ٹھیک مسجد اقصیٰ کی نشانیاں بتلانا، پتھروں کا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کی شہادت دینا۔ اس طرح کے کئی معجزات کفار کے مطالبات پر ظاہر ہوچکے تھے۔ مگر اس کے باوجود اہل مکہ کی غالب اکثریت فتح مکہ سے پہلے ایمان نہیں لائی تھی۔ جس بناء پر ارشاد ہوا کہ اگر ان کا منہ مانگا معجزہ بھی انھیں دکھلا دیا جائے تو پھر بھی یہ ایمان نہیں لائیں گے۔ جہاں تک آپ پر شاعر ہونے کا الزام ہے۔ اس کا جواب یوں دیا گیا کہ ” شاعر کے دماغ میں شیطان ادھر ادھر کی باتیں ڈالتا ہے اور وہ اکثر جھوٹ ہوتی ہیں اور شاعروں کی پیروی کرنے والے اکثر لوگ گمراہ ہوتے ہیں۔“ ( نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر شاعر ہونے کا الزام لگانے والو ! غور کرو) کہ شاعر تو ہر وادی میں سرگرداں پھرتے ہیں اور وہ باتیں کہتے ہیں جن پر ان کا عمل نہیں ہوتا۔ (الشعراء : ٢٢٣ تا ٢٢٦) قرآن مجید کے دوسرے مقام پر اس الزام کا یہ بھی جواب دیا گیا ہے۔ ” ہم نے اپنے پیغمبر کو شاعری نہیں سکھلائی اور نہ ہی اس کی شایان شان ہے۔ وہ شعر کہیں جس بات کو یہشاعری کہتے ہیں یہ تونصیحت اور واقع ہی قرآن مجید ہے۔ (یٰس : ٩٦) ستائیسویں پارہ میں اس الزام کا اس طرح جواب دیا ہے : کفار کہتے ہیں کہ یہ تو شاعر ہے۔ اس لیے ہم اس کے متعلق حادثات زمانہ کا انتظار کر رہے ہیں۔ ان سے فرما دئیں کہ انتظار کرو میں بھی تمہارے بارے میں منتظر ہوں۔ (الطور : ٢٩۔ ٣٠) اچھے شعر قابل تعریف ہیں : (وَعَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) أَصْدَقُ کَلِمَۃٍ قَالَھَا الشَّاعِرُ کَلِمَۃُ لَبِیْدٍ أَلَاکُلُّ شَیْءٍ مَاخَلا اللّٰہَ بَاطِلُ) [ رواہ البخاری : باب مَا یَجُوزُ مِنَ الشِّعْرِ وَالرَّجَزِ وَالْحُدَاءِ وَمَا یُکْرَہُ مِنْہُ ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا‘ سب سے زیادہ درست بات، جو کسی شاعر نے کہی وہ لبید کی بات ہے کہ ” سنو! اللہ کے علا وہ تمام چیزیں فنا ہونے والی ہیں۔“ (وَعَنْ أُبَیِّ ابْنِ کَعْبٍ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اِنَّ مِنَ الشِّعْرِ حِکْمَۃً۔) [ رواہ البخاری : باب مَا یَجُوزُ مِنَ الشِّعْرِ وَالرَّجَزِ وَالْحُدَاءِ وَمَا یُکْرَہُ مِنْہُ ] ” حضرت ابی بن کعب (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا‘ بلا شبہ بعض اشعار حکمت سے لبریز ہوتے ہیں۔“ مسائل ١۔ کفار قرآن مجید کو خواب کی باتیں قرار دیتے تھے۔ ٢۔ کفار نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو شاعر کہتے تھے۔ ٣۔ کفار آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نئے سے نیا معجزہ مانگتے تھے۔ تفسیر بالقرآن شعر اور شاعرکی حقیقت : ١۔ ہم نے آپ کو شعر نہیں سکھلائے اور نہ ہی یہ آپ کے لیے لائق ہے۔ (یٰس : ٦٩) ٢۔ شاعروں کی پیروی گمراہ لوگ ہی کرتے ہیں وہ ہر وادی میں گھومتے ہیں اور وہ کچھ کہتے ہیں جو وہ کرتے نہیں (الشعراء : ٢٢٤ تا ٢٢٦) ٣۔ قرآن مجید کسی شاعر کا کلام نہیں مگر تھوڑے ہی لوگ ایمان لاتے ہیں۔ (الحاقۃ: ٤١) ٤۔ آپ اپنے رب کے فضل وکرم سے شاعر اور مجنون نہیں ہیں۔ ( القلم : ٢) شعر اور شعراء کے بارے میں سورۃ الشعراء کی آیت ٢٢٥ کی تفسیر ملاحظہ فرمائیں۔ الأنبياء
6 الأنبياء
7 فہم القرآن ربط کلام : آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بشر ہونے کا ایک اور جواب۔ قرآن مجید نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور انبیاء (علیہ السلام) کے حوالے سے کئی مقامات پر اس بات کی وضاحت فرمائی ہے کہ آپ اور پہلے انبیاء کرام (علیہ السلام) بشر تھے۔ اور سب کے سب کھانے، پینے والے انسان تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے جسم ایسے نہیں بنائے تھے جو کھانے پینے کی حاجت سے بے نیاز ہوں اور نہ ہی وہ ہمیشہ رہنے والے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اس دنیا سے انتقال کر گئے۔ کہ اگر ان لوگوں کو اس بات پر پھر بھی یقین نہیں آتا تو انھیں چاہیے کہ اہل ذکر سے پوچھ لیں کہ جتنے پیغمبر بھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پہلے مبعوث کیے گئے ہیں وہ سب کے سب انسان تھے۔ اہل ذکر سے مراد اہل علم ہیں جو شریعت کا علم رکھنے والے ہیں اور بخل و خیانت سے کام نہیں لیتے۔ اہل الذّکر کا دوسرا مفہوم یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ایسے علماء سے مسئلہ دریافت کیا جائے۔ جن کی دین کے بارے میں یادداشت اچھی ہو اور ” اللہ“ کے خوف سے سچی بات بتلانے والے ہوں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان کہ میں ایک بشر ہوں : (عَنْ عَلْقَمَۃَ قَالَ قَالَ عَبْدُ اللَّہِ صَلَّی النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ إِبْرَاہِیمُ لاَ أَدْرِی زَادَ أَوْ نَقَصَ فَلَمَّا سَلَّمَ قیلَ لَہُ یَا رَسُول اللَّہِ، أَحَدَثَ فِی الصَّلاَۃِ شَیْءٌ قَالَ وَمَا ذَاکَ قَالُوا صَلَّیْتَ کَذَا وَکَذَا فَثَنَی رِجْلَیْہِ وَاسْتَقْبَلَ الْقِبْلَۃَ، وَسَجَدَ سَجْدَتَیْنِ ثُمَّ سَلَّمَ، فَلَمَّا أَقْبَلَ عَلَیْنَا بِوَجْہِہِ قَالَ إِنَّہُ لَوْ حَدَثَ فِی الصَّلاَۃِ شَیْءٌ لَنَبَّأْتُکُمْ بِہِ، وَلَکِنْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُکُمْ، أَنْسَی کَمَا تَنْسَوْنَ، فَإِذَا نَسِیتُ فَذَکِّرُونِی، وَإِذَا شَکَّ أَحَدُکُمْ فِی صَلاَتِہِ فَلْیَتَحَرَّی الصَّوَابَ، فَلْیُتِمَّ عَلَیْہِ ثُمَّ یُسَلِّمْ، ثُمَّ یَسْجُدْ سَجْدَتَیْنِ) [ بخاری : باب التوجہ نحوالقبلۃ] ” حضرت علقمہ سیدنا عبداللہ (رض) سے بیان کرتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نماز پڑھائی تو نماز میں کچھ کمی بیشی ہوگئی جب سلام پھیرا تو لوگوں نے عرض کیا ” یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نماز کے متعلق کوئی نیا حکم آیا ہے؟ آپ نے فرمایا کیوں ؟ لوگوں نے کہا آپ نے اتنی رکعت پڑھی ہیں یہ سن کر آپ واپس ہوئے پھرے قبلہ کی طرف چہرہ کیا۔ سہو کے دوسجدے کیے پھر سلام پھیرا پھر ہماری طرف چہرہ کر کے فرمایا : اگر نماز کے بارے میں کوئی نیا حکم آتا تو میں ضرور تمہیں بتا دیتا۔ لیکن بات یہ ہے کہ میں بھی تمہاری طرح آدمی ہوں جیسے تم بھول جاتے ہو میں بھی بھول جاتا ہوں۔ جب میں بھول جاؤں تو مجھے یاد دلا دیا کرو اور جب تم میں سے کسی کو اپنی نماز میں شک پڑجائے تو یقین کے مطابق اپنی نماز پوری کرے پھر سلام پھیرے اور بھول کے دو سجدے کرلے۔“ ” سیدنا رافع بن خدیج (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مدینہ تشریف لائے تو اس وقت لوگ کھجور کی پیوندکاری کرتے تھے آپ نے فرمایا : یہ کیا کرتے ہو؟ صحابہ کرام (رض) نے جواب دیا ہمارا یہی طریقہ ہے آپ نے فرمایا : اگر تم یہ کام نہ کرو تو شاید بہتر ہو۔ لوگوں نے پیوند کرنا چھوڑ دیا تو کھجوریں پھل کم لائیں۔ صحابہ (رض) نے یہ بات رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کی تو آپ نے فرمایا : میں بھی ایک بشر ہی ہوں جب میں تمہیں تمہارے دین کے بارے میں کسی بات کا حکم دوں تو اس پر عمل کرو۔ جب میں کوئی بات اپنی رائے سے کہوں تو میں بھی آخر آدمی ہوں۔[ مسلم، کتاب الفضائل، باب وجوب امتثال] مسائل ١۔ تمام کے تمام انبیائے کرام (علیہ السلام) انسان تھے۔ ٢۔ آدمی کو معلوم نہ ہو تو اسے اہل علم سے پوچھ لینا چاہیے۔ ٣۔ تمام انبیائے کرام (علیہ السلام) کھانے پینے والے انسان تھے۔ ٤۔ کسی نبی کو بھی ہمیشہ کی زندگی حاصل نہ تھی۔ تفسیر بالقرآن تمام انبیاء کرام (علیہ السلام) بشر تھے : ١۔ تمام رسولوں کو ان کی قوم کے پاس انہی کی زبان میں بھیجا گیا۔ (ابراہیم : ٤) ٢۔ انبیاء اقرار کرتے تھے کہ ہم بشر ہیں۔ (ابراہیم : ١١) ٣۔ اللہ نے جتنے بھی رسول بھیجے وہ آدمی تھے۔ (یوسف : ١٠٩) ٤۔ اللہ نے آپ سے پہلے جتنے بھی نبی بھیجے وہ بشرہی تھے۔ (النحل : ٤٣) ٥۔ رسول اللہ کا اعتراف کہ میں تمہاری طرح بشرہوں۔ (الکہف : ١١٠) ٦۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کی قوم نے کہا نہیں ہے یہ مگر تمہارے جیسا بشر اور یہ تم پر فضیلت حاصل کرنا چاہتا ہے۔ (المومنون : ٢٤) الأنبياء
8 الأنبياء
9 فہم القرآن ربط کلام : حق کا انکار کرنے والوں کو انبیائے کرام عذاب الٰہی کی وعید سناتے۔ جسے منکرین جھوٹ قرار دیتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے مختلف اقوام پر عذاب نازل کرکے انبیاء کے وعدہ کو سچ کر دکھایا۔ اللہ تعالیٰ نے انبیائے کرام (علیہ السلام) اور ان کے ایماندار ساتھیوں کو عذاب سے نجات دی اور منکرین حق کو تباہ کردیا۔ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کے لیے جو کتاب نازل کی ہے اس میں عبرت کے طور پر پہلی اقوام کی بربادی اور انبیائے کرام (علیہ السلام) کی کامیابی کا ذکر موجود ہے بشرطیکہ لوگ عقل سے کام لیں۔ اگر لوگ عقل استعمال کریں گے تو یقیناً نصیحت پاجائیں گے۔ کچھ مفسرین نے ” ذِکْرِکُمْ“ کا یہ معنیٰ بھی لیا ہے کہ یہاں ذکر سے مراد لوگوں کے مسائل کا حل ہے تاکہ وہ قرآن مجید کی رہنمائی میں اپنے مسائل کا حل کرسکیں۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے انبیائے کرام (علیہ السلام) سے اپنا وعدہ پورا فرمایا۔ ٢۔ قرآن مجید عقلمند لوگوں کے لیے نصیحت ہے۔ ٣۔ قرآن مجید لوگوں کے مسائل کا حل بتلاتا ہے۔ تفسیر بالقرآن قرآن مجید کے نزدیک عقل و فکر کی اہمیّت : ١۔ قرآن مجید لوگوں کے لیے پیغام ہے اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی الٰہ نہیں عقلمند ہی نصیحت حاصل کرتے ہیں۔ (ابراہیم : ٥٢) ٢۔ نصیحت تو بس عقل والے ہی قبول کرتے ہیں۔ (آل عمران : ٧) ٣۔ جاننے والے اور نہ جاننے والے برابر نہیں ہوسکتے عقلمند ہی نصیحت حاصل کرتے ہیں۔ (الزمر : ٩) ٤۔ اللہ تعالیٰ نے جو آپ کی طرف نازل فرمایا ہے وہ حق ہے عقلمند ہی نصیحت حاصل کرتے ہیں۔ (الرعد : ١٩) الأنبياء
10 الأنبياء
11 فہم القرآن ربط کلام : جن لوگوں نے انبیائے کرام (علیہ السلام) پر الزام لگائے اور اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ کتاب کا انکار کیا ان کا انجام۔ اللہ تعالیٰ نے کتنی ہی بستیوں کو ہلاک کیا جن کے رہنے والے حقوق اللہ اور حقوق العباد کے بارے میں ظلم کرنے والے تھے۔ انھیں تباہ و برباد کرکے دوسری قوم کو پیدا فرمایا۔ قوموں کی تباہی اور دوسری اقوام کو لانے کے عمل کا ذکر کرتے ہوئے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے بارے میں جمع کی ضمیر (ہُمْ) استعمال فرمائی ہے۔ جس کا مقصد جلالت و جبروت کا اظہار کرنا ہے۔ چنانچہ جب ظالم لوگوں پر اللہ تعالیٰ نے اپنے غضب کا مظاہرہ کیا اور ظالموں کو یقین ہوگیا کہ اب ہمارا بچنا مشکل ہے تو وہ ادھر ادھر بھاگنے لگے۔ اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعے انبیائے کرام (علیہ السلام) کو حکم فرمایا کہ انہیں کہو بھاگنے کی بجائے اپنے مال و دولت، عیش و عشرت اور محلات میں ٹھہرے رہو تاکہ تمھاری اچھی طرح پوچھ گچھ کی جا سکے۔ پوچھ گچھ سے مراد وہ عذاب ہے جس میں وہ مبتلا کیے گئے۔ گویا کہ انھیں ان کے مال و دولت سمیت تباہ کردیا گیا۔ جن محلات اور مکانات میں رہتے تھے وہی ان کے لیے قبرستان بن گئے۔ جب ان پر اللہ تعالیٰ کا عذاب نازل ہوا تو وہ اس بات کا اقرار کرتے رہے کہ ہم پر ظلم نہیں ہوا بلکہ ہم خود ہی اپنے آپ پر ظلم کرنے والے تھے۔ ان کے اقرار کے باوجود۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں کٹی ہوئی کھیتی کی طرح ریزہ ریزہ کردیا جس میں زندگی کی کوئی رمق باقی نہ تھی۔ اس حالت میں ان کی کوئی مدد کرنے والا نہ تھا، باوجود اس کے وہ آہ وزاریاں کررہے تھے۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ کا عذاب جب کسی قوم پر نازل ہوتا تو انھیں بھاگنے کی مہلت نہیں ملتی۔ ٢۔ ہلاک ہونے والے لوگ اپنے جرائم کا اعتراف کیا کرتے تھے۔ ٣۔ جس قوم پر اللہ تعالیٰ کا عذاب نازل ہو تو وہ راکھ کے ڈھیر کی مانند ہوجاتی ہے۔ تفسیر بالقرآن ” اللہ“ کے عذاب کے وقت ظالموں کی حالت : ١۔ کیا وہ بے فکر ہیں کہ انہیں اللہ کا عذاب یا قیامت اچانک آلے اور انہیں معلوم بھی نہ ہو۔ (یوسف : ١٠٧) ٢۔ ہم نے ان کو اچانک پکڑ لیا اور وہ بے خبر تھے۔ ( الاعراف : ٩٥ ) ٣۔ ہم ان کے پاس اچانک عذاب لے آئیں گے اور انہیں معلوم نہ ہوگا۔ (العنکبوت : ٥٣ ) ٤۔ اللہ جب مصیبت نازل کرتا ہے تو اس کے ہٹنے کی کوئی صورت نہیں ہوتی اور نہ کوئی اسے بچانے والا ہوتا ہے۔ (الرعد : ١١) ٥۔ ” اللہ“ کے عذاب سے ظالموں کو کوئی بچانے والا نہیں ہوتا۔ (الرعد : ٣٤) ٦۔ ” اللہ“ نے ظالموں کو ان کے گناہوں کی وجہ سے پکڑلیا اور انہیں کوئی بچانے والا نہ تھا۔ ( المومن : ٢١) ٧۔ ” اللہ“ کے عذاب سے کوئی نہیں بچ سکتا مگر جس پر اللہ رحم فرمائے۔ (ہود : ٤٣) ٨۔ ” اللہ“ کی گرفت بہت سخت ہوا کرتی ہے۔ (البروج : ١٢) الأنبياء
12 الأنبياء
13 الأنبياء
14 الأنبياء
15 الأنبياء
16 فہم القرآن ربط کلام : پہلی اقوام کی تباہی کا ایک سبب یہ بھی تھا کہ ہلاک ہونے والے سمجھتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے اس دنیا کو کھیل تماشا کے طور پر بنایا ہے اور دنیا ہمیشہ اس طرح ہی رہے گی۔ حالانکہ ایسا ہرگز نہیں ہوگا ہلاک ہونے والے لوگ فکری یا عملی طور پر سمجھتے تھے کہ اس دنیا میں ہمیشہ رہنا ہے اور اللہ تعالیٰ نے اسے اپنی تفریح یا محض اپنی قدرت کے اظہار کے طور پر پیدا کیا ہے۔ دنیا کی تو کوئی انتہا نہیں اور نہ اس کا انجام۔ اسی اعتقاد کی وجہ سے وہ لوگ دنیا پر اس قدر راضی اور قانع ہوئے کہ انھوں نے اپنے اور زمین و آسمان کے خالق کو نا صرف یکسر طور پر فراموش کردیا بلکہ اس کی بغاوت کرنے میں انتہا کردی۔ جس کے نتیجہ میں انھیں اس دنیا میں ہی عبرت کا نشانہ بننا پڑا۔ اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کے اعتقاد اور کردار کی نفی کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ ہم نے زمین و آسمان اور ان کے درمیان جو کچھ پیدا کیا ہے اسے کھیل تماشہ کے طور پر پیدا نہیں کیا۔ اگر ہماری منشاء یہ ہوتی تو ہم یہ تماشہ اپنے پاس عرش معلی پر کرتے۔ اس کائنات کو بنانے اور انسان کو پیدا کرنے کا مقصد تو یہ ہے کہ سچ اور جھوٹ، کھرے اور کھوٹے، حق اور باطل میں امتیاز ہوجائے۔ اسی لیے دنیا میں حق و باطل کے معرکے ہوئے اور قیامت تک برپا ہوتے رہیں گے۔ اس معرکہ آرائی میں حق پرست ثابت قدمی دکھائیں تو بالآخر حق کی فتح ہوتی ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ حق کو باطل پر غالب کرتا ہے۔ یہاں تک کہ باطل دب جاتا ہے۔ جو لوگ جھوٹ اور باطل کی حمایت کرتے ہیں ان کا انجام خرابی اور بربادی ہی ہوا کرتا ہے۔ حق و باطل کے معرکہ میں، حق کے غالب آنے کی جوگارنٹی دی گئی ہے اس کا حقیقی مفہوم یہ ہے کہ بے شک باطل بظاہر کتنے کروّفر کے ساتھ ترقی کر رہا ہو اور اس کے باوجود حق فکری عملی طور پر اپنا آپ منوا کر رہتا ہے۔ اس سلسلہ میں انبیائے کرام (علیہ السلام) کی مثال ہمارے سامنے ہے جو لوگ انبیاء کے جھوٹا ہونے کا پراپیگنڈہ کرتے تھے۔ نجی مجالس میں وہ بھی ان کی سچائی اور امانت کا اقرار کرتے تھے۔ جنھوں نے حق کو دبانے کی کوشش کی وہ بھی دلائل کی بنیاد پر حق کو جھوٹ ثابت کرنے میں ناکام رہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس حقیقت کو یوں بھی بیان فرمایا ہے کہ ” اللہ“ نے اپنے رسول کو دین اور ہدایت کے ساتھ اس لیے بھیجا تاکہ باطل ادیان پر اسے غالب کر دے۔ غلبہ سے حقیقی مراد دلائل کی بنیاد پر غلبہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دلیل کی بناء پر کوئی شخص دین کی کسی بات اور اصول کو ناقابل عمل یا غلط ثابت نہیں کرسکتا یہ اللہ تعالیٰ کا اٹل فیصلہ ہے۔ بے شک کفار اور مشرکین کے لیے یہ بات کتنی ہی ناگوار کیوں نہ ہو۔ (الصٰفٰت : ٨، ٩) جہاں تک حق کے غلبہ کا تعلق ہے تاریخ اسلام میں بدر و حنین کے معرکے اس بات کا واضح ثبوت ہیں۔ البتہ مسلمانوں کو اسی وقت ہی غلبہ نصیب ہوگا جب وہ اخلاص کے ساتھ اجتماعی طور پر اسلام کے ساتھ عملاً وابستہ ہوں گے۔ جس کے لیے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ مسلمانوں بےدل نہ ہونا اور نہ غم کرنا اگر تم مومن ہو تو تم ہی غالب رہو گے۔ (آل عمران : ١٣٩) (اَلْاِسْلَامُ یَعْلُوْ وَلَا یُعْلٰیٰ) [ ارواء الغلیل حدیث نمبر : ١٢٦٨] ” اسلام غالب آئے گا اور اس پر کوئی غالب نہیں آئے گا۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمانوں اور جو کچھ ان کے درمیان ہے اسے کھیل تماشا کے طور پر پیدا نہیں کیا۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ حق کو باطل پر غالب کرتا ہے۔ ٣۔ باطل کی حمایت کرنے والوں کے لیے بربادی ہے۔ تفسیر بالقرآن حق غالب رہنے کے لیے آیا ہے : ١۔ حق ہمیشہ غالب رہے گا۔ (الانبیاء : ١٨) ٢۔ اللہ تعالیٰ نے حق غالب رہنے کے لیے نازل کیا ہے۔ (الصّٰفّٰت : ٩) ٣۔ اللہ تعالیٰ حق کو باطل پر مسلط کرتا ہے۔ (بنی اسرائیل : ٨١) ٤۔ مسلمان غالب ہوں گے بشرطیکہ ایماندار ہوں۔ (آل عمران : ١٣٩) ٥۔ اللہ تعالیٰ حق کو غالب کرنا چاہتا ہے۔ (الانفال : ٧) ٦۔ حق کے بعد گمراہی ہے۔ (یونس : ٣٢) الأنبياء
17 الأنبياء
18 الأنبياء
19 فہم القرآن ربط کلام : اے نافرمانوں تم اپنے رب کی عبادت کرو یا نہ کرو اسے کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ کائنات کی ہر چیز اپنے رب کی تابعدار اور عبادت گزار ہے۔ چند آیات پہلے اس بات کا ذکر ہوا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بہت سی ظالم بستیوں کو نیست و نابود کیا جس کا ایک سبب یہ تھا کہ وہ سمجھتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے اس دنیا کو تفریح طبع اور کھیل تماشا کے طور پر پیدا کیا ہے۔ جس وجہ سے انھوں نے حق بات ماننے اور ” اللہ“ کی اطاعت کرنے میں لاپرواہی کی اور ” اللہ“ کی ذات اور صفات کے بارے میں ایسی باتیں کرتے رہے جو رب تعالیٰ کی شان کے خلاف ہیں۔ اس سے پہلی آیت میں ان کا جواب یہ دیا گیا کہ اللہ تعالیٰ جب چاہے اور جس طرح چاہے باطل پر حق کو غلبہ دیتا ہے۔ جب اس کا فیصلہ صادر ہوجائے تو کوئی اس کے فیصلہ کے سامنے دم نہیں مار سکتا کیونکہ زمین و آسمان اسی کی ملکیت ہیں اور اس کے پاس جو فرشتے حاضر رہتے ہیں وہ ایک لمحہ بھی اس کی عبادت سے کتراتے اور تھکتے نہیں وہ دن رات اس کی حمد و ستائش کے گن گاتے ہیں۔ انھیں اپنے رب کی یاد اور عبادت سے ذرّہ برابر تھکاوٹ اور اکتاہٹ نہیں ہوتی۔ ملائکہ سب کے سب اپنے رب کی عبادت اور اطاعت میں بلا تامّل اور بلا تعطّل مصروف رہتے ہیں کیونکہ ان کا وجود اپنے رب کی اطاعت اور عبادت کا مرہون منت ہے۔ لیکن اس فرمان میں جن ملائکہ کا ذکر ہے ان سے مراد عرش معلی کے قریب تر رہنے والے ملائکہ ہیں۔ جن کے بارے میں قرآن مجید نے بیان فرمایا ہے کہ ” جو ملائکہ اللہ تعالیٰ کا عرش اٹھائے ہوئے ہیں اور جو اس کے ارد گرد حلقہ باندھے ہوئے ہیں وہ اپنے رب کی شایان شان تسبیح پڑھتے ہیں اور پوری طرح اپنے رب کا حکم ماننے والے ہیں اور مومنوں کے حق میں اپنے رب سے بخشش مانگتے ہوئے عرض کرتے ہیں کہ اے ہمارے رب ! تیرے علم اور رحمت نے ہر چیز کا احاطہ کر رکھا ہے۔ جو لوگ تیرے حضور توبہ کرتے ہیں اور تیرے راستے پر چلتے ہیں انھیں جہنم کے عذاب سے محفوظ فرما۔ اے ہمارے رب ! انھیں اپنے وعدے کے مطابق ہمیشہ رہنے والی جنت میں داخل فرما۔ ان کے ماں باپ، بیویوں اور نیک اولاد کو بھی ہمیشہ کی جنت میں داخل فرما یقیناً تو ہر چیز پر غالب اور حکمت والا ہے۔“ (المومن : ٧۔ ٨) ملائکہ کی تعداد اور دعائیں : ( عَنْ اَنَسٍ (رض) اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ اُتِیْتُ بالْبُرَاق وَھُوَ دَآبَّۃٌ اَبْیَضُ طَوِیْلٌ فَوْقَ الْحِمَارِوَدُوْنَ الْبَغْلِ یَقَعُ حَافِرُہٗ عِنْدَ مُنْتَھٰی طَرَفِہٖ فَرَکِبْتُ حَتّٰی اَتَیْتُ بَیْتَ الْمَقْدَسِ فَرَبَطْتُّہٗ بالْحَلْقَۃِ الَّتِیْ تَرْبِطُ بِھَا الْاَنْبِیَاءُ قَالَ ثُمَّ دَخَلْتُ الْمَسْجِدَ فَصَلَّیْتُ فِیْہِ رَکْعَتَیْنِ ثُمَّ خَرَجْتُ فَجَاءَ نِیْ جِبْرَءِیْلُ بِاِنَاءٍ مِّنْ خَمْرٍٍ وَّاِنَاءٍ مِّنَ لَبَنٍ فَاخْتَرْتُ اللَّبَنَ فَقَالَ جِبْرَءِیْلُ اِخْتَرْتَ الْفِطْرَۃَ ثُمَّ عُرِجَ بِنَا اِلَی السَّمَاءِ۔۔ وَقَالَ فِیْ السَّمَاء السَّابِعَۃ فَاِذَا اَنَا بِاِبْرَاھِیْمَ مُسْنِدًا ظَھْرَہٗ اِلَی الْبَیْتِ الْمَعْمُوْرِ وَاِذَا ھُوَ یَدْخُلُہٗ کُلَّ یَوْمٍ سَبْعُوْنَ اَلْفَ مَلَکٍ لَّا یَعُوْدُوْنَ اِلَیْہِ۔۔) [ رواہ مسلم : باب الإِسْرَاءِ بِرَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) إِلَی السَّمَوَاتِ وَفَرْضِ الصَّلَوَاتِ] حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا‘ میرے پاس ایک براق لایا گیا۔ وہ ایک سفید رنگ کا جانور تھا‘ جس کا قد لمبا اور وہ گدھے سے بڑا اور خچر سے چھوٹا تھا۔ اس کا قدم اس کی حد نگاہ پر پڑتا تھا۔ میں اس پر سوار ہوا اور بیت المقدس پہنچا۔ میں نے براق کو اس حلقہ سے باندھ دیا‘ جس سے انبیاء (علیہ السلام) اپنی سواریاں باندھا کرتے تھے۔ پھر میں مسجد اقصیٰ میں داخل ہوا اور دو رکعتیں ادا کیں۔ باہر نکلا تو حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نے مجھے شراب اور ایک دودھ کا برتن پیش کیا میں نے دودھ کو پسند کیا۔ اس پر حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نے فرمایا‘ آپ نے فطرت کو پسند فرمایا ہے۔ پھر آسمان کی طرف ہمارا عروج شروع ہوا۔۔۔ مجھے ساتویں آسمان پر لے جایا گیا میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے سامنے تھا۔ وہ بیت المعمور سے کمر لگائے بیٹھے تھے۔ بیت المعمور میں ہر روز ستر ہزار فرشتے داخل ہوتے ہیں اور جن کی باری پھر کبھی نہیں آتی۔۔“ مسائل ١۔ ہر چیز اللہ تعالیٰ کی ملک اور اس کے تابع فرمان ہے۔ ٢۔ ملائکہ ہر وقت اللہ تعالیٰ کی حمد بیان کرنے میں مصروف رہتے ہیں۔ ٣۔ ملائکہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے اور اس کی تسبیح پڑھنے سے اکتاتے اور تھکتے نہیں۔ تفسیر بالقرآن ہر چیز اللہ تعالیٰ کی تسبیح پڑھتی ہے : ١۔ ساتوں آسمان و زمین اور جو کچھ ان میں ہے اللہ کی تسبیح بیان کرتے ہیں۔ (بنی اسرائیل : ٤٤) ٢۔ جو کچھ آسمان اور زمین میں ہے اللہ کی تسبیح بیان کرتے ہیں۔ (الحدید : ١) ٣۔ آسمانی برق اپنے رب کی حمد کرتی ہے۔ (الرعد : ١٣) ٤۔ اللہ کے عرش کو اٹھانے والے فرشتے اس کی تسبیح بیان کرتے ہیں۔ (المومن : ٧) ٥۔ ہم نے داؤد (علیہ السلام) کے ساتھ پہاڑوں کو مسخر کیا اور وہ بھی صبح و شام اللہ کی تسبیح بیان کرتے تھے۔ (الانبیاء : ٧٩) الأنبياء
20 الأنبياء
21 فہم القرآن ربط کلام : رب کے نافرمان نہ صرف اس کی عبادت نہیں کرتے بلکہ وہ اس کے ساتھ دوسروں کو بھی شریک بناتے ہیں۔ ہر دور میں ایسے لوگ ہوئے ہیں اور رہیں گے کہ جن کا عقیدہ ہے کہ ملائکہ اللہ تعالیٰ کے معاون اور اس کی خدائی میں حصہ دار ہیں۔ ان میں بعض لوگوں کا یہ بھی عقیدہ ہے کہ ملائکہ اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں ہیں اور وہ اس کی خدائی میں شریک ہیں جس بناء پر وہ ان کی عبادت کرتے ہیں۔ جو لوگ اللہ تعالیٰ کے سوا ملائکہ اور دوسروں کو معبود بناتے ہیں ان کے عقیدہ کی یہاں تین دلائل کے ساتھ نفی کی گئی ہے۔ ١۔ جنھوں نے ملائکہ اور زمین میں سے کسی کو معبود بنا لیا ہے۔ کیا وہ مشرکوں کے مرنے کے بعد انہیں اٹھانے کی سکت رکھتے ہیں ؟ ہرگز نہیں ! ٢۔ اگر زمین و آسمان میں ایک کی بجائے دو الٰہ ہوتے تو ان کے درمیان ضرور تصادم ہوتا۔ جس سے زمین و آسمان کا نظام درہم برہم ہوجاتا، حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ مشرکوں کے عقائد اور بے ہودہ باتوں سے مبّرا اور پاک ہے۔ وہ اپنی شان کے مطابق عرش پر مستویہے۔ چودھویں پارہ میں اس باطل عقیدہ کی یوں نفی کی گئی ہے کہ ” لوگو! تمھارے رب کا فرمان ہے کہ زمین و آسمان میں دو الٰہ سمجھنے اور بنانے کی بجائے صرف ایک ہی اِلٰہ پر ایمان لاؤ۔ کیونکہ معبود برحق ایک ہی ہے بس اسی سے ڈرتے رہو۔“ (النحل : ٥١) پندرھویں پارہ میں ارشاد فرمایا۔ ” اے پیغمبر! انھیں سمجھائیں جس طرح یہ لوگ کہتے ہیں اگر اللہ تعالیٰ کے ساتھ کوئی اور الٰہہوتا تو دوسرا الٰہ ضرور عرش کی طرف چڑھ دوڑتا۔ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کی باتوں سے مبرا، پاک اور بلند و بالا ہے۔“ (بنی اسرائیل : ٤٢۔ ٤٣) سورۃ المومنون آیت : ٩١ میں اس طرح ارشاد ہوا۔ ” اللہ“ کی کوئی اولاد نہیں اور نہ ہی اس کے ساتھ دوسرا اِلٰہ ہے۔ اگر دوسراِ لٰہ ہوتا تو وہ اپنی مخلوق کو الگ کرنے کی کوشش کرتا اور وہ ایک دوسرے پر چڑھ دوڑتے۔“ ٣۔ جہاں تک ملائکہ کو اللہ تعالیٰ کے ساتھ معبود سمجھنے یا اس کی خدائی میں شریک کرنے کا معاملہ ہے تو ان لوگوں کو اس پر سوچنا چاہیے کہ ملائکہ اللہ تعالیٰ کی باقی مخلوق کی طرح ایک مخلوق ہیں اور وہ اللہ تعالیٰ کے محکوم اور اس کے حضور مسؤل ہیں۔ ان کے ذمّہ جو ڈیوٹی ہوتی ہے اس کے بارے میں ان سے پوچھ گچھ ہوتی ہے جب کہ اللہ تعالیٰ اپنی مرضی سے حکم صادر فرماتا ہے اس سے کوئی پوچھنے والا نہیں۔ (وَقَالَ اأبُوْ ذَرٍ (رض) سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَقُوْلُ مَا الْکُرْسِیُّ فِیْ الْعَرْشِ إِلَّا کَحَلْقَۃِ مِنْ حَدِیْدٍ األْقِیَتْ بَیْنَ ظَہْرِیْ فُلَاۃٍ مِنْ الْاأرْضِ) [ تفسیر طبری] ” حضرت ابوذر (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے ہوئے سنا۔ آپ نے فرمایا کرسی عرش کے مقابلے میں ایک لوہے کی انگوٹھی کی طرح ہے جو چٹیل میدان میں پڑی ہوئی ہو۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی زندہ کرنے والا نہیں۔ ٢۔ اگر دو الٰہ ہوتے تو ان کے درمیان ضرور اختلاف پیدا ہوتا۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ لوگوں کے باطل عقیدہ سے بلند اور ان کی بے ہودہ باتوں سے پاک ہے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ کے حضور ہر کوئی مسؤل ہے اور ” اللہ“ سے کوئی سوال کرنے والا نہیں ہے۔ تفسیر بالقرآن ایک سے زیادہ معبود ہونے کی بجائے صرف ایک ہی الٰہِ حق ہے : ١۔ تمہارا الٰہ ایک ہی ہے اس کے سوا کوئی الٰہ نہیں وہ رحمن ورحیم ہے (البقرۃ۔ ١٦٣) ٢۔ یقیناً اللہ ہی اکیلا الٰہ ہے وہ اولاد سے پاک ہے آسمان و زمین کی ہر چیز اسی کے لیے ہے (النساء۔ ١٧١) ٣۔ اسکے سوا کوئی الٰہ نہیں مگر وہ اکیلا ہی ہے ( المائدۃ: ٧٣) ٤۔ اللہ کا فرمان ہے کہ دو الٰہ نہ بناؤ کیونکہ الٰہ ایک ہی ہے۔ (النحل : ٥١) الأنبياء
22 الأنبياء
23 الأنبياء
24 فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ کو کوئی پوچھنے والا نہیں وہ مختار کل اور قادر مطلق ہے مگر اس کے باوجود لوگوں نے اِلٰہ حقیقی کو چھوڑ کر دوسروں کو مشکل کشا بنا رکھا ہے اگر وہ مشکل کشا ہیں تو ان کے سچا ہونے کی کوئی عقلی و نقلی دلیل پیش کریں۔ جنھوں نے اِلٰہِ حق کو چھوڑ کر دوسرے اِلٰہ بنا رکھے ہیں۔ ان کے لیے کھلا چیلنج ہے کہ اگر ان کے پاس اپنے معبودوں کے برحق ہونے کی کوئی عقلی و نقلی دلیل ہے تو وہ سامنے لائیں۔ مجھ پر اور مجھ سے پہلے جتنے انبیائے کرام (علیہ السلام) پر کتابیں نازل ہوئی ہیں ان میں عقلی و نقلی دلائل موجود ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی اِلٰہ نہیں ہے۔ لیکن لوگوں کی اکثریت کا حال یہ ہے کہ وہ اس حقیقت سے ناآشنا اور اپنی بے علمی کی وجہ سے حق سے منہ موڑے ہوئے ہیں۔ یہاں ” ذکر“ کا معنی نصیحت بھی ہے اور عقیدۂ توحید بھی۔ مراد یہ ہے یہی میرا، میرے ساتھیوں اور مجھ سے پہلے انبیاء (علیہ السلام) کا عقیدہ اور نصیحت ہے۔ جہاں تک اِلٰہِ حقیقی کے سوا کسی دوسرے اِلٰہ کا تعلق ہے اس کی کوئی عقلی و نقلی دلیل موجود نہیں۔ جس کا بین اور ٹھوس ثبوت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو اِلٰہ مانتا ہے اس کے پاس اس کی کوئی دلیل نہیں اس کا حساب اس کے رب کے ہاں ہوگا۔ یقین جانو کہ کافر کبھی فلاح نہیں پائے گا۔ (المومنوں : ١١٧) کافر سے مراد یہاں کلمہ نہ پڑھنے والا بھی ہے اور مشرک بھی۔ اِلٰہ کا معنٰی ہے حاجت روا، مشکل کشا اور وہ ذات جس کے ساتھ انتہا درجے کی محبت کرتے ہوئے نہایت عاجزی کے ساتھ اس کی عبادت کی جائے۔ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ رِوَایَۃً قَالَ لِلّٰہِ تِسْعَۃٌ وَتِسْعُونَ اِسْمًا ماءَۃٌ إِلَّا وَاحِدًا لَا یَحْفَظُہَا أَحَدٌ إِلَّا دَخَلَ الْجَنَّۃَ وَہُوَ وِتْرٌ یُحِبُّ الْوِتْرَ)[ رواہ البخاری : کتاب الدعوات، باب للہ ماءۃ اسم غیر واحد] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ تعالیٰ کے ننانوے نام ہیں جو انہیں یاد کرلے گا جنت میں داخل ہوگا اللہ ایک ہے اور ایک کو پسند کرتا ہے۔“ (یاد کرنے کا حقیقی مفہوم یہ ہے کہ اسمائے گرامی کے مطابق عقیدہ بھی اختیار کیا جائے۔) مسائل ١۔ مشرک کے پاس اپنے عقیدہ کی کوئی دلیل نہیں ہے۔ ٢۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)، اور پہلے انبیائے (علیہ السلام) کا عقیدہ تھا کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبودِ حق نہیں ہے۔ ٣۔ لوگوں کی غالب اکثریت عقیدۂ توحید سے نابلد اور اس سے منہ موڑنے والی ہے۔ تفسیر بالقرآن اِلٰہ کے معانی اور اس کی عبادت کا حکم : ١۔ اسکے سوا کوئی الٰہ نہیں مگر وہ اکیلا ہی الٰہ ہے ( المائدۃ: ٧٣) ٢۔ فرما دیجیے کہ اللہ ایک ہی الٰہ ہے اور میں تمہارے شریکوں سے بری ہوں۔ (الانعام : ١٩) ٣۔ کون ہے جو لاچار کی فریادسنتا اور اس کی تکلیف کو دور کرتا ہے، کیا کوئی اور بھی الٰہ ہے؟ (النمل : ٦٢) ٤۔ خشکی اور سمندر کی تاریکیوں میں اللہ کے سوا رہنمائی کون کرتا ہے؟ کیا کوئی اور بھی الٰہ ہے۔ (النمل : ٦٣) ٥۔ میں نے آسمان و زمین کو بغیر نمونے کے پیدا کیا، اور کون تم کو رزق دیتا ہے کیا اللہ کے علاوہ کوئی اور الٰہ ہے۔ ( النمل ٦٤) ٦۔ تمہارا صرف ایک ہی الٰہ ہے، اللہ کے علاوہ کوئی الٰہ نہیں وہی رحم کرنے والا ہے۔ ( البقرۃ: ١٦٣) ٧۔ کیا اللہ کے سوا کوئی اور الٰہ ہے جو دن ختم کرکے رات لائے ؟ (القصص : ٧٢) ٨۔ کیا اللہ کے سوا کوئی اور بھی الٰہ ہے جو رات ختم کرکے دن لائے ؟ (القصص : ٧١) ٩۔ اس ایک الٰہ کے سوا کسی دوسرے الٰہ کو نہ پکارو۔ (القصص : ٨٨) ١٠۔ اے لوگو! آخر دم تک ایک الٰہ کی عبادت کرو۔ (الحجر : ٩٩) ١١۔ جن و انس کو اللہ نے اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا۔ (الذاریات : ٥٦) الأنبياء
25 فہم القرآن ربط کلام : نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کا مقصد لوگوں کو ” اللہ“ کی الوہیت سے آگاہ کرنا ہے اور یہی پہلے انبیائے کرام (علیہ السلام) کی دعوت اور عقیدہ تھا۔ اللہ تعالیٰ نے جتنے انبیائے کرام (علیہ السلام) دنیا میں مبعوث فرمائے ان سب کو یہ حکم تھا کہ وہ لوگوں کو بتلائیں اور سمجھائیں کہ لوگو! تمھارے رب کا فرمان ہے کہ میرے سوا کسی کی عبادت نہ کی جائے۔ اس ارشاد میں رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھی یہی حکم ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لوگوں کو بتلائیں اور سمجھائیں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور نہ ہی اس کے سوا کوئی حاجت روا اور مشکل کشا ہے۔ جب اس کے سوا کوئی حاجت روا، مشکل کشا اور عبادت کے لائق نہیں تو صرف اس ایک ہی کی عبادت کرنا اور اس ایک کا ہی حکم ماننا چاہیے۔ یہی دعوت پہلے انبیائے کرام (علیہ السلام) کی تھی اور اسی سے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے کام کا آغاز فرمایا تھا۔ چنانچہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لوگوں کو یہی بات بتلانے اور سمجھانے کی کوشش کی کہ لوگو! لااِلٰہ الا اللہ پڑھو اور اس کے تقاضے پورے کرو۔ دنیا و آخرت میں کامیاب ہوجاؤ گے۔ اسی دعوت کی خاطر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے ساتھیوں نے مکہ میں ہر قسم کے مظالم برداشت کیے اسی کے لیے آپ طائف تشریف لے گئے۔ طائف والوں نے آپ کے ساتھ بدترین سلوک کیا۔ اسی بنیاد پر بدر، احد، خندق، حنین، تبوک اور مکہ کا معرکہ پیش آیا۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو فتح یاب فرمایا اور وہ وقت بھی آپہنچا کہ جب آپ نے اعلان فرمایا : (عَنْ عُقْبَۃَ بْنِ عَامِرٍ أَنَّ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خَرَجَ یَوْمًا فَصَلَّی عَلَی أَہْلِ أُحُدٍ صَلاَتَہُ عَلَی الْمَیِّتِ ثُمَّ انْصَرَفَ إِلَی الْمِنْبَرِ فَقَالَ إِنِّی فَرَطٌ لَکُمْ وَأَنَا شَہِیدٌ عَلَیْکُمْ وَإِنِّی وَاللَّہِ لأَنْظُرُ إِلَی حَوْضِیَ الآنَ وَإِنِّی قَدْ أُعْطِیتُ مَفَاتِیحَ خَزَاءِنِ الأَرْضِ أَوْ مَفَاتِیحَ الأَرْضِ وَإِنِّی وَاللَّہِ مَا أَخَافُ عَلَیْکُمْ أَنْ تُشْرِکُوا بَعْدِی وَلَکِنْ أَخَافُ عَلَیْکُمْ أَنْ تَتَنَافَسُوا فیہَا) [ رواہ البخاری : باب إِثْبَاتِ حَوْضِ نَبِیِّنَا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وَصِفَاتِہِ] ” حضرت عقبہ بن عامر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک دن گھر سے باہر نکلے آپ نے احد کے شہداء پر نماز پڑھی جس طرح نماز جنازہ پڑھی جاتی ہے پھر آپ ممبر کی طرف تشریف لے گئے۔ آپ نے فرمایا میں تم پر خوش ہوں اور میں تم پر گواہ ہوں اور اللہ کی قسم میں اس وقت حوض کوثر کو دیکھ رہا ہوں۔ مجھے زمین کے خزانوں کی چابیاں عنایت کی گئی ہیں یا فرمایا مجھے زمین کی چابیاں دیں گئی ہیں راوی کو شک ہے۔ اللہ کی قسم میں اس بات سے نہیں ڈرتا کہ تم میرے بعد شرک کرو گے لیکن میں اس بات سے ڈرتا ہوں کہ تم دنیا میں مشغول ہوجاؤ گے۔“ لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ کی فضیلت : (عَنْ عُبَادَۃَ ابْنِ الصَّامِتِ (رض) قَالَ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ےَقُوْلُ مَنْ شَھِدَ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَاَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللّٰہِ حَرَّمَہُ اللّٰہُ عَلَےْہِ النَّارَ) [ رواہ مسلم : باب مَنْ لَقِیَ اللَّہَ بالإِیمَانِ وَہُوَ غَیْرُ شَاکٍّ فیہِ دَخَلَ الْجَنَّۃَ وَحَرُمَ عَلَی النَّارِ] ” حضرت عبادہ بن صامت (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے ہوئے سنا جس نے توحید ورسالت کی گواہی دی اس پر اللہ تعالیٰ نے جہنم کی آگ حرام کردی ہے۔ (عَبْدَ اللَّہِ بْنَ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ (رض) یَقُولُ قَالَ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) إِنَّ اللَّہَ سَیُخَلِّصُ رَجُلاً مِنْ أُمَّتِی عَلَی رُءُ وسِ الْخَلاَءِقِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ فَیَنْشُرُ عَلَیْہِ تِسْعَۃً وَتِسْعِینَ سِجِلاًّ کُلُّ سِجِلٍّ مِثْلُ مَدِّ الْبَصَرِ ثُمَّ یَقُولُ أَتُنْکِرُ مِنْ ہَذَا شَیْءًا أَظَلَمَکَ کَتَبَتِی الْحَافِظُونَ فَیَقُولُ لاَ یَا رَبِّ فَیَقُولُ أَفَلَکَ عُذْرٌ فَیَقُولُ لاَ یَا رَبِّ فَیَقُولُ بَلَی إِنَّ لَکَ عِنْدَنَا حَسَنَۃً فَإِنَّہُ لاَ ظُلْمَ عَلَیْکَ الْیَوْمَ فَتَخْرُجُ بِطَاقَۃٌ فیہَا أَشْہَدُ أَنْ لاَ إِلَہَ إِلاَّ اللَّہُ وَأَشْہَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہُ وَرَسُولُہُ فَیَقُولُ احْضُرْ وَزْنَکَ فَیَقُولُ یَا رَبِّ مَا ہَذِہِ الْبِطَاقَۃُ مَعَ ہَذِہِ السِّجِلاَّتِ فَقَالَ إِنَّکَ لاَ تُظْلَمُ قَالَ فَتُوضَعُ السِّجِلاَّتُ فِی کِفَّۃٍ وَالْبِطَاقَۃُ فِی کِفَّۃٍ فَطَاشَتِ السِّجِلاَّتُ وَثَقُلَتِ الْبِطَاقَۃُ فَلاَ یَثْقُلُ مَعَ اسْمِ اللَّہِ شَیْءٌ) [ رواہ سنن ابن ماجہ : باب مَا یُرْجَی مِنْ رَحْمَۃِ اللَّہِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ: رواہ احمد : مسند عبداللہ بن عمروبن العاص] ” حضرت عبداللہ عمرو بن عاص (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن میری امت سے ایک آدمی کو ساری مخلوقات میں سے الگ فرمائیں گے اور اس کے سامنے ننانوے دفتر کھولے جائیں گے اور ہر دفتر حد نگاہ تک پھیلا ہوگا۔ اللہ فرمائیں گے کیا تو ان میں سے کسی ایک کا انکار کرتا ہے یاتجھ پہ لکھنے والے میرے کاتبوں نے ظلم کیا ہے ؟ وہ کہے گا اے میرے پروردگار بالکل نہیں۔ اللہ فرمائیں گے کیا تیرا کوئی عذر ہے وہ کہے گا اے میرے پروردگار ! نہیں۔ اللہ فرمائیں گے ہاں ! ہمارے ہاں تیری ایک نیکی ہے آج کے دن تجھ پر کسی قسم کا ظلم نہیں کیا جائے گا پھر ایک کاغذ نکالا جائے گا جس میں کلمۂ شہادت ثبت ہوگا۔ اللہ تعالیٰ فرمائیں گے اس کا وزن کیا جائے وہ کہے گا اتنے بڑے دفتروں کے سامنے اس کاغذ کی کیا حیثیت ہے۔ اللہ تعالیٰ فرمائیں گے تجھ پر ظلم نہیں ہوگا۔ وہ تمام دفتر ایک پلڑے میں رکھ دئیے جائیں گے اور کاغذ کا ٹکڑا دوسرے پلڑے میں رکھا جائے گا۔ گناہوں والا پلڑا اوپر اٹھ جائے گا اور ” لا الٰہ اِلّا اللہ“ والا پلڑا بھاری ہوگا کیونکہ اللہ تعالیٰ کے نام سے بڑھ کر کوئی چیز وزنی نہیں ہے۔“ (عَنْ طَارِقِ بْنِ عَبْدُ اللّٰہِ الْمُحَارَبِیُّ قَالَ رَأَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَرَّ بِسُّوْقِ ذِی الْمَجَازِ وَاَنَا فِیْ بِیَاعَۃٍ لِیْ فَمَرَّ وَعَلِیْہِ حُلَّۃٌ حَمْرَاءُ فَسَمِعْتُہٗ یَقُوْلُ یٰا اَیُّہَا النَّاسُ قُوْلُوْا لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ تُفْلِحُوْا وَرَجَلٌ یَتْبَعُہٗ یَرْمِیْہِ بالْحِجَارَۃِ قَدْ اَدَمِیْ کَعْبَیْہِ یَعْنِیْ اَبَا لَہَبٍ) [ السنن الکبری للبیہقی] حضرت طارق بن عبداللہ المحاربی بیان کرتے ہیں میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ذی المجاز کے بازار سے گزرتے ہوئے دیکھا اور میں بھی خریدو فروخت کرنے کے لیے وہاں پر موجود تھا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سرخ رنگ کا حلہ پہنے ہوئے تھے میں نے آپ کو فرماتے ہوئے سنا آپ کہہ رہے تھے اے لوگو! لا الہ الا اللہ کہو فلاح پاؤ گے۔ ایک آدمی آپ کو پیچھے سے پتھر مار رہا تھا جس سے آپ کے قدم خون آلود ہوگئے۔ (پتھر مارنے والا ابو لہب تھا) مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے جتنے رسول مبعوث فرمائے ان کی یہی دعوت تھی کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کی جائے۔ ٢۔ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی لوگوں کو لا اِلٰہ الا اللہ کی دعوت دیتے تھے۔ ٣۔ اِلٰہ کا پہلا معنٰی یہ ہے کہ ایسی ہستی جس کے ساتھ غایت درجے کی محبت کرتے ہوئے عاجزی کے ساتھ اس کی عبادت کی جائے۔ وہ ہستی اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں۔ تفسیر بالقرآن تمام انبیائے کرام (علیہ السلام) کی دعوت : ١۔ تمام انبیاء کرام (علیہ السلام) نے اللہ کی وحدانیت کی دعوت دی۔ (الانبیاء : ٢٥) ٢۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو مجھے بشیر اور نذیر بنا کر بھیجا گیا ہے۔ (ہود : ٢) ٣۔ حضرت ابراہیم نے اپنی قوم کو فرمایا اے میری قوم اللہ کی عبادت کرو اور اسی سے ڈرو۔ (العنکبوت : ١٦) ٤۔ حضرت نوح نے اپنی قوم کو ایک اللہ کی عبادت کی دعوت دی اور فرمایا کہ شیاطین کی عبادت نہ کرو۔ (المومنون : ٢٣) ٥۔ حضرت شعیب نے ایک اللہ کی عبادت کا حکم دیا اور اس کے سوا دوسروں کی عبادت سے منع کیا۔ (ہود : ٨٤) ٦۔ حضرت ھودنے فرمایا اے میری قوم اللہ کی عبادت کرو اس کے سوا تمہارا کوئی الٰہ نہیں ہے۔ (ھود : ٥٠) ٧۔ حضرت صالح نے اپنی قوم کو ایک رب کی عبادت کرنے کا حکم دیا اور دوسروں کی عبادت سے منع کیا۔ (ھود : ٦١) ٨۔ حضرت عیسیٰ نے فرمایا بے شک میرا اور تمہارا پروردگار اللہ ہے اسی کی عبادت کرو۔ (مریم : ٣٦) ٩۔ ہم نے ہر جماعت میں رسول بھیجے انہوں نے لوگوں کو کہا صرف ایک اللہ کی عبادت کرو اور طاغوت کی عبادت نہ کرو۔ (النحل : ٣٦) الأنبياء
26 فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں نہ اس کی اولاد ہے اور نہ ہی کوئی شخصیت اس کی ذات کا حصہ اور نہ ہی کوئی اس کی صفات میں شریک ہے۔ مشرکین نے کئی اعتبار سے اللہ تعالیٰ کے ساتھ الٰہ بنا رکھے ہیں۔ مشرکین میں سے ایک گروہ کا یہ عقیدہ تھا اور ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اولاد ہے۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ اولاد کی حاجت سے مبرّا اور پاک ہے۔1 اولاد کی ضرورت اس لیے ہوتی ہے کہ انسان اپنے سلسلہ نسب کا تسلسل چاہتا ہے۔2 ماں باپ کی فطرت میں یہ کمزوری ہے کہ وہ اولاد چاہتے ہیں تاکہ ماں باپ کی حیثیت سے اولاد سے پیار کرسکیں۔3 اولاد ماں باپ کا بالخصوص بڑھاپے میں سہارا ہوتی ہے۔ 4 ماں اپنی بیٹی اور باپ اپنے بیٹے کی معاونت کا طلب گار ہوتا ہے۔5 اولاد کی پیدائش کے لیے میاں بیوی کے ملاپ کا ہونا لازم ہے۔ ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کمزوریوں اور حاجات سے مبرّا اور پاک ہے۔6 اولاد دوسرے لوگوں سے پیاری ہوتی ہے جس بنا پر ماں، باپ سے اولاد کے بارے میں جانب داری ممکن ہے۔” اللہ“ عادل ہے اس کے بارے میں جانب داری کا تصور کرنا پرلے درجے کا گناہ اور کفر ہے۔ کچھ لوگ ملائکہ کو اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں قرار دیتے ہیں۔ یہودیوں نے حضرت عزیر (علیہ السلام) کو رب کا بیٹا قرار دیا۔ عیسائیوں نے اس سے آگے بڑھ کر حضرت مریم [ اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ کا جز قرار دیا۔ کچھ عیسائیوں کا عقیدہ ہے کہ عیسیٰ اللہ کا بیٹا اور مریم [ اللہ کی بیوی ہے۔ اس طرح انھوں نے تثلیث کا عقیدہ اختیارکیا۔ مسلمانوں نے ایسی لغویات اختیار نہیں کیں لیکن ایک گروہ نے یہ عقیدہ اختیار کر رکھا ہے کہ حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے نور کا حصہ ہیں۔ جس کے لیے ” نُوْرٌ مِّنْ نُوْرِ اللّٰہِ“ کے الفاظ استعمال کرتے ہیں۔ دوسرے گروہ نے پنجتن پاک کی اصطلاح اور عقیدہ بنا رکھا ہے۔ کتنے ظلم اور بے انصافی کی بات ہے کہ ان میں سے کسی ایک کے پاس اپنے عقیدہ کی ناصرف کسی آسمانی کتاب اور قرآن مجید میں سے کوئی دلیل موجود نہیں بلکہ ان کے پاس کوئی عقلی دلیل بھی نہیں ہے۔ سب کو چھوڑ کر ہم ان لوگوں کے عقیدہ کی بات کرتے ہیں جو رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ” نُوْرٌ مِّنْ نُوْرِ اللّٰہِ“ کہتے ہیں۔ کیا انھیں معلوم نہیں ؟ کہ اللہ تعالیٰ کے نور کی ایک جھلک طور پہاڑ برداشت نہ کرسکا۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نور کی جھلک آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی والدہ ماجدہ اور صحابہ کرام (رض) کس طرح برداشت کرسکتے تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ عقیدہ عقل و فکر کے خلاف اور پرلے درجے کا شرک ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ان لوگوں کے پاس شرک کی حمایت میں کسی قسم کی دلیل موجود نہیں ہے۔ اس شرک کی تردید اس آیت میں یہ کہہ کر کی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ کو اس لیے بھی اولاد کی ضرورت نہیں کیونکہ ساری مخلوق ہی اس کی تابع فرمان، ملائکہ، انبیاء (علیہ السلام) اور اولیاء اس کے عاجز اور مکرم بندے ہیں۔ ظاہر ہے کہ بندے اور ” اللہ“ میں اتنا فرق ہے کہ جس کا ہمارے ذہن اندازہ نہیں لگا سکتے۔ سنگین ترین جرم : ” کہتے ہیں رحمن بیٹا رکھتا ہے ایسا کہنے والو۔ تم بری بات زبان پر لاتے ہو۔ قریب ہے کہ اس جھوٹ سے آسمان پھٹ پڑیں اور زمین شق ہوجائے اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہو کر گر پڑیں۔ کہ انہوں نے ” اللہ“ کے لیے بیٹا تجویز کیا۔ حالانکہ ” اللہ“ کی شان نہیں کہ وہ کسی کو بیٹا بنائے۔“ ( مریم، آیت : ٨٨ تا ٩٣) (عَنْ اَبِیْ ہُرَےْرَۃ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَال اللّٰہُ تَعَالٰی کَذَّبَنِیْ ابْنُ اٰدَمَ وَلَمْ ےَکُنْ لَّہُ ذٰلِکَ وَشَتَمَنِیْ وَلَمْ ےَکُنْ لَّہُ ذٰلِکَ فَاَمَّا تَکْذِےْبُہُ اِیَّایَ فَقَوْلُہُ لَنْ یُّعِےْدَنِیْ کَمَا بَدَاَنِیْ وَلَےْسَ اَوّلُ الْخَلْقِ بِاَھْوَنَ عَلَیَّ مِنْ اِعَادَتِہٖ وَاَمَّا شَتْمُہُ اِیَّایَ فَقََوْلُہُ اتَّخَذَ اللّٰہُ وَلَدًا وَّاَنَا الْاَحَدُ الصَّمَدُ الَّذِیْ لَمْ اَلِدْ وَلَمْ اُوْلَدْ وَلَمْ ےَکُنْ لِّیْ کُفُوًا اَحَدٌ وَفِیْ رِوَاے َۃٍ: ابْنِ عَبَّاسٍ وَّاَمَّا شَتْمُہُ اِیَّایَ فَقَوْلُہُ لِیْ وَلَدٌ وَسُبْحَانِیْ اَنْ اَتَّخِذَصَاحِبَۃً اَوْ وَلَدًا) [ رواہ البخاری : باب وَقَالُوا اتَّخَذَ اللَّہُ وَلَدًا سُبْحَانَہُ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) ذکر کرتے ہیں کہ رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان ہے کہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں ابن آدم مجھے جھٹلاتا ہے حالانکہ یہ اس کے لیے مناسب نہیں۔ وہ میرے بارے میں زبان درازی کرتا ہے یہ اس کے لیے ہرگز جائز نہیں۔ اس کا مجھے جھٹلانا ہے کہ اللہ مجھے دوبارہ پیدا نہیں کریگا جس طرح اس نے پہلی بار پیدا کیا۔ کیا میرے لیے دوسری دفعہ پیدا کرنا پہلی دفعہ پیدا کرنے سے زیادہ آسان نہیں ہے؟ اس کا میرے بارے میں یہ کہنا بدکلامی ہے کہ اللہ کی اولاد ہے جبکہ میں اکیلا اور بے نیاز ہوں نہ میں نے کسی کو جنم دیا اور نہ مجھے کسی نے جنا ہے اور کوئی بھی میری برابری کرنے والا نہیں۔ بخاری میں حضرت ابن عباس (رض) کے حوالے سے یہ الفاظ پائے جاتے ہیں کہ ابن آدم کی میرے بارے میں بدکلامی یہ ہے کہ میری اولاد ہے جبکہ میں پاک ہوں نہ میری بیوی ہے نہ اولاد۔“ مسائل ١۔ کچھ لوگوں کا باطل عقیدہ ہے کہ اللہ کی اولاد ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ اولاد کی کمزوری سے مبّرا ہے۔ ٣۔ ساری مخلوق اللہ کی تابع فرمان ہے، ملائکہ، انبیاء (علیہ السلام) اور اولیاء اس کے بندے یعنی غلام ہیں۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ کی اولاد نہیں : ١۔ انہوں نے کہا اللہ نے اولاد بنا رکھی ہے اللہ اولاد سے بے نیاز ہے۔ (یونس : ٦٨) ٢۔ انہوں نے کہا اللہ نے اولاد بنائی ہے حالانکہ اللہ اولاد سے پاک ہے۔ (البقرۃ: ١١٦) ٣۔ مشرکین نے کہا کہ اللہ کی اولاد ہے جبکہ اللہ اولاد سے پاک ہے بلکہ سارے اسی کے بندے ہیں۔ (الانبیاء : ٢٦) الأنبياء
27 فہم القرآن ربط کلام : عباد مکرمون کی عاجزی کی انتہا ملائکہ، انبیاء (علیہ السلام) اور اولیاء اللہ کے اس قدر عاجز بندے اور غلام ہیں کہ ” اللہ“ کے کسی حکم سے آگے بڑھنے کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔ عَبَدٌکی جمع ” عِبَادٌ“ ہے اور اہل لغت نے اس کا معنی بندہ اور غلام لکھا ہے۔ ظاہر ہے غلام کتنا ہی قابل صد احترام کیوں نہ ہو۔ وہ اپنے آقا کا بندہ اور اس کے سامنے عاجز ہو کر ہی زندگی بسر کرتا ہے۔ اس لیے ملائکہ ہوں یا انبیاء (علیہ السلام) اور اولیاء وہ سب کے سب اپنے رب کے غلام ہیں۔ وہ اپنے عظیم بے مثال آقا جو صرف ان کا ہی نہیں بلکہ پوری کائنات کا آقا، خالق، رازق اور مالک ہے۔ وہی ہمہ صفت موصوف اور تمام اختیارات کا مالک اور معبود برحق ہے، اس کے کسی حکم سے آگے بڑھنے کی ملائکہ اور انبیائے کرام (علیہ السلام) جرأت نہیں کرسکتے تھے۔ یہاں ” عباد“ سے مراد ملائکہ ہیں۔ جن کے بارے میں یہ ارشاد ہے کہ ملائکہ اپنے رب کے سامنے اپنی مرضی سے آگے بڑھ کر بول نہیں سکتے اور ہر حال میں اس کے حکم پر عمل پیرا رہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کے ماضی، حال اور مستقبل کو پوری طرح جانتا ہے وہ اس کی ہیبت سے لرزاں و ترساں رہتے ہیں۔ وہ اللہ تعالیٰ کی منشا کے بغیر کسی کی اس کے حضور سفارش نہیں کرسکتے۔ اگر ان میں سے کوئی اِلٰہ ہونے کا دعویٰ کرے تو اسے ” اللہ“ جہنم میں جھونک دے گا کیونکہ اس کا فرمان ہے کہ میں ظالموں کو ایسی ہی سزا دیا کرتا ہوں۔ اس فرمان سے یہ حقیقت عیاں ہے کہ ملائکہ میں بھی یہ جرأت اور ہمت نہیں کہ وہ معبود ہونے اور حاجت روا، مشکل کشا ہونے کا دعویٰ کریں۔ بالفرض ان میں سے کوئی بھی یہ دعویٰ کرے تو وہ جہنم میں جائے گا۔ ملائکہ کے حوالے سے یہ بات سمجھائی گئی ہے کہ لوگو! تم انبیاء کو اللہ تعالیٰ کے مقرب بندے سمجھ کر انہیں مشکل کشا، حاجت روا اور سجدہ کے لائق سمجھ لیتے ہو غور کرو ! یہ تو اپنے رب کے بندے تھے۔ اپنا اپنا وقت گزار کر اللہ کے حضور پہنچ چکے۔ یہی حال اولیاء کا ہے۔ ان کے مقابلے میں ملائکہ وہ مخلوق ہیں جو گناہ کے تصور سے پاک اور ہر وقت اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر رہتے ہیں۔ انھیں بھی جرأت نہیں کہ حاجت روا، مشکل کشا یعنی کسی کا معبود بننے کی کوشش کریں۔ یہ بات ناممکنات میں سے ہے بافرض محال اگر ان میں سے کوئی ایسی حرکت کرے گا تو وہ بھی جہنم سے نہیں بچ سکتا۔ ان کے مقابلے میں خاکی مخلوق کی کیا مجال ہے ؟ کہ وہ شرک کرے اور جہنم سے بچ سکے۔ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ یَبْلُغُ بِہِ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ إِذَا قَضَی اللَّہُ الأَمْرَ فِی السَّمَاءِ ضَرَبَتِ الْمَلاَءِکَۃُ بِأَجْنِحَتِہَا خُضْعَانًا لِقَوْلِہِ کَالسِّلْسِلَۃِ عَلَی صَفْوَانٍ قَالَ عَلِیٌّ وَقَالَ غَیْرُہُ صَفْوَانٍ یَنْفُذُہُمْ ذَلِکَ فَإِذَا فُزِّعَ عَنْ قُلُوبِہِمْ قَالُوا ماذَا قَالَ رَبُّکُمْ، قَالُوا لِلَّذِی قَالَ الْحَقَّ وَہْوَ الْعَلِیُّ الْکَبِیرُ) [ رواہ البخاری : باب قَوْلِہِ (إِلاَّ مَنِ اسْتَرَقَ السَّمْعَ فَأَتْبَعَہُ شِہَابٌ مُبِینٌ) ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا‘ اللہ تعالیٰ جب آسمان پر کوئی فیصلہ صادر فرماتا ہے تو اللہ کے فرمان کے جلال کی وجہ سے فرشتوں کے پروں میں آواز پیدا ہوتی ہے جیسے صاف پتھر پر لوہے کی زنجیر کھنچنے سے آواز پیدا ہوتی ہے۔ جب ان کے دلوں سے گھبراہٹ دورہوجاتی ہے تو وہ ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں‘ تمہارے پروردگار نے کیا فرمایا؟ اوپر والے ملائکہ اللہ کے ارشاد کا بیان کرتے اور اس کی تصدیق کرتے ہوئے کہتے ہیں یہ ہے اللہ کا ارشاد جو بلند ہے اور بڑا ہے۔ مسائل ١۔ ملائکہ بھی اللہ تعالیٰ کے حکم سے تجاوز نہیں کرتے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ سب کے ماضی، حال اور مستقبل کو جانتا ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ کی اجازت کے بغیر کوئی اس کے حضور سفارش نہیں کرسکتا۔ ٤۔ ملائکہ میں سے کوئی الٰہ ہونے کا دعویٰ کرے تو اللہ تعالیٰ اسے بھی جہنم میں جھونک دے گا۔ تفسیر بالقرآن جس نے ” اللہ“ کے ساتھ شریک بنایا اسے عذاب ہوگا : ١۔ اللہ تعالیٰ جس انسان کو نبوت، کتاب اور حکومت دے اسے بھی حق نہیں پہنچتا کہ وہ لوگوں کو اپنا بندہ بنائے۔ ( آل عمران : ٧٩) ٢۔ جس نے شرک کیا اس پر جنت حرام ہے۔ ( المائدہ : ٧٢) ٣۔ اگر آپ بھی شرک کرتے تو آپ کے اعمال غارت کر دئیے جاتے۔ (الزمر : ٦٥) الأنبياء
28 الأنبياء
29 الأنبياء
30 فہم القرآن ربط کلام : جس اِلٰہ کے سامنے کوئی دَم نہیں مار سکتا اس کی الوہیت کے دلائل۔ اللہ تعالیٰ کے واحد اِلٰہ ہونے کا جو لوگ انکار کرتے ہیں کیا انھیں معلوم نہیں کہ زمین و آسمان آپس میں خلط ملط تھے۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں جدا جدا کردیا اور اس نے ہر چیز کو پانی سے پیدا کیا۔ اتنے ٹھوس دلائل کے باوجود لوگ پھر بھی اس کے واحد اِلٰہ ہونے پر یقین نہیں کرتے۔ پہلے پارے میں یہ بتلایا ہے کہ ” اللہ“ نے زمین و آسمان کو بغیر کسی نمونے کے پیدا کیا کیونکہ جب کسی کام کے کرنے کا فیصلہ کرتا ہے تو اسے حکم دیتا ہے کہ ” ہوجا“ وہ کام من و عن اس کی مرضی کے مطابق ہوجاتا ہے۔ (البقرۃ: ١١٧) ” رَتْقًا“ کا معنی ہے کہ آپس میں خلط ملط اور جڑے ہوئے۔ اللہ تعالیٰ نے آسمانوں کو حکم دیا کہ تم اوپر نیچے سات آسمان بن جاؤ اور زمین کو حکم ہوا کہ تہہ بہ تہہ سات زمینوں کی شکل اختیار کرلے چنانچہ ایسا ہوگیا قرآن مجید کے الفاظ سے یہ عمل بظاہر بڑا سادہ معلوم ہوتا ہے لیکن اب تک اس عمل کی جو جزیات سامنے آئی ہیں ان پر غور کیا جائے تو آدمی کی عقل نہ صرف دنگ رہ جاتی ہے بلکہ اس عمل کا احاطہ کرنے سے پہلے ہی سوچ کی حد ختم ہوجاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے اِلٰہ ہونے کا دوسرا ثبوت یہ دیا ہے کہ اس نے ہر چیز کو پانی سے بنایا ہے۔ بعض اہل علم نے ان الفاظ کا ترجمہ کرتے ہوئے جاندار، چیزیں لکھی ہیں حالانکہ اللہ تعالیٰ نے ” کُلُّ شَیْ ءٍ“ کے الفاظ استعمال کیے ہیں یعنی ” ہر چیز“۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جاندار چیزیں پانی کے بغیر زیادہ دیر تک زندہ نہیں رہ سکتیں اور ہر جاندار کے وجود میں پانی کی خاص مقدار کا ہونا لازم ہے ورنہ اس کے وجود کا باقی رہنا ناممکن ہے۔ لیکن بعض جمادات کے اندر بھی پانی کی ایک مقدار موجود ہوتی ہے اور جن چیزوں کے اندر پانی کے اثرات دکھائی نہیں دیتے ہوسکتا ہے کہ ان کے میٹریل میں بھی بنیادی طور پر پانی کا عنصر موجود ہو۔ قرآن مجید نے اس بات کا تذکرہ کیا ہے کہ زمین سے پہلے اس کائنات میں پانی ہی پانی تھا اور اللہ تعالیٰ کا عرش بھی پانی پر تھا۔ اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمانوں کو بنانے کا فیصلہ کیا۔ اس کے حکم سے سات زمینیں اور سات آسمان موجودہ شکل میں معرض وجود میں آئے اور اللہ تعالیٰ آسمانوں سے اوپر عرش پر مستوی ہوا۔ (ھود : ٧) (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) إِنَّ الشَّیْطَانَ یَأْتِی أَحَدَکُمْ فَیَقُولُ مَنْ خَلَقَ السَّمَاءَ فَیَقُول اللَّہُ عَزَّ وَجَلَّ فَیَقُولُ مَنْ خَلَقَ الأَرْضَ فَیَقُول اللَّہُ فَیَقُولُ مَنْ خَلَقَ اللَّہَ فَإِذَا أَحَسَّ أَحَدُکُمْ بِشَیْءٍ مِنْ ذَلِکَ فَلْیَقُلْ آمَنْتُ باللَّہِ وَبِرُسُلِہِ) [ رواہ احمد : مسند ابی ہریرہ ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا شیطان تم میں سے کسی ایک کے پاس آتا ہے وہ پوچھتا ہے آسمان کو کس نے پیدا کیا بندہ جواب دیتا ہے اللہ تعالیٰ نے۔ شیطان پھر پوچھتا ہے زمین کو کس نے پیدا کیا بندہ کہتا ہے اللہ تعالیٰ نے۔ شیطان پھر سوال کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو کس نے پیدا کیا نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جب آدمی کے ذہن میں یہ خیال آئے تو وہ کہے۔ میں اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لایا۔“ زمین و آسمانوں کی ابتدا کس طرح ہوئی : سائنس کی تحقیقات نے ثابت کردیا ہے کہ کائنات اپنا ایک آغاز (Beginning) رکھتی ہے۔ اور ایسا کرتے ہوئے اس نے خدا کی صداقت کو ثابت کردیا ہے۔ کیونکہ جو چیز اپنا آغاز رکھتی ہو وہ اپنے آپ شروع نہیں ہو سکتی۔ یقیناً وہ ایک محرک اول، ایک خالق، ایک خدا کی محتاج ہے۔“ (The evidence of God ,p51) چنانچہ کائنات کے وجود میں آنے کا مسلمہ جدید ترین نظریہ یہ ہے کہ ابتداً مادہ مرکوز اور مجتمع (Concentrated and condensed) حالت میں تھا۔ (اَوَلَمْ یَرَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْٓا اَنَّ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ کَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنٰھُمَاوَ جَعَلْنَا مِنَ الْمَآءِ کُلَّ شَیْءٍ حَیٍّ اَفَلَا یُؤْمِنُوْنَ) [ سورۃ الأنبیاء : ٣٠] ” کیا کافروں نے اس بات پر غور نہیں کیا کہ ارض و سماوات آپس میں گڈ مڈ تھے پھر ہم نے انھیں الگ الگ کیا اور ہر جاندار چیز کو پانی سے زندگی بخشی کیا پھر بھی یہ لوگ (اللہ تعالیٰ کی خلّاقی) پر ایمان نہیں لاتے ؟“ یہ مادہ بالکل توازن کی حالت میں تھا اس میں کسی قسم کی کوئی حرکت نہ تھی پھر اچانک یہ ایک عظیم دھماکہ (Big Bang) (یہ عظیم دھماکہ ایک اندازہ کے مطابق 15 کھرب سال پہلے ہوا) سے پھٹ پڑا اور اس نے ایک عظیم گیسی بادل یا قرآن کے لفظ میں دخان (ثُمَّ اسْتَوَی إِلَی السَّمَاءِ وَہِیَ دُخَانٌ) کی صورت اختیار کرلی۔ سائنس کی یہ دریافت قرآنی بیان کی تفسیر معلوم ہوتی ہے۔ یہ گیسی بادل بہت عظیم الجثہ تھا اور آہستہ آہستہ گردش کر رہا تھا۔ یہ عظیم سدیم (Primery Nebula) انجام کار متعدد ٹکڑوں میں بٹ گیا جن کی لمبائی چوڑائی اور مقدار مادہ بہت ہی زیادہ تھا۔ نجمی طبیعات (Astrophysicist) کے ماہرین اس کی مقدار کا اندازہ سورج کے موجودہ مادہ کے ایک ارب سے لگا کر ایک کھرب گنا تک لگاتے ہیں۔ ان اعداد سے ابتدائی گیسی مقدار مادہ (Hydrogen and Helium) کے ان ٹکڑوں کے عظیم جثوں کا کچھ تصور ملتا ہے جن سے بعد میں عمل انجماد (Condensation) کے ذریعے کہکشائیں وجود میں آئیں۔ علمائے فلکیات کے ایک جدید اندازے کے مطابق ہر کہکشاں (Galaxy) میں دو کھرب ستارے ہیں اور اب تک معلوم کائنات میں تقریباً دو کھرب یہ کہکشائیں ہیں۔ جو کہکشاں ہم سے قریب ترین ہے وہاں سے روشنی کو ہم تک پہنچنے میں تقریباً نو لاکھ سال لگ جاتے ہیں۔ یہ کہکشاں مراۃ السلسلہ (Andromida) نامی مجمع النجوم میں واقع ہے۔ لہٰذا روشنی کو ان ستاروں سے جو معلوم سماوی جہاں کے اس سرے پر واقع ہیں ہم تک پہنچنے میں اربوں سال لگ جاتے ہیں۔ کائنات کی پہنائیاں اس قدر وسیع ہیں کہ ان کی پیمائش کے لیے خاص اکائیاں مثلاً نوری سال اور پارسک وغیرہ وضع کی گئیں ہیں۔ نوری سال یا سال نوای اس فاصلہ کو کہتے ہیں جو روشنی ایک سال میں طے کرتی ہے اور یہ تقریباً 58 کھرب ستر ارب میل کے برابر ہوتا ہے اور پارسک 3.26 نوری سال یا ایک نیل 92 کھرب میل کے لگ بھگ ہے۔ ( فَتَبَارَکَ اللّٰہُ اَحْسَنُ الْخَالِقِیْنَ) مزید تفصیل کے لیے فہم القرآن جلد ٢ سورۃ الاعراف آیت ٥٤ کی تفصیل ملاحظہ کریں۔ مسائل ١۔ زمین و آسمان پہلے آپس میں جڑے ہوئے تھے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں موجودہ شکل میں بننے کا حکم دیا اور یہ اسی طرح ہی بن گئے جس طرح اللہ تعالیٰ کی منشا تھی۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کو پانی سے پیدا کیا۔ تفسیر بالقرآن زمین و آسمان کی تخلیق کے مختلف مراحل : ١۔ اللہ تعالیٰ نے آسمانوں و زمین کو برحق پیدا کیا ہے اللہ شرک سے بالا تر ہے۔ (النحل : ٣) ٢۔ اللہ تعالیٰ نے بغیر نمونے اور مٹیریل کے زمین و آسمانوں کو پیدا کیا۔ (البقرۃ : ١١٦) ٣۔ زمین و آسمان پہلے باہم جڑے ہوئے تھے۔ پھر اللہ نے ان کو ایک دوسرے سے الگ کیا۔ (الانبیاء : ٣٠) ٤۔ اللہ تعالیٰ نے دو دن میں آسمانوں کو پیدا کیا۔ (حٰم السجدۃ: ١٢) ٥۔ اللہ تعالیٰ نے آسمان و زمین کو چھ دن میں بنائے۔ (الاعراف : ٥٤) الأنبياء
31 فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ! اللہ تعالیٰ کے اِلٰہ ہونے کا تیسرا، چوتھا اور پانچواں ثبوت۔ اللہ تعالیٰ نے زمین کو پیدا فرما کر اس میں بڑے بڑے پہاڑ نصب فرمائے تاکہ زمین اپنے بوجھ کی وجہ سے ہلنے اور ایک طرف جھکنے نہ پائے۔ پھر اس میں کشادہ راہیں بنائیں تاکہ لوگوں کو ایک سے دوسرے مقام تک جانے کے لیے سہولت اور رہنمائی حاصل ہو۔ عربی زبان جاننے والا ہر شخص جانتا ہے کہ عربی لغت میں ارض کا لفظ واحد اور جمع دونوں کے لیے بولا جاتا ہے۔ قرآن مجید میں جہاں بھی الارض کا لفظ آیا ہے اس سے مراد تہہ بہ تہہ سات زمینیں ہیں۔ اٹھائیسویں پارہ میں زمین کے لیے بھی ” مِثْلَھُنَّ“ کا لفظ استعمال فرما کر سات زمینیں ثابت کی ہیں۔ (الطلاق : ١٢) تیسویں پارے میں زمین اور پہاڑوں کے بارے میں یہ الفاظ استعمال ہوئے ہیں کہ : ” کیا ہم نے زمین کو بچھونا نہیں بنایا ؟ اور پہاڑوں کو میخوں کے طور پر زمین پر نہیں گاڑا۔ (النباء : ٧) اللہ تعالیٰ نے پہاڑوں پر قیمتی درخت، نباتات اور برف کی شکل میں پانی کے ذخائر جمع کیے۔ پہاڑوں کے اندر اور ان کے نیچے بے شمار قسم کی گراں قیمت معدنیات کے خزانے محفوظ فرمائے اور پہاڑوں کے درمیان راستے رکھے۔ جو نہ صرف ایک مقام سے دوسرے مقام تک جانے کے لیے راستے ہیں بلکہ پانی کی گزر گا ہیں ہیں۔ جن سے دریا سیراب ہوتے ہیں اور دریاؤں سے نہروں کی شکل میں پانی مختلف علاقوں میں پہنچتا ہے۔ میخوں کی مانند پہاڑ : ارضیات میں ” بل پڑنے“ (Folding) کا مظہر حالیہ دریافت شدہ حقیقت ہے۔ قشر ارض (Crust) یعنی پہلی تہہ میں بل پڑنے کی وجہ سے پہاڑی سلسلے وجود میں آئے ہیں۔ قشر ارض جس پرہم رہتے ہیں، ٹھوس چھلکے کی طرح ہے، جب کہ کرۂ ارض کی اندرونی پرتیں، (LaYers) نہایت گرم اور مائع ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ زمین کا اندرون کسی بھی قسم کی زندگی کے لیے قطعاً غیر موزوں ہے۔ آج ہمیں یہ بھی معلوم ہوچکا ہے کہ پہاڑوں کی قیام پذیری (Stability) کا تعلق، قشر ارض میں بل پڑنے کے عمل سے بہت گہرا ہے۔ ماہرین ارضیات کا کہنا ہے کہ زمین کارداس (Radius) یعنی نصف قطر تقریباً ٠٣٥، ٦ کلومیٹر ہے اور قشر ارض، جس پر ہم رہتے ہیں اس کے مقابلے میں بہت پتلی ہے، جس کی موٹائی ٢ کلومیٹر سے لے کر ٣٥ کلومیٹر تک ہے۔ چونکہ قشر ارض بہت پتلی ہے، لہٰذا اس کے تھرتھرانے یا ہلنے کا امکان بھی بہت قوی ہے اس میں پہاڑ خیمے کی میخوں کا کام کرتے ہیں جو قشرِارض کو تھام لیتی ہیں اور اسے قیام پذیری عطا کرتے ہیں قرآن پاک میں بھی عین یہی کہا گیا ہے : (اَلَمْ نَجْعَلِ الْاَرْضَ مِھٰدًا۔ وََّالْجِبَالَ اَوْتَادًا۔)[ النباء : ٦۔ ٧] ” کیا یہ واقعہ نہیں ہے کہ ہم نے زمین کو فرش بنایا اور پہاڑوں کو میخوں کی طرح گاڑ دیا۔“ یہاں عربی لفظ ” اَوْتَادً“ کا مطلب بھی میخیں ہی نکلتا ہے، ویسی ہی میخیں جیسی کہ خیمے کو باندھ رکھنے کے لیے لگائی جاتی ہیں۔ ارضیاتی تہوں (Folds) یا سلوٹوں کی گہری پوشیدہ بنیادیں بھی یہی ہیں۔ earth نام کی ایک کتاب ہے جو دنیا بھر کی کئی جامعات میں ارضیات کی بنیادی حوالہ جاتی نصابی کتاب کا درجہ رکھتی ہے۔ اس کتاب کے مصنفین میں ایک نام ڈاکٹر فرینک پریس کا بھی ہے، جو ١٢ سال تک امریکہ کی اکیڈمی آف سائنسز کے سربراہ رہے ہیں۔ اس کتاب میں وہ پہاڑوں کی وضاحت، کلہاڑی کے پھل جیسی شکل (Wedge Shape) سے کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ پہاڑ بذات خود ایک وسیع تر وجود کا ایک چھوٹا حصہ ہوتا ہے۔ جس کی جڑیں زمین میں بہت گہرائی تک اتری ہوتی ہیں۔ ڈاکٹر فرینک کے مطابق، قشر ارض کی پائیداری اور قیام پذیری میں پہاڑ نہایت اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ پہاڑوں کے فائدے کی وضاحت کرتے ہوئے، قرآن پاک واضح طور پر فرماتا ہے کہ انہیں اس لیے بنایا گیا ہے تاکہ یہ زمین کو لرز نے سے بچائیں : (وَجَعَلْنَا فِی الْاَرْضِ رَوَاسِیَ اَنْ تَمِیْدَبِھِمْ)[ الانبیاء : ٣١] ” اور ہم نے زمین میں پہاڑ جما دیے تاکہ وہ انہیں لے کر ڈھلک نہ جائے۔“ اسی طرح کے ارشادات سورۃ لقمان، آیت : ١٠ اور سورۃ النحل اور آیت ١٥ میں بھی وارد ہوئے ہیں۔ لہٰذا قرآن پاک کے فراہم کردہ بیانات جدید ارضیاتی معلومات سے مکمل طور پر ہم آہنگ ہیں۔ پہاڑوں کو مضبوطی سے جماد یا گیا ہے : سطح زمین متعدد ٹھوس ٹکڑوں، یعنی ” پلیٹوں“ میں بٹی ہوئی ہے جن کی اوسط موٹائی تقریباً ١٠٠ کلومیٹر ہے۔ یہ پلیٹیں، جزوی طور پر پگھلے ہوئے حصے کے اوپر گویا تیر رہی ہیں، اس حصے کو (Aesthenosphere) کہا جاتا ہے۔ پہاڑ عموماً پلیٹوں کی بیرونی حدود پر پائے جاتے ہیں۔ قشر ارض، سمندروں کے نیچے ٥ کلومیٹر موٹی ہوتی ہے، جب کہ خشکی پر اس کی اوسط موٹائی ٣٥ کلومیٹر تک ہوتی ہے البتہ پہاڑی سلسلوں میں قشر ارض کی موٹائی ٨٠ کلومیٹر تک جا پہنچتی ہے، یہی وہ مضبوط بنیادیں ہیں جن پر پہاڑ کھڑے ہیں۔ پہاڑوں میں برکات : اللہ تعالیٰ نے پہاڑوں کو صرف میخوں کے طور پر ہی نہیں بنایا بلکہ ان میں بے شمار فوائد رکھ دیے ہیں۔ پہاڑوں پر برف جمتی ہے جو اللہ کی طرف سے پانی ذخیرہ کرنے کا بہت بڑا ذریعہ ہیں۔ پہاڑوں میں چشمے جاری ہوتے ہیں جو صاف شفاف پانی کا وسیلہ ہیں۔ تقریباً تمام دریاؤں کا آغاز پہاڑوں سے ہوتا ہے۔ پہاڑوں میں سونے کے ذخائر اور بے شمار قسم کے قیمتی پتھر اور معدنیات پائی جاتی ہیں۔ جو زمین کی پیداوار سے ہزاروں گناقیمتی ہیں۔ (عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ لَمَّا خَلَقَ اللَّہُ عَزَّ وَجَلَّ الأَرْضَ جَعَلَتْ تَمِیدُ فَخَلَقَ الْجِبَالَ فَأَلْقَاہَا عَلَیْہَا فَاسْتَقَرَّتْ فَتَعَجَّبَتِ الْمَلاَءِکَۃُ مِنْ خَلْقِ الْجِبَالِ فَقَالَتْ یَا رَبِّ ہَلْ مِنْ خَلْقِکَ شَیْءٌ أَشَدُّ مِنَ الْجِبَالِ قَالَ نَعَمِ الْحَدِیدُ قَالَتْ یَا رَبِّ ہَلْ مِنْ خَلْقِکَ شَیْءٌ أَشَدُّ مِنَ الْحَدِیدِ قَالَ نَعَمِ النَّارُ قَالَتْ یَا رَبِّ ہَلْ مِنْ خَلْقِکَ شَیْءٌ أَشَدُّ مِنَ النَّارِ قَالَ نَعَمِ الْمَاءُ قَالَتْ رَبِّ فَہَلْ مِنْ خَلْقِکَ شَیْءٌ أَشَدُّ مِنَ الْمَاءِ قَالَ نَعَمِ الرِّیحُ قَالَتْ یَا رَبِّ فَہَلْ مِنْ خَلْقِکَ شَیْءٌ أَشَدُّ مِنَ الرِّیحِ قَالَ نَعَمِ ابْنُ آدَمَ یَتَصَدَّقُ بِیَمِینِہِ یُخْفِیہَا مِنْ شِمَالِہِ) [ رواہ احمد : مسند انس بن مالک] (وقال الترمذی ھذا حدیث غریب) ” حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب اللہ تعالیٰ نے زمین کو تخلیق فرمایا تو وہ ہلنا شروع ہوگئی تو اللہ نے پہاڑوں کو پیدا کر کے اس پر گاڑ دیا تو وہ ٹھہر گئی فرشتوں نے پہاڑ کی تخلیق پر تعجب کا اظہار کرتے ہوئے کہا اے پروردگار کیا تو نے پہاڑوں سے بڑھ کے کوئی سخت چیز پیدا کی ہے ؟ اللہ نے فرمایا ہاں ! لوہا، فرشتوں نے عرض کی کیا لوہے سے بڑھ کر کوئی سخت چیز تخلیق کی گئی ہے ؟ اللہ نے فرمایا آگ۔ فرشتوں نے دریافت کیا، کیا آگ سے بھی سخت چیز آپ نے تخلیق فرمائی ہے ؟ اللہ نے فرمایا پانی اس سے بھی سخت تر ہے۔ انہوں نے عرض کی کیا پانی سے بڑھ کر بھی اے اللہ تو نے کسی چیز کو تخلیق کیا ہے ؟ اللہ نے فرمایا ہوا، فرشتوں نے سوال کیا اے پروردگار کیا تو نے ہوا سے بھی بڑھ کر کوئی سخت چیز پیدا کی ہے ؟ اللہ نے فرمایا ابن آدم کا اپنے دائیں ہاتھ سے صدقہ کرنا ہے جس کا بائیں ہاتھ کو پتہ نہ چلے۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے زمین بنا کر اس میں پہاڑ نصب فرمائے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے پہاڑوں کے درمیان راستے بنائے۔ تفسیر بالقرآن پہاڑوں کے فوائد اور ان کی ساخت : ١۔ اللہ نے تمھارے لیے سایہ دار چیزیں بنائیں اور اسی نے تمھارے لیے پہاڑوں میں چھپنے کی جگہ بنائی۔ (النحل : ٨١) ٢۔ کیا ہم نے زمین کو بچھونا اور پہاڑوں کو میخیں نہیں بنایا۔ (النباء : ٧۔ ٨) ٣۔ اللہ تعالیٰ نے زمین کے اوپر پہاڑگاڑ دیے۔ (النازعات : ٣٢) ٤۔ تم پہاڑوں کو کھود کھود کر خوبصورت گھر بناتے ہو۔ (الشعراء : ١٤٩) ٥۔ اللہ تعالیٰ نے پہاڑوں میں راستے بنائے۔ (الانبیاء : ٣١) الأنبياء
32 فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ کے اِلٰہ ہونے کا چھٹا، ساتواں اور آٹھواں ثبوت۔ اللہ تعالیٰ نے آسمان کو زمین والوں کے لیے محفوظ چھت بنایا۔ اس کے باوجود لوگ اپنے رب کی نشانیوں سے اعراض کرتے ہیں۔ اسی نے رات اور دن پیدا کیے، چاند اور سورج بنائے جو فضا میں تیر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے آسمان کو کسی ستون کے بغیر چھت بنایا یہ ایسی مضبوط چھت ہے کہ نامعلوم کتنے عرصہ سے قائم ہے اور اس وقت تک قائم رہے گی جب تک اللہ تعالیٰ اسے قائم رکھے گا اس میں کوئی نشیب و فراز نہیں دیکھنے والے کو بالکل ہموار، صاف اور شفاف نظر آتی ہے۔ نہ اس کا رنگ بدلا ہے اور نہ ہی اس میں کوئی دراڑ اور جھکاؤ واقع ہوا ہے۔ ارشاد فرمایا کہ اس نے سات آسمان اوپر نیچے بنائے دیکھنے والا اس کی آفرینش میں کوئی نقص نہیں پا سکتا پھر آنکھ اٹھا کر دیکھ۔ کیا تجھے اس میں کوئی شگاف اور دراڑ نظر آتی ہے ؟ اس نے آسمان دنیا کو ستاروں سے مزین فرمایا اور اس میں ستارے بنائے جو شیاطین کے لیے کوڑوں کا کام دیتے ہیں۔ اس نے شیاطین کے لیے جلا دینے والا عذاب تیار کر رکھا ہے۔ (الملک : ٣۔ ٥) اُسی نے رات اور دن بنائے۔ سورج اور چاند اپنے اپنے مدار میں چل رہے ہیں۔ اگر ” اللہ“ رات کو قیامت تک طویل کر دے تو اس کے سوا کسی کے پاس طاقت نہیں کہ جو دن کی روشنی لا سکے لیکن اس کے باوجود لوگ حقیقت سننے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ اگر اللہ تعالیٰ دن کو قیامت تک لمبا کر دے تو اس کے سوا کسی کے پاس قوت نہیں جو رات لے آئے جس میں تم سکون پاتے ہو لیکن لوگ غور نہیں کرتے۔ (القصص : ٧١۔ ٧٢) چاند اور سورج کی طرف دیکھو حقیقتاً کوئی نہیں جانتا کتنی مدت سے رواں دواں ہیں یہ اس وقت تک طلوع اور غروب ہوتے رہیں گے جب تک ان کے بنانے والی ذات ان کو رواں دواں رہنے کا حکم دے گی۔ جو نہی اس کا حکم ہوگا کہ رک جاؤ تو سورج بے حرارت اور چاند بے نور ہو کر زمین پر گر پڑے گا۔ لیکن جب تک انھیں چلتے رہنے کا حکم ہے اس وقت تک سورج میں اتنی طاقت نہیں کہ وہ چاند کو پالے اور نہ رات دن سے پہلے آسکتی ہے ہر کوئی اپنے مدار میں گھوم رہا ہے۔ (یٰس : ٤٠) (عَنْ أَبِی ذَرٍّ (رض) قَالَ قَال النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لأَبِی ذَرٍّ حینَ غَرَبَتِ الشَّمْسُ تَدْرِی أَیْنَ تَذْہَبُ قُلْتُ اللَّہُ وَرَسُولُہُ أَعْلَمُ قَالَ فَإِنَّہَا تَذْہَبُ حَتَّی تَسْجُدَ تَحْتَ الْعَرْشِ، فَتَسْتَأْذِنَ فَیُؤْذَنَ لَہَا، وَیُوشِکُ أَنْ تَسْجُدَ فَلاَ یُقْبَلَ مِنْہَا، وَتَسْتَأْذِنَ فَلاَ یُؤْذَنَ لَہَا، یُقَالُ لَہَا ارْجِعِی مِنْ حَیْثُ جِءْتِ فَتَطْلُعُ مِنْ مَغْرِبِہَا، فَذَلِکَ قَوْلُہُ تَعَالَی (وَالشَّمْسُ تَجْرِی لِمُسْتَقَرٍّ لَہَا ذَلِکَ تَقْدِیرُ الْعَزِیزِ الْعَلِیمِ) [ رواہ البخاری : باب صِفَۃِ الشَّمْسِ وَالْقَمَرِ] ” حضرت ابوذر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کیا تجھے معلوم ہے جب سورج غروب ہوتا ہے تو کہاں جاتا ہے؟ میں نے کہا‘ اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو علم ہے۔ آپ نے فرمایا سورج عرش کے نیچے سجدہ کرتا ہے اور اجازت طلب کرتا ہے۔ اسے اجازت مل جاتی ہے قریب ہے کہ وہ سجدہ کرے گا اور اس کا سجدہ قبول نہ ہو وہ طلوع ہونے کی اجازت طلب کرے گا اس کو اجازت نہ ملے۔ اسے حکم ہو کہ جدھر سے آیا اسی طرف سے طلوع ہوجا چنانچہ سورج مغرب کی طرف سے طلوع ہوگا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے سورج اپنے مستقر کی طرف چلا جاتا ہے آپ نے فرمایا اس کا ٹھکانا عرش کے نیچے ہے“ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَال الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ مُکَوَّرَانِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ) [ رواہ البخاری : باب صِفَۃِ الشَّمْسِ وَالْقَمَرِ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : قیامت کے دن سورج اور چاند کو لپیٹ لیا جائے گا۔“ مسائل ١۔ ” اللہ“ نے ہی رات اور دن بنائے۔ ٢۔ ” اللہ“ نے ہی چاند اور سورج بنا کر ان کے لیے مدار قائم کیے۔ ٣۔ چاند اور سورج اپنے اپنے مدار میں گھوم رہے ہیں۔ تفسیر بالقرآن رات اور دن کا نظام : ١۔ دن اور ات کے مختلف ہونے اور زمین و آسمان کی پیدائش میں نشانیاں ہیں۔ (یونس : ٦) ٢۔ آسمانوں و زمین کی پیدائش، دن اور رات کی گردش، سمندر میں کشتیوں کے چلنے، آسمان سے بارش نازل ہونے، بارش سے زمین کو زندہ کرنے، چوپایوں کے پھیلنے، ہواؤں کے چلنے اور بادلوں کے مسخر ہونے میں (اللہ کی قدرت کی) نشانیاں ہیں۔ (البقرۃ : ١٦٤) ٤۔ رات اور دن کے مختلف ہونے، آسمان سے رزق اتارنے میں عقل والوں کے لیے نشانیاں ہیں۔ (الجاثیۃ: ٥) الأنبياء
33 الأنبياء
34 فہم القرآن ربط کلام : جس طرح اللہ تعالیٰ نے رات کے بعد دن، چاند اور سورج کو بنایا اور ان کے لیے دائرہ کار اور وقت مقرر کیا اسی طرح ہی ہر انسان کا ایک وقت اور اسے کچھ ذمہ داریاں تفویض کیگئی ہیں۔ جس طرح چاند غائب اور سورج غروب ہوجاتا ہے اسی طرح ہی انسان کی زندگی کا سورج غروب ہوجاتا ہے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی اس قانون سے مستثنیٰ نہیں تھے۔ پوری کائنات کا نظام صرف اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے۔ اس نے ایک معینّہوقت تک ہر چیز کی ایک ڈیوٹی لگا رکھی ہے۔ ہر کوئی اپنی اپنی ڈیوٹی نبھا رہا ہے۔ جس طرح ہر چیز کی ایک ذمہ داری ہے اسی طرح ہی انبیاء کرام (علیہ السلام) کے ذمہ ” اللہ“ کا پیغام لوگوں تک پہنچانا تھا۔ اسی فرض کی ادائیگی کے لیے اللہ تعالیٰ نے پہلے انبیاء اور نبی آخر الزماں (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مبعوث فرمایا تھا۔ آپ نے لوگوں کے سامنے عقیدۂ توحید اور اس کے دلائل پیش فرمائے تو لوگوں نے ان دلائل کی طرف توجہ دینے کی بجائے نہ صرف اعراض کیا بلکہ آپ کی جان لینے کے درپے ہوگئے۔ اس پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو موت جیسی مسلمہ حقیقت بتلانے کے ساتھ تسلّی دی جا رہی ہے کہ اے محبوب پیغمبر ! گھبرانے کی ضرورت نہیں ایک وقت آنے والا ہے کہ جب آپ بھی اس دنیا سے کوچ کریں گے اور آپ کے دشمن بھی موت کے گھاٹ اتریں گے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے کسی انسان کو اس دنیا میں ہمیشہ رہنے کے لیے پیدا نہیں کیا۔ لہٰذا آپ کو بھی موت آئے گی اور آپ کے مخالفوں نے بھی یہاں ہمیشہ نہیں رہنا ہے۔ ہر انسان نے موت کے گھاٹ اترنا ہے۔ ہم لوگوں کو نیکی اور برائی، تنگی اور کشادگی کے ساتھ آزماتے ہیں، پھر ہماری ہی طرف تمھارا لوٹ کر آنا ہے۔ موت وہ حقیقت ہے جس کا انکار کرنا کسی عقلمند کے لیے ممکن نہیں۔ یہاں تک کہ سرور دو عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھی موت کی آغوش میں جانا پڑا۔ جو شخص موت کی وادی میں داخل ہوا، وہ واپس نہیں آیا اور نہ آئے گا۔ البتہ ہندؤوں کا عقیدہ ہے کہ مرنے کے بعد آدمی کی روح دنیا میں واپس آجاتی ہے۔ اس عقیدہ کو آوگون کا نام دیا گیا۔ افسوس ہندؤوں سے متاثر ہو کر کچھ مسلمانوں نے یہ عقیدہ بنایا اور پھیلایا کہ نیک لوگوں کی روحیں دنیا میں واپس آتی ہیں۔ حالانکہ اس کی کوئی دلیل نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ انسان کو خیر اور شر کے ساتھ آزماتا ہے خوش بخت ہے وہ انسان جس نے شرکے مقابلے میں خیر کا انتخاب کیا اور اپنے رب کی بارگاہ میں سرخرو ہوا۔ نبی محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آخری لمحات : (وَعَنْ عَاءِشَۃَ (رض) قَالَتْ اِنَّ مِنْ نِّعَمِ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیَّ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تُوُفِّیَ فِیْ بَیْتِیْ وَفِیْ یَوْمِیْ وَبَیْنَ سَحْرِیْ وَنَحْرِیْ وَاَنَّ اللّٰہَ جَمَعَ بَیْنَ رِیْقِیْ وَرِیْقِہٖ عِنْدَ مَوْتِہٖ دَخَلَ عَلَیَّ عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ اَبِیْ بَکْرٍ وَبِیَدِہٖ سِوَاکٌ وَّاَنَا مُسْنِدَۃُ رَسُوْلِ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَرَاَیْتُہٗ یَنْظُرَ اِلَیْہِ وَعَرَفْتُ اَنَّہٗ یُحِبُّ السِّوَاکَ فَقُلْتُ اٰخُذُہٗ لَکَ فَاَشَارَ بِرَاْسِہٖ اَنْ نَّعَمْ فَتَنَاوَلْتُہٗ فَاشْتَدَّ عَلَیْہِ وَقُلْتُ اُلَیِّنُہٗ لَکَ فَاَشَارَ بِرَاْسِہٖ اَنْ نَّعَمْ فَلَیَّنْتُہٗ فَاَمَرَّہٗ وَبَیْنَ یَدَیْہِ رَکْوَۃٌ فِیْھَامَاءٌ فَجَعَلَ یُدْخِلُ یَدَیْہِ فِی الْمَاءِ فَیَمْسَحُ بِھِمَا وََجْہَہٗ وَیَقُوْلُ لَااِلٰہَ اِلَّااللّٰہُ اِنَّ لِلْمَوْتِ سَکَرَاتٌ ثُمَّ نَصَبَ یَدَہٗ فَجَعَلَ یَقُوْلُ فِی الرَّفِیْقِ الْاَعْلٰی حَتّٰی قُبِضَ وَمَالَتْ یَدُہٗ) [ رواہ البخاری : باب مَرَضِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وَوَفَاتِہِ ] حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے مجھ پر بے پناہ انعامات میں سے ایک انعام یہ ہے‘ کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میرے گھر میں‘ میری باری کے دن‘ میرے سینے اور میری گردن کے درمیان فوت کیے گئے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کی وفات کے قریب میرے لعاب دہن اور آپ کے لعاب دہن کو جمع فرمایا وہ اس طرح کہ حضرت عبدالرحمن بن ابی بکر میرے پاس آئے اس کے ہاتھ میں مسواک تھی میں نے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سہار ا دے رکھا تھا۔ میں نے آپ کو دیکھا کہ آپ مسواک کی طرف متوجہ ہیں۔ میں جان گئی کہ آپ مسواک کرنا چاہ رہے ہیں۔ میں نے پوچھا کیا آپ کے لیے مسواک لوں؟ آپ نے اثبات میں سر ہلایا میں نے مسواک آپ کو دی آپ نے مسواک کرنا شروع کی لیکن وہ سخت تھی۔ پھر میں نے پوچھا‘ کیا میں اسے آپ کے لیے نرم کردوں؟ آپ نے اپنے سر سے اشارہ فرمایا کہ ہاں۔ چنانچہ میں نے مسواک کو آپ کے لیے نر م کیا۔ آپ نے مسواک کی اور آپ کے ہاتھوں میں پانی کا بر تن تھا۔ آپ پانی میں اپنے ہاتھ ڈالتے اور اپنے چہرے پر ہاتھ ملتے اور کہتے لاَ اِ لٰہ اِ لَّا اللّٰہ بلا شبہ سکرات موت بر حق ہیں۔ پھر اپنا ہاتھ بلند کیا اور رفیق اعلیٰ کی دعا کر رہے تھے۔ حتیٰ کہ آپ کی روح قبض کرلی گئی اور آپ کا دست مبارک جھک گیا۔ ( وَعَنْ اَنَسٍ (رض) قَالَ لَمَّا ثَقُلَ النَّبِیُّ یَتَغَشَّاہُ الْکَرْبُ فَقَالَتْ فَاطِمَۃُ وَ اکَرَبَ اَبَاہْ ! فَقَالَ لَہَا لَیْسَ عَلٰی اَبِیْکَ کَرْبٌ بَعْدَ الْیَوْمِ فَلَمَّا مَاتَ قَالَتْ یَا اَبَتَاہُ اَجَابَ رَبَّا دَعَاہٗ یَااَبَتَاہٗ مِنْ جَنَّتِ الْفِرْدَوْسِ مَاْوَاہٗ۔ یَا اَبَتَاہٗ اِلٰی جِبْرَءِیْلَ نَنْعَاہٗ فَلَمَّا دُفِنَ قَالَتُ فَاطِمَۃُ یَا اَنَسُ اَطَابَتْ اَنْفُسُکُمْ اَنْ تَحْثُوْا عَلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ التُّرَابَ۔) [ رواہ البخاری : باب مَرَضِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وَوَفَاتِہِ ] ” حضرت انس (رض) فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) شدید بیمار ہوئے۔ آپ پر بیماری کی وجہ سے غشی طاری ہوئی تو حضرت فاطمہ (رض) پکار اٹھیں‘ ہائے ابو جان کی تکلیف ! رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا‘ آج کے بعد تیرے باپ کو کوئی تکلیف نہ ہوگی۔ جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے وفات پائی تو حضرت فاطمہ (رض) نے کہا ہائے ابا جان! آپ نے اپنے رب کی دعوت قبول کرلی۔ ابا جان! آپ کا مقام جنت ہے۔ اے ابو جان ہم جبرئیل کو آپ کی موت پر مطلع کرتے ہیں۔ پھر جب آپ کو دفنایا گیا تو حضرت فاطمہ (رض) نے کہا‘ اے انس ! تم نے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر مٹی ڈالنے پر اپنے آپ کو کیسے آمادہ کرلیا ؟“ تفسیر ماجدی میں مولانا عبدالماجد دریا آبادی ” وَمَا مُحَّمْدٌ اِلَّا رَسُوْلٌ“ کی تفسیر کے تحت لکھتے ہیں۔ ان سب نے اپنے وقت پر دنیا کو خیر باد کہا سو یہ بھی اپنے وقت موعود پر وفات پائیں گے۔ اور اس بات میں نہ کوئی بات حیرت کی ہوگی اور نہ کوئی پہلو اہانت کا نکلے گا۔ رسول کا مرتبہ خوب سمجھ لیا جائے رسول محض ہوتے ہیں صاحب وحی عقیدہ حلول، مظہریت، ابدیّت وغیرہ پر ضرب لگانے کے لیے مرتبہ رسالت کی بار بار تصریح ضروری تھی۔ حضور کی وفات کا حادثہ اس قدر سخت تھا کہ حضرت فاروق (رض) جیسے باوقار اور عالی ظرف صبر وضبط کھو بیٹھے اور بے اختیار ہوگئے۔ مسائل ١۔ کوئی انسان دنیا میں ہمیشہ رہنے کے لیے پیدا نہیں کیا گیا۔ ٢۔ سرور دو عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھی موت نے آلیا۔ ٣۔ ہر انسان نے موت کا ذائقہ چکھنا ہے۔ اللہ تعالیٰ تمام لوگوں کو نیکی اور بدی کے ساتھ آزماتا ہے۔ ٥۔ بالآخر ہر کسی نے اللہ تعالیٰ کے ہاں لوٹنا ہے۔ تفسیر بالقرآن موت ایک حقیقت ہے : ١۔ موت کا وقت مقرر ہے۔ (آل عمران : ١٤٥) ٢۔ موت کی جگہ متعین ہے۔ (آل عمران : ١٥٤) ٣۔ موت کو کوئی ٹال نہیں سکتا۔ (آل عمران : ١٦٨) ٤۔ موت سے کوئی بچ نہیں سکتا۔ (النساء : ٧٨) ٥۔ سب کو موت آنی ہے۔ (الانبیاء : ٣٥) ٦۔ اللہ تعالیٰ کے سوا ہر کسی نے مرنا ہے۔ (الرحمن : ٢٦، القصص : ٨٨) ٧۔ ” اللہ“ نے کسی بشر کو ہمیشہ رہنے کے لیے پیدا نہیں کیا۔ ( الانبیاء : ٣٤) الأنبياء
35 الأنبياء
36 فہم القرآن ربط کلام : کفار کا موت سے بے پرواہ ہونے کی وجہ سے سرور دو عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ رویہّ۔ انسان جب اپنی موت کو بھول جائے اور اپنے رب کے حضور حاضر ہونے کے عقیدے کا انکار کردے تو نا صرف حق بات کو ٹھکرا تا ہے بلکہ وہ حق کی دعوت دینے والے کی جان کا دشمن بن جاتا ہے۔ یہی حال سرور دو عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مخالفین کا تھا۔ وہ نا صرف نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات اور دعوت کا مذاق اڑاتے تھے بلکہ یہ الزام بھی لگاتے کہ یہ شخص ہمارے معبودوں کو برا کہتا ہے۔ حالانکہ ان کے اپنے اخلاق کی پستی کا یہ عالم تھا کہ وہ رب رحمن کا انکار کرتے تھے۔ یہودی اور عیسائی اللہ تعالیٰ کو ” اَلرَّحْمٰنُ“ کے نام سے بھی پکارا کرتے تھے۔ لیکن مکہ کے لوگ اللہ تعالیٰ کے نام ” اَلرَّحْمٰنُ“ سے چڑ رکھتے تھے۔ جب رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے رب کو اللہ کے ساتھ الرَّحْمٰنُ کے نام سے پکارانا اور متعارف کروانا شروع کیا تو مکہ والوں نے نا صرف اللہ تعالیٰ کے اس مبارک نام کا انکار کیا بلکہ وہ پہلے سے زیادہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے یہ کہہ کر مخالف ہوگئے کہ یہ شخص ہمارے معبودوں کی توہین کرتا ہے۔ حالانکہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کبھی بھی کسی کے خلاف ایسی زبان استعمال نہیں کی جس میں کسی کی توہین پائی جائے۔ آپ کو اللہ تعالیٰ نے خلق عظیم اور اعلیٰ کردار سے سرفراز فرمایا اور یہ تعلیم دی کہ آپ اپنے ساتھیوں کو بھی تلقین فرمائیں کہ کسی کے باطل معبود کو برا نہ کہیں۔ (وَ لَا تَسُبُّوا الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ فَیَسُبُّوا اللّٰہَ عَدْوًا بِغَیْرِ عِلْمٍ کَذٰلِکَ زَیَّنَّا لِکُلِّ اُمَّۃٍ عَمَلَھُمْ ثُمَّ اِلٰی رَبِّھِمْ مَّرْجِعُھُمْ فَیُنَبِّءُھُمْ بِمَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ) [ الانعام : ١٠٨] ” مشرک جن لوگوں کو اللہ کے سوا پکارتے ہیں ان کو برا نہ کہنا کہ کہیں یہ بھی اللہ کو بے ادبی اور بے سمجھے برا نہ کہیں۔“ (الانعام : ١٠٨) الّرحمن کی رحمتیں : (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ أَنَّ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ لَمَّا قَضَی اللَّہُ الْخَلْقَ کَتَبَ عِنْدَہُ فَوْقَ عَرْشِہِ، إِنَّ رَحْمَتِی سَبَقَتْ غَضَبِی) [ رواہ البخاری : باب قَوْلِہِ تَعَالَی (وَلَقَدْ سَبَقَتْ کَلِمَتُنَا لِعِبَادِنَا الْمُرْسَلِینَ)] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب اللہ نے مخلوقات کو پیدا کرنے کا فیصلہ فرمایا تو اس وقت اللہ کے عرش پر لکھا ہوا تھا بے شک میری رحمت میرے غضب سے سبقت لے جا چکی ہے۔“ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ إِنَّ لِلّٰہِ ماءَۃَ رَحْمَۃٍ قَسَمَ مِنْہَا رَحْمَۃً بَیْنَ جَمِیعِ الْخَلَاءِقِ فَبِہَا یَتَرَاحَمُونَ وَبِہَا یَتَعَاطَفُونَ وَبِہَا تَعْطِفُ الْوَحْشُ عَلَی أَوْلَادِہَا وَأَخَّرَ تِسْعَۃً وَتِسْعِینَ رَحْمَۃً یَرْحَمُ بِہَا عِبَادَہُ، یَوْمَ الْقِیَامَۃِ) [ رواہ ابن ماجۃ: کتاب الزہد، باب مایرجی من رحمۃ اللہ یوم القیامۃ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان نقل کرتے ہیں کہ نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بلا شبہ اللہ تعالیٰ کے پاس رحمت کے سو حصے ہیں اللہ تعالیٰ نے ایک حصہ تمام مخلوق میں تقسیم کیا ہے۔ اسی وجہ سے وہ باہم محبت وشفقت سے پیش آتے ہیں اور اسی وجہ سے ہی وحشی جانور اپنے بچوں سے محبت کرتے ہیں۔ باقی ننانوے حصے اللہ تعالیٰ نے اپنے پاس رکھے ہیں جن سے وہ قیامت کے دن اپنے بندوں پر رحم فرمائے گا۔“ مسائل ١۔ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کفار مذاق اڑایا کرتے تھے۔ ٢۔ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر کفار اپنے معبودوں کی توہین کا الزام لگاتے تھے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ کے محبوب نام ” الرحمن“ کا کفار انکار کرتے تھے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ کے اسمائے گرامی میں اسم الرّحمن کی اہمیت : ١۔ اللہ کہہ کر پکارو یا رحمن۔ اللہ کے لیے اچھے نام ہیں۔ (الاسراء : ١١٠) ٢۔ اللہ کے اچھے، اچھے نام ہیں اسے ان ناموں کے ساتھ پکارو۔ (الاعراف : ١٨٠) قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا صفاتی نام الرّحمن ٥٧ بار اور الرّحیم ٩٥ بار استعمال ہوا ہے۔ الأنبياء
37 فہم القرآن ربط کلام : کفار نہ صرف رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات اور آپ کی دعوت کو مذاق کا نشانہ بناتے تھے بلکہ وہ عذاب کے بارے میں بھی جلد بازی کا مظاہرہ کرتے بلکہ اسے بھی مذاق سمجھتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے بطور امتحان ہر انسان میں کچھ طبعی کمزوریاں رکھی ہیں تاکہ اس کی آزمائش کی جائے۔ ان کمزوریوں میں عجلت پسندی بھی ہے۔ جو ہر انسان میں کسی نہ کسی حد تک پائی جاتی ہے۔ خوشی، غمی، کامیابی، ناکامی، تنگدستی اور کشادگی، اقتدار اور اختیار ملنے پر انسان کسی نہ کسی موقع پر ضرور جلد باز ہوجاتا ہے۔ فرق یہ ہے کہ ایماندار خوشی کے موقع پر شکر اور غم کے موقع پر صبر کرکے اس کمزوری پر قابو پالیتا ہے۔ لیکن جو شخص اللہ اور آخرت پر ایمان نہیں رکھتا وہ ان مواقعوں پر جلد بازی کا مظاہرہ کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ رسول اکرم جب کفار اور مشرکین کو ان کے کفر و شرک کے انجام سے ڈراتے تو وہ لوگ اپنے خوفناک انجام سے ڈرنے کی بجائے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عذاب کا مطالبہ کرتے کہ جس عذاب سے ہمیں صبح و شام ڈرایا جاتا ہے اس کے آنے میں آخر کیا رکاوٹ ہے ؟ اے محمد! تم سچے ہو تو یہ وعدہ اب تک پورا کیوں نہیں ہوا؟ بسا اوقات ان کے مظالم اور پراپیگنڈہ سے متاثر ہو کر مسلمان بھی یہ سوچتے کہ ان لوگوں پر عذاب کیوں نہیں آتا ؟ یہاں مسلمانوں کو تسلّی دینے کے ساتھ کفار کو انتباہ کیا گیا ہے کہ جلد بازی کا مظاہرہ مت کرو۔ عنقریب اللہ تعالیٰ تمھیں اپنی قدرت کی نشانیاں دکھائے گا یعنی جس عذاب کا تم مطالبہ کرتے ہو بہت جلد اسے اپنے سامنے پاؤ گے۔ (اَنْ سَہْلِ بْنِ سَعْدٍ السَّاعِدِیِّ عَنْ أَبِیہِ عَنْ جَدِّہِ قَالَ قَالَ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) الأَنَاۃُ مِنَ اللَّہِ وَالْعَجَلَۃُ مِنَ الشَّیْطَانِ) [ رواہ الترمذی : باب مَا جَاءَ فِی التَّأَنِّی وَالْعَجَلَۃِ] ” حضرت سہل بن سعد اپنے باپ سے وہ اپنے باپ سے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تحمل مزاجی اللہ کی طرف سے ہے اور جلد بازی شیطان کی طرف سے۔“ (عَنْ عَاءِشَۃَ أَنَّ یَہُودَ أَتَوُا النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَقَالُوا السَّامُ عَلَیْکُمْ فَقَالَتْ عَاءِشَۃُ عَلَیْکُمْ، وَلَعَنَکُمُ اللَّہُ، وَغَضِبَ اللَّہُ عَلَیْکُمْ قَالَ مَہْلاً یَا عَاءِشَۃُ، عَلَیْکِ بالرِّفْقِ، وَإِیَّاکِ وَالْعُنْفَ وَالْفُحْشَ قَالَتْ أَوَلَمْ تَسْمَعْ مَا قَالُوا قالَ أَوَلَمْ تَسْمَعِی مَا قُلْتُ رَدَدْتُ عَلَیْہِمْ، فَیُسْتَجَابُ لِی فیہِمْ، وَلاَ یُسْتَجَابُ لَہُمْ فِیَّ) [ باب لَمْ یَکُنِ النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَاحِشًا وَلاَ مُتَفَحِّشًا] ” حضرت عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ یہودی نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے انہوں نے آپ کو مخاطب کر کے کہا السام علیکم یعنی تم پر موت واقع ہو۔ حضرت عائشہ نے جواباً کہا تم پر بھی موت واقع ہو، اللہ تعالیٰ تم پر لعنت کرے اور اپنا غضب نازل فرمائے۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اے عائشہ ! نرمی اختیار کرو سختی اور بد کلامی نہ کرو حضرت عائشہ (رض) نے عرض کی اے اللہ کے نبی آپ نے ان کی بات نہیں سنی آپ نے فرمایا جو میں نے ان کو جواب دیا ہے آپ نے وہ نہیں سنا۔ میری بات ان کے بارے میں قبول ہوگئی ہے ان کی بات میرے بارے میں قبول نہیں ہوئی۔“ مسائل ١۔ انسان بنیادی طور پر جلد باز ہے۔ ٢۔ اللہ اور آخرت کا منکر ضرور جلد باز ہوتا ہے۔ ٣۔ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کفار بار بار عذاب کا مطالبہ کرتے تھے۔ تفسیر بالقرآن انسان کی طبعی کمزوریاں : ١۔ انسان جلد باز ہے۔ (بنی اسرائیل : ١١) ٢۔ انسان فطرتاً جلد باز ہے۔ (الانبیاء : ٣٧) ٣۔ لوگ عذاب طلب کرنے میں جلدی کرتے ہیں۔ (الحج : ٤٧) ٤۔ کیا وہ ہمارے عذاب کے معاملے میں جلدی کرتے ہیں۔ (الشعرا : ٢٠٤) ٥۔ میں عنقریب تمہیں اپنی نشانیاں دکھاؤں گا سو جلدی نہ کرو۔ (الانبیاء : ٣٧) ٦۔ اللہ کا حکم آنے والا ہے جلدی نہ کرو۔ (النحل : ١) ٧۔ یقیناً انسان اپنے رب کا ناشکرا ہے۔ ( العادیات : ٦) ٨۔ اکثر انسان رب کے ناشکرے ہیں۔ ( بنی اسرائیل : ٨٩) ٩۔ انسان دل کا تنگ ہے۔ ( بنی اسرائیل : ١٠٠) ١٠۔ یہ لوگ عذاب الٰہی میں جلدی کرتے ہیں حالانکہ اس سے پہلے عذاب آنے کے واقعات گزرچکے ہیں۔ (الرعد : ٦) الأنبياء
38 الأنبياء
39 فہم القرآن ربط کلام : جس عذاب کے لیے کفار جلدبازی کا مظاہرہ کرتے ہیں اس کی ہولناکیوں کی ایک جھلک۔ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کفار عذاب اور قیامت کا بار بار مطالبہ کرتے تھے۔ عذاب کی ہولناکیوں کا ذکر کرکے کفار کو ان کے مطالبہ سے یہ کہہ کر ڈرایا اور روکا جا رہا ہے کہ اگر ان کو معلوم ہوجائے کہ رب ذوالجلال کا عتاب اور عذاب کس قدر سخت اور شدید تر ہوتا ہے تو یہ بھول کر بھی ایسا مطالبہ نہ کریں۔ انھیں پتہ ہونا چاہیے کہ جب ان پر رب ذوالجلال کا عذاب نازل ہوگا تو وہ اپنے آپ کو بچانا چاہیں تو ہرگز بچا نہیں سکیں گے۔ اے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ سے پہلے انبیاء کے ساتھ بھی مذاق ہوتا رہا لیکن ایک وقت ایسا آیا کہ جب مذاق کرنے والوں کو عذاب نے آلیا تو اس وقت انھیں کوئی پناہ دینے والانہ تھا۔ جہاں تک جہنم کے عذاب کا معاملہ ہے اس کی آگ اس قدر سخت اور تیز ہوگی کہ وہ ان کے چہروں اور پیٹھوں کو جھلس دے گی۔ اس وقت کوئی ان کی مدد کرنے والا نہیں ہوگا۔ اس دن عذاب ان پر اچانک ٹوٹ پڑے گا۔ ظالم بدحواس ہوجائیں گے نہ اسے ٹالنے کی ان کے پاس طاقت ہوگی اور نہ انھیں مہلت ملے گی۔ ” حضرت ابوہریرہ (رض) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں آپ نے فرمایا قیامت قائم نہ ہوگی یہاں تک کہ سورج مغرب سے طلوع ہوجائے جب سورج مغرب سے طلوع ہوگا تو اسے دیکھ کرتمام کے تمام لوگ ایمان لے آئیں گے۔ لیکن اس وقت ان کے ایمان لانے کا کوئی فائدہ نہ ہوگا۔ جو اس سے قبل نہ ایمان لایا اور نہ اس نے نیک اعمال کیے ہوں۔ دو آدمیوں نے کپڑا پھیلایا ہوگا دکاندار کپڑے کو بیچ اور سمیٹ نہیں پائے گا کہ قیامت قائم ہوجائے گی۔ دودھ دوہنے والادودھ پی نہیں سکے گا کہ قیامت قائم ہوجائے گی۔ حوض پروارد ہونے والا پانی نہیں پی سکے گا کہ قیامت قائم ہوجائے گی۔ انسان اپنے منہ میں ڈالا ہوا لقمہ کھا نہیں پائے گا کہ قیامت قائم ہوجائے گی۔“ [ رواہ البخاری : باب قَوْلِ النَّبِیِّ بُعِثْتُ أَنَا وَالسَّاعَۃَ کَہَاتَیْنِ ] نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مذاق کرنے والوں کا دنیا میں انجام : (اِنَّا کَفَیْنٰکَ الْمُسْتَھْزِءِ یْنَ) [ الحجر : ٩٥] ” یقیناً ہم آپ سے مذاق کرنے والوں سے نپٹ لیں گے۔“ ” حضرت عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے منافقوں میں ایک شخص کو دیکھا کہ وہ اللہ کے رسول کی سواری کے پیچھے اس حال میں دوڑ رہا تھا کہ اس کے پاؤں زخمی ہوچکے تھے اور وہ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے فریاد کر رہا تھا کہ جو باتیں آپ تک پہنچی ہیں ہم نے محض خوش طبعی اور دل لگی کے لیے کی تھیں لیکن رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کے جواب میں فقط اتنا فرمایا کہ کیا تم اللہ کی آیات اور اس کے رسول کے ساتھ مذاق کرتے تھے ؟“ (تفسیر رازی : جلد ٨، سورۃ التوبہ) مسائل ١۔ جہنم کا عذاب مجرموں کو ہر جانب سے گھیرے ہوئے ہوگا اور اس وقت ان کی کوئی مدد نہیں کرسکے گا۔ ٢۔ قیامت اچانک نازل ہوگی جس کو دیکھ کر ظالم بدحواس ہوجائیں گے۔ ٣۔ انبیاء کرام (علیہ السلام) کا مذاق کرنے والوں کا دنیا میں بھی بدترین انجام ہوا۔ تفسیر بالقرآن انبیاء (علیہ السلام) کی مخالفت اور ان کا مذاق اڑانے والوں کا انجام : ١۔ آپ سے پہلے بھی انبیا سے مذاق کیا جاتا رہا تب ان پر اللہ کا عذاب نازل ہوا۔ (الانبیاء : ٤١) ٢۔ کیا تم اللہ، اس کی آیات اور اس کے رسولوں سے مذاق کرتے ہو۔ (التوبہ : ٦٥) ٣۔ نہیں آیا ان کے پاس کوئی رسول مگر انہوں نے اس کا مذاق اڑایا۔ ( الحجر : ١١) ٤۔ افسوس ہے لوگوں پر جب بھی ان کے پاس کوئی رسول آیا تو انہوں نے اس کا مذاق اڑایا۔ ( یٰس : ٣٠) الأنبياء
40 الأنبياء
41 الأنبياء
42 فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ مشرکین مکہ الرّحمن کے منکر تھے اس لیے یہاں الرّحمن کی صفات کا ذکر کیا گیا ہے۔ منکرین حق کو مختلف الفاظ اور انداز میں انتباہ کیا جا رہا ہے۔ اے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! استہزاء کرنے والوں سے پوچھیں کہ کون ہے ؟ جو رات اور دن میں تمھاری نگرانی کرتا ہے، کیا الرّحمن کے سوا کوئی اور ہوسکتا ہے؟ ظاہر ہے کہ رب رحمن کے سوا کوئی نہیں ہے جو اس سے بڑھ کر تم پر نرمی اور مہربانی کرنے والا ہو۔ الرّحمن کی مہربانی کا نتیجہ ہے کہ تمہاری گستاخیوں کے باوجود دن، رات تمہاری نگرانی اور ضرورتیں پوری کرتا ہے۔ اس کے باوجود لوگ رب کی ذات اور اس کے فرمان سے اعراض کرنے والے ہیں۔ کیا ان کے اور بھی نگران اور حاجت روا ہیں ؟ جو ان کی رات اور دن میں حفاظت کرتے ہیں ؟ وہ نہ اپنے آپ کی مدد کرسکتے ہیں اور نہ ہماری پکڑ سے بچ سکتے ہیں۔ پچھلی آیات میں یہ بات بیان ہوئی ہے کہ اہل مکہ اللہ تعالیٰ کے محبوب اور مشفق نام ” الرحمن“ کے منکر تھے۔ اب انھیں الرّحمن کا تعارف کرایا گیا ہے کہ یہ الرّحمن کی شفقت اور مہربانی کا نتیجہ ہے کہ تمہاری گستاخیوں کے باوجود تمھیں ڈھیل دیے ہوئے ہے ورنہ تم سے پہلے کتنے لوگ گزرے ہیں کہ ان میں سے کسی کو اللہ تعالیٰ نے رات کے وقت اپنی گرفت میں لیا جو قیامت تک اسی عذاب میں مبتلا رہیں گے۔ کچھ ایسے تھے جن کو دن کے وقت عذاب نے آلیا اور وہ ہمیشہ کے لیے مغضوب ٹھہرے۔ نہ وہ اپنے آپ کو بچا سکے اور نہ ان کے دستگیر اور مشکل کشا کوئی مدد کرسکے۔ قرآن مجید نے اس بات کی بھی صراحت فرمائی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر شخص پر دو نگران مقرر کر رکھے ہیں۔ انسان اس وقت تک ان کی حفاظت میں رہتا ہے جب تک انھیں حفاظت کرنے کا حکم ہوتا ہے۔ (الرعد : ١١) (عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ (رض) ...إنَّ اللّٰہَ یَنْہَاکُمْ عَنِ التَّعَرّٰی فَاسْتَحْیُوْا مِنْ مَآاءِکَۃِ اللّٰہِ الَّذِیْنَ لاَ یُفَارِقُوْنَکُمْ إلَّا عِنْدَ ثَلَاثٍ حَالَاتٍ اَلْغَاءِطِ وَ الْجَنِابَۃِ وَ الْغُسْلِ فَإذَا اغْتَسَلَ أحَدُکُمْ بالْعُرَاءِ فَلْیَسْتَتِرْ بِثَوْبِہِ أوْ بِجَذْمَۃِ حَاءِطٍ أوْ بِبَعِیْرِہِ) [ رواہ البزار] ” حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں بے شک اللہ نے تمہیں ننگا ہونے سے منع کیا ہے پس تم اللہ کے فرشتوں سے شرم کرو۔ فرشتے صرف تم سے تین حالتوں میں جدا ہوتے ہیں۔ قضائے حاجت کے وقت، مباشرت اور غسل کے وقت، جب تم میں سے کوئی کھلے میدان میں غسل کرے تو اسے چاہیے کہ وہ خود کو کسی کپڑے سے یا کٹے ہوئے درخت کے تنے کے پیچھے ڈھانپے یا پھر اپنے اونٹ کی اوٹ کرلے۔“ ہمیشہ اللہ کی رحمت کا طلب گار رہنا چاہیے : (اَللّٰہُمَّ رَحْمَتَکَ أَرْجُوْ فَلاَ تَکِلْنِیْ إِلٰی نَفْسِیْ طَرْفَۃَ عَیْنٍ وَّأَصْلِحْ لِی شَأْنِیْ کُلَّہُ لاَ إِلٰہَ إِلاَّ أَنْتَ) [ رواہ ابو داؤد : باب مایقول اذا اصبح] ” اے اللہ میں تیری رحمت کی امید رکھتاہوں مجھے ایک لمحے کے لیے بھی میرے نفس کے حوالے نہ کرنا اور میرے تمام معاملات درست فرما دے تیرے علاوہ کوئی الٰہ نہیں۔“ مسائل ١۔ الرحمن ہی دن، رات لوگوں کی نگرانی کرتا ہے۔ ٢۔ اکثر لوگ اپنے رب کی ذات اور اس کے فرمان سے اعراض کرتے ہیں۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ کی گرفت سے کوئی خود بچ سکتا ہے اور نا کوئی اسے بچا سکتا ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ انسان کی نگرانی اور حفاظت کرتا ہے : ١۔ بے شک میرا پروردگار ہر چیز پر نگہبان ہے۔ (ھود : ٥٧) ٢۔ اللہ تم پر نگہبان ہے۔ (الشوریٰ : ٦) ٣۔ اللہ ہر چیز کو پیدا کرنے والا ہے اسی کی عبادت کرو اور وہ ہر چیز پر کارساز ہے۔ (آل عمران : ١٠٢) ٤۔ اللہ پر توکل کرو، اللہ بہترین کارساز ہے۔ (الاحزاب : ٣) ٥۔ تیرا رب ہر چیز کی حفاظت کرنے والا ہے۔ (سبا : ٢١) الأنبياء
43 الأنبياء
44 فہم القرآن ربط کلام : لوگوں کا اپنے رب کی ذات اور اس کے فرمان سے اعراض کرنے کا بنیادی سبب۔ اللہ تعالیٰ جب کسی فرد یا قوم کو طویل مدت تک اسباب عطا کرنے کے ساتھ ڈھیل دیتا ہے تو وہ اس کے شکر گزار بندے بننے کی بجائے یہ سمجھ بیٹھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہم پر ناراض نہیں جس وجہ سے دنیا کے اسباب و وسائل، اقتدار اور وقار دئیے جا رہا ہے۔ خاص طور پر یہ سلسلہ نسل در نسل جاری رہے تو نافرمان لوگوں کا یہ اعتقاد بن جاتا ہے کہ واقعی ہی ہم میں ایسے اوصاف ہیں جس بناء پر ہم وسائل، اقتدار اور وقار کا حق رکھتے ہیں۔ بعض دفعہ ایسے لوگوں پر اچانک برے حالات و ارد کردیے جاتے ہیں جن کا یہ تصور بھی نہیں کرسکتے تھے۔ یہی صورتحال اہل مکہ کی تھی۔ وہ کئی نسلوں سے بیت اللہ کی وجہ سے دنیا میں بالعموم اور عرب میں بالخصوص نہایت وقار کی زندگی بسر کر رہے تھے اور وسائل کے اعتبار سے بھی عرب کے قبائل میں متمول سمجھے جاتے تھے۔ چاہیے تو یہ تھا کہ سرور دو عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت قبول کرکے اپنے رب کے شکر گزار بندے بن جاتے لیکن وہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مخالفت پر دن رات کمربستہ ہوگئے۔ جوں جوں وہ مخالفت میں تیز ہو رہے تھے اسی رفتار سے دن بدن اسلام کا غلبہ اور مسلمانوں میں اضافہ ہو رہا تھا۔ بالاخر وہ وقت بھی آیا جب ان کے لیے مکہ کی زمین تنگ ہوگئی اور انھیں اسلام کے سامنے سرنگوں ہونا پڑا۔ اسی صورتحال کو یہاں بیان کی گیا ہے کہ ہم نے انھیں اور ان کے باپ دادا کو فائدہ دیا اور پھر طویل مدت تک انھیں مہلت دی۔ یہ مدت ان کے لیے فائدہ مند ہونے کی بجائے وبال ثابت ہوئی۔ کیا انھوں نے غور نہیں کیا کہ زمین اپنی وسعتوں کے باوجود ان کے لیے تنگ ہوتی جارہی ہے حالانکہ یہ اپنے آپ کو غالب سمجھ رہے۔ ارضیات کے سائنسدانوں کی تحقیق یہ ہے کہ زمین رقبہ کے لحاظ سے بھی دن بدن تنگ ہو رہی ہے۔ ( اللہ اعلم) (عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِی بَکْرَۃَ عَنْ أَبِیہِ أَنَّ رَجُلاً قَالَ یَا رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) أَیُّ النَّاسِ خَیْرٌ قَالَ مَنْ طَالَ عُمُرُہُ وَحَسُنَ عَمَلُہُ قَالَ فَأَیُّ النَّاسِ شَرٌّ قَالَ مَنْ طَالَ عُمُرُہُ وَسَاءَ عَمَلُہُ قَالَ أَبُو عیسَی ہَذَا حَدِیثٌ حَسَنٌ صَحِیحٌ) [ رواہ الترمذی : باب مَا جَاءَ فِی طُولِ الْعُمُرِ لِلْمُؤْمِنِ] ” حضرت عبدالرحمن بن ابی ابکرہ (رض) اپنے باپ سے بیان کرتے ہیں کہ بے شک ایک آدمی نے سوال کیا اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لوگوں میں سے بہترین کون ہے؟ آپ نے فرمایا جس کی عمر لمبی ہو اور اعمال اچھے ہوں۔ اس نے پھر عرض کی اللہ کے محبوب لوگوں میں سے بدترین کون ہے ؟ آپ نے فرمایا جس کی عمر لمبی ہو اور اعمال برے ہوں۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ طویل عمر اور اسباب کی کشادگی عنایت فرمائے تو نافرمان بننے کی بجائے اپنے رب کی تابعداری کرنا چاہیے۔ ٢۔ طویل عمر نیک آدمی کے لیے مفید اور برے شخص کے لیے وبال کا باعث ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ چاہے تو زمین کی وسعتوں کو انسان کے لیے تنگ و تاریک کر دے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں کوئی شخص اور قوم غالب نہیں آسکتی۔ تفسیر بالقرآن ” اللہ“ ہی غالب ہے : ١۔ اللہ اپنے ہر کام پر غالب ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔ (یوسف : ٢١) ٢۔ اللہ جب کسی کام کا ارادہ کرتا ہے تو حکم کرتا ہے۔ ہوجا تو وہ ہوجاتا ہے۔ (البقرۃ: ١١٧) ٣۔ ” اللہ“ اپنے بندوں پر غالب ہے اس نے اپنے بندوں کی حفاظت کے لیے فرشتے مقرر کیے ہیں۔ (الانعام : ٦١) ٤۔ زمین و آسمان کی ہر چیز اللہ تعالیٰ کی تسبیح بیان کرتی ہے وہ غالب، حکمت والا ہے۔ (الحشر : ١) ٥۔ جو شخص اللہ پر توکل کرتا ہے یقیناً اللہ غالب حکمت والا ہے۔ (الانفال : ٤٩) ٦۔ اللہ قوی اور غالب ہے۔ ( المجادلۃ: ٢١) ٧۔ بے شک اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔ (البقرۃ : ٢٠) الأنبياء
45 فہم القرآن ربط کلام : ایک دفعہ پھر منکرین حق کو انتباہ کیا گیا ہے۔ اے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ان سے فرمائیں کہ میں تمھیں اپنی طرف سے نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی وحی کے ذریعے ڈراتاہوں۔ لیکن کانوں سے بہرے لوگ اس وحی کو ناسُنتے ہیں اور نا ہی اس کے انتباہ سے ڈرتے ہیں۔ اگر انھیں ان کے رب کی طرف سے عذاب کا معمولی جھٹکا بھی آجائے تو یہ آہ و زاری اور اپنے آپ پر افسوس کا اظہار کرنے کے ساتھ اعتراف کریں گے کہ ہم ہی ظالم تھے۔ جب انسان مفاد کا بندہ اور تعصب کا غلام ہوجائے تو پھر نہ وہ حقیقت کی نگاہ سے دیکھتا ہے، نہ اچھی بات کو سننا گوارا کرتا ہے اور نہ ہی کسی بات پر غور و فکر کرتا ہے۔ ایسے لوگوں کے کان سننے کے قابل، آنکھیں دیکھنے اور عقل کے دریچے اس وقت کھلتے ہیں جب ان کے سروں پر عذاب منڈلانے لگتا ہے۔ ایسے لوگوں کی اسی حالت کا یہاں ذکر کیا گیا ہے۔ لیکن اس وقت انھیں سننے اور دیکھنے کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ ایسے لوگ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر الزام لگاتے ہیں کہ یہ اپنی طرف سے ہمیں دھمکیاں دیتا ہے۔ اس کے جواب میں آپ کو حکم دیا گیا۔ کہ آپ وضاحت فرمائیں کہ میں اپنی طرف سے نہیں ” اللہ“ کی وحی کے مطابق تمہیں سمجھاتا اور تمہارے انجام سے ڈراتا ہوں۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ کے عذاب کے وقت مجرموں کا اعتراف : ١۔ مجرم کہیں گے ہم اپنے گناہوں کا اعتراف کرتے ہیں وہ خود اپنے خلاف گواہی دیں گے کہ وہ کافرتھے۔ (الانعام : ١٣٠) ٢۔ اے ہمارے پروردگار ہماری بدبختی نے ہمیں گھیر لیا تھا اور ہم کافر ہوئے۔ (المومنون : ١٠٦) ٣۔ ہم اپنے گناہوں کا اعتراف کرتے ہیں کیا یہاں سے نکلنے کا راستہ ہے۔ (المومن : ١١) الأنبياء
46 الأنبياء
47 فہم القرآن ربط کلام : منکرین حق کو دنیا میں ان کے جرائم کی پوری پوری سزا نہیں مل سکتی۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے قیامت کا دن مقرر کیا ہے۔ جس کے لیے ہر کسی کو اس کی نیکی، بدی کے مطابق جزا اور سزادی جائے گی۔ قیامت کے دن حساب و کتاب کے کئی مراحل ہوں گے۔ جن میں آخری مرحلہ فیصلہ کن ہوگا۔ اللہ تعالیٰ ہر ایک کے اعمال کا وزن کرنے کے لیے ترازو قائم فرمائیں گے۔ اس دن کسی پر ذرہ برابر زیادتی نہیں ہونے پائے گی۔ اگر کسی کی نیکی یا بدی رائی کے دانے کے برابر ہوئی تو اسے بھی اس کے سامنے لے آیا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ لوگوں کا حساب و کتاب لینے میں کسی کی معاونت کا محتاج نہیں۔ حساب و کتاب کے انداز اور طریقہ کار کے بارے میں قرآن مجید نے بڑی تفصیل کے ساتھ یہ بات بتائی ہے کہ ہر کسی کی نیکی، بدی اس کے سامنے پیش کی جائے گی۔ مجرم اپنا اعمال نامہ دیکھ کر پکار اٹھے گا کہ ہائے میرے اعمال نامہ میں ہر چیز لکھی ہوئی ہے۔ اس میں کوئی چیز ایسی نہیں جسے چھوڑا گیا ہو۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے کسی پر کوئی ظلم نہیں ہوگا۔ (الکہف : ٦٩) ہر کوئی نیکی اور بدی کو اپنی آنکھوں کے سامنے پائے گا۔ (الزلزال : ٧۔ ٨) جہاں تک اعمال نامے کا وزن کرنے کا معاملہ ہے۔ ماضی بعید میں کچھ لوگ اس بات پر گمراہ ہوگئے کہ نماز، روزہ اور انسان کی زبان سے نکلے ہوئے الفاظ کا وجود نہیں ہوتا تو پھر ان کا وزن کرنا کس طرح ممکن ہوگا۔ قرآن مجید نے اعمال کے حوالے سے صدیوں پہلے جس بات کا انکشاف کیا ہے آج جدید سائنس نے یہ بات عملاً ثابت کردی ہے کہ واقعی ہی اعمال کا وزن ہوسکتا ہے اور قیامت کے دن ایسا ضرور ہوگا۔ انسان کے جسم کی حرارت، بخار کا ٹمپریچر، ہوا کا وزن اور دباؤ وزن کیا جا سکتا ہے نہ معلوم مستقبل میں کیا کیا تجربات اور مشاہدات انسان کے سامنے آجائیں گے۔ اور کس کس چیز کا وزن کرسکے گا۔ سورۃ القارعۃ میں ارشاد ہے جس کے اعمال کا وزن بھاری ہوا وہ قیامت کے دن عیش و عشرت میں ہوگا۔ اور جس کے اعمال کا وزن ہلکا نکلا اس کی جگہ ہاویہ ہے اور آپ کیا جانیں ہاویہ کیا ہے ہاویہ دہکتی آگ ہے۔ (عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ أَنَّ رَسُوْلَ اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ قَال اللَّہُ عَزَّ وَجَلَّ أَنْفِقْ أُنْفِقْ عَلَیْکَ وَقَالَ یَدُ اللَّہِ مَلأَی لاَ تَغِیْضُہَا نَفَقَۃٌ، سَحَّاء اللَّیْلَ وَالنَّہَارَ وَقَالَ أَرَأَیْتُمْ مَا أَنْفَقَ مُنْذُ خَلَقَ السَّمَآءَ وَالأَرْضَ فَإِنَّہٗ لَمْ یَغِضْ مَا فِیْ یَدِہِ، وَکَانَ عَرْشُہٗ عَلَی الْمَاءِ، وَبِیَدِہِ الْمِیْزَانُ یَخْفِضُ وَیَرْفَعُ) [ رواہ البخاری : کتاب التفسیر، باب قولہ تعالیٰ وکان عرشہ علی الماء ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ عزوجل فرماتے ہیں۔ انسان خرچ کر تجھ پر خرچ کیا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ کے ہاتھ بھرے ہوئے ہیں۔ اس میں سے رات دن خرچ کرنے سے کمی نہیں آتی، آپ نے فرمایا تمہارا کیا خیال ہے کہ جب سے اللہ تعالیٰ نے آسمان و زمین بنائے ہیں کس قدر اللہ نے خرچ کیا ہوگا؟ یقیناً اس میں کسی قسم کی کمی نہیں آئی۔ اللہ تعالیٰ کا عرش پانی پر تھا، اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ترازو ہے وہ اسے اوپر، نیچے کرتا ہے۔“ (عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ (رض) قَالَ قَالَ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تُوضَعُ الْمَوَازِینُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ فَیُؤْتَی بالرَّجُلِ فَیُوضَعُ فِی کَفَّۃٍ فَیُوضَعُ مَا أَحْصِیَ عَلَیْہِ فَتَمَایَلَ بِہِ الْمِیزَانُ قَالَ فَیُبْعَثُ بِہِ إِلَی النَّارِقَالَ فَإِذَا أَدْبَرَ بِہِ إِذَا صَاءِحٌ یَصِیحُ مِنْ عِنْدِ الرَّحْمَنِ یَقُولُ لاَ تَعْجَلُوا لاَ تَعْجَلُوا فَإِنَّہُ قَدْ بَقِیَ لَہُ فَیُؤْتَی بِبِطَاقَۃٍ فیہَا لاَ إِلَہَ إِلاَّ اللَّہُ فَتُوضَعُ مَعَ الرَّجُلِ فِی کَفَّۃٍ حَتَّی یَمِیلَ بِہِ الْمِیزَانُ) [ رواہ احمد : مسند عبداللہ بن عمرو ] ” حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا قیامت کے دن ترازو قائم کیا جائیگا ایک آدمی کو ایک پلڑے میں اور اس کے اعمال کو دوسرے پلڑے میں رکھ دیا جائیگاتو گناہوں والا پلڑا جھک جائیگا آپ نے فرمایا اسے جہنم کی طرف روانہ کردیا جائیگا جب وہ پیچھے مڑکر دیکھے گا تو ایک چیخنے والے کو سنے گا جو رحمٰن کے قریب سے زور زور سے کہہ رہا ہوگا اس کے بارے میں جلدی نہ کرو ابھی اس کے کچھ اعمال باقی ہیں تو ایک کاغذ لایا جائیگا جس میں لا الٰہ الا اللہ لکھا ہوگا اس کو اس آدمی کے ساتھ پلڑے میں رکھ دیا جائیگا حتٰی کہ اس کا پلڑا بھاری ہوجائیگا۔“ عَنْ عَاءِشَۃَ (رض) قَالَتْ سَمِعْتُ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَقُولُ فِی بَعْضِ صَلاَتِہِ اللَّہُمَّ حَاسِبْنِی حِسَاباً یَسِیرًا فَلَمَّا انْصَرَفَ قُلْتُ یَا نَبِیَّ اللَّہِ مَا الْحِسَابُ الْیَسِیرُ قَالَ أَنْ یَنْظُرَ فِی کِتَابِہِ فَیَتَجَاوَزَ عَنْہُ إِنَّہُ مَنْ نُوقِشَ الْحِسَابَ یَوْمَءِذٍ یَا عَاءِشَۃُ ہَلَکَ وَکُلُّ مَا یُصِیبُ الْمُؤْمِنَ یُکَفِّرُ اللَّہُ عَزَّ وَجَلَّ بِہِ عَنْہُ حَتَّی الشَّوْکَۃُ تَشُوکُہُ) [ روہ احمد : مسند عائشہ صدیقہ] ” حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں میں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو آپ کی نماز میں یہ الفاظ پڑھتے ہوئے سنا آپ کہتے بارِالٰہا! میرا حساب و کتاب آسان فرماناجب آپ نماز سے فارٖغ ہوئے تو میں نے عرض کی۔ اللہ کے محبوب آسان حساب کیا ہے؟ آپ نے فرمایا کہ انسان کے نامہ اعمال کی طرف دیکھ کر اس سے چھوڑ دیا جائے۔ اس دن جس سے حساب و کتاب میں پوچھ گچھ شروع ہوگئی وہ ہلاک ہوگیا جو تکلیف مومن کو پہنچتی ہے اللہ عزوجل اس کے عوض اس کے گناہ مٹا دیتا ہے حتٰی کہ کانٹا لگنے سے بھی گناہ مٹا دیے جاتے ہیں۔“ ” سیدہ عائشہ (رض) ایک دن جہنم کو یاد کر کے رورہی تھی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا اے عائشہ! تجھے کس چیز نے رلایا ہے۔ سیدہ عائشہ نے کہا جہنم کی آگ یاد آئی تو میں رو پڑی۔ کیا قیامت کے دن آپ اپنے اہل وعیال کو یاد رکھ پائیں گے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تین مواقع ایسے ہیں جن میں کوئی کسی کو یاد نہیں کرے گا۔1 اعمال تولے جانے کے وقت جب تلک یہ نہ پتہ چل جائے کہ اس کا نیکیوں والا پلڑا بھاری ہوا یا ہلکا۔2 نامہ اعمال دئیے جانے کے وقت جب کہنے والا کہے آؤ میرے نامہ اعمال کو پڑھ کر دیکھو حتٰی کہ اسے علم ہوجائے کہ اس کو نامہ اعمال دائیں ہاتھ میں دیا جا رہا ہے یا پیٹھ کے پیچھے سے بائیں ہاتھ میں 3 جب جہنم کے اوپر پل صراط کو رکھا جائے گا۔ [ رواہ ابوداؤد : باب فی ذکر المیزان] مسائل ١۔ قیامت کے دن ہر کسی کے اعمال کا وزن کیا جائے گا۔ ٢۔ کسی پر کوئی ظلم نہیں ہوگا۔ ٣۔ رائی کے دانے کے برابر کی ہوئی نیکی اور برائی اس کے کرنے والے کے سامنے لائی جائے گی۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ ہر کسی کا حساب کرنے پر قادر ہے۔ تفسیر بالقرآن قیامت کے دن حساب کے مراحل : ١۔ قیامت کے دن عدل وانصاف کا ترازو قائم کیا جائے گا اور کسی پر ظلم نہ ہوگا۔ ( الانبیاء : ٤٧) ٢۔ ہر انسان کا نامہ اعمال اس کی گردن میں لٹکا دیا جائے گا اور حکم ہوگا اپنا نامہ اعمال پڑھو آج کے دن تیرا یہی حساب کافی ہے۔ ( بنی اسرائیل : ١٣، ١٤) ٣۔ ہر کسی کا نامہ اعمال اس کے سامنے رکھ دیا جائے گا مجرم دیکھ کر کہیں گے کہ یہ نامۂ اعمال کیسا ہے جس میں ہر چھوٹی بڑی بات درج کردی گئی ہے۔ ( الکہف : ٤٩) ٤۔ جس دن صور پھونکا جائے گا سب رشتہ داریاں ختم ہوجائیں گی اور کوئی کسی کے متعلق کچھ دریافت نہیں کرے گا جن لوگوں کا نیکیوں پلڑا بھاری ہوگیا وہی لوگ کامیاب ہیں۔ ( المؤمنوں : ١٠١، ١٠٢) الأنبياء
48 فہم القرآن ربط کلام : قیامت پر ایمان لانا اور اس کے حساب کی تیاری کرنے کے بارے میں صرف نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہی لوگوں کو نہیں سمجھاتے تھے اس عقیدہ کی موسیٰ (علیہ السلام) اور ہارون (علیہ السلام) بھی تلقین کیا کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں یہ بات متعدد مقامات پر عیاں فرمائی ہے کہ نہ تو نبی آخر الزّماں پہلے نبی ہیں اور نہ ہی قرآن مجید کی تعلیمات انوکھی ہیں۔ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سلسلہ نبوت کی آخری کڑی ہیں اور پہلے انبیاء (علیہ السلام) کی تصدیق کرنے والے ہیں۔ قرآن مجید اپنے سے پہلی آسمانی کتابوں کی تائید کرتا ہے۔ بالخصوص تورات اور انجیل کے بنیادی مضامین اور احکام معمولی تبدیلی کے ساتھ وہی ہیں جن کی قرآن تعلیم دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جن الفاظ میں قرآن مجید کا تعارف کروایا گیا ہے۔ ان سے ملتے جلتے الفاظ میں تورات کا تعارف کروایا ہے۔ یہاں تورات کو الفرقان، روشنی اور ذکر کہا گیا ہے۔ تورات وانجیل سے ان لوگوں نے ہی فائدہ اٹھایا تھا جو برائی سے بچنے والے، اپنے رب سے غیب میں ڈرنے والے اور قیامت سے لرزاں رہنے والے تھے۔ یہی اصول قرآن مجید کی پہلی آیت میں بتلایا گیا ہے کہ اس کتاب میں کوئی شک و شبہ نہیں یہ ان لوگوں کی رہنمائی کرتی ہے جو نماز کی پابندی، زکوٰۃ کی ادائیگی اور غیب پر ایمان لاتے ہوئے پرہیزگاری اختیار کرتے ہیں۔ اس لیے قرآن مجید کو الفرقان، ذکر اور بابرکت کہا گیا ہے۔ اسے اللہ تعالیٰ نے ہی نازل فرمایا ہے لیکن اس کے باجود اہل کتاب اور دیگر لوگ اس کا انکار کرتے ہیں۔ دوسرے مقام پر قرآن مجید اور تورات کے نزول کا مقصد یکساں الفاظ میں بیان فرمایا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشا ہے کہ اے نبی ! اس کتاب کو ہم نے آپ کی طرف نازل فرمایا تاکہ آپ اپنے رب کے حکم سے لوگوں کو ہرقسم کی تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لے آئیں۔ ( ابراہیم : ١) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں یوں ارشاد ہوا کہ ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) پر اپنی آیات نازل فرمائیں تاکہ ان کے ساتھ اپنی قوم کو ہر قسم کی تاریکیوں سے نکال کر روشنی کی طرف لانے کی کوشش کریں۔ (ابراہیم : ٥) قرآن مجید اور تورات کو اللہ تعالیٰ نے فرقان، روشنی اور ذکر قرار دیا ہے۔ اللہ کے ذکر یعنی اس کی نصیحت سے وہی لوگ فائدہ اٹھاتے ہیں جو غیب پر ایمان لاتے ہیں اور قیامت کے دن سے ڈرتے ہیں۔ قرآن مجید ذکر، نصیحت اور برکت والی کتاب ہے۔ قرآن مجید کو اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا ہے مگر بے شمار لوگ اس کا انکار کرتے ہیں۔ مسائل ١۔ پہلی آسمانی کتب اس دور کے متقین کے لیے باعث نصیحت تھیں۔ ٢۔ مومن اپنے رب اور قیامت سے لرزاں وترساں رہتے ہیں۔ ٣۔ قرآن مجید بڑی بابرکت کتاب ہے۔ مومن غیب پر ایمان رکھتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن قرآن مجید کے اوصاف حمیدہ کی ایک جھلک : ١۔ قرآن مجید شک و شبہ سے بالا تر کتاب ہے۔ (البقرۃ : ٢) ٢۔ قرآن مجید ایمان والوں کے لیے باعث ہدایت اور رحمت ہے۔ (النحل : ٦٤) ٣۔ قرآن کریم برہان اور نور مبین ہے۔ (النساء : ١٨٥) ٤۔ قرآن حمید کے نزول کا مقصد لوگوں کو اندھیروں سے نکال کر روشنی کی طرف لانا ہے۔ (ابراہیم : ١) ٥۔ قرآن مجید اللہ کی طرف سے واضح کتاب ہے۔ قرآن مجید لوگوں کے لیے ہدایت ہے۔ (البقرۃ: ١٨٥) ٦۔ ہم نے قرآن کو نازل کیا جو مومنوں کے لیے باعث رحمت اور شفا ہے۔ (بنی اسرائیل : ٨٢) ٧۔ اس کتاب کی آیات محکم ہیں اور یہ حکیم وخبیر کی طرف سے نازل کی گئی ہے۔ (ھود : ١) ٨۔ یقیناً قرآن سیدھی راہ کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔ (بنی اسرائیل : ٩) ٩۔ جن و انس مل کر بھی اس قرآن جیسا قرآن نہیں لا سکتے۔ (بنی اسرائیل : ٨٨) الأنبياء
49 الأنبياء
50 الأنبياء
51 فہم القرآن ربط کلام : حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا تذکرہ۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اللہ کے خلیل اور عظیم پیغمبر ہیں۔ جن کا تذکرہ یوں شروع کیا گیا ہے کہ ہم نے ابراہیم کو پہلے سے ہی ہدایت سے سرفراز فرمایا اور ہم ابراہیم کو جاننے والے ہیں۔ یہ مسلّمہ حقیقت اور ہر مسلمان کا عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز کے ماضی، حال اور مستقبل کو جاننے والا ہے اور اللہ تعالیٰ نے جتنے پیغمبر مبعوث فرمائے ان کی ابتدا ہی سے خصوصی رہنمائی فرمائی تھی۔ پھر کیا وجہ ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے بارے میں یوں ارشاد فرمایا کہ ہم نے ابراہیم کو پہلے سے ہی ہدایت سے سرفراز فرمایا اور ہم انھیں اچھی طرح جاننے والے تھے۔ میری سمجھ میں اس تعارف کی وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ ابراہیم نے ستارہ پرستوں کو عقیدہ توحید سمجھانے کے لیے استعارہ اور تمثیل کی زبان استعمال کی تھی۔ جس وجہ سے یہ شبہہ ہوسکتا تھا کہ شاید ابراہیم (علیہ السلام) بھی کچھ عرصہ شرک میں مبتلا رہے ہوں۔ اس لیے ضروری سمجھا کہ ابراہیم (علیہ السلام) کا اس طرح تعارف کر وایا جائے تاکہ ابراہیم (علیہ السلام) کا مشرکین کے ساتھ جو مکالمہ ہوا اس سے کسی کو شبہ نہ ہوپائے۔ ابراہیم (علیہ السلام) نے پہلے دن یہ کہہ کر ستارہ پرستوں کے عقیدہ پر ضرب لگائی کہ دیکھو یہ ستارہ میرا رب ہے لیکن جب وہ غائب ہوگیا تو فرمایا کہ غائب ہونے والوں کو میں پسند نہیں کرتا۔ دوسرے دن انھوں نے چمکتے ہوئے چاند کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا یہ میرا رب ہوسکتا ہے لیکن جب چاند چھپ گیا تو فرمایا کہ اگر میرے رب نے مجھے ہدایت نہ دی ہوتی تو میں گمراہ ہونے والوں میں سے ہوجاتا۔ تیسرے دن جگمگاتا ہوا سورج دیکھا تو فرمایا کہ یہ میرا سب سے بڑا رب ہوسکتا ہے لیکن جب سورج غروب ہوگیا تو فرمایا کہ اے میری قوم جو تم شرک کرتے ہو میں اس سے برأت کا اظہار کرتا ہوں۔ میں نے اپنے چہرے کو مکمل طور پر اس ذات کے حوالے کیا ہوا ہے جو زمین و آسمان کو پیدا کرنے والا ہے۔ میں اپنے عقیدہ میں بالکل یکسو ہوں میرا مشرکوں کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ ہے وہ رشد و ہدایت ہے جو اللہ تعالیٰ نے ابراہیم (علیہ السلام) کو عطا فرمائی تھی۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے لیے اس لیے بھی رشد کا لفظ استعمال کیا گیا کیونکہ جس ماحول بالخصوص جس گھر میں انھوں نے تربیت پائی تھی وہ شرک کا مرکز اور ان کا باپ شرکیہ عقیدے کا بہت بڑا ترجمان تھا۔ لیکن اس کے باوجود ابراہیم (علیہ السلام) شرک سے بچے رہے۔ (عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَیْنٍ قَالَ قَال النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لأَبِی یَا حُصَیْنُ کَمْ تَعْبُدُ الْیَوْمَ إِلَہًاقَالَ أَبِی سَبْعَۃً سِتًّا فِی الأَرْضِ وَوَاحِدًا فِی السَّمَاءِ قَالَ فَأَیُّہُمْ تَعُدُّ لِرَغْبَتِکَ وَرَہْبَتِکَ قَالَ الَّذِی فِی السَّمَاءِ قَالَ یَا حُصَیْنُ أَمَا إِنَّکَ لَوْ أَسْلَمْتَ عَلَّمْتُکَ کَلِمَتَیْنِ تَنْفَعَانِکَ قَالَ فَلَمَّا أَسْلَمَ حُصَیْنٌ قَالَ یَا رَسُول اللَّہِ عَلِّمْنِی الْکَلِمَتَیْنِ اللَّتَیْنِ وَعَدْتَنِی فَقَالَ قُلِ اللَّہُمَّ أَلْہِمْنِی رُشْدِی وَأَعِذْنِی مِنْ شَرِّ نَفْسِی) [ رواہ الترمذی : باب جامِعِ الدَّعَوَاتِ عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ] ” حضرت عمران بن حصین (رض) بیان کرتے ہیں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے میرے باپ کو فرمایا اے حصین تم کتنے معبودوں کی عبادت کرتے ہو۔ میرے باپ نے کہا سات کی۔ چھ زمین میں ہیں اور ایک آسمان میں ہے آپ نے فرمایا خوف اور امید کے وقت کس کو پکارتا ہے۔ اس نے کہا جو آسمانوں میں ہے۔ آپ نے فرمایا اے حصین اگر تو اسلام لے آئے تو میں تجھے دو کلمات ایسے سکھلاؤں گا جو تیرے لیے نہایت ہی مفید ہوں گے۔ جب حصین اسلام لے آئے انہوں نے عرض کی اللہ کے محبوب مجھے وہ کلمات سکھلادیں جن کا آپ نے مجھ سے وعدہ فرمایا تھا۔ آپ نے فرمایا پڑھیں : قُلِ اللَّہُمَّ أَلْہِمْنِی رُشْدِی وَأَعِذْنِی مِنْ شَرِّ نَفْسِی اے اللہ مجھے رشدوہدایت عطا فرما اور مجھے میرے نفس کے شر سے محفوظ فرما“ مسائل ١۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے ابتدا ہی سے رشد و ہدایت اور سمجھداری سے سرفراز فرمایا تھا۔ تفسیر بالقرآن حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی سیرت طیبّہ کی ایک جھلک : ١۔ ابراہیم (علیہ السلام) کو اللہ نے ابتداء سے ہی ہدایت سے سرفراز فرمایا تھا۔ (الانبیاء : ٥١) ٢۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ سے اطمینان قلب کی درخواست کی تھی۔ ( البقرۃ: ٢٦٠) ٣۔ ابراہیم (علیہ السلام) نرم دل اور بردبار تھے۔ (التوبۃ: ١١٤) ٤۔ ابراہیم (علیہ السلام) نہایت راست باز نبی تھے۔ (مریم : ٤١) ٥۔ بے شک ابراہیم (علیہ السلام) بڑے حلیم، بڑے خیر خواہ اور نرم دل تھے۔ (ہود : ٧٥) ٦۔ ابراہیم (علیہ السلام) اللہ کے مومن بندوں میں سے تھے۔ (الصّٰفٰت : ١١١) ٧۔ ابراہیم (علیہ السلام) معبودان باطل کے انکاری اور ان سے براءت کا اظہار کرتے تھے۔ (الممتحنہ : ٤) الأنبياء
52 فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ نے ابراہیم (علیہ السلام) کو نبوت سے سرفراز فرمایا۔ نبوت کا پہلا اور مرکزی پیغام ” توحید“ ہے جس بنا پر انہوں نے اپنے باپ اور قوم کے سامنے ” اللہ“ کی توحید پیش فرمائی اور بتوں کی بے ثباتی ثابت کی۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنی دعوت کا آغاز اپنے گھر سے کیا لہٰذا سب سے پہلے باپ کے سامنے عقیدہ توحید پیش کرتے ہیں کیونکہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) دیکھ رہے تھے کہ شرک کا سب سے بڑا مرکز ان کا گھر بنا ہوا ہے۔ لہٰذا حق کا تقاضا تھا کہ پیغامِ حق کی ابتداء اپنے گھرسے کی جاتی۔ چنانچہ مؤثر دلائل اور پوری دل سوزی کے ساتھ توحید کی دعوت پہلے باپ کی خدمت میں پیش فرمائی اور اس کے ساتھ ہی قوم کو سمجھایا کہ ان مورتیوں اور مجسموں کے سامنے کیوں جھکتے اور اعتکاف کرتے ہو ؟ قوم کا پہلا جواب یہ تھا کہ ہم نے اپنے باپ دادا کو اس طرح ہی کرتے ہوئے پایا ہے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمایا تم اور تمہارے آباؤ اجداد راہ راست سے بھٹکے ہوئے ہو۔ قوم کا دوسرا جواب یہ تھا کہ ابراہیم تم اپنی دعوت میں سنجیدہ ہو یا شغل کے طور پر ایسی باتیں کر رہیہو۔ گویا کہ قوم سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ ان کے خداؤں اور آباء واجداد کے طریقۂ عبادت کی کوئی شخص مخالفت کرسکتا ہے۔ اسی لیے پوچھتے ہیں کہ ابراہیم اپنی بات میں سنجیدہ ہو یا شغل کے طور پر یہ بات کہہ رہے ہو؟ ابراہیم (علیہ السلام) پوری سنجیدگی اور جلالت کے ساتھ فرماتے ہیں کیونکہ نہیں۔ جو کچھ کہہ رہا ہوں وہ سچ اور حق ہے۔ میرا اور تمہارا وہ رب ہے جس نے زمین و آسمانوں کو پیدا فرمایا میں اسی عبادت کی دعوت دیتا ہوں۔ نامعلوم حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کس کس انداز اور کتنی مدت تک اپنے باپ اور قوم کو سمجھاتے رہے۔ طویل عرصہ تک سمجھانے کے باوجود جب قوم سمجھنے کے لیے تیار نہ ہوئی تو آپ نے سوچا کہ اگر دلائل انکی سمجھ میں نہیں آرہے اور یہ لوگ اپنی ہٹ دھرمی پر ڈٹے ہوئے اور ان مورتیوں پر مرے جا رہے ہیں تو اب ان کے معبودوں کی عملی طور پرخبر لینا چاہیے۔ تب ڈنکے کی چوٹ کہا اللہ کی قسم ! اب یہ مجسمے میرے لیے ناقابل برداشت ہوگئے ہیں۔ (وَ تَاللّٰہِ لَاَکِیْدَنَّ اَصْنَامَکُمْ بَعْدَ اَنْ تُوَلُّوْا مُدْبِرِیْنَ) [ الأنبیاء : ٥٧] ” اور اللہ کی قسم میں تمہاری غیر موجودگی میں تمہارے بتوں کی ضرور خبر لوں گا۔“ (فَنَظَرَ نَظْرَۃً فِی النُّجُوم فَقَالَ إِنِّی سَقِیمٌ) [ الصّٰفٰت ٨٨، ٨٩]” تاروں کی طرف دیکھا اور کہا میں بیمار ہوں۔“ ابراہیم (علیہ السلام) بڑے ذہین تھے : جتنے بھی نبی اپنے اپنے زمانے میں تشریف لائے وہ اپنے دور کے سب سے ذہین اور فطین انسان تھے۔ دیکھیے ابراہیم (علیہ السلام) کتنے زیرک اور فطین ہیں کہ سب بتوں کو توڑا مگر بڑے کو چھوڑ دیا۔ تاکہ قوم واپس آکر کے دیکھے گی تو اس حادثے پر غور وفکر کرتے ہوئے یقیناً اس کی طرف رجوع کرے گی۔ اگر اَلِیْہِ کی ضمیر (اشارہ) بڑے بت کی طرف ہو تو شاید یہ سوچیں کہ بڑے میاں نے کسی بات پر ناراض ہو کر چھوٹوں کا تیاپانچہ کردیا ہے۔ یا کم ازکم ان کے دلوں میں یہ خیال ضرور آئے گا کہ واقعی ابراہیم سچ کہتا تھا کہ یہ سب بے کار ہیں بتوں نے نہ اپنے آپ کو بچایا اور نہ ہی بڑے میاں ابراہیم کا ہاتھ پکڑ سکے۔ اگر ” اَلِیْہِ“ کا اشارہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی طرف ہے تو معنی بالکل صاف ہے کہ جب میرے پاس آئیں گے مجھے مزید بات کرنے کا موقع مل جائے گا۔ میں کہونگا مجھ سے پوچھنے کی بجائے اپنے عقیدے کے مطابق بڑے بت سے پوچھو۔ اگر یہ بولتے ہیں تو انکا بڑا تو موجود ہے۔ ” کہنے لگے ہمارے خداؤں کا یہ حال کس نے کردیا؟ وہ بڑا ہی ظالم ہے۔ کچھ کہنے لگے ہم نے ان کے خلاف ایک ابراہیم نامی نوجوان کو چیلنج کرتے سنا ہے۔“ فتح مکہ کے موقعہ پر بتوں کو توڑا : (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَسْعُوْدٍ (رض) قَالَ دَخَلَ النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَکَّۃَ وَحَوْلَ الْکَعْبَۃِ ثَلَاث ماءَۃٍ وَّسِتُّوْنَ نُصُبًا فَجَعَلَ یَطْعَنُھَا بِعُوْدٍ فِیْ یَدِہٖ وَجَعَلَ یَقُوْلُ (جَآءَ الْحَقُّ وَزَھَقَ الْبَاطِلُ) الآیۃ) [ رواہ البخاری : کتاب المظالم والغصب، باب ھل تکسر الدنان التی فیھا الخمر] ” حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) فرماتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مکہ میں داخل ہوئے اور کعبے کے ارد گرد تین سو ساٹھ بت تھے آپ انہیں اپنے ہاتھ میں پکڑی ہوئی چھڑی سے گراتے اور فرماتے : (حق آ چکا اور باطل بھاگ گیا)۔“ مسائل ١۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا باپ اور قوم بتوں کے سامنے مراقبے اور اعتکاف کرتے تھے۔ ٢۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے باپ اور قوم کو بتوں کے سامنے مراقبے اور اعتکاف کرنے سے روکا۔ ٣۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی قوم کا جواب یہ تھا کہ ہم نے اپنے باپ دادا کو اس طرح پایا ہے۔ ٤۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے بتوں کو توڑنے کی دھمکی دی اور پھر اس پر عمل کر دکھایا۔ ٥۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے بھرپور جوانی میں یہ کام کیا تھا۔ تفسیر بالقرآن دعوت توحید کی تحریک میں جوانوں کا کردار : ١۔ وہ کچھ جوان تھے جو اپنے پروردگار پر ایمان لائے ہم نے انکی ہدایت میں اضافہ کردیا۔ (الکہف : ١٣) ٢۔ ہم نے ایک نوجوان کا تذکرہ سنا ہے جسے ابراہیم کہتے ہیں۔ (الانبیاء : ٦٠) ٣۔ جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) جوانی کو پہنچے تو ہم نے حکمت اور علم عطا کیا۔ (القصص : ١٤) ٤۔ جب حضرت یوسف (علیہ السلام) جوانی کو پہنچے تو ہم نے ان کو دانائی اور علم عطا کیا۔ (یوسف : ٢٢) ٥۔ حضرت موسیٰ پر نوجوانوں کے سوا کوئی شخص ایمان نہ لایا کیونکہ لوگ فرعون سے ڈرتے تھے۔ ( یونس : ٨٣) الأنبياء
53 الأنبياء
54 الأنبياء
55 الأنبياء
56 الأنبياء
57 الأنبياء
58 الأنبياء
59 الأنبياء
60 فہم القرآن ربط کلام : بتوں کو پاش پاش کرنے پر قوم کا رد عمل۔ قوم جب واپس پلٹی تو ان کی مسرت وشادمانی، غم اور پریشانی میں تبدیل ہوگئی۔ زبردست اضطراب اور شدید ہنگامہ برپا ہوا۔ ہنگامی حالات کا اعلان ہوا اجلاس پہ اجلاس بلائے جا رہے ہیں۔ تاکہ عوام کو اپنی کارکردگی دکھا کر فوری طور پر مطمئن کیا جائے پھر دفعتًا فیصلہ سنایا جاتا ہے۔ (قَالُوا فَأْتُوْا بِہٖ عَلٰی أَعْیُنِ النَّاسِ لَعَلَّہُمْ یَشْہَدُوْنَ) [ الانبیاء : ٦١] ” انھوں نے کہا کہ اس کو لوگوں کے سامنے لاؤ تاکہ لوگ دیکھ لیں۔“ (فَأَقْبَلُوْا إِلَیْہِ یَزِفُّوْنَ) [ الصّٰفٰت : ٩٤] ” وہ ان کی طرف دوڑتے ہوئے آئے۔“ اللہ ہی کو معلوم ہے کہ لوگ کس غیظ وغضب کے ساتھ کس طرح ابراہیم (علیہ السلام) کو پکڑ کر لائے ہوں گے۔ کتنے آوازے کسے ہوں گے اور کتنی گستاخیاں کی ہوں گی ؟ لیکن ابراہیم ہجوم مشرکین کو زمین کے ذرات سے بھی حقیر تصور فرماتے ہوئے ایسی جرأت اور مردانگی سے جواب دیتے ہیں کہ ان کی کئی کئی گز لمبی زبانیں اس طرح گنگ ہوگئیں، جیسے ان کو سانپ سونگھ گیا ہو۔ ان میں نام نہاد دانش، پڑھے لکھے اور ان پڑھ ہر قسم کے لوگ موجود ہیں لیکن کوئی بولنے کی جرأت نہیں کر پاتا۔ بولیں تو کس بنیاد پربات کریں۔ یہی تو ہمارے رب کا فرمان ہے۔ (وَمَنْ یَّدْعُ مَعَ اللّٰہِ إِلَہًا آخَرَ لَا بُرْہَانَ لَہُ بِہٖ فَإِنَّمَا حِسَابُہُ عِنْدَ رَبِّہٖ إِنَّہُ لَا یُفْلِحُ الْکَافِرُوْنَ) [ المؤمنون : ١١٧] ” جو اللہ کے ساتھ کسی اور کو بھی پکارتے ہیں ان کے پاس کوئی دلیل نہیں ان کا حساب رب کے ذمہ ہے۔ یقین جانیے کافر کبھی کامیاب نہیں ہوتے۔“ جرگہ ابراہیم (علیہ السلام) سے سوال کرتا ہے : ابراہیم (علیہ السلام) کو جرگے کے سامنے پیش کیا گیا تو سرداران شرک وبدعت بڑے طمطراق اور رعب ودبدبہ کے ساتھ لال پیلے ہو کر پوچھتے ہیں۔ (قَالُوْا أَأَنْتَ فَعَلْتَ ہٰذَا بِاٰ لِہَتِنَا یَا إِبْرَاہِیْمُ)[ الأنبیاء : ٦٢] ” اے ابراہیم آیا کہ تو نے ہمارے خداؤں کے ساتھ یہ حرکت کی ہے۔“ جواب : (قَالَ بَلْ فَعَلَہُ کَبِیْرُہُمْ ہَذَا فَاسْأَلُوْہُمْ إِنْ کَانُوْا یَنْطِقُوْنَ) [ الانبیاء : ٦٣] ” فرمانے لگے بلکہ ان کے بڑے نے یہ کاروائی کی ہوگی۔ پوچھ لیجئے ! اگر یہ بات کرسکتے ہیں۔“ خاموشی ہی خاموشی ہے اور ہو کا عالم۔ اکڑی ہوئی گردنیں جھک گئیں اپنے گریبانوں میں جھانکنے لگے۔ (فَرَجَعُوْا إِلٰی أَنْفُسِہِمْ فَقَالُوْا إِنَّکُمْ أَنْتُمُ الظَّالِمُوْنَ ثُمَّ نُکِسُوْا عَلٰی رُءُ وسِہِمْ لَقَدْ عَلِمْتَ مَا ہٰؤُلَاءِ یَنْطِقُوْنَ) [ الانبیاء : ٦٤، ٦٥] ” یہ سن کر وہ لوگ اپنے ضمیر کی طرف پلٹے اور اپنے دل میں کہنے لگے واقعی ہی تم خود ظالم ہو۔ مگر پھر گردنیں جھکا کر کہنے لگے ابراہیم تو جانتا ہے ! یہ تو بات نہیں کرسکتے۔“ مسائل ١۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے قوم کو سوچنے پر مجبور کردیا۔ ٢۔ قوم نے بالآخر یہ اقرار کیا کہ ہمارے معبود بات نہیں کرسکتے۔ تفسیر بالقرآن معبودان باطل کی بے حیثیتی : ١۔ جن کو تم اللہ کے سوا پکارتے ہو وہ تمھارے جیسے انسان ہیں اگر وہ کچھ نفع و نقصان کے مالک ہیں تو انھیں پکار کر دیکھ لو۔ کیا ان کے پاس چلنے کو پاؤں، پکڑنے کو ہاتھ، دیکھنے کو آنکھیں اور سننے کو کان ہیں۔ اپنے معبودوں کو بلالو پھر اپنی تدبیر کرلو اور مجھے ڈھیل نہ دو۔ (الاعراف : ١٩٥) ٢۔ جن کو تم اللہ کے سوا پکارتے ہو وہ مکھی بھی پیدا نہیں کرسکتے اگر مکھی کچھ چھین کرلے جائے تو واپس نہیں لے سکتے۔ ( الحج : ٧٣) ٣۔ فرما دیجیے ! جن کو تم اللہ کے سوا بااختیار تصور کرتے ہو وہ تم سے تکلیف دور نہیں کرسکتے۔ (بنی اسرائیل : ٥٦) ٤۔ جن کو تم اللہ کے سوا پکارتے ہو وہ کچھ پیدا نہیں کرسکتے بلکہ وہ خود مخلوق ہیں مردہ ہیں زندہ نہیں انھیں تو وہ اتنا جانتے بھی نہیں کہ وہ کب اٹھائے جائیں گے۔ (النحل : ٢٠۔ ٢١) ٥۔ معبودان باطل اپنی جانوں کے نفع ونقصان کے مالک نہیں۔ (الفرقان : ٣) ٦۔ کیا تم ایسے لوگوں کو معبود مانتے ہو جو نفع ونقصان کے مالک نہیں۔ (الرعد : ١٦) ٧۔ بلاؤ اپنے معبودوں کو اگر تم سچے ہو۔ (البقرۃ: ٢٣) ٨۔ اس دن ان سے کہا جائے گا بلاؤ اپنے معبودان باطل کو، وہ بلائیں گے تو انھیں جواب نہیں ملے گا۔ (القصص : ٦٤) ٩۔ فرما دیجیے جنہیں تم اللہ کے سوا پکارتے ہو مجھے دکھاؤ انہوں نے کون سی چیز پیدا کی ہے۔ (الاحقاف : ٤) الأنبياء
61 الأنبياء
62 الأنبياء
63 الأنبياء
64 الأنبياء
65 الأنبياء
66 فہم القرآن ربط کلام : قوم کے اقرار جرم کرلینے کے بعد حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا انھیں ایک دفعہ پھر سمجھانا۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) خداداد صلاحیت اور پوری دانشمندی کے ساتھ ایک مکالمے کے ذریعے اپنی قوم کو اس مقام پر لے آئے کہ جب انھوں نے کھلے الفاظ میں اس بات کا اقرار کیا کہ اے ابراہیم! تو جانتا ہے یہ تو پتھر اور مٹی کے بنے ہوئے بت ہیں جو بول نہیں سکتے۔ اس حقیقت کا اقرار کروانے کے بعد حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے انھیں پوچھا کیا پھر تم ان کے سامنے مراقبے، سجدے اور اپنی حاجات پیش کرتے ہو جو نہ تمھیں فائدہ پہنچا سکتے ہیں اور نہ نقصان دے سکتے ہیں۔ تم پر اور تمھارے معبودوں پر نہایت ہی افسوس ہے۔ حقیقت کا اعتراف کرنے کے باوجود بھی تم عقل سے کام لینے کے لیے تیار نہیں ہو۔ ؟ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے انھیں دلائل، عملی مشاہدہ اور عقل و فکر کے حوالے سے سمجھانے کی کوشش کی لیکن اس کے باوجود انھوں نے یہ فیصلہ کیا کہ لوگو! اگر اپنے معبودوں کو بچانا اور ان کی مدد کرنا چاہتے ہو تو پھر ابراہیم کو جلا کر راکھ کر دو۔ اس کے بغیر اس سے تم اور تمھارے معبود نہیں بچ سکتے۔ مسائل ١۔ معبودان باطل اپنے آپ اور کسی کو نفع و نقصان پہنچانے کی طاقت نہیں رکھتے۔ ٢۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے عقل و دانش کے حوالے سے بھی اپنی قوم کو توحید سمجھانے کی کوشش کی۔ ٣۔ قوم نے عقل سے کام لینے کی بجائے مخالفت میں آکر ابراہیم (علیہ السلام) کو جلا دینے کا فیصلہ کیا۔ الأنبياء
67 الأنبياء
68 الأنبياء
69 فہم القرآن ربط کلام : حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے بارے میں قوم اور حکومت کا انتہائی اقدام : ابھی خاص وعام کے ساتھ یہ کشمکش جاری تھی کہ حکومت وقت نے اس بات کا سختی سے نوٹس لیا۔ جب حاکم وقت نمرود کے پاس مکمل رپورٹ پہنچی تو وہ آپے سے باہر ہوگیا۔ چنانچہ اسے فکر لاحق ہوئی کہ ابراہیم (علیہ السلام) بتوں کی خدائی کا انکار کرتا ہے تو میری خدائی کب تسلیم کرتا ہوگا۔ فوراً حکم صادر کیا کہ ابراہیم جہاں کہیں ہو، اسے فی الفور میرے حضور میں پیش کیا جائے۔ باپ، رشتہ دار، پوری قوم یہ چاہتی تھی یہ تحریک دب جائے اور اس کے داعی کو عبرت ناک سزا سے دو چار کیا جائے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) حاکم وقت کے سامنے جاتے ہیں۔ حاکم وقت نے حاکمانہ لب ولہجے میں پوچھا اے ابراہیم ! ہمارے ہوتے ہوئے تم کسی اور کو بھی رب مانتے ہو ؟ ابراہیم (علیہ السلام) بھرپور اعتماد سے فرمانے لگے! ہاں میں زمین و آسمان میں صرف اور صرف ایک ذات کو رب مانتا ہوں۔ اس کے بغیر سب مجبور ومحکوم ہیں۔ سب کا خالق ومالک ” اللہ“ ہے۔ تو بھی اسی طرح کا ایک انسان ہے جس طرح ہم انسان ہیں نمرود چونک اٹھا، کرسی پر اکڑتے ہوئے گردن اٹھا کر بولا۔ ہاں ہاں تو میرے بغیر بھی کسی کو خدا مانتا ہے۔ فوراً اپنے رب کے اوصاف بیان کرو ورنہ تیری ہڈیاں توڑ دی جائیں گی۔ ابراہیم (علیہ السلام) کا نمرود کے ساتھ مکالمہ : ” کیا آپ نے اس شخص کے بارے میں غور نہیں کیا ؟ جو ابراہیم (علیہ السلام) سے جھگڑ رہا تھا۔ اس بات پر کہ ابراہیم کا رب کون ہے ؟ اس وجہ کہ اللہ نے اس کو حکومت سے نوازا تھا۔ جب ابراہیم نے کہا میرا رب وہ ہے جس کے اختیار میں زندگی اور موت ہے۔ بادشاہ کہنے لگازندگی اور موت میرے اختیار میں بھی ہے۔ ابراہیم نے فرمایا اچھا اللہ تعالیٰ سورج کو مشرق سے نکالتا ہے تو اسے مغرب سے نکال لاؤ۔ کافر ششدر رہ گیا۔ اللہ ایسے ظالموں کو کبھی ہدایت نہیں دیا کرتا۔“ [ البقرۃ: ٢٥٨] حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے سوچا کہ بے وقوف بادشاہ لوگوں کے جذبات سے کھیل رہا ہے لہٰذا انہوں نے اس دلیل کی لطافت کو سمجھانے کی بجائے فورا ایسی دلیل دی جس سے کوئی مغالطہ نہیں دیا جا سکتا تھا۔ فرمایا کہ میں اس رب کی بات کر رہا ہوں جو سورج کو مشرق سے طلوع کرتا ہے تو اسکو مغرب سے طلوع کر کے دکھا۔ یہ سوال سنتے ہی وہ ششدررہ گیا۔ چاہیے تو یہ تھا کہ بادشاہ اطاعت کے لیے اپنے آپ کو پیش کرتا۔ لیکن اس نے اپنی خفت مٹانے اور عوام کو قابو رکھنے کے لیے وہی طریقہ اختیار کیا جو ہر دور میں ظالم اور فاسق حکمران کیا کرتے ہیں۔ امن عامہ کے تحت گرفتاری : فوراً حکم دیا کہ امن عامہ کے تحت اسے گرفتار کرلیا جائے۔ چنانچہ آپ کو دس دن تک جیل میں رکھا گیا اور پھر اس کی کونسل نے انہیں زندہ جلاد ینے کا فیصلہ کیا بالفاظ دیگر باپ، عوام اور حکمران بھی سب کے سب اس بات پر متفق ہیں کہ اسکو زندہ نہ چھوڑا جائے بلکہ عبرتناک سزا دی جائے۔” اگر اپنے خداؤں کو بچانا چاہتے ہو تو فوراً اس کو زندہ جلا دو۔“ [ الانبیاء : ٦٨] شاہی کونسل کا فیصلہ : (قَالُوا ابْنُوْا لَہُ بُنْیَانًا فَأَلْقُوْہُ فِی الْجَحِیْمِ) [ الصّٰفٰت : ٩٧] ” اس کے لیے ایک بڑا گہرا قلعہ بناؤ اس کو آگ سے بھر کر اس کو دہکتے ہوئے انگاروں میں پھینک دو۔“ شا ہی آرڈنینس کے تحت پوری مشینری آگ بھڑ کا نے میں لگی ہوئی ہے۔ علامہ ابن کثیر نے لکھا ہے کہ لوگوں کے جذ بات کا عالم یہ تھا کہ عورتیں نذریں ما نتی تھیں۔ اگر فلاں مشکل یا بیماری رفع ہوجائے تو میں اتنی لکڑیاں آگ میں پھینکوں گی مؤ رخین نے تحریر کیا ہے۔ کہ عراق کی سرزمین پر آج تک آگ کا اتنا بڑا الاؤ دیکھنے میں نہیں آیا۔ آگ کے شعلے آسمان سے باتیں کرتے ہوئے محسوس ہوتے تھے۔ جب آگ میں پھینکنے کا وقت آیا تو مسئلہ پیدا ہوا کہ اتنی وسیع آگ میں کس طرح پھینکا جائے۔ شا ہی کو نسل کا ہنگامی اجلاس طلب کیا جاتا ہے۔ زیر غور مسئلہ یہ ہے کہ ابر اہیم (علیہ السلام) کو آگ میں کس طرح پھینکا جاۓ ؟ فیصلہ ہوتا ہے کہ ایسی مشین تیار کئی جائے جس میں جھو لادے کر آگ کے درمیان میں پھینکا جاۓ لہٰذا اس طرح ہی کیا گیا۔ اُف خدا یا کیسا منظر ہے جو آج تک تیرے فرشتوں نے بھی نہیں دیکھا ہوگا۔ نظر اٹھائی تو جبرا ئیل (علیہ السلام) نمو دار ہوئے۔ روح الا میں عرض کرتے ہیں جناب میں حا ضر ہوں کوئی خد مت ہو تو فرمائیں۔ ابرا ہیم (علیہ السلام) نے فرمایا کہ آپ کو رب العزت کی طرف سے حکم ہے جبریل (علیہ السلام) جواب دیتے ہیں کہ نہیں۔ کہا پھر جاؤ مجھے آپ کی کوئی ضرورت نہیں۔ وہ مجھے دیکھ رہا ہے۔ ابراہیم (علیہ السلام) نے ” حَسْبِیَ اللّٰہ“ کہہ کر اپنے آپ کو اللہ کے سپرد کیا۔ اب کا رروائی زمین پر نہیں عرش پر ہوگی۔ : چنانچہ حکم ہوا کہ اے آگ ابراہیم (علیہ السلام) کے لیے سلامتی والی ہوجا۔ تفسیر ابن ابی حا تم میں ہے کہ ابرا ہیم (علیہ السلام) چا لیس دن تک آگ میں رہے۔ حضرت ابرا ہیم (علیہ السلام) فرمایا کرتے تھے جتنا آرام میں نے چالیس دن آگ کے اندر پا یا ساری زندگی اتنا آرام میسر نہیں آیا۔ یاد رہے کہ ابرا ہیم (علیہ السلام) کو آگ میں برہنہ کرکے پھینکا گیا تھا۔ ” وَأَوَّلُ مَنْ یُکْسٰی یَوْمَ الْقِیَامَۃِ إِبْرَاہِیم“ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ قیا مت کے دن جس خوش نصیب کو سب سے پہلے جنت کا لباس پہنایا جاۓ گا وہ ابرا ہیم (علیہ السلام) ہوں گے۔[ رواہ البخاری : کتاب احادیث الانبیاء،] مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے لیے آگ کو ٹھنڈی اور سلامتی والا بنا دیا۔ ٢۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو انھوں نے جلا دینے کی کوشش کی لیکن اللہ تعالیٰ نے انھیں ناکام کردیا۔ الأنبياء
70 فہم القرآن ربط کلام : حضرت ابراہیم (علیہ السلام) آگ سے سلامت نکل کر ہجرت کا فیصلہ کرتے ہیں۔ (فَأَرَادُوْا بِہٖ کَیْدًا فَجَعَلْنَاہُمُ الْأَسْفَلِیْنَ) [ الصّٰفٰت : ٩٨] ” وہ چا ہتے تھے کہ ابرا ہیم (علیہ السلام) کو مار دیں لیکن ہم نے ان کو بری طرح ذلیل کردیا۔“ (وَأَرَادُوْا بِہٖ کَیْدًا فَجَعَلْنَاہُمُ الْأَخْسَرِیْنَ) [ الانبیاء : ٧٠] ” انہوں نے ابرا ہیم (علیہ السلام) کو ما رناچا ہا لیکن ہم نے ان کو ناکام کردیا۔“ اہل ایمان کے لیے اس واقعہ میں بہت سے اسباق عبرت ہیں۔ کیونکہ ابراہیم (علیہ السلام) کو اس کے باپ اور دو سرے لوگوں نے نیچا دکھا نے کی کو شش کی لیکن ابراہیم (علیہ السلام) کامیاب اور دوسرے ناکام رہے۔ حتی کہ انہوں نے آگ میں جا نا قبول کرلیا۔ مگر نظریہ توحید کو نہ چھو ڑا۔ اے اہل ایماں اگر تم بھی سچی بات پر قائم رہو تو دشمن تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ نا معلوم آگ سے نکلنے کے بعد ابرا ہیم (علیہ السلام) نے کتنی مدت تک تبلیغ کا کام کیا۔ جو بات انہوں نے آگ سے نکل کر لوگوں کے سامنے رکھی قرآن کے الفاظ میں پڑھیے۔ (وَقَالَ إِنَّمَا اتَّخَذْتُمْ مِنْ دُون اللّٰہِ أَوْثَانًا مَوَدَّۃَ بَیْنِکُمْ فِی الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا ثُمَّ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ یَکْفُرُ بَعْضُکُمْ بِبَعْضٍ وَیَلْعَنُ بَعْضُکُمْ بَعْضًا وَمَأْوَاکُمُ النَّارُ وَمَا لَکُمْ مِنْ نَاصِرِیْنَ) [ العنکبوت : ٢٥] ” ابراہیم نے ان سے کہا تم نے دنیا کی زندگی میں اللہ کو چھوڑ کر بتوں کو آپس میں محبت کا ذریعہ بنا لیا ہے۔ مگر قیامت کے دن تم ایک دوسرے کا انکار کرو گے اور ایک دوسرے پر لعنت کرو گے۔ تمہارا ٹھکانہ آگ ہوگا اور تمہارا کوئی مددگار نہیں ہوگا۔“ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ہجرت کرتے ہیں : صاحب قصص القرآن نے لکھا ہے کہ آپ ( علیہ السلام) نے دوران ہجرت پہلا قیام کلدانین میں فرمایا۔ یہاں کچھ عرصہ قیام کرنے کے بعد آپ ( علیہ السلام) بمعہ حضرت سارہ اور لوط (علیہ السلام) کے حاران نامی بستی میں قیام پذیر ہوئے۔ آپ (علیہ السلام) کچھ عرصہ تک حاران نامی بستی میں ٹھہرے۔ یہاں بھی دین حنیف کی دعوت کا کام جاری رکھا۔ بالآخر آپ اپنی رفیقہ حیات اور بھتیجے کے ساتھ ارض فلسطین میں تشریف لے گئے۔ یہی وہ سر زمین ہے جسکی روحانی ومادی برکات دنیا میں مسلمہ ہیں۔ دنیا کے کسی خطے میں اتنے انبیائے کرام (علیہ السلام) نہیں ہوئے۔ آج بھی اس ارض فلسطین میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے لے کر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) تک اکثر انبیاء کرام (علیہ السلام) آرام فرما ہیں۔ فلسطین میں قیام : حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے بھتیجے جناب لوط (علیہ السلام) کو شرق اردن میں تبلیغ کے لیے مقرر فرمایا اور فلسطین کے مغربی اطراف میں خود سکونت پذیر ہوئے۔ اس زمانے میں یہ علاقہ کنعانیوں کے زیر اقتدار تھا۔ یہاں کچھ عرصہ قیام فرمانے کے بعد آپ (علیہ السلام) مصر کی طرف چلے گئے۔ (از قصص القرآن) نازک ترین آزمائش : ہجرت کے سفر میں آپ ( علیہ السلام) کو اس آزمائش کا سامنا کرنا پڑا جس سے شاید صرف اور صرف ابراہیم (علیہ السلام) کو سابقہ پڑا۔ یعنی عزت وناموس کی آزمائش۔ بادشاہ نے آپ کی حرم پاک پر دست درازی کرنے کی ناپاک کوشش کی۔ حضرت امام بخاری نے بڑی تفصیل کے ساتھ اس الم ناک واقعہ کو صحیح بخاری میں نقل فرمایا۔ یہ ایسی آزمائش ہے کہ اس موقع پر بڑے بڑے لوگوں کے اوسان خطا ہوجایا کرتے ہیں لیکن خلیل خدا ( علیہ السلام) بڑے حوصلہ کے ساتھ اپنی رفیقہ حیات کو ایک تجویز سمجھاتے ہیں۔ چنانچہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور آپ کی رفیقہ حیات حضرت سارہ اللہ کے فضل وکرم سے سرخرو ہو کر نکلتے ہیں۔ بے حیا ظالم اور بے شرم بادشاہ اپنے آپ میں ذلیل ہوا اور ابراہیم (علیہ السلام) کو راضی کرنے کے لئے اپنی بیٹی آپ کے ہمراہ کردی۔ تفصیل کے دیکھیں۔ (بخاری : باب قول اللہ تعالیٰ واتخذ اللہ ابراہیم خلیلا) مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو ظالم قوم سے نجات دی۔ ٢۔ ابراہیم (علیہ السلام) بیت المقدس کی طرف ہجرت کر گئے۔ ٣۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے ساتھ ان کی بیوی حضرت سارہ (علیہ السلام) اور ان کے بھتیجے حضرت لوط (علیہ السلام) نے ہجرت کی۔ الأنبياء
71 الأنبياء
72 فہم القرآن ربط کلام : سفر میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی بیٹے کے لیے دعا۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے جب اپنا ملک، گھر بار، باپ اور اپنی قوم کو چھوڑا تو اس وقت ان کو بڑی شدت کے ساتھ یہ کمی محسوس ہوئی۔ کہ اے اللہ اگر یہ قوم تیرے دین کو نہیں مانتی تو کم از کم نیک اولاد عنایت کردے۔ جو میرا سہارا اور غمخوار بننے کے ساتھ ساتھ میرے بعد تیرے دین کا پر چار کرتی رہے۔ تمام مورخین نے تحریر فرمایا ہے کہ جب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو اسحاق (علیہ السلام) کی ولادت کی خوشخبری دی گئی تو آپ ( علیہ السلام) کی عمر سو سال اور آپ (علیہ السلام) کی زوجہ محترمہ حضرت سارہ ( علیہ السلام) کی عمر نوے سال تھی۔ قرآن مجید نے ولادت اسحاق (علیہ السلام) کے سلسلے میں متعدد مقامات پر ذکر فرمایا ہے کہ فرشتے انسانوں کی شکل میں جناب خلیل (علیہ السلام) کے پاس حاضر ہوئے۔ ” جب ابراہیم ( علیہ السلام) کے پاس ہمارے فرشتے خوشخبری لے کر پہنچے تو فرشتوں نے عرض کیا۔ اے ابراہیم آپ پر سلام ہو۔ ابراہیم (علیہ السلام) نے جواب میں کہا تم پر بھی سلام ہو۔ پھر کچھ دیر نہ لگائی کہ ایک بھنا ہوا بچھڑا ضیافت کے لیے لے آئے۔ مگر جب دیکھا کہ ان کے ہاتھ کھانے کی طرف نہیں بڑھتے۔ تو وہ ان سے مشتبہ ہوگئے اور دل میں ان سے خوف محسوس کیا۔ فرشتوں نے کہا آپ ڈریں نہیں ہم قوم لوط کی طرف بھیجے گئے ہیں۔“ [ ھود : ٦٩، ٧٠] ” اور اس کی بیوی (اس کے) پاس کھڑی تھی۔ وہ یہ سن کر ہنس پڑی، پھر ہم نے اس کو اسحاق اور اسحاق کے بعد یعقوب (علیہ السلام) کی خوشخبری سنائی۔ اس نے کہا اف! کیا اب میرے ہاں بچہ ہوگا۔ جب کہ میں نہایت بوڑھی ہوچکی ہوں۔ اور یہ میرا خاوند بھی بوڑھا ہوچکا ہے۔ یہ تو عجیب بات ہے۔ فرشتوں نے کہا۔ کیا اللہ تعالیٰ کے حکم پر تعجب کرتی ہو۔ اے ابراہیم (علیہ السلام) کے گھر والو! تم پر اللہ کی رحمتیں اور برکتیں ہیں۔ یقیناً اللہ نہایت تعریف والا اور بلند شان کا مالک ہے۔“ [ ھود : ٧١، ٧٢، ٧٣] حضرت اسحاق (علیہ السلام) : جناب اسحاق (علیہ السلام) حضرت اسماعیل (علیہ السلام) سے تیرہ یا چودہ سال چھوٹے ہیں۔ حضرت اسحاق (علیہ السلام) حضرت سارہ [ بطن سے پیدا ہوئے۔ جیسا کہ آپ پیچھے پڑھ آئے ہیں انہی کے بارے میں ارشاد فرمایا گیا۔ اور ہم نے اس ( ابراہیم (علیہ السلام) کو اسحاق (علیہ السلام) اور یعقوب (علیہ السلام) عطا کیے اور اس کی نسل کو کتاب اور نبوت سے نوازا۔ تاریخ کی ورق گردانی سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ شام میں پیدا ہوئے اور ایک سو اسی سال کی عمر میں انتقال کیا۔ مقام جرون آپ ( علیہ السلام) کی آخری آرامگاہ ہے، جو فلسطین میں ہے۔ عظیم خانوادہ نبوت : ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا گیا۔ تمام لوگوں میں اللہ کے نزدیک کس کا مرتبہ زیادہ ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو پرہیزگار ہے۔ صحابہ (رض) نے عرض کیا ہمارا یہ مقصد نہیں پھر آپ نے ارشاد فرمایا۔ خاندانی لحاظ سے سب سے بہتر اور افضل یوسف (علیہ السلام) جو نبی تھے۔ ان کے باپ نبی (یعقوب) تھے۔ پھر حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے باپ اسحاق (علیہ السلام) نبی تھے۔ اور ان کے باپ ابراہیم (علیہ السلام) نبی خلیل اللہ تھے۔“ [ رواہ البخاری : باب قول اللہ تعالیٰ واتخذ اللہ ابراہیم خلیلا] مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو بیک وقت بیٹے اور پوتے کی خوشخبری عطا فرمائی۔ ٢۔ حضرت اسحاق اور حضرت یعقوب (علیہ السلام) بھی اللہ کے پیغمبر تھے۔ ٣۔ حضرت اسحاق اور حضرت یعقوب (علیہ السلام) ہدایت کے امام تھے۔ ٤۔ حضرت اسحاق اور حضرت یعقوب (علیہ السلام) نماز قائم کرنے والے، زکوٰۃ دینے والے اور نیکی کے کاموں میں پیش پیش تھے۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت اسحاق اور حضرت یعقوب (علیہ السلام) کو عبادت گزار بندوں میں شمار فرمایا ہے۔ تفسیر بالقرآن حضرت اسحاق (علیہ السلام) کے اوصاف حمیدہ : ١۔ ہم نے اسحاق اور یعقوب (علیہ السلام) کو ہدایت سے نوازا۔ ( الانعام : ٨٤) ٢۔ حضرت اسحاق و یعقوب (علیہ السلام) اللہ کے منتخب کردہ ہیں۔ (ص : ٤٥ تا ٤٧) ٣۔ اسحاق اور یعقوب (علیہ السلام) نیکوکار تھے۔ ( الانبیاء : ٧٢) ٤۔ ہم نے ابراہیم (علیہ السلام) کو نیکوکار نبی اسحاق کی بشارت دی۔ ( الصٰفٰت : ١١٢) الأنبياء
73 الأنبياء
74 فہم القرآن ربط کلام : حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے بھتیجے اور نبی حضرت لوط (علیہ السلام) کا تعارف۔ حضرت لوط (علیہ السلام) جناب ابراہیم (علیہ السلام) کے بھتیجے تھے آپ نے اس وقت حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی تائید فرمائی جب عوام اور حکومت نے متفقہ فیصلہ کر کے آپ کو آگ میں جھونک دیا تھا۔ اللہ نے ابراہیم (علیہ السلام) کو صحیح وسالم آگ سے نکالا تو کوئی بھی ایمان نہ لایا سوائے لوط (علیہ السلام) کے۔ ” لوط (علیہ السلام) کے سوا ابراہیم (علیہ السلام) پر کوئی ایمان نہ لایا۔ اور ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا میں اللہ کی طرف ہجرت کررہا ہوں یقیناً اللہ عزیز اور حکیم ہے۔“ [ العنکبوت : ٢٦] حضرت لوط (علیہ السلام) عراق کے قدیم ترین شہر ” اُر“ میں پیدا ہوئے۔ جیسا کہ اوپر ذکر ہوچکا ہے یہی شہر جناب خلیل (علیہ السلام) کا مولد ہے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے ساتھ ہجرت کرنے والے لوط (علیہ السلام) تھے۔ آپ پہلے حاران پھر مختلف مقامات پر ٹھہرے۔ بالاخر ابراہیم (علیہ السلام) نے فلسطین میں قیام فرمایا اور مختلف ممالک میں تبلیغی مراکز قائم کیے۔ حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کو اندرون حجاز حضرت اسحاق (علیہ السلام) کو فلسطین و شام میں اور جناب لوط (علیہ السلام) کو شرقی اردن کے مرکزی شہر سدوم میں تعینات فرمایا۔ یہ شہر علاقے کا مرکزی مقام تھا۔ جہاں کے رہنے والے پرلے درجے کے فاسق وفاجر مشرک، کافر، ڈاکو، چور اور انتہائی بد کردار لوگ تھے۔ جنہوں نے دنیا میں بے حیائی کا ایسا عمل اختیار کیا جو اس سے پہلے کسی قوم نے نہیں کیا تھا۔ انہوں نے اپنی نفسانی خواہش اپنی بیویوں سے پوری کرنے کے بجائے لڑکوں سے شروع کر رکھی تھی۔ گویا کہ یہ ہم جنسی کے بدترین گناہ کے مرتکب ہوئے۔ حضرت لوط (علیہ السلام) کے بار بار سمجھانے کے باوجود باز آنے پر تیار نہ ہوئے۔ حضرت لوط (علیہ السلام) کو رجم کردینے کی دھمکی دینے کے ساتھ عذاب الٰہی کا مطالبہ کرتے رہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس قوم کو تباہ کیا اور حضرت لوط (علیہ السلام) اور ان کے ساتھیوں کو اپنی رحمت سے بچا لیا۔ اسی بات کا یہاں ذکر کیا گیا ہے۔ الأنبياء
75 الأنبياء
76 فہم القرآن ربط کلام : جس طرح اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت سے حضرت لوط (علیہ السلام) کو اس کی قوم سے نجات دی اور قوم کو نیست و نابود کیا۔ اسی طرح ” اللہ“ نے اپنی رحمت سے حضرت نوح (علیہ السلام) اور ان کے ساتھیوں کو سیلاب سے بچایا۔ قوم کو غرق کردیا۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح (علیہ السلام) کو اس وقت نبوت سے سرفراز فرمایا جب ان کی قوم کے لوگ مجسموں کے پجاری بن چکے تھے۔ سورۃ العنکبوت آیت ١٤ میں بیان کیا گیا ہے کہ نوح (علیہ السلام) نے ساڑھے نو سو سال قوم کی اصلاح کرنے میں صرف فرمائے۔ سورۃ نوح میں یہ وضاحت فرمائی کہ انھوں نے اللہ تعالیٰ سے یہ فریاد کی کہ میرے رب میں نے اپنی قوم کو رات اور دن، انفرادی اور اجتماعی طور پر سمجھانے کی کوشش کی لیکن میری بھرپور کوشش کے باوجود یہ قوم شرک اور برائی میں بڑھتی ہی چلی گئی۔ قوم نہ صرف جرائم میں آگے بڑھتی گئی بلکہ الٹا انھوں نے نوح (علیہ السلام) کے خلاف گمراہ ہونے کا پراپیگنڈہ کرنے کے ساتھ ان سے بار بار مطالبہ کیا کہ اے نوح! اگر تو واقعی اللہ کا سچا نبی ہے تو ہمارے لیے عبرت ناک عذاب کی بددعا کیجیے۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے نہایت ہی مجبور ہو کر ان کے لیے بد دعا کی ” اے میرے رب میں ان کے مقابلے میں بالکل بے بس اور مغلوب ہوچکا ہوں بس تو میری مدد فرما۔“ (القمر : ١٠) ” حضرت نوح (علیہ السلام) نے بد دعا کرتے ہوئے اپنے رب کے حضور یہ بھی درخواست کی کہ میرے رب اب زمین پر کافروں کا ایک شخص بھی نہیں بچنا چاہیے کیونکہ ان میں سے جو بھی پیدا ہوگا وہ فاسق اور کافر ہی پیدا ہوگا۔“ ( نوح ٢٥ تا ٢٧) اللہ تعالیٰ نے نوح (علیہ السلام) کی بد دعا قبول کرتے ہوئے انھیں حکم دیا کہ آپ میرے سامنے ایک کشتی بنائیں جب نوح (علیہ السلام) کشتی بنا رہے تھے تو ان کی قوم نے ان کو بار بار تمسخر کا نشانہ بنایا۔ جس کے جواب میں نوح (علیہ السلام) فقط انھیں یہی فرماتے آج تم مجھے استہزاء کانشانہ اور تماشا بنا رہے ہو لیکن کل تم ہمیشہ کے لیے مذاق اور عبرت کا نشان بن جاؤ گے۔ ( ھود آیت ٣٧ تا ٣٩) قوم نوح پر اللہ تعالیٰ نے پانی کا ایسا عذاب نازل فرمایا کہ جس کے بارے میں سورۃ القمر آیت ١١، ١٢ اور سورۃ المؤمنون، آیت ٢٧ میں بیان ہوا ہے کہ آسمان کے دروازے کھل گئے زمین سے چشمے پھوٹ نکلے یہاں تک کہ تنور پھٹ پڑا۔ اس طرح نوح (علیہ السلام) کے نافرمان بیٹے سمیت ان کی قوم کو پانی میں ڈبکیاں دے دے کر ختم کردیا گیا۔ اللہ تعالیٰ کا اس قوم پر اس قدر غضب ہوا کہ جب نوح (علیہ السلام) کا بیٹا پانی میں ڈبکیاں لے رہا تھا تو حضرت نوح (علیہ السلام) کو بحیثیت باپ ترس آیا انھوں نے اللہ تعالیٰ سے اس کے حق میں دعا کرتے ہوئے کہا، میرے رب میرا بیٹا بھی ڈوب رہا ہے حالانکہ تیرا فرمان تھا کہ میں تیرے اہل کو بچا لوں گا۔ الٰہی تیرا وعدہ برحق ہے۔ جواب آیا اے نوح تیرا بیٹا صالح نہ ہونے کی وجہ سے تیرے اہل میں شمار نہیں۔ اب مجھ سے ایسا سوال نہ کرنا۔ ورنہ تجھے جاہلوں میں شمار کروں گا۔ اس پر حضرت نوح (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ سے پناہ مانگتے ہوئے معافی طلب کی اور درخواست کی مجھ پر مہربانی کی جائے ورنہ میں بھی نقصان پانے والوں میں سے ہوجاؤں گا۔ حضرت نوح (علیہ السلام) اور ان کے ماننے والے سلامت اور محفوظ رہے اور باقی قوم کو غرقاب کردیا گیا۔ کیونکہ ان کی قوم کفر و شرک میں اندھی ہوچکی تھی۔ ( ھود : ٤٥ تا ٤٨) عذاب کی کیفیت : قوم نوح پر چالیس دن مسلسل دن، رات بے انتہا بارش برستی رہی یہاں تک کہ جگہ جگہ زمین سے چشمے پھوٹ پڑے۔ حتٰی کہ تنور پھٹ پڑا اللہ تعالیٰ نے طوفان کے آغاز میں حضرت نوح (علیہ السلام) کو حکم دیا کہ وہ اللہ کا نام لے کر کشتی میں سوار ہوجائیں اور اپنے ساتھ ہر جاندار کا جوڑا جوڑا یعنی نر اور مادہ دو دو کشتی میں اپنے ساتھ سوار کرلیں۔ البتہ کسی کافر اور مشرک کو کشتی میں سوار نہ کیا جائے۔ (ہود : ٤٠ تا ٤٢) مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح (علیہ السلام) کی فریاد قبول کی انھیں اور ان کے ساتھیوں کو عظیم غم سے نجات عطا کی۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح (علیہ السلام) کی مدد فرمائی اور ان کی قوم کو غرق کردیا۔ تفسیر بالقرآن نوح (علیہ السلام) کی قوم کی تباہی کا منظر : ١۔ قوم نوح نے جب رسولوں کی تکذیب کی تو ہم نے انھیں غرق کردیا اور لوگوں کے لیے باعث عبرت بنا دیا۔ (الفرقان : ٣٧) ٢۔ ہم نے نوح (علیہ السلام) اور اس کے ساتھیوں کو نجات دی اور تکذیب کرنے والوں کو غرق کردیا۔ (الاعراف : ٦٤) ٣۔ قوم نے نوح (علیہ السلام) کی بات نہ مانی تو ہم نے انھیں غرق کردیا۔ (یونس : ٧٣) ٤۔ ہم نے نوح (علیہ السلام) اور اس کے ساتھیوں کو نجات دی اور بقیہ کو غرق کردیا۔ (الشعراء : ١١٩۔ ١٢٠) الأنبياء
77 الأنبياء
78 فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ نے بہت سے انبیاء کو تکالیف کے ذریعے آزمایا جس میں وہ سرخرو ہوئے لیکن حضرت داؤد اور ان کے بیٹے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو اقتدار اور اختیار دے کر آزمایا جس میں باپ، بیٹا کامیاب ہوئے۔ اس لیے بادشاہ انبیاء کا ذکر کیا جاتا ہے۔ حضرت داؤد (علیہ السلام) حضرت داؤد (علیہ السلام) کا دوسرے پارہ میں مختصر ذکر ہوچکا کہ وہ جالوت سے معرکہ آرائی میں اپنی شجاعت کا مظاہرہ کرچکے تھے جس وجہ سے بنی اسرائیل میں وہ معزز سمجھے جاتے تھے۔ اللہ تعالیٰ انہیں نبوت و رسالت سے سرفراز فرمایا ” اور خلیفۃ اللہ“ قرار دیا۔ آپ یعقوب (علیہ السلام) کی اولاد یہودا کی نسل سے ہیں۔ ابن کثیر (رض) نے اپنی تاریخ میں حضرت داؤد (علیہ السلام) کا سلسہ نسب اس طرح بیان کیا ہے :۔ داؤدبن ایشا بن عوید بن عابر بن سلمون بن فحشون بن عویناذب بن ارم بن حصرون بن فرص بن یہودا بن یعقوب بن اسحاق بن ابراہیم تورات میں درج ہے کہ ایشا کے بہت سے بیٹے تھے حضرت داؤدان میں سب سے چھوٹے تھے۔ قرآن مجید میں حضرت داؤد (علیہ السلام) کا اسم گرامی سولہ مقام پر آیا ہے : البقرہ : ٢٥١ النساء : ١٦٣ المائدہ : ٧٨ الانعام : ٨٤ اسراء : ٥٥ الانبیاء : ٧٨ تا ٧٩ النمل : ١٥۔ ١٦ السبا : ١٠۔ ١٣ ص : ١٧ تا ٢٢۔ ٣٠ تا ٢٤ کل آیات : ١٥ حضرت داؤدد (علیہ السلام) سے پہلے بنی اسرائیل میں ایک خاندان سے حکمران ہوتا تھا اور دوسرے خاندان میں نبوت کا سلسلہ چلتا تھا۔ یہودا کے خاندان میں نبوت کا سلسلہ تھا اور افراہیم کے خاندان میں حکومت تھی۔ حضرت داؤد (علیہ السلام) پہلے شخص ہیں جن میں یہ دونوں نعمتیں یکجا کردی گئی تھیں وہ اللہ کے رسول بھی تھے اور صاحب تخت وتاج بھی۔ انبیاء کرام کی جماعت میں حضرت آدم (علیہ السلام) کے علاوہ کسی نبی کو ” خلیفۃ اللہ“ کے لقب سے یاد نہیں کیا گیا۔ سوائے حضرت داؤد (علیہ السلام) کے وہ ایسے نبی ہیں جن کو خلیفۃ اللہ کا لقب دیا گیا۔ (ص : ٢٦) داؤد علیہ السلامکا اقتدار اور اختیار : (وَ اٰتٰہُ اللّٰہُ الْمُلْکَ وَ الْحِکْمَۃَ وَ عَلَّمَہٗ مِمَّا یَشَآءُ) [ البقرہ : ٢٥١] ” اور اللہ نے ان کو حکومت اور نبوت عطا کی اور جو علم چاہا وہ سکھایا۔“ (وَکُلًّا اٰتَیْنَا حُکْمًا وَعِلْمًا) [ الانبیاء : ٧٩] اور ہم نے داؤد اور سلیمان کو حکومت دی اور علم عطا کیا۔ ( یَا دَاوُوْدُ إِنَّا جَعَلْنَاکَ خَلِیْفَۃً فِیْ الْأَرْضِ۔۔ الخ) [ آ آیت ٢٦] ” اے داؤدہم نے تمہیں زمین میں خلیفہ بنایا ہے۔ لہٰذا لوگوں کے درمیان انصاف کے ساتھ حکومت کرنا اور اپنے نفس کی پیروی نہ کرنا۔ نفس کی پیروی اللہ کی راہ سے غافل کر دے گی۔ بیشک جو لوگ اللہ کی راہ سے بھٹکتے ہیں ان کے لیے سخت عذاب ہے حضرت داؤد (علیہ السلام) کی اپنے فیصلے پر نظر ثانی : ایک مرتبہ حضرت داؤد (علیہ السلام) کی خدمت میں دو شخص حاضر ہوئے ان میں سے ایک نے کہا کہ میری تیار شدہ کھیتی کو اس کی بکریوں نے تباہ کردیا ہے دوسرے نے اس کا اعتراف کیا۔ حضرت داؤد (علیہ السلام) نے فیصلہ دیا کہ مدّعی کا نقصان مدّعی علیہ کی بکریوں کی قیمت کے برابر ہے لہٰذا تاوان کی صورت میں پوری کی پوری بکریاں مدّعی کو دے دی جائیں۔ سلیمان (علیہ السلام) ابھی کم عمر تھے اس وقت اپنے والد ماجد کے پاس بیٹھے تھے عرض کرنے لگے ابا جان آپ کا فیصلہ صحیح ہے مگر اس سے بھی زیادہ بہتر شکل یہ ہے کہ مدّعی علیہ کی بکریاں مدّعی کے سپرد کردی جائیں وہ اس کے دودھ اور اون سے فائدہ اٹھائے اور مدعی علیہ کو حکم دیا جائے کہ وہ اس عرصہ میں مدّعی کے کھیت کی خدمت انجام دے۔ جب کھیت کی پیداوار اپنی اصلی حالت پر آجائے تو کھیت مدعی کے سپرد کر کے اپنا ریوڑ واپس لے لے۔ حضرت داؤد (علیہ السلام) کو بیٹے کی بات بہت پسند آئی اور اسی کے مطابق فیصلہ دیا۔ حضرت داؤد (علیہ السلام) کی قناعت پسندی حضرت داؤد (علیہ السلام) کی حکومت و سلطنت بہت وسیع تھی اس کے باوجود مملکت کے مالیہ سے ایک درہم نہیں لیتے اور اپنا اور اہل و عیال کی معاش کا بوجھ بیت المال پر نہیں ڈالتے تھے اپنے ہاتھ کی کمائی سے حلال روزی حاصل کرتے تھے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے کسی انسان کا بہترین رزق اسکے ہاتھ کی محنت سے کمایا ہوا رزق ہے۔ اللہ کے نبی حضرت داؤد (علیہ السلام) اپنے ہاتھ سے روزی کماتے تھے۔ (بخاری : کتاب التجارۃ) حضرت داؤد (علیہ السلام) کی ٹیکنالوجی میں ترقی : (۔۔ وَ اَلَنَّالَہُ الْحَدِیْد اَنِ اعْمَلْ سٰبِغٰتٍ وَّ قَدِّرْ فِی السَّرْدِ وَاعْمَلُوْا صَالِحًا اِنِّیْ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ)[ السباء : ١٠-١١] ”۔۔ اور ہم نے داؤد کے لیے لوہا نرم کردیا کہ بنائیں زرہیں کشادہ جنگی آہنی لباس اور ان کے جوڑ میں مناسب انداز میں فاصلہ رکھیں اور نیک کام کریں میں خوب دیکھ رہا ہوں جو کچھ تم کررہے ہو۔“ (وَعَلَّمْنَاہُ صَنْعَۃَ لَبُوسٍ لَکُمْ لِتُحْصِنَکُمْ مِنْ بَأْسِکُمْ فَہَلْ أَنْتُمْ شَاکِرُونَ) [ الانبیاء : ٨٠] ” اور ہم نے داؤدکوسکھائی زرہ بنانے کی صنعت تمہارے نفع کے لیے تاکہ تم لڑائی کے موقع پر اس سے بچاؤ حاصل کر سکوپس کیا تم شکر گزار بنتے ہو؟“ اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد (علیہ السلام) کو لوہے کے استعمال پر قدرت عطا کی تھی اور خاص طور پر جنگی مقاصد کے لیے اسلحہ اور زرہ سازی کا طریقہ سکھایا تھا۔ موجودہ زمانے کی تاریخی واثری تحقیقات سے ان آیات کے معنی پر جو روشنی پڑتی ہے۔ وہ یہ ہے کہ دنیا میں لوہے کے استعمال کا دور (Iron-Age) ١٢٠٠ اور ١٠٠٠ ق م کے درمیان شروع ہوا ہے اور یہی حضرت داؤد (علیہ السلام) کا زمانہ ہے۔ اول اول شام اور ایشیائے کوچک کی حِتّی قوم (Hittites) کو جس کے عروج کا زمانہ ٢٠٠٠ ق م سے ١٢٠٠ ق م تک رہا ہے، لوہے کے پگھلانے اور تیار کرنے کا ایک پیچیدہ طریقہ معلوم ہوا۔ وہ شدت کے ساتھ اس کو دنیا بھر سے راز میں رکھے رہی۔ مگر اس طریقے سے جو لوہا تیار ہوتا تھا وہ سونے چاندی کی طرح اتنا قیمتی ہوتا تھا کہ عام استعمال میں نہ آسکتا تھا۔ بعد میں فلستیوں نے بنی اسرائیل کو پیہم شکستیں دے کر انہیں فلسطین سے تقریباً بےدخل کردیا تھا، بائیبل کے بیان کے مطابق اس کے وجوہ میں سے ایک اہم وجہ یہ تھی کہ یہ لوگ لوہے کی رتھیں استعمال کرتے تھے اور ان کے پاس دوسرے آہنی ہتھیار بھی تھے۔ ( یشوع، باب، ١٧، آیت ١٦، تضاۃ : باب، ١۔ آیت، ١٩، باب ٤ آیت، ٢۔ ١٣ ١٠٢٠ ق م) میں جب طالوت خدا کے حکم سے بنی اسرائیل کا فرمانروا ہوا تو اس نے پیہم شکستیں دے کر ان لوگوں سے فلسطین کا بڑا حصہ واپس لے لیا۔ اور پھر حضرت داؤد (علیہ السلام) ١٠٠٤، ٩٦٥ ق م) نے نہ صرف فلسطین وشرق اردُن، بلکہ شام کے بھی بڑے حصے پر اسرائیلی سلطنت قائم کردی۔ اس زمانہ میں آہن سازی کا وہ راز جو حتیوں اور فلستیوں کے قبضے میں تھا بے نقاب ہوگیا اور صرف بے نقاب ہی نہ ہوا بلکہ آہن سازی کے ایسے طریقے بھی نکل آئے جن سے عام استعمال کے لیے لوہے کی سستی چیزیں تیار ہونے لگیں۔ فلسطین کے جنوب میں ادوم کا علاقہ خام لوہے (Iron ore) کی دولت سے مالا مال ہے اور حال میں آثار قدیمہ کی جو کھدائیاں اس علاقے میں ہوئی ہیں ان میں بکثرت ایسی جگہوں کے آثار ملے ہیں جہاں لوہا پگھلانے کی بھٹیاں لگی ہوئی تھیں۔ عقبہ اور اَیَلہ سے متصل حضرت سلیمان کے زمانے کی بندرگاہ عِصْیُون جابر کے آثار قدیمہ میں جو بھٹی ملی ہے اس کے معائنے سے اندازہ کیا گیا ہے کہ اس میں بعض وہ اصول استعمال کیے جاتے تھے جو آج جدید ترین زمانے کی (BlastFurnace) میں استعمال ہوتے ہیں۔ اب یہ ایک قدرتی بات ہے کہ حضرت داؤد (علیہ السلام) نے سب سے پہلے اور سب سے بڑھ کر اس جدید دریافت کو جنگی اغراض کے لیے استعمال کیا ہوگا۔ (تفہیم القرآن) تفسیر بالقرآن قرآن مجید میں داؤد (علیہ السلام) کا ذکر خیر : ١۔ اللہ تعالیٰ نے داؤد (علیہ السلام) کو بادشاہت اور نبوت سے نوازا۔ ( البقرۃ: ٢٥١) ٢۔ ہم نے داؤد (علیہ السلام) کو زبور عطا کی۔ ( النساء : ١٦٣) ٣۔ داؤد (علیہ السلام) نے بنی اسرائیل کی نافرمانی کی وجہ سے ان پر لعنت فرمائی۔ ( المائدۃ: ٧٨) ٤۔ داؤد (علیہ السلام) حضرت نوح (علیہ السلام) کی اولاد میں سے تھے۔ ( الانعام : ٨٤) ٥۔ اے داؤد ہم نے تجھے زمین میں خلیفہ بنایا کیا۔ (ص : ٢٥) ٦۔ ہم نے داؤد (علیہ السلام) کو زبور عطا کی۔ (بنی اسرائیل : ٥٥) ٧۔ ہم نے داؤد (علیہ السلام) اور سلیمان (علیہ السلام) کو علم عطا فرمایا۔ (النمل : ١٥) ٨۔ ہم نے داؤد (علیہ السلام) کو فضل سے نوازا۔ (سبا : ١٠) ٩۔ ہم نے داؤد (علیہ السلام) کے ساتھ پہاڑوں کو حمد و ثنا کے لیے مسخر کردیا۔ (الانبیاء : ٧٩) ١٠۔ ہم نے داؤد (علیہ السلام) کی سلطنت مضبوط کی اور انہیں فیصلہ کن خطاب کا ملکہ دیا۔ ( ص ٢٨) ١١۔ ہم نے پہاڑوں اور پرندوں کو داؤد کے تابع کیا۔ ( الانبیاء : ٧٩) الأنبياء
79 الأنبياء
80 الأنبياء
81 فہم القرآن ربط کلام : حضرت داؤد (علیہ السلام) کے بعد ان کے ہونہار صاحب زادے کا ذکر۔ (وَ لِسُلَیْمٰنَ الرِّیْحَ غُدُوُّھَا شَھْرٌ وَّ رَوَاحُھَا شَھْر) [ السباء : ١٢] اور سلیمان (علیہ السلام) کے لیے ہم نے ہوا کو مسخر کردیا تھا ایک مہینے کی راہ تک اس کا چلنا صبح کو اور ایک مہینے کی راہ تک اس کا چلنا شام کو۔“ مزید تفصیل سورۃ ص میں بیان فرمائی۔ (فَسَخَّرْنَا لَہُ الرِّیْحَ تَجْرِیْ بِاَمْرِہٖ رُخَآءً حَیْثُ اَصَابَُ) [ ص : ٣٦] ” پس ہم نے اس کے لیے ہوا کو مسخر کردیا جدھر وہ جانا چاہتا اس کے حکم کے مطابق بسہولت چلتی تھی۔“ بائیبل اور جدید تاریخی تحقیقات سے اس مضمون پر جو روشنی پڑتی ہے وہ یہ ہے کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے اپنے دور سلطنت میں بہت بڑے پیمانے پر بحری تجارت کا سلسلہ شروع کیا تھا۔ ایک طرف عِصُیون جابر سے ان کے تجارتی جہاز بحراحمر میں یمن اور دوسرے جنوبی ومشرقی ممالک کی طرف جاتے تھے اور دوسری طرف بحر روم کے بندرگاہوں سے ان کا بیڑہ (جسے بایئبل میں ” ترسیسی بیڑہ“ کہا گیا ہے) مغربی ممالک کی طرف جایا کرتا تھا۔ عصیون جابر میں ان کے زمانے کی جو عظیم الشان بھٹی ملی ہے اس کے مقابلے کی کوئی بھٹی مغربی ایشیا اور مشرق وسطیٰ میں ابھی تک نہیں ملی۔ آثار قدیمہ کے ماہرین کا اندازہ ہے کہ یہاں ادوم کے علاقۂ عَرَبہ کی کانوں سے خام لوہا اور تانبا لایا جاتا تھا اور اس بھٹی میں پگھلا کر اسے دوسرے کاموں کے علاوہ جہاز سازی میں بھی استعمال کیا جاتا تھا۔ اس سے قرآن مجید کی اس آیت کے مفہوم پر روشنی پڑتی ہے جو سورۃ سبا میں حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے متعلق آئی ہے کہ (وَاَسَلْنَا لَہٗ عَیْنَ الْقِطْرِ) ” اور ہم نے اس کے لیے پگھلی ہوئی دھات کا چشمہ بہا دیا۔“ نیز اس تاریخی پس منظر کو نگاہ میں رکھنے سے یہ بات بھی سمجھ میں آجاتی ہے کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے لیے ایک مہینے کی راہ تک ہوا کی رفتار کو ” مسخر“ کرنے کا کیا مطلب ہے؟ اس زمانے میں بحری سفر کا سارا انحصار باد موافق ملنے پر تھا۔ اللہ تعالیٰ کا حضرت سلیمان (علیہ السلام) پر یہ کرم خاص تھا کہ وہ ہمیشہ ان کے دونوں بحری بیڑوں کو ان کی مرضی کے مطابق ملتی تھی۔ تاہم اگر ہوا پر حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو حکم چلانے کا بھی کوئی اقتدار دیا گیا ہو جیسا کہ تَجْرِیْ بِاَمْرِہٖ (اس کے حکم سے چلتی تھی) کے الفاظ سے مترشح ہوتا ہے تو یہ اللہ کی قدرت سے بعید نہیں ہے۔ وہ اپنی مملکت کا آپ مالک ہے۔ اپنے جس بندے کو جو اختیارات چاہے دے سکتا ہے جب وہ خود کسی کو کوئی اختیار دے تو ہمارا دل دکھنے کی کوئی وجہ نہیں۔ ( تفہیم القرآن) سیدنا سلیمان (علیہ السلام) حضرت سلیمان (علیہ السلام) حضرت داؤد (علیہ السلام) کے صاحبزادے ہیں لہٰذا ان کا نسب بھی یہودا کے واسطے سے حضرت یعقوب (علیہ السلام) سے ملتا ہے۔ (وَ وَھَبْنَا لَہٗٓ اِسْحٰقَ وَ یَعْقُوْبَ کُلًّا ھَدَیْنَا وَ نُوْحًا ھَدَیْنَا مِنْ قَبْلُ وَ مِنْ ذُرِّیَّتِہٖ دَاوٗدَ وَ سُلَیْمٰنَ) [ الانعام : ٨٤] ” اور ہم نے ابراہیم کو اسحاق ویعقوب عطا کئے ہر ایک کو ہدایت بخشی اور نوح کو ابراہیم سے پہلے ہدایت بخشی اور ابراہیم کی اولاد میں سے داؤد اور سلیمان کو ہدایت عطا کی۔“ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کا ذکر مبارک سولہ مقامات پر آیا۔ ان میں سے چند مقامات پر تفصیلی ذکر ہے اور اکثر جگہ مختصر طور پر البقرۃ: ١٠٢ النساء : ١٦٣ الانعام : ٨٩ الانبیاء : ٧٨۔ ٨١ النمل : ١٥۔ ١٦۔ ١٧۔ ١٨۔ ٨۔ ٣٠۔ ٣٦۔ ٤٤ السباء : ١٢ ص : ٣٠۔ ٣٤ حضرت سلیمان (علیہ السلام) فطری طور پر بہت ذہین اور سمجھ دار تھے۔ اپنے والد داؤد (علیہ السلام) کی معیت میں سن شعور کو پہنچے تو اس وقت حضرت داؤد (علیہ السلام) کا انتقال ہوا۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں نبوت سے سرفراز فرمایا اور حکومت میں بھی حضرت داؤد (علیہ السلام) کا جانشین بنایا۔ قرآن حکیم نے اسی جانشینی کو حضرت داؤد (علیہ السلام) کی وراثت قرار دیا ہے۔ حکومت کے ساتھ ساتھ اپنے والد کی نبوت میں بھی وارث قرار پائے۔ نبوت وراثت کی چیز نہیں جو لازماً اولاد کے حصے میں آئے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے بعض انبیاء ( علیہ السلام) پر یہ بھی فضل کیا ہے کہ ان کی اولاد کو نبوت میں بھی ان کا جانشین بنایا تھا۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) بھی ان انبیائے کرام میں سے ایک ہیں۔ اس کے علاوہ حضرت داؤد (علیہ السلام) کی طرح حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو بھی خصوصیات و امتیازات سے نوازا گیا جس کی وجہ سے وہ انبیاء میں ممتاز حیثیت کے حامل ہوئے :۔ (وَوَرِثَ سُلَیْمَانُ دَاوُودَ) [ النمل : ١٦] ” اور وارث ہوئے سلیمان حضرت داؤدکے“ ” اور بیشک ہم نے داؤد اور سلیمان کو علم دیا اور ان دونوں نے کہا ہر قسم کی تعریف اللہ ہی کو زیبا ہے جس نے اپنے مومن بندوں پر ہم کو فضیلت عطا کی ہے۔ سلیمان داؤد (علیہ السلام) کے وارث ہوئے اور انہوں نے کہا لوگو ! ہم کو پرندوں کی بولیوں کا علم دیا گیا ہے اور ہم کو ہر چیز بخشی گئی ہے بیشک یہ اللہ کا بڑا فضل ہے۔“ [ النمل : ١٥] حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے خصوصی امتیازات میں سے ایک امتیاز یہ بھی تھا کہ اللہ تعالیٰ نے ” ہوا“ کو انکے زیر فرماں کردیا تھا وہ جب اور جہاں چاہتے اس کو چلنے اور رک جانے کا حکم دیتے تھے۔ ہوائیں ان کے حکم سے نرم اور سبک رفتار ہوجاتی تھیں جب تیز روی کا حکم دیتے تو برق رفتاری کا یہ عالم ہوتا کہ اس کے دوش پر سوار ہو کر ایک ماہ کی مسافت صبح کے وقت اور ایک ماہ کی مسافت شام کے آخری لمحات میں طے کرلیتے تھے۔ ان کا تخت جہاں چاہتے ہوا پہنچادیتی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے جس طرح عام قوانین قدرت کے تحت کائنات کی اشیاء کو اسباب کے ساتھ مربوط کردیا ہے۔ اسی طرح اپنے قانون خاص کے تحت انبیاء کے ساتھ معاملہ فرمایا ہے جس کو معجزہ کہا جاتا ہے۔ ہوا کا تابع فرمان ہونا اسی قسم سے ہے۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے زیر نگیں نہ صرف انسان تھے بلکہ جنات اور حیوانات بھی تابع فرمان تھے یہ ایسا اقتدار تھا کہ کائنات میں شاید ہی کسی اور کو عطا کیا گیا ہو۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی دعا : ” اے پروردگار مجھے معاف فرما دے اور مجھ کو ایسی حکومت عطا کر جو میرے بعد کسی کو حاصل نہ ہو بے شک تو ہی عطا کرنے والا ہے۔“ [ ص : ٣٥] معدنیات تک رسائی : اللہ تعالیٰ کے احسانات میں سے ایک عظیم احسان یہ بھی تھا کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو تانبے کے چشمے فراہم کئے گئے جس کو تعمیرات کی مضبوطی کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔ بعض مفسرین لکھتے ہیں کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) پر اللہ تعالیٰ کا انعام خاص یہ تھا کہ ان چشموں کو آشکارا کردیا گیا جن سے پہلے کوئی شخص آگاہ نہیں ہوا۔ ابن کثیر نے حضرت قتادہ (رض) کی ایک روایت نقل کی ہے کہ پگھلے ہوئے تانبے کے یہ چشمے ملک یمن میں تھے جن کو اللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمان (علیہ السلام) پر ظاہر کردیا تھا۔ (البدایہ والنہایہ ج ٢) شیاطین جنّات کا تابع فرماں ہونا : ” اور شیاطین میں سے ہم نے اکثر کو سلیمان کا تابع بنا دیا تھا جو ان کے لیے سمندر میں موتی نکالنے کے لیے غوطے لگاتے اور اس کے سوا دوسرے کام بھی کرتے تھے ان سب کے نگراں ہم ہی تھے۔“ [ انبیاء : ٨٢] ” اور سلیمان کے لیے جن اور انسانوں اور پرندوں کے لشکر جمع کئے گئے تھے اور وہ پوری طرح نظم وضبط میں رکھے جاتے تھے۔“ [ النمل : ١٧] ” اور سرکش جنوں کو بھی ان کے تابع کردیا ہر طرح کے معمار اور غوطہ خور اور سرکش وباغی بھی جو زنجیروں میں جکڑے رہتے تھے۔ ہم نے سلیمان سے کہا یہ ہماری عطا ہے تم کو اختیار ہے جس کو چاہو دو اور جس سے چاہے روک لو کوئی حساب کتاب نہیں۔“ [ ص : ٣٧ تا ٣٩] چیونٹیوں اور جانوروں پر حکمرانی : وادئ نملہ : حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو یہ علم خاص معجزہ کے طور پر دیا گیا تھا جس طرح ایک انسان دوسرے انسان کی گفتگو بے تکلف سن لیتا ہے اسی طرح حضرت سلیمان (علیہ السلام) پرندوں کی بولیاں سن اور سمجھ لیا کرتے تھے۔ مؤرخین نے لکھا ہے کہ ایک مرتبہ سلیمان (علیہ السلام) کے زمانے میں مدّت مدید تک بارش نہ ہوئی۔ سلیمان (علیہ السلام) لوگوں کے ساتھ صلوٰۃِ استسقاء کے لیے کھلے میدان کی طرف نکلے۔ راستہ میں دیکھا کہ ایک چیونٹی اپنے اگلے پیر اٹھائے آسمان کی طرف منہ کئے دعا کر رہی ہے : خدایا ہم بھی تیری مخلوق اور تیرے فضل وکرم کے محتاج ہیں ہم کو بارش سے محروم رکھ کر ہلاک نہ فرما۔ سلیمان (علیہ السلام) نے چیونٹی کی دعا سنی اور اپنی قوم سے فرمایا واپس چلو ایک چیونٹی کی دعا نے ہمارا کام پورا کردیا۔ اب بارش ضرور ہوگی۔ (تاریخ ابن کثیر : ج، ٢ ) ایک مرتبہ حضرت سلیمان جن وانس اور حیوانات کے ایک عظیم لشکر کے ساتھ کسی جگہ تشریف لے جا رہے تھے چلتے چلتے لشکر ایک ایسی وادی میں پہنچا جہاں چیونٹیاں بے شمار تھیں اور پوری وادی ان کا مسکن بنی ہوئی تھی چیونٹیوں کی سردار نے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے لشکر کو دیکھ کر کہا اے چیونٹیو۔ فوراً اپنی اپنی بلوں میں داخل ہوجاؤ کہیں سلیمان اور ان کا لشکر تمہیں بے خبری میں روند نہ دے۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے چیونٹیوں کی سردار کی بات سنی تو ہنس پڑے۔ ( السباء : ١٨۔ ١٩) ہُدہُد اور ملکۂ سبا : ایک مرتبہ سلیمان (علیہ السلام) اپنے دربار میں پورے جاہ وجلال کے ساتھ تشریف فرما تھے۔ انسان، جنات، حیوانات کے نمائندے بھی موجود تھے لیکن پرندوں میں ہدہد موجود نہ تھا۔ فرمایا کیا بات ہے کہ میں ہد ہد کو موجود نہیں پاتا؟ اگر وہ واقعی غیر حاضر ہے تو اس کو سخت سزادوں گا یا پھر ذبح کر ڈالوں گا۔ الاّ یہ کہ وہ اپنی غیر حاضری کی معقول وجہ بیان کرے۔ اسی غضب میں تھے کہ ہدہد حاضر ہوگیا اور حضرت سلیمان کے سوال پر کہنے لگا کہ میں ایک یقینی خبر لایا ہوں جسے آپ نہیں جانتے۔ وہ یہ ہے کہ سبا کے ملک پر ایک ملکہ حکمرانی کرتی ہے۔ اللہ نے اس کو سب کچھ دے رکھا ہے اور اس کا تخت نہایت عظیم الشان ہے ملکہ اور اس کی قوم سورج کی پوجا کرتے ہیں۔ وہ الٰہ واحدکی عبادت نہیں کرتے شیطان نے ان کی سورج پرستی کو ان کے لیے خوشنما بنا دیا ہے۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے یہ خبر سن کر فرمایا کہ تیری سچائی کا ابھی علم ہوجائے گا۔ میرا خط لے جا اور اس کو ان تک پہنچا اور انتظار کر کہ وہ اس کا کیا جواب دیتے ہیں۔ ہدہد خط لے کر اڑا اور خط ملکہ کے سامنے پھینک دیا ملکہ خط پڑھ کر اہل دربار سے کہنے لگی کہ ابھی ابھی یہ خط سلیمان کی جانب سے آیا ہے۔ جو اللہ کے نام سے شروع کیا گیا ہے جو بڑا مہربان رحم فرمانے والا ہے۔“ خط کا مضمون یہ ہے کہ تم سرکشی کا اظہار نہ کرو اور میرے پاس تابعدار ہو کر آجاؤ۔ (النمل : ٣١) وزیروں مشیروں نے کہا جہاں تک مرعوب ہونے کا تعلق ہے اس کی ضرورت نہیں کیونکہ ہم طاقت ور اور جنگی قوت کے مالک ہیں البتہ آخری فیصلہ آپ کے اختیار میں ہے جو مناسب سمجھیں فیصلہ فرمائیں۔ ملکہ نے کہا بیشک ہم طاقتور ہیں لیکن سلیمان کے معاملے میں ہمیں جلدی نہیں کرنا چاہیے۔ میرا خیال ہے کہ پہلے اپنے نمائندے بھیجوں جو اس کی خدمت میں تحائف پیش کریں۔ اس سے اس کی شان وشوکت اور مزاج کا اندازہ لگائیں کہ وہ ہم سے کیا چاہتے ہیں۔ اگر واقعی قوت وشوکت کے مالک ہیں تو پھر ان سے لڑنا فضول ہے۔ کیونکہ فاتح بادشاہوں کا وطیرہ ہوتا ہے کہ جب وہ کسی شہر میں فاتحانہ طور پر داخل ہوتے ہیں تو اس شہر کو برباد اور باعزت شہریوں کو ذلیل کردیتے ہیں۔ تیسرا واقعہ : حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے اہل دربار سے مخاطب ہو کر فرمایا، میں چاہتا ہوں کہ ملکۂ سبا کے ہمارے ہاں پہنچنے سے پہلے اس کا تخت اٹھا کر یہاں لے آیا جائے۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) ملکہ کو ایک معجزہ دکھانا چاہتے تھے تاکہ انہیں معلوم ہو کہ اللہ تعالیٰ اپنے مرسلین کو کس طرح غیر معمولی طاقت عطا فرماتا ہے تاکہ اسے یقین ہوجائے کہ سلیمان واقعی اللہ کارسول ہے۔ یہ سن کر ایک دیو پیکر جِن کہنے لگا یہ کام میں انجام دوں گا اور آپ کا دربار برخاست ہونے سے پہلے پہلے تخت لے آؤں گا میں طاقتور اور امانتدار ہوں۔ جن کا دعویٰ سن کر دربار کے ایک اہل علم نے کہا۔ میں آپ کے پلک جھپکنے سے پہلے تخت کو پیش کرتا ہوں۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے رخ پھیراتو تخت ان کے سامنے تھا۔ فرمانے لگے یہ میرے پروردگار کا فضل ہے وہ مجھ کو آزماتا ہے کہ میں اس کا شکر ادا کرتا ہوں یا نافرمانی کرتا ہوں۔ حقیقت یہ ہے کہ جو شخص اللہ کا شکر گزار ہوتا ہے اپنی ذات ہی کو فائدہ دیتا ہے اور جو نافرمانی کرتا ہے اس کا وبال اسی پر پڑتا ہے۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) اپنے رب کے شکر گزار بندے اور نبی تھے۔ اس موقعہ پر اس لیے شکریہ ادا کیا کہ میرے رب نے نہ نا صرف مجھے اقتدار، اختیارات اور امتیازات دیے بلکہ میرے ساتھیوں کو بھی صلاحیتوں سے نواز رکھا ہے۔ عظیم محل حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے چاہا کہ نبوت کا اعجاز دکھلانے کے بعد ملکۂ کودنیوی شوکت بھی دکھلا دی جائے تاکہ وہ اپنے آپ کو دنیا کے لحاظ سے بھی اپنے آپ کو کمتر سمجھے اس لیے شیش محل بنوا کر اس کے صحن میں ایک بڑا حوض بنوایا جس پر بلوری فرش بنا دیا گیا جو دیکھنے والے کو حوض ہی نظر آتا تھا جنوں کی مدد سے یہ عالی شان شیش محل آناً فاناً تیار ہوگیا جو صنعت کاری کے لحاظ سے اپنی نظیر آپ تھا۔ ملکۂ سبا سے کہا گیا کہ قصر شاہی میں قیام کریں۔ ملکہ محل کے سامنے پہنچی تو بہتا ہوا پانی پایا یہ دیکھ کر ملکہ نے اپنے پہنچے اٹھا لیے حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے فرمایا پہنچے نہ اٹھائیں کیونکہ یہ پانی نہیں بلکہ فرش ہے جو آبگینوں سے بنایا گیا ہے۔ سیدنا سلیمان (علیہ السلام) کی وفات : بیت المقدس کی تعمیر کا آغاز حضرت داؤد (علیہ السلام) نے کیا تھا وہ اپنے انتقال کی وجہ سے مکمل نہ کر پائے۔ ان کے صاحبزادے حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے اس کی تکمیل فرمائی۔ تعمیر کے مکمل ہونے کے باوجود تیاری کا کام کچھ باقی تھا کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی موت کا وقت قریب آ پہنچا۔ سلیمان (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے موت کی اطلاع دی گئی تو انہوں نے سوچا کہ اگر جنات کو معلوم ہوگیا تو کام چھوڑ دینگے اور تعمیر نامکمل رہ جائیگی۔ ان (علیہ السلام) نے یہ انتظام کیا کہ موت سے کچھ قبل شیشے کی بنی ہوئی محراب میں داخل ہوگئے۔ جنّات اس کے سامنے سے گزرتے تو سلیمان (علیہ السلام) کو رکوع، سجدے اور قیام میں مشغول پاتے اور اپنے اپنے کام میں مصروف رہتے۔ سلیمان (علیہ السلام) طویل قیام کرنے کی خاطر عصا کے سہارے کھڑے عبادت کر رہے تھے تو اسی حالت میں انہیں موت نے آلیا۔ ” جب ہم نے سلیمان کی موت کا فیصلہ کیا تو جنات کو ان کی موت کا پتہ دینے والی کوئی چیز سوائے اس زمین کے کیڑے دیمک کے سوا نہ تھی جو ان کے عصا کو کھا رہا تھا، جب سلیمان گر پڑے تو جنوں کو معلوم ہوا کہ اگر وہ غیب جاننے والے ہوتے تو اس ذلّت کے عذاب میں مبتلا نہ رہتے۔“ [ سبا : ١٤] کہا جاتا ہے کہ جنات پر یہ راز جب کھلا تو اس وقت تعمیر مکمل ہوچکی تھی۔ اس لیے جنوں کو احساس ہوا کہ اگر وہ غیب داں ہوتے تو اس سے بہت پہلے آزاد ہوجاتے۔ اس کے علاوہ ان گمراہ انسانوں کو بھی معلوم ہوگیا کہ جنّات اور شیاطین غیب کی خبریں نہیں جانتے ہیں۔ یہ جہالت ہر دور میں رہی ہے کہ جنّات غیب کی خبریں جانتے ہیں۔ لیکن سلیمان (علیہ السلام) کی موت نے ثابت کردیا کہ اللہ کے سوا کوئی غیب نہیں جانتا۔ تفسیر بالقرآن حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی فضیلت اور خصوصیات : ١۔ حضرت سلیمان کا قرآن مجید میں ١٧ مرتبہ تذکرہ ہوا۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمان کو غیر معمولی بادشاہت عطا فرمائی۔ ( الانبیاء : ٧٩) ٣۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو تابنے کے چشمے عطا فرمائے۔ ( سبا : ١٢) ٤۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو صنعت وحرفت میں کمال عطا فرمایا۔ ( سبا : ١٣) ٦۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمان کو فہم و فراست عطا کی۔ (الانبیاء : ٧٩) ٧۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمان کے لیے ہوا کو مسخر کردیا جو اس کے حکم سے چلتی تھی۔ (الانبیاء : ٨١) ٨۔ اللہ تعالیٰ نے داؤد اور سلیمان ( علیہ السلام) کو علم عطا کیا۔ (النمل : ١٥) ٩۔ اللہ تعالیٰ نے جنوں کو سلیمان (علیہ السلام) کے تابع کردیا۔ ( سبا : ١٢) ١٠۔ حضرت سلیمان کو اللہ تعالیٰ نے جانوروں کی زبان سمجھنے کا فہم عطا کیا۔ (النمل : ١٦) الأنبياء
82 الأنبياء
83 فہم القرآن ربط کلام : دو عظیم حکمران اور پیغمبروں کے بعد حضرت ایوب (علیہ السلام) کا بیان۔ تذکرہ سیدنا ایوب (علیہ السلام) حضرت ایوب (علیہ السلام) کا ذکر مبارک چار سورتوں میں سورۃ النساء : ١٦٣ الانعام : ٨٤ الانبیاء : ٨٣ تا ٨٤ آ : ٤١ تا ٤٤ سورۂ نساء اور سورۃ انعام میں صرف ان کا اسم مبارک آیا ہے سورۃ الانبیاء اور ص میں مختصر طور پر بیان ہوا کہ حضرت ایوب (علیہ السلام) پر سخت آزمائش آئی۔ بیماری اور مصائب ومشکلات نے انہیں ہر طرف سے گھیر لیا تھا مگر وہ صبر وشکر کے سوا کوئی بات زبان پر نہیں لائے۔ اللہ کے حضور نہ صرف عبدیت کا اظہار کرتے رہے بلکہ پہلے سے بھی زیادہ رجوع الی اللہ میں اضافہ ہوا۔ ان کے بارے میں فرمایا : ” وہ بہت ہی اچھا بندہ اور ہماری طرف ہی رجوع کرنے والا تھا۔“ (آ : ٤٤) مولانا آزاد کی تحقیق یہ ہے کہ حضرت ایوب (علیہ السلام) بنی یقطان کی نسل سے ہیں اور عربی نژاد ہیں۔ اس لیے یا تو ابراہیم (علیہ السلام) کے ہم زمانہ ہیں یا پھر حضرت اسحق اور حضرت یعقوب کے معاصر ہیں۔ محققین تورات کی اکثریت کا کہنا ہے کہ حضرت ایوب (علیہ السلام) عرب تھے۔ عرب میں پیدا ہوئے اور تاریخ میں سفر ایوب کے نام سے جس کتاب کا تذکرہ پایا جاتا ہے وہ اصلاً قدیم عربی میں تھی، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اسے عربی سے عبرانی میں منتقل کیا۔ سفر ایوب میں ہے کہ وہ شہر عوض ( مشرقی فلسطین) میں قیام پذیرتھے۔ ان کے مویشیوں پر سبا کے لوگوں نے حملہ کیا تھا۔“ امام بخاری نے کتاب الانبیاء میں انبیاء کی ترتیب قائم فرمائی ہے اس میں حضرت ایوب (علیہ السلام) کا ذکر حضرت یوسف (علیہ السلام) کے بعد اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے پہلے کیا گیا ہے۔ حضرت ایوب (علیہ السلام) کا صبر : وہ پاک باز انسان تھے اللہ تعالیٰ کے ہاں انبیاء کی جماعت میں شامل ہیں۔ دولت اور کثرت اہل وعیال کی وجہ سے بہت خوش بخت تھے مگر ایک آزمائش نے آلیا مال ومتاع، اہل وعیال، جسم وجان سب پر مصیبت آئی۔ مال ومتاع ختم ہوا اہل وعیال فوت ہوئے۔ اس کے ساتھ ہی سخت بیماری نے آ لیا، شکوہ وشکایت کرنے کی بجائے اپنے رب کے حضور صبر وشکر کرتے رہے۔ (وَأَیُّوْبَ إِذْ نَادَیْ رَبَّہُ أَنِّیْ مَسَّنِیَ الضُّرُّ وَأَنْتَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِیْنَ) [ الانبیاء : ٨٣] ” اور اس وقت کو یاد کیجئے جب ایوب نے اپنے پروردگار کو پکارا کہ میں بیمار ہوگیا ہوں اور تو ارحم الراحمین ہے۔“ دعا کا انداز اس قدر لطیف اور موّدب ہے کہ صرف اپنی تکلیف کا مختصر ذکر کرتے ہیں۔ اس کے بعد یہ کہہ کرچپ ہوجاتے ہیں نہ شکوہ کیا اور نہ کسی چیز کا مطالبہ کیا، ادب کا یہ عالم ہے کہ یہ نہیں کہا ” تو نے مصیبت میں ڈال دیا“ بلکہ بیماری کو شیطان کی جانب منسوب کرتے ہوئے عرض کرتے ہیں : ” شیطان نے مجھے تکلیف پہنچائی ہے۔“ امام احمد (رض) نے کتاب الزہد میں حضرت ابن عباس (رض) سے ایک روایت نقل کی ہے۔ ” حضرت ایوب (علیہ السلام) کی بیماری کے دور میں ایک بار شیطان طبیب کی شکل میں آپ کی بیوی کے پاس آیا۔ نیک بیوی نے علاج کرنے کے لیے کہا اس نے شرط رکھی کہ اگر تیرا خاوند صحت یاب ہوجائے تو میرا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہنا آپ نے میرے شوہر کو شفا دی ہے۔“ میرے علاج کا یہی معاوضہ ہے۔ بیوی نے وعدہ کرلیا بعدازاں اس کا ذکر ایوب (علیہ السلام) سے کیا ایوب (علیہ السلام) کو اس پر بہت غصہ آیا۔ فرمایا کہ وہ شیطان تھا جو غلط الفاظ تم سے کہلوانا چاہتا تھا اور تو نے کہنے کا وعدہ کرلیا۔ قسم کھائی کہ جب میں صحت یاب ہوجاؤں تو تجھے سو کوڑے ماروں گا۔ یاد رہے حضرت ایوب (علیہ السلام) کی بیوی نے وعدہ کیا تھا مگر یہ الفاظ نہیں کہے تھے۔ جب ایوب (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے شفا دی تو قسم پوری کرنے کا سوال پیش آیا ایک طرف غم خوار اور خدمت گزار بیوی تھی دوسری طرف قسم پوری کرنے کا مسئلہ! حضرت ایوب (علیہ السلام) پریشان تھے لیکن اللہ تعالیٰ نے نیک بیوی کو شوہر کے ساتھ وفاداری کا یہ صلہ دیا کہ حکم ہوا کہ آپ اپنی قسم نہ توڑیں بلکہ سو تنکوں کا ایک گٹھا بنائیں اور اس سے اپنی بیوی کو ایک ضرب لگا دیں۔ اس طرح قسم پوری ہوجائے گی۔ حضرت ایوب (علیہ السلام) نے ایسا ہی کیا۔“ (وَخُذْ بِیَدِکَ ضِغْثًا فَاضْرِبْ بِہِ وَلَا تَحْنَثْ إِنَّا وَجَدْنَاہُ صَابِرًا نِعْمَ الْعَبْدُ إِنَّہُ أَوَّابٌ) [ آ : ٤٤] ” اور ہم نے انہیں حکم دیا کہ اپنے ہاتھ میں تنکوں کا ایک مٹھا لو اور اس سے مار اور اپنی قسم پوری کرو بیشک ہم نے انہیں صبر کرنے والا پایا بہت ہی عاجز بندہ ہر حال میں وہ اپنے رب کی طرف رجوع کرنے والا تھا۔“ حضرت ایوب کو حکم خداوندی : اللہ تعالیٰ نے حضرت ایوب (علیہ السلام) کی آہ وزاریوں کو قبول فرماتے ہوئے صحت کاملہ عطا فرمائی اور حکم دیا کہ اپنے پاؤں کو زمین پر ماریں جس سے ایک چشمہ جاری ہوگا۔ ٹھنڈے پانی سے غسل کریں اور اسے پئیں حضرت ایوب (علیہ السلام) نے چشمہ سے غسل کیا اور اس سے پانی پیا۔ جس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے انہیں پہلے سے بھی بہتر صحت اور حسن وجمال عطا فرمایا۔ جس کا ذکر سورۃ صٓ کی آیت ٤٢ میں کیا گیا ہے۔ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ بَیْنَمَا أَیُّوبُ یَغْتَسِلُ عُرْیَانًا خَرَّ عَلَیْہِ رِجْلُ جَرَادٍ مِنْ ذَہَبٍ، فَجَعَلَ یَحْثِی فِی ثَوْبِہِ، فَنَادَی رَبُّہُ یَا أَیُّوبُ، أَلَمْ أَکُنْ أَغْنَیْتُکَ عَمَّا تَرَی قَالَ بَلَی یَا رَبِّ، وَلَکِنْ لاَ غِنَی لِی عَنْ بَرَکَتِکَ) [ رواہ البخاری : کتاب الانبیاء] ” حضرت ابوہریرہ (رض) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں آپ نے فرمایا حضرت ایوب غسل فرما رہے تھے تو اللہ تعالیٰ نے سونے کی ٹڈیاں آسمان سے برسائیں۔ حضرت ایوب (علیہ السلام) انہیں پکڑ پکڑ کر کپڑے میں ڈالنے لگے۔ اللہ تعالیٰ نے ایوب (علیہ السلام) سے استفسار فرمایا کہ ایوب! کیا ہم نے سب کچھ دے کر تجھے غنی نہیں کردیا؟ کہنے لگے کیوں نہیں لیکن میں تیری برکات سے لا پروا نہیں ہوسکتا۔“ تفسیر بالقرآن حضرت ایوب (علیہ السلام) کے فضائل : ١۔ حضرت ایوب کا تذکرہ قرآن مجید میں چار بار ہوا ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت ایوب کی طرف وحی نازل فرمائی۔ (النساء : ١٦٣) ٣۔ حضرت ایوب محسنین میں سے تھے۔ (الانعام : ٨٤) ٤۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت ایوب کو اپنی رحمت سے نوازا۔ (الانبیاء : ٨٤) ٥۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت سے حضرت ایوب کو اہل و عیال اور مال و دولت سے نوازا۔ (ص : ٤٣) ٦۔ حضرت ایوب (علیہ السلام) ہر حال میں اپنے رب کی طرف رجوع کرنے والے تھے۔ ( ص : ٤٤) الأنبياء
84 الأنبياء
85 فہم القرآن ربط کلام : انبیاء کا ذکر جاری ہے۔ حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کا تفصیلی ذکر سورۃ مریم میں ہوچکا ہے۔ حضرت ادریس (علیہ السلام) کا تعارف حضرت ادریس (علیہ السلام) کے نسب اور زمانہ کے بارے میں مؤرخین کی سوچ میں بڑا تضاد پایا جاتا ہے۔ اس عظیم پیغمبر کے بارے میں قرآن مجید اور احادیث کی دستاویزات میں نہایت ہی مختصر ذکر ہے۔ جس کسی نے ادریس (علیہ السلام) کے بارے میں لکھا ہے۔ اس کی تحریر کا مآخذ بنی اسرائیل کی روایات کے سوا کچھ نہیں۔ اسرائیلی روایات کے بارے میں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے امت کو اس اصول کا پابند کیا ہے کہ ان روایات کی تصدیق یا تردید نہ کرو۔ لہٰذا حرف آخر یہی ہے کہ ان کے بارے میں ثقہ معلومات موجود نہیں ہیں۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی معراج کے موقعہ پر ادریس (علیہ السلام) سے ملاقات : آپ فرماتے ہیں پھر جبریل مجھے چوتھے آسمان پر لے کر چڑھے دروازہ کھولنے کو کہا۔ سوال ہوا کہ کون ہے؟ کہا : میں جبریل ہوں۔ پوچھا : تمہارے ساتھ کون ہے کہا : محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں پوچھا گیا کیا انہیں بلوایا گیا ہے ؟ جبریل نے کہا : ہاں کہا گیا : خوش آمدید جو آیا ہے کتنا ہی اچھا ہے؟ دروازہ کھول دیا گیا۔ جب میں اندر داخل ہوا تو وہاں ادریس (علیہ السلام) تھے جبریل نے کہا : یہ ادریس (علیہ السلام) ہیں انہیں سلام کریں۔ میں نے انہیں سلام کیا۔ انہوں نے سلام کا جواب دیا اور کہا : صالح بھائی اور پیغمبر کو خوش آمدیدکہتا ہوں۔ [ رواہ البخاری : باب المعراج] حضرت ادریس (علیہ السلام) کا قرآن مجید میں تذکرہ : ١۔ حضرت ادریس (علیہ السلام) کا قرآن مجید میں دو بار تذکرہ ہوا ہے۔ ٢۔ حضرت ادریس (علیہ السلام) صدیق نبی تھے۔ (مریم : ٥٦) ٣۔ حضرت ادریس (علیہ السلام) صبر کرنے والے تھے۔ (الانبیاء : ٨٥) (تفصیل کے لیے سورۃ مریم آیت ٥٦ کی تفسیر ملاحظہ فرمائیں) سیدنا ذوالکفل (علیہ السلام) کا ذکر مبارک اس آیت کریمہ میں حضرت اسماعیل، حضرت ادریس (علیہ السلام) کے ساتھ جس پیغمبر یا شخصیت کا ذکر ہوا ہے ان کا نام نامی ذالکفل ہے قرآن و سنت میں ان کے نام کے تذکرہ کے سوا کچھ نہیں ملتا۔ البتہ اسرائیلی روایات کے حوالے سے مؤرخین نے چند معلومات فراہم کی ہیں۔ قرآن مجید نے ان کی عظمت و فضیلت کا تذکرہ یہاں حضرت اسماعیل (علیہ السلام) اور حضرت ادریس (علیہ السلام) کے ساتھ کیا ہے۔ سورۃ ص کی آیت ٤٨ میں ان کے بارے میں یوں بیان ہوا ہے۔ ” اے پیغمبر ! اسماعیل اور الیاس کے ساتھ ذالکفل کا تذکرہ فرمائیں۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں اپنی رحمت سے ہمکنار کیا کیونکہ وہ اللہ کے نیک بندوں میں تھے۔ (وَإِسْمَاعِیْلَ وَإِدْرِیْسَ وَذَا الْکِفْلِ کُلٌّ مِنَ الصَّابِرِیْنَ وَ اَدْخَلْنٰھُمْ فِیْ رَحْمَتِنَا اِنَّھُمْ مِّنَ الصّٰلِحِیْنَ) [ الانبیاء : ٨٥۔ ٨٦] ” اور اسمٰعیل وادریس اور ذوالکفل سب صبر کرنے والے تھے ہم نے انہیں اپنی رحمت کے سایہ میں لے لیا۔ یقیناً وہ نیک بندوں میں سے تھے۔“ (وَاذْکُرْ إِسْمَاعِیْلَ وَالْیَسَعَ وَذَا الْکِفْلِ وَکُلٌّ مِنَ الْأَخْیَارِ) [ آ : ٤٨] ” اور یاد کرو اسمعیل اور الیسع اور ذوالکفل یہ سب نیکو کاروں میں سے تھے۔“ ذوالکفل کا لفظی ترجمہ ” صاحب نصیب“ ہے اخلاق اور بزرگی میں بڑا حصہ پانے والا۔ قرآن حکیم نے ان کو اسی لقب سے یاد کیا ہے اور یہ لقب ان کے نام کے طور پر استعمال کیا گیا ہے۔ بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ یہ حضرت ایوب (علیہ السلام) کے بیٹے ہیں جو ان کے بعد نبوت سے سرفراز ہوئے اور ان کا اصل نام بشر تھا۔ علامہ آلوسی (رض) نے تفسیر روح المعانی میں لکھا ہے کہ اہل کتاب ان کا نام ” حِزقی ایل“ بتاتے ہیں جو بنی اسرائیل کی اسیری کے زمانے میں نبوت سے سرفراز ہوئے۔ بُخت نصر نے عراق میں اسرائیلی قیدیوں کی ایک نو آبادی قائم کی تھی جس کا نام تل اَبِیب تھا۔ حضرت ذوالکفل اسی مقام پر ہدایت ورسالت کے منصب پر سرفراز کیے گئے اور طرح طرح کی تکالیف اٹھائیں مگر اس کے باوجود یروشلم کے حکمرانوں کو توحید کی دعوت دیتے رہے۔ جس کی وجہ سے ان کے مصائب میں مزید اضافہ ہوتا رہا۔ ممکن ہے ان کے اسی صبر وضبط کی وجہ سے انہیں ذوالکفل کا لقب دیا گیا ہو۔ مسائل ١۔ حضرت ذوالکفل بھی اللہ کے صابر، شاکر بندوں میں سے تھے۔ ٢۔ اللہ نے انھیں اپنی رحمت سے سرفراز فرمایا تھا۔ ٣۔ اللہ نے انھیں اپنے صالح بندوں میں شمار فرمایا ہے الأنبياء
86 الأنبياء
87 فہم القرآن ربط کلام : حضرت اسماعیل، حضرت ادریس اور ذوالکفل ( علیہ السلام) کے بعد حضرت یونس (علیہ السلام) کا بیان۔ سیدنا یونس (علیہ السلام) (صاحب الحوت) قرآن حکیم کی چھ سورتوں میں حضرت یونس (علیہ السلام) کا ذکر موجود ہے چار سورتوں میں صرف نام آیا ہے اور دو سورتوں میں ذالنُّون اور صاحب الحوت کے الفاظ سے ذکر ہوا ہے۔ النساء : ١٦٣ الانعام : ٨٦ یونس : ٩٨ الانبیاء : ٨٧۔ ٨٨ الصافات : ١٣٩ تا ١٤٨ القلم : ٤٨ تا ٥٠ تعارف : بخاری شریف میں حضرت یونس (علیہ السلام) کے والد کا نامی متّٰی آیا ہے۔ حضرت یونس (علیہ السلام) اسرائیلی نبی تھے مگر انہیں آشور (اسیریا) والوں کی ہدایت کے لیے عراق بھیجا گیا تھا۔ اسی بنا پر آشوریوں کو قوم یونس کہا جاتا ہے اس قوم کا مرکز اس زمانے میں نینوی کا مشہور شہر تھا جس کے وسیع کھنڈرات آج بھی دریائے دجلہ کے مشرقی کنارے موجودہ شہر موصل کے عین مقابل پائے جاتے ہیں اور اسی علاقے میں ” یونس نبی“ کے نام سے آج بھی ایک بستی مشہور ہے۔ حضرت یونس (علیہ السلام) کو نینویٰ میں مبعوث کیا گیا۔ قرآن حکیم نے اس شہر کی آباد ی ایک لاکھ سے زائد بتائی ہے۔ (الصٰفٰت : ١٤٧) ترمذی کی ایک روایت میں یہ تعداد ایک لاکھ بیس ہزار بیان کی گئی ہے۔ اس قوم میں شرک وکفر کی کثرت تھی حضرت یونس (علیہ السلام) کو ان کی ہدایت کے لیے مامور کیا گیا وہ طویل عرصہ تک قوم کو توحید کی دعوت دیتے رہے لیکن قوم ان کی دعوت پر توجہ دینے کی بجائے کفر و شرک پر قائم رہی اور پہلے لوگوں کی طرح یونس (علیہ السلام) کا مذاق اڑاتے رہے۔ روایت ہے کہ حضرت یونس (علیہ السلام) کو حکم ہوا کہ اپنی قوم کو آگاہ کردیں کہ تین دن میں عذاب آنے والا ہے۔ حضرت یونس (علیہ السلام) نے قوم میں اعلان کردیا، اس اعلان پر قوم کے بعض سرداروں کو احساس ہوا کہ یونس (علیہ السلام) نے کبھی جھوٹ نہیں بولا۔ دیکھا جائے یونس (علیہ السلام) رات اپنے گھر گزارتے ہیں یا ہجرت کر جاتے ہیں۔ اگر وہ مقیم رہے تو سمجھ لو کہ کچھ نہیں ہوگا اگر ہجرت کر گئے تو ہم پر عذاب نازل ہوگا۔ حضرت یونس (علیہ السلام) شہر چھوڑ کر دور نکل گئے۔ صبح ہوئی تو قوم پر سیاہ بادل منڈلانے لگے۔ صورت حال دیکھ کر قوم کو یقین ہوگیا کہ اب ہم ہلاک ہونے والے ہیں۔ یہ لوگ یونس (علیہ السلام) کی تلاش میں نکل گئے اور طے کرلیا کہ ان پر ایمان لے آئیں گے لیکن حضرت یونس (علیہ السلام) کو نہ پایا۔ اب اخلاص کے ساتھ توبہ واستغفار کرتے ہوئے بستی سے باہر ایک میدان میں نکل گئے عورتیں، بچے، جوان، بوڑھے سب میدان میں جمع ہوگئے اور نہایت آہْ وزاری کے ساتھ توبہ کی اللہ تعالیٰ نے ان کی اجتماعی توبہ قبول فرمائی۔ (فَلَوْ لَا کَانَتْ قَرْیَۃٌ اٰمَنَتْ فَنَفَعَھَآ اِیْمَانُھَآ اِلَّا قَوْمَ یُوْنُسَ لَمَّآ اٰمَنُوْا کَشَفْنَا عَنْھُمْ عَذَابَ الْخِزْیِ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَ مَتَّعْنٰھُمْ اِلٰی حِیْن) [ یونس : ٩٨] ” پھر کوئی ایسی بستی کیوں نہ ہوئی جو ایمان لائی ہو تو اس کے ایمان لانے نے اسے نفع دیاہو، یونس کی قوم کے سوا جب وہ ایمان لے آئے تو ہم نے ان سے دنیا کی زندگی میں ذلّت کا عذاب دور کردیا اور انہیں ایک وقت تک فائدہ پہنچایا۔“ اِدھر حضرت یونس (علیہ السلام) انتظار میں تھے کہ اب قوم پر عذاب نازل ہوگا۔ جب عذاب ٹل گیا تو فکر ہوئی کہ قوم مجھے جھوٹا قرار دے گی۔ حضرت یونس (علیہ السلام) اس پریشانی میں ہجرت کے لیے نکل پڑے۔ دریائے فرات کے کنارے پہنچے تو ایک کشتی لوگوں سے بھری ہوئی تیار کھڑی تھی۔ لوگوں نے یونس (علیہ السلام) کو دیکھا تو سوار کرلیا کشتی روانہ ہوئی جب دریا کے درمیان پہنچی توبھنور میں پھنس گئی۔ کشتی والوں نے اعلان کیا کہ کشتی میں کوئی بھاگا ہوا غلام ہے۔ اسے اپنے آپ کو پیش کردینا چاہیے تاکہ اس کی وجہ سے سب لوگ غرق نہ ہوں۔ حضرت یونس (علیہ السلام) نے دل میں سوچا اگر یہ دستور ہے تو بھاگا ہوا غلام میں ہی ہوں۔ کیونکہ میں نے اللہ تعالیٰ سے ہجرت کی اجازت کے بغیر اپنی قوم کو چھوڑ دیا ہے۔ حضرت ابن مسعود (رض) فرمایا کرتے تھے کہ حضرت یونس (علیہ السلام) اس مچھلی کے پیٹ میں چالیس دن تک رہے۔ مچھلی ان کو پانی کی تہہ تک لے گئی اور پانی میں دور دراز پھیراتی رہی۔ بعض مفسرین نے سات اور بعض نے تین دن مدت لکھی ہے (تفسیر مظہری) حضرت یونس (علیہ السلام) نے مچھلی کے پیٹ میں اپنے آپ کو زندہ محسوس کیا، سجدہ میں پڑ کر ندامت کا اظہار کیا اور اللہ تعالیٰ کے حضور عفو ودرگزر کی درخواست پیش کی۔ (لَا إِلٰہَ إِلَّا أَنْتَ سُبْحَانَکَ إِنِّی کُنْتُ مِنَ الظَّالِمِیْنَ) [ الانبیاء : ٨٧] ” الٰہی تیرے سوا کوئی معبود نہیں تواکیلا ہے میں تیری پاکی بیان کرتا ہوں، بلاشبہ میں اپنے آپ پر ظلم کرنے والا ہوں۔“ اللہ تعالیٰ نے حضرت یونس (علیہ السلام) کی درد بھری پکار قبول فرمائی۔” اللہ“ کے حکم سے مچھلی نے یونس (علیہ السلام) کو دریا کے کنارے پھینک دیا۔ (فَلَوْلاَ اَنَّہٗ کَانَ مِنَ الْمُسَبِّحِیْنَ۔ لَلَبِثَ فِیْ بَطْنِہِ اِِلٰی یَوْمِ یُبْعَثُوْنَ۔ فَنَبَذْنَاہ بالْعَرَاءِ وَہُوَ سَقِیْمٌ وَاَنْبَتْنَا عَلَیْہِ شَجَرَۃً مِّنْ یَقْطِینٍ۔ وَاَرْسَلْنَاہُ اِِلٰی مِأَۃِ اَلْفٍ اَوْ یَزِیْدُوْنَ) [ الصّٰفٰت : ١٤٣ تا ١٤٧] ” اگر یونس اللہ کی تسبیح بیان نہ کرتے تو قیامت تک مچھلی کے پیٹ میں ہی رہتے۔ ہم نے اسے باہر کنارے پر پھینک دیا اس حالت میں کہ وہ بیمار تھے اس پر کدو کی بیل کو اگا دیا اور انہیں ایک لاکھ سے زائد افراد کی طرف بھیجا۔“ یونس (علیہ السلام) نہایت کمزوری کے عالم میں خشکی پر ڈال دئیے گئے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے ان پر ایک بیلدار درخت اگا دیا۔ جس کے پتوں کا سایہ حضرت یونس (علیہ السلام) پر سائبان بن گیا۔ بعد ازاں اللہ تعالیٰ کے حکم سے شہر واپس آئے قوم نے دیکھا تو بے حد خوشی کا اظہار کیا اور ان کی رہنمائی میں دنیا وآخرت کی کامرانی حاصل کی آخر کار پوری قوم حضرت یونس (علیہ السلام) پر ایمان لے آئی۔ حضرت یونس (علیہ السلام) کی وفات حضرت یونس (علیہ السلام) کے مقام وفات کے بارے میں مفسرین کے دو قول ہیں : 1 نینویٰ میں مبعوث کئے گئے وہاں فوت ہوئے تھے۔ 2 فلسطین کے شہر الخلیل میں وفات پائی جو اکثر انبیاء کرام کا مدفن ہے۔ اہل تحقیق نے پہلے قول کو ترجیح دی ہے۔ (ماخوذ از قصص القرآن) (عَنْ سَعْدٍ قَالَ قَالَ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دَعْوَۃُ ذِی النُّونِ إِذْ دَعَا وَہُوَ فِی بَطْنِ الْحُوتِ لاَ إِلَہَ إِلاَّ أَنْتَ سُبْحَانَکَ إِنِّی کُنْتُ مِنَ الظَّالِمِینَ فَإِنَّہُ لَمْ یَدْعُ بِہَا رَجُلٌ مُسْلِمٌ فِی شَیْءٍ قَطُّ إِلاَّ اسْتَجَاب اللَّہُ لَہُ) [ رواہ الترمذی : باب دعوۃ ذالنون فی۔۔] ” حضرت سعد (رض) روایت کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا حضرت یونس (علیہ السلام) کی مچھلی کے پیٹ میں کی ہوئی دعا (لاَ إِلَہَ إِلاَّ أَنْتَ سُبْحَانَکَ إِنِّی کُنْتُ مِنَ الظَّالِمِینَ) تیرے سوا کوئی الٰہ نہیں تو پاک ہے بلاشبہ میں ظالموں میں سے ہوں۔ کوئی مسلمان پڑھ کر اپنی حاجت پیش کرے تو اس کی دعا ضرور قبول ہوگی۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت یونس (علیہ السلام) کی دعا قبول کی اور انھیں اس عظیم پریشانی سے نجات دی۔ ٢۔ جو شخص بھی اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگے اللہ تعالیٰ اسے معاف فرما دیتا ہے۔ تفسیر بالقرآن حضرت یونس (علیہ السلام) کا قرآن مجید میں تذکرہ اور ان کے اوصاف حمیدہ : ١۔ حضرت یونس (علیہ السلام) کا قرآن مجید میں پانچ بار تذکرہ ہوا۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے یونس (علیہ السلام) کی طرف وحی نازل فرمائی۔ (النساء : ١٦٢) ٣۔ اللہ تعالیٰ نے اسماعیل، یسع، یونس اور لوط کو جہان والوں پر فضیلت عطا فرمائی۔ (الانعام : ٨٦) ٤۔ یونس (علیہ السلام) رسولوں میں سے تھے۔ (الصٰفٰت : ١٣٩) ٥۔ یونس (علیہ السلام) کی اللہ نے دعا قبول فرما کر مچھلی کے پیٹ سے نجات دی۔ (الانبیاء : ٨٨) الأنبياء
88 الأنبياء
89 فہم القرآن ربط کلام : حضرت یونس (علیہ السلام) مچھلی کے پیٹ میں اکیلے تھے اور حضرت زکریا (علیہ السلام) بیٹا نہ ہونے کی وجہ سے اپنے آپ کو اکیلا خیال کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ دونوں کی دعا کو قبول فرمایا اس لیے یونس (علیہ السلام) کے بعد حضرت زکریا (علیہ السلام) اور ان کے لخت جگر حضرت یحییٰ (علیہ السلام) کا تذکرہ کیا ہے۔ حضرت مریم [ جب بڑی ہوئیں تو انہیں حضرت زکریا (علیہ السلام) کی کفالت میں دیا گیا۔ اس زمانے کے مذہبی رواج کے مطابق اللہ تعالیٰ کی راہ میں وقف لوگ تارک الدّنیا ہو کر مسجد اقصیٰ میں تعلیم وتربیت اور ذکر واذکار میں مصروف رہتے تھے۔ ان میں وہ عورتیں بھی شامل ہوتی تھیں۔ جنہوں نے اپنے آپ کو دنیا کے معاملات سے الگ کرلیا ہوتا تھا۔ حضرت مریم [ انہی ذاکرات میں شامل ہو کر اپنے حجرے میں محو عبادت رہا کرتی تھیں۔ ان کے کھانے پینے کا انتظام ان کے خالو حضرت زکریا (علیہ السلام) کے سپر دتھا۔ ایک دن زکریا (علیہ السلام) ان کے ہاں حجرے میں تشریف لائے تو ان کے پاس غیر موسمی عمدہ پھل دیکھ کر ششدر رہ گئے۔ حیران ہو کر پوچھتے ہیں کہ بیٹی مریم یہ پھل کہاں سے آئے ہیں ؟ مریم [ نے جواب دیا کہ یہ اللہ تعالیٰ کی عطا کا نتیجہ ہے۔ اللہ تعالیٰ جسے چاہے بلا حساب رزق سے نوازتا ہے۔ یہ سنتے اور اللہ کی قدرت دیکھتے ہی حضرت زکریا (علیہ السلام) کے رونگٹے کھڑے ہوئے اور وجود تھّر تھرّانے لگا اور بے ساختہ ہاتھ ” اللہ“ کے حضور اٹھے اور فریاد کرنے لگے کہ اے میرے رب! مجھے بھی اپنی جناب سے نیکو کار اولاد نصیب فرما یقیناً تو دعا سننے والا ہے زکریا (علیہ السلام) ابھی اسی حجرے میں نماز کی حالت میں کھڑے تھے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملائکہ کا نزول ہوا اور انہوں نے آپ کو یہ نوید سنائی کہ اے زکریا! خوش ہوجائیے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو بیٹا عطا فرمائیں گے جس کا نام یحییٰ ہوگا وہ اللہ تعالیٰ کے کلمے کی تصدیق کرے گا اور سردار ہوگا۔ نہایت ہی پاک باز، اپنے آپ کی حفاظت کرنے والا اور انبیاء میں سے ہوگا۔ بیٹے کی خوشخبری سناتے ہوئے ملائکہ نے یہ بھی کہا اس کا نام یحییٰ ہوگا اور اس سے پہلے اس نام کا کوئی شخص نہیں ہوا۔ تو زکریا (علیہ السلام) حیرت زدہ ہو کر اللہ کے حضور عرض کرتے ہیں کہ بارِ الٰہ! مجھے کس طرح بیٹا نصیب ہوگا جب کہ میں بوڑھا اور میری بیوی جسمانی طور پر بچہ جننے کے لائق نہیں؟ ملائکہ نے خوشخبری سنائی تو تعجب کا اظہار فرمانے لگے مگر تعجب کا اظہارملائکہ سے کرنے کے بجائے براہ راست اللہ تعالیٰ سے کرتے ہیں۔ کیونکہ اولاد دینے والا تو وہی ہے اور یہ خوشخبری بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے تھی۔ فرشتہ تو محض پیغام رساں ہے۔ زکریا (علیہ السلام) کے تعجب کے جواب میں ارشاد ہوا کہ میرے بندے ! اللہ اپنے کام کو خود ہی جانتا ہے اور وہ اسی طرح ہی کرتا ہے جس طرح اس کی منشا ہوا کرتی ہے۔ پھر عرض کرنے لگے : اے رب! میرے لیے بیٹے کی کوئی واضح نشانی ہونی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تم تین دن تک لوگوں سے اشارے کے علاوہ کلام نہیں کرسکو گے۔ ان ایام میں خاص طور پر صبح وشام اللہ تعالیٰ کی حمد اور اس کا شکریہ ادا کرتے رہو۔ سیدنا یحییٰ (علیہ السلام) کا ذکر گرامی حضرت یحییٰ (علیہ السلام) حضرت زکریا (علیہ السلام) کے صاحبزادے اور ان کی پیغمبرانہ دعاؤں کا ثمرہ ہیں۔ جس عمر میں اولاد کا سلسلہ منقطع ہوجاتا ہے اس عمر میں حضرت زکریا کو حضرت یحییٰ (علیہ السلام) عطا کئے گئے اور نام بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے تجویز ہوا۔ جو اس سے پہلے کسی شخص کا نام نہ تھا۔ خصوصی صفات : ١۔” حَکَم یعنی قوت فیصلہ، معاملات میں ٹھیک، ٹھیک فیصلہ سنانے والا۔ ٢۔ حَنَّانَ دل کی نرمی اور شفقت یعنی انتہائی درجے کی شفقت جو ماں کو اپنے بچے کے ساتھ ہوتی ہے جس کی بنا پر وہ بچے کی تکلیف پر تڑپ اٹھتی ہے اس سے کہیں زیادہ حضرت یحییٰ (علیہ السلام) کے دل میں بندگان خدا کے لیے شفقت پیدا کی گئی تھی۔ ٣۔ ” حُصُوْرً“ لذات وشہوات پر قابو پانے والا انتہا درجہ محتاط ومتقی۔ حضرت یحییٰ (علیہ السلام) کی حالات زندگی : تاریخی روایات کے مطابق حضرت یحییٰ (علیہ السلام) حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) سے چھ ماہ بڑے تھے، ان کی اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی والدہ آپس میں حقیقی بہنیں تھیں۔ تقریباً تیس سال کی عمر میں منصب نبوت پر فائز کئے گئے۔ شرق اردن کے علاقے میں دعوت الی اللہ کا کام شروع کیا۔ فرمایا کرتے تھے کہ لوگو ! توبہ کرو اور نماز، روزے کی پابندی اختیار کرو۔ حضرت یحییٰ (علیہ السلام) اپنے والد حضرت زکریا (علیہ السلام) کی طرح اولوالعزم نبی تھے تورات کی شریعت کے پابند تھے۔ اللہ تعالیٰ نے یحییٰ (علیہ السلام) کو تین اوقات میں سلامتی سے نوازا۔ وقت ولادت وقت موت وقت حشرونشر یہ حقیقت ہے کہ انسان کے لیے یہ تین اوقات سب سے زیادہ نازک اور اہم ہوتے ہیں (١) انسان ولادت کے وقت بطن مادر سے جدا ہو کر عالم دنیا میں آتا ہے۔ (٢) موت کے وقت دنیا سے رخصت ہو کر عالم برزخ میں پہنچتا ہے۔ (٣) عالم برزخ سے نکل کر میدان محشر میں اعمال کی جزاء وسزا کے لیے پیش ہوتا ہے۔ جس شخص کو رب کریم کی طرف سے ان تینوں اوقات کے لیے سلامتی کی بشارت مل جائے گویا کہ اسے سب کچھ مل گیا۔ مسائل ١۔ حضرت زکریا (علیہ السلام) نے اپنے رب کے حضور بیٹے کی دعا کی۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے زکریا (علیہ السلام) کی بیوی کو صحت عطا فرما کر یحییٰ (علیہ السلام) عنایت فرمائے۔ ٣۔ حضرت زکریا (علیہ السلام)، ان کی بیوی اور ان کے بیٹے یحییٰ (علیہ السلام) نیکی کے کاموں میں سبقت کرنے والے تھے۔ ٤۔ حضرت زکریا (علیہ السلام) اور ان کے اہل خانہ اپوری رغبت اور خوف کے ساتھ اپنے رب کی عبادت کرتے تھے۔ تفسیر بالقرآن نیکی میں سبقت کرنے کا حکم : ١۔ نیکی کے حصول میں جلدی کرو۔ (البقرۃ: ١٤٨) ٢۔ نیکیوں میں سبقت کرنے والے سب سے اعلیٰ ہوں گے۔ (فاطر : ٣٢) ٣۔ سبقت کرنے والے اللہ کے مقرب ہوں گے۔ (الواقعہ : ١٠، ١١) حضرت یحییٰ (علیہ السلام) کا ذکر خیر ہے : آل عمران : ٣٩، الانعام : ٨٥، مریم : ٧۔ ١٢، الانبیاء : ٩٠۔ حضرت زکریا (علیہ السلام) کا تذکرہ : آل عمران : ٣٧۔ ٣٨، الانعام : ٨٥، مریم : ٢۔ ٧، الانبیاء : ٨٩ الأنبياء
90 الأنبياء
91 فہم القرآن ربط کلام : حضرت زکریا (علیہ السلام) حضرت مریم [ کے خالو ہیں۔ اس لیے ان کا ذکر حضرت زکریا (علیہ السلام) کے بعد کیا گیا ہے۔ یہودی حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کے بارے میں زبان درازی کرتے ہیں۔ قرآن مجید نے ناصرف حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) پر لگائے جانے والے الزامات کی تردید کی بلکہ اس کے ساتھ ہی حضرت مریم (علیہ السلام) کی پاک دامنی، شرم و حیا اور ان کے عبادت گزار ہونے کی شہادت دی۔ قرآن مجید نے اس قدر ٹھوس دلائل اور مؤثر انداز میں حضرت مریم [ اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی سیرت طیبہ کو بیان کیا ہے کہ اس کے بعد یہودیوں کا پراپیگنڈہ بے اثر ہو کر رہ گیا۔ یہ قرآن مجید کا عیسائیوں پر عظیم احسان ہے جس کا انھیں اعتراف کرنا چاہیے۔ لیکن افسوس کہ عیسائی نا صرف اس احسان کو فراموش کرچکے ہیں۔ بلکہ وہ یہودیوں کی دیکھا دیکھی اور مسلمانوں سے تعصب کی بناء پر وہ سرور دو عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں ایسی زبان بولتے اور اس قسم کی تحریریں لکھتے ہیں جو سراسر جھوٹ کا پلندہ اور انتہا درجے کی زیادتی ہے۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے مریم [ کی پاکدامنی کی گواہی دی ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے مریم [ اور عیسیٰ (علیہ السلام) کو اپنی قدرت کی نشانی قرار دیا ہے۔ تفسیر بالقرآن حضرت مریم [ اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا تذکرہ اور ان کی حیات مبارکہ کی ایک جھلک : حضرت مریم [ کا قرآن مجید میں ١٣ مرتبہ تذکرہ ہوا۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا قرآن مجید میں ٢٥ مرتبہ ذکر ہوا ہے۔ ١۔ ” اللہ“ نے عیسیٰ ابن مریم کو معجزات سے نوازا اور روح القدس کے ساتھ اس کی مدد فرمائی۔ (البقرۃ: ٨٧) ٢۔ اے مریم ہم تجھے بچے کی خوشخبری دیتے ہیں جس کا نام مسیح ابن مریم ہوگا۔ (آل عمران : ٤٥) ٣۔ حضرت عیسیٰ کی تخلیق حضرت آدم (علیہ السلام) جیسی ہے۔ (آل عمران : ٥٩) ٤۔ مسیح ابن مریم اللہ کے رسول تھے۔ (النساء : ١٧١) ٥۔ زکریا، یحییٰ، عیسیٰ اور الیاس تمام کے تمام نیکو کار نبی تھے۔ (الانعام : ٨) الأنبياء
92 فہم القرآن ربط کلام : سولہ انبیاء کرام کا ایک ہی عقیدہ اور ایک جیسا کردار ہونے کی بنا پر انہیں ایک ہی امت کے افراد قرار دیا گیا ہے۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کی عظیم اور طویل ترین جدوجہد، حضرت داؤد (علیہ السلام) اور حضرت سلیمان (علیہ السلام) کا اقتدار و اختیار، حضرت ایوب (علیہ السلام) کا صبر اور عبادت گزاری، حضرت اسماعیل (علیہ السلام)، حضرت ادریس اور حضرت ذالکفل (علیہ السلام) کا حوصلہ اور ان کی سیرت طیبہ، حضرت یونس (علیہ السلام) کی آزمائش اور اپنے رب کے حضور آہ و زاریاں، حضرت زکریا (علیہ السلام) کی اپنے رب سے اپنے وارث کے لیے دعائیں، حضرت مریم [ کی پاکدامنی اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی تخلیق کا ذکر کرنے کے بعد تمام انسانوں کو یہ سبق یاد کروایا ہے کہ اے لوگو! یہ انبیاء اور صالحین کی جماعت تھی جو ایک ہی رب کے سامنے سرافگندہہونے والے تھے۔ ان سب کا ایک ہی رب اور ایک ہی دین تھا۔ تمہارے لیے بھی ایک ہی دین ہے میں ہی تمھارا رب ہوں لہٰذا میری ہی عبادت کرو۔ قرآن مجید کے ارشاد سے واضح ہو رہا ہے کہ تمام انبیاء عقیدہ توحید پر متحدتھے اور وہ ایک رب کی عبادت کی دعوت دینے والے تھے۔ ان کے بعد ان کی امتیں شرک میں مبتلا ہوئیں، لوگ فرقوں اور گروہوں میں تقسیم ہوتے چلے گئے حالانکہ سب نے اپنے رب کے پاس جانا ہے اور وہ ان کے اختلافات کا ٹھیک ٹھیک فیصلہ فرمائے گا۔ فہم القرآن کے کئی مقامات پر عرض کیا ہے کہ ہر آیت بالخصوص ہر خطاب کے آخری الفاظ اس آیت اور خطاب کا خلاصہ ہوتے ہیں اسی اصول کے تحت یہاں اشارہ فرمایا ہے کہ دین کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے والوں بالآخر تم نے ہمارے ہی پاس آنا ہے۔ اس فرمان سے ثابت ہوا کہ عقیدہ توحید وحدت اور اتحاد کی ضمانت ہے۔ شرک انتشار اور خلفشار کا باعث ہے۔ عبادت کا جامع تصّور : (قُلْ إِنَّ صَلَاتِی وَنُسُکِی وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِی لِلَّہِ رَبِّ الْعَالَمِینَ۔ لَا شَرِیکَ لَہُ وَبِذَلِکَ أُمِرْتُ وَأَنَا أَوَّلُ الْمُسْلِمِینَ) [ الانعام : ١٦٢-١٦٣] فرما دیجیے کہ بے شک میری نماز اور میری قربانی اور میری زندگی اور میری موت اللہ کے لیے ہے جوجہانوں کا رب ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں اور مجھے اسی کا حکم دیا گیا ہے اور میں حکم ماننے والوں میں سب سے پہلا ہوں۔“ دین ایک ہے اور فطرت کے مطابق ہے : حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہر بچہ فطرت اسلام پر پیدا ہوتا ہے۔ اس کے والدین اس کو یہودی‘ عیسائی یا مجوسی بنا دیتے ہیں جس طرح چارپائے اپنے بچے کو تام الخلقت جنم دیتے ہیں کیا تم ان میں سے کسی بچے کو کان کٹا پاتے ہو؟ پھر آپ نے آیت تلاوت کی۔” اللہ کی فطرت ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو پیدا کیا ہے اللہ کی تخلیق میں تبدیلی نہیں ہے یہ بالکل سیدھا اور درست دین ہے۔“ [ رواہ البخاری : باب إِذَا أَسْلَمَ الصَّبِیُّ فَمَاتَ ہَلْ یُصَلَّی عَلَیْہِ وَہَلْ یُعْرَضُ عَلَی الصَّبِیِّ الإِسْلاَمُ] تمام انبیاء خاندان نبوت کے افراد اور گلدستۂ رسالت کے پھول ہیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرمایا کرتے تھے کہ انبیاء رشتہ نبوت کے اعتبار سے ایک دوسرے کے بھائی ہوتے ہیں لیکن ان کی مائیں مختلف ہیں۔ [ رواہ البخاری : کتاب أحادیث الانبیاء ] مسائل ١۔ شرک سے پہلے لوگ توحید کے عقیدہ پر ہونے کی وجہ سے متحد تھے۔ ٢۔ شرک کی وجہ سے لوگ گروہ در گروہ بنتے چلے گئے۔ ٣۔ تمام لوگوں کا ایک ہی رب ہے سب کو اسی کی عبادت کرنا چاہیے۔ ٤۔ تمام لوگوں نے اپنے رب کے حضور پیش ہونا ہے۔ تفسیر بالقرآن عقیدہ توحید اتحاد کی علامت، شرک انتشار کا سبب ہے : ١۔ تمام لوگ ایک ہی امت تھے انہوں نے جاننے کے باوجود آپس میں اختلاف کیا اگر اللہ کا کلمہ سبقت نہ لے چکا ہوتا تو ان کے درمیان اب تک فیصلہ ہوچکا ہوتا۔ (یونس : ١٩) ٢۔ وہ لوگ جو ایمان لائے اور ایمان کے بعد شرک میں مبتلا نہیں ہوئے ان کے لیے امن ہے اور وہی ہدایت یافتہ ہیں۔ ( الانعام : ٨٣) ٣۔ بلاشبہ یہ امت ایک ہی ہے اور میں تمہارا رب ہوں مجھ ہی سے ڈرو۔ (المؤمنون : ٢٣) ٤۔ اللہ کی رسّی کو مضبوطی سے تھام لو اور فرقوں میں تقسیم نہہو جاؤ۔ (آل عمران : ١٠٣) ٥۔ جس نے طاغوت کے ساتھ کفر کیا اور اللہ پے ایمان لایا اس نے ایسے مضبوط کڑے کو تھام لیا جو ٹوٹ نہیں سکتا۔ (البقرۃ: ٢٥٦) ٦۔ اے اہل کتاب آؤ کلمہ توحید پر متحد ہوجائیں۔ ( آل عمران : ٦٣) الأنبياء
93 الأنبياء
94 فہم القرآن ربط کلام : اختلافات سے بچ کر نیک اعمال کرنے والوں کی جزا انبیاء (علیہ السلام) اور حضرت مریم [ کا ذکر کرنے کے بعد ہر انسان کے لیے یہ اصول واضح کردیا گیا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ انبیائے کرام (علیہ السلام) اپنے رب کے برگزیدہ بندے تھے اور اللہ تعالیٰ نے انھیں بڑے بڑے مراتب سے سرفراز فرمایا تھا۔ لیکن جو شخص بھی عقیدہ توحید پر رہتے ہوئے نیک اعمال کرے گا اس کے کسی نیک عمل کی ناقدری نہیں کی جائے گی اور اللہ تعالیٰ کے حکم سے نیک آدمی کی ہر نیکی لکھی جا رہی ہے۔ لکھنے کی نسبت اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کی طرف فرما کر یہ ثابت کیا ہے کہ اس کے ہاں مومن کی نیکی کی کتنی قدر ہے۔ سورۃ النساء آیت ١٤٧ میں یہ فرمایا کہ لوگو! تمھیں عذاب دینے سے اللہ تعالیٰ کو کوئی فائدہ نہیں پہنچتا اگر تم اس پر صحیح صحیح ایمان لاؤ اور اس کے شکر گزار بندے بن کر رہو تو اللہ تمھارے ہر نیک عمل کی قدر کرنے والا اور اسے پوری طرح جاننے والا ہے۔ سورۃ الزلزال میں ارشاد فرمایا۔ جس نے رائی کے برابر نیکی یا برائی کی قیامت کے دن وہ اسے اپنے سامنے پائے گا۔ (عَنْ اَبِیْ ھُرَےْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَنْ تَصَدَّقَ بِعَدْلِ تَمْرَۃٍ مِنْ کَسْبٍ طَےِّبٍ وَّلَا ےَقْبَلُ اللّٰہُ اِلَّا الطَّےِّبَ فَاِنَّ اللّٰہَ ےَتَقَبَّلُھَا بِےَمِےْنِہٖ ثُمَّ ےُرَبِّےْھَا لِصَاحِبِھَا کَمَا ےُرَبِّیْ اَحَدُکُمْ فَلُوَّہُ حَتّٰی تَکُوْنَ مِثْلَ الْجَبَلِ) [ رواہ البخاری : باب الصَّدَقَۃِ مِنْ کَسْبٍ طَیِّبٍ ] حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس شخص نے حلال کمائی سے ایک کھجور کے برابر صدقہ کیا۔ بلاشبہ اللہ تعالیٰ صرف حلال چیزوں سے صدقہ قبول فرماتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اسے شرف قبولیت بخشتا ہے اور اپنے دائیں ہاتھ میں لیتے ہوئے۔ اس کو اس طرح بڑھاتا ہے جس طرح تم بچھڑے کی پرورش کرکے اسے بڑا کرتے ہو۔ یہاں تک کہ ایک کھجور کا ثواب پہاڑ کے برابر ہوجاتا ہے۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ ہر مومن کے نیک اعمال لکھ رہا ہے۔ ٢۔ مومن کے کسی نیک عمل کی ناقدری نہیں کی جائے گی۔ الأنبياء
95 فہم القرآن ربط کلام : صالح اعمال کرنے والوں کی قدر افزائی کا تذکرہ کرنے کے بعد برے لوگوں کے انجام کا ذکر۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں دنیا میں بھی سزا دی اور قیامت کے دن بھی سزا پائیں گے۔ قرآن مجید نے اس حقیقت کو مختلف الفاظ اور انداز میں کئی بار واضح کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فیصلے کو کوئی طاقت ٹال نہیں سکتی، اس کی مہربانی میں کوئی شخص رکاوٹ نہیں بن سکتا اور نہ ہی اس کی گرفت سے کوئی کسی کو چھڑا سکتا ہے۔ جب وہ کسی بستی یا قوم کو تباہی کے گھاٹ اتارتا ہے تو پھر کوئی نہیں جو اسے دنیا میں واپس لے آئے۔ اسی حقیقت کو یہاں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کا قطعی فیصلہ ہے کہ جب وہ کسی بستی کو اس کے جرائم کی پاداش میں تباہ کرتا ہے تو پھر اسے کوئی واپس نہیں لاسکتا۔ یہاں تک کہ قیامت برپا ہوجائے۔ اس کا یہ مفہوم لینے کی بھی گنجائش ہے کہ تباہ وبرباد ہونے والے لوگ دین کی طرف پلٹنے اور اپنے رب کی طرف رجوع کرنے والے نہ تھے۔ یہاں تک کہ یاجوج اور ماجوج نکل آئیں گویا کہ قیامت قائم ہوجائے۔ یاد رہے کہ قیامت کی تین قسم کی نشانیاں قرآن و حدیث میں بیان کی گئی ہیں۔ جن میں کچھ نشانیاں وہ ہیں جو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حیات مبارکہ تک پوری ہوچکی ہیں۔ جن میں ایک نشانی چاند کا دو ٹکڑے ہونا ہے۔ ان نشانیوں کا دوسرا حصہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حیات مبارکہ کے بعد شروع ہوتا ہے جس کی انتہاء کا تعیّن کرنا ہمارے لیے مشکل ہے۔ قیامت کی نشانیوں کا تیسرا حصہ وہ ہوگا جس دور میں یا جوج ماجوج نمودار ہوں گے۔ جن کی تفصیل کے لیے سورۃ الکہف کی آیت ٩٤ کی تفسیر ملاحظہ فرمائیں۔ یا جوج ماجوج ہر اونچی جگہ سے یلغار کرتے ہوئے لوگوں پر ٹوٹ پڑیں گے۔ یا جوج ماجوج کے خروج کے بعد قیامت قریب تر ہوجائے گی اور اس کا برپا ہونا برحق ہے جس میں شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں۔ قیامت اس قدر اچانک برپا ہوگی کہ ” اللہ“ کے منکروں اور باغیوں کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جائیں گی۔ قیامت کی ہولناکیاں دیکھ کر کافر اور نافرمان لوگ آہ و زاریاں کرتے ہوئے کہیں گے ہائے افسوس! ہم اپنی غفلت کی وجہ سے فسق و فجور میں مبتلا رہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم اپنے آپ پر ظلم کرنے والے تھے۔ قیامت کا برپا ہونا : (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ (رض) أَنَّ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ لاَ تَقُوم السَّاعَۃُ حَتَّی تَطْلُعَ الشَّمْسُ مِنْ مَغْرِبِہَا فَإِذَا طَلَعَتْ فَرَآہَا النَّاسُ آمَنُوا أَجْمَعُونَ، فَذَلِکَ حینَ لاَ یَنْفَعُ نَفْسًا إِیمَانُہَا، لَمْ تَکُنْ آمَنَتْ مِنْ قَبْلُ، أَوْ کَسَبَتْ فِی إِیمَانِہَا خَیْرًا، وَلَتَقُومَنَّ السَّاعَۃُ وَقَدْ نَشَرَ الرَّجُلاَنِ ثَوْبَہُمَا بَیْنَہُمَا فَلاَ یَتَبَایَعَانِہِ وَلاَ یَطْوِیَانِہِ، وَلَتَقُومَنَّ السَّاعَۃُ وَقَدِ انْصَرَفَ الرَّجُلُ بِلَبَنِ لِقْحَتِہِ فَلاَ یَطْعَمُہُ، وَلَتَقُومَنَّ السَّاعَۃُ وَہْوَ یَلِیطُ حَوْضَہُ فَلاَ یَسْقِی فیہِ، وَلَتَقُومَنَّ السَّاعَۃُ وَقَدْ رَفَعَ أُکْلَتَہُ إِلَی فیہِ فَلاَ یَطْعَمُہَا) [ رواہ البخاری : باب قَوْلِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بُعِثْتُ أَنَا وَالسَّاعَۃَ کَہَاتَیْنِ ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں آپ نے فرمایا قیامت قائم نہ ہوگی یہاں تک کہ سورج مغرب سے طلوع ہوجائے۔ جب سورج مغرب سے طلوع ہوگا تو اسے دیکھ کرتمام کے تمام لوگ ایمان لے آئیں گے۔ لیکن اس وقت اس کے ایمان لانے کا کوئی فائدہ نہ ہوگا جو اس سے قبل نہ ایمان لایا اور نہ اس نے نیک اعمال کیے۔ دو آدمیوں نے کپڑا پھیلایا ہوگا دکاندار کپڑے کو بیچ اور سمیٹ نہیں پائے گا کہ قیامت برپا ہوجائے گی۔ دودھ دوہنے والادودھ پی نہیں سکے گا کہ قیامت قائم ہوجائے گی۔ حوض پروارد ہونے والا پانی نہیں پی سکے گا کہ قیامت قائم ہوجائے گی۔ انسان اپنے منہ میں ڈالا ہوا لقمہ کھا نہیں پائے گا کہ قیامت قائم ہوجائے گی۔“ ( عَنْ حُذَیْفَۃَ بْنِ أَسِیدٍ الْغِفَارِیِّ قَالَ کُنَّا قُعُودًا نَتَحَدَّثُ فِی ظِلِّ غُرْفَۃٍ لِرَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَذَکَرْنَا السَّاعَۃَ فَارْتَفَعَتْ أَصْوَاتُنَا فَقَالَ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لَنْ تَکُونَ أَوْ لَنْ تَقُوم السَّاعَۃُ حَتّٰی یَکُونَ قَبْلَہَا عَشْرُ آیَاتٍ طُلُوع الشَّمْسِ مِنْ مَغْرِبِہَا وَخُرُوج الدَّابَّۃِ وَخُرُوجُ یَأْجُوجَ وَمَأْجُوجَ وَالدَّجَّالُ وَعِیسَی ابْنُ مَرْیَمَ وَالدُّخَانُ وَثَلَاثَۃُ خُسُوفٍ خَسْفٌ بالْمَغْرِبِ وَخَسْفٌ بالْمَشْرِقِ وَخَسْفٌ بِجَزِیرَۃِ الْعَرَبِ وَآخِرُ ذٰلِکَ تَخْرُجُ نَارٌ مِنَ الْیَمَنِ مِنْ قَعْرِ عَدَنٍ تَسُوق النَّاسَ إِلَی الْمَحْشَرِ)[ رواہ ابوداؤد، کتاب الملاحم، باب أمارات الساعۃ] ” حضرت حذیفہ بن اسید غفاری (رض) بیان کرتے ہیں ہم نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حجرہ مبارک کے سائے میں بیٹھے باتیں کر رہے تھے دوران گفتگو ہم نے قیامت کا ذکر کیا اس کے ساتھ ہی ہماری آوازیں بلند ہوگئیں۔ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی جب تک اس سے پہلے دس نشانیاں نہ پوری ہوجائیں۔ سورج کا مغرب سے طلوع ہونا، دابہ جانور کا نکلنا، یاجوج و ماجوج کا ظاہر ہونا، دجال کا ظاہر ہونا، عیسیٰ ابن مریم (علیہ السلام) کا نزول، دھواں کا ظاہرہونا اور زمین کا تین مرتبہ دھنسنا ایک مرتبہ مغرب میں، ایک مرتبہ مشرق میں اور ایک مرتبہ جزیرۃ العرب میں اور آخری نشانی آگ یمن کے علاقہ عدن سے رونما ہوگی جو لوگوں کو محشر کے میدان میں اکٹھا کرے گی۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ جب کسی کو موت دے یا کسی بستی تباہ کر دے اسے کوئی زندہ کرنے والا نہیں۔ ٢۔ یاجوج ماجوج کے خروج کے بعد قیامت کا وقت بالکل قریب آجائے گا۔ ٣۔ یاجوج ماجوج ہر طرف دنگا و فساد کریں گے۔ ٤۔ جب قیامت برپا ہوگی تو لوگ چیخ و پکار کرتے ہوئے اپنے جرائم کا اعتراف کریں گے۔ تفسیر بالقرآن قیامت کی نشانیاں اور اس کی ہولناکیوں کا ایک منظر : ١۔ سب نے اللہ کے ہاں لوٹنا ہے۔ (یونس : ٥٦) ٢۔ قیامت کے دن لوگ مدہوش ہونگے۔ ( الحج : ٢) ٣۔ اس دن سے ڈر جاؤ جس دن تم اللہ کے ہاں لوٹائے جاؤ گے۔ (البقرہ : ٢٨١) ٤۔ قیامت آنکھ جھپکنے میں آجائے گی۔ (النحل : ٧٧) ٥۔ قیامت کی ہولناکیاں بڑی سخت ہوں گی۔ (الحج : ١) ٦۔ قیامت کے دن مجرموں کو با ہم زنجیروں میں جکڑدیا جائے گا۔ (ابراہیم : ٤٩) ٧۔ قیامت کے دن کفار کو طوق پہنا کر جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔ (الحاقۃ: ٣٠۔ ٣١) ٨۔ اس دن ہم پہاڑوں کو چلائیں گے اور زمین چٹیل میدان ہوگی اور ہم تمام لوگوں کو جمع کریں گے اور کسی کو نہیں چھوڑیں گے۔ (الکھف : ٤٧) الأنبياء
96 الأنبياء
97 فہم القرآن ربط کلام : آیت ٩٤ میں صالح اعمال لوگوں کا اجر بیان ہوا۔ اس کے بعد برے لوگوں کا بیان ہوا۔ برے لوگوں کی برائیوں میں سب سے بڑی برائی یہ ہے کہ وہ اپنے رب کی عبادت کرنے کی بجائے دوسروں کی عبادت اور تابعداری کرتے تھے قیامت کے دن ایسے عابد اور معبود جہنم میں پھینکیں جائیں گے۔ سب سے بڑی برائی ” اللہ“ کے ساتھ دوسروں کو شریک بنانا اور قیامت کے دن کا انکار کرنا ہے۔ اس لیے سب سے پہلے کفار اور مشرکن کا معاملہ چکا یا جائے گا۔ رب ذوالجلال مشرکین کو مخاطب کرتے ہوئے فرمائے گا کہ آج تم اور تمھارے معبود جنہیں تم مشکل کشا اور حاجت روا سمجھتے ہوئے پکارا کرتے تھے سب کو جہنم میں جھونکا جا رہا ہے۔ اگر وہ کسی قسم کا اختیار رکھنے والے ہوتے تو آج انھیں اور تمھیں جہنم میں داخل نہ ہونا پڑتا۔ یہاں معبودان باطل کو جہنم کا ایندھن قرار دیا ہے۔ اس سے مراد ہر قسم کے وہ بت ہیں جن کو لوگ خدا کا اوتار سمجھ کر ان کے سامنے ہاتھ جوڑتے، رکوع اور سجود کرتے، چلہ کشی اور مراقبہ کرتے ہوئے ان کے ذریعے مدد طلب کرتے تھے۔ ایسے معبودوں کو اللہ تعالیٰ ان کے پجاریوں کے ساتھ جہنم میں پھینک دیں گے۔ جہاں تک ان لوگوں کا تعلق ہے جن کی پرستش ان کی زندگی میں یا ان کے دئیے ہوئے ماحول کی وجہ سے ان کے مزارات پر کی جاتی رہی۔ انھیں ان کے مریدوں اور قبر پرستوں کے ساتھ جہنم کی طرف دھکیل دیا جائے گا۔ جونہی جہنمی جہنم میں داخل ہوں گے وہ اس قدر آہ و زاری، چیخ و پکار اور واویلا کریں گے کہ کوئی کسی کی بات نہیں سن سکے گا۔ البتہ ان بزرگوں اور شخصیات کو جہنم سے محفوظ رکھا جائے گا جو اپنی زندگی میں لوگوں کو شرک و بدعت سے روکتے رہے۔ لیکن ان کی موت کے بعد لوگوں نے ان کی قبروں کو عبادت گاہ بنا لیا۔ (وَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لَھُمْ نَارُ جَھَنَّمَ لَا یُقْضٰی عَلَیْھِمْ فَیَمُوْتُوْا وَ لَا یُخَفَّفُ عَنْھُمْ مِّنْ عَذَابِھَا کَذٰلِکَ نَجْزِیْ کُلَّ کَفُوْر وَ ھُمْ یَصْطَرِخُوْنَ فِیْھَا رَبَّنَآ اَخْرِجْنَا نَعْمَلْ صَالِحًا غَیْرَ الَّذِیْ کُنَّا نَعْمَلُ اَوَلَمْ نُعَمِّرْکُمْ مَّا یَتَذَکَّرُ فِیْہِ مَنْ تَذَکَّرَ وَ جَآءَ کُمُ النَّذِیْرُ فَذُوْقُوْا فَمَا للظّٰلِمِیْنَ مِنْ نَّصِیْرٍ) [ فاطر : ٣٦۔ ٣٧] ” اور وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا ان کے لیے جہنم کی آگ ہے اس میں انہیں نہ موت آئے گی اور نہ ان کے عذاب میں کمی کی جائے گی ہم ہر ناشکرے کو ایسے ہی سزا دیتے ہیں۔ وہ اس میں چلاَئیں گے اور کہیں گے اے ہمارے پروردگار! ہمیں یہاں سے نکال دے۔ ہم دنیا جو برے اعمال کرتے تھے ان کی بجائے نیک اعمال کریں گے اللہ فرمائے گا کیا ہم نے تمہیں سوچ و بچار کرنے کے لیے عمر نہ دی تھی اور تمہارے پاس ڈرانے والے نہیں آئے تھے آج تم عذاب کا مزا چکھو، ظالموں کا کوئی مددگار نہ ہوگا۔“ (قَالَ اخْسَؤُا فِیْہَا وَلاَ تُکَلِّمُوْنِ) [ المؤمنون : ١٠٨] اللہ تعالیٰ جواب دے گا کہ جہنم میں ذلیل وخوار ہوتے رہو بس مجھ سے بات نہ کرو۔“ مسائل ١۔ معبودان باطل کو ان کے پرستش کرنے والوں کے ساتھ جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔ ٢۔ مشرک ہمیشہ جہنم میں جلتے رہیں گے۔ ٣۔ جہنمیوں کی چیخ و پکار سننے والا کوئی نہیں ہوگا۔ تفسیر بالقرآن جہنم میں جہنمیوں کی چیخ و پکار اور واویلا : ١۔ اے ہمارے رب ہمیں تھوڑی دیر کے لیے مہلت دے ہم تیری دعوت کو قبول اور تیرے رسول کی بات کو تسلیم کریں گے۔ (ابراہیم : ٤٤) ٢۔ جہنمی کہیں گے اے اللہ ہم نے دیکھ لیا اور سن لیا اب ہم کو واپس لوٹا دے۔ (السجدۃ: ١٢) ٣۔ اے ہمارے پروردگار ہمیں یہاں سے نکال ہم پہلے سے نیک عمل کریں گے۔ (الفاطر : ٣٧) ٤۔ اے ہمارے رب! ہمیں یہاں سے نکال دوبارہ ایسا کریں تو بڑے ظالم ہوں گے۔ (المومنون : ١٠٧) الأنبياء
98 الأنبياء
99 الأنبياء
100 الأنبياء
101 فہم القرآن ربط کلام : جہنمیوں کے مقابلے میں نیک لوگوں کا صلہ اور انعام۔ جن لوگوں کی فطرت اور کوشش کی بناء پر اللہ تعالیٰ نے ان کے نصیب میں خیر اور نیکی رکھ دی ہے۔ وہ لوگ جہنم سے کو سوں دور رکھے جائیں گے۔ اس قدر جہنم سے دور اور محفوظ ہوں گے کہ نہ وہ جہنم کی آہٹ سنیں گے اور نہ جہنم کی بدبو ان تک پہنچ پائے گی۔ انھیں جنت میں وہ سب کچھ دیا جائے گا جس کی دل میں چاہت کریں گے۔ انھیں قیامت کی ہولناکیوں اور گھبراہٹ کے بڑے بڑے مواقع پر کوئی غم اور پریشانی نہیں ہوگی۔ ہر موقعہ اور مقام پر ملائکہ انھیں سلام کریں گے اور کہیں گے یہ ہے وہ اجر و انعام کا دن جس کارب کریم نے تمھارے ساتھ وعدہ کیا تھا۔ قیامت کے دن زندہ ہونے کے بعد ہر انسان کو قیامت کے مختلف مراحل سے واسطہ پڑے گا ان میں کچھ مراحل ایسے ہوں گے۔ جب انبیائے کرام (علیہ السلام) بھی نفسی، نفسی پکار رہے ہوں گے۔ ہر کوئی اپنے گناہوں کے مطابق اپنے پسینے میں شرا بور ہوگا۔ تاہم ہولناک مراحل میں اللہ تعالیٰ اپنے نیک بندوں کو اس بڑی گھبراہٹ سے محفوظ رکھے گا۔ جس کا ذکر اس آیت میں کیا گیا ہے۔ (وَعَنِ الْمِقْدَادِ (رض) قَالَ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَقُوْلُ تُدْ نَیْ الشَّمْسُ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ مِنَ الْخَلْقِ حَتّٰی تَکُوْنَ مِنْھُمْ کَمِقْدَارِ مِیْلٍ فَیَکُوْنُ النَّا سُ عَلٰی قَدْرِ اَعْمَالِھِمْ فِیْ الْعََرَ قِ فَمِنْھُمْ مَنْ یَّکُوْنُ اِلٰی کَعْبَیْہِ وَمِنْھُمْ مَنْ یَّکُوْنُ اِلٰی رُکْبَتَیْہِ وَمِنْھُمْ مَنْ یَّکُوْنُ اِلٰی حَقْوَیْہِ وَمِنْھُمْ مَنْ یُّلْجِمُھُمُ الْعَرَقُ اِلْجَامًا وَاَشَارَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بِیَدِہٖ اِلٰی فِیْہِ) [ رواہ مسلم : باب فِی صِفَۃِ یَوْمِ الْقِیَامَۃِ أَعَانَنَا اللَّہُ عَلَی أَہْوَالِہَا] ” حضرت مقداد (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے سرورِدو عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے سنا‘ آپ فرمارہے تھے قیامت کے دن سورج لوگوں سے ایک میل کی مسافت پر ہوگا۔ لوگوں کا پسینہ ان کے اعمال کے مطابق ہوگا بعض کے ٹخنوں تک‘ بعض کے گھٹنوں تک بعض کی کمر تک اور بعض کے منہ تک پسینہ ہوگا۔ یہ بیان کرتے ہوئے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے منہ کی طرف اشارہ کیا۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ اپنے نیک بندوں کو جہنم اور اس کی ہولناکیوں سے محفوظ رکھے گا۔ ٢۔ جنتیوں کو ہر وہ نعمت عطا کی جائے گی جس کی وہ چاہت کریں گے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ اپنے نیک بندوں کو قیامت کی ہولناکیوں سے محفوظ فرمائیں گے۔ ٤۔ جنتیوں کو ملائکہ ہر مقام پر سلام پیش کریں گے۔ تفسیر بالقرآن ملائکہ کا ہر مقام پر جنتیوں کا استقبال کرنا : ١۔ جب فرشتے پاکباز لوگوں کی روحیں قبض کرتے ہیں توانھیں سلام کہتے ہیں اور جنت کی خوشخبری دیتے ہیں۔ (النحل : ٣٢) ٢۔ فرشتے کہتے ہیں تم پر سلامتی ہو تم نے صبر کیا آخرت کا گھر بہت ہی بہتر ہے۔ (الرعد : ٢٤) ٣۔ داخل ہوجاؤ جنت میں سلامتی کے ساتھ آج تمھارے لیے داخلے کا دن ہے۔ (ق : ٣٤) ٤۔ فرشتے جب جنتیوں کے پاس جائیں گے تو انہیں سلام کہیں گے۔ (الزمر : ٨٩) ٥۔ اللہ کی توحید پر استقامت اختیار کرنے والوں پر فرشتوں کا نزول ہوتا ہے اور وہ انہیں خوشخبری دیتے ہوئے کہتے ہیں غم وحزن میں مبتلا ہونے کی ضرورت نہیں تمہارے لیے جنت ہے جس کا تمہارے ساتھ وعدہ کیا گیا ہے۔ ( حٰم السجدۃ: ٣٠) الأنبياء
102 الأنبياء
103 الأنبياء
104 فہم القرآن ربط کلام : جس دن بروں کو سزا اور نیک لوگوں کو جزا دی جائے گی اس کی ابتداء اس طرح ہوگی۔ جب پہلا صور پھونکا جائے گا تب قیامت برپا ہوجائے گی۔ ہر چیز فنا اور ہر نفس ختم ہو جاۓ گا۔ اس کے بعد زمین و آسمان کو بدل دیا جائے گا اور آسمان کو تحریر شدہ کاغذات کی طرح لپیٹ دیا جائے گا۔ مخلوق کو اللہ تعالیٰ اسی حالت میں کردیں گے جس حالت میں پہلے تھی یعنی دنیا کی ہر چیز ختم کردی جائے۔ اللہ تعالیٰ ایسا ضرور کرے گا کیونکہ اس کا ارشاد ہے کہ یہ وعدہ ہے جسے ہم ضرور پورا کریں گے زمین کے وارث نیک اور صالح لوگ ہوں گے۔ حضرت داؤد (علیہ السلام) پر نازل کی گئی، کتاب زبور میں اللہ تعالیٰ نے اس کا ذکر فرمایا ہے۔ زبور کا اس لیے ذکر ہے کہ انبیاء کرام میں حضرت داؤد (علیہ السلام) پہلے نبی ہیں جو بیک وقت نبی اور باضابطہ حکمران بنائے گئے تھے۔ اس میں ان لوگوں کے لیے نصیحت ہے جو اپنے رب کی غلامی اور بندگی میں زندگی بسر کرتے ہیں۔ قیامت کے دن آسمان کے لپیٹے جانے کی نوعیت اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ البتہ الفاظ سے بظاہر معلوم ہوتا ہے جس طرح کھلے کاغذات کو لکھنے والا اپنی تحریر سے فارغ ہونے کے بعد سلیقے کے ساتھ اوپر، نیچے رکھ کر ایک دستے کی شکل دیتا ہے۔ یا بڑے کاغذات کو رول بنا کر رکھا جاتا ہے۔ ممکن ہے اللہ تعالیٰ اسی انداز میں آسمانوں کو تہہ بہ تہہ جوڑ کر ایک طرف رکھ دیں۔ اس کے بعد نیک لوگوں کونئی زمین یعنی جنت کا وارث بنایا جائے گا۔ کچھ جدت پسندوں نے اس آیت کا من ساختہ مفہوم لے کر یہ دعویٰ کیا ہے کہ ” صَالِحُوْنَ“ سے مراد وہ لوگ ہیں جو دنیا میں اقتدار سنبھالنے اور مستحکم نظام چلانے کے اہل ہوتے ہیں۔ وہی اللہ تعالیٰ کے پسندیدہ لوگ ہوتے ہیں اور انہیں ہی حکمران بنایا جاتا ہے۔ یہ ایسا معنی ہے جو سراسر انبیائے کرام (علیہ السلام) کی دعوت اور ان کی جدوجہد کے خلاف ہے۔ اگر اس سے مراد دنیا کا اقتدار لیا جائے تو پھر حضرت ابراہیم (علیہ السلام)، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور نبی آخر الزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو وقت کے حکمرانوں کے ساتھ ٹکرانے کی کیا ضرورت تھی ؟ کیونکہ فرعون نمرود اور قریش مکہ سے بڑھ کر کس کا نظام مستحکم ہوسکتا ہے۔ جدت پسندوں کا استدلال اس لیے بھی حقیقت کے خلاف ہے کہ دنیا میں صالح لوگوں کو اقتدار خال خال ہی نصیب ہوا ہے۔ اس آیت کا حقیقی مفہوم اس کے سیاق و سباق کے حوالے سے بالکل واضح ہے کہ جب اس دنیا کو ختم کرکے ایک نئی دنیا معرض وجود میں لائی جائے گی تو اللہ تعالیٰ تبدیل شدہ زمین کا وارث نیک لوگوں کو بنائے گا۔ جسے جنت قرار دیا گیا ہے اور اسی کا جنتی شکرانے کے طور پر اظہار کریں گے۔ گویا کہ وہ یہ زمین نہیں بلکہ جنت کی زمین ہوگی۔ (وَقَالُوْا الْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ صَدَقَنَا وَعْدَہُ وَأَوْرَثَنَا الْأَرْضَ نَتَبَوَّأُ مِنَ الْجَنَّۃِ حَیْثُ نَشَاءُ فَنِعْمَ أَجْرُ الْعَامِلِیْنَ) [ الزمر : ٧٤] ” وہ کہیں گے کہ خدا کا شکر ہے جس نے اپنے وعدے کو سچا کردیا اور ہم کو اس زمین کا وارث بنا دیا، ہم جنت میں جس مقام میں چاہیں رہیں کتنا اچھا اجر ہے نیک عمل کرنے والوں کا۔“ کچھ مفسرین نے اس کا یہ بھی مفہوم لیا کہ زمین سے مراد جنت نہیں بلکہ یہ زمین ہے جس میں ہم زندگی بسر کرتے ہیں۔ کچھ مفسروں نے اس سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ جس جنت کا قرآن ذکر کرتا ہے وہ آسمان پر نہیں بلکہ زمین میں چھپا کر رکھی گئی ہے، یہ تصور بھی قرآن اور حدیث کے خلاف ہے، کیونکہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جنت اور جہنم کا مشاہدہ آسمانوں پر کروایا گیا تھا نہ کہ زمین پر۔ اللہ تعالیٰ جنت کا وارث صالح لوگوں کو بنائے گا۔ اس کے لیے ١٠٥ آیت پیش کی جاتی ہے۔ جس کا بظاہر ان آیات کے ساتھ سیاق وسباق نہیں ملتا۔ تاہم اگر کوئی اس آیت سے مراد دنیا کی خلافت لیتا ہے تو صالح سے مراد صرف توحید کے قائل اور نماز، روزہ کرنے والے نیک لوگ نہیں بلکہ اس سے مراد وہ صالح لوگ ہیں جو دین کے انفرادی تقاضے پورے کرنے کے ساتھ اس کے اجتماعی تقاضے بالخصوص جہاد اور اتحاد کے تقاضے پورے کرنے والے ہوں گے۔ مسائل ١۔ قیامت کے دن آسمانوں کو کاغذات کی طرح لپیٹ دیا جائے گا۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ قیامت برپا کرنے کا وعدہ ہر صورت پورا کرئے گا۔ ٣۔ جنت کے وارث صرف صالح لوگ ہوں گے۔ تفسیر بالقرآن جنت میں داخل ہونے والے حضرات کے اوصاف : ١۔ اللہ کی توحید کا اقرار کرکے اس پر ڈٹ جاتے ہیں۔ (الاحقاف : ١٤، حم السجدۃ: ٣٠) ٢۔ اللہ تعالیٰ پر ایمان لاتے ہیں اور نیک اعمال کرتے ہیں۔ (البقرۃ: ٨٢) ٣۔ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے ہیں۔ (النساء : ١٣) ٤۔ اللہ سے ڈرنے والے ہوتے ہیں۔ (الرحمن : ٤٦) الأنبياء
105 الأنبياء
106 الأنبياء
107 فہم القرآن ربط کلام : نیک بندوں کو اقتدار دینے کی خوشخبری سنانے کے بعد ایک عظیم ترین خوشخبری سے آگاہ کیا جا رہا ہے۔ جس کا حقیقی احترام کرنے اور اس کے تقاضے پورے کرنے کے صلہ میں مسلمان پوری دنیا میں بر سراقتدار ہوئے اور ہونگے اور آخرت میں اپنے رب کی رحمتوں کے حقدار ٹھہریں گے۔ عقیدہ توحید کے دلائل کے جواب میں رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بے مثال اور پرخلوص جدوجہد سے گھبرا کر کفار پروپیگنڈا کرتے تھے کہ اس شخص نے گھر گھر اختلاف پیدا کرکے ہمیں مصیبت میں ڈال دیا ہے۔ اس کی وجہ سے دن کا سکون غارت ہوا اور ہمارے لیے راتوں کی نیند حرام ہوگئی ہے۔ اس شخص کی وجہ سے ہماری پریشانیوں میں اضافہ ہوا اور پورے کا پورا نظام درہم برہم ہو کر رہ گیا ہے۔ ان کے زہریلے پروپیگنڈہ کے جواب میں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات اور پیغام کو پورے عالم کے لیے نعمت قرار دیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا وجود اہل مکہ کے لیے بھی رحمت کا باعث بنایا تھا۔ ارشاد فرمایا اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ لوگ توحید و رسالت کی مخالفت اور اپنے جرائم کی وجہ سے اس مقام پر آکھڑے ہوئے ہیں کہ انھیں ایک لمحہ کی تاخیر کیے بغیر تہس نہس کردیا جائے۔ لیکن ہم ایسا اس لیے نہیں کرتے کیونکہ آپ اور استغفار کرنے والے مسلمان مکہ میں موجود ہیں۔ (الانفال : ٣٣) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات جانوروں کے لیے بھی باعث رحمت تھی : (عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ جَعْفَرٍ قَالَ (رض) أَرْدَفَنِی رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خَلْفَہُ ذَاتَ یَوْمٍ فَأَسَرَّ إِلَیَّ حَدِیثًا لاَ أُحَدِّثُ بِہِ أَحَدًا مِنَ النَّاسِ وَکَانَ أَحَبُّ مَا اسْتَتَرَ بِہِ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لِحَاجَتِہِ ہَدَفًا أَوْ حَاءِشَ نَخْل قَالَ فَدَخَلَ حَاءِطًا لِرَجُلٍ مِنَ الأَنْصَارِ فَإِذَا جَمَلٌ فَلَمَّا رَأَی النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حَنَّ وَذَرَفَتْ عَیْنَاہُ فَأَتَاہ النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَمَسَحَ ذِفْرَاہُ فَسَکَتَ فَقَالَ مَنْ رَبُّ ہَذَا الْجَمَلِ لِمَنْ ہَذَا الْجَمَلُ فَجَاءَ فَتًی مِنَ الأَنْصَارِ فَقَال لِی یَا رَسُول اللَّہِ فَقَالَ أَفَلاَ تَتَّقِی اللَّہَ فِی ہَذِہِ الْبَہِیمَۃِ الَّتِی مَلَّکَکَ اللَّہُ إِیَّاہَا فَإِنَّہُ شَکَی إِلَیَّ أَنَّکَ تُجِیعُہُ وَتُدْءِبُہُ) [ رواہ ابوداود : باب مَا یُؤْمَرُ بِہِ مِنَ الْقِیَامِ عَلَی الدَّوَابِّ وَالْبَہَاءِمِ] ” حضرت عبداللہ بن جعفر (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک دن مجھے اپنے پیچھے سوار کیا اور میرے ساتھ خاصگفتگو فرمائی جو میں کسی کو نہیں بتاؤں گا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پردے کو پسند فرماتے تھے۔ جب آپ قضاء حاجت کے لیے نکلتے آپ کسی اوٹ یا درختوں کے جھنڈ کا انتخاب فرماتے۔ عبداللہ بن جعفر کہتے ہیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک انصاری کے باغ میں داخل ہوئے آپ کو دیکھ کر ایک اونٹ بلبلایا اور اس کی آنکھیں بہہ نکلیں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کے قریب گئے اس کی گردن پہ پیار کیا تو وہ چپ ہوگیا۔ آپ نے فرمایا اس اونٹ کا مالک کون ہے یا فرمایا یہ اونٹ کس کا ہے؟ انصاری نوجوان نے آکر عرض کی یہ میرا اونٹ ہے آپ نے فرمایا تجھے اس کے بارے میں اللہ سے ڈرنا چاہیے جس کا تجھے اللہ نے مالک بنایا ہے۔ اس نے میرے سامنے شکایت کی ہے کہ تو اسے کھلا تا تھوڑا اور کام زیادہ لیتا ہے۔“ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مومنوں کے لیے بالخصوص رحمت ہیں : (لَقَدْ جَآءَ کُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْہِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْکُمْ بالْمُؤْمِنِیْنَ رَءُ وْفٌ رَّحِیْمٌ) [ التوبہ : ١٢٨] ” (لوگو) تمہارے پاس تم ہی میں سے ایک رسول آیا ہے تمہاری تکلیف اس کو گراں گزرتی ہے وہ تمہاری بھلائی کا بہت خواہشمند ہے، اور مومنوں پر نہایت ہی شفقت کرنے والا اور مہربان ہے۔“ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مومنوں کے لیے اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا احسان ہیں : ” یقیناً اللہ تعالیٰ نے مومنوں پر احسان فرمایا کہ ان میں انہی میں سے ایک رسول مبعوث کیا وہ ان پر اس کی آیات تلاوت کرتا ہے اور ان کا تزکیہ نفس ہے، ان کو کتاب وحکمت کی تعلیم دیتا ہے۔ حالانکہ وہ اس سے پہلے واضح طور پر گمراہ ہوچکے تھے۔“ [ ال عمران : ١٦٤] تفصیل کے لیے قاضی سلیمان (رح) کی کتاب رحمت العالمین کا مطالعہ کریں۔ مسائل ١۔ سرور دو عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا وجود اطہر بھی لوگوں کے لیے اللہ کی رحمت کا باعث تھا۔ ٢۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا پیغام اور نظام اقوام عالم کے لیے رحمت کی ضمانت دیتا ہے۔ تفسیر بالقرآن آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات اور پیغام قرآن کے آئینہ میں : ١۔ ہم نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تمام لوگوں کے لیے رسول بنا کر بھیجا۔ (النساء : ٨٩) ٢۔ ہم نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حق کے ساتھ خوشخبری دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا۔ (البقرۃ: ١١٩) ٣۔ ہم نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جہانوں کے لے رحمت بنا کر بھیجا۔ (الانبیاء : ١٠٧) ٤۔ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم نے آپ کو شاہد، مبشر اور نذیر بنا کر بھیجا۔ (الاحزاب : ٤٥) الأنبياء
108 فہم القرآن ربط کلام : رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات کو رحمت عالم قرار دینے کے بعد آپ کی آمد کا بنیادی اور مرکزی مقصدبیان کیا گیا ہے۔ اسی سورۃ کی آیت ” ٢٥“ میں یہ ذکر ہوچکا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پہلے جتنے انبیاء (علیہ السلام) مبعوث فرمائے۔ انھیں یہی حکم صادر فرمایا تھا کہ وہ لوگوں کو بتلائیں اور سمجھائیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔ یہاں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو براہ راست یہ حکم دیا ہے کہ آپ لوگوں کو بتلائیں کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے وحی کے ذریعے حکم دیا ہے کہ میں لوگوں کو بتلاؤں اور سمجھاؤں کہ لوگو! تمھارا معبود ایک ہی معبود ہے کیا تم اس کے تابعدار ہونے کے لیے تیار ہو ؟ اگر تم عقیدہ توحید ماننے اور اللہ تعالیٰ کی تابعداری سے انکار کرتے ہو تو پھر جان لو کہ میں نے تمھیں پوری طرح آگاہ کردیا ہے۔ ہاں جس عذاب اور قیامت کا تمھیں وعدہ دیا جاتا ہے وہ قریب ہے یا دور۔ اللہ تعالیٰ اس کی آمد کو اچھی طرح جانتا ہے وہ یہ بھی جانتا ہے جو بات سر عام کرتے ہو یا جس کو تم چھپاتے ہو۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو رحمت عالم قرار دینے کے بعد عقیدہ توحید کا اس لیے ذکر کیا گیا کہ لوگوں کو یہ بتلایا جائے کہ بے شک آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رحمت عالم ہیں لیکن آپ کی نبوت کے حوالے سے رب کریم کی رحمت کا وہی شخص مستحق ہوگا جو آپ کی دعوت یعنی عقیدہ توحید کو قبول کرکے عملاً اللہ تعالیٰ کی تابعداری کرے گا۔ آپ کی نبوت اسی باعث ہی جہانوں کے لیے حقیقی اور دائمی رحمت ہے اور یہی آپ کی نبوت کا پیغام ہے اور یہی آپ سے پہلے انبیاء (علیہ السلام) کی دعوت ہوا کرتی تھی۔ اسی دعوت کی کفار مخالفت کیا کرتے تھے۔ آپ نے لوگوں کو اسی بات کا احساس دلایا اگر تم نے اللہ کی توحید اور میری اطاعت کا انکار کیا تو قیامت کے دن ہر صورت پکڑے جاؤ گے۔ کفار اس بات کو مثبت انداز میں لینے کی بجائے منفی طور پر لیتے اور آپ کو طعنہ کے طور پر کہتے جس عذاب اور قیامت سے ہمیں ڈرایا جاتا ہے وہ کب آئے گی ؟ اس سوال کے قرآن مجید میں مختلف جواب دیے گئے ہیں۔ یہاں فقط یہ جواب دیا ہے کہ اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ وہ عذاب اور قیامت کب آئے گی۔ جو کچھ تم کہتے ہو اور جو تم چھپاتے ہو اسے بھی اللہ تعالیٰ جانتا ہے۔ یہاں تک قیامت یا عذاب کا معاملہ ہے اس کے بارے میں میں نہیں جانتا کہ قیامت یا عذاب کب آئے گا تاہم یہ حقیقت ہے کہ حق کی مخالفت میں اللہ تعالیٰ نے تمہیں جو مہلت دے رکھی ہے وہ تمہارے لیے ایک آزمائش کی حیثیت رکھتی ہے۔ تم اس وقت تک ہی اس سے فائدہ اٹھا سکتے ہو جب تک اس کا حکم صادر نہیں ہوتا۔ اس جواب کے بعد نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دیتے ہوئے یہ دعا سکھلائی گئی کہ اے نبی آپ اور اپنے ساتھیوں کے لیے ان الفاظ میں اپنے رب کی نصرت مانگتے رہیں کہ اے ہمارے رب جو کچھ لوگ حق اور ہمارے بارے میں کہتے ہیں اس پر ہماری مدد فرما۔ ہمارے اور ہمارے مخالفوں کے درمیان حق اور سچ کے ساتھ فیصلہ فرما کیونکہ تو مظلوموں پر شفقت کرنے والا اور کمزوروں کی مدد کرنے والا ہے۔ طائف میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان الفاظ میں دعا کی : (اَللَّہُمَّ إلَیْکَ أشْکُوْ ضَعْفِ قُوَّتِیْ، وَقِلَّۃِ حِیْلَتِیْ، وَہَوَإنِیْ عَلَیْ النَّاسِ، یَا أرْحَمَ الرَّاحِمِیْنَ، أنْتَ رَبِّ المُسْتَضْعَفِیْنَ، وَأنْتَ رَبِّیْ، إلیٰ مَنْ تَکِلُنِیْ ؟ إلیٰ بَعِیْد یَتَجَہَّمُنِیْ ؟ أمْ إلیٰ عَدُوِّ مَلَکْتَہٗ أمْرِیْ ؟ إنْ لَّمْ یَکُنْ بِکَ عَلیَّ غَضَب فَلَا أُبَالِیْ، وَلٰکِنْ عَافِیَتُکَ ہِیَ أوْسَعُ لِیْ، أعُوْذُ بِنُوْرِ وَجْہِکَ الَّذِیْ أشْرَقْتَ لَہٗ الظُّلُمَاتِ، وَصَلِّحْ عَلَیْہِ أَمْرَ الدُّنْیَا وَالآخِرَۃُ مَنْ أنْ تُنَزِّلَ بِیْ غَضْبُکَ، أوْ یَحِلُّ عَلَیَّ سَخَطُکَ، لَکَ العُتْبَی حَتّٰی تَرْضٰی، وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ إلَّا بکَ) [ الرحیق المختوم] ” اے اللہ میں اپنی کمزوری، وسائل کی کمی کا اور لوگوں کے مقابلے میں کمزور ہونے کی تیرے حضور فریاد کرتا ہوں۔ اے رحم کرنے والے، آپ کمزوروں کے رب ہیں اور آپ میرے بھی رب ہیں تو مجھے کس کے سپرد کرتا ہے دوری کی طرف جو مجھے غصہ میں مبتلا کر دے یا دشمن کی طرف جس کو تو نے میرے معاملے کا مالک بنایا اگر تو مجھ پر ناراض نہیں تو مجھے کسی کی پروا نہیں لیکن تیری عافیت مجھے درکار ہے میں پناہ چاہتا ہوں تیرے چہرے کے نور سے جس کے ساتھ تو نے اندھیروں کو جلا بخشی اور اسی کے ساتھ دنیا اور آخرت کا معاملہ درست ہوا۔ اس چیز سے کہ مجھ پر تیرا غضب نازل ہو۔ یا تیری مجھ پر ناراضگی حلال ہو۔ تیرے ہی لیے دونوں جانب ہیں یہاں تک کہ تو راضی ہوجائے تیری توفیق کے بغیر نیکی کی طاقت اور گناہوں سے بچا نہیں جا سکتا۔“ مسائل ١۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کا مقصد اللہ کی توحید سے لوگوں کو آگاہ کرنا ہے۔ ٢۔ نبی کا کام لوگوں کو اچھے برے انجام سے آگاہ کرنا ہے۔ ٣۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھی معلوم نہ تھا کہ قیامت کب آئے گی۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ ہر کھلی اور چھپی بات کو جانتا ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ غائب اور حاضر کو جانتا ہے اس کے سوا کوئی غیب نہیں جانتا : ١۔ اللہ ظاہر اور غائب کو جانتا ہے۔ (التوبۃ: ٩٤) ٢۔ اللہ جانتا ہے جو تم چھپاتے ہو اور جو تم ظاہر کرتے ہو۔ (النحل : ١٩) ٣۔ تم اپنی بات کو پوشیدہ رکھو یا ظاہر کرو اللہ سینوں کے بھید جانتا ہے۔ (الملک : ١٣) ٤۔ اللہ کے لیے برابر ہے جو انسان چھپاتے اور جو ظاہر کرتے ہیں۔ (الرعد : ١٠) ٥۔ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں وہ غائب اور حاضر کو جانتا ہے۔ (الحشر : ٢٢) ٦۔ کیا وہ نہیں جانتے کہ اللہ ظاہر اور پوشیدہ کو جانتا ہے؟ (البقرۃ: ٧٧) ٧۔ اللہ کے سوا کوئی بھی غیب نہیں جانتا۔ ( الانعام : ٥٩) ٨۔ اللہ آسمانوں و زمین کے رازوں سے واقف ہے۔ (الفرقان : ٦) الأنبياء
109 الأنبياء
110 الأنبياء
111 الأنبياء
112 الأنبياء
0 سورۃ حج کا تعارف ربط سورۃ: سورۃ الانبیاء کا اختتامی مضمون قیامت کی ہولناکیاں تھا جن سے بچنے کے لیے توحید ورسالت کے تقاضے پورے کرنا لازم ہے۔ سورۃ حج میں اسی مضمون کو قدرے تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے۔ اس سورۃ میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے ذریعے حج کا اعلان ہوا جس بنا ہر اس کا نام الحج ہے جو آیت ٢٧ سے لیا گیا ہے۔ اس کے 10 رکوع 78 آیات ہیں۔ ارشاد ہوتا ہے اے لوگو! قیامت کے دن سے ڈرو جس دن عظیم زلزلہ برپا ہوگا۔ حالت یہ ہوگی کہ لوگ مدہوش دکھائی دیں گے اور حاملہ اپنا حمل پھینک دے گی۔ حالانکہ لوگوں نے کوئی نشہ نہیں پیا ہوگا۔ یہ صرف اس بنا پر ہوگا کہ اس دن ” اللہ“ کی گرفت بہت سخت ہوگی۔ جو لوگ قیامت کے دن جی اٹھنے کا انکار کرتے ہیں انہیں اس دن کے عذاب سے ڈرنا چاہیے۔ جہاں تک جی اٹھنے کا تعلق ہے انسان اخلاص کے ساتھ اپنی پیدائش کے مختلف مراحل پر غور کرے تو اسے یقین ہوجائے گا کہ جس طرح مجھے عدم سے وجود بخشا گیا ہے اسی طرح مجھے مٹی سے نکال لیا جائے گا۔ پھر انسان اپنے آس پاس پھیلی ہوئی خشک اور سخت زمین پر غور کرے کہ اللہ تعالیٰ بارش کے بعد اس میں کس طرح سبزہ پیدا کرتا ہے۔ جس طرح مٹی میں پڑے ہوئے بیج کو کونپل کی شکل میں نکال لیا جاتا ہے، اسی طرح انسان کو قبر سے اٹھایا جائے گا۔ جو انسان قیامت کے دن کا انکار کرتا ہے دراصل وہ اپنے رب سے جھگڑتا ہے۔ جھگڑنے کا معنٰی ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ قیامت قائم ہوگی وہ کہتا ہے کہ قیامت قائم نہیں ہوگی۔ ایسے لوگ محض دنیا کے فائدے کی خاطر اپنے رب کی عبادت اور نیکی کے کام کرتے ہیں۔ فائدہ ہو تو رب کی عبادت میں لگے رہے اور اسلام، اسلام کہنا شروع کردیا۔ آزمائش آئی تو بھاگ کھڑے ہوئے یہ لوگ ناقابل تلافی نقصان پائیں گے۔ یہ بھی وضاحت کردی گئی کہ لوگ اپنے رب کی بندگی کریں یا نہ کریں۔ اسے بندوں کی عبادت کی کوئی پروا نہیں کیونکہ زمین و آسمانوں اور جو کچھ ان کے درمیان ہے وہ سب کے سب اپنے رب کی بندگی میں لگے ہوئے اور اس کے حضور سر بسجود ہوتے ہیں۔ اس کے ساتھ یہ بات بھی بتلا دی گئی کہ رب کی عبادت سے انکار کرنے والوں کو جہنم میں جھونکا جائے گا اور عبادت گزاروں کو جنت میں قیام بخشا جائے گا۔ اہل مکہ بیت اللہ کے پڑوسی ہونے کے باوجود اپنے رب کی وحدت اور عبادت کے منکر ہیں۔ انہیں سوچنا چاہیے کہ مکہ کا قیام، مقام اور آرام تو بیت اللہ کا مرہون منت ہے۔ جسے ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے رب کی عبادت کرنے اور اس کی وحدت کے پرچار کے لیے بنایا تھا۔ اسی لیے انہوں نے اپنے رب کے حضور قربانی پیش کی تھی۔ اے مکہ کے باسیو! تم دین ابراہیم کا دعویٰ کرنے کے باوجود رب کی توحید کا انکار کرتے ہو ذرا سوچو اور غور کرو۔ اے اہل مکہ تمہاری حالت یہ ہے کہ تم نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مسلمانوں پر اس لیے ظلم پر ظلم کیے جا رہے ہو کہ یہ تمہیں اس گھر کے رب کی طرف بلاتے ہیں۔ تم حقیقت تسلیم کرنے کی بجائے لڑنے مرنے پر تیار ہوچکے ہو۔ لہٰذا اب مسلمانوں کو اجازت دی جاتی ہے کہ وہ تمہارے مقابلے میں قتال کے لیے کھڑے ہوجائیں یہ اجازت اس لیے دی گئی ہے کہ اگر ظالموں کے مقابلے میں مسلمانوں اور مظلوموں کو اجازت نہ دی جاتی تو دنیا کا نظام ختم ہو کر رہے جائے۔ سورۃ کے آخر میں توحید کے ٹھوس دلائل دئیے گئے ہیں اور دو ٹوک انداز میں بتلایا گیا ہے کہ ہر چیز کا اللہ ہی خالق اور مالک ہے، وہی موت وحیات پر اختیار رکھنے والا ہے۔ جو لوگ اس کے سوا دوسروں کا حکم مانتے اور ان کی بندگی کرتے ہیں۔ ان کے پاس اس فکر وعمل کی کوئی دلیل موجود نہیں۔ ان کا عقیدہ ظلم پر مبنی ہے جس کا یہ لوگ پرچار کرتے ہیں۔ قیامت کے دن ان کا کوئی مددگار نہیں ہوگا۔ اے لوگو! تمہارے سامنے ایک مثال بیان کی جاتی ہے اسے پوری توجہ سے سنو۔ جنہیں تم ” اللہ“ کے سوا پکارتے ہو وہ سب کے سب جمع ہو کر ایک مکھی پیدا نہیں کرسکتے۔ مکھی پیدا کرنا تو درکنار اگر مکھی کوئی چیز اٹھا کرلے جائے تو یہ اس سے واپس نہیں لے سکتے۔ پکارنے والے اور جنہیں پکارا جاتا ہے سب کے سب کمزور ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ کفار اور مشرکین نے اللہ تعالیٰ کی اس طرح قدر نہیں کی جس طرح ” اللہ“ کی قدر کرنے کا حق تھا۔ آخر میں مومنوں کو ہدایات دی گئی ہیں کہ اپنے رب کے حضور رکوع وسجود کرو اور اس کی بندگی میں لگے رہو، اور اس کے راستے میں جس طرح جہاد کرنے کا حق ہے جہاد جاری رکھو۔ اس نے تمہارے دین میں کوئی نقص نہیں چھوڑا یہی ملت ابراہیم ہے۔” اللہ“ نے پہلی کتب اور اس قرآن میں تمہارا نام مسلم رکھا ہے، تمہیں اور الرّسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو لوگوں پر گواہ ٹھہرایا ہے۔ بس نماز قائم رکھنا، زکوٰۃ ادا کرتے رہنا۔ اپنے ” اللہ“ کے ساتھ وابستہ رہنا، وہی تمہارا خیر خواہ اور کار ساز ہے۔ اس سے بہتر کوئی تمہاری مدد کرنے والا اور کار ساز نہیں ہوگا۔ الحج
1 فہم القرآن ربط کلام : سورۃ الانبیاء کا اختتام قیامت کے ذکر پر ہوا اس سورۃ کی ابتداء قیامت کی ہولناکیوں کے ذکر سے کی جا رہی ہے۔ اے لوگو! اپنے رب سے ڈر جاؤ اور یقین کرو کہ قیامت کا زلزلہ بڑا عظیم تر زلزلہ ہوگا۔ قیامت کا زلزلہ انسان کے تصورات سے ماوراء ہے لیکن اس کا ہلکا سا اندازہ کرنے کے لیے غور فرمائیں کہ اگر فضا میں اڑنے والے دو طیارے آپس میں آمنے سامنے ٹکرا جائیں یا ریل گاڑیوں کا باہم ٹکراؤ ہوجائے تو یہ حادثہ کس قدر خوفناک اور دھماکہ خیز ہوگا۔ یہ حقیقت قریب قریب آشکارا ہوچکی ہے کہ زمین، سورج، چاند، تارے اور سیارے اپنے اپنے مدار اور فضا میں اپنی اپنی رفتار کے ساتھ چل رہے ہیں۔ صرف زمین اور چاند کی رفتار کا اب تک جو اندازہ ہوا ہے کہ چوبیس ہزار میل فی گھنٹہ کی رفتار سے فضا میں دوڑ رہے ہیں۔ غور فرمائیں کہ جب اسرافیل کے پہلا صور پھونکنے پر ان کے درمیان ٹکراؤ ہوگا تو زمین و آسمان پہاڑوں اور دریاؤں کی کیا کیفیت ہوگی۔ اس آیت کی تفسیر بالقرآن سے اس حادثہ کا کچھ نہ کچھ اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ اس عظیم زلزلہ سے یہ کہہ کر آگاہ کیا ہے کہ لوگو! اپنے رب سے ڈر جاؤ۔ اس سے ڈرنے کا معنٰی شرک و بدعت سے بچ کر اپنے رب کی تابعداری کرنا ہے یہی انسان کی دانشمندی کی دلیل ہے۔ قیامت اس قدر اچانک اور ہولناک ہوگی اس دن دودھ پلانے والی اپنے بچے کو پھینک دے گی اور حاملہ عورت کا حمل گرجائے گا۔ لوگ مدہوش ہوں گے حالانکہ انھوں نے کسی قسم کا نشہ نہیں کیا ہوگا۔ ماں کا بچہ پھینکنا، حاملہ کا اپنا حمل گرا دینا اور لوگوں کا مدہوش جانا اس لیے ہوگا کیونکہ اس دن اللہ کا عذاب اور عتاب بہت سخت ہوگا۔ قیامت کے دن سورج ایک میل کے فاصلہ پر ہوگا۔ زمین تانبے کی طرح تپ رہی ہوگی۔ لوگ اپنے اپنے پسینے میں شرابور اور بعض لوگ اپنے پیسنے میں ڈبکیاں لے رہے ہوں گے سب برہنہ ہوں گے۔ رب ذوالجلال کے عتاب اور عذاب کی وجہ سے کوئی ترچھی آنکھ سے بھی کسی کو دیکھنے کی جرأت نہیں کرے گا یہ دن پچاس ہزار سال پر محیط ہوگا۔ اس کا وہ مرحلہ سب سے سخت ہوگا جب رب ذوالجلال آدم (علیہ السلام) کو کھڑا کر کے حکم دیں گے کہ آدم اپنی اولاد میں سے نوسو ننانوے کو جہنم کے لیے الگ کرلو۔ اس وقت بڑے بڑے انبیاء کرام (علیہ السلام) اور صلحاء نفسی، نفسی کی صدائیں بلند کر رہے ہوں گے۔ سرور دو عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جب اس مرحلہ کا ذکر کیا تو صحابہ کرام (رض) بے انتہا خوفزدہ ہوئے۔ آپ نے انھیں تسلی دیتے ہوئے فرمایا کہ نو سو ننانوے تم میں سے نہیں بلکہ یاجوج ماجوج میں سے ہوں گے۔ ” حضرت عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ حضرت ابوبکر (رض) نے عرض کی کہ اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ بوڑھے ہوئے جا رہے ہیں آپ نے فرمایا سورۃ ھود، واقعہ، مرسلات، عم یتسالون اور سورۃ تکویر نے مجھے بوڑھا کردیا ہے۔“ [ رواہ الترمذی : باب وَمِنْ سُورَۃِ الْوَاقِعَۃِ ] ” حضرت شداد بن اوس (رض) نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں آپ نے فرمایا عقل مند وہ ہے جس نے موت کے بعد کی زندگی کے لیے نیک عمل کیے اور نادان وہ ہے جس نے اپنے آپ کو اپنی خواہشات کے تابع کرلیا اس کے باوجود اللہ تعالیٰ سے امید رکھے ہوئے ہے۔“ [ رواہ الترمذی : باب الکیس من دان نفسہ] مسائل ١۔ قیامت کا دن بہت ہی شدید تر ہوگا۔ ٢۔ جب قیامت برپا ہوگی تو ماں اپنے بچے کو اپنی چھاتی سے چھڑا کر زمین پر پھینک دے گی۔ ٣۔ حاملہ کا حمل گرجائے گا اور لوگ خوف کے مارے مدہوش دکھائی دیں گے۔ تفسیر بالقرآن قیامت کی ہولناکیوں کی ایک جھلک : ١۔ قیامت کا زلزلہ بہت بڑا ہوگا۔ ( الحج : ١) ٢۔ قیامت کے دن ہر حاملہ اپنا حمل گرا دے گی اور دودھ پلانے والی اپنا بچہ چھاتی سے پھینک دے گی۔ ( الحج : ٢) ٣۔ قیامت کے دن زمین میں زلزلہ ہوگا۔ ( الواقعہ : ٣) ٤۔ لوگ اڑتے ہوئے پتنگوں کی طرح ہوجائیں گے۔ ( القارعۃ: ٤) ٥۔ پہاڑ دھنی ہوئی روئی کی طرح اڑنے لگیں گے۔ ( القارعۃ: ٥) ٦۔ قیامت کے دن لوگ بے ہوش دکھائی دیں گے۔ ( الحج : ٢) ٧۔ اس دن زمین اور پہاڑ کانپنے لگیں گے اور پہاڑ ریت کے ٹیلوں کی طرح ہوجائیں گے۔ (المزمّل : ١٤) الحج
2 الحج
3 فہم القرآن ربط کلام : لوگوں کا قیامت کے انکار اور اس کے احتساب سے نہ ڈرنے کی بڑی وجہ۔ جب کوئی شخص اللہ تعالیٰ کی ذات، اس کی صفات کا انکار کرتا ہے۔ تو ایسے شخص کو جس قدر سمجھایا جائے وہ اپنے کفر و شرک پر ڈٹا رہتا ہے۔ جس کی وجہ جہالت اور ہٹ دھرمی ہوا کرتی ہے۔ ایسے آدمی سے کوئی ایک گناہ سرزد نہیں ہوتا بلکہ اس سے ہر گناہ اور جرم کی توقع کی جا سکتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اپنے رب کی اتباع کے راستے سے ہٹ جاتا ہے۔ وہ جدھر منہ پھیرتا ہے شیطان اسے اسی طرف ہی لیے پھرتا ہے۔ شیطان کے بارے میں یہ بات لکھی جا چکی ہے کہ جس نے اس کے ساتھ ناطہ جوڑا شطیان اسے گمراہ کر دے گا اور اسے جہنم کی طرف دھکیل دے گا۔ اسی بات کو یوں بیان کیا گیا ہے کہ جو شخص رسول کی مخالفت پر اتر آئے اور مومنوں کے راستہ کو چھوڑ دے حالانکہ اس کے لیے ہدایت واضح کردی گئی۔ ایسے شخص کو اللہ تعالیٰ اسی طرف پھیردیتا ہے جدھر وہ چلنا چاہتا ہے۔ اس کے لیے جہنم تیار کی گئی ہے جو رہنے کے لیے بدترین جگہ ہے۔ (النساء : ١١٥) مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ کے بارے میں جھگڑنے والا شخص حقیقی علم سے تہی دامن ہوتا ہے۔ ٢۔ جس شخص نے شیطان سے ناطہ جوڑا وہ گمراہ ہوا۔ شیطان اسے جہنم رسید کر کے چھوڑے۔ الحج
4 الحج
5 فہم القرآن ربط کلام : قیامت قائم ہونے کا ثبوت آدمی کی تخلیق اور زمین سے اگنے والی نباتات میں موجود ہے۔ قیامت کا انکار کرنے والا حقیقتاً اللہ تعالیٰ کی سزا اور جزا کا انکار کرتا ہے۔ قیامت کا انکار کرنے والا فکری طور پر نادان ہوتا ہے جس بنا پر اسے احساس ہی نہیں رہتا کہ جس رب نے مجھے پہلی دفعہ پیدا کیا ہے اس کے لیے دوسری دفعہ پیدا کرنا کس طرح مشکل ہوگا ہے ؟ اسی بات کو یہاں ایک ٹھوس دلیل کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ اے لوگو! اگر تمھیں دوبارہ جی اٹھنے کے بارے میں شک ہے تو غور کرو ہم نے تمھیں مٹی سے پیدا کیا، پھر تمھاری تخلیق کا ایک نطفے سے آغاز کیا، پھر وہ نطفہ جما ہوا خون بنتا ہے۔ اس کے بعد گوشت کے لوتھڑے کی شکل اختیار کرتا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ اس لوتھڑے سے انسان کا وجود اور شکل وصورت بناتا ہے اور کبھی شکل و صورت بننے سے پہلے ہی اس کا وجود ختم کردیتا ہے۔ یہ حقیقت تمھارے لیے اس لیے بیان کی جاتی ہے تاکہ تم اپنے خالق کا اعتراف کرو۔ تم میں جس کے لیے اللہ تعالیٰ چاہتا ہے اسے مقررہ معیاد تک اس کی ماں کے رحم میں رکھتا ہے۔ پھر اسے نومولود کی صورت میں پیدا کرتا ہے۔ پھر اسے جوان کرتا ہے کچھ کو جوانی سے پہلے فوت کرلیتا ہے اور کچھ تم میں سے ارذل العمر کو پہنچ جاتے ہیں۔ جو بہت کچھ جاننے کے باوجود سب کچھ فراموش کر بیٹھتے ہیں۔ اسی طرح بے آباد زمین کی مثال ہے۔ جب اللہ تعالیٰ اس پر بارش برساتا ہے تو وہ شاداب اور ہر بھری دکھائی دیتی ہے اور ہر چیز بارش سے نمود پاتی ہے۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات برحق اور اس کا فرمان سچا ہے۔ کہ وہ زندہ کرنے والا اور موت دینے والا ہے اور ہر چیز پر قادر ہے۔ اس آیت مبارکہ میں موت کے بعد زندہ ہونے کے دو ایسے دلائل دیے گئے ہیں۔ جس سے ہر آدمی کو واسطہ پڑتا ہے۔ کسے معلوم نہیں ؟ کہ حضرت آدم (علیہ السلام) مٹی سے پیدا کیے گئے تھے۔ لوگو! تم اسی کی اولاد ہو۔ اس لیے بنیادی طور پر تم سب مٹی کی پیداوار ہو۔ دوسری اس کی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ انسان کی زندگی کا دار و مدار مٹی کے ساتھ ہے۔ انسان کی رہائش، چلنا پھرنا، اٹھنا، بیٹھنا لیٹنایہاں تک کہ ہر انسان نے مٹی میں دفن ہونا ہے۔ بے شک وہ ڈوب کر مرے یا جل کر راکھ ہوجائے۔ بالآخر پانی اور راکھ بھی تو مٹی کے ساتھ مل جاتے ہیں۔ جہاں تک انسان کی خوراک اور اس کی پیدائش کے مراحل ہیں اس سے ہر شخص آگاہ ہے۔ بے آباد زمین اور بارش کی مثال دے کر یہ حقیقت ثابت کی گئی ہے کہ غور فرمائیں ! کہ جس زمین اور صحرا، کے بارے میں آدمی سوچ میں پڑجاتا ہے کہ اب اسے کس طرح زندگی اور شادابی حاصل ہوگی۔ جونہی بارش ہوتی ہے تو سراب کی طرح چمکنے والا صحرا، سبزے کی چادر لپیٹ لیتا ہے اور ہر طرف قلب کو سکون اور آنکھوں کوٹھنڈا کردینے والا منظر پیش کرتا ہے۔ نباتات میں کچھ ایسے پودے بھی ہوتے ہیں۔ جن کا بیج لمبی مدت تک زمین میں دفن رہتا ہے۔ بارش پربارش ہونے کے باوجوداُگنے کا نام نہیں لیتا لیکن جب اس کے اگنے کا وقت آتا ہے تو پھر وہ معمولی بارش سے بھی زمین کی سطح پر نمودار ہوجاتا ہے۔ یہی انسان کی موت کے بعد زندہ ہونے کی مثال ہے کہ صدیوں سے مرے ہوئے انسانوں کو اللہ تعالیٰ جب اٹھانا چاہے گا تو قیامت برپا کرنے کا حکم ہوگا اور ہر کوئی اٹھ کر محشر کے میدان میں پہنچ جائے گا۔ کیونکہ اللہ ہی موت و حیات پر اختیار رکھنے والا ہے۔ اس کی ذات سچ اور قیامت برپا کرنے کے بارے میں اس کا فرمان برحق ہے۔ وہ لوگوں کو دوبارہ پیدا کرنے پر قادر ہے۔ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ أَنَّ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ قَدْ أَذْہَبَ اللَّہُ عَنْکُمْ عُبِّیَّۃَ الْجَاہِلِیَّۃِ وَفَخْرَہَا بالآبَاءِ مُؤْمِنٌ تَقِیٌّ وَفَاجِرٌ شَقِیٌّ وَالنَّاسُ بَنُو آدَمَ وَآدَمُ مِنْ تُرَابٍ )[ رواہ الترمذی : باب فِی فَضْلِ الشَّأْمِ وَالْیَمَنِ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے تمہیں جاہلیت کا تکبر اور آباؤ اجداد پر فخر کرنے سے منع کیا ہے، مؤمن متقی ہوتا ہے اور فاجر بدبخت ہوتا ہے۔ تمام لوگ آدم کی اولاد ہیں اور آدم کی تخلیق مٹی سے ہوئی ہے۔“ (عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ وَرَفَعَ الْحَدِیثَ أَنَّہُ قَالَ إِنَّ اللَّہَ عَزَّ وَجَلَّ قَدْ وَکَّلَ بالرَّحِمِ مَلَکًا فَیَقُولُ أَیْ رَبِّ نُطْفَۃٌ أَیْ رَبِّ عَلَقَۃٌ أَیْ رَبِّ مُضْغَۃٌ فَإِذَا أَرَاد اللَّہُ أَنْ یَقْضِیَ خَلْقًا قَالَ قَالَ الْمَلَکُ أَیْ رَبِّ ذَکَرٌ أَوْ أُنْثَی شَقِیٌّ أَوْ سَعِیدٌ فَمَا الرِّزْقُ فَمَا الأَجَلُ فَیُکْتَبُ کَذَلِکَ فِی بَطْنِ أُمِّہِ) [ رواہ مسلم : باب کَیْفِیَّۃِ الْخَلْقِ الآدَمِیِّ فِی بَطْنِ أُمِّہِ وَکِتَابَۃِ رِزْقِہِ وَأَجَلِہِ وَعَمَلِہِ وَشَقَاوَتِہِ وَسَعَادَتِہِ] ” حضرت انس بن مالک (رض) سے روایت ہے وہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے رحم میں ایک فرشتہ مقرر کیا ہے وہ کہتا ہے اے میرے رب ! یہ نطفہ ہے اے میرے رب! گوشت کا لوتھڑا جب اللہ تعالیٰ کسی کی تخلیق کا فیصلہ فرماتا ہے تو فرشتہ کہتا ہے اے میرے رب مذکر یا مؤنث بدبخت یا نیک اس کا رزق کتنا اور اس کی عمر کتنی ہے۔ اسی طرح سب کچھ انسان کی ماں کے پیٹ میں لکھ دیا جاتا ہے۔“ (عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِک ٍ اَنَّ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کَانَ یَدْعُو أَعُوذُ بِکَ مِنَ الْبُخْلِ وَالْکَسَلِ، وَأَرْذَلِ الْعُمُرِ، وَعَذَابِ الْقَبْرِ، وَفِتْنَۃِ الدَّجَّالِ، وَفِتْنَۃِ الْمَحْیَا وَالْمَمَاتِ) [ رواہ البخاری : باب قَوْلِہِ وَمِنْکُمْ مَنْ یُرَدُّ إِلَی أَرْذَلِ الْعُمُرِ ] ” حضرت انس بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دعا کیا کرتے تھے اے اللہ ! میں بخیلی، سستی، رذیل عمر، عذاب قبر، دجال کے فتنے اور زندگی اور موت کے فتنے سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔“ مسائل ١۔ اللہ ہی انسان کو پیدا کرنے اور اس کی شکل وصورت بنانے والا ہے۔ ٢۔ اللہ ہی زمین سے انگوریاں اگاتا ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ ہر کسی کو اپنی منشاء کے مطابق زندگی عطا فرماتا ہے۔ ٤۔ قیامت کے متعلق شک وشبہہ میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن انسانی تخلیق کے مختلف مراحل : ١۔ انسان کو اللہ نے مٹی سے پیدا کیا۔ (آل عمران : ٥٩) ٢۔ اللہ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی یہ بھی ہے کہ اس نے تمہیں مٹی سے پیدا فرمایا۔ (الروم : ٢٠) ٣۔ کیا تو اس ذات کا انکار کرتا ہے جس نے انسان کو مٹی سے پیدا کیا پھر نطفہ سے انسان بنایا۔ (الکھف : ٣٧) ٤۔ ہم نے انسان کو کھنکھناتی ہوئی مٹی سے پیدا کیا۔ (الحجر : ٢٦) ٥۔ ہم نے انسان کو مٹی کے جوہر سے پیدا کیا۔ پھر ہم نے اسے نطفہ بنایا۔ (المومنون : ١٢۔ ١٣) ٦۔ اے لوگو! اس رب سے ڈر جاؤ جس نے تمہیں ایک نفس سے پیدا کیا۔ ( النساء : ١) ٧۔ حوّا آدم سے پید اہوئی۔ (النساء : ١) ٨۔ ہم نے انسان کو مخلوط نطفے سے پیدا کیا۔ (الدھر : ٢) ٩۔ اللہ نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا، پھر اسے نطفہ بنایا، پھر اس سے خون کا لوتھڑا، پھر اس سے بوٹی بنا کر انسان کی شکل دی۔ (الحج : ٥) ١٠۔ اللہ نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا، پھر نطفہ، پھر لوتھڑا بنا کر تمہیں پیدا کرتا ہے کہ تم بچے ہوتے ہو۔ (المومن : ٦٧) ١١۔ اللہ نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا، پھر نطفہ سے، پھر تمہارے جوڑے جوڑے بنائے۔ (فاطر : ١١) الحج
6 الحج
7 فہم القرآن ربط کلام : انسان کی پیدائش اور نباتات کی تخلیق کے حوالے سے قیامت کا ثبوت پیش کرنے کے بعد یہ ثابت کردیا ہے کہ جو شخص قیامت کا انکار کرتا ہے درحقیقت وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ جھگڑا کرتا ہے۔ قیامت قائم کرنے کا مرکزی اور بنیادی مقصد یہ ہے کہ ظالم کو اس کے ظلم کی ٹھیک ٹھیک سزا اور نیک لوگوں کو ان کے اعمال کی پوری پوری جزا دی جائے۔ جو شخص قیامت کا انکار کرتا ہے۔ درحقیقت وہ اللہ تعالیٰ کے ذمہ کذب بیانی اور اس کے عدل و انصاف کا انکار کرتا ہے۔ ایسے شخص کے پاس کوئی عقلی اور نقلی دلیل نہیں ہوتی۔ لیکن پھر بھی وہ اپنے جھوٹے موقف پر اوٹ پٹانگ باتیں کرتے ہوئے بحث و تکرار کرتا ہے۔ جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ جھگڑا کرنے کے مترادف ہے۔ قیامت کا انکار کرنے والا۔ ناصرف علم سے تہی دست ہوتا ہے۔ بلکہ وہ اللہ تعالیٰ کی روشن کتاب کی رہنمائی اور ہدایت سے بھی محروم ہوتا ہے۔ ایسے شخص کے پاس دلائل نہیں ہوتے اس لیے وہ متکبرانہ انداز میں منہ موڑتے ہوئے لوگوں کو گمراہی کے راستے پر قائم رکھنے کے درپے رہتا ہے۔ اس کو دنیا میں ذلت اٹھانا پڑے گی اور آخرت میں جلا دینے والے عذاب میں مبتلا کیا جائے گا۔ اس کے بارے میں دوسرے مقام پر فرمایا کہ جب ان کے جسم جل جائیں گے تو ان کے جسم بدل دئیے جائیں گے۔ اس طرح ہمیشہ ہوتا رہے گا اور وہ ہمیشہ جہنم میں جلتے رہیں گے۔ (النساء : ٥٦) (عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ نَارُکُمْ جُزْءٌ مِّنْ سَبْعِیْنَ جُزْءً ا مِّنْ نَّارِ جَھَنَّمَ قِیْلَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ اِنْ کَانَتْ لَکَافِیَۃً قَالَ فُضِّلَتْ عَلَیْھِنَّ بِتِسْعَۃٍ وَّ سِتِّیْنَ جُزْءً اکُلُّھُنَّ مِثْلُ حَرِّھَا) [ رواہ البخاری : باب صِفَۃِ النَّارِ وَأَنَّہَا مَخْلُوقَۃٌ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تمہاری دنیا کی آگ‘ دوزخ کی آگ الحج
8 الحج
9 کے ستر حصوں میں سے ایک ہے آپ سے عرض کیا گیا‘ اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جلانے کو تو یہی آگ کافی تھی۔ آپ نے فرمایا دوزخ کی آگ کو دنیا کی آگ سے انہتر ڈگری بڑھا دیا گیا ہے۔ ہر ڈگری دنیا کی آگ کے برابر ہوگی۔“ ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا دو صور پھونکنے کا عرصہ چالیس ہوگا۔ حضرت ابوہریرہ (رض) سے ان کے شاگردوں نے پوچھا چالیس دن ؟ ابوہریرہ (رض) نے فرمایا کہ میں یہ نہیں کہتا۔ انہوں نے استفسار کیا چالیس ماہ ؟ حضرت ابوہریرہ (رض) نے جواباً فرمایا میں یہ نہیں کہتا۔ انہوں نے پھر پوچھا چالیس سال ہیں؟ ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں میں یہ بھی نہیں کہتا۔ یعنی ابوہریرہ (رض) بھول گئے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کتنی مدت بتلائی تھی اس کے بعد اللہ تعالیٰ بارش نازل فرمائے گا۔ لوگ یوں اگیں گے جس طرح انگوری اگتی ہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا، انسان کی دومچی کے علاوہ ہر چیز بو سیدہ ہوجائے گی۔ قیامت کے دن اسی سے تمام اعضاء کو جوڑا جائے گا۔“ [ رواہ البخاری : باب (یَوْمَ یُنْفَخُ فِی الصُّورِ فَتَأْتُونَ أَفْوَاجًا) زُمَرًا ] (دومچی سے مراد اس کا کوئی خاص ذرّہ ہے جو محفوظ رہتا ہے۔) مسائل ١۔ قیامت کو جھٹلانے والا حقیقتاً اللہ تعالیٰ سے جھگڑا کرتا ہے۔ ٢۔ قیامت کو جھٹلانے والے کے پاس عقلی و نقلی دلیل نہیں ہوتی ٣۔ قیامت کو جھٹلانے اور لوگوں کو اللہ کے راستہ سے روکنے والے کے لیے جلادینے والا عذاب ہوگا۔ تفسیر بالقرآن قیامت کے منکر کو عذاب : ١۔ قیامت کو جھٹلانے اور لوگوں کو اللہ کے راستہ سے روکنے والے کے لیے جلا دینے والا عذاب ہوگا۔ (الحج : ٩) ٢۔ اللہ کی آیات کے ساتھ کفر کرنے والے اور قیامت کو جھٹلانے والے عذاب میں مبتلا کیے جائیں گے۔ (الروم : ١٦) ٣۔ قیامت کو جھٹلانے والوں کے لیے آگ کا عذاب ہے۔ (الفرقان : ١١) الحج
10 الحج
11 فہم القرآن ربط کلام : قیامت کے دن کا انکار کرنے والا نیکی کرنے کے معاملہ میں مخلص اور مستقل مزاج نہیں ہوتا۔ انسان اخلاص کے ساتھ نیکی کرے گا تو اسے قیامت کے دن اپنے سامنے پائے گا اگر نمودونمائش کے لیے کرے گا تو دنیا وآخرت میں نقصان پائے گا۔ مشرک، منافق اور قیامت پر یقین نہ رکھنے والے کی یہ عادت ہوتی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی عبادت اس وقت تک کرتا ہے جب تک اسے کوئی فائدہ پہنچتا ہے۔ اگر اسے فائدہ حاصل ہو تو اللہ کی عبادت میں لگا رہتا ہے۔ اگر اسے کوئی آزمائش آجائے تو وہ الٹے پاؤں پھر جاتا ہے۔ ایسے لوگ دنیا اور آخرت میں نقصان اٹھائیں گے۔ یہ ایسا کھلا اور بڑا نقصان ہے جس کی تلافی ممکن نہیں۔ پہلے پارے میں دین کی مثال آسمان سے نازل ہونے والی بارش کے ساتھ دی ہے۔ جس میں اندھیرے، بجلی اور کڑک ہوتی ہے۔ گویا کہ بارش میں فائدے بھی ہیں اور نقصان بھی۔ منافق کو فائدہ پہنچتا ہے تو دینی کام کرتا ہے، نقصان کا اندیشہ ہوتا ہے تو پیچھے ہٹ جاتا ہے۔ (البقرۃ: ١٩۔ ١٠) یہی حال مشرک اور قیامت کے منکر کا ہوتا ہے وہ اس وقت تک ہی خالصتاً اللہ تعالیٰ کو پکارتا ہے جب تک اس کی مشکل رفع نہیں ہوتی مشکل رفع ہوجائے تو دین اور اللہ تعالیٰ پر مطمئن رہتا ہے۔ مشکل حل ہوجائے تو اللہ تعالیٰ کے ساتھ دوسروں کو شامل کرلیتا ہے یا پھر مزارات اور غیروں کا ہو کر رہ جاتا ہے۔ یہ ایسا عقیدہ اور کردار ہے کہ جس کا دنیا میں بھی نقصان ہوگا اور آخرت میں ایسا نقصان ہے جس کی تلافی ناممکن ہے۔ عربی میں ” حَرَفٌ“ کا معنی کنارہ ہے اور یہ محاورہ کے طور پر بھی استعمال ہوتا ہے۔ جس طرح ہماری زبان میں کسی شخص کی عجلت پسندی اور غیر مستقل مزاجی کو بیان کرنے کے لیے کہا جاتا ہے کہ فلاں شخص کو چھوڑیے وہ تو بس کنارے پر بیٹھا ہوا ہے۔ یعنی اس کا کوئی اعتبار نہیں کہ وہ اس کام کو کب چھوڑ دے۔ نفع و نقصان کے بارے میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا عقیدہ اور فرمان : (عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ (رض) قَالَ کُنْتُ خَلْفَ رَسُوْلِ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَوْمًا فَقَالَ یَاغُلَامُ إِنِّیْ أُعَلِّمُکَ کَلِمَاتٍ اِحْفَظِ اللّٰہَ یَحْفَظْکَ احْفَظِ اللّٰہَ تَجِدْہُ تُجَاھَکَ إِذَ ا سَأَلْتَ فَاسْأَلِ اللّٰہَ وَإِذَا اسْتَعَنْتَ فَاسْتَعِنْ باللّٰہِ وَاعْلَمْ أَنَّ الْأُمَّۃَ لَوِ اجْتَمَعَتْ عَلآی أَنْ یَّنْفَعُوْکَ بِشَیْءٍ لَّمْ یَنْفَعُوْکَ إِلَّا بِشَیْءٍ قَدْ کَتَبَہُ اللّٰہُ لَکَ وَلَوِ اجْتَمَعُوْا عَلآی أَنْ یَّضُرُّوْکَ بِشَیْءٍ لَّمْ یَضُرُّوْکَ إِلَّا بِشَیْءٍ قَدْ کَتَبَہُ اللّٰہُ عَلَیْکَ رُفِعَتِ الْأَقْلَامُ وَجَفَّتِ الصُّحُفُ) [ رواہ الترمذی : کتاب صفۃ القیامۃ والرقائق والورع ] ” حضرت عبداللہ بن عباس (رض) بیان کرتے ہیں ایک دن میں سواری پر رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پیچھے سوار تھا آپ نے فرمایا : بچے! میں تجھے چند کلمات سکھاتاہوں۔ اللہ کو یاد رکھنا وہ تجھے یاد رکھے گا، اللہ کو یاد رکھے گا تو اسے اپنے سامنے پائے گا، جب سوال کرے تو اللہ ہی سے سوال کر، جب مدد طلب کرے تو اللہ تعالیٰ ہی سے مدد طلب کرنا۔ یقین رکھ کہ اگر تمام لوگ تجھے کوئی فائدہ دینے کے لیے جمع ہوجائیں۔ وہ اتنا ہی فائدہ پہنچا سکتے ہیں جتنا اللہ تعالیٰ نے تیرے لیے لکھ رکھا ہے اور اگر وہ تجھے نقصان دینے پہ تل جائیں۔ تو تجھے اتنا ہی نقصان پہنچے گا جتنا تیرے حق میں لکھا گیا ہے، قلمیں اٹھالی گئیں ہیں اور صحیفے خشک ہوچکے ہیں۔“ مسائل ١۔ مشرک، منافق اور قیامت کے منکر صرف مفاد کی بنیاد پر دین اور اللہ تعالیٰ کا نام لیتے ہیں۔ ٢۔ ابن الوقت کو اللہ تعالیٰ کی بندگی میں فائدہ پہنچے تو مطمئن ہوتا ہے۔ ورنہ بھاگ کھڑا ہوتا ہے۔ ٣۔ مشرک اور منافق کو آخرت میں ناقابل تلافی نقصان ہوگا۔ تفسیر بالقرآن دنیا اور آخرت میں نقصان پانے والے لوگ : ١۔ اپنے مالوں اور اولادوں کے بارے میں سستی کرنے والے دنیا اور آخرت میں نقصان اٹھائیں گے۔ ( المنافقون : ٩) ٢۔ جو لوگ مساجد کو برباد کرتے ہیں وہ دنیا وآخرت میں ذلّت اٹھائیں گے۔ ( البقرۃ: ١١٤) ٣۔ جو لوگ اللہ کی راہ میں رکاوٹ بنتے ہیں وہ دنیا وآخرت میں خسارہ پانے والوں میں سے ہوں گے۔ ( ہود : ٢١) ٤۔ جن لوگوں نے دنیا کی زندگی کو آخرت پر ترجیح دی وہ دنیا وآخرت میں خسارہ پائیں گے۔ ( النحل : ١٠٩) ٥۔ منافق دنیا وآخرت میں خسارہ پائے گا۔ (الحج : ١١) الحج
12 فہم القرآن ربط کلام : انسان جب اپنے رب کی بندگی چھوڑتا ہے تو پھر دربدر کی ٹھوکریں کھاتا پھرتا اور جگہ جگہ ماتھا ٹیکتا ہے۔ مشرک اپنی مفاد پرستی کی وجہ سے مستقل مزاجی کے ساتھ اپنے رب سے مانگنے اور اس کی عبادت کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ وہ عجلت پسندی کی وجہ سے ان کو پکارتا ہے جو نفع ونقصان پہچانے پر قدرت نہیں رکھتی۔ جلد باز اور مفاد پرست طبیعت کی وجہ سے مشرک اس حقیقت کو سمجھنے کے لیے تیار نہیں ہوتا کہ جس مزار یا بت کے سامنے اپنی حاجت پیش کررہا ہے وہ تو اسے نہ نفع دے سکتا ہے اور نہ ہی تکلیف پہنچا سکتا ہے۔ یہ فکر و عمل اس قدر گمراہ کن ہے کہ آدمی ہدایت قبول کرنا تو درکنار حق بات سننا بھی گوارا نہیں کرتا یہ عمل اس بات کی گواہی ہے کہ یہ شخص گمراہی میں بہت دور جا چکا ہے۔ ایسے شخص کو شعور نہیں ہوتا کہ جس کو پکار رہا ہے وہ تو فائدے کی بجائے اس کے لیے نقصان کا باعث بن رہا ہے کیونکہ یہ اپنے فائدے کی خاطر اسے پکارتا ہے وہ فائدہ تو پہنچا نہیں سکتے البتہ یہ فائدے کی بجائے ضرور نقصان اٹھاتا ہے۔ وہ فائدے کی بجائے اپنے آپ کا نقصان کر رہا ہوتا ہے۔ ایسے شخص کا انجام انتہائی بھیانک ہوگا۔ بہت ہی برا عقیدہ اور سہارا ہے جس کو مشرک نے اپنا یا ہے۔ جس انسان کا یہ فکر و عمل ہوجائے اس کو اللہ تعالیٰ کی بجائے دوسروں پر زیادہ اعتماد ہوتا ہے۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ کے سوا نہ کوئی نفع دے سکتا ہے اور نہ ہی نقصان پہنچا سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے سوا دوسروں کو مشکل کشا سمجھنے والا شخص فائدے کی بجائے نقصان کے زیادہ قریب ہوتا ہے۔ جن پر مشرک بھروسہ کرتا ہے۔ وہ برا مولیٰ وہ برا ساتھی ہے، مشرک ایک کی بجائے کئی مشکل کشاؤں کو پکارتا ہے، لیکن یہاں جمع کی بجائے واحد کا لفظ لایا گیا ہے۔ کیونکہ مشرک کے عقیدہ کا محرک اور سبب شیطان ہوتا ہے اس لیے بتلایا ہے۔ حقیقی خیر خواہی کی بجائے شیطان بد ترین خیر خواہی کرنے والا اور برا ساتھی ہے۔ (عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ قَالَ کَانَ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) إِذَا رَفَعَ رَأْسَہُ مِنَ الرُّکُوعِ قَالَ رَبَّنَا لَکَ الْحَمْدُ مِلْءَ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضِ وَمِلْءَ مَا شِءْتَ مِنْ شَیْءٍ بَعْدُ أَہْلَ الثَّنَاءِ وَالْمَجْدِ أَحَقُّ مَا قَالَ الْعَبْدُ وَکُلُّنَا لَکَ عَبْدٌ اللَّہُمَّ لاَ مَانِعَ لِمَا أَعْطَیْتَ وَلاَ مُعْطِیَ لِمَا مَنَعْتَ وَلاَ یَنْفَعُ ذَا الْجَدِّ مِنْکَ الْجَدّ) [ رواہ مسلم : باب مَا یَقُولُ إِذَا رَفَعَ رَأْسَہُ مِنَ الرُّکُوعِ] ” حضرت ابو سعید (رض) سے روایت ہے انہوں نے کہا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب رکوع سے اپنا سر اٹھاتے تو یہ پڑھتے، اے ہمارے رب! تمام تعریفیں تیرے لیے ہیں آسمانوں و زمین خلاء کے برابر اور اس کے بعد جس قدر وسعتیں ہیں تو جس قدر چاہتا ہے، تمام تعریفات کا تو ہی لائق ہے اور بزرگی کا سب سے زیادہ تو حقدار ہے جو تعریف اور عظمت بندے بیان کرتے ہیں ہم تیرے ہی بندے ہیں اے اللہ! جو چیز تو عطاء کر دے اس کو کوئی روکنے والا نہیں اور جو چیز تو روک لے اس کو کوئی عطا کرنے والا نہیں تجھ سے بڑھ کر کسی کی عظمت نہیں، تیری عظمت سے بڑھ کر کسی کی عظمت فائدہ نہیں دے سکتی۔“ (عَنْ الْحَسَنُ بْنُ عَلِیٍّ (رض) قَالَ عَلَّمَنِی رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کَلِمَاتٍ أَقُولُہُنَّ فِی الْوِتْرِ إِنَّکَ تَقْضِی وَلاَ یُقْضَی عَلَیْکَ وَإِنَّہُ لاَ یَذِلُّ مَنْ وَالَیْتَ وَلاَ یَعِزُّ مَنْ عَادَیْتَ) [ رواہ ابوداود : باب الْقُنُوتِ فِی الْوِتْرِ] ” حضرت حسن بن علی (رض)‘ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے وتر میں پڑھنے کے لیے یہ دعا سکھلائی الٰہی بے شک تو فیصلہ کرتا ہے تیرے فیصلہ کے خلاف کوئی فیصلہ نہیں کیا جاتا۔ اسے کوئی ذلیل نہیں کرسکتا جس کا تو دوست بن جائے اور جس کے ساتھ تو دشمنی رکھے اس کو کوئی عزت نہیں دے سکتا۔“ مسائل ١۔ مشرک ان کو پکارتا ہے جو نفع و نقصان کے مالک نہیں ہیں۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ کے ساتھ یا اس کے سوا دوسروں کو پکارنے والا پرلے درجے کا گمراہ ہوتا ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نفع و نقصان کا مالک نہیں : ١۔ فرما دیجیے جن کو تم معبود تصور کرتے ہو ان کو بلا کردیکھو کیا وہ تمہاری تکلیف دور کرنے پر اختیار رکھتے ہیں؟ (بنی اسرائیل : ١٠٧) ٢۔ اللہ کے سوا ان کو پکارو جو تمہارے نفع و نقصان کے مالک نہیں ہیں۔ (یونس : ١٠٦) ٣۔ کیا تم اللہ کے علاوہ ان کی عبادت کرتے ہو جو تمہیں نہ نفع پہنچا سکتے ہیں نہ نقصان ؟ (الانبیاء : ٦٦) ٤۔ فرما دیجیے میں بھی اپنے نفع و نقصان کا مالک نہیں مگر جو اللہ چاہے۔ (الاعراف : ١٨٨، یونس : ٤٩) الحج
13 الحج
14 فہم القرآن ربط کلام : مشرک اور منافق کے مقابلے میں نیک لوگوں کا اعتقاد اور ان کا بہتر انجام۔ سچا ایمان اور صالح کردار رکھنے والے حضرات کے لیے قرآن خوشخبری دیتا ہے کہ ان کے لیے ایسے باغات ہیں جن کے نیچے سے نہریں جاری ہیں جس میں اللہ تعالیٰ انھیں داخل فرمائے گا۔ اس حقیقت میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ وہی کرتا ہے جو چاہتا ہے۔ اس آیت کے آخری الفاظ درحقیقت پچھلی آیت کا جواب ہے جس میں مشرک کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ وہ جنہیں اپنا مولا اور ساتھی سمجھ کر پکارتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ نفع و نقصان کے مالک نہیں نفع و نقصان کا مالک صرف اللہ تعالیٰ ہے۔ وہ جس طرح چاہتا ہے فیصلہ کرتا ہے۔ کسی نیک کی نیکی اور برے کی برائی اس کے فیصلے میں حائل نہیں ہو سکتی۔ مسائل ١۔ سچے ایماندار اور صالح عمل کرنے والوں کے لیے جنت ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ جو چاہتا ہے وہی کرتا ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ جو چاہتا ہے سو کرتا ہے : ١۔ بے شک میرا اللہ جو چاہتا ہے تدبیر کرتا ہے۔ (یوسف : ١٠٠) ٢۔ اللہ جس کی چاہتا ہے مدد فرماتا ہے۔ (آل عمران : ١٣) ٣۔ جو تم چاہتے ہو وہ نہیں ہوتا وہ ہوتا ہے جو اللہ چاہتا ہے۔ (الدھر : ٣٠) ٤۔ جو تم چاہتے ہو وہ نہیں ہوتا مگر وہی ہوتا ہے جو جہانوں کا رب چاہتا ہے۔ (التکویر : ٢٩) ٥۔ ” اللہ“ جسے چاہے معاف فرمائے جسے چاہے عذاب دے۔ ( آل عمران : ١٢٩) الحج
15 فہم القرآن ربط کلام : مشرک اور منافق اپنی بے اعتمادی اور بد اعتقادی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر غیروں سے مدد طلب کرتا ہے۔ اس لیے اسے ایک تمثیل کے ذریعے سمجھانے کی کوشش کی گئی ہے۔ مشرک، منافق اور جو شخص بھی یہ سمجھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کی دنیا اور آخرت میں مدد نہیں کرے گا۔ اسے چاہیے کہ ایک رسی آسمان کی طرف لٹکائے پھر اسے کاٹ دے اور اب دیکھے کیا اس کا ایسا کرنا اس کے غصہ کو ٹال دے گا ؟ اللہ تعالیٰ اپنی آیات کو بالکل کھول کر بیان کرتا ہے۔ بلاشبہ وہ اسی کو ہدایت دیتا ہے جو ہدا یت کی چاہت اور ارادہ رکھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ایک عملی مثال کی طرف اشارہ فرما کر یہ حقیقت سمجھائی ہے کہ اگر کوئی شخص اپنے کفر و شرک اور بد اعتقادی کی وجہ سے یہ سمجھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ میری مدد نہیں کرے گا۔ اس کی مثال تو ایسے شخص کی ہے کہ جو ایک رسی کے ذریعے چھت پر چڑھنے کی کوشش کرتا ہے مگر چڑھ نہیں سکتا وہ طیش میں آکر رسی کو کاٹ ڈالتا ہے۔ اسے اپنے آپ سے سوال کرنا چاہیے کہ ایسا کرنے سے وہ چھت پر چڑھ جائے گا ؟ ظاہر ہے کہ ہرگز نہیں چڑھ سکتا۔ یہی مثال اس شخص کی ہے جو اپنی بد اعتقادی اور جلد بازی کی وجہ سے یہ سمجھ بیٹھتا ہے کہ ایک عرصہ بیت چکا مجھے دعائیں کرتے ہوئے لیکن اللہ تعالیٰ نے میری مشکل حل نہیں کی۔ وہ دل ہی دل میں طیش کھا کر اپنے رب کو چھوڑ کر کسی اور کے در پر جھکتا اور اس سے مانگتا ہے۔ اس کے اس طرح کرنے سے کیا لازم ہے کہ اس کی مصیبت کٹ جائے ؟ ظاہر ہے اس طرح اس کی مصیبت دور نہیں ہو سکتی۔ گویا کہ جس طرح رسّی کا ٹنے والا اوپر چڑھنے کی بجائے پستی پر گر پڑتا ہے۔ اسی طرح اپنے رب کو چھوڑ کر دوسروں سے مانگنے والا فکری اور عملی طور پر پستی کا شکار ہوجاتا ہے جس وجہ سے در در کی ٹھوکریں کھاتا پھرتا ہے۔ اس مثال کے ذریعے توحید کی رفعت اور شرک کی ذلّت بتلا کر سمجھایا گیا ہے کہ انسان کو ہر حال میں اپنے رب پر اعتماد اور اس کی رحمت پر امید رکھنی چاہیے۔ جو انسان اپنے رب پر بھروسہ ختم کردے اور اس کی رحمت سے ناامید ہوجائے دربدر کی ٹھوکریں کھانا یا خودکشی کے گھاٹ اترنا اس کا مقدر ہوجاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اسی شخص کی رہنمائی کرتا ہے جو اس سے خلوص نیت کے ساتھ ہدایت چاہتا ہے اور مستقل مزاجی کے ساتھ اس سے مدد مانگتا ہے۔ (اَنْ لَّنْ یَّنْصُرَہٗ اللّٰہُ) [ الحج : ١٥] ” کہ اللہ اس کی مدد نہیں کرے گا۔“ کچھ مفسرین نے اس کا یہ مفہوم لیا ہے کہ ”ۂ“ کا اشارہ سرور دو عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف ہے اور اس آیت کا مفہوم یہ ہے کہ جو سمجھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبر کی مدد نہیں کرے گا اسے چاہیے کہ وہ آسمان پر چڑھ کر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل ہونے والی مدد کو روک لے۔ جس طرح یہ ممکن نہیں اسی طرح یہ بھی ممکن نہیں کہ کوئی اسلام کے غلبہ کو روک سکے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : (کَتَبَ اللّٰہُ لاََغْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِی اِِنَّ اللّٰہَ قَوِیٌّ عَزِیْز) [ المجادلۃ: ٢١] ” اللہ نے بات لکھ دی ہے کہ میں اور میرے پیغمبر غالب آکر رہے گے بے شک اللہ بڑا ہی قوت و غلبہ والا ہے۔“ مسائل ١۔ اللہ کی مدد سے ناامید ہونے والا شخص آخری سہارا بھی کھو بیٹھتا ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ اپنے فرامین کو کھول کھول کر بیان کرتا ہے تاکہ لوگ راہنمائی حاصل کریں۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ ہی دنیا اور آخرت میں انسان کی مدد کرنے والا ہے : ١۔ وہ ذات جس نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اور مومنوں کی مدد فرمائی۔ (الانفال : ٦٢) ٢۔ اللہ کی طرف سے ہی مدد حاصل ہوتی ہے۔ (آل عمران : ١٢٦) ٣۔ اللہ حق والوں کی مدد کرنے پر قادر ہے۔ (الحج : ٣٩) ٤۔ اللہ اپنی مدد کے ساتھ جس کی چاہتا ہے نصرت فرماتا ہے۔ (الروم : ٥) ٥۔ اے اللہ ! میں مغلوب ہوگیا ہوں میری مدد فرما ( نوح (علیہ السلام) کی دعا )۔ (القمر : ١٠) ٦۔ اللہ ہی تمہارا مولا ہے اور وہی بہتر مدد کرنے والا ہے۔ (آل عمران : ١٥٠) ٧۔ الٰہی اپنی طرف سے میرے لیے مددگار بنا۔ (بنی اسرائیل : ٨٠) الحج
16 الحج
17 فہم القرآن ربط کلام : اس آیت سے قبل اور ما بعد توحید باری تعالیٰ کا ذکر ہے اس لیے تمام مذہبی طبقات کو مخاطب کر کے انتباہ کیا گیا ہے کہ سب کے درمیان ” اللہ“ ہی فیصلہ صادر فرمائے گا۔ کہ کس کس نے ” اللہ“ کی توحید اور اس کے احکام کا انکار کیا اور کس نے اس کی توحید کو مانا اور شرک سے اجتناب کیا۔ اس آیت مبارکہ میں مسلمانوں کے ذکر کے ساتھ پانچ فرقوں کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ جو دنیا کے مختلف ممالک میں پائے جاتے ہیں۔ یہودی اپنے آپ کو اس لیے یہودی کہلواتے ہیں کہ وہ اپنی نسبت حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے بیٹے یہودہ کی طرف کرتے ہیں۔ صائبین سے مراد وہ لوگ ہیں جو اپنے آپ کو زرتشت کے پیروکار کہتے ہیں۔ جن کے بارے میں ان کا خیال ہے کہ وہ پیغمبر تھے۔ عرف عام میں نصاریٰ عیسائیوں کو کہا جاتا ہے تاہم عیسائیوں میں ایک مخصوص فرقہ کا نام بھی نصاریٰ ہے۔ مجوسی وہ لوگ ہیں جو آگ کی پرستش کرتے ہیں۔ ان کا یہ بھی عقیدہ ہے کہ زمین و آسمان کے نظام کو چلانے والے دو خدا ہیں ایک کا نام اھرمن ہے جو نقصان پہنچانے پر اختیار رکھتا ہے دوسرے کا نام یزداں ہے جو خیر و برکت کا مالک ہے۔ مشرک کا بنیادی طور پر کوئی عقیدہ نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ ہر علاقے اور زمانے کے لوگ مختلف معبودوں کی عبادت کرتے ہیں اور انہیں حاجت روا، مشکل کشا سمجھ کر ان کے سامنے رکوع و سجود کرنے کے ساتھ ساتھ نذر و نیاز پیش کرتے ہیں۔ ان مذاہب کے پیروکاروں کے درمیان شدید اختلافات ہیں لیکن تمام مذاہب کے پیروکار ہمیشہ سے مسلمانوں کے خلاف متحدرہے ہیں۔ بالخصوص یہودی اور مشرک مسلمانوں کی مخالفت کرنے میں ہمیشہ سے پیش پیش ہیں۔ دنیا میں ” اللہ“ کی توحید کی مخالفت اور شرک کی حمایت میں جو چاہے اور جس طرح چاہے تاویلات کرتا پھرے بالآخر قیامت کے دن سب کے درمیان رب ذوالجلال ٹھیک ٹھیک فیصلہ کرے گا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ ہر کسی کے نظریات اور اعمال کو پوری طرح جانتا اور باخبر ہے۔ (عَنْ اَبِی ھُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لَتُؤَدُّنَّ الْحُقُوْقَ إِلٰی أَھْلِھَا یَوْمَ الْقِیَامَۃِ، حَتّٰی یُقَاد للشَّاۃِ الْجَلْحَاءِ مِنَ الشَّاۃِ الْقَرْنَاءِ) [ رواہ مسلم : کتاب البروالصلۃ، باب تحریم الظلم] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تمہیں قیامت کے دن لوگوں کے حقوق ان کے مالکوں کو ادا کرنا پڑیں گے، یہاں تک کہ جس بکری کے سینگ نہیں ہیں اس کو سینگ والی بکری سے بدلہ دلایا جائے گا۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن سب کے عقائد اور اعمال درمیان عدل و انصاف کے ساتھ فیصلہ فرمائے گا۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ ہر کسی کی نیت اور اس کے اعمال کو اچھی طرح جانتا ہے۔ تفسیربالقرآن قیامت کے دن لوگوں کے درمیان ٹھیک ٹھیک فیصلہ کردیا جائے گا : ١۔ بے شک تیرا رب قیامت کے دن ان کے درمیان فیصلہ کرے گا جس میں وہ اختلاف کرتے تھے۔ (یونس : ٩٣) ٢۔ یقیناً اللہ تمہارے درمیان اپنے حکم سے فیصلہ فرمائے گا۔ (النحل : ٧٨) ٣۔ اللہ قیامت کے دن تمہارے اختلافات کا فیصلہ فرمائے گا۔ (الحج : ٦٩) ٤۔ اللہ قیامت کے دن عدل وانصاف کا ترازو قائم فرمائے گا۔ (الانبیاء : ٤٧) ٥۔ اللہ عدل و انصاف کا فیصلہ فرماتا ہے۔ (المومن : ٢٠ ) ٦۔ یقیناً اللہ تمہارے درمیان فیصلہ فرمائے گا جو تم اختلاف کرتے تھے۔ (الزمر : ٣) ٧۔ اللہ قیامت کے دن تمہارے درمیان فیصلہ فرمائے گا اور کافر مومنوں پر برتری نہیں پائیں گے۔ (النساء : ١٤١) ٨۔ وحی کی فرمانبرداری کرو اور صبر کرو یہاں تک کہ اللہ فیصلہ فرمادے۔ اللہ بہترین فیصلہ کرنے والا ہے۔ (یونس : ١٠٩) الحج
18 فہم القرآن ربط کلام : ” اللہ“ کی بندگی کا انکار اور اس کے حکم سے سرتابی کرنے والوں کو غور کرنا چاہیے کہ کائنات میں جو چیز پیدا کی گئی ہے، وہ اپنے رب کی عبادت کرنے کے ساتھ انسان کی خدمت میں لگی ہوئی ہے۔ ان میں کوئی ایک چیز ایسی نہیں جو اپنے رب کی حکم عدولی کرتی ہو۔ ہر چیز اپنے خالق کا حکم مانتی اور اس کے سامنے سربسجود ہوتی ہے اے انسان تجھے بھی اپنے خالق کے سامنے جھکنا چاہیے۔ عربی زبان میں ” تَرَیٰ“ کا معنی دیکھنا ہی نہیں ہوتا بلکہ یہ لفظ جاننا اور غور کرنے کے معنٰی میں بھی آتا ہے۔ یہاں اس کے دونوں مفہوم لیے جا سکتے ہیں۔ اس فرمان میں بالخصوص کفار اور مشرکین کو اس بات کی طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ جس رب کو وہ نہیں مانتے اس کی جلالت و جبروت کا عالم یہ ہے کہ اس کے سامنے آسمانوں کا چپہ چپہ اور زمین کا ذرہ ذرہ، شمس و قمر، ستارے، پہاڑ، درخت، چوپائے اور بہت سے خوش قسمت انسان سجدہ ریز ہوتے ہیں۔ البتہ انسانوں میں کثیر تعداد ایسے لوگوں کی بھی ہے جو اپنے رب کے حضور سرافگندہ ہونے سے اعتقاد اً یا عملاً انکار کرتے ہیں۔ ان پر اللہ تعالیٰ کا عذاب لازم ہوچکا ہے۔ جس پر ” اللہ“ کا عذاب لازم ہوگیا وہ ذلیل ہوگا۔ جسے اللہ تعالیٰ ذلیل کرے اسے کوئی عزت نہیں دے سکتا۔ یقیناً اللہ تعالیٰ جو چاہتا ہے فیصلہ صادر فرتا ہے۔ زمینوں، آسمانوں میں جو بھی مخلوق ہے اس کے بارے میں قرآن مجید نے یہ بھی بتلایا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی حمد و ستائش بیان کرتی ہے۔ لیکن انسان ان کی زبان نہیں سمجھتے۔ (بنی اسرائیل : ٤٤) نا صرف ہر چیز اپنے رب کی حمد وثنا اور اس کے سامنے سجدہ کرتی ہے بلکہ ہر چیز کا سایہ بھی اپنے دائیں بائیں پھیل کر سجدہ ریز ہوتا ہے۔ (النحل : ٤٨) اس فضا میں سورج اور چاند بڑے سیارے میں شمار ہوتے اس لیے ان کا نام لے کر بتلایا ہے کہ وہ بھی اپنے رب کے حضور سجدہ کرتے ہیں۔ (الرحمن : ٥) یہ حقیقت بیان کر کے انسان کو باور کروایا ہے کہ اے انسان ! اپنے فکر و عمل پر غور کر کہ جس زمین پر تو رہتا ہے اس کا ذرہ ذرہ، جس آسمان کے نیچے پھرتا ہے اس کا چپہ چپہ اور جس فضا میں زندگی بسر کرتا ہے۔ اس کا لمحہ لمحہ اپنے خالق ومالک کی حمد و شکر میں مصروف ہے۔ ایک تو ہے جو اپنے رب کے حضور سجدہ کرنے سے انکاری اور اس کی تابعداری کرنے سے گریزاں ہے۔ مگر اے انسان یہ بات یاد رکھنا جس نے اپنے رب کی عبادت سے گریز اور اس کی تابعداری سے انکار کیا وہ ضرور ذلیل ہوگا اللہ تعالیٰ کے فیصلہ کے سامنے کوئی دم نہیں مار سکتا گویا کہ جسے اللہ ذلیل کر دے اسے کوئی عزت نہیں دے سکتا۔ (عَنْ أَبِی ذَرٍّ (رض) قَالَ قَال النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لأَبِی ذَرٍّ حینَ غَرَبَتِ الشَّمْسُ تَدْرِی أَیْنَ تَذْہَبُ قُلْتُ اللَّہُ وَرَسُولُہُ أَعْلَمُ قَالَ فَإِنَّہَا تَذْہَبُ حَتَّی تَسْجُدَ تَحْتَ الْعَرْشِ، فَتَسْتَأْذِنَ فَیُؤْذَنَ لَہَا، وَیُوشِکُ أَنْ تَسْجُدَ فَلاَ یُقْبَلَ مِنْہَا، وَتَسْتَأْذِنَ فَلاَ یُؤْذَنَ لَہَا، یُقَالُ لَہَا ارْجِعِی مِنْ حَیْثُ جِءْتِ فَتَطْلُعُ مِنْ مَغْرِبِہَا، فَذَلِکَ قَوْلُہُ تَعَالَی (وَالشَّمْسُ تَجْرِی لِمُسْتَقَرٍّ لَہَا ذَلِکَ تَقْدِیرُ الْعَزِیزِ الْعَلِیمِ) [ رواہ البخاری : باب صِفَۃِ الشَّمْسِ وَالْقَمَرِ] ” حضرت ابوذر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کیا تجھے معلوم ہے جب سورج غروب ہوتا ہے تو کہاں جاتا ہے؟ میں نے کہا‘ اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو علم ہے۔ آپ نے فرمایا سورج عرش کے نیچے سجدہ کرتا اور اجازت طلب کرتا ہے۔ اسے اجازت مل جاتی ہے۔ قریب ہے وہ سجدہ کرے گا اور اس کا سجدہ قبول نہ ہو۔ مشرق کی جانب سے طلوع ہونے کی اجازت طلب کرے گا اس کو اجازت نہ ملے۔ حکم ہو جدھر سے آیا اسی طرف سے طلوع ہوجا۔ چنانچہ سورج مغرب کی طرف سے طلوع ہوگا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے سورج اپنے مستقر کی طرف چلا جاتا ہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اس کا ٹھکانا عرش کے نیچے ہے“ مسائل ١۔ زمین و آسمان کی ہر چیز اللہ تعالیٰ کی حمد و ستائش بیان کرتی ہے۔ ٢۔ بہت سے انسان اپنے رب کے تابع فرمان اور اس کی حمد و ثنا کرتے ہیں۔ ٣۔ انسانوں میں سے بہت سے لوگ نافرمان اور اپنے رب کی یاد سے غافل ہیں۔ ٤۔ جسے اللہ ذلیل کردے اسے کوئی عزت نہیں دے سکتا۔ الحج
19 فہم القرآن ربط کلام : عزت، ذلّت اور ہر قسم کا اختیار اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے مگر پھر بھی لوگ اس کے سوا دوسروں کے سامنے جھکنے اور انہیں ” اللہ“ کی ذات اور صفات میں شریک کرتے اور ان کے حق میں جھگڑتے ہیں، ایسے لوگوں کو آگ کا لباس اور جہنم کا کھولتا ہوا پانی ان کے سروں پر ڈالا جائے گا۔ کائنات کا ذرہ ذرہ اپنے خالق و مالک کی تابعداری اور اس کی حمد وثنا میں لگا ہوا ہے۔ مگر انسانوں میں کثیر تعداد ایسی ہے جو نہ صرف اپنے رب کے نافرمان اور ناقدر دان ہیں بلکہ وہ اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کی صفات کے بارے میں جھگڑا کرتے ہیں کچھ ان میں ذات کبریا کے منکر ہیں اور کچھ نے اس کی صفات میں دوسروں کو دخیل کر رکھا ہے۔ ظلم کی حد یہ ہے کہ وہ اپنے باطل عقیدہ پر اہل حق سے جھگڑتے ہیں۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کی قوم نے حضرت نوح (علیہ السلام) سے ساڑھے نو سو سال جھگڑا کیا۔ نمرود نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے بارے میں بحث و تکرار کی۔ فرعون اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی کشمکش سب کو معلوم ہے۔ اہل مکہ نے اسی باطل عقیدہ کی حمایت پر رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے ساتھیوں پر مظالم کے پہاڑ توڑ دیے اور آپ کے خلاف بدر، احد اور خندق میں معرکہ آرائی کی۔ حق و باطل کی کشمکش اتنی طویل ہے کہ اس کا احاطہ کرنا مشکل ہے۔ یہ سلسلہ قیامت تک جاری رہے گا۔ جونہی قیامت برپا ہوگی اللہ تعالیٰ حق اور سچ کے ساتھ فیصلہ فرمائیں گے۔ جو لوگ باطل کی حمایت میں جھگڑتے رہے ان کو آگ کا لباس پہنایا جائے گا۔ ان کے سروں پر بے انتہا کھولتا ہوا پانی ڈالتے ہوئے انھیں اسے پینے کا حکم دیا جائے گا۔ جس سے ان کی آنتڑیاں اور جسم گل سڑ جائیں گے۔ ان کے سروں پر لوہے کے ہتھوڑے برسائے جائیں گے۔ ٹھیک ٹھیک سزا دینے کے لیے ان کے جسم مسلسل بدلے جائیں گے۔ جب یہ لوگ جہنم سے نکلنے کی کوشش کریں گے تو فرشتے انھیں مار مار کر یہ کہتے ہوئے دھکیل دیں گے کہ اب تم نے اس جلا دینے والے عذاب میں ہمیشہ رہنا ہے۔ سر پر جہنم کا کھولتا ہوا پانی ڈالنے کی سزا کا اس لیے الگ ذکر کیا گیا ہے کیونکہ شرک اور دیگر جرائم کی ابتداء بنیادی طور سوچ کی خرابی کے باعث ہوتی ہے۔ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ اِنَّ الْحَمِیمَ لَیُصَبُّ عَلَی رُءُ وسِہِمْ فَیَنْفُذُ الْحَمِیمُ حَتَّی یَخْلُصَ إِلَی جَوْفِہِ فَیَسْلِتَ مَا فِی جَوْفِہِ حَتَّی یَمْرُقَ مِنْ قَدَمَیْہِ وَہُوَ الصَّہْرُ ثُمَّ یُعَادُ کَمَا کَانَ ) [ رواہ الترمذی : باب مَا جَاءَ فِی صِفَۃِ شَرَابِ أَہْلِ النَّارِ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں آپ نے فرمایا بے شک گرم پانی جہنمیوں کے سروں میں ڈالا جائیگا۔ پانی ان کے سروں کو چھیدتے ہوئے انکے پیٹوں میں پہنچے گا تو ان کی آنتیں پگھل کرپاؤں کے راستے نکل جائیں گی پھر انہیں اسی طرح لوٹا دیاجائیگا۔“ (عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ (رض) أَنَّ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَرَأَ ہَذِہِ الآیَۃَ (اتَّقُوا اللَّہَ حَقَّ تُقَاتِہِ وَلاَ تَمُوتُنَّ إِلاَّ وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ) قَالَ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لَوْ أَنَّ قَطْرَۃً مِنَ الزَّقُّومِ قُطِرَتْ فِی دَار الدُّنْیَا لأَفْسَدَتْ عَلَی أَہْلِ الدُّنْیَا مَعَایِشَہُمْ فَکَیْفَ بِمَنْ یَکُونُ طَعَامَہُ) [ رواہ الترمذی : باب مَا جَاءَ فِی صِفَۃِ شَرَابِ أَہْلِ النَّارِ] ” حضرت عبداللہ بن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ آیت پڑھی ” کہ اللہ سے ڈرو جس طرح اللہ سے ڈرنے کا حق ہے اور تمہیں موت اسلام پر ہی آنی چاہیے“ آپ نے فرمایا اگر زقوم کا ایک قطرہ دنیا کے کسی گھر میں ڈال دیا جائے تو پوری دنیا کے لوگوں کا کھانا پینا خراب ہوجائے انکی کیا حالت ہوگی جن کا یہ کھانا ہوگا۔“ ” حضرت نعمان بن بشیر (رض) بیان کرتے ہیں۔ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ یقیناً دوزخیوں میں سب سے معمولی عذاب پانے والے کے پاؤں میں آگ کے جوتے ہوں گے۔ جس کی وجہ سے اس کا دماغ ہنڈیا کی طرح کھول رہا ہوگا۔ وہ خیال کرے گا کہ کسی دوسرے شخص کو اس سے زیادہ عذاب نہیں ہو رہا‘ حالانکہ وہ سب سے ہلکے عذاب میں مبتلا ہوگا۔“ [ رواہ مسلم : کتاب الإیمان، باب أھون أھل النار عذابا] مسائل ١۔ جہنمیوں کو آگ کا لباس پہنایا جائے گا۔ ٢۔ جہنمیوں کو جہنم کا کھولتا ہوا پانی پینے کے لیے دیا جائے گا۔ ٣۔ جہنم کا کھولتا پانی جہنمیوں کے سر پر ڈالا جائے گا۔ ٤۔ جہنمیوں کے سروں پر لوہے کے بھاری ہتھوڑے برسائے جائیں گے۔ ٥۔ جہنمی جب جہنم سے نکلنے کی کوشش کریں گے تو انھیں مار مار کر واپس لوٹا دیا جائے گا۔ ٦۔ جہنمیوں کے لیے جلا دینے والا ہمیشہ ہمیش کا عذاب ہوگا۔ تفسیر بالقرآن جہنمیوں کی جہنم میں مختلف سزائیں : ١۔ اس دن ہم ان کا مال جہنم کی آگ میں گرم کریں گے اس کے ساتھ ان کی پیشانیوں، کروٹوں اور پیٹھوں کو داغا جائے گا۔ (التوبہ : ٣٥) ٢۔ ان کا ٹھکانہ جہنم ہے جب آگ ہلکی ہونے لگے گی تو ہم اسے مزید بھڑکا دیں گے۔ (بنی اسرائیل : ٩٧) ٣۔ اس میں وہ کھولتا ہوا پانی پیئیں گے اور اس طرح پیئیں گے جس طرح پیا سا اونٹ پیتا ہے۔ (الواقعہ : ٥٤ تا ٥٥) ٤۔ ہم نے ظالموں کے لیے آگ تیار کی ہے جو انہیں گھیرے ہوئے ہوگی اور انہیں پانی کی جگہ پگھلا ہو اتانبا دیا جائے گا جو ان کے چہروں کو جلا دے گا۔ (الکھف : ٢٩) ٥۔ ان کے پینے کے لیے کھولتا ہوا پانی اور درد ناک عذاب ہوگا۔ (الانعام : ٧٠) ٦۔ کفار کے لئے اُبلتا ہوا پانی اور دردناک عذاب ہوگا۔ (یونس : ٤) ٧۔ تھور کا درخت گنہگاروں کا کھانا ہوگا۔ (الدخان : ٤٣) ٨۔ جہنمی گرم ہوا کی لپیٹ میں اور کھولتے ہوئے پانی میں ہوں گے۔ (الواقعۃ: ٤٢) ٩۔ ان کے لیے کھانے کی کوئی چیز نہیں ہوگی مگر ضریع ہے۔ جو ناموٹا کرے گا اور نہ بھوک میں کچھ کام آئے گا۔ (الغاشیۃ: ٦۔ ٧) ١٠۔ کھولتے ہوئے چشمے سے انھیں پانی پلایا جائے گا۔ (الغاشیۃ : ٥) ١١۔ جہنمیوں کو پیپ اور لہو پلایا جائے گا۔ (ابراہیم : ١٦) الحج
20 الحج
21 الحج
22 الحج
23 فہم القرآن ربط کلام : جہنمیوں کی سزاؤں کے مقابلے میں جنتیوں کے انعامات۔ قاری کو اچھے اور برے انجام سے آگاہ کرنے کے لیے قرآن مجید اکثر مقامات پر دونوں قسم کے انجام کا بیک وقت ذکر کرتا ہے تاکہ قرآن مجید پڑھنے والا شخص موقعہ پر صحیح فیصلہ کرسکے۔ کہ اسے کونسا کردار منتخب کرنا چاہیے اس لیے جہنمیوں کی سزاؤں کے مقابلے میں جنتیوں کے انعامات کا تذکرہ ہوتا ہے۔ جو لوگ اپنے رب پر حقیقی ایمان لائے اور خلوص نیت کے ساتھ صالح اعمال کرتے رہے۔ ان کا رب انھیں ہر صورت جنت میں داخل کرے گا۔ جس کے نیچے نہریں جاری ہیں انھیں سونے اور موتیوں کے کنگن اور زرق بر ق ریشم کا لباس پہننے کے لیے دیا جائے گا۔ یہ انعام اس لیے ہوگا کہ انھیں عقیدہ توحید سمجھنے اور سمجھانے کی توفیق حاصل ہوئی اور وہ سیدھے راستے پر گامزن رہے۔ دنیا کی زندگی میں مومن مردوں کو سونے کے کنگن اور ریشم کا لباس پہننے سے منع کیا گیا تھا۔ لیکن جنت میں یہ پابندی اٹھا دی جائے گی۔ قول طیب سے مراد عقیدہ توحید ہے اور صراط حمید کا معنی ہے ایسا راستہ جو ہر خطرہ سے محفوظ اور اس پرچلنا قابل رشک اور قابل تعریف ہو بعض اہل علم نے ” اَلْحَمِیْدُ“ سے مراد ” اللہ“ کی ذات لی ہے۔ ” اللہ“ ہر اعتبار سے قابل تعریف ہے اسی لیے کائنات کی ہر چیز اس کی حمد و ثنا کرتی ہے۔ کچھ اہل دانش نے اس کا یہ مفہوم لیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف جانے والا راستہ۔ (وَعَنْ اَنَسٍ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) غَدْوَۃٌ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اَوْ رَوْحَۃٌ خَیْرٌ مِّنَ الدُّنْیَا وَمَافِیْھَا وَلَوْ اَنَّّ امْرَاأۃً مِّنْ نِّسَاءِ اَھْلِ الْجَنَّۃِ اطَّلَعَتْ اِلَی الْاَرْضِ لَاَضَاءَ تْ مَابَیْنَھُمَا وَلَمَلَاَتْ مَا بَیْنَھُمَا رِیْحًا وَّلَنَصِیْفُھَا عَلٰی رَأسِھَا خَیْرٌ مِّنَ الدُّنْیَا وَمَا فِیْھَا۔) [ رواہ البخاری : باب الْحُورُ الْعِینُ وَصِفَتُہُنَّ ] ” حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا‘ اللہ کی راہ میں نکلنا دنیا اور دنیا کی تمام چیزوں سے بہتر ہے اگر اہل جنت کی عورتوں سے کوئی زمین کی طرف جھانک لے‘ تو مشرق ومغرب اور جو ان کے درمیان ہے روشن اور معطر ہوجائے نیز اس کے سر کا دوپٹہ دنیا اور جو کچھ دنیا میں ہے اس سے قیمتی ہے۔“ (عَنْ سَہْلِ بْنِ سَعْدٍ السَّاعِدِیِّ قَالَ قَالَ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَوْضِعُ سَوْطٍ فِی الْجَنَّۃِ خَیْرٌ مِنَ الدُّنْیَا وَمَا فیہَا) [ رواہ البخاری : باب مَا جَاءَ فِی صِفَۃِ الْجَنَّۃِ وَأَنَّہَا مَخْلُوقَۃٌ ] ” حضرت سہل بن سعد الساعدی (رض) بیان کرتے ہیں رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا جنت میں ایک کوڑے کے برابر جگہ ملنا زمین کی ہر چیز سے بہتر ہے۔“ مسائل ١۔ یقیناً مومنوں کو جنت میں داخل کیا جائے گا۔ ٢۔ جنت میں مومنوں کو سونے اور موتیوں کے کنگن پہنائے جائیں گے۔ ٣۔ جنت میں جنتیوں کو ریشم کا زرق برق لباس پہنایا جائے گا۔ تفسیر بالقرآن جنت کی نعمتوں کی ایک جھلک : ١۔ ہم نے اس میں کھجوروں، انگوروں کے باغ بنائے ہیں اور ان میں چشمے جاری کیے ہیں۔ (یٰس : ٣٤) ٢۔ یقیناً متقین باغات اور چشموں میں ہوں گے۔ (الذاریات : ١٥) ٣۔ یقیناً متقی نعمتوں والی جنت میں ہوں گے۔ (الطور : ١٧) ٤۔ جنتیوں کو شراب طہور دی جائے گی۔ (الدھر : ٢١) ٥۔ جنت میں سونے اور لولو کے زیور پہنائے جائیں گے۔ (فاطر : ٣٣) ٦۔ جنت میں تمام پھل دو، دو قسم کے ہوں گے۔ (الرحمٰن : ٥٢) ٧۔ جنتی سبز قالینوں اور مسندوں پر تکیہ لگا کر بیٹھے ہوں گے۔ (الرحمٰن : ٧٦) ٨۔ ہم ان کے دلوں سے کینہ نکال دیں گے اور سب ایک دوسرے کے سامنے تکیوں پر بیٹھے ہوں گے۔ انہیں کوئی تکلیف نہیں پہنچے گی اور نہ وہ اس سے نکالے جائیں گے۔ (الحجر : ٤٧۔ ٤٨) ٩۔ جنت میں جنتیوں کو ہر وہ نعمت میسر ہوگی جس کی وہ چاہت کریں گے۔ ( الانبیاء : ١٠٢) الحج
24 الحج
25 فہم القرآن ربط کلام : جنت میں جانے والوں نے ” اللہ“ کی توحید کو قبول کیا ہے اور صراط مستقیم پر گامزن ہوئے ان کے مقابلے میں جہنمیوں کا کردار اور انجام۔ جہنم میں جانے والے کفر کے مرتکب ہوئے اور لوگوں کو اللہ کے راستے اور بیت اللہ سے روکتے تھے۔ جو لوگ دوسروں کو اللہ کے راستے اور مسجد حرام سے روکتے ہیں انھیں اذّیت ناک عذاب دیا جائے گا۔ اس فرمان کے پہلے مخاطب اہل مکہ ہیں جو ناصرف لوگوں کو دین اسلام سے منع کرتے تھے بلکہ مسلمانوں کو حرم میں آنے سے روکتے تھے۔ اہل مکہ نے مسجد حرام کو ذاتی ملکیت سمجھ رکھا تھا۔ جس بنا پر وہ مسلمانوں کو بالخصوص نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حرم میں پریشان کرتے تھے۔ ایک دفعہ آپ سجدہ کی حالت میں تھے تو انھوں نے اونٹ کی اوجڑی لاکر آپ کے سرمبارک پر رکھ دی۔ دوسری دفعہ آپ طواف کر رہے تو ایک ظالم نے آپ کا گریبان پکڑ کر جھنجوڑا اور کہا کہ کیا تو لا الہ الا اللہ کی کی دعوت دیتا ہے۔ آپ نے پوری جُرأت اور اعتماد کے ساتھ فرمایا : ” نَعْمَ اَنَا اَقُوْلُ ذَالِکَ“ ہاں ! میں ہی یہ دعوت دیتا ہوں۔ (ابن ہشام) اس طرح جب آپ حرم میں نماز پڑھتے تو اہل مکہ تالیاں اور سیٹیاں بجایا کرتے تھے۔ اس صورتحال میں اہل مکہ کو یہ بات یاد کروائی گئی ہے کہ حرم کی تولیّت کا حق بجا لیکن اس میں کسی کی اجارہ داری نہیں ہونی چاہیے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اسے پوری دنیا کے انسانوں کے لیے برابر ٹھہرا دیا ہے۔ اس کے رہنے والوں اور مسافروں کے مابین کوئی امتیاز نہیں ہے۔ جو شخص اس کی حرمت پامال کرے گا اور اس میں ظلم و تعدّی اختیار کرے گا اللہ تعالیٰ اس کو اذّیت ناک عذاب دے گا۔ ” حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ایک فوج خانہ کعبہ پر حملہ آور ہوگی۔ جب وہ بیدا مقام میں پہنچے گی تو فوج کا اوّل و آخر زمین میں دھنسا دیا جائے گا۔ حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں۔ میں نے عرض کی یارسول اللہ! فوج کے اول و آخر کو کیوں دھنسا دیا جائے گا۔ حالانکہ ان میں کاروباری بھی ہوں گے اور وہ بھی ہوں گے جو ان کے ساتھی نہیں ہوں گے‘ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ان کے اوّل و آخر سب کو دھنسا دیا جائے گا۔ لیکن قیامت کے دن اپنی اپنی نیّتوں کے مطابق اٹھائے جائیں گے۔“ [ رواہ البخاری : باب مَا ذُکِرَ فِی الأَسْوَاقِ ] کیا مکہ کھلا شہر قرار دیا جاسکتا ہے؟ پاکستان میں شرک و بدعت کے دلدادہ لوگ وقفے وقفے سے یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ حرم سب کے لیے یکساں حیثیت رکھتا ہے اس لیے مکہ کو کھلا شہر قرار دیا جائے۔ اس مطالبہ کا مقصد یہ ہے کہ جو چاہے مکہ میں جا کر شرک وبدعت کا پرچار کرئے اور وہاں مستقل رہائش اختیار کرلے۔ اس مطالبہ کی حقیقت اہل توحید کے ساتھ حسد و بغض کے سوا کچھ نہیں۔ یہ سعودی حکومت کی اجارہ داری کا معاملہ نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کا دو ٹوک فیصلہ ہے کہ کوئی مشرک اور غیر مسلم حرم میں داخل نہیں ہو سکتا۔ جہاں تک بیت اللہ کے انتظامی امور کا تعلق ہے اس کا حق مسلمانوں میں اہل مکہ کا بنتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جب مکہ فتح کیا تو آپ نے اس کی تولیّت کا اس حد تک احترام فرمایا کہ حضرت علی (رض) کے مطالبہ کے باوجود چابی عثمان بن طلحہ کو واپس کی اور فرمایا کہ تجھ سے کوئی ظالم ہی چابی واپس لے سکتا ہے۔ حالانکہ یہ وہی عثمان بن طلحہ ہے جب آپ مکہ میں مقیم تھے ایک دن آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا دل چاہا کہ میں بیت اللہ میں داخل ہو کر دو نفل نماز پڑھوں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عثمان بن طلحہ سے چابی طلب فرمائی۔ اس نے کہا کہ میں تجھے چابی نہیں دوں گا۔ آپ نے فرمایا کہ ایک وقت آئے گا کہ یہ چابی میرے ہاتھ میں ہوگی اور جسے چاہوں گا عنایت کروں گا۔ اس پر عثمان بن طلحہ نے کہا کہ کیا ہم مر چکے ہوں گے ؟ فرمایا نہیں تم زندہ ہو گے۔ (ابن ہشام) الحمد اللہ آج تک بیت اللہ کے دروازے کی چابی اسی خاندان میں چلی آرہی ہے۔ (عَنْ اَبِیْ شُرَیْحِ نِ الْعَدَوِیِّ اَنَّہُ قَالَ لِعَمْرٍو ابْنِ سَعِیْدٍ (رض) وَھُوَ یَبْعَثُ الْبُعْوثَ اِلٰی مَکَّۃَ اِءْذَنْ لِیْ اَیُّھَا الْاَمِیْرُ اُحَدِّ ثُکَ قَوْلاً قَامَ بِہٖ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) الْغَدَ مِنْ یَوْمِ الْفَتْحِ سَمِعَتْہُ اُذُنَایَ وَ وَعَاہُ قَلْبِیْ وَاَبْصَرَتْہُ عَیْنَایَ حِیْنَ تَکَلَّمَ بِہٖ حَمِدَ اللّٰہَ وَاَثْنٰی عَلَیْہِ ثُمَّ قَالَ اِنَّ مَکَّۃَ حَرَّمَہَا اللّٰہُ وَلَمْ یُحَرِّمْھَا النَّاسُ فَلَا یَحِلُّ لِا مْرِ ءٍ یُؤْمِنُ باللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِاَنْ یَّسْفِکَ بِھَا دَمًا وَلَا یَعْضُدَ بِھَا شَجَرَۃً فَاِنْ اَحَدٌ تَرَخَّصَ بِقِتَالِ رَسُوْلِ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فِیْھَا فَقُوْلُوْا لَہٗ اِنَّ اللّٰہَ قَدْ اَذِنَ لِرَسُوْلِہٖ وَلَمْ یَأْذَنْ لَکُمْ وَاِنَّمَا اَذِنَ لِیْ فِیْھَا سَاعَۃً مِنْ نَّہَارٍ وَقَدْعَادَتْ حُرْمَتُھَا الْیَوْمَ کَحُرْمَتِھَا بالْاَمْسِ وَلْیُبَلِّغِ الشَّاہِدُ الْغَاءِبَ فَقِیْلَ لِاَبِیْ شُرَیْحٍ مَا قَالَ لَکَ عَمْرٌو قَالَ اَنَا اَعْلَمُ بِذَالِکَ مِنْکَ یَا اَبَا شُرَیْحٍ اِنَّ الْحَرَمَ لَا یُعِیْذُعَاصِیاً وَلَا فَآراًّ بِدَمٍ وَلَا فَآرًّا بِخَرْبَۃٍ۔) [ رواہ البخاری : باب لِیُبَلِّغِ الْعِلْمَ الشَّاہِدُ الْغَاءِبَ] ” حضرت ابوشریح عدوی (رض) بیان کرتے ہیں انہوں نے عمرو بن سعید (رض) جو مکہ مکرمہ کی طرف لشکر بھیج رہے تھے‘ سے کہا‘ اے امیر! مجھے اجازت دیجیے کہ میں آپ کو رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ایک حدیث سناؤں۔ یہ بات آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فتح مکہ کے دوسرے دن ارشاد فرمائی تھی جسے میرے دونوں کانوں نے سنا اور میرے دل نے اسے یادرکھا۔ جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خطاب فرمارہے تھے تو میری دونوں آنکھیں آپ پر جمی ہوئی تھیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اللہ کی حمدوثنا کے بعد فرمایا بلاشبہ مکہ کو اللہ تعالیٰ نے حرمت بخشی ہے کسی شخص نے اسے حرمت نہیں دی۔ جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے اس کے لیے جائز نہیں کہ وہ اس میں خون ریزی کرے اور حرم میں کسی درخت کو کاٹے۔ اگر کوئی اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مکہ مکرمہ میں قتال کو مثال بنا کراس میں لڑائی جائز سمجھے تو اسے بتادو۔ اس میں شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے صرف اپنے رسول کو اجازت عطا فرمائی لیکن تمہیں اجازت نہیں دی گئی۔ مجھے بھی بس دن کے قلیل وقت میں اجازت دی گئی اور اب اس کی حرمت ہمیشہ کی طرح ہے۔ یہ بات غیر موجود لوگوں تک پہنچا دو۔ اس پر ابوشریح سے دریافت کیا گیا کہ پھر آپ کو عمرو نے کیا کہا؟ ابوشریح نے بتایا‘ اس نے جواب دیا‘ ابوشریح مجھے تم سے زیادہ اس بات کا علم ہے۔ حرم نہ کسی گنہگار کو پناہ دیتا ہے اور نہ ہی مفرور قاتل اور نہ خیانت کر کے بھاگنے والے کو پناہ دیتا ہے۔ اور بخاری میں الخربۃ کا معنٰی ہے جرم کرنا۔“ مسائل ١۔ جو شخص لوگوں کو دین اسلام اور مسجد حرام سے روکتا ہے وہ ظلم کرتا ہے۔ ٢۔ مسجد حرام پر اہل مکہ اور مسافروں کو یکساں حقوق حاصل ہیں۔ ٣۔ جو شخص مسجد حرام میں الحاد اور ظلم کرے اللہ تعالیٰ اسے اذّیت ناک عذاب دے گا۔ تفسیر بالقرآن مسجد حرام کا احترام : ١۔ سب سے پہلا گھر جو لوگوں کی عبادت کے لیے بنایا گیا وہ مکہ مکرمہ میں ہے اس میں دنیا والوں کے لیے ہدایت ہے۔ (آل عمران : ٩٦) ٢۔ مسجد حرام میں اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے سے روکنا بہت بڑا جرم ہے۔ (البقرۃ: ٢١٧) ٣۔ کافر اللہ کے راستہ اور مسجد حرام سے روکتے ہیں۔ (الحج : ٢٥) ٤۔ تم جہاں بھی ہو نماز پڑھتے وقت اپنا رخ مسجد حرام کی طرف کرو۔ (البقرۃ: ١٥٠) ٥۔ ان سے مسجد حرام کے پاس لڑائی نہ کرو۔ (البقرۃ: ١٩١) ٦۔ اللہ تعالیٰ نے کعبہ کو حرمت والا گھر قرار دیا ہے۔ (المائدۃ: ٩٨) الحج
26 فہم القرآن ربط کلام : بیت اللہ کی تعمیر نو اور اس کے چاروں طرف تعمیر ہونے والی مسجد حرام کے آداب اور حقوق۔ تاریخ کعبۃ اللہ حافظ ابن حجر عسقلانی (رض) نے صحیح بخاری کی شرح فتح الباری میں ایک روایت ذکر کی ہے جس سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ بیت اللہ کی سب سے پہلی اساس حضرت آدم (علیہ السلام) کے ہاتھوں رکھی گئی اور فرشتوں نے حضرت آدم (علیہ السلام) کو اس جگہ کی نشاندہی کی جسے بعدازاں طوفان نوح اور ہزاروں سال کے حوادث نے بے نشان کردیا تھا۔ البتہ بیت اللہ کے کچھ نشان باقی تھے جن پر حضرت ابر اہیم (علیہ السلام) نے بنیاد رکھی تھی۔ یہی وہ مقام بنیاد ہے جس کا تذکرہ یہاں کیا جا رہا ہے : اور یہی وہ مقام ہے جس کا ذکر حضرت خلیل (علیہ السلام) نے حضرت ہاجرہ[ اور اسماعیل (علیہ السلام) کو یہاں چھوڑتے وقت کیا تھا : (رَبَّنَا إِنِّیْ أسْکَنْتُ مِنْ ذُرِّیَّتِیْ بِوَادٍ غَےْرِ ذِیْ زَرْعٍ عِنْدَ بَےْتِکَ الْمُحَرَّمِ) [ ابراہیم : ٣٧ ] ” اے ہمارے رب ! میں نے ایک بے آب وگیاہ وادی میں اپنی اولاد کو تیرے محترم گھر کے پاس لا بسایا ہے۔“ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے تبلیغ دین کے لیے اردن‘ شام اور حجاز مقدس کو پیغامِ حق کا مرکز بنایا اور گاہے گاہے ان مراکز کا دورہ کرتے اور ہدایات دیتے رہتے تھے۔ اس طرح آپ حسب حکمِ الٰہی ہاجرہ[ اور اسماعیل (علیہ السلام) کی خبر گیری کے لیے تشریف لے جایا کرتے تھے اسی اثناء میں تعمیر کعبہ کا حکم ہوا جس کی تفصیل نبی رحمت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یوں بیان فرمائی ہے : (ثُمَّ لَبِثَ عَنْھُمْ مَّا شَاء اللّٰہُ ثُمَّ بَعْدَ ذَلِکَ وَإسْمَاعِےْلُ ےُبْرِئُ نَبَلًالَہٗ تَحْتَ دَوْحَۃٍ قَرِےْباً مِنْ زَمْزَمَ فَلَمَّا رَاٰہٗ قَامَ إِلَےْہِ فَصَنَعَا کَمَا ےَصْنَعُ الْوَالِدُ بالْوَلَدِ ثُّمَ قَالَ ےَا إِسْمَاعِےْلُ إنَّ اللّٰہَ أمَرَنِیْ أَنْ اَبْنِیَ ھٰھُنَا بَےْتًا وَأشَارَ إِلٰی اَکْمَۃٍ مُرْتَفِعَۃٍ عَلٰی مَا حَوْلَھَا قَالَ فَعِنْدَ ذٰلِکَ رَفَعَا الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَےْتِ فَجَعَلَ إسْمَاعِےْلُ ےَأْتِیْ بالْحِجَارَۃِ وَ إبْرَاھِےْمُ ےَبْنِیْ حتّٰی إِذَا إِرْتَفَعَ الْبِنَاءُ جَآءَ بِھٰذَا الْحَجَرِ فَوَضَعَہٗ لَہَ فَقَامَ عَلَےْہِ وَھُوَ ےَبْنِیْ وَإِسْمَاعِےْلُ ےُنَاوِلُہُ الْحِجَارَۃً) [ رواہ البخاری : باب (یَزِفُّونَ) النَّسَلاَنُ فِی الْمَشْیِ] ” جب تک اللہ تعالیٰ کو منظور تھا حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اپنے ملک (فلسطین) میں ٹھہرے رہے اس کے بعد جب اسماعیل (علیہ السلام) کے پاس تشریف لائے تو اسماعیل (علیہ السلام) زمزم کے پاس ایک درخت کے نیچے بیٹھ کر تیر ٹھیک کر رہے تھے۔ جب اسماعیل (علیہ السلام) نے اپنے والد محترم کو دیکھا تو اٹھ کر استقبال کیا دونوں اسطرح ملے جس طرح باپ بیٹے سے ملتا ہے ابراہیم (علیہ السلام) فرمانے لگے : بیٹا ! مجھے اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ اس اونچی جگہ پر بیت اللہ تعمیر کروں اسماعیل (علیہ السلام) نے عرض کی میں حاضرِخدمت ہوں۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ارشاد فرما تے ہیں اسی جگہ حضرت ابراہیم اور اسماعیل ( علیہ السلام) نے بیت اللہ کی بنیادیں اٹھائیں۔ اسماعیل (علیہ السلام) پتھر لاتے جا رہے تھے اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) تعمیر فرما رہے تھے۔ جب دیواریں اونچی ہوگئیں یعنی زمین پر کھڑے ہو کر پتھر لگانا مشکل ہوگیا تو جبرائیل (علیہ السلام) پتھر لے کر آئے جس کو مقام ابراہیم کہا جاتا ہے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اس پتھر پر چڑھ کر کعبہ کی تکمیل فرمائی اور اسماعیل (علیہ السلام) معاونت کرتے رہے۔“ (وَإِذْ ےَرْفَعُ إِبْرَاھِےْمُ الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَےْتِ وَ إِسْمَاعِےْلُ رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا إِنَّکَ أَنْتَ السَّمِےْعُ الْعَلِےْمُ) [ البقرۃ: ١٢٧] ” اور یاد کرو جب ابراہیم اور اسماعیل گھر (بیت اللہ) کی دیواریں اٹھا رہے تھے تو دعا کرتے جاتے تھے اے ہمارے پرو ردگار! ہماری یہ خدمت قبول فرما۔ تو سب کی سننے اور جاننے والا ہے۔“ کعبۃ اللہ کی عظمت و فضیلت : اس جہان رنگ وبو میں بے شمار خوبصورت سے خوبصورت ترین عمارات ومحلات موجود ہیں جن کے حسن وجمال میں اضافہ کرنے کے لیے لاکھوں کروڑوں روپے لگائے گئے اور مزیدخرچ کیے جارہے ہیں۔ ان کو دیکھیں تو عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ لیکن کوئی ایسی جگہ یا عمارت نہیں جس کے دیدار کو اہل جہاں کے لیے لازم قرار دیا گیا ہو اور جس کے لیے اتنی دنیا کے دل تڑپتے ہوں۔ یہ اکرام ومقام صرف ایک عمارت کو نصیب ہوا جس کو عام پتھروں سے اٹھایا گیا ہے، اللہ رب العزت نے اسے بیت اللہ قرار دیا ہے۔ مرکز ملت اسلامیہ : اسے قبلہ بنا کر ملت اسلامیہ کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا گیا ہے تاکہ جس طرح ان کے احساسات و جذبات کا رخ ایک ہی طرف ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف اسی طرح ان کا جسمانی زاویہ بھی ایک ہی رخ اختیار کرے تاکہ ملت کی مرکزیت قائم رہ سکے : (وَمِنْ حَیْثُ خَرَجْتَ فَوَلِّ وَجْہَکَ شَطْرَالْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَحَیْثُ مَا کُنْتُمْ فَوَلُّوْا وُجُوْہَکُمْ شَطْرَہٗ) [ البقرۃ: ١٥٠] ” اور جہاں سے نکلیں تو اپنا چہرہ مسجد حرام کی طرف پھیر لیں اور مسلمانو! تم جہاں بھی ہو مسجد حرام کی طرف منہ کرلو۔“ بیت اللہ میں حاضری کے آداب اور احرام کا فلسفہ : حج اور عمرہ کے آداب میں سے ایک ادب یہ ہے کہ بیت اللہ میں حاضری دینے والے اپنے روز مرہ کے لباس میں آنے کی بجائے فقیرانہ لباس میں حاضرہوں جو کفن سے مشابہت رکھتا ہے۔ رب کریم کا کرم ہے کہ اس نے موسم اور لوگوں کی کمزوریوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے گھروں سے احرام باندھنے کا حکم دینے کی بجائے میقات یعنی حدود حرم مقرر فرمائے تاکہ یہاں پہنچ کر زائرروزمرہ کا لباس اتار کر اپنے اپ کو دو چادروں میں لپیٹ لے۔ وہ قیمتی لباس جس کے رنگ ڈھنگ اور ڈیزائن پر یہ اترایا کرتا تھا، وہ دستار فضیلت جس کو سر پر سجاتے ہوئے سر بلند کیا کرتا تھا، وہ کیپ جو کمانڈرانچیف ہونے کی علامت تھی، وہ تاج جو بادشاہی کی جلالت وتمکنت کا نشان تھا یکایک اس کواتارنے کا حکم ہوا اور اب بندہ مؤمن عاجزی کا پیکر بن چکا ہے۔ یہاں واقعتا شاہ و گدا ایک ہی مقام اور انداز میں کھڑے ہیں، حکم ہوا کہ اس وقت تک قدم آگے نہ اٹھنے پائیں جب تک اپنی زبان سے اللہ کے حضور پیشی اور اس کی بلا شرکت غیرے بادشاہی اور اس کی نعمتوں کا برملا اعتراف نہ کرلیا جائے پھر یہ حاضری اور تلبیہ اس صدا کا جواب ہے جو ہزاروں سال پہلے معمار کعبہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے پہاڑ کی چوٹی پرکھڑے ہو کردی تھی : حرم کو پاک صاف رکھنے کا صرف یہ معنٰی نہیں کہ اس کو کوڑے کرکٹ سے پاک صاف رکھا جائے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ اصل صفائی یہ ہے کہ اس کو شرک کی گندگی سے محفوظ رکھا جائے جیسا کہ قرآن مجید کے دوسرے مقام میں واضح ارشاد موجود ہے کہ مشرک کو حرم میں داخل نہ ہونے دیا جائے کیونکہ مشرک روحانی طور پر گندہ اور پلید ہوتا ہے۔ (التوبہ : ٢٨) نبی محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مکہ فتح کیا تو تمام بتوں کو مسمار کرتے ہوئے ان تصویروں کو بھی مٹادیا جو مشرکین نے دیواروں پر ابراہیم (علیہ السلام) اور اسماعیل (علیہ السلام) کی بنا رکھی تھیں۔ ( رواہ البخاری : باب أَیْنَ رَکَزَ النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) الرَّایَۃَ یَوْمَ الْفَتْحِ) مسائل ١۔ کعبۃ اللہ کو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے تعمیر فرمایا۔ ٢۔ بیت اللہ توحید کا مرکز اور ترجمان ہے۔ اس میں شرکیہ کام نہیں ہونے چاہئیں۔ ٣۔ بیت اللہ طواف، قیام، رکوع و سجود کرنے والوں کے لیے پاک صاف رکھنا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن بیت اللہ کے آداب : ١۔ میرے گھر کو طواف کرنے والوں، قیام کرنے والوں اور رکوع و سجود کرنے والوں کے لیے پاک صاف رکھا جائے۔ (الحج : ٢٦) ٢۔ میرے گھر کو طواف کرنے والوں، اعتکاف بیٹھنے والوں اور رکوع وسجود کرنے والوں کے لے پاک صاف رکھیں۔ (البقرۃ: ١٢) ٣۔ کفار کے ساتھ مسجد حرام کے پاس لڑائی نہ کرو۔ (البقرۃ: ١٩١) ٤۔ مشرک پلید ہے وہ مسجد حرام کے قریب نہ آئیں۔ (لتوبہ : ٢٨) الحج
27 فہم القرآن ربط کلام : تعمیر کعبہ کے بعد حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو اعلانِ حج کا حکم۔ حضرت خلیل (علیہ السلام) تعمیرکعبہ سے فارغ ہوئے اور رب جلیل کے حضور اپنی مناجات پیش کرلیں تو حکم ہوا‘ اے ابراہیم (علیہ السلام) پہاڑ پر چڑھ جاؤ اور چاروں طرف اعلان کرو کہ اے لوگو! تمہارے رب کا گھر تیار ہوچکا ہے لہٰذا اللہ کے گھر کی زیارت کے لیے حاضر ہوجاؤ۔ ابراہیم (علیہ السلام) عرض کرنے لگے : اے اللہ! میں کمزور ہوں‘ میری آواز ساری دنیا میں کس طرح پہنچے گی۔ حکم ہوا‘ اے ابراہیم (علیہ السلام) تیرا کام آواز دینا ہے ہمارا کام لوگوں تک پہنچانا ہے۔ ” عَلَےْکَ الإِْذْنُ وَعَلَےْنَا الْبَلاَغُ“ علامہ ابن کثیر (رض) نے لکھا ہے کہ آپ (علیہ السلام) نے ابو قیس پہاڑ پر چڑھ کر آواز دی آپ کی آواز دنیا کے گوشے گوشے تک پہنچی یہاں تک کہ جن لوگوں کے مقدر میں حج تھا اور ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ابراہیم (علیہ السلام) کی آواز ان کی ماؤں کے رحم تک پہنچا دی ہے۔ حج عبادات کا مرقع، دین کی اصلیت اور اس کی روح کا ترجمان ہے۔ یہ اسلام کے پانچویں رکن کی ادائیگی ہے جو مقررہ ایام میں متعین اور مقدس مقامات پر ادا ہوتی ہے۔ یہ مسلمانوں کی اجتماعی تربیت اور ملت کے معاملات کا ہمہ گیر جائزہ لینے کا وسیع وعریض پلیٹ فارم ہے۔ شریعت نے امت مسلمہ کو اپنے اور دنیا بھر کے تعلقات ومعاملات کا تجزیہ کرنے کے لیے سالانہ بین الاقوامی سٹیج مہیا کیا ہے تاکہ وہ حقوق اللہ اور حقوق العباد کے معاملہ میں اپنی کمی بیشی کا احساس کرتے ہوئے توبہ و استغفار، ذاتی اصلاح اور اجتماعی معاملات کی درستگی کے لیے عملی اقدامات اٹھائیں۔ جہاں اپنے کردار و گفتار کا جائزہ لینا ہے وہاں ملت کافرہ کے حالات واقعات اور ان کے فکرو عمل پر کڑی نظر رکھنا نہایت ضروری ہے۔ یہ احتساب و عمل کی ایسی تربیت گاہ ہے جس سے مسلمانوں کو بھرپور فائدہ اٹھانا چاہیے۔ یہی حکمت ہے جس کے لیے سیدنا عمر فاروق (رض) حج کے موقع پر مملکت کے گورنروں اور اعلیٰ حکام کا اجلاس منعقد کرتے اور ان علاقوں کے عمائدین سے وہاں کے حالات و واقعات اور حکام کے طرز عمل کے بارے میں استفسار فرماتے اور موقع پر ہدایات جاری کرتے تھے۔ حج صرف چند مناسک کی ادائیگی اور فقط بڑا اجتماع منعقد کرنے کا نام نہیں بلکہ اس میں تو افکار و اعمال کی انفرادی اور اجتماعی اصلاح کا پروگرام دیا گیا ہے اسی کے پیش نظر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جب حجاج کرام کو دھکم پیل اور حج کے مقصد سے ہٹتے ہوئے محسوس کیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہاتھ میں کوڑا لہراتے ہوئے لوگوں سے فرماتے جارہے تھے : (عَلَیْکُمْ بالسَّکِیْنَۃِ فَإنَّ الْبِرَّ لَیْسَ فِیْ الْاِیْضَاعِ) [ رواہ البخاری : باب أَمْرِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بِالسَّکِینَۃِ عِنْدَ الإِفَاضَۃِ] ” اے حجاج کرام ! سنجیدگی اور وقار اختیار کیجیے، نیکی اچھلنے کودنے کا نام نہیں۔“ حج شوکت اسلام کے بھرپور مظاہرے کا نام ہے۔ اس لیے اسلام کی عظمت رفتہ کو حاصل کرنے کے لیے امت مسلمہ کو اپنے کردار کا ازسرِ نو جائزہ لینا چاہیے۔“ حجِمبرور : ” جناب ابوہریرہ (رض) بیان فرماتے ہیں کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا گیا کہ کون سا عمل افضل ہے؟ ارشاد ہوا‘ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانا۔ پوچھنے والے نے پھر پوچھا اس کے بعد کون سا عمل افضل ہے؟ ارشاد فرمایا اللہ کے راستے میں جہاد کرنا۔ اس نے عرض کیا جہاد کے بعد؟ آپ نے ارشاد فرمایا حج مبرور یعنی ایسا حج جو اللہ کی رضا کے لیے کیا جائے جس میں فسق وفجور نہ ہو (اور سنت کے مطابق کیا جائے )۔“ [ رواہ البخاری : باب فضل الحج المبرور] حضرت ابوہریرہ (رض) ہی فرماتے ہیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس نے اللہ کی رضا کے لیے حج کیا۔ اور اس نے دورانِ حج کوئی شہوانی فعل اور فسق وفجور نہ کیا تو وہ ایسے لو ٹے گا گویا اسی دن اس کی والدہ نے اسے جنم دیا ہے۔ [ رواہ البخاری : باب فی فضل حج المبرور] ” حضرت عبداللہ بن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوئے آپ نے فرمایا بے شک اللہ تعالیٰ نے تم پر حج فرض کیا ہے اقرع بن حابس تمیمی (رض) نے عرض کی اے اللہ کے رسول کیا حج ہر سال فرض کیا گیا ہے آپ خاموش رہے آپ نے فرمایا اگر میں ہاں کہہ دیتا تو حج ہر سال فرض ہوجاتا پھر تم اس پر عمل کی طاقت نہ رکھتے۔ حج ایک ہی بار فرض ہے۔“ [ رواہ النسائی : باب وجوب الحج] مسائل ١۔ تعمیر کعبہ کے بعد حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو حج کا اعلان کرنے کا حکم ہوا۔ ٢۔ حج اور زیارت کعبہ کے لیے قیامت تک زمین کے نشیب و فراز سے لوگ پیدل اور اپنی سواریوں پر آتے رہیں گے۔ تفسیر بالقرآن حج کے آداب : ١۔ ان لوگوں پر حج فرض ہے جو حج کے اخراجات اور سفر کی استطاعت رکھتے ہیں۔ (آل عمران : ٩٧) ٢۔ حج کے مہینے معلوم ہیں لہٰذا حج کے ایام میں گناہ کے کام نہ کیے جائیں۔ (البقرۃ: ١٩٧) ٣۔ اللہ کے لیے حج اور عمرہ مکمل کرو۔ (البقرۃ: ١٩٦) ٤۔ حج میں ہر کسی قسم کی بے حیائی، نافرمانی اور جھگڑا کرنے سے بچنا چاہیے۔ ( البقرۃ: ١٩٧) الحج
28 فہم القرآن ربط کلام : ایّام تشریق میں کرنے کے کام۔ حج مسلمانوں کی اجتماعی تربیت گاہ اور عالم اسلام کے مسلمانوں کے درمیان ہر قسم کے رابطہ کا ذریعہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کی منشاء یہ ہے کہ مسلمان حج سے روحانی فائدے اٹھانے کے ساتھ، ساتھ ایک دوسرے سے معاشی فوائد بھی حاصل کریں۔ اس لیے ایام تشریق یوم عرفہ کے بعد منٰی میں گزارنے والے دو یا تین ایام کو ایام تشریق کہا جاتا ہے جن میں تجارت کرنا جائز قرار دیا۔ اسلام سے پہلے عرب میں عمومی طور پر حج کرنے والے دو قسم کے لوگ تھے۔ ایک گروہ وہ تھا جنھوں نے حج کو تجارتی منڈی بنانے کے ساتھ خاندانی تفاخر کا اسٹیج بنا لیا تھا۔ بالخصوص ایّام تشریق کے دوران کھیل تماشا، لین دین کے دھندے، داستان گوئی اور شعر و شاعری کے ذریعے خاندانی تفاخر کے اظہار کے سوا کچھ نہیں کرتے تھے۔ دوسرا گروہ وہ تھا جو حج کا زاد سفر لینا گناہ اور اپنے گھر کے کپڑے پہننا دنیا داری سمجھتا تھا۔ اسی وجہ سے وہ ذاتی لباس اتار کر مکہ والوں سے مانگ تانگ کر کپڑے پہنتے، جسے کپڑے نہ مل پاتے وہ برہنہ بدن حج ادا کرتا۔ اللہ تعالیٰ نے برہنہ بدن حج کرنے والوں کو حکم دیا کہ وہ اچھا لباس پہن کر مسجد حرام میں آیا کریں۔ (الاعراف : ٣١) حج ادا کرنے کے بعد کاروبار کی کھلی اجازت عنایت فرمائی تاکہ مسلمان حج کے موقعہ پر روحانی فوائد کے ساتھ مادی طور پر ایک دوسرے سے بھرپور فائدہ اٹھائیں۔ لیکن شرط یہ ہے اول و آخر نیت حج کی ہو نہ کہ تجارت کی۔ ایام تشریق میں حج تمتع اور حج افراد میں قربانی کرنا لازم ہے اس لیے قربانی کے مسائل ذکر فرمائے۔ پہلا مسئلہ یہ ہے کہ قربانی خالص اللہ کے لیے ہونی چاہیے۔ قربانی ذبح کرتے ہوئے۔ ” بِسْمِ اللّٰہِ اَللّٰہُ اَکْبَرْ‘ پڑھنا لازم ہے۔ اسلام سے پہلے قربانی کا گوشت کھانا لوگ جائز نہیں سمجھتے تھے۔ اس کی وضاحت کرتے ہوئے حکم دیا کہ قربانی کے گوشت سے خود بھی کھاؤ فاقہ کش فقیر کو بھی دو۔ ان الفاظ سے استدلال کرتے ہوئے بعض صحابہ (رض) کا موقف ہے کہ قربانی کے گوشت کے تین حصے کرنے چاہییں۔ خود کھانا، عزیز و اقرباء کو کھلانا اور غرباء میں تقسیم کرنا۔ عام حالات میں اس اصول کو اختیار کرنا زیادہ بہتر ہے لیکن اگر کسی معاشرے میں غرباء کی تعداد زیادہ ہو تو اس تقسیم کا خیال کرنا لازم نہیں۔ حج کے مناسک ادا کرنے کے بعد حجاج کرام میل کچیل دور کریں، اپنی نذریں پوری کریں اور بیت اللہ کا طواف کریں۔ یہاں بیت اللہ کو بیت العتیق کہا گیا ہے جس کا معنی ہے ” قدیم ترین گھر۔“ اس سے یہودیوں کے اس دعویٰ کی نفی کی گئی جو مسجد اقصیٰ کو بیت اللہ سے پہلے کی تعمیر قرار دیتے ہیں۔ ” اَلْعَتِیْقَ“ کا دوسرا معنی آزاد ہے بیت العتیق کا مطلب یہ ہوا کہ ایسا گھر جو کسی کی ذاتی ملکیت نہیں۔ بیت العتیق کا تیسرا مفہوم یہ ہے کہ اس پر کسی ظالم اور جابر حکمران کا قبضہ نہیں ہوسکتا ہے۔ (عَنْ عَبْدَ اللّٰہِ بْنِ الزُّبِیْرِ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اِنَّمَا سُمِیَّ الْبَیْتُ الْعَتِیْقِ لِاَنَّہُ لَمَ یُظْہَرْ عَلَیْہِ جَبَّارٌ) [ رواہ الترمذی : باب ومن سورۃ الحج ] ” حضرت عبداللہ بن زبیر (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بیت العتیق کا نام اس لیے رکھا گیا کیونکہ اس پر کوئی ظالم حکمران غالب نہیں آ سکا۔“ (وَعَنْ عِمْرَانَ ابْنِ حُصَیْنٍ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لَا وَفَاءَ لِنَذْرٍ فِیْ مَعْصِیَۃٍ وَلَا فِیْمَا لَا یَمْلِکُ الْعَبْدُ) [ رواہ مسلم : باب لاَ وَفَاءَ لِنَذْرٍ فِی مَعْصِیَۃِ اللَّہِ وَلا فیمَا لاَ یَمْلِکُ الْعَبْدُ] ” حضرت عمران بن حصین (رض) بیان کرتے ہیں رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس کام میں نافرمانی پائی جائے اس نذر کو پورا کرنا جائز نہیں اور جو چیز انسان کی ملک نہیں اسکی نذر نہ مانی جائے۔“ حضرت عقبہ بن عامر (رض) رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان نقل کرتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا نذر کا کفارہ وہی ہے‘ جو قسم کا کفارہ ہے۔“ [ رواہ مسلم : باب فِی کَفَّارَۃِ النَّذْرِ] مسائل ١۔ حج ادا کرنے کے بعد کاروبار کیا جا سکتا ہے۔ ٢۔ نذر پوری کرنا ضروری ہے۔ ٣۔ قربانی کا گوشت خود کھانے کے ساتھ عزیز و اقربا اور مسکینوں کو کھلایا جائے۔ الحج
29 الحج
30 فہم القرآن ربط کلام : قربانی اور بیت اللہ کے طواف کے بعد اللہ کی مقرر کردہ حرمتوں کا احترام کرنے کا اشارہ۔ حج کی ادائیگی کے بعد ہر شخص کو اللہ تعالیٰ کی مقرر کی ہوئی حرمات کے ساتھ واسطہ پڑتا ہے۔ جنھیں سورۃ البقرۃ میں شعائر اللہ کہا گیا ہے۔ ان حرمتوں میں بیت اللہ کا احترام، صفا اور مروہ، مزدلفہ میں مشعر حرام، قربانی کا جانور اور اس کا گوشت، مسلمان کا احترام و اکرام یہ اللہ تعالیٰ کی مقرر کی ہوئی حرمتیں ہیں، ان کا احترام کرنے کا حکم ہے۔ اس لیے فرمایا کہ جس نے اللہ تعالیٰ کی مقرر کی ہوئی حرمتوں کا احترام کیا۔ حرمتوں کا خیال رکھنے والے کے لیے اس کے رب کے ہاں خیر ہے۔ اس سے پہلے قربانی کا ذکر ہو رہا تھا اس لیے یہ وضاحت کردی کہ تمھارے لیے وہی جانور حلال ہیں جن کا ذکر تمھارے سامنے کردیا گیا ہے۔ لہٰذا بتوں کی نجاست سے بچو اور جھوٹی بات سے اجتناب کرو۔ بتوں کو ناپاک قرار دے کر ان کے متعلقات تمام امور کو ناجائز قرار دیا گیا ہے نہ ان کے نام پر کوئی چیز ذبح کرنی چاہیے اور نہ ہی بتوں کا احترام اور ان کے وسیلے سے مانگنا چاہیے۔ اسی طرح قول زُور سے بھی بچنے کا حکم دیا گیا ہے۔ الزوّر سے مراد جھوٹ ہے بے شک اسے کتنا ہی بنا سنوار کر بولا جائے۔ غیر اللہ کے نام پر نذر و نیاز دینے والوں کو جب اس کام سے روکا جاتا ہے تو وہ بڑے خوبصورت الفاظ میں اپنے موقف کو جائز قرار دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ ” قَوْلَ الزُّوْرِ“ کے الفاظ لا کر یہ باور کروایا گیا ہے کہ یہ جھوٹ ہے اور جھوٹ کو جس قدر اچھے الفاظ کا جامہ پہنایا جائے وہ جھوٹ ہی رہتا ہے اس سے ہر صورت بچنا چاہیے۔ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جھوٹی گواہی کو بھی ” قَوْلَ الزُّوْرِ“ قرار دیا ہے۔ (عَنْ عَبْدِاللّٰہِ ابْنِ عَمْرٍو (رض) قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اَلْکَبَاءِرُ الْاِشْرَاک باللّٰہِ وَعُقُوْقُ الْوَالِدَےْنِ وَقَتْلُ النَّفْسِ وَالْےَمِےْنُ الْغَمُوْسُ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ وَفِی رِوَاے َۃِ اَنَسٍ وَّشَھَادَۃُ الزُّوْرِ بَدَلَ الْےَمِےْنِ الْغَمُوْسِ) [ رواہ البخاری : باب الْیَمِینِ الْغَمُوسِ ] ” حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) ذکر کرتے ہیں رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا یہ بڑے گناہ ہیں۔ (١) اللہ کے ساتھ شرک کرنا (٢) والدین کی نافرمانی کرنا‘ (٣) ناحق کسی کو قتل کرنا (٤) اور جھوٹی قسم اٹھانا (بخاری) حضرت انس (رض) کی روایت میں جھوٹی قسم کی جگہ جھوٹی شہادت دینے کے الفاظ ہیں۔“ مسلمانوں کا مال، جان اور عزت محترم ہے : (عَنْ أَبِیْ بَکْرَۃَ قَالَ خَطَبَنَا النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَوْمَ النَّحْرِ فَإِنَّ دِمَآءَ کُمْ وَأَمْوَالَکُمْ عَلَیْکُمْ حَرَامٌ کَحُرْمَۃِ یَوْمِکُمْ ھٰذَا فِیْ شَھْرِکُمْ ھٰذَا فِیْ بَلَدِکُمْ ھٰذَا إِلٰی یَوْمِ تَلْقَوْنَ رَبَّکُمْ أَلَا ھَلْ بَلَّغْتُ قَالُوْا نَعَمْ۔۔) [ رواہ البخاری : کتاب الحج، باب الخطبۃ أیام منی] ” حضرت ابو بکرہ (رض) بیان کرتے ہیں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حج کا خطبہ دیتے ہوئے فرمایا یقیناً تمہارے خون اور تمہارے مال تم پر ایسے ہی حرام ہیں جیساکہ تمہارے لیے آج کا دن، مہینہ اور یہ شہر قیامت تک کے لیے حرام ہے۔ پھر آپ نے فرمایا کیا میں نے اللہ تعالیٰ کا پیغام تم تک پہنچا دیا ہے؟ لوگوں نے جواب دیا کیوں نہیں۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ کی مقرر کی ہوئی حرمتوں کا احترام کرنا لازم ہے۔ ٢۔ وہی جانور حلال ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے حلال قرار دیا ہے۔ ٣۔ بتوں ور ان کے متعلقات سے بچنا ہر مسلمان پر فرض ہے۔ ٤۔ جھوٹ اور ملمع سازی سے بچنا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ کی مقرر کی ہوئی حرمات : ١۔ اللہ تعالیٰ نے کعبہ کو حرمت والا گھر قرار دیا ہے۔ (المائدۃ: ٩٧) ٢۔ اللہ کے ہاں مہینوں کی تعداد بارہ ہے ان میں سے چار مہینے حرمت والے ہیں۔ (التوبۃ: ٣٦) ٣۔ اللہ تعالیٰ نے مکہ کو حرمت والا بنایا ہے۔ (النمل : ٩١) ٤۔ اے ایمان والو! حرمت والے مہینوں، حرم کو بھیجی ہوئی قربانیاں اور جن کے گلے میں علامتیں آویزاں ہیں اور ان کا مال اور آبرو جو عزت والے گھر کا قصد کرکے آئیں انھیں حلال نہ ٹھہراؤ۔ (المائدۃ: ٢) ٥۔ حرمت والی اشیاء کی حرمت کی پاسداری کرنی میں خیر ہے۔ ( الحج : ٣١) ٦۔ اللہ تعالیٰ کے شعائر کا احترام کرنے کو تقویٰ قرار دیا ہے۔ ( الحج : ٣٢) الحج
31 فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ کی مقرر کردہ حرمات کا تقاضا تبھی پورا ہوسکتا ہے کہ انسان تمام معاملات میں اپنے رب کے لیے یکسو ہوجائے۔ حَنِیْفَ کی جمع ” حُنَفَاءَ“ ہے جس کا معنٰی ہے کسی کام کے لیے پوری طرح یکسو ہوجانا۔ یہاں حنفاء للّٰہ کے الفاظ استعمال فرمائے ہیں کہ اے لوگو! تمھیں نہ صرف ہر قسم کی ناپاکی، بتوں اور جھوٹ سے بچنا ہے بلکہ پوری طرح اللہ کے بن کر رہنا ہوگا۔ تمھارے عقیدہ اور عمل میں شرک کی ذرہ برابر آمیزش نہیں ہونا چاہیے۔ جس نے اعتقاداً یا عملاً اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کیا گویا کہ وہ آسمان سے نیچے گرا۔ اس کے زمین پر آتے ہی پرندوں نے نوچ لیا۔ یا اسے تیز ہوا نے ایسے مقام پر جا پھینکا جس سے وہ ریزہ ریزہ ہوگیا۔ ” سَحِیْقٍ“ پہاڑ کے درمیان ایسی کھڈ کو کہتے ہیں جس میں گرنے والا پتھروں پر لڑھکتا ہوا اس طرح نیچے گرئے کہ اس کے جسم کے چیتھٹرے اڑ جائیں۔ شرک کرنے والے کی حقیقتاً یہی حالت ہوتی ہے۔ عقیدہ توحید انسان کو فکری اور عملی طور پر بلندیوں سے سرفراز کرتا ہے۔ شرک انسان کو فکری اور عملی طور پر ذلت اور زوال سے دو چار کرتا ہے۔ مواحد انسان ہر حال میں اپنی خودی کو قائم رکھتا ہے۔ اگر وہ کسی کے ساتھ تعلق جوڑتا ہے تو اس کے پیچھے مفاد کی بجائے اللہ کا حکم اور اس کی رضا مقصود ہوتی ہے۔ اس کے مقابلے میں مشرک فکری اور عملی طور پر اس قدر گھٹیا بن جاتا ہے کہ وہ اپنے خالق ومالک کو چھوڑ کر بتوں، پتھروں اور مزاروں کے سامنے ماتھا رگڑتا ہے۔ اس کے عمل اور تعلق کے پیچھے جلد بازی اور مفاد پرستی کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ حتی کہ وہ ” اللہ“ کی عبادت بھی صرف دنیوی فائدے کے لیے کرتا ہے۔ جس وجہ سے مشرک اپنے رب کا وفادار نہیں ہوتا جو اپنے رب کا وفادار نہیں وہ دوسروں کا کس طرح وفادار ہوسکتا ہے۔ جس طرح آسمان سے گرنے والے کا وجود ریزہ ریزہ ہوجاتا ہے اسی طرح مشرک فکر و عمل کے اعتبار سے ریزہ ریزہ ہوجاتا ہے۔ وہ اعتقادی طور پر منتشر اور خوداری کے حوالے سے انتہائی تہی دامن ہوتا ہے۔ اسی بات کا نتیجہ ہے کہ اچھا بھلا پڑھا لکھا انسان کبھی فٹ پاتھ پر بیٹھے ہوئے آدمی سے قسمت دریافت کرتا ہے، اور کبھی بت کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑا ہوتا ہے۔ ایک قبر کے سامنے سجدہ کر رہا ہے اور دوسرا قبر کے پاس بیٹھے ہوئے مجاور کے سامنے فریاد کر رہا ہوتا ہے اس طرح در در کی ٹھوکریں کھانے کو ثواب سمجھتا ہے۔ ان کے مقابلے میں مومن غریب ہو یا امیر، پڑھا ہوا ہو یا اَن پڑھ وہ اپنے رب کو چھوڑ کر کہیں جانے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ (عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ یَقُوْلُ اللَّہُ تَبَارَکَ وَتَعَالَی لأَہْوَنِ أَہْلِ النَّارِ عَذَابًا لَوْ کَانَتْ لَکَ الدُّنْیَا وَمَا فِیْہَا أَکُنْتَ مُفْتَدِیًا بِہَا فَیَقُوْلُ نَعَمْ فَیَقُوْلُ قَدْ أَرَدْتُ مِنْکَ أَہْوَنَ مِنْ ہَذَا وَأَنْتَ فِیْ صُلْبِ اٰدَمَ أَنْ لاَ تُشْرِکَ أَحْسَبُہُ قَالَ وَلاَ أُدْخِلَکَ النَّارَ فَأَبَیْتَ إِلاَّ الشِّرْکَ) [ رواہ مسلم : کتاب صفۃ القیامۃ والجنۃ والنار، باب طَلَبِ الْکَافِرِ الْفِدَاءَ بِمِلْءِ الأَرْضِ ذَہَبًا] ” حضرت انس بن مالک (رض) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں اللہ تبارک و تعالیٰ جہنمیوں میں سے کم ترین عذاب پانے سے کہے گا۔ دنیا اور جو کچھ اس میں ہے اگر تیرے پاس ہو۔ کیا تو اسے فدیہ کے طور پردینے کے لیے تیار ہے وہ کہے گا جی ہاں ! اللہ تعالیٰ فرمائے گا میں نے تجھ سے اس سے بھی ہلکی بات کا مطالبہ کیا تھا جب تو آدم کی پشت میں تھا وہ یہ کہ میرے ساتھ شرک نہ کرنا۔ راوی کا خیال ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میں تجھے جہنم میں داخل نہ کرتا لیکن تو شرک سے باز نہ آیا۔“ مسائل ١۔ مسلمان کا فکر و عمل صرف اللہ کے لیے ہوتا ہے۔ ٢۔ جس نے اللہ کے ساتھ شرک کیا وہ بلندیوں سے پستیوں میں گرجاتا ہے۔ تفسیر بالقرآن شرک کی ذلّت اور اس کے نقصانات : ١۔ شرک سے تمام اعمال ضائع ہوجاتے ہیں۔ (الزمر : ٦٥) ٢۔ اللہ مشرک کو معاف نہیں کرے گا اس کے علاوہ جسے چاہے گا معاف کر دے گا۔ (النساء : ٤٨) ٣۔ شرک کرنے والا راہ راست سے بھٹک جاتا ہے۔ (النساء : ١١٦) ٤۔ جو شخص اللہ کے ساتھ شرک کرتا ہے گویا کہ وہ آسمان سے گرپڑا۔ (الحج : ٣١) ٥۔ شرک کرنے والے پر جنت حرام ہے۔ (المائدۃ : ٧٢) ٦۔ اللہ اور اس کا رسول مشرکوں سے بری الذّمہ ہے۔ (التوبۃ: ٣) ٧۔ مشرکین کا ٹھکانہ جہنم ہے۔ (ابراہیم : ٣٠) ٨۔ اللہ تعالیٰ نے مشرک اور زانی کو ایک جیسا قرار دیا ہے۔ ( النور : ٣) الحج
32 فہم القرآن ربط کلام : ” اللہ“ کی توحید کے لیے یکسو ہونے اور شرک سے بچنے کا تقاضا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مقرر کی ہوئی حرمات کا اعتقاداً اور عملاً احترام کیا جائے۔ ” شَعَاءِرْ“ شِعَارُ کی جمع ہے جس کا معنٰی ہے ایسی جگہ یا نشانی۔ جس سے اللہ تعالیٰ کی طرف انسان کی توجہ مبذول ہوتی ہو اور اس کا ” شعاءِرَ اللّٰہ“ ہونا قرآن اور حدیث رسول سے ثابت ہو۔ اس لیے شعائر اللہ کی تعظیم کرنا درحقیقت اللہ تعالیٰ کی ذات کا احترام کرنا اور اس کا تقو ٰی اختیار کرنا ہے۔ یا درہے کہ جو شخص بھی دل کی گہرائی کے ساتھ نیکی کرے گا‘ اللہ تعالیٰ اس کی نیکی کو جانتا اور اس کی قدر افزائی فرمانے والاہے۔ شعائر اللہ کا احترام اس کی تعظیم کرنا لازم ہے لیکن اس کی حقیقی تعظیم وہی شخص کرے گا جس میں اللہ کا خوف اس کی عظمت کا اعتراف اور اس کی صفات کی معرفت موجود ہو۔ اللہ تعالیٰ کی عظمت انسان کو کفر و شرک اور دوسرے گناہ کرنے سے روکتی ہے اگر اللہ تعالیٰ کی عظمت انسان کے دل سے اٹھ جائے تو انسان شعائر اللہ کے نام پر بھی شرک و بدعت میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ پھر وہ اپنی طرف سے بعض چیزوں اور کاموں کو شعائر اللہ بنا لیتا ہے یہی وجہ ہے کہ ہندؤ بتوں، مسلمان مزارات اور باقی اقوام نے اپنے اپنے شعائر بنا رکھے ہیں اور وہ ان کے سامنے جھکتے، نذر ونیاز پیش کرتے ہیں اور وہاں پہنچ کر جوتے اتار دیتے ہیں اور الٹے پاؤں واپس پلٹتے ہیں اس طرح کی بے شمار حرکتیں ہیں جو شرک وبدعت کے زمرے میں شامل ہیں۔ اس لیے یہاں شعائر اللہ کی تعظیم کا نتیجہ بتلایا ہے کہ اس کے دل میں گناہوں سے بچنے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ اس کا دوسرا مفہوم یہ ہے کہ شعائر اللہ کی تعظیم وہی شخص کرے گا جس کے دل میں اللہ کا خوف موجزن ہوگا۔ جس دل سے خوف خدا نکل جائے تو اس کے دل سے شعائر اللہ کی تعظیم اٹھ جاتی ہے اور وہ من ساختہ تعظیم کرنے کے درپے رہتا ہے۔ مسائل ١۔ شعائر اللہ کی تعظیم کرنے والے کے دل میں اللہ کا خوف ہوتا ہے۔ ٢۔ شائر اللہ کی تعظیم کرنا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن تقویٰ اور اس کے فوائد : ١۔ اللہ متقین کے ساتھ ہے۔ (التوبۃ: ١٢٣) ٢۔ متقین کے لیے کامیابی ہے۔ (النباء : ٣١) ٣۔ اللہ سے ڈرو اور جان لو بے شک اللہ تعالیٰ متقین کے ساتھ ہے۔ (البقرۃ: ١٩٤) الحج
33 فہم القرآن ربط کلام : دل کے تقویٰ کا تقاضا ہے کہ شعاء اللہ کا احترام کیا جائے۔ شعائر اللہ کا وہی احترام کرے گا جو اپنے ” اللہ“ کے سامنے قلباً اور عملاً عاجزی کرنے والا ہوگا۔ اللہ کے حضور انسان جب کسی جانور کی قربانی پیش کرتا ہے تو اس میں نیت رضائے الٰہی کے حصول کے سوا کچھ نہیں ہونا چاہیے۔ دین اسلام کی خوبیوں میں ایک خوبی یہ ہے کہ اس کے ہر کام میں آخرت کے اجر کے ساتھ دنیا کا فائدہ پایا جاتا ہے۔ پہلی امتوں میں یہ اصول تھا کہ قربانی پیش کرنے والا اس کا گوشت نہیں کھا سکتا تھا۔ لیکن ہم پر اللہ تعالیٰ کا فضل ہوا کہ اس نے نہ صرف ہمیں قربانی کا گوشت کھانے کی اجازت عنایت فرمائی ہے بلکہ ہم قربانی کے جانور کی اون چمڑی اور ہڈیوں سے بھی فائدہ اٹھا سکتے ہیں اسی طرح دیگر چوپاؤں میں ہمارے لیے فوائد رکھے گئے ہیں۔ جہاں تک قربانی کے واجب ہونے کا تعلق ہے اس کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ ہم نے ہر امت کے لیے قربانی کرنا لازم قرار دیا اور انھیں ہدایت کی تھی کہ قربانی صرف اللہ کے نام پر ہونی چاہیے اسے ذبح کرتے ہوئے اللہ کا نام لینا فرض ہے۔ کیونکہ اسی نے تمہیں چوپائے عطا فرمائے ہیں لہٰذا وہ اکیلا ہی عبادت کے لائق ہے۔ یہاں عبادت سے پہلی مراد نذونیاز ہے جو صرف اور صرف ’ ’ اللہ“ ہی کے لیے ہونی چاہیے۔ لہٰذا ہر حال میں اپنے رب کے تابع فرماں رہو۔ جو لوگ اپنے رب کے حضور دل کی اتھاہ گہرائیوں کے ساتھ مطیع ہوں گے انھیں خوشخبری کا پیغام دیا جاتا ہے۔ قربانی کی تاریخ : جب سے حضرت آدم (علیہ السلام) دنیا میں تشریف لائے اسی وقت سے لے کر ” اللہ“ کی راہ میں اس کی رضا کے لیے قربانی کرنا مشروع ہے۔ جیسا کہ قرآن حکیم میں واقعہ بیان ہوا ہے : (وَاتْلُ عَلَیْھِمْ نَبَأَ ابْنَیْ اٰدَمَ بالْحَقِّ إِذْ قَرَّبَا قُرْبَانًا فَتُقُبِّلَ مِنْ أَحَدِ ھِمَاوَلَمْ یُتَقَبَّلْ مِنَ الْاٰخِرْ قَالَ لَاَقْتُلَنَّکَ قَالَ اِنَّمَا یَتَقَبَّلُ اللّٰہُ مِنَ الْمُتَّقِیْنَ لَءِنْ م بَسَطْتَّ اِلَیَّ یَدَکَ لِتَقْتُلَنِیْ مَآ أَنَا بِبَاسِطٍ یَّدِیَ اِلَیْکَ لِأَقْتُلَکَ اِنِّیْ اَخَاف اللّٰہَ رَبَّ الْعٰلَمِیْنَ) [ المائدۃ: ٢٧، ٢٨] ” آپ ان کو آدم (علیہ السلام) کے دو بیٹوں کا واقعہ سنائیں۔ جب ان دونوں نے قربانی پیش کی تو ان میں سے ایک کی قربانی قبول ہوئی اور دوسرے کی قربانی قبول نہیں کی گئی۔ جس کی قربانی قبول نہ ہوئی اس نے دوسرے بھائی کو کہا کہ میں تجھے قتل کردوں گا۔ پہلے نے جواب دیا اللہ تعالیٰ متقی لوگوں کی قربانی قبول کرتا ہے۔ اگر تو مجھے قتل کرنے کے لیے ہاتھ اٹھائے گا تو میں تجھے قتل کرنے کے لیے ہاتھ نہیں اٹھاؤں گا کیونکہ میں اللہ رب العالمین سے ڈرتا ہوں۔“ قربانی کی فضیلت : (عَنْ عَاءِشَۃَ (رض) قَالَتْ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَا عَمِلَ ابْنُ اٰدَمَ مِنْ عَمَلٍ یَوْمَ النَّحْرِ اَحَبَّ اِلٰی اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ مِنْ اِہْرَاق الدَّمِ وَاِنَّہٗ لَیَاْتِیْ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ بِقُرُوْنِھَا وَاَشْعَارِھَا وَاَظْلَافِھَا وَاِنَّ الدَّمَ لَیَقَعُ مِنَ اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ بِمَکَانٍ قَبْلَ اَنْ یَّقَعَ الْاَرْضَ فَطِیْبُوْبِھَا نَفْسًا) [ رواہ ابن ماجۃ: ابواب الاضاحی، باب ثواب الاضحیۃ] ” ام المؤ منین حضرت عائشہ صدیقہ (رض) بیان فرماتی ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا قربانی کے دن اللہ تعالیٰ کو خون بہانے سے زیادہ پسند کوئی عمل نہیں۔ قربانی کا جانور اپنے سینگوں‘ کھروں اور بالوں سمیت حاضر ہوگا۔ اللہ تعالیٰ قربانی کے جانور کا خون زمین پر گرنے سے پہلے درجات بلند فرما دیتا ہے۔ اس لیے قربانی دل کی خوشی کے ساتھ کیا کرو۔“ قربانی کا اجر : (عَنْ زَیْدِ بْنِ اَرْقَمَ قَالَ قَالَ اَصْحَابُ رَسُوْلِ اللّٰہِ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَاھٰذِہٖ الْاَضَاحِیْ قَالَ سُنَّۃُ اَبِیْکُمْ اِبْرَاھِیْمَ قَالُوْا فَمَالَنَا فِیْھَا یَارَسُوْلَ اللّٰہِ قَالَ بِکُلِّ شَعْرَۃٍ حَسَنَۃٌ قَالُوْا فَالصُّوْفُ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ قَالَ بِکُلِّ شَعْرَۃٍ مِّنَ الصُّوْفِ حَسَنَۃٌ) [ رواہ ابن ماجۃ: ابواب الاضاحی‘ باب ثواب الاضحیۃ] ” زید بن ارقم کا بیان ہے کہ اصحاب رسول نے آپ سے سوال کیا اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! قربانی کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا : یہ تمہارے باپ ابراہیم (علیہ السلام) کی سنت ہے۔ صحابہ (رض) نے عرض کی کہ ہمیں اس میں کیا ملے گا؟ ارشاد ہوا قربانی کے بالوں کے برابر ثواب ملے گا۔ رفقائے رسول (رض) پھر عرض کرتے ہیں اللہ کے نبی بھیڑ کی اون کے برابر بھی؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا! بھیڑ کی اون کے ایک ایک بال کے برابر نیکیاں ملیں گی۔“ (عَنْ جُنْدُبِ ابْنِ عَبْدِاللّٰہِ الْبَجَلِی (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَنْ ذَبَحَ قَبْلَ الصَّلٰوۃِ فَلْےَذْبَحْ مَکَانَھَا اُخْرٰی وَمَنْ لَّمْ ےَذْبَحْ حَتّٰی صَلَّےْنَا فَلْےَذْبَحْ عَلَی اسْمِ اللّٰہِ) [ رواہ البخاری : باب قول النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فلیذبح علی اسم اللہ] ” حضرت جندب بن عبداللہ البجلی (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس نے نماز عید سے پہلے جانور ذبح کیا اسے اور قربانی کرنا پڑے گی جو نمازِعید کے بعد قربانی کرے اسے اللہ کے نام پر قربانی ذبح کرنی چاہیے۔“ (حج کرنے والا قربانی کے اونٹ پر سواری کرسکتا ہے۔ البتہ جب قربانی کا وقت آئے تو اسے قربانی کرنا ہوگا۔) مسائل ١۔ قربانی کرنے میں دینی اور دنیاوی فوائد ہیں۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے ہر امت کے لے قربانی مقرر کی ہے۔ ٣۔ ذبح کرتے وقت اللہ کا نام لینا (بِسْمِ اللّٰہِ وَاللّٰہُ اَکْبَرْ) لازم ہے۔ ٤۔ اللہ ایک ہی معبود حقیقی ہے اسی کا مطیع ہونا چاہیے۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ کے حضور عاجزی کرنے والوں کے لیے جنت کی خوشخبری ہے۔ تفسیر بالقرآن قربانی کے مسائل : ١۔ قربانی (ذوالحجہ) کے چند مخصوص دنوں میں کرنی چاہیے۔ (الحج : ٢٨) ٢۔ قربانی اللہ کے نام پر ذبح کرنی چاہیے۔ (الحج : ٣٤) ٣۔ اونٹ کو گھٹنا باندھ کر کھڑے کھڑے قربانی کرنا چاہیے۔ (الحج : ٣٦) ٤۔ قربانی کا گوشت خود بھی کھانا چاہیے اور فقیروں اور قناعت کرنے والوں کو بھی دینا چاہیے۔ ( الحج : ٣٦) ٥۔ گوشت اور خون کی بنیاد پر قربانی قبول نہیں ہوتی قربانی تقویٰ کی بنیاد پر قبول ہوتی ہے۔ (الحج : ٣٧) ٦۔ قربانی حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی سنت ہے۔ (الصّٰفٰت : ١٠٨) الحج
34 الحج
35 فہم القرآن ربط کلام : اللہ کے بندے صرف جانور ذبح کرتے وقت ہی اللہ تعالیٰ کا ذکر نہیں کرتے بلکہ جب بھی ان کے سامنے اللہ کا ذکر کیا یعنی اس کی توحید اور فرمان کا تذکرہ ہو تو ان کے دل لرز جاتے ہیں۔ اللہ سے ڈرنے کے تقاضے ہیں کہ جب جانور ذبح کیا جائے تو اس پر دوسروں کا نام لینے کی بجائے صرف ” اللہ“ ہی کا نام یعنی بسم اللہ واللہ اکبر پڑھ کر ذبح کیا جائے۔ اس کا دوسرا تقاضا ہے کہ یہ عقیدہ رکھا جائے ” اللہ“ ہی کا مال ہے اسی کے حکم اور اس کی خوشنودی کے لیے ذبح کر رہا ہوں اس میں کسی بت یا بزرگ کا کوئی حصہ نہیں۔ اللہ کے ذکر کا یہ بھی تقاضا ہے کہ صاحب ایمان کے سامنے جب اللہ کی ذات اور صفات کا بیان ہو تو اس کی جلالت و جبروت کے سامنے اس کا دل لرز جائے۔ دل لرزنے کا حقیقی معنی یہ ہے کہ بتوں اور مزارات کے سامنے نذ ونیاز پیش کرنے کی بجائے صرف اللہ کے حضور پیش کرئے اور غیر اللہ کی اطاعت چھوڑ کر اللہ کی اطاعت میں آجائے۔ اگر اللہ کی اطاعت کرتے ہوئے مشکلات پیش آئیں تو انھیں صبر و تحمل کے ساتھ برداشت کرے۔ صبر و تحمل کے لیے ضروری ہے کہ وہ پانچ وقت کی نماز ادا کرئے اور جو کچھ اسے اس کے رب نے عطا کر رکھا ہے۔ اس میں سے دین کی بالادستی اور اللہ کے بندوں پر خرچ کرتا رہے۔ اس آیت مبارکہ میں اللہ سے ڈرنے کے چار اوصاف بیان کیے گئے ہیں۔ مسائل ١۔ اللہ کے ذکر سے مومنوں کے دل نرم ہوتے ہیں۔ ٢۔ مشکلات کے وقت صبر کرنا چاہیے۔ ٣۔ نماز کی پابندی کرنا چاہیے۔ ٤۔ اللہ کے دیے ہوئے رزق سے صدقہ کرنا چاہیے۔ الحج
36 فہم القرآن ربط کلام : سلسلہ کلام کے درمیان چند نصائح فرما کر اب پھر قربانی کے مسائل اور فضائل کا ذکر کیا جاتا ہے۔ یہودیوں نے حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے ذمہ یہ بات لگا رکھی ہے کہ انہوں نے اپنے آپ پر اونٹ کا گوشت حرام کر رکھا تھا اس لیے ہم اونٹ کا گوشت نہیں کھاتے اور نہ اس کی قربانی کرنا جائز نہیں سمجھتے۔ یہودیوں کے نظریہ کی تردید کے لیے سورۃ آل عمران، آیت : ٩٣ میں وضاحت فرمائی کہ یعقوب (علیہ السلام) کے لیے سب چیزیں حلال تھیں۔ البتہ انہوں نے جو چیز بیماری کی وجہ سے پرہیز کے طور پر چھوڑ دی وہ الگ مسئلہ ہے۔ چنانچہ وہ اونٹ بھی تمھارے لیے شعائر اللہ کا درجہ رکھتے ہیں۔ جنہیں نذر یا قربانی کے لیے مخصوص کردیا گیا ہو۔ اونٹ کو کھڑا کرکے اس پر اللہ کا نام لو یعنی تکبیر پڑھ کر ذبح کرو۔ جب وہ زمین پر گر پڑے تو اس کا گوشت بناؤ۔ جس میں خود کھاؤ، اس شخص کو بھی کھلاؤ جو کسی سے سوال نہیں کرتا اور اس کو بھی دو جو تم سے قربانی کا گوشت مانگتا ہے۔ اللہ کا شکر ادا کرو کہ اس نے اونٹ جیسے طاقتور جانور کو تمھارے تابع کردیا ہے۔ حالانکہ اونٹ وہ جانور ہے کہ اگر بگڑ جائے تو اسے قابو میں لانا بہت مشکل ہوتا ہے۔ اونٹ جس کے خلاف دل میں کینہ رکھ لے موقعہ پاتے ہی اس سے بدلہ لیتا ہے۔ چاہے طویل عرصہ کے بعد اس سے بدلہ لینا پڑے۔ اس لیے اونٹ کا کینہ ضرب المثل اختیار کرچکا ہے۔ محاورہ ہے کہ فلاں شخص شتر کینہ ہے، یہ اللہ کے کرم کا نتیجہ ہے کہ ایک بچہ بھی اسے نکیل سے پکڑ کر جدھر چاہتا ہے لیے پھرتا ہے۔ خیر کا لفظ بول کر یہ بھی وضاحت کردی ہے کہ اونٹ حلال ہے حرام نہیں۔ اس میں دنیوی فوائد بھی بے شمار ہیں۔ بالخصوص صحرا میں رہنے والوں کے لیے یہ بہترین سواری ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اونٹ کی تخلیق اور اس کے صبر و شکر کو اپنی قدرت کی نشانی قرار دیا ہے۔ (الغاشیہ : ١٣) گائے اور اونٹ میں کتنے شریک ہوں؟ (عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ کُنَّا مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فِیْ سَفَرٍ فَحَضَرَ الْاَضْحٰی فَاشْتَرَکْنَافِیْ الْبَقَرَۃِ سَبْعَۃٌ وَفِی الْبَعِیْرِ عَشَرَۃٌ) [ رواہ الترمذی : باب ماجاء فی الاشتراک فی البدنۃ والبقرۃ] ” ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں ہم نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ سفر میں تھے ایّام قربانی شروع ہوگئے ہم گائے میں سات آدمی شریک ہوئے اور اونٹ میں دس آدمی شریک ہوئے۔“ ( عَنِ ابْنِ عُمَرَ (رض) اَنَّہُ اَتٰی عَلٰی رَجُلٍ قَدْ اَنَاخَ بَدَنَتَہُ ےَنْحَرُھَا قَالَ ابْعَثْھَا قِےَامًا مُّقَیَّدَۃً سُنَّۃَ مُحَمَّدٍ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) [ رواہ البخاری : باب نَحْرِ الإِبِلِ مُقَیَّدَۃً] ” حضرت عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں نبی اکرم ایک شخص کے پاس آئے جس نے اپنے اونٹ کو نحر کرنے کے لیے بٹھایا ہوا تھا۔ آپ نے اسے ہدایت کی کہ اس کو کھڑا کر کے ذبح کرو۔ یہی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سنت ہے۔“ (نحر کا معنی : سینہ پر مارنا، یعنی ذبح کرنا ہے۔) انسان کو اللہ تعالیٰ نے جن انعام و اکرام سے نوازا ہے اس کا شکر انتہائی ضروری ہے۔ جس طرح نعمتیں مختلف شکلوں میں ہیں اسی طرح ان کے شکرانے کے لیے مختلف صورتیں مقرر کی گئی ہیں۔ جسم اور اس کی توانائی کا شکر، نماز، روزے کی صورت میں مقرر کیا گیا ہے۔ سیم و زر کے تشکر کے لیے زکوٰۃ اور حج کی ادائیگی لازم قرار دی۔ جانوروں پر تصرف‘ گوشت‘ دودھ‘ سواری‘ بار برداری کا شکر زکوٰۃ و صدقات اور قربانی کرنا ہے تاکہ اظہار تشکر کے ساتھ یہ اعتراف بھی ہو کہ اس کا مالک میں نہیں اصل مالک وہ ذات ہے جس نے یہ عطا فرمائے ہیں۔ اسی کے نام پر اس کو ذبح کر رہا ہوں۔ اس لیے ارشاد فرمایا کہ ” ہم نے ان جانوروں کو تمہارے تابع کردیا تاکہ اللہ کی کبریائی کا اعتراف کرو جس طرح اس نے تمہاری راہنمائی فرمائی اور خوشخبری دیجیے نیکی کرنے والوں کو۔“ [ الحج : ٣٧] مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے اونٹ میں بہت سے فوائد رکھے ہیں۔ ٢۔ قربانی کے اونٹ بھی شعائر اللہ میں شامل ہیں۔ ٣۔ اونٹ کو کھڑا کرکے ذبح کرنا چاہیے۔ ٤۔ قربانی کا گوشت سائل کو بھی دینا چاہیے۔ ٥۔ ہر حال میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہیے۔ الحج
37 فہم القرآن ربط کلام : قربانی کے مسائل کا بیان جاری ہے۔ عربوں میں یہ بھی جہالت پائی تھی کہ جب وہ قربانی ذبح کرتے تو اس کا خون اپنے جسم اور کپڑوں پر مل لیتے تھے۔ جس سے یہ ثابت کرنا مقصود ہوتا کہ ہماری قربانی قبول ہوچکی ہے۔ قرآن مجید نے اس رسم کی نفی کرتے ہوئے واضح کیا کہ اللہ تعالیٰ کو تمھاری قربانیوں کا نہ خون پہنچتا ہے اور نہ ہی گوشت۔ اسے دلوں کا اخلاص اور تمہاری پرہیزگاری درکار ہے کہ تم کس جذبے اور نیت کے ساتھ قربانی کرتے ہو۔ جس میں پہلا جذبہ یہ درکار ہے کہ قربانی کرنے والا یہ احساس دل میں لائے کہ اللہ تعالیٰ کے دیے ہوئے وسائل اور طاقت سے یہ جانور میرے تابع ہوا ہے۔ دوسرا یہ جذبہ پیدا کرے کہ اسی کی ہدایت اور توفیق سے میں اسے ذبح کررہا ہوں۔ اگر وہ مجھے ہدایت اور توفیق نہ بخشتا تو مجھ میں کب ہمت تھی کہ میں قربانی کرتا۔ ہدایت سے مراد وہ توفیق اور راہنمائی ہے جس بنا پر آدمی دوسروں کی بجائے صرف اور صرف اپنے رب کے حضور اور اس کی رضا کے لیے نذونیاز اور قربانی پیش کرتا ہے۔ جو لوگ اس اخلاص کے ساتھ قربانی ذبح کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ انہی کی قربانی قبول کرتا ہے اسی لیے قربانی کے وقت آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ دعا پڑھتے تھے۔ (قُلْ إِنَّ صَلَاتِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلَّہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ) [ الانعام : ١٦٢] ” اے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کہہ دیجیے! میری نماز، میری قربانی، میری زندگی اور میری موت اللہ رب العالمین کے لیے ہے۔“ (عَنْ عَاءِشَۃَ (رض) اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اَمَرَ بِکَبْشٍ اَقْرَنَ ےَطَأُ فِیْ سَوَادٍ وَّےَبْرُکُ فِیْ سَوَادٍ وَےَنْظُرُ فِیْ سَوَادٍ فَاُتِیَ بِہٖ لِےُضَحِّیَ بِہٖ قَالَ ےَا عَآءِشَۃُ ھَلُمِّی الْمُدْےَۃَ ثُمَّ قَالَ اشْحَذِےْھَا بِحَجَرٍ فَفَعَلْتُ ثُمَّ اَخَذَھَا وَاَخَذَ الْکَبْشَ فَاَضْجَعَہُ ثُمَّ ذَبَحَہُ ثُمَّ قَالَ (بِسْمِ اللّٰہِ اَللّٰھُمَّ تَقَبَّلْ مِنْ مُّحَمَّدٍ وَّاٰلِ مُحَمَّدٍ وَّمِنْ اُمَّۃِ مُحَمَّدٍ) ثُمَّ ضَحّٰی بِہ) [ رواہ مسلم : باب اسْتِحْبَاب الضَّحِیَّۃِ وَذَبْحِہَا مُبَاشَرَۃً بلاَ تَوْکِیلٍ وَالتَّسْمِیَۃِ وَالتَّکْبِیرِ] ” حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں۔ اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سینگوں والا مینڈھا جس کی ٹانگیں‘ پیٹ اور آنکھیں سیاہ تھیں مجھے لانے کا حکم دیا۔ جب یہ جانور ذبح کے لیے لایا گیا تو آپ نے مجھے چھری لانے کے لئے فرمایا ساتھ ہی فرمایا کہ پتھر پر چھری تیز کرو۔ میں نے ایسا ہی کیا آپ نے چھری پکڑی اور مینڈھے کو لٹا کر ذبح کرنے کے وقت بسم اللہ پڑھی اور یہ الفاظ ادا کیے۔ الٰہی محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)‘ آل محمد اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی امت کی طرف سے قبول فرما۔“ بعض نام نہاد دانشور اور کچھ لوگ آسمانی آفت زلزلہ‘ سیلاب‘ غربت یا جہاد کے جذبہ کی بنیاد پر کہتے ہیں کہ ہر سال قربانی کرنے کے بجائے قربانی کی رقم جہاد اور فلاح و بہبود کے کاموں پر صرف ہونی چاہیے۔ ایسے احباب کو یاد رکھنا چاہیے کہ نبی محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مدینہ طیبہ کے دس سالہ دور میں قربانی بھی کی اور جہاد بھی جاری رکھا۔ جہاں تک غربت کا معاملہ ہے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دور سے زیادہ مسلمانوں پر کبھی بھی غربت کا دور نہیں آیا۔ لہٰذا لوگوں کی بھلائی اسی میں ہے کہ ہر حال میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سنت کی پیروی قربانی کرتے رہیں۔ کیونکہ ارشاد ہے : ” ام المؤ منین حضرت عائشہ صدیقہ (رض) بیان فرماتی ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا قربانی کے دن اللہ تعالیٰ کو خون بہانے سے زیادہ پسند کوئی عمل نہیں۔ قربانی کا جانور اپنے سینگوں‘ کھروں اور بالوں سمیت حاضر ہوگا۔ اللہ تعالیٰ قربانی کے جانور کا خون زمین پر گرنے سے پہلے درجات بلند فرما دیتا ہے۔ اس لیے قربانی کرنے پر خوش ہوا کرو۔“ (رواہ ابن ماجۃ: ابواب الاضاحی، باب ثواب الاضحیۃ) مسائل ١۔ اللہ کو قربانی کا گوشت پوست اور خون نہیں پہنچتا۔ ٢۔ اللہ کو قربانی کرنے والے کا اخلاص درکار ہے۔ ٣۔ قربانی پر تکبیر پڑھنا چاہیے۔ بسم اللہ واللہ اکبر۔ ٤۔ اخلاص کے ساتھ قربانی دینے والے کے لیے خوشخبری ہے۔ تفسیر بالقرآن محسنین کے اوصاف : ١۔ اللہ تعالیٰ صبر کرنے والے محسنین کے اجر کو ضائع نہیں کرتا۔ ( ھود : ١١٥) ٢۔ احسان کرو یقیناً اللہ احسان کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے۔ (البقرۃ: ١٩٥) ٣۔ انھیں معاف کیجیے اور در گزر کیجیے یقیناً اللہ محسنین کو پسند فرماتا ہے۔ (المائدۃ: ١٣) ٤۔ محسنین تنگی اور کشادگی میں اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں، غصہ کو پی جاتے ہیں اور لوگوں کو معاف کردیتے ہیں۔ (آل عمران : ١٣٤) الحج
38 فہم القرآن ربط کلام : قربانی کے جذبہ کا منطقی نتیجہ ہے کہ مسلمان اپنا تن، من، دھن ” اللہ“ کی راہ میں نچھاور کر دے اس لیے قربانی کے مسائل بیان کرتے ہوئے قتال فی سبیل اللہ کی اجازت کا تذکرہ کیا جاتا ہے۔ مکہ معظمہ میں تیرہ سال تک مسلمان ہر قسم کے مظالم برداشت کرتے رہے۔ مقابلے میں جب کبھی لڑنے کی اجازت طلب کی گئی تو مسلمانوں کو اپنا دفاع کرنے سے روک دیا گیا۔ ہجرت کے بعد یہ پہلا فرمان ہے جس میں مظلوم مسلمانوں کو نہ صرف لڑنے کی اجازت دی گئی بلکہ یقین دہانی بھی کروائی گئی کہ مسلمانوں اب تمھیں ظلم کے خلاف لڑنے کی اجازت ہے۔ یقین رکھنا کہ اللہ تعالیٰ تمھاری مدد کرنے پر قادر ہے۔ باالفاظ دیگر تمہاری ضرور مدد کی جائے گی۔ یقیناً اللہ تعالیٰ مسلمانوں کا دفاع کرتا ہے کیونکہ وہ کسی خائن اور ناشکرے کو پسند نہیں کرتا۔ چنانچہ جب کفار کے ساتھ قتال کا سلسلہ شروع ہوا تو بدر سے لے کر تبوک تک نہتے مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ نے وہ کامیابیاں عنایت فرمائیں جس کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ (عَنْ اَبِیْ ھُرَےْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَنْ مَّاتَ وَلَمْ ےَغْزُ وَلَمْ ےُحَدِّثْ بِہٖ نَفْسَہٗ مَاتَ عَلٰی شُعْبَۃٍ مِّنْ نِّفَاقٍ) [ رواہ مسلم : کتاب الإمارۃِ، باب ذم من مات ولم یغزولم یحدث نفسہ بالغزو] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جس نے نہ جہاد کیا اور نہ ہی دل میں جہاد کا خیال لایا تو وہ منافقت کی ایک قسم پر فوت ہوا۔“ الحج
39 الحج
40 فہم القرآن ربط کلام : مکہ کے مسلمانوں کو ان کے گھروں سے اس لیے نکلنے پر مجبور کیا گیا کیونکہ وہ اپنے رب پر ایمان لائے تھے۔ حق و باطل کی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ جس دور میں بھی۔ اللہ والوں نے اپنے رب پر ایمان لانے کا اظہار کیا اور اس کے تقاضے پورے کرنے کی کوشش کی تو کفار اور مشرکین نے ان کا جینا حرام کردیا۔ اللہ تعالیٰ نے ایمانداروں کو کفار اور مشرکین کے مقابلے میں لڑنے کی اجازت دی تو کفار اور مشرکین نے یہ پراپیگنڈہ شروع کیا کہ کلمہ گو لوگ جنگجو اور ظالم ہیں۔ بالخصوص اسلام کے بارے میں مخالفین کا پرا پیگنڈہ ہے کہ مسلمان جہاد کے نام پر جارحیت کرتے ہیں۔ اس بات کا یہ جواب دیا کہ اگر اللہ تعالیٰ کی طرف سے مظلوم لوگوں کو ظالموں کے خلاف لڑنے کی اجازت نہ دی جاتی تو دنیا میں عیسائیوں کے گرجے اور خلوت خانے یہودیوں کی عبادت گاہیں اور مسلمانوں کی مساجد جن میں کثرت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا نام لیا جاتا ہے وہ مسمار کردیے جاتے۔ مساجد کا آخر میں ذکر فرما کر دو اشارے دیے ہیں۔1 اللہ تعالیٰ کی حقیقی اور سچی عبادت صرف مساجد میں ہوتی ہے۔2 دوسری حقیقت یہ ہے کہ دوسرے معبد خانوں کی نسبت مساجد میں اللہ کا ذکر اور عبادت زیادہ ہوتا ہے۔ چنانچہ آپ ہندؤں کے مندر، عیسائیوں کے گرجے اور یہودیوں کے عبادت خانے دیکھ لیں ان کی نسبت مساجد میں کتنی بھرپور حاضری ہوتی ہے۔ دوسرے پارے کے آخر میں فرمایا ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ لوگوں کو ایک دوسرے کے ذریعے نہ ہٹائے تو زمین کا نظام درہم برہم ہوجائے۔ (البقرۃ: ٢٥١) زمین کے نظام کو بچانے اور چلانے کے لیے ضروری ہے کہ جب کوئی قوم ظلم و ستم کی حدود پھلانگنے لگتی ہے تو اللہ تعالیٰ اسے ہٹا کر کسی دوسروں کو اقتدار دے دیتا ہے۔ جو ” اللہ“ کی مددکرے گا اللہ تعالیٰ اس کی ضرور مدد کرتا ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ بڑی طاقت والا اور ہر حال میں غالب رہنے والا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی مدد کرنے سے مراد یہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ کسی کی مدد کا محتاج ہے اس سے مراد اس کے دین اور مظلوم لوگوں کی مدد کرنا ہے۔ یہی وجہ ہے جب مسلمان متحد اور طاقتور تھے اس وقت دنیا کے کسی خطہ میں ظلم ہوا تو مسلمانوں نے آگے بڑھ کر مظلوم کی مدد کی۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی نصرت و حمایت سے انھیں کامیاب فرمایا۔ قتال فی سبیل اللہ جارحیّت نہیں : (کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اَمَرَاُمَرَاؤَہٗ اَن لَّا ےَقْتُلُوْا اِلَّامَنْ قَاتَلَھُمْ) [ فتح الباری] ” رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فوجی افسروں کو حکم دیا تھا کہ وہ ان لوگوں کے خلاف جنگ نہ کریں جو تم سے لڑنا نہیں چاہتے۔“ ” بوڑھوں، کم عمر بچوں اور عورتوں کو قتل نہ کرو۔“ [ مشکوٰۃ: باب القتال فی الجہاد] آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد حضرت ابو بکر صدیق (رض) نے بھی اس بات کا خیال رکھا کہ نہ صرف پُر امن آبادی پر کسی قسم کی زیادتی نہ ہونے پائے بلکہ جانوروں اور کھیتوں کو بھی کوئی نقصان نہ پہنچے چنانچہ جب شام پر فوج کشی کا ارادہ کیا تو فوجوں کو رخصت کرتے وقت سپہ سالار فوج کو یہ ہدایات فرمائیں : (اِنَّکَ تَجِدُ قَوْمًا عَمُوْا اِنَّھُمْ حَبَسَ اَنْفُسَھُمْ اللّٰہُ فَذَرْھُمْ وَاِنِّی مُوْصِےْکَ بِعَشْرِ خِلَالٍ لَا تَقْتُلُوْا اِمْرَاۃٌ وَّلَا صَبِیًّا وَّلَا کَبِےْرًا ھَرِمًا وَّلَا تَقْطَعَ شَجَرًا مُثْمِرًا وَّلَا تُخَرِّبِنَّ عَامِرًا وَّلَا تَعْقِرَنَّ شَاۃًوَ لاَ بَعِےْرًا اِلَّا لِمَا کِلَۃًوَلَا تُفَّرِقَنَّ نَخْلًا وَّلَا تُحَرِّقَنَّہٗ وَلَا تَغْلُلْ وَلَا تَجْبُنْ) [ تاریخ الخلفاء : سیوطی] ” تم ایسے لوگوں کو پاؤ گے جنہوں نے اپنے آپ کو اللہ کی عبادت کے لیے وقف کر رکھا ہے ان کو چھوڑ دینا۔ میں تم کو دس وصیتیں کرتا ہوں کسی عورت، بچے اور بوڑھے کو قتل نہ کرنا، پھل دار درخت نہ کاٹنا، آبادیوں کو ویران نہ کرنا، بکری اور اونٹ کو کھانے کے سوا بے وجہ نہ مارنا، نخلستان کو نہ جلانا، مال غنیمت میں خیانت نہ کرنا اور بزدلی نہ دکھانا۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ ایک قوم کو دوسری کے ذریعے پسپا کرتا ہے۔ ٢۔ اگر ظالموں کو نہ بٹایا جائے تو عبادت خانے تباہ ہوجائیں۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ طاقتور اور ہر چیز پر غالب ہے۔ الحج
41 فہم القرآن ربط کلام : مسلمانوں کا قتال اور اقتدار کشور کشائی یا ذاتی مفاد کے لیے نہیں ان کے قتال اور اقتدار کا مقصد ” اللہ“ کے دین کی سر بلندی اور مظلوموں کی مدد کرنا ہے اور دنیا میں امن وامان قائم رکھنا ہے۔ برسر اقتدار لوگوں کا فرض ہے کہ وہ ہر قسم کے ظلم و زیادتی سے بچتے ہوئے اللہ کی زمین پر اللہ کا قانون نافذ کریں۔ جس میں اوّل نماز قائم کرنا اور لوگوں کو پابند نماز بنانا، زکوٰۃ ادا کرنا اور نظام زکوٰۃ نافذ کرنا۔ حکمران خود نیکی کے کام کریں اور لوگوں کو نیکی کا حکم دیں اور خود برائی سے بچیں لوگوں کو برائی سے منع کریں اور یہ عقیدہ رکھیں کہ ہر کام کا انجام اللہ کے اختیار میں ہے۔ اس فرمان کے شروع میں یہ الفاظ ہیں کہ اللہ تعالیٰ جن لوگوں کو اقتدار عطا فرمائے انھیں یہ کام کرنے چاہییں۔ آخر میں فرمایا کہ انھیں یہ معلوم ہونا چاہیے کہ ہر کام کا انجام اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے۔ گویا کہ حکمرانوں کو ہر حال میں فکر آخرت کے ساتھ یہ تصور بھی رکھنا چاہیے، کہ حکمرانی کے نشہ میں آکر مغرور اور متکبر نہیں بننا کیونکہ حقیقی اقتدار اور اختیار اللہ ہی کے پاس ہے۔ تمام امور کا انجام اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں کہہ کر مسلمانوں کو یہ عقیدہ دیا گیا ہے کہ اقتدار اور اختیار اللہ تعالیٰ کی طرف سے تفویض ہوتا ہے۔ جو ہمیشہ کسی ایک کے پاس نہیں رہتا۔” اللہ“ جسے چاہے اقتدار سے نوازتا ہے اور جس کو چاہے محروم کردیتا ہے۔ البتہ اس کا اصول یہ ہے کہ وہ لوگوں کے افکار اور اعمال کے مطابق ان پر حکمران مقرر کرتا ہے جیسے لوگ ہونگے ویسے حکمران ہوں گے۔ نیک حکمران اس سے ڈرنے والے ہوتے ہیں اور وہ اپنے فرائض میں بالخصوص نظام صلوٰۃ اور زکوٰۃ کا اجتماعی طور پر نفاذ کرتے ہیں اور لوگوں کو ہر قسم کی برائی اور بے حیائی سے روکنے کے ساتھ ساتھ نیکی اور بھلائی کا حکم دیتے ہیں، اگر حکمران ظالم اور برے ہیں تو انہیں یہ فکر کرنی چاہیے کہ بیشک دنیا میں انہیں روکنے اور ٹوکنے والا کوئی نہیں مگر ایک دن ایسا ضرور آئے گا جس دن انہیں اپنے کیے کا حساب دینا ہوگا۔ اگر حکمران نیک ہیں تو انہیں اس سوچ کے ساتھ بلا خوف وخطر اپنی جدوجہد میں لگے رہنا چاہیے کہ ہمارا کام تو اپنی اور لوگوں کی اصلاح کرنا ہے۔ نتیجہ ہمارے رب کے ہاتھ میں ہے۔ یاد رہے کہ انفرادی اصلاح انفرادی کو شش سے ہوا کرتی ہے اور اجتماعی اصلاح اور ترقی صرف اور صرف اجتماعی کوشش سے ظہور پذیر ہوتی ہے۔ جس کے لیے اجتماعی جدوجہد اور نظام کی ضرورت ہوتی ہے۔ جو صالح حکمران اور ان کے اچھے ساتھیوں کے بغیر ممکن نہیں اس لیے حضرت عمر (رض) نے ایک سوال کے جواب میں فرمایا تھا کہ میرے دل کی آرزو ہے کہ میرے پاس ابو عبیدہ جیسے عمّال ہونے چاہیں۔ (از مؤلف مولانا عبدالروف جھنڈا نگری) نظام صلوٰۃ (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَ (رض) أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ صَلَاۃُ الْجَمَاعَۃِ تَفْضُلُ صَلَاۃَ الْفَذِّ بِسَبْعٍ وَّعِشْرِیْنَ دَرَجَۃً) [ رواہ البخاری : کتاب الأذان، باب فضل صلاۃ الجماعۃ] ” حضرت عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جماعت کے ساتھ نماز پڑھنا اکیلے نماز پڑھنے سے ستائیس گنا زیادہ افضل ہے۔“ (وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہٖ لَقَدْ ھَمَمْتُ أَنْ آمُرَ بِحَطَبٍ فَیُحْطَبَ ثُمَّ آمُرَ بالصَّلَاۃِ فَیُؤَذَّنَ لَھَا ثُمَّ آمُرَ رَجُلًا فَیَؤُمَّ النَّاسَ ثُمَّ أُخَالِفَ إِلٰی رِجَالٍ فَأُحَرِّقَ عَلَیْھِمْ بُیُوْتَھُمْ وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہٖ لَوْ یَعْلَمُ أَحَدُھُمْ أَنَّہٗ یَجِدُعَرْقًا سَمِیْنًا أَوْ مِرْمَاتَیْنِ حَسَنَتَیْنِ لَشَھِدَ الْعِشَآءَ) [ رواہ البخاری : کتاب الاذان، باب وجوب صلاۃ الجماعۃ] ” اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! یقیناً میں نے ارادہ کیا ہے کہ میں لکڑیاں اکٹھی کرنے کا حکم دوں جب اکٹھی ہوجائیں۔ میں حکم دوں کہ نماز کے لیے اذان دی جائے پھر کسی آدمی کو حکم دوں کہ وہ لوگوں کی امامت کروائے اور میں جماعت سے پیچھے رہنے والوں کے گھروں کو جلا کر راکھ کردوں۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! اگر ان میں سے کوئی جانتا کہ اسے نماز کے بدلے موٹی ہڈی یا دو بہترین پائے ملیں گے تو ضرورعشاء کی نماز میں وہ حاضر ہوتا۔“ نظام زکوٰۃ (عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ لَمَّا تُوُفِّیَ النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وَاسْتُخْلِفَ اَبُوْ بَکْرٍ بَعْدَہُ وَکَفَرَ مَنْ کَفَرَ مِنَ الْعَرَبِ قَالَ عُمَرُ ابْنُ الْخَطَّابِ لِاَبِیْ بَکْرٍ (رض) کَیْفَ تُقَاتِلُ النّٰاسَ وَقَدْ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اُمِرْتُ اَنْ اُقَاتِلَ النَّاسَ حَتّٰی یَقُوْلُوْا لَاِ الٰہَ اِلَّا اللّٰہُ فَمَنْ قَالَ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ عَصَمَ مِنِّیْ مَالَہُ وَنَفْسَہُ اِلَّا بِحَقِّہٖ وَحِسَابُہُ عَلَی اللّٰہِ فَقَالَ اَبُوْ بَکْرٍ وَاللّٰہِ لَاُ قَاتِلَنَّ مَنْ فَرَّقَ بَیْنَ الصَّلٰوۃِ وَالزَّکٰوۃِ فَاِنَّ الزَّکٰوۃَ حَقُّ الْمَالِ وَاللّٰہِ لَوْمَنَعُوْنِیْ عَنَاقًاکَانُوْا یُؤَدُّوْنَھَا اِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لَقَاتَلْتُھُمْ عَلٰی مَنْعِھَا قَالَ عُمَرُ فَوَاللّٰہِ مَا ھُوَ اِلَّا رَاَیْتُ اَنَّ اللّٰہَ شَرَحَ صَدْرَاَبِیْ بَکْرٍ لِلْقِتَالِ فَعَرَفْتُ اَنَّہُ الْحَقُّ۔ ) [ رواہ البخاری : باب الأَمْرِ بِقِتَال النَّاسِ حَتَّی یَقُولُوا لاَ إِلَہَ إِلاَّ اللَّہُ مُحَمَّدٌ رَسُول اللَّہِ ] حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ جب نبی مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وفات پاگئے اور آپ کی وفات کے بعد حضرت ابو بکر صدیق (رض) کو خلیفہ منتخب کیا گیا اور عرب کے کچھ لوگوں نے زکوٰۃ دینے سے انکار کردیا۔ حضرت عمر بن خطاب (رض) نے ابو بکر صدیق (رض) سے عرض کیا کہ آپ کیسے ان لوگوں سے جنگ کریں گے جبکہ نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے کہ مجھے حکم دیا گیا ہے میں لوگوں سے اسوقت تک جنگ کروں جب تک وہ یہ گواہی نہ دے دیں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں جس نے اس کا اقرار کرلیا کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں تو اس نے مجھ سے اپنی جان اور مال کو بچالیا البتہ اسلام کے حق کی وجہ سے اس کا حساب اللہ تعالیٰ پر ہے۔ حضرت ابو بکر (رض) نے فرمایا اللہ کی قسم! میں ان لوگوں سے ضرور لڑائی کروں گا جو نماز اور زکوٰۃ میں فرق کرتے ہیں۔ کیونکہ زکوٰۃ مال پر فرض ہے اللہ کی قسم اگر لوگ مجھ سے بھیڑ کے بچے کو روک لیں گے جس کو وہ رسول اللہ کی خدمت میں پیش کیا کرتے تھے تو میں اس کے روکنے پر ان سے قتال کروں گا۔ حضرت عمر (رض) نے اعتراف کیا کہ اللہ کی قسم! مجھے اطمینان ہوگیا کہ اللہ تعالیٰ نے ابو بکر صدیق (رض) کے سینے کو جہاد کے لیے کھول دیا ہے۔ میں نے سمجھا کہ لڑنا حق ہے۔“ قتال فی سبیل اللہ حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا‘ جس نے میری اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے اللہ کی نافرمانی کی۔ اور جو امیر کی اطاعت کرے گا اس نے گویا میری اطاعت کی اور جس نے امیر کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی۔ بلا شبہ امام ڈھال کی طرح ہے۔ اس کے حکم سے جہاد کیا جاتا ہے اور اس کے ذریعہ سے تحفظ حاصل کیا جاتا ہے۔ اگر وہ اللہ سے ڈرنے کا حکم دے اور عدل کرے تو اس کے لیے یہ باعث اجر ہوگا۔ اور اگر وہ اس کے برخلاف چلے تو اس کی سزا اس پر ہوگی۔ [ رواہ البخاری : باب یُقَاتَلُ مِنْ وَرَاءِ الإِمَامِ وَیُتَّقَی بِہِ ] برائی کے خلاف کوشش کرنا فرض ہے : (عَنْ أَبِیْ سَعِیدٍ الْخُدْرِیُّ (رض) سَمِعْتُ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَقُولُ مَنْ رَأَی مُنْکَرًا فَغَیَّرَہُ بِیَدِہِ فَقَدْ بَرِءَ وَمَنْ لَمْ یَسْتَطِعْ أَنْ یُغَیِّرَہُ بِیَدِہِ فَغَیَّرَہُ بِلِسَانِہِ فَقَدْ بَرِءَ وَمَنْ لَمْ یَسْتَطِعْ أَنْ یُغَیِّرَہُ بِلِسَانِہِ فَغَیَّرَہُ بِقَلْبِہِ فَقَدْ بَرِءَ وَذَلِکَ أَضْعَفُ الإِیمَانِ) [ رواہ النسائی : باب تَفَاضُلِ أَہْلِ الإِیمَانِ] ” حضرت ابو سعید خدری (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا آپ نے فرمایا جس شخص نے برائی کو دیکھا تو اس نے اسے اپنے ہاتھ سے ختم کیا تو وہ بری ہوگیا اور اگر اس میں برائی کو ہاتھ سے روکنے کی طاقت نہیں تو اسے اپنی زبان سے تو روکے تو وہ بھی بری ہوگیا اگر اس نے زبان سے روکنے کی ہمت نہیں تو اسے دل سے ناپسند جانے تو وہ بھی بری ہوگیا اور یہ سب سے کمتر ایمان ہے۔“ حدود اللہ کے نفاذ کی برکات : (عَنِ ابْنِ عُمَرَ (رض) أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ إِقَامَۃُ حَدٍّ مِّنْ حُدُوْدِ اللّٰہِ خَیْرٌ مِّنْ مَطَرِ أَرْبَعِیْنَ لَیْلَۃً فِیْ بِلَاد اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ) [ رواہ البخاری : کتاب الحدود، باب إقامۃ الحدود] ” حضرت عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اللہ کی حدود میں سے کسی ایک حد کو نافذ کرنا چالیس دن کی بارش سے بہتر ہے۔“ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے چالیس دن مسلسل بارش کی بات نہیں بلکہ اس بارش سے مراد حسب ضرورت اور بروقت چالیس مرتبہ بارش کا ہونا مراد ہے جس ملک میں اس طرح بارشوں کا سلسلہ جاری رہے تو وہاں کے لوگوں کی صحت، پھلوں اور اناج کی کثرت اور برکات کا کون اندازہ کرسکتا ہے۔ اور موجودہ دور میں فی گھنٹہ بجلی کی بچت کا فائدہ اس سے الگ ہوگا جو کروڑوں روپے سے متجاوز ہے۔ مسائل ١۔ حکمرانوں کو ملک میں نماز، زکوٰۃ، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا نظام قائم کرنا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن صاحب اقتدار لوگوں کے فرائض : ١۔ وہ میری عبادت کریں اور میرے ساتھ کسی کو شریک نہ بنائیں اور جو اس کے بعد کفر کرے تو ایسے لوگ بد کردار ہیں۔ (النور : ٥٥) ٢۔ خلافت کی ذمہ داریاں۔ (ص : ٢٦‘ الحج : ٤١) ٣۔ حکمرانوں کو زمین میں نماز، زکوٰۃ، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا نظام قائم کرنا چاہیے۔ ( الحج : ٤١) ٤۔ فیصلے انصاف کے ساتھ انصاف کرنا۔ (المائدہ : ٤٢) ٥۔ حضرت داؤد کو حکم کہ اللہ کے حکم کے مطابق فیصلہ کرنا۔ (ص : ٢٦) الحج
42 فہم القرآن ربط کلام : جن اقوام نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کیا اور ” اللہ“ کے دیے ہوئے ضابطۂ حیات کو اختیار نہ کیا ان کا انجام۔ اللہ تعالیٰ نے ہر دور میں انبیاء اکرام کے ذریعے لوگوں کو ایک ضابطہ حیات عطا فرمایا جس کے بنیادی اصول یہ تھے کہ اللہ تعالیٰ کو بلا شرکت غیرے اپنا معبود اور حاکم تسلیم کریں اور اس کے دیے ہوئے نظام حیات کو خود اپناؤ اور اس کے بندوں پر اس کا نفاذ کریں۔ جس کے بنیادی اصولوں کا پچھلی آیت میں بیان ہوچکا ہے۔ کا مل اور جامع ہدایات کے باوجود دنیا کی بڑی بڑی اقوام نے اللہ کی توحید کا انکار کیا اور اس کے دئیے ہوئے ضابطہ حیات کو ٹھکرایا۔ جن میں سر فہرست قوم نوح، قوم عاد، قوم ثمود، قوم ابراہیم، قوم لوط، قوم شعیب اور موسیٰ (علیہ السلام) کی قوم ہے، جنہوں نے اپنے رب کی توحید کا انکار کیا اور اس کے نازل کردہ دین کو ٹھکرایا، جس وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان کی گرفت فرمائی اور انہیں اس طرح نیست و نابود کیا کہ ان کی ترقی ان کے لیے وبال جان ثابت ہوئی۔ ان کے محلاّت ان کے لیے قبرستان بنا دیے گئے۔ کھیتیاں اور باغات اجڑ گئے کنویں ناکارہ ہوئے اور بستیاں اس طرح ویران ہوئیں کہ دیکھنے والا گمان کرے کہ یہاں کبھی کوئی رہنے والا نہ تھا۔ ( فَکُلًّا اَخَذْنَا بِذَنْبِہٖ فَمِنْھُمْ مَّنْ اَرْسَلْنَا عَلَیْہِ حَاصِبًا وَ مِنْھُمْ مَّنْ اَخَذَتْہُ الصَّیْحَۃُ وَ مِنْھُمْ مَّنْ خَسَفْنَا بِہِ الْاَرْضَ وَ مِنْھُمْ مَّنْ اَغْرَقْنَاوَ مَا کَان اللّٰہُ لِیَظْلِمَھُمْ وَ لٰکِنْ کَانُوْٓا اَنْفُسَھُمْ یَظْلَمُوْنَ) [ العنکبوت : ٤٠] ” آخر کار ہر ایک کو ہم نے اس کے گناہوں کی وجہ سے پکڑا ان میں سے کسی پر ہم نے پتھر برسانے والی آندھی بھیجی کسی کو ایک زبردست دھماکے نے آلیا، کسی کو ہم نے زمین میں دھنسا دیا اور کسی کو ہم نے غرق کردیا۔ اللہ نے ان پر ظلم نہیں کیا وہ خود ہی اپنے آپ پر ظلم کرنے والے تھے۔“ متمول اقوام کی تباہی : تاریخ عالم کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ تباہ ہونے والی اقوام دنیا کے اعتبار سے غیر ترقی یافتہ اور پسماندہ نہ تھیں بلکہ وہ اپنے اپنے دور کی مہذّب اور ترقی یافتہ اقوام تھیں۔ (فَلَمَّا نَسُوْا مَا ذُکِّرُوْا بِہٖ فَتَحْنَا عَلَیْھِمْ اَبْوَابَ کُلِّ شَیْءٍ حَتّٰی اِذَا فَرِحُوْا بِمَآ اُوْتُوْٓا اَخَذْنٰھُمْ بَغْتَۃً فَاِذَا ھُمْ مُّبْلِسُوْنَ) [ الانعام : ٤٤] ” پھر جب وہ اس کو بھول گئے جو انہیں نصیحت کی گئی تھی تو ہم نے ان پر ہر چیز کے دروازے کھول دیے یہاں تک کہ جب وہ ان چیزوں کے ساتھ خوش ہوگئے جو انہیں دی گئی تھیں ہم نے انہیں اچانک پکڑ لیا تو وہ اچانک ناامیدہوگے۔“ تفسیر بالقرآن ” اللہ“ کی پکڑ کی مختلف شکلیں : ١۔ اللہ تعالیٰ نے بہت سی اقوام کو تباہ کیا۔ (الانعام : ٦) ٢۔ جب تم سے پہلے لوگوں نے ظلم کیا تو ہم نے ان کو تباہ کردیا۔ (یونس : ١٣) ٣۔ ثمود زور دار آواز کے ساتھ ہلاک کیے گئے۔ (الحاقۃ: ٥) ٤۔ عاد زبر دست آندھی کے ذریعے ہلاک ہوئے۔ (الحاقۃ: ٦) ٥۔ قوم نوح طوفان کے ذریعے ہلاک ہوئی۔ (الاعراف : ١٣٦) ٦۔ قوم لوط کو زمین سے اٹھا کر آسمان کے قریب لے جاکر الٹا دیا گیا۔ (ھود : ٨٢) الحج
43 الحج
44 الحج
45 الحج
46 فہم القرآن ربط کلام : اقوام کی تباہی کی بنیادی وجہ۔ بڑی بڑی اقوام کی تباہی کا تذکرہ کرنے کے بعد اہل دنیا کو دعوت فکر دی ہے کہ کیا انھوں نے دنیا کا جغرافیہ نہیں دیکھا اور تاریخ عالم کو نہیں پڑھا کہ تباہ وبرباد ہونے والے لوگ زمین پر اس طرح دندناتے پھرتے تھے کہ ان کے دبدبہ کی وجہ سے مخلوق کانپتی تھی۔ ان کی زبان جنبش کرتی تو لشکر و سپاہ حرکت میں آجاتے۔ یہ لوگ اپنے محلات سے باہر نکلتے تو ہٹو بچو کی صدائیں بلند ہوتی تھیں جس راستہ سے گزرتے لوگ ان کا جاہ و جلال دیکھ کر ساکت وجامد رہ جاتے تھے۔ ان کو دیکھ کر کوئی سوچ نہیں سکتا تھا کہ یہ کبھی زوال پذیر اور تباہ ہوں گے۔ لیکن جب رب ذوالجلال کے عذاب کا کوڑا حرکت میں آیا تو اس طرح نیست و نابود کردیے گئے کہ آج ان کے محلات میں الوؤں کے ڈیرے اور ان کی بستیاں ویرانیوں کا خوفناک منظر پیش کررہی ہیں۔ ان میں عبرت کا سامان ہے مگر ان لوگوں کے لیے جن کے سینے میں سوچنے والے دل، جن کے کان حقیقت سننے والے اور عبرت کی نگاہ سے دیکھنے والی آنکھیں ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ آنکھیں اندھی نہیں ہوتی۔ لوگوں کے دل اندھے ہوجاتے ہیں۔ جب دل اندھے ہوجائیں تو دیکھنے والی آنکھیں، سننے والے کان اور دھڑکنے والے دل کچھ کام نہیں آتے۔ جب کسی قوم کی اجتماعی صورت ایسی ہوجائے تو ان کو نہ اقتدار بچا سکتا ہے اور نہ ہی کوئی سہارا کام دیتا ہے، مذکورہ بالا اقوام کا یہی حال تھا جس وجہ سے انھیں نشان عبرت بنا دیا گیا۔ مسائل ١۔ دل سوچنے، کان سننے اور آنکھیں دیکھنے کے لیے ہیں۔ ٢۔ دل اندھا ہوجائے تو انسانی اعضاء حقیقتاً بے کار ہوجاتے ہیں۔ الحج
47 فہم القرآن ربط کلام : انسان کا دل کا اندھا ہوجائے تو اچھائی کے مقابلے میں برائی اختیار کرنے پر فخر محسوس کرتا ہے۔ اس لیے تباہ ہونے والی اقوام اپنے پیغمبروں سے عذاب کا مطالبہ کرتی تھیں۔ سرورِ دو عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مشرکین کو بار بار عقیدہ توحید کی دعوت دیتے۔ لیکن وہ اس قدر دل کے اندھے ہوچکے تھے کہ دعوت حق قبول کرنے کی بجائے آپ سے یہ مطالبہ کرتے کہ جس قیامت یا عذاب کی آپ دھمکی دیتے ہیں وہ ہم پر کیوں نازل نہیں ہوتا؟ اس کا جواب انھیں یہ دیا گیا کہ جس عذاب کا تم بار بار مطالبہ کرتے ہو اسے نازل کرنا اللہ تعالیٰ کے لیے کوئی مشکل نہیں۔ پیغمبر (علیہ السلام) کی زبان سے جس عذاب کا وعدہ کیا جاتا ہے اگر تمھارا یہی حال رہا تو وہ ضرور آکر رہے گا اس کی ہرگز خلاف ورزی نہیں ہونے پائے گی۔ البتہ اگر سمجھنا چاہو تو تاریخ کا مطالعہ کرو اور تباہ ہونے والی اقوام کے کھنڈرات دیکھو تمھیں معلوم ہوجائے گا کہ اللہ تعالیٰ نے ظالم بستیوں کو ایک مدت تک مہلت دی۔ جب انھوں نے اس مہلت سے فائدہ نہ اٹھایا تو پھر ان پر ایسی گرفت کی کہ وہ دنیا میں عبرت کا نشان بنا دئیے گئے۔ جہاں تک قیامت کا معاملہ ہے اس کا پہلا دن پچاس ہزار سال کا ہوگا۔ اور دوسرا دن تمھارے ایک ہزار سال کی گنتی کے مطابق ہوگا۔ اس دن ہر شخص اپنے رب کی عدالت میں پیش کیا جائے گا۔ اہل مکہ کا مطالبہ : (وَ اِذْ قَالُوا اللّٰھُمَّ اِنْ کَانَ ھٰذَا ھُوَ الْحَقَّ مِنْ عِنْدِکَ فَاَمْطِرْ عَلَیْنَا حِجَارَۃً مِّنَ السَّمَآءِ اَوِاءْتَنَا بِعَذَابٍ اَلِیْمٍ) [ الانفال : ٢٨] ” اور جب انہوں نے کہا اے اللہ ! اگر یہ تیری طرف سے حق ہے توہم پر آسمان سے پتھر برسا یا ہم پر کوئی دردناک عذاب لے آ۔“ (عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ قَال النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لاَ یَتَمَنَّیَنَّ أَحَدُکُمُ الْمَوْتَ مِنْ ضُرٍّ أَصَابَہُ، فَإِنْ کَانَ لاَ بُدَّ فَاعِلاً فَلْیَقُلِ اللَّہُمَّ أَحْیِنِی مَا کَانَتِ الْحَیَاۃُ خَیْرًا لِی، وَتَوَفَّنِی إِذَا کَانَتِ الْوَفَاۃُ خَیْرًا لِی ) [ رواہ البخاری : باب تَمَنِّی الْمَرِیضِ الْمَوْتَ] حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کسی تکلیف کی وجہ سے کوئی آدمی موت کی تمنا نہ کرے اگر وہ ایسا کرنا چاہتا ہے تو اسے چاہیے کہ یہ دعا کریں۔ اے اللہ! جب تلک میرا زندہ رہنا بہتر ہے مجھے زندہ رکھ اور جب میرا فوت ہونا بہتر ہو تو مجھے فوت فرما لینا۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ سے اس کا عذاب مانگنے کی بجائے خیر مانگنا چاہیے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ خیر اور عذاب کے بارے میں کیے گئے وعدے کی خلاف ورزی نہیں کرتا۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ نے اس سے پہلے بہت سی ظالم بستیوں کو نیست و نابود کیا۔ تفسیر بالقرآن عذاب میں مبتلا ہونے والی اقوام : ١۔ اللہ تعالیٰ نے بہت سی اقوام کو تباہ کیا۔ (الانعام : ٦) ٢۔ جب تم سے پہلے لوگوں نے ظلم کیا تو ہم نے ان کو تباہ کردیا۔ (یونس : ١٣) ٣۔ ثمود زور دار آواز کے ساتھ ہلاک کیے گئے۔ (الحاقۃ: ٥) ٤۔ عاد زبر دست آندھی کے ذریعے ہلاک ہوئے۔ (الحاقۃ: ٦) ٥۔ فاسق ہلاک کردیے گئے۔ (الاحقاف : ٣٥) ٦۔ قوم نوح طوفان کے ذریعے ہلاک ہوئی۔ (الاعراف : ١٣٦) ٧۔ قوم لوط کو زمین سے اٹھا کر آسمان کے قریب لے جاکر الٹا دیا گیا۔ (ھود : ٨٢) الحج
48 الحج
49 فہم القرآن ربط کلام : عذاب کا بار بار مطالبہ کرنے پر کفار کو دوسرا جواب۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے عذاب کے بارے میں دی گئی ڈھیل پر اہل مکہ اس قدر دلیر ہوئے کہ وہ سرورِگرامی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو الزام دیتے کہ تم جھوٹے ہو اس لیے ہم پر عذاب نازل نہیں ہوا ؟ اس پر ایک طرف سرور گرامی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو آپ کے منصب کے حوالے سے سمجھایا گیا کہ عذاب نازل کرنا آپ کے اختیار میں نہیں آپ کا کام فقط یہ ہے کہ آپ لوگوں کو ان کے برے کردار کے نتیجہ میں بھیانک مستقبل کے بارے میں کھلے الفاظ میں ڈرائیں۔ یہ کام آپ پوری تندہی سے کر رہے ہیں جو لوگ ہماری آیات کو جھٹلانے کی کوشش کرتے ہیں نا وہ ہماری آیات کو دلائل کی بنیاد پر غلط ثابت کرسکتے ہیں اور نہ ہی عذاب نازل کرنے یا اسے ٹالنے میں ہمیں بے بس کرسکتے ہیں۔ ان کے لیے جہنم تیار کی گئی ہے جس میں انھیں داخل کیا جائے گا۔ ان کے مقابلے میں جو لوگ ایمان لائے اور انھوں نے صالح اعمال اختیا رکیے ان سے جو کوتاہیاں سرزد ہونگی۔ اللہ تعالیٰ انھیں معاف کرتے ہوئے باعزت اور بہترین رزق عطا فرمائے گا۔ یہاں رزق کریم کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ جس سے مراد دنیا میں حلال و طیب روز ی اور آخرت میں جنت کی نعمتیں ہیں جو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لیے تیار کر رکھی ہے۔ (عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عَبَّاسٍ (رض) قَالَ خَسَفَتِ الشَّمْسُ عَلَی عَہْدِ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَصَلَّی، قَالُوا یَا رَسُول اللَّہِ، رَأَیْنَاکَ تَنَاوَلُ شَیْءًا فِی مَقَامِکَ، ثُمَّ رَأَیْنَاکَ تَکَعْکَعْتَ قَالَ إِنِّی أُرِیتُ الْجَنَّۃَ، فَتَنَاوَلْتُ مِنْہَا عُنْقُودًا، وَلَوْ أَخَذْتُہُ لأَکَلْتُمْ مِنْہُ مَا بَقِیَتِ الدُّنْیَا) [ رواہ البخاری : باب رفع البصر الی الامام فی الصلوٰۃ] حضرت عبداللہ بن عباس (رض) بیْان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عہد میں سورج کو گرہن لگا تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نماز پڑھائی، لوگ بھی آپ کے ساتھ تھے لوگوں نے کہا اے اللہ کے رسول ! ہم نے دیکھا کہ آپ نے اس جگہ کسی چیز کو پکڑا پھر ہم نے دیکھا کہ آپ پیچھے ہٹ گئے۔ آپ نے فرمایا : میں نے جنت کو دیکھا تو اس کے انگوروں کے ایک خوشے کو پکڑ لیا اور اگر میں اسے پکڑے رہتا تو تم قیامت تک اسے کھاتے رہتے۔ (فِیْ سِدْرٍ مَّخْضُوْدٍ۔ وَطَلْحٍ مَّنْضُوْدٍ۔ وَظِلٍّ مَمْدُوْدٍ۔ وَمَاءٍ مَّسْکُوْبٍ۔ وَفَاکِہَۃٍ کَثِیْرَۃٍ۔ لاَ مَقْطُوْعَۃٍ وَّلاَ مَمْنُوْعَۃٍ) [ الواقعہ : ٢٨ تا ٣٣] ” وہ وہاں ہوں گے جہاں بے خار بیریاں ہوں گی، اور تہ بہ تہ کیلے ہوں گے، اور لمبا سایہ ہوگا۔ اور چلتا ہوا پانی ہوگا۔ اور کثرت سے میوے ہوں گے۔ جو نہ ختم ہوں گے۔ اور نہ ان کی روک ٹوک ہوگی۔“ (عَنْ سَمُرَۃَ ابْنِ جُنْدُبٍ اَنَّ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ مِنْھُمْ مَنْ تَاْخُذُہُ النَّارُاِلٰی کَعْبَیْہِ وَمِنْھُمْ مَنْ تَاْخُذُُہُ النَّارُاِلٰی رُکْبَتَیْہِ وَمِنْھُمْ مَنْ تَاْخُذُہُ النَّارُ اِلٰی حُجْزَتِہٖ وَمِنْھُمْ مَنْ تَاْخُذُہُ النَّارُ اِلٰی تَرْقُوَتِہٖ) [ راہ مسلم : باب فی شدۃ حر النار] ” حضرت سمرہ بن جندب (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی گرامی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جہنم کی آگ نے بعض لوگوں کے ٹخنوں تک، بعض کے گھٹنوں تک اور بعض کو کمر تک گھیرا ہوگا اور بعض کی گردن تک پہنچی ہوگی۔“ مسائل ١۔ سرور دو عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کام برے لوگوں کو ان کے برے انجام سے ڈرانا تھا۔ ٢۔ کوئی زندہ یا مردہ شخصیت اللہ تعالیٰ کو کسی معاملے میں مجبور نہیں کرسکتی۔ ٣۔ جو لوگ اللہ تعالیٰ کی آیات کو جھٹلاتے اور ٹھکراتے ہیں ان کے لیے جہنم تیار کی گئی ہے۔ ٤۔ صالح کردار ایمانداروں کی کوتاہیوں کو اللہ تعالیٰ معا ف کرے گا اور انھیں رزق کریم عطا فرمائے گا۔ تفسیر بالقرآن کفار اور مومنوں کے انجام کا فرق : ١۔ مومن اور فاسق برابر نہیں ہیں۔ (السجدۃ: ١٨) ٢۔ جنتی اور جہنمی برابر نہیں ہو سکتے۔ (الحشر : ٢٠) ٣۔ سیدھا اور الٹا چلنے والا برابر نہیں ہو سکتا۔ (الملک : ٢٢) ٤۔ اندھا اور بینا برابر نہیں ہو سکتا۔ (الانعام : ٥٠) ٥۔ روشنی اور اندھیرا برابر نہیں ہو سکتے۔ (فاطر : ٢٠) الحج
50 الحج
51 الحج
52 فہم القرآن ربط کلام : رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دینے کے ساتھ یہ بتلایا گیا ہے کہ شیطان اور اس کے چیلے ہمیشہ سے ہی شرارتیں کرتے رہے ہیں اور کرتے رہیں گے۔ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مخصوص انداز میں تسلی دی گئی ہے کہ میرے رسول ! آپ کو دل نہیں ہارنا۔ اس لیے کہ آپ سے پہلے جتنے نبی اور رسول مبعوث کیے گئے ان کی ذات اور کام کے ساتھ شیطانی قوتوں نے یہی رویہ اختیار کیا تھا۔ لیکن اللہ تعالیٰ شیطان کی شیطنت کو ہمیشہ سے مٹاتا رہا ہے اور اس کے مقابلے میں اللہ تعالیٰ نے اپنی آیات کو محکم فرمایا۔ اللہ تعالیٰ ہر بات کو اچھی طرح جاننے والا ہے اور اس کے ہر کام میں حکمت ہوتی ہے۔ اس آیت میں تمنا کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ اہل تفسیر نے اس کے دو مفہوم لیے ہیں۔ ایک مفہوم یہ ہے کہ ہر رسول اور نبی اس بات کی خواہش اور تمنا رکھتا تھا کہ اس کی دعوت عام ہوجائے لیکن شیطان اور اس کے چیلے اس دعوت کو مٹانے کے درپے رہتے تھے۔ یہی معاملہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ ہو رہا ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ ہمیشہ سے شیطانی قوتوں کو مٹا کر اپنے ارشادات کو استحکام دیتا رہا ہے۔ لہٰذا اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ کی دعوت کو بھی پھیلاؤ اور استحکام دیا جائے گا۔ دوسرا مفہوم یہ لیا گیا ہے کہ جب کسی رسول اور نبی نے اللہ تعالیٰ کے ارشادات کی تلاوت اور اس کے ابلاغ کی کوشش کی تو شیطان نے ہر پیغمبر کو الجھانے اور اس پر نازل ہونے والی وحی کو خلط ملط کرنے کی کوشش کی لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنی وحی کو شیطان کے اختلاط اور وسوسے سے محفوظ رکھا اور اس پیغمبر کے ذہن میں وہی کچھ مستحضر فرمایا۔ جو اللہ تعالیٰ نے جبرائیل امین کے ذریعے نازل فرمایا تھا۔ کچھ مفسرین نے بعض روایات سے متاثرہو کر لکھا ہے کہ ایک موقع پر شیطان نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان سے خلط، ملط الفاظ نکلوانے میں کامیاب ہوا جس وجہ سے یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی۔ یہ ایسی بات ہے کہ اگر اس پر اعتماد کرلیا جائے تو قرآن مجید اور احادیث کا سارا ذخیرہ تشکیک کی نظر ہوجاتا ہے۔ ان حضرات کی اسی بات کا فائدہ اٹھا کر دشمنان اسلام نے یہ پراپیگنڈہ کیا ہے کہ قرآن مجید کی اس آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ نبی پر نازل ہونے والی وحی میں کبھی نہ کبھی شیطان بھی داخل انداز ہوجایا کرتا تھا۔ حالانکہ یہ بات عقل و نقل کے حوالے سے غلط ہے۔ اس آیت میں رسول اور نبی کے منصب کو الگ الگ بیان کیا گیا ہے۔ یہ بات مسلمہ ہے کہ ہر رسول نبی ضرور ہوتا تھا لیکن ہر نبی رسول نہیں ہوا کرتا تھا۔ جس کی سادہ تشریح یہ ہے کہ ہر نبی اپنے سے پہلے رسول کی شریعت کی اتباع کرتا ہے۔ اس بات کو سمجھنے کے لیے مفسر قرآن مولانا عبدالرحمن کیلانی (رح) کی تحریر من و عن نقل کی جاتی ہے۔ ” علماء نے نبی اور رسول میں درج ذیل فرق بیان فرمائے ہیں۔ یاد رہے یہ غالب احوال کے لیے ہیں ورنہ نبی اور رسول کو متبادل اصطلاح کے لیے بھی استعمال کیا گیا ہے۔ آنے والے رسول کی بشارت پہلے سے دے دی جاتی ہے جب کہ نبی کے لیے ضروری نہیں ہے۔ رسول پر اللہ کی کتاب اور صحیفے نازل ہوتے ہیں اور وہ اپنی الگ امت تشکیل دیتا ہے جب کہ نبی اپنے سے پہلی کتاب ہی کی اتباع کرتا ہے۔ رسولوں کی حفاظت کی ذمہ داری براہ راست اللہ تعالیٰ لے لیتے ہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر سترہ دفعہ قاتلانہ حملے ہوئے۔ اللہ نے بچایا ہے جب کہ کئی انبیاء کو ان کی قوم نے قتل کردیا۔ ہر رسول نبی ہوتا ہے مگر ہر نبی رسول نہیں ہوتا۔ (تیسیر القرآن۔ جلد ٣) مسائل ١۔ شیطان نے ہر رسول اور نبی کی دعوت میں رکاوٹ پیدا کی۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ شیطان کے وسوسہ سے وحی کو محفوظ رکھتا ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ نے انبیاء (علیہ السلام) کی بات کو مستحکم فرمایا۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ ہر بات کا علم رکھتا ہے اور اس کے ہر کام اور حکم میں حکمت ہوتی ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ سب کو جانتا ہے : ١۔ اللہ دلوں کے راز جانتا ہے۔ (ہود : ٥) ٢۔ جوا للہ جانتا ہے تم نہیں جانتے۔ (البقرہ : ٢١٦) ٣۔ اللہ کا علم فرشتے بھی نہیں جانتے۔ (البقرہ : ٣٠) ٤۔ ہر گرنے والا پتہ اللہ کے علم میں ہوتا ہے۔ (الانعام : ٥٩) ٥۔ اللہ آنکھوں کی خیانت کو جانتا ہے۔ (المومن : ١٩) ٦۔ اللہ خشکی اور تری کی پوشیدہ چیزوں سے واقف ہے۔ (الانعام : ٥٩) الحج
53 فہم القرآن ربط کلام : پہلی بات کا تتمہّ شیطان کو شیطنت کا اس لیے اختیار دیا گیا تاکہ جن کے دلوں میں کسی قسم کی کھوٹ اور جن کے دل حق کے بارے میں سخت ہوگئے ہیں شیطان اپنی شیطنت کے ذریعے ان کو فتنہ میں ڈالے رکھے۔ جو لوگ شیطان کے فتنہ میں مبتلا ہوئے وہ ظالم ہیں وہ حق کی مخالفت میں بہت دور جا چکے ہیں۔ یہ بات سورۃ البقرۃ کی آیت دس کی تفسیر میں بیان ہوچکی ہے کہ جس طرح انسان کے جسم کو بیماری لاحق ہوجاتی ہے۔ اسی طرح انسان کا دل روحانی بیماریوں میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ جن میں نفاق اور دل کی سختی شامل ہے۔ دل میں منافقت پیدا ہوجائے تو آدمی حق بات کے بارے میں بھی شک کا شکار ہوجاتا ہے۔ ایسا شخص حق بات کے قریب ہونے کی بجائے ہر قدم دور ہی ہوتا چلا جاتا ہے۔ بالآخر اللہ تعالیٰ ان کے دل پر گمراہی کی مہر ثبت کردیتا ہے۔ (عَنْ أَنَسٍ قَالَ کَانَ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یُکْثِرُ أَنْ یَقُولَ یَا مُقَلِّبَ الْقُلُوبِ ثَبِّتْ قَلْبِی عَلَی دینِکَ فَقُلْتُ یَا رَسُول اللَّہِ آمَنَّا بِکَ وَبِمَا جِءْتَ بِہِ فَہَلْ تَخَافُ عَلَیْنَا قَالَ نَعَمْ إِنَّ الْقُلُوبَ بَیْنَ أَصْبُعَیْنِ مِنْ أَصَابِعِ اللَّہِ یُقَلِّبُہَا کَیْفَ یَشَاءُ) [ رواہ الترمذی : باب مَا جَاءَ أَنَّ الْقُلُوبَ بَیْنَ أَصْبُعَیِ الرَّحْمَنِ] ” حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اکثر یہ دعا کیا کرتے تھے اے دلوں کو پھیرنے والے ” اللہ“ میرے دل کو دین پر ثابت فرما۔ میں نے عرض کی اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم آپ پر ایمان لائے اور جو کچھ آپ لے کر آئے اسے تسلیم کیا۔ کیا آپ ہمارے بارے میں خطرہ محسوس کرتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا ہاں! بے شک دل اللہ کی دو انگلیوں کے درمیان ہے وہ جدھر چاہتا ہے اسے پھیرتا ہے۔“ دل کو نیکی اور اخلاق کے حوالے سے نرم رکھنے کا طریقہ : (عَنِ ابْنِ بُرَیْدَۃَ عَنْ أَبِیہِ قَالَ قَالَ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) إِنِّی کُنْتُ نَہَیْتُکُمْ عَنْ ثَلاَثٍ عَنْ زِیَارَۃِ الْقُبُورِ فَزُورُوہَا وَلْتَزِدْکُمْ زِیَارَتُہَا خَیْرًا وَنَہَیْتُکُمْ عَنْ لُحُومِ الأَضَاحِی بَعْدَ ثَلاَثٍ فَکُلُوا مِنْہَا وَأَمْسِکُوا مَا شِءْتُمْ وَنَہَیْتُکُمْ عَنِ الأَشْرِبَۃِ فِی الأَوْعِیَۃِ فَاشْرَبُوا فِی أَیِّ وِعَاءٍ شِءْتُمْ وَلاَ تَشْرَبُوا مُسْکِرًا) [ رواہ النسائی : باب الإِذْنِ فِی ذَلِکَ] ” حضرت ابن بریدہ اپنے باپ سے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میں نے تمہیں تین چیزوں سے منع کیا تھا قبر کی زیارت سے اب اس کی زیارت کرلیا کرو۔ بے شک اس کی زیارت آدمی کو نیکی میں بڑھاتی ہے۔ میں نے تمہیں تین دن کے بعد قربانی کا گوشت کھانے سے منع کیا تھا اب کھا اور بچا لیا کرو جس قدر چاہو۔ میں نے تمہیں بعض برتنوں میں پینے سے منع کیا تھا اب جونسے برتن میں چاہو پی لو۔ البتہ کوئی نشہ آور چیز پینے کی اجازت نہیں پینی۔“ یتیم کے سر پر ہاتھ رکھنا : (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ أَنَّ رَجُلًا شَکَا إِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَسْوَۃَ قَلْبِہٖ فَقَالَ لَہٗ إِنْ أَرَدْتَّ تَلْیِیْنَ قَلْبِکَ فَأَطْعِمِ الْمِسْکِیْنَ وَامْسَحْ رَأْسَ الْیَتِیْمِ) [ مسند احمد : باب مسند أبی ھریرۃ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اپنے دل کی سختی کے متعلق شکایت کی آپ نے فرمایا : اگر تو اپنے دل کو نرم کرنا چاہتا ہے تو مسکین کو کھانا کھلا اور یتیم کے سر پر ہاتھ پھیر۔“ اللہ کے ذکر سے دل نرم ہوتا ہے : (اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ اِذَا ذُکِرَ اللّٰہُ وَجِلَتْ قُلُوْبُھُمْ وَ اِذَا تُلِیَتْ عَلَیْھِمْ اٰیٰتُہٗ زَادَتْھُمْ اِیْمَانًا وَّ عَلٰی رَبِّھِمْ یَتَوَکَّلُوْن) [ الانفال : ٢] ” مومن تو وہی ہیں کہ جب اللہ کا ذکر کیا جائے تو ان کے دل ڈر جاتے ہیں اور جب ان کے سامنے اس کی آیات پڑھی جائیں تو ان کا ایمان بڑھا دیتی ہیں اور وہ اپنے رب ہی پر بھروسہ رکھتے ہیں۔“ مسائل ١۔ جن کے دلوں میں حق کے بارے میں کھوٹ اور سختی ہو وہ شیطان کی شیطنت کا شکار ہوجاتے ہیں۔ ٢۔ ظالم اور منافق کا دل حق کے بارے میں سخت ہوجاتا ہے۔ تفسیر بالقرآن روحانی بیماریاں : ١۔ ریاکاری روحانی بیماری ہے۔ ( البقرۃ: ٢٦٤، الماعون : ٤ تا ٦) ٢۔ دل کی سختی۔ (المائدۃ: ١٣، الزمر : ٢٢) ٣۔ کفر۔ (البقرۃ: ١٠) ٤۔ تکبر۔ (النحل : ٢٢، لقمان : ١٨، النساء : ١٧٢) ٥۔ کجی۔ ( التوبۃ: ١١٧، آل عمران : ٧، الصف : ٥) ٦۔ دل کا زنگ آلود ہونا۔ ( المطففین : ١٤) الحج
54 فہم القرآن ربط کلام : ظالموں کے مقابلے میں ایمانداروں کے دل اور کردار۔ اللہ تعالیٰ اس لیے شیطان کی شیطنت کو دباتا اور مٹاتا ہے تاکہ حقیقی علم رکھنے والے لوگوں کو معلوم ہو کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان سچ اور حق ہے۔ حقیقی علم رکھنے والے لوگ ” اللہ“ کے فرمان پر ایمان لاتے ہیں اور ان کے دل حق بات کے سامنے جھک جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کی ضرور رہنمائی کرتا اور انھیں سیدھے راستے پر گامزن رہنے کی توفیق دیتا ہے۔ یہاں علم سے مراد شریعت کا وہ علم ہے جس سے ایماندار لوگ رہنمائی حاصل کرکے شیطانی قوتوں کا مقابلہ کرتے ہوئے صراط مستقیم پر گامزن رہنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ” اُوْتُوْ العِلْمَ“ سے مراد وہ لوگ بھی ہو سکتے ہیں جو پہلے عیسائی اور یہودی تھے۔ جب ان کے سامنے قرآن و سنت پیش کیے جاتے ہیں تو انھیں یقین ہوجاتا ہے کہ یہ وہی حق ہے جس کا ذکر انھوں نے تورات، انجیل میں پڑھا تھا۔ پھر وہ حق کو قبول کرنے میں کسی قسم کا تامل نہیں کرتے۔ ” اللہ“ سے ڈرنے والے علماء اُوْتُوا الْعِلْمَ میں شامل ہیں۔ (عَنْ أُمِّ سَلَمَۃَ (رض) أَنَّ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کَانَ یَقُولُ فِی دُبُرِ الْفَجْرِ اللَّہُمَّ إِنِّی أَسْأَلُکَ عِلْماً نَافِعاً وَعَمَلاً مُتَقَبَّلاً وَرِزْقاً طَیِّباً) [ رواہ احمد : مسند ام سلمہ زوج النبی] ” حضرت ام سلمہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ بے شک نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فجر کی نماز کے بعد یہ دعا پڑھا کرتے تھے ( الٰہی! میں تجھ سے نفع مند علم اور قبول ہونے والا عمل اور رزق حلال کا طلبگار ہوں۔“ (حَدَّثَنِی عُبَیْدُ اللَّہِ بْنُ عُمَرَ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ قَالَ لِعَبْدِ اللَّہِ بْنِ سَلاَمٍ مَنْ أَرْبَابُ الْعِلْمِ ؟ قَالَ الَّذِینَ یَعْمَلُونَ بِمَا یَعْلَمُونَ قَالَ فَمَا یَنْفِی الْعِلْمَ مِنْ صُدُور الرِّجَالِ ؟ قَال الطَّمَعُ) [ رواہ دارمی : باب صِیَانَۃِ الْعِلْمِ ] ” عبداللہ بن عمر بیان کرتے ہیں بے شک عمر بن خطاب (رض) نے عبداللہ بن سلام (رض) سے سوال کیا کہ علم والے کون ہیں؟ عبداللہ (رض) بن سلام نے جواب دیا جو علم کے مطابق عمل کرتے ہیں۔ حضرت عمر نے دریافت کیا لوگوں کے دلوں سے علم کو ختم کرنے والی کون سے چیز ہے ؟ اُنہوں نے کہا دنیا کا لالچ۔“ ” حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نماز پڑھنے سے پہلے یہ دعا پڑھا کرتے تھے۔ اے الٰہی! جبرائیل، میکائیل اور اسرافیل کے رب، تو ہی زمین و آسمانوں کا پیدا کرنے اور حاضر و غائب کا علم رکھنے والاہے اور تو ہی اپنے بندوں کے درمیان ان کے آپس کے اختلافات کا فیصلہ فرمائے گا۔ اختلافی معاملات میں حق اور سچ کے ساتھ میری رہنمائی فرما۔ یقیناً تو جسے چاہتا ہے صراط مستقیم کی ہدایت عطا کرتا ہے۔“ [ رواہ مسلم : باب الدعاء فی الصلوۃ اللیل] مسائل ١۔ حقیقی علم وہ ہے جو حق کی طرف رہنمائی کرے۔ ٢۔ حق کی رہنمائی پانے کے بعد ایمان دار کا دل اس کی جانب جھک جانا چاہیے۔ ٣۔ جو لوگ حق کے سامنے جھکتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کو صراط مستقیم پر چلنے کی توفیق دیتا ہے۔ تفسیر بالقرآن صراط مستقیم کے سنگ میل : ١۔ اللہ ہی ایمان والوں کو صراط مستقیم کی ہدایت دیتا ہے۔ (الحج : ٥٤) ٢۔ اللہ کی عبادت کرو یہی سیدھا راستہ ہے۔ (یٰسٓ: ٦١) ٣۔ اللہ جسے چاہتا ہے صراط مستقیم کی ہدایت دیتا ہے۔ (البقرۃ: ٢١٣) ٤۔ اللہ ہی صراط مستقیم کی ہدایت کرتا ہے۔ (الشوریٰ : ٥٢) ٥۔ اللہ میرا اور تمھارا رب ہے۔ تم اسی کی عبادت کرو یہی صراط مستقیم ہے۔ (آل عمران : ٥١، مریم : ٣٦) ٦۔ اللہ تعالیٰ نے انبیاء کی جماعت کو چن لیا اور ان کو صراط مستقیم کی ہدایت دی۔ (الانعام : ٨٧) ٧۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صراط مستقیم کی طرف دعوت دینے والے ہیں۔ (الشوریٰ : ٥٢) ٨۔ صراط مستقیم کی ہی پیروی کرو۔ (الانعام : ١٥٣) الحج
55 فہم القرآن ربط کلام : حق کے سامنے جھکنے والوں کے مقابلے میں انکار کرنے والوں کا رویہّ۔ اس سے پہلی آیت کی تشریح میں یہ اشارہ کیا ہے کہ ” اَلْعِلْم“ سے مراد قرآن و سنت کا علم ہے اور جو لوگ قرآن و سنت کا انکار کرتے ہیں وہ حق بات کے بارے میں ہمیشہ شک کا شکار رہتے ہیں۔ یہاں تک کہ قیامت برپا ہوجائے یا ان پر منحوس دن وارد ہوجائے۔ یہاں ایک بنیادی اور اصولی بات کا ذکر فرما کر مومن اور کافر کے دل کی کیفیت کا فرق بیان کیا گیا ہے۔ مومن کے سامنے حق بات آئے تو اس کا دل اس کے سامنے جھک جاتا ہے۔ کافر کے سامنے حق پیش کیا جائے تو اس کا دل مزید شک میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ اس حقیقت کو سمجھنے کے لیے بارش کی مثال سامنے رکھنی چاہیے بارش پھول پر ہو تو وہ اور زیادہ خوبصورت دکھائی دیتا ہے اور اس کی مہک چار سو پھیلتی ہے۔ بارش گندگی کے ڈھیر پر برستی ہے تو اس کے تعفن میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ حق کے انکاری کے دل کی یہی کیفیت ہوتی ہے کہ وہ حق کو تسلیم کرنے کی بجائے اور دور ہوجاتا ہے۔” یوم عقیم“ کا معنی ہے ” منحوس دن“۔ حقیقتاً کوئی دن اور وقت منحوس نہیں ہوتا یہ بات اس حوالے سے کہی گئی ہے کہ کفار کے لیے وہ گھڑی یا دن منحوس بنا دیا جاتا ہے۔ اسی لیے قوم عاد پر مسلسل آٹھ دن آندھی کی صورت میں عذاب نازل کیا گیا۔ ان ایام کو اللہ تعالیٰ نے اَیَّامٍ نَّحِسَاتٍ کے الفاظ سے تعبیر فرمایا ہے۔ جن کا معنٰی ہے منحوس دن۔ ( حٰم السجدۃ: ١٦) (وَعَنْہُ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لَا عَدْوٰی وَلَا طِےْرَۃَ وَ لَا ھَامَۃَ وَلاَ صَفَرَ وَفِرَّ مِنَ الْمَجْذُوْمِ کَمَا تَفِرُّ مِنَ الْاَسَدِ۔) [ رواہ البخاری : باب الْجُذَامِ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) ہی بیان کرتے ہیں کہ رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا‘ کوئی بھی بیماری متعدی نہیں۔ بد شگونی بھی نہیں ہے۔ نہ الوبد روح ہے اور نہ صفر کا مہینہ نحوست والا ہے۔ البتہ کوڑھے شخص سے اس طرح بھاگوجس طرح شیر سے بھاگتے ہو۔“ (وَعَنْ عَاءِشَۃَ (رض) قَالَتْ کَانَ رِجَالٌ مِّنَ الْاَعْرَابِ یَاْتُوْنَ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَیَسْءَلُوْنَہُ عَنِ السَّاعَۃِفَکَانَ یَنْظُرُ اِلٰی اَصْغَرِھِمْ فَیَقُوْلُ اِنْ یَّعِشْ ھٰذَا لَا یُدْرِکُہُ الْھَرَمُ حَتّٰی تَقُوْمَ عَلَیْکُمْ سَاعَتُکُمْ) [ رواہ البخاری : باب سَکَرَاتِ الْمَوْتِ ] ” حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کچھ دیہاتی نبی مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے انہوں نے قیامت کے بارے میں سوال کیا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان میں سے سب سے چھوٹے کی طرف دیکھا اور فرمایا‘ اگر یہ شخص زندہ رہا اس پر بڑھاپا نہیں آئے گا کہ تم پر قیامت قائم ہوجائے گی۔“ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لَتَقُومَنَّ السَّاعَۃُ وَثَوْبُہُمَا بَیْنَہُمَا لَا یَطْوِیَانِہٖ وَلَا یَتَبَایَعَانِہٖ وَلَتَقُومَنَّ السَّاعَۃُ وَقَدْ حَلَبَ لِقْحَتَہٗ لَا یَطْعَمُہٗ وَلَتَقُومَنَّ السَّاعَۃُ وَقَدْ رَفَعَ لُقْمَتَہٗ إِلٰی فیہٖ وَلَا یَطْعَمُہَا وَلَتَقُومَنَّ السَّاعَۃُ وَالرَّجُلُ یَلِیطُ حَوْضَہٗ لَا یَسْقِی مِنْہٗ) [ رواہ احمد : مسند ابی ہریرہ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کپڑا بیچنے اور خریدنے والے ابھی سمیٹ نہیں سکیں گے کہ قیامت آجائے گی۔ ایک آدمی اپنی اونٹنی کا دودھ دوہ رہا ہوگا اور وہ اس کو پی نہیں سکے گا کہ قیامت قائم ہوجائے گی۔ کھانا کھانے والا لقمہ اپنے منہ کی طرف اٹھائے گا۔ اس کو کھا نہیں سکے گا تو قیامت قائم ہوجائے گی۔ ایک آدمی اپنا حوض ٹھیک کر رہا ہوگا وہ اس سے پانی پی نہیں سکے گا کہ قیامت قائم ہوجائے گی۔“ مسائل ١۔ کفر کرنے والے کا دل حق بات کے بارے میں متذبذب رہتا ہے۔ ٢۔ کفر پر قائم رہنے والا دنیا میں عذاب کے وقت اور قیامت قائم ہونے کے دن حق کا اعتراف کرے گا۔ تفسیر بالقرآن قیامت اچانک برپا ہوجائے گی : ١۔ بے شک قیامت آنے والی ہے۔ میں اس کو پوشیدہ رکھنا چاہتا ہوں تاکہ ہر کسی کو جزا یا سزا دی جائے۔ (طہٰ: ١٥) ٢۔ یقیناً قیامت آنے والی ہے۔ (الحجر : ٨٥) ٣۔ یقیناً قیامت آنے والی ہے اور اللہ قبروالوں کو اٹھائے گا۔ (الحج : ٧) ٤۔ اللہ کا وعدہ سچا ہے اور قیامت برپا ہونے میں کوئی شک نہیں۔ (الکہف : ٢١) ٥۔ اے لوگو! اللہ سے ڈر جاؤ بے شک قیامت کا زلزلہ بہت بڑا ہے۔ (الحج : ١) ٦۔ کافر ہمیشہ شک میں رہیں گے، یہاں تک کہ قیامت اچانک آجائے۔ (الحج : ٥٥) ٧۔ ہم نے قیامت کے دن جھٹلانے والوں کے لیے آگ کا عذاب تیار کیا ہے۔ (الفرقان : ١١) الحج
56 فہم القرآن ربط کلام : قیامت کے دن صرف ایک اللہ کی بادشاہی ہوگی۔ اس دن نیک و بد کے درمیان فیصلہ ہوجائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو عارضی طور پر دنیا میں کچھ اختیارات دیے ہیں۔ اسی بناء پر مختلف وقتوں اور علاقوں میں کچھ لوگوں کو اقتدار دیا جاتا ہے تاکہ دنیا کا نظام اجتماعی شکل میں چلتا رہے لیکن حقیقی بادشاہی اللہ تعالیٰ کی ہے۔ وہ اپنی حکمت عملی کے تحت دنیا کا اقتدار ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ میں دیتا ہے۔ جب قیامت برپا ہوگی تو پورے کا پورا نظام ختم کردیا جائے گا۔ ربِّ ذوالجلال کے سوا کسی کے پاس کچھ اختیار نہیں ہوگا اس دن اعلان ہوگا کہ آج صرف اللہ کے لیے بادشاہی ہے۔ ” اللہ“ صالح اعمال کرنے والے ایمانداروں کو نعمتوں والی جنت میں داخل کرے گا اور جن لوگوں نے کفر کیا اور ” اللہ“ کی آیات کو جھٹلایا ان کے لیے ذلیل کردینے والا عذاب ہوگا۔ (عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَقْبِضُ اللّٰہُ الْاَرْضَ یَوْمَ الْقِیَا مَۃِ وَیَطْوِی السَّمَاءَ بِیَمِیْنِہٖ ثُمَّ یَقُوْلُ اَنَا الْمَلِکُ اَیْنَ مُلُوْکُ الْاَرْضِ) [ رواہ البخاری باب قَوْلِہِ (وَالأَرْضُ جَمِیعًا قَبْضَتُہُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ وَالسَّمَوَاتُ مَطْوِیَّاتٌ بِیَمِینِہِ )] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا قیامت کے دن اللہ تعالیٰ زمین کو اپنے قبضہ میں لے لے گا اور آسمانوں کو اپنے دائیں ہاتھ میں لپیٹ کر فرمائے گا میں ہی بادشاہ ہوں کہاں ہیں زمین کے بادشاہ۔“ جنت کی نعمتوں کی ایک جھلک : (وَعَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اِنَّ فِیْ الْجَنَّۃِ شَجَرَۃٌ یَّسِیْرُ الرَّاکِبُ فِیْ ظِلِّھَا ماءَۃَ عَامٍ لَایَقْطَعُھَا وَلَقَابُ قَوْسِ اَحَدِکُمْ فِیْ الْجَنَّۃِ خَیْرٌ مِّمَّا طَلَعََتْ عَلَیْہِ الشَّمْسُ اَوْتَغْرُبُ) [ رواہ البخاری : باب مَا جَاءَ فِی صِفَۃِ الْجَنَّۃِ وَأَنَّہَا مَخْلُوقَۃٌ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جنت میں ایک ایسا درخت ہے کہ اگر کوئی سوار اس کے سایہ میں سو سال چلتا رہے‘ تب بھی اس سایہ ختم نہ ہو سکے گا اور یقیناً تم میں سے کسی ایک شخص کی جنّت میں کمان کے برابر جگہ ان تمام چیزوں سے بہتر ہے‘ جن پر سورج طلوع یا غروب ہوتا ہے۔“ جہنم کا ایک منظر (وَعَنِ ابْنْ مَسْعُوْدٍ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یُوؤتٰی بِجَھَنَّمَ یَوْمَءِذٍ لَھَا سَبْعُوْنَ اَلْفَ زِمَامٍ مَعَ کُلِّ زِمَامٍ سَبْعُوْنَ اَلْفَ مَلَکٍ یَّجُرُّوْنَھَا۔) [ رواہ مسلم : باب فِی شِدَّۃِ حَرِّ نَارِ جَہَنَّمَ وَبُعْدِ قَعْرِہَا وَمَا تَأْخُذُ مِنَ الْمُعَذَّبِینَ] حضرت ابن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ قیامت کے دن دوزخ کو لایا جائے گا اس کی ستر ہزار لگامیں ہوں گی اور ہر لگام کے ساتھ ستر ہزار فرشتے ہوں گے‘ جو اسے کھینچ کر لائیں گے۔ مسائل ١۔ ایمان اور صالح اعمال آپس میں لازم ملزوم ہیں۔ ٢۔ صالح اعمال کرنے والے ایمانداروں کو نعمتوں والی جنت میں داخل کیا جائے گا۔ ٣۔ کفر و کذب اختیار کرنے والوں کے لیے ذلیل کردینے والا عذاب ہوگا۔ تفسیر بالقرآن جنتیوں اور جہنمیوں کے انجام کا فرق : ١۔ کفار کے چہرے بگڑے ہوئے ہوں گے۔ (الحج : ٧٣) ٢۔ مومنوں کے چہرے تروتازہ ہوں گے۔ (القیامۃ: ٢٢) ٣۔ جہنمیوں کو آگ کے ستونوں سے باندھ دیا جائے گا۔ (ہمزہ : ٩٠) ٤۔ جہنمیوں کو پیپ اور لہو پلایا جائے گا۔ (ابراہیم : ١٦) ٥۔ کھولتے ہوئے چشمے سے انھیں پانی پلایا جائے گا۔ (الغاشیۃ : ٥) ٦۔ جنتی جنت میں جو چاہیں گے سو پائیں گے۔ ( الانبیاء : ١٠٢) ٧۔ دوزخیوں کے چہروں پر سیاہی چھائی ہوئی ہوگی۔ ( یونس : ٢٧) ٨۔ ملائکہ جنتیوں کو سلام کہتے ہوئے کہیں گے کہ جنت کے دروازوں سے داخل ہوجاؤ۔ (الرعد : ٢٣۔ ٢٤) الحج
57 الحج
58 فہم القرآن ربط کلام : ذلیل کردینے والے عذاب سے مامون رہنے اور جنت کی نعمتیں پانے کے لیے ضروری ہے کہ انسان کفر کے ماحول کو چھوڑ دے۔ ہجرت کالغوی معنٰی ہے کسی چیزکو ترک کرنا، چھوڑ دینا، لیکن شری اصطلاح میں جو چیز جو اللہ اور اس کے رسول کے راستے میں رکاوٹ بنتی ہو اس کو چھو ڑنا ہجرت کہلاتا ہے اور چھوڑنے والا مہا جر ہوگا۔ کسی قوم کا داعی حق کے مقا بلے میں آ جا نا ہی ہجرت کا جو از پیدا نہیں کردیتا۔ بلکہ جب تک یہ واضح نہ ہوجائے کہ اس قوم میں خیر کی آبیاری ناممکن ہوگئی ہے ایسے حالات میں نبی کو اللہ کی طرف سے ہجرت کا حکم آجایا کرتا ہے۔ مصلح اور عام داعی حق کو حکم نہیں آیا کرتا تاہم خدا داد بصیرت اور قرآن و سنت کی روشنی میں ہجرت کرنے کا فیصلہ داعی کا اختیار ہوتا ہے۔ کسی قوم میں نبی کا ہجرت کر کے چلے جانا معمو لی بات نہیں کہ دل اکتایا، بوریا اٹھایا اور چل نکلے۔ ایسی بستی تو بزم ہستی کے لیے ایک بو جھ سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی اس لیے اس قوم کو بہت جلدنیست و نابود یا اس پر بھاری عذاب آجاتا ہے۔ ہجرت کرنا معمو لی کام نہیں کہ نبی جب چا ہے ملک و ملت کو چھوڑ کر کسی دوسری جگہ چلا جائے۔ نبی کو جب تک واضح حکم نہ آ جاۓ وہ ہجرت کرنے کا مجاز نہیں ہوتا۔ جیساکہ یونس (علیہ السلام) کا واقعہ اس بات کی واضح دلیل ہے۔ ” اور مچھلی والا (یو نس (علیہ السلام) جب غصے ہو کر چلا گیا اور وہ سمجھا تھا شاید ہم اس کو پکڑ نہیں سکیں گے، پھر یونس (علیہ السلام) نے اندھیروں میں پکارا اے اللہ تیرے بغیر میرا کوئی معبود نہیں۔ تو پاک ہے یقیناً میں قصور وار ہوں، پھر ہم نے اس کی دعا قبول کی اور اس کو غم سے نجات بخشی اسی طرح ہم مومنوں کو نجات دیا کرتے ہیں۔“ ہجرت ایمان کی کسوٹی ہے : اللہ اور اسکے رسول کی خاطر ہجرت کرنا ہر کسی کے بس کا روگ نہیں۔ یہ ایسی پل صراط ہے جس کی دھار تلوار سے زیادہ تیز اور بال سے زیادہ باریک ہے۔ ہجرت کی تکالیف ومشکلات ایمان سے خالی دل کو ننگا کردیتی ہیں۔ یہ ایسا ترازو ہے جس میں ہر آدمی نہیں بیٹھ سکتا۔ اس پیمانے سے کھرے کھوٹے کا اندازہ ہوجاتا ہے۔ اس لیے قرآن مجید نے مہاجرین کو اصحاب صدق وصفا کے القاب سے نوازا ہے۔ جس نے اللہ کی رضا جوئی کے لیے ہجرت کی اگر دوران سفر آخرت کو سدھارا تو اس کے گناہ معاف اور اسے آخرت میں سرخروئی نصیب ہوگی اگر منزل مقصود تک پہنچ گیا تو دنیا میں بھی فراخی پائے گا۔ (وَ مَنْ یُّھَاجِرْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ یَجِدْ فِی الْاَرْضِ مُرٰغَمًا کَثِیْرًا وَّسَعَۃً وَ مَنْ یَّخْرُجْ مِنْ بَیْتِہٖ مُھَاجِرًا اِلَی اللّٰہِ وَ رَسُوْلِہٖ ثُمَّ یُدْرِکْہُ الْمَوْتُ فَقَدْ وَقَعَ اَجْرُہٗ عَلَی اللّٰہِ وَ کَان اللّٰہُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا) [ النساء : ١٠٠] ” جو کوئی اللہ کی راہ میں ہجرت کرے گا وہ رہنے کے لیے زمین میں بہت جگہ پائے گا اور کھانے، پینے کے لیے فراخی ہوگی اور جو اپنے گھر سے اللہ اور اس کے رسول کے لیے نکلے لیکن راستہ میں اسکو موت آ گئی اس کا اجر اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہے اور اللہ رحم کرنے اور معاف کردینے والا ہے۔“ (عَنْ عُمَرَ ابْنِ الْخَطَّابِ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اِنَّمَا الْاَعْمَال بالنِّیَّاتِ وَاِنَّمَا لِاِمْرِئٍ مَّا نَوٰی فَمَنْ کَانَتْ ھِجْرَتُہُ الی اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ فَہِجْرَتُہُ اِلَی اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ وَمَنْ کَانَتْ ھِجْرَتُہُ اِلَی دُنْےَا ےُصِےْبُھَا اَوِامْرَاَۃٍ ےَتَزَوَّجُھَا فَہِجْرَتُہٗ اِلٰی مَا ھَاجَرَ اِلَےْہِ۔) [ رواہ البخاری : باب کَیْفَ کَانَ بَدْءُ الْوَحْیِ إِلَی رَسُول اللَّہِ] ” حضرت عمر بن خطاب (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تمام اعمال کا انحصار نیت پر ہے اور آدمی اپنی نیت کے مطابق ہی صلہ پائے گا۔ جس نے اللہ اور اس کے رسول کے لیے ہجرت کی اس کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول کے لیے ہے جس شخص نے دنیا کے فائدے یا کسی عورت سے نکاح کرنے کے لیے ہجرت کی اس کی ہجرت اسی کے لیے ہوگی۔“ مسائل ١۔ ہجرت کے دوران مہاجر قتل ہوجائے یا طبعی موت مرے اس کے لیے اجر لازم ہے۔ ٢۔ اللہ کے لیے ہجرت کرنے والے کو دنیا میں بھی بہترین رزق دیا جائے گا۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ بہتر رزق دینے والا ہے۔ ٤۔ قیامت کے دن مہاجر کو اس کی پسند کا مقام دیا جائے گا۔ ٥۔ یقیناً اللہ تعالیٰ ہر بات کو جاننے والا اور بڑا ہی برد بار ہے۔ الحج
59 الحج
60 فہم القرآن ربط کلام : بے شک اللہ تعالیٰ حوصلے والا ہے۔ لیکن وہ اپنے مظلوم بندوں کو اختیار دیتا ہے کہ وہ بدلہ لے سکتے ہیں۔ بدلہ لینے کا بنیادی اصول یہ ہے کہ مظلوم اس قدر ہی بدلہ لے سکتا ہے جس قدر اس پر زیادتی کی گئی ہو۔ اگر بدلہ لینے والے پر دوبارہ زیادتی کی گئی تو اللہ تعالیٰ مظلوم کی مدد فرمائے گا۔ اللہ تعالیٰ معاف کرنے والا، بخش دینے والا ہے۔ بدلہ فوجداری، دیوانی اور لسانی معاملات میں ہوگا۔ اخلاقی معاملات میں بدلہ لینے کی بجائے حدود کا نفاذ ہے یعنی اگر کسی کی بہو، بہن، بیٹی یا کسی عزیزہ کے ساتھ کوئی شخص بدکاری کرتا ہے تو اس کی شرعی سزا ہوگی نہ کہ بدکاری کرنے والے کی عزیزہ کے ساتھ بدکاری کی اجازت۔ ان معاملات میں حکومت کا فرض ہوگا کہ وہ شریعت کے مطابق مظلوم کی دادرسی کا انتظام کرے مظلوم کو بدلے کا حق دیتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے اپنی دو صفات کا ذکر کیا ہے کہ اللہ معاف کرنے والا، بخش دینے والا ہے۔ جس میں واضح طور پر اشارہ دیا گیا ہے کہ لوگو! اگر اکثر معاملات میں ایک دوسرے کو معاف کر دو۔ تو اللہ تمھیں بھی معاف کر دے گا۔ ابن جریج اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ یہ آیت صحابہ کے اس لشکر کے بارے میں نازل ہوئی جس کی مڈ بھیڑ کفار کے ایک جتھے سے حرمت والے مہینے میں ہوئی۔ مسلمانوں نے انہیں حرمت والے مہینے کے احترام سے آگاہ کیا کہ وہ اس کا احترام کریں۔ مشرک یہ بات ماننے کے لیے تیار نہ ہوئے، انہوں نے صحابہ پر حملہ کردیا تب مسلمانوں نے اپنا دفاع کیا اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی مدد فرمائی اور انہیں کفار پر غلبہ عطا فرمایا۔ ( ابن کثیر ) مسائل ١۔ مظلوم کو ظلم کے برابر بدلہ لینے کی اجازت ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ مظلوم کی ضرور مدد کرتا ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ معاف کرنے والا، بخش دینے والا ہے۔ الحج
61 فہم القرآن ربط کلام : رات اور دن کی گردش سے بتلایا گیا ہے کہ اے رب کے راستے کے راہی تجھے دل چھوٹا نہیں کرنا چاہیے یہ تو گردش ایام ہے۔ جو ہمیشہ ایک جیسے نہیں رہتی۔ اللہ تعالیٰ بہتر حالات پیدا کرے گا۔ کیونکہ جس رب کی خاطر تو ہجرت کر رہا ہے وہ ہمیشہ رہنے والا ہے۔ اللہ تعالیٰ حق کو ضرور غلبہ دے گا کیونکہ ” اللہ“ بالا دست اور بڑا ہے۔ ہجرت کا ذکر کرنے کے بعد اس بات کا ذکر کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ رات کو دن میں اور دن کو رات میں داخل کرتا ہے۔ یقیناً وہ ہر بات سننے والا اور سب کچھ دیکھنے والا ہے۔ لوگو! اللہ تعالیٰ ہی معبودِ حق ہے۔ اس کے سوا جن کو لوگ پکارتے ہیں وہ جھوٹ ہے۔ یقیناً اللہ تعالیٰ ہر اعتبار سے بلند و بالا اور سب سے بڑا ہے۔ رات اور دن کا تذکرہ کرنے کے ساتھ فرمایا کہ اللہ ہر بات سننے اور سب کچھ دیکھنے والا ہے۔ اس سے یہ بتلانا مقصود ہے کہ جس طرح رات اور دن ایک دوسرے کے ساتھ لگے ہوئے ہیں بالکل یہی کیفیت انسان کی زندگی کی ہے کہ اس کی زندگی میں دکھ اور پریشانیاں بھی ہیں اور خوشیاں اور کامیابیوں کے روشن پہلو بھی موجود ہیں۔ جو ” اللہ“ رات کی تاریکیوں کو دن کے اجالے میں تبدیل کرتا اور دن کے اجالے کو رات میں بدلتا ہے۔ وہی غم کو خوشی میں تبدیل کرتا ہے اور وہی خوشی کی جگہ غم نازل کرتا ہے۔ ” اللہ“ کے سوا کوئی رات کو دن اور دن کو رات، خوشی کو غم اور غم کو خوشی میں تبدیل کرنے والا نہیں۔ جب اس کے سوا کوئی ایسا نہیں کرسکتا تو پھر ” اللہ“ ہی حق ہے باقی سب باطل ہیں ’۔ لہٰذا ہر حال میں اسی سے مانگا کرو۔ جو لوگ اس کے سوا دوسروں کو پکارتے ہیں وہ باطل اور جھوٹ پر ہیں۔ یہاں باطل کے دو مفہوم ہیں ایک تو ان کا پکارنا باطل ہے دوسرا جن کو مشکل کشا اور حاجت روا سمجھتے ہیں یہ جھوٹ اور باطل ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنی ذات اور صفات میں بلند و بالا ہے۔ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ تَعَوَّذُوا باللَّہِ مِنْ جَہْدِ الْبَلاَءِ، وَدَرَکِ الشَّقَاءِ، وَسُوءِ الْقَضَاءِ، وَشَمَاتَۃِ الأَعْدَاءِ) [ رواہ البخاری : باب مَنْ تَعَوَّذَ باللَّہِ مِنْ دَرَکِ الشَّقَاءِ وَسُوءِ الْقَضَاءِ ] ” حضرت ابی ہریرہ (رض) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں آپ نے فرمایا : اللہ سے پناہ مانگا کرو حد سے زیادہ مشقت، بدبختی، بری تقدیر سے اور دشمنوں کے خوش ہونے سے۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ ہی رات کو دن اور دن کو رات میں داخل کرتا ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ ہر وقت سننے والا اور سب کچھ دیکھنے والا ہے۔ ٣۔ اللہ کا فرمان اور اس کی ذات برحق ہے۔ مشرک جن کو پکارتے ہیں وہ باطل اور جھوٹ ہیں۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ مشرک کے تصورات اور عقیدہ سے بلند و بالا ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ حق ہے اور مشرک کا عقیدہ اور عمل باطل ہے : ١۔ ” اللہ“ ہی حق ہے اور اللہ تعالیٰ کے علاوہ جن کو یہ پکارتے ہیں وہ سب باطل ہیں۔ ( الحج ٦٢) ٢۔ ” اللہ“ حق ہے، اور وہی مردوں کو زندہ کرے گا۔ ( الحج ٦) ٣۔ اللہ ہی تمہارا حقیقی پروردگار ہے اس کے علاوہ باقی سب باطل ہیں۔ ( یونس ٣٢) ٤۔ ” اللہ“ ہی حقیقی مولا ہے، باقی سب باطل ہیں۔ ( یونس ٣٠) ٥۔ یقیناً ” اللہ“ ہی حقیقی الٰہ ہے، و ہی حق کو واضح کرنے والا ہے۔ ( النور : ٢٥) ٦۔ ” اللہ“ ہی حقیقی بادشاہ ہے۔ ( المومنون : ١١٦) الحج
62 الحج
63 فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ کے معبودِبرحق ہونے کے مزید دلائل۔ معبودِ حق کی کبریائی اور علّو مرتب جاننا چاہو تو اس بات پر غور کرو کہ وہ آسمان سے کس طرح بارش نازل کرتا ہے جس سے ویران اور مردہ زمین سبزہ کی چادر پہن لیتی ہے۔ یقیناً اللہ تعالیٰ نہایت باریک بین اور ہر بات سے باخبر ہے۔ زمین و آسمان اور جو کچھ ان میں اسی کی ملکیت ہے۔ یقیناً اللہ تعالیٰ ہر اعتبار سے غنی اور ہر چیز سے بے نیاز اور ہر حوالے سے قابل تعریف ہے۔ بارش اور زمین کی شادابی کا ذکر کرنے کے بعد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نہایت باریک بین، باخبر اور ہر اعتبار سے غنی اور قابل تعریف ہے۔ یہاں اللہ تعالیٰ نے لطیف، خبیر زمین و آسمان کا مالک، غنی اور حمید کا حوالہ دے کر اپنے آپ کو معبود برحق ثابت کیا ہے اور مشرکوں کو یہ باور کروایا ہے کہ اس ذات کو چھوڑ کر غیروں کو پکارتے ہو ان میں اس قسم کی کوئی خوبی نہیں پائی جاتی۔ تو پھر انہیں مشکل کشا اور حاجت روا، داتا وغیرہ سمجھنے اور کہنے کا کیا جواز ہے ؟ یاد رکھو تمھاری کوئی چھپی ہوئی بات اس سے پوشیدہ نہیں ہے۔ وہ مردہ زمین کو سر سبز و شاداب کردیتا ہے تو تمھاری موت کے بعد تمھیں زندہ کرنا اس کے لیے کس طرح مشکل ہے ؟ اس کے باوجود تم اس ذات کی پرواہ اور اس کی عبادت نہیں کرتے تو یقین جانو کہ وہ کسی کی عبادت کا محتاج اور تعریف کا طلبگار نہیں کیونکہ وہ ہر اعتبار سے بے نیاز اور لائق تعریف ہے۔ ” حضرت ابوذر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا‘ اللہ تبارک وتعالیٰ فرماتا ہے : میرے بندو! تم میں سے ہر ایک گمراہ ہے ماسوا اس کے جس کو میں ہدایت سے سرفراز کروں۔ پس تم مجھ سے ہدایت مانگو میں تمہیں ہدایت دوں گا، تم میں سے ہر ایک بھوکا ہے سوائے اس کے جس کو میں کھلاؤں۔ پس تم مجھ سے مانگومیں تمہیں کھلاؤں گا۔ میرے بندو! تم سب ننگے ہو سوائے اس کے جس کو میں پہناؤں۔ پس تم مجھ سے پہناوا طلب کرو میں تمہیں پہناؤں گا۔ میرے بندو! تم رات دن گناہ کرتے ہو‘ میں تمام گناہوں کو بخش دینے والا ہوں۔ مجھ سے بخشش طلب کرو‘ میں تمہیں بخش دوں گا۔ میرے بندو! تم مجھے نقصان اور نفع پہنچانے کی طاقت نہیں رکھتے۔ میرے بندو! تمہارے تمام اگلے پچھلے‘ جن وانس سب سے زیادہ متّقی انسان کے دل کی طرح ہوجائیں تو یہ میری سلطنت میں ذرّہ بھر اضافہ نہیں کرسکتے۔ میرے بندو! تمہارے اگلے پچھلے جن وانس سب بدترین فاسق وفاجر انسان کے دل کی طرح ہوجائیں تو یہ میری حکومت میں کچھ نقص واقع نہیں کرسکتا۔ میرے بندو! تمہارے اگلے پچھلے‘ جن وانس کھلے میدان میں اکٹھے ہوجائیں پھر وہ مجھ سے مانگنے لگیں اور میں ہر آدمی کو اس کی منہ مانگی مرادیں دے دوں تو میرے خزانوں میں اتنی کمی بھی واقع نہیں کرسکتے جتنی سوئی کو سمندر میں ڈبونے سے ہوتی ہے۔“ [ رواہ مسلم : کتاب البروالصلۃ والاداب، باب تحریم الظلم] مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی بارش نازل نہیں کرسکتا۔ ٢۔ ” اللہ“ کے سوا کوئی زمین کو ہریالی نہیں دے سکتا۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی لطیف وخبیر نہیں ہے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ ہی زمین و آسمانوں کی ہر چیز کا حقیقی مالک ہے۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ ہر اعتبار سے غنی ہے اس کے خزانوں میں کبھی کمی واقع نہیں ہو سکتی۔ ٦۔ اللہ تعالیٰ کی ذات اس کے فیصلے قابل تعریف ہیں زمین و آسمانوں کی ہر چیز اس کی تعریف کرتی ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ لائق تعریف ہے اور زمین و آسمان کی ہر چیز اس کی تعریف کرتی ہے : ١۔ بے شک اللہ تعریف کے لائق اور بڑی شان والا ہے۔ (ھود : ٧٣) ٢۔ زمین و آسمان میں سبھی کچھ اللہ کا ہے اور اللہ تمام تعریفات کے لائق ہے۔ (النساء : ١٣١) ٣۔ اللہ قرآن مجید نازل کرنے والا، حکمت والا اور تعریف کے لائق ہے۔ (حم السجدۃ: ٤٢) ٤۔ زمین و آسمان اور جو کچھ ان میں ہے سب اللہ کی حمد بیان کرتے ہیں۔ (الحشر : ١) ٥۔ تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جو جہانوں کو پالنے والا ہے۔ (الفاتحۃ: ١) ٦۔ تمام تعریفیں اس ذات کے لیے ہیں جس نے روشنی اور اندہیروں کو پیدا کیا۔ (الانعام : ١) ٧۔ تمام تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں جس نے ہمیں ہدایت سے سر فراز فرمایا۔ ( الاعراف : ٤٣) الحج
64 الحج
65 فہم القرآن ربط کلام : اگر اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کی صفات کا ادراک چاہتے ہو تو پھر دریاؤں میں چلنے والی کشتیوں اور آسمان کی بلندیوں پر غور کرو۔ انسان کی فطرت میں یہ کمزوری ہے کہ وہ اپنے دائیں بائیں، اوپر نیچے بے شمار چیزوں کو دیکھتا اور ان سے استفادہ کرتا ہے۔ مگر ان کی حقیقت جاننے کی طرف توجہ نہیں دیتا۔ انسان کی توجہ حقائق کی طرف مبذول کرنے کے لیے قرآن مجید کئی مقامات پر اَلَمْ تَرَ کے الفاظ استعمال کرتا ہے کہ اے انسان ! کیا تو دیکھتا اور سوچتا نہیں ؟ کہ اللہ تعالیٰ نے فلاں چیز کو کس طرح پیدا فرمایا ہے ؟ یہاں زمین و آسمان اور سمندر میں چلنے والی کشتیوں کی طرف توجہ دلا کر ارشاد فرمایا ہے کہ یقین کرو کہ اللہ لوگوں کے ساتھ نہایت ہی شفقت کرنے اور مہربانی فرمانے والا ہے۔ انسان زمین کی طرف غور کرے کہ اللہ تعالیٰ نے کب سے اسے اس کے لیے مسخر کر رکھا ہے زمین پانی پر ہونے کے باوجود نہ کہیں سے جھکی اور نہ ہی کہیں سے دھنسی ہے۔ انسان کی خوراک، رہائش اور اس کی زیب و زینت کے لیے کب سے خدمت میں لگی ہوئی ہے۔ حالانکہ یہی زمین ہے کہ اس پر حکمرانی کرنے والا انسان جب اس میں دفن کیا جاتا ہے تو چند دنوں کے بعد زمین اسے کھا جاتی ہے۔ سمندر میں چلنے والی کشتیوں پر غور کیا جائے جو پانی ایک سوئی برداشت نہیں کرسکتا وہ ہزاروں ٹن بوجھ اٹھانے والے جہازوں کو ایک مقام سے دوسرے مقام تک پہنچانے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔ آسمان کی طرف دیکھیں نہ معلوم کتنی مدت سے بغیرسہارے کے کھڑا ہے۔ نہ اس میں کوئی دراڑ واقع ہوئی ہے اور نہ وہ کسی طرف سے جھکا ہے۔ یہ اللہ کے حکم کے مطابق تنا ہوا ہے اور نیچے گرنے کا نام نہیں لیتا ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو زمین جگہ جگہ سے پھٹ جائے، سمندر کا پانی برف بن جائے، آسمان زمین پر دھڑان آگرے۔ لیکن یہ اللہ تعالیٰ کی شفقت و مہربانی ہے کہ وہ لوگوں کے کفرو شرک اور ہر قسم کی نافرمانی دیکھ کر بھی ہر چیز کو انسان کی خدمت میں لگائے ہوئے ہے لیکن پھر بھی انسان اس کو معبود برحق ماننے کے لیے تیار نہیں۔ انسان کس قدر ظالم ہے اور اللہ تعالیٰ کس قدر مشفق اور مہربان ہے۔ وہی ذات لوگوں کو زندہ کرنے والی ہے۔ پھر وہی لوگوں کو موت سے ہمکنار کرتی ہے۔ پھر وہی سب کو زندہ کرے گی۔ گویا کہ انسان کی پوری زندگی اللہ تعالیٰ کے قبضے میں انسان نہ اپنی مرضی سے پیدا ہوتا ہے اور نہ اپنی مرضی سے مر سکتا ہے۔ اتنے ٹھوس دلائل ہونے کے باوجود انسان اپنے رب کا ناقدردان اور ناشکرا ہے۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان اور کشتیوں کو انسان کی خدمت میں لگا رکھا ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ ہی موت و حیات کا مالک اور دوبارہ زندہ کرنے والا ہے۔ ٣۔ انسان کی نافرمانی اور ناسپاہی کے باوجود اللہ تعالیٰ لوگوں پر شفقت اور مہربانی کرتا ہے۔ تفسیر بالقرآن انسان کا اپنے رب کے بارے میں رویہّ : ١۔ یقیناً انسان اپنے رب کا ناشکرا ہے۔ ( العادیات : ٦) ٢۔ جب انسان کو تکلیف پہنچتی ہے تو اپنے رب کو پکارتا ہے اور دل سے اس کی طرف رجوع کرتا ہے۔ جب اس کو اللہ کی طرف سے کوئی نعمت ملتی ہے تو اسے بھول جاتا ہے۔ (الزمر : ٨) ٣۔ جب ہم انسان کو نعمت بخشتے ہیں تو وہ اعراض کرتا ہے اور جب تکلیف پہنچے تو ناامید ہوجاتا ہے۔ (بنی اسرائیل : ٨٣) ٤۔ جب انسان کو ہماری طرف سے رحمت ملتی ہے تو وہ خوش ہوتا ہے۔ (الشوریٰ : ٤٨) الحج
66 الحج
67 فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ نے ہر قسم کے دلائل دے کر اپنی توحید سمجھا دی ہے۔ اس کے باوجود کوئی شخص توحید کے تقاضے پورے نہیں کرتا تو اس کی مرضی کیونکہ ہر کسی کے لیے گمراہی اور ہدایت کا راستہ متعین ہوچکا ہے۔ یہود و نصاریٰ ہر اس بات پر اعتراض اور تنقید کرتے ہیں جو ان کی شریعت کے خلاف ہے۔ اس پر انھیں یہ بات سمجھانے کی کوشش کی گئی کہ جہاں تک دین کے بنیادی اصولوں کا معاملہ ہے وہ تو ہمیشہ سے ایک رہے ہیں۔ لیکن ہر دور کے حالات کے مطابق شریعت یعنی دین کے کچھ اصولوں کی تشریح میں فرق رہا ہے۔ جس کی حکمت یہ ہے کہ لوگوں کو دین پر عمل کرنا آسان رہے۔ اسی وجہ سے پہلی شریعتوں کے ساتھ شریعت محمدیہ کا بعض معاملات میں اختلاف ہے۔ جیسا کہ بعض شریعتوں میں بیک وقت دو بہنوں سے نکاح کرنا جائز تھا لیکن شریعت محمدی میں حرام ہے، پہلے انبیاء پر مال غنیمت حرام تھا، امت محمدی کے لیے جائز قرار پایا، پہلی امتوں کے لوگ صرف اپنے عبادت خانوں میں ہی نماز ادا کرتے ان کے علاوہ کسی اور جگہ نماز نہیں پڑھ سکتے تھے، لیکن مسلمانوں کے لیے بوقت نماز مسجد میں جانا ممکن نہ ہو جہاں چاہیں نماز ادا کرلیں۔ پہلی شریعتیں بھی اللہ تعالیٰ نے نازل فرمائیں تھیں اور شریعت محمدیہ بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کردہ ہے۔ شریعت محمدیہ کے نزول کے بعد پہلی شریعتیں منسوخ ہوچکی ہیں۔ اگر یہود و نصاریٰ اس بات کو سمجھنے کے لیے تیار نہیں تو اے پیغمبر ! ان لوگوں کے ساتھ جھگڑا کرنے کی بجائے انھیں ان کی حالت پر چھوڑ دیجیے اور آپ لوگوں کو اپنے رب کی طرف بلاتے رہیں یقیناً آپ ہی صحیح راستے پر گامزن ہیں۔ اگر لوگ پھر بھی جھگڑا کرنے سے باز نہیں آتے تو آپ یہ فرما کر ان سے الگ ہوجائیں کہ اللہ تعالیٰ بڑی اچھی طرح جانتا ہے جو تم کرتے ہو۔ وہی قیامت کے دن تمھارے اختلافات کا فیصلہ کرے گا۔ یہاں تک کہ جانوروں کے مابین بھی فیصلہ کیا جائے گا۔ (عَنْ اَبِی ھُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لَتُؤَدُّنَّ الْحُقُوْقَ إِلٰی أَھْلِھَا یَوْمَ الْقِیَامَۃِ، حَتّٰی یُقَاد للشَّاۃِ الْجَلْحَاءِ مِنَ الشَّاۃِ الْقَرْنَاءِ) [ رواہ مسلم : کتاب البروالصلۃ، باب تحریم الظلم] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تمہیں قیامت کے دن لوگوں کے حقوق ان کے مالکوں کو ادا کرنا پڑیں گے، یہاں تک کہ جس بکری کے سینگ نہیں ہیں اس کو سینگ والی بکری سے بدلہ دلایا جائے گا۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے ہر امت کے لیے ایک شریعت مقرر کی تھی۔ ٢۔ پہلی شریعتیں منسوخ ہوچکی ہیں۔ اب شریعت محمدیہ پر عمل کرنا سب پر لازم ہے۔ ٣۔ حقیقت جاننے کے باوجود لوگ حق کے بارے میں جھگڑا کریں تو انھیں ان کے حال پر چھوڑ دینا چاہیے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن لوگوں کے درمیان ٹھیک ٹھیک فیصلہ فرمائے گا۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ قیامت کے دن فیصلہ صادر فرمائیں گے : ١۔ اللہ مردوں کو اٹھائے گا پھر اسی کی طرف لوٹائے جائیں گے۔ (الانعام : ٣٦) ٢۔ قیامت کے دن اللہ سب کو اٹھائے گا پھر ان کے اعمال کی انھیں خبر دے گا۔ (المجادلۃ: ٦ تا ١٨) ٣۔ اللہ تعالیٰ لوگوں کو اٹھائے گا تاکہ ان کے درمیان فیصلہ صادر فرمائے۔ (الانعام : ٦٠) ٤۔ صبر کا دامن نہ چھوڑیں یہاں تک کہ اللہ فیصلہ صادر فرما دے۔ (یونس : ١٠٩) ٥۔ بے شک اللہ جو چاہتا ہے فیصلہ فرماتا ہے۔ (المائدۃ: ١) ٦۔ اللہ قیامت کے دن لوگوں کے درمیان اختلافات کا فیصلہ کرے گا۔ (البقرۃ : ١١٣) ٧۔ قیامت کے دن آپ کا پروردگار ان کے درمیان فیصلہ فرمائے گا۔ (النحل : ١٢٤، النساء : ١٤١) الحج
68 الحج
69 الحج
70 فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ سب کو جانتا ہے لیکن اس کے باوجود اس نے لوح محفوظ پر ہر چیز لکھ رکھی ہے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جھگڑا لو لوگوں کے ساتھ نہ الجھنے کی تلقین کرنے کے بعد یہ کہہ کر تسلّی دی گئی ہے کہ اے پیغمبر ! آپ کو ان کے ساتھ الجھنے اور پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ اللہ تعالیٰ نا صرف ان لوگوں کے اعمال کو جانتا ہے بلکہ وہ تو زمین و آسمانوں کے چپہ چپہ سے واقف ہے آپ سے اختلاف کرنے والے یہ خیال نہ کریں کہ اللہ تعالیٰ صرف ان کے اعمال کو جانتا ہے وہ ان کے اعمال جاننے کے باوجود ان کا ہر قول و فعل لکھ بھی رہا ہے۔ ان کے اعمال کا احاطہ کرنا اور سب کا حساب لینا اللہ تعالیٰ کے لیے آسان ہے مشکل نہیں، کتاب سے مراد ہر انسان کا اعمال نامہ ہے اور جو کچھ زمین و آسمانوں میں ہوچکا اور ہوگا اور جو کچھ انسان نے کرنا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسے لوح محفوظ پر لکھ رکھا ہے۔ جسے شریعت کی زبان میں تقدیر کہا گیا ہے۔ (عَنْ عَبْدِاللّٰہِ ابْنِ عَمْرٍو (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کَتَبَ اللّٰہُ مَقَادِےْرَ الْخَلَآ ءِقِ قَبْلَ اَنْ یَّخْلُقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ بِخَمْسِےْنَ اَلْفَ سَنَۃٍ قَالَ وَکَانَ عَرْشُہٗ عَلَی الْمَاءِ) [ رواہ مسلم : باب حِجَاجِ آدَمَ وَمُوسٰی] ” حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) بیان کرتے ہیں رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان پیدا کرنے سے پچاس ہزار سال پہلے مخلوق کی تقدیریں لکھ دیں تھیں اس وقت اللہ کا عرش پانی پر تھا۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ زمین و آسمان کی ہر چیز سے باخبر ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ ہر شخص کے اعمال لکھ رہا ہے۔ ٣۔ زمین و آسمان میں جو کچھ موجود ہے اللہ تعالیٰ نے پہلے سے ہی لوح محفوظ میں لکھ دیا ہے۔ الحج
71 فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ سب کچھ جانتا اور اس نے سب کچھ لکھ رکھا ہے جس میں یہ بھی تحریر ہے کہ ہر دور کے مشرک کس کس کی عبادت کریں گے۔ انسان کے اعمال نامہ اور لوح محفوظ کا ذکر فرما کر یہ اشارہ دیا ہے کہ اے انسان تو اللہ تعالیٰ کے ساتھ جس طرح بھی شرک کرے گا اسے اپنے اعمال نامہ میں درج پائے گا۔ اگر کتاب سے مراد لوح محفوظ لیا جائے تو اس کا معنٰی یہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ نے لوح محفوظ میں چھوٹی بڑی ہر بات لکھی ہے لیکن شرک کے حمایت میں کوئی بات درج نہیں اور نہ ہی اللہ تعالیٰ نے کوئی عقلی و نقلی دلیل شرک کی حمایت میں نازل کی ہے۔ اس لیے شرک کرنے والے کسی آسمانی کتاب سے اس کی تائید میں کوئی دلیل نہیں دے سکتے۔ دوسرے الفاظ میں اس فرمان کا معنی یہ ہے کہ شرک کرنا اور اس کی دلیل دینا سراسر جہالت پر مبنی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شرک کے پرچار کے لیے اکثر جھوٹی کرامات کا سہارا لیا جاتا ہے۔ اور جن قبروں کے لوگ چکر لگاتے ہیں۔ ان میں دفن ہونیوالے کا کسی کو علم نہیں۔ اکثر قبریں نقلی ہیں جن کی کرامات بیان کی جاتی ہیں۔ ان کے نام کا تاریخ میں کوئی ثبوت ہی نہیں پایا جاتا۔ لہٰذا جو شخص شرک کا ارتکاب کرتا اور اس کی حمایت میں جھگڑتا ہے وہ پرلے درجے کا ظالم ہے۔ مشرک اس لیے بھی ظالم ہے کہ جن کو اللہ تعالیٰ کی ذات یا صفات میں شریک ٹھہراتا ہے وہ تو کسی اعتبار سے بھی اس لائق نہیں کہ انھیں ذات کبریا کا شریک بنایا جائے۔ ایسا سوچنے اور کرنے والے ظالم ہیں اور قیامت کے دن ان کی کوئی مدد نہیں کرسکے گا۔ سچے ہو تو شرک کے ثبوت پیش کرو : (قُلْ اَرَءَ یْتُمْ شُرَکَآءَ کُمُ الَّذِیْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ اَرُوْنِیْ مَاذَا خَلَقُوْا مِنَ الْاَرْضِ اَمْ لَھُمْ شِرْکٌ فِی السَّمٰوٰتِ اَمْ اٰتَیْنٰھُمْ کِتٰبًا فَھُمْ عَلٰی بَیِّنَتٍ مِّنْہُ بَلْ اِنْ یَّعِدُ الظّٰلِمُوْنَ بَعْضُھُمْ بَعْضًا اِلَّا غُرُوْرًا) [ فاطر : ٤٠] ” فرما دیجئے کیا تم نے اپنے ان معبودوں کو دیکھا ہے جنہیں تم اللہ کے سوا پکارتے ہو مجھے دیکھاؤ انہوں نے زمین میں کون سی چیز پیدا کی ہے یا آسمانوں میں ان کی کیا شراکت ہے یا ہم نے ان کو کتاب دی ہے وہ اس میں سے کوئی دلیل رکھتے ہیں۔ بلکہ ظالم ایک دوسرے کے ساتھ مکروفریب کا وعدہ کرتے ہیں۔“ (قُلْ اَرُوْنِیَ الَّذِیْنَ اَلْحَقْتُمْ بِہٖ شُرَکَآءَ کَلَّا بَلْ ھُوَ اللّٰہُ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ) [ السبا : ٢٧] ” فرما دیجئے مجھے وہ لوگ دیکھائے جنہیں تم نے اللہ کے ساتھ ملا رکھا ہے کوئی نہیں بلکہ وہ اللہ غالب حکمت والا ہے۔“ مسائل ١۔ شرک کے لیے کوئی بھی عقلی و نقلی دلیل نہیں ہے۔ ٢۔ شرکیہ عقیدہ کے پیچھے علم نام کی کوئی چیز نہیں پائی جاتی۔ ٣۔ مشرک ظالم ہوتا ہے، ظالم کا قیامت کے دن کوئی مددگار نہیں ہوگا۔ تفسیر بالقرآن شرک کے لیے کوئی دلیل نہیں ہے : ١۔ شرکیہ عقیدے کی کوئی دلیل نہیں۔ (المومنون : ١١٧) ٢۔ شرک سے آدمی ذلیل ہوجاتا ہے۔ (الحج : ٣١) ٣۔ بتوں کے الٰہ ہونے کی کوئی دلیل نہیں۔ (النجم : ٢٣) ٤۔ اللہ کے سوا کوئی اور بھی الٰہ ہے تو کوئی دلیل لاؤ اگر تم سچے ہو۔ (النمل : ٦٤) ٥۔ انھوں نے اللہ کے علاوہ کئی معبود بنالیے ہیں آپ فرمائیں کوئی دلیل لاؤ۔ (الانبیاء : ٢٤) ٦۔ اے لوگو! تمھارے پاس رب کی طرف سے دلیل آچکی ہے۔ (النساء : ١٧٥) ٧۔ وہ اللہ کے سوا ان کی عبادت کرتے ہیں جن کی عبادت کے لیے کوئی دلیل نازل نہیں کی گئی۔ (الحج : ٧١) ٨۔ اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک ٹھہراتے ہوئے تم ڈرتے نہیں حالانکہ اللہ نے شرک کی حمایت میں کوئی دلیل نازل نہیں کی۔ (الانعام : ٨١) الحج
72 فہم القرآن ربط کلام : شرک کی دلیل نہ ہونے کے باوجود مشرک کا ردِّ عمل۔ مشرکانہ طبیعت کا یہ خاصہ ہے کہ جب اس کے سامنے اللہ کی ذات، صفات اور اسی ایک کی عبادت کرنے کا ذکر کیا جائے تو اسے ایسی بات اور واعظ اچھا نہیں لگتا۔ حتٰی کہ ایسی آیات کے ساتھ بے اعتنائی ظاہر کرتے ہیں۔ اہل مکہ کے سامنے سرورِگرامی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) توحید پر مبنی آیات کی تلاوت کرتے تو طیش میں آکر ان کے چہروں کے رنگ بدل جاتے یہاں تک کہ وہ آپ پر ٹوٹ پڑنے کی کوشش کرتے اور اس پر سرور گرامی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ارشاد ہوا کہ آپ انھیں فرمائیں کہ آج عقیدہ توحید کے ذکر کی وجہ سے تمھارے چہرے متغیر ہوجاتے ہیں لیکن وہ وقت یاد کرو جب تمھیں جہنم میں پھینکا جائے گا اور جہنم کی آگ تمھارے چہروں کو بگاڑ کر رکھ دے گی۔ کفار کے ساتھ ایسا کرنا اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے جو ہر صورت پورا ہو کر رہے گا۔ جس جہنم میں تجھے پھینکا جائے گا وہ رہنے کے اعتبار سے بدترین جگہ ہے۔ اہل مکہ کو جس بات سے سب سے زیادہ چڑ تھی وہ عقیدہ توحید تھا۔ نبوت کے ابتدائی دور میں مکہ والوں نے آپ کی ذات اور آپ کے ساتھیوں پر بے انتہا مظالم ڈھائے لیکن جب آپ کے ساتھی زیادہ ہوگئے بالخصوص حضرت عمر (رض) اور حضرت حمزہ (رض) ایمان لائے تو اہل مکہ نے مخالفت کرنے کے ساتھ ساتھ مصالحت کی پالیسی اختیار کی۔ انھوں نے بارہا دفعہ آپ سے مطالبہ کیا کہ کچھ آپ نرم ہوجائیں اور کچھ ہم اپنے مؤقف میں نرمی پیدا کرتے ہیں۔ (القلم : ٩) لیکن سرور دو عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دو ٹوک انداز میں جواب دیا کہ توحید اور شرک کا آپس میں معاہدہ اور ملاپ نہیں ہوسکتا۔ ” اے پیغمبر ! فرما دو کہ اے کافرو! جن کو تم پوجتے ہو ان کو میں نہیں پوجتا اور جس الٰہ کی میں عبادت کرتا ہوں اس کی تم عبادت نہیں کرتے۔ اور جن کی تم پرستش کرتے ہو ان کی میں پرستش کرنے والا نہیں ہوں۔ اور نہ تم اس کی بندگی کرنے والے ہو جس کی میں بندگی کرتا ہوں۔ تمہارے لیے تمہارا دین میرے لیے میرا دین ہے“ [ الکافرون] مسائل ١۔ مشرک کی نشانی ہے کہ وہ توحید خالص کا تذکرہ سننا گوار انہیں کرتا۔ ٢۔ توحید کا ذکر سنتے ہی مشرک کے چہرے کا رنگ بدلنا شروع ہوجاتا ہے۔ ٣۔ توحید کے ذکر کے ردِّ عمل میں مشرک مواحد پر حملہ آور ہونے کی کوشش کرتا ہے۔ ٤۔ مشرک کو جہنم میں پھینکا جائے گا جو رہنے کے اعتبار سے بدترین جگہ ہے۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ مشرک کو ضرور جہنم میں داخل کرے گا اللہ تعالیٰ کا وعدہ پورا ہو کر رہے گا۔ تفسیر بالقرآن توحید کے ردِّ عمل میں مشرک کی کیفیت : ١۔ جب مشرکین سے کہا جاتا ہے کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں تو وہ تکبر کرتے ہیں۔ ( الصافات : ٣٥) ٢۔ جب ایک اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے تو ان کے دل جل جاتے ہیں۔ ( الزمر : ٤٥) ٣۔ جب تنہا ایک رب کی طرف بلایا جاتا ہے تو مشرکین اس دعوت کو ٹھکرا دیتے ہیں۔ ( المؤمن : ١٢) ٤۔ جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو سجدہ کرو تو وہ انکار کرتے ہوئے مزید نفرت کرتے ہیں۔ ( الفرقان : ٦٠) ٥۔ جب مشرکین سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ احکام کی پیروی کرو تو کہتے ہیں کہ ہم تو اپنے آباء واجداد کی پیروی کریں گے۔ ( البقرۃ: ١٧٠) ٦۔ جب قرآن میں تیرے اکیلے رب کا تذکرہ کیا جاتا ہے تو وہ اپنی پیٹھوں کے بل بھاگ کھڑے ہوتے ہیں۔ (بنی اسرائیل : ٤٦) الحج
73 فہم القرآن ربط کلام : شرک کے ناپائیدار اور بلا دلیل ہونے کی ایک اور دلیل۔ شرک کا عقیدہ اس قدر ناپائیدار اور کمزور ترین ہے کہ اگر اس پر معمولی سا غور کرلیا جائے تو اسے چھوڑنا انسان کے لیے نہایت ہی آسان ہوجاتا ہے۔ کیونکہ مشرک شرک کے بارے میں انتہائی جذباتی ہوتا ہے جس وجہ سے مثال بیان کرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے لوگو! تمھارے سامنے ایک مثال بیان کی جاتی ہے اسے پوری توجہ کے ساتھ سنو۔ یعنی اس سے بدکنے کی بجائے اس پر ٹھنڈے دل کے ساتھ غور کرو۔ بے شک جنھیں تم اللہ کے سوا پکارتے ہو وہ ایک مکھی بھی پیدا نہیں کرسکتے بے شک وہ سب کے سب اس کام کے لیے اکٹھے ہوجائیں۔ مکھی پیدا کرنا تو درکنار، اگر مکھی کوئی چیز اڑا لے جائے تو وہ اس سے چھڑا نہیں سکتے۔ مرادیں مانگنے والا اور جن سے مرادیں مانگی جاتی ہیں سب کے سب کمزور ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ لوگوں نے اللہ تعالیٰ کی قدر نہیں جانی جس طرح اس کی قدر جاننے کا حق تھا۔ یقیناً اللہ تعالیٰ بڑا قوت والا اور ہر چیز پر غالب ہے۔ ان الفاظ میں یہ اشارہ ہے کہ مشرک کو شرک سے بالفصل روکنا اللہ تعالیٰ کی قدرت سے باہر نہیں وہ ہر قسم کی قدرت اور غلبہ رکھتا ہے لیکن اس نے اپنی حکمت کے تحت مشرک کو مہلت دے رکھی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے شرک کی بے ثباتی ثابت کرنے اور اس سے نفرت دلانے کے لیے ایسے جانور کی مثال دی ہے جس سے ہر آدمی نفرت کرتا ہے۔ عام مکھی کی مثال اس لیے دی گئی ہے کہ مکھی اس بات کا امتیاز نہیں کرتی کہ جس چیز پر وہ بیٹھ رہی ہے وہ کس قدر غلیظ اور بدبو دار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک وقت وہ گندگی کے ڈھیر پر بھنبھنا رہی ہوتی ہے اور دوسرے لمحہ کھانے والی چیز پر جا بیٹھتی ہے۔ مکھی اور کتا کسی چیز سے سیر نہیں ہوتے۔ اس لیے مشرک کی مثال کتے کے ساتھ بھی دی گئی ہے۔ (الاعراف : ١٧٣ تا ١٧٦) کردار کے اعتبار سے یہی مشرک کی مثال ہے کہ وہ عقیدہ توحید کی عظمت اور برکت کو چھوڑ کر جگہ جگہ ٹھوکریں کھاتا پھرتا ہے یہاں تک کہ ایسے لوگوں کے چرنوں میں جا بیٹھتا ہے۔ جنہیں اپنی پاکی، پلیدی کا خیال تک نہیں ہوتا۔ وہ ایسے لوگوں سے مانگتا ہے جو دربدر کی ٹھوکریں کھاتے اور مزارات پر آنے والوں کے پیچھے بھاگتے پھرتے ہیں۔ یہ تو کلمہ گو حضرات کا حال ہے۔ جہاں تک غیر مسلموں کا تعلق ہے وہ تو شرک کرنے کی وجہ سے اس حد تک انسانیت سے گر چکے ہیں کہ ان میں کچھ لوگ جانوروں اور مجذوبوں کے نفس کی پوجا کرتے ہیں۔ درحقیقت مشرک نے اپنے رب کی قدر کو نہیں پہچانی۔ جس وجہ سے انہیں اللہ تعالیٰ دنیا میں ہی ذلیل کردیتا ہے۔ مشرک اپنے رب کی قدر پہچانے یا نہ پہچانے اللہ تعالیٰ ہر حال میں قوت والا اور غالب ہے۔ (فَاعْتَبِرُوْا یَااُولِی الْاَبْصَار) [ الحشر : ٢] اے عقل والو! عبرت حاصل کرو۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ لوگوں کی ہدایت کے لیے قرآن مجید میں مثالیں بیان فرماتا ہے۔ ٢۔ قرآن کی امثال اور و نصیحت کو غور سے سننا چاہیے۔ ٣۔ اللہ کے سوا کوئی کچھ بھی پیدا کرنے کے قابل نہیں ہے۔ ٤۔ اللہ کے علاوہ سب لوگ اس قدر بے بس ہیں کہ وہ مکھی سے ایک ذرّہ بھی واپس نہیں لے سکتے۔ ٥۔ مشرک ہر لحاظ سے کمزور ہوتا ہے۔ ٦۔ مشرک اللہ کی قدر نہیں پہچانتا۔ ٧۔ اللہ سب سے زیادہ قوت والا اور ہر چیز پر غالب ہے۔ الحج
74 الحج
75 فہم القرآن ربط کلام : مشرکوں کو یہ اعتراض تھا کہ اللہ نے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نبی کیوں منتخب کیا ہے ؟ حالانکہ دولت اور اثر رسوخ کے اعتبار سے اس سے فلاں فلاں آدمی زیادہ موزوں تھے۔ یہودیوں کو حضرت جبرائیل (علیہ السلام) پر اعتراض ہے کہ اس نے ہمارے آباو اجداد پر عذاب نازل کیا ہے۔ اس لیے اس کی بجائے وحی لانے پر کسی اور فرشتے کو مامور کرنا چاہیے تھا۔ اب یہ ارشاد فرمایا ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کا حسن انتخاب ہے کہ وہ ملائکہ میں جس کو چاہے اپنی وحی کے لیے منتخب فرمائے اور بندوں میں سے جس کو چاہیے نبی بنائے۔ وہ ہر بات سنتا اور ہر چیز کو دیکھنے والا ہے۔ یعنی اسے اچھی طرح معلوم ہے کہ کون کس نیت کے ساتھ اعتراض کرتا ہے اور کس کا کیا کردار ہے ؟ وہ ہر کسی کے ماضی، حال اور مستقبل کو جانتا ہے۔ ہر کام کا انجام اللہ تعالیٰ کی طرف ہی لوٹایا جاتا ہے۔ مراد یہ ہے کہ کوئی اس کی توحید کا انکار کرے یا اس کے نبی کی رسالت یا جبریل امین کا بالآخر ہر کسی نے اللہ تعالیٰ کی طرف پلٹ کر جانا ہے۔ اور سب کا انجام بھی اس کے ہاں لکھا ہوا ہے۔ ” جب ان کے پاس کوئی نشانی آتی ہے تو کہتے ہیں ہم ہرگز ایمان نہیں لائیں گے یہاں تک کہ ہمیں اس جیسا دیا جائے جو اللہ کے رسولوں کو دیا گیا۔ اللہ زیادہ جانتا ہے کہ رسالت کسے دے۔ جنہوں نے جرم کیے عنقریب انہیں اللہ کے ہاں ذلّت اٹھانا پڑے گی اور انہیں سخت عذاب دیا جائے گا اس وجہ سے کہ وہ مکرو فریب کرتے تھے۔“ (الانعام : ١٢٤) ” جو جبریل اور میکائل کا دشمن ہے وہ ” اللہ“ کا بھی دشمن ہے۔“ ( البقرۃ: ٩٧) مسائل ١۔ کسی کو اپنے پیغام کے لیے منتخب کرنا یہ اللہ تعالیٰ کی مرضی پر منحصر ہے۔ ٢۔ سلسلہ نبوت حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ختم ہوچکا ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ ہر کسی کے ماضی، حال اور مستقبل کو جانتا ہے۔ ٤۔ سب کام اللہ تعالیٰ کی طرف ہی لوٹائے جاتے ہیں۔ الحج
76 الحج
77 فہم القرآن ربط کلام : مشرک اور کافر انکار کرتے ہیں تو کریں مومنوں تمہیں تو ہر صورت اپنے رب کے سامنے جھکنا اور اس کی غلامی میں زندگی بسر کرنا ہے۔ جب ہر چیز کا انجام اللہ تعالیٰ کی طرف لوٹایا جاتا ہے تو ایمانداروں کا فرض ہے کہ وہ اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کی بندگی کے لیے وقف کردیں۔ اس آیت کریمہ میں انسان کی زندگی کا مقصد نہایت مختصر الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنی عبادت کے لیے پیدا فرمایا ہے۔ اس لیے انسان کا فرض ہے کہ وہ اپنے رب کے حضور رکوع و سجود اور اس کی بندگی کرے اور جس کام کو اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے خیر قرار دیا ہے اسے بجالانے کی اخلاص کے ساتھ کوشش کرتا رہے۔ یہی دنیا و آخرت میں فلاح کا راستہ ہے۔ اسی بندگی کا جامع تصور یوں بھی بیان کیا ہے۔ (قُلْ اِنَّ صَلَاتِیْ وَ نُسُکِیْ وَ مَحْیَایَ وَ مَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ لَا شَرِیْکَ لَہٗج وَ بِذٰلِکَ اُمِرْتُ وَ اَنَا اَوَّلُ الْمُسْلِمِیْنَ) [ الانعام : ١٦٢ تا ١٦٣] ” فرما دیجیے! یقیناً میری نماز‘ میری قربانی‘ میری زندگی اور میری موت اللہ رب العالمین کے لیے ہے‘ اس کا کوئی شریک نہیں اسی بات کا مجھے حکم دیا گیا ہے اور میں سب سے پہلے فرمانبردار ہونے والا ہوں۔“ اس تصور کے ساتھ قرآن مجید نے عبادت کا وسیع تر تخیل پیش کیا ہے کہ آدمی منڈی اور بازار میں ہو تو امانت و دیانت کا نمونہ بن جائے، کسی کے ہاں مزدور اور خدمت گزار ہو تو وفاداری کا پیکر ہوجائے، حکمران ہو یا کوئی ذمہ داری اٹھائے تو قوم کا خادم اور مالک حقیقی کا غلام بن کر رہے۔ غرضیکہ زندگی کا ایک ایک لمحہ اور شعبہ رب کی غلامی اور سرافگندگی کے لیے وقف کرنے کا نام عبادت ہے۔ یہی انسان کی تخلیق کا مقصد اور اسی کے لیے انسان کا ہر عمل وقف ہونا چاہیے۔ انبیائے عظام اپنی دعوت کا آغاز اسی سے کیا کرتے تھے۔ اس تصور عبادت سے ہٹنا مقصد حیات کی نفی اور غیر اللہ کی عبادت کرنے کے مترادف ہے۔ جس کا آدمی کو کسی حال میں بھی حق نہیں پہنچتا۔ ایمان، کفر اور نفاق کی بڑی بڑی نشانیاں ذکر کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے بلا امتیاز تمام طبقات انسانی کو عبادت کا حکم دیتے ہوئے اپنی عبادت کے استحقاق کی یہ دلیل دی ہے کہ اس رب کی عبادت کرو جس نے تمہیں، تمہارے آباؤ اجداد اور سب لوگوں کو پیدا فرمایا۔ اسی نے تمہارے لیے زمین کو فرش بنایا اور آسمان کو سائبان، پھر آسمان سے پانی نازل کیا جس سے تمہارے رزق کا بندوبست فرمایا یہ سب کچھ ایک رب نے پیدا کیا لہٰذا اپنے ” اللہ“ کے ساتھ کسی کو شریک نہ بناؤ۔ (البقرۃ : ٢١۔ ٢٢) یہ ہیں وہ حقائق جن کو تم بھی جانتے ہو کہ تخلیقِ کائنات اور ان امور میں اللہ تعالیٰ کا دوسرا کوئی شریک اور سہیم نہیں ہے پھر ایسے رب کے ساتھ دوسروں کو شریک بنانے کی کس طرح جرأت کرتے ہو ؟ جس کی تمہارے پاس کوئی دلیل نہیں لہٰذا تمہیں صرف ایک اللہ کی ہی عبادت کرنا چاہیے۔ توحید ربوبیت اور خالقیت کا شعور دلا کر انسان کے ضمیر کو جھنجھوڑا ہے۔ تاکہ انسان سمجھے کہ کسی غیر کی نہیں بلکہ میں اپنے خالق، رازق اور مالک کی ہی عبادت کر رہا ہوں۔ رکوع وسجود کے آداب : ” حضرت عبداللہ بن عباس (رض) بیان کرتے ہیں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا سنو مجھے رکوع اور سجود میں تلاوت قرآن مجید سے منع کیا گیا ہے لہٰذا تم رکوع میں رب کی عظمت اور سجدے میں کثرت سے تسبیحات پڑھا کرو۔ امید ہے تمہاری مناجات قبول کی جائیں گی۔“ [ رواہمسلم : باب النَّہْیِ عَنْ قِرَاءَ ۃِ الْقُرْآنِ فِی الرُّکُوعِ وَالسُّجُودِ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ بندہ سجدہ میں اپنے رب کے سب سے زیادہ قریب ہوتا ہے۔ لہٰذا سجدہ میں کثرت کے ساتھ دعا کیا کرو۔“ [ رواہ مسلم : باب مَا یُقَالُ فِی الرُّکُوعِ وَالسُّجُودِ] مسائل ١۔ رکوع سجود کرنے سے مراد نماز کی مکمل ادائیگی ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ کے بتلائے ہوئے احکام پر عمل کرنا کامیابی کی ضمانت ہے۔ تفسیر بالقرآن رکوع وسجود کی اہمیت : ١۔ سورج اور چاند کو سجدہ نہ کرو، سجدہ اسے کرو جس نے انہیں پیدا کیا ہے۔ (حٰم السجدۃ: ٣٧) ٢۔ اللہ کی تسبیح بیان کرو اور سجدہ کرنے والوں میں سے ہوجاؤ۔ (الحجر : ٩٨) ٣۔ ہر چیز کا سایہ بھی اللہ کو سجدہ کرتا ہے۔ (النحل : ٤٥) ٤۔ اے ایمان والو ! رکوع کرو اور سجدہ کرو اور اپنے رب کی عبادت کرو۔ (الحج : ٧٧) ٥۔ اللہ کو سجدہ کرو اور اسی کی عبادت کرو۔ (النجم : ٦٢) ٦۔ اللہ کو زمین و آسمان کی ہر چیز سجدہ کرتی ہے۔ (النحل : ٤٦) ٧۔ ستارے اور درخت اللہ کو سجدہ کرتے ہیں۔ (الرحمٰن : ٦) ٨۔ جو ملائکہ آپ کے رب کے پاس ہیں وہ اس کی عبادت سے تکبر نہیں کرتے، اس کی تسبیح بیان کرتے اور اس کو سجدہ کرتے ہیں۔ (الاعراف : ٢٠٦) ٩۔ ” اللہ“ کو زمین و آسمانوں کی ہر چیز، سورج، چاند، ستارے، پہاڑ، درخت، چوپائے اور بے شمار لوگ سجدہ کرتے ہیں۔ ( الحج : ١٨) الحج
78 فہم القرآن ربط کلام : پچھلی آیت کے آخر میں حکم ہے کہ نیکی کے کام کرتے رہو۔ اب حکم ہوا ہے کہ نیکی پوری محنت سے کرو اور نیکی ملّت ابراہیم اور نبی آخر الزّمان کے طریقہ کے مطابق ہونی چاہیے۔ اس کے لیے کوشش کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ جہاد کا لفظ ” جُہَدْ“ سے نکلا ہے جس کے معنی ہے ” کوشش کرنا“ مسلم اور غیر مسلم کی کوشش میں بنیادی فرق یہ ہے کہ غیرمسلم کی کوشش صرف دنیا کے لیے ہوتی ہے ایسا شخص بظاہر نیکی کا کام بھی کرے تو اس کے پیچھے بھی دنیا کا مقصد کار فرما ہوتا ہے۔ اس کے مقابلے میں مسلم کی یہ خوبی ہے کہ وہ جو کچھ کرتا ہے اپنے رب کے حکم کے مطابق اور اس کی رضا کے حصول کی خاطر کرتا ہے۔ کیونکہ اس کو حکم دیا گیا ہے کہ اللہ کے لیے کوشش کرو جس طرح کوشش کرنے کا حق ہے۔ قرآن مجید میں جہاد کا لفظ قتال فی سبیل اللہ کے لیے بھی بولا گیا ہے۔ قتال فی سبیل اللہ ہو یا عبادت اور کوئی نیکی کا کام۔ وہ صرف اور صرف اللہ کے لیے ہونا چاہیے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو اس کام کے لیے پسند کرلیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے دین میں کوئی ایسا مسئلہ نہیں رکھا جو انسان کی طاقت سے باہر ہو۔ اگر کوئی کام انسان کے بس سے باہر ہوجائے۔ تو اللہ تعالیٰ نے اس میں نرمی پیدا فرما دی ہے۔ دین کے پانچ بنیادی ارکان ہیں۔ توحید ورسالت اور آخرت کے عقیدہ میں کوئی رخصت نہیں۔ لیکن عملی کاموں میں رخصتوں سے نوازا گیا ہے۔ آدمی کھڑا ہو کر نماز نہیں پڑھ سکتا تو بیٹھ کر ادا کرے۔ بیٹھ کر نماز پڑھنا مشکل ہو تو لیٹ کر پڑھ سکتا ہے اگر ایسی تکلیف یا مجبوری ہے کہ قبلہ کی طرف منہ نہیں کرسکتا تو اجازت ہے کہ جس طرف چہرہ مڑ سکتا ہے اس طرف موڑ لے۔ اللہ تعالیٰ کی ہر طرف توجہ ہوتی ہے حج کرنے کی استعداد نہیں تو اس پر کوئی مواخذہ نہیں ہے۔ زکوٰۃ دینے کے لائق نہیں تو اس پر کوئی گناہ نہیں ہوگا۔ دائمی بیماری کے باعث رمضان کے روزے نہیں رکھ سکتا تو وہ دوسرے کو روزہ رکھوا سکتا ہے۔ غرض کہ دین کے کسی کام میں تنگی نہیں ہے۔ اس دین کے بنیادی ارکان وہی ہیں جو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے دین میں تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اس دین کے ماننے والوں کا نام مسلمان رکھا ہے۔ یہی دین اور نام پہلی کتابوں میں موجود ہے۔ امت کا فرض ہے کہ وہ اپنے فکر و عمل اور گفتار کے ذریعے لوگوں پر دین حق کی شہادت قائم کریں یہی سرور دو عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کا مقصد ہے۔ قیامت کے دن نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی امت پر گواہ ہوں گے اور یہ امت دوسری امتوں کی شہادت دے گی۔ اس شہادت کا حق تبھی پورا ہوسکتا ہے کہ امت محمدیہ کے لوگ نماز باجماعت اور زکوٰۃ کا اجتماعی نظام قائم کریں اور ہر حال میں اپنے رب پر توکل رکھتے ہوئے اس کے دین پر قائم رہیں۔ ” اللہ“ ہی سب کا کارساز، جو بہترین کارساز اور بہترین مددگار ہے۔ مقصد یہ ہے کہ جہاد فی سبیل اللہ، تبلیغ دین اور اسلام کو اپنانے اور اس کو نافذ کرنے میں کسی نقصان سے ڈرنے اور کسی سے خوف زدہ ہونے کی ضرورت نہیں۔ اللہ تعالیٰ تمہارے معاملات کا ذمہ دار اور ہر کام میں تمہارا مددگار ہے۔ یقین رکھو کہ اس سے بہتر کوئی تمہارا خیر خواہ، ذمہ دار اور مددگار نہیں ہو سکتا۔ اس سورۃ مبارکہ کی ابتدافکر آخرت کے عقیدہ سے ہوئی اس کا اختتام عقیدہ توحید پر کیا جا رہا ہے۔ اس لیے سب سے زیادہ زور توحید کے ابلاغ پر ہونا چاہیے۔ یہی دین کی اساس اور سب سے بڑی شہادت ہے۔ لا الہ الا اللہ کے عقیدہ اور شہادت پر کسی جماعت کی اجارہ داری نہیں۔ یہ بندے کا اللہ تعالیٰ سے معاملہ اور حلف ہے اسے سمجھنے کے لئے ہمارا ذہن تعصّب سے پاک‘ گروہ بندی سے بالاتر ہونا چاہیے اور سمجھنا چاہیے کہ ہمارے رب نے ہمیں کس لیے پیدا فرمایا ہے؟ اس کی ذات کو ہم نے کس طرح ماننا‘ اس کی صفات کو کس طرح سمجھنا اور اس کی عبادت کس طرح کرنا ہے؟ اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کی صفات کو اس کے حکم کے مطابق ماننے‘ سمجھنے اور اسکی خالص عبادت کرنے کا نام توحید اور یہی کلمہ کا تقاضا اور شہادت ہے اسی کے لیے تمام انبیاء کرام مبعوث کیے گئے۔ (وَ مَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا نُوْحِیْٓ اِلَیْہِ اَنَّہٗ لَآاِلٰہَ اِلَّآ اَنَا فَاعْبُدُوْنِ) [ الانبیاء : ٢٥] ” ہم نے آپ سے پہلے جو بھی رسول بھیجے ان کی طرف یہی وحی کی کہ میرے سوا کوئی معبود نہیں سو تم میری ہی بندگی کرو۔“ اس عقیدہ کو یوں سمجھنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ اپنی ذات و صفات میں یکتا اور تنہا ہے اس کا کوئی شریک نہیں جس طرح اس کی ذات اور صفات میں کوئی شریک نہیں اس طرح اس کی عبادت میں بھی کسی کو شریک نہیں کرنا چاہیے۔ اگر اس عقیدہ‘ عمل میں نقص واقع ہوجائے تو رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی محبت‘ بزرگوں کی عقیدت اور کوئی نیک سے نیک عمل بھی اس نقصان کی تلافی نہیں کرسکتا اور نہ ہی ایسے آدمی کی اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں نجات ہو پائے گی۔ محمد رسول اللہ کا معنٰی اور مفہوم یہ ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) محبوبِ رب العٰلمین‘ سید المرسلین‘ خاتم النبیین اور ہمارے راہنما اور مقتدا ہیں۔ ہمارا ہر کام آپ کی سنت اور تابعداری میں ہونا چاہیے یہی سرور کائنات (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی محبت کا تقاضا اور آپکی رسالت کا مقصد ہے۔ کلمہ کا یہ مفہوم سمجھنا اور اس کا تقاضا پورا کرنا ہی ایمان ہے۔ یہی ایمان مسلمان میں ایک قوت اور حرکت عمل پیدا کرتا ہے ” حضرت ابو سعید خدری (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا قیامت کے دن نوح (علیہ السلام) سے پوچھا جائے گا کہ کیا تو نے میرا پیغام پہنچا یا تھا؟ وہ جواب دیں گے ہاں پھر ان کی قوم کو بلا کر پوچھا جائے گا کیا نوح (علیہ السلام) نے تمہیں میرا پیغام پہنچایا۔ وہ کہیں گے ہمارے پاس تو ڈرانے والا کوئی نہیں آیا۔ نوح (علیہ السلام) سے کہا جائے گا آپ کی گواہی کون دے گا؟ وہ کہیں گے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور اس کی امّت۔ آپ نے فرمایا یہی اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ (اسی طرح ہم نے تمہیں امّتِ وسط بنایا ہے)۔“ [ مسند أحمد : کتاب باقی مسند المکثرین، باب : مسند أبی سعید الخدری] مسائل ١۔ ہر مسلمان کو اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر دین کے لیے کوشش کرنا چاہیے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے دین اسلام میں کوئی تنگی نہیں رکھی۔ ٣۔ اسلام ہی ابراہیم (علیہ السلام) کا دین تھا۔ ٤۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) امت محمدیہ کے روحانی باپ ہیں۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ نے دین اسلام پر چلنے والوں کا نام مسلمان رکھا ہے۔ ٦۔ سرور دو عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لوگوں پر دین حق کی شہادت قائم کرنے کے لیے مبعوث کیے گئے۔ ٧۔ قیامت کے دن امت محمدیہ دوسری امتوں پر شہادت دے گی۔ ٨۔ ہر مسلمان کا فرض ہے کہ نماز اور زکوٰۃ کی ادائیگی کے ساتھ پورے دین پر عمل کی کوشش کرتا رہے۔ ٩۔ اللہ تعالیٰ سے بڑھ کر مسلمانوں کا کوئی مولا اور مددگار نہیں ہوسکتا۔ تفسیر بالقرآن دین اسلام میں کوئی تنگی نہیں : ١۔ دین میں جبر نہیں۔ (البقرۃ: ٢٥٦) ٢۔ نبی کسی پر نگران نہیں ہوتا۔ (النساء : ٨٠) ٣۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو لوگوں پر داروغہ نہیں بنایا گیا۔ (بنی اسرائیل : ٥٤) ٤۔ نبی کسی کو ہدایت کے لیے مجبور نہیں کرسکتا۔ (القصص : ٥٦) تفصیل کے لیے میری کتاب پڑھیں ( دین تو آسان ہے!) الحج
0 سورۃ المؤمنوں کا تعارف ربط سورۃ: سورۃ حج کا اختتام اس فرمان پر ہوا ہے کہ اے مسلمانوں ” اللہ“ ہی تمہارا مولیٰ ہے وہ بہترین مولیٰ، خیرخواہ اور بہترین مددگار ہے۔ اگر تم نماز، زکوٰۃ اور اخلاقی حدود کی پابندی کرو گے تو کامیابی تمہارا مقدر بن جائیگی جس کی تمہیں گارنٹی دی جاتی ہے۔ یہ سورۃ 6 رکوع 118 آیات پر مشتمل ہے اس سورۃ کا نزول مکہ معظمہ میں اس وقت ہوا جب صحابہ کرام (رض) ہر قسم کے مظالم کا شکار تھے اور اہل مکہ پروپیگنڈہ کر رہے تھے۔ اب یہ دعوت چند دنوں کی مہمان ہے اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو یہ کہہ کر خوشخبری دی کہ تم کامیاب ہوچکے ہو۔ بشرطیکہ تم ایمان کے تقاضے پورے کرتے رہو۔ ناصرف تم دنیا میں کامیاب ہو گے بلکہ موت کے بعد جنت الفردوس میں داخل کیے جاؤ گے۔ اس جنت الفردوس میں جس سے آدم (علیہ السلام) نکالے گئے تھے۔ اس لیے تخلیق انسان کے مختلف مراحل کا ذکر فرماکر مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہونے کا ثبوت دیا گیا ہے۔ اس کے بعد قدر تفصیل کے ساتھ حضرت نوح (علیہ السلام) کی جدوجہد اور ان کی قوم کے ردِّ عمل کا تذکرہ فرمایا۔ پھر چند آیات میں موسیٰ (علیہ السلام) کے معجزات اور فرعون کے استکبار کا ذکر کیا ہے۔ موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کی پیدائش کا نہایت مختصر ذکر کیا اور فرمایا کہ تمام رسل ایک ہی دعوت کے داعی اور ایک ہی جماعت کے ساتھ تعلق رکھتے تھے۔ ان کے بعد لوگوں نے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا اور ہر فرقہ اپنے کیے پر نازاں ہے۔ فرقہ واریت کے پیچھے سب سے زیادہ دخل ذاتی اور جماعتی نظریات اور مفادات کا ہوتا ہے۔ اس سوچ کی یہ کہہ کر نفی کی گئی ہے کہ اگر حق کو لوگوں کی خواہشات کے تابع کردیا جائے تو زمین و آسمان میں فساد برپا ہوجائے گا۔ اس کے ساتھ ہی رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلّی دی گئی ہے کہ آپ غمزدہ کیوں ہوتے ہیں آپ ان سے کسی قسم کا تقاضا نہیں کرتے۔ آپ صراط مستقیم کے داعی کے طور پر کام کرتے جائیں۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان اطہر سے مختلف انداز اور الفاظ میں چار دفعہ یہ بات کہلوائی ہے کہ ان سے پوچھو زمین اور جو کچھ اس میں ہے۔ ساتوں آسمان اور عرش عظیم اور ساری کائنات کس کے قبضہ میں ہے ؟ کون ہے جو ان کی حفاظت کر رہا ہے۔ منکرین حق کا تمام سوالات کے جواب میں یہی کہنا تھا اور ہے کہ سب کچھ اللہ ہی پیدا کرنے والا اور وہی ان کا مالک ہے۔ ان کے اس اعتراف کے بعد یہ سمجھایا گیا ہے کہ پھر اپنے رب کے ساتھ شرک کرنے سے باز کیوں نہیں آتے۔ حقیقت کا اعتراف کرنے کے باوجود آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے جھگڑتے ہیں۔ اس کے باوجود آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بہتر سے بہتر انداز میں تبلیغ کا کام جاری رکھیں۔ اگر کسی وقت شیطان آپ کو غصہ دلائے تو آپ شیطان سے بچنے کے لیے اپنے رب کی پناہ مانگا کریں۔ سورۃ کے اختتام سے پہلے کفار کو ان کے انجام سے آگاہ کیا ہے کہ وہ وقت یاد کرو جب تمہیں جہنم میں پھینکا جائے گا وہاں تم آہ زاریاں کرو گے مگر تمہاری کوئی فریاد نہیں سنی جائے گی۔ سورۃ کا اختتام اس بات پر کیا ہے کہ منکرین قیامت سمجھتے ہیں کہ ہم نے انہیں یوں ہی پیدا کردیا ہے حالانکہ انہیں ان کی موت کے بعد اٹھا کر ان سے سب کچھ پوچھا جائے گا۔ یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ نے کوئی چیز بے فائدہ پیدا نہیں کی اس کی ذات، بادشاہی اور فرمان حق ہے، وہ عرش کریم کا مالک ہے، اس کا کوئی شریک نہیں۔ جو اس کی ذات اور صفات میں کسی اور کو شریک کرتا ہے اس کے پاس اس کی کوئی دلیل نہیں ہے۔ ایسے لوگ قیامت کے دن کبھی کامیاب نہیں ہوں گے۔ اے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ اپنے رب سے استغفار کریں اور اس کی رحمت کے طلبگار رہیں کیونکہ وہی بڑا ارحم الرّاحمین ہے۔ المؤمنون
1 فہم القرآن ربط سورۃ: سورۃ حج کا اختتام اس بات پر ہوا۔ اللہ تعالیٰ کے راستے میں ” حَقَّ جِہَادِہٖ“ کے اصول پر جہاد کرنا، لوگوں پر شہادتِ حق قائم کرنا، نماز کی پابندی، زکوٰۃ کی ادائیگی اور ہر حال میں دین کے ساتھ وابستہ رہنے والے کا دنیا میں صلہ یہ ہے کہ ایسے مسلمانوں کی اللہ تعالیٰ مدد کرتا ہے اور وہی بہترین مدد کرنے والا ہے۔ ظاہر ہے جن کی اللہ تعالیٰ مدد کرے وہی دنیا اور آخرت میں کامیاب ہوں گے۔ سورۃ المومنون مکہ معظمہ میں اس وقت نازل ہوئی جب کفار اور مشرکین مسلمانوں کے بارے میں یہ گمان کیے بیٹھے تھے کہ یہ لوگ حالات کی کسمپرسی کی وجہ سے بہت جلد ختم ہوجائیں گے۔ کیونکہ کفار اور مشرکین نے ہر طرف سے مسلمانوں کا گھیرا تنگ کیا ہوا تھا۔ یہاں تک کہ جو مسلمان ہجرت کرکے حبشہ گئے ان میں کافی لوگ اس خوشی فہمی کی بنیاد پر مکہ واپس آئے کہ قریش مسلمان ہوچکے ہیں۔ لیکن مکہ پہنچ کر صورت حال کا علم ہوا کہ حالات پہلے سے زیادہ بگڑ گئے ہیں۔ واپس آنے والے احباب کی خوش فہمی یا غلط فہمی کی بنیاد یہ واقعہ بنا کہ ایک دن سرور دو عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حرم میں مسلمانوں اور کفار کے سامنے سورۃ نجم کی تلاوت کی جب سجدہ کی آیت آئی تو آپ اور مسلمانوں نے سجدہ تلاوت کیا مجمع میں کچھ کافر موجود تھے وہ بھی سجدہ ریز ہوگئے۔ کچھ دنوں کے بعد یہ خبر حبشہ پہنچی کہ قریش مسلمان ہوگئے ہیں۔ مہاجرین حبشہ نے حالات بہتر سمجھ کر مکہ کی راہ لی مگر یہاں پہنچے تو حالات پہلے سے زیادہ دگرگوں تھے۔ ان حالات میں ایک طرف حبشہ سے واپس آنے والوں کی پریشانی میں دوگنا اضافہ ہوا۔ اور دوسری طرف کفار نے یہ پراپیگنڈہ کیا کہ مسلمان ہمارے رحم و کرم پر ہیں انہیں کوئی بھی پناہ دینے پر تیار نہیں ہے۔ غالب امکان ہے کہ ان حالات میں سورۃ المومنون نازل ہوئی۔ جس میں اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو دو ٹوک انداز میں کامیابی کی نوید دی۔ بظاہر یہ خوشخبری مستقبل کے حوالے سے ہے لیکن خطاب میں ” قَدْ“ اور ” اَفْلَحَ“ کے الفاظ بیان کیے گئے ہیں۔ ” قَدْ“ کا مطلب ہے ” یقیناً“ اور ” اَفْلَحَ“ ماضی کا صیغہ ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اے مسلمانوں یقین کرو کامیابی تمہارا مقدر ہوچکی ہے۔ کامیابی سے مراد آخرت کی سرخروئی اور دنیا میں اسلام دشمنوں کے خلاف کامیاب ہونا ہے چنانچہ تاریخ اس بات پر گواہ ہے کہ کامیابی کا یہ پیغام حرف بحرف پورا ہوا۔ مسلمان دنیا کے وسائل کے لحاظ سے خوشحال ہوئے اور صدیوں تک برسر اقتدار رہے۔ آخرت کے حوالے سے انہیں یہ اعزاز بخشا گیا کہ اللہ تعالیٰ ان پر راضی ہوا۔ اور وہ اپنے رب پر راضی ہوگئے یہ ایسی فلاح اور کامیابی ہے جو قیامت تک کسی جماعت کو حاصل نہ ہو پائے گی۔ مسائل ١۔ صحابہ کرام (رض) دنیا اور آخرت میں کامیاب ہوئے۔ المؤمنون
2 تفسیر بالقرآن ربط کلام : کامیاب ہونے والوں کی پہلی صفت۔ سورۃ الحج کے آخر میں نماز قائم کرنے کا حکم تھا اب نماز کا مقصد بیان کیا گیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ نماز کی ادائیگی میں اس کے ظاہری ارکان کا خیال رکھنا فرض ہے لیکن اس کے ساتھ یہ بھی لازم ہے کہ آدمی اپنے رب کے حضور کھڑا ہو تو اس کاسراپا گواہی دے رہا ہو کہ وہ اپنے رب کے دربار اور اس کی بارگاہ میں ایک فقیر، بے نوا اور سب سے بڑھ کر ایک درماندہ انسان کھڑا ہے۔ رکوع میں جائے تو اس سوچ اور انداز میں جھکے کہ اس نے ہر لحاظ سے اپنے آپ کو اپنے رب کے حضور سرنگوں کرلیا ہے اب وہ جان بوجھ کر سرکشی نہیں کرے گا۔ سجدہ کرے تو اس نیت کے ساتھ کہ وہ ساری دنیا کے آستانوں کو چھوڑ کر اس آستانے پر گرا پڑا ہے جہاں سے کوئی سوالی نامراد نہیں لوٹتا۔ پیشانی زمین پر رکھ کر ایک طرف دل کی اتھاہ گہرائیوں کے ساتھ اپنی بے بسی اور درماندگی کا اظہار کرے اور دوسری طرف اپنے رب کی کبریائی کا اعتراف کرے۔ اسی کا نام خشوع ہے اس کے حصول کے لیے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اس طرح عبادت کی جائے جس طرح عبادت کرنے والا خود اپنے رب کو دیکھ رہا ہے یا پھر اس کا یہ تصور ہو کہ اللہ تعالیٰ مجھے دیکھ رہا ہے (أَنْ تَعْبُدَ اللّٰہَ کَأَنَّکَ تَرَاہُ فَإِنْ لَّمْ تَکُنْ تَرَاہُ فَإِنَّہٗ یَرَاکَ) [ رواہ البخاری : کتاب الایمان] ” اپنے ” اللہ“ کی عبادت اس یقین کے ساتھ کرو گویا کہ تو اسے دیکھ رہا ہے۔ اگر یہ تصور پیدا نہیں ہوسکتا تو کم از کم یہ خیال کرو کہ وہ تجھے دیکھ رہا ہے۔“ (عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ (رض) عَنِ النَّبِیِّ َالَ أُمِرْنَا أَنْ نَسْجُدَ عَلَی سَبْعَۃِ أَعْظُمٍ وَلاَ نَکُفَّ ثَوْبًا وَلاَ شَعَرًا) [ رواہ البخاری : باب لَا نَکُفَّ ثَوْبًا وَلاَ شَعَرًا ] ” حضرت عبداللہ بن عباس (رض) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں آپ نے ہمیں سات ہڈیوں پر سجدہ کرنے کا حکم دیا اور فرمایا کہ ہم کپڑے اور بالوں کو نماز میں نہ سنواکریں۔“ (عَنِ ابْنِ عُمَرَ (رض) أَنَّ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتَّی یَشْہَدُوا أَنْ لاَ إِلَہَ إِلاَّ اللَّہُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُول اللَّہِ، وَیُقِیمُوا الصَّلاَۃَ، وَیُؤْتُوا الزَّکَاۃَ، فَإِذَا فَعَلُوا ذَلِکَ عَصَمُوا مِنِّی دِمَاءَ ہُمْ وَأَمْوَالَہُمْ إِلاَّ بِحَقِّ الإِسْلاَمِ، وَحِسَابُہُمْ عَلَی اللَّہِ) [ رواہ البخاری : باب (فَإِنْ تَابُوا وَأَقَامُوا الصَّلاَۃَ وَآتَوُا الزَّکَاۃَ فَخَلُّوا سَبِیلَہُمْ)] ” حضرت عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا مجھے لوگوں کے ساتھ لڑائی کا حکم دیا گیا ہے یہاں تک کہ وہ اس بات کا اقرار کریں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں، نماز قائم کریں، زکوٰۃ ادا کریں جنہوں نے یہ کام کیے تو انھوں نے اپنے خون اور اپنے مال مجھ سے محفوظ کرلیے سوائے اسلام کے حقوق کے اور ان کا حساب اللہ پر ہے۔“ (عَنْ أَبِی أَیُّوبَ الأَنْصَارِیِّ قَالَ جَاءَ رَجُلٌ إِلَی النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَقَالَ عِظْنِی وَأَوْجِزْفَقَالَ إِذَا قُمْتَ فِی صَلاَتِکَ فَصَلِّ صَلاَۃَ مُوَدِّعٍ وَلاَ تَکَلَّمْ بِکَلاَمٍ تَعْتَذِرُ مِنْہُ غَداً وَاجْمَعِ الإِیَاسَ مِمَّا فِی یَدَیِ النَّاسِ) [ رواہ احمد : مسند ابو ایوب انصاری] ” حضرت ابو ایوب انصاری (رض) بیان کرتے ہیں ایک آدمی نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا اور آ کر عرض کی کہ مجھے نصیحت کیجیے آپ نے فرمایا جب نماز کے لیے کھڑا ہو تو اس طرح نماز ادا کرو گویا کہ الوداعی نماز پڑھ رہا ہے اور کوئی ایسی گفتگو نہ کرو۔ جس کے لیے کل کو کوئی عذر پیش کرنا پڑے اور جو لوگوں کے ہاتھوں میں ہے اس کی امید نہ کرو۔“ مسائل ١۔ مومن اپنی نماز میں خشوع اختیار کرتے ہیں۔ ٢۔ خشوع وخضوع کے بغیر نماز ادا کرنے کا مقصد حاصل نہیں ہوتا۔ تفسیر بالقرآن نماز کے دوران جن باتوں کا خیال رکھنا چاہے : ١۔ نماز قائم کرو اور مشرکوں میں سے نہ ہوجاؤ۔ ( الروم : ٣١) ٢۔ نماز مقررہ اوقات پر ادا کی جائے۔ (النساء : ١٠٣) ٣۔ نشے کی حالت میں نماز نہ پڑھی جائے۔ ( النساء : ٤٣) ٤۔ نماز میں غفلت اور ریا کاری نہیں ہونی چاہیے۔ ( الماعون : ٥، ٦) ٥۔ پہلے وضو کیا جائے۔ (المائدۃ: ٦) ٦۔ نماز جماعت کے ساتھ پڑھی جائے۔ ( البقرۃ: ٤٣) ٧۔ نماز میں عاجزی ہونی چاہیے۔ ( البقرۃ: ٢٣٨) ٨۔ نماز خشوع کے ساتھ پڑھنی چاہیے۔ ( المؤمنون : ٢) ٩۔ اقامت صلوٰۃ کا اجر۔ (العنکبوت : ٤٥) المؤمنون
3 فہم القرآن ربط کلام : نماز بے حیائی سے بچاتی ہے اس لیے نماز کے بعد لغو سے بچنے کی تلقین کی گئی ہے۔ مومنوں کی دوسری صفت یہ ہے کہ وہ بے ہودہ باتوں سے اعراض کرتے ہیں۔ قرآن مجید میں ارشاد ہے کہ نماز انسان کو برائی اور بے حیائی سے روکتی ہے (العنکبوت : ٤٥) لہٰذا مومن کی یہ خوبی ہونی چاہیے کہ وہ ناصرف برائی اور بے حیائی سے اجتناب کرے بلکہ اسے لغو باتوں اور کاموں سے بھی بچنا چاہیے۔ دوسرے مقام پر عبادالرحمن کی یہ صفت بیان کی گئی ہے کہ وہ بے ہودہ باتوں کے قریب نہیں جاتے جب ان کا لغو اور بے ہودہ کام کے قریب سے گزرنے کا اتفاق ہوتا ہے تو شریفانہ انداز سے گزر جاتے ہیں۔ (الفرقان : ٧٢) عربی لغت میں ” لغو“ بے ہودہ بات اور کام کو کہتے ہیں۔ کامیاب ہونے والے مومنوں کے اوصاف میں یہ وصف ضرور ہوتا ہے کہ وہ ہر قسم کے لغو کام سے اجتناب کرتے ہیں۔ اہل علم نے شطرنج، تاش وغیرہ کے کھیلوں کو بھی لغو شمار کیا ہے۔ سرور دو عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لغو کی تشریح کرتے ہوئے ارشاد فرمایا (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُول اللَّہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مِنْ حُسْنِ إِسْلاَمِ الْمَرْءِ تَرْکُہُ مَا لاَ یَعْنِیہِ ) [ رواہ ابن ماجۃ: باب کَفِّ اللِّسَانِ فِی الْفِتْنَۃِ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا انسان کا بہترین اسلام یہ ہے کہ وہ فضول باتوں کو چھوڑ دے۔“ مسائل ١۔ مومن بے ہودہ باتوں اور بے مقصد کاموں سے اجتناب کرتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن لغو اور اس سے بچنے کا حکم : ١۔ مومن لغو باتوں سے اعراض کرتے ہیں۔ (المؤمنون : ٣) ٢۔ مومن جھوٹی گواہی نہیں دیتے اور لغو باتوں میں ملّوث نہیں ہوتے۔ (الفرقان : ٧٢) ٣۔ جب وہ لغو بات سنتے ہیں تو اس سے اعراض کرتے ہیں۔ (القصص : ٥٥) ٤۔ جنت میں لغو باتوں اور جھوٹ کا نام ونشان نہیں ہوگا۔ (النباء : ٣٥) المؤمنون
4 فہم القرآن ربط کلام : مومنوں کی تیسری صفت۔ مومن نا صرف ذاتی طور پر لغویات سے پاک ہوتا ہے بلکہ اس کا مال بھی ہر آلائش سے پاک ہوتا ہے۔ لفظ زکوٰۃ کا معنٰی نمود اور کسی چیز کو پاک کرنا ہے۔ انسان جب اپنے مال سے زکوٰۃ ادا کرتا ہے تو ایک طرف اس کا مال پاک ہوجاتا ہے اور دوسری طرف اس کا دل بخل اور بے جا حرص سے نجات پاتا ہے۔ (١) سالانہ حساب و کتاب کا اہتمام : اسلام بے خبر ی‘ بدنظمی اور دنیا سے عد مِ دلچسپی کا نام نہیں اسلام تو باخبر رہنے‘ منظم اور اپنی ذمہ داریوں کے حوالے سے معاملات میں گہری دلچسپی لینے کی تعلیم دیتا ہے۔ یہ ذمہ داریاں دین کے حوالے سے ہوں یا دنیاوی امور کے متعلق‘ شریعت کا حکم ہے کہ آنکھیں کھول کر اپنی ذمہ داریوں کو پہچانو اور انہیں پورا کرنے کی کوشش کرو۔ خا ص طور پر کاروبار کا تقاضا ہے کہ اس پر پو ری محنت اور توجہ مبذول کی جاۓ۔ سستی اور عدم دلچسپی سے خسا رہ ہی نہیں اکثر اوقات اصل سرمایہ ہی ضائع ہوجاتا ہے۔ زکوٰۃ کی ادائیگی میں یہ بھی حکمت ہے کہ مسلمان زکوٰۃ کے حوالے سے ہر سال حساب و کتاب کریں تاکہ انھیں انفرادی‘ ملکی اور بین الاقوامی سطح پر پتہ چلے کہ ان کی معیشت کس سطح پر ہے انہیں معلوم ہو کہ اس سال کیا کھو یا اور کیا پایا ہے۔ (٢) ارتکاز دولت کا خا تمہ : نظا مِ معیشت کو نا ہمو اری کے ناسور سے محفوظ رکھنے اور ار تکا زِ دو لت کے مستقل علا ج کے لیے اسلامی قانون معیشت سے زیادہ کوئی نظام کا میاب نہیں ہوسکتا۔ صد قہ و زکوٰ ۃ اور وراثت کی تقسیم سے تدریجاً جا گیرداری نظام کا خاتمہ‘ دولت کی منصفانہ تقسیم کا جامع اور مستقل نظام جا ری کیا گیا ہے۔ تاکہ دولت چند لوگوں کے ہاتھوں جمع نہ ہو سکے۔ اور غریب کو غریب تر ہونے سے بچایا جاۓ۔ زکوٰۃ سے ار تکاز دولت کا علا ج بھی کیا گیا ہے۔ (٣) تزکیہ اور برکات : نبوّت کے بنیادی عناصر اور اجزا میں اہم ترین جز یہ ہے کہ ہر اعتبار سے فرد‘ معاشرے اور تمام شعبہ ہائے زندگی کا تزکیہ کیا جاۓ۔ مال کا تز کیہ یہ ہے کہ اسے حلال طریقے سے کمایا جائے۔ سال بھر کی جمع شدہ رقم میں با قاعدہ زکوٰ ۃ کی ادا ئیگی کا التزام کیا جائے۔ اس سے مال دارکا مال پاک اور معا شرے کو غر بت سے نجات اور ضمیر کا تزکیہ اور دل کو تسکین اور لذت محسوس ہوتی ہے اور آ دمی بخل اور دو لت کے تکبر و غرور سے پاک ہوجا تا ہے۔ (وَسَےُجَنَّبُھَا الْاَتْقٰی۔ اَلَّذِیْ ےُؤْتِیْ مَالَہٗ ےَتَزَکّٰی۔ وَمَا لِاَحَدٍعِنْدَہٗ مِنْ نِّعْمَۃٍ تُجْزٰی۔ اِلَّا ابْتِغَآءَ وَجْہِ رَبِّہِ الْاَعْلٰی۔ وَلَسَوْفَ ےَرْضٰی۔) [ اللیل : ١٧ تا ٢١] ” وہ نہایت پرہیزگار ہے جو پاک ہونے کی خاطر اپنا مال دیتا ہے۔ اس پر کسی کا کوئی احسان نہیں ہے جس کا بدلہ اسے دینا ہو۔ وہ تو صرف اپنے رب کی رضا جوئی کے لیے کام کرتا ہے وہ اس سے ضرور خوش ہوگا۔“ تزکیہ کے ساتھ ہی مال میں برکت پیدا ہوتی ہے کیونکہ لفظ زکوٰۃ کا معنی پاکیزگی اور اضافہ کے ہیں۔ نبی محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد گرامی ہے : (عَنْ اَبِیْ ہُرَےْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَانَقَصَتْ صَدَقَۃٌ مِّنْ مَّالٍ)[ رواہ مسلم : باب الصدقۃ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا صدقہ سے مال میں کمی نہیں ہوتی۔“ امّہ کا بیت المال : ( اَلزَّکوٰۃُ قَنْطَرَۃُ الْاِسْلَامِ) [ مشکو ۃ: باب الز کو ۃ] ” زکوٰۃ اسلام کا خزانہ ہے۔“ اسلام نے فرد کو ذاتی اور انفرادی آزادی دیتے ہوئے اجتماعی زندگی کا حکم دیا ہے۔ انفرادی کوششیں کتنی ہی موثر اور ثمر آور ہوں لیکن اجتماعی جد و جہد اور ان کے نتائج کے بر ابر نہیں ہو سکتیں۔ انفرادی معاملات شخصی کاوش سے حل ہو سکتے ہیں لیکن اجتماعی مسائل کا حل فرد کے بس کا روگ قرار نہیں دیا جا سکتا۔ مسائل ١۔ زکوٰۃ ادا کرنے سے انسان کا دل اور مال پاک ہوتا ہے۔ تفسیر بالقرآن زکوٰۃ کی فرضیت اور فوائد : ١۔ حضرت ابراہیم، لوط، اسحاق و یعقوب (علیہ السلام) کو زکوٰۃ کا حکم۔ (الانبیاء : ٧٣) ٢۔ حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کا اپنے اہل خانہ کو زکوٰۃ کا حکم۔ (مریم : ٥٥) ٣۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو زکوٰۃ کا حکم۔ (مریم : ٣١) ٤۔ بنی اسرائیل کو زکوٰۃ کا حکم۔ ( البقرۃ: ٨٣) ٥۔ تمام امتوں کو زکوٰۃ کا حکم۔ (البینۃ: ٥) ٦۔ زکوٰۃ مال کا تزکیہ کرتی ہے۔ (التوبۃ: ١٠٣) ٧۔ ایمان، نماز اور زکوٰۃ مومن کو بے خوف اور بے غم کرتی ہے۔ (البقرۃ: ٢٧٧) (تفصیل کے لیے میری کتاب زکوٰۃ اور اس کے مسائل دیکھیں۔) المؤمنون
5 فہم القرآن ربط کلام : مومنوں کی چوتھی صفت :۔ مومن صرف اپنے دل اور مال کو پاک کرنے کی کوشش نہیں کرتا بلکہ وہ اپنی شرم گاہ کی حفاظت کرتے ہوئے اپنی سوچ اور کردار کو بھی پاک رکھتا ہے۔ فُرُوْجَکی واحد فَرْجَجس معنٰی شرم گاہ ہے۔ مسلمان کو شرم گاہ کی حفاظت کے لیے بڑی لطیف اور بنیادی ہدایات دی گئی ہیں مرد اور عورت کے لیے پہلی ہدایت یہ ہے کہوہ اپنی نگاہیں نیچی رکھا کریں۔ (النور : ٣١۔ ٣٢) اس ہدایت پر عمل کرنے سے بدکاری اور بے حیائی بہت حد تک ناممکن ہوجاتی ہے کیونکہ قرآن مجید کا پہلا اصول یہ ہے کہ زنا کے قریب تک نہیں جانا۔ یعنی ہر وہ حرکت اور عادت جن سے بدکاری کا راستہ کھلتا ہو شریعت اس سے روکتی ہے عورت کی طرف سے نرمی نہ ہو تو مرد کے لیے بدکاری کرنا ممکن نہیں رہتا۔ اس لیے قرآن حکیم نے عورت پر اس حد تک پابندی عائد فرمائی ہے کہ عورت کو غیر محرم کے ساتھ بات کرنا ناگزیر ہو تو اس کے لب ولہجہ میں نسوانہ ملائمت ہونے کی بجائے بیگانگی اور کسی حد تک آواز میں مردانگی کا تاثر ہونا چاہیے تاکہ جس کے دل میں اخلاقی گراوٹ ہو وہ اس کے بارے میں بری سوچ کا تصور نہ کرپائے۔ یہ فروج کی حفاظت کا بنیادی اور ابتدائی قانون ہے کہ جس کا خیال اور احترام رکھا جائے تو معاشرہ سے بے حیائی کا قلع قمع ہوسکتا ہے۔ ” حضرت سہل بن سعد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں آپ نے فرمایا جو مجھے اپنی زبان اور شرمگاہ کی ضمانت دے دے میں اسے جنت کی ضمانت دیتا ہوں۔“ [ رواہ البخاری : باب حفظ اللسان] ” حضرت عبداللہ بن عباس (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پیچھے قربانی کے دن فضل بن عباس پلان کے اوپر بیٹھے ہوئے تھے اور فضل خوبصورت آدمی تھے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لوگوں کو مسائل بتلانے کے لیے ٹھہرے تو خثعم قبیلے کی ایک عورت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مسئلہ پوچھنے لگی اور حضرت فضل نے اس عورت کی طرف دیکھنا شروع کردیا اور اسے وہ بھلی لگی۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پیچھے مڑکر فضل بن عباس کی طرف دیکھا کہ وہ اس عورت کی طرف دیکھ رہا ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے ہاتھ سے فضل کی ٹھوڑی سے پکڑ کر اس کے چہرے کو دوسری طرف کردیا۔ اس عورت نے عرض کی اے اللہ کے رسول ! اللہ تعالیٰ نے حج اپنے بندوں پر فرض کیا ہے میرا باپ بوڑھا ہے۔ سواری پر بیٹھنے کی طاقت نہیں رکھتا کیا میری طرف سے حج کرنا اسے کفایت کر جائے گا ؟ آپ نے فرمایا ہاں!“ [ رواہ البخاری : باب قَوْلِ اللَّہِ تَعَالَی (یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا لاَ تَدْخُلُوا بُیُوتًا)] مسائل ١۔ مومن مرد اور عورت اپنی شرم گاہ کی حفاظت کرتے ہیں۔ المؤمنون
6 فہم القرآن ربط کلام : اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرنا لازم ہے مگر جائز طریقہ اختیار کرنے کی اجازت ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مومن مرد اور عورت اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرتے ہیں اور انہیں ایسا کرنے کا حکم دیا گیا ہے اس حکم سے ایک غلط فہمی پیدا ہو سکتی تھی جس کے تدارک کے لیے یہ وضاحت کردی گئی ہے کہ اپنی بیویوں سے فطری عمل کرنا جائز ہے اگر کسی کے پاس آزاد عورت کے ساتھ نکاح کرنے کے وسائل نہ ہوں تو اسے اپنی لونڈی کے ساتھ فطری عمل کرنے کی اجازت ہے۔ بیوی اور لونڈی کے ساتھ فطری عمل کرنے پر کوئی ملامت نہیں۔ جس نے اس کے بغیر کوئی طریقہ یا راستہ اختیار کیا وہ حد سے گزرنے والوں سے ہوگا۔ اسلام دین فطرت ہے اس نے فطرت کا خیال رکھتے ہوئے ایک سے زائد نکاح کرنے کی اجازت دی ہے مگر اس بات سے منع کیا ہے کہ کوئی شخص بلاشرعی عذر غیر ازواجی زندگی بسر کرے۔ سرور دو عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دو ٹوک الفاظ میں فرمایا ہے کہ نکاح کرنا میری سنت ہے اور جس نے میری سنت سے اعراض کیا وہ مجھ سے نہیں (رواہ ابن ماجہ : باب مَا جَاءَ فِی فَضْلِ النِّکَاحِ) جو مرد اور عورت اس فرمان کے باوجود راہب یا تارک الدنیا ہوجاتے ہیں ان کا اسلام کے ساتھ کوئی واسطہ نہیں۔ جہاں تک لونڈی اور غلامی کا تعلق ہے اس بارے میں غیر مسلم لوگ نہایت ہی الزامی گفتگو اور منفی پراپیگنڈہ کرتے ہیں۔ جس کی کوئی حقیقت نہیں جو شخص آزاد مسلمان عورتوں سے نکاح کے اخراجات کی طاقت نہیں رکھتا وہ مسلمان لونڈیوں سے نکاح کرسکتا ہے لونڈی سے نکاح کے لیے اس کا حق مہر ادا کرنا ہوگا۔ اس لونڈی کا بھی فرض ہے کہ وہ محض شہوت رانی کے بجائے مستقل نکاح کی نیت رکھتے ہوئے پاک دامنی کے ارادے سے ازدواجی بندھن میں آئے اور کسی دوسرے مرد سے پوشیدہ دوستی رکھنے سے مکمل اجتناب کرے۔ (عن أَبی بُرْدَۃَ أَنَّہُ سَمِعَ أَبَاہُ عَنْ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ ثَلَاثَۃٌ یُؤْتَوْنَ أَجْرَہُمْ مَرَّتَیْنِ الرَّجُلُ تَکُونُ لَہُ الْأَمَۃُ فَیُعَلِّمُہَا فَیُحْسِنُ تَعْلِیمَہَا وَیُؤَدِّبُہَا فَیُحْسِنُ أَدَبَہَا ثُمَّ یُعْتِقُہَا فَیَتَزَوَّجُہَا فَلَہُ أَجْرَانِ وَمُؤْمِنُ أَہْلِ الْکِتَابِ الَّذِی کَانَ مُؤْمِنًا ثُمَّ اٰمَنَ بالنَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَلَہُ أَجْرَانِ وَالْعَبْدُ الَّذِی یُؤَدِّی حَقَّ اللّٰہِ وَیَنْصَحُ لِسَیِّدِہِ) [ رواہ البخاری : کتاب الجھاد و السیر، بَاب فَضْلِ مَنْ أَسْلَمَ مِنْ أَہْلِ الْکِتَابَیْنِ ] ” حضرت ابوبردہ (رض) نے اپنے والد گرامی سے نبی مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان سنا۔ سرکار دوعالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تین طرح کے افراد کو دوہرا اجر عنایت کیا جائے گا۔ ان میں ایک وہ ہے جس کے پاس لونڈی ہو اس نے اسے اچھی تعلیم دی اور اس کو ادب سکھایا پھر اس کو آزاد کرتے ہوئے اس سے نکاح کرلیا۔ دوسرایہود و نصاریٰ کا وہ شخص جو اپنے دین میں پکا تھا اور بعد ازاں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لے آیا اس کے لیے بھی دوہرا اجر ہے۔ تیسرا وہ شخص جو غلام ہے اللہ تعالیٰ کے حقوق ادا کرتے ہوئے اپنے مالک کے کام اور خدمت میں اس کی خیرخواہی کرتا ہے۔“ غلامی کو جزوی طور پر کیوں برقرار رکھا گیا۔ تفصیل جاننے کے لیے پانچویں پارے کی پہلی آیت کی تفسیر ملاحظہ فرمائیں۔ مسائل ١۔ اپنی بیوی سے جائز طریقے کے ساتھ مباشرت کرنا فطرت اور سنت ہے۔ ٢۔ لونڈی کے ساتھ مباشرت کرنے میں کوئی گناہ نہیں۔ تفسیر بالقرآن لونڈیوں اور غلاموں کے حقوق : ١۔ صدقات مفلسوں، محتاجوں، عاملین، تالیف قلب، غلاموں کی آزادی، قرض داروں، اللہ کی راہ اور مسافروں کے لیے ہیں۔ (التوبۃ: ٦٠) ٢۔ اگر تمہیں خدشہ ہو کہ تم چار بیویوں کے درمیان عدل نہیں کرسکو گے توایک بیوی یا ایک لونڈی ہی کافی ہے۔ ( النساء : ٤) ٣۔ تمہارے غلاموں اور لونڈیوں میں سے جو مکاتبت کرنا چاہتے ہیں تو ان سے مکاتبت کرو۔ (النور : ٣٣) ٤۔ اے ایمان والو! تمہارے غلام بھی تم سے اجازت لے کر گھروں میں داخل ہوں۔ ( النور : ٥٨) ٥۔ تم میں سے جو پاک دامن آزاد مؤمن عورتوں کے ساتھ نکاح نہ کرسکتا ہو تو اسے چاہیے کہ وہ لونڈی سے نکاح کرلے۔ (النساء : ٢٥) المؤمنون
7 المؤمنون
8 فہم القرآن ربط کلام : مومنوں کی پانچویں اور چھٹی صفت :۔ مومن جس طرح اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرتے ہیں اسی طرح ان میں یہ بھی اوصاف پائے جاتے ہیں کہ وہ امانت کی حفاظت اور عہد کی پاسداری کرتے ہیں۔ امانت سے مراد صرف سونا چاندی اور کرنسی کی حفاظت نہیں بلکہ اس سے مراد ہر قسم کی امانت ہے۔ بے شک وہ کسی منصب کے حوالے سے اس پر عائد ہونے والی ذمہ داری ہو۔ سرور دو عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے امانت کے تصور کو وسعت دیتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ باضابطہ مجالس میں ہونے والی گفتگو بھی امانت ہوتی ہے۔ (رواہ ابو داؤد : باب فِی نَقْلِ الْحَدِیثِ) جس طرح ہر قسم کی امانت کا خیال رکھنا فرض اور مومن کی صفت ہے اسی طرح جائز کاموں پر کیے گئے عہد کی ذمہ داری بھی پوری کرنی چاہیے۔ عہد سے پہلی مراد عقیدہ توحید کے حوالے سے کیا ہوا وہ عہد ہے جو ہر انسان نے عالم ارواح میں اپنے رب کے ساتھ کیا تھا (الاعراف : ١٧٢) اس میں وہ عہد وقیود بھی شامل ہیں جو ایک انسان دوسرے کے ساتھ اور ایک قوم دوسری قوم کے ساتھ کرتی ہے۔ لوگوں کے ساتھ کیے ہوئے عہد کی پاسداری کرنا۔ ناصرف آدمی کا ایمان اور اس کی صفت ہے اس کا آخرت میں اجر ملے گا بلکہ دنیا میں بھی اسے اچھی شہرت اور لوگوں کا اعتماد حاصل ہونے پر اسے سیاست، تجارت اور معاملات میں فائدہ پہنچتا ہے۔ (عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ (رض) قَالَ مَا خَطَبَنَا نَبِیُّ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) إِلَّا قَالَ لَا إِیمَانَ لِمَنْ لَا أَمَانَۃَ لَہٗ وَلَا دینَ لِمَنْ لَا عَہْدَ لَہٗ) [ رواہ احمد : مسند انس بن مالک ] ” حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جب بھی خطبہ دیا تو فرمایا جو بندہ امانت دار نہیں اس کا کوئی ایمان نہیں اور جو وعدہ پورا نہیں کرتا اس کا کوئی دین نہیں۔“ مسائل ١۔ مومن کی صفت اور اس کا فرض ہے کہ وہ امانت کی حفاظت کرے۔ ٢۔ مومن عہد کی حفاظت کرنے والا ہوتا ہے۔ تفسیر بالقرآن امانت اور عہد کے بارے میں احکام : ١۔ وعدہ پورا کرنے کا حکم۔ (المائدۃ: ١) ٢۔ قیامت کو عہد کی باز پرس ہوگی۔ (بنی اسرائیل : ٣٤) ٣۔ عہد پورا کرنے والے متقی ہیں۔ (البقرۃ: ١٧٧) ٤۔ عہد پورا کرنے والے عقل مند ہیں۔ (الرعد : ١٩، ٢٠) ٥۔ عہد پورا کرنے والوں کو اجر عظیم ملے گا۔ (الفتح : ١٠) ٦۔ عہد پورا کرنے والے جنتی ہیں۔ (المومنون : ١٠، ١١) المؤمنون
9 فہم القرآن ربط کلام : مومنوں کی ساتویں صفت اور ان اوصاف کے حامل حضرات کا آخرت میں صلہ :۔ یہاں مومنوں کی بیان ہونے والی صفات میں ساتویں صفت یہ ہے کہ وہ اپنی نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں۔ نماز کی حفاظت سے مراد پنجگانہ نماز کو اول وقت پر ادا کرنا اور نماز کے متعلقہ مسائل کا خیال رکھنا ہے اس میں طہارت سے لے کر نماز سے سلام پھیرنے تک کے مسائل شامل ہیں جن کا خلاصہ یہاں ذکر کیا جاتا ہے۔ جن لوگوں نے ان پر عمل کیا اور مذکورہ اوصاف کے ساتھ متصف ہونے کی کوشش کی ان کے لیے خوشخبری ہے کہ وہ جنت الفردوس کے مالک اور وارث ہوں گے جس میں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے یاد رہے کہ جنت کی سو منزلیں ہیں سب سے اعلیٰ اور آخری منزل جنت الفردوس ہے جس میں تمام جنّتوں سے بڑھ کر گل وگلزار اور انعام و اکرام ہوں گے۔ سروردو عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے کہ لوگو! جب اللہ سے جنت کا سوال کرو تو اس سے جنت الفردوس مانگا کرو۔ (عَنْ أَنَسُ بْنُ مَالِکٍ (رض) أَنَّ أُمَّ الرُّبَیِّعِ بِنْتَ الْبَرَاءِ وَہْیَ أُمُّ حَارِثَۃَ بْنِ سُرَاقَۃَ أَتَتِ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَقَالَتْ یَا نَبِیَّ اللَّہِ، أَلاَ تُحَدِّثُنِی عَنْ حَارِثَۃَ وَکَانَ قُتِلَ یَوْمَ بَدْرٍ أَصَابَہُ سَہْمٌ غَرْبٌ، فَإِنْ کَانَ فِی الْجَنَّۃِ، صَبَرْتُ، وَإِنْ کَانَ غَیْرَ ذَلِکَ اجْتَہَدْتُ عَلَیْہِ فِی الْبُکَاءِ قَالَ یَا أُمَّ حَارِثَۃَ، إِنَّہَا جِنَانٌ فِی الْجَنَّۃِ، وَإِنَّ ابْنَکِ أَصَابَ الْفِرْدَوْسَ الأَعْلَی) [ رواہ البخاری : باب مَنْ أَتَاہُ سَہْمٌ غَرْبٌ فَقَتَلَہُ ] ” حضرت انس بن مالک (رض) سے روایت ہے ام ربیع بنت براء (رض) جو حارثہ بن سراقہ کی والدہ ہیں وہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئی اس نے کہا اے اللہ کے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ مجھے حارثہ کے بارے میں کیوں نہیں بتلاتے جو جنگ بدر میں شہید ہوگیا۔ اسے نامعلوم شخض کا تیر لگا۔ وہ جنت میں ہے تو میں صبر کرتی ہوں اگر جہنم میں ہے تو میں بہت زیادہ رونے کی کوشش کروں گی، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اے امِّ حارثہ ! جنت کے بہت سے مراتب ہیں تیرا بیٹا فردوس الاعلیٰ میں پہنچ چکا ہے۔“ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَنْ اٰمَنَ باللّٰہِ وَبِرَسُوْلِہٖ وَأَقَام الصَّلٰوۃَ وَصَامَ رَمَضَانَ کَانَ حَقًّا عَلَی اللّٰہِ أَنْ یُّدْخِلَہُ الْجَنَّۃَ جَاھَدَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ أَوْجَلَسَ فِیْ أَرْضِہِ الَّتِیْ وُلِدَ فِیْھَا فَقَالُوْا یَارَسُوْلَ اللّٰہِ ! أَفَلَا نُبَشِّرُ النَّاسَ قَالَ : إِنَّ فِی الْجَنَّۃِ ماءَۃَ دَرَجَۃٍ أَعَدَّھَا اللّٰہُ لِلْمُجَاھِدِیْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ مَابَیْنَ الدَّرَجَتَیْنِ کَمَا بَیْنَ السَّمَآءِ وَالْأَرْضِ فَإِذَا سَأَلْتُمُ اللّٰہَ فَاسْأَلُوْہُ الْفِرْدَوْسَ فَإِنَّہٗ أَوْسَطُ الْجَنَّۃِ وَأَعْلَی الْجَنَّۃِ أُرَاہُ قَالَ وَ فَوْقَہٗ عَرْشُ الرَّحْمٰنِ وَمِنْہُ تَفَجَّرُ أَنْھَارُ الْجَنَّۃِ) [ رواہ البخاری : کتاب الجھاد والسیر] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جو اللہ و رسول پر ایمان لایا اس نے نماز قائم کی اور رمضان کے روزے رکھے۔ اسے جنت میں داخل کرنا اللہ پر حق ہے۔ اس نے اللہ کی راہ میں جہاد کیا ہو یا اپنی پیدائش کے علاقہ میں بیٹھا رہا۔ صحابہ نے عرض کیا اللہ کے رسول! کیا ہم لوگوں کو خوشخبری نہ دیں؟ آپ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے فی سبیل اللہ جہاد کرنے والوں کے لیے جنت میں سو درجات بنائے ہیں ہر دو درجے کا درمیانی فاصلہ زمین و آسمان کے درمیانی فاصلہ جتنا ہے۔ جب تم اللہ سے جنت کا سوال کرو تو جنت الفردوس مانگا کرو کیونکہ یہ جنت کا وسط اور اعلیٰ مقام ہے۔ راوی کہتے ہیں میرا خیال ہے آپ نے یہ بھی فرمایا کہ اس کے اوپررحمان کا عرش ہے اور وہاں سے جنت کی نہریں نکلتی ہیں۔“ مسائل ١۔ مومن ہر حوالے سے اپنی نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں۔ ٢۔ مومنوں کو جنت کا مالک اور وارث ٹھہرایا جائے گا۔ ٣۔ مومن جنت میں ہمیشہ رہیں گے۔ تفسیر بالقرآن جنت اور جنت الفردوس کی ایک جھلک : ١۔ نمازوں کی حفاظت کرنے والے جنت الفردوس میں ہوں گے۔ (المومنوں : ١٠۔ ١١) ٢۔ ایمان دار اور عمل صالح کرنے والوں کے لیے جنت الفردوس میں مہمانی کا اہتمام ہوگا۔ (الکھف : ١٠٧) ٣۔ صبر کرنے والوں کو جنت میں سلام کیا جائے گا۔ (الفرقان : ٧٥) ٤۔ جنت میں جنتی کو وہ کچھ حاصل ہوگا جس کا وہ خواہشمند ہوگا۔ ( الانبیاء : ١٠٢) المؤمنون
10 المؤمنون
11 المؤمنون
12 فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم (علیہ السلام) کو پیدا فرما کر جنت میں داخل فرمایا اس لیے جنت الفردوس کے ذکر کے بعد انسان کو اس کی تخلیقی مراحل سے آگاہ فرما کر اس کے حقیقی خالق کی پہچان کروائی گئی ہے۔ انسانِ اوّل یعنی حضرت آدم (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے مٹی سے پیدا کیا۔ مٹی کو مختلف مراحل سے گزار کر اس سے آدم (علیہ السلام) کا ڈھانچہ تیار کیا اس لیے جب حضرت آدم یا انسان کی تخلیق کا ذکر ہوتا ہے تو کبھی ایک مرحلہ سے اس کا آغاز کیا جاتا ہے اور کبھی دوسرے مرحلہ سے ابتداء کی جاتی ہے ایک جگہ فرمایا کہ انسان کو ہم نے کھڑکھڑاتی ہوئی مٹی سے پیدا کیا ہے۔ دوسرے موقعہ پر فرمایا ہم نے انسان کو بدبودار مٹی سے پیدا کیا۔ یہاں فرمایا کہ ہم نے انسان کو مٹی کے جوہر سے پیدا کیا۔ گویا کہ موقعہ کی مناسبت سے انسان کو اس کے تخلیقی مراحل سے آگاہ کرنے کے لیے مختلف مراحل کا ذکر کیا جاتا ہے تاکہ انسان اپنی تخلیق کو یاد کرکے اپنے مالک اور خالق کو پہچاننے کی کوشش کرے۔ یہاں انسان کا معنٰی عام انسان لیاجائے تو اس کا مفہوم یہ ہے کہ ہر انسان کی خوراک مٹی سے متعلقہ ہے اس لیے انسان کو اصلیت یاد کروائی جاتی ہے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حجۃ الوداع کے موقعہ پر اس بات کی اس طرح تشریح فرمائی۔ (عَن أَبِیْ مُوسَی الْأَشْعَرِیِ قَالَ قَالَ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) إِنَّ اللّٰہَ خَلَقَ آدَمَ مِنْ قَبْضَۃٍ قَبَضَہَا مِنْ جَمِیعِ الْأَرْضِ فَجَاءَ بَنُو آدَمَ عَلٰی قَدْرِ الْأَرْضِ جَاءَ مِنْہُمْ الْأَحْمَرُ وَالْأَبْیَضُ وَالْأَسْوَدُ وَبَیْنَ ذٰلِکَ وَالسَّہْلُ وَالْحَزْنُ وَالْخَبِیثُ وَالطَّیِّبُ) [ رواہ ابو داود : کتاب السنہ، باب فی القد ر] ” حضرت ابو موسیٰ اشعری (رض) بیان کرتے ہیں رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے آدم کو مٹی کی ایک مٹھی سے پیدا کیا۔ جو ساری زمین سے لی گئی لہٰذا آدم کی اولاد زمین کے مطابق ہے۔ ان میں سرخ، سفید، سیاہ اور ان میں درمیانی رنگت کے لوگ ہیں۔ کچھ سخت اور کچھ نرم طبیعت کے لوگ ہیں اسی طرح کچھ نیک اور کچھ بد ہیں۔“ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ أَنَّ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ قَدْ أَذْہَبَ اللَّہُ عَنْکُمْ عُبِّیَّۃَ الْجَاہِلِیَّۃِ وَفَخْرَہَا بالآبَاءِ مُؤْمِنٌ تَقِیٌّ وَفَاجِرٌ شَقِیٌّ وَالنَّاسُ بَنُو آدَمَ وَآدَمُ مِنْ تُرَابٍ) [ رواہ الترمذی : باب فی فضل الشام والیمن] ” حضرت ابوھریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ نے تم سے جاہلیت کے فخروغرور کو مٹا دیا ہے جو تم اپنے آباء کے نام سے کیا کرتے تھے۔ مومن پرہیزگار ہوتا ہے اور فاجر بدبخت ہوتا ہے۔ تمام لوگ آدم کی اولاد ہیں اور آدم مٹی سے تھے۔“ المؤمنون
13 فہم القرآن ربط کلام : آدم کی تخلیق کا دوسرا مرحلہ۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں آسمان اور ستارے کی قسم کھا کر انسان کو توجہ دلائی ہے کہ انسان کو اپنی تخلیق پر غور کرنا چاہیے کہ اسے کس طرح پیدا کیا گیا ہے۔ انسان اچھل کر نکلنے والے پانی کے قطرہ سے پیدا کیا گیا ہے یہ اچھل کر نکلنے والا قطرہ کہاں سے نکلتا ہے اس کی وضاحت فرمائی کہ یہ مرد کی پشت اور عورت کی چھاتی کی ہڈیوں سے نکلتا ہے پھر عورت کے رحم میں مخصوص جگہ پہنچ کر ایک مدت تک ٹھہرجاتا ہے۔ علم الجنین (embryology) کی رو سے یہ ثابت شدہ حقیقت ہے کہ جنین (Foetus) کے اندر انثیین (Testes) یعنی وہ غدود جن سے مادّۂ منویہ پیدا ہوتا ہے، ریڑھ کی ہڈی اور پسلیوں کے درمیان گردوں کے قریب ہوتے ہیں۔ جہاں سے بعد میں یہ آہستہ آہستہ فوطوں میں اتر جاتے ہیں۔ یہ عمل ولادت سے پہلے اور بعض اوقات اس کے کچھ بعد ہوتا ہے۔ لیکن پھر بھی ان کے اعصاب اور رگوں کا منبع ہمیشہ وہی مقام ( بَیْنَ الصُّلْبِ وَالتَّرَاءِبِ) ہی رہتا ہے۔ بلکہ ان کی شریان (Artery) پیٹھ کے قریب شہ رگ (Aorta) سے نکلتی ہے اور پورے پیٹ کا سفر طے کرتی ہوئی ان کو خون مہیا کرتی ہے۔ اس طرح حقیقت میں ” اُنثیین“ پیٹھ ہی کا جز ہیں جو جسم کا زیادہ درجۂ حرارت برداشت نہ کرنے کی وجہ سے فوطوں میں منتقل کردیے گئے ہیں۔ علاوہ بریں مادۂ منویہ اگرچہ ” انثیین“ پیدا کرتے ہیں اور وہ کیسۂ منویہ (Seminal vesicles) میں جمع ہوجاتا ہے مگر اس کے اخراج کا مرکز تحریک ( بَیْنَ الصُّلْبِ وَالتَّرَاءِبِ) ہی ہوتا ہے اور دماغ سے اعصابی رو جب اس مرکز کو پہنچتی ہے تب اس مرکز کی تحریک (Triger action) سے کیسۂ منویہ سکڑتا ہے اور اس سے ماء دافق پچکاری کی طرح نکلتا ہے۔ اس لیے قرآن کا بیان ٹھیک ٹھیک علم طب کی جدید تحقیقات کے مطابق ہے۔ (ماخوذ از تفہیم القرآن : تفسیر سورۃ طارق) المؤمنون
14 فہم القرآن ربط کلام : تخلیق انسانی کے مختلف مراحل کا ذکر جاری ہے۔ ” لوگو! گر تمہیں زندگی کے بعد موت کے بارے میں شک ہے تو تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ ہم نے تم کو مٹی سے پیدا کیا ہے پھر نطفے سے پھر خون کے لوتھڑے سے، پھر گوشت کی بوٹی سے۔ پھر تمہاری شکل وصورت بنائی ہم جس نطفے کو چاہتے ہیں ایک خاص وقت تک رحم میں ٹھہرائے رکھتے ہیں، پھر تم کو ایک بچے کی صورت میں نکال لاتے ہیں تاکہ تم اپنی جوانی کو پہنچو اور تم میں کسی کو پہلے ہی واپس بلالیا جاتا ہے اور کوئی ضعیف ترین عمر کی طرف پھیر دیا جاتا ہے تاکہ سب کچھ جاننے کے بعد پھر نہ جان سکے اور تم دیکھتے ہو۔ کہ زمین خشک ہوتی ہے ہم اس پر بارش برساتے ہیں۔ پھر یکایک وہ پھبک اٹھی اور پھول گئی پھر اس سے ہرقسم کی خوش منظر نباتات نکلتی ہیں۔ یہ سب کچھ اس لیے کیا جاتا ہے تاکہ تم جانو کہ اللہ ہی حق ہے اور وہ مردوں کو زندہ کرتا ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ قیامت کی گھڑی آکر رہے گی اس میں کسی شک کی گنجائش نہیں اور جو قبروں میں ہیں اللہ ضرور ان لوگوں کو اٹھائے گا۔ (الحج : ٥ تا ٧) مذکورہ بالا آیت کے آخر میں ” اَحْسَنُ الْخَالِقِیْنَ“ کا لفظ استعمال کیا ہے جس کا اکثر مفسرین نے معنٰی یہ کیا ہے کہ اللہ سب سے زیادہ خوبصورت بنانے والا ہے کیونکہ خالق کا معنٰی صرف پیدا کرنے والا نہیں بلکہ اس کا معنی بنانے والا بھی ہوتا ہے۔ اس کے بعد ارشاد فرمایا ہے کہ لوگو یقیناً تم اس زندگی کے بعد مرنے والے ہو۔ اور اللہ تعالیٰ تمہیں ہر صورت قیامت کے دن اٹھائے گا۔ انسانی تخلیق کے مراحل پر غور کیا جائے تو یہ حقیقت خود بخود عیاں ہوجاتی ہے کہ جس خالق نے باپ کی صلب اور ماں چھاتی کی ہڈیوں سے انسان کے تخم کو نکال کر پہلے جما ہوا خون بنایا پھر اسے گوشت کے لوتھڑے میں متشکل کیا اور اس کے بعد ہڈیاں بنائیں اور پھر انسان کا ڈھانچہ تیار کیا پھر چارمہینے کے بعد اس کے وجود میں روح پھونکی۔ روح پھونکنے سے پہلے انسان ہر مرحلہ میں بے جان تھا اگر بے جان ڈھانچے میں روح پھونک کر زندہ کیا جا سکتا ہے ؟ تو اسے دوبارہ زندہ کرنا کیونکر مشکل ہوگا۔ (عَنْ عَاءِشَۃَ (رض) قَالَتْ قَالَ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خُلِقَتِ الْمَلاَ ءِکَۃُ مِنْ نُورٍ وَخُلِقَ الْجَانُّ مِنْ مَارِجٍ مِنْ نَارٍ وَخُلِقَ آدَمُ مِمَّا وُصِفَ لَکُمْ) [ رواہ مسلم : باب فِی أَحَادِیثَ مُتَفَرِّقَۃٍ] ” حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ملائکہ کو نور سے پیدا کیا گیا ہے اور جنوں کو بھڑکتی ہوئی آگ سے اور آدم کو مٹی سے پیدا کیا گیا ہے۔“ (حَدَّثَنَا أَبُو مُوسَی الأَشْعَرِیُّ (رض) قَالَ قَالَ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) إِنَّ اللّٰہَ خَلَقَ آدَمَ مِنْ قَبْضَۃٍ قَبَضَہَا مِنْ جَمِیْعِ الأَرْضِ فَجَاءَ بَنُو آدَمَ عَلَی قَدْرِ الأَرْضِ جَاءَ مِنْہُمُ الأَحْمَرُ وَالأَبْیَضُ وَالأَسْوَدُ وَبَیْنَ ذَلِکَ وَالسَّہْلُ وَالْحَزْنُ وَالْخَبِیثُ وَالطَّیِّبُ) [ رواہ ابوداؤد : باب فِی الْقَدَرِ] ” حضرت ابو موسیٰ اشعری (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کو مٹی کی ایک مٹھی سے پیدا فرمایا۔ اسی لیے آدم کی اولاد زمین کی رنگت کے مطابق ہے بعض ان میں سے سرخ ہیں اور بعض سفید، اور بعض سیاہ ان میں کچھ آرام اور سکون سے زندگی بسر کرنے والے ہیں اور کچھ غم زدہ ہیں۔ کچھ برے اور کچھ نیک ہیں۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے مختلف مراحل سے گزار کر انسان کی تخلیق مکمل فرمائی۔ ٢۔ انسان کی تخلیق کے مختلف مراحل، موت کے بعد زندہ ہونے پر دلالت کرتے ہیں۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ بہتر سے بہتر پیدا کرنے والاہے۔ تفسیر بالقرآن انسانی تخلیق کے مختلف مراحل : ١۔ یقیناً ہم نے انسان کو کھنکھناتی ہوئی مٹی سے پیدا کیا۔ (الحجر : ٢٦) ٢۔ انسان کو اللہ نے مٹی سے پیدا کیا۔ (آل عمران : ٥٩) ٣۔ اللہ نے انسان کو مٹی کے جوہر سے پیدا کیا۔ (المومنون : ١٢) ٤۔ حوا کو آدم سے پیدا فرمایا۔ (النساء : ١) ٥۔ اللہ نے انسان کو مخلوط نطفہ سے پیدا کیا۔ (الدھر : ٢) ٦۔ اللہ نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا، پھر اسے نطفہ بنایا، پھر اس سے خون کا لوتھڑا، پھر اس سے بوٹی بنائی۔ (الحج : ٥) ٧۔ اللہ نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا، پھر نطفہ، پھر لوتھڑا بنا کر تمہیں پیدا کرتا ہے پہلے تم بچے ہوتے ہو۔ (المومن : ٦٧) المؤمنون
15 المؤمنون
16 المؤمنون
17 فہم القرآن ربط کلام : انسان کو دوبارہ زندہ ہونے پر اس لیے بھی یقین کرنا چاہیے کہ جس خالق نے اوپر، نیچے سات آسمان بنائے اور انہیں بغیر سہارے کے کھڑا کر رکھا ہے اس کے لیے انسان کو دوبارہ پیدا کرنا کیونکر مشکل ہوسکتا ہے؟ اللہ تعالیٰ نے سات آسمانوں کی تخلیق کا ذکر فرما کر اس بات کی وضاحت فرمائی ہے کہ ہم نے جو کچھ پیدا کیا ہے اس سے غافل نہیں ہیں اس فرمان میں آسمانوں کی بجائے ” طرائق“ کا لفظ استعمال کیا ہے جس کے بارے میں اہل علم نے تین آراء کا اظہار فرمایا ہے۔1 ” سبع طرائق“ کا معنٰی ہے اوپر نیچے سات آسمان 2” سبع طرائق“ سے مراد سات قرأتیں ہیں۔3” سبع طرائق“ سے مراد آسمان کے وہ دروازے ہیں جن کے ذریعے ملائکہ زمین پر آتے ہیں اور پھر آسمان پر چڑھتے ہیں۔ بہرحال ان سے مراد آسمان ہوں یا کوئی دوسری چیز اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ ناصرف اپنی مخلوق سے پوری طرح باخبر ہے بلکہ وہ اپنی مخلوقات کی ہر قسم کی ضروریات کو جانتا ہے اور کماحقہ ان کی ضروریات پوری کرنے والا ہے۔ بعض مفسرین نے غافلین کا معنٰی کیا ہے کہ اس نے آسمانوں اور کسی چیز کو بے مقصد پیدا نہیں کیا۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے اوپر، نیچے سات آسمان پیدا فرمائے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق اور اس کی ضروریات کو جانتا ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ نے کسی چیز کو بے مقصد پیدا نہیں کیا۔ تفسیر بالقرآن زمین و آسمان کی تخلیق کا مقصد اور اس کی مدّت : ١۔ اللہ تعالیٰ نے بغیر نمونے کے زمین و آسمان بنائے۔ (البقرۃ : ١١٧) ٢۔ اللہ تعالیٰ نے سات آسمان اور سات زمینیں بنائیں۔ (البقرۃ: ٢٩) ٣۔ اللہ تعالیٰ نے آسمان و زمین کو برابر کیا۔ (البقرۃ: ٢٩) ٤۔ اللہ تعالیٰ نے آسمان کو چھت اور زمین کو فرش بنایا۔ (البقرۃ : ٢٢) ٥۔ اللہ تعالیٰ نے زمین اور آسمانوں کو چھ دنوں میں بنایا۔ (الاعراف : ٥٤) المؤمنون
18 المؤمنون
19 المؤمنون
20 فہم القرآن ربط کلام : آسمانوں کی تخلیق کے بعد بارش کا تذکرہ اور اس کے فوائد :۔ اللہ تعالیٰ ہی آسمان سے اپنے اندازے کے مطابق بارش نازل کرتا ہے اور پھر پانی کو زمین میں ذخیرہ کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ چاہے تو اس بات پر قادر ہے کہ پانی کو خشک کردے۔ یا اسے زمین میں اتنا نیچے لے جائے کہ اسے حاصل کرنا انسان کے بس سے باہر ہو۔ پانی کے ساتھ باغات اور نباتات پیدا ہوتے ہیں جن کے پھل لوگ کھاتے ہیں۔ اسی نے طور سیناء کے علاقے میں زیتون کا درخت پیدا کیا جس سے تیل نکلتا ہے جسے لوگ سالن کے طور پر استعمال کرتے ہیں زمین میں پانی ذخیرہ کرنے کے بارے میں سائنسدانوں کی دو آراء ہیں 1 جب اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان کو بنایا تو اس وقت ہی پانی زمین میں ذخیرہ کردیا گیا۔ سائنسدانوں کے اندازہ کے مطابق دنیا میں تین حصہ پانی ہے اور ایک حصہ خشکی ہے، جس میں پہاڑ بھی شامل ہیں۔ ان کا کہنا ہے اسی پانی کے ذخیرہ سے ہی سمندر، دریا اور چشمے بہہ رہے ہیں۔ یہی پانی سورج کی تپش سے بخارات بن کر آسمان کی طرف اٹھتا ہے اور ایک مقام پر پہنچ کر برف کی شکل میں پہاڑوں پر جمتا رہتا ہے۔ اسی پانی کو بخارات کی شکل میں ہوا اٹھا کر مختلف علاقوں میں بارش کی صورت میں برساتی ہے، اور پھر سورج کی گرمی سے پگھل کر آبشاروں کی شکل میں نیچے آتا ہے جس سے دریا بہتے ہیں 2 پانی نازل کرنے کا یہ بھی معنٰی لیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ بادلوں سے یک دم پانی برسانے کی بجائے قطرات کی شکل میں نیچے برساتا ہے تاکہ اس پانی سے باغات کے پھل، زمین میں اگنے والی انگوری اور نازک نباتات نقصان سے محفوظ رہیں۔ اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو زمین میں پانی کو اس قدر گہرا کردے کہ اسے حاصل کرنا انسان کی طاقت سے باہر ہوجائے۔ جس کی مثالیں پوری دنیا کے مختلف علاقوں میں پائی جاتی ہیں۔ ان علاقوں میں نیچے سے پانی حاصل کرنا ناممکنات میں سے ہے یہی وجہ ہے کہ وہاں مختلف ذرائع کے ذریعے پانی پہنچایا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی قدرت کی نشانیوں میں پانی بھی اس کی عظیم قدرت کا مظہر ہے۔ پانی کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ لوگو ! کیا تم اس بات پر غور نہیں کرتے کہ اگر اللہ تمہارے پانی کو نیچے سے نیچے لے جائے تو کون ہے تم میں سے جو اس پانی کو حاصل کرسکے (سورۃ الملک : ٣٠) کھجور اور انگور کے ساتھ ایک ایسے درخت کا ذکر فرمایا ہے جو طور سیناء کی وادی میں پایا جاتا ہے۔ نباتات کے ماہرین نے اس سے مراد زیتون کا درخت لیا ہے اور زیتون کا تاریخی پس منظر کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اس کا اصلی وطن طورسیناء کا علاقہ ہے یہ درخت اس قدر طویل العمر ہوتا ہے۔ دوسے تین ہزار سال تک اپنی ہریالی قائم رکھتا ہے اس میں بعض درخت ایسے ہوتے ہیں جن کا تیل مکھن کی طرح سفید، گاڑھا اور لذیذ ہوتا ہے جسے لوگ سالن کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ زیتون، کھجور اور انگور کے بارے میں معلومات جاننے کے لیے (فہم القرآن، جلد نمبر ٢ صفحہ ٣٦٠) ملاحظہ فرمائیں! مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ ہی آسمان سے بارش نازل کرتا ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ آسمان سے اپنے اندازے کے مطابق پانی برسا تا ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ نے نباتات، حیوانات اور انسانوں کی ضرورت کے لیے پانی ذخیرہ کر رکھا ہے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ پانی کو زمین میں گہرا کرنے پر قادر ہے۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ ہی کھجور، انگور اور زیتون پیدا کرنے والا ہے۔ تفسیر بالقرآن قرآن مجید میں نباتات کا تذکرہ : ١۔ اللہ پانی سے تمہارے لیے کھیتی، زیتون، کھجور اور انگور اگاتا ہے۔ (النحل : ١١) ٢۔ اللہ نے کھجوروں اور انگوروں کے باغات پیدا کیے۔ (المومنون : ١٩) ٣۔ اللہ نے زمین میں کھجوروں اور انگوروں کے باغات پیدا کیے۔ (یٰس : ٣٤) ٤۔ اللہ نے پانی سے ہر قسم کی نباتات کو پیدا کیا۔ (الانعام : ٩٩) ٥۔ اللہ نے باغات، کھجور کے درخت اور کھیتی پیدا کی جوذائقہ کے لحاظ سے مختلف ہیں۔ (الانعام : ١٤١) المؤمنون
21 فہم القرآن ربط کلام : پانی اور نباتات سے چوپائے زندہ رہتے ہیں اور چوپاؤں میں اللہ تعالیٰ نے انسان کے لیے بڑے فائدے رکھے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے چوپاؤں کو اپنی قدرت کی نشانی بتلا کر اس سے سبق حاصل کرنے کی ترغیب دی ہے۔ چوپاؤں کی دس قسمیں ہیں۔ ان میں اونٹ، گائے، بھینس، بکری اور بھیڑ ایسے چوپائے ہیں جن سے انسان بہت سے فائدے حاصل کرتا ہے۔ ان کا دودھ پینے کے علاوہ مکھن، گھی، دہی اور بہت سی دوسری چیزیں بنانے کے کام آتا ہے۔ ان چوپاؤں کا گوشت کھایا جاتا ہے بکری اور بھیڑ کے سوا حلال چوپاؤں اور گدھے اور گھوڑے پر سواری کی جاتی ہے۔ جہاں تک ان چوپاؤں اور گھوڑوں کا تعلق ہے ان سے کھیتی باڑی اور سواری کا کام لیا جاتا ہے۔ اسی طرح چوپاؤں کی اون، بال، چمڑی اور ہڈیوں تک استعمال ہوتی ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ نامعلوم انسان ان سے اور کتنے فائدے اٹھائے گا جس کے لیے کثیر منافع کا لفظ استعمال فرما کر مزید منفعت حاصل کرنے کا اشارہ دیا ہے۔ چوپاؤں میں انسان کے لیے یہ بھی عبرت ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ انہیں انسان کے تابع نہ کرتا تو کس کی مجال ہے کہ وہ گھوڑے، اُونٹ اور ہاتھی جیسے طاقتور حیوان کو اپنے تابع کرلیتا۔ اس لیے ان پر سوار ہوتے وقت دعا سکھلائی گئی ہے [ الزخرف : ١٣۔ ١٤] مسائل ١۔ جانور چوپائے بھی اللہ تعالیٰ کی قدرت کا مظہر ہیں۔ ٣۔ چوپاؤں سے انسان بہت سے فوائد حاصل کرتا ہے۔ تفسیر بالقرآن قرآن مجید میں چوپاؤں کا ذکر : ١۔ اللہ نے چوپایوں کو انسانی ضروریات اور زیب زیبائش کے لیے پیدا فرمایا ہے۔ (النحل : ٥۔ ٦) ٢۔ قربانی کے ایام میں ان پر اللہ کا نام لیں چوپائے اللہ نے تمھیں عطا کیے ہیں پس تم ان میں سے کھاؤ اور محتاجوں کو بھی کھلاؤ۔ (الحج : ٢٨) ٣۔ تمہارے لیے چوپایوں میں بہت زیادہ فائدہ ہے اور انہیں تم کھاتے ہو۔ (المومنون : ٢١) المؤمنون
22 المؤمنون
23 فہم القرآن ربط کلام : انسان کو اس کی تخلیق اور قدرت کی بڑی بڑی نشانیاں بتلانے کے بعد ان سے سبق حاصل کرنے کی ترغیب دی گی ہے قدرت کی نشانیوں میں سب سے پہلا سبق یہ ہے کہ انسان اپنے رب کو سمجھے اور اس کی بندگی اختیار کرے۔ اللہ تعالیٰ کی بندگی کرنا ہی انسان کی تخلیق کا مقصد ہے اس لیے جتنے انبیائے کرام (علیہ السلام) مبعوث فرمائے گئے انہوں نے اپنی قوم کو پہلا سبق یہی دیا کہ انسان کو صرف ایک رب کی بندگی کرنی چاہیے اس کے سوا کسی کی بندگی کرنے کی اجازت نہیں۔ انبیائے کرام (علیہ السلام) میں سے یہاں حضرت نوح (علیہ السلام) کا اس لیے تذکرہ کیا ہے کہ یہ ایسے نبی اور رسول ہیں جنہوں نے سب سے زیادہ طویل عرصے تک دوسرے مسائل کے ساتھ ساتھ پہلا اور بنیادی مسئلہ یہ سمجھایا کہ اے میری قوم کے لوگو! صرف ایک اللہ کی عبادت کرو اس کے علاوہ کسی کی عبادت کرنا جائز نہیں کیا تم اللہ تعالیٰ کے سوا دوسروں کی عبادت کرنے سے باز نہیں آؤ گے؟ مسائل ١۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو صرف ایک رب کی عبارت کرنے کا حکم دیا۔ ٢۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو غیر اللہ کی عبادت کرنے سے منع کیا۔ ٣۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو غیر اللہ کی عبادت کرنے کے نقصانات سے ڈرایا۔ المؤمنون
24 فہم القرآن ربط کلام : حضرت نوح (علیہ السلام) کی دعوت کے جواب میں ان کی قوم کے سرداروں نے پانچ الزام لگائے۔ ١۔ یہ تمہارے جیسا بشر ہے ٢۔ یہ تم پر برتری یعنی اقتدار چاہتا ہے۔ ٣۔ اگر اللہ تعالیٰ نے نبی بھیجنا ہوتا تو کسی فرشتے کو نازل کرتا۔ لہٰذا یہ جھوٹا ہے ٤۔ ہم نے ایسی بات اور دعوت اپنے آباؤ اجد سے نہیں سنی۔ ٥۔ نوح پاگل ہوگیا ہے۔ اندازہ لگائیں کہ حضرت نوح (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو دعوت کیا دی تھی ؟ اور اس کے جواب میں قوم کے لیڈروں نے اپنی اپنی پارٹی اور ور کر کو قابو میں رکھنے کے لیے حضرت نوح (علیہ السلام) کے بارے میں کن باتوں کا پراپیگنڈہ کیا۔ لیڈروں نے حضرت نوح (علیہ السلام) کی دعوت کے اثرات سے خوفزدہ ہو کر قوم کو نوح (علیہ السلام) کے خلاف بھڑکا دیا۔ قوم کے لیڈروں کا اس لیے نام لیا گیا ہے کہ سب سے پہلے انہیں خدشہ ہوتا ہے کہ اگر قوم کا عقیدہ صحیح ہوگیا اور قوم اپنے رب کی بندگی میں لگ گئی تو ہماری لیڈری نہیں چل سکے گی۔ اس لیے سب سے پہلے لیڈروں نے مخالفت کی اور الزام لگایا کہ نوح (علیہ السلام) میں کوئی خاص خوبی نہیں ہے جس بناء پر اس کے پیچھے لگاجائے جس طرح یہ انسان ہے اس طرح تم بھی ایک انسان ہو۔ حالانکہ نوح (علیہ السلام) کردار اور جمال کے اعتبار سے اپنی قوم میں ممتاز اور منفرد انسان تھے۔ لیکن قوم حضرت نوح (علیہ السلام) اور اپنے لیڈروں کے درمیان فرق نہ کرسکی جس طرح مکہ کی غالب اکثریت ابوجہل اور سرور دوعالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے درمیان فرق کرنے میں ناکام رہی۔ قوم کے سرداروں نے دوسرا الزام یہ لگایا کہ نوح (علیہ السلام) دعوت توحید اور رب کی بندگی کے بہانے تم پر عزت اور اقتدار چاہتا ہے یہی الزام اہل مکہ نے سرور دو عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر لگایا تھا۔ تیسری بات قوم نے یہ کہی کہ نوح (علیہ السلام) خواہ مخواہ نبوت کا دعویٰ کر رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ کو اگر ہماری اصلاح مقصود ہوتی تو کسی فرشتے کو نازل کرتا۔ اسی بہانے ہی اہل مکہ نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کا انکار کیا۔ نوح (علیہ السلام) کی قوم نے چوتھی بات یہ کہی کہ یہ تو من گھڑت اور انوکھی بات ہے جس کا ثبوت یہ ہے کہ ہم نے آج تک اپنے بزرگوں سے ایسی بات نہیں سنی۔ یہی دلیل اہل مکہ نے سروردوعالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے پیش کی کہ جس بات کی آپ دعوت دیتے ہیں ہم نے ایسی بات اس سے پہلے آج تک نہیں سنی (ص : ٧) حضرت نوح (علیہ السلام) پر یہ الزام بھی لگایا گیا کہ یہ پاگل ہوگیا ہے۔ ایسا الزام ہی سروردوعالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر لگایا گیا (القلم : ٢) مسائل ١۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کی قوم نے حضرت نوح (علیہ السلام) کو اپنے جیسا انسان قرار دیا۔ ٢۔ نوح (علیہ السلام) پر قوم نے دعوت کے بدلے اقتدار حاصل کرنے کا الزام لگایا۔ ٣۔ نوح (علیہ السلام) کی قوم نے آباؤ اجداد کی تقلید اور رسم ورواج کو ترجیح دی۔ ٤۔ قوم نے حضرت نوح (علیہ السلام) پر پاگل ہونے کا الزام لگایا۔ تفسیر بالقرآن قوم کے حضرت نوح (علیہ السلام) پر الزامات : ١۔ قوم نے نوح کو گمراہ قرار دیا۔ (الاعراف : ٦٠) ٢۔ قوم نے الزام لگایا کہ نوح پاگل ہے۔ (المومنون : ٢٥) ٣۔ لیڈروں نے کہا کہ نوح تو ہم جیسا انسان ہے۔ (ہود : ٢٧) ٤۔ یہ ہم پر لیڈری چمکاتا ہے۔ (المومنون : ٢٤) ٥۔ ہم تو اس میں کوئی خوبی نہیں دیکھتے۔ (ہود : ٢٧) ٦۔ اس کے چاہنے والے گھٹیا لوگ ہیں۔ (ہود : ٢٧) ٧۔ اے نوح تجھے پتھر مار مار کر مار دیں گے۔ (الشعراء : ١١٦) ٨۔ قوم نے نوح سے اپنے چہرے چھپا لیے۔ (نوح : ٧) ٩۔ کفار نے حضرت نوح کے خلاف زبردست مکاریاں کیں۔ (نوح : ٧) ١٠۔ ہمارا تمہار جھگڑا طویل تر ہوگیا ہے نوح تو سچا ہے تو بس عذاب لے آ۔ (ہود : ٣٢) المؤمنون
25 المؤمنون
26 فہم القرآن ربط کلام : حضرت نوح (علیہ السلام) کو جب یقین ہوگیا کہ اس کی قوم نے اسے کلیتاً جھٹلا دیا ہے تب حضرت نوح (علیہ السلام) نے قوم کے مقابلے میں اپنے رب سے مدد طلب کی۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے ساڑھے نو سو سال اپنی قوم کو سمجھایا لیکن قوم نے سمجھنے کی بجائے حضرت نوح (علیہ السلام) پر مختلف قسم کے الزامات لگائے اور پتھر مار مار کر جان سے ختم کرنے کی دھمکی دی۔ ساتھ ہی یہ مطالبہ کیا کہ اگر تو واقعی اللہ کا پیغمبر ہے تو ہمیں عذاب سے تباہ وبرباد کر دے۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے اپنے رب سے یہ کہہ کر مدد طلب کی کہ اے میرے رب میں مغلوب ہوچکاہوں تو میری مدد فرما۔ اس صورت حال میں حضرت نوح (علیہ السلام) کی طرف وحی کی گئی اے نوح (علیہ السلام) آپ کی قوم میں سے جس نے ایمان لانا تھا وہ لا چکا اب تیری قوم میں سے کوئی ایمان نہیں لائے گا۔ لہٰذا اب ہماری ہدایت کے مطابق ہمارے سامنے ایک کشتی بناؤ جب ہمارا حکم آجائے اور تنور پھٹ پڑے تو ہر چیز کا جوڑا جوڑا کشتی پر سوار کرو۔ اس میں ان لوگوں کو سوار کرنا ہے جو اس سے پہلے ایمان لاچکے ہیں جن لوگوں نے عقیدہ توحید کا انکار اور آپ کی نافرمانی کرکے اپنے آپ پر ظلم کیا ہے ان کے بارے میں ہم سے درخواست نہ کرنا کیونکہ وہ غرق ہو کر رہیں گے۔ نوح (علیہ السلام) کو یہ بتلا دیا گیا کہ تیری بیوی بھی غرق ہونے والوں میں شامل ہوگی چنانچہ نوح (علیہ السلام) نے اپنے رب کی وحی کے مطابق ٹھیک ٹھیک اسی طرح کشتی تیار کی جس طرح انہیں کشتی بنانے کا حکم ہوا تھا۔ جب کشتی تیار ہوگئی تو بارش کا سلسلہ شروع ہوا جس کے بارے میں بتلا یا گیا ہے کہ جگہ جگہ زمین پھٹ پڑی اور آسمان کے دروازے کھول دیے گئے۔ اب نوح (علیہ السلام) کو حکم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہوئے آپ اور آپ کے ساتھی کشتی پر سوار ہوجائیں۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کی کشتی کی ساخت : حضرت نوح (علیہ السلام) نے جو کشتی بنائی تھی اس کا طول (٢٠٠) ہاتھ، عرض (٥٠) ہاتھ، بلندی (٣٠) ہاتھ تھی اور اس میں تین طبقے تھے یعنی یہ کشتی تین سٹوری تھی۔ (بحوالہ : رحمۃ للعالمین : مصنف قاضی سلیمان منصورپوری ) مسائل ١۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق کشتی تیار کی۔ ٢۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے کشتی میں ہر جاندار کا جوڑا جوڑا سوار کیا۔ ٣۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کو ظالموں کے حق میں سفارش کرنے سے روک دیا گیا۔ ٤۔ طوفان کا آغاز تنور سے ہوا۔ ٥۔ کشتی پر سواری کرتے وقت اللہ تعالیٰ کی دعا کرنی چاہیے۔ تفسیر بالقرآن طوفان نوح (علیہ السلام) کی کیفیت : ١۔ ہم نے کہا جب ہمارا حکم آ جائے اور تندور ابلنا شروع ہوجائے تو کشتی میں ہر جانور کا جوڑا جوڑا بٹھالینا اور انہیں بھی سوار کرلینا جو ایمان لائے ہیں۔ (ہود : ٤٠) ٢۔ کشتی انہیں پہاڑ جیسی موجوں کے درمیان لیے پھرتی تھی۔ (ہود : ٤٢) ٣۔ اللہ تعالیٰ نے نوح (علیہ السلام) کی قوم پر زور دار بارش کے دہانے کھول دیے۔ ( القمر : ١١) ٤۔ جگہ، جگہ زمین سے چشمے پھوٹ پڑے۔ ( القمر : ١٢) المؤمنون
27 المؤمنون
28 المؤمنون
29 فہم القرآن ربط کلام : حضرت نوح (علیہ السلام) کے متعلق سلسلہ کلام جاری ہے۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کو کشتی پر بیٹھنے اور اس سے اترنے کی دعا سکھلائی گئی چنانچہ حضرت نوح (علیہ السلام) کشتی پر بیٹھے ہوئے اللہ تعالیٰ کا شکریہ ادا کرنے کے ساتھ مسلسل دعا کرتے رہے ” اے میرے رب مجھے بابرکت انداز میں زمین پر اتارنا تو ہی بہتر انداز میں اتارنے والاہے“ اللہ تعالیٰ نے اس واقعہ پر تبصرہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے کہ نصیحت حاصل کرنے والوں کے لیے اس میں بہت سی نصیحت کے اسباق ہیں۔ یہ بھی فرمایا کہ ہم لوگوں کو آزماتے ہیں۔ ایمانداروں کو اللہ تعالیٰ عام طور پر مشکلات اور مصائب کے ذریعے آزماتا ہے اور ظالموں کو وسائل اور مہلت دے کر آزماتا ہے۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کو زمین پر اترنے کے لیے جو دعا سکھلائی گئی اس میں ” مُنَزَّلاً مُّبَارَکاً“ کے الفاظ آئے ہیں جن سے مراد خیروعافیت کیساتھ اترنا اور کسی کی بہتر انداز میں مہمان نوازی کرنا ہے۔ مؤرخین اور مفسرین نے لکھا ہے کہ یہ سیلاب چالیس دن تک رہا جس کی کیفیت یہ تھی کہ پانی سب سے بلند پہاڑ کی چوٹی سے بھی بیس فٹ اونچا بہتا رہا۔ علاقہ میں کوئی چیز زندہ نہ بچی گویا کہ زمین کو اچھی طرح شرک و کفر کی غلاظت سے دھودیا گیا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے حکم صادر فرمایا کہ : اے زمین پانی کو جذب کرلے اور آسمان کو حکم ہوا کہ تھم جاؤ اس طرح ظالم قوم کا صفایا ہوا۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کی کشتی جودی پہاڑ کی چوٹی پر لنگر انداز ہوئی۔ جودی پہاڑ کردستان کے علاقہ میں جزیرۂ ابن عمر کے شمال مشرقی جانب واقع ہے۔ بائبل میں اس کشتی کے ٹھہرنے کی جگہ ارا ط بتائی گئی ہے جو آرمینیا کے ایک پہاڑ کا نام ہے جو ایک سلسلہ کوہستان کا نام بھی ہے۔ سلسلہ کوہستان کے معنی میں جس کو اراراط کہتے ہیں وہ آرمینیا کی سطح مرتفع سے شروع ہو کر جنوب میں کردستان تک چلتا ہے اور جبل الجودی اسی سلسلے کا ایک پہاڑ ہے جو آج بھی جودی ہی کے نام سے مشہور ہے۔ قدیم تاریخوں میں کشتی کے ٹھہرنے کی یہی جگہ بتائی گئی ہے۔ چنانچہ حضرت مسیح سے ڈھائی سو برس پہلے بابل کے ایک مذہبی پیشوا بریاسس (Berasus) نے پرانی کلدانی روایات کی بنا پر اپنے ملک کی تاریخ لکھی ہے اس میں وہ کشتی نوح کے ٹھہرنے کا مقام جودی ہی بتاتا ہے۔ ارسطو کا شاگرد ابیڈینوس (Abydenus) بھی اپنی تاریخ میں اس کی تصدیق کرتا ہے۔ نیز وہ اپنے زمانہ کا حال بیان کرتا ہے کہ عراق میں بہت سے لوگوں کے پاس اس کشتی کے ٹکڑے محفوظ ہیں جنہیں وہ گھول گھول کر بیماروں کو پلاتے ہیں۔ یہ طوفان، جس کا ذکر یہاں کیا گیا ہے، عالمگیر طوفان تھا یا اس خاص علاقے میں آیا تھا جہاں حضرت نوح (علیہ السلام) کی قوم آباد تھی۔ یہ ایسا سوال ہے جس کا فیصلہ آج تک نہیں ہوا۔ اسرائیلی روایات کی بنا پر عام خیال یہی ہے کہ یہ طوفان تمام روئے زمین پر آیا تھا (پیدائش ٧: ١٨۔ ٢٤) مگر قرآن میں یہ بات نہیں کہی گئی۔ قرآن کے اشارات سے یہ ضرور معلوم ہوتا ہے کہ بعد کی انسانی نسلیں انہی لوگوں کی اولاد سے ہیں۔ جو طوفان نوح سے بچا لیے گئے تھے، لیکن اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ طوفان تمام روئے زمین پر آیا ہو، کیونکہ یہ بات اس طرح بھی صحیح ہو سکتی ہے کہ اس وقت تک بنی آدم کی آبادی اسی خطہ تک محدود ہو جہاں طوفان آیا تھا، اور طوفان کے بعد جو نسلیں پیدا ہوئی ہوں وہ بتدریج تمام دنیا میں پھیل گئی ہوں۔ اس نظریہ کی تائید دوچیزوں سے ہوتی ہے ایک یہ کہ دجلہ و فرات کی سرزمین میں تو ایک زبردست طوفان کا ثبوت نہیں ملتا جس سے کسی عالمگیر طوفان کا یقین کیا جا سکے۔ دوسری یہ کہ روئے زمین کی اکثر و بیشتر قوموں میں ایک طوفان عظیم کی روایات قدیم زمانے سے مشہور ہیں۔ حتی کہ آسٹریلیا، امریکہ اور نیو گنی جیسے دور دراز علاقوں کی پرانی روایات میں بھی اس کا ذکر ملتا ہے۔ اس سے یہ نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ کسی وقت ان سب قوموں کے آباء واجداد ایک ہی خطہ میں آباد ہوں گے جہاں یہ طوفان آیا تھا جب ان کی نسلیں زمین کے مختلف حصوں میں پھیلیں تو یہ روایات ان کے ساتھ پھیل گئیں۔ (تفہیم القرآن، ج : ٢) واللہ اعلم ! مسائل ١۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کو کشتی پر بیٹھنے اور اترنے کی دعا سکھلائی گئی۔ ٢۔ انبیاء کرام (علیہ السلام) کے واقعات میں نصیحت حاصل کرنے والوں کے لیے نصیحت کے اسباق ہیں۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ نیک اور برے لوگوں کو مختلف طریقوں سے آزماتا ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ کے آزمانے کے مختلف طریقے : ١۔ جنت میں داخلہ کے لیے آزمائش شرط ہے۔ (العنکبوت : ٢) ٢۔ پہلے لوگوں کو بھی آزمایا گیا۔ (العنکبوت : ٣) ٣۔ ڈر سے آزمائش۔ (البقرۃ: ١٥٥) ٤۔ فاقوں سے آزمائش۔ (البقرۃ: ١٥٥) ٥۔ مال و جان کی کمی کے ساتھ آزمائش۔ (البقرۃ: ١٥٥) ٦۔ اللہ نے موت وحیات کو انسان کے لیے آزمائش بنایا ہے۔ (الملک : ٢) ٧۔ اللہ نے انسانوں کی آزمائش کے لیے بعض کو بعض پر فوقیت دی۔ ( الانعام : ١٦٦) ٨۔ مال واولاد انسان کے لیے آزمائش ہے اللہ کے ہاں بہت بڑا اجر ہے۔ (التغابن : ١٥) المؤمنون
30 المؤمنون
31 فہم القرآن ربط کلام : قوم نوح کی بربادی کے بعد دوسری قوم کا تذکرہ اور کردار :۔ اللہ تعالیٰ نے نوح (علیہ السلام) کی قوم کو غرقاب کرنے کے بعدبچنے والے لوگوں کو بڑی افزائشسے سرفراز فرمایا جس کے نتیجہ میں ایک دفعہ پھر طوفان نوح کے علاقہ میں آبادی کی کثرت ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے ان میں ایک رسول بھیجا جس نے اپنی دعوت کا آغاز اسی بات سے کیا جس کی دعوت حضرت نوح (علیہ السلام) دیا کرتے تھے۔ اس پیغمبر نے لوگوں کو باربار یہ بات سمجھائی کہ اے لوگو! صرف ایک اللہ کی عبادت کرو اس کے علاوہ کسی کی عبادت کرنا جائز نہیں کیا تم اللہ تعالیٰ سے ڈر کر ایسا کرنے کے لیے تیار ہو؟ لیکن قوم نے اللہ تعالیٰ کو صرف ایک الٰہ ماننے سے انکار کیا۔ وقت کے پیغمبر نے انہیں بہت سمجھایا کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرنے سے باز آؤ اور صرف ایک اللہ کی کی عبادت کرو مگر قوم نے اپنے رسول کی بات ماننے سے انکار کردیا۔ پہلی آیت میں ” قَرْنَ“ کا لفظ استعمال ہوا ہے جس کے تین معنٰی لیے گئے ہیں 1 سو سال کا عرصہ 2 ایک نسل 3 کسی قوم کا ایک پورا دور۔ یہاں رسول کا نام نہیں بتلایا گیا لیکن مفسرین کا اندازہ ہے کہ اس سے مراد حضرت ھود علیہ السلامہیں۔ عقیدۂ توحید اور عبادت کی اہمیّت : (عَنْ مُعَاذٍ قَالَ کُنْتُ رِدْفَ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عَلَی حِمَارٍ یُقَالُ لَہُ عُفَیْرٌ، فَقَالَ یَا مُعَاذُ، ہَلْ تَدْرِی حَقَّ اللّٰہِ عَلَی عِبَادِہِ وَمَا حَقُّ الْعِبَادِ عَلَی اللّٰہِ قُلْتُ اللّٰہُ وَرَسُولُہُ أَعْلَمُ قَالَ فَإِنَّ حَقَّ اللّٰہِ عَلَی الْعِبَادِ أَنْ یَعْبُدُوہُ وَلاَ یُشْرِکُوا بِہِ شَیْءًا، وَحَقَّ الْعِبَادِ عَلَی اللّٰہِ أَنْ لاَ یُعَذِّبَ مَنْ لاَ یُشْرِکُ بِہِ شَیْءًا فَقُلْتُ یَا رَسُول اللّٰہِ، أَفَلاَ أُبَشِّرُ بِہِ النَّاسَ قَالَ لاَ تُبَشِّرْہُمْ فَیَتَّکِلُوا) [ رواہ البخاری : باب اسْمِ الْفَرَسِ وَالْحِمَارِ] ” حضرت معاذ فرماتے ہیں میں رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پیچھے گدھے پر سوار تھا۔ میرے اور آپ کے درمیان صرف پلان کی لکڑی تھی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا اے معاذ ! تجھے معلوم ہے کہ اللہ کا اپنے بندے پر کیا حق ہے اور بندوں کے اللہ تعالیٰ پر کیا حقوق ہیں؟ میں نے عرض کیا اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں۔ ارشاد ہوا بندوں پر اللہ کا حق یہ ہے کہ وہ اس کی عبادت کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں اور اللہ تعالیٰ پر بندوں کا حق یہ ہے جب تک وہ شرک نہیں کرتے وہ انہیں عذاب سے دوچار نہ کرے۔ میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ خوشی کی بات میں لوگوں تک نہ پہنچاؤں؟ فرمایا کہ نہیں اس طرح وہ محنت کرنا چھوڑ دیں گے۔“ (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ قَالَ سَأَلْتُ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) أَیُّ الذَّنْبِ أَعْظَمُ عِنْدَ اللَّہِ قَالَ أَنْ تَجْعَلَ لِلَّہِ نِدًّا وَّہْوَ خَلَقَکَ قُلْتُ إِنَّ ذٰلِکَ لَعَظِیْمٌ، قُلْتُ ثُمَّ أَیُّ قَالَ وَأَنْ تَقْتُلَ وَلَدَکَ تَخَافُ أَنْ یَّطْعَمَ مَعَکَ قُلْتُ ثُمَّ أَیُّ قَالَ أَنْ تُزَانِیَ حَلِیْلَۃَ جَارِکَ) [ رواہ البخاری : کتاب التفسیر باب قَوْلُہُ تَعَالَی (فَلاَ تَجْعَلُوا لِلَّہِ أَنْدَادًا وَّأَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ) ] ” حضرت عبداللہ (رض) بیان کرتے ہیں میں نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا کہ اللہ کے ہاں سب سے بڑا گناہ کونسا ہے آپ نے فرمایا تو اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرائے۔ میں نے کہا یہ تو بہت بڑا ہے۔ اس کے بعد کونسا ہے آپ نے فرمایا کہ تو اپنی اولاد کو اس ڈر سے قتل کردے کہ وہ تیرے ساتھ کھانا کھائے گی۔ میں نے عرض کی اس کے بعد کونسا گناہ ہے۔ آپ نے فرمایا کہ تو اپنے ہمسایہ کی بیوی سے بدکاری کرے۔“ مسائل ١۔ حضرت ھود علیہ السلامنے اپنی قوم کو اللہ تعالیٰ کی خالص بندگی کرنے کی تلقین کی۔ ٢۔ قوم ھودنے اللہ تعالیٰ کی خالص بندگی کرنے سے انکار کردیا۔ تفسیر بالقرآن تمام انبیائے کرام (علیہ السلام) نے صرف ایک اللہ کی عبادت کرنے کا حکم دیا : ١۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم کہ آپ فرما دیں کہ میں تو صرف ایک اللہ کی عبادت کرتا ہوں۔ (یونس : ١٠٤) ٢۔ اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بناؤ۔ (الرعد : ٣٦) ٣۔ اللہ کے علاوہ کسی کی عبادت نہ کرو۔ (ہود : ٢) ٤۔ اے لوگو اپنے پروردگار کی عبادت کرو۔ (البقرۃ: ٢١) ٥۔ اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو۔ (یوسف : ٤٠) ٦۔ اللہ کی عبادت کرو اور اس کے شریک نہ بناؤ (النساء : ٣٦) ٧۔ حضرت نوح، ہود، صالح اور شعیب (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو ایک اللہ کی عبادت کا حکم دیا۔ (ہود : ٢٥۔ ٥٠۔ ٦١۔ ٨٤) ٨۔ اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو۔ (بنی اسرائیل : ٢٣) المؤمنون
32 المؤمنون
33 فہم القرآن ربط کلام : حضرت ھود علیہ السلامکی قوم کا ردّ عمل : جس طرح حضرت نوح (علیہ السلام) کی قوم اور ان کے نمائندوں نے حضرت نوح (علیہ السلام) کی دعوت کو ٹھکرا یا اور ان پر الزامات لگائے یہی وطیرہ حضرت ھود علیہ السلامکی قوم کے لیڈروں نے ان کے ساتھ اختیار کیا۔ کیونکہ لیڈر حضرات دنیوی نفع ونقصان کے حوالے سے زیادہ شعور رکھتے ہیں اور وہی مفادات اٹھانے میں پیش پیش ہوتے ہیں اس لیے دعوت توحید کی مخالفت میں دنیا پرست مذہبی پیشوا اور لیڈر مخالفت میں سب سے آگے ہوتے ہیں۔ اور یہی لوگ انبیائے کرام (علیہ السلام) اور صالح قیادت سے لوگوں کو متنفر کرتے ہیں ان کی مخالفانہ تحریک کے پیچھے دو باتیں کار فرما ہوتی ہیں۔ آخرت کا انکار اور دنیا کے وسائل پر اترانا۔ اسی وجہ سے وہ انبیائے کرام (علیہ السلام) کو ایک انسان سے بڑھ کر کوئی حیثیت دینے کے لیے تیار نہیں تھے۔ اسی بناء پر حضرت ھود علیہ السلامکے بارے میں یہ بات کہی گئی کہ لوگو! اس شخص کے پیچھے نہ لگنا کیونکہ یہ تمہارے جیسا انسان ہے۔ جو تم کھاتے، پیتے ہو اس طرح ہی یہ کھانے پینے کا محتاج ہے۔ اگر تم اپنے جیسے انسان کے پیچھے لگ گئے تو بھاری نقصان پاؤگے۔ نقصان سے ان کی مراد یہ تھی کہ یہ شخص جس دین میں تمہیں لانا چاہتا ہے اس پر عمل کرنے سے تمہاری ترقی رک جائے گی اور تم دنیا کے معاملات میں دوسرے لوگوں سے پیچھے رہ جاؤ گے۔ گویا کہ قوم کو دنیا کی ترقی کا جھانسہ دے کر دین سے دور رکھا گیا اور یہی شروع سے دنیادار لیڈروں کا ہتھ کنڈا رہا ہے جہاں تک پیغمبر کے کھانے پینے کا تعلق اور انسان ہونے کا معاملہ ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ پیغمبر انسان ہوتا ہے اور اسے بھی بحیثیت انسان وہی حاجات در پیش ہوتی ہیں جن کی ہر انسان کو ضرورت ہوتی ہے۔ جہاں تک دنیا پر اترانے کا معاملہ ہے۔ قرآن مجید میں جن قوموں کی تباہی کا ذکر ہوا ہے ان میں اکثر اقوام دنیوی ترقی کے لحاظ سے بہت آگے تھیں یہ ترقی ہی ان کی تباہی کا پیش خیمہ ثابت ہوئی۔ (وَ کَمْ اَھْلَکْنَا مِنْ قَرْیَۃٍ بَطِرَتْ مَعِیْشَتَھَافَتِلْکَ مَسٰکِنُھُمْ لَمْ تُسْکَنْ مِّنْ بَعْدِھِمْ اِلَّا قَلِیْلًا وَ کُنَّا نَحْنُ الْوٰرِثِیْن) [ القصص : ٥٨] ” اور کتنی ہی ایسی بستیاں ہم تباہ کرچکے ہیں جن کے لوگ اپنی معیشت پر اتر آیا کرتے تھے سودیکھ لو وہ ان کے مسکن پڑے ہوئے ہیں جن میں ان کے بعد کم ہی کوئی بسا ہے آخر کار ہم ہی وارث ہیں۔“ (وَکَاَیِّنْ مِنْ قَرْیَۃٍ ہِیَ اَشَدُّ قُوَّۃً مِّنْ قَرْیَتِکَ الَّتِیْ اَخْرَجَتْکَ اَہْلَکْنَاہُمْ فَلاَ نَاصِرَ لَہُمْ) [ محمد : ١٣] ” اور کتنی ہی بستیاں تھیں جو آپ کی اس بستی سے بڑھ کر طاقتور تھیں، جن ( کے رہنے والوں) نے آپ کو نکال دیا ہے۔ ہم نے انہیں ہلاک کیا تو ان کا کوئی بھی مددگار نہ ہوا۔“ مسائل ١۔ ہر پیغمبر کی مخالفت سب سے پہلے دنیادار لیڈر ہی کرتے ہیں۔ ٢۔ سرمایہ دار طبقہ کی اکثریت دعوت حق کی مخالفت کیا کرتی ہے۔ ٣۔ دنیادار لیڈر دنیا کی ترقی کے حوالے سے قوم کو دین سے گمراہ کرتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن انبیائے کرام (علیہ السلام) انسان اور بشرہی ہوا کرتے تھے : ١۔ رسول انسان ہوتے ہیں۔ (ابراہیم : ١١) ٢۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بشر اور عبد ہیں۔ (الکہف : ١١٠) ٣۔ تمام رسولوں کو ان کی قوم میں انہی کی زبان میں بھیجا گیا۔ (ابراہیم : ٤) ٤۔ اللہ نے جتنے بھی رسول بھیجے وہ آدمی تھے۔ (یوسف : ١٠٩) ٥۔ اللہ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پہلے جتنے بھی نبی بھیجے وہ بشرہی تھے۔ (النحل : ٤٣) ٦۔ انبیاء اقرار کرتے تھے کہ ہم بشر ہیں۔ (ابراہیم : ١١) المؤمنون
34 المؤمنون
35 فہم القرآن ربط کلام : قیامت کو جھٹلانے والے لوگوں کی فرسودہ دلیل : قیامت کا انکار کرنے والے ہمیشہ سے یہ دلیل دیتے آئے ہیں کہ جب انسان کا جسم گل سڑ جائے گا تو پھر اسے کس طرح زندہ کیا جاسکتا ہے ؟ یہی بے ہودہ اور فرسودہ دلیل حضرت ھود علیہ السلامکی قوم اور اس کے سردار دیا کرتے تھے۔ لیڈر اپنی قوم کو پھسلانے اور ورغلانے کے لیے کہتے تھے کہ ھود (علیہ السلام) تمہیں مرنے کے بعد زندہ ہونے کا وعدہ دیتا ہے کہ جب تم مرکھپ جاؤ گے اور تمہاری ہڈیاں مٹی کے ساتھ مٹی بن جائیں گی۔ اس کے باوجود ” اللہ“ تمہیں زندہ کرے گا۔ ھودکی یہ بات عقل کے خلاف اور بعید از قیاس ہے۔ دنیا میں مرنا جینا تو رہتا ہے لیکن ہم دوبارہ کبھی نہیں اٹھائے جائیں گے۔ یہ شخص قیامت کا نام لے کر اللہ تعالیٰ پرجھوٹ بولتا ہے۔ اس لیے ہم اسے ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ انسان پر جب دنیا کی محبت غالب آجاتی ہے تو اس کا موت کے تصور سے ہی دل کانپتا ہے۔ اگر دل ایمان کی دولت سے خالی ہو تو کھلے بندوں قیامت کا انکار کرتا ہے۔ اس کا یہ خیال عقیدہ کی صورت اختیار کرلیتا ہے جس بنا پر وہ کہتا ہے کہ ہزاروں سال گزر چکے آج تک قیامت نہیں آئی اور نہ کسی نے دوبارہ زندہ ہو کر آخرت کے بارے میں کچھ بتلایا ہے۔ اس باطل عقیدہ کی وجہ سے لوگ اس قدر دلیر ہوئے کہ انہوں نے حضرت ھود علیہ السلامکو جھوٹا قرار دیا اور یہی عقیدہ اہل مکہ کا تھا۔ جن کے لیے سورۃ یسٓ میں یہ دلیل دی گئی ہے۔ ” انسان ہمارے بارے میں مثالیں بیان کرنے لگا اور اپنی پیدائش کو بھول گیا۔ کہنے لگا کہ جب ہڈیاں بوسیدہ ہو جائینگی تو ان کو کون زندہ کرے گا؟۔ فرمائیں کہ ان کو وہ زندہ کرے گا جس نے ان کو پہلی بار پیدا کیا تھا اور وہ ہر چیز کو پیدا کرنا جانتا ہے۔ وہی جس نے تمہارے لیے سبز درخت سے آگ پیدا کی۔ تم اس سے آگ نکالتے ہو۔ بھلا جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا کیا وہ اس بات پر قادر نہیں کہ ان کو پھر ویسے ہی پیدا کر دے۔ کیوں نہیں وہ تو بڑا پیدا کرنے والا اور ہر بات کا علم رکھنے والا ہے۔ اس کی شان یہ ہے کہ جب وہ کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے تو اس سے فرماتا ہے کہ ہوجا تو وہ چیز ہوجاتی ہے۔ وہ پاک ہے جس کے ہاتھ میں ہر چیزکی بادشاہت ہے اور اسی کی طرف تمہیں لوٹ کر جانا ہے۔ (یٰس : ٧٨ تا ٨٣) (قُلْ کُوْنُوْا حِجَارَۃً اَوْ حَدِیْدًا اَوْ خَلْقًا مِّمَّا یَکْبُرُ فِیْ صُدُوْرِکُمْ فَسَیَقُوْلُوْنَ مَنْ یُّعِیْدُنَا قُلِ الَّذِیْ فَطَرَکُمْ اَوَّلَ مَرَّۃٍ فَسَیُنْغِضُوْنَ اِلَیْکَ رُءُ وْسَھُمْ وَ یَقُوْلُوْنَ مَتٰی ھُوَ قُلْ عَسٰٓی اَنْ یَّکُوْنَ قَرِیْبًا) [ بنی اسرائیل : ٥٠۔ ٥١] ’ فرما دیں کہ تم پتھر بن جاؤ یا لوہا۔ یا کوئی ایسی مخلوق جو تمھارے دلوں میں بڑی ہے عنقریب وہ کہیں گے کون ہمیں لوٹائے گا ؟ فرما دیں جس نے تمھیں پہلی بار پیدا کیا۔ وہ آپ کے سامنے اپنے سر ہلائیں گے اور کہیں گے یہ کب ہوگا ؟ فرمادیں امید ہے عنقریب ہوگا۔“ مسائل ١۔ دنیادار لیڈر اور مذہبی پیشوا ہمیشہ سے قیامت کا انکار کرتے آرہے ہیں۔ تفسیر بالقرآن قیامت قائم ہونے کے ثبوت : ١۔ قیامت قریب ہے۔ (الحج : ١) ٢۔ قیامت اچانک آجائے گی۔ ( یوسف : ١٠٧) ٣۔ قیامت پل بھر میں واقع ہوجائے گی۔ ( النحل : ٧٧) ٤۔ اللہ کا وعدہ برحق ہے اور قیامت کے واقع ہونے میں کوئی شک نہیں۔ ( الکہف : ٢١) ٥۔ جس نے قیامت کو جھٹلایا ہم نے اس کے لیے دہکتی آگ تیار کر رکھی ہے۔ ( الفرقان : ١١) ٦۔ تمہارے لیے قیامت کا دن مقرر ہے۔ اس میں تقدیم وتاخیر نہیں ہوگی۔ ( سبا : ٣٠) المؤمنون
36 المؤمنون
37 المؤمنون
38 المؤمنون
39 فہم القرآن ربط کلام : قوم کے مظالم پر حضرت ھود علیہ السلامکی اپنے رب سے مدد طلب کرنا :۔ حضرت ھود علیہ السلامنے قوم کے مظالم سے تنگ آکر اپنے رب کے حضور یہ کہہ کر مدد کی درخواست کی کہ میرے رب مجھے میری قوم نے جھٹلا دیا ہے اس لیے میری مدد فرما۔ اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے حضرت ھود علیہ السلامکو تسلی دیتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ عنقریب تیری قوم کے لوگ پچھتائیں گے اور پھر یہی ہوا کہ ان کو ایک دھماکہ خیز چٹخارے نے آلیا۔ جس نے انہیں خس و خاشاک کی طرح ریزہ ریزہ کر ڈالا۔ اس طرح اس قوم پر اللہ کی پھٹکار ہوئی۔ یہ لوگجسمانی اعتبار سے دراز قامت، کڑیل جوان اور قوی ہیکل تھے۔ دنیا میں ان کا کوئی ثانی نہیں تھا۔ انھوں نے پہاڑتراش، تراش کر مضبوط اور خوبصورت محلات تعمیر کر رکھے تھے۔ ان کی سرزمین نہایت سر سبزتھی جس میں ہر قسم کے باغات آراستہ تھے۔ انھیں قرآن مجید میں ” احقاف والے“ کہا گیا ہے۔ احقاف ریت کے بڑے بڑے ٹیلوں کو بھی کہا جاتا ہے جو عرب کے جنوب مغربی حصہ میں واقع تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اسی علاقہ میں حضرت ھود (علیہ السلام) کو مبعوث فرمایا جو خوش اندام، کڑیل جوان اور بہترین صورت و سیرت کے حامل تھے۔ قوم عاد کی خصوصیات اور جرائم : ١۔ اللہ تعالیٰ نے قوم عاد کو قوم نوح کے بعد زمین پر اقتدار اور اختیار بخشا۔ (الاعراف : ٦٩) ٢۔ قوم عاد اس قدر کڑیل اور قوی ہیکل جوان تھے کہ ان جیسا دنیا میں کوئی اور پیدا نہیں کیا گیا۔ (الفجر ٦ تا ٨ ) ٣۔ انھیں افرادی قوت اور مویشیوں سے نوازا گیا۔ (الشعراء : ١٣٣) ٤۔ یہ قوم بڑے بڑے محلات میں رہتی تھی۔ زراعت اور باغات میں ان کا کوئی ثانی نہیں تھا۔ (الشعراء ١٢٩ تا ١٣٣) ٥۔ انھوں نے خود ساختہ معبود بنا رکھے تھے ان کے سامنے اپنی حاجات و مشکلات پیش کرتے تھے۔ (الاعراف : ٧٠) ٦۔ یہ لوگ آخرت کو جھٹلانے والے اور دنیا پر اترانے والے تھے۔ (المؤمنون : ٣٣) ٧۔ ان کا عقیدہ تھا کہ اس دنیا کے سوا کوئی اور جہاں برپا نہیں ہوگا۔ (المؤمنون : ٣٧) ٨۔ یہ اپنی قوت پر اترانے والے تھے۔ (حٰآالسجدۃ : ١٥) حضرت ہود (علیہ السلام) اور ان کی قوم کے بارے میں مزید معلومات جاننے کے لیے سورۃ الاعراف کی آیت ٦٥ تا ٧١ کی آیات کی تفسیر دیکھیں۔ مسائل ١۔ حضرت ھود علیہ السلامنے اپنے رب سے مدد طلب کی اللہ تعالیٰ نے ان کی مدد فرمائی۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے قوم ھود پر پھٹکار کی۔ ٣۔ قوم ھود کو ایک دھماکہ خیز چیخ نے خس و خاشاک کردیا۔ تفسیر بالقرآن قوم ھود پر عذاب کی کیفیت : ١۔ میرے رب میری مدد فرما انھوں نے مجھے کلی طور پر جھٹلا دیا ہے۔ (حضرت ہود)۔ (المومنون : ٣٩) ٢۔ سات راتیں اور آٹھ دن زبردست آندھی اور ہوا کے بگولے چلے۔ (الحاقۃ : ٧) ٣۔ گرج چمک اور بادو باراں کا طوفان آیا۔ (الاحقاف : ٢٤) ٤۔ آندھی نے انھیں کھجور کے تنوں کی طرح پٹخ پٹخ کر دے مارا۔ (الحاقۃ: ٧) ٥۔ انھیں ریزہ ریزہ کردیا گیا۔ (الذاریات : ٤٢) ٦۔ دنیا اور آخرت میں ان پر پھٹکار برستی رہے گی۔ (حٰم السجدۃ : ١٦) ٧۔ قوم ھود کو نیست و نابود کردیا گیا۔ (الاعراف : ٧٢) ٨۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت ھود اور ایمانداروں کو اس عذاب سے محفوظ رکھا۔ (ھود : ٥٨) المؤمنون
40 المؤمنون
41 المؤمنون
42 فہم القرآن ربط کلام : قوم ھود کے بعد دوسری قوم کا معرض وجود میں آنا اور پنپنا :۔ اللہ تعالیٰ نے قوم ھود کے بعد ایک مدّت تک لوگوں کو پنپنے کا موقعہ دیا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف پے درپے کئی رسول بھیجے لیکن جب بھی ان کے پاس رسول آیا تو انہوں نے اس کی تکذیب کی۔ اس طرح ایک قوم دوسری قوم کے پیچھے چلتی رہی پھر اس پر اللہ تعالیٰ کی پھٹکار ہوئی اور اس پر عذاب نازل ہوا ان کی یاد قصہ کہانیوں کے سوا کچھ نہ رہی۔ کیونکہ یہ اپنے رب پر ایمان لانے والے نہیں تھے۔ اللہ تعالیٰ کا یہ اصول ہے کہ اس نے ہر امت کے لیے ایک فیصلہ کر رکھا ہے جب فیصلے کا وقت آتا ہے تو وہ لوگ نہ اس وقت سے آگے نکل سکتے ہیں اور نہ پیچھے رہ سکتے ہیں ان کے لیے (وَجَعَلْنَاہُمْ اَحَادِیْثَ) قصہ کہانیوں کا لفظ استعمال کیا گیا ہے جس کا معنٰی یہ ہے کہ انہیں کوئی بھی اچھے الفاظ اور پائیدار کردار کے حوالے سے یاد رکھنے والا نہیں ہے۔ مسائل ١۔ بعض اقوام نے پے درپے انبیاء (علیہ السلام) کو جھٹلایا جس کی پاداش میں انہیں نسیاً منسیاً کردیا گیا۔ ٢۔ جس قوم پر اللہ کا عذاب نازل ہوا انہیں کوئی بھی اچھے الفاظ میں یاد نہیں کرتا۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ کی پکڑ کا ایک وقت مقرر ہے اس کے آنے پر کوئی فرد اور قوم آگے پیچھے نہیں ہو سکتی۔ المؤمنون
43 المؤمنون
44 المؤمنون
45 فہم القرآن ربط کلام : پے درپے انبیاء (علیہ السلام) مبعوث فرمانے کے بعد حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے بھائی کو بیک وقت رسول مبعوث کیا گیا : اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح (علیہ السلام) کے بعد مختلف اقوام کی طرف پے درپے انبیائے کرام (علیہ السلام) مبعوث فرمائے تاآنکہ حضرت موسیٰ جیسے جلیل القدر پیغمبر اور ان کے بھائی حضرت ہارون (علیہ السلام) کو بیک وقت عظیم معجزات اور ٹھوس دلائل کے ساتھ بھیجا گیا۔ جب دونوں بھائی فرعون اور اس کے وزیروں مشیروں کے پاس پہنچے تو انہیں اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے کی دعوت دی۔ مگر فرعون اور اس کے وزیروں اور مشیروں نے بڑے غرور اور تکبر کے ساتھ ان کی دعوت کو مسترد کردیا۔ جن کی سرشت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ وہ بڑے ہی سرکش اور متکبر لوگ تھے۔ جس طرح فرعون اپنے آپ کو ” اَنَا رَبُّکُمُ الْاَعْلٰی“ کہتا تھا اسی طرح ہی اس کے وزیر مشیر اپنے آپ کو دوسرے لوگوں سے اعلیٰ سمجھتے تھے۔ خاص طور پر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور آپ کی قوم کے بارے میں ان کی سوچ اور کردار یہ تھا کہ انہوں نے موسیٰ (علیہ السلام) کی قوم کو صدیوں سے غلام بنا رکھا تھا۔ اس لیے وہ سمجھتے تھے کہ غلام قوم کے نمائندوں پر ہم کیونکر ایمان لائیں اس بناء پر انہوں نے پراپیگنڈہ کیا کہ موسیٰ (علیہ السلام) اور ہارون (علیہ السلام) ہمارے جیسے انسان ہیں اور ان کی قوم ہماری غلام ہے۔ انہوں نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت ہارون (علیہ السلام) کو جھٹلایا اور ہلاک ہونے والوں میں شامل ہوئے۔ (وَعَنْہُ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لَا یَدْخُلُ الجَنَّۃَ مَنْ کَانَ فِیْ قَلْبِہٖ مِثْقَالُ ذَرَّۃٍ مِنْ کِبْرٍ فَقَالَ رَجُلٌ اِنَّ الرَّجُلَ یُحِبُّ اَنْ یَّکُوْنَ ثَوْبُہٗ حَسَنًا وَ نَعْلُہٗ حَسَنًا قَالَ اِنَّ اللّٰہَ تَعَالٰی جَمِیْلٌ یُّحِبُّ الجَمَالَ اَلْکِبْرُ بَطَرُ الْحَقِّ وَ غَمْطُ النَّاسِ)[ رواہ مسلم : باب تحریم الکبر وبیانہ] ” حضرت ابن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا‘ جس شخص کے دل میں ذرہ برابر تکبر ہوگا‘ وہ جنت میں نہیں جائے گا۔ ایک شخص نے کہا کہ بے شک ہر شخص یہ پسند کرتا ہے کہ اس کا لباس اور جوتے اچھے ہوں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بلاشبہ اللہ تعالیٰ نہایت ہی خوب صورت ہے اور خوب صورتی کو پسند کرتا ہے۔ تکبر حق بات کا انکار کرنا اور لوگوں کو حقیر جاننا ہے۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت ہارون (علیہ السلام) کو بڑے بڑے معجزات اور واضح دلائل دے کر بھیجا۔ ٢۔ فرعون اور اس کے وزیر مشیر اپنے آپ کو برا سمجھتے تھے۔ ٣۔ فرعون اور اس کے حواریوں کو حضرت موسیٰ اور ھارون ( علیہ السلام) کی تکذیب کرنے کی وجہ سے ہلاک کردیا گیا۔ تفسیر بالقرآن فرعون اور اس کے ساتھیوں کی ہلاکت کا ایک منظر : ١۔ فرعون اور اس کے لاؤلشکر کو اللہ تعالیٰ نے قحط سالی میں مبتلا کیا۔ (الاعراف : ١٣٠) ٢۔ اللہ تعالیٰ نے فرعون اور اس کے لاؤلشکر کو غر ق کردیا۔ ( البقرۃ: ٥٠) ٣۔ اللہ تعالیٰ نے آل فرعون کی گناہوں کی پاداش میں پکڑ فرمائی۔ (آل عمران : ١١) ٤۔ ہم نے انہیں انکے گناہوں کی وجہ سے ہلاک کردیا۔ ( الانفال : ٥٤) ٥۔ قیامت کے دن آ لِ فرعون کو برے عذاب سے دو چار کیا جائے گا۔ (المومن : ٤٥) ٦۔ آل فرعون کو سخت عذاب میں مبتلا کیا جائے گا۔ (المومن : ٤٦) ٧۔ آسمان و زمین میں کوئی ان پر رونے والا نہیں تھا اور نہ وہ مہلت دئیے گئے۔ (الدخان : ٢٩) ٨۔ ہم نے (قارون) کو خزانوں سمیت زمین میں دھنسا دیا اور اس کا کوئی حامی اسے نہ بچاسکا۔ (القصص : ٧٩) المؤمنون
46 المؤمنون
47 المؤمنون
48 المؤمنون
49 فہم القرآن ربط کلام : یہاں مختصر طور پر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کی شخصیات کا حوالہ دے کر اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنی قدرت کی نشانیاں قرار دیا گیا ہے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے ناصرف معجزات دے کر بھیجا بلکہ انہیں تورات بھی عنایت کی گئی۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو تورات اس لیے عنایت فرمائی تاکہ اپنی قوم کو ہر قسم کی تاریکیوں سے نکال کر تورات کی تعلیمات کے ذریعے یعنی نورہدایت کی طرف لائیں (ابراہیم : ٥) جس کی مختصر تشریح یہ ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے چالیس راتیں طور پر اعتکاف کرنے کے لیے بلایا اور پھر انہیں لکھی ہوئی تختیوں کی شکل میں تورات عنایت فرمائی اور حکم دیا اے موسیٰ (علیہ السلام) پوری قوت کے ساتھ تورات کے ساتھ وابستہ ہو جاؤاور اپنی قوم کو بھی حکم دو کہ وہ تورات کو مضبوطی کے ساتھ تھامے رکھیں یعنی وہ اس پر دل وجان سے عمل کریں۔ (الاعراف : ١٤٢، ١٤٥) اللہ تعالیٰ نے جس طرح موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کو دیے جانے والے معجزات کو اپنی نشانیاں اور کھلی دلیل قرار دیا ہے۔ اسی طرح ہی حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور اس کی والدہ کو اپنی قدرت کی نشانیاں قرار دیا ہے۔ حضرت عیسیٰ کی پیدائش کا تفصیلی تذکرہ سورۃ آل عمران میں گزر چکا ہے یہاں صرف چند الفاظ میں عیسیٰ کی پیدائش کی طرف اشارہ کیا ہے کہ جب حضرت مریم [ پر زچگی کا وقت آیا تو اللہ تعالیٰ نے انہیں القاء فرمایا کہ آپ مسجد اقصیٰ کے حجرہ سے نکل کر بلندجگہ پر پہنچ جائیں۔ وہاں آپ کو پینے کے لیے ٹھنڈے پانی کا چشمہ اور ہر قسم کا آرام میسر آئے گا یہاں اونچی جگہ اور جاری چشموں کا ذکر ہے سورۃ مریم میں کھجور کے درخت کا بھی ذکر کیا ہے۔ حضرت مریم [ کو یہ بھی حکم ہوا کہ ٹھنڈا پانی پینے کے ساتھ کھجور کے درخت کی تازہ کھجور بھی تناول کرو (مریم : ٢٦) حضرت مریم [ عیسٰی (علیہ السلام) کی تولیدگی کے وقت اونچی جگہ پر خلوت نشین ہوگئی تھیں۔ جب عیسیٰ (علیہ السلام) پیدا ہوئے تو کچھ دنوں کے بعد اپنی برادری میں واپس تشریف لائیں جس کی تفصیل سورۃ مریم آیت ١٩ تا ٣٤ میں ملاحظہ فرمائیں۔ ربوہ کا لفظی معنٰی ہے اونچی اور زرخیز جگہ۔ مرزائیوں نے اسی بناء پر اپنے صدر مقام کا نام ربوہ رکھا ہے تاکہ مرزا کے بارے میں لوگوں کو مسیح موعود ہونے کا مغالطہ دیاجائے۔ جھوٹ ثابت کرنے کے لیے انہوں نے کشمیر میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی قبر کا ثبوت بھی پیش کیا۔ حالانکہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی کشمیر میں تشریف آوری کسی مذہبی اور تاریخی کتاب سے ثابت نہیں۔ مسائل ١۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو تورات عنایت کی گئی تاکہ وہ اس کے ذریعے لوگوں کی رہنمائی کریں۔ ٢۔ حضرت مریم [ اور عیسیٰ (علیہ السلام) اللہ کی قدرت کی نشانی ہیں۔ ٣۔ زچگی کے وقت حضرت مریم [ کو بلند جگہ اور ٹھنڈے چشمے کے قریب جانے کا حکم ہوا۔ تفسیر بالقرآن حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو ملنے والے معجزات : ” حضرت عبداللہ بن عباس (رض) مجاھد، عکرمہ، شعبی اور قتادہ کے قول کے مطابق حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو عطا کی جانے والی نشانیاں یہ تھیں۔ ١۔ یدِبیضاء، ٢۔ عصا، ٣۔ قحط سالی، ٤۔ پھلوں کی کمی، ٥۔ طوفان، ٦۔ ٹڈی دل، ٧۔ جوئیں کھٹمل، ٨۔ مینڈک اور ٩۔ خون کے عذاب۔“ [ ابن کثیر] حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں حقائق : ١۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا بغیر باپ کے پیدا ہونا۔ (آل عمران : ٤٧) ٢۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا بچپن اور بڑھاپے میں کلام کرنا۔ (آل عمران : ٤٦) ٣۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا مٹی سے پرندہ بنانا۔ (المائدۃ: ١١٠) ٤۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا ماد رزاداندھے اور کوڑھی کو درست کرنا۔ (آل عمران : ٤٩) ٥۔ لوگوں کی ذخیرہ شدہ اشیاء کی خبردینا۔ (آل عمران : ٤٩) ٦۔ باذن اللہ مردوں کو زندہ کرنا۔ (المائدۃ: ١١٠) ٧۔ حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) نہ قتل کیے گئے نہ سولی پر لٹکا دے گئے بلکہ اللہ تعالیٰ نے انہیں اوپر اٹھا لیا۔ ( النساء : ١٥٧) ٨۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا روح اور جسم سمیت آسمانوں پر اٹھایا جانا۔ (آل عمران : ٥٥) المؤمنون
50 المؤمنون
51 فہم القرآن ربط کلام : پچھلی آیات میں حضرت نوح (علیہ السلام) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) حضرت ہارون (علیہ السلام) اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا تذکرہ ہوا اور کچھ انبیاء کرام (علیہ السلام) کا نام لیے بغیر ان کی امتوں کے کردار اور انجام کی طرف اشارات کیے گئے۔ ان سب کے لیے جو بنیادی احکام تھے ان کا خلاصہ ذکر کیا جاتا ہے اللہ تعالیٰ نے تمام انبیاء کرام (علیہ السلام) کو ایک جماعت ہونے کی بناء پر ایک ہی تعلیم دی تھی جس کا خلاصہ تین احکام میں ذکر کیا ہے 1 حلال اور طیب کھاؤ۔2 نیک اعمال کرتے رہے۔3 سب کا ایک ہی رب ہے اسی سے ڈرتے رہو۔ وہ تمہارے اعمال کو اچھی طرح جاننے والا ہے۔ یہاں اعمال کی قبولیت کے لیے تین شرائط ذکر کی گئی ہیں۔ پاک اور حلال رزق کا اہتمام کیا جائے جو شخص حلال اور طیب روزی کا خیال رکھتا ہے اسے اللہ تعالیٰ صالح اعمال کرنے کی توفیق بخشتا ہے۔ صالح اعمال اس وقت قبول ہوتے ہیں جب ایک رب پر ایمان لایا جائے اور اس سے ڈرتے ہوئے شرک و بدعت اور برے اعمال سے بچا جائے۔ (عَنْ اَبِی ہُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اِنَّ اللّٰہَ طَیِّبٌ لَا یَقْبَلُ اِلَّا طَیِّبًا وَاِنَّ اللّٰہَ اَمَرَ الْمُؤْمِنِیْنَ بِمَا اَمَرَبِہِ الْمُرْسَلِیْنَ فَقَالَ ” یَا اَیُّہَا الرُّسُلُ کُلُوْا مِنَ الطَّیِّبَاتِ وَاعْمَلُوا صالِحًا“ [ پ ١٨۔ رکوع ٣] وَقَالَ یَا اَیُّھَاالَّذِیْنَ آمَنُوْا کُلُوْا مِنْ طَیِّبَاتِ مَا رَزَقْنٰکُمْ ثُمَّ ذَکَرَ الرَّجُلَ یُطِیْلُ السَّفَرَ اَشْعَثَ اِغْبَرَ یَمُدُّیَدَیْہِ اِلٰی السَّمَاءِ یَارَبِّ وَمَطَعَمُہُ حَرَامٌ وَمَشْرَبُہُ حَرَامٌ وَمَلْبَسُہُ حَرَامٌ وَغُذِیَ بالحَرَامِ فَاَنّٰی یُسْتَجَابُ لِذٰلِکَ) [ رواہ مسلم : باب کسب الحلال والطیب وتربیتہا] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا‘ بے شک اللہ تعالیٰ پاک ہے اور پاک کے علاوہ کسی چیز کو قبول نہیں کرتا۔ اللہ تعالیٰ نے مومنین کو ان باتوں کا حکم دیا ہے جن باتوں کا اس نے اپنے رسولوں کو حکم دیا۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے۔ ” میرے رسولو! پاکیزہ چیزیں کھاؤ اور صالح عمل کرو۔“ اے ایمان والو! جو رزق ہم نے تمہیں عطا کیا ہے اس میں سے پاکیزہ چیزیں کھاؤ۔“ پھر آپ نے ایک ایسے شخص کا ذکر فرمایا جو لمبا سفر طے کرتا ہے پراگندہ بال ہے اپنے ہاتھوں کو آسمان کی طرف اٹھائے دعا کرتا ہے۔ یارب! یارب! جب کہ اس کا کھانا حرام، اس کا پینا حرام‘ اس کالباس حرام اور حرام غذا سے اس کی نشوونما ہوئی اس صورت میں اس کی دعا کیسے قبول ہوسکتی ہے؟۔“ آپ کے فرمان کا مقصد یہ ہے کہ حرام خور انسان دعا کی قبولیت کا استحقاق کھو بیٹھتا ہے۔ مسائل ١۔ انبیاء کرام (علیہ السلام) کو حلال اور طیب روزی کھانے کا حکم تھا۔ ٢۔ انبیاء کرام (علیہ السلام) کو صالح اعمال کرنے کا حکم دیا گیا۔ ٣۔ تمام انبیاء (علیہ السلام) ایک ہی جماعت اور ایک ہی دین کے داعی تھے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ ہر کسی کے عمل سے اچھی واقف ہے۔ تفسیر بالقرآن ہرحال میں اللہ تعالیٰ سے ڈرنا چاہیے : ١۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ خاص مجھ ہی سے ڈر و۔ (البقرۃ: ٤١) ٢۔ اللہ سے ڈر جاؤ اے عقل مندو۔ (الطلاق : ١٠) ٣۔ اللہ سے ڈر جاؤ اے عقل مند و تاکہ تم فلاح پاؤ۔ (المائدۃ: ١٠٠) ٤۔ اے ایمان والو اللہ سے ڈرو اور صاف گوئی اختیار کرو۔ (الاحزاب : ٧٠) ٥۔ اے لوگو اس اللہ سے ڈرو جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا فرمایا ہے۔ (النساء : ١) ٦۔ اے مومن بندو! اپنے پروردگار سے ڈرو۔ (الاحزاب : ٧٠) ٧۔ اگر تم مومن ہو تو اللہ سے ڈرو۔ (المائدۃ : ٥٧) ٨۔ مومن آپس میں بھائی بھائی ہیں ان میں صلح کروادو اور اللہ سے ڈرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔ (الحجرات : ١٠) ٩۔ اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو جس طرح ڈرنے کا حق ہے۔ (آل عمران : ١٠٢) ١٠۔ اس اللہ سے ڈرو جس کے سامنے تم اکٹھے کیے جاؤ گے۔ (المائدۃ: ٩٦) المؤمنون
52 المؤمنون
53 فہم القرآن ربط کلام : تمام انبیاء (علیہ السلام) کی ایک ہی دعوت تھی کہ اپنے رب کی نافرمانی سے بچو۔ تمام انبیاء ( علیہ السلام) رشتہ نبوت کے حوالے سے ایک دوسرے کے رشتہ دار تھے اور سب کے سب اپنے رب کی طرف بلانے والے تھے۔ ہر نبی اپنے زمانے میں لوگوں کو صرف اپنے رب کی طرف بلاتا تھا۔ لیکن انبیاء کرام کے دنیا سے تشریف لے جانے کے بعد ان کے علمی اور روحانی ورثاء نے ذاتی اور گروہی مفادات کی وجہ سے نہ صرف ان کی امتوں کو پارہ پارہ کیا بلکہ انہوں نے اپنے پیغمبر کے لائے ہوئے دین اور شریعت کو ٹکڑوں میں تقسیم کردیا۔ انبیاء کے بعد ان کی امتوں کے علماء کے فتوے ٰ اور ان کی فقہ ہی اصل دین قرار پائی۔ علماء نے اپنی اپنی سوچ اور فقہ کو دین قرار دیا اور اس کے ماننے والے اپنے اپنے گروہ اور فقہ پر فخر کرنے لگے جن کے بارے میں سروردوعالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ارشاد ہوا کہ آپ ان کو اسی حالت میں چھوڑ دیں تاآنکہ اللہ تعالیٰ کا فیصلہ آپہنچے۔ دوسرے مقام میں ارشاد فرمایا ہے کہ جنہوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کیا اور فرقوں میں تقسیم ہوگئے۔ اے نبی آپ کا ان کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ان کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے ہاں پیش ہوگا وہ انہیں بتلائے گا جو کچھ وہ کیا کرتے تھے۔ [ الانعام : ١٥٩] یاد رہے کہ دین میں فرقہ واریت اور گروہ بندی اس وقت پیدا ہوتی ہے جب کسی مسئلہ میں غلوّ کیا جائے یا اس میں اپنی طرف سے رخصت نکالی جائے۔ جب کسی عالم کی یہ سوچ اور کردار ہوجائے تو پھر فرقہ واریت معرض وجود میں آتی ہے۔ فرقہ واریت میں جو بات سب سے زیادہ نمایاں ہوتی ہے وہ کسی عالم یا امام کی سوچ پر حد سے زیادہ اعتماد اور اس پر فخر کرنا ہے۔ اسی بنیاد پر پہلی امتیں گروہ بندی کا شکار ہوئیں اور اسی وجہ سے امت محمدیہ میں انتشار اور گروہ بندی پائی جاتی ہے۔ ایسے لوگوں کو قرآن وسنت کی دعوت دی جائے۔ اسے تسلیم کرنا تو درکنار ایسے لوگ اپنی فقہ پرلڑنے مرنے کے لیے تیار ہوجاتے ہیں۔ ( عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ قَالَ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لَیَأْتِیَنَّ عَلٰی أُمَّتِی مَا أَتَی عَلٰی بَنِی إِسْرَاءِیلَ حَذْوَ النَّعْلِ بالنَّعْلِ حَتّٰی إِنْ کَانَ مِنْہُمْ مَنْ أَتٰی أُمَّہُ عَلَانِیَۃً لَکَانَ فِی أُمَّتِی مَنْ یَصْنَعُ ذَلِکَ وَإِنَّ بَنِی إِسْرَاءِیلَ تَفَرَّقَتْ عَلَی ثِنْتَیْنِ وَسَبْعِینَ مِلَّۃً وَتَفْتَرِقُ أُمَّتِی عَلٰی ثَلَاثٍ وَسَبْعِینَ مِلَّۃً کُلُّہُمْ فِی النَّارِ إِلَّا مِلَّۃً وَاحِدَۃً قَالُوا وَمَنْ ہِیَ یَا رَسُول اللَّہِ قَالَ مَا أَنَا عَلَیْہِ وَأَصْحَابِی) [ رواہ الترمذی : باب ماجاء فی افتراق ہذہ الامۃ] ” حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) بیان کرتے ہیں رسول مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میری امت میں ایسا وقت ضرور آئے گا کہ وہ بنی اسرائیل کے ساتھ بالکل اس طرح مل جائے گی جس طرح جو تا ایک دوسرے کے ساتھ ملا ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ اگر ان میں سے کسی نے اپنی ماں سے اعلانیہ زنا کیا ہوگا تو میری امت میں بھی ایسا ضرور ہوگا۔ بنی اسرائیل بہتر فرقوں میں تقسیم ہوئی جبکہ میری امت تہتر فرقوں میں بٹ جائے گی۔ ایک گروہ کے علاوہ سارے کے سارے جہنم میں جائیں گے۔ صحابہ نے استفسار کیا اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! وہ کون سا گروہ ہے ؟ آپ نے فرمایا جو میرے اور میرے صحابہ کرام (رض) کے طریقے پر عمل کرنے والا ہوگا۔ مسائل ١۔ لوگوں نے اپنے مفاد کی خاطر دین کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا۔ ٢۔ ہر کوئی اپنی فقہ اور گروہ پر فخر کرتا ہے۔ ٣۔ جو لوگ دین میں گروہ بندی کرتے ہیں انہیں چھوڑ دینا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن اختلاف اور فرقہ پرستی کے نقصانات : ١۔ دین پر قائم رہو جدا جدا نہ ہوجاؤ۔ (الشوریٰ: ١٣) ٢۔ کئی راستوں کی اتباع نہ کرنا وہ تمھیں سیدھے راستہ سے گمراہ کردیں گے۔ (آل عمران : ١٥٣) ٣۔ تم ان لوگوں کی طرح نہ ہوجانا جو جدا جدا ہوگئے اور انہوں نے آپس میں اختلاف کیا۔ (آل عمران : ١٠٥) ٤۔ اللہ کے دین کو مضبوطی سے پکڑ لو اور تفرقہ میں نہ پڑو۔ (آل عمران : ١٠٣) ٥۔ دین میں تفرقہ ڈالنے والوں کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے۔ (الانعام : ١٥٩) ٦۔ مشرکین سے نہ ہوجاؤ جنھوں نے اپنے دین کو جدا جدا کردیا اور کئی فرقے بن گئے۔ (الروم : ٣٢) المؤمنون
54 المؤمنون
55 فہم القرآن ربط کلام : دین کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے کا ایک سبب دنیوی مفاد ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مذہبی اور سیاسی راہنماؤں کا ملت کو تقسیم کرنے کا ایک مقصد مال کی ہوس بھی ہے۔ یہ مال امت کو تقسیم کرنے یا دین کو نقصان پہنچانے سے حاصل ہوا ہو۔ یا اللہ نے ان کی رسی دراز کر رکھی ہو۔ بہرحال قوموں کے سنوار اور بگاڑ میں مذہبی، سیاسی اور سماجی رہنماؤں کا بڑا عمل دخل ہوتا ہے۔ جب یہ لوگ راہ راست سے ہٹ جائیں تو دین کو اتحاد کی بجائے گروہ بندی، اخلاص کی بجائے آمدن کاذریعہ بنا لیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو مال اور اولاد میں بڑھائے دیتا ہے وہ اس غلط فہمی کا شکار ہوجاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہم پر خوش ہے جس کی وجہ سے ہمیں مال اور افرادی قوت سے نوازا جا رہا ہے ایسے لوگوں کو سوالیہ انداز میں متنبہ کیا گیا ہے کہ کیا وہ سمجھتے ہیں کہ جو انہیں مال اور اولاد سے نوازا گیا ہے یہ ان کے لیے بہتر ہے۔ ؟ ایسا ہرگز نہیں یہ مہلت اور اسباب خیر کے طور پر دیے جانے کی بجائے آزمائش کے طور پر دیے گئے ہیں جس کی حقیقت سے یہ بے خبر ہیں۔ قرآن مجید نے دوسرے مقام پر اس بات کو یوں بیان کیا ہے کفار یہ گمان نہ کریں انہیں جو ہم مہلت دیتے ہیں وہ ان کے لیے بہتر ہے ہم انہیں اس لیے مہلت دیے ہوئے ہیں تاکہ وہ اور زیادہ سے زیادہ گناہ کرلیں ان کے لیے ذلیل کردینے والا عذاب ہے۔ (آل عمران : ١٧٨) ” جو لوگ ناکردہ نیکیوں کی تعریف چاہتے ہیں ان کے بارے میں یہ خیال نہ کرنا کہ وہ عذاب سے بچ جائینگے ہرگز نہیں انہیں درد ناک عذاب ہوگا۔“ (آل عمران : ١٨٨) مسائل ١۔ کفار کے لیے مال اور اولاد گناہ میں اضافے کا سبب بنتے ہیں۔ ٢۔ بعض لوگوں کو مال و دولت خیر کی بجائے برے انجام کے لیے دیا جاتا ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ کے نافرمان حقیقی شعور سے تہی دامن ہوتے ہیں۔ المؤمنون
56 المؤمنون
57 فہم القرآن ربط کلام : آخرت سے غافل لوگوں کے مقابلے میں فکر آخرت رکھنے والے لوگوں کے اوصاف۔ اس جہان رنگ و بو میں کردار کے اعتبار سے دو قسم کے انسان ہوا کرتے ہیں ایک وہ ہیں جو اپنے رب سے بے خوف ہو کر زندگی گزارتے ہیں دوسرے وہ ہیں جو قدم قدم پر سوچتے ہیں اور ہر وقت اپنے رب سے لرزاں وترساں رہتے ہیں کیونکہ ان کا اپنے رب کی ذات اور اس کے ارشادات پر پوری طرح ایمان ہوتا ہے اور وہ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں بناتے۔ جب وہ صدقہ وخیرات کرتے ہیں تو ان کے دل فخرو غرور اور نمودونمائش سے بچتے اور ڈرتے ہیں۔ کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ ہم نے ہر صورت اپنے رب کے حضور پیش ہو کر اپنے اعمال کا جواب دینا ہے یہی لوگ ہیں جو نیکی کے کاموں میں سبقت کرنے والے ہیں۔ یہاں خشیت الٰہی اور ایمان کا ذکر کرنے کے بعد نیک لوگوں کی یہ صفت بیان کی ہے کہ وہ اپنے رب کے ساتھ کسی کو شریک نہیں بناتے کیونکہ شرک کے پیچھے غیر اللہ پر بھروسہ کرنے کا عقیدہ کارفرما ہوتا ہے اس وجہ سے مشرک کو جس طرح اپنے رب سے ڈرنا اور اس پر ایمان لانا چاہیے۔ نہ وہ اپنے رب پر پوری طرح ایمان رکھتا ہے اور نہ ہی اس کے دل میں کما حقہ خوف خدا ہوتا ہے جب یہ باتیں مفقود ہوجائیں تو انسان رضائے الٰہی کی خاطر نیکی کے کاموں میں مستعد نہیں رہتا۔ کیونکہ اپنے رب سے بے خوفی کی وجہ سے اس کا دل نیکی میں رغبت نہیں پاتا۔ ایسا آدمی جب کچھ خرچ کرتا ہے تو عام طور پر اس کے دل میں فخر وغرور ہوتا ہے۔ خشیت الٰہی کا عظیم فائدہ : (عَنْ أَبِیْ سَعِیْدٍ عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) أَنَّ رَجُلاً کَانَ قَبْلَکُمْ رَغَسَہُ اللّٰہُ مَالاً فَقَالَ لِبَنِیْہِ لَمَّا حُضِرَ أَیَّ أَبٍ کُنْتُ لَکُمْ قَالُوا خَیْرَ أَبٍ قَالَ فَإِنِّیْ لَمْ أَعْمَلْ خَیْرًا قَطُّ، فَإِذَا مُتُّ فَأَحْرِقُوْنِیْ ثُمَّ اسْحَقُوْنِیْ ثُمَّ ذَرُّونِیْ فِیْ یَوْمٍ عَاصِفٍ فَفَعَلُوْا، فَجَمَعَہُ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ، فَقَالَ مَا حَمَلَکَ قَالَ مَخَافَتُکَ فَتَلَقَّاہُ بِرَحْمَتِہٖ ) [ رواہ البخاری : کتاب أحادیث الأنبیاء ] ” حضرت ابو سعید (رض) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں کہ تم سے پہلے ایک آدمی کو اللہ تعالیٰ نے مال کی فراوانی عطا کی تھی۔ جب اس کا آخری وقت آیا تو اس نے اپنے بیٹوں سے کہا کہ میں تمہارے لیے کیسا باپ ہوں ؟ انہوں نے کہا بہترین! اس نے کہا کہ میں نے کبھی نیک عمل نہیں کیا۔ جب میں مر جاؤں تو مجھے جلا کر میری راکھ ہواؤں میں اڑا دینا انہوں نے ایسا ہی کیا۔ اللہ تعالیٰ نے اسے دوبارہ زندہ کر کے دریافت فرمایا کہ تجھے ایسا کرنے پر کس بات نے ابھاراتھا؟ وہ کہنے لگا آپ کے ڈر نے ! اللہ تعالیٰ نے اسے اپنی رحمت میں لے لیا۔“ مسائل ١۔ اللہ کے نیک بندے ہمیشہ اپنے رب سے لرزاں وترساں رہتے ہیں۔ ٢۔ نیک لوگ اپنے رب پر دل کی سچائی اور عمل کی گواہی کے ساتھ ایمان لاتے ہیں۔ ٣۔ نیک لوگ اپنے رب کے ساتھ کسی حوالے سے شرک نہیں کرتے۔ ٤۔ صدقہ وخیرات کرتے وقت نیک لوگوں کے دل لرزاں رہتے ہیں۔ ٥۔ نیک لوگ نیکی کے کاموں میں ایک دوسرے سے سبقت کرنے والے ہوتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن نیکی کے کاموں میں سبقت کرنا چاہیے : ١۔ اللہ کی مغفرت اور جنت کی کوشش میں سبقت کرو۔ (الحدید : ٢١) ٢۔ نیکی کے حصول میں سبقت کرو۔ (البقرۃ: ١٤٨) ٣۔ نیکیوں میں سبقت کرنے والے سب سے اعلیٰ ہوں گے۔ (فاطر : ٣٢) ٤۔ سبقت کرنے والے اللہ کے مقرب ہوں گے۔ (الواقعہ : ١٠، ١١) المؤمنون
58 المؤمنون
59 المؤمنون
60 المؤمنون
61 المؤمنون
62 فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ نے نیکی کے کاموں میں سبقت کرنے کی ترغیب اور حکم دیا ہے لیکن کسی پر اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالا۔ اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو نیکی کے کاموں میں ایک دوسرے سے سبقت کرنے کا حکم دیا ہے ایک دوسرے سے سبقت کرنے میں مشقت کا پہلو محسوس ہوتا ہے۔ اس لیے ضروری سمجھا گیا ہے کہ مومنوں کو اس بات کی تسلی دی جائے کہ نیکی کے کاموں میں ایک دوسرے سے سبقت کرنا ہے مگر اپنے آپ پر اتنا بوجھ نہیں ڈالنا جس میں آدمی حد سے زیادہ تکلیف محسوس کرے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے دین کے کسی کام میں انسان کی طاقت سے بڑھ کر تکلیف اور بوجھ نہیں رکھا۔ انسان معمول کے مطابق نیکی کرے یا دوسرے سے سبقت حاصل کرنے کی کوشش کرے وہ جس نیت اور انداز سے نیکی کرتا ہے اس کا ہر عمل اللہ تعالیٰ کے ہاں لکھا جاتا ہے جسے شریعت کی زبان میں انسان کا اعمال نامہ کہا جاتا ہے۔ اعمال نامے کے بارے میں بتلایا ہے کہ وہ قیامت کے دن حق کے مطابق بولے گا اور کسی پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔ اعمال نامے کا بولنا ایک محاورہ بھی ہے جسے ہر زبان میں یوں ادا کیا جاتا ہے۔ مجرم کاریکارڈ اس کے سامنے رکھ کر کہا جاتا ہے کہ اپنا اعمال نامہ پڑھ اس کا ایک ایک لفظ تیری کرتوتوں کی گواہی دے رہا ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ حقیقتاً دوسری شہادتوں کے ساتھ انسان کے اعمال نامہ کو گویائی کی قوت دی جائے اور اس کا ایک ایک لفظ بول کر انسان کے اچھے اور برے اعمال کے بارے میں گواہی دے۔ اگر آج ٹیپ ریکارڈر اور ڈیجیٹل قرآن کے ذریعے الفاظ بولتے ہیں تو قیامت کے دن اعمال نامہ کیوں نہیں بول سکتا؟ انسانی اعضا بھی بول کر گواہی دیں گے۔ (حَتّٰی اِِذَا مَا جَاءُ وْہَا شَہِدَ عَلَیْہِمْ سَمْعُہُمْ وَاَبْصَارُہُمْ وَجُلُوْدُہُمْ بِمَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ) [ حٰم السجدۃ: ٢٠] ” یہاں تک کہ وہ اس تک پہنچ ہی جائیں گے تو ان کے کان اور ان کی آنکھیں اور ان کے جسم ان کے خلاف پر ان کے اعمال کی گواہی دیں گے۔“ (عَنْ عَاءِشَۃَ (رض) أَنَّ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دَخَلَ عَلَیْہَا وَعِنْدَہَا امْرَأَۃٌ قَالَ مَنْ ہَذِہِ قَالَتْ فُلاَنَۃُ تَذْکُرُ مِنْ صَلاَتِہَا قَالَ مَہْ، عَلَیْکُمْ بِمَا تُطِیقُونَ، فَوَاللَّہِ لاَ یَمَلُّ اللَّہُ حَتَّی تَمَلُّوا وَکَانَ أَحَبَّ الدِّینِ إِلَیْہِ مَا دَامَ عَلَیْہِ صَاحِبُہُ) [ باب أَحَبُّ الدِّینِ إِلَی اللَّہِ أَدْوَمُہُ] ” حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کے ہاں تشریف لائے اس وقت میرے پاس ایک عورت بیٹھی ہوئی تھی آپ نے پوچھا یہ کون ہے حضرت عائشہ (رض) کہنے لگی یہ وہی عورت ہے جس کے کثرت نماز کے تذکرہ ہوتا ہے آپ نے فرمایا بہت اچھا مگر تم پر اتنی عبادت لازم ہے جس قدر تم طاقت رکھتی ہو۔ اللہ کی قسم ! اللہ تعالیٰ اجر دیتے ہوئے نہیں تھکتے تم اعمال کرتے کرتے تھک جاؤ گے۔ اللہ کے ہاں وہی عمل محبوب ہے جس پر عمل کرنے والا اس پر ہمیشگی اختیار کرے۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ کسی انسان کی طاقت سے بڑھ کر بوجھ نہیں ڈالتا۔ ٢۔ قیامت کے دن انسان کا اعمال نامہ بول بول کر گواہی دے گا۔ ٣۔ قیامت کے دن کسی پر کوئی زیادتی نہیں ہونے پائے گی۔ تفسیر بالقرآن دین میں تکلّف نہیں ہے : ١۔ دین میں جبر نہیں۔ (البقرۃ: ٢٥٦) ٢۔ اللہ تعالیٰ کسی کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا۔ (البقرۃ: ٢٨٦) ٣۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو لوگوں پر داروغہ نہیں بنایا گیا۔ (بنی اسرائیل : ٥٤) ٤۔ نبی کسی کو ہدایت کے لیے مجبور نہیں کرسکتا۔ (القصص : ٥٦) ٥۔ نبی کسی پر نگران نہیں ہوتا۔ (النساء : ٨٠) ٦۔ کیا آپ لوگوں کو مجبور کرتے ہیں کہ وہ ایمان لے آئیں۔ ( یونس : ٩٩) ٧۔ اے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ کے ذمے صرف پیغام پہنچانا ہے منوانا نہیں۔ ( النحل : ٨٢) ٨۔ رسول کا کام اللہ تعالیٰ کا پیغام لوگوں تک پہنچانا ہے۔ ( العنکبوت : ١٨) المؤمنون
63 فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ کے بندوں کے دل ہر وقت اپنے رب اور قیامت کے خوف سے لرزاں رہتے ہیں ان کے مقابلے میں مشرک اور متکبر لوگوں کے دل غفلت کا شکار ہوتے ہیں۔ انسان کے دل سے اپنے رب کا خوف اور آخرت کی جواب دہی کا تصور ختم ہوجائے تو وہ غفلت کا شکار ہوجاتا ہے۔ غفلت کا شکار شخص نیک کاموں میں دلچسپی نہیں لیتا۔ غفلت کا بنیادی سبب دنیا کی عیش وعشرت اور مال کی ہوس ہوتی ہے اس لیے اللہ تعالیٰ کے خوف سے عاری اور فکر آخرت سے لا پرواہ طبقہ معاشرے میں ترقی اور فیشن کے نام پر ہر قسم کی برائی پھیلانے کا موجب بنتا ہے۔ اکثر اوقات یہ طبقہ اس وقت تک ہوش کے ناخن نہیں لیتا جب تک ان پر عذاب نہیں آتا یا کسی سخت مصیبت میں مبتلا نہیں ہوتا۔ جب اللہ تعالیٰ کا عذاب آتا ہے یا یہ لوگ کسی سخت مصیبت میں مبتلا ہوتے ہیں تو پھر آہ وزاری اور چیخ وپکار کرتے ہیں۔ اس وقت زبان حال انہیں پکار پکار کر کہتی ہے۔ اب چیخو، چلاّؤ لیکن اللہ تعالیٰ تمہاری مدد نہیں کرئے گا اور یہی صورت حال ان کی موت کے وقت ہوتی ہے یہ دل ہی دل میں آہ و زاری کر رہے ہوتے ہیں تو موت کے فرشتے انہیں جھڑکیاں دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ آج جس طرح چاہو آہ وزاریاں کرو تمہاری مدد نہیں کی جائے گی۔ یہاں لوگوں کی غفلت کو ان کے اعمال نہ کرنے کی وجہ قرار دیا گیا۔ غفلت کرنے والوں میں سب سے پیش پیش ہمیشہ مال دار طبقہ ہوا کرتا ہے کیونکہ عوام میں انہی کے ذریعے عیاشی اور فحاشی اور شریعت سے دوری پیدا ہوتی ہے۔ عذاب تو سب پر آتا ہے لیکن مال دار طبقہ کو احساس دلانے کے لیے ارشاد ہوا ہے کہ ہم ان کے سرمایہ داروں کو پکڑتے ہیں۔ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ إِنَّ الْعَبْدَ إِذَا أَخْطَأَ خَطِیْءَۃً نُکِتَتْ فِیْ قَلْبِہٖ نُکْتَۃٌ سَوْدَآءُ فَإِذَا ھُوَ نَزَعَ وَاسْتَغْفَرَ وَتَابَ سُقِلَ قَلْبُہٗ وَإِنْ عَادَ زِیْدَ فِیْھَا حَتّٰی تَعْلُوَ قَلْبَہٗ وَھُوَ الرَّانُ الَّذِیْ ذَکَرَ اللّٰہُ (کَلَّا بَلْ رَانَ عَلٰی قُلُوْبِھِمْ مَّاکَانُوْا یَکْسِبُوْنَ) [ رواہ الترمذی : کتاب تفسیر القرآن ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : جب بندہ کوئی غلطی کرتا ہے تو اس کے دل پرسیاہ نکتہ پڑجاتا ہے جب وہ گناہ چھوڑ تا اور توبہ و استغفار کرتا ہے تو اس کا دل پالش ہوجاتا ہے۔ اگر وہ دوبارہ گناہ کی طرف پلٹے تو سیاہی اس کے دل پر چڑھ جاتی ہے یہی وہ زنگ ہے جس کا تذکرہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں کیا ہے کہ (ہرگز نہیں بلکہ ان کے دلوں پر ان کے گناہوں کی وجہ سے زنگ چڑھ چکا ہے۔) “ مسائل ١۔ غافل لوگ اکثر برے کام کرتے ہیں۔ ٢۔ مال دار طبقہ کی اکثریت غفلت کی زندگی گزارتا ہے۔ ٣۔ اللہ کا عذاب نازل ہوجائے تو پھر انسان کی آہ وزاری کام نہیں آتی۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ کی گرفت کے وقت کوئی مدد کارگر ثابت نہیں ہوتا۔ تفسیر بالقرآن عذاب کے وقت کوئی مددگار نہیں ہوتا : ١۔ بے شک وہ لوگ جنہوں نے ہماری آیات کی تکفیر کی ان کے لیے شدید عذاب ہے۔ ( آل عمران : ٤) ٢۔ عذاب کے وقت کوئی کسی کو پناہ نہیں دے سکے گا۔ ( الملک : ٢٨) ٣۔ کفار کے چمڑے جب جل جائیں گے تو ہم انہیں عذاب کا مزہ چکھانے کے لیے انکے چمڑے تبدیل کردیں گے۔ (النساء : ٥٦) ٤۔ جہنم میں ہمیشہ رہیں گے، وہ خیر خواہ اور مددگار نہیں پائیں گے۔ (الاحزاب : ٦٥) ٥۔ منافق جہنم کے نچلے گڑھے میں ہوں گے اور ان کا کوئی مددگار نہیں ہوگا۔ (النساء : ١٤٥) ٦۔ اس دن کافر لوگ جان لیں گے جب ان کے چہروں اور پشتوں سے آگ ہٹانے والا کوئی نہیں ہوگا اور نہ وہ مدد کیے جائیں گے۔ (الانبیاء : ٣٩) ٧۔ ان کا ٹھکانہ جہنم ہے اور ظالموں کا کوئی مددگار نہیں ہوگا۔ (المائدۃ: ٧٢) ٨۔ کافروں کے چہروں پر ذلت و رسوائی چھا جائے گی انہیں اللہ کے عذاب سے بچانے والا کوئی نہیں ہوگا۔ (یونس : ٢٧) المؤمنون
64 المؤمنون
65 المؤمنون
66 فہم القرآن ربط کلام : جہنم میں داخل کیے جانے والے مجرموں کے جرائم۔ جہنم میں داخل کیے جانے والے لوگ چلائیں اور چیخ وپکار کریں گے لیکن ان کی کوئی مدد کرنے والا نہیں ہوگا۔ کیونکہ دنیا میں جب ان لوگوں کے سامنے اللہ تعالیٰ کے فرامین پڑھے جاتے تھے تو یہ تکبر کی وجہ سے الٹے منہ پھرجاتے تھے اور اللہ تعالیٰ کی آیات کو داستان گوئی اور بے ہودگی کے انداز میں لیتے تھے ” سامراً“ کا معنٰی ہے کہ ” رات کے وقت سوتے ہوئے قصہ کہانیاں اور داستان گوئی کرنا“ گویا کہ منکرین حق اللہ تعالیٰ کے ارشادات اور فرامین کو قصے کہانیوں سے بڑھ کر اہمیت نہیں دیتے۔ تکبر اور یاواگوئی کی بنیاد پر اللہ تعالیٰ کے ارشادات سے اعراض کرتے ہیں۔ (عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَیْبٍ عَنْ أَبِیْہِ عَنْ جَدِّہٖ عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ یُحْشَرُ الْمُتَکَبِّرُوْنَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ أَمْثَال الذَّرِّ فِیْ صُوَرِ الرِّجَالِ یَغْشَاھُمُ الذُّلُّ مِنْ کُلِّ مَکَانٍ فَیُسَاقُوْنَ إِلٰی سِجْنٍ فِیْ جَھَنَّمَ یُسَمّٰی بُوْلَسَ تَعْلُوْھُمْ نَارُ الْأَنْیَارِ یُسْقَوْنَ مِنْ عُصَارَۃِ أَھْلِ النَّارِ طِیْنَۃَ الْخَبَالِ) [ رواہ الترمذی : کتاب صفۃ القیامۃ والرقائق والورع، باب منہ ] ” حضرت عمرو بن شعیب اپنے باپ سے وہ اپنے دادا (رض) سے وہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : قیامت کے دن متکبر لوگ چیونٹیوں کی صورت میں لائے جائیں گے انہیں ہر طرف سے ذلت ڈھانپے ہوئے ہوگی اور انہیں بولس نامی جہنم کی جیل میں لے جایا جائے گا ان پر آگ کے شعلے بلند ہورہے ہوں گے اور انہیں جہنمیوں کی زخموں کی پیپ پلائی جائے گی۔“ مسائل ١۔ مجرم لوگ اللہ تعالیٰ کی آیات سے تکبر کی وجہ سے منہ پھیر لیتے ہیں۔ ٢۔ مجرم لوگ اللہ تعالیٰ کی آیات کو بے ہودہ اور داستان گوئی کے انداز میں لیتے ہیں۔ المؤمنون
67 فہم القرآن ربط کلام : جہنم میں داخل کیے جانے والوں کے دیگر جرائم۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید اس لیے نازل فرمایا ہے تاکہ لوگ اس کی آیات پر غور کریں اور تباہ ہونے والی اقوام کے انجام سے ڈریں۔ لیکن جہنم میں داخل کیے جانے والوں کا یہ جرم ہوگا کہ وہ قرآن مجید کی آیات پر غور اور اپنے سے پہلی اقوام کے انجام سے عبرت نہیں سیکھتے تھے یہاں سوالیہ انداز میں ان سے چند استفسار کیے گئے ہیں کیا یہ لوگ قرآن مجید کو غور کے قابل نہیں سمجھتے یا جس بات پر تعجب کر رہے ہیں یہ دعوت ان کے آباؤ اجداد کو نہیں پہنچی یا پھر اپنے رسول کو نہیں پہنچانتے ظاہر بات ہے کہ ان باتوں میں ان کی کوئی بات بھی سچ نہ تھی۔ اگر یہ قرآن مجید پر غور کرتے تو ہدایت پاتے کیونکہ اس طرح کی دعوت پہلے انبیاء (علیہ السلام) کے ذریعے ان کے باپ دادا کو بھی پہنچی تھی۔ جس رسول سے انہوں نے بے اعتنائی کی وہ تو ایک جانی پہچانی مسلمہ شخصیت تھی اور ہیں عرب کے لوگ نبوت سے پہلے ہی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دیانت وامانت، شرافت و نجابت، کردار اور اخلاق کے قائل تھے۔ اس کے باوجود کہتے ہیں کہ اسے جنون ہوگیا ہے حالانکہ وہ جانتے ہیں کہ آپ میں جنون کا کوئی شائبہ نہیں پایا جاتا بلکہ اعلان نبوت سے پہلے وہ آپ کی دانشمندی کا برملا اعتراف کرتے تھے۔ اب ان کے الزامات صرف اس لیے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کے پاس حق بات لائے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود انہوں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت کو ٹھکرایا اور جہنم کا ایندھن بنے۔ جہاں تک سرور دو عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کے بعد جو لوگ دنیا میں آئے اور آئیں گے ان کے سامنے بھی اہل حق نے سروردو عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شخصیت، کردار اور دعوت کو اس طرح کھول کر پیش کیا اور کرتے رہیں گے کہ جس میں شک کرنے کی کوئی گنجائش باقی نہ تھی اور نہ ہوگی لیکن پھر بھی مجرموں نے حق کو ٹھکرایا جس کے سبب وہ جہنم کا ایندھن بنتے ہیں۔ مسائل ١۔ قرآن مجید پر غور کرنا چاہیے۔ ٢۔ پہلے لوگوں کے پاس بھی اسی طرح کی دعوت پہنچی تھی۔ ٣۔ سروردو عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات اور دعوت کا انکار کرنے والے ہر دور میں آپ کو اچھی طرح جانتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن لوگوں کی اکثریت جاہل ہوتی ہے ١۔ اگر ہم منکرین کے سامنے ہر چیزکو اکٹھا کردیتے تب بھی وہ ایمان نہ لاتے کیونکہ اکثر ان میں جاہل ہیں۔ (الانعام : ١١١) ٢۔ کیا زمین و آسمان کی تخلیق مشکل ہے یا انسان کی پیدائش مگر اکثر لوگ جاہل ہیں۔ (الفاطر : ٥٧) ٣۔ یہ دین صاف اور سیدھا ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔ (یوسف : ٤٠) ٤۔ اللہ اپنے امر پر غالب ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔ (یوسف : ٢١) ٥۔ اللہ اپنے وعدہ کی خلاف ورزی نہیں کرتا لیکن اکثر لوگ جاہل ہیں۔ (الروم : ٦) ٦۔ وہ اللہ تعالیٰ پر جھوٹ بولتے ہیں اور ان کی اکثریت بے عقل ہے۔ (المائدۃ: ١٠٣) ٧۔ قیامت کا اللہ ہی کو علم ہے لیکن لوگوں کی اکثریت بے علم ہے۔ (الاعراف : ١٨٧) ٨۔ اللہ کے احسان کو پہچانتے ہیں پھر اس کا انکار کرتے ہیں اور ان میں سے بیشتر لوگ ایسے ہیں جو حق کو نہیں مانتے۔ (النحل : ٨٣) المؤمنون
68 المؤمنون
69 المؤمنون
70 المؤمنون
71 فہم القرآن ربط کلام : حقائق جاننے کے باوجود لوگ اس لیے ایمان لاتے نہیں کہ یہ حق کو اپنی خواہشات کے تابع کرنا چاہتے ہیں۔ حق کے منکر لوگوں کی ہمیشہ سے یہ خواہش اور کوشش رہی ہے کہ حق کو اپنے مفاد اور خواہشات کے پیچھے لگا یا جائے۔ اسی لیے مکہ والوں نے مختلف موقعوں پر آپ سے یہ مطالبات کیے کہ کچھ آپ نرم ہوجائیں کچھ ہم بدل جاتے ہیں۔ (القلم : ٩) پھر انہوں نے یہ مطالبہ کیا کہ آپ اس قرآن کی بجائے کوئی اور قرآن لے آئیں ہم اس پر ایمان لے آئیں گے۔ (یونس : ١٥) ان کا یہ کہناکہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی اور بھی الٰہ ہے حالانکہ دو یا دو سے زائد الٰہ ہوتے تو وہ ایک دوسرے کے اقتدار پر قبضہ کرنے کی کوشش کرتے جس سے زمین و آسمان میں فساد ہونا ناگزیر ہوتا (المؤمنون : ٩١) انہوں نے یہاں تک مطالبہ کرڈالا کہ ایک سال آپ کے رب کی عبادت کی جائے اور دوسرے سال ہمارے خداؤں کی پرستش کرنا ہوگی اسے سورۃ الکافرون میں یہ کہہ کر صرف نظر کردیا گیا ” آپ فرما دیجیے : اے کافرو! میں ان کی عبادت نہیں کرتا جن کی عبادت تم کرتے ہو۔ اور نہ تم اس کی عبادت کرنے والے ہو جس کی عبادت میں کرتا ہوں۔ اور نہ میں ان کی عبادت کرنے والا ہوں جن کی عبادت تم نے کی ہے اور نہ تم اس کی عبادت کرنے والے ہو جس کی عبادت میں کرتا ہوں۔ تمہارے لیے تمہارا دین ہے اور میرے لیے میرا دین۔“ (الکافرون ) اس صورت حال پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے کہ اگر حق ان کی خواہشات کا غلام بن جائے تو زمین میں فساد برپا ہوجائے حق سے مراد اللہ کا دین ہے اور دین کی بنیاد عقیدہ توحید ہے توحید کا پرچار اور ابلاغ دنیا میں امن وامان کی ضمانت ہے، یہی سب سے بڑی نصیحت ہے جسے اللہ تعالیٰ نے خیر خواہی کے لیے نازل کیا ہے لیکن لوگ انہیں کی بھلائی کے لیے آنے والی نصیحت کو ماننے کے لیے تیار نہیں۔ (عَنْ اَنَسٍ (رض) اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ لَا تَقُوْمُ السَّاعَۃُ حَتّٰی لَا یُقَالَ فِیْ الْاَرْضِ اَللّٰہُ اَللّٰہُ وَفِیْ رِوَایَۃٍ قَالَ لَا تَقُوْمُ السَّاعَۃُ عَلٰی اَحَدٍ یَقُوْلُ اَللّٰہُ اَللّٰہُ۔) [ رواہ مسلم : باب ذَہَابِ الإِیمَانِ آخِرَ الزَّمَانِ] حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں‘ رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا قیامت اس وقت تک قائم نہ ہوگی جب تک زمین پر اللہ اللہ کی آواز آنا ختم نہ ہوجائے گی ایک روایت میں ہے قیامت ایسے شخص پر قائم نہیں ہوگی، جو اللہ اللہ کہنے والا ہوگا۔“ (وَعَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَمْرٍو (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لَا یُؤْمِنْ اَحَدُکُمْ حَتّٰی یَکُوْنَ ہَوَاہُ تَبَعًا لِمَا جِءْتُ بِہٖ) [ رواہ فی شرح السنۃ وقال النووی فی أربعینہ ہذا حدیث صحیح ] ” حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تم میں سے کوئی بھی اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتاجب تک اس کی خواہش اس چیز کے تابع نہیں ہوجاتی جسے میں لے کر آیا ہوں۔“ مسائل ١۔ اگر حق لوگوں کی خواہشات کا غلام بن جائے تو زمین و آسمان میں فساد برپا ہوجائے۔ ٢۔ لوگ اپنے ہی فائدہ کی خاطر نصیحت قبول نہیں کرتے۔ تفسیر بالقرآن حق سے اعراض کرنے والے لوگ :۔ ١۔ قرآن سے اعراض کرنے والے ظالم اور گمراہ ہیں۔ (الکہف : ٥٧) ٢۔ قرآن سے منہ پھیرنے والے مجرموں سے انتقام لیا جائے گا۔ (السجدۃ: ٢٢) ٣۔ قرآن سے اعراض کرنے والے قیامت کے دن اندھے ہوں گے۔ (طٰہٰ: ١٢٤، ١٢٥) ٤۔ اعراض اور گناہوں کا بوجھ اٹھانا پڑے گا۔ (طٰہٰ: ١٠٠، ١٠١) ٥۔ قرآن کا انکار برے لوگ ہی کرتے ہیں۔ (البقرۃ: ٩٩) ٦۔ انہیں دنیا اور آخرت میں دوہرا عذاب ہوگا۔ (بنی اسرائیل : ٧٥) ٧۔ اکثر لوگ حق سے اعراض کرتے ہیں۔ (الانبیاء : ٢٤) ٨۔ جو رحمن کے ذکر سے اعراض کرتا ہے اس پر شیطان مسلط کردیا جاتا ہے اور وہ اس کا ساتھی بن جاتا ہے۔ ( الزخرف : ٣٦) المؤمنون
72 فہم القرآن ربط کلام : ایک استفسار کے ذریعہ حق واضح کرنے کے ساتھ آپ کو تسلی دی گئی ہے۔ اس سے پہلے کفار سے مخصوص انداز میں استفسار فرما کر ان پر حق واضح کیا گیا اب سرور دو عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ایک استفسار کے ذریعہ حق واضح کرنے کے ساتھ آپ کو تسلی دی گئی ہے کہ اے پیغمبر کیا آپ دعوت کے کام پر ان سے کوئی معاوضہ طلب کرتے ہیں؟ کہ جس بنا پر انہیں آپ کی ذات اور بات بوجھ محسوس ہوتی ہے حقیقت یہ ہے کہ آپ ان سے ایک پائی کے طلبگار نہیں ہیں آپ تو محض اپنے رب کے حکم اور اس کی رضا کی خاطر دن رات ایک کیے ہوئے دکھ پر دکھ اٹھا رہے ہیں۔ اے محبوب (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اطمینان خاطر رکھیے آپ کے لیے آپ کے رب کی طرف سے دیا ہوا رزق دنیا کے رزق اور فوائد سے ہزاروں گنا بہتر ہے اور آپ کا رب بہترین رزق دینے والا ہے۔ یہ بھی اطمینان رکھیں کہ آپ ان کو صراط مستقیم کی دعوت دینے والے ہیں اس کے باوجود یہ لوگ ایمان نہیں لاتے تو اس کا سبب یہ ہے کہ جو لوگ قیامت بپا ہونے کا یقین نہیں رکھتے وہی لوگ صراط مستقیم سے انحراف کرتے ہیں۔ مسائل ١۔ سروردوعالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دعوت حق کے بدلہ میں لوگوں سے کچھ نہیں مانگتے تھے آپ کی بے مثال جدوجہد کا اجر اللہ کے ہاں محفوظ ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ بہترین رزق دینے والاہے۔ ٣۔ قیامت کا انکار کرنے والے صراط مستقیم پر چلنا قبول نہیں کرتے۔ المؤمنون
73 المؤمنون
74 المؤمنون
75 فہم القرآن ربط کلام : قیامت کا انکار کرنے والوں کا کردار اور انجام۔ قیامت کا انکار کرنے والا شخص نہ صرف صراط مستقیم سے منحرف ہوجاتا ہے بلکہ اس کی حالت یہ ہوتی ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ اس پر کرم فرما کر اسے کسی مصیبت سے نجات دے تو وہ اپنے رب کا مطیع اور شکرگزار ہونے کے بجائے سرکشی میں اندھا ہوجاتا ہے۔ جب وہ اپنے گناہوں اور سرکشی میں اندھا ہوجاتا ہے تو پھر اللہ تعالیٰ اسے پہلے سے بڑی مصیبت میں گرفتار کرتا ہے لیکن اپنے گناہوں میں اندھا ہونے کی وجہ سے ایسا شخص اپنے رب کے حضور توبہ کرنے اور گڑگڑانے کے لیے تیار نہیں ہوتا بالآخر اللہ تعالیٰ اس پر شدید عذاب نازل کرتا ہے اس قسم کے لوگ اپنے رب سے بخشش اور رحمت طلب کرنے کی بجائے ناامید ہوجاتے ہیں حتٰی کہ اسی حالت میں انہیں موت آلیتی ہے یہ کسی انسان کی سب سے بڑی بدقسمتی اور اس پر اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کی انتہا ہوتی ہے۔ کہ اسے مصیبت اور عذاب کے وقت بھی توبہ کی توفیق حاصل نہ ہو۔ المؤمنون
76 المؤمنون
77 فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو کان، آنکھیں اور دل اس لیے دیے ہیں کہ حقائق دیکھ اور سن کر ان کے مطابق عمل کریں تاکہ قیامت کے عذاب سے بچ جائیں۔ اللہ تعالیٰ ہی وہ ذات ہے جس نے انسان کو کان، آنکھیں اور دل عطا کیا تاکہ حقائق دیکھ اور جان کر اپنے رب کا شکر گزار بندہ بن جائے۔ اسی نے انسان کو زمین سے پیدا کرکے زمین پر پھیلا یا اور بسایا اور اسی کی طرف سب نے اکٹھا ہونا ہے وہی ذات موت وحیات پر اختیار رکھتی ہے اسی کے حکم کے مطابق دن اور رات ایک دوسرے کے پیچھے چلتے ہیں یہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کی نشانیاں ہیں لیکن پھر بھی لوگ عقل وفکر نہیں کرتے۔ ان آیات میں انسان کی تخلیق، زمین میں انسان کا رہنا سہنا، زندگی گزارنا، اور مرنا رات اور دن کے اختلاف کا حوالہ دے کر انسان کو دوباتوں کی طرف متوجہ کیا گیا ہے پہلی بات یہ ہے کہ انسان اپنے آپ اور کائنات کی ہر چیز کو اللہ تعالیٰ کی تخلیق سمجھے اور یہ حقیقت جاننے کی کوشش کرے کہ ہر چیز اللہ تعالیٰ کے حکم کے تابع ہے فنا اور بقا بھی اللہ کے اختیار میں ہے۔ یہاں تک کہ میرے اعضاء اور جوارح بھی اس کی عطا کا نتیجہ ہیں اس لیے میرا فرض بنتا ہے کہ میں اس کا شکر ادا کروں۔ انسان اس وقت تک اپنے رب کی نعمتوں پر شکر گزار نہیں ہوتا جب تک وہ اپنے رب کی عنایات پر توجہ اور غور نہیں کرتا۔ جسے غوروفکر کی توفیق مل جائے وہ بالیقین اللہ تعالیٰ کا شکرادا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ (عَنْ صُہَیْبٍ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عَجَبًا لأَمْرِ الْمُؤْمِنِ إِنَّ أَمْرَہٗ کُلَّہٗ خَیْرٌ وَلَیْسَ ذَاکَ لأَحَدٍ إِلاَّ لِلْمُؤْمِنِ إِنْ أَصَابَتْہُ سَرَّآءُ شَکَرَ فَکَانَ خَیْرًا لَّہٗ وَإِنْ أَصَابَتْہُ ضَرَّآءُ صَبَرَ فَکَانَ خَیْرًا لَّہٗ) [ رواہ مسلم : کتاب الزہد والرقائق، باب الْمُؤْمِنُ أَمْرُہٗ کُلُّہٗ خَیْرٌ] ” حضرت صہیب (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا مومن کا معاملہ عجب ہے بے شک اس کے تمام کاموں میں بہتری ہے جو مومن کے سوا کسی کے لیے نہیں ہے۔ مومن کو خوش کردینے والی چیز ملتی ہے تو وہ شکر ادا کرتا ہے یہ اس کے لیے بہتر ہوتا ہے۔ اگر اسے کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو وہ صبر کرتا ہے یہ بھی اس کے لیے بہتر ہے۔“ (عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ قَالَ أَخَذَ بِیَدِیْ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَقَالَ إِنِّیْ لَأُحِبُّکَ یَا مُعَاذُ فَقُلْتُ وَأَنَا أُحِبُّکَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَلاَ تَدَعْ أَنْ تَقُوْلَ فِیْ کُلِّ صَلاَۃٍ رَبِّ أَعِنِّیْ عَلٰی ذِکْرِکَ وَشُکْرِکَ وَحُسْنِ عِبَادَتِکَ) [ سنن النسائی : باب نَوْعٌ آخَرُ مِنَ الدُّعَآءِ] ” حضرت معاذبن جبل (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے میرا ہاتھ پکڑ کر فرمایا اے معاذ! میں تجھ سے محبت کرتا ہوں۔ میں نے عرض کی اللہ کے رسول میں بھی آپ سے محبت کرتا ہوں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا نماز کے بعد یہ دعا پڑھتے رہو۔ اسے کبھی نہ چھوڑنا اے میرے پروردگار ! ذکر، شکر اور اچھی عبادت کرنے پر میری مدد فرما۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے ہی انسان کو سننے، دیکھنے اور سوچنے کے لیے اعضاء عطا فرمائے ہیں۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے ہی انسان کو زمین سے پیدا کرکے زمین پر پھیلایا اور بسایا۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ ہی موت اور زندگی کا مالک ہے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ ہی رات کے بعد دن اور دن کے بعد رات لانے والا ہے۔ ٥۔ انسان کو اللہ تعالیٰ کی قدرتوں اور اس کی دی ہوئی نعمتوں پر غور کرنا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن شکر اور اس کے فضائل : ١۔ اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ رزق پر اس کا شکریہ ادا کرو۔ (الانفال : ٢٦) ٢۔ اللہ تعالیٰ نے سمندر کو تمہارے تابع کیا جس سے تازہ مچھلی، زیبائش کا سامان نکلتا ہے اس پر اللہ کا شکریہ ادا کرو۔ (النحل : ١٤) ٣۔ اللہ تعالیٰ نے رات کو باعث سکون اور دن کو کسب معاش کا ذریعہ بنایا ہے تاکہ اس کا شکر ادا کیا جائے۔ (القصص : ٧٣) ٤۔ شکر کے بارے میں حضرت داؤد اور سلیمان (علیہ السلام) کی دعائیں۔ (صٓ: ٣٥، النمل : ١٩) ٥۔ اللہ تعالیٰ شکر گزار لوگوں کو مزید دیتا ہے۔ (ابراہیم : ٧) المؤمنون
78 المؤمنون
79 المؤمنون
80 المؤمنون
81 فہم القرآن ربط کلام : آیت ٧٠ میں فرمایا گیا ہے کہ یہ لوگ کہتے ہیں کہ اس رسول کو پاگل پن ہوگیا ہے اس کے بعد نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلّی دیتے ہوئے ارشاد ہوا کہ آپ ان سے کوئی معاوضہ طلب نہیں کرتے جس کو یہ بوجھ سمجھتے ہوں لہٰذا آپ دعوت توحید کا کام جاری رکھیں یہ لوگ وہی کچھ کہہ رہیں جو ان سے پہلے لوگ کہا کرتے تھے۔ انسان موت وحیات اور لیل ونہار کی گردش پر غور کرے تو اسے خود ہی معلوم ہوجائے گا کہ اللہ تعالیٰ ہر صورت انسان کو اس کی موت کے بعد دوبارہ زندہ کرے گا۔ کیونکہ جو رب رات کے بعد دن اور دن کے بعد رات لاتا ہے وہی انسان کو قیامت کے دن زندہ کرے گا جو لوگ قیامت کا انکار کرتے ہیں وہ وہی بات کرتے ہیں جو ان سے پہلے لوگ کیا کرتے تھے۔ کہتے ہیں کہ جب ہم مر کر مٹی ہوجائیں گے اور ہماری ہڈیاں ختم ہوجائیں گی کیا ہم پھر اٹھائے جائیں گے ؟ یہ وہی وعدہ ہے جو ہمارے آباؤ واجداد کے ساتھ بھی کیا جاتا رہا۔ لیکن اب تک ان میں سے کوئی ایک بھی دوبارہ زندہ نہیں ہوا۔ درحقیقت یہ پہلے زمانے کی قصہ کہانیاں ہیں جو ہمیں بار بار سنائی جاتی ہیں۔ اسی فکر کی بنیاد پر ایک آدمی نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے آکر ہاتھ میں لیے ہوئے ایک بوسیدہ ہڈی مسلتے ہوئے کہتا ہے کہ اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! تم کہتے ہو کہ مردے زندہ ہونگے بتاؤ اس ہڈی سے کس طرح انسان زندہ ہوسکتا ہے؟ اس پر یہ آیات نازل ہوئیں۔ (وَضَرَبَ لَنَا مَثَلًا وَّنَسِیَ خَلْقَہٗ قَالَ مَنْ یُّحْیِ الْعِظَامَ وَہِیَ رَمِیْمٌ قُلْ یُحْیِیہَا الَّذِیْ اَنشَاَہَا اَوَّلَ مَرَّۃٍ وَّہُوَ بِکُلِّ خَلْقٍ عَلِیْمٌ الَّذِیْ جَعَلَ لَکُمْ مِّنْ الشَّجَرِ الْاَخْضَرِ نَارًا فَاِِذَا اَنْتُمْ مِنْہُ تُوقِدُوْنَ اَوَلَیْسَ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ بِقٰدِرٍ عَلٰی اَنْ یَّخْلُقَ مِثْلَہُمْ بَلٰی وَہُوَ الْخَلَّاقُ الْعَلِیْمُ) [ یٰسٓ: ٧٨۔ ٨١] ” اور ہمارے بارے میں مثالیں بیان کرنے لگا اور اپنی پیدائش کو بھول گیا۔ کہنے لگا کہ جب ہڈیاں بوسیدہ ہوجائیں گی تو ان کو کون زندہ کرے گا۔ کہہ دو کہ ان کو وہ زندہ کرے گا جس نے ان کو پہلی بار پیدا کیا تھا۔ وہ سب کچھ پیدا کرنا جانتا ہے۔ وہی ہے جس نے تمہارے لیے سبز درخت سے آگ پیدا کی پھر تم اس ( کی شاخوں کو رگڑ کر اُن) سے آگ نکالتے ہو۔ بھلا جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا کیا وہ اس بات پر قادر نہیں کہ ان کو پھر ویسے ہی پیدا کر دے کیوں نہیں اور وہ تو بڑا پیدا کرنے والا اور علم والا ہے۔“ مسائل ١۔ قیامت کے منکر ہمیشہ ایک جیسی باتیں کیا کرتے ہیں۔ ٢۔ قیامت کے منکر قیامت برپا ہونے کے دلائل کو قصہ کہانیاں قرار دیتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن قیامت کی کیفیت اور اس کے برپا ہونے کے دلائل : ١۔ بے شک قیامت آنے والی ہے۔ میں اس کو پوشیدہ رکھنا چاہتا ہوں تاکہ ہر کسی کو جزا یا سزا ملے۔ (طہٰ: ١٥) ٢۔ قیامت قریب ہے۔ (الحج : ١) ٣۔ سب نے اللہ کے ہاں لوٹنا ہے۔ (یونس : ٥٦) ٤۔ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ سوال کرے گا کہ آج کس کی بادشاہی ہے؟۔ (المومن : ١٦) ٥۔ اس دن سے ڈر جاؤ جس دن تم اللہ کے ہاں لوٹائے جاؤ گے۔ (البقرہ : ٢٨١) ٦۔ قیامت کے دن کوئی کسی کو فائدہ نہیں دے سکے گا۔ (الانفطار : ١٩) ٧۔ قیامت کے دن اللہ ہی کی بادشاہی ہوگی۔ (الفرقان : ٢٦) ٨۔ قیامت آنکھ جھپکنے کی طرح آجائے گی۔ (النحل : ٧٧) ٩۔ قیامت کے دن ہر کسی کو پورا پورا صلہ دیا جائے گا۔ (آل عمران : ١٨٥) ١٠۔ اللہ کا وعدہ سچا ہے اور قیامت برپا ہونے میں کوئی شک نہیں۔ (الکہف : ٢١) ١١۔ کافر ہمیشہ شک میں رہیں گے، یہاں تک کہ قیامت اچانک آجائے۔ (الحج : ٥٥) ١٢۔ ہم نے قیامت کے دن جھٹلانے والوں کے لیے آگ کا عذاب تیار کیا ہے۔ (الفرقان : ١١) المؤمنون
82 المؤمنون
83 المؤمنون
84 فہم القرآن ربط کلام : زمینی اور عقلی حقائق سے قیامت قائم ہونے کا ثبوت۔ اے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! جو لوگ قیامت کا انکار کرتے ہیں ان سے استفسار فرمائیں کہ جس زمین پر تم رہ رہے ہو اور جو کچھ اس میں ہے وہ کس کی تخلیق اور ملکیت ہے اس کا یہی جواب دیں گے کہ زمین اور جو کچھ اس میں ہے سب کچھ اللہ تعالیٰ کا ہے۔ اب فرمائیں کیا پھر تم حقیقت قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ؟ ان سے پھر استفسار فرمائیں کہ سات آسمانوں اور عرش عظیم کا رب کون ہے ؟ ان کا جواب یہی ہوگا کہ سب کا سب اللہ ہی کا ہے۔ آپ فرمائیں پھر تم اپنے رب کے ساتھ شرک کرنے سے کیوں نہیں ڈرتے۔ یہاں اہل مکہ کا عقیدہ بتلایا جا رہا ہے کہ اہل مکہ اس بات کے قائل تھے کہ زمین و آسمان اور جو کچھ ان میں ہے وہ اللہ تعالیٰ نے ہی پیدا کیا ہے اور وہی اس کا مالک ہے۔ اہل مکہ کا یہ بھی عقیدہ تھا کہ اللہ تعالیٰ کا عرش سات آسمانوں کے اوپر ہے اور اللہ تعالیٰ اپنے عرش پر اس طرح جلوہ افروز ہے جس طرح اس کی شان ہے۔ وہ اللہ تعالیٰ کے عرش پر مستویٰ ہونے کے بارے میں کسی قسم کی قیل وقال نہیں کرتے تھے۔ ان کا عقیدہ تھا کہ اللہ تعالیٰ کے سوا اس کے عرش پر کوئی چیز متمکن نہیں اور نہ ہی اس کے عرش میں کوئی دخیل ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ قبل از اسلام عربوں کا یہی عقیدہ تھا جس بناء پر وہ کھلے الفاظ میں ان حقائق کا اعتراف کرتے تھے کہ عرش، فرش اور آسمانوں کا ایک ہی رب ہے جس کا نام ” اللہ“ ہے۔ ” حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ ہمیں منع کیا گیا تھا کہ ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے غیر متعلق چیزوں کے بارے میں سوال کریں۔ ہمیں یہ بات بڑی اچھی لگتی تھی کہ دیہات میں سے کوئی سمجھ دار آدمی آئے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کرے اور ہم سنیں ایک دن ایک بدوی آیا۔ اس نے کہا اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ہمارے پاس آپ کا قاصد آیا اور اس نے یہ بتلایا ہے کہ آپ اپنے آپ کو اللہ کا رسول کہتے ہیں؟ آپ نے فرمایا اس نے سچ کہا ہے دیہاتی نے سوال کیا کہ آسمان کو کس نے پیدا کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا اللہ نے۔ اس نے عرض کی زمین کو کس نے پیدا کیا اور اس پر پہاڑوں کو کس نے نصب کیا؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ نے۔ اس نے کہا کیا آپ کو اللہ نے مبعوث کیا ہے؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہاں! دیہاتی نے کہا آپ کے قاصد نے یہ بھی دعویٰ کیا ہے کہ ہم پر ایک دن اور رات میں پانچ نمازیں فرض ہیں؟ آپ نے فرمایا اس نے ٹھیک بتلایا۔ دیہاتی نے کہا کہ اس کا یہ بھی کہنا ہے ہم پر سال میں رمضان کے ایک مہینہ کے روزے فرض ہیں؟ آپ نے فرمایا اس نے سچ کہا۔ اس دیہاتی نے کہا جس ذات نے آپ کو نبی مبعوث فرمایا ہے کیا ان باتوں کا اس نے آپ کو حکم دیا ہے ؟ آپ نے فرمایا ہاں! اس نے کہا آپ کے قاصد کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ ہم میں سے صاحب استطاعت پر بیت اللہ کا حج فرض ہے ؟ آپ نے فرمایا اس نے سچ کہا۔ پھر وہ واپس پلٹا اور کہنے لگا قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا نہ میں ان میں کمی کروں گا اور نہ زیادتی۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اگر اس نے سچ کہا ہے تو یہ جنت میں ضرور داخل ہوگا۔“ [ رواہ مسلم : باب فِی بَیَانِ الإِیمَان باللَّہِ وَشَرَاءِعِ الدِّینِ] مسائل ١۔ زمین و آسمان اور جو کچھ ان میں ہے اس کا مالک صرف اللہ تعالیٰ ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ عرش عظیم کا رب ہے۔ ٣۔ مشرک اللہ تعالیٰ کو رب ماننے کے باوجود اس کے ساتھ شرک کرنے سے باز نہیں آتے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ کے رب ہونے کے چند دلائل : اللہ تعالیٰ کے رب ہونے کے بے شمار دلائل ہیں۔ لیکن اختصار کی خاطر چند دلائل پیش کیے جاتے ہیں۔ ١۔ اللہ کے سوا کوئی معبود بر حق نہیں۔ (النساء : ٨٧) ٢۔ معبود حقیقی صرف اللہ ہے۔ (النساء : ١٧١) ٣۔ اللہ کے علاوہ کوئی خالق نہیں۔ (فاطر : ٣) ٤۔ اللہ ہی رزّاق ہے۔ (الذاریات : ٥٨) ٥۔ اللہ تعالیٰ میرا اور تمھارا رب ہے۔ تم اسی کی عبادت کرو یہی صراط مستقیم ہے۔ (آل عمران : ٥١، مریم : ٣٦) ٦۔ اللہ سب کا رب ہے اس کے سوا کوئی الٰہ نہیں وہی ہر چیز کا خالق ہے۔ (الانعام : ١٠٢) ٧۔ تمہارا رب ہر چیز کو پیدا کرنے والاہے اس کے علاوہ کوئی معبود نہیں تم کہاں بہک گئے ہو ؟ (المومن : ٦٢) المؤمنون
85 المؤمنون
86 المؤمنون
87 المؤمنون
88 فہم القرآن ربط کلام : مشرکوں سے استفسار کا سلسلہ جاری ہے۔ سروردوعالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پھر حکم ہوا کہ آپ مشرکین سے استفسار فرمائیں کہ کسے ہر چیز پر اختیار اور اقتدار حاصل ہے؟ جو سب کو پناہ دینے والا ہے اسے کسی کی پناہ کی ضرورت نہیں اگر اس حقیقت کو جانتے ہو تو اس کا جواب دو؟ وہ ضرور جواب دیں گے کہ ہر چیز پر صرف ایک اللہ کی بادشاہی ہے۔ انہیں فرمائیں کہ اس کے باوجود تم ” اللہ“ کے ساتھ دوسروں کو شریک کرتے ہو کیا تمہیں جادو ہوگیا ہے ؟ حقیقت یہ ہے کہ ان کے پاس عقیدہ توحید کے ٹھوس اور حقیقت پر مبنی دلائل پہنچ چکے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود مشرک جھوٹ بولتے ہیں۔ عقیدہ توحید کے اس قدر ٹھوس اور مبنی برحقیقت دلائل ہیں کہ حددرجے کا مشرک بھی ان کا اقرار کیے بغیر نہیں رہ سکتا لیکن اس کے باوجود مشرک جھوٹے اور بے بنیاد دلائل دینے سے باز نہیں آتا ہے۔ اس سے یہ بات ثابت ہوئی کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرنا دنیا میں سب سے بڑا جھوٹ ہے لیکن مشرک جھوٹے عقیدہ اور جھوٹ بولنے سے باز نہیں آتا۔ اس لیے ان سے کہا جاتا ہے کہ کیا تمہیں جادو ہوگیا ہے؟ جس وجہ سے عقیدہ توحید تمہیں سمجھ نہیں آتا۔ عربی زبان میں سحر کا معنٰی ہے ایسا علم یا عمل جس سے دیکھنے والے کو کوئی چیز حقیقت کے خلاف نظر آئے۔ ” مَلَکُوْتُ“ سپر ڈگری کا لفظ ہے جس کا معنٰی ہے بادشاہی اور کسی چیز کا مالک ہونا گویا کہ ہر دور کا مشرک یہ ماننے پر مجبور ہے کہ سدا بہار بادشاہی اور حقیقی ملکیت صرف اللہ تعالیٰ کی ہے۔ وہی ہر کسی کو پناہ دینے والا ہے اسے کسی کی پناہ کی حاجت نہیں۔ (عَنِ الْبَرَآءِ ابْنِ عَازِبٍ قَالَ کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اِذَا اٰوٰی اِلٰی فِرَاشِہٖ نَامَ عَلٰی شِقِّہِ الْاَےْمَنِ ثُمَّ قَالَ (اَللّٰھُمَّ اَسْلَمْتُ نَفْسِیْ اِلَےْکَ وَوَجَّھْتُ وَجْھِی اِلَےْکَ وَفَوَّضْتُ اَمْرِیْ اِلَےْکَ وَاَلْجَأْتُ ظَہْرِیْ اِلَےْکَ رَغْبَۃً وَّرَھْبَۃً اِلَےْکَ لَا مَلْجَأَ وَلَا مَنْجَأَ مِنْکَ اِلَّا اِلَےْکَ اٰمَنْتُ بِکِتَابِکَ الَّذِیْ اَنْزَلْتَ وَنَبِےِّکَ الَّذِیْ اَرْسَلْتَ) وَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَنْ قَالَھُنَّ ثُمَّ مَاتَ تَحْتَ لَےْلَتِہٖ مَاتَ عَلَی الْفِطْرَۃِ وَفِیْ رِوَاے ۃٍٍ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لِرَجُلٍ یَّا فُلَانُ اِذَا اَوَےْتَ اِلٰی فِرَاشِکَ فَتَوَضَّأْ وُضُوْءَٓکَ للصَّلٰوۃِ ثُمَّ اضْطَجِعْ عَلٰی شِقِّکَ الْاَےْمَنِ ثُمَّ قُلِ (اللّٰھُمَّ اَسْلَمْتُ نَفْسِیْ اِلَےْکَ اِلٰی قَوْلِہٖ اَرْسَلْتَ) وَقَالَ فَاِنْ مُتَّ مِنْ لَّےْلَتِکَ مُتَّ عَلَی الْفِطْرَۃِ وَاِنْ اَصْبَحْتَ اَصَبْتَ خَےْرًا۔) [ رواہ البخاری : باب اذا بات طاہرا] حضرت براء بن عازب (رض) بیان کرتے ہیں کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے بستر پر لیٹے تو دائیں کروٹ پر لیٹ کر یہ دعا پڑھتے۔ ” ہمارے معبود حقیقی! تیری طرف رغبت کے ساتھ اور تجھ سے ڈرتے ہوئے میں نے اپنی جان تیرے سپرد کی‘ اپنا چہرہ تیری ہی طرف کرلیا‘ اپنے کام تیرے حوالے کیے، اور تجھ پر بھروسہ کیا“ تیری جائے پناہ کے سوا کوئی جائے پناہ نہیں۔ میں تیری نازل کردہ کتاب اور تیرے بھیجے ہوئے نبی پر ایمان لایا“ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو شخص یہ کلمات کہے اگر اسی رات مر جائے تو اس کی موت اسلام پر ہوگی۔ دوسری روایت میں ہے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک شخص کا نام لے کر فرمایا جب تو اپنے بستر پر جائے تو وضو کرلے جس طرح نماز کے لیے کیا جاتا ہے پھر دائیں پہلو پر لیٹ کر یہ دعا کرو ” میں نے اپنی جان تیرے سپرد کی نبی پر ایمان لایا۔“ اگر تو اس رات مر جائے تو فطرت کی موت مرے گا اور اگر صبح کرے تو تجھے خیروبرکت حاصل ہوگی۔“ مسائل ١۔ آسمان و زمین کی بادشاہت اللہ کے لیے ہے۔ ٢۔ جسے اللہ اپنی پناہ میں لے اس کا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ ٣۔ کفار بھی اللہ کی الوہیّت کے اقراری تھے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ کا پیغام برحق ہے۔ المؤمنون
89 المؤمنون
90 المؤمنون
91 فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ نے اس سے پہلے اپنی بادشاہت اور اختیارات کے حوالے سے یہ ثابت کیا ہے کہ زمین و آسمان کی بادشاہت میں اس کا کوئی شریک نہیں ہے اب اپنی ذات کے حوالے سے بتلا یا اور سمجھایا ہے کہ ذات کے اعتبار سے بھی کوئی اس کا ہم سر اور شریک نہیں ہے۔ قرآن مجید میں متعدد مقامات پر اس بات کی تردید کی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی کوئی اولاد نہیں۔ سورۃ المائدہ آیت ٧٥ میں عیسائیوں کو مخاطب کرتے ہوئے ان الفاظ میں سمجھایا کہ ابن مریم ( علیہ السلام) صرف اللہ کا رسول ہے اس سے پہلے رسول گزر چکے اس کی والدہ مریم کردار اور گفتار کے لحاظ سے صدیقہ تھی وہ ماں، بیٹا کھانا کھاتے تھے۔ توجہ فرمائیں کہ ہم ان لوگوں کے لیے اپنے دلائل کس طرح واضح کرتے ہیں تاکہ اس پر غور کریں کہ اس کے باوجود لوگ بھٹک جاتے ہیں۔ یہاں ایک اور عقلی دلیل کے ذریعے یہ بات سمجھائی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کسی کو اپنی اولاد قرار نہیں دیا اور نہ ہی زمین و آسمان میں اس کے ساتھ کوئی اور الٰہ موجود ہے۔ اگر کوئی اور دو الٰہ ہوتے تو وہ اپنی مخلوق کو ایک دوسرے سے الگ کرنے کی کوشش کرتے اور ایک دوسرے پر یلغار کرتے یہی صورت حال اللہ کی اولاد ہونے کی صورت میں پیدا ہوتی۔ اس کا ایک بیٹا زیادہ سے زیادہ اختیار لینے کی کوشش کرتا اور اس کے مقابلے میں دوسرا اپنے اختیارات اور اپنی عوام میں اضافے کے درپے ہوتا۔ اس طرح یہ کائنات کئی حصوں میں تقسیم ہوجاتی۔ کیونکہ جس کی اولاد ہوتی ہے اس کا ایک وقت پر کمزور اور ضعیف ہونا لازم ہے۔ اللہ تعالیٰ اولاد کی ضرورت اور ہر قسم کے تعاون سے مبرّا اور پاک ہے وہ ہر غائب اور ظاہر کو جاننے والا اور اپنی ذات، صفات اور بادشاہی کے حوالے سے بلندوبالا اور ہرقسم کی شراکت اور معاونت سے منزہ اور پاک ہے۔ مسائل ١۔ اگر ” اللہ“ کے علاوہ اور الٰہ ہوتے تو وہ اپنی اپنی مخلوق کو ایک دوسرے سے علیٰحدہ کرنے کی کوشش کرتے۔ ٢۔ اگر ایک سے زیادہ الٰہ ہوتے تو وہ ایک دوسرے پر یلغار کرتے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ اپنی ذات اور صفات کے لحاظ سے لوگوں کے شرکیہ اور کفریہ عقیدہ اور کلمات سے پاک ہے۔ تفسیر بالقرآن الٰہ ایک ہی ہے : ١۔ الٰہ ایک ہی ہے اس کے علاوہ کوئی الٰہ نہیں۔ (البقرۃ: ١٦٣) ٢۔ تمھارا الٰہ ایک ہی ہے لیکن آخرت کے منکر نہیں مانتے۔ (النحل : ٢٢) ٣۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرما دیں میں تمھاری طرح بشر ہوں میری طرف وحی کی جاتی ہے تمھارا الٰہ ایک ہی الٰہ ہے۔ (الکہف : ١١٠) ٤۔ الٰہ تمھارا ایک اللہ ہی ہے۔ (طہ : ٩٨) ٥۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرمادیں میری طرف وحی کی جاتی ہے تمہارا الٰہ صرف ایک ہی الٰہ ہے۔ (الانبیاء : ١٠٨) ٦۔ تمھارا صرف ایک ہی الٰہ ہے اسی کے تابع ہوجاؤ۔ (الحج : ٣٤) ٧۔ ہمارا الٰہ اور تمھارا الٰہ صرف ایک ہی ہے۔ ہم اسی کے فرمانبردار ہیں۔ (العنکبوت : ٤٦) ٨۔ کیا اللہ کے سوا کوئی اور الٰہ ہے جسے میں تلاش کروں۔ (الاعراف : ١٤٠) ٩۔ اللہ ہی الٰہ ہے وہی اکیلا ہی عبادت کے لائق ہے۔ ( الانعام : ١٠١) ١٠۔ کوئی اور الٰہ نہ بناؤ الٰہ تو ایک ہی ہے (النحل : ٥١) ١١۔ اسکے سوا کوئی الٰہ نہیں مگر وہ اکیلا ہی ہے ( المائدۃ: ٧٣) ١٢۔ اعلان کردیں اللہ ہی ایک الٰہ ہے اور میں تمہارے شرک سے بری ہوں۔ (الانعام : ١٩) المؤمنون
92 المؤمنون
93 فہم القرآن ربط کلام : شرک کرنے کی وجہ سے پہلی اقوام پر اللہ تعالیٰ کا عذاب نازل ہوا۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو عذاب سے پناہ مانگنے کی تعلیم دی گئی ہے۔ منکرین حق نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے باربار عذاب کا مطالبہ کرتے تھے کہ جس عذاب کی ہمیں دھمکی دی جاتی ہے وہ اب تک کیوں نہیں آیا؟ کفار کے اس مطالبہ کے مختلف موقعوں پر مختلف جواب دیے گئے ہیں۔ یہاں نئے انداز میں اس کے تین جواب دیے گئے ہیں۔ اے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) انہیں فرمائیں جس عذاب کی تم جلدی کررہے ہو میں تو اپنے رب سے اس کی پناہ مانگتاہوں۔ میری دعا ہے کہ الٰہی اگر میری موجود گی میں تیرا عذاب نازل ہو تو مجھے ظالموں میں شریک نہ کرنا۔ دوسرا جواب یہ دیا گیا کہ ہم کفار کے ساتھ کیے گئے وعدہ کو پورا کرنے پر پوری قدرت رکھتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آنکھوں کے سامنے ان کو تباہ وبرباد کردیں۔ آپ ان کی برائی کے مقابلے میں اچھا رویّہ اختیار کریں۔ ہمیں اچھی طرح معلوم ہے جو کچھ آپ کے بارے میں ہر زہ سرائی کرتے ہیں۔ ” اے نبی نیکی اور بدی کبھی برابر نہیں ہو سکتے آپ برائی کا ایسے انداز میں جواب دیں جو اچھا ہو آپ دیکھیں گے کہ جس شخص کی آپ کے ساتھ عداوت ہے وہ آپ کا گہرا دوست بن گیا۔ یہ حوصلہ اور ہمت صرف انہیں نصیب ہوتی ہے جو صبر کرتے ہیں اور یہ کسی بڑے نصیب والے کو ہی حاصل ہوتی ہے۔ (حٰم السجدہ : ٣٤، ٣٥) ” حضرت علی (رض) سے روایت ہے ایک یہودی عالم کا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ذمے کچھ دینار قرض تھا۔ اس نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس کا مطالبہ کیا آپ نے اس سے فرمایا میرے پاس کچھ نہیں ہے کہ جس سے تیرا قرض ادا کروں۔ اس نے کہا اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں یہاں سے نہیں جاؤں گا یہاں تک کہ آپ مجھ کو میرا قرض ادا کردیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب تک تو میرے پاس بیٹھا رہے گا اس وقت تک میں بھی یہاں بیٹھا رہوں گا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ظہر، عصر، مغرب اور عشاء کی نماز پڑھائی آپ کے صحابہ نے اسے ڈرانا اور دھمکانا چاہا تو آپ ان کی اس حرکت پر ناراض نہیں ہوئے۔ صحابہ نے کہا اے اللہ کے رسول یہودی آپ کو روکے ہوئے ہے رسول اللہ نے فرمایا میرے رب نے مجھے نرمی کرنے والا بنایا ہے اور کسی پر ظلم کرنے سے منع کیا ہے۔ اگلے دن اس یہودی نے کلمہ پڑھ لیا اور کہا کہ میرا آدھا مال اللہ کے راستے میں وقف ہے۔ اللہ کی قسم میں نے آپ کے ساتھ یہ رویہّ آپ کو جانچنے کے لیے اختیار کیا۔ تاکہ میں ان اوصاف کو دیکھ سکوں جو اوصاف تورات میں محمد بن عبداللہ کے متعلق پائے جاتے ہیں اس کی جائے پیدائش مکہ ہوگی اور اس کی ہجرت مدینہ میں اور اس کی بادشاہت شام تک ہوگی نہ وہ سخت گو، نہ تند خو، نہ بازاروں میں شوروغل کرنے والا، نہ بے حیائی کرنے والا اور نہ بد کلامی کرنے ولاہو گا۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں میرے اس مال کے بارے میں اللہ کے حکم کے ساتھ فیصلہ کر دیجئے یہودی مالدار آدمی تھا۔“ [ رواہ البیہقی فی دلائل النبوۃ ] مسائل ١۔ ” اللہ“ کے عذاب سے پناہ مانگنی چاہیے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ اپنا وعدہ پورا کرنے پر قادر ہے۔ ٣۔ برائی کا جواب اچھائی کے ساتھ دینے کی کوشش کرنی چاہیے۔ تفسیر بالقرآن انبیاء کا ” اللہ“ کے عتاب اور عذاب سے ڈرنا : ١۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے اپنی قوم سے کہا کہ میں تم پر دردناک عذاب سے ڈرتا ہوں۔ ( الاعراف : ٥٩) ٢۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اگر میں اپنے رب کی نافرمانی کروں تو بڑے دن کے عذاب ڈرتا ہوں۔ (یونس : ١٥) ٣۔ شعیب (علیہ السلام) نے اپنی قوم سے کہا کہ میں تم پر ایسے عذاب سے ڈرتا ہوں جو تم سب کو گھیرلے گا۔ ( ہود : ٨٤) ٤۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) بھی اللہ کے عذاب سے خوف کھایا کرتے تھے۔ ( مریم : ٤٥) المؤمنون
94 المؤمنون
95 المؤمنون
96 المؤمنون
97 فہم القرآن ربط کلام : برائی اور غصہ شیطان کی طرف سے ہے اس لیے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دعا سکھلائی گئی کہ شیطان سے اپنے رب کی حفاظت طلب کیا کریں۔ شیطان داعی کو انگیخت دیتا ہے کہ وہ غصہ میں آکر برائی کا جواب برائی سے دے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ داعی کو پوری کوشش کرنا چاہیے کہ وہ برائی کا جواب اچھائی کے ساتھ دے۔ جہاں تک ذاتی معاملات کا تعلق ہے اس میں اس بات کی گنجائش موجود ہے کہ مظلوم ظالم کے جواب میں کوئی بری بات زبان پر لے آئے۔ تو اس پر کوئی گناہ نہیں۔ ( المائدہ : آیت ١٤٨) لیکن تبلیغ کے میدان میں اس بات کی ہرگز اجازت نہیں کہ برائی کا جواب برائی سے دیا جائے بلکہ حکم ہے کہ اگر ایسے موقع پر طیش آئے تو شیطان کی انگیخت سے اپنے رب کی پناہ مانگنی چاہیے۔ کیونکہ شیطان چاہتا ہے مبلغ برائی کے مقابلے میں بری زبان استعمال کرکے ناکام ہوجائے اس نقصان سے بچانے کے لیے سرور دو عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ دعا سکھلائی گئی۔ (رَبِّ أَعُوذُ بِکَ مِنْ ہَمَزَات الشَّیَاطِینِ ) ” میں شیاطین کی اکساہٹوں سے تیری پناہ مانگتاہوں“ (عَنْ سُلَےْمَانَ بْنِ صُرَدٍ قَالَ اسْتَبَّ رَجُلَانِ عِنْدَ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وَنَحْنُ عِنْدَہُ جُلُوْسٌ وَّاَحَدُھُمَا ےَسُبُّ صَاحِبَہُ مُغْضَبًا قَدِ احْمَرَّ وَجْھُہُ فَقَال النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اِنِّیْ لَاَعْلَمُ کَلِمَۃً لَّوْ قَالَھَا لَذَھَبَ عَنْہُ مَا ےَجِدُ اَعُوْذُ باللّٰہِ مِن الشَّےْطٰنِ الرَّجِےْمِ فَقَالُوْا للرَّجُلِ لَا تَسْمَعُ مَا ےَقُوْلُ النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ اِنِّیْ لَسْتُ بِمَجْنُوْنٍ) [ رواہ البخاری : باب مَا یُنْہَی مِنَ السِّبَابِ وَاللَّعْنِ] حضرت سلیمان بن صرد (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی موجودگی میں دوشخص گالم گلوچ پر اتر آئے ہم بھی وہاں بیٹھے ہوئے تھے۔ ان میں سے ایک شخص کا چہرہ غصے سے سرخ ہوگیا۔ وہ اپنے ساتھی کو برابھلا کہہ رہاتھا۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میں ایک ایسا کلمہ جانتا ہوں کہ اگر یہ شخص وہ کلمہ پڑھ لے تو اس کا غصہ دور ہوجائے وہ کلمہ یہ ہے۔ اَعُوْذُبِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ۔ اس پر صحابہ کرام (رض) نے اس کو متوجہ کیا۔ کیا نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان نہیں سن رہا؟ اس نے جواب دیا میں پاگل نہیں ہوں۔ اس کی مراد یہ تھی کہ میں نے سن لیا اور اس پر عمل کرتا ہوں۔ (عَنْ أَنَسٍ أَنَّ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کَانَ مَعَ إِحْدَی نِسَاءِہِ فَمَرَّ بِہِ رَجُلٌ فَدَعَاہُ فَجَاءَ فَقَالَ یَا فُلاَنُ ہَذِہِ زَوْجَتِی فُلاَنَۃُ فَقَالَ یَا رَسُول اللَّہِ مَنْ کُنْتُ أَظُنُّ بِہِ فَلَمْ أَکُنْ أَظُنُّ بِکَ فَقَالَ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) إِنَّ الشَّیْطَانَ یَجْرِی مِنَ الإِنْسَانِ مَجْرَی الدَّمِ)[ رواہ مسلم : باب بَیَانِ أَنَّہُ یُسْتَحَبُّ لِمَنْ رُءِیَ خَالِیًا بامْرَأَۃٍ وَکَانَتْ زَوْجَۃً أَوْ مَحْرَمًا لَہُ أَنْ یَقُولَ ہَذِہِ فُلاَنَۃُ لِیَدْفَعَ ظَنَّ السَّوْءِ بِہِ] ” حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی بیویوں میں سے کسی کے ساتھ کھڑے تھے وہاں سے ایک آدمی کا گذر ہوا آپ نے فرمایا اے فلاں آدمی یہ میری فلاں بیوی ہے اس نے عرض کی آپ کے متعلق کون ایسا گمان کرسکتا ہے اور نہ ہی میں نے ایسا سوچا تھا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا شیطان خون کی گردش کی طرح آدمی پر اثر انداز ہوتا ہے۔“ مسائل ١۔ شیطان انسان کا دشمن ہے اس سے بچنے کے لیے اپنے رب کی پناہ مانگنا چاہیے۔ ٢۔ شیطان انسان کو غصہ دلاتا ہے۔ ٣۔ شیطان انسان کے دل میں برے خیالات ڈالتا ہے۔ تفسیر بالقرآن شیطان کی شیطنت اور اس سے بچنے کی دعائیں : ١۔ شیطان نے قیدی کو حضرت یوسف کا تذکرہ کرنا بھلا دیا۔ (یوسف : ٤٢) ٢۔ شیطان نے آدم اور حوّا کو پھسلا دیا۔ (البقرۃ : ٣٦) ٣۔ شیطان نے حضرت یوسف اور ان کے بھائیوں کے درمیان اختلاف ڈال دیا۔ (یوسف : ١٠٠) ٤۔ شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے۔ (یوسف : ٥) ٥۔ شیطان کو اپنا دشمن سمجھ کر اس کی شیطنت سے بچنا چاہیے۔ (فاطر : ٦) (أَعُوذ باللَّہِ السَّمِیْعِ الْعَلِیمِ مِنَ الشَّیْطَان الرَّجِیْمِ مِنْ ہَمْزِہٖ وَنَفْخِہٖ وَنَفْثِہٖ ) (وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ إلَّا بِا للّٰہ) المؤمنون
98 المؤمنون
99 فہم القرآن ربط کلام : شیطان سے محفوظ رہنے کی دعا سکھلانے کے بعد اب پھر کلام کارخ کفار کی طرف ہوتا ہے۔ منکرین حق سروردوعالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے باربار عذاب لانے کا مطالبہ کرتے تھے اس سے پہلے ان کے اس مطالبہ کا جواب دیا گیا بعد اب منکرین کو اس وقت کا احساس دلایا گیا ہے کہ جب ایسے لوگوں میں سے کسی کو موت آتی ہے تو وہ اپنے رب سے آرزو کرتا ہے کہ کاش مجھے دنیا میں دوبارہ لوٹا دیا جائے اور میں جو کچھ کرتا رہا اس کی بجائے نیک اعمال کروں گا۔ لیکن اس وقت اسے جواب دیا جاتا ہے کہ ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا۔ وہ دل ہی دل میں روتا اور آہ وزاریاں کرتا ہے مگر اس کی آہ وزاریاں اور چیخ وپکار سوائے واویلا کی حیثیت نہیں ہوتی۔ مرنے والے کے لیے قیامت کے دن تک دنیا اور آخرت کے درمیان ایک پردہ حائل کردیا جاتا ہے۔ ان آیات میں حق کے منکر کی کیفیت ذکر کی گئی ہے قرآن مجید اور حدیث میں کافر، مشرک، منافق اور خدا کے نافرمان کی موت کے وقت جو اس کی کیفیت ہوتی ہے اس کی بہت سی تفصیلات دی گئی ہیں۔ یہاں صرف ایک، دو احادیث پیش کی جاتی ہے۔ ” حضرت براء بن عازب (رض) بیان کرتے ہیں ہم نبی مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ انصار کے کسی آدمی کے جنازہ کے لیے نکلے۔ قبرستان پہنچے تو ابھی قبر تیار نہیں ہوئی تھی۔ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بیٹھ گئے ہم بھی آپ کے ارد گرد بیٹھ گئے جیسے ہمارے سروں پر پرندے بیٹھے ہوں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہاتھ میں ایک چھڑی تھی آپ اس کے ساتھ زمین کرید رہے تھے۔ آپ نے اپنا سر اٹھاتے ہوئے دو یا تین مرتبہ فرمایا قبر کے عذاب سے پناہ مانگو پھر فرمایا جب دنیا کو چھوڑ کر کافر آخرت کی طرف جا رہا ہوتا ہے تو اس کے پاس آسمان سے کالے چہروں والے فرشتے آتے ہیں ان کے ہاتھ میں بدبودار بوری ہوتی ہے وہ حد نگاہ تک اس کے پاس بیٹھ جاتے ہیں پھر اس کے پاس ملک الموت آتا ہے۔ وہ اس کے سر کے قریب بیٹھ جاتا ہے۔ کہتا ہے اے خبیث نفس! اللہ تعالیٰ کے غصہ اور غضب کے سامنے پیش ہو۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا وہ اس کی روح کو اس طرح نکالتے ہیں جس طرح گرم سلائی کو روئی سے نکالا جاتا ہے۔ اس کی روح کو نکال کر جس بوری میں ڈالتے ہیں اس سے اتنی بدبو نکلتی ہے جس طرح مردہ لاش سے گندی بدبو زمین پر پھیلتی ہے۔ وہ اس کو لے کر آسمانوں کی طرف بڑھتے ہیں۔ فرشتوں کے جس گروہ کے پاس سے گزرتے ہیں وہ کہتے ہیں یہ خبیث روح کون ہے؟ موت کے فرشتے کہتے ہیں یہ فلاں بن فلاں ہے برے ناموں سے اس کا ذکر کرتے ہیں یہاں تک کہ وہ آسمان دنیا تک پہنچتے ہیں وہ اس کا دروازہ کھلوانا چاہتے ہیں مگر کھولا نہیں جاتا، پھر نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس آیت مبارکہ کی تلاوت فرمائی :” ان کے لیے آسمان کے دروازے نہیں کھولے جائیں گے نہ وہ جنت میں داخل ہوں گے یہاں تک کہ سوئی کے ناکے میں اونٹ داخل ہوجائے“ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس کے لیے زمین کی تہہ میں ٹھکانہ بناؤ۔ اس کی روح کو نیچے پھینک دیا جاتا ہے۔ نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس آیت مبارکہ کی تلاوت فرمائی ” جو کوئی اللہ کے ساتھ شرک کرے گویا کہ وہ آسمان سے گرا اور اسے پرندے اچک لیں یا اس کو ہوائیں کسی دور دراز مقام پر پھینک دیں۔“ پھر اس روح کو اس کے بدن میں لوٹا دیا جاتا ہے۔ اس کے پاس دو فرشتے آتے ہیں جو اس کو بٹھاتے ہیں اور اسے کہتے ہیں کہ تیرا رب کون ہے ؟ وہ کہتا ہے ہائے ہائے میں نہیں جانتا، پھر فرشتے پوچھتے ہیں کہ تیرا دین کیا ہے تو وہ کہتا ہے افسوس میں نہیں جانتا، پھر فرشتے کہتے ہیں کہ یہ شخص کون ہے جو تم لوگوں میں نبی مبعوث کیا گیا ؟ تو وہ کہتا ہے افسوس میں یہ بھی نہیں جانتا۔ آسمانوں سے آواز دینے والا آواز دیتا ہے کہ یہ کذّاب ہے۔ اس کا بچھونا آگ بنا دو اور آگ کا دروازہ اس کی طرف کھول دو۔ اس کے پاس جہنم گرمی اور بدبو آتی ہے اس کی قبر تنگ کردی جاتی ہے یہاں تک کہ اس کی پسلیاں ایک دوسرے میں گھس جاتی ہیں اور اس کے پاس بدصورت گندے کپڑے اور بدبو دار جسم کے ساتھ آدمی آتا ہے وہ کہتا ہے آج خوش ہوجا تجھے ذلیل کیا جائے گا وہ کہتا ہے کہ تم اس طرح کی شکل والے کون ہو جو اتنی بری خبر کے ساتھ آئے ہو۔ وہ کہے گا میں تیرا برا عمل ہوں۔ کافر فریاد کرتا کہ اے میرے رب قیامت نہ قائم کرنا۔“ [ رواہ احمد : مسند براء بن عازب ] (عَنْ عُبَادَۃَ بْنِ الصَّامِتِ عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ مَنْ أَحَبَّ لِقَاء اللّٰہِ أَحَبَّ اللّٰہُ لِقَاءَ ہٗ وَمَنْ کَرِہَ لِقَاء اللّٰہِ کَرِہَ اللّٰہُ لِقَاءَ ہٗ قَالَتْ عَاءِشَۃُ أَوْ بَعْضُ أَزْوَاجِہٖ إِنَّا لَنَکْرَہُ الْمَوْتَ قَالَ لَیْسَ ذَاکِ وَلٰکِنَّ الْمُؤْمِنَ إِذَا حَضَرَہُ الْمَوْتُ بُشِّرَ بِرِضْوَان اللّٰہِ وَکَرَامَتِہِ فَلَیْسَ شَیْءٌ أَحَبَّ إِلَیْہِ مِمَّا أَمَامَہٗ فَأَحَبَّ لِقَاء اللّٰہِ وَأَحَبَّ اللّٰہُ لِقَاءَ ہٗ وَإِنَّ الْکَافِرَ إِذَا حُضِرَ بُشِّرَ بِعَذَاب اللّٰہِ وَعُقُوبَتِہٖ فَلَیْسَ شَیْءٌ أَکْرَہَ إِلَیْہِ مِمَّا أَمَامَہٗ کَرِہَ لِقَاء اللّٰہِ وَکَرِہَ اللّٰہُ لِقَاءَ ہٗ) [ رواہ البخاری : کتاب الرقاق، باب، من أحب لقاء اللّٰہ أحَب اللّٰہ لقاء ہ] ” حضرت عبادہ بن صامت (رض) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : جو اللہ کی ملاقات کو پسند کرتا ہے اللہ اس کی ملاقات کو پسند کرتا ہے اور جو اللہ کی ملاقات کو ناپسند کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی ملاقات کو ناپسند کرتا ہے۔ حضرت عائشہ (رض) یا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بیویوں میں سے کسی نے کہا کہ ہم تو موت کو ناپسند کرتے ہیں۔ آپ نے فرمایا بات یہ نہیں حقیقت یہ ہے کہ جب مومن کی موت کا وقت ہوتا ہے تو اس کو اللہ کی رضامندی اور انعام و اکرام کی بشارت دی جاتی ہے۔ اس بشارت کی وجہ سے موت اسے تمام چیزوں سے زیادہ محبوب ہوتی ہے اس وجہ سے وہ اللہ کی ملاقات کو پسند کرتا ہے اور اللہ اس کی ملاقات کو پسند کرتا ہے۔ اور جب کافر کی موت کا وقت آتا ہے تو اسے اللہ کے عذاب کی وعید سنائی جاتی ہے۔ یہ وعید اسے اپنے سامنے چیزوں سے سب سے زیادہ ناپسند ہوتی ہے اسی وجہ سے وہ اللہ کی ملاقات کو ناپسند کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ اس کی ملاقات کو ناپسند کرتا ہے۔“ مسائل ١۔ اللہ کا نافرمان موت کے وقت دنیا میں پلٹ جانے کی آرزو کرتا ہے۔ ٢۔ موت کے بعد کسی شخص کو دنیا میں پلٹ جانے کی اجازت نہیں ہوتی۔ ٣۔ اللہ کے نافرمان کی آہ و بکا و واویلا کے سوا کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔ تفسیر بالقرآن قیامت کے دن کوئی ایک دوسرے کی مدد نہیں کرسکتا : ١۔ قیامت کے دن کوئی دوست کسی کے کام نہیں آئے گا۔ ( البقرۃ: ٢٥٤) ٢۔ قیامت کے دن کوئی رشتہ دار کسی کو فائدہ نہیں دے گا۔ ( عبس : ٣٤ تا ٣٦) ٣۔ قیامت کے دن کوئی دوست کسی دوست کے کام نہیں آئے گا۔ (الدخان : ٤١، ٤٢) ٤۔ قیامت کے دن کوئی کسی کو فائدہ نہیں دے سکے گا۔ (الانفطار : ١٩) ٥۔ قیامت کے دن دوستی اور سفارش کام نہ آئے گی۔ (ابراہیم : ٣١) ٦۔ قیامت کے دن سفارشی کسی کو فائدہ یا نقصان نہیں دیں گے۔ (یونس : ١٨) ٧۔ معبودان باطل اپنے پیروکاروں کے کام نہیں آئیں گے۔ ( البقرۃ: ١٦٦) ٨۔ اللہ کے مقابلہ میں ان کا کوئی مددگار نہ ہوگا۔ (ہود : ٢٠) ٩۔ اللہ کے سوا تمہارا کوئی ولی اور مددگار نہیں۔ (العنکبوت : ٢٢) المؤمنون
100 المؤمنون
101 المؤمنون
102 فہم القرآن ربط کلام : عالم برزخ کے بعد لوگوں کو دوبارہ زندہ کیا جائے گا اور ان کا حساب و کتاب ہوگا۔ پہلے صور پھونکے جانے کے بعد نامعلوم لوگ کتنی مدت تک عالم برزخ میں رہیں گے جب اللہ تعالیٰ اسرافیل فرشتے کو دوبارہ صور پھونکنے کا حکم دیں گے تو اس کے صور پھونکنے کے فوراً بعد لوگ برزخ سے عالم وجود میں آ جائیں گے اور اس دن کوئی کسی کے ساتھ تعلق قائم نہیں کرسکے گا۔ حالت یہ ہوگی۔ (یَوْمَ یَفِرُّ الْمَرْءُ مِنْ أَخِیہِ) [ عبس : ٣٤] ” آدمی اس دن اپنے بھائی سے بھاگے گا۔“ اس حالت میں لوگوں کو معشر کے میدان میں اکٹھا کیا جائے گا جب لوگ اکٹھے ہوجائیں گے تو اللہ تعالیٰ پورے جمال اور جلال کے ساتھ جلوہ افروز ہوں گے اور اس کے بعد لوگوں کے اعمال نامے ان تک پہنچائیں جائیں گے ساتھ ہی ترازو رکھ دیا جائے گا۔ جس کی نیکیوں کا پلڑا بھاری ہوا وہ کامیاب ٹھہرے گا اور جن کی نیکیوں کا پلڑا ہلکا رہا وہ نقصان پائیں گے انہیں جہنم دھکیل دیا جائے گا جہنم کی آگ میں ان کے چہرے جھلساۓ جائیں گے اور ان کی شکلیں بدل جائیں گی۔ (أَنَّ زِیَاداً مَوْلَی عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عَیَّاشِ بْنِ أَبِی رَبِیعَۃَ حَدَّثَہُمْ عَمَّنْ حَدَّثَہُ عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) أَنَّ رَجُلاً مِنْ أَصْحَابِ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جَلَسَ بَیْنَ یَدَیْہِ فَقَالَ یَا رَسُول اللَّہِ إِنَّ لِی مَمْلُوکَیْنِ یُکَذِّبُونَنِی وَیَخُونُونَنِی وَیَعْصُونَنِی وَأَضْرِبُہُمْ وَأَسُبُّہُمْ فَکَیْفَ أَنَا مِنْہُمْ فَقَالَ لَہُ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بِحَسْبِ مَا خَانُوکَ وَعَصَوْکَ وَیُکَذِّبُونَکَ فإِنْ کَانَ عِقَابُکَ إِیَّاہُمْ دُونَ ذُنُوبِہِمْ کَانَ فَضْلاً لَکَ عَلَیْہِمْ وَإِنْ کَانَ عِقَابُکَ إِیَّاہُمْ بِقَدْرِ ذُنُوبِہِمْ کَانَ کَفَافاً لاَ لَکَ وَلاَ عَلَیْکَ وَإِنْ کَانَ عِقَابُکَ إِیَّاہُمْ فَوْقَ ذُنُوبِہِمُ اقْتُصَّ لَہُمْ مِنْکَ الْفَضْلُ الَّذِی بَقِیَ قِبَلَکَ فَجَعَلَ الرَّجُلُ یَبْکِی بَیْنَ یَدَیْ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وَیَہْتِفُ فَقَالَ رَسُول اللَّہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَا لَہُ مَا یَقْرَأُ کِتَاب اللَّہِ (وَنَضَعُ الْمَوَازِینَ الْقِسْطَ لِیَوْمِ الْقِیَامَۃِ فَلاَ تُظْلَمُ نَفْسٌ شَیْئاً وَإِنْ کَانَ مِثْقَالَ حَبَّۃٍ مِنْ خَرْدَلٍ أَتَیْنَا بِہَا وَکَفَی بِنَا حَاسِبِینَ) فَقَال الرَّجُلُ یَا رَسُول اللَّہِ مَا أَجِدُ شَیْئاً خَیْراً مِنْ فِرَاقِ ہَؤُلاَءِ یَعْنِی عَبِیدَہُ إِنِّی أُشْہِدُکَ أَنَّہُمْ أَحْرَارٌ کُلُّہُمْ) [ رواہ احمد : مسند السیدۃ عائشۃ] ” عبداللہ (رض) بن عیاش بن ابی ربیعہ کے غلام زیاد نے انہیں حدیث بیان کی اس آدمی سے جس نے اسے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کیا تھا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ میں سے ایک آدمی آپ کے سامنے عرض کرنے لگا اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میرے دو غلام ہیں جو میرے ساتھ جھوٹ بولتے ہیں، خیانت کرتے اور میری نافرمانی کرتے ہیں میں انہیں مارتا پیٹتا ہوں اور گالیاں دیتا ہوں یہ میرا معاملہ کیسا ہے ؟ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس قدر تیری خیانت، تیری نافرمانی اور تیرے ساتھ جھوٹ بولتے ہیں اگر تیری ڈانٹ ڈپٹ ان کے غلطیوں سے کم تر ہوئی تو تجھے اجر عطا کیا جائے گا اور اگر برابرہوئی تو معاملہ یکساں ہے اور اگر ڈانٹ ان کی خطاؤں سے بڑھ کر ہوئی تو تیری نیکیوں میں کمی کی جائے گی یہ سن کر وہ شخص آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے رویا اور آہ وزاری کرنے لگا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کیا اللہ کی کتاب کو نہیں پڑھتا کہ قیامت کے دن ہم عدل و انصاف کا ترازو قائم کریں گے اور کسی پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔ اگر نیکی اور برائی ایک رائی کے دانے کے برابر بھی ہوئی ہم اسے بھی لے آئیں گے اور ہم کافی ہیں حساب لینے والے۔ وہ آدمی کہنے لگا اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں اس سے بہتر کوئی چیز نہیں پاتا کہ ان غلاموں کو آزاد کر دوں اور میں آپ کو گواہ بنا کر کہتا ہوں میں نے انہیں آزاد کردیا۔“ مسائل ١۔ جس کی نیکیوں کا پلڑا بھاری ہوا اسے جنت میں داخل کیا جائے گا جس کا برائیوں کا پلڑا بھاری ہوا اسے جہنم دھکیل دیا جائے گا۔ ٢۔ جہنم میں مجرموں کے چہرے جھلس جائیں گے۔ تفسیر بالقرآن جہنمیوں کی سزا کا ہلکا سا منظر : ١۔ جہنمیوں کے جسم بار بار بدلے جائیں گے تاکہ انہیں پوری پوری سزادی جائے۔ (النساء : ٥٦) ٢۔ جہنمیوں کو آگ کے ستونوں سے باندھ دیا جائے گا۔ (ہمزہ : ٩٠) ٣۔ جہنمی گرم ہوا کی لپیٹ میں اور کھولتے ہوئے پانی میں ہوں گے۔ (الواقعۃ: ٤٢) ٤۔ جہنمیوں کو پیپ اور لہو پلایا جائے گا۔ (ابراہیم : ١٦) المؤمنون
103 المؤمنون
104 المؤمنون
105 فہم القرآن ربط کلام : جہنمیوں کا جہنم میں واویلا اور فریادیں کرنا ان کی فریادیوں کے جواب میں ملائکہ اور رب ذوالجلال کا فرمان۔ جہنمی جہنم کے عذاب سے تنگ آکر واویلا اور آہ وزاریاں کریں گے ان کے جواب میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرمائے گا کیا تمہارے پاس میرے فرامین نہیں پہنچے تھے ؟ جہنمی زاروقطار روتے ہوئے عرض کریں گے ہمارے پروردگار کیوں نہیں ہمیں تیرے احکام اور ارشادات پہنچے لیکن اے ہمارے رب ہم پر ہماری بدبختی غالب آئی اور ہم گمراہوں میں شامل ہوگئے۔ اے ہمارے رب ہماری فریادیں قبول فرما اور ہمیں جہنم سے نجات عطا فرما۔ ہم آپ سے وعدہ کرتے ہیں کہ آئندہ آپ کی نافرمانی نہیں کریں گے اگر ہم پھر نافرمانی کریں تو ہم حقیقتاً ظالم ہوں گے۔ جہنمی اپنی فریادوں، آہ و زاریوں کے بعد یہ امید کیے ہوں گے کہ شاید ہمیں جہنم سے نجات مل جائے لیکن اللہ تعالیٰ بڑے غضب ناک اور پورے جاہ و جلال کے ساتھ حکم صادر فرمائے گا پلٹ جاؤ اور جہنم میں ذلیل وخوار ہوتے رہو آئندہ تمہیں میرے ساتھ کلام کرنے کی اجازت نہ ہوگی اب میرے ساتھ ہرگز کلام نہ کرنا۔ (عَنْ أَبِی الدَّرْدَاءِ قَالَ قَالَ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یُلْقَی عَلَی أَہْلِ النَّارِ الْجُوعُ فَیَعْدِلُ مَا ہُمْ فیہِ مِنَ الْعَذَابِ فَیَسْتَغِیثُونَ فَیُغَاثُونَ بِطَعَامٍ مِنْ ضَرِیعٍ لاَ یُسْمِنُ وَلاَ یُغْنِی مِنْ جُوعٍ فَیَسْتَغِیثُون بالطَّعَامِ فَیُغَاثُونَ بِطَعَامٍ ذِی غُصَّۃٍ فَیَذْکُرُونَ أَنَّہُمْ کَانُوا یُجِیزُونَ الْغُصَصَ فِی الدُّنْیَا بالشَّرَابِ فَیَسْتَغِیثُون بالشَّرَابِ فَیُرْفَعُ إِلَیْہِمُ الْحَمِیمُ بِکَلاَلِیبِ الْحَدِیدِ فَإِذَا دَنَتْ مِنْ وُجُوہِہِمْ شَوَتْ وُجُوہَہُمْ فَإِذَا دَخَلَتْ بُطُونَہُمْ قَطَّعَتْ مَا فِی بُطُونِہِمْ فَیَقُولُونَ ادْعُوا خَزَنَۃَ جَہَنَّمَ فَیَقُولُونَ أَلَمْ تَکُ تَأْتِیکُمْ رُسُلُکُمْ بالْبَیِّنَاتِ قَالُوا بَلَی قَالُوا فادْعُوا وَمَا دُعَاءُ الْکَافِرِینَ إِلاَّ فِی ضَلاَلٍ قَالَ فَیَقُولُونَ ادْعُوا مالِکًا فَیَقُولُونَ (یَا مَالِکُ لِیَقْضِ عَلَیْنَا رَبُّکَ) قَالَ فَیُجِیبُہُمْ (إِنَّکُمْ مَاکِثُونَ) قَالَ الأَعْمَشُ نُبِّءْتُ أَنَّ بَیْنَ دُعَاءِہِمْ وَبَیْنَ إِجَابَۃِ مَالِکٍ إِیَّاہُمْ أَلْفَ عَامٍ قَالَ فَیَقُولُونَ ادْعُوا رَبَّکُمْ فَلاَ أَحَدَ خَیْرٌ مِنْ رَبِّکُمْ فَیَقُولُونَ (رَبَّنَا غَلَبَتْ عَلَیْنَا شِقْوَتُنَا وَکُنَّا قَوْمًا ضَالِّینَ رَبَّنَا أَخْرِجْنَا مِنْہَا فَإِنْ عُدْنَا فَإِنَّا ظَالِمُونَ) قَالَ فَیُجِیبُہُمْ (اخْسَءُوا فیہَا وَلاَ تُکَلِّمُونِ) قَالَ فَعِنْدَ ذَلِکَ یَءِسُوا مِنْ کُلِّ خَیْرٍ وَعِنْدَ ذَلِکَ یَأْخُذُونَ فِی الزَّفِیرِ وَالْحَسْرَۃِ وَالْوَیْلِ) [ رواہ الترمذی : باب مَا جَاءَ فِی صِفَۃِ طَعَامِ أَہْلِ النَّارِ] ” حضرت ابی دردا ( علیہ السلام) بیان کرتے ہیں رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جہنمیوں پر بھوک مسلط کردی جائے گی اور وہ بھوک اس عذاب کے برابر ہوگی جس میں وہ مبتلا ہونگے۔ کھانا طلب کریں گے تو انہیں کھانے میں سوکھی گھاس پیش کی جائے گی جس سے نہ تو وہ موٹے ہو پائیں گے اور نہ ان کی بھوک دور ہوگی وہ کھانا طلب کریں گے تو انہیں ایسا کھانا دیا جائے گا جو ان کے حلق میں اٹک جائے گا تو وہ کہیں گے کہ دنیا میں کھانا حلق میں پھنس جاتا تھا تو ہم پانی کے ساتھ اسے نیچے اتارتے تھے وہ پانی طلب کریں گے تو انہیں گرم پانی لوہے کے پیالوں میں پیش کیا جائے گا۔ جب اسے اپنے چہروں کے قریب کریں گے تو ان کے چہرے جھلس جائیں گے جب اسے اپنے پیٹ میں داخل کریں گے تو ان کے پیٹ کٹ کے رہ جائیں گے وہ کہیں گے کہ جہنم کے داروغے کو بلاؤ تو انہیں جواب دیا جائے گا کیا تمہارے پاس رسول آیات لے کر نہیں آئے تھے جواب دیں گے ہاں! تو فرشتے کہیں گے تم چیختے چلاتے رہو تمہاری فریاد رائیگاں جائے گی۔ وہ کہیں گے مالک کو پکاروتو جہنمی مالک کو پکاریں گے کہ وہ اللہ سے کہے کہ ہمارے مرنے کا فیصلہ فرمادے۔ انہیں جواب دیا جائے گا تم ہمیشہ اسی میں رہو گے۔ اعمش نے کہا ان کو مالک کی طرف سے ایک ہزار سال کے بعد جواب دیا جائے گا۔ دوزخی کہیں اپنے پروردگار کو پکاروتمہارے رب سے بہتر کوئی نہیں تو وہ کہیں گے اے ہمارے پروردگار ہم پر ہماری بدبختی غالب آگئی اور ہم گمراہ ہوگئے اے ہمارے پروردگار ہمیں اس جہنم سے نکال دے اگر ہم دوبارہ ایسے اعمال کریں تو ہم ظالم ہوں گے انہیں جواب دیا جائے گا اسی دوزخ میں رہو اور کسی قسم کی کلام نہ کرو اس پر جہنمی ہر بھلائی سے ناامید ہوجائیں گے اور وہ آہ وزاری کریں گے اور کھانے پینے پر حسرت کریں گے اور واویلا کریں گے۔“ (جہنم کو کنٹرول کرنے والے فرشتے کا نام ” مالک“ ہے۔) مسائل ١۔ جہنمیوں کی آہ و بقاء اور فریاد نہیں سنی جائے گی۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ پورے غضب کے ساتھ جہنمیوں کو دھتکار دیں گے جہنمی اپنی بدبختی اور گمراہی پر افسوس کریں گے۔ تفسیر بالقرآن جہنمیوں کا جہنم میں واویلا اور آہ و زاریاں : ١۔ اے ہمارے رب ہمیں تھوڑی دیر کے لیے مہلت دے ہم تیری دعوت کو قبول اور تیرے رسول کی بات کو تسلیم کریں گے۔ (ابراہیم : ٤٤) ٢۔ جہنمی کہیں گے اے اللہ ہم نے دیکھ لیا اور سن لیا اب ہم کو واپس لوٹا دے۔ (السجدۃ: ١٢) ٣۔ اے ہمارے پروردگار ہمیں یہاں سے نکال ہم پہلے سے نیک عمل کریں گے۔ (الفاطر : ٣٧) المؤمنون
106 المؤمنون
107 المؤمنون
108 المؤمنون
109 فہم القرآن ربط کلام : رب ذوالجلال کا جہنمیوں کو دوسرا جواب۔ جہنمیوں کو جہنم میں دھتکارتے وقت اللہ تعالیٰ یہ بھی ارشاد فرمائیں گے کہ کیا تم وہ لوگ نہیں ہو؟ جنہوں نے میرے بندوں کو اس وجہ سے تضحیک کا نشانہ بنایا کیونکہ وہ مجھ پر ایمان رکھتے تھے، مجھ سے اپنے گناہوں کی بخشش مانگتے اور مجھ سے رحم کی درخواست کرتے ہوئے کہتے تھے کہ اے رب تو سب سے بڑا رحم کرنے والا ہے۔ انہیں مذاق کرنے کی وجہ سے تم نے میری نصیحت کو فراموش کردیا۔ اپنے بندوں کے ایمان، صبر اور دعاؤں کی وجہ سے انہیں بہترین اجر سے سرفراز کرتا ہوں۔ ان کے مقابلے میں آج تمہاری سزا یہ ہے کہ تم ہمیشہ ہمیش جہنم کی آگ میں جلتے اور چلاّتے رہوگے۔ جنیتوں کا اجر اور جہنمیوں کی سزا : (عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَال اللّٰہُ تَعَالٰی اَعْدَدْتُّ لِعِبَادِیَ الصَّالِحِیْنَ مَالَاعَیْنٌ رَاأتْ وَلَا اُذُنٌ سَمِعَتْ وَلَاخَطَرَ عَلٰی قَلْبِ بَشَرٍ وَّاقْرَءُ وْا اِنْ شِءْتُمْ فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّا اُخْفِیَ لَھُمْ مِنْ قُرَّۃِ اَعْیُنٍ) [ رواہ البخاری : باب مَا جَاءَ فِی صِفَۃِ الْجَنَّۃِ وَأَنَّہَا مَخْلُوقَۃٌ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں‘ میں نے اپنے نیک بندوں کے لیے ایسی نعمتیں تیار کی ہیں‘ جن کو نہ کسی آنکھ نے دیکھا نہ کسی کان نے سنا اور نہ ہی کسی انسان کے دل میں ان کا تصور پیدا ہوا۔ اگر تمہیں پسند ہو تو اس آیت کی تلاوت کرو ” کوئی نہیں جانتا کہ ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک کے لیے کیا چیز چھپا کے رکھی گئی ہے۔“ (وَعَنْہُ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَوْضِعُ سَوْطٍ فِیْ الْجَنَّۃِ خَیْرٌ مِّنَ الدُّنْیَا وَمَا فِیْھَا) [ رواہ البخاری : باب مَا جَاءَ فِی صِفَۃِ الْجَنَّۃِ وَأَنَّہَا مَخْلُوقَۃٌ ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) ہی بیان کرتے ہیں رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا جنت میں ایک کوڑے کے برابر (گز بھر) جگہ دنیا اور جو کچھ اس میں ہے‘ اس سے بہتر ہے۔“ وَعَنْ سَمُرَۃَ بْنِ جُنْدُبٍ اَنَّ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ مِنْھُمْ مَنْ تَاْخُذُہُ النَّارُاِلٰی کَعْبَیْہِ وَمِنْھُمْ مَنْ تَاْخُذُُہُ النَّارُاِلٰی رُکْبَتَیْہِ وَمِنْھُمْ مَنْ تَاْخُذُہُ النَّارُ اِلٰی حُجْزَتِہٖ وَمِنْھُمْ مَنْ تَاْخُذُہُ النَّارُ اِلٰی تَرْقُوَتِہٖ) [ رواہ مسلم : باب فِی شِدَّۃِ حَرِّ نَارِ جَہَنَّمَ وَبُعْدِ قَعْرِہَا وَمَا تَأْخُذُ مِنَ الْمُعَذَّبِینَ] حضرت سمرہ بن جندب (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی گرامی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا‘ جہنم کی آگ نے بعض لوگوں کو ٹخنوں تک‘ بعض کے گھٹنوں تک اور بعض کو کمر تک گھیرا ہوگا اور بعض کی گردن تک پہنچی ہوگی۔ وَعَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَا بَیْنَ مَنْکِبَیِ الْکَافِرِ فِیْ النَّارِ مَسِیْرَۃُ ثَلٰثَۃِ اَیَّامٍ للرَّاکِبِ الْمُسْرِعِ۔ وَفِیْ رِوَایَۃٍ ضِرْسُ الْکَافِرِ مِثْلُ اُحُدٍ وَغِلْظُ جِلْدِہٖ مَسِیْرَۃُ ثَلٰثٍ) [ رواہ مسلم : باب النَّارُ یَدْخُلُہَا الْجَبَّارُونَ وَالْجَنَّۃُ یَدْخُلُہَا الضُّعَفَاءُ ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جہنم میں کافر کے کندھوں کا درمیانی فاصلہ اتنا ہوگا کہ تیز رفتارسوار کے لیے تین دن کی مسافت ہوگی ایک اور روایت میں ہے کہ دوزخ میں کافر کی داڑھ احد پہاڑ کے برابر ہوگی اور اس کے جسم کی موٹائی تین رات کی مسافت کے برابر ہوگی۔“ مسائل ١۔ نیک لوگوں کو مذاق کرنے کی سزا۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی بخشش اور اس کارحم مانگنا چاہیے۔ ٣۔ صبر کرنے والوں کو قیامت کے دن پوری پوری جزا ملے گی۔ تفسیر بالقرآن صبر کرنے کا صلہ : ا۔ صبر اہم کاموں میں اہم ترین کام ہے۔ (الشوریٰ: ٤٣) ٢۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو صبر کا حکم دیا گیا۔ (المعارج : ٥) ٣۔ اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ (البقرۃ : ١٥٣) ٤۔ صبر کا انجام اچھا ہوتا ہے۔ (الحجرات : ٥) ٥۔ صبر کرنے والے کامیاب ہوں گے۔ (المومنون : ١١١) ٦۔ صبر کرنے والوں کا صلہ جنت ہے۔ (الدھر : ١٢) المؤمنون
110 المؤمنون
111 المؤمنون
112 فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ کا جہنمیوں سے ایک اور سوال :۔ انسان کی بغاوت اور نافرمانی کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ وہ آخرت کے مقابلے میں دنیا کو سب کچھ سمجھ بیٹھتا ہے۔ جس کے نتیجہ میں وہ سمجھتا ہے مرنے کے بعد میں نے اللہ تعالیٰ کے حضور پیش نہیں ہونا۔ جہنمیوں کی حسرتوں میں اضافہ کرنے اور دنیا میں دی جانے والی مہلت کا احساس دلانے کے لیے۔ اللہ تعالیٰ جہنمیوں سے استفسار فرمائیں گے۔ بتاؤ کہ تم دنیا میں کتنا عرصہ ٹھہرے تھے ؟ جہنمی جہنم کی ہولناکیوں سے گھبرا کر کہیں گے کہ ہم دنیا میں ایک دن یا دن کا کچھ حصہ رہے۔ اس کے ساتھ ہی فریاد کریں گے کہ الٰہی ہمیں کچھ یاد نہیں کہ ہم کتنی دیر ٹھہرے رہے۔ آپ ان لوگوں سے استفسار فرمائیں جو گنتی کو جاننے والے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرمائے گا کہ تم ایک دن یا اس کا کچھ حصہ نہیں ٹھہرے بلکہ ایک مدت تک ٹھہرے رہے۔ اللہ تعالیٰ نے دنیا کی مدّت کو قلیل مدت قرار دیا ہے اس کی پہلی وجہ یہ ہے کہ دنیا کی زندگی اور اس کی نعمتیں آخرت کے مقابلے میں قلیل ہیں۔ دوسری وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ جہنمیوں کو یہ احساس دلایا جائے کہ تمہیں دنیا کی زندگی میں معمولی اختیارات اور تھوڑی سی مہلت دی گئی مگر تم نے پھر بھی اپنے رب کی نافرمانی کی۔ اگر تم دنیا کی زندگی کو قلیل اور عارضی جانتے اور آخرت کی حقیقت کو سمجھتے تو آج جہنم کے عذاب سے نجات پاتے۔ (وَعَنِ المُسْتَوْرِ دِ بْنِ شَدَّادٍ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَقُولُ: وَاللّٰہِ مَا الدُّنْیَا فِی الْآخِرَۃِ إِ لَّا مِثْلُ مَا یَجْعَلُ اَحَدُکُمْ إِصْبَعَہٗ فِی الْیَمِّ فَلْیَنْظُرْ بِمَ یَرْجِعُ) [ رواہ مسلم : باب فَنَاء الدُّنْیَا وَبَیَانِ الْحَشْرِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ] ” حضرت مستورد بن شداد (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بیان کرتے ہوئے سنا اللہ کی قسم! دنیا کی مثال آخرت کے مقابلے میں اتنی سی ہے‘ جتنا کہ تم میں سے کوئی دریا میں اپنی انگلی ڈالے۔ پھر دیکھے کہ اس کے ساتھ کتنا پانی آیا ہے؟“ (وَعَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ اَخَذَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بِبَعْضِ جَسَدِی فَقَالَ کُنْ فِی الدُّنْیَا کَأَنَّکَ غَرِیْبٌ أَوْ عَابِرُ سَبِیْلٍ وَعُدَّ نَفْسَکَ مِنْ أَھْلِ القُبُوْرِ) [ رواہ البخاری : باب قول النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کُنْ فِی الدُّنْیَا کَأَنَّکَ غَرِیْبٌ أَوْ عَابِرُ سَبِیْل] حضرت ابن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے میرے کندھے کو پکڑکر فرمایا۔ دنیا میں اجنبی یا مسافر کی طرح رہو اور اپنے آپ کو اہل قبور میں شمار کرو۔ ” حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ قیامت کے دن دوزخیوں میں سے ایک شخص کو لایا جائے گا‘ جو دنیا میں سب سے زیادہ عیش وآرام کی زندگی بسر کرتا رہا۔ اسے دوزخ میں ایک غوطہ دیا جائے گا اس کے بعد اس سے پوچھا جائے گا۔ اے آدم کے بیٹے! کیا تو نے کبھی آرام دیکھا؟ اور تجھ پر نعمتوں کا کوئی دور گزرا ؟ وہ کہے گا۔ اللہ کی قسم! کبھی نہیں‘ اے میرے رب ! میں نے کبھی آرام نہیں پایا۔ پھر جنتیوں میں سے ایسے شخص لا یا جائے گا‘ جس نے دنیا میں سب سے زیادہ تنگ زندگی گزاری ہوگی اسے جنت کی ایک جھلک دکھاکر پوچھا جائے گا‘ کیا تو نے کبھی تنگی دیکھی ؟ کیا تجھ پر کبھی سختی کا وقت آیا ؟ وہ جواب دے گا۔ اللہ کی قسم! مجھ پر کوئی تنگی نہیں آئی اور نہ ہی میں نے کبھی برا دن دیکھا۔“ [ رواہ مسلم : باب صَبْغِ أَنْعَمِ أَہْلِ الدُّنْیَا فِی النَّارِ وَصَبْغِ أَشَدِّہِمْ بُؤْسًا فِی الْجَنَّۃ] مسائل ١۔ جہنمی جہنم کے عذاب کی وجہ سے دنیا کی عیش وعشرت بھول جائیں گے۔ ٢۔ جہنمی دنیا میں طویل مدت تک رہنے کے باوجود اسے ایک دن یا دن کا کچھ حصہ قرر دیں گے۔ تفسیر بالقرآن آخرت کے مقابلے میں دنیا کی حیثیت : ١۔ آخرت بہتر اور باقی رہنے والی ہے۔ (الاعلیٰ: ١٧) ٢۔ دنیا کھیل اور تماشا ہے۔ (الانعام : ٣٢) ٣۔ آخرت کے مقابلے میں دنیا کی زندگی عارضی ہے۔ (الرعد : ٢٦) ٤۔ دنیا کی زندگی محض دھوکے کا سامان ہے۔ (الحدید : ٢٠) ٥۔ دنیا عارضی اور آخرت ہمیشہ رہنے والی ہے۔ (المؤمن : ٣٩) المؤمنون
113 المؤمنون
114 المؤمنون
115 المؤمنون
116 فہم القرآن ربط کلام : دنیا کو دائمی سمجھنا اور مرنے کے بعد جی اٹھنے کا انکار کرنے والا شخص اپنی اور کائنات کی تخلیق کو بے مقصدسمجھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ بلندو بالا اور بلا شرکت غیرے زمین و آسمان کا بادشاہ ہے۔ اس کی ذات اور فرمان برحق اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق اور حاجت روا اور مشکل کشا نہیں ہے وہ عرش کریم کا مالک ہے۔ اس فرمان میں اللہ تعالیٰ نے اپنی پانچ صفات کا تذکرہ کیا ہے۔ یہاں ہم اس فرمان کے سیاق کے حوالے سے اللہ تعالیٰ کی تین صفات کی مختصر تشریح کریں گے اللہ تعالیٰ نے اپنے اعلیٰ ہونے کی صفت بیان فرما کر یہ ثابت کیا ہے کہ اس کی یہ شان نہیں کہ وہ کوئی چیز عبث اور بے مقصد پیدا کرے۔ اس لیے منکرین قیامت کا یہ عقیدہ غلط ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو بے مقصد پیدا کیا ہے گویا کہ قیامت کا انکار کرنے والا اپنی تخلیق اور پوری کائنات کے وجود کو بے مقصد قرار دیتا ہے۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ میں نے کوئی چیز بے مقصد پیدا نہیں کی (آل عمران : ١٩١) انسان کی زندگی کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ہم نے موت وحیات کو پیدا کیا تاکہ ہم لوگوں کو نیکی اور برائی کے ساتھ آزمائیں۔ ( الملک : ٢)۔1” اللہ“ اپنی ذات، صفات کے اعتبار سے بلندوبالاہے 2” اللہ“ ہی زمین و آسمانوں اور ہر چیز کا بلا شریک غیرے بادشاہ ہے 3” اللہ“ اپنی ذات، صفات، کام اور حکم میں برحق ہے 4 ” اللہ“ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں وہی حاجت روا، مشکل کشا ہے۔5” اللہ“ عرش کریم کا مالک ہے۔ (عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ أَنَّ رَسُوْلَ اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ قَال اللَّہُ عَزَّ وَجَلَّ أَنْفِقْ أُنْفِقْ عَلَیْکَ وَقَالَ یَدُ اللَّہِ مَلأَی لاَ تَغِیْضُہَا نَفَقَۃٌ، سَحَّاء اللَّیْلَ وَالنَّہَارَ وَقَالَ أَرَأَیْتُمْ مَا أَنْفَقَ مُنْذُ خَلَقَ السَّمَآءَ وَالأَرْضَ فَإِنَّہٗ لَمْ یَغِضْ مَا فِیْ یَدِہِ، وَکَانَ عَرْشُہٗ عَلَی الْمَاءِ، وَبِیَدِہِ الْمِیْزَانُ یَخْفِضُ وَیَرْفَعُ) [ رواہ البخاری : کتاب التفسیر، باب قولہ تعالیٰ وکان عرشہ علی الماء ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ عزوجل فرماتے ہیں انسان خرچ کر تجھ پر خرچ کیا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ کے ہاتھ بھرے ہوئے ہیں۔ رات، دن خرچ کرنے سے اس خزانہ میں کمی نہیں آتی، آپ نے فرمایا تمہارا کیا خیال ہے کہ قدر اللہ نے کتنا خرچ کیا ہوگا ؟ جب سے اللہ تعالیٰ نے آسمان و زمین بنائے ہیں یقیناً اس کے خزانوں میں کسی قسم کی کمی نہیں آئی۔ اللہ تعالیٰ کا عرش پانی پر تھا، اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ترازو ہے وہ اسے اوپر، نیچے کرتا ہے۔“ مسائل ١۔ منکرین قیامت کا عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قیامت برپا نہیں کرنی۔ ٢۔ منکرین قیامت کا عقیدہ اور دعویٰ ہے کہ ہم نے اللہ تعالیٰ کی طرف لوٹائے نہیں جانا۔ ٣۔ منکرین قیامت کا اپنے عقیدہ اور دعویٰ میں جھوٹے ہیں اللہ تعالیٰ ہر صورت قیامت برپا کرے گا اور لوگوں کو اپنی بارگاہ میں پیش کرے گا۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ بے مقصد کام کرنے اور حکم دینے اور لوگوں کے باطل عقیدہ وعمل سے پاک اور بلندو بالا ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ کی صفات کی ایک جھلک : ١۔ ” اللہ“ تعالیٰ ہی رب ہے۔ ( لانعام : ١٠٢) ٢۔ ” اللہ“ ہر چیز کا خالق ہے۔ ( الرعد : ١٦) ٣۔” اللہ“ ہی ازلی اور ابدی ذات ہے۔ (الحدید : ٣) ٤۔ مشرق ومغرب ” اللہ“ کے لیے ہے۔ (البقرۃ: ١٤٢) ٥۔ غنی ہے تعریف کیا گیا۔ ( فاطر : ٣٥) ٦۔ زمین و آسمان پر ” اللہ“ کی بادشاہی ہے۔ (آل عمران : ١٨٩) ٧۔ قیامت کو بھی اللہ تعالیٰ ہی کی حکومت ہوگی۔ (الفرقان : ٢٦) ٨۔ جو کچھ آسمان و زمین میں ہے وہ ” اللہ“ کی ملکیت ہے اور ا ” اللہ“ ہر چیز پر قادر ہے۔ (آل عمران : ١٨٩) ٩۔ ” اللہ“ ہر چیز پر گواہ۔ ( البروج : ٩) ١٠۔ کیا آپ نہیں جانتے ؟ کہ زمین و آسمان کی بادشاہت ” اللہ“ کے لیے ہے۔ (البقرۃ: ١٠٧) ١١۔ ” اللہ“ سخت عذاب دینے والا۔ ( البقرۃ: ١٦٥) ١٢۔” اللہ“ توبہ قبول کرنے والا ہے۔ ( النساء : ١٦) ١٣۔ ” اللہ“ صراط مستقیم کی راہنمائی کرنے والا۔ ( الحج : ٥٤) ١٤۔ ” اللہ“ غیب وحاضر کو جاننے والا ہے۔ ( الحشر : ٢٢) ١٥۔ ” اللہ“ قوی اور غالب ہے۔ ( المجادلۃ: ٢١) ١٦۔ ” اللہ“ واحد ہے زبردست طاقت والا ہے۔ ( ص ٦٥) ١٧۔ ” اللہ“ تعالیٰ ہی زندہ کرنے والا اور موت دینے والا ہے۔ ( البقرۃ: ٢٥٥) ١٨۔ ” اللہ“ تعالیٰ بندوں پر شفقت اور نرمی فرمانے والا ہے۔ ( آل عمران : ٣٠) المؤمنون
117 فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ ہر اعتبار سے بلندوبالا، پوری کائنات کا بادشاہ، عرش کریم کا رب ہونے کی بناء پر اکیلا ہی معبودِ بر حق ہے۔ لیکن اس کے باوجود مشرک اللہ تعالیٰ کے ساتھ دوسروں کو الٰہ بناتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی خالص عبادت کرنے کی بجائے مشرک دوسروں کو اللہ تعالیٰ کی عبادت میں شریک کرتا ہے حالانکہ اللہ تعالیٰ کے سوا دوسروں کو پکارنے کی اس کے بعد کوئی دلیل نہیں ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنی ذات، شان اور صفات کے حوالے سے اکیلا اور سب سے اعلیٰ ہے۔ اس کی ذات اور صفات میں کوئی بھی شریک نہیں ہے۔ مشرک دلیل نہ ہونے کے باوجود نہ صرف شرک جیسے سنگین جرم میں ملّوث ہوتا ہے بلکہ شرک کی حمایت میں بحث و تقرار بھی کرتا ہے یہاں تک مرنے مارنے پر اتر آتا ہے ایسی صورت میں ایک داعی کو یہ تلقین کی گئی ہے کہ وہ مشرک سے الجھنے کی بجائے یہ کہہ کر اپنا کام کرتا جائے کہ تیرا حساب اللہ تعالیٰ کے ذمہّ ہے اس عقیدہ کا انکار کرنے والے یقیناً فلاح نہیں پائیں گے۔ اے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ اپنے رب سے اس کی بخشش اور رحم مانگتے رہیں یقیناً آپ کا رب بڑا رحم کرنے والاہے۔ سورۃ المومنون کی ابتداء ان الفاظ سے ہوئی تھی کہ مومن فلاح پا چکے اس کا اختتام اس بات پر کیا جا رہا ہے کہ ان کے مقابلے میں جو لوگ اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کی صفات کا انکار کرتے ہیں وہ کبھی کامیاب نہیں ہوں گے۔ یہ حقیقت بتلانے کے بعد نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کی امت کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ اپنے رب سے اس کی بخشش اور رحمت مانگتے رہو وہ سب سے زیادہ رحم کرنے والا ہے۔ ” حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا‘ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ دوزخیوں میں سے سب سے ہلکا عذاب دیے جانے والے سے پوچھیں گے اگر تیرے پاس زمین کی چیزوں میں سے کوئی چیز ہوتی تو کیا تو عذاب سے چھٹکارے کے بدلے میں وہ چیز دے دیتا ؟ وہ کہے گا کیوں نہیں ! اللہ تعالیٰ فرمائیں گے میں نے تجھ سے دینا میں بہت ہی معمولی مطالبہ کیا تھا۔ جب تو آدم (علیہ السلام) کی پشت میں تھا کہ میرے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہر انا‘ لیکن تو نے انکار کیا اور میرے ساتھ شریک ٹھہراتا رہا۔“ [ رواہ البخاری : باب صِفَۃِ الْجَنَّۃِ وَالنَّارِ ] توبہ واستغفار کی فضیلت اور فوائد : اللہ کی رضا کا حصول : گنا ہوں کی معافی کا ذریعہ، اس سے ضمیر کا بوجھ ہلکا اور پریشانیوں سے نجات ملتی ہے، دنیا میں کشادگی اور آ خرت میں جنت کے باغات نصیب ہوں گے، سچی توبہ سے سیئات حسنات میں تبدیل ہوجاتی ہیں، توبہ و استغفار کرنے سے آدمی اللہ کے غضب سے محفوظ ہوجاتا ہے لہٰذا ہر دم اللہ تعالیٰ کے حضور توبہ، استغفار کرتے رہیے۔ امیر المومنین سیدنا حضرت عمر فاروق (رض) کے زمانے میں ابر باراں ہوئے عرصہ گزر چکا تھا وہ ہاتھ اٹھا کر بارش مانگنے کی بجائے بار بار توبہ استغفار کرتے رہے کسی نے عرض کیا کہ آپ نے بارش کی دعا کی ہی نہیں، فرمایا کیا تو نے قرآن نہیں پڑھا سورۃ نوح میں اللہ تعالیٰ نے توبہ استغفار کے بدلے بارش برسانے کا وعدہ فرمایا ہے۔ (إِسْتَغفِرُوْا رَبَّکُمْ إِنَّہٗ کَانَ غَفَّارًا۔ ےُرْسِلِ السَّمَاءَ عَلَےْکُمْ مِدْرَارًا۔) [ نوح : ١٠۔ ١١] ” اپنے رب سے معافی مانگو بے شک وہ بڑا معاف کرنے والاہے۔ وہ تم پر آسمان سے خوب بارش بر سائے گا۔“ مسائل ١۔ مشرک کے پاس شرک کی کوئی دلیل نہیں ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ کی ذات اور صفات کا انکار کرنے والا فلاح نہیں پائے گا۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی بخشش اور اس کی رحمت طلب کرنی چاہیے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ سب سے بڑھ کر رحم فرمانے والا ہے۔ تفسیر بالقرآن نہ ” اللہ“ کے ساتھ کسی کو پکارا جائے اور نہ اس کے سوا کسی کو پکارا جائے : ١۔ اللہ کے سوا کسی کو نہ پکاروجو نہ نقصان پہنچا سکتا ہے اور نہ نفع دے سکتا ہے۔ (یونس : ١٠٦) ٢۔ اللہ کے ساتھ کسی اور کو نہ پکاریں ورنہ آپ عذاب میں مبتلا ہونے والوں میں سے ہوجائیں گے۔ (الشعراء : ٢١٣) ٣۔ مشرک سمجھتے ہیں کہ اللہ نے مدفون بزگوں کو کچھ اختیارات دے رکھے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ اس نے کسی کو کوئی اختیار نہیں دیا۔ (فاطر : ١٣) ٤۔ اللہ کی عبادت میں کسی کو شریک نہ کیا جائے۔ (النساء : ٣٦) المؤمنون
118 المؤمنون
0 سورۃ النّور کا تعارف ربط سورۃ: سورۃ المومنوں ان الفاظ پر ختم ہوئی کہ اپنے رب سے بخشش اور رحم مانگتے رہو۔ اس کا رحم اور بخشش ان لوگوں کو حاصل ہوگا جو اس کے ارشادات سے نصیحت حاصل کر کے اس پر عمل کرتے ہیں۔ یہ سورۃ 9 رکوع اور 64 آیات پر مشتمل ہے۔ عرب غیور اور خوددار ہونے کے باوجود اخلاقی بے راہ روی میں اس حد تک آگے بڑھ چکے تھے کہ بدکاری اور بے حیائی ان کے نزدیک عیب نہیں سمجھا جاتا تھا، خاندانی دشمنی کی بنا پر شاعر مجمع عام میں اپنی محبوبہ اور مخالف گروہ کی بہو، بیٹیوں پر تہمتیں لگاتے اور سننے والے ان سے لطف اندوز ہوتے، مکہ کی نسبت مدینہ کے لوگ پڑھے لکھے اور ترقی یافتہ تھے، مگر ان کی اخلاقی گرواٹ کا عالم یہ تھا کہ مدینہ میں باقاعدہ قحبہ خانے تھے۔ فاحشہ عورتوں نے ان کی مشہوری کے لیے چھتوں پر جھنڈے لہرا رکھے تھے، تاکہ برائی کے متلاشی لوگوں کو ان تک پہنچنے میں کوئی دقّت پیش نہ آئے، معاشرتی آداب اس قدر پامال ہوچکے تھے کہ ایک دوسرے کے گھروں میں بلا اجازت آنا، جانا بالخصوص مذہبی پوپ اور بڑے لوگ اپنا حق سمجھتے تھے، اس کا سبب تھا کہ اگر بڑے خاندان کا آدمی زنا یا کوئی جرم کرتا تو اس پر کوئی قانون لاگو نہیں ہوتا تھا، غریب یا کمزور خاندان کا آدمی جرم کرتا تو اس پر حد نافذ کی جاتی تھی۔ اخلاقی بے راہ روی اور ہر قسم کی بے حیائی ختم کرنے کے لیے یہ سورۃ مبارک نازل کی گئی۔ جس میں سوچ کی پاکیزگی اور کردار کی پختگی کے اصول بتلانے کے ساتھ ساتھ چوری، بدکاری اور تہمت کی سزا مقرر کی گئی ہے اور اس کے نفاذ پر کسی قسم کی نرمی روا رکھنے کو ایمان کی کمزوری قرار دیا گیا ہے۔ اس طرح چادر اور چار دیواری کے تحفظ کو یقینی بنایا گیا ہے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ جونہی مسلمان مرد وزن نے اس سورۃ کی تعلیمات پر عمل کیا۔ معاشرہ امن وامان اور شرم وحیا کا گہوارہ ثابت ہوا۔ کیونکہ صدیوں سے جاری معاشرتی رسومات اور اطوار کا بدلنا انتہائی مشکل ہوا کرتا ہے اس لیے اس سورۃ اور اس کے احکام کے بارے میں ارشاد فرمایا ہے کہ اس سورۃ کو ہم نے نازل کیا ہم نے اس کے احکام کی تعمیل کو لازم قرار دیا اور ہم ہی نے اس کے ارشادات کو کھول کھول کر بیان کیا تاکہ تم انہیں یاد رکھو۔ لہٰذا غیر شادی شدہ زانی اور زانیہ کے لیے اسّی اسّی کوڑے ہیں۔ کوڑے مارتے ہوئے کسی قسم کی نرمی نہیں ہونا چاہیے اور اس وقت مومنوں میں کچھ لوگوں کا موجود ہونا بھی ضروری ہے۔ اب کے بعد زانی عورت کا نکاح زانی مرد کے ساتھ ہوگا، مشرکہ، مشرک کے ساتھ، بدکار عورت کا بدکار مرد سے اور مشرک کا نکاح مشرکہ کے ساتھ ہی ہوسکتا ہے۔ باکردار مسلمان مردوں پر یہ رشتے حرام ہیں۔ جو لوگ صالح کردار عورتوں پر تہمت لگاتے ہیں انہیں اسّی درّے مارے جائیں اور آئندہ کے لیے ان کی شہادت قبول نہ ہوگی، ان حدود کے بیان کرنے کے بعد اس سورۃ کے شان نزول کی طرف اشارہ کرتے ہوئے حضرت عائشہ صدیقہ (رض) کے سچے کردار کی گواہی دی گئی ہے۔ اور مومنوں کو سمجھایا ہے کہ کسی صالح کردار مردو زن پر تہمت لگے تو اس کے پاکیزہ ماضی کو سامنے رکھتے ہوئے اس تہمت کی فوراً تردید کر دینی چاہیے، کیونکہ صالح انسان کا ماضی بہت حد تک اس کے مستقبل کی ضمانت ہوتا ہے، پھر ایک دوسرے کے گھر میں داخل ہونے سے پہلے اجازت لینا اور گھر والوں کو سلام کرنے کی تعلیم دی گئی ہے۔ اس تعلیم کے ساتھ ہی مومن مرد اور مومن خواتین کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ اپنی نگاہیں نیچے رکھا کریں، اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کیا کریں، اس حکم کے ساتھ ان رشتوں کا ذکر کیا گیا ہے جن سے پردہ کرنا عورت کے لیے ضروری نہیں۔ سورۃ کے پانچویں رکوع میں اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کو زمین و آسمانوں کا نور قرار دیا ہے پھر اپنے نور کو ایک مثال کے ذریعے سمجھایا، جس میں یہ اشارہ موجود ہے کہ اللہ تعالیٰ کے احکام اور ارشادات نور کی حیثیت رکھتے ہیں جس سے معاشرے کی ہر قسم کی تاریکیاں دور ہوتی ہیں جو لوگ اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ ہدایت کی روشنی میں نہیں آتے ان کی مثال ایسے شخص کی ہے جو گھٹا ٹوپ اندھیروں میں پھنسا ہوا ہے۔ وہ ان سے نکلنا چاہتا ہے لیکن نکل نہیں سکتا، جس کے لیے اللہ تعالیٰ روشنی نہ کرے وہ کہیں سے روشنی نہیں پا سکتا۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کی تعریف فرمائی ہے جنہیں لین، دین اور کاروبار ” اللہ“ کے ذکر سے غافل نہیں کرتا، وہ نماز کے وقت نماز ادا کرتے ہیں اور زکوٰۃ کے وقت زکوٰۃ ادا کرتے ہیں، ان کے دل قیامت کی ہولناکیوں سے لرزاں رہتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو اللہ تعالیٰ نہ صرف پوری پوری جزا دے گا بلکہ اپنے فضل سے بہت کچھ عنایت فرمائے گا۔ اللہ تعالیٰ جب دینے پر آتا ہے تو بغیر حساب و کتاب کے عطا فرماتا ہے۔ مؤمنوں کی یہ صفت بیان کی گئی ہیں کہ جب بھی انہیں اللہ اور اس کے رسول کی طرف بلایا جائے وہ ہر قسم کی رکاوٹوں کو دور کرتے ہوئے اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت میں آجاتے ہیں۔ سورۃ کے آخر میں ان اوقات کا ذکر کیا گیا ہے جن اوقات میں گھریلوں ملازم اور نابالغ بچے بھی اجازت لے کر خلوت خانوں میں جایا کریں۔ اس میں مومنوں کی یہ بھی صفت بتلائی گئی ہے کہ یہ لوگ جب رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں مشاورت کے لیے بلائے جاتے ہیں تو اجازت لیے بغیر آپ کی مجلس سے نہیں جاتے۔ آخر میں یہ ادب سکھلایا گیا ہے کہ مسلمان اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس طرح نہ آواز دیا کریں جس طرح ایک دوسرے کو آواز دے کر بلاتے ہیں اگر لوگ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی گستاخی سے باز نہ آئے تو انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ بالآخر سب نے ” اللہ“ کی بارگاہ میں حاضر ہونا ہے وہ تمہیں بتلائے گا کہ تم کیا کچھ کر رہے تھے۔ یعنی رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی گستاخی کرنے پر تمہیں ٹھیک ٹھیک سزا دی جائے گی۔ النور
1 فہم القرآن ربط کلام : سورۃ المؤمنوں کا اختتام اس بات پر ہوا ہے کہ جو لوگ اپنے رب کے ساتھ دوسروں کو پکارتے ہیں ان کے پاس اس باطل عقیدہ کی کوئی دلیل نہ ہے۔ ان کا حساب ” اللہ“ کے ذمہ ہے ” اللہ“ کی ذات اور اس کے احکام کا انکار کرنے والے کامیاب نہیں ہونگے۔ اے رسول آپ اپنے رب سے مغفرت اور اس کا رحم مانگئے۔ سورۃ النور کا آغاز ان الفاظ سے ہوا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے احکام پر عمل کرنا فرض ہے۔ گویا کہ جو شخص اپنے رب کی بخشش اور مہربانی چاہتا ہے اسے چاہیے کہ وہ اپنے ” اللہ“ کی توحید کا اقرار اور اس کے احکام پر عمل کرے۔ اللہ تعالیٰ نے اس سورۃ مبارکہ کا نام النّور رکھ کر یہ اشارہ فرمایا ہے کہ اگر مسلمان ہر قسم کی تاریکی اور جہالت سے نکل کر روشن دور میں داخل ہونا چاہتے ہیں تو انہیں ذاتی اور معاشرتی طور پر اللہ تعالیٰ کے بتلائے ہوئے فرامین پر عمل کرنا ہوگا۔ اس سورۃ مبارک میں توحید ورسالت اور آخرت کا بیان کرنے کے ساتھ ساتھ اخلاقی حدود و قیود کا ذکر کیا گیا ہے ان کی فرضیت کا تذکرہ ان الفاظ میں کیا ہے کہ اس سورۃ کو اللہ تعالیٰ نے نازل کیا اس نے اس سورۃ میں بیان ہونے والی تعلیم اور قوانین کو فرض ٹھہرایا ہے اور اس میں ذکر ہونے والے احکام کو کھول کر بیان کیا ہے تاکہ لوگ اس سے نصیحت حاصل کریں۔ ہر مسلمان کا عقیدہ ہے کہ قرآن مجید کا ایک ایک لفظ اللہ تعالیٰ کا نازل کردہ ہے اور اس پر عمل کرنا فرض ہے اور اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ احکام بالکل واضح ہیں ان میں کسی قسم کا ابہام نہیں ہے۔ اس کے باوجود سورۃ کی پہلی آیت میں پورے جلال اور دبدبے کے ساتھ فرمایا ہے کہ ہم نے اس سورۃ کو نازل کیا ہم نے اسے فرض ٹھہرایا اور ہم نے اس کے احکام کھول کھول کر بیان کیے ہیں۔ ایک آیت میں تین مرتبہ ہم کی ضمیر لا کر اپنی جلالت و جبروت کا اظہار فرمایا تاکہ مسلمانوں کو اس کی عظمت و فضیلت کا ادراک ہو اور وہ اس پر من وعن عمل کرکے برائی اور بے حیائی سے پاک معاشرہ قائم کرکے اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ نور سے اپنے آپ کو منور کرسکیں یہی کتاب مبین کے نزول کا مقصد ہے۔ ” یہ کتاب ہم نے آپ کی طرف اس لیے اتاری ہے کہ آپ اپنے رب کے حکم سے لوگوں کو تاریکیوں سے نکال کر روشنی کی طرف لائیں اللہ غالب اور بے نیاز کے راستے کی طرف۔“ (ابراہیم : ١) النور
2 فہم القرآن ربط کلام : غیر شادی شدہ زانی عورت اور مرد کے لیے سو، سو کوڑوں کی سزا، شادی شدہ زانی مرد اور عورت کے لیے رجم کی سزا یک دم نازل نہیں ہوئی اس سے پہلے سورۃ النساء میں بدکار لوگوں کی سزا کا اشارہ ہوچکا ہے۔ ” تمہاری عورتوں میں جو بے حیائی کا کام کریں ان پر اپنے میں سے چار گواہ لاؤ۔ اگر وہ گواہی دیں تو ان عورتوں کو گھروں میں قید رکھو یہاں تک کہ ان کی موت واقع ہو یا اللہ تعالیٰ ان کے لیے کوئی راہ نکال دے تم میں سے جو دو مرد ایسا کام کریں انہیں سزا دو اگر وہ توبہ اور اصلاح کرلیں تو انہیں چھوڑ دو بے شک اللہ تعالیٰ توبہ قبول کرنے والا رحم کرنے والا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کی توبہ قبول فرماتا ہے جو نادانی کی وجہ سے برائی کریں اور پھر جلد ہی اس سے توبہ کریں اللہ تعالیٰ ان کی توبہ قبول کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ جاننے والا‘ حکمت والا ہے۔ (النساء : ١٥، ١٦، ١٧) اگر کوئی عورت یا مرد بدکاری کرے تو اسے سو کوڑے مارے جائیں کوڑے مارتے ہوئے نہ کمی بیشی کی جائے اور نہ ہی کوڑے مارنے میں نرمی ہونا چاہیے۔ یہ اللہ کے دین کا ضابطہ ہے۔ اس پر من وعن عمل ہونا چاہیے اگر واقعی تم اللہ اور آخرت پر ایمان لانے والے ہو زانی اور زانیہ کو کوڑے مارتے وقت مومنوں کی ایک جماعت کا موجود ہونا بھی ضروری ہے۔ سزا کا حکم جاری کرتے ہوئے پہلے بدکار عورت کا ذکر کیا ہے شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ عام طور پر مرد اس وقت تک عورت سے بدکاری نہیں کرسکتا جب تک عورت کسی نہ کسی طرح یہ فعل کرنے کے لیے آمادہ نہ ہو۔ بدکاری کا اعتراف کرنے یا چار شہادتیں قائم ہونے کے بعد انہیں سو سو کوڑے لگائے جائیں گے۔ بدکار مرد کو یہ سزا بھی دی جائے گی کہ اسے ایک سال کے لیے اس کے علاقہ سے جلا وطن کردیا جائے۔ کوڑے مارتے وقت کسی قسم کی شفقت اور نرمی نہیں ہونی چاہیے۔ کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کی مقرر کی ہوئی حدود میں سے ایک حد ہے۔ اللہ تعالیٰ کی حد کا دل و جان سے احترام اور اس پر پوری طرح عمل ہونا چاہیے۔ حد کے نفاذ کو یہ کہہ کر یقینی بنایا گیا ہے کہ اگر تمہارا اللہ اور آخرت پر یقین ہے تو تمہیں حد ضرور نافذ کرنا ہوگی۔ حد کے نفاذ میں اس شرط کو بھی لازم قرار دیا ہے کہ زانی اور زانیہ پر کوڑے برساتے وقت مومنوں کی ایک جماعت کا حاضر ہونا ضروری ہے تاکہ یہ سزا دیکھ کر لوگ عبرت حاصل کریں۔ کوڑوں کی سزا غیر شادی شدہ مرد اور عورت کے لیے ہوگی اگر زنا کرنے والے دونوں یا ان میں سے ایک شادی شدہ ہو تو اسے رجم کیا جائے گا۔ کیونکہ نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور خلفائے راشدین (رض) نے شادی شدہ زانی اور زانیہ کو رجم کیا تھا۔ صرف اسلام میں ہی نہیں بلکہ تورات، انجیل میں بھی شادی شدہ زانی اور زانیہ کے لیے یہی سزا مقرر ہے۔ جس کا ثبوت یہ ہے کہ ایک یہودی مرد اور عورت نے زنا کا ارتکاب کیا تھا ان کا مقدمہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں پیش کیا گیا۔ مقدمہ پیش کرنے والے یہودیوں کا مقصد یہ تھا کہ شریعت موسوی میں اس کی سزا رجم ہے۔ ہوسکتا ہے شریعت اسلامیہ میں اس کی سزا نرم ہو اس غرض سے زانی عورت اور مرد کو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے پیش کیا گیا۔ آپ نے یہودی عالم ابن صوریا کو بلاکر رجم کے بارے میں استفسار فرمایا تو اس نے کہا کہ تورایت میں اس جرم کی سزا رجم ہے اس پر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دونوں کو رجم کرنے کا حکم دیا۔ (بخاری : کتاب المحاربین، مسلم کتاب الحدود) تفتیش میں نرمی اور سزا میں سختی :۔ بعض علماء اور سکالر حضرات غیر مسلموں کے پراپیگنڈہ سے متأثر ہو کر یہ شور مچاتے ہیں کہ اسلام میں بعض سزائیں حد سے زیادہ سخت ہیں کچھ زبان دراز غیر مسلموں کی نمائندگی کرتے ہوئے اسلامی حدود کو وحشیانہ سزائیں قرار دیتے ہیں انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ اسلام کس حد تک لوگوں کو حدود سے بچانے کی کوشش کرتا ہے۔ سب سے پہلے اسلام کے تفتیشی نظام پر غور فرمائیں اس وقت تک کسی بدکار کو سنگسار کرنے اور کوڑے مانے کی اجازت نہیں۔ جب تک چار عاقل، بالغ اور عادل گواہ مکمل ثبوت کے ساتھ اپنی گواہی ثابت نہ کرسکیں۔ گواہی لیتے ہوئے جج پر لازم ہے کہ وہ پوری غیر جانبداری اور دیانتداری کے ساتھ کھلے الفاظ میں شہادت لے۔ تب جا کر مجرموں پر حدوداللہ کانفاذ ہوگا۔ اس سلسلہ میں نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا انداز تفتیش ملاحظہ فرمائیں کہ اس میں کس قدر نرمی اور احتیاط برتی گئی ہے۔ (عَنْ عَاءِشَۃَ (رض) قَالَتْ قَالَ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ادْرَءُ وا الْحُدُودَ عَنِ الْمُسْلِمِینَ مَا اسْتَطَعْتُمْ فَإِنْ کَانَ لَہُ مَخْرَجٌ فَخَلُّوا سَبِیلَہُ فَإِنَّ الإِمَامَ أَنْ یُخْطِءَ فِی الْعَفْوِ خَیْرٌ مِنْ أَنْ یُخْطِءَ فِی الْعُقُوبَۃِ) [ رواہ الترمذی : باب مَا جَاءَ فِی دَرْءِ الْحُدُودِ] ” سیدہ عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس قدر تم کوشش کرسکتے ہو مسلمانوں کو حدود سے بچاؤ اگر ان کا بچ نکلنا ممکن ہو تو ان کی راہ چھوڑ دو۔ بے شک حکمران کا معاف کرنے میں غلطی کرنا سزا دینے کی غلطی سے بہتر ہے۔“ ضرب تازیانہ کی کیفیت کے متعلق پہلا اشارہ خود قرآن کے لفظ ” فَاجْلِدُوْا“ میں ملتا ہے۔ جلد کا لفظ جِلّد ( یعنی کھال) سے ماخوذ ہے۔ اس سے تمام اہل لغت اور علمائے تفسیر نے یہی معنی لیے ہیں کہ مار۔ ایسی ہونی چاہیے جس کا اثر جلد تک رہے گوشت تک نہ پہنچے۔ کوڑے اس طرح نہ مارے جائیں کہ جس سے جسم کی بوٹیاں اڑ جائیں یا کھال پھٹ کر اندر تک زخم پڑجائے۔ ایسی ضرب لگانا قرآن کے خلاف ہے۔ مار کے لیے خواہ کوڑا استعمال کیا جائے یا بید، دونوں صورتوں میں وہ اوسط درجے کا ہونا چاہیے۔ نہ بہت موٹا اور سخت اور نہ بہت پتلا اور نرم۔ مؤطا امام مالک (رح) کی روایت کے مطابق نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ضرب تازیانہ کے لیے کوڑا طلب کیا اور وہ کثرت استعمال سے بہت کمزور ہوچکا تھا۔ آپ نے فرمایا اس سے سخت لاؤ پھر ایک اور کوڑا لایا گیا جو ابھی استعمال سے نرم نہیں پڑا تھا۔ آپ نے فرمایا ایسا کوڑا لاؤ جو استعمال ہوچکا ہو۔ اس سے آپ نے ضرب لگوائی اسی مضمون سے ملتی جلتی روایت ابو عثمان النہدی نے حضرت عمر (رض) کے متعلق بھی بیان کی ہے کہ وہ اوسط درجے کا کوڑا استعمال کرتے تھے۔ ( احکام القرآن جصاص، ج ٣) رجم شدہ عورت کے بارے میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خیالات اور اس کی نماز جنازہ کا حکم : (أَنَّ مَاعِزَ بْنَ مَالِکٍ الأَسْلَمِیَّ أَتَی رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَقَالَ یَا رَسُول اللَّہِ إِنِّی قَدْ ظَلَمْتُ نَفْسِی وَزَنَیْتُ وَإِنِّی أُرِیدُ أَنْ تُطَہِّرَنِی فَرَدَّہُ فَلَمَّا کَانَ مِنَ الْغَدِ أَتَاہُ فَقَالَ یَا رَسُول اللَّہِ إِنِّی قَدْ زَنَیْتُ فَرَدَّہُ الثَّانِیَۃَ فَأَرْسَلَ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) إِلَی قَوْمِہِ فَقَالَ أَتَعْلَمُونَ بِعَقْلِہِ بَأْسًا تُنْکِرُونَ مِنْہُ شَیْءًا فَقَالُوا مَا نَعْلَمُہُ إِلاَّ وَفِیَّ الْعَقْلِ مِنْ صَالِحِینَا فیمَا نُرَی فَأَتَاہ الثَّالِثَۃَ فَأَرْسَلَ إِلَیْہِمْ أَیْضًا فَسَأَلَ عَنْہُ فَأَخْبَرُوہُ أَنَّہُ لاَ بَأْسَ بِہِ وَلاَ بِعَقْلِہِ فَلَمَّا کَان الرَّابِعَۃَ حَفَرَ لَہُ حُفْرَۃً ثُمَّ أَمَرَ بِہِ فَرُجِمَ قَالَ فَجَاءَ تِ الْغَامِدِیَّۃُ فَقَالَتْ یَا رَسُول اللَّہِ إِنِّی قَدْ زَنَیْتُ فَطَہِّرْنِی وَإِنَّہُ رَدَّہَا فَلَمَّا کَانَ الْغَدُ قَالَتْ یَا رَسُول اللَّہِ لِمَ تَرُدُّنِی لَعَلَّکَ أَنْ تَرُدَّنِی کَمَا رَدَدْتَ مَاعِزًا فَوَاللَّہِ إِنِّی لَحُبْلَی قَالَ إِمَّا لاَ فَاذْہَبِی حَتَّی تَلِدِی فَلَمَّا وَلَدَتْ أَتَتْہُ بالصَّبِیِّ فِی خِرْقَۃٍ قَالَتْ ہَذَا قَدْ وَلَدْتُہُ قَالَ اذْہَبِی فَأَرْضِعِیہِ حَتَّی تَفْطِمِیہِ فَلَمَّا فَطَمَتْہُ أَتَتْہُ بالصَّبِیِّ فِی یَدِہِ کِسْرَۃُ خُبْزٍ فَقَالَتْ ہَذَا یَا نَبِیَّ اللَّہِ قَدْ فَطَمْتُہُ وَقَدْ أَکَلَ الطَّعَامَ فَدَفَعَ الصَّبِیَّ إِلَی رَجُلٍ مِنَ الْمُسْلِمِینَ ثُمَّ أَمَرَ بِہَا فَحُفِرَ لَہَا إِلَی صَدْرِہَا وَأَمَرَ النَّاسَ فَرَجَمُوہَا فَیُقْبِلُ خَالِدُ بْنُ الْوَلِیدِ بِحَجَرٍ فَرَمَی رَأْسَہَا فَتَنَضَّحَ الدَّمُ عَلَی وَجْہِ خَالِدٍ فَسَبَّہَا فَسَمِعَ نَبِیُّ اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سَبَّہُ إِیَّاہَا فَقَالَ مَہْلاً یَا خَالِدُ فَوَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِہِ لَقَدْ تَابَتْ تَوْبَۃً لَوْ تَابَہَا صَاحِبُ مَکْسٍ لَغُفِرَ لَہُ ثُمَّ أَمَرَ بِہَا فَصَلَّی عَلَیْہَا وَدُفِنَت) [ رواہ مسلم : باب مَنِ اعْتَرَفَ عَلَی نَفْسِہِ بالزِّنَا] حضرت بریدہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ ماعز بن مالک اسلمی (رض) نبی گرامی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کرنے لگا۔ اے اللہ کے رسول ! مجھے پاک کیجیے۔ آپ نے فرمایا‘ تجھ پر اللہ رحم کرے واپس جاؤ! اللہ سے مغفرت طلب کرو! بریدہ (رض) کہتے ہیں‘ کہ وہ زیادہ دور نہیں گیا تھا واپس آیا اور نبی گرامی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے وہی مطالبہ کیا جب چوتھی مرتبہ اس نے مطالبہ کیا تو آپ نے اس سے پوچھا‘ میں تجھے کس گناہ سے پاک کروں؟ اس نے کہا‘ زنا سے! نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا‘ کیا یہ دیوانہ ہے؟ بتایا گیا کہ دیوانہ نہیں ہے۔ آپ نے پوچھا کیا اس نے شراب پی رکھی ہے؟ اس پر ایک شخص کھڑا ہوا‘ اس نے اس کا منہ سونگھا‘ لیکن اس سے شراب کی بو نہیں آئی۔ آپ نے پوچھا کیا تو نے زنا کیا ہے؟ اس نے کہا‘ ہاں۔ آپ نے اسے رجم کرنے کا حکم دیا اور اسے رجم کردیا گیا۔ صحابہ کرام دو یا تین دن خاموش رہے‘ پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لائے۔ آپ نے فرمایا : ماعز بن مالک (رض) کے لیے مغفرت مانگو۔ اس نے ایسی توبہ کی ہے کہ اگر اسے ایک جماعت پر تقسیم کیا جائے تو ان سب کو معاف کر دیاجائے۔ اس کے بعد آپ کے پاس غامدیہ قبیلہ کی عورت آئی۔ اس نے عرض کیا‘ اے اللہ کے رسول ! مجھے پاک کردیں۔ آپ نے فرمایا : تجھ پر اللہ کی رحمت ہو‘ چلی جا اور اللہ سے توبہ کر۔ اس نے عرض کی‘ آپ مجھے اسی طرح لوٹانا چاہتے ہیں جیسے آپ نے ماعزبن مالک کو واپس کیا تھا۔ میں تو زنا سے حاملہ ہوچکی ہوں۔ آپ نے فرمایا کیا واقعی تو حاملہ ہے تو اس نے عرض کی‘ جی ہاں! آپ نے اسے فرمایا وضع حمل کے بعد آنا۔ راوی بیان کرتا ہے کہ ایک انصاری نے اس کی کفالت کی جب اس نے بچہ جنم دیا تو انصاری نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا‘ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! اس غامدی عورت نے بچے کو جنم دیا ہے۔ فرمایا! کیا ہم اسے اس حالت میں رجم کریں گے کہ بچے کو دودھ پلانے والی کوئی نہ ہو؟ ایک انصاری کھڑا ہوا۔ اس نے کہا‘ اس کی رضاعت کی ذمہ داری مجھ پر ہے۔ تب آپ نے اسے رجم کرنے کا حکم دیا۔ ایک روایت میں ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے کہا کہ چلی جا یہاں تک تو بچے کو جنم دے۔ جب بچہ پیدا ہوا تو آپ نے فرمایا جا! اسے دودھ پلایہاں تک بچے کو دودھ پلانا چھوڑ دے۔ جب اس نے بچے کو دودھ پلانا چھوڑ دیا تو وہ بچے کو ساتھ لائی اس بچے کے ہاتھ میں روٹی کا ٹکڑا تھا۔ اس نے کہا کہ اے اللہ کے رسول ! میں نے اسے دودھ پلانا ختم کردیا ہے اب یہ کھانا کھانے لگا ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حکم سے اس کے لیے اس کی چھاتی تک گڑھا کھودا گیا۔ اور لوگوں کو رجم کا حکم دیا گیا۔ انہوں نے اسے رجم کیا۔ خالد بن ولید (رض) ایک پتھر لے کر آئے اور اس کے سر پر مارا‘ جس سے خون کے چھینٹے خالد (رض) کے چہرے پر گرے۔ خالد (رض) نے اسے برا بھلا کہا۔ نبی مکرم نے فرمایا! اے خالد رک جاؤ! اس ذات کی قسم! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے‘ اس عورت نے ایسی توبہ کی ہے اگر ٹیکس لینے والا ایسی توبہ کرے تو اسے بھی معاف کردیا جائے۔ پھر آپ کے حکم پر اس کی نماز ہ جنازہ پڑھی گئی اور اسے دفن کردیا گیا۔ حد نافذ کرنے میں کوئی رعایت نہیں : (عَنْ عَاءِشَۃَ (رض) اَنَّ قُرَیْشًا أَھَمَّھُمْ شَانُ الْمَرْأَۃِ الْمَخْزُوْمِیَّۃِ الَّتِیْ سَرَقَتْ فَقَالُوْ ا مَنْ یُّکَلِّمُ فِیْھَا رَسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَقَالُوْ ا مَنْ یَّجْتَرِئُ عَلَیْہِ اِلَّااُسَامَۃُ ابْنُ زَیْدٍ حِبُّ رَسُوْلِ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَکَلَّمَہٗ اُسَامَۃُ (رض) فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اَتَشْفَعُ فِیْ حَدٍّ مِّنْ حُدُوْدِ اللّٰہِ ثُمَّ قَامَ فَاخْتَطَبَ ثُمَّ قَالَ اِنَّمَا اَھْلَکَ الَّذِیْنَ قَبْلَکُمْ اَنَّہُمْ کَانُوْا اِذَا سَرَقَ فِیْھِمُ الشَّرِیْفُ تَرَکُوْہُ وَ اِذَا سَرَقَ فِیْھِمُ الضَّعِیْفُ اَقَامُوْا عَلَیْہِ الْحَدَّ وَاَیْمُ اللّٰہِ لَوْ اَنَّ فَاطِمَۃَ بِنْتَ مُحَمَّدٍ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سَرَقَتْ لَقَطَعْتُ یَدَھَا) [ رواہ مسلم : باب قَطْعِ السَّارِقِ الشَّرِیفِ وَغَیْرِہِ وَالنَّہْیِ عَنِ الشَّفَاعَۃِ فِی الْحُدُودِ] حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ قریش مخزومی عورت کی حالت زار پر پریشان ہوئے جس نے چوری کی تھی۔ انہوں نے مشورہ کیا کہ اس عورت کے بارے میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں کس سے سفارش کروائی جائے انہوں نے سوچا کہ اسامہ بن زید (رض) نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پیارے ہیں‘ ان کے سوا یہ جرأت کوئی نہیں کرسکتا۔ چنانچہ اسامہ نے آپ سے عرض کی۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت اسامہ (رض) سے فرمایا‘ کیا تو حدود اللہ میں سے ایک حد کے بارے میں سفارش کرتا ہے؟ آپ کھڑے ہوئے اور خطبہ ارشاد فرمایا‘ کہ تم سے پہلے لوگ اسی لیے ہلاک ہوگئے کہ ان میں کوئی بڑے طبقے کا آدمی چوری کرتا تو اسے چھوڑ دیتے۔ جب چھوٹے درجے کا آدمی چوری کرتا تو اس پر حد نافذ کرتے۔ اللہ کی قسم! اگر محمد کی بیٹی فاطمہ چوری کرتی تو میں اس کا بھی ہاتھ کاٹ دیتا۔ اسلام سزاؤں کا دین نہیں اسلام نے جرم کے اسباب اور وجوہات کو پیش نظر رکھ کر سزائیں مقرر کی ہیں۔ غیر شادی کے لیے کوڑوں کی سزا اس لیے مقرر کی گئی ہے کہ اس سے اس غلطی کا امکان ہوسکتا ہے اسی لیے صرف سو کوڑے سزا مقرر کی گئی ہے۔ لیکن اگر شادی شدہ عورت یامرد فعل بد کاری کا ارتکاب کرے تو اس کی یہ سزا ہے کہ اسے پتھر مار مار کر جان سے ما ردیا جائے کیونکہ فطری جذبات کے لیے اسے شادی کرنے کا حکم ہے۔ اگر ایک بیوی پر گزارا نہیں تو مرد کے لیے چار شادیاں کرنے کی اجازت ہے۔ جہاں تک شادی شدہ عورت کا معاملہ ہے اسے کسی طرح بھی ایک سے زیادہ خاوند کرنے کی اجازت نہیں کیونکہ اس سے سنگین قسم کی خرابیاں جنم لیتی ہیں جن کا حل ممکن نہیں ہے اور پھر چند عورتیں ہی ایسی ہوتی ہیں جن کے جذبات اپنے سے باہر ہوجائیں کیونکہ جوں جوں عورت بچے جنم دیتی ہے اور اس کی عمر زیادہ ہوتی جاتی ہے تو وہ فطری عمل سے کافی حد تک بے نیاز ہوجاتی ہے اگر کوئی عورت غیر معمولی جذبات رکھتی ہو یا مرد اپنے جذبات پر قابو پانے میں مشکل محسوس کرے تو اسے روزے رکھنے کا حکم ہے اگر سنت کے مطابق بھوک رکھ کر روزہ رکھا اور افطار کیا جائے تو جذبات خود بخود ٹھنڈے ہوجاتے ہیں۔ اس کے باوجود شادی شدہ مرد یا عورت بدکاری کا ارتکاب کرتے ہیں تو انہیں اس لیے رجم کرنے کا حکم ہے کہ یہ نہ صرف معاشرے کے لیے ناسور ہیں بلکہ اپنی اولاد اور خاندان کے لیے بھی کلنگ کاٹیکہ ہے ایسے وجود کو عبرتناک سزا دے کر معاشرے کو پاک کرنا ضروری ہے تاکہ شرم وحیا کی حدود کا تحفظ ہو سکے۔ مسائل ١۔ غیرشادی شدہ زانی عورت اور مرد کو سو، سو کوڑالگایاجائے۔ ٢۔ کوڑے لگانے میں کمی بیشی اور نرمی نہیں ہونا چاہیے۔ ٣۔ حد نافذ کرنا اللہ کا حکم ہے۔ ٤۔ حد نافذ کرتے وقت مومنوں کی ایک جماعت کا موجود ہونا لازم ہے۔ النور
3 فہم القرآن ربط کلام : بدکار آدمی اور عورت کے لیے اخلاقی اور معاشرتی سزا۔ بدکاری میں شہرت رکھنے والے شخص کا نکاح کسی پاکدامن عورت سے کرنے کی بجائے زانیہ عورت یا کسی مشرکہ سے ہوسکتا ہے اسی طرح اگر کوئی عورت بدکاری کی شہرت رکھتی ہو تو اس کا نکاح کسی زانی یا مشرک آدمی سے ہونا چاہیے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس کام کو مومنوں پر حرام قرار دیا ہے۔ مفسرین نے اس آیت کا شان نزول اس طرح نقل کیا ہے۔ مرثد (رح) بن ابی مرثد غنوی مسلمان قیدیوں کو مکہ سے نکال کر مدینہ لے جایا کرتے تھے۔ ایک رات حضرت مرثد ایک قیدی کو مکہ والوں کی قید سے نکالنے کے لیے مکہ پہنچے۔ رات کے وقت ایک دیوار کے سایہ میں چھپے بیٹھے تھے کہ عناق نامی عورت نے اسے پہچان لیا اس نے مرثد (رح) کو پہلے سے آشنا ہونے کی وجہ سے اپنے ساتھ خلوت کی دعوت دی لیکن حضرت مرثد نے یہ کہہ کر انکار کیا کہ اب میرے اور تیرے درمیان اسلام رکاوٹ بن گیا ہے یہ بات سنتے ہی عناق نے شور مچایا جس کے نتیجے میں مرثد (رض) وہاں سے بھاگ نکلے اور ایک پہاڑ کی غار میں چھپ گئے تلاش کرنے والوں نے انہیں تلاش کیا لیکن وہ نہ مل سکے۔ جب تلاش کرنے والے واپس چلے گئے تو مرثد (رض) نے مسلمان قیدی کو جیل سے نکال کر مدینہ کی راہ لی۔ مدینہ پہنچ کر نبی محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے واقعہ عرض کیا اور آپ سے اجازت طلب کی کہ کیا میں عناق کے ساتھ نکاح کرسکتا ہوں؟ جس کے جواب میں یہ آیت نازل ہوئی کہ زانی شخص کسی زانیہ یا مشرکہ سے نکاح کرے اسی طرح زانیہ عورت کسی زانی یا مشرک آدمی سے نکاح کرے۔ اس آیت کے صحابہ کرام (رض) نے دو مختلف مفہوم لیے ہیں صحابہ کرام کی ایک جماعت کا نقطہ نظر یہ ہے کہ جس عورت کے ساتھ کسی شخص نے زنا کیا ہو اس کے ساتھ نکاح کرنا کسی صورت جائز نہیں۔ صحابہ کرام (رض) کی دوسری جماعت کا خیال ہے اگر وہ تائب ہوجائیں تو ان کا آپس میں نکاح کرنا جائز ہوگا۔ جن صحابہ کا نقطہ نظر ہے کہ زانی اور زانیہ کا نکاح آپس میں نہیں ہوسکتا انہوں نے اس آیت کے آخری الفاظ سے دلیل لی ہے۔ جن کا نقطہ نظر یہ ہے کہ ان کا آپس میں نکاح ہوسکتا ہے انہوں نے ان الفاظ کا معنٰی یہ لیا ہے کہ مومنوں کے لیے بدکاری کرنا حرام ہے۔ یہاں زانی کی مثال مشرک کے ساتھ اس لیے دی گئی ہے کہ جس طرح زانی شخص اخلاقی حدود سے تجاوز کرتا ہے اسی طرح ہی مشرک اعتقادی حدود سے تجاوز کا مرتکب ہوتا ہے جس طرح شادی شدہ زانی اپنی منکوحہ پر اکتفا نہیں کرتا اور زانیہ عورت اپنے خاوند پر مطمئن ہونے کی بجائے اس کی موجودگی میں غیروں کے ساتھ منہ کالا کرتی ہے۔ اسی طرح مشرک اور مشرکہ اپنے خالق، رازق اور مالک پر مطمئن ہونے اور اس کی خالص بندگی کرنے کی بجائے غیروں کے ساتھ ناطہ جوڑتے اور ان کے آستانے پر جاتے ہیں۔ لہٰذا زانی اور مشرک عملی طور پر ایک ہی جیسا کردار رکھتے ہیں۔ مشرک اعتقاد کے حوالے سے آوارہ مزاج ہوتا ہے اور زانی سوچ اور کردار کے اعتبار سے آوارہ کردار ہوتا ہے اس آیت میں یہ بھی بتلانا مقصود ہے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ کو بدکاری سے بھی نفرت ہے اسی طرح ہی اسے شرک سے بھی نفرت ہے۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ کے نزدیک زنا کرنا قابل تعزیر جرم ہے۔ ٢۔ مشرک اور زانی فکری اور عملی آوارگی کے اعتبار سے ایک جیسے ہوتے ہیں۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ نے زانی اور زانیہ کے آپس کے نکاح کو حرام قرار دیا ہے۔ تفسیر بالقرآن مومنوں کو مشرکوں کے ساتھ رشتہ ناطہ نہیں کرنا چاہیے : ١۔ زانی مرد زانیہ اور مشرکہ عورت کے ساتھ ہی نکاح کرے۔ اور مومنوں کے لیے انہیں حرام قرار دیا گیا ہے۔ (النور : ٣) ٢ مشرکہ عورتوں کے ساتھ نکاح نہ کرو حتّٰی کہ وہ ایمان لے آئیں۔ (البقرۃ: ٢٢١) ٣۔ اے ایمان والو! کفر کو ایمان پر ترجیح دینے والوں کے ساتھ ناطہ نہ جوڑو۔ ( التوبہ : ٢٣) ٤۔ اے ایمان والو! یہود ونصاریٰ کو دوست نہ بناؤ۔ ( المائدۃ: ٥١) ٥۔ اے ایمان والو! انہیں دوست نہ بناؤ جنہوں نے تمہارے دین کو کھیل تماشا بنارکھا ہے۔ (المائدۃ: ٥٧) النور
4 فہم القرآن ربط کلام : بدکاری سے منع کرنے کے بعد پاکدامن عورتوں پر تہمت لگانے سے منع کیا اور اس کی سزا مقرر کی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے نزدیک پاکدامن عورت اور نیک سیرت مرد کی عزت کا اس قدر احترام ہے کہ اس پر تہمت لگانے والے شخص پر یہ پابندی عائد کی ہے کہ اگر وہ تہمت لگانے میں سچا ہے تو اسے چار گواہ پیش کرنا ہونگے اگر اس کے پاس عاقل اور عادل چارگواہ موجود نہیں تو پھر اسے سرعام اسّی (٨٠) کوڑے لگائے جائیں گے۔ اس سزا کے ساتھ اس پر یہ بھی پابندی عائد کردی گئی ہے کہ اس کی شہادت کبھی قبول نہ کی جائے کیونکہ بلاثبوت پاکدامن عورت اور مرد پر تہمت لگانے والے لوگ اللہ تعالیٰ کے نزدیک فاسق شمار ہوتے ہیں۔ البتہ جو لوگ سچے دل کے ساتھ توبہ کریں اور اپنی اصلاح کرلیں تو یقیناً اللہ تعالیٰ معاف فرمانے اور مہربانی کرنے والا ہے۔ معاشرے کو اخلاقی بے راہ روی سے بچانے اور پاکدامن عورتوں اور مردوں کی عزت کا تحفظ کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے چارگواہوں کی شرط لگا کر مسلمان معاشرے کو زبان درازی اور اخلاقی بے راہ روی سے بچانے کا قانون جاری فرمایا ہے۔ اس معاملے میں اس قدر سختی کی ہے کہ اگر چار عاقل اور راست باز گواہوں میں سے کسی ایک کی گواہی شریعت کے معیار پر پوری نہیں اترتی تو ان چاروں کی گواہی نہ صرف مسترد ہوگی بلکہ وہ سزا کے مستوجب قرار پائیں گے اور زندگی بھر ان کی گواہی مسترد کردی جائے گی۔ کہ اگر وہ سچی توبہ کریں اور آئندہ کے لیے اپنی اصلاح کرلیں تو اس کی گواہی منظور کی جائے گی کیونکہ اللہ تعالیٰ بخشنے اور رحم کرنے والاہے لیکن کچھ اہل علم نے اس سے اختلاف کرتے ہوئے لکھا ہے کہ توبہ اور اصلاح کرنے کے باوجود اس کی گواہی قبول نہیں کی جائے گی۔ گواہی کا معیار : (عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ (رض) قَالَ جَاء ہلاَلُ بْنُ أُمَیَّۃَ وَہُوَ أَحَدُ الثَّلاَثَۃِ الَّذِینَ تَاب اللَّہُ عَلَیْہِمْ فَجَاءَ مِنْ أَرْضِہِ عَشِیًّا فَوَجَدَ عِنْدَ أَہْلِہِ رَجُلاً فَرَأَی بِعَیْنَیْہِ وَسَمِعَ بِأُذُنَیْہِ فَلَمْ یَہِجْہُ حَتَّی أَصْبَحَ ثُمَّ غَدَا عَلَی رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ یَا رَسُول اللَّہِ إِنِّی جِءْتُ أَہْلِی عِشَاءً فَوَجَدْتُ عِنْدَہُمْ رَجُلاً فَرَأَیْتُ بِعَیْنِی وَسَمِعْتُ بِأُذُنِی فَکَرِہَ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَا جَاءَ بِہِ وَاشْتَدَّ عَلَیْہِ فَنَزَلَتْ (وَالَّذِینَ یَرْمُونَ أَزْوَاجَہُمْ وَلَمْ یَکُنْ لَہُمْ شُہَدَاءُ إِلاَّ أَنْفُسُہُمْ فَشَہَادَۃُ أَحَدِہِمْ) الآیَتَیْنِ کِلْتَیْہِمَا فَسُرِّیَ عَنْ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَقَالَ أَبْشِرْ یَا ہلاَلُ قَدْ جَعَلَ اللَّہُ عَزَّ وَجَلَّ لَکَ فَرَجًا وَمَخْرَجًا۔۔) [ رواہ ابو داؤد : باب فی اللعان] ” حضرت عبداللہ بن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ ہلال بن امیہ ان تین میں سے ایک ہیں جن کی اللہ نے توبہ قبول فرمائی۔ وہ اپنے کھیتوں سے عشاء کے وقت گھر آئے اس نے اپنی بیوی کے پاس کسی آدمی کو اپنی آنکھوں سے دیکھا اور اس کی آواز سنی مگر کسی کو بتایا نہیں یہاں تک کہ صبح رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے اور آ کر کہنے لگے۔ میں اپنی بیوی کے پاس عشاء کے وقت آیا میں نے اس کے ہاں ایک آدمی کو اپنی آنکھوں سے دیکھا اور میرے کانوں نے دونوں کی آواز سنی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس خبر کو انتہائی نا پسندیدہ جانا اور آپ اس پر ناراض ہوئے اس وقت یہ آیت نازل ہوئی (جو اپنی بیویوں پر الزام لگاتے ہیں اور ان کے پاس اپنے سوا کوئی گواہ موجود نہیں اس کی گواہی یہ ہے کہ وہ چار قسمیں اٹھائے) یہ آیات نازل ہوئیں تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خوش ہوتے ہوئے فرمایا اے ہلال ! مبارک ہو اللہ عزوجل نے تیری پریشانی کو دور فرمایا اور اس سے تجھے نجات عطا فرمائی۔۔“ مومن کی عزت بیت اللہ سے زیادہ : (عَنِ ابْنِ عُمَرَ (رض) قَالَ صَعِدَ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لْمِنْبَرَ فَنَادَی بِصَوْتٍ رَفِیعٍ فَقَالَ یَا مَعْشَرَ مَنْ قَدْ أَسْلَمَ بِلِسَانِہِ وَلَمْ یُفْضِ الإِیمَانُ إِلَی قَلْبِہِ لاَ تُؤْذُوا الْمُسْلِمِینَ وَلاَ تُعَیِّرُوہُمْ وَلاَ تَتَّبِعُوا عَوْرَاتِہِمْ فَإِنَّہُ مَنْ تَتَبَّعَ عَوْرَۃَ أَخِیہِ الْمُسْلِمِ تَتَبَّعَ اللَّہُ عَوْرَتَہُ وَمَنْ تَتَبَّعَ اللَّہُ عَوْرَتَہُ یَفْضَحْہُ وَلَوْ فِی جَوْفِ رَحْلِہِ قَالَ وَنَظَرَ ابْنُ عُمَرَ یَوْمًا إِلَی الْبَیْتِ أَوْ إِلَی الْکَعْبَۃِ فَقَالَ مَا أَعْظَمَکِ وَأَعْظَمَ حُرْمَتَکِ وَالْمُؤْمِنُ أَعْظَمُ حُرْمَۃً عِنْدَ اللَّہِ مِنْکِ) [ رواہ الترمذی : باب مَا جَاءَ فِی تَعْظِیمِ الْمُؤْمِنِ] ” حضرت عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ممبر پر کھڑے ہوئے آپ نے اونچی آواز سے بلاتے ہوئے فرمایا اے جماعت تم میں سے جو زبانی کلامی اسلام لا چکا ہے اور ایمان اس کے دل میں راسخ نہیں ہوا۔ وہ مسلمانوں کو تکلیف نہ پہنچائیں، نہ عار دلائیں اور نہ ان کے عیوب کے پیچھے پڑیں جو کسی مسلمان کے عیوب کے پیچھے پڑتا ہے۔ اللہ اس کے عیوب کو آشکارا کر کے اسے رسوا کردیتا ہے اگرچہ اس نے وہ گناہ چھپ چھپا کے کیا ہو راوی کہتے ہیں عبداللہ بن عمر (رض) نے ایک دن بیت اللہ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا تیری عظمت بہت زیادہ ہے اور تیری حرمت عظیم تر ہے لیکن مومن کی عزت اور حرمت اللہ کے ہاں تجھ سے بڑھ کر ہے۔“ (عَنْ عَبْدِاللّٰہِ ابْنِ عَمْرٍو (رض) قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اَلْکَبَاءِرُ الْاِشْرَاک باللّٰہِ وَعُقُوْقُ الْوَالِدَےْنِ وَقَتْلُ النَّفْسِ وَالْےَمِےْنُ الْغَمُوْسُ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ وَفِی رِوَاے َۃِ اَنَسٍ وَّشَھَادَۃُ الزُّوْرِ بَدَلَ الْےَمِےْنِ الْغَمُوْس) [ رواہ البخاری : باب الْیَمِینِ الْغَمُوسِ] ” حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) ذکر کرتے ہیں رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بڑے گناہ یہ ہیں۔ (١) اللہ کے ساتھ شرک کرنا (٢) والدین کی نافرمانی کرنا‘ (٣) ناحق کسی کو قتل کرنا (٤) جھوٹی قسم اٹھانا (بخاری) حضرت انس (رض) کی روایت میں جھوٹی قسم کی جگہ جھوٹی شہادت دینے کے الفاظ ہیں۔ مسائل ١۔ پاکدامن عورت اور مرد پر تہمت لگانے والے کو چار گواہ پیش کرنا ہوں گے۔ ٢۔ جھوٹی تہمت لگانے والے کو اسّی (٨٠) کوڑے لگائے جائیں گے۔ ٣۔ جھوٹی تہمت لگانے والے کی گواہی قابل قبول نہیں۔ ٤۔ جھوٹی تہمت لگانے والے سچی توبہ کریں اور آئندہ کے لیے اصلاح کریں تو ان کی گواہی قبول کی جا سکتی ہے۔ تفسیر بالقرآن جھوٹی گواہی دینے کا گناہ اور اس کی سزا : ١۔ سچی گواہی دینے کا حکم۔ (المائدۃ: ٨) ٢۔ سچی گواہی چھپانے کا گناہ۔ (البقرۃ: ٢٨٣) ٣۔ گواہی چھپانے والے ظالم ہیں۔ (البقرۃ: ١٤٠) ٤۔ جھوٹی گواہی سے بچنے والوں کی تعریف۔ (الفرقان : ٧٢) ٥۔ گواہی پر قائم رہنے والوں کی جنت میں تکریم ہوگی۔ (المعارج : ٣٣) النور
5 النور
6 فہم القرآن ربط کلام : پاکدامن عورتوں اور مردوں پر جھوٹی تہمت لگانے کی سزا کے ذکر کے بعد اپنی بیویوں پرجھوٹی تہمت لگانے والوں کی سزا اور ان کے درمیان فیصلہ کرنے کا طریقہ۔ جس طرح عام مسلمان پاکدامن عورت اور مرد پر جھوٹی تہمت لگ سکتی ہے اسی طرح میاں بیوی کے درمیان تنازع پیدا ہوجانے کی شکل میں ان سے ایک دوسرے پر تہمت لگانے کا عمل سرزد ہوسکتا ہے۔ میاں بیوی کے تعلقات کو صحیح خطوط پر استوار رکھنے اور انہیں غلط فہمیوں سے بچانے کے لیے یہ قانون جاری کیا گیا ہے کہ اگر کوئی آدمی اپنی بیوی پر بدکاری کی تہمت لگاتا ہے اور اپنے سوا چارگواہ ثابت نہیں کرتا تو اسے چار مرتبہ ” اللہ“ کی قسم اٹھا کر شہادت دیناہو گی کہ میں سچے لوگوں میں شامل ہوں یعنی میں سچا ہوں۔ پانچویں دفعہ اسے اس طرح قسم اٹھانا ہوگی کہ اگر میں جھوٹ بول رہا ہوں تو مجھ پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہو۔ اگر عورت اپنے آپ کو تہمت سے بری الذّمہ قرار دیتی ہے تو اسے چار مرتبہ اللہ تعالیٰ کی قسم اٹھا کر یہ گواہی دینا ہوگی کہ اس کا خاوند جھوٹ بولتا ہے اور پانچویں مرتبہ عورت اس طرح قسم دے گی کہ اگر اس کا خاوند سچ بولتا ہے تو مجھ پر ” اللہ“ کا غضب نازل ہونا چاہیے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ اس نے مسلمان معاشرے کو بے راہ روی سے بچانے کے لیے یہ سزائیں مقرر کیں اور میاں بیوی کے تعلق کو غلط فہمیوں سے بچانے کے لیے ٹھوس اور واضح طریقہ کار بتلایا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی توبہقبول کرنے والا ہے اور اس کے ہر ارشاد اور حکم میں حکمتیں پنہاں ہوتی ہیں۔ (عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ ہلاَلَ بْنَ أُمَیَّۃَ قَذَفَ امْرَأَتَہُ، فَجَاءَ فَشَہِدَ وَالنَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَقُولُ إِنَّ اللَّہَ یَعْلَمُ أَنَّ أَحَدَکُمَا کَاذِبٌ، فَہَلْ مِنْکُمَا تَاءِبٌ ثُمَّ قَامَتْ فَشَہِدَتْ) [ رواہ البخاری : باب یَبْدَأُ الرَّجُلُ بالتَّلاَعُنِ] ” حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں بیشک ہلال بن امیہ نے اپنی عورت پر الزام لگایا انہیں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے روبرو شہادت کے لیے لایا گیا آپ نے فرمایا یقیناً اللہ جانتا ہے کہ تم میں سے ایک جھوٹا ہے کیا تم میں سے کوئی توبہ کرنے کے لیے تیار ہے۔ پھر دعورت کھڑی ہوئی اس نے قسمیں اٹھائیں کہ ہلال جھوٹا ہے۔ ” حضرت سہل بن سعد ساعدی (رض) بیان کرتے ہیں کہ عویمر عجلانی عاصم بن عدی (رض) انصاری کے پاس آئے اور اس سے کہا کیا خیال ہے آپ کا اگر ایک آدمی اپنی عورت کے ساتھ کسی اور آدمی کو دیکھتا ہے کیا وہ اسے قتل کر دے اور اس کے بدلے میں اسے قتل کردیا جائے گا؟ یا اس صورت حال سے کیسے نپٹا جائے؟ اے عاصم اس سلسلہ میں میرے لیے سوال کیجئے تو عاصم نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس کے متعلق دریافت فرمایا تو آپ نے اس پوچھے جانے کو ناپسند فرمایا اور اسے ڈانٹ پلائی حتیٰ کہ اس بات کو عاصم (رض) نے برا محسوس کیا جو اس نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنی تھی تو عاصم اپنے اہل وعیال میں پلٹ آیا تو ان کے پاس حضرت عویمر تشریف لائے اور دریافت کیا کہ اس مسئلہ کے متعلق رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کیا ارشاد فرمایا ہے عاصم نے کہا میں آپ کے پاس اس کے متعلق کوئی اچھی خبر نہیں لایا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سوال کو ناپسند جانا ہے حضرت عویمر کہنے لگے اللہ کی قسم میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہو کر اس کے متعلق ضرور دریافت کروں گا۔ عویمر (رض) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے اس وقت آپ لوگوں کے درمیان بیٹھے ہوئے تھے۔ اس نے عرض کیا۔ اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! فرمائیے کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی کے ساتھ کسی اجنبی کو پائے تو کیا اسے قتل کردے؟ ایسی صورت میں ردعمل کے طور پر تو اس عورت کے وارث اس کو قتل کردیں گے۔ پھر اسے کیا کرنا چاہیے؟ رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تمہارے بارے میں یہ حکم نازل ہوا ہے‘ تم جاؤ اور اپنی بیوی کو لے آؤ۔ سہل (رض) بیان کرتے ہیں کہ پھر میاں بیوی نے مسجد میں لعان کیا میں لوگوں کے ساتھ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر تھا۔ جب وہ لعان سے فارغ ہوئے تو عویمر نے کہا : اگر میں اس کو بیوی بنا کر رکھوں‘ تو میں جھوٹاہوں اس نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حکم دینے سے پہلے ابن شہاب کہتے ہیں اس وقت سے لعان کرنے والوں کے لیے یہی طریقہ جاری ہوا۔ [ رواہ البخاری : باب اللِّعَانِ وَمَنْ طَلَّقَ بَعْدَ اللِّعَانِ] اس کے بعدرسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا انتظار کرو! اگر بچہ سیاہ رنگ کا ہو‘ اس کی آنکھیں بڑی بڑی اور گہری سیاہ ہوں اس کے سرین بڑے اور پنڈلیاں موٹی ہوئیں‘ تو عویمر سچا ہے اور اگر بچہ سرخ رنگ کا ہوا گویا کہ وہ کچھیرا ہے تو میرا خیال ہے کہ پھر عویمر جھوٹا ہے۔ جب بچے کو اس کی ماں نے جنا تو بچہ انہیں اوصاف پر پیدا ہوا جن پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عویمر کو سچاقرار دیاتھا۔ اس وجہ سے بچہ باپ کی بجائے اپنی ماں کی نسبت سے بلایا جاتا تھا۔“ لعان کے بعد فریقین میں مستقل جدائی ہوجائے گی۔ بچہ اپنی ماں کی طرف منسوب ہوگا بچہ اور ماں ایک دوسرے کے وارث ہوں گے۔ لعان کے ذریعے جدائی ہونے کے بعد خاوند مہر کا مطالبہ نہیں کرسکتا۔ مسائل ١۔ خاوند کے پاس اگر چار گواہ نہ ہوں تو اسے چار قسمیں اٹھانی ہونگی کہ وہ سچا ہے۔ اور پانچویں قسم اس طرح ہوگی کہ جھوٹا ہونے کی صورت میں اس پر اللہ کی لعنت ہو۔ ٢۔ عورت کی چار قسمیں اٹھانے کی وجہ سے کہ اس کا شوہر جھوٹا ہے عورت سزا سے بچ جائے گی۔ ٣۔ عورت کو پانچویں قسم اٹھانی ہوگی کہ جھوٹی ہونے کی صورت میں اس پر اللہ کا غضب ہو۔ ٤۔ لعان کے بعد میاں، بیوی ہمیشہ کے لیے جدا ہوجائیں گے۔ ٥۔ اللہ اپنے بندوں پر فضل فرمانے والا ہے۔ ٦۔ اللہ تعالیٰ توبہ قبول کرنے والا اور حکمت والا ہے۔ تفسیر بالقرآن میاں، بیوی کی علیحد گی کی صورتیں : ١۔ حدود کو قائم نہ رکھ سکیں۔ ( البقرۃ: ٢٢٩) ٢۔ جب خاوند بیوی کی نافرمانی سے خوف کھائے۔ ( النساء : ٣٤) ٣۔ طلاق رجعی کے بعد ان کی مدت پوری ہوجائے تو ان کے درمیان علٰیحدگی ہوگی۔ ( البقرۃ: ٢٣٠) النور
7 النور
8 النور
9 النور
10 النور
11 فہم القرآن ربط کلام : جس واقعہ کی بنا پر یہ سورت نازل ہوئی اس کی حقیقت : یہ سورۃ مبارکہ جس واقعہ پر نازل کی گئی اب اس معاملہ کی حقیقت اور اس کی سنگینی کا ذکر کیا جاتا ہے جسکا اختصار یہ ہے۔ حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کسی غزوہ اور سفر کے لیے تشریف لے جاتے تو اس سے پہلے اپنی بیویوں کے درمیان قرعہ اندازی فرماتے جس بیوی کا قرعہ نکلتا آپ اسے اپنے ساتھ لے جاتے۔ غزوہ بنی مصطلق میں قرعہ میرے نام نکلا۔ میں آپ کے ساتھ سفر میں تھی واپسی پر ہم نے مدینہ سے کچھ دور رات کے پہلے پہر قیام کیا مجھے حاجت کے لیے پڑاؤ سے دور جانا پڑا۔ جب فارغ ہو کر پڑاؤکی جگہ آنے لگی تو میرے گلے کا ہار ٹوٹ کر نیچے گرپڑا۔ میں اسے تلاش کرتی رہی جب پڑاؤ کے مقام پر پہنچی تو قافلہ جا چکاتھا۔ قافلہ والوں نے میرا ہودج اٹھا کر اونٹ پر رکھا اور چل دئیے۔ میرا وجود ہلکا تھا قافلہ والوں نے کوچ کی جلدی میں ہودج کے ہلکے پن کا خیال نہ کیا اور خالی ہودج کے ساتھ چل نکلے۔ میں نے ادھر ادھر تلاش کرنے کی کوشش کی لیکن قافلہ دور نکل چکا تھا۔ میں یہ سوچ کر پڑاؤ کی جگہ آکر بیٹھ گئی کہ جب شتر بانوں کو معلوم ہوگا تو واپس اسی جگہ لوٹیں گے میں اسی جگہ بیٹھی انتظار کرتی رہی۔ اسی حالت میں مجھے نیند آگئی میں زمین پر لیٹ گئی۔ صفوان (رض) بن معطل کی ڈیوٹی تھی کہ وہ قافلہ کے آخر میں رہیں تاکہ گری پڑی چیز کا خیال رکھیں۔ وہ کچھ دیر کے بعد میرے قریب پہنچے تو اس نے مجھے پہچان لیا۔ کیونکہ پردے کا حکم آنے سے پہلے اس نے مجھے دیکھا ہوا تھا۔ اس نے میرے قریب آکر قدرے بلند آواز سے ” اِنَّالِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ“ کہا اس کی آواز سن کر میں اٹھ کر بیٹھ گئی اور میں نے اپنے چہرے کو ڈھانپ لیا۔ اللہ کی قسم نہ اس نے مجھ سے کوئی بات کی اور نہ میں نے اس سے کلام کی۔ اس نے اپنی سواری کو میرے قریب لا کر بٹھایا تاکہ میں سوار ہوجاؤں۔ میں اونٹ پرسوار ہوئی وہ مہار تھامے ہوئے پیدل چلنے لگے۔ ہم دوپہر کے وقت قافلے کے ساتھ شامل ہوگئے اس وقت قافلہ دوپہر کے آرام کے لیے ایک جگہ ٹھہرا ہوا تھا۔ اس واقعہ کو عبداللہ بن ابی رئیس المنافقین نے اچھالا یہاں تک کہ مسطح بن اثاثہ، حسان (رض) بن ثابت خواتین میں حمنہ (رض) بنت جحش جو ام المومنین حضرت زینب (رض) بنت جحش کی بہن تھیں انہوں نے منافقوں کی مذموم مہم میں حصہ لیا حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ میں سفر سے واپسی پر بیمار پڑگئی مجھے کچھ معلوم نہ تھا کہ میرے خلاف کیا طوفان بدتمیزی برپا کیا گیا ہے۔ البتہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کارویّہ میرے ساتھ پہلے جیسا نہ تھا پہلے کبھی بیمار ہوتی تو رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شفقت ومہربانی غیر معمولی ہوتی لیکن اس مرتبہ آپ میرے گھر تشریف لاتے تو فقط اتنا استفسار فرماتے کہ عائشہ آپ کیسی ہیں ایک دو جملوں کے سوا کوئی بات نہ کرتے۔ میں سمجھ گئی کہ معاملہ بدلہ ہوا ہے۔ ایک رات قضائے حاجت کے لیے گھر سے باہر گئی کیونکہ ان دنوں گھروں میں لیٹرین نہیں ہوتی تھیں۔ مسطح (رض) بن اثاثہ کی والدہ ام مسطح میرے ساتھ تھیں قضائے حاجت کے بعد ہم گھر آرہی تھیں کہ اچانک ام مسطح گرپڑیں اس کے منہ سے مسطح کے بارے میں بدعانکلی کہ مسطح ہلاک ہوجائے۔ میں نے کہا ماں آپ نے ایسے الفاظ کیوں کہے مسطح تو بدری صحابی ہے اس نے کہا بھولی بیٹی تجھے معلوم نہیں کہ وہ آپ کے بارے میں کیا کہتا پھرتا ہے اس نے مجھے پوری بات بتلائی۔ میں گھر پہنچی تو میری طبیعت بالکل نڈھال ہوچکی تھی رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لائے آپ نے پہلے کی طرح چند الفاظ میں میری طبیعت کے بارے میں پوچھے۔ میں نے آپ سے عرض کی کہ آپ مجھے میکے جانے کی اجازت عنایت فرمائیں آپ نے بلاتاخیر اجازت دے دی۔ میں اپنے والدین کے گھر آئی میرے گھروالوں کی پریشانی نمایاں تھی۔ میں نے دن رات روتے ہوئے گزارے اس حالت میں تقریباً ایک مہینہ گزر گیا ایک دن نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمارے گھر تشریف لائے میرے پاس تشریف فرما ہو کر فرمانے لگے کہ عائشہ (رض) اگر تو پاکباز ہے تو اللہ تعالیٰ تیری برأت فرمائے گا اگر تجھ سے غلطی ہوگئی ہے تو تجھے اپنے اللہ سے معافی مانگنی چاہیے یقیناً اللہ تعالیٰ معاف فرمانے والا ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی باتیں سنتے سنتے میرے آنسو تھم گئے۔ میں نے اپنی والدہ سے کہا کہ آپ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو میری صفائی پیش کریں انہوں نے فرمایا کہ بیٹی میں کیا جواب دوں میں نے اپنے والد سے درخواست کی کہ ابو آپ میری صفائی دیں لیکن انہوں نے بھی فرمایا۔ واللہ میں کیا جواب دوں۔ آخر میں نے اپنے آپ کو سنبھالا اور کہا کہ اللہ کی قسم میں جانتی ہوں کہ یہ بات آپ لوگوں کے دل میں بیٹھ گئی ہے اگر میں کہوں کہ اللہ جانتا ہے میں پاک صاف ہوں تو آپ لوگ پھر بھی یقین نہیں کریں گے اگر میں اپنے آپ پر لگنے والے الزام کو تسلیم کرلوں، تو آپ لوگ اس پر یقین کرلیں گے۔ اللہ کی قسم میرا معاملہ آپ کے ساتھ حضرت یوسف (علیہ السلام) کے والد جیسا ہے مجھے پریشانی کی وجہ سے حضرت یعقوب (علیہ السلام) کا نام بھول گیا۔ اس لیے میں نے حضرت یعقوب (علیہ السلام) کا نام لینے کی بجائے کہا کہ میرا معاملہ حضرت یوسف (علیہ السلام) کے والد جیسا ہے میرے لیے صبر کرنا ہی بہتر ہے اللہ تعالیٰ ہی میری مدد فرمانے والا ہے۔ یہ کہہ کر میں نے کروٹ بدل لی۔ مجھے یقین تھا کیونکہ میں اس الزام سے بری ہوں اللہ تعالیٰ ضرور میری برأت فرمائے گا لیکن یہ خیال نہ تھا کہ اللہ تعالیٰ میری برأت قرآن مجید میں نازل فرمائے گا۔ ابھی نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی جگہ سے اٹھے نہ تھے کہ آپ پروحی کی کیفیت طاری ہوگئی سردی کے باوجود آپ کی مبارک پیشانی سے پسینہ ٹپکنے لگا۔ وحی ختم ہوئی تو آپ نے مسکراتے ہوئے فرمایا تیرے لیے خوشخبری عائشہ تیری برأت اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں نازل فرما دی ہے۔ یہ سن کر میری والدہ نے فرمایا کہ بیٹی اٹھو اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا شکریہ ادا کرو۔ میں نے کہا اللہ کی قسم میں صرف اپنے رب کا شکر ادا کروں گی جس نے میری پاک دامنی کے لیے آیات نازل فرمائی ہیں۔ ان آیات میں پہلی بات یہ فرمائی کہ جن لوگوں نے تم میں سے یہ تہمت لگائی اور اسے آگے پھیلایا۔ اے مسلمانوں اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے گھر والو ! اسے اپنے لیے برا خیال نہ کرو کیونکہ اس میں تمہارے لیے تمہارے رب نے بہتری رکھ دی ہے البتہ اس مذموم مہم میں جس نے جتنا حصہ لیا وہ اتنا ہی گنہگار ہوا ہے جس شخص نے اس مہم کا آغاز کیا اور اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اسے عظیم عذاب ہوگا۔ بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والوں میں عبداللہ بن ابی اور اس کے منافق ساتھی تھے اس مذموم مہم میں چند مسلمان محض پراپیگنڈہ سے متأثر ہونے کی بناء پر ملّوث ہوئے۔ اس واقعہ میں خیر کے چند پہلو : 1 منافقوں نے سروردوعالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عزت وحرمت کو داغ دار کرنے کی کوشش کی جس میں منافق پہلے سے زیادہ حقیر اور ذلیل ہوئے۔2 اللہ تعالیٰ نے منافقوں کو گلی کے تنکوں سے ہلکا کردیا۔3 رب کریم نے سروردوعالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زوجہ مطہرہ کی برأت قرآن مجید میں نازل فرمائی جس کی قیامت تک تلاوت ہوتی رہے گی اور حضرت عائشہ (رض) کے ساتھ حسد وبغض رکھنے والے قیامت تک جلتے رہیں گے۔4 حضرت ابوبکر (رض) اور آپ کی لخت جگر حضرت عائشہ (رض) کی پاکدامنی کے شہرے قیامت تک بلند ہوتے رہیں گے۔5 مسلمانوں کو زبردست اخلاقی نظام سے سرفراز کیا گیا۔6 صحابہ (رض) کی اخلاقی قدروں کے حوالے سے آزمائش کی گئی تین افراد کے سوا پوری کی پوری جماعت بلند ترین اخلاقی معیار پر پوری اتری۔7 مذموم مہم میں تین افراد ملوث ہوئے جنہوں نے اسّی اسّی (٨٠) کوڑے کھاکر سمع واطاعت کی مثال پیش کی۔ اور آئندہ کے لیے سچی توبہ کی اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول فرمائی۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ ہر اچھے اور برے کام کی حکمت سے واقف ہے۔ ٢۔ ہر کسی کو اس کے کیے کا صلہ ملے گا۔ ٣۔ سیدہ عائشہ پر تہمت لگانے والے سرغنہ کے لیے بہت بڑا عذاب ہے۔ النور
12 فہم القرآن ربط کلام : گزشتہ سے پیوستہ اگر کسی پاکدامن عورت یامرد پر بدکاری کی تہمت لگ جائے تو مومن مرد اور عورتوں کا فرض ہے کہ وہ پاکدامن مرد اور پاکدامن عورت کا ماضی سامنے رکھ کر کھلے الفاظ میں تردید کریں کہ یہ تہمت اور الزام ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ انسان خطاکار ہے اور اس سے غلطی ہونے کا امکان ہے لیکن انسان کا ماضی بالخصوص بدکاری کے معاملے میں مستقبل کی ضمانت فراہم کرتا ہے کیونکہ زنا ایسا فعل ہے جو یکدم سرزد نہیں ہوتا چند ایک واقعات چھوڑ کر ہر معاشرے میں زنا سے پہلے آنکھ مچولی، قربت اور اس قسم کی حرکات کاسرزد ہونا لازمی امر ہے اس لیے قرآن مجید میں ولاَ تَقْرَبُو الزِّنَا (بنی اسرائیل : ٣٢) کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں۔ اس بنیاد پر مومن مردوں اور عورتوں کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ ایک دوسرے کے بارے میں اچھا گمان رکھا کریں کیونکہ بدگمانی سے غیبت اور الزام تراشی کی ابتدا ہوتی ہے جس سے ایک طرف پاکدامن شخص کا کردار تارتار ہوتا ہے اور دوسری طرف معاشرے میں نفرت اور لڑائی اور بے حیائی کا ماحول پیدا ہوتا ہے۔ یہ آیات صدیقہ کائنات حضرت عائشہ (رض) کی برأت کے لیے نازل ہوئیں اس لیے ارشاد ہوا کہ مومنوں کافرض تھا جونہی سروردوعالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زوجہ مطہرہ (رض) پر تہمت لگی تو مومن بیک زبان بول اٹھتے ” ھٰذَا اِفْکُ ٗ مُّبِیْنُ ٗ“ ہم اسے مسترد کرتے ہیں کیونکہ یہ تہمت اور بکواس کے سوا کچھ نہیں۔ حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہتے ہیں کہ نصر نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ روایت بیان کی آپ نے فرمایا اچھا گمان بہترین عبادت ہے۔“ [ رواہ ابو داود : باب فی حسن الظن] (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا الْقَاسِم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَقُولُ مَنْ قَذَفَ مَمْلُوکَہُ وَہْوَ بَرِیءٌ مِمَّا قَالَ، جُلِدَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ، إِلاَّ أَنْ یَکُونَ کَمَا قَالَ) [ رواہ البخاری : باب قَذْفِ الْعَبِیدِ] حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں میں نے ابو القاسم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے ہیں سنا آپ نے فرمایا جو آدمی اپنے غلام پر بہتان لگاتا ہے اور غلام اس کام سے بری ہو۔ قیامت کے دن الزام لگانے والے کو کوڑے لگائے جائیں گے یا وہ اپنا دعویٰ سچ ثابت کرے گا۔“ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ إِیَّاکُمْ وَالظَّنَّ، فَإِنَّ الظَّنَّ أَکْذَبُ الْحَدِیثِ، وَلاَ تَحَسَّسُوا، وَلاَ تَجَسَّسُوا، وَلاَ تَحَاسَدُوا، وَلاَ تَدَابَرُوا، وَلاَ تَبَاغَضُوا، وَکُونُوا عِبَاد اللَّہِ إِخْوَانًا ) [ رواہ البخاری : باب مَا یُنْہَی عَنِ التَّحَاسُدِ وَالتَّدَابُرِ] حضرت ابوہریرہ (رض) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں آپ نے فرمایا بد گمانی سے بچو کیونکہ بدگمانی بہت بڑا جھوٹ ہے۔ کسی کی عیب جوئی، جاسوسی اور حسد نہ کرو، نہ پیٹھ پیچھے باتیں کرو‘ نہ ہی دشمنی کرو۔ اللہ کے بندو! بھائی بھائی بن کر رہو۔“ (وَعَنْ عَاءِشَۃَ (رض) قَالَتْ اِسْتَأْذَنَ رَھْطٌ مِّنَ الْیَھُوْدِ عَلَی النَّبِیِّ فَقَالُوْا اَلسَّامُ عَلَیْکُمْ فَقُلْتُ بَلْ عَلَیْکُمُ السَّامُ وَاللَّعْنَۃُ فَقَالَ یَاعَاءِشَۃُ اِنَّ اللّٰہَ رَفِیْقٌ یُحِبُّ الِرّفْقَ فِی الْاَمْرِ کُلِّہٖ قُلْتُ اَوَلَمْ تَسْمَعْ مَاقَالُوْا قَالَ قَدْ قُلْتُ وَعَلَیْکُمْ۔ وَفِیْ رِوَایَۃٍ عَلَیْکُمْ وَلَمْ یَذْکُرِالوَاوَ۔ (متفق علیہ) وَفِیْ رِوَایَۃٍ لِلْبُخَارِیِّ۔ قَالَتْ اِنَّ الیَھُوْدَ اَتَوُا النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَقَالُوْا اَلسَّامُ عَلَیْکَ قَالَ وَعَلَیْکُمْ فَقَالَتْ عَاءِشَۃُ اَلسَّامُ عَلَیْکُمْ وَلَعَنَکُمُ اللّٰہُ وَغَضِبَ عَلَیْکُمْ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَھْلًا یَا عَاءِشَۃُ عَلَیْکِ بالِرّفْقِ وَایَّا کِ وَالعُنْفَ وَالفَحْشَ قَالَتْ اَوَلَمْ تَسْمَعْ مَاقَالُوْا قَالَ اَوَلَمْ تَسْمَعِیْ مَا قُلْتُ رَدَدْتُّ عَلَیْھِمْ فَیُسْتَجَابُ لِیْ فِیِْھِمْ۔ وَلَا یُسْتَجَابُ لَھُمْ فِیَّ) [ وَفِیْ رِوَایَۃٍ لِمُسْلِمٍ۔ قَالَ لَاتَکُوْنِیْ فَاحِشَۃً فَاِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ الفُحْشَ وَالتَّفَحُّشَ] حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ یہودیوں کے ایک گروہ نے رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آنے کی اجازت طلب کی اور آکر السام علیکم کہا (کہ تم ہلاک ہوجاؤ۔) حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں میں نے ان کے جواب میں کہا تم پر ہلاکت ہو ! اور لعنت ہو! یہ سن کر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا‘ اے عائشہ! بے شک اللہ تعالیٰ نرمی پسند کرنے والا ہے اور تمام کاموں میں نرمی پسند کرتا ہے۔ میں نے عرض کیا۔ آپ نے سنا نہیں، جو انہوں نے کہا ؟ ارشاد فرمایا اس لیے میں نے کہہ دیا : اور تم پر ہو۔ دوسری روایت میں ہے کہ تم پر ہو۔ یعنی لفظ واؤ(اور) نہیں ہے۔ (بخاری و مسلم) بخاری کی ایک روایت میں ہے‘ حضرت عائشہ (رض) بیان فرماتی ہیں کہ یہودی نبی محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے انہوں نے کہا السام علیکم یعنی آپ تباہ ہوجائیں۔ آپ نے جواب دیا بلکہ تم پر ایسا ہو۔ عائشہ (رض) نے کہا‘ تم پر اللہ کی لعنت اور اس کا غضب ہو۔ یہ سن کر رسول مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اے عائشہ (رض) ! نرمی اختیار کرو۔ تیز گفتگو اور بدزبانی سے اجتناب کرو۔ حضرت عائشہ (رض) نے عرض کیا : آپ نے ان کے کلمات نہیں سنے ؟ آپ نے فرمایا : کیا تو نے میری بات نہیں سنی! میں نے ان کی بد دعا کا جواب دے دیا ہے اور ان کے بارے میں میرے کلمات منظور ہوئے ہیں۔ ان کے کلمات میرے بارے میں قبول نہیں ہوئے۔ مسلم کی روایت میں ہے کہ اے عائشہ! تجھے بری گفتگو سے احتراز کرنا چاہیے۔ بلاشبہ اللہ تعالیٰ برے الفاظ اور فحش گوئی کو پسند نہیں کرتا۔ مسائل ١۔ مومن مرد اور مومن عورتوں کو ایک دوسرے کے بارے میں اچھا گمان کرنا چاہیے۔ ٢۔ صالح کردار آدمی پر الزام لگے تو اس کی تائید نہیں کرنا چاہیے۔ النور
13 فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ : مسلمانوں کی اخلاقی اور قانونی ذمہ داری ہے کہ تہمت لگانے والے سے ثبوت طلب کریں۔ کسی پاکدامن مرد یا عورت پر تہمت لگ جائے تو مومنوں کا پہلا فرض یہ ہے کہ وہ اس تہمت پر یقین کرنے اور اسے آگے بڑھانے کی بجائے تہمت لگانے والے سے چار گواہوں کا مطالبہ کریں اگر وہ شریعت کے مقرر کردہ معیار اور ضابطے کے مطابق چار گواہ پیش نہیں کرتا تو وہ شریعت کی نظر میں جھوٹا ہے۔ اس پر عدالت کی ذمہ داری ہوگی کہ ایسے شخص کو مجمع عام میں اسّی (٨٠) کوڑے لگوائے تاکہ اس کی زبان درازی کی اسے ٹھیک ٹھیک سزا مل سکے اور مسلمانوں کی عزت وحرمت ایک دوسرے سے محفوظ رہے۔ کیونکہ یہ واقعہ صحابہ اکرام (رض) کے دور میں ہوا اور اس میں چند مسلمان ملوث ہوئے اور یہ پہلا واقعہ تھا اس لیے اللہ تعالیٰ نے صحابہ کو مخاطب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے اگر اللہ کا تم پر دنیا اور آخرت میں فضل نہ ہوتا تو اس تہمت درازی کی وجہ سے تم پر عظیم عذاب نازل ہوتا۔ یہ اس کے فضل کا نتیجہ ہے کہ اتنے عظیم جرم میں ملوث ہونے کے باوجود اس نے تمہیں توبہ و استغفار کا موقعہ دیتے ہوئے عظیم عذاب سے محفوظ فرمایا۔ صحابہ (رض) کی عظمت : (وَعَنْ اَبِیْ سَعِیْدِنِ الْخُدْرِیِّ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَاْتِیْ عَلَی النَّاسِ زَمَانٌ فَیَغْزُوْ فِءَامٌ مِّنَ النَّاسِ فَیَقُوْلُوْنَ ھَلْ فِیْکُمْ مَنْ صَاحَبَ رَسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَیَقُوْلُوْنَ نَعَمْ فَیُفْتَحُ لَھُمْ ثُمَّ یَاْتِیْ عَلَی النَّاسِ زَمَانٌ فَیَغْزُوْ فِءَامٌ مِّنَ النَّاسِ فَیُقَالُ ھَلْ فِیْکُمْ مَنْ صَاحَبَ اَصْحَابَ رَسُوْلِ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَیَقُوْلُوْنَ نَعَمْ فَیُفْتَحُ لَھُمْْْْْْ ثُمَّ یَاْتِیْ عَلَی النَّاسِ زَمَانٌ فَیَغْزُوْ فِءَامٌ مِّنَ النَّاسِ فَیُقَالُ ھَلْ فِیْکُمْ مَنْ صَاحَبَ مَنْ صَاحَبَ اَصْحَابَ رَسُوْلِ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَیَقُوْلُوْنَ نَعَمْ فَیُفْتَحُ لَھُمْ (متفق علیہ)۔ وَفِیْ رِوَایَہٍ لِّمُسْلِمٍ قَالَ یَاْتِیْ عَلَی النَّاسِ زَمَانٌ یُبْعَثُ مِنْھُمُ الْبَعْثُ فَیَقُوْلُوْنَ اُنْظُرُوْا ھَلْ تَجِدُوْنَ فِیْکُمْ اَحَدًا مِّنْ اَصْحَابِ رَسُوْلِ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَیُوْجَدُ الرَّجُلُ فَیُفْتَحُ لَھُمْ ثُمَّ یُبْعَثُ البَعْثُ الثَّانِیْ فَیَقُوْلُوْنَ ھَلْ فِیْھِمْ مَنْ رَّاٰی اَصْحَاب النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَیُفْتَحُ لَھُمْ ثُمَّ یُبْعَثُ الْبَعْثُ الثَّالِثُ فَیُقَالُ انْظُرُوْا ھَلْ تَرَوْنَ فِیْھِمْ مَنْ رَاٰی مَنْ رَاٰی اَصْحَاب النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ثُمَّ یَکُوْنُ الْبَعْثُ الرَّابِعُ فَیُقَالُ اُنْظُرُوْاھَلْ تَرَوْنَ فِیْھِمْ اَحَدًارَاٰی مَنْ رَاٰی اَحَدًا رَاٰی اَصْحَاب النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَیُوْجَدُالرَّجُلُ فَیُفْتَحُ لَہٗ۔) [ رواہ مسلم : باب فَضْلِ الصَّحَابَۃِ ثُمَّ الَّذِینَ یَلُونَہُمْ ثُمَّ الَّذِینَ یَلُونَہُمْ] حضرت ابو سعید خدری (رض) کابیان ہے کہ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : مسلمانوں پر ایسا وقت آئے گا‘ کہ ان کا ایک گروہ۔ اللہ کے راستے میں لڑائی کرے گا۔ جہاد کرنے والے پوچھیں گے‘ کیا تم میں کوئی ایسا ہے جس کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صحبت نصیب ہوئی ہو ؟ وہ جواب دیں گے‘ ہاں۔ چنانچہ اس صحابی کی برکت سے ان کو فتح نصیب ہوگی۔ پھر مسلمانوں پر ایسا وقت آپڑے گا کہ ان کا ایک گروہ۔ اللہ کے راستے میں لڑائی کرے گا۔ پوچھا جائے گا‘ کیا تم میں کوئی ایسا ہے جس کو اصحاب رسول کی صحبت حا صل ہوئی (یعنی تابعی ہے)؟ وہ جواب دیں گے ہاں۔ تو ان کو فتح نصیب ہوجائے گی۔ پھر مسلمانوں پر ایک ایسا دور آئے گا کہ ان کی ایک جماعت جہاد فی سبیل اللہ کرے گی۔ پو چھا جائے گا کیا تم میں کوئی ایسا شخص ہے جس کو کسی اصحاب رسول کے ساتھی یعنی تابعی کی صحبت میسر آئی ہو یعنی تبع تابعی ہے ؟ بتایا جائے گا‘ ہاں۔ تو وہ بھی فتح یاب ہوں گے۔ مسلم کی دوسری روایت ہے۔ مسلمانوں پر ایک ایسا وقت آئے گا کہ مسلمانوں کا ایک لشکر بھیجا جائے گا۔ وہ کہیں گے دیکھو تم میں کوئی صحابی رسول ہے ؟ چنانچہ وہ صحابی پائیں گے تو انہیں فتح حاصل ہوگی۔ پھر دوسرا لشکر بھیجا جائے گا تو لوگ دریافت کریں گے کیا تم میں کوئی ایسا شخص ہے جس نے کسی صحابیِ کو پایا ہو؟ چنانچہ ان کو کامیابی حاصل ہوگی۔ پھر تیسرا لشکر بھیجا جائے گا تو لوگ پوچھیں گے کیا تم میں سے کوئی ایسا شخص موجود ہے جس نے کسی ایسے شخص کو دیکھا ہو جو صحابی رسول کی صحبت سے فیض یاب ہوا ہو ؟ وہ ایسا شخص پائیں گے اور وہ فتح یاب ہوں گے۔ پھر چوتھا لشکر بھیجا جائے گا۔ ان سے پوچھا جائے گا‘ کیا تم میں صحابہ کرام کے شاگردوں کا کوئی شاگرد ہے ؟ تو وہ ایسا شخص پائیں گے۔ تو فتح سے ہمکنار ہوں گے۔ مسائل ١۔ تہمت لگانے والے پر لازم ہے کہ وہ چار عادل گواہ پیش کرے ورنہ اسے اسّی کوڑے لگائے جائیں گے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام (رض) پر خاص فضل اور خصوصی رحمت فرمائی۔ تفسیر بالقرآن صحابہ کرام (رض) کا مرتبہ و مقام : ١۔ اللہ نے صحابہ کے ایمان کو آزمالیا۔ (الحجرات : ٣) ٢۔ صحابہ کا ایمان امت کے لییمعیار ہے۔ (البقرۃ : ١٣٧) ٣۔ صحابہ اللہ کی جماعت ہیں۔ (المجادلۃ: ٢٢) ٤۔ صحابہ کو براکہنے والے بیوقوف ہیں۔ (البقرۃ : ١٣) النور
14 النور
15 فہم القران ربط کلام : صحابہ پرخصوصی فضل ورحمت کا تذکرہ کرنے کے بعد انہیں مزید احساس دلایا گیا کہ جس بات کو تم نے معمولی سمجھا اللہ تعالیٰ کے نزدیک وہ گناہ اور نتائج کے اعتبار سے بڑی بات ہے۔ اللہ تعالیٰ کے نزدیک مومن مرد اور عورت کی عزت و حرمت بڑا مقام رکھتی ہے اس لیے ایک دفعہ پھر صحابہ کرام (رض) کو مخاطب کرتے ہوئے مسلمانوں کو تنبیہ کی گئی ہے کہ جس بات کو تم ہلکا سمجھتے ہو وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک بڑی بات ہے یعنی بہت بڑا جرم ہے کیونکہ اس سے پاکدامن مومن مرد اور عورت کی عزت و حرمت پامال ہوتی ہے۔ جسے اللہ تعالیٰ ہرگز برداشت نہیں کرتا۔ تمہارا اخلاقی فرض تھا کہ جو نہی تم نے اس بات کو سنا تو فوراً کہہ دیتے کہ ہماری کیا مجال کہ ہم سروردوعالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زوجہ مطہرہ کے بارے میں منفی بات کریں تمہیں اس میں حصہ لینے کی بجائے صاف صاف کہنا چاہیے تھا یہ تو عظیم بہتان ہے۔ اللہ تعالیٰ تمہیں نصیحت کرتا ہے کہ اگر تم حقیقتاً اپنے رب پر ایمان لانے والے ہو تو آئندہ اس قسم کی بات تمہاری زبان پر نہیں آنی چاہیے۔ اس نے اپنے احکام تمہارے لیے کھول کر بیان کردیے ہیں۔ ہمیشہ یاد رکھنا کہ اللہ تعالیٰ ہر کام اور ہر بات کو جانے والا ہے اور اس کے ہر حکم اور ارشاد میں حکمت ہوتی ہے۔ مسائل ١۔ مسلمان مرد اور عورت کی عزت و حرمت کے بارے میں منفی بات کرنا بڑا گناہ ہے۔ ٢۔ صحابہ (رض) اور صحابیات (رض) کے بارے میں منفی گفتگو کرنا قابل تعزیر جرم ہے۔ ٣۔ مسلمانوں کا فرض ہے کہ وہ ایک دوسرے کی عصمت وحرمت کے بارے میں منفی گفتگو کرنے سے اجتناب کریں۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ سب کچھ جاننے والا اور اس کے ہر کام اور حکم میں حکمت ہوتی ہے : ١۔ بے شک اللہ جو چاہتا ہے فیصلہ کرتا ہے۔ (المائدۃ: ١) ٢۔ اللہ تعالیٰ آسمان و زمین کی ہر چیز کو جاننے والا ہے۔ ( المائدۃ: ٩٨) ٣۔ جو کچھ تم ظاہر کرتے ہو اور جو چھپاتے ہو سب کچھ اللہ کو معلوم ہے۔ ( المائدۃ: ٩٩) ٤۔ اللہ تعالیٰ آنکھوں کی خیانت کو بھی جانتا ہے۔ ( المؤمن : ١٩) ٥۔ جو کچھ ہوچکا اور جو ہونے والا ہے سب اللہ کو معلوم ہے اس کے علم کا کوئی احاطہ نہیں کرسکتا۔ ( طٰہٰ: ١١٠) ٦۔ اللہ سے ڈر جاؤ اللہ سننے والا، جاننے والا ہے۔ (الحجرات : ١) ٧۔ اللہ تعالیٰ کی مثل کوئی چیز نہیں وہ سننے والا جاننے والا ہے۔ (الشوریٰ: ١١) النور
16 النور
17 النور
18 النور
19 فہم القرآن ربط کلام : مومنوں کو نصیحت کرنے کے بعد منافقین اور بے حیائی پھیلانے والوں کی سزا کا ذکر۔ اللہ تعالیٰ کے احکام واضح ہیں کہ کسی پاکدامن عورت اور مرد پر تہمت نہ لگائی جائے۔ کیونکہ اس سے ایک طرف انفرادی طور پر مسلمان کی بے حرمتی ہوتی ہے اور دوسری طرف معاشرے میں بے حیائی پھیلتی ہے۔ جس معاشرے میں پاکدامن مردوں اور عورتوں کی عزت محفوظ نہیں وہاں بے شرمی اور بے حیائی عام ہوجاتی ہے۔ جو لوگ بے حیائی کو پھیلاتے اور رواج دیتے ہیں ان کے لیے اللہ تعالیٰ نے دنیا اور آخرت میں اذّیت ناک عذاب تیار کر رکھا ہے۔ پہلی ذلت یہ ہے کہ اسے سرعام اسّی کوڑے لگائے جاتے ہیں ظاہر ہے اس سے بڑھ کر اور کیا ذلت ہوسکتی ہے۔ دوسری ذلّت یہ ہے کہ وہ اپنا اعتماد کھو بیٹھتا ہے جس وجہ سے اس کی گواہی قبول نہیں کی جاتی۔ آخرت میں اس کے لیے عظیم عذاب کی سزا ہے۔ جس معاشرے میں بے حیائی عام ہوجائے وہاں کسی کی عزت سلامت نہیں رہتی۔ چادر اور چار دیواری کا تحفظ پامال ہوجاتا ہے اور عزت والا شخص اپنی عزت کے بارے میں ہر وقت ایک خوف محسوس کرتا ہے۔ جہاں تک بے حیائی پھیلانے والوں کا تعلق ہے وہ بھی قلبی سکون سے محروم ہوجاتے ہیں بظاہر وہ کتنے ہی فیشن ابیل اور ہشاش بشاش دکھائی دیتے ہوں۔ لیکن اندر سے کھوکھلے ہوجاتے ہیں دل کا سکون پانے کے لیے ایسے مرد اور عورتیں شراب نوشی اور دیگر نشہ آورچیزیں استعمال کرتے ہیں بالآخر اپنی صحت بھی برباد کرلیتے ہیں اکثر اوقات ان کا دنیا میں بھی انجام عبرتناک ہوتا ہے۔ عام طور پر یہ لوگ فیشن اور آزادی کے نام پر بے حیائی پھیلاتے ہیں جنہیں پہچاننا اور ان سے بچنا قدرے مشکل ہوتا ہے اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس حقیقت کو تنبیہ کے طور پر بیان فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں جانتا ہے اور مسلمانوں تم انہیں نہیں جانتے کہ وہ کس کس طریقے سے تمہارے درمیان بے حیائی پھیلاتے ہیں۔ بے حیا لوگوں کی بے حیائی سے بچنا اللہ تعالیٰ کے فضل کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ یعنی تم لوگ نہیں جانتے کہ اس طرح کی ایک ایک حرکت کے اثرات معاشرے میں کہاں کہاں تک پہنچتے ہیں، کتنے افراد کو متاثر کرتے ہیں اور مجموعی طور پر ان سے کتنا نقصان ہوتا ہے۔ اس چیز کو اللہ ہی خوب جانتا ہے۔ لہٰذا اللہ پر اعتماد کرو اور جن برائیوں کی نشان دہی کی جاتی ہے انہیں پوری قوت سے مٹانے اور دبانے کی کوشش کرو۔ یہ چھوٹی باتیں نہیں ہیں جن کے ساتھ روا داری برتی جائے۔ حقیقت میں یہ بڑی باتیں ہیں جن کا ارتکاب کرنے والوں کو سخت سزا ملنی چاہیے۔ مسائل ١۔ بے حیائی پھیلانے والے لوگ دنیا میں بھی اذّیت ناک سزا میں مبتلا ہوں گے۔ ٢۔ بے حیائی پھیلانے والوں کو قیامت کے دن اذّیت ناک عذاب ہوگا۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ سب کچھ جاننے والا ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ معاف کرنے اور مہربانی فرمانے والاہے : ١۔ اللہ رحم کرنے والا ہے۔ (الانعام : ١٣٣) ٢۔ مہربانی فرمانا اللہ نے اپنے آپ پر لازم کرلیا ہے۔ (الانعام : ٥٤) ٣۔ اللہ سب سے زیادہ رحم کرنے والا ہے۔ (یوسف : ٦٤) ٤۔ اے نبی ! میرے بندوں کو میری طرف سے خبر کردو کہ میں بخشنے والا، رحم کرنے والا ہوں۔ (الحجر : ٤٩) ٥۔ اللہ مومنوں کو اندھیروں سے نکالتا ہے کیونکہ وہ رحم کرنے والا ہے۔ (الاحزاب : ٤٣) ٦۔ اللہ توبہ کرنے والوں کو اپنی رحمت میں داخل کرتا ہے بے شک اللہ معاف اور رحم کرنے والا ہے۔ (التوبۃ: ٩٩) ٧۔ جو سچے دل سے تائب ہوجائے ایمان کے ساتھ اعمال صالح کرتا رہے اللہ تعالیٰ اس کی برائیوں کو نیکیوں میں بدل دے گا کیونکہ اللہ معاف کرنے والا رحم کرنے والا ہے۔ (الفرقان : ٧٠) ٨۔ گناہ گار کو اللہ کی رحمت سے مایوس نہیں ہونا چاہیے۔ کیونکہ اللہ معاف کرنے والا ہے۔ (الزمر : ٥٣) النور
20 النور
21 فہم القرآن ربط کلام : کسی پر تہمت لگانا شیطانی عمل ہے اس لیے مسلمانوں کو شیطان کی پیروی سے منع کیا گیا ہے۔ شیطان کی ہر لمحہ کوشش ہوتی ہے کہ انسان بالخصوص مسلمان کو برائی اور بے حیائی کے کاموں میں مبتلا کرے۔ جب انسان ایک مرتبہ برائی اور بے حیائی کا ارتکاب بیٹھتا ہے تو پھر اس کے لیے سنبھلنا مشکل ہوجاتا ہے اس لیے حکم ہے کہ شیطان کے پیچھے نہیں لگنا چاہیے۔ قرآن مجید کے پہلے مخاطب صحابہ کرام (رض) تھے لہٰذا تیسری مرتبہ ارشاد ہوا ہے کہ اگر تم پر اللہ کا فضل اور رحمت نہ ہوتی تو ایک شخص بھی تم سے پاک نہیں رہ سکتا تھا یہ تو اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ وہ جسے چاہتا ہے اسے ہر اعتبار سے پاک صاف رہنے کی توفیق عطا کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ سب کچھ سننے اور جاننے والا ہے۔ منافقین نے دیرینہ حسدوبغض کی وجہ سے سروردوعالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور حضرت ابوبکر صدیق (رض) کو بدنام کرنے کے لیے اس قدر گہری اور منظم مہم چلائی کہ جس سے صحابہ کرام (رض) کا بچنا بہت مشکل تھا لیکن اللہ تعالیٰ کا فضل ہوا کہ گنتی کے دو تین آدمیوں کے سوا کوئی صحابی اس مذوم فعل میں شامل نہیں ہوا جس کا اللہ تعالیٰ نے بطور احسان ذکر فرمایا ہے کہ اگر تم پر اللہ تعالیٰ کا فضل اور مہربانی نہ ہوتی تو تم میں سے کسی ایک کا بچنا بھی محال نہ تھا ” خُطْوَہٌ“ کی جمع ” خُطُوَاتٍ“ ہے جس کا معنٰی ہے کسی کے پیچھے قدم بقدم چلنا، ” خُطْوَات الشَّیْطَانُ“ کہہ کر مسلمانوں کو غیرت دلائی گئی ہے کہ کلمہ پڑھنے والوں کی یہ شان نہیں کہ وہ شیطان کی پیروی کرتے ہوئے ہر سنی سنائی بات آگے پھیلاتے جائیں۔ (عَنْ حَفْصِ بْنِ عَاصِمٍ َ قَالَ قَالَ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کَفَی بالْمَرْءِ کَذِبًا أَنْ یُحَدِّثَ بِکُلِّ مَا سَمِعَ) [ رواہ مسلم : باب النَّہْیِ عَنِ الْحَدِیثِ بِکُلِّ مَا سَمِعَ] ” حضرت حفص بن عاصم (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا آدمی کے جھوٹا ہونے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ ہر سنی سنائی بات بیان کرتا چلا جائے۔“ انسان جب کسی پر تہمت لگاتا ہے تو اس کے دل میں لا محالہ یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ میں اس سے نیک ہوں اور جس پر تہمت لگا رہا ہے۔ وہ برا اور ناپاک شخص ہے۔ جھوٹی تہمت کے پیچھے خود پسندی کا جذبہ بھی کارفرما ہوتا ہے اس لیے مسلمانوں کو تلقین فرمائی ہے کہ وہ اپنی پاکبازی کا دعویٰ نہ کریں کیونکہ کوئی انسان اس وقت تک حقیقتاً پاکباز نہیں ہوسکتا جب تک اللہ تعالیٰ اسے پاکبازی کی توفیق نہ دے جو اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم کے بغیر ممکن نہیں۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعا : (أَعُوذ باللَّہِ السَّمِیْعِ الْعَلِیمِ مِنَ الشَّیْطَان الرَّجِیْمِ مِنْ ہَمْزِہٖ وَنَفْخِہٖ وَنَفْثِہٖ) [ رواہ ابو داود : باب مَنْ رَأَی الاِسْتِفْتَاحَ بِسُبْحَانَکَ اللَّہُمَّ وَبِحَمْدِکَ] ” میں شیطان مردود کے وسوسہ، پھونک اور اس کی چھیڑ چھاڑ سے پناہ طلب کرتا ہوں۔“ مسائل ١۔ مسلمانوں کو شیطان کے پیچھے نہیں لگنا چاہیے۔ ٢۔ شیطان انسان کو برائی اور بے حیائی میں مبتلا کرتا ہے۔ ٣۔ ہر دم اللہ کا فضل اور مہربانی مانگنی چاہیے کیونکہ اس کی مہربانی کے بغیر شیطان کی پیروی سے نہیں بچا جا سکتا۔ تفسیر بالقرآن شیطان کی پیروی نہیں کرنی چاہیے : ١۔ شیطان آدمی کو ہر طرف سے گمراہ کرتا ہے۔ (الاعراف : ١٧) ٢۔ شیطان جھوٹی قسموں سے ورغلاتا ہے۔ (الاعراف : ٢١) ٣۔ شیطان اپنی فریب کاری سے پھسلاتا ہے۔ (الاعراف : ٢٢) ٤۔ شیطان بے حیائی اور برائی کا حکم دیتا ہے۔ (البقرۃ: ١٦٩) ٥۔ شیطان برے اعمال کو فیشن کے طور پر پیش کرتا ہے۔ (النمل : ٢٤) ٦۔ شیطان نے حضرت آدم (علیہ السلام) کو گمراہ کرنے کے لیے قسمیں اٹھائیں۔ (الاعراف : ٢١) ٧۔ شیطان کی پیروی کرنے سے بچنے کا حکم ہے۔ (البقرۃ: ٢٠٨) ٨۔ شیطان کی پیروی کرنا اس کی عبادت کرنا ہے۔ (یٰسٓ: ٠ ٦) النور
22 فہم القرآن ربط کلام : سورۃ النور کا مرکزی عنوان اخلاق ہے اور اخلاق کا یہ تقاضا ہے کہ اگر کسی کو غریب سمجھ کر اس کے ساتھ تعاون کیا جائے تو ذاتی رنجش کی بنیاد پر اس کے ساتھ تعاون ترک نہیں کرنا چاہیے۔ سیدہ عائشہ (رض) پر تہمت لگانے والوں کے ہم زبان ہونے والے صحابہ میں حضرت مسطح (رض) بھی شامل تھے حضرت مسطح سیدنا صدیق (رض) کے قریبی رشتہ دار تھے۔ مفلس تھے جس کی وجہ سے سیدنا حضرت ابوبکر صدیق (رض) ان کے ساتھ مسلسل مالی تعاون کیا کرتے تھے۔ جب انہوں نے صدیقہ کائنات (رض) پر تہمت لگانے والوں کا ساتھ دیا تو حضرت ابوبکرصدیق (رض) نے قسم اٹھائی کہ آئندہ اس شخص کے ساتھ تعاون نہیں کروں گا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ حکم نازل فرمایا جن کو اللہ تعالیٰ نے وسائل کی کشادگی عطا فرمائی ہے ان کے لیے جائز نہیں کہ وہ اپنے رشتہ داروں، مسکینوں اور مہاجرین کی مدد کرنے سے انکار کریں انہیں معافی اور درگزر سے کام لینا چاہیے۔ اے مسلمانو! کیا تم نہیں چاہتے کہ اللہ تعالیٰ تمہیں معاف کر دے؟ اللہ تعالیٰ معاف کرنے والا نہایت مہربان ہے۔ جونہی یہ فرمان نازل ہوا حضرت ابوبکرصدیق (رض) نے اس بات کا اظہار کیا کہ کیوں نہیں میں تو اللہ تعالیٰ کی بخشش کا طلبگار ہوں اس کے ساتھ ہی حضرت مسطح کے ساتھ تعاون جاری رکھنے کا عہد فرمایا۔ (عَنْ سَہْلِ بْنِ مُعَاذِ بْنِ أَنَسٍ عَنْ أَبِیہِ عَنْ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) أَنَّہُ قَالَ أَفْضَلُ الْفَضَاءِلِ أَنْ تَصِلَ مَنْ قَطَعَکَ وَتُعْطِیَ مَنْ مَنَعَکَ وَتَصْفَحَ عَمَّنْ شَتَمَکَ) [ رواہ احمد : مسند سہل بن معاذ بن انس ] حضرت سہل بن معاذ بن انس اپنے باپ سے بیان کرتے ہیں کہ وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کرتے ہیں آپ نے فرمایا فضائل میں سے یہ سب سے بڑی فضیلت والی یہ بات ہے کہ تو اس کے ساتھ صلہ رحمی کرے جو تجھ سے قطع تعلق کرتا ہے۔ تو اسے دے جو تجھے دینے سے انکاری ہے اور اس سے درگزر کرے جو تجھے گالی گلوچ دیتا ہے۔“ (الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ فِی السَّرَّآءِ وَ الضَّرَّآءِ وَ الْکٰظِمِیْنَ الْغَیْظَ وَ الْعَافِیْنَ عَنِ النَّاسِ وَ اللّٰہُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ) [ آل عمران : ١٣٤] ” وہ لوگ جو خوشحالی اور تنگی دستی میں خرچ کرتے ہیں اور غصے کو پی جاتے ہیں اور لوگوں کو معاف کردیتے ہیں ایسے نیکو کاروں کو اللہ پسند کرتا ہے۔“ مسائل ١۔ مخیر حضرات کو ذاتی رنجش کی بناء پر مستحق لوگوں کے ساتھ تعاون ترک نہیں کرنا چاہیے۔ ٢۔ رشتہ دار، مساکین اور مہاجرین کے ساتھ تعاون کرتے رہنا چاہیے۔ ٣۔ مخلص مسلمان سے غلطی سرزد ہوجائے تو اسے معاف کردینا چاہیے۔ ٤۔ لوگوں کو معاف کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ معاف کرتا ہے۔ تفسیر بالقرآن زیادتی کرنے والوں کو معاف اور درگزر کرنا : ١۔ اے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) زیادتی کرنے والوں کے ساتھ درگزر کیجئے۔ ( الاعراف : ١٩٩) ٢۔ اگر تم پسند کرتے ہو کہ اللہ تم کو معاف کرے تو تم بھی دوسروں کو معاف کردیا کرو۔ ( النور : ٢٢) ٣۔ اللہ تعالیٰ درگزر کرنے والوں کو پسند فرماتے ہیں۔ ( آل عمران : ١٣٤) ٤۔ درگزر کرنے سے انسان کو تقویٰ حاصل ہوتا ہے۔ ( البقرۃ: ٢٣٧) ٥۔ آپ انہیں معاف کریں اور درگزر کا رویہّ اختیار کریں حتیٰ کہ اللہ کا حکم آجائے۔ ( البقرۃ: ١٠٩) ٦۔ زیادتی کا بدلہ ہے جو کوئی معاف کر دے اس کا اجر اللہ کے ذمے ہے۔ ( الشوریٰ : ٤٠) النور
23 فہم القرآن ربط کلام : پاکدامن عورتوں پر تہمت لگانے والوں کے لیے دنیا اور آخرت میں سزا۔ سابقہ آیات میں حضرت عائشہ (رض) کے حوالہ سے مسلمانوں کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ ایک دوسرے کے بارے میں اچھا گمان کرتے ہوئے تہمت طرازی سے بچا کریں۔ اب تمام پاکدامن مومن عورتوں کے بارے میں اصول بیان کیا گیا ہے کہ جس نے پاکدامن، بے خبر بھولی بھالی مسلمان خواتین پر تہمت لگائی ان پر اللہ تعالیٰ دنیا و آخرت میں لعنت کریں گے اور ان کے لیے عظیم تر عذاب ہوگا۔ ممکن ہے کہ دنیا میں یہ لوگ اپنی چرب لسانی یا کسی وجہ سے سزا سے بچ جائیں لیکن انہیں وہ دن یاد رکھنا چاہیے جس دن ان کی زبانیں ان کے ہاتھ اور ان کے پاؤں ان کے کردارکے بارے میں گواہی دیں گے۔ جس کے بارے میں دوسرے مقام پر یوں بیان کیا ہے کہ اس دن اللہ تعالیٰ ان کے مونہوں پر مہر ثبت کریں گے اور پھر ان کے ہاتھ اور پاؤں ان کے خلاف شہادت دیں گے۔ ( یٰس : ٦٥) ایک اور مقام پر یوں بیان فرمایا ہے کہ جب مجرموں کے کان، آنکھیں اور پورا جسم ان کے خلاف گواہی دے گا تو وہ اپنے وجود سے مخاطب ہو کر کہیں گے کہ آج تمہیں ہمارے خلاف بولنے کی کس نے طاقت دی ہے۔ مجرم کے تمام اعضا پکار اٹھیں گے کہ ہمیں اس اللہ نے بولنے کی طاقت دی ہے جس نے ہر چیز کو بولنے کی استعداد بخشی ہے (حٰم السجدہ : آیت ٢٠، ٢١) اس ارشاد سے یہ سمجھانا مقصود ہے کہ انسان کو اپنی زبان، ہاتھ اور پاؤں کو شریعت کے تابع کردینا چاہیے۔ سروردوعالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے مسلمان کی اس طرح تعریف فرمائی ہے (عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عَمْرٍو (رض) عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ الْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُونَ مِنْ لِسَانِہِ وَیَدِہِ، وَالْمُہَاجِرُ مَنْ ہَجَرَ مَا نَہَی اللَّہُ عَنْہُ) [ رواہ البخاری : باب الْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُونَ مِنْ لِسَانِہِ وَیَدِہِ ] ” حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں آپ نے فرمایا مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔ مہاجر وہ ہے جس نے اللہ کی منع کی ہوئی چیزوں کو چھوڑ دیا۔“ (عَنْ اَبِیْ ھُرَےْرَۃ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اِجْتَنِبُوا السَّبْعَ الْمُوْبِقَاتِ قَالُوْا ےَا رَسُوْلَ اللّٰہِ وَمَاھُنَّ قَالَ اَلشِّرْکُ باللّٰہِ وَالسِّحْرُ وَقَتْلُ النَّفْسِ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّٰہُ اِلَّا بالْحَقِّ وَاَکْلُ الرِّبٰو وَاَکْلُ مَالِ الْےَتِےْمِ وَالتَّوَلِّی ےَوْمَ الزَّحْفِ وَقَذْفُ الْمُحْصَنَاتِ الْمُؤْمِنَاتِ الْغَافِلَاتِ) [ رواہ البخاری : باب قَوْلِ اللَّہِ تَعَالَی (إِنَّ الَّذِینَ یَأْکُلُونَ أَمْوَالَ الْیَتَامَی ظُلْمًا إِنَّمَا یَأْکُلُونَ فِی بُطُونِہِمْ نَارًا وَسَیَصْلَوْنَ سَعِیرًا ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا سات ہلاک کردینے والے گناہوں سے بچتے رہو۔ آپ سے پوچھا گیا اللہ کے رسول وہ کون سے ہیں؟ فرمایا (١) اللہ کے ساتھ شرک کرنا‘ (٢) جادو کرنا (٣) ایسے شخص کو قتل کرنا جسے اللہ نے قتل کرنا حرام قرار دیا ہے مگر حق کے ساتھ سود۔ یتیم کا مال کھانا، میدان جنگ سے فرار ہونا اور پاک دامن ایمان دار بھولی بھالی عورتوں پر تہمت لگانا۔“ مسائل ١۔ پاک دامن عورتوں پر الزام لگانے والے دنیا و آخرت میں لعنت کے مستحق ہیں۔ قیامت کے دن انہیں بڑے عذاب کا سامنا کرنا ہوگا۔ ٢۔ قیامت کے دن مجرموں کے ہاتھ پاؤں اور زبانیں ان کے خلاف گواہی دیں گی۔ ٣۔ قیامت کے دن ہر کسی کو اس کے کیے کا پورا، پورا بدلہ دیا جائے گا۔ ٤۔ قیامت کے دن سبھی کو بالخصوص مجرموں کو پتہ چل جائے گا کہ اللہ کی ذات اور اس کا فرمان حق ہے۔ تفسیر بالقرآن انسان کے اعضاء اللہ تعالیٰ کے سامنے گواہی دیں گے ١۔ قیامت کے دن کان، آنکھ اور دل سے سوال کیا جائے گا۔ (بنی اسرائیل : ٣٦) ٢۔ قیامت کے دن مجرموں کے خلاف ان کے کان، آنکھیں اور جسم گواہی دیں گے۔ (حٰم السجدۃ: ٢٠) ٣۔ مجرموں کے ہاتھ اور پاؤں گواہی دیں گے۔ (یٰس : ٦٥) النور
24 النور
25 النور
26 فہم القرآن ربط کلام : تہمت کے بیان میں ایک اور حقیقت کی وضاحت۔ خبیث عورتیں خبیث مردوں کے لیے ہوتی ہیں اور خبیث مرد خبیث عورتوں کے لیے ہوتے ہیں۔ یہاں لوگوں کے طبعی رجحانات اور ان کی اچھی بری فطرت کا ذکر کرتے ہوئے بتلایا ہے کہ فکرو عمل کے اعتبار سے بے حیا عورتیں بے حیا مردوں کو پسند کرتی ہیں اور بے حیا مرد بے حیا عورتوں کی طرف راغب ہوتے ہیں۔ فکرو عمل کے اعتبار سے پاک باز عورتیں پاک پاز خاوندوں کے طور پر پسند کرتی ہیں اور پاکباز مرد پاکباز عورتوں کو بیوی بنانا پسند کرتے ہیں۔ پاکباز مرد اور خواتین کا ان باتوں کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہوتا برے لوگ جو ان کے بارے میں کہتے ہیں۔ ان کی پاکبازی کی وجہ سے ان کی دیگر بشری کمزوریوں کو اللہ تعالیٰ معاف کردیتا ہے ان کے لیے عمدہ اور باعزت رزق تیار کیا گیا ہے اس ارشاد میں ایک طرف سیدہ صدیقہ حضرت عائشہ (رض) کا صالح کردار اور ان کی پاکیزہ سوچ کی نشاندہی کی گئی ہے جس میں اشارتاً بتلایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر کے لیے فکروعمل کے اعتبار سے پاکباز بیویوں کا انتخاب کیا ہے اور یہی مسلمانوں کے لیے اصول ہے کہ وہ ازواجی تعلق قائم کرتے ہوئے اس اصول کو پیش نظر رکھا کریں۔ وَعَنْ عَاءِشَۃَ (رض) قَالَتْ قَالَ لِیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اُرِیْتُکِ فِیْ الْمَنَامِ ثَلٰثَ لَیَالٍ یَجِیْئُ بِکِ الْمَلَکُ فِیْ سَرَقَۃٍ مِّنْ حَرِیْرٍ فَقَالَ لِیْ ھٰذِہِِ أمْرَأَتُکَ فَکَشَفْتُ عَنْ وَجْھِکِ الثَّوْبَ فَاِذَا اَنْتِ ھِیَ فَقُلْتُ اِنْ یَّکُنْ ھٰذَا مِنْ عِنْدِاللّٰہِ یُمْضِہٖ۔ [ رواہ البخاری : باب قَوْلِ اللَّہِ تَعَالَی (إِنَّ الَّذِینَ یَأْکُلُونَ أَمْوَالَ الْیَتَامَی ظُلْمًا إِنَّمَا یَأْکُلُونَ فِی بُطُونِہِمْ نَارًا وَسَیَصْلَوْنَ سَعِیرًا ] ” حضرت عائشہ (رض) کا بیان ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے بتایا کہ تین راتیں تو مجھے خواب میں دکھائی گئی۔ فرشتہ ریشم کے ٹکڑے میں لپیٹ کر تیری تصویر لاتا رہا اور اس نے مجھے بتایا کہ یہ آپ کی بیوی ہے۔ جب میں نے تیرے چہرے سے نقاب اٹھایا تو واقعتا ہی تھی۔ پس میں نے سوچا یہ خواب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے وہ وہ ایسا کرے گا۔“ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ تُنْکَحُ الْمَرْأَۃُ لِأَرْبَعٍ لِمَالِھَا وَلِحَسَبِھَا وَلِجَمَالِھَا وَلِدِیْنِھَا فَاظْفُرْ بِذَات الدِّیْنِ تَرِبَتْ یَدَاکَ) [ رواہ البخاری : کتاب النکاح، باب الأکفاء فی الدین] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : عورت سے چار وجوہات کی بنیاد پر شادی کی جاتی ہے۔ مال کی وجہ سے، حسب ونسب کی بناء پر، اس کی خوبصورتی کی وجہ سے اور اس کے دین کی بنیاد پر۔ پس تم دین دار کو پسند کرو تاکہ تم کامیاب اور خوش وخرم رہو۔ تیرے ہاتھ خاک آلود ہوں۔“ پاکباز عورت کا خصوصی وصف : (عَنْ عَاءِشَۃَ (رض) اَنَّ بَعْضَ اَزْوَاج النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قُلْنَ للنَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اَیُّنَا اَسْرَعُ بِکَ لُحُوقًا؟ قَالَ اَطْوَلُکُنَّ یَداً فَاَخَذُوْا قَصْبَۃً یَذْرَعُوْنَھَا وَکَانَتْ سَوْدَۃُ اَطْوَلَھُنَّ یَدًا فَعَلِمْنَا بَعْدُ اِنَّمَا کَانَ طُوْلَ یَدِھَا الصَّدَقَۃُ وَ کَانَتْ اَسْرَعَنَا لُحُوْقًابِہٖ زَیْنَبُ وَ کَانَتْ تُحِبُّ الصَّدَقَۃَ (رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ) وَِ فی رِوَایَۃِ مُسْلِمٍ قَا لَتْ قَالَ رَ سُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اَسْرَ عُکُنَّ لُحُوقًابِیْ اَطْوَلُکُنَّ یَدًا قَالَتْ وَ کَانَتْ یَتَطَاوَلْنَ اَیَّتُھُنَّ اَطْوَلُ یَدًا قَالَتْ فَکَانَتْ اَطْوَلُنَا یَدًا زَیْنَبُ لِاَنَّھَا کَانَتْ تَعْمَلُ بِیَدِھَا وَ تَتَصَدَّقُ) [ رواہ مسلم : باب مِنْ فَضَاءِلِ زَیْنَبَ أُمِّ الْمُؤْمِنِینَ r] ” حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بیویوں میں بعض نے آپ سے دریافت کیا کہ ہم میں سے کون سی بیوی آپ سے جنت میں پہلے ملے گی؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس کے ہاتھ لمبے ہیں۔ انہوں نے چھڑی کے ساتھ اپنے ہاتھوں کو ناپنا شروع کیا۔ حضرت سودہ (رض) کے ہاتھ سب سے لمبے تھے لیکن ہمیں بعد میں پتہ چلاکہ ہاتھ لمبے ہونے سے مراد زیادہ صدقہ دیناتھا۔ چنانچہ ہم سے جو پہلے آپ سے ملیں وہ حضرت زینب تھی جو صدقہ وخیرات کرنے کو بہت پسند کرتی تھی۔ (بخاری) مسلم کی روایت میں ہے حضرت عائشہ (رض) نے بیان کیا رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جنت میں مجھے سب سے پہلے وہ بیوی ملے گی جس کے ہاتھ لمبے ہیں۔ حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ آپ کی بیویاں اندازہ لگاتی تھیں کہ کس کے ہاتھ لمبے ہیں چنانچہ ہم میں سے زینب کے ہاتھ لمبے ثابت ہوئے۔ اس لیے کہ وہ ہاتھ سے محنت کرتی اور اسے صدقہ وخیرات کردیا کرتی تھیں۔“ مسائل ١۔ خبیث مرد اور عورتیں ایک دوسرے کی طرف راغب ہوتے ہیں۔ ٢۔ پاکباز مرد اور عورتیں پاکبازوں کے ساتھ ہی رشتہ قائم کرتے ہیں۔ ٣۔ پاکباز مرد اور عورتوں کو بری باتوں اور بدکاری کے ساتھ کوئی دلچسپی نہیں ہوتی۔ النور
27 فہم القرآن ربط کلام : تہمت اور ہرقسم کی برائی سے بچانے کے لیے مسلمانوں کو معاشرتی اصول بتلائے گئے ہیں۔ اسلام سے پہلے عرب معاشرے میں ایک دوسرے کے گھر بلا اجازت جانا عیب تصور نہیں کیا جاتا تھا۔ لیکن اسلام نے معاشرے کو بے حیائی اور بدگمانیوں سے پاک رکھنے کے لیے ایسے اصول جاری فرمائے کہ اگر مسلمان ان اصول کی پاسداری کریں تو مسلمان معاشرہ بے شمار برائیوں اور ہر قسم کی بے حیائی سے محفوظ رہ سکتا ہے۔ اس سے پہلے زبان، ہاتھ اور پاؤں کے حوالہ سے بتلایا گیا کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں یہ گواہی دیں گے کہ انسان ان سے کیا کیا کام لیتا رہا۔ اب یہ حکم ہوا ہے کہ اے مسلمانوں اپنے گھروں میں بلا اجازت نہ جایا کرو اجازت ملنے پر گھروالوں کو سلام کہو یہ تمہارے لیے بہت ہی بہتر ہے اگر تم نصیحت حاصل کرنا چاہتے ہو اگر تم کسی کے ہاں جاؤ اور اسے نہ پاؤ تو اس کے گھر میں بلا اجازت داخل نہ ہوا کرو۔ یہاں تک کہ تمہیں اجازت دی جائے اگر تمہیں لوٹ جانے کے لیے کہا جائے تو تمہیں واپس ہوجانا چاہیے اس طرح واپس ہونا تمہارے لیے بہت ہی بہتر بات ہے۔ اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال کو پوری طرح جاننے والا ہے کسی کے گھر میں داخل ہونے کے لیے اس سے اجازت لینا ضروری ہے اور اجازت کے دو طریقے حدیث رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ثابت ہیں۔1 دروازہ کھٹکھٹا یا جائے اندر سے آواز آنے پر سلام کہا جائے۔2 دروازہ کھٹکھٹانے کی بجائے اونچی آواز سے سلام کہا جائے اگر اندر جانے کی اجازت نہ ملے تو خوش دلی کے ساتھ واپس پلٹ جانا چاہیے۔ یہاں گھروں کے لیے اپنے گھر کے الفاظ استعمال فرمائے ہیں جس سے یہ سمجھنا مقصود ہے کہ مسلمان کو دوسرے مسلمان کے گھر اور عزّت کو اپنا گھر اور عزت سمجھنا چاہیے۔ جس طرح ہر غیور مسلمان اپنے گھر اور اہل خانہ کے بارے میں سوچتا اور چاہتا ہے دوسرے کے گھر اور اہلخانہ کے بارے میں بھی ایسے ہی خیالات ہونے چاہیں۔ (عَنْ عَطَاءِ بْنِ یَسَارٍ (رض) أَنَّ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سَأَلَہُ رَجُلٌ فَقَالَ یَا رَسُول اللَّہِ أَسْتَأْذِنُ عَلَی أُمِّی فَقَالَ نَعَمْ قَال الرَّجُلُ إِنِّی مَعَہَا فِی الْبَیْتِ فَقَالَ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اسْتَأْذِنْ عَلَیْہَا فَقَال الرَّجُلُ إِنِّی خَادِمُہَا فَقَالَ لَہُ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اسْتَأْذِنْ عَلَیْہَا أَتُحِبُّ أَنْ تَرَاہَا عُرْیَانَۃً قَالَ لاَقَالَ فَاسْتَأْذِنْ عَلَیْہَا) [ موطا امام مالک : باب الاستئذان] ” حضرت عطاء بن یسار بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ایک آدمی نے عرض کیا کہ کیا میں اپنی والدہ کے پاس جاتے ہوئے بھی اجازت طلب کروں، آپ نے فرمایا ہاں! آدمی کہنے لگا میں اس کے ساتھ ایک ہی گھر میں رہتا ہوں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اجازت طلب کرو۔ اس نے کہا میں اس کا خدمت گزار ہوں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا پھر بھی اجازت طلب کرو کیا تو اسے عریاں حالت میں دیکھنا پسند کرتا ہے اس نے کہا نہیں آپ نے فرمایا اس لیے اجازت طلب کرو۔“ (اس اجازت سے مراد ہے کہ ماں کی خلوت گاہ میں جانے سے پہلے بیٹے کو ایسا اشارہ ضرور دینا چاہیے جس سے اس کی ماں آگاہ ہو سکے۔ (وَعَنْ جَابِرٍ قَالَ اَتَیْتُ النَِّبیَّ فِیْ دَیْنٍ کَانَ عَلٰی اَبِیْ فَدَقَقْتُ البَابَ فَقَالَ مَنْ ذَا فَقُلْتُ اَنَا فَقَالَ اَنَا اَنَا! کَاَنَّہٗ کَرِھَھَا) [ رواہ البخاری : باب اِذَا قَالَ مَنْ ذَا فَقَالَ أَنَا ] ” حضرت جابر (رض) بیان کرتے ہیں کہ میرے والد مقروض تھے۔ میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا اور دروازے پر دستک دی۔ آپ نے پوچھا کون ہے؟ میں نے کہا‘ میں ہوں۔ آپ نے فرمایا‘ میں ہوں! میں ہوں ! گو یا کہ آپ نے اسے ناپسند کیا۔“ (دوسری روایت میں ہے کہ میں کہنے کی بجائے اپنا نام بتلانا چاہیے۔) ” حضرت ابو موسیٰ اشعری (رض) حضرت عمر بن خطاب (رض) کے پاس آئے اور ان سے تین بار اجازت طلب کی پھر واپس پلٹ گئے حضرت عمر (رض) نے ان کے پیچھے ایک آدمی بھیجا اور کہا کیا بات ہے آپ اندر کیوں نہیں آئے ؟ ابو موسیٰ (رض) نے کہا میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا آپ فرما رہے تھے کہ تین بار اجازت طلب کی جائے اجازت مل جائے تو گھر داخل ہو اگر اجازت نہ ملے تو واپس پلٹ جائے۔ حضرت عمر (رض) نے فرمایا اس حدیث کو کون جانتا ہے اگر شہادت نہ لایا تو میں تجھے فلاں فلاں سزا دوں گا۔ حضرت ابو موسیٰ مسجد میں انصار کی ایک مجلس میں آئے اور کہنے لگے میں نے عمر بن خطاب کو بتلایا کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے ہوئے سناکہ آپ نے فرمایا کہ اجازت تین بار طلب کی جائے اگر مل جائے تو گھر میں داخل ہو اور اگر اجازت نہ ملے تو واپس پلٹ جائے عمر (رض) بن خطاب نے مجھے کہا اگر تصدیق کے طور پر میرے پاس کوئی صحابی نہ لایا میں تو تجھے فلاں فلاں سزا دوں گا۔ آپ میں سے کوئی اس حدیث کے بارے میں جانتا ہے تو میرے ساتھ چلے انہوں نے ابو سعید خدری (رض) کو کہا کہ ان کے ساتھ جاؤ۔ ابو سعید خدری (رض) عمر میں چھوٹے تھے انہوں نے حضرت عمر (رض) بن خطاب کے سامنے اس حدیث کی تصدیق کی حضرت عمر نے ابو موسیٰ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ میں آپ کو کسی قسم کی تہمت نہیں دیتا لیکن میں خدشہ محسوس کرتا ہوں کہ لوگ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حدیثیں بنانا نہ شروع کردیں۔“ [ موطا امام مالک : باب الاستئذان] (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ أَبُو الْقَاسِمِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لَوْ أَنَّ امْرَأً اطَّلَعَ عَلَیْکَ بِغَیْرِ إِذْنٍ، فَخَذَفْتَہُ بِعَصَاۃٍ، فَفَقَأْتَ عَیْنَہُ، لَمْ یَکُنْ عَلَیْکَ جُنَاحٌ) [ رواہ البخاری : باب مَنْ أَخَذَ حَقَّہُ أَوِ اقْتَصَّ دُون السُّلْطَانِ ] حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ ابو القاسم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اگر کوئی بندہ اجازت طلب کیے بغیر کسی کے گھر میں جھانکے اور گھر والا لاٹھی کے ساتھ اس کی آنکھ پھوڑ دے تو اس پر کوئی گناہ نہیں۔“ 5 دروازے کے دائیں بائیں کھڑا ہونا۔ (عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ بُسْرٍ قَالَ کَانَ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) إِذَا أَتَی بَابَ قَوْمٍ لَمْ یَسْتَقْبِلِ الْبَابَ مِنْ تِلْقَاءِ وَجْہِہِ وَلَکِنْ مِنْ رُکْنِہِ الأَیْمَنِ أَوِ الأَیْسَرِ وَیَقُول السَّلاَمُ عَلَیْکُمُ السَّلاَمُ عَلَیْکُمْ وَذَلِکَ أَنَّ الدُّورَ لَمْ یَکُنْ عَلَیْہَا یَوْمَءِذٍ سُتُورٌ) [ رواہ ابوداؤد : باب الاستیذان] ” حضرت عبداللہ بن بسر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب کسی کے دروازے پر جاتے تو دروازے کے سامنے کھڑے نہیں ہوتے تھے بلکہ دروازے کی دائیں جانب یا بائیں جانب کھڑا ہوتے اور سلام کہتے اس دور میں گھروں کے دروازوں پر پردے نہیں ہوتے تھے۔“ مسائل ١۔ کسی کے گھر بلا اجازت داخل نہیں ہونا چاہیے۔ ٢۔ اجازت ملنے پر پہلے سلام کہنا چاہیے۔ ٣۔ گھر والا نہ ملنا چاہے تو واپس لوٹ آنا چاہیے۔ النور
28 النور
29 فہم القرآن ربط کلام : آداب معاشرت کے اصولوں کا بیان جا رہی ہے۔ جن گھروں میں کسی کی سکونت نہ ہو اور ان میں کسی آدمی کا سامان پڑا ہو تو اس گھر میں داخل ہونے میں کوئی حرج نہیں اللہ تعالیٰ کو خوب معلوم ہے جو انسان چھپاتے ہیں اور جو ظاہر کرتے ہیں۔ اس آیت کے آخری الفاظ میں اس بات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ بلاوجہ غیر آباد گھروں میں بھی داخل نہیں ہونا چاہیے کیونکہ ایک طرف یہ غیر سنجیدہ حرکت ہے تو دوسری طرف اردگرد پڑوسی اس طرح داخل ہونے والے کے بارے میں شکوک وشبہات میں مبتلا ہو سکتے ہیں۔ اس لیے تنبیہ کے الفاظ میں ارشاد ہوا کہ لوگو ! جو تم سر عام کرتے ہو یا چھپا کر اللہ تعالیٰ اس سے اچھی طرح واقف ہے البتہ ہوٹل، سرکاری دفاتر اور وہ ڈیرے جہاں لوگ سیاسی، معاشرتی اور کاروباری تبادلہ خیال کرنے کے لیے بیٹھتے ہیں ایسی جگہوں میں بلا اجازت داخل ہونا اس لیے گناہ نہیں کیونکہ یہ جگہیں سب کے لیے یکساں حیثیت رکھتی ہیں۔ مسائل ١۔ غیر رہائشی مکانوں میں بغیر اجازت کے آیا جا سکتا ہے۔ ٢۔ اللہ چھپی اور ظاہری باتوں کو جانتا ہے۔ النور
30 فہم القرآن ربط کلام : معاشرتی آداب سکھلانے کے بعد ذاتی اور انفرادی شرم و حیا کی حفاظت کا حکم دیا گیا ہے۔ اسلام جرائم کے قلع قمع کے لیے خارجی اور داخلی محرکات کا خاتمہ کرنا چاہتا ہے کیونکہ برائی اور بے حیائی اس وقت تک ختم نہیں ہو سکتی جب تک خارجی اسباب اور داخلی محرکات پر قابو نہ پایاجائے۔ داخلی محرکات میں انسان کے مثبت اور منفی جذبات کا اثر اس کے فکر وعمل پر ہوتا ہے۔ دل میں کسی کے بارے میں احترام ہو تو آنکھوں میں عقیدت واحترام کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔ دل میں کسی کے بارے میں غصہ یا بے حیائی ہو تو آنکھیں اس کی چغلی کھاتی ہیں گویا کہ اچھے برے جذبات کی ترجمانی کرنا انسان کے چہرے اور آنکھوں کا فطری عمل ہے۔ ظاہری طور پر بے حیائی کی ابتدا آنکھوں سے ہوتی ہے اس لیے مومن مرد اور مومن عورتوں کو ایک جیسے الفاظ میں حکم دیا ہے کہ اپنی نگاہوں کو نیچا رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کیا کریں یہ شخصی کردار اور معاشرے کے لیے انتہائی پاکیزہ انداز ہے۔ اللہ تعالیٰ خوب واقف ہے جو کچھ لوگ کرتے ہیں۔ یہاں پہلے مومنوں کو حکم دیا گیا کیونکہ مرد کی نسبت عورت میں حیا زیادہ اور بے حیائی کے اظہار میں جرأت کم ہوتی ہے۔ مرد میں جرأت زیادہ ہونے اور عورتوں کے ساتھ فطری کشش کی بنا پر دیکھا گیا ہے کہ دیکھا دیکھی کی ابتدا مرد کی طرف سے ہوتی ہے اس لیے مومنوں کو پہلے حکم دیا گیا ہے کہ وہ اپنی نگاہوں کو نیچا رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں یہی دونوں حکم عورتوں کو دیے گئے ہیں نگاہیں نیچی رکھنے سے مراد یہ نہیں کہ عورت بازار میں چلتے ہوئے ٹھوکریں کھاتی پھرے۔ نگاہیں نیچی رکھنے سے مراد کسی غیر محرم کو دانستہ طور پر دیکھنے سے منع کیا گیا ہے۔ جہاں تک کسی پر اچانک نظر پڑنے کا معاملہ ہے اسے معاف کردیا گیا ہے بشرطیکہ اس طرف دوبارہ نظر نہ اٹھائی جائے۔ عورتوں کے لیے تیسرا حکم یہ ہے کہ وہ اپنا بناؤ سنگھار دانستہ طور پر غیر محرم کے سامنے ظاہر نہ ہونے دیں۔ سوائے اس کے جو فطری اور مجبوری کی وجہ سے ظاہر ہوجائے عورت کو اپنی زینت چھپانے کے لیے لازم ہے کہ وہ اپنی اوڑھنیوں سے اپنے چہرے اور گریبان ڈھانپا کریں انہیں محرم رشتوں کے سوا کسی کے سامنے اپنی زیب وزینت ظاہر کرنے کی اجازت نہیں۔ (وَعَنْ اَبِیْ ھُرَےْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اِنَّ اللّٰہَ کَتَبَ عَلَی ابْنِ اٰدَمَ حَظَّہُ مِنَ الزِّنَا اَدْرَکَ ذَالِکَ لَا مَحَالَۃَ فَزِنَاالْعَےْنِ النَّظَرُ وَزِنَا اللِّسَانِ الْمَنْطِقُ وَالنَّفْسُ تَتَمَنّٰی وَتَشْتَھِیْ وَالْفَرْجُ ےُصَدِّقُ ذٰلِکَ وَےُکَذِّبُہُ (مُتَّفَقٌ عَلَےْہِ وَفِیْ رِوَاے َۃٍ لِّمُسْلِمٍ قَالَ کُتِبَ عَلَی ابْنِ اٰدَمَ نَصِےْبُہُ مِنَ الزِّنَا مُدْرِکٌ ذالِکَ لَا مَحَالَۃَ الْعَےْنَانِ زِنَاھُمَا النَّظَرُ وَالْاُذُنَانِ زِنَاھُمَا الْاِسْتِمَاعُ وَاللِّسَانُ زِنَاہُ الْکَلاَمُ وَالْےَدُ زِنَاھَا الْبَطْشُ وَالرِّجْلُ زِنَاھَا الْخُطٰی وَالْقَلْبُ ےَھْوِیْ وَےَتَمَنّٰی وَےُصَدِّقُ ذَالِکَ الْفَرْجُ وَےُکَذِّبُہُ۔) [ رواہ البخاری : باب (وَحَرَامٌ عَلَی قَرْیَۃٍ أَہْلَکْنَاہَا أَنَّہُمْ لاَ یَرْجِعُونَ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کے بیٹے پر اس کے حصہ کے زنا لکھ دیا ہے وہ اس کو ضرور پالے گا۔ آنکھ کا زنا دیکھنا ہے، زبان کا زنا بولنا ہے۔ انسان کے دل میں خواہش پیدا ہوتی ہے وہ شہوت پر آمادہ ہوتا ہے شرم گاہ اس کی تصدیق یا تکذیب کرتی ہے۔ (بخاری ومسلم) مسلم کی روایت میں ہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا آدم کے بیٹے پر اس کے زنا کا حصہ ثبت ہے وہ لازم طور پر اس کو پانے والا ہے۔ آنکھوں کا زنا دیکھنا ہے، کانوں کا زنا سننا ہے اور زبان کا زنا کلام کرنا ہے۔ ہاتھ کا زناپکڑنا ہے، پاؤں کا زنا چل کر جانا ہے، دل خواہشات کو ابھارتا اور آرزوئیں پیدا کرتا ہے۔ شرم گاہ اس کی تصدیق یا تکذیب کرتی ہے۔“ (عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ جَآءَ رَجُلٌ اِلَی النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَقَالَ اِنِّیْ تَزَوَّجْتُ امْرَأَۃً مِّنَ الْاَنْصَارِ قَالَ فَانْظُرْ اِلَیْھَا فَاِنَّ فِیْ اَعْیُنِ الْاَنْصَارِ شَیْءًا) [ رواہ مسلم : باب نَدْبِ النَّظَرِ إِلَی وَجْہِ الْمَرْأَۃِ وَکَفَّیْہَا لِمَنْ یُرِیدُ تَزَوُّجَہَا] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں ایک آدمی نے حاضر ہوا کر عرض کی کہ میں قبیلۂ انصار کی ایک عورت سے نکاح کرنا چاہتا ہوں۔ آپ نے فرمایا کہ اسے دیکھ لینا کیونکہ انصار کی آنکھوں میں کچھ نقص ہوتا ہے۔“ (عَنْ عَلِیٍّ (رض) قَالَ قَالَ لِی رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اَ تُتْبِعِ النَّظَرَ النَّظَرَ فَإِنَّ الأُولَی لَکَ وَلَیْسَتْ لَکَ الأَخِیرَۃُ) [ رواہ احمد : مسند علی ابن ابی طالب] ” حضرت علی (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے میرے لیے فرمایا کہ ایک بار دیکھنے کے بعد دوسری بار مت دیکھو پہلی نظر تجھے معاف ہے اور دوسری دفعہ دیکھنا جائز نہیں۔“ زمانۂ جاہلیت میں عورتیں سروں پر ایک طرح کے کساوے سے باندھے رکھتی تھیں جن کی گرہ جوڑے کی طرح پیچھے چوٹی پر لگائی جاتی تھی۔ سامنے گریبان کا ایک حصہ کھلا رہتا تھا جس سے گلا اور سینے کا بالائی حصہ صاف نمایاں ہوتا تھا۔ چھاتیوں پر قمیص کے سوا اور کوئی چیز نہ ہوتی تھی اور پیچھے دو دو تین تین چوٹیاں لہراتی رہتی تھیں، تفسیر کشاف جلد ٢، ابن کثیر جلد ٣ اس آیت کے نزول کے بعد مسلمان عورتوں میں دوپٹہ رائج کیا گیا جس کا مقصد یہ نہیں تھا کہ آج کل کی صاحبزادیوں کی طرح بس اسے بل دے کر گلے کا ہار بنا لیا جائے۔ بلکہ یہ تھا کہ اسے اوڑھ کر سر، کمر، سینہ سب اچھی طرح ڈھانک لیے جائیں۔ اہل ایمان خواتین نے قرآن کا یہ حکم سنتے ہی فوراً جس طرح اس کی تعمیل کی اس کی تعریف کرتے ہوئے حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ جب سورۃ نور نازل ہوئی تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سن کر لوگ اپنے گھروں کی طرف پلٹے اور جا کر انہوں نے اپنی بیویوں، بیٹیوں، بہنوں کو اس کی آیات سنائیں۔ انصار کی عورتوں میں سے کوئی ایسی نہ تھی جو آیت (وَلْیَضْرِبْنَ بِخُمْرِہِنَّ عَلٰی جُیُوْبِہِنَّ) کے الفاظ سن کر اپنی جگہ بیٹھی رہ گئی ہو۔ ہر ایک اٹھی اور کسی کی چادر بنائی اور دوسرے دن صبح کی نماز کے وقت جتنی عورتیں مسجد میں حاضر ہوئیں سب چادریں اوڑھے ہوئے تھیں۔ اسی سلسلے کی ایک روایت میں حضرت عائشہ (رض) مزید تفصیل بتاتی ہیں کہ عورتوں نے باریک کپڑے چھوڑ کر اپنے موٹے موٹے کپڑے چھانٹے اور ان کی چادریں بنائی۔ ( ابن کثیر ج ٣، ابو داؤد کتاب اللباس) مسائل ١۔ مومن مردوں اور عورتوں کو اپنی نگاہیں جھکا کر رکھنی چاہئیں۔ ٢۔ مومن مرد و عورت کو اپنی شرمگاہ کی حفاظت کرنی چاہے۔ ٣۔ مومنہ عورتوں کے لیے لائق نہیں کہ وہ اپنی زیب وزیبائش کا اظہار غیر محرموں کے سامنے کریں۔ ٤۔ سابقہ جرائم کی اللہ سے معافی مانگی چاہیے۔ ٥۔ جرائم سے توبہ تائب ہونا اور نیکی کو اختیار کرنا کامیابی کی ضمانت ہے۔ ٦۔ اللہ تعالیٰ سب کے اعمال سے باخبر ہے۔ النور
31 النور
32 فہم القرآن ربط کلام : نظر اور شرمگاہ کو بچانے کے لیے نکاح کرنے کا حکم۔ اس سورۃ کی آیت ٢٦ میں یہ ارشاد ہوا کہ پاکباز عورتیں پاکباز مردوں کے لیے اور پاکباز مرد پاکباز عورتوں کے لیے ہیں یعنی انہیں ایک دوسرے سے نکاح کرنا چاہیے اب کھلے الفاظ میں حکم دیا ہے کہ جو لوگ غیر شادی شدہ ہیں انہیں اپنے میں سے یعنی مسلمانوں سے نکاح کرنا چاہیے اور جو تم میں نیک غلام اور لونڈیاں ہیں ان کے بھی ایک دوسرے کے ساتھ نکاح ہونے چاہئیں اگر وہ غریب ہوں تو انہیں نکاح کرنے سے نہیں ڈرنا چاہیے۔ یقیناً اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے انہیں غنی کرے گا۔ اللہ تعالیٰ بہت وسعت والا اور ہر کام اور بات کو اچھی طرح جاننے والا ہے۔ اسلام سے پہلے مختلف مذاہب میں لوگ تارک الدنیا ہونے کو سب سے بڑی نیکی سمجھتے تھے۔ جس طرح آج بھی ہندوؤں کے گرو اور پروہت، عیسائیوں کے پوپ، پادری شادی کروانے کو دنیاداری تصور کرتے ہیں۔ اسلام نے جسمانی عذر کے بغیر شادی نہ کرنے کو گناہ قرار دیا ہے ہندو، عیسائی، بدھ مت اور دیگر مذاہب کا عقیدہ ہے کہ شادی نہ کرنے والا دوسروں سے نیک ہوتا ہے لیکن اسلام کا تصور یہ ہے کہ شادی کرنے سے انسان کی آنکھوں میں حیا اور اس کی شرمگاہ کی حفاظت ہوتی ہے۔ اس لیے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا نکاح کرنا میری سنت ہے اور جو میری سنت سے انحراف کرے گا اس کا میرے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ (ابن ماجۃ: باب ماجاء فی فضل النکاح) جہاں تک غربت کا معاملہ ہے اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے یہ تسلّی دی ہے کہ تم غربت سے ڈرنے کی بجائے اپنے رب کا حکم سمجھ کر نکاح کرو۔ جب تم اس کا حکم سمجھ کر نکاح کروگے تو اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے تمہاری ضرورتیں پوری کرے گا۔ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کا نتیجہ ہے کہ آج تک کوئی شخص ایسا نہیں ہوا۔ جو شادی کرنے کی وجہ سے پہلے سے زیادہ غریب ہوا ہو۔ بشرطیکہ وہ محنت مزدوری کو عارنہ سمجھے۔ اللہ تعالیٰ یقیناً اس کی روزی میں پہلے کی نسبت وسعت کردیتا ہے آدمی کے جتنے بھی بچے ہوں اللہ تعالیٰ انہیں بھی رزق عطا کرتا ہے کیونکہ وہ کشادگی کا مالک اور سب کو روزی فراہم کرنے والا ہے اسی بات کو دوسرے الفاظ میں یوں بیان کیا گیا ہے کہ جو بھی ذی روح زمین پر چلنے پھرنے والا ہے اللہ تعالیٰ نے اس کی روزی اپنے ذمہ لے رکھی ہے وہ انسان کی مستقل قیام گاہ اور اس کے عارضی پڑاؤ سے پوری طرح واقف ہے اس نے ہر کسی کی روزی اور اس کے حالات کو لوح محفوظ پر لکھ رکھا ہے ( ھود : ٦) ” ایامی ایم“ کی جمع ہے جو ہر اس مرد اور عورت کے لیے استعمال ہوتا ہے جو کنوارہ ہو یا کسی وجہ سے رنڈوا ہو۔ جہاں تک رنڈوے مرد اور عورت کے نکاح کا تعلق ہے اس کے لیے یہ حکم نہیں کہ وہ دوسرا نکاح کرے اگر وہ اپنی اولاد یا کسی دوسری وجہ سے دوسرا نکاح نہیں کرنا چاہتا تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ بشرطیکہ اپنی طبیعت پر ضبط رکھنے والا ہو۔ (عَنْ عَوْفِ بْنِ مَالِکٍ الأَشْجَعِیِّ قَالَ قَالَ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) أَنَا وَامْرَأَۃٌ سَفْعَاءُ الْخَدَّیْنِ کَہَاتَیْنِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ وَأَوْمَأَ یَزِید بالْوُسْطَی وَالسَّبَّابَۃِ امْرَأَۃٌ آمَتْ مِنْ زَوْجِہَا ذَاتُ مَنْصِبٍ وَجَمَالٍ حَبَسَتْ نَفْسَہَا عَلَی یَتَامَاہَا حَتَّی بَانُوا أَوْ مَاتُوا) [ رواہ ابوداود : باب فِی فَضْلِ مَنْ عَالَ یَتَامَی] ” حضرت عوف بن مالک اشجعی (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میں اور سیاہ رخساروں والی عورت قیامت کے دن اس طرح ہوں گے۔ آپ نے سبابہ اور درمیانی انگلی کے ساتھ اشارہ فرمایا۔ ایسی عورت بھی جس کا شوہر فوت ہوگیا ہو باوجود اس کے وہ حسب و نسب اور شکل وصورت والی ہو لیکن پھر بھی اپنے شوہر کے یتیم ہونے والے بچوں کے لیے اپنے آپ کو وقف کردیتی ہے حتیٰ کہ بچے گھر بار والے ہوجائیں یا فوت ہوجائیں۔“ (سیاہ رخساروں والی سے مراد وہ عورت ہے جو محنت، مزدوری اور باورچی خانے کا کام کرنے کی وجہ سے اپنا بناؤ سنگھار نہیں کرسکتی جس وجہ سے اس کے چہرے کی رنگت سیاہی میل ہوگئی ہے۔) مسائل ١۔ جو لوگ نکاح کرنے کے قابل ہوں انہیں نکاح کرنا چاہیے۔ ٢۔ نیک غلاموں اور لونڈیوں کے بھی نکاح کرنے چاہئیں۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ غریبوں کو غنی کرنے والا ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ ہی رزق دینے والاہے۔ ١۔ اللہ تعالیٰ ہی رازق ہے۔ (الذاریات : ٥٨) ٢۔ اللہ ہی رزق فراخ کرتا اور کم کرتا ہے۔ (ا لسباء : ٣٩) ٣۔ اللہ تعالیٰ لوگوں سے رزق طلب نہیں کرتا وہ لوگوں کو رزق دیتا ہے۔ (طٰہٰ : ١٣٢) ٤۔ اللہ جسے چاہتا ہے بغیر حساب کے رزق دیتا ہے۔ (البقرۃ: ٢١٢) ٥۔ اللہ تعالیٰ مہاجروں کو ضرور اچھا رزق دے گا۔ (الحج : ٥٨) ٦۔ اللہ تعالیٰ چوپاؤں اور تمام انسانوں کو رزق دیتا ہے۔ (العنکبوت : ٦٠) ٧۔ اپنی اولاد کو مفلسی کے ڈر سے قتل نہ کرو کیونکہ اللہ تمھیں اور انھیں بھی رزق دینے والا ہے۔ (الانعام : ١٥٢) النور
33 فہم القرآن ربط کلام : اس سے پہلے غلاموں کے نکاح کے حوالے سے ذکر ہوا، لہٰذا ضروری سمجھا گیا کہ ان کی آزادی کا ذکر بھی کیا جائے۔ اس آیت میں آزاد کنوارے مرد اور عورت، غلام اور لونڈی کو نکاح کرنے کا حکم دیا گیا ہے اگر وہ کسی شرعی عذر یا غربت کی وجہ سے ازواجی رشتہ میں منسلک نہیں ہو سکتے تو ان کا فرض ہے کہ وہ اپنے دامن کو بدکاری سے بچائے رکھیں یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ انہیں اپنے فضل سے غنی کردے۔ غلام کیونکہ دوسرے کا محتاج ہوتا ہے اگر وہ اپنے آقا سے مکاتبت کے ذریعے آزاد ہونا چاہے تو ان کے ساتھ مکاتبت کرنا لازم ہے اگر ان میں نیکی اور خیر کا جذبہ معلوم ہو تو حکم ہے کہ اللہ کے دیے ہوئے مال سے ان کی معاونت کرو اور کوئی شخص مال کے لالچ میں اپنی لونڈی کو بدکاری پر مجبور نہ کرے جو کوئی لونڈی کو بدکاری پہ مجبور کرے گا۔ اللہ تعالیٰ لونڈی کی مجبوری کو بخشنے والا اور اس پر رحم فرمانے والا ہے اس آیت مبارکہ میں پانچ مسائل بیان کیے گئے ہیں 1 جو کسی شرعی وجہ سے نکاح کرنے کی طاقت نہیں رکھتا مرد ہو یا عورت اسے ہر صورت اپنے دامن کو بدکاری سے بچانا ہوگا۔ 2 کوئی غلام مکاتبت کے ذریعے آزاد ہونا چاہے تو اسے آزاد کردینا چاہیے مکاتبت سے مراد وہ معاہدہ ہے جو غلام اپنی آزادی کے لیے اپنے آقا کے ساتھ کرتا ہے۔ باہم معاہدہ کے تحت اگر میں آپ کو رقم ادا کروں یا فلاں شرط پوری کردوں تو میں آزادہونگا۔ (عَنْ عَاءِشَۃَ زَوْجِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) أَنَّ بَرِیرَۃَ أَتَتْہَا وَہِیَ مُکَاتَبَۃٌ قَدْ کَاتَبَہَا أَہْلُہَا عَلَی تِسْعِ أَوَاقٍ فَقَالَتْ لَہَا إِنْ شَاءَ أَہْلُکِ عَدَدْتُ لَہُمْ عَدَّۃً وَاحِدَۃً وَکَانَ الْوَلاَءُ لِی قَالَ فَأَتَتْ أَہْلَہَا فَذَکَرَتْ ذَلِکَ لَہُمْ فَأَبَوْا إِلاَّ أَنْ تَشْتَرِطَ الْوَلاَءَ لَہُمْ فَذَکَرَتْ عَاءِشَۃُ ذَلِکَ للنَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَقَالَ افْعَلِی قَالَتْ فَقَام النَّبِیّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَخَطَبَ النَّاسَ فَحَمِدَ اللَّہَ وَأَثْنَی عَلَیْہِ ثُمَّ قَالَ مَا بَالُ رِجَالٍ یَشْتَرِطُونَ شُرُوطًا لَیْسَتْ فِی کِتَاب اللَّہِ کُلُّ شَرْطٍ لَیْسَ فِی کِتَاب اللَّہِ فَہُوَ بَاطِلٌ وَإِنْ کَان ماءَۃَ شَرْطٍ کِتَاب اللَّہِ أَحَقُّ وَشَرْطُ اللَّہِ أَوْثَقُ وَالْوَلاَءُ لِمَنْ أَعْتَقَ) [ رواہ البخاری : باب المکاتب ] ” نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زوجہ حضرت عائشہ (رض) بیان فرماتی ہیں۔ بریرہ میرے پاس آئی اور اس نے مکاتب کی تھی اس کے مالک نے یہ شرط عائد کی کہ اگر نو اوقیہ چاندی ادا کر دے تو تو آزاد ہے سیدہ عائشہ (رض) نے اسے فرمایا اگر تیرے مالک چاہیں تو میں اس رقم کا ایک ہی بار انتظام کیے دیتی ہوں لیکن ولاء میری ہوگی راوی کہتا ہے بریرہ اپنے مالکوں کے پاس آئی اور سیدہ عائشہ کی پیشکش کا تذکرہ کیا تو انہوں نے اس بات کو ماننے سے انکار کردیا اور کہا کہ ولاء ہماری ہوگی سیدہ عائشہ نے اس کا تذکرہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کیا۔ آپ نے فرمایا : تو اس کی رقم ادا کر دے سیدہ عائشہ فرماتی ہیں اس کے بعد نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لوگوں میں خطبہ ارشاد فرماتے ہوئے اللہ کی حمدوثناء بیان کی اور فرمایا کہ لوگوں کو کیا ہوا ہے ؟ کہ وہ ایسی شرائط عائد کرتے ہیں جو کتاب اللہ میں موجود نہیں اور ہر ایسی شرط ناجائز ہے۔ جس کا کتاب اللہ میں وجود نہ ہو اگرچہ ایسی سو شرائط ہی کیوں نہ ہوں۔ اللہ کی کتاب برحق ہے اور اللہ کی شرائط مستقل ہیں ولاء کا حق دار وہی ہے جو آزاد کرائے۔“ 3 جو غلام اپنے آقا کے ساتھ مکاتبت کرے اس کا آقا یا کوئی دوسرا شخص اس کے ساتھ مالی معاونت کرے تاکہ اسے غلامی سے نجات حاصل ہوجائے۔4 اسلام سے قبل بعض لوگ اس لیے اپنی لونڈیاں پاس رکھتے تھے کہ ان کی بدکاری سے آمد ن حاصل کی جائے۔ اللہ تعالیٰ نے اس ظلم اور بے غیرتی سے منع فرمایا یہاں اگر وہ بدکاری سے بچنا چاہیں کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں اس کا یہ مطلب نہیں اگر وہ بدکاری سے نہیں بچنا چاہتیں تو پھر ان کی کمائی کھائی جا سکتی ہے۔ ان الفاظ کا مفہوم یہ ہے کہ انہیں کسی صورت بھی بدکاری پر مجبور نہیں کرنا چاہیے۔5 اگر کوئی ظالم اور بے غیرت آقا اپنی لونڈی کو کسی کے ساتھ بدکاری کرنے پر مجبور کرتا ہے اور وہ بے چاری نہ چاہنے کے باوجود اس کام میں ملوث ہوجاتی ہے تو اللہ تعالیٰ اپنے کرم سے اسے معاف فرمائے گا۔ غلام کو سزا دینے کی بجائے آزاد کردینا چاہیے : ( عَنِ ابْنِ عُمَرَ (رض) قَالَ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ےَقُوْلُ مَنْ ضَرَبَ غُلَامًا لَہٗ حَدًّا لَمْ ےَاْتِہٖ اَوْ لَطَمَہٗ فَإِنَّ کَفَّارَتَہٗ اَنْ یُّعْتِقَہٗ) [ رواہ مسلم : کتاب الإیمان، باب صحبۃ الممالیک وکفارۃ من لطم عبدہ ] ” حضرت عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا‘ آپ فرمارہے تھے جس شخص نے اپنے غلام کو حد لگائی حالانکہ کہ اس نے وہ غلطی نہیں کی یا اس کو طمانچہ مارا تو اس کا کفارہ یہ ہے کہ مالک اسے آزاد کر دے۔“ ” حضرت ابوذر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرمایا۔۔ تمہارے غلام تمہارے بھائی ہیں‘ اللہ تعالیٰ نے انہیں تمہارے زیردست کردیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جس کے بھائی کو اس کے ماتحت کر رکھاہو‘ تو وہ اسے وہی کچھ کھلائے جو خود کھاتا ہے اور اسی طرح کا پہنائے جیسے خود پہنتا ہے اور اس سے اتنا کام نہ لے جو اس کے لیے مشکل ہو۔ اگر اس سے مشکل کام لے تو اس کام میں اس کی مدد کرے۔“ [ رواہ البخاری : باب ما ینھیمن السب واللعن] ” حضرت ابی ہریرہ (رض) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں آپ نے فرمایا میں تین آدمیوں کے بارے میں جھگڑا کروں گا۔ 1 ایسا آدمی جس نے میری بیعت کرنے کے بعد توڑ دی کی 2 جس نے کسی آزاد آدمی کو بیچ کر اس کی قیمت حاصل کی 3 جس نے کسی آدمی کو مزدور رکھا اس سے کام پورا لیا اور اجرت نہ دی۔“ [ رواہ البخاری : کتاب البیوع] ١۔ آزاد آدمی کو غلام بنانا یا فروخت کرنا حرام ہے۔ اس بنا پر کسی باپ کو بھی حق نہیں پہنچتا کہ وہ اپنے بیٹے یا بیٹی کو فروخت کرے۔ مذکورہ بالا اختصار کے ساتھ پیش کئے گئے۔ (تفصیل کے لیے پانچویں پارے کی پہلی آیات کی تفسیر دیکھیں۔) مسائل ١۔ آدمی کو ہر صورت بے حیائی اور بدکاری سے بچنا چاہیے۔ ٢۔ غلام اپنے آقا سے مکاتبت کرنا چاہے تو اس کے ساتھ مکاتبت کرنا لازم ہے۔ ٣۔ مکاتبت کرنے والے غلام کے ساتھ مالی تعاون کرنا چاہیے۔ ٤۔ لونڈیوں کو بدکاری پر مجبور کرنا گناہ ہے۔ النور
34 النور
35 فہم القرآن ربط کلام : نئے خطاب کا آغاز۔ اللہ تعالیٰ پوری کائنات کا نور ہے۔ اس کے نور کی مثال اس طرح ہے جس طرح ایک طاق میں چراغ ہو۔ چراغ شیشے کے فانوس میں رکھا ہوا ہے فانوس اس چمکتے ہوئے ستارے کی مانند ہے اس کے اندر رکھے ہوئے چراغ میں زیتون کا تیل ہے جو ایسے مبارک درخت سے لیا گیا ہے جو نہ شرقی ہے اور نہ غربی۔ چراغ کے تیل کو آگ نہ بھی دکھلائی جائے مگر پھر بھی روشن ہوجائے۔ دیکھنے والے کو یوں لگے جیسے روشنی پرروشنی پھوٹ رہی ہو۔ اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے اپنے نور سے راہنمائی کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ لوگوں کے لیے مثالیں اس لیے بیان کرتا ہے تاکہ انہیں بات سمجھنے اور حقیقت تک پہنچنے میں آسانی ہو۔ اللہ تعالیٰ ہر چیز کو اچھی طرح جاننے والا ہے۔ اس آیت میں دی گئی مثال کو اہل علم نے تین انداز میں سمجھا ہے 1 اللہ تعالیٰ پوری کائنات کا نور ہے اور اسی کے نور سے ہر چیز چمک رہی ہے جسے سمجھانے کے لیے ایسے چراغ کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے جو چراغ اپنی جگہ رکھا ہوا ہے اور اس چراغ میں زیتون کے ایسے درخت سے تیل لیا گیا ہے جو باغ کی مشرقی اور مغربی جانب ہونے کی بجائے درمیان میں ہے جس کا تیل اور پھل دوسرے پودوں سے عمدہ ہوتا ہے۔ کچھ مفسرین نے ” لَا شَرْقِیَّۃٍ وَلَاغَرَبِیَّۃٍ“ کا یہ مفہوم لیا ہے کہ وہ ایسا درخت ہے جو کھلے میدان میں اپنے چاروں جانب سے روشنی اور ہوا لے رہا ہے اس کا تیل باقی زیتون کے پودوں سے زیادہ چمکدار ہوتا ہے گویا کہ اللہ تعالیٰ کا نور نہ شرقی ہے نہ غربی۔ بلکہ وہ اپنی ہر جانب روشن کیے ہوئے ہے اس سے مراد ہے۔ کہ اللہ تعالیٰ عرش پر متمکن ہے اور اس کے نور سے ہر چیز فیض یاب ہو رہی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کے نور کو سمجھانے کے لیے نور کا لفظ استعمال کیا گیا ہے مراد اللہ تعالیٰ کی ہدایت ہے علامہ ابن کثیر (رح) نے اپنی تفسیر میں تحریر فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ مومن کے دل میں نور ہدایت ڈالتا ہے جس کے لیے یہ مثال دی گئی ہے۔ (عَنْ أُبِّی کَعْبِ فِیْ قَوْلِ اللّٰہِ (اللَّہُ نُور السَّمٰوٰاتِ وَالأرْضِ) قَالَ ہُوَ الْمُؤْمِنُ الَّذِیْ جَعَلَ (اللّٰہُ) الْاِیْمَانَ وَالْقُرْآنَ فِیْ صَدْرِہٖ، فَضَرَ بَ اللّٰہِ مِثْلَہٗ فَقَالَ (اللَّہُ نُور السَّمٰوٰاتِ وَالأرْضِ) فَبَدَأَ بِنُوْرِ نَفْسِہٖ، ثُمَّ ذَکَرَ نُوْرُ الْمُؤْمِنِ فَقَالَ مِثَلُ نُوْرٍ مَنْ اٰمَنَ بِہٖ قَالَ فَکَانَ أُبَیُّ بْنُ کَعْبٍ یَقْرَؤُ ہَا مَثَلُ نُوْرِ مَنْ اٰمَنَ بِہٖ) فَہُوَ الْمُوْمِنُ جَعْلَ اَلْاِیْمَانَ وَالْقُرْاٰنَ فِیْ صَدْرِہٖ وَہٰکَذَا قَالَ سَعِیْدُ بْنُ جُبَیْرٍ وَقَیْسُ بْنُ سَعْدٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ اَنَّہٗ قَرَأَہَا کَذٰلِکَ نُوْرٌ مَنْ اٰمَنَ باللّٰہِ) [ تفسْیر ابن کثیر : ج ٦ ص ٥٧] ” حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ مومن کا سینہ ایک طاق کی طرح ہے اس میں دل کی حیثیت چراغ کی مانند ہے جس میں فطری ہدایت زیتون کے تیل کی طرح ہے جسے مومن کی فطرت میں رکھ دیا گیا ہے جس کی خصوصیت یہ ہے کہ مومن کا دل خود بخود ہدایت کی طرف راغب رہتا ہے جو قرآن وسنت کے علم سے منور ہو کر ایک دنیا کو روشن کرتا ہے یہ فطری ہدایت پیدائش کے وقت ہر انسان میں موجود ہوتی ہے جسے لوگ باطل عقیدہ اور برے اعمال کی وجہ سے ضائع کر بیٹھتے ہیں جس کی فطرت میں ہدایت کا نور باقی رہے اللہ تعالیٰ اسے اپنے نور کی طرف آنے کی مزید توفیق دیتا ہے امام بغوی (رح) نے ایک روایت میں لکھا ہے کہ حضرت ابن عباس (رض) نے کعب بن احبار (رض) سے استفسار کیا کہ آپ اس آیت کا کیا مفہوم لیتے ہیں ؟ احبار مسلمان ہوچکے تھے اور تورات، انجیل پر عبور رکھتے تھے۔ فرماتے ہیں کہ زجاجۃ سے مراد رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا دل ہے آپ کا سینہ طاق کی حیثیت رکھتا ہے اور مصباح سے مراد آپ کی نبوت ہے۔ (بحوالہ تفسیر طبری) یعنی دین اسلام ہے جو انسانیت نہیں بلکہ پوری مخلوق کے لیے چشمہ فیض ہے النور
36 فہم القرآن ربط کلام : جن لوگوں کو ” اللہ“ اپنے نور کی طرف ہدایت دیتا ہے وہ ایسے لوگ ہیں جو مساجد میں اللہ تعالیٰ کا ذکر واذکار کرتے ہیں اللہ تعالیٰ نے جن لوگوں کو ہدایت سے نوازا ہے انہیں حکم دیا کہ وہ مساجد میں اللہ تعالیٰ کا ذکر بلند کریں اور مساجد کو آباد رکھیں اور صبح شام ان میں اللہ کا ذکر کرتے رہیں۔ ” فی بیوت“ سے مراد کسی حد تک مومنوں کے اپنے گھر بھی لیے جا سکتے ہیں جن کے بارے میں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے کہ لوگو اپنے گھروں کو قبرستان بنانے کی بجائے وہاں ذکر واذکار، قرآن مجید کی تلاوت اور نوافل ادا کیا کرو۔[ رواہ الترمذی : باب ماجاء فی فضل سورۃ البقرۃ واٰیۃ الکرسی] مسجدیں سکون و اطمینان کا خزینہ اور اللہ کی رحمتوں کا مرکز ہیں : روئے زمین پر اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ پسندیدہ جگہ اور مقام مسجد ہے جس میں ذکر، تلاوت قرآن اور اللہ کے حضور قیام، رکوع و سجود کیا جاتا ہے۔ نبی محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مسجد کے قطعہ کو اللہ کے باغوں میں سے ایک باغ قرار دیا ہے۔ آپ فرمایا کرتے تھے کہ لوگو! اللہ کے باغوں میں داخل ہو کر خوب سیر ہوکر کھایا کرو۔ لوگوں نے پوچھا اللہ کے باغ کون سے ہیں اور ان میں کھانا پینا کیسا؟ آپ فرماتے ہیں مسجدیں اللہ کا گھر ہیں اور ان میں ذکر و اذکار کرنا باغ سے تازہ پھل کھانے کے مترادف ہے۔ (مشکوٰۃ: باب المساجد ومواضع الصلاۃ) جس طرح گلشن اور باغیچے کو صاف ستھر ارکھا جاتا ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فرمان کے مطابق مسجد روح و نفس اور جسم وجان کے لیے روحانی اور خدائی باغ ہیں۔ اس لیے انہیں ہر حال میں پاک صاف اور ستھرارکھنا چاہیے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے بیت اللہ کی تعمیر کرنے والے دوپیغمبروں سے یہی وعدہ لیاتھاکہ میرے گھر کو ہر طرح سے پاک صاف رکھنا۔ تفسیر بالقرآن مسجد کا مرتبہ ومقام : ١۔ مسجدیں صرف اللہ کی عبادات کے لیے ہیں۔ (الجن : ١٨) ٢۔ مسجدیں شرک سے پاک ہونا چاہییں۔ (الحج : ٢٦) ٣۔ مسجدوں کی صفائی کا خیال رکھنا چاہیے۔ (الحج : ٢٦) ٤۔ مسجدیں نماز اور اعتکاف کے لیے ہوتی ہیں۔ (البقرۃ: ١٢٥) ٥۔ مسجدیں آباد کرنا صرف ایمانداروں کا حق ہے۔ (التوبۃ: ١٨) ٦۔ مشرک کو بیت اللہ میں داخل ہونے کا حق نہیں ہے۔ (التوبۃ: ٢٨) النور
37 فہم القرآن ربط کلام : مساجد کو آباد کرنے اور اپنے رب کا صبح شام ذکر کرنے والوں کے اوصاف۔ بے شک اللہ تعالیٰ نے انسان کی روزی کا ذمہ لیا ہے لیکن اسے حکم ہے کہ وہ جائز طریقہ کے ساتھ روزی کمانے کی کوشش کرے۔ روزی کمانے کے جائز ذرائع میں بہترین ذریعہ تجارت ہے جس میں دیانت، امانت کے ساتھ محنت اختیار کی جائے تو اللہ تعالیٰ تاجر کی روزی میں وسعت وکشادگی پیدا کرتا ہے۔ تجارت کرنے سے نہ صرف انسان کو کشادہ رزق حاصل ہوتا ہے بلکہ اس میں انسان کے وقار اور تعارف میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ ہر دور میں تجارت کے بے شمار طریقے رائج رہے ہیں اور وقت کے ساتھ ساتھ ان میں اضافہ ہوتا رہے گا منڈی اور بازار میں دکانداری کرنا بھی ایک تجارت ہے لیکن اس میں زیادہ محنت، وقت اور توجہ درکار ہوتی ہے گاہگ کی بھیڑ یا منڈی کی مصروفیت ہو تو تاجر لالچ میں آکر نماز کی پروا نہیں کرتے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کی خصوصیت ذکر کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ میرے بندے ایسے بھی ہیں جنہیں تجارت اور لین دین کے معاملات میرے ذکر سے غافل نہیں کرتے۔ وہ نماز قائم کرتے ہیں اور زکوٰۃ دیتے ہیں۔ ہر کام کرتے وقت ان کے دل میں قیامت کے احتساب کا خوف رہتا ہے۔ قیامت کا دن ایسا ہے جس دن دل گھبراہٹ کا شکار ہوں گے اور آنکھیں پھٹ جائیں گی لیکن ان اوصاف کے حامل بندوں کو نہ صرف گھبراہٹ سے مامون رکھا جائے گا بلکہ ان کو نیک اعمال کی بہترین جزا دینے کے ساتھ اللہ تعالیٰ انہیں اپنے فضل سے مزید مالا مال فرمائے گا کیونکہ اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے بے حدوحساب عنایت کرتا ہے۔ (عَنْ أَبِی سَعِیدٍ عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَال التَّاجِرُ الصَّدُوقُ الأَمِینُ مَعَ النَّبِیِّینَ وَالصِّدِّیقِینَ وَالشُّہَدَاءِ ) [ رواہ الترمذی : باب مَا جَاءَ فِی التُّجَّارِ وَتَسْمِیَۃِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) إِیَّاہُمْ] ” حضرت ابی سعید (رض) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں آپ نے فرمایا راست باز اور امانت دار تاجر انبیاء، صدیقین اور شہداء کے ساتھ ہوگا“ نماز باجماعت کی اہمیّت : (وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہٖ لَقَدْ ھَمَمْتُ أَنْ آمُرَ بِحَطَبٍ فَیُحْطَبَ ثُمَّ آمُرَ بالصَّلَاۃِ فَیُؤَذَّنَ لَھَا ثُمَّ آمُرَ رَجُلًا فَیَؤُمَّ النَّاسَ ثُمَّ أُخَالِفَ إِلٰی رِجَالٍ فَأُحَرِّقَ عَلَیْھِمْ بُیُوْتَھُمْ وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہٖ لَوْ یَعْلَمُ أَحَدُھُمْ أَنَّہٗ یَجِدُ عَرْقًا سَمِیْنًا أَوْ مِرْمَاتَیْنِ حَسَنَتَیْنِ لَشَھِدَ الْعِشَآءَ) [ رواہ البخاری : کتاب الاذان، باب وجوب صلاۃ الجماعۃ] ” اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! یقیناً میں نے ارادہ کیا ہے کہ میں لکڑیاں اکٹھی کرنے کا حکم دوں جب اکٹھی ہوجائیں۔ میں نماز کا حکم دوں نماز کے لیے اذان دی جائے پھر میں کسی آدمی کو حکم دوں کہ وہ لوگوں کی امامت کروائے اور میں نماز سے پیچھے رہ جانے والے لوگوں کے پاس جاؤں۔ ان پر ان کے گھروں کو جلا کر راکھ کردوں۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! اگر ان میں سے کوئی یہ جانتا کہ اسے نماز کے بدلے موٹی ہڈی یا دو بہترین پائے ملیں گے تو ضرور وہ عشاء کی نماز میں حاضر ہوتا۔“ زکوٰۃ کی فرضیّت : ” حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) اس بات کو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حوالے سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا جو آدمی اپنے مال کی زکوٰۃ نہیں دیتا۔ اللہ تعالیٰ روز قیامت یہ مال اس کی گردن میں گنجا سانپ بنا کر ڈالے گا۔ پھر آپ نے کتاب اللہ سے اس آیت کی تلاوت کی (وَلَا یَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ یَبْخَلُوْنَ بِمَا آتَاھُمُ اللّٰہُ مِنْ فَضْلِہٖ)۔“ [ رواہ الترمذی : کتاب : تفسیرالقرآن، باب ومن سورۃ آل عمران] تفسیر بالقرآن قیامت کے دن لوگوں کے دلوں اور آنکھوں کی کیفیت : ١۔ قیامت کے دن مجرموں کی آنکھیں جھکی ہوئی ہوں گی اور ان پر ذلّت چھا رہی ہوگی۔ (المعارج : ٤٤) ٢۔ اس دن آپ دیکھیں گے کہ مجرم اپنے سروں کو جھکائے پروردگار کے سامنے پیش ہوں گے۔ (السجدۃ: ١٢) ٣۔ قیامت کے دن مجرموں کی آنکھیں کھلی رہ جائیں گی۔ ( ابراہیم : ٤٢) ٤۔ اور ان کے دل اٹھے جا رہے ہوں گے۔ ( ابراہیم : ٤٣) ٥۔ قیامت کے دن لوگ سر اٹھائے ہوئے دوڑ رہے ہوں گے۔ ان کی نگاہیں ان کی طرف نہ لوٹ سکیں گی۔ ( ابراہیم : ٤٣) النور
38 النور
39 فہم القرآن ربط کلام : صالح کردار اور بہتر انجام پانے والے نیک لوگوں کے ذکر کے بعد کفار کا تذکرہ۔ جن لوگوں نے توحید ورسالت اور آخرت کا انکار کیا بے شک وہ جس قدر اچھے اخلاق اور بہتر کردار کے حامل ہوں۔ ان کے اعمال کی مثال چٹیل میدان میں سراب کی مانند ہے۔ جسے پیاسا آدمی دور سے ٹھاٹھیں مارتا ہوا پانی سمجھتا ہے جب پیاس بجھانے کے لیے اس کے پاس جاتا ہے تو تھکاوٹ اور مایوسی کے سوا اسے کچھ حاصل نہیں ہوتا یہی حال قیامت کے دن کافر اور مشرک کا ہوگا، جو دنیا میں یہ سمجھ کر فلاح و بہبود کے بڑے بڑے کارنامے سرانجام دیتا رہا کہ اسے موت کے بعد بھی فائدہ پہنچے گا۔ لیکن عقیدہ توحید صحیح نہ ہونے، نبی آخر الزماں (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت پر ایمان نہ لانے اور آخرت کے حساب و کتاب پر یقین نہ رکھنے کی وجہ سے موت کے بعد اس کی حالت اس پیاسے شخص جیسی ہوگی جو پیاس سے تلملا تا ہوا پانی سمجھ کر سراب کی طرف گیا لیکن وہاں پہنچ کر اسے تھکاوٹ اور پریشانی کے سوا کچھ حاصل نہ ہوا۔ بے انتہا پیاس کی شدّت اور سفر کی تھکاوٹ کی وجہ سے ہے اسے اپنی موت کا یقین ہوچکا ہے اب اسے ذات کبریا کے سوا کوئی سہارا نظر نہیں آتا گویا کہ وہ ذات اس کے سامنے ہے جس کا انکار کرتا تھا، جائے تو کہاں جائے یہی حالت کفار کی ہوگی۔ جب قیامت کے دن اپنے اچھے اعمال اور صدقہ وخیرات کو رائیگاں پائیں گے جو انہوں نے خون پسینے کی کمائے سے خیراتی کاموں میں صرف کیے نہ صرف وہ رائیگاں ہوں گے بلکہ ان کے لیے عذاب میں اضافہ کا سبب ثابت ہوں گے۔ اس وقت ان کی پریشانی اور حسرت میں اضافہ کے سوا کچھ نہیں ہوگا۔ اللہ تعالیٰ ان کے کفر کی پوری پوری سزا دے گا۔ جو دنیا کی زندگی اور اس کے وسائل کو دائمی سمجھتے تھے انہیں ان کی موت کے بعد جلد حساب چکا دیا جائے گا کیونکہ اللہ تعالیٰ بہت جلد حساب لینے والا ہے۔ جلد حساب لینے کا تصور دے کر انسان کو سمجھایا گیا ہے کہ آخرت کے مقابلے میں دنیا کی زندگی عارضی اور تھوڑی ہے۔ (قُلْ کُلٌّ یَّعْمَلُ عَلٰے شَاکِلَتِہٖ فَرَبُّکُمْ اَعْلَمُ بِمَنْ ھُوَ اَھْدٰی سَبِیْلًا) [ بنی اسرائیل : ٨٤] ” فرما دیں ہر ایک اپنے طریقے پر عمل کرتا ہے تمھارا رب زیادہ جاننے والا ہے کہ کون سیدھے راستے پر ہے۔“ مسائل ١۔ کفار کے اعمال کی مثال سراب کی طرح ہے جس کی کوئی حقیقت نہیں۔ ٢۔ جس طرح سراب پر پہنچ کر پیاسے آدمی کی پریشانی اور تھکاوٹ میں اضافہ ہوتا ہے اسی طرح قیامت کے دن کفار کا حال ہوگا۔ ٣۔ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ ہر کسی کو اس کے اعمال کا پورا پورا حساب چکا دے گا۔ تفسیر بالقرآن قیامت کے دن کفار کے اعمال کی حیثیت : ١۔ کفار کے اعمال اس طرح غارت ہوجائیں گے جیسے تیز آندھی سب کچھ اڑا کرلے جاتی ہے (ابراہیم : ١٨) ٢۔ یہی لوگ ہیں جن کے اعمال تباہ کردیے گئے اور وہ ہمیشہ جہنم میں رہیں گے۔ (التوبۃ: ١٧) ٣۔ یہی ہیں وہ لوگ جن کے اعمال دنیا و آخرت میں تباہ وبرباد کردیے جائیں گے۔ (التوبۃ: ٦٩) ٤۔ جو لوگ اللہ کی آیات اور اس کی ملاقات کے منکر ہیں ان کے اعمال ضائع ہوں گے۔ (الکھف : ١٠٥) ٥۔ جو لوگ ہماری آیات کی اور آخرت میں ملاقات کی تکذیب کرتے ہیں ان کے اعمال ضائع ہوجائیں گے۔ (الاعراف : ١٤٧) ٦۔ کافر کے اعمال غارت ہوجائیں گے اور وہ آخرت میں خسارہ اٹھانے والوں میں سے ہوگا۔ (المائدۃ : ٥) النور
40 فہم القرآن ربط کلام : کفار کے اعمال کے بارے میں ایک اور مثال : کفار کے اعمال ان اندھیروں کی طرح ہیں جو گہرے سمندر کے نیچے پائے جاتے ہیں۔ جس طرح سمندر کی بڑی، بڑی موجیں ایک دوسرے کے اوپر ٹھاٹھیں مار رہی ہوتی ہیں اور ان موجوں کو رات کے وقت کالے بادلوں نے ڈھانپ رکھا ہو گو یا کہ اندھیروں پہ اندھیرے چھائے ہوئے ہیں۔ ایسے سمندر کی تہہ سے کسی شخص کا نکلنا تو درکنار وہ اپناہاتھ اپنے سامنے کرکے دیکھنا چاہے تو اسے بھی نہ دیکھ پائے۔ یہی کفار کے اخلاق اور اعمال کی کیفیت ہے جن پر کفرو شرک کا پردہ، نبی آخر الزماں (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کا انکار اور قیامت کے عقیدہ سے انحراف کے پردے پڑے ہوئے ہیں ایسے شخص کا اپنے اعمال کی قبولیت کا تصور کرنا اس شخص کی مانند ہے جو بادلوں کے اندھیرے، رات کی تاریکیوں اور سمندر کی تہہ در تہہ ظلمتوں کے نیچے اپنے ہاتھ کو دیکھنے کی کوشش کرتا ہے جس طرح اس کا اپنا ہاتھ دیکھنا ناممکنات میں سے ہے اسی طرح ہی کفار کے اعمال کی قبولیت بھی ناممکن ہے۔ جس طرح تاریکیوں سے نکلنے کے لیے روشنی کی ضرورت ہے اسی طرح ہی ہدایت پانے کے لیے کتاب وسنت کے نور کی ضرورت ہے یہ اسی کو نصیب ہوتا ہے جو اس کے لیے چاہت رکھتا اور کوشش کرتا ہے۔ جو اس کی چاہت اور کوشش نہیں کرتا اسے ہدایت کا نور نصیب نہیں ہوتا اور جسے ہدایت کا نور نصیب نہ ہو وہ اس کے نور کے علاوہ کہاں سے ہدایت کا نور پائے گا؟ (اللّٰہُمَّ اجْعَلْ فِی قَلْبِی نُورًا وَفِی بَصَرِی نُورًا وَفِی سَمْعِی نُورًا وَعَنْ یَمِینِی نُورًا وَعَنْ یَسَارِی نُورًا وَفَوْقِی نُورًا وَتَحْتِی نُورًا وَأَمَامِی نُورًا وَخَلْفِی نُورًا وَاجْعَلْ لِیّ نُورًا) [ رواہ البخاری، کتاب الدعوات، باب الدعا اذا انتبدہ بالیل] ” اے اللہ میرے دل میں نور پیدا فرمادے میری نگاہ میں بھی نور، میرے کا نوں میں بھی نور، میرے دائیں بھی نور، میرے بائیں بھی نور، میرے اوپر بھی نور، میرے نیچے بھی نور، میرے آگے بھی نور، میرے پیچھے بھی نور، اور میرے لیے ہر جانب نور پیدا فرمادے۔“ اس لیے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔ (اَللّٰہُ وَلِیُّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْایُخْرِجُھُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِوَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْٓا اَوْلِیٰٓءُھُمُ الطَّاغُوْتُ یُخْرِجُوْنَھُمْ مِّنَ النُّوْرِ اِلَی الظُّلُمٰتِ اُولٰٓءِکَ اَصْحٰبُ النَّارِھُمْ فِیْھَا خٰلِدُوْنَ) [ البقرۃ: ٢٥٧ ] ” اللہ تعالیٰ ایمان والوں کا دوست ہے وہ انہیں اندھیروں سے نکال کر روشنی کی طرف لاتا ہے۔ اور کفارکے ساتھی شیاطین ہیں وہ انہیں روشنی سے نکال کر اندھیروں کی طرف لے جاتے ہیں۔ یہ لوگ جہنمی ہیں جو اس میں ہمیشہ رہیں گے۔“ مسائل ١۔ کافر اور مشرک کفرو شرک کے اندھیروں میں پھنسے ہوئے ہیں۔ ٢۔ ہدایت نور ہے اور گمراہی اندھیرا ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ کے نور ہدایت کے سوا کہیں سے نور حاصل نہیں ہو سکتا۔ تفسیر بالقرآن ہدایت نور ہے اور کفرو شرک اندھیرے ہیں : ١۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ کو اپنی نشانیوں کے ساتھ بھیجا تاکہ ان کے ذریعے اپنی قوم کو اندھیروں سے نکال کر روشنی کی طرف لائیں۔ (ابراہیم : ٥) ٢۔ یقیناً تمہارے پاس اللہ کی طرف سے نور اور واضح کتاب پہنچ چکی ہے۔ (المائدۃ: ١٥) ٣۔ اللہ نور کی طرف رہنمائی کرتا ہے جس کی چاہتا ہے۔ (النور : ٣٥) ٤۔ ہم نے تو رات اتاری اس میں ہدایت اور نور ہے۔ (المائدۃ: ٤٤) ٥۔ ہم نے آپ کی طرف کتاب نازل کی تاکہ آپ لوگوں کو اندھیروں سے روشنی کی طرف لائیں۔ (ابراہیم : ١) النور
41 فہم القرآن ربط کلام : ہدایت کو اللہ تعالیٰ نے نور قرار دیا ہے اور اس نور سے کافر محروم ہیں جبکہ اس نور ہدایت کے سبب ہر چیز اپنی عبادت اور ذمہ داری کو پہچانتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہر انسان بالخصوص کافر کو اس بات کی طرف توجہ دلائی ہے کہ کیا ” اللہ“ کے باغی اور منکر اس بات پر غور نہیں کرتے کہ جو زمین و آسمان میں جو کچھ ہے یہاں تک کہ پرندے جو فضا میں پر پھیلائے اڑتے ہیں۔ ہر کوئی اپنی نماز اور ذکر کو جانتا ہے اور اے لوگو ! جو کچھ تم کرتے ہو اللہ تعالیٰ اسے بھی اچھی طرح جانتا ہے کیونکہ زمین و آسمان کی بادشاہی اسی کے لیے ہے اور ہر کسی نے اسی کی طرف پلٹ کر جانا ہے۔ زمین و آسمان کی ہر چیز اور پرندوں کی نماز اور تسبیح پڑھنے کے بارے میں کچھ اہل علم نے لکھا ہے کہ نماز سے مراد ہر چیز کے ذمہ جو کام لگا ہے وہ اسے ادا کرتا ہے حالانکہ یہاں نماز سے مراد ہر چیز کے عبادت کرنے کا طریقہ ہے اس میں سجدہ بھی شامل ہے اس عبادت کے ساتھ وہ ذمہ داری بھی شامل ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق کے ہر فرد کے ذمہ لگائی ہے وہ اس ذمہ داری کو پورا کرنے کے ساتھ اور اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ اور بتلائے ہوئے طریقہ کے مطابق اس کی عبادت بھی کرتا ہے فرق یہ ہے کہ انسان کی نماز قیام، رکوع، سجود اور تشہد پر مشتمل ہے انسان کے سوا للہ تعالیٰ نے ہر چیز کی عبادت کا طریقہ اس کے حسب حال مقرر کیا ہے جس کی ادائیگی انسان کے لیے سمجھنا مشکل ہے اس لیے دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا ہے کہ ہر چیز نماز پڑھتی ہے اور اپنے رب کی تسبیح کرنے میں مشغول ہے لیکن انسان اسے نہیں سمجھتے (بنی اسرائیل : ٤٤ ) جہاں تک انسان کے علاوہ دوسری مخلوق کی نماز کا تعلق ہے اس کے بارے میں یہ وضاحت بھی موجود ہے کہ نہ صرف ہر چیز اپنے رب کے حضور سجدہ کرتی ہے بلکہ ان کے سائے بھی اللہ تعالیٰ کو سجدہ کرتے ہیں اور ان کے سجدہ کرنے کے اوقات بھی بتلا دیئے ہیں کہ وہ صبح شام اپنے رب کے حضور سجدہ ریز ہوتے ہیں۔ (الرعد : ١٥) کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کی ملک ہیں اور ان پر اسی کی بادشاہی ہے پہلی آیت کی ابتدا اور آخر میں ہر انسان کو یہ احساس دلایا گیا ہے کہ اسے اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ جو کچھ وہ کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس سے پوری طرح واقف ہے اور دوسری آیت کے آخر میں یہ احساس دلایا گیا ہے کہ نہ صرف اللہ تعالیٰ ہر کسی کے اعمال سے واقف ہے بلکہ ہر کسی نے اپنے اعمال کے ساتھ اس کے حضور پیش ہونا ہے۔ مسائل ١۔ انسان کو زمین و آسمان اور اللہ تعالیٰ کی مخلوق پر غور کرنا چاہیے۔ ٢۔ ہر چیز اللہ تعالیٰ کے بتلائے ہوئے طریقہ کے مطابق اس کے حضور نماز اور تسبیح پڑھتی ہے۔ ٣۔ زمین و آسمان اور ہر چیز پر حقیقی بادشاہی صرف ایک اللہ کی ہے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ ہر انسان کے فکروعمل کو جانتا ہے اور سب نے اسی کے حضور پلٹ کر جانا ہے۔ تفسیر بالقرآن ہرچیز اللہ تعالیٰ کے حضور اپنے طریقہ کے مطابق نماز پڑھتی اور عبادت کرتی ہے۔ ١ زمین و آسمان کی ہر چیز اللہ تعالیٰ کی تسبیح بیان کرتی ہے وہ غالب، حکمت والا ہے۔ (الحشر : ١) ٢۔ زمین و آسمان کی ہر چیز اللہ کو سجدہ کرتی ہے۔ (الر عد : ١٥) ٣۔ کیا وہ نہیں دیکھتے کہ اللہ کو زمین و آسمان کی ہر چیز سجدہ کرتی ہے۔ (الحج : ١٨) ٤۔ ہر چیز اللہ کی تسبیح بیان کرتی ہے لیکن انسان اس کی تسبیح کو نہیں سمجھتے۔ (بنی اسرائیل : ٤٤) ٥۔ چوپائے، فرشتے اور جو کچھ زمین و آسمان میں ہے اللہ کے سامنے سجدہ ریز ہوتے ہیں۔ (النحل : ٤٩) ٦۔ ستارے اور درخت اللہ کو سجدہ کرتے ہیں۔ (الرحمن : ٦) ٧۔ بے شک وہ لوگ جو تیرے رب کے پاس ہیں وہ اس کی عبادت سے تکبر نہیں کرتے۔ اس کی تسبیح بیان کرتے ہیں اور اسی کو سجدہ کرتے ہیں۔ (الاعراف : ٢٠٦) النور
42 النور
43 فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ زمین و آسمان کا بادشاہ ہے اس کی بادشاہی پر غور کرنے کے لیے بادلوں کی طرف توجہ کرو۔ کیا انسان اس بات پر غور نہیں کرتا کہ اللہ تعالیٰ کس طرح بادل بناتا اور اٹھاتا ہے پھر ان کو آپس میں جوڑتا ہے۔ اس کے بعد بادلوں کو ایک دوسرے پر تہہ در تہہ کردیتا ہے اور پھر ان سے موسلادار بارش برساتا ہے۔ جو پہاڑوں کی مانند نظر آتی ہے اس میں بسا اوقات اولے بھی برستے ہیں۔ اللہ تعالیٰ جہاں چاہتا ہے وہاں اولے برساتا ہے اور جسے چاہتا ہے اولوں سے محفوظ فرماتا ہے۔ یہی صورت حال بارش کی ہے جو کہیں برستی ہے اور کہیں سے یوں ہی بادل گزر جاتے ہیں۔ بادلوں میں اس طرح بجلی چمکتی ہے جو آنکھوں کی بینائی کو حیرہ کردیتی ہے۔ اللہ تعالیٰ رات اور دن کو بدلتا ہے بصیرت رکھنے والوں کے لیے اس میں اللہ کی ذات اور اس کی کبریائی کو پہچاننے کے لیے اَن گنت دلائل ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں قدیم اور جدید فلکیات کا علم رکھنے والے سائنسدانوں نے ٹھیک اندازہ لگایا کہ سورج کی گرمی سے پانی بخارات کی صورت میں اوپر اٹھتا ہے اور ہوائیں بخارات کو اٹھا کر اوپر لے جاتی ہیں پھر بخارات فضا کے ایسے خطہ میں پہنچتے ہیں کہ جہاں پہنچ کر وہ بادل کی شکل اختیار کرلیتے ہیں۔ ہوا بادلوں کو دھکیل کر کہیں سے کہیں لے جاتی ہے جب بخارات ایک خاص نقطہ انجماد پر پہنچتے ہیں تو بارش بن کر زمین پر برستے ہیں سائنسدانوں میں بےدین طبقہ نے اس سے آگے سوچنے کی کبھی زحمت گوارا نہیں کی جس بناء پر وہ بارش کے سارے عمل کو فطری نظام سمجھ کر صرف نظر کردیتے ہیں۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے اس پورے عمل میں گہرائی کے ساتھ غور کرنے کی دعوت دی ہے کیا بارش کو فطری عمل قرار دینے والے بےدین سائنسدان اس پر غور نہیں کرتے کہ آخر ہوا میں اتنی قوت اور کشش کس نے پیدا کی ہے جو بخارات کی صورت میں لاکھوں ٹن پانی اٹھا کر اوپر لے جاتی ہے اور سورج نسبتاً قریب ہونے کے باوجود اس پانی کو اپنی حرارت کے ذریعے کیوں ختم نہیں کردیتا ؟ فضا میں وہ خطے کس نے پیدا کیے ہیں جہاں پہنچ کر بخارات بادلوں کی شکل اختیار کرلیتے ہیں پھر ہواؤں کا رخ موڑنے والی کونسی قوت ہے جو ہوا کو ادھر سے ادھر جانے کا حکم دیتی ہے پھر سوچیے کہ وہ کونسی طاقت ہے جو کھربوں من پانی سے بھرے ہوئے بادلوں کو ایک دوسرے کے اوپر ایک مناسب فاصلہ پر رکھتے ہوئے سنبھالے ہوئے ہے پھر یہی بادل کہیں موسلادھار بارش کی صورت میں برستے ہیں اور کہیں بونداباندی کی صورت ٹپکتے ہیں۔ آخر بارش کا یہ نظام کس نے قائم کیا ہے دنیا میں کہیں بھی بادل یکدم نیچے نہیں گرتا۔ وہ قطرات کی شکل میں برستا اور اپنے وجود کو ختم کردیتا ہے۔ اب ان برسنے والے اولوں پر غور کیجیے کہ ایک ہی بادل سے بیک وقت اس قدر اولے برستے ہیں کہ زمین کئی کئی فٹ برف سے ڈھک جاتی ہے اور اسی زمین سے چند فٹ دور وہاں بارش میں ایک اولہ بھی نہیں پڑتا۔ اس طرح اللہ تعالیٰ اپنی قدرت سے ایک فصل کو اولوں سے تباہ کردیتا ہے اور اس کے ساتھ کھڑی ہوئی دوسری فصل کو بارش سے نہلا تا اور اسے اولوں سے محفوظ رکھتا ہے اب اس کے درمیان چمکنے اور گرجنے والی بجلی پر غور کریں جب وہ اپنی پوری قوت کے ساتھ گرجتی اور چمکتی ہے۔ تو نہ صرف ڈر کے مارے لوگ سہم جاتے ہیں بلکہ بجلی کی چکاچوند روشنی میں ان کی بصارت بھی کام نہیں دیتی اگر اس موقع پر انسان کی نظر آسمانی بجلی کی شعاعوں سے ٹکرا جائے تو آنکھوں کی بینائی ختم ہونے کا اندیشہ ہے۔ جس بجلی کی کڑک سے لوگ خوف کھاتے ہیں اس کے بارے میں ارشاد ہے کہ یہ اپنی زبان میں اپنے رب کی حمد بیان کرتی ہے۔ (الرعد : ١٤) یہی رب ذوالجلال رات اور دن کو بدلتا ہے آج تک کبھی نہیں ہوا اور قیامت تک نہ ہو سکے گا کہ کسی علاقہ میں رات دن کو بالکل ختم کردے اور دوسرے علاقہ میں دن رات کو ہڑپ کر جائے۔ پورے نظام میں سوچ وبچار کرنے والوں کے لیے نصیحت حاصل کرنے اور ہدایت پانے کے لیے بہت سے شواہد و قرائن ہیں۔ (عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ (رض) قَالَ أَقْبَلَتْ یَہُودُ إِلَی النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَقَالُوْا یَآأَبَا الْقَاسِمِ أَخْبِرْنَا عَنِ الرَّعْدِ مَا ہُوَ قَالَ مَلَکٌ مِّنَ الْمَلاآءِکَۃِ مُوَکَّلٌ بالسَّحَابِ مَعَہٗ مَخَارِیْقُ مِّنْ نَارٍ یَّسُوقُ بِہَا السَّحَابَ حَیْثُ شَآء اللّٰہُ فَقَالُوْا فَمَا ہٰذَا الصَّوْتُ الَّذِیْ نَسْمَعُ قَالَ زَجْرُہٗ بالسَّحَابِ إِذَا زَجَرَہٗ حَتّٰی یَنْتَہِیَ إِلٰی حَیْثُ أُمِرَ قَالُوْا صَدَقْتَ) [ رواہ الترمذی : کتاب التفسیر، باب ومن سورۃ الرعد وہو حدیث صحیح ] ” حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ یہودی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے۔ انہوں نے کہا اے ابو القاسم! ہمیں بجلی کی کڑک کے بارے میں بتائیں کہ یہ کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا فرشتوں میں سے ایک فرشتہ بادلوں پر مقرر ہے۔ اس کے پاس آگ کے کوڑے ہوتے ہیں۔ وہ ان کے ساتھ بادلوں کو ہانکتا ہے جہاں لے جانے کا اسے اللہ تعالیٰ حکم دیتا ہے۔ انہوں نے کہا ان میں آواز کیا ہے جو ہم سنتے ہیں۔ آپ نے فرمایا وہ فرشتہ بادلوں کو ہانکتا ہے یہاں تک کہ وہ اس جگہ پہنچ جاتے ہیں جہاں ان کو حکم دیا جاتا ہے۔ یہودیوں نے کہا آپ نے سچ فرمایا۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ ہی بادلوں کو اٹھانے والا اور انہیں تہہ درتہہ فضا میں قائم رکھنے والاہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ جہاں چاہتا ہے اولے برساتا ہے اور جسے چاہتا ہے اولوں سے محفوظ رکھتا ہے۔ ٣۔ اللہ ہی بارش برساتا ہے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ ہی آسمانی بجلی پر کنٹرول کرنے والا ہے۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ ہی رات اور دن کو مناسب اوقات میں تبدیل کرتا ہے۔ تفسیر بالقرآن بارش کے بارے میں قرآن مجید کے دلائل : ١۔ زمین و آسمان بنانے اور بارش اتارنے والا اللہ ہے کیا اس کے ساتھ کوئی اور برسانے والا ہے ؟ (النمل : ٦٠) ٢۔ وہ ذات جو ہواؤں کو خوشخبری دینے کے لیے بھیجتا ہے وہ ہوابھاری بادل اٹھاتی ہیں۔ (الاعراف : ٥٧) ٢۔ آسمانوں و زمین کی پیدائش، دن اور رات کی گردش، سمندر میں کشتیوں کے چلنے، آسمان سے بارش نازل ہونے، بارش سے زمین کو زندہ کرنے، چوپایوں کے پھیلنے، ہواؤں کے چلنے اور بادلوں کے مسخر ہونے میں قدرت کی نشانیاں ہیں۔ (البقرۃ : ١٦٤) ٣۔ قیامت برپا ہونے، بارش کے نازل ہونے، جو کچھ رحموں میں ہے اور انسان کل کیا کمائے گا اور اسے کہاں موت آئے گی اللہ تعالیٰ کے علم میں ہے۔ (لقمان : ٣٤) ٤۔ تم اللہ سے مغفرت طلب کرو اور اس کی طرف رجوع کرو۔ وہ آسمان سے تمہارے لیے بارش نازل فرمائے گا اور تمہاری قوت میں اضافہ فرمائے۔ (ہود : ٥٢) النور
44 النور
45 فہم القرآن ربط کلام : فلکیات کے ذکر کے بعد حیوانات کے بارے میں غور کرنے کی ترغیب۔ اللہ تعالیٰ نے ہر چلنے پھرنے والے جاندار کو پانی سے پیدا کیا ہے ان میں کچھ پیٹ کے بل رینگتے ہیں کچھ دو پاؤں پہ چلتے ہیں اور کچھ ان میں چار پاؤں پر چلتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ جس طرح چاہتا ہے پیدا کرتا ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ ہر چیز پر کامل اور اکمل قدرت رکھنے والا ہے۔ اسی نے یہ روشن آیات نازل فرمائیں اور وہی صراط مستقیم کی ہدایت دینے والا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فلکیات اور لیل ونہار کے بارے میں انسان کو غور کرنے کا حکم دیا ہے اور یہ بھی اس کا فرمان ہے کہ انسان کو اس بات پر بھی غور کرنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے پیٹ کے بل رینگنے والے دو اور چار ٹانگوں پر چلنے والے ہر جاندار کو پانی سے پیدا کیا ان جانداروں کا رنگ، جسم، بناوٹ، قوت، رہن سہن اور کھانے پینے پر غور کریں کہ کوئی چیز بھی ان کی ایک دوسرے کے ساتھ نہیں ملتی۔ شیر اور چیتے کچھاروں اور غاروں میں سکون پاتے ہیں۔ کیڑے مکوڑے، سانپ اور بچھو بلوں میں رہتے ہیں۔ ہاتھی اور اس کے قریب کی جنس کے چوپائے گھنے جنگلوں میں بسیرا کرتے ہیں۔ پرندے فضا میں اڑتے اور درختوں میں گھونسلے بناتے ہیں۔ انسان بھی دو ٹانگوں پر چلنے والا ایک جاندار ہے جو سب پر حکومت کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسے بھی پانی کی ایک بوند سے پیدا کیا ہے۔ پانی بھی اللہ تعالیٰ کی مخلوقات میں ایک مخلوق ہے جسے زمینی مخلوق میں سب سے پہلے پیدا کیا ہے جس کی قرآن مجید میں ان الفاظ میں وضاحت فرمائی ہے کہ وہی ذات ہے جس نے زمین و آسمان کو چھ دن میں پیدا کیا اور اس کا عرش پانی پر تھا (ہود : آیت ٧) سترھویں پارے میں ارشاد ہے کہ ہم نے ہر جاندار چیز کو پانی سے پیدا کیا ہے اسی لیے جاندار چیزوں کی بقا کے لیے پانی بے حد ضروری ہے اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں یہ حقائق مدلّل طریقہ سے اس لیے بیان کیے ہیں تاکہ لوگ اس پر غور کریں اور اپنے رب پر ایمان لائیں۔ اور اس کے احکام پر عمل کریں اگر لوگ نیک نیتی کے ساتھ اپنے رب کی قدرتوں پر غور کریں گے تو ہدایت پاجائیں گے کیونکہ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو صراط مستقیم کی ہدایت نصیب کرتا ہے۔ جو اس کی قدرتوں پر غور کرتے ہیں پہلے بھی عرض ہوچکا ہے کہ ہدایت سب سے گراں قدر نعمت ہے۔ یہ اسے نصیب ہوتی ہے جو اس کی چاہت اور کوشش کرتا ہے قرآن مجید میں اسی لیے بار بار ارشاد ہوا ہے کہ اللہ تعالیٰ جسے چاہے ہدایت دیتا ہے اور جسے چاہے گمراہ رہنے دیتا ہے۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے ہر جاندار کو پانی سے پیدا کیا۔ تفسیر بالقرآن پانی کی اہمیّت : ١۔ اللہ نے پانی کے ذریعے پھلوں جیسا رزق عطا فرمایا : (البقرۃ: ٢٢) ٢۔ پانی کے ذریعے ہی بنجر زمین زرخیز ہوتی ہے۔ ( النحل : ٦٥) ٣۔ پانی طہارت کا ذریعہ ہے۔ ( النساء : ٦٣) ٤۔ اللہ تعالیٰ نے تمام نباتات کو پانی کے ذریعے پیدا کیا۔ ( طٰہٰ: ٥٣) ٥۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو پانی اور مٹی سے پیدا کیا۔ ( الطارق : ٦) ٦۔ اللہ تعالیٰ نے آسمان سے برکت والا پانی نازل فرما کر اس کے ذریعے بہت سے باغات سرسبز وشاداب کر دئیے۔ ( ق : ٩) النور
46 النور
47 فہم القرآن ربط کلام : صراط مستقیم پانے کے لیے ضروری ہے کہ انسان اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرئے مومن یہی کچھ کرتے اور مانتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ہر انسان کو حکم ہے کہ وہ اخلاص کے ساتھ صراط مستقیم کو جاننے کی کوشش کرے جو اخلاص کے ساتھ صراط مستقیم جاننے کی کوشش کرے گا اس کو اللہ تعالیٰ صراط مستقیم کی ہدایت اور اس پر چلنے کی توفیق عنایت فرمائے گا۔ لیکن منافق کی حالت یہ ہوتی ہے کہ وہ زبانی کلامی اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانے کا دعویٰ کرتا ہے لیکن جب دین کے معاملہ میں آزمائش آجاۓ یا اسے شریعت کے خلاف چلنے پر مفاد حاصل ہورہا ہو تو وہ اپنی ایڑیوں کے بل پھر جاتا ہے بالخصوص ایسے لوگوں کو کسی قضیہ کے وقت اس بات کی دعوت دی جائے کہ آؤ اس کا فیصلہ شریعت کے مطابق کرلیتے ہیں تو یہ لوگ اس بات سے منہ پھیر لیتے ہیں یہی حالت نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے میں منافقین کی تھی۔ تنازعہ کے وقت بلایا جاتا کہ مسائل ١۔ منافق محض زبان سے اپنے ایمان کا اقرار کرتا ہے۔ حقیقتاً ایماندار نہیں ہوتا۔ ٣۔ منافق کی یہ بھی عادت ہوتی ہے کہ وہ اپنے تنازع کا حل شریعت کے مطابق کروانا پسند نہیں کرتا۔ النور
48 النور
49 فہم القرآن ربط کلام : منافق کی عادات کا ذکر جاری ہے۔ منافق کی منافقت کا بنیادی سبب یہ ہوتا ہے کہ وہ دنیا کے فائدے کی خاطر کبھی اسلام اور کبھی کفر کو ترجیح دیتا ہے اگر کسی قضیہ میں فیصلہ اس کے حق میں ہوجائے تو وہ اسلام، اسلام پکارتا ہے اور مسلمانوں کی تعریفیں کرتا ہے اور اگر فیصلہ اس کے حق میں نہ ہو تو وہ اسلامی نظام کے نقائص بیان کرتا ہے کیونکہ اس کے دل میں منافقت کی بیماری ہوتی ہے اس لیے وہ اسلامی نظام عدل سے خوف کھاتا اور سمجھتا ہے کہ اسے تسلیم کرنے سے میرا نقصان ہوگا۔ یہی حالت نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے میں منافقوں کی تھی۔ جب انہیں کسی معاملہ میں یہ دعوت دی جاتی کہ آؤ۔ اللہ اور اس کے رسول سے اس کا فیصلہ کرواتے ہیں تو وہ اس بات سے ڈرتے تھے کہ اللہ اور اس کا رسول ہمارے حق میں فیصلہ نہیں کریں گے۔ اس لیے یہاں ارشاد ہوا ہے کہ اللہ اور اس کا رسول کسی پر ظلم نہیں کرتے بلکہ یہ لوگ خود ہی ظالم ہیں (سورۃ البقرہ کی آیت ١٠ کی تشریح میں لکھا ہے کہ بنیادی طور پر بیماریاں دو قسم کی ہوتی ہیں ایک جسمانی اور دوسری روحانی۔ منافقت روحانی بیماریوں میں سب سے بڑی بیماری ہے جس سے روحانی بیماریاں اور اخلاقی جرائم جنم لیتے ہیں۔ (یُخٰدِعُوْنَ اللّٰہَ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ مَا یَخْدَعُوْنَ اِلَّآ اَنْفُسَھُمْ وَ مَا یَشْعُرُوْنَ فِیْ قُلُوْبِھِمْ مَّرَضٌ فَزادَھُمُ اللّٰہُ مَرَضًا وَ لَھُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ بِمَا کَانُوْا یَکْذِبُوْن) [ البقرۃ: ٩۔ ١٠] ” وہ اللہ تعالیٰ اور ایمان والوں کو دھوکہ دیتے ہیں مگر حقیقت میں وہ اپنے آپ کو دھوکہ دے رہے ہیں اور وہ شعور نہیں رکھتے۔ ان کے دلوں میں بیماری ہے اللہ تعالیٰ نے انہیں بیماری میں زیادہ کردیا اور انہیں دردناک عذاب ہوگا کیونکہ وہ جھوٹ بولتے تھے۔“ (عَنْ أُمِّ مَعْبَدٍ قَالَتْ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَقُوْلُ اللّٰھُمَّ طَھِّرْ قَلْبِیْ مِنَ النِّفَاقِ وَعَمَلِیْ مِنَ الرِِّیَاءِ وَلِسَانِیْ مِنَ الْکَذِبِ وَعَیْنِیْ مِنَ الْخِیَانَۃِ فَإِنَّکَ تَعْلَمُ خَاءِنَۃَ الْأَعْیُنِ وَمَا تُخْفِی الصُّدُوْرُ) [ رواہ البیہقی فی الدعوات الکبیر) ” حضرت ام معبد (رض) بیان کرتیں ہیں میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے ہوئے سنا آپ دعا فرمایا کرتے تھے اے اللہ! میرے دل کو نفاق سے، میرے عمل کو ریا سے، میری زبان کو جھوٹ سے اور آنکھ کو خیانت سے پاک فرما۔ تو خیانت کرنے والی آنکھ کو جانتا ہے اور دلوں کے راز سے واقف ہے۔“ مسائل ١۔ منافق وہی فیصلہ تسلیم کرتا ہے جس میں اس کا مفاد پایاجائے۔ ٢۔ منافق عدل اسلامی سے ڈرتے ہیں۔ ٣۔ منافق اپنے آپ اور دوسروں پر ظلم کرنے والا ہوتا ہے۔ تفسیر بالقرآن منافق کی عادات : ١۔ منافق کو مسلمان کی بھلائی اچھی نہیں لگتی۔ (آل عمران : ١٢٠) ٢۔ منافق صرف زبان سے حق کی شہادت دیتا ہے۔ (المنافقون : ١) ٣۔ منافق کفار سے دوستی رکھتا ہے۔ (البقرۃ: ١٤) ٤۔ منافق دنیا کے فائدے کے لیے اسلام قبول کرتا ہے۔ ( البقرۃ: ٢٠) ٥۔ منافق اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ سنجیدہ نہیں ہوتا۔ (البقرہ : ١٤) ٦۔ منافق مسلمانوں کو حقیر سمجھتا ہے۔ (المنافقون : ٨) ٧۔ منافق دین کی بجائے کفر کے زیادہ قریب ہوتا ہے۔ (آل عمران : ١٦٧) ٨۔ منافق ریا کار ہوتا ہے۔ (النساء : ١٤٢) ٩۔ منافق جھوٹا ہوتا ہے۔ (البقرہ : ١٠) ١٠۔ منافق نماز میں جان بوجھ کر سستی کرتا ہے۔ ( النساء : ١٤٢) ١١۔ منافق اسلام اور کفر کے درمیان رہتا ہے۔ ( النساء : ١٤٣) ١٢۔ منافق صحابہ کو بے وقوف سمجھتے ہیں۔ ( البقرۃ: ١٣) ١٣۔ منافق جہنم کے نچلے طبقے میں ہوں گے۔ ( النساء : ١٤٥) النور
50 النور
51 فہم القرآن ربط کلام : منافقوں کے مقابلہ میں مومنوں کا اخلاص اور کردار۔ منافق کو اللہ اور اس کے رسول کے فیصلہ کی طرف بلایا جائے تو وہ اس سے انحراف کے راستے تلاش کرتا ہے اس کے مقابلہ میں مومنوں کو یہ دعوت دی جائے کہ آؤ اپنے قضیہ میں اللہ اور اس کے رسول سے فیصلہ کرواتے ہیں تو مومنوں کی اس کے سوا کوئی بات اور خواہش نہیں ہوتی کہ وہ ہر حال میں اللہ اور اس کے رسول سے فیصلہ کروانے اور اسے تسلیم کرنے کے لیے تیار رہتے ہیں۔ یہی لوگ حقیقی کامیابی پانے والے ہیں۔ جو بھی اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے گا اور تہہ دل سے اللہ تعالیٰ سے ڈرتا رہے اور اس کی نافرمانی سے اخلاص کے ساتھ بچنے کی کوشش کرے وہ اپنی مراد کو پانے ولا ہے۔ صحابہ کرام (رض) کی یہی خوبی تھی کہ وہ غم اور خوشی، عسر اور یسر، جنگ اور امن گویا کہ ہر حال میں دل کی اتھاہ گہرائیوں سے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے بچنے والے تھے۔ صحابہ کرام (رض) نے ہر حال میں اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کی جس کے نتیجہ میں وہ دنیا اور آخرت میں بامراد ہوئے۔ ایمان کی تازگی کے لیے دو مثالیں پیش کی جاتی ہیں۔ ” حضرت براء (رض) بیان کرتے ہیں کہ جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مدینہ تشریف لائے تو آپ اپنے ننہال یا اپنے انصاری ماموں کے پاس سکونت پذیر ہوئے آپ سولہ یا سترہ مہینے بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے رہے آپ چاہتے تھے کہ آپ کا قبلہ بیت اللہ ہو اور آپ نے بیت اللہ کی طرف منہ کر کے جو پہلی نماز ادا کی وہ عصر کی نماز تھی آپ کے ساتھ صحابہ نے بھی نماز ادا کی۔ ان نمازیوں میں سے ایک آدمی جس نے آپ کے ساتھ نماز پڑھی تھی اس کا گذر دوسری مسجد والوں کے پاس سے ہوا۔ وہ رکوع کی حالت میں تھے اس نے کہا میں اللہ کو گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ مکہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھ کر آیا ہوں۔ وہ نمازی اسی حالت میں بیت اللہ کی طرف گھوم گئے۔۔“ [ رواہ البخاری : باب الصلاۃ من الایمان] (عَنِ الْحَسَنِ أَنَّ أُخْتَ مَعْقِلِ بْنِ یَسَارٍ طَلَّقَہَا زَوْجُہَا، فَتَرَکَہَا حَتَّی انْقَضَتْ عِدَّتُہَا، فَخَطَبَہَا فَأَبَی مَعْقِلٌ، فَنَزَلَتْ (فَلاَ تَعْضُلُوہُنَّ أَنْ یَنْکِحْنَ أَزْوَاجَہُنَّ) [ رواہ البخاری : بابوَإِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَبَلَغْنَ أَجَلَہُنَّ فَلاَ تَعْضُلُوہُنَّ أَنْ یَنْکِحْنَ أَزْوَاجَہُنَّ] ” حسن سے مروی ہے معقل بن یسار (رض) کی بہن کو اس کے خاوند نے طلاق دے دی اور طلاق کی عدّت بھی گزر گئی۔ اس کے شوہر نے دوبارہ نکاح کا پیغام بھیجا تو معقل نے انکار کردیا اس وقت یہ آیت نازل ہوئی :” اگر میاں بیوی آپس میں نکاح کرنا چاہیں تو انہیں مت روکیں“ (حضرت معقل (رض) نے کہا کیوں نہیں میں اللہ کے حکم کو تسلیم کرتا ہوں۔) مسائل ١۔ مومن ہر حال میں اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتا ہے۔ ٢۔ مومن دل کی اتھاہ گہرائیوں سے اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہے اور اس کی نافرمانی سے بچتا ہے۔ ٣۔ جو شخص اللہ تعالیٰ سے ڈر کر اللہ کے رسول کی اطاعت کرے گا وہ کامیاب ہوگا۔ تفسیر بالقرآن کامیاب ہونے والے لوگ : ١۔ اللہ تعالیٰ نے مومنین سے جنت کے بدلے ان کے مال و جان خرید لیے ہیں، یہ بڑی کامیابی ہے۔ (التوبۃ: ١١١) ٢۔ جو برائی سے بچ گیا اس پر اللہ کا رحم ہوا۔ یہ بڑی کامیابی ہے۔ (المومن : ٩) ٣۔ مومنوں کا جہنم کے عذاب سے بچنا اللہ کے فضل سے ہوگا اور یہی کامیابی ہے۔ (الدخان : ٥٧) ٤۔ اللہ نیک لوگوں کو اپنی رحمت میں داخل کرے گا۔ یہ کھلی کامیابی ہے۔ (الجاثیۃ : ٣٠) ٥۔ مومنوں کے لیے ہمیشہ کی جنت ہے جس میں پاک صاف مکان ہیں۔ یہ بڑی کامیابی ہے۔ (الصف : ١٢) ٦۔ جس کو آگ کے عذاب سے بچا دیا گیا اور جنت کا داخلہ مل گیا وہ کامیاب ہوا۔ (آل عمران : ١٨٥) ٧۔ اللہ تعالیٰ نے مومنوں، مومنات سے ہمیشہ کی جنت اور اپنی رضا مندی کا وعدہ فرمایا ہے یہ بڑی کامیابی ہے۔ (التوبۃ: ٧٢، ٨٩، ١٠٠) النور
52 النور
53 فہم القرآن ربط کلام : مخلص مسلمانوں کے بعد ایک دفعہ پھر منافقین کا تذکرہ۔ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے میں منافقوں کی یہ بھی عادت تھی کہ جب مسلمانوں پر مشکل وقت گزر جاتا تو منافق اپنا اعتماد بحال کرنے کے لیے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہو کر باتکرار قسمیں اٹھا کر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مسلمانوں کو یقین دلاتے کہ آئندہ کوئی مشکل وقت آیا تو ہم ہر صورت آپ کے ساتھ ہوں گے۔ اس پر رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم ہوا کہ آپ منافقین سے فرمائیں کہ قسمیں اٹھانے کی ضرورت نہیں تم نیکی کے کاموں میں سمع واطاعت کرتے رہو تم جو کچھ جس نیت کے ساتھ کروگے اللہ تعالیٰ اس سے خوب واقف ہے۔ ان سے یہ بھی فرمائیں کہ اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کرتے رہو اگر تم اس سے پھرجاؤ تو رسول کے ذمہ حق بات پہنچانا اور تمہارے ذمہ اس پر اخلاص کے ساتھ عمل کرنا ہے اگر تم اس طرح کروگے تو ہدایت پاؤگے۔ یادرکھو رسول کے ذمہ لوگوں تک واضح طور پر حق پہنچانا ہے قرآن مجید میں یہ بات مختلف موقعوں اور الفاظ میں واضح کی گئی ہے کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کام لوگوں تک اخلاص اور محنت کے ساتھ حق بات پہنچانا ہے منوانا نہیں۔ سننے والوں کا فرض ہے کہ وہ اخلاص نیت کے ساتھ سنیں اور اپنی ہمت کے مطابق اس پر عمل کریں۔ (عَنْ اَبِیْ ھُرَےْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَثَلِیْ کَمَثَلِ رَجُلٍ اسْتَوْقَدَ نَارًا فَلَمَّا اَضَآءَ تْ مَاحَوْلَھَا جَعَلَ الْفَرَاشُ وَھٰذِہِ الدَّوَآبُّ الَّتِیْ تَقَعُ فِی النَّارِ ےَقَعْنَ فِےْھَا وَجَعَلَ ےَحْجُزُھُنَّ وَےَغْلِبْنَہُ فَےَتَقَحَّمْنَ فِےْھَا فَاَنَا اَخِذٌ بِحُجَزِکُمْ عَنِ النَّارِ وَاَنْتُمْ تَقَحَّمُوْنَ فِےْھَا ھٰذِہٖ رِوَاے َۃُ الْبُخَارِیِّ وَلِمُسْلِمٍ نَحْوُھَا وَقَالَ فِیْ اٰخِرِھَا قَالَ فَذَالِکَ مَثَلِیْ وَمَثَلُکُمْ اَنَا اٰخِذٌ بِحُجَزِکُمْ عَنِ النَّارِ ھَلُمَّ عَنِ النَّارِ ھَلُمََّ عَنِ النَّارِ فَتَغْلِبُوْنِیْ تَقَحَّمُوْنَ فِےْھَا۔) [ رواہ البخاری : باب الاِنْتِہَاءِ عَنِ الْمَعَاصِی] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میری مثال آگ روشن کرنے والے شخص کی طرح ہے جب اس کا اردگرد روشن ہوگیا۔ تو آگ پر فریفتہ ہونے والے کیڑے پتنگے آکر اس میں گرنے لگے۔ آگ جلانے والے نے انہیں بچانے کی کوشش کی لیکن وہ اس سے بے قابو ہو کر گرتے رہے۔ بس میں بھی تم کو آگ سے بچانے کے لئے تمہیں پیچھے سے پکڑتاہوں لیکن تم ہو کہ اس میں گررہے ہو۔ یہ بخاری کے الفاظ ہیں اور مسلم میں بھی اسی طرح ہے اس کے آخر میں ہے کہ میری اور تمہاری مثال ایسے ہے کہ میں تمہیں پیچھے سے پکڑ کر آگ سے بچانے کی کوشش کر رہا ہوں! میری طرف آؤ اور آگ سے بچو‘ لوگو! آگ کی بجائے میری طرف آؤ۔ لیکن تم مجھ سے بے قابو ہو کر آگ میں گرے جارہے ہو۔“ مسائل ١۔ منافق قسمیں اٹھا اٹھا کر نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام (رض) کو اپنی سمع و اطاعت کا یقین دلاتے تھے۔ ٢۔ مسلمان کو اخلاص اور پوری ہمت کے ساتھ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرنا چاہیے۔ ٣۔ اگر لوگ اللہ تعالیٰ کا فرمان مان لیں تو ہدایت یافتہ ہوجائیں۔ تفسیر بالقرآن سروردوعالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی منصبی ذمہ داریوں میں ایک اہم ذمّہ داری : ١۔ نبوت کے منصبی فرائض۔ (البقرۃ: ١٥١) ٢۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کوکتاب وحکمت کی تعلیم دینے کے لیے بھیجا گیا۔ (الجمعۃ: ٢) ٣۔ ابراہیم (علیہ السلام) کی دعاؤں میں ان فرائض کا تذکرہ۔ (البقرۃ: ١٢٩) ٤۔ نبوت اللہ تعالیٰ کا مومنوں پر احسان عظیم ہے۔ (آل عمران : ١٦٤) ٥۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لوگوں کے بوجھ اتارنے اور غلامی سے چھڑانے کیلئے تشریف لائے۔ (الاعراف : ١٥٧) ٦۔ آپ لوگوں کو خوشخبری دینے والے اور ڈرانے والے تھے (الاحزاب : ٤٥) النور
54 النور
55 فہم القرآن ربط کلام : اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کرنے والوں کے لیے سیاسی اقتدار کی ضمانت۔ اللہ تعالیٰ کے تابع فرمان بندوں کو خوش خبری دی گئی کہ تم ہی کامیاب ہونے والے ہو۔ کامیابی سے مراد صرف آخرت کی کامیابی نہیں بلکہ دنیا کی خلافت یعنی سیاسی اقتدار بھی اس میں شامل ہے۔ اللہ تعالیٰ کا وعدہ پہلے بندوں کے ساتھ بھی تھا اور آئندہ آنے والے نیک لوگوں کے ساتھ بھی ہے۔ نہ صرف تابع فرمان لوگوں کو اقتدار عطا کیا جائے گا بلکہ جس دین کی وجہ سے ان کی مخالفت کی جاتی ہے اللہ تعالیٰ اپنے پسندیدہ دین کو عملی طور پر بھی نافذ کرے گا اور مسلمانوں کا خوف دور کرکے انہیں ہر اعتبار سے استحکام اور امن وامان عطا فرمائے گا۔ لیکن شرط یہ ہے کہ مسلمان بلا شرکت غیرے صرف اپنے رب کی غلامی اور بندگی کرنے والے ہوجائیں۔ جس نے اس فرمان اور وعدے کے باوجود کفرو شرک کا طریقہ اختیار کیا وہ نافرمان ہوں گے سیاسی اقتدار کے حصول کے لیے لازم ہے کہ مسلمان ہرقسم کے شرک سے بچتے رہیں اور نماز قائم کرنے کے ساتھ زکوٰۃ کی ادائیگی کا نظام اپنائیں اور ہر حال میں رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت اختیار کریں۔ جس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ ان پر رحم فرمائے گا جن پر ” اللہ“ کا کرم ہو انہیں بے بس اور عاجز کرنا کفار کے بس کی بات نہیں ہوتی۔ کفار کا ٹھکانہ جہنم ہے جو رہنے کی بدترین جگہ ہے۔ اس آیت مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنے مومن بندوں کو سیاسی اقتدار اور اپنے پسندیدہ دین کے عملی نفاذ کی یقین دھانی کرائی ہے کیونکہ دین کے بارے میں واضح طور پر ارشاد ہے کہ کافر اور مشرک جس قدر چاہیں اس کی مخالفت کریں۔ اللہ اس دین کو غالب کر کے رہے گا کیونکہ وہ غالب رہنے کے لیے نازل کیا گیا ہے۔ دین کے غلبہ سے پہلی مراد یہ ہے کہ یہ اپنی سچائی اور دلائل کے اعتبار سے تمام باطل ادیان پر غالب ہے اور غالب رہے گا۔ کہ دین اسلام کے کسی مسئلہ کو دلائل کی بنیاد پر غلط ثابت کرنا ناممکن ہے اس اعتبار سے دین ہمیشہ غالب رہے گا۔ جہاں تک مسلمانوں کے غلبہ کا معاملہ ہے وہ اس بات کے ساتھ مشروط ہے کہ مسلمان اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں دین نافذ کریں اور دشمن کے مقابلے میں پوری تیاری کے ساتھ متحد ہوجائیں تو انہیں دنیا میں خلافت وامامت کا منصب مل جائے گا۔ جس کی اس امت میں پہلی مثال صحابہ کرام (رض) اور ان کے بعد مسلمانوں کا طویل ترین سیاسی اقتدار ہے۔ (عَنْ عَدِیِّ بْنِ حَاتِمٍ یَقُولُ کُنْتُ عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَجَاءَ ہُ رَجُلاَنِ أَحَدُہُمَا یَشْکُو الْعَیْلَۃَ وَالآخَرُ یَشْکُو قَطْعَ السَّبِیلِ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) أَمَّا قَطْعُ السَّبِیلِ فَإِنَّہُ لاَ یَأْتِی عَلَیْکَ إِلاَّ قَلِیلٌ حَتَّی تَخْرُجَ الْعِیرُ إِلٰی مَکَّۃَ بِغَیْرِخَفِیرٍ وَأَمَّا الْعَیْلَۃُ فَإِنَّ السَّاعَۃَ لاَ تَقُومُ حَتَّی یَطُوفَ أَحَدُکُمْ بِصَدَقَتِہِ لاَ یَجِدُ مَنْ یَقْبَلُہَا مِنْہُ، ثُمَّ لَیَقِفَنَّ أَحَدُکُمْ بَیْنَ یَدَیِ اللَّہِ لَیْسَ بَیْنَہُ وَبَیْنَہُ حِجَابٌ وَلاَ تُرْجُمَانٌ یُتَرْجِمُ لَہُ، ثُمَّ لَیَقُولَنَّ لَہُ أَلَمْ أُوتِکَ مَالاً فَلَیَقُولَنَّ بَلَی ثُمَّ لَیَقُولَنَّ أَلَمْ أُرْسِلْ إِلَیْکَ رَسُولاً فَلَیَقُولَنَّ بَلَی فَیَنْظُرُ عَنْ یَمِینِہِ فَلاَ یَرَی إِلاَّ النَّارَ، ثُمَّ یَنْظُرُ عَنْ شِمَالِہِ فَلاَ یَرَی إِلاَّ النَّارَ، فَلْیَتَّقِیَنَّ أَحَدُکُمُ النَّا رَ وَلَوْ بِشِقِّ تَمْرَۃٍ، فَإِنْ لَمْ یَجِدْ فَبِکَلِمَۃٍ طَیِّبَۃٍ) [ رواہ البخاری : باب صدقۃ قبل الرد] ” حضرت عدی بن حاتم (رض) بیان کرتے ہیں میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس حاضر تھا۔ آپ کی خدمت میں دو آدمی آئے ایک نے فقر و فاقہ کی شکایت کی اور دوسرے نے راستوں کے غیر محفوظ ہونے کی شکایت کی۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جہاں تک راستوں کے غیر محفوظ ہونے کا تعلق ہے۔ بہت جلد ایسا دور آئے گا کہ ایک قافلہ مکہ سے کسی محافظ کے بغیر نکلے گا اور اسے کوئی خطرہ نہیں ہوگا۔ رہافقر تو قیامت اس وقت تک نہیں آئے گی جب تک ایک شخص اپنا صدقہ لے کر نکلے گا لیکن کوئی لینے والا نہیں ہوگا۔ پھر اللہ کے سامنے ایک آدمی اس طرح کھڑا ہوگا اس کے اور اللہ کے درمیان کوئی پردہ اور کوئی ترجمان نہ ہوگا، اللہ تعالیٰ اس سے پوچھے گا میں نے تجھے دنیا میں مال نہیں دیا تھا وہ کہے گا کیوں نہیں۔ اللہ فرمائے گا کیا میں نے تیرے پاس پیغمبر نہیں بھیجا تھا۔ وہ کہے گا کیوں نہیں، پھر وہ اپنے دائیں اور بائیں جانب دیکھے گا تو اسے آگ کے سوا کچھ نظر نہیں آئے گا۔ جہنم سے بچ جاؤ خواہ ایک کھجور کے ٹکڑے سے ہی بچا جائے اگر یہ بھی میسر نہ ہو تو اچھی بات کہو۔“ (عَنْ أَبِی سُکَیْنَۃَ رَجُلٌ مِنَ الْمُحَرَّرِینَ عَنْ رَجُلٍ مِنْ أَصْحَاب النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ لَمَّا أَمَرَ النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بِحَفْرِ الْخَنْدَقِ عَرَضَتْ لَہُمْ صَخْرَۃٌ حَالَتْ بَیْنَہُمْ وَبَیْنَ الْحَفْرِ فَقَامَ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وَأَخَذَ الْمِعْوَلَ وَوَضَعَ رِدَاءَ ہُ نَاحِیَۃَ الْخَنْدَقِ وَقَالَ (تَمَّتْ کَلِمَۃُ رَبِّکَ صِدْقًا وَعَدْلاً لاَ مُبَدِّلَ لِکَلِمَاتِہِ وَہُوَ السَّمِیعُ الْعَلِیمُ) فَنَدَرَ ثُلُثُ الْحَجَرِ وَسَلْمَانُ الْفَارِسِیُّ قَاءِمٌ یَنْظُرُ فَبَرَقَ مَعَ ضَرْبَۃِ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بَرْقَۃٌ ثُمَّ ضَرَبَ الثَّانِیَۃَ وَقَالَ (تَمَّتْ کَلِمَۃُ رَبِّکَ صِدْقًا وَعَدْلاً لاَ مُبَدِّلَ لِکَلِمَاتِہِ وَہُوَ السَّمِیعُ الْعَلِیمُ) فَنَدَرَ الثُّلُثُ الآخَرُ فَبَرَقَتْ بَرْقَۃٌ فَرَآہَا سَلْمَانُ ثُمَّ ضَرَبَ الثَّالِثَۃَ وَقَالَ (تَمَّتْ کَلِمَۃُ رَبِّکَ صِدْقًا وَعَدْلاً لاَ مُبَدِّلَ لِکَلِمَاتِہِ وَہُوَ السَّمِیعُ الْعَلِیمُ) فَنَدَرَ الثُّلُثُ الْبَاقِی وَخَرَجَ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَأَخَذَ رِدَاءَ ہُ وَجَلَسَ قَالَ سَلْمَانُ یَا رَسُول اللَّہِ رَأَیْتُکَ حینَ ضَرَبْتَ مَا تَضْرِبُ ضَرْبَۃً إِلاَّ کَانَتْ مَعَہَا بَرْقَۃٌ قَالَ لَہُ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَا سَلْمَانُ رَأَیْتَ ذَلِکَ فَقَالَ إِی وَالَّذِی بَعَثَکَ بالْحَقِّ یَا رَسُول اللَّہِ قَالَ فَإِنِّی حینَ ضَرَبْتُ الضَّرْبَۃَ الأُولَی رُفِعَتْ لِی مَدَاءِنُ کِسْرَی وَمَا حَوْلَہَا وَمَدَاءِنُ کَثِیرَۃٌ حَتَّی رَأَیْتُہَا بِعَیْنَیَّ قَالَ لَہُ مَنْ حَضَرَہُ مِنْ أَصْحَابِہِ یَا رَسُول اللَّہِ ادْعُ اللَّہَ أَنْ یَفْتَحَہَا عَلَیْنَا وَیُغَنِّمَنَا دِیَارَہُمْ وَیُخَرِّبَ بِأَیْدِینَا بلاَدَہُمْ فَدَعَا رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بِذَلِکَ ثُمَّ ضَرَبْتُ الضَّرْبَۃَ الثَّانِیَۃَ فَرُفِعَتْ لِی مَدَاءِنُ قَیْصَرَ وَمَا حَوْلَہَا حَتَّی رَأَیْتُہَا بِعَیْنَیَّ قَالُوا یَا رَسُول اللَّہِ ادْعُ اللَّہَ أَنْ یَفْتَحَہَا عَلَیْنَا وَیُغَنِّمَنَا دِیَارَہُمْ وَیُخَرِّبَ بِأَیْدِینَا بلاَدَہُمْ فَدَعَا رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بِذَلِکَ ثُمَّ ضَرَبْتُ الثَّالِثَۃَ فَرُفِعَتْ لِی مَدَاءِنُ الْحَبَشَۃِ وَمَا حَوْلَہَا مِنَ الْقُرَی حَتَّی رَأَیْتُہَا بِعَیْنَیَّ قَالَ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عِنْدَ ذَلِکَ دَعُوا الْحَبَشَۃَ مَا وَدَعُوکُمْ وَاتْرُکُوا التُّرْکَ مَا تَرَکُوکُمْ) [ رواہ الترمذی : باب غَزْوَۃِ التُّرْکِ وَالْحَبَشَۃ]ِ “ حضرت ابی سکینہ جو محرر قبیلہ کے ایک فرد تھے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ایک صحابی سے بیان کرتے ہیں۔ آپ نے خندق کھودنے کا حکم دیا کھودائی کے دوران ایک چٹان حائل ہوگئی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہاتھ میں کدال لیے ہوئے اٹھ کھڑے ہوئے اور اپنی چادر مبارک خندق کے کنارے رکھی اور یہ کلمات پڑھتے ہوئے ضرب لگائی ” تیرے رب کے سچے اور اس کے ارشاد عدل پر مبنی کلمات پورے ہوئے۔ وہ سننے والا اور جاننے والا ہے“ چٹان کا تہائی حصہ ٹوٹ گیا نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ضرب لگاتے وقت سلمان فارسی اس سے چمک کو دیکھ رہے تھے آپ نے دوسری ضرب لگائی اور کہا ” تیرے رب کے سچائی اور عدل کے کلمات مکمل ہوئے۔ وہ سننے والا اور جاننے والا ہے“ چٹان کا دوسرا تہائی حصہ ٹوٹ گیا حضرت سلمان فارسی اس وقت بھی چمک کا منظر دیکھ رہے تھے۔ پھر آپ نے تیسری ضرب لگائی اور کہا ” تیرے رب کے سچائی اور عدل والے کلمات مکمل ہوگئے۔ وہ سننے والا اور جاننے والا ہے“ تو اسکا بقیہ تہائی حصہ ٹوٹ بھی گیا۔ سلمان (رض) فارسی اس وقت بھی پتھر سے نکلنے والی چمک کا منظر دیکھ رہے تھے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی چادر مبارک پکڑ کر خندق سے باہر تشریف لے آئے اور بیٹھ گئے سلمان (رض) نے عرض کی اے اللہ کے رسول میں نے مشاہدہ کیا کہ آپ نے جب بھی چٹان پر ضرب لگائی تو اس سے چمک نمودار ہوئی۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ اے سلمان کیا تو نے اس منظر کو دیکھ لیا ہے اس نے کہا ہاں ! اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا ہے آپ نے فرمایا جب میں نے پہلی ضرب لگائی تو کسریٰ کے محلات، شہر اور اس کے ارد گرد کی بستیاں مجھے دکھلادی گئیں آپ کے پاس بیٹھے ہوئے صحابہ نے عرض کی۔ اللہ کے رسول دعا کیجئے کہ اللہ ہمیں ان پر فتح عطا فرمائے اور ہمیں ان کے گھروں کا مالک بنادے اور ان کے شہروں کو ہمارے ہاتھوں تباہ وبرباد کر دے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دعا کی جب میں نے دوسری ضرب لگائی تو مجھے قیصر اور اس کے ارد گرد کے شہر دکھلائے گئے صحابہ نے عرض کی اے اللہ کے رسول دعا کریں کہ اللہ ان کا بھی ہمیں فاتح بنادے اور ان کے گھر ہمیں مال غنیمت کے طور پر عطا فرمادے اور ان کے شہروں کو ہمارے ہاتھوں تباہ وبرباد کر دے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دعا کی آپ نے فرمایا جب میں نے تیسری ضرب لگائی تو مجھے حبشہ اور اس کے گرد ونواح کے شہردکھلائے گئے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس وقت فرمایا حبشہ اور ترک والوں کو چھوڑ دو جنہوں نے تمہیں چھوڑ دیا۔“ بہت جلد وہ وقت آنے والا ہے جب تم آرام سے بے خوف ہو کر مجمع عام میں بیٹھو گے اور تمہارے جسم پر کوئی ہتھیار نہیں ہوگا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب پیغمبر کے اس ارشاد کی تائید فرماتے ہوئے یہ آیت نازل فرمائی۔ ” اللہ نے لکھ دیا ہے ضرور بالضرور میں اور میرا رسول غالب رہیں گے یقیناً اللہ بڑی قوت والا اور غالب ہے۔ (المجادلۃ: ٢١) تاریخ کی ناقابل تردید شھادت ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول نے جو وعدہ فرمایا تھا وہ من وعن پورا ہوا۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ کا مسلمانوں کے ساتھ وعدہ ہے کہ انہیں خلافت فی الارض کا منصب دے گا۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام (رض) کو خلافت عنایت فرمائی اور ان کے بعد مسلمانوں کو مدت مدید تک سیاسی اقتدار عنایت فرمایا۔ ٣۔ دین کا پہلا تقاضا یہ ہے کہ خالصتاً اللہ تعالیٰ کی عبادت کی جائے اور کسی اعتبار سے اس کے ساتھ شرک نہ کیا جائے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ کا یہ بھی فرمان ہے کہ نماز قائم کی جائے اور زکوٰۃ کی ادائیگی کا نظام اپنایا جائے۔ ٥۔ جو لوگ ہر حال میں رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کرتے ہیں اللہ تعالیٰ ان پر شفقت اور مہربانی فرماتا ہے۔ تفسیر بالقرآن اطاعت رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فائدے : ١۔ رسول کی اطاعت کرنے سے انسان اللہ تعالیٰ کا فرمانبردار بن جاتا ہے۔ ( النساء : ٨٠) ٢۔ اطاعت رسول سے گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔ ( آل عمران : ٣١) ٣۔ رسول کی اطاعت سے انسان اللہ کے اجر کا مستحق بن جاتا ہے۔ ( الفتح : ١٦) ٤۔ رسول کی اطاعت سے انسان کے عمل ضائع ہونے سے بچ جاتے ہیں۔ ( الحجرات : ١٤) ٥۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت ہدایت کا منبع ہے۔ (النور : ٥٤) ٦۔ رسول کی اطاعت کا میابی کا ذریعہ ہے۔ ( النور : ٥٢) ٧۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کرنے والے انعام یافتہ لوگ ہیں۔ ( النساء : ٦٩) ٨۔ جنت میں داخلے کا معیار آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت ہے۔ ( الفتح : ١٧) ٩۔ اللہ تعالیٰ کی مہربانی رسول اللہ کی اطاعت میں ہے۔ (آل عمران : ١٣٢) ١٠۔ اطاعت میں کامیابی ہے۔ (الاحزاب : ٧١) ١١۔ جو اللہ کا رسول تمہیں دے اسے پکڑ لو اور جس سے منع کر دے اس سے رک جاؤ اور اللہ سے ڈرو یقیناً اللہ کی پکڑ بڑی سخت ہے۔ ( الحشر : ٧) النور
56 النور
57 النور
58 فہم القرآن ربط کلام : نئے خطاب کا آغاز مومنوں کے لیے لازم ہے کہ ان کے غلام اور ان کے نابالغ بیٹے تین اوقات میں ان سے اجازت لے کر ان کی خلوت گاہوں میں داخل ہوا کریں کیونکہ یہ تین اوقات پردہ کے اوقات ہیں۔ تینوں اوقات کے علاوہ ان کے غلاموں اور نابالغ بچوں کا خلوت گاہ میں آنے پر کوئی گناہ نہیں۔ اس اجازت کا سبب یہ ہے کہ انہوں نے گھر یلو کام کے لیے باربار خلوت گاہ میں آنا جانا ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ تمہارے لیے اصول بیان کرتا ہے تاکہ تمہاری معاشرت برائی اور بے حیائی سے محفوظ رہے اور یاد رکھو اللہ تعالیٰ ہر کام اور بات کو پوری طرح جانتا ہے اور اس کے ہر حکم میں حکمت اور دانائی ہوتی ہے۔ ہاں جب نابالغ بچے بلوغت کو پہنچ جائیں تو وہ بھی اسی طرح اجازت لینے کے پابند ہیں جس طرح تمہارے بڑے لوگوں کے لیے اجازت لینا ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ تمہارے لیے اپنی آیات بیان کرتا ہے اسے خوب معلوم ہے کہ کیا حکم دینا ہے اور کیا نہیں دینا؟ کیونکہ وہ ہر کام اور بات کی حکمت جانتا ہے۔ مسائل ١۔ صبح، دوپہر اور عشاء کے بعد غلاموں اور چھوٹے بچوں کو بھی اجازت لے کر دوسروں کے خلوت خانہ میں جانا چاہیے۔ ٢۔ جب نابالغ بچے بالغ ہوجائیں تو انہیں بھی اپنے بڑوں کی طرح اجازت لے کر دوسروں کے گھر جانا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن گھر میں داخل ہونے کے آداب۔ ١۔ اے ایمان والو ایک دوسرے کے گھروں میں اجازت طلب کیے اور سلام کہے بغیر داخل نہ ہوا کرو۔ (النور : ٢٧) ٢۔ اہل خانہ کی عدم موجودگی میں کسی کے گھر میں داخل نہ ہوا جائے۔ (النور : ٢٨) ٣۔ اہل خانہ اگر اجازت نہ دیں تو واپس آجانا چاہیے۔ (النور : ٢٨) ٤۔ بے آباد گھروں میں بغیر اجازت کے داخل ہوا جاسکتا ہے۔ بشرطیکہ وہاں جانا ناگزیر ہو۔ (النور : ٢٩) النور
59 النور
60 فہم القرآن ربط کلام : پردہ کے مسائل کا بیان جاری ہے۔ جو عورتیں عمر کے اس حصہ میں پہنچ چکی ہیں کہ جہاں پہنچ کر ان کے نسوائی جذبات ختم ہوچکے ہیں اور اب انہیں نکاح کی حاجت نہیں رہی۔ اگر وہ اپناسر ننگا کرلیں تو ان پر کوئی گناہ نہیں بشرطیکہ ان کا مقصد اپنی زیب وزینت ظاہر کرنا نہ ہوہاں بہتر یہ ہے کہ وہ بھی اپنے سروں پر کپڑا رکھاکریں۔ اللہ تعالیٰ ہر بات سننے اور جاننے والا ہے۔ زینت سے مراد گلے میں پہننے والا زیور، عورت کی چھاتی سر کے بال اور چہرہ ہے معمر عورت کا ان چیزوں کو ڈھانپنا اس لیے بھی بہتر ہے تاکہ اس کی بہو، بیٹیوں اور دوسری بچیوں پر اس کی سیرت وکردار کے اچھے نقوش مرتب ہو سکیں۔ اگر ایک بوڑھی عورت اپنی عمر کے برخلاف زیب و زینت اور جوانی جیسا لباس اختیار کرتی ہے تو ظاہر بات ہے کہ ناصرف اس کے احترام میں فرق واقع ہوگا بلکہ بہو، بیٹیوں پر بھی منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ اس لیے فرمایا ہے کہ بہت بہتر ہے کہ بوڑھی عورتیں بھی اپنی زینت غیر محرموں کے سامنے نمایاں کرنے سے گریز کریں۔ مسائل ١۔ بوڑھی عورت کسی وجہ سے غیر محرم کے سامنے سر سے دوپٹہ اتار دے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ ٢۔ بوڑھی عورت کے لیے بہتر یہی ہے کہ وہ اپنی زیب وزینت کو ظاہر نہ کرے۔ النور
61 فہم القرآن ربط کلام : معاشرتی آداب اور مسائل کا ذکر جاری ہے۔ اسلامی آداب نازل ہونے سے پہلے عرب معاشرے میں یہ رواج تھا کہ لوگ ایک دوسرے کے گھر بغیر اجازت کے آتے جاتے اور بلا تکلف کھاتے پیتے تھے۔ قرآن مجید میں جب معاشرتی آداب کے احکام نازل ہوئے تو لوگوں نے محسوس کیا کہ جس طرح ہمارا ایک دوسرے کے گھر بلا اجازت جانا جائز نہیں۔ اسی طرح ہم اپنے عزیزو اقرباء کے گھر سے کھانا بھی نہیں کھا سکتے۔ اس خدشہ کو دور کرنے اور حقیقت حال کی وضاحت کے لیے یہ فرمان نازل ہوا کہ تم پر کوئی گناہ نہیں کہ اندھے، لنگڑے، مریض اور اپنے قریبی رشتہ داروں کے ساتھ بیٹھ کر کھاؤ پیؤ۔ خاص کر اپنے والدین، اپنے بھائیوں، اپنی بہنوں، اپنے چچاؤں، اپنی پھوپھیوں، اپنے ماموؤں، اپنی خالاؤں، اپنے دوستوں اور بھائیوں، اپنی بہنوں، اپنے چچاؤں اپنی پھوپھیوں، اپنے ماموؤں، اپنی خالاؤں، اپنے دوستوں اور جن گھروں کی چابیاں تمہارے پاس ہیں ان میں بیٹھ کر کھانے پینے سے تم پر کوئی پابندی نہیں۔ تمہیں اس بات کی بھی اجازت ہے کہ تم اکٹھے ہو کر کھاؤ یا الگ الگ بیٹھ کر کھاؤ۔ جب اپنے گھروں میں جاؤ تو سلام کیا کرو۔ یہ تمہارے رب کے ہاں بابرکت اور اچھی بات ہے اللہ تعالیٰ تمہارے لیے اپنی آیات اس لیے بیان کرتا ہے تاکہ تم سمجھ بوجھ سے کام لو۔ ان رشتہ داروں کے گھروں میں کھانے پینے کا یہ مطلب نہیں کہ جو عورتیں تمہارے لیے غیر محرم ہیں ان کے ساتھ بیٹھ کر کھانا پینا شروع کر دو۔ اس فرمان کا فقط یہ معنٰی ہے کہ جو محرم خواتین اور مرد اکٹھے ہو کر کھانا چاہیں تو اس میں کوئی حرج نہیں یہ وضاحت اس لیے کردی گئی کہ اس زمانے میں یہودی مل بیٹھ کر کھانے کو ناجائز سمجھتے تھے۔ مسائل ١۔ کسی کے گھر میں داخل ہونے سے پہلے اجازت لینا ضروری ہے۔ ٢۔ گھروں میں داخل ہوتے ہوئے اہل خانہ کو سلام کہنا چاہیے۔ النور
62 فہم القرآن ربط کلام : معاشرتی آداب کے ساتھ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ادب کا تذکرہ۔ مومنوں کی صفت یہ ہے کہ وہ ہر حال میں اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فرمان پر عمل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مومنوں میں سرفہرست صحابہ کرام (رض) ہیں اور صحابہ کرام رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس قدر مؤدب اور تابعدار تھے کہ جب آپ انہیں کسی مشورہ اور کام کے لیے طلب فرماتے تو صحابہ فی الفور آپ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوجاتے اور اس وقت تک آپ کی خدمت میں حاضر رہتے جب تک آپ انہیں جانے کی اجازت عنایت نہ کرتے۔ اگر کسی کو جلدی جانا ہوتا تو وہ کام کی نوعیت اور آپ کے ادب واحترام کا خیال رکھتے ہوئے عاجزی کے ساتھ آپ سے اجازت طلب کرتا۔ آپ کو یہ اختیار دیا گیا آپ جسے چاہیں اجازت عنایت فرمائیں جیسے چاہیں اپنے ہاں روکے رکھیں۔ ایسے باادب اور تابع فرمان ساتھیوں کے بارے میں آپ کو حکم ہوا کہ آپ ان کے لیے بخشش کی دعا کیا کریں یقیناً اللہ تعالیٰ بخشنے والا مہربانی فرمانے والا ہے۔ اس آیت میں صحابہ کرام (رض) کی اطاعت شعاری اور وفاداری کا تذکرہ کرنے کے بعد رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ان کے لیے بخشش کی دعا کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ سورۃ توبہ میں یہ بتلایا ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعا صحابہ کے لیے نہایت ہی اطمینان کا باعث ہوا کرتی تھی کتنے خوش نصیب تھے۔ وہ لوگ جن کے لیے رب کریم اپنے رسول کو بخشش کی دعا کا حکم دیتا ہے اور پھر آپ کی دعا کی قبولیت کو ان الفاظ کے ساتھ یقینی بنادیا کہ اللہ تعالیٰ معاف کرنے والا رحم کرنے والاہے۔ (وَعَنِ ابْنِ عُمَرَ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ لَا یُقِیْمُ الرَّجُلُ الرَّجُلَ مِنْ مَّجْلِسِہٖ ثُمَّ یَجْلِسْ فِیْہِ وَلٰکِنْ تَفَسَّحُوْا وَ تَوَسَّعُوْا) [ رواہ البخاری : باب (إِذَا قیلَ لَکُمْ تَفَسَّحُوا فِی الْمَجَالِسِ فَافْسَحُوا یَفْسَحِ اللَّہُ لَکُمْ وَإِذَا قیلَ انْشِزُوا فانْشِزُوا) الآیَۃَ ] ” حضرت عبداللہ بن عمر (رض) نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا کہ کوئی شخص بیٹھنے کے لیے کسی دوسرے شخص کو اس کی جگہ سے نہ اٹھائے۔ اس کی بجائے مجلس میں وسعت اختیار کرلیا کرو۔“ مسائل ١۔ صحابہ کرام (رض) نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مجلس سے اجازت کے بغیر نہیں اٹھا کرتے تھے۔ ٢۔ مجلس کا ادب ہے کہ صاحب مجلس سے اجازت لے کرجایا جائے۔ ٣۔ صاحب امرمشورہ یا کسی کام کے لیے لوگوں کو طلب کرے تو ان کا حاضر ہونا ضروری ہے۔ تفسیر بالقرآن معاشرتی آداب : ١۔ اے ایمان والو! تم کسی کے گھر میں داخل ہونے سے پہلے اجازت لے لیا کرو۔ (النور : ٢٧) ٢۔ جب تم گھروں میں داخل ہو تم گھر والوں کو سلام کہو۔ (النور : ٦١) ٣۔ اے ایمان والو! جب تمہیں مجلس میں کھل کر بیٹھنے کے لیے کہا جائے تو کھل کر بیٹھ جایا کرو، اور جب کہا جائے اٹھ کھڑے ہو تو اٹھ جایا کرو۔ (المجادلۃ: ١١) النور
63 فہم القرآن ربط کلام : معاشرتی آداب کے سلسلہ میں بالخصوص سرورگرامی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آداب کا خیال رکھنا فرض ہے۔ صحابہ کرام (رض) کو یہ بھی ادب سکھلایا گیا کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کرتے ہوئے آپ کو اس طرح نہ بلایا کریں جس طرح آپس میں ایک دوسرے کو بلاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو خوب جانتا ہے جو دکھلاوے کے لیے آپ کی مجلس میں حاضر ہوتے ہیں پھر کسی نہ کسی بہانہ سے چپکے سے کھسک جاتے ہیں۔ ان لوگوں کو اللہ کے رسول کی نافرمانی سے بچنا چاہیے۔ جو لوگ اللہ کے رسول کی نافرمانی کرتے ہیں ان لوگوں کو اس بات سے ڈرنا چاہیے کہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نافرمانی کے نتیجہ میں انہیں کوئی بڑی مصیبت آپہنچے یا وہ عذاب الیم میں مبتلا کیے جائیں۔ اللہ کے رسول کی نافرمانی کرنے والوں کو یہ بات پوری طرح معلوم ہونا چاہیے کہ آسمانوں کا چپہ چپہ اور زمین کا ذرہ ذرہ اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے۔ وہ تمہاری جلوت، خلوت، نیت اور ہر حرکت کو جانتا ہے (لَاتَجْعَلُوْا دُعَاء الرَّسُوْلٍ) کے مفسرین نے تین معنٰی لیے ہیں۔ 1 صحابہ کرام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سمجھایا گیا کہ جس طرح تم ایک دوسرے کو آواز دیتے ہو رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس طرح آواز نہ دیا کرو (الحجرات : ٣) اس آیت میں ان لوگوں کو ان الفاظ میں سرزنش کی گئی جنہوں نے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حجرے سے باہر اونچی آواز سے یہ الفاظ کہے۔ النور
64 ” اُخْرِجْ اَلِیْنَا یَامحَمَّدُ“ اے محمد باہر آئیں۔ اللہ تعالیٰ کو ان لوگوں کا اس طرح آواز دینا بہت ہی ناگوار گزرا۔ جس پر فرمایا کہ جو لوگ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حجرے سے باہر آواز دے رہے تھے ان کی اکثریت بے عقل ہے دوسری آیت میں فرمایا کہ پیغمبر کو اس طرح آواز نہ دیا کرو جس طرح تم ایک دوسرے کو آواز دیتے ہو اگر تم باز نہ آئے تو تمہارے تمام کے تمام اعمال تباہ کردیے جائیں گے (الحجرات : ٢) جو لوگ فرقہ واریت میں آکر یہ کہتے ہیں کہ ہم نے یا محمد کہنا ہے اور فلاں نے جلتے رہنا ہے یا اس طرح کے الفاظ کہتے ہیں کہ ” یَارَسُوْلَ اللّٰہِ اُنْظُرْ حَالَنَا یَا حَبِیْبَ اللّٰہ اِسْمَعْ قَالَنَا“ ے رسول ہماری طرف دیکھیں اور ہماری بات سنیں انہیں اس بات کی فکر کرنا چاہیے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ اس گستاخی کی وجہ سے ان کے اعمال غارت ہوجائیں۔ 2 لَاتَجْعَلُوْ دُعَاء الرَّسُوْلِکادوسرا مفہوم یہ ہے کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کسی کو بلانا ہمارے ایک دوسرے کو بلانے کے برابر نہیں ہوسکتا بلکہ جب بھی آپ کسی کو آواز دیں گویا کہ جسے بلائیں تو اس فوری طور پر حاضر ہونا لازم ہے۔3 لَاتَجْعَلُوْ دُعَاء الرَّسُوْلِکا تیسرا مفہوم یہ بھی ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعا کو اپنے لیے معمولی دعا نہ سمجھو بلکہ آپ کا کسی کے لیے دعا کرنا اس کے لیے نعمت گراں مایہ ہے۔ جو لوگ اللہ کے رسول کی نافرمانی کرتے ہیں انہیں ڈرنا چاہیے کہ کہیں انہیں سخت ترین آزمائش نہ آجائے یا اذیت ناک عذاب میں مبتلا نہ کر دئیے جائیں۔ (عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خَرَجَ عَلٰٓی أُبَیِّ بْنِ کَعْبٍ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَا أُبَیُّ وَہُوَ یُصَلِّی فَالْتَفَتَ أُبَیٌّ وَلَمْ یُجِبْہُ وَصَلَّی أُبَیٌّ فَخَفَّفَ ثُمَّ انْصَرَفَ إِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَقَال السَّلاَمُ عَلَیْکَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وَعَلَیْکَ السَّلاَمُ مَا مَنَعَکَ یَا أُبَیُّ أَنْ تُجِیْبَنِیْٓ إِذْ دَعَوْتُکَ فَقَالَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ إِنِّیْ کُنْتُ فِی الصَّلاَۃِ قَالَ أَفَلَمْ تَجِدْ فِیْمَآ أَوْحَی اللّٰہُإِلَیَّ أَنِ (اسْتَجِیْبُوْا لِلّٰہِ وَلِلرَّسُوْلِ إِذَا دَعَاکُمْ لِمَا یُحْیِیْکُمْ) قَالَ بَلٰی وَلاآأَعُودُ إِنْ شَآء اللّٰہُ قَالَ تُحِبُّ أَنْ أُعَلِّمَکَ سُورَۃً لَمْ یَنْزِلْ فِی التَّوْرَاۃِ وَلاَ فِی الإِنْجِیْلِ وَلاَ فِی الزَّبُوْرِ وَلاَ فِیْ الْفُرْقَانِ مِثْلُہَا قَالَ نَعَمْ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ کَیْفَ تَقْرَأُ فِی الصَّلاَۃِ قَالَ فَقَرَأَ أُمَّ الْقُرْآنِ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہٖ مَا أُنْزِلَتْ فِی التَّوْرَاۃِ وَلاَ فِی الإِنْجِیْلِ وَلاَ فِی الزَّبُوْرِ وَلاَ فِی الْفُرْقَانِ مِثْلُہَا وَإِنَّہَا سَبْعٌ مِّنَ الْمَثَانِیْ وَالْقُرْآنَ الْعَظِیْمُ الَّذِیْٓ أُعْطِیَتُہٗ) [ رواہ الترمذی : کتاب فضائل القرآن، باب مَآ جَاءَ فِی فَضْلِ فَاتِحَۃِ الْکِتَابِ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں بے شک رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ابی بن کعب کے ہاں تشریف لے گئے۔ آپ نے اسے آواز دی وہ نماز پڑھ رہے تھے۔ ابی (رض) نے التفات فرمایا اور جواب نہ دیا لیکن اپنی نماز کو ہلکا کردیا، پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا۔ تو آپ کو سلام کہا! رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سلام کا جواب دیا اور فرمایا : ابی ! کس چیز نے تجھے جواب دینے سے روکے رکھا تھا۔ ابی (رض) نے کہا اللہ کے رسول میں نماز ادا کر رہا تھا۔ آپ نے فرمایا کیا تو قرآن مجید میں یہ بات نہیں پاتا کہ اللہ اور اس کے رسول کی پکار کا جواب دو۔ جب وہ تمہیں بلائیں ایسی چیز کی طرف جو تمھیں زندگی بخشنے والی ہے۔ اس نے کہا کیوں نہیں انشاء اللہ دوبارہ ایسے نہیں کروں گا۔ آپ نے فرمایا کیا تو پسند کرتا ہے کہ میں تجھے ایسی سورۃ سکھلاؤں جو توراۃ، انجیل، زبور اور قرآن مجید میں نہیں ہے اس نے کہا ضرور ! آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دریافت کیا تو نماز میں کیا پڑھتا ہے ابی (رض) نے عرض کیا کہ سورۃ فاتحہ پڑھتاہوں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا قسم ہے مجھے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے۔ اس جیسی سورۃ توراۃ، انجیل، زبور اور قرآن مجید میں نازل نہیں ہوئی اور یقیناً یہ سات آیات اور عظیم قرآن ہے جو مجھے عطا کیا گیا ہے۔“ مسائل ١۔ اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دور سے آواز دینا پرلے درجے کی گستاخی ہے۔ ٢۔ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نافرمانی کرنے والوں کو اللہ کے عذاب سے ڈرنا چاہیے۔ ٣۔ زمین و آسمان اور جو کچھ ان میں ہے سب پر اللہ کی بادشاہی ہے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ انسان کے فکر وعمل کو پوری طرح جانتا ہے۔ تفسیر بالقرآن نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ادب واحترام کا حکم : ١۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دور سے آواز نہ دی جائے۔ (الحجرات : ٤) ٢۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آواز سے اونچی آواز نہ کی جائے۔ (الحجرات : ٢ ) ٣۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے آگے قدم نہ اٹھایا جائے۔ (الحجرات : ١) ٤۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مکمل اتباع کی جائے۔ (محمد : ٣٣) ٥۔ جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دیں اسے لیا جائے جس سے آپ نے منع کیا ہے اسے چھوڑ دیاجائے۔ ( الحشر : ٧) النور
0 سورۃ الفرقان کا تعارف ربط سورۃ: سورۃ النور کا اختتام اس بات پر ہوا کہ ” اللہ“ جانتا ہے جو کچھ تم کرتے ہو وہ قیامت کے دن تمہیں تمہارے اعمال کے انجام سے آگاہ کرے گا۔ برے انجام سے بچانے کے لیے اس نے تمہارے پاس اپنا رسول بھیجا ہے تاکہ برے کاموں کے برے انجام سے تمہیں آگاہ کرے۔ یہ سورۃ 6 رکوع 77 آیات پر مشتمل ہے۔ اس سورۃ مبارکہ کا نام اس کی پہلی آیت میں موجود ہے۔ فرقان کا معنٰی ہے سچ اور جھوٹ، حق اور باطل میں فرق واضح کرنے والی کتاب۔ سورۃ کا آغاز ” اللہ“ کی ذات با برکات کے نام سے ہوا ہے۔ جس نے قرآن نازل فرمایا۔ نزول قرآن کا مقصد یہ ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس قرآن کے ذریعے حق وباطل، سچ اور جھوٹ، کھرے اور کھوٹے کے درمیان فرق واضح فرما دیں۔ اس کی ابتدا اس پیغام سے ہوئی ہے کہ یہ قرآن رسول عبد پر نازل کیا گیا، جس کی دعوت توحید خالص ہے، تاکہ لوگ صرف ایک ” اللہ“ کی عبادت اور غلامی اختیار کریں، مگر اس کے باوجود لوگ اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر ان کو پکارتے ہیں جو کوئی چیز پیدا نہیں کرسکتے، بلکہ وہ خود پیدا کیے گئے ہیں۔ وہ کسی نفع ونقصان کا اختیار نہیں رکھتے۔ یہاں تک کہ انہیں اپنی موت وحیات اور مر کے جی اٹھنے کا بھی انہیں اختیار نہ ہے۔ یہ لوگ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عبدیت کا انکار کرتے اور کہتے ہیں کہ یہ کیسا رسول ہے جو کھانا کھاتا اور بازاروں میں چلتا پھرتا ہے۔ اس کے ساتھ تو ملائکہ ہونے چاہیں تھے جو اس کا انکار کرنے والوں کو ڈراتے، یہ لوگ زبان درازی کرتے ہوئے یہاں تک کہہ جاتے ہیں کہ یہ رسول تو سحر زدہ ہے۔ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) توجہ فرمائیں کہ یہ لوگ کس حد تک ہدایت سے بے توفیق ہوچکے ہیں۔ انہیں اس ہرزہ سرائی کے انجام کا قیامت کے دن علم ہوگا۔ جب اپنے ہاتھوں کو کاٹتے ہوئے کہیں گے کہ کاش! ہم رسول کو چھوڑ کر ایرے غیرے کے پیچھے نہ لگتے۔ انہیں یہ بھی اعتراض ہے کہ قرآن ایک مرتبہ نازل کیوں نہیں کیا گیا۔ یہ اعتراض اٹھانا ان کی گمراہی کی انتہا ہے۔ ہم قرآن اس لیے تھوڑا تھوڑا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ان کے مناسب حال نازل کرتے ہیں۔ تاکہ آپ کا دل مضبوط ہو اور انہیں قرآن سمجھنے اور اس پر عمل کرنا آسان ہو۔ لیکن یہ اپنی گمراہی کے سبب اس سہولت کو بھی مخالفت کاذریعہ بنا رہے ہیں۔ ان سے پہلے بھی آل فرعون، قوم نوح، قوم عاد، قوم ثمود اور اصحاب الرّس نے اس قسم کے اعتراضات کیے اور تباہ ہوئے۔ دراصل جو شخص اپنی خواہشات کو الٰہ بنا لے اس کی آپ راہنمائی نہیں کرسکتے۔ یہ لوگ جانوروں کی مانند ہوچکے ہیں۔ جس وجہ سے یہ اللہ تعالیٰ کی قدرتوں پر غور نہیں کرتے حالانکہ ان کے سامنے سورج ” اللہ“ کی قدرت کی بہت بڑی نشانی ہے۔ رات کے آرام، دن کے وقت تازہ دم ہو کر کام کاج کرنا، ہواؤں کا بحری سفر میں ان کے موافق چلنا بارش کا نازل ہونا اور اس کے ذریعے جانوروں اور لوگوں کا فائدہ اٹھانا۔” اللہ“ کی قدرت کی نشانیاں ہیں، انہیں دیکھنے اور ان سے فائدہ اٹھانے کے باوجود یہ لوگ اپنے رب کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ اسی رب نے دو سمندروں کے درمیان پردہ حائل کر رکھا ایک پانی میٹھا اور دوسرا کڑوا ہے۔ اسی نے انسان کو پانی کی ایک بوند سے پیدا کیا اور اس کے ننہیال اور سسرال بنائے پھر بھی اس حقیقی خالق اور عظیم مالک کا انکار کیے جا رہے ہیں۔ اس کے باوجود الرّحمن اسے سب کچھ عنایت کیے جا رہا ہے۔ یہ اسے ماننے کی بجائے کہتے ہیں کہ ہم الرّحمن کو نہیں جانتے اور نہ اسے سجدہ کریں گے۔ سورۃ کے آخر میں الرحمن کو ماننے والے بندوں کی صفات کا ذکر کیا گیا۔ جو کسی قسم کی اکڑ پھکڑ نہیں کرتے رات کو اٹھ کر اپنے رب سے معافی طلب کرتے ہیں، اس کے دیے ہوئے کوا للّوں تللّوں میں ضائع نہیں کرتے ان کی چال وافعال اور معاملات میں اعتدال ہوتا ہے وہ برائی اور لغویات سے پرہیز کرتے ہیں۔ اپنے رب کی آیات اور نشانیوں پر غور کرتے ہیں۔ اپنی بیویوں اور اولاد کا سکون مانگتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں جنت الفردوس میں داخل فرمائے گا۔ جس میں ان کا شاندار استقبال کیا جائے گا اور یہ ہر قسم کا آرام پائیں گے۔ الفرقان
1 فہم القرآن اس سورۃ مبارکہ کی ابتدا ” تَبَارَکَ الَّذِیْ““ کے الفاظ سے ہوتی ہے جس میں جلال کے ساتھ کمال بھی پایا جاتا ہے۔ تَبَارَکَ سُپرڈگری کا صیغہ ہے۔ جس کا معنٰی ہے ہر اعتبار سے بلندوبالا ذات جو لوگوں کی دعاؤں اور امیدوں سے بڑھ کر فائدہ پہنچانے والی ہے۔ سورۃ کی ابتدا میں قرآن مجید کے لیے دو الفاظ استعمال کیے گئے ہیں یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کیا گیا ہے اور دلائل اور برھان کے حوالے سے حق اور باطل، کھرے اور کھوٹے میں تمیز کردینے والی کتاب ہے۔ اسے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندے حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات اطہر پر نازل فرمایا تاکہ آپ مجرموں کو ان کے برے انجام سے ڈرائیں۔ قرآن مجید میں نبی آخر الزماں (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کا تعارف کرواتے ہوئے کئی بار یہ حقیقت واضح کی ہے کہ آپ کی نبوت کا دو لفظی پیغام یہ ہے کہ آپ حقیقی ایمان اور صالح کردار رکھنے والوں کو خوشخبری دینے والے ہیں کفار، مشرکین اور جرائم پیشہ لوگوں کو ان کے انجام سے ڈرانے والے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی قرآن مجید نے یہ حقیقت بھی بارہا دفعہ بتلائی ہے کہ آپ کی نبوت کسی خاص دور، مخصوص قوم اور قبیلہ کے لیے نہیں بلکہ آپ قیامت تک کے لیے رسول بنائے گئے ہیں جس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ آپ کا پیغام پوری دنیا میں پہنچے گا۔ (عَنْ أَبِی ذَرٍّ قَالَ قَالَ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) أُعْطِیْتُ خَمْسًا لَمْ یُعْطَہُنَّ أَحَدٌ قَبْلِی بُعِثْتُ إِلَی الْأَحْمَرِ وَالْأَسْوَدِ وَجُعِلَتْ لِیَ الْأَرْضُ طَہُورًا وَمَسْجِدًا وَأُحِلَّتْ لِیَ الْغَنَاءِمُ وَلَمْ تَحِلَّ لِأَحَدٍ قَبْلِی وَنُصِرْتُ بالرُّعْبِ فَیُرْعَبُ الْعَدُوُّ وَہُوَ مِنِّی مَسِیْرَۃَ شَہْرٍ وَقِیلَ لِیْ سَلْ تُعْطَہْ وَاخْتَبَأْتُ دَعْوَتِیْ شَفَاعَۃً لِأُمَّتِی فَہِیَ نَاءِلَۃٌ مِنْکُمْ إِنْ شَاء اللّٰہُ تَعَالَی مَنْ لَّمْ یُشْرِکْ باللّٰہِ شَیْءًا قَالَ الْأَعْمَشُ فَکَانَ مُجَاہِدٌ یَرٰی أَنَّ الْأَحْمَرَ الْإِنْسُ وَالْأَسْوَدَ الْجِنُّ) [ رواہ احمد : مسند ابی ذر ] ” حضرت ابوذر (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ مجھے پانچ ایسی چیزیں عنایت کی گئی ہیں جو مجھ سے پہلے کسی نبی کو عطا نہیں کی گئیں۔ ١۔ مجھے اللہ تعالیٰ نے ہر کالے اور گورے کے لیے رسول بنایا ہے۔ ٢۔ میرے لیے ساری زمین سجدہ گاہ بنادی گئی ہے۔ ٣۔ میرے لیے مال غنیمت حلال کیا گیا ہے جبکہ مجھ سے پہلے کسی رسول کے لیے حلال نہیں تھا۔ ٤۔ میری رعب کے ذریعے مدد فرمائی گئی ہے اس وجہ سے دشمن ایک مہینہ کی مسافت پر ہونے کے باوجود مجھ سے لرزاں رہتا ہے۔ ٥۔ مجھے قیامت کے دن کہا جائے گا مانگ عطا کیا جائے گا اور تیری امت کے حق میں تیری شفاعت قبول کی جائے گی۔ جس نے اللہ کے ساتھ شرک نہ کیا ہوگا اس کو میری شفاعت فائدہ دے گی۔“ (لَیَبْلُغَنَّ ھٰذَا الْأَمْرُ مَا بَلَغَ اللَّیْلُ وَالنَّھَارُوَلَایَتْرُکُ اللّٰہُ بَیْتَ مَدَرٍ وَّلَا وَبَرٍإِلَّا أَدْخَلَہُ اللّٰہُ ھٰذَا الدِّیْنَ) [ مسند أحمد : کتاب مسند الشامیین، باب حدیث تمیم الداری] ” یہ دین ہر صورت وہاں تک پہنچے گا جہاں رات کی تاریکی اور دن کی روشنی پہنچتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہر شہر اور بستی کے ہر گھر میں اس دین کو داخل فرما دے گا۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ کی ذات ہر اعتبار سے بابرکت ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کو اپنے بندے حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل فرمایا ہے۔ ٣۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کفار، مشرکین اور مجرمین کو ان کے برے انجام سے ڈرانے کے لیے بھیجے گئے ہیں۔ تفسیر بالقرآن آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عالمگیر نبوت کے چند دلائل : ١۔ اے رسول اعلان فرمائیں کہ ” اللہ“ نے مجھے تمام لوگوں کے لیے رسول منتخب فرمایا ہے۔ (الاعراف : ١٥٨) ٢۔ رسول اللہ پوری دنیا کے رسول ہیں۔ (سباء : ٢٨) ٣۔ رسول اللہ مبشر اور نذیر ہیں۔ (الاحزاب : ٤٥) ٤۔ رسول اللہ پوری دنیا کے لیے رحمت عالم ہیں۔ (الانبیاء : ١٠٧) ٥۔ رسول اللہ خاتم النبیین ہیں۔ (الاحزاب : ٤٠) الفرقان
2 فہم القرآن ربط کلام : آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سب سے پہلے لوگوں کو شرک کے انجام، مضمرات سے ڈرایا اور بتلایا کہ اللہ تعالیٰ اپنی ذات اور صفات کے اعتبار سے وحدہ لا شریک ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ساتھ اس لیے بھی شرک نہیں کرنا چاہیے کیونکہ وہ اکیلا ہی زمینوں آسمانوں کا مالک ہے اس کی نہ کوئی اولاد ہے اور نہ ہی اس کی بادشاہی میں کوئی کسی اعتبار سے سھیم اور شریک ہے۔ اس نے ہر چیز کو پیدا کیا اور پھر ٹھیک ٹھیک اس کا اندازہ مقرر فرمایا۔ اس مختصر آیت میں چار طویل ترین مضامین کا احاطہ کیا گیا ہے۔1 زمین و آسمان کی بادشاہی صرف ایک اللہ کے لیے ہے۔ زمین و آسمانوں کی بادشاہی سے مراد جو کچھ بھی ان کے درمیان ہے وہسب کا سب اللہ تعالیٰ کی ملکہے اور اس پر اسی کی حکومت ہے۔2 اللہ تعالیٰ کی اولاد نہیں اور نہ ہی اسے اولاد کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ کے اولاد سے بے نیاز ہونے کے قرآن مجید میں درجنوں دلائل دیے گئے ہیں۔ اس نے جن، انس، ملائکہ اور اپنی مخلوق میں کسی کو نہ بیٹا بنایا ہے اور نہ ہی اس کی کوئی بیٹی ہے۔ سورۃ اخلاص میں یہ بھی ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی ذات کو نہ کسی نے پیدا کیا ہے اور نہ ہی اس سے کوئی چیز پیدا ہوئی ہے۔3 زمین و آسمانوں اور جو کچھ ان میں ہے ان پر صرف ایک اللہ کی بادشاہی ہے نہ کائنات کی تخلیق کے وقت کوئی اس کا شریک تھا اور نہ ہی اس نے کسی کو ان میں شریک بنایا ہے 4 اس نے ناصرف ہر چیز کو پیدا کیا ہے بلکہ ہر چیز کو پیدا کرنے کے بعد اس کی شکل وصورت، قدوقامت، خوراک اور ماحول یہاں تک کہ اس کے ذمہ وہی کام لگایا گیا ہے جو اس کے لائق تھا آپ مخلوق میں سے کسی چیز کو اس کی شکل وصورت اور قدوقامت کے حوالے سے ملاحظہ فرمائیں کہ تربوز کی بیل اتنا بڑا پھل اٹھانے کی سکت نہیں رکھتی تھی اس لیے اسے زمین پر بچھا دیا گیا۔ آم کا درخت تربوز سے وزنی آم اٹھا سکتا تھا لیکن اتنا بڑا آم اگر درخت کے نیچے بیٹھے شخص کے سر پر گرجائے تو اس کا کیا حشر ہوتا۔ گھوڑے نے شاہسوار کو لیکر دوڑنا تھا اس کے مطابق ہی اس کے وجود میں سرعت اور طاقت رکھ دی گئی۔ اونٹ نے صحراؤں کے اندر چلنا اور باربرداری کا کام کرنا تھا اس کے وجود کو اسی انداز کا بنایا۔ تاکہ وہ کئی کئی دن بھوکا پیاسا رہ کر سفر کرتا رہے علی ھذ القیاس، اللہ تعالیٰ نے جو کچھ پیدا کیا ہے وہ اپنی ہیئت اور ذمہ داری کے حوالے سے ٹھیک ٹھیک پیدا کیا ہے۔ پھول کو دیکھیے کہ وہ اپنے وجود میں گلدستہ کی ترتیب لیے ہوئے ہے کیا مجال ہے کہ پھول میں کوئی پتی ایک حد سے بڑھی ہوئی دکھائی دیتی ہو۔ انسان اپنے آپ پر غور کرے کہ ذات کبریا نے اسے پیدا فرما کر کس طرح اسے متوازن اعضاء عطا فرمائے اگر کسی انسان کے کان ہی اس کی عمر کے مطابق بڑھتے جائیں تو وہ انسان کس قدر خوفناک شکل اختیار کر جائے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ کا کرشمہ ہے کہ اس نے انسان ہی نہیں بلکہ اس نے ہر چیز کے اعضاء خوبصورت اور متوازن پیدا فرمائے ہیں۔ اسی لیے فرمایا ہے کہ اس نے ہر چیز کو پیدا کیا اور پھر اس نے ہر چیز کا ٹھیک ٹھیک انداز مقرر فرمایا۔ 1 کان تو ایک طرف اگر ہاتھ کی ایک انگلی ہی انسان کی عمر کے ساتھ ساتھ لمبی ہوجائے تو ناصرف پورے کا پورا ہاتھ بیکار ہوگا بلکہ انسان کے لیے اپنا ہاتھ بند کرنا ہی ناممکن ہوجائے گا۔ اسی طرح ناک کو سامنے رکھیں اگر انسان کی ناک لمبی بنا دی جاتی تو اس کی ناصرف شکل ہی خوفناک ہوتی بلکہ اس کے لیے کھانا پینا ہی مشکل ہوجاتا۔ مسائل ١۔ صرف اللہ ہی زمین و آسمانوں کا بادشاہ ہے۔ ٢۔ زمین و آسمانوں کی بادشاہی میں اللہ تعالیٰ کا کوئی شریک نہیں۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ نے مخلوق میں سے کسی چیز کو اپنی اولاد نہیں بنایا۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کو متوازن پیدا فرمایا ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ ہی ہر چیز کو پیدا کرنے والاہے : ١۔ اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں اور زمین و آسمانوں کو پیدا فرمایا۔ (البقرۃ: ٢١۔ ٢٢) ٢۔ اللہ نے انسان کو مٹی سے پیدا کیا۔ (الروم : ٢٠) ٣۔ اللہ ہی نے انسان کو بڑی اچھی شکل و صورت میں پیدا فرمایا۔ (التین : ٤) ٤۔ اللہ تعالیٰ نے نباتات پیدا فرمائی۔ ( الانعام : ١٠٠) ٥۔ اللہ تعالیٰ نے سمندر کے پانی کے درمیان پردہ حائل کیا۔ ( الفرقان : ٥٣) ٨۔ اللہ ہر چیز کو پیدا کرنے والا ہے اسی کی عبادت کرو اور وہ ہر چیز پر کارساز ہے۔ (آل عمران : ١٠٢) الفرقان
3 فہم القرآن ربط کلام : جب اللہ تعالیٰ نے کسی کو اپنی بادشاہی میں شریک نہیں کیا اور نہ ہی اس نے کسی کو اپنی اولاد بنایا ہے پھر دوسروں کو اس کا شریک سمجھنا اور بنانے کا کیا مقصد؟ شرک کرنے والے کے ذہن میں کسی نہ کسی حد تک یہ بات ضرور ہوتی ہے کہ فلاں زندہ یا فوت شدہ شخصیت۔ اللہ کے ہاں اتنی معتبر ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے احترام اور مقام کی وجہ سے اس کی بات مسترد نہیں کرسکتا۔ اسی تصور کے پیش نظر ہر دور میں لوگوں نے ملائکہ، جنات، انبیاء میں سے کچھ شخصیات کو اللہ تعالیٰ کا بیٹا قرار دیا۔ مقصد یہ ہے کہ جس طرح باپ اپنی اولاد کی محبت اور تعلق کی بنیاد پر اولاد کی بات مسترد نہیں کرتا۔ اللہ تعالیٰ بھی اپنی اولاد کی سفارش رد نہیں کرتا۔ جس طرح اولاد اپنے باپ کی جائیداد میں حصہ دار ہوتی ہے اسی طرح یہ شخصیات اللہ کے اختیارات میں شریک ہیں۔ اس عقیدہ کی ٹھوس دلائل کی بنیاد پر نفی کی گئی ہے۔ جن کو حاجت روا، مشکل کشا، داتا ودستگیر سمجھ کر بلایا اور پکارا جاتا ہے انہوں نے کوئی چیز پیدا نہیں کی اور نہ ہی کچھ پیدا کرسکتے ہیں وہ تو خود پیدا کیے گئے ہیں۔ مخلوق ہونے کے حوالے سے وہ اپنے رب کے سامنے بے بس اور مجبور ہیں اس حد تک بے بس اور مجبور ہیں۔ کہ وہ اپنے نفع ونقصان کا اختیار نہیں رکھتے اور نہ ہی اپنی موت وحیات اور مرنے کے بعد جی اٹھنے کا اختیار رکھتے ہیں اور نہ کسی کو اس کی موت کے بعد اٹھا سکتے ہیں۔ مر کر جی اٹھنے کا علم تو بڑی دور کی بات ہے انسان کتنا ہی صالح اور نیک کیوں نہ ہو اسے گہری نیند میں اتنی بھی خبر نہیں ہوتی کہ نیند کے دوران اس کے آس پاس کیا ہوتا رہا ہے۔ جو لوگ من دون اللہ یا اللہ تعالیٰ کے سوا کے الفاظ سے مغالطہ دیتے ہیں کہ اس سے مراد بت ہیں۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا بتوں کے بارے میں کوئی آیت اور دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں قیامت کے دن پیدا کرے گا؟ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعا اور عقیدہ : (عَنْ وَرَّادٍ مَوْلَی الْمُغِیرَۃِ بْنِ شُعْبَۃَ قَالَ کَتَبَ مُعَاوِیَۃُ (رض) إِلَی الْمُغِیرَۃِ اُکْتُبْ إِلَیَّ مَا سَمِعْتَ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَقُولُ خَلْفَ الصَّلَاۃِ فَأَمْلٰی عَلَیَّ الْمُغِیرَۃُ قَالَ سَمِعْتُ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَقُولُ خَلْفَ الصَّلَاۃِ لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہُ لَا شَرِیکَ لَہُ اللَّہُمَّ لَا مَانِعَ لِمَا أَعْطَیْتَ وَلَا مُعْطِیَ لِمَا مَنَعْتَ وَلَا یَنْفَعُ ذَا الْجَدِّ مِنْکَ الْجَدُّ) [ رواہ البخاری : کتاب القدر، باب لامانع لما اعطی اللہ] ” مغیرہ بن شعبہ کے غلام وراد کہتے ہیں معاویہ نے مغیرہ (رض) کی جانب لکھا کہ مجھے لکھ کر بھیجئے۔ جو نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نماز کے بعد آپ سنا کرتے تھے۔ حضرت مغیرہ (رض) نے مجھ سے لکھوایا کہ میں نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نماز کے بعد یہ الفاظ کہتے ہوئے سنا۔ اللہ کے علاوہ کوئی معبود بر حق نہیں وہ ایک ہی ہے اس کا کوئی شریک نہیں اے اللہ جسے تو دینا چاہتا ہے اسے کوئی نہیں روک سکتا اور جس سے تو روک لے اسے کوئی دینے والا نہیں۔ تیرے ہاں کسی بڑے کی بڑائی کوئی فائدہ نہیں دے سکتی۔“ مسائل ١۔ مشرک انہیں معبود مانتے ہیں جنہوں نے کچھ پیدا نہیں کیا۔ ٢۔ تمام مخلوقات کو پیدا کرنے والا ” اللہ“ ہے۔ ٣۔ اللہ کے سوا کوئی نفع ونقصان کا مالک نہیں۔ ٤۔ اللہ کے سوا کوئی کسی کو موت دینے کا اختیار نہیں رکھتے۔ ٥۔ اللہ کے سوا کوئی کسی کو زندگی نہیں دے سکتا۔ ٦۔ اللہ کے سوا کوئی کسی کو زندہ نہیں کرسکتا۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ کے سوا کسی نے کچھ پیدا نہیں کیا، اور نہ ہی کسی کو کوئی اختیار حاصل ہے : ١۔ جن کو تم اللہ کے سوا پکارتے ہو وہ کوئی چیز پیدا نہیں کرسکتے وہ تو خود پیدا کیے گئے ہیں۔ (النحل : ٢٠) ٢۔ کیا تم ان کو شریک بناتے ہو؟ جنہوں نے کوئی چیز پیدا نہیں کی وہ تو خود پیدا کیے گئے ہیں۔ (الاعراف : ١٩١) ٣۔ انہوں نے ان کو معبود بنا لیا جنہوں نے کوئی چیز پیدا نہیں کی تو وہ خود مخلوق ہیں۔ (الفرقان : ٣) ٤۔ بے شک جن لوگوں کو تم اللہ کے سوا پکارتے ہو وہ مکھی بھی نہیں پیدا کرسکتے اگرچہ سب کے سب جمع ہوجائیں۔ (الحج : ٧٣) ٥۔ کیا یہ لوگ بغیر کسی چیز کے پیدا ہوگئے ہیں یا اپنے آپ کو خود پیدا کرنے والے ہیں ؟ (الطور : ٣٥) ٦۔ تمام مخلوق اللہ کی ہے۔ اللہ کے سوا کسی نے کچھ پیدا کیا ہے تو مجھے دکھاؤ۔ ( لقمان : ١١) الفرقان
4 فہم القرآن ربط کلام : عقیدہ توحید کے مختصر دلائل کے بعد قرآن مجید پر اٹھنے والے اعتراضات کا مختصر جواب۔ اہل مکہ کی بوکھلاہٹ کا عالم یہ تھا کہ وہ ایک ہی مجلس اور موقعہ پر کئی قسم کے قرآن مجید پر اعتراض اور سوالات اٹھاتے تھے ایک لمحہ ان کا الزام تھا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی طرف سے عبارات بنا کر قرآن کی آیات کی شکل میں ہمارے سامنے پیش کرتا ہے۔ دوسرے لمحہ میں کہتے کہ قرآن بنانے میں اس کے اور لوگ بھی معاون ومددگار ہیں۔ تیسرے لمحہ ان کی زبان پر یہ الزام ہوتا کہ یہ قرآن تو پہلے لوگوں کی کہانیاں ہیں جو اسے لکھوائی جاتی ہیں اور یہ صبح وشام ہمارے سامنے پڑھ دیتا ہے۔ اہل مکہ کی دریدہ دھنی حد سے گزر چکی تھی جس وجہ سے وہ کسی ایک بات اور الزام پر اکتفا نہیں کرتے تھے۔ ان کے پراپیگنڈہ کا مرکزی نکتہ یہ تھا کہ کسی نہ کسی طریقہ سے قرآن مجید کے بارے میں لوگوں کا ذہن اس قدر الجھا دیا جائے کہ وہ اس کی طرف توجہ نہ کرسکیں اس لیے کبھی اسے جھوٹ کا پلندہ اور کبھی پہلے لوگوں کے قصے کہانیاں قرار دیتے تھے۔ جہاں تک ان کے اس الزام کا تعلق ہے کہ چند لوگ ہیں جو آپ کی معاونت کرتے ہیں آپ لکھ کر اسے قرآن مجید کی شکل میں ہمارے سامنے پیش کرتے ہیں۔ یہ ایسا الزام ہے جس میں ایک حرف کی بھی سچائی نہیں ہے کیونکہ جن لوگوں کا وہ نام لیتے تھے وہ تو انہی کے زرخرید غلام اور پرلے درجے کے ان پڑھ تھے۔ سب کو معلوم تھا کہ یہ الزام برائے الزام کے سوا کچھ نہیں جہاں تک اس الزام کا تعلق ہے کہ آپ ان لوگوں سے سیکھنے کے بعد اپنے ہاتھ سے لکھ کر لوگوں سامنے قرآن بنا کر پیش کرتے ہیں۔ یہ الزام پہلے الزام سے بھی بڑھ کر دیوالیہ پن کا مظہر تھا کیونکہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے زندگی بھر اپنے ہاتھ سے ایک لفظ بھی تحریر نہیں کیا۔ (العنکبوت : ٤٨) اہل مکہ کی ہرزہ سرائی اور دریدہ دھنی کو درخور اعتنا نہ سمجھنے کی وجہ سے صرف اتنا جواب دیا گیا ہے کہ اے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) انہیں فرمائیں کہ اس قرآن کو اس ذات کبریا نے نازل فرمایا ہے جو زمین و آسمان کے راز جانتا ہے وہ تمہاری ہرزہ سرائی اور نیّت سے خوب واقف ہے۔ اس کے باوجود تمہیں مہلت دئیے جا رہا ہے کہ تم غور کرو اور تائب ہوجاؤ۔ یقیناً اللہ تعالیٰ ہر گناہ معاف کرنے اور مہربانی فرمانے والاہے۔ مسائل ١۔ اہل مکہ قرآن مجید کو جھوٹ اور پہلے لوگوں کے قصہ کہانیاں قرار دیتے تھے۔ ٢۔ اہل مکہ قرآن مجید کو آپ کی خود نوشت کتاب کہتے تھے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ باربار انسان کو توبہ کا موقعہ دیتا ہے کیونکہ وہ معاف کرنے دینے والا مہربان ہے۔ تفسیر بالقرآن قرآن مجید پر کفار کے الزامات اور ان کا جواب : ١۔ ہم جانتے ہیں کہ یہ کہتے ہیں آپ کو تو ایک آدمی سکھا جاتا ہے۔ (النحل : ١٠٣) ٢۔ انہوں نے کہا قرآن تو پہلے لوگوں کے قصے کہانیاں ہیں۔ (الفرقان : ٥) ٣۔ انہوں کہا یہ تو اثر کرنے والا جادو ہے۔ (المدثر : ٢٤) ٤۔ فرما دیجیے جن و انس اکٹھے ہو کر اس قرآن جیسا قرآن لے آئیں۔ (بنی اسرائیل : ٨٨) ٥۔ فرما دیجیے دس سورتیں اس جیسی لے آؤاور اللہ کے سوا جن کو بلا سکتے ہو بلا لو۔ (ہود : ١٣) ٦۔ فرما دیجیے ایک سورۃ اس جیسی لے آؤ اور جن کو بلانا چاہتے ہو بلالو۔ (یونس : ٣٨) الفرقان
5 الفرقان
6 الفرقان
7 فہم القرآن ربط کلام : کفار کا قرآن مجید پر اعتراضات کرنے کے بعد سروردو عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات پر اعتراضات۔ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات اطہر پر اہل مکہ کو یہ بھی اعتراض تھا کہ یہ کیسا رسول ہے جو کھانا کھاتا ہے اور بازاروں میں چلتا پھرتا ہے اس کے ساتھ فرشتہ کیوں نہیں اتارا گیا؟ جو اس کی بات نہ ماننے والوں کو ڈرا دھما کر اس کی رسالت منواتا۔ یہاں تک ان لوگوں کا رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر یہ اعتراض کہ آپ انسان ہونے کے ناطے سے کھانے پینے کے محتاج تھے اور سودا سلف کے لیے بازار جاتے یہ ایسا بوسیدہ اور قدیم ترین اعتراض ہے جو ہزاروں سال پہلے حضرت نوح (علیہ السلام) پر بھی کیا گیا۔ قرآن مجید نے اس اعتراض کا یہ جواب دیا ہے کہ کیوں نہیں آپ سے پہلے جتنے پیغمبر مبعوث کئے گئے وہ سب کے سب کھانے پینے والے انسان تھے انبیاء واضح الفاظ میں اس بات کا اعتراف کرتے کہ لوگو! انسانی حاجات کے حوالے سے ہم بھی تمہارے جیسے انسان ہیں لیکن ہمارا امتیاز یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہم پر احسان فرمایا اور لوگوں تک اپنا پیغام پہنچانے کے لیے ہمارا انتخاب کیا ہے (ابراہیم : ١١) جہاں تک دوسرے اعتراض کا تعلق ہے کہ اس کے ساتھ ایک فرشتہ ہونا چاہیے تھا جو شخص آپ کی رسالت کا انکار کرتا فرشتہ اسے ڈرا دھما کر آپ کی رسالت ماننے پر مجبور کردیتا۔ یہ بات دو اعتبار سے غلط ہے ایک تو اس لحاظ سے کہ اللہ تعالیٰ نے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت کو جبراً منوانا پسند نہیں فرمایا۔ دوسرا سبب یہ ہے کہ اگر رسول کی تائید کے لیے فرشتہ بھیجا جاتا تو پھر اس قوم کو مہلت نہ دی جاتی۔ انکار کرنے پر قوم کا صفایا کردیا جاتا ہے۔ مسائل ١۔ رسالت مآب (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر کفار بیہودہ قسم کے اعتراضات اٹھایا کرتے تھے۔ ٢۔ تمام انبیاء کرام (علیہ السلام) انسان تھے اور انسان ہونے کی وجہ سے وہ کھاتے، پیتے، بازار سے سودا سلف لاتے اور کام، کاج کرتے تھے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ نے کسی پیغمبر کی رسالت کو جبری طور پر نہیں منوایا۔ ( تمام انبیاء کرام بشر تھے اسی سورت کی آیت ٢٥ کی تفسیر بالقرآن ملاحظہ فرمائیں۔) الفرقان
8 فہم القرآن ربط کلام : رسالت مآب (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر کفار کے مزید اعتراضات رسالت مآب (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں کفار یہ بھی ہرزاسرائی کرتے کہ یہ تو مالی اعتبار سے غریب آدمی ہے اگر واقعی یہ اللہ کا منتخب اور پسندیدہ نبی ہوتا تو اس کے پاس مال ودولت کی فراوانی ہونا چاہیے تھی۔ نقدی ناسہی کم از کم اس کے پاس کوئی ایسا باغ ہوتا جس سے خود کھاتا اور اپنے بال بچوں کو کھلاتا۔ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی غربت کا بہانہ بنا کر وہ لوگ آپ کی رسالت کا انکار کرتے تھے۔ قرآن مجید نے اس سوال کا جواب دینا اس لیے مناسب نہیں سمجھا کیونکہ دولت انسان کے شرف کا معیار نہیں ہے پھر کفار مسلمانوں کو یہ کہہ کر پھسلانے کی کوشش کرتے کہ یہ ایسا شخص ہے جس کو جادو ہوچکا ہے۔ جس بناء پر ایسی باتیں کرتا ہے جس کو عقل تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔ کفار کی ان باتوں کا قرآن مجید نے متعدد مقامات پر جواب دیا ہے اس لیے یہاں ان کا یہی جواب مناسب سمجھا گیا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) غور فرمائیں کہ یہ لوگ آپ سے کس قسم کی توقعات اور آپ کے بارے میں کیسی باتیں کرتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ نہیں کہ یہ ایمان لانے کے لیے مخلص ہیں۔ بلکہ ان کا مقصد ہے کہ لوگوں کو آپ سے دور کردیں۔ جس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ یہ خود گمراہ ہوچکے ہیں۔ اب ہدایت کی طرف آنے کی ان میں استعداد ختم ہوچکی ہے۔ الفرقان
9 الفرقان
10 فہم القرآن ربط کلام : کفار کے مطالبہ کا جواب۔ کفار نے محض حجت بازی کے لیے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر یہ اعتراض کیا تھا کہ اگر آپ واقعی ہی اللہ کے رسول ہیں تو پھر آپ کے لیے ایسا باغ ہونا چاہیے جو اپنے پھل سے بھرا ہوا ہو۔ اس کا جواب یہ دیا گیا کہ اللہ تعالیٰ بڑی بابرکت ذات ہے اگر وہ چاہے تو آپ کے لیے کفار کے مطالبہ سے کئی گنا بہتر آپ کو باغ عنایت فرما دے جس کے نیچے نہریں چل رہی ہوں یا اللہ تعالیٰ چاہے تو آپ کو اتنا مال عنایت کرے کہ جس سے آپ بڑے بڑے محلات تیار کرسکیں۔ لیکن اللہ نے آپ کے لیے یہی پسند فرمایا ہے کہ آپ لوگوں کے لیے بہترین نمونہ بنیں نہ کہ لینڈ لارڈ ور سرمایہ دار کے طور پر۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب کو یہ اختیار دیا تھا کہ چاہیں تو بادشاہ نبی بن جائیں اگر چاہیں عبد اور اس کے رسول نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حکمران نبی بننے کی بجائے اللہ کا بندہ اور رسول بننا پسند فرمایا تھا۔ ” حضرت عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اے عائشہ ! اگر میں چاہتا تو سونے کے پہاڑ میرے ساتھ ہوتے میرے پاس ایک فرشتہ آیا جس کی کمر کی لمبائی کعبہ کے برابر تھی۔ اس نے کہا کہ آپ کا رب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سلام کہتا ہے اور فرماتا ہے کہ آپ عاجز انسان کی حیثیت سے نبی بننا چاہتے ہیں یا بادشاہ کی طرح۔ میں نے جبرائیل کی طرف دیکھا تو اس نے مجھے اشارہ کیا کہ اپنے آپ کو اختیار کیجئے ! تو میں نے کہا کہ عاجز انسان کی حیثیت سے نبی بننا چاہتا ہوں۔ سیدہ عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کے بعد ٹیک لگا کر کھانا نہیں کھایا آپ فرمایا کرتے تھے میں عاجز آدمی کی طرح کھانا کھانا اور بیٹھنا پسند کرتا ہوں۔“ [ رواہ فی شرح السنۃ: باب تواضعہ] مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ کی ذات بڑی بابرکت ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ چاہتا تو اپنے نبی کو باغات اور محلات عنایت فرماتا۔ الفرقان
11 فہم القرآن ربط کلام : کفار کے مطالبہ کا دوسرا جواب۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے کفار اس لیے مطالبات پیش کرتے تھے کہ آپ کو الجھایا اور لوگوں کے سامنے لاجواب کیا جائے۔ ان کے مطالبے کی حقیقت یوں بیان کی گئی ہے کہ اے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کے مطالبات اور اعتراضات کا یہ مقصد نہیں کہ وہ آپ پر ایمان لانا چاہتے ہیں۔ ہرگز نہیں بلکہ ان کا مقصد یہ ہے کہ وہ آپ کو الجھائیں اور آپ کو لوگوں کے سامنے لا جواب کریں انہوں نے یہ وطیرہ اس لیے اختیار کر رکھا ہے کہ یہ قیامت کو جھٹلا تے ہیں اگر ان کا قیامت پر ایمان ہوتا تو آپ نے جس قدر ان کو سمجھایا ہے یہ آپ پر ایمان لے آتے۔ اب تو ان کے مطالبے کا یہی جواب ہے کہ جس شخص نے قیامت کو جھٹلایا اس کے لئے بھڑکتی ہوئی آگ ہے۔ ایسے لوگوں کو آگ دور سے دیکھے گی تو ان کو دیکھ کر آگ کے طیش اور جوش میں اضافہ ہوجائے گا جس وجہ سے آگ سے آوازیں نکلیں گی جو گدھے کی آواز کی مانند ہوں گی جہنم کی آگ کے لیے زَفِیْرًا کا لفظ استعمال کیا ہے زفیراً گدھے کی وہ آواز ہے کہ جب گدھا ہنہنانا ختم کرتا ہے تو اس کے سینے کی آواز بھی اس کے گلے کی آواز کے ساتھ شامل ہوتی ہے جو بڑی مکروہ اور خوفناک ہوتی ہے۔ جہنمی جہنم میں ڈالے جائیں گے تو انہیں آگ کی زنجیروں کے ساتھ جکڑ کر جہنم کی تنگ وادیوں سے گزارا جائے گا۔ جس سے گزرتے ہوئے ان کی ہڈیاں چکنا چور ہوجائیں گی جس کی وجہ سے وہ موت کو آواز پر آواز دینگے۔ ان کی حالت دیکھ کر جہنم کے فرشتے جھڑکیاں دیتے ہوئے انہیں کہیں گے کہ آج ایک موت نہیں بہت سی موتوں اور ہلاکتوں کو پکارو تمہیں کبھی موت نہیں آئے گی اب تم نے ہمیشہ اسی حالت میں رہنا اور چلاّنا ہے۔ مسائل ١۔ جہنمیوں کو دیکھ کر جہنم کی آگ میں جوش پیدا ہوجائے گا۔ ٢۔ جہنم کی آگ سے خوفناک قسم کی آوازیں نکلیں گی۔ ٣۔ جہنمیوں کو آگ کی زنجیروں میں جکڑ کر جہنم کی تنگ وادیوں میں گھسیٹا جائے گا۔ ٤۔ جہنمی موت کو آواز دیں گے لیکن انہیں کبھی موت نہیں آئے گی۔ تفسیر بالقرآن جہنمیوں کی آہ زاریاں : ١۔ اے ہمارے رب ہمیں تھوڑی دیر کے لیے مہلت دے ہم تیری دعوت کو قبول اور تیرے رسول کی بات کو تسلیم کریں گے۔ (ابراہیم : ٤٤) ٢۔ جہنمی کہیں گے اے اللہ ہم نے دیکھ لیا اور سن لیا اب ہم کو واپس لوٹا دے۔ (السجدۃ: ١٢) ٣۔ اے ہمارے پروردگار ہمیں یہاں سے نکال ہم پہلے سے نیک عمل کریں گے۔ (الفاطر : ٣٧) ٤۔ اے ہمارے رب! ہمیں یہاں سے نکال اگر دوبارہ ایسا کریں تو بڑے ظالم ہوں گے۔ (المومنون : ١٠٧) الفرقان
12 الفرقان
13 الفرقان
14 الفرقان
15 فہم القرآن ربط کلام : کفار کو ان کے انجام سے آگاہ کرنے کے بعد ان سے ایک سوال کیا گیا ہے۔ کفار کو ان کا خوفناک انجام بتلانے کے بعد استفسار کے انداز میں بتلایا گیا ہے کہ اے کفر کرنے والو ! بتلاؤ کہ جہنم کی سزائیں اور ہولناکیاں بہتر ہیں یا ہمیشہ رہنے والی جنت بہتر ہے جس کا وعدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے متقی بندوں کے ساتھ کر رکھا ہے جواجر اور رہنے کے اعتبار سے بہترین مقام ہے متقین اس جنت میں جو چاہیں گے سو پائیں گے یہ اللہ تعالیٰ کا ایسا وعدہ ہے جو پورا ہو کر رہے گا ظاہر بات ہے کہ جنت ہی بہترین مقام اور رہنے کی جگہ ہے۔ جنت اور جہنم : (وَعَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اِنَّ اَوَّلَ زُمْرَۃٍ یَدْخُلُوْنَ الْجَنَّۃَ عَلٰی صُوْرَۃِ الْقَمَرِ لَیْلَۃَ الْبَدْرِ ثُمَّ الَّذِیْنَ یَلُوْنَھُمْ کَاَشَدِّ کَوْکَبٍ دُرِّیٍٍٍٍّ فِیْ السَّمَاءِ اِضَاءَ ۃً قُلُوْبُھُمْ عَلٰی قَلْبِ رَجُلٍ وَّاحِدٍ لَا اخْتِلَافَ بَیْنَھُمْ وَلَا تَبَاغُضَ لِکُلِّ امْرِیئ مِّنْھُمْ زَوْجَتَانِ مِنَ الْحُوْرِ الْعِیْنِ یُرٰی مُخُّ سُوْ قِھِنَّ مِنْ وَّرَاءِ الْعَظْمِ وَاللَّحْمِ مِنَ الْحُسْنِ یُسَبِّحُوْنَ اللّٰہَ بُکْرَۃً وَّعَشِیًّا لَایَسْقَمُوْنَ وَلَا یَبُوْلُوْنَ وَلَا یَتَغَوَّطُوْنَ وَلَایَتْفُلُوْنَ وَلَا یَمْتَخِطُوْنَ اٰنِیَتُھُمُ الذَّھَبُ وَالْفِضَّۃُ وَاَمْشَاطُھُمُ الذَّھَبُ وَوُقُوْدُ مَجَامِرِھِمُ الْاُلُوَّۃُ وَرَشْحُھُمُ الْمِسْکُ عَلٰی خَلْقِ رَجُلٍ وَّاحِدٍ عَلٰی صُوْرَۃِ اَبِیْھِمْ اٰدَمَ سِتُّوْنَ ذِرَاعًا فِیْ السَّمَاءِ) [ رواہ البخاری : باب قَوْلِ اللَّہِ تَعَالَی (وَإِذْ قَالَ رَبُّکَ لِلْمَلاَءِکَۃِ إِنِّی جَاعِلٌ فِی الأَرْضِ خَلِیفَۃً )] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جنت میں سب سے پہلے داخل ہونے والے چودھویں رات کے چاند کی طرح روشن ہوں گے۔ پھر جو ان کے بعد داخل ہونے والے، یہ آسمان پر بہت تیز چمکنے والے ستارے کی طرح ہوں گے۔ تمام جنتیوں کے دل ایک جیسے ہوں گے نہ ان کے درمیان اختلاف ہوگا اور نہ ہی ایک دوسرے سے بغض رکھیں گے۔ ان میں سے ہر شخص کے لیے حوروں میں سے دو بیویاں ہوں گی۔ جن کے حسن کی وجہ سے جن کی پنڈ لیوں کا گودا‘ ہڈی اور گوشت کے پیچھے دکھائی دے گا۔ اہل جنت صبح شام اللہ تعالیٰ کی تسبیح بیان کریں گے نہ وہ بیمار ہوں گے اور نہ ہی پیشاب کریں گے‘ نہ رفع حا جت کریں گے اور نہ ہی تھوکیں گے اور نہ ہی ناک سے رطوبت بہائیں گے ان کے برتن سونے چاندی کے ہوں گے۔ ان کی کنگھیاں سونے کی ہوں گی۔ ان کی انگیٹھیوں کا ایندھن عود ہندی ہوگا اور ان کا پسینہ کستوری کی طرح ہوگا۔ سب کا اخلاق ایک جیسا ہوگا نیز وہ سب شکل و صورت میں اپنے باپ آدم (علیہ السلام) کی طرح ہوں گے آدم کا قد ساٹھ ہاتھ لمبا تھا۔“ جہنم کی کیفیّت : (وَعَنِ ابْنْ مَسْعُوْدٍ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یُوؤتٰی بِجَھَنَّمَ یَوْمَءِذٍ لَھَا سَبْعُوْنَ اَلْفَ زِمَامٍ مَعَ کُلِّ زِمَامٍ سَبْعُوْنَ اَلْفَ مَلَکٍ یَّجُرُّوْنَھَا) [ رواہ مسلم : باب فِی شِدَّۃِ حَرِّ نَارِ جَہَنَّمَ وَبُعْدِ قَعْرِہَا وَمَا تَأْخُذُ مِنَ الْمُعَذَّبِینَ] ” حضرت ابن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ قیامت کے دن دوزخ کو لایا جائے گا اس کی ستر ہزار لگامیں ہوں گی اور ہر لگام کے ساتھ ستر ہزار فرشتے ہوں گے‘ جو اسے کھینچ کر لائیں گے۔“ مسائل ١۔ متقین کے رہنے کے لیے جنت بہترین مقام ہے۔ ٢۔ متقین جنت میں جو چاہیں گے پائیں گے۔ ٣۔ متقین کے ساتھ جنت کا وعدہ پورا ہو کر رہے گا۔ ٤۔ جہنم ہر اعتبار سے اذیّت ناک اور بدترین جگہ ہے۔ تفسیر بالقرآن جنت اور جہنم میں فرق کی ایک جھلک : ١۔ قیامت کے دن نیک لوگوں کے چہروں پر ذلت اور نحوست نہ ہوگی۔ وہ ہمیشہ جنت میں رہیں گے۔ (یونس : ٢٦) ٢۔ برے لوگوں کے چہروں پر ذلت چھائی ہوگی انہیں اللہ سے کوئی نہیں بچا سکے گا۔ (یونس : ٢٧) ٣۔ مومنوں کے چہرے تروتازہ ہوں گے (القیامۃ : ٢٢) ٤۔ کفار کے چہرے بگڑے ہوں ہو گے۔ (الحج : ٧٢) ٥۔ مومنوں کے چہرے خوش و خرم ہوں گے (عبس : ٣٨) ٦۔ کفار کے چہروں پر گردو غبار ہوگا۔ (عبس : ٤٠) الفرقان
16 الفرقان
17 فہم القرآن ربط کلام : جہنمیوں کے جہنم میں داخل ہونے کا ایک سبب شرک ہے اس لیے مشرک کا انجام ذکر کیا جاتا ہے۔ شرک کرنے والا شخص حقیقی عقل کھو بیٹھتا ہے جس وجہ سے اسے اس بات کی سمجھ نہیں آتی کہ جس کو میں اللہ تعالیٰ کی ذات یا اس کے اختیارات میں شریک کررہا ہوں اس کی اپنی حیثیت کیا ہے اس بے عقلی کی وجہ سے مشرک اللہ کے ان بندوں کو بھی رب کے اختیارات میں شریک سمجھتے ہیں جو زندگی بھرشرک کی مخالفت کرتے رہے۔ ان میں سرفہرست انبیاء کرام (علیہ السلام) نیک علماء اور صلحاء لوگ شامل ہیں۔ لیکن جب یہ لوگ دنیا سے کوچ کر گئے تو مشرکوں نے اپنے مفاد کی خاطر انہیں بھی اللہ تعالیٰ کا شریک ٹھہرالیا۔ ان کی قبروں پر عرس اور میلے لگائے، حاجت روا اور مشکل کشا سمجھ کر ان کے سامنے سجدے کیے اور ان کے سامنے اپنی حاجات پیش کرتے رہے یہی کام اور باتیں عبادت کا خلاصہ ہیں۔ عبادت کرنے والوں اور جن کی عبادت کی جاتی تھی انہیں قیامت کے دن اکٹھا کرکے اللہ تعالیٰ سوال کرے گا کہ کیا تم نے میرے بندوں کو گمراہ کیا تھا یا یہ خود ہی راہ ہدایت سے بھٹک گئے تھے؟ انبیاء کرام (علیہ السلام)، نیک علماء اور صلحاء حضرات اپنے رب کے حضور میں عرض کریں گے کہ بار الہا آپ تو ہر قسم کے شرک سے مبرّا ہیں۔ جہاں تک ہماری ذات کا معاملہ ہے ہمارے لیے یہ کیسے جائز تھا کہ ہم تیری عبادت کی طرف بلانے کے بجائے لوگوں کو اپنی یا دوسروں کی عبادت کرنے کا حکم دیتے۔ آپ نے انہیں اور ان کے باپ دادا کو دنیا کی زندگی اور اس کی نعمتیں عطا فرمائیں یہ لوگ شکر گزار بننے کی بجائے۔ تیری ذات اور احکام کو بھول گئے اور یہی لوگ ہلاک ہونے والے تھے۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) سے سوال : ” جب اللہ فرمائے گا اے عیسیٰ ابن مریم! اپنے آپ اور اپنی والدہ پر میری نعمت یاد کرو۔ جب میں نے روح پاک سے تیری مدد کی، تو گود میں اور ادھیڑ عمر میں لوگوں سے باتیں کرتا تھا۔ میں نے تجھے کتاب، حکمت، تورات اور انجیل سکھائی۔ تو میرے حکم سے مٹی سے پرندے کی صورت بناتا تھا۔ پھر اس میں پھونک مارتا تو وہ میرے حکم سے ایک اڑنے والا پرندہ بن جاتا تھا۔ تو مادر زاد اندھے اور برص والے کو میرے حکم سے تندرست کرتا تھا اور جب تو مردوں کو میرے حکم سے نکال کھڑا کرتا تھا۔“ [ المائدہ : ١١١ تا ١١٢] ” اور جب اللہ فرمائے گا اے عیسیٰ ابن مریم! کیا تو نے لوگوں سے کہا تھا کہ مجھے اور میری ماں کو اللہ کے سوا معبود بنالو؟ وہ کہے گا تو پاک ہے، میرے لیے جائز نہیں کہ وہ بات کہوں جس کا مجھے حق نہیں اگر میں نے کہا ہے یقیناً تو اسے جانتا ہے، تو جانتا ہے جو میرے دل میں ہے اور میں نہیں جانتا جوتیرے نفس میں ہے۔ یقیناً توہی چھپی باتوں کو اچھی طرح جاننے والاہے۔“ [ المائدہ : ١١٦] (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ قَالَ قَالَ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَنْ مَّاتَ یُشْرِکُ باللّٰہِ شَیْءًا دَخَلَ النَّارَ وَقُلْتُ أَنَا مَنْ مَّاتَ لَا یُشْرِکُ باللّٰہِ شَیْءًا دَخَلَ الْجَنَّۃَ) [ رواہ البخاری : کتاب الجنائز، باب ماجاء فی الجنائز] ” حضرت عبداللہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو کوئی اس حال میں مرا کہ اس نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کیا وہ جہنم میں جائے گا اور میں (محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ بھی کہتا ہوں جس شخص نے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرایا اور وہ اسی حال میں فوت ہوا۔ وہ جنت میں جائے گا۔“ (عَنْ أَنَسٍ (رض) قَالَ سُءِلَ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عَنِ الْکَبَاءِرِ قَالَ الْإِشْرَاک باللّٰہِ وَعُقُوقُ الْوَالِدَیْنِ وَقَتْلُ النَّفْسِ وَشَہَادَۃُ الزُّورِ) [ رواہ البخاری : کتاب الشہادات، باب ماقیل فی شہادۃ الزور] ” حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں نبی مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے استفسار کیا گیا کہ کبیرہ گناہ کون سے ہیں۔ آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک ٹھہرانا، والدین کی نافرمانی کرنا، بے گناہ کو قتل کرنا اور جھوٹی گواہی دینا۔“ (عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ الْمُوجِبَتَانِ مَنْ لَقِیَ اللَّہَ عَزَّ وَجَلَّ لاَ یُشْرِکُ بِہٖ شَیْئاً دَخَلَ الْجَنَّۃَ وَمَنْ لَقِیَ اللَّہَ عَزَّ وَجَلَّ وَہُوَ مُشْرِکٌ دَخَلَ النَّارَ) [ رواہ أحمد : مسند جابر بن عبداللہ ] ” حضرت جابر بن عبداللہ (رض) نبی سے بیان کرتے ہیں آپ نے فرمایا دوچیزیں واجب کرنے والی ہیں جو شخص اللہ تعالیٰ کو اس حال میں ملا کہ اس نے اس کے ساتھ شرک نہ کیا ہو وہ جنت میں داخل ہوگا۔ اور جس نے شرک کیا ہوگا وہ جہنم میں داخل ہوگا۔“ مسائل ١۔ جن بزرگوں کی لوگ پوجا کرتے ہیں ان سے بھی اللہ تعالیٰ سوال کرے گا۔ ٢۔ جو بزرگ اپنی زندگی میں شرک کی مذمت کرتے رہے وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں نجات پائیں گے۔ ٣۔ شرک کرنے والا ہدایت کے راستے سے گمراہ ہوجاتا ہے۔ ٤۔ شرک کرنے والے قیامت کے دن ہلاکت میں مبتلا ہوں گے۔ تفسیر بالقرآن شرک کے نقصانات : ١۔ شرک بدترین گناہ ہے۔ (النساء : ٤٨ ) ٢۔ شرک ظلم عظیم ہے۔ (لقمان : ١٣) ٣۔ شرک سے اعمال غارت ہوجاتے ہیں۔ (الزمر : ٦٥) ٤۔ شرک کرنے سے آدمی ذلیل ہوجاتا ہے۔ (الحج : ٣١) ٥۔ مشرک پر جنت حرام ہے۔ (المائدۃ: ٧٢) ٦۔ شرک کے بارے میں انبیاء کو انتباہ۔ (الانعام : ٨٨) ٧۔ شرک سے انسان گمراہی میں مبتلا ہو کر رہ جاتا ہے۔ (النساء : ١١٦) الفرقان
18 الفرقان
19 فہم القرآن ربط کلام : انبیاء کرام (علیہ السلام) اور صلحاء کی عاجزانہ وضاحت کے بعد اللہ تعالیٰ کا اعلان۔ انبیاء کرام، نیک علماء اور صلحاء حضرات کی عاجزانہ اور معذرت خواہانہ وضاحت سننے کے بعد اللہ تعالیٰ ارشاد فرمائے گا کہ تمہاری معذرت قبول کی جاتی ہے کیونکہ تم لوگوں کو عقیدہ توحید بتلاتے اور سمجھاتے رہے لیکن انہوں نے تمہیں جھٹلادیا لہٰذا تم میں اس بات کا کوئی اختیار نہیں رکھتا کہ تم ان کی کسی قسم کی مدد کرسکو یا ان سے عذاب ٹال سکو۔ اور نہ یہ آپس میں ایک دوسرے کی مدد کرسکتے ہیں، کیونکہ میرا فیصلہ تھا اور ہے کہ تم میں جو بھی ظلم کرے گا میں اس کو زبردست عذاب میں مبتلا کروں گا لہٰذا آج شرک کرنے والوں کے لیے بہت بڑا عذاب ہوگا۔ ظلم سے پہلی مراد اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرنا ہے۔ (عَنْ عَبْدِ اللَّہِ قَالَ لَمَّا نَزَلَتْ (الَّذِینَ آمَنُوا وَلَمْ یَلْبِسُوا إِیمَانَہُمْ بِظُلْمٍ) قَالَ أَصْحَابُ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) أَیُّنَا لَمْ یَظْلِمْ فَأَنْزَلَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلّ إِنَّ الشِّرْکَ لَظُلْمٌ عَظِیمٌ) [ رواہ البخاری : کتاب الایمان، باب ظلم دون ظلم] ” حضرت عبداللہ (رض) بیان کرتے ہیں جب یہ آیت نازل ہوئی (الَّذِینَ آمَنُوْا وَلَمْ یَلْبِسُوْٓا إِیمَانَہُمْ بِظُلْمٍ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ (رض) نے پوچھا ہم میں سے کون ہے جس نے ظلم نہ کیا ہو تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی بلا شبہ شرک بہت بڑا ظلم ہے۔“ (اِنَّہٗ مَنْ یُّشْرِکْ باللّٰہِ فَقَدْ حَرَّمَ اللّٰہُ عَلَیْہِ الْجَنَّۃَ وَ مَاْوٰیہ النَّارُوَ مَا للظّٰلِمِیْنَ مِنْ اَنْصَارٍٍ) [ المائدہ : ٧٢] ” بے شک جو شخص اللہ کے ساتھ غیروں کو شریک ٹھہراتا ہے اس پر جنت حرام ہے۔ اس کا ٹھکانا جہنم ہوگا اور ظالم کوئی مددگار نہیں پائیں گے۔“ (عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ یَقُوْلُ اللَّہُ تَبَارَکَ وَتَعَالَی لأَہْوَنِ أَہْلِ النَّارِ عَذَابًا لَوْ کَانَتْ لَکَ الدُّنْیَا وَمَا فِیْہَا أَکُنْتَ مُفْتَدِیًا بِہَا فَیَقُوْلُ نَعَمْ فَیَقُوْلُ قَدْ أَرَدْتُ مِنْکَ أَہْوَنَ مِنْ ہَذَا وَأَنْتَ فِیْ صُلْبِ اٰدَمَ أَنْ لاَ تُشْرِکَ أَحْسَبُہُ قَالَ وَلاَ أُدْخِلَکَ النَّارَ فَأَبَیْتَ إِلاَّ الشِّرْکَ) [ رواہ مسلم : باب طَلَبِ الْکَافِرِ الْفِدَاءَ بِمِلْءِ الأَرْضِ ذَہَبًا] ” حضرت انس بن مالک (رض) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں اللہ تبارک و تعالیٰ جہنمیوں میں سے کم ترین عذاب والے سے کہے گا۔ دنیا اور جو کچھ اس میں ہے اگر تیرے لیے ہو۔ کیا تو اسے فدیہ کے طور پر دے گا وہ کہے گا جی ہاں ! اللہ تعالیٰ فرمائے گا میں نے تجھ سے اس سے بھی ہلکی بات کا مطالبہ کیا تھا جب تو آدم کی پشت میں تھا کہ میرے ساتھ شرک نہ کرناراوی کا خیال ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ بھی فرمایا کہ میں تجھے جہنم میں داخل نہ کرتا لیکن تو شرک کرنے سے باز نہ آیا۔“ مسائل ١۔ شرک کرنے والا ظالم ہوتا ہے۔ ٢۔ ظالم کی قیامت کے دن کوئی بھی مدد نہیں کرسکے گا۔ ٣۔ ظالم کو زبردست عذاب دیا جائے گا۔ تفسیر بالقرآن شرک پرلے درجے کا ظلم ہے : ١۔ اللہ تعالیٰ کا کوئی شریک نہیں میں اسی بات کا حکم دیا گیا ہوں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اعلان۔ (الانعام : ١٦٤) ٢۔ جو اللہ کی ملاقات چاہتا ہے وہ اپنے رب کی عبادت میں کسی کو شریک نہ ٹھہرائے۔ (الکہف : ١١٠) ٣۔ اللہ تعالیٰ شرک کو معاف نہیں کرے گا اس کے علاوہ جو چاہے گا معاف فرما دے گا۔ (النساء : ٤٨ تا ١١٦) ٤۔ جو بھی اللہ کے ساتھ شرک کرتا ہے اللہ نے اس پر جنت حرام کردی ہے۔ (المائدۃ: ٧٢) ٥۔ حضرت لقمان کی نصیحت کہ اے بیٹے شرک نہ کر شرک بہت بڑا ظلم ہے۔ (لقمان : ١٣) ٦۔ اللہ کی عبادت کرو اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ۔ (النساء : ٣٦) الفرقان
20 فہم القرآن ربط کلام : سورۃ الفرقان کا آغاز رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت اور اللہ تعالیٰ کی توحید کے دلائل سے ہوا اب اس کا اختتام بھی توحیدو رسالت پر کیا گیا ہے۔ انبیاء کرام (علیہ السلام) کی نبوت کا انکار کرنے والے لوگ اس بات کو بنیاد بنایا کرتے تھے کہ ہم رسول کی رسالت کا اس لیے انکار کرتے ہیں کہ یہ ہمارے جیسا کھانے، پینے اور کوچہ وبازار میں چلنے پھرنے والا انسان ہے۔ نبوت عظیم ترین منصب ہے اس منصب پر کوئی مافوق الفطرت ہستی فائز ہونا چاہیے تھی۔ اس اعتراض کی تائید میں کفار کبھی ملائکہ کا نام پیش کرتے اور کبھی اپنے میں سے کسی وڈیرے اور جاگیر دار کا نام لیتے تھے۔ دونوں باتوں کا قرآن مجید نے کئی مقامات پر مدلّل جواب دیا ہے یہاں اس کے اعادہ کی ضرورت نہیں سمجھی جس بناء پر صرف یہ ارشاد فرمایا کہ ہم نے تم کو ایک دوسرے کے لیے آزمائش کا سبب بنایا ہے تاکہ تم حوصلہ سے کام لو اور آپ کا رب سب کچھ دیکھنے والا ہے۔ انبیاء اور نیک لوگوں کی آزمائش کے لیے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ ہم نے جنوں اور انسانوں سے شیطانوں کو ہر نبی کا دشمن بنایا جو ایک دوسرے کو بری باتیں سکھلاتے ہیں (سورۃ الانعام : آیت ١١٢) مقصد یہ ہے کہ ایسے لوگوں کی سازشوں اور شرارتوں کے مقابلہ میں انبیاء کرام (علیہ السلام) اور ان کے متبعین صبروشکر کا مظاہرہ کریں تاکہ لوگوں پر حق وباطل کا معاملہ واضح ہوجائے۔ آیت کے آخر میں یہ فرما کر رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے متبعین کو تسلی دی ہے کہ یہ خیال ہرگز نہ کرنا کہ حق کے مخالف جو کچھ آپ کے ساتھ کرتے ہیں وہ آپ کے رب کی نگاہ سے اوجھل ہے۔ ایسا ہرگز نہیں بلکہ آپ کا رب ہر کام پر نگاہ رکھے ہوئے ہے۔ (ابراہیم : ٤٢) مشرکین کا عجب معاملہ ہے کہ پہلے دور کے مشرک انبیاء کرام پر اس لیے ایمان نہیں لاتے تھے کہ یہ انسان ہیں۔ موجودہ دور کے مشرک کہتے ہیں کہ نبی بشر نہیں ہو سکتا، نبی کو بشر کہنا اس کی شان میں گستاخی ہے۔ مسائل ١۔ تمام انبیاء و روسل بشر تھے۔ ٢۔ اللہ نے بعض انسانوں کو بعض کی آزمائش کا سبب بنایا ہے۔ ٣۔ دین کی دعوت دینے والوں کو مصائب پر صبر کرنا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن تمام انبیاء کرام بشرتھے : ١۔ انبیاء نے فرمایا کہ ہم تمہاری طرح کے بشر ہیں لیکن اللہ جس پر چاہتا ہے احسان فرماتا ہے۔ (ابراہیم : ١١) ٢۔ نوح (علیہ السلام) کی قوم نے کہا نہیں ہے یہ مگر تمہارے جیسا بشر اور یہ تم پر فضیلت حاصل کرنا چاہتا ہے۔ (المومنون : ٢٤) ٣۔ نہیں ہے تو مگر ہمارے جیسا بشر کوئی نشانی لے کر آ اگر تو سچا ہے۔ (الشعراء : ١٥٤) ٤۔ نہیں ہے یہ مگر تمہارے جیسا بشر جیسا تم کھاتے ہو، ویسا وہ کھاتا ہے۔ (المومنون : ٣٣) ٥۔ ہم نے آپ سے پہلے جتنے بھی نبی بھیجے وہ بشر تھے۔ (النحل : ٤٣) ٦۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اعلان فرمائیں کہ میں تمھارے جیسا انسان ہوں۔ (الکہف : ١١٠) ٧۔ نبی آخر الزماں (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اعتراف کہ میں تمہاری طرح کا بشر ہوں۔ (الکہف : ١١٠، حم السجدۃ: ٦) ٨۔ ہم نے آدمیوں کی طرف وحی کی۔ (یوسف : ١٠٩) ٩۔ شعیب (علیہ السلام) کی قوم نے کہا کہ تو ہماری طرح بشر ہے اور ہم تجھے جھوٹا تصور کرتے ہیں۔ (الشعراء : ١٨٦) الفرقان
21 فہم القرآن ربط کلام : کفار کی ایک اور ہرزہ سرائی۔ سرورِ دو عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پر خلوص اور بے مثال جدو جہد کے مقابلہ میں کفار اس حد تک لاجواب اور بوکھلا ہٹ کا شکار ہوئے کہ وہ ہر روزنئے سے نیا مطالبہ کرتے۔ اس حواس باختگی میں انھیں یہ بھی خبر نہ رہی کہ ہم کس قدر متضاد اور بے مقصد اعتراضات اور سوال کرتے ہیں۔ حواس باختگی کے عالم میں انھوں نے یہ بھی سوال کر ڈالا کہ آخر کیا وجہ ہے کہ اس کے پاس فرشتے نازل ہوتے ہیں اور ہمارے پاس کیوں نہیں آتے۔ ہم اس پر ایمان تب لائیں گے کہ جب ہم پر براہ راست فرشتے نازل ہوں یا پھر اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے رب کو دیکھ لیں۔ اس کے سوا ہم اس نبی پر ایمان لانے کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔ کفار کی حواس باختگی کا یہاں صرف یہ جواب دیا گیا ہے کہ اس قسم کے مطالبات کرنا صرف اس لیے ہے کہ ان کے دلوں میں فخر و غرور بھر چکا ہے جس وجہ سے یہ کسی دلیل کو ماننے کے لیے تیار نہیں۔ اس بنا پر بغاوت اور سرکشی میں آگے ہی بڑھتے جا رہے ہیں اور فرشتوں کے نزول کا مطالبہ کرتے ہیں۔ جس دن فرشتے ان کے سامنے آکھڑے ہوں گے تو وہ دن خوشی کی بجائے ان کے لیے پریشانی اور تباہی کا دن ہوگا۔ انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ جس قوم پر فرشتے نازل کیے گئے اسے نیست ونابود کردیا گیا، جس طرح قوم لوط اور دیگر اقوام کا حال ان کے سامنے ہے۔ ایسے لوگوں کے پاس موت کے وقت فرشتے آتے ہیں تو وہ انہیں جنت کی بجائے جہنم کی خبر دیتے ہیں۔ جہنم کی خبر سنتے ہی مجرم کہتے ہیں کہ کاش ہم اس سے بچ جائیں۔ اس کا یہ بھی مفہوم لیا گیا ہے کہ فرشتوں کو دیکھ کر کفار کہیں گے کاش ! ہمیں تم سے پناہ مل جائے۔ یاد رہے کہ ہر مجرم ملائکہ کو تین بار ضرور دیکھے گا (موت کے وقت، قبر میں، محشر کے میدان میں) اور ہر بار ظالموں کے لیے ان کا دیکھنا پہلے سے زیادہ اذّیت ناک ہوگا۔ (عَاءِشَۃَ (رض) أَنَّ یَہُودِیَّۃً دَخَلَتْ عَلَیْہَا، فَذَکَرَتْ عَذَابَ الْقَبْرِ، فَقَالَتْ لَہَا أَعَاذَکِ اللَّہُ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِفَسَأَلَتْ عَاءِشَۃُ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عَنْ عَذَابِ الْقَبْرِ فَقَالَ نَعَمْ عَذَابُ الْقَبْرِ قَالَتْ عَاءِشَۃُ فَمَا رَأَیْتُ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بَعْدُ صَلَّی صَلاَۃً إِلاَّ تَعَوَّذَ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ زَادَ غُنْدَرٌ عَذَابُ الْقَبْرِ حَقٌّ) [ رواہ البخاری : باب مَا جَاءَ فِی عَذَابِ الْقَبْرِ] ” سیدہ عائشہ (رض) کے پاس ایک یہودی عورت آئی وہ قبر کے عذاب کا تذکرہ کرتے ہوئے کہنے لگی تجھے اللہ عذاب کے قبر سے محفوظ فرمائے۔ سیدہ عائشہ (رض) نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عذاب قبر کے متعلق پوچھا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہاں عذاب قبر برحق ہے سیدہ عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ اس کے بعد میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کوئی ایسی نماز پڑھتے نہیں دیکھا جس میں آپ نے عذاب قبر سے پناہ نہ مانگی ہو۔ (غندر کی روایت میں یہ اضافہ ہے کہ عذاب قبر برحق ہے۔“ (عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَیْبٍ عَنْ أَبِیْہِ عَنْ جَدِّہٖ عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ یُحْشَرُ الْمُتَکَبِّرُوْنَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ أَمْثَال الذَّرِّ فِیْ صُوَرِ الرِّجَالِ یَغْشَاھُمُ الذُّلُّ مِنْ کُلِّ مَکَانٍ فَیُسَاقُوْنَ إِلٰی سِجْنٍ فِیْ جَھَنَّمَ یُسَمّٰی بُوْلَسَ تَعْلُوْھُمْ نَارُ الْأَنْیَارِ یُسْقَوْنَ مِنْ عُصَارَۃِ أَھْلِ النَّارِ طِیْنَۃَ الْخَبَالِ) [ رواہ الترمذی : کتاب صفۃ القیامۃ والرقائق والورع، باب منہ ] ” حضرت عمرو بن شعیب اپنے باپ سے وہ اپنے باپ (رض) سے وہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : قیامت کے دن متکبر لوگ چیونٹیوں کی صورت میں لائے جائیں گے انہیں ہر طرف سے ذلت ڈھانپے ہوئے ہوگی۔ انہیں بولس نامی جہنم کی جیل میں لے جایا جائے گا۔ ان پر آگ کے شعلے بلند ہورہے ہوں گے اور انہیں جہنمیوں کی زخموں کی پیپ پلائی جائے گی۔“ مسائل ١۔ حق کے منکر فخر و غرور کی وجہ سے حق کا انکار کرتے ہیں۔ ٢۔ متکبر شخص پر لے درجے کا نافرمان ہوتا ہے۔ ٣۔ مجرم لوگ ملائکہ کو دیکھ کر آہ و زاری کریں گے۔ تفسیر بالقرآن ملائکہ کے نزول کا مطالبہ : ١۔ کفار نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا کہ اگر تو سچا ہے تو ہمارے پاس فرشتے کیوں نہیں آتے ہیں۔ ( الحجر : ٧) ٢۔ کفار اس بات کے منتظر ہیں کہ ان کے پاس فرشتے آئیں یا اللہ تعالیٰ ان کے پاس آئے۔ ( الانعام : ١٥٨) الفرقان
22 الفرقان
23 فہم القرآن ربط کلام : حق کا انکار کرنے والوں کے مقابلہ میں حق قبول کرنے والوں کا مرتبہ و مقام۔ جن لوگوں نے رب کی ذات اس کے رسول کی رسالت کا انکار کیا۔ بے شک دنیا میں وہ کتنے ہی اچھے عمل کرتے رہے۔ موت کے بعد ان کے اعمال ریت کے اڑتے ہوئے ذرّات کی طرح ہوجائیں گے۔ یعنی وزن اور قدر کے اعتبار سے ان کی کوئی حیثیت نہیں ہوگی کیونکہ ان کے اعمال کے پیچھے عقیدہ توحید کا اقرار نبی آخر الزّمان کی رسالت پر ایمان اور قیامت کے حساب و کتاب پر یقین نہیں ہوگا۔ اس لیے ان کے اعمال اڑتے ہوئے ریت کے ذرّات کی مانند ہوں گے۔ نیک عمل کی قبولیت کے لیے تین بنیادی شرائط ہیں۔ ان میں کوئی ایک شرط مفقود ہو۔ تو انسان کے بڑے سے بڑے عمل کی کوئی حیثیت نہیں رہتی۔ اس کے مقابلہ میں جن لوگوں نے اپنے اعمال کو ان شرائط کے مطابق کیا ان کے اعمال کی نہ صرف قدر و قیمت ہوگی بلکہ رب کریم اپنے کرم سے ان کے اعمال میں برکات فرما کر انھیں بہترین مقام بالخصوص حشر کی کڑکڑاتی دھوپ میں سکون سے ہمکنار فرمائے گا۔ مَقِیْلًا یاقَیْلُوْلَۃً دوپہر کو آرام کرنے کی جگہ۔ قیامت کا دن طوالت کے اعتبار سے پچاس ہزار سال کا ہوگا۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو اپنے عرش کے نیچے جگہ عنایت فرمائے گا اور پینے کے لیے حوض کوثر کا پانی دے گا۔ (عَنْ عَاءِشَۃَ قَالَتْ قُلْتُ یَا رَسُوْلَ اللَّہِ ابْنُ جُدْعَانَ کَانَ فِی الْجَاہِلِیَّۃِ یَصِلُ الرَّحِمَ وَیُطْعِمُ الْمِسْکِیْنَ فَہَلْ ذَاکَ نَافِعُہٗ قَالَ لاَ یَنْفَعُہٗ إِنَّہُ لَمْ یَقُلْ یَوْمًا رَبِّ اغْفِرْ لِی خَطِیْءَٓتِی یَوْمَ الدِّیْنِ ) [ رواہ مسلم : باب لدلیل علی ان من مات علی الکفر لاینفعہ عمل] ” حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ میں نے کہا اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عبداللہ بن جدعان جاہلیت میں صلہ رحمی کیا کرتا تھا اور مسکینوں کو کھانا کھلاتا تھا کیا اس کے اعمال اسے نفع دیں گے آپ نے فرمایا نہیں اس لیے کہ اس نے کبھی یہ بات نہیں کہی تھی کہ اے اللہ قیامت کے دن میری خطاؤں کو معاف کردینا۔“ (عَنْ اَبِیْ ھُرَےْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سَبْعَۃٌ ےُظِلُّھُمُ اللّٰہُ فِیْ ظِلِّہٖ ےَوْمَ لَا ظِلَّ اِلَّا ظِلُّہُ اِمَامٌ عَادِلٌ وَّشَآبٌّ نَشَأَ فِیْ عِبَادَۃِ اللّٰہِ وَرَجُلٌ قَلْبُہُ مُعَلَّقٌ بالْمَسْجِدِ اِذَا خَرَجَ مِنْہُ حَتّٰی ےَعُوْدَ اِلَےْہِ وَرَجُلَانِ تَحَآبَّا فِی اللّٰہِ اجْتَمَعَا عَلَےْہِ وَتَفَرَّقَا عَلَےْہِ وَرَجُلٌ ذَکَرَاللّٰہَ خَالِےًا فَفَاضَتْ عَےْنَاہُ وَرَجُلٌ دَعَتْہُ امْرَاَۃٌ ذَاتُ حَسَبٍ وَّجَمَالٍ فَقَالَ اِنِّیْ اَخَاف اللّٰہَ وَرَجُلٌ تَصَدَّقَ بِصَدَقَۃٍ فَاَخْفَاھَا حَتّٰی لَا تَعْلَمَ شِمَالُہٗ مَا تُنْفِقُ ےَمِےْنُہٗ) [ رواہ البخاری : باب من جلس فی المسجد] ” حضرت ابوہریرہ (رض) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان ذکر کرتے ہیں اللہ تعالیٰ سات آدمیوں کو اپنے عرش کا سایہ عطا فرمائیں گے جس دن کوئی چیز سایہ فگن نہ ہوگی۔ (١) عدل کرنے والا حکمران (٢) اللہ تعالیٰ کی عبادت میں ذوق وشوق رکھنے والا جوان (٣) وہ شخص جس کا دل مسجد کے ساتھ منسلک رہے جب وہ مسجد سے باہر جاتا ہے تو واپس مسجد میں آنے کے لیے فکر مند رہتا ہے (٤) دو آدمی جو باہم اللہ کے لیے محبت رکھتے ہیں اور اسی بنیاد پر ہی ایک دوسرے سے میل جول رکھتے اور الگ ہوتے ہیں (٥) جس آدمی نے تنہائی میں اللہ تعالیٰ کو یاد کیا اور اس کی آنکھوں سے آنسو نکل آئے (٦) ایسا شخص جس کو ایک خاندانی حسین وجمیل عورت نے گناہ کی دعوت دی مگر اس نے یہ کہہ کر اپنے آپ کو بچائے رکھا کہ میں اللہ سے ڈرتا ہوں اور (٧) جس نے صدقہ کیا کہ اس کے بائیں ہاتھ کو بھی خبر نہ ہوپائی کہ اس کے دائیں ہاتھ نے کیا خرچ کیا ہے۔ مسائل ١۔ کفار اور مشرکین کے اعمال ریت کے اڑتے ہوئے ذرّات کی طرح ہوں گے۔ ٢۔ کفار اور مشرکین کے مقابلہ میں عباد الرحمن کو جنت میں داخلہ اور دوپہر کا آرام نصیب ہوگا۔ تفسیر بالقرآن وزن کے اعتبار سے کفار، مشرکین اور مومنین کے اعمال میں فرق : ١۔ متّقین کے نیک اعمال والا پلڑا بھاری ہوگا۔ ( المومنوں : ١٠٢) ٢۔ خسارہ پانے والے لوگوں کا برائیوں والا پلڑا بھاری ہوگا۔ ( المومنوں : ١٠٣) ٣۔ کفار کے اعمال مٹی کے اڑتے ہوئے ذرّات کی طرح ہونگے۔ ( الفرقان : ٢٣) ٤۔ آخرت کے منکرین کے اعمال کا وزن تک نہیں کیا جائے گا۔ ( الکہف : ١٠٥) الفرقان
24 الفرقان
25 فہم القرآن ربط کلام : جس دن کفار کے عمل ریت کی طرح اڑ رہے ہوں گے اور ان کے مقابلے میں نیک لوگوں کو بہترین قیام اور آرام دیا جائے گا۔ اس دن کی ابتداء اس طرح ہوگی۔ قیامت کے دن زمین و آسمانوں کو بدل دیا جائے گا اور ان کی جگہ نئی زمین اور نیا آسمان معرض وجود میں لایا جائے گا۔ (ابراہیم : ٤٨) محشر کے میدان میں رب کبریا کی عدالت قائم ہوگی تو اس سے پہلے آسمانوں سے گروہ در گروہ ملائکہ اتارے جائیں گے۔ جو رب ذوالجلال کے جلوہ گر ہونے سے پہلے اس کی عدالت میں قطار اندر قطار کھڑے ہوں گے۔ تمام جن و انس رب ذوالجلال کے جلوہ افروز ہونے کے منتظر ہوں گے۔ اچانک آسمان پھٹ جائے گا اور ملائکہ کا نزول شروع ہوگا ہر فرشتہ حکمِ الٰہی کے مطابق اپنی اپنی ڈیوٹی پر کھڑا ہوجائے گا۔ باقی ملائکہ قطار اندر قطار دست بستہ حاضر ہونگے۔ اسی دوران آٹھ (8) فرشتے رب ذوالجلال کا عرش اٹھائے ہوئے نمودار ہوں گے۔ (الحاقۃ: ١٧) جونہی خالق کائنات جلوہ نماہوں گے تو زمین بقعہ نوربن جائے گی۔ اس طرح عدالت کبریٰ کی کارروائی کا آغاز ہوگا۔ اس دن کی ہولناکیاں اور رب ذوالجلال کی جلالت وہیبت دیکھ کر انبیاء کرام (علیہ السلام) بھی نَفْسِیْ، نَفْسِیْکی درخواست کر رہے ہوں گے۔ اس وقت اعلان ہوگا کہ آج صرف رب رحمن کی بادشاہی ہے یہ دن کفار کے لیے نہایت ہی سخت ہوگا۔ لیکن یہاں یہ نہیں فرمایا کہ قیامت کے دن ” اللہ کی“ بادشاہی ہوگی اور ” اللہ“ اس دن کا مالک ہوگا۔ ” اللہ“ کی بجائے الرّحمن کا اسم استعمال فرمایا، تاکہ معلوم ہو کہ الرّحمن کی طرف سے کفار پر بھی کوئی زیادتی نہیں ہوگی۔ یاد رہے کہ اسم ” اللہ“ میں جلال ہے اور اسم الرّحمن میں رحمت اور شفقت پائی جاتی ہے۔ (عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ ُ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَقْبِضُ اللّٰہُ الْاَرْضَ یَوْمَ الْقِیَا مَۃِ وَیَطْوِی السَّمَاءَ بِیَمِیْنِہٖ ثُمَّ یَقُوْلُ اَنَا الْمَلِکُ اَیْنَ مُلُوْکُ الْاَرْضِ) [ رواہ البخاری : باب قَوْلِ اللَّہِ تَعَالَی (مَلِکِ النَّاسِ )] حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا قیامت کے دن اللہ تعالیٰ زمین کو اپنے قبضہ میں لے گا اور آسمانوں کو لپیٹ کر اپنے دائیں ہاتھ میں لے کر فرمائے گا میں ہی بادشاہ ہوں۔ کہاں ہیں زمین کے بادشاہ؟ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ قَالَ أُتِیَ النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَوْمًا بِلَحْمٍ فَقَالَ إِنَّ اللَّہَ یَجْمَعُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ الأَوَّلِینَ وَالآخِرِینَ فِی صَعِیدٍ وَاحِدٍ، فَیُسْمِعُہُمُ الدَّاعِی، وَیُنْفِدُہُمُ الْبَصَرُ، وَتَدْنُو الشَّمْسُ مِنْہُمْ فَذَکَرَ حَدِیث الشَّفَاعَۃِ فَیَأْتُونَ إِبْرَاہِیمَ فَیَقُولُونَ أَنْتَ نَبِیُّ اللَّہِ وَخَلِیلُہُ مِنَ الأَرْضِ، اشْفَعْ لَنَا إِلَی رَبِّکَ فَیَقُولُ فَذَکَرَ کَذَبَاتِہِ نَفْسِی نَفْسِی اذْہَبُوا إِلَی مُوسَی) [ رواہ البخاری : باب النَّسَلاَنُ فِی الْمَشْیِ ] حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں آپ کے پاس ایک دن گوشت لایا گیا آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن پہلوں پچھلوں کو ایک جگہ جمع فرمائے گا ہر آدمی پکارنے والے کی آواز کو سنے گا اور اپنی آنکھوں سے دیکھے گا۔ سورج قریب تر ہوگا۔ اس کے بعد آپ نے شفاعت والی حدیث کا تذکرہ کیا کہ لوگ ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس جائیں گے اور عرض کریں گے۔ آپ اللہ کے نبی ہیں اور زمین میں اس کے خلیل ہیں اللہ تعالیٰ کے ہاں ہماری سفارش کیجیے، وہ اپنے کذب کا عذرپیش کرتے ہوئے کہیں گے (نَفْسِی نَفْسِی) اے اللہ میرے نفس کو بچا لے، میرے نفس کو بچا لے تم موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس جاؤ۔“ مسائل ١۔ قیامت کے دن صرف رب رحمن کی بادشاہی ہوگی۔ ٢۔ قیامت کا دن کفار کے لیے بہت بھاری ہوگا۔ تفسیر بالقرآن قیامت کا دن بہت بھاری ہوگا : ١۔ قیامت زمین و آسمانوں پر بھاری ہوگی۔ (الاعراف : ١٨٧) ٢۔ جب زمین کو ہلا دیا جائے گا پوری طرح ہلا دینا۔ (الزلزال : ١) ٣۔ جب واقعہ ہوگی واقعہ ہونے والی۔ (الواقعۃ: ١) ٤۔ لوگو! اپنے رب سے ڈر جاؤ قیامت کا زلزلہ بہت سخت ہے۔ (الحج : ١) ٥۔ قیامت کے دن لوگ اڑتے ہوئے پروانوں کی طرح ہوں گے۔ (القارعۃ : ٤) ٦۔ قیامت کے دن پہاڑ اون کی طرح ہوں گے۔ (القارعۃ: ٥) ٧۔ قیامت کا دن انتہائی خوف ناک ہوگا۔ (ھود : ٢٦) ٨۔ زمین کو ہلا کر تہہ و بالا کردیا جائے گا۔ (واقعۃ : ٣، ٤) ٩۔ پہاڑ ریزہ ریزہ ہو کر اڑتی گردکی طرح ہوجائیں گے۔ (الواقعۃ: ٥، ٦) الفرقان
26 الفرقان
27 فہم القرآن ربط کلام : قیامت کے دن کی ہولناکیاں دیکھ کرظالموں کا اپنے آپ پر اظہار افسوس۔ قیامت کا دن ظالموں کے لیے اس قدر بھاری ہوگا کہ جس سے ظالم حواس باختہ ہوجائیں گے دیکھنے والا انھیں یوں محسوس کرے گا جیسے یہ کسی نشہ کی وجہ سے مدہوش ہوچکے ہیں حالانکہ وہ کسی نشہ کی وجہ سے مدہوش نہیں ہوں گے۔ لوگ اللہ کے عذاب کی وجہ سے حواس باختہ ہوں گے۔ (الحج : ١) ظالم اس قدر دہشت زدہ ہوں گے کہ وہ اپنے ہاتھوں کو کاٹتے ہوئے واویلا کریں گے اور اپنے آپ پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہیں گے ہائے افسوس ہم ادھر ادھر کے راستے اختیار کرنے کی بجائے رسول کا راستہ اختیار کرتے۔ ہائے افسوس ہم نے رسول کو چھوڑ کر فلاں فلاں کو اپنا دوست اور خیر خواہ نہ سمجھا ہوتا۔ جس نے ہمیں قرآن مجید کی نصیحت سے دور رکھا اور گمراہ کیا یہ سب کچھ شیطان نے ہم سے کروایا۔ شیطان انسان کو بھرپور امید دلانے کے بعد دھوکہ دینے والا ہے۔ ظالموں کے اس اقرار کا انہیں کچھ فائدہ نہیں ہوگا۔ اسی حالت میں ان کے سامنے گواہ لائے جائیں گے۔ یہاں تک کہ ہر امت کا رسول اس کے سامنے لایا جائے گا اور رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے رب کے حضور شکایت کریں گے کہ اے میرے رب میری قوم نے قرآن مجید کو چھوڑ دیا تھا۔ قرآن مجید کو چھوڑدینے کے دو مفہوم ہو سکتے ہیں ایک یہ کہ سرے سے قرآن مجید کا انکار کردیا جائے یا پھر قرآن مجید پر ایمان لانے کے باوجود اس پر عمل نہ کیا جائے۔ الفرقان
28 الفرقان
29 شیطان کی بے وفائی کا اظہار : ” اپنے آپ کو ملامت کرو، نہ میں تمہاری فریاد رسی کرنے والاہوں اور نہ تم میری فریاد رسی کرنے والے ہو، یقیناً میں اس کا انکار کرتا ہوں جو تم نے مجھے شریک بنایا۔ بے شک جو لوگ ظالم ہیں ان کے لیے درد ناک عذاب ہے۔“ [ ابراہیم : ٢٢] (عَنْ عُمَرَبْنِ الخَطَّابِ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اِنَّ اللّٰہَ یَرْفَعُ بِھٰذَالْکِتَابِ اَقْوَامًاوَیَضَعُ بِہٖ اٰخَرِیْنَ) [ رواہ مسلم : کتاب الصلوٰۃ، باب فضل من یقوم بالقراٰن ] ” حضرت عمربن خطاب (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اس کتاب کے ذریعہ اللہ بہت سی قوموں کو بام عروج پر پہنچائے گا اور بہت سی قوموں کو قعر مذلّت میں گرادے گا۔“ مسائل ١۔ قیامت کے دن ظالم اپنے ہاتھوں کو کاٹتے ہوئے کہے گا کہ کاش میں رسول کا راستہ اختیار کرتا۔ ٢۔ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رب کی بارگاہ میں شکایت کریں گے کہ میری قوم نے قرآن مجید کو چھوڑ دیا تھا۔ ٣۔ شیطان انسان کو دھوکہ دینے والا ہے۔ تفسیر بالقرآن قرآن مجید کو چھوڑ دینے کے نقصانات : ١۔ قرآن سے اعراض کرنے والے ظالم اور گمراہ ہیں۔ (الکہف : ٥٧) ٢۔ ظالموں کو اعراض اور گناہوں کا بوجھ اٹھانا پڑے گا۔ (طٰہٰ: ١٠٠، ١٠١) ٣۔ قرآن کا انکار برے لوگ ہی کرتے ہیں۔ (البقرۃ: ٩٩) ٤۔ قرآن سے اعراض کرنے والے قیامت کے دن اندھے ہوں گے۔ (طٰہٰ: ١٢٤، ١٢٥) ٥۔ اس سے بڑھ کر ظالم کون ہے جو اپنے رب کی نصیحت آموز باتوں سے منہ پھیرتا ہے۔ ایسے مجرموں سے ہم انتقام لیں گے۔ (السجدۃ: ٢٢) ٦۔ انہیں دنیا اور آخرت میں دوہرا عذاب ہوگا۔ (بنی اسرائیل : ٧٥) الفرقان
30 الفرقان
31 فہم القرآن ربط کلام : قرآن مجید کو چھوڑ نے کا بنیادی سبب اللہ تعالیٰ نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر قرآن اس لیے نازل فرمایا تاکہ آپ لوگوں کو قرآن کی طرف بلائیں۔ لوگ اس کے مطابق اپنی زندگی بسر کریں اور دنیا وآخرت میں کامیاب ہوجائیں۔ لیکن نبی کے دشمن اس بات کو گوارہ نہیں کرتے کہ لوگ آپ پر ایمان لائیں۔ یہاں رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ کہہ کر تسلی دی گئی ہے کہ اے رسول پریشان ہونے اور گھبرانے کی ضرورت نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے مجرموں میں سے بڑے مجرموں کو ہر نبی کا مخالف بنایا تھا۔ تاکہ حق و باطل کی کشمکش میں نبی اور اس کی امت کا امتحان لیا جائے۔ اسی اصول کے تحت یہ مجرم لوگ آپ کی مخالفت کر رہے ہیں۔ آپ کو ان کی مخالفت کی پرواہ کیے بغیر اپنا کام جاری رکھنا چاہیے۔ مجرم آپ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ کیونکہ آپ کا رب ہر اعتبار سے آپ کے لیے کافی ہے۔ وہی راہنمائی اور مدد کرنے والا ہے۔ مسائل ١۔ مجرم لوگ ہر دور میں انبیاء (علیہ السلام) کی مخالفت کرتے رہے ہیں۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ ہی ہدایت دینے اور مدد کرنے والا ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ ہی مدد فرمانے والا ہے : ١۔ غار ثور میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ابوبکر (رض) کی مدد فرمائی۔ (التوبۃ: ٤٠) ٢۔ بدر میں اللہ تعالیٰ نے کمزوروں کی مدد فرمائی۔ (آل عمران : ١٢٣) ٣۔ ابرہہ کے مقابلے میں بیت اللہ کا تحفظ فرمایا۔ (الفیل : مکمل) ٤۔ غزوہ خندق میں اللہ تعالیٰ نے مدد فرمائی۔ ( الاحزاب : ٩) ٥۔ بنی اسرائیل کے کمزوروں کی مدد فرمائی۔ (القصص : ٥) ٦۔ حنین کے موقعہ پر اللہ تعالیٰ نے مدد فرمائی۔ (التوبہ : ٢٥) ٧ اللہ کی طرف سے ہی مدد حاصل ہوتی ہے۔ (آل عمران : ١٢٦) ٨۔ فتح مکہ کے موقعہ پر اللہ تعالیٰ نے مدد فرمائی۔ ( النصر : ١) ٩۔ اللہ اپنی مدد کے ساتھ جس کی چاہتا ہے نصرت فرماتا ہے۔ (الروم : ٥) ١٠۔ اللہ ہی تمہارا مولا ہے اور وہی بہتر مدد کرنے والا ہے۔ (آل عمران : ١٥٠) الفرقان
32 فہم القرآن ربط کلام : مجرمانہ کردار رکھنے والوں کا رسالت مآب (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایک اور اعتراض۔ کفار کو رسالت مآب (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر یہ بھی اعتراض تھا کہ آپ پر پورے کا پورا قرآن ایک ہی بار کیوں نہیں نازل ہوا ؟ جس کا جواب دیا گیا ہے کہ قرآن مجید کو اس لیے تھوڑا تھوڑا نازل کیا جاتا ہے تاکہ اس کے ساتھ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا دل مضبوط ہو اور قرآن اچھی طرح آپ کے ذہن پر نقش ہوجائے، اس پر عمل کرنے میں آسانی ہو۔ کفار آپ پر جو بھی اعتراض کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو اس کا اتنا جامع اور مدّلل جواب دیتے کہ کفار لاجواب ہو کر رہ جاتے۔ لیکن اس کے باوجود کفار اپنی ضد سے باز آنے والے نہیں تھے اس وجہ سے وہ وقفے وقفے کے بعد مختلف الفاظ اور انداز میں سوال دہراتے رہتے تھے۔ قرآن مجید کفار کے سوالات کا کبھی مفصل جواب دیتا ہے اور کبھی اجمال کے ساتھ جواب دیا جاتا ہے۔ جہاں تک قرآن مجید کا تھوڑا، تھوڑا اور وقفے وقفے سے نازل ہونے کا تعلق ہے اس طرح قرآن نازل ہونے سے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دل کو ڈھارس ملتی اور مسلمانوں کو عمل کرنے میں سہولت حاصل ہوتی تھی۔ (عَنْ عَبْدِ اللَّہِ قَالَ غَدَوْنَا عَلَی عَبْدِ اللَّہِ فَقَالَ رَجُلٌ قَرَأْتُ الْمُفَصَّلَ الْبَارِحَۃَ فَقَالَ ہَذًّا کَہَذِّ الشِّعْرِ، إِنَّا قَدْ سَمِعْنَا الْقِرَاءَ ۃَ وَإِنِّی لأَحْفَظُ الْقُرَنَاءَ الَّتِی کَانَ یَقْرَأُ بِہِنَّ النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ثَمَانِیَ عَشْرَۃَ سُورَۃً مِنَ الْمُفَصَّلِ وَسُورَتَیْنِ مِنْ آلِ حم) [ رواہ البخاری : باب التَّرْتِیلِ فِی الْقِرَاءَ ۃِ ] ” حضرت ابو وائل حضرت عبداللہ کے واسطہ سے بیان کرتے ہیں کہ ہم عبداللہ بن مسعود (رض) کی خدمت میں چاشت کے وقت حاضر ہوئے۔ ایک صاحب نے کہا کہ رات میں نے پوری کی پوری مفصل سورتیں پوری پڑھ ڈالیں۔ اس پر ابن مسعود (رض) نے فرمایا : جیسے اشعار جلدی جلدی پڑھتے ہیں ویسے پڑھ لی ہوں گی۔ ہم نے قرأت سنی ہے۔ مجھے ( طویل اور مختصر سورتوں کی) وہ نظائر یاد ہیں۔ جن کی تلاوت نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیا کرتے تھے اٹھارہ سورتیں مفصل ہوتی اور دو سورتیں جن کے شروع میں حٰم ہے۔“ مسائل ١۔ قرآن مجید اس لیے تھوڑا تھوڑا نازل کیا گیا تاکہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حفظ اور ضبط کرنے میں آسانی ہو۔ ٢۔ قرآن مجید اس لیے وقفے وقفے سے نازل کیا گیا تاکہ لوگوں تک پہنچانے میں آسانی ہو۔ ٣۔ قرآن مجید اس لیے وقفے وقفے سے نازل کیا گیا تاکہ اس پر مسلمانوں کو عمل کرنا آسان رہے۔ ٤۔ قرآن مجید اس لیے تھوڑا تھوڑا کرکے نازل کیا گیا تاکہ کفار کو اس کے ناسمجھنے کا بہانہ ہاتھ نہ آئے۔ تفسیر بالقرآن قرآن مجید کو ٹھہر ٹھہر کر پڑھنا چاہیے : ١۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پڑھیے جو آپ پر آپ کے رب کی طرف سے وحی کی جاتی ہے۔ (الکھف : ٢٧) ٢۔ ہم نے قرآن کو حق کے ساتھ نازل کیا تاکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لوگوں کے سامنے ٹھہر ٹھہر کر پڑھیں۔ (بنی اسرائیل : ١٠٥) ٣۔ قرآن کو تر تیل کے ساتھ پڑھا جائے۔ (المزمل : ٤) ٤۔ جن کو کتاب دی گئی وہ اس کی تلاوت اسی طرح کرتے ہیں جس طرح تلاوت کرنے کا حق ہے۔ (البقرۃ: ١٣١) ٥۔ جب قرآن پڑھاجائے تو اسے خاموشی سے سنو۔ (الاعراف : ٢٠٤) ٦۔ ہم آپ پر تمام انبیاء کے واقعات آپ کے دل کو مضبوط کرنے کے لیے بیان کرتے ہیں۔ ( ہود : ١٢٠) ٧۔ قرآن بڑی شان والا ہے اور لوح محفوظ میں لکھا ہوا ہے۔ (الواقعۃ: ٧٧ تا ٧٩) الفرقان
33 الفرقان
34 فہم القرآن ربط کلام : نبی کے دشمنوں اور قرآن پر اعتراض کرنے والوں کا انجام : جو لوگ تعصّب اور ہٹ دھرمی کی بناء پر رسالت مآب (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اعتراض اور قرآن مجید کا انکار کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ انھیں چہروں کے بل جہنم میں اکٹھا کرے گا یہ لوگ اپنے مقام اور انجام کے لحاظ سے بدترین ہوں گے۔ کیونکہ یہ پرلے درجے کے گمراہ تھے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید لوگوں کی ہدایت کے لیے نازل کیا ہے۔ جو شخص اخلاص کے ساتھ قرآن مجید کی تلاوت کرے اور اس پر غور کرے گا۔ یقیناً اللہ تعالیٰ اسے ہدایت سے سرفراز کرے گا۔ ہاں وہ شخص کبھی ہدایت نہیں پا سکتا جو اللہ کی نازل کردہ ہدایت پر اعتراض کرے اور اس کا انکار کرتا ہو۔ ایسا شخص گمراہی میں اس قدر آگے بڑھ جاتا ہے کہ اس کے ہدایت پانے کا کوئی راستہ باقی نہیں رہتا۔ جو لوگ قرآن مجید کے بارے میں الٹی سوچ رکھیں اور اس کے خلاف چلنا ان کا وطیرہ ہوجائے۔ انھیں اوندھے منہ جہنم میں پھینکا جائے گا۔ ( عَنْ قَتَادَۃَ (رض) حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ مَالِکٍ أَنَّ رَجُلًا قَالَ یَا رَسُول اللّٰہِ کَیْفَ یُحْشَرُ الْکَافِرُ عَلٰی وَجْہِہِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ قَالَ أَلَیْسَ الَّذِی أَمْشَاہُ عَلٰٰی رِجْلَیْہِ فِی الدُّنْیَا قَادِرًا عَلٰٰٰی أَنْ یُمْشِیَہُ عَلٰٰی وَجْہِہٖ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ قَالَ قَتَادَۃُ بَلَی وَعِزَّۃِ رَبِّنَا) [ رواہ مسلم، کتاب القیامۃ والجنۃ والنار، باب یحشر الکافر علی وجھہ] ” حضرت قتادہ (رض) سے روایت ہے کہ حضرت انس بن مالک (رض) نے بیان کیا ایک شخص نے استفسار کیا اے اللہ کے رسول! کافروں کو قیامت کے دن چہرے کے بل کس طرح اکٹھا کیا جائے گا۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کیا جو ذات سب کو دنیا میں پاؤں کے بل چلانے پر قادر ہے وہ قیامت کے دن منہ کے بل چلانے پر قادر نہیں ہوگی۔ حضرت قتادہ کہتے ہیں ہمیں اپنے رب کی عزت کی قسم ایسا ہوگا۔“ مسائل ١۔ مجرموں کو الٹے منہ جہنم میں پھینکا جائے گا۔ ٢۔ رسالت مآب (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اعتراض اور قرآن مجید کا انکار کرنے والا حد درجے کا گمراہ ہوتا ہے۔ الفرقان
35 فہم القرآن ربط کلام : انبیاء (علیہ السلام) کے دشمن اور آسمانی کتابوں کا انکار کرنیوالی اقوام میں سے ایک قوم کا انجام۔ جن قوموں نے انبیاء (علیہ السلام) کی مخالفت اور آسمانی کتابوں کا انکار کیا ان میں سرفہرست حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی قوم کے لوگ تھے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے تورات عنایت فرمائی اور ان کی درخواست پر ان کے بھائی حضرت ہارون (علیہ السلام) کو ان کا معاون نامزد فرمایا۔ موسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت ہارون (علیہ السلام) کو حکم ہوا کہ اس قوم کی طرف جاؤ جنھوں نے ہمارے احکام اور ارشادات کو ٹھکرا دیا ہے۔ اس ارشاد کے دو مفہوم ہو سکتے ہیں۔ (١) موسیٰ (علیہ السلام) سے پہلے دین ابراہیم حضرت یوسف کے دور مصر میں پہنچ چکا تھا۔ (٢) کیونکہ اللہ تعالیٰ کو معلوم ہے کہ فرعون اور اس کے حواری موسیٰ (علیہ السلام) کو تسلیم نہیں کرینگے اس لیے پہلے ہی ارشاد فرمایا کہ یہ لوگ ایمان نہیں لائیں گے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور جناب ہارون (علیہ السلام) نے ایک طویل مدت تک فرعون اور اس کے حواریوں کو سمجھایا، بڑے بڑے معجزات پیش کیے، فرعون نے ہر میدان میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور ہارون (علیہ السلام) کا مقابلہ کیا مگر ناکام رہا۔ یہاں تک کہ پورے ملک کے جادوگروں کو اکٹھا کرکے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت ہارون (علیہ السلام) کے مقابلے میں لاکھڑ کیا۔ جب جادوگروں نے حقیقت حال کو براہ راست دیکھا اور آزمایا تو انھوں نے سرعام حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت ہارون (علیہ السلام) کی نبوت پر ایمان لانے کا اعلان کیا اور اپنے ایمان پر ثابت قدم رہے۔ اتنی بڑی حقیقت آشکارا ہونے کے باوجود فرعون اور اس کے ساتھیکفر و شرک پر قائم رہے تاآنکہ اللہ تعالیٰ نے انھیں سمندر میں ڈبکیاں دے دے کر موت کے گھاٹ اتار دیا۔ ان آیات میں اسی بات کو اختصار کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو تورات عطا فرمائی۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ کے بھائی ہارون ( علیہ السلام) کو ان کا معاون نبی نامزد فرمایا۔ ٣۔ موسیٰ (علیہ السلام) کی قوم نے پے درپے اللہ تعالیٰ کی آیات کو ٹھکرایا جس کے نتیجہ میں انھیں تباہ و برباد کردیا گیا۔ الفرقان
36 الفرقان
37 فہم القرآن ربط کلام : قوم موسیٰ کی تباہی کے بعد قوم نوح کے انجام کا مختصر بیان۔ حضرت آدم اور حضرت نوح (علیہ السلام) کے درمیان ہزاروں سال کا وقفہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح (علیہ السلام) کو اس وقت نبوت سے سرفراز فرمایا جب ان کی قوم کے لوگ مجسموں کے پجاری بن چکے تھے۔ جس کی وضاحت کرتے ہوئے حضرت عبداللہ بن عباس (رض) نے فرمایا کہ جب نوح (علیہ السلام) کی قوم کے نیک لوگ فوت ہوگئے تو شیطان نے ان کی اولاد کے دل میں یہ خیال ڈالا کہ جہاں تمھارے بزرگ بیٹھا کرتے تھے وہاں ان کے مجسمے تراش کر رکھ دیے جائیں تاکہ ان کا نام اور عقیدت باقی رہے۔ انھوں نے ایسا ہی کیا جب مجسمے رکھنے والے لوگ فوت ہوگئے تو ان کے بعد آنے والے لوگوں نے ان مجسموں کو اللہ تعالیٰ کی قربت کا وسیلہ بناناشروع کردیا اور پھر ان کی بالواسطہ عبادت اور ان کے حضور نذرانے پیش کیے جانے لگے۔ حضرت عبداللہ بن عباس (رض) یہ بھی فرمایا کرتے تھے کہ سورۃ نوح میں ودّ، سواع، یغوث اور یعوق کے نام سے جن بتوں کا تذکرہ ہے وہ نوح (علیہ السلام) کی قوم کے صالح لوگوں کے نام ہیں۔ (بخاری : کتاب التفسیر) سورۃ العنکبوت آیت ١٤ میں بیان کیا گیا ہے کہ جناب نوح (علیہ السلام) نے ساڑھے نو سو سال قوم کی اصلاح کرنے میں صرف فرمائے۔ سورۃ نوح : ٥۔ ٦ میں یہ وضاحت فرمائی گئی ہے کہ انھوں نے اللہ تعالیٰ سے یہ فریاد کی کہ میرے رب میں نے اپنی قوم کو رات اور دن انفرادی اور اجتماعی طور پر سمجھانے کی کوشش کی لیکن میری سر توڑ کوشش کے باوجود قوم شرک اور برائی میں آگے ہی بڑھتی جارہی ہے۔ قوم نہ صرف جرائم میں آگے بڑھتی گئی بلکہ الٹا انھوں نے نوح (علیہ السلام) کے خلاف گمراہ ہونے کا پراپیگنڈہ کرنے کے ساتھ بار بار مطالبہ کیا کہ اے نوح! اگر تو واقعی اللہ کا سچا نبی ہے تو ہمارے لیے عبرت ناک عذاب کی بددعا کیجیے۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے نہایت مجبور ہو کر ان کے لیے بد دعا کی ” اے میرے رب میں ان کے مقابلے میں بالکل بے بس اور مغلوب ہوچکا ہوں تو میری مدد فرما۔“ (القمر : ١٠) حضرت نوح (علیہ السلام) نے بد دعا کرتے ہوئے اپنے رب کے حضور یہ بھی درخواست کی کہ میرے رب اب زمین پر کافروں کا ایک شخص بھی نہیں بچنا چاہیے کیونکہ ان میں سے جو بھی پیدا ہوگا وہ برا اور کافر ہی ہوگا۔ ( نوح ٢٥ تا ٢٧) اللہ تعالیٰ نے نوح (علیہ السلام) کی بد دعا قبول کرتے ہوئے انھیں حکم دیا کہ آپ میرے سامنے ایک کشتی بنائیں۔ جب نوح (علیہ السلام) کشتی بنا رہے تھے تو ان کی قوم نے ان کو بار بار تمسخر کا نشانہ بنایا۔ جس کے جواب میں نوح (علیہ السلام) انھیں یہی فرماتے کہ آج تم مجھے استہزاء کانشانہ بنا رہے ہو لیکن کل تم ہمیشہ کے لیے مذاق اور عبرت کا نشان بن جاؤ گے۔ ( ھود : ٣٧ تا ٣٩) قوم نوح پر اللہ تعالیٰ نے پانی کا ایسا عذاب نازل فرمایا کہ جس کے بارے میں سورۃ القمر آیت ١١، ١٢ ا میں بیان ہوا ہے کہ آسمان کے دروازے کھل گئے زمین سے چشمے پھوٹ نکلے یہاں تک کہ تنور پھٹ پڑا۔ اس طرح نوح (علیہ السلام) کے نافرمان بیٹے سمیت ان کی قوم کو پانی میں ڈبکیاں دے دے کر ختم کردیا گیا۔ عذاب کی کیفیت : قوم نوح پر چالیس دن مسلسل دن رات بے انتہا بارش برستی رہی یہاں تک کہ جگہ جگہ زمین سے چشمے پھوٹ پڑے۔ حتٰی کہ تنور پھٹ پڑا۔ اللہ تعالیٰ نے طوفان کے آغاز میں حضرت نوح (علیہ السلام) کو حکم دیا کہ وہ اللہ کا نام لے کر کشتی میں سوار ہوجائیں اور اپنے ساتھ ہر جاندار کا جوڑا جوڑا یعنی نر اور مادہ دو دو کشتی میں اپنے ساتھ سوار کرلیں۔ البتہ کسی کافر اور مشرک کو کشتی میں سوار کرنے کی اجازت نہیں۔ (ہود : ٤٠ تا ٤٢) مفسرین نے لکھا ہے جس کی تائید موجودہ دور کے آثار قدیمہ کے ماہرین بھی کرتے ہیں کہ طوفان نوح نے فلک بوس پہاڑوں کی چوٹیوں کو بھی ڈھانپ لیا تھا۔ بائبل میں لکھا ہے کہ سیلاب بلند ترین پہاڑوں کی چوٹیوں سے ١٥ فٹ اوپر بہہ رہا تھا۔ امام طبری سورۃ الحاقۃ آیت ١١ کی تفسیر کرتے ہوئے حضرت ابن عباس (رض) کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ سیلاب اس قدر بے انتہا تھا کہ مشرق سے مغرب تک کوئی جاندار چیز باقی نہ رہی۔ مسائل ١۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے ساڑھے نو سو سال قوم کو سمجھایا لیکن قوم نے ان کی تکذیب کی۔ ١۔ قوم کے مطالبہ اور نوح (علیہ السلام) کی بد دعا کے نتیجہ میں ان کی قوم کو سیلاب کے ذریعہ تباہ کردیا گیا۔ ٣۔ مغضوب قوموں کی تاریخ لوگوں کے لیے عبرت کا نشان ہے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ نے ظالموں کے لیے اذیّت ناک عذاب تیار کر رکھا ہے۔ تفسیر بالقرآن حضرت نوح (علیہ السلام) کی قوم کے انجام کی ایک جھلک : ١۔ نوح (علیہ السلام) کی قوم ظالم تھی۔ (النجم : ٥٢) ٢۔ قوم نوح طوفان کے ذریعے ہلاک ہوئی۔ (الاعراف : ١٣٦) ٣۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے اپنے بیٹے کو فرمایا آج کے دن اللہ کے عذاب سے کوئی بچانے والا نہیں۔ (ہود : ٤٣) ٤۔ قوم نوح نے جب حضرت نوح (علیہ السلام) کی تکذیب کی تو ہم نے انہیں غرق کردیا۔ (الفرقان : ٣٧) الفرقان
38 الفرقان
39 فہم القرآن ربط کلام : حضرت نوح (علیہ السلام) کے بعد قوم عاد، ثمود اور کنویں والوں کا انجام۔ یہاں چند الفاظ میں قوم عاد، ثمود، کنویں والوں اور ان کے بعد نامعلوم اقوام کی تباہی کا ذکر کیا گیا ہے۔ جن کے بیان کا مقصد ان کے بعد آنے والی اقوام بالخصوص امت مسلمہ اور دیگر لوگوں کے لیے عبرت کے دلائل مہیا کرنا ہے تاکہ لوگ اپنے آپ کو ان جرائم سے بچانے کی کوشش کریں جن جرائم کی بنیاد پر ان قوموں کو تباہی کے گھاٹ اتار دیا گیا اور ان کی تاریخ رہتی دنیا کے لیے حسرت کا پیغام بنا دی گئی۔ یہاں قرآن مجید نے ان قوموں کی تاریخ کو چند الفاظ میں ذکر کیا ہے۔ اسی اختصار کے پیش نظر اِ ن اقوام کی تباہی کی ایک جھلک پیش کی جاتی ہے تاکہ ان قوموں کے بیان کا مقصد ہمارے سامنے رہے۔ قوم عادجسمانی اعتبار سے دراز قامت، کڑیل جوان اور قوی ہیکل تھے۔ دنیا میں ان کا کوئی ثانی نہیں ہوا۔ انھوں نے پہاڑتراش، تراش کر خوبصورت محلات تعمیر کر رکھے تھے۔ ان کی سرزمین نہایت سر سبزتھی جس میں ہر قسم کے باغات آراستہ تھے انھیں قرآن مجید میں ” احقاف والے“ بھی کہا گیا ہے۔ کیونکہ ان کی سرمین پر ریت کے بڑے بڑے ٹیلے تھے جس وجہ سے انہیں احقاف والے کہا گیا ہے جو عرب کے جنوب مغربی حصہ میں واقع تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اسی علاقہ میں حضرت ھود (علیہ السلام) کو مبعوث فرمایا جو خوش اندام کڑیل جوان اور بہترین صورت و سیرت کے حامل تھے۔ قوم عاد کی خصوصیات اور جرائم : ١۔ اللہ تعالیٰ نے عاد کو قوم نوح کے بعد زمین پر اقتدار اور اختیار بخشا۔ (الاعراف : ٦٩) ٢۔ قوم عاد اس قدر کڑیل اور قوی ہیکل جوان تھے کہ ان جیسا دنیا میں کوئی اور پیدا نہیں کیا گیا۔ (الفجر ٦ تا ٨ ) انھیں افرادی قوت اور مویشیوں سے نوازا گیا۔ (الشعراء : ١٣٣) ٣۔ یہ قوم بڑے بڑے محلات میں رہتی تھی۔ کھیتی باڑی اور باغات میں ان کا کوئی ثانی نہیں تھا۔ (الشعراء ١٢٩ تا ١٣٣) [ تفصیل جاننے کے لیے فہم القرآن، جلد ٢ : سورۃ الاعراف، آیت ٦٥ تا ٧٣ کی تفسیر ملاحظہ فرمائیں] قوم ثمود کا کردار اور انجام : اصحاب الحجر سے مراد وہ قوم اور علاقہ ہے جو مدینہ سے تبوک جاتے ہوئے راستے میں پڑتا ہے۔ یہ علاقہ جغرافیائی اعتبار سے خلیج اربعہ کے مشرق میں اور شہر مدین کے جنوب مشرق میں واقع ہے۔ یہ قوم اس قدر ٹیکنالوجی اور تعمیرات کے معاملے میں ترقی یافتہ تھی کہ انہوں نے پہاڑوں کو تراش تراش کر مکانات اور محلات تعمیر کیے تھے تاکہ کوئی زلزلہ اور طوفان انہیں نقصان نہ پہنچا سکے۔ یہ قوم بھی کفرو شرک کا عقیدہ رکھنے کے ساتھ ہر قسم کے جرائم میں ملوث تھی۔ حضرت صالح (علیہ السلام) نے بہت سمجھایا مگر یہ لوگ کفر و شرک اور برے اعمال سے باز نہ آئے۔ حضرت صالح (علیہ السلام) اور ان کے ایماندار ساتھیوں کے بارے میں یہ پروپیگنڈہ کرتے کہ تم ہمارے لیے نحوست کا سبب ہو اور حضرت صالح (علیہ السلام) پر جادو کا اثر ہوچکا ہے۔ (الشعراء : ١٤٢ تا ١٥٣) انھوں نے حضرت صالح (علیہ السلام) سے کہا کہ ہم اس وقت تک ایمان نہیں لائیں گے جب تک ہمارے سامنے اس پہاڑ سے گابھن اونٹنی نمودار نہ ہو۔ حضرت صالح (علیہ السلام) نے انہیں بہت سمجھایا کہ اس طرح معجزہ طلب نہ کرو۔ اگر تمہارا منہ مانگا معجزہ ظاہر کردیا گیا اور تم نے اس کا انکار کیا تو پھر تمہارا بچنا مشکل ہوگا۔ لیکن قوم ثمود اپنے مطالبہ پر مصر رہی۔ چنانچہ انہیں اونٹنی کا معجزہ دیا گیا مگر انہوں نے اونٹنی کی ٹانگیں کاٹ دیں۔ جسکے سبب عذاب نا زل ہوا۔ جس کا یہاں ذکر کیا گیا ہے۔ (تفصیل کے لیے دیکھیں فہم القرآن، جلد ٢: سورۃ الاعراف، آیت ٧٣ تا ٨٤ کی تفسیر ملاحظہ فرمائیں) اصحاب الرّس کون لوگ تھے ان کے متعلق مفسرین نے بہت سے اقوال نقل کیے ہیں لیکن کسی نے یقین کے ساتھ کچھ نہیں کہا۔ ابن جریر (رض) نے کہا ہے کہ اس سے مراد اصحاب الاخدود ہیں جن کا تذکرہ سورۃ البروج میں ہوا۔ بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ الرّس سے مراد وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے نبی کو قتل کرکے ویران کنویں میں پھینک دیا تھا۔ ان پر اللہ کا عذاب آیا اور وہ ہلاک کر دئیے گئے۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے عاد، ثمود اور کنویں والوں کو ان کے جرائم کی وجہ سے تباہ و برباد کیا۔ ٢۔ تباہ ہونے والی قوموں کی تاریخ آئندہ نسلوں کے لیے عبرت کا سامان ہے۔ تفسیر بالقرآن عاد، ثمود کی تباہی کا ایک منظر : ١۔ عاد زبر دست آندھی کے ذریعے ہلاک ہوئے۔ (الحاقۃ: ٦) ٢۔ قوم عاد و ثمود کے برے اعمال کو شیطان نے انکے لیے فیشن بنا دیاتھا۔ (العنکبوت : ٣٨) ٣۔ قوم عاد نے جھٹلایا تو اللہ نے ان کو ہلاک کردیا۔ (الشعراء : ١٣٩) ٤۔ قوم عاد کو تند وتیز آندھی کے ساتھ ہلاک کردیا گیا۔ (الحاقۃ : ٦) ٥۔ قوم عاد نے ہود (علیہ السلام) سے عذاب کا مطالبہ کیا۔ (الاحقاف : ٢٢) ٦۔ ثمود زور دار آواز کے ساتھ ہلاک کیے گئے۔ (الحاقۃ: ٥) ٧۔ ہم نے قوم ثمود کی راہنمائی کی مگر انہوں نے ہدایت کے بدلے جہالت کو پسند کیا۔ (حم السجدۃ: ١٧) الفرقان
40 فہم القرآن ربط کلام : عاد، ثمود اور دیگر قوموں کی تباہی کے ذکر کے بعد قوم لوط کی تباہی کا ذکر۔ جن قوموں کی عبرت ناک تاریخ کا ذکر کیا گیا ہے ان کی اکثریت کا تعلق سرزمین عرب کے ساتھ ہے جس بناء پر عام لوگوں کے ساتھ بالخصوص اہل مکہ کو توجہ دلائی گئی ہے کہ ان اقوام کی تاریخ تمھارے سامنے ہے اور ان کے علاقے تمھاری راہ گزر پر واقع ہیں۔ یاد رہے کہ اہل مکہ کی تجارت کا عام طور پر دار ومدار انہی علاقوں کی منڈیوں پر تھا جس وجہ سے وہ قافلوں کی صورت میں مغضوب قوموں کی سرزمین سے گزرتے اور ان کے آثار قدیمہ کو دیکھتے تھے۔ لیکن اس کے باوجود عبرت حاصل کرنے کے لیے آمادہ نہ ہوئے۔ عبرت حاصل کرنے کے لیے بنیادی اصول یہ ہے کہ انسان موت کے بعد زندہ ہونے پر ایمان لائے اور محشر کے دِن حساب اور احتساب پر یقین رکھے لیکن لوگوں کی غالب اکثریت مرنے کے بعد جی اٹھنے پر حقیقی اور عملی ایمان نہیں رکھتی۔ قوم لوط کا کردار : قوم لوط کے لوگ نفسانی خواہش اپنی بیویوں سے پوری کرنے کے بجائے لڑکوں سے پوری کرتے تھے۔ گویا کہ یہ ہم جنسی کے بدترین گناہ کے مرتکب ہوئے حضرت لوط (علیہ السلام) کے بار بار سمجھانے کے باوجود باز آنے پر تیار نہ ہوئے۔ حضرت لوط (علیہ السلام) کو رجم کردینے کی دھمکی دینے کے ساتھ ان سے عذاب الٰہی کا مطالبہ کرتے رہے۔ تفسیر بالقرآن قوم لوط کی تباہی کا حال : ١۔ قوم لوط ایسی برائی کے مرتکب ہوئے جو ان سے پہلے کسی قوم نے نہیں کی۔ ( الاعراف : ٨٠) ٢۔ ہم نے اس بستی کو الٹ کر ان پر پتھروں کی بارش برسائی۔ (الحجر : ٧٤) ٣۔ ان کے پاس ان کی قوم کے لوگ دوڑتے ہوئے آئے اور وہ پہلے سے ہی بدکاریاں کیا کرتے تھے۔ (ھود : ٧٨) ٤۔ لوط نے کہا کہ کاش میرے پاس طاقت ہوتی یا میں کوئی مضبوط پناہ گاہ پاتا۔ (ھود : ٨٠) ٥۔ ہم نے اوپر والی سطح کو نیچے کردیا اور ہم نے ان پر پتھروں کی بارش برسا دی جو تہہ بہ تہہ تھے خاص نشان لگے ہوئے۔ (ھود : ٨٢) الفرقان
41 فہم القرآن ربط کلام : قیامت کا انکار کرنے والوں کا رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ رویہّ۔ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عظیم اور پرخلوص جدوجہد کے باوجود مکہ کے ابتدائی دور میں چند لوگوں کے سوا کوئی شخص آپ پر ایمان نہ لایا۔ ایمان لانے والوں میں ایک دو حضرات کو چھوڑ کر باقی حضرات انتہائی غریب تھے اور کچھ ان میں مکہ والوں کے زرخرید غلام تھے۔ ان حالات کے باوجود نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دو ٹوک اور کھلے الفاظ میں اعلان کرتے کہ لوگو! لا الہ الا اللہ پڑھو اور اس کے تقاضے پورے کرو میں تمھیں معاشی خوشحالی، سیاسی اقتدار کی کامیابی اور دنیا و آخرت کی فلاح کی ضمانت دیتا ہوں۔ اس پر اہل مکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا استہزاء اڑاتے کہ یہ کس قدر ناعاقبت اندیش شخص ہے کہ خود ناکام ہونے کے باوجود لوگوں کو کامیابیوں کی ضمانت دیتا ہے۔ کفار یہ کہہ کر بھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مذاق کرتے کہ اللہ تعالیٰ نے واقعی ہی کسی انقلاب کا ارادہ کیا ہے تو وہ انسان کی بجائے کسی مافوق الفطرۃ ہستی کو رسول منتخب کرتا۔ یا یہ حقیقتاً اللہ کا رسول ہوتا تو اسے دنیا کے وسائل سے سرفراز کیا جاتا۔ اس کی باتیں دیوانے کی بھڑ سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں رکھتیں۔ مسائل ١۔ قیامت کے منکر انبیاء کرام (علیہ السلام) کو استہزاء کا نشانہ بنایا کرتے تھے۔ تفسیر بالقرآن گمراہ اقوام کا انبیاء کرام کو مذاق کرنا : ١۔ یقیناً رسولوں کے ساتھ اس سے پہلے بھی مذاق کیا گیا ہے۔ (الرعد : ٢٢) ٢۔ کیا تم اللہ، اس کی آیات اور اس کے رسولوں سے مذاق کرتے ہو۔ (التوبہ : ٦٥) ٣۔ نہیں آیا ان کے پاس کوئی رسول مگر انہوں نے اس کا مذاق اڑایا۔ (الحجر : ١١) ٤۔ افسوس ہے لوگوں پر جب بھی ان کے پاس کوئی رسول آیا تو انہوں نے اس کا مذاق اڑایا۔ (یٰس : ٣٠) ٥۔ نہیں آیا ان کے پاس کوئی نبی مگر وہ ان سے مذاق کرتے تھے۔ (الزخرف : ٧) الفرقان
42 فہم القرآن ربط کلام : کفار کی مخالفت اور استہزاء کے باوجود رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جدوجہد کے بڑھتے ہوئے اثرات۔ دور نبوت کے ابتدائی سالوں میں کفار کو یہ خوش فہمی تھی کہ ہم توحید و رسالت کی دعوت کو روکنے میں کامیاب ہوجائیں گے جس کے لیے انھوں نے سر دھڑ کی بازی لگا رکھی تھی جس کے لیے انھوں نے کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔ یہاں کفار کی انہی کوششوں کا ذکر ہے جس سے حق وباطل کے درمیان ہونے والی کشمکش کا پتہ چلتا ہے۔ قرآن مجید نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو آگاہ فرمایا کہ کافر اور مشرک چاہتے ہیں کہ اللہ کے نور کو منہ کی پھونکوں سے بجھا دیں لیکن اللہ تعالیٰ نے فیصلہ کر رکھا ہے کہ نور ہدایت دنیا پر پھیل کر رہے گا۔ (الصف : ٨۔ ٩) اس کے ساتھ ہی قرآن مجید نے دو ٹوک انداز میں واضح فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا قطعی فیصلہ ہے کہ وہ اور اس کا رسول ہر صورت غالب آئیں گے کیونکہ اللہ بڑا طاقت ور اور غالب آنے والا ہے۔ (المجادلہ : ٢١) اس لیے کفار کو یہ انتباہ کیا گیا ہے کہ وہ اپنی مذموم کوششوں سے باز آجائیں کیونکہ وہ کسی صورت بھی اللہ کے دین کے پھیلاؤ میں رکاوٹ نہیں بن سکتے۔ اگر پھر بھی باز آنے کے لیے تیار نہیں تو انھیں بہت جلد معلوم ہوجائے گا کہ کون سیدھے راستے سے گمراہ ہوچکا اور کس کا انجام بدترین ہوگا ؟ بالخصوص جب جہنم کے عذاب کو اپنی آنکھوں سے دیکھیں گے۔ تو سوائے حسرت کے ان کے پلے کچھ نہیں ہوگا۔ مذکورہ آیت کے الفاظ سے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بے مثال جدوجہد اور کفار کی طرف سے شدید ردّ عمل کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی جدوجہد جاری رکھی یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے دین کو غالب فرمایا اور کافر ناکام ہوئے یہ آخرت میں اذّیت ناک عذاب میں مبتلا ہونگے۔ الفرقان
43 ” آپ نے اس شخص کے بارے میں غور کیا ہے جس نے اپنی خواہشات کو اپنا خدا بنالیا ہے؟ کیا آپ ایسے شخص کو راہ راست پر لاسکتے ہیں؟ (٤٣) الفرقان
44 فہم القرآن ربط کلام : دین حق کی مخالفت اور انسان کی گمراہی کا بنیادی سبب نفس پرستی ہے۔ اس لیے نفس پر ستی کی نفی کی گئی ہے۔ انسان جب بھی حق بات کی مخالفت کرتا ہے یا کسی گناہ میں ملّوث ہوتا ہے تو اس کے پیچھے اس کی نفسانی خواہش کا جذبہ کار فرما ہوتا ہے۔ کچھ لوگ اس حد تک اپنے نفس کے بندے بن چکے ہوتے ہیں کہ ان کے ہر کام کے پیچھے اپنی منشاء اور مفاد کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ ایسے شخص کے بارے میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ارشاد ہوا ہے کیا آپ نے اس شخص کے کردار پر غور نہیں کیا جس نے اپنی خواہش کو خدا کا درجہ دے دیا ہے ؟ ایسے شخص کو راہ راست پرلانا کسی کے بس کا روگ نہیں ہوتا لہٰذا آپ کو ارشاد ہوا کہ آپ ایسے شخص کے فکر وعمل پر وقت صرف کرنے کی بجائے اپنا کام کیے جائیں کیونکہ آپ کسی کے اعمال کے ذمہ دار نہیں ٹھہرائے گئے۔ نفس کے بندوں کی حالت یہ ہوتی ہے کہ دیکھنے والا انھیں انسان سمجھتا ہے لیکن حقیقت میں وہ حیوان سے بدتر ہوتے ہیں۔ بے شک وہ انسان کی طرح سنتے اور عقل رکھتے ہیں۔ لیکن اپنے نفس کے غلام ہونے کی وجہ سے چوپاؤں سے بدتر ہوچکے ہیں بلکہ بے راہ روی کے اعتبار سے ڈنگروں سے بھی زیادہ بدتر ہیں۔ چوپائے میں اللہ تعالیٰ نے یہ خوبی رکھی ہے کہ وہ اپنے مالک کا وفادار اور اس کی زبان نہ سمجھنے کے باوجود اس کی آواز کے انداز اور لب ولہجہ کا اندازہ لگا کر مالک کی تابعداری کرتا ہے۔ کتے کو دیکھیں جانوروں میں حقیر اور پلید ہونے کے باوجود کس طرح اپنے مالک کا وفادار ہوتا ہے لیکن انسان اشرف المخلوقات ہونے اور عقل و فکر رکھنے کے باوجود خالق حقیقی کی تابعداری اور بندگی کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ دنیا میں کسی جانور اور چوپائے کی ایسی مثال موجود نہیں کہ جو اپنے مالک کو چھوڑ کر دوسرے کی غلامی کرتا ہو۔ لیکن انسان اس قدر جاہل اور ظالم ہے کہ یہ ناصرف اپنے مالک حقیقی کی نافرمانی کرتا ہے بلکہ دوسروں کے سامنے سجدہ ریز ہوتا ہے۔ ایسے لوگوں کو جانوروں سے بدتر نہ کہا جائے تو اور انھیں کس نام سے پکارا جائے ؟ نفس کی پیروی کا نقصان : عَنْ شَدَّادٌ فَإِنِّی قَدْ سَمِعْتُ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَقُولُ مَنْ صَلَّی یُرَاءِی فَقَدْ أَشْرَکَ وَمَنْ صَامَ یُرَاءِی فَقَدْ أَشْرَکَ وَمَنْ تَصَدَّقَ یُرَاءِی فَقَدْ أَشْرَکَ) [ رواہ احمد : مسند شداد ] حضرت شداد (رض) بیان کرتے ہیں میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے ہوئے سنا۔ آپ نے فرمایا جس نے دکھلاوے کی نماز پڑھی اس نے شرک کیا جس نے دکھلاوے کاروزہ رکھا اس نے شرک کیا جس نے دکھلاوے کا صدقہ دیا اس نے شرک کیا۔ (إِنَّ اللَّہَ لاَ یَنْظُرُ إِلَی أَجْسَادِکُمْ وَلاَ إِلَی صُوَرِکُمْ وَلَکِنْ یَنْظُرُ إِلَی قُلُوبِکُمْ وَأَشَارَ بِأَصَابِعِہِ إِلَی صَدْرِہِ) [ رواہ مسلم : باب تَحْرِیمِ ظُلْمِ الْمُسْلِمِ وَخَذْلِہِ وَاحْتِقَارِہِ وَدَمِہِ وَعِرْضِہِ وَمَالِہِ] ” بلاشبہ اللہ تعالیٰ تمہارے جسموں اور شکل وصورت کی طرف نہیں دیکھتا لیکن وہ تمہارے دلوں کی طرف دیکھتا ہے اور آپ نے اپنی انگلی کے ساتھ اشارہ فرمایا۔“ مسائل ١۔ دین کے مقابلے میں اپنے نفس کی بات ماننا، نفس کو خدا بنانے کے مترادف ہے۔ ٢۔ جو لوگ اپنے نفس کے پجاری بن جاتے ہیں وہ چوپاؤں سے بدتر ہوتے ہیں۔ ٣۔ نفس کا پجاری انسان پر لے درجے کا گمراہ ہوتا ہے۔ تفسیر بالقرآن چوپاؤں سے بدتر انسان : ١۔ اللہ تعالیٰ نے ان پر لعنت کردی انھیں بہرے اور اندھے کردیا ہے۔ (محمد : ٢٣) ٢۔ بہرے، گونگے اور اندھے ہیں وہ رجوع نہیں کرتے۔ (البقرۃ: ١٨) ٣۔ ہماری آیات کا انکار کرنے والے بہرے اور گونگے ہیں۔ (الانعام : ٣٩) ٤۔ بہروں کو آپ نہیں سنا سکتے کیونکہ وہ بے عقل ہیں۔ (یونس : ٤٢) ٥۔ آپ مردوں اور بہروں کو اپنی پکار نہیں سنا سکتے۔ (النمل : ٨٠) ٦۔ کفار چوپاؤں جیسے ہیں بلکہ ان سے بھی بدترہیں۔ (الاعراف : ١٧٩) ٧۔ عقل سے کام نہ لینے کا انجام۔ ( الملک : ١٠) ٨۔ ہدایت کے لیے ضروری ہے کہ انسان دل، کان اور توجہ سے کام لے۔ ( ق : ٣٧) الفرقان
45 فہم القرآن ربط کلام : نفس کی پیروی کرنے والا شخص اپنے گردوپیش کو دیکھے اور اس پر غور کرے تو اپنے نفس کی پیروی کرنے کی بجائے اپنے رب کا تابعدار بن جائے گا۔ ارشاد ہوتا ہے کہ اے انسان کیا تو اس بات پر غور نہیں کرتا کہ تیرا رب سائے کو کس طرح زمین پر بچھاتا ہے ؟ اگر وہ چاہتا تو سائے کو ایک ہی جگہ جامد کردیتا۔ اس نے سورج کو اس پر دلیل بنایا ہے وہی رب سورج کو اپنی طرف آہستہ آہستہ سمیٹ لیتا ہے۔ اس فرمان میں اللہ تعالیٰ نے سورج اور سائے کو اپنی قدرت کی نشانی کے طور پر پیش کیا ہے۔ سورج ایک مقررہ وقت کے مطابق طلوع ہوتا ہے اور دوپہر کے وقت اپنے شباب کو پہنچنے کے بعد آہستہ آہستہ ڈھلنا شروع ہوجاتا ہے بالآخر غروب ہوجاتا ہے۔ جس کے نتیجہ میں دنیا کے ایک حصہ کو رات اپنی سیاہ چادر میں لپیٹ لیتی ہے۔ سورج کی رفتار کے ساتھ ساتھ ہر چیز کا سایہ زمین پر پھیلتا ہے سورج مشرق کی جانب ہو تو سایہ مغرب کی جانب ہوتا ہے۔ سورج مغرب کی جانب ہو تو ہر چیز کا سایہ سورج کی الٹی جانب چلتا ہے۔ جس سائے سے انسان، چوپائے اور جانور فائدہ اٹھاتے ہیں اگر اللہ تعالیٰ سورج کا مدار اس طرح بنا دیتا کہ جس سے چیزوں کا سایہ ختم ہوجائے تو انسان اور دیگر جانوروں کا کیا حال ہوتا ؟ کیونکہ اس طرح گھر سے باہر انسان کے آرام کی کوئی جگہ نہ رہتی۔ جس سے ناصرف انسان کی زندگی دوبھر ہوجاتی بلکہ دنیا کی ترقی ناممکن ہوجاتی یا سورج کی گردش اس طرح مقرر کی جاتی کہ جس سے سایہ زمین پر پھیلنے کی بجائے ایک ہی جگہ پر قائم رہتا تو اس سے فصلوں کو اور پھلوں کے پکنے کی کوئی صورت باقی نہ رہتی۔ اس کا اس قدر نقصان ہوتا کہ تلافی ناممکن ہوجاتی۔ کیونکہ بے شمار فصلیں اور پودے ایسے ہیں جو زیادہ مدت تک سائے میں نہیں رہ سکتے۔ ایک طرف سائے سے لوگوں کو فوائد پہنچ رہے ہیں اور دوسری طرف ہر چیز کا سایہ اپنے حال کے مطابق اللہ تعالیٰ کے حضور سجدہ ریز ہوتا ہے یہاں سورج کو دلیل کے طور پر بنایا گیا ہے۔ عربی زبان میں دلیل اس شخص کو کہتے ہیں جو سمندر میں ملاحوں کو راستے کی نشاندہی کرتا ہے۔ گویا کہ سورج باالفاظ دیگر سائے کے پھیلنے میں دلیل کا کام دیتا ہے۔ اس طرح سورج اور سایہ لازم ملزوم بنا دئیے گئے ہیں۔ (عَنْ اَبِیْ ذَرٍّ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حِیْنَ غَرَبَتِ الشَّمْسُ اَتَدْرِیْ اَیْنَ تَذْھَبُ ھٰذِہٖ قُلْتُ اَللّٰہُ وَرَسُوْلُہٗٓ اَعْلَمُ قَالَ فَاِنَّھَا تَذْھََبُ حَتّٰی تَسْجُدَتَحْتَ الْعَرْشِ فَتَسْتَاْذِنُ فَیُؤْذَنُ لَھَا وَیُوْشِکُ اَنْ تَسْجُدَوَلَاتُقْبَلُ مِنْھَا وَتَسْتَأْذِنُ فَلَا یُوؤذَنُ لَھَا وَیُقَالُ لَھَآ اِرْجِعِیْ مِنْ حَیْثُ جِءْتِ فَتَطْلُعُ مِنْ مَّغْرِبِھَا فَذَالِکَ قَوْلُہٗ وَالشَّمْسُ تَجْرِیْ لِمُسْتَقَرٍّلَّھَا قَالَ مُسْتَقَرُّھَا تَحْتَ الْعَرْشِ) [ رواہ البخاری : کتاب بدأ الخلق باب صِفَۃِ الشَّمْسِ وَالْقَمَرِ ] ” حضرت ابوذر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کیا تجھے معلوم ہے جب سورج غروب ہوتا ہے تو کہاں جاتا ہے؟ میں نے کہا‘ اللہ اور اس کے رسول کو علم ہے۔ آپ نے فرمایا سورج عرش کے نیچے جاکر سجدہ کرتا اور اجازت طلب کرتا ہے۔ اسے اجازت مل جاتی ہے قریب ہے کہ وہ سجدہ کرے اور اس کا سجدہ قبول نہ ہو وہ طلوع ہونے کی اجازت طلب کرے اس کو اجازت نہ ملے۔ اسے حکم ہو جدھر سے آیا اسی طرف سے طلوع ہوجا۔ چنانچہ سورج مغرب کی طرف سے طلوع ہوگا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ سورج اپنے مستقر کی طرف چلا جاتا ہے فرمایا اس کا ٹھکانا عرش کے نیچے ہے۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کا سایہ پیدا فرمایا جس سے انسان، حیوانات اور نباتات مستفید ہوتے ہیں۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ سائے کو ایک جگہ جامد کرنے کی قدرت رکھتا ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ سورج اور سائے کی رفتار پر کنٹرول کرتا ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ کو ہر چیز اور اس کا سایہ بھی سجدہ کرتا ہے : ١۔ اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کا سایہ بنایا ہے۔ (النحل : ٤٨) ٢۔ ہر چیز کا سایہ اپنے رب کو سجدہ کرتا ہے۔ (النحل : ٤٨) ٣۔ اللہ کو زمین و آسمان کی ہر چیز سجدہ کرتی ہے۔ (النحل : ٤٦) ٤۔ ستارے اور درخت اللہ کو سجدہ کرتے ہیں۔ (الرحمٰن : ٦) ٥۔ زمین و آسمان کی ہر چیز اللہ کو سجدہ کرتی ہے۔ (الر عد : ١٥) ٦۔ یقیناً جو ملائکہ آپ کے رب کے پاس ہیں وہ اس کی عبادت سے تکبر نہیں کرتے، اس کی تسبیح بیان کرتے اور اس کو سجدہ کرتے ہیں۔ (الاعراف : ٢٠٦) ٧۔ کیا وہ نہیں دیکھتے کہ اللہ کو زمین و آسمان کی ہر چیز سورج، چاند، ستارے، پہاڑ، درخت، چوپائے اور بہت سے انسان سجدہ کرتے ہیں۔ (الحج : ١٨) الفرقان
46 الفرقان
47 فہم القرآن ربط کلام : نظام شمسی کے ساتھ رات اور دن کا آنا جانا لازم وملزوم ہے۔ اس لیے رات اور دن کا ذکر کیا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو بار بار اس بات کی دعوت دی ہے کہ وہ رات اور دن کے آنے جانے، ان کے گھٹنے اور بڑھنے پر غور کرے تاکہ اسے علم یقین ہو کہ اللہ تعالیٰ کس قدر قدرت والا ہے۔ وہ رات اور دن کے نظام کو کس ترتیب کے ساتھ چلا رہا ہے؟ رات اور دن میں سب سے پہلی دلیل یہ ہے کہ کروڑوں اور اربوں انسان سال ہا سال سے دیکھ رہے ہیں۔ رات اور دن کے آنے جانے کا سلسلہ اس قدر منظم ہے کہ آج تک دنیا کے کسی خطے میں ان کے آنے جانے میں نقص واقع نہیں ہوا۔ کیا انسان نے اس بات پر غور کیا ہے؟ کہ پوری دنیا کے سائنسدان اور حکمران مل کر بھی دن اور رات کے اوقات میں ایک سیکنڈ کا آگاپیچھا نہیں کرسکتے۔ رات اور دن کے اوقات ابد سے چوبیس گھنٹوں پر مشتمل ہیں یہ ازل تک چوبیس گھنٹے ہی رہیں گے۔ رات میں ان گنت فوائد ہیں۔ جن میں ایک ایسا فائدہ ہے جس سے ہر ذی روح مستفید ہوتا ہے۔ بالخصوص انسان سب سے زیادہ بہتر طریقے سے مستفید ہوتا ہے۔ رات کو اللہ تعالیٰ نے لباس قرار دیا ہے جس میں انسان کو خود بخود نیند آجاتی ہے۔ جس طرح لباس انسان کے جسم کو ڈھانپتا ہے اسی طرح ہی رات میں اللہ تعالیٰ نے ایسی خصوصیت رکھی ہیں جو دماغ کو ڈھانپ لیتی ہیں۔ جس سے انسان کو نیند آتی ہے اور نیند سے انسان کی دن بھر کی تھکاوٹ اس طرح دور ہوجاتی ہے کہ صبح کے وقت وہ اپنے آپ کو قوت کار کے لیے تازہ دم پاتا ہے۔ یہاں تک کہ نیند انسان کے غم کو ہلکا کردیتی ہے۔ گویا کہ نیند سے انسان ہر طرح پُر سکون ہوجاتا ہے۔ نیند ایسی نعمت ہے کہ اگر انسان کسی وجہ سے نیند سے محروم ہوجائے تو ناصرف اس کا جسم تناؤ کا شکار ہوگا، بلکہ انسان کا زیادہ دیر زندہ رہنا محال ہوجائے گا۔ انسان ہی نہیں بلکہ ہر ذی روح رات کے وقت سکون پاتی ہے۔ یہاں تک کہ نباتات میں بے شمار فصلیں اور پودے ایسے ہیں جو صرف رات کو ہی بڑھتے ہیں اور ان کے پھلوں میں مٹھاس پیدا ہوتی ہے۔ رات کے مقابلے میں دن ہے۔ جس کو اللہ تعالیٰ نے کام کاج اور چلنے پھرنے کے لیے بنایا ہے۔ دن کے فوائد بھی ان گنت ہیں۔ جس طرح اللہ تعالیٰ رات کو چھوٹا اور بڑا کرتا ہے اسی طرح ہی دن کو طویل اور چھوٹا کرتا ہے۔ اگر لیل ونہار وقت کے اعتبار سے یکساں ہوتے تو ناصرف انسان کے لیے مسائل پیدا ہوتے بلکہ انسان اپنی زندگی کو اپنے آپ پر بوجھ محسوس کرتا۔ اگر رات اور دن پر غور فرمائیں تو یہی انسان اور پوری کائنات کی زندگی کا نظام ہے اگر ان میں خلل واقع ہوجائے تو پورا نظام درہم برہم ہوجائے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے رات اور دن کو اپنی قدرت کی عظیم نشانیاں قرار دیا ہے۔ (ھُوَ الَّذِیْ جَعَلَ لَکُمُ الَّیْلَ لِتَسْکُنُوْا فِیْہِ وَ النَّھَارَ مُبْصِرًااِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّسْمَعُوْنََ) [ یونس : ٦٧] ” وہ ذات جس نے تمھارے لیے رات بنائی، تاکہ تم اس میں سکون حاصل کرو اور دن کو روشن بنایا۔ بے شک اس میں ان لوگوں کے لیے بہت سی نشانیاں ہیں جو سچی بات توجہ سے سنتے ہیں۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے رات سکون کے لیے پیدا کی اور دن کو کام کاج کے لیے بنایا۔ ٢۔ کائنات کا پورا نظام رات اور دن کے آنے جانے پر قائم ہے۔ ٣۔ اگر رات اور دن کے نظام میں خلل واقع ہوجائے تو کائنات کا نظام درہم برہم ہوجائے گا۔ تفسیر بالقرآن رات اور دن کے فوائد کی ایک جھلک : ١۔ رات اور دن کو اللہ نے نشانیاں بنایا ہے۔ (بنی اسرائیل : ١٢) ٢۔ دن، رات، سورج اور چاند اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں۔ ( حٰم السجدۃ: ٣٧) ٣۔ رات دن ایک دوسرے کے پیچھے آنے والے ہیں۔ (الاعراف : ٥٤) ٤۔ رات دن کو اور دن رات کو ڈھانپ لیتا ہے۔ (الزمر : ٥) ٥۔ رات آرام اور دن کام کے لیے ہے۔ (الفرقان : ٤٧) ٦۔ آسمان اور زمین کی پیدائش، دن اور رات کے آنے جانے میں عقلمندوں کے لیے نشانیاں ہیں۔ (آل عمران : ١٩٠) ٧۔ بے شک دن اور رات کے مختلف ہونے میں اور جو کچھ اللہ نے زمین و آسمان میں پیدا کیا ہے، اس میں لوگوں کے لیے نشانیاں ہیں۔ (یونس : ٦) الفرقان
48 فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ کی قدرت کے مزید دلائل۔ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کا ہواؤں پر اختیار نہیں وہی ٹھنڈی ہوائیں چلاتا ہے جس سے لوگ بارش کی آمد آمد محسوس کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہی آسمان سے بارش کی صورت میں پاک پانی نازل کرتا ہے، پھر بارش سے مردہ زمین کو زندہ کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جو پائے اور انسان پیدا کیے ہیں وہی بارش کے ذریعے انھیں پانی پلاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں مختلف الفاظ اور انداز میں لوگوں کو نصیحت فرماتا ہے تاکہ لوگ نصیحت حاصل کریں۔ لیکن اس کے باوجود لوگوں کی اکثریت اپنے رب کی ذات اور اس کے فرمودات کا انکار کرتی ہے۔ اس آیت میں ” اَلرِّیٰحٌ“ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ اس کا واحد رِیْحٌہے جس کا معنی ہے ہوا ہے۔ یہاں ہوا کی بجائے ہواؤں کا لفظ استعمال کیا گیا ہے اسی وجہ سے موسمیات کا علم رکھنے والے سائنس دانوں نے ہواؤں کے مختلف نام رکھے ہیں اور ان کی خصوصیات کا الگ الگ ذکر کرتے ہیں۔ ہوا اللہ تعالیٰ کی ایسی نعمت ہے کہ جس کے بے شمار فوائد ہیں۔ ہوا کے بغیر کوئی جاندار زیادہ دیر تک زندہ نہیں رہ سکتا۔ ہوا ہی نباتات کے بیج ایک سے دوسرے تک منتقل کرتی ہے۔ ہوا کے ذریعے ہی پودوں میں نر اور مادہ کا ملاپ ہوتا ہے۔ ہوا ہی بخارات آسمان کی طرف لے جاتی ہے جو بادلوں کی شکل اختیار کرتے ہیں۔ ہوا ہی بادلوں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ ہانک کرلے جاتی ہے۔ ہوا تیز آندھی کی شکل اختیار کرلے تو دنیا کا نظام درہم برہم ہوجاتا ہے۔ ہوا کے ذریعے ہی بارش کا نظام چلتا ہے اور ایک خاص مقدار اور رفتار میں آسمان سے پانی زمین کی طرف اترتا ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ ہوا کو رنگ دار بنا دے تو روشنی کے باوجود انسان اندھوں جیسے ہوجائیں۔ بارش کے پانی کو پاک پانی قرار دیا گیا ہے زمین سے اٹھنے والے پانی کے بخارات میں بے شک کتنی ہی کثاقت اور غلاظت کیوں نہ ہو۔ ہوا بخارات کو ہر قسم کی غلاظت اور بدبو سے پاک کردیتی ہے۔ بارش اللہ تعالیٰ کی رحمت ہے اس کے برسنے سے پہلے ٹھنڈی ہوائیں چلتی ہیں جس سے فضا میں انسان دشمن جراثیم کا خاتمہ ہوتا ہے۔ شدید گرمی کے موسم میں ٹھنڈی ہوا چلنے سے نہ صرف لوگوں کی طبیعتیں بہل جاتی ہیں بلکہ درختوں کے پتے بھی خوشی سے لہلاتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ بارش آب رسانی کا اس قدر جامع مؤثر ذریعہ ہے جس سے آبادیوں اور صحراؤں میں رہنے والے انسان اور ہر قسم کے جاندار بھرپور فائدہ اٹھاتے ہیں۔ یہاں تک درختوں کا ایک ایک پتہ دھل جاتا ہے۔ کیا ایسا کرنا کسی حکومت کے بس کی بات ہو سکتی ہے ؟ مسائل ١۔ بارش اللہ تعالیٰ کی رحمت ہوتی ہے۔ ٢۔ بارش کا پانی ہر قسم کی کثافت اور غلاظت سے پاک ہوتا ہے۔ ٣۔ بارش حیوانوں اور انسانوں کے لیے آب رسانی کا جامع اور مؤثر ترین ذریعہ ہے۔ ٤۔ بارش سے مردہ زمین زندہ ہوجاتی ہے۔ تفسیر بالقرآن بارش کس طرح برستی ہے : ٢۔ آسمانوں و زمین کی پیدائش، دن اور رات کی گردش، سمندر میں کشتیوں کے چلنے، آسمان سے بارش نازل ہونے، بارش سے زمین کو زندہ کرنے، چوپایوں کے پھیلنے، ہواؤں کے چلنے اور بادلوں کے مسخر ہونے میں نشانیاں ہیں۔ (البقرۃ : ١٦٤) ٤۔ تم اللہ سے مغفرت طلب کرو اور اس کی طرف رجوع کرو وہ آسمان سے تمہارے لیے بارش نازل فرمائے گا اور تمہاری قوت میں اضافہ فرما دے گا۔ (ہود : ٥٢) ٦۔ اللہ سے بخشش طلب کرو وہ معاف کردے گا اور بارش نازل فرمائے گا اور تمہارے مال و اولاد میں اضافہ فرمائے گا۔ (نوح : ١٠۔ ١٢) ٧۔ ہوائیں بخارات اٹھاتی اور بادلوں کو چلاتی ہیں۔ (النحل : ٢٢) الفرقان
49 الفرقان
50 الفرقان
51 فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ کی قدرت کی عظیم نشانیاں دیکھنے کے باوجود لوگوں کی اکثریت کفر اختیار کرتی ہے۔ حالانکہ انھیں سمجھانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے انبیاء کرام (علیہ السلام) کو مبعوث فرمایا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی قدرت کی نشانیاں اس قدر واضح اور جامع ہیں کہ اگر انسان ان کی طرف تھوڑی سی توجہ بھی مبذول کرے تو وہ اپنے رب کو پہچان اور ہدایت پا سکتا ہے۔ لیکن انسانوں کی اکثریت حقیقت کی نگاہ سے ” اللہ“ کی نشانیوں کو دیکھنے کے لیے تیار نہیں ہوتی۔ نشانیاں بتلانے اور دکھلانے کے باوجود اللہ تعالیٰ نے انسان کی ہدایت کے لیے ایک لاکھ چوبیس ہزار کے قریب انبیاء کرام (علیہ السلام) مبعوث فرمائے۔ جنھوں نے اپنی اپنی قوم کو یہ بات بار، بار سمجھنانے کی کوشش کی کہ لوگو! اپنے رب کی ذات اور اس کے فرمان کا انکار کرنے کی بجائے اس پر ایمان لاؤ اور اس کی بندگی اختیار کرو۔ لیکن لوگوں کی اکثریت نے کفر ہی اختیار کیے رکھا۔ اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو ہر بستی کے لیے ایک رسول مبعوث کرتا جو لوگوں کو ان کے برے انجام سے ڈراتا۔ لیکن اللہ تعالیٰ کو معلوم تھا اور ہے کہ اگر ایک ایک بستی میں رسول مبعوث کردیا جائے تو پھر بھی لوگ کفر چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہوں گے۔ اس نے اپنی حکمت کاملہ کے تحت مختلف علاقوں اور زمانوں میں پہ درپہ وقفہ وقفہ کے بعد رسول مبعوث فرمائے۔ اللہ تعالیٰ نے سرور دو عالم حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو قیامت تک کے لیے تمام انسانوں کے لیے رسول منتخب فرمایا تاکہ پوری دنیا میں فکری وحدت پیدا ہونے کے ساتھ سرور دو عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا پیغام عام ہوجائے۔ لیکن اس کے باوجود کفار اور مشرکین اس حقیقت کو ماننے کے لیے تیار نہیں۔ لہٰذا اے رسول آپ کو کافروں کے پیچھے لگنے کی بجائے اپنا جہاد جاری رکھنا چاہیے۔ یہاں جہاد کبیرہ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے جس کا معنٰی ہے کفر و شرک کے خلاف ہر جانب سے بھرپور جدوجہد کرنا۔ اس لیے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نہ صرف قتال فی سبیل اللہ کو جہاد قرار دیا ہے بلکہ دین کی سربلندی کے لیے مال اور زبان کے ساتھ کوشش کرنے کو بھی جہاد قرار دیا۔ یہی جہاد اکبر ہے جو ہر حال میں جاری رہنا چاہیے۔ یاد رہے کہ یہ آیت مکہ میں نازل ہوئی جہاں قتال سے منع کیا گیا تھا جس کی اجازت مدینہ میں دی گئی۔ (عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ قَالَ قَالَ رَسُول اللَّہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) أَفْضَلُ الْجِہَادِ کَلِمَۃُ عَدْلٍ عِنْدَ سُلْطَانٍ جَاءِرٍ أَوْ أَمِیرٍ جَاءِرٍ )[ رواہ ابو داؤد : کتاب الملاحم، باب الأمر والنھی] ” حضرت ابو سعید خدری (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے کہ افضل ترین جہاد ظالم حکمران کے سامنے کلمہ حق کہنا ہے۔“ (عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ قَالَ رَسُول اللَّہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) إِنَّ أَوَّلَ مَا دَخَلَ النَّقْصُ عَلَی بَنِی إِسْرَاءِیلَ کَان الرَّجُلُ یَلْقَی الرَّجُلَ فَیَقُولُ یَا ہَذَا اتَّقِ اللَّہِ وَدَعْ مَا تَصْنَعُ فَإِنَّہُ لاَ یَحِلُّ لَکَ ثُمَّ یَلْقَاہُ مِنَ الْغَدِ فَلاَ یَمْنَعُہُ ذَلِکَ أَنْ یَکُونَ أَکِیلَہُ وَشَرِیبَہُ وَقَعِیدَہُ فَلَمَّا فَعَلُوا ذَلِکَ ضَرَبَ اللَّہُ قُلُوبَ بَعْضِہِمْ بِبَعْضٍ ثُمَّ قَالَ (لُعِنَ الَّذِینَ کَفَرُوا مِنْ بَنِی إِسْرَاءِیلَ عَلَی لِسَانِ دَاوُدَ وَعِیسَی ابْنِ مَرْیَمَ)إِلَی قَوْلِہِ (فَاسِقُونَ) ثُمَّ قَالَ کَلاَّ وَاللَّہِ لَتَأْمُرُنَّ بالْمَعْرُوفِ وَلَتَنْہَوُنَّ عَنِ الْمُنْکَرِ وَلَتَأْخُذُنَّ عَلَی یَدَیِ الظَّالِمِ وَلَتَأْطُرُنَّہُ عَلَی الْحَقِّ أَطْرًا وَلَتَقْصُرُنَّہُ عَلَی الْحَقِّ قَصْرًا) [ رواہ ابو داؤد : کتاب الملاحم، باب الأمر والنھی] ” حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بنی اسرائیل میں نقائص واقع ہونے کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ ان میں سے ایک دوسرے کو برائی کرتے ہوئے دیکھتے تو اسے کہتا اللہ سے ڈرو اور اس گناہ کو چھوڑ دو یہ تیرے لیے جائز نہیں۔ اگلے دن ملتا تو برائی سے نہ روکتا بلکہ اس کے کھانے، پینے اور مجلس میں شریک ہوجاتا۔ جب انہوں نے اس طرح کرنا شروع کیا تو اللہ تعالیٰ نے انکے بعض کو بعض پر مسلط کردیا پھر اس آیت کی تلاوت فرمائی (بنی اسرائیل پر داؤد (علیہ السلام) اور عیسیٰ ابن مریم کی زبانی لعنت کی گئی فاسقون تک) پھر فرمایا کہمجھے اللہ کی قسم تم نیکی کا حکم دیتے رہو گے اور برائی سے روکتے رہو گے اور ظالم کا ہاتھ روکو گے حق کو حق اور نا حق کو ناحق سمجھو گے۔“ (عَنَّ کَعْبَ بْنَ مَالِکٍ حینَ أَنْزَلَ اللَّہُ تَبَارَکَ وَتَعَالَی فِی الشِّعْرِ مَا أَنْزَلَ أَتَی النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَقَالَ اِنَّ اللَّہَ تَبَارَکَ وَتَعَالَی قَدْ أَنْزَلَ فِی الشِّعْرِ مَا قَدْ عَلِمْتَ وَکَیْفَ تَرَی فیہِ فَقَال النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) إِنَّ الْمُؤْمِنَ یُجَاہِدُ بِسَیْفِہِ وَلِسَانِہِ) [ رواہ احمد : مسند کعب بن مالک] ” حضرت کعب بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں جب اللہ تعالیٰ نے شعراء کے متعلق یہ آیت نازل کی تو کعب بن مالک نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آ کر عرض کرنے لگے کہ اللہ تعالیٰ نے شاعروں کے بارے میں یہ آیت نازل فرمائی ہے جس کا آپ کو علم ہے اور آپ کا اس آیت کے بارے میں کیا خیال ہے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بے شک مؤمن اپنی تلوار اور زبان سے جہاد کرتا ہے۔“ مسائل ١۔ دین کی سربلندی کے لیے تبلیغ کرنا جہاد کبیرا ہے۔ ٢۔ کفر و شرک کے خلاف ہر طرح کا جہاد کرنا چاہیے۔ الفرقان
52 الفرقان
53 فہم القرآن ربط کلام : رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کفر کے خلاف جہاد کبیر کرنے کا حکم دینے کے بعد اب پھر اللہ تعالیٰ اپنی قدرتوں کا تذکرہ کرتا ہے۔ اشارۃً یہ بھی سمجھا دیا کہ جس طرح سمندر کا پانی کڑوا اور میٹھا ہوتا ہے اور اس کے درمیان ایک پردہ حائل ہے۔ اسی طرح لوگوں کا معاملہ ہے کچھ نیک ہوتے ہیں اور کچھ برے ہوتے ہیں۔ وہی ذات کبریا ہے جس نے دو سمندروں کو باہم ملا رکھا ہے۔ ایک طرف نہایت میٹھا پانی چل رہا ہے اور اس کے ساتھ، ساتھ نہایت کڑوا پانی بہہ رہا ہے۔ ایک ہی سمندر میں چلنے والے دونوں پانیوں کے درمیان ایک غیرمری پردہ حائل کردیا گیا ہے۔ نہ میٹھا پانی کڑوے کے ساتھ ملتا ہے اور نہ کڑوا میٹھے پانی میں دخل انداز ہوتا ہے۔ دونوں پانی اپنی اپنی رفتار کے ساتھ صدیوں سے ایک ہی جانب رواں دواں ہیں۔ کیا مجال کہ وہ آپس میں تحلیل ہو سکیں۔ ایک سائنسدان زیادہ سے زیادہ یہ توجیہہ کرسکتا ہے کہ ایک پانی بھاری اجزاء پر مشتمل ہے اور دوسرا اپنے اندر ہلکے اجزاء لیے ہوئے ہے جس کی وجہ سے ان کا آپس میں ملنا دشوار ہے۔ کیا سائنسدانوں نے اس بات پر غور نہیں کیا کہ ایک ہی سمندر میں چلنے والے دو پانیوں کے اجزاء میں یہ فرق قائم کرنے والی ذات کون ہے؟ پھر ہر علاقے کے سمندر میں اس بات کے بھی مشاہدات موجود ہیں کہ سمندر کے مخصوص علاقے میں دونوں پانی الگ الگ چل رہے ہیں جبکہ اس علاقہ میں داخل ہونے سے پہلے یہی پانی اکٹھا بہہ رہا ہوتا ہے اور مخصوص علاقہ سے گزرنے کے بعد ددنوں پانی پھر آپس میں تحلیل ہوجاتے ہیں جس کا مظاہرہ پاکستان میں اٹک کے قریب دریائے سندھ، بنگلہ دیش میں چٹاگانگ کے قریب دیکھا جا سکتا ہے۔ پھر یہ بھی مشاہدات ہیں سینکڑوں میل تک چلنے والا سمندر کا پانی اوپر سے کڑوا ہے اور اس کی نچلی سطح میں بہنے والا پانی نہایت ہی میٹھا ہے۔ پہاڑی علاقوں میں اس قسم کے چشمے کئی مقامات پر پائے جاتے ہیں کہ ایک ہی پہاڑ اور زمین میں ایک جگہ سے گندھک کا چشمہ ابل رہا ہے اور بالکل اس کے قریب ہی پانی کا ایسا چشمہ ہے جو برف سے زیادہ ٹھنڈا ہے۔ آخر وہ کون سا دست قدرت ہے جو دونوں پانیوں کو ایک دوسرے میں تحلیل نہیں ہونے دیتا؟ غور کیجیے! کہ کڑوئے پانی میں رہنے والی مچھلی کا گوشت کڑوا نہیں ہوتا۔ وہ ایک ہی ذات کبریاء ہے جس نے دو پانیوں کے درمیان ایک نہ دکھائی دینے والا پردہ حائل کر رکھا ہے۔ اگر کوئی حقیقت کی نگاہ سے دیکھنے والا ہو تو وہ اس ذات کا اعتراف کیے بغیر نہیں رہ سکتالہٰذا اسی حقیقت پر غور کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ (مَرَجَ الْبَحْرَیْنِ یَلْتَقِیَانِ بَیْنَہُمَا بَرْزَخٌ لَا یَبْغِیَانِ) [ الرّحمٰن : ١٩۔ ٢٠] ” اُسی نے دو دریا رواں کیے۔ دونوں میں ایک پردہ حائل ہے جس سے وہ تجاوز نہیں کرسکتے۔“ (وَ مَا یَسْتَوِی الْبَحْرٰنِ ھٰذَا عَذْبٌ فُرَاتٌ سَآءِغٌ شَرَابُہٗ وَ ھٰذَا مِلْحٌ اُجَاجٌ وَ مِنْ کُلٍّ تَاْکُلُوْنَ لَحْمًاطَرِیًّا وَّ تَسْتَخْرِجُوْنَ حِلْیَۃً تَلْبَسُوْنَھَا وَتَرَی الْفُلْکَ فِیْہِ مَوَاخِرَ لِتَبْتَغُوْا مِنْ فَضْلِِہٖ وَ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْن) [ فاطر : ١٢] ” اور دونوں دریا برابر نہیں ہیں ایک شیریں پیاس بجھانے والا ہے اس کا پینا آسان اور ایک شور تلخ ہے۔ ہر ایک سے تم تازہ گوشت کھاتے ہو اور زیور نکالتے ہو جسے تم پہنتے ہو اور تو کشتیوں کو اس میں پانی کو پھاڑتی ہوئی چلتے دیکھتا ہے تاکہ تم اس کی (دی ہوئی) روزی تلاش کرو اور تاکہ تم شکر گزار ہو۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ ہی دو پانیوں کے درمیان پردہ حائل کرنے والا ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ ہی میٹھا اور کڑوا پانی پیدا کرنے والا ہے۔ تفسیر بالقرآن پانی کی اہمیّت اور اس کی ضرورت : ١۔ اللہ تعالیٰ نے ہر چیز پانی سے پید افرمائی ہے۔ (الانبیاء : ٣٠) ٢۔ اللہ تعالیٰ نے آسمان سے پانی نازل فرمایا تاکہ تم طہارت حاصل کرو۔ (الانفال : ١١) ٣۔ اللہ پانی سے تمہارے لیے کھیتی، زیتون، کھجور اور انگور اگاتا ہے۔ (النحل : ١١) ٤۔ اللہ نے پانی سے ہر قسم کی نباتات کو پیدا کیا۔ (الانعام : ٩٩) ٥۔ اللہ نے زمین و آسمان کو پیدا کیا اور پھر آسمان سے پانی اتار کر باغات اگائے۔ کیا اس کے ساتھ کوئی اور بھی الٰہ ہے؟ (النمل : ٦٠) ٦۔ اللہ نے آسمان سے پانی اتارا اور اس سے مختلف انواع کے پھل پیدا فرمائے۔ (فاطر : ٣٧) ٧۔ اللہ تعالیٰ پانی کو زیادہ گہرا کر دے تو کون ہے جو اسے اوپر لے آئے۔ (الملک : ٣٠) الفرقان
54 فہم القرآن ربط کلام : دو سمندروں کے مختلف پانیوں کے ذکر کے بعد اس پانی کا تذکرہ جس سے اشرف المخلوق انسان پیدا کیا گیا ہے۔ دو سمندروں کے مختلف پانی کے ذکر کے بعد جس پانی کے قطرہ سے انسان پیدا ہوتا ہے اس کا ذکر اس لیے کیا ہے کیونکہ انسان بھی بنیادی طور پر پانی کے دو قسم کے قطروں سے پیدا ہوتا ہے۔ ایک قطرہ مرد کے صلب سے اور دوسرا قطرہ عورت کی چھاتی سے نکلتا ہے دونوں قطرے الگ الگ اجزاء پر مشتمل ہوتے ہیں۔ جنھیں میڈیکل سائنس میں جرثومے کہا جاتا ہے۔ جرثوموں کا دست قدرت کے اشارے سے رحم مادر میں ملاپ ہوتا ہے اور اس کے بعد وہ مختلف شکلیں اختیار کرتے ہوئے ایک بچہ کی صورت اختیار کرتا ہے پھر زندگی کے مختلف مراحل سے گزر کر باپ کا درجہ حاصل کرتا ہے اور اس کے بعد بنیادی طور پر اس کی نسل دو خاندانوں میں تقسیم ہوجاتی ہے۔ ایک طرف اپنی اولاد کا باپ اور پوتے پوتیوں کا دادا بنتا ہے اور دوسری طرف سسر کے رشتہ میں منسلک ہو کر نواسوں اور نوسیوں کا نانا بن جاتا ہے۔ اسی طرح یہی آدمی ایک کا بیٹا ہوتا ہے اور دوسرے کا داماد بنتا گویا پانی کی بوند سے اکیلا پیدا ہونے والا انسان کئی رشتوں سے منسلک ہوجاتا ہے۔ کئی انسان ایسے بھی ہوتے ہیں جو ان میں سے کسی ایک یا دونوں رشتہ سے محروم رہتے ہیں۔ اس لیے ارشاد فرمایا کہ آپ کا رب اس بات پر قدرت رکھنے والا ہے یعنی وہ چاہے تو کسی کا نسب بڑھائے اور اسے باپ دادا اور سسرال کے رشتوں کے ساتھ منسلک کرے اور نہ چاہے تو اس کا نسب اسی پر ختم ہوجائے۔ (فَلْیَنْظُرِ الْإِنْسَانُ مِمَّ خُلِقَ خُلِقَ مِنْ مَاءٍ دَافِقٍ۔ یَخْرُجُ مِنْ بَیْنِ الصُّلْبِ وَالتَّرَاءِبِ۔ إِنَّہُ عَلَی رَجْعِہِ لَقَادِرٌ) [ الطارق : ٥۔ ٨] ” انسان کو دیکھنا چاہیے کہ وہ کس چیز سے پیدا ہوا ہے۔ وہ اچھلتے ہوئے پانی سے پیدا ہوا ہے۔ جو پیٹھ اور سینے کے درمیان میں سے نکلتا ہے۔ بے شک اللہ اسے دوبارہ لوٹانے پر قادر ہے۔“ (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ قَالَ حَدَّثَنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وَھُوَ الصَّادِقُ الْمَصْدُوْقُ قَالَ إِنَّ أَحَدَکُمْ یُجْمَعُ خَلْقُہٗ فِیْ بَطْنِ أُمِّہٖ أَرْبَعِیْنَ یَوْمًانُطْفَۃً ثُمَّ یَکُوْنُ عَلَقَۃً مِثْلَ ذٰلِکَ ثُمَّ یَکُوْنُ مُضْغَۃً مِثْلَ ذٰلِکَ ثُمَّ یَبْعَثُ اللّٰہُ مَلَکًا فَیُؤْمَرُ بِأَرْبَعِ کَلِمَاتٍ وَیُقَالُ لَہٗ أُکْتُبْ عَمَلَہٗ وَرِزْقَہٗ وَأَجَلَہٗ وَشَقِیٌّ أَوْ سَعِیْدٌ ثُمَّ یُنْفَخُ فِیْہِ الرُّوْحُ فَإِنَّ الرَّجُلَ مِنْکُمْ لَیَعْمَلُ حَتّٰی مَایَکُوْنُ بَیْنَہٗ وَبَیْنَ الْجَنَّۃِ إِلَّا ذِرَاعٌ فَیَسْبِقُ عَلَیْہِ کِتَابُہٗ فَیَعْمَلُ بِعَمَلِ أَھْلِ النَّارِ وَیَعْمَلُ حَتّٰی مَایَکُوْنُ بَیْنَہٗ وَبَیْنَ النَّارِ إِلَّا ذِرَاعٌ فَیَسْبِقُ عَلَیْہِ الْکِتَابُ فَیَعْمَلُ بِعَمَلِ أَھْلِ الْجَنَّۃِ) [ رواہ البخاری : کتاب بدء الخلق، باب ذکر الملائکۃ] ” حضرت عبداللہ (رض) بیان کرتے ہیں صادق و مصدوق رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ تم میں سے ہر کوئی اپنی ماں کے پیٹ میں چالیس دن ٹھہرتا ہے جو جما ہوا خون بن جاتا ہے پھر چالیس دن بعد گوشت کا لوتھڑا بن جاتا ہے اس کے بعد اللہ تعالیٰ فرشتہ بھیجتے ہیں اسے آدمی کا عمل، رزق، موت اور نیک وبد ہونا لکھنے کا حکم دیتے ہیں پھر اس میں روح پھونک دی جاتی ہے۔ تم میں ایک بندہ عمل کرتارہتا ہے حتی کہ اس کے اور جنت کے درمیان ایک ہاتھ کا فاصلہ رہ جاتا ہے تو اس کی تقدیر غالب آجاتی ہے وہ جہنمیوں والے کام شروع کردیتا ہے۔ ایسے ہی آدمی برے عمل کرتا رہتا ہے حتٰی کہ اس کے اور جہنم کے درمیان ایک ہاتھ کا فاصلہ رہ جاتا ہے تو وہ جنتیوں والے اعمال شروع کردیتا ہے۔“ تفسیر بالقرآن انسان کی پیدائش اور اس کی زندگی کے مختلف مراحل : ١۔ آدم (علیہ السلام) کو اللہ نے مٹی سے پیدا کیا۔ (آل عمران : ٥٩) ٢۔ حضرت حوا کو آدم ( علیہ السلام) سے پیدا فرمایا۔ (النساء : ١) ٣۔ اے انسان کیا تو اس ذات کا انکار کرتا ہے جس نے تجھے مٹی سے پیدا فرمایا۔ (الکہف : ٣٧) ٤۔ یقیناً ہم نے انسان کو کھنکھناتی ہوئی مٹی سے پیدا کیا۔ (الحجر : ٢٦) ٥۔ اللہ نے انسان کو مٹی کے جوہر سے پیدا کیا۔ (المومنون : ١٢) ٦۔ اللہ نے انسان کو مخلوط نطفہ سے پیدا کیا۔ (الدھر : ٢) ٧۔ اللہ نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا، پھر نطفہ بنایا، پھر اس سے خون کا لوتھڑا، پھر اس سے بوٹی بنا کر انسان بنایا۔ (الحج : ٥) ٨۔ اللہ نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا، پھر نطفہ، پھر لوتھڑا بنا کر تمہیں پیدا کرتا ہے کہ تم بچے ہوتے ہو۔ (المومن : ٦٧) ٩۔ اللہ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی یہ بھی ہے کہ اس نے تمہیں مٹی سے پیدا فرمایا۔ (الروم : ٢٠) ١٠۔ اللہ نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا، پھر نطفہ سے، پھر تمہارے جوڑے جوڑے بنائے۔ (فاطر : ١١) الفرقان
55 فہم القرآن ربط کلام : انسان کو اس کی تخلیق یاد کروا کے بتلایا گیا ہے کہ تیرا خالق ” اللہ“ ہے لہٰذا تجھے صرف اسی کی عبادت کرنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ نے اس آیات سے پہلی آیت میں اپنے رب ہونے کے ١٨ دلائل دیے ہیں۔ ان دلائل میں اس کے خالق، رازق اور مالک ہونے کے اس قدر ٹھوس ثبوت ہیں جن میں سے کوئی ایک صفت اور ثبوت اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی ذات میں نہیں پایا جاتا۔ اس حقیقت کے ناقابل تردید دلائل دینے کے بعد انسان کو اس بات کا احساس دلایا ہے کہ کچھ لوگ ایسے زبردست مالک، خالق اور رازق کو چھوڑ کر ان کی عبادت کرتے ہیں جو انھیں نہ نفع دے سکتے ہیں اور نہ ہی نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ یہ لوگ حقیقتاً کافر ہیں اور کافر اپنے رب کا مخالف ہے۔ خود ساختہ حاجت رواؤں کی حمایت میں جھگڑا کرتا ہے اور رب کی توحید کے خلاف دلائل دیتا ہے۔ اے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ان لوگوں کے ساتھ جھگڑا کرنے کی بجائے آپ انھیں سمجھاتے رہیں کیونکہ ہم نے آپ کو خوشخبری دینے والا اور برے کاموں سے ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے۔ ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ آدم کا بیٹا مجھے گالیاں دیتا ہے۔ یہ اس کے لیے لائق نہیں اور وہ میری تکذیب کرتا ہے۔ یہ بھی اس کے لیے جائز نہیں اس کا مجھے گالی دینا یہ ہے کہ میں نے اولاد بنا رکھی ہے۔ اس کا جھٹلانا یہ ہے کہ وہ کہتا ہے کہ مجھے دوبارہ نہیں پیدا کیا جائے گا جس طرح مجھے پہلی بار پیدا کیا گیا۔“ [ رواہ البخاری : باب مَا جَاءَ فِی قَوْلِ اللَّہِ تَعَالَی (وَہُوَ الَّذِی یَبْدَأُ الْخَلْقَ ثُمَّ یُعِیدُہُ)] مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرنے والا عملاً کافر ہوتا ہے۔ ٢۔ کافر ان کی پوجا کرتا ہے جو اسے نفع اور نقصان نہیں پہنچا سکتے۔ ٣۔ مشرک درحقیقت اپنے رب کے مدمقابل کھڑا ہوتا ہے۔ الفرقان
56 الفرقان
57 فہم القرآن ربط کلام : کفار اور مشرکین کے مقابلہ میں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دوباتوں کی تلقین۔ یہ اعلانِ حق آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان سے کروایا گیا کہ آپ اپنی قوم کو دو ٹوک انداز میں فرما دیں کہ میں نبوت کی ذمہ داریوں کے بدلے تم سے کسی قسم کا اجر اور معاوضہ طلب نہیں کرتا۔ اس میں ایک طرف کفار اور مشرکین کے لیے پیغام ہے کہ سوچو اور غور کرو ! کہ جس شخصیت کا نبوت سے پہلے اس قدر احترام اور مقام تھا کہ ہر کوئی اس کا اعتراف کرتا تھا۔ لیکن اس نے اپنے مقام اور احترام کو جس مشن پر قربان کیا ہے اسے اس کے بدلے میں کیا مل رہا ہے ؟ اس کے ساتھ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اطمینان دلایا گیا ہے کہ دلگیر ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ آپ ان سے کسی قسم کے اجر کے طالب نہیں۔ جسے بوجھ سمجھ کر یہ آپ کی مخالفت پر اتر آئے ہیں۔ آپ تو ان کی اصلاح اور اپنے رب کی خوشنودی کے لیے مصائب اور مشکلات برداشت کرر ہے ہیں۔ جب سب کچھ آپ اپنے رب کی وجہ سے کر رہے ہیں تو اس رب پر بھروسہ کیجیے جو ہمیشہ زندہ اور قائم رہنے والا ہے۔ اسے کبھی موت نہیں آئے گی۔ وہ ہمیشہ سے زندہ اور قائم و دائم ہے اور قائم ودائم رہے گا بس زندہ اور قائم و دائم رہنے والے رب کی حمد و ستائش کرتے رہیں۔ وہ اپنے بندوں کے گناہوں سے خوب واقف ہے۔ اس میں بھی آپ کو تسلّی دی گئی ہے کہ آپ یہ خیال نہ فرمایں کہ آپ کا رب آپ کے مخالفوں کے جرائم سے غافل ہے ایسا ہرگز نہیں وہ لوگوں کے جرائم سے پوری طرح آگاہ ہے، لیکن اس نے جبر کرنے کی بجائے لوگوں کو اختیار دے رکھا ہے کہ وہ چاہیں تو اپنے رب کا راستہ اختیار کریں، اگر نہ چاہیں تو اس کے مخالف چلتے رہیں تاہم انھیں یہ بات ہر لمحہ یاد رکھنی چاہیے کہ ان کا رب ان کے گناہوں سے پوری طرح باخبر ہے۔ ان الفاظ میں مجرموں کے لیے ایک تنبیہ ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعا : (عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ قَالَ کَان النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) إِذَا کَرَبَہُ أَمْرٌ قَالَ یَا حَیُّ یَا قَیُّومُ بِرَحْمَتِکَ أَسْتَغِیثُ) [ رواہ الترمذی : باب مَا جَاءَ فِی عَقْدِ التَّسْبِیح بالْیَدِ] ” حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جب بھی کوئی پریشانی لاحق ہوتی تو آپ دعا کرتے اے ہمیشہ زندہ اور قائم رہنے والے میں تیری رحمت کا طلب گار ہوں۔“ مسائل ١۔ تمام انبیاء نبوت کا کام بلامعاوضہ کیا کرتے تھے۔ ٢۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم تھا کہ آپ ہر حال میں اپنے رب کی حمد و ستائش کرتے ہیں۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ زندہ و قائم رہنے والا ہے اسے کبھی موت نہیں آئے گی۔ ٤۔ ہمیشہ زندہ اور قائم رہنے والے رب پر ہی توکل کرنا چاہیے۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو اچھے اور برے راستے پر چلنے کا اختیار دے رکھا ہے۔ ٦۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے گناہوں سے پوری طرح باخبر ہے۔ تفسیر بالقرآن انبیاء کرام (علیہ السلام) بلامعاوضہ نبوت کا کام اور لوگوں کی خدمت کیا کرتے تھے : ١۔ حضرت نوح نے فرمایا میں تم سے تبلیغ پر کوئی معاوضہ نہیں مانگتا۔ (ہود : ٢٩) ٢۔ حضرت ہود نے فرمایا کہ میں تم سے تبلیغ کا کوئی معاوضہ طلب نہیں کرتا۔ (الشعرا : ١٢٧) ٣۔ حضرت صالح نے فرمایا کہ میرا اجر اللہ رب العالمین کے ذمہ ہے میں تم سے کچھ نہیں مانگتا۔ (الشعرا : ١٤٥) ٤۔ میرا اجر اللہ پر ہے اور وہی ہر چیز پر گواہ ہے۔ (سبا : ٤٧) ٥۔ میرا اجر اللہ پر ہے جس نے مجھے پیدا کیا ہے۔ (ہود : ٥١) ٦۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میں تجھ سے نہ تم سے اجر چاہتاہوں اور نہ کسی قسم کا تکلف کرتا ہوں۔ (ص : ٨٦) الفرقان
58 الفرقان
59 فہم القرآن ربط کلام : جس زندہ اور ہمیشہ قائم رہنے والی ذات پر توکل کرنے کا حکم ہے وہ بڑا ہی مہربان ہے اور اسی نے زمین و آسمانوں کو پیدا کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی ربوبیت اور خالقیت کے دلائل دیتے ہوئے یہ بات کئی مرتبہ بیان فرمائی ہے کہ اس نے زمینوں، آسمانوں کو چھ دن میں پیدا فرمایا، زمین و آسمانوں کو پیدا کرنے کے بعد وہ عرش معلی پر اپنی شان کے مطابق مستوی ہوا۔ وہی رحم و کرم کا مالک اور خالق ہے۔ اگر کسی کو شک ہو تو وہ کسی جاننے والے سے پوچھ لے۔ یہ جملہ کفار مکہ کے لیے بولا گیا ہے کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کے نام الرّحمن کا انکار کرتے تھے۔ جب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ تعالیٰ کو الرّحمن کہہ کر پکارتے تو مشرکین مکہ اعتراض کرتے کہ ہمیں ایک خدا کو پکارنے کا حکم دیتا ہے اور خود دو خداؤں کو پکارتا ہے۔ کفار مکہ کو کہا جاتا ہے کہ الرّحمن کو سجدہ کرو تو وہ کہتے ہیں کہ ہم نہیں جانتے کہ وہ کون ہوتا ہے۔” کیا ہم الرّحمن کو سجدہ کریں جسے ہم نہیں جانتے۔“ چاہیے تو یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ کو الرّحمن جان کر اس کے قریب ہوتے لیکن وہ الرّحمن کی دشمنی میں آکر نفرت میں مزید دور چلے جاتے ہیں۔ حالانکہ اللہ کے نام میں جلال اور تمکنت پائی جاتی ہے اور الرّحمن کے لفظ اور نام میں رحم و کرم کا اظہار ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اگر اپنا جلال اختیار فرمائے تو کوئی چیز زمین پر باقی نہ رہے۔ یہ توالرّحمن کی رحمت کا نتیجہ ہے کہ جس وجہ سے وہ ہر قسم کی بغاوت اور نافرمانی کو صرف نظر کرتا ہے۔ الرّحمن اور الرّحیم کے نام اور صفات ” اللہ“ کو اس قدر پسند ہیں کہ قرآن مجید میں الرحمن کا نام ٥٧ مرتبہ اور الرحیم کا ١١٦ مرتبہ لیا گیا ہے۔ سورۃ الاعراف آیت : ١٨٠ میں ارشاد ہے کہ اللہ تعالیٰ کے بہترین نام ہیں تم اسے کسی نام کے ساتھ بھی پکار سکتے ہو۔ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ رِوَایَۃً قَالَ لِلّٰہِ تِسْعَۃٌ وَتِسْعُونَ اسْمًا ماءَۃٌ إِلَّا وَاحِدًا لَا یَحْفَظُہَا أَحَدٌ إِلَّا دَخَلَ الْجَنَّۃَ وَہُوَ وِتْرٌ یُحِبُّ الْوِتْرَ)[ رواہ البخاری : کتاب الدعوات، باب للہ ماءۃ اسم غیر واحد] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ تعالیٰ کے ننانوے نام ہیں جو کوئی انہیں یاد کرلے گا جنت میں داخل ہوگا اللہ ایک ہے اور ایک کو پسند کرتا ہے۔“ (نام یاد کرنے سے مراد ان کے مطابق عقیدہ بھی ہونا چاہیے۔) رحمن فعلان کے وزن پر مبالغہ یعنی سپر ڈگری (Super degree) اور رحیم فعیل کے وزن پر اسم صفت مشبہ کے صیغے ہیں۔ اہل علم کے نزدیک رحمن کی صفت سب کے لیے ہے اور اللہ تعالیٰ کا رحیم ہونا صرف مومنوں کے لیے خاص ہے۔ الرحمن : لامتناہی اور رحمت مجسم کا ترجمان ہے جب کہ لفظ ” الرحیم“ کائنات پر نازل ہونے والی مسلسل اور دائمی رحمت کی ترجمانی کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ معافی اور درگزر سے کام لیتا ہے کیونکہ اس نے ابتدائے آفرینش سے لکھ رکھا ہے کہ میری رحمت میرے غضب پر غالب رہے گی۔ [ رواہ البخاری : کتاب التوحید، باب قول اللہ تعالیٰ ویحذرکم اللہ نفسہ] مومنوں کے لیے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ میری رحمت وشفقت ہر آن ان کے قریب رہتی ہے۔ (رَحْمَتِیْ وَسِعَتْ کُلَّ شَیْءٍ) [ الأعراف : ١٥٦] ” میری رحمت سب پر محیط ہے۔“ (کَتَبَ رَبُّکُمْ عَلٰٰی نَفْسِہِ الرَّحْمَۃَ) [ الأنعام : ٥٤]” تمہارے رب نے اپنے آپ رحمت کو لازم کرلیا ہے۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ کا دوسرا عظیم نام الرّحمن ہے۔ ٢۔ مکہ کے مشرک ” الرّحمن“ کو نہیں مانتے تھے۔ تفسیر بالقرآن ” الرحمن“ کی رحمت کا ایک منظر : ١۔ اللہ ایک ہے‘ بڑا مہربان اور رحم کرنے والا ہے۔ ( البقرۃ: ١٦٣) ٢۔ اس کی رحمت ہر چیز کو گھیرے ہوئے ہے۔ (الاعراف : ١٥٦) ٣۔ سب کچھ جاننے کے باوجود نہایت ہی مہربان اور رحم فرمانے والا ہے۔ (الحشر : ٢٢) ٤۔ اللہ تعالیٰ نے لوگوں پر مہربانی کرنا از خود اپنے آپ پرلازم کرلیا ہے۔ (الانعام : ٥٤) ٥۔ اللہ کی رحمت سے مایوس نہیں ہونا چاہیے۔ (الزمر : ٥٣) ٦۔ اللہ کی رحمت نیک لوگوں کے قریب ہوا کرتی ہے۔ (الاعراف : ٥٦) الفرقان
60 الفرقان
61 فہم القرآن ربط کلام : الرّحمن کا انکار کرنے والوں کو نصیحت کرنے کے بعد اب پھر اللہ تعالیٰ اپنی قدرتیں یاد کرواتا ہے۔ اللہ کی ذات بڑی بابرکت ہے جس نے آسمان میں برج بنائے اس نے آسمان میں سورج اور چمکتا ہوا چاند بنایا۔ اسی ذات کبریا نے رات اور دن کو ایک دوسرے کے پیچھے آنے والا بنایا۔ اس کی قدرتوں میں اس کی ذات پر ایمان لانے کے بڑے ہی ٹھوس دلائل موجود ہیں۔ بشرطیکہ کوئی شخص اس کا شکر گزار بندہ بن کر نصیحت حاصل کرنے کی کوشش کرے۔ یہاں نصیحت کے لیے شکر گزار ہونے کی شرط ذکر کی گئی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ نصیحت اور شکر آپس میں لازم ملزوم ہیں۔ شکر کی ابتداء اعتراف نعمت سے ہوتی ہے جس شخص کے دل میں اللہ تعالیٰ کی نعمت کا اعتراف پیدا ہوجائے وہ اپنے رب کا شکرگزار ہونے کے ساتھ اس کی نصیحت پر عمل کرنا اپنے لیے لازم سمجھتا ہے۔ شکر کے مقابلے میں کفر اور ناشکری ہے۔ جس میں یہ بات پیدا ہوجائے وہ نصیحت حاصل کرنے کی بجائے ناشکری اور نافرمانی میں آگے ہی بڑھتا جاتا ہے۔ نصیحت حاصل کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا اعتراف اور اس کا شکر کرنا واجب ہے۔ اگر انسان چاند اور سورج کے فوائد، رات اور دن کے آنے جانے کے بارے میں غور کرے تو وہ اپنے رب کی ناشکری اور اس کی نصیحتوں سے روگردانی نہیں کرسکتا۔ چاند، سورج، رات اور دن کے فوائد جاننے کے لیے اسی سورۃ کی آیت ٤٥ تا ٤٧ کی تفصیل ملاحظہ فرمائیں۔ یہاں صرف اتنا ذکر کیا جاتا ہے۔ بروج کا ذکر قرآن مجید میں ٣ مرتبہ آیا ہے۔ تیسویں پارہ میں ایک سورۃ کا نام سورۃ بروج رکھا گیا ہے۔ ( وَالسَّمَآءِ ذَاتِ الْبُرُوْجِ) [ البروج : ١] ” برجوں والے آسمان کی قسم!“ برج کی جمع بروج ہے۔ مفسرین اور صاحب لغات حضرات نے اس کے کئی معانی بیان کیے ہیں۔ حافظ ابن کثیر نے مشہورتابعی مجاہد (رض) کے حوالے سے لکھا کہ بروج سے مراد سورج اور چاند کی منازل ہیں۔ جن میں وہ مقررہ رفتار سے چلتے ہیں جس سے سال کے بارہ مہینے متعین ہوتے ہیں۔ کچھ مفسرین اور اہل لغت کا خیال ہے بروج وہ مقامات ہیں جن میں چوکیدارملائکہ مقرر ہیں۔ جو آسمان کے دروازوں کے پاس جاکر ملائکہ کی جاسوسی کرنے والے شیاطین کا تعاقب کرتے ہیں۔ (اِنَّا زَیَّنَّا السَّمَآء الدُّنْیَا بِزِیْنَۃِ نِ الْکَوَاکِبِ۔ وَحِفْظًا مِّنْ کُلِّ شَیْطَانٍ مَّارِدٍ۔) [ الصافات : ٦۔ ٧] ” یقیناً ہم نے آسمان کو ستاروں سے مزین اور ہر سرکش شیطان سے بچاؤکے لیے ٹکایا۔“ n سورج کا وزن دس کھرب 19889x کھرب ٹن ہے یعنی زمین سے تقریباً سوا تین لاکھ گنا زیادہ اور درجۂ حرارت تقریباً ڈیڑھ کروڑ ڈگری سینٹی گریڈ ہے۔ اس میں 40 لاکھ ٹن ہائیڈروجن گیس فی سکینڈ استعمال ہوتی ہے اور اس کی سطح کا درجہ حرارت 6000 ڈگری سینٹی گریڈ ہے۔ سورج کی حرارت ابھی مزید 5 اَرب سال کے لیے کافی ہے۔ سورج کی اہمیت : سورج جو ہماری زندگی کا سرچشمہ ہے، اس کی حرارت اتنی زیادہ ہے کہ بڑے بڑے پہاڑ بھی اس کے سامنے جل کر راکھ ہوجائیں مگر وہ ہماری زمین سے اتنے مناسب فاصلے پر ہے کہ یہ ” کائناتی انگیٹھی“ ہمیں ہماری ضرورت سے ذرا بھی زیادہ گرمی نہ دے سکے۔ اگر سورج دگنے فاصلے پر چلا جائے تو زمین پر اتنی سردی پیدا ہوجائے کہ ہم سب لوگ جم کر برف بن جائیں اور اگر وہ آدھے فاصلے پر آجائے تو زمین پر اتنی حرارت پیدا ہوگی کہ تمام جاندار اور پودے جل بھن کر خاک ہوجائیں گے۔ چاند کی حقیقت : چاند ہم سے تقریباً 384,400 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ اس کی بجائے اگر وہ صرف پچاس ہزار کلومیٹر دور ہوتا تو سمندروں میں مد و جزر کی لہریں اتنی بلند ہو تیں کہ تمام کرۂ ارض دن میں دو بار پانی میں ڈوب جاتا اور بڑے بڑے پہاڑ موجوں کے ٹکرانے سے رگڑ کر ختم ہوجاتے۔ چاند کی اس مناسب کشش کی وجہ سے سمندروں کا پانی متحرک رہتا ہے اسی وجہ سے پانی صاف ہوتا رہتا ہے۔ سورج اپنی غیر معمولی کشش سے ہماری زمین کو کھینچ رہا ہے اور زمین ایک مرکز گریز قوت کے ذریعے اس کی طرف کھنچ جانے سے اپنے آپ کو روکتی ہے۔ اس طرح وہ سورج سے دور رہ کر فضا کے اندر اپنا وجود باقی رکھے ہوئے ہے۔ اگر کسی دن زمین کی یہ قوت ختم ہوجائے تو وہ تقریباً 6000 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے سورج کی طرف کھنچنا شروع ہوجائے گی اور چند ہفتوں میں سورج کے اندر اس طرح جا گرے گی جیسے کسی بہت بڑے الاؤ کے اندر کوئی تنکا گرجاۓ۔ (بحوالہ : سائنس اور قرآن از ہارون یحییٰ) (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَال الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ مُکَوَّرَانِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ) [ رواہ البخاری : باب صِفَۃِ الشَّمْسِ وَالْقَمَرِ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : قیامت کے دن سورج اور چاند کو لپیٹ لیا جائے گا۔“ (أَللّٰھُمَّ أَعِنِّیْ عَلٰی ذِکْرِکَ وَشُکْرِکَ وَحُسْنِ عِبَادَتِکَ) [ رواہ أبوداوٗد : کتاب الصلاۃ، باب فی الإستغفار] ” الٰہی ! اپنے ذکر، شکر اور بہترین طریقے سے عبادت کرنے پر میری مدد فرما۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے سورج اور چاند کے لیے برج قائم فرمائے ہیں۔ ٢۔ سورج اور چاند، رات اور دن کے آنے جانے میں اللہ تعالیٰ کی قدرت کے ٹھوس دلائل موجود ہیں۔ ٣۔ نصیحت حاصل کرنے والے شکر گزار ہوتے ہیں اور شکر گزار نصیحت حاصل کرتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن شکرکی اہمیت اور فضیلت : ١۔ اللہ کے عطا کردہ رزق پر اس کا شکریہ ادا کرو۔ (الانفال : ٢٦) ٢۔ اللہ نے سمندر کو تمہارے تابع کیا جس سے تازہ مچھلی، زیبائش کا سامان نکلتا ہے اس پر اللہ کا شکریہ ادا کرو۔ (النحل : ١٤) ٣۔ اللہ نے رات کو باعث سکون اور دن کو کسب معاش کا ذریعہ بنایا ہے تاکہ اس کا شکریہ ادا کیا جائے۔ (القصص : ٧٣) ٤۔ شکر کے بارے میں حضرت داؤد اور سلیمان (علیہ السلام) کی دعائیں۔ (صٓ: ٣٥، النمل : ١٩) ٥۔ اللہ تعالیٰ شکر گزار لوگوں کو زیادہ دیتا ہے۔ (ابراہیم : ٧) ٦۔ اللہ تعالیٰ شکر گزار بندوں کا قدر دان ہے۔ (النساء : ١٤٧) ٧۔ شیطان کا مقصد انسان کو ناشکر ا بنانا ہے۔ (الاعراف : ١٧) ٨۔ اللہ تعالیٰ کے شکر گزار بندے تھوڑے ہی ہوا کرتے ہیں۔ (سبا : ١٣) ٩۔ اللہ تعالیٰ نے آنکھ‘ کان اور دل اس لیے دیئے ہیں کہ اس کا شکر ادا کیا جائے۔ (السجدۃ: ٩) الفرقان
62 الفرقان
63 فہم القرآن ربط کلام : شکر گزار لوگ رحمن کے بندے ہوتے ہیں یہاں الرّحمن کے بندوں کی چند صفات کا بیان ہوتا ہے۔ اس آیت سے تین آیات پہلے اللہ تعالیٰ نے اپنے عظیم نام ” الرحمن“ کا یہ کہہ کر تعارف کروایا کہ الرّحمن وہ ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دن میں پیدا کیا۔ اس کے بعد چاند اور سورج، رات اور دن کو اپنی قدرت کی نشانی قرار دیتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ قدرت کی نشانیوں سے وہی لوگ نصیحت حاصل کرتے ہیں جو اپنے رب کے شکر گزار ہوتے ہیں۔ شکر گزار ہونے کے لیے لازم ہے کہ انسان اپنے رب کی نعمتوں اور مہربانیوں کا احساس اور ادراک پیدا کرے۔ جس نے اپنے رب کی مہربانیوں کا شعور اور ادراک پالیا وہ الرّحمن کا بندہ بن جائے گا۔ الرّحمن کے بندوں کے اوصاف میں پہلا اخلاقی وصف یہ ہے کہ ان کی چال ڈھال میں وقار اور عاجزی پائی جاتی ہے۔ ان کی گفتار میں سنجیدگی اور اخلاق نمایاں ہوتا ہے۔ انسان کی چال ڈھال، اس کی طبیعت اور کردار کی ترجمان ہوتی ہے۔ گفتار سے آدمی کی فہم و فراست اور اس کے نظریات کا علم ہوتا ہے، طبیعت میں عاجزی اور کردار میں پاکیزگی ہو تو انسان کی چال ڈھال میں اس کی عاجزی اور حسن کردار کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔ طبیعت میں غرور اور تکبر ہو تو چال ڈھال متکبرانہ ہوجاتی ہے۔ انسان حسن کردار سے تہی دامن ہوگا تو چال ڈھال میں چھچھوراپن اور آوارگی نظر آئے گی۔ ” عباد الرّحمن“ میں مسلمان مردوں کے ساتھ مسلم خواتین بھی شامل ہیں۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کی چال ڈھال کا ایک معیار قائم فرمایا ہے۔ حکم ہے کہ اے انسان! زمین پر اکڑ اکڑ کر نہ چل، اکڑ اکڑ کر چلنے سے نہ تو زمین کو پھاڑ سکتا ہے اور نہ ہی پہاڑوں کی بلندیوں کو چھو سکتا ہے۔ (بنی اسرائیل : ٣٧) حضرت لقمان (علیہ السلام) نے اپنے بیٹے کو یوں نصیحت کی تھی : بیٹا ! درمیانہ چال چلو اور اپنی گفتگو میں میانہ روی اختیار کرو۔ سب سے مکروہ آواز گدھے کی آواز ہے۔ (لقمان : ١٩) درمیانہ چال یہ ہے کہ نہ اس میں مریضانہ اور تکلّفانہ عاجزی کا اظہار ہو اور نہ ہی اس میں فخر و غرور پایا جائے۔ خواتین کے لیے مزید اصول یہ ہے کہ وہ اپنے سنگھار بناؤ کو ایڑیاں مار مار کر ظاہر نہ کریں۔ (الاحزاب : ٣٣) مردوں اور عورتوں کے لیے ہدایت ہے کہ وہ اپنی نگاہیں ادھر ادھر اٹھانے کی بجائے نیچی رکھا کریں۔ (النور : ٣٠، ٣١) خواتین کی پسندیدہ چال کا ذکر کرتے ہوئے حضرت شعیب (علیہ السلام) کی بیٹی کی ان الفاظ میں تعریف کی گئی ہے کہ وہ بڑی حیا کے ساتھ چلتی ہوئی موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس آئی اور اس نے حیا دار لہجے میں کہا، میرے باپ آپ کو اپنے ہاں بلا رہے ہیں جو آپ نے ہماری خدمت کی ہے تاکہ اس کا بدلہ دیا جائے۔ (القصص : ٢٥) جہاں تک انسان کی گفتار اور آواز کا معاملہ ہے اگر وہ امام اور خطیب ہے تو اسے اپنے مقتدی اور سامعین کی تعداد کے مطابق آواز نکالنی چاہیے۔ کوئی استاد ہے تو اسے چاہیے نہ اس قدر دھیمی آواز بات کرئے کہ شاگرد کو سنائی نہ دے اور نہ اتنی بلند آواز سے بولے کہ اس کی آواز میں کراہت محسوس کی جائے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بولنے میں اس قدر احتیاط فرماتے کہ اگر گھر میں دیر سے تشریف لے جاتے اور گھر والے سو رہے ہوں تو ایسے لہجے میں سلام کہتے۔ کہ جاگنے والا سن لیتا اور سوئے ہوئے کی نیند میں خلل واقعہ نہ ہوتا۔ (صحیح الادب المفرد : باب التسلیم علی النائم) خواتین کو ہدایت ہے کہ غیر محرم سے بات کرتے ہوئے نسوانہ آواز میں قدرے بیگانگی کا لہجہ اختیار کریں تاکہ جس کے دل میں بے حیائی کا مرض ہو وہ کسی قسم کی امید قائم نہ کرے۔ (الاحزاب : ٣٢) مرد ہو یا عورت جب کسی جاہل کے ساتھ واسطہ پڑے تو اس کے ساتھ الجھنے کی بجائے اچھی بات کہہ کر بات کا رخ بدل دے۔ جاہل کو ترکی بہ ترکی جواب دینے سے آدمی کے اپنے اخلاق میں گراوٹ پیدا ہوتی ہے اور بسا اوقات آپس میں الجھاؤ پیدا ہوجاتا ہے جس سے اجتناب کرنا چاہیے۔ لغت کے اعتبار سے ” ھُوْنًا“ کا معنی ” عاجزی اور وقار“ ہے۔ مسائل ١۔ ” عباد الرّحمن“ کی چال ڈھال میں سنجیدگی اور وقار ہوتا ہے۔ ٢۔ ” عباد الرّحمن“ کی گفتگو میں اخلاق ٹپکتا ہے۔ ٣۔ عبادالرّحمن جاہلوں سے الجھنے کی بجائے اچھی بات کہتے ہوئے چل دیتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن عباد الرّحمن کی چال ڈھال کی ایک جھلک : ١۔ عباد الرّحمن عاجزانہ چال چلتے ہیں۔ ( الفرقان : ٦٣) ٢۔ مومن بیہودہ حرکتوں سے اعراض کرتے ہیں۔ (المومنون : ٣) ٣۔ مومن بیہودہ بات سنتے ہیں تو با وقار طریقہ سے گذر جاتے ہیں۔ (الفرقان : ٧٢) ٤۔ اللہ کے بندے میانہ روی اختیار کرتے ہیں۔ (الفرقان ٦٧) الفرقان
64 فہم القرآن ربط کلام : عباد الرّحمن کے اوصاف کا تذکرہ جاری ہے۔ الرّحمن کے بندے پوری رات سونے کی بجائے رات کا کچھ حصہ آرام کرنے کے بعد اٹھ کھڑتے ہوتے ہیں۔ ان کے اٹھنے کی کیفیّت قرآن مجید نے یوں بیان کی ہے کہ الرّحمن کے بندے اپنے بستروں سے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں اور اپنے رب کو امید اور خوف کی کیفیت میں پکارتے ہیں۔ (السجدۃ: ١٦) وہ رات کے وقت اپنے رب کے حضور سجدہ اور قیام کرتے ہیں اپنے رب سے فریاد پر فریاد کرتے ہیں کہ اے ہمارے رب ! ہمیں جہنم کے عذاب سے محفوظ فرمانا۔ بے شک جہنم کا عذاب چمٹ جانے والا ہے یقیناً جہنم ٹھہرنے اور قیام کے اعتبار سے بدترین جگہ ہے۔ سحری کا وقت حاجات و مناجات اور سکون و اطمینان کے لیے ایسا وقت ہے کہ لیل و نہار کا کوئی لمحہ ان لمحات کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔ زمین و آسمان کی وسعتیں نورانی کیفیت سے لبریز دکھائی دیتی ہیں۔ ہر طرف سکون و سکوت انسان کی فکر و نظر کو جلابخشنے کے ساتھ خالق حقیقی کی طرف متوجہ کر رہا ہوتا ہے۔ ایک طرف رات اپنے سیاہ فام دامن میں لے کر ہر ذی روح کو سلائے ہوئے ہے اور دوسری طرف بندۂ مومن اپنے خالق حقیقی کی بارگاہ میں پیش ہونے کے لیے کروٹیں بدلتا ہوا اٹھ کھڑا ہوتا ہے۔ کہیں نیند کی غفلت میں یہ پرنور لمحات گذرنہ جائیں۔ وہ ٹھنڈی راتوں میں یخ پانی سے وضو کرکے رات کی تاریکیوں میں لرزتے ہوئے وجود اور کانپتی ہوئی آواز کے ساتھ شکر و حمد اور فقروحاجت کے جذبات میں زار و قطار روتا ہوا فریاد کناں ہوتا ہے۔ وہ آنسوؤں کے قطروں سے اس طرح اپنی ردائے عمل کو دھو ڈالتا ہے کہ اس کا دامن گناہوں کی آلودگی سے پاک اور وجود دنیا کی تھکن سے ہلکا ہوجاتا ہے۔ کیونکہ طویل ترین قیام اور دیر تک رکوع وسجود میں پڑارہنے سے تہجد بندۂ مومن کو ذہنی اور جسمانی طور پر طاقت و توانائی سے ہمکنار کردیتی ہے اگر خورد و نوش میں مسنون طریقوں کو اپنائے تو اس کو کسی قسم کی سیر و سیاحت حتیٰ کہ معمولی ورزش کی حاجت بھی نہیں رہتی۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی تہجد کا اس طرح تذکرہ فرماتے ہیں : (تَتَجَافٰی جُنُوْبُھُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ یَدْعُوْنَ رَبَّھُمْ خَوْفًا وَّ طَمَعًا وَّمِمَّارَزَقْنَاھُمْ یُنْفِقُوْنَ) [ السجدۃ: ١٦] ” وہ اپنے بستروں سے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں اپنے رب کو خوف اور امید کے ساتھ پکارتے اور جو ہم نے انہیں دیا ہے اس سے خرچ کرتے ہیں۔“ (اِنَّ نَاشِءَۃَ اللَّیْلِ ھِیَ اَشَدُّ وَطْأً وَّ اَقْوَمُ قِیْلاً) [ المزمل : ٦] ” حقیقتاً رات کا اٹھنا نفس پر قابو پانے اور قرآن پاک پڑھنے کے لیے موزوں ترین وقت ہے۔“ (اِنَّ الْمُتَّقِیْنَ فِیْ جَنّٰتٍ وَّ عُیُوْنٍ اٰخِذِیْنَ مَااٰتٰھُمْ رَبُّھُمْ اَنَّھُمْ کَانُوْا قَبْلَ ذٰلِکَ مُحْسِنِیْنَ کَانُوْا قَلِیْلًا مِنَ اللَّیْلِ مَا یَھْجَعُوْنَ وَبِالْاَسْحَارِ ھُمْ یَسْتَغْفِرُوْنَ) [ الذّاریات : ١٥ تا ١٧] ” یقیناً متقی لوگ اس دن باغات اور چشموں میں ہوں گے۔ جو کچھ ان کا رب انہیں عطاکرے گا وہ بڑی خوشی کے ساتھ لے رہے ہوں گے۔ کیونکہ وہ اس دن کے قائم ہونے سے پہلے نیک اعمال کیا کرتے تھے۔ راتوں کو کم ہی سویا کرتے تھے اور رات کے پچھلے حصے میں اللہ کے حضور توبہ واستغفار کرتے تھے۔“ (عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اَفْضَلُ الصَّلٰوۃِ بَعْدَ الصَّلٰوۃِالْمَکْتُوْبَۃِ فِیْ جَوْفِ اللَّیْلِ) [ مشکوٰۃ: باب صیام النطوع] ” جناب ابوہریرۃ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا فرض نماز کے بعد افضل ترین نماز درمیانی رات کی نماز ہے۔“ (عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَنْزِلُ رَبُّنَا تَبَارَکَ وَتَعَالٰی کُلَّ لَیْلَۃٍ اِلَی السَّمَآء الدُّنْیَا حِیْنَ یَبْقَی ثُلُثُ اللَّیْلِ الْاٰخِرِ یَقُوْلُ مَنْ یَدْعُوْنِیْ فَاَسْتَجِیْبَ لَہُ مَنْ یَّسْاَلُنِیْ فَاُعْطِیْہِ مَنْ یَّسْتَغْفِرُنِیْ فَاَغْفِرُ لَہُ) [ مشکوۃ: باب التحریض علی قیام اللیل] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ رب تعالیٰ رات کے آخری حصے میں آسمان دنیا پر تشر یف لاکر فرماتے ہیں کون ہے مجھے پکارنے والا کہ میں اس کی دعا قبول کروں اور کون ہے مجھ سے طلب کرنے والا میں اسکو عطاکروں اور کون ہے جو مجھ سے بخشش اور مغفرت چاہے میں اس کو بخشتا چلا جاؤں۔“ (عَنْ عَاءِشَۃَ قَالَتْ کَان النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اِذَا قَامَ مِنَ اللَّیْلِ اِفْتَتَحَ الصَّلٰوۃَ بِرَکْعَتَیْنِ خَفِیْفَتَیْنِ) [ مشکوٰۃ: باب صلاۃ اللیل] ” حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ رسول پاک (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب رات کو نماز تہجد کے لیے کھڑے ہوتے تو پہلے دو رکعتیں ہلکی پڑھا کرتے تھے۔“ (عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) أَنَّہُ کَانَ یَقُولُ بَعْدَ التَّشَہُّدِ اللَّہُمَّ إِنِّی أَعُوذُ بِکَ مِنْ عَذَابِ جَہَنَّمَ وَأَعُوذُ بِکَ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ وَأَعُوذُ بِکَ مِنْ فِتْنَۃِ الدَّجَّالِ وَأَعُوذُ بِکَ مِنْ فِتْنَۃِ الْمَحْیَا وَالْمَمَاتِ) [ رواہ ا بوداؤد : باب مایقول بعد التشھد] ” حضرت ابن عباس (رض) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں آپ تشھد کے بعد یہ دعا کیا کرتے تھے اے اللہ میں عذاب جہنم، عذ اب قبر، دجال کے فتنہ، زند گی اور موت کے فتنہ سے تیری پناہ چاہتاہوں۔“ (عَنْ اَبِیْ ھُرَےْرَۃَ (رض) قَالَ اَوْصَانِیْ خَلِےْلِیْ بِثَلٰثٍ صِےَامِ ثَلٰثَۃِ اَیَّامٍ مِّنْ کُلِّ شَھْرٍ وَرَکْعَتَیِ الْضُّحٰی وَاَنْ اُوْتِرَ قَبْلَ اَنْ اَنَامَ) [ رواہ البخاری : باب صِیَامِ أَیَّامِ الْبِیضِ ثَلاَثَ عَشْرَۃَ وَأَرْبَعَ عَشْرَۃَ وَخَمْسَ عَشْرَۃَ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ مجھے میرے محبوب یعنی نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تین کاموں کی وصیت فرمائی کہ ہر ماہ میں تین روزے رکھنا اور چاشت کے وقت دو نفل ادا کرنا اور رات کوسونے سے پہلے وتر ادا کرنا۔“ (عَنْ عُمَرَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَنْ نَّامَ عَنْ حِزْبِہٖ اَوْ عَنْ شَئٍ مِنْہُ فَقَرَأَہُ فِےْمَا بَےْنَ صَلٰوۃِ الْفَجْرِ وَصَلٰوۃِ الظُّہْرِ کُتِبَ لَہُ کَاَنَّمَا قَرَاَہُ مِنَ اللَّےْلِ) [ رواہ مسلم : باب جامِعِ صَلاَۃِ اللَّیْلِ وَمَنْ نَامَ عَنْہُ أَوْ مَرِضَ] ” حضرت عمر (رض) بیان کرتے ہیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے جو شخص رات کی نیند کی وجہ سے اپنا وظیفہ یا اس کا کچھ حصہ مکمل نہ کرسکے اسے فجر اور ظہر کے درمیان مکمل کرلینا چاہیے۔ اس کے لیے ایسے ہی لکھا جائے گا جیسے اس نے رات کے وقت قیام کیا ہو۔“ مسائل ١۔ ” الرحمن“ کے بندے رات کے وقت اپنے رب کے حضور سجدے اور قیام کرتے ہیں۔ ٢۔ ” الرحمن“ کے بندے اپنے رب سے جہنم کے عذاب سے پناہ مانگتے ہیں۔ ٣۔ جہنم کا عذاب جہنمیوں کے ساتھ چمٹ جانے والا ہوگا۔ ٤۔ جہنم رہنے کے اعتبار سے بدترین جگہ ہے۔ تفسیر بالقرآن جہنّم کے عذاب کا ایک منظر : ١۔ آنتوں اور کھالوں کا بار بارجلائے جانا۔ (النساء : ٥٦) ٢۔ دوزخیوں کی کھال کا بار بار بدلنا۔ (الحج : ٢٠) ٣۔ کانٹے دار جھاڑیوں کا کھانادیا جانا۔ (الغاشیہ : ٦) ٤۔ لوہے کے ہتھوڑوں سے سزا پانا۔ (الحج : ٢١، ٢٢) ٥۔ کھانا گلے میں اٹک جانا۔ (المزمل : ١٣) ٦۔ دوزخیوں کو کھولتا ہوا پانی دیا جانا۔ (الانعام : ٧٠) ٧۔ دوزخیوں کو پیپ پلایا جانا۔ (النبا : ٢٥) ٨۔ آگ کا لباس پہنایا جانا۔ (الحج : ١٩) الفرقان
65 الفرقان
66 فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ ” عباد الرحمن“ کے اوصاف۔ اس سے پہلے ” عباد الرحمن“ کی چال ڈھال، گفتار اور رات کے وقت ان کی اپنے رب کے حضور آہ و زاریوں کا تذکرہ ہوا۔ اب مالی معاملات میں ان کے کردار کا ذکر ہوتا ہے۔ ” الرحمن“ کے بندے جس طرح گفتار اور رفتار میں اعلیٰ معیار رکھتے ہیں اسی طرح ہی وہ خرچ میں میانہ روی اختیار کرتے ہیں۔ خرچ کرتے وقت نہ وہ بے جا خرچ کرتے ہیں اور نہ وہ بخل کا مظاہرہ کرتے ہیں بلکہ میانہ روی اختیار کرتے ہیں۔ دین اسلام کی یہ بھی خوبی ہے کہ دین عبادات اور معاملات دونوں میں اعتدال کا حکم دیتا ہے۔ اس لیے حکم ہوا ہے کہ فضول خرچی سے بچنے کے ساتھ بخیلی سے بھی مکمل اجتناب کیا جائے۔ کیونکہ یہ معیشت کو متوازن رکھنے کا بنیادی اصول ہے اسی اہمیت کے پیش نظر رسول مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مخاطب کیا گیا ہے کہ (اپنا ہاتھ نہ گردن کے ساتھ لٹکائیں اور نہ اسے کلی طور پر کھول دیں اگر آپ اپنا ہاتھ پورے کا پورا کھول دیں گے تو ملامت زدہ اور درماندہ ہو کر بیٹھ جائیں گے۔ اس کے ساتھ یہ رہنمائی بھی کی گئی کہ اگر آپ کے پاس دینے کے لیے کچھ نہ ہو۔ تو سائل کو نرمی کے ساتھ جواب دیں۔) (وَ اِمَّا تُعْرِضَنَّ عَنْھُمُ ابْتِغَآءَ رَحْمَۃٍ مِّنْ رَّبِّکَ تَرْجُوْھَا فَقُلْ لَّھُمْ قَوْلًا مَّیْسُوْرًا) [ بنی اسرائیل : ٢٨] اور اگر آپ اپنے رب کی رحمت کی تلاش میں جس کی آپ امید رکھتے ہیں تو سائل سے بے توجہگی کرتے وقت ان سے نرم بات کریں۔“ ” حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس شخص نے میانہ روی اختیار کی وہ کنگال نہیں ہوگا“ [ رواہ أحمد : مسند عبداللہ بن مسعود ] (عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ لاَ تَزُولُ قَدَمَا ابْنِ آدَمَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ مِنْ عِنْدِ رَبِّہِ حَتَّی یُسْأَلَ عَنْ خَمْسٍ عَنْ عُمْرِہِ فیمَا أَفْنَاہُ وَعَنْ شَبَابِہِ فیمَا أَبْلاَہُ وَمَالِہِ مِنْ أَیْنَ اکْتَسَبَہُ وَفِیمَ أَنْفَقَہُ وَمَاذَا عَمِلَ فیمَا عَلِمَ) [ رواہ الترمذی : باب فی القیامۃ] ” حضرت ابن مسعود (رض) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا آد م کا بیٹا اس وقت تک قدم نہیں اٹھا پائیگا جب تلک پانچ سوالوں کے جواب نہ دے لے۔ اس کی عمر کے متعلق پوچھا جائیگا کہ کیسے گذاری، بالخصوص جوانی کے متعلق سوال ہوگا کہ شباب کیسے گزارا۔ مال کے متعلق سوال ہوگا کہ کہاں سے کمایا اور کہاں خرچ کیا۔ علم کے متعلق پوچھا جائے گا کہ اس پر کس قدر عمل کیا۔“ پورا مال صدقہ کرنا ٹھیک نہیں : ” حضرت سعد (رض) فتح مکہ کے موقع پر سخت بیمار ہوئے۔ انہوں نے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کی کہ میرے پاس بہت سا مال ہے ایک بیٹی کے علاوہ کوئی وارث نہیں۔ میں اپنا سارا مال اللہ کی راہ میں صدقہ کرنا چاہتا ہوں۔ آپ نے اجازت نہ دی۔ انہوں نے نصف کی اجازت مانگی۔ آپ نے اس کی بھی اجازت نہ دی۔ اس کے بعد انہوں نے ایک تہائی کی اجازت مانگی۔ آپ نے یہ فرماکر اجازت دی کہ یہ بھی زیادہ ہے۔ اپنی اولاد کو مال دار چھوڑناان کو محتاج چھوڑنے سے بہتر ہے۔“ [ رواہ البخاری : کتاب الفرائض، میراث البنات] کنجوسی کی مذمت : (عَنْ اَبِیْ ھُرَےْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَثَلُ الْبَخِےْلِ وَالْمُتَصَدِّقِ کَمَثَلِ رَجُلَےْنِ عَلَےْھِمَا جُنَّتَانِ مِنْ حَدِےْدٍ قَدِ اضْطُرَّتْ اَےْدِےْھِمَا اِلٰی ثُدِیِّھِمَا وَتَرَاقِےْھِمَا فَجَعَلَ الْمُتَصَدِّقُ کُلَّمَا تَصَدَّقَ بِصَدَقَۃٍ انْبَسَطَتْ عَنْہُ وَجَعَلَ الْبَخِیْلُ کُلَّمَا ھَمَّ بِصَدَقَۃٍ قَلَصَتْ وَاَخَذَتْ کُلُّ حَلْقَۃٍ بِمَکَانِھَا) [ رواہ البخاری : باب مَثَلِ الْمُتَصَدِّقِ وَالْبَخِیلِ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بخیل اور صدقہ کرنے والے کی مثال ان دو آدمیوں کی طرح ہے جنہوں نے زرہ پہن رکھی ہو۔ اس کے ہاتھوں کو اس کی چھاتیوں اور سینے کے ساتھ جکڑ دیا گیا ہو۔ صدقہ دینے والا جب صدقہ کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو زرہ کشادہ ہوجاتی ہے اور بخیل جب صدقہ کرنے کا خیال کرتا ہے تو زرہ سمٹ جاتی اور ہر کڑی اپنی اپنی جگہ کس جاتی ہے۔“ مسائل ١۔ ” الرّحمن“ کے بندے فضول خرچی اور بخیلی سے اجتناب کرتے ہیں۔ ٢۔ الرّحمن کے بندے خرچ اخراجات میں اعتدال کا طریقہ اختیار کرتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن صدقہ کرنے اور بخیلی سے بچنے کا حکم : ١۔ صدقہ کرنا اللہ تعالیٰ کو قرض دینا ہے۔ (الحدید : ١١) ٢۔ اللہ تعالیٰ صدقہ کو دوگنا تین گنا کرکے واپس کرے گا۔ (التغابن : ١٧) ٣۔ اللہ تعالیٰ صدقہ کو سات سو گنا تک بڑھا دیتا ہے۔ (البقرۃ: ٢٦١) ٤۔ رحمن کے بندے جب خرچ کرتے ہیں تونہ اسراف کرتے ہیں اور نہ بخیلی اختیار کرتے ہیں۔ بلکہ درمیانی راہ اختیار کرتے ہیں۔ (الفرقان : ٦٧) الفرقان
67 الفرقان
68 فہم القرآن ربط کلام : الرّحمن کے بندوں کے مزید اوصاف۔ الرّحمن کے بندے کسی حال میں بھی اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو اِلٰہ نہیں سمجھتے۔ الٰہ کا معنی ہے۔ جس کی عبادت کی جائے۔ انسان کی تخلیق کا مقصد یہ ہے کہ وہ صرف ایک اللہ کی عبادت کرے۔ عبادت کی تین اقسام ہیں جن کا ہر نمازی تشہد میں بیٹھ کر اقرار کرتا ہے : (اَلتَّحْیَاتُ لِلّٰہِ وَالصَّلَوٰاتُ وَالطَّیْبَاتُ) [ رواہ البخاری : باب التشھد فی الاخرۃ] قولی، مالی اور بدنی عبادات اللہ کے لیے ہے۔ انسان کو حکم ہے کہ وہ نہ ” اللہ“ کے سوا کسی کی عبادت کرے اور نہ اس کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرائے۔ جو شخص اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کی عبادت کرے یا اللہ تعالیٰ کی عبادت میں کسی کو شریک بنائے وہ شرک کا ارتکاب کرتا ہے شرک اتنا بڑا گناہ ہے کہ جس سے انسان کے تمام نیک اعمال ضائع ہوجاتے ہیں۔ شرک سے نہ صرف نیک اعمال ضائع ہوجاتے ہیں بلکہ انسان اللہ تعالیٰ کے ہاں سب سے بڑا مجرم قرار پاتا ہے۔ انبیاء کرام (علیہ السلام) کی بعثت کا سب سے پہلا اور بڑا مقصد یہ تھا اور ہے کہ وہ لوگوں کو شرک سے روکیں اور اللہ تعالیٰ کی عبادت کی طرف بلائیں۔ (عَنْ أَبِی الدَّرْدَاء ِ قَالَ أَوْصَانِی خَلِیلِی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) أَنْ لاَ تُشْرِکْ باللَّہِ شَیْءًا وَإِنْ قُطِّعْتَ وَحُرِّقْتَ وَلاَ تَتْرُکْ صَلاَۃً مَکْتُوبَۃً مُتَعَمِّدًا فَمَنْ تَرَکَہَا مُتَعَمِّدًا فَقَدْ بَرِءَتْ مِنْہُ الذِّمَّۃُ وَلاَ تَشْرَبِ الْخَمْرَ فَإِنَّہَا مِفْتَاحُ کُلِّ شَرٍّ) [ رواہ ابن ماجۃ: باب الصَّبْرِ عَلَی الْبَلاَءِ ] ” حضرت ابی درداء (رض) بیان کرتے ہیں مجھے میرے خلیل (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے وصیت کی کہ اللہ کے ساتھ کسی کر شریک نہ ٹھہراؤ اگرچہ تیرے ٹکڑے کر دئیے جائیں یاتجھے جلادیا جائے۔ فرض نماز کو جان بوجھ کر نہیں چھوڑنا۔ جس نے جان بوجھ کر نماز کو ترک کیا۔ وہ اللہ کے ذمہ سے بری ہوگیا اور شراب نہ پینا کیونکہ یہ برائی کی چابی ہے۔“ عباد الرحمن کسی کو ناحق قتل نہیں کرتے : اللہ تعالیٰ کے ہاں انسان کی جان اس قدر عزیز اور محترم ہے کہ اس کا ارشاد ہے کہ جس نے ایک انسان کو قتل کیا اس نے تمام انسانوں کو قتل کردیا اور جس نے ایک جان کی حفاظت کی اس نے تمام لوگوں کی حفاظت کی۔ (المائدۃ: ٣٢) یہاں قتل ناحق سے روکا گیا ہے کیونکہ چار وجوہات کی بنا پر کسی انسان کو قتل کیا جا سکتا ہے۔ ١۔ قتل کے بدلے قتل کرنا۔ ٢۔ شادی شدہ زانی کو سنگسار کرنا۔ ٣۔ مرتد کو قتل کرنا۔ ٤۔ اسلامی حکومت کی بغاوت کرنے والا بھی واجب القتل ہے۔ (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ قَالَ قَال النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) أَوَّلُ مَایُقْضٰی بَیْنَ النَّاسِ فِی الدِّمَاءِ) [ رواہ البخاری : کتاب الدیات ] ” حضرت عبداللہ (رض) بیان کرتے ہیں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : قیامت کے دن لوگوں کے درمیان سب سے پہلے خون کا فیصلہ کیا جائے گا۔“ عباد الرحمن زنا کا ارتکاب نہیں کرتے : اس آیت میں عباد الرّحمن کے شخصی کردار کے حوالہ سے ان کی یہ خوبی بیان کی گئی ہے کہ وہ زنا کار نہیں ہوتے۔ جس نے زنا کا ارتکاب کیا وہ بھاری گناہ میں ملّوث ہوا۔ زنا کا عمل بظاہر دو افراد پر مشتمل ہوتا ہے لیکن اس کے منفی اور برے اثرات سے دو خاندان بھی متاثر ہوتے ہیں۔ یہ فعل صرف اخلاقی گراوٹ کی انتہا ہی نہیں بلکہ اس میں عام طور پر مال بھی ضائع ہوتا ہے جو شخص ایک مرتبہ زنا کرتا ہے۔ حیا کا پردہ چاک ہونے کی بنا پر دوبارہ بدکاری کرنے سے نہیں چوکتا۔ اس لیے قرآن مجید نے زنا کرنا تو درکنار اس کے لوازمات کے قریب جانے سے بھی منع کیا ہے۔ (بنی اسرائیل : ٣٢) اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک کرنا، کسی جان کو ناحق قتل کرنا اور زنا میں ملوث ہونا بالخصوص یہ تین گناہ ایسے ہیں جن کے اثرات دوسرے لوگوں پر بھی مرتب ہوتے ہیں۔ اس لیے ان گناہوں کے مرتکب شخص کو دو گنا سزا کی وعید سنائی گئی ہے۔ اس شخص کو اپنے گناہ کی سزابھی ملے گی اور اس کی وجہ سے جو لوگ ان گناہوں میں ملوث ہونگے ان کے گناہوں کی سزا بھی اس شخص کو ملے گی۔ یہ لوگ جہنم میں ذلیل ہوتے رہیں گے۔ (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ قَالَ سَأَلْتُ أَوْ سُءِلَ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) أَیُّ الذَّنْبِ عِنْدَ اللّٰہِ أَکْبَرُ قَالَ أَنْ تَجْعَلَ لِلّٰہِ نِدًّا وَہْوَ خَلَقَکَ قُلْتُ ثُمَّ أَیٌّ قَالَ ثُمَّ أَنْ تَقْتُلَ وَلَدَکَ خَشْیَۃَ أَنْ یَطْعَمَ مَعَکَ قُلْتُ ثُمَّ أَیٌّ قَالَ أَنْ تُزَانِیَ بِحَلِیلَۃِ جَارِکَ )[ رواہ البخاری : کتاب التفسیر، باب قولہ الذین لایدعون مع اللہ ....] ” حضرت عبداللہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا کہ اللہ کے نزدیک کونسا گناہ سب سے بڑا ہے ؟ آپ نے فرمایا کہ تو اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرائے حالانکہ اس نے تجھے پیدا کیا ہے۔ میں نے پھر سوال کیا اس کے بعد ؟ آپ نے فرمایا کہ اپنی اولاد کو اس ڈر سے قتل کرے کہ وہ تیرے ساتھ کھائے گی۔ میں نے پھر عرض کی اس کے بعد کونسا گناہ بڑا ہے ؟ آپ نے فرمایا کہ تو اپنے پڑوسی کی بیوی کے ساتھ زنا کرے۔“ مسائل ١۔ عباد الرّحمن اپنے رب کے ساتھ کسی اور کو معبود نہیں بناتے۔ ٢۔ عباد الرّحمن کسی کو ناحق قتل نہیں کرتے۔ ٣۔ عباد الرّحمن زنا کا ارتکاب نہیں کرتے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کی عبادت کرنے کا گناہ : ١۔ اللہ کے ساتھ کسی اور الہ کو پکارنے والاذلیل ورسوا ہوگا۔ (بنی اسرائیل : ٢٢) ٢۔ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی اور کو پکارنے والا عذاب میں مبتلا ہوگا۔ (الشعراء : ٢١٣) ٣۔ اللہ کے ساتھ کسی اور الہ کو پکارنے والاجہنم میں پھینک دیا جائیگا۔ (بنی اسرائیل : ٣٩) ٤۔ غیر اللہ کو پکارنے والافلاح نہیں پائیگا۔ (المومنون : ١١٧) ٥۔ اللہ کے ساتھ شرک کرنے والے پر جنت حرام، اور اس کا ٹھکانہ جہنم ہے۔ (المائدۃ: ٧٢) ٦۔ جس نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کیا گویا کہ وہ آسمان سے گرپڑا۔ (الحج : ٣١) ٧۔ اللہ تعالیٰ مشرک کو معاف نہیں کرے گا۔ (النساء : ٤٨) الفرقان
69 الفرقان
70 فہم القرآن ربط کلام : اس میں کوئی شک نہیں کہ جن گناہوں کا ذکر کیا گیا ہے وہ اپنی نوعیت اور سزا کے اعتبار سے بہت بڑے ہیں لیکن اس کے باوجود ان کے لیے توبہ کا دروازہ کھلا ہے۔ بے شک اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک کرنا، کسی کو ناحق جان سے مارڈالنا اور بدکاری کی شکل میں حیا کا پردہ چاک کرنا بڑے گناہ اور بھاری جرائم ہیں لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے نہ صرف توبہ کا دروازہ کھلا رکھا ہے بلکہ اپنے محبوب پیغمبر کے ذریعے یہ کہہ کر اعلان کروایا ہے کہ اے پیغمبر! انھیں بتلاؤ اور اطمینان دلاؤ کہ میرے بندو! جنھوں نے اپنے آپ پر ظلم کیا ہے میری رحمت سے مایوس نہ ہونا یقیناً میں معاف کرنے اور رحم کرنے والا ہوں۔ (الزمر : ٥٣) توبہ کی شرائط : ١۔ اپنے کیے پر نادم ہونا۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ سے معافی طلب کرنا۔ ٣۔ آئندہ گناہ سے بچنے کا عزم بالجزم کرنا۔ ٤۔ اپنی ذات اور معاشرے پر مرتب ہونے والے برے اثرات کی اصلاح کرنے کی کوشش کرنا۔ جو شخص سچے دل کے ساتھ مذکورہ بالا شرائط کے ساتھ توبہ کرے اور نیک اعمال کرے گا۔ وہ نہ صرف اللہ تعالیٰ کو توبہ قبول کرنے والا پائے گا بلکہ اللہ تعالیٰ اس کی برائیوں کو نیکیوں میں تبدیل فرمادئے گا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ بہت ہی بخشنے والا اور نہایت رحم کرنے والا ہے۔ (عَنْ اأَبِیْ ہُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ جَاءَ تْنِیْ اِمْرَاأَۃٌ فَقَالَت ہَلْ لِیْ مِنْ تَوْبَۃٍ؟ إِنِّیْ زَنَیْتُ وَوَلَدَتُ وَقَتَلْتُہٗ فَقُلْتُ لَا وَلَا نَعِمَتِ الْعَیْنُ وَلَا کَرَامَۃُفَقَامَتْ وَہِیَ تَدْعُوْ بالْحَسْرَۃِثُمَّ صَلَّیْتُ مَعَ الْنَّبِیِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) الْصُبْحَ، فَقَصَصَتُ عَلَیْہِ مَا قَالَتِ الْمَرْاأَۃُ وَمَا قُلْتُ لَہَا، فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بِءْسَمَا قُلْتَ اأَمَا کُنْتَ تَقْرَاأ ہٰذِہِ الْاٰیَۃ (وَالَّذِینَ لا یَدْعُونَ مَعَ اللَّہِ إِلَہًا آخَرَ )إِلٰی قَوْلِہ (إِلا مَنْ تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ عَمَلا صالِحًا فَأُولَءِکَ یُبَدِّلُ اللَّہُ سَیِّءَاتِہِمْ حَسَنَاتٍ وَکَان اللَّہُ غَفُورًا رَحِیمًا) فَقَرَاْتُہَا عَلَیْہَافَخَرَّتْ سَاجِدَۃً وَقَالَتْ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ جَعَلَ لِیْ مَخْرَجًا) [ تفسیر طبری : جلد ١٩] ’ حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک دن میرے پاس آکر ایک عورت کہنے لگی کیا میرے لیے توبہ ہے میں نے زنا کیا ہے ناجائز حمل سے بچہ پیدا ہوا اور میں نے اسے قتل کر ڈالاہے میں یہ معلوم کرنا چاہتی ہوں کہ میرا گناہ معاف ہونے کی کوئی صورت ہے ؟ میں نے کہا ہرگز نہیں وہ بڑی حسرت کے ساتھ آہیں بھرتی ہوئی واپس چلی گئی۔ اگلے دن میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پیچھے صبح کی نماز پڑھ کر فارغ ہوا تو میں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے رات کا قصہ عرض کیا آپ نے فرمایا تو نے غلط جواب دیا ابوہریرہ (رض) قرآن میں یہ آیت تم نے نہیں پڑھی (وَالَّذِینَ لا یَدْعُونَ مَعَ اللَّہِ إِلَہًا آخَرَ )إِلٰی قَوْلِہ (إِلا مَنْ تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ عَمَلا صالِحًا فَأُولَءِکَ یُبَدِّلُ اللَّہُ سَیِّءَاتِہِمْ حَسَنَاتٍ وَکَان اللَّہُ غَفُورًا رَحِیمًا) ” (اور وہ لوگ جو اللہ کے ساتھ کسی دوسرے الٰہ کو نہیں پکارتے) اس فرمان تک (مگر جس نے توبہ کی اور نیک اعمال کیے یہی وہ لوگ ہیں اللہ تعالیٰ جن کی برائیوں کو نیکیوں میں تبدیل کردیتا ہے اور اللہ تعالیٰ بخشنے والا رحم کرنے والا ہے۔) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا جواب سن کر میں نکلا اور اس عورت کو تلاش کرنا شروع کیا، وہ مجھے عشاء ہی کے وقت ملی میں نے اسے بشارت دی اور بتایا کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تیرے سوال کا جواب یہ دیا ہے عورت سنتے ہی سجدے میں گر گئی اور کہنے لگی شکر ہے اس خدائے پاک کا جس نے میرے لیے معافی کا دروازہ کھولا اور میرے لیے نجات کی راہ بنائی۔“ (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) التَّاءِبُ مِنَ الذَّنْبِ کَمَنْ لَا ذَنْبَ لَہٗ) [ رواہ ابن ماجۃ: کتاب الزھد، باب ذکرا لتوبۃ] ” حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا گناہ سے توبہ کرنے والا ایسے ہی پاک ہوجاتا ہے جیسے اس نے کوئی گناہ نہیں کیا۔“ (عَنِ ابْنِ عُمَرَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَا أَیُّہَا النَّاسُ تُوْبُوْا إِلَی اللَّہِ فَإِنِّی أَتُوْبُ فِی الْیَوْمِ إِلَیْہِ ماءَۃَ مَرَّۃٍ) [ رواہ مسلم : کتاب الذکر والدعاء والتوبۃ، باب اسْتِحْبَاب الاِسْتِغْفَارِ وَالاِسْتِکْثَارِ مِنْہُ] ” حضرت ابن عمر (رض) سے ہی روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا لوگو! اللہ تعالیٰ کے حضور توبہ کرو۔ بلاشبہ میں ہر روز سو مرتبہ توبہ کرتا ہوں۔“ (عَنْ عَآءِشَۃَ قَالَتْ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اِنَّ الْعَبْدَ اِذَا اعْتَرَفَ ثُمَّ تَابَ تَاب اللّٰہُ عَلَےْہِ) [ رواہ البخاری : باب تعدیل النساء بعضھن بعضا] ” حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب کوئی بندہ گناہ کا اعتراف کر کے توبہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول فرما لیتا ہے۔“ مسائل ١۔ جو شخص گناہ کے بعد توبہ اور نیک عمل کرے اللہ تعالیٰ یقیناً اسے معاف فرمائے گا۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ صرف گناہ معاف ہی نہیں کرتا بلکہ گناہوں کو نیکیوں میں تبدیل کردیتا ہے۔ ٣۔ توبہ کرنے والے کو آئندہ کے لیے نیک اعمال کرنے کی کوشش کرنا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن توبہ استغفارکے فضائل : ١۔ حضرت یونس کی قوم کے سوا کسی قوم کو عذاب کے وقت ایمان لانے کا فائدہ نہ ہوا۔ (یونس : ٩٨) ٢۔ اللہ سے بخشش طلب کیجیے یقیناً وہ معاف کرنے والا، رحم فرمانے والا ہے۔ (النساء : ١٠٦) ٣۔ اگر استغفار کرو تو اللہ تمہیں اس کا بہتر صلہ دے گا۔ (ہود : ٣) ٤۔ تم اللہ سے مغفرت طلب کرو اور اس کے حضور توبہ کرو اللہ آسمان سے تمہارے لیے بارش نازل فرمائے گا اور تمہاری قوت میں اضافہ فرما دے گا۔ (ہود : ٥٢) ٥۔ اللہ سے استغفار کرو اور اس کی طرف رجوع کرو میرا رب رحم کرنے اور شفقت فرمانے والا ہے۔ (ہود : ٩٠) ٦۔ اللہ سے بخشش طلب کرو۔ وہ معاف کردے گا اور بارش نازل فرمائے گا اور تمہارے مال و اولاد میں اضافہ فرماۓ گا۔ (نوح : ١٠۔ ١٢) ٧۔ اللہ سے استغفار کرو یقیناً وہ بخشنے والا، رحم کرنے والا ہے۔ (المزمل : ٢٠) ٨۔ جب تک لوگ اللہ سے بخشش طلب کرتے رہیں گے اللہ انہیں عذاب نہیں دے گا۔ (الانفال : ٣٣) ٩۔ اپنے رب کی تعریف وتسبیح بیان کرو اور اس سے مغفرت طلب کرو یقیناً وہ معاف کرنے والا ہے۔ (النصر : ٣) ١٠۔ اپنے آپ پر ظلم کرنے والو! اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہونا یقینا ” اللہ“ تمام گناہ معاف کرنے والا مہربان ہے۔ ( الزمر : ٥٣) الفرقان
71 الفرقان
72 فہم القرآن ربط کلام : ” عباد الرّحمن“ کے اوصاف کا مزید تذکرہ۔ ” عباد الرّحمن“ اس قدر حق گو اور کردار کے سچے ہوتے ہیں کہ جب انھیں کسی معاملہ میں گواہی دینا ہو تو وہ کبھی جھوٹی گواہی نہیں دیتے۔ ان کا واسطہ کسی بے مقصد یا بے ہودہ بات یا کام سے پڑے تو یہ بڑے وقار کے ساتھ گزر جاتے ہیں۔ زُوْرکا معنٰی : زُوْرکا معنی ہے جھوٹ، باطل، اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانا، گانے بجانے کی مجالس۔ لغو کا معنٰی بے ہودہ۔ بے مقصد کام یا گفتگو لغو میں جھوٹ بھی شامل ہے جس کی تشریح اوپر کی جا چکی ہے اور اس کے ساتھ تمام فضول، لا یعنی اور بے فائدہ باتیں اور کام بھی اس کے مفہوم میں شامل ہیں۔ اللہ کے بندوں کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ جان بوجھ کر اس طرح کی چیزیں دیکھنے، سننے یا ان میں حصہ نہیں لیتے۔ اگر ان کے راستے میں ایسی چیز آجائے تو نگاہ ڈالے بغیر اس سے اس طرح گزر جاتے ہیں جس طرح ایک نفیس آدمی گندگی کے ڈھیر سے گزر جاتا ہے۔ کیونکہ گندگی سے انسان کو طبعاً نفرت ہوتی ہے۔ اس لیے اس کے قریب کھڑا ہونا تو درکنار آدمی ارادتاً اسے دیکھنا بھی گورا نہیں کرتا۔ یہی کیفیّت مومن کی ہوتی ہے۔ وہ برے کام اور بری بات سے کراہت محسوس کرتا ہے اگر اس سے واسطہ پڑجائے تو وہ مکمل کراہت کے ساتھ اس سے گزر جاتا ہے۔ (عَنْ أَنَسٍ (رض) قَالَ سُءِلَ النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عَنْ الْکَبَاءِرِ قَالَ الإِْشْرَاک باللّٰہِ وَعُقُوقُ الْوَالِدَیْنِ وَقَتْلُ النَّفْسِ وَشَہَادَۃُ الزُّورِ) [ رواہ البخاری : کتاب الشہادات، باب ماقیل فی شھادۃ الزور] ” حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کبیرہ گناہوں کے بارے میں پوچھا گیا، آپ نے فرمایا اللہ کے ساتھ شرک کرنا، والدین کی نافرمانی کرنا، کسی جان کو قتل کرنا اور جھوٹی گواہی دینا۔“ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ أَنَّ رَجُلاَ شَتَمَ أَبَا بَکْرٍ وَالنَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جَالِسٌ فَجَعَلَ النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَعْجَبُ وَیَتَبَسَّمُ فَلَمَّا أَکْثَرَ رَدَّ عَلَیْہِ بَعْضَ قَوْلِہِ فَغَضِبَ النَّبِی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وَقَامَ فَلَحِقَہُ أَبُو بَکْرٍ فَقَالَ یَا رَسُول اللَّہِ کَانَ یَشْتُمُنِی وَأَنْتَ جَالِسٌ فَلَمَّا رَدَدْتُ عَلَیْہِ بَعْضَ قَوْلِہِ غَضِبْتَ وَقُمْتَ قَالَ إِنَّہُ کَانَ مَعَکَ مَلَکٌ یَرُدُّ عَنْکَ فَلَمَّا رَدَدْتَ عَلَیْہِ بَعْضَ قَوْلِہِ وَقَعَ الشَّیْطَانُ فَلَمْ أَکُنْ لأَقْعُدَ مَعَ الشَّیْطَانِ) [ رواہ احمد : مسند ابی ہریرہ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں بے شک ایک آدمی نے حضرت ابوبکر کو گالیاں دیں۔ ان کے قریب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف فرما تھے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کی دیدہ دلیری پر تعجب کرتے ہوئے تبسم فرما رہے تھے جب اس کی گالیوں کا سلسلہ بڑھ گیا تو حضرت ابوبکر نے بھی جواب دینا شروع کیا نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس بات پر ناراض ہو کر اٹھ کھڑے ہوئے۔ ابوبکر (رض) نے آپ کے پیچھے جا کر عرض کی اے اللہ کے رسول جب مجھے گالیاں دے رہا تھا آپ تشریف فرما رہے میں نے جواب دیا تو آپ ناراض ہو کر اٹھ آئے۔ آپ نے فرمایا آپ کی طرف سے فرشتہ اس کی گالیوں کا جواب دے رہا تھا۔ جب آپ نے جواب دیا تو شیطان آگیا میں شیطان کے لیے بیٹھنے والا نہیں۔“ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مِنْ حُسْنِ إِسْلَامِ الْمَرْءِ تَرْکُہُ مَا لَا یَعْنِیہٖ) [ رواہ الترمذی : کتاب الزہد] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بلاشبہ آدمی کے اسلام کی خوبی یہ ہے کہ وہ فضول یعنی لا حاصل باتوں کو چھوڑ دے۔“ مسائل ١۔ ” عباد الرّحمن“ کبھی جھوٹی گواہی نہیں دیتے۔ ٢۔ عباد الرّحمن لغویات کو پسند نہیں کرتے۔ تفسیر بالقرآن لغویات اور ان سے بچنے کا حکم : ١۔ اللہ کے بندے لغو باتیں سنتے ہیں تو ان سے اعراض کرتے ہیں۔ (القصص : ٥٥) ٢۔ مومن لغو باتوں سے اعراض کرتے ہیں۔ (المومنون : ٣) ٣۔ اللہ کے بندے جھوٹی گواہی نہیں دیتے اور لغو باتوں سے کنارہ کشی کرتے ہوئے گذر جاتے ہیں۔ (الفرقان : ٧٢) ٤۔ جنت میں لغو باتوں اور بے ہودہ گفتگو کا شائبہ تک نہیں ہوگا۔ (الواقعہ : ٢٥) الفرقان
73 فہم القرآن ربط کلام : عباد الرّحمن صرف عقیدہ، اخلاق، معاملات اور کردار کے اعتبار سے نیک نہیں ہوتے بلکہ وہ فہم و فراست میں بھی لوگوں سے آگے ہوتے ہیں۔ مفسرین نے اس آیت کا شان نزول یوں بیان فرمایا ہے۔ (عَنْ عَبْدِ اللَّہِ قَالَ قَرَأَ النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) النَّجْمَ بِمَکَّۃَ فَسَجَدَ فیہَا، وَسَجَدَ مَنْ مَعَہُ، غَیْرَ شَیْخٍ أَخَذَ کَفًّا مِنْ حَصًی أَوْ تُرَابٍ فَرَفَعَہُ إِلَی جَبْہَتِہِ وَقَالَ یَکْفِینِی ہَذَا فَرَأَیْتُہُ بَعْدَ ذَلِکَ قُتِلَ کَافِرًا) [ رواہ البخاری : باب مَا جَاءَ فِی سُجُودِ الْقُرْآنِ وَسُنَّتِہَا] حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سورۃ نجم کی تلاوت کرتے ہوئے سجدہ کیا۔ جو لوگ اس وقت موجود تھے وہ بھی سجدہ ریز ہوگئے قریش کے ایک بوڑھے آدمی کے اس نے زمین سے کنکریاں یا مٹی اٹھا کر اپنے ماتھے پرلگاتے ہوئے کہا کہ بس میرا یہی سجدہ ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) بیان فرماتے ہیں کہ میں نے اسے دیکھا کہ وہ کفر کی حالت میں قتل ہوا۔ امام بخاری نے اس کا نام امیہ بن خلف لکھا ہے۔“ اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات اور بات منوانے کے لیے جبر کا وطیرہ اختیار نہیں کیا۔ جبر اختیار کرنے کی بجائے دلائل کے ساتھ انسان کو سمجھانے کی کوشش کی ہے۔ انسان کے سامنے نہ صرف اپنی ذات اور احکام کے بارے میں دلائل دیے ہیں بلکہ بار بار دلائل پر فکر و تدبر کرنے کی دعوت دی ہے اور ان بندوں کی تعریف کی ہے جو اللہ تعالیٰ کی آیات اور قدرتوں پر غور و فکر کرتے ہیں۔ اسی بناء پر عباد الرّحمن کی یہ خوبی بیان کی جارہی ہے کہ جب ان کے سامنے ان کے رب کی آیات پڑھی جاتی ہیں تو وہ بہرے اور گونگے بن کر نہیں گرتے۔ بلکہ اپنے رب کے احکام پوری توجہ سے سنتے ہیں اور ” عَلٰی وَجْہِ الْبَصِیْرۃ“ ان پر عمل کرتے ہیں۔ یاد رہے تدبر کے بغیر انسان میں دین کی فہم اور اس پر عمل کرنے کی تحریک پیدا نہیں ہوتی۔ اللہ تعالیٰ کی ذات اس کے احکام اور قدرتوں پر غور کرنے سے انسان کے ایمان میں اضافہ ہوتا ہے۔ الفرقان
74 فہم القرآن ربط کلام : الرّحمن کے بندے اس حد تک صاحب بصیرت اور ذمہ دار ہوتے ہیں کہ اپنی اصلاح کے ساتھ اپنے اہل وعیال اور پورے معاشرے کی اصلاح کے لیے دعا گو اور کوشاں رہتے ہیں۔ الرّحمن کے بندے نہ صرف صاحب بصیرت اور ذمہ دار ہوتے ہیں بلکہ اپنی اور دوسروں کی اصلاح کے لیے بھی فکر مند رہتے ہیں۔ اصلاح کا بنیادی اصول یہ ہے کہ انسان اپنی اور اپنے اہل و عیال کی اصلاح کے ساتھ ساتھ پورے معاشرے کی اصلاح کی جدوجہد کرتا رہے کیونکہ یہی اصلاح کا مؤثر ذریعہ اور امت کا اجتماعی فرض ہے۔ الرّحمن کے بندے نہ صرف اپنے اہل و عیال کی اصلاح کی کوشش کرتے ہیں بلکہ اپنے رب کی بارگاہ میں رو رو کر دعائیں کرتے ہیں کہ ہمارے رب ہمیں دنیا اور آخرت کے حوالے سے ہماری بیویوں اور ہماری اولاد کی طرف سے آنکھوں کی ٹھنڈک نصیب فرما اور ہمیں اخلاق اور کردار کے اعتبار سے اس قابل بنا کہ ہم متقی لوگوں کی قیادت کرسکیں۔ بیوی یا اولاد نیک نہ ہو تو آدمی کا گھر جہنم کا گڑھا بن جاتا ہے۔ اہل خانہ نیک اور تابع دار ہوں تو بڑی سے بڑی مصیبت اور غربت محسوس نہیں ہوتی۔ اس لیے نیک لوگ دعائیں کرتے ہیں کہ اے ہمارے رب ! ہمیں ایسی بیویاں اور ایسی اولاد عطا فرما جنہیں دیکھ کر ہماری آنکھیں ٹھنڈی ہوں اور دل مسرور ہوں اور ہمیں متقی حضرات کی امامت کے منصب پر فائز فرما۔ یعنی ہم تقویٰ اور اطاعت میں سب سے بڑھ جائیں بھلائی اور نیکی میں سب سے آگے نکل جائیں۔ محض نیک ہی نہ ہوں بلکہ نیکوں کے پیشوا ہوں اور ہماری بدولت دنیا بھر میں نیکی پھیلے۔ اس بات کا ذکر یہ بتانے کے لیے کیا گیا ہے کہ یہ وہ لوگ ہیں جو مال ودولت اور شوکت وحشمت میں نہیں بلکہ نیکی وپرہیز گاری میں ایک دوسرے سے بڑھ جانے کی کوشش کرتے ہیں۔ مگر ہمارے زمانے میں کچھ اللہ کے بندے ایسے ہیں جنہوں نے اس آیت کو بھی امامت کی امیدواری اور ریاست کی طلب کے لیے دلیل جواز کے طور پر استعمال کیا ہے۔ ان کے نزدیک آیت کا مطلب یہ ہے کہ ” یا اللہ متقی لوگوں کو ہماری رعیت اور ہم کو ان کا حکمراں بنا دے۔“ اس سخن فہمی کی داد ” امیدواروں“ کے سوا اور کون دے سکتا ہے۔ (ماخوذ از تفہیم القرآن) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی اولاد کے بارے میں دعا : ( رَبَّنَا إِنِّی أَسْکَنْتُ مِنْ ذُرِّیَّتِی بِوَادٍ غَیْرِ ذِی زَرْعٍ عِنْدَ بَیْتِکَ الْمُحَرَّمِ رَبَّنَآ اِنِّیْٓ اَسْکَنْتُ مِنْ ذُرِّیَّتِیْ بِوَادٍ غَیْرِ ذِیْ زَرْعٍ عِنْدَ بَیْتِکَ الْمُحَرَّمِ رَبَّنَا لِیُقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ فَاجْعَلْ اَفْءِدَۃً مِّنَ النَّاسِ تَھْوِیْٓ اِلَیْھِمْ وَ ارْزُقْھُمْ مِّنَ الثَّمَرٰتِ لَعَلَّھُمْ یَشْکُرُوْنَ) [ ابراہیم : ٣٧] ” اے ہمارے رب ! بے شک میں نے اپنی اولاد کو اس وادی کو بسایا ہے، جو کسی کھیتی باڑی کے لائق نہیں، تیرے حرمت والے گھر کے پاس، اے ہمارے رب ! تاکہ نماز قائم کریں۔ بس لوگوں کے دل ان کی طرف مائل کر دے اور انہیں پھلوں سے رزق عطا فرما، تاکہ وہ شکر کریں۔“ حضرت یعقوب (علیہ السلام) کی اپنی اولاد کے بارے میں فکر مندی : ” ابراہیم اور یعقوب نے اپنی اولاد کو وصیت فرمائی کہ اے میرے بیٹو! اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے اس دین کو پسند فرمایا لیا ہے تمہیں موت مسلمان ہونے کی حالت میں آنی چاہیے۔’ کیا تم یعقوب کی موت کے وقت موجود تھے۔ جب اس نے اپنی اولاد کو فرمایا کہ میرے بعد تم کس کی عبادت کرو گے؟ سب نے جواب دیا کہ تیرے معبود کی اور تیرے آباء ابراہیم، اسماعیل، اور اسحاق کے معبود کی جو ایک ہی معبود ہے اور ہم اسی کے فرمانبردار رہیں گے۔“ [ البقرۃ: ١٣٢، ١٣٣] حضرت لقمان کی اپنے بیٹے کو نصیحتیں : ” یاد کرو جب لقمان اپنے بیٹے کو نصیحت کر رہا تھا تو اس نے کہا بیٹا اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا سچی بات یہ ہے کہ شرک بہت بڑا ظلم ہے۔# بیٹا زمین و آسمانوں اور صحراء وبیابان میں کوئی چیز ایسی نہیں جو اللہ تعالیٰ سے پوشیدہ ہو۔$بیٹا نماز قائم کرو۔ نیکی کی تبلیغ کرو اور لوگوں کو برائیوں سے روکتے رہو۔%اس کام جو پریشانی آئے اسے برداشت کرو یہ عظیم کام ہیں۔ بیٹا لوگوں سے نفرت اور تکبر نہ کرو اللہ تعالیٰ تکبر کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔* بیٹا چال اور گفتار میں میانہ روی اختیار کرو۔ آوازوں میں مکروہ آواز گدھے کی آواز ہے۔“ [ لقمٰن : ١٣ تا ١٨] سرور دو عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اپنی بیٹی اور خاندان کو نصیحت : (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَامَ رَسُوْلُ اللّٰہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حِیْنَ أَنْزَلَ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ (وَأَنْذِرْ عَشِیْرَتَکَ الْأَقْرَبِیْنَ) قَالَ یَامَعْشَرَ قُرَیْشٍ أَوْ کَلِمَۃً نَحْوَھَا اشْتَرُوْٓا أَنْفُسَکُمْ لَآأُغْنِیْ عَنْکُمْ مِنَ اللّٰہِ شَیْءًا یَابَنِیْ عَبْدِ مَنَافٍ لَآأُغْنِیْ عَنْکُمْ مِنَ اللّٰہِ شَیْءًا یَاعَبَّاسَ بْنَ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ لَآأُغْنِیْ عَنْکَ مِنَ اللّٰہِ شَیْءًا وَیَاصَفِیَّۃُ عَمَّۃُ رَسُوْلِ اللّٰہِ لَآأُغْنِیْ عَنْکِ مِنَ اللّٰہِ شَیْءًا وَیَافَاطِمَۃُ بِنْتُ مُحَمَّدٍ سَلِیْنِیْ مَاشِءْتِ مِنْ مَالِیْ لَآأُغْنِیْ عَنْکِ مِنَ اللّٰہِ شَیْءًا) [ رواہ البخاری : کتاب الوصایا، باب ھل یدخل النساء والولد فی الأقارب] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں جب یہ آیت (اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈرائیے) نازل ہوئی تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کھڑے ہوئے اور فرمایا : اے قریش کے لوگو! اپنے لیے کچھ کر لومیں تمہیں اللہ کے عذاب سے کوئی فائدہ نہیں دے سکوں گا۔ اے بنی عبد منا ف میں تمہیں اللہ کے عذاب سے بچا نہیں سکوں گا۔ اے عباس بن عبدالمطلب ! میں تمہیں اللہ کے عذاب سے کچھ فائدہ نہیں دے سکوں گا۔ اے صفیہ ! رسول کی پھوپھی! میں تمہیں اللہ کے عذاب سے کچھ فائدہ نہیں دے سکوں گا۔ اے فاطمہ بنت محمد! میرے مال سے جو چاہتی ہے مانگ لے میں مگر تجھے اللہ کے عذاب سے نہیں بچا سکوں گا۔“ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی دعا : (وَقَالَ رَبِّ أَوْزِعْنِی أَنْ أَشْکُرَ نِعْمَتَکَ الَّتِی أَنْعَمْتَ عَلَیَّ وَعَلَی وَالِدَیَّ وَأَنْ أَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضَاہُ وَأَدْخِلْنِی بِرَحْمَتِکَ فِی عِبَادِکَ الصَّالِحِین) [ النمل : ١٩] ” اے میرے رب مجھے قابو میں رکھ کہ میں تیرے اس احسان کا شکر ادا کرتا رہوں جو تو نے مجھ پر اور میرے والدین پر کیا ہے اور ایسا عمل صالح کروں جو تجھے پسند آئے اور اپنی رحمت سے مجھ کو اپنے نیک بندوں میں داخل کر۔“ نیک بیوی کی حیثیت : (وَ عَنْ عَبْدِاللّٰہِ ابْنِ عَمْرٍو (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْ لُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اَلدُّنْیَا کُلُّھَا مَتَاعٌ وَ خَیْرُ مَتَاع الدُّنْیَا الْمَرْأَۃُ الصَّالِحَۃُ) [ رواہمسلم : باب خَیْرُ مَتَاع الدُّنْیَا الْمَرْأَۃُ الصَّالِحَۃُ] حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا دنیاساری کی ساری زیست کا سامان ہے۔ لیکن دنیا کی بہترین نعمت نیک بیوی ہے۔ ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں بلاشبہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب انسان فوت ہوجاتا ہے تو اس کے اعمال منقطع کردیے جاتے ہیں مگر صرف تین ذرائع سے اسے اجر ملتا رہتا ہے۔ (١) صدقہ جاریہ۔ (٢) ایسا علم جس سے لوگ فائدہ اٹھائیں۔ (٣) نیک اولاد جو اس کے لیے دعائیں کرے۔“ [ رواہ مسلم : بَاب مَا یَلْحَقُ الْإِنْسَانَ مِنْ الثَّوَابِ بَعْدَ وَفَاتِہِ] مسائل ١۔ الرّحمن کے بندے اپنے رب سے اپنی بیویوں اور اولاد کی اصلاح کی دعا کرتے ہیں۔ ٢۔ الرّحمن کے بندے اپنے رب سے اپنی بیویوں اور اولاد کا سکون مانگتے ہیں۔ ٣۔ الرّحمن کے بندے متقین کے امام بنتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن اولاد کے بارے میں انبیاء کرام (علیہ السلام) کی دعائیں : ١۔ اے میرے پروردگار! مجھے اور میری اولاد کو نماز کا پابند بنا۔ (ابراہیم : ٤٠) ٢۔ حضرت زکریانے اپنے پروردگار سے عرض کی کہ الٰہی مجھے نیک اولاد عطا فرما۔ (آل عمران : ٣٨) ٣۔ میں تجھے لوگوں کا امام بنا رہا ہوں ابراہیم نے کہا میری اولاد کو بھی بنائیں۔ (البقرۃ: ١٢٤) ٤۔ اے ہمارے پروردگار! ہماری اولاد میں ایک جماعت اپنی تابعدار بنا۔ (البقرۃ: ١٢٨) الفرقان
75 فہم القرآن ربط کلام : الرّحمن کے بندوں کا آخرت میں مرتبہ و مقام۔ الرّحمن کے بندے نہ صرف دنیا میں صالح کردار ہوتے ہیں بلکہ وہ نیکی کے کاموں میں قوموں کے پیشوا بنتے ہیں۔ ایسے نیکو کاروں کو آخرت میں بھی بلند مرتبہ اور اعلیٰ مقام دیا جائے گا۔ کیونکہ یہ دکھ اور سکھ، کامیابی اور ناکامی، عسر اور یسر میں اپنے رب کی رضا پر راضی اور اس کے دین کے پابند رہے۔ موت سے لے کر جنت میں داخل ہونے تک ان کا شاندار استقبال کیا جائے گا اور ملائکہ ہر مقام پر انھیں دعا دیں گے، اور سلام پیش کریں گے۔ یہ جنت میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔ جو رہنے کے اعتبار سے نہایت ہی پرسکون اور بہترین قیام گاہ ہے۔ مسائل ١۔ عباد الرّحمن جنت کے بالا خانوں میں قیام کریں گے۔ ٢۔ عباد الرّحمن کو ملائکہ ہر مقام پر سلام پیش کریں گے۔ ٣۔ عباد الرّحمن ہمیشہ ہمیشہ جنت میں رہیں گے۔ ٤۔ جنت پر سکون قیام گاہ اور بہترین قرار گاہ ہے۔ تفسیر بالقرآن جنت کی نعمتوں اور اس کے اعلیٰ مقامات کا ذکر : ١۔ ہم جنتیوں کے دلوں سے کینہ نکال دیں گے سب ایک دوسرے کے سامنے تکیوں پر بیٹھے ہوں گے۔ انہیں کوئی تکلیف نہیں پہنچے گی اور نہ وہ اس سے نکالے جائیں گے۔ (الحجر : ٤٧۔ ٤٨) ٢۔ جس جنت کا مومنوں کے ساتھ وعدہ کیا گیا ہے۔ اس کے نیچے سے نہریں جاری ہیں اس کے پھل اور سائے ہمیشہ کے لیے ہوں گے۔ (الرعد : ٣٥) ٣۔ جنت میں بے خار بیریاں، تہہ بہ تہہ کیلے، لمبا سایہ، چلتا ہوا پانی، اور کثرت سے میوے ہوں گے۔ (الواقعۃ : ٢٨ تا ٣٠) ٤۔ جنت کے میوے ٹپک رہے ہوں گے۔ (الحاقۃ: ٢٣) ٥۔ جنت میں سب کچھ ہوگا جس کی جنتی خواہش کریں گے۔ ( حٰم السجدہ : ٣١) الفرقان
76 الفرقان
77 فہم القرآن ربط کلام : عباد الرّحمن کے اوصاف اور ان کے اجر وثواب کا ذکر کرنے کے بعد نافرمان لوگوں سے بیزاری کا اعلان۔ سورۃ الفرقان میں اللہ تعالیٰ نے اپنی بے مثال اور لازوال قدرت کے بار بار ناقابل تردید دلائل دئیے ہیں۔ اس کے بعد اپنے بندوں کے اوصاف کا تذکرہ کیا، پھر ان کی دعاؤں اور بہترین انجام کا ذکر فرمایا ہے۔ جس میں کفار، مشرکین اور نافرمانوں کے لیے نصیحت ہے اے لوگو! اگر تم اپنے رب کی توحید کا اقرار، نبی آخر الزماں پر ایمان اور صالح کردار اختیار کرو۔ تو تم بھی الرّحمنکے بندے بن جاؤ گے اور اس کے انعامات کے حق دار ٹھہرو گے۔ جس سے تمھاری دنیا بھی بہتر ہوگی اور آخرت بھی سنور جائے گی۔ اگر تم اپنی اصلاح کرنے اور الرّحمنکی مہربانیوں سے سرفراز نہیں ہونا چاہتے تو تمھاری مرضی۔ لیکن یاد رکھنا تمھارے کفر و شرک اور نافرمانیوں کی ” اللہ“ کو کوئی پروا نہیں۔ اے نبی اس بے نیاز ” اللہ“ کی طرف سے یہ اعلان فرماؤ کہ اگر تم اس کی ذات اور بات کی تکذیب کرتے ہو تو پھر عنقریب تمھیں ہر صورت سزا سے دو چار ہونا پڑے گا۔ (عَنْ أَبِی ذَرٍّ عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فِیمَا رَوَی عَنِ اللَّہِ تَبَارَکَ وَتَعَالَی أَنَّہُ قَالَ یَا عِبَادِی إِنِّی حَرَّمْتُ الظُّلْمَ عَلَی نَفْسِی وَجَعَلْتُہُ بَیْنَکُمْ مُحَرَّمًا فَلاَ تَظَالَمُوا یَا عِبَادِی کُلُّکُمْ ضَالٌّ إِلاَّ مَنْ ہَدَیْتُہُ فَاسْتَہْدُونِی أَہْدِکُمْ یَا عِبَادِی کُلُّکُمْ جَاءِعٌ إِلاَّ مَنْ أَطْعَمْتُہُ فَاسْتَطْعِمُونِی أُطْعِمْکُمْ یَا عِبَادِی کُلُّکُمْ عَارٍ إِلاَّ مَنْ کَسَوْتُہُ فَاسْتَکْسُونِی أَکْسُکُمْ یَا عِبَادِی إِنَّکُمْ تُخْطِءُون باللَّیْلِ وَالنَّہَارِ وَأَنَا أَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِیعًا فَاسْتَغْفِرُونِی أَغْفِرْ لَکُمْ یَا عِبَادِی إِنَّکُمْ لَنْ تَبْلُغُوا ضَرِّی فَتَضُرُّونِی وَلَنْ تَبْلُغُوا نَفْعِی فَتَنْفَعُونِی یَا عِبَادِی لَوْ أَنَّ أَوَّلَکُمْ وَآخِرَکُمْ وَإِنْسَکُمْ وَجِنَّکُمْ کَانُوا عَلَی أَتْقَی قَلْبِ رَجُلٍ وَاحِدٍ مِنْکُمْ مَا زَادَ ذَلِکَ فِی مُلْکِی شَیْءًا یَا عِبَادِی لَوْ أَنَّ أَوَّلَکُمْ وَآخِرَکُمْ وَإِنْسَکُمْ وَجِنَّکُمْ کَانُوا عَلَی أَفْجَرِ قَلْبِ رَجُلٍ وَاحِدٍ مَا نَقَصَ ذَلِکَ مِنْ مُلْکِی شَیْءًا یَا عِبَادِی لَوْ أَنَّ أَوَّلَکُمْ وَآخِرَکُمْ وَإِنْسَکُمْ وَجِنَّکُمْ قَامُوا فِی صَعِیدٍ وَاحِدٍ فَسَأَلُونِی فَأَعْطَیْتُ کُلَّ إِنْسَانٍ مَسْأَلَتَہُ مَا نَقَصَ ذَلِکَ مِمَّا عِنْدِی إِلاَّ کَمَا یَنْقُصُ الْمِخْیَطُ إِذَا أُدْخِلَ الْبَحْرَ یَا عِبَادِی إِنَّمَا ہِیَ أَعْمَالُکُمْ أُحْصِیہَا لَکُمْ ثُمَّ أُوَفِّیکُمْ إِیَّاہَا فَمَنْ وَجَدَ خَیْرًا فَلْیَحْمَدِ اللَّہَ وَمَنْ وَجَدَ غَیْرَ ذَلِکَ فَلاَ یَلُومَنَّ إِلاَّ نَفْسَہُ قَالَ سَعِیدٌ کَانَ أَبُو إِدْرِیسَ الْخَوْلاَنِیُّ إِذَا حَدَّثَ بِہَذَا الْحَدِیثِ جَثَا عَلَی رُکْبَتَیْہِ) [ رواہ مسلم : کتاب البر والصلۃ و الآداب، باب تحریم الظلم] ” حضرت ابوذر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا‘ اللہ تبارک وتعالیٰ فرماتا ہے : میرے بندو! تم میں سے ہر ایک گمراہ ہے سوائے اس کے جس کو میں ہدایت سے سرفراز کروں۔ بس تم مجھ سے ہدایت مانگو میں تمہیں ہدایت دوں گا‘ تم میں سے ہر ایک بھوکا ہے سوائے اس کے جس کو میں کھلاؤں۔ پس تم مجھ سے مانگومیں تمہیں کھلاؤں گا۔ میرے بندو! تم سب ننگے ہو سوائے اس کے جس کو میں پہناؤں۔ پس تم مجھ سے پہناوا طلب کرو۔ میں تمہیں پہناؤں گا۔ میرے بندو! تم رات دن گناہ کرتے ہو‘ میں تمام گناہوں کو بخش دینے والا ہوں۔ مجھ سے بخشش طلب کرو‘ میں تمہیں بخش دوں گا۔ میرے بندو! تم مجھے نقصان اور نفع پہنچانے کی طاقت نہیں رکھتے۔ میرے بندو! تمہارے تمام اگلے پچھلے‘ جن وانس سب سے زیادہ متّقی انسان کے دل کی طرح ہوجائیں تو یہ میری سلطنت میں ذرّہ بھر اضافہ نہیں کرسکتے۔ میرے بندو! تمہارے اگلے پچھلے جن وانس بدترین فاسق وفاجر انسان کی طرح ہوجائیں تو یہ میری حکومت میں کوئی نقص واقع نہیں کرسکتے۔ میرے بندو! تمہارے اگلے پچھلے‘ جن وانس اگر سب کھلے میدان میں اکٹھے ہوجائیں پھر وہ مجھ سے مانگنے لگیں اور میں ہر کسی کی منہ مانگی مرادیں پوری کر دوں تو میرے خزانوں میں اتنی کمی بھی واقع نہیں کرسکتے جتنی سوئی سمندر میں ڈبونے سے ہوتی ہے۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ کو کفر و شرک اور کسی کی نافرمانی سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ٢۔ اللہ اور اس کے رسول کی بات جھٹلانے والوں کو ہر صورت عذاب کا سامنا کرنا پڑے گا۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ کے عذاب سے مجرموں کو کوئی نہیں بچا سکتا۔ ١۔ ” اللہ“ کا عذاب برحق ہے اور تم اللہ تعالیٰ کو عاجز نہیں کرسکتے۔ (یونس : ٥٣) ٢۔ کفار کے چہروں پر ذلّت چھا جائے گی انہیں اللہ کے عذاب سے کوئی بچانے والا نہ ہوگا۔ (یونس : ٢٧) ٣۔ اس دن وہ پیٹھیں پھیر کر بھاگیں گے اللہ کی پکڑ سے انہیں کوئی بچانے والا نہ ہوگا۔ (المومن : ٣٣) ٤۔ اگر اللہ کسی کو تکلیف دے تو کون ہے جو اسے اس سے بچا سکے۔ (الاحزاب : ١٧) ٥۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے اپنے بیٹے کو فرمایا آج کے دن اللہ کے عذاب سے کوئی بچانے والا نہیں۔ (ہود : ٤٣) ٦۔ جسے اللہ رسوا کرے اسے کوئی عزت نہیں دے سکتا۔ (الحج : ١٨) الفرقان
0 سورۃ الشعرآء کا تعارف ربط سورۃ: سورۃ الفرقان کی آخری آیت میں ارشاد ہے کہ جو لوگ ” اللہ“ کے سوا دوسروں کو پکارتے ہیں ” اللہ“ کو ان کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔ الشعرآء کے آغاز میں ارشاد ہے کہ اگر یہ لوگ ایمان لانے کے لیے تیار نہیں ہیں تو اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ کو ان پر دل گرفتہ نہیں ہونا چاہیے۔ یہ سورۃ 11 رکوع اور 227 آیات پر مشتمل ہے۔ اس سورۃ کا نام آیت 224 میں موجود ہے۔ سورۃ کا زیادہ حصہ مکہ میں نازل ہوا، لیکن آخری آیات مدینہ منورہ میں نازل ہوئیں۔ جیسا کہ اس سورۃ کی ابتدائی آیات کی تفسیر میں ذکر ہوگا کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خواہش اور کوشش تھی کہ اہل مکہ بالخصوص آپ کے رشتہ دار ہر صورت حلقہ اسلام میں داخل ہوجائیں لیکن وہ لوگ کسی صورت بھی مسلمان ہونے کے لیے تیار نہ ہوئے۔ بلکہ آپ کی جان کے دشمن ہوگئے۔ اس صورت حال پر آپ کا دل پسیج جاتا اور آپ رات کو اٹھ اٹھ کر اپنے رب کے حضور سر بسجود ہو کر زارو قطار روتے اور فریاد پر فریاد کرتے کہ بارالہا انہیں ہدایت سے سرفراز فرما دے۔ بسا اوقات آپ کی طبیعت پر یہ بات اس قدر گراں بار ہوتی کہ قریب تھا کہ آپ کی صحت بگڑ جائے۔ جس پر آپ کو تسلّی کے طور اور حقیقت حال سے آگاہ کرتے ہوئے فرمایا گیا کہ کیا اپنے آپ کو بیمار کرلیں گے کہ یہ لوگ ایمان نہیں لاتے، اگر اللہ تعالیٰ انہیں جبراً مسلمان کرنا چاہتا تو اس کے لیے یہ مشکل نہ تھا کہ وہ اپنی قدرت کی ایسی نشانی ظاہر کرتا کہ ان کی گردنیں اس کے سامنے جھکے بغیر نہ رہ سکتی تھیں۔ لیکن اس کا ضابطہ نہیں کہ لوگوں کو جبراً ایمان لانے پر مجبور کرے۔ اس نے ہر قسم کے دلائل دے کر لوگوں کو کھلا چھوڑ دیا ہے کہ وہ مانیں یا اس کا انکار کریں۔ لہٰذا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ” اللہ“ کی حکمت اور مشیت کو مد نگاہ رکھنا چاہیے۔ آپ کو تسلّی دینے اور ہدایت کے بارے میں بنیادی اصول بیان کرنے کے بعد۔ سات عظیم المرتبت انبیاء کرام کی جدوجہد ان کی دعوت کا انداز اور ان کی اقوام کے عقائد، جرائم اور ان کے بدترین ردعمل کا ذکر کیا ہے۔ تاکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے متبعین کے سامنے حق وباطل کی معرکہ آرائی اور اس کے انجام کا پورا نقشہ آجائے۔ آخر میں اس بات کی وضاحت کی گئی ہے کہ اس قرآن کو رب العالمین نے روح الامین کے ذریعے آپ کے قلب سلیم پر نازل کیا ہے۔ اس کے نزول میں شیاطین کا ذرہ برابر بھی عمل دخل نہ ہے، اور نہ ہی یہ شاعرانہ کلام ہے۔ شعراء اور ان کی پیروی کرنے والوں کی غالب اکثریت گمراہ ہوا کرتی ہے۔ شاعر تو فکر وخیال کی ہر وادی میں منہ ماری کرتے ہیں۔ جب کہ قرآن مجید میں کسی قسم کی یا وہ گوئی اور فکری پراگندگی کی کوئی مثال موجود نہیں ہے۔ بس آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے آپ کو ایماندار ساتھیوں کے ساتھ وابستہ رکھیں ان کے لیے تواضع کا مظاہرہ فرمائیں۔ اپنے رب کے ساتھ یا اس کے سوا کسی اور کے سامنے فریاد کنان ہونے سے بچتے رہیں۔ اگر آپ نے اپنے رب کے ساتھ کسی اور کو پکارا تو آپ بھی اس کے عذاب سے نہیں بچ سکیں گے۔ ظالمو! کو بہت جلد اپنے انجام کا علم ہوجائے گا۔ الشعراء
1 الشعراء
2 الشعراء
3 فہم القرآن ربط سورۃ: سورۃ الفرقان کا اختتام اس بات پر ہوا کہ اے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) انہیں واضح کردیں کہ جو کوئی اللہ اور اس کے رسول کی تکذیب کرے گا، بہت جلد اپنا انجام پا لے گا۔ اگر انہیں یقین نہیں آتا تو انہیں تکذیب کرنے والی اقوام کے واقعات سنائیں کہ ان کا کیا انجام ہوا، جس میں سر فہرست فرعون کی قوم ہے۔ طٓسٓمٰ۔ حروف مقطعات ہیں۔ جن کا معنٰی اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ اس سورۃ کا آغاز کتاب مبین کے تعارف سے شرو ع وہا ہے۔ ” اَلْمُبِیْنِ“ کا معنٰی ہے ایسی کتاب جس کے ارشادات، احکام، ٹھوس دلائل اور حقائق پر مبنی ہیں۔ جن میں کسی قسم کا تضاد اور الجھاؤ نہیں پایا جاتا۔ یہ کتاب اپنا مدّعا اس انداز اور دلنشیں پیرائے میں بیان کرتی ہے۔ کہ جس سے حق وباطل، کھرے اور کھوٹے، جائز اور ناجائز میں کھلا فرق دکھائی دیتا ہے۔ اس کتاب کی نہ پہلے کوئی نظیر موجود ہے اور نہ ہی قیامت تک اس کی کوئی مثال پیش کرسکتا ہے۔ جس طرح یہ کتاب اپنی مثال آپ ہے۔ اسی طرح ہی جس ذات گرامی پر یہ نازل کی گئی وہ بھی کائنات میں اپنی نظیر اور مثال نہیں رکھتے۔ نبی آخر الزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کتاب مبین کو جس پر خلوص انداز اور جانفشانی کے ساتھ لوگوں تک پہنچایا وہ آپ ہی کا کام تھا۔ آپ کے خلوص اور انتھک جدوجہد کے باوجود کفار نے ناصرف اس کا انکار کیا بلکہ وہ آپ پر مختلف الزام لگاتے اور ظلم ڈھاتے رہے۔ اس کے باوجود آپ کی خواہش تھی کہ یہ لوگ مسلمان ہوجائیں۔ بسا اوقات یہ آرزو آپ کے لیے اس قدر گراں صورت اختیار کر جاتی کہ قریب تھا کہ آپ کو جسمانی تکلیف لاحق ہوجائے۔ اس کیفیت کو دوسرے مقام پر یوں بیان کیا گیا ہے۔ کیا اللہ تعالیٰ نے آپ کا سینہ کھول نہیں دیا اور آپ کابوجھ ہلکا نہیں فرمایا ؟ قریب تھا کہ اس بوجھ سے آپ کی کمر ٹوٹ جائے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کے ذکر کو بلند فرمایا یقین کرو کہ تنگی کے بعد آسانی آیا کرتی ہے۔ (الانشرح : ١ تا ٦) سورۃ طٰہٰ میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یوں تسلّی دی گئی : ” طٰہٰ۔ ہم نے یہ قرآن آپ پر اس لیے نازل نہیں کیا ہے کہ آپ مصیبت میں پڑجائیں۔ یہ تو نصیحت ہے ہر اس شخص کے لیے جو ڈرنے والا ہے۔ یہ کتاب اس ذات کی طرف سے نازل کی گئی ہے جس نے زمین و آسمان کو پیدا کیا ہے۔“ اس بوجھ کو اتارنے اور غم کو ہلکا کرنے کے لیے اس سورۃ کی ابتداء میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ بات سمجھائی گئی کہ کیا یہ لوگ مسلمان نہیں ہوتے تو آپ اپنے آپ کو ہلاک کرلیں گے ؟ آپ کا کام بار بار سمجھانا ہے۔ جو اعلیٰ اخلاق اور کمال جانفشانی کے ساتھ آپ سر انجام دے رہے ہیں۔ (عَنْ عَاءِشَۃَ (رض) أُمِّ الْمُؤْمِنِینَ أَنَّہَا قَالَتْ أَوَّلُ مَا بُدِءَ بِہِ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مِنَ الْوَحْیِ الرُّؤْیَا الصَّالِحَۃُ فِی النَّوْمِ۔۔ فَقَالَ لِخَدِیجَۃَ وَأَخْبَرَہَا الْخَبَرَ لَقَدْ خَشِیتُ عَلَی نَفْسِی فَقَالَتْ خَدِیجَۃُ کَلاَّ وَاللَّہِ مَا یُخْزِیک اللَّہُ أَبَدًا، إِنَّکَ لَتَصِلُ الرَّحِمَ، وَتَحْمِلُ الْکَلَّ، وَتَکْسِبُ الْمَعْدُومَ، وَتَقْرِی الضَّیْفَ، وَتُعِینُ عَلَی نَوَاءِبِ الْحَقِّ) [ رواہ البخاری : باب بدء الوحی] ” حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو وحی کی ابتدا نیند میں سچے خوابوں سے ہوئی۔۔۔۔ پھر آپ نے حضرت خدیجہ (رض) کو سارا ماجرا کہہ سنایا اور فرمایا، مجھے اپنی جان کا خطرہ ہے۔ انہوں نے تسلی دی کہ ہرگز نہیں۔ اللہ کی قسم ! اللہ تعالیٰ آپ کو کبھی رسوا نہیں کرے گا۔ آپ صلۂ رحمی کرتے ہیں، دوسروں کے بوجھ اٹھاتے ہیں، محتاج کی خبر گیری کرتے ہیں، مہمان کو کھانا کھلاتے ہیں مصیبت زدہ کی مدد کرتے ہیں۔“ مسائل ١۔ قرآن مجید روشن اور ایک واضح کتاب ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کوتسلی اور اطمینان سے نواز ا۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی محنت کو بے انتہا خراج تحسین سے سرفراز فرمایا۔ تفسیر بالقرآن نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لوگوں پر چوکیدار نہیں بنائے گئے : ١۔ (پیغمبروں نے کہا) ہمارے ذمہ دین کی تبلیغ کرنا ہے۔ (یٰس : ١٧) ٢۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تو ڈرانے والے ہیں اور اللہ ہر چیز پر کارساز ہے۔ (ہود : ١٢) ٣۔ آپ کا کام تبلیغ کرنا ہے اور حساب لیناہمارا کام ہے۔ (الرعد : ٤٠) ٤۔ رسولوں کا کام صرف تبلیغ کرنا ہے۔ (النحل : ٣٥) ٥۔ آپ کو ان پر نگران نہیں بنایا گیا آپ کا کام تبلیغ کرنا ہے۔ (الشوریٰ: ٤٨) ٦۔ آپ نصیحت کریں آپ کا کام بس نصیحت کرنا ہے، آپ کو کو توال نہیں بنایا گیا۔ (الغاشیۃ: ٢١۔ ٢٢) الشعراء
4 فہم القرآن ربط کلام : کتاب مبین کی واضح آیات اور ٹھوس دلائل کے باوجود لوگ ایمان نہیں لاتے۔ رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بے مثال جدوجہد اور قرآن مجید کے ٹھوس اور بیّندلائل کے باوجود۔ کفار آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ایک سے ایک بڑھ کر معجزہ لانے کا مطالبہ کرتے۔ اس کا جواب دیتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے کہ اگر ہم چاہیں تو آسمان سے ایسا معجزہ نازل کریں جس کے سامنے ان کی گردنیں جھک جائیں۔ اور یہ ایمان لانے پر مجبور ہوجائیں لیکن یہ اللہ تعالیٰ کی حکمت کے خلاف ہے کہ وہ لوگوں کو جبراً ایمان لانے پر مجبور کرے۔ اس نے لوگوں کے سامنے کتاب مبین رکھ دی ہے۔ جس کی تلاوت کرنے سے حق اور باطل واضح ہوجاتا ہے۔ اب یہ لوگوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی رغبت سے حق قبول کرتے ہیں یا نخوت سے اسے مسترد کرتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ جب بھی منکرین حق کے سامنے کوئی نئی دلیل پیش کی جاتی ہے تو وہ اسے استہزاء کا نشانہ بناتے ہیں۔ اگر ان کا یہی وطیرہ رہا تو وقت دور نہیں جب ان پر ایسے حالات وارد ہوں گے۔ جن سے حق کی تکذیب اور اسے استہزاء کا نشانہ بنانے والوں کو نیست ونابود کردیا جاتا ہے۔ مسائل ١۔ لوگوں کی اکثریت ہمیشہ حق بات سے اعراض کرتی رہی ہے۔ ٢۔ انبیاء (علیہ السلام) کو مذاق کرنے والوں کا ہمیشہ سے برا انجام ہوا ہے۔ الشعراء
5 الشعراء
6 فہم القرآن ربط کلام : نئی نشانیاں اور معجزات کا مطالبہ کرنے والوں کو جواب۔ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نئی نئی نشانیاں اور معجزات کا مطالبہ کرنے والوں کو سمجھایا گیا کہ اگر تم حقیقتاً ہدایت کے طالب ہو تو پھر اللہ تعالیٰ کی ذات اور قدرت کو پہچاننے کے لیے کیا کافی نہیں کہ جس دھرتی پرتم رہتے ہو اس پر غور کرو ؟ اگر تم اخلاص کی نظر سے دیکھو اور غور کرو گے تو تمھیں معلوم ہوجائے گا کہ اللہ تعالیٰ نے تمھارے فائدے کے لیے زمین میں کس قدر عمدہ چیزیں پیدا فرمائی ہیں غور کرنے والے کے لیے یقیناً اس میں عظیم نشانی ہے۔ لیکن لوگوں کی اکثریت ایمان لانے کے لیے تیار نہیں۔ اللہ تعالیٰ اس بات پر غالب ہے کہ وہ حقائق ٹھکرانے والوں کو تہس نہس کر دے لیکن وہ اپنی شفقت و مہربانی کی وجہ سے انہیں مہلت پر مہلت دیے جا رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو حقائق جاننے اور ہدایت پانے کے لیے نباتات پر غور کرنے کا حکم دیا ہے کہ کیا انسان اس بات پر غور نہیں کرتا کہ ایک ہی قسم کی زمین ہوتی ہے ایک جیسی آب و ہوا اور ایک ہی پانی سے سیراب ہوتی ہے؟ زمین کے ایک دوسرے سے ملے ہوئے مختلف طبقات اور قطعات ہیں جنہیں ایک ہی پانی سے سیراب کیا جاتا ہے۔ لیکن اس کی فصلوں اور پھلوں کو ایک دوسرے پر لذت، رنگت اور فوائد کے اعتبار سے فوقیت حاصل ہے۔ جس طرح جاندار چیزوں کے جوڑے ہیں ویسے ہی پودوں، درختوں اور پوری نباتات کے جوڑے ہیں۔ یہاں تک کہ ان کے پھلوں کے بھی جوڑے پیدا کیے گئے ہیں۔ ایک ہی قسم کا پھل ہونے کے باوجود کوئی میٹھا ہے، کوئی کڑوا، کوئی ترش اور کوئی پھیکا ہے ایک ناقص ہے دوسرا اعلیٰ قسم کا نہایت قیمتی اور مفید ہے۔ پرانے زمانے کے انسان کو یہ معلوم نہیں تھا کہ پودوں میں بھی جانوروں کی طرح نر اور مادہ ہوتے ہیں۔ آج نباتات کا جدید علم بتاتا ہے کہ ہر پودے کی نر اور مادہ صنف ہوتی ہے۔ حتی کہ وہ پودے جو یک صنفی (Unise xual) ہوتے ہیں ان میں بھی نر اور مادہ کے امتیازی اجزا یکجا ہوتے ہیں۔ مسائل ١۔ انسان کو نباتات پر غور کرنا چاہیے۔ ٢۔ دلائل جاننے کے باوجود لوگوں کی اکثریت ایمان نہیں لایا کرتی۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر غالب ہونے کے باوجود شفقت اور مہربانی کرنے والا ہے۔ تفسیر بالقران اللہ تعالیٰ کی پیدا کردہ نباتات کی ایک جھلک : ١۔ اللہ نے پانی سے ہر قسم کی نباتات کو پیدا کیا۔ (الانعام : ٩٩) ٢۔ اللہ پانی سے تمہارے لیے کھیتی، زیتون، کھجور اور انگور اگاتا ہے۔ (النحل : ١١) ٣۔ اللہ نے کھجوروں اور انگوروں کے باغات پیدا کیے۔ (المومنون : ١٩) ٤۔ اللہ نے زمین میں کھجوروں اور انگوروں کے باغات پیدا کیے۔ (یٰس : ٣٤) ٥۔ اللہ نے باغات، کھجور کے درخت اور کھیتی پیدا کی جوذائقہ کے لحاظ سے مختلف ہیں۔ (الانعام : ١٤١) ٦۔ تمہارے لیے نباتات کو زمین پر پھیلاکرمسخر کیا، ان کی اقسام مختلف ہیں۔ (النحل : ١٣) ٧۔ اللہ نے آسمان سے پانی اتارا اور اس سے مختلف انواع کے پھل پیدا فرمائے۔ (فاطر : ٢٧) ٨۔ اللہ زمین سے کھیتی نکالتا ہے جس کے رنگ مختلف ہوتے ہیں۔ (الزمر : ٢١) الشعراء
7 الشعراء
8 الشعراء
9 الشعراء
10 فہم القرآن ربط کلام : چھٹی آیت میں بتایا گیا ہے کہ عنقریب ان کے پاس وہ خبریں یعنی واقعات بیان کیے جائیں گے، کہ جن قوموں نے توحید کے دلائل اور اپنے رسول کو جھٹلایا ان کا انجام کیا ہوا۔ لہٰذا سنیں ان میں سر فہرست فرعون اور اس کے ساتھی تھے جنہیں موسیٰ نے ان الفاظ میں سمجھایا اور ڈرایا تھا۔ اے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! وہ وقت یاد کرو جب موسیٰ (علیہ السلام) کو آپ کے رب نے یہ حکم دیا کہ ظالم قوم کے پاس جاؤ۔ جو فرعون کی قوم ہے انھیں سمجھاؤ کہ وہ اپنے رب سے ڈر جائیں۔ اس موقعہ پر موسیٰ نے یہ عذر پیش کیا الٰہی مجھ سے ان کا بندہ قتل ہوگیا اس لیے مجھے ڈر لگتا ہے کہ وہ مجھے قتل کردیں گے واقعہ یوں ہے کہ حضرت موسیٰ سے فرعون کی قوم کا ایک شخص غیر ارادی طور پر قتل ہوا۔ گرفتاری کے ڈر سے حضرت موسیٰمصر سے بھاگ نکلے دس (١٠) سال حضرت شعیب (علیہ السلام) کے پاس مدین میں رہے حضرت شعیب (علیہ السلام) نے انھیں اپنی دامادی کا شرف بخشا۔ مدین میں دس (١٠) سال رہنے کے بعد جب موسیٰ (علیہ السلام) اپنی اہلیہ کے ساتھ مصر آرہے تھے تو راستہ میں ایک جگہ انھوں نے روشنی دیکھی اپنی اہلیہ کو یہ بات کہہ کر اس روشنی کی طرف بڑھے کہ آپ یہاں ٹھہریں میں وہاں سے راستہ پوچھتا ہوں یا آپ کے تاپنے کے لیے آگ لاتا ہوں۔ موسیٰ اس روشنی کے قریب ہوئے تو آواز آئی کہ اپنا جوتا اتار دیں۔ آپ پاک سرزمین پر قدم رکھ چکے ہیں اور میں آپ کا رب ہوں۔ اس کی تفسیر سورۃ القصص، آیت : ٢٩ تا ٣٥ میں بیان کی جائے گی۔ (ان شاء اللہ) یہاں موسیٰ (علیہ السلام) کو نبوت سے سرفراز کرنے کے ساتھ دو عظیم معجزے دیے گئے اور حکم ہوا کہ فرعون اور اس کی قوم کے پاس جاؤ۔ انھیں ان کے انجام سے ڈراؤ وہ بڑے ظالم لوگ ہیں۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اس موقع پر تین عذرپیش کیے تھے۔ ١۔ میری زبان پوری طرح رواں نہیں ہے اور میرا سینہ تنگی محسوس کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کی دعا قبول فرمائی ان کا سینہ کھول دیا گیا اور ان کی قوت گویائی ٹھیک کردی۔ (طٰہٰ: ٢٥ تا ٢٨) ٢۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے یہ بھی فریاد کی کہ میرے بھائی ہارون کے ساتھ مجھے مضبوط کیجیے وہ میرے کام میں شریک رہے اور اسے میرا وزیر بنا دیں۔ موسیٰ (علیہ السلام) کی یہ دعا بھی قبول کی گئی۔ (طٰہٰ: ٢٩ تا ٣٦) ٣۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے تیسرا عذر یہ پیش کیا کہ میرے رب میرے ذمہ ان کا ایک جرم ہے مجھے ڈر ہے کہ وہ مجھے قتل نہ کردیں۔ جرم سے مراد وہی جرم ہے جو موسیٰ (علیہ السلام) کی ہجرت کرنے کا سبب بنا تھا جس کا ابھی ذکر ہوا ہے جس وجہ سے وہ خوف محسوس کرتے ہیں کہ انھیں قتل کردیا جائے گا۔ اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو یہ کہہ کر تسلی دی کہ ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا۔ ہمارے دیے ہوئے معجزات کے ساتھ دونوں جاؤ یقیناً ہم تمھارے ساتھ ہیں اور تمھاری فرعون کے ساتھ ہونے والی گفتگو سن رہے ہوں گے۔ سورۃ طٰہٰ آیت ٤٥۔ ٤٦ میں یہ بھی ذکر ہے کہ موسیٰ اور حضرت ہارون ( علیہ السلام) نے عرض کی ہمارے رب ! ہم خوف محسوس کرتے ہیں کہ فرعون ہم پر زیادتی کرے گا۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت ہارون (علیہ السلام) کو تسلی دی کہ ڈرنے کی ضرورت نہیں میں سب کچھ دیکھ اور سن رہا ہوں گا۔ ان تسلیوں اور معجزات کے ساتھ حضرت موسیٰ اور ہارون ( علیہ السلام) فرعون کی طرف بھیجے گئے۔ اس میں ”إِذْ“ کا لفظ بول کر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ بات باور کر وائی ہے کہ اے پیغمبر ! موسیٰ (علیہ السلام) کے واقعہ پر غور فرمائیں کہ وہ کتنے کٹھن حالات میں فرعون کی طرف بھیجے گئے تھے۔ فرعون پرلے درجے کا سرکش اور اپنے آپ کو ” اَنَا رَبُّکُمُ الاَعْلٰی“ کہلوانے والا تھا۔ موسیٰ (علیہ السلام) کی ولادت کے خوف سے بنی اسرائیل پر مسلسل ظلم کر رہا تھا۔ اس کی قوم، اس کے مظالم میں برابر کی شریک ہوچکی تھی۔ غور فرمائیں کہ آپ کے مقابلے میں فرعون جیسی قوت رکھنے والا کوئی شخص نہیں ہے۔ بے شک آپ کی قوم آپ اور آپ کے ساتھیوں پر زیادتی کرنے والی ہے۔ لیکن ان میں ایسے لوگ بھی ہیں جو آپ پر سب کچھ نچھاور کرر ہے ہیں۔ اس لحاظ سے آپ کو موسیٰ (علیہ السلام) کے مقابلے میں بہتر حالات میں کام کرنے کا موقع دیا گیا ہے لہٰذا آپ کو موسیٰ (علیہ السلام) کا واقعہ ہمیشہ ذہن میں رکھنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون ( علیہ السلام) کو اپنی معیت کا یقین دلایا تھا۔ آپ بھی یقین رکھیں کہ آپ کے رب کی مدد ہر وقت آپ کے ساتھ رہے گی۔ مسائل ١۔ فرعون اور اس کی قوم ظلم کرنے والے تھے۔ ٢۔ موسیٰ (علیہ السلام) کی تینوں درخواستوں کو اللہ تعالیٰ نے قبول فرمایا۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ اپنے اقتدار، اختیار اور علم کی بناء پر آدمی کے ساتھ ہوتا ہے : ١۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے غار ثور میں ابوبکر کو فرمایا کہ ” اللہ“ ہمارے ساتھ ہے۔ ( التوبہ : ٤٠) ٢۔ اللہ تعالیٰ انسان کی شاہ رگ سے زیادہ قریب ہے۔ (ق : ١٦، الواقعہ : ٨٥) ٣۔ اللہ تعالیٰ اپنے اقتدار اور اختیار کے اعتبار سے لوگوں کے ساتھ ہوتا ہے۔ ( المجادلۃ: ٧) الشعراء
11 الشعراء
12 الشعراء
13 الشعراء
14 الشعراء
15 فہم القرآن ربط کلام : موسیٰ (علیہ السلام) کو ہر قسم کی تسلّی دینے کے بعد فرعون کی طرف جانے کا حکم ہوا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے بھائی حضرت ہارون (علیہ السلام) فرعون کے پاس پہنچے اور اسے یہ کہہ کر اپنی رسالت اور اللہ تعالیٰ کی توحید کی دعوت دی کہ ہم رب العالمین کے بھیجے ہوئے رسول ہیں۔ فرعون اپنے آپ کو ” رَبُّکُمُ الْأَعْلٰی“ کہتا تھا۔ اس لیے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اسے توحید کا یہ پہلو پیش فرمایا کہ رب العالمین ایک ہے اس کے سوا کوئی اور رب نہیں۔ اس کے ساتھ ہی اپنی قوم کی آزادی کا مطالبہ کیا۔ کیونکہ آزاد قوم ہی اپنے نفع و نقصان کا ٹھیک طور پر فیصلہ کرسکتی ہے۔ فرعون نے موسیٰ (علیہ السلام) کی دعوت اور مطالبہ پر بات کرنے کی بجائے کم ظرفی اور عیاری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان پر دو اعتراضات کیے تاکہ موسیٰ (علیہ السلام) کو خوفزدہ کیا جا سکے۔ فرعون نے بڑے طمطراق سے کہا ” کیا ہم نے بچپن میں تجھے نہیں پالا اور تو ہمارے پاس کئی سال تک نہیں ٹھہرا رہا ؟ پھر تو نے وہ کام کیا جو تو جانتا ہے۔ اے موسیٰ تو ناشکرا اور ناقدر شناس انسان ہے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے کسی قسم کی تاویل کرنے کی بجائے پیغمبرانہ انداز کے ساتھ کھلے الفاظ میں اعتراف کیا کہ واقعی ہی مجھ سے وہ کام ہوا جس کی طرف تو اشارہ کر رہا ہے۔ لیکنمجھے معلوم نہ تھا کہ یہ شخص معمولی مکہ سے مر جائے گا، اس کے مرنے کے سبب اور تمھارے خوف کی وجہ سے میں یہاں سے بھاگ نکلا اس دوران اللہ تعالیٰ نے مجھے حکم دیا اور نبوت سے سرفراز فرمایا۔ اس وضاحت کے ساتھ ہی انھوں نے فرعون کے سامنے یہ سوال رکھا۔ کیا مجھ پر احسان کرنے کا یہ بدلہ ہونا چاہیے کہ میری پوری قوم کو غلام بناکررکھا جائے ؟ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے جو اب کی صورت میں ایسا سوال اٹھایا جس کا فرعون کوئی جواب نہ دے سکا۔ یہاں تک کہ اس نے موسیٰ (علیہ السلام) سے سرزد ہونے والے قتل کا معاملہ اٹھانے کی بھی جرأت نہ کی۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) سے وعدہ کیا تھا کہ آپ کے خلاف فرعون کوئی کارروائی نہیں کرسکے گا۔ جہاں تک موسیٰ (علیہ السلام) کا اپنے بارے میں ” ضَالٌّ“ کا لفظ استعمال کرنے کا تعلق ہے۔” ضآلین“ کا واحد ” ضَالٌّ“ ہے جس کے کئی معانی ہیں اِ ن معنوں میں ایک یہ معنٰی ہے ” کسی معاملے میں بے علم اور بے خبر ہونا۔“ جس بنیاد پر موسیٰ (علیہ السلام) نے یہ وضاحت فرمائی کہ بے شک وہ آدمی میرے ہاتھ سے مرا ہے لیکن میرا اسے قتل کرنے کا ارادہ نہ تھا۔ یہ جو کچھ ہوا ہے غیر ارادی طور پر ہوا تھا۔ (عَنْ أَبِیْ ذَرٍّ عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ ثَلَاثَۃٌ لَا یُکَلِّمُھُمُ اللّٰہُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ وَلَا یَنْظُرُ إلَیْھِمْ وَلَا یُزَکِّیْھِمْ وَلَھُمْ عَذَابٌ أَلِیْمٌ قَالَ فَقَرَأَھَا رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ثَلَاثَ مِرَارٍ قَالَ أَبُوْ ذَرٍّ خَابُوْا وَخَسِرُوْامَنْ ھُمْ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ الْمُسْبِلُ وَالْمَنَّانُ وَالْمُنْفِقُ سِلْعَتَہٗ بالْحَلْفِ الْکَاذِبِ) [ رواہ مسلم : کتاب الإیمان، باب بیان غلظ تحریم إسبال الإزار والمن بالعطیۃ] ” حضرت ابوذر (رض) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں۔ آپ نے فرمایا قیامت کے دن تین قسم کے لوگوں سے اللہ تعالیٰ نہ کلام کرے گا نہ ان کی طرف نظر رحمت سے دیکھے گا اور نہ ہی ان کو گناہوں سے پاک کرے گا۔ ان کے لیے درد ناک عذاب ہوگا۔ ابوذر (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ بات تین مرتبہ ارشاد فرمائی۔ ابوذر (رض) نے عرض کی یارسول اللہ! وہ کون لوگ ہیں ؟ وہ تو ناکام ونامراد ہوگئے۔ آپ نے فرمایا : 1 اپنا ازار ٹخنوں سے نیچے لٹکانے والا 2 احسان جتلانے والا 3 جھوٹی قسمیں اٹھا کر اپنا مال فروخت کرنے والا۔“ مسائل ١۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت ہارون (علیہ السلام) نے فرعون کے سامنے توحید کی دعوت دی اور اپنی قوم کی آزادی کا مطالبہ کیا۔ ٢۔ فرعون نے کمینگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے موسیٰ (علیہ السلام) کی ذات پر اعتراضات اٹھائے۔ ٣۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے کھلے الفاظ میں اپنے ہاتھوں ہونے والے قتل کا اقرار کیا۔ ٤۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی ذات پر احسان کا جواب دیتے ہوئے ایسا سوال کیا کہ جس سے فرعون لاجواب ہوگیا۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو نبوت کے سرفراز فرمایا۔ ٦۔ احسان کر کے احسان جتلانا نہیں چاہیے۔ تفسیر بالقرآن حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے نبوت اور معجزات عطا فرمائے : ١۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کی درخواست پر ان کے بھائی ہارون کو نبی بنایا۔ ( طٰہٰ: ٢٩۔ ٣٠) ٢۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کی دعا قبول کرتے ہوئے ان کی زبان اور سینہ کھول دیا۔ ( طٰہٰ: ٢٥ تا ٢٨) ٣۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام)، فرعون اور اس کے حواریوں کے پاس معجزات لے کر آئے مگر انہوں نے تکبر کیا۔ (العنکبوت : ٣٩) ٤۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو کتاب اور حق و باطل میں فرق کرنے والے معجزے عطا کیے۔ (البقرۃ: ٥٣) ٥۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ اور ہارون (علیہ السلام) کو حق و باطل میں فرق کرنے والی کتاب عنایت فرمائی۔ (الانبیاء : ٤٨) ٦۔ اللہ نے موسیٰ اور ہارون کو فرعون اور اس کے سرداروں کے پاس اپنی نشانیوں کے ساتھ بھیجا مگر انہوں نے تکبر کیا۔ (یونس : ٧٥) الشعراء
16 الشعراء
17 الشعراء
18 الشعراء
19 الشعراء
20 الشعراء
21 الشعراء
22 الشعراء
23 فہم القرآن ربط کلام : فرعون اور موسیٰ (علیہ السلام) کے درمیان مکالمہ۔ فرعون حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر احسان جتلانے اور ان کی قوم کو غلام بنانے کے معاملے میں لاجواب ہوا۔ تو اس نے موسیٰ (علیہ السلام) سے یہ سوال کیا کہ تم کس رب العالمین کی بات کرتے ہو۔ جس کا معنٰی تھا کہ میرے سوا کون رب ہوسکتا ہے ؟ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ کی ربوبیت کا تفصیلی جواب دینے کی بجائے سادہ اور جامع جواب دیا کہ میں اس رب کا رسول ہوں۔ جو آسمانوں اور زمین اور جو کچھ ان کے درمیان ہے سب کا رب ہے۔ اگر تم اس پر یقین کرنے کے لیے تیار ہو۔ یاد رہے کہ رب کا معنی خالق، رازق، مالک اور بادشاہ ہے۔ فرعون نے اپنا سکہ جمانے اور اپنے وزیروں، مشیروں پر اثر ڈالنے کے لیے کہا جو کچھ موسیٰ (علیہ السلام) کہہ رہا ہے اسے سن رہے ہو ؟ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے محسوس کیا کہ فرعون اپنے وزیروں اور مشیروں سے اپنی ہاں میں ہاں ملوانا چاہتا ہے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے وزیروں، مشیروں کو بولنے کا موقعہ دیے بغیر فرمایا کہ ہاں میں اس رب کی بات کرتا ہوں جس نے تمھیں اور تمھارے آباؤ اجداد کو پیدا کیا۔ ہوسکتا ہے فرعون یہ مغالطہ دینے میں کامیاب ہوجاتا کہ میں بھی اپنے ملک میں رہنے والوں کی ضروریات پوری کررہا ہوں اس لیے مجھے رب کہلوانے کا حق پہنچتا ہے۔ لیکن موسیٰ (علیہ السلام) نے یہ دلیل دے کر ثابت کیا میری مراد وہ رب ہے کہ جس نے تمھیں اور تمھارے آباؤ اجداد کو پیدا کیا ہے۔ ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی کچھ پیدا نہیں کرسکتا۔ اس لیے فرعون سے اس سوال کا جواب بھی نہ بن سکا۔ جس سے اس کی خفت میں مزید اضافہ ہوا۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ ساری کائنات کا رب ہے۔ ٢۔ سرکش قسم کے لوگ دلائل کو نہیں مانتے۔ الشعراء
24 الشعراء
25 الشعراء
26 الشعراء
27 فہم القرآن ربط کلام : حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور فرعون کے درمیان مکالمہ جاری ہے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے دوسری دلیل یہ دی کہ میں اس رب کی طرف سے رسول بنایا گیا ہوں۔ جو تمھارا اور تمھارے باپ دادا کا رب ہے۔ اس دلیل کا صاف مطلب تھا کہ ” اے فرعون ! میں تجھے رب ماننے کے لیے تیار نہیں ہوں۔“ جس کا دوسرا مطلب یہ تھا کہ تو مصر کے لوگوں کا رب ہونے کا دعویٰ کرتا ہے۔ اس کا کیا جواب ہے کہ تجھے اور تیرے آباء واجداد کو کس نے پیدا کیا ؟ ظاہر ہے کہ نہ تو نے اپنے آپ کو پیدا کیا اور نہ ہی پہلے لوگوں کو پیدا کرنے والا ہے۔ فرعون اس دلیل کی وجہ سے جھنجھلاہٹ میں آکر اپنے درباریوں سے کہنے لگا کہ تمھاری طرف جو رسول بھیجا گیا وہ تو پاگل ہے۔ فرعون یہ بات سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ کوئی شخص اتنی بے باکی کے ساتھ میرے سامنے بات کرسکتا اور مجھے ترکی بہ ترکی جواب دے سکتا ہے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے تیسری دلیل دیتے ہوئے فرمایا کہ میں اس رب کی بات کر رہا ہوں جو مشرق سے مغرب تک اور جو کچھ ان کے درمیان ہے ان کا خالق، مالک، رازق اور بادشاہ ہے۔ اس میں یہ بتانا مقصود ہے توتو ایک ملک کا حکمران ہے یہ بتا مشرق سے لے کر مغرب تک کس کی بادشاہی ہے اگر تم عقل سے کام لینے والے ہو۔ گویا کہ اس میں یہ جواب مضمر تھا مجھے پاگل کہنے والے ! حقیقتاً تو خود پاگل ہیں۔ کفار اور مشرکین کا شروع سے طریقہ چلا آرہا ہے کہ وہ اپنے عقیدے کے خلاف جرأت سے بات کرنے والے کو پاگل کہتے ہیں۔ یہی وہ پہلا الزام ہے جو ہر پیغمبر کی ذات اقدس پر لگایا گیا۔ انبیاء کو پاگل کہنے کی چند وجوہات 1۔ اس شخص کی معاشرے میں بڑی تکریم تھی لیکن اس نے صرف اس دعوت کے بدلے اپنا احترام و مقام کھو دیا ہے۔ 2۔ یہ پاگل ہے کہ صرف توحید، توحید کی رٹ لگائے جا رہا ہے۔ 3 دعوت توحید کے مقابلے میں انبیاء کرام کو بڑی بڑی مراعات پیش کی گئیں مگر انہوں نے سب کو ٹھکرا دیا جس بنا پر لوگ انہیں پاگل کہتے تھے۔ 4 انبیاء کرام نے دنیا کی عزت کے مقابلے میں آخرت کو ترجیح دی جس وجہ سے دنیا دار انہیں پاگل کہتے ہیں۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ پہلے، موجود اور آنے والے لوگوں کا رب ہے۔ ٢۔ لوگ انبیائے کرام (علیہ السلام) کو پاگل ہونے کا طعنہ دیتے تھے۔ ٣۔ عقل کی بات یہ ہے کہ عقیدہ توحید سمجھا جائے اور اس پر ایمان لایا جائے۔ تفسیر بالقرآن ” اللہ“ ہی سب کا رب ہے : ١۔ تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جو جہانوں کو پالنے والا ہے۔ (الفاتحۃ: ١) ٢۔ اللہ تمھارا رب ہے اس کے سوا کوئی الٰہ نہیں وہی ہر چیز کا خالق ہے۔ (الانعام : ١٠٢) ٣۔ اللہ تعالیٰ میرا اور تمھارا رب ہے۔ تم اسی کی عبادت کرو یہی صراط مستقیم ہے۔ (آل عمران : ٥١، مریم : ٣٦) ٤۔ اللہ کے سوا کوئی اور بھی خالق ہے جو تمھیں زمین و آسمان میں رزق دیتا ہے ؟ (الفاطر : ٢) ٥۔ اللہ ہی تمھارا رب ہے کیا اس کے سوا کوئی دوسرا خالق ہے ؟ (غافر : ٦٢) ٦۔ ہر چیز اللہ کے قبضۂ قدرت میں ہے۔ (یٰسٓ : ٨٣) ٧۔ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں وہی زندہ کرتا ہے اور مارتا ہے وہ تمہارا اور تمہارے آباء و اجداد کا رب ہے۔ (الدخان : ٨) ٨۔ حضرت ہود نے فرمایا میں نے اپنے اللہ پر توکل کیا ہے جو میرا اور تمہارا رب ہے۔ (ہود : ٥٦) ٩۔ اللہ ہی مشرق ومغرب کا رب ہے اس کے سوا کوئی الٰہ نہیں اسی کو کار سازسمجھو۔ (المزمل : ٩) الشعراء
28 الشعراء
29 فہم القرآن ربط کلام : فرعون نے اپنے اقتدار کے لیے موسیٰ (علیہ السلام) کی دعوت کو چیلنج سمجھا اس لیے اس نے موسیٰ (علیہ السلام) کو قید و بند کی دھمکی دی۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے بڑے حوصلہ اور دانش مندی کے ساتھ فرعون کو لاجواب کردیا۔ فرعون نے ذلّت محسوس کرتے ہوئے دلائل کا جواب دلائل سے دینے کی بجائے نہ صرف موسیٰ (علیہ السلام) کو بھرے دربار میں پاگل بلکہ جیل کی سلاخوں میں بند کرنے کی دھمکی دی۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کمال ذہانت اور بردباری سے فرعون کو پھر دلائل کے میدان میں کھینچ لائے۔ ارشاد فرمایا کیا میں اپنے دعویٰ کے جواب میں کھلے دلائل پیش کروں تو پھر بھی آپ اسے ماننے کے لیے تیار نہیں ہوں گے ؟ فرعون نے مجبور ہو کر کہا کیوں نہیں اگر تو اپنے دعوے میں سچا ہے تو دلیل پیش کر۔ یہی موسیٰ (علیہ السلام) چاہتے تھے جو نہی فرعون نے نشانی کا مطالبہ کیا تو موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنا عصا زمین پر دے مارا۔ عصا زمین پر گرتے ہی بڑے اژدھا کی طرح پھنکارنے لگا ظاہر بات ہے کہ فرعون اور اس کے حواریوں کے حواس باختہ ہوگئے اور انھوں نے موسیٰ (علیہ السلام) سے درخواست کی کہ برائے کرم اس اژدھا کو قابوکیجیے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) آگے بڑھے اژدھا کو ہاتھ ڈالا تو وہ پہلے کی طرح عصا بن گیا۔ اس کے بعد موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنا ہاتھ اپنی بغل میں کر نکالا تو وہ اس طرح روشن ہوا کہ فرعون اور اس کے درباریوں کی آنکھوں چندھیا گئیں۔ چاہیے تو یہ تھا کہ فرعون اور اس کے درباری حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لے آتے۔ لیکن فرعون نے اپنے آپ پر قابو پاتے ہوئے پوری مکاری کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا یہ تو بہت بڑا جادو گر ہے۔ مسائل ١۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) بڑی دانش مندی کے ساتھ فرعون کو دلائل کے میدان میں لے آئے۔ ٢۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنا ید بیضا اور عصا کے عظیم معجزے دکھائے۔ ٣۔ فرعون نے ایمان لانے کی بجائے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر جادو گر ہونے کا الزام لگایا۔ تفسیر بالقرآن انبیاء کرام (علیہ السلام) پر جادو گر ہونے کا الزام : ١۔ آل فرعون نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر جادو گرہونے کا الزام لگایا۔ (القصص : ٣٦) ٢۔ کفار نے تمام انبیاء (علیہ السلام) کو جادوگر اور دیوانہ قرار دیا۔ (الذاریات : ٥٢) ٣۔ کفار کے پاس حق بات آئی تو انھوں نے اسے جادو قرار دیا۔ (سباء : ٤٣) ٤۔ حضرت صالح اور حضرت شعیب کو جادو زدہ کہا گیا۔ (الشعرآء : ١٥٣۔ ١٨٥) ٥۔ جب لوگوں کے پاس حق آیا تو انھوں نے کہا یہ تو جادو ہے۔ ہم اسے نہیں مانتے۔ (الزخرف : ٣٠) ٦۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اہل مکہ نے جادوگر کہا۔ ( الصّٰفٰت : ٦) ٧۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جادو زدہ کہا گیا۔ (الفرقان : ٨۔ بنی اسرائیل : ٤٧) ٨۔ کیا قرآن جادو ہے یا تم غور نہیں کرتے۔ (الطور : ١٥) الشعراء
30 الشعراء
31 الشعراء
32 الشعراء
33 الشعراء
34 الشعراء
35 فہم القرآن ربط کلام : فرعون نے موسیٰ (علیہ السلام) کو جادوگروں کے ساتھ مقابلہ کا چیلنج دیا۔ انبیاء کرام (علیہ السلام) کی سیرت اور جدوجہد کا تذکرہ کرتے ہوئے قرآن مجید نے یہ بات واضح فرمائی ہے کہ جب بھی انبیاء کرام (علیہ السلام) نے اپنی اپنی قوم کو توحید کی دعوت دی تو سب سے پہلے انھیں پاگل اور جادو گر کہا گیا تھا۔ یہی الزام موسیٰ (علیہ السلام) پر لگے کہ یہ بہت بڑا جادوگر ہے۔ حالانکہ فرعون جانتا تھا کہ جادوگر اس سیرت کے حامل لوگ نہیں ہوتے۔ جس سیرت سے اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو سرفراز فرمایا تھا۔ موسیٰ (علیہ السلام) کو جادوگر کہہ کر فرعون نے سیاسی حربہ استعمال کرتے ہوئے اپنے وزیروں، مشیروں کو کہا کہ یہ اپنے جادو کے ذریعے تمہیں تمہارے ملک سے نکالنا چاہتا ہے۔ بتاؤ تمھارا کیا فیصلہ ہے ؟ وزیرں، مشیروں نے بیک زباں ہو کر کہا کہ اسے اور اس کے بھائی کو مہلت دیجیے اور آپ اہل کاروں کو بھیجیں کہ وہ ملک بھر سے آپ کے پاس بڑے بڑے جادوگروں کو حاضر کریں ہاں مقابلے کے لیے ایک خاص دن متعین ہونا چاہیے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے دل کی مراد پوری ہوئی۔ اس لیے فوراً مان گئے اور فرمایا کہ یہ دن عام نہیں بلکہ قومی تہوار کا دن ہونا چاہیے۔ اس کے ساتھ ہی فرعون نے کہا کہ ہم میں سے کسی کو وعدہ خلافی نہیں کرنا چاہیے۔ (طٰہٰ: ٥٨، ٥٩) موسیٰ (علیہ السلام) کو اپنی دعوت پیش کرنے کرلیے عظیم موقعہ ہاتھ آرہا تھا، کیونکہ موسیٰ (علیہ السلام) تو اتنا بڑا اجتماع منعقد نہیں کرسکتے تھے۔ جب لوگ متعین دن میں صبح کے وقت ایک کھلے میدان میں جمع ہوگئے تو فرعون نے اس بات کی تسلّی کی۔ کیا مطلوبہ تعداد میں لوگ جمع ہوگئے ہیں ؟ اعلیٰ حکام نے رپورٹ پیش کی کہ ہاں، لوگ کثیر تعداد میں جمع ہوچکے ہیں۔ اس اطمینان کے بعد فرعون اپنے وزیروں، مشیروں کے ساتھ یہ کہہ کر اجتماع کی طرف نکلا کہ آؤ اگر جادوگر غالب آتے ہیں تو ہم ان کی اتباع کریں۔ جب جادوگر اکٹھے ہوئے تو انھوں نے فرعون سے مطالبہ کیا اگر ہم غالب آجائیں تو ہمارا کیا معاوضہ ہوگا ؟ فرعون نے انھیں اطمینان دلایا کہ نقد انعام کے ساتھ میں تمھیں اپنا مقرب بناؤں گا۔ یہاں سے یہ بات بالکل واضح ہوتی ہے کہ حکمرانوں کے قریب عام طور پر مفاد پرست اور محض سرکاری درباری لوگ ہوتے ہیں۔ جن کا مقصد مالی مفاد اور اعلیٰ سے اعلیٰ منصب حاصل کرنا ہوتا ہے اس لیے یہ لوگ اس وقت تک ایک قدم بھی نہیں اٹھاتے جب تک انھیں منصب اور مراعات ملنے کا یقین نہ ہوجائے۔ یہی جادوگروں کا مطلوب اور مقصود تھا۔ جہاں تک فرعون کے اس جملے کا تعلق ہے کہ اگر جادوگر غالب آئے تو ہم ان کی اتباع کریں گے۔ اس کا دوسرا مفہوم یہ بھی لیا گیا ہے کہ اس نے بھری مجلس میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے وعدہ کیا تھا کہ اگر تم غالب آگئے تو ہم آپ کی اتّباع کریں گے لیکن جب موسیٰ (علیہ السلام) غالب آئے تو فرعون اور اس کے ساتھی اپنے وعدے پر قائم نہ رہ سکے۔ الشعراء
36 الشعراء
37 الشعراء
38 الشعراء
39 الشعراء
40 الشعراء
41 الشعراء
42 الشعراء
43 فہم القرآن ربط کلام : جادوگروں اور موسیٰ (علیہ السلام) کا آپس میں آمنا سامنا۔ سورۃ طٰہٰ آیت ٦١ تا ٦٥ میں قدرے تفصیل موجود ہے کہ جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت ہارون (علیہ السلام) کے ساتھ جادوگروں کے سامنے تشریف لائے تو موسیٰ (علیہ السلام) نے انھیں سمجھایا کہ افسوس تم پر کہ تمھیں اللہ تعالیٰ پر جھوٹ نہیں بولنا چاہیے۔ اگر تم اپنے مفاد کی خاطر اس بات پر ڈٹے رہے تو تمھیں اللہ کا عذاب رسوا کر دے گا۔ جس نے اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھا وہ ناکام ہوا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اس قدر دل سوز اور مؤثر انداز میں انھیں خطاب فرمایا کہ وہ سوچنے پر مجبور ہوئے اور قریب تھا کہ ان کے درمیان موسیٰ (علیہ السلام) کا مقابلہ کرنے میں اختلاف واقعہ ہو۔ وہ آہستہ آہستہ آپس میں سرگوشیاں کرنے لگے بالآخر وہ اس بات پر متفق ہوئے کہ موسیٰ اور ہارون ( علیہ السلام) جادوگر ہیں۔ وہ تمھیں جادو کے ذریعے تمھارے ملک سے نکالنا چاہتے ہیں اور تمھارے مذہب کو بدلنا چاہتے ہیں۔ بس اپنی منصوبہ بندی کریں اور قطار اندر قطار کھڑے ہو کر ان کا مقابلہ کرو جو آج کامیاب ہوا وہی سربلند ہوگا۔ اس کے بعد انھوں نے کہا اے موسیٰ ! آپ اپنا عصا میدان میں پھینکیں گے یا ہم اپنی لاٹھیاں پھینکیں ؟ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے انھیں فرمایا کہ جو کچھ پھینکنا چاہتے ہو وہ پھینکو۔ جوں ہی انھوں نے اپنی رسیاں اور لاٹھیاں زمین پر پھینکیں اور اس کے ساتھ ہی نفسیاتی دباؤ بڑھاتے ہوئے فرعون زندہ باد کا نعرہ لگایا۔ سورۃ الاعراف، آیت : ١١٦ میں بیان ہوا ہے کہ انھوں نے لوگوں کی آنکھوں پر زبردست جادو کردیا۔ جادو کا مظاہرہ اس قدر بڑا تھا کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) دل ہی دل میں گھبرا گئے۔ اس حال میں اللہ تعالیٰ نے فورا وحی فرمائی کہ اے موسیٰ ! گھبرایے نہیں، آپ ہی سربلند رہیں گے۔ (طٰہٰ: ٦٧۔ ٦٨) الشعراء
44 فہم القرآن ربط کلام : جادوگروں کے مقابلے میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا عصا میدان میں پھینکنا۔ جو نہی موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنا عصا زمین پر پھینکا تو دیکھتے ہی دیکھتے اس نے ان کی رسیوں اور لاٹھیوں کو نگلنا شروع کیا چند لمحوں میں عصا نے میدان اس طرح صاف کردیا کہ کوئی رسی اور لاٹھی باقی نہ تھی۔ اژدھا اس قدر، پھرتیلا اور بڑا تھا کہ جدھر منہ کرتا یوں دکھائی دیتا تھا جیسے رسیاں اور لاٹھیاں خود بخود اس کے منہ میں پڑرہی ہیں۔ جادوگروں نے یہ حیرت ناک منظر دیکھا تو یہ کہتے ہوئے سجدے میں گر پڑے کہ ہم رب العالمین پر ایمان لاتے ہیں۔ قرآن مجید نے جادوگروں کے سجدہ میں گرنے کے بارے میں فرمایا کہ انہیں گرادیا گیا یعنی سجدہ ریز ہونے اور ایمان لانے کے سوا ان کے لیے کوئی چارہ کار نہ تھا۔ انھوں نے یہ بھی وضاحت کی کہ ہم موسیٰ اور ہارون ( علیہ السلام) کے رب پر ایمان لا رہے ہیں۔ گویا کہ جادوگروں نے اپنی شکست کا اعتراف اور اپنے ایمان کا اظہار کرتے ہوئے بیک وقت تین کام کیے۔ ١۔ انھوں نے اللہ تعالیٰ کے حضور سجدہ کیا۔ ٢۔ انھوں نے فرعون کی بجائے رب العالمین کہہ کر اپنے ایمان کا اظہار کیا۔ ٣۔ مزید وضاحت کے لیے انھوں نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت ہارون (علیہ السلام) کے رب کا نام لیا۔ تاکہ ان کے ایمان پر کسی قسم کا شک نہ رہے اور فرعون عوام کو کسی قسم کا مغالطہ نہ دے سکے۔ الشعراء
45 الشعراء
46 الشعراء
47 الشعراء
48 الشعراء
49 فہم القرآن ربط کلام : جادوگروں کے ایمان لانے کا اعلان سن کر فرعون کا الزام اور اس کی دھمکیاں۔ چاہیے تو یہ تھا کہ فرعون اور اس کے درباری حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت ہارون (علیہ السلام) کے رب پر ایمان لاتے۔ لیکن فرعون نے لوگوں کو اپنے ساتھ ملائے رکھنے کے لیے شاطرانہ انداز میں اعلان کیا کہ دراصل موسیٰ تمھارا بڑا استاد ہے۔ اسی نے تمھیں جادو سکھایا اور تمھارے ساتھ مل کر سازش کی ہے۔ جس بنا پر تم میری اجازت کے بغیر ایمان لائے ہو۔ لہٰذا تمھیں بہت جلد معلوم ہوجائے گا کہ میں تمھارا کیا حشر کرتا ہوں، یاد رکھو کہ میں تمھارے ہاتھ پاؤں مخالف سمت پر کاٹ ڈالوں گا اور ہر صورت تمھیں سولی پر لٹکاؤں گا۔ فرعون نے یہ بھی اعلان کیا کہ میں تمھیں کھجور کے تنوں پر سولی چڑھاؤں گا۔ اس وقت تمھیں معلوم ہوگا کہ کس کی سزا سخت اور دیرپا ہے۔ (طٰہٰ: ٧١) تفسیر بالقرآن انبیاء کرام (علیہ السلام) اور مومنوں کو کفار کی دھمکیاں : ١۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے باپ نے کہا اگر تو باز نہ آیا تو تجھے سنگسار کر دوں گا اور گھر سے نکال دوں گا۔ ( ابراہیم : ٤٦) ٢۔ فرعون نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو دھمکی دی کہ اگر تو اس دعوت سے باز نہ آیا تو تجھے قید کروا دوں گا۔ ( الشعرآء : (٢٩) ٣۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کو ان کی قوم نے دھمکی دی کہ اگر تو باز نہ آیا تو تجھے رجم کردیا جائے گا۔ ( الشعرآء : ١١٦) الشعراء
50 الشعراء
51 فہم القرآن ربط کلام : جادوگردوں کی طرف سے فرعون کی دھمکیوں کا جواب۔ ایمان لانے والے جادوگروں نے فرعون کی دھمکیوں کے جواب میں اعلان کیا کہ تمھاری دھمکیوں اور سزا کی ہمیں کوئی پرواہ نہیں کیونکہ مرنے کے بعد ہم اپنے رب کے پاس پہنچ جائیں گے۔ ہم اپنے رب سے امید رکھتے ہیں کہ وہ ہماری خطاؤں کو معاف فرمائے گا۔ کیونکہ ہم اس پر پہلے ایمان لانے والے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی ایمان لانے والے جادوگروں نے فرعون کو یہ بھی کہا کہ ہم اپنے پیدا کرنے والے رب اور اس کے دلائل پر تجھے ہرگز ترجیح نہیں دے سکتے۔ لہٰذا ہمارے ساتھ جو سلوک کرنا چاہتا ہے کرلے۔ تیری سزا اس دنیا کی زندگی تک ہے ہم اپنے رب پر ایمان لائے ہیں تاکہ وہ ہماری خطاؤں کو معاف فرما دے اور جو ہم سے جبراً جادو کروایا گیا ہے ہم اس کی بھی معافی مانگتے ہیں۔ ہمارے لیے ہر حال میں اللہ ہی بہتر ہے جو ہمیشہ رہنے والا ہے۔ (طٰہٰ: ٧٢۔ ٧٣) سچے ایمان کی یہی نشانی ہے کہ یہ انسان کو چند لمحوں میں اس کے رب کے اتنا قریب کردیتا ہے کہ انسان نہ سزا کی پرواہ کرتا ہے اور نہ کسی مفاد کو خاطر میں لاتا ہے اور نہ ہی کسی قسم کے خوف سے مرعوب ہوتا ہے۔ (وَعَنْ سُفْےَانَ ابْنِ عَبْدِاللّٰہِ الثَّقَفِیِّ قَالَ قُلْتُ ےَا رَسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قُلْ لِّیْ فِی الْاِسْلَامِ قَوْلًا لَّا اَسْاَلُ عَنْہُ اَحَدًا بَعْدَکَ وَفِیْ رِوَاے َۃٍ غَےْرَکَ قَالَ قُلْ اٰمَنْتُ باللّٰہِ ثُمَّ اسْتَقِمْ) [ رواہ مسلم : باب جامِعِ أَوْصَافِ الإِسْلاَمِ] ” حضرت سفیان بن عبداللہ ثقفی (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں عرض کیا مجھے اسلام کے بارے میں ایسی بات ارشاد فرمائیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد کسی سے سوال کرنے کی ضرورت باقی نہ رہے دوسری روایت میں ہے ’ آپ کے علاوہ‘ کسی سے پوچھنے کی حاجت نہ رہے۔ فرمایا اللہ پر ایمان لانے کے بعد اس پر ڈٹ جاؤ۔“ ” جن لوگوں نے کہا کہ ہمارا رب اللہ ہے پھر وہ اس پر ڈٹ گئے ان پر فرشتے نازل ہوتے ہیں اور ان سے کہتے ہیں کہ نہ ڈرو اور نہ غم کھاؤ اور اس جنت کی خوشی سنوجس کا تم سے وعدہ کیا جاتا ہے۔“ (حٰم السجدۃ: ٣٠) ارادی اور غیر ارادی گناہوں کی معافی مانگنا : (عَنْ فَرْوَۃَ بْنِ نَوْفَلٍ الأَشْجَعِیِّ قَالَ سَأَلْتُ عَاءِشَۃَ (رض) عَمَّا کَانَ رَسُول اللَّہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَدْعُو بِہِ اللَّہَ قَالَتْ کَانَ یَقُول اللَّہُمَّ إِنِّی أَعُوذُ بِکَ مِنْ شَرِّ مَا عَمِلْتُ وَمِنْ شَرِّ مَا لَمْ أَعْمَل) [ رواہ مسلم : باب التَّعَوُّذِ مِنْ شَرِّ مَا عَمِلَ وَمِنْ شَرِّ مَا لَمْ یَعْمَلْ] ” حضرت فروہ بن نوفل اشجعی بیان کرتے ہیں میں نے سیدہ عائشہ (رض) سے اس دعا کے متعلق سوال کیا جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مانگا کرتے تھے آپ دعا کرتے اے اللہ میں تجھ سے ان لغزشوں کی معافی مانگتا ہوں جو میں نے کی ہیں اور ان سے بھی جو میں نے نہیں کیں۔“ ” اے ہمارے رب اگر ہم بھول جائیں یا غلطی کریں تو ہماری گرفت نہ فرما۔“ [ البقرۃ: ٢٨٦] مسائل ١۔ سچے ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ آدمی دھمکیوں اور ہر قسم کی سزا کی پرواہ نہ کرے۔ ٢۔ انسان نے بالآخر اپنے رب کی طرف ہی پلٹ کرجانا ہے۔ ٣۔ آدمی کو اپنے رب سے گناہوں کی معافی مانگتے رہنا چاہیے۔ ٤۔ کسی کے مجبور کرنے پر بھی اگر گناہ کیا ہو تو اس کی معافی مانگنا بھی لازم ہے۔ ٥۔ حقیقت آشکارہ ہونے پر آدمی کو اسے تسلیم کرنے میں پہل کرنی چاہیے۔ تفسیر بالقرآن مومن ہر حال میں اپنے رب سے معافی طلب کرتے ہیں : ١۔ اپنے پروردگار سے بخشش طلب کرو، اسی کی طرف متوجہ رہو۔ وہ تم پر بارش برسائے گا اور تمہاری قوت میں اضافہ کرے گا۔ (ھود : ٥٢) ٢۔ اللہ تعالیٰ استغفار کرنے والوں کو عذاب نہیں دیتا۔ (الانفال : ٣٣) ٣۔ اللہ تعالیٰ سے مغفرت طلب کرو۔ بے شک اللہ معاف کرنے اور رحم کرنے والا ہے۔ (المزمل : ٢٠) ٤۔ اللہ سے معافی طلب کرو اور اسی کی طرف متوجہ رہو۔ بے شک میرا رب نرمی کرنے اور شفقت فرمانے والا ہے۔ (ھود : ٩٠) ٥۔ اللہ سے مغفرت طلب کرو یقیناً وہ معاف کرنے والا ہے۔ (نوح : ١٠) الشعراء
52 فہم القرآن ربط کلام : جادوگر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لائے اور انھوں نے فرعون کی دھمکیوں کے مقابلہ میں پوری استقامت کا مظاہرہ کیا جس پر فرعون کے مظالم میں انتہا درجہ کی تیزی آئی جس وجہ سے موسیٰ (علیہ السلام) کو ہجرت کا حکم ہوا۔ جادوگروں کے ایمان لانے کے بعد نہ معلوم حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کتنی مدت تک شب و روز دعوت کے کام میں مصروف رہے لیکن حالات دن بدن دگرگوں ہوتے گئے۔ جن کا ہولناک منظر قرآن مجید کی آیات کے حوالہ سے ملاحظہ فرمائیں۔ ” جب ہم نے تمہیں فرعونیوں سے نجات دی جو تمہیں بد ترین عذاب دیتے تھے۔ وہ تمہارے لڑکوں کو مار ڈالتے اور تمہاری لڑکیوں کو چھوڑ دیتے تھے اس میں تمہارے رب کی طرف سے بڑی آزمائش تھی۔“ (البقرۃ: ٤٩) انہوں نے کہا اے موسیٰ تیرے آنے سے پہلے ہمیں تکلیف پہنچائی گئی اور تیرے آنے کے بعد بھی۔ موسیٰ نے کہا قریب ہے کہ تمہارا رب تمہارے دشمن کو ہلاک کرے گا اور تمہیں زمین میں جانشین بنائے گا، پھر دیکھے گا کہ تم کیسے عمل کرتے ہو؟“ (الاعراف : ١٢٩) ” ہم نے موسیٰ اور اسکے بھائی کی طرف وحی کی کہ اپنی قوم کے لیے مصر میں کچھ گھروں کو منتخب کرلو اور اپنے گھروں کو قبلہ رخ بنا لو۔ نماز قائم کرو اور ایمان والوں کو خوشخبری دو۔“ (یونس : ٨٧) ” فرعون اور اس کے سرداروں کے خوف اور ان کے فتنہ میں مبتلا کرنے کی وجہ سے موسیٰ پر اس کی قوم کے کچھ نو جوانوں کے سوا کوئی شخص ایمان نہ لایا۔ بلا شبہ فرعون زمین میں سرکش اور حد سے بڑھنے والوں میں سے تھا۔“ (یونس : ٨٣) ” فرعون بولا مجھے چھوڑو میں موسیٰ کو قتل کر دوں۔ وہ اپنے رب کو بلا لے مجھے خطرہ محسوس ہوتا ہے کہ کہیں وہ تمہارے دین کو بدل نہ دے یا ملک میں فساد برپا نہ کرے۔“ (المومن : ٢٦) ” موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا میں اپنے پروردگار کی پناہ میں آتا ہوں کہ تم مجھے سنگسار کرو۔“ (الدخان : ٢٠) ” فرعون نے کہا ہامان میرے لیے ایک محل بنوا تاکہ میں اس پر چڑھ کر آسمان تک پہنچ جاؤں۔“ (المومن : ٣٦۔ ٣٧) ان حالات کے بعد حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو حکم ہوا کہ رات کے وقت میرے بندوں کو لے کر مصر سے نکل جاؤ۔ لیکن یاد رکھنا کہ فرعون تمھارا پیچھا کرے گا۔ جونہی فرعون کو معلوم ہوا تو اس نے انتظامیہ اور اپنے بڑے بڑے لوگوں کو اکٹھا کیا اور انھیں کہا کہ بنی اسرائیل تھوڑے سے لوگ ہیں۔ اس کے باوجود انہوں نے ہمیں غضبناک کردیا ہے اور ہم ان سے خطرہ محسوس کرتے ہیں۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو اپنے ساتھیوں کو لے کر ہجرت کر انے کا حکم دیا۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو آگاہ فرمایا کہ فرعون اور اس کے لشکر تمھارا پیچھا کریں گے۔ ٣۔ فرعون اور اس کے لشکروں نے پورے جوش وخروش کے ساتھ بنی اسرائیل کا تعاقب کیا۔ تفسیر بالقرآن انبیائے کرام (علیہ السلام) کی ہجرت : ١۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اللہ کی راہ میں ہجرت کی۔ (العنکبوت : ٢٦) ٢۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے رب کے حکم سے بنی اسرائیل کے ساتھ ہجرت کی۔ ( الدخان : ٢٣) ٣۔ کفار نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہجرت پر مجبور کردیا (التوبۃ: ٤٠) ٤۔ اللہ کی راہ میں ہجرت کرنے والے اس کی رحمت کے امیدوار ہیں۔ (البقرۃ : ٢١٨) ٥۔ اللہ کی راہ میں ہجرت کرنے والوں کو بہترین ٹھکانہ میسر آئے گا۔ (النحل : ٤١) ٦۔ اللہ کی راہ میں ہجرت کرنے والوں کو بہترین رزق عطا کیا جائے گا۔ (الحج : ٥٨) الشعراء
53 الشعراء
54 الشعراء
55 الشعراء
56 الشعراء
57 فہم القرآن ربط کلام : فرعون اور اس کے ذمہ دار لوگ بنی اسرائیل کے تعاقب میں فرعون کے حکم کے مطابق انتظامیہ کے لوگ اور بڑے بڑے لیڈر اپنے گھروں سے نکل کر اجتماعی شکل میں بنی اسرائیل کا تعاقب کرتے ہیں۔ ان کے نکلنے کو اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف منسوب کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ ہم نے انھیں ان کے باغات، چشموں، خزانوں اور عمدہ مکانوں سے نکالا اور اس طرح ہم نے بنی اسرائیل کو ان چیزوں کا وارث بنایا۔ فرعون نے بنی اسرائیل کا تعاقب کرتے وقت سرکاری طور پر جو اعلان کیا تھا اس کے الفاظ یہ تھے کہ لوگو! اپنے اپنے شہروں سے باہر نکلو بے شک بنی اسرائیل تھوڑے ہیں لیکن ان کا پوری طرح تعاقب کرو یہ لوگ جانے نہ پائیں۔ انتظامی نقطہ نظر سے چاہیے تو یہ تھا کہ فو ج کے چند دستے اور سول انتظامیہ کی بھاری نفری بھیج کر قلیل اور نہتے اسرائیلیوں کو گرفتار کرلیا جاتا یا پھر مار مار کر ملک کی سرحد سے باہر نکال دیا جاتا۔ لیکن فرعون نے طیش میں آکر سول انتظامیہ اور فوج کے ساتھ وزیروں، مشیروں اور ملک بھر سے بڑے بڑے پارٹی لیڈروں کو اکٹھا کر کے بنی اسرائیل کا پیچھا کیا۔ ان کے اس طرح نکلنے کو اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف منسوب فرماکر ثابت کیا ہے کہ یہ ہماری منشاء کے مطابق ہوا تاکہ ہم انھیں ان کے باغات، چشموں، خزانوں اور ان کے محلاّت سے بےدخل کریں اور بنی اسرائیل کو ان کی تمام چیزوں کا وارث بنائیں۔ (کَمْ تَرَکُوْا مِنْ جَنّٰتٍ وَّعُیُوْنٍ وَزُرُوْعٍ وَّمَقَامٍ کَرِیمٍ وَنَعْمَۃٍ کَانُوْا فِیْہَا فَاکِہِیْنَ کَذٰلِکَ وَاَوْرَثْنَاہَا قَوْمًا آخَرِیْنَ فَمَا بَکَتْ عَلَیْہِمْ السَّمَآءُ وَالْاَرْضُ وَمَا کَانُوْا مُنظَرِیْنَ وَلَقَدْ نَجَّیْنَا بَنِیْ اِِسْرَآءِیلَ مِنَ الْعَذَابِ الْمُہِیْنِ۔ مِنْ فِرْعَوْنَ اِِنَّہٗ کَانَ عَالِیًا مِنَ الْمُسْرِفِینَ) [ الدّخان : ٢٥ تا ٣١] وہ لوگ بہت سے باغ، چشمے، کھیتیاں اور عمدہ مکانات چھوڑ گئے اور آرام کی چیزیں جن میں عیش کیا کرتے تھے۔ اسی طرح ہوا، ہم نے دوسرے لوگوں کو ان کا مالک بنا دیا۔ پھر ان پر نہ تو آسمان اور زمین کو رونا آیا اور نہ ان کو مہلت ہی دی گئی۔ اور ہم نے بنی اسرائیل کو ذلت کے عذاب سے نجات دی۔ بیشک فرعون سرکش اور حد سے نکلا ہوا تھا۔“ اکثر مفسرین کا خیال ہے کہ اس کا یہ معنی نہیں کہ فرعون اور اس کے لشکر غرق کیے جانے کے بعد بنی اسرائیل ان کے محلاّت اور باغات کے مالک ہوئے۔ کیونکہ تاریخ سے اس کی تائید نہیں ہوتی۔ ان کا فرمان ہے کہ جب بنی اسرائیل نے سمندر عبور کرنے کے بعد چالیس سال وادئ سینا میں گزارے تو پھر انھیں فلسطین کے علاقے کا اقتدار ملا۔ جسے اللہ تعالیٰ نے ہر قسم کی برکات سے نوازا ہوا تھا۔ وہاں بنی اسرائیل کو ساری نعمتیں میسر آئیں جو مصر میں آل فرعون کو حاصل تھیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بنی اسرائیل فلسطین اور اس کے ملحقہ علاقوں پر قابض ہوئے۔ حقیقت کیا ہے : بے شک تاریخ سے بنی اسرائیل کا آل فرعون کے محلاّت اور باغات کا مالک ہونا ثابت نہیں۔ لیکن دیکھنا یہ ہے کہ قرآن مجید یہاں کھلے الفاظ میں کہہ رہا ہے کہ ہم نے آل فرعون کو غرق کیا اور بنی اسرائیل کو ان کے باغوں، چشموں اور محلّات کا مالک بنا یا۔ اس وضاحت کے بعد تاریخ کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے ؟ جب کہ تاریخی ریکارڈ تسلسل کے ساتھ دنیا میں موجود نہیں ہے۔ لہٰذا قرآن مجید کے الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ بنی اسرائیل فلسطین کے ساتھ مصر کے بھی مالک ہوئے اور انہیں وہ سب کچھ ملا جو آل فرعون کے پاس ہوا کرتا تھا۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ جب چاہے کسی قوم کو ان کے باغوں اور مکانوں سے بےدخل کر دے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو ان تمام چیزیں کا مالک بنایا جو آل فرعون کے قبضہ میں تھیں۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ ہی ایک قوم کے بعد دوسری قوم کو وارث بنانے والا ہے : ١۔ اللہ نے حق کی تکذیب کرنے والوں کو انکے گناہوں کی وجہ سے ہلاک کر کے دوسری قوم کو وارث بنایا۔ (الانعام : ٦) ٢۔ اے ایمان والو ! اگر تم دین سے مرتد ہوجاؤ تو اللہ تعالیٰ تمھارے جگہ دوسری قوم کو لے آئے گا۔ (المائدۃ : ٥٤) ٣۔ اگر اللہ چاہے تو تمہیں فنا کردے اور نئی مخلوق لے آئے۔ یہ اللہ کے لیے کچھ مشکل نہیں ہے۔ (ابراہیم : ١٩۔ ٢٠) ٤۔ اگر اللہ چاہے تو تم کو فنا کر کے دوسری مخلوق لے آئے یہ اللہ کے لیے مشکل نہیں۔ (فاطر : ١٦۔ ١٧) ٥۔ اگر اللہ چاہے تو تمہیں لے جائے اور تمہاری جگہ دوسروں کو لے آئے۔ (انساء : ١٢٣) ٦۔ اگر اللہ چاہے تو تمہیں لے جائے اور تمہارے بعد جسے چاہے لے آئے۔ (الانعام : ١٣٣) الشعراء
58 الشعراء
59 الشعراء
60 فہم القرآن ربط کلام : فرعون اور اس کے لشکروں کا بنی اسرائیل کا تعاقب کرنا۔ فرعون نے اپنے لوگوں کی قیادت کرتے ہوئے صبح کے وقت بنی اسرائیل کا تعاقب شروع کیا اور تیز رفتاری کے ساتھ چلتے ہوئے بنی اسرائیل کو پالیا۔ بنی اسرائیل نے فرعون اور اس کے لشکر کو دیکھا تو کہنے لگے۔ اے موسیٰ (علیہ السلام) ! ہم تو گھیرے گئے۔ سامنے سمندر ٹھاٹھیں مار رہا ہے اور پیچھے سے فرعون نے آلیا ہے۔ جائیں تو کدھر جائیں ؟ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے پورے اعتماد کے ساتھ فرمایا گھبراؤ نہیں فرعون ہمارے قریب نہیں پھڑک سکتا۔ یقیناً میرا رب میرے ساتھ ہے وہ ضرور میری رہنمائی کرے گا۔ موسیٰ (علیہ السلام) اپنا خطاب ختم کرچکے تو اللہ تعالیٰ نے انھیں وحی فرمائی کہ اے موسیٰ (علیہ السلام) ! اپنا عصا سمندر پر ماریے۔ جونہی موسیٰ (علیہ السلام) نے عصا پانی پر مارا تو سمندر کا پانی دونوں طرف پہاڑ کی طرح تھم گیا۔ اس طرح سمندر میں بارہ راستے بن گئے۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) اور اس کے ساتھیوں کو نجات دی۔ فرعون نے یہ صورتحال دیکھی تو اس نے لشکر کو سمندر میں آگے بڑھنے کا حکم دیا لیکن جونہی اس کے لشکر کا آخری آدمی سمندر میں داخل ہوا تو اللہ تعالیٰ نے انھیں ڈبکیاں دے دے کر موت کے گھاٹ اتار دیا۔ دوسرے مقام پر یہ وضاحت موجود ہے کہ جونہی موسیٰ (علیہ السلام) اور اس کے ساتھی سمندر عبور کرچکے اور فرعون پورے لشکر کے ساتھ سمندر میں داخل ہوا تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنا عصا پانی پر مارا۔ تھمی ہوئی موجیں آپس میں مل گئیں اور آل فرعون ڈبکیاں لیتے ہوئے موت کے گھاٹ اتر گئے۔ (القصص : ٦٣) فرعون کے بارے میں یہ بتلایا گیا ہے کہ اس نے ڈبکیاں لیتے ہوئے بار بار اس بات کی دہائی دی کہ میں موسیٰ (علیہ السلام) اور بنی اسرائیل کے رب پر ایمان لاتا ہوں لیکن اس کے ایمان کو یہ کہہ کر مسترد کردیا گیا۔ ” ہم نے بنی اسرائیل کو سمندر سے پار کیا تو فرعون اور اسکے لشکروں نے سر کشی اور زیادتی کرتے ہوئے ان کا تعاقب کیا، یہاں تک کہ جب غرق ہونے لگا تو اس نے کہا کہ میں ایمان لایا۔ جس پر بنی اسرائیل ایمان لائے ہیں سچ یہ ہے کہ اس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور میں فرمانبرداروں میں شامل ہوتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ کی طرف اسے جواب ملا کہ کیا اب ؟ حالانکہ تو نافرمان تھا اور تو فساد کرنیوالوں میں سے تھا۔“ (یونس : ٩٠۔ ٩١) فرعون اور اس کے لاؤ لشکر کو غرق کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ اس میں قدرت کی عظیم نشانی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر اور نہایت ہی مہربان ہے۔ نشانی اور العزیز کا لفظ استعمال فرما کر اہل مکہ اور ظالموں کو متنبہ فرمایا ہے کہ تم فرعون اور اس کے لشکروں سے طاقتور نہیں یہ تو ” اللہ“ کی حکمت ہے کہ وقت معین تک ظالموں کو مہلت دیے جاتا ہے۔ جب گرفت کرنے پر آئے تو دنیا کے اسباب وو سائل اور لاؤ لشکر کسی ظالم کو پناہ نہیں دے سکتے۔” الرحیم“ کی صفت کے حوالے سے بے بسوں اور مظلوم مسلمانوں کو تسلی دی ہے کہ گھبراؤ نہیں اللہ تعالیٰ نہایت ہی مشفق اور مہربان ہے۔ وہ دنیا میں تمھارا بدلہ لے گا اور آخرت میں تمھیں اپنی نعمتوں سے سرفراز فرمائے گا۔ چنانچہ ہجرت مکہ کا واقعہ یاد کریں کہ جب مکہ والے غار ثور کے دہانے پر پہنچ گئے اور ابوبکر صدیق (رض) نے انہیں دیکھا تو گھبرا کر عرض کرنے لگے اے اللہ کے رسول کفار تو غار کے منہ پر پہنچ چکے ہیں اس موقعہ پر آپ نے جو فرمایا اس کا تذکرہ قرآن اس طرح کرتا ہے۔ (اِلَّا تَنْصُرُوْہُ فَقَدْ نَصَرَہُ اللّٰہُ اِذْ اَخْرَجَہُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا ثَانِیَ اثْنَیْنِ اِذْ ھُمَا فِی الْغَارِ اِذْ یَقُوْلُ لِصَاحِبِہٖ لَاتَخْزَنْ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَافَاَنْزَلَ اللّٰہُ سَکِیْنَتَہٗ عَلَیْہِ وَ اَیَّدَہٗ بِجُنُوْدٍ لَّمْ تَرَوْھَا وَ جَعَلَ کَلِمَۃَ الَّذِیْنَ کَفَرُوا السُّفْلٰی وَکَلِمَۃُ اللّٰہِ ھِیَ الْعُلْیَا وَاللّٰہُ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ) [ التوبہ : ٤٠] ” اگر تم اس کی مدد نہ کرو توبلاشبہ اللہ نے اس کی مدد کی جب اسے کفار نے نکال دیا، جب وہ دو میں دوسراتھا، جب وہ دونوں غار میں تھے اور اپنے ساتھی سے فرما رہے تھے غم نہ کرو، بے شک اللہ ہمارے ساتھ ہے۔ اللہ نے اس پر اپنی سکینت اتاردی اور انہیں ایسے لشکروں کے ساتھ مدد فراہم کی جو تم نے نہیں دیکھے۔ کفار کا منصوبہ ناکام ہوا اور اللہ کا فیصلہ غالب رہا۔ اللہ سب پر غالب اور خوب حکمت والاہے۔“ مسائل ١۔ اللہ کے پیغمبر ہر حال میں اپنے رب پر بھروسہ کرتے تھے۔ ٢۔ اللہ ہی انسان کی رہنمائی کرنے والا ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) اور اس کے تمام ساتھیوں کو نجات دی اور آل فرعون کو ڈبکیاں دے دے کر موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ ٤۔ موسیٰ (علیہ السلام) اور فرعون کی کشمکش میں عبرت کے اسباق ہیں۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ ہر کام پر غالب اور اپنے بندوں کی مدد کرنے والا، نہایت ہی مہربان ہے۔ تفسیر بالقرآن فرعون اور ان کے ساتھیوں کے مظالم : ١۔ فرعون نے اپنی قوم میں طبقاتی کشمکش پیدا کی۔ (القصص : ٤) ٢۔ بنی اسرائیل قتل وغارت کے عذاب میں دو مرتبہ مبتلا کئے گئے۔ (الاعراف : ١٢٩) ٣۔ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو اقتدار بخشا تاکہ فرعون کو اپنی قدرت دکھلائے۔ (القصص : ٦) ٤۔ فرعون نے ظلم کرنے کے لیے میخیں تیار کی ہوئی تھیں۔ (الفجر : ١٠) ٥۔ فرعون نے اپنی بیوی پر اس لیے ظلم کیا کہ وہ موسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لے آئی۔ (التحریم : ١١) ٦۔ فرعون قوم موسیٰ کے لڑکوں کو قتل کرتا تھا اور لڑکیوں کو زندہ رہنے دیتا تھا۔ (البقرۃ: ٤٩) ٧۔ فرعون مومنوں کو کئی طرح کے اذیّتوں میں مبتلا کرتا تھا۔ (الاعراف : ١٤١) ٨۔ فرعون نے موحدین کو پاؤں اور ہاتھ کاٹنے کی دھمکی دی۔ (الاعراف : ١٢٤) ٩۔ فرعون نے اللہ پر ایمان لانے والوں کو ہاتھ پاؤں کاٹنے اور کھجور کے تنوں پر پھانسی دینے کی دھمکی دی۔ (طہٰ: ٧١) الشعراء
61 الشعراء
62 الشعراء
63 الشعراء
64 الشعراء
65 الشعراء
66 الشعراء
67 الشعراء
68 الشعراء
69 فہم القرآن ربط کلام : حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور ان کی قوم کے درمیان ہونے والی کشمکش کا مختصربیان۔ اہل مکہ اپنے آپ کو ملت ابراہیم (علیہ السلام) کے وارث سمجھتے تھے۔ اسی بنا پر قرآن مجید میں جابجا ابراہیم (علیہ السلام) کی سیرت اور ان کی بے مثال اور لازوال جدوجہد کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے باپ اور قوم کو مشترکہ خطاب کرتے ہوئے استفسار فرمایا کہ آخر تم ان چیزوں کی کیوں عبادت کرتے ہو ؟ انھوں نے کہا کہ ہم بتوں کی عبادت کرتے ہیں اور ہمیشہ ان کے سامنے اعتکاف اور ان کی تعظیم کرتے رہیں گے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے پے درپے ان سے تین سوال کیے۔ جب تم ان کے سامنے فریاد کرتے ہو کیا یہ تمھاری فریادیں سنتے ہیں ؟ کیا تمھیں فائدہ پہنچاتے ہیں ؟ کیا کسی کو نقصان پہنچاسکتے ہیں؟ ظاہر ہے بت پتھر کے ہوں یا کسی اور چیز کے۔ وہ سن نہیں سکتے اور نہ ہی آج تک کسی بت نے اپنی پوجا پاٹ کرنے والے کو کبھی جواب دیا ہے۔ وہ تو ایک جگہ سے دوسریجگہ جا نہیں سکتے اور نہ ان میں جان اور حرکت پائی جاتی ہے وہ دوسرے کو کیا فائدہ پہنچا سکتے ہیں۔ جہاں تک ان کا کسی کو نقصان پہنچانے کا معاملہ ہے جن کوتراش اور توڑ، جوڑ کر بنایا جائے جو اپنادفاع نہیں کرسکتے وہ کسی کو کیا نفع اور نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ یہ حقیقت ان کے سامنے تھی جس بناء پر ان سے کوئی جواب نہ بن پڑا۔ اس لیے انھوں نے کہا ہم نے اپنے باپ دادا کو اس طرح ہی عبادت کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ ان کی وجہ سے ہم بھی اس طرح ہی ان کی عبادت اور اعتکاف کرتے ہیں اور کرتے رہیں گے۔ یاد رہے کوئی قوم بنیادی طور پر یہ عقیدہ نہیں رکھتی کہ بت سنتے ہیں اور نفع و نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ بتوں کی عبادت کے پیچھے یہ عقیدہ ہوتا ہے یہ کہ ہمارے بزرگوں کی شبیہات ہیں اور بزرگوں کی ارواح ان میں حلول کرچکی ہیں۔ لہٰذا ہم بتوں کی عبادت نہیں کرتے بلکہ ان کے توسط سے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرتے ہیں۔ اس بنا پر اکثر لوگ بتوں کی عبادت سے انکار کرتے ہیں ابراہیم (علیہ السلام) کا باپ اور ان کی قوم اس حد تک شرک میں آگے بڑھ چکی تھی کہ انھوں نے کھلے الفاظ میں اس بات کا اقرار کیا کہ ہم ان کی عبادت کرتے ہیں اور ہمیشہ ان کے سامنے اعتکاف اور ان کی تعظیم کرتے رہیں گے۔ کوئی اقرار کرے یا انکار کرے۔ قرآن مجید نے اس طریقہ عبادت کو غیر اللہ کی عبادت قرار دیا ہے۔ بے شک وہ بتوں، مزارات یا کسی اور چیز کو سامنے رکھ کر کی جائے۔ قرآن کے ارشاد کے مطابق یہ غیر اللہ کی عبادت کرنا ہے۔ اسی سے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور تمام انبیاء (علیہ السلام) لوگوں کو روکتے رہے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے انھیں ایک دفعہ پھر توجہ دلائی۔ سوچو اور غور کرو۔ جب یہ نہ سنتے ہیں، نہ دیکھتے ہیں اور نہ ہی نفع و نقصان کے مالک ہیں تو پھر تم ان کی کیوں عبادت کرتے ہو ؟ یقین جانو رب العالمین کے سوا یہ سب میرے دشمن ہیں۔ دشمن سے مراد یہ نہیں کہ بت کسی کی دشمنی کرسکتے ہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ میں غیر اللہ کے سوا جن کی عبادت کی جاتی ہے ان سب سے بیزار اور ان سے نفرت کرتا ہوں۔ اسی بات کو امت مسلمہ کے لیے نمونہ قرار دیا گیا ہے۔ ” تمہارے لیے ابراہیم (علیہ السلام) اور ان کے رفقاء کے کردار میں نمونہ ہے جب انہوں نے اپنی قوم سے کہا کہ ہم تم سے اور ان بتوں سے جن کو تم اللہ کے سوا پوجتے ہو بیزاری کا اظہار کرتے ہیں اور تمہارے معبودوں کے کبھی قائل نہیں ہو سکتے اور جب تک تم ایک اللہ پر ایمان نہ لاؤ ہمارے اور تمہارے درمیان کھلم کھلا عداوت اور دشمنی رہے گی (الممتحنۃ: ٤ ) یہی بات سرور دو عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بارہ سال کی عمر میں ایک پادری کو کہی تھی۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو قبل از نبوت شرک سے شدید نفرت تھی : آپ کی عمر مبارک بارہ سال دو مہینے دس دن ہوگئی۔ جناب ابو طالب آپ کو ساتھ لے کر تجارت کے لیے ملک شام کے سفر پر نکلے اور بصریٰ پہنچے بصریٰ شام کا مرکزی شہر تھا۔ اس شہر میں جرجیس نامی ایک راہب رہتا تھا، جو بُحَیرا کے لقب سے معروف تھا۔ جب قافلے نے وہاں پڑاؤ ڈالا تو راہب اپنے گرجا سے نکل کر قافلے کے پاس آیا اور اس کی میزبانی کی۔ حالانکہ اس سے پہلے وہ گرجے سے نہیں نکلتا تھا۔ اس نے آپ کے اوصاف کی بنا پر پہنچان لیا اور آپ کا ہاتھ پکڑ کر کہا : یہ سید العالمین ہیں۔ اللہ نے اسے رحمۃ العالمین بنا کر بھیجا ہے۔ ابو طالب نے کہا آپ کو یہ کیسے معلوم ہوا؟ اس نے کہا ” تم لوگ جب گھاٹی کے اس جانب نمودار ہوئے تو کوئی بھی درخت یا پتھر ایسا نہیں تھا جو سجدہ کے لیے جھک نہ گیا ہو۔ یہ چیزیں نبی کے علاوہ کسی اور انسان کو سجدہ نہیں کرتیں۔ پھر میں اسے مہر نبوت سے پہچانتا ہوں جو کندھے کے نیچے نرم ہڈی کے پاس سیب کی طرح ہے اور ہم اسے اپنی کتابوں میں پاتے ہیں۔ اس کے بعد بحیرا نے ابو طالب سے کہا کہ انہیں واپس کر دو ملک شام نہ لے جاؤ۔ کیونکہ یہود سے خطرہ ہے اس پر ابو طالب نے بعض غلاموں کے ساتھ آپ کو مکہ واپس بھیج دیا۔ (الرحیق المختوم) سیرت ابن ہشام میں ہے کہ بحیرا نے آپ سے کہا کہ میں تجھ سے لات اور عزیٰ کا واسطہ دے کر کچھ سوال کروں گا جو نہی اس نے لات اور عزیٰ کے واسطے کی بات کی تو آپ نے فرمایا کہ مجھے لات اور عزیٰ کا واسطہ دے کر سوال نہ کرنا۔ (قَامَ إلَیْہِ بَحِیرَی، فَقَالَ لَہُ یَا غُلَامُ أَسْأَلُک بِحَقّ اللّاتِی وَالْعُزّی إلّا مَا أَخْبَرْتَنِی عَمّا أَسْأَلُکَ عَنْہُ وَإِنّمَا قَالَ لَہُ بَحِیرَی ذَلِکَ لِأَنّہُ سَمِعَ قَوْمَہُ یَحْلِفُونَ بِہِمَا فَزَعَمُوا أَنّ رَسُول اللّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ (لَہُ) لَا تَسْأَلْنِی بِاَللّاتِی وَالْعُزّی، فَوَاَللّہِ مَا أَبْغَضْتُ شَیْءًا قَطّ بُغْضَہُمَا) [ سیرۃ ابن ہشام] ” جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کھانے سے فارغ ہوئے تو بحیرہ آپ کے پاس آیا اور کہنے لگا اے بچے میں تجھ سے لات وعزیٰ کا واسطہ دے کر کچھ سوال کروں گا۔ تو مجھے ان کے صحیح صحیح جواب دینا۔ بحیرا نے لات و عزیٰ کا واسطہ اس لیے دیا تھا کہ اس نے قافلے کے لوگوں کو لات وعزیٰ کی قسمیں اٹھاتے ہوئے سنا تھا اور اس سے اس نے تصور کیا کہ شاید آپ بھی ان کی قسمیں اٹھاتے ہوں گے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے فرمایا مجھ سے لات وعزیٰ کے نام نہ سوال کرنا۔ اللہ کی قسم میرے نزدیک ان دونوں سے زیادہ کوئی چیز قابل نفرت نہیں۔“ ” اللہ تعالیٰ نے نبوت کی نشانی کے طور اور نبوت عطا کرنے کے بعد معجزہ کے طور پر کچھ چیزوں کو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے جھکا یا تھا۔ ورنہ مشرکوں کے سوا ہر چیز صرف اپنے رب کو سجدہ کرتی ہے۔“ ( الحج : ١٨) مسائل ١۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے والد اور اس کی قوم بتوں کے سامنے اعتکاف، رکوع، سجدے اور نذرانے پیش کرتے تھے۔ ٢۔ بت نہ سنتے ہیں نہ دیکھتے ہیں اور نہ ہی نفع و نقصان کے مالک ہیں۔ ٣۔ ابراہیم (علیہ السلام) کی قوم نے تقلید آباء کو اپنی تائید کے طور پر پیش کیا۔ ٤۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے غیر اللہ کے ساتھ دشمنی کا اعلان فرمایا۔ الشعراء
70 الشعراء
71 الشعراء
72 الشعراء
73 الشعراء
74 الشعراء
75 الشعراء
76 الشعراء
77 فہم القرآن ربط کلام : حضرت ابراہیم (علیہ السلام) بتوں کی نفی کرنے کے بعد رب العالمین کا تعارف کرواتے ہیں۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے رب العالمین کا تعارف کرواتے ہوئے فرمایا کہ میرا رب وہ ہے جس نے مجھے پیدا کیا اور میری رہنمائی فرمائی وہی مجھے کھلاتا اور پلاتا ہے۔ میں جب بیمارہوجاتا ہوں تو وہی مجھے شفا دیتا ہے۔ وہی مجھے مارے گا اور وہی مجھے دوبارہ زندہ کرے گا۔ اس سے امید رکھتا ہوں کہ وہ قیامت کے دن میری خطاؤں کو معاف فرمائے گا۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اس موقع پر رب العالمین کی نو صفات کا ذکر فرمایا۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے ذات باری تعالیٰ کے احترام کے پیش نظر بیماری کو اپنی طرف منسوب کیا ہے جس سے ثابت ہوا کہ موحّد کے لیے مؤدب ہونا از بس ضروری ہے۔ مسائل ١۔ اللہ ہی پیدا کرنے والا ہے۔ ٢۔ اللہ ہی راہنمائی کرنے والا ہے۔ ٣۔ اللہ ہی کھلاتا ہے۔ ٤۔ اللہ ہی پلانے والا ہے۔ ٥۔ اللہ ہی بیمار کرتا ہے ٦۔ اللہ ہی شفا دینے والا ہے۔ ٧۔ اللہ ہی موت دینے والا ہے۔ ٨۔ اللہ ہی دوبارہ زندہ کرنے والا ہے۔ الشعراء
78 الشعراء
79 الشعراء
80 الشعراء
81 الشعراء
82 الشعراء
83 فہم القرآن ربط کلام : حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی اپنے رب کے حضور فریادیں۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنی زندگی میں بہت سی دعائیں کی ہیں۔ جن میں انسان کی بڑی بڑی حاجات کا ذکر ہے انہیں درج ذیل آیات میں ملاحظہ فرمائیں (البقرۃ: ١٢٦، ١٢٧، ١٢٨، ١٢٩) (سورۃ ابراہیم : ٣٧ تا ٤١) (الصافات : ١٠١)۔ یہاں ان کی چھ دعاؤں کا تذکرہ ہے جن میں ایک دعا کے سوا باقی تمام دعائیں شرف قبولیت سے ہمکنار ہوئیں۔ ١۔ میرے رب مجھے حکمت اور قوت فیصلہ عنایت فرما۔ ٢۔ میرے رب مجھے آخرت میں نیک لوگوں کی رفاقت نصیب فرما۔ ٣۔ میرے رب میرے بعد میرا ذکر خیر جاری رکھنا۔ ٤۔ میرے رب مجھے نعمتوں والی جنت کا وارث بنانا۔ ٥۔ میرے رب میرا باپ گمراہ ہوچکا ہے اسے معاف فرما۔ ٦۔ میرے رب مجھے قیامت کے دن رسوائی سے بچانا۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے باپ کا انجام : اللہ تعالیٰ نے ان کے باپ کو نہ صرف معاف نہیں کیا بلکہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو آئندہ دعا کرنے سے روک دیا اور ان کے بعد ہمیشہ کے لیے اصول جاری فرمایا۔ (مَا کَان للنَّبِیِّ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَنْ یَّسْتَغْفِرُوْا لِلْمُشْرِکِیْنَ وَ لَوْ کَانُوْٓا اُولِیْ قُرْبٰی مِنْ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَھُمْ اَنَّھُمْ اَصْحٰبُ الْجَحِیْمِ۔ وَمَاکَانَ اسْتِغْفَارُ اِبْرٰھِیْمَ لِاَبِیْہِ اِلَّا عَنْ مَّوْعِدَۃٍ وَّ عَدَھَآ اِیَّاہُ فَلَمَّا تَبَیَّنَ لَہٗٓ اَنَّہٗ عَدُوٌّ لِّلّٰہِ تَبَرَّاَ مِنْہُ اِنَّ اِبْرٰھِیْمَ لَاَوَّاہٌ حَلِیْمٌ) [ التوبہ : ١١٣۔ ١١٤] ” نبی اور ان لوگوں کے لیے جو ایمان لائے ہیں جائز نہیں اس کے بعد کہ ان پر واضح ہوگیا کہ وہ مشرکوں کے لیے بخشش کی دعا کریں، خواہ وہ رشتہ دار ہوں، بلاشبہ وہ جہنمی ہیں۔ اور ابراہیم کا اپنے باپ کے لیے بخشش طلب کرنا صرف اس وعدہ کی وجہ سے تھا جو وہ اپنے باپ سے کرچکے تھے پھر جب اس کے لیے واضح ہوگیا کہ اس کا باپ اللہ کا دشمن ہے تو وہ اس سے بیزار ہوگئے۔ بے شک ابراہیم بہت آہ زاری کرنے والے اور حوصلہ مند تھے۔“ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ یَلْقٰی إِبْرَاہِیْمُ أَبَاہُ آزَرَیَوْمَ الْقِیَامَۃِ وَعَلٰی وَجْہِ آزَرَ قَتَرَۃٌوَغَبَرَۃٌ فَیَقُوْلُ لَہٗ إِبْرَاہِیْمُ أَلَمْ أَقُلْ لَّکَ لَا تَعْصِنِیْ فَیَقُوْلُ أَبُوْہُ فَالْیَوْمَ لَآأَعْصِیْکَ فَیَقُوْلُ إِبْرَاہِیْمُ یَارَبِّ إِنَّکَ وَعَدْتَّنِیْ أَنْ لَّا تُخْزِیَنِیْ یَوْمَ یُبْعَثُوْنَ فَأَیُّ خِزْیٍ أَخْزٰی مِنْ أَبِی الْأَبْعَدِفَیَقُوْلُ اللّٰہُ تَعَالٰی إِنِّیْ حَرَّمْتُ الْجَنَّۃَ عَلَی الْکَافِرِیْنَ ثُمَّ یُقَالُ یَآ إِبْرَاہِیْمُ مَا تَحْتَ رِجْلَیْکَ فَیَنْظُرُ فَإِذَا ھُوَ بِذِیْخٍ مُتَلَطِّخٍ فَیُؤْخَذُ بِقَوَآءِمِہٖ فَیُلْقٰی فِی النَّارِ) [ رواہ البخاری : کتاب أحادیث الأنبیاء، باب قول اللّٰہ تعالیٰ واتخذ اللّٰہ ابراھیم خلیلا] ” حضرت ابوہریرہ (رض) نبی گرامی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں آپ نے فرمایا ابراہیم (علیہ السلام) قیامت کے دن اپنے باپ آزر سے ملیں گے اس کے چہرے پر سیاہی اور گردو غبار ہوگا۔ ابراہیم (علیہ السلام) اسے کہیں گے میں نے آپ سے نہیں کہا تھا کہ میری نافرمانی نہ کرو ان کا باپ کہے گا آج میں تیری نافرمانی نہیں کروں گا۔ ابراہیم (علیہ السلام) فریاد کریں گے اے میرے رب آپ نے مجھ سے قیامت کے دن رسوا نہ کرنے کا وعدہ فرمایا۔ میرے باپ کے معاملہ سے زیادہ بڑھ کر اور کونسی رسوائی ہوگی؟ اللہ تعالیٰ فرمائیں گے میں نے کافروں پر جنت حرام کردی ہے۔ پھر کہا جائے گا ابراہیم اپنے پاؤں کی طرف دیکھو۔ دیکھیں گے تو ان کا باپ کیچڑ میں لتھڑا ہوا بجھو بن چکا ہوگا۔ جسے ٹانگوں سے پکڑ کر جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔“ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا منفرد اعزاز : حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی تیسری دعا یہ تھی کہ میرے رب میرے بعد بھی میرا ذکر خیر ہونا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا کو قبول فرمایا اور انہیں پوری دنیا کا امام بنایا۔ ( البقرۃ: ١٢٤) اور لوگوں کے دلوں میں ان کا احترام پیدا کیا جس وجہ سے دنیا میں ہر مذہب کے لوگ ابراہیم (علیہ السلام) کے ساتھ محبت کرتے ہیں اور انہیں اپنا پیشوا مانتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن انبیاء کی جو دعائیں قبول نہ ہوئیں : ١۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کی اپنے بیٹے کے بارے میں دعاقبول نہیں ہوئی۔ ( ہود : ٤٦) ٢۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی اپنے باپ کے بارے میں دعامستجاب نہ ہوئی۔ ( التوبہ : ١١٤) ٣۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اپنے چچا ابو طالب کے بارے میں دعاشرف قبولیت نہ پا سکی۔ ( القصص : ٢٦) ٤۔ عبداللہ بن ابی منافق کے بارے میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعا قبول نہیں ہوئی۔ ( التوبہ : ٨٠) الشعراء
84 الشعراء
85 الشعراء
86 الشعراء
87 الشعراء
88 فہم القرآن ربط کلام : حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنی دعا کے آخر میں اپنے رب کے حضور یہ عرض کی کہ قیامت کے دن مجھے رسوائی سے محفوظ فرمانا۔ اب قیامت کے بارے میں ذکر شروع ہوتا ہے۔ مفسرین کی ان الفاظ کے بارے میں دو قسم کی سوچ ہے ایک طبقہ کا خیال ہے کہ یہ بھی ابراہیم (علیہ السلام) کے الفاظ ہیں۔ جنھیں اللہ تعالیٰ نے اپنے مقدس الفاظ میں بیان فرمایا ہے۔ دوسری جماعت کا نقطہ نظر ہے کہ ابراہیم (علیہ السلام) کی دعا کے بعد یہ اللہ تعالیٰ کا خطاب ہے کہ قیامت کے دن مالدار کو اس کے مال کا کچھ فائدہ نہیں ہوگا اور نہ ہی اولاد اپنے باپ کی مدد کرسکے گی۔ وہی انسان ذلّت سے محفوظ رہے گا جو قلب سلیم کے ساتھ اپنے رب کے حضور حاضر ہوگا۔ قلب سلیم سے مراد وہ دل ہے جو کفر و شرک اور ” اللہ“ کی بغاوت سے پاک ہوگا۔ یہاں قلب سلیم کا اس لیے ذکر کیا گیا ہے کہ سب سے پہلے نیکی اور بدی کا داعیہ دل میں پیدا ہوتا ہے۔ دل کفر و شرک اور اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے پاک ہوگا تو انسان اپنے رب کی فرمانبرداری میں رہے گا۔ جو آدمی قلب سلیم سے محروم ہوا تو وہ صحیح عقیدہ اور نیک عمل سے محروم رہے گا۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ جس دل میں شرک، نمودونمائش کی کھوٹ ہوگی۔ بے شک وہ کتنا بڑا نیکی کا کام کرے دل کی کھوٹ کی وجہ سے اس کا عمل قبول نہیں ہوگا۔ ایسے شخص نے کروڑوں روپے لوگوں کی فلاح و بہبود پر لگائے ہوں اور بے شک اس کی اولاد کتنی صالح کیوں نہ ہو اسے قیامت کے دن کوئی فائدہ حاصل نہ ہوگا۔ جس کی مثال حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے ذکر میں دی جا چکی ہے۔ قلب سلیم رکھنے والا شخص ہی متقی ہوتا ہے اور متقی لوگوں کے سامنے جنت اس وقت پیش کی جائے گی جب وہ حساب و کتاب کے مرحلہ سے گزر رہے ہوں گے۔ انھیں اس وقت ہی معلوم ہوجائے گا کہ جس جنت کو ہمارے قریب لایا گیا ہے یہی ہماری قیام گاہ ہوگی۔ جو قلب سلیم سے محروم ہوا وہ گمراہوں میں شامل ہوگا۔ حساب و کتاب کے وقت ہی گمراہ لوگوں کے سامنے جہنم کھڑی کی جائے گی۔ جس کی آواز گدھے کی آواز کی طرح ہوگی۔ گمراہوں کو یقین ہوجائے گا کہ ہمارا ٹھکانہ جہنم ہے اور ہمیں ہمیشہ یہاں رہنا ہوگا۔ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُول اللَّہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صِنْفَانِ مِنْ أَہْلِ النَّارِ لَمْ أَرَہُمَا قَوْمٌ مَعَہُمْ سِیَاطٌ کَأَذْنَابِ الْبَقَرِ یَضْرِبُونَ بِہَا النَّاسَ وَنِسَاءٌ کَاسِیَاتٌ عَارِیَاتٌ مُمِیلاَتٌ مَاءِلاَتٌ رُءُ وسُہُنَّ کَأَسْنِمَۃِ الْبُخْتِ الْمَاءِلَۃِ لاَ یَدْخُلْنَ الْجَنَّۃَ وَلاَ یَجِدْنَ ریحَہَا وَإِنَّ ریحَہَا لَتُوجَدُ مِنْ مَسِیرَۃِ کَذَا وَکَذَا) [ رواہ مسلم : باب النَّارُ یَدْخُلُہَا الْجَبَّارُونَ وَالْجَنَّۃُ یَدْخُلُہَا الضُّعَفَاءُ ] حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا‘ دوگروہ ایسے ہیں جنہیں میں نے ابھی تک نہیں دیکھا ہے (١) ایک گروہ جن کے ہاتھوں میں بیل کی دموں کی مانند کوڑے ہوں گے وہ ان کوڑوں کے ساتھ بلاجواز لوگوں کو ماریں گے۔ (٢) دوسراگروہ عورتوں کا ہے جنہوں نے بظاہر لباس پہنا ہوا ہوگا۔ لیکن درحقیقت ان کے بدن ننگے ہوں گے وہ لوگوں کو اپنی طرف مائل کرنے کے لیے مٹک مٹک کر چلیں گی۔ ان کے سر لمبی گردنوں والے اونٹوں کے کوہانوں کی طرح اٹھے ہوئے ہوں گے وہ جنت میں داخل نہ ہوں گی۔ بلکہ جنت کی خوشبو کو بھی نہ پاسکیں گی۔ جبکہ جنت کی خوشبو اتنے اور اتنے فاصلے سے محسوس کی جائے گی۔ (وَعَنِ ابْنْ مَسْعُوْدٍ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یُوؤتٰی بِجَھَنَّمَ یَوْمَءِذٍ لَھَا سَبْعُوْنَ اَلْفَ زِمَامٍ مَعَ کُلِّ زِمَامٍ سَبْعُوْنَ اَلْفَ مَلَکٍ یَّجُرُّوْنَھَا۔) [ رواہ مسلم : باب فِی شِدَّۃِ حَرِّ نَارِ جَہَنَّمَ وَبُعْدِ قَعْرِہَا وَمَا تَأْخُذُ مِنَ الْمُعَذَّبِینَ] ” حضرت ابن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ قیامت کے دن دوزخ کو لایا جائے گا اس کی ستر ہزار لگامیں ہوں گی۔ ہر لگام کے ساتھ ستر ہزار فرشتے ہوں گے‘ جو اسے کھینچ کر لائیں گے۔“ مسائل ١۔ قیامت کے دن مجرم کو اس کا مال اور اولاد کوئی فائدہ نہیں دیں گے۔ ٢۔ قیامت کے دن قلب سلیم رکھنے والا شخص ہی کامیاب ہوگا۔ ٣۔ جنت جنتیوں کے قریب اور جہنم جہنمیوں کے سامنے لائی جائے گی۔ تفسیر بالقرآن جہنمی کو اس کا مال اور اولاد کچھ فائدہ نہیں دے سکیں گے : ١۔ کافر زمین کے برابر سونا دے کر بھی جہنم سے نجات نہیں پاسکتے۔ (آل عمران : ٩١) ٢۔ قیامت کے دن ان کا کوئی سفارشی نہیں ہوگا۔ (الانعام : ٥١) ٣۔ کافر بغیر حساب کے جہنم میں دھکیل دیے جائیں گے۔ (الکہف : ١٠٥) ٤۔ کافروں کو ان کی جمعیت اور تکبر کام نہ آسکے گا۔ (الاعراف : ٤٨) ٥۔ کفار کے مال واولاد ہرگزان کے کام نہ آسکیں گے۔ (آل عمران : ١٠) الشعراء
89 الشعراء
90 الشعراء
91 الشعراء
92 فہم القرآن ربط کلام : گمراہ لوگوں سے قیامت کے دن سوال۔ حساب و کتاب کا فیصلہ ہوجانے کے بعد گمراہ لوگوں سے سوال کیا جائے گا کہ جن کی تم عبادت کیا کرتے تھے آج وہ کہاں ہیں ؟ کیا اللہ تعالیٰ کے سوا وہ تمھاری مدد کرسکتے ہیں یا کسی قسم کا بدلہ لے سکتے ہیں ؟ قیامت کے دن گمراہ پیر اور ان کے مرید، عابد اور معبود لیڈر اور ان کے ور کروں کو ایک دوسرے کے سامنے کھڑا کر کے کہا جائے گا کہ ایک دوسرے کی مدد کرسکتے ہو تو کرو۔ لیکن کوئی کسی کی مدد نہیں کرسکے گا پھر عابد اور معبود تمام کو اوندھے منہ جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔ جن کے ہاتھ پاؤں چومے جاتے تھے جن کے قول وعمل کو سند مانا جاتا تھا، جن کے حضور نذریں پیش کی جاتی تھیں۔ جب قیامت کے دن حقیقت سامنے آئے گی، ہر پیروی کرنے والوں کو معلوم ہوجائے گا۔ کہ ہمارے رہبر ہمیں کہاں لے آئے ہیں۔ ور کر اور مرید بدکردار پیروں اور لیڈروں کو مجرم ٹھہرائیں گے اور ان پر لعنت بھیجیں گے۔ قرآن مجید میں جگہ جگہ عالم آخرت کا یہ عبرت ناک نقشہ کھینچا گیا ہے تاکہ اندھی تقلید کرنے والے دنیا میں آنکھیں کھولیں اور کسی کے پیچھے چلنے سے پہلے دیکھ لیں کہ وہ ٹھیک بھی جا رہا ہے یا نہیں۔ (وَقَالَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا رَبَّنَآ اَرِنَا الَّذَیْنِ اَضَلَّانَا مِنَ الْجِنِّ وَالْاِِنْسِ نَجْعَلْہُمَا تَحْتَ اَقْدَامِنَا لِیَکُوْنَا مِنَ الْاَسْفَلِیْنَ) [ حٰم السجدہ : ٢٩] ” کافر اس وقت کہیں گے کہ اے پروردگار ان جنوں اور انسانوں کو ہمارے سامنے لا جنہوں نے ہمیں گمراہ کیا تھا تاکہ ہم انہیں پاؤں تلے روند ڈالیں وہ ذلیل ہو کر رہیں۔“ (وَ قَالُوْا رَنَآ اِنَّآ اَطَعْنَا سَادَتَنَا وَ کُبَرَآءَ نَا فَاَضَلُّوْنَا السَّبِیْلَا۔ رَبَّنَآ اٰتِھِمْ ضِعْفَیْنِ مِنَ الْعَذَابِ وَ الْعَنْھُمْ لَعْنًا کَبِیْرًا) [ الاحزاب : ٦٧۔ ٦٨] ” وہ کہیں گے اے رب ہم نے اپنے سرداروں اور بڑوں کی اطاعت کی اور انہوں نے ہم کو سیدھے راستے سے بھٹکا دیا۔ اے رب ان کو دوگنا عذاب دے اور ان پر لعنت برسا۔“ (کُلَّمَا دَخَلَتْ اُمَّۃٌ لَّعَنَتْ اُخْتَھَاحَتّآی اِذَا ادَّارَکُوْا فِیْھَا جَمِیْعًاقَالَتْ اُخْرٰیھُمْ لِاُوْلٰھُمْ رَبَّنَا ھآؤُلَآءِ اَضَلُّوْنَا فَاٰتِھِمْ عَذَابًا ضِعْفًا مِّنَ النَّارِ قَالَ لِکُلٍّ ضِعْفٌ وَّ لٰکِنْ لَّا تَعْلَمُوْن) [ الاعراف : ٣٨] ” ہر گروہ جب جہنم میں داخل ہوگا تو اپنے سے پہلے لوگوں پر لعنت کرے گا یہاں تک کہ جب سب وہاں جمع ہوجائیں گے تو بعد میں آنے والا گروہ پہلے گروہ کے متعلق کہے گا کہ اے ہمارے رب ! یہ ہیں وہ لوگ جنہوں نے ہمیں گمراہ کیا تھا۔ انہیں آگ کا دوہرا عذاب دیا جائے۔ رب تعالیٰ فرمائے گا سب کے لیے دوہرا عذاب ہے مگر تم جانتے نہیں ہو۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن غیروں کی عبادت کرنے والوں کو سوال کریں گے۔ ٢۔ کیا اللہ کے سوا کوئی تمھاری مدد کرسکتا ہے یا بدلہ لے سکتا ہے۔ ٣۔ گمراہ لوگوں کو شیطان اور ان کے معبودوں سمیت جہنم میں اوندھے منہ پھینکا جائے گا۔ تفسیر بالقرآن قیامت کے دن گمراہ پیروں اور مریدوں، لیڈروں اور ور کروں، مقتدی اور برے علماء کا آپس میں تکرار کرنا : ١۔ جہنم میں مرید، پیروں، ور کر، لیڈروں سے کہیں گے کہ ہم تمہارے تابع تھے کیا تم اللہ کے عذاب کا کچھ حصہ دور کرسکتے ہو۔ (ابراہیم : ٢١) ٢۔ جب جہنمی اپنے سے پہلے لوگوں کو دیکھیں گے تو کہیں گے انہوں نے ہمیں گمراہ کیا تھا انہیں دوگنا عذاب دیا جائے۔ (الاعراف : ٣٨) ٣۔ قیامت کے دن وہ ایک دوسرے کا انکار کریں گے اور ایک دوسرے پر پھٹکار کریں گے۔ (العنکبوت : ٢٥) ٤۔ کاش آپ ظالموں کو اس وقت دیکھیں جب وہ اپنے رب کے سامنے کھڑے ہو نگے تو ایک دوسرے کے سامنے تکرار کرتے ہوئے کمزوراپنے بڑوں سے کہیں گے کہ اگر تم نہ ہوتے تو ہم مومن ہوتے جب کہ ان کے بڑے اس سے انکاری ہونگے (سبا : ٣٢۔ ٣١) ٥۔ قیامت کے دن پیروکار کہیں گے اگر دنیا میں جانا ہمارے لیے ممکن ہو تو ہم تم سے براءت کا اظھار کریں گے (البقرۃ: ١٦٥) ٦۔ قیامت کے دن پیشوا اپنے پیرو کاروں سے براءت کا اظہار کریں گے۔ (البقرۃ: ١٦٦) ٧۔ جہنم میں چھوٹے، بڑوں سے کہیں گے کہ ہم تمہارے تابع تھے کیا تم ہمارے عذاب سے کچھ کم کرسکتے ہو۔ بڑے کہیں گے کہ ہم سب جہنم میں رہیں گے۔ (المومن : ٤٧۔ ٤٨) الشعراء
93 الشعراء
94 الشعراء
95 الشعراء
96 فہم القرآن ربط کلام : جہنمیوں کا آپس میں جھگڑا کرنا۔ جہنمی جب جہنم میں داخل کیے جائیں گے تو ان کی ذلت و رسوائی میں اضافہ کرنے اور ایک حقیقت کا اعتراف کروانے اور ایک دوسرے کے ساتھ جھگڑنے کے لیے انہیں آمنے سامنے کھڑا کیا جائے گا۔ مرید اپنے پیروں سے، ور کر اپنے لیڈروں سے، مقتدی اپنے اماموں سے قسمیں اٹھا اٹھا کر کہیں گے کہ ہم تمھاری وجہ سے گمراہ ہوئے کیونکہ ہم تمھیں رب العالمین کے برابر سمجھ بیٹھے تھے۔ اللہ تعالیٰ کے برابر سمجھنے کی کئی صورتیں ہیں بڑوں کے سامنے جھکنا، سجدہ کرنا دینوی مفاد کی خاطر ان کے غیر شرعی حکم ماننا اور عقیدت میں ان کی ایسی تعظیم کرنا جس سے شریعت نے منع کر رکھا ہے۔ جہنمی کھلے الفاظ میں ان باتوں کا اقرار کرینگے اس کے ساتھ ہی وہ اپنے رب سے فریاد کریں گے کہ اے رب ! ہمارے بڑوں نے ہمیں گمراہ کیا تھا۔ جہنمیوں کا سب سے بڑا اقرار شرک کے بارے میں ہوگا جو دنیا میں اپنے بڑوں کے بارے میں عقیدہ رکھتے تھے اور ان کے بڑے بھی انھیں کہا کرتے تھے کہ ہم تمھیں اللہ تعالیٰ کی پکڑ سے بچالیں گے۔ جہنمی صاف طور پر اعتراف کریں گے کہ ہم اپنے معبودوں کو رب العالمین کے برابر سمجھا کرتے تھے۔ جس بنا پر وہ کسی کو داتا کہتے اور سمجھتے تھے، کسی کو دستگیر کہتے، کسی کو حاجت روا مشکل کشا جان کر اس کے حضور نذرانے پیش کرتے یہاں تک کہ فوت شدگان کے ساتھ بھی وہ اس قسم کا عقیدہ اور عقیدت رکھتے تھے۔ مسائل ١۔ جہنم میں جہنمی ایک دوسرے سے جھگڑا کریں گے۔ ٢۔ جہنمی قسمیں اٹھا اٹھا کر کہیں گے کہ ہمارے بڑوں نے ہمیں گمراہ کیا تھا۔ ٣۔ مشرک اس بات کا اقرار کریں گے کہ ہم زندہ اور مردہ بزرگوں کو رب العالمین کے برابر سمجھتے تھے۔ الشعراء
97 الشعراء
98 الشعراء
99 الشعراء
100 الشعراء
101 الشعراء
102 فہم القرآن ربط کلام : جہنمیوں کا انتہائی مایوسی کے عالم میں دنیا میں پلٹ جانے کا مطالبہ کرنا : جہنمی جب جہنم میں اپنے بڑوں اور معبودوں کے ساتھ جھگڑا کریں گے تو وہ یہ کہہ کر جان چھڑائیں گے کہ خواہ مخواہ ہم پر الزام لگاتے ہو تم تو خود گمراہ تھے۔ (الصّٰفٰت : ٣٢) برے مرید، ور کرر اور مقتدی حسرت کے ساتھ اس بات کا اظہار کریں گے کہ ہائے افسوس! جن کو ہم سفارشی سمجھتے رہے آج ہمارے لیے سفارش کرنے کے لیے تیار نہیں۔ جن کو ہم اپنا بہی خواہ اور مخلص سمجھتے تھے آج کوئی خیر خواہی اور بھائی چارہ کرنے کے لیے آمادہ نہیں۔ کاش ! ہمیں ایک بار دنیا میں واپس جانے کا موقع مل جائے تو ہم سب کو چھوڑ کر ایک رب پر ایمان لانے کے ساتھ اس کے تابعدار بندے بن جائیں گے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور ان کے، باپ قوم اور مجرموں ہونے والی گفتگو میں بہت ہی عبرت موجود ہے لیکن پھر بھی اکثر لوگ حقیقت تسلیم نہیں کرتے۔ اے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! یقیناً آپ کا رب ہر بات پر غالب اور بڑا رحم و کرم فرمانے والا ہے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے واقعہ میں یہود و نصاریٰ اور مشرکین کے لیے عبرت ہے کہ جس طرح حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے باپ اور ان کی قوم کے پاس سوائے پہلے لوگوں کی تقلید کرنے کے شرک کی کوئی دلیل نہ تھی اسی طرح ہر دور کے مشرک کے پاس شرک کی دلیل نہیں ہوتی۔ جس طرح حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اپنے مشرک باپ کو فائدہ نہیں پہنچا سکیں گے اسی طرح مشرک اور مجرم ایک دوسرے کو فائدہ نہیں پہنچا سکیں گے، نہ ہی ان کا کوئی سفارشی اور کوئی خیر خواہ ہوگا۔ مسائل ١۔ قیامت کے دن مجرم اپنے جرائم کا اعتراف کریں گے۔ ٢۔ قیامت کے دن مجرموں کا کوئی سفارشی نہ ہوگا۔ ٣۔ قیامت کے دن کسی کی دوستی کام نہیں آئے گی۔ ٤۔ قیامت کے دن مجرم دنیا میں واپس آنے کی التجا کریں گے۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر غالب ہونے کے باوجود رحم فرمانے والا ہے۔ تفسیر بالقرآن قیامت کے دن کافر، مشرک اور مجرم کی کوئی سفارش نہیں کرسکے گا : ١۔ اللہ تعالیٰ کی اجازت کے بغیر سفارش نہیں ہوسکے گی۔ (البقرۃ: ٢٥٥) ٢۔ سفارش اللہ تعالیٰ کی مرضی کے مطابق ہوگی۔ (النبا : ٣٨) ٣۔ اللہ تعالیٰ اپنی پسندکی بات ہی قبول فرمائیں گے۔ (طٰہٰ: ١٠٩) ٤۔ کافر زمین کے برابر سونا دے کر بھی جہنم سے نجات نہیں پاسکتے۔ (آل عمران : ٩١) ٥۔ قیامت کے دن ان کا کوئی سفارشی نہیں ہوگا۔ (الانعام : ٥١) ٦۔ کافروں کو ان کی جمعیت اور تکبر کام نہ آسکے گا۔ (الاعراف : ٤٨) ٧۔ کفار کے مال واولاد ان کے کام نہ آسکیں گے۔ (آل عمران : ١٠) ٨۔ کافر قیامت کے دن سفارشی تلاش کریں گے۔ (الاعراف : ٥٣) ٩۔ قیامت کے دن سفارشی کسی کو فائدہ یا نقصان نہیں دے سکیں گے۔ (یونس : ١٨) ١٠۔ قیامت کے دن رشتہ داربھاگ جائیں گے۔ ( عبس : ٣٤ تا ٣٦) الشعراء
103 الشعراء
104 الشعراء
105 الشعراء
106 الشعراء
107 فہم القرآن ربط کلام : حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی قوم کا رد عمل بیان کرنے کے بعد حضرت نوح (علیہ السلام) کی دعوت اور ان کی قوم کا ردّ عمل بیان کیا جاتا ہے۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کی قوم نے رسولوں کو جھٹلایا جب ان کے بھائی حضرت نوح (علیہ السلام) نے انھیں سمجھایا کہ اپنے عقیدہ اور عمل کے بارے میں اللہ سے ڈرو۔ یقین جانو کے میں تمھارے لیے امانت دار رسول ہوں بس تمھیں اللہ سے ڈر کر میری اطاعت کرنا چاہیے۔ میں منصب نبوت کے حوالے سے تم سے کسی معاوضہ کا طلب گار نہیں۔ میرا اجر میرے رب نے اپنے ذمہ لے رکھا ہے۔ قوم نوح، قوم عاد، قوم ثمود، قوم لوط اور قوم شعیب کے بارے میں یہ الفاظ استعمال ہوئے ہیں کہ انھوں نے مرسلین کی تکذیب کی حالانکہ ان قوموں کا واسطہ اپنے اپنے رسول سے پڑا تھا اور انھوں نے اپنے اپنے رسول کی ہی تکذیب کی تھی۔ اس کے باوجود حضرت نوح (علیہ السلام) سے لے کر حضرت شعیب (علیہ السلام) کی قوم کے بارے میں فرمایا ہے کہ انھوں نے رسولوں کی تکذیب کی۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ دین کی تعلیم یہ ہے کہ وقت کے رسول پر ایمان لانے کے ساتھ پہلے رسولوں پر بھی ایمان لایا جائے کہ وہ واقعی اپنے اپنے دور میں ” اللہ“ کے مبعوث کیے ہوئے رسول تھے۔ جو شخص اس اصول کی پاسداری نہیں کرتا گویا کہ وہ تمام انبیاء (علیہ السلام) کی تکذیب کرتا ہے۔ دوسری وجہ یہ سمجھ آتی ہے کہ تمام انبیاء کرام (علیہ السلام) کی دعوت کا مرکزی نقطہ ” اللہ“ کی توحیدتھا۔ ان قوموں نے اپنے اپنے دور میں نہ صرف توحید خالص کا انکار کیا بلکہ اپنے اپنے نبی کی مخالفت میں ایڑی چوٹی کا زور لگایا اس طرح فکر و عمل کے اعتبار سے یہ قومیں ایک جیسارویہ رکھتی تھیں۔ جس بنا پر ان اقوام کے بارے میں یہ الفاظ استعمال کیے ہیں کہ انہوں نے رسولوں کی تکذیب کی۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو اوّل آخر سمجھایا کہ اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور اپنے باطل عقیدہ اور برے کردار سے تائب ہو کر میری اتباع کرو۔ رسول کی آمد کا مقصد ہی یہ ہوتا ہے کہ لوگ اس کی اطاعت کریں چنانچہ حضرت نوح (علیہ السلام) بار بار قوم کو اپنی اطاعت کے بارے میں ارشاد فرما تے رہے۔ انھوں نے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ میں نبوت کے کام پر تم سے کسی معاوضے کا طلب گار نہیں ہوں۔ جس کا دوسرا معنٰی یہ ہے کہ سوچو اور غور کرو۔ جس کی خاطر اس قدر مصائب اور دکھ اٹھا رہا ہوں اس کے پیچھے میری کوئی غرض مضمر نہیں۔ وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے میرے ذمّے نبوت کی ذمہ داری لگائی ہے تاکہ اسے امانت و دیانت کے ساتھ سر انجام دیتا رہوں۔ یہی میرے منصب کا تقاضا ہے جسے شب و روز پورا کرنے کی کوششکر رہا ہوں۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے اپنے لیے رسول امین کا لفظ بول کر یہ بھی واضح کیا کہ نبوت کا دعویٰ کرنے اور اس کا پیغام پہنچانے میں پوری ذمہ دار اور امانت دار ہوں اور تم بھی مجھے کردار اور امانت کے حوالے سے امین تسلیم کرتے ہو۔ یہی انبیاء کرام (علیہ السلام) کا کردار ہے کہ وہ نبوت سے پہلے بھی اپنی قوم میں صادق اور امین سمجھے جاتے تھے سرور دو عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صفا پہاڑی پر اپنی دعوت پیش کرنے سے پہلے لوگوں سے استفسار فرمایا کہ اگر میں کہوں اس کے پہاڑ کے عقب سے کوئی لشکر تم پر حملہ آور ہونے والا ہے تو کیا تم یقین کرو گے ؟ لوگوں نے بیک زبان کہا تھا۔” مَا جَرَ بَّنَا عَلَیْکَاِلَّا صِدْقًا“ ہم نے ہمیشہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سچاپایا۔ (سیرت ابن ہشام ) تقویٰ کا مفہوم : (وَقَدْ قِیْلَ اَنَّ عُمَرَبْنِ الْخَطَّاب (رض) سَأَلَ اُبَیِّ بَنْ کَعْبٍ عَنِ التَّقْوَیْ، فَقَالَ لَہٗ أَمَا سَلَکْتُ طَرِیْقًا ذَاشَوْکٍ ؟ قَالَ بَلٰی قَالَ فَمَا عَمِلْتَ ؟ قَالَ شَمَرْتُ وَاجْتَہَدَتْ، قَالَ فَذٰلِکَ التَّقْوَیٰ) [ تفسیر ابن کثیر : جلد ١] ” روایت ہے کہ عمر (رض) بن خطاب نے حضرت ابی (رض) بن کعب سے تقویٰ کے متعلق سوال کیا تو کعب (رض) نے کہا کہ کیا آپ کبھی خار دار راستے پر نہیں گزرے حضرت عمر (رض) نے جواب دیا کہ کیوں نہیں حضرت ابی کہنے لگے تو اس وقت آپ کیا کرتے ہیں حضرت عمر کہنے لگے میں کپڑے سمیٹ کر اور کانٹوں سے بچتے ہوئے اس راستہ سے گزرتا ہوں۔ حضرت ابی نے کہا یہی تقویٰ ہے۔“ (عَنْ أَبِیْ سَعِیْدِ نِ الْخُدْرِیِّ أَنَّ رَجُلًا جَاءَ ہُ فَقَالَ أَوْصِنِیْ فَقَالَ سَأَلْتَ عَمَّا سَأَلْتُ عَنْہُ رَسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مِنْ قَبْلِکَ أُوْصِیْکَ بِتَقْوَی اللّٰہِ فَإِنَّہٗ رَأْسُ کُلِّ شَیْءٍ۔۔) [ مسند احمد : کتاب باقی مسند المکثرین، باب مسند أبی سعید الخدری] ” حضرت ابوسعید خدری (رض) بیان کرتے ہیں کہ ان کے پاس ایک آدمی نے آکر کہا : مجھے نصیحت کیجئے ابو سعید خدری (رض) نے کہا : تو نے مجھ سے اس چیز کا سوال کیا ہے جس کے متعلق میں نے تجھ سے پہلے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا تھا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے فرمایا کہ میں تجھے اللہ سے ڈرنے کی نصیحت کرتاہوں کیونکہ تقویٰ ہر خیر کا سرچشمہ ہے۔“ مسائل ١۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو اللہ سے ڈرنے کی تلقین فرمائی۔ ٢۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کی قوم نے ان کی تکذیب کی۔ ٣۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کو ان کی قوم امین سمجھتی تھی۔ ٤۔ حضرت نوح (علیہ السلام) اور تمام انبیاء کرام (علیہ السلام) بلامعاوضہ دین اور قوم کی خدمت کیا کرتے تھے۔ تفسیر بالقرآن تقویٰ اور اس کے تقاضے : ١۔ مصیبتوں میں صبر اختیار کرنا اور سچ بولنا تقویٰ ہے۔ (البقرۃ: ١٧٧) ٢۔ حلال روزی کھانا، اللہ پر ایمان لانا اور اس سے ڈرنا تقوٰی ہے۔ (المائدۃ: ٨٨) ٣۔ اپنے اہل و عیال کو نماز کا حکم دینا اور اس پر قائم رہنا تقوٰی ہے۔ (طٰہٰ: ١٣٢) ٤۔ شعائر اللہ کا احترام کرنا تقویٰ ہے۔ (الحج : ٣٢) ٥۔ حج کے سفر میں زاد راہ لینا تقوٰی ہے۔ (البقرۃ: ١٩٧) ٦۔ متقین کے لیے کامیابی ہے۔ (النساء : ٣١ تا ٣٣) ٧۔ متقی کی خطائیں معاف اور ان کے لیے بڑا اجر ہوگا۔ (الطلاق : ٤ تا ٥) ٨۔ متقین کے لیے ان کے رب کے پاس نعمتوں والی جنت ہے۔ (القلم : ٣٤) ٩۔ متقین اولیاء اللہ ہیں جو قیامت کے دن بے خوف ہوں گے۔ ( یونس : ٦١ تا ٦٤) الشعراء
108 الشعراء
109 الشعراء
110 الشعراء
111 فہم القرآن ربط کلام : حضرت نوح (علیہ السلام) کے بار بار سمجھانے اور ان کی امانت کا اعتراف کرنے کے باوجود قوم کا جواب۔ قوم کا جواب یہ تھا کہ اے نوح کیا ہم تجھ پر ایمان لائیں ؟ جبکہ تجھ پر ایمان لانے والے معاشی اعتبار سے غریب سماجی حوالے سے گھٹیا لوگ ہیں۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے جواباً ارشاد فرمایا مجھے کیا معلوم کہ کون کیا پیشہ اختیار کیے ہوئے ہے۔ ان کا حساب میرے رب کے ذمہ ہے کاش تم شعور سے کام لو۔ میں ان کے پیشہ کی وجہ سے انھیں اپنے آپ سے دور نہیں کرسکتا کیونکہ میرے ذمہ لوگوں کو ان کے برے انجام سے ڈرانا ہے۔ دین کی تاریخ یہ ہے کہ اس کے ماننے والے۔ ابتداً غریب لوگ ہوا کرتے ہیں جنہیں معاشرے کے کھاتے پیتے لوگ حقیر سمجھتے ہیں اور بڑے لوگ ان کے ساتھ بیٹھنا، اٹھنا اپنی توہین جانتے ہیں۔ اس وجہ سے حضرت نوح (علیہ السلام) کی قوم کے بڑے لوگوں نے یہ کہہ کر حضرت نوح (علیہ السلام) کی تکذیب کی اور کہا کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ہم آپ کی اطاعت کریں اور ان لوگوں کے ساتھ بیٹھا کریں جو ہم میں نیچ ہمارے نوکر چاکر ہیں۔ حقیقتاً وہ حضرت نوح (علیہ السلام) کے اطاعت گزار بننے میں اپنی توہین سمجھتے تھے لیکن حضرت نوح (علیہ السلام) ظاہری جمال و کمال کے اعتبار سے ان سے اعلیٰ تھے اس لیے انھوں نے یہ بہانہ بنایا کہ ہم آپ پر اس لیے ایمان نہیں لاتے کہ آپ کے ساتھی کمتر لوگ ہیں۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے فرمایا کہ مجھے کیا علم کہ پیشے کے اعتبار سے کون کیا کرتا ہے۔ مالی لحاظ سے کوئی کیا حیثیت رکھتا ہے میرا کام لوگوں کا پیشہ بدلنا نہیں میرا فرض تو یہ ہے کہ میں لوگوں کو برے کاموں سے بچنے کا حکم دوں اور برے انجام سے لوگوں کو ڈراؤں۔ جو لوگ ایمان لائے ہیں ان کا حساب ان کے رب کے ذمہ ہے۔ کاش تم اس بات کو سمجھنے کی کوشش کرو۔ حقیقت یہ ہے کہ انسان پیشے اور مال کے حوالے سے معزز نہیں ہوتا معزز وہ ہے جو عقیدہ و عمل کے اعتبار سے بہتر ہے۔ (یَا أَیُّہَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاکُمْ مِنْ ذَکَرٍ وَأُنْثَی وَجَعَلْنَاکُمْ شُعُوْبًا وَقَبَاءِلَ لِتَعَارَفُوْا إِنَّ أَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰہِ أَتْقَاکُمْ إِنَّ اللّٰہَ عَلِیْمٌ خَبِیْرٌ ) ” اے لوگو! ہم نے تمہیں ایک مرد اور عورت سے پیدا کیا اور ایک دوسرے کی پہچان کے لیے تمہارے قبلے اور برادریاں بنائیں۔ تم میں سے سب سے زیادہ اللہ کے ہاں عزت والا وہ ہے جو متقی ہے۔ بے شک اللہ جاننے والا خبر رکھنے والا ہے۔“ (یَآ أَیُّھَا النَّاسُ !أَلَآ إِنَّ رَبَّکُمْ وَاحِدٌ وَإِنَّ أَبَاکُمْ وَاحِدٌ أَلَا لَا فَضْلَ لِعَرَبِیٍّ عَلٰی أَعْجَمِیٍّ وَلَا لِعَجَمِیٍّ عَلٰی عَرَبِیٍّ وَلَا لِأَحْمَرَ عَلآی أَسْوَدَ وَلَا لِاَسْوَدَ عَلٰی أَحْمَرَ إِلَّا بالتَّقْوٰی) [ مسند أحمد : کتاب مسند الأنصار، باب حدیث رجل من أصحاب النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ] ” اے لوگو! آگاہ ہوجاؤ ! یقیناً تمہارا رب ایک ہے، تمہارا باپ بھی ایک ہے خبردار! کسی عربی کو کسی عجمی پر اور کسی عجمی کو کسی عربی پر، کسی سرخ کو کالے پر اور کسی کالے کو سرخ پر تقویٰ کے سوا کوئی برتری حاصل نہیں۔“ مسائل ١۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کی قوم نے یہ کہہ کر ان کی نبوت کا انکار کیا کہ تجھ پر ایمان لانے والے لوگ سماجی اعتبار سے گھٹیا لوگ ہیں۔ ٢۔ ا لداعی کو غربت کی بنا پر نیک لوگوں کو اپنے آپ سے دور نہیں کرنا چاہیے اس کا کام لوگوں کو برے اعمال اور اس کے انجام سے ڈرانا ہے۔ تفسیر بالقرآن صحیح عقیدہ اور صالح اعمال کرنے والوں کا مرتبہ و مقام : ١۔ ایماندار صالح اعمال کرنے والوں کو اللہ اپنی رحمت میں داخل کرے گا۔ (الجاثیۃ : ٣٠) ٢۔ ایمان کے ساتھ صالح اعمال کرنے والوں کے لیے مغفرت ہے۔ (الحج : ٥٠) ٣۔ موت کے بعد نیک لوگوں کی رفاقت نصیب ہوگی۔ (آل عمران : ١٩٣) ٤۔ اللہ تعالیٰ نے نیک لوگوں کو اپنی رحمت میں داخل کرلیا ہے۔ (الانبیاء : ٨٦) ٥۔ اللہ نیک لوگوں کو ان کے اعمال کا بہترین صلہ دے گا۔ (التوبۃ: ١٢١) ٦۔ قیامت کے دن نیک لوگوں کے چہروں پر ذلت اور نحوست نہ ہوگی اور وہ جنت میں رہیں گے۔ (یونس : ٢٦) الشعراء
112 الشعراء
113 الشعراء
114 الشعراء
115 الشعراء
116 فہم القرآن ربط کلام : حضرت نوح (علیہ السلام) کو قوم کی دھمکی۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو ساڑھے نو سو سال سمجھایا۔ (العنکبوت : ١٤) لیکن قوم نے انھیں بدتر سے بدترین جواب دیا یہاں تک کہ انھوں نے کہا اے نوح ! اگر تو عقیدہ توحید کی دعوت سے باز نہ آیا تو ہم پتھر مار مار کر تجھے جان سے مار دیں گے۔ ” نوح نے عرض کی اے میرے پروردگار میں نے اپنی قوم کو دن رات دعوت دی لیکن میری دعوت دینے سے وہ اور زیادہ دوری اختیار کرتے گئے۔ جب بھی میں نے انہیں بلایا تاکہ تو انہیں معاف کر دے تو انہوں نے اپنے کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیں اور اپنے آپ پر کپڑے ڈال لیے۔ ہٹ دھرمی اور تکبر اختیار کیا پھر میں نے انہیں سرعام دعوت دی اور اعلانیہ اور پوشیدہ طریقے سے بھی سمجھایا۔“ (نوح : ٥ تا ٩) ” اس کے بعد نوح نے عرض کی کہ میرے پروردگار ! یہ لوگ میرے کہنے پر نہیں چلے۔ یہ ان کے تابع ہوئے ہیں جن کو ان کے مال اور اولاد نے نقصان کے سوا کچھ فائدہ نہیں دیا۔ اور وہ بڑی بڑی چالیں چلے۔ اور کہنے لگے کہ اپنے معبودوں کو ہرگز نہ چھوڑنا وَدّ، سواع، یغوث، یعوق اور نسر کو کبھی ترک نہ کرنا۔ میرے رب انہوں نے بہت لوگوں کو گمراہ کردیا ہے تو تو ان کو اور گمراہ کر دے۔“ ( نوح : ٢١ تا ٢٤ ) حضرت نوح (علیہ السلام) نے یہ بھی دعا کی اے رب کریم ! قوم نے مجھے کلیتاً ٹھکرا دیا ہے۔ میری درخواست ہے کہ آپ میرے اور میری قوم کے درمیان فیصلہ فرما دیں۔ فیصلہ سے مراد اللہ کا عذاب ہے مجھے اور میرے ایماندار ساتھیوں کو اس سے بچائے رکھنا۔ ( وَقَالَ نُوحٌ رَّبِّ لاَ تَذَرْ عَلَی الْاَرْضِ مِنَ الْکٰفِرِیْنَ دَیَّارًا اِِنَّکَ اِِنْ تَذَرْہُمْ یُضِلُّوْا عِبَادَکَ وَلاَ یَلِدُوْا اِِلَّا فَاجِرًا کَفَّارًا رَبِّ اغْفِرْ لِی وَلِوَالِدَیَّ وَلِمَنْ دَخَلَ بَیْتِیَ مُؤْمِنًا وَّلِلْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنَاتِ وَلاَ تَزِدِ الظٰلِمِیْنَ اِِلَّا تَبَارًا) [ نوح : ٢٦ تا ٢٨ ] ” اور پھر نوح (علیہ السلام) نے یہ دعا کی کہ میرے پروردگار کسی کافر کو روئے زمین پر نہ رہنے دے۔ اگر تو ان کو رہنے دے گا تو تیرے بندوں کو گمراہ کرینگے اور ان سے جو اولاد ہوگی وہ بھی بدکار اور ناشکری ہوگی۔ اے میرے پروردگار مجھے اور میرے ماں باپ کو اور جو ایمان لا کر میرے گھر میں آئے اس کو اور تمام ایمان دار مردوں اور ایمان دار خواتین کو معاف فرما ! ظالم لوگوں کے لیے اور زیادہ تباہی بڑھا۔ مسائل ١۔ نوح (علیہ السلام) کی قوم نے دعوت حق قبول کرنے کی بجائے نوح (علیہ السلام) کو سنگسار کرنے کی دھمکی دی۔ ٢۔ نوح (علیہ السلام) کی قوم نے عذاب کا مطالبہ کیا۔ ٢۔ نوح (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ سے فیصلہ کن عذاب کی درخواست کی۔ تفسیر بالقرآن انبیاء (علیہ السلام) اور صلحاء کی نافرمان قوم کے لیے بددعائیں : ١۔ اے ہمارے پروردگار! ان کے اموال کو نیست و نابود کردے اور ان کے دلوں کو سخت فرما۔ (حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی بددعا)۔ (یونس : ٨٨) ٢۔ نوح نے بدعا کی کہ الٰہی زمین پر ایک کافر بھی نہ چھوڑنا۔ (نوح : ٢٦) ٣۔ اے اللہ! فساد کرنے والی قوم کے مقابلہ میں میری مدد فرما۔ لوط (علیہ السلام) کی بددعا (العنکبوت : ٣٠) ٤۔ اے ہمارے رب! تو ہمارے درمیان اور ہماری قوم کے درمیان فیصلہ فرما دے (حضرت شعیب (علیہ السلام) کی بد دعا)۔ (الاعراف : ٨٩) الشعراء
117 الشعراء
118 الشعراء
119 فہم القرآن ربط کلام : حضرت نوح (علیہ السلام) نے فیصلہ کن عذاب کی بدعا کی اللہ تعالیٰ نے انھیں اور ان کے مومن ساتھیوں کو عذاب سے محفوظ رکھا۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح (علیہ السلام) کو واضح طور پر بتلادیا کہ اے نوح (علیہ السلام) ! تیری قوم سے جن لوگوں نے ایمان لانا تھا لاچکا۔ اب کوئی شخص ایمان نہیں لائے گا لہٰذا ہمارے حکم کے مطابق ہمارے سامنے ایک کشتی تیار کیجیے اور اب میرے حضور ظالموں کے حق میں فریاد نہ کرنا کیونکہ یہ غرق ہو کر رہیں گے۔ (ہود : ٣٦۔ ٣٧) ” نوح نے کشتی بنانی شروع کردی۔ اور جب ان کی قوم کے سردار ان کے قریب سے گزرتے تو ان سے تمسخر کرتے نوح جواب دیتے کہ جس طرح تم ہم سے تمسخر کرتے ہو اسی طرح ایک وقت ہم بھی تم سے تمسخر کرینگے۔ اور تمہیں جلد معلوم ہوجائے گا کہ کس پر عذاب آتا ہے جو اسے رسوا کردے گا۔ یہاں تک کہ جب ہمارا حکم آ پہنچا اور تنور جوش مارنے لگا تو ہم نے نوح کو حکم دیا کہ ہر قسم کے جانداروں میں سے جوڑا جوڑا یعنی دو دو جانور ایک ایک نر اور ایک ایک مادہ لے لو اور جس شخص کی نسبت حکم ہوچکا ہے کہ ہلاک ہوجائے گا اس کو چھوڑ کر اپنے گھر والوں کو اور جو ایمان لایا ہو اس کو کشتی میں سوار کرلو اور ان کے ساتھ ایمان بہت ہی کم لوگ لائے تھے۔ ( نوح (علیہ السلام) نے فرمایا کہ اللہ کا نام لے کر سوارہو جاؤ۔ اللہ کے ہاتھ میں ہے اس کا چلنا اور ٹھہرنا ہے بیشک میرا پروردگار بخشنے والا مہربان ہے۔ کشتی ان کو لے کر طوفان کی لہروں میں چلنے لگی لہریں کیا تھیں گویا پہاڑ تھے اس وقت نوح نے اپنے بیٹے کو کہا جو کشتی سے الگ تھا۔ بیٹا ہمارے ساتھ سوار ہوجا اور کافروں میں شامل نہ ہو۔ اس نے کہا کہ میں پہاڑ پر چڑھ جاؤں گا اور وہ مجھے پانی سے بچا لے گا۔ نوح نے کہا کہ آج اللہ کے عذاب سے کوئی بچانے والا نہیں مگر جس پر اللہ رحم کرے اتنے میں دونوں کے درمیان لہر آ حائل ہوئی اور وہ ڈوب گیا۔ (ھود : ٣٨ تا ٤٣ ) ”(نوح نے) اپنے پروردگار سے دعا کی کہ بارِ الٰہا میں ان کے مقابلے میں کمزور ہوں تو میری مدد فرما۔ تو ہم نے ان پر موسلاد ھاربارش کے آسمان سے دروازے کھول دئیے۔ اور زمین سے چشمے جاری کر دئیے۔ سارا پانی مل گیا ایسے کام کے لیے جس کا فیصلہ ہوچکا تھا، اور ہم نے نوح (علیہ السلام) کو ایک کشتی پر جو تختوں اور میخوں سے تیار کی گئی تھی سوار کرلیا۔ وہ ہماری نگرانی میں چلتی تھی یہ سب کچھ اس شخص کے انتقام کے لیے کیا گیا جس کو کافر مانتے نہ تھے۔ اور ہم نے اس کو ایک عبرت بنا چھوڑا تو کوئی ہے کہ سوچے سمجھے۔ سو دیکھ لو کہ میرا عذاب اور ڈرانا کیسا ہوا؟۔ (القمر : ١٠ تا ١٦ ) اس سارے واقعہ پر تبصرہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ” آنے والے لوگوں کے لیے اس میں ایک سبق ہے لیکن لوگوں کی اکثریت ایمان نہیں لایا کرتی اے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ کا رب پوری طرح غالب اور نہایت ہی مہربان ہے۔“ اس میں یہ بات بتلا دی گئی ہے کہ حضرت نوح (علیہ السلام) ساڑھے نو سو سال انفرادی اور اجتماعی طور پر دن رات لوگوں کو سمجھاتے رہے لیکن قوم میں چند آدمیوں کے سوا کوئی ایمان نہ لایا۔ اے میرے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ اور آپ کے ساتھیوں کو دعوت دیتے ہوئے ابھی چند سال گزرے ہیں آپ کو دل چھوٹا کرنے کی بجائے حضرت نوح (علیہ السلام) کی طویل اور صبر آزما جدوجہد کو سامنے رکھنا چاہیے۔ جہاں تک آپ کے دشمنوں کا معاملہ ہے اللہ تعالیٰ اس بات پر پوری طرح غالب اور قادر ہے کہ جب چاہے وہ ان کو کسی اذّیت ناک عذاب میں مبتلا کر دے۔ لیکن وہ اپنے بندوں کو بار بار موقعہ دیتا ہے تاکہ وہ سنبھل جائیں کیونکہ وہ نہایت ہی مہربانی کرنے والا ہے۔ تفسیر بالقرآن حضرت نوح (علیہ السلام) کی قوم کا انجام : ١۔ قوم نوح طوفان کے ذریعے ہلاک ہوئی۔ (الفرقان : ٣٧) ٢۔ حضرت نوح نے اپنے بیٹے سے فرمایا آج کے دن اللہ کے عذاب سے کوئی بچانے والا نہیں۔ (ہود : ٤٣) ٣۔ نوح نے بدعا کی کہ الٰہی زمین پر ایک بھی کافر نہ چھوڑیے۔ (نوح : ٢٦) ٤۔ حضرت نوح کا بیٹا بھی غرق ہوا۔ (ہود : ٤٣) الشعراء
120 الشعراء
121 الشعراء
122 الشعراء
123 فہم القرآن ربط کلام : قوم نوح کی غرقابی کے بعد قوم عاد کا کردار اور انجام۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کے بعد حضرت ھود کی قوم کا تذکرہ شروع ہوتا ہے نہ معلوم حضرت ھود نے اپنی قوم کو کتنا عرصہ کس کس انداز سے سمجھایا۔ ان کے سمجھانے کا انداز بھی وہی تھا جو حضرت نوح (علیہ السلام) نے اختیار فرمایا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت ھود (علیہ السلام) کو ان کی قوم کا بھائی قرار دیا کیونکہ وہ حسب ونسب کے اعتبار سے اپنی قوم کے فرد تھے۔ لیکن قوم عاد نے انھیں اسی طرح ٹھکرایا جس طرح قوم نوح نے حضرت نوح (علیہ السلام) کو ٹھکرایا تھا۔ حالانکہ حضرت ھود (علیہ السلام) نے انھیں بار بار نصیحت فرمائی کہ اللہ تعالیٰ سے ڈرو۔ کفر و شرک اور برے کاموں کو چھوڑ دو اور میرے پیچھے چلو۔ میں پوری دیانت و امانت کے ساتھ تمھیں یقین دلاتا ہوں کہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے تمھارے لیے رسول منتخب کیا گیا ہوں۔ اس خدمت پر میں آپ سے کوئی اجر طلب نہیں کرتا، میرا اجر رب العالمین کے ذمہ ہے۔ حضرت ھود (علیہ السلام) نے انھیں سمجھایا کہ تم ہر اونچی جگہ پر یاد گاریں بناتے ہو اور تم بے جا بڑے بڑے محلات تعمیر کرتے ہو جیسے تم نے دنیا میں ہمیشہ رہنا ہے۔ تم میں یہ برائی بھی موجود ہے کہ جب کسی پر گرفت کرتے ہو تو تمھاراروّیہ ظالموں اور خدا کے باغیوں جیسا ہوتا ہے۔ میں تمھیں پھر سمجھتا تا ہوں کہ اللہ سے ڈرو میں اس کا رسول ہوں اور میری تابعداری کرو۔ حضرت ھود (علیہ السلام) کا تعلق عرب کے عاد قبیلے سے تھا جن کی رہائش موجودہ جغرافیے کے مطابق عمان اور یمن کے علاقے حضرموت کے درمیان تھی۔ یہ علاقہ سمندر کے کنارے پر واقع تھا۔ یہاں ریت کے بڑے بڑے ٹیلے اور بلندوبالا پہاڑ تھے۔ قوم عادجسمانی اعتبار سے دراز قامت، کڑیل جوان اور قوی ہیکل تھے۔ دنیا میں ان کا کوئی ثانی نہیں ہوا۔ انھوں نے پہاڑتراش، تراش کر خوبصورت محلات تعمیر کر رکھے تھے۔ ان کی سرزمین نہایت سر سبزتھی جس میں ہر قسم کے باغات آراستہ تھے انھیں قرآن مجید میں ” احقاف والے“ بھی کہا گیا ہے۔ احقاف ریت کے بڑے بڑے ٹیلوں کو کہا جاتا ہے جو عرب کے جنوب مغربی حصہ میں واقع تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اسی علاقہ میں حضرت ھود (علیہ السلام) کو مبعوث فرمایا جو خوش اندام کڑیل جوان اور بہترین صورت و سیرت کے حامل تھے۔ مسائل ١۔ حضرت ھود (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو اللہ تعالیٰ سے ڈرنے کی تلقین فرمائی۔ ٢۔ حضرت ھود (علیہ السلام) نے بار بار اپنی قوم کو فرمایا کہ میں اللہ کا رسول ہوں اور میں تم سے اس خدمت کا کوئی معاوضہ وصول نہیں کروں گا۔ ٣۔ حضرت ھود (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو شان و شوکت کے اظہار اور تفریح طبع کے لیے بڑی بڑی یاد گاریں بنانے سے منع کیا۔ ٤۔ حضرت ھود (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو سمجھایا کہ انسان نے دنیا میں ہمیشہ نہیں رہنا۔ ٥۔ قوم عاد کے لوگ بڑے ظالم اور سفاک تھے وہ اپنے مخالف پر مظالم ڈھایا کرتے تھے۔ الشعراء
124 الشعراء
125 الشعراء
126 الشعراء
127 الشعراء
128 الشعراء
129 الشعراء
130 الشعراء
131 الشعراء
132 فہم القرآن ربط کلام : حضرت ھود (علیہ السلام) کا بار بار قوم کو خطاب کرنا اور اللہ تعالیٰ کی نعمتیں یاد کروانا۔ حضرت ھود (علیہ السلام) نے بار بار اپنی قوم کو اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا احساس دلایا اور انھیں اللہ سے ڈرنے کی تلقین فرمائی۔ اے میری قوم ! اپنے ماضی پر غور کرو۔ تم افرادی قوت کے اعتبار سے تھوڑے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے تمھیں کثیر افزائش سے نوازا۔ جس کے نتیجے میں تم افرادی قوت کے اعتبار سے اپنے مخالفوں پر برتر ہوئے۔ اس نے تمھیں مال، مویشی کے اعتبار سے بھی برکت عنایت فرمائی تم بڑے بڑے باغات اور چشموں کے مالک بنے۔ لیکن تمھاری حالت یہ ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کا شکریہ ادا کرنے کی بجائے اس کے نافرمان اور لوگوں پر ظالم بن چکے ہو۔ مجھے ڈر ہے کہ اگر تم اپنے رب کی ناشکری کرتے اور لوگوں پر مظالم ڈھاتے رہے تو کسی دن تمھیں عظیم عذاب میں مبتلا کیا جائے گا۔ چاہیے تو یہ تھا کہ قوم حضرت ھود (علیہ السلام) کے ارشادات اور ان کی ہمدردانہ دعوت پر غور کرتی اور اللہ تعالیٰ سے ڈرجاتی۔ لیکن انھوں نے اپنی افرادی قوت اور دنیا کی ترقی پر اتراتے ہوئے حضرت ھود (علیہ السلام) کو کھلے انداز میں کہا کہ آپ ہمیں نصیحت کریں یا نہ کریں آپ کی باتوں کا ہم پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔ پہلے لوگ بھی اس طرح کی وعظ و نصیحت کیا کرتے تھے۔ ہم کسی قسم کے عذاب میں مبتلا نہیں ہوں گے۔ اس طرح انھوں نے حضرت ھود (علیہ السلام) کو یکسر طور پر جھٹلادیا جس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے انھیں ہلاک کیا۔ بے شک اس میں بڑی عبرت ہے لیکن اکثر لوگ ایمان نہیں لایا کرتے۔ یقین جانو کہ آپ کا رب بڑے سے بڑے ظالموں پر غالب ہے لیکن وہ انھیں بھی بار بار تائب ہونے کا موقع دیتا ہے کیونکہ وہ بڑا ہی مشفق اور مہربان ہے۔ حضرت ہود کے خطبات کا خلاصہ : حضرت ھود (علیہ السلام) نے دنیا کے عذاب کے ساتھ آخرت کے عذاب سے یہ کہہ کر اپنی قوم کو ڈرایا کہ قیامت کا دن رعب، دبدبہ اپنی طوالت اور عدالت کے اعتبار سے بڑا دن ہوگا جس میں ظالموں کو ٹھیک ٹھیک سزائیں سنائی جائیں گی۔ ١۔ اے میری قوم اللہ کی عبادت کرو اس کے سوا تمھارا کوئی معبود اور مشکل کشا نہیں۔ اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرنے اور اس کی نافرمانیوں سے بچتے رہو۔ میں تمھارا خیر خواہ ہوں اور اللہ تعالیٰ کے احکام پوری امانت داری سے پہنچارہا ہوں۔ سورۃ ھود میں ان کے خطاب کے اقتباسات یوں ذکر کیے گئے ہیں۔ ٢۔ اے میری قوم اللہ تعالیٰ نے مجھے آپ کی طرف رسول بنا کر بھیجا ہے۔ میں نے تمھیں اپنے رب کا پیغام پوری خیر خواہی اور دیانت داری کے ساتھ پہنچا دیا ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی معافی طلب کرو وہ تمھیں مزید طاقت ور اور مال دار بنائے گا۔ ہاں یاد رکھو تمھاری اصلاح اور فلاح پر میں تم سے کسی صلہ اور اجر کا خواہش مند نہیں ہوں۔ میرا اجر میرے رب کے ذمہ ہے جس نے مجھے پیدا فرمایا ہے۔ (ھود ٥٠ تا ٥٢) قوم کا ردِّ عمل : ١۔ قوم نے حضرت ھود (علیہ السلام) کو بے وقوف قرار دیا۔ (الاعراف : ٦٦) ٢۔ ھود (علیہ السلام) ہماری طرح ہی طرح کھانے، پینے والا انسان ہے۔ (المؤمنون : ٣٣) ٣۔ انھوں نے کہا اے ھود تو اللہ پر جھوٹ بولتا ہے۔ (المؤمنون : ٣٨) ٤۔ تیرے کہنے پر ہم اپنے معبودوں کو نہیں چھوڑ سکتے۔ یہ محض پہلے لوگوں کی کہانیاں ہیں۔ (الشعراء : ١٣٧) ٥۔ تم ہمیں سمجھاؤ یا نہ سمجھاؤ ہم نہیں مانیں گے۔ (شعراء : ١٣٦) ٦۔ ہمارے معبودوں کی تجھے بد دعا لگ گئی ہے۔ (ھود : ٥٤) ٧۔ ہم پر کوئی عذاب آنے والا نہیں تو جھوٹ بولتا ہے۔ (الشعراء : ١٣٨ تا ١٣٩) ٨۔ اگر تو اپنے دعوے میں سچا ہے تو ہم پر عذاب لے آ۔ (الاحقاف : ٢٢) مسائل ١۔ قوم عاد جسمانی طاقت اور افرادی قوت کے اعتبار سے دنیا میں منفرد قوم تھی۔ ٢۔ قوم عاد مال، مویشی اور افرادی قوت رکھنے والی قوم تھی۔ ٣۔ قوم عاد نے زراعت اور باغبانی میں بڑی ترقی کی تھی۔ تفسیر بالقرآن قوم عاد کی دنیاوی ترقی کی ایک جھلک : ١۔ قوم عاد نے زمین میں تکبر کیا اور کہا کہ ہم سے طاقت میں کون زیادہ ہوگا۔ (حٰم السجدۃ: ١٥) ٢۔ قوم عاد اس قدر کڑیل اور قوی ہیکل جوان تھے کہ ان جیسا دنیا میں کوئی اور پیدا نہیں کیا گیا۔ (الفجر ٦ تا ٨ ) ٣۔ قوم عاد بڑے بڑے محلات میں رہتی تھی۔ کھیتی باڑی اور باغبانی میں ان کا کوئی ثانی نہیں تھا۔ (الشعراء ١٢٩ تا ١٣٣) ٤۔ قوم عاد بڑے سفاک اور ظالم لوگ تھے۔ ( النجم : ٥٢) ٥۔ قوم عاد کو تند وتیز ہوا کے ساتھ ہلاک کردیا گیا۔ (الحاقۃ : ٦) الشعراء
133 الشعراء
134 الشعراء
135 الشعراء
136 الشعراء
137 الشعراء
138 الشعراء
139 الشعراء
140 الشعراء
141 فہم القرآن ربط کلام : قوم عاد کی تباہی کے بعد قوم ثمود کا دور اور اس کا انجام۔ قوم ثمود کی طرف حضرت صالح (علیہ السلام) مبعوث فرمائے گئے۔ انھوں نے بھی وہی انداز اختیار فرمایا جو ان سے پہلے انبیاء کرام نے اختیار کیا تھا۔ حضرت صالح (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے ڈرایا اور بار بار سمجھایا کہ میں تمھاری طرف اللہ کا رسول ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے جو امانت میرے ذمہ لگائی ہے اسے نہایت ذمّہ داری اور دیانتداری کے ساتھ من و عن تم تک پہنچا رہا ہوں اور تم میری امانت ودیانت سے واقف ہو۔ اس لیے اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور رسول ہونے کی حیثیت سے میری تابعداری کرو۔ میں اپنی تابعداری اور نبوت کے کام پر تم سے کسی اجر کا طلب گار نہیں ہوں۔ میرا صلہ میرے رب کے ذمہ ہے۔ میں تمھیں اس بات سے متنبہ کرتا ہوں کہ جس کردار کو تم اختیار کیے ہوئے ہو اس کا انجام اچھا نہیں ہوگا یہ امن اور سلامتی کا راستہ نہیں اگر تم تائب نہ ہوئے تو یاد رکھو۔ لہلہاتے ہوئے باغ، جاری چشمے، سبز و شاداب کھیتیاں، کھجوروں سے لدے ہوئے باغ، پہاڑوں کو تراش تراش کر بنائے ہوئے محلات تمہیں رب ذوالجلال کے عذاب سے نہیں بچا سکیں گے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ سے ڈر کر میری اطاعت کرو۔ اس قوم کو اصحاب الحجر بھی کہا گیا ہے۔ اصحاب الحجر سے مراد وہ قوم اور علاقہ ہے جو مدینہ سے تبوک جاتے ہوئے راستے میں پڑتا ہے۔ یہ علاقہ جغرافیائی اعتبار سے خلیج اربعہ کے مشرق میں اور شہر مدین کے جنوب مشرق میں واقع ہے۔ قوم ثمود اس قدر ٹیکنالوجی اور تعمیرات کے معاملے میں ترقی یافتہ تھی کہ انہوں نے پہاڑوں کو تراش تراش کر مکانات اور محلات تعمیر کیے تھے تاکہ کوئی زلزلہ اور طوفان انہیں نقصان نہ پہنچا سکے۔ مسائل ١۔ حضرت صالح (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو بار بار اللہ کا خوف دلایا۔ ٢۔ حضرت صالح (علیہ السلام) نے تمام انبیاء (علیہ السلام) کی طرح بلامعاوضہ اپنے رب کا پیغام پہنچایا اور لوگوں کی خدمت کی۔ ٣۔ حضرت صالح (علیہ السلام) نے قوم کو یہ بات سمجھانے کی کوشش کی کہ صالح کردار کے سوا۔ دنیا کے اسباب و وسائل مجرموں کو اللہ کے عذاب سے نہیں بچا سکتے۔ ٤۔ حضرت صالح (علیہ السلام) کی قوم زراعت، باغات اور صنعت و حرفت کے اعتبار سے اپنے زمانے کی ترقی یافتہ قوم تھی۔ تفسیر بالقرآن قوم ثمود کی ترقی کی ایک جھلک : ١۔ یہ قوم بڑے بڑے محلات میں رہتی تھی۔ کھیتی باڑی اور باغات میں ان کا کوئی ثانی نہیں تھا۔ (الشعراء ١٢٩ تا ١٣٣) ٢۔ بڑے بڑے محلات تعمیر کیا کرتے تھے۔ (الاعراف : ٧٤) الشعراء
142 الشعراء
143 الشعراء
144 الشعراء
145 الشعراء
146 الشعراء
147 الشعراء
148 الشعراء
149 الشعراء
150 الشعراء
151 فہم القرآن ربط کلام : حضرت صالح (علیہ السلام) کی اپنی قوم کو مزید نصیحتیں اور ان کی قوم کا ردعمل۔ حضرت صالح (علیہ السلام) نے قوم کو بار بار سمجھانے کی کوشش کی کہ اے میری قوم ! اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو اور اخلاقی حدود سے آگے نہ بڑھو تم اصلاح کرنے کی بجائے زمین پر فساد کرنے والے ہو۔ قوم نے اس کا مثبت جواب دینے کی بجائے کہا کہ اے صالح ! تم اس طرح کی باتیں کرتے ہو جس طرح سحر زدہ لوگ باتیں کرتے ہیں۔ جس طرح کے ہم انسان ہیں تو بھی ہمارے جیسا انسان ہے اگر تو دعویٰ نبوت میں سچا ہے تو کوئی معجزہ ہمارے سامنے پیش کرو۔ یاد رہے کہ ہمیشہ سے نافرمان لوگوں کا وطیرہ رہا ہے کہ جب بھی کسی پیغمبر اور مصلح نے انھیں سمجھایا تو انھوں نے مصلح پر یہی الزام لگایا اور اعتراض کیا کہ تجھے تو جادو ہوگیا ہے اس لیے پاگلوں جیسی بات کرتا ہے۔ اس کے ساتھ منکرین کا یہ بھی اعتراض ہوتا ہے کہ نبی مافوق الفطرت ہستی کو ہونا چاہیے یہ تو ہماری طرح انسان ہیں۔ یہی قوم ثمود نے حضرت صالح پر الزام لگایا اور ان سے معجزہ کا مطالبہ کیا۔ مسائل ١۔ قوم ثمود اخلاقی حدیں پھلانگ چکی تھی۔ ٢۔ قوم ثمود کی پالیسیاں اور طرز عمل زمین میں فساد کا موجب تھا۔ ٣۔ قوم ثمود نے حضرت صالح (علیہ السلام) کو بشر کہہ کر مسترد کردیا ٤۔ قوم ثمود نے حضرت صالح (علیہ السلام) کو سحر زدہ قرار دیا۔ ٥۔ قوم ثمود نے حضرت صالح (علیہ السلام) سے معجزہ کا مطالبہ کیا۔ ٦۔ قوم ثمود ہر برے لیڈر کے پیچھے چلا کرتی تھی الشعراء
152 الشعراء
153 الشعراء
154 الشعراء
155 فہم القرآن ربط کلام : قوم کے معجزہ طلب کرنے پر اللہ تعالیٰ نے حضرت صالح (علیہ السلام) کو اونٹنی کا معجزہ عطا فرمایا۔ اہل تفسیر نے لکھا ہے کہ قوم نے حضرت صالح (علیہ السلام) سے معجزہ طلب کیا تھا کہ ہمارے سامنے اس پہاڑ سے ایک اونٹنی نمودار ہو اور اس کے پیچھے اس کا دودھ پیتا بچہ بھی ہونا چاہیے۔ حضرت صالح (علیہ السلام) کی تائید میں اور قوم کے مطالبہ کے عین مطابق اللہ تعالیٰ نے ان کے سامنے اونٹنی اور اس کا بچہ کو نمودار کیا۔ جب اونٹنی اپنے بچہ کے ساتھ قوم کے سامنے آچکی تو حضرت صالح (علیہ السلام) نے قوم کو سمجھایا کہ یہ اللہ تعالیٰ کی اونٹنی ہے ایک دن یہ پانی پیا کرے گی اور دوسرے دن تم اور تمہارے جانور پانی پئیں گے۔ خبردار! اسے تکلیف دینے کی نیت سے ہاتھ نہ لگانا۔ اگر تم نے اس کو تکلیف پہنچائی تو اللہ کا عذاب تمھیں دبوچ لے گا۔ اس انتباہ کے باوجود انھوں نے اونٹنی کی ٹانگیں کاٹ ڈالیں جس کے نتیجہ میں ان کو عذاب نے آپکڑا پھر وہ ذلیل و خوار ہوئے۔ اس واقعہ میں عبرت کا سبق یہ ہے کہ جو قوم اپنے نبی سے معجزہ طلب کرے اور پھر اس کا انکار کرئے تو اللہ تعالیٰ اس قوم کو ہلاک کردیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے سامنے کسی قوم کی دنیوی ترقی اور اس کے بڑے بڑے مضبوط قلعے اور محلات کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔ قوم ثمود کی نافرمانیوں کے باوجود اللہ تعالیٰ نے انہیں اس لیے بار بار مہلت دی کیونکہ اللہ تعالیٰ مہربانی فرمانے والا ہے۔ تاکہ لوگ اس کی بارگاہ میں توبہ و استغفار کریں۔ مسائل ١۔ قوم ثمود نے حضرت صالح (علیہ السلام) سے اونٹنی کا معجزہ طلب کیا اونٹنی ان کے سامنے پہاڑ سے نمودار ہوئی۔ ٢۔ حضرت صالح (علیہ السلام) نے فرمایا کہ ایک دن اونٹنی پانی پئیے گی اور دوسرے دن تم لوگ پانی لیا کرو گے۔ ٣۔ حضرت صالح (علیہ السلام) نے قوم کو سمجھایا کہ تکلیف دینے کی غرض سے اونٹنی کو ہاتھ نہ لگان اور نہ تباہ ہوجاؤ گے۔ تفسیر بالقرآن قوم ثمود کی تباہی کا ہولناک منظر : ١۔ صالح کی قوم نے اونٹنی کی کونچیں کاٹ دیں تو صالح (علیہ السلام) نے قوم کو فرمایا تین دن فائدہ اٹھا لو، یہ وعدہ ہے جو جھوٹا نہیں ہوگا۔ (ھود : ٦٤، ٦٥) ٢۔ انھوں نے اونٹنی کی کونچیں کاٹ ڈالیں اور وہ نادم ہونے والوں میں سے ہوگئے۔ (الشعراء : ١٥٧) ٣۔ حضرت صالح اور حضرت شعیب کو جادو زدہ کہا گیا۔ (الشعراء : ١٥٣۔ ١٨٥) ٤۔ قوم ثمود نے حضرت صالح (علیہ السلام) سے عذاب کا مطالبہ کیا۔ (الاعراف : ٧٧) ٥۔ قوم ثمود کے بدبختوں نے اونٹنی کی ٹانگیں کاٹ دیں۔ الشمس : ١٤) ٦۔ ثمود زور دار آواز کے ساتھ ہلاک کیے گئے۔ (الحاقۃ: ٥) ٧۔ قوم عاد و ثمود کے اعمال بد کو شیطان نے ان کے لیے فیشن بنا دیا تھا۔ (العنکبوت : ٣٨) ٨۔ قوم ثمود کو زلزلے نے آپکڑا اور وہ اپنے گھروں میں اوندھے پڑے رہ گئے۔ (الاعراف : ٧٨) ٩۔ قوم ثمود کو چیخ نے آپکڑا۔ وہ اپنے گھروں میں اوندھے پڑے رہ گئے۔ (ھود : ٦٧) ١٠۔ قوم ثمود کی راہنمائی کی گئی لیکن انہوں نے گمراہی کو ترجیح دی تو انہیں ہولناک آواز نے آ لیا۔ ( حٰم السجدۃ: ١٧) الشعراء
156 الشعراء
157 الشعراء
158 الشعراء
159 الشعراء
160 فہم القرآن ربط کلام : حضرت صالح (علیہ السلام) کے بعد حضرت لوط (علیہ السلام) کی تشریف آوری اور ان کا اپنی قوم کو سمجھنا۔ حضرت لوط (علیہ السلام) کو بھی ان کی قوم کا بھائی قرار دیا گیا ہے کیونکہ نسل انسانی کے ناطے سے تمام انسان ایک دوسرے کے بھائی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت لوط (علیہ السلام) کو نبوت سے سرفراز فرمایا۔ انھوں نے انہی الفاظ اور انداز سے اپنی دعوت کا آغاز کیا جس طرح ان کے پیش رو انبیاء کرام (علیہ السلام) نے کیا تھا۔ انھوں نے بار بار قوم کو اپنے رب سے ڈرایا اور فرمایا کہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے تمھاری طرف رسول منتخب کیا گیا ہوں۔ میں رب کے پیغام تم تک پوری دیانت و امانت کے ساتھ پہنچانے کی کوشش کر رہا ہوں۔ تم اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور میری تابعداری کرو۔ کفر و شرک اور بدکاری کو چھوڑ دو، یاد رکھو! میں فریضہ نبوت کی انجام دہی اور تمھاری خدمت کرنے پر تم سے کوئی اجرت طلب نہیں کرتا۔ حضرت لوط (علیہ السلام) : حضرت لوط (علیہ السلام) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے بھتیجے تھے۔ جنھوں نے عراق کی سرزمین سے ہجرت کرکے غور زنمر کے علاقہ سدوم شہر میں رہائش اختیار کی یہ شہر علاقے کا مرکزی مقام تھا۔ جہاں کے رہنے والے پر لے درجے کے فاسق و فاجر مشرک، کافر، ڈاکو، چور اور انتہائی بد کردارلوگ تھے۔ جنھوں نے دنیا میں بے حیائی کا ایسا عمل اختیار کیا جو اس سے پہلے کسی قوم نے نہیں کیا تھا۔ حضرت لوط نے عقیدہ توحید کی دعوت دینے کے ساتھ اس برائی کو ختم کرنے پر خصوصی توجہ فرمائی۔ آپ نے اپنی قوم کو بار بار فرمایا کہ اے میری قوم ! تم اپنی بیویوں سے صحبت کرنے کی بجائے لڑکوں کے ساتھ بدمعاشی کرتے ہو۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے تمھاری بیویوں کو ازدواجی تعلقات کے لیے پیدا فرمایا ہے لیکن تم ان کی بجائے لونڈے بازی اور ہم جنسی کا ارتکاب کرتے ہو تم اخلاقی حدوں کو توڑ رہے ہو۔ تمھیں اللہ سے ڈر کر اس سے باز آنا چاہیے۔ قوم نے کہا کہ اے لوط ! اگر تو ہمیں اس کام سے روکنے سے باز نہ آیا تو ہم تمھیں اپنے شہر سے نکال باہر کریں گے۔ مسائل ١۔ حضرت لوط (علیہ السلام) حسب و نسب کے لحاظ سے اپنی قوم کے بھائی تھے۔ ٢۔ حضرت لوط (علیہ السلام) نے بار بار اپنی قوم کو اللہ تعالیٰ سے ڈرایا اور فرمایا کہ کفر و شرک اور بدکاری چھوڑ کر میری تابعداری کرو۔ ٣۔ حضرت لوط (علیہ السلام) بھی پہلے انبیاء (علیہ السلام) کی طرح بلامعاوضہ نبوت کا کام کرتے تھے۔ ٤۔ لوط (علیہ السلام) کی قوم لونڈے بازی کا غیر فطری عمل کرتے تھے۔ ٥۔ حضرت لوط (علیہ السلام) نے بار بار اپنی قوم کو اللہ تعالیٰ سے ڈرایا۔ ٦۔ حضرت لوط (علیہ السلام) نبوت کے کام اور لوگوں کی خدمت کرنے کا کوئی معاوضہ نہیں لیتے تھے۔ الشعراء
161 الشعراء
162 الشعراء
163 الشعراء
164 الشعراء
165 الشعراء
166 الشعراء
167 فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوشہ۔ قوم کا جواب : کہنے لگے کہ اے لوط اگر تم باز نہ آؤ گے تو شہر بدر کردیے جاؤ گے۔ اے لوط اگر تم واقعی ہی سچے ہو تو ہم پر اللہ تعالیٰ کا عذاب لے آؤ۔ (العنکبوت : ٢٩) قرآن مجید نے بتلایا ہے کہ جب فرشتے (لڑکوں) کی شکل میں حضرت لوط (علیہ السلام) کے ہاں تشریف لائے۔ تو بدمعاش قوم ان سے بے حیائی کرنے کی نیت سے حضرت لوط (علیہ السلام) کے ہاں دوڑتے ہوئے آئی۔ حضرت لوط (علیہ السلام) نے نہایت عاجزی کے ساتھ انھیں سمجھایا کہ اے میری قوم ! یہ میری بیٹیاں ہیں جو تمھارے لیے حلال ہیں۔ یعنی تم ان کے ساتھ نکاح کرسکتے ہو۔ اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور مہمانوں میں مجھے بے آبرو نہ کرو۔ جب وہ بھاگم بھاگ ایک دوسرے سے آگے بڑھ رہے تھے لوط نے یہ بھی فرمایا کیا تم میں کوئی بھی شریف آدمی نہیں ہے ؟ (ہود : ٧٨) بے حیا کہنے لگے کہ ہمیں تمھاری بیٹیوں سے کیا سروکار، تو جانتا ہے کہ ہم کس ارادہ سے آئے ہیں۔ ان حالات میں لوط کہنے لگے آج کا دن میرے لیے بڑا بھاری ہے۔ کاش تمھارے مقابلے میں میرا کوئی حمایتی ہوتا یا کوئی پناہ گاہ جہاں میں تم سے بچ نکلتا۔ (ہود : ٧٩، ٨٠) ملائکہ اپنے آپ کو ظاہر کرتے ہوئے حضرت لوط (علیہ السلام) کو تسلّی دیتے ہیں : عذاب کے فرشتوں نے حضرت لوط (علیہ السلام) کو تسلی دی کہ اے اللہ کے نبی دل چھوٹا نہ کرو۔ یہ بے حیا تمھاراکچھ نہیں بگاڑ سکیں گے۔ بس آپ اہل ایمان کو لے کر رات کے پچھلے پہر ہجرت کر جائیں۔ ہاں یاد رہے کہ آپ اپنی بیوی کو ساتھ نہیں لے جاسکتے کیونکہ اسے بھی وہی عذاب پہنچنے والا جس میں دوسرے لوگ مبتلا ہوں گے اور یہ عذاب ٹھیک صبح کے وقت نازل ہوگا۔ لوط (علیہ السلام) گھبراہٹ کے عالم میں پوچھتے ہیں کہ صبح کب ہوگی ؟ ملائکہ نے مزید تسلی دیتے ہوئے کہا کہ اے اللہ کے رسول صبح تو ہونے ہی والی ہے چنانچہ صبح کے وقت رب ذوالجلال کا حکم صادر ہوا تو اس دھرتی کو اٹھا کر نیچے پٹخ دیا گیا پھر ان پر مسلسل نامزد پتھروں کی بارش کی گئی۔ (ھود : ٦٩ تا ٨٣) سورۃ القمر : آیت، ٣٧ تا ٣٨ میں فرمایا کہ ظالموں نے لوط (علیہ السلام) کے مہمانوں پر زیادتی کرنا چاہی تو ہم نے ان کی آنکھوں کو مسخ کردیا۔ سورۃ الصافات : آیت، ١٣٧ تا ١٣٨ میں ارشاد ہوا یقیناً لوط (علیہ السلام) مرسلین میں سے تھے جب ہم نے انھیں اور اس کے اہل کو نجات دی ہاں ایک بڑھیا کو پیچھے رہنے دیا پھر ہم نے باقی کو ہلاک کردیا۔ اے اہل مکہ تم صبح شام ان بستیوں سے گزرتے ہو لیکن اس کے باوجود عقل نہیں کرتے۔ (الصّٰفٰت : ١٣٥ تا ١٣٨) (فَلَمَّا جَآءَ اَمْرُنَا جَعَلْنَا عَالِیَھَا سَافِلَھَا وَ اَمْطَرْنَا عَلَیْھَا حِجَارَۃً مِّنْ سِجِّیْلٍ مَّنْضُوْدٍ مُّسَوَّمَۃً عِنْدَ رَبِّکَ وَ مَا ھِیَ مِنَ الظّٰلِمِیْنَ بِبَعِیْدٍ) [ ھود : ٨٢، ٨٣] ” پھر جب ہم نے حکم نافذ کیا تو ہم نے اس بستی کو اوپر نیچے (تہس نہس) کردیا اور تابڑ توڑپکی مٹی کے پتھر برسائے۔ تیرے رب کی طرف سے ہر پتھر پر نشان (نام) لکھا ہوا تھا اور ظالموں سے یہ سزا دور نہیں ہے۔“ دنیا کے موجو دہ جغرافیے میں یہ بحر مردار اردن کی سر زمین میں واقع ہے۔ پچاس میل لمبا، گیارہ میل چوڑا ہے اسکی سطح کا کل رقبہ ٣٥١ مربع میل ہے۔ اسکی زیادہ سے زیادہ گہرائی تیرہ سو فٹ پیمائش کی گئی ہے۔ یہ اسرائیل اور اردن کی سرحد پر واقع ہے۔ اور اس کا کسی بڑے سمندر کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ گویا کہ یہ ایک بہت بڑی جھیل بن چکی ہے۔ اس کی نمکیات اور کیمیائی اجزاء عام سمندروں سے کہیں زیادہ ہے۔ اس کے قریب ترین سمندر بحر روم ہے۔ جدید محققین نے اسی جگہ پر لوط (علیہ السلام) کی قوم کی بستیوں کی نشاندہی کی ہے۔ جو کسی زمانے میں یہاں صدوم عمود کے نام سے بڑے شہر آباد تھے۔ مصرکے محقق عبدالوہاب البخار نے بھرپور دلائل کے ساتھ یہ ثابت کیا ہے کہ عذاب لوط (علیہ السلام) سے پہلے اس جگہ پر کوئی سمندر نہیں تھا۔ اللہ کے عذاب کی وجہ سے اس علاقے کو الٹ دیا گیا تو یہ ایک چھوٹے سے سمندر کی شکل اختیار کر گیا۔“ ١۔ اس کے پانی کی خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس میں نمکیات کا تناسب پچیس فیصد قرار دیا گیا ہے۔ جب کہ دنیا کے تمام سمندروں میں نمکیات کا تناسب چار سے چھ فیصد ریکارڈ کیا گیا ہے۔ ٢۔ اسکے کنارے نہ کوئی درخت ہے اور نہ ہی اس میں کوئی جانور زندہ رہ سکتا ہے حتی کہ سیلاب کے موقع پر دریائے اردن سے آنیوالی مچھلیاں اس میں داخل ہوتے ہی تڑپ تڑپ کر مر جاتی ہیں۔ اہل عرب اسکو بحیرہ لوط بھی کہتے ہیں۔ مسائل ١۔ قوم نے حضرت لوط (علیہ السلام) کو شہر سے نکال دینے کی دھمکی دی۔ ٢۔ حضرت لوط (علیہ السلام) نے اپنے رب سے اپنے اور گھر والوں کے لیے نجات کی دعا کی۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ نے لوط (علیہ السلام) کی بیوی کو ان کی قوم کے ساتھ عذاب میں مبتلا کیا۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ نے قوم لوط پر پتھروں کی بارش فرمائی۔ تفسیر بالقرآن لوط (علیہ السلام) کی قوم کا بد ترین کردار اور انجام : ١۔ ہم جنسی کی ابتدا قوم لوط نے کی۔ (الاعراف : ٨٠) ٢۔ قوم لوط کی تباہی کا سبب اغلام بازی کرنا تھا۔ (الاعراف : ٨١) ٣۔ ان کے پاس ان کی قوم کے لوگ دوڑتے ہوئے آئے اور وہ پہلے ہی بدکاریاں کیا کرتے تھے۔ (ھود : ٧٨) ٤۔ لوط نے کہا کہ کاش میرے پاس طاقت ہوتی یا میں کوئی مضبوط پناہ گاہ پاتا۔ (ھود : ٨٠) ٥۔ ہم نے اس بستی کو الٹ کر اس پر پتھروں کی بارش برسائی۔ (الحجر : ٧٤) ٦۔ ہم نے اوپر والی سطح کو نیچے کردیا اور ہم نے ان پر پتھروں کی بارش برسا دی جو تہہ بہ تہہ تھے خاص نشان لگے ہوئے۔ (ھود : ٨٢) ٧۔ ہم جنسی کی سزا۔ (الاعراف : ٨٤) الشعراء
168 الشعراء
169 الشعراء
170 الشعراء
171 الشعراء
172 الشعراء
173 الشعراء
174 الشعراء
175 الشعراء
176 فہم القرآن ربط کلام : حضرت لوط (علیہ السلام) کے بعد حضرت شعیب (علیہ السلام) اور ان کی قوم کا ذکر، قوم شعیب کفرو شرک میں ملّوث ہونے کے ساتھ لین دین میں بدترین خیانت کرتی تھی۔ حضرت شعیب (علیہ السلام) : حضرت شعیب (علیہ السلام) کو مؤرخین اور سیرت نگاروں نے خطیب الانبیاء کے نام سے یاد کیا ہے۔ آپ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے بیٹے ” مدیان“ کی اولاد سے تعلق رکھتے ہیں جس بنا پر ان کی قوم کو قوم مدین کہا جاتا ہے۔ اس قوم کا سب سے بڑا شہر ان کے قومی نام مدین سے ہی معروف تھا۔ اس لیے قرآن مجید نے انھیں اہل مدین کے نام سے پکارا ہے۔ حضرت شعیب کو ان کی قوم میں ہی رسول مبعوث کیا گیا تاکہ آپ اپنی قوم کو راہ راست پر لانے کی جدوجہد فرمائیں۔ اہل مدین کو قرآن میں اصحاب الایکہ بھی کہا گیا ہے۔ (الشعراء : ١٧٦) مدین کا اصل علاقہ حجاز کے شمال مغرب اور فلسطین کے جنوب میں بحر احمر اور خلیج عقبہ کے کنارے واقع تھا مگر جزیرہ نمائے سینا کے مشرقی ساحل پر بھی اس کا کچھ سلسلہ پھیلا ہوا تھا۔ یہ ایک بڑی تجارت پیشہ قوم تھی۔ قدیم زمانہ میں جو تجارتی شاہراہ بحر احمر کے کنارے یمن سے مکہ اور ینبوع ہوتی ہوئی شام تک جاتی تھی، اور ایک دوسری تجارتی شاہراہ جو عراق سے مصر کی طرف جاتی تھی اس کے عین چورا ہے پر اس قوم کی بستیاں واقع تھیں۔ اسی بنا پر عرب کا بچہ بچہ مدین سے واقف تھا۔ اس کے مٹ جانے کے بعد بھی عرب میں اس کی شہرت اور کھنڈرات کافی حد تک برقرار تھے۔ عربوں کے تجارتی قافلے مصر اور شام کی طرف جاتے ہوئے رات دن ان کے آثار قدیمہ کے درمیان سے گزرتے تھے۔ ” اللہ“ ہی بہتر جانتا ہے کہ حضرت شعیب (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو کس کس انداز میں کتنا عرصہ سمجھایا ہوگا۔ لیکن قوم سدھرنے کی بجائے بگڑتی ہی چلی گئی۔ حتی کہ انہوں نے شعیب (علیہ السلام) سے کہا کہ اے شعیب کیا تیری نمازیں تجھے یہی کہتی ہیں کہ ہم اپنے باپ دادا کے طریقۂ عبادت کو چھوڑ دیں اور اپنے کاروبار کو اپنے طریقہ کے مطابق نہ کریں ؟ ھود، آیت : ٨٧۔ تم پر اے شعیب (علیہ السلام) کسی نے جادو کردیا ہے۔ (الشعراء : ١٨٥) اے شعیب! تیری اکثر باتیں ہماری سمجھ میں نہیں آتیں اور ہم تمھیں اپنے آپ میں کمزور دیکھتے ہیں، اگر تیری برادری نہ ہوتی تو ہم تجھے پتھر مار مار کر رجم کردیتے تو ہمارا کچھ نہ بگاڑ سکتا۔ (ھود، آیت : ٩١) حضرت شعیب (علیہ السلام) کا ارشاد : میری قوم کیا تم اللہ تعالیٰ سے میری برادری کو بڑا سمجھتے ہو۔ تم اللہ کی نافرمانی سے باز نہیں آتے۔ تم اپنا کام کرو اور مجھے اپنا کام کرنے دو۔ عنقریب تمھیں معلوم ہوجائے گا کہ جھوٹا کون ہے اور کس پر ذلیل کردینے والا عذاب نازل ہوتا ہے۔ (ھود : ٩٠ تا ٩٥) قوم حضرت شعیب (علیہ السلام) سے عذاب کا مطالبہ کرتی ہے : اے شعیب تو ہمارے جیسا انسان ہے اور ہم تجھے کذّاب سمجھتے ہیں اگر تو سچا ہے تو ہم پر آسمان کا ایک ٹکڑا گرادے۔ (الشعراء : ١٨٥ تا ١٨٧) (قَال النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اکْتَالُوا حَتَّی تَسْتَوْفُوا) [ رواہ البخاری : باب الکیل علی البائع والمعطی] ” نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب ناپ تول کرو تو اسے پورا کرو۔“ ماپ تول میں کمی کرنے کی سزا : (مَا طَفِفَ قَوْمُ الْمِیْزَانَ إلَّا أخَذَہُمُ اللّٰہُ بالسِّنِیْنَ) [ السلسلۃ الصحیحۃ: ١٠٧] ” جو بھی قوم تولنے میں کمی کرتی ہے اللہ تعالیٰ ان پر قحط سالی مسلط فرما دیتا ہے۔“ (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَسْعُوْدٍ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَنْ غَشَّنَا فَلَیْسَ مِنَّا وَالْمَکْرُ وَالْخِدَاعُ فِیْ النَّارِ) [ اخرجہ ابن حبان : ھذاحدیث حسن ] ” عبداللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس نے دھوکہ کیا وہ ہم میں سے نہیں، مکر و فریب کرنے اور دھوکہ دینے والا آگ میں جائے گا۔“ مسائل ١۔ قوم شعیب ناپ تول میں کمی بیشی کیا کرتے تھے۔ ٢۔ حضرت شعیب (علیہ السلام) اپنی قوم کو ماپ تول پورا کرنے کا حکم دیتے تھے۔ ٣۔ انسان کو ہر حال میں خالقِ کائنات سے ڈرتے رہنا چاہیے۔ ٤۔ پہلوں اور بعد والوں کو اللہ ہی پیدا کرنے والا ہے۔ تفسیر بالقرآن ناپ تول میں کمی نہیں کرنی چاہیے : ١۔ ماپ تول کو پورا کرو اور لوگوں کو چیزیں کم نہ دو۔ (الاعراف : ٨٥) ٢۔ ماپ تول کو انصاف سے پورا کرو۔ (الانعام : ٥٢) ٣۔ ماپ، تول پورا رکھنے کا حکم۔ (الاسراء : ٣٥) ٤۔ ماپ تول میں کمی نہ کرو۔ (ھود : ٨٤) ٥۔ ماپ کو پورا کرو اور کمی کرنے والے نہ بنو۔ (الشعراء : ١٨١) ٦۔ ماپ تول میں کمی کرنے والوں کے لیے ہلاکت ہے۔ ( المطففین : ١) الشعراء
177 الشعراء
178 الشعراء
179 الشعراء
180 الشعراء
181 الشعراء
182 الشعراء
183 الشعراء
184 الشعراء
185 فہم القرآن ربط کلام : قوم کا حضرت شعیب (علیہ السلام) کو جواب اور عذاب کا مطالبہ۔ شعیب (علیہ السلام) کی قوم نے وہی زبان اور انداز اختیار کیا جو قوم نوح، قوم ثمود نے اختیار کیا تھا۔ انھوں نے بھی اپنے انبیاء کو سحر زدہ قرار دیا اور عذاب لانے کا مطالبہ کیا یہی انداز قوم شعیب نے اختیار کیا اور کہا اے شعیب (علیہ السلام) ! تجھ پر جادو ہوگیا ہے اس وجہ سے بہکی بہکی باتیں کرتا ہے۔ جہاں تک تیرے نبی ہونے کا دعویٰ ہے تو ہمارے جیسا انسان ہے۔ تجھ میں کوئی ایسی خوبی نہیں دکھائی دیتی جس بنیاد پر تجھے نبی تسلیم کرلیا جائے ہم تجھے کذّاب انسان سمجھتے ہیں۔ قوم شعیب سمجھتی تھی کہ نبی بشر نہیں ہوسکتا نبی تو کوئی نورانی مخلوق ہونا چاہیے تھا انھوں نے حضرت شعیب (علیہ السلام) سے یہ بھی مطالبہ کیا اگر تو دعویٰ نبوت میں سچا ہے تو ہم پر آسمان کا ایک ٹکڑا گرا دے۔ حضرت شعیب (علیہ السلام) نے فرمایا یہ تو میرا رب جانتا ہے کہ اس نے کس وقت تک تمھیں ڈھیل دینا ہے اگر اس نے تمھیں عذاب میں گرفتار کرنا ہے تو وہ کس قسم کا عذاب ہوگا۔ قوم شعیب پر اللہ تعالیٰ کا عذاب : قوم نے حضرت شعیب (علیہ السلام) کو جھٹلایا تو ان پر بلاشبہ عذاب عظیم نازل ہوا۔ ( الشعراء : ١٨٩) ظالموں کو ایک کڑک نے آلیا وہ اپنے گھروں میں اوندھے منہ پڑے ہوئے تھے۔ ان کے گھر ایسے ویران ہوئے جیسے ان میں کوئی بسا ہی نہ ہو۔ یاد رکھو اہل مدین پر ایسی ہی پھٹکار ہوئی جس طرح قوم ثمود پر پھٹکارکی گئی تھی۔ مفسرین نے لکھا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قوم ثمود پر سات راتیں اور آٹھ دن گرمی اور حبس کا ایسا عذاب مسلط کیا کہ وہ نہ تہہ خانوں میں آرام کرسکتے تھے اور نہ ہی کسی درخت کے سائے تلے ٹھہر سکتے تھے۔ انتہائی کرب کے عالم میں اپنے گھروں سے باہر نکلے تو ایک بادل ان پر سایہ افگن ہوا۔ جب سب کے سب بادل تلے جمع ہوگئے تو بادل سے آگ کے شعلے برسنے لگے۔ زمین زلزلہ سے لرزنے لگی اور پھر ایسی دھماکہ خیز چنگھاڑ گونجی کہ ان کے کلیجے پھٹ گئے اور اوندھے منہ تڑپ تڑپ کر ذلیل ہو کر مرے۔ یہاں قوم شعیب کے واقعہ کا اختتام بھی انہی الفاظ سے ہو رہا ہے جن الفاظ سے پہلی چھ قوموں کا ہوا ہے۔ گویا کہ سات انبیاء ( علیہ السلام) کی جدوجہد اور ان کی اقوام کا ردِّ عمل اور انجام کا ذکر کرنے کے بعد یہ ارشاد ہوا کہ اے پیغمبر! آپ کا رب ہر بات پر غالب اور بڑارحم کرنے والا ہے۔ سمجھانا مقصود یہ ہے کہ پہلے انبیاء کرام (علیہ السلام) کے ساتھ بھی ان کی اقوام نے معاندانہ رویہ اختیار کیا جس کی وجہ سے انھیں نیست و نابود کردیا گیا۔ مال، افرادی قوت، صنعت و حرفت، چوپائے اور بھیڑبکریاں بڑے بڑے محلات اور سیاسی اقتدار، دنیا کی شان و شوکت اللہ کے غضب کے سامنے نہ ٹھہر سکے۔ ا نھیں بھی اللہ تعالیٰ نے وقت معین تک مہلت دے رکھی اگر آپ کی قوم کو ان کے جرائم کے باوجود مہلت دی جارہی ہے تو اس کا سبب یہ ہے کہ آپ کا رب نہایت ہی رحیم و کریم ہے جس وجہ سے وہ چاہتا ہے کہ لوگوں کو بار بار موقعہ دیا جائے تاکہ توبہ و استغفار کرسکیں۔ قوم شعیب کے جرائم : ١۔ اہل مدین بھی اپنے پیش رو اقوام کی طرح شک جیسے غلیظ اور بدترین عقیدہ میں مبتلا تھے۔ شرک وہ بیماری ہے ام الامراض کہنا چاہیے۔ قوم مدین میں وہ تمام اخلاقی اور اعتقادی بیماریوں نے جنم لیا، جن میں قوم نوح سے لے کر قوم لوظ کے لوگ ملوث چلے آرہے تھے۔ ام الامراض یعنی شرک کی جڑ کاٹنے کے لیے حضرت شعیب (علیہ السلام) اپنی دعوت کا آغاز دعوت توحید سے کرتے ہیں۔ ( الاعراف : ٨٥) ٢۔ قوم مدین نہ صرف عقیدہ کی خیانت میں مرتکب ہوئی بلکہ گاہک سے پوری قیمت وصول کرنے کے باوجود ماپ تول میں کمی بیشی کرتے تھے۔ ادائیگی کے وقت چیز مقررہ وزن اور پیمائش سے کم دیتے لیتے ہوئے طے شدہ وزن سے زیادہ لینے کی مجرمانہ کوشش کرتے۔ ( الاعراف : ٨٥) ٣۔ یہ لوگ پیشہ ور ڈاکو تھے ان کے علاقے سے گزرنے والے مسافروں کی عزت وآبرو اور مال وجان محفوظ نہیں تھے۔ ( الاعراف : ٨٦، ہود : ٨٥) ٤۔ حضرت شعیب (علیہ السلام) کی زبردست مخالفت اور نافرمانی کرنے والے تھے۔ ( ہود : ٨٩) مسائل ١۔ قوم شعیب نے حضرت شعیب (علیہ السلام) کو سحرزدہ شخص قرار دیا۔ ٢۔ قوم شعیب نے حضرت شعیب (علیہ السلام) کے بشر ہونے کی وجہ سے ان کی نبوت کا انکار کیا۔ ٣۔ حضرت شعیب (علیہ السلام) سے قوم نے آسمان کا ٹکڑا گرادینے کا مطالبہ کیا۔ تفسیر بالقرآن انبیاء کرام (علیہ السلام) پر ان کی اقوام کے الزامات : ١۔ اگر ہم ان کے لیے آسمان سے کوئی دروازہ کھول دیں اور یہ اس میں سے چڑھ جائیں تو کہیں گے ہماری آنکھیں بند کردی گئی ہیں۔ بلکہ ہم پر جادو کردیا گیا ہے۔ (الحجر : ١٤۔ ١٥) ٢۔ آل فرعون نے موسیٰ (علیہ السلام) پر جادو کا الزام لگایا۔ (القصص : ٣٦) ٣۔ کفار تمام انبیاء کو جادوگر اور دیوانہ قرار دیتے تھے۔ (الذاریات : ٥٢) ٤۔ کفار نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جادوگر قرار دیا۔ (الصف : ٦) ٥۔ کفار نے قرآن کو جادو قرار دیا۔ (سبا : ٤٣) ٦۔ کفار نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سحر زدہ یعنی جس پر جادو کردیا گیا ہو بھی قرار دیا۔ (الفرقان : ٨) ٧۔ حضرت نوح کو ان کی قوم نے کہا کہ ہم تمہیں جھوٹا تصور کرتے ہیں۔ (ہود : ٢٧) ٨۔ کفار آپ کو شاعر قرار دیتے تھے۔ (الطور : ٣٠) الشعراء
186 الشعراء
187 الشعراء
188 الشعراء
189 الشعراء
190 الشعراء
191 الشعراء
192 فہم القرآن ربط کلام : اس سے پہلے سات انبیاء کرام (علیہ السلام) اور ان کی اقوام کے انجام کا ذکر کیا گیا ہے۔ ساتوں اقوام کا بنیادی جرم یہ تھا کہ انھوں نے اپنے انبیاء کرام (علیہ السلام) کی تکذیب کی جس کے سبب انھیں تباہی کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ سرورِ دو عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مخالفین کو سات قوموں کی تباہی کے واقعات سنانے کے بعد سمجھایا گیا کہ تم محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت اور آپ پر نازل ہونے والے قرآن مجید کی تکذیب کرتے ہو حالانکہ اس قرآن کو رب العالمین نے جبرئیل امین کے ذریعے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قلب اطہر پر نازل فرمایا ہے جو فصیح عربی زبان میں ہے۔ یقیناً اس نبی اور قرآن مجید کا ذکر پہلی کتابوں میں موجود ہے۔ اس کے نزول کا مقصد یہ ہے تاکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) برے لوگوں کو ان کے انجام سے ڈرائیں۔ اگر اہل مکہ قرآن مجید کا انکار کرتے ہیں تو یہ بنی اسرائیل کے منصف مزاج علماء سے پوچھ لیں۔ کیا قرآن مجید اور صاحب قرآن کا تذکرہ توراۃ، انجیل اور زبور میں موجود نہیں ہے ؟ یقیناً اہل کتاب کے حق گو علماء اس کی تصدیق کرتے ہیں اور کریں گے کہ واقعی قرآن مجید اور صاحب قرآن کا تذکرہ تورات، انجیل اور زبور میں پایا جاتا ہے۔ علماء بنی اسرائیل سے بالخصوص وہ حضرات مقصود ہیں جو سرور دو عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دور میں آپ پر ایمان لائے۔ یقیناً بنی اسرائیل میں ایسے اہل علم ہر دور میں موجود رہیں گے جو قرآن مجید کی تائید اور تصدیق کرتے رہیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کو ملائکہ کے سردار جبرئیل امین (علیہ السلام) کے ذریعے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دل پر نازل فرمایا۔ دل پر اس لیے اتارا گیا کہ جو بات دل پر اتر جائے دل اس کی تصدیق کرتا ہے اور ہمیشہ کے لیے وہ بات دل پر ثبت ہوجاتی ہے۔ جو بات انسان کے دل پر ثبت ہوجائے انسان اسی کے مطابق سوچتا، بولتا اور عمل کرتا ہے یہی وجہ ہے۔ کہ اہل علم نے سرور دو عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو قرآن مجسم کہا ہے اس بات کی تائید ام المومنین حضرت عائشہ (رض) کے فرمان سے بھی ہوتی ہے کہ جب ایک صحابی نے ان سے سوال کیا کہ سرور دو عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اخلاق کیسا تھا ؟ اُم المومنین (رض) نے فرمایا کیا آپ نے قرآن مجید نہیں پڑھا ؟ سائل نے کہا کیوں نہیں قرآن مجید کی تلاوت کرتا ہوں۔ اُم المومنین (رض) نے فرمایا جو کچھ قرآن مجید میں موجود ہے وہی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اخلاق تھا۔ (رواہ احمد : مسند سیدہ عائشہ (رض) جہاں تک آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر وحی نازل ہونے کی کیفیت ہے اس کی کئی صورتیں تھیں۔ جن میں سے ایک صورت وحی جلی کی ہے یہ وحی کی سب سے معروف صورت ہے۔ قرآن کریم سارے کا سارا وحی جلی کی صورت میں نازل ہوا ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ساری وحی قرآن کریم میں محصور ہے بلکہ کئی احادیث کے الفاظ بھی وحی کے ذریعے آپ پر نازل کیے گئے۔ وحی جلی کی صورت میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا تعلق عالم دنیا سے کٹ کر عالم بالا سے جڑ جاتا تھا۔ ” حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ میں نے آپ سے پوچھا یا رسول اللہ آپ پر وحی کیسے آتی ہے ؟ آپ نے فرمایا کہ کبھی تو ایسے آتی ہے جیسے گھنٹی کی آواز ہوتی ہے اور یہ وحی مجھ پر بہت گراں گزرتی ہے جب فرشتے کا کہا ہوا مجھے یاد ہوجاتا ہے تو یہ حالت ختم ہوجاتی ہے اور کبھی فرشتہ انسان کی صورت میں میرے پاس آتا ہے میرے سامنے پڑھتا ہے میں اس کا پڑھا ہوا یاد کرلیتا ہوں۔ حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ میں نے آپ کو اس حال میں دیکھا کہ سخت سردی کے دن میں آپ پر وحی نازل ہوتی جب ختم ہوجاتی تو آپ کی پیشانی سے پسینہ بہہ رہا ہوتا۔“ [ رواہ البخاری : باب کیف بدء الوحی] مسائل ١۔ قرآن مجید رب العالمین کی طرف سے جبرئیل امین (علیہ السلام) کے ذریعے سرور دو عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قلب اطہر پر نازل کیا گیا ہے۔ ٢۔ قرآن مجید فصیح عربی زبان میں نازل ہوا ہے۔ ٣۔ اہل کتاب کے منصف مزاج علماء ہر دور میں قرآن مجید کی تصدیق کرتے رہے ہیں اور کرتے رہیں گے۔ تفسیر بالقرآن حضرت جبرائیل امین (علیہ السلام) کے نام اور القاب : ١۔ قرآن مجید کو روح الامین (جبریل) نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اتارا ہے۔ (الشعراء : ١٩٣) ٢۔ روح الامین ( جبرائیل (علیہ السلام) ملائکہ کے سردار ہیں۔ (التکویر : ٢١) ٣۔ شب قدر کی رات فرشتے اور جبریل اپنے پروردگار کے حکم سے اترتے ہیں۔ (القدر : ٤) ٤۔ اللہ تعالیٰ نے عیسیٰ (علیہ السلام) کی روح القدس ( جبرائیل (علیہ السلام) سے مدد فرمائی۔ (البقرۃ: ٨٧) الشعراء
193 الشعراء
194 الشعراء
195 الشعراء
196 الشعراء
197 الشعراء
198 فہم القرآن ربط کلام : قرآن مجید من جانب اللہ ہونے کے مزید دلائل۔ اہل مکہ ذہنی بوکھلاہٹ کا شکار ہونے کی وجہ سے قرآن مجید کے بارے میں ایک سے ایک بڑھ کر بہکی ہوئی بات کرتے تھے۔ ایک موقعہ پر اعتراض کرتے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کسی عربی سے سیکھ کر پہلے لوگوں کے قصے کہانیاں پڑھ کر ہمیں سنائے دیتا ہے۔ (النحل : ١٠٣) دوسرے موقع پر خود مطالبہ کرتے یہ قرآن کسی عجمی پر نازل ہونا چاہیے تھا۔ یہ مطالبہ بذات خود ان کی حماقت کی دلیل تھا کیونکہ قرآن مجید عجمی زبان میں ہوتا تو اس کے سمجھنے میں انھیں کس قدر دشواری کا سامنا کرنا پڑتا بالخصوص نزول قرآن کے وقت چند لوگوں کو چھوڑ کر باقی عرب اَن پڑھ تھے۔ یہاں ان کی بات کا یہ جواب دیا گیا اگر کسی عجمی پر قرآن نازل کیا جاتا اور وہ انھیں قرآن پڑھ کر سناتا تو پھر بھی یہ ایمان لانے والے نہیں تھے۔ دراصل قرآن مجید کا انکار کرنے والے مجرم ہیں یہ قرآن مجید پر اس وقت تک ایمان نہیں لائیں گے جب تک اذّیت ناک عذاب میں مبتلا نہ ہوجائیں۔ قرآن مجید کے لیے ” سَلَکْنٰہُ“ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ جس کا دوسرا مفہوم یہ بھی لیا گیا ہے کہ قرآن مجید اپنی تاثیر کے اعتبار سے مجرموں کے دل میں گھر کرچکا تھا۔ جس وجہ سے وہ علیحدگی میں اس کی تصدیق کرتے لیکن لوگوں کے سامنے اس کا انکار کرتے تھے۔ یعنی کلام پاک کی صداقت تمہارے رگ وپے میں سرایت کرگئی ہے۔ تمہارے دل مان چکے ہیں کہ یہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے بعض اہل علم نے اس کا یہ بھی مفہوم لیا ہے کہ قرآن کی مخالفت کفار کے دل میں رچ بس گئی ہے۔ (وَحَدّثَنِی مُحَمّدُ بْنُ مُسْلِمِ بْنِ شِہَابٍ الزّہْرِیّ أَنّہُ حُدّثَ أَنّ أَبَا سُفْیَانَ بْنَ حَرْبٍ، وَأَبَا جَہْلِ بْنَ ہِشَامٍ، وَالْأَخْنَسَ بْنَ شَرِیقِ بْنِ عَمْرِو بْنِ وَہْبٍ الثّقَفِیّ، حَلِیفَ بَنِی زُہْرَۃَ خَرَجُوا لَیْلَۃً لِیَسْتَمِعُوا مِنْ رَسُول اللّہِ صَلّی اللّہُ عَلَیْہِ وَسَلّمَ وَہُوَ یُصَلّی مِنْ اللّیْلِ فِی بَیْتِہِ فَأَخَذَ کُلّ رَجُلٍ مِنْہُمْ مَجْلِسًا یَسْتَمِعُ فیہِ وَکُلّ لَا یَعْلَمُ بِمَکَانِ صَاحِبِہِ فَبَاتُوا یَسْتَمِعُونَ لَہُ حَتّی إذَا طَلَعَ الْفَجْرُ تَفَرّقُوافَجَمَعَہُمْ الطّرِیقُ فَتَلَاوَمُوا، وَقَالَ بَعْضُہُمْ لِبَعْضِ لَا تَعُودُوا، فَلَوْ رَآکُمْ بَعْضُ سُفَہَاءِکُمْ لَأَوْقَعْتُمْ فِی نَفْسِہِ شَیْءًا، ثُمّ انْصَرَفُوا حَتّی إذَا کَانَتْ اللّیْلَۃُ الثّانِیَۃُ عَادَ کُلّ رَجُلٍ مِنْہُمْ إلَی مَجْلِسِہِ فَبَاتُوا یَسْتَمِعُونَ لَہُ حَتّی إذَا طَلَعَ الْفَجْرُ تَفَرّقُوا، فَجَمَعَہُمْ الطّرِیقُ فَقَالَ بَعْضُہُمْ لِبَعْضِ مِثْلَ مَا قَالُوا أَوّلَ مَرّۃٍ ثُمّ انْصَرَفُوا حَتّی إذَا کَانَتْ اللّیْلَۃُ الثّالِثَۃُ أَخَذَ کُلّ رَجُلٍ مِنْہُمْ مَجْلِسَہُ فَبَاتُوا یَسْتَمِعُونَ لَہُ حَتّی إذَا طَلَعَ الْفَجْرُ تَفَرّقُوا، فَجَمَعَہُمْ الطّرِیقُ فَقَالَ بَعْضُہُمْ لِبَعْضِ لَا نَبْرَحُ حَتّی نَتَعَاہَدَ أَلَا نَعُودَ فَتَعَاہَدُوا عَلَی ذَلِکَ ثُمّ تَفَرّقُوا) [ سیرت ابن ہشام : قِصّۃُ اسْتِمَاعِ قُرَیْشٍ إلَی قِرَاءَ ۃِ النّبِیّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ] ” محمد بن مسلم شہاب زہری بیان کرتے ہیں ان تک یہ بات پہنچی ہے کہ ابو سفیان بن حرب، ابو جہل بن ہشام، اخنس بن شریق بن عمر بن وہب الثقفی، حلیف بن زہرہ ایک رات رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا قرآن سننے کے لیے نکلے اور آپ رات کو اپنے گھر میں نماز پڑھا کرتے تھے۔ ان میں سے ہر ایک چھپ کر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا قرآن سننے لگا ان میں کوئی دوسرے کو نہیں جانتا تھا۔ وہ رات بھر قرآن سنتے رہے جب وہ واپس ہوئے تو ان کی آپس میں ملاقات ہوگئی۔ انہوں نے ایک دوسرے کو ملامت کی اور عہد کیا کہ آئندہ ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ اگر تمہارے بیوقوفوں نے تمہیں دیکھ لیا تو ان کے دل میں خرابی واقع ہوگی۔ پھر وہ وہاں سے چل دیے جب دوسری رات ہوئی تو کل کی طرح ہر بندہ اپنی اپنی جگہ پر قرآن سننے کے لیے موجود تھا جب فجر طلوع ہوئی تو جاتے ہوئے راستے میں ان کی پھر ملاقات ہوگئی تو انہوں نے آج بھی ایک دوسرے کو ملامت کرتے ہوئے وہی باتیں کہیں جو پہلے دن کہہ چکے تھے پھر وہاں سے چل دیے جب تیسری رات ہوئی تو ان میں سے ہر ایک قرآن سننے کے لیے پھر اسی جگہ آ پہنچا جب فجر طلوع ہوئی تو سب نے اپنے گھر کی راہ لی راستے میں ان کی پھر ملاقات ہوگئی تو بعض نے بعض کو کہا ہم قرآن سننے سے باز نہیں آسکتے یہاں تک کہ ہم آپس میں معاہدہ کرلیں کہ ہم دوبارہ کبھی قرآن نہیں سنیں گے۔ تو انہوں نے آپس میں معاہدہ کیا اور گھر کی راہ لی۔ مسائل ١۔ ہٹ دھرم آدمی کسی صورت حقائق کا اقرار نہیں کرتا۔ ٢۔ قرآن مجید کا انکار کرنے والے لوگ اس پر بیہودہ قسم کے اعتراض اٹھایا کرتے ہیں۔ ٣۔ قرآن مجید کے منکر اذیت ناک عذاب دیکھے بغیر قرآن کی تصدیق نہیں کرتے۔ الشعراء
199 الشعراء
200 الشعراء
201 الشعراء
202 فہم القرآن ربط کلام : منکرین قرآن جس عذاب کا انتظار یا مطالبہ کرتے ہیں وہ عنقریب ان پر نازل ہوگا۔ منکرین قرآن ایمان لانے کی بجائے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ مطالبہ کرتے کہ جس عذاب سے ہمیں ڈراتے رہتے ہو وہ اب تک ہم پر کیوں نازل نہیں ہوا؟ اس کے انھیں کئی جواب دیئے گئے ہیں جن میں سے ایک جواب یہ بھی ہے کہ جس عذاب کا تم مطالبہ کرتے ہو وہ اچانک اور ایسے وقت تم پر نازل ہوگا جس کا تم تصور بھی نہیں کرسکتے۔ اس وقت تمھاری کیفیت یہ ہوگی کہ تم پکار پکار کر کہہ رہے ہو گے کہ کاش ہمیں مہلت دی گئی ہوتی۔ کیا اس عذاب کے بارے میں تم جلدی کا مظاہرہ کرتے ہو ؟ اے نبی ! غور فرمائیں کہ اگر ہم انھیں مدت مدید مہلت دیئے جائیں اور پھر اپنے وعدے کے مطابق ان پر عذاب لے آئیں تو جس دنیا کے مال و اسباب اور ترقی پر یہ ناز کرتے ہیں وہ انھیں عذاب سے بچا نہیں سکتے۔ ہم نے کسی بستی کو اس وقت تک عذاب میں مبتلا نہیں کیا جب تک ان کے پاس ڈرانے والے نہیں بھیجے۔ ڈرانے والوں سے مراد انبیاء کرام (علیہ السلام) ہیں یا پھر ان کے جانشین۔ حقیقت یہ ہے کہ قرآن مجید کی ہدایات اور اس میں بیان ہونے والے اقوام کے واقعات۔ لوگوں کے لیے نصیحت ہیں لیکن پھر بھی لوگ باطل عقیدہ اور برے کاموں سے باز نہیں آتے جس کی وجہ سے انھیں تباہی کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کسی پر ظلم نہیں کرتا لوگ خود ہی اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں۔ مسائل ١۔ اللہ کا عذاب اچانک نازل ہوتا ہے۔ ٢۔ جب اللہ تعالیٰ کا عذاب نازل ہوتا ہے تو لوگ مہلت کی تمنا کرتے ہیں۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ کے عذاب کے مقابلہ میں دنیا کی ترقی اور مال و اسباب کام نہیں دیتے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ کسی پر ظلم نہیں کرتا لوگ اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن قرآن مجید نصیحت کا سرچشمہ ہے : ١۔ قرآن مجید متقین کے لیے نصیحت ہے۔ ( النور : ٣٤) ٢۔ قرآن مومنین کے لیے رحمت اور نصیحت ہے۔ ( العنکبوت : ٥١) ٣۔ قرآن پاک نصیحت کا منبع ہے۔ ( آل عمران : ٥٨) ٤۔ قرآن مجید تمام جہانوں کے لیے نصیحت ہے۔ ( یوسف : ١٠٤) ٥۔ قرآن مجید نصیحت آمیز کتاب ہے۔ ( ص : ١) ٦۔ قرآن مجید کے بیان کردہ واقعات سچے ہیں ان میں اہل ایمان کے لیے نصیحت ہے۔ (ھود : ١٢٠) ٧۔ قرآن مجید لوگوں کے لیے ہدایت اور نصیحت ہے۔ (آل عمران : ١٣٨) ٨۔ ہم نے قرآن میں طرح طرح کے دلائل دیے ہیں تاکہ لوگ نصیحت حاصل کریں۔ (بنی اسرائیل : ٤١) الشعراء
203 الشعراء
204 الشعراء
205 الشعراء
206 الشعراء
207 الشعراء
208 الشعراء
209 الشعراء
210 فہم القرآن ربط کلام : قرآن مجید کے بارے میں کفار کی ہرزہ سرائی اور اس کا جواب۔ کفار ہرزہ سرائی کرتے ہوئے رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر یہ الزام بھی لگاتے کہ اس پر فرشتہ نازل ہونے کی بجائے کوئی شیطان مسلط ہوچکا ہے۔ جو اس کے دل میں مختلف قسم کے خیالات ڈالتا ہے۔ جسے یہ خاص انداز میں ہمارے سامنے بیان کرتا ہے۔ اس الزام کی تردید کرتے ہوئے یہ دلیل دی گئی ہے کہ نہ آپ پر شیاطین کوئی بات نازل کرتے ہیں اور نہ ہی شیطان ایسا کرسکتے ہیں اور نہ ان میں ایسا کرنے کی طاقت اور صلاحیت ہے۔ وحی کا سلسلہ اس قدر مضبوط اور محفوظ ہے کہ شیطان اس سے کو سوں میل دور رکھے جاتے ہیں۔ شیطان کا پہلا کام یہ ہوتا ہے کہ وہ لوگوں سے اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرواتا ہے۔ جبکہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت کا لب لباب اور مرکزی پیغام ہی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو کسی انداز میں بھی شریک نہ بنایا جائے کیونکہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک شرک ایسا جرم ہے اگر نبی بھی ” اللہ“ کے ساتھ کسی کو شریک بنائے یا کسی کو اس کی عبادت میں شریک کرے تو وہ بھی اللہ کے عذاب سے نہیں بچ سکتا۔ وحی کی حفاظت کا انتظام اور جنّات کا اعتراف : کیونکہ شیطان جنسی اعتبار سے جنات میں سے ہیں۔ اس لیے سورۃ جن میں انہی کے زبان سے اس بات کی وضاحت پیش کی گئی ہے۔ ” یہ کہ ہم نے آسمان کو ٹٹولا تو اسے سخت پہر داروں اور شہابوں سے بھرا ہوا پایا۔ ہم سننے کے لیے آسمان کے کچھ ٹھکانوں میں بیٹھا کرتے تھے مگر اب جو سننے کو کان لگائے تو وہ اپنے لیے ایک شہاب کو تاک لگائے ہوئے پاتا ہے۔“ (جن : ٨۔ ٩) شرک کی سنگینی : (ذٰلِکَ ھُدَی اللّٰہِ یَھْدِیْ بِہٖ مَنْ یَّشَآءُ مِنْ عِبَادِہٖ وَ لَوْ اَشْرَکُوْا لَحَبِطَ عَنْھُمْ مَّا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ) [ الانعام : ٨٨] ” یہ اللہ کی ہدایت ہے وہ اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا ہے اس پر چلاتا ہے اور اگر یہ لوگ شریک بناتے تو جو عمل وہ کیا کرتے تھے ان کے ضائع ہوجاتے۔“ (ہُوَ الْحَیُّ لَآ اِِلٰہَ اِِلَّا ہُوَ فَادْعُوْہُ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ اَلْحَمْدُ لِلَّہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن) [ الزمر : ٦٥] ” وہ زندہ ہے اس کے سوا کوئی الٰہ نہیں سو خالصتاً اسی کو پکارو تمام تعریفیں جہانوں کے رب کے لیے ہیں۔“ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو پکارنے کا گناہ اور سزا : ١۔ شرک سے تمام اعمال ضائع ہوجاتے ہیں۔ (الزمر : ٦٥) ٢۔ شرک کرنے والا راہ راست سے بھٹک جاتا ہے۔ (النساء : ١١٦) ٣۔ اللہ مشرک کو معاف نہیں کرے گا اس کے علاوہ جسے چاہے گا معاف کر دے گا۔ (النساء : ٤٨) ٤۔ اٹھارہ انبیاء کے ذکر کے بعد ارشاد ہوا۔ اگر یہ بھی شرک کرتے تو ان کے اعمال ضائع کر دئیے جاتے۔ ( الانعام : ٨٤ تا ٨٨) ٥ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اگر آپ بھی شرک کریں گے تو آپ کے اعمال بھی ضائع ہوجائیں گے۔ ( الزمر : ٦٥) ٦۔ اگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) شرک کریں تو آپ کو بھی عذاب ہوگا۔ ( الشعراء : ٢١٣) ٧۔ جو شخص اللہ کے ساتھ شرک کرتا ہے گویا کہ وہ آسمان سے گرپڑا۔ (الحج : ٣١) ٨۔ شرک کرنے والے پر جنت حرام ہے۔ (المائدۃ : ٧٢) ٩۔ مشرکین کا ٹھکانہ جہنم ہے۔ (ابراہیم : ٣٠) ١٠۔ اللہ اور اس کا رسول مشرکوں سے بری الذّمہ ہے۔ (التوبۃ: ٣) ١١۔ شرک کرنے والا بہت بڑی گمراہی میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ ( النساء : ١١٦) الشعراء
211 الشعراء
212 الشعراء
213 الشعراء
214 فہم القرآن ربط کلام : نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم ہوا کہ وہ اپنے عزیز و اقرباء کو توحید کی دعوت دیں، اور شرک سے ڈرائیں۔ نبوت کا پہلا کام اور پیغام لوگوں کو اللہ کی خالص عبادت کرنے کی دعوت دینا ہے۔ دعوت کا فطری اور صحیح طریقہ ہے کہ داعی عقیدہ توحید پر ایمان رکھتے ہوئے سب سے پہلے اپنے عزیز و اقرباء کو عقیدہ توحید کی دعوت دے اور جو اس دعوت کو قبول کرے ان کے ساتھ شفقت اور محبت کے ساتھ پیش آئے۔ اس حکم کی اتباع میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے عزیز و اقرباء کو بار بار اس بات کی دعوت دی اور جو لوگ آپ پر ایمان لائے ان سے آپ خصوصی طور پر شفقت و مہربانی فرمایا کرتے تھے۔ آپ کی شفقت و مہربانی کی قرآن مجید نے اس طرح ترجمانی فرمائی ہے۔ ” یقیناً تمھارے پاس تم میں سے ایک رسول آیا ہے جسے تمہاری تکلیف بہت شاق گزرتی ہے، تمھاری بھلائی کے بارے میں بہت چاہت رکھنے والا ہے، ایمان والوں پر بہت شفقت کرنے والا اور نہایت مہربان ہے۔“ (التوبہ : ١٢٨) ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو آپ کھڑے ہو کر فرمانے لگے۔ اے قریش کے لوگوتم اپنی جانیں بچا لو۔ میں اللہ کے سامنے کسی کے کام نہ آسکوں گا۔ اے بنو عبدمناف میں اللہ کے سامنے تمہارے کچھ کام نہ آسکوں گا۔ اے میری پھوپھی صفیہ میں اللہ کے سامنے تمہارے کسی کام نہ آسکوں گا۔ اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بیٹی فاطمہ میرے مال سے جو چاہو مانگ لو لیکن اللہ کے سامنے میں تمہارے کسی کام نہ آؤں گا۔“ [ رواہ البخاری : کتاب الوصایا، باب ھل یدخل النساء والولد فی الأقارب] تفسیر بالقرآن دعوت کا فطری انداز : ١۔ اے ایمان والو! اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو جہنم کی آگ سے بچاؤ۔ (التحریم : ٦) ٢۔ اے پیغمبر اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈرائیں۔ (الشعراء : ٢١٤) ٣۔ نرم انداز میں گفتگو کرنی چاہیے۔ (طٰہٰ: ٤٤) ٤۔ وعظ میں مؤثر انداز اختیار کرنے کا حکم (النساء : ٦٣) ٥۔ جھگڑے کی بجائے احسن انداز اختیار کرنے کا حکم۔ (النحل : ١٢٥) ٦۔ اگر آپ نرم خو نہ ہوتے تو یہ لوگ آپ سے دور بھاگ جاتے لہٰذا معاف اور درگزر کرتے رہیں۔ ( آل عمران : ١٥٩) الشعراء
215 الشعراء
216 فہم القرآن ربط کلام : ا لدّاعی کا کام بار بار دعوت دینا ہے اگر لوگ نہیں مانتے تو اسے اپنے رب کے ساتھ نماز میں رابطہ رکھنا اور اسی پر توکل کرنا چاہیے کیونکہ وہ ہر بات پر غالب اور مہربان ہے۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رات کی تاریکیوں میں رو، رو کر دعائیں کرتے کہ بارِ الٰہا ! ان لوگوں کو ہدایت سے سرفراز فرما دے۔ لوگ ہدایت حاصل کرنے کی بجائے گمراہی میں آگے بڑھے جا رہے تھے، جس پر آپ کو انتہائی غم ہوتا، اس صورت حال کے پیش نظر آپ کو دو طرح سے تسلی دی گئی۔ ان لوگوں سے کھلے الفاظ میں کہہ دیں کہ میں تمہارے اعمال کا ذمہ دار نہیں ہوں اور نہ میں تم سے ڈرتا ہوں۔ کیونکہ میرا بھروسہ ” اللہ“ پر ہے وہی مجھے کافی ہے۔ چاہے گا تو حق کو غلبہ عطا فرماۓ گا وہ نہایت ہی مہربان ہے اور وہ مجھے ہر حال میں دیکھ رہا ہے۔ الدّاعی کا کام لوگوں کو سمجھانا ہے اگر اس کے مخاطب سمجھنے کے لیے تیار نہ ہوں تو اسے دل گرفتہ ہونے اور لوگوں کے ساتھ الجھنے کی ضرورت نہیں کیونکہ ہر کسی نے اپنے عمل کا جواب دینا ہے۔ یہی بات سرور دو عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سمجھائی گئی کہ ایمان نہ لانے والوں کو یہ بتلائیں کہ میں تمھارے اعمال سے برئ الذمہ ہوں۔ مجھے حکم ہے میں اپنے رب پر بھروسہ کروں۔ جو ہر بات پر غالب اور نہایت مہربان ہے۔ اس کا یہ بھی فرمان ہے کہ جب میں کھڑا ہوں یا چلتا پھرتا یا اس کے حضور سجدہ کررہا ہوں۔ وہ مجھے ہر حال میں دیکھ رہا ہوتا ہے اور میری دعا کو سنتا اور اسے اچھی طرح جانتا ہے۔ اس سے پہلے آپ کو حکم دیا گیا ہے اللہ پر توکل کرتے ہوئے آپ ان لوگوں کے فکر و عمل سے برأت کا اعلان کریں پھر آپ کو اطمینان دلایا گیا کہ، آپ نماز میں کھڑے ہوں یا بازار میں چلتے پھرتے ہوں یا اپنے رب کے حضور سجدہ کررہے ہوں آپ کا رب آپ کو ہر حال میں جانتا اور آپ کی ہر بات کو سننے والا ہے۔ اسی بات کو گیا رھویں پارے میں یوں بیان کیا گیا ہے۔ ” اے نبی تم جس حال میں بھی ہوتے ہو، اور قرآن سے جو بھی سناتے ہو اور ( لوگو) جو کام بھی تم کر رہے ہوتے ہو، ہم ہر وقت تمہارے سامنے موجود ہوتے ہیں جبکہ تم اس میں مشغول ہوتے ہو، زمین اور آسمان میں کوئی زرہ برابر چیز بھی ایسی نہیں جو آپ کے رب سے چھپی ہو۔ ذرہ سے بھی چھوٹی یا اس سے بڑی کوئی چیز بھی ایسی نہیں جو لوح محفوظ میں درج نہ ہو۔“ (یونس : ٦١) ” حضرت موسیٰ اور ہارون کو حکم ہوا کہ فرعون کے پاس جاؤ وہ سرکش ہے۔ اس سے نرمی کے ساتھ بات کرنا۔ ہوسکتا ہے کہ وہ نصیحت قبول کرے یا ڈر جائے۔ دونوں نے عرض کی پروردگار ہمیں ڈر ہے کہ وہ ہم پر زیادتی کرے گا یا ہم پر ٹوٹ پڑے گا۔ فرمایا ڈرو نہیں میں تمہارے ساتھ ہوں سب کچھ سن رہا ہوں اور سب کچھ دیکھ رہا ہوں۔“ (طٰہٰ : ٤٣ تا ٤٦) عبادات میں سب سے افضل عبادت فرض نماز ہے۔ فرض نماز کے بعد سب سے افضل نماز تہجد کی نماز ہے۔ جسے نفل نماز قرار دیا گیا ہے۔ نفل کا معنٰی ہوتا ہے ” زائد“ رسول محترم نے نوافل کا فائدہ ذکر کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ قیامت کے دن فرض نماز کی کمی، بیشی نفل نماز سے پوری کی جائے گی۔ بعض اہل علم کے نزدیک پہلے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر تہجد فرض تھی۔ بعد ازاں اسے نفل قرار دے دیا گیا۔ تہجد کا لفظ ” جہد“ سے نکلاہے۔ جس کا مطلب ہے۔ ” نیند کے بعد بیدار ہونا“ ظاہر ہے یہ کام ہمت اور کوشش کے بغیر نہیں ہوتا۔ اس لیے کچھ اہل علم ضروری سمجھتے ہیں کہ تہجدکچھ دیر سونے کے بعداٹھ کر پڑھنی چاہیے۔ ان کے بقول سونے سے پہلے پڑھے جانے والے عام نوافل ہوں گے یہ تہجد شمار نہیں ہوتے۔ لیکن احادیث سے ثابت ہے کہ آدمی اپنی صحت اور فرصت کے مطابق رات کے کسی پہر میں تہجد پڑھ سکتا ہے۔ البتہ تہجد کے لیے افضل ترین وقت آدھی رات کے بعد ہے۔ (تَتَجَا فٰی جُنُوْبُھُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ یَدْعُوْنَ رَبَّھُمْ خَوْفًا وَّطَمَعاً وَّمِمَّا رَزَقْنٰھُمْ یُنْفِقُوْنَ) [ السجدۃ: ١٦] ” وہ اپنے بستروں سے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں اپنے رب کو خوف اور امید کے ساتھ پکارتے ہیں اور جو ہم نے انہیں دیا ہے اس سے خرچ کرتے ہیں۔“ ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ رب تعالیٰ رات کے آخری حصے میں آسمان دنیا پر تشر یف لاکر فرماتا ہے : کون ہے مجھ سے طلب کرئے میں اسکو عطاکروں اور کون ہے جو مجھ سے بخشش اور مغفرت چاہے میں اسکوبخش دوں۔“ [ رواہ البخاری : باب التحریض علی قیام الیل] مسائل ١۔ کوئی شخص دوسرے کے اعمال کا ذمہ دار نہیں ہے۔ ٢۔ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہر وقت اپنے رب کی نگرانی میں ہوا کرتے تھے۔ ٣۔ آدمی کو ہر حال میں اللہ تعالیٰ پر توکل کرنا چاہیے وہ ہر بات پر غالب اور مہربان ہے۔ ٤۔ انسان جس حالت میں ہو، اللہ تعالیٰ اسے دیکھتا، جانتا اور اس کی ہر بات کو سنتا ہے۔ الشعراء
217 الشعراء
218 الشعراء
219 الشعراء
220 الشعراء
221 فہم القرآن ربط کلام : اہل مکہ کا رسالت مآب (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر یہ الزام تھا کہ آپ پر شیطان نازل ہوتا ہے جو پہلے لوگوں کے قصے کہانیاں آپ پر پڑھتا ہے۔ اسی سورۃ٢١٠ تا ٢١٢ میں کفار کے الزام کا جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر شیطان نہیں اترتے نہ ان میں ایسا کرنے کی طاقت ہے۔ اس کے بعد نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دعوت اور اس کا طریقہ کار بتلایا گیا ہے۔ اب کفار کے الزام کا دوسرے انداز میں جواب دیا گیا ہے۔ میرے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نزول شیطان کا الزام لگانے والو! سنو میں تمھیں بتلاؤں کہ شیطان کن لوگوں پر نازل ہوتے ہیں ہر جھوٹے اور گناہ گار پر شیطان نازل ہوتے ہیں۔ وہی شیطان کی باتیں غور سے سنتے ہیں اور ان کی اکثریت جھوٹے لوگوں پر مشتمل ہوتی ہے۔ ” ہَلْ اُنَبِّءُکُمْ“ ” کیا میں تمھیں بتاؤں ؟“ کے الفاظ استعمال فرماکر ایک طرف کفار کے الزام کا جواب دیا اور دوسری طرف سرور دو عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سیرت طیبہ کی طرف کھلا اشارہ ہے کہ جس ذات پر تم شیاطین کے نزول کا الزام لگاتے ہو وہ تو اس قدر گفتار اور کردار کے لحاظ سے پاکیزہ ہے کہ اعلان نبوت سے پہلے بھی تم اسے الصادق اور الامین کہتے تھے سوچو اور غور کرو ! کیا ایسی ذات جھوٹ بولنا یا سننا اور اور اسے آگے پھیلانا پسند کرسکتی ہے۔ جبکہ شیاطین تو انسان کو جھوٹ فریب کے سوا کوئی چیز القاء نہیں کرتے شیاطین تو فاسق وفاجر شخص پر ڈیرے ڈالتے ہیں۔ اس بات کو یوں بھی بیان کیا گیا ہے۔ ” ہم نے ہر نبی کے لیے انسانوں اور شیطانوں کو دشمن بنادیا یہ ایک دوسرے کی طرف دھوکا دینے کے لیے بناوٹی باتیں دل میں ڈالتے ہیں اور اگر آپ کا رب چاہتا تو وہ ایسا نہ کرتے، پس انہیں ان کے جھوٹ کے حوالے کیجئے۔“ (الانعام : ١١٢) (وَمَنْ یَعْشُ عَنْ ذِکْرِ الرَّحْمَنِ نُقَیِّضْ لَہُ شَیْطَانًا فَہُوَ لَہُ قَرِیْنٌ) [ الزخرف : ٣٦] ” جو اللہ کے ذکر سے غافل ہوجاتا ہے اس پر شیطان مسلط کردیا جاتا ہے اور وہ اس کا ساتھی بن جاتا ہے۔“ (عَنْ حَفْصَۃَ قَالَتْ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَنْ اَتٰی عَرَّافًا فَسَأَلَہٗ عَنْ شَیْءٍ لَمْ تُقْبَلْ لَہٗ صَلٰوۃُ اَرْبَعِےْنَ لَےْلَۃً) [ رواہ مسلم : باب تَحْرِیمِ الْکِہَانَۃِ وَإِتْیَانِ الْکُہَّانِ] ” حضرت حفصہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا‘ جو شخص گم شدہ یا چوری کا پتا بتانے والے کے پاس جائے اور اس سے کسی چیز کے بارے میں دریافت کرئے اس کی چالیس دن تک نماز قبول نہیں ہوتی۔“ مسائل ١۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر کفار بے ہودہ الزام لگایا کرتے تھے۔ ٢۔ جھوٹے اور فاسق شخص پر شیطان اترتا ہوتا ہے۔ ٣۔ شیطان لوگوں کے دل میں جھوٹی اور مکر و فریب کی باتیں القاء کرتا ہے۔ تفسیر بالقرآن شیطان کن لوگوں پر مسلّط ہوتا ہے : ١۔ سود کھانے والے کو شیطان بدحواس کردیتا ہے۔ ( البقرۃ: ٢٧٥) ٢۔ منافقین کو ان کے برے اعمال کے سبب شیطان نے پھسلا دیا۔ ( آل عمران : ١٥٥) ٣۔ جو لوگ اپنے فیصلے اللہ اور اس کے رسول کے علاوہ کسی دوسرے کے سامنے لے جاتے ہیں شیطان ان کو گمراہ کردیتا ہے۔ ( النساء : ٦٠) ٤۔ جو شخص اللہ کے ذکر سے غافل ہوجائے تو اس پر شیطان مسلّط ہوجاتا ہے۔ ( الزخرف : ٣٦) ٥۔ شیطان مشرکین پر مسلّط ہو کر ان کو سیدھے راستے کی طرف آنے سے روکتا ہے۔ ( النمل : ٢٤) ٦۔ شیطان کی دوستی اختیار کرنے والوں پر گمراہی مسلط کردی جاتی ہے۔ (الاعراف : ٣٠) ٧۔ شیطان ہر انسان پر حاوی ہونے کی کوشش کرتا ہے۔ ( بنی اسرائیل : ٥٣) الشعراء
222 الشعراء
223 الشعراء
224 فہم القرآن ربط کلام : نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر کفار کا تیسرا الزام، اور اس کا جواب : سورۃ الشعراء کا اختتام کفار کے الزامات اور ان کے جوابات پر ہوتا ہے۔ اہل مکہ بڑے تکرار اور صرار کے ساتھ یہ الزام لگاتے کہ آپ شاعر ہیں یہ الزام لگانے کی دو وجوہات تھیں۔ ایک تو قرآن مجید کے الفاظ، آیات کا اختتامی انداز جس میں بعض آیات کا ردیف قافیہ اس طرح بنتا ہے جس میں خود بخود ایک دھن پیدا ہوجاتی ہے اور پھر پورے قرآن میں غضب کی تاثیر پائی جاتی ہے۔ جس سے کوئی بھی آدمی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ اس لیے کبھی وہ آپ کو شاعر قرار دیتے اور کبھی جادوگر کہتے تھے۔ آپ کو شاعر قرار دینے کی دوسری وجہ یہ تھی کیونکہ قرآن مجید میں انتہا درجہ بلاغت اور تخیل کی بلندی پائی جاتی ہے۔ جس وجہ سے اس پر شاعرانہ کلام کا الزام لگانا آسان تھا۔ اس لیے مکہ کے لوگ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو شاعر کہتے تھے۔ کیونکہ شعراء کے بارے میں اکثر لوگ جانتے ہیں کہ یہ باتونی ہوتے ہیں ان کے کام اور کلام میں حقیقت بہت کم ہوا کرتی ہے، ان کی اکثر یت گمراہ ہوتی ہے اور وہ ہر اچھا برا کلام پیش کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ لیکن ان کی اپنی حالت یہ ہوتی ہے کہ بھلی بات کی بہترین اور مؤثر ترجمانی کرنے کے باوجود خود اس پر عمل پیرا نہیں ہوتے۔ اس لیے یہ وضاحت کی گئی ہے کہ شعراء اور ان کے پیچھے لگنے والے اکثر لوگ گمراہ ہوتے ہیں۔ اور اکثر شعراء ہر وادی میں سرگراں پھرتے ہیں جبکہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قرآن مجید کے ہر حکم پر عمل کرنے والے اور لوگوں کے سامنے اکمل اور بہترین نمونہ تھے۔ (وَعَنْ أَبِی سَعِیْدِ نِ الخُدْرِیِّ قَالَ بَیْنَا نَحْنُ نَسِیْرُ مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بِالعَرْجِ اِذْ عَرَضَ شَاعِرٌ یُنْشِدُ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خُذُو الشَّیْطَانَ اَوْاَمْسِکُوا الشَّیْطَانَ، لَأَنْ یَمْتَلِئَ جَوْفُ رَجُلٍ قَیْحًا خَیْرٌ لَہٗ مِنْ اَنْ یَمْتَلِئَ شِعْرًا) [ رواہ مسلم : باب، الشعر] ” حضرت ابو سعید خدری (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ ہم رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ عرج کے علا قے میں سفر کر رہے تھے کہ اچانک ایک شاعر نے آکر شعر کہنے شروع کردیے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا‘ اس شیطان کو پکڑو یا فرمایا کہ شیطان کو دور کرو۔ کہ اگر کسی شخص کا پیٹ پیپ سے بھراہو تو وہ اس سے بہتر ہے کہ اس کا پیٹ اشعار سے بھرا ہوا ہو۔“ اشعار کے نفع ونقصان کے بارے میں سورۃ یٰسین کی آیت کی تفسیر ملاحظہ فرمائیں۔ متحدہ ہندوستان کے دور میں مولانا الطاف حسین حالی ان چند شعراء میں شامل ہیں جن کا اس زمانہ میں طوطی بولتا تھا وہ اپنی کتاب مقدمہ شعر و شاعری میں لکھتے ہیں۔ شاعری کا ماحول عام طور پر جہالت کے دور میں زیادہ پنپتا ہے۔ اس کے بعد انہوں نے یونان کے مشہور فلسفی اور مفکر ارسطو کا حوالہ دیا کہ جب اس نے پہلی مرتبہ یونان کا دستور مرتب کیا تو ہر طبقہ کی اس نے ضرورت محسوس کی لیکن شاعروں کے طبقہ کو اس لیے در غور اعتنانہ سمجھا کیونکہ بقول ان کے شاعر لوگ عام طور پر باتیں جوڑنے اور بنانے کے سوا کسی کام کے نہیں ہوتے۔ ارسطو کے قول کے بارے میں نہ معلوم ہر دور کے دانشوروں کی کیا رائے ہوگی تاہم یہ بات مسلمہ ہے کہ شعر وشاعری کے ماحول میں علم اور عقل کی بات کو ترجیح نہیں دی جاتی۔ میں نے زندگی میں ان گنت عوامی اجتماعات میں شرکت کی اور سنے ہیں۔ جس اجتماع میں کوئی خطیب شعر یا ترنم کے ساتھ بات نہیں کرتا بیشک وہ کتنا ہی اچھا خطیب اور عالم کیوں نہ ہو لوگ اس کی بات سننے کی طرف دھیان نہیں دیتے۔ جس معاشرے اور جماعت میں ایسا ماحول پیدا ہوجائے وہاں علم اور علماء کی قدر اٹھ جاتی ہے۔ ان حقائق کے پیش نظر یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ شعر و شاعری کے فوائد کم اور وقتی اس کے نقصانات گہرے اور دیرپا ہوتے ہیں۔ مسائل ١۔ شعراء کے کلام میں اچھی بری ہر قسم کی بات پائی جاتی ہے۔ ٢۔ اکثر شعراء اچھی باتیں کہنے کے باوجود خود اس پر عمل نہیں کرتے۔ ٣۔ شعراء کے پیچھے لگنے والے اکثر لوگ گمراہ ہوتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر شاعری کا الزام اور اس کی تردید : ١۔ کفار آپ کو شاعر کہتے تھے۔ (الطور : ٣٠) ٢۔ کفار نے کہا کیا ہم اپنے معبودوں کو شاعر ومجنوں کی خاطر چھوڑ دیں؟ (الصٰفٰت : ٣٦) ٣۔ شعراء کے پیچھے تو بھٹکے ہوئے لوگ چلتے ہیں۔ ( الشعراء : ٢٢٤) ٤۔ ہم نے آپ کو شعر شاعری نہیں سیکھلائی اور نہ ہی یہ آپ کے لیے زیبا تھا۔ (یٰسٓ: ٦٩) الشعراء
225 الشعراء
226 الشعراء
227 فہم القرآن ربط کلام : اکثر شعراء اوٹ پٹانگ باتیں کرتے ہیں اگر ان کے کلام میں کوئی اچھی بات پائی جائے تو اس پر خود عمل پیرا نہیں ہوتے سوائے ان شاعروں کے جو صحیح العقیدہ اور صالح کردار ہوتے ہیں۔ شعراء اور ان کے متبعین کی گمراہی کا ذکر کرنے کے بعد ان لوگوں کو اس گروہ سے مستثنیٰ قرار دیا ہے جو صحیح العقیدہ اور نیک اعمال کرنے کے ساتھ ہر حال میں اللہ تعالیٰ کو یاد رکھنے والے ہیں۔ آیات کے سیاق وسباق کے حوالے سے ایمان والوں سے مراد یہاں سب سے پہلے صحیح العقیدہ اور صالح کردار شاعر ہیں۔ کیونکہ اس سے پہلے بے عمل اور بیہودہ شاعروں کا تذکرہ ہے اس لیے یہاں پہلے مخاطب نیک شعراء ہیں۔ نیک شاعر اور عقیدہ توحید پر پختہ اور صالح اعمال کرنے والے مسلمان۔ اللہ تعالیٰ کو کثرت کے ساتھ یاد کرتے ہیں۔ اگر ان پر ظلم کیا جائے تو وہ اتنا ہی بدلہ لیتے ہیں جتنا ان پر ظلم کیا گیا ہو۔ جہاں تک ظالموں کا تعلق ہے انھیں بہت جلد معلوم ہوجائے گا کہ وہ کن بھول بھلیوں میں پڑے ہوئے تھے۔ یہاں برے شعراء سے ان شعراء کرام کو مستثنیٰ کیا گیا ہے جو چار خصوصیات کے حامل ہوں : ١۔ مومن ہوں، یعنی اللہ اور اس کے رسول اور اس کی کتابوں کو سچے دل سے مانتے ہوں اور آخرت پر یقین رکھتے ہوں۔ ٢۔ عملی زندگی میں صالح ہوں، بدکار اور فاسق وفاجر نہ ہوں، اخلاقی بندشوں سے آزاد ہو کر ہر جگہ جھک مارنے والے نہ ہوں۔ یعنی ان کا کلام بےدینی اور بے حیائی سے پاک ہو۔ ٣۔ ١ اللہ کو کثرت سے یاد کرنے والے ہوں۔ ٤۔ ذاتی اغراض کے لیے کسی کی ہجو نہ کریں نہ ذاتی، نسلی اور قومی عصبیتوں کی خاطر انتقام کی آگ بھڑکائیں، مگر جب ظالموں کے مقابلے میں حق کی حمایت کے لیے ضرورت پیش آئے تو پھر زبان سے وہی کام لیں جو مجاہد تلوار، تیر سے لیتا ہے۔ اسی بنا پر کعب بن مالک (رض) سے آپ نے فرمایا : (قَالَ اہْجُوا قُرَیْشًا فَإِنَّہُ أَشَدُّ عَلَیْہَا مِنْ رَشْقٍ بالنَّبْلِ) ” ان کی ہجو کہو کیونکہ اس رب کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے تمہارا شعر ان کے حق میں تیر سے زیادہ تیز ہے حضرت حسان بن ثابت (رض) سے فرمایا : (إِنَّ رُوحَ الْقُدُسِ لاَ یَزَالُ یُؤَیِّدُکَ مَا نَافَحْتَ عَنِ اللَّہِ وَرَسُولِہِ) ” ان کی خبر لو۔“ شعر کہو روح القدس تیرے ساتھ ہے۔“ (رواہ مسلم : باب فضائل حسان بن ثابت) ” ذکر ایسی عبادت ہے کہ جسے کثرت کے ساتھ کرنے کا حکم ہوا ہے۔ نماز بذات خود بہت بڑا ذکر ہے۔ لیکن اس کے باوجود اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں دو مقامات پر نماز کی ادائیگی کے بعد مزید کثرت کے ساتھ یادِ الٰہی میں مصروف رہنے کا حکم فرمایا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں حضرت عائشہ (رض) کا بیان ہے کہ آپ ہر حال میں اللہ تعالیٰ کا ذکر کیا کرتے تھے۔“ [ رواہ البخاری : کتاب الأذان ] (عَنَّ کَعْبَ بْنَ مَالِکٍ حینَ أَنْزَلَ اللَّہُ تَبَارَکَ وَتَعَالَی فِی الشِّعْرِ مَا أَنْزَلَ أَتَی النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَقَالَ اِنَّ اللَّہَ تَبَارَکَ وَتَعَالَی قَدْ أَنْزَلَ فِی الشِّعْرِ مَا قَدْ عَلِمْتَ وَکَیْفَ تَرَی فیہِ فَقَال النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) إِنَّ الْمُؤْمِنَ یُجَاہِدُ بِسَیْفِہِ وَلِسَانِہِ) [ رواہ احمد : مسند کعب بن مالک] ” حضرت کعب بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں جب اللہ تعالیٰ نے شعراء کے متعلق یہ آیت نازل کی تو کعب بن مالک نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آ کر عرض کرنے لگے کہ اللہ تعالیٰ نے شعروں کے متعلق یہ آیت نازل فرمائی ہے جس کا آپ کو علم ہے آپ کا اس آیت کے بارے میں کیا خیال ہے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بے شک مؤمن اپنی تلوار اور زبان سے جہاد کرتا ہے۔“ مسائل ١۔ صحیح العقیدہ لوگ نیک اعمال کرنے کے ساتھ ہر حال میں اللہ تعالیٰ کو یاد کرتے ہیں۔ ٢۔ مظلوم کو ظالم سے بدلہ لینے کی اجازت ہے۔ تفسیر بالقرآن ذکرِ الٰہی کا حکم اور فضیلت : ١۔ اللہ کا ذکر بڑی چیز ہے۔ (العنکبوت : ٤٥) ٢۔ اللہ کا ذکر کرنے کا حکم۔ (البقرۃ: ١٥٢) ٣۔ اللہ کو کثرت سے یاد کرو۔ (الانفال : ٤٥) ٤۔ اللہ کو گڑگڑا کر صبح وشام آہستہ یاد کرو۔ (الأعراف : ٢٠٥) ٥۔ اللہ کے ذکر سے دل مطمئن ہوتے ہیں۔ (الرعد : ٢٨) ٦۔ اللہ کے ذکر سے غافل لوگوں پر شیطان کا تسلط ہوتا ہے۔ (الزخرف : ٣٦) ٧۔ اللہ کے ذکر سے غافل لوگ گھاٹے میں ہیں۔ (المنافقون : ٩) الشعراء
0 سورۃ النّمل کا تعارف ربط سورۃ: الشعرآء کے آخر میں ایمانداروں کی صفت بیان ہوئی کہ وہ ” اللہ“ کو بہت یاد کرتے ہیں۔ النّمل کی ابتدا میں بتایا ہے کہ ایسے لوگوں کے لیے قرآن مجید ہدایت اور خوشخبری کا پیغام ہے۔ یہ سورۃ 7 رکوع اور 93 آیات پر مشتمل ہے۔ النّمل کا لفظ اس سورۃ کی اٹھارویں آیت میں استعمال ہوا ہے۔ سورۃ کی ابتدا میں قرآن مجید کا تعارف کروایا گیا ہے کہ قرآن اپنے مدعا اور دلائل کے حوالے سے واضح اور مدلّل کتاب ہے۔ یہ ایسے لوگوں کے لیے خوشخبری کا پیغام ہے جو حقیقی معنوں میں ایمان لاتے ہیں، نماز قائم، زکوٰۃ کی ادائیگی کا اہتمام کرتے اور آخرت پر یقین کامل رکھتے ہیں، ان کے مقابلے میں جو آخرت کی جواب دہی پر یقین نہیں رکھتے۔ ان کے لیے ان کے برے اعمال خوبصورت بنا دئیے گئے ہیں اور وہ اپنی روش میں اندھے ہوچکے ہیں۔ انہیں آخرت میں بدترین عذاب ہوگا اور یہی لوگ آخرت میں دائمی نقصان پانے والے ہیں۔ بنیادی ہدایات کے بعد حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی نبوت کا ابتدائی واقعہ ذکر کیا گیا ہے۔ کہ ” اللہ“ نے انہیں سفر میں کس طرح نبوت اور عظیم معجزے عطا فرمائے، اس کے بعد حضرت داؤد اور حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے اقتدار اور اختیارات کا ذکر فرماکر ملکہ بلقیس کے ساتھ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی سفارت اور ملاقات کے مثبت نتائج کا تذکرہ کیا ہے۔ جس میں حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی قدم، قدم پر ذہانت نمایاں ہے اور ملکہ بلقیس ہر قدم پر اپنی بے علمی کا اعتراف کرتے ہوئے بالآخر مسلمان ہوجاتی ہے۔ پھر صالح (علیہ السلام) کی قوم اور لوط (علیہ السلام) کی قوم کے کردار اور انجام پر تبصرہ کیا گیا ہے، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی قوم کے کردار اور انجام سے اہل مکہ کو متنبہ کیا ہے۔ کہ تم جو کچھ بھی ہولیکن فرعون اور اس کے ساتھیوں سے تمہاری طاقت اور بغاوت زیادہ نہیں۔ جب فرعون اور اس کے لشکر حق کے مقابلے میں ٹھہر نہ سکے تو تم کس باغ کی مولی ہو لہٰذا سمجھ جاؤ ورنہ تمہارا انجام بھی آل فرعون جیسا ہوگا۔ حضرت سلیمان اور ملکہ بلقیس کا واقعہ ذکر کر کے یہ سمجھایا ہے کہ جسے اللہ تعالیٰ اقتدار بخشے اسے کس طرح دوسرے کو توحید کی دعوت دینا ہے اور جس تک توحید کی دعوت پہنچے اسے تسلیم کا رویہ اختیار کرنا چاہیے النّمل کے آخر میں سوالات کی صورت میں توحید سمجھائی گئی اور مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہونے کے ثبوت دئیے گئے ہیں پھر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیا کہ اہل مکہ پر واضح کردیں جس رب نے مکہ کو حرمت والا بنایا ہے۔ میں اسی رب کی توحید کی دعوت دیتا اور اسی کی عبادت کرتا ہوں۔ جس نے قرآن مجید کی ہدایت کو قبول کیا اس کا اسے ہی فائدہ پہنچے گا جو اپنے انکار پر قائم رہا میرا کام تو اسے سمجھانا اور برے انجام سے ڈرانا ہے۔ سورۃ کا اختتام ان الفاظ میں ہوا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہر حال میں اپنے رب کا شکر ادا کرتے رہیں، وہ عنقریب اپنی قدرت کی نشانیاں دکھلائے گا۔ جنہیں دیکھ کر منکرین کو یقین ہوجائے گا، کہ جو کچھ آپ فرما رہے ہیں وہ حق اور سچ ہے یاد رکھیں کہ آپ کا رب ان کے اعمال سے غافل نہیں ہے۔ النمل
1 النمل
2 فہم القرآن ربط سورۃ : الشعراء کا اختتام کفار کے الزامات کے جواب پر ہوا ہے اور سورۃ النمل کا آغاز قرآن مجید کے تعارف سے کیا گیا ہے۔ تاکہ الزام لگانے والوں کو معلوم ہو کہ اس کتاب کو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی طرف سے نہیں بنایا بلکہ اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا ہے۔ یہ قرآن مجید کی آیات ہیں جو اپنے الفاظ، انداز اور مدعا کے اعتبار سے واضح ہیں۔ اس کتاب مبین میں نہ کوئی ابہام ہے اور نہ اس کے مضامین اور مسائل میں کوئی الجھاؤ ہے۔ یہ حق اور باطل کے درمیان حدِّ فاصل قائم کرتی ہے۔ بشرطیکہ کوئی انسان ایمان اور ایقان کے ساتھ اس کی تلاوت کرے۔ یہ انسان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کے ہر پہلو میں اس کی رہنمائی کرتی ہے۔ جو لوگ اس کی رہنمائی پر یقین اور عمل کریں گے ان کے لیے دنیا اور آخرت میں خوشخبری ہے۔ اس پر ایمان لانے والوں کی نشانی یہ ہے کہ وہ نماز قائم کرتے ہیں، زکوٰۃ ادا کرتے اور آخرت پر یقین رکھتے ہیں۔ خوشخبری کا پیغام : (عن عمر (رض) قال قال رسول اللّٰہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) إِنَّ اللّٰہَ یَرْفَعُ بِہٰذَا الْکِتَابِ أَقْوَامًا وَیَضَعُ بِہٖ آخَرِینَ ) [ رواہ مسلم : کتاب صلاۃ المسافرین ] ” حضرت عمر (رض) بیان کرتے ہیں رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بلا شبہ ” اللہ“ اس کتاب کے ساتھ اقوام کو بلند کرے گا اور دوسروں کو پست کردے گا۔“ مسائل ١۔ قرآن مجید کی آیات اپنا مدعا بیان کرنے میں بالکل واضح ہیں۔ ٢۔ قرآن مجید پر ایمان لانے والوں کے لیے کامیابی کی نوید ہے۔ النمل
3 فہم القرآن ربط کلام : یقین اور ایمان سے محروم لوگوں کی دنیا میں سزا اور آخرت میں انتہا درجہ کا نقصان۔ جو لوگ ایمان وایقان کی دولت سے محروم ہوتے ہیں اللہ تعالیٰ انھیں ان کے اعمال کے حوالہ کردیتا ہے۔ وہ اپنے گناہوں میں سرگرداں رہتے ہیں۔ انسان جب گمراہی کے آخری درجہ میں پہنچجاتا ہے تو پھر وہ گناہ کو گناہ نہیں سمجھتا بلکہ اسے تہذیب و تمدن، معاشرتی روایات، فیشن اور ترقی کا زینہ سمجھتا ہے۔ ایسے شخص کا دل پریشانیوں کا گہوارہ بن جاتا ہے۔ دل کے سکون کے لیے کبھی نشہ کرتا ہے اور کبھی مزید عیاشی کا سامان ڈھونڈتا ہے۔ لیکن دل میں اطمینان اور سکون پیدا ہونے کی بجائے مزید پریشانیاں بڑھ جاتی ہیں۔ ان لوگوں کے لیے دنیا میں بے چینی اور بے سکونی کی سزا ہے اور آخرت میں انھیں بدترین عذاب میں مبتلا کیا جائے گا۔ ان کے لیے ایسا نقصان ہوگا جس کا وہ دنیا میں تصور بھی نہیں کرسکتے۔ کتاب مبین میں شک کرنے والے، نماز کے تارک، زکوٰۃ کے منکر اور آخرت پر یقین نہ رکھنے والے لوگوں کے اعمال اللہ تعالیٰ ان کے لیے خوبصورت بنا دیتا ہے۔ یہی بات قرآن مجید میں کئی مرتبہ یوں بیان کی گئی ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کے نافرمانوں کے اعمال شیطان خوبصورت بنا دیتا ہے۔ یہاں اللہ تعالیٰ نے اس بات کو اپنی طرف منسوب فرمایا ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی پر چل کر جن رسومات، تہذیب و تمدّن اور اعمال کو یہ لوگ اپنے لیے مفید اور باعث عزت سمجھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں ان کے اعمال کے حوالہ کردیتا ہے۔ یہ دنیا میں پریشان رہیں گے اور آخرت میں بدترین عذاب میں مبتلا ہوں گے۔ (وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یَّعْبُدُ اللّٰہَ عَلٰی حَرْفٍ فَاِنْ اَصَابَہٗ خَیْرُنِ طْمَاَنَّ بِہٖ وَ اِنْ اَصَابَتْہُ فِتْنَۃُ نِ انْقَلَبَ عَلٰی وَجْھِہٖ خَسِرَ الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَۃَ ذٰلِکَ ھُوَ الْخُسْرَانُ الْمُبِیْنُ) [ الحج : ١١] ” اور لوگوں میں کوئی ایسا ہے جو کنارے پر رہ کر اللہ کی بندگی کرتا ہے اگر فائدہ ہوا تو مطمئن ہوجاتا ہے اگر مصیبت آگئی تو الٹا پھر جاتا ہے اس کی دنیا بھی خراب ہوگئی اور آخرت بھی۔ یہ ہے کھلا نقصان۔“ (اِنَّ الَّذِیْنَ لَا یَرْجُوْنَ لِقَآءَ نَا وَ رَضُوْا بالْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَ اطْمَاَنُّوْا بِھَا وَ الَّذِیْنَ ھُمْ عَنْ اٰیٰتِنَا غٰفِلُوْنَ) [ یونس : ٧] ” بے شک جو لوگ ہماری ملاقات کی امید نہیں رکھتے اور دنیا کی زندگی پر خوش ہوئے اور اس پر مطمئن ہوگئے وہ ہماری آیات سے غافل ہیں۔“ مسائل ١۔ اللہ اور اس کے رسول کے نافرمان اور قیامت کے منکروں کے اعمال خوبصورت بناد یے جاتے ہیں۔ ٢۔ جو لوگ برے اعمال کو اچھا سمجھتے ہیں ان کے لیے دنیا میں پریشانی اور آخرت میں بدترین عذاب ہوگا۔ تفسیر بالقرآن دنیا اور آخرت میں نقصان پانے والے لوگ : ١۔ اے پیغمبر کیا میں تمہیں ایسے لوگوں کے متعلق نہ بتاؤں جو اپنے اعمال میں نقصان پا نے والے ہیں۔ ( الکہف : ١٠٣) ٢۔ اسلام کا انکار کرنے والے نقصان پائیں گے۔ (البقرۃ : ١٢١) ٣۔ اسلام کے بغیر دین تلاش کرنے والے نقصان پائیں گے۔ (آل عمران : ٨٥) ٤۔ شیطان کی تابعداری کرنے والے نقصان پائیں گے۔ (المجادلۃ: ١٩) ٥۔ مشرک نقصان پائیں گے۔ (الزمر : ٦٥) ٦۔ کافر نقصان پائیں گے۔ (النحل : ١٠٩) ٧۔ زمین میں فساد کرنے والے لوگ خسارہ اٹھائیں گے۔ (البقرۃ : ٢٧) ٨۔ اللہ کفار کے اعمال دنیا میں تباہ کرے گا اور وہ آخرت میں خسارہ پائیں گے۔ (التوبۃ: ٦٩) ٩۔ جس نے اللہ کے سوا شیطان کو دوست بنایا اس نے بہت نقصان پایا۔ (النساء : ١١٩) ١٠۔ ان لوگوں نے نقصان پایا جنہوں نے اللہ کی ملاقات کی تکذیب کی۔ (الانعام : ٣١) ١١۔ اگر تو نے ہمیں معاف نہ کیا اور ہم پر رحم نہ فرمایا تو ہم نقصان پانے والے ہوں گے۔ (حضرت آدم (علیہ السلام) کی دعا) (الاعراف : ٢٣) النمل
4 النمل
5 النمل
6 فہم القرآن ربط کلام : جس قرآن کو مومنوں کے لیے ہدایت اور خوشخبری کے طور اتارا گیا ہے یہ من جانب اللہ ہے۔ سرورِدو عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ مکہ والوں کو ایک یہ بھی اختلاف تھا کہ یہ نبی قرآن مجید کو خود بنا لیتا ہے اس الزام کی اس سے پہلے مختلف الفاظ اور پیرائے میں تردید کی گئی ہے۔ یہاں اس بات کو یوں بیان فرمایا ہے کہ قرآن مجید کے منجانب اللہ ہونے میں کسی شک کی ہرگز گنجائش نہیں کیونکہ اسے اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ بڑا حکیم اور ہر بات کو جاننے والا ہے۔ ان الفاظ میں کفار کی تردید کرنے کے ساتھ سرور دو عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے تسلی ہے کہ اے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! اس بات کا کبھی خیال نہ کرنا کہ اللہ تعالیٰ کو آپ کی مخالفت کرنے والوں کا علم نہیں۔ یقین رکھو کہ ہر بات اس کے علم میں ہے لیکن وہ اپنی حکمت کے ساتھ حق و باطل میں کشمکش پیدا کرتا ہے تاکہ کھرے اور کھوٹے میں امتیاز ہوجائے۔ وحی کا معنٰی : لغوی لحاظ سے وحی میں مندرجہ ذیل مفہوم پائے جاتے ہیں۔ ١۔ الہام : (وَأَوْحَیْنَا إِلَی أُمِّ مُوسَی أَنْ أَرْضِعِیہِ) [ القصص : ٧] ” ہم نے امّ موسیٰ کی طرف وحی کی کہ تم موسیٰ کو دودھ پلاؤ۔“ ٢۔ شہد کی مکھی کو الہام : (وَ اَوْحٰی رَبُّکَ اِلَی النَّحْلِ اَنِ اتَّخِذِیْ مِنَ الْجِبَالِ بُیُوْتًا وَّ مِنَ الشَّجَرِ وَ مِمَّا یَعْرِشُوْنَ)[ النحل : ٦٨] ” تیرے رب نے شہد کی مکھی کی طرف وحی کی کہ تو پہاڑوں، درختوں اور چھپروں میں گھر بنا لے۔“ ٣۔ وحی کا معنٰی اشارہ۔ جس طرح زکریا (علیہ السلام) کو اشارہ ہوا۔ (فَخَرَجَ عَلٰی قَوْمِہٖ مِنَ الْمِحْرَابِ فَاَوْحٰٓی اِلَیْھِمْ اَنْ سَبِّحُوْا بُکْرَۃً وَّ عَشِیًّا) [ مریم : ١١] ” وہ محراب سے نکل کے قوم کے پاس آئے اور انہیں اشارہ کیا کہ صبح وشام سبحان اللہ کہو۔“ ٤۔ شیطان کا وسوسہ پیدا کرنا اور برائی کو انسان کے لیے مزّین کرنا۔ (وَ اِنَّ الشَّیٰطِیْنَ لَیُوْحُوْنَ الآی اَوْلِیٰٓءِھِمْ لِیُجَادِلُوْکُمْ) [ انعام : ١٢١] ” بیشک شیطان اپنے دوستوں کو اشارہ کرتے ہیں تاکہ وہ تمہارے ساتھ جھگڑیں۔“ (وَ کَذٰلِکَ جَعَلْنَا لِکُلِّ نَبِیٍّ عَدُوًّا شَیٰطِیْنَ الْاِنْسِ وَ الْجِنِّ یُوْحِیْ بَعْضُھُمْ اِلٰی بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُوْرًا) [ انعام : ١١٢] ” ہم ہر نبی کے لیے انسانی اور جناتی شیاطین میں سے دشمن بناتے ہیں جو ایک دوسرے کو چکنی چپٹی دھوکا دینے والی بتاتیں بتاتے ہیں۔“ ٥۔ اللہ تعالیٰ کا فرشتوں کو کسی کام کے کرنے کا حکم۔ ( اِذْ یُوْحِیْ رَبُّکَ اِلَی الْمَلآءِکَۃِ اَنِّیْ مَعَکُمْ فَثَبِّتُوا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا) [ الانفال : ١٢] ” جب تیرے رب نے فرشتوں کی طرف وحی کی بیشک میں تمہارے ساتھ ہوں تم ایمان والوں کی ہمت بڑھاؤ۔“ ٦۔ انبیاء (علیہ السلام) کی طرف وحی بھیجنا۔ (وَمَا أَرْسَلْنَا قَبْلَکَ إِلَّا رِجَالًا نُوحِیْ إِلَیْہِمْ)[ الانبیاء : ٧] ” ہم نے آپ سے پہلے جتنے بھی رسول بھیجے سبھی مردوں میں سے تھے اور ہم نے ان کی طرف وحی کی۔“ مسائل ١۔ قرآن مجید نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دل و دماغ کا اختراع نہیں بلکہ اسے اللہ تعالیٰ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل فرمایا ہے۔ ٢۔ ” اللہ“ کے ہر کام اور حکم میں حکمت پائی جاتی ہے۔ ٣۔ ” اللہ“ لوگوں کے اعمال اور ان کے دلوں کی حالت جانتا ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل فرمایا ہے : ١۔ قرآن رب العالمین کی طرف سے نازل شدہ ہے۔ (الشعراء : ١٩٢) ٢۔ ” اللہ“ ہی قرآن مجید نازل کرنے والا، حکمت والا اور تعریف کے لائق ہے۔ (حٰم السجدۃ: ٤٢) ٣۔ ہم ہی قرآن مجید کو نازل کرنے والے ہیں اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔ (الحجر : ٩) ٤۔ ہم نے آپ کی طرف کتاب نازل کی تاکہ آپ لوگوں کو اندھیروں سے روشنی کی طرف لائیں۔ (ابراہیم : ١) النمل
7 فہم القرآن ربط کلام : پچھلی آیات میں قرآن مجید کے بارے میں شک کرنے اور سرور دو عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مخالفت کرنے والوں کا انجام ذکر ہوا۔ اب جو انہیں دنیا اور آخرت میں ہوگا اس کا ذکر کیا جاتا ہے۔ یہ بات سورۃ مزمل آیت ١٥ کے حوالہ سے بتلائی جا چکی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور موسیٰ (علیہ السلام) کے درمیان بہت سی مماثلتیں قائم کی ہیں۔ اس لیے موقع محل کے مطابق حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی مشکلات اور ان کی قوم کی مخالفت کا ذکر کیا جاتا ہے۔ جس کی یہاں اس طرح ابتداء کی ہے کہ اے نبی ! موسیٰ (علیہ السلام) کے سفر پر غور فرمائیں۔ جب وہ دس سالہ غریب الوطنی کی زندگی گزار کر اپنی اہلیہ کے ساتھ مصر کی طرف آرہے تھے۔ راستے میں انھوں نے بھڑکتی ہوئی آگ دیکھی اور اپنے گھر والوں سے فرمایا کہ آپ یہاں ٹھہریں وہ آگ دکھائی دے رہی ہے میں وہاں سے راستے کی معلومات حاصل کرتا ہوں یا آپ کے لیے آگ کا انگارہ لاتاہوں تاکہ آپ اسے تاپ سکیں۔ یہ کہہ کر موسیٰ (علیہ السلام) آگ کی طرف بڑھے۔ جب اس کے قریب پہنچے تو انھیں آواز دی گئی کہ اے موسیٰ (علیہ السلام) ! جسے تم آگ سمجھ رہے ہو وہ آگ نہیں بلکہ اللہ کا مبارک نور ہے۔ جس سے اس کے آس پاس کا ماحول روشن اور بابرکت ہوچکا ہے۔ اے موسیٰ (علیہ السلام) ! اللہ تعالیٰ ہر عیب اور کمزوری سے پاک ہے۔ وہی رب العالمین ہے۔ موسیٰ (علیہ السلام) کو پھر یقین دلایا گیا کہ اے موسیٰ (علیہ السلام) ! تجھے آواز دینے والا ” اللہ“ ہے جو ہر بات پر غالب اور حکمت والا ہے۔ مفسرین نے سبحان اللہ کا یہاں یہ مفہوم بیان کیا ہے کہ اے موسیٰ (علیہ السلام) ! یہ بات ہرگز نہ سمجھنا کہ میں درخت میں حلول کرچکا ہوں یا میرا نور اتنا محدود ہے کہ جس نے صرف محدود حلقہ کو گھیررکھا ہے۔ اے موسیٰ (علیہ السلام) ! نہ میری ذات محدود ہے اور نہ میرا جمال اور کوئی صفت محدود ہے۔ میں تو رب العالمین ہوں۔ میں اس بات پر اختیار رکھتا ہوں کہ اپنی ذات کا پرتو اور اپنے حسن و جمال کی ایک جھلک کو کسی درخت پر مرکوز کر دوں۔ درخت پر تجلی مرکوز کرنے کا مقصد یہ ہے کہ آپ ہمہ تن گوش ہو کر اس پر توجہ دے سکیں۔ یقین رکھیں کہ آپ کا رب اپنا ہر فیصلہ نافذ کرنے پر غالب ہے اور اس کا حکم حکمت سے بھرپور ہوتا ہے۔ ان الفاظ میں موسیٰ (علیہ السلام) کو مستقبل کے حوالے سے کامیابی کی نوید دی گئی ہے۔ (عَنْ اَبِیْ مَالِکِ الْاَشْعَرِیِّ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اَلطُّھُوْرُ شَطْرُ الْاِےْمَانِ وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ تَمْلَاُ الْمِےْزَانَ وَسُبْحَان اللّٰہِ وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ تَمْلَاٰنِ اَوْ تَمْلَأُ مَا بَےْنَ السَّمٰوٰتِ وَالاْرَضِ وَالصَّلٰوۃُ نُوْرٌ وَّالصَّدَقَۃُ بُرْھَانٌ وَّالصَّبْرُ ضِےَآءٌ وَّالْقُرْآنُ حُجَّۃٌ لَّکَ اَوْ عَلَےْکَ کُلُّ النَّاسِ ےَغْدُوْا فَبَآءِعٌ نَفْسَہُ فَمُعْتِقُھَا اَوْ مُوْبِقُھَا۔) [ رواہ : مسلم : باب فضل الوضوء] ” حضرت ابومالک اشعری (رض) رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان ذکر کرتے ہیں کہ پاکیزگی ایمان کا حصہ ہے‘ ” الحمدللہ“ کے الفاظ میزان کو بھر دیتے ہیں۔ ” سبحان اللہ“ اور ” الحمدللہ“ دونوں کلمے زمین و آسمان کو بھر دیتے ہیں۔ نماز روشنی ہے‘ صدقہ دلیل ہے‘ صبر بھی نورہے۔ قرآن مجید تیرے حق میں یا تیرے خلاف حُجّت ہے۔ صبح کو اٹھنے والا ہر شخص اپنے نفس کا سودا کیے ہوتا ہے چاہے تو آزادی حاصل کرے یا چاہے تو اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈال دے۔“ مسائل ١۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے مدین سے واپسی پر راستے میں ایک درخت پر اللہ تعالیٰ کی تجلی دیکھی۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ کے بتلانے سے پہلے موسیٰ (علیہ السلام) اس روشنی کو آگ سمجھتے رہے تھے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو پہلی وحی میں بتلا دیا کہ میں ہر کمی کمزوری سے پاک ہوں۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو رب العالمین، العزیز اور الحکیم کہہ کر اپنا تعارف کروایا۔ النمل
8 النمل
9 النمل
10 فہم القرآن ربط کلام : پہلی وحی کے موقع پر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو نبوت عطا کرنے کے ساتھ دو عظیم معجزات سے سرفراز کیا گیا۔ جب موسیٰ (علیہ السلام) کو دل کی اتھاہ گہرائیوں سے یقین ہوگیا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے اپنا رسول منتخب فرمالیا ہے تو انھیں حکم ہوا کہ اے موسیٰ ! اپنا عصا زمین پر پھینکئے۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے جو نہی عصا زمین پر پھینکا تو وہ بہت بڑا اژدھا بن کر اپنا پھن پھلاتے ہوئے لہرانے لگا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اڈر کر اس سے دور بھاگے اور انھوں نے پلٹ کر دیکھنے کی ہمت نہ کی۔ جب موسیٰ (علیہ السلام) پیچھے کی طرف بھاگ رہے تھے تو اللہ تعالیٰ نے آواز دی کہ اے موسیٰ (علیہ السلام) ! ڈریے نہیں کیونکہ میرے حضور رسول ڈرا نہیں کرتے۔ میری بارگاہ میں پیشی سے وہ لوگ ڈرا کرتے ہیں جنھوں نے ظلم کیا ہوتا ہے۔ ہاں جو برائی کو بھلائی سے بدلتے ہیں انہیں معاف کرنے والا اور مہربان ہوں۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے پلٹ کر اژدھا کو پکڑا تو وہ پہلے کی طرح عصا بن گیا۔ اس کے بعد موسیٰ (علیہ السلام) کو حکم ہوا کہ اپنا ہاتھ اپنے گریبان میں ڈال کر نکالووہ بغیر کسی بیماری کے چمکتا ہوا نکلے گا۔ یہ نونشانیوں میں سے دو ہیں جن کے ساتھ تجھے فرعون اور اس کی قوم کی طرف بھیجا جا رہا ہے۔ ہاں یہ بات ذہن میں رکھنا کہ وہ بڑے نافرمان لوگ ہیں آل فرعون انتہائی ظالم لوگ تھے۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے فرعون کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا مجھے رب العالمین کی طرف سے رسول بنایا گیا ہے اور میں وہی بات کہوں گا جس کے کہنے کا اللہ تعالیٰ نے مجھے حکم دیا ہے میں تمھارے پاس اپنے رب کی ربوبیت اور وحدت کے ٹھوس اور واضح دلائل لایا ہوں۔ اس لیے تمھیں اپنی خدائی چھوڑ کر صرف اور صرف ایک اللہ کو اپنا رب ماننا چاہیے اس کے ساتھ میرا یہ مطالبہ ہے کہ بنی اسرائیل کو آزاد کردیا جائے۔ فرعون نے موسیٰ (علیہ السلام) کی دعوت کا جواب دیتے ہوئے کہا اگر تو واقعی اپنے دعویٰ میں سچا ہے تو کوئی معجزہ پیش کرو۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے فی الفور اپنا عصا زمین پر پھینکا جو بہت بڑا اژدہا بن کر لہرانے لگا۔ جس کے بارے میں مفسرین نے لکھا ہے کہ وہ اتنا بڑا اژدہا بن کر سامنے آیا کہ یوں لگتا تھا جیسے سب کو نگل لے گا۔ یہ دیکھتے ہی فرعون اور اس کے درباری اپنی جان بچانے کے لیے دوڑتے ہوئے موسیٰ (علیہ السلام) سے فریادیں کرنے لگے کہ ہمیں اس سے بچائیں۔ تب موسیٰ (علیہ السلام) نے عصا کو پکڑ اتو وہ پہلے کی طرح عصا بن گیا۔ پھر اپنی بغل میں ہاتھ دبا کر باہر نکالا تو اس کے سامنے تمام روشنائیاں ماند پڑگئیں۔ ہاتھ دیکھنے والے حیران اور ششد ررہ گئے کہ یہ تو سورج اور چاند سے زیادہ روشن ہے۔ حضرت ابن عباس (رض) فرمایا کرتے تھے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے ہاتھ کے سامنے سورج کی روشنی ماند پڑتی دکھائی دیتی تھی۔ (روح المعانی و جامع البیان) (قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ وَمُجَاہِدُ، وَعِکْرَمَۃُ وَالشَّعْبِیُّ، وَقَتَادَۃُ ہِیَ یَدُہٗ، وَعَصَاہٗ، وَالسَّنِیْنُ، وَنَقْصُ الثَّمَرَاتِ، وَالطَّوْفَانُ، وَالْجَرَادُ، وَالقُمَّلُ، وَالضَّفَادِعُ، وَالدَّمُ) [ ابن کثیر] ” حضرت عبداللہ بن عباس (رض) مجاھد، عکرمہ، شعبی اور قتادہ کے قول کے مطابق حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو عطا کی جانے والی تو نشانیاں یہ تھیں۔ ١۔ عصا، ٢۔ یدِبیضاء، ٣۔ قحط سالی، ٤۔ پھلوں کی کمی، ٥۔ طوفان، ٦۔ ٹڈی دل، ٧۔ جوؤں کا عذاب، کھٹمل، ٨۔ مینڈک ٩۔ اور خون کا عذاب۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ لوگوں کے گناہ معاف کرنے والا، نہایت مہربان ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو نو نشانیاں دے کر فرعون اور اس کی قوم کی طرف بھیجا۔ النمل
11 النمل
12 النمل
13 فہم القرآن ربط کلام : حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا فرعون کے پاس جانا۔ فرعون اور اس کے حواریوں کا ردِّ عمل۔ سورۃ طٰہٰ میں یہ وضاحت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو دو عظیم معجزات دے کر فرعون کی طرف بھیجا تو انھیں دو نصیحتیں فرمائیں۔ اے موسیٰ تو اور تیرا بھائی ان معجزات کے ساتھ جاؤ۔ لیکن دو باتوں کا خیال رکھنا میرے ذکر سے غافل نہ ہونا اور جب فرعون سے گفتگو کرو تو اس میں سختی کی بجائے نرمی ہونی چاہے۔ (طٰہٰ: ٤٢ تا ٤٤) جب موسیٰ (علیہ السلام) معجزات کے ساتھ فرعون اور اس کے وزیروں، مشیروں کے پاس پہنچے تو انھوں نے دلائل سننے اور عظیم معجزات دیکھنے کے باوجود موسیٰ (علیہ السلام) کو جادوگر قرار دیا اور موسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لانے سے صاف انکار کردیا۔ حالانکہ ان کے دل مان چکے تھے کہ موسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت ہارون (علیہ السلام) اللہ تعالیٰ کے سچے نبی ہیں۔ لیکن پھر بھی انھوں نے زیادتی اور تکبّر کارویہ اختیار کیا جس کے نتیجہ میں انھیں سمندر میں ڈوبکیاں دے دے کر موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ جن کے بارے میں فرمایا ہے کہ دیکھو اور غور کرو کہ فساد کرنے والوں کا کس قدر بدترین انجام ہوا۔ ایمان کے لیے تین شرائط ہیں ان میں سے کوئی ایک شرط مفقود ہو تو وہ ایمان قبول نہیں کیا جاتا۔ تصدیق بالقلب، اقرار باللّسان اور عمل بالجوارح۔ مسائل ١۔ عظیم معجزات دیکھنے کے باوجود فرعون اور اس کے ساتھیوں نے موسیٰ (علیہ السلام) کو جادوگر قرار دیا۔ ٢۔ فرعون ور اس کے ساتھی اپنے دلوں میں موسیٰ (علیہ السلام) کی سچائی تسلیم کرچکے تھے۔ تسلیم کرلینے کے باوجود انھوں نے تکبر اور ظلم کا راستہ اختیار کیا جس کی وجہ سے وہ ذلیل و خوار ہوئے۔ النمل
14 النمل
15 فہم القرآن ربط کلام : حضرت داؤد (علیہ السلام) کے بعد ان کے بیٹے حضرت سلیمان (علیہ السلام) اپنے والد حضرت داؤد (علیہ السلام) کی مسند پر جلوہ افروز ہوئے اور انھوں نے اپنی نبوت اور اقتدار کے بارے میں لوگوں کو ان الفاظ میں آگاہ فرمایا۔ قرآن مجید کے الفاظ سے یوں لگتا ہے کہ جیسے حضرت داؤد (علیہ السلام) حضرت سلیمان (علیہ السلام) کا اپنی قوم کو یہ پہلا خطاب تھا۔ جس میں انھوں نے اپنی نبوت، اقتدار اور اختیار کے بارے میں عوام کو آگاہ فرماتے ہوئے اس بات کا اعتراف کیا کہ جو کچھ ہمیں ملا ہے یہ اللہ تعالیٰ کا عظیم فضل ہے۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے پرندوں سے لے کر چیونٹیوں تک کی زبان اور عادات کا علم عنایت کیا تھا۔ یہ علم ان کے والد گرامی حضرت داؤد (علیہ السلام) کو حاصل نہ تھا۔ اس لیے انھوں نے اپنے خطاب میں اسے خاص طور پر ذکر کیا۔ جہاں تک ورا ثت کا تعلق ہے حضرت سلیمان (علیہ السلام) اپنے باپ حضرت داؤد (علیہ السلام) کی مسند اقتدار اور ان کے علم اور روایات کے وارث ہوئے۔ لیکن نبوت ایسا منصب ہے جو وراثت اور محنت سے حاصل نہیں ہوتا۔ یہ اللہ تعالیٰ کا اپنا انتخاب۔ جسے چاہتا ہے اپنا رسول منتخب کرتا ہے۔ اب سلسلہ نبوت کو نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات پر ختم کردیا ہے۔ لہٰذا قیامت تک کوئی رسول اور نبی نہیں آئے گا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نبوت کا سلسلہ ختم کردیا ہے۔ جہاں تک حضرت سلیمان (علیہ السلام) کا اپنے باپ حضرت داؤد (علیہ السلام) کا وارث بننا ہے وہ حضرت داؤد (علیہ السلام) کے ذاتی مال کے وارث نہ تھے کیونکہ انبیاء کرام (علیہ السلام) اپنی وفات کے وقت کسی قسم کی جائیداد اور مال نہیں چھوڑتے۔ یہ انبیاء (علیہ السلام) کی خصوصیت ہے لیکن کسی امتّی کے لیے جائز نہیں کہ وہ اپنی پوری کی پوری جائیداد فی سبیل اللہ وقف کر دے۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) اپنے باپ کی مسند اقتدار پر بٹھائے گئے تھے۔ جس بنا پر فرمایا گیا کہ وہ اپنے باپ کے وارث بنے اس سے معلوم ہوا کہ بادشاہت بری چیز نہیں بشرطیکہ وہ اللہ تعالیٰ کے احکام کے مطابق کی جائے کیونکہ اسلام میں حکومت کرنے کا ہر وہ طریقہ جائز ہے جس میں نظام حکومت شریعت کے مطابق چلایا اور لوگوں کے حقوق کا خیال رکھا جائے جس شخص کو دنیا میں حکمرانی اور دین مل جائے اس پر اللہ تعالیٰ کا فضل عظیم ہوتا ہے۔ مسائل ١۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) اپنے باپ کے اقتدار اور علم کے وارث بنے۔ ٢۔ اقتدار اور نبوت اللہ تعالیٰ کا فضل ہوتا ہے جس پر اس کا شکریہ ادا کرنا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن علم والوں کے فضائل : ١۔ جہاد کے ساتھ ساتھ دین کا فہم حاصل کرنا لازم ہے۔ (التوبۃ: ١٢٢) ٢۔ صاحب علم اور جاہل برابر نہیں ہو سکتے۔ (الزمر : ٩) ٣۔ یقیناً اللہ سے علماء ہی ڈرتے ہیں۔ (فاطر : ٢٨) ٤۔ اللہ تعالیٰ ایمانداروں اور علم والوں کے درجات بلند فرماتا ہے۔ (المجادلۃ: ١١) ٥۔ اللہ تعالیٰ نے داؤد اور سلیمان کو علم عطا کیا۔ (النمل : ١٥) ٦۔ جو مثالیں ہم لوگوں کے لیے بیان کرتے ہیں عالم لوگ ہی ان کو سمجھتے ہیں۔ (العنکبوت : ٤٣) ٧۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم (علیہ السلام) کو خود علم عطا فرمایا۔ ( البقرۃ: ٣١) ٨۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر پہلی وحی علم کے بارے میں نازل ہوئی۔ ( العلق : ١ تا ٥) ٩۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی امت کو قرآن، حکمت اور آداب سکھلانے کے لیے مبعوث کیے گئے تھے۔ ( الجمعۃ: ٢) النمل
16 النمل
17 فہم القرآن ربط کلام : حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو نہ صرف پرندوں کی بولیوں کا علم دیا گیا بلکہ انھیں جنوں، انسانوں اور پرندوں پر حکومت کرنے کا اختیار بھی عطا ہوا۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) پہلے پیغمبر اور حکمران ہیں جو بیک وقت جنوں، انسانوں اور پرندوں پر عملاً حکمران بنائے گئے۔ اس کے لیے ” حُشَرِ لِسُلَیْمٰنَ“ کے الفاظ لا کر ثابت کیا گیا کہ جن وانس اور پرندوں کو مسخر کرنا اللہ تعالیٰ کی طرف سے تھا ورنہ ایسا کرنا سلیمان (علیہ السلام) کے بس کی بات نہ تھی۔ سلیمان (علیہ السلام) نے اپنے اقتدار کی معاونت اور عوام کی خدمت کے لیے جنوں، انسانوں اور پرندوں کو الگ الگ منظم کیا تھا۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو یہ معجزاتی اختیارات دیے گئے تھے۔ معجزہ کسی پیغمبر کے بس کی بات نہیں ہوتی یہ خالصتاً اللہ تعالیٰ کی عنایت ہوتی ہے۔ معجزہ کا معنٰی ہے لوگوں کو عاجز کردینے والا، یعنی عام انسان اور کوئی مخلوق ایسا کام نہیں کرسکتی جو اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبر سے کرواتا ہے۔ معجزہ انسان کی عقل کو دنگ کردیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کچھ لوگوں کی عقل اس قدر ماؤف ہوجاتی ہے کہ وہ معجزات کا انکار کرتے ہیں یا پھر ان کی تاویلات کے درپے ہوتے ہیں۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے جن معجزات کا یہاں ذکر ہے کچھ لوگوں نے ان کی ناقابل فہم تاویلات کی ہیں۔ جن کا ذکر کرنا بے سود ہے۔ مسائل ١۔ سلیمان (علیہ السلام) کو جنات، انسانوں اور پرندوں پر حکمرانی عطا کی گئی۔ ٢۔ سلیمان (علیہ السلام) نے تینوں طبقات کو الگ الگ منظم کرر کھا تھا۔ تفسیر بالقرآن قرآن مجید میں جنات کا تذکرہ : ١۔ جن اور انسان اللہ کی عبادت کے لیے پیدا کئے گئے ہیں۔ (الذاریات : ٥٦) ٢۔ جنات غیب نہیں جانتے۔ (سبا : ١٤) ٣۔ جن اور انسان مل کر اس جیسا قرآن بنا لاؤ۔ (بنی اسرائیل : ٨٨) ٤۔ جن و انس مل کر قیامت تک ایک سورۃ بھی اس جیسی نہیں بناسکتے۔ (البقرۃ : ٢٣۔ ٢٤) ٥۔ اے انسانوں اور جنوں اگر تم خدا کی خدائی سے نکل سکتے ہو نکل جاؤ۔ ( الرّحمن : ٣٣) النمل
18 فہم القرآن ربط کلام : حضرت سلیمان (علیہ السلام) صرف جن وانس اور پرندوں کی بولیاں نہیں جانتے تھے بلکہ وہ حشرات الارض کی بولیاں بھی سمجھتے تھے اس کی ایک مثال پیش کی جاتی ہے۔ قرآن مجید نے یہ نہیں بتلایا کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) اپنے لشکروں کے ساتھ کس طرف اور کس قوم کے خلاف پیش قدمی کر رہے تھے۔ صرف یہ بات بتلائی گئی ہے کہ جب وہ اپنے لشکروں کے ساتھ ایک ایسی وادی سے گزرنے والے تھے جہاں چیونٹیوں نے ڈیرے ڈال رکھے تھے۔ چیونٹیوں کی سردار کو سلیمان (علیہ السلام) اور ان کے لشکروں کی آمد کا علم ہوا تو اس نے چیونٹیوں کو آواز پر آواز دی کہ اے چیونٹیو ! اپنی اپنی بلوں میں داخل ہوجاؤ کہیں سلیمان (علیہ السلام) اور اس کے لشکر غیر شعوری طور پر تمہیں کچل نہ دیں۔ یہ آواز حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے سنی تو مسکرائے اور اپنے رب کا شکر ادا کیا۔ بعض مفسرین نے غیر مستند روایات کے حوالے سے یہ بات لکھی ہے کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے چیونٹی کی آواز تین میل دورسے سن لی تھی۔ اَللّٰہُ اَعْلَمُ۔ بہر حال یہ ظاہر ہے کہ سلیمان (علیہ السلام) نے چیونٹیوں کے پڑاؤ پر پہنچنے سے پہلے یہ آواز سنی تھی جس پر وہ خوشی اور شکرانے کے طور پر مسکرائے تھے۔ چیونٹیوں کے بارے میں معلومات : اللہ تعالیٰ نے چینٹوں کو بھی انسان کی طرح عقل دی ہے جو چیزوں کا ادراک کرلیتی ہے۔ انسانوں کی طرح مختلف قبائل اور خاندانوں میں بٹی ہوتی ہیں۔ ہر کام کے لیے الگ الگ چیونٹیاں متعین ہوتی ہیں۔ مثلاً خوراک کی بہم رسانی کے لیے الگ ہوتی ہیں۔ اپنے پڑاؤ کی نگہبانی اور دفاع کے لیے الگ ہوتی ہیں۔ دشمن کا مقابلہ کرنے کے لیے ان کا علیٰحدہ لشکر ہوتا ہے جو مختلف حصوں میں تقسیم ہوتا ہے۔ ان کی نگرانی کے لیے علیٰحدہ علیٰحدہ جرنیل متعین ہوتے ہیں۔ نیز جب وہ گندم وغیرہ کے دانے اپنے گوداموں میں ذخیرہ کرتی ہیں تو ان کو کاٹ کر دو ٹکڑے کردیتی ہیں تاکہ انہیں نمی پہنچے تو وہ اگ نہ پڑیں۔ لیکن جب وہ مسور اور دھنیا کا ذخیرہ کرتی ہیں تو ان کے چار چار ٹکڑے کرتی ہیں۔ کیونکہ ان کا نصف حصہ بھی اگ پڑتا ہے۔ حضرت سلیمان کے دور میں چیونٹی کی بارش کے لیے دعا : (عَنْ اَبِی الصِّدِیْقِ النَّاجِی اَنَّ سُلَیْمَانَ بْنِ دَاوُدَ خَرَجَ بالنَّاسِ یَسْتَسْقِیْ فَمَرِ عَلٰی نَمْلَۃِ مُسْتَلْقِیَۃٍ عَلیَ قَفَاہَا رَافِعَۃٌ قَوَاءِمَہَا اِلَی السَّمَآءَ وَہِیْ تَقُوْلُ، اَللّٰہُمَّ اِنَّا خَلَقً مِنْ خَلْقِکَ لَیْسَ لَنَاغِنًی رَزِقِکْ، فَاَمَا اَنْ تَسْقِیْنَا وَاِمْا اَنْ تَہْلِکُنْا، فَقَالَ سُلَیْمَان للنَّاسِ اِرْجِعْوا فَقَدْ سَقِیْتُمْ بِدَعْوَۃِ غَیْرِکُمْ) [ مصنف ابن ابی شیبہ : ج، ٧، ص ٧٧] ” حضرت ابی صدیق ناجی بیان کرتے ہیں بے شک سلیمان بن داؤد (علیہ السلام) ایک دن لوگوں کے ساتھ بارش طلب کرنے کے لیے باہر نکلے تو ان کا گذر ایک چیونٹی کے پاس سے ہوا جو اپنی گدی کے بل لیٹی ہوئی ٹانگیں آسمان کی طرف اٹھائے ہوئے یہ دعا کر رہی تھی (اے اللہ ہم بھی تیری مخلوقات میں سے ایک مخلوق ہیں اور ہم تیرے رزق سے مستغنی نہیں ہیں۔ اے مالک ہم پر بارش برسا وگرنہ ہم ہلاک ہوجائیں گی۔) سلیمان (علیہ السلام) نے لوگوں کو کہا واپس پلٹ چلوایک اور مخلوق کی دعا سے بارش ہوجائے گی۔“ مسائل ١۔ چیونٹیوں کی سردار نے قبل از وقت خطرے سے اپنی قوم کو آگاہ کیا۔ ٢۔ قوم کے سربراہ کا فرض ہے کہ وہ اپنی قوم کو خطرات سے بچانے کی کوشش کرے۔ النمل
19 فہم القرآن ربط کلام : حضرت سلیمان (علیہ السلام) انتہائی خوشی کے عالم میں بھی اللہ تعالیٰ کے انعام کا اعتراف کرتے ہوئے اس کا شکرا ادا کرتے ہیں۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے چیونٹی کی آواز سنی تو مسکرائے اور سوچا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے کس قدر علم اور اقتدار عطا فرمایا ہے کہ میں ایک چیونٹی کی آواز کو سنتا اور سمجھتا ہوں۔ اتنے بڑے اقبال اور اقتدار کے مالک ہونے کے باوجود اتراتے نہیں بلکہ اپنے رب کا ان الفاظ میں شکر ادار کرتے ہیں۔ الٰہی ! جو تو نے مجھ پر اور میرے والدین پر احسانات فرمائے ہیں میں ان کا اعتراف کرتا ہوں اور شکر گزار ہوں۔ الٰہی! مجھے اپنے انعامات کے نتیجہ میں ایسے اعمال کرنے کی توفیق نصیب فرما جن اعمال کو تو پسند کرتا ہے۔ مجھے اپنی خاص رحمت کے ساتھ اپنے نیک بندوں میں شامل فرما ! حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے اپنی دعا میں ” اَوْزِعْنِیْ“ کا لفظ استعمال کیا ہے جس کا معنٰی ہے کہ مجھے اس طرح پابند کیجیے جس بناء پر میں وہی کام کروں جنھیں تو پسند کرتا ہے۔ جن کا عام الفاظ میں یہ معنٰی ہے کہ میرے رب مجھے ان کا موں کی ہمت اور طاقت نصیب نہ کرنا جن کاموں کو تو پسند نہیں کرتا۔ کسی آدمی کے صالح فکر اور نیک ہونے کی پہلی نشانی یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا اعتراف کرے اور اس کا شکر بجا لانے کی پوری کوشش کرتا رہے۔ اللہ تعالیٰ کے احسانات کا اظہار اور اس کی نعمتوں کا اعتراف کرنا پریشانیوں سے محفوظ رہنے کا طریقہ ہے، مزید ملنے کی گارنٹی اور زوال نعمت سے مامون رہنے کی ضمانت ہے یہ رب تعالیٰ کی بارگاہ میں نہایت پسندیدہ عمل ہے۔ شکر کے مقابلہ میں ناشکری ہے جو کفر کے مترادف ہے۔ (بَلِ اللّٰہَ فَاعْبُدْ وَ کُنْ مِّنَ الشّٰکِرِیْنَ) [ الزمر : ٦٦] ” پس اللہ کی عبادت کرتے ہوئے شکر گزاربندوں میں شامل ہوجائیے۔“ اللہ تعالیٰ نے اپنی کسی عبادت اور دین کے کسی عمل کے بارے میں بیک وقت یہ نہیں فرمایا کہ اس کے کرنے سے تم عذاب سے محفوظ ہونے کے ساتھ مزید ملنے کے حقدار بن جاؤ گے۔ صرف شکر ایسا عمل ہے جس کے بارے میں یہ واضح کردیا گیا کہ اس کی گرفت سے بچنے کے ساتھ مزید عطاؤں کا سلسلہ جاری رہے گا۔ اس دوہرے انعام کی وجہ سے شیطان نے سرکشی اور بغاوت کی حدود پھلانگتے ہوئے کہا تھا۔ (وَلَاتَجِدُ اَکْثَرَھُمْ شٰکِرِےْنَ) [ الاعراف : ١٧] ” اور تو ان میں سے اکثر کو شکر گزار نہ پائے گا۔“ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعائیں : (عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ قَالَ أَخَذَ بِیَدِیْ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَقَالَ إِنِّیْ لَأُحِبُّکَ یَا مُعَاذُ فَقُلْتُ وَأَنَا أُحِبُّکَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَلاَ تَدَعْ أَنْ تَقُوْلَ فِیْ کُلِّ صَلاَۃٍ رَبِّ أَعِنِّیْ عَلٰی ذِکْرِکَ وَشُکْرِکَ وَحُسْنِ عِبَادَتِکَ) [ سنن النسائی : باب نَوْعٌ آخَرُ مِنَ الدُّعَآءِ] ” حضرت معاذبن جبل (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے میرا ہاتھ پکڑ کر فرمایا اے معاذ! میں تجھ سے محبت کرتا ہوں۔ میں نے عرض کی اللہ کے رسول میں بھی آپ سے محبت کرتا ہوں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا نماز کے بعد اس دعا کو ضرور پڑھا کرو۔ اے میرے پروردگار ذکر، شکر اور اچھی عبادت کرنے پر میری مدد فرما۔“ (عَنْ أَبِی الدَّرْدَاءِ قَالَ قَالَ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کَانَ مِنْ دُعَاءِ دَاوُدَ یَقُول اللَّہُمَّ إِنِّی أَسْأَلُکَ حُبَّکَ وَحُبَّ مَنْ یُحِبُّکَ وَالْعَمَلَ الَّذِی یُبَلِّغُنِی حُبَّکَ اللَّہُمَّ اجْعَلْ حُبَّکَ أَحَبَّ إِلَیَّ مِنْ نَفْسِی وَأَہْلِی وَمِنَ الْمَاءِ الْبَارِدِ) [ رواہ الترمذی : باب مَا جَاءَ فِی عَقْدِ التَّسْبِیح بالْیَدِ] ” حضرت ابی درداء (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) داؤد (علیہ السلام) کی دعا دوہرایا کرتے تھے اور کہتے۔ اے اللہ میں تم سے تیری محبت کا سوال کرتا ہوں اور اس کی محبت جو تم سے محبت رکھتا ہے اور ایسے عمل کی محبت جو مجھے تمھاری محبت کے قریب کر دے۔ اور ایسے عمل کا سوال کرتا ہوں جو مجھے تیری محبت کا حق دار بنا دے اے اللہ ! میرے لیے اپنی محبت میرے نفس، اہل اور ٹھنڈے پانی سے بھی بڑھ کر عزیز بنا دے۔“ مسائل ١۔ سلیمان (علیہ السلام) ہر حال میں اپنے رب کا شکر ادا کرتے تھے۔ ٢۔ سلیمان (علیہ السلام) اپنے رب سے صالح اعمال کرنے کی توفیق مانگتے تھے۔ ٣۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے دنیا کے ساتھ اپنے رب سے جنت میں نیک لوگوں کی رفاقت کی دعا کی۔ تفسیر بالقرآن شکر کی اہمیّت اور اس کی فضیلت : ١۔ اللہ نے تمہارے لیے سماعت، بصارت اور دل بنایا تاکہ تم شکر کرو۔ (النحل : ٧٨) ٢۔ اگر تم شکر کرو گے تو اللہ تمہیں زیادہ دے گا۔ (ابراہیم : ٧) ٣۔ اگر تم اللہ کا شکر کرو تو وہ تم سے خوش ہوگا۔ (الزمر : ٧) ٤۔ اگر تم اللہ کا شکر ادا کرو اور اس پر ایمان لاؤ تو تمہیں عذاب کرنے کا اسے کیا فائدہ؟ (النساء : ١٤٧) النمل
20 فہم القرآن ربط کلام : حضرت سلیمان (علیہ السلام) کا اپنے لشکر کا جائزہ لینا اور ہد ہد کے بارے میں رپورٹ طلب کرنا۔ آیت ١٧ میں بیان ہوا ہے کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے جنوں، انسانوں اور پرندوں کو الگ الگ منظم کر رکھا تھا۔ اسی اصول کے پیش نظر انھوں نے ایک علاقہ کی طرف پیش قدمی کرتے ہوئے سفر کے دوران ایک مقام پر پہنچ کر اپنے لشکر کا جائزہ لیا تو انھوں نے ہدہد پرندے کو لشکر میں غائب پایا۔ غضبناک ہو کر فرمایا کیا وجہ ہے ہد ہد نظر نہیں آیا۔ کیا وہ غیر حاضر ہے ؟ اگر اس نے غیر حاضری کی معقول وجہ نہ بتلائی تو میں اسے سخت سزا دوں گا یا پھر اسے ذبح کرڈالوں گا۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے رویہّ سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک شخص کو کتنا بڑا اقتدار اور فضیلت حاصل ہو۔ اسے بھی کسی کو سزا دینے سے پہلے صفائی کا موقعہ دینا چاہیے۔ اس مقام پر بھی بعض عقل پرستوں نے اپنی عقل کے خوب گھوڑے دوڑائے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہاں ہدہد سے مراد پرندہ نہیں بلکہ کسی انسان کا لقب یا نام ہے شاید انہی کے بارے میں کہا گیا ہے کہ خود نہیں بدلتے قرآن کو بدل دیتے ہیں۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے جس ہدہد کو خط دے کر بھیجا اسے یعنور کہا جاتا تھا، علامہ دمیری نے حضرت ابن عباس کے حوالے سے لکھا ہے کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) اس پرندے سے پانی کی تلاش کا کام لیا کرتے تھے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اسے یہ صلاحیت بخشی ہے کہ یہ زمین کے اندر پانی کو اس طرح دیکھ لیتا ہے جس طرح آدمی برتن میں پڑے ہوئے پانی کو دیکھتا ہے۔ مسائل ١۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) مختلف موقعوں پر اپنے لشکروں کا جائزہ لیا کرتے تھے۔ ٢۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) نہ صرف پیغمبر تھے بلکہ بیدار مغز حکمران بھی تھے۔ النمل
21 النمل
22 فہم القرآن ربط کلام : حضرت سلیمان (علیہ السلام) پرندوں کے لشکر کے جائزہ سے فارغ ہوئے ہی تھے کہ ان کی خدمت میں ہد ہد پیش ہوا۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) ہد ہد کی غیر حاضری کے بارے میں ابھی طیش کے عالم میں تھے کہ ہد ہد ان کے حضو رپیش ہو کر اپنی غیر حاضری کی ان الفاظ میں وجہ عرض کرتا ہے۔ پیش ہوتے ہی معذرت خواہانہ انداز میں عرض کرتا ہے۔ جناب میں ملک سبا سے ایک ایسی مستند خبر آپ کے حضو رپیش کرتا ہوں جو آپ کے علم میں نہیں ہے۔ میں نے وہاں ایک عورت کو حکمران پایا۔ جس کے پاس نہ صرف ہر قسم کے وسائل موجود ہیں بلکہ وہ ایک عظیم تخت پر جلوہ افروز ہوتی ہے۔ ہد ہد نے مختصر مگر جامع رپورٹ پیش کرتے ہوئے ملک سبا کی حکمرانی اور اس کی مملکت کی ترقی کے بارے میں حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو آگاہ کیا۔ قرآن اور حدیث میں ملک سبا کی حکمران کا نام موجود نہیں تاہم مؤرخین اور مفسرین نے اس کا بلقیس بتلایا ہے۔ سبا جنوبی عرب کی مشہور تجارت پیشہ قوم تھی جس کا دارالحکومت مارِب موجودہ یمن کے دارالحکومت صنعاء سے ٥٥ میل دور شمال مشرق میں واقع تھا۔ اس کا زمانۂ عروج مَعِین کی سلطنت کے زوال کے بعد تقریباً ١١٠٠ ق م سے شروع ہوا اور ایک ہزار سال تک یہ عرب میں اپنی عظمت کے ڈنکے بجاتی رہی۔ پھر ١١١٥ ق م میں جنوبی عرب کی دوسری مشہور قوم حمیر نے اس کی جگہ لے لی۔ عرب میں یمن اور حضرموت اور افریقہ میں حبش کے علاقے پر اس کا قبضہ تھا، مشرقی افریقہ، ہندو ستان، مشرق بعید اور خود عرب کی جتنی تجارت مصر وشام اور یونان و روم کے ساتھ ہوتی تھی وہ زیادہ تر انہی سبائیوں کے ہاتھ میں تھی۔ اسی وجہ سے یہ قوم قدیم زمانہ میں اپنی دولت کے حوالے سے مشہور تھی۔ بلکہ یونانی مؤرخین اسے دنیا کی سب سے زیادہ مالدار قوم کہتے ہیں۔ تجارت کے علاوہ ان کی خوشحالی کا بڑا سبب یہ تھا کہ انہوں نے اپنے ملک میں جگہ جگہ بند باندھ کر ایک بہترین نظامِ آب پاشی قائم کر رکھا تھا جس سے ان کا پورا علاقہ جنت نظیر بنا ہوا تھا۔ ان کے ملک کی اس غیر معمولی شادابی کا ذکر یونانی مؤرخین نے بھی کیا ہے اور سورۃ سبا کے دوسرے رکوع میں قرآن مجید بھی اس کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ (ماخوذ از تفہیم القرآن جلد، ٣) عورت کی حکمرانی : بعض نام نہاد دانشور غیر مسلموں سے متاثر ہو کرا نا صرف اس بات کا مطالبہ کرتے ہیں کہ عورت کو مرد کے کندھے سے کندھا ملا کر چلنا چاہیے بلکہ وہ مغربی جمہوریت کی پیروی میں عورت کو ملک کا سربراہ بنانے میں حرج نہیں سمجھتے۔ اس کے لیے ” سورۃ النمل“ سے ملکہ سبا کی حکومت کا حوالہ دیتے ہیں۔ ایسے دانشور یہ حقیقت بھول جاتے ہیں کہ مملکت سبا کی ملکہ بلقیس اس وقت تک ہی اپنے ملک کی حکمران رہی تھی جب تک وہ کافرہ تھی۔ جو نہی وہ اپنے وقت کے نبی حضرت سلیمان (علیہ السلام) پر ایمان لائی تو اس نے اپنے آپ کو ان کے تابع کردیا اس کے بعد اس کی حکمرانی کا تاریخ میں ثبوت نہیں ملتا۔ کچھ لوگ جنگ جمل میں حضرت عائشہ (رض) کی سربراہی کا حوالہ دیتے ہیں۔ حالانکہ یہ بات بھی انصاف کے ترازو پر پوری نہیں اترتی۔ کیونکہ حضرت عائشہ (رض) نے زندگی بھر کبھی مسلمانوں کی خلیفہ بننے کی خواہش کا اظہار نہیں کیا۔ وہ شدید ہنگامی حالات میں مسلمانوں کے درمیان صلح کی غرض سے نکلی تھیں لیکن حالات کی پیچیدگی میں پھنس کر رہ گئیں۔ اس لیے وہ زندگی بھر اپنے اس اقدام پر پریشان اور پشیمان رہیں۔ جب بھی قرآن مجید کی اس آیت (وَقَرْنَ فِیْ بُیُوْتِکُنَّ) [ الاحزاب : ٣٣] کی تلاوت کرتیں تو زارو قطار رویا کرتی تھیں۔ [ طبقات ابن سعد] (عَنْ أَبِی بَکْرَۃَ قَالَ لَقَدْ نَفَعَنِی اللَّہُ بِکَلِمَۃٍ سَمِعْتُہَا مِنْ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) أَیَّامَ الْجَمَلِ، بَعْدَ مَا کِدْتُ أَنْ أَلْحَقَ بِأَصْحَابِ الْجَمَلِ فَأُقَاتِلَ مَعَہُمْ قَالَ لَمَّا بَلَغَ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) أَنَّ أَہْلَ فَارِسَ قَدْ مَلَّکُوا عَلَیْہِمْ بِنْتَ کِسْرَی قَالَ لَنْ یُفْلِحَ قَوْمٌ وَلَّوْا أَمْرَہُمُ امْرَأَۃً) [ رواہ البخاری : باب کِتَاب النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) إِلَی کِسْرَی وَقَیْصَرَ ] ” حضرت ابی بکرہ بیان کرتے ہیں مجھے ان کلمات نے بہت فائدہ دیا جو میں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ایّام جمل میں سنے جب میں اصحاب جمل کے ساتھ مل کر لڑائی کر رہا تھا جب یہ بات رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تک پہنچی کہ فارس والوں نے کسریٰ کی بیٹی کو حکمران بنا لیا ہے تو آپ نے فرمایا : وہ قوم ہرگز فلاح نہیں پا سکتی جس نے اپنی حکومت عورت کے سپرد کردی۔“ مسائل ١۔ ہدہد نے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے سامنے اپنی غیر حاضری کی معقول وجہ پیش کی۔ ٢۔ ہدہد نے ملک سبا کی ترقی اور اس کی حکمران کے بارے میں حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو ٹھوس معلومات پیش کیں۔ ٣۔ ملزم کو صفائی کا موقعہ دئیے بغیر سزا نہیں دی جا سکتی۔ النمل
23 النمل
24 فہم القرآن ربط کلام : ہد ہد کی رپورٹ کا مذہبی حصہ۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے سامنے ہد ہد نے اپنے چشم دید مشاہدات میں یہ بات بھی عرض کی کہ میں نے ملک سبا کی حکمران اور اس کی قوم کو اس حالت میں دیکھا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے سوا سورج کو سجدہ کرتے ہیں اور یہ کام شیطان نے ان کے لیے خوبصورت بنا دیا ہے۔ ملکہ سبا : شیطان نے نہ صرف شرک کو ان کے لیے خوبصورت بنا کے پیش کیا ہے بلکہ اس نے انھیں صراط مستقیم سے روک رکھا ہے جس بنا پر وہ صراط مستقیم سمجھنے اور اس پر گامزن ہونے کے لیے تیار نہیں تھے۔ یہ بات فہم القرآن میں کئی مرتبہ عرض ہوچکی ہے کہ شیطان شرک اور برے اعمال کو اس طرح خوبصورت کرکے پیش کرتا ہے کہ لوگ شرک اور دیگر جرائم کو گناہ سمجھنے کی بجائے اپنی تہذیب کا حصہ، معاشرتی روایات اور نیکی سمجھتے ہیں۔ جس بناء پر انھیں اس بات کا احساس نہیں ہوتا کہ ہم نیکی کی بجائے گناہ کر رہے ہیں یہی وجہ ہے کہ شرک اور دیگر گناہوں کو چھوڑناتو درکنار ایسے لوگ ان کے خلاف کوئی بات سننے کے لیے بھی تیار نہیں ہوتے۔ یہ کسی فرد یا قوم کی گمراہی کی انتہا ہوتی ہے کہ وہ حق قبول کرنے کی بجائے گمراہی میں آگے بڑھتی جائے۔ اور اسے مذہب اور ثقافت کے نام پر کرتی رہے۔ ہد ہد کی رپورٹ اور قرآن مجید کے الفاظ سے ثابت ہوتا ہے کہ شرک ایسا غلیظ عمل ہے جس سے پرندے بھی نفرت کرتے ہیں۔ ہدہد کے بیان سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ نے انسان کی جبلت میں عقیدہ توحید سمودیا ہے اسی طرح ہی جانوروں کی فطرت میں عقیدہ توحید کا شعور رکھا ہے۔ جس بناء پر ہد ہد نے شرک سے نفرت کرتے ہوئے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی خدمت میں یہ عرض کی کہ سبا کی ملکہ اور اس کی قوم کتنی ناعاقبت اندیش ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے حضور سجدہ نہیں کرتے حالانکہ اللہ وہ ذات ہے جو زمینوں آسمانوں کی چھپی ہوئی چیزوں کو نکالتا ہے اور وہ یہ بھی جانتا ہے کہ جو لوگ چھپاتے ہیں اور جو کچھ ظاہر کرتے ہیں۔ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں وہی عرش عظیم کا رب ہے۔ اس آیت اور قرآن مجید کے دیگر مقامات سے ثابت ہوتا ہے کہ پرندے اور دیگر مخلوق بھی اللہ تعالیٰ کے حضور سجدہ کرتے ہیں اور انھیں پوری طرح اپنے معبود حقیقی کی الوہیت اور اس کی عبادت کرنے کا شعور بخشتا گیا ہے۔ مشرک ” اللہ“ کے سوا دوسروں کو سجدہ کرتے ہیں۔ مومنوں کو حکم ہے کہ جب ان آیات کی تلاوت کرتے ہوئے ” رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیْم“ کے الفاظ تک پہنچیں تو وہ اللہ کے حضور سجدہ کریں۔ (وَمِنْ اٰیٰتِہٖ الَّیْلُ وَالنَّھَارُ وَالشَّمْسُ وَالْقَمَرُ لاَ تَسْجُدُوْا للشَّمْسِ وَلاَ لِلْقَمَرِ وَاسْجُدُوْا لِلّٰہِ الَّذِیْ خَلَقَھُنَّ إِنْ کُنْتُمْ إِیَّاہُ تَعْبُدُوْنَ) [ حٰم السجدۃ: ٣٧] ” رات اور دن، سورج اور چاند اللہ کی نشانیاں ہیں۔ سورج چاند کو سجدہ نہ کر وبلکہ اس ذات کبریاء کو سجدہ کرو جس نے ان کو پیدا کیا ہے اگر واقعتا تم اسی کی عبادت کرنے والے ہو۔“ (عَنْ قَیْسِ بْنِ سَعْدٍ قَالَ أَتَیْتُ الْحِیْرَۃَ فَرَأَیْتُھُمْ یَسْجُدُوْنَ لِمَرْزُبَانٍ لَّھُمْ فَقُلْتُ رَسُوْلُ اللّٰہِ أَحَقُّ أَنْ یُّسْجَدَ لَہٗ قَالَ فَأَتَیْتُ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَقُلْتُ إِنّیآ أَتَیْتُ الْحِیْرَۃَ فَرَأَیْتُھُمْ یَسْجُدُوْنَ لِمَرْزُبَانٍ لَّھُمْ فَأَنْتَ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ أَحَقُّ أَنْ نَسْجُدَ لَکَ قَالَ أَرَأَیْتَ لَوْ مَرَرْتَ بِقَبْرِیْ أَکُنْتَ تَسْجُدُ لَہٗ قَالَ قُلْتُ لَا قَالَ فَلَا تَفْعَلُوْا لَوْ کُنْتُ آمِرًا أَحَدًا أَنْ یَّسْجُدَ لِأَحَدٍ لَأَمَرْتُ النِّسَآءَ أَنْ یَسْجُدْنَ لِأَزْوَاجِھِنَّ لِمَا جَعَلَ اللّٰہُ لَھُمْ عَلَیْھِنَّ مِنَ الْحَقِّ) [ رواہ أبوداوٗد : کتاب النکاح، باب فی حق الزوج علی المرأۃ] ” حضرت قیس بن سعد (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں حیرہ گیا تو میں نے وہاں کے لوگوں کو بادشاہ کو سجدہ کرتے ہوئے دیکھا۔ میں نے کہا : اللہ کے رسول سجدے کے زیادہ لائق ہیں۔ میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا تو میں نے عرض کی : میں نے حیرہ میں دیکھا کہ لوگ اپنے بادشاہ کو سجدہ کرتے ہیں۔ اللہ کے رسول ! آپ زیادہ حقدار ہیں کہ ہم آپ کو سجدہ کریں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : بتلائیے! اگر تم میری قبر کے پاس سے گزرو تو کیا اسے سجدہ کرو گے؟ میں نے کہا : نہیں۔ آپ نے فرمایا : ایسے نہ کرو اگر میں نے کسی کو کسی کے سامنے سجدہ ریز ہونے کا حکم دینا ہوتا تو اللہ تعالیٰ نے مردوں کا عورتوں پر جو حق رکھا اس وجہ سے عورتوں کو حکم دیتاکہ وہ اپنے خاوندوں کے سامنے سجدہ کیا کریں۔“ ” جب فرشتوں نے آدم (علیہ السلام) کی وسعت علم اور اپنے عجز کا اعتراف کرلیا تو پروردگار عالم نے انہیں حکم دیا کہ آدم کو سجدہ کرو۔ سجدہ کا لغوی معنی ہے تذلّل اور خضوع اور شریعت میں اس کا معنٰی ہے ” وضع الجبھۃ علی الأرض“ پیشانی کا زمین پر رکھنا۔ بعض علماء کے نزدیک یہاں سجدہ کا لغوی معنٰی مراد ہے کہ فرشتوں کو ادب واحترام کرنے کا حکم دیا گیا لیکن جمہور علماء کے نزدیک شرعی معنیٰ مراد ہے۔ یعنی فرشتوں کو حکم دیا گیا کہ آدم (علیہ السلام) کے سامنے پیشانی رکھ دیں۔ اب اس سجدہ کی دو صورتیں ہیں ایک تو یہ کہ پیشانی جھکانے والا یہ اعتقاد کرے کہ جس کے سامنے میں پیشانی جھکا رہا ہوں وہ خدا ہے تو یہ عبادت ہے اور یہ بھی کسی نبی کی شریعت میں جائز نہیں بلکہ انبیاء کی بعثت کا مقصد اولین تھا ہی یہی کہ وہ انسانوں کو صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت کا حکم دیں اور دوسروں کی عبادت سے منع کریں تو یہ کیونکر ہوسکتا ہے کہ جس چیز سے روکنے کے لیے انبیاء تشریف لائے اس فعل کا ارتکاب خود کریں یاکسی کو اجازت دیں۔ دوسری صورت یہ ہے کہ جس کے سامنے سجدہ کیا جارہا ہے اس کی عزت واحترام کے لیے ہو عبادت کے لیے نہ ہو تو اس کو سجدہ تحیہ کہتے ہیں۔ یہ پہلے انبیاء کرام کی شریعتوں میں جائز تھا لیکن حضور کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے بھی منع فرمادیا۔ اب تعظیمی سجدہ بھی ہماری شریعت میں حرام ہے۔“ [ ضیاء القرآن، جلد اول‘ البقرہ : ٣٤] خبکی تعریف : ” پوشیدہ چیزوں کو آسمان و زمین سے نکالنا مثلاً پانی کو آسمان سے نباتات کو زمین سے۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو سجدہ کرنا جائز نہیں۔ ٢۔ غیر اللہ کو سجدہ کرنے سے پرندے بھی نفرت کرتے ہیں۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ ہر چیز کو جاننے والا ہے۔ ٤۔ اللہ ہی معبودِ حق ہے اس کے سوا کسی کی عبادت کرنا جائز نہیں۔ تفسیر بالقرآن شیطان کن لوگوں کے لیے ان کے اعمال خوبصورت بناتا ہے : ١۔ شیطان نے اکثر مشرکین کے لیے قتل اولاد کا عمل مزّین کردیا۔ (الانعام : ١٣٧) ٢۔ قوم عاد و ثمود کے اعمالِ بد کو شیطان نے مزّین کردیا۔ (العنکبوت : ٣٨) ٣۔ ہر گروہ کے بد اعمال کو شیطان نے ان کے لیے مزّین کردیا ہے۔ (الانعام : ١٠٩) ٤۔ ظالموں کے دل سخت ہوگئے اور شیطان ان کے اعمال کو مزین کر دکھاتا ہے۔ (الانعام : ٤٣) ٥۔ اللہ کے علاوہ سورج کو سجدہ کرنے والوں کے برے اعمال کوشیطان نے ان کے لیے مزین کردیا۔ (النمل : ٢٤) النمل
25 النمل
26 النمل
27 فہم القرآن ربط کلام : حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے نہایت توجہ کے ساتھ ہدہد کی رپورٹ سماعت فرمائی اور حکم صادر فرمایا کہ فوری طور پر میرا خط لے کر ملکہ سبا تک پہنچاؤ۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے ہُد ہُد کو ارشاد فرمایا کہ عنقریب ہم ایک حکم کے ذریعے جاننا چاہیں گے کہ تو نے ہمارے سامنے سچ بولا ہے یا تو جھوٹ بولنے والوں میں شامل ہے۔ تیرے لیے حکم یہ ہے کہ ہمارا مراسلہ لے کر فوری طور پر ملکہ سبا کی طرف جاؤ اور ان کے سامنے ہمارا مراسلہ ڈال کر پیچھے ہٹ کر جائزہ لو کہ وہ ہمارے مراسلہ کا کیا ردِّ عمل ظاہر کرتے ہیں۔ ہدہد نے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کا مراسلہ پوری ذمہ داری کے ساتھ ملکہ بلقیس کے سامنے ڈالا اور ٹھیک ٹھیک طریقے سے ملکہ اور اس کے درباریوں کے ردِّ عمل کا جائزہ لیا۔ قرآن مجیدنے اس بات کا ذکر نہیں کیا کہ ہد ہد نے واپس آکر سلیمان (علیہ السلام) کو کیا رپورٹ پیش کی تاہم قرآن مجید کے سیاق وسباق سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس نے واپس آکر یقینی طور پر خط کے ردِّ عمل سے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو آگاہ کیا ہوگا۔ کیونکہ اسے حکم تھا کہ وہ خط پہنچانے کے بعد کچھ دیر وہاں ٹھہر کر اس کے ردِّ عمل کا جائز ہ لے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ہُد ہُد سکھلایا ہوا جانور تھا۔ جس بنا پر ملکہ اور اس کے ساتھیوں کی حرکات کا جائزہ لے سکتا تھا۔ تبھی تو سلیمان (علیہ السلام) نے اسے حکم دیا تھا کہ خط ان کے سامنے پھینک کر ان کے ردّ عمل کا جائزہ بھی لینا ہوگا۔ مسائل ١۔ مجاز اتھارٹی کو پیش آمدہ مسئلہ کی غیر جانبدارانہ انکوائری کرنا چاہیے۔ ٢۔ مجاز اتھارٹی کے لیے اپنے حکم کی تعمیل کا جائزہ لینا لازم ہے۔ ٣۔ حکمران کو دین اور ملک دشمن کی کارروائیوں سے آگاہ رہنا چاہیے۔ ٤۔ مسلمان حکمران کا فرض ہے کہ وہ شرک کے خلاف اقدامات کرے۔ النمل
28 النمل
29 فہم القرآن ربط کلام : خط موصول ہوتے ہی ملکہ سبا نے اپنے وزیروں، مشیروں کا اجلاس بلایا اور انہیں کو خط پڑھ کر سنایا۔ ملکہ سبا نے خط موصول ہوتے ہی اسے اپنے وزیروں اور مشیروں کے سامنے پیش کیا اور اس پر مثبت ردِّ عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اے وزراء کرام ! میرے پاس سلیمان (علیہ السلام) کا قابل احترام خط پہنچا ہے جس کی ابتداء اللہ مہربان اور رحم کرنے والے کے نام سے کی گئی ہے۔ اس میں ہمیں مخاطب کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ میرے مقابلے میں سرکشی کرنے کی بجائے تابعدار ہو کر میرے حضور پیش ہوجاؤ۔ مشرک ہونے کے باوجود ملکہ نے خط کی ابتداء یعنی ” بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ“ سے اندازہ لگالیا تھا کہ خط لکھنے والے کے نظریات کیا ہیں۔ اس لیے اس نے اس سرکاری مراسلے کو تکریم کے ساتھ قوم کے زعماء کے سامنے پیش کیا۔ جس سے ملکہ بلقیس کی ذہانت اور شرافت کا پتہ چلتا ہے کیونکہ قدیم زمانے سے یہ اصول چلا آرہا ہے کہ سفارت کا کوئی بھی انداز ہو اس کا پورا پورا احترام کیا جانا چاہیے۔ حالانکہ خط میں بھی انتباہ تھا اور حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے اپنا نام خط کے مضمون کے بعد لکھنے کی بجائے پہلے لکھا تھا حالانکہ اس زمانے میں بڑے لوگ اپنا نام خط سے پہلے اور ان کی رعایا کے لوگ اپنا نام خط کے مضمون کے بعد لکھتے تھے۔ ملکہ نے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے رعب کی وجہ سے دونوں باتوں کو حرف نظر کردیا۔ مرسل الیہ سے پہلے خط پر اپنا نام لکھنا انبیاء کرام (علیہ السلام) کا طریقہ ہے تاہم کسی بڑی شخصیت کو خط لکھتے وقت اپنا نام خط کے آخر میں لکھا جائے تو اہل علم کے نزدیک یہ بھی جائز ہے۔ خط اور تحریر سے پہلے ” بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ“ لکھنا انبیاء کرام (علیہ السلام) کی سنت ہے۔ بِسْمِ اللّٰہِ کی فضیلت اور اہمیت : رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حکم کے مطابق ہر کام کی ابتدا بسم اللہ سے کرنا چاہیے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سنت مبارکہ اور ارشاد ات سے ثابت ہوتا ہے کہ ہر کام کی ابتدا بسم اللہ سے کرنے سے مراد ہر موقعہ پر بسم اللہ کے الفاظ پڑھنا نہیں۔ بلکہ کام اور موقع کی مناسبت سے اللہ تعالیٰ کو یاد کرنا اور اس کا نام لینا ہے تاکہ اسم مبارک سے ابتدا کرتے ہوئے کام اور موقعہ کا احساس آدمی کو رب کریم کے قریب کردے جیسا کہ سونے اور نیند سے بیدار ہونے کے وقت دعا کے الفاظ احساس دلاتے ہیں۔ ہر آدمی کو ایسے ہی مرنا اور اٹھنا ہوگا۔ جانور ذبح کرتے وقت اللہ کا نام لینے سے تصور ابھرتا ہے کہ بڑائی اور کبریائی اللہ کی ذات کو زیبا ہے۔ یہ اللہ کا مال ہے اس پر کسی غیر کا نام لینے کی بجائے مالک حقیقی کا نام ہی لینا چاہیے۔ سواری پر برا جمان ہوتے ہوئے لفظ ” سُبْحَانَ الَّذِیْ“ سے دعا کرنے سے یہ خیال آنا چاہیے کہ جس مالک نے اس کو میرے تابع کیا ہے مجھے بھی اس ذات کبریا کا تابع فرمان ہونا چاہیے۔ سواری کو حاصل اور مطیع کرنا میرے بس کا روگ نہیں تھا۔ قرآن مجید کی تلاوت سے پہلے بسم اللہ پڑھنے کی بجائے اللہ تعالیٰ کا حکم ہے : (فَإِذَا قَرَأْتَ الْقُرْآنَ فَاسْتَعِذْ باللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ )[ النحل : ٩٨] ” جب قرآن مجید کی تلاوت شروع کرو توشیطان مردود سے اللہ کی پناہ مانگو۔“ گویا کہ موقعہ کی مناسبت سے ہر کام کا آغاز رب کریم کے مبارک نام سے ہونا چاہیے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشاد میں یہ فلسفہ پایا جاتا ہے کہ جب کوئی کام شروع کیا جائے تو اس پر اللہ کا نام لیتے ہوئے احساس پیدا ہو کہ جو کام کرنا چاہتاہوں وہ میرے لیے جائز بھی ہے یا نہیں۔ اگر کام حرام اور ناجائز ہو تو مومن کو اللہ کے نام کی لاج رکھتے ہوئے اس کام سے باز آنا چاہیے۔ جائز کام کی ابتدا میں بسم اللہ پڑھنے سے آدمی کا عقیدہ تازہ اور پختہ ہوجائے گا کہ اس کام کی ابتدا رحمن ورحیم کی مہربانی کا نتیجہ ہے اور اس کی تکمیل بھی اسی کے کرم سے ہوگی۔ (کُلُّ اَمْرٍ ذِیْ بَالٍ لَایُفْتَحُ بِذِکْرِ اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ فَہُوَ اَبْتَرُ اَوْقَالَ اَقْطَعُ) [ مسند احمد : کتاب باقی مسند المکثرین] ” جس کام کی ابتدا اللہ کے ذکر سے نہ کی جائے وہ بے برکت اور نامکمل ہے۔“ النمل
30 النمل
31 النمل
32 فہم القرآن ربط کلام : ملکہ بلقیس کا اپنی قوم کے زعماء کے سامنے خط پڑھ کر مشورہ لینا اس پر قوم کا ردِّ عمل۔ قرآن مجید کے الفاظ سے یہ بات عیاں ہورہی ہے کہ ملکہ اور اس کا انداز حکمرانی کیا تھا۔ اس نے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کا خط پڑھنے کے بعد قوم کے نمائندوں سے کہا کہ مجھے اس معاملہ میں مشورہ دیں کہ مجھے کیا کرنا چاہیے ؟ کیونکہ آپ جانتے ہیں کہ میں تمھارے مشورے کے بغیر کوئی فیصلہ نہیں کرتی۔ انھوں نے خط کا مضمون سن کر فوری ردِّ عمل دیا کہ ہم طاقت ور اور شدید لڑائی لڑنے والی جنگجو قوم ہیں اس لیے ہمیں ڈٹ کر مقابلہ کرنا چاہیے۔ تاہم آپ ہماری حکمران ہیں آپ کو ہر قسم کے آئینی اختیارات ہیں۔ لہٰذا غور و فکر کرکے فرمائیں کہ ہمارے لیے کیا حکم ہے۔ ملکہ نے قوم کے نمائندوں کے حوصلہ اور جرأت دیکھنے کے باوجو دٹھنڈے دل اور نرم لب و لہجہ سے انھیں سمجھایا کہ یاد رکھو حکمرانوں کی تاریخ یہ ہے کہ جب وہ کسی بستی اور علاقہ پر یلغار کرتے ہیں تو اسے تباہ و برباد کردیتے ہیں اور وہاں کے معزز لوگوں کو ذلیل کردیتے ہیں۔ جنھوں نے ہمیں خط لکھا ہے اگر وہ کامیاب ہوئے تو ہمارے ساتھ یہی سلوک کریں گے۔ اس کی بجائے میں ان کی طرف کچھ تحائف بھیجتی ہوں اور پھر دیکھتے ہیں کہ وہ ہمارے نمائندوں کا کیا جواب دیتے ہیں۔ ملکہ سبا نے خط کے مضمون اور دیگر ذرائع سے معلوم کرلیا تھا کہ ہماری مضبوط حکومت کو جو شخص انتباہ اور ہمیں اپنی تابعداری کا حکم دے رہا ہے وہ کوئی معمولی حکمران نہیں اس لیے اس نے کہا کہ جنگ کرنے سے پہلے تحائف بھیجے جائیں۔ تحائف بھیجنے کا مقصد یہ تھا کہ اگر سلیمان (علیہ السلام) نے تحائف قبول کرلیے اور خیرسگالی کا مظاہرہ کیا تو پھر ہمیں ان سے ڈرنے کی ضرورت نہیں۔ کیونکہ دنیا پرست حکمران کو مذاکرات کے ذریعے رام کرنا آسان ہوگا۔ مسائل ١۔ ظالم بادشاہ دوسروں کی عزت کا خیال نہیں کیا کرتے۔ ٢۔ کسی کو جانچنے کے لیے تحفے تحائف کا تبادلہ کیا جا سکتا ہے۔ النمل
33 النمل
34 النمل
35 النمل
36 فہم القرآن ربط کلام : تحائف پہنچنے پر حضرت سلیمان (علیہ السلام) کا ردِّ عمل۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو ملکہ بلقیس کے تحائف پہنچے تو حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے اس کے نمائندوں کو فرمایا کہ جن تحائف کے ساتھ مجھے خوش کرنا چاہتے ہو۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے ان سے زیادہ اور بہترین مال عطا فرمارکھا ہے۔ اس لیے تم اپنے تحائف کے ساتھ خوش رہو اور واپس لے جاؤ۔ ہم اپنے لشکروں کے ساتھ تم پر ضرور پیش قدمی کریں گے جن کا مقابلہ کرنے کی تم طاقت نہیں رکھتے اور ہم مقابلہ میں آنے والوں کو زیر اور ذلیل کریں گے۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے مشرک ملکہ کے تحائف کو قبول کرنے سے اس لیے انکار کیا کہ اس طرح ان کے خلاف کارروائی کرنے کا جواز کمزور ہوجاتا۔ اس سے ظاہر ہوتا کہ مراسلہ بھیجنے والا حکمران کسی نظریہ کی بنیاد پر نہیں بلکہ کشورکشائی اور دنیا کے مال کا حریص ہے وہ اس کمزوری یا مرّوت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے وہ مشرکانہ عقیدہ پر قائم رہتے۔ جو سلیمان (علیہ السلام) کے لیے گوارا نہ تھا۔ کیونکہ شرک ایسا جرم اور گناہ ہے کہ جسے مواحد حکمران برداشت نہیں کرسکتا۔ یہی وجہ ہے کہ فتح مکہ کے کچھ عرصہ بعد جب طائف کے سردار مسلمان ہونے کے لیے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے تو انہوں نے دو شرائط پیش کیں ایک تو ہم نماز نہیں پڑھیں گے۔ جس کے جواب میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا وہ دین ہی کیا جس میں نماز نہیں۔ طائف کے لوگ مان گئے ہم نماز پڑھا کریں گے۔ دوسری شرط یہ ہے کہ کچھ عرصہ کے لیے طائف کے بت کو نہ چھیڑا جائے۔ نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہرگز نہیں بلکہ ہم اسے فی الفور مسمار کریں گے۔ بالآخر انہوں نے یہ شرط پیش کی کہ آپ اپنے آدمیوں کے ذریعے یہ کارروائی کریں۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ شرط تسلیم فرمائی اور چند صحابہ کو طائف بھیجا جنہوں نے بت خانے کو بنیادوں سے اکھاڑ پھینکا۔ تفصیل کے لیے سیرت ابن ہشام کا مطالعہ فرمائیں۔ عام حالات میں مشرک کا تحفہ قبول کرنا جائز ہے : (قَالَ أَبُو ہُرَیْرَۃَ عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہَاجَرَ إِبْرَاہِیمُ بِسَارَۃَ فَدَخَلَ قَرْیَۃً فیہَا مَلِکٌ أَوْ جَبَّارٌ فَقَالَ أَعْطُوہَا آجَرَ وَأُہْدِیَتْ للنَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) شَاۃٌ فیہَا سُموَقَالَ أَبُو حُمَیْدٍ أَہْدَی مَلِکُ أَیْلَۃَ للنَّبِیِّ َبغْلَۃً بَیْضَاءَ، وَکَسَاہُ بُرْدًا، وَکَتَبَ لَہُ بِبَحْرِہِمْ) [ رواہ البخاری : باب قَبُولِ الْہَدِیَّۃِ مِنَ الْمُشْرِکِینَ] حضرت ابوہریرہ (رض) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں ابراہیم (علیہ السلام) نے سائرہ[ کے ساتھ ہجرت کی تو آپ کا گزر ایسی بستی سے ہوا جہاں جابر حکمران رہتا تھا اس نے کہا ابراہیم کو ہاجرہ تحفہ میں دو۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو زہر ملی ہوئی بکری تحفے میں دی گئی امام بخاری کے استاد ابو حمیدبیان کرتے ہیں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایلہ کے بادشاہ نے سفید خچر، چادر تحفے میں دیے اور ان کے لیے بحری سفر کا پروانہ تحریر کروایا۔“ (عَنْ عَطَاءِ بْنِ أَبِی مُسْلِمٍ عَبْدِ اللَّہِ الْخُرَاسَانِیِّ قَالَ قَالَ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تَصَافَحُوا یَذْہَبِ الْغِلُّ وَتَہَادَوْا تَحَابُّوا وَتَذْہَبِ الشَّحْنَاءُ) [ مؤطا امام مالک : کتاب الجامع، باب ماجاء فی المھاجرۃ] ” عطاء بن ابی مسلم عبداللہ خراسانی سے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تحائف کے بارے میں فرمایا کہ مسلمانو! ایک دوسرے کو تحفہ دیا کرو کیونکہ اس سے باہمی محبت میں اضافہ ہوتا ہے۔“ النمل
37 النمل
38 فہم القرآن ربط کلام : حضرت سلیمان (علیہ السلام) کا ملکہ بلقیس کے خلاف پہلا اقدام۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے ملکہ کے تحائف واپس کرتے ہوئے یہ اعلان کیا تھا کہ ہم ضرور تم پر یلغار کریں گے۔ ملکہ بلقیس کو اس کے نمائندوں نے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے جمال و کمال اور ان کے اسباب و وسائل کے بارے میں آگاہ کیا تو ملکہ کو یقین ہوگیا کہ ہم اس قدر طاقتور حکمران اور صاحب کردار شخص کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔ اس لیے اس نے اپنے وزیروں، مشیروں کے ساتھ مشورہ کرنے کے بعد یہ طے کیا کہ مجھے خود ان کی خدمت میں پیش ہونا چاہیے تاکہ ہماری عزت اور ملک سلامت رہے۔ جونہی ملکہ اپنے قوم کے نمائندوں کے ساتھ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی طرف چلی۔ ابھی راستے میں تھی کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے اپنے وزیروں اور مشیروں سے پوچھا کہ کون ملکہ کے پہنچنے سے پہلے اس کا یہاں تخت لائے گا ؟ جنوں میں سے ایک دیوہیکل جن نے کہا کہ میں یہ نشست ختم ہونے سے پہلے آپ کی خدمت میں اس کے تخت کو پیش کرتا ہوں۔ میں امانتدار ہونے کے ساتھ ایسا کرنے کی طاقت رکھتا ہوں۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے یہ حکم اس لیے دیا تاکہ ملکہ کو اپنی آمد سے پہلے سلیمان (علیہ السلام) کی طاقت کا علم ہوجائے جس سے اس کی رعونت کا خاتمہ ہو اور وہ شرک سے تائب ہو کر مسلمان ہوجائے۔ مسائل ١۔ مسلمان حکمران کو غیر مسلموں پر اپنا رعب قائم کرنا چاہیے۔ ٢۔ اہل کار باصلاحیت اور امانت دار ہونے چاہیں۔ النمل
39 النمل
40 فہم القرآن ربط کلام : دیوہیکل جن کے اظہار خیال کے بعد ایک صاحب علم کا ردِّ عمل اور اس کی پیشکش۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے قریبی لوگوں میں ایک شخص اٹھا جس کے پاس کتاب کا علم تھا اس نے کہا کہ میں آپ کے آنکھ جھپکنے سے پہلے آپ کے سامنے ملکہ کا تخت پیش کرتا ہوں۔ یہ کہتے ہی اس نے ملکہ کا تخت حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے حضور پیش کردیا۔ تخت دیکھتے ہی حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے عاجزانہ اور متشکرانہ انداز میں کہا یہ میرے رب کا فضل ہے تاکہ وہ مجھے آزمائے کہ میں شکر کرتاہوں یا نہ شکری کرتا ہوں جو شکر ادا کرتا ہے اس کے شکر کا اسے ہی فائدہ پہنچتا ہے جو ناشکری کرتا ہے بلاشبہ میرے رب کو اس کی ناشکری کی کوئی پرواہ نہیں کیونکہ وہ نہایت کریم ہے۔ آدمی کو ہر وقت اپنے رب کا شکر ادا کرنا چاہیے لیکن اس موقعہ پر حضرت سلیمان نے اپنے رب کا اس لیے بھی شکریہ ادا کیا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے کیسے ذہین اور لائق فائق ساتھی دیے ہیں جو آنکھ جھپکنے سے پہلے اتنا بڑا کارنامہ سرانجام دے سکتے ہیں۔ شکر یہ کلمات کے ساتھ ہی حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے اپنے وزیروں کو کہا کہ ملکہ کے تخت میں کچھ تبدیلیاں کردی جائیں۔ کیونکہ ہم دیکھنا چاہتے ہیں کہ وہ اسے پہچانتی ہے یا نہیں۔ تخت میں تبدیلی کروانے کا مقصد یہ تھا کہ اس کی ذہانت کا اندازہ کیا جا سکے تاکہ معلوم ہو کہ وہ اپنے تخت کو پہچانتی ہے یا نہیں پہچان پاتی۔ ان الفاظ میں یہ مفہوم بھی شامل ہے کہ اگر وہ اپنے تبدیل شدہ تخت کو پہچان گئی تو یقین کیا جا سکتا ہے کہ وہ عقیدہ توحید کو جان کر مسلمان ہوجائے گی۔ جہاں تک تخت کے لانے والے اور اس کے اس کارنامے کا معاملہ ہے اس کے بارے میں مفسرین کی مختلف آراء ہیں۔ امام رازی (رح) کا اصرار ہے کہ اس شخص سے مراد حضرت سلیمان (علیہ السلام) خود ہیں۔ انھیں اللہ تعالیٰ نے زبور کا علم اور یہ معجزہ عطا فرمایا تھا۔ دوسرے مفسرین اس بات کے ساتھ اختلاف کرتے ہوئے یہ دلیل دیتے ہیں کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے یہ کام خود نہیں کیا بلکہ ان کے کسی ساتھی نے کیا ہے۔ جس کو اللہ تعالیٰ نے ایسا علم عطا فرمایا تھا۔ جس کے بارے میں مفسرین کا خیال ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کے اسم اعظم کا علم تھا جس کے واسطے سے سوال کیا جائے تو اللہ تعالیٰ ہر صورت اسے پورا کردیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کسی پر اپنا فضل کرتا ہے تو اس کا مقصدیہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس شخص کو آزمانا چاہتا ہے کہ وہ اس کا شکر گزار ہوتا ہے یا باغی اور ناشکرا بنتا ہے۔ جو اپنے رب کی ناشکری کرے گا اللہ تعالیٰ کو اس کی ناشکری سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ تفسیر بالقرآن شکر کے فائدے اور کفر کے نقصانات : ١۔ اگر تم شکر کرو گے تو میں تمہیں زیادہ دوں گا۔ (ابراہیم : ٧) ٢۔ اللہ شکر گزار بندوں کا قدرد ان ہے (النساء : ١٤٧) ٣۔ اگر تم اس کا شکریہ ادا کرو تو وہ تم پر خوش ہوگا۔ (الزمر : ٧) ٤۔ اللہ شکر کرنے والوں کو جزادے گا۔ (آل عمران : ١٤٤) ٥۔ جو شخص شکر کرتا ہے اس کا فائدہ اسی کو ہے اور جو ناشکری کرتا ہے میرا رب اس سے بے پروا ہے۔ (النمل : ٤٠) ٦۔ اگر تم اس کی ناشکری کرو تو اللہ بے پروا اور تعریف والا ہے۔ (ابراہیم : ٨) النمل
41 النمل
42 فہم القرآن ربط کلام : تخت کے بارے میں حضرت سلیمان (علیہ السلام) کا ملکہ کو سوال اور اس کا جواب۔ جونہی ملکہ اپنے وزیروں اور مشیروں کے ساتھ شاہانہ انداز میں حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے پاس آئی تو حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے اس کے تخت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے استفسار فرمایا۔ ” کیا آپ کا تخت اس طرح کا ہے ؟“ اس نے کہا جی ہاں ! کیوں نہیں یہ وہی ہے ہمیں تو آپ کے بارے میں سب کچھ پہلے ہی معلوم ہوچکا ہے۔ اس لیے ہم تابعدار ہو کر آئے ہیں۔ تخت کی پہچان اور ملکہ کی گفتگو سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ بڑی ہی دانا عورت تھی۔ جس نے سفارتی نمائندوں کے ذریعے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے کردار اور اقتدار کو سمجھ لیا اور فیصلہ کیا کہ اپنی قوم کو رسوا اور ملک کو تباہ کرنے کی بجائے۔ اس حکمران کے پاس پہنچ کر براہ راست مذاکرات کرنے چاہییں۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے پاس پہنچنے کے بعد اس نے اپنے تبدیل شدہ تخت کو پہچان لیا جس سے اسے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی قوت کا مزید اندازہ ہوا۔ اس کے ساتھ ہی اس نے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی شکل و صورت اور پیغمبرانہ گفتگو اور حیادارانداز دیکھا تو اسے یقین ہوگیا یہ کوئی دنیا دار حکمران نہیں کہ جس نے محض کشور کشائی کے لیے مجھے دھمکی دی ہے یہ تو اللہ کا خاص بندہ ہے جو میری اور میری قوم کی ہدایت کے لیے کوشاں ہے۔ اس لیے ملکہ نے شاہانہ انداز کی بجائے عاجزانہ انداز میں حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی شخصیت اور ان کی دعوت کا اعتراف کیا اور اپنے مسلمان ہونے کا اظہار فرمایا۔ قرآن مجید نے اس کے بارے میں فرمایا ہے کہ وہ اللہ کے سوا سورج کی عبادت کرتی تھی کیونکہ اس نے کافر قوم میں پرورش پائی تھی۔ جو نہی اس کا ماحول تبدیل ہوا اور اسے عقیدہ توحید کی دعوت دی گئی تو اس نے اپنی بادشاہت کی پرواہ کیے بغیر مسلمان ہونے کا فیصلہ کیا۔ ماحول کے اثرات : (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ قَالَ قَال النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کُلُّ مَوْلُودٍ یُولَدُ عَلَی الْفِطْرَۃِ فَأَبَوَاہُ یُہَوِّدَانِہٖ أَوْ یُنَصِّرَانِہٖ أَوْ یُمَجِّسَانِہٖ کَمَثَلِ الْبَہِیمَۃِ تُنْتَجُ الْبَہِیمَۃَ ہَلْ تَرٰی فیہَا جَدْعَاءَ) [ رواہ البخاری : کتاب الجنائز، باب ماقیل فی أولاد المشرکین] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہر نو مولود فطرت اسلام پر پیدا ہوتا ہے اس کے والدین اسے یہودی، عیسائی یا مجوسی بنا دیتے ہیں جس طرح جانور اپنے بچے کو جنم دیتا ہے تو کیا تم ان میں کسی کو مقطوع الاعضا پاتے ہو؟ (عَنْ أَبِیْ مُوْسٰی (رض) عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ مَثَلُ الْجَلِیْسِ الصَّالِحِِ وَالسُّوْءِ کَحَامِلِ الْمِسْکِ وَنَافِخِ الْکِیْرِ فَحَامِلُ الْمِسْکِ إِمَّآ أَنْ یُّحْذِیَکَ وَإِمَّآ أَنْ تَبْتَاعَ مِنْہُ وَإِمَّآ أَنْ تَجِدَ مِنْہُ رِیْحًاطَیِّبَۃً وَنَافِخُ الْکِیْرِ إِمَّآ أَنْ یُّحْرِقَ ثِیَابَکَ وَإِمَّا أَنْ تَجِدَ رِیْحًاخَبِیْثَۃً) [ رواہ البخاری : کتاب الذبائح والصید، باب المسک] ” حضرت ابوموسیٰ (رض) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان فرماتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : اچھے اور برے ساتھی کی مثال کستوری بیچنے والے اور بھٹی پھونکنے والے کی طرح ہے۔ کستوری بیچنے والا یا تو تجھے تحفہ دے گا یا تو اس سے خریدلے گا یا تو اس سے اچھی خوشبو پائے گا۔ بھٹی پھونکنے والا یا تو تمہارے کپڑوں کو جلا دے گا یا تو اس سے دھواں کی بو محسوس کرے گا۔“ مسائل ١۔ انسان کی ہدایت اور گمراہی میں ماحول کا بڑا اثر ہوتا ہے۔ ٢۔ ذہین اور عقلمند وہ شخص ہے جو حق کو پہچانے اور اسے تسلیم کرنے میں تاخیر نہ کرے۔ ٣۔ عقلمند کے لیے ایمان کے مقابلہ میں دنیا کے اقتدار اور اختیارات کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔ ٤۔ مشرکانہ ماحول عقیدہ توحید سمجھنے اور ماننے میں بہت بڑی رکاوٹ ہوتا ہے۔ النمل
43 النمل
44 فہم القرآن ربط کلام : ملکہ بلقیس کو حقیقت کا مزید ادراک کرانے کے لیے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی ایک اور حکیمانہ کوشش۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے ملکہ بلقیس کے تحائف مسترد کیے اور اسے ان الفاظ میں دھمکی دی کہ اگر تم نے تابعداری اختیار نہ کی تو ہم تمھیں رسوا کر ڈالیں گے لیکن جونہی ملکہ بلقیس اپنے وزیروں اور مشیروں کے ساتھ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی خدمت میں حاضر ہوئی تو انھوں نے اسے مسلمان کرنے کے لیے جبر کی بجائے حکمت کا انداز اختیار فرمایا۔ پہلے اس کے تخت میں تبدیلیاں کروائیں، پھر ملکہ سے اس تخت کے بارے میں استفسار فرمایا۔ ملکہ نے بغیرکسی دقّت کے اپنا تخت پہچان لیا۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) چاہتے تھے اسے کھل کر سابقہ عقیدہ کے باطل ہونے کا ادراک ہوجائے۔ اس لیے انھوں نے ملکہ اور اس کے وفد کو ایسے محل میں ٹھہرنے کا حکم دیا کہ جس کے میں دروازے کے سامنے شیشے کا فرش لگا ہوا تھا۔ ملکہ نے پانی سمجھ کر اپنی پنڈلیوں سے پانچے اوپر کرلیے۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے اسے توجہ دلائی کہ پانی نہیں بلوری فرش ہے۔ اس بات سے اس کے دماغ پر ٹھوکر لگی اور فوراً کہہ اٹھی اے میرے رب میں نے تیرے ساتھ شرک کرکے اپنے آپ پر ظلم کیا۔ میں سلیمان (علیہ السلام) کے ساتھ اس رب کی تابع ہوئی جو تمام جہانوں کا رب ہے۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے اسے شیشے کے فرش کے ذریعے یہ حقیقت باور کروائی کہ شرک ایک واہمہ ہے۔ اس میں کوئی حقیقت نہیں ہے۔ دانا عورت تھی اشارہ سمجھ کر فوراً توحید باری تعالیٰ کا اعتراف کرتی ہے اور مسلمان ہوگئی۔ بعض مفسرین نے اسرائیلی روایات کے تحت لکھا ہے کہ اس کے بعد حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے اسے اپنے حرم میں شامل کرلیا۔ (اللہ اعلم ) البتہ یہ حقیقت ہے کہ مسلمان ہونے کے بعد تاریخ سے اس کی حکمرانی ثابت نہیں ہوتی۔ النمل
45 فہم القرآن ربط کلام : حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے بعد حضرت صالح (علیہ السلام) اور ان کی قوم کا ذکر۔ جونہی حضرت صالح (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو خالص اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے کا حکم دیا تو ان کی قوم دو حصوں میں تقسیم ہوگئی۔ توحید خالص کا انکار کرنے والے لوگ حضرت صالح (علیہ السلام) اور آپ کے ساتھیوں سے جھگڑنے لگے۔ جوں ہی صالح (علیہ السلام) نے اپنی دعوت کا آغاز کیا تو ان کی قوم دو گروہوں میں بٹ گئی ایک گروہ ایمان لانے والوں کا اور دوسرا گروہ انکار کرنے والوں کا تھا۔ دونوں گروہوں کے درمیان زبردست کش مکش شروع ہوگئی جس طرح قرآن مجید نے دوسرے مقام پر ارشادفرمایا ہے : (قَالَ الْمَلَاُ الَّذِیْنَ اسْتَکْبَرُوْا مِنْ قَوْمِہٖ لِلَّذِیْنَ اسْتُضْعِفُوْا لِمَنْ اٰمَنَ مِنْھُمْ اَتَعْلَمُوْنَ اَنَّ صٰلِحًا مُّرْسَلٌ مِّنْ رَّبِّہٖ قَالُوْٓا اِنَّا بِمَآ اُرْسِلَ بِہٖ مُؤْمِنُوْن قَالَ الَّذِیْنَ اسْتَکْبَرُوْٓا اِنَّا بالَّذِیْٓ اٰمَنْتُمْ بِہٖ کٰفِرُوْن)[ الاعراف : ٧٥۔ ٧٦] ” اس کی قوم میں سے جو سردار اپنی بڑائی پر فخر کرتے تھے انہوں نے ان لوگوں سے کہا جو کمزور بنائے گئے تھے کیا واقعی تم جانتے ہو کہ صالح (علیہ السلام) اپنے رب کارسول ہے ؟ ایمان والوں نے جواب دیا ہم اس دعوت پر ایمان رکھتے ہیں جس کے ساتھ حضرت صالح (علیہ السلام) بھیجے گئے ہیں۔ متکبرین نے کہا جس چیز پر تم ایمان لائے ہو اس کا ہم تو انکار کرتے ہیں۔“ (الاعراف : ٧٥۔ ٧٦) حضرت صالح (علیہ السلام) کی قوم بغاوت میں یہاں تک آگے بڑھی کہ انھوں نے اللہ تعالیٰ سے ہدایت مانگنے کی بجائے صالح (علیہ السلام) سے بار بار یہ مطالبہ کیا اگر آپ واقعی اپنے دعویٰ میں سچے ہو تو ہم پر اللہ کا عذاب نازل ہونا چاہیے۔ حضرت صالح (علیہ السلام) نے بھی انہیں بار بار پھر سمجھایا کہ اے میری قوم تمھیں کیا ہوگیا ہے ؟ کہ تم اللہ تعالیٰ کا کرم مانگنے کی بجائے اس کا عذاب مانگ کر رہے ہو ؟ اللہ تعالیٰ کی بخشش کیوں نہیں مانگتے ؟ تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔ ” اَلْحَسَنَۃٌ“ اس چیز کو کہا جاتا ہے جو انتہائی خوبصورت ہو اور اس کی طرف انسان کا دل مائل ہو۔ یہ دنیا کی کوئی بھی نعمت ہو سکتی ہے اور یہ لفظ نیکی اور خیر کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے کیونکہ نیکی سے بڑھ کر نیک آدمی کو کوئی چیز مرغوب نہیں ہوتی۔ اس کے مقابلہ میں السیءۃ کا لفظ آتا ہے اس سے مراد دنیا کا ہر قسم کا نقصان ہے خواہ وہ بیماری کی شکل میں ہویا مالی خسارے کی صورت میں اس کے لیے السَّیِءَۃٌ کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ چھوٹے بڑے گناہ کو بھی سَیِءَۃٌ کہا جاتا ہے۔ مسائل ٍ١۔ حضرت صالح (علیہ السلام) نے قوم کو توحید خالص کی دعوت دی تو ان کی قوم دو حصوں میں تقسیم ہوگئی۔ ٢۔ حضرت صالح (علیہ السلام) کی قوم نے بار بار ان سے عذاب کا مطالبہ کیا۔ ٣۔ حضرت صالح (علیہ السلام) نے قوم کو توبہ و استغفار کے لیے کہا لیکن وہ اپنے کفر و شرک پر قائم رہے۔ تفسیر بالقرآن توبہ و استغفار کے فائدے : ١۔ اپنے پروردگار سے توبہ کرو اور اس کی طرف رجوع کرو وہ تمہیں خوشی و عیش دے گا۔ (ہود : ٣) ٢۔ اپنے رب سے بخشش طلب کرو وہ آسمان سے بارش نازل فرمائے گا اور تمہاری قوت میں اضافہ کرے گا۔ (ہود : ٥٢) ٣۔ تم اللہ سے بخشش طلب کرو میرا رب تمہاری توبہ قبول کرے گا۔ (ہود : ٦١) ٤۔ اپنے رب سے بخشش طلب کرو وہ تمہیں معاف کردے گا اور بارش، مال اور اولاد سے نوازے گا۔ (نوح : ١٠۔ ١٢) ٥۔ اللہ سے بخشش طلب کرو اللہ تعالیٰ معاف کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔ (المزمل : ٢٠) ٦۔ جب تک لوگ بخشش طلب کرتے رہیں گے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ہم انہیں عذاب نہیں دیں گے۔ (الانفال : ٣٣) النمل
46 النمل
47 فہم القرآن ربط کلام : قوم کا حضرت صالح (علیہ السلام) اور ان کے ساتھیوں کے خلاف پر اوپیگنڈا۔ حضرت صالح (علیہ السلام) کی قوم نے ان کے خلاف زور و شور کے ساتھ پر اوپیگنڈہ کیا کہ جب سے صالح (علیہ السلام) اور ان کے ساتھیوں نے یہ کام شروع کیا ہے قوم کا اتحاد ختم ہوا اور گھر گھر اختلاف پیدا کیا گیا ہے۔ یہاں تک کہ ملک کی ترقی میں رکاوٹیں پیدا ہوگئی ہیں۔ ہمارا دن رات کا سکون لٹ گیا ہے شعیب اور اسکے ساتھیوں کی نحوست کی وجہ سے یہ ہوا ہے۔ حضرت صالح (علیہ السلام) نے انھیں سمجھایا کہ یہ نحوست ہماری وجہ سے نہیں بلکہ تمھاری وجہ سے ہے۔ تمھیں اپنے فکر و عمل پر غور کرتے ہوئے یہ بات سوچنی چاہیے کہ تم بہت بڑی آزمائش میں مبتلا کیے گئے ہو۔ آزمائش سے مراد حق و باطل کی آویزش اور اللہ تعالیٰ کا عذاب ہے جس سے صالح (علیہ السلام) نے انھیں یہ کہہ کر آگاہ کیا تھا۔ اگر تم نے توبہ استغفار نہ کیا تو ٹھیک تین دن کے بعد تم پر اللہ کا عذاب نازل ہوگا۔ (عَنْ اَبِیْ ھُرَےْرَۃَ قَالَ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ےَقُوْلُ لَا طِےَرَۃَ وَخَےْرُھَا الْفَالُ قَالُوْا وَمَا الْفَالُ قَالَ الْکَلِمَۃُ الصَّالِحَۃُ ےَسْمَعُھَا اَحَدُکُمْ۔) [ رواہ البخاری : باب الجذام ] حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا‘ آپ نے فرمایا بد شگونی جائز نہیں البتہ فال بہتر ہے صحابہ کرام (رض) نے دریافت کیا کہ فال کیا ہے؟ آپ نے فرمایا‘ اچھا کلمہ جو تمہیں سنائی دے۔ مسائل ١۔ قوم نے حضرت صالح (علیہ السلام) اور ان کے ساتھیوں کو منحوس قرار دیا۔ ٢۔ حضرت صالح (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو آزمائش سے آگاہ فرمایا تھا۔ تفسیر بالقرآن آزمائش کی شکلیں اور انبیاء پر منحوس ہونے کا الزام : ١۔ پہلے لوگوں کو بھی آزمایا گیا۔ (العنکبوت : ٣) ٢۔ ڈر سے آزمائش۔ (البقرۃ: ١٥٥) ٣۔ فاقوں سے آزمائش۔ (البقرۃ: ١٥٥) ٤۔ مال و جان کی کمی کے ساتھ آزمائش۔ (البقرۃ: ١٥٥) ٥۔ آل فرعون نے کہا موسیٰ اور اس کے ساتھی منحوس ہیں۔ ( الاعراف : ١٣١) ٦۔ قوم نے تین پیغمبروں کو منحوس قرار دیا۔ ( یٰس : ١٨۔ ١٩) النمل
48 فہم القرآن ربط کلام : قوم کے نمائندوں کا حضرت صالح (علیہ السلام) اور ان کے ساتھیوں کے خلاف مذموم منصوبہ۔ صالح (علیہ السلام) کی قوم کا مسکن شمال مغربی عرب کا وہ علاقہ تھا جو آج بھی الحجر کے نام سے موسوم ہے جو مدینہ اور تبوک کے درمیان واقع ہے جسے مدائن صالح کہتے ہیں یہی ثمود کا صدر مقام تھا اور قدیم زمانہ میں حجر کہلاتا تھا۔ وسیع رقبے میں ان کی عمارتوں کے گھنڈرات پائے جاتے ہیں۔ جن کو قوم ثمود نے پہاڑتراش تراش کر بنایا تھا ان گھنڈرات سے اندازہ ہوتا ہے کہ کسی زمانے میں اس کی آبادی لاکھوں افراد پر مشتمل ہوگی اس شہر کی آبادی چار پانچ لاکھ سے کم نہ ہوگی۔ حضرت صالح (علیہ السلام) کی قوم کے نوبڑے سردار تھے۔ جنھوں نے مل بیٹھ کر منصوبہ بنایا کہ حضرت صالح (علیہ السلام) اور ان کے ساتھیوں کو قتل کردینا چاہیے۔ اس بات کو صیغہ راز میں رکھنے کے لیے انھوں نے آپس میں قسمیں اٹھائیں اور یہ بھی طے کیا کہ اگر صالح (علیہ السلام) کا کوئی وارث اس کیس کو اٹھانا چاہے تو ہم کہیں گے کہ اس کام میں ہم کسی طرح بھی ملوث نہیں ہیں۔ سب کو یہی بات کہنا چاہیے تاکہ ہم سچے ثابت ہوں۔ اس کے بعد انھوں نے رات کے وقت صالح (علیہ السلام) اور ان کے ایمان والے ساتھیوں پر یکبارگی حملہ کرنے کا منصوبہ بنایا۔ انھیں معلوم نہ تھا کہ اللہ تعالیٰ بھی حضرت صالح (علیہ السلام) اور ان کے ساتھیوں کو بچانے کا فیصلہ کرچکا ہے۔ لفظ مکر کے بارے میں سورۃ آل عمران کی آیت کی ٥٤ تفسیر میں ذکر ہوچکا ہے کہ مکر کا لفظ لوگوں کی طرف منسوب ہو تو اس کا معنٰی مکر و فریب اور سازش ہوتا ہے اگر یہ لفظ اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب ہو تو اس کا معنی اللہ تعالیٰ کی تدبیر اور اس کا فیصلہ ہوتا ہے۔ حضرت صالح (علیہ السلام) کی قوم کے نو نمائندے تھے گویا کہ نوقبائل یا نو پارٹیاں تھیں۔ جو سب کے سب اس بات پر متفق تھے کہ صالح (علیہ السلام) اور ان کے ساتھیوں کو قتل کردینا چاہیے۔ جس طرح انھوں نے صالح (علیہ السلام) کے خلاف منصوبہ بندی کی اور اس کے نتیجہ میں تباہ و برباد ہوئے۔ اسی طرح رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلاف اہل مکہ نے منصوبہ بندی کی اور ذلیل ہوئے۔ (وَ اِذْ یَمْکُرُبِکَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لِیُثْبِتُوْکَ اَوْ یَقْتُلُوْکَ اَوْ یُخْرِجُوْکَ وَ یَمْکُرُوْنَ وَ یَمْکُرُ اللّٰہُ وَ اللّٰہُ خَیْرُ الْمٰکِرِیْنَ) [ الانفال : ٣٠] ” اور جب کفر کرنے والے لوگ آپ کے خلاف تدبیریں کر رہے تھے کہ آپ کو قید کردیں یا آپ کو قتل کردیں یا آپ کو ملک بدر کردیں وہ سازش کررہے تھے اور اللہ بھی تدبیر کر رہا تھا اور اللہ سب تدبیر کرنے والوں سے بہتر تدبیر کرنے والاہے۔“ مسائل ١۔ قوم کے نو لیڈروں نے حضرت صالح (علیہ السلام) کے خلاف مذموم منصوبہ بنایا۔ ٢۔ قوم کے نمائندوں نے حضرت صالح (علیہ السلام) اور ان کے ایماندار ساتھیوں کو قتل کرنے کی قسمیں اٹھائیں۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے مذموم منصوبہ کو ناصرف ناکام کیا بلکہ انھیں تباہ و برباد کردیا۔ تفسیر بالقرآن انبیائے کرام (علیہ السلام) کے خلاف سازشیں : ١۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی قوم نے ان کو جلانے کی کوشش کی۔ ( الانبیاء : ٦٨) ٢۔ حضرت شعیب (علیہ السلام) کی قوم نے ان کو ملک بدر کرنے کی دھمکی دی۔ ( الاعراف : ٨٨) ٣۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو قتل کرنے کا منصوبہ۔ ( المؤمن : ٢٨) ٤۔ آپ غمزدہ نہ ہوں اور کفار کے مکرو فریب سے تنگی محسوس نہ کریں۔ (النحل : ١٢٧) ٥۔ نبی کریم کو حق سے پھیر دینے کے لیے کافروں نے سازش کی۔ (البقرۃ: ١٠٩) ٦۔ کفار نے نبی اکرم کو قتل کرنے اور ملک بدر کرنے کی سازش کی۔ (الانفال : ٣٠) النمل
49 النمل
50 النمل
51 فہم القرآن ربط کلام : حضرت صالح (علیہ السلام) کی قوم کا انجام۔ ١۔ قوم ثمود کو تین دن کی مہلت دی گئی۔ (ھود : ٤٥) ٢۔ قوم ثمود کو صبح کے وقت ہولناک دھماکے نے آلیا اور ان کی ترقی ان کے کچھ کام نہ آئی۔ (الحجر ٨٣۔ ٨٤) ٣۔ ہم نے ان پر ہولناک چیخ نازل کی وہ ایسے ہوگئے جیسے بوسیدہ اور سوکھی ہوئی باڑ ہوتی ہے۔ (القمر : ٣١) صالح (علیہ السلام) کی قوم کے انجام میں لوگوں کے لیے درس عبرت ہے کہ اللہ کے مقابلے میں کسی کی چال کارگر نہیں ہوتی جو بھی مکروفریب سے کام لے گا۔ اللہ تعالیٰ اسے صالح (علیہ السلام) کی قوم کی طرح نشان عبرت بنا دے گا اور ان کی بستیاں آج بھی اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ (عَنِ ابْنِ عُمَرَ (رض) قَالَ لَمَّا مَرَّ النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بِالْحِجْرِ قَالَ لَا تَدْخُلُوا مَسَاکِنَ الَّذِینَ ظَلَمُوا أَنْفُسَہُمْ أَنْ یُّصِیبَکُمْ مَا أَصَابَہُمْ إِلَّا أَنْ تَکُونُوا باکِینَ ثُمَّ قَنَّعَ رَأْسَہٗ وَأَسْرَعَ السَّیْرَ حَتَّی أَجَازَ الْوَادِیَ) [ رواہ البخاری، کتاب المغازی، باب نزول النبی الحجر] ” حضرت عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں جب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حجرکے مقام سے گزرے تو آپ نے فرمایا ان لوگوں کے مقام سے نہ گزرا کرو۔ جن لوگوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا کہیں تم پر وہ آفت نہ آن پڑے جو ان پر آن پڑی تھی۔ اگر گزرنا نا گزیر ہو تو روتے ہوئے گزرا کرو۔ پھر آپ نے اپنا سر جھکایا اور سواری کو تیز کیا یہاں تک کہ اس وادی سے گزر گئے۔“ (عَنِ ابْنِ عُمَرَ (رض) أَنَّ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لَمَّا نَزَلَ الْحِجْرَ فِی غَزْوَۃِ تَبُوکَ أَمَرَہُمْ أَنْ لاَ یَشْرَبُوا مِنْ بِءْرِہَا، وَلاَ یَسْتَقُوا مِنْہَا فَقَالُوا قَدْ عَجَنَّا مِنْہَا وَاسْتَقَیْنَا فَأَمَرَہُمْ أَنْ یَطْرَحُوا ذَلِکَ الْعَجِینَ وَیُہَرِیقُوا ذَلِکَ الْمَاءَ وَیُرْوَی عَنْ سَبْرَۃَ بْنِ مَعْبَدٍ وَأَبِی الشُّمُوسِ أَنَّ النَّبِیّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) أَمَرَ بِإِلْقَاء الطَّعَامِ وَقَالَ أَبُو ذَرٍّ عَنِ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَنِ اعْتَجَنَ بِمَاءِہِ) [ رواہ البخاری : باب قَوْلِ اللَّہِ تَعَالَی (وَإِلَی ثَمُودَ أَخَاہُمْ صَالِحًا)] ” حضرت عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ بے شک رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) غزوہ تبوک سے واپس آتے ہوئے حجر میں اترے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے صحابہ کو حکم دیا کہ وہ اس کنواں سے نہ پانی پئیں اور نہ اس سے پلائیں انہوں نے کہا ہم نے تو اس سے آٹا گوندہ لیا ہے اور پانی بھر لیا ہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا آٹے کو پھینک دو اور پانی بہا دو۔ حضرت سبرۃ بن معبد اور ابی الشموس بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کھانا گرانے کا حکم دیا۔ حضرت ابوذر (رض) کہتے ہیں آپ نے کھانا گرانے کا انہیں حکم دیا تھا جنہوں نے اس پانی سے آٹا گوندھا تھا۔“ مسائل ١۔ تباہ شدہ اقوام کی تاریخ اور ان کے آثارات کو عبرت کی نگاہ سے پڑھنا اور دیکھنا چاہیے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت شعیب (علیہ السلام) اور ان کے ساتھیوں کو عذاب سے محفوظ رکھا۔ تفسیر بالقرآن تقویٰ اور اس کے دنیا و آخرت میں فوائد : ١۔ صبر کرو متقین کا بہتر انجام ہے۔ (ہود : ٤٩) ٢۔ متقین کے لیے جنت ہے۔ (الحجر : ٤٥) ٣۔ قیامت کے دن متقین کے چہرے ہشاش بشاش ہوں گے۔ (یونس : ٢٦) ٤۔ متقین کے لیے کامیابی ہے۔ (الانبیاء : ٣١ تا ٣٣) ٥۔ متقین اولیاء اللہ ہیں جو بے خوف ہوں گے۔ ( یونس : ٦٢) ٦۔ متقین کے لیے ان کے رب کے پاس نعمتوں والی جنت ہے۔ (القلم : ٣٤) ٧۔ متقی کے کام آسان اور اس کی سب خطائیں معاف اور ان کے لیے بڑا اجر ہوگا۔ (الطلاق : ٤ تا ٥) ٨۔ اللہ تعالیٰ نے متقین کے ساتھ جنت کا وعدہ فرمایا ہے اور کافروں کا انجام دوزخ کی آگ ہے۔ (الرعد : ٣٥) النمل
52 النمل
53 النمل
54 فہم القرآن ربط کلام : حضرت صالح (علیہ السلام) کے بعد حضرت لوط (علیہ السلام) کی قوم کا انجام۔ حضرت لوط (علیہ السلام) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے بھتیجے تھے۔ جنھوں نے عراق کی سرزمین سے ہجرت کرکے غور زنمر کے علاقہ سدوم شہر میں رہائش اختیار کی یہ شہر علاقے کا مرکزی مقام تھا۔ نہ معلوم انہوں نے کتنی مدّت تک قوم کو سمجھایا لیکن قوم نے سمجھنے کی بجائے ان سے بار بار عذاب لانے کا مطالبہ کیا، جس کے نتیجے میں انہیں نیست ونابود کردیا گیا۔ حضرت لوط (علیہ السلام) نے اپنی قوم سے فرمایا کہ تم ایسی بے حیائی کا ارتکاب کرتے ہو جو تم سے پہلے دنیا میں کسی نے نہیں کی، تم لڑکوں سے بدکاری کرتے ہو۔ مسافروں پر ڈاکہ ڈالتے ہو اور ہر قسم کی برائی کرتے ہو۔ (العنکبوت : ٢٩) قوم کا جواب : اسے اور اس کے ساتھیوں کو شہر سے نکال دیا جائے۔ اے لوط اگر تم واقعی ہی سچے ہو تو ہم پر اللہ تعالیٰ کا عذاب لے آؤ۔ (العنکبوت : ٢٩) قوم کے مطالبے پر اللہ کا عذاب : ” پھر جب ہم نے حکم نافذ کیا ہم نے اس بستی کو اوپر نیچے (تہس نہس) کردیا اور اس پر تابڑ توڑ پکی مٹی کے پتھر برسائے۔ تیرے رب کی طرف سے ہر پتھر پر نشان (نام) زدہ تھا اور ظالموں سے یہ سزا دور نہیں ہے۔“ [ ھود : ٨٢، ٨٣] (عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ (رض) قَالَ قَالَ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَنْ وَجَدْتُمُوہُ یَعْمَلُ عَمَلَ قَوْمِ لُوطٍ فَاقْتُلُوا الْفَاعِلَ وَالْمَفْعُولَ بِہِ) [ رواہ ابوداؤد : باب فیمَنْ عَمِلَ عَمَلَ قَوْمِ لُوطٍ] ” حضرت عبداللہ بن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جب تم کسی کو قوم لوط والا فعل کرتے ہوئے پاؤ تو فاعل اور مفعول دونوں کو قتل کر دو۔“ مسائل ١۔ حضرت لوط (علیہ السلام) کی قوم جنس پرستی کا شکار تھی۔ ٢۔ قوم نے حضرت لوط (علیہ السلام) کو علاقہ سے نکال دینے کی دھمکی دی۔ ٣۔ حضرت لوط (علیہ السلام) کی بیوی ان کی قوم کے ساتھ عذاب میں مبتلا ہوئی۔ ٤۔ حضرت لوط (علیہ السلام) اور ان کے ایماندار ساتھیوں کو عذاب سے بچا لیا گیا۔ تفسیر بالقرآن اقوام کی تباہی کا ایک منظر : ١۔ قوم نوح کی ہلاکت کا سبب بتوں کی پرستش تھی۔ (نوح : ٢٣) ٢۔ قوم لوط کی تباہی کا سبب ہم جنسی کرنا تھی۔ (الاعراف : ٨١) ٣۔ شعیب (علیہ السلام) کی قوم کی تباہی کا سبب ماپ تول میں کمی تھی۔ (ھود : ٨٤، ٨٥) ٤۔ قوم عاد کی تباہی کا سبب رسولوں کی نافرمانی تھی۔ (ھود : ٥٩) ٥۔ قوم ثمود نے اونٹنی کا معجزہ مانگا اور پھر اس کی کونچیں کاٹ دیں۔ (ھود : ٦٤، ٦٥) النمل
55 النمل
56 النمل
57 النمل
58 النمل
59 فہم القرآن ربط کلام : بڑی بڑی اقوام کی تباہی کا ذکر کرنے کے بعد سورۃ کا اختتام ان الفاظ پر کیا جا رہا ہے کہ تمام تعریفات ” اللہ“ کے لیے ہیں اور اولولعزم انبیاء پر ان کے رب کی طرف سے سلام ہو۔ اس موقعہ پر رب ذوالجلال نے اپنی تعریف کے الفاظ اس لیے استعمال فرمائے ہیں کہ اس کے علاوہ کوئی ایسی طاقت تھی اور نہ ہے جو متکبر اور باغی اقوام کے وجود سے زمین کو پاک کرسکے۔ اقوام کی انتہا درجے کی مخالفت کے باوجود انبیاء نے اپنے کام کا حق ادا کیا جس پر اللہ کی رحمت کے حق دار قرار پائے لہٰذا ہمیشہ ہمیش کے لیے ان پر ” اللہ“ کی رحمتوں کا نزول ہوتا رہے گا۔ سورۃ کے آخر میں قوم صالح اور قوم لوط کی تباہی کا ذکر کرنے کے بعد ارشاد ہوتا ہے کہ تمام تعریفات اللہ کے لیے ہیں اور سلام ہے ان لوگوں پر جنھیں اللہ تعالیٰ نے اپنے کام کے لیے منتخب فرمایا اس کے بعد مشرکین سے استفسار فرمایا ہے کہ بتاؤ ہر حال میں اللہ بہتر ہے یا جن کو شریک بناتے ہو وہ بہتر ہیں؟ قوموں کی تباہی کے بعد نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو الحمدللہ کہنے کا اس لیے حکم فرمایا ہے کہ اللہ کا شکر ادا کیجیے کہ اس نے اپنے منتخب بندوں یعنی انبیاء کرام (علیہ السلام) اور ان کے ساتھیوں کو کفار اور مشرکین کے مقابلے میں کامیابی عنایت فرمائی۔ دنیا کو ظلم وستم اور کفرو شرک کی غلاظت سے پاک کیا۔ اس میں سرور دو عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے مخالفوں کے لیے پیغام ہے کہ بالآخر آپ اور آپ کے ساتھی کامیاب ہوں گے۔ کفار اور مشرکین ناکام اور نامراد ٹھہریں گے۔ اس کے ساتھ ہی انہیں توجہ دلائی ہے کہ سوچو اور غور کرو ! کہ جو لوگ اللہ تعالیٰ کے سوا دوسروں کو حاجت روا، مشکل کشا سمجھ کر پکارتے تھے جب ان پر اللہ کا عذاب نازل ہوا تو انھیں کوئی بچانے اور چھڑانے والا تھا؟ ہرگز نہیں۔ لہٰذا پھر سوچ لو ! تمھارے لیے ہر حال میں اللہ تعالیٰ بہتر ہے یا جن کو اس کا شریک بناتے ہو وہ بہتر ہیں ؟ اس کے ساتھ اس بات پر بھی غور کرو کہ اللہ اور اس کے رسول کی تابعداری میں بہتری ہے یا بغاوت کی زندگی بہتر ہے۔ یہاں سے یہ مسئلہ بھی ثابت ہواکہ خطبہ اور تقریر سے پہلے اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا کرنے کے ساتھ انبیاء کرام (علیہ السلام) پر درود و سلام پڑھنے کے ساتھ نیک لوگوں کے لیے دعاۓ خیر کرنی چاہیے۔ النمل
60 فہم القرآن ربط کلام : مشرکوں سے کیے گئے سوال کا تفصیلی جواب۔ انیسویں پارے کا اختتام اس سوال پر ہوا کہ اے لوگو! بتلاؤ کہ انسان کے لیے ہر حال میں ” اللہ“ بہتر ہے یا اس کے سوا دوسرے ؟ اب اس کا تفصیلی جواب دیا جاتا ہے۔ بتاؤ زمین و آسمانوں کو کس نے پیدا کیا، کون آسمان سے بارش برساتا ہے اور کون اس کے ساتھ سبز و شاداب اور لہلہاتے ہوئے باغ پیدا کرتا ہے جن کے اگانے کی تم قدرت نہیں رکھتے۔ کیا ” اللہ“ کے ساتھ کوئی اور بھی یہ کام کرنے والا ہے ؟ جس نے یہ کام کیے ہوں یا وہ کرسکتا ہو۔ ہر دور کے مشرک اس حقیقت کو مانتے اور مانتے رہیں گے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا نہ کسی نے زمین و آسمان پیدا کیے ہیں نہ کوئی بارش برساسکتا ہے اور نہ ہی باغات اگا سکتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود مشرک اپنے معبودوں کو ” اللہ“ کے شریک ٹھہراتے ہیں۔” یَعْدِلُوْنَ“ کا لفظ عدل سے نکلا ہے عدل کا معنی ہے انصاف کرنا، کسی کو کسی کے برابر ٹھہرانا اور ظلم کرنا۔ عدل ایسا لفظ ہے جس کا معنٰی اس کے سیاق و سباق سے متعین ہوتا ہے یہاں عدل کا معنٰی زیادتی کرنا اور کسی کو ” اللہ“ کے برابر ٹھہرانا ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنی ربوبیت کے دلائل اور توحید کے ثبوت مختلف الفاظ اور انداز میں انسان کے ذہن نشین کراتے ہیں۔ تاکہ انسان اپنے خالق کی پہچان حاصل کرے اور اس کے ساتھ شرک کرنے سے باز آجائے۔ گویا کہ ربوبیت کے دلائل دینے کا مقصد الوہیت ثابت کرنا ہے۔” اللہ“ کی الوہیت کو بلاشرکت غیرے مانے بغیر کوئی عبادت قبول نہیں ہوتی۔ کیا ایک درخت بھی اللہ کے علاوہ کوئی اور پیدا کرسکتا ہے؟ صرف ایک درخت کے لیے سب سے پہلے تو ایسی زمین ہونی چاہیے جس میں روئیدگی کی قوت ہو جہاں درخت اپنی جڑیں پھیلا سکے۔ پھر اس کے لیے بارش کی ضرورت ہے پھر روشنی اور اندھیرے کی ضرورت ہے پھر ہوا کی ضرورت ہے نہ معلوم ایک بیج کو نئے بیج تک پہنچنے کے لیے کس کس چیز کی ضرورت ہے۔” اللہ تعالیٰ کے سوا نہ کوئی جانتا ہے اور نہ ہی اس کی ضرورتوں کو پورا کرسکتا ہے۔ مسائل ١۔ زمین و آسمانوں کو ” اللہ“ ہی نے پیدا فرمایا ہے۔ ٢۔ ” اللہ“ ہی آسمان سے بارش نازل کرتا ہے۔ ٣۔ ” اللہ“ ہی زمین میں باغ و بہار پیدا کرتا ہے۔ ٤۔ ان کاموں میں ” اللہ“ کا نہ کوئی شریک تھا نہ ہے اور نہ کوئی ہوگا۔ لیکن اس کے باوجود مشرک اپنے رب کے ساتھ شریک بناتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن زمین و آسمان کو اللہ تعالیٰ نے پیدا فرمایا : ١۔ ” اللہ“ بارش نازل کرتا ہے۔ (النور : ٤٣) ٢۔ ” اللہ“ ہی پانی کے ذریعے باغات اور نباتات اگاتا ہے۔ (الانعام : ١٠٠) ٣۔ ” اللہ“ نے بغیر نمونے کے زمین و آسمان بنائے۔ (البقرۃ : ١١٧) ٤۔ ” اللہ“ نے سات آسمان اور سات زمینیں بنائیں۔ (البقرۃ: ٢٩) ٥۔ ” اللہ“ نے آسمان و زمین کو برابر کیا۔ (البقرۃ: ٢٩) ٦۔ ” اللہ“ نے آسمان کو چھت اور زمین کو فرش بنایا۔ (البقرۃ : ٢٢) ٧۔ ” اللہ“ نے زمین و آسمانوں کو چھ دنوں میں بنایا۔ (الاعراف : ٥٤) النمل
61 فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ لوگو! بتاؤ کہ کس نے زمین میں ٹھہراؤ پیدا کیا، اس میں دریا اور نہریں چلائیں، کس نے بلند و بالا اور مضبوط پہاڑ بنائے اور کس نے دو سمندروں کے درمیان ایک پردہ بنایا اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی اور بنانے والا ہے ؟ جس نے یہ کام کیے ہوں۔ ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی نے یہ کام نہیں کیے۔ دلائل جاننے کے باوجود لوگوں کی اکثریت توحید کے علم سے نابلد ہے۔ سوالات کی شکل میں اللہ تعالیٰ نے اپنی تین عظیم قدرتوں کا ذکر کیا ہے۔ قرار کے لفظ پر آپ جتنا غور کریں گے اتنے ہی اللہ تعالیٰ کی قدرت اور اس کی شان ربوبیت کے کرشمے آپ کو یہاں نظر آئیں گے۔ انسانی زندگی کی بقا اور نشونما کے لیے زمین میں کس کس خاصیت کا پایا جانا ضروری ہے اور کون کون سی ایسی چیزیں ہیں جو زمین میں موجود نہ ہوں تو انسانی زندگی اپنی رعنائیوں اور مسرتوں سے یکسر خالی ہوجائے، جس سے اب اس کا دامن معمور ہے۔ کون کون سی چیزیں ہیں اگر ان کا سراغ نہ لگایا جاۓ تو بے پناہ قوّتیں جو زمین کی فطرت میں مضمر ہیں وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بے کار پڑی رہیں۔ قرار کے لفظ پر آپ جتنا غور کرتے چلے جائیں گے معارف ومعانی کا ایک لا متناہی سلسلہ آپ کے سامنے بے نقاب ہوتا چلا جائے گا یہاں نیو یارک سائنس اکیڈمی کے پریذیڈنٹ اے سی موریسن کے مضمون کا مختصر اقتباس پیش کیا جاتا ہے۔ ” زمین اپنے محور پر ایک ہزار میل فی گھنٹہ کی رفتار سے چکر کاٹ رہی ہے اگر اس کی رفتا ایک ہزار میل کی بجائے ایک سو میل ہوتی تو دن اتنے لمبے ہوتے کہ سورج کی تپش تمام کھیتوں کو بھون کر رکھ دیتی اور راتیں اتنی لمبی اور سرد ہو تیں کہ زندگی کی اگر کچھ رمق سورج کی تپش سے بچ جاتی تو رات کی سردی اسے منجمد کر کے رکھ دیتی۔ سورج کا درجۂ حرارت بارہ ہزار ڈگری فارن ہیٹ ہے لیکن زمین کو اس سے اتنی مناسب دوری پر رکھ دیا گیا ہے کہ وہاں سورج کی حرارت اس قدر ہی پہنچتی ہے جو حیات بخش ہے۔ اگر اٹھارہ ہزار ڈگری ہوتا تو ساری زمین اس کی تمازت سے جل کر راکھ ہوجاتی۔ زمین کا جھکاؤ تیئس درجے کا زاویہ بناتا ہے اور اسی جھکاؤ سے ہمارے موجودہ موسم مناسب وقفوں کے بعد باری باری آتے ہیں۔ اگر اس میں یہ جھکاؤ نہ ہوتا تو سمندر سے اٹھنے والے بخارات جنوب اور شمال میں حرکت کرتے اور اتنی زور سے برف باری ہوتی کہ ساری زمین ڈھک جاتی۔ اگر چاند کی دوری زمین سے اتنی نہ ہوتی جتنی اب ہے بلکہ صرف پچاس ہزار میل ہوتی تو سمندروں میں مدجزر اس شدت سے آتا کہ پہاڑوں تک کو بھی بہا کرلے جاتا۔ اگر زمین کی سطح موجودہ سطح سے صرف دس فٹ زیادہ موٹی ہوتی تو یہاں آکسیجن ہی نہ ہوتی اور کوئی جانور زندہ نہ رہتا اور اگر سمندر چند فٹ اور گہرے ہوتے تو ساری کاربن ڈائی اکسائیڈ اور آکسیجن صرف ہوجاتی اور روئے زمین پر کوئی سبز پتہ نظر نہ آتا۔ اس حکیمانہ نظام پر غور کرنے سے ہم اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ کارخانۂ ہستی اتفاقاً معرض وجود میں نہیں آیا بلکہ ایک حکیم ودانا خالق نے اس کی تخلیق فرمائی ورنہ زندگی کا کوئی امکان نہ تھا۔ (بحوالہ : ضیاء القرآن ) جدید سائنس نے دریافت کیا ہے کہ ساحل کے نزدیکی مقامات پر جہاں دریا کا تازہ میٹھا اور (سمندر کا) نمکین پانی آپس میں ملتے ہیں وہاں کی کیفیت ان مقامات سے قدرے مختلف ہوتی ہے۔ جہاں دو سمندوں کے نمکین پانی آپس میں ملتے ہیں یہ دریافت ہوا ہے کہ کھاڑیوں (estuaries) میں تازہ پانی کو کھاری پانی سے جو چیز جدا کرتی ہے وہ ” پکنواکلائن زون“ (Pycnocline Zone) ہے جس کی کثافت غیر مسلسل ہوتی گھٹتی بڑھتی رہتی ہے جو کھاری اور تازہ پانی کی مختلف پرتوں (Layers) کو ایک دوسرے سے الگ رکھتی ہے۔ اس رکاوٹ (یعنی علاقۂ امتیاز) کے پانی میں نمک کا تناسب (شوریت) تازہ پانی اور کھاری پانی دونوں ہی سے مختلف ہوتا ہے۔ اس مظہر کا مشاہدہ بھی متعدد مقامات پر کیا گیا ہے۔ جن میں مصر بطور خاص قابل ذکر ہے کہ جہاں دریائے نیل، بحیرہ روم میں گرتا ہے۔ ارضیات میں ” بل پڑنے“ (Folding) کا مظہر حالیہ دریافت شدہ حقیقت ہے۔ قشر ارض (Crust) میں بل پڑنے کی وجہ سے پہاڑی سلسلے وجود میں آئے ہیں۔ قشر ارض جس پرہم رہتے ہیں، کسی ٹھوس چھلکے کی طرح ہے، جب کہ کرۂ ارض کی اندرونی پرتیں، (Layers) نہایت گرم اور مائع ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ زمین کا اندرون کسی بھی قسم کی زندگی کے لیے قطعًا غیر موزوں ہے۔ آج ہمیں یہ بھی معلوم ہوچکا ہے کہ پہاڑوں کی قیام پذیری (Stability) کا تعلق، قشر ارض میں بل پڑنے کے عمل سے بہت گہرا ہے۔ ماہرین ارضیات کا کہنا ہے کہ زمین کارداس (Radius) یعنی نصف قطر تقریباً ٠٣٥، ٦ کلومیٹر ہے اور قشر ارض، جس پر ہم رہتے ہیں، اس کے مقابلے میں بہت پتلی ہے، جس کی موٹائی ٢ کلومیٹر سے لے کر ٣٥ کلومیٹر تک ہے۔ چونکہ قشر ارض بہت پتلی ہے، لہٰذا اس کے تھرتھرانے یا ہلنے کا امکان بھی بہت قوی ہے، اس میں پہاڑ خیمے کی میخوں کا کام کرتے ہیں جو قشرِارض کو تھام لیتی ہیں اور اسے قیام پذیری عطا کرتے ہیں۔ یہی بات قرآن پاک میں ارشاد ہوئی : (اَلَمْ نَجْعَلِ الْاَرْضَ مِھٰدًا وََّالْجِبَالَ اَوْتَادًا۔) [ النباء : ٦۔ ٧] ” کیا یہ واقعہ نہیں ہے کہ ہم نے زمین کو فرش بنایا اور پہاڑوں کو میخوں کی طرح گاڑ دیا۔“ earth نام کی ایک کتاب ہے جو دنیا بھر کی کئی جامعات میں ارضیات کی بنیادی حوالہ جاتی نصابی کتاب کا درجہ رکھتی ہے۔ اس کتاب کے مصنفین میں ایک نام ڈاکٹر فرینک پریس کا بھی ہے، جو ١٢ سال تک امریکہ کی اکیڈمی آف سائنسز کے سربراہ رہے ہیں۔ اس کتاب میں وہ پہاڑوں کی وضاحت، کلہاڑی کے پھل جیسی شکل (Wedge Shape) سے کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ پہاڑ بذات خود ایک وسیع تر وجود کا ایک چھوٹا حصہ ہوتا ہے۔ جس کی جڑیں زمین میں بہت گہرائی تک اتری ہوتی ہیں۔ (ملاحظہ ہو :earth از : پریس اور سلور ڈاکٹر فرینک پریس کے مطابق، قشر ارض کی پائیداری اور قیام پذیری میں پہاڑ نہایت اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ پہاڑوں کے فائدے کی وضاحت کرتے ہوئے، قرآن پاک واضح طور پر یہ فرماتا ہے کہ انہیں اس لیے بنایا گیا ہے تاکہ یہ زمین کو لرز تے رہنے سے بچائیں : النمل
62 فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ مزید سوال اور جواب۔ ان آیات میں مشرکین کو سوال و جواب کی صورت میں عقیدہ توحید سمجھانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ مشرک کی عادت ہوتی ہے کہ وہ خوشی اور کامیابی کے وقت خالق حقیقی کو بھول جاتا ہے لیکن جب ہر طرف سے مایوس اور لاچار ہوجائے تو پھر اپنے رب کو آواز پر آواز دیتا ہے۔ انسان انتہائی مجبوری اور بے انتہا معذوری کے وقت اپنے رب کو پکارتا ہے تورب کریم اسے ٹھکرانے اور مایوس کرنے کی بجائے اسے اطمینان اور تسلی دیتے ہوئے آواز دیتا ہے : (قُلْ ےَا عِبَادِیَ الَّذِےْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰی اَنْفُسِھِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَۃِ اللّٰہِ إِنَّ اللّٰہَ ےَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِےْعًا إِنَّہُ ھُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِےْمُ) [ الزمر : ٥٣] ” اے نبی ! بتلا دیں کہ اے میرے بندو جنہوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیے ہیں اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہوجاؤ۔ یقیناً اللہ سارے گناہ معاف کرنے والا ہے غفور الرّحیم ہے۔“ جب ” اللہ“ ہی لاچار کی دعا سنتا اور وہی اس کی داد رسی کرتا ہے تو پھر انسان کا فرض ہے کہ وہ صرف اللہ تعالیٰ کو ہی حاجت روا اور مشکل کشا سمجھ کر پکارا کرے۔ لیکن مشرک اس قدر ناعاقبت اندیش ہوتا ہے کہ وہ اس کے باوجود اللہ تعالیٰ کے ساتھ اپنے زندہ یا مردہ معبودوں کو پکارتا ہے حالانکہ اس کی مشکل کشائی میں اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کا عمل دخل نہیں ہوتا۔ لیکن بہت ہی کم لوگ ہیں جو اس حقیقت کو پانے کی کوشش کرتے ہیں۔ مشرک اس بات پر بھی غور نہیں کرتا کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کون ہے جو لوگوں کو ایک دوسرے کا جانشین بناتا ہے۔ جس طرح ہر انسان اپنے بڑوں کے بعد ان کی وراثت اور دیگر امور کا جانشین بنتا ہے اسی اصول پر پوری دنیا کا نظام چل رہا ہے۔ آج ایک قوم پوری دنیا پر حکومت کرنے کا خواب دیکھتی ہے۔ کل اس کی جگہ پر دوسری قوم کا پھر یرا لہرارہا ہوتا ہے۔ یہی صورت حال مختلف ممالک کی ہے کل کسی اور جماعت کی حکومت تھی آج دوسری پارٹی اقتدار سنبھالے ہوئے ہے۔ کون چاہتا ہے کہ میں سب کو چھوڑ چھاڑ کر رخت سفر باندھوں ؟ کوئی نہیں سوچتا کہ میں اپنا اقتدار اور اختیار دوسرے کے حوالے کردوں لیکن اللہ تعالیٰ ہی لوگوں کو ایک دوسرے کا اچھا یا برا جانشین بناتا ہے۔ بالفاظ دیگر سدا اقتدار اور اختیار صرف اسی کو زیبا ہے لیکن اقتدار اور اختیار کو سب کچھ سمجھنے والے انقلاب زمانہ سے نصیحت حاصل کرنے کی کوشش نہیں کرتے۔ مسائل مشرک ان تین سوالات کا بھی جواب نہیں دے سکتا۔ ١۔ اللہ تعالیٰ ہی لاچار اور مجبور کی دعاؤں کو سننے والا ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ ہی تکلیف کو دور کرنے والا ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ ہی لوگوں کو ایک دوسرے کا جانشین بناتا ہے۔ ٤۔ عقیدہ توحید کھلی حقیقت ہونے کے باوجود لوگوں کی اکثریت اسے قبول نہیں کرتی۔ تفسیر بالقرآن اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں : ١۔ اللہ نے زمین و آسمان کو پیدا کیا اور پھر آسمان سے پانی اتار کر باغات اگائے کیا اس کے ساتھ کوئی اور بھی الٰہ ہے؟ (النمل : ٦٠) ٢۔ اللہ نے زمین کو جائے قرار بنایا اس میں پہاڑ اور دو سمندروں کے درمیان پردہ بنایا کیا اس کے ساتھ اور بھی الٰہ ہے؟ (النمل : ٦١) ٣۔ کون ہے جو لاچار کی فریاد رسی کرتا ہے اور اس کی تکلیف دور کرتا ہے کیا کوئی اور بھی الٰہ ہے ؟ (النمل : ٦٢) ٤۔ خشکی اور سمندر کی تاریکیوں میں اللہ کے سواکون رہنمائی کرتا ہے کیا کوئی اور بھی اس کے ساتھ الٰہ ہے۔ (النمل : ٦٣) ٥۔ پہلے اور دوبارہ پیدا کرنا اور زمین و آسمان سے تمہارے لیے روزی کا بندوبست کرنے والا اللہ کے سوا کوئی اور الٰہ ہے؟ (النمل : ٦٤) ٦۔ آپ فرما دیں سوائے ایک الٰہ کے آسمان وز میں کے غیب کو کوئی نہیں جانتا۔ (النمل : ٦٥) ٧۔ کیا اللہ کے سوا کوئی الٰہ ہے جو رات ختم کرکے دن لائے ؟ (القصص : ٧١) ٨۔ کیا کوئی ہے اس الٰہ کے علاوہ کوئی اور الٰہ جو دن ختم کرکے رات لائے ؟ (القصص : ٧٢) ٩۔ بس اس ایک الٰہ کے سوا کوئی دوسرے الٰہ کو نہ پکارو۔ (القصص : ٨٨) ١٠۔ تمھارا الٰہ ایک ہی ہے وہ رحمن، رحیم ہے۔ (البقرۃ: ١٦٣) ١١۔ وہی اکیلا ہی زمین و آسمانوں کا الٰہ ہے۔ ( الزخرف : ٨٤) النمل
63 فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ کے اِلٰہ حق ہونے پر بحر و بر اور ہواؤں کے حوالے سے دلائل۔ اس فرمان میں اللہ تعالیٰ نے اپنی الوہیت کے تین دلائل دیے ہیں جن میں سے دو کے ساتھ ہر شخص کا واسطہ پڑتا ہے۔ دنیا میں کوئی ایسا شخص نہیں جسے تھوڑے بہت سفر کے ساتھ واسطہ نہیں پڑتا۔ یہی صورت بارش کی ہے جس سے پہلے ہر ملک اور علاقہ میں ہوائیں چلتی ہیں۔ خاص طور پر شدید گرمی کے موسم میں جب لوگ بارش کی ایک ایک بوند کے لیے ترس رہے ہوتے ہیں تو اللہ تعالیٰ لوگوں کی دعاؤں کو مستجاب کرتے ہوئے بادل نمودار کرتا ہے۔ بادلوں سے پہلے ٹھنڈی ہوا کے جھونکے آتے ہیں جس سے طبیعت بہلتی اور جسم و جان کو راحت ملتی ہے۔ ظاہر ہے ٹھنڈی ہوائیں چلانا، بحر و بر کے سفر میں مسافروں کی رہنمائی کرنا صرف ” اللہ تعالیٰ“ کا کام ہے۔ جو الٰہِ حق ہے۔ ان آیات میں الٰہ کا مفہوم سمجھایا جا رہا ہے گویا کہ ” اللہ“ کی ربوبیت کے دلائل سے اس کی الوہیت ثابت کی جا رہی ہے۔ استفسار کیا ہے کہ اے مسافرو اور ٹھنڈی ہواؤں سے لطف اندوز ہونے والو! بتاؤ کیا اللہ تعالیٰ کے سوا یا اس کے ساتھ کوئی اور الٰہ ہے جو بحر وبر کے سفر میں تمھاری رہنمائی کرے اور ٹھنڈی ہوائیں چلا کر تمھارے جسم و جان کو راحت پہنچائے ؟ زمین و آسمانوں میں کوئی ہستی ایسی نہیں جو ان میں سے کوئی ایک کام کرسکے۔ اللہ تعالیٰ مشرکین کے مشرکانہ تصورات اور اعمال سے بلند و بالا ہے۔ لیکن مشرک اپنی ذہنی پستی کی بناء پر شجر وحجر، شمس و قمر، بتوں اور قبروں میں مدفون لوگوں کو اللہ تعالیٰ کا شریک ٹھہراتے ہیں۔ الٰہ حقیقی نے ہی ستاروں کے ذریعہ سے ایسا انتظام کیا ہے کہ لوگ رات کے اندھیرے میں بھی اپنا راستہ تلاش کرتے ہیں اسی الٰہ نے بحری اور بری سفروں میں انسان کی رہنمائی کے لیے ایسے ذرائع رکھے ہیں جن سے مسافر اپنی سمت سفر اور منزل مقصود کی راہنمائی پاتا ہے۔ دن کے وقت زمین کی مختلف علامتیں اور آفتاب کے طلوع وغروب کی سمتیں اس کی مدد کرتی ہیں اور تاریک راتوں میں تارے اس کی رہنمائی کرتے ہیں۔ مسائل دو سوال جن کا مشرک کے پاس جواب نہیں۔ ١۔ اللہ تعالیٰ ہی بحر و بر میں مسافروں کی رہنمائی کرتا ہے : ٢۔ اللہ تعالیٰ ٹھنڈی ہوائیں چلا کر بارش کی خوشخبری دیتا ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ مشرکوں کے عقائد اور کردار سے بلند و بالا ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ ہی بحر و بر میں لوگوں کی رہنمائی کرتا ہے : ١۔ بحرو بر میں رہنمائی کرنے والا ” اللہ“ ہے اس کا انکار کیوں؟ (النمل : ٦٣) ٢۔ ” اللہ“ ہی کے پاس غیب کی چابیاں ہیں جنھیں اس کے سوا کوئی نہیں جانتا وہ بحر و برّ کی ہر چیز کو جانتا ہے۔ (الانعام : ٥٩) ٣۔ ” اللہ“ وہ ذات ہے جو تمہیں بحروبر میں چلاتی ہے۔ (یونس : ٢٢) ٤۔ ” اللہ“ وہ ذات ہے جس نے تمہارے لیے دریاؤں کو مسخر کردیا تاکہ تم اس سے تروتازہ گوشت حاصل کرو۔ (النحل : ١٤) ٥۔ اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے زمین کی ہر چیز مسخر کردی، دریاؤں میں کشتیاں اسی کے حکم سے چلتی ہیں۔ (الحج : ٦٥) ٦۔ ” اللہ“ وہ ذات ہے جو تمہیں بحروبر کے اندھیروں سے نجات دیتا ہے۔ (الانعام : ٦٣) ٧۔ کیا تم بے خوف ہوگئے ہو کہ ” اللہ“ تمہیں دریا کے کنارے زمین میں دھنسا دے اور تم پر تندوتیز آندھی بھیج دے۔ (بنی اسرائیل : ٦٨) النمل
64 فہم القرآن ربط کلام : توحد کے دلائل جاری ہیں۔ مخلوق کو پہلی بار پیدا کرنا اور پھر اسے اپنی طرف لوٹانا، لوگوں کو زمین و آسمان سے رزق مہیا کرنے میں اللہ تعالیٰ کا کوئی اور شریک اور سہیم نہیں ہے۔ سورۃ البقرۃ آیت ١١٧ میں ارشاد ہے کہ ” اللہ“ وہ ذات ہے جس نے زمینوں، آسمانوں کو بغیر کسی نقشے اور پہلے سے موجود میٹریل کے پیدا فرمایا۔ جب وہ کسی کام کے کرنے کا فیصلہ کرتا ہے تو اسے صرف ” کُن“ فرماتا ہے اور وہ چیز اللہ تعالیٰ کی مرضی کے عین مطابق معرض وجود میں آجاتی ہے۔ سورۃ الانعام آیت ١٠١ میں یہ الفاظ استعمال فرمائے کہ اللہ ہی ذات واحد ہے جس نے کائنات کو عدم سے وجود بخشا ہے۔ نہ اس کی بیوی ہے اور نہ اس کی اولاد، اس نے ہر چیز کو پیدا فرمایا ہے وہ ہر چیز کے ماضی، حال اور مستقبل کے بارے میں کامل اور اکمل علم رکھتا ہے اور وہی ابتداء سے ہر چیز کو پیدا کرنے والا ہے اور وہی ہر ایک کو اپنی بارگاہ میں حاضر کرے گا۔ نہ صرف اس نے ہر چیز کو پیدا کیا ہے بلکہ وہ ہر چیز کو اس کی ضروریات بھی فراہم کر رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مخلوق کی پرورش کا بندوبست ایسے مضبوط نظام کے ساتھ فرمایا ہے کہ ہر چیز کو زندگی اور بقا کے لیے جو کچھ اور جس قد رچاہیے اسے اسی حالت اور مقام پر پہنچایا جارہا ہے۔ پتھر کا کیڑا چاروں طرف بند چٹان کے اندر اپنی خوراک لے رہا ہے، مرغی کا بچہ انڈے میں پل رہا ہے، مچھلیاں دریا میں، پرندے ہوا میں، ستارے فضا میں، اور درندے صحرا میں اپنی اپنی خوراک اور ماحول میں مطمئن اور خوش وخرم دکھائی دیتے ہیں۔ دانہ اپنی آغوش میں زندگی اور بیج اپنے سینے میں نشوونما کا سامان لیے ہوئے ہے۔ زندگی کے لیے ہوا اور پانی اس قدر لازمی عناصر ہیں کہ ان کے بغیر زندگی لمحوں کی مہمان ہوتی ہے۔ یہ اتنے ارزاں اور وافر ہیں کہ اس کا اندازہ ہی نہیں کیا جاسکتا۔ یہاں تک کہ پھول کی کلی کو جس ہوا اور فضا کی ضرورت ہے اسے مہیا کی جارہی ہے۔ اس لیے قرآن نے اللہ کی ہستی اور اس کے نظام ربوبیت سے بات کا آغاز کیا ہے تاکہ انسان کا وجدان پکار اٹھے کہ مجھے اس ہستی کا شکر ادا کرنا اور اسی کے تابع فرمان رہنا ہے جس نے مجھے پیدا کیا ہے۔ یہ نظام اس بات کی دلیل ہے کہ یہ کسی منتظم کے بغیر جاری اور قائم نہیں رہ سکتا۔ ایک زندہ ضمیر شخص جب اپنے چاروں طرف رب کی ربوبیت کے اثرات ونشانات دیکھتا ہے تو اس کے دل کا ایک ایک گوشہ پکار اٹھتا ہے۔ (فَتَبَارَکَ اللّٰہُ أَحْسَنُ الْخَالِقِیْنَ) [ المؤمنون : ١٤] ” اللہ تعالیٰ برکت والا اور بہترین پیدا کرنے والا ہے۔“ ان حقائق اور دلائل کے بعد مشرکین سے یہ استفسار کیا گیا ہے کہ بتائیں موت وحیات کا مالک اور مخلوق کی ضروریات پوری کرنے والا کون ہے؟ اگر تمہارے زندہ یا مردہ، جاندار یا غیر جاندار معبودوں میں کسی ایک نے یا سب نے مل کر کوئی ایک کام کیا ہے یا کسی کی روزی کا ذمہ لے رکھا ہے تو دلیل پیش کرو۔ ” کتنے ہی ایسے جانور ہیں جو اپنا رزق اٹھائے نہیں پھرتے اللہ انہیں رزق دیتا ہے اور تم کو بھی وہی دیتا ہے۔ وہ سب کچھ سننے والا اور جاننے والا ہے اگر آپ ان سے پوچھیں کہ ارض وسماوات کو کس نے پیدا کیا ہے۔ سورج اور چاند کو کس نے مسخر کر رکھا ہے تو ضرور کہیں گے کہ اللہ نے پھر یہ کہاں سے دھوکہ کھا جاتے ہیں۔ اللہ اپنے بندوں سے جس کے لیے چاہے رزق وسیع کردیتا ہے اور جس کے لیے چاہے کم کردیتا ہے۔ وہ یقیناً ہر بات سے خوب واقف ہے۔ اگر آپ ان سے پوچھیں کہ آسمان سے پانی کس نے برسایا پھر اس پانی سے مردہ زمین کو کس نے زندہ کیا؟ تو ضرور کہیں گے کہ ” اللہ نے“ کہیے پھر ہر طرح کی حمد بھی اللہ ہی کے لیے ہے مگر اکثر عقل سے کام نہیں لیتے۔“ [ العنکبوت : ٦٠ تا ٦٣] مسائل دو سوال مشرک ان کا جواب دینے سے قاصر ہیں۔ ١۔ اللہ تعالیٰ نے ہی مخلوق کو پہلی مرتبہ پیدا فرمایا۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ ہی مخلوق کو اپنی طرف لوٹانے والا ہے۔ ٣۔ صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہی رازق ہے اس کے بغیر کوئی رزق دینے والا نہیں۔ ٤۔ مشرکین کے پاس شرک کی کوئی عقلی اور نقلی دلیل موجود نہیں۔ ٥۔ مشرک اپنے عقیدہ اور مؤقف میں سراسر جھوٹا ہے۔ تفسیر بالقرآن مشرکین کا اقرار : ١۔ اگر آپ ان سے پوچھیں کہ ارض وسماوات کو کس نے پیدا کیا اور سورج اور چاند کو کس نے مسخر کر رکھا ہے تو ضرور کہیں گے کہ اللہ نے پھر یہ کہاں سے دھوکہ کھا جاتے ہیں۔ ( العنکبوت : ٦١) ٢۔ اگر آپ ان سے پوچھیں کہ آسمانوں اور زمین کو کس نے پیدا کیا ؟ تو یقیناً کہیں گے کہ انہیں زبردست اور سب کچھ جاننے والے نے ” اللہ“ پیدا کیا ہے۔ (لزخرف : ٩ ) ٣۔ اگر ان سے پوچھا جائے کہ ہر چیز پربادشاہت کس کی ہے ؟ جواب دیتے ہیں اللہ کی ہے۔ (المومنون : ٨٨۔ ٨٩) النمل
65 فہم القرآن ربط کلام : توحید کے دلائل کا تسلسل۔ اللہ تعالیٰ نہ صرف ہر چیز کا خالق اور رازق ہے بلکہ وہ اپنی مخلوق کے ماضی، حال اور مستقبل کو پوری طرح جانتا ہے یہ حقیقت سچائی کی انتہا کو پہنچ چکی اور اس کے خلاف کوئی عقلی اور نقلی دلیل موجود نہیں ہے جس بناء پر ہر دور کا مشرک یہ حقائق تسلیم کرتا رہا اور کرتا رہے گا کہ واقعی اللہ تعالیٰ کے سوا زمین و آسمان کو پیدا کرنے والا، آسمان سے بارش اتارنے والا، بارش سے نباتات اگانے والا، زمین کو ٹھہرانے اور جمانے والا، زمین میں نہریں جاری کرنے والا، زمین پر مضبوط پہاڑ ٹھہرانے والا، دو سمندروں کے درمیان پردہ حائل کرنے والا، معذور اور مجبور کی دعا میں قبول فرمانے والا، بیماری اور مصیبت کو دور کرنے والا، لوگوں کو دوسرے کا جانشین بنانے والا، بحر و بر میں مسافروں کی رہنمائی کرنے والا، بارش سے پہلے ٹھنڈی ہوائیں چلانے والا، مخلوق کو فی البدیع پیدا کرنے والا‘ موت کے بعد اپنی طرف لوٹانے والا اور ذی روح کو رزق دینے والا۔ ایک ” اللہ“ کے سوا کوئی نہیں ہے۔ اسی طرح زمین و آسمان کے غیب کو جاننے والا اس کے سوا کوئی نہیں۔ تو پھر کسی زندہ یا مردہ بزرگ کو اس کی خدائی میں شریک کرنے کا کیا معنٰی ؟ مشرک جن کو داتا، حاجت روا اور مشکل کشاء، دستگیر، غریب نواز کہتے ہیں ان کو یہ بھی خبر نہیں کہ انھیں کب اٹھایا جائے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ قیامت کا انکار کرنے والوں کا علم ختم ہوچکا ہے یعنی ان کے پاس علم ہے ہی نہیں۔ حقیقت ہے کہ مشرک آخرت کا منکر ہوتا اگر اسے یقین ہو کہ قیامت کو اس سے شرک کے بارے میں سوال ہوگا تو کبھی شرک نہ کرے، مگر اس کے باوجود آخرت کے منکر شک میں مبتلا ہیں جس بنا پر قیامت پر یقین کرنے کے بارے میں اندھے ہوچکے ہیں۔ جنہیں ” اللہ“ کے سوا یا اس کے ساتھ پکارتے ہیں انھیں علم نہیں کہ وہ کب اٹھائے جائیں گے ؟ اللہ کے ہاں یہ درست نہیں کہ وہ ہر کسی کو اپنی تقدیر یعنی امور غائب سے مطلع کرتا رہے۔ ایک تو اس لیے کہ ہر شخص کا سینہ اللہ تعالیٰ کی تقدیر کے بھید پانے اور برداشت کرنے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ دوسرا یہ کہ اللہ تعالیٰ نے غیب کی اطلاع کے لیے پیغمبروں کو منتخب کر رکھا ہے۔ ان میں بھی جس پیغمبر کو جتنا چاہا امور غیب سے آگاہ فرمایا۔ لوگوں کا فرض ہے کہ اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لائیں اگر کافر اور منافق بھی اخلاص کے ساتھ ایمان لائیں تو مخلص ایمانداروں کی طرح یہ بھی اجر عظیم پائیں گے۔ بعض لوگ پیروں‘ فقیروں اور علماء کے حوالے سے ایسے واقعات لکھتے اور بیان کرتے ہیں کہ فلاں بزرگ بھی غیب کے واقعات جانتے تھے۔ یہاں دو ٹوک الفاظ میں اس عقیدے کی نفی کی گئی ہے۔ جہاں تک انبیاء کا معاملہ ہے ان کے بھی درجنوں واقعات ہیں کہ وہ غیب کا علم نہیں جانتے تھے۔ اس کے باوجود بعض علماء نے اس آیت سے یہ استدلال کرنے کی کوشش کی ہے کہ انبیاء کرام خود تو غیب کا علم نہیں جانتے تھے لیکن انہیں عطائی علم غیب ضرور تھا۔ عطائی کا معنٰی ہے کہ اللہ تعالیٰ کا بتلایا ہوا اور عطا کردہ علم۔ علم غیب کی یہ تعریف بذات خود مضحکہ خیز ہے۔ جب اللہ تعالیٰ انبیاء یا کسی کو کوئی بات بتلا دے تو وہ غیب کس طرح رہا۔ یہ بات علم غیب کی تعریف میں نہیں آتی اس لیے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان اطہر سے کئی بار یہ اعلان کروایا گیا کہ آپ از خود یہ اعلان فرمائیں کہ میں غیب کا علم نہیں جانتا۔ مسائل ١۔ زمینوں، آسمانوں کا غیب اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ ٢۔ مدفون بزرگوں کو یہ بھی خبر نہیں کہ وہ کب اٹھائے جائیں گے۔ ٣۔ عقیدۂ توحید اور آخرت کے بارے میں مشرک اندھے پن کا ثبوت دیتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ کے سوا غیب کا علم کوئی نہیں جانتا : ١۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے فرمایا کہ میں غیب نہیں جانتا۔ (ھود : ٣١) ٢۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو فرشتوں کے متعلق علم نہ ہوسکا۔ (ھود : ٦٩) ٣۔ حضرت لوط (علیہ السلام) فرشتوں کو نہ پہچان سکے۔ (ھود : ٧٧) ٤۔ اللہ کے سوا کوئی بھی غیب نہیں جانتا۔ (الانعام : ٥٩) ٥۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اگر مجھے غیب کا علم ہوتا تو میں بہت سی بھلائیاں جمع کرلیتا۔ (الاعراف : ١٨٨) ٦۔ آپ فرما دیں کہ غیب کا علم اللہ ہی کو ہے۔ (یونس : ٢٠) ٧۔ آپ فرما دیں کہ زمین اور آسمانوں کے غیب اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ (النمل : ٦٥) ٨۔ اللہ کے خزانوں اور زمین و آسمان کے غائب کو اس کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ ( الانعام : ٥٠) النمل
66 النمل
67 فہم القرآن ربط کلام : آخرت کے منکر اپنی بے علمی اور متشکک طبیعت کی وجہ سے اندھے ہوچکے ہیں، ان کے اندھا پن کی دلیل۔ منکرین آخرت اپنے مؤقف کے حق میں سب سے بڑی دلیل یہ دیتے ہیں ” کیا ہم اور ہمارے باپ دادا مٹی کے ساتھ مٹی ہوجائیں گے تو پھر ہم دوبارہ اٹھائے جائیں گے ؟“ یہ ایسی بات ہے جس کا ہمارے باپ دادا اور ہم سے وعدہ کیا جاتا رہا ہے آج تک کوئی زندہ نہیں ہوا اور نہ ہم زندہ کیے جائیں گے۔ یہ تو پہلے لوگوں کی کہانیاں ہیں۔ ان میں کوئی حقیقت نہیں۔ قرآن مجید نے مختلف الفاظ اور انداز میں اس کے کئی جواب دیے ہیں۔ یہاں صرف اس جواب پر اکتفا کیا ہے کہ اے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! انھیں فرمائیں دنیا کی تاریخ پڑھو اور زمین پر چل پھر کر دیکھو کہ قیامت کے منکروں اور اللہ کے باغیوں کا کیا انجام ہوا؟ بار بار دلائل دینے اور سمجھانے کے باوجود یہ لوگ نہیں مانتے تو اے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ کو ان کے انکار اور شرارتوں پر دل گرفتہ نہیں ہونا چاہیے۔ یہاں آخرت کے منکروں کے لیے مجرم کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ جو اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ جب آدمی یہ عقیدہ بنا لیتا ہے کہ مجھے اپنے اعمال کا مرنے کے بعد کسی کو جواب نہیں دینا ایسا شخص ظلم اور جرم کرتے ہوئے کوئی خوف محسوس نہیں کرتا۔ بالخصوص وہ شخص جو کسی نہ کسی طرح لوگوں کی گرفت اور سزا سے بچنے کے اسباب رکھتا ہے۔ ایسا شخص انسانیت کی حدود سے نکل کر درندوں میں شامل ہوجاتا ہے۔ آخرت کا انکار جرائم کا سب سے بڑا سبب ہے انسان کو آخرت کی جوابدہی کا فکر ہو تو وہ اقتدار اور اختیار رکھنے کے باوجود ظلم کرنے سے بچتا ہے۔ کیونکہ اس کا عقیدہ ہوتا ہے اگر میں کسی سبب قانون اور لوگوں سے بچ نکلا تو قیامت کے دن ضرور پکڑا جاؤں گا۔ مسائل ١۔ منکرین آخرت کے پاس آخرت کے انکار کی کوئی حقیقی دلیل موجود نہیں ہے۔ ٢۔ آخرت کا انکار کرنے والوں کا دنیا میں بھی بدترین انجام ہوا۔ ٣۔ لوگوں کو تاریخ کا مطالعہ اور زمین پر چل پھر کر مجرموں کا انجام دیکھنا چاہیے۔ ٤۔ الدَّاعِیْ کو لوگوں کے کفر و شرک پر حد سے زیادہ پریشان نہیں ہونا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن مرنے کے بعد زندہ ہونے کے فکری اور عملی ثبوت : ١۔ اس بات پر تعجب ہے یہ کہتے ہیں کہ جب ہم مٹی ہوجائیں گے تو ہمیں دوبارہ اٹھایا جائے گا۔ (الرعد : ٥) ٢۔ مردوں کو اللہ تعالیٰ اٹھائے گا پھر اس کی طرف ہی لوٹائیں جائیں گے۔ (الانعام : ٣٦ ) ٣۔ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن تمام کو اٹھائے گا اور ہر کسی کو اس کے اعمال کے متعلق بتلائے گا۔ (المجادلۃ: ٦) ٤۔ وہ کہتے ہیں ہمیں کون دوبارہ زندہ کرے گا ؟ فرما دیجیے جس نے پہلی بار پیدا کیا تھا۔ (بنی اسرائیل : ٥١) ٥۔ اللہ تعالیٰ نے عیسیٰ کے ہاتھوں مردوں کو زندہ کیا۔ ( المائدہ : ١١٠) ٦۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے چار پرندے ذبح کروا کر انہیں زندہ کیا۔ ( البقرۃ: ٢٦٠) ٧۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت عزیر اور اس کے گدھے کو سو سال مردہ کرنے کے بعد زندہ کیا۔ ( البقرۃ: ٢٥٩ ) ٨۔ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کے ہزاروں لوگوں کو موت کے بعد دوبارہ زندہ فرمایا۔ ( البقرۃ: ٢٤٣) ٩۔ کیا اللہ تعالیٰ نے اصحاب کہف کو 309 سال بعد نہیں اٹھایا تھا۔ (الکہف : ٢٥ ) النمل
68 النمل
69 النمل
70 النمل
71 النمل
72 فہم القرآن ربط کلام : منکرین آخرت کو ایک اور انداز میں جواب۔ مکہ کے مشرک اس حد تک ہدایت سے بے توفیق ہوئے کہ ان میں ایک شخص نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آکر کسی مردہ کی بوسیدہ ہڈی اپنے ہاتھ سے مسلتے ہوئے بڑے غرور اور تمرد میں آکر کہتا ہے کہ اے محمد بتاؤ کہ اسے کون زندہ کرے گا ؟ اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ” وہ ہمارے سامنے دلیل دیتا ہے اور اپنی تخلیق بھول گیا ہے۔ کہتا ہے کہ بوسیدہ ہڈیاں کون زندہ کرے گا؟ فرما دیجیے کہ وہی زندہ کرے گا جس نے اسے پہلی بار پیدا کیا تھا اور وہ پیدا کرنا جانتا ہے۔“ (یٰس ٓ : ٧٨۔ ٧٩ کا) اس واضح حقیقت اور ٹھوس دلیل کے باوجود پھر بھی وہ لوگ کہتے تھے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سچے ہو تو قیامت لاؤ یا عذاب کا وعدہ پوراکرو؟ اے پیغمبر! فرمادیجیے کہ جس کی تم جلدی کرتے ہو امید ہے کہ وہ قریب ہی آن پہنچاہے۔ اللہ تعالیٰ لوگوں کو اپنے فضل و کرم کی بناء پر ڈھیل دیتا ہے تاکہ وہ تائب ہوجائیں مگر لوگ ڈھیل سے فائدہ اٹھانے اور مزید مہلت ملنے پر اپنے رب کا شکر ادا کرنے کی بجائے عذاب کے بارے میں جلدی کرتے ہیں۔ حالانکہ جو کچھ لوگ چھپاتے ہیں اور جو وہ اعلانیہ کرتے ہیں اللہ تعالیٰ اس سے پوری طرح واقف ہے نہ صرف وہ زمینوں، آسمانوں کے غیب سے واقف ہے بلکہ اس نے ایک کھلی کتاب میں ہر چیز لکھ رکھی ہے۔ گناہ چھپانے یا اعلانیہ کرنے کا ذکر فرما کر لوگوں کو بتلایا ہے کہ عذاب نازل نا کرنے کی وجہ یہ نہیں کہ ” اللہ تعالیٰ تمہارے جرائم سے ناواقف ہے ہرگز نہیں ! جو کچھ تم لوگوں سے چھپاتے ہو یا جو تم سر عام کرتے ہو۔ اللہ تعالیٰ اس سے پوری طرح واقف ہے، کیونکہ زمین و آسمانوں میں کوئی چیز اس سے پوشیدہ نہیں ہے، ناصرف کوئی چیز اس سے پوشیدہ نہیں بلکہ سب کچھ اس نے اپنے ہاں کھلی کتاب میں لکھ رکھا ہے۔ اس خطاب میں عسٰی کا لفظ استعمال ہوا ہے جس کا معنی ” اُمید“ ہے۔ اس کا معنی یہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ کو کسی سے امید ہے۔ اللہ تعالیٰ کے منکر اس لفظ کی غلط توجیہہ کرسکتے تھے۔ اس لیے اسے ” قُلْ“ کہہ کر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان سے کہلوایا گیا ہے کہ آپ کہیں کہ مجھے امید ہے جس عذاب کی تم جلدی کرتے ہو وہ تمھاری بد اعمالیوں کی وجہ سے قریب ہی آن پہنچا ہے۔ چنانچہ یہی کچھ ہوا کہ اہل مکہ بہت جلد ہر قسم کی ذلّت اور عذاب سے دو چار ہوئے۔ مسائل ١۔ دلائل سننے اور جاننے کے باوجود منکرین آخرت کہتے ہیں کہ قیامت کب آئے گی ؟ ٢۔ لوگ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی ڈھیل سے فائدہ اٹھانے کی بجائے اس کے عذاب کا مطالبہ کرتے ہیں۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ لوگوں پر اس لیے فضل کرتا ہے تاکہ لوگ اس کا شکر ادا کریں۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ دلوں کے بھید اور لوگوں کے اعمال کو پوری طرح جانتا ہے۔ ٥۔ زمینوں، آسمانوں میں کوئی چیز ایسی نہیں جو اللہ تعالیٰ سے پوشیدہ ہو۔ ٦۔ اللہ تعالیٰ نے ہر بات لوح محفوظ پر درج کر رکھی ہے۔ النمل
73 النمل
74 النمل
75 النمل
76 فہم القرآن ربط کلام : اہل مکہ کی غالب اکثریت اَن پڑھ تھی جس بناء پر وہ مدینہ کے یہودیوں سے پوچھتے کہ ہمیں علمی لحاظ سے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر کیا کیا اعتراض اٹھانے چاہییں۔ یہودی مکہ والوں کو مختلف قسم کے سوال کرنے کی تعلیم دیتے۔ اس لیے ضروری سمجھا گیا کہ مکہ والوں کے ساتھ بنی اسرائیل کو بھی مخاطب کیا جائے۔ چنانچہ ارشاد ہوا یہ قرآن مجید ان مسائل کی نشاندہی بھی کرتا ہے جن کی حقیقت جاننے کے باوجود بنی اسرائیل ان کو نہیں مانتے۔ بنی اسرائیل کے خطاب میں مجموعی طور پر یہودی اور عیسائی شامل ہیں۔ تاہم کبھی کبھی یہ لفظ صرف یہودیوں یا عیسائیوں کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے یہودیوں نے تورات کے بر خلاف یہ عقیدہ بنایا کہ عزیر (علیہ السلام) اللہ کا بیٹا ہے۔ قرآن مجید نے دو ٹوک انداز میں اس کی وضاحت فرمائی کہ عزیر (علیہ السلام) اللہ کا بیٹا نہیں بلکہ اس کا بندہ اور نبی تھا۔ عیسائیوں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور مریم [ کو اللہ کا جزو قرار دیا۔ قرآن مجید نے اس کی بھی نفی کی ہے اس طرح دو ٹوک انداز میں فیصلہ کیا کہ حضرت عزیر (علیہ السلام) اور حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کے بارے میں بنی اسرائیل کے عقائد حقیقت پر مبنی نہیں ہیں۔ قرآن مجید ہر اس شخص کے لیے ہدایت کا سر چشمہ اور اللہ تعالیٰ کی رحمت ہے جو اس پر ایمان لاتا ہے۔ جس طرح بنی اسرائیل کے اختلاف میں حق واضح کیا گیا ہے اسی طرح ہی اے نبی آپ کا رب آپ کے مخالفوں کے درمیان فیصلہ کرے گا۔ کیونکہ وہ ہر حال میں غالب ہے اور ہر معاملے کو اچھی طرح جاننے والا ہے۔ آپ اللہ پر بھروسہ کریں اور یقین رکھیں کہ آپ واضح طور پر حق پر گامزن ہیں۔ اس فرمان میں اللہ تعالیٰ نے العزیز کی صفت لا کر اپنے پیغمبر کو مخصوص انداز میں مستقبل کی کامیابی کی خوشخبری دی ہے جسے اللہ تعالیٰ نے ہجرت مکہ کے بعد دو صورتوں میں پورا فرمایا۔ نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بڑے بڑے دشمن آپ کے ہاتھوں ذلّت کی موت مرے، باقی حلقۂ اسلام میں داخل ہوئے یہودیوں کو ذلیل ہو کر مدینہ چھوڑنا پڑا۔ عیسائیوں کی سب سے بڑی حکومت آپ کے سامنے کھڑے ہونے کی تاب نہ لا سکی اس طرح پوری دنیا میں اسلام کی عظمت اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صداقت کا پھریرا بلند ہوا۔ مسائل ١۔ قرآن مجید لوگوں کے اختلافات کے درمیان فیصلہ کن کردار ادا کرتا ہے۔ ٢۔ ایمان لانے والوں کے لیے قرآن مجید ہدایت اور رحمت کا سرچشمہ ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ دنیا اور آخرت میں حق اور باطل کے درمیان فیصلہ کرے گا۔ ٤۔ ایمان والوں کو ہر حال میں اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرنا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن ایمان داروں کو اللہ تعالیٰ پر توکل کرنے کا حکم : ١۔ رسول کریم کو اللہ پر تو کل کرنے کی ہدایت۔ (النمل : ٧٩) ٢۔ مومنوں کو اللہ تعالیٰ پر توکل کرنے کا حکم۔ (المجادلۃ: ١٠) ٣۔ انبیاء اور نیک لوگ اللہ پر توکل کرتے ہیں۔ (یوسف : ٦٧) ٤۔ اللہ پر ایمان لانے والوں اور توکل کرنے والوں کے لیے خیر ہی خیر ہے۔ (الشوریٰ : ٣٦) ٥۔ اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرنا چاہیے کیونکہ وہی عرش عظیم کا مالک ہے۔ (التوبۃ: ١٢٩) ٦۔ اللہ توکل کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔ (آل عمران : ١٥٩) ٧۔ اللہ صبر کرنے والوں اور توکل کرنے والوں کو بہترین اجر عطا فرمائے گا۔ (العنکبوت : ٥٩) ٨۔ جو اللہ پر توکل کرتا ہے اللہ اسے کافی ہوجاتا ہے۔ (الطلاق : ٣ النمل
77 النمل
78 النمل
79 النمل
80 فہم القرآن ربط کلام : قرآن مجید اللہ تعالیٰ کی رحمت اور اس کی طرف سے رہنمائی ہے لیکن اس سے روحانی طور پر زندہ لوگ ہی فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ قرآن مجید نے حق اور باطل کے درمیان واضح طور پر ایک امتیاز قائم کردیا ہے۔ جس سے یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہے کہ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حق بات پر گامزن اور واضح طور پر حق کی دعوت دینے والے تھے۔ لیکن اس کے باوجود لوگ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تکذیب اور قرآن مجید کا انکار کرتے تھے، اور کرتے ہیں۔ جس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ آپ کے مخالفین روحانی طور پر مردہ ہوگئے تھے اور ہیں۔ اس لیے نہ صرف وہ حق بات سننے کے بارے میں گونگے، بہرے ہوچکے ہیں بلکہ جب ان کے سامنے حق بیان کرنے کی کوشش کی جائے تو وہ پیٹھ پھیر کر بھاگ جاتے ہیں۔ اس صورتحال میں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنے رب پر توکل کرنے کی ہدایت کی گئی اور آپ کو تسلی دیتے ہوئے وضاحت فرمائی کہ اے نبی ! آپ مردوں کو نہیں سنا سکتے اور ان لوگوں کو بھی نہیں سنا سکتے جو بہرے ہونے کے ساتھ پیٹھ پھیر کر بھاگ جاتے ہیں۔ اس طرح آپ اندھو کو بھی ہدایت کے راستے پر نہیں چلا سکتے آپ تو صرف ان لوگوں کو سنا اور سمجھا سکتے ہیں جو اپنے دماغ سے سوچتے ہیں اور کھلی آنکھوں سے دیکھتے ہیں، ہماری آیات پر ایمان لاتے ہوئے تابعداری کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ ہدایت پانے کے لیے لازم ہے کہ انسان کی روح زندہ ہو اور حق بات سے دور بھاگنے کی بجائے اسے توجہ کے ساتھ سننے کے لیے تیار ہو۔ جو شخص روحانی طور پر مردہ، کانوں سے بہرہ اور آنکھوں سے اندھا ہو مزید یہ کہ حق بات سے دور بھاگنے والاہو، اسے ہدایت کس طرح نصیب ہو سکتی ہے ؟ ہدایت تو وہی شخص پائے گا جو حق بات کو توجہ کے ساتھ سننے اور اسے تسلیم کرنے کا مصمم ارادہ کرے اور اللہ سے اس کی توفیق طلب کرے۔ عَنْ عَاءِشَۃَ قَالَتْ إِنَّمَا قَال النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) إِنَّہُمْ لَیَعْلَمُون الآنَ أَنَّ مَا کُنْتُ أَقُولُ حَقٌّ وَقَدْ قَال اللَّہُ تَعَالَی (إِنَّکَ لاَ تُسْمِعُ الْمَوْتَی) [ رواہ البخاری : باب ما جاء فی عذاب القبر] ” سیدہ عائشہ (رض) بیان فرماتی ہیں کہ کنویں کے کنارے کھڑے ہو کر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا مشرکین کے مقتولوں کو مخاطب کرنے کا مطلب یہ تھا کہ وہ اس وقت یقیناً جانتے ہیں کہ جو کچھ میں نے انہیں کہا وہ برحق ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آپ مردوں کو نہیں سنا سکتے) “ (وَ مَا یَسْتَوِی الْاَحْیَآءُ وَ لَا الْاَمْوَاتُ اِنَّ اللّٰہَ یُسْمِعُ مَنْ یَّشَآءُ وَ مَآ اَنْتَ بِمُسْمِعٍ مَّنْ فِی الْقُبُوْرِ اِنْ اَنْتَ اِلَّا نَذِیْرٌ) [ فاطر : ٢٢۔ ٢٣] ” زندہ اور مردہ برابر نہیں۔ اللہ جیسے چاہتا ہے سنتا ہے آپ قبروں والوں کو ہرگز نہیں سنا سکتے۔ آپ تو صرف ڈرانے والے ہیں۔“ مسائل ١۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اندھے، بہرے اور الٹے منہ بھاگنے والوں کو نہیں سنا سکتے تھے۔ ٢۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دل کے اندھے کو گمراہی سے سے نہیں نکال سکتے تھے۔ ٣۔ ہدایت وہ شخص پا سکتا ہے جو حق بات کو توجہ اور تسلیم کرنے کی نیت سے سنے۔ تفسیر بالقرآن ہدایت پانے کی چند بنیادی شرائط : ١۔ اللہ کی راہنمائی کے بغیر کوئی ہدایت نہیں پا سکتا۔ (الاعراف : ٤٣) ٢۔ کسی کا ہدایت پانا اللہ کا احسان ہے۔ (الحجرات : ١٧) ٣۔ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تابعداری ہدایت کی ضمانت ہے۔ (النور : ٥٤) ٤۔ اللہ جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے۔ (البقرۃ : ٢١٣) ٥۔ ہدایت جبری نہیں اختیاری چیز ہے۔ (الدھر : ٣) ٦۔ ایماندار لوگ اپنے رب سے ہدایت اور آسانی مانگتے ہیں۔ ( الکہف : ١٠) ٧۔ ہدایت پر استقامت کی دعا کرنا چاہیے۔ (آل عمران : ٨) النمل
81 النمل
82 فہم القرآن ربط کلام : اندھے، بہرے اور حق سے بھاگنے والے لوگ قیامت سے پہلے حق بات کا اعتراف نہیں کریں گے۔ اندھے، بہرے اور حق بات سے دور بھاگنے والے قیامت سے پہلے حق بات قبول کرنے کے لیے تیار نہ ہوں گے۔ قرآن و حدیث میں قیامت کیتین قسم کی نشانیاں بیان کی گئی ہیں۔ کچھ وہ ہیں جو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دور میں مکمل ہوچکی ہیں۔ دوسری وہ ہیں جو قرب قیامت سے پہلے نمودار ہوں گی۔ تیسری نشانیاں وہ ہیں جو قیامت کی شروعات میں شمارہوتی ہیں وہ اس طرح نمودار ہوں گی جیسے تسبیح کا دھاگہ ٹوٹ جائے تو تسبیح کے دانے ایک دوسرے پر گرتے چلے جاتے ہیں۔ آخر میں تین نشانیاں وہ ظاہر ہوں گی جب توبہ کا دروازہ بند کردیا جائے گا۔ ان نشانیوں میں سے ایک نشانی دابَّۃُ الْأَرْضِ ہے۔ یہ ایسا جانور ہوگا جو قیامت پر یقین نہ رکھنے والوں سے کلام کرے گا۔ ابن عمر (رض) کا قول ہے کہ یہ جانور اس وقت ظاہر ہوگا جب زمین میں کوئی نیکی کا حکم کرنے والا اور بدی سے روکنے والا باقی نہ رہے گا۔ ابن مردویہ نے ایک حدیث ابو سعید خدری سے نقل کی ہے جس میں فرماتے ہیں کہ یہی بات انہوں نے خود نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنی تھی۔ اس سے معلوم ہوا کہ جب لوگ امر بالمعرو ف اور نہی عن المنکر چھوڑ دیں گے تو قیامت سے پہلے اللہ تعالیٰ ایک جانور کے ساتھ آخری حجت قائم فرمائے گا، یہ بات واضح نہیں ہے کہ یہ ایک ہی جانور ہوگا یا اس کی جنس کے لاکھوں، کروڑوں جانور ہونگے۔” دَابَۃٌ مِنَ الْاَرْضِ“ کے الفاظ میں دونوں معنوں کا احتمال ہے بہرحال وہ لوگوں سے کلام کرے گا۔ اس جانور کے نکلنے کا وقت کونسا ہوگا ؟ اس کے متعلق نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے کہ ” آفتاب مغرب سے طلوع ہوگا اور دن دہاڑے یہ جانور نکل آئے گا۔ ان میں سے جو نشانی بھی پہلے ہو۔ بہرحال دوسری نشانی اس کے قریب تر ہوگی۔ ( مسلم) رہا کسی جانور کا انسانوں سے کلام کرنا یہ اللہ کی قدرت کا ایک کرشمہ ہے۔ اللہ تعالیٰ جس چیز کو چاہے نطق کی طاقت عطا کر۔ قیامت سے پہلے تو وہ ایک جانور کو ہی نطق بخشے گا۔ مگر جب قیامت قائم ہوجائے گی تو اللہ کی عدالت میں انسان کی آنکھ اور کان اور اس کے جسم کی کھال تک بول اٹھے گی۔ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ثَلاَثٌ إِذَا خَرَجْنَ لاَ یَنْفَعُ نَفْسًا إِیمَانُہَا لَمْ تَکُنْ آمَنَتْ مِنْ قَبْلُ أَوْ کَسَبَتْ فِی إِیمَانِہَا خَیْرًا طُلُوع الشَّمْسِ مِنْ مَغْرِبِہَا وَالدَّجَّالُ وَدَابَّۃُ الأَرْضِ) [ رواہ مسلم : باب بَیَان الزَّمَنِ الَّذِی لاَ یُقْبَلُ فیہِ الإِیمَانُ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” تین باتیں جب ظاہر ہوجائیں اس وقت کسی کو ایمان لانے کا کچھ فائدہ نہ ہوگا الا یہ کہ وہ پہلے سے ایمان لا چکا ہو اور نیک اعمال کرتا رہا ہو۔ 1 سورج کا مغرب سے طلوع ہونا، 2 دجال کا نکلنا 3 دابۃ الارض کا ظاہر ہونا۔“ مسائل ١۔ قرب قیامت زمین سے ایک جانور نمودار ہوگا جو لوگوں سے کلام کرے گا۔ ٢۔ قیامت کا انکار کرنے والوں کو یقین ہوجائے گا کہ اب قیامت آہی چکی ہے۔ تفسیربالقرآن قیامت کی چند بڑی بڑی نشانیاں : ١۔ جب واقعہ ہوگی واقعہ ہونے والی۔ (الواقعۃ: ١) ٢۔ جب زمین کو ہلا دیا جائے گا پوری طرح ہلا دینا۔ (الزلزال : ١) ٣۔ لوگو! اپنے رب سے ڈر جاؤ قیامت کا زلزلہ بہت سخت ہے۔ (الحج : ١) ٤۔ قیامت زمین و آسمانوں پر بھاری ہوگی۔ (الاعراف : ١٨٧) ٥۔ قیامت کے دن لوگ اڑتے ہوئے پروانوں کی طرح ہوں گے۔ (القارعۃ : ٤) ٦۔ قیامت کے دن پہاڑ اون کی طرح ہوں گے۔ (القارعۃ: ٥) ٧۔ قیامت کا دن انتہائی دردناک ہوگا۔ (ھود : ٢٦) ٨۔ زمین کو ہلا کر تہہ و بالا کردیا جائے گا۔ (واقعۃ : ٣، ٤) ٩۔ پہاڑ ریزہ ریزہ ہو کر پر اگندہ غبار کی طرح ہوجائیں گے۔ (الواقعۃ: ٥، ٦) ١٠۔ زمین چٹیل میدان بنا دی جائے گی۔ ( الواقعہ : ٤ ) ١١۔ زمین و آسمانوں کو تبدیل کردیا جائے گا۔ ( ابراہیم : ٤٨) النمل
83 فہم القرآن ربط کلام : قیامت برپا ہونے کے ایک مدّت بعد اللہ تعالیٰ لوگوں کو محشر کے میدان میں جمع کرے گا۔ قیامت برپا ہونے کے ایک مدت بعد رب ذوالجلال کے حکم سے اسرافیل (علیہ السلام) دوسری مرتبہ صور میں پھونک مارے گا۔ اس کی پھونک سے لوگ اپنی اپنی جگہ سے اٹھ کر محشر کے میدان کی طرف بھاگنا شروع ہوجائیں گے۔ محشر میں ہر نبی کی امت سے مجرموں کو الگ کردیا جائے گا۔ اہل علم نے لکھا ہے کہ صرف مجرموں کو نیک لوگوں سے جدا ہی نہیں کیا جائے گا بلکہ مجرموں کے درمیان بھی ان کے گناہوں کے حساب سے ان کی درجہ بندی کی جائے گی۔ انہیں اللہ کی بارگاہ میں کھڑا کیا جائے گا، اللہ تعالیٰ انھیں سوال کرے گا ” کیا تم لوگ ہو جنھوں نے میری آیات کو جھٹلایا ؟“ حالانکہ انہیں کو جھٹلانے کے لیے تمھارے پاس کوئی علمی دلیل نہ تھی؟ کیا تم وہی ہو جو جہالت پر عمل کرتے رہے ہو ؟ اس طرح ان پر حق بات ثابت کردی جائے گی اور وہ اس کے خلاف کوئی بات نہیں کرسکیں گے۔ کیونکہ وہ اپنے آپ پر ظلم کرنے والے ہوں گے۔ (وَعَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَخْرُجُ الدَّجَّالُ فَیَمْکُثُ اَرْبَعِیْنَ لَااَدْرِیْ اَرْبَعِیْنَ یَوْمًا اَوْ شَہْراً اَوْ عَامًا فَیَبْعَثُ اللّٰہُ عِیْسَی ابْنَ مَرْیَمَ کَاَنَّہُ عُرْوَۃُ ابْنُ مَسْعُوْدٍ فَیَطْلُبُہُ فَیُہْلِکُہُ ثُمَّ یَمْکُثُ فِیْ النَّاسِ سَبْعَ سِنِیْنَ لَیْسَ بَیْنَ اثْنَیْنِ عَدَاوَۃٌ ثُمَّ یُرْسِلُ اللّٰہُ رِیْحًا بَارِدَۃً مِنْ قِبَلِ الشَّامِ فَلَا یَبْقٰی عَلٰی وَجْہِ الْاَرْضِ اَحَدٌ فَیْ قَلْبِہٖ مِثْقَالُ ذَرَّۃٍ مِنْ خَیْرٍ اَوْ اِیْمَانٍ اِلَّا قَبَضَتْہُ حَتّٰی لَوْ اَنَّ اَحَدَکُمْ دَخَلَ فِیْ کَبِدِ جَبَلٍ لَدَخَلَتْہُ عَلَیْہِ حَتّٰی تَقْبِضَہُ قَالَ فَیَبْقَیْ شِرَار النَّاسِ فِیْ خِفَّۃِ الطَّیْرِ وَاَحْلَام السِّبَاعِ لَا یَعْرِفُوْنَ مَعْرُوْفًا وَلَایُنْکِرُوْنَ مُنْکَرًا فَیَتَمَثَّلُ لَھُمُ الشَّیْطَانُ فَیَقَوْلُ اَ لَا تَسْتَحْیُوْنَ فَیَقُوْلُوْنَ فَمَا تَأْمُرُنَا فَیَاأمُرُھُمْ بِعِبَادَۃِ الْاَوْثَانِ وَھُوَ فِیْ ذَالِکَ دَارٌّ رِزْقُھُمْ حَسَنٌ عَیْشُھُمْ ثُمَّ یُنْفَخُ فِیْ الصُّوْرِ فَلَا یَسْمَعُہُ اَحَدٌ اِلَّا اَصْغٰیِ لِیْتًا وَرَفَعَ لِیْتًا قَالَ فَاَوَّلُ مَنْ یَّسْمَعُہُ رَجُلٌ یَلُوْطُ حَوْضَ اِبِلِہٖ فَیَصْعَقُ وَیَصْعَقُ النَّاسُ ثُمَّ یُرْسِلُ اللّٰہُ مَطَرًا کَاَنَّہُ الطَّلُّ فَیَنْبُُُتُ مِنْہُ اَجْسَاد النَّاسِ ثُمَّ یُنْفَخُ فِیْہِ اُخْرٰی فَاِذَا قِیَامٌ یَّنْظُرُوْنَ ثُمَّ یُقَالُ یَااَیُّھَاالنَّاسُ ھَلُمَّ اِلٰی رَبِّکُمْ قِفُوْھُمْ اِنَّھُمْ مَسْءُوْلُوْنَ فَیُقَالُ اَخْرِجُوْا بَعْثَ النَّا رِ فَیُقَالُ مِنْ کَمْ کَمْ فَیُقَالُ مِنْ کُلِّ اَلْفٍ تِسْعُ ماءَۃٍ وَّتِسْعَۃٌ وَّتِسْعِیْنَ قَالَ فَذَالِکَ یَوْمٌ یَّجْٖٖعَلُ الْوِلْدَانَ شِیْبًا وَذَالِکَ یَوْمٌ یُکْشَفُ عَنْ سَاقٍ۔) [ رواہ مسلم : باب فِی خُرُوج الدَّجَّالِ وَمُکْثِہِ۔۔] حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) بیان کرتے ہیں رسول مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا دجال نکلے گا اور چالیس تک رہے گا حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) کہتے ہیں مجھے نہیں معلوم چالیس دن‘ چالیس ماہ یا چالیس سال پھر اللہ تعالیٰ عیسیٰ (علیہ السلام) ابن مریم کو نازل کریں گے گویا کہ وہ عروہ بن مسعود (رض) ہیں۔ وہ دجال کو تلاش کریں گے اور اسے ہلاک کردیں گے اس کے بعد عیسیٰ (علیہ السلام) سات سال تک دنیا میں رہیں گے ہر دو انسانوں کے درمیان کوئی عداوت نہیں رہے گی پھر اللہ تعالیٰ شام کی طرف سے ٹھنڈی ہوا بھیجے گا اور زمین پر کوئی بھی ایسا نہیں رہے گا جس کے دل میں ذرہ برابر ایمان ہوگا‘ یہاں تک کہ اگر کوئی پہاڑ کے اندر بھی داخل ہوا تو وہ اس تک پہنچ جائے گی اور اس کی جان قبض کرلے گی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اس کے بعد بدترین لوگ رہ جائیں گے جو پرندوں کی مانند تیز طرار اور درندوں کی طرح سخت ہوں گے۔ نہ وہ بھلائی کو جانتے ہوں گے اور نہ برائی کو برا جانیں گے۔ شیطان ان کے پاس انسانی شکل میں جاکر کہے گا کیا تمہیں شرم نہیں آتی ؟ وہ کہیں گے تو ہمیں کیا حکم دیتا ہے؟ شیطان انہیں بتوں کی عبادت کرنے کے لیے کہے گا۔ اس حالت میں بھی انہیں بکثرت رزق مل رہا ہوگا۔ ان کی زندگی عیش وعشرت والی ہوگی پھر صور پھونکا جائے گا جو بھی اس کی آواز سنے گا اپنے سر کو ایک طرف جھکا دے گا دوسری طرف اونچا کرے گا آپ نے فرمایا‘ صور کی آواز سننے والا پہلا شخص وہ ہوگا جو اپنے اونٹوں کے لیے حوض لیپ رہا ہوگا وہ بے ہوش ہوجائے گا سب لوگ بے ہوش ہوجائیں گے پھر اللہ تعالیٰ شبنم کی طرح بارش بھیجے گا۔ اس سے لوگوں کے جسم نمودار ہوں گے۔ پھر دوبارہ صور پھونکا جائے گا‘ تو سب لوگ کھڑے ہو کر دیکھنے لگیں گے۔ پھر منادی کی جائے گی کہ اے لوگو! اپنے رب کے پاس جلدی پہنچو فرشتوں سے کہا جائیگا ” انہیں روک لو‘ ان سے سوالات کیے جائیں گے“ حکم ہوگا جہنم کی طرف جانے والوں کو نکالو‘ پوچھا جائے گا ان میں کتنے جہنمی ہیں ؟ حکم ہوگا۔ ہزار میں سے نو سو ننانوے جہنمی ہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ” یہ ایسا دن ہوگا‘ جو بچوں کو بوڑھا کردیگا“ اور ایسادن ہوگا جس دن اللہ اپنی پنڈلی سے کپڑا ہٹائیں گے۔“ (عَنْ حُذَیْفَۃَ بْنِ أَسِیدٍ عَنْ أَبِی ذَرٍّ قَالَ إِنَّ الصَّادِقَ الْمَصْدُوق (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حَدَّثَنِی أَنَّ النَّاسَ یُحْشَرُونَ ثَلاَثَۃَ أَفْوَاجٍ فَوْجٌ رَاکِبِینَ طَاعِمِینَ کَاسِینَ وَفَوْجٌ تَسْحَبُہُمُ الْمَلاَءِکَۃُ عَلَی وُجُوہِہِمْ وَتَحْشُرُہُمُ النَّارُ وَفَوْجٌ یَمْشُونَ وَیَسْعَوْنَ یُلْقِی اللَّہُ الآفَۃَ عَلَی الظَّہْرِ فَلاَ یَبْقَی حَتَّی إِنَّ الرَّجُلَ لَتَکُونُ لَہُ الْحَدِیقَۃُ یُعْطِیہَا بِذَاتِ الْقَتَبِ لاَ یَقْدِرُ عَلَیْہَا) [ رواہ النسائی : باب البعث] حضرت حذیفہ بن اسید حضرت ابوذر (رض) سے بیان کرتے ہیں بے شک کائنات میں سب سے سچے انسان نے مجھے خبر دی ہے کہ قیامت کے دن لوگوں کو تین طریقہ سے جمع کیا جائیگا۔ ان میں سے ایک جماعت کے لوگ سوار، کھانا کھاتے ہوئے، کپڑے پہنے ہوئے ہوگی، اور ایک جماعت کو فرشتے چہروں کے بل گھسیٹیں گے اور آگ ان کو اکٹھا کرے گی۔ ایک جماعت بھاگ دوڑ میں مصروف ہوگی اللہ تعالیٰ ان پر آفت مسلط فرمائیں گے اس سے کوئی بھی بچ نہیں پائے گا حتیٰ کہ ایک آدمی کا باغ ہوگا وہ اس باغ کو ایسی سواری کے بدلے دیدے گا جس پر اسے کچھ اختیار نہ ہوگا۔ مسائل ١۔ محشر کے میدان میں مجرموں کی صف بندی کی جائے گی۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ محشر کے دن مجرموں سے سوال کرے گا۔ ٣۔ محشر کے دن مجرموں کے جرائم کے مطابق عذاب دیا کیا جائے گا۔ ٤۔ مجرم جرم ثابت ہونے کے بعد کوئی بات نہیں کرسکیں گے۔ تفسیر بالقرآن محشر کے میدان میں مجرموں سے سوال وجواب : ١۔ مجرم اپنے آپ کو جہنم سے بچانے کے لیے اپنے برے اعمال کا کلیتاً انکار کریں گے۔ (الانعام : ٢٣۔ ٢٤) ٢۔ مجر م اپنی جان بچانے کے لیے اپنے گناہوں کی ذمہ داری دوسروں پر ڈالیں گے۔ (الاحزاب : ٦٦۔ ٦٨) ٣۔ مجرموں سے سوال کیا جائیگا کہ تم ایک دوسرے کی مدد کیوں نہیں کرتے؟ (الصّٰفٰت : ٢٢) ٤۔ ظالم اپنے ہاتھوں کو کاٹیں گے اور کہیں گے کاش! میں نے رسول کو سمجھا ہوتا۔ (الفرقان : ٢٧۔ ٣٠) النمل
84 النمل
85 النمل
86 فہم القرآن ربط کلام : جو لوگ اللہ تعالیٰ کی آیات اور قیامت کو جھٹلاتے ہیں ان کے غور و فکر کے لیے رات اور دن میں دلائل۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کی پہچان اور قیامت پر ایمان لانے کے لیے اپنی قدرتون پر غور کرنے کا بار بار حکم دیا ہے ان میں اکثر نشانیاں ایسی ہیں جن سے ہر شخص کو صبح و شام واسطہ پڑتا ہے اِ ن نشانیوں میں سے قرآن مجید نے رات اور دن کو کئی مرتبہ نشانی اور دلیل کے طور پر پیش کیا ہے۔ یہاں رات کے بارے میں فرمایا ہے کہ رات اس لیے بنائی گئی ہے تاکہ لوگ اس میں سکون پائیں اور دن کو روشن بنایا تاکہ لوگ اپنا کام کاج اور ضرورتیں پوری کرسکیں۔ کیا لوگوں نے رات اور دن کے بارے میں نہیں سوچا کہ ان میں کون کون سے فوائد رکھے گئے ہیں ؟ اگر رات اور دن کے بارے میں لوگ غور کریں تو یقیناً ان میں اللہ تعالیٰ کی ذات پر ایمان لانے کے لیے بے شمار دلائل ہیں۔ یہاں رات اور دن کو قیامت کی نشانیوں کے تناظر میں پیش کیا گیا ہے جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ جس طرح رات کے بعد دن اور دن کے بعد رات کا آنا یقینی ہے اسی طرح ہی زندگی کے بعد موت اور موت کے بعد جی اٹھنا یقینی بات ہے۔ رات کو انسان اور ہر جاندار چیز نیند کی آغوش میں چلی جاتی ہے جو موت کے مترادف ہے۔ دن کے طلوع ہونے کے ساتھ ہر جاندار اپنے اپنے کام میں لگ جاتا ہے۔ رات کے بعد دن کو اٹھنا اور دن کے بعد رات کو سونا ہر ذی روح کے لیے لازم ہے، اسی طرح قیامت کے بعد اٹھنا بھی لازم ہے۔ جس طرح کوئی جاندار ہمیشہ سویا نہیں رہ سکتا اسی طرح مرنے کے بعد کسی نے ہمیشہ مردہ نہیں رہنا اسے ہر حال میں اٹھایا جائے گا۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے رات کو سکون کے لیے بنایا ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے دن کو لوگوں کی ضروریات کے لیے روشن بنایا ہے۔ ٣۔ ایمان لانے والوں کے لیے رات اور دن میں اللہ تعالیٰ کی قدرت کی نشانیاں موجود ہیں۔ تفسیر بالقرآن رات اور دن کے فوائد : ١۔ رات دن ایک دوسرے کے پیچھے آنے والے ہیں۔ (الاعراف : ٥٤) ٢۔ رات دن کو اور دن رات کو ڈھانپ لیتا ہے۔ (الزمر : ٥) ٣۔ رات اور دن کا بڑھنا، گھٹنا۔ (الحدید : ٦) ٤۔ رات آرام اور دن کام کے لیے ہے۔ (الفرقان : ٤٧) النمل
87 فہم القرآن ربط کلام : اس سے پہلی آیت سے قبل قیامت برپا ہونے کا تذکرہ ہو رہا تھا اب قیامت کی ہولناکیوں کا ذکر ہوتا ہے۔ اسرافیل (علیہ السلام) فرشتہ قیامت سے پہلے صور پھونکے گا تو زمینوں، آسمانوں میں جو کچھ موجود ہے ہر چیز لرز جائے گی اور ہر جاندار گھبرا جائے گا سوائے اس کے جسے اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے محفوظ فرمائے گا اور ہر کوئی اپنے رب کے سامنے عاجزی اور درماندگی کی حالت میں پیش ہوگا۔ قرآن مجید نے دوسرے نفخہ کا ذکر کرتے ہوئے بیان کیا ہے۔ ” آپ سے قیامت کے بارے میں پوچھتے ہیں کہ یہ کب واقع ہوگی؟ فرمادیں اس کا علم میرے رب کے پاس ہے اسے اس کے وقت پر اللہ کے سوا کوئی ظاہر نہیں کرے گا وہ آسمانوں اور زمین پربھاری واقع ہوگی تم پر اچانک ہی آئے گی آپ سے یوں پوچھتے ہیں جیسے آپ اس کی خوب تحقیق کرچکے ہوں۔ فرمادیں اس کا علم تو اللہ ہی کے پاس ہے مگر اکثر لوگ نہیں جانتے۔“ (الاعراف ١٨٧ ) ” جس دن جبرائیل اور باقی فرشتے صف بستہ کھڑے ہوں گے۔ رحمن سے وہی بات کرسکے گا۔ جسے وہ خود اجازت دے اور وہ درست بات کرے۔ یہ دن ایک حقیقت ہے اب جو چاہے اپنے رب کی طرف واپس جانے کی راہ اختیار کرے۔ ہم نے تمہیں اس عذاب سے ڈرایا ہے جو قریب آپہنچا ہے۔ اس دن آدمی وہ دیکھ لے گا جو اس کے ہاتھوں نے آگے بھیجا ہے اور کافر کہے گا کاش! میں مٹی بن جاتا۔“ (النبا : ٣٨ تا ٤٠ ) (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ قَالَ أُتِیَ النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَوْمًا بِلَحْمٍ فَقَالَ إِنَّ اللَّہَ یَجْمَعُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ الأَوَّلِینَ وَالآخِرِینَ فِی صَعِیدٍ وَاحِدٍ، فَیُسْمِعُہُمُ الدَّاعِی، وَیُنْفِدُہُمُ الْبَصَرُ، وَتَدْنُو الشَّمْسُ مِنْہُمْ فَذَکَرَ حَدِیث الشَّفَاعَۃِ فَیَأْتُونَ إِبْرَاہِیمَ فَیَقُولُونَ أَنْتَ نَبِیُّ اللَّہِ وَخَلِیلُہُ مِنَ الأَرْضِ، اشْفَعْ لَنَا إِلَی رَبِّکَ فَیَقُولُ فَذَکَرَ کَذَبَاتِہِ نَفْسِی نَفْسِی اذْہَبُوا إِلَی مُوسَی) [ رواہ البخاری : باب النَّسَلاَنُ فِی الْمَشْیِ] حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں آپ کے پاس ایک دن گوشت لایا گیا آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن پہلوں اور پچھلوں کو ایک ہی جگہ جمع فرمایا گا۔ لوگپکارنے والے کی آواز سنیں گے اور اپنی آنکھوں سے دیکھیں گے اور سورج قریب تر ہوگا اس کے بعد آپ نے شفاعت والی حدیث کا تذکرہ کیا کہ لوگ ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس جائیں گے اور عرض کریں گے آپ اللہ کے نبی ہیں اور زمین میں اس کے خلیل ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں ہماری سفارش کیجیے، تو وہ اپنے جھوٹوں کا بہانہ پیش کرتے ہوئے کہیں گے (نَفْسِی نَفْسِی) اے اللہ میرے نفس کو بچا لے، میرے نفس کو بچا لے تم موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس جاؤ۔“ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ یَہُودِیٌّ بِسُوقِ الْمَدِینَۃِ لاَ وَالَّذِی اصْطَفَی مُوسَی عَلَی الْبَشَرقَالَ فَرَفَعَ رَجُلٌ مِنَ الأَنْصَارِ یَدَہُ فَصَکَّ بِہَا وَجْہَہُ قَالَ تَقُولُ ہَذَا وَفِینَا نَبِیُّ اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَقَالَ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (وَنُفِخَ فِی الصُّورِ فَصَعِقَ مَنْ فِی السَّمَوَاتِ وَمَنْ فِی الأَرْضِ إِلاَّ مَنْ شَاء اللَّہُ ثُمَّ نُفِخَ فیہِ أُخْرَی فَإِذَا ہُمْ قِیَامٌ یَنْظُرُونَ) فَأَکُونُ أَوَّلَ مَنْ رَفَعَ رَأْسَہُ فَإِذَا مُوسَی آخِذٌ بِقَاءِمَۃٍ مِنْ قَوَاءِمِ الْعَرْشِ فَلاَ أَدْرِی أَرَفَعَ رَأْسَہُ قَبْلِی أَوْ کَانَ مِمَّنِ اسْتَثْنَی اللَّہُ وَمَنْ قَالَ أَنَا خَیْرٌ مِنْ یُونُسَ بْنِ مَتَّی فَقَدْ کَذَبَ) [ رواہ الترمذی : باب وَمِنْ سُورَۃِ الزُّمَرِ] حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ مدینے کے بازار میں ایک یہودی نے قسم اٹھاتے ہوئے کہا قسم ہے اس ذات کی جس نے موسیٰ (علیہ السلام) کو بشریت پہ فضیلت عطا فرمائی۔ ایک انصاری اٹھا اور اس نے اس کے چہرے پہ تھپڑ مارتے ہوئے کہا تو اس طرح کہتا ہے جب کہ اللہ کے نبی ہم میں موجود ہیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا صور پھونکا جائے گا آسمان اور زمین کی ہر چیز بے ہوش ہوجائے گی مگر وہی بچے گا جسے اللہ چاہے، پھر دوبارہ صور پھونکا جائے گا تمام لوگ رب کے روبرو کھڑے ہوجائیں گے۔ میں سب سے پہلے سر اٹھاؤں گا موسیٰ (علیہ السلام) کو عرش کا پایہ تھامے ہوئے پاؤں گا۔ میں نہیں جانتا اس نے مجھ سے پہلے سر اٹھایا یا وہ ان لوگوں میں سے ہیں جن کو اللہ کی طرف سے استثنا حاصل ہے۔ جس نے میرے متعلق کہا میں یونس بن متی سے بہتر ہوں اس نے جھوٹ بولا۔“ مسائل ١۔ اسرافیل کے صور پھونکنے سے زمین و آسمان کی ہر چیز لرز جائے گی۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں سب لوگ انتہائی درماندگی کی حالت میں پیش ہوں گے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ کچھ لوگوں کو گھبراہٹ سے محفوظ رکھے گا۔ النمل
88 فہم القرآن ربط کلام : قیامت کے دن کی کیفیت چنانچہ جس دن صور پھونکا جائے گا انسان تو درکنار فلک بوس پہاڑ بھی اپنی جگہ پر قائم نہیں رہ سکیں گے۔ اہل مکہ کی غالب اکثریت قیامت کی منکر تھی اس لیے انھوں نے سرور دو عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا کہ سینکڑوں، ہزاروں میلوں میں پھیلے ہوئے فلک بوس پہاڑوں کا کیا بنے گا ؟ ” یہ لوگ آپ پوچھتے ہیں کہ یہ پہاڑکہاں چلے جائیں گے فرمادیں کہ میرا رب ان کو دھول بناکر اڑا دے گا۔ اور زمین کو چٹیل میدان بنا دے گا۔ (طٰہٰ : ١٠٥ تا ١٠٦ ) اسی بات کو یہاں اِ ن الفاظ میں بیان کیا گیا ہے کہ اے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ اور ہر دیکھنے والا دیکھے گا کہ جن پہاڑوں کو آپ جامد دیکھتے ہیں وہ ریزہ ریزہ ہو کر یوں اڑ رہے ہوں گے۔ جیسے بارش کے موقع پر بادل فضا میں اڑتے اور تیرتے ہیں۔ انھیں وہی ذات چلائے اور اڑائے گی جس نے ہر چیز کو ایک مدت تک استحکام اور قیام بخشا تھا۔ وہ ذات لوگوں کے ہر قسم کے اعمال سے باخبر ہے۔ تفسیر بالقرآن قیامت کے دن پہاڑوں کی حالت : ١۔ اس دن ہم پہاڑوں کو چلائیں گے زمین چٹیل میدان ہوگی اور ہم تمام لوگوں کو جمع کریں گے۔ کسی کو نہیں چھوڑیں گے۔ (الکھف : ٤٧) ٢۔ اس دن زمین اور پہاڑ کانپنے لگیں گے، پہاڑ ریت کے ٹیلوں کی طرح ہوجائیں گے۔ (المزّمّل : ١٤) ٣۔ اس دن آنکھیں چندھیا جائیں گی، چاند گہنا دیا جائے گا اور سورج چاند کو جمع کردیا جائے گا۔ (القیامۃ: ٦ تا ٨) ٤۔ جب سورج لپیٹ لیا جائے گا، تارے بے نور ہوجائیں گے، پہاڑچلائے جائیں گے۔ (التکویر : ١ تا ٣) النمل
89 فہم القرآن ربط کلام : قیامت کے دن اعمال کی بنیاد پر لوگ دو قسم کے ہونگے، ذلت اور درماندگی سے محفوظ رہنے والے حضرات اور ان کے مقابلے میں ذلیل ہونے والے لوگ۔ آیت ٨٧ میں ذکر ہوا ہے کہ جب صور پھونکا جائے گا تو زمینوں، آسمانوں اور اِ ن کے درمیان جو چیز ہے وہ لرز اور گھبرا جائے گی سوائے ان لوگوں کے جنھیں اللہ تعالیٰ اس ذلت اور گھبراہٹ سے محفوظ رکھے گا۔ اب ذلّت سے محفوظ اور اس سے دوچار ہونے والے لوگوں کا ذکر کیا جاتا ہے۔ جس شخص نے نیک کاموں میں زندگی بسر کی اس کے لیے بہترین بدلہ ہوگا اور اس دن ان کو گھبراہٹ سے محفوظ رکھا جائے گا۔ جس شخص نے برائی کے کاموں میں زندگی گزار دی اسے آگ میں الٹے منہ ڈالا جائے گا اور اعلان ہوگا کہ تمھیں صرف تمھارے برے اعمال کی سزا دی جائے گی۔ یعنی وہ اس لحاظ سے بھی بہتر ہوگا کہ جتنی نیکی اس سے زیادہ انعام اسے دیا جائے گا اور اس لحاظ سے بھی کہ اس کی نیکی تو وقتی تھی اور اس کے اثرات بھی دنیا میں ایک محدود زمانے کے لیے تھے مگر اس کا اجر دائمی اور ابدی ہوگا۔ یہ اللہ تعالیٰ کا نیک لوگوں پر احسان ہوگا۔ فرمان الٰہی ہے : ” جو کوئی نیکی کرے گا تو اس کے لیے دس گناہ اجر ہے اور جو برائی کرے تو اسے صرف اسی کی سزا ملے گی۔ (الانعام : ١٦٠) ” حضرت ابوہریرہ (رض) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان نقل کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ سات آدمیوں کو اپنے عرش کا سایہ عطا فرمائیں گے جس دن کوئی چیز سایہ فگن نہ ہوگی۔ (١) انصاف کرنے والا حکمران (٢) اللہ تعالیٰ کی عبادت میں ذوق وشوق رکھنے والا جوان (٣) وہ شخص جس کا دل مسجد کے ساتھ منسلک رہے جب مسجد سے باہر جاتا ہے تو واپس مسجد میں جانے کے لیے فکر مند رہتا ہے (٤) دو آدمی جو اللہ کے لیے محبت رکھتے ہیں اور اسی بنا پر ایک دوسرے سے میل جول رکھتے اور الگ ہوتے ہیں (٥) جس آدمی نے تنہائی میں اللہ تعالیٰ کو یاد کیا اور اس کی آنکھوں سے آنسو نکل آئے (٦) ایسا شخص جس کو ایک خاندانی حسین وجمیل عورت نے گناہ کی دعوت دی مگر اس نے یہ کہہ کر اپنے آپ کو بچائے رکھا کہ میں اللہ سے ڈرتا ہوں اور (٧) وہ آدمی جس نے صدقہ کیا اس کے بائیں ہاتھ کو بھی خبر نہ ہوپائی کہ اس کے دائیں ہاتھ نے کیا خرچ کیا ہے۔“ (رواہ البخاری : باب الصَّدَقَۃِ بالْیَمِینِ) (وَعَنْ اَنَسٍ اَنَّ رَجُلاً قَالَ یَا نَبِیَّ اللّٰہِ کَیْفَ یُحْشَرُ الْکَافِرُ عَلٰی وَجْہِہٖ یَوْمَ الْقِیَا مَۃِ قَالَ اَلَیْسَ الَّذِیْ اَمْشَاہُ عَلٰی الرِّجْلَیْنِ فِیْ الدُّنْیَا قَادِرٌ عَلٰی اَنْ یُّمْشِیَہٗ عَلٰی وَجْہِہٖ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ۔ (متفق علیہ) ” حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے کہا۔ اے اللہ کے رسول ! قیامت کے دن کافر کس طرح منہ کے بل چل کر میدان محشر کی طرف جائیں گے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کیا وہ ذات اس بات پر قدرت نہیں رکھتی‘ جس نے دنیا میں ان کو پاؤں پر چلنے کی طاقت دی قیامت کے دن ان کو منہ کے بل چلائے۔“ مسائل ١۔ قیامت کے دن نیک لوگوں کو ان کی نیکیوں کی جزا دی جائے گی۔ ٢۔ نیک لوگوں کو قیامت کی ہولناکیوں سے محفوظ رکھا جائے گا۔ ٣۔ برے لوگوں کو جہنم میں الٹے منہ پھینکا جائے گا۔ ٤۔ برے لوگوں کو ان کی برائی کے برابر سزا دی جائے گی۔ تفسیر بالقرآن قیامت کے دن نیک اور برے لوگوں کے درمیان فرق : ١۔ قیامت کے دن نیک لوگوں کے چہروں پر ذلّت اور نحوست نہیں ہوگی اور وہ جنت میں قیام کریں گے۔ (یونس : ٢٦) ٢۔ برے لوگوں کے چہروں پر ذلت چھائی ہوگی انہیں اللہ سے کوئی نہ بچا سکے گا۔ (یونس : ٢٧) ٣۔ مومنوں کے چہرے تروتازہ ہوں گے (القیامۃ : ٢٢) ٤۔ کفار کے چہرے بگڑے ہوئے ہوں گے۔ (الحج : ٧٣) ٥۔ مومنوں کے چہرے خوش و خرم ہوں گے (عبس : ٣٨) ٦۔ کفار کے چہروں پر گردو غبار ہوگا۔ (عبس : ٤٠) ٧۔ مومنوں کا استقبال ہوگا۔ ( الزمر : ٧٣) ٨۔ ” اللہ“ کے باغیوں پر پھٹکار ہوگی۔ (یونس : ٢٧ ) النمل
90 النمل
91 فہم القرآن ربط کلام : قیامت کے دن نجات اخلاص پر مبنی اعمال پر ہوگی لہٰذا تمام نیکیوں کی بنیاد ” اللہ“ کی خالص عبادت کرنا ہے جس کا نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیا گیا کہ آپ سب سے پہلے اس پر عمل کریں۔ اہل مکہ کی عزت و تکریم پوری دنیا میں بالعموم اور ججاز میں بالخصوص اس بناء پر کی جاتی تھی کہ یہ لوگ مکہ کے مکین اور بیت اللہ کے متولّی ہیں۔ اس بناء پر نہ صرف ان کی تکریم ہوتی تھی بلکہ انھیں تجارتی فوائد کے ساتھ بڑے بڑے تحائف بھی موصول ہوتے تھے۔ بیت اللہ کی وجہ سے انھیں امن حاصلتھا۔ سفر کے دوران لوگوں کو معلوم ہوجاتا کہ اس قافلے میں قریشی اور ہاشمی لوگ موجود ہیں تو لوٹ گھسوٹ کرنے والے قبائل اس قافلے پر ہاتھ اٹھانے سے پرہیز کرتے تھے۔ لیکن قریش کی اپنی حالت یہ تھی کہ جس بیت اللہ کی وجہ سے انھیں عزت و احترام اور امن و امان حاصل تھا۔ انھوں نے کعبہ کے رب کی عبادت کرنے کی بجائے اس میں (٣٦٠) تین سو ساٹھ بت رکھے ہوئے تھے۔ سرور دو عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت کا خلاصہ یہ تھا اور ہے کہ صرف کعبہ کے رب کی ہی عبادت کی جائے اور اسی سے مدد مانگی جائے۔ مکہ کے لوگ نہ صرف اس بات کو ماننے کے لیے تیار نہ تھے بلکہ وہ اس بات پر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے ساتھیوں کے جانی دشمن بن چکے تھے۔ اس صورت حال میں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم ہوا کہ آپ بر ملا یہ بات فرمائیں اور اس پر قائم رہیں کہ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں شہر مکہ کے رب کی عبادت کروں جس نے اپنے گھر کی وجہ سے مکہ کو حرمت عطا فرمائی ہے، ہر چیز اسی رب کی ملکیت ہے۔ لہٰذا ہر انسان کو اسی رب کا فرماں بردار ہونا چاہیے یہی حکم نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیا گیا ہے کہ آپ سب سے پہلے ” اللہ“ کے تابعدار بن جائیں۔ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃ َ أَنَّ خُزَاعَۃَ قَتَلُوا رَجُلاً مِنْ بَنِی لَیْثٍ عَامَ فَتْحِ مَکَّۃَ بِقَتِیلٍ مِنْہُمْ قَتَلُوہُ، فَأُخْبِرَ بِذَلِکَ النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَرَکِبَ رَاحِلَتَہُ، فَخَطَبَ فَقَالَ إِنَّ اللَّہَ حَبَسَ عَنْ مَکَّۃَ الْقَتْلَ أَوِ الْفِیلَ شَکَّ أَبُو عَبْدِ اللَّہِ وَسَلَّطَ عَلَیْہِمْ رَسُول اللَّہِ وَالْمُؤْمِنِینَ، أَلاَ وَإِنَّہَا لَمْ تَحِلَّ لأَحَدٍ قَبْلِی، وَلاَ تَحِلُّ لأَحَدٍ بَعْدِی أَلاَ وَإِنَّہَا حَلَّتْ لِی سَاعَۃً مِنْ نَہَارَ.........) [ رواہ البخاری : باب کِتَابَۃِ الْعِلْمِ] حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں بیشک خزاعہ قبیلے کے لوگوں نے فتح مکہ کے سال بنی لیث کا ایک آدمی قتل کردیا۔ اس واقعہ کی اطلاع نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دی گئی آپ سواری پر سوار ہوئے اور خطبہ ارشاد فرمایا۔ یقینا اللہ نے مکہ میں قتل وغارت کو ممنوع قرار دیا ہے۔ یا آپ نے فیل کے لفظ استعمال فرمائے راوی کو شک ہے۔ اللہ تعالیٰ نے کفار پر اپنے رسول اور مومنوں کو مسلط فرمایا خبردارمجھ سے پہلے کسی کے لیے مکہ کی حرمت کو پامال کرنا جائز نہ تھا اور نہ میرے بعد کسی کے لیے جائز ہوگا۔ میرے لیے کچھ وقت کے لیے ہی اس میں لڑائی کو جائز قرار دیا گیا۔“ ” حضرت واقد بن محمد کہتے ہیں میں نے اپنے باپ سے سنا وہ کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حجۃ الوداع کے موقعہ پر فرمایا کیا تم جانتے ہو حرمت کے لحاظ سے عظیم مہینہ کون سا ہے۔ صحابہ نے کہا یہ مہینہ۔ آپ نے فرمایا کیا تم جانتے ہو حرمت کے لحاظ سے عظیم شہر کون سا ہے ؟ صحابہ نے عرض کیا مکہ۔ آپ نے فرمایا کیا تم جانتے ہو حرمت کے لحاظ سے عظیم دن کون سا ہے ؟ صحابہ نے عرض کیا آج کا دن آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ تبارک و تعالیٰ نے تمہارے خون، تمہارے مال اور تمہاری عزت کو محترم قرار دیا ہے مگر حق کے ساتھ جس طرح اس دن تمہارے اس شہر اور مہینے کی کیا میں نے پیغام پہنچا دیا؟ آپ نے تین بار یہ کلمات دھرائے۔ سب نے کہا کیوں نہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا افسوس ہو تم پریا ویل ہو میرے بعد کافر نہ بن جانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں کاٹنے لگ جاؤ۔“ [ رواہ البخاری : کتاب الحدود، باب ظھر المو من حمی الا فی حداو حق] مسائل ١۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم تھا کہ وہ مکہ کے رب یعنی صرف ایک اللہ کی عبادت کریں۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے مکہ کو تکریم اور امن و سکون سے نوازا ہے۔ ٣۔ ہر چیز پر اللہ کی بادشاہی ہے۔ ٤۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صرف اپنے رب کے تابعدار تھے۔ تفسیر بالقرآن بیت اللہ اور مکہ معظمہ کی عظمت وحرمت : ١۔ قسم ہے اس شہر کی۔ (البلد : ١) ٢۔ بیت اللہ دنیا میں پہلا گھر ہے جو بابرکت اور ہدایت کا مرکز ہے۔ (آل عمران : ٩٦) ٣۔ بیت اللہ امن کا گہوارہ ہے۔ (البقرۃ: ١٢٥) ٤۔ بیت اللہ کے باسیوں سے محبت کی جاتی ہے (القریش : ١) ٥۔ بیت اللہ کے طواف کا حکم ہوا ہے۔ (الحج : ٢٩) ٦۔ پیدل اور سوار دور سے اس کی زیارت کے لیے آتے ہیں۔ (الحج : ٢٧) ٧۔ اے میرے رب اس گھر کو امن والا بنانا۔ (ابراہیم : ٣٥) ٨۔ قسم ہے اس امن والے شہر کی۔ (التین : ٣) النمل
92 فہم القرآن ربط کلام : قرآن مجید کا پہلا حکم اور پیغام یہ ہے کہ ایک ہی رب کی عبادت کی جائے مکہ والوں کو اس سے سخت اختلاف تھا جس بنا پر ان کا مطالبہ تھا کہ یہ قرآن نہ پڑھا جائے۔ مکہ والوں کی آپ کے ساتھ دشمنی کی بنیاد محض قرآن مجید تھا۔ قرآن مجید میں بھی ان کو بالخصوص ان آیات کے ساتھ شدید اختلاف تھا جن میں مکہ والوں کے کفر و شرک کی مذمت کرتے ہوئے انہیں توحید خالص کی دعوت دی گئی ہے۔ نبوت کے ابتدائی سالوں میں اہل مکہ کلی طور پر قرآن مجید کے خلاف تھے لیکن جوں جوں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت پھیلنے لگی آپ اور آپ کے ساتھیوں نے اس دعوت پر پوری طرح استقامت کا مظاہرہ کیا تو مکہ والوں نے فکری پسپائی اختیار کرتے ہوئے بالآخر یہ مطالبہ کیا کہ آپ قرآن مجید میں کچھ تبدیلیاں کریں۔ آپ اپنے مؤقف میں نرمی کا مظاہرہ کریں گے، ہم بھی اپنے مؤقف سے پیچھے ہٹنے کے لیے تیار ہیں۔ اس بات کے اور بھی جواب دیئے گئے ان میں سے ایک جواب یہ ہے کہ مکہ کے رب نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں آپ کے سامنے قرآن مجید کی تلاوت کرتارہوں۔ دوسرے الفاظ میں اس کا مطلب ہے کہ مجھے حکم ہے کہ میں کعبے کے رب کی توحید بیان کرتا جاؤں۔ جس نے ہدایت پائی اس کا اسے ہی فائدہ پہنچے گا جو شخص گمراہ ہوا اس کا اسے ہی نقصان ہوگا۔ میں اپنے رب کے فرمان کے مطابق لوگوں کو برے عقائد اور کردار کے انجام سے ڈرانے والا ہوں۔ سورۃ النمل کی آخری آیات میں اللہ تعالیٰ نے اپنی توحید کے حوالے سے تیرہ (١٣) سوالات کیے جن کا جواب دینے میں ہر دور کا مشرک لاجواب رہا ہے اور قیامت تک کوئی مشرک ان سوالات کا الٹا جواب نہیں دے سکتا۔ یہی قرآن مجید کی عظمت اور سچائی ہے کہ کوئی شخص نہ اس کا توڑ پیش کرسکتا ہے اور نہ ہی قرآن مجید کی کسی آیت جیسی آیت پیش کرسکتا ہے۔ اس لیے اس سورۃ کا اختتام اس بات پر کیا جا رہا ہے کہ اے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ اس پر اپنے رب کا شکر ادا کریں کہ لوگ نہ آپ کی دعوت کی صداقت کو جھوٹا ثابت کرسکتے ہیں اور نہ ہی توحید کے دلائل کا جواب دے سکتے ہیں۔ ان حقائق کے باوجود اگر یہ لوگ ایمان لانے کے لیے تیار نہیں تو عنقریب اللہ تعالیٰ انھیں اپنی قدرت کے ایسے معجزات دکھائے گا کہ یہ ان کا اعتراف کیے بغیر نہیں رہ سکیں گے۔ آپ کا رب ان لوگوں کے اعمال سے غافل نہیں ہے۔ نشانیوں سے مراد دونوں قسم کی نشانیان ہو سکتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ایسے حالات پیدا کرے گا کہ ان میں بڑے بڑے لوگ اسلام کی عظمت اور مسلمانوں کی کامیابی دیکھ کر حلقۂ اسلام میں داخل ہوجائیں، جو لوگ تسلیم کا روّیہ اختیار نہیں کریں گے وہ دنیا میں ذلیل اور آخرت میں رسوا ہوں گے۔ آپ اپنا کام صبر و شکر کے ساتھ جاری رکھیں یہ لوگ جو کچھ کر رہے ہیں آپ کا رب اس سے غافل نہیں ہے۔ مسائل ١۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم تھا کہ آپ لوگوں کے سامنے قرآن مجید کے احکام پڑھ کر سنائیں۔ ٢۔ جس نے ہدایت پائی اس ہدایت کا اسے ہی فائدہ پہنچے گا۔ ٣۔ جس نے گمراہی اختیار کی وہ گمراہی کا خمیازہ بھگتے گا۔ ٤۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا نبوت کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ آپ لوگوں کو برے انجام سے ڈرائیں۔ تفسیر بالقرآن نبوت کے مرکزی مقاصد : ١۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لوگوں کے سامنے بیان کریں جو کچھ ان کی طرف بھیجا گیا ہے۔ (النحل : ٤٤) ٢۔ ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو آیات دے کر بھیجا تاکہ وہ اپنی قوم کے لوگوں کو اندھیروں سے روشنی کی طرف لائیں۔ (ابراہیم : ٥) ٣۔ ہم نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پہلے جتنے بھی رسول بھیجے ان کی طرف یہی وحی کی کہ میرے سوا کوئی الٰہ نہیں۔ لہٰذا میری عبادت کرو۔ (الانبیاء : ٢٥) ٤۔ ہم نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خوشخبری دینے اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے۔ (الاحزاب : ٥٦) ٥۔ اللہ نے ان پڑھ لوگوں میں رسول مبعوث فرمایا۔ جو ان کو اللہ کی آیات پڑھ کر سناتا ہے، ان کا تزکیہ کرتا ہے، انہیں تعلیم دیتا ہے اور حکمت کی باتیں سکھاتا ہے۔ (الجمعہ : ٢) ٦۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر قرآن اس لیے نازل کیا گیا ہے تاکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لوگوں کو اندھیروں سے نکال کر روشنی میں لائیں۔ ( ابراہیم : ١) النمل
93 النمل
0 سورۃ القصص کا تعارف ربط سورۃ: النّمل کے آخر میں ارشاد ہے کہ جسے اللہ تعالیٰ ہدایت سے سرفراز فرمائے اور ہر قسم کی گمراہی سے محفوظ رکھے اسے اپنے رب کا شکر گزار ہونا چاہیے۔ القصص کے آغاز میں ارشاد ہے کہ ایسے لوگوں کو اللہ تعالیٰ اپنی قدرت کی نشانیاں دکھائے گا یہ اس کی قدرت کی نشانی ہے کہ اس نے فرعون جیسے ظالم حکمران کو عبرتناک سزا سے دو چار کیا اور موسیٰ (علیہ السلام) جیسے بے وسائل شخص کو کامیاب فرمایا۔ جس کی تفصیل القصص میں بیان ہوئی ہے۔ سورۃ القصص کی 88 آیات اور 9 رکوع ہیں۔ مکہ شریف میں نازل ہوئی اس کا نام اس لیے القصص نہیں رکھا گیا کہ اس میں بہت سے انبیاء اکرام کے واقعات بیان ہوئے ہیں۔ ایسا نہیں ہے بلکہ اس کا نام اس لیے القصص رکھا گیا ہے کہ اس میں موسیٰ (علیہ السلام) کی زندگی کے اہم ترین واقعات کو ترتیب کے ساتھ یکجا کردیا گیا ہے۔ یہ سورۃ بھی حروف مقطعات اور قرآن مجید کے تعارف سے شروع ہوئی ہے۔ ارشاد ہوتا ہے کہ اے قرآن سننے اور پڑھنے والے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم آپ کے سامنے موسیٰ (علیہ السلام) اور فرعون کے درمیان رونما ہونے والی کشمکش کو ٹھیک، ٹھیک بیان کرتے ہیں۔ جس کا صاف معنٰی ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان واقعات کو پہلے سے نہیں جانتے تھے۔ ہوا یہ کہ فرعون اپنے ملک میں بڑا بن بیٹھا تھا، جس کے لیے اس نے اپنی قوم میں طبقاتی کشمکش پیدا کر رکھی تھی جس کے نتیجے میں ایک فریق پر ظلم پر ظلم کرتا رہا اور دوسرے فریق کو مراعات سے نوازتا رہا۔ اللہ تعالیٰ نے فیصلہ کرلیا کہ اب مظلوموں کی مدد کی جائے۔ جس کے لیے اپنی قدرت کا عظیم معجزہ دکھایا کہ جس بچے کی خاطر مخالف فریق کے بچے قتل کروائے جاتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اسی قوم کا بچہ فرعون کے گھر پہنچایا اور جسے وہ لا علمی میں پورے نازونخرے کے ساتھ پالتا رہا ہے۔ موسیٰ (علیہ السلام) بڑے ہوئے تو ان کے ہاتھوں ناگہانی طور پر سرکاری پارٹی کا ایک بندہ قتل ہوگیا۔ جس کی تفتیش کیے بغیر فرعون نے موسیٰ (علیہ السلام) کو قتل کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ موسیٰ (علیہ السلام) کو اس بات کی خبر فرعون کے ایک ساتھی نے دی۔ خبر ملتے ہی موسیٰ (علیہ السلام) مصر سے نکل کھڑے ہوئے اور انہوں نے مدین کا رخ کیا۔ وہاں حضرت شعیب (علیہ السلام) کے ہاں آٹھ یا دس سال ٹھہرے رہے۔ اس کے بعد اپنی اہلیہ جو حضرت شعیب (علیہ السلام) کی بیٹی تھی۔ اس کے ساتھ وطن واپس آرہے تھے کہ سفر کے دوران ایک جگہ روشنی دیکھی راستہ پوچھنے کے لیے آگ کی طرف گئے تو آواز دی گئی کہ اے موسیٰ (علیہ السلام) ! تو مقدس وادی میں داخل ہوچکا ہے۔ لہٰذا اپنے جوتے اتار دیں اور میری بات توجہ کے ساتھ سنیں میں تمہارا رب ہوں۔ تمہیں ید بیضا اور تیرے عصا کو معجزہ کے طور پر دیا جاتا ہے۔ انہیں لے کر فرعون اور اس کے سرداروں کی طرف جاؤ۔ وہ بڑے نافرمان ہوچکے ہیں۔ موسیٰ (علیہ السلام) فریاد کرتے ہیں کہ میرے رب میرے بھائی ہارون کو میرا معاون بنا دیں۔ موسیٰ (علیہ السلام) کی درخواست قبول کرلی گئی۔ موسیٰ اپنے بھائی ہارون ( علیہ السلام) اور معجزوں کے ساتھ فرعون کے پاس گئے۔ جس نے انہیں نبی تسلیم کرنے اور اللہ پر ایمان لانے سے انکار کردیا۔ جس کے نتیجہ میں اسے اور اس کے لاؤ ولشکر کو غرق کردیا گیا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور فرعون کی کشمکش کا تفصیل کے ساتھ اس لیے ذکر ہوا ہے کہ اہل مکہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ بھی مطالبہ کرتے تھے کہ ہمیں وہ معجزات کیوں نہیں دکھائے جاتے جو موسیٰ (علیہ السلام) کو دیے گئے تھے۔ اس کے جواب میں ارشاد ہوا کیا یہ نہیں جانتے کہ فرعون اور اس کے ساتھیوں نے موسیٰ (علیہ السلام) کو دیے جانے والے تمام معجزات کا انکار کیا تھا پھر اس کا کیا انجام ہوا۔ اس کے ساتھ ہی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اطمینان دلایا گیا ہے کہ آپ کو ایک حد سے زیادہ فکر مند نہیں ہونا چاہیے اگر یہ لوگ ایمان لانے کو تیار نہیں تو اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ یہ لوگ اپنی خواہشات کے بندے بن چکے ہیں۔ جس بنا پر کہتے ہیں کہ اگر ہم اس نبی پر ایمان لائیں گے تو لوگ ہمیں اچک لیں گے۔ کیا انہیں معلوم نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے حرم کو جائے امن اور رزق کی فراوانی کا ذریعہ بنایا ہے۔ اسی کے سبب پوری دنیا سے مختلف قسم کے پھل اور اناج مکہ معظمہ میں چلا آتا ہے۔ اس کے بعد لیل ونہار کی گردش کے حوالے سے توحید کے ٹھوس اور واضح دلائل دیے گئے ہیں جن کا جواب قیامت تک دنیا کا کوئی مشرک نہیں دے سکتا۔ مکہ کے لوگ معاشی بدحالی کے خود ساختہ خوف کی وجہ سے کفر اختیار کیے ہوئے تھے اس لیے سورۃ کے آخر میں قارون کا واقعہ بیان کیا گیا ہے تاکہ مسلمانوں کی نظر اس کے انجام پر رہے اور کفار کو معلوم ہو کہ کسی مجرم کو دنیا کے اسباب ووسائل۔ اللہ تعالیٰ کی گرفت سے نہیں بچا سکتے اور آخرت میں ایسے لوگوں کا انجام بدترین ہوگا۔ اللہ تعالیٰ نے آخرت کا گھر ان لوگوں کے لیے تیار کیا ہے جو دنیا میں حق اور لوگوں کے ساتھ تکبر کا رویہّ اختیار نہیں کرتے۔ ” اللہ“ کی نافرمانی سے اجتناب اور لوگوں سے تواضع اختیار کرنے والوں کا یقیناً انجام بہتر ہوگا۔ جو پر خلوص نیکی کے ساتھ اپنے رب کے حضور حاضر ہوا اس کے لیے دس گناہ اجر ہوگا۔ اور جو برائی کے ساتھ پیش ہوا اسے اس کی برائی کے برابر سزا دی جائے گی۔ کفار عقیدہ توحید اور آخرت کے انکار کی وجہ سے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر الزام لگاتے تھے کہ اس نے قرآن اپنی طرف سے بنا لیا ہے۔ اس کے کئی جواب دیے گئے ہیں۔ یہاں صرف اتنا فرمایا ہے کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ اس بات کا خیال بھی نہیں کرسکتے تھے کہ اللہ تعالیٰ آپ قرآن نازل کرے گا یہ تو تیرے رب کی رحمت ہے کہ اس نے تجھے اپنے پیغام کے لیے منتخب فرما لیا ہے اور آپ پر قرآن نازل فرمایا ہے۔ لہٰذا نہ مشرکوں کی طرف جھکیں اور نہ ہی اپنے رب کے سوا کسی دوسرے کو پکاریں۔ پکارنے کے لائق ایک ہی الٰہ ہے۔ اس نے ہمیشہ رہنا ہے۔ اس کے سوا سب نے ہلاک ہونا اور ہر کسی نے اس کے حضور پیش ہونا ہے۔ اسی کا حکم چلتا ہے اور چلتا رہے گا۔ القصص
1 القصص
2 فہم القرآن ربط کلام : سورۃ نمل کا اختتام ان الفاظ میں ہوا کہ اے لوگو! عنقریب اللہ تعالیٰ تمہیں اپنی نشانیاں دکھلائے گا، کیونکہ آپ کا رب کسی کے اچھے اور برے عمل سے غافل نہیں ہے۔” اللہ“ کی نشانیوں میں یہ بھی اس کی قدرت کی نشانی ہے کہ اس نے بنی اسرائیل جیسی مظلوم قوم اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) جیسے وسائل کے لحاظ سے کمزور شخص کو فرعون جیسے ظالم شخص سے نجات دی اور بنی اسرائیل کو پوری دنیا میں معزز بنایا۔ حضرت موسیٰ اور فرعون کی کشمکش کا تذکرہ پایا جاتا ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ اہل مکہ اور آل فرعون کے کردار میں بڑی مماثلت پائی جاتی ہے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی بعثت کا مقصد : ” اے موسیٰ ! تو اور تیرا بھائی میرے معجزات لے کر دونوں فرعون کے ہاں جاؤ وہ بڑا سرکش ہوگیا ہے۔ ہاں میرے ذکر میں کوتاہی نہ کرنا اور دیکھو اسے نرمی سے سمجھاناکہنا شاید وہ نصیحت قبول کرے یا ڈرجائے۔ انھوں نے عرض کی اے پروردگار ہم اس بات سے ڈرتے ہیں کہ وہ ہم پر زیادتی کرے یا مزید سرکشی اختیار کرے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ڈرنے کی ضرورت نہیں میں تمھارے ساتھ ہوں سب کچھ سن رہا ہوں اور دیکھ رہا ہوں لہٰذا اس کے پاس جاؤ اور اسے کہنا ہم تیرے رب کے رسول ہیں۔ بنی اسرائیل کو ہمارے ساتھ جانے کے لیے آزاد کر دے اور انھیں کسی قسم کی تکلیف نہ دے۔ ہم تیرے پاس تیرے پروردگار کی نشانی لے کر آئے ہیں۔ اس شخص پر سلامتی ہو جو ہدایت کی پیروی اختیار کرتا ہے۔“ [ طٰہٰ: ٤٢۔ ٤٧] اہل تاریخ بنی اسرائیل پر فرعون کے بد ترین مظالم کی دو وجوہات تحریر کرتے ہیں۔ ایک جماعت کا نقطۂ نظر ہے کہ نجومیوں نے فرعون کو اس بات کی خبر دی کہ بنی اسرائیل میں ایک ایسا بچہ پیدا ہونے والا ہے جو بڑا ہو کر تیرے اقتدار کو چیلنج کرے گا۔ دوسرے لوگوں کا خیال ہے کہ بنی اسرائیل کی بڑھتی ہوئی افرادی قوت کے خوف سے فرعون نے ان کے بچوں کو قتل کرنے اور عورتوں کو باقی رکھنے کا حکم جاری کیا تھا۔ یاد رہے بنی اسرائیل کے جوانوں کا قتل عام اور ان کی بیٹیوں کو باقی رکھنے کا معاملہ دو مرتبہ ہوا۔ ایک دفعہ موسیٰ (علیہ السلام) کی پیدائش کے وقت اور دوسری مرتبہ موسیٰ (علیہ السلام) کی نبوت کے بعد۔ (المؤمن : ٢٣) اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو اپنی نعمتوں کا احساس، آخرت کا خوف اور ان کے ماضی کے الم ناک دور کا حوالہ دیتے ہوئے سمجھایا ہے کہ آج تم کمزور اور بے خانماں مسلمانوں کے خلاف مکہ والوں کی حمایت کررہے ہو۔ تمہیں وہ وقت بھی یاد رکھنا چاہیے۔ جب فرعون تمہارے جوانوں اور نونہالوں کو سر عام ذبح کرتا تھا۔ تمہاری ماؤں اور بہو‘ بیٹیوں کو باقی رہنے دیتا تھا۔ قرآن مجید نے اسے بلائے عظیم قرار دے کر ان مضمرات کی طرف اشارہ کیا ہے جو مظلوم اور غلام قوم کو پیش آیا کرتے ہیں۔ ظالم مظلوم کی بہو بیٹیوں کے ساتھ وہ سلوک روا رکھتے ہیں جس کے تصور سے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ اے بنی اسرائیل ! اللہ تعالیٰ نے تم پر احسان عظیم کرتے ہوئے بدترین مظالم سے تمہیں نجات دلائی اور تمہاری آنکھوں کے سامنے تمہارے دشمن کو ذلّت کی موت مارتے ہوئے اسے ہمیشہ کے لیے نشان عبرت بنا دیا۔ اس سے دنیا میں تمہاری عظمت و سچائی اور بزرگی کی دھوم مچ گئی کہ بنی اسرئیل کے لیے دریا تھم گیا اور ان کی آنکھوں کے سامنے دنیا کا بد ترین مغرور، سفّاک، خدائی اور مشکل کشائی کا دعوی کرنے والاڈبکیاں لیتے ہوئے دہائی دیتا رہا کہ لوگو! میں موسیٰ (علیہ السلام) اور اس کے رب پر ایمان لاتا ہوں۔ لیکن آواز آئی کہ تیرا ایمان ہرگز قبول نہیں ہوگا۔ اب تجھے آئندہ نسلوں کے لیے نشان عبرت بنا دیا جائے گا۔ (قَالَ قَدْ اُجِیْبَتْ دَّعْوَتُکُمَا فَاسْتَقِیْمَا وَ لَا تَتَّبِعآنِّ سَبِیْلَ الَّذِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ وَ جٰوَزْنَا بِبَنِیْٓ اِسْرَآءِ یْلَ الْبَحْرَ فَاَتْبَعَھُمْ فِرْعَوْنُ وَ جُنُوْدُہٗ بَغْیًا وَّ عَدْوًا حَتّآی اِذَآ اَدْرَکَہُ الْغَرَقُ قَالَ اٰمَنْتُ اَنَّہٗ لَآ اِلٰہَ اِلَّا الَّذِیْٓ اٰمَنَتْ بِہٖ بَنُوْٓا اِسْرَآءِ یْلَ وَ اَنَا مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ اآلْءٰنَ وَ قَدْ عَصَیْتَ قَبْلُ وَ کُنْتَ مِنَ الْمُفْسِدِیْنَ فَالْیَوْمَ نُنَجَّیْکَ بِبَدَنِکَ لِتَکُوْنَ لِمَنْ خَلْفَکَ اٰیَۃً وَ اِنَّ کَثِیْرًا مِّنَ النَّاسِ عَنْ اٰیٰتِنَا لَغٰفِلُوْن)[ یونس : ٨٩ تا ٩٢] ” فرمایا بلا شبہ تم دونوں کی دعا قبول کرلی گئی ہے، پس دونوں ثابت قدم رہو اور ان لوگوں کے راستے کی پیروی نہ کرنا جو نہیں جانتے اور ہم نے بنی اسرائیل کو سمندر سے پار کیا تو فرعون اور اسکے لشکروں نے سر کشی اور زیادتی کرتے ہوئے ان کا تعاقب کیا، یہاں تک کہ جب وہ غرق ہونے لگا تو کہا کہ میں ایمان لایا یقیناً سچ یہ ہے کہ اس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں جس پر بنی اسرائیل ایمان لائے ہیں اور میں فرمانبرداروں سے ہوں۔“ مسائل ١۔ قرآن مجید کی آیات اور احکام بالکل واضح ہیں۔ ٢۔ قرآن مجید میں بیان کردہ واقعات افراط، تفریط اور ہر قسم کے نقص سے پاک ہیں۔ ٣۔ فرعون نے طبقاتی کشمکش کے ذریعے اپنے اقتدار کو مضبوط کر رکھا تھا۔ ٤۔ فرعون بنی اسرائیل کے بچوں کو قتل کرتا اور ان کی عورتوں کو زندہ چھوڑتا تھا۔ ٥۔ فرعون فساد کرنے والوں میں سب سے بڑا فسادی تھا۔ تفسیر بالقرآن فرعون کے مظالم اور اس کا بدترین کردار : ١۔ فرعون نے اپنی قوم میں طبقاتی کشمکش پیدا کی۔ (القصص : ٤) ٢۔ بنی اسرائیل قتل وغارت کے عذاب میں دو مرتبہ مبتلا کئے گئے۔ (الاعراف : ١٢٧ تا ١٢٩) ٣۔ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو اقتدار بخشا تاکہ فرعون کو اپنی قدرت دکھلائے۔ (القصص : ٥، ٦) ٤۔ فرعون نے ظلم کرنے کے لیے میخیں تیار کی ہوئی تھیں۔ (الفجر : ١٠) ٥۔ فرعون نے اپنی بیوی پر اس لیے ظلم کیا کہ وہ موسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لے آئی تھی۔ (التحریم : ١١) القصص
3 القصص
4 فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ فرعون اس کے ساتھیوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا فیصلہ۔ بنی اسرائیل حضرت یوسف (علیہ السلام) کے دور میں مصر میں برسراقتدار آئے اور مدت دراز تک انہیں اقتدار اور اختیار حاصل رہا لیکن اپنی بد اعمالیوں کی وجہ سے نہ صرف اقتدار سے محروم ہوئے بلکہ مصر میں انھیں حقیر ترین شہری بنا دیا گیا۔ وہ مدّت تک فرعون کے مظالم سہتے رہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو مبعوث فرمایا۔ جناب موسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت ہارون (علیہ السلام) کی بے مثال جدوجہد سے بنی اسرائیل کو مصر سے نکلنے میں کامیابی نصیب ہوئی اور ان کے لیے شام اور فلسطین کی فتح کا دروازہ کھول دیا گیا۔ جس سر زمین کے بارے میں ارشاد فرمایا ہے کہ اس کے مشرق سے لے کر مغرب تک اللہ تعالیٰ نے برکات و ثمرات کے خزانے رکھے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس طرح بنی اسرائیل کے ساتھ کیے ہوئے وعدے پورے فرمائے اور انھیں آزادی جیسی نعمت سے سرفراز فرمایا۔ فرعون اور اس کی قوم جو کچھ کرتی تھی اسے نیست ونابود کردیا گیا۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ ہی لوگوں کو ایک دوسرے کا وارث اور خلیفہ بناتا ہے : ١۔ اللہ چاہے تو تمھیں اٹھا لے اور تمھارے بعد جس کو چاہے خلیفہ بنائے۔ (الانعام : ١٣٣) ٢۔ تمھارا رب جلد ہی تمھارے دشمن کو ہلاک کردے اور ان کے بعد تم کو خلیفہ بنائے گا۔ (الاعراف : ١٢٩) ٣۔ ” اللہ“ ہی اقتدار اور اختیار دینے والا ہے۔ ( آل عمران : ٢٦) ٤۔” اللہ“ ہی ذلّت اور عزت دینے والا۔ ( البقرۃ: ٢٦) القصص
5 القصص
6 القصص
7 فہم القرآن ربط کلام : حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی پیدائش کے وقت ان کی والدہ کا خوفزدہ ہونا اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے انہیں تسلّی دیے جانا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے والد کا نام یوکا بد تھا اور والد کا نام عمران بن قامت بن لاوی بن یعقوب (علیہ السلام) تھا۔ عمران کے گھر میں موسیٰ (علیہ السلام) کی ولادت ایسے وقت میں ہوئی جب فرعون اسرائیلی لڑکوں کے قتل کا فیصلہ کرچکا تھا۔ اس لیے ان کی والدہ اور اہل خانہ ان کی ولادت کے وقت سخت پریشان تھے کہ بچے کو قاتلوں کی نگاہ سے کس طرح محفوظ رکھیں؟ بہرحال جوں توں کر کے تین مہینہ تک ان کو ہر ایک کی نگاہ سے اوجھل رکھا اور ان کی پیدائش کے مطلق کسی کو خبر نہ ہونے دی لیکن جاسوسوں کی دیکھ بھال اور حالات کی نزاکت کی وجہ سے زیادہ دیر تک اس واقعہ کے پوشیدہ رہنے کی توقع نہ ہوسکی اور اس لیے ان کی والدہ سخت پریشان رہنے لگی۔ اس نازک وقت میں آخر اللہ نے مدد کی اور موسیٰ (علیہ السلام) کی والدہ کے دل میں یہ القا کیا کہ ایک تابوت بناؤ۔ اس صندوق کو نیل کے بہاؤ پر چھوڑ دو۔ موسیٰ (علیہ السلام) کی والدہ نے ایسا ہی کیا مگر ساتھ ہی ماں کی مامتا فکر مند ہوگئی۔ اس لیے موسیٰ (علیہ السلام) کی ہمشیرہ کو کہا کہ وہ دریا کے کنارے کنارے چل کر صندوق پر نظر رکھے اور دیکھے۔ اے موسیٰ ہم نے یہ دوسری مرتبہ تجھ پر احسان فرمایا ہے پہلا احسان یہ تھا کہ جب تیری والدہ کو ہم نے الہام کیا کہ جب موسیٰ (علیہ السلام) کی جان کے بارے میں خطرہ محسوس کرے تو اسے صندوق میں ڈال کر دریا کے حوالے کردینا تاکہ اسے میرا اور موسیٰ (علیہ السلام) کا دشمن پکڑ لے دشمن سے مراد فرعون ہے جو سرکشی اور بغاوت کی انتہا کو پہنچا ہوا تھا۔ یہ پہلا شخص تھا جس نے اپنے آپ کو ” اَنَا رَبُّکُمُ الْاَعْلٰی“ سمجھا اور لوگوں سے کہلوایا اور اس نے محض نجومیوں کے کہنے پر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی وجہ سے بنی اسرائیل کے ہزاروں بچوں کو قتل کروا دیا تھا۔ لیکن اللہ تعالیٰ کی شان دیکھیے کہ اللہ تعالیٰ نے فرعون کے ہاں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی پرورش کروائی۔ موسیٰ (علیہ السلام) ناصرف فرعون کے گھر پر ورش پاتے ہیں بلکہ ان کی والدہ ہی ان کی دایہ اور مربیہ ٹھہرتی ہیں اللہ تعالیٰ نے انھیں صندوق دریا کے حوالے کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ اے اُمِ موسیٰ فکر و غم نہ کرنا ہم اسے تیرے پاس لے آئیں گے۔ موسیٰ کی والدہ نے اللہ تعالیٰ کا حکم جان کر موسیٰ (علیہ السلام) کو دریا کے حوالے کردیا۔ لیکن جب ماں کی مامتا تڑپ اٹھی تو موسیٰ کی بہن کو بھیجا کہ بیٹی دریا کے کنارے کنارے جاؤ اور دیکھو تیرے بھائی کا صندوق کہاں پہنچتا اور اسے کون پکڑتا ہے۔ دریا کی لہریں موسیٰ (علیہ السلام) کو لوریاں دیتے ہوئے فرعون کے محل تک پہنچا دیتی ہیں۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں اور جانوروں کو بھی الہام کرتا ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ کے حکم سے موسیٰ (علیہ السلام) کی والدہ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو دریا برد کیا۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو ان کی والدہ کے پاس لوٹایا۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو رسول منتخب فرمایا۔ تفسیر بالقرآن حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے رسول منتخب کیا اور انھیں معجزات عنایت فرمائے : ١۔ جب موسیٰ (علیہ السلام) جوان ہوئے تو ہم نے اسے حکمت اور علم عطا کیا۔ (القصص : ١٤) ٢۔ حضرت موسیٰ کے معجزے برہان تھے۔ (القصص : ٣٢) ٣۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو کتاب اور حق و باطل میں فرق کرنے والے معجزے عطا کیے۔ (البقرۃ: ٥٣) ٤۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ اور ہارون (علیہ السلام) کو حق و باطل میں فرق کرنے والی روشن کتاب عنایت فرمائی۔ (الانبیاء : ٤٨) القصص
8 فہم القرآن ربط کلام : موسیٰ (علیہ السلام) کی والدہ کا موسیٰ (علیہ السلام) کو دریا برد کرنا اور صندوق کا فرعون کے ہاتھ لگنا۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کی والدہ کو الہام کے ذریعے موسیٰ (علیہ السلام) کو دریا برد کرنے کا حکم دیتے ہوئے یقین دلایا کہ موسیٰ (علیہ السلام) کی جان کے بارے میں ڈرنے اور خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں۔ اے اُمِّ موسیٰ ! تیرے ساتھ تیرے رب کا وعدہ ہے کہ نہ صرف موسیٰ (علیہ السلام) کو تیرے پاس لوٹائے گا بلکہ اسے رسول منتخب کرے گا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی والدہ نے اپنے رب کے حکم پر موسیٰ (علیہ السلام) کو صندوق میں ڈال کر دریا کی لہروں کے حوالے کیا اور اپنی بیٹی یعنی موسیٰ (علیہ السلام) کی بہن کو ہدایت کی کہ وہ دریا کے کنارے پوری احتیاط کے ساتھ صندوق کے ساتھ ساتھ چلے اور دیکھنے البتہ چلنے کا انداز ایسا ہو کہ آل فرعون محسوس نہ کر پائیں۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی بہن اسی احتیاط اور سمجھداری کے ساتھ دریا کے کنارے چلتی رہی تآنکہ فرعون کے ملازموں نے محل کے قریب دریا میں تیرتے ہوئے صندوق کو پکڑکر فرعون کے سامنے پیش کیا۔ اس طرح جس کی دشمنی وجہ سے فرعون نے ہزاروں بچے قتل کروائے تھے اللہ تعالیٰ نے اس کے دشمن کو اسی کے اہلکاروں کے ہاتھوں اس کے گھر پہنچایا۔ تاکہ موسیٰ (علیہ السلام) اس کے گھر پرورش پا کر جوان ہوا اور اللہ تعالیٰ نے انھیں نبوت عطا فرمائے۔ اس کی وجہ سے فرعون، ہامان اور اس کے لشکر کیفر کردار تک پہنچیں کیونکہ وہ بڑے ظالم اور خطا کار تھے۔ جب موسیٰ (علیہ السلام) کا صندوق کھولا گیا تو فرعون کی بیوی نے موسیٰ کا معصوم اور پھول جیسا چہرہ دیکھا اس نے فرعون کو کہا اسے قتل نہ کیا جائے۔ درخواست کے انداز میں کہا کہ ہوسکتا ہے یہ بچہ ہمیں بہت ہی فائدہ پہنچائے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ ہمارے لیے مفید ثابت ہو۔ ہم اسے اپنا بیٹا بنا لیں۔ فرعون نے قتل کرنے سے ہاتھ روک لیا جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ وہ موسیٰ (علیہ السلام) کے ہاتھوں ہونے والے اپنے انجام کو نہیں سمجھتے تھے۔ موسیٰ (علیہ السلام) کی والدہ نے اللہ تعالیٰ کے الہامی حکم کی بناء پر موسیٰ (علیہ السلام) کو دریا کے حوالے کیا لیکن رات کے بعد جب صبح ہوئی تو اس کے دل میں یہ خوف پیدا ہوا کہ میرا لخت جگر دشمن کے ہاتھ لگ چکا ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ اسے قتل کر ڈالے۔ ماں کی مامتا تڑپ اٹھی قریب تھا موسیٰ (علیہ السلام) کی والدہ معصوم بیٹے کے فراق میں حوصلہ ہار بیٹھتی اور انتہائی غم کی حالت میں اڑوس پڑوس میں موسیٰ (علیہ السلام) کا ذکر کر بیٹھتی۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کی والدہ کے دل کو مضبوط کیا اور حوصلہ بخشا تاکہ اللہ تعالیٰ کے وعدے پر اس کا ایمان پکا رہ سکے۔ دریا میں اٹکیلیاں کھاتا ہوا صندوق دیکھ کر فرعون کے خدام نے اسے پکڑلیا صندوق کھولا گیا تو اس میں موسیٰ (علیہ السلام) کو معصوم اور پر نور چہرے کے ساتھ مسکراتا ہوا پایا۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) پر اپنی رحمت کا پرتو اس طرح ڈال رکھا تھا کہ جو بھی انھیں دیکھتا فریفتہ ہوجاتا۔ یہی حالت فرعون اور اس کی بیوی آسیہ کی تھی جو نہی فرعون نے موسیٰ (علیہ السلام) کے چہرے پر نظر ڈالی تو دل ہار بیٹھا اسے یہ احساس اور خیال تک نہ رہا کہ اس طرح دریا میں تیرتے ہوئے جس بچے کو میں نے پکڑا ہے ہوسکتا ہے کہ یہ وہی ہو جس کی خاطر میں نے ہزاروں معصوم بچوں کا قتل کیا ہے۔ فرعون ایسا کیوں نہ سوچ سکا اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ اے موسیٰ میں نے تجھ پر اپنی محبت ڈال دی تاکہ تو میری آنکھوں کے سامنے پرورش پائے۔ (وَأَلْقَیْتُ عَلَیْکَ مَحَبَّۃً مِنِّی وَلِتُصْنَعَ عَلَی عَیْنِی) [ طٰہٰ: ٣٩] ” اے موسیٰ میں نے تجھ پر اپنی محبت طاری کردی اور ایسا انتظام کیا تاکہ تو میری نگرانی میں پرورش پائے۔“ مسائل ١۔ فرعون، ہامان اور ان کے ساتھی جس بچے سے ڈرتے تھے اللہ تعالیٰ نے اس بچے کو فرعون کے گھر پہنچا دیا۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی عظیم قدرت سے موسیٰ (علیہ السلام) کی پرورش اس کے دشمن کے ہاتھوں کروائی۔ ٣۔ جادو اور علم نجوم کا دعویٰ رکھنے والے یہ نہ جان سکے کہ ہم اپنے دشمن کی پرورش کر رہے ہیں۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کی والدہ کے دل کو مضبوط کیا اور وہ اللہ تعالیٰ کے وعدہ پر قائم رہی۔ تفسیربالقرآن اللہ تعالیٰ ہی دلوں کو تسکین دینے والا ہے : ١۔ اللہ نے تمہارے گھر تمہارے لیے سکون کا باعث بنائے ہیں۔ (النحل : ٨٠) ٢۔ اللہ وہ ذات ہے جس نے تمہارے لیے رات کو بنایا تاکہ تم سکون حاصل کرو۔ (یونس : ٦٧) ٣۔ اللہ کی رحمت کا نتیجہ ہے کہ اس نے تمہارے لیے دن اور رات بنائے تاکہ تم تسکین حاصل کرو۔ (القصص : ٨٢) ٤۔ اللہ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی یہ ہے کہ اس نے تمہاری جانوں میں سے تمہارے لیے بیویاں پیدا فرمائیں تاکہ تم ان سے سکون حاصل کرو۔ (الروم : ٢١) ٥۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کے لیے دعا کیجئے آپ کی دعا ان کے لیے باعث تسکین ہے۔ (التوبۃ: ١٠٣) ٦۔ اللہ کے ذکر سے دلوں کو اطمینان حاصل ہوتا ہے۔ (الرعد : ٢٨) القصص
9 القصص
10 القصص
11 القصص
12 فہم القرآن ربط کلام : حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا دائیوں کا دودھ پینے سے انکار۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی والدہ کے سوا دوسری عورتوں کا دودھ نہ پیا۔ جس کا سبب یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) پر دوسری دائیوں کا دودھ پینا حرام کردیا تھا۔ دودھ پلانے والی عورتوں نے بہت جتن کیے لیکن حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کسی عورت کی چھاتی کو منہ لگانے کے لیے تیار نہ ہوئے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کی والدہ کے ساتھ الہام کے ذریعے وعدہ کیا تھا کہ اے اُمّ موسیٰ ! غم کرنے کی ضرورت نہیں اللہ تعالیٰ تیرے لخت جگر کو نہ صرف تیرے پاس لائے گا بلکہ وقت آنے پر اسے الرّسول بنایا جائے گا۔ رب کریم نے اپنے وعدے کو اس طرح پورا فرمایا کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اپنی والدہ کے دودھ کے سوا کسی کا دودھ پینے کے لیے تیار ہی نہ ہوئے۔ دوسری طرف فرعون کی بیوی کا حال یہ تھا کہ وہ بچے کو بھوکا دیکھ کر بے قرار ہوئے جارہی تھی۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرعون اور اس کی بیوی کے دل میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی محبت ڈال دی تھی اس لیے وہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے بیزاری کا اظہار کرنے کی بجائے اس فکر میں تڑپنے لگے کہ اگر بچے نے دودھ نہ پیا تو اس کی زندگی خطرہ میں پڑجائے گی۔ اس صورتحال میں ایک بی بی نے کہا جس کے بارے میں مفسرین کی غالب اکثریت کا کہنا ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) کی بہن تھی جس نے کہا کہ میں تمھیں ایسے گھر کی نشاندہی کرتی ہوں جو اس بچے کی کفالت بڑی خیر خواہی اور ہمدردی کے ساتھ کریں گے۔ چنانچہ اس طرح ان کا موسیٰ (علیہ السلام) کی والدہ سے رابطہ ہوا جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو اس کی والدہ کے پاس لوٹادیا تاکہ اس کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں اور موسیٰ (علیہ السلام) کی جدائی کا غم دور ہوجائے اور اسے یہ بھی معلوم ہو کہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ سچ اور برحق ہوتا ہے لیکن اکثر لوگ اس سے بے علم ہوتے ہیں۔ بے علم سے مراد ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے کیے ہوئے وعدوں پر یقین نہیں رکھتے جس کی وجہ سے وہ دنیا کی خاطر اللہ تعالیٰ کے حکم کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔ (عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ جَبَیْرِ بْنِ نُفَیْرِ عَنْ اَبِیْہِ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَثَلُ الَّذِیْنَ یَغْزَؤُنْ مِنْ اُمَّتِیْ وَیَاْخُذُوْنَ اَلَجَعْلَ یَتَقُوَّوُنَ عَلَی عَدُوِّہِمْ مِثْلِ اُمِ مُوْسٰی تَرَضَعُ وَلَدَہَا وَتَاخُذَ اَجُوْہَا) [ سنن الکبری للبیہقی] ” حضرت عبدالرحمن بن جبیر بن نفیر اپنے باپ سے بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میری امت کے غازیوں کی مثال جو اپنی مزدوری لیتے ہیں اور اپنے دشمن پہ جھپٹتے ہیں۔ موسیٰ کی ماں کی طرح ہے جس نے اپنے بچے کو دودھ پلایا اور اجرت حاصل کی۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر دوسری عورتوں کا دودھ حرام قرار دیا۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو ان کی ماں کے ہاں لوٹا دیا۔ تفسیر بالقرآن ” اللہ“ کے وعدے پکے اور سچے ہوتے ہیں : ١۔ اللہ تعالیٰ سچ فرماتا ہے۔ (الاحزاب : ٤) ٢۔ جان لو اللہ تعالیٰ کا وعدہ حق ہے۔ (القصص : ١٣) ٣۔ اللہ تعالیٰ سے بات کرنے کے لحاظ سے کون زیادہ سچا ہے۔ (النساء : ٨٧) ٤۔ کفار عذاب کے بارے میں جلدی کر رہے ہیں اللہ اپنے وعدے کے ہرگز خلاف نہیں کرے گا۔ ( الحج : ٤٧) ٥۔ اللہ کے قول سے بڑھ کر کس کا قول سچا ہوسکتا ہے۔ (النساء : ١٢٢) ٦۔ فرما دیجئے کیا تم نے اللہ سے عہد لیا ہے تو اللہ اپنے عہد کے خلاف نہیں کرے گا۔ ( البقرۃ: ٨٠) ٧۔ اللہ تعالیٰ کا وعدہ حق ہے تمھیں دنیا کی زندگی دھوکے میں نہ ڈال دے۔ (لقمان : ٣٣) القصص
13 القصص
14 فہم القرآن ربط کلام : حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا فرعون کے ہاں جوان ہونا اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے انھیں علم و حکمت عطا کیا جانا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمت بالغہ کے تحت فرعون کے ہاں پہنچایا۔ جس میں بڑی بڑی تین حکمتیں پنہاں تھیں۔ ١۔ لوگوں کو معلوم ہو کہ علم نجوم کی کوئی حیثیت نہیں اور اللہ تعالیٰ کے بغیر کوئی غیب کا علم نہیں جانتا۔ اگر علم نجوم کی کوئی حقیقت ہوتی تو فرعون کو معلوم ہونا چاہیے تھا کہ یہ وہی بچہ ہے جس کے لیے میں ہزاروں بچوں کا قتل عام کروا چکا ہوں۔ ظاہر ہے کہ معلوم ہونے کی صورت میں وہ موسیٰ (علیہ السلام) کو فوری طور پر قتل کردیتا۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کاملہ سے یہ ثابت کر دکھایا کہ اس نے فرعون جیسے قاتل اور ظالم کے ہاں اس کے دشمن کی پرورش کر وا سکتا ہے۔ ٣۔ موسیٰ (علیہ السلام) کی اس لیے فرعون کے ہاں پرورش کروائی گئی تاکہ موسیٰ (علیہ السلام) کو امور سلطنت چلانے کی تربیت دی جائے۔ اِس لیے ارشاد فرمایا ہے کہ جب موسیٰ (علیہ السلام) بھرپور جوانی کو پہنچے اور ان کی صلاحیتوں میں شباب آیا تو اللہ تعالیٰ نے انھیں حکم اور علم سے سرفراز فرمایا۔ اللہ تعالیٰ اس طرح ہی نیکی کرنے والوں کو جزا دیتا ہے۔ اگر حکم اور علم سے مراد نبوت ہے تو وہ انھیں مدین سے واپسی پر عطا کی گئی تھی۔ یہاں اس کا تذکرہ کرنے سے مراد بات کی تکمیل کرنا ہے کہ صرف اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو ان کی والدہ کے ہاں نہیں لوٹایا بلکہ انھیں علم نبوت اور بنی اسرائیل پر حکمران بھی بنایا تھا۔ (عَنِ ابْنِ عَبَّا سٍ قَالَ بُعِثَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لِاَرْبَعِیْنَ سَنَۃً فَمَکَثَ بِمَکَّۃَ ثَلٰثَ عَشَرَۃَ سَنَۃً یُّوْ حٰی اِلَیْہِ ثُمَّ اُ مِرَ بالْھِجْرَۃِ فَھَاجَرَ عَشْرَ سِنِیْنَ وَمَاتَ وَھُوَابْنُ ثَلٰثٍ وَّسِتِّیْنَ سَنَۃً) [ رواہ البخاری : باب مَبْعَثِ النَّبِیِّ] ” حضرت ابن عباس (رض) کا بیان ہے کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو چالیس سال کی عمر میں نبوت سے سرفراز کیا گیا۔ اس کے بعد آپ تیرہ سال مکہ معظمہ میں رہے اور آپ کی طرف وحی کی جاتی رہی۔ پھر آپ کو ہجرت کا حکم ہوا اور وہاں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دس سال بسر کیے۔ تریسٹھ سال کی عمر میں وفات پائی۔“ القصص
15 فہم القرآن ربط کلام : حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی ہجرت کا سبب۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے ایک طرف اپنی والدہ ماجدہ کی مبارک گود میں پرورش پائی اور دوسری طرف فرعون کے ہاں رہ کر امور سلطنت سے آگاہی حاصل کی۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو صرف بنی اسرائیل کا سیاسی رہنما ہی نہیں بنایا تھا بلکہ انھیں نبوت سے سرفراز فرمایا۔ اس لیے انھیں حضرت شعیب (علیہ السلام) کے پاس بھیجا تاکہ ان کی تربیت میں رہ کر پیغمبرانہ آداب سیکھ جائیں کیونکہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے جس ماحول میں پرورش پائی تھی اس میں تواضع اور انکساری کی بجائے جلال کا پہلو غالب تھا، پیغمبرانہ آداب سیکھنے کا یہ معنٰی ہرگز نہیں کہ پیغمبری کسی سے سیکھنے سے حاصل ہوتی ہے، یہ تو خالصتاً اللہ تعالیٰ کا اپنا انتخاب ہوتا ہے، جسے چاہتا ہے نبوت کے کام کے لیے منتخب کرتا ہے۔ ہوا یہ کہ ایک دن دوپہر کے وقت موسیٰ (علیہ السلام) محل سے باہر نکلے تو دیکھا کہ دو آدمی آپس میں گتھم گتھا ہیں۔ ان میں ایک آدمی اسرائیلی تھا اس نے موسیٰ (علیہ السلام) سے مدد چاہی موسیٰ (علیہ السلام) نے آگے بڑھ کر فرعون کے آدمی کو پیچھے ہٹانے کے لیے دھکا دیا تو ہاتھ لگتے ہی اس کی جان نکل گئی۔ موسیٰ (علیہ السلام) کہنے لگے یہ تو شیطان کا کام ہے جو انسان کا کھلا دشمن ہے موسیٰ (علیہ السلام) نے اس واقعہ کو اس لیے شیطان کی طرف منسوب کیا کیونکہ لوگوں کو لڑانا شیطان کا کام ہوتا ہے، موسیٰ (علیہ السلام) نے قتل کرنے کے ارادے سے اس شخص کو دھکا نہیں مارا تھا، وہ تو دونوں کو چھڑانا چاہتے تھے۔ مگر وہ شخص جان ہار بیٹھا۔ مسائل ١۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے ارادۃً فرعون کے آدمی کو قتل نہیں کیا تھا۔ ٢۔ مظلوم کی مدد کرنا انبیاء کرام (علیہ السلام) کا شیوہ اور مشن ہے۔ ٣۔ ہر برا کام شیطان کی شیطنت کی وجہ سے ہوتا ہے۔ تفسیر بالقرآن شیطان انسان کا ابدی اور ازلی دشمن ہے۔ ١۔ شیطان نے کہا تھا کہ میں انسان کو گمراہ کرنے کے لیے دائیں بائیں آگے پیچھے سے حملہ آور ہوں گا۔ ( الاعراف : ١٧) ٢۔ یقیناً شیطان تمہارا کھلا دشمن ہے۔ (الاعراف : ٢٢) ٣۔ یقیناً شیطان انسان کا واضح دشمن ہے۔ (یوسف : ٥) ٤۔ یقیناً شیطان تمہارا دشمن ہے اسے دشمن ہی سمجھو۔ (فاطر : ٦) ٥۔ یقیناً شیطان انسان کے ساتھ واضح دشمنی کرنے والا ہے۔ (بنی اسرائیل : ٥٣) ٦۔ شیطان انسان کو رسوا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ (الفرقان : ٢٩) ٧۔ شیطان لوگوں کے درمیان دشمنی ڈالنا چاہتا ہے۔ (المائدۃ: ٩١) ٨۔ شیطان نے آدم اور حوّا کو پھسلا دیا، وہ انسانوں کا کھلا دشمن ہے۔ (الاعراف : ٣٢) القصص
16 فہم القرآن ربط کلام : حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا قتل خطا پر اپنے رب سے معافی مانگنا۔ باوجود اس کے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرعون کے آدمی کو ارادتًاقتل نہیں کیا تھا۔ لیکن پھر بھی قتل آخر قتل تھا جس بناء پر موسیٰ (علیہ السلام) کو انتہائی پریشانی لاحق ہوئی۔ بے شک یہ قتل غیر ارادی طور پر ہوا تھا لیکن موسیٰ (علیہ السلام) نے محسوس کیا کہ مجھ سے زیادتی ہوئی ہے اس پر انھوں نے نہایت عاجزی کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے بخشش کی دعا کی اور اس بات کا اظہار کیا کہ اے میرے رب ! یہ تیرے کرم کا نتیجہ ہے کہ تو نے نہ صرف بچپن میں میری جان بچائی بلکہ مجھے فرعون کے ہاں رہنے کا موقع عنایت فرمایا۔ میں تیری بارگاہ میں عہد کرتا ہوں کہ میں مجرموں کا مددگار نہیں بنوں گا۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کی معذرت قبول کی اور انھیں معاف کردیا۔ یقیناً اللہ تعالیٰ معاف کرنے والا نہایت مہربان ہے۔ جہاں تک موسیٰ (علیہ السلام) کا مجرم کی مدد کرنے کا تعلق ہے اس کی وضاحت اگلی آیات میں موجود ہے۔ انسان سے غلطی ارادۃً ہو یا غیر ارادی طور پر ہر حال میں اللہ تعالیٰ سے معافی مانگنا لازم ہے : (عَنْ فَرْوَۃَ بْنِ نَوْفَلٍ الأَشْجَعِیِّ قَالَ سَأَلْتُ عَاءِشَۃَ أُمَّ الْمُؤْمِنِینَ عَمَّا کَانَ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَدْعُو بِہِ قَالَتْ کَانَ یَقُول اللَّہُمَّ إِنِّی أَعُوذُ بِکَ مِنْ شَرِّ مَا عَمِلْتُ وَمِنْ شَرِّ مَا لَمْ أَعْمَلْ) [ رواہ ابو داؤد : باب فِی الاِسْتِعَاذَۃِ] ” حضرت فروہ بن نوفل الاشجعی بیان کرتے ہیں میں نے ام المؤمنین عائشہ (رض) سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعلق سوال کیا کہ آپ کیا دعا کیا کرتے تھے تو سیدہ عائشہ نے فرمایا آپ دعا کیا کرتے تھے اے اللہ ! میں تجھ سے پناہ مانگتا ہوں ان برے اعمال سے جو مجھ سے سرزد ہوئے اور جو سرزد نہیں ہوئے۔“ مومنوں کو تعلیم : (رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَآ اِنْ نَّسِیْنَآ اَوْ اَخْطَاْنَارَبَّنَا وَ لَا تَحْمِلْ عَلَیْنَآ اِصْرًا کَمَا حَمَلْتَہٗ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِنَارَبَّنَا وَ لَا تُحَمِّلْنَا مَا لَا طَاقَۃَ لَنَا بِہٖ وَاعْفُ عَنَّاوَ اغْفِرْلَنَا وَ ارْحَمْنَااَنْتَ مَوْلٰنَا فَانْصُرْنَا عَلَی الْقَوْمِ الْکٰفِرِیْنَ) [ البقرۃ: ٢٨٦] ” اے ہمارے رب! اگر ہم بھول جائیں یا خطا کر بیٹھیں تو ہماری گرفت نہ کرنا۔ اے ہمارے رب! ہم پر وہ بوجھ نہ ڈالنا جو ہم سے پہلے لوگوں پر ڈالا گیا تھا۔ اے ہمارے رب! ہم پر وہ بوجھ نہ ڈال جس کی ہمیں طاقت نہ ہو، ہم سے درگزر فرما اور ہمیں معاف فرما دے اور ہم پر رحم فرما۔ تو ہی ہمارا مالک ہے، ہمیں کفار پر غلبہ عطا فرما۔‘ ‘ ” حضرت ابوہریرہ (رض) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : جب بندہ کوئی غلطی کرتا ہے تو اس کے دل پرسیاہ نکتہ پڑجاتا ہے جب وہ گناہ چھوڑ دے اور توبہ و استغفار کرے تو اس کا دل پالش ہوجاتا ہے۔ اگر وہ دوبارہ گناہ کی طرف پلٹے تو سیاہی اس کے دل پر چڑھ جاتی ہے یہی وہ زنگ ہے جس کا تذکرہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں کیا ہے کہ (ہرگز نہیں بلکہ ان کے دلوں پر ان کے گناہوں کی وجہ سے زنگ چڑھ چکا ہے۔) “ [ رواہ الترمذی : کتاب تفسیر القرآن ] مسائل ١۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے غیر ارادی طور پر ہونے والے قتل پر اللہ تعالیٰ سے معافی مانگی۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کی خطا کو معاف کردیا۔ ٣۔ آدمی کو کسی صورت میں مجرم کی حمایت نہیں کرنی چاہیے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ انسان کے گناہوں کو معاف کرنے والا ہے : ١۔ اللہ کی رحمت سے مایوس نہیں ہونا۔ اللہ گناہوں کو معاف کرنے والا ہے۔ (الزمر : ٥٣) ٢۔ اللہ کی رحمت دنیا کی ہر چیز سے بہتر ہے۔ (الزخرف : ٣٢) ٣۔ اللہ کی رحمت نیکو کاروں کے قریب ہوتی ہے۔ (الاعراف : ٥٦) ٤۔ اللہ کی رحمت سے گمراہ لوگ ہی مایوس ہوتے ہیں۔ (الحجر : ٥٦) ٥۔ ” اللہ“ کی رحمت نے ہر چیز کو گھیر رکھا ہے۔ (الاعراف : ١٥٦) ٦۔ تیرا پروردگار بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔ (الکہف : ٥٨) ٧۔ یہی لوگ اللہ تعالیٰ کی رحمت کے امیدوار ہیں اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔ (البقرۃ: ٢١٨) ٨۔ اے رب ہمیں معاف کردے اور ہم پر رحم فرما تو سب سے زیادہ رحم کرنے والا ہے۔ (المومنون : ١٠٩) القصص
17 القصص
18 فہم القرآن ربط کلام : ناعاقبت اندیش اور نام نہاد مظلوم کی وجہ سے موسیٰ (علیہ السلام) کو وطن چھوڑنا پڑا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ سے قتل خطا کی معافی مانگتے ہوئے یہ بھی عرض کی تھی کہ بارِ الٰہ! میں تجھ سے عہد کرتا ہوں کہ میں مجرم کی حمایت نہیں کروں گا۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے جس شخص کی حمایت کی تھی وہ کتنا ناعاقبت اندیش اور بدفطرت تھا کہ جب موسیٰ (علیہ السلام) اگلی صبح کل کے واقعہ کی وجہ سے ڈرتے ہوئے گھر سے باہر نکلے تو کیا دیکھتے ہیں کہ وہی شخص آج پھر موسیٰ (علیہ السلام) کو اپنی مدد کے لیے پکار رہا ہے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے طیش میں آکر فرمایا تو تو بڑا ظالم اور برا شخص ہے۔ یہ کہتے ہوئے موسیٰ نے ارادہ کیا کہ دشمن قوم کے آدمی کو پکڑیں تو جس کی کل حمایت کی تھی وہ کہنے لگا کہ اے موسیٰ کیا آج تو مجھے اسی طرح قتل کرنے لگا ہے جس طرح کل ایک شخص کو قتل کرچکا ہے تو اس ملک میں جبّار بن کر رہنا چاہتا ہے اصلاح کرنا نہیں چاہتا۔ یہ بھی ہوسکتا ہے موسیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کل والے شخص کو پیچھے ہٹانا چاہتے ہوں جب آگے بڑھے تو اس نے شور مچا دیا کہ اے موسیٰ تو مجھے بھی کل کی طرح قتل کرنا چاہتا ہے۔ بنی اسرائیل اور فرعون کی قوم کے درمیان ظالم اور مظلوم کشمکش تھی۔ موسیٰ (علیہ السلام) بنی اسرائیل سے تعلق رکھتے تھے۔ نہ معلوم اس وجہ سے فرعون کی قوم میں موسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں کس قدر خدشات پائے جاتے تھے ؟ فرعون کی قوم بالخصوص بر سر اقتدار لوگوں کے لیے موسیٰ (علیہ السلام) کا وجود بالیقین ناقابل برداشت تھا کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ یہ جوان فرعون کی آنکھوں کا تارا ہے اور فرعون کے بعد اسے ہی اقتدار حاصل ہوگا۔ بالخصوص انھیں اس لیے بھی موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ رقابت تھی کہ بنی اسرائیل کا ایک شخص اقتدار کے ایوانوں میں اس قدر کیوں مقبول ہوچکا ہے۔ جونہی انھیں معلوم ہوا کل کے مقتول کو موسیٰ (علیہ السلام) نے قتل کیا ہے تو ان کا حسد و بغض اپنی انتہا کو پہنچا اور انھوں نے قتل کے محرکات جانے اور موسیٰ (علیہ السلام) کا مؤقف سنے بغیر ہی فیصلہ کرلیا کہ موسیٰ (علیہ السلام) کو فی الفور قتل کردینا چاہیے۔ اُنہی میں سے ایک شخص صبح کے وقت دوڑتا ہوا موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس پہنچا اور سرداران فرعون کا فیصلہ سناتے ہوئے عرض کی۔ ” اے موسیٰ ( علیہ السلام) ! فرعون کے وزیروں، مشیروں نے آپ کو قتل کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ میں آپ کو خیر خواہانہ مشورہ دیتا ہوں کہ آپ فوری طور پر یہاں سے نکل جائیں۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) یہ خبر سنتے ہی ڈرتے ہوئے بھاگ نکلے کہ کہیں میرا تعاقب نہ ہوجائے۔ اس کے ساتھ ہی موسیٰ (علیہ السلام) اپنے رب سے فریاد کرنے لگے ” اے میرے رب ! مجھے ظالم قوم سے نجات عطا فرما۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے دو وجہ سے قوم فرعون کو ظالم قرار دیا تھا۔ ایک یہ کہ قتل کے اسباب جاننے اور مؤقف سنے بغیر انہوں نے موسیٰ (علیہ السلام) کو قتل کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے سہوًا ایک آدمی قتل ہوا تھا لیکن انھوں نے موسیٰ (علیہ السلام) کی قوم کے ہزاروں آدمی اور معصوم بچوں کو قتل کیا تھا اس لیے موسیٰ (علیہ السلام) نے انھیں ظالم قوم قرار دیا۔ مسائل ١۔ ناعاقبت اندیش اور ظالم کی مدد نہیں کرنی چاہیے۔ ٢۔ نادان دوست انسان کو کسی بھی آزمائش میں مبتلا کرسکتا ہے۔ ٣۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے مشکل کے وقت صرف اللہ تعالیٰ سے مدد مانگی۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی مشکل حل کرنے والا نہیں۔ تفسیر بالقرآن دشمن کے مقابلے میں انبیاء (علیہ السلام) کا اللہ تعالیٰ سے مدد مانگنا : ١۔ نوح نے بدعا کی کہ الٰہی زمین پر ایک بھی کافر نہ چھوڑیے۔ (نوح : ٢٦) ٢۔ اے اللہ! فساد کرنے والی قوم کے مقابلہ میں میری مدد فرما۔ (حضرت لوط (علیہ السلام) کی دعا) (العنکبوت : ٣٠) ٣۔ اے ہمارے رب! تو ہمارے درمیان اور ہماری قوم کے درمیان فیصلہ فرما دے (حضرت شعیب (علیہ السلام) کی دعا)۔ (الاعراف : ٨٩) ٤۔ اے ہمارے پروردگار! ان کے اموال کو ختم کردے اور ان کے دلوں کو سخت فرما۔ (حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی بددعا)۔ (یونس : ٨٨) ٥۔ اللہ کے سوا کوئی مدد نہیں کرسکتا۔ (الانفال : ١٠) ٦۔ اللہ ہی سے مدد مانگنا چاہیے۔ (البقرۃ : ٤٥) ٧۔ اللہ ہی بہترین مولا اور بہترین مددگار ہے۔ ( حج : ٧٨) القصص
19 القصص
20 القصص
21 القصص
22 فہم القرآن ربط کلام : حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی ملک مدین کی طرف ہجرت اور راستے کی رہنمائی کے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا کرنا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے مصر میں پیدائش پائی اور ان کی تربیت بھی مصر شہر میں ہوئی تھی۔ ملک مصر سے باہر موسیٰ (علیہ السلام) کا یہ پہلا سفر تھا وہ بھی انتہائی غم اور پریشانی کے عالم میں اچانک پیش آیا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نہیں جانتے تھے کہ مدین کی طرف کون سا راستہ جاتا ہے۔ معلوم نہیں کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے ارادۃً مدین کا سفر اختیار کیا یا اللہ تعالیٰ نے انھیں القاء فرمایا کیونکہ ابھی تک موسیٰ (علیہ السلام) کو نبوت عطا نہیں کی گئی تھی۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ مدین مصر کے قریب تر ہو۔ بہر حال یہ حقیقت اپنی جگہ مسلمہ ہے کہ مدین مصر میں شامل نہ تھا۔ جس وجہ سے فرعون کی وہاں تک رسائی نہ تھی۔ اِ ن وجوہات کے پیش نظر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے مدین کی طرف رخ کیا اور راستے میں مسلسل دعا کرتے رہے کہ میرے رب ! مجھے صحیح راستے کی رہنمائی فرما۔ جب موسیٰ (علیہ السلام) مدین کے قریب پہنچے تو انھوں نے ایک گروہ کو اپنی بھیڑ بکریوں کو کنویں سے پانی پلاتے ہوئے پایا۔ جب وہ کنویں کے قریب پہنچے تو دیکھا کہ دونو جوان لڑکیاں پانی کے انتظار میں کنویں سے ذراہٹ کر کھڑی ہوئی ہیں۔ لوگ ایک دوسرے سے آگے بڑھ کر اپنے جانوروں کو پانی پلائے جا رہے ہیں۔ کسی نے خیال نہ کیا کہ ہم بچیوں کو جانوروں کو پانی پلانے کا موقع دیں۔ اس سے مدین کے معاشرے کی اخلاقی گراوٹ کا پتہ چلتا ہے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے یہ صورتحال دیکھی تو بے قرار ہو کر لڑکیوں کی طرف القصص
23 گئے، پوچھاکہ آپ یہاں کیوں کھڑی ہیں ؟ انھوں نے حیا دار لہجے میں کہا کہ ہمارے باپ بوڑھے ہیں ہم اکیلی ہیں اور اس وقت تک اپنی بکریوں کو پانی نہیں پلا سکتیں جب تک یہ لوگ اپنے جانوروں کو پانی پلا کر فارغ نہیں ہوپاتے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کنویں کی طرف بڑھے اور لوگوں کو پیچھے ہٹا کر لڑکیوں کی بکریوں کو پانی پلایا خود پیچھے ہٹ کر ایک درخت کے سائے میں بیٹھ کر دعا کرنے لگے۔ میرے رب ! میں ایک پردیسی اور بھوکا آدمی ہوں تو جو بھی مجھ پر خیر نازل کرے گا میں اس کا محتاج اور طلب گار ہوں۔ یعنی میرے پاس کچھ بھی نہیں اس لیے ہر چیز کا محتاج ہوں۔ دوسروں کی خدمت کرنے والوں کا اجر : عَنْ اَبِیْ ھُرَےْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَنْ نَّفَّسَ عَنْ مُّؤْمِنٍ کُرْبَۃً مِّنْ کُرَبِ الدُّنْےَا نَفَّسَ اللّٰہُ عَنْہُ کُرْبَۃً مِّنْ کُرَبِ ےَوْمِ الْقِےٰمَۃِ وَمَنْ یَّسَّرَ عَلٰی مُعْسِرٍ ےَسَّرَ اللّٰہُ عَلَےْہِ فِی الدُّنْےَا وَالْاٰخِرَۃِ وَمَنْ سَتَرَ مُسْلِمًا سَتَرَہُ اللّٰہُ فِی الدُّنْےَا وَالْاٰخِرَۃِ وَاللّٰہُ فِیْ عَوْنِ الْعَبْدِ مَا کَانَ الْعَبْدُ فِیْ عَوْنِ اَخِےْہِ وَمَنْ سَلَکَ طَرِےْقًا یَّلْتَمِسُ فِےْہِ عِلْمًا سَھَّلَ اللّٰہُ لَہُ بِہٖ طَرِےْقًا اِلَی الْجَنَّۃِ وَ مَا اجْتَمَعَ قَوْمٌ فِی بَےْتٍ مِّنْبُےُوْتِ اللّٰہِ ےَتْلُوْنَ کِتَاب اللّٰہِ وَےَتَدَارَسُوْنَہُ بَےْنَھُمْ اِلَّا نَزَلَتْ عَلَےْھِمُ السَّکِےْنَۃُ وَغَشِےَتْھُمُ الرَّحْمَۃُ وَحَفَّتْھُمُ الْمَلٰءِکَۃُ وَذَکَرَھُمُ اللّٰہُ فِےْمَنْ عِنْدَہُ وَمَنْ بَطَّأَ بِہٖ عَمَلُہُ لَمْ ےُسْرِعْ بِہٖ نَسَبُہُ[ رواہ مسلم : باب فَضْلِ الاِجْتِمَاعِ عَلَی تلاَوَۃِ الْقُرْآنِ وَعَلَی الذِّکْرِ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) ہی رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان نقل کرتے ہیں جس نے کسی مومن کو دنیا کی پر یشانی سے نجات دلائی‘ اللہ تعالیٰ اس کو قیامت کی مشکلات سے نجات عطا فرمائے گا۔ جس نے کسی تنگ دست کے لیے آسانی پیدا کی اللہ تعالیٰ اس کے لیے دنیا وآخرت میں آسانی پیدا فرمائے گا جو کسی مسلمان کی عیب پوشی کرے گا۔ اللہ تعالیٰ دنیا وآخرت میں اس کے عیوب پر پردہ ڈالے گا۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندہ کی مدد فرماتا ہے جب تک بندہ اپنے مسلمان بھائی کی مدد کرتا ہے۔ جو حصول علم کے لیے سفر اختیار کرتا ہے رب کریم اس کے لیے جنت کا راستہ آسان کرتے ہیں۔ جب بھی لوگ اللہ کے گھروں میں سے کسی گھر یعنی مسجد میں جمع ہو کر قرآن مجیدکی تلاوت اور آپس میں تعلیم وتعلّم کا سلسلہ جاری کرتے ہیں تو ان پر سکون اور اللہ کی رحمت سایہ فگن ہوتی ہے ملائکہ انہیں اپنے گھیرے میں لے لیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ اپنے مقرب فرشتوں میں ان کا ذکر فرماتے ہیں جو شخص اپنے کردار کی وجہ سے پیچھے رہ گیا اس کا حسب نسب اس کو آگے نہیں کرسکے گا۔“ (عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِی ِّ أَنَّ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ لِیَسْأَلْ أَحَدُکُمْ رَبَّہُ حَاجَتَہُ حَتَّی یَسْأَلَہُ الْمِلْحَ وَحَتَّی یَسْأَلَہُ شِسْعَ نَعْلِہِ إِذَا انْقَطَعَ) [ رواہ الترمذی : باب لیسئل احدکم ربہ] ” حضرت ثابت بنانی بیان کرتے ہیں کہ بیشک رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تمہیں اپنی ضرورت کی ہر چیز رب سے مانگنی چاہیے، حتیٰ کہ نمک، اور جوتے کا ٹوٹا ہوا تسمہ بھی۔“ مسائل ١۔ مجبورلوگوں کی مدد کرنا انبیاء (علیہ السلام) کی سنت ہے۔ ٢۔ مجبوری کے عالم میں شریعت کی حدود میں رہ کر عورت محنت مزدوری کرسکتی ہے۔ ٣۔ انسان کو اپنی ہر حاجت اپنے رب کے حضور پیش کرنی چاہیے۔ تفسیر بالقرآن انبیاء کرام (علیہ السلام) کا اپنے رب سے مانگنا : ١۔ یعقوب (علیہ السلام) نے کہا میں اپنی بے قراری اور غم کی شکایت صرف اللہ کے حضور پیش کرتا ہوں۔ (یوسف : ٨٦) ٢۔ آدم (علیہ السلام) نے کہا ہمارے رب ! ہم نے اپنے آپ پر ظلم کیا اگر تو ہمیں معاف نہیں کرے گا اور رحم نہیں فرمائے گا تو ہم یقیناً نقصان اٹھائیں گے۔ (الاعراف : ٢٣) ٣۔ ایوب (علیہ السلام) نے دعا کی اے میرے پروردگار ! مجھے بیماری لگ گئی ہے اور تو سب سے بڑھ کر رحم کرنے والا ہے۔ (الانبیاء : ٨٣) ٤۔ یونس (علیہ السلام) نے اندھیروں میں اللہ تعالیٰ کو پکارا۔ تیرے سوا کوئی الٰہ نہیں تو پاک ہے اور میں ہی قصور وار ہوں۔ (الانبیاء : ٨٧) ٥۔ زکریا (علیہ السلام) نے کہا اے میرے پروردگار ! مجھے تنہا نہ چھوڑ اور تو ہی بہترین وارث ہے۔ (الانبیاء : ٨٩) القصص
24 القصص
25 فہم القرآن ربط کلام : حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی دعا مستجاب ہوئی جس کے بدلے میں اللہ تعالیٰ نے انھیں بہترین ٹھکانہ عنایت فرمایا۔ اِدھر موسیٰ (علیہ السلام) دعا کر رہے تھے ادھر لڑکیوں نے گھر جا کر اپنے والد گرامی حضرت شعیب (علیہ السلام) کو واقعہ عرض کیا کہ آج اس لیے ہم جلد واپس آگئی ہیں ایک مسافر نے ہمارے ساتھ یہ تعاون کیا ہے۔ ظاہر ہے لڑکیوں نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی حیاء اور بھیڑ میں پانی پلانے کے واقعے کی قدرے تفصیل بیان کی ہوگی۔ جس سے متاثر ہو کر حضرت شعیب (علیہ السلام) نے اپنی ایک بیٹی کو بھیجا کہ وہ اس مسافر کو بلا لائے تاکہ اس کی اس خدمت کا بدلہ اور شکریہ ادا کیا جائے۔ پیغمبر کی صاحبزادی اس چال ڈھال کے ساتھ چلی کہ قرآن مجید نے قیامت تک اس کی حیا دار چال کا نقشہ محفوظ فرما دیا۔ جس کا تذکرہ قرآن مجید ان الفاظ میں پیش کرتا ہے کہ دونوں میں سے ایک لڑکی حیا دار چال، ڈھال کے ساتھ چلتی ہوئی موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس پہنچی اور آکر کہا کہ میرے والد محترم آپ کو اپنے ہاں بلا رہے ہیں تاکہ جو آپ نے ہمارے ساتھ بکریوں کو پانی پلانے میں جو تعاون کیا ہے اس کا صلہ دیا جائے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) بھوکے اور پردیسی تھے انھیں کھانے اور ٹھکانے کی ضرورت تھی۔ لڑکی کی بات سنتے ہی چل پڑے اور لڑکی سے کہا کہ میں آگے چلتا ہوں آپ میرے پیچھے پیچھے آئیں اور مجھے گھر کی نشاندہی کرتے جائیں۔ مفسرین نے لکھا ہے کہ انھوں نے یہ کام اس لیے کیا تاکہ لڑکی کو اپنا پردہ سنبھالنے میں آسانی رہے۔ جب موسیٰ (علیہ السلام) حضرت شعیب (علیہ السلام) کی خدمت میں پہنچے تو اپنی ہجرت کا سبب اور مصر کے حالات تفصیل کے ساتھ ان کے سامنے بیان کیے۔ حضرت شعیب (علیہ السلام) نے موسیٰ (علیہ السلام) کو تسلی اور حوصلہ دیا کہ آپ بالکل بے فکر ہو کر یہاں ٹھہریں۔ آپ ظالموں سے نجات پا چکے ہیں یہاں آپ کو کوئی خوف و خطرہ نہیں ہوگا۔ حیا کی اہمیت : (عَنْ عُقْبَۃَ قَالَ قَال النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) إِنَّ مِمَّا أَدْرَکَ النَّاسُ مِنْ کَلَام النُّبُوَّۃِ إِذَا لَمْ تَسْتَحْیِ فَافْعَلْ مَا شِءْتَ) [ رواہ البخاری : کتاب احادیث الأنبیاء، باب حدیث الغار] ” حضرت عقبہ (رض) فرماتے ہیں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بلاشبہ لوگوں نے نبوت کے کلام سے جو چیز حاصل کی اس میں یہ ہے کہ جب تجھ میں شرم و حیاء نہ رہے تو پھر جو مرضی کرتا رہ۔“ (عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّہِ عَنْ أَبِیہِ أَنَّ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَرَّ عَلَی رَجُلٍ مِنَ الأَنْصَارِ وَہُوَ یَعِظُ أَخَاہُ فِی الْحَیَاءِ، فَقَالَ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دَعْہُ فَإِنَّ الْحَیَاءَ مِنَ الإِیمَانِ) [ رواہ البخاری : باب الْحَیَاءُ مِنَ الإِیمَانِ ] ” حضرت سالم بن عبداللہ اپنے باپ سے بیان کرتے ہیں کہ بیشک رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ایک انصاری آدمی کے پاس سے گزرہوا وہ اپنے بھائی کو حیا کے متعلق نصیحت کر رہا تھا آپ نے فرمایا اسے چھوڑ دو بے شک حیا ایمان کا حصہ ہے۔“ ” حضرت عمران بن حصین (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا حیا میں خیر ہی خیر ہے بشیر بن کعب نے کہا حکمت کی کتاب میں بھی یہ بات درج ہے کہ بے شک حیا کی وجہ سے وقار آتا ہے اور حیا کی وجہ سے تسکین ملتی ہے عمران بن حصین بشیر بن کعب سے کہنے لگے کہ میں تجھے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان سنا رہا ہوں اور تو مجھے اپنے صحیفہ کے متعلق بتا رہا ہے۔“ [ رواہ البخاری : باب الْحَیَاءِ ] مسائل ١۔ غمزدہ اور پریشان حال شخص کی مدد کرنا انبیاء (علیہ السلام) کی سنت ہے۔ ٢۔ آدمی کوشش کرے تو اللہ تعالیٰ نجات کا راستہ پیدا کردیتا ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ ہی ظالموں سے نجات دینے والا ہے۔ ١۔ حضرت نوح اور ان کے پیرو کاروں کی دعا تمام تعر یفات اس ذات کے لیے ہیں جس نے ہمیں ظالموں سے نجات دی۔ (المومنون : ٢٨) ٢۔ بنی اسرائیل نے کہا اے اللہ ہمیں ظالم قوم کی آزمائش سے بچانا۔ (یونس : ٨٥) ٣۔ حضرت آسیہ (رض) کی التجا اے میرے رب مجھے ظالم قوم سے نجات دے۔ (تحریم : ١١) ٤۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعا اے میرے رب مجھے ظالم قوم سے بچا۔ (المومنون : ٩٤) ٥۔ اصحاب الاعراف قیامت کے دن کہیں گے اے ہمارے رب ہمیں ظالم قوم میں شامل نہ فرمانا۔ (الاعراف : ٤٧) القصص
26 فہم القرآن ربط کلام : موسیٰ (علیہ السلام) کا شعیب (علیہ السلام) کے گھر جانا اور شعیب (علیہ السلام) کا انہیں گھر داماد بنانا۔ حضرت شعیب (علیہ السلام) نہایت بوڑھے اور ضعیف ہوچکے تھے جس بناء پر ان کی بچیاں ان کی بھیڑ بکریوں کی نگرانی کرتی تھیں۔ ان کی برادری میں کوئی ایسا حیا دار جوان نہ تھا جس پر اعتماد کیا جا سکے یہ بھی ہوسکتا ہے کہ حضرت شعیب مالی لحاظ سے کمزور ہوں جس وجہ سے ملازم رکھنے کی گنجائش نہ ہو۔ جونہی موسیٰ (علیہ السلام) کی صورت میں انھیں ایک جوان میسر آیا جو خود بھی ضرورت مند تھا اس لیے اسے گھریلو ملازم رکھنے کا فیصلہ کرلیا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ حضرت شعیب (علیہ السلام) کو موسیٰ (علیہ السلام) کی آمد کا اشارہ مل چکا ہو۔ تاہم بظاہر واقعہ یہ ہے کہ جب حضرت شعیب (علیہ السلام) کی بیٹیوں نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی حیا اور ان کی طاقت کا اس بات سے اندازہ کیا کہ کنویں کا ڈول جسے کئی آدمی مل کر کھینچنے تھے، موسیٰ (علیہ السلام) نے اکیلے ہی کھینچ کر ان کی بکریوں کو پانی پلایا۔ اس بات سے اندازہ کرتے ہوئے دو بیٹیوں میں سے ایک بیٹی نے والد سے درخواست کی کہ ہمیں صالح کردار ایک ملازم کی ضرورت ہے کیوں نہ ہو ابا جان اس شخص کو اپنے ہاں ملازم رکھ لیا جائے یہ شرم و حیا کے اعتبار سے امانتدار اور صحت کے لحاظ سے طاقتور ہے۔ قرآن مجید نے بچیوں کی عفت اور حیا کے پیش نظر وضاحت نہیں فرمائی کہ موسیٰ (علیہ السلام) کو گھر ملازم رکھنے کے لیے کس بچی نے سفارش کی تھی حالانکہ بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ یہ بات اس بچی نے کہی ہوگی جو موسیٰ (علیہ السلام) کو بلانے گئی تھی۔ حضرت شعیب نے موسیٰ ( علیہ السلام) سے فرمایا میں چاہتا ہوں دو میں سے ایک بیٹی کا آپ سے نکاح کردیا جائے لیکن شرط یہ ہے کہ حق مہر کے طور پر تو آٹھ یا دس سال میرے ہاں ملازمت کرے میں تجھ پر کوئی سختی نہیں کروں گا۔ انشاء اللہ تو میرا رویہ انتہائی صالح لوگوں جیسا پائے گا۔ موسیٰ (علیہ السلام) پہلے ہی چاہتے تھے کہ مجھے کوئی اچھا ٹھکانہ مل جائے اس لیے انھوں نے کہا کہ مجھے یہ بات منظور ہے البتہ یہ میری مرضی پر منحصر ہوگا کہ میں آٹھ سال کے بعد مزید دو سال آپ کی خدمت میں رہوں یا آٹھ سال پورے ہونے پر آپ سے فراغت چا ہوں۔ ہاں ! اگلے سال مدّت کے معاملہ میں مجھ پر کوئی جبر نہیں ہونا چاہیے۔ جو میرے اور آپ کے درمیان معاہدہ طے پایا ہے اللہ ہی اس پر نگران ہے۔ لہٰذا وقت کے پیغمبر حضرت شعیب (علیہ السلام) اور مستقبل کے پیغمبر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے درمیان یہ معاہدہ طے پایا۔ اس طرح موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی ذمّہ داری کا آغاز کیا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے سسر حضرت شعیب (علیہ السلام) کے بارے میں کچھ لوگوں کا اصرار ہے کہ وہ نبی نہیں تھے، حالانکہ ان کے پاس اس بات کی نفی کرنے کے لیے کوئی ٹھوس دلائل موجود نہیں۔ گو اس معاملہ میں دونوں طرف سے قطعی دلائل نہیں پائے جاتے تاہم یہ بات قابل غور ہے۔ جس شخصیت کو اللہ تعالیٰ نے فرعون کی طرف نبی بنا کر بھیجنا تھا اسے عام آدم کی بجائے خاص شخصیت کے ہاں رکھنا کہیں بہتر تھا۔ قرآن مجید کے الفاظ سے واضح طور پر یہ معلوم ہو رہا ہے کہ اس معاہدہ کے ساتھ یا کچھ دنوں کے بعد ہی حضرت شعیب (علیہ السلام) نے موسیٰ (علیہ السلام) سے اپنی بیٹی کا نکاح کردیا تاکہ وہ گھر کے فرد کی حیثیت سے رہیں اور پردہ کے معاملہ میں کوئی دقّت پیش نہ آئے۔ اس بات سے یہ بھی اشارہ ملتا ہے جونہی بیٹی کے لیے نیک رشتہ میسر ہو تو آدمی کو اس فرض سے سبکدوش ہونے کی جلد کوشش کرنی چاہیے۔ باحیا نوجوان کو خود رشتہ کی پیشکش کرنے میں بھی کوئی حرج اور غیرت کے منافی بات نہیں ہے۔ اس واقعہ سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ ضروری نہیں کہ حق مہر جائیداد یا روپے کی شکل میں ہو۔ تاہم حق مہر میں داماد کی مالی حیثیت کا خیال رکھنا نہایت ضروری ہے۔ حق مہر کی حیثیت : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) چند صحابہ (رض) میں تشریف فرما تھے ایک عورت نے (اپنے حالات سے مجبور ہو کر) اپنے آپ کو نکاح کے لیے آپ کی خدمت میں پیش کیا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خاموش رہے۔ اتنے میں ایک شخص عرض کرنے لگا اگر آپ آمادہ نہیں تو میں اس عورت کے ساتھ نکاح کرنے کے لیے تیار ہوں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں کہ تیرے پاس حق مہر کے لیے کچھ ہے؟ اس نے عرض کیا یہ چادر جو میں نے لپیٹ رکھی ہے اس کے علاوہ میرے پاس کچھ نہیں۔ فرمایا کہ چادر اپنے پاس رکھو اور حق مہر کے لیے لوہے کی انگوٹھی ہی لے آؤ۔ کوشش کے باوجود اسے انگوٹھی بھی میسر نہ ہوسکی وہ خالی ہاتھ واپس آیا۔ آپ پوچھتے ہیں کہ تجھے قرآن مجید یاد ہے؟ تو اس نے عرض کی کہ مجھے فلاں فلاں سورتیں یاد ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ یہ سورتیں حق مہر کے طور پر اپنی بیوی کو یاد کروا دینا۔ [ بخاری : کتاب النکاح] تین کاموں میں جلدی کرنا چاہیے : (عَنْ عَلِیِّ بْنِ أَبِی طَالِبٍ أَنَّ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ لَہُ یَا عَلِیُّ ثَلاَثٌ لاَ تُؤَخِّرْہَا الصَّلاَۃُ إِذَا آنَتْ وَالْجَنَازۃُ إِذَا حَضَرَتْ وَالأَیِّمُ إِذَا وَجَدْتَ لَہَا کُفْؤًا) [ رواہ الترمذی : باب مَا جَاءَ فِی الْوَقْتِ الأَوَّلِ مِنَ الْفَضْلِ] ” حضرت علی بن ابی طالب (رض) بیان کرتے ہیں۔ بے شک نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے کہا اے علی تین کاموں میں تاخیر نہیں کرنی۔ جب نماز کا وقت ہوجائے، جب جنازہ حاضر ہو اور جب ہم پلہ رشتہ میسر آجائے۔“ مسائل ١۔ ملازم پر سختی نہیں کرنا چاہیے۔ ٢۔ معاہدہ کی پاسداری کرنا فریقین پر فرض ہے۔ ٣۔ سُسر کو داماد اور داماد کو سسر کے حقوق کا خیال رکھنا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن اللہ ہی کار ساز ہے اسی پر توکل کرنا چاہیے : ١۔ اللہ ہر چیز کو پیدا کرنے والا ہے، بس تم اس کی عبادت کرو اور وہ ہر چیز پر کارساز ہے۔ (الانعام : ١٠٢) ٢۔ بے شک آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ڈرانے والے ہیں اور اللہ ہی ہر چیز کا کارساز ہے۔ (ہود : ١٢) ٣۔ اللہ ہر چیز کا قادر ہے اور وہ ہر چیز پر کارساز ہے۔ (الزمر : ٤١) ٤۔ جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے اللہ ہی کا ہے اور وہی کافی ہے کارساز۔ (النساء : ١٣٢) ٥۔ میرے بندوں پر شیطان کا داؤ پیچ نہیں چلے گا۔ اللہ اپنے بندوں کے لیے کار ساز ہے۔ (بنی اسرائیل : ٦٥) ٦۔ وہ مشرق ومغرب کا رب ہے اس کے سوا کوئی الٰہ نہیں اسی کو کار سازمانو۔ (المزمل : ٩) القصص
27 القصص
28 القصص
29 فہم القرآن ربط کلام : حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا اپنی اہلیہ کے ساتھ اپنے وطن واپس آنا۔ قرآن مجید اور حدیث مبارکہ میں اس بات کی وضاحت موجود نہیں کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے معاہدہ کے مطابق آٹھ سال پورے کیے یا اختیاری مدت کے مطابق دس (١٠) سال مدین میں گزارے قرآن مجید کا ارشاد ہے کہ جب موسیٰ (علیہ السلام) نے مدّت پوری کرلی تو حضرت شعیب (علیہ السلام) سے اجازت لے کر اپنی اہلیہ کے ساتھ مصر کی طرف روانہ ہوئے راستہ میں طور پہاڑ کے دامن میں انھوں نے جلتی ہوئی آگ دیکھی۔ اپنی اہلیہ سے فرمایا کہ تم ٹھہرو میں وہ آگ دیکھ رہا ہوں وہاں سے راستہ کی معلومات حاصل کروں یا آگ کے کچھ انگارے لاؤں تاکہ تم تاپ سکو۔ جب موسیٰ (علیہ السلام) اس آگ کے قریب پہنچے تو انھیں اس وادی کے دائیں جانب سے بابرکت جگہ میں ایک درخت سے آواز دی گئی اے موسیٰ (علیہ السلام) ! یقیناً میں اللہ ہوں سب جہانوں کا رب ہوں۔ ” موسیٰ وہاں پہنچے تو پکارا گیا اے موسیٰ۔ میں ہی تیرا رب ہوں تو اپنے جوتے اتار دے تو وادی مقدس طویٰ میں پہنچ چکا ہے اور میں نے تجھ کو چن لیا ہے جو کچھ وحی کی جاتی ہے توجہ سے سنو۔ میں ہی اللہ ہوں۔ میرے سوا کوئی معبود نہیں پس میری بندگی کرو اور میری یاد کے لیے نماز قائم کرو۔“ ( طٰہٰ: ١١ تا ١٤ ) القصص
30 حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی اہلیہ کے لیے جمع کی ضمیر استعمال فرمائی۔ ” اُمْکُثُوْا، تم ٹھہرو۔“ ہوسکتا ہے کہ جس طرح اردو زبان میں ہم واحد مخاطب کے لیے جمع مخاطب کی ضمیر استعمال کرتے ہیں۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اس بناء پر جمع کی ضمیر استعمال کی ہو۔ البتہ تورات میں موجود ہے کہ مدین میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے ہاں دو بچے پیدا ہوچکے تھے۔ جو سفر میں ان کے ساتھ تھے جس وجہ سے انھوں نے جمع کی ضمیر استعمال فرمائی۔ بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ انھوں نے جمع کی ضمیر اس لیے استعمال کی کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ ان کی اہلیہ، بیٹا اور ایک خادم بھی تھا۔ جس بناء پر انھوں نے اپنی اہلیہ کے لیے واحد مخاطب کی ضمیر استعمال کرنے کی بجائے جمع مخاطب کی ضمیر استعمال کی۔ بہر حال موسیٰ (علیہ السلام) اپنے گھر والوں کو وہاں ٹھہرا کر طور کے دامن کے قریب پہنچے تو انھیں اِ ن الفاظ سے مخاطب کیا گیا کہ اے موسیٰ ! آپ مبارک اور مقدس جگہ پر پہنچ چکے ہیں لہٰذا اپنا جوتا اتار دیں اور جو کچھ آپ کو کہا جا رہا ہے اسے پوری توجہ کے ساتھ سنو اور یقین کرو۔ میں اللہ ہی جہانوں کو پیدا کرنے والا اور انھیں رزق دینے والا ہوں۔ میرے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں لہٰذا صرف میری ہی عبادت کرو۔ میری یاد کے لیے میرے حضور نماز ادا کرتے رہو۔ (طٰہٰ: ١٤) موسیٰ (علیہ السلام) کو پوری طرح یقین ہوگیا کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام کے ساتھ سرفراز فرمایا ہے اور واقعی ہی میرے ساتھ کائنات کا رب کلام فرما رہا ہے اور میرے رب نے مجھے نبوت سے سرفراز کردیا ہے تو اس وقت حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو دوعظیم معجزے عنایت کیے گئے۔ میرے مطالعہ کے مطابق حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پہلے پیغمبر ہیں جنھیں اللہ تعالیٰ نے سفر کے دوران نبوت عطا فرمائی اور اعلان نبوت کے ساتھ ہی دو عظیم معجزات عطا کیے۔ ” اے موسیٰ یہ تیرے ہاتھ میں کیا ہے ؟ (١٧) موسیٰ نے جواب دیا یہ میری لاٹھی ہے اس پر ٹیک لگا کر چلتا ہوں، اس سے اپنی بکریوں کے لیے پتے جھاڑتا ہوں اور بھی بہت سے کام ہیں جو اس سے لیتا ہوں۔ (١٨) ” فرمایا اے موسیٰ اپنا عصا پھینک یکایک عصا سانپ بن کر دوڑنے لگا۔ فرمایا پکڑ لے اس کو ڈرنا نہیں ہم اسے پھر ویسا ہی کردیں گے جیسے پہلے تھا۔ اور اب اپنا ہاتھ اپنی بغل میں دباکر نکال جو بغیر کسی تکلیف کے چمکتا ہوا نکلے گا یہ دوسری نشانی ہے۔ کیونکہ ہم آپ کو اپنی بڑی بڑی نشانیاں دکھانے والے ہیں۔ اب سرکش فرعون کے پاس جا۔ موسیٰ نے کہا پروردگار میرا سینہ کھول دے اور میرے کام کو میرے لیے آسان فرمادے اور میری زبان کی گرہ کھول دے تاکہ لوگ میری بات سمجھ پائیں۔ میرے لیے میرے گھرو الوں سے ایک وزیر مقرر کر دے۔ ہارون کو جو میرا بھائی ہے اس کے ساتھ میری پشت مضبوط کردے اور اس کو میرے کام میں شریک فرمادے تاکہ ہم خوب تیری پاکی بیان کریں۔“ (طٰہٰ: ١٧ تا ٣٣) ” اپناہاتھ اپنے گریبان میں ڈالو وہ چمکتا ہوانکلے گا بغیر کسی تکلیف کے۔ فرعون اور اس کی قوم کی طرف لے جانے کے لیے یہ دونشانیاں نونشانیوں میں سے ہیں کیونکہ وہ بڑے نافرمان لوگ ہیں۔“ ( النمل : ١٢) مسائل ١۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے سفر کے دوران کوہ طورکے دامن میں مقدس وادی میں ایک درخت پر آگ دیکھی۔ ٢۔ آگ سے آواز آئی کہ اے موسیٰ (علیہ السلام) ! میں اللہ ہوں اور رب العالمین ہوں۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ کے صفاتی نام ” رب“ کے معانی ١۔ سب کو پالنے والا۔ (الفاتحۃ: ١) ٢۔ ساری کائنات کا خالق۔ (الانعام : ١٠٢) ٣۔ کائنات کا مالک۔ (یونس : ٣١) ٤۔ کائنات کا نظام چلانے والا۔ (فاطر : ١٣) ٥۔ حاکم مطلق۔ (یوسف : ٤٠) ٦۔ پیدا کرنے والا۔ ( النساء) ٧۔ عطا کرنے والا۔ ( سبا : ١٥) القصص
31 فہم القرآن ربط کلام : عظیم معجزات ملنے کے باوجود موسیٰ (علیہ السلام) کا فرعون سے خوفزدہ ہونا۔ جوں ہی موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنا عصا زمین پر پھینکا تو وہ بہت بڑا اژدھا بن کر زمین پر رینگنے لگا۔ اتنا بڑا سانپ دیکھ کر حضرت موسیٰ ڈر کر بھاگنے لگے۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا موسیٰ ڈرو نہیں بلکہ آگے ہو کر پکڑ لو۔ یہ پہلے کی طرح لاٹھی بن جائے گا اور آپ مامون رہیں گے۔ اپنا ہاتھ بغل میں دبا کر نکال یہ بغیر کسی تکلیف کے چمکتا ہوا ظاہر ہوگا خوف کے وقت ہاتھ کو بغل میں دبا لینا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) مصر چھوڑ کر مدین اس لیے گئے تھے کہ ان سے سہوًا ایک شخص قتل ہوگیا تھا۔ فرعون اور اس کے ساتھیوں نے موسیٰ (علیہ السلام) کا مؤقف سنے بغیر فیصلہ کرلیا تھا کہ اسے قتل کردیا جائے اس بناء پر موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے رب سے درخواست کی کہ میرے رب مجھ سے ان کا ایک شخص قتل ہوگیا تھا اس لیے میں ڈرتاہوں کہ وہ مجھے قتل نہ کردیں۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے یہ بھی عرض کی کہ میرا بھائی ہارون (علیہ السلام) گفتگو کے اعتبار سے زیادہ فصیح زبان رکھتا ہے۔ اس لیے اسے میرا معاون بنائیں تاکہ وہ میری تصدیق کرے کیونکہ مجھے ڈر ہے کہ وہ مجھے جھٹلادیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کی التجاء قبول کرتے ہوئے فرمایا کہ عنقریب ہم آپ کے بھائی کے ساتھ آپ کو مضبوط کریں گے۔ آپ دونوں کامیاب ہو نگے فرعون اور اس کے ساتھی ہمارے معجزات کی وجہ سے تمھارے قریب بھی نہیں آسکیں گے۔ آپ اور آپ کے تابعدار فرعون اور اس کے درباریوں پر غالب رہیں گے۔ بائیبل میں ید بیضاء کی ایک اور ہی تعبیر کی گئی ہے جووہاں سے نکل کر ہمارے ہاں کی تفسیروں میں بھی رواج پا گئی، وہ یہ کہ حضرت موسیٰ نے جب بغل میں ہاتھ ڈال کر باہر نکالا تو پورا ہاتھ برص کے مریض کی طرح سفید تھا، پھر جب دوبارہ اسے بغل میں رکھا تو وہ اصلی حالت پر آگیا۔ یہی تعبیر اس معجزے کی تلمود میں بھی بیان کی گئی ہے اور اس کی حکمت یہ بتائی گئی ہے کہ فرعون کو برص کی بیماری تھی جسے وہ چھپائے ہوئے تھا اس لیے اس کے سامنے یہ معجزہ پیش کیا گیا کہ دیکھ۔ یوں آناً فاناً برص کا مرض پیدا ہوتا ہے اور کافور ہوجاتا ہے۔ لیکن اوّل تو ذوق سلیم اس کا انکار کرتا ہے کہ کسی نبی کو برص کا معجزہ دے کر ایک بادشاہ کے دربار میں بھیجا جائے۔ دوسرے اگر فرعون کو مخفی طور پر برص کی بیماری تھی تو ید بیضا صرف اس کی ذات کے لیے معجزہ ہوسکتا تھا اس کے درباریوں پر اس معجزے کا کیا رعب طاری ہوتا۔ لہٰذا صحیح بات وہی ہے جو ہم نے اوپر بیان کی کہ اس ہاتھ میں سورج کی سی چمک پیدا ہوجاتی تھی۔ جسے دیکھ کر آنکھیں خیرہ ہوجاتیں۔ قدیم مفسرین میں سے بھی بہتوں نے اس کے یہی معنی لیے ہیں۔ (تفہیم القرآن) مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو نبوت عطا کرنے کے ساتھ ہی لاٹھی کا معجزہ عطا فرمایا اور ید بیضا بھی عطا کیا گیا۔ ٢۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت ہارون (علیہ السلام) کو فرعون اور اس کے سرداروں کی طرف رسول بنا کر بھیجا۔ ٣۔ فرعون اور اس کے سردار سرکش لوگ تھے۔ تفسیر بالقرآن غلبہ حاصل کرنے والے لوگ : ١۔ مومن ہی ہر حال میں بلند رہیں گے۔ (آل عمران : ١٣٩) ٢۔ مومن اللہ کا لشکر ہیں اور غالب رہیں گے۔ (المجادلۃ: ٢٢) ٣۔ اگر اللہ تمھاری مدد کرے تو پھر تم پر کوئی غالب نہیں آسکتا۔ (آل عمران : ١٦٠) ٤۔ ہم نے ان کی مدد کی سو وہ غالب آگئے۔ (الصّٰفٰت : ١١٦) ٥۔ بہت سی چھوٹی جماعتیں بڑی جماعتوں پر غالب آجاتی ہیں۔ یقیناً اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ (البقرۃ: ٢٤٩) القصص
32 القصص
33 القصص
34 القصص
35 القصص
36 فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی ضمانت اور عطا کیے ہوئے معجزات کی وجہ سے فرعون حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو قتل کرنے کی جرأت نہ کرسکا۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو سفر کے دوران دو عظیم معجزات عنایت فرمائے۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے معجزات ملنے کے بعد اپنے رب کے حضور دو التجائیں پیش کیں : بارِ الٰہ ! میرے بھائی ہارون کو میر اپشتی بان بنا اور میری زبان کی گرہ کھول دے۔ موسیٰ (علیہ السلام) کی دونوں گزارشات منطور کرلی گئیں۔ مصر واپس آکر موسیٰ (علیہ السلام) اپنے بھائی ہارون (علیہ السلام) کو لے کر۔ اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ معجزات اور ٹھوس دلائل کے ساتھ فرعون اور اس کے حواریوں کے پاس پہنچے۔ فرعون نے موسیٰ (علیہ السلام) کے ٹھوس اور واضح دلائل کی طرف توجہ کرنے کی بجائے معجزات کا مطالبہ کیا۔ جونہی اس کی زبان سے یہ مطالبہ ہوا تو موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنا دست مبارک اپنی بغل میں دبا کر ان کے سامنے کیا۔ جس سے فرعون کے ایوان میں روشن قمقمے اور مختلف قسم کی قندیلوں کی روشنی ٹمٹماتے دیوں کی طرح مانند پڑگئے۔ یدبیضا دیکھ کر فرعون اور اس کے حواریوں کی آنکھیں چکا چوند رہ گئیں۔ اتنا واضح معجزہ دیکھنے کے باوجود فرعون نے موسیٰ (علیہ السلام) کو نبی ماننے سے انکار کردیا۔ تب موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنا عصا زمین پر پھینکا وہ خوفناک اژدھا کی صورت اختیار کرکے اپنے جبڑے کھول کر فرعون کے ایوان میں رینگنے لگا۔ اژدھا جس طرف منہ کرتا فرعون اور اس کے درباری چیخیں مارتے ہوئے بھاگ کھڑے ہوتے۔ بالآخر مجبور ہو کر انھوں نے موسیٰ (علیہ السلام) سے درخواست کی کہ اس اژدھا کو قابو کریں تاکہ ہم آپ کی بات سننے کے قابل ہو سکیں۔ جونہی موسیٰ (علیہ السلام) نے اژدھا کی پیٹھ پر ہاتھ رکھا تو وہ پہلے کی طرح عصا بن گیا۔ دلائل سننے اور معجزات دیکھنے کے باوجود فرعون اور اس کے ساتھی کہنے لگے ” اے موسیٰ ! یہ خدائی معجزات نہیں بلکہ آپ کے بنائے ہوئے جادو کی کرشمہ سازیاں ہیں جہاں تک آپ کی باتوں اور دلائل کا معاملہ ہے یہ ایسی باتیں ہیں جو نہ صرف ہم نے نہیں سنیں بلکہ پہلے لوگوں سے بھی ان کا کوئی ثبوت نہیں ملتا۔“ موسیٰ (علیہ السلام) نے ان کی ہٹ دھرمی دیکھ کر اس موقع پر فقط اتنا ارشاد فرمایا کہ میرا رب اس شخص کو خوب جانتا ہے جو اس کی طرف سے ہدایت لے کر آیا ہے اور وہ اس شخص کے حال سے بھی خوب واقف ہے جس کا آخرت میں ٹھکانہ بہتر ہوگا۔ حقیقت یہ ہے کہ ظالم کبھی فلاح نہیں پاتے۔ فرعون اور اس کے ساتھیوں نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر جو پہلا الزام لگایا وہ یہ تھا کہ ” اے موسیٰ ! تم جادوگر ہو۔“ یہ ایسا الزام ہے جو بڑے بڑے انبیاء کرام (علیہ السلام) پر لگایا گیا۔ جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ انبیائے کرام (علیہ السلام) کی دعوت میں انتہا درجہ کی کشش اور ان کے معجزے ناقابل تمثیل ہوتے تھے۔ جن کا اثر زائل کرنے کے لیے آسان ترین الزام یہی تھا کہ ان کو جادوگر قرار دیا جائے۔ حالانکہ جادوگر گھٹیا کردار، افکار کے گندے اور پیٹ کے پجاری ہوتے ہیں۔ انبیاء کرام (علیہ السلام) اس قسم کی گراوٹ سے کو سوں دور ہوتے ہیں۔ نبی اور جادوگر کے درمیان فرق سمجھنے کے لیے فہم القرآن جلد :1 کا صفحہ ٦٨ ملاحظہ فرمائیں۔ مسائل ١۔ فرعون اور اس کے ساتھیوں نے موسیٰ (علیہ السلام) کے ٹھوس دلائل اور کھلے معجزات کو جادو قرار دیا۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ ہدایت یافتہ اور گمراہ شخص کو خوب جانتا ہے۔ ٣۔ حقائق کو جھٹلانے والا ظالم ہوتا ہے ظالم کبھی فلاں نہیں پائیں گے۔ تفسیر بالقرآن جادو کا انجام : ١۔ جادوکفر ہے۔ (البقرۃ: ١٠٢) ٢۔ جادو کی اصلیت نہیں ہوتی۔ (الاعراف : ١١٦) ٣۔ جادو شیاطین کے ذریعے ہوتا ہے۔ (البقرۃ : ١٠٢) ٤۔ جادوگر کامیاب نہیں ہوتا۔ (طٰہٰ: ٦٩) القصص
37 القصص
38 فہم القرآن ربط کلام : فرعون کے ظالمانہ رویہ کی انتہا۔ قرآن مجید کے دوسرے مقامات سے معلوم ہوتا ہے کہ جب موسیٰ (علیہ السلام) کے دلائل کے مقابلہ میں فرعون اپنے آپ کو بے بس محسوس کرنے لگا تو اس نے دیوانے کے بھڑ مارنے کی مانند بھڑ مارتے ہوئے اپنے وزیروں، مشیروں کو کہا کہ میں یہ بات کسی حال میں تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہوں۔ کہ میرے سوا بھی تمھارا کوئی الٰہ ہوسکتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی ایک اور بھڑ مارتے ہوئے اپنے دست راست وزیر ہامان کو کہا اے ہامان ! ملک بھر کے بھٹوں میں فی الفور پکی اینٹیں کثیر تعداد میں تیار کروائی ایک فلک بوس ٹاور تیار کیا جائے۔ تاکہ بلند و بالا عمارت پر چڑھ کر دیکھوں کہ موسیٰ (علیہ السلام) کا خدا کہاں رہتا ہے۔ کیونکہ مصر میں موسیٰ (علیہ السلام) کے خدا کا وجود مجھے نظر نہیں آتا۔ اگر وہ آسمان پر ہے تو میں اسے دیکھنا چاہتا ہوں۔ یہ سب کچھ لوگوں کی تسلّی کے لیے ہے ورنہ مجھے یقین ہے کہ موسیٰ کذّاب انسان ہے۔ اس قسم کی گفتگو اور ظالمانہ اقدامات کے سبب فرعون اور اس کا لشکر ملک میں بڑے بن بیٹھتے تھے۔ جس کا انھیں کسی صورت استحقاق نہ تھا۔ وہ ظلم اور فخر و غرور میں اس قدر آگے بڑھ چکے تھے کہ ان کو یقین ہو چلا تھا کہ وہ رب ذوالجلال کے حضور کبھی جواب دہ نہ ہوں گے۔ فرعون اور اس کے آباؤ اجداد کئی پشتوں سے قانونی اور سیاسی اختیارات میں اپنے آپ سے کسی کو برتر نہیں سمجھتے تھے۔ اس کے ساتھ ہی لوگ اس کے سامنے جھکتے اور سجدہ کرتے تھے جیسا کہ بڑے لوگوں کے سامنے لوگ جھکا کرتے ہیں۔ اسی بات کو ان کی خدائی سے تعبیر کیا گیا ہے۔ فرعون کی طرح متکبرانہ بات ماضی قریب کی نام نہاد سپر پاور روس نے کہی تھی۔ روس کے خلا باز جب خلا (Space) میں چاند سے ہو کر آئے تو کہنے لگے کہ ہمیں تو کہیں مسلمانوں کا خدا نہیں ملا۔ یہ کائنات کتنی بڑی ہے؟ اصل حقیقت تو خالق کائنات ہی جانتا ہے۔ درج ذیل معلومات سے اندازہ ہونے میں مدد ملے گی۔ کائنات میں فاصلوں کی پیمائش کے لیے جو اکائی استعمال کی جاتی ہے اسے نوری سال (Light Year) کہتے ہیں یہ وہ فاصلہ ہے جو روشنی ایک سال میں طے کرتی ہے اس کی مقدار (9.46X10 ,12KM) ہے۔ جس کہکشاں میں ہمارا نظام شمسی (Solar System) واقع ہے اسے (Milky Way Galaxy) کہتے ہیں۔ اس کا قطر ایک لاکھ نوری سال (10000 Light Years) ہے اس میں لگ بھگ ایک سوبلین ستارے دریافت ہوچکے ہیں۔ Milky way سے اگلی کہکشاں 8 لاکھ نوری سال (800000 Light Years) کے فاصلے پہ واقع ہے ابھی تک بیسیوں ملین کہکشائیں (Tens of Millions Galaxies) دریافت ہوچکی ہیں اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کائنات میں موجود ستاروں ( Stars) کی تعداد کا اندازہ نہیں کیا جا سکتا تاہم ان کی تعداد بلین بلین (Billion Billion=1024) سے زیادہ ہے۔ The Guinnes encyclopedia of Science یہ بے وقوف ایک نوری سال کے بھی کئی ہزار ویں حصے کا فاصلہ طے کر آئے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی ذات کو ڈھونڈتے پھرتے ہیں۔ یہ متکبرانہ اور گستاخانہ بات کرنے والے فرعون کو اللہ تعالیٰ نے سمندر میں ڈبو کر اس کی لاش کو دنیا کے لیے نشان عبرت بنا چھوڑا۔ دور جدید کے متکبرانہ نظام روس کو بھی اللہ تعالیٰ نے تمام جدید ترین ٹیکنالوجی کی دسترس کے باوجود ٹکڑے ٹکڑے کر کے دنیا کے لیے نشان عبرت بنا دیا ہے۔ (ماخوذ از ضیاء القرآن) (فَاعْتَبِرُوْا یَااُولِی الْاَبْصَارِ) [ الحشر : ٢] ” اے دانا و بینا نصیحت حاصل کرو۔“ مسائل ١۔ فرعون نے ہر حوالہ سے اللہ تعالیٰ کی الوہیت کو چیلنج کر رکھا تھا۔ ٢۔ فرعون کے بعد ہامان سب سے بڑا باغی اور متکبر شخص تھا۔ ٣۔ فرعون اور اس کے ساتھی اللہ تعالیٰ کے حضور اپنی پیشی کو یکسر بھول چکے تھے۔ تفسیر بالقرآن اِلٰہ حقیقی کا مختصر تعارف : ١۔ تمہارا الٰہ ایک ہی ہے اس کے سوا کوئی الٰہ نہیں وہ رحمن ورحیم ہے (البقرۃ۔ ١٦٣) ٢۔ یقیناً اللہ ایک ہی الٰہ ہے وہ اولاد سے پاک ہے آسمان و زمین کی ہر چیز اسی کے لیے ہے (النساء۔ ١٧١) ٣۔ اسکے سوا کوئی الٰہ نہیں مگر وہ اکیلا ہی ہے ( المائدۃ: ٧٣) ٤۔ فرما دیجیے اللہ ایک ہی الٰہ ہے اور میں تمہارے شرک سے بری ہوں۔ (الانعام : ١٩) ٥۔ اللہ نے فرمایا دو الٰہ نہ بناؤ یقیناً الٰہ ایک ہی ہے۔ (النحل : ٥١) ٦۔ اللہ نے زمین و آسمان کو پیدا کیا اور پھر آسمان سے پانی اتار کر باغات اگائے کیا اس کے ساتھ کوئی اور بھی الٰہ ہے؟ (النمل : ٦٠) ٧۔ اللہ نے زمین کو جائے قرار بنایا اس میں پہاڑ اور دو سمندروں کے درمیان پردہ بنایا کیا اس کے ساتھ اور بھی الٰہ ہے؟ (النمل : ٦١) ٨۔ کون ہے جو لاچار کی فریاد رسی کرتا ہے اور اس کی تکلیف کو دور کرتا ہے کیا کوئی اور بھی الٰہ ہے ؟ (النمل : ٦٢) ٩۔ خشکی اور سمندر کی تاریکیوں میں اللہ کے سواکون رہنمائی کرتا ہے کیا کوئی اور بھی اس کے ساتھ الٰہ ہے۔ (النمل : ٦٣) ١٠۔ پہلے اور دوبارہ پیدا کرنا اور زمین و آسمان سے تمہارے لیے روزی کا بندوبست کرنے والا اللہ کے سوا کوئی اور الٰہ ہے؟ (النمل : ٦٤) ١١۔ آپ فرما دیں سوائے ایک الٰہ کے آسمان وز میں کے غیب کو کوئی نہیں جانتا۔ (النمل : ٦٥) ١٢۔ کیا کوئی ہے اس الٰہ کے سوا ہے جو رات ختم کرکے دن لائے ؟ (القصص : ٧١) ١٣۔ کیا کوئی ہے اس الٰہ کے علاوہ کوئی اور الٰہ ہے جو دن ختم کرکے رات لائے ؟ (القصص : ٧٢) ١٤۔ اگر دو الٰہ ہوتے تو فساد ہوجاتا۔ ( الانبیاء : ٢٢) ١٥۔ بس اس ایک الٰہ کے سوا کوئی دوسرے الٰہ کو نہ پکارو۔ (القصص : ٨٨) القصص
39 القصص
40 فہم القرآن ربط کلام : فرعون اور اس کے لاؤ لشکر کا دنیا و آخرت میں انجام۔ فرعون کو اپنے اقتدار اور اختیارات پر بڑا ناز تھا اس نے موسیٰ (علیہ السلام) اور بنی اسرائیل پر اس قدر مظالم کا بازار گرم رکھا تھا کہ موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھی انتہائی کرب کے عالم میں بلبلا کر ان الفاظ میں فریاد کرنے لگے۔ ” انہوں نے کہا موسیٰ آپ کے ہمارے ہاں آنے سے پہلے ہمیں تکلیف پہنچائی گئی اور آپ کے آنے کے بعد بھی۔ موسیٰ نے فرمایا قریب ہے کہ تمہارا رب تمہارے دشمن کو ہلاک کر دے اور تمہیں زمین میں جانشین بنائے، پھر دیکھے کہ تم کیسے عمل کرتے ہو؟“ [ الاعراف : ١٢٩] ” ہم نے موسیٰ کو وحی بھیجی کہ راتوں رات میرے بندوں کو لے کر نکل جاؤ تمہارا پیچھا کیا جائے گا۔ اس پر فرعون نے شہروں میں نقیب بھیج دیے۔ اور اعلان کروایا کہ یہ مٹھی بھر لوگ ہیں اور انہوں نے ہم کو بہت غصہ چڑھا دیا ہے۔ اور ہم ایک ایسی جماعت ہیں جس کاشیوہ ہر وقت چوکس رہنا ہے۔ اس طرح ہم انہیں ان کے باغوں، چشموں، خزانوں اور ان کی بہترین قیام گاہوں سے نکال لائے۔ یہ تو ہوا ان کے ساتھ اور دوسری طرف بنی اسرائیل کو ہم نے ان سب چیزوں کا وارث کردیا۔ صبح ہوتے آل فرعون بنی اسرائیل کے تعاقب میں چل پڑے۔ جب دونوں گروہوں کا آمنا سامنا ہوا تو موسیٰ کے ساتھی چیخ اٹھے کہ ہم تو پکڑے گئے۔ موسیٰ نے کہا ہرگز نہیں۔ میرے ساتھ میرا رب ہے۔ وہ ضرور میری رہنمائی فرمائے گا۔ ہم نے موسیٰ کو وحی کے ذریعہ سے حکم دیا کہ سمندر پراپنا عصا مار۔ یکایک سمندر پھٹ گیا اور اس کاہرٹکڑا ایک بہت بڑے پہاڑکی طرح ہوگیا۔ اسی جگہ ہم دوسرے گروہ کو بھی قریب لے آئے۔ موسیٰ اور ان سب لوگوں کو جو اس کے ساتھ تھے ہم نے بچالیا اور دوسروں کو غرق کردیا۔ اس واقعہ میں ایک نشانی ہے مگر لوگوں میں اکثر ماننے والے نہیں ہیں حقیقت یہ ہے کہ تیرا رب زبردست بھی ہے اور مہربان بھی۔“ (الشعراء : ٥٢ تا ٦٨ ) مسائل ١۔ انسان کو ظالموں کے انجام پر نگاہ رکھنی چاہیے۔ ٢۔ جہنم میں جاتے ہوئے فرعون اپنی قوم کے آگے آگے ہوگا۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ نے فرعون اور اس کے لشکروں کو سمندر میں ڈبکیاں دے دے کر مارا۔ ٤۔ فرعون اور اس کے ساتھیوں پر ہمیشہ ہمیش پھٹکار برستی رہے گی۔ تفسیر بالقرآن کن لوگوں پر ہمیشہ لعنت برستی رہے گی : ١۔ بے گناہ مومن کو جان بوجھ کر قتل کرنے والے پر لعنت ہے اور اللہ کا عذاب ہوگا۔ (النساء : ٩٣) ٢۔ کافروں پر اللہ تعالیٰ کی لعنت برستی ہے اور انہیں جہنم کا عذاب ہوگا۔ (الاحزاب : ٦٤) ٣۔ اللہ اور رسول کو ایذا پہنچانے والوں پرلعنت برستی ہے۔ (الاحزاب : ٥٧) ٤۔ ظالموں کے لیے جہنم کا عذاب اور لعنت ہے۔ (حم ٓ السجدۃ: ٥٢) ٥۔ یہودیوں پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہے۔ (المائدۃ: ٦٤) ٦۔ جہنمی ایک دوسرے پر لعنت کریں گے۔ (الاعراف : ٣٨) ٧۔ منافقین پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہے اور جہنم کا عذاب ہوگا۔ (الفتح : ٦) القصص
41 القصص
42 القصص
43 فہم القرآن ربط کلام : فرعون اور اس کے لاؤ لشکر غرق کرنے کے بعد حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو تختیوں کی شکل میں توراتعطا کی گئی۔ رب ذوالجلال نے فرعون اور اس کے لشکر کو بحر قلزم میں ڈبکیاں دے دے کر غرق کیا۔ موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے ساتھیوں کو باسلامت بحر قلزم عبور کروایا اور پوری دنیا میں ان کی عزت کو دوبالا فرمایا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے بھائی حضرت ہارون (علیہ السلام) بنی اسرائیل کو لے کر وادیِ طی میں پڑاؤ ڈالتے ہیں۔ یہاں کئی اہم واقعات بھی رونما ہوئے۔ جن میں سب سے بڑا اور اہم واقعہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو تورات عنایت فرمائی جس میں بنی اسرائیل کے لیے نصیحت و عبرت کے واقعات، پہلی اقوام کی تباہی کے اسباب اور اس تورات کو بنی اسرائیل کے لیے ہدایت اور رحمت کا باعث قرار دیا۔ تاکہ بنی اسرائیل اس سے رہنمائی حاصل کریں اور اللہ تعالیٰ کی رحمت کے مستحق قرار پائیں۔ نزول تورات کا ذکر کرنے کے ساتھ یہ بھی وضاحت فرما دی گئی کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ اس وقت بھی موجود نہ تھے جب اللہ تعالیٰ نے طور کے مغربی پہلو میں موسیٰ (علیہ السلام) کو نبوت اور دو عظیم معجزے عطا فرمائے تھے۔ طور کے مغربی پہلو میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے موجود نہ ہونے سے یہ واضح کرنا مقصود ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) کے جس واقعے کی تفصیلات بتائی جا رہی ہیں وہ کسی سے سنی سنائی اور پڑھی پڑھائی باتیں نہیں۔ بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کردہ وحی ہے جو قرآن مجید کی صورت میں حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل کی جا رہی ہے۔ بصیرت کی جمع بصائر، ہے جس سے مراد ایسے حقائق ہیں جن کو انسان ہدایت کی نیت سے پڑھے تو یقیناً ہدایت سے سرفراز ہوگا۔ قرن کی جمع ” قرون“ ہے جو تین میں سے کسی ایک معنٰی کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ ١۔ ایک نسل۔ ٢۔ کسی قوم کا ایک دور۔ ٣۔ بعض اہل علم نے ایک صدی کو ایک قرن قرار دیا ہے۔ تورات اور قرآن کی تعلیم کے بارے میں فرمان : (اآرٰکِتٰبٌ اَنْزَلْنٰہُ اِلَیْکَ لِتُخْرِجَ النَّاسَ مِنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِ بِاِذْنِ رَبِّھِمْ اِلٰی صِرَاطِ الْعَزِیْزِ الْحَمِیْدِ) [ ابراہیم : ١] ” الر۔ ایک کتاب ہے جسے ہم نے آپ کی طرف نازل کیا ہے، تاکہ آپ لوگوں کو اندھیروں سے روشنی کی طرف نکال لائیں، ان کے رب کے حکم سے اور اس کے راستے کی طرف جو سب پر غالب، بہت تعریف والا ہے۔“ (وَ لَقَدْ اَرْسَلْنَا مُوْسٰی بِاٰیٰتِنَآ اَنْ اَخْرِجْ قَوْمَکَ مِنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِ وَ ذَکِّرْھُمْ بِاَیّٰمِ اللّٰہِ اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّکُلِّ صَبَّارٍ شَکُوْرٍ) [ ابراہیم : ٥] ” اور بلا شبہ ہم نے موسیٰ کو اپنی نشانیاں دے کر بھیجا تاکہ وہ اپنی قوم کو اندھیروں سے نکال کر روشنی کی طرف لائے اور انہیں اللہ کے دن یاد دلائے، بلاشبہ اس میں ہر شخص کے لیے بہت سی نشانیاں ہیں جو صبر اور شکر کرنے والا ہے۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے تورات کو لوگوں کی ہدایت اور رحمت کے طور پر نازل فرمایا تھا۔ ٢۔ جب موسیٰ (علیہ السلام) کو کوہ طور کے دائیں جانب نبوت عطا کی گئی تو نبی آخر الزماں (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس وقت موجود نہ تھے۔ تفسیر بالقرآن نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہر جگہ حاضر، ناظر نہ تھے اور نہ ہیں : ١۔ مریم [ کی کفالت کے وقت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حاضر نہ تھے۔ (آل عمران : ٤٤) ٢۔ اخوان یوسف کے مکر کے وقت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) موجود نہ تھے۔ (یوسف : ١٠٢) ٣۔ یہ غیب کی خبریں ہیں نہ آپ اس کے متعلق جانتے تھے اور نہ آپ کی قوم۔ ( ہود : ٤٩) ٤۔ آپ طور کی مغربی جانب اس وقت موجود نہیں تھے جب ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو نبوت کے منصب پر سرفراز کیا۔ ( القصص : ٤٤) القصص
44 القصص
45 فہم القرآن ربط کلام : طور اور مدین میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی غیر حاضری کے ثبوت سے آپ کی نبوت کے دو مزید دلائل دیے گئے ہیں۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے مصر سے نکل کر مدین میں حضرت شعیب (علیہ السلام) کی خدمت میں آٹھ یا دس (١٠) سال گزارے۔ حضرت شعیب (علیہ السلام) نے انھیں اپنی دامادی کے شرف سے مشرف فرمایا۔ طے شدہ مدت کے بعد موسیٰ (علیہ السلام) اپنی رفیقہ حیات کے ساتھ مصر کی طرف روانہ ہوئے۔ راستے میں انھیں طور کی دائیں جانب روشنی نظر آئی۔ موسیٰ (علیہ السلام) اپنی اہلیہ کو یہ کہہ کر اس روشنی کی طرف بڑھے کہ آپ یہاں ٹھہریں میں وہاں سے تاپنے کے لیے آگ کا انگارہ لاتا ہوں یا پھر اگلے سفر کی رہنمائی حاصل کرتا ہوں۔ اِ ن واقعات کا ذکر کرنے کے بعد ارشاد ہوا کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ ان مقامات پر موجود نہ تھے یہ تو آپ پر آپ کے رب کا کرم ہے کہ آپ ان لوگوں کے سامنے قرآن مجید کی آیات تلاوت کرتے ہیں۔ جس میں ہزاروں سال پہلے ہونے والے واقعات کو اس انداز میں بیان کیا جاتا ہے کہ جیسے بیان کرنے والا خود موجود ہو۔ یہ واقعات بیان کرنے کا مقصد یہ ہے تاکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس قوم کو ان کے برے انجام سے آگاہ فرمائیں۔ جس کے پاس اس سے پہلے براہ راست کوئی پیغام دینے والا پیغمبر نہیں آیا۔ یہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کا تیسرا ثبوت ہے کہ مکہ اور مدینہ کی سر زمین پر حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کے بعد اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پہلے کوئی نبی نہیں آیا۔ اس سے پہلے جو رسول آئے وہ حضرت اسحاق (علیہ السلام) کی نسل سے تھے۔ حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کی نسل سے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پہلے اور آخری رسول ہیں۔ ان کے بعد قیامت تک کوئی نبی اور رسول نہیں آئے گا۔ یہاں تک کہ حجاز میں رہنے والے پہلے لوگوں کا تعلق ہے ان کی رہنمائی کے لیے اللہ تعالیٰ نے ایسے اسباب ضرور مہیا فرمائے تھے جن سے انھیں نسل در نسل دین ابراہیم (علیہ السلام) کی تعلیمات پہنچتی رہیں یہی وجہ ہے کہ مکہ میں ایک گروہ ایسا تھا جو اپنے آپ کو ملت ابراہیم کا پیرو کار کہتا اور سمجھتا تھا اور اسی بناء پر ہی دین ابراہیم (علیہ السلام) کی کئی باتیں بگڑی ہوئی شکل میں موجود تھیں۔ (عَنْ عُقْبَۃَ بْنِ عَامِرٍ (رض) عَنِ النَّبِی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ إِذَا رَأَیْتَ اللَّہَ یُعْطِی الْعَبْدَ مِنَ الدُّنْیَا عَلَی مَعَاصِیہِ مَا یُحِبُّ فَإِنَّمَا ہُوَ اسْتِدْرَاجٌ ثُمَّ تَلاَ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (فَلَمَّا نَسُوا مَا ذُکِّرُوا بِہِ فَتَحْنَا عَلَیْہِمْ أَبْوَابَ کُلِّ شَیْءٍ حَتَّی إِذَا فَرِحُوا بِمَا أُوتُوا أَخَذْنَاہُمْ بَغْتَۃً فَإِذَا ہُمْ مُبْلِسُونَ) [ رواہ احمد : مسند عقبۃ بن عامر] حضرت عقبہ بن عامر (رض) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں جب اللہ بندے کو اس کی نافرمانیوں کے باوجود اسے عطا کرتا جائے جس کا وہ خواہش مند ہوتا ہے۔ یہی وہ مہلت ہے جس کا یہاں ذکر کیا گیا ہے پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس آیت کی تلاوت کی (جب ان چیزوں کو بھول گئے جن کی ہم نے انہیں نصیحت کی تھی ہم نے ان کے لیے ہر چیز کے دروازے کھول دیے یہاں تک کے جب وہ اس پہ خوش ہوگئے تو اچانک ہم نے انہیں پکڑ لیا اور وہ اس وقت مایوس ہو کے رہ گئے۔“ مسائل ١۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کا مقصد لوگوں کو ان کے برے کاموں سے ڈرانا ہے۔ ٢۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پہلے مکہ اور مدینہ کی سرزمین پر حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کے بعد کوئی نبی مبعوث نہیں کیا گیا۔ القصص
46 القصص
47 فہم القرآن ربط کلام : مجرم لوگ اس وقت تک نصیحت حاصل نہیں کرتے جب تک ان کی گرفت نہ کی جائے۔ اللہ تعالیٰ نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس لیے قرآن مجید کے ساتھ مبعوث فرمایا تاکہ لوگ اس سے نصیحت حاصل کریں۔ لیکن آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مخاطب نصیحت حاصل کرنے کی بجائے آپ کی مخالفت میں کمربستہ ہوگئے۔ آپ کو تسلی دینے اور مجرموں کو انتباہ کرنے کے لیے ارشاد ہوا ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کا یہ اصول نہ ہوتا کہ وہ مجرموں کو دنیا میں ہلکی پھلی سزا دے تو لوگ کبھی بھی اپنے رب کے حضور جھکنے کے لیے تیار نہ ہوتے۔ اللہ تعالیٰ جب لوگوں کے گناہوں کی وجہ سے انھیں پکڑتا ہے تو اس وقت وہ پکار اٹھتے ہیں کہ اے ہمارے رب ! تو نے ہماری طرف کیوں نہ اپنا رسول مبعوث فرمایا؟ تاکہ ہم اس کی اتباع کرتے اور مومن بن جاتے۔ اس ارشاد میں بین السطور رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مخالفوں کو سمجھایا گیا ہے کہ اگر تم نے تسلیمات کا رویہ اختیار نہ کیا تو ایک وقت آئے گا جب تم اپنے رب کی بارگاہ میں اس حسرت کا اظہار کرو گے کہ کاش ہم اپنے رسول کی اتباع کرتے اور آج عذاب سے بچ جاتے۔ قیامت کے دن مجرموں کا اقرار کرنا : (وَیَوْمَ یَعَضُّ الظَّالِمُ عَلٰی یَدَیْہِ یَقُوْلُ یَالَیْتَنِی اتَّخَذْتُ مَعَ الرَّسُوْلِ سَبِیْلًا) [ الفرقان : ٢٧] ” اس دن ظالم لوگ اپنے ہاتھوں پر کاٹتے ہوئے کہیں گے۔ کاش ہم نے رسول کی راہ اختیار کی ہوتی۔“ مسائل ١۔ مجرم عذاب آنے سے پہلے نصیحت کی طرف متوجہ نہیں ہوئے۔ ٢۔ ” اللہ“ کے رسول آچکے لیکن مجرم ماننے کے لیے تیار نہیں۔ القصص
48 فہم القرآن ربط کلام : مصیبت کے وقت رسول اور ہدایت کا مطالبہ کرنے والوں کے پاس جب رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قرآن لے آکر آئے تو ان کا رد عمل کیا تھا۔ کفار مختلف بہانوں سے قرآن مجید کا انکار کرتے تھے۔ ان کا ایک بہانہ اور عذر لنگ یہ بھی تھا کہ یہ عجب نبی ہے کہ اس کے پاس نہ مال، نہ کوئی جاگیر اور نہ ہی موسیٰ (علیہ السلام) جیسے معجزات ہیں۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) ہر وقت اپنے پاس عصا رکھتے جو مخالفوں کے سامنے اژدھا بن جاتا اور وہ ید بیضا رکھتے تھے جو لوگوں کی آنکھیں چندھیا دیتا تھا۔ اس نبی کے پاس قرآن کی آیات سنانے اور اس میں ہمارے بزرگوں کی تردید کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ ہم اس کی اتباع کریں تو کس بنیاد پر ؟ ہاں اگر یہ موسیٰ (علیہ السلام) جیسے معجزات دیا جائے تو ہم اس کی اتباع کرنے پر غور کرسکتے ہیں۔ کفار کے بہانوں کا یہاں صرف یہ جواب دیا گیا ہے کہ جن یہودیوں کے پڑھانے سے یہ لوگ ایسے بہانے پیش کرتے ہیں کیا انھیں معلوم نہیں کہ جب ان کے پاس موسیٰ (علیہ السلام) ہماری طرف سے حق اور معجزات لے کر آئے تو انھوں نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت ہارون (علیہ السلام) کو جادو گر قرار نہیں دیا تھا۔ اور کیا ان میں ایسے لوگ موجود نہیں جو کہتے ہیں کہ نہ ہم موسیٰ (علیہ السلام) کی تورات کو مانتے ہیں اور نہ اس قرآن پر ایمان لانے کے لیے تیار ہیں ؟ ایسے لوگوں کو ہدایت نصیب ہو تو کس طرح ؟ (لَیْسَ مِنَّا مَنْ تَطَیَّرَ اَوْتُطُیِّرَلَہٗ اَوْتَکَھَّنَ اَوْتُکُھِّنَ لَہُ اَوْ سَحَرَ اَوْ سُحِرَ لَہُ وَمَنْ اَتیٰ کَا ھِنًا فَصَدَّقَہُ بِمَا یَقُوْلُ فَقَدْ کَفَرَ بِمَااُنْزِلَ عَلٰی مُحَمَّدٍ) [ الترغیب والترہیب] ” جو شخص فال نکالے یا اس کے لیے فال نکالی جائے‘ کوئی غیب کی خبریں دے یا اس کے لیے کوئی دوسرا ایسی خبر دے ایسے ہی کوئی خود جادوگر ہو یا دوسرا شخص اس کے لیے جادو کرے وہ ہم میں سے نہیں ہے۔ جو کوئی ایسے شخص کے پاس جائے اور اسکی باتوں کی تصدیق کرے اس نے ہر اس بات کا انکار کیا جو محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل ہوئی ہے۔“ غلط و ظائف‘ بھرپور شعبدہ بازی اور فنی مہارت کے باوجود جادوگر اس وقت تک کامیاب نہیں ہوسکتا جب تک اللہ تعالیٰ کی کسی حلال کردہ چیز کو اپنے لیے حرام قرار نہ دے۔ اس کے ساتھ ہی اسے خاص قسم کی غلاظت اور بدترین قسم کا گناہ کرنا پڑتا ہے۔ اسی وجہ سے جادوگرمرد ہو یا عورت اس سے خاص قسم کی بدبو آیا کرتی ہے۔ یہ لوگ جسمانی طور پر جس قدر گندے ہونگے اسی رفتار سے ان کے شیطانی عمل دوسروں پر اثرانداز ہوں گے یہی وجہ ہے کہ ایک جادوگر اپنے شاگرد کو اپنا پیشاب پینے کا سبق دیتا ہے اور دوسرا پاخانہ کھانے کا حکم دیتا ہے اور کوئی غسل واجب سے منع کرتا ہے۔ گویا کہ کوئی نہ کوئی غلاظت اختیار کرنا جادوگر کے لیے ضروری ہے۔ البتہ یہ لوگ اس قسم کی باتیں دوسرے لوگوں سے ضرور چھپاتے ہیں۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ اس کے بغیر جادو اثرانداز نہیں ہوتا۔ مسائل ١۔ کفار مختلف بہانوں سے حق کا انکار کرتے ہیں۔ ٢۔ یہودیوں نے حضرت موسیٰ اور ہارون (علیہ السلام) کو جادوگر قرار دیا تھا۔ تفسیر بالقرآن انبیاء کرام (علیہ السلام) پر جادوگر ہونے کا الزام : ١۔ جب موسیٰ (علیہ السلام) کھلے دلائل لے کر آئے تو قوم نے ان پر جادو گر ہونے کا الزام لگایا۔ (القصص : ٣٦) ٢۔ کفار کے سامنے جب حق آیا تو انھوں نے کہا یہ تو جادو ہے۔ (سباء : ٤٣) ٣۔ فرعون کے سرداروں نے کہا یہ تو جادو ہے۔ (الاعراف : ١٠٩) ٤۔ جب کفار کے پاس حق بات آئی تو انھوں نے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر جادو گر ہونے کا الزام لگایا۔ (یونس : ٧٦) ٥۔ کفار نے کہا یہ نبی نہیں جادو گر ہے۔ (یونس : ٢) ٦۔ کفار نے کہا یہ نبی جھوٹا اور جادوگر ہے۔ (ص : ٤) ٧۔ ظالموں نے کہا کیا ہم جادوگر کی اتباع کریں ؟ (الفرقان : ٨) ٨۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پہلے جو بھی نبی آیا اسے جادوگر کہا گیا۔ (الذاریات : ٥٢) القصص
49 فہم القرآن ربط کلام : نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جادو گر اور قرآن مجید کو من ساختہ کتاب قرار دینے والوں کو چیلنج۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سچا رسول اور قرآن مجید کے من جانب اللہ ہونے کے ثبوت میں قرآن مجید نے منکرین کو بار بار چیلنج کیا ہے کہ اگر تمھیں رسول کے سچا اور قرآن مجید کے کتاب الٰہی ہونے میں شک ہے تو تم بھی ایسی کتاب لے آؤ۔ ہاں تمھیں یہ بھی اختیار دیا جاتا ہے کہ پورا قرآن نہیں بناسکتے تو ایک سورۃ ہی اس کی سورۃ جیسی بنا کرلے آؤ۔ بے شک اس کے لیے اللہ تعالیٰ کے سوا جس سے مدد لے سکتے ہو اس سے مدد حاصل کرو لیکن یاد رکھو نہ تم نے آج تک یہ کام کیا ہے اور نہ قیامت تک کر سکوگے۔ قرآن مجید بنانا تو درکنار اس کی سورۃ جیسی ایک سورۃ بھی نہیں بنا سکتے اس لیے تمھیں اس آگ سے بچنا چاہیے جس کا ایندھن نافرمان لوگ اور پتھر ہوں گے۔ اس چیلنج کو یہاں ان الفاظ میں دوہرایا گیا کہ اگر سمجھتے ہو کہ تمھاری رہنمائی کے لیے کوئی اور کتاب بہتر ہو سکتی ہے تو اسے پیش کرو ! اگر تم اپنے الزام اور دعویٰ میں سچے ہو۔ کفار کو چیلنج دینے کے ساتھ ہی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے ماننے والوں کو تسلی دی گئی ہے کہ اگر یہ لوگ اس چیلنج کا سامنا نہیں کر پا رہے تو یاد رکھو یہ لوگ محض اپنی خواہشات کے پیچھے لگے ہوئے ہیں۔ یعنی ان کے پاس کوئی معقول دلیل اور عذر نہیں۔ اور محض تعصّب کی بنیاد پر مخالفت کر رہے ہیں۔ درحقیقت اس شخص سے بڑھ کر کوئی شخص گمراہ نہیں ہوتا جو اپنی خواہشات کا غلام ہوچکا ہے۔ نہ اس کے پاس ہدایت کا کوئی ذریعہ ہے اور نہ ہی اللہ کی طرف سے دیا ہوا علم ہے۔ جب کہ ہدایت کی بنیاد ” اللہ کا علم ہے جو صرف سرور دو عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر وحی کی صورت میں نازل ہوا ہے۔ جو شخص سچے قرآن کو جھٹلاتا ہے وہ پرلے درجے کا ظالم ہے ایسے شخص کو اللہ تعالیٰ کبھی ہدایت نہیں دیتا۔ (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَمْرٍو (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لَایُؤْمِنُ أَحَدُکُمْ حَتّٰی یَکُوْنَ ہَوَاہٗ تَبَعًا لِّمَا جِءْتُ بِہٖ) [ رواہ فی شرح السنۃ] ” عبداللہ بن عمرو (رض) سے روایت ہے انہوں نے کہا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تم میں سے کوئی اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک اپنی خواہشات کو میری لائی ہوئی تعلیمات کے تابع نہ کر دے۔“ (اِِنَّ الَّذِیْنَ لاَ یُؤْمِنُوْنَ بالْآخِرَۃِ لَیُسَمُّوْنَ الْمَلآءِکَۃَ تَسْمِیَۃَ الْاُنْثٰی وَمَا لَہُمْ بِہٖ مِنْ عِلْمٍ اِِنْ یَتَّبِعُوْنَ اِِلَّا الظَّنَّ وَاِِنَّ الظَّنَّ لاَ یُغْنِی مِنَ الْحَقِّ شَیْءًا فَاَعْرِضْ عَنْ مَنْ تَوَلّٰی عَنْ ذِکْرِنَا وَلَمْ یُرِدْ اِِلَّا الْحَیَاۃَ الدُّنْیَا) [ النجم : ٢٧ تا ٢٩] ” جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے وہ فرشتوں کو عورتوں کے نام سے موسوم کرتے ہیں اس کا انہیں کچھ بھی علم نہیں وہ محض ظن کی اتباع کرتے ہیں اور ظن حق کے مقابلہ میں کچھ بھی کام نہیں آتا۔ لہٰذا جو شخص ہماری یاد سے منہ موڑتا ہے اور دنیا کی زندگی کے سوا اور کچھ نہیں چاہتا آپ اس کی پرواہ نہ کیجئے۔“ مسائل ١۔ آدمی کو اپنی خواہشات کی بجائے اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ ہدایت کی اتباع کرنا چاہیے۔ ٢۔ اپنی خواہش کے پیچھے لگنے والا پرلے درجے کا ظالم ہوتا ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ ظالم کو ہدایت نہیں دیتا۔ تفسیر بالقرآن قرآن مجید کے چیلنجز : ١۔ جن اور انسان مل کر اس جیسا قرآن بنا لاؤ۔ (بنی اسرائیل : ٨٨) ٢۔ کوئی دس سورتیں بنا لاؤ۔ (ھود : ١٣) ٣۔ کوئی اس جیسی ایک سورت بنا لاؤ۔ (یونس : ٣٨) ٤۔ قیامت تک نہیں بنا سکتے۔ (البقرۃ: ٢٣) القصص
50 القصص
51 فہم القرآن ربط کلام : بے شک حق آجانے کے باوجود لوگ اپنی خواہشات کے بندے بنے رہے اس کے باوجود اللہ تعالیٰ لوگوں کی خیر خواہی اور ہدایت کی خاطر مسلسل ان کی رہنمائی کا بندوبست کرتا رہا۔ جس بنا پر ہر دور میں کچھ نہ کچھ لوگ ہدایت قبول کرنے والے ضرور موجود رہے ہیں۔ رب کریم نے لوگوں کی رہنمائی کے لیے ہمیشہ اور مسلسل رہنمائی کا بندوبست فرمایا ہے۔ راہنمائی انبیاء کرام (علیہ السلام) کے ذریعے ہو یا ان کے جانشینوں کے واسطے سے۔ بہر حال اللہ تعالیٰ نے لوگوں کی رہنمائی کا ہمیشہ سے بندوبست کر رکھا ہے جو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے جانشینوں کی طرف سے قیامت تک جاری رہے گا۔ تاکہ لوگ نصیحت حاصل کریں اور اپنی دنیا اور آخرت کو بہتر بنالیں۔ جو لوگ صدق دل کے ساتھ پہلی کتابوں پر ایمان لائے اور اپنے دور کے نبی کی پیروی کرتے رہے ان کی حالت یہ ہے کہ جب ان کے سامنے قرآن مجید کی تلاوت کی جاتی ہے تو بہانہ سازی کی بجائے وہ قرآن پر ایمان لاتے ہیں اور اس بات کا اظہار کرتے ہیں کہ ہمارے رب کی طرف سے حق ہے ہم اس کے تابع فرمان ہوتے ہیں۔ پہلے دن سے ہدایت کا بندوبست : (قُلْنَا اھْبِطُوْا مِنْھَا جَمِیْعًا فَاِمَّا یَاْتِیْنَّکُمْ مِّنِّیْ ھُدًی فَمَنْ تَبِعَ ھُدَایَ فَلَا خَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَ لاَ ھُمْ یَحْزَنُوْن) [ البقرۃ: ٣٨] ” ہم نے حکم دیا تم سب یہاں سے اتر جاؤ جب تمہارے پاس میری ہدایت پہنچے، تو جنہوں نے میری ہدایت کی تابعداری کی ان پر کوئی خوف و غم نہیں ہوگا۔“ ایمان لانے والے تمام مسلم تھے اور ہیں : (وَ جَاھِدُوْا فِی اللّٰہِ حَقَّ جِھَادِہٖ ھُوَ اجْتَبٰکُمْ وَ مَا جَعَلَ عَلَیْکُمْ فِی الدِّیْنِ مِنْ حَرَجٍ مِلَّۃَ اَبِیْکُمْ اِبْرٰھِیْمَ ھُوَ سَمّٰکُمُ الْمُسْلِمِیْنَ مِنْ قَبْلُ وَ فِیْ ھٰذَا لِیَکُوْنَ الرَّسُوْلُ شَھِیْدًا عَلَیْکُمْ وَ تَکُوْنُوْا شُھَدَآءَ عَلَے النَّاسِ فَاَقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ وَ اٰتُوا الزَّکٰوۃَ وَ اعْتَصِمُوْا باللّٰہِ ھُوَ مَوْلٰکُمْ فِنِعْمَ الْمَوْلٰی وَ نِعْمَ النَّصِیْرُ) [ الحج : ٧٨] ” اللہ کی راہ میں جہاد کرو جیسا کہ جہاد کرنے کا حق ہے اس نے تمہیں اپنے کام کے لیے چن لیا ہے اور دین میں تم پر کوئی تنگی نہیں رکھی۔ اپنے باپ ابراہیم کی ملت پر قائم ہوجاؤ۔ اللہ نے پہلے بھی تمہارا نام ” مسلم“ رکھا تھا اور اس قرآن میں بھی تاکہ رسول تم پر گواہ ہو اور تم لوگوں پر گواہ پس نماز قائم کرو زکوٰۃ دو اور اللہ سے وابستہ رہو جو تمہارا مولیٰ ہے بہت ہی اچھا ہے وہ مولیٰ اور بہت ہی اچھا ہے وہ مددگار۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کی ہدایت کے لیے ہمیشہ سے رہنمائی کا بندوبست کر رکھا ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید اس لیے نازل کیا کہ لوگ اس سے ہدایت پائیں۔ ٣۔ پہلی کتابوں پر سچے دل سے ایمان لانے والے قرآن مجید پر بھی ایمان لاتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ سے لوگوں کی راہنمائی کا بندوبست فرمایا : ١۔ ہدایت وہی ہے جسے اللہ تعالیٰ ہدایت قرار دے۔ (البقرۃ: ١٢٠) ٢۔ ہدایت اللہ کے اختیار میں ہے۔ (القصص : ٥٦) ٣۔ وہ جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے۔ (البقرۃ : ٢١٣) ٤۔ اللہ تعالیٰ کی راہنمائی کے بغیر کوئی ہدایت نہیں پا سکتا۔ (الاعراف : ٤٣) ٥۔ ہدایت جبری نہیں اختیاری چیز ہے۔ (الدھر : ٣) ٦۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی کسی کو (جبراً) ہدایت نہیں دے سکتے تھے۔ (القصص : ٥٦) القصص
52 القصص
53 القصص
54 فہم القرآن ربط کلام : پہلی کتب پر ایمان لانے اور عمل کرنے والے جب قرآن مجید کو آخری کتاب مانیں اور اس پر عمل کریں گے تو انھیں دوہرا صلہ دیا جائے گا۔ دین اسلام کے امتیازات میں یہ بات طرہّ امیتاز کی حیثیت رکھتی ہے کہ دین اسلام نہ صرف پہلی کتب اور انبیاء کرام (علیہ السلام) کو تسلیم کرنے کا حکم دیتا ہے بلکہ جو شخص پہلے یہودی یا عیسائی تھا اب وہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو آخری نبی تسلیم کرتے ہوئے آپ کی شریعت پر خلوص دل کے ساتھ ایمان لایا اور عمل کرنے کی کوشش کرتا ہے تو قرآن اس کے لیے کھلے الفاظ میں اعلان کرتا ہے کہ ایسے شخص کا دوہرا صلہ ہوگا۔ کیونکہ یہ پہلی شریعت پر بھی عمل کرتا رہا اور اب قرآن کو من جانب اللہ اور نبی آخر الزّمان کو سچا نبی جان کر آپ پر ایمان لایا اور اس پر ثابت قدمی کے ساتھ قائم رہا اس کے لیے دوہرا اجر ہوگا۔ حقیقت یہ ہے یہ لوگ برائیوں کو چھوڑنے اور نیکیوں کو اپنانے والے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے جو کچھ انھیں عطا کر رکھا ہے اس میں اللہ کے بندوں پر خرچ کرتے رہتے ہیں۔ پہلے ادیان پر اڑے رہنا اور دین اسلام کا انکار کرنا پرلے درجے کا گناہ اور برائی ہے۔ اللہ کے نیک بندے پہلے دین پر قائم رہنے کی بجائے دین اسلام کو قبول کرکے اپنی ضد کو چھوڑ کر دین حق پر گامزن ہوتے ہیں۔ جو برائی کو نیکی میں تبدیل کرنے کے مترادف ہے۔ جو لوگ بھی سچے دل کے ساتھ حلقۂ اسلام میں داخل ہوتے ہیں ان کی خوبی یہ ہے کہ وہ گناہوں کو چھوڑنے اور نیکیوں کو اختیار کرنے والے ہوتے ہیں۔ (أَبُو بُرْدَۃَ أَنَّہُ سَمِعَ أَبَاہُ عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ ثَلاَثَۃٌ یُؤْتَوْنَ أَجْرَہُمْ مَرَّتَیْنِ الرَّجُلُ تَکُونُ لَہُ الأَمَۃُ فَیُعَلِّمُہَا فَیُحْسِنُ تَعْلِیمَہَا، وَیُؤَدِّبُہَا فَیُحْسِنُ أَدَبَہَا، ثُمَّ یُعْتِقُہَا فَیَتَزَوَّجُہَا، فَلَہُ أَجْرَانِ، وَمُؤْمِنُ أَہْلِ الْکِتَابِ الَّذِی کَانَ مُؤْمِنًا، ثُمَّ آمَنَ بالنَّبِیّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَلَہُ أَجْرَانِ، وَالْعَبْدُ الَّذِی یُؤَدِّی حَقَّ اللَّہِ وَیَنْصَحُ لِسَیِّدِہِ) [ رواہ البخاری : باب فَضْلِ مَنْ أَسْلَمَ مِنْ أَہْلِ الْکِتَابَیْنِ] ” حضرت ابو بردہ بیان کرتے ہیں انہوں نے اپنے باپ سے سنا وہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں آپ نے فرمایا تین قسم کے لوگوں کو دوہرا اجر عطا کیا جائے گا، ایک وہ آدمی جس کے پاس لونڈی ہو وہ اسے بہترین تعلیم دیتا اور بہترین آدب سکھلاتا ہے پھر اسے آزاد کردیتا ہے اور اس سے شادی کرلیتا ہے اس کے لیے دوہرا اجر ہے۔ دوسرا اہل کتاب کا مؤمن آدمی جو اپنے نبی پر ایمان لایا پھر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر بھی ایمان لایا اس کے لیے بھی دوہرا اجر ہے۔ تیسرا وہ آدمی جو کسی کا غلام تھا اس نے اللہ کے حقوق بھی ادا کیے اور اپنے مالک کی بھی خیر خواہی کرتا رہا اس کے لیے بھی دوہرا اجر ہے۔“ مسائل ١۔ غیر مسلم مسلمان ہوجائے تو اس کے لیے دوہرا صلہ ہوگا۔ ٢۔ اللہ کے بندے برائی پر اڑنے کی بجائے نیکی کی طرف سبقت کرتے ہیں۔ ٣۔ اللہ کے بندے اللہ کے دیے میں سے خرچ کرتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن اللہ کے بندے دین اسلام قبول کرتے ہیں اور اس پر ثابت قدمی کی دعا کرتے ہیں : ١۔ جب سنا انھوں نے جو رسول کی طرف نازل کیا گیا ہے آپ دیکھتے ہیں کہ ان کی آنکھیں آنسوؤں سے بہہ پڑتی ہیں کیونکہ انہوں نے حق کو پہچان لیا۔ کہتے ہیں اے ہمارے رب! ہم ایمان لے آئے سو ہمیں شہادت دینے والوں کے ساتھ شامل فرما لے۔ (المائدہ : ٨٣) ٢۔ جادوگروں کی ایمان کے بعد صبر اور ثابت قدمی کی دعا۔ (الاعراف : ١٢٠ تا ١٢٦) ٣۔ جب طالوت اور جالوت کے لشکر بالمقابل ہوئے تو انھوں نے کہا اے ہمارے پروردگار ہم پر صبر نازل فرما اور ہمیں ثابت قدم فرما اور کافروں کی قوم پر ہماری مدد فرما۔ (البقرۃ: ٢٥٠) ٤۔ آزمائش میں ثابت قدمی کے بعد اللہ کی مدد یقینی اور قریب ہوا کرتی ہے۔ (البقرۃ: ٢١٤) ٥۔ ہمارے رب ہم نے ایمان کی دعوت قبول کی تو ہماری خطاؤں کو معاف فرما۔ (آل عمران : ١٩٣ تا ١٩٤) ٦۔ اے ہمارے رب ! ہمیں اور ہمارے مومن بھائیوں کو معاف فرما۔ (الحشر : ١٠) ٧۔ اے ہمارے رب بے شک ہم ایمان لائے ہمارے گناہ معاف فرما اور ہمیں آگ کے عذاب سے محفوظ فرما۔ (آل عمران : ١٦) القصص
55 فہم القرآن ربط کلام : حق قبول کرنے والوں کی چوتھی خوبی۔ مفسرین نے اس آیت کا شان نزول لکھتے ہوئے وضاحت فرمائی ہے کہ جب عیسائیوں کے ایک وفد نے اسلام قبول کیا تو مشرکین مکہ نے انھیں طعنہ دیا کہ تم عجب لوگ ہو کہ تمھارے پچھلے لوگوں نے تمھیں حقیقت حال جاننے کے لیے بھیجا ہے اور تم انھیں اطلاع دیے اور ان سے مشورہ کیے بغیر اپنا دین چھوڑ رہے ہو یہ تمھاری کیسی جہالت ہے اس موقعہ پر مسلمان ہونے والوں نے جو جواب دیا اللہ تعالیٰ نے اسے اپنے الفاظ میں بیان فرماتا ہے۔ ” اللہ“ کے نیک بندے اور نصیحت قبول کرنے والوں کی یہ خوبی ہوتی ہے کہ وہ باطل دین اور اپنی ضد پر اڑے نہیں رہتے بلکہ جوں ہی ان کے سامنے حق بات واضح ہوتی ہے تو وہ بلا تردّد حق بات قبول کرتے ہوئے اس پر گامزن ہوجاتے ہیں۔ یہ ہر برائی چھوڑنے کی کوشش کرتے ہیں اور حق بات پر عمل پیرا ہونے کے ساتھ انفاق فی سبیل اللہ کرتے ہیں۔ ان کی چوتھی خوبی یہ ہوتی ہے کہ وہ بے ہودہ اور بے مقصد باتوں اور کاموں سے پرہیز کرتے ہیں کوئی انھیں بے ہودہ کام یا بات کی طرف بلائے تو یہ پوری ایمانی قوت کے ساتھ اس کا انکار کرتے ہیں۔ اگر ان کے ساتھ کوئی برائی کے معاملہ میں اصرار کرے تو یہ کہہ کر اپنا دامن بچالیتے ہیں کہ تمھارے عمل تمھارے لیے، ہمارے اعمال ہمارے لیے، تمھیں سلام ہو ہم جاہلوں سے الجھنے ان جیسا کردار اختیار کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ دوسرے مقام پر انھیں الرّحمن کے بندے قرار دے کر ان کے اوصاف کا ان الفاظ میں تذکرہ کیا گیا ہے۔ (وَعِبَاد الرَّحْمٰنِ الَّذِیْنَ یَمْشُونَ عَلَی الْاَرْضِ ہَوْنًا وَّاِِذَا خَاطَبَہُمُ الْجَاہِلُوْنَ قَالُوْا سَلاَمًا) [ الفرقان : ٦٣ ] ” رحمان کے حقیقی بندے وہ ہیں جو زمین پر نرم چال چلتے ہیں جاہل ان سے جھگڑیں تو وہ ان کو سلام کہہ دیتے ہیں۔“ (قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ ہُمْ فِیْ صَلاَتِہِمْ خَاشِعُوْنَ وَالَّذِیْنَ ہُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَ وَالَّذِیْنَ ہُمْ للزَّکٰوۃِ فَاعِلُوْنَ وَالَّذِیْنَ ہُمْ لِفُرُوْجِہِمْ حَافِظُوْنَ)[ لمومنون : ١ تا ٥ ] ” یقیناً مؤمن فلاح پا گے۔ وہ لوگ جو اپنی نمازوں میں خشوع اختیار کرتے ہیں۔ اور وہ لوگ فضولیات سے دور رہتے ہیں۔ اور وہ لوگ جو زکوٰۃ ادا کرنے والے ہیں۔ اور وہ لوگ جو اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں۔“ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مِنْ حُسْنِ إِسْلَامِ الْمَرْءِ تَرْکُہُ مَا لَا یَعْنِیہٖ) [ رواہ الترمذی : کتاب الزہد] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بلاشبہ آدمی کے بہترین اسلام کی تعریف یہ ہے کہ وہ لا حاصل باتوں کو چھوڑ دے۔“ مسائل ١۔ ” اللہ“ کے بندے لغو سے اجتناب کرتے ہیں۔ ٢۔ ” اللہ“ کے بندے جاہلوں سے نہیں الجھتے۔ ٣۔ بروں کے لیے برے اعمال اور نیکوں کے لیے نیک اعمال ہوتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن جاہلوں سے اعراض کرنا چاہیے : ١۔ نبی محترم کو جاہلوں سے اعراض کی ہدایت تھی۔ (اعراف : ١٩٩) ٢۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے جہالت سے پناہ مانگی۔ (البقرۃ: ٦٧) ٣۔ حضرت نوح کو جہالت سے بچنے کا حکم۔ (ہود : ٤٦) ٤۔ جاہلوں سے بحث کی بجائے اجتناب اور اعراض کرنا چاہیے۔ (الفرقان : ٦٣) ٥۔ اگر اللہ چاہتا تو انہیں ہدایت پر جمع فرما دیتا پس آپ جاہلوں میں سے نہ ہوں۔ (الانعام : ٣٥) القصص
56 فہم القرآن ربط کلام : اس سے پہلی آیت میں ارشاد ہوا ہے کہ جاہلوں سے الجھنے سے پرہیز کریں۔ یہ بھی جہالت کی بدترین قسم ہے کہ انسان جاننے کے باوجود حقیقت قبول کرنے کے لیے تیار نہ ہو۔ اکثر مفسرین نے اس آیت کا شان نزول بیان کرتے ہوئے تحریر فرمایا ہے کہ جناب ابو طالب کی موت کا وقت قریب آیا تو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کے ہاں تشریف لے گئے۔ ان کی خدمت میں پہنچ کر فرمایا کہ چچا لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدُ رَّسُوْلُ اللّٰہِ پڑھ لیں تاکہ قیامت کے دن میں اپنے رب کے حضور آپ کی سفارش کرسکوں۔ لیکن انھوں نے کلمہ پڑھنے سے انکار کردیا اور کفر کی حالت میں دنیا سے چل بسے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بڑے دل آزوزدہ ہو کر وہاں سے اٹھے اور کئی دن تک آپ کی طبیعت پر اس واقعہ کا اثررہا۔ رب کریم نے آپ کے دل کو ڈھارس دی اور یہ اصول بیان فرمایا کہ اے نبی بے شک آپ کسی کی ہدایت کے بارے میں کتنے ہی خواہش مند کیوں نہ ہوں لیکن ہدایت دینا ” اللہ“ کا کام ہے جسے چاہے ہدایت دیتا ہے اور وہ ہدایت ہدایت پانے والوں کو خوب جانتا ہے۔ مراد یہ ہے کہ وہ جانتا ہے کہ کون ہدایت کا طالب ہے جو ہدایت کا طالب ہوگا اللہ تعالیٰ اسے ضرور ہدایت عطا فرمائے گا۔ یہاں ہدایت سے مراد نیکی کی طرف رہنمائی نہیں بلکہ ہدایت قبول کرنا اور اس پر چلنے کی توفیق ہے۔ ( عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لِعَمِّہِ عِنْدَ الْمَوْتِ قُلْ لاَ إِلَہَ إِلاَّ اللّٰہُ أَشْہَدُ لَکَ بِہَا یَوْمَ الْقِیَامَۃِ فَأَبَی فَأَنْزَلَ اللّٰہُ ”إِنَّکَ لاَ تَہْدِی مَنْ أَحْبَبْتَ۔۔ الآیَۃَ) [ رواہ مسلم : کتاب الایمان] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے چچا ابو طالب کو موت کے وقت فرمایا کہ لا الہ الاللہ کہہ دو ! میں قیامت کے دن اس بات کی گواہی دوں گا لیکن اس نے انکار کردیا اس وقت اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی : آپ اسے ہدایت نہیں دے سکتے جس کے لیے آپ ہدایت پسند کریں۔“ (عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ أَنَّہُ سَمِعَ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وَذُکِرَ عِنْدَہُ عَمُّہُ فَقَالَ لَعَلَّہُ تَنْفَعُہُ شَفَاعَتِی یَوْمَ الْقِیَامَۃِ، فَیُجْعَلُ فِی ضَحْضَاحٍ مِنَ النَّارِ، یَبْلُغُ کَعْبَیْہِ، یَغْلِی مِنْہُ دِمَاغُہُ) [ رواہ البخاری : کتاب المناقب، باب قصۃ ابی طالب] ” حضرت ابو سعید خدری (رض) بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آپ کے چچا ابو طالب کا تذکرہ کیا گیا تو آپ نے فرمایا شاید اسے میری شفاعت قیامت کے دن فائدہ دے۔ اسے آگ پر کھڑا کیا جائے گا۔ وہ آگ اس کے ٹخنوں تک پہنچتی ہوگی جس سے اس کا دماغ کھولے گا۔“ (عَنْ أَنَسٍ (رض) قَالَ کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یُکْثِرُ أَنْ یَّقُوْلَ یَا مُقَلِّبَ الْقُلُوْبِ ثَبِّتْ قَلْبِیْ عَلٰی دِیْنِکَ فَقُلْتُ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ ! اٰمَنَّا بِکَ وَبِمَا جِءْتَ بِہٖ فَھَلْ تَخَافُ عَلَیْنَا قَالَ نَعَمْ إِنَّ الْقُلُوْبَ بَیْنَ إِصْبَعَیْنِ مِنْ أَصَابِعِ اللّٰہِ یُقَلِّبُھَا کَیْفَ یَشَآءُ) [ رواہ الترمذی : کتاب القدر، باب ماجاء أن القلوب ...] ” حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اکثر دعا کرتے۔ اے دلوں کو پھیرنے والے! میرے دل کو اپنے دین پر قائم رکھنا۔ میں نے کہا : اللہ کے رسول! ہم آپ پر اور آپ کی لائی ہوئی شریعت پر ایمان لائے۔ کیا آپ ہمارے بارے میں خطرہ محسوس کرتے ہیں؟ آپ نے فرمایا : ہاں! دل اللہ کی دو انگلیوں کے درمیان ہیں۔ اللہ انہیں جس طرف چاہتا ہے پھیر دیتا ہے۔“ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس بات پر از حد حریص تھے کہ سب لوگ اسلام کے چشمۂ فیض سے سیراب ہوں اور اللہ تعالیٰ کے سارے بندے اس کی بارگاہ میں سر نیاز جھکائیں بالخصوص اپنے قبیلے اور رشتہ داروں کے متعلق نبی کریم کی انتہائی آرزو تھی کہ ان میں سے کوئی بھی نعمت ایمان سے محروم نہ رہے، اللہ تعالیٰ اپنے محبوب کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دیتے ہوئے فرماتے ہیں۔ اے حبیب! ہدایت دینا آپ کا کام نہیں کہ جس کو چاہے ہدایت دے دے کیونکہ ہم خوب جانتے ہیں کہ کون اس قابل ہے کہ اس کے دل میں ایمان کی شمع فروزاں کی جائے کس میں اس نعمت جلیلہ کو قبول کرنے کی استعداد ہے۔ (ماخوذ از ضیاء القرآن : جلد سوئم) مسائل ١۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی مرضی سے کسی کو ہدایت نہیں دے سکتے تھے۔ ٢۔ جو ہدایت کا طالب ہوتا ہے ” اللہ“ اسے ہدیات سے سرفراز کرتا ہے۔ تفسیر بالقرآن ” اللہ“ ہی ہدایت دینے والا ہے : ١۔ ہدایت وہی ہے جسے اللہ تعالیٰ ہدایت قرار دے۔ (البقرۃ: ١٢٠) ٢۔ ہدایت اللہ کے اختیار میں ہے۔ (القصص : ٥٦) ٣۔ ” اللہ“ جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے۔ (البقرۃ : ٢١٣) ٤۔ اللہ تعالیٰ کی راہنمائی کے بغیر کوئی ہدایت نہیں پا سکتا۔ (الاعراف : ٤٣) ٥۔ ہدایت جبری نہیں اختیاری چیز ہے۔ (الدھر : ٣) ٦۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی کسی کو ہدایت نہیں دے سکتے۔ (القصص : ٥٦) القصص
57 فہم القرآن ربط کلام : مکہ والوں کا ہدایت قبول نہ کرنے کا عذر لنگ۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنی رفیقہ حیات حضرت ہاجرہ [ اور لخت جگر حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کو اس وقت مکہ میں چھوڑا جب بیت اللہ کی بنیادیں تھیں مگر عمارت موجود نہ تھی اور مکہ شہر کا نام و نشان تک نہ تھا۔ اس وقت حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے رب کے حضور ان الفاظ میں دعا کی۔ ” اے میرے رب میں اپنے اہل وعیال کو بے آب وگیاہ وادی میں چھوڑے جا رہا ہوں تاکہ وہ نماز قائم کریں اور اے اللہ لوگوں کے دل ان کی طرف مائل کر دے اور انہیں پھلوں کا رزق عطا فرما تاکہ تیرا شکر ادا کریں۔“ [ ابراہیم : ٣٧] مکہ والے یہ بہانہ بناتے تھے کہ اگر ہم نے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے کہنے کہنے پر عقیدہ توحید قبول کرلیا تو لوگ ہمارے مخالف ہوجائیں گے جس سے ہمارا روز گار بند ہوجائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی غلط فہمی دور کرنے اور ان کی زر پرستی کو ضرب لگاتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے کہ کیا انھیں معلوم نہیں ؟ کہ ہم نے کتنی قومیں اور بستیاں تباہ کیں جنھیں اپنے محلات، کاروبار اور دنیا کی ترقی پر بڑا نازتھا۔ جب ہم نے ان پر عذاب نازل کیا تو ان کے گھر اس طرح برباد ہوگئے جیسے یہاں کبھی کوئی آباد نہ ہوا ہو۔ ہم ہی ان کے وارث ہوئے۔ قرآن مجید کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ جن قوموں کو اللہ تعالیٰ نے ان کی سرکشی کی وجہ سے تباہ کیا وہ دنیا کے لحاظ سے بہت ترقی یافتہ تھیں۔ کیونکہ امیر لوگ ہی فیشن اور ترقی کے نام پر ہر قسم کی برائی اور بے حیائی کے موجد ہوتے ہیں۔ اے مکہ والو! جن بستیوں کو ہم نے تباہ کیا وہ تمھاری بستی سے کئی گنا طاقت ور تھیں۔ (وَکَأَیِّنْ مِنْ قَرْیَۃٍ ہِیَ أَشَدُّ قُوَّۃً مِنْ قَرْیَتِکَ الَّتِی أَخْرَجَتْکَ أَہْلَکْنَاہُمْ فَلَا نَاصِرَ لَہُمْ) [ محمد : ١٣] اور کتنی ہی بستیاں جو اس بستی سے بڑھ کے طاقت ور تھیں ہم نے انہیں ہلاک کردیا ان کا کوئی پرسان حال نہیں تھا۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے حرم کو امن و الا بنایا ہے۔ ٢۔ ” اللہ“ کے فضل سے دنیا بھر کے پھل مکہ میں چلے آتے ہیں۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ نے حرم کو مکہ والوں کے رزق، امن اور عزت کا ذریعہ بنایا ہے۔ ٤۔ نافرمان قوم کو دنیا کی ترقی ” اللہ“ کے عذاب سے نہیں بچا سکتی۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ نے کتنی نافرمان ترقی یافتہ اقوام کو تباہ برباد کیا۔ ٦۔ انسان کو دنیا کی ترقی پر اترانا نہیں چاہیے۔ ٧۔ اول آخر ” اللہ“ ہی دنیا کا مالک ہے۔ تفسیر بالقرآن لوگوں کی اکثریت حقیقت کا علم نہیں رکھتی : ١۔ اگر ہم منکرین کے سامنے ہر چیزکو اکٹھا کردیتے تب بھی وہ ایمان نہ لاتے کیونکہ اکثر ان میں جاہل ہیں۔ (الانعام : ١١١) ٢۔ کیا زمین و آسمان کی تخلیق مشکل ہے یا انسان کی پیدائش مگر اکثر لوگ جاہل ہیں۔ (الفاطر : ٥٧) ٣۔ یہ دین صاف اور سیدھا ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔ (یوسف : ٤٠) ٤۔ اللہ اپنے امر پر غالب ہے لیکن لوگ نہیں جانتے۔ (یوسف : ٢١) ٥۔ اللہ اپنے وعدہ کی خلاف ورزی نہیں کرتا لیکن اکثر لوگ جاہل ہیں۔ (الروم : ٦) القصص
58 القصص
59 فہم القرآن ربط کلام : بستیوں کو تباہ کرنے کی وجہ۔ اس سے پہلے زکر ہوا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ترقی یافتہ اور کئی مال دار بستیوں کو تباہ کیا۔ اب وضاحت کی جا رہی ہے کہ جن بستیوں کو تباہ کیا گیا ان پر آپ کے رب نے کوئی ظلم نہیں کیا۔ کیونکہ اس کا اصول ہے کہ اس وقت تک کسی قوم کو عذاب نہ دیا جائے جب تک اس تک رب تعالیٰ کا پیغام نہ پہنچ جائے۔ اسی اصول کے پیش نظر ہر تباہ کی جانے والی قوم کے مرکزی شہر یا علاقہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول بھیجے جو ان کے سامنے اس کے فرامین بیان کرتے تھے اور انھیں باربار بتلاتے اور سمجھاتے کہ اگر تم اپنے رب کی نافرمانی سے باز نہ آئے تو اس کا عذاب تم پرنازل ہوگا۔ جب لوگوں نے رسول کی ذات یا اس کی تعلیمات کو کلی طور پر جھٹلادیا تو اللہ تعالیٰ نے اس قوم پر عذاب نازل کیا۔ اس کا عذاب ہمیشہ ظالم قوم پر ہی نازل ہوتا ہے۔ مرکزی شہر میں رسول بھیجنے کا مقصد یہ ہے تاکہ آسانی کے ساتھ لوگوں تک حق بات پہنچ جائے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ چھوٹے شہر، قصبات اور دیہات بڑے شہروں سے ہی متاثر ہوا کرتے ہیں۔ جس طرح غریب لوگ امیروں سے اور چھوٹے طبقات بڑے طبقہ سے متاثر ہوتے ہیں۔ ظلم سے پہلی مراد شرک ہے جسے اللہ تعالیٰ زیادہ دیر تک گوارہ نہیں کرتا اس لیے اس نے قوم نوح، ثمود، عاد اور دیگر قوموں کو نیست و نابود کیا۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ اپنا پیغام پہنچانے سے پہلے کسی قوم پر عذاب نازل نہیں کرتا۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے تباہ ہونے والے اقوام کے مرکزی مقامات پر اپنے رسول مبعوث فرمائے۔ ٣۔ انبیاء کرام (علیہ السلام) کا کام لوگوں کو اللہ تعالیٰ کے احکام سے آگاہ کرنا ہوتا ہے۔ القصص
60 فہم القرآن ربط کلام : دنیا دار لوگوں کا خیال ہوتا ہے کہ دین پر عمل کرنے سے ان کا نقصان ہوگا۔ اس فرمان میں ان کے اس ذہن کی نفی کی گئی ہے۔ اہل مکہ کا خیال تھا کہ اگر ہم عقیدہ توحید اپنائیں اور دین اسلام کو قبول کریں گے تو لوگ ہمارے مخالف ہوجائیں گے جس سے ہمیں کاروباری لحاظ سے نقصان پہنچے گا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے اس ذہن کی نفی کرتے ہوئے وضاحت فرمائی ہے کہ اے لوگو! تم اپنے محدود علم کی بنیاد پر یہ سوچتے ہو کہ اگر تم نے توحید خالص کو اپنایا اور دین اسلام کو اختیار کیا تو تمھیں دنیا کے حوالے سے نقصان پہنچے گا۔ یاد رکھو ! یہ دنیا عارضی اور اس کی زیب و زینت ناپائیدار ہے اگر تمھیں اللہ کے راستے پر چلنے سے کوئی نقصان پہنچتا ہے تو وہ نقصان آخرت کے مقابلے میں عارضی اور قابل تلافی ہے۔ جو کچھ تمھارے لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاں تیار کر رکھا ہے وہ لامحدود اور ہمیشہ رہنے والا ہے۔ اگر تم حقیقی عقل رکھنے والے ہو تو سوچو اور غور کرو ! تمھیں ہمیشہ ہمیش رہنے والی نعمتوں کے لیے کام کرنا ہے یا فنا ہونے والی دنیا کو ترجیح دینا ہے۔ جس نے دنیا کے مقابلے میں آخرت کو مقدم جانا اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا بہترین وعدہ ہے جسے وہ اپنے سامنے پائے گا۔ اس لیے سوچ لوکہ جسے ہم صرف دنیا کا فائدہ دیتے ہیں وہ بہتر ہے یا آخرت کی لا محدود اور ہمیشہ ہمیش رہنے والی زندگی اور اس کی نعمتیں۔ اس حقیقت کے باوجود جس نے دنیا کو آخرت کے مقابلے میں مقدم سمجھا وہ آخرت میں ضرور ذلیل ہوگا۔ (وَلَوْ اَنَّ اِمْرَاَۃً مِّنْ نِّسَآءِ أَھْلِ الْجَنَّۃِ اطَّلَعَتْ اِلَی الْاَرْضِ لَاَضَآءَ تْ مَا بَیْنَھُمَا وَلَمَلَاَتْ مَا بَیْنَھُمَا رِیْحًا وَلَنَصِیْفُھَا یَعْنِی الْخِمَارَ خَیْرٌ مِّنَ الدُّنْیَا وَمَا فِیْھَا) [ رواہ البخاری : کتاب الرقاق، باب صفۃ الجنۃ والنار ] ” اگر اہل جنت کی عورتوں سے کوئی زمین کی طرف جھانک لے تو مشرق و مغرب اور جو کچھ اس میں ہے روشن اور معطر ہوجائے۔ نیز اس کے سر کا دوپٹہ دنیا اور جو کچھ دنیا میں ہے اس سے قیمتی ہے۔“ (عَنْ سَہْلِ بْنِ سَعْدٍ السَّاعِدِیِّ قَالَ قَالَ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَوْضِعُ سَوْطٍ فِی الْجَنَّۃِ خَیْرٌ مِنَ الدُّنْیَا وَمَا فیہَا) [ رواہ البخاری : باب مَا جَاءَ فِی صِفَۃِ الْجَنَّۃِ وَأَنَّہَا مَخْلُوقَۃٌ ] ” حضرت سہل بن سعد الساعدی (رض) بیان کرتے ہیں رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا جنت میں ایک کوڑے کے برابر جگہ ملنا جو کچھ زمین میں ہے اس سے بہتر ہے۔“ مسائل ١۔ دنیا کی زندگی اور اس کے اسباب عارضی ہیں۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لیے جو کچھ تیار کر رکھا ہے وہ دنیا و مافیھا سے بہتر اور ہمیشہ رہنے والا ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ کے وعدے سچے اور اچھے ہیں جن کا صلہ ہر مومن اپنے سامنے پائے گا۔ ٤۔ جس نے آخرت کے مقابلے میں دنیا کو مقدم جانا وہ آخرت میں ذلیل ہوگا۔ تفسیر بالقرآن دنیا کے مقابلے میں آخرت بہتر ہے : ١۔ آخرت کے مقابلہ میں دنیا کی کوئی حقیقت نہیں۔ (الرعد : ٢٦) ٢۔ دنیا کی زندگی آخرت کے مقابلہ میں نہایت مختصر ہے۔ (التوبۃ: ٣٨) ٣۔ آخرت کے مقابلے میں دنیا کی زندگی عارضی ہے۔ (الرعد : ٢٦) ٤۔ دنیا کی زندگی تھوڑی ہے اور آخرت متقین کے لیے بہتر ہے۔ (النساء : ٧٧) ٥۔ یقیناً دنیا کی زندگی عارضی فائدہ ہے اور آخرت کا گھر ہی اصل رہنے کی جگہ ہے۔ (المؤمن : ٤٣) ٦۔ دنیا عارضی اور آخرت پائیدار ہے۔ (المؤمن : ٣٩) ٧۔ دنیا کی زندگی محض دھوکے کا سامان ہے۔ (الحدید : ٢٠) ٨۔ دنیا کے مقابلے میں آخرت بہتر اور ہمیشہ رہنے والی ہے۔ (الاعلیٰ: ١٧) ٩۔ دنیا کھیل اور تماشا ہے۔ (الانعام : ٣٢) القصص
61 القصص
62 فہم القرآن ربط کلام : آخرت کے مقابلے میں دنیا کو ترجیح دینے والوں کا انجام۔ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن مشرکوں کے سامنے شرک کی حیثیت واضح کرنے اور انھیں ایک دوسرے کے سامنے ذلیل کرنے کے لیے حکم صادر فرمائے گا کہ میری ذات اور صفات میں شریک کرنے والو ! وہ لوگ کہاں ہیں جن کو تم سفارشی اور حاجت روا، مشکل کشا سمجھ کر میرے شریک بنایا کرتے تھے ؟ اس وقت حقیقت واضح ہوچکی ہوگی کہ آج ہم ایک دوسرے کی مدد نہیں کرسکتے۔ اس لیے مریدوں سے پہلے پیر، عابد سے پہلے معبود پکار اٹھیں گے اے ہمارے رب ! بے شک یہی لوگ ہیں جنہیں ہم نے گمراہ کیا۔ یہ اسی طرح گمراہ ہوئے جس طرح ہم گمراہ تھے۔ پھر مریدوں کو موقعہ دیا جائے گا کہ بلاؤ اپنی مدد کے لیے جن کو دنیا میں تم مشکل کشا اور سفارشی سمجھتے تھے۔ جب غلط پیروں کو ان کے مریدمدد کے لیے پکاریں گے تو وہ ” اللہ“ کا عذاب دیکھتے ہی اپنی برأت کا اظہار کرتے ہوئے کہیں گے کہ اے اللہ یہ صرف ہماری عبادت نہیں کرتیتھے بلکہ جگہ جگہ ٹکریں مارتے پھرتے تھے۔ دنیا میں مشرک کی یہی حالت ہوتی ہے کہ وہ بیک وقت کئی مزاروں کے چکر کاٹتا اور دردر کی ٹھوکریں کھاتا پھرتا ہے۔ مجرم اس بات کا بھی اظہار کریں گے کہ کاش ہم ہدایت یافتہ ہوتے۔ بخاری شریف میں کئی مقامات پر رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان درج ہے جس میں آپ نے توحید کی برکات کا یوں ذکر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ محشر کے میدان میں اعلان فرمائیں گے جو دنیا میں کسی کی عبادت کرتا تھا وہ اس کے پاس چلا جائے۔ مشرک اپنے اپنے پیروں اور معبودوں کے پاس چلے جائیں گے لیکن کچھ لوگ کھڑے رہیں گے۔ جن میں فاسق لوگ بھی ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ ان سے سوال فرمائیں گے کہ تم کیوں نہیں جاتے؟ وہ عرض کریں گے کہ ہم دنیا میں تیرے ساتھ کسی کو مشکل کشا، حاجت روا، دستگیر اور آپ کی ذات کے ساتھ کسی کو شریک نہیں گردانتے تھے اب بھی تیری ذات کبریا کو چھوڑ کر نہیں جائیں گے۔ چنانچہ شرک سے اجتناب کرنے اور توحید کے صلہ میں انہیں معاف کردیا جائے گا۔ [ رواہ البخاری تفسیر سورۃ النساء ] مسائل ١۔ قیامت کے دن پیروں اور مریدوں کو ایک دوسرے کی مدد کرنے کا موقعہ دیا جائے گا۔ ٢۔ غلط پیر مریدوں کے بولنے سے پہلے مریدوں کو گمراہ کرنے کا اعتراف کریں گے۔ ٣۔ ” اللہ“ کا عذاب دیکھ کر قیامت کے دن پیر، مرید اپنی گمراہی پر افسوس کا اظہار کریں گے۔ تفسیر بالقرآن قیامت کے دن گمراہ پیروں اور مریدوں کا آپس میں جھگڑنا : ١۔ قیامت کے دن پیر مرید ایک دوسرے کا انکار کریں گے اور ایک دوسرے پر پھٹکار کریں گے۔ (العنکبوت : ٢٥) ٢۔ قیامت کے دن پیشوا اپنے پیرو کاروں سے براءت کا اظہار کریں گے۔ (البقرۃ: ١٦٦) ٣۔ قیامت کے دن گمراہ پیروں اور لیڈروں کے پیچھے لگنے والے کہیں گے اگر دنیا میں جانا ہمارے لیے ممکن ہو تو ہم تم سے علیحدگی اختیار کریں گے۔ (البقرۃ: ١٦٥) ٤۔ کمزور بڑوں سے کہیں گے کہ اگر تم نہ ہوتے تو ہم مومن ہوتے۔ (سبا : ٣٢۔ ٣١) ٥۔ قیامت کے دن مجرم دوزخ میں جھگڑیں گے تو چھوٹے لوگ اپنے بڑوں سے کہیں گے کہ ہم تو تمہارے تابع تھے۔ (المومن : ٤٨) ٦۔ قیامت کے دن جہنمیوں کا آپس میں جھگڑنا یقینی ہے۔ ( ص : ٦٤ ) القصص
63 القصص
64 القصص
65 فہم القرآن ربط کلام : مشرکوں سے دوسرا سوال۔ مشرکوں سے دوسرا سوال یہ کیا جائے گا کہ کیا تمھارے پاس رسول آئے اور انھوں نے میری ذات کا تعارف کروایا اور میرے ارشادات تم تک پہنچائے تھے ؟ بتاؤ تم نے انبیاء کرام (علیہ السلام) کو کیا جواب دیا تھا۔ رب ذوالجلال کے جلال اور اپنے گناہوں کی وجہ سے رسولوں کے منکر کوئی جواب نہیں دے پائیں گے اور نہ ہی انھیں ایک دوسرے سے پوچھنے کی ہمت ہوگی۔ مجرم حواس باختی کی وجہ سے سب کچھ بھول جائیں گے۔ اس طرح ان پر گمراہی کی شہادت پوری ثابت ہوجائے گی۔ البتہ جن لوگوں نے شرک سے توبہ کی اور رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پیروی کرتے رہے یقیناً وہ کامیابی پائیں گے۔ رسول کے نافرمان کا قیامت کے دن حسرت کا اظہار : ” ظالم انسان اپنے ہاتھ کاٹے گا اور کہے گا کاش میں نے رسول کی اتباع کی ہوتی۔ ہائے میری کم بختی کاش میں نے فلاں شخص کو دوست نہ بنایا ہوتا۔ اس کے بہکائے میں آکر میں نے وہ نصیحت نہ مانی جو میرے پاس آئی تھی شیطان انسان کے لیے بڑا ہی دھوکہ باز۔ اور رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کہیں گے کہ اے میرے رب میری قوم نے اس قرآن کو مذاق بنالیاتھا۔“ (الفرقان : ٢٧ تا ٣٠ ) القصص
66 القصص
67 القصص
68 فہم القرآن ربط کلام : گمراہ اور ہدایت یافتہ لوگوں کا تذکرہ کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ اپنی حکمت اور اختیارات کا تذکرہ کرتا ہے۔ یہاں شرک کی نفی ایک خاص انداز میں کی گئی ہے۔ مقصود یہ بتلانا ہے کہ اگر لوگ اللہ تعالیٰ کی ذات کو بھول کر دوسروں کو اپنا معبود اور مشکل کشا بنا لیتے ہیں تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ مشرک اللہ تعالیٰ کے اختیار سے باہر ہیں ایسا ہرگز نہ ہے۔ بلکہ اللہ تعالیٰ کی حکمت کا ملہ کا نتیجہ ہے کہ اس نے لوگوں کو ہدایت اور گمراہی کے بارے میں اختیار دے رکھا ہے۔ کہ دونوں میں سے جس کا چاہیں انتخاب کرلیں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ انسانوں کو جس فطرت پر چاہتا ہے پیدا کرتا ہے۔ اسے معلوم ہے کہ کس کو کس قسم کی صلاحیتیں دینی چاہئیں۔ جسے چاہتا ہے اپنے کام کے لیے منتخب کرلیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی تخلیق اور اس کے اختیارات میں کوئی بھی مداخلت نہیں کرسکتا اور نہ ہی اس نے کسی مردہ یا زندہ بزرگ کو اپنی خدائی میں شریک بنایا ہے۔ وہ ہر قسم کی شراکت داری سے مبرّا اور مشرکوں کے تصورات سے بلند و بالا ہے۔ وہ لوگوں کے دلوں کے حال جانتا ہے کہ لوگ کس نیت اور مفاد کی خاطر اس کی ذات اور صفات میں دوسروں کو شریک کرتے ہیں۔ وہی ” اللہ“ ہے اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور نہ ہی کوئی کسی کی حاجت روائی کرنے والا ہے۔ اس کی ذات اور کام ہر لحاظ سے تعریف کے لائق ہیں۔ لہٰذا پہلے اور بعد، اوّل اور آخر وہی تعریف کے لائق ہے اور اسی کی تعریف کرنا چاہیے۔ کیونکہ سب نے اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے اور ہر کسی پر اسی کا حکم کار فرما ہے۔ (عَنْ عَبْدِاللّٰہِ بْنِ عَمْرٍو (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) إِنَّ قُلُوبَ بَنِی آدَمَ کُلَّہَا بَیْنَ إِصْبَعَیْنِ مِنْ أَصَابِعِ الرَّحْمَنِ کَقَلْبٍ وَاحِدٍ یُصَّرِفُہُ حَیْثُ یَشَاءُ ثُمَّ قَالَ رَسُول اللَّہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللَّہُمَّ مُصَرِّفَ الْقُلُوبِ صَرِّفْ قُلُوبَنَا عَلَی طَاعَتِکَ) [ رواہ مسلم : باب تصریف اللہ القلوب حیث یشاء] ” حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) بیان کرتے ہیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بے شک بنی آدم کے دل اللہ تعالیٰ کی دو انگلیوں کے درمیان ایک دل کی طرح ہیں۔ وہ ان کو پھیرتا ہے جیسے چاہتا ہے۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ دعا کی۔ اے اللہ دلوں کو پھیرنے والے ہمارے دلوں کو اپنی فرمانبرداری کی طرف پھیرے رکھنا۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ جو چاہے پیدا کرے اور جیسے چاہے اپنے کام کے لیے منتخب فرماتا ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ ہر قسم کے شرک سے پاک ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ مشرکوں کے شرک اور خیالات سے بلند و بالا ہے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ دلوں کے خیالات کو جاننے والا ہے۔ ٥۔ ہر کسی نے ” اللہ“ کے ہاں ہی لوٹ کر جانا ہے۔ ٦۔ ” اللہ“ کے سوا کوئی عبادت کے لائق اور اس کے سوا کوئی مشکل کشا اور حاجت روا نہیں۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ سب کچھ جانتا ہے : ١۔ اللہ ہر ایک کی نماز اور تسبیح جانتا ہے۔ (النور : ٤١) ٢۔ اللہ تعالیٰ دلوں کے بھید جانتا ہے۔ (المائدۃ: ٧ ) ٣۔ اللہ پر بھروسا کیجیے کیونکہ وہ سنتا اور جانتا ہے۔ (الانفال : ٦١) ٤۔ اللہ جاننے والا اور حکمت والا ہے۔ (النور : ١٨) ٥۔ اللہ تعالیٰ جانتا ہے جو کچھ آسمانوں اور جو کچھ زمین میں ہے۔ (الحجرات : ١٦) ٦۔ جوا للہ جانتا ہے تم نہیں جانتے۔ (البقرہ : ٢١٦) ٧۔ اللہ تعالیٰ تمھارے نفسوں کی خباثت کو جانتا ہے۔ (البقرۃ: ١٨٧) ٨۔ اللہ تعالیٰ لوگوں کے باطن اور ظاہر کو جانتا ہے وہی غیوب کا جاننے والا ہے۔ (التوبۃ: ٧٨) القصص
69 القصص
70 القصص
71 فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ صرف مخلوق کو پیدا کرنے والا ہی نہیں بلکہ پوری کائنات کا نظام بھی چلا رہا ہے۔ جس میں مشرکوں کے بنائے ہوئے شریکوں کا ذرا برابر بھی عمل دخل نہ تھا نہ ہے اور نہ ہوگا۔ کائنات کے نظام میں لیل و نہار کی گردش کا بڑا عمل دخل ہے۔ اگر رات اور دن کا سلسلہ نہ ہوتا یا اسے ختم کردیا جائے تو دنیا کا نظام درہم برہم ہوجائے یہ رنگینیاں، چہل پہل اور انسان کی ترقی لیل و نہار کے نظام کی وجہ سے ہے۔ دن کی اہمیت اور کی ضرورت واضح ہے، رات کو لیجیے۔ اگر رات اور اس کی نیند نہ ہوتی تو انسان کب تک کام کاج کرسکتا تھا۔ یہ رات ہی کا فائدہ ہے کہ آدمی دن کا تھکا ماندہ سوتا ہے۔ لیکن صبح اٹھتا ہے تو ذہن تازہ، جسم توانا اور ہر شخص اپنا اپنا کام کرنے کے لیے تیار ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے رات کو اس طرح بنایا ہے کہ دنیا کا ایک وسیع و عریض حصہ آرام کرر ہا ہوتا ہے۔ جبکہ لوگوں کا دوسرا حصہ دنیا کا نظام چلا رہا ہوتا ہے۔ یہاں رات ہوتی ہے وہاں انسان ہی نہیں اس وسیع و عریض علاقے کے درندے، پرندے، کیڑے مکوڑے یہاں تک کہ چوپائے بھی آرام کرلیتے ہیں تاکہ صبح تازہ دم ہو کر انسانوں کی خدمت میں لگ جائیں۔ لیل و نہار کی گردش اور آنا جانا۔ اللہ تعالیٰ کی قدرت کی ایسی دلیل ہے کہ مشرکوں، خدا کے باغیوں اور کفار کے پاس اس کے خلاف کوئی دلیل نہیں ہے۔ اس لیے فرمایا کہ اگر اللہ تعالیٰ قیامت تک تم پر رات مسلط کر دے تو بتاؤ۔ اس کے سوا کوئی ہے جو تمھارے لیے دن کی روشنی لے آئے لیکن پھر بھی تم اس کی قدرت پر توجہ نہیں دیتے۔ اگر اللہ تعالیٰ دن کو قیامت تک کے لیے طویل کر دے تو بتاؤ کوئی ہے جس رات میں تم سکون پاتے ہو اسے دن میں تبدیل کر دے۔ لیکن پھر بھی تم نگاہ عبرت کے ساتھ اپنے رب کو پہچاننے اور اس کی قدرتوں کو دیکھنے کے لیے تیار نہیں ہو۔ پھر دیکھو اور غور کرو کہ تمھارے رب کا تم پرکتنا کرم ہے اس نے رات کو تمھارے سکون کے لیے اور دن کو تمھارے کام، کاج کے لیے بنایا۔ تاکہ تم اس کی ذات پر ایمان اور اس کے احکام کے سامنے سر تسلیم خم کرکے شکر گزار بن جاؤ۔ شکر گزار ہی اپنے رب کے تابعدار ہوا کرتے ہیں۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ ہی رات کو دن اور دن کو رات میں تبدیل کرتا ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے رات کو سکون اور دن کو کام کاج کے لیے بنایا۔ ٣۔ ” اللہ“ کی قدرتوں پر غور کرنا اس پر ایمان لانا اور اس کا شکر ادا کرنا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن رات اور دن ” اللہ“ کی عظیم نشانیاں ہیں : ١۔ اللہ نے رات اور دن کو اپنی قدرت کی نشانیاں بنایا ہے۔ (بنی اسرائیل : ١٢) ٢۔ دن، رات، سورج اور چاند اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں۔ ( حٰم السجدۃ: ٣٧) ٣۔ آسمان اور زمین کی پیدائش، دن اور رات کے آنے جانے میں عقلمندوں کے لیے اللہ کی قدرت کی نشانیاں ہیں۔ (آل عمران : ١٩٠) ٤۔ بے شک دن اور رات کے مختلف ہونے میں اور جو کچھ اللہ نے زمین و آسمان میں پیدا کیا ہے، اس میں لوگوں کے لیے نشانیاں ہیں۔ (یونس : ٦) القصص
72 القصص
73 القصص
74 فہم القرآن ربط کلام : ” اللہ“ کی قدرتوں اور لیل و نہار کی گردش میں کوئی مداخلت نہیں کرسکتا تو پھر ذات کبریا کے ساتھ دوسروں کو شریک کرنے کا کیا جواز ہے ؟ اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام مجید میں جس بات کی سب سے زیادہ تر دید اور مذّمت کی ہے وہ شرک ہے۔ شرک کرنے والا جن کو ” اللہ“ کے ساتھ یا اس کے سوا پکارتا ہے وہ کسی نہ کسی درجہ میں انہیں اللہ تعالیٰ کے برابر ٹھہراتا یا کم ازکم اس کے اختیارات میں شریک سمجھتا ہے۔ مشرکوں کو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ سوال کرے گا بتاؤ جنھیں تم میرا شریک بناتے تھے کہاں ہیں ؟ اگر ہیں تو انھیں سامنے لاؤ تاکہ وہ اپنی اور تمھاری مدد کرسکیں۔ جو بزرگ دنیا میں لوگوں کو شرک سے منع کرتے رہے۔ وہ رب ذوالجلال کے حضور اپنی صفائی پیش کریں گے کہ اے ہمارے رب ! ہم نے ان لوگوں کو شرک کی نہ تعلیم اور نہ ہی ترغیب دی تھی۔ ہمارے بعد انھوں نے خود ہی ہمیں آپ کا شریک بنا لیا تھا۔ جو لوگ بزرگی اور پیری فقیری کے چکر میں شرک کی تبلیغ اور ترغیب دیتے رہے۔ وہ رب ذوالجلال کے سامنے آنے کی جرأت نہیں کرسکیں گے ملائکہ انھیں مجرموں کی صورت میں رب تعالیٰ کے حضور پیش کریں گے۔ پھر اللہ تعالیٰ ہر اُمّت سے ایک دوسرے پر لوگوں کو گواہ کے طور پر پیش کریں گے تاکہ مشرکوں کو عملاً معلوم ہوجائے کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان سچ تھا کہ نہ اس کا کوئی شریک تھا اور نہ ہے۔ اس وقت اللہ تعالیٰ کے خوف کی وجہ سے مشرک سب کچھ بھول جائیں گے اور نہ ہی شرک کی حمایت میں کوئی دلیل پیش کرسکیں گے۔ انبیاء کرام کی گواہی : (عَنْ أَبِیْ سَعِیْدِنِ الْخُدْرِیِّ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یُدْعٰی نُوْحٌ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ فَیُقَالُ لَہٗ ھَلْ بَلَّغْتَ فَیَقُوْلُ نَعَمْ فَیُدْعٰی قَوْمُہٗ فَیُقَالُ لَھُمْ ھَلْ بَلَّغَکُمْ فَیَقُوْلُوْنَ مَآأَتَانَا مِنْ نَّذِیْرٍ أَوْ مَآ أَتَانَا مِنْ أَحَدٍ قَالَ فَیُقَالُ لِنُوْحٍ مَنْ یَّشْھَدُ لَکَ فَیَقُوْلُ مُحَمَّدٌ وَأُمَّتُہٗ قَالَ فَذٰلِکَ قَوْلُہٗ (وَکَذٰلِکَ جَعَلْنَاکُمْ أُمَّۃً وَّسَطًا) [ مسند أحمد : کتاب باقی مسند المکثرین، باب : مسند أبی سعید الخدری] ” حضرت ابو سعید خدری (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا قیامت کے دن نوح (علیہ السلام) کو پوچھا جائے گا کہ کیا تو نے میرا پیغام پہنچا یا تھا؟ وہ جواب دیں گے ہاں پھر ان کی قوم کو بلا کر پوچھا جائے گا کیا انہوں نے تمہیں تبلیغ کی اور میرا پیغام پہنچایا۔ وہ کہیں گے ہمارے پاس تو ڈرانے والا کوئی نہیں آیا۔ حضرت نوح (علیہ السلام) سے کہا جائے گا آپ کی گواہی کون دے گا؟ وہ کہیں گے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور اس کی امّت۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا یہی اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ (اسی طرح ہم نے تمہیں امّتِ وسط بنایا ہے)۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن مشرک سے ان کے شرک کے بارے میں سوال کرے گا۔ ٢۔ مشرک اپنے شرک کا کوئی جواز پیش نہیں کرسکیں گے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ لوگوں کو ایک دوسرے پر گواہ کے طور پر پیش کرے گا۔ ٤۔ ہر نبی اپنی امت پر گواہ ہوگا۔ تفسیر بالقرآن قیامت کے دن شہادتیں : ١۔ اس دن تمام لوگوں کو جمع کیا جائے گا اور وہ پیشی کا دن ہوگا۔ (ھود : ١٠٣) ٢۔ افترا پردازی کرنے والوں کے خلاف شہادتیں پیش کی جائیں گی۔ (ھود : ١٨) ٣۔ قیامت کے دن مجرم کے منہ پر مہر لگادی جائے گی اس کے ہاتھ اور پاؤں اس کے خلاف گواہی دیں گے۔ ( یٰس : ٦٥) ٤۔ قیامت کے دن ہاتھ، پاؤں اور زبان مجرم کے خلاف شہادت دیں گے۔ ( النور : ٢٤) ٥۔ قیامت کے دن مجرم کے خلاف اس کے کان، آنکھیں اور جسم گواہی دے گا۔ (حٰم السجدۃ: ٢٠) ٦۔ سب کا حساب کتاب لکھا ہوا ہے اور فرشتے ان پر گواہی دیں گے۔ (المطففین : ٢٠۔ ٢١) ٧۔ انبیاء کرام اپنی اپنی امت کے بارے میں گواہی دینگے۔ ( النساء : ٤١) القصص
75 القصص
76 فہم القرآن ربط کلام : اس سورۃ مبارکہ کی آیت ٥٧ میں اہل مکہ کے عذر لنگ کا ذکر کیا گیا ہے ان کا کہنا تھا کہ اگر ہم اس نبی کی اتباع کریں تو ہمارے کاروبار تباہ ہوجائیں گے۔ سورت کے اختتام میں اہل مکہ اور دنیا پرست لوگوں کے سامنے ایک سرمایہ دار کے انجام کا ذکر کیا جاتا ہے۔ اہل علم نے توراۃ اور تاریخ کے حوالے سے یہ بات تحریر کی ہے کہ قارون حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا چچا زاد بھائی تھا۔ جس نے موسیٰ (علیہ السلام) کی بغاوت اور اپنی قوم کے ساتھ غداری کی۔ جس کے معاوضہ میں فرعون نے اسے اپنے ہاں ایک خاص مقام دیا۔ حکومتی خزانے کے بعد ملک بھر میں سب سے زیادہ دولت اس کے پاس تھی۔ جس کے بارے میں مفسرین نے لکھا ہے کہ سینکڑوں خچر اور اونٹ اس کے خزانے کی چابیاں اٹھایا کرتے تھے۔ قرآن مجید نے قارون کے بارے میں فقط اتنا بتلایا ہے کہ وہ موسیٰ (علیہ السلام) کی قوم یعنی بنی اسرائیل سے تعلق رکھتا تھا۔ وہ اپنی قوم کے برخلاف چلا۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی رسی دراز کی اور اسے اس قدر مال دیا جس کی چابیاں ایک طاقت ور جماعت بھی مشکل سے اٹھایا کرتی تھی۔ قارون اپنے مال پر اترانے والا اور یتیموں، مسکینوں کے حقوق سلب کرنے والا تھا۔ اس کی قوم اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے بہت سمجھایا کہ اپنے مال پر اکڑ پھکڑکا اظہار نہ کر۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ اکڑ پھکڑ کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ فخر و غرور کرنے کی بجائے اللہ تعالیٰ نے جو کچھ تجھے دے رکھا ہے۔ اس سے آخرت کا گھر بنانے کی کوشش اور مال سے ذاتی طور پر فائدہ اٹھانے کے ساتھ ساتھ غریبوں، مسکینوں، یتیموں اور بیواؤں کی خدمت کر۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آپ پر احسان فرمایا ہے اس لیے تجھے بھی کمزور لوگوں پر احسان کرنا چاہیے۔ کمزوروں کی مدد نہ کرنا، یتیموں، مسکینوں کے حقوق ادا کرنے سے اجتناب کرنا اور اللہ تعالیٰ کے دیے ہوئے۔ مال پر تکبر کا اظہار کرنا زمین میں فساد کرنے کے مترادف ہے۔ یاد رکھیے کہ اللہ تعالیٰ فساد کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ مسائل ١۔ قارون اپنی قوم کا غدّار اور فرعون کا دست راز تھا۔ ٢۔ قارون اپنے مال پر اترانے والا تھا۔ ٣۔ اس کی قوم اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اسے بہت سمجھایا لیکن وہ فخر و غرور میں آگے ہی بڑھتا گیا۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ فخر و غرور اور فساد کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ ٥۔ جس پر اللہ تعالیٰ احسان فرمائے اسے لوگوں پر احسان کرنا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ کن لوگوں کو پسند نہیں کرتا ؟ ١ اللہ تعالیٰ فخر کرنے والے کو پسند نہیں کرتا۔ (النساء : ٣٦) ٢۔ اللہ تعالیٰ خیانت کرنے والے کو پسند نہیں کرتا۔ (النساء : ١٠٧) ٣۔ اللہ تعالیٰ فساد کرنے والے کو پسند نہیں کرتا۔ (المائدۃ: ٦٤) ٤۔ اللہ تعالیٰ اسراف کرنے والے کو پسند نہیں کرتا۔ (الانعام : ١٤٢) ٥۔ اللہ تعالیٰ تکبر کرنے والے کو پسند نہیں کرتا۔ (النحل : ٢٣) ٦۔ اللہ تعالیٰ کفر کرنے والے کو پسند نہیں کرتا۔ (الروم : ٤٥) ٧۔ اللہ تعالیٰ بے حیائی کو پسند نہیں کرتا۔ (النساء : ٢٢) ٨۔ اللہ تعالیٰ ظلم کرنے والے کو پسند نہیں کرتا۔ (الشوریٰ : ٤٠) ٩۔ اسراف کرنے والوں کو اللہ پسند نہیں کرتا۔ (الانعام : ١٤١) القصص
77 القصص
78 فہم القرآن ربط کلام : قوم اور موسیٰ (علیہ السلام) کے سمجھانے کے باوجود قارون کا طرز عمل۔ قوم کے معزز اور صالح لوگوں نے قارون کو بہت سمجھایا کہ تجھے اللہ تعالیٰ کا شکر گزار ہوتے ہوئے غریبوں، مسکینوں پر مال خرچ کرنا چاہیے اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی مخالفت سے باز آنا چاہیے۔ معزز لوگوں کی بات سمجھنے کی بجائے قارون کہنے لگا کہ اس مال میں کسی دوسرے کا کوئی حق نہیں بنتا کیونکہ یہ میری قابلیت اور محنت کا نتیجہ ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو خوشحال کرنا ہوتا تو وہ ضرور انھیں مال دیتا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کو اِ ن کی یہی حالت منظور ہے اس لیے میں اپاہج اور نکمے لوگوں پراپنا مال ضائع نہیں کرسکتا۔ یہی بات اہل مکہ کے کچھ لوگ کہا کرتے تھے۔ جب انھیں سمجھایا جاتا کہ اللہ تعالیٰ نے جو تمھیں رزق دے رکھا ہے اس میں سے غریبوں، مسکینوں پر خرچ کرو۔ وہ کہتے کہ اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو ان کو ضرور کھلاتا پلاتا۔ (سورۃ یٰسٓ : ٤٧) گویا کہ مشرکین مکہ نہ صرف فرعون اور قارون کی طرح اپنے نبی کے نافرمان تھے بلکہ فکری اور عملی طور پر قارون کے ساتھی بن چکے تھے اس لیے قارون کا واقعہ ذکر فرما کر انھیں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بغاوت اور دنیا کے مال و اسباب پر فخر و غرور کرنے سے روکا گیا ہے۔ لیکن یہ لوگ قارون کی طرح فخر و غرور میں آگے ہی بڑھتے گئے۔ جس طرح قارون بھول چکا تھا کہ اللہ تعالیٰ اس سے پہلے بہت سے ایسے لوگوں کو تباہ کرچکا ہے جو جسمانی قوت اور مال و دولت کے لحاظ سے اس سے کہیں بڑھ کر تھے۔ اللہ تعالیٰ جب مجرموں کی گرفت کرتا ہے تو پھر ان سے یہ نہیں پوچھتاکہ تم کیا کر رہے تھے۔ اس لیے کہ وہ ہمیشہ سے باخبر ہے کہ کون کیا عمل کر رہا ہے۔ باالفاظ دیگر عذاب کے وقت مجرموں کو مہلت نہیں دی جاتی۔ (مُعَاوِیَۃَ أَنَّ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کَانَ یَقُولُ فِی دُبُرِ کُلِّ صَلاَۃٍ مَکْتُوبَۃٍ لاَ إِلَہَ إِلاَّ اللَّہُ وَحْدَہُ لاَ شَرِیکَ لَہُ، لَہُ الْمُلْکُ، وَلَہُ الْحَمْدُ، وَہْوَ عَلَی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیرٌ، اللَّہُمَّ لاَ مَانِعَ لِمَا أَعْطَیْتَ، وَلاَ مُعْطِیَ لِمَا مَنَعْتَ، وَلاَ یَنْفَعُ ذَا الْجَدِّ مِنْکَ الْجَدُّ) [ رواہ البخاری : کتاب الأذان، باب الذکر بعد الصلوۃ] حضرت معاویہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہر نماز کے بعد یہ دعا پڑھا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی الٰہ نہیں نہ ہی اس کا کوئی شریک ہے تمام کی تمام بادشاہت اسی کے لیے ہے اور وہ ہی سب تعریفوں کے لائق ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ اے اللہ! جو چیز تو دے اسے کوئی روکنے والا نہیں اور جو چیز تو نہ دے اسے کوئی دینے والا نہیں۔ تجھ سے بڑھ کر کوئی عظمت والا نفع نہیں دے سکتا“ مسائل ١۔ کسی انسان کو دنیا کا مال صرف اس کی لیاقت کی وجہ سے حاصل نہیں ہوتا ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے بہت سے نافرمان طاقتور اور مالداروں کو ہلاک کیا ہے۔ ٣۔ ہلاک کرتے وقت اللہ تعالیٰ مجرم کے جرائم کے بارے میں سوال نہیں کرتا۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ نے بہت سے مجرموں کو دنیا میں تباہ و برباد کیا : ١۔ تمہارے پروردگار کا حکم آچکا کہ ان پر نہ ٹلنے والا عذاب آنے والا ہے۔ (ھود : ٧٦) ٢۔ ہم نے تم سے پہلے بستیوں والوں کو ہلاک کیا جب انہوں نے ظلم کیا۔ (یونس : ١٣) ٣۔ کتنی ہی بستیاں ہم نے ہلاک کیں اور وہ اپنے آپ پر ظلم کرنے والی تھیں۔ (الحج : ٤٥) ٤۔ اللہ نے انبیاء کی طرف وحی کی کہ ہم ضرور ظالموں کو ہلاک کریں گے۔ (ابراہیم : ١٣) ٥۔ اللہ ظالم لوگوں کو ہلاک کرتا ہے۔ (الانعام : ٤٧) ٦۔ نہیں ہم نے ہلاک کیں بستیاں مگر ان کے رہنے والے ظالم تھے۔ (القصص : ٥٩) ٧۔ جس نے ہماری آیات سے اعراض کیا وہ ظالم ہے اور ہم مجرموں سے بدلہ لیا کرتے ہیں۔ ( السجدہ : ٢٢) القصص
79 فہم القرآن ربط کلام : قارون کا عملاً فخر و غرور کا اظہار کرنا اور اس کا بدترین انجام ہونا۔ مفسرین نے لکھا ہے کہ ایک دن قارون لباس فاخرہ پہنے ہوئے نوکروں، چاکروں اور اپنے دوست واحباب کے ساتھ پورے جاہ و جلال کے ساتھ بڑے جلوس کی شکل میں نکلا۔ تاکہ جاہ و حشمت اور اپنی دولت وثروت کی لوگوں پر دھاک بٹھا سکے۔ وہ اس جاہ و جلال اور شوکت و حشمت کے ساتھ نکلا کہ کمزور ایمان والے لوگ اس قدر مرعوب ہوئے کہ بے ساختہ پکار اٹھے کہ کاش! ہمیں بھی اس طرح کا مال اور اسباب دئیے جاتے جس طرح قارون کو دئیے گئے ہیں۔ یہ تو بڑا ہی خوش بخت اور اچھے نصیب والا ہے۔ لوگوں کی مرعوبیت دور کرنے اور ان کی حقیقی نعمتوں کی طرف توجہ دلاتے ہوئے صاحب علم یعنی صالح کردار لوگوں نے انھیں سمجھایا کہ تم پر افسوس ہو کہ دنیا کے مال اور شان و شوکت سے مرعوب ہوئے جا رہے ہو۔ دیکھو اور غور کرو! کہ حقیقی اور ہمیشہ رہنے والی اللہ کے ہاں دولت وہ اجر ہے جو صاحب ایمان اور صالح کردار لوگوں کو حاصل ہوگا۔ اس اجر کو وہی لوگ پاسکیں گے جو سچے ایمان اور صالح کردار پر ثابت قدم رہیں گے۔ صاحب علم لوگ ابھی کمزور ایمان والوں کو سمجھا ہی رہے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے قارون کو اس کے تکبر کی وجہ سے اس کے مال اور محلات سمیت زمین میں دھنسا دیا۔ جب وہ اپنے مال و اسباب کے ساتھ زمین میں دھنس رہا تھا تو اس کے حواری اور نوکر چاکر اس کی کوئی مدد نہ کرسکے جو کل اس پر رشک کر رہے تھے آج اپنے آپ پر افسوس کرنے لگے اور بے ساختہ کہہ اٹھے کہ حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا ہے رزق کی کشادگی سے سرفراز کرتا ہے اور جس کا چاہتا ہے رزق تنگ رکھتا ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ ہم پر احسان نہ کرتا تو ہمیں بھی قارون کے ساتھ دھنسا دیا جاتا۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ کے باغیوں اور منکروں کو حقیقی کامیابی حاصل نہیں ہوتی۔ صبر و استقامت کی اہمیّت : صبر بے بسی کا نام نہیں صبر قوت برداشت‘ قوت مدافعت بحال رکھنے اور طبیعت کو شریعت کا پابند بنانے کا نام ہے۔ دشمن کے مقابلے میں بہادری اور مستقل مزاجی کے ساتھ پریشانیوں پر حوصلہ رکھنے کا نام صبر ہے اور صبر کرنے والے کو آخرت میں بغیرحساب جنت میں داخلہ نصیب ہوگا اور دنیا میں اللہ تعالیٰ کی رفاقت ودستگیری حاصل ہوگی۔ (اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الصَّابِرِیْنَ) [ البقرۃ: ١٥٢] ” اللہ کی رفاقت اور دستگیری صبر کرنیوالوں کے لیے ہے۔“ (وَاسْتَعِیْنُوْا باالصَّبْرِ وَالصَّلٰوۃِ) [ البقرۃ: ١٥٢] ” صبر اور نماز کے ذریعے اللہ کی مدد طلب کیجیے۔“ (اِنَّمَا یُوَفَّی الصَّابِرُوْنَ اَجْرَھُمْ بِغَیْرِحِسَابِ) [ الزمر : ١٠] القصص
80 القصص
81 القصص
82 ” صبر کرنیوالوں کی جزاء حساب و کتاب کے بغیر جنت کا داخلہ ہے۔“ حضرت عمر (رض) فرمایا کرتے تھے وہ شخض زندگی کے حقائق سے لطف اندوز نہیں ہو سکتا۔ جس میں صبر واستقامت کا فقدان ہو۔ (سیرت عمر فاروق (رض) (قُلْ آمَنْتُ باللّٰہِ ثُمَّ اسْتَقِمْ) [ رواہ البخاری : کتاب الایمان ] ” اللہ کی وحدانیت کا اقرار کرو اور پھر اس پہ ڈٹ جاؤ۔“ تفسیر بالقرآن صبر کا مفہوم اور اس کا صلہ : ١۔ جو لوگ صبر اور نیک عمل کرتے ہیں ان کے لیے مغفرت اور اجرعظیم ہے۔ (ہود : ١١) ٢۔ صبربڑے کاموں میں سے ایک کام ہے۔ (الاحقاف : ٣٥) ٣۔ صبر کرنے والوں کا انجام بہترین ہوتا ہے۔ (الحجرات : ٥) ٤۔ اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ (البقرۃ: ١٥٣) ٥۔ صبر کرنے والے کامیاب ہوں گے۔ (المومنون : ١١١) ٦۔ صبر کرنے والے بغیرحساب کے جنت میں داخل ہوں گے۔ (الزمر : ١٠) القصص
83 فہم القرآن ربط کلام : قارون کی بربادی فخر و غرور کی وجہ سے ہوئی، اس لیے غرور اور تکبر سے اجتناب کرنے والوں کے اجر کا ذکر کیا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قارون کو دنیا کے مال و اسباب سے نوازا تھا۔ لیکن اس نے شکر اور عاجزی اختیار کرنے کی بجائے کفر اور تکبر کا رویہ اختیار کیا۔ جس کے نتیجہ میں اسے اس کی دولت سمیت زمین میں دھنسا دیا گیا۔ قارون کے انجام سے لوگوں کو بتلا دیا گیا ہے کہ تکبر کرنے والوں کا بالآخر یہ انجام ہوگا۔ جو لوگ اللہ کی نافرمانی اور فخر و غرور سے بچیں اور زمین میں دنگا وفساد کرنے سے اجتناب کریں گے۔ ان کے لیے آخرت کا بہتر گھر ہوگا اس کے ساتھ ہی یہ اصول بھی بتلا دیا گیا کہ امیر ہو یا غریب، دنیا کے لحاظ سے چھوٹا ہو یا بڑا جو بھی شریعت کے مطابق نیکی کرے گا اسے اس کی نیکی سے بڑھ کر ثواب دیا جائے گا اور جو اپنے رب کے حضور برائی کے ساتھ آئے گا اسے اس کی برائی کے برابر ہی سزاد دی جائے گی۔ نیکی کی بہتر جزا : (مَنْ جَآء بالْحَسَنَۃِ فَلَہٗ عَشْرُ اَمْثَالِھَاوَ مَنْ جَآء بالسَّیِّءَۃِ فَلَا یُجْزٰٓی اِلَّا مِثْلَھَا وَ ھُمْ لَا یُظْلَمُوْنَ) [ الانعام : ١٦٠] ” جو نیکی لے کر آئے گا تو اس کے لیے دس گنا ثواب ہوگا اور جو برائی لے کر آئے گا سو اسے اس کے برابر سزا دی جائے گی اور ان پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔“ (مَثَلُ الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَھُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ کَمَثَلِ حَبَّۃٍ اَنْبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِیْ کُلِّ سُنْبُلَۃٍ مِّاءَۃُ حَبَّۃٍوَ اللّٰہُ یُضٰعِفُ لِمَنْ یَّشَآءُ وَ اللّٰہُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ) [ البقرۃ: ٢٦١] ” جو لوگ اپنا مال اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں ان کی مثال اس دانے جیسی ہے جس میں سے سات بالیاں نکلیں اور ہر بالی میں سو دانے ہوں اللہ تعالیٰ جسے چاہے بڑھا چڑھاکر دیتا ہے اور اللہ تعالیٰ بڑی وسعت والا، خوب جاننے والا ہے۔“ اہل علم نے ” عُلُوًّا“ کا معنی ” زیادتی، فخر و غرور“ بیان کرنے کے ساتھ دوسروں کو نیچا دکھانا لکھا ہے۔ سورۃ قصص کی ابتداء فرعون کے ظلم و زیادتی کے ذکر سے ہوئی۔ سورۃ کا اختتام فرعون کے قریبی ساتھی ہامان کے انجام سے کیا گیا ہے۔ فرعون نے اقدار کے نشہ میں ” اللہ“ کی توحید کو ٹھکرا دیا اور قارون نے دولت کے نشے میں آکر اللہ کے بندوں پر تکبر کا اظہار کیا۔ دونوں کا انجام بدترین ہوا۔ (عَنِ ابْنِ عُمَر (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بَیْنَمَا رَجُلٌ یَجُرُّ اِزَارَہٗ مِنَ الْخُیَلَاءِ خُسِفَ بِہٖ فَھُوَ یَتَجَلْجَلُ فِی الْاَرْضِ اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ) [ رواہ البخاری : کتاب أحادیث الأنبیاء ] ” حضرت عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا‘ ایک دفعہ ایک شخص تکبر کے ساتھ چادر گھسیٹ کر چل رہا تھا تو اسے زمین میں دھنسا دیا گیا۔ وہ قیامت تک زمین میں دھنستا جائے گا۔“ مسائل ١۔ جو لوگ فخر وغرور اور فساد فی الارض سے بچتے ہیں ان کے لیے آخرت کا بہترین گھر ہوگا۔ ٢۔ متقین کا بالآخر انجام بہتر ہوگا۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ نیکی کی بہتر جزا دے گا اور برے کو اس کی برائی کے برابر سزا دے گا۔ تفسیر بالقرآن نیکی اور برائی کا بدلہ : ١۔ جس نے ذرہ برابر نیکی کی ہوگی وہ اس کو دیکھ لے گا۔ جس نے ذرہ برابر برائی کی ہوگی وہ بھی اس کو دیکھ لے گا۔ (الزلزال : ٧ تا ٨) ٢۔ جو ایک نیکی کرے گا اس کو دس گناکا بدلہ ملے گا جو برائی کرے گا اس کی سزا صرف اتنی ہی ہوگی۔ (الانعام : ١٦٠) ٣۔ برائی کا بدلہ اس کی مثل ہی ہوگا۔ (القصص : ٨٤) ٤۔ نافرمانوں کو ہمیشہ کے عذاب کی سزادی جائے گی۔ (یونس : ٥٢) ٥۔ جس نے سرکشی کی اور دنیا کی زندگی کو ترجیح دی اس کا بدلہ جہنم ہے۔ (النازعات : ٣٧) ٦۔ صبر کرنے والوں کے لیے جنت ہے۔ (الدھر : ١٢) ٧۔ تکبر کرنے والوں کو ذلّت آمیز سزا دی جائے گی۔ (احقاف : ٢٠) القصص
84 القصص
85 فہم القرآن ربط کلام : اہل مکہ کے ساتھ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اختلاف قرآن مجید کی تلاوت اور اس کی مرکزی دعوت توحید سے ہوا۔ اس لیے آخر میں آپ کی نبوت کے بارے میں وضاحت اور توحید کی مخالفت کرنے والوں کا انجام ذکر کیا گیا ہے۔ نبی محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دینے اور کفار کے الزام کے جواب میں ارشاد فرمایا ہے۔ اے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! حالات جیسے بھی ہوں قرآن مجید کو لوگوں تک من و عن پہنچانا ہم نے آپ پر فرض قرار دیا ہے۔ اس سے پہلے آپ کے ذہن میں وہم وگمان بھی نہ تھا کہ اللہ تعالیٰ آپ پر قرآن نازل کرے گا اور اپنے کام کے لیے آپ کو منتخب فرمائے گا۔ آپ حوصلے اور جوانمردی کے ساتھ اپنے رب کا پیغام لوگوں کے سامنے پڑھیں اور کھول کھول کر اس کی توحید بیان فرمائیں، کسی اعتبار سے بھی کفار کے ساتھ معاونت نہ کریں یہ قرآن آپ پر آپ کے رب کی طرف سے رحمت بن کر نازل ہوا ہے اس لیے اللہ تعالیٰ آپ کے مقام کو سب سے اعلیٰ اور بہتر بنائے گا، آپ کی کامیابی کا پھریرا بلند ہوگا اور آخرت میں آپ حوض کوثر کے مالک ہوں گے۔ آپ کا رب خوب جانتا ہے کہ کون شخص گمراہ ہے اور اسے خوب معلوم ہے کہ آپ اپنے رب کی ہدایت پر ہیں اور جہاں تک کفار کے اس الزام کا تعلق ہے کہ یہ قرآن آپ اپنی طرف سے بنا لیتے ہیں یہ سراسر جھوٹ ہے کیونکہ آپ کو بالکل خبر نہ تھی کہ آپ کا رب آپ پر قرآن نازل کرے گا۔ یہ محض اس کی رحمت ہے کہ اس نے آپ کو اپنے پیغام اور کام کے لیے منتخب فرما لیا ہے۔ ” مَعَادْ“ کا معنی لوٹنے کی جگہ ہے جس کا معنی آخرت میں جنت اور دنیا میں کامیابی کے ساتھ مکہ معظمہ کی طرف لوٹنا ہے۔ مفسر قرآن حضرت عبداللہ بن عباس (رض) نے اس کا یہی مفہوم لیا ہے۔ (عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ (لَرَادُّکَ إِلَی مَعَادٍ) قَالَ إِلَی مَکَّۃَ) [ رواہ البخاری : باب (إِنَّ الَّذِی فَرَضَ عَلَیْکَ الْقُرْآنَ) الآیَۃَ] ” حضرت ابن عباس (رض) اس آیت کا مفہوم بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اس سے مراد آپ کا مکہ کی طرف لوٹنا ہے۔“ مسائل ١۔ توحید کا پرچار، قرآن مجید کا ابلاغ کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے۔ ٢۔ توحید کی سمجھ اور قرآن کا فہم ” اللہ“ کی رحمت ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ ہدایت پانے والے اور گمراہ شخص کو اچھی طرح جانتا ہے۔ تفسیر بالقرآن نزول وحی سے پہلے نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نبوت کے بارے میں کچھ نہیں جانتے تھے : ١۔ یہ غیب کی خبریں ہیں جو ہم آپ کی طرف وحی کرتے ہیں آپ اس وقت موجود نہ تھے۔ (یوسف : ١٢) ٢۔ میں نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں اور نہ ہی میں غیب جانتا ہوں۔ (الانعام : ٥٠ ) ٣۔ اگر میں غیب جانتا ہوتا تو اپنے لیے ساری بھلائیاں جمع کرلیتا۔ (الاعراف : ١٨٨) ٤۔ اللہ تعالیٰ کے سوا آسمانوں و زمین کا غیب کوئی نہیں جانتا۔ ( النمل : ٦٥) ٥۔ اللہ تعالیٰ لوگوں کو غیب پر مطلع نہیں کرتا۔ (آل عمران : ١٧٩) ٦۔ اللہ کے پاس غیب کی چابیاں ہیں اللہ کے علاوہ انھیں کوئی نہیں جانتا۔ (الانعام : ٥٩) ٧۔ کہہ دیجیے غیب اللہ کے لیے ہے تم انتظار کرو میں بھی تمھارے ساتھ انتظار کرتا ہوں۔ (یونس : ٢٠) ٨۔ اللہ ہی غیب کو جاننے والا ہے اور وہ کسی پر غیب ظاہر نہیں ہوتا۔ (الجن : ٢٦) القصص
86 القصص
87 فہم القرآن ربط کلام : نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مزید ہدایات : اللہ تعالیٰ نے انبیاء کرام (علیہ السلام) اور نبی آخر الزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کا مقصد بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے۔ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ سے پہلے جتنے پیغمبر مبعوث کیے گئے ہم نے ان کی طرف یہی پیغام بھیجا کہ وہ لوگوں کو بتلائیں اور سمجھائیں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں وہی حاجت روا اور مشکل کشا ہے۔ اس لیے اس کا حکم ہے کہ اسی کی عبادت کی جائے۔ (الانبیاء : ٢٥) نبی آخر الزماں (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خطاب کرتے ہوئے بھی یہی ارشاد فرمایا کہ آپ لوگوں میں اس بات کا اعلان فرمائیں کہ میں بنی نوع انسان کے لیے اللہ کا رسول ہوں۔ مجھے اس ذات نے اپنا رسول منتخب فرمایا ہے جو زمین و آسمانوں کا بادشاہ ہے اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔ وہی موت و حیات پر اختیار رکھنے والا ہے اس کا حکم ہے کہ لوگو! اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ۔ (الاعراف : ١٥٨) یہ وہ دعوت ہے جس کی ہر زمانے میں مشرکوں اور خدا کے باغیوں نے مخالفت کی ہے۔ اس کی پاداش میں کچھ انبیاء کرام (علیہ السلام) کو شہید کیا گیا، کچھ کو ان کے گھر بار اور وطن سے نکالا گیا۔ باقی انبیاء کرام (علیہ السلام) کو اذّیت ناک تکلیفیں دی گئیں۔ انہی تکالیف اور مصائب کا نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے رفقاء کرام کو سامنا کرنا پڑا۔ جس قدر آپ خلوص اور محنت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی توحید کا پرچار کرتے اسی قدر آپ کو تکالیف دی جاتیں۔ نماز کی حالت میں آپ کی گردن پر غلاظت سے بھری ہوئی اونٹ کی اوجڑی رکھی گئی۔ حرم کے اندر آپ کے گریبان کو پکڑا گیا۔ آپ کے ساتھ رشتے ناطے توڑے گئے، مکہ کے بھرے بازار میں آپ کو لہولہان کیا گیا، آپ کے ساتھیوں کو سر عام پیٹا گیا اس کے باوجود آپ قرآن کے ابلاغ اور توحید کے پرچار سے پیچھے نہ ہٹے۔ ان حالات میں آپ کے دل کی ڈھارس اور فریضہ تبلیغ کی فرضیت کا مزید احسس پیدا کرنے کے لیے یہ حکم نازل ہوا۔ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! حالات کی نزاکت اور لوگوں کی مخالفت کے باوجود آپ نے مشرکین کے سامنے قرآن کی تلاوت کرنا اور توحید کی دعوت دینا ہے۔ اِنھیں بار بار بتلاؤ کہ اللہ کے ساتھ کوئی اور عبادت کے لائق اور مشکل کشا، حاجت روا نہیں، اس لیے اس کے سوا نہ کسی کے سامنے جھکنا ہے اور نہ کسی کے حضو رہاتھ پھیلانے ہیں۔ اسی کا حکم جاری ہے اور ہر کسی نے مر کر اسی کی بارگاہ میں حاضر ہونا ہے۔ لہٰذا مشرکوں کی مخالفت آپ کو دعوت حق سے نہ روک دے اور نہ ہی اپنے رب کے ساتھ کسی کی عبادت کرنا، آپ کا رب ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ قائم دائم رہنے والا ہے، اوّل، آخر اسی کا حکم چلنا ہے اور آپ سب نے اسی کے حضور پیش ہونا ہے۔ ” حضرت عبداللہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک بات ارشاد فرمائی اور میں نے دوسری بات کہی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو شخص اس حال میں فوت ہوگیا کہ وہ اللہ کے سوا دوسروں کو پکارتا رہاوہ جہنم میں داخل ہوگا اور میں نے کہا جو بندہ اس حال میں فوت ہوا کہ اس نے اللہ کے ساتھ شرک نہ کیا ہو وہ جنت میں داخل ہوگا۔“ [ رواہ البخاری : کتاب التفسیر، باب قَوْلِہٖ (وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَتَّخِذُ مِنْ دُون اللَّہِ أَنْدَادًا )] مسائل ١۔ داعی حق کو مشرکین کی مخالفت کی پروا کیے بغیر قرآن کی تبلیغ اور توحید کی دعوت کا فریضہ سر انجام دیتے رہنا چاہیے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کوئی اور معبود نہیں اس لیے کسی دوسرے کو پکارنا شرک ہے جسے اللہ تعالیٰ نے کبھی معاف نہیں کرنا۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ کے سوا ہر کسی نے مرنا ہے صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہمیشہ سے ہے اور رہے گی۔ ٤۔ مرنے کے بعد ہر کسی نے اللہ تعالیٰ کے حضو رپیش ہونا ہے اس کا حکم ہر حال میں جاری ہے اور جاری رہے گا۔ تفسیر بالقرآن اللہ کے ساتھ یا اس کے سوا کسی کو پکارنے کی سزا : ١۔ جو اللہ کے سوا کسی دوسرے کو معبود مانتا ہے اسے جہنم میں ذلیل ورسوا کر کے ڈالا جائے گا۔ ( بنی اسرائیل : ٣٩) ٢۔ اللہ کے ساتھ کوئی اور الٰہ نہ سمجھو ورنہ ذلیل ہوجاؤ گے۔ ( بنی اسرائیل : ٢٢) ٣۔ اللہ کے ساتھ کسی اور کو نا پکا رو وگرنہ عذاب میں مبتلا ہو جاؤگے۔ (الشعرآء : ٢١٣) ٤۔ شرک سے تمام اعمال ضائع ہوجاتے ہیں۔ (الزمر : ٦٥) ٥۔ جو شخص اللہ کے ساتھ شرک کرتا ہے گویا کہ وہ آسمان سے گرپڑا۔ (الحج : ٣١) القصص
88 القصص
0 سورۃ العنکبوت کا تعارف ربط سورۃ: القصص کا اختتام اس بات پر ہوا ہے کہ حالات جیسے بھی ہوں ” اللہ“ کے ساتھ کسی کو نہیں پکارنا، حکم اللہ کا چلتا ہے لہٰذا اس کا حکم ہے کہ توحید کی دعوت کو عام کرو۔ العنکبوت کی ابتدا میں ارشاد ہے کہ اس راستہ میں آزمائشیں ضرور آئیں گی۔ تم سے پہلے لوگ بھی آزمائے گئے اور تمہیں بھی ضرور بضرور آزمایا جائے گا تاکہ لوگوں کو کھرے اور کھوٹے کا فرق معلوم ہوجائے۔ سورۃ کا نام آیت 41 سے لیا گیا ہے۔ یہ سورۃ مبارکہ مکہ معظمہ میں نازل ہوئی۔ 7 رکوع اور 69 آیات پر مشتمل ہے۔ اس سے پہلی سورۃ القصص ہے جس کا اختتام اس فرمان پر ہوا ہے کہ ” اللہ“ کے سوا کوئی اور معبود نہیں اس لیے اس کے سوا کسی دوسرے کی عبادت کرنا جائز نہیں۔ اس سورۃ کی ابتدا میں یہ حقیقت کھول دی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے پہلے لوگوں کو بھی مختلف انداز میں آزمایا تھا اور ہر صورت میں وہ تمہیں بھی آزمائے گا۔ آزمائش کا مطلب محض تکلیف دینا نہیں بلکہ سچ اور جھوٹ کے درمیان امتیاز پیدا کرنا مقصود ہوتا ہے جو امتحان کے بغیر ممکن نہیں ہوتا۔ اس کے ساتھ ہی منکرین حق کو بتلایا گیا ہے کہ تم کسی اعتبار سے اللہ تعالیٰ کی گرفت سے باہر نہیں ہو۔ یہ تو اس کی حکمت کا تقاضا ہے کہ وہ تمہیں مہلت پر مہلت دے رہا ہے۔ تمہیں اس مہلت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے رب کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ ہر بات سننے والا اور سب کچھ جاننے والا ہے۔ کسی کے اس کی طرف متوجہ ہونے سے ” اللہ“ کو کوئی فائدہ نہیں پہنچتا کیونکہ وہ ہر اعتبار سے اپنی مخلوق سے بے نیاز ہے جو اپنے رب کی طرف رجوع کرے گا وہ اس کا ضرور فائدہ پائے گا۔ اس سورۃ کا مرکزی مضمون شرک کی نفی اور ” اللہ“ کی توحید کا اثبات کرنا ہے۔ شرک کو مکڑی کے گھر کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہر جاندار چیز کو یہ شعور بخشا ہے کہ وہ اپنے آرام اور رات گزارنے کے لیے اپنا گھر بناتی ہے۔ دنیا کے گھروں میں سب سے کمزور اور ناپائیدار گھر مکڑی کا گھر ہوتا ہے۔ جسے مکڑی اپنے لیے محفوظ سمجھتی ہے۔ حالانکہ نہ اس سے گرمی میں بچا جا سکتا ہے نہ سردی میں اس میں سکون ملتا ہے۔ اس کی ناپائیداری کا عالم یہ ہے کہ ہوا کا معمولی جھونکا بھی اس کا وجود ختم کردیتا ہے۔ یہی مشرک کے عقیدہ کی کیفیت ہوتی ہے وہ جنہیں دکھ اور مصیبت کے وقت پکارتا ہے جو نہی مشرک کو معلوم ہو کہ فلاں شخص بڑا پہنچا ہوا ہے تو وہ سب کو چھوڑ کر اس کی طرف بھاگ جاتا ہے۔ جس طرح مکڑی تانے بانے کو اپنے لیے محفوظ سمجھتی ہے یہی حالت مشرک کی ہوتی ہے۔ وہ اللہ تعالیٰ کے مضبوط سہارے کو چھوڑ کر فوت شدہ لوگوں اور اپنے ہاتھوں سے بنائے ہوئے بتوں یہاں تک کہ درختوں اور پتھروں کو بھی نفع ونقصان کا مالک سمجھتا ہے۔ جس طرح ہوا کا معمولی جھونکا مکڑی کے گروندھے کو ختم کردیتا ہے اسی طرح معمولی پریشانی سے مشرک کا اپنے مشکل کشاؤں سے اعتماد اٹھ جاتا ہے۔ شرک کے عقیدہ کو تار عنکبوت کے ساتھ تشبیہ دینے کے بعد مشرکین سے چند سوال کیے گئے ہیں۔ 1 بتاؤ کہ زمین و آسمانوں کو کس نے پیدا کیا اور کس نے سورج اور چاند کو مسخر کر رکھا ہے؟ 2 ” اللہ“ ہی رزق زیادہ اور کم کرنے والا ہے کیا اس کے سوا کوئی ایسا کرسکتا ہے؟ 3 بتاؤ آسمان سے بارش کون نازل کرتا ہے۔ اور کون بارش کے ساتھ مردہ زمین کو ہریالی عطا کرتا ہے؟ ہر دور کے مشرک کا ایک ہی جواب ہے اور ہوگا کہ یہ کام تو صرف ” اللہ“ ہی کرتا ہے۔ فرمایا کہ تمام تعریفات ” اللہ“ کے لیے ہیں اس نے اپنی توحید سمجھانے کے لیے ایسے دلائل دیے اور مثالیں بیان فرمائی ہیں کہ ہر دور کے مشرک لاجواب ہوتے رہیں گے۔ لیکن اس کے باوجود مشرک توحید سمجھنے اور اس کے تقاضے پورے کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ مشرک جب کسی ناگہانی مصیبت میں مبتلا ہوجاتے ہیں تو باطل معبودوں کو چھوڑ کر صرف ” اللہ“ کو مخلص ہو کر پکارتے ہیں۔ جب ناگہانی مصیبت بالخصوص سمندر کے بھنور سے ان کی کشتی سلامت نکل آتی ہے تو خشکی پر پہنچ کر پھر شرک کرنے لگتے ہیں۔ عقیدہ شرک اختیار کرنا درحقیقت اللہ تعالیٰ کے ذمہ جھوٹ لگانا اور اس کے ارشادات کی تکذیب کرنا ہے۔ کیونکہ شرکیہ عقیدہ کی بنیاد جھوٹی کہانیوں اور من گھڑت کرامات پر قائم ہوتی ہے جو لوگ اللہ تعالیٰ کے ذمہ جھوٹی بات لگائیں گے اور اس کے ارشادات کا انکار کرینگے ان کا ٹھکانہ جہنم ہے جو رہنے کے اعتبار سے بدترین اور اذّیت ناک جگہ ہے۔ ہاں جن لوگوں نے دین اور عقیدہ توحید کو پانے کی کوشش کی اللہ تعالیٰ ضرور ان کی۔ راہنمائی فرمائے گا کیونکہ وہ اخلاص کے ساتھ نیکی کرنے والوں کی دستگیری کرتا ہے۔ العنكبوت
1 فہم القرآن ربط سورۃ : سورۃ القصص کا اختتام توحید کے مرکزی نقطہ پر ہوا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو معبود نہیں بنانا۔ چاہے حالات کتنے ہی ناگفتہ بہ ہوجائیں ایک داعی اور موحد کو ہر حال میں عقیدہ توحید پر قائم رہنا ہے۔ سورۃ العنکبوت کی ابتداء اس بات سے ہوئی کہ توحید کی دعوت دینے اور اس پر قائم رہنے پر مشکلات اور مصائب کا آنا ناگزیر ہے۔ اآمآ۔ حروف مقطعات ہیں جن کے بارے میں تمام مفسرین کا اتفاق ہے کہ ان کا معنی اور مفہوم حدیث مبارکہ سے ثابت نہیں۔ صحابہ کرام (رض) ان کا معنی جانے بغیر ہی تلاوت کیا کرتے تھے۔ حروف مقطعات کے بعد ارشاد ہوتا ہے کیا لوگوں نے یہ سمجھ لیا ہے کہ ہم ” اللہ“ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لانے سے آزمائش میں نہیں ڈالے جائیں گے ؟ انھیں یہ خیال چھوڑ دینا چاہیے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان سے پہلے ایماندار لوگوں کو بھی چھوٹی، بڑی آزمائشوں کے ساتھ آزمایا اور تمہیں بھی ضرور آزمائے گا تاکہ وہ جان لے کہ ایمان کے دعویٰ میں کون سچا اور کون جھوٹا ہے دین اسلام کے اوصاف میں ایک وصف یہ بھی ہے کہ دین اپنے ماننے والوں کو ہر حال میں خوشخبری نہیں سناتا بلکہ اس راستے میں آنے والی مشکلات اور مصائب سے بھی آگاہ کرتا ہے تاکہ دین اسلام کو قبول کرنے والا شخص ذہنی طور پر مشکلات کے لیے تیار ہو کر اسے قبول کرے۔ اس لیے یہاں بار بار تاکید کے الفاظ استعمال فرما کر اللہ تعالیٰ نے ایمانداروں کی ذہن سازی فرمائی ہے کہ میں تمھیں ضرور بضرور آزماؤں گا۔ گھبرانے کی بات نہیں تم سے پہلے لوگوں کو بھی آزمایا گیا کیونکہ سچے اور جھوٹے میں پرکھ کے لیے لازم ہے کہ تمھیں بھی آزمایا جائے مقصد یہ ہے کہ تمھارا رب خوب جان لے کہ کون دعویٰ ایمان میں سچا اور پکا ہے اور کون ایمان میں کچا اور جھوٹا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے جاننے کا یہ معنی نہیں کہ وہ کسی بات اور حقیقت سے بے خبر ہے اس کا حقیقی مفہوم یہ ہے کہ وہ دنیا میں بھی لوگوں کے سامنے ثابت کریں کہ سچے اور جھوٹے کے درمیان کیا فرق ہوتا ہے۔ تاکہ مسلمان جھوٹے لوگوں کے ساتھ اسی انداز میں رہیں جس کا شریعت نے انھیں حکم دیا ہے۔ جہاں تک ایمان لانے کے بعد آزمائش کا تعلق ہے قرآن مجید نے دوسرے موقع پر یہاں تک فرمایا ہے کہ اے مسلمانو! کیا تم نے سمجھ لیا ہے کہ تم یونہی جنت میں داخل کیے جاؤ گے ؟ حالانکہ تمھیں ان حالات سے واسطہ نہیں پڑا جن حالات سے تم سے پہلے لوگوں کو واسطہ پڑا تھا انھیں ہر قسم کی تنگی اور تکلیف پہنچی اور وہ خوب ہلائے گئے یہاں تک کہ رسول اور اس کے ساتھی پکار اٹھے کہ اللہ کی مدد کب آئے گی ؟ تب جا کر اللہ تعالیٰ نے انھیں خوشخبری سنائی کہ اللہ کی مدد تو آ ہی پہنچی ہے۔ (البقرۃ: ٢١٤) (عَنْ خَبَّابِ بْنِ الأَرَتِّ قَالَ شَکَوْنَا إِلَی رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وَہْوَ مُتَوَسِّدٌ بُرْدَۃً لَہُ فِی ظِلِّ الْکَعْبَۃِ، قُلْنَا لَہُ أَلاَ تَسْتَنْصِرُ لَنَا أَلاَ تَدْعُو اللَّہَ لَنَا قَالَ کَان الرَّجُلُ فیمَنْ قَبْلَکُمْ یُحْفَرُ لَہُ فِی الأَرْضِ فَیُجْعَلُ فیہِ، فَیُجَاء بالْمِنْشَارِ، فَیُوضَعُ عَلَی رَأْسِہِ فَیُشَقُّ باثْنَتَیْنِ، وَمَا یَصُدُّہُ ذَلِکَ عَنْ دینِہِ، وَیُمْشَطُ بِأَمْشَاطِ الْحَدِیدِ، مَا دُونَ لَحْمِہِ مِنْ عَظْمٍ أَوْ عَصَبٍ، وَمَا یَصُدُّہُ ذَلِکَ عَنْ دینِہِ، وَاللَّہِ لَیُتِمَّنَّ ہَذَا الأَمْرَ حَتَّی یَسِیر الرَّاکِبُ مِنْ صَنْعَاءَ إِلَی حَضْرَمَوْتَ، لاَ یَخَافُ إِلاَّ اللَّہَ أَوِ الذِّءْبَ عَلَی غَنَمِہِ، وَلَکِنَّکُمْ تَسْتَعْجِلُونَ) [ رواہ البخاری : باب علامات النبوۃ] ” حضرت خباب (رض) بیان کرتے ہیں ہم نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس وقت شکایت کی جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کعبہ کے سایہ میں چادر لپیٹ کر بیٹھے ہوئے تھے۔ ہم نے عرض کی آپ اللہ سے ہمارے لیے دعا کیوں نہیں کرتے ہیں کہ وہ ہماری مدد فرمائے۔ آپ اپنے چہرے سے چادر ہٹاکر بیٹھ گئے اور فرمایا اللہ کی قسم تم سے پہلے لوگوں کو پکڑا جاتا اور ان کو ایک گھڑھے میں گاڑ کر اس کے سر پر آرا رکھ کر دو ٹکڑے کردیا جاتا۔ وہ پھر بھی اپنے دین پر قائم رہتا اس کا گوشت لوہے کی کنگھیوں سے نوچ لیا جاتا لیکن پھر بھی دین سے منحرف نہ ہوتا، اللہ تعالیٰ اس دین کو غالب فرمائے گا کہ ایک سوار صنعا سے لے کر حضرموت تک تن تنہا سفر کرے گا۔ اسے اللہ کے سوا کسی کا ڈر نہیں ہوگا اسے صرف اپنی بکریوں کے متعلق بھیڑیے کا خوف ہوگا، لیکن تم عجلت کا مظاہرہ کر رہے ہو۔“ (عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ مُغَفَّل ٍ قَالَ قَالَ رَجُلٌ للنَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَا رَسُول اللَّہِ وَاللَّہِ إِنِّی لأُحِبُّکَ فَقَالَ انْظُرْ مَاذَا تَقُولُ قَالَ وَاللَّہِ إِنِّی لأُحِبُّکَ فَقَالَ انْظُرْ مَاذَا تَقُولُ قَالَ وَاللَّہِ إِنِّی لأُحِبُّکَ ثَلاَثَ مَرَّاتٍ فَقَالَ إِنْ کُنْتَ تُحِبُّنِی فَأَعِدَّ لِلْفَقْرِ تِجْفَافًا فَإِنَّ الْفَقْرَ أَسْرَعُ إِلَی مَنْ یُحِبُّنِی مِنَ السَّیْلِ إِلَی مُنْتَہَاہُ) [ رواہ الترمذی : باب ماجاء فی فضل اللفقر] ” حضرت عبداللہ بن مغفل (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا اور کہنے لگا اے اللہ کے رسول میں آپ سے محبت کرتا ہوں آپ نے فرمایا اپنے دعویٰ پر غور کر کیا کہہ رہے ہو۔ اس نے کہا اللہ کی قسم میں آپ سے محبت کرتا ہوں آپ نے فرمایا پھر غور کرو کہ کیا کہہ رہے ہو اس نے عرض کی اللہ کی قسم میں آپ سے محبت کرتا ہوں اس نے یہ بات تین مرتبہ دہرائی آپ نے فرمایا اگر تو مجھ سے محبت کرتا ہے تو فقر وفاقہ کے لیے تیار ہوجا۔ اس لیے کہ جو مجھ سے پیار کرتا ہے اس کی طرف فقر وفاقہ سیلاب سے بھی زیادہ تیزی کے ساتھ آتا ہے۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ ایمان والوں کو ضرور آزماتا ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے پہلی امتوں کو بھی آزمایا تھا۔ ٣۔ آزمانے کا مقصد جھوٹے اور سچے، کھرے اور کھوٹے کے درمیان فرق کرنا ہے۔ تفسیر بالقرآن انبیاء کرام (علیہ السلام) اور مومنوں کی آزمائش کی چند مثالیں : ١۔ سخت آزمائش کے وقت رسولوں اور ایماندار لوگوں نے گھبرا کر کہا کہ اللہ کی مدد کب آئے گی۔ (البقرۃ: ٢١٤) ٢۔ اللہ کی طرف سے مومن کی خوف، بھوک، مال و جان کے نقصان سے آزمائش ضرور کی جاتی ہے۔ صابر مومن کے لیے خوشخبری ہے۔ (البقرۃ: ١٥٥) ٣۔ پہلے لوگوں کو بڑی بڑی آزمائشوں سے دو چار کیا گیا تاکہ پتہ چل جائے کہ سچا کون اور جھوٹا کون ہے۔ (العنکبوت : ٣) ٤۔ ( ابرہیم (علیہ السلام) کا اسماعیل (علیہ السلام) کو قربانی کے لیے پیش کرنا) بہت بڑا امتحان تھا۔ (الصٰفٰت : ١٠٦) ٥۔ ابراہیم (علیہ السلام) کو توحید کی خاطر آگ میں پھینکا جانابڑی آزمائش تھی۔ (الانبیاء : ٦٨) ٦۔ ابراہیم (علیہ السلام) کا اپنی بیوی اور نو مولود بچے کو بے آب وگیاہ وادی میں چھوڑ کر جانا بہت بڑی آزمائش تھا۔ (ابرہیم : ٣٧) ٧۔ ہم نے کھرے اور کھوٹے کی پہچان کرنے کے لیے پہلے لوگوں کو آزمایا۔ ( العنکبوت : ٢) ٨۔ ہم نے زندگی اور موت کو آزمائش بنایا تاکہ دیکھیں تم میں سے کون نیک عمل کرتا ہے۔ ( الملک : ٢) العنكبوت
2 العنكبوت
3 العنكبوت
4 فہم القرآن ربط کلام : مومنوں کو آزمائشوں سے آگاہ کرنے کے بعد ظالموں کو انتباہ۔ جو لوگ بلا وجہ مومنوں کو تنگ کرتے ہیں ان کے بارے میں وہی الفاظ اور انداز اختیار کیا ہے جس انداز اور الفاظ میں مومنوں کو آزمائش کے بارے میں آگاہ کیا گیا ہے۔ اس سے مومنوں کو تسلّی دی گئی ہے کہ یہ نہیں ہوسکتا کہ اللہ تعالیٰ ظلم کرنے والوں کو یونہی چھوڑے رکھے گا اور نہ ہی یہ اس کی دسترس سے باہر ہیں۔ بات یہ کہ اللہ تعالیٰ نے اِ ن کی رسی دراز کر رکھی ہے جب پکڑنے پہ آئے گا تو ظالموں کو کوئی چھڑانے والا نہ ہوگا۔ اس کے باوجود اگر یہ سوچتے ہیں کہ ہمیں کھلا چھوڑ دیا جائے گا تو یہ ان کی بدترین غلط فہمی اور غلطی ہے جس کے بارے میں وقت آنے پر انھیں سب کچھ معلوم ہوجائے گا۔ ہاں جو اللہ تعالیٰ سے ملاقات کی توقع رکھتا ہے۔ اپنے عمل کے مطابق سزا اور جزا پر یقین رکھنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ نے ہر کسی کے لیے ایک وقت مقرر کر رکھا ہے جب وقت آئے گا تو لمحہ بھر کی تاخیر نہ ہوگی اللہ تعالیٰ سب کچھ سننے والا اور ہر بات کو جاننے والا ہے۔ مسائل ١۔ ظالم اللہ تعالیٰ کی دسترس سے باہر نہیں ہوتا۔ ٢۔ جسے اللہ تعالیٰ کی ملاقات کا یقین ہے اسے جزا اور سزا پر یقین رکھنا چاہیے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ نے ہر کسی کے لیے ایک وقت مقرر کر رکھا ہے۔ العنكبوت
5 العنكبوت
6 فہم القرآن ربط کلام : انسان دنیا میں رہ کر جو کچھ بھی کرے گا اس کا نفع ونقصان اسی کو پہنچے گا۔ اس فرمان میں بھی ظالموں کو ایک طرح کا انتباہ کیا گیا ہے کہ ہر شخص اچھا ہو یا برا، جو بھی کام کرتا ہے اس کا نفع و نقصان اسی کو ہوگا۔ اللہ تعالیٰ کو کسی کی نیکی کرنے سے کچھ فائدہ نہیں ہوتا اور اگر کوئی زندگی بھر گناہ کرتا رہے تو رب کی ذات اور اس کی بادشاہی میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ کیونکہ وہ ہر کمزوری سے مبرّا اور ہر قسم کی ضرورت سے بے نیاز ہے۔ یہ بات موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو اِ ن الفاظ میں سمجھائی تھی۔ اے میری قوم ! تم اور جو کوئی زمین میں بسنے والا ہے سب کے سب کفر پر جم جاؤ پھر بھی اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کی بادشاہی کو کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ وہ ” غنی“ اور تعریف کے لائق ہے۔ (ابراہیم : ٨) اسی بات کو نبی آخر الزماں (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اللہ تعالیٰ کے الفاظ میں یوں بیان فرمایا : (یَا عِبَادِی لَوْ أَنَّ أَوَّلَکُمْ وَآخِرَکُمْ وَإِنْسَکُمْ وَجِنَّکُمْ کَانُوا عَلَی أَفْجَرِ قَلْبِ رَجُلٍ وَاحِدٍ مَا نَقَصَ ذَلِکَ مِنْ مُلْکِی شَیْءًا) [ رواہ مسلم : باب تَحْرِیم الظُّلْمِ] ” اے میرے بندو اگر تمھارے پہلے، پچھلے جن و انس سارے کے سارے فاجر انسان کی طرح ہوجائیں تو بھی میری بادشاہت میں کسی چیز کی کمی واقع نہیں ہوسکتی۔“ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَامَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حِیْنَ أَنْزَلَ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ (وَأَنْذِرْ عَشِیْرَتَکَ الْأَقْرَبِیْنَ) قَالَ یَامَعْشَرَ قُرَیْشٍ أَوْ کَلِمَۃً نَحْوَھَا اشْتَرُوْٓا أَنْفُسَکُمْ لَآأُغْنِیْ عَنْکُمْ مِنَ اللّٰہِ شَیْءًا یَابَنِیْ عَبْدِ مَنَافٍ لَآأُغْنِیْ عَنْکُمْ مِنَ اللّٰہِ شَیْءًا یَاعَبَّاسَ بْنَ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ لَآأُغْنِیْ عَنْکَ مِنَ اللّٰہِ شَیْءًا وَیَاصَفِیَّۃُ عَمَّۃُ رَسُوْلِ اللّٰہِ لَآأُغْنِیْ عَنْکِ مِنَ اللّٰہِ شَیْءًا وَیَافَاطِمَۃُ بِنْتُ مُحَمَّدٍ سَلِیْنِیْ مَاشِءْتِ مِنْ مَالِیْ لَآأُغْنِیْ عَنْکِ مِنَ اللّٰہِ شَیْءًا) [ رواہ البخاری : کتاب الوصایا، باب ھل یدخل النساء والولد فی الأقارب] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں جب یہ آیت (اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈرائیے) نازل ہوئی تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کھڑے ہوئے اور فرمایا : اے قریش کے لوگو! اپنے لیے کچھ کر لومیں تمہیں اللہ کے عذاب سے کوئی فائدہ نہیں دے سکوں گا، اے بنی عبد منا ف میں تمہیں اللہ کے عذاب سے بچا نہیں سکوں گا‘ اے عباس بن عبدالمطلب ! میں تمہیں اللہ کے عذاب سے کچھ فائدہ نہیں دے سکوں گا، اور اے صفیہ ! رسول کی پھوپھی! میں تمہیں اللہ کے عذاب سے بچا نہیں سکوں گا اور اے فاطمہ بنت محمد! میرے مال سے جو چاہتی ہے مانگ لے میں تجھے اللہ کے عذاب سے نہیں بچا سکوں گا۔“ مسائل ١۔ نیکی یا بدی کرنے کا انسان کو ہی فائدہ یا نقصان ہوگا۔ ٣۔ حقیقی ایمان رکھنے اور صالح اعمال کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ بہترین جزا دے گا۔ ٤۔ نیک لوگوں سے بتقاضاء بشریت جو غلطیاں ہوں گی اللہ تعالیٰ انھیں ضرور معاف کرے گا۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ جہان والوں سے ہر لحاظ سے بے نیاز ہے۔ تفسیر بالقرآن ہر انسان اپنے اچھے، برے اعمال کا ذمہ دارہے : ١۔ کوئی کسی کے اعمال کا ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جائے گا۔ (فاطر : ٤٣) ٢۔ قیامت کے دن کسی پر ظلم نہیں کیا جائیگا اور ہر کسی کو اس کے اعمال کا صلہ دیا جائیگا۔ یٓس : ٥٤) ٣۔ جو شخص نیک اعمال کرتا ہے اس کا صلہ اسی کے لیے ہے اور جو برے اعمال کرے گا اس کا وبال اسی پر ہوگا آپ کا رب اپنے بندوں پر ظلم نہیں کرے گا۔ (حٰم السجدۃ: ٤٦) ٤۔ ہر شخص اپنے معاملات کا خود ذمہ دار ہے۔ (البقرہ : ١٤١) ٥۔ مجر م اپنی جان بچانے کے لیے اپنے گناہوں کی ذمہ داری دوسروں پر ڈالیں گے۔ (الاحزاب : ٦٦۔ ٦٨) ٦۔ قیامت کے دن کوئی کسی کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔ ( النجم : ٣٨) العنكبوت
7 العنكبوت
8 فہم القرآن ربط کلام : اس سے پہلی آیت میں نیک اعمال کا ذکر ہوا۔ یہاں یہ بتلایا کہ اچھے اعمال میں بہترین عمل والدین کے ساتھ بھلائی کرنا اور شرک سے اجتناب کرنا ہے۔ صالح اعمال میں سب سے بڑا عمل۔ اللہ تعالیٰ کو ہر اعتبار سے وحدہٗ لاشریک سمجھنا اور اس کی خالص عبادت کرنا ہے۔ اس کے بعد دوسرا صالح عمل والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنا ہے۔ قرآن مجید کے کئی مقامات پر اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادت کے بعد انسان کو جو حکم دیا کہ وہ اپنے والدین کے ساتھ حسن سلوک کرے۔ والدین کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیتے ہوئے ” احسان“ کا لفظ استعمال کیا ہے۔ یہ لفظ عبادت کے بارے میں استعمال ہو تو اس کا معنی ہے کہ کامل توجہ کے ساتھ اللہ کی عبادت کرنا۔ جب یہ لفظ لوگوں کے بارے میں استعمال کیا جائے تو اس کا معنٰی بھلائی اور دوسرے کے ساتھ احسان کرنا۔ بالخصوص والدین کے بارے میں یہ لفظ بار بار اس لیے استعمال کیا گیا ہے۔ کہ والدین کے ساتھ نیکی کرتے ہوئے ان کی کمزوریوں کو پیش نظر رکھے بغیر ان کے ساتھ احسان کا روّیہ اختیار کرنا فرض ہے۔ انسان جب اپنے آپ کو کسی کا احسان مند سمجھتا ہے تو وہ اس کی دل و جان سے قدر اور تابعداری کرتا ہے۔ اس لیے یہاں اس بات کی وضاحت کردی گئی کہ اگر والدین اولاد کو اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرنے پر مجبور کریں تو اولاد شرک کرنے سے انکار کردے۔ کیونکہ شرک کی بنیاد حقیقی علم اور کسی ٹھوس دلیل پر نہیں ہے۔ جب شرک کی بنیاد حقیقی علم اور ٹھوس دلیل پر نہیں تو اس سے بچنا لازم ہے۔ بے شک والدین ہی شرک کا حکم دینے والے کیوں نہ ہوں۔ یہاں اولاد کے ساتھ مشرک والدین کو بھی متنبہ کیا گیا ہے کہ یاد رکھو کہ بالآخر تم سب نے میری طرف ہی لوٹنا ہے۔ میں تمھیں بتلاؤں گا کہ تم کیا عمل کرتے رہے ہو۔ اولاد ہو یا ماں باپ، جو بھی سچا ایمان لائے اور صالح اعمال کرے گا اسے اللہ تعالیٰ ضرور نیک لوگوں میں شامل فرمائے گا۔ (عن عَبْدِ اللّٰہِ قَالَ سَأَلْتُ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) أَیُّ الْعَمَلِ أَحَبُّ إِلَی اللّٰہِ قَال الصَّلَاۃُ عَلٰی وَقْتِہَا قَالَ ثُمَّ أَیٌّ قَالَ بِرُّ الْوَالِدَیْنِ قَالَ ثُمَّ أَیٌّ قَالَ الْجِہَادُ فِی سَبِیل اللّٰہِ قَالَ حَدَّثَنِی بِہِنَّ وَلَوْ اسْتَزَدْتُہُ لَزَادَنِی) [ رواہ البخاری : کتاب الأدب، باب قول اللہ تعالیٰ ووصینا الانسان بوالدین احسانا] ” حضرت عبداللہ (رض) بیان کرتے ہیں میں نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے استفسار کیا کون سا عمل اللہ تعالیٰ کو زیادہ پسند ہے؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا نماز کو اس کے وقت پر ادا کرنا۔ میں نے پوچھا پھر کون سا ہے؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا والدین کے ساتھ نیکی کرنا۔ میں نے پوچھا پھر کون سا عمل ہے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ کے راستے میں جہاد کرنا۔ حضرت عبداللہ (رض) فرماتے ہیں یہ باتیں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بتائیں اگر میں مزید پوچھتا تو آپ مجھے اور بھی بتاتے۔“ (عَنْ سِمَاکِ بْنِ حَرْبٍ قَالَ سَمِعْتُ مُصْعَبَ بْنَ سَعْدٍ یُحَدِّثُ عَنْ أَبِیہِ سَعْدٍ قَالَ أُنْزِلَتْ فِیَّ أَرْبَعُ آیَاتٍ فَذَکَرَ قِصَّۃً فَقَالَتْ أُمُّ سَعْدٍ أَلَیْسَ قَدْ أَمَرَ اللَّہُ بالْبِرِّ وَاللَّہِ لاَ أَطْعَمُ طَعَامًا وَلاَ أَشْرَبُ شَرَابًا حَتَّی أَمُوتَ أَوْ تَکْفُرَ قَالَ فَکَانُوا إِذَا أَرَادُوا أَنْ یُطْعِمُوہَا شَجَرُوا فاہَا فَنَزَلَتْ ہَذِہِ الآیَۃُ (وَوَصَّیْنَا الإِنْسَانَ بِوَالِدَیْہِ حُسْنًا) الآیَۃَ) [ رواہ الترمذی : باب وَمِنْ سُورَۃِ الْعَنْکَبُوتِ] حضرت سماک بن حرب بیان کرتے ہیں میں نے مصعب بن سعد (رض) سے سنا وہ اپنے باپ سعد (رض) سے بیان کرتے ہیں کہ میرے متعلق چار آیات نازل ہوئی انہوں نے اپنی والدہ کا قصہ بیان کیا سعد کی والدہ کہنے لگی کیا اللہ نے ماں کے ساتھ نیکی کا حکم نہیں دیا۔ اللہ کی قسم اس وقت تک نہ کھانا کھاؤں گی اور نہ پانی پیؤں گی یہاں تک کہ میں مر جاؤں یا تو محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا انکار کرے۔ راوی کہتے ہیں کہ جب سعد اپنی ماں کو کھانا کھلانا چاہتے تو وہ اپنا منہ بند کرلیتی۔ اس وقت یہ آیت نازل ہوئی (اور ہم نے انسان کو تاکیدی حکم دیا کہ وہ اپنے والدین سے نیک سلوک کرے اور اگر وہ اس بات پر زور دیں کہ تو کسی کو میرا شریک ٹھہرائے جس کا تجھے علم نہیں تو ان کی اطاعت نہ کرنا۔ میری طرف ہی تمہیں لوٹ کر آنا ہے۔ میں تمہیں بتلا دوں گا جو کچھ تم کیا کرتے تھے۔) (عِنِ النَّوَاسِ بْنِ سَمْعَانَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لَا طَاعَۃَ لِمَخْلُوْقٍ فِیْ مَعْصِیَۃِ الْخَالِقِ رواہ فی شرح السنۃ)[ مشکوۃ المصابیح : باب کتاب الامارۃ والقضاء] ” حضرت نواس بن سمعان (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا مخلوق کی اطاعت میں اللہ کی نافرمانی جائز نہیں۔“ (عَنْ عَاءِشَۃَ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ مَنْ نَذَرَ أَنْ یُطِیع اللَّہَ فَلْیُطِعْہُ وَمَنْ نَذَرَ أَنْ یَعْصِیَ اللَّہَ فَلاَ یَعْصِہِ) [ رواہ الترمذی : باب مَنْ نَذَرَ أَنْ یُطِیع اللَّہَ فَلْیُطِعْہُ] ” حضرت عائشہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بیان کرتی ہیں کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس نے نذر مانی کہ وہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرے گا تو اسے چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرے۔ اور جس نے نذر مانی کہ وہ اللہ کی نافرمانی کرے گا تو وہ اللہ کی نافرمانی نہ کرے۔“ مسائل ١۔ والدین کے ساتھ اولاد کو ” احسان“ کا رویہ اختیار کرنا چاہیے۔ ٢۔ والدین اولاد کو شرک پر آمادہ کریں تو اولاد کا فرض ہے کہ وہ شرک کرنے سے انکار کردے۔ ٣۔ بالآخر ہر کسی نے اللہ تعالیٰ کے حضور پیش ہونا ہے وہ ہر ایک کو اس کے اعمال کے بارے میں بتائے گا۔ ٤۔ سچا ایمان رکھنے اور نیک اعمال کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ صالح لوگوں میں شامل فرمائے گا۔ تفسیر بالقرآن والدین کے بارے میں ہدایات : ١۔ بنی اسرائیل سے والدین کے ساتھ احسان کرنے کا عہدلیا گیا۔ (البقرۃ: ٨٣) ٢۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو والدہ کے ساتھ حسن سلوک کا حکم ہوا۔ (مریم : ٣٢) ٣۔ والدین کو اف کہنا اور جھڑکناجائز نہیں۔ (بنی اسرائیل : ٢٣) ٤۔ والدین کے سامنے عاجزی سے رہنا اور ان کے لیے دعا کرنی چاہیے۔ (بنی اسرائیل : ٢٤) ٥۔ غیر مسلم والدین کے ساتھ بھی اچھا سلوک کرنا چاہیے۔ (لقمان : ١٥) ٦۔ والدین سے نیکی کرنے کا حکم۔ (بنی اسرائیل : ٢٣) ٧۔ اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو وصیت کی ہے کہ وہ اپنے والدین کے ساتھ احسان کرے۔ (الاحقاف : ١٠) ٨۔ اللہ کی عبادت کرو اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ اور والدین کے ساتھ نیکی کرو۔ (النساء : ٢٦) ٩۔ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ اور والدین کے ساتھ اچھاسلوک کرو۔ (الانعام : ١٥١) العنكبوت
9 العنكبوت
10 فہم القرآن ربط کلام : اس سورت مبارکہ کی ابتداء میں مومنوں کی آزمائش اور ظالموں کی گرفت کے بارے میں فرمایا۔ اب منافقوں کے کردار کے بارے میں ارشاد ہوتا ہے۔ منافق کا لفظ نفق سے نکلا ہے جس کا معنٰی ہے چوہے کی ایسی بل جس کے دو منہ ہوں ایک منہ بند کیا جائے تو چوہا دوسری طرف سے نکل جاتا ہے۔ جب تک دونوں طرف سے بل بند نہ کی جائے چوہا قابو نہیں آتا۔ یہی منافق کا کردار ہوتا ہے کہ اسے اسلام اور مسلمانوں کی طرف سے فائدہ ہو تو وہ اپنے آپ کو مسلمان ثابت کرتے ہوئے اسلام کی خوبیاں ذکر کرتا ہے۔ اگر اسے اسلام کے راستے میں کوئی آزمائش آئے تو وہ کفار کی طرف رخ موڑ لیتا ہے۔ منافق کی اسی کیفیت کا یہاں ذکر کیا گیا ہے کہ کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم اللہ پر ایمان لائے لیکن جب انھیں اللہ کے راستے میں تکلیف پہنچتی ہے۔ یعنی اسلام دشمن قوتوں سے واسطہ پڑتا ہے تو وہ کفار کی طرف سے ملنے والی تکلیف کو۔ اللہ کا عذاب سمجھ کر اسلام اور مسلمانوں سے دور ہوجاتے ہیں۔ جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی مدد اور نصرت حاصل ہوتی ہے اسلام اور مسلمانوں کی طرف سے فائدہ پہنچتا ہے تو وہ کہتے ہیں کہ ہم تمھارے ساتھی ہیں۔ کیا منافق بھول جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ لوگوں کے دلوں کے حال سے پوری طرح واقف نہیں ہے ؟ خبردار انھیں معلوم ہونا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ منافقوں اور مومنوں کے درمیان ضرور فرق واضح کرے گا۔ یہ فرق آخرت میں تو ہر صورت واضح ہو کر رہے گا اگر مسلمان آپس میں متحد اور اسلام پر ثابت رہیں تو اللہ تعالیٰ دنیا میں بھی یہ فرق کرکے دکھلائے گا جس کے نتیجہ میں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ (رض) کے دور میں منافق رسوا ہوئے۔ (عَنِ ابْنِ عُمَرَ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ مَثَلُ الْمُنَافِقِ کَمَثَلِ الشَّاۃِ الْعَاءِرَۃِ بَیْنَ الْغَنَمَیْنِ تَعِیْرُإِ لٰی ھٰذِہٖ مَرَّۃً وَ إِلٰی ھٰذِہٖ مَرَّۃً) [ رواہ مسلم : کتاب صفات المنافقین وأَحکامھم ] ” حضرت عبداللہ بن عمر (رض) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں آپ نے فرمایا منافق کی مثال اس بکری کی طرح ہے جو دو ریوڑوں کے درمیان پھرتی ہے کبھی ایک ریوڑکی طرف جاتی ہے کبھی دوسرے کی طرف۔“ مسائل ١۔ منافق اسلام کے راستے میں آنے والی آزمائش کو اللہ کا عذاب سمجھتا ہے۔ ٢۔ اسلام سے فائدہ حاصل ہو تو منافق اسلام، اسلام کرتا ہے اگر آزمائش آجائے تو منافق کفار کے ساتھ جا ملتا ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ دلوں کے حال جاننے والا ہے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ منافقوں اور مومنوں کے درمیان ضرور فرق واضح کرے گا۔ تفسیر بالقرآن منافق کا کردار اور اس کا انجام : ١۔ منافق دغا باز، ریا کار ہونے کے ساتھ بے توجہگی کے ساتھ نماز پڑھتا ہے۔ (النساء : ١٤٢) ٢۔ منافق کے کلمہ پر اعتبار نہیں کیونکہ وہ جھوٹا ہوتا ہے۔ (المنافقون : ١) ٣۔ منافق کی قسم پر اعتبار نہیں کیونکہ وہ اسے ڈھال کے طور پر استعمال کرتا ہے۔ (المنافقون : ٢) ٤۔ منافق کفار سے دوستی رکھتا ہے۔ (البقرۃ: ١٤) ٥۔ منافق جہنم کے نچلے طبقہ میں ہوں گے۔ (النساء : ١٤٥) العنكبوت
11 العنكبوت
12 فہم القرآن ربط کلام : مسلمانوں کو پھسلانے کے لیے کفار اور منافقوں کے مختلف ہتھکنڈے، اور قیامت کے دن ان کی پوچھ کے بارے میں انتباہ کفار اور منافقوں کی ہر وقت کوشش تھی اور رہتی ہے کہ مسلمانوں کو ان کے دین سے پھسلا دیا جائے۔ اسی کے پیش نظر نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دور میں مسلمانوں کو پھسلانے اور بہکانے کے لیے کفار اور منافقوں نے مسلمانوں کو یہ بھی کہا کہ اگر تم دین اسلام کو چھوڑ دو۔ تو تمھارے اسلام چھوڑنے کا گناہ ہم اپنے ذمہ لے لیں گے۔ اس طرح انھوں نے مسلمانوں کو پھسلانے اور ان کے دلوں سے اسلام کی محبت کم کرنے کی کوشش کی۔ جس کا جواب دیا گیا ہے کہ کفار اور منافقوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ قیامت کے دن کوئی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا لہٰذا یہ لوگ جھوٹ بولتے ہیں۔ البتہ وہ لوگ ضرور اپنا اور دوسروں کا بوجھ اٹھائیں گے جنھوں نے خود گناہ کیے اور دوسروں کو گناہوں پر آمادہ کرتے رہے۔ ایسے لوگون کے جھوٹ اور گناہوں کے بارے میں قیامت کے دن اللہ تعالیٰ ضرور باز پرس کرے گا۔ یاد رہے کہ آخرت کے دن کا بنیادی اصول یہ ہے کہ کوئی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھا سکے گا۔ ہاں جس شخص نے کسی کو بالواسطہ یا بلا واسطہ گمراہ یا کسی کو گناہ پر آمادہ کیا اسے اپنا اور دوسرے کا بوجھ بھی اٹھانا ہوگا۔ اس سے گناہ کرنے والے کا بوجھ ہلکا نہیں ہوگا۔ اسی اصول کی بنیاد پر قرآن مجید میں یہ اصول بیان ہوا ہے کہ ایسے لوگوں کو دوگنا عذاب دیا جائے گا۔ بنی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس اصول کی یوں وضاحت فرمائی ہے۔ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ (رض) أَنَّ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ مَنْ دَعَا إِلَی ہُدًی کَانَ لَہُ مِنَ الأَجْرِ مِثْلُ أُجُورِ مَنْ تَبِعَہُ لاَ یَنْقُصُ ذَلِکَ مِنْ أُجُورِہِمْ شَیْءًا وَمَنْ دَعَا إِلَی ضَلاَلَۃٍ کَانَ عَلَیْہِ مِنَ الإِثْمِ مِثْلُ آثَامِ مَنْ تَبِعَہُ لاَ یَنْقُصُ ذَلِکَ مِنْ آثَامِہِمْ شَیْءًا) [ رواہ مسلم : باب مَنْ سَنَّ سُنَّۃً حَسَنَۃً أَوْ سَیِّءَۃً وَمَنْ دَعَا إِلَی ہُدًی أَوْ ضَلاَلَۃٍ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس نے ہدایت کی طرف بلایا اسے عمل کرنے والے کے اجر کے مطابق اجر ملے گا جنہوں نے اس کی تابعداری کی۔ ان کے اجر میں کسی قسم کی کمی واقع نہ ہوگی اور جس نے گمراہی کی طرف بلایا اس کو گناہ کرنے والے کے برابر گناہ ملے گا جو گمراہ شخص کی تابعداری کرتے ہوئے گمراہی کے راستے پر چلے تھے۔ اور ان کے گناہ میں کسی قسم کی کمی نہیں کی جائے گی۔“ مسائل ١۔ کوئی شخص دوسرے کے گناہوں کا بوجھ نہیں اٹھا سکے گا۔ ٢۔ جس نے کسی کو گمراہ یا گناہ پر آمادہ کیا وہ اپنا اور دوسرے کا بوجھ بھی اٹھائے گا۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن جھوٹ بولنے والے اور گمراہ کرنے والے کو ضرور پوچھے گا۔ تفسیر بالقرآن قیامت کے دن کوئی کسی کا بوجھ نہیں اٹھائے گا اور نہ ہی مجرم کو چھڑا سکے گا : ١۔ ہر ایک کو اس کے اپنے اعمال کام آئیں گے۔ (البقرۃ: ١٣٤) ٢۔ کوئی کسی کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔ (الانعام : ١٦٤) ٣۔ کوئی کسی کے اعمال کا ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جائے گا۔ (فاطر : ٤٣) ٤۔ کسی کے گناہ کے متعلق کسی دوسرے سے نہیں پوچھا جائے گا۔ ( الرحمن : ٣٩) ٥۔ کوئی نفس کسی کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔ (الانعام : ١٦٤) ٦۔ ہر ایک اپنے معاملے کا خود ذمہ دار ہے۔ (البقرہ : ١٤١) ٧۔ روز محشر دوست کام نہ آئیں گے۔ (البقرہ : ٢٥٤) ٨۔ قیامت کے دن مجرم کو اس کے ماں باپ، قریبی رشتہ دار چھوڑ جائیں گے۔ (عبس : ٣٤۔ ٣٦) العنكبوت
13 العنكبوت
14 فہم القرآن ربط کلام : آخرت میں ہی نہیں دنیا میں بھی اللہ کی پکڑ سے کوئی کسی کو نہیں بچا سکتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ہم نے نوح (علیہ السلام) کو اس کی قوم کے لیے مبعوث کیا۔ حضرت نوح (علیہ السلام) انھیں ساڑھے نو سو سال سمجھاتے رہے، قوم نے سمجھنے کی بجائے نوح (علیہ السلام) کو بار بار یہ کہا کہ ہم تیرے کہنے پر ود، سواع، یغوث، یعوق اور نسر کو نہیں چھوڑ سکتے۔ (نوح : ٢٤) یاد رہے یہ اس قوم کے سب سے بڑے بت تھے۔ یہ قوم نوح کے فوت شدہ بزرگوں کے تخیلاتی مجسمے تھے جو انہوں نے اپنے فوت شدہ بزرگوں کی یاد میں بنائے ہوئے تھے۔ قوم نے نوح (علیہ السلام) کو یہ بھی دھمکی دی کہ اگر تو باز نہ آیا تو ہم پتھر مار مار کر تجھے مار ڈالیں گے۔ (الشعراء : ١١٦) اس کے ساتھ ہی یہ کہنے لگے کہ اے نوح (علیہ السلام) ! تیرے اور ہمارے درمیان یہ جھگڑا طول پکڑ گیا ہے اس لیے جس عذاب کا تو ہم سے وعدہ کرتا ہے اسے لے آؤ اگر تو واقعی ہی سچاہے۔ (ہود : ٣٢) تب جا کر اللہ تعالیٰ نے ظالموں پر گرفت فرمائی اور انھیں ڈبکیاں دے دے کر غرق کیا۔ البتہ حضرت نوح (علیہ السلام) اور ان کے ساتھیوں کو ایک کشتی کے ذریعے بچا لیا گیا۔ کشتی اور ڈوبنے والوں کو لوگوں کے لیے عبرت کا نشان بنا دیا گیا۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کے واقعہ کو مختصر بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اے کفار اور منافقو! غور کرو ! کہ جب نوح (علیہ السلام) کے دور میں طوفان آیا تو کوئی کافر ایک دوسرے کو نہیں بچا سکا تھا۔ یہاں تک کہ حضرت نوح (علیہ السلام) اپنے کافر بیٹے اور بیوی کو نہ بچا سکے۔ (ہود : ٤٦) تمھاری کیا حیثیت اور طاقت ہے کہ تم قیامت کے دن ایک دوسروں کا بوجھ اٹھا سکو ؟ (التحریم : ١٥) یہاں حضرت نوح (علیہ السلام) کے واقعہ کی طرف اس لیے بھی اشارہ کیا گیا ہے تاکہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے رفقاء کو تسلّی دی جائے کہ آپ لوگوں کو مظالم سہتے ہوئے ابھی بہت تھوڑا عرصہ گزار ہے۔ غور فرماؤکہ حضرت نوح (علیہ السلام) اور ان کے ساتھیوں نے کس قدر دین حق کے راستے میں محنت کی اور کتنی طویل مدت تک ظالموں کے ظلم برداشت کرتے رہے۔ مسائل ١۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے ساڑھے نو سو سال اپنی قوم کو سمجھایا۔ ٢۔ جب قوم نے سمجھنے سے انکار کیا تو انھیں غرق کردیا گیا۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح (علیہ السلام) اور ان کے ساتھیوں کو کشتی کے ذریعے بچا لیا۔ ٤۔ کشتی اور قوم کو آئندہ نسلوں کے لیے نشان عبرت بنایا۔ تفسیر بالقرآن قوم نوح پر آنے والے عذاب کی چند جھلکیاں : ١۔ قوم نوح طوفان کے ذریعے ہلاک ہوئی۔ (الاعراف : ١٣٦) ٢۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے اپنے بیٹے کو فرمایا آج کے دن اللہ کے عذاب سے کوئی بچانے والا نہیں ہوگا۔ (ہود : ٤٣) ٣۔ قوم نوح کو تباہ کرنے کے لیے آسمان سے موسلاد ھار بارش کے دھانے کھول دئیے گئے۔ ( القمر : ١١) ٤۔ قوم نوح پر عذاب کے وقت تندور نے ابلنا شروع کردیا۔ ( ہود : ٤٠) ٥۔ قوم نوح پر عذاب کی صورت میں آسمان سے پانی برسا اور زمین سے جگہ جگہ چشمے ابل پڑے۔ (ہود : ٤٤) ٦۔ اللہ نے نوح (علیہ السلام) کی تکذیب کرنے والوں کو تباہ وبرباد کردیا۔ (الشعراء : ١٢٠) العنكبوت
15 العنكبوت
16 فہم القرآن ربط کلام : حضرت نوح (علیہ السلام) کے واقعہ میں دوسرے حقائق کے ساتھ یہ بھی حقیقت بیان کی گئی ہے کہ جب نوح (علیہ السلام) کی قوم پر عذاب آیا تو نہ وہ خود ایک دوسرے کو بچا سکے۔ اور نہ ہی ان کے مشکل کشا انہیں بچا سکے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے خطاب سے یہ بات واضح کی گئی ہے کہ مشرک جن بتوں اور معبودوں کو حاجت روا، مشکل کشا سمجھتے ہیں اپنے چاہنے والوں کو نہ نقصان سے بچا سکتے ہیں اور نہ ہی کچھ فائدہ دے سکتے ہیں۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے باپ اور قوم سے بیک وقت یہ استفسار کیا تھا کہ اے والد گرامی اور میری قوم کے لوگو! بتلاؤ جن پتھر اور مٹی کی بنی ہوئی مورتیوں کے سامنے تم مراقبے، اور جن سے مانگتے ہو ان کی حقیقت اور حیثیت کیا ہے ؟ ان کا جواب تھا کہ ہم نے اپنے آباء واجداد کو اس طرح ہی عبادت کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے انھیں باور کروایا کہ تم واضح طور پربہک چکے ہو۔ (الانبیاء : ٥١ تا ٥٤) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو یہ بھی سمجھایا کہ صرف ایک اللہ کی عبادت کرو اور اسی سے ڈرتے رہو یہی تمھارے لیے بہتر ہے اگر تم حقیقت جانتے ہو۔ اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر تم بتوں کی عبادت کرتے ہو اور پھر ان کے بارے میں جھوٹا پراپیگنڈہ کرتے ہو۔ اللہ تعالیٰ کی چھوڑ کر جن کی تم عبادت کرتے ہو وہ تمھیں کسی قسم کا رزق دینے کا اختیار نہیں رکھتے۔ صرف ایک اللہ سے رزق مانگو اسی ایک کی عبادت کرو اور اسی کا شکریہ ادا کرو۔ کیونکہ تم سب نے اسی کی طرف پلٹ کر جانا ہے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے اور اس سے ڈرنے کی تلقین کرتے ہوئے یہ بھی فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے سوا جن بتوں اور مورتیوں سے مانگتے اور ان کے سامنے جھکتے اور سجدہ کرتے ہو ان کی کوئی حقیقت نہیں ہے اور نہ ہی وہ تمھارے نفع اور نقصان کے مالک ہیں۔ ان کو خود ہی تم بناتے، سجاتے ہو اور پھر لوگون کو ان کا گرویدہ بنانے کے لیے جھوٹی کہانیاں تراشتے ہو حالانکہ وہ تمھیں ایک دانہ بھی نہیں دے سکتے۔ مشرکین کی شروع سے یہ عادت رہی ہے کہ اپنے ہاتھوں سے بنائے ہوئے مزارات، بت اور مورتیوں کے بارے میں ذاتی اور جماعتی مفاد کی خاطر داستانیں پھیلاتے ہیں کہ فلاں شخص فلاں مزار پر گیا تو اسے نرینہ اولاد مل گئی۔ وہ شخص فلاں مقام پر پہنچا تو اس کی مشکل حل ہوگئی۔ فلاں فوت شدہ بزرگ نے فلاں جگہ پہنچ کر فلاں شخص کی مدد کی۔ یہ صاحب قبر اس مشکل کا تریاق رکھتا ہے اور وہ قبر والا فلاں پریشانی کو دور کرتا ہے۔ یہ اقتدار اور اقبال عنایت کرتا اور وہ گنج بخش اور شکر گنج ہے اور اپنے ماننے والوں کی روزی میں اضافہ کرتا ہے۔ اس طرح کی کہانیاں ہر دور کے مشرک بالخصوص متولی، مجاور اور یہ عقیدہ رکھنے والے علماء بناتے اور بتاتے رہتے ہیں۔ رزق کی کشادگی کی خواہش انسانی فطرت کی کمزوری ہے اس لیے نام نہاد مذہبی لوگ مزارات پر اور کافر بتوں کے سامنے نذو نیاز پیش کرتے ہیں تاکہ ان کی روزی اور وسائل میں اضافہ ہوجائے۔ یہی عقیدہ ہزاروں سال پہلے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی قوم کا تھا جس سے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو منع کیا اسی وجہ سے انھوں نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو آگ میں پھینکا۔ جب ابراہیم (علیہ السلام) آگ سے سلامت نکلے تو پھر قوم، حکومت اور ان کے باپ نے بالاتفاق ابراہیم (علیہ السلام) کو وطن چھوڑنے پر مجبور کیا۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی دعوت اور اس کے رد عمل کی طرف توجہ دلاکر نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے ساتھیوں کو بتلایا ہے کہ آپ کے جدّ امجد کو کن کن مصائب اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ جس طرح وہ اور ان کے ساتھی ثابت قدم رہے آپ اور آپ کے ساتھیوں کو بھی استقامت اور صبر و استقلال کا مظاہر کرنا ہوگا۔ جس طرح آپ کو جھٹلایا جا رہا ہے اسی طرح پہلے انبیاء کرام (علیہ السلام) کو جھٹلایا گیا۔ حالات جیسے بھی ہوں رسول پر لازم ہے کہ وہ لوگوں کے سامنے کھول کھول کر عقیدہ توحید بیان کرے اور پوری جرت و استقلال کے ساتھ شرک کی تردید کرتا رہے۔ مسائل ١۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو خالص اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے اور اسی سے ڈرنے کی تلقین کی۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ کی خالص عبادت کرنا اور اس سے ڈر کر زندگی گزارنا بہترین طرز زندگی ہے۔ ٣۔ جو لوگ اللہ تعالیٰ کے سوا دوسروں کی عبات کرتے ہیں وہ لوگوں کو گمراہ کرنے کے لیے ان کے نام پر جھوٹے قصہ کہانیاں اور کرامات بیان کرتے ہیں۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی رزق دینے والا نہیں اس لیے اسی سے رزق مانگنا، اسی کی عبادت کرنا اور اسی کا شکریہ ادا کرنا چاہیے۔ ٥۔ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کام کھلے الفاظ میں لوگوں تک حق پہنچانا تھا۔ جو آپ نے کماحقہ لوگوں تک پہنچایا۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نفع و نقصان کا مالک اور رزق دینے والا نہیں : ١۔ اللہ کے سوا کسی کو نہ پکاروجو نہ نقصان پہنچا سکتا ہے اور نہ نفع دے سکتا ہے۔ (یونس : ١٠٦) ٢۔ اللہ کے سوا کوئی ذرہ بھر بھی نفع و نقصان کا مالک نہیں۔ (الانبیاء : ٦٦) ٣۔ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ اعلان فرمادیں کہ میں اپنے بارے میں بھی نفع ونقصان کا مالک نہیں ہوں (الاعراف : ١٨٨) ٤۔ کیا تم انکی عبادت کرتے ہو جو تمہیں نفع و نقصان نہیں پہچاسکتے۔ (الانبیاء : ٦٦) ٥۔ کیا وہ نہیں جانتے کہ اللہ ہی رزق کو فراخ اور تنگ کرتا ہے۔ (الزمر : ٥٢) ٦۔ زمین میں ہر قسم کے چوپاؤں کا رزق اللہ کے ذمّہ ہے۔ (ھود : ٢) ٧۔ بے شک اللہ ہی رزق دینے والا ہے۔ (الذّاریات : ٥٨) ٨۔ ہم نے اس زمین میں تمہارے لیے معاش کا سامان بنایا اور ان کے لیے بھی جنہیں تم روزی نہیں دیتے۔ (الحجر : ٢٠) العنكبوت
17 العنكبوت
18 العنكبوت
19 فہم القرآن ربط کلام : انبیاء کرام اور نبی آخر الزّماں نے لوگوں تک کھلے الفاظ میں توحید اور حق بات پہنچائی اب لوگوں کا فرض ہے کہ وہ اللہ کی توحید پر ایمان لائیں اور حق بات قبول کریں۔ عقیدہ توحید سمجھنے کے لیے پہلی بات یہ ہے کہ انسان ” اللہ“ کی قدرتوں پر غور کرے اور پھر سچے دل کے ساتھ ایمان لائے کہ ساری مخلوق پیدا کرنے والا صرف ایک ” اللہ“ ہے جب انسان یہ حقیقت سمجھ جائے اور اس پر خلوص نیت کے ساتھ ایمان لے آئے تو وہ ایک ” اللہ“ کی عبادت کرنے کے ساتھ ساتھ ہر قسم کے شرک سے بچ جائے گا۔ اس لیے حکم ہوا ہے کہ لوگو! کیا تم نے غور نہیں کیا ؟ کہ اللہ تعالیٰ مخلوق کو پہلی بار کس طرح پیدا کرتا ہے اور پھر اسے زندہ کرے گا یہی بات انسان کو اپنے بارے میں سوچنا چاہیے کہ جس ” اللہ“ نے انسان کو پہلی مرتبہ پیدا کیا ہے اس کے لیے بہت ہی آسان ہے کہ وہ اسے دوبارہ پیدا کرے۔ اگر انسان کو مر کر جی اٹھنے پر اعتبار نہیں تو وہ زمین پر چل کر دیکھے خاص طور پر کسی صحرا میں جا کر ملا حظہ کرے کہ موسم خزاں میں جو جڑی بوٹیاں گل سڑ گئی تھیں۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں کس طرح دوبارہ پیدا فرمایا ہے۔ اسی طرح لوگوں کو دوبارہ پیدا کیا جائے گا کیونکہ اللہ تعالیٰ ہر کام کرنے پر کامل اور اکمل قدرت رکھتا ہے۔ (عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَا بَیْنَ النَّفْخَتَیْنِ اَرْبَعُوْنَ قَالُوْ یَا اَبَا ھُرَیْرۃَ اَرْبَعُوْنَ یَوْمًا قَالَ اَبَیْتُ قَالُوْا اَرْبَعُوْنَ شَھْرًا قَالَ اَبَیْتُ قَالُوْا اَرْبَعُوْنَ سَنَۃً قَالَ اَبَیْتُ ثُمَّ یُنْزِلُ اللّٰہُ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَیُنْبَتُوْنَ کَمَآ یَنْبُتُ الْبَقْلُ قَالَ وَلَیْسَ مِنَ الْاِنْسَانِ شَیْءٌ لَا یَبْلٰی اِلَّاعَظْمًا وَاحِدًا وَّھُوَ عَجْبُ الذَّنَبِ وَمِنْہُ یُرَکَّبُ الْخَلْقُ یَوْمَ الْقِیَا مَۃِ) [ متفق علیہ] وَفِیْ رِوَایَۃٍ لِمُسْلِمِ قَالَ کُلُّ اِبْنِ اٰدَمَ یَاکُلُہٗ التُّرَاب الاَّ عَجْبَ الذَّنَبِ مِنْہُ خُلِقَ وَفِیْہِ یُرَکَّبُ [ متفق علیہ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا دوسرا صور پھونکنے کا عرصہ چالیس ہوگا۔ حضرت ابوہریرہ (رض) سے ان کے شاگردوں نے پوچھا چالیس دن ؟ حضرت ابوہریرہ (رض) نے فرمایا کہ میں یہ نہیں جانتا۔ انہوں نے استفسار کیا چالیس ماہ ؟ حضرت ابوہریرہ (رض) نے جواباً فرمایا میرا کوئی جواب نہیں۔ انہوں نے پھر پوچھا چالیس سال ہیں؟ ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں میں یہ بھی نہیں کہتا۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ بارش نازل فرمائے گا۔ لوگ یوں اگیں گے جس طرح انگوری اگتی ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا، انسان کی دمچی کے علاوہ ہر چیز مٹی ہوجائے گی۔ قیامت کے دن اسی سے تمام اعضاء کو جوڑا جائے گا۔ (بخاری و مسلم) اور مسلم میں ہے۔ کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا انسان کے تمام اعضاء کو مٹی کھا جائے گی۔ سوائے دمچی کے انسان اسی سے پیدا کیا جائے گا اور جوڑا جائے گا۔“ اللہ تعالیٰ کے لیے پہلی مرتبہ پیدا کرنا یا اس کا اعادہ کرنا بالکل سہل ہے سوائے انسان کو سمجھانے کے لیے ذکر فرمایا ہے کہ پہلی دفعہ پیدا کرنے سے دوسری مرتبہ پیدا کرنا بہرحال آسان ہے۔ مسائل اللہ ہی انسان کو پیدا کرنے والا اور وہی اسے دوبارہ پیدا کرے گا۔ اللہ تعالیٰ کے لیے انسان یا کسی دوسری چیز کو دوبارہ پیدا کرنا آسان ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ ہی پہلی اور دوسری مرتبہ پیدا کرنے والا ہے : ١۔ اللہ ہی زندہ کرتا اور مارتا ہے۔ (آل عمران : ١٥٦) ٢۔ اللہ تعالیٰ مارنے کے بعد زندہ کرے گا۔ (البقرۃ: ٧٣) ٣۔ اللہ تعالیٰ مردہ سے زندہ اور زندہ سے مردہ کرتا ہے۔ (آل عمران : ٢٧) ٤۔ اللہ ہی موت وحیات کا خالق ہے۔ (الملک : ٢) ٥۔ بے شک زمین و آسمان کی بادشاہت اللہ کے لیے ہے وہ زندہ کرتا اور مارتا ہے۔ (التوبۃ: ١١٦) العنكبوت
20 العنكبوت
21 فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ انسان کو صرف زندہ ہی نہیں کرے گا بلکہ اپنی بارگاہ میں حاضر فرماکر صحیح عقیدہ اور نیک عمل کرنے والوں پر رحم فرمائے اور برے لوگوں کو سزا دے گا۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اپنی مہربانی اور بخشش کے اصول بتلا دیے ہیں اور اپنی گرفت اور سزا کا بھی قانون واضح کیا ہے۔ بخشش اور عذاب کے اصول بتلانے کے باوجود اسے کامل اختیا رحاصل ہے کہ جسے چاہے معاف فرمائے اور جسے چاہے عذاب میں مبتلا کرے۔ اللہ تعالیٰ کو زمین و آسمانوں میں کوئی عاجز اور بے بس کرنے والا نہیں ہے۔ تاہم اس کا فرمان ہے کہ مشرک اور کافر کے علاوہ جسے چاہے گا معاف فرما دے گا اور ہر کسی نے اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔ وہی زمینوں، آسمانوں کا مالک ہے اس کی مرضی کے بغیر کوئی کسی کی خیر خواہی اور نہ کسی قسم کی کوئی مدد کرسکتا ہے۔ جن لوگوں نے اللہ تعالیٰ کی ملاقات اور اس کی آیات کا انکار کیا وہ اس کی رحمت سے مایوس ہوگئے اور ان کے لیے اذّیت ناک عذاب ہوگا۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ جسے چاہے عذاب دے گا اور جس پر چاہے رحم فرمائے گا۔ ٢۔ ہر کسی نے اللہ ہی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔ ٣۔ دنیا اور آخرت میں کوئی شخص اللہ تعالیٰ کو مجبور نہیں کرسکتا۔ ٤۔ اللہ کی مرضی کے خلاف نہ کوئی خیر خواہی کرسکتا ہے اور نہ ہی مدد دے سکتا ہے۔ ٥۔ اللہ کی آیات اور اس کی ملاقات کے منکر اس کی رحمت سے مایوس ہوتے ہیں۔ ٦۔ آیات ربانی کا انکار کرنے والے اذیت ناک عذاب میں مبتلا ہوں گے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ کی مرضی کے خلاف انسان کی کوئی مدد نہیں کرسکتا : ١۔ مدد تو صرف اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتی ہے یقیناً اللہ غالب حکمت والا ہے۔ (الانفال : ١٠) ٢۔ جنہیں تم اللہ کے سوا معبود مانتے ہو کیا وہ تمہاری یا اپنی مدد کرسکتے ہیں؟۔ (الشعراء : ٩٣) ٣۔ کیا ان کے پاس ہمارے سوا معبود ہیں جو ان کی حفاظت کریں ؟ وہ تو خود اپنی مدد کی قدرت نہیں رکھتے اور نہ ہمارے مقابلے میں ان کا ساتھ دیا جاسکتا ہے۔ (الانبیاء : ٤٣) ٤۔ کیا وہ ان کو ہمارا شریک ٹھہراتے ہیں؟ جنہوں نے کچھ پیدا نہیں کیا اور وہ خود پیدا کیے گئے ہیں اور وہ انہیں کسی قسم کی مدد بھی نہیں دے سکتے بلکہ وہ اپنی مدد بھی نہیں کرسکتے۔ (الاعراف : ١٩١۔ ١٩٢) ٥۔ اور جن کو تم اللہ کے سوا پکارتے ہو نہ تو وہ تمہاری مدد کرسکتے ہیں اور نہ اپنی۔ (الاعراف : ١٩٧) ٦۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے کہا اگر میں انہیں دھتکار دوں تو اللہ کے مقابلہ میری مدد کون کرے گا؟۔ (ھود : ٣٠) ٧۔ مومن بندے نے (فرعون کے روبرو پوری قوم کو مخاطب کرکے کہا تھا) اگر اللہ کا عذاب آجائے تو ہماری مدد کون کرے گا۔ (مومن : ٢٩) ٨۔ انہوں نے اللہ کے سوامعبود بنا لیے تاکہ وہ ان کے مد گار ہوں حالانکہ وہ ان کی کچھ مدد نہیں کرسکتے۔ (یٓس : ٧٤۔ ٧٥) العنكبوت
22 العنكبوت
23 العنكبوت
24 فہم القرآن ربط کلام : حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنی قوم سے جو خطاب کیا اس کا تذکرہ آیت سولہ اور سترہ میں ہوچکا۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اپنے خالق ہونے کے دلائل دیے گئے جو لوگ عقیدہ توحید کا انکار کرتے ہیں ان کی سزا بیان کی گئی۔ یہ وضاحت بھی کردی گئی کہ کفار اپنے عقیدہ کی وجہ سے اپنے رب کی رحمت سے مایوس ہوچکے ہیں۔ اب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی دعوت کا رد عمل بیان کیا جاتا ہے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی دعوت کے جواب میں قوم کا رد عمل تھا کہ ابراہیم (علیہ السلام) کے ٹکڑے ٹکڑے کردیے جائیں یا پھر اسے آگ میں جلا دیا جائے۔ (قَالُوا حَرِّقُوْہُ وَانْصُرُوْا اٰلِہَتَکُمْ إِنْ کُنْتُمْ فَاعِلِیْنَ) [ الانبیاء : ٦٨] ” اگر اپنے خداؤں کو بچانا چاہتے ہو تو اس کو زندہ جلا دو۔“ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی امن عامہ کے تحت گرفتاری : حکمرانوں نے نے فیصلہ کیا کہ امن عامہ کے تحت ابراہیم (علیہ السلام) گرفتار کرلیا جائے۔ چنانچہ آپ کو دس دن تک جیل میں رکھا گیا اور پھر بادشاہ کی کونسل نے انہیں زندہ جلاد ینے کا فیصلہ کیا اس طرح عوام اور حکمران سب کے سب اس بات پر متفق ہوچکے کہ ابراہیم (علیہ السلام) کو زندہ نہ چھوڑا جائے بلکہ عبرتناک سزا دی جائے۔ عوامی مطالبہ : (قَالُوا ابْنُوْا لَہُ بُنْیَانًا فَأَلْقُوْہُ فِی الْجَحِیْمِ)[ الصّٰفٰت : ٩٧] ” اس کے لیے ایک بڑا گہرا گڑھا بناؤ اور اس کو آگ سے بھر کرابراہیم کو دہکتے ہوئے انگاروں میں پھینک دو۔“ شا ہی آرڈنینس کے تحت پوری مشینری آگ کو بھڑ کا نے میں لگی ہوئی ہے۔ علامہ ابن کثیر نے لکھا ہے کہ لوگوں کے جذبات کا عالم یہ تھا کہ عورتیں نذریں ما نتی تھی۔ اگر فلاں مشکل یا بیماری رفع ہوجائے تو میں اتنی لکڑیاں آگ میں ڈالوں گی مؤ رخین نے تحریر کیا ہے کہ آج تک آگ کا اتنا بڑا الاؤ دیکھنے میں نہیں آیا۔ آگ کے شعلے آسمان سے باتیں کرتے ہوئے دکھائی دیتے تھے۔ آگ میں پھینکنے کا وقت آیا تو مسئلہ پیدا ہوا کہ اس قدر پھیلی ہوئی آگ میں ابراہیم کو کس طرح پھینکا جائے۔ شا ہی کو نسل کا ہنگامی اجلس طلب کیا جاتا ہے۔ زیر غور مسئلہ یہ ہے کہ ابر اہیمکو آگ میں کس طرح پھینکا جاۓ ؟ فیصلہ ہوتا ہے کہ ایسی مشین تیار کئی جائے جس میں جھو لادے کر آگ کے درمیان میں پھینکا جاۓ لہٰذا اس طرح کیا گیا تجویز دینے والے کو اللہ تعالیٰ نے اسی وقت زمین میں دھنسا دیا اور قیامت تک وہ زمین میں دھنستا جاۓ گا۔ (ابن کثیر ) مسائل ١۔ قوم نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو آگ میں پھینک دیا۔ اللہ تعالیٰ نے ابراہیم (علیہ السلام) کو آگ سے بچالیا۔ تفسیر بالقرآن حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی دعوت اور اس کارد عمل : ١۔ حضرت ابراہیم نے اپنی قوم کو فرمایا اے میری قوم اللہ کی عبادت کرو اور اسی سے ڈرو۔ (العنکبوت : ١٦) ٢۔ حضرت ابراہیم نے کہا اے میری قوم! میں تمہارے شرک سے برأت کا اظہار کرتا ہوں۔ (الانعام : ٧٨ ) ٣۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے باپ کو تبلیغ کرتے ہوئے کہا اے ابا جان آپ ان کی عبادت کیوں کرتے ہیں جو نفع و نقصان کے مالک نہیں۔ (مریم : ٤٢) ٤۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا مشرکوں کو چیلنج۔ (الممتحنۃ: ٤) ٥۔ ابراہیم (علیہ السلام) کے خلاف انہوں نے سازش کی۔ اللہ نے انہیں خائب و خاسر کردیا۔ (الانبیاء : ٧٠) ٦۔ مشرکین نے ابراہیم (علیہ السلام) کے لیے آگ کا الاؤ جلایا اور انہیں آگ میں ڈال دیا۔ ( الصّٰفّٰت : ٩٧) ٧۔ ابراہیم (علیہ السلام) کے باپ نے کہا اگر تو باز نہ آیا تو تجھے سنگسار کر دوں گا تجھے گھر سے نکال دوں گا۔ ( مریم : ٤٦) العنكبوت
25 فہم القرآن ربط کلام : آگ سے بسلامت نکلنے کے بعد حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا اپنی قوم کو آخری خطاب۔ قوم اور حکومت نے اپنی طرف سے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو زندہ جلا ڈالا تھا۔ لیکن رب جلیل نے اپنے خلیل (علیہ السلام) کو اتنے دن آگ میں پڑے رہنے کے باوجود آنچ نہ آنے دی۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) بسلامت آگ سے نکل کر قوم کے سامنے آئے تو لوگ اللہ کی قدرت کا معجزہ دیکھ کر انگشت بدنداں رہ گئے۔ قرآن مجید کے خطاب اور الفاظ سے ظاہر ہوتا ہے کہ آگ سے نکلنے کے بعد حضرت کا قوم سے یہ پہلا خطاب تھا۔ اس لیے انھوں نے بتوں کی تردید کرنے کے ساتھ اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ دنیا کی زندگی یعنی اس کے مفاد اور میری مخالفت کے لیے تم آپس میں اکٹھے ہوچکے ہو۔ لیکن یاد رکھو قیامت کے دن نہ صرف تم ایک دوسرے سے لا تعلق اور بتوں کی عبادت کا انکار کرو گے بلکہ ایک دوسرے پر لعنت بھی کرو گے۔ اب تو کفر و شرک پر ایک دوسرے کی مدد کر رہے ہو لیکن قیا مت کے دن تم ایک دوسرے کی قطعاً مدد نہیں کرسکو گے۔ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ نَارُکُمْ جُزْءٌ مِّنْ سَبْعِیْنَ جُزْءً ا مِّنَ نَّارِ جَھَنَّمَ قِیْلَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ إِنْ کَانَتْ لَکَافِیَۃً قَالَ فُضِّلَتْ عَلَیْھِنَّ بِتِسْعَۃٍ وَّتِسْعِیْنَ جُزْءً ا کُلُّھُنَّ مِثْلُ حَرِّھَا) [ رواہ البخاری : کتاب بدء الخلق، باب صفۃ النار وأنھا مخلوقۃ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں یقیناً اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تمہاری یہ آگ جہنم کی آگ کا سترواں حصہ ہے۔ عرض کیا گیا اللہ کے رسول! یہی آگ جلانے کے لیے کافی تھی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اس آگ سے وہ ننانوے حصے زیادہ ہے ان میں سے ہر حصے کی گرمی دنیا کی آگجیسی ہے۔“ (عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَیْبٍ عَنْ أَبِیْہِ عَنْ جَدِّہٖ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ یُحْشَرُ الْمُتَکَبِّرُوْنَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ أَمْثَال الذَّرِّ فِیْ صُوَرِ الرِّجَالِ یَغْشَاھُمُ الذُّلُّ مِنْ کُلِّ مَکَانٍ فَیُسَاقُوْنَ إِلٰی سِجْنٍ فِیْ جَھَنَّمَ یُسَمّٰی بُوْلَسَ تَعْلُوْھُمْ نَارُ الْأَنْیَارِ یُسْقَوْنَ مِنْ عُصَارَۃِ أَھْلِ النَّارِ طِیْنَۃَ الْخَبَالِ) [ رواہ الترمذی : کتاب صفۃ القیامۃ والرقائق والورع، باب منہ ] ” حضرت عمرو بن شعیب اپنے باپ سے وہ اپنے دادا (رض) سے وہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : قیامت کے دن متکبر لوگ چیونٹیوں کی صورت میں لائے جائیں گے انہیں ہر طرف سے ذلت ڈھانپے ہوئے ہوگی اور انہیں بولس نامی جہنم میں ڈالا جائے گا ان پر آگ کے شعلے بلند ہورہے ہوں گے اور انہیں جہنمیوں کی زخموں کے پیپ پلائی جائے گی۔“ مسائل ١۔ قیامت کے دن مشرک ایک دوسرے کی مدد نہیں کرسکیں گے۔ ٢۔ قیامت کے دن عابد اور معبود ایک دوسرے پر لعنت کریں گے۔ تفسیر بالقرآن قیامت کے دن عابد اور معبود ایک دوسرے سے بیزاری کا اظہار کریں گے : ١۔ عابد و معبود ایک دوسرے سے بیزار ہوں گے۔ (یونس : ٢٨ تا ٣٠) ٢۔ جب مشرک اپنے معبودوں کو دیکھیں گے تو کہیں گے یہی ہیں وہ جن کی ہم اللہ کے سو اپکارتے تھے۔ معبود کہیں گے کہ تم جھوٹے ہو۔ (النحل : ٨٦) ٣۔ اگر تم انہیں پکارو وہ تمہاری پکار نہیں سنتے۔ اگر سن بھی لیں تو جواب نہیں دے سکتے۔ قیامت کے دن وہ تمہارے شرک کا انکار کریں گے۔ (فاطر : ١٤) ٤۔ جب لوگ جمع کیے جائیں گے تو معبود ان کے دشمن ہوں گے اور اپنی پرستش سے انکار کریں گے۔ (الاحقاف : ٦) ٥۔ ان کے شریکوں میں سے کوئی ان کا سفارشی نہ ہوگا اور وہ اپنے شریکوں کے انکاری ہوجائیں گے۔ (الروم : ١٣) ٦۔ جن کو وہ پکارا کرتے تھے۔ وہ سب ان سے غائب ہوں گے۔ (حٰم السجدہ : ٤٨) العنكبوت
26 فہم القرآن ربط کلام : حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی پرخلوص اور طویل جدوجہد کے باوجود حضرت لوط (علیہ السلام) ابراہیم (علیہ السلام) پر ایمان لائے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو حکومت وقت اور ان کی قوم نے آگ میں پھینکا۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے ابراہیم (علیہ السلام) کو بسلامت آگ سے نکال لیا۔ چاہیے تو یہ تھا کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی عظمت اور بزرگی دیکھ کر قوم بالاتفاق ان پر ایمان لے آتی لیکن حکومت کے رعب اور ذاتی مفادات کی خاطر کوئی شخص حضرت پر ایمان نہ لایا۔ صرف آپ کے بھتیجے حضرت لوط (علیہ السلام) ایمان لائے۔ جن کے بارے میں مفسرین نے وضاحت فرمائی ہے کہ لوط (علیہ السلام) کے ایمان لانے کا یہ معنی نہیں کہ وہ پہلے مشرک یا مشرکوں کے حمایتی تھے۔ ایسا ہرگز نہیں تھا کیونکہ جس شخصیت کو اللہ تعالیٰ نے اپنا رسول بنانا ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اسے ابتداہی سے شرک و رسومات سے محفوظ رکھتا ہے۔ حضرت لوط (علیہ السلام) کے ایمان لانے سے مراد ان کا اپنے ایمان کا اعلان کرنا ہے۔ عین ممکن ہے کہ لوط (علیہ السلام) ایمان پہلے لا چکے ہوں لیکن اس موقعہ پر انھوں نے اپنے ایمان کا برملا اعلان کیا ہو۔ یہی جوان ہے جس نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی حمایت اور ایمان کی خاطر اپنا گھر اور عزیز و اقرباء کو چھوڑا تھا اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) حضرت سارہ کے ساتھ ہجرت کی تھی۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے عراق کی سرزمین چھوڑتے ہوئے فرمایا کہ میں اپنے رب کے لیے سب کچھ چھوڑ رہا ہوں۔ میرا رب بڑا غالب اور حکمت والا ہے۔ یعنی اگر میری دعوت یہاں نہیں پھیلی تو اس میں بھی میرے رب کی حکمت پنہاں ہے تاہم مجھے یقین ہے کہ دنیا میں میری دعوت پھیل کر رہے گی کیوں کہ میرا رب غالب اور حکمت والا ہے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے ارشاد سے یہ بھی ثابت ہوا کہ انسان کو ہجرت بھی اپنے رب کی رضا کے لیے کرنی ہے۔ اسی لیے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے : (عَنْ عُمَرَ ابْنِ الْخَطَّابِ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اِنَّمَا الْاَعْمَال بالنِّیَّاتِ وَاِنَّمَا لِاِمْرِئٍ مَّا نَوٰی فَمَنْ کَانَتْ ھِجْرَتُہُ الی اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ فَہِجْرَتُہُ اِلَی اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ وَمَنْ کَانَتْ ھِجْرَتُہُ اِلَی دُنْےَا ےُصِےْبُھَا اَوِامْرَاَۃٍ ےَتَزَوَّجُھَا فَہِجْرَتُہٗ اِلٰی مَا ھَاجَرَ اِلَےْہِ) [ رواہ البخاری : باب بدء الوحی] ” حضرت عمر بن خطاب (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تمام اعمال کا انحصار نیتوں پر ہے۔ آدمی اپنی نیت کے مطابق ہی صلہ پائے گا۔ جس نے اللہ اور اس کے رسول کے لیے ہجرت کی اس کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول کے لیے ہے جس نے دنیا کے فائدے یا کسی عورت سے نکاح کرنے کے لیے ہجرت کی اس کی ہجرت اسی کے لیے ہوگی۔“ العنكبوت
27 فہم القرآن ربط کلام : ہجرت کے بعد حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو بشارتوں سے نوازا جانا۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے جب اپنی بیوی حضرت سارہ اور لوط (علیہ السلام) کے ساتھ ہجرت کی تو اس وقت ان کی عمر مبارک تقریباً اسی سال کے قریب ہوچکی تھی۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے ہجرت کے وقت جو دعائیں کیں ان میں ایک دعا یہ تھی کہ میرے رب مجھے نیک بیٹا عطا فرما۔ ہجرت کے دوران ایک ظالم حکمران نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی رفیقہ حیات حضرت سارہ کے ساتھ زیادتی کرنے کی کوشش اللہ تعالیٰ نے اسے معجزانہ طور پر ناکام کیا۔ اس سے متاثر ہو کراس نے اپنی بیٹی ہاجرہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے عقد میں دی۔ حضرت ابراہیم حضرت سارہ اور حضرت ہاجرہ کو لے کر فلسطین کی سرزمین میں آباد ہوئے۔ وہاں اللہ تعالیٰ نے حضرت کو پہلے حضرت اسماعیل عنایت کیا اور پھر حضرت اسحاق اور حضرت یعقوب کی بشارت دی گئی۔ بیٹے اور پوتے کی خوشخبری کے ساتھ یہ بھی خوشخبری دی گئی کہ ابراہیم تیری اولاد میں نبوت اور کتاب کا سلسلہ جاری کردیا گیا ہے اللہ تعالیٰ نے ابراہیم (علیہ السلام) کو دنیا میں عظیم صلہ دینے کے ساتھ قیامت کے دن صالحین میں شامل فرمایا لیا۔ چنانچہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے بعد جتنے انبیاء کرام (علیہ السلام) مبعوث کیے وہ حضرت اسحاق کی اولاد میں تھے۔ حضرت اسماعیل کی پوری نسل میں صرف نبی آخر الزماں (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہی مبعوث کیے گئے ہیں۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا تعلق جس دور سے ہے۔ اس دور کو معاشی تاریخ میں گلہ بانی کا دورشمار کیا جاتا ہے۔ اس وقت کی سب سے بڑی دولت بھیڑ بکریاں تھیں۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس اتنا مال تھا کہ بڑے سے بڑا جنگل بھی تنگی واماں کی شکایت کرتا دکھائی دیتا تھا اس طرح اللہ تعالیٰ نے آپ کو دین و دنیا کی تمام نعمتوں سے مالا مال کر رکھا تھا۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا منفر اعزاز : (وَ اِذِابْتَلآی اِبْرٰھٖمَ رَبُّہٗ بِکَلِمٰتٍ فَاَتَمَّھُنَّ قَالَ اِنِّیْ جَاعِلُکَ للنَّاسِ اِمَامًا قَالَ وَ مِنْ ذُرِّیَّتِیْ قَالَ لَا یَنَالُ عَھْدِی الظّٰلِمِیْنََ) [ البقرۃ: ١٢٤] ” جب ابراہیم (علیہ السلام) کو ان کے رب نے چند باتوں میں آزمایا اور انہوں نے ان کو پورا کردیا تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ابراہیم میں تجھے لوگوں کا امام بناؤں گا۔ ابراہیم نے عرض کی کہ میری اولاد کو بھی۔ فرمایا میرا وعدہ ظالموں سے نہیں ہے۔“ تمام مؤرخین نے تحریر فرمایا ہے کہ جب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو اسحاق (علیہ السلام) کی ولادت کی خوشخبری دی گئی تو آپ ( علیہ السلام) کی عمر سو سال اور آپ کی زوجہ محترمہ حضرت سارہ ( علیہ السلام) کی عمر نوّے سال تھی۔ قرآن مجید نے ولادت اسحاق (علیہ السلام) کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ فرشتے انسانوں کی شکل میں جناب خلیل (علیہ السلام) کے پاس حاضر ہوئے تو آپ ان کی ضیافت کے لیے ایک بچھڑابھون لائے لیکن انسانی شکل میں آنے والے ملائکہ کھانے کی طرف متوجہ نہ ہوئے۔ تب ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے آپ میں ایک خوف محسوس کیا۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی یہ کیفیت دیکھ کر فرشتوں نے فورا اصل حقائق سامنے رکھ دے ئے ساتھ ہی جناب اسحاق (علیہ السلام) کی ولادت کی خوشخبری دی اور اسکے ساتھ ہی پوتے حضرت یعقوب (علیہ السلام) کی خوشخبری بھی سنا دی۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو ہجرت کے بعد اسماعیل (علیہ السلام)، اسحاق (علیہ السلام) اور پوتا یعقوب (علیہ السلام) عطا فرمائے۔ ٢۔ اللہ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی اولاد میں نبوت کا سلسلہ جاری فرمایا۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو دنیا میں بھی بلند مقام عطا فرمایا۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو آخرت میں صالح لوگوں میں شامل فرما لیا۔ تفسیر بالقرآن حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے امتیازات : ١۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نرم دل اور بردبار تھے۔ (التوبۃ: ١١٤) ٢۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نہایت راست باز نبی تھے۔ (مریم : ٤١) ٣۔ بے شک ابراہیم (علیہ السلام) بڑے حلیم، بڑے خیر خواہ اور نرم دل تھے۔ (ہود : ٧٥) ٤۔ ابراہیم (علیہ السلام) ہمارے مومن بندوں میں سے تھے۔ (الصٰفت : ١١١) ٥۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم کو پوری دنیا کا پیشوا بنایا۔ ( البقرۃ: ١٢٤) ٦۔ ابراہیم (علیہ السلام) معبودان باطل کے انکاری اور براءت کا اظہار کرتے تھے۔ (الممتحنہ : ٤) ٧۔ ابراہیم (علیہ السلام) کو اللہ نے ابتداء سے ہی ہدایت سے سرفراز فرمایا تھا۔ (الانبیاء : ٥١) العنكبوت
28 فہم القرآن ربط کلام : حضرت لوط (علیہ السلام) اور اس کی قوم کا مختصر ذکر۔ حضرت لوط (علیہ السلام) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے بھتیجے تھے۔ جنھوں نے عراق کی سرزمین سے ہجرت کرکے غور زنمر کے علاقہ سدوم شہر میں رہائش اختیار کی۔ یہ شہر علاقے کا مرکزی مقام تھا۔ جہاں کے رہنے والے پر لے درجے کے فاسق و فاجر مشرک، کافر، ڈاکو، چور اور انتہائی بد کردارلوگ تھے۔ جنھوں نے دنیا میں بے حیائی کا ایسا عمل اختیار کیا جو اس سے پہلے کسی قوم نے نہیں کیا تھا۔ قوم لوط کا کردار : انھوں نے اپنی نفسانی خواہش اپنی بیویوں سے پوری کرنے کے بجائے لڑکوں سے شروع کر رکھی تھی۔ گویا کہ یہ ہم جنسی کے بدترین گناہ کے مرتکب ہوئے۔ حضرت لوط (علیہ السلام) کے بار بار سمجھانے کے باوجود باز آنے کی بجائے حضرت لوط (علیہ السلام) کو رجم کردینے کی دھمکی دینے کے ساتھ عذاب الٰہی کا مطالبہ کرتے رہے۔ حضرت لوط (علیہ السلام) کا سمجھانا : قوم لوط نے بھی پیغمبروں کو جھٹلایا جب ان سے ان کے بھائی لوط نے کہا کہ تم کیوں نہیں ڈرتے ؟ میں تمھارے لیے امانت دار پیغمبر ہوں، اس لیے اللہ سے ڈرو اور میرا کہا مانو اور میں تم سے اس کا صلہ نہیں مانگتا، میرا اجر رب العالمین کے ذمے ہے۔ کیا تم لڑکوں پر مائل ہوتے ہو اور تمھارے پروردگار نے تمھارے لیے بیویاں پیدا کی ہیں ان کو چھوڑ دیتے ہو؟ حقیقت یہ ہے کہ تم حد سے نکل جانے والے ہو۔ (الشعراء : ١٦٠ تا ١٦٦) قوم کا جواب : (قَالُوْا لَءِنْ لَمْ تَنْتَہِ یَالُوطُ لَتَکُوْنَنَّ مِنَ الْمُخْرَجِینَ قَالَ اِِنِّی لِعَمَلِکُمْ مِّنَ الْقَالِیْنَ) [ الشعراء : ١٦٧ تا ١٦٨] ” کہنے لگے کہ اے لوط اگر تم باز نہ آئے تو شہر بدر کردیے جاؤ گے۔ لوط (علیہ السلام) نے کہا میں تمھارے کام کا سخت مخالف ہوں۔“ ” لوط (علیہ السلام) نے اس وقت اپنی قوم سے کہا تم یہ بے حیائی کیوں کرتے ہو جو تم سے پہلے دنیا میں کسی نے نہیں کی۔“ (الاعراف : ٨٠) ” ان کی قوم سے اس کے سوا کوئی جواب نہ بن پڑا وہ کہنے لگے ان لوگوں کو اپنی بستی سے نکال دو یہ لوگ بڑے پاک بنتے ہیں۔“ (الاعراف : ٨٠ تا ٨٢) قوم کا جواب : ” اے لوط اگر تم واقعی ہی سچے ہو تو ہم پر اللہ تعالیٰ کا عذاب لے آؤ۔“ (العنکبوت : ٢٩) تفسیر بالقرآن ظالم اقوام کا اپنے انبیاء سے عذاب کا مطالبہ : ١۔ حضرت نوح کو قوم نے کہا کہ جو ہمارے ساتھ عذاب کا وعدہ کرتا ہے وہ لے آ۔ (ہود : ٣٢) ٢۔ قوم ثمود نے حضرت صالح (علیہ السلام) سے عذاب کا مطالبہ کیا۔ (الاعراف : ٧٧) ٣۔ مدین والوں نے شعیب (علیہ السلام) سے عذاب نازل کرنے کا مطالبہ کیا۔ (الشعرا : ١٨٧) ٤۔ قوم عاد نے ہود سے عذاب کا مطالبہ کیا۔ (الاحقاف : ٢٢) ٥۔ کفار نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا کہ تو ہم پر آسمان کا ٹکڑاگرادے۔ (بنی اسرائیل : ٩٢) العنكبوت
29 العنكبوت
30 فہم القرآن ربط کلام : قوم کے مجبور کرنے پر حضرت لوط کی اللہ کے حضور فریاد۔ اے میرے رب اس مفسد قوم کے مقابلے میں میری مدد فرما۔ حضرت لوط کی بددعا قبول ہوئی جس کے نتیجے میں قوم لوط پر عذاب نازل کرنے والے فرشتے پہلے حضرت ابراہیم کے پاس حاضر ہوئے انہوں نے حضرت ابراہیم کو بیٹے اور پوتے کی خوشخبری دی، جس پر ان کی بیوی نے تعجب کا اظہار کیا، لیکن ملائکہ نے ان کو تسلی دی کہ اللہ تعالیٰ نے تم پر یہ رحمت فرما دی ہے، اس لیے اس میں کسی قسم کا تعجب نہیں کرنا چاہیے، خوشخبری دینے کے بعد ملائکہ نے حضرت ابراہیم سے ذکر کیا کہ ہم قوم لوط پر عذاب نازل کرنے والے ہیں۔ حضرت ابراہیم ملائکہ سے اصرار کرنے لگے کہ ایسا نہیں ہونا چاہیے کیونکہ ابراہیم (علیہ السلام) نہایت ہی حوصلہ مند اور نرم خو تھے، ملائکہ نے انہیں عرض کی اس بات کو جانے دیجیے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا حکم صادر ہوچکا ہے لہذا اس عذاب کو کوئی نہیں ٹال سکتا۔ (ہود : ٦٩ تا ٧٦) اس طرح اللہ تعالیٰ نے حضرت لوط کی قوم پر عذاب نازل کیا اور انہیں عبرت کا نشان بنا دیا گیا۔ مسائل : ١۔ حضرت لوط کی قوم ہم جنسی کے جرم میں ملوث تھی۔ تفسیر بالقرآن قوم لوط کا انجام : ١۔ ان کے پاس ان کی قوم کے لوگ دوڑتے ہوئے آئے اور وہ پہلے سے ہی بدکاری کے عادی تھے۔ (ھود : ٧٨) ٢۔ لوط (علیہ السلام) نے کہا کہ کاش میرے پاس طاقت ہوتی یا میں کوئی مضبوط پناہ گاہ پاتا۔ (ھود : ٨٠) ٣۔ ہم نے اوپر والی سطح کو نیچے کردیا اور ہم نے ان پر پتھروں کی بارش برسائی جو تہہ بہ تہہ خاص نشان لگے ہوئے۔ (ھود : ٨٢) ٤: ہم نے اس بستی کو الٹ دیا اور ان پر پتھروں کی بارش برسائی۔ (الحجر : ٧٤) العنكبوت
31 فہم القرآن ربط کلام : قوم لوط کو تباہ کرنے والے ملائکہ سے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا تکرار۔ قوم لوط کو تباہ کرنے سے پہلے یہی ملائکہ حضرت اسحاق (علیہ السلام) اور حضرت یعقوب ( علیہ السلام) کی خوشخبری دینے کے لیے ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس گئے۔ جس کا تذکرہ سورۃ ھود، آیت : ٦٩ تا ٧٣ میں اس طرح ہوا ہے۔ ملائکہ جب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو بیٹے اور پوتے کی خوشخبری دے کر رخصت ہونے لگے تو انھوں نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو بتایا کہ ہم قوم لوط کو تباہ کرنے کے لیے بھی بھیجے گئے، اس لیے اب ہم اس بستی کی طرف جا رہے ہیں تاکہ اسے نیست و نابود کردیا جائے کیونکہ اس میں رہنے والے بڑے ظالم لوگ ہیں۔ حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) فرمانے لگے کہ ان میں لوط ( علیہ السلام) بھی موجود ہیں۔ ملائکہ نے فرمایا کہ ہاں ہمیں معلوم ہے کہ اس بستی میں لوط بھی موجود ہیں۔ لیکن ہم لوط (علیہ السلام) اور اس کے ایمان دار ساتھیوں کو وہاں سے نکلنے کا موقعہ دیں گے۔ البتہ لوط (علیہ السلام) کی بیوی تباہ ہونے والوں میں شامل ہوگی۔ العنكبوت
32 العنكبوت
33 فہم القرآن ربط کلام : قوم لوط تباہی کے دہانے پر۔ عذاب لانے والے فرشتے حضرت لوط (علیہ السلام) کی خدمت میں قرآن مجید بتلارہا ہے کہ جب یہ فرشتے لڑکوں کی شکل میں حضرت لوط (علیہ السلام) کے ہاں تشریف لائے تو بدمعاش قوم ان سے بے حیائی کرنے کی نیت سے ان کے ہاں دوڑی ہوئی آئی۔ حضرت لوط (علیہ السلام) نے نہایت عاجزی کے ساتھ انھیں سمجھایا کہ اے میری قوم یہ میری بیٹیاں ہیں جو تمھارے لیے حلال ہیں۔ (یعنی تم ان کے ساتھ نکاح کرسکتے ہو) اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور مہمانوں میں مجھے بے آبرو نہ کرو۔ جب وہ بھاگم بھاگ ایک دوسرے سے آگے بڑھ رہے تھے۔ حضرت لوط (علیہ السلام) نے یہ بھی فرمایا کیا تم میں کوئی بھی شریف آدمی نہیں ہے ؟ (ہود : ٧٨) بے حیا کہنے لگے کہ ہمیں تمھاری بیٹیوں سے کیا سروکار، تو جانتا ہے کہ ہم کس ارادہ سے آئے ہیں اس مشکل ترین وقت میں حضرت لوط (علیہ السلام) کہنے لگے کہ آج کا دن میرے لیے بڑا بھاری دن ہے۔ کاش تمھارے مقابلے میں میرا کوئی حمایتی ہوتا یا کوئی پناہ گاہ جہاں میں تم سے بچ نکلتا۔ (ہود : ٧٩، ٨٠) ملائکہ اپنے آپ کو ظاہر کرکے حضرت لوط (علیہ السلام) کو تسلی دیتے ہیں : عذاب کے فرشتوں نے حضرت لوط (علیہ السلام) کو تسلی دی کہ اے اللہ کے نبی دل چھوٹا نہ کریں۔ یہ بے حیا تمھاراکچھ نہیں بگاڑ سکیں گے۔ بس آپ اہل ایمان کو لے کر رات کے پچھلے پہر ہجرت کر جائیں۔ ہاں یاد رہے کہ آپ اپنی بیوی کو ساتھ نہیں لے جا سکیں گے کیونکہ اسے بھی وہی عذاب پہنچنے والا ہے جس میں دوسرے لوگ مبتلا ہوں گے اور یہ عذاب ٹھیک صبح کے وقت نازل ہوگا۔ حضرت لوط (علیہ السلام) گھبراہٹ کے عالم میں فرمانے لگے کہ صبح کب ہوگی ؟ ملائکہ نے مزید تسلّی دیتے ہوئے کہا کہ اے اللہ کے رسول صبح تو ہونے ہی والی ہے چنانچہ صبح کے وقت رب ذوالجلال کا حکم صادر ہوا تو ملائکہ نے اس دھرتی کو اٹھا کر نیچے پٹخ دیا گیا، پھر ان پر مسلسل نامزد پتھروں کی بارش کی گئی۔ (ھود : ٦٩ تا ٨٣) سورۃ القمر ٣٧ تا ٣٨ میں فرمایا کہ ظالموں نے لوط (علیہ السلام) کے مہمانوں پر زیادتی کرنا چاہی تو ہم نے ان کی آنکھوں کو مسخ دیا۔ یقیناً لوط (علیہ السلام) مرسلین میں سے تھے ہم نے انھیں اور اس کے اہل کو نجات دی۔ البتہ ایک بڑھیا کو پیچھے رہنے دیا باقی سب کو ہم نے ہلاک کیا۔ اے اہل مکہ تم صبح شام ان بستیوں سے گزرتے ہو لیکن اس کے باوجود عقل نہیں کرتے۔ (الصّٰفٰت : ١٣٥ تا ٨ ١٣) (فَلَمَّا جَآءَ اَمْرُنَا جَعَلْنَا عَالِیَھَا سَافِلَھَا وَ اَمْطَرْنَا عَلَیْھَا حِجَارَۃً مِّنْ سِجِّیْلٍ مَّنْضُوْدٍ مُّسَوَّمَۃً عِنْدَ رَبِّکَ وَ مَا ھِیَ مِنَ الظّٰلِمِیْنَ بِبَعِیْدٍ) [ ھود : ٨٢، ٨٣] ” پھر جب ہم نے حکم نافذ کیا تو ہم نے اس بستی کو اوپر نیچے (تہس نہس) کردیا۔ پھر تابڑ توڑ پکی مٹی کے پتھر برسائے۔ تیرے رب کی طرف سے ہر پتھر پر نشان (نام) لکھا ہوا تھا یہ سزا ظالموں سے دور نہیں ہے۔“ بحرمردار (میت): بحر مردار کے بارے میں پہلے بھی ذکر ہوچکا ہے البتہ عبرت کی خاطر پھر تحریر کیا جاتا ہے۔ دنیا کے موجو دہ جغرافیے میں یہ بحر مردار اردن کی سر زمین میں واقع ہے۔ پچاس میل لمبا، گیارہ میل چوڑا ہے اسکی سطح کا کل رقبہ ٣٥١ مربع میل ہے۔ اسکی زیادہ سے زیادہ گہرائی تیرہ سو فٹ پیمائش کی گئی ہے۔ یہ اسرائیل اور اردن کی سرحد پر واقع ہے۔ اور اس کا کسی بڑے سمندر کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ گویا کہ یہ ایک بہت بڑی جھیل بن چکی ہے۔ اس کی نمکیات اور کیمیائی اجزاء عام سمندروں سے کہیں زیادہ ہے۔ اس کے قریب ترین سمندر بحر روم ہے۔ جدید محققین نے اسی جگہ پر لوط (علیہ السلام) کی قوم کی بستیوں کی نشاندہی کی ہے۔ جو کسی زمانے میں یہاں صدوم عمود کے نام سے بڑے شہر آباد تھے۔ مصرکے محقق عبدالوہاب البخار نے بھرپور دلائل کے ساتھ یہ ثابت کیا ہے کہ عذاب لوط (علیہ السلام) سے پہلے اس جگہ پر کوئی سمندر نہیں تھا۔ اللہ کے عذاب کی وجہ سے جب اس علاقے کو الٹ دیا گیا تو یہ ایک چھوٹے سے سمندر کی شکل اختیار کر گیا۔“ مسائل ١۔ حضرت لوط (علیہ السلام) ملائکہ کو نہ پہچان سکے۔ (کیونکہ وہ لڑکوں کی شکل میں آئے تھے) ٢۔ حضرت لوط (علیہ السلام) قوم کے کردار کی وجہ سے اپنے مہمانوں سے خوفزدہ اور پریشان ہوگئے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ نے قوم لوط اور ان کی بستی کو تباہ و برباد کردیا۔ ٤۔ قوم لوط اور ان کی بستی کو نشان عبرت بنا دیا گیا۔ تفسیر بالقرآن قوم لوط کی تباہی کا منظر : ١۔ ہم نے اس بستی کو الٹ کر ان پر پتھروں کی بارش برسائی۔ (الحجر : ٧٤) ٢۔ لوط (علیہ السلام) کے پاس ان کی قوم کے لوگ دوڑتے ہوئے آئے اور وہ پہلے سے ہی بدکارتھے۔ (ھود : ٧٨) ٣۔ لوط نے کہا کہ کاش میرے پاس طاقت ہوتی یا میں کوئی مضبوط پناہ گاہ پاتا۔ (ھود : ٨٠) ٤۔ ہم نے اوپر والی سطح کو نیچے کردیا پھر ہم نے ان پر پتھروں کی بارش برسا دی جو تہہ بہ تہہ اور نشان زدہ۔ (ھود : ٨٢) العنكبوت
34 العنكبوت
35 العنكبوت
36 فہم القرآن ربط کلام : قوم لوط کی تباہی کے بعد قوم مدین کی تباہی کا تذکرہ۔ ١۔ اہل مدین بھی اپنے پیش رو اقوام کی طرح شرک جیسے غلیظ اور بد ترین عقیدہ میں مبتلا تھی۔ شرک وہ بیماری ہے جسے امّ الامراض کہنا چاہیے۔ قوم مدین کے اندر وہ تمام اخلاقی اور اعتقادی بیمار یوں نے جنم لیا۔ جن میں قوم نوح سے لے کر قوم لوط کے لوگ ملوث چلے آرہے تھے۔ اس امّ الامراض کی جڑ کاٹنے کے لیے حضرت شعیب (علیہ السلام) اپنی دعوت کا آغاز دعوت توحید سے کرتے ہیں۔ (الاعراف، آیت : ٨٥) ٢۔ قوم مدین نہ صرف عقیدہ کی خیانت میں مرتکب ہوئی بلکہ گاہک سے پوری قیمت وصول کرنے کے باوجود ماپ تول میں کمی بیشی کرتے تھے۔ ادائیگی کے وقت چیز مقررہ وزن اور پیمائش سے کم دیتے۔ دوسروں سے لیتے تو طے شدہ وزن سے زیادہ لینے کی مجرمانہ کوشش کرتے۔ (الاعراف، آیت : ٨٥) ٣۔ یہ لوگ پیشہ ور ڈاکو تھے ان کے علاقے سے گزرنے والے مسافروں کی عزت و آبرو اور مال و جان محفوظ نہیں تھے۔ (الاعراف : ٨٦، ھود : ٨٥) ٤۔ یہ لوگ حضرت شعیب (علیہ السلام) کی زبردست مخالفت اور نافرمانی کرنے والے تھے۔ (ھود : ٨٩) حضرت شعیب (علیہ السلام) کی نصیحتیں : ١۔ اے میری قوم ایک اللہ کی عبادت کرو، ماپ تول میں کمی ڈاکہ زنی اور فساد فی الارض سے توبہ کرو۔ اگر میری بات مان جاؤ تو یہ تمھارے لیے بہتر ہے اور اللہ کی نعمت کو یاد کرو کہ جب تم ہر لحاظ سے تھوڑے اور کم تر تھے۔ اللہ تعالیٰ نے تمھیں کثرت سے نوازا۔ (الاعراف : ٨٦، ٨٥) ” اے میری قوم اللہ تعالیٰ سے ڈر جاؤ اور میری بات مانو۔ میں پوری ایمانداری کے ساتھ تمھیں اللہ کا پیغام پہنچا رہا ہوں اور اس پر میں تم سے کوئی اجر نہیں مانگتا۔ میرا اجر میرے رب کے ذمہ ہے۔“ (الشعراء : ١٧٦ تا ١٨٠) قوم کا حضرت شعیب (علیہ السلام) کو جواب : اے شعیب کیا تیری نمازیں تجھے یہی کہتی ہیں کہ ہم اپنے باپ دادا کے طریقۂ عبادت کو چھوڑ دیں اور اپنے کاروبار کو اپنے طریقہ کے مطابق نہ کریں ؟ ھود : ٨٧۔ تم پر اے شعیب ( علیہ السلام) کسی نے جادو کردیا ہے۔ (الشعراء : ١٨٥) حضرت شعیب (علیہ السلام) کی مزید نصیحت : ” اے میری قوم میں اپنے رب کی طرف سے واضح دلیل پر ہوں اور اس نے مجھے وافر رزق عطا فرمایا ہے۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ میں وہی کچھ کروں جس سے تمھیں منع کرتا ہوں۔ میں اللہ کی توفیق سے صرف اصلاح کی غرض سے یہ بات کہتا ہوں۔ میرا اللہ تعالیٰ پر بھروسہ ہے اور میں ہر حال میں اس کی طرف رجوع کرتا ہوں۔“ (ھود : ٨٨) قوم کا جواب : ” اے شعیب! تیری اکثر باتیں ہماری سمجھ میں نہیں آتیں اور ہم تمھیں اپنے آپ میں کمزور دیکھتے ہیں، اگر تیری برادری نہ ہوتی تو ہم تجھے پتھر مار مار کر رجم کردیتے تو ہمارا کچھ نہ بگاڑ سکتا۔“ (ھود، آیت : ٩١) حضرت شعیب (علیہ السلام) کا ارشاد : ” میری قوم کیا تم اللہ تعالیٰ سے میری برادری کو بڑا سمجھتے ہو اور تم برے اعمال سے باز نہیں آتے۔ لہٰذا تم اپنا کام کرو اور مجھے اپنا کام کرنے دو اور عنقریب تمھیں معلوم ہوجائے گا کہ جھوٹا کون ہے اور کس پر ذلیل کردینے والا عذاب نازل ہوتا ہے۔“ (ھود : ٩٠ تا ٩٥) قوم حضرت شعیب (علیہ السلام) سے عذاب کا مطالبہ کرتی ہے : ” اے شعیب تو ہمارے جیسا انسان ہے اور ہم تجھے کذّاب سمجھتے ہیں بس تو ہم پر آسمان کا ایک ٹکڑا گرادے اگر تو سچا ہے۔“ (الشعراء : ١٨٥ تا ١٨٧) قوم شعیب پر اللہ تعالیٰ کا عذاب : قوم نے حضرت شعیب (علیہ السلام) کو جھٹلایا تو ان پر بلاشبہ عذاب عظیم نازل ہوا۔ ( الشعراء : ١٨٩) ظالموں کو ایک کڑک نے آلیا اور وہ اپنے گھروں میں اوندھے منہ پڑے ہوئے تھے۔ ان کے گھر ایسے ویران ہوئے جیسے ان میں کوئی بسا ہی نہ ہو۔ یاد رکھو اہل مدین پر ایسی ہی پھٹکار ہوئی جس طرح قوم ثمود پر پھٹکاری کی گئی۔ مفسرین نے لکھا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان پر سات راتیں، آٹھ دن گرمی اور حبس کا ایسا عذاب مسلط کیا کہ نہ وہ تہہ خانوں میں آرام کرسکتے تھے اور نہ ہی کسی درخت کے سائے تلے سکون پاسکتے تھے۔ وہ انتہائی کرب کے عالم میں اپنے گھروں سے باہر نکلے تو ایک بادل ان پر سایہ فگن ہوا۔ جب سب کے سب لوگ بادل تلے جمع ہوگئے تو بادل سے آگ کے شعلے برسنے لگے۔ زمین زلزلہ سے لرزنے لگی اور پھر ایسی دھماکا خیز چنگھاڑ گونجی کہ ان کے کلیجے پھٹ گئے اور اوندھے منہ تڑپ تڑپ کر ذلیل ہو کر مرے۔ حضرت شعیب (علیہ السلام) کا لاشوں کو خطاب : (فَتَوَلّٰی عَنْھُمْ وَ قَالَ یٰقَوْمِ لَقَدْ اَبْلَغْتُکُمْ رِسٰلٰتِ رَبِّیْ وَ نَصَحْتُ لَکُمْ فَکَیْفَ اٰسٰی عَلٰی قَوْمٍ کٰفِرِیْنَ) [ الاعراف : ٩٣] حضرت شعیب (علیہ السلام) ان سے مخاطب ہوتے ہیں۔ اے میری قوم میں نے نہایت خیر خواہی کے ساتھ اپنے رب کا پیغام پہنچا دیا تھا۔ لہٰذا اللہ کے نافرمانوں پر مجھے کوئی افسوس نہیں ہے۔ مسائل ١۔ حضرت شعیب (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو ” اللہ“ کی عبادت اور آخرت کی جوابدہی کی تلقین فرمائی۔ تفسیربالقرآن قوم مدین کی تباہی کے اسباب : ١۔ قوم مدین شرک جیسے سنگین جرم میں ملوث تھی۔ (ھود : ٨٤) ٢۔ ناپ تول میں کمی و بیشی کرنے والے لوگ تھے۔ (ھود : ٨٥) ٣۔ ڈاکو اور راہ زن تھے۔ (الاعراف : ٨٥) ٤۔ ایمان والوں کو کفر پر مجبور کرتے تھے۔ (الاعراف : ٨٩) ٥۔ حضرت شعیب پر جھوٹا ہونے کا الزام لگایا۔ ( الشعراء : ١٨٦) ٦۔ حضرت شعیب کو سحر زدہ قرار دیا۔ ( الشعراء : ١٨٥) ٧۔ حضرت شعیب کی پیروی کو نقصان کا باعث قرار دیا۔ (الاعراف : ٩٠) ٨۔ حضرت شعیب کی نماز کو ان کے لیے طعنہ بنایا۔ ( ھود : ٨٧) ٩۔ شعیب (علیہ السلام) کی قوم مخالفت برائے مخالفت کرتی تھی۔ ( ھود : ٨٩) ١٠۔ شعیب (علیہ السلام) کو سنگسار کرنے کی دھمکیاں دیں۔ (ھود : ٩١) ١١۔ اے شعیب تو ہمارے جیسا انسان ہے اور ہم تجھے کذّاب سمجھتے ہیں بس اگر تو سچا ہے تو ہم پر آسمان کا ایک ٹکڑا گرادے۔ (الشعراء : ١٨٥ تا ١٨٧) العنكبوت
37 العنكبوت
38 فہم القرآن ربط کلام : قوم مدین کی تباہی کے بعد قوم عاد کی تباہی کا بیان۔ عرب کے جن علاقوں میں یہ دونوں قومیں آباد تھیں ان سے عرب کا بچہ بچہ واقف تھا۔ جنوبی عرب کا پورا علاقہ اب جو احقاف، یمن اور حضرت موت کے نام سے معروف ہے، قدیم زمانہ میں عاد کا مسکن تھا اہل عرب اس کو اچھی طرح جانتے تھے، حجاز کی شمالی حصہ میں رابغ سے عقبہ تک اور مدینہ وخیبر سے تیما اور تبوک تک کا سارا علاقہ آج بھی ثمود کے آثار سے بھرا ہوا ہے اور نزول قرآن کے زمانہ میں یہ آثار زیادہ نمایاں تھے۔ قوم عاد اور قوم ثمود کے بارے میں بتلایا گیا ہے کہ دنیوی اعتبار سے بڑے ترقی یافتہ اور سیاسی لوگ تھے۔ مگر ان کی ترقی اور سیاسی سوج بوجھ ان کے کسی کام نہ آئی ان کی عیاسی اور عیش وعشرت ہی ان کے لیے تباہی کا سبب بنی۔ حضرت ھود (علیہ السلام) کی بددعا اور قوم عاد کا انجام : ١۔ میرے رب میری مدد فرما انھوں نے مجھے کلی طور پر جھٹلا دیا ہے۔ (المؤمنوں : ٣٩) ٢۔ سات راتیں اور آٹھ دن زبردست آندھی اور ہوا کے بگولے چلے۔ (الحاقۃ : ٧۔ الشعراء : ٢٠) ٣۔ گرج چمک اور بادو باراں کا طوفان آیا۔ (الاحقاف : ٢٤) ٤۔ آندھیوں نے انھیں کھجور کے تنوں کی طرح پٹخ پٹخ کر دے مارا۔ (الحاقۃ: ٧) ٥۔ انھیں ریزہ ریزہ کردیا گیا۔ (الذاریات : ٤١، ٤٢) ٦۔ دنیا اور آخرت میں ان پر پھٹکار برستی رہے گی۔ دنیا میں ذلیل و خوار ہوئے اور آخرت میں سخت عذاب میں مبتلا ہوں گے۔ (السجدۃ : ١٦، ھود : ٥٩) ٧۔ قوم ھود کو نیست و نابود کردیا گیا۔ (الاعراف : ٧٢) ٨۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت ھود اور ایمانداروں کو اس عذاب سے محفوظ رکھا۔ (ھود : ٥٨) مسائل ١۔ قوم عاد اور ثمود کے لیے شیطان نے ان کے اعمال کو خوبصورت بنادیا تھا۔ ٢۔ قوم عاد کے گھروں کو عبرت گاہ بنا دیا گیا۔ ٣۔ قوم عاد کے لوگ ترقی یافتہ اور بڑے ہوشیار لوگ تھے۔ تفسیر بالقرآن قوم ثمود اور قوم عاد کی تباہی : ١۔ ثمود زور دار آواز کے ساتھ ہلاک کیے گئے۔ (الحاقۃ: ٥) ٢۔ قوم ثمود کے لیے دوری ہے۔ (ھود : ٦٨) ٣۔ مدین والوں کا نام ونشان مٹ گیا۔ قوم ثمود کی طرح مدین والوں کے لیے دوری ہے۔ (ھود : ٩٥) ٤۔ قوم ثمود کو زلزلے نے آپکڑا اور وہ اپنے گھروں میں اوندھے پڑے رہ گئے۔ (الاعراف : ٧٨) ٥۔ قوم ثمود کو چیخ نے آپکڑا۔ وہ اپنے گھروں میں اوندھے پڑے رہ گئے۔ (ھود : ٦٧) ٦۔ قوم ثمود نے ہدایت کے مقابلہ میں گمراہی کو ترجیح دی تو انہیں رسوا کردینے والی آواز نے آلیا۔ ( حٰم السجدۃ: ١٨) ٧۔ اللہ تعالیٰ نے قوم ثمود میں سے کسی کو بھی باقی نہ چھوڑا۔ ( النجم : ٥١) ٨۔ قوم ثمود کو ان کی سرکشی کی وجہ سے ہلاک کیا گیا۔ ( الحاقۃ: ٥) ٩۔ عاد زبر دست آندھی کے ذریعے ہلاک ہوئے۔ (الحاقۃ: ٦) ١٠۔ قوم عاد نے جھٹلایا تو اللہ نے ان کو ہلاک کردیا۔ (الشعراء : ١٣٩) ١١۔ قوم عاد کو تند وتیز ہوا کے ساتھ ہلاک کردیا گیا۔ (الحاقۃ : ٦) العنكبوت
39 فہم القرآن ربط کلام : قوم نوح، قوم ابراہیم، قوم لوط، قوم عاد، قوم ثمود کی طرح آل فرعون نے بھی موسیٰ (علیہ السلام) کی مخالفت اور حق کے خلاف تکبر اختیار کیا۔ پہلی اقوام کے کردار اور ان کی تباہی کا ذکر کرنے کے بعد نہایت مختصر الفاظ میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی قوم میں سے تین افراد کا نام لیا ہے جو پوری قوم کی تباہی کا باعث بنے ان میں قارون نے اپنی دولت کی بنیاد پر فرعون اپنے اقتدار کی خاطر اور ہامان نے اپنی سیاست کی بناء پر حقائق کو جھٹلایا اور تکبر کرنے کی انتہاء کردی۔ جب اللہ تعالیٰ نے اِ ن پر گرفت کی۔ تو قارون کی دولت، فرعون کا اقتدار اور ہامان کی سیاست اسے اللہ تعالیٰ کے عذاب سے نہ بچا سکی۔ (اَلْکِبْرُ بَطَرُ الْحَقِّ وَغَمْطُ النَّاسِ) [ رواہ مسلم : کتاب الایمان] ” تکبر حق بات کو چھپانا اور لوگوں کو حقیر جاننے کا نام ہے۔“ مسائل ١۔ قارون، فرعون اور ہامان نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی مخالفت کی اور اپنی قوم کو گمراہ کیا۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے تکبر کی وجہ سے نیست و نابود کردیا۔ تفسیر بالقرآن متکبرّین کا انجام : ١۔ سب سے پہلے شیطان نے تکبر کیا۔ (ص : ٧٤) ٢۔ تکبر کرنا فرعون اور اللہ کے باغیوں کا طریقہ ہے۔ (القصص : ٣٩) ٣۔ اللہ تعالیٰ تکبر کرنے والے کے دل پر مہر لگا دیتا ہے۔ (المؤمن : ٣٥) ٤۔ متکبر کو اللہ تعالیٰ پسند نہیں کرتا۔ (النحل : ٢٣) ٥۔ تکبر کرنے والے جہنم میں جائیں گے۔ (المؤمن : ٧٦) العنكبوت
40 فہم القرآن ربط کلام : متکبرین کو مختلف قسم کے عذاب میں مبتلا کیا گیا ان میں سے کسی ایک کو بھی ” اللہ“ کی گرفت سے کوئی نہ بچا سکا۔ قوم نوح، قوم عاد، قوم ثمود، قوم لوط اور فرعون اور اس کے ساتھیوں کے دوسرے جرائم کے ساتھ سب سے بڑا جرم اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرنا تھا۔ قوم عاد کو شدید ترین آندھی کے ساتھ پٹخ پٹخ کر زمین پردے مارا۔ قوم ثمود کو کلیجہ پھاڑ دینے والی دھماکہ خیز آواز اور شدید زلزلے نے آلیا اور پھر ان پر نامزدپتھر برسائے گئے۔ قارون کو اس کی دولت سمیت زمین میں دھنسا دیا گیا۔ قوم نوح کو طوفان بادو باراں اور ہولناک سیلاب کے ساتھ تباہ کیا گیا۔ فرعون اور اس لشکر کو بحر قلزم میں ڈبکیاں دے دے کر غرق کیا گیا۔ سب کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ہم نے ان پر ظلم نہیں کیا انھوں نے اپنے آپ پر خود ہی ظلم کیا تھا۔ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ أَنَّ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ لَمَّا قَضَی اللَّہُ الْخَلْقَ کَتَبَ عِنْدَہُ فَوْقَ عَرْشِہِ، إِنَّ رَحْمَتِی سَبَقَتْ غَضَبِی) [ رواہ البخاری : باب قَوْلِہِ تَعَالَی (وَلَقَدْ سَبَقَتْ کَلِمَتُنَا لِعِبَادِنَا الْمُرْسَلِینَ)] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب اللہ نے مخلوقات کو پیدا کرنے کا فیصلہ فرمایا تو اس وقت اللہ کے عرش پر لکھا ہوا تھا بے شک میری رحمت میرے غضب سے سبقت لے جا چکی ہے۔“ (عَنْ أَبِی ذَرٍّ عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فِیمَا رَوَی عَنِ اللَّہِ تَبَارَکَ وَتَعَالَی أَنَّہُ قَالَ یَا عِبَادِی إِنِّی حَرَّمْتُ الظُّلْمَ عَلَی نَفْسِی وَجَعَلْتُہُ بَیْنَکُمْ مُحَرَّمًا فَلاَ تَظَالَمُوا۔۔) [ رواہ البخاری : باب تحریم الظلم] ” حضرت ابوذر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے حدیث قدسی بیان کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا اے میرے بندو! میں نے اپنے آپ پر ظلم حرام قرار دیا ہے اور تم بھی، آپس میں ظلم نہ کیا کرو۔“ (مَا یَفْعَلُ اللَّہُ بِعَذَابِکُمْ إِنْ شَکَرْتُمْ وَآَمَنْتُمْ وَکَان اللَّہُ شَاکِرًا عَلِیمًا) [ النساء : ١٤٧] اللہ تعالیٰ کو تمہیں سزا دینے سے کیا فائدہ اگر تم شکر گزار ہوجاؤ اور ایمان لاؤ۔ اللہ تعالیٰ بہت قدر کرنے والا اور علم رکھنے والا ہے۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ کسی پر ظلم نہیں کرتا۔ ٢۔ لوگ اپنے ظلم کی وجہ سے ہی پکڑے جاتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن پہلی اقوام پر مختلف قسم کے عذابوں کا نزول : ١۔ کیا وہ لوگ بے فکر ہوگئے ہیں کہ اللہ انہیں زمین میں دھنسا دے؟ (النحل : ٤٥) ٢۔ قوم ثمود کو چیخ نے آپکڑا۔ وہ اپنے گھروں میں اوندھے پڑے رہ گئے۔ (ھود : ٦٧) ٣۔ قوم عاد کو تیز و تند ہوا نے ہلاک کیا۔ (الحاقۃ : ٦) ٤۔ قوم لوط کی بستی کو الٹاکر دیا اور ان پرکھنگر والے پتھر برسائے گئے۔ (الحجر : ٧٤) ٥۔ آل فرعون کو غرق کردیا گیا۔ (البقرۃ : ٥٠) ٦۔ بنی اسرائیل کو اللہ نے ذلیل بندر بنا دیا۔ (البقرۃ : ٦٥) ٧۔ ان کے گناہ کی پاداش میں پکڑ لیا کسی پر تند ہوا بھیجی، کسی کو ہولناک آواز نے آلیا، کسی کو ہم نے زمین میں دھنسا دیا اور کچھ کو غرق کردیا۔ (العنکبوت : ٤٠) العنكبوت
41 فہم القرآن ربط کلام : غیر اللہ سے مدد طلب کرنے والے شخص کے عقیدہ کی مثال۔ تباہ ہونے والی اقوام نے اللہ تعالیٰ کے سوا فوت شدہ بزرگوں، پتھر اور مٹی کی مورتیوں اور دنیا کے مختلف اسباب کو ” اللہ“ کا درجہ دے رکھا تھا۔ یہ اقوام سمجھتی تھیں کہ ہمارے بزرگ اور اسباب ہمیں اللہ کے عذاب سے بچا لیں گے۔ اس لیے انہوں نے انبیاء کی دعوت کو قابل توجہ نہ جانا اس جرم کی وجہ سے ان پر رب ذوالجلال کا عذاب آیا تو ان کو بچانے والا کوئی نہ تھا۔ حالانکہ یہ لوگ اپنے خداؤں اور بزرگوں کو مشکل کشا اور دستگیر سمجھتے تھے۔ ان کے مشرکانہ عقیدے کو مکڑی کے جالے کے ساتھ تشبیہہ دی گئی ہے جو دنیا کے گھروں میں سب سے کمزور ترین گھر ہوتا ہے۔ جس طرح مکڑی مضبوط چھت کے نیچے جالا بن کر اپنے لیے الگ گھر تیار کرتی ہے اور اس وہم کا شکار ہوتی ہے کہ وہ اس گھر میں وہ ہر طرح سے محفوظ ہے۔ لیکن ہوا کا معمولی جھونکا یا کوئی تنکا لگنے کی وجہ سے مکڑی کا گھر ختم ہوجاتا ہے یہی حال مشرک کے عقیدے کا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کی گرفت آتی ہے تو مشرک نے جس، جس کو سہارا بنایا ہوتا ہے وہ ” اللہ“ کی گرفت کے مقابلے میں مکڑی کے جالے سے بھی زیادہ ناپائیدار ثابت ہوتے ہیں جس طرح مکڑی کا گھر تباہ ہوتا ہے اور مکڑی اپنے بنائے ہوئے تانے بانے کے ساتھ ہی ختم ہوجاتی ہے یہی حال مشرک کا ہے کہ اس نے بھی اپنے لیے ایک تانا بانا بنا رکھا ہوتا ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ مشکل کے وقت مجھے فلاں اور فلاں بچالے گا۔ باطل عقیدہ کی بنا پر جب مشرک پر ” اللہ“ کی گرفت آتی ہے تو اسے کوئی نہیں بچا سکتا۔ اسے بہت جلد اس بات کا احساس ہوجاتا ہے کہ اس کے تصورّات اور جھوٹے عقیدہ پر مبنی خیالات کی کوئی حیثیت نہ ہے۔ باالفاظ دیگر شرک کی بنیاد کسی عقلی اور نقلی دلیل پر نہیں ہوتی۔ شرک کی بے ثباتی اور ناپائیداری کے باوجود مشرک اسے چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہوتا کیونکہ وہ حقیقی علم سے ناآشنا ہوتا ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ہم نے شریک کی تائید کے لیے کوئی دلیل نازل نہیں کی جب ” اللہ تعالیٰ“ نے شرک کے تائید کے لیے کوئی دلیل نازل نہیں کی تو اسے ثابت کس طرح کیا جا سکتا ہے۔ (قَالَ قَدْ وَقَعَ عَلَیْکُمْ مِّنْ رَّبِّکُمْ رِجْسٌ وَّ غَضَبٌ اَتُجَادِلُوْنَنِیْ فِیْٓ اَسْمَآءٍ سَمَّیْتُمُوْھَآ اَنْتُمْ وَ اٰبَآؤُکُمْ مَّا نَزَّلَ اللّٰہُ بِھَا مِنْ سُلْطٰنٍ فَانْتَظِرُوْٓا اِنِّیْ مَعَکُمْ مِّنَ الْمُنْتَظِرِیْن) [ الاعراف : ٧١] ” اس نے کہا یقیناً تم پر تمہارے رب کی طرف سے عذاب اور غضب آپڑا ہے کیا تم مجھ سے ان ناموں کے بارے میں جھگڑتے ہو جو تم نے اور تمہارے باپ دادا نے خودرکھ لیے ہیں جن کی کوئی دلیل اللہ نے نازل نہیں فرمائی۔ انتظار کرو بے شک میں بھی تمہارے ساتھ انتظار کرنے والوں میں سے ہوں۔“ مسائل ١۔ مشرکانہ عقیدہ مکڑی کے جالے کی مانند ناپائیدار ہوتا ہے۔ ٢۔ دنیا کے گھروں میں سب سے ناپائیدار ٹھکانہ مکڑی کا ہوتا ہے۔ ٣۔ مشرک حقیقی علم سے ناآشنا ہوتا ہے۔ ٤۔ مشرکانہ عقیدہ کی علمی اور فکری بنیادنہیں۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی بچانے والا نہیں : ١۔ حضرت نوح نے اپنے بیٹے کو فرمایا کہ آج کے دن اللہ کے عذاب سے کوئی نہیں بچ سکتا۔ (ھود : ٤٣) ٢۔ کافروں کے چہروں پر ذلّت و رسوائی چھا جائے گی انہیں اللہ کے عذاب سے کوئی بچانے والا نہیں ہوگا۔ (یونس : ٢٧) ٣۔ اس دن تم پیٹھیں پھیر کر بھاگو گے لیکن تمہیں اللہ کے عذاب سے کوئی نہیں بچاسکے گا۔ (المومن : ٣٣) ٤۔ اگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کی خواہشات کی پیروی کریں گے تو آپ کا نہ کوئی مددگار ہوگا اور نہ کوئی اللہ سے بچانے والا ہوگا۔ (الرعد : ٣٧) ٥۔ جب اللہ نے ان کے گناہوں کی پاداش میں انہیں پکڑ اتو انہیں کوئی بچانے والا نہ تھا۔ (المومن : ٢١) ٦۔ فرما دیجیے کون ہے جو تمہیں اللہ کے عذاب سے بچاۓ گا اگر وہ تمہیں عذاب میں مبتلا کرنا چاہے۔ (الاحزاب : ١٧) ٧۔ اگر آپ اس کے لیے ستر بار بھی بخشش طلب کریں اللہ نے اسے معاف نہیں کرنا۔ ( التوبۃ: ٨٠) العنكبوت
42 فہم القرآن ربط کلام : مشرکین کو ان کے شرک کے بارے میں سمجھایا جائے تو وہ شرک کا انکار کرتے ہیں اس لیے ارشاد ہوا ہے کہ اللہ جانتا ہے کہ اس کے سوا وہ جس جس کو پکارتے ہیں۔ مشرک اقوام کی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ مشرک قوم دوچار خداؤں پر مطمئن نہیں ہوتی۔ اہل مکہ نے بیت اللہ میں تین سو ساٹھ جھوٹے خدا سجا رکھے تھے۔ ہندوستان کی مذہبی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو اس قوم کے خداؤں کی تعداد ہزاروں سے متجاوز ہے کچھ تاریخ دانوں نے لکھا ہے کہ ان کے خداؤں کی تعداد ایک لاکھ سے زائد بنتی ہے۔ عیسائیوں نے مستقل طور پر تین خدا بنائے ہوئے ہیں۔ یہودیوں نے حضرت عزیز کو ” اللہ“ کا بیٹا ٹھہرایا ہوا ہے اور ایرانیوں نے یزداں اور ابرہمن کو خدا بنایا ہوا تھا یہی حال دوسری اقوام کا ہے کہ ان کے خداؤں کو شمار کرنا مشکل ہے۔ اس لیے ارشاد فرمایا ہے کہ ” اللہ“ جانتا ہے کہ مشرک اس کے سوا کس کس کو پکارتے اور کس کس کی عبادت کرتے ہیں۔ حالانکہ مشرکانہ عقیدہ مکڑی کے تانے بانے سے بھی زیادہ کمزور ہے۔ اللہ تعالیٰ چاہے تو اِ ن لوگوں کو شرک سے زبردستی روک دے کیونکہ وہ ہر بات پر غالب ہے۔ لیکن اس کی حکمت یہ ہے کہ لوگ عقل وفکر سے کام لے کر شرک سے اجتناب کریں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں مختلف امثال کے ساتھ عقیدہ توحید سمجھانے کی کوشش فرمائی ہے لیکن اہل دانش اور حقیقی علم رکھنے والوں کے سوا دوسرے لوگ شرک کی بے ثباتی کو سمجھنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے زمینوں اور آسمانوں کو حق کے ساتھ پیدا کیا ہے۔ ان کی تخلیق اور وجود میں اس کی قدرت کی بے شمار نشانیاں ہیں لیکن علم رکھنے والے لوگ ہی ان سے سبق حاصل کرتے ہیں۔ علم سے مراد حقیقی علم ہے۔ عقیدہ توحید اختیار کرنا اور اس کے تقاضے پورا کرنا علم اور عقل مندی کی دلیل ہے۔ اس کے مقابلے میں شرک پرلے درجے کی بیوقوفی اور جہالت ہے۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ مشرکوں کے شرک کو اچھی طرح جانتا ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ غالب حکمت والا ہے۔ ٣۔ قرآن مجید کے دلائل اور امثال سے صاحب دانش اور علم والے ہی نصیحت حاصل کرتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن عقیدہ توحید سمجھانے کے لیے قرآن مجید کی امثال : ١۔ ایک غلام کے دو مالک ہوں تو؟۔ (الزمر : ٢٩) ٢۔ ناکارہ اور باصلاحیتغلام میں فرق۔ (النحل : ٧٦) ٣۔ مشرک کی تباہی کی مثال۔ (الحج : ٣١) ٤۔ باطل معبودوں اور مکھی کی مثال۔ (الحج : ٧٣) ٥۔ دھوپ اور سایہ کی مثال۔ (فاطر : ٢١) ٦۔ اندھیرے اور روشنی کی مثال۔ (فاطر : ٢٠) ٧۔ اندھے بہرے، دیدے اور سننے والے کی مثال۔ (ھود : ٢٤) ٨۔ علم اور بے علم کی مثال۔ ( الزمر : ٩) العنكبوت
43 العنكبوت
44 العنكبوت
45 فہم القرآن ربط کلام : عقیدہ توحید سمجھانے کے بعد نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کے عقلی اور تاریخی دلائل۔ نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ مشرکین کا سب سے بڑا اختلاف عقیدہ توحید پر تھا۔ ان کا آخری مطالبہ یہ تھا کہ قرآن مجید کی ان آیات کو خارج از قرآن کیا جائے جن میں ہمارے معبودوں کی نفی کی گئی ہے۔ اس پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم ہوا آپ لوگوں کے سامنے قرآن مجید کی تبلیغ کرتے رہیں اور یاد رکھیں اللہ تعالیٰ کے فرمان کبھی تبدیل نہیں ہوا کرتے۔“ ” اُتُلُ مَا اُوْحِیَ“ کا دوسرا مفہوم یہ ہے کہ اے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ پر قرآن کی صورت میں جو بھی وحی کی جا رہی ہے اس کی تلاوت کیا کریں۔ قرآن مجید کی تلاوت کرنے سے ایمان میں اضافہ اور مضبوطی پیدا ہوتی ہے۔ ایمان میں مضبوط شخص ہی مشکلات کا مقابلہ کرسکتا ہے۔ اور نماز قائم کریں بے شک نماز انسان کو بے حیائی اور برائی سے روکتی ہے اور یہ اللہ کا بہت بڑا ذکر ہے۔ اللہ تعالیٰ جانتا ہے جو کچھ تم کرتے ہو۔ یہاں ” اللہ“ کے ذکر کو سب سے بڑا عمل قرار دیا گیا ہے جس کے اہل علم نے تین مفہوم لیے ہیں۔ 1 نماز سب سے بڑا ذکر ہے۔ 2 نماز سب سے بڑی عبادت اور یادِ الٰہی ہے۔ 3 اللہ تعالیٰ کا کسی کو یاد کرنا سب سے بڑی بات ہے۔ اب تینوں باتوں کو قدر تفصیل کے ساتھ ذکر کیا جاتا ہے۔ جہاں تک نماز کا تعلق ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کے قرب اور یاد کا سب سے مؤثر اور قریب ترین ذریعہ ہے۔ اس لیے موسیٰ (علیہ السلام) کو حکم دیا گیا کہ اے موسیٰ ! میری یاد کے لیے نماز قائم رکھنا۔ ( طٰہٰ: ١٤) نماز کے بے شمار فوائد میں سے ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ اگر نماز کے تقاضے پورے کیے جائیں تو یقیناً یہ انسان کو بے حیائی سے بچاتی ہے اس حقیقت کو جاننے کے لیے چند اشارے کافی ہیں۔ نماز میں انسان اپنے رب کی بارگاہ میں ہاتھ جوڑ کر قیام کرتا ہے اس کے بعد رکوع اور پھر سجدہ بجا لاتا ہے۔ اگر انسان پوری توجہ کے ساتھ یہ ارکان ادا کرے تو نمازی میں غرور اور تکبر پیدا نہیں ہوسکتا، کیونکہ وہ پانچ وقت عاجزی کا اظہار کرتا ہے اور بار، بار اللہ اکبر کہہ کر اپنے رب کی کبریائی کا اعتراف کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کو اخلاص کے ساتھ اپنا کبریا ماننے والا شخص متکبر نہیں ہوسکتا۔ نماز میں آدمی کو نگاہیں نیچی اور سجدہ کی جگہ پر مرکوز رکھنے کا حکم دیا گیا ہے۔ مسجد سے باہر اسے حکم ہے کہ وہ اپنی نگاہوں کو نیچی اور کنٹرول میں رکھے جس سے نہ صرف آدمی کی نگاہیں پاک اور اس کا دل بے حیائی سے محفوظ رہتا ہے۔ بلکہ معاشرے میں بے حیائی ختم کرنے کا یہ مؤثر ترین طریقہ ہے۔ نماز میں انسان تمام مسلمانوں کے لیے خیر اور سلامتی کی دعائیں کرتا ہے اگر ان جذبات کا نماز کے بعد بھی خیال رکھا جائے تو مسلمان ایک دوسرے کی شر سے محفوظ رہ سکتے ہیں اور معاشرہ امن و سکون کا گہوارہ بن سکتا ہے۔ نماز کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ نماز سے انسان کو روحانی سکون ملتا ہے۔ اس لیے اس موقع پر یہ حکم نازل ہوا کہ قرآن مجید کی تلاوت کے ساتھ نماز قائم کریں۔ تاکہ مخالفوں کی مخالفت سے پریشان ہونے کی بجائے آپ پُر سکون رہیں اور یقین رکھیں کہ جو تم عمل کرتے ہو اللہ تعالیٰ اسے جانتا ہے۔ نماز دل کا سکون ہے : (یَابِلَالُ ! اَرِحْنَا بالصَّلَاۃِ) [ مسند أحمد : کتاب باقی مسند الانصار] نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان ہے کہ ” اے بلال ! نماز کے ذریعے ہمیں سکون پہنچاؤ۔“ نماز جماعت کے ساتھ پڑھنا : (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَ (رض) أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ صَلَاۃُ الْجَمَاعَۃِ تَفْضُلُ صَلَاۃَ الْفَذِّ بِسَبْعٍ وَّعِشْرِیْنَ دَرَجَۃً) [ رواہ البخاری : کتاب الأذان، باب فضل صلاۃ الجماعۃ] ” حضرت عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جماعت کے ساتھ نماز پڑھنا اکیلے نماز پڑھنے سے ستائیس گنا افضل ہے۔“ (عَنِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ (رض) قَالَ سَاَلْتُ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اَیُّ الْاَعْمَالِ اَحَبُّ اِلَی اللّٰہِ تَعَالٰی قَال الصَّلٰوۃُ لِوَقْتِہَا قُلْتُ ثُمَّ اَیٌّ؟ قَالَ بِرُّ الْوَالِدَیْنِ قُلْتُ ثُمَّ اَیٌّ قَالَ الْجِہَادُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ قَالَ حَدَّثَنِیْ بِہِنَّ وَلَوِ اسْتَزَدْتُّہٗ لَزَادَنِیْ) [ رواہ البخاری : کتاب مواقیت الصلاۃ، باب فَضْلِ الصَّلاَۃِ لِوَقْتِہَا] ” حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ سوال کیا کہ اللہ تعالیٰ کو اعمال میں کون ساعمل زیادہ پسند ہے؟ آپ نے ارشاد فرمایا کہ فرض نماز اس کے وقت پر ادا کرنا۔ میں نے عرض کی اس کے بعد کون سا عمل بہتر ہے ؟ آپ نے فرمایا والدین کے ساتھ بہترسلوک کرنا۔ میں نے پھر عرض کی اس کے بعد کون ساعمل بہتر ہے؟ آپ نے فرمایا اللہ کے راستے میں جہاد کرنا۔ ابن مسعود (رض) کہتے ہیں اگر میں اس موقعہ پر مزید سوال کرتا تو آپ اس کا بھی جواب عنایت فرماتے۔“ تلاوت قرآن کی برکت : (یَقُوْلُ الرَّبُّ عَزَّوَجَلَّ مَنْ شَغَلَہُ الْقُرْاٰنُ وَذِکْرِیْ عَنْ مَسْأَلَتِیْ اَعْطَیْتُہٗ اَفْضَلَ مَآ اُعْطِیَ السَّآءِلِیْنَ) [ رواہ الترمذی : کتاب فضائل القرآن، باب ماجاء کیف کانت قراء ۃ النبی] ” اللہ رب العزت فرماتے ہیں جسے قرآن پاک کی تلاوت اور میرے ذکر نے مجھ سے مانگنے سے روکے رکھا میں اسے مانگنے والوں سے زیادہ عطا کروں گا۔“ (عَنْ عُمَرَبْنِ الخَطَّابِ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اِنَّ اللّٰہَ یَرْفَعُ بِھٰذَالْکِتَابِ اَقْوَامًاوَیَضَعُ بِہٖ اٰخَرِیْنَ)[ رواہ مسلم : کتاب الصلوٰۃ، باب فضل من یقوم بالقراٰن ] ” حضرت عمربن خطاب (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اس کتاب کے ذریعہ اللہ تعالیٰ بہت سی قوموں کو جو اس پر عمل کریں گی بام عروج پر پہنچائے گا اور بہت سی قوموں کو جو اس کو چھوڑ دیں گی انہیں ذلیل کر دے گا۔“ ذکر کی فضیلت : (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَال اللّٰہُ تَعَالٰی أَنَا مَعَ عَبْدِیْ حَیْثُمَا ذَکَرَنِیْ وَتَحَرَّکَتْ بِیْ شَفَتَاہُ) [ رواہ البخاری : کتاب التوحید، باب قول اللہ تعالیٰ لاتحرک بہ لسانک الخ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں میں اپنے بندے کے ساتھ ہوتاہوں، وہ جہاں کہیں بھی میرا ذکر کرے اور جب اس کے ہونٹ میرے ذکر میں حرکت کریں۔“ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ عَنْ رَّسُوْلِ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ إِنَّ الْعَبْدَ إِذَا أَخْطَأَ خَطِیْءَۃً نُکِتَتْ فِیْ قَلْبِہٖ نُکْتَۃٌ سَوْدَآءُ فَإِذَا ھُوَ نَزَعَ وَاسْتَغْفَرَ وَتَابَ صُقِلَ قَلْبُہٗ وَإِنْ عَادَ زِیْدَ فِیْھَا حَتّٰی تَعْلُوَ قَلْبَہٗ وَھُوَ الرَّانُ الَّذِیْ ذَکَرَ اللّٰہُ (کَلَّا بَلْ رَانَ عَلٰی قُلُوْبِھِمْ مَا کَانُوْا یَکْسِبُوْنَ) [ رواہ الترمذی : کتاب تفسیر القرآن، باب ومن سورۃ (ویل للمطففین)] ” حضرت ابوہریرہ (رض) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں آپ نے فرمایا : آدمی جب بھی کوئی گناہ کرتا ہے تو اس کے دل پر ایک کالا نکتہ لگادیا جاتا ہے جب وہ بے چین ہو کر توبہ واستغفار کرتا ہے تو اس کے دل کو پالش کردیا جاتا ہے اور اگر پھر وہ گناہ کرتا ہے تو وہ نکتہ بڑھادیا جاتا ہے حتٰی کہ وہ پورے دل پر غالب آجاتا ہے اور یہی وہ زنگ ہے جس کا اللہ تعالیٰ نے ذکر کیا ہے کہ (ہرگز نہیں بلکہ جو وہ کرتے ہیں اس کی وجہ سے ان کے دلوں پر زنگ چڑھ گیا ہے)۔“ (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَمْرٍو (رض) عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) أَنَّہٗ کَانَ یَقُوْلُ إِنَّ لِکُلِّ شَیْءٍ صِقَالَۃً وَإِنَّ صِقَالَۃَ الْقُلُوْبِ ذِکْرُ اللّٰہِ وَمَا مِنْ شَیْءٍ أَنْجٰی مِنْ عَذَاب اللّٰہِ مِنْ ذِکْرِ اللّٰہِ۔۔) [ صحیح الترغیب للألبانی : ١٤٩٥] ” حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں آپ فرمایا کرتے تھے ہر چیز کی پالش ہوتی ہے دلوں کی پالش اللہ کا ذکر ہے اور اللہ کے ذکر سے زیادہ کوئی چیز اللہ کے عذاب سے نجات دینے والی نہیں ہے۔“ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعا : (أَللّٰھُمَّ أَعِنِّیْ عَلٰی ذِکْرِکَ وَشُکْرِکَ وَحُسْنِ عِبَادَتِکَ) [ رواہ أبوداوٗد : کتاب الصلاۃ، باب فی الإستغفار] ” الٰہی ! اپنے ذکر، شکر اور بہترین طریقے سے عبادت کرنے پر میری مدد فرما۔“ مسائل ١۔ مسلمان کو قرآن مجید کی تلاوت کا اہتمام کرنا چاہیے۔ ٢۔ نماز کو اس کے آداب اور تقاضوں کے ساتھ قائم کرنا چاہیے۔ ٣۔ نماز انسان کو برائی اور بے حیائی سے بچاتی ہے۔ ٤۔ نماز اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا ذکر ہے۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ جانتا ہے جو لوگ عمل کرتے ہیں۔ ٦۔ ” اللہ“ کا ذکر بڑی نیکی ہے۔ تفسیر بالقرآن نماز کے فوائد : ١۔ وہ لوگ جو کتاب اللہ پر کار بند رہتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں ہم ان کے اجرکو ضائع نہیں کریں گے۔ (الاعراف : ١٧٠) ٢۔ اگر لوگ توبہ کریں اور نماز قائم کریں تو ان کی راہ چھوڑ دو۔ (التوبہ : ٥) ٣۔ بے شک نماز بے حیائی اور برے کاموں سے روکتی ہے۔ (العنکبوت : ٤٥) ٤۔ بے شک وہ لوگ جو ایمان لائے اور نیک اعمال کیے اور نماز قائم کی ان پر کسی قسم کا خوف نہیں ہوگا۔ (البقرۃ: ٢٧٧) ٥۔ اے ایمان والو! نماز اور صبر کے ساتھ مدد طلب کرو یقیناً اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ (البقرۃ: ١٥٣) ٦۔ اپنی نمازوں کی حفاظت کرنے والے جنت کے وارث ہوں گے۔ (المومنون : ٩۔ ١٠) ٧۔ جو لوگ اللہ کی خوشنودی کیلئے صبر کرتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں ہم ان کے اجر کو ضائع نہیں کرتے۔ (الرعد : ٢٢) العنكبوت
46 فہم القرآن ربط کلام : کفار اور مشرکین مکہ کے ساتھ اکثر اہل کتاب بھی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کا انکار کرتے تھے۔ یہاں تک کہ آپ کے ساتھ لڑائی جھگڑا کرنے پر اتر آتے۔ اس لیے اہل کتاب کے بارے میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خصوصی ہدایت دی گئی ہے۔ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مسلمانوں! اگر تمہارے ساتھ اہل کتاب بحث وتکرار اور جھگڑا کرنے پر اتر آئیں تو تمہیں ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے کہ ان سے بحث وتکرار سے بچا جائے۔ اگر تکرار کی صورت ناگزیر ہو تو دلائل کی روشنی میں اچھے انداز میں بحث کرو، کیونکہ جن لوگوں نے کفر و شرک کا روّیہ اختیار کر رکھا ہے وہ بحث وتکرار کے ذریعے تمہیں الجھانا چاہتے ہیں۔ درحقیقت یہ لوگ اپنے آپ پر ظلم کرنے والے ہیں۔ انہیں یہی کہنا کافی ہے کہ تم مانو یا نہ مانو ہم تو اس پر ایمان رکھتے ہیں جو ہماری طرف نازل کیا گیا اور جو تمہاری طرف نازل ہوا۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمارا الٰہ اور تمہارا الٰہ ایک ہی ہے اور ہم اسی کے فرماں بردار ہیں۔ یعنی جو کچھ ہم کہتے اور کرتے ہیں وہ اسی کے حکم کے مطابق ہے۔ سمجھانا مقصود یہ ہے کہ جب ہم سب ایک الٰہ کے ماننے والے ہیں تو ہمیں آپس میں جھگڑنا نہیں چاہیے۔ اسی بات کی دوسرے انداز میں اہل کتاب کو یوں دعوت دی گئی ہے تاکہ شرک کے مقابلے میں توحید کے ماننے والے ایک ہوجائیں۔ (قُلْ یٰٓاَھْلَ الْکِتٰبِ تَعَالَوْا اِلٰی کَلِمَۃٍ سَوَآءٍ بَیْنَنَا وَ بَیْنَکُمْ اَلَّا نَعْبُدَ اِلَّا اللّٰہَ وَ لَا نُشْرِکَ بِہٖ شَیْءًا وَّ لَا یَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ فَاِنْ تَوَلَّوْا فَقُوْلُوا اشْھَدُوْا بِاَنَّا مُسْلِمُوْن) [ آل عمران : ٦٤] ” آپ فرما دیں کہ اے اہل کتاب ! ایسی بات کی طرف آؤ جو ہمارے اور تمہارے درمیان برابر ہے نہ ہم اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کی عبادت کریں اور نہ تم اس کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہراؤ اور نہ اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر آپس میں ایک دوسرے کو رب بنائیں پس اگر وہ منہ پھیر لیں تو آپ فرمادیں کہ گواہ رہنا ہم تو ماننے والے ہیں۔“ (وَ اِلٰھُکُمْ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ الرَّحْمٰنُ الرَّحِیْمُ) [ البقرۃ: ١٦٣] ” تم سب کا معبود ایک ہی معبود ہے‘ اس نہایت رحم کرنے والے اور بڑے مہربان کے سوا کوئی معبود برحق نہیں۔ مسائل ١۔ اہل کتاب سے بحث کرنا ناگزیر ہو تو اچھے انداز میں بحث کرنا چاہیے۔ ٢۔ مسلمان وہ ہے جو قرآن مجید اور پہلی آسمانی کتابوں پر ایمان رکھتا ہے۔ ٣۔ مسلمانوں اور اہل کتاب کا ایک ہی ” الٰہ“ ہے جس کی سب کو تابعداری کرنی چاہیے۔ تفسیر بالقرآن سب کا ایک ہی ” الٰہ“ ہے : ١۔ ” الٰہ“ ایک ہی ہے اس کے علاوہ کوئی الٰہ نہیں۔ (البقرۃ: ١٦٣) ٢۔ ” الٰہ“ تمہارا ایک ہے لیکن آخرت کے منکر نہیں مانتے۔ (النحل : ٢٢) ٣۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرما دیں میں تمہاری طرح بشر ہوں میری طرف وحی کی جاتی ہے کہ تمہارا الٰہ ایک ہی الٰہ ہے۔ (الکہف : ١١٠) ٤۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرمادیں میری طرف وحی کی جاتی ہے تمہارا الٰہ صرف ایک ہی ہے۔ (الانبیاء : ١٠٨) ٥۔ تمہارا صرف ایک ہی الٰہ ہے اسی کے تابع ہوجاؤ۔ (الحج : ٣٤) ٦۔ ہمارا الٰہ اور تمہارا الٰہ صرف ایک ہی ہے۔ ہم اسی کے فرمانبردار ہیں۔ (العنکبوت : ٤٦) ٧۔ کیا اللہ کے سوا کوئی اور الٰہ ہے جو میں تلاش کروں۔ (الاعراف : ١٤٠) ٨۔ یقیناً ” اللہ“ ہی ایک الٰہ ہے وہ اولاد سے پاک ہے آسمان و زمین کی ہر چیز اسی کے لیے ہے (النساء۔ ١٧١) ٩۔ اس کے سوا کوئی الٰہ نہیں اور وہ اکیلا ہے ( المائدۃ: ٧٣) ١٠۔ تمہارا الٰہ ایک ہی الٰہ ہے وہ بڑا مہربان اور رحم فرمانے والا ہے۔ ( البقرۃ: ١٦٣) العنكبوت
47 فہم القرآن ربط کلام : جس طرح اللہ تعالیٰ نے تورات، انجیل، زبور اور صحف ابراہیم نازل کیے اس طرح اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر قرآن مجید نازل فرمایا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے صحف ابراہیم، تورات، زبور اور انجیل میں یہ بات بھی بیان فرمائی ہے کہ تمام انبیاء کے آخر میں حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خاتم المرسلین کے طور پر مبعوث کیے جائیں گے اور ان پر قرآن نازل کیا جائے گا۔ جس کا تذکرہ یوں کیا جا رہا ہے کہ اسی طرح ہی ہم نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف قرآن مجید نازل کیا جن لوگوں کو ہم نے آپ سے پہلے کتاب عنایت کی اور وہ اس پر سچا ایمان رکھتے ہیں۔ وہی لوگ قرآن مجید پر ایمان لاتے ہیں اور اہل مکہ میں بھی قرآن مجید پر ایمان لانے والے ہیں۔ حقائق جاننے اور ٹھوس دلائل آنے کے باوجود ہماری آیات کے ساتھ صرف کافر لوگ ہی جھگڑا کیا کرتے ہیں۔ پہلی کتابوں پر ایمان لانے کا معنٰی یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ ہیں۔ ان پر ایمان لانے کے باوجود سب کے لیے قابل اتباع صرف قرآن مجید ہے کیونکہ یہ سب سے آخری آسمانی کتاب ہے۔ ایمان کی مبادیات اور ان کا مرکزی تقاضا : (عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ (رض) قَالَ بَیْنَمَا نَحْنُ عِنْدَ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ذَاتَ یَوْمٍ إِذْ طَلَعَ عَلَیْنَا رَجُلٌ شَدِیدُ بَیَاض الثِّیَابِ شَدِیدُ سَوَاد الشَّعْرِ لاَ یُرٰی عَلَیْہِ أَثَرُ السَّفَرِ وَلاَ یَعْرِفُہُ مِنَّا أَحَدٌ حَتَّی جَلَسَ إِلَی النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَأَسْنَدَ رُکْبَتَیْہِ إِلَی رُکْبَتَیْہِ وَوَضَعَ کَفَّیْہِ عَلَی فَخِذَیْہِ قَالَ فَأَخْبِرْنِی عَنِ الإِیمَانِ قَالَ أَنْ تُؤْمِنَ باللَّہِ وَمَلاَءِکَتِہٖ وَکُتُبِہٖ وَرُسُلِہٖ وَالْیَوْمِ الآخِرِ وَتُؤْمِنَ بالْقَدَرِ خَیْرِہٖ وَشَرِّہٖ )[ رواہ مسلم : باب مَعْرِفَۃِ الإِیمَانِ وَالإِسْلاَمِ ] ” حضرت عمر بن خطاب (رض) بیان کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ اچانک ایک آدمی سفید کپڑوں میں ملبوس سیاہ بالوں والا جس پر سفر کے کوئی آثار نہیں تھے اور ہم سے کوئی اسے پہچانتا نہیں تھا وہ آکر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے دو زانوں ہو کر بیٹھ گیا اور اپنی ہتھیلیوں کو اپنی رانوں پر رکھتے ہوئے عرض کی مجھے ایمان کے متعلق بتائیے آپ نے فرمایا کہ تو اللہ پر، اس کے فرشتوں پر، اس کے رسولوں پر، آخرت کے دن پر اور اچھی بری تقدیر پر ایمان لائے۔“ (عَنْ أَبِیْ سَعِیدٍ الْخُدْرِیُّ (رض) سَمِعْتُ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَقُولُ مَنْ رَأَی مُنْکَرًا فَغَیَّرَہُ بِیَدِہِ فَقَدْ بَرِءَ وَمَنْ لَمْ یَسْتَطِعْ أَنْ یُغَیِّرَہُ بِیَدِہِ فَغَیَّرَہُ بِلِسَانِہِ فَقَدْ بَرِءَ وَمَنْ لَمْ یَسْتَطِعْ أَنْ یُغَیِّرَہُ بِلِسَانِہِ فَغَیَّرَہُ بِقَلْبِہِ فَقَدْ بَرِءَ وَذَلِکَ أَضْعَفُ الإِیمَانِ) [ رواہ النسائی : باب تَفَاضُلِ أَہْلِ الإِیمَانِ] ” حضرت ابو سعید خدری (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا آپ نے فرمایا جس شخص نے برائی کو دیکھا اور اس نے اسے اپنے ہاتھ سے ختم کیا تو وہ بری ہوگیا۔ اگر اس میں برائی کو ہاتھ سے روکنے کی طاقت نہیں اور اس نے اسے اپنی زبان سے منع کیا وہ بھی بری ہوا۔ اس نے زبان سے روکنے کی طاقت نہ پائی مگر اس نے اسے اپنے دل سے برا سمجھا تو وہ بھی بری ہوگیا۔ یہ سب سے کمتر ایمان ہے۔“ مسائل ١۔ جس طرح اللہ تعالیٰ نے آسمانی کتابیں نازل فرمائیں اسی طرح نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر قرآن نازل کیا ہے۔ ٢۔ پہلی کتابوں پر صحیح ایمان رکھنے والے لوگ قرآن مجید پر بھی ایمان لاتے ہیں۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ کی آیات کے ساتھ صرف کافر ہی جھگڑا کرتے ہیں۔ تفسیر باالقرآن پہلی آسمانی کتابوں اور قرآن مجید پر ایمان لانا فرض ہے : ١۔ قرآن مجید اور پہلی آسمانی کتابوں پر ایمان لانا۔ (البقرۃ: ٤) ٢۔ اللہ اور کتب سماوی پر ایمان لانا۔ (البقرۃ: ١٣٦) ٣۔ اللہ، ملائکہ، اللہ کی کتابوں، اور اس کے رسولوں پر ایمان لانا۔ (البقرۃ: ٢٨٥) العنكبوت
48 فہم القرآن ربط کلام : قرآن مجید کی صداقت اور نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبّوت کے مزید ثبوت۔ سب سے پہلے قرآن مجید کا انکار کرنے والے اہل مکہ تھے، جن کا ایک الزام یہ تھا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی طرف سے آیات بنا کر اللہ تعالیٰ کے ذمہ لگاتا ہے جس کی درجنوں دلائل کے ساتھ نفی کی گئی ہے۔ جن میں دو دلائل یہ ہیں کہ سوچو اور غور کرو کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس سے پہلے نہ پڑھنا جانتے تھے اور نہ ہی اپنے ہاتھ سے لکھ سکتے تھے۔ اگر محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پہلے سے لکھنا پڑھنا جانتے ہوتے تو پھر تمہیں اس کی نبّوت میں ضرور شک ہوسکتا تھا کہ پڑھا لکھا انسان تھا اپنی صلاحیّت کی بنیاد پر ایک کتاب بنا لایا ہے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حالت یہ ہے کہ نہ آپ نے کسی کے سامنے زنوائے تلمذ طے کیے اور نہ ہی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کسی سے لکھنا سیکھا پھر لوگوں کو کس بنیاد پر شک ہوا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قرآن مجید کسی سے پڑھ لیا ہے یا اپنی طرف سے لکھ لیا ہے؟ یہاں اس بات کا بھی اشارہ دیا گیا ہے کہ انسان کو بائیں کی بجائے دائیں ہاتھ کے ساتھ لکھنا چاہیے۔ حقیقتاً اس ارشاد کا روئے سخن منکرین قرآن کی طرف ہے لیکن بات کی اہمیت کے پیش نظر اور نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلّی دینے کے لیے آپ کو مخاطب کیا گیا ہے۔ جس کا مقصد یہ ہے کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ کو غمگین اور دلبرداشتہ نہیں ہونا چاہیے اور نہ ہی آپ کی توجہ ان کے بے ہودہ الزام کی طرف ہونی چاہیے کیونکہ آپ تو اس سے پہلے نہ پڑھ سکتے تھے اور نہ ہی اپنے ہاتھ سے لکھ سکتے تھے۔ باطل پرست لوگ کسی دلیل کی بنیاد پر الزام نہیں لگاتے بلکہ حقیقت میں یہ ظالم اور بے انصاف لوگ ہیں جو بلا دلیل اور خواہ مخواہ ہماری آیات کا انکار کرتے ہیں۔ ان کے مقابلہ میں ہماری آیات پر وہ لوگ ضرور ایمان لاتے ہیں جن کو حقیقی علم کی آگہی بخشی گئی ہے۔ حضرت براء بن عازب (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ذوالقعدہ میں عمرہ ادا کرنا چاہا، لیکن مکہ والوں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مکہ مکرمہ میں داخل ہونے سے روک دیا۔ بالآخران سے طے ہوا کہ آپ آئندہ سال آئیں گے اور مکہ مکرمہ میں صرف تین دن قیام کریں گے۔ جب کفار نے صلح نامہ تحریر کرنا چاہا تو آپ نے یوں تحریر لکھوائی، کہ اس معاہدے پر محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صلح کی ہے۔ انہوں نے فوراً اعتراض کیا۔ ہم آپ کی رسالت تسلیم نہیں کرتے۔ اگر ہم آپ کو اللہ کا رسول تسلیم کرتے تو کبھی آپ کو نہ روکتے۔ آپ تو بس محمد بن عبداللہ ہیں کہ یہ سن کر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا‘ میں اللہ کا رسول ہوں اور محمد بن عبداللہ بھی ہوں۔ اس کے بعد آپ نے حضرت علی (رض) کو حکم دیا کہ وہ رسول اللہ کے الفاظ مٹا دے۔ انہوں نے عرض کیا نہیں اللہ کی قسم! میں ہرگز ان الفاظ کو نہیں مٹاؤں گا۔ تو رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قلم پکڑا، جبکہ آپ بہتر انداز میں لکھ نہیں سکتے تھے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ تحریر کیا کہ یہ معاہدہ محمد بن عبداللہ نے کیا ہے۔“ [ رواہ البخاری : باب کَیْفَ یُکْتَبُ ہَذَا مَا صَالَحَ فُلاَنُ بْنُ فُلاَنٍ] مسائل ١۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لکھنا، پڑھنا نہیں جانتے تھے۔ ٢۔ باطل پرست اور بے انصاف لوگ اللہ تعالیٰ کی آیات کا انکار کرتے ہیں۔ ٣۔ علم کی حقیقت سے آشنا لوگ اللہ تعالیٰ کی آیات پر ایمان لاتے ہیں۔ تفسیر باالقرآن ” اللہ“ کی آیات کا کون لوگ انکار کرتے ہیں : ١۔ فاسق لوگ ” اللہ“ کی آیات کا انکار کرتے ہیں۔ (البقرۃ: ٩٩) ٢۔ قرآن مجید میں لوگوں کے لیے ہر قسم کی مثال بیان کی گئی مگر اکثر ناشکرے اس کا انکار کرتے ہیں۔ (الکہف : ٥٤) ٣۔ ” اللہ“ کی آیات کا انکار کرنے کا بدلہ آخرت میں آگ کا گھر ہے۔ ( حٰمٓ السجدۃ : ٢٨) ٤۔ کیا تم باطل کے ساتھ ایمان لاتے اور اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا انکار کرتے ہو؟ (النحل : ٧٢) العنكبوت
49 العنكبوت
50 فہم القرآن ربط کلام : قرآن مجید عظیم ترین کتاب ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے لوگوں کے دلوں کے لیے شفا اور ایمان لانے والوں کے لیے اس کو ہدایت کا ذریعہ بنایا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو درجنوں معجزات عنایت فرمائے۔ لیکن ظالم لوگ تمام معجزات دیکھنے کے باوجود یہی کہتے اور مطالبہ کرتے رہے کہ اس پر اس کے رب کی طرف سے کوئی نشانی کیوں نازل نہیں کی جاتی۔ اس کا اس موقع پر صرف یہ جواب دیا گیا کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بے انصاف لوگوں کو یہ فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ کے پاس تو لا تعداد نشانیاں اور معجزات موجود ہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے مجھے ہر سوال کے جواب میں نشانی پیش کرنے کے لیے نہیں بھیجا اور نہ ہی میرے پاس یہ اختیار ہے کہ جب چاہوں تمہارے سامنے کوئی معجزہ پیش کر دوں۔ نشانی اور معجزہ دینے اور دکھلانے کا اختیار صرف اللہ تعالیٰ کے پاس ہے وہ جب چاہتا ہے مجھے عطا فرماتا ہے۔ مجھے مبعوث فرمانے کا مقصد یہ ہے کہ میں لوگوں کو واضح انداز اور کھلے الفاظ میں ان کی برائیوں کے انجام سے آگاہ کروں۔ حق کے مخالف لوگ آئے روز نئے سے نئے معجزے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ کیا ان کو قرآن مجید کی صورت میں معجزہ کافی نہیں ہے جس کی آیات ان کے سامنے پڑھ کر سنائی جاتی ہیں ان میں جو حقائق بیان اور پیشین گوئیاں کی جاتی ہیں۔ ان میں کچھ پوری ہوچکی ہیں باقی ان کی زندگی اور آخرت میں پوری ہوجائیں گی۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے قرآن مجید ایسا معجزہ ہے جس کی کوئی نظیر پیش نہیں کرسکتا۔ قرآن مجید اللہ تعالیٰ کی طرف سے رحمت اور نصیحت ہے۔ مگر ان لوگوں کے لیے جو اس کی نصیحت پر ایمان لاتے ہیں۔ ” حضرت عبداللہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تم میں سے جو کوئی غم وحزن میں مبتلا ہو وہ کہے ( اللَّہُمَّ إِنِّی عَبْدُکَ وَابْنُ عَبْدِکَ وَابْنُ أَمَتِکَ نَاصِیَتِی بِیَدِکَ مَاضٍ فِیَّ حُکْمُکَ عَدْلٌ فِیَّ قَضَاؤُکَ أَسْأَلُکَ بِکُلِّ اسْمٍ ہُوَ لَکَ سَمَّیْتَ بِہِ نَفْسَکَ أَوْ عَلَّمْتَہُ أَحَداً مِنْ خَلْقِکَ أَوْ أَنْزَلْتَہُ فِی کِتَابِکَ أَوِ اسْتَأْثَرْتَ بِہِ فِی عِلْمِ الْغَیْبِ عِنْدَکَ أَنْ تَجْعَلَ الْقُرْآنَ رَبِیعَ قَلْبِی وَنُورَ صَدْرِی وَجَلاَءَ حُزْنِی وَذَہَابَ ہَمِّی) اے اللہ ! میں تیرا بندہ ہوں تیرے بندے کا بیٹا ہوں تیری بندی کا بیٹا ہوں میری پیشانی تیرے ہاتھ میں ہے تیرا حکم مجھ پر نافذ ہوتا ہے تیرے فیصلوں میں عدل و انصاف ہے میں سوال کرتا ہوں تیرے ہر اس نام کے ساتھ جو تو نے اپنے لیے خاص کیے یا اپنی مخلوق میں سے کسی کو سکھلائے یا اپنی کتاب میں نازل فرمائے یا علم غیب کے مطابق ان کا انتخاب فرمایا اے اللہ! قرآن کو میرے دل کی بہار اور سینے کی روشنی اور غموں اور پریشانیوں کو دور کرنے کا سبب بنا دے، اللہ اس کے غم اور پریشانیاں ختم فرما دیتا ہے۔ اور انہیں ان سے نجات عطا کرتا ہے عرض کی اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیا ہم اسے سیکھ نہ لیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کیوں نہیں ہر سننے والے کے لیے ضروری ہے کہ وہ اسے یاد کرے۔“ [ رواہ احمد : مسند عبداللہ بن مسعود] مسائل ١۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) برے لوگوں کو ان کی برائی کے انجام سے ڈرانے والے تھے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے قرآن مجید عظیم اور بے نظیر معجزہ ہے۔ ٣۔ ایمان لانے والوں کے لیے قرآن مجیداللہ تعالیٰ کی رحمت اور نصیحت ہے۔ تفسیر بالقرآن قرآن مجید کے اوصاف حمیدہ کی ایک جھلک : ١۔ قرآن مجیدلاریب کتاب ہے۔ (البقرۃ: ٢) ٢۔ قرآن مجیدکی آیات محکم ہیں۔ (ھود : ١) ٣۔ قرآن مجید برہان اور نور مّبین ہے۔ (النساء : ١٧٤) ٤۔ قرآن کریم لوگوں کے لیے ہدایت ہے۔ (البقرۃ: ١٨٥) ٥۔ قرآن مجید لوگوں کے لیے ہدایت اور نصیحت ہے۔ (آل عمران : ١٣٨) ٦۔ قرآن مجید کی آیات واضح ہیں۔ (یوسف : ١) ٧۔ جن وانس مل کر قرآن کی ایک سورۃ بھی نہیں بنا سکتے۔ (بنی اسرائیل : ٨٨) ٨۔ قرآن مجیددلوں کے لیے شفا ہے۔ (یونس : ٥٧) ٩۔ ہم نے قرآن کو نازل کیا جو مومنوں کے لیے شفاء اور رحمت ہے۔ (بنی اسرائیل : ٨٢) ١٠۔ ہم ہی قرآن مجید کو نازل کرنے والے ہیں اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔ (الحجر : ٩) العنكبوت
51 العنكبوت
52 فہم القرآن ربط کلام : منکرین نبوت کو ایک اور جواب۔ منکرین نبوت کے پے در پے مطالبات پورے کر دئیے گئے اور ان کے ہر سوال کا مُدّلل جواب دیا گیا اور وہ اس کے مقابلے میں لا جواب ہوئے مگر اس کے باوجود مطالبہ کرتے کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ کی نبّوت کی تائید میں فلاں قسم کا معجزہ نازل کیوں نہیں ہوتا۔ ایسے لوگوں کو بالآخر یہ جواب دیا گیا کہ تمہارے پاس دیگر معجزات کے ساتھ قرآن مجید جیسا عظیم اور زندہ جاوید معجزہ آچکا ہے۔ لیکن پھر بھی تم ایمان لانے کے لیے تیار نہ ہو۔ اب میرے اور تمہارے درمیان ” اللہ“ ہی گواہ ہے اور وہ ٹھیک، ٹھیک فیصلہ کرنے والا ہے جو نہ صرف تمہاری نیتوں کو جانتا ہے بلکہ زمین و آسمانوں کی ہر چیز سے اچھی طرح واقف ہے۔ اس کا فرمان ہے کہ جو باطل کو مانتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے فرمان کا انکار کرتے ہیں بالآخر نقصان پائیں گے۔ اس فرمان میں باطل پرستوں کو دائمی اور لا محدود نقصان سے آگاہ کرنے کے ساتھ یہ سمجھایا ہے کہ اگر تم ٹھوس دلائل اور واضح حقائق کو نہیں مانتے تو میرے ساتھ الجھنے کی بجائے تم اپنا کام کرو۔ میری نبوت کی تائید کے لیے میرے رب کی گواہی کافی ہے۔ ایسے موقعہ پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ آیت پڑھنے اور اس پر مضبوط عقیدہ رکھنے کی تلقین فرمائی گئی کیونکہ جسے ” اللہ“ کا سہارا حاصل ہوجائے وہ کامیاب ہوگا، ہر مبلغ اور مسلمان کے لیے یہی آخری سہارہ اور بیش بہا سرمایہ ہے۔ (فَإِنْ تَوَلَّوْا فَقُلْ حَسْبِیَ اللَّہُ لَا إِلَہَ إِلَّا ہُوَ عَلَیْہِ تَوَکَّلْتُ وَہُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیمِ) [ التوبہ : ٢٩] ” پھر اگر وہ منہ موڑیں تو فرما دیں مجھے اللہ ہی کافی ہے، اس کے سوا کوئی معبود نہیں، میں نے اسی پر بھروسہ کیا اور وہی عرش عظیم کا رب ہے۔“ العنكبوت
53 فہم القرآن ربط کلام : نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دیگر معجزات مانگنے کے ساتھ کفار یہ بھی مطالبہ کرتے تھے کہ جس عذاب سے تم ہمیں ڈراتے اور دھمکاتے رہتے ہو وہ آتا کیوں نہیں؟ جواباً فرمایا گیا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عذاب کا مطالبہ کرتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ عذاب کے مستحق ہوچکے ہیں لیکن انہیں بتلائیں کہ عذاب کا ایک وقت مقرر ہے۔ وہ کسی کے جلدی کرنے سے اپنے وقت سے پہلے نازل نہیں ہوتا۔ البتہ جب نازل ہوتا ہے تو اس قدر اچانک نازل ہوتا ہے کہ کوئی بھاگنا چاہے تو بھاگ نہ سکے اور کوئی بچنا چاہے تو اس سے بچ نہیں سکتا۔ جس عذاب کا یہ لوگ بار بار مطالبہ کرتے ہیں۔ انہیں بتلائیں کہ ” اللہ“ چاہے گا تو وہ تمہیں دنیا میں ہی آلے گا اگر انہیں یقین نہیں آرہا تو عاد، ثمود اور قوم لوط کی بستیاں دیکھیں کہ عذاب کا مطالبہ کرنے والوں کا کیا حشر ہوا؟ اللہ تعالیٰ نے دنیا میں ان کی رسّی ڈھیلی کر رکھی ہے لیکن جہنم تو بہرحال کفار کا انتظار کر رہی ہے جو ان کو ہر طرف سے گھیرے ہوئے ہوگی اور اوپر سے جہنّم کے ملائکہ انہیں جھڑکیاں دیتے ہوئے کہیں گے کہ جس عذاب کا تم مطالبہ کیا کرتے تھے یہ وہی ہے۔ لہٰذا اس کا مزہ چکھو اب اس سے کبھی نکل نہیں پاؤ گے۔ انہیں جان لینا چاہیے کہ جہنم کا عذاب ان سے زیادہ دور نہیں ہے۔ (لَہُمْ مِّنْ فَوْقِہِمْ ظُلَلٌ مِّنِ النَّارِ وَمِنْ تَحْتِہِمْ ظُلَلٌ ذٰلِکَ یُخَوِّفُ اللّٰہُ بِہٖ عِبَادَہُ یَاعِبَادِ فَاتَّقُوْن) [ الزمر : ١٦] ” ان کے اوپر اور نیچے سے بھی آگ بھی چھائی ہوگی یہ وہ انجام ہے جس سے اللہ اپنے بندوں کو ڈراتا ہے پس اے میرے بندو میرے عذاب سے بچو۔“ (نَار اللّٰہِ الْمُوْقَدَۃُ الَّتِیْ تَطَّلِعُ عَلَی الْاَفْءِدَۃِ اِِنَّہَا عَلَیْہِمْ مُوْصَدَۃٌ فِیْ عَمَدٍ مُّمَدَّدَۃٍ) [ ہمزہ : ٦ تا ٩] ” اللہ“ کی آگ خوب بھڑکائی ہوئی ہے جو دلوں پر چڑھ جائے گی وہ ان پر ہر طرف سے بند کردی جائے گی اور اونچے ستونوں میں ہوگی۔“ (عَنْ سَمُرَۃَ ابْنِ جُنْدُبٍ (رض) اَنَّ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ مِنْھُمْ مَنْ تَاْخُذُہُ النَّارُاِلٰی کَعْبَیْہِ وَمِنْھُمْ مَنْ تَاْخُذُُہُ النَّارُاِلٰی رُکْبَتَیْہِ وَمِنْھُمْ مَنْ تَاْخُذُہُ النَّارُ اِلٰی حُجْزَتِہٖ وَمِنْھُمْ مَنْ تَاْخُذُہُ النَّارُ اِلٰی تَرْقُوَتِہٖ)[ رواہ مسلم : باب فی شدۃ حر النار] ” حضرت سمرہ بن جندب (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی گرامی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جہنم کی آگ نے بعض لوگوں کو ٹخنوں تک، بعض کو گھٹنوں تک اور بعض کو کمر تک گھیرا ہوگا اور بعض کی گردنوں تک پہنچی ہوگی۔“ مسائل ١۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کفار بار بار عذاب لانے کا مطالبہ کرتے تھے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ کا عذاب جب آتا ہے تو اچانک آیا کرتا ہے۔ ٣۔ جہنّم کفار کو چاروں طرف سے گھیرے ہوئے ہوگی۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی گرفت اور عذاب کا ایک وقت مقرر کر رکھا ہے جو اپنے وقت سے پہلے نازل نہیں ہوتا۔ تفسیر بالقرآن جہنم کے عذاب کا ایک منظر : ١۔ جہنم کا ایندھن لوگ اور پتھر ہوں گے۔ (البقرۃ: ٢٤) ٢۔ جہنم پر سخت گیر فرشتوں کی ڈیوٹی لگائی گئی ہے۔ (التحریم : ٦) ٣۔ مجرم جہنم کے گرجنے برسنے کی آوازیں سنیں گے۔ (الفرقان : ١٢) ٤۔ جہنم کی آگ بہت زیادہ تیز ہوگی۔ (التوبۃ: ٨١) ٥۔ جہنم بھرنے کا نام نہیں لے گی۔ (ق : ٣٠) ٦۔ جہنم کے شعلے بڑے بڑے مکانوں کی طرح بلند ہوں گے۔ ( المرسلٰت : ٣٢) العنكبوت
54 العنكبوت
55 العنكبوت
56 فہم القرآن ربط کلام : کفار کو جہنّم کے عذاب کا نقشہ پیش کرنے کے بعد مومنوں کو ہجرت کا حکم دیا گیا ہے۔ جس کا مقصد یہ ہے کہ مومنوں دنیا کی تکلیفیں تو معمولی اور عارضی ہیں اگر جہنّم کی تکلیفوں سے بچنا چاہتے ہو تو اپنا ایمان بچا کر ہجرت کر جاؤ۔ ہجرت کرنے والوں کو یہ حکم دیتے ہوئے تسلّی دی گئی ہے کہ یہ نہ سوچو کہ گھر بار چھوڑ کر جائیں تو کدھر جائیں فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ ” اللہ“ کی زمین بڑی وسیع ہے۔ تمہاری زندگی کا مقصد ” اللہ“ کی عبادت اور اس کی غلامی کرنا ہے۔ اس لیے اپنے مقصد حیات کو سامنے رکھو اور اس کے لیے ہجرت کرجاؤ اور اپنے رب کی غلامی میں زندگی بسر کرو۔ اگر تمہیں کسی قسم کے نقصان کا خطرہ ہے تو اس بات پر غور کرو کہ بالآخر تمہاری زندگی نے بھی ایک دن ختم ہونا ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ہر نفس کی موت کا وقت مقرر کر رکھا ہے۔ نیک ہو یا بد اس سے کوئی بھی نہیں بچ سکتا۔ سب نے ہمارے حضور پیش ہونا ہے۔ یہاں ظالموں کو ان کے ظلم کی پوری سزا دی جائے گی اور نیکو کاروں کو ان کی نیکیوں اور قربانیوں کا پورا پورا صلہ دیا جائے گا۔ (عن عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ (رض) قَالَ أَتَیْتُ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَقُلْتُ ابْسُطْ یَمِینَکَ فَلِاُبَایِعَکَ فَبَسَطَ یَمِینَہٗ قَالَ فَقَبَضْتُ یَدِی قَالَ مَا لَکَ یَا عَمْرُو قَالَ قُلْتُ أَرَدْتُّ أَنْ أَشْتَرِطَ قَالَ تَشْتَرِطُ بِمَاذَا قُلْتُ أَنْ یُغْفَرَ لِی قَالَ أَمَا عَلِمْتَ أَنَّ الْإِسْلَامَ یَہْدِمُ مَا کَانَ قَبْلَہُ وَأَنَّ الْہِجْرَۃَ تَہْدِمُ مَا کَانَ قَبْلَہَا وَأَنَّ الْحَجَّ یَہْدِمُ مَا کَانَ قَبْلَہُ) [ رواہ مسلم : کتاب التفسیر، باب قول اللہ تعالیٰ وانذر عشیرتک الاقربین] ” حضرت عمرو بن عاص (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنا دایاں ہاتھ آگے کیجئے تاکہ میں آپ کی بیعت کروں جب آپ نے اپنا دایاں ہاتھ آگے فرمایا تو میں نے اپنا ہاتھ پیچھے کرلیا۔ آپ پوچھتے ہیں اے عمرو! کیا ہوا ہے؟ میں نے عرض کیا کہ ایک شرط کے ساتھ بیعت کرتا ہوں ارشاد ہوا کہ وہ کونسی شرط ہے؟ میں نے عرض کیا کہ میرے گناہ معاف کردیے جائیں۔ فرمایا عمرو تو نہیں جانتا یقیناً اسلام پہلے گناہوں کو ختم کردیتا ہے؟ اسی طرح ہجرت کرنے سے پہلے کے بھی گناہ ختم ہوجاتے ہیں اور یقیناً حج سے بھی سابقہ گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔ (عَنْ عَبْدِاللّٰہِ (رض)‘ قَالَ: خَطَّ النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خَطَّامُرَبَّعًا وَخَطَّ خَطًّا فِی الْوَسَطِ خَارِجًا مِنْہُ وَخَطَّ خُطَطًا صِغَارًا إِلٰی ھٰذَا الَّذِیْ فِی الْوَسَطِ مِنْ جَانِبِہِ الَّذِیْْ فِی الْوَسَطِ فَقَالَ ھٰذَا الْاِنْسَانُ وَھٰذَا أَجَلُہٗ مُحِیْطٌ بِہٖ وَھٰذَا الَّذِیْ ھُوَ خَارِجٌ اَمَلُہٗ وَھٰذِہِ الْخُطُوْطُ الصِّغَارُ الْاَعْرَاضُ فَاِنْ اَخْطَأَہٗ ھٰذَا نَھَسَہٗ ھٰذَا وَاِنْ اَخْطَأَہٗ ھٰذَا نَھَسَہٗ ھٰذَا) [ رواہ البخاری : باب فی الامل وطولہ] ” حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک دفعہ ایک چوکور خط کھینچا اور وسطی خط کے درمیان سے کچھ لکیریں کھینچی۔ ایک لکیر درمیان سے مربع شکل سے باہر نکلنے والی کھینچی اور فرمایا، یہ انسان ہے۔ اور یہ مربع اس کی موت ہے جو اسے گھیرے ہوئے ہے اور جو لکیر باہر نکل رہی ہے، وہ اس کی حرص ہے۔ یہ چھوٹی چھوٹی لکیریں آفات وبیماریاں ہیں۔ اگر ایک سے محفوظ رہا تو دوسری اسے آلے گی اگر یہ خطا کر جائے‘ تو تیسری آفت اسے نشانہ بنالے گی۔“ مسائل ١۔ جہاں ایمان بچانا مشکل ہو وہاں سے ہجرت کر جانا چاہیے۔ ٢۔ ” اللہ“ کی زمین بہت ہی وسیع وعریض ہے۔ ٣۔ ہر نفس نے موت کا ذائقہ چکھنا ہے۔ ٤۔ ہر نفس نے اللہ تعالیٰ کے حضور پیش ہونا ہے۔ تفسیر با لقرآن ہر کسی کو موت کا ذائقہ چکھنا ہے : ١۔ ہر نفس نے موت کا ذائقہ چکھنا ہے۔ (الانبیاء : ٣٥) ٢۔ موت کا وقت مقرر ہے۔ (آل عمران : ١٤٥) ٣۔ موت کی جگہ متعین ہے۔ (آل عمران : ١٥٤) ٤۔ موت کو کوئی ٹال نہیں سکتا۔ (آل عمران : ١٦٨) ٥۔ موت سے کوئی بچ نہیں سکتا۔ (النساء : ٧٨) ٦۔ قلعہ بند ہونے والے کو بھی موت آئے گی۔ (النساء : ٧٨) ٧۔ اے نبی آپ کو بھی موت آنا ہے اور آپ کے مخالفوں نے بھی مرنا ہے۔ ( الزمر : ٣٠) ٨۔ اللہ تعالیٰ کے سوا سب نے فنا ہونا ہے۔ (الرحمن : ٢٦) العنكبوت
57 العنكبوت
58 فہم القرآ ن ربط کلام : موت کا معنٰی کلیتاً ملیا میٹ ہونا نہیں یہ تو ” اللہ“ کے حضور پیش ہونے کا ذریعہ ہے۔ وہاں نیک لوگوں کو بڑے، بڑے انعامات سے نوازا جائے گا۔ موت ہر کسی کو آنی ہے۔ لیکن جو اپنے ایمان کی خاطر کسی چیز کو خاطر میں نہ لایا اور صالح عمل کرتا رہا، اللہ تعالیٰ اسے ضرور، ضرور جنت کے محلاّت میں داخل فرمائے گا، جن کے نیچے نہریں جاری ہو نگی۔ جنتّی جنت میں ہمیشہ ہمیش رہیں گے۔ ان کے لیے بہترین اجر ہوگا کیونکہ وہ دنیا کے نقصانات اور ہر قسم کی تکالیف پر صبر کرتے ہوئے اپنے رب پر اعتماد کرتے رہے۔ صبر کا معنٰی تکلیف کے وقت حوصلہ کرنا اور مستقل مزاجی کے ساتھ حق بات پر قائم رہنا ہے۔ توکل کا معنٰی ہے کہ مشکل ترین حالات میں اللہ تعالیٰ کے وعدوں اور اس کی مدد پر بھروسہ کیا جائے۔ جنت کی ایک جھلک : (وَلَوْ اَنَّ اِمْرَاَۃً مِّنْ نِّسَآءِ أَھْلِ الْجَنَّۃِ اطَّلَعَتْ اِلَی الْاَرْضِ لَاَضَآءَ تْ مَا بَیْنَھُمَا وَلَمَلَاَتْ مَا بَیْنَھُمَا رِیْحًا وَلَنَصِیْفُھَا یَعْنِی الْخِمَارَ خَیْرٌ مِّنَ الدُّنْیَا وَمَا فِیْھَا) [ رواہ البخاری : باب صفۃ الجنۃ والنار ] ” اگر اہل جنت کی عورتوں سے کوئی زمین کی طرف جھانک لے تو مشرق و مغرب اور جو کچھ اس میں ہے روشن اور معطر ہوجائے۔ اس کے سر کا دوپٹہ دنیا اور جو کچھ اس میں ہے اس سے قیمتی ہے۔“ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَنْ اٰمَنَ باللّٰہِ وَبِرَسُوْلِہٖ وَأَقَام الصَّلٰوۃَ وَصَامَ رَمَضَانَ کَانَ حَقًّا عَلَی اللّٰہِ أَنْ یُّدْخِلَہُ الْجَنَّۃَ جَاھَدَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ أَوْجَلَسَ فِیْ أَرْضِہِ الَّتِیْ وُلِدَ فِیْھَا فَقَالُوْا یَارَسُوْلَ اللّٰہِ ! أَفَلَا نُبَشِّرُ النَّاسَ قَالَ : إِنَّ فِی الْجَنَّۃِ ماءَۃَ دَرَجَۃٍ أَعَدَّھَا اللّٰہُ لِلْمُجَاھِدِیْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ مَابَیْنَ الدَّرَجَتَیْنِ کَمَا بَیْنَ السَّمَآءِ وَالْأَرْضِ فَإِذَا سَأَلْتُمُ اللّٰہَ فَاسْأَلُوْہُ الْفِرْدَوْسَ فَإِنَّہٗ أَوْسَطُ الْجَنَّۃِ وَأَعْلَی الْجَنَّۃِ أُرَاہُ قَالَ وَ فَوْقَہٗ عَرْشُ الرَّحْمٰنِ وَمِنْہُ تَفَجَّرُ أَنْھَارُ الْجَنَّۃِ) [ رواہ البخاری : کتاب الجھاد والسیر] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جو اللہ و رسول پر ایمان لایا اس نے نماز قائم کی اور رمضان کے روزے رکھے۔ اسے جنت میں داخل کرنا اللہ پر حق ہے اس نے اللہ کی راہ میں جہاد کیا ہو یا اپنی جنم دھرتی میں بیٹھا رہا۔ صحابہ نے عرض کی اللہ کے رسول! کیا ہم لوگوں کو خوشخبری نہ دے دیں؟ آپ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے فی سبیل اللہ جہاد کرنے والوں کے لیے جنت میں سو درجات بنائے ہیں ہر دو درجے کا درمیانی فاصلہ زمین و آسمان کے درمیانی فاصلہ جتنا ہے جب تم اللہ سے جنت کا سوال کرو تو جنت الفردوس مانگا کرو کیونکہ یہ جنت کا وسط اور اعلیٰ مقام ہے راوی کہتے ہیں میرا خیال ہے کہ آپ نے یہ بھی فرمایا کہ اس کے اوپررحمان کا عرش ہے اور وہاں سے جنت کی نہریں نکلتی ہیں۔“ (عَنْ صُہَیْبٍ (رض) قَالَ قَالَ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عَجَبًا لِأَمْرِ الْمُؤْمِنِ إِنَّ أَمْرَہٗ کُلَّہٗ خَیْرٌ وَلَیْسَ ذَاکَ لِأَحَدٍ إِلَّا لِلْمُؤْمِنِ إِنْ أَصَابَتْہُ سَرَّاءُ شَکَرَ فَکَانَ خَیْرًا لَہٗ وَإِنْ أَصَابَتْہُ ضَرَّاءُ صَبَرَ فَکَانَ خَیْرًا لَہٗ) [ رواہ مسلم : کتاب الزہد والرقائق، باب المؤمن أمرہ کلہ خیر] ” حضرت صہیب (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا مومن کے معاملات عجیب ہیں۔ اس کے تمام معاملات میں خیر ہے اور یہ صرف مومن کے لیے ہے اگر اس کو آسانی ملتی ہے تو وہ اللہ کا شکر ادا کرتا ہے یہ اسکے لیے بہتر ہے۔ اگر اسے تکلیف آتی ہے تو صبر کرتا ہے یہ بھی اس کے لیے بہتر ہے۔“ مسائل ١۔ سچا ایمان لانے اور صالح اعمال کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ جنت عنایت فرمائے گا۔ ٢۔ نیک لوگ مشکل کے وقت صبر اور اپنے رب پر بھروسہ کرتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن صبر کا حکم اور اجر : ١۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو صبر کا حکم دیا گیا۔ (المعارج : ٥) ٢۔ صبر اہم کاموں میں سے اہم ترین کام ہے۔ (الاحقاف : ٣٥) ٣۔ اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ (البقرۃ : ١٥٣) ٤۔ صبر کا انجام اچھا ہوتا ہے۔ (الحجرات : ٥) ٥۔ صبر کرنے والے کامیاب ہوں گے۔ (المومنون : ١١١) ٦۔ صبر کرنے والے بغیر حساب کے جنت میں داخل ہونگے۔ (الزمر : ١٠) العنكبوت
59 العنكبوت
60 فہم القرآن ربط کلام : ہجرت کے وقت تین باتیں انسان کو پریشان کرتی ہیں۔ 1۔ جائیں تو کہاں جائیں 2۔ مال، جان کے نقصان کا اندیشہ 3۔ روزی کا فکر ہجرت کے لیے کدھر جائیں اس کا جواب دیا کہ ” اللہ“ کی زمین بہت وسیع ہے، مالی اور جانی نقصان کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ بالآخر ہر کسی کو موت آنی ہے اور سب کچھ چھوڑ کر آخرت کو سدھارنا ہے۔ اب روزی کے بارے میں تسلّی دی جا رہی ہے کہ ہر انسان بالخصوص ہجرت کرنے والا غور کرے کہ کتنے جانور ہیں جو اپنا رزق جمع نہیں کرتے مگر انہیں بھی ” اللہ تعالیٰ“ رزق دیتا ہے اور تمہیں بھی عطا کرتا ہے، وہ سب کچھ سننے اور جاننے والا ہے یعنی وہ تمہارے وطن میں ہی نہیں بلکہ تم جہاں بھی ہوتے ہو تمہارا حال جانتا ہے اور تمہاری دعاؤں کو سنتا ہے۔ رزق کی فراہمی کے بارے اپنے رب کا یہ اصول یاد رکھو کہ زمین پر چلنے پھرنے والے جتنے جاندار ہیں سب کا رزق ” اللہ“ کے ذمّہ ہے وہ سب کے رہنے سہنے کی جگہ کو جانتا ہے اور ان کے مرنے کی جگہ بھی اس کے علم میں ہے اس نے سب کچھ کھلی کتاب یعنی لوح محفوظ میں درج کر رکھا ہے۔ (وَ مَا مِنْ دَآبَّۃٍ فِی الْاَرْضِ اِلَّا عَلَی اللّٰہِ رِزْقُھَا وَ یَعْلَمُ مُسْتَقَرَّھَا وَ مَسْتَوْدَعَھَا کُلٌّ فِیْ کِتٰبٍ مُّبِیْنٍ) [ ہود : ٦] ” اور زمین میں کوئی چلنے والا جاندار نہیں مگر اس کا رزق اللہ ہی کے ذمّہ ہے اور وہ اس کی قرار گاہ اور اس کے دفن کیے جانے کی جگہ کو جانتا ہے سب کچھ ایک کھلی کتاب میں درج ہے۔“ (عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لَوْ أَنَّکُمْ کُنْتُمْ تَوَکَّلُوْنَ عَلَی اللَّہِ حَقَّ تَوَکُّلِہٖ لَرُزِقْتُمْ کَمَا تُرْزَقُ الطَّیْرُ تَغْدُوْ خِمَاصًا وَتَرُوْحُ بِطَانًا)[ رواہ الترمذی : باب فِی التَّوَکُّلِ عَلَی اللَّہِ] ” حضرت عمر بن خطاب (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اگر تم اللہ تعالیٰ پر توکل کرو جس طرح توکل کرنے کا حق ہے۔ تو تمہیں اسی طرح رزق دیا جائے جس طرح پرندوں کو رزق دیا جاتا ہے۔ وہ خالی پیٹوں کے ساتھ صبح کرتے ہیں اور شام کو بھرے پیٹوں کے ساتھ لوٹتے ہیں۔“ (عَنْ أَنَسَ بْنَ مَالِکٍ (رض) یَقُوْلُ قَالَ رَجُلٌ یَّا رَسُوْلَ اللّٰہِ أَعْقِلُہَا وَأَتَوَکَّلُ أَوْ أُطْلِقُہَا وَأَتَوَکَّلُ قَالَ اِعْقِلْہَا وَتَوَکَّلْ )[ رواہ الترمذی : باب اعقل وتوکل ] ” حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے کہا اے اللہ کے رسول ! میں سواری کو باندھوں اور توکل کروں یا اسے کھلا چھوڑ دوں اور توکل کروں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا پہلے اونٹ کا گھٹنا باندھو پھر توکل کرو۔“ (عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَ عَنْ النَّبِیِّ قَالَ لَمَّا تَجَلّٰی اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ لِمُوْسیٰ عَلَیْہِ السَّلاَمُ کَانَ یَبْصُرُالنَّمْلَۃَ عَلیٰ الصَّفَا فِیْ الَّلیْۃِ الظُّلْمَاءِ مَسِیْرَۃَ عَشْرَۃِ فَرْسَخٍ)[ تفسیر ابن کثیر، سورۃ الاعراف : ١٤٣] ” حضرت ابوہریرہ (رض) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں آپ نے فرمایا جب اللہ نے موسیٰ (علیہ السلام) کے لیے تجلی فرمائی اس وقت وہ اندھیری رات میں دس فرسخ کے فاصلے سے پتھر پر چلنے والی چیونٹی کو دیکھ رہا تھا۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ سب کو روزی دینے والا ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ سب کچھ سننے اور جاننے والا ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ سب کو روزی دینے والا ہے : ١۔ ہم نے زمین میں تمہارے لیے معاش کا سامان بنایا اور ان کے لیے بھی جنہیں تم روزی نہیں دیتے۔ (الحجر : ٢٠) ٢۔ کیا وہ نہیں جانتے کہ اللہ ہی رزق کو فراخ اور تنگ کرتا ہے۔ (الزمر : ٥٢) ٣۔ زمین میں ہر قسم کے چوپاؤں کا رزق ” اللہ“ کے ذمہ ہے۔ (ھود : ٦) ٤۔ بے شک اللہ ہی رزق دینے والا ہے۔ (الذاریات : ٥٨) ٦۔ اللہ ہی رزق فراخ کرتا اور کم کرتا ہے۔ (سبا : ٣٩) ٥۔ کیا اللہ کے علاوہ بھی کوئی خالق ہے جو تمہیں روزی دیتا ہے۔ (فاطر : ٣) ٦۔ اللہ تعالیٰ لوگوں سے رزق نہیں مانگتا بلکہ وہ لوگوں کو رزق دیتا ہے۔ (طٰہٰ : ١٣٢) ٧۔ اللہ جسے چاہتا ہے بغیر حساب کے رزق دیتا ہے۔ (البقرۃ: ٢١٢) ٩۔ اللہ تعالیٰ مہاجروں کو ضرور اچھا رزق دے گا۔ (الحج : ٥٨) ٨۔ اپنی اولاد کو مفلسی کے ڈر سے قتل نہ کرو کیونکہ ” اللہ“ تمہیں اور انہیں بھی رزق دینے والا ہے۔ (الانعام : ١٥١) ٩۔ مشرک سے سوال کیا جائے کہ آسمان و زمین سے رزق کون دیتا ہے تو کہتا ہے کہ ” اللہ“ ہی رزق دیتا ہے۔ (یونس : ٣١) العنكبوت
61 فہم القرآن ربط کلام : اے ہجرت کرنے والو! اگر تمہیں یقین نہیں آتا تو مشرکین سے پوچھ لو کہ رزق دینے والا کون ہے؟ اس کے ساتھ ہی مشرکین سے مزید سوال۔ قرآن مجید لوگوں کو صرف دلائل کی بنیاد پر عقیدہ توحید اور حقائق تسلیم کرنے پر زور نہیں دیتا بلکہ وہ لوگوں کا ضمیر بیدار کرنے کے لیے ان سے استفسار کرتا ہے کہ زمین و آسمانوں کو کس نے پیدا کیا اور چاند و سورج کو کس نے تمہاری خدمت میں لگا رکھا ہے؟ قرآن مجید مکہ میں نازل ہوا تھا اس لیے سب سے پہلے انہی سے سوال کیا گیا کہ اللہ کی ذات اور اس کی صفات میں دوسروں کو شریک بنانے والوں! بتاؤ کہ زمین و آسمانوں کو کس نے پیدا کیا ہے اور شمس و قمر کو تمہارے لیے کس نے مسخر کر رکھا ہے ؟ توحید انسان کی فطرت کی آواز ہے اور یہ ٹھوس حقائق پر مبنی ہے اس لیے مشرکین مکہ بے ساختہ جواب دیتے کہ انہیں صرف ایک ” اللہ“ ہی نے پیدا کیا ہے۔ اس اقرار پر انہیں جھنجھوڑا گیا ہے کہ پھر ایک اللہ کو چھوڑ کر کیوں در در کی ٹھوکریں کھاتے پھرتے ہو؟ اللہ تعالیٰ نے صرف زمین و آسمانوں اور شمس و قمر کو پیدا ہی نہیں کیا بلکہ وہ تمہیں کھلاتا اور پلاتا بھی ہے۔ جس طرح زمین و آسمانوں اور شمس و قمر کو کسی اور نے پیدا نہیں کیا اسی طرح اللہ کے سوا تمہیں کوئی رزق دینے والا نہیں۔ نہ صرف کوئی رزق دینے والا نہیں بلکہ تمہارے رزق میں کوئی ایک دانے کے برابر بھی کمی وبیشی نہیں کرسکتا۔” اللہ“ ہی اپنی حکمت کے تحت اپنے بندوں میں سے جس کا چاہتا ہے رزق کشادہ کرتا ہے اور جس کا چاہتا ہے تنگ کردیتا ہے یقیناً اللہ تعالیٰ ہر چیز سے باخبر ہے۔ لیکن سب کچھ جاننے کے باوجود مشرک اپنے رب کو چھوڑ کر دربدر کی ٹھوکریں کھاتے پھرتے ہیں۔ ” حضرت عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ نزول وحی سے پہلے نبی اکرم (رض) اسفل بلدح مقام کی نچلی جانب زید بن عمرو بن نفیل سے ملے۔ نبی کریم (رض) کو دستر خوان پر کھانا پیش کیا گیا۔ آپ نے کھانے سے انکار کردیا۔ اور زید بن عمرو نے بھی کہا کہ میں اس چیزکو نہیں کھاؤں گا جس کو تم اپنے بتوں کے نام پر ذبح کرتے ہو اور نہ ہی وہ چیز کھاؤنگا جو غیر اللہ کے نام پر ذبح کی گئی ہو۔ زید بن عمرو کے الفاظ وَأَنَّ زَیْدَ بْنَ عَمْرٍو کَانَ یَعِیبُ عَلَی قُرَیْشٍ ذَبَاءِحَہُمْ، وَیَقُول الشَّاۃُ خَلَقَہَا اللَّہُ، وَأَنْزَلَ لَہَا مِنَ السَّمَاءِ الْمَاءَ، وَأَنْبَتَ لَہَا مِنَ الأَرْضِ، ثُمَّ تَذْبَحُونَہَا عَلَی غَیْرِ اسْمِ اللَّہِ إِنْکَارًا لِذَلِکَ وَإِعْظَامًا لَہُ ) [ رواہ البخاری : باب حَدِیثُ زَیْدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ نُفَیْلٍ] زید بن عمروقریش کے ذبیحوں پر تعجب کرتے اور کہتے کہ بکری کو اللہ نے پیدا کیا ہے، اسی نے آسمان سے پانی نازل کیا ہے اور اس کے ذریعے نباتات اگائی ہیں۔ پھر تم اس کا انکار اور غیر اللہ کی تعظیم کرتے ہوئے ان چیزوں کو غیر اللہ کے نام پر ذبح کرتے ہو؟“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ ہی نے زمین و آسمانوں کو پیدا کیا اور شمس وقمر کو مسخر فرمایا۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ ہی اپنے بندوں کا رزق زیادہ اور کم کرنے والا ہے۔ ٣۔ ” اللہ“ ہی ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے۔ ٤۔ حقائق تسلیم کرنے کے باوجود مشرک اللہ تعالیٰ کی ذات اور صفات میں دوسروں کو شریک کرتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن ” اللہ“ ہی نے زمین و آسمانوں اور شمس وقمر کو پیدا فرمایا ہے : ١۔ اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں اور زمین و آسمانوں کو پیدا فرمایا ہے۔ (البقرۃ: ٢٢) ٢۔ وہ ذات جس نے ستاروں کو اند ھیروں میں تمہاری رہنمائی کے لیے پیدا فرمایا۔ (الانعام : ٩٧) ٣۔ اللہ تعالیٰ نے آسمان میں چاند کو روشنی کا باعث اور سورج کو روشن چراغ بنایا۔ (نوح : ١٦ ) ٤۔ یقیناً اگر آپ ان سے پوچھیں کہ آسمانوں اور زمین کو کس نے پیدا کیا اور سورج اور چاند کو کس نے مسخر کیا ہے ؟ تو وہ ضرور کہیں گے کہ اللہ نے، فرمائیں پھر کہاں سے بہکائے جا رہے ہیں۔ (العنکبوت : ٦١) العنكبوت
62 العنكبوت
63 فہم القرآن ربط کلام : مشرکین سے ایک اور سوال اور دنیا کی حیثیت۔ اے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان سے سوال کریں کہ آسمان سے کون بارش برساتا ہے اور اس بارش کے ساتھ مردہ زمین کو کون زندگی عطا کرتا ہے؟ لا محالہ ان کا جواب ہوگا کہ بارش برسانے والا اور اس کے ساتھ نباتات اگانے والا صرف ایک ” اللہ“ ہے۔ انہیں فرمائیں کہ تمام تعریفات اللہ کے لیے ہیں لیکن لوگوں کی اکثریت ماننے کے لیے تیار نہیں جس دنیا کی خاطر یہ لوگ اپنے رب کے ساتھ دوسروں کو شریک بناتے ہیں یہ دنیا کھیل تماشا کے سوا کوئی حیثیت نہیں رکھتی یقیناً آخرت کا گھر ہمیشہ کے لیے ہے۔ کاش لوگ یہ حقیقت پا جائیں۔ کفار کے اعتراف کے جواب میں اس لیے اللہ کا شکر ادا کرنا ہے کہ توحید کا عقیدہ ٹھوس دلائل اور حقائق پر مبنی ہے جس کا انکار کرنا پرلے درجے کے مشرک کے لیے بھی ممکن نہیں لیکن اس کے لیے عقل سے کام لینا ضروری ہے جو شخص اپنے ضمیر سے کام لے اور تعصب سے بچے وہ توحید کا اقرار اور شرک سے اجتناب کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ جہاں تک شرک کا تعلق ہے اس کی بنیاد کے بارے میں غور کیا جائے تو یہ بات آسانی سے سمجھ میں آسکتی ہے کہ اس کے پیچھے جلد بازی دنیوی مفاد اور بے عقلی کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ اس لیے ارشاد ہوا ہے کہ آخرت کے مقابلہ میں دنیا کی زندگی کھیل تماشا کے سوا کچھ نہیں۔ جس طرح کھیل تماشا سے وقتی اور عارضی طور پر لطف اٹھایا جاتا ہے اسی طرح ہی دنیا کا معاملہ ہے جس کی نعمتیں ناپائیدار اور ان کا لطف عارضی ہے اور آخرت ہمیشہ رہنے والی ہے۔ (عَنْ عَبْدِ اللَّہِ قَالَ نَامَ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عَلَی حَصِیرٍ فَقَامَ وَقَدْ أَثَّرَ فِی جَنْبِہِ فَقُلْنَا یَا رَسُول اللَّہِ لَوِ اتَّخَذْنَا لَکَ وِطَاءً فَقَالَ مَا لِی وَمَا للدُّنْیَا مَا أَنَا فِی الدُّنْیَا إِلاَّ کَرَاکِبٍ اِسْتَظَلَّ تَحْتَ شَجَرَۃٍ ثُمَّ رَاحَ وَتَرَکَہَا)[ رواہ الترمذی : باب مَا جَاءَ فِی أَخْذِ الْمَال]ِ ” حضرت عبد اللہ (رض) فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک چٹائی پر سوئے تو آپ کے پہلو پر نشان پڑگئے۔ ہم نے عرض کی اللہ کے رسول! آپ اجازت دیں تو ہم آپ کے لیے اچھا سا بستر تیار کردیں ؟ آپ نے فرمایا : میرا دنیا کے ساتھ ایک مسافر جیسا تعلق ہے جو کسی درخت کے نیچے تھوڑا سا آرام کرتا ہے پھر اسے چھوڑ کر آگے چل دیتا ہے۔“ (وَعَنِ ابْنِ عُمَرَ (رض) قَالَ اَخَذَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بِبَعْضِ جَسَدِی فَقَالَ کُنْ فِی الدُّنْیَا کَأَنَّکَ غَرِیْبٌ أَوْ عَابِرُ سَبِیْلٍ وَعُدَّ نَفْسَکَ مِنْ أَھْلِ القُبُوْرِ) [ رواہ البخاری : باب قول النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کُنْ فِی الدُّنْیَا۔۔] حضرت ابن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے میرے کندھے کو پکڑکر فرمایا۔ دنیا میں اجنبی یا مسافر کی طرح رہو اور اپنے آپ کو اہل قبور میں شمار کرو۔ مسائل ١۔ اللہ ہی آسمان سے بارش برساتا اور اس کے ساتھ زمین کو زندہ کرتا ہے۔ ٢۔ مشرک توحید کے دلائل کا اقرار کرنے کے باوجود عقل سے کام نہیں لیتا۔ ٣۔ موحد کو عقیدہ توحید سمجھنے اور اپنانے پر اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے۔ ٤۔ آخرت کے مقابلہ میں پوری کی پوری دنیا عارضی اور تھوڑی ہے۔ تفسیر بالقرآن لوگوں کی اکثریت کا حال : ١۔ اللہ تعالیٰ بڑے فضل والاہے لیکن لوگوں کی اکثریت شکر گزار نہیں ہوتی۔ (البقرۃ: ٢٤٣) ٢۔ اللہ تعالیٰ سب کو جانتا ہے مگر لوگوں کی اکثریت اس حقیقت کو نہیں مانتی۔ (الاعراف : ١٨٧) ٣۔ قرآن آپ کے رب کی طرف سے حق ہے۔ لیکن لوگوں کی اکثریت نہیں مانتی۔ (ھود : ١٧) ٤۔ اللہ تعالیٰ کے شکر گزار بندے تھوڑے ہی ہوا کرتے ہیں۔ (سبا : ١٣) ٥۔ اگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اکثریت کے پیچھے چلیں گے تو یہ آپ کو گمراہ کردیں گے۔ ( البقرۃ: ١٤٥) العنكبوت
64 العنكبوت
65 فہم القرآن ربط کلام : مشرکوں کا مشکل وقت پر ” اللہ“ کی ذات کا اقرار کرنا، اور صرف اسے پکارنا۔ موحّد اور مشرک کے عقیدہ کے درمیان بنیادی فرق یہ ہے کہ موحّد ہر حال میں ایک ” اللہ“ کو پکارتا ہے اور مشرک صرف مصیبت کے وقت ایک ” اللہ“ کو پکارتا ہے یہی حال مشرکین مکہ کا تھا وہ عام حالات میں صرف ایک ” اللہ“ کو پکارنے کی بجائے دوسروں کو بھی شامل کرتے اور انہیں پکارتے تھے، حالانکہ قرآن مجید نے بار بار اس بات سے منع کیا ہے کہ نہ ” اللہ“ کے سوا کسی کو پکارا جائے اور نہ اس کے ساتھ کسی کو پکارا جائے، لیکن نہ مکہ کے مشرک اس بات سے رکتے تھے اور نہ آج کے مشرک اس سے باز آتے ہیں، حالانکہ ہر دور میں مشرک کی یہ حالت رہی ہے اور رہے گی کہ بڑی مصیبت کے وقت سب کو بھول کر صرف ایک اللہ کو پکارتے ہیں۔ یہی مکہ والے کرتے تھے۔ جب کشتی بھنور میں پھنس جاتی تو صرف ایک ” اللہ“ کو پکارتے جب کشتی بھنور سے نکل جاتی تو کہتے کشتی فلاں بزرگ یا بت کی مدد سے بھنور سے نکلی ہے۔ یہاں شرک کو کفر قرار دیا اور فرمایا کہ اللہ چاہے تو کشتی کو غرقاب کر دے لیکن وہ مشرک کو اس لیے مہلت دیتا ہے تاکہ اپنے رب کی نعمتوں سے مزید فائدہ اٹھالے۔ مفسرین نے اس آیت کی تشریح کرتے ہوئے عکرمہ بن ابوجہل کا واقعہ نقل کیا ہے۔ جب مکہ فتح ہوا تو عکرمہ یہ سوچ کر بھاگ نکلا کہ مجھے کسی صورت بھی معافی نہیں مل سکتی۔ جدہ کی بندرگاہ پر پہنچا اور بیڑے میں سوار ہوا۔ لیکن اللہ کی قدرت کہ جوں ہی بیڑے نے ساحل چھوڑا تو اتنے شدید بھنور میں پھنسا کہ ملّاح اور مسافروں کو یقین ہوگیا کہ اب نجات کی کوئی صورت باقی نہیں ہے۔ ملاّح نے مسافروں سے کہا کہ جب بیڑے کو ایسے طوفان کا واسطہ پڑتا ہے تو کسی اور کی بجائے صرف ایک اللہ کو پکارا جاتا ہے۔ اس لیے صرف ایک اللہ کے حضور فریادیں کرو۔ اس کے سوا کوئی بیڑا پار لگانے والا نہیں۔ یہ بات عکرمہ کے دل پر اثر کرگئی اور اس نے سوچا کہ یہی تو محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دعوت دیتا ہے اگر یہاں سے بچ نکلا تو میں حلقہ اسلام میں داخل ہوجاؤں گا چنانچہ عکرمہ (رض) حلقہ اسلام میں داخل ہوئے اور باقی زندگی اسلام اور رسول محترم کے ساتھ اخلاص کے ساتھ گزاری اور جنت کے وارث بنے۔ تفصیل کے لیے کسی مستند سیرت کی کتاب کا مطالعہ فرمائیں۔ یہاں ” اَلدِّیْنَ“ کا معنٰی تابعداری ہے۔ یعنی پوری تابع داری کے ساتھ صرف ایک ” اللہ“ کو پکارو جس طرح تمہارے رب نے تمہیں حکم دیا ہے۔ لیکن افسوس اس تاریخی حقیقت اور قرآن مجید کے منع کرنے کے باوجود آج کا مشرک کشتی ڈوبنے کے وقت بھی صرف ایک ” اللہ“ کو پکارنے کے لیے تیار نہیں ہوتا وہ بے جھجک کہتا ہے۔ یا بہاء الحق بیڑا دھک یا پیر عبدالقادر شیأ اللہ مسائل ١۔ مشرک صرف سخت مصیبت کے وقت ایک ” اللہ“ کو پکارتا ہے موحد ہر حال میں ایک ” اللہ“ کو پکارتا ہے۔ تفسیر بالقرآن ہر حال میں صرف ایک اللہ کو پکارنا چاہیے : ١۔ مشرک جب کسی مشکل میں گھر جاتے ہیں تو خالصتاً اللہ کو پکارتے ہیں۔ ( یونس : ٢٢) ٢۔ لوگو! اللہ کی خالص عبادت کرو۔ (الزمر : ٣) ٣۔ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں اللہ کی خالص عبادت کروں۔ (الزمر : ١١) ٤۔ جب مشرکین کشتی پر سوار ہوتے ہیں تو ” اللہ“ کو خالصتاً پکارتے ہیں۔ (العنکبوت : ٦٥) ٥۔ مومنو! اللہ تعالیٰ کو اخلاص کے ساتھ پکارو اگرچہ کفار کے لیے یہ ناپسند ہی کیوں نہ ہو۔ (المومن : ١٤) ٦۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ زندہ ہے اس کے سوا کوئی الٰہ نہیں صرف اسی کو پکارو (المومن : ٦٥) ٧۔ ہر کسی کو یہی حکم دیا گیا کہ خالصتاً اللہ کو پکارا جائے۔ ( البینۃ: ٥) العنكبوت
66 العنكبوت
67 فہم القرآن ربط کلام : مشرکین کا ضمیر جھنجھوڑنے کے بعد انہیں ایک احسان یاد کروا کر سمجھایا گیا ہے۔ مشرکین مکہ کو جو بھی مقام حاصل تھا، اس کا پہلا اور بڑا سبب بیت اللہ کی تولیت اور مکہ معظمہ کا باسی ہونا تھا، اسی وجہ سے دنیا بھر کے پھل اور اناج مکہ میں پہنچتے ہیں، اسی بنا پر لوگ مکہ والوں کا احترام کرتے اور اسی سبب سے ہی انہیں ہر طرح کا امن حاصل تھا اور ہے۔ حالانکہ اس زمانے میں حجاز کے علاقہ میں دن دہاڑے سفر کرنا انتہائی مشکل تھا۔ قافلوں کی صورت میں سفر کرنے کے باوجود لوگ حفاظتی گارڈ اپنے ساتھ رکھتے تھے، اس کے باوجود ڈاکوؤں، قذاقوں سے بچ نکلنا ایک معجزہ سے کم نہ تھا، اس بدامنی اور انارگی کی طرف توجہ دلاتے ہوئے انہیں احساس دلایا گیا کہ غور کرو! کہ جو احترام اور امن تمہیں حاصل ہے وہ کعبہ کی بدولت اور اس کے رب کے کرم کا نتیجہ ہے، چاہیے تو یہ تھا کہ تم کعبہ کے رب پر ایمان لاتے اور اس کا شکر ادا کرتے لیکن تم کعبہ کے رب کے منکر ہو اور بتوں کے بارے میں کہتے ہو کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں کچھ اختیارات دے رکھے ہیں۔ حالانکہ یہ اللہ تعالیٰ پر جھوٹ بولنا ہے، یاد رکھو! جو اللہ تعالیٰ پر جھوٹ بولے یا اس کی طرف سے آئے ہوئے حق کو جھٹلائے اس سے بڑھ کر کوئی ظالم نہیں ہو سکتا۔ ظالموں کے لیے سوائے جہنم کے کوئی اور ٹھکانہ نہیں ہوگا۔ (عَنْ صُفَیَّۃَ بِنْتِ شَیْبَۃَ قَالَتْ سَمِعْتُ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَخْطُبُ عَامَ الْفَتْحِ فَقَالَ یَاَیُّھَا النَّاسُ اِنَّ اللّٰہَ حَرَّمَ مَکَّۃَ یَوْمَ خَلَقَ السَّمٰوٰاتِ وَالْاَرْضَ فَھِیَ حَرَامٌ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ وَلَا یُعْضَدُ شَجَرُھَا وَلَایُنَفَّرُ صَیْدُھَا وَلَایَاْخُذُلُقْطَتَھَا الاَّ مُنْشِدٌفَقَالَ الْعَبَّاس الاَّ الْاِذْخِرَ فَاِنَّہٗ لِلْبُیُوْتِ وَالْقُبُوْرِ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اِلاَّ الْاِذْخِرَ) [ رواہ ابن ماجہ : باب فَضْلِ مَکَّۃَ] ” حضرت صفیّہ بنت شیبہ (رض) فرماتی ہیں کہ میں نے فتح مکہ کے سال رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خطاب فرماتے ہوئے سنا آپ فرمارہے تھے کہ اے لوگو! اللہ تعالیٰ نے آسمان و زمین کی تخلیق سے لے کر قیامت کے دن تک مکہ کو حرمت والا بنایا ہے۔ اس کے درخت نہ کاٹے جائیں اور اس کے شکار کو نہ بھگایا جائے۔ یہاں کی گری ہوئی چیز صرف وہی اٹھا سکتا ہے جو اعلان کروانے کی غرض سے اٹھائے۔ عباس (رض) نے عرض کی اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اذخر بوٹی گھروں اور قبروں میں استعمال ہوتی ہے تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اذخر بوٹی کاٹنے کی اجازت دے دی۔“ ” حضرت انس (رض) نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا مدینہ مقام عَیْرسے ثور تک حرمت والا ہے۔ اس کے درخت نہ کاٹے جائیں اور نہ اس میں کسی بدعتی کو جگہ دی جائے۔ جس نے کوئی بدعت رائج کی اس پر اللہ، فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت برستے رہے گی۔“ [ رواہ الخاری : باب حَرَمِ الْمَدِینَۃِ ] مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے مکہ کو امن والا شہر بنایا ہے۔ ٢۔ مشرک اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے کی بجائے غیر اللہ پر ایمان لاتے ہیں۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ کسی فرد یا قوم کو امن نصیب فرمائے تو اسے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہیے۔ ٤۔ شرکیہ عقیدہ رکھنا اللہ تعالیٰ پر جھوٹ بولنے کے مترادف ہے۔ ٥۔ مشرک سب سے بڑا ظالم ہوتا ہے اور ظالموں کا ٹھکانہ جہنم ہے۔ تفسیر بالقرآن بیت اللہ اور مکہ کی عظمت : ١۔ بیت اللہ دنیا میں پہلا گھر ہے جو بابرکت اور ہدایت کا مرکز ہے۔ (آل عمران : ٩٦) ٢۔ بیت اللہ امن کا گہوارہ ہے۔ (البقرۃ: ١٢٥) ٣۔ بیت اللہ کے باسیوں سے محبت کی جاتی ہے (القریش : ١) ٤۔ بیت اللہ کے طواف کا حکم۔ (الحج : ٢٩) ٥۔ قسم ہے اس امن والے شہر کی۔ (التین : ٣) ٦۔ لوگ پیدل، سوار اور دور سے اس کی زیارت کے لیے آتے ہیں۔ (الحج : ٢٧) العنكبوت
68 العنكبوت
69 فہم القرآن ربط کلام : شرک اور ظلم جتنا بھی بڑھ جائے حق کے متلاشی اللہ تعالیٰ کی توفیق سے حق پا ہی لیا کرتے ہیں۔ بشرطیکہ وہ اخلاق کے ساتھ کوشش کریں۔ سورۃ العنکبوت کا آغاز اس بات سے ہوا ہے کہ جو لوگ ایمان لائے ہیں وہ یہ نہ سمجھ بیٹھیں کہ انہیں اس راستے میں کوئی آزمائش نہیں آئے گی، ایسا ہرگز نہیں ہوگا۔ اللہ تعالیٰ نے پہلے ایمان داروں کو بھی آزمایا تھا، اور تمہیں بھی آزمائے گا تاکہ حق والے اور باطل پرست آپس میں ممتاز ہوجائیں۔ سورۃ کا اختتام اس بات سے کیا جاتا ہے کہ حالات جیسے بھی ہوں اگر کوئی حق کی جستجو اور آزمائشوں کا مقابلہ کرے تو اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ اس کے راستے ہموار کر دے گا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نیکی کرنے والوں کی دستگیری کرتا ہے۔ ” سبیل“ کی جمع ” سُبُلٌ“ اور اس کے ساتھ جمع کی ضمیر استعمال فرمائی ہے جمع کی ضمیر میں رعب اور دبدبہ پایا جاتا ہے۔” سُبُلٌ“ کے ساتھ جمع کی ضمیر لا کر یقین دلایا ہے کہ انسان کا کام خلوص نیت کے ساتھ کوشش کرنا ہے، اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ ایسے شخص کے لیے حق تک پہنچنا آسان کر دے گا اور اپنے راستوں میں کوئی نہ کوئی راستہ ضرورنکال دے گا۔ احسان کا معنٰی پورے خلوص کے ساتھ نیکی کرنا اور برائی کے بدلے حسن سلوک کرنا ہے۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ کوشش کرنے والوں کے لیے حق کا راستہ ہموار کردیتا ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نیکی کرنے والوں کے ساتھ ہوتا ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ کن لوگوں کے ساتھ ہوتا ہے : ١۔ اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ (البقرۃ: ١٥٣) ٢۔ اللہ تعالیٰ متقین کے ساتھ ہے۔ (التوبۃ: ٣٦) ٣۔ اللہ تعالیٰ مومنوں کے ساتھ ہے۔ (النساء : ١٤٦) ٤۔ اللہ تعالیٰ تقویٰ اختیار کرنیوالوں کے ساتھ ہے۔ (النحل : ١٢٨) ٥۔ اللہ سے ڈر جاؤ اور جان لو بے شک اللہ تعالیٰ متقین کے ساتھ ہے۔ (البقرۃ: ١٩٤) العنكبوت
0 الروم
1 الروم
2 فہم القرآن سورۃ العنکبوت کے آخر میں ارشاد ہوا کہ جو لوگ کوشش کرتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کے لیے راستے ہموار کردیتا ہے جو دنیا کے لیے کوشش کرے گا وہ اپنا مقدر پا لے گا۔ اگر آخرت کے لیے کوشاں ہوگا تو آخرت میں اپنا حصہ پائے گا۔ اب اس کا ایک حوالہ دے کر مسلمانوں کو روشن مستقبل کی خوشخبری سنائی جاتی ہے۔ دنیا میں ” اللہ“ کی مدد کی ایک عظیم مثال ملاحظہ فرمائیں کہ ایک وقت تھا کہ جب ایرانیوں کے مقابلے میں رومی شکست فاش سے دوچار ہوئے اور مسلمان کفار کے ہاتھوں مار کھا رہے تھے، ان نازک ترین اور ناقابل یقین حالات میں اعلان ہوتا ہے کہ عنقریب رومی غالب ہونگے۔ شکست میں بھی ” اللہ“ کا حکم کار فرما تھا اور فتح بھی ” اللہ“ کے حکم سے ہوگی ” اللہ“ کی مدد سے اس دن مومن خوش ہوجائیں گے، اللہ تعالیٰ جس کی چاہتا ہے مدد فرماتا ہے کیونکہ وہ ہر اعتبار سے غالب اور مہربان ہے۔ وہ جس کو زیر کرنا چاہے وہ دم نہیں مار سکتا جس پر رحم کرنا چاہے وہ زیر نہیں ہوسکتا وہی کامیابی اور شکست دینے پر اختیار رکھتا ہے۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت سے آٹھ سال پہلے کا واقعہ ہے کہ روم میں محلاتی سازشوں کی وجہ سے ایک خونی انقلاب برپا ہوا۔ جس میں روم کے بادشاہ مارلیس اور اس کے خاندان کو قتل کردیا گیا۔ اس کے بعد فوکاس نامی سردار سلطنت روم پر قابض ہوا، حالات کی نزاکت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ایران کے بادشاہ خسرو پرویز نے روم پر حملہ کیا اور یہ جواز بنایا کہ روم کا بادشاہ ماریس میرا محسن تھا، کیونکہ ایران میں اقتدار سنبھالنے کے لیے اس نے خسرو پرویز کی مدد کی تھی۔ اس بات کو بہانہ بناتے ہوئے خسرو نے مسلسل پیش قدمی کر کے روم کا بیشتر علاقہ اپنے قبضہ میں لے لیا یہاں تک کہ روم کے بادشاہ کو اپنی جان بچانی بھی مشکل ہوگئی۔ دوسری طرف حجاز کے مرکز مکہ معظمہ میں عقیدہ توحید کی بنیاد پر زبردست کشمکش برپا تھی۔ اس اثناء میں مسلمانوں کو مجبور کردیا گیا کہ وہ مکہ سے نکل جائیں۔ حالات کی مجبوری کی وجہ سے کچھ مسلمانوں نے حبشہ کی طرف ہجرت کی جو روم کے زیر اثر عیسائی حکومت تھی۔ اس عالمی کشمکش میں قرآن اعلان کرتا ہے کہ ٹھیک دس سال میں ایرانیوں پر رومی غالب آئیں گے اور اس دن مسلمانوں کو بھی خوشی نصیب ہوگی۔ یاد رہے کہ ” بِضْعَ سِنِیْنَ“ کا ہندسہ ایک سے دس تک بولا جاتا ہے۔ اس دور کے تجزیہ نگار اور سیاست دان خاص کر اہل مکہ اس اعلان کو دیوانے کی بڑ سمجھتے تھے، لیکن وہی ہوا جو قرآن مجید نے اعلان کیا تھا۔ صورت حال یہ تھی کہ مسلمانوں کی ہمدردیاں ایران کے مقابلے میں رومیوں کے ساتھ تھیں کیونکہ رومی اہل کتاب تھے گو ان کی مذہبی حالت بگڑ چکی تھی۔ اس کے باوجود عیسائی اپنے آپ کو توحید کے دعوے دار اور آخرت پر ایمان لانے والے سمجھتے تھے، ان کے مقابلے میں ایرانیوں نے یزدان اور ہرمن کے نام پر دو خدا بنا رکھے تھے۔ وہ ان کی عبادت کرتے تھے اس کے ساتھ ایرانیوں کی غالب اکثریت آگ کی پوجا بھی کرتی تھی۔ اسی بنا پر مشرکین کی ہمدردیاں خسرو پرویز کے ساتھ تھیں اور مسلمانوں کے جذبات رومیوں کے ساتھ تھے۔ رومیوں کو شکست ہوئی تو مکہ والوں نے مسلمانوں کو طعنہ دیا کہ اسی طرح تم بھی ہمارے مقابلے میں ناکام ہوجاؤ گے۔ ان حالات میں سورۃ روم کی ابتدائی آیات نازل ہوئیں جن میں دو ٹوک انداز میں مسلمانوں کو خوشخبری دی گئی کہ بے شک تمہارے قریب اور ابھی، ابھی رومی شکست کھا گئے ہیں۔ لیکن ٹھیک دس سال میں یہ ایرانیوں پر فتحیاب ہوں گے اور اس سے مسلمان خوش ہوجائیں گے، اس کے ساتھ مسلمانوں کو بھی اللہ کی مدد حاصل ہوگی۔ اللہ تعالیٰ اپنے وعدے کی کبھی خلاف ورزی نہیں کرتا، حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے اس خوشخبری کا کفار کی ایک مجلس میں ذکر کیا جس کا کفار نے خوب مذاق اڑایا، سیدنا ابوبکر (رض) کی تکرار ابی بن خلف سے ہوئی تو بات اس نقطہ پر پہنچی کہ اگر رومی غالب ہوئے تو ابی بن خلف دس اونٹ ابوبکر صدیق کے حوالے کرے گا اگر ایرانیوں نے فتح پائی تو دس اونٹ ابوبکر صدیق (رض) ابی بن خلف کو دیں گے۔ اس گفتگو کے بعد حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں آکر اپنی شرط کی تفصیل بتائی۔ (أَنَّ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ لأَبِی بَکْرٍ فِی مُنَاحَبَۃٍ (الم غُلِبَتِ الرُّومُ) أَلاَّ اِحْتَطْتَ یَا أَبَا بَکْرٍ فَإِنَّ الْبِضْعَ مَا بَیْنَ الثَّلاَثِ إِلَی التِّسْعِ )[ رواہ الترمذی : باب و من سورۃ الروم] آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ ” بِضْعِ“ کا لفظ ایک سے دس تک کے لیے ہوتا ہے۔ اس لیے ابی کے پاس جا کر تین سال کی بجائے دس سال کی شرط لگائیں۔ ابوبکر صدیق (رض) نے اس طرح ہی کیا لیکن اس مرتبہ دس اونٹوں کی بجائے سو اونٹ قرار پائے۔ یاد رہے کہ بعدازاں شریعت میں اس طرح کی شرط لگانے سے منع کردیا گیا ہے۔ (النَّبِیّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَخَطَبَ النَّاسَ فَحَمِدَ اللَّہَ وَأَثْنَی عَلَیْہِ ثُمَّ قَالَ مَا بَالُ رِجَالٍ یَشْتَرِطُونَ شُرُوطًا لَیْسَتْ فِی کِتَاب اللَّہِ کُلُّ شَرْطٍ لَیْسَ فِی کِتَاب اللَّہِ فَہُوَ بَاطِلٌ وَإِنْ کَان ماءَۃَ شَرْطٍ کِتَاب اللَّہِ أَحَقُّ وَشَرْطُ اللَّہِ أَوْثَقُ وَالْوَلاَءُ لِمَنْ أَعْتَقَ )[ رواہ البخاری : باب المکاتب ] نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لوگوں میں خطبہ ارشاد فرماتے ہوئے اللہ کی حمدوثناء بیان کی اور فرمایا کہ لوگوں کو کیا ہوا ہے؟ کہ وہ ایسی شرائط عائد کرتے ہیں جو کتاب اللہ میں موجود نہیں اور ہر ایسی شرط ناجائز ہے۔ جس کا کتاب اللہ میں وجود نہ ہو اگرچہ ایسی سو شرائط ہی کیوں نہ ہوں۔ اللہ کی کتاب برحق ہے اور اللہ کی شرائط مستقل ہیں ولاء کا حق دار وہی ہے جو غلام کو آزاد کرائے۔“ مسائل ١۔ قرآن مجید کی پیشین گوئی کے مطابق رومی ٹھیک ٩ سال کے اندرایرانیوں پر فتح یاب ہوئے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے رومیوں کی فتح کے ساتھ ہی مسلمانوں کو بدر کے مقام پر زبردست فتح عطا فرمائی۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ جس کی چاہتا ہے مدد کرتا ہے کیونکہ وہ غالب اور مہربان ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ کی مدد سے کمزور بھی فتح پاتے ہیں : ١۔ بدر میں اللہ تعالیٰ نے کمزوروں کی مدد فرمائی۔ (آل عمران : ١٢٣) ٢۔ غار ثور میں اللہ تعالیٰ نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ابوبکر (رض) کی مدد فرمائی۔ (التوبۃ: ٤٠) ٣۔ اللہ تعالیٰ نے ابرہہ کے مقابلے میں بیت اللہ کا تحفظ فرمایا۔ (الفیل : مکمل) ٤۔ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کے کمزوروں کی مدد فرمائی۔ (القصص : ٥) ٥۔ ” اللہ“ کی مدد سے قلیل جماعتیں کثیر جماعتوں پر غالب آئیں۔ ( البقرۃ: ٢٤٩) الروم
3 الروم
4 الروم
5 الروم
6 فہم القرآن ربط کلام : رومیّوں کا غالب آنا اور مسلمانوں کا کامیاب ہونا یقینی بات ہے کیونکہ یہ ” اللہ“ کا وعدہ ہے جو ہر صورت پورا ہو کر رہے گا۔ وعدہ سے مراد ایک تو یہ وعدہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے کرم سے مکہ معظمہ میں مسلمانوں سے فرمایا کہ رومی غالب اور فارسی مغلوب ہوں گے جس سے مسلمانوں کو خوشی ہوگی۔ رومیوں کا فتح یاب ہونا اور مسلمانوں کا مشرکین پر غالب آنا بظاہر اس قدر ناممکن تھا کہ اس پر یقین کرنا مشکل تھا، اس لیے اللہ تعالیٰ نے خوشخبری کے الفاظ استعمال کرنے کی بجائے مسلمانوں کے ساتھ ” وَعَدَہٗ“ کا لفظ استعمال کیا ہے۔ تاکہ کمزور اور مظلوم مسلمانوں کو یقین اور اطمینان ہوجائے کہ اب مشکلات کا آسانیوں میں تبدیل ہونا یقینی ہوچکا ہے۔ رومیوں اور مسلمانوں کے حالات اس قدر ناگفتہ بہ تھے کہ لوگوں کو یقین آنا مشکل تھا اس لیے ارشاد فرمایا کہ اکثر لوگ اپنے محدود علم کی وجہ سے حقائق کو نہیں سمجھتے اور لوگوں کا حال یہ ہے کہ وہ دنیا کے ظاہری اسباب پر یقین رکھتے ہیں اور ان سے مرعوب ہوتے یا ان پر فریفتہ ہوجاتے ہیں۔ جس کے نتیجے میں وہ آخرت سے لا پرواہ ہوتے ہیں۔ انسان کی کمزوری ہے کہ وہ ظاہری اسباب پر توجہ رکھتا ہے اور اسی کی بنیاد پر نتیجہ اخذ کرتا ہے اس وجہ سے وہ سینکڑوں حقائق سے تغافل اختیار کرتا ہے۔ لیکن عقل مند شخص وہ ہے جو دنیا میں رہ کر آخرت اور حقائق پر نظر رکھے۔ ” وَعَدَہٗ“ سے مراد آخرت کا وعدہ بھی ہے۔ تاکہ لوگوں کو معلوم ہو کہ دنیا کی کامیابی اور ناکامی ایک عارضی چیز ہے اصل تو آخرت ہے۔ جس کی کامیابی ہمیشہ کی کامیابی ہے جو وہاں ناکام ہوا وہ ہمیشہ کے لیے ناکام اور نقصان پائے گا۔ وہاں فاتح اور مفتوح، ظالم اور مظلوم، نیک اور بد کا حساب ہوگا۔ اس سے غافل رہنے کی بجائے ہر انسان کو اس کی تیاری کرنی چاہیے۔ (عَنْ شَدَّادِ بْنِ أَوْسٍ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ الْکَیِّسُ مَنْ دَانَ نَفْسَہُ وَعَمِلَ لِمَا بَعْدَ الْمَوْتِ وَالْعَاجِزُ مَنْ أَتْبَعَ نَفْسَہُ ہَوَاہَا وَتَمَنَّی عَلَی اللَّہِ قَالَ ہَذَا حَدِیثٌ حَسَنٌ) [ رواہ الترمذی : باب الکیس من دان نفسہ] ” حضرت شداد بن اوس (رض) سے روایت ہے وہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا دانا وہ ہے جس نے اپنے آپ کو عقل مند بنالیا اور موت کے بعد کی زندگی کے لیے عمل کیے اور نادان وہ ہے جس نے اپنے آپ کو خواہشات کے پیچھے لگا لیا اور پھر بھی اللہ تعالیٰ سے امید رکھے ہوئے ہے۔“ رومیوں کی کامیابی اور بدر میں مسلمانوں کی عظیم فتح مستند سیرت نگار اور مؤرخین نے لکھا ہے کہ ٦٢٤ ؁ء کو جس دن بدر میں مسلمان فتح یاب ہوئے اسی دن یا اسی سال رومیوں نے فارس پر غلبہ حاصل کیا۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ کبھی اپنے وعدے کی خلاف ورزی نہیں کرتا۔ ٢۔ انسان دنیا کی زیب وزینت پر فریفتہ ہو کر آخرت کی جوابدہی سے تغافل کرتا ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ کا فرمان اور وعدہ سچا ہوتا ہے : ١۔ بے شک اللہ کا وعدہ سچا ہے اور وہ حاکموں کا حاکم ہے۔ (ھود : ٤٥) ٢۔ اللہ کا فرمان سچ ہے۔ (الاحزاب : ٤) ٣۔ اللہ کا وعدہ سچا ہے۔ (القصص : ١٣) ٤۔ اللہ اپنے وعدے کے خلاف نہیں کرتا۔ (الروم : ٦) ٥۔ اللہ کا وعدہ حق ہے اور اللہ سے بات کرنے میں کون زیادہ سچا ہوسکتا ہے ؟ (النساء : ١٢٢) ٦۔ خبردار اللہ کا وعدہ سچا ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔ (یونس : ٥٥) ٧۔ صبر کرو اللہ کا وعدہ سچا ہے۔ (الروم : ٦٠) ٨۔ قیامت کے دن شیطان کہے گا یقیناً اللہ نے تمہارے ساتھ سچا وعدہ کیا تھا (ابراہیم : ٢٢) ٩۔ وہ کہیں گے پاک ہے ہمارا رب یقیناً اس کا وعدہ پورا ہوا۔ (بنی اسرائیل : ١٠٨) ١٠۔ اللہ کا وعدہ سچا ہے تمہیں دنیا کی زندگی دھو کے میں نہ ڈال دے۔ (لقمان : ٣٣) ١١۔ اے لوگو! اللہ تعالیٰ کا وعدہ سچا ہے تمہیں دنیا کی زندگی دھوکے میں مبتلانہ کرے۔ (فاطر : ٥) ١٢۔ اللہ نے تمہارے ساتھ اپناوعدہ سچا کر دکھایاجب تم کفار کو اس کے حکم سے کاٹ رہے تھے۔ (آل عمراٰن : ١٥٢) الروم
7 الروم
8 فہم القرآن ربط کلام : انسان کی غفلت کا ایک سبب اسے دنیا میں ملنے والی مہلت ہے جس کی طرف انسان کو توجہ دلائی جا رہی ہے کہ اسے اپنے انجام کا خیال رکھنا چاہیے۔ انسان دنیا کی سہولیات اور زیب وزینت پر فریفتہ ہو کر آخرت کے احتساب کو بھول جاتا ہے۔ خاص طور پر کافر اور مشرک کی جب دنیا میں گرفت نہیں ہوتی تو وہ سمجھ بیٹھتا ہے کہ شائد مرنے کے بعد بھی مجھے یوں ہی چھوڑ دیا جائے گا۔ ایسے لوگوں کو بالخصوص ارشاد فرمایا ہے کہ لوگو! اپنے آپ اور زمین آسمان اور جو کچھ ان میں موجود ہے اس پر غور کرو کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں کس طرح اور کیونکر پیدا کیا ہے۔ اس نے کوئی چیز بھی بے فائدہ پیدا نہیں کی بلکہ ہر چیز کے پیدا کرنے کا ایک مقصد ہے اور وہ اپنے مقصد کو پورا کر رہی ہے۔ اس نے ہر چیز کی بقاء اور فنا کا وقت مقرر کر رکھا ہے۔ اس میں انسان بھی شامل ہے۔ انسان کو پیدا کرنے کا مقصد زمین میں خلافت کی ذمہ داری پوری کرنا اور اپنے رب کی بندگی کرنا ہے۔ جس کی تشریح نزول آدم کے وقت کردی گئی تھی کہ اے آدم زمین پراُترجاؤ۔ ایک مدّت تک تمہارا وہاں رہنا اور فائدہ اٹھانا ہے۔ یاد رکھو کہ اپنے رب کی راہنمائی کے مطابق زندگی گزارو گے کہ تو دنیا اور آخرت میں اجر پاؤ گے اگر نافرمانی کا راستہ اختیار کرو گے تو سزا سے دوچار ہو گے۔ اس فرض کی ادائیگی کے لیے انسان کو ایک مہلت دی گئی ہے مگر اس کے باوجود انسان اپنے خالق کو بھول جاتا ہے ایسے انسانوں کی ہر دور میں اکثریت رہی ہے، جن میں مکہ کے مشرک سرفہرست تھے، اس لیے انہیں براہ راست کہا گیا کہ کیا انہوں نے دنیا کی تاریخ پر غور نہیں کیا ؟ کہ ان سے پہلے کتنے لوگ گزر چکے ہیں جو طاقت اور عمر کے حوالے سے ان سے بڑھ کر تھے اور انہوں نے ان سے زیادہ زمین پر ترقی کی اور اپنے اثرات چھوڑے ہیں۔ ان کے پاس واضح دلائل اور کھلے معجزات کے ساتھ رسول بھیجے گئے لیکن انہوں نے اپنے رب کی نعمتوں کا شکر ادا اور انبیاء کی اطاعت کرنے کی بجائے ظلم اور نافرمانی کا راستہ اختیار کیا جس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے انہیں تہس نہس کردیا۔ کیونکہ یہ لوگ خود ہی اپنے آپ ظلم کرنے والے تھے، ظلم سے مراد شرک ہے اور آپس کے مظالم بھی۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی پر ذرہ برابر بھی ظلم نہیں کرتا، انہوں نے ” اللہ“ کی آیات کو جھٹلایا اور مذاق کیا جس کے نتیجہ میں برا انجام پایا۔ ان کی غفلت کا بنیادی سبب دنیا کے وسائل پر اترانا اور آخرت کی جوابدہی کو بھول جانا تھا۔ ظلم کا انجام : (أَنَّ زِیَاداً مَوْلَی عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عَیَّاشِ بْنِ أَبِی رَبِیعَۃَ حَدَّثَہُمْ عَمَّنْ حَدَّثَہُ عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) أَنَّ رَجُلاً مِنْ أَصْحَابِ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جَلَسَ بَیْنَ یَدَیْہِ فَقَالَ یَا رَسُول اللَّہِ إِنَّ لِی مَمْلُوکِیْنِ یُکَذِّبُونَنِی وَیَخُونُونَنِی وَیَعْصُونَنِی وَأَضْرِبُہُمْ وَأَسُبُّہُمْ فَکَیْفَ أَنَا مِنْہُمْ فَقَالَ لَہُ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بِحَسْبِ مَا خَانُوکَ وَعَصَوْکَ وَیُکَذِّبُونَکَ فإِنْ کَانَ عِقَابُکَ إِیَّاہُمْ دُونَ ذُنُوبِہِمْ کَانَ فَضْلاً لَکَ عَلَیْہِمْ وَإِنْ کَانَ عِقَابُکَ إِیَّاہُمْ بِقَدْرِ ذُنُوبِہِمْ کَانَ کَفَافاً لاَ لَکَ وَلاَ عَلَیْکَ وَإِنْ کَانَ عِقَابُکَ إِیَّاہُمْ فَوْقَ ذُنُوبِہِمُ اُقْتُصَّ لَہُمْ مِنْکَ الْفَضْلُ الَّذِی بَقِیَ قِبَلَکَ فَجَعَلَ الرَّجُلُ یَبْکِی بَیْنَ یَدَیْ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وَیَہْتِفُ فَقَالَ رَسُول اللَّہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَا لَہُ مَا یَقْرَأُ کِتَاب اللَّہِ (وَنَضَعُ الْمَوَازِینَ الْقِسْطَ لِیَوْمِ الْقِیَامَۃِ فَلاَ تُظْلَمُ نَفْسٌ شَیْئاً وَإِنْ کَانَ مِثْقَالَ حَبَّۃٍ مِنْ خَرْدَلٍ أَتَیْنَا بِہَا وَکَفَی بِنَا حَاسِبِینَ) فَقَال الرَّجُلُ یَا رَسُول اللَّہِ مَا أَجِدُ شَیْئاً خَیْراً مِنْ فِرَاقِ ہَؤُلاَءِ یَعْنِی عَبِیدَہُ إِنِّی أُشْہِدُکَ أَنَّہُمْ أَحْرَارٌ کُلُّہُمْ)[ رواہ احمد : مسند السیدۃ عائشۃ] ” عبداللہ (رض) بن عیاش بن ابی ربیعہ کے غلام زیاد نے انہیں حدیث بیان کی اس آدمی سے جس نے اسے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کیا تھا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ میں سے ایک آدمی آپ کے سامنے عرض کرنے لگا اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میرے دو غلام ہیں جو میرے ساتھ جھوٹ بولتے ہیں، خیانت کرتے اور میری نافرمانی کرتے ہیں میں انہیں مارتا پیٹتا ہوں اور گالیاں دیتا ہوں میرا یہ معاملہ کیسا ہے؟ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس قدر تیری خیانت، تیری نافرمانی اور تیرے ساتھ جھوٹ بولتے ہیں اگر تیری ڈانٹ ڈپٹ ان کے غلطیوں سے کم ہوئی تو تجھے اجر عطا کیا جائے گا اور اگر برابرہوئی تو معاملہ یکساں ہے اور اگر ڈانٹ ان کی خطاؤں سے زیادہ ہوئی تو تیری نیکیوں میں کمی کی جائے گی یہ سن کر وہ شخص آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے روتے ہوئے آہ وزاری کرنے لگا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کیا اللہ کی کتاب کو نہیں پڑھتا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ قیامت کے دن ہم عدل و انصاف کا ترازو قائم کریں گے اور کسی پر ظلم نہیں کیا جائے گا اگر نیکی اور برائی ایک رائی کے دانے کے برابر بھی ہوئی ہم اسے بھی لے آئیں گے اور ہم کافی ہیں حساب لینے والے۔ وہ آدمی کہنے لگا اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں اس سے بہتر کوئی چیز نہیں پاتا کہ غلاموں کو آزاد کر دوں اور میں آپ کو گواہ بنا کر کہتا ہوں میں نے انہیں آزاد کردیا۔“ (عَنْ عَاءِشَۃَ (رض) قَالَتْ سَمِعْتُ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَقُولُ فِی بَعْضِ صَلاَتِہِ اللَّہُمَّ حَاسِبْنِی حِسَاباً یَسِیرًا فَلَمَّا انْصَرَفَ قُلْتُ یَا نَبِیَّ اللَّہِ مَا الْحِسَابُ الْیَسِیرُ قَالَ أَنْ یَنْظُرَ فِی کِتَابِہِ فَیَتَجَاوَزَ عَنْہُ إِنَّہُ مَنْ نُوقِشَ الْحِسَابَ یَوْمَءِذٍ یَا عَاءِشَۃُ ہَلَکَ وَکُلُّ مَا یُصِیبُ الْمُؤْمِنَ یُکَفِّرُ اللَّہُ عَزَّ وَجَلَّ بِہِ عَنْہُ حَتَّی الشَّوْکَۃُ تَشُوکُہُ) [ روہ احمد : مسند عائشہ صدیقہ (رض) ] ” حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں میں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بعض نمازوں میں یہ الفاظ پڑہتے ہوئے سنا آپ فرماتے اے بار الٰہا! میرا حساب و کتاب آسان فرماناجب آپ نماز سے فارٖغ ہوئے تو میں نے عرض کی اللہ کے پیغمبر حساب یسیر کیا ہے؟ آپ نے فرمایا کہ انسان کے نامہ اعمال کی طرف دیکھ کر اسے چھوڑ دیا جائے۔ اس دن جس سے حساب و کتاب میں پوچھ گچھ شروع ہوگئی وہ ہلاک ہوگیا اور ہر وہ تکلیف جو مومن کو پہنچتی ہے اللہ عزوجل اس کے عوض اس کے گناہ مٹا دیتا ہے حتٰی کہ کانٹا چبھنے سے بھی گناہ مٹ جاتے ہیں۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمانوں میں کوئی چیز بے مقصد پیدا نہیں کی۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو ایک وقت تک مہلت دی ہے جس سے غلط فائدہ اٹھا کر انسان اپنے رب کو بھول جاتا ہے۔ ٣۔ اللہ کے نافرمانوں کو غور کرنا چاہیے کہ ان سے پہلے کتنے ترقی یافتہ اور طاقت ور لوگ تباہ کر دئیے گئے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ کسی پر ظلم نہیں کرتا لوگ اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں۔ ٥۔ برے لوگوں کا انجام برا ہوگا۔ تفسیر بالقرآن دنیا میں نافرمان طاقتور لوگوں کا انجام : ١۔ دیکھیں فساد کرنے والوں کا انجام کیسا ہوا۔ (الاعراف : ١٠٣) ٢۔ دیکھیں ظالموں کا انجام کیسا ہوا۔ (یونس : ٣٩) ٣۔ زمین میں چل کر دیکھیں مجرموں کا انجام کیسا ہوا۔ (النمل : ٦٩) ٤۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دیکھیں جھٹلانے والوں کا انجام کیا ہوا۔ (الزخرف : ٢٥) ٥۔ کیا وہ نہیں جانتے کہ اللہ نے ان سے پہلے بستیوں کو ہلاک کیا جو طاقت، قوت اور مال کے لحاظ سے مکہ والوں سے بڑھ کرتھے۔ (القصص : ٧٨) ٦۔ قوم نوح نے جب حضرت نوح کی تکذیب کی تو ہم نے انہیں غرق کردیا۔ (الفرقان : ٣٧) ٧۔ ثمود زور دار آواز کے ساتھ ہلاک کیے گئے۔ (الحاقہ : ٥) ٨۔ جب قوم لوط پر ہمارا عذاب آیا تو ہم نے ان پر ان کی بستی کو الٹا کر پتھروں کی بارش کی۔ (ھود : ٨٢) ٩۔ ہم نے آل فرعون سے انتقام لیا اور انہیں دریا میں غرق کردیا۔ (الاعراف : ١٣٦) ١٠۔ قوم عاد نے جھٹلایا تو اللہ نے ان کو ہلاک کردیا۔ (الشعراء : ١٣٩) الروم
9 الروم
10 الروم
11 فہم القرآن ربط کلام : کفار کی نافرمانی کا ایک سبب یہ ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اس کائنات کو یوں ہی پیدا کیا ہے اس لیے مرنے کے بعد ہم نے دوبارہ پیدا نہیں ہونا، یہاں ان کے باطل عقیدہ کا جواب دیا گیا ہے۔ جس ” اللہ“ نے انسان کو پہلے سے تیار شدہ نمونے کے بغیر پیدا کیا ہے دوسری مرتبہ اسے پیدا کرنا اس کے لیے کیسے مشکل ہوگا ؟ ہر انسان کو نہ صرف دوبارہ پیدا کیا جائے گا بلکہ سب نے اپنے رب کی بارگاہ میں پیش بھی ہونا ہے۔ جب یہ دن قائم ہوگا تو اس دن مجرم ہکے بکے رہ جائیں گے، نہ صرف ہکے بکے ہوں گے بلکہ ہر طرف سے مایوس ہوں گے۔ پہلے بھی عرض کی جا چکی ہے کہ قرآن مجید کا تیسرا بڑا عنوان قیام قیامت اور اس میں حساب و کتاب کا مسئلہ ہے، جس کا منکرین قیامت بلا دلیل انکار کرتے ہیں، قرآن مجید قیامت برپا ہونے کے مختلف دلائل دیتا ہے یہاں انسان کی اپنی تخلیق کا حوالہ دیتے ہوئے قیامت قائم ہونے کا ثبوت دیا ہے کہ اے انسان اپنی طرف دیکھ اور اس پر غور کر جس رب نے تجھے پہلی مرتبہ پیدا کیا ہے کیا اس کے لیے تجھے دوبارہ پیدا کرنا مشکل ہے؟ کیوں نہیں نہ صرف وہ تجھے دوبارہ پیدا کرے گا بلکہ تم نے اس کی بارگاہ میں حاضر ہو کر اپنے اپنے اعمال کا حساب دینا اور نیکی کی جزا اور برائی کی سزا پانا ہے۔ تفسیر بالقرآن جس رب نے انسان کو پہلی دفعہ پیدا کیا ہے وہی اسے دوبارہ پیدا کرے گا : ١۔ پہلے اور دوبارہ پیدا کرنے والا اور زمین و آسمان سے تمہارے لیے روزی کا بندوبست کرنے والا ” اللہ“ کے سوا کوئی اور الٰہ ہے؟ (النمل : ٦٤) ٢۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرما دیں اللہ ہی نے مخلوق کی ابتداء کی اور وہی دوبارہ پیدا کرے گا پھر تم کہاں بہک گئے ہو؟ (یونس : ٣٤) ٣۔ ” اللہ“ ہی نے مخلوق کو پیدا کیا، پھر وہ اسے دوبارہ پیدا کرے گا، پھر تم اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔ (الروم : ١١) ٤۔ وہ کہتے ہیں ہمیں کون دوبارہ زندہ کرے گا ؟ فرما دیجیے جس نے پہلی بار پیدا کیا تھا وہی پیدا کرے گا۔ (بنی اسرائیل : ٥١) ٥۔ ہم نے زمین سے تمہیں پیدا کیا اسی میں لوٹائیں گے اور اسی سے دوبارہ اٹھائیں گے۔ (طٰہٰ: ٥٥) الروم
12 فہم القرآن ربط کلام : کفار جس دن کا انکار کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ لوگوں کو اپنے حضور پیش کرے گا اور اس دن مشرکین کی یہ حالت ہوگی۔ قیامت کے بارے میں مشرک اس لیے لاپرواہی کرتا ہے کیونکہ وہ سمجھتا ہے کہ جن کو میں رب تعالیٰ کا مقرب سمجھ کر پوجتاہوں اور ان کے سامنے نذر ونیاز پیش کرتا ہوں۔ وہ قیامت کے دن مجھے اللہ تعالیٰ کی گرفت سے بچا لیں گے کیونکہ یہ اس کے پیارے اور مقرب ہیں اسے لیے ان کی سفارش مسترد نہیں ہوگی۔ حالانکہ اس دن صورت حال اس قدر ہولناک ہوگی کہ جو لوگ دنیا میں یہ دعویٰ کرتے تھے کہ مرشد کے بغیرقیامت کے دن نجات نہ ہوگی اور مرید ہمارے جھنڈے تلے ہوں گے۔ جوں ہی اپنے مریدوں کو دیکھیں گے تو وہ ان سے برأت کا اعلان کردیں گے۔ مرید اپنے پیروں سے کہیں گے کہ تم تو ہماری بخشش کے دعوے کیا کرتے تھے اور تمہی نے ہمیں گمراہ کیا تھا۔ جواب میں پیر کہیں گے کہ ہم نے تمہیں گمراہ نہیں کیا تم تو خود ہی گمراہی کو پسند کرتے تھے۔ لہٰذا آج ہم تمہاری کوئی مدد نہیں کرسکتے۔ جونہی مرید اپنے پیروں، ور کر اپنے لیڈروں اور عابد اپنے معبودوں سے مایوس ہوں گے تو وہ بھی ان سے کہیں گے ہم بھی تمہیں بڑا نہیں مانتے لیکن اس وقت کسی کو انکار کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔۔ تفسیر بالقرآن معبودوں کا اپنی عبادت سے انکار کرنا : ١۔ قیامت کے دن معبود اپنی عبادت کا انکار کردیں گے۔ (یونس : ٢٨) ٢۔ قیامت کے دن مشرک اپنے شرکاء کو دیکھ کر کہیں گے کہ ہم ان کی عبادت کرتے تھے مگر معبود انکار کردیں گے۔ (النحل : ٨٦) ٣۔ قیامت کے دن مشرک اپنے معبودوں کو دیکھ کر کہیں گے ہمیں یہ گمراہ کرنے والے تھے۔ (القصص : ٦٣) ٤۔ قیامت کے دن پیر اپنے مریدوں سے بیزاری کا اظہار کریں گے۔ (البقرۃ: ١٦٦) ٥۔ قیامت کے دن مشرکوں سے کہا جائے گا اپنے معبودوں کو پکارو لیکن ان کے معبود ان کی پکار کا کوئی جواب نہیں دیں گے۔ ( الکہف : ٥٢) الروم
13 الروم
14 فہم القرآن ربط کلام : قیامت کے دن نہ صرف عابد اپنے معبودوں کی عبادت کے انکاری ہوں گے بلکہ وہ ان سے اپنا دامن بھی بچالیں گے۔ قیامت کے دن عابد اپنے معبودوں سے الگ ہوجائیں گے۔ ان الفاظ کے دو مفہوم لیے جاسکتے ہیں۔ دونوں کا ثبوت قرآن مجید میں موجود ہے۔ 1 مشرک دنیا میں اپنے معبودوں کو مشکل کشا اور حاجت روا سمجھ کر تعظیم کرتے ہیں۔ اس تعظیم میں ان کے سامنے مؤدّب ہو کر کھڑے ہونا، ہاتھ جوڑنا جھکنا، سجدہ کرنا اور نذرونیاز پیش کرنا شامل ہے یہی تو عبادت ہے۔ جو صرف اللہ تعالیٰ کے لیے ہونی چاہیے۔ مگر اکثر مشرک اسے بزرگوں کی تعظیم کے طور پر اور ان کے ذریعے اللہ تعالیٰ کا قرب پانے کے لیے کرتے ہیں۔ حالانکہ قرآن مجید نے اس سے باربار منع کیا اور اسے شرک قرار دیا ہے۔ اس کے باوجود مشرک جن کو ” اللہ“ کے سوا وسیلہ بناتے ہیں زندگی بھر ان کے ساتھ چمٹے رہتے ہیں۔ قیامت کے دن عابد اور معبود۔ طالب اور مطلوب، ساجد اور مسجود کو الگ الگ کردیا جائے گا اور کوئی کسی کی مدد نہیں کرسکے گا۔ 2 مجرموں کو ان کے گناہوں اور جرائم کے اعتبار سے الگ الگ کردیا جائے گا۔ جو لوگ سچے دل سے ایمان لائے اور صالح اعمال کرتے رہے۔ انہیں جنت کے باغوں میں داخل کیا جائے گا۔ وہ وہاں ہر طرح خوش و خرم ہوں گے۔ جنہوں نے کفر کیا اور اللہ جل جلالہ کے ارشادات کی تکذیب کی اور قیامت کے دن کی ملاقات کو جھٹلایا وہ عذاب میں مبتلا کیے جائیں گے۔ (ثُمَّ لَمْ تَکُنْ فِتْنَتُہُمْ إِلَّا أَنْ قَالُوا واللَّہِ رَبِّنَا مَا کُنَّا مُشْرِکِینَ)[ الانعام : ٢٣] ” پھران کا فریب اس کے سواکچھ نہ ہوگا کہ کہیں گے اللہ کی قسم! اے ہمارے رب! ہم شریک بنانے والے نہ تھے۔“ مسائل ١۔ کافر اور مشرک کی کوئی بھی سفارش نہیں کر پائے گا۔ ٢۔ قیامت کی ہولناکیاں دیکھ کر مشرک اپنے معبودوں کا انکار کریں گے۔ ٣۔ قیامت کے دن مجرموں سے مومنوں کو ممتاز کیا جائے گا اور مجرموں کی درجہ بندی کی جائے گی۔ ٤۔ خالص عقیدہ رکھنے اور نیک اعمال کرنے والے خراماں خراماں جنت میں داخل ہوں گے۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ کی آیات اور اس کی ملاقات کو جھٹلانے والے جہنم میں ذلیل وخوار ہوں گے۔ تفسیر بالقرآن جنتیوں کے انعامات : ١۔ ہم ان کے دلوں سے کینہ نکال دیں گے اور سب ایک دوسرے کے سامنے تکیوں پر بیٹھے ہوں گے۔ انہیں کوئی تکلیف نہیں پہنچے گی اور نہ وہ اس سے نکالے جائیں گے۔ (الحجر : ٤٧۔ ٤٨) ٢۔ جنت کی مثال جس کا مومنوں کے ساتھ وعدہ کیا گیا ہے۔ اس کے نیچے سے نہریں جاری ہیں اور اس کے پھل اور سائے ہمیشہ کے لیے ہوں گے۔ (الرعد : ٣٥) ٣۔ جنت میں بے خار بیریاں، تہہ بہ تہہ کیلے، لمبا سایہ، چلتا ہوا پانی، اور کثرت سے میوے ہوں گے۔ (الواقعۃ: ٢٨ تا ٣٠) ٤۔ جنت کے میوے ٹپک رہے ہوں گے۔ (الحاقۃ: ٢٣) ٥۔ جنتیوں کو ملائکہ سلام کریں گے۔ ( الزمر : ٨٩) ٥۔ جنت میں وہ سب کچھ ہوگا جس کی جنتی خواہش کرے گا۔ (حٰم السجدۃ: ٣١) جہنمیوں کی سزائیں : ١۔ قیامت کے دن مجرموں کو با ہم زنجیروں میں جکڑدیا جائے گا۔ (ابراہیم : ٤٩) ٢۔ قیامت کے دن کفار کو طوق پہنا کر جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔ (الحاقۃ: ٣٠۔ ٣١) ٣۔ قیامت کے دن مجرموں کی آنکھیں جھکی ہوئی ہوں گی اور ان پر ذلت چھائی ہوگی۔ (المعارج : ٤٤) ٤۔ قیامت کے دن مجرموں کے ابرو پاؤں کے انگوٹھے کے بالوں سے باندھ دیے جائیں گے۔ (الرحمن : ٤١) ٥۔ بے شک مجرم ہمیشہ جہنم میں رہیں گے۔ (الزخرف : ٧٤) الروم
15 الروم
16 الروم
17 فہم القرآن ربط کلام : جنت کے حصول اور جہنم سے بچنے کا مؤثر ترین ذریعہ ” رب“ کے حضور نماز پڑھنا اور اس کا ثنا خواں رہنا ہے۔ کفار ” اللہ“ کی ذات کے منکر اور اس کے احکام اور ملاقات کو قولاً اور فعلاً جھٹلانے والے ہیں۔ جس وجہ سے جہنم میں جھونکے جائیں گے۔ جہنم سے بچنے کا ایک ہی راستہ ہے کہ ذات باری تعالیٰ پر سچا ایمان لایا جائے اور اس کے احکام کی تعمیل کی جائے جس کا عملی مظاہرہ یہ ہے کہ آدمی صبح، شام، سہ پہر اور ظہر کے وقت اپنے رب کو یاد کرے یہ اس لیے بھی لازم ہے کہ زمین کا ذرّہ ذرّہ اور آسمانوں کا چپہ چپہ اپنے رب کی حمد بیان کرنے میں لگا ہوا ہے۔ گویا کہ انسان کے گردوپیش اور اوپر نیچے کا ماحول اپنے رب کا ثناخواں ہے۔ جس سے یہ بات لازم ہوجاتی ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ اوقات میں اسے یاد کرے۔ اس لیے پنجگانہ نماز فرض قرار پائی جو اللہ تعالیٰ کی یاد کا بہترین ذریعہ اور طریقہ ہے۔ ظاہر ہے یہ کام وہی شخص کرے گا جو اللہ تعالیٰ پر سچا ایمان، اس کے احکام کی تعمیل اور قیامت کے دن کی ملاقات پر یقین رکھتا ہے، قرآن مجید میں اکثر مقامات پر نماز کے لیے ” اَقِیْمُوْا“ کا لفظ آیا ہے سورۃ کوثر میں ” فَصَلِّ“ کا لفظ استعمال ہوا ہے جس کا صاف معنٰی ہے کہ نماز اللہ تعالیٰ کی تسبیح اور اس کو یاد کرنے کا بہترین ذریعہ ہے، جاہل صوفی اور حدیث رسول کے منکر یہ کہہ کر نماز کا انکار کرتے ہیں کہ اصل چیز اللہ کو یاد کرنا ہے اگر مسنون طریقہ کے ساتھ نماز نہ پڑھی جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ حالانکہ تمام صحابہ کرام (رض) نے صبح وشام، ظہر اور عصر کے وقت تسبیح پڑھنے سے مراد فجر، ظہر، عصر اور مغرب کی نماز لی ہے۔ اس آیت مبارکہ کی روشنی میں رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نماز کے اوقات مقرر فرمائے ہیں۔ ” حضرت بریدہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نماز کے اوقات کے بارے میں سوال کیا۔ آپ نے فرمایا کہ تم ہمارے ساتھ دو دن نمازیں ادا کرو۔ پہلے دن جب سورج ڈھلا ہی تھا تو بلال کو اذان کا حکم دیا۔ اس کے بعد اقامت ظہر ہوئی پھر بلال (رض) کو نماز عصر کی اقامت کا حکم فرمایا جبکہ سورج کافی بلند اور دھوپ تیز تھی پھر سورج غروب ہوتے ہی مغرب کی نماز کھڑی فرمائی ابھی سورج کی سرخی ختم ہونے ہی پائی تھی تو عشاء کی نماز قائم کرنے کا حکم فرمایا۔ پھر صبح کی نماز کا حکم دیاجبکہ فجرابھی نمودار ہوئی تھی۔ جب دوسرا دن ہوا تو بلال (رض) کو نماز ظہر ٹھنڈی کرنے کا حکم صادر فرمایا۔ اس نے خوب ٹھنڈے وقت میں اذان کہی۔ نماز عصر تاخیر سے ادا فرمائی لیکن سورج ابھی بلندی پر تھا۔ نماز مغرب سورج کی روشنی کے آثار ختم ہونے سے پہلے ادا کی۔ جب رات کا تیسرا حصہ گزر گیا تو نماز عشا ادا کی گئی، نماز فجر اس وقت ادا کی جب صبح کی روشنی خوب پھیل چکی تھی۔ اب ارشاد ہوا کہ نمازوں کے اوقات پوچھنے والا کہاں ہے؟ وہ عرض کرتا ہے کہ اللہ کے رسول میں حاضر ہوں۔ فرمایا تمہاری نمازوں کے وقت ان اوقات کے درمیان ہیں۔“ [ رواہ البخاری : کتاب مواقیت الصلٰوۃ] تسبیح کی فضیلت : (عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَال النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کَلِمَتَانِ حَبِیْبَتَانِ إِلَی الرَّحْمَنِ، خَفِیْفَتَانِ عَلَیْ اللِّسَانِِ، ثَقِیْلَتَانِ فِیْ الْمِیْزَانِ سُبْحَان اللَّہِ وَبِحَمْدِہِ، سُبْحَان اللَّہِ الْعَظِیمِ) [ رواہ البخاری : کتاب التوحید] ” حضرت ابوہریرہ (رض) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا دو کلمے رحمٰن کو بڑے پسند ہیں زبان سے ادا کرنے میں آسان اور وزن کے لحاظ سے بھاری ہیں۔ مسائل ١۔ نماز ” اللہ“ کی تسبیح کا مؤثر ترین ذریعہ ہے۔ ٢۔ زمین وآسماں اور ہر چیز اپنے رب کی حمد بیان کرتی ہے۔ تفسیر بالقرآن قرآن میں نماز کے اوقات : ١۔ نماز قائم کرو سورج کے ڈھلنے سے لیکر رات تک اور فجر کے وقت قرآن پڑھا کرو۔ (بنی اسرائیل : ٧٨) ٢۔ دن کے دونوں سروں یعنی صبح شام اور رات کی ساعات میں نماز پڑھا کرو۔ (ہود : ١١٤) ٣۔ اللہ کی تسبیح صبح شام بیان کرو اور تیسرے پہر بھی اور جب دوپہر ہو تب بھی۔ (الروم : ١٧۔ ١٨) ٤۔ سورج طلوع ہونے سے پہلے اور غروب ہونے سے پہلے اللہ کی تسبیح بیان کریں رات کے کچھ اوقات میں اور نماز کے بعد بھی۔ (ق : ٣٩۔ ٤٠) ٥۔ سورج نکلنے اور غروب ہونے سے پہلے اور رات کے اوقات میں اور دن کے اطراف میں تسبیح وتحمید بیان کریں۔ (طٰہٰ: ١٣٠) الروم
18 الروم
19 فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ کی حمد کرنا اور اس کے حضور نماز پڑھنا اس لیے ضروری ہے کیونکہ وہی زندہ سے مردہ اور مردے سے زندہ پیدا کرتا ہے اور اسی نے انسان کو مٹی سے پیدا فرمایا اور زمین میں بکھیر دیا۔ اللہ تعالیٰ کی حمد کرنا اور اس کے حضور اس لیے جھکنا ہے کیونکہ وہی زندہ سے مردہ اور مردہ سے زندہ پیدا کرتا ہے جس کا ایک واضح ثبوت یہ دھرتی ہے جس کا انسان پوری زندگی مشاہدہ کرتا اور اس پر بسیرہ کرتا ہے بالخصوص صحرا میں رہنے والے لوگ جانتے ہیں کہ جب بارش نہ ہو تو وہاں بسنے والے لوگ اس قدر مایوس ہوجاتے ہیں کہ انہیں ہجرت کرنے کے سوا کوئی چارہ کار نہیں رہتا۔ جونہی بارشیں ہوتی ہیں تو وہی صحرا اس قدر شاداب ہوجاتا ہے کہ اس کا سہانا اور دلکش منظر دیکھنے کے لیے لوگ دوردور کے شہروں سے آکر کئی کئی روز وہاں تفریح کے طور پر قیام کرتے ہیں۔ جس طرح زمین بارش سے زندہ ہوجاتی ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ قیامت کے دن مردہ زمین سے مردہ انسانوں کو زندہ کرے گا۔ اور اسی مردہ زمین سے آدم (علیہ السلام) کو پیدا کیا اور اس کے بعد نسل درنسل تخلیق انسانی کا سلسلہ جاری فرمایا۔ انسان کی خوراک رہناسہنا اور مرنا جینا بھی مٹی کے ساتھ وابستہ ہے۔ انسان اپنی پیدائش پر غور کرے تو اسے علم نہیں یقین ہوجائے گا کہ اس کی اپنی پیدائش بھی مردہ سے ہوئی ہے۔ انسان اوّل یعنی آدم (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے مٹی سے پیدا کیا ہے۔ جو آدم (علیہ السلام) کی پیدائش کے وقت بھی بے حس و حرکت یعنی مردہ تھی اور آج بھی حس وحرکت سے محروم ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کو پیدا کرنے کا ارادہ فرمایا تو عزرائیل (علیہ السلام) کو حکم دیا کہ زمین سے مٹی اٹھالاؤ۔ عزرائیل (علیہ السلام) مٹی اٹھالائے تو اللہ تعالیٰ نے زمین سے انسان کا ڈھانچہ بنایا پھر اس میں روح پھونکی تو مردہ زمین سے چلنے، پھرنے، اٹھنے، بیٹھنے اور کھانے، پینے والا زندہ انسان معرض وجود میں آیا۔ اس کے بعد آدم (علیہ السلام) سے اس کی بیوی کو پیدا کیا۔ پھر اس کی افزائش کا سلسلہ شروع فرمایا جو قیامت تک جاری رہے گا۔ ہر انسان اپنی تخلیق پر غور کرے کہ اس کی پیدائش پانی کی بوند سے ہوئی ہے۔ جو لاتعداد جرثوموں پر مشتمل ہوتی ہے۔ خالق کی تخلیق پر غور فرمائیں کہ اس نے اس بوند سے خون کا لوتھڑا بنایا اور پھر لوتھڑے سے انسان کا بہترین وجود بنایا اور اس کے بعد اس میں روح پھونکی اور بطن مادر میں ہی اس کے مستقبل کے معاملات طے فرما دیئے۔ انسان ہر دور میں چیزیں ایجاد کرتے اور بناتے رہے ہیں اور بناتے رہیں گے لیکن انسان پانی کے ایک قطرے کے ایک حقیر سے حصہ سے کوئی چیز ایجاد نہیں کرسکا اور نہ کرسکے گا۔ بالخصوص کوئی جاندار چیز تو کبھی نہیں بنا سکے گا۔ یہ صرف اللہ تعالیٰ کی قدرت ہے کہ اس نے پانی کی ایک بوند سے بہترین شکل و صورت والا انسان پیدا کیا اس لیے اللہ تعالیٰ انسان کو اس کی تخلیق کے بارے میں بار، بار غور کرنے کا حکم دیتا ہے۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ کی قدرت کی نشانی ہے کہ اس نے انسان کو مٹی سے بنایا ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ ہی انسان کی نسل چلانے اور پھیلانے والا ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ زندہ سے مردہ اور مردہ سے زندہ کرتا ہے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ مردہ زمین کو زندہ کرتا ہے۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ اسی طرح ہی قیامت کے دن لوگوں کو پیدا کرے گا۔ تفسیربالقرآن تخلیق انسان کے مراحل : ١۔ یقیناً ہم نے انسان کو کھنکھناتی ہوئی مٹی سے پیدا کیا۔ (الحجر : ٢٦) ٢۔ اللہ نے انسان کو مخلوط نطفہ سے پیدا کیا۔ (الدھر : ٢) ٣۔ اللہ نے انسان کو مٹی کے جوہر سے پیدا کیا۔ (المومنون : ١٢) ٤۔ حوا کو آدم سے پیدا فرمایا۔ (النساء : ١) ٥۔ کیا تو اس ذات کا کفر کرتا ہے جس نے تجھے مٹی سے پیدا فرمایا۔ (الکہف : ٣٧) ٦۔ اللہ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی یہ بھی ہے کہ اس نے تمہیں مٹی سے پیدا فرمایا۔ (الروم : ٢٠) ٧۔ ” اللہ“ نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا، پھر نطفہ، پھر لوتھڑا بنا کر تمہیں پیدا کرتا ہے پھر تم بچے ہوتے ہو۔ (المومن : ٦٧) ٨۔ اللہ نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا، پھر نطفہ سے، پھر تمہارے جوڑے جوڑے بنائے۔ (فاطر : ١١) ٩۔ اللہ نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا، پھر اسے نطفہ بنایا، پھر اس سے خون کا لوتھڑا، پھر اس سے بوٹی بنا کر جسطرح چاہتا ہے پیدا کرتا۔ (الحج : ٥) الروم
20 الروم
21 فہم القرآ ن ربط کلام : تخلیق انسانی کا دارومدار میاں بیوی کے ملاپ پر ہے اس لیے اب میاں بیوی کے تعلقات کا ذکر ہوتا ہے۔ حضرت آدم (علیہ السلام) کو مٹی سے پیدا کیا گیا اس کی تسکین اور نسل کو جاری رکھنے کے لیے اسی سے اس کی بیوی حضرت حوا کو پیدا کیا۔ پھر مستقل طور پر میاں، بیوی کارشتہ قائم فرمایا۔ اس رشتہ کے تین بنیادی تقاضے ہیں ان میں سے کوئی ایک بھی ناپید ہوجائے۔ تو ازدواجی زندگی بے لطف، بے قراری اور ناہمواری کا شکار ہوجاتی ہے 1 میاں بیوی کے درمیان پُر سکون ماحول ہونا چاہیے جو باہمی اتحاد اور اعتماد کے بغیر ممکن نہیں۔2 اتحاد اور سکون باہمی محبت کے بغیر قائم نہیں رہ سکتا۔ 3 باہمی محبت واحترام کے لیے لازم ہے کہ ایک دوسرے کیساتھ شفقت ومہربانی کا روّیہ اختیار کیا جائے جس کے نتیجہ میں ایک دوسرے کی کوتاہی کو معاف کیا جانا چاہیے۔ میاں، بیوی کا رشتہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کا نتیجہ ہے یہ جتنا بہتر ہوگا اتنا ہی اچھا اثر اولاد کی تربیت پر پڑے گا میاں بیوی معاشرے کا بنیادی یونٹ ہیں اس یونٹ کو مضبوط اور بہتر سے بہترین ہونا چاہیے۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے کہ تم میں وہ شخص بہتر ہے جو اپنے گھروالوں کے ساتھ بہتر سلوک کرتا ہے۔ میاں، بیوی کے رشتہ میں اللہ کی قدرت ملاحظہ فرمائیں کہ کتنے جوڑے ہیں جو نکاح سے پہلے ایک دوسرے کو جانتے تک نہ تھے بلکہ ان کے خاندان بھی ایک دوسرے کے واقف نہیں تھے۔ میاں، بیوی کا جوڑا صرف اللہ تعالیٰ کی قدرت کا کرشمہ ہے۔ اس لیے محاورہ ہے کہ ” رشتے زمین پر نہیں آسمانوں پر طے ہوتے ہیں۔“ جونہی میاں، بیوی کا رشتہ قائم ہوتا ہے دونوں خاندانوں میں بھائی چارہ اور میاں، بیوی کے درمیان اس قدر گہرا تعلق قائم ہوجاتا ہے کہ جو لڑکی والدین کے گھر سے باہر ایک رات رہنا بھی سوچ نہیں سکتی۔ رشتہ ازواج میں منسلک ہونے کے بعد والدین کے گھر آئے تو واپس جانے کے لیے بیتاب ہوتی ہے۔ جوں جوں اولاد ہوتی ہے توں توں والدین سے تعلق کم ہوتا چلا جاتا ہے یہ اللہ کی قدرت نہیں تو اور کیا ہے ؟ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے کہ اپنی بیویوں کی قدر کیا کرو کیونکہ ” اللہ“ کے حکم سے ان کا وجود اور عزت وناموس تمہارے لیے جائز قرارپایا ہے۔ ( عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ اَبِیْہِ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)۔۔ وَاسْتَحْلَلْتُمْ فُرُوجَہُنَّ بِکَلِمَۃِ اللَّہ۔۔) [ رواہ مسلم : باب حَجَّۃِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ] ” جعفر بن محمد اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حجۃ الوداع کے موقع پر خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا۔۔ اللہ کے حکم سے تمہاری بیویوں کی شرم گاہیں تمہارے لیے حلال قرار پائی ہیں۔۔“ (خَیْرُکُمْ خَیْرُکُمْ لِأَھْلِہٖ وَأَنَا خَیْرُکُمْ لِأَھْلِیْ) [ رواہ الترمذی : کتاب المناقب عن رسول اللہ] ” وہی شخص اعلیٰ اخلاق کا مالک ہے جو اپنے اہل خانہ کے لیے بہتر ہے اور میں تم سے اپنے گھر والوں کے بارے میں بہت بہتر ہوں۔“ (عَنْ حَکِیْمِ بْنِ مُعَاوِیَۃَ الْقُشَیْرِیِّ عَنْ أَبِیْہِ قَالَ قُلْتُ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ ! مَاحَقُّ زَوْجَۃِ أَحَدِنَا عَلَیْہِ قَالَ أَنْ تُطْعِمَھَاإِذَا طَعِمْتَ وَتَکْسُوَھَا إِذَا اکْتَسَیْتَ وَلَا تَضْرِبِ الْوَجْہَ وَلَا تُقَبِّحْ وَلَا تَھْجُرْ إِلَّا فِی الْبَیْتِ) [ رواہ أبو داوٗد : کتاب النکاح، باب فی حق المرأۃ علی زوجھا] ” حضرت حکیم بن معاویہ (رض) اپنے باپ سے بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا میں نے پوچھا اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ہم پر ہماری بیویوں کے کیا حقوق ہیں؟ آپ نے فرمایا : جب کھانا کھائے تو اسے بھی کھلائے جب کپڑے پہنے تو اسے بھی پہنائے منہ پر نہ مارے‘ نہ گالی دے اور اسے نہ چھوڑ مگر گھر میں۔“ مسائل ١۔ میاں، بیوی کا رشتہ ” اللہ“ کی قدرت کی نشانی ہے۔ ٢۔ میاں، بیوی کے درمیان محبت ومہربانی کا معاملہ ہونا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن میاں، بیوی کا تعلق اور حقوق : ١۔ میاں، بیوی آپس میں لباس کی حیثیت رکھتے ہیں۔ (البقرۃ: ١٨٧) ٢۔ بیوی نسل انسانی کا ذریعہ ہیں۔ (النساء : ١) ٣۔ بیوی سکون کا باعث ہے۔ (الروم : ٢١) ٤۔ بیوی خاوند کی نائب ہے اور خاوند گھر کا منتظم ہے۔ (النساء : ٣٤) ٥۔ بیوی کو بہترین طریقے سے رکھنا چاہیے اور اچھے طریقے سے چھوڑنا چاہیے۔ ( البقرۃ: ٢٣١) الروم
22 فہم القرآن ربط کلام : اللہ کی قدرت کی پانچویں اور چھٹی نشانی۔ اللہ تعالیٰ کی قدرت کی عظیم نشانیوں میں عظیم تر نشانیاں یہ ہیں کہ اس نے آسمانوں کو ٹھوس صورت میں پیدا کیا اور بغیر ستونوں کے ٹھہرایا اور آسمان دنیا کو ستاروں سے خوبصورت بنایا اور شہاب ثاقب کے ذریعے اس کی حفاظت فرمائی۔ آسمان کو اس طرح قائم دائم فرمایا ہے کہ آج تک نہ جھکا ہے اور نہ ہی کہیں سے اس میں دراڑ واقع ہوئی ہے۔ یہ قیامت تک جوں کا توں کھڑا اور لوگوں کو دکھائی دیتا رہے گا۔ زمین پر غور فرمائیں کہ اسے تہہ بہ تہہ سات زمینوں میں تقسیم کیا اور پوری کی پوری زمین پانی پر بچھائی اور ٹھہرائی ہے۔ زمین اپنی وسعت اور وجود کے اعتبار سے اتنی بھاری اور بوجھل ہے کہ اس کے بوجھ کا اندازہ نہیں کیا جا سکتا۔ پھر جمادات، نباتات، حیوانات، ٹھہرائے اور اس پر انسان بسائے لیکن اس کے باوجود کروڑوں سالوں سے پانی پر ٹھہری ہوئی ہے نہ کہیں سے دھنسی ہے اور نہ ہی اس میں کوئی دراڑ پیدا ہوئی ہے۔ اسی طرح غور فرمائیں کہ ایک ہی آب وہوا، ایک جیسی خوراک اور ایک ہی ملک میں رہنے والے لاکھوں، کروڑوں انسان ایک ہی جیسی زبان (TONGUE) اور آب وہوا رکھتے ہیں مگر بولیاں الگ الگ ہیں۔ اب تک دنیا میں تقریباً 6900 زبانیں بولی جاتی ہیں۔ ویب سائٹ کی معلومات کے مطابق اب تک 60 فی صد لوگ جو زبانیں بولتے ہیں۔ وہ تیس کے قریب ہیں۔ جن میں مشہوریہ زبانیں ہیں۔ دنیا میں مشہور زبانوں کے نام اور ان کے بولنے والوں کی تعداد : ١۔ چینی : 882 ملین ٢۔ ہسپانوی : 325 ملین ٣۔ انگریزی :-380 312 ملین ٤۔ عربی : 206-422 ملین ٥۔ ہندی : 181 ملین ٦۔ پُرتگالی : 178 ملین ٧۔ بنگالی : 173 ملین ٨۔ روسی : 146 ملین ٩۔ جاپانی : 128 ملین ١٠۔ جرمن : 96 ملین ١١۔ اردو بولنے والے اور سمجھنے والے تقریباً پچاس کروڑ سے زائد ہیں۔ الروم
23 فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ کی قدرت کی ساتویں اور آٹھویں نشانی۔ اللہ تعالیٰ کی قدرت کی نشانیاں بے شمار اور اَن گنت ہیں۔ لیکن اس کی قدرت کی کچھ ایسی نشانیاں اور نعمتیں ہیں جن سے استفادہ کیے بغیر کوئی آدمی رہ نہیں سکتا ان میں نیند بھی شامل ہے۔ نیک ہویا بد، چھوٹا ہو یا بڑا، کافر ہو یا مسلمان، نیند ایسی نعمت ہے جسے انسان کی جبلّت میں رکھ دیا گیا ہے۔ کوئی چاہے یا نہ چاہے، نیندکی آغوش میں جانا ہر ایک کی فطری ضرورت اور مجبوری ہے۔ اس فطری ضرورت میں انسان کی زندگی مضمر ہے۔ جوں ہی آدمی نیند کی آغوش میں جاتا ہے تو اس کی جسمانی تھکاوٹ دور ہوجاتی ہے یہاں تک کہ انسان کا غم بھی ہلکا ہوجاتا ہے۔ بالخصوص رات کی نیند انتہائی مفید بنا دی گئی ہے۔ اگر انسان کو دو، تین دن نیند نہ آئے تو اس کا وجود اکڑ جاتا ہے اور وہ چلنے، پھرنے یہاں تک کہ سوچنے، سمجھنے کے قابل نہیں رہتا۔ میڈیکل سائنس اس نتیجہ پر پہنچی ہے کہ سوتے وقت روشنی کی بجائے آدمی کو اندھیرے میں سونا چاہیے کیونکہ اندھیرے میں سونے سے نہ صرف نیند گہری آتی ہے بلکہ اس سے سکون میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ گہری اور پرسکون نیند کے ذریعے انسان کی دن بھر میں استعمال کی ہوئی انرجی بحال ہوجاتی ہے۔ اور تھکاماندہ انسان تازہ دم ہو کر صبح کو اپنے کام کے لیے نکل کھڑا ہوتا ہے۔ رات کی نیند کے بارے میں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان ہے کہ عشاء کی نماز کے بعد آدمی کو جلد سونا اور صبح جلد اٹھنا چاہیے۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ میڈیکل سائنس اس حقیقت تک پہنچ چکی ہے کہ پہلی رات کی نیند رات کے پچھلے پہر کی نیند سے کہیں بہتر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کی زندگی کو رات اور دن میں تقسیم کیا ہے۔ رات آرام اور سکون کے لیے ہے۔ دن کام اور دیگر مصروفیات کے لیے بنایا گیا ہے۔ جس میں انسان اپنے رب کا فضل تلاش کرتا ہے۔ فضل سے مراد خوراک اور دیگر وسائل ہیں۔ رات اور دن میں سے کسی ایک کا وجود نہ ہویا ان میں کوئی خلل واقع ہوجائے تو انسان ہی نہیں بلکہ پوری کائنات کا نظام ختم ہوجائے۔ جو لوگ اپنے رب کے ارشادات توجہ سے سنتے اور ان پر غور کرتے ہیں یقیناً وہ ہدایت پاتے ہیں۔ ” ابوبرزہ اسلمی (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عشاء کی نماز سے پہلے سونا اور بعد میں باتیں کرنے کو ناپسند کرتے تھے۔“ [ رواہ البخاری : باب مَا یُکْرَہُ مِنَ النَّوْمِ قَبْلَ الْعِشَاءِ] سونے کی دعا : نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سونے کے وقت بہت سی دعائیں ثابت ہیں یہاں صرف چند کا تذکرہ کیا جاتا ہے۔ ” حضرت ابو سعید (رض) نبی مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں جو شخص اپنے بستر پر لیٹتے ہوئے تین مرتبہ یہ کلمات کہتا ہے۔ ”أَسْتَغْفِرُ اللّٰہَ الْعَظِیمَ الَّذِی لَا إِلٰہَ إِلَّا ہُوَ الْحَیُّ الْقَیُّوْمُ وَأَتُوبُ إِلَیْہِ“ تو اللہ تعالیٰ اس کے گناہ معاف کردیتا ہے اگرچہ سمندر کی جھاگ کے برابر ہوں، اگرچہ درختوں کے پتوں کی تعداد کے برابر ہوں، بیشک صحرا کی ریت کے ذروں کے برابر بھی ہوں، اگرچہ دنیا کے دنوں کی تعداد کے برابر ہوں۔“ [ رواہ الترمذی : کتاب الدعوات] سونے کے آداب : 1 وضو کرنا۔2 بسم اللہ پڑھ کر بستر پر جانا۔3 لیٹنے سے پہلے بستر کو اچھی طرح جھاڑنا۔4 دائیں کروٹ لیٹنا۔5 دایاں ہاتھ دایاں رخسار کے نیچے رکھ کر قبلہ رخ لیٹنا۔6 مسنون دعائیں پڑھنا۔7 آیۃ الکرسی، سورۃ البقرۃ کی آخری دو آیات، سورۃ السجدہ اور سورۃ الملک کی تلاوت کرنا ٣٣ مرتبہ سبحان اللہ ٣٣ مرتبہ الحمد اللہ اور ٣٤ مرتبہ اللہ اکبر پڑھنا سنت نبوی ہے۔ اس کے بعد (اللَّہُمَّ باسْمِکَ أَمُوتُ وَأَحْیَا) [ رواہ البخاری : باب وَضْعِ الْیَدِ الْیُمْنَی تَحْتَ الْخَدِّ الأَیْمَنِ] ” اے اللہ میں تیرے نام سے ہی مرتا ہوں اور تیرے نام سے ہی جیتا ہوں۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ کی قدرتوں اور عظیم نعمتوں میں نیند بہت بڑی نعمت ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے رات آرام اور دن کام کاج کے لیے بنایا ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ کے ارشادات کو غور سے سننے والے ہی ہدایت پاتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن رات اور دن کے فائدے : ١۔ اللہ تعالیٰ نے رات کو باعث سکون اور دن کو کسب معاش کا ذریعہ بنایا ہے تاکہ اس کا شکریہ ادا کیا جائے۔ (القصص : ٧٣) ٢۔ اللہ وہ ذات ہے جس نے تمہارے لیے رات بنائی تاکہ تم سکون حاصل کرو۔ (یونس : ٦٧) ٣۔ اللہ کی رحمت کا نتیجہ ہے کہ اس نے تمہارے لیے دن اور رات بنائے تاکہ تم تسکین حاصل کرو۔ (القصص : ٨٢) ٤۔ اللہ تعالیٰ نے رات اور دن کو نشانیاں بنایا ہے۔ (بنی اسرائیل : ١٢) ٥۔ دن، رات، سورج اور چاند اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں۔ ( حٰم السجدۃ: ٣٧) الروم
24 فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ کی قدرت کی نویں، دسویں اور گیا رہویں نشانی۔ انسان کی زندگی اور اس کے رزق کا دارومدار پانی پر ہے اور پانی کا سب سے بڑا ذریعہ بارش ہے۔ اگر ایک مدّت تک بارش نہ ہو تو نہ صرف پہاڑوں میں پھوٹنے والے چشمے خشک ہوجاتے ہیں بلکہ زمین کا پانی بھی اتنا نیچے چلا جاتا ہے کہ اس کا حاصل کرنا لوگوں کے لیے ناممکن بن جاتا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کا کرشمہ ہے کہ سمندر سے بخارات اٹھتے ہیں۔ ہوائیں انہیں اٹھا کر فضا میں کہاں سے کہاں لے جاتی ہیں۔ بخارات بادلوں کی شکل اختیار کرتے ہیں۔ فرشتہ انہیں ہانک کر وہاں لے جاتا ہے جہاں اللہ تعالیٰ انہیں برسنے کا حکم صادر فرماتا ہے۔ بارش سے مردہ زمین زندہ ہوجاتی ہے اور اس کے سینے میں چھپے ہوئے بیج اس کی چھاتی پر لہلہانے لگتے ہیں جس میں عقل والوں کے لیے پہلا سبق یہ ہے کہ اسی طرح ہی اللہ تعالیٰ مردوں کو زندہ فرماکر اپنے حضور کھڑا کرے گا۔ اس آیت میں آسمانی بجلی کے بارے میں خوف اور امید کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں۔ جب آسمانی بجلی زمین پر گرتی ہے تو ہر چیز کو خاکستر کردیتی ہے۔ جب اوپر چڑھتی ہے تو اس کی آواز اس قدر گرج دار اور خوف ناک ہوتی ہے کہ سننے والوں کے کلیجے دھک دھک کرنے لگتے ہیں اور کئی فصلیں ایسی ہیں بالخصوص چنے کی فصل جو البرق کی چمک سے جل کرراکھ ہوجاتی ہے۔ جہاں زمین پر بجلی کے گرنے کے نقصانات ہیں وہاں اس کی وجہ سے ایسی گیسیں زمین پر اترتی ہیں جن کے بے شمار کیمیائی فوائدہو تے ہیں۔ بجلی کی گرج اور چمک سے خوف کے ساتھ ساتھ بارش برسنے کی امید اور بڑھ جاتی ہے۔ اس طرح اس میں امید اور خوف دونوں پائے جاتے ہیں۔ (عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ (رض) قَالَ أَقْبَلَتْ یَہُودٌ إِلَی النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَقَالُوْا یَآأَبَا الْقَاسِمِ أَخْبِرْنَا عَنِ الرَّعْدِ مَا ہُوَ قَالَ مَلَکٌ مِّنَ الْمَلاآءِکَۃِ مُوَکَّلٌ بالسَّحَابِ مَعَہٗ مَخَارِیْقُ مِنْ نَارٍ یَّسُوقُ بِہَا السَّحَابَ حَیْثُ شَآء اللّٰہُ فَقَالُوْا فَمَا ہٰذَا الصَّوْتُ الَّذِیْ نَسْمَعُ قَالَ زَجْرُہٗ بالسَّحَابِ إِذَا زَجَرَہٗ حَتّٰی یَنْتَہِیَ إِلٰی حَیْثُ أُمِرَ قَا لُوْا صَدَقْتَ )[ رواہ الترمذی : کتاب التفسیر، باب ومن سورۃ الرعد وہو حدیث صحیح ] ” حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ کچھ یہودی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے۔ انہوں نے کہا اے ابوالقاسم! ہمیں بجلی کی کڑک کے بارے میں بتائیں کہ یہ کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا فرشتوں میں سے ایک فرشتہ بادلوں پر مقرر ہے۔ اس کے پاس آگ کے کوڑے ہوتے ہیں۔ وہ ان کے ساتھ بادلوں کو ہانکتا ہے۔ اسے اللہ تعالیٰ جہاں لے جانے کا حکم دیتا ہے۔ انہوں نے کہا ان میں آواز کیا ہے جو ہم سنتے ہیں۔ آپ نے فرمایا فرشتہ بادلوں کو ہانکتا ہے یہاں تک کہ وہ اس جگہ پہنچ جاتے ہیں جہاں ان کو حکم دیا جاتا ہے۔ یہودیوں نے کہا آپ نے سچ فرمایا۔“ (وَ یُسَبِّحُ الرَّعْدُ بِحَمْدِہٖ وَ الْمَلآءِکَۃُ مِنْ خِیْفَتِہٖ) [ الرعد : ١٣] ” اور بجلی اس کی حمد کے ساتھ تسبیح بیان کرتی ہے اور فرشتے بھی اس کے خوف سے۔“ مسائل ١۔ آسمانی بجلی بھی اللہ تعالیٰ کی قدرت کا مظہر ہے۔ ٢۔ البرق میں خوف اور امید دونوں موجود ہوتے ہیں۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ ہی آسمانوں سے بارش برساتا ہے اور اس کے ساتھ مردہ زمین کو زندہ کرتا ہے۔ ٤۔ جس طرح ایک مدت کے بعد بارش کے ساتھ زمین سے بیج اگتے ہیں اسی طرح ہی قیامت کے دن مردوں کو زندہ کیا جائے گا۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ کی ہر قدرت میں عقل مندوں کے لیے نصیحت کا سبق موجود ہوتا ہے۔ تفسیربالقرآن بارش کا نزول اور اس کے فوائد : ١۔ زمین و آسمان بنانے اور بارش اتارنے والا ” اللہ“ ہے اس کے ساتھ کیا دوسرا الٰہ ہے ؟ (النمل : ٦٠) ٢۔ آسمانوں و زمین کی پیدائش، دن اور رات کی گردش، سمندر میں کشتیوں کے چلنے، آسمان سے بارش نازل ہونے، بارش سے زمین کو زندہ کرنے، چوپایوں کے پھیلنے، ہواؤں کے چلنے اور بادلوں کے مسخر ہونے میں ” اللہ“ کی قدرت کی نشانیاں ہیں۔ (البقرۃ : ١٦٤) ٣۔ قیامت، بارش کا نازل ہونا، اور جو کچھ رحموں میں ہے اور انسان کل کیا کمائے گا اور اسے کہاں موت آئے گی انہیں اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے۔ (لقمان : ٣٤) ٤۔ برق اپنے رب کی تسبیح پڑھتی ہے۔ ( الرعد : ١٣) الروم
25 فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ کی قدرت کی بارہویں نشانی۔ جس طرح اللہ تعالیٰ کی ذات عظیم المرتبت ہے اسی طرح اس کی قدرت اور کام عظیم اور عدیم المثال ہیں۔ زمین و آسمان پر غور فرمائیں کہ آسمان کسی سہارے کے بغیر قائم ہے اور قیامت تک قائم رہے گا۔ زمین پانی پر بچھائی گئی ہے۔ اس کے باوجود نہ اس میں جھول ہے اور نہ ہی کسی مقام سے پانی میں غرق ہوئی ہے۔ زمین و آسمان صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کے حکم سے قائم ہیں اور اس کے حکم ثانی تک قائم رہیں گے۔ قیامت کے دن زمین و آسمان کو بدل دیا جائے گا اور پھر اللہ تعالیٰ اسرافیل کو صور میں پھونک مارنے کا حکم دے گا۔ اسرافیل کے صور پھونکنے کے ساتھ ہی لوگ اپنے اپنے مدفن سے نکل کھڑے ہوں گے۔ کوئی اس کے حکم کی نافرمانی نہیں کر پائے گا۔ کیونکہ زمین و آسمانوں میں ہر چیز ” اللہ“ کی ملک اور اس کے تابع فرمان ہے۔ اسی نے مخلوق کو پہلی مرتبہ پیدا کیا اور وہی اس کو دوبارہ پیدا کرے گا۔ دوبارہ پیدا کرنا اس کے لیے بالکل آسان ہے۔ کیونکہ وہی زمین و آسمان پر غالب اور بلند وبالا ہے اس کے ہر کام اور حکم میں حکمت پنہاں ہوتی ہے۔ اس فرمان میں یہ واضح پیغام دیا گیا ہے کہ اے انسان غور کر کہ جس زمین پر تیرا ٹھکانہ ہے اور جس آسمان تلے تو زندگی گزارتا ہے وہ اور ان کی ہر چیز اپنے رب کی تابع فرمان ہے۔ مگر تو اس کی نافرمانی ہی نہیں بلکہ اس کے ساتھ شریک بنانے میں بھی شرم محسوس نہیں کرتا حالانکہ تو نے مر کر اپنے رب کے حضور حاضرہونا ہے۔ الروم
26 الروم
27 فہم القرآن ربط کلام : جس ذات کبریا کی مذکورہ بالا صفات اور قدرتیں ہیں اسی ذات اکبر نے پوری مخلوق کو ابتدا سے پیدا کیا ہے اور وہی دوبارہ پیدا کرنے والا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کی تخلیق، زمین و آسمان کی پیدائش، لیل ونہار کی گردش اور اپنی دوسری قدرتوں کا تذکرہ اور شمار کرنے کے بعد ارشاد فرمایا ہے کہ جس ذات نے یہ سب کچھ پیدا کیا اسی نے پوری مخلوق اور انسان کو پہلی دفعہ پیدا فرمایا اور وہی اسے دوبارہ زندہ کرنے کے بعد اپنے حضور حاضر کرے گا۔ مخلوق اور انسان کو دوبارہ پیدا کرنا اس کے لیے بالکل آسان کام ہے۔ وہ اپنی ذات اور تخلیق کے حوالے سے اعلیٰ اور بے مثال ہے۔ زمین و آسمانوں میں اس کی ذات اور صفات کی نہ کوئی مثال ہے اور نہ ہوگی وہ ہر اعتبار سے غلبہ رکھنے والا ہے اور اس کے ہر کام میں لا تعداد حکمتیں پائی جاتی ہیں۔ مخلوق کو دوبارہ پیدا کرنے کے بارے میں یہ بھی الفاظ استعمال فرمائے ہیں۔ کہ سوچو اور غور کرو کیا پہلی دفعہ مخلوق کو پیدا کرنا مشکل ہے یا دوسری مرتبہ۔ (العنکبوت : ١٩۔ ٢٠) ” اَلْعَزِیْزُ“ کی صفت لا کر اشارہ کیا کہ کوئی چھوٹا ہو یا بڑا، بادشاہ ہو یا فقیر، نیک ہو یا بد، ڈوب کر مرا ہو یا جل کر جس حالت میں مرا ہو۔ اللہ تعالیٰ غالب ہے کہ اسے دوبارہ زندہ کرے۔ دوبارہ پیدا کرنے میں ” اَلْحَکِیْمُ“ کی حکمت یہ ہے کہ وہ ظالم کو سزا دے اور نیک کو جزا دے۔ مسائل اللہ تعالیٰ نے اس رکوع میں کائنات کی تخلیق کے حوالے سے اپنی قدرت کی ١٦ نشانیوں کا ذکر کیا ہے۔ ١۔ ” اللہ“ ہی نے انسان کو مٹی سے پیدا کیا ہے۔ ٢۔ اسی نے لوگوں کو زمین پر پھیلایا اور بسایا ہے۔ ٣۔ ” اللہ“ ہی نے مردوں سے ان کی بیویوں کو پیدا کیا ہے۔ ٤۔ اسی نے میاں بیوی کے درمیان محبت اور مہربانی کا جذبہ پیدا فرمایا ہے۔ ٥۔ ” اللہ“ نے ہی زمین و آسمان کو پیدا کیا ہے۔ ٦۔ اسی نے لوگوں کی مختلف زبانیں اور رنگتیں بنائی ہیں۔ ٧۔ ” اللہ“ ہی نے رات کو باعث سکون بنایا ہے۔ ٨۔ اسی نے لوگوں کے لیے دن کو کام کاج کے لیے بنایا ہے۔ ٩۔ ” اللہ“ ہی آسمانی بجلی سے لوگوں کو خوف زدہ کرتا اور امید دلاتا ہے۔ ١٠۔ وہی آسمان سے بارش کے ذریعے مردہ زمین کو شاداب کرتا ہے۔ ١١۔ ” اللہ“ ہی زمین و آسمانوں کو قائم رکھے ہوئے ہے۔ ١٢۔ وہی لوگوں کو قیامت کے دن زمین سے نکلنے کا حکم دے گا اور لوگ اس کے حکم کے ساتھ ہی نکل کھڑے ہوں گے۔ ١٣۔ زمین و آسمان اسی کی ملک ہیں اور ہر چیز اس کے حکم کے تابع ہے۔ ١٤۔ ” اللہ“ ہی نے مخلوق کو پہلی مرتبہ پیدا کیا اور وہی اسے دوبارہ پیدا کرے گا۔ دوبارہ پیدا کرنا اس کے لیے بالکل آسان ہے۔ ١٥۔ اللہ تعالیٰ اپنی ذات، صفات اور تخلیق کے حوالے سے پوری کائنات میں اعلیٰ اور بے مثال ہے۔ ١٦۔ زمین و آسمان میں وہی سب پر غالب اور بڑا حکمت والا ہے۔ تفسیر بالقرآن ” اللہ“ اعلیٰ اور بے مثال ہے : ١۔ ” اللہ“ تعالیٰ ہی رب ہے۔ ( لانعام : ١٠٢) ٢۔ ” اللہ“ ہر چیز کا خالق ہے۔ ( الرعد : ١٦) ٣۔ ” اللہ“ ہی کی ذات ازلی اور ابدی ہے۔ (الحدید : ٣) ٤۔ مشرق ومغرب ” اللہ“ کے لیے ہے۔ (البقرۃ: ١٤٢) ٥۔ غنی ہے اور تعریف کیا گیا۔ ( فاطر : ٣٥) ٦۔ زمین و آسمان پر ” اللہ“ کی بادشاہی ہے۔ (آل عمران : ١٨٩) ٧۔ قیامت کو بھی اللہ تعالیٰ ہی کی حکومت ہوگی۔ (الفرقان : ٢٦) ٨۔ ” اللہ“ ہر چیز پر گواہ۔ ( البروج : ٩) ٩۔ جو کچھ آسمان و زمین میں ہے وہ ” اللہ“ کی ملکیت ہے اور ا ” اللہ“ ہر چیز پر قادر ہے۔ (آل عمران : ١٨٩) ١٠۔ کیا آپ نہیں جانتے ؟ کہ زمین و آسمان کی بادشاہت ” اللہ“ کے لیے ہے۔ (البقرۃ: ١٠٧) ١١۔ ” اللہ“ سخت عذاب دینے والا۔ ( البقرۃ: ١٦٥) ١٢۔ اس نے ہمیشہ رہنا اور باقی نے فنا ہوجانا ہے۔ (الرّحمن : ٢٦) ١٣۔ کوئی چیز اس کی مثل نہیں ہے وہ ہر بات سننے والا اور سب کچھ جاننے والا ہے۔ (الشوریٰ: ١١) الروم
28 فہم القرآن ربط کلام : پہلی آیات میں توحید کے ایسے دلائل دیے گئے ہیں جس سے ہر انسان کو واسطہ پڑتا ہے اور وہ ان چیزوں سے مستفید ہوتا ہے۔ اب انسان کے ضمیر کو بیدار کرنے کے لیے اس کی نفسانی کیفیت کا حوالہ دیا جاتا ہے۔ اے لوگو ! تمہارے لیے تمہارے نفس کی ایک کیفیت پیش کی جاتی ہے اس پر توجہ کرو اور اسے سمجھنے کے لیے اپنی عقل سے کام لو۔ وہ کیفیت اور مثال یہ ہے کہ جن غلاموں کے تم مالک ہو اور جو رزق اللہ تعالیٰ نے تمہیں عطا فرمایا ہے اس میں کیا تم اپنے زرخرید غلاموں کو برابر کے شریک کرنے کے لیے تیار ہو؟ تمہارے نفسوس کی کیفیت تو یہ ہے کہ تم اپنے مال میں غلاموں کی شراکت کے تصور سے اس طرح کانپتے ہو جس طرح تم پہلے سے وراثت میں شریک رشتہ داروں سے ڈرتے ہو۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کی فطرت میں خود داری اور آزادی پیدا کی ہے جس بناء پر انسان زیادہ سے زیادہ اختیارات چاہتا اور اپنے معاملات میں دوسروں کی شراکت اور عمل داری قبول نہیں کرتا۔ یہ تو انسان کی طبیعت کی کمزوری اور ضرورت ہے کہ اسے چاروناچار اپنے معاملات میں دوسروں کو شریک کرنا پڑتا ہے۔ اگر انسان تمام معاملات کو بلا شرکت غیرے چلانے کی صلاحیت رکھتا ہو تو وہ ایک لمحہ کے لیے بھی پسند نہیں کرتا کہ اس کے معاملات میں کوئی دخل اندازی کرے۔ اس کی طبیعت اور کیفیت کا حوالہ دینے کے بعد اسے احساس دلایا گیا ہے کہ اے انسان تو کمزور اور ضرورت مند ہونے کا باوجود اپنے محدود اور عارضی اختیارات میں کسی کی شرکت پسند نہیں کرتا۔ غور کر ! کہ اللہ تعالیٰ خالق، مالک اور بلاشرکت غیرے مخلوق کا بادشاہ ہے وہ کس طرح دوسرے کو گوارا کرسکتا ہے ؟ یہ مثال بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ لوگو! اس مثال پر انصاف کے ساتھ غور کرو کہ جن کو تم اللہ کے شریک بناتے ہو وہ کس طرح اللہ تعالیٰ کے شریک ہوسکتے ہیں اور اللہ تعالیٰ انہیں کس طرح گوارا کرسکتا ہے ؟ اللہ تعالیٰ مثال اور دلائل دے کر اپنی توحید سمجھاتا ہے تاکہ لوگ عقل وفکر کے ساتھ سمجھنے کی کوشش کریں۔ لیکن جو لوگ سمجھ سے کام نہیں لیتے وہ بغیر حقیقت جانے اپنے تصورّات، خواہشات اور مفادات کے پیچھے لگے ہوئے ہیں۔ ایسے لوگ جان بوجھ کر گمراہ ہوچکے ہیں اور عقل سے کام نہیں لیتے اگر یہ عقل سلیم سے کام لیں تو کبھی شرک کا ارتکاب نہ کریں۔ لیکن یہ حقیقت جاننے کے باوجود اسے سمجھنے کے لیے تیار نہیں۔ جس وجہ سے اللہ تعالیٰ انہیں ہدایت نہیں دیتا۔ مشرکین کا عقیدہ ہے کہ یہ بزرگ قیامت کے دن بھی ہماری مدد کریں گے حالانکہ قیامت کے دن ان کی کوئی بھی مدد نہیں کرسکے گا۔ یہ بات فہم القرآن کے کئی مقامات پر عرض ہوچکی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے کسی کو گمراہ کرنے کا صرف اتنا مفہوم ہے کہ جو شخص گمراہی کو پسند کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی رسّی دراز کردیتا ہے جس وجہ سے وہ گمراہی میں آگے ہی بڑھتا جاتا ہے۔ ایسے گمراہ کو کوئی ہدایت نہیں دے سکتا۔ مسائل ١۔ ہر انسان طبعی طور پر اپنے معاملات میں کسی کی شراکت اور دخل اندازی پسند نہیں کرتا۔ ٢۔ انسان عقل سلیم کے ساتھ سوچے تو کبھی شرک نہ کرے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ عقیدہ توحید اور حقائق کھول کھول کر بیان کرتا ہے تاکہ لوگ سمجھنے کی کوشش کریں۔ ٤۔ مشرک اور ظالم اپنی جہالت کی بنیاد پر اپنی خواہشات اور تصورّات کی پیروی کرتے ہیں۔ ٥۔ قیامت کے دن ظالموں کا کوئی مددگار نہیں ہوگا۔ الروم
29 الروم
30 فہم القرآن ربط کلام : اس سے پہلے ایک مثال کے ذریعے انسان کی فطرت کو بیدار کرتے ہوئے شرک سے نفرت دلائی اور عقیدہ توحید سمجھایا۔ اس آیت میں یہ باور کروایا ہے کہ توحید فطرت کی آواز ہے اور انسان کو اپنی حقیقی فطرت پر قائم رہنا چاہیے۔ حکم ہوا کہ اپنے آپ کو دین حنیف پر قائم رکھیں یہی فطرت ہے۔ اور اسی فطرت پر اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو پیدا کیا ہے۔ لیکن اکثر لوگ اس کا علم نہیں رکھتے۔” اللہ“ سے ڈرتے ہوئے اسی کی طرف متوجہ رہو اور نماز قائم کرو، اور مشرکین میں نہ ہوجاؤ۔ اہل علم نے ان الفاظ کے تین مفہوم بیان کیے ہیں۔ 1 مشرکین میں نہ ہوجاؤ کا تعلق نماز سے نہیں دونوں حکم الگ، الگ ہیں۔2 نماز قائم کرو یعنی اخلاص سے نماز پڑھو اور ریاکاری سے بچو کیونکہ ریا کاری کرنا شرک ہے۔3 جنہوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا ان مشرکین میں نہ ہوجاؤ۔ اللہ تعالیٰ سے ڈرنے کا عملی ثبوت نماز ہے جس کے بارے میں پہلے پارے میں ارشاد ہوا کہ ” نماز قائم کرنا مشکل کام ہے سوائے ان لوگوں کے ہے جو ڈرنے والے ہیں“ (البقرہ : ٤٥) ” اَلدِّیْنُ“ سے پہلی مراد اللہ کی توحید ہے اس کی اشاعت اور تقاضے پورے کرنے پر پوری توجہ مرکوز رکھیں۔ اللہ تعالیٰ نے اسی پر لوگوں کو پیدا کیا ہے اگر عقیدہ توحید ٹھیک ہوا۔ اور اس کے تقاضے پورے ہوئے تو سارے کا سارا دین اور نظام ٹھیک رہے گا ” اَلدِّیْنُ“ سے دوسری مراد پورا دین ہے یعنی پورے کے پورے دین پر قائم رہیں اور اسے قائم کرو۔ دین ٹھوس دلائل پر قائم ہے اس میں کسی قسم کی تبدیلی کی کوئی گنجائش نہیں یہ ہر اعتبار سے کامل اور اکمل ہے دین کی بنیاد توحید ہے۔ اس میں ذرا سی کھوٹ پیدا ہوگئی تو سارے کا سارا دین مسترد کردیا جائے گا۔ اس کا اوّلین تقاضا ہے کہ اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہوئے اسی کی اطاعت کا پورا خیال رکھیں۔ جس کا دوسرا تقاضا ہے کہ نماز قائم کی جائے اور تیسرا تقاضا زکوٰۃ کی ادائیگی کا اہتمام کرنا ہے۔ اور کسی صورت بھی عقیدہ وعمل میں مشرکوں کے ساتھ نہیں ملنا۔ بعض مفکرین کا خیال ہے کہ انسان نے رفتہ رفتہ اپنے رب کو پہچانا ہے حالانکہ قرآن مجید کا واضح ارشاد ہے کہ ” توحید انسانی فطرت کی آواز ہے اور اسی پر انسان کو پیدا کیا گیا ہے“ (الاعراف : ١٧٢ تا ١٧٤) (عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ أَخَذَ اللّٰہُ الْمِیثَاقَ مِنْ ظَہْرِ آدَمَ بِنَعْمَانَ یَعْنِی عَرَفَۃَ فَأَخْرَجَ مِنْ صُلْبِہٖ کُلَّ ذُرِّیَّۃٍ ذَرَأَہَا فَنَثَرَہُمْ بَیْنَ یَدَیْہٖ کَالذُّرِّ ثُمَّ کَلَّمَہُمْ قُبُلًا قَالَ أَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ قَالُوا بَلٰی شَہِدْنَا أَنْ تَقُولُوا یَوْمَ الْقِیَامَۃِ إِنَّا کُنَّا عَنْ ہَذَا غَافِلِینَ أَوْ تَقُولُوا إِنَّمَا أَشْرَکَ آبَاؤُنَا مِنْ قَبْلُ وَکُنَّا ذُرِّیَّۃً مِنْ بَعْدِہِمْ أَفَتُہْلِکُنَا بِمَا فَعَلَ الْمُبْطِلُونَ )[ رواہ احمد : مسند عبداللہ بن عباس] ” حضرت عبداللہ بن عباس (رض) نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے عرفہ کے مقام پر آدم (علیہ السلام) کی پشت سے اس کی تمام اولاد نکالی۔ انھیں اپنے سامنے چیونٹیوں کی طرح پھیلایا پھر ان سے کلام فرمایا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں ؟ انہوں نے کہا کیوں نہیں ہم اس کی گواہی دیتے ہیں۔ ارشاد فرمایا کہ کہیں قیامت کے دن یہ نہ کہنا کہ ہم تو اس سے بے خبر تھے یا تم کہو کہ شرک تو ہمارے آباؤ اجداد نے کیا تھا اور ہم ان کی اولاد تھے۔ کیا تو ہمیں باطل کام کرنے والوں کی وجہ سے ہلاک کرتا ہے۔“ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ قَالَ قَال النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کُلُّ مَوْلُودٍ یُولَدُ عَلَی الْفِطْرَۃِ فَأَبَوَاہُ یُہَوِّدَانِہٖ أَوْ یُنَصِّرَانِہٖ أَوْ یُمَجِّسَانِہٖ کَمَثَلِ الْبَہِیمَۃِ تُنْتَجُ الْبَہِیمَۃَ ہَلْ تَرٰی فیہَا جَدْعَاءَ) [ رواہ البخاری : باب ماقیل فی أولاد المشرکین] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہر نو مولود فطرت اسلام پر پیدا ہوتا ہے اس کے والدین اسے یہودی، عیسائی یا مجوسی بنا دیتے ہیں۔ جس طرح جانور کسی کو جنم دیتا ہے تو کیا تم ان میں کسی کو مقطوع الاعضا پاتے ہو؟“ ” حضرت ابو سعید خدری (رض) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں کہ جنت والے جنت اور جہنم والے جہنم میں داخل ہوجائیں گے پھر اللہ تعالیٰ فرمائیں گے ہر اس آدمی کو آگ سے نکال لیا جائے جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان ہے۔ فرشتے آگ سے لوگوں کو نکالیں گے جو جل کر سیاہ ہوچکے ہوں گے۔ انہیں نہر حیات میں غسل دیا جائے گا وہ ایسے نمو پائیں گے جس طرح سیلاب کے کنارے دانہ اگتا ہے۔“ [ رواہ البخاری : کتاب الایمان، باب تفاضل أھل الإیمان فی الأعمال] نماز کی فضیلت : ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب کبیرہ گناہ کا ارتکاب نہ کیا جائے تو پانچ نمازیں اور جمعہ سے جمعہ گناہوں کا کفارہ بن جاتا ہے۔“ [ رواہ مسلم : باب الصلواۃ الخمس والجمعۃ۔۔] ” عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ (رض) أَنَّ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بَعَثَ مُعَاذًا (رض) إِلَی الْیَمَنِ فَقَالَ اُدْعُھُمْ إِلٰی شَھَادَۃِ أَنْ لَّاإِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَأَنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ فَإِنْ ھُمْ أَطَاعُوْا لِذٰلِکَ فَأَعْلِمْھُمْ أَنَّ اللّٰہَ قَدِ افْتَرَضَ عَلَیْھِمْ خَمْسَ صَلَوَاتٍ فِیْ کُلِّ یَوْمٍ وَّلَیْلَۃٍ فَإِنْ ھُمْ أَطَاعُوْا لِذٰلِکَ فَأَعْلِمْھُمْ أَنَّ اللّٰہَ افْتَرَضَ عَلَیْھِمْ صَدَقَۃً فِیْ أَمْوَالِھِمْ تُؤْخَذُ مِنْ أَغْنِیَاءِھِمْ وَتُرَدُّ عَلٰی فُقَرَاءِھِمْ) [ رواہ البخاری : کتاب الزکوٰۃ، باب وجوب الزکوٰۃ] ” حضرت عبداللہ بن عباس (رض) بیان کرتے ہیں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت معاذ (رض) کو یمن کی طرف بھیجتے ہوئے فرمایا کہ یمن والوں کو سمجھاؤ وہ گواہی دیں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں اور یقیناً میں اللہ کا رسول ہوں اگر وہ آپ کی بات مان لیں تو انہیں بتلاؤ کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر دن رات میں پانچ نمازیں فرض کی ہیں اگر وہ اس کو بھی مان لیں تو انہیں بتاؤ کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر ان کے اموال میں زکوٰۃ فرض کی ہے جو ان کے امیروں سے لے کر ان کے غریبوں میں تقسیم کی جائے گی۔“ مسائل ١۔ ہر حال میں اپنے آپ کو عقیدہ توحید پر قائم رکھیں۔ ٢۔ ہر حال میں دین حنیف پر قائم رہیں۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو دین حنیف پر پیدا کیا ہے۔ ٤۔ اللہ کے دین میں تبدیلی کی کوئی گنجائش نہیں۔ ٥۔ دین حنیف ٹھوس دلائل پر قائم ہے۔ ٦۔ لوگوں کی اکثریت عقیدہ توحید اور دین حنیف سے لابلد ہے۔ ٧۔ ” اللہ“ سے ڈرتے رہیں نماز قائم کریں اور زکوٰۃ دیتے رہیں۔ ٨۔ مسلمان کو مشرکوں سے نہیں ہونا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن ” اَلدِّیْنُ“ کی اہمیت اور اس کے معانی۔ ١۔ دین سے مرادجزاو سزا کا دن ہے۔ (الفاتحۃ: ٤) ٢۔ دین کا معنٰی شریعت ہے۔ (النساء : ١٢٥) ٣۔ دین کا معنٰی قانون ہے۔ (یوسف : ٧٦) ٤۔ عبادت کا نام دین ہے۔ (الزمر : ٣) ٥۔ دین کا معنٰی روزِقیامت۔ (الذٰریات : ١٢، الانفطار : ١٥، ١٧، ١٨) ٦۔ دین کا معنٰی فرمانبرداری۔ (المومن : ١٤) ٧۔ الدین بمعنٰی نظام حکومت۔ (المومن : ٢٥) ٨۔ الدین بمعنٰی دین۔ (التوبۃ: ٢٩) ٩۔ الدین کا معنٰی تابع بنانا اور تابع ہونا ہے۔ (البقرۃ: ١٣١) الروم
31 الروم
32 فہم القرآن ربط کلام : ” اَلدِّیْنُ“ ایک تھا لیکن لوگوں نے ” اَلدِّیْنُ“ کو تقسیم کیا اور فرقہ واریّت میں مبتلا ہوگئے۔ عقیدہ توحید وحدت فکر دیتا ہے۔ اس کا مختصر مفہوم یہ ہے کہ جس طرح تمہارا الٰہ ایک ہے اسی طرح تمہیں بھی ایک ہونا چاہیے یہی پورے دین کی فکر ہے۔ لیکن جن لوگوں نے عقیدہ توحید میں ملاوٹ کی اور ” اَلدِّیْنُ“ کو ٹکڑے ٹکڑے کیا اور گروہ بندی کا شکار ہوگئے۔ توحید میں شرک کی آمیزش کرنے اور الدّین کو ٹکڑوں میں تقسیم کرنے کی وجہ سے لوگ توحید کی وحدت اور ” اَلدِّیْنُ“ سے دور ہوئے۔ انہیں اس پر افسوس کی بجائے اپنی گروہ بندی پر فخر ہے اور اسی کو اصل دین سمجھتے ہیں ہر کوئی اس پر شاداں اور فرحاں دکھائی دیتا ہے۔ (عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ قَالَ کُنَّا عِنْدَ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَخَطَّ خَطًّا وَخَطَّ خَطَّیْنِ عَنْ یَّمِینِہٖ وَخَطَّ خَطَّیْنِ عَنْ یَّسَارِہٖ ثُمَّ وَضَعَ یَدَہٗ فِی الْخَطِّ الْأَوْسَطِ فَقَالَ ہَذَا سَبِیل اللّٰہِ ثُمَّ تَلَا ہٰذِہِ الْآیَۃَ (وَأَنَّ ہٰذَا صِرَاطِیْ مُسْتَقِیْمًا فَاتَّبِعُوْہُ وَلَا تَتَّبِعُوْا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِکُمْ عَنْ سَبِیْلِہٖ) [ رواہ ابن ماجۃ: باب اتباع سنۃ ] ” حضرت جا بر بن عبداللہ (رض) بیان کرتے ہیں ہم نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پس تھے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک سیدھی لکیر کھینچی پھر اس کے دائیں اور بائیں مختلف لکیریں کھینچی پھر آپ نے اپنا دست مبارک درمیان کی لکیر پر رکھتے ہوئے فرمایا یہ اللہ تعالیٰ کا راستہ ہے اور یہ آیت مبارکہ تلاوت فرمائی (وَأَنَّ ہٰذَا صِرَاطِیْ مُسْتَقِیْمًا فَاتَّبِعُوْہُ وَلَا تَتَّبِعُوْا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِکُمْ عَنْ سَبِیْلِہٖ) “ ” حضرت عوف بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا یہودی اکہتر فرقوں میں تقسیم ہوئے۔ ان کے ستر فرقے جہنم میں جائیں گے اور ایک جنّت میں جائے گا۔ عیسائی بہتر فرقوں میں بٹ گئے۔ ان کے اکہتر جہنم میں جائیں گے اور ایک جنت میں داخل ہوگا۔ قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جان ہے میری امت تہتر فرقوں میں بٹ جائے گی ان میں سے بہتر جہنمی ہوں گے اور ایک جنتّی ہوگا۔ صحابہ نے عرض کی جنت میں جانے والے کون ہیں ؟ آپ نے فرمایا جو میرے اور میرے صحابہ کے طریقہ پر چلنے والے ہیں۔“ [ رواہ ابن ماجۃ: باب افْتِرَاقِ الأُمَم] (یَآ أَیُّھَا النَّاسُ !أَلَآ إِنَّ رَبَّکُمْ وَاحِدٌ وَإِنَّ أَبَاکُمْ وَاحِدٌ أَلَا لَا فَضْلَ لِعَرَبِیٍّ عَلٰی أَعْجَمِیٍّ وَلَا لِاَعْجَمِیٍّ عَلٰی عَرَبِیٍّ وَلَا لِأَحْمَرَ عَلآی أَسْوَدَ وَلَا لِاَسْوَدَ عَلٰی أَحْمَرَ إِلَّا بالتَّقْوٰی) [ مسند أحمد : کتاب مسند الأنصار، باب حدیث رجل من أصحاب النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ] ” اے لوگو! خبردار یقیناً تمہارا رب ایک ہے اور تمہارا باپ بھی ایک ہے۔ خبردار! کسی عربی کو عجمی پر اور کسی عجمی کو عربی پر، سرخ کو کالے پر اور کالے کو سرخ پر تقویٰ کے سوا کوئی فضیلت حاصل نہیں۔“ ” حضرت مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ انہیں یہ حدیث پہنچی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میں تم میں دوچیزیں چھوڑے جارہا ہوں جب تک ان کو مضبوطی کے ساتھ تھا مے رکھو گے کبھی گمراہ نہیں ہو گے۔ ایک اللہ کی کتاب اور دوسری اس کے نبی کی سنت۔“ [ موطا امام مالک : باب النَّہْیِ عَنِ الْقَوْلِ بالْقَدَرِ] سب سے پہلے امت میں افتراق اور دین میں اختلاف جھوٹی نبوت کے دعویدار مسیلمہ کذاب نے پیدا کرنے کی کوشش کی۔ کیونکہ اس کا امت کے ساتھ کوئی ناطہ نہ تھا اور صحابہ کرام (رض) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے تربیت یافتہ تھے۔ اس لیے انہوں نے نہ صرف فکری طور پر اس فتنے کا تدراک کیا بلکہ قتال فی سبیل اللہ کے ذریعے اس کا قلع قمع کردیا۔ اس کے بعد حضرت علی (رض) کے دور میں خارجی فرقہ پیدا ہوا۔ حضرت علی (رض) نے ان کا مقابلہ کیا جس بنا پر یہ فتنہ زیادہ مدت تک نہ چل سکا۔ اس کے بعد علاقائی طور پر خلق قرآن اور جبری طلاق جیسے فتنے پیدا ہوئے۔ مگر اس دور کے آئمہ کرام نے ان فتنوں کو دبا دیا۔ اس دوران سیاسی اختلافات رونما ہوئے اور خلافت راشدہ کئی حصوں میں تقسیم ہوئی۔ مگر اعتقادی اور فکری اعتبار سے امت چار سو سال متحد رہی۔ حضرت شاہ ولی اللہ (رض) اور دیگر اہل علم کی تحقیق کے مطابق چوتھی صدی ہجری کے آخر میں امت فکری طور پر چار حصوں میں تقسیم ہوئی۔ آئمہ کرام کے نام پر مستقل طور پر چار فرقے معرض وجود میں آئے۔ جو حنفی، مالکی، حنبلی اور شافعی کہلائے۔ اور پاکستان میں حنفی کہلوانے والے حضرات قادری، سہروردی، نقشبندی، چشتی اور دیوبندی کہلوانے پر فخر محسوس کرتے ہیں۔ اس فرقہ واریت کے باوجود ہر دور میں ایک جماعت توحید وسنت پر قائم رہی اور وہ قیامت تک قائم رہے گی۔ مسائل ١۔ جن لوگوں نے شرک کیا وہ فرقہ فرقہ ہوگئے۔ ٢۔ ہر گروہ اپنی رسومات اور فقہ پر خوش ہے۔ تفسیر بالقرآن اتحاد کا حکم : ١۔ اتحاد اللہ کی عظیم نعمت ہے۔ (آل عمران : ١٠٣) ٢۔ اتحاد اللہ کی توفیق کا نتیجہ ہے۔ (الانفال : ٦٣) ٣۔ باہمی اختلاف اللہ کا عذاب ہوتا ہے۔ (الانعام : ٦٥) ٤۔ کتاب اللہ کارشتہ نہ ٹوٹنے والا ہے۔ (البقرۃ: ٢٥٦) ٥۔ اللہ کی رسی کو مضبوطی کے ساتھ پکڑ لو اور فرقوں میں نہ بٹو۔ (آل عمران : ١٠٣) الروم
33 فہم القرآن ربط کلام : جو لوگ مفاد اور تعصبات کی خاطر دین کو ٹکڑے ٹکڑے کرتے اور اس پر خوش ہوتے ہیں ان کی حالت یہ ہوتی ہے کہ انہیں معمولی تکلیف پہنچے تو وہ مخلص ہو کر اپنے رب کو پکارتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی بات ماننے کے دل میں وعدے بھی کرتے ہیں۔ ایک رب کو ماننا اور ہر حال میں اسی کو پکارنا ہی انسان کی فطرت ہے اور ہونی چاہیے۔ اکثر انسانوں کی فطرت ہے کہ جب انہیں کوئی تکلیف پہنچتی تو اپنے رب کی طرف رجوع کرتے ہیں اور گڑگڑا کر دعائیں کرتے ہیں کہ الٰہی میری مشکل حل فرما اور مجھے اس تکلیف سے نجات دے دے۔ جب تکلیف رفع ہوجاتی ہے تو اپنے رب سے اس طرح لاتعلق ہوجاتے ہیں جیسے انہوں نے اپنے رب کو پکارا ہی نہیں تھا۔ ان میں سے جو لوگ مشرکانہ عقیدہ رکھتے ہیں انکی حالت اس سے بھی بدتر ہوتی ہے وہ نہ صرف اپنے رب کو بھول جاتے ہیں بلکہ اس کے ساتھ دوسروں کو شریک بھی کرتے ہیں۔ پہلے زمانے کے مشرک اکثر ایسا کیا کرتے تھے۔ لیکن آج کلمہ پڑھنے والے بہت سے مشرکوں کا حال یہ ہے کہ انتہائی تکلیف کے وقت بھی اپنے رب کے ساتھ دوسروں کو شریک کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو سمجھایا جائے تو اوٹ پٹانگ باتیں بناتے ہیں۔ ان کی باتیں بحث برائے بحث کے سوا کچھ نہیں ہوتیں کیونکہ ان کے پیچھے کوئی معقول دلیل نہیں ہوتی۔ اللہ تعالیٰ نے مشرکوں کے اس شرک کو کفر قرار دیتے ہوئے انتباہ کیا ہے کہ جو کچھ ہم نے تمہیں مہلت اور فائدہ دے رکھا ہے اس سے فائدہ اٹھالو۔ اور بہت جلد تمہیں اپنے کفرو شرک کے انجام کا علم ہوجائے گا۔ آخر میں سوالیہ انداز میں فرمایا ہے کہ کیا ہم نے شرک کی کوئی دلیل نازل کی ہے کہ جس کے ساتھ مشرک اپنے شرک کے بارے میں بحث وتکرار کرتے ہیں۔ ظاہر بات ہے کہ اللہ تعالیٰ نے شرک کی حمایت اور تائید میں کوئی دلیل نازل نہیں۔ لہٰذا مشرک خواہ مخواہ حجت بازی کرتے ہیں۔ نہ صرف شرک کرتا ہے بلکہ بلا دلیل اپنے شرک کے بارے میں اصرار اور تکرار کرتا ہے۔ مسائل ١۔ انسان مصیبت کے وقت اپنے رب کی طرف رجوع کرتا ہے۔ ٢۔ اکثر لوگ مصیبت ٹل جانے کے بعد اپنے رب کے ساتھ شرک کرتے ہیں۔ ٣۔ کفرو شرک کرنے والوں کو بہت جلد ان کے انجام کا علم ہوجائے گا۔ ٤۔ مشرک کے پاس شرک کرنے کی معقول دلیل نہیں ہوتی۔ تفسیر بالقرآن شرک کی کوئی دلیل نہیں لیکن مشرک پھر بھی شرک کرتے ہیں : ١۔ جو اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی غیر کو پکارتا ہے اس کے پاس کوئی دلیل نہیں ہے۔ (المؤمنون : ١١٧) ٢۔ انہوں نے اللہ کے علاوہ کئی معبود بنالیے ہیں آپ فرمائیں کوئی دلیل لاؤ۔ (الانبیاء : ٢٤) ٣۔ اس کے سوا کوئی اور بھی الٰہ ہے کوئی دلیل لاؤ اگر تم سچے ہو۔ (النمل : ٦٤) ٤۔ اے لوگو! تمہارے پاس رب کی طرف سے دلیل آچکی ہے۔ (النساء : ١٧٥) ٥۔ وہ اللہ کے سوا ان کی عبادت کرتے ہیں جن کی عبادت کے لیے کوئی دلیل نازل نہیں کی گئی۔ (الحج : ٧١) ٦۔ تم اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک ٹھہراتے ہوئے نہیں ڈرتے جس کی اللہ نے کوئی دلیل نازل نہیں کی۔ (الانعام : ٨١) ٨۔ بتوں کے الٰہ ہونے کی کوئی دلیل نہیں۔ (النجم : ٢٣) الروم
34 الروم
35 الروم
36 فہم القرآن ربط کلام : جورب انسان خوشی سے سرفراز اور غم سے دوچار کرتا ہے وہی اس کے رزق پر اختیار رکھتا ہے۔ انسان ان باتوں پر غور کرے تو وہ اپنے رب کے ساتھ شرک کرنے سے باز آجائے۔ اکثر لوگوں کی یہ بھی عادت ہوتی ہے کہ انہیں کسی معاملے میں اللہ تعالیٰ خود کفیل کرتا ہے تو وہ اس کا شکر ادا کرنے کی بجائے اترانے لگتے ہیں اگر انہیں کسی غلطی یا کمزوری کی وجہ سے تکلیف پہنچتی ہے تو اپنے رب کی رحمت سے مایوس ہوجاتے ہیں بالخصوص رزق کے معاملے میں اکثر لوگوں کا یہی وطیرہ ہوتا ہے کہ مال کی فراوانی ہو تو اتراتے ہیں اور مال اللہ کی نافرمانی کے کاموں پر خرچ کرتے ہیں۔ انہیں سمجھایا جائے تو ان کے روّیے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ مال کے نشے میں اپنے آپ سے باہر ہوئے جا رہے ہیں۔ کاروبار میں نقصان ہو تو ان کی بے بسی دیکھنے والی ہوتی ہے اور اکثر دفعہ ایسی گفتگو کرتے ہیں کہ سننے والا محسوس کرتا ہے کی یہ اپنے رب کی رحمت سے مایوس ہوچکا ہے۔ حالانکہ جو رب تکلیف کے بعد راحت دینے والا ہے وہی رزق کو کشادہ اور کم کرنے والا ہے۔ رزق کا معاملہ چلنے والی ٹریفک کے مانند ہوتا ہے جس میں کبھی تیزی آتی ہے اور کبھی ٹھہراؤ آجاتا ہے۔ اس لیے انسان کو ہر حال میں اپنے رب سے تعلق مضبوط رکھنا چاہیے یہی مسلمان کی شان ہے۔ کیونکہ تکلیف کے بعد سہولت اور سہولت کے بعد تکلیف، کشادگی کے بعد تنگی اور تنگی کے بعد کشادگی۔ اللہ تعالیٰ کی حکمت کے تحت عمل میں آتی ہے۔ ایمان دار لوگ اس حکمت سے نصیحت حاصل کرتے ہیں اور اپنے رب کے اور قریب ہوجاتے ہیں۔ جہاں تک رزق کے بڑھنے اور کم ہونے کا معاملہ ہے دنیا میں کوئی ایسا انسان ہوا ہے اور نہ ہوگا جسے ایک ہی مقدار اور رفتار کے ساتھ رزق مل رہاہو۔ اگر کوئی زمیندار ہے تو بے شک وہ کتنی ہی محنت اور فصل کی نگرانی کرلے۔ ہر سال اس کی فصل ایک جیسی نہیں ہوتی۔ اگر کوئی کاروباری آدمی ہے اور بے شک وہ ارب پتی ہی کیوں نہ ہو۔ اس کے کاروبار میں بھی اتارچڑھاؤ آتا رہتا ہے۔ حالانکہ کاروباری آدمی کی ہر وقت سوچ اور کوشش ہوتی ہے کہ اس کے کاروبار میں نقصان کی بجائے منافع ہی ہوتا چلا جائے۔ اسی طرح ایک مزدور اور غریب آدمی کے ساتھ بھی یہی معاملہ رہتا ہے کہ کبھی وہ اس قدر تنگ دست ہوجاتا ہے کہ پیٹ پالنے کے لیے مزدوری بھی حاصل نہیں ہوتی اور کبھی مسلسل مزدوری ملنے کی وجہ سے وہ اپنے آپ کو ایک حد تک آسودہ دیکھتا ہے۔ رزق میں کمی بیشی ہوتی رہتی ہے اور بعض دفعہ انسان کو معلوم نہیں ہوتا کہ میرے رزق میں کمی بیشی کا سبب کیا ہے۔ امیر ہویا غریب اسے ہر حال میں یہ سوچنا اور عقیدہ اپنانا چاہیے کہ رزق کی کمی، بیشی اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کے اختیار میں نہیں۔ وہی ایک ذات ہے جو ہر کسی کے رزق میں کمی بیشی کرتی ہے۔ اسی عقیدہ کے پیش نظر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ دعا کیا کرتے تھے : ( قُلِ اللَّہُمَّ اکْفِنِیْ بِحَلاَلِکَ عَنْ حَرَامِکَ وَأَغْنِنِیْ بِفَضْلِکَ عَمَّنْ سِوَاکَ) [ رواہ الترمذی : باب فی دعاء النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ] ” الٰہی مجھے ہمیشہ حرام سے بچا کر حلال کے ساتھ میری ضرورتیں پوری فرما اور مجھے اپنے خاص فضل کے ساتھ اپنے سوا دوسروں سے بے نیاز کردے۔“ مسائل ١۔ اکثر لوگ سہولت کے وقت اتراتے ہیں اور تکلیف کے وقت مایوس ہوجاتے ہیں۔ ٢۔ اللہ ہی رزق کشادہ اور کم کرتا ہے۔ تفسیر بالقرآن انسان کی مختلف حالتیں : ١۔ انسان ناشکرا ہے۔ ( العادیات : ٦) ٢۔ انسان جلد باز ہے۔ ( بنی اسرائیل : ١١) ٣۔ اگر انسان کو اللہ رحمت دے کر چھین لے تو یہ مایوس اور ناشکرا ہوجاتا ہے۔ (ہود : ٩) ٤۔ اللہ تعالیٰ نے جو تمہیں دیا ہے اس پر نہ اتراؤ کیونکہ اللہ فخر کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ (الحدید : ٢٣) ٥۔ جب انسان کو تکلیف پہنچتی ہے تو اپنے رب کو پکارتا ہے اور دل سے اس کی طرف رجوع کرتا ہے۔ جب اس کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی نعمت ملتی ہے تو اسے بھول جاتا ہے۔ (الزمر : ٨) الروم
37 الروم
38 فہم القرآن ربط کلام : رزق کی کمی، بیشی کا سبب بیان کرنے کے بعد مال داروں کو مال کے معاملہ میں ان کے فرض سے آگاہ کیا جاتا ہے۔ قرآن مجید بات سے بات نکال کر انسان کی تربیت کا اہتمام کرتا ہے۔ پچھلی آیت میں رزق کی کشادگی اور تنگی کا ذکر ہوا ہے۔ اب ارشاد ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ جسے رزق کی کشادگی سے نوازے اس کا فرض بنتا ہے کہ اللہ کے دئیے ہوئے مال سے لوگوں پر خرچ کرے یہ اس کا غریبوں پر احسان نہیں بلکہ یہ غریبوں کا حق ہے مال دار جو اللہ تعالیٰ کے دئیے ہوئے مال سے لٹاتا ہے۔ مال دار اپنی مرضی سے نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق خرچ کرے جس کی ترتیب یہ بیان فرمائی ہے کہ پہلے قریبی لوگوں سے ابتدا کرے۔ اس کے ساتھ حکم دیا کہ اللہ کی رضا اور اس کے حکم کے مطابق خرچ ہونا چاہیے یقیناً ان لوگوں کے لیے بہتر ہے جو کسی پر احسان جتلانے یا نمودونمائش کے لیے خرچ نہیں کرتے بلکہ محض اللہ کی خوشنودی کے لیے خرچ کرتے ہیں یہی لوگ فلاح پائیں گے۔ دنیا میں ان کے لیے غریبوں کی دعائیں اور اللہ تعالیٰ کی رحمت ہے اس سے مال میں برکت اور معاشرہ میں اخوت وہمدردی پیدا ہوتی ہے اور آخرت میں جنت عطا ہوگی۔ (عَنْ اَبِیْ الدَرْدَآءِ یَقُوْلُ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَقُوْلُ اِبْغُوْنِیْ الضُّعَفَآءَ فَاِنَّمَا تُرْزَقُوْنَ وَتُنْصَرُوْنَ بِضُعَفَاءِکُمْ) [ رواہ ابوداؤ: باب فی الانتصار برذل الخیل والضعفۃ] ” ابودرداء (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے ہوئے سنا آپ نے فرمایا مجھے بھی اپنے کمزوروں میں شمار کرو کیونکہ تمہاری مدد اور تمہیں رزق تمہارے کمزوروں کی وجہ سے دیا جاتا ہے۔“ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَال النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) السَّاعِیْ عَلَی الْأَرْمِلَۃِ وَالْمِسْکِیْنِ کَالْمُجَاھِدِ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ أَوِ الْقَاءِمِ اللَّیْلَ الصَّاءِمِ النَّھَارَ) [ رواہ البخاری : کتاب النفقات، باب فضل النفقۃ علی الأھل] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بیوہ اور مسکین کے ساتھ تعاون کرنے والا۔ اللہ کی راہ میں مجاہد کی طرح ہے یا رات کو قیام اور دن کو روزہ رکھنے والے کی طرح ہے۔“ صدقہ کرنے کی ترتیب : ” حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ مدینہ میں ابو طلحہ (رض) انصار میں سب سے زیادہ کھجوروں والے تھے ان باغات میں بیرحاء نامی باغ ان کا سب سے بہترین مال تھا۔ جو مسجد کے سامنے تھا نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس میں جاتے اور وہاں سے پانی پیا کرتے تھے جب آیت (لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰی تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ) نازل ہوئی۔ حضرت ابو طلحہ (رض) رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کرتے ہیں : اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ جب تک تم اپنی محبوب ترین چیز خرچ نہ کرو کبھی نیکی تک نہ پہنچ سکو گے۔ یقینًامیرے پاس ” بیرحاء“ کا باغ ہے جو میری پوری جائیداد میں میرے نزدیک قیمتی اور عزیز ہے میں اس کے بدلے اللہ کے ہاں نیکی اور آخرت کے خزانے کا خواہشمند ہوں لہٰذا آپ اسے جہاں چاہیں استعمال کریں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس جذبہ کی تحسین کرتے ہوئے فرمایا : یہ مال بڑا نفع بخش ہے یہ مال بڑا فائدہ مند ہے جو تم نے کہا میں نے سن لیا۔ تم اسے اپنے قریبی رشتہ داروں میں تقسیم کردو۔ چنانچہ حضرت ابو طلحہ (رض) نے باغ اپنے چچا زاد بھائیوں اور عزیزوں میں تقسیم کردیا۔“ [ رواہ البخاری : کتاب تفسیر القرآن، باب لن تنالوا البرحتی تنفقوا مما تحبون] مسائل ١۔ اللہ کے دیے ہوئے مال سے خرچ کرنا چاہیے۔ ٣۔ صدقہ کرتے وقت قرآن کی ترتیب کا خیال رکھنا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن صدقہ کرنے کا حکم اور اس کا اجر : ١۔ اللہ کو قرض حسنہ دینے کا حکم۔ (المزمل : ٢٠) ٢۔ اللہ اسے سات سو گناہ سے بھی زیادہ بڑھائے گا۔ (البقرہ : ٢٦١) ٣۔ صدقہ صرف اللہ کی رضا کے لیے دینا چاہیے۔ (البقرۃ: ٢٦٥) ٤۔ صدقہ کرنا اللہ تعالیٰ کو قرض دینا ہے۔ (الحدید : ١١) ٥۔ اللہ تعالیٰ اسے دگنا تگنا کرکے واپس کرے گا۔ (التغابن : ١٧) ٦۔ اللہ تعالیٰ صدقہ کرنے والوں کو جزا دیتا ہے۔ (یوسف : ٨٨) ٧۔ مومن اللہ کی رضا کے لیے خرچ کرتا ہے۔ ( التوبۃ: ٩٩) ٨۔ مسلمان تنگدستی اور خوشحالی میں خرچ کرتے ہیں۔ (آل عمران : ١٣٤) ٩۔ جو کچھ تم خرچ کرو گے اللہ تعالیٰ تمھیں اس سے زیادہ دے گا۔ (سبا : ٣٩) ١٠۔ مومنین اللہ کے راستے میں خفیہ اور اعلانیہ خرچ کرتے ہیں۔ (الرعد : ٢٢) ١١۔ مسلمان کو اس کے دئیے ہوئے صدقہ پر سات سو گنا ثواب دیا جائے گا۔ ( البقرۃ: ٢٦١) الروم
39 فہم القرآن ربط کلام : پہلی آیت میں صدقہ کرنے کا حکم دیا۔ اب جو چیز صدقہ کرنے میں رکاوٹ بنتی اور انسان کو اللہ تعالیٰ کی رحمت سے محروم کرتی ہے اس کے بارے میں پہلا حکم۔ اسلامی نظام معیشت جن بنیادوں پر قائم ہے۔ اس میں سود کی ممانعت اور زکوٰۃ وصدقات کی ترویج کی بڑی اہمیت وکردار ہے۔ مسلمانوں کی معیشت کی ترقی اور اس کا استحکام اسی میں ہے کہ وہ ہر قسم کے معاشی استحاصل بالخصوص سود کے لین دین سے پاک ہو۔ سودی معیشت کے پیچھے صرف ایک ہی اصول کارفرما ہوتا ہے کہ مال دینے والے کے مال میں اضافہ ہوتا چلا جائے بے شک دوسرا کنگال سے کنگال ہی کیوں نہ ہوجائے۔ اس فرمان میں اس سوچ کی نفی کرتے ہوئے سود خوروں کو سمجھایا ہے کہ جو مال تم اضافہ کے لیے دیتے ہوئے۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں اس میں اضافہ نہیں ہوتا۔ قرآن کے الفاظ کا یہ بھی مفہوم لیا جاسکتا ہے کہ لوگوں کی معاشی ترقی کے لیے جو تم سود دیتے ہو اس سے ان کے مال میں اضافہ نہیں ہوتا بلکہ وہ اور کنگال ہوجاتے ہیں۔ سود کے مقابلے جو تم اللہ کی رضا کی خاطر زکوٰۃ دیتے ہو اس سے ان کے اور تمہارے مال میں اضافہ ہوتا ہے۔ نزول قرآن کے وقت اس بات کا خاص طور پر خیال رکھا گیا کہ جن برائیوں میں لوگ بری طرح پھنس چکے ہیں۔ ان سے نکالنے کے لیے پہلے لوگوں کی فکر میں تبدیلی لائی جائے اور پھر تدریجی عمل کے ذریعے ان کو ان برائیوں سے نکالاجائے۔ اسی اصول کے پیش نظر سود کی حرمت سے پہلے سود خوروں کو سمجھایا گیا کہ جو مال تم سود پر دیتے ہو۔ بظاہر تمہیں اس میں بڑھوتری نظر آتی ہے لیکن اس سے برکت اٹھا لی جاتی ہے اس لیے سودی نظام معیشت ترقی کرنے کی بجائے بالآخر خسارے پر منتج ہوتا ہے۔ یہاں تک سود لینے اور دینے والے کا معاملہ ہے سود لینے والا بظاہر یہ سمجھتا ہے کہ اس سے میری مشکل حل ہوجائے گی لیکن بالآخر وہ پہلے سے بھی زیادہ مقروض اور خستہ حال ہوجاتا ہے جس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے سودی معیشت میں برکت نہیں ہوتی کیونکہ اللہ تعالیٰ سود کو ختم کرنا چاہتا ہے اور صدقات کو فروغ دینا چاہتا ہے (البقرہ : ٢٧٦) صحابہ کرام (رض) نے ان الفاظ کا دوسرا مفہوم یہ بھی لیا ہے کہ کسی کو تحفہ اور ہدیہ دیتے وقت یہ نیت نہیں رکھنی چاہیے کہ کل اس سے زیادہ وصول کیا جائے گا۔ جہاں تک زکوٰۃ اور صدقہ دینے کا تعلق ہے اس سے صرف اللہ تعالیٰ کی رضا مطلوب ہونی چاہیے۔ زکوٰۃ اور صدقہ سے ایک طرف اللہ تعالیٰ راضی ہوتا ہے اور دوسری طرف جس کو زکوٰۃ یا صدقہ دیا جاتا ہے اس کی مالی معاونت ہونے کے ساتھ اور صدقہ کرنے والے کے مال میں برکت ہوتی ہے جہاں تک قیامت کا اجر ہے وہ سات سو گناہی نہیں۔ دینے والے کے اخلاص اور حلال مال کی بنیاد پر اللہ تعالیٰ جس قدر چاہے گا اضافہ فرمائے گا۔ ( عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ مَا نَقَصَ صَدَقَۃٌ مِنْ مَالٍ وَمَا زَاد اللّٰہُ عَبْدًا بِعَفْوٍا اِلَّا عِزًّا وَمَا تَوَاضَعَ اَحَدٌ لِلّٰہِ اِلَّا رَفَعَہُ اللّٰہُ) [ رواہ مسلم : باب استحباب العفو والتواضع] ” حضرت ابوہریرہ (رض) نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں آپ نے فرمایا : کہ صدقہ سے مال کم نہیں ہوتا جو بندہ درگزر کرتا ہے اللہ تعالیٰ اسے عزت دیتا ہے۔ اور جو اللہ کی رضا کے لیے عاجزی اور انکساری اختیار کرتا ہے اللہ تعالیٰ اسے بلند کرتا ہے۔“ ” حضرت جابر (رض) بیان کرتے ہیں اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سود کھانے، کھلانے اور گواہی دینے والوں پرلعنت کی اور فرمایا کہ یہ سب برابرہیں۔“ [ رواہ مسلم : کتاب المساقاۃ، باب لعن آکل الربوا وموکلہ] سود خور کی پہلی سزا یہ ہوگی کہ قبر سے اٹھتے ہی یہ ایسی حرکات کرے گا کہ لوگ اسے پہچان جائیں گے کہ یہ وہ اللہ کا باغی اور قومی مجرم ہے جو دنیا میں سود کھایا کرتا تھا۔ اس کی حواس باختگی کو شیطان کے خبط کے ساتھ تشبیہ دی ہے۔ اندازہ کیجیے جس شخص پر شیطان مسلط ہوجائے کیا اس سے کسی بھلے کام کی توقع کی جاسکتی ہے؟ ہرگز نہیں۔ اس پر یہ سزا اس لیے مسلط ہوگی کہ یہ دنیا میں کہا کرتا تھا کہ تجارت اور سود میں کوئی فرق نہیں حالانکہ تجارت اور سود میں مماثلت کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ (البقرۃ: ٢٥٧) (سود اور تجارت میں فرق سمجھنے کے لیے البقرۃ کی تفسیر ملاحظہ فرمائیں۔) مسائل ١۔ سود سے مال میں اضافہ نہیں ہوتا۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ سودی معیشت سے برکت اٹھا لیتا ہے۔ ٣۔ زکوٰۃ اور صدقہ محض اللہ کی رضا کی خاطر دینے چاہیے۔ ٤۔ زکوٰۃ اور صدقہ سے لینے اور دینے والے کے مال میں اضافہ ہوتا ہے۔ تفسیر بالقرآن سود کی حرمت کے بارے میں احکام : ١۔ سود حرام ہے۔ (البقرۃ: ٢٧٥، آل عمران : ١٣٠) ٢۔ سودخوروں کی اللہ اور رسول سے جنگ ہے۔ (البقرۃ: ٢٧٩) ٣۔ اللہ سود کو مٹانا چاہتا ہے۔ (الروم : ٣٩) ٤۔ سود کی حرمت کے بعد سود کھانے کی سخت سزا ہے۔ (البقرۃ: ٢٧٥) الروم
40 فہم القرآن ربط کلام : سورۃ الرّوم کی پہلی دس آیات کے بعد کسی نہ کسی انداز میں مسلسل اللہ کی توحید کے دلائل دیے گئے ہیں اب پھر اسی عنوان کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔ سابقہ آیات میں یہ بتلایا گیا ہے جب مشرک کو کوئی مصیبت پڑتی ہے تو وہ اپنے رب کو پکارتا ہے۔ مصیبت ٹل جائے تو مشرک اپنے رب کے ساتھ دوسروں کو شریک کرتا ہے۔ حالانکہ اسے معلوم ہے کہ اللہ ہی نے سب کو پیدا کیا ہے وہی سب کی ضرورتیں پوری کرتا ہے۔ وہی موت دینے والا ہے اور وہی موت کے بعد سب کو زندہ کرے گا کیا کوئی ہے جو ان کاموں میں اس کا شریک ہو؟ یہ ایسے حقائق ہیں جن کا ہر دور کے مشرک اعتراف کرتے آرہے ہیں اور قیامت تک اعتراف کرنے پر مجبور ہوں گے۔ جب ان کاموں میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ اس کی مخلوق میں کوئی بھی اس کا شریک کار نہ تھا نہ ہے اور نہ ہوگا تو پھر مشرک کو یہ عقیدہ رکھنا چاہیے کہ ” اللہ“ ہر قسم کے شرک سے پاک اور اپنی ذات اور صفات کے حوالے سے تمام مخلوقات سے اعلیٰ اور بے مثال ہے۔ (عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَال النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) أُرَاہُ یَقُول اللّٰہُ شَتَمَنِیْ ابْنُ آدَمَ وَمَا یَنْبَغِیْ لَہُ أَنْ یَشْتِمَنِیْ، وََکَذَّبَنِیْ وَمَا یَنْبَغِیْ لَہُ، أَمَّا شَتْمُہُ فَقَوْلُہُ إِنَّ لِی وَلَدًا وَأَمَّا تَکْذِیبُہُ فَقَوْلُہُ لَیْسَ یُعِیدُنِیْ کَمَا بَدَأَنِیْ) [ رواہ البخاری : باب مَا جَاءَ فِی قَوْلِ اللَّہِ تَعَالٰی (وَہُوَ الَّذِیْ یَبْدَأُ الْخَلْقَ ثُمَّ یُعِیْدُہٗ)] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ آدم کا بیٹا مجھے گالیاں دیتا ہے اور یہ اس کے لیے لائق نہیں۔ وہ میری تکذیب کرتا ہے اور یہ بھی اس کے لیے لائق نہیں اس کا مجھے گالی دینا یہ ہے کہ وہ کہتا ہے میں نے اولاد بنا رکھی ہے اس کا جھٹلانا یہ ہے کہ وہ کہتا ہے کہ مجھے دوبارہ پیدا نہیں کیا جائے گا جس طرح مجھے پہلی بار پیدا کیا گیا ہے۔“ مشرک کا گناہ : (اِنَّ اللّٰہَ لَا یَغْفِرُ اَنْ یُّشْرَکَ بِہٖ وَ یَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِکَ لِمَنْ یَّشَآءُ وَ مَنْ یُّشْرِکْ باللّٰہِ فَقَدِ افْتَرآی اِثْمًا عَظِیْمًا) [ النساء : ٤٨] ” یقیناً اللہ تعالیٰ اپنے ساتھ شریک کرنے کو نہیں بخشتا اور اس کے سوا جسے چاہے بخش دیتا ہے۔ اور جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک مقرر کرے اس نے بہتان باندھا اور بہت بڑا گناہ کیا۔“ مسائل ١۔ ” اللہ“ ہی سب کو پیدا کرتا ہے اور وہی سب کی ضرورتیں پوری کرتا ہے۔ ٢۔ ” اللہ“ ہی موت دینے والا اور وہی دوبارہ زندہ کرنے والاہے۔ ٣۔ ” اللہ تعالیٰ“ مشرکوں کے شرکاء اور ان کے بدترین عقیدہ سے پاک اور بلندوبالا ہے۔ تفسیربالقرآن ” اللہ“ ہی خالق، مالک، رازق اور وہی موت وحیات کا مالک ہے : ١۔ اللہ تعالیٰ نے ہی تمام انسانوں اور زمین و آسمانوں کو پیدا فرمایا۔ (البقرۃ: ٢٢) ٢۔ ” اللہ“ ہی نے انسان کو بڑی اچھی شکل و صورت میں پیدا فرمایا۔ (التین : ٤) ٣۔ ” اللہ“ نے انسان کو ایک نطفے سے پیدا کیا۔ (الدھر : ٢) ٤۔ اللہ نے انسان کو مٹی سے پیدا کیا۔ (الروم : ٢٠) ٥۔ ” اللہ“ نے ایک ہی جان سے سب انسانوں کو پیدا کیا۔ (الاعراف : ١٨٩) ٦۔ ” اللہ“ ہی پیدا کرنے والاہے اور اس کا ہی حکم چلنا چاہیے۔ (الاعراف : ٥٤) ٧۔ لوگو! اس رب سے ڈر جاؤ جس نے تمہیں پیدا کیا ہے۔ (النساء : ١) ٨۔ اللہ تعالیٰ ہی رازق ہے۔ (الذّاریات : ٥٨) ٩۔ اللہ ہی رزق فراخ کرتا اور کم کرتا ہے۔ (سبا : ٣٩) ١٠۔ اللہ تعالیٰ لوگوں سے رزق طلب نہیں کرتا بلکہ وہ لوگوں کو رزق دیتا ہے۔ (طٰہٰ : ١٣٢) ١١۔ ” اللہ“ جسے چاہتا ہے بغیر حساب کے رزق دیتا ہے۔ (البقرۃ: ٢١٢) ١٢۔ اللہ تعالیٰ مارنے کے بعد زندہ کرے گا۔ (البقرۃ: ٧٣) ١٣۔ اللہ تعالیٰ چوپاؤں اور تمام انسانوں کو رزق دیتا ہے۔ (العنکبوت : ٦٠) ١٤۔ اللہ تعالیٰ ہی مردہ سے زندہ اور زندہ سے مردہ کرتا ہے۔ (آل عمران : ٢٧) الروم
41 فہم القرآن ربط کلام : سابقہ آیات میں صدقہ کرنے کا حکم دینے کے ساتھ سود خوری اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ اب ان کے دنیا میں پیدا ہونے والے نقصانات سے آگاہ کیا جاتا ہے۔ قرآن مجید نے انسان کو بارہا دفعہ یہ حقیقت بتلائی اور سمجھائی ہے کہ اے انسان تیرا خالق، رازق، مالک اور بادشاہ صرف ایک ” اللہ“ ہے۔ جس کا پہلا اور بنیادی تقاضا ہے کہ تم بلاشرکت غیرے میری بندگی کرو اور آپس میں ایک دوسرے پر زیادتی نہ کرو۔ لیکن انسانوں کی غالب اکثریت نے اپنے رب کی ذات اور اس کے احکام کو فراموش کیا اور ایک دوسرے کے ساتھ زیادتی کی بالخصوص مالی استحاصل کیا۔ جس کا نتیجہ نکلا کہ دنیا امن و امان کی بجائے فتنہ وفساد کا گہوارہ بن گئی یہاں تک کہ بحروبرّمیں فساد برپا ہوا۔ بھائی نے بھائی کا گلا کاٹا، بیٹا باپ کا دشمن بنا میاں اور بیوی کے درمیان تفریق پیدا ہوئی، ماں نے اپنے معصوم بچوں کا گلا گھونٹا۔ رشتوں کا تقدس پامال ہوا، لوگوں کی عزتیں تارتار ہوئیں، بڑوں کا دل چھوٹوں کی محبت سے خالی ہوا اور چھوٹے بڑوں کے گستاخ ٹھہرے۔ ایک ملک نے دوسرے پر چڑھائی کی، طاقتور نے کمزور کو پیوند خاک کیا، گھر ویران ہوئے بستیاں اجڑ گئیں، ملک تباہ ہوئے۔ اس طرح انسان کا اپنا ہی کیا اس کے سامنے آیا۔ اللہ تعالیٰ دنیا میں لوگوں کو ان کے کیے کا انجام اس لیے دکھاتا ہے تاکہ وہ اپنے رب کی طرف متوجہ ہوجائیں۔ لیکن انسان ہے جو سب کچھ دیکھنے اور پانے کے باوجود اپنے رب کی طرف پلٹنے کا نام نہیں لیتا اس کا پہلا اور بنیادی سبب یہ ہے کہ انسان صرف ایک اللہ سے ڈرنے کی بجائے دوسروں سے ڈرتا ہے اس پر توکل کرنے کی بجائے دوسروں پر بھروسہ کرتا ہے اس کے حضور جھکنے کی بجائے خود ساختہ معبودوں کے سامنے سرجھکاتا ہے۔ اس کا حکم ماننے کی بجائے دوسروں کا حکم مانتا ہے یہی شرک ہے اور اسی کے سبب انسان، انسان بننے کی بجائے حیوان اور درندہ بن جاتا ہے۔ اسی سے نظام بگڑتا ہے اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو ایک دوسرے کے ذریعے ہلاک کیا اگر یقین نہیں آتا تو انسان دنیا کی تاریخ پڑھے اور چل پھر کر نگاہ عبرت سے قوموں کے کھنڈرات دیکھے تو اسے معلوم ہوجائے گا کہ اللہ تعالیٰ نے کفرو شرک اور ظلم و ستم کرنے والوں کو کس طرح تباہ کیا۔ اس فرمان کے پہلے مخاطب عرب تھے جنہوں نے ایک دوسرے کا جینا حرام کر رکھا تھا۔ دوسرے مخاطب ایرانی اور رومی تھے جنہوں نے اس وقت پوری دنیا کے امن کو تہہ بالا کردیا تھا۔ دنیا میں اللہ تعالیٰ لوگوں کو اس لیے ان کے اعمال کا کچھ نہ کچھ انجام دکھلاتا ہے تاکہ لوگ اپنے رب کے حضور توبہ کریں اور آخرت کے عذاب سے بچ جائیں اس طرح دنیا کے عذاب میں ہمارے رب کی شفقت پنہاں ہوتی ہے۔ انسان کو اس کا خیال رکھتے ہوئے اپنے رب کی طرف متوجہ ہونا چاہیے۔ مسائل ١۔ بحروبر میں فساد برپا ہونے کا بنیادی سبب ” اللہ“ کی بغاوت اور اس کے ساتھ شرک کرنا ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ لوگوں کو ان کے برے اعمال کا انجام دکھاتا ہے تاکہ لوگ تائب ہوجائیں۔ ٣۔ دنیا کا جغرافیہ اور تاریخ اقوام کی تباہی پر گواہ ہیں۔ تفسیر بالقرآن فساد فی الارض کے بنیادی اسباب : ١۔ فساد بپا کرنے اور برے انجام سے دوچار ہونے والوں کی اکثریت مشرک تھی۔ (الروم : ٤١، ٤٢) ٢۔ فرعون فساد کرنے والا تھا۔ (یونس : ٩١) ٣۔ ماپ تول کو انصاف سے پورا کرو۔ (الانعام : ٥٢) ٤۔ حضرت شعیب (علیہ السلام) نے اپنی قوم سے فرمایا لین دین میں کمی کے ذریعے زمین میں فساد کرنے کا باعث نہ بنو۔ (الاعراف : ٨٥) ٥۔ زمین میں فساد لوگوں کے اعمال کا نتیجہ ہے (الروم : ٤١) ٦۔ ماپ تول کو پورا کرو اور لوگوں کو چیزیں کم نہ دو۔ (الاعراف : ٨٥) ٧۔ انبیاء کی تکذیب کی وجہ سے کفار اللہ کے غضب کے مستحق قرار پائے : (آل عمران : ١١٢) الروم
42 الروم
43 فہم القرآن ربط کلام : دنیا کے فساد اور برے انجام سے بچنے کے لیے لازم ہے کہ انسان اپنے چہرے کو اللہ ہی کی طرف متوجہ رکھے۔ انسان اسی بنیاد پر ہی دنیا اور آخرت کے عذاب سے محفوظ رہ سکتا ہے۔ عقیدہ توحید اور دین کی اہمیّت اور اس کی فضیلت کے پیش نظر براہ راست سرور دوعالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیا گیا کہ مشرک جس قدر چاہیں عقیدہ توحید اور دین اسلام کو ناپسند کریں اور اس کی مخالفت کرتے رہیں آپ کو ہر حال میں اپنے چہرے کو اپنے رب کی طرف رکھنا اور دین اسلام پر قائم رہنا چاہیے۔ اس دن سے پہلے جو ہر صورت آکر رہے گا جو کسی کے انکار یا اقرار سے ٹل نہیں سکتا۔ اس دن سب لوگ منتشر ہوں گے کوئی کسی کی مدد نہیں کرسکے گا جس نے کفر کیا اس کے کفر کا وبال اسی پر ہوگا اور جس نے عقیدہ توحید اپنانے کے ساتھ نیک عمل کیے اس کا فائدہ اسی کو ہوگا۔ اللہ تعالیٰ اس دن ایمان دار اور صالح عمل کرنے والوں کو اپنی طرف سے مزید فضل وکرم سے نوازے گا۔ کفار اور مشرکین کو یاد رکھنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کسی صورت بھی انہیں پسند نہیں کرتا۔ جسے اللہ تعالیٰ پسند نہ کرے اس کا انجام کس طرح اچھا ہوسکتا ہے۔ پہلے بھی عرض کیا ہے کہ ” اَلدِّیْنِ“ سے مراد عقیدہ توحید اور پورا دین ہے۔ اس میں دو اشارے پائے جاتے ہیں کہ ہر آدمی کو مرتے دم تک عقیدہ توحید اور دین پر قائم رہنا چاہیے اور دوسرا اشارہ یہ ہے کہ ” لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ“ کا عقیدہ اور دین اسلام قیامت تک باقی رہے گا۔ جس طرح قیامت کسی کے ٹالنے سے ٹل نہیں سکتی اسی طرح مخالفوں کی مخالفت کے باوجود دین اسلام قیامت تک قائم رہے گا جس کا سرفہرست عنوان عقیدہ توحید ہے جو اس کا انکار کریں گے وہ سزا پائیں گے اور جو اس کا اقرار کریں گے وہ بہترین جزاپائیں گے۔ اہل علم نے لکھا ہے کہ ” یَمْھَدُوْنَ“ ” مَہَدَ“ سے ہے جس کا معنٰی ہے بستر بچھانا، راستہ ہموار کرنا بھی ہے۔ مفہوم یہ ہوا کہ ایماندار لوگ صالح اعمال کے ساتھ دنیا میں رہتے ہوئے جنت کا راستہ ہموار کر رہے ہیں بالفاظ دیگر جنت میں اپنا بستر بچھا رہے ہیں۔ کسی چیز پر چہرہ جمانے سے مراد اس کی طرف کامل توجہ کرنا اور اپنے آپ کو اس کے حوالے کرنا ہے۔ ” حضرت سفیان بن عبداللہ ثقفی (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں عرض کیا مجھے اسلام کے بارے میں ایسی بات ارشاد فرمائیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد کسی سے سوال کرنے کی ضرورت باقی نہ رہے دوسری روایت میں ہے ’ آپ کے علاوہ‘ کسی سے پوچھنے کی حاجت نہ رہے۔ فرمایا اللہ پر ایمان لانے کے بعد اس پر قائم ہوجاؤ۔“ [ رواہ مسلم : باب جامِعِ أَوْصَافِ الإِسْلاَمِ] (عَنْ أَنَسٍ (رض) أَنَّ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ لَا تَقُوم السَّاعَۃُ حَتّٰی لَا یُقَالَ فِی الْأَرْضِ اللّٰہُ، اللّٰہُ) [ رواہ مسلم : کتاب الایمان] ” حضرت انس (رض) فرماتے ہیں بے شک رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی جب تک زمین میں اللہ اللہ کہنے والے لوگ موجود ہوں گے۔“ تفسیر بالقرآن عقیدہ توحید اور دین اسلام پر ہمیشہ قائم رہنے کا حکم : ١۔ آج کے دن تمہارے لیے تمہار ادین مکمل ہوا، میں نے اپنی نعمت تم پرتمام کی اور تمھارے لیے دین اسلام کو پسند کیا۔ (المائدۃ: ٣) ٢۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں دین اسلام ہی ہے۔ (آل عمران : ١٩) ٣۔ اپنے چہرے کو دین حنیف پر سیدھا کیے چلتے جاؤ۔ (الروم : ٣٠) ٤۔ اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے دین کو چن لیا ہے لہٰذا تمہیں اسلام پر ہی موت آنی چاہیے۔ (البقرۃ : ١٣٢) ٥۔ مجھے اسلام پر موت دے اور نیک لوگوں سے ملا دے۔ یوسف (علیہ السلام) کی دعا۔ (یوسف : ١٠١) ٦۔ کیا وہ اللہ کے دین کے علاوہ کوئی اور دین تلاش کرتے ہیں۔ (آل عمران : ٨٣) ٧۔ جو شخص اسلام کے علاوہ کوئی اور دین تلاش کرتا ہے اس کا دین ہرگز قبول نہیں کیا جائے گا۔ (آل عمران : ٨٥) الروم
44 الروم
45 الروم
46 فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ کفار کو اس لیے پسند نہیں کرتا کہ وہ اس کی ذات کے منکر اور اس کی نعمتوں کے ناشکرے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ مومنوں کو ان کے اعمال کے بدلے جزا دینے کے ساتھ اپنے فضل سے مزیدنوازے گا اور کفار کو پسند نہیں کرتا جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ مومن اللہ کی ذات پر بلاشرکت غیرے ایمان لانے کے ساتھ اس کے احکام مانتے ہوئے اس کی نعمتوں پر شکر گزار رہتا ہے۔ اس کے مقابلے میں کافر اللہ کی ذات اور اس کی صفات کا انکار کرنے کے ساتھ اس کی نعمتوں کی ناشکری کرتا ہے حالانکہ ” اللہ“ کی پہچان کے لیے، اس کی قدرت کی نشانیاں اور اس کی رحمتیں اس قدر ہمہ گیر اور ہمیشہ سے جاری ہیں کہ جن سے کافر بھی فائدہ اٹھاتے ہیں۔ ٹھنڈی ہواؤں پر غور کریں کہ موسم گرما میں جوں ہی چلتی ہیں اس سے کافر اور مومن مسرور ہوتے ہوئے کہتے ہیں کہ اب بارش برسنے ہی والی ہے بارش ہوتی ہے توانسان ہی نہیں بلکہ درند پرند یہاں تک کہ کیڑے مکوڑے بھی فائدہ اٹھاتے ہیں اسی طرح بحری سفر کرنے والے کافر ہوں یا مومن سب کے سب مستفید ہوتے ہیں۔ باد موافق سے ان کے سفر کی رفتار تیز ہوجاتی ہے اور وہ بڑے اطمینان کے ساتھ بحری سفر کرتے ہوئے اپنے کاروبار کو وسعت دیتے اور اپنی منزل مقصود پر پہنچ جاتے ہیں۔ سفری سہولتیں بھی اللہ تعالیٰ کے فضل کا نتیجہ ہیں۔ اگر اللہ تعالیٰ سمندر میں طلاطم پیدا کردے اور ہواؤں کو مخالف سمت پر چلا دے تو بادبانی کشتیاں تو درکنار ہزاروں ہارس پاور (HORSE POWER) انجنوں سے چلنے والے جہازبھی کئی کئی دن تک اپنی جگہ پر ٹھہرے رہتے ہیں حالانکہ اس کی عطائیں اس لیے ہیں کہ لوگ اپنے رب کا شکر بجالائیں لیکن کافر کفر اور مشرک اپنے رب کے ساتھ شرک کرتا ہے حالانکہ اللہ تعالیٰ کا اعلان ہے کہ اس کا شکر کروگے تو وہ تمہیں اور زیادہ عنایت کرے گا۔ (وَ اِذْ تَاَذَّنَ رَبُّکُمْ لَءِنْ شَکَرْتُمْ لَاَزٍیْدَنَّکُمْ وَ لَءِنْ کَفَرْتُمْ اِنَّ عَذَابِیْ لَشَدِیْدٌ) [ ابراہیم : ٧] ” اور جب تمہارے رب نے اعلان کیا اگر تم شکر کرو گے تو میں ضرور تمہیں زیادہ دوں گا اور اگر ناشکری کرو گے تو بلاشبہ میرا عذاب بہت سخت ہے۔“ (عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ أَنَّ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) أَخَذَ بِیَدِہِ وَقَالَ یَا مُعَاذُ وَاللَّہِ إِنِّیْ لَاُحِبُّکَ وَاللَّہِ إِنِّیْ لأُحِبُّکَ فَقَالَ أُوصِیْکَ یَا مُعَاذُ لاَ تَدَعَنَّ فِی دُبُرِکُلِّ صَلاَۃٍ تَقُوْلُ اللَّہُمَّ أَعِنِّیْ عَلٰی ذِکْرِکَ وَشُکْرِکَ وَحُسْنِ عِبَادَتِکَ) [ رواہ أبوداوٗد : باب فی الإستغفار] ” حضرت معاذ بن جبل (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے میرا ہاتھ پکڑا اور دو مرتبہ فرمایا اے معاذ! اللہ کی قسم میں تجھ سے محبت کرتا ہوں پھر فرمایا اے معاذ! میں تجھے وصیت کرتا ہوں کہ ہر فرض نماز کے بعد یہ کلمات پڑھنے نہ چھوڑنا : الٰہی ! اپنے ذکر، شکر اور بہترین طریقے سے عبادت کرنے پر میری مدد فرما۔“ مسائل ١۔ ہوائیں اللہ تعالیٰ کی قدرت اور اس کی رحمت کی نشانیاں ہیں۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ ہی سمندروں میں کشتیاں اور جہاز چلانے والاہے۔ ٣۔ انسان کو اپنے رب کا شکر ادا کرنا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن شکر کرنے کا حکم اور اس کے فائدے : ١۔ لوگو ! اللہ کو یاد کرو اللہ تمھیں یاد کرے گا اور اس کا شکر ادا کرو کفر نہ کرو۔ (البقرۃ: ١٥٢) ٢۔ لوگو! تم اللہ کا شکر ادا کرو اور ایمان لاؤ۔ اللہ تعالیٰ بہت ہی قدر دان ہے۔ (النساء : ١٤٧) ٣۔ اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہے کہ اگر تم شکر کرو گے تو وہ تمہیں مزید عطا فرمائے گا۔ (ابراہیم : ٧) ٤۔ اللہ تعالیٰ نے تمھیں دل، آنکھیں اور کان دیے تاکہ تم شکر کرو۔ (السجدۃ: ٩) ٥۔ اللہ تعالیٰ کی پاکیزہ نعمتیں کھا کر اس کا شکر کرو۔ (البقرۃ: ١٧٢) ٦۔ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے ہوئے اس کا شکر ادا کرو۔ (العنکبوت : ١٧) ٧۔ اللہ تعالیٰ نے زمین میں تمھارے لیے سامان زندگی بنائے تاکہ تم شکر ادا کرو۔ (الاعراف : ١٠) ٨۔ اللہ تعالیٰ نے جانوروں کو تمھارے لیے مسخر کیا تاکہ تم شکر کرو۔ (الحج : ٣٦) ٩۔ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے ہوئے شکر گزار بندوں میں شامل ہوجاؤ۔ (الزمر : ٦٦) ١٠۔ میرا اور اپنے والدین کا شکریہ ادا کرتے رہو بالآخر تم نے میری طرف ہی لوٹ کر آنا ہے۔ (لقمان : ١٤) ١١۔ لوگوں میں بہت کم لوگ شکرادا کرنے والے ہوتے ہیں۔ (سبا : ١٣) الروم
47 فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ نے اپنی نشانیاں بتلانے اور توحید کا سبق سکھلانے کے لیے اپنے رسول بھیجے۔ پہلے ابر کرم کا ذکر کیا اب رحمت نبوت کا ذکر کیا جاتا۔ جس طرح بارش سب کے لیے ہوتی ہے اسی طرح نبوت کی دعوت بھی عام اور سب کے لیے ہے۔ جس طرح لوگوں کی اکثریت اپنے رب کی شکر گزار نہیں ہوتی اسی طرح لوگوں کی اکثریت نبوت کی ناقدری کرتے اور اس کا انکار کرتے ہیں۔ نبوت کا فیض سب کے لیے عام ہوتا ہے جس سے مومن فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی دنیا اور آخرت بہتر بناتے ہیں کافر اس کی مخالفت کرکے دنیا اور آخرت میں نقصان پاتے ہیں حالانکہ ان کے سامنے انبیاء کرام (علیہ السلام) ٹھوس دلائل اور کھلے معجزات پیش کرتے ہیں۔ لیکن کافر نہ صرف ان کا انکار کرتے ہیں بلکہ وہ انبیاء کرام (علیہ السلام) اور ان کے ساتھیوں پر ظلم ڈھاتے ہیں۔ جب لوگ ظلم کی حدود پھلانگ جاتے ہیں تو پھر اللہ تعالیٰ ظالموں سے ان کے ظلم کا بدلہ لے کر انبیاء اور مومنوں کو ممتاز کردیتا ہے ایسا کرنا اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت سے اپنے ذمہ لے رکھا ہے۔ ” یقین جانو کہ ہم اپنے رسولوں اور ایمان لانے والوں کی مدد دنیا کی زندگی میں بھی کرتے ہیں اور آخرت میں بھی کریں گے جس دن گواہ کھڑے کیے جائیں گے۔“ [ المومن : ٥١] تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ نے نوح، ابراہیم، ہود، صالح، شعیب، موسیٰ، عیسیٰ اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مدد فرمائی : ١۔ (البقرۃ: ٢٥٣۔ التوبۃ: ٤٠۔ البقرۃ: ٨٧۔ الشعراء : ٦٥۔ یوسف : ٣٤۔ الاعراف : ٦٤۔ ہود : ٩٤۔ الاعراف : ٨٣) الروم
48 فہم القرآن ربط کلام : نبوت کے بیان کے بعد توحید کے دلائل دئیے جاتے ہیں۔ جس ” اللہ“ نے اپنی پہچان کے لیے انبیاء کرام (علیہ السلام) بھیجے۔ وہی ہوائیں چلاتا ہے جو ابر کرم کو اٹھاتی، فضا میں پھیلاتی اور برساتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ بادلوں کو ٹکڑیوں کی صورت میں تقسیم کرتا ہے پھر اسی کے حکم سے بادلوں سے بارش برستی ہے۔ بارش برسنے سے پہلے لوگ مایوسی کا اظہار کررہے ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے جنہیں چاہتا ہے بارش سے سیراب کرتا ہے جن پر بارش برستی ہے وہ خوش ہوجاتے ہیں۔ بارش اللہ تعالیٰ کی قدرت کی نشانیوں میں سے ایک بہت بڑی نشانی ہے۔ اس پر انسان سوچے تو اسے معلوم ہوجائے کہ لوگوں کو سیراب کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ کس طرح بارش کا انتظام کرتا ہے۔ جہاں بارش برستی ہے غور فرمائیں سمندر اس مقام سے کتنی دورہوتا ہے۔ سمندر کا پانی سورج کی تپش سے بخارات کی صورت میں اٹھتا ہے جسے ہوائیں اٹھا کر ایک خاص بلندی پر لے جا کر کہاں سے کہاں لے جاتی ہیں۔ نہ سورج کی تپش سے پانی خشک ہوتا اور نہ ہی ہوا کی گرفت سے نکل کر نیچے گرتا ہے۔ بادلوں کی شکل میں لاکھوں، کروڑوں ٹن پانی ہوائیں ادھر ادھر لیے پھرتی ہیں کیا مجال کہ کوئی بادل جوں کا توں کہیں گر جائے بادل وہاں برستا ہے جہاں اسے اللہ تعالیٰ برسنے کا حکم دیتا ہے۔ اب بارش برسنے کے انداز اور رفتار پر غور فرمائیں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کہیں بادل یکدم اپنا پانی بہادے اگر ایسا ہوتا تو بستیوں کی بستیاں غرقاب ہوجاتیں اور زمین پر کوئی چیز باقی نہ رہتی کیا بخارات کا بنانا، ہواؤں کا اٹھانا اور فضا میں بادلوں کو ادھر ادھر لیے پھرنا پھر قطرہ قطرہ کرکے پانی برسنا اور اس سے ساری کے ساری فضا اور درختوں کے پتوں کو غسل دینا کیڑے مکوڑوں سے لے کر پرندوں تک پانی پہنچاناکسی حکومت کے بس کا کام ہوسکتا ہے؟ (بارش کے بارے میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہودیوں کا سوال اور آپ کا جواب اس سورۃ کی آیت ٢٤ کی تفسیر میں دیکھیں۔) (عَنْ أَنَسٍ (رض) قَالَ قَالَ أَنَسٌ أَصَابَنَا وَنَحْنُ مَعَ رَسُول اللَّہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَطَرٌ قَالَ فَحَسَرَ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ثَوْبَہُ حَتَّی أَصَابَہُ مِنَ الْمَطَرفَقُلْنَا یَا رَسُول اللَّہِ لِمَ صَنَعْتَ ہَذَا قَالَ لأَنَّہُ حَدِیثُ عَہْدٍ بِرَبِّہِ تَعَالَی ) [ رواہ مسلم : باب الدُّعَاءِ فِی الاِسْتِسْقَاءِ ] ” حضرت انس (رض) سے بیان کرتے ہیں کہ ایک دن ہم رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ تھے۔ بارش ہوئی تو رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے جسم سے کپڑا ہٹایا۔ بارش کا پانی آپ کے جسم مبارک کو لگا۔ ہم نے عرض کی اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ نے ایسا کیوں کیا ہے ؟ آپ نے جواب دیا میں نے ایسے اس لیے کیا کیونکہ بارش اپنے رب سے نئی نئی ملاقات کرکے آئی ہے۔“ (عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَیْبٍ (رض) قَالَ کَانَ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) إِذَا اسْتَسْقَی قَال اللَّہُمَّ اسْقِ عِبَادَکَ وَبَہَاءِمَکَ وَانْشُرْ رَحْمَتَکَ وَأَحْیِ بَلَدَکَ الْمَیِّتَ)[ رواہ ابو داؤدد : باب رَفْعِ الْیَدَیْنِ فِی الاِسْتِسْقَاءِ] ” حضرت عمرو بن شعیب (رض) بیان کرتے ہیں بلاشبہ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب بارش کے لیے دعا کرتے تو فرماتے : اللّٰہُمَّ اسْقِ عِبَادَکَ وَبَہِیمَتَکَ وَانْشُرْ رَحْمَتَکَ وَأَحْیِ بَلَدَکَ الْمَیِّتَ ” اے اللہ اپنے بندوں اور جانوروں کو بارش کے ذریعے پانی پلا اور اپنی رحمت کو پھیلاتے ہوئے مردہ زمین کو زندہ کردے“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ ہی ہواؤں کے ذریعے بادل اٹھاتا اور پھر اپنے حکم سے لوگوں کو پانی پلاتا ہے۔ ٢۔ لوگ بارش برسنے سے خوش ہوجاتے ہیں۔ ٣۔ بارش برسنے سے پہلے انسان کے چہرے پر ناامیدی کے آثار نمایاں ہوتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن قرآن مجید میں بارش کا ذکر : (النمل : ٦٠) (الاعراف : ٥٧) (البقرۃ : ١٦٤) (لقمان : ٣٤) (ہود : ٥٢) (النحل : ٢٢) (نوح : ١٠۔ ١٢) (النور : ٤٣) الروم
49 الروم
50 فہم القرآن ربط کلام : بارش پر مزید غور کرنے کا حکم۔ اے پیغمبر (علیہ السلام) آپ پھر اللہ کی رحمت پر غور کریں کہ اللہ تعالیٰ بارش کے بعد مردہ زمین کو کس طرح زندہ کرتا ہے جو ” اللہ“ مردہ زمین کو زندہ کرتا ہے جس سے کئی قسم کی نباتات اور کیڑے مکوڑے نکلتے ہیں وہی مردوں کو زندہ فرمائے گا کیونکہ وہ ہر چیز پر قدرت رکھنے والاہے۔ جن ہواؤں کے ذریعے اللہ تعالیٰ بارش برساتا ہے اگر انہی ہواؤں کو بادِصرصر بنادے جو ہر چیز کو جلا کر رکھ دیں تو انسان ناشکری کرنے کے سوا کیا کرسکتے ہیں؟ قرآن مجید نے کئی مقامات پر بارش سے نباتات اور دیگر چیزوں کی تخلیق کا حوالہ دے کر ثابت کیا ہے کہ جو ذات کبریا بارش کے ذریعے زمین میں پڑی ہوئی مردہ چیزوں کو زندہ کرتی ہے کیا وہ مردہ انسانوں کو دوبارہ پیدا نہیں کرسکتی ؟ اللہ تعالیٰ اس بات پر بھی قادر ہے کہ جن ہواؤں کے ذریعے بارش برساتا ہے انہیں ہواؤں کے ذریعے لہلہاتی کھیتیوں کو جلا کر خاکستر کر دے اس کے سوا نہ کوئی باد رحمت چلاسکتا ہے اور نہ ہی باد صرصر کو روک سکتا ہے گویا کہ اسے مخلوق کی فنا اور بقا پر پورا پورا اختیار حاصل ہے۔ (عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ (رض)، قَالَ مَا ہَبَّتْ رِیْحٌ قَطُّ إِلَّا جَثَاالنَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عَلیٰ رُکْبَتَیْہِ وَقَالَ اَلّٰلہُمَّ اجْعَلْہَا رَحْمَۃً وَلَا تَجْعَلْہَا عَذَابًا، اَلّٰلہُمَّ اجْعَلْہَا رِیَاحاً وَلَا تَجْعَلْہَا رِیْحاً) [ رواہ البیھقی : باب ذکر مسألۃ اللہ عز وجل۔۔] ” عبد اللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ جب بھی ہوا چلتی تو نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) گھٹنوں کے بل بیٹھ جاتے اور دعا کرتے۔ اے اللہ! اس کو رحمت بنانا، عذاب کا باعث نہ بنانا۔ اے اللہ ! اس کو رحمت والی ہوا بنانا، عذاب والی آندھی نہ بنانا۔“ (عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَیْبٍ (رض) عَنْ أَبِیہِ عَنْ جَدِّہِ قَالَ کَانَ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) إِذَا اسْتَسْقٰی قَال اللَّہُمَّ اسْقِ عِبَادَکَ وَبَہَاءِمَکَ وَانْشُرْ رَحْمَتَکَ وَأَحْیِ بَلَدَکَ الْمَیِّتَ)[ رواہ ابو داؤدد : باب رَفْعِ الْیَدَیْنِ فِی الاِسْتِسْقَاءِ] ” حضرت عمرو بن شعیب (رض) بیان کرتے ہیں بلاشبہ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب بارش کے لیے دعا کرتے تو کہتے : (اللّٰہُمَّ اسْقِ عِبَادَکَ وَبَہَاءِمَکَ وَانْشُرْ رَحْمَتَکَ وَأَحْیِ بَلَدَکَ الْمَیِّتَ) ” اے اللہ اپنے بندوں اور جانوروں کو بارش کے ذریعے پانی پلا اور اپنی رحمت کو پھیلاتے ہوئے مردہ زمین کو زندہ کردے۔“ مسائل ١۔ بارش اللہ تعالیٰ کی رحمت ہے جب برستی ہے تو اس پر غور کرنا چاہیے۔ ٢۔ جس طرح بارش سے مردہ زمین زندہ ہوجاتی ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ قیامت کے دن مردوں کو زندہ کرے گا۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے۔ تفسیر بالقرآن بارش اللہ تعالیٰ کی رحمت ہے : ١۔ تم ” اللہ“ سے مغفرت طلب کرو اور اس کی طرف رجوع کرو وہ آسمان سے تمہارے لیے بارش نازل فرمائے گا اور تمہاری قوت میں اضافہ فرما دے گا۔ (ہود : ٥٢) ٢۔ اللہ تعالیٰ سے بخشش طلب کرو وہ معاف کرے گا، بارش نازل فرمائے گا اور تمہارے مال و اولاد میں اضافہ فرمائے گا۔ (نوح : ١٠۔ ١٢) ٣۔ آسمانوں و زمین کی پیدائش، دن اور رات کی گردش، سمندر میں کشتیوں کے چلنے، آسمان سے بارش نازل ہونے، بارش سے زمین کو زندہ کرنے، چوپایوں کے پھیلنے، ہواؤں کے چلنے اور بادلوں کے مسخر ہونے میں اللہ تعالیٰ کی نشانیاں ہیں۔ (البقرۃ : ١٦٤) ٤۔ اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان کو پیدا کیا اور پھر آسمان سے پانی اتار کر باغات اگائے کیا اس کے ساتھ کوئی اور بھی الٰہ ہے؟ (النمل : ٦٠) ٥۔ اللہ تعالیٰ پانی سے تمہارے لیے کھیتی، زیتون، کھجور اور انگور اگاتا ہے۔ (النحل : ١١) ٦۔ اللہ تعالیٰ پانی سے ہر قسم کی نباتات پیدا کرتا ہے۔ (الانعام : ٩٩) ٧۔ اللہ تعالیٰ نے آسمان سے پانی نازل فرمایا تاکہ تم طہارت حاصل کرو۔ (الانفال : ١١) الروم
51 الروم
52 فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کی نشانیاں پوری کائنات میں پھیلا رکھی ہیں اور اس نے اپنی توحید کے دلائل کھول کھول کر بیان کر دئیے ہیں لیکن اندھے اور بہرے لوگ اس کی نشانیوں کو غور سے دیکھنے اور دلائل کو توجہ کے ساتھ سننے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ سروردوعالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لوگوں کو دن رات اللہ کی توحید اور اس کے دین کی دعوت دیتے لیکن کافر اور مشرک اللہ تعالیٰ کی نعمتوں سے فائدہ اٹھانے کے باوجود اس کی ذات کو بلاشرکت غیرے ماننے اور اس کی توحید کے دلائل سننے کے لیے تیار نہ تھے۔ ایسے لوگوں کی حقیقت بتلانے اور آپ کو تسلی دینے کے لیے فرمایا گیا کہ اے رسول آپ نے اپنے کام میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی اگر یہ لوگ حقائق دیکھنے سے اندھے اور سچ سننے سے بہرے ہوچکے ہیں تو آپ کو دلبرداشتہ نہیں ہونا چاہیے کیونکہ آپ ایسے اندھوں کو ہدایت دینے والے نہیں ہیں جو ہدایت سے دوربھاگنے والے ہیں۔ آپ ان لوگوں کی راہنمائی کرسکتے ہیں جو ہمارے ارشاد ات پر ایمان لانے والے ہیں حقیقتاً یہی لوگ ہماری فرمانبرداری کرنے والے ہیں۔ یہاں اندھے اور بہروں سے مراد وہ لوگ ہیں جو ہدایت کے بارے میں دل کے اندھے اور حقیقت سننے سے بہرے ہوچکے ہیں۔ (اِنَّکَ لَا تَھْدِیْ مَنْ اَحْبَبْتَ وَ لٰکِنَّ اللّٰہَ یَھْدِیْ مَنْ یَّشَآءُ وَ ھُوَ اَعْلَمُ بالْمُھْتَدِیْنَ) [ القصص : ٥٦] ” اے نبی آپ جسے چاہیں اسے ہدایت نہیں دے سکتے لیکن اللہ جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے وہ ان لوگوں کو خوب جانتا ہے جو ہدایت قبول کرنے والے ہیں۔“ یہاں اس بات کی بھی نفی ہوجاتی ہے کہ مردے نہیں سنتے گو یہاں مردوں سے مراد وہ لوگ ہیں جو روحانی طور پر مردہ ہوچکے ہیں حالانکہ کان، آنکھیں اور دل موجود ہیں۔ جو (PHYSICALLY) طور پر اپنا اپنا کام کر رہے ہیں۔ کیونکہ روحانی صلاحتیں کھو چکے ہیں اس لیے وہ سچی بات سنتے نہیں۔ مردے نہیں سنتے : جب کوئی حقیقتاً جسمانی طور پر مردہ ہوجائے تو پھر وہ کس طرح سن، دیکھ اور سوچ سکتا ہے ؟ اس لیے قرآن مجید نے مردوں کے بارے میں فرمایا ہے۔ ” کیا ان کے پاؤں ہیں جن سے وہ چلتے ہوں یا ان کے ہاتھ ہیں جن سے وہ کسی چیز کو پکڑ سکتے ہوں، یا ان کی آنکھیں ہیں جن سے وہ دیکھتے ہوں، یا ان کے کان ہیں جن سے سنتے ہوں فرما دیں تم اپنے سب شرکاء کو بلا لو، پھر میرے خلاف تدبیر کرو اور مجھے ذرا مہلت نہ دو۔ یقینامیرا مددگار اللہ تعالیٰ ہے جس نے یہ کتاب نازل فرمائی اور وہ نیک بندوں کی مدد کرتا ہے۔ اللہ کو چھوڑ کر جن کی عبادت کرتے ہو وہ تمہاری کچھ مدد نہیں کرسکتے ہیں۔“ [ الاعراف : ١٩٥] یہ حال صرف بتوں کا نہیں بلکہ قبروں میں مدفون بزرگ کا بھی یہی حال ہے۔ (وَ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ لَا یَخْلُقُوْنَ شَیْءًا وَّ ھُمْ یُخْلَقُوْنَ اَمْوَاتٌ غَیْرُ اَحْیَآءٍ وَ مَا یَشْعُرُوْنَ اَیَّانَ یُبْعَثُوْنَ) النحل : ٢٠۔ ٢١] ” اور جن کو یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے سوا پکارتے ہیں وہ کسی چیز کو پیدا نہیں کرسکتے، وہ تو خود پیدا کیے گئے ہیں۔ مردے ہیں زندہ نہیں۔ انہیں تو یہ بھی شعور نہیں کہ وہ کب اٹھائے جائیں گے۔“ [ النحل : ١٩، ٢٠] (وَ مَا یَسْتَوِی الْاَحْیَآءُ وَ لَا الْاَمْوَاتُ اِنَّ اللّٰہَ یُسْمِعُ مَنْ یَّشَآءُ وَ مَآ اَنْتَ بِمُسْمِعٍ مَّنْ فِیْ الْقُبُوْرِ) [ فاطر : ٢٢] ” زندہ اور مردہ برابر نہیں ہوسکتے۔ اللہ تعالیٰ جس کو چاہتا ہے سنا سکتا ہے آپ قبروں والوں کو نہیں سنا سکتے۔“ (اِنَّکَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتٰی وَ لَا تُسْمِعُ الصُّمَّ الدُّعَآءَ اِذَا وَلَّوْا مُدْبِرِیْنَ)[ النمل : ٨٠] ” آپ مردوں کو نہیں سنا سکتے نہ ان بہروں تک اپنی آواز پہنچا سکتے جو پیٹھ پھیر کر بھاگ رہے ہوں۔“ مسائل ١۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مردوں اور بہروں کو نہیں سنا سکتے تھے۔ ٢۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دل کے اندھوں اور ایمان نہ لانے والوں کو ہدایت نہیں دے سکتے تھے۔ ٣۔ ہدایت وہی لوگ پاتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے ارشادات پر دل سے ایمان لاتے ہیں۔ الروم
53 الروم
54 فہم القرآن ربط کلام : جو ” رب“ بارش برستا اور ہوائیں چلاتا ہے اس کی مزید صفات ملاحظہ فرمائیں۔ ” اللہ“ ہی وہ ذات ہے جس نے تم کو کمزور حالت میں پیدا کیا پھر کمزوری کے بعد قوت عطا فرمائی۔ قوت دینے کے بعد پھر وہ تمہیں کمزوری اور بڑھاپے میں مبتلا کردیتا ہے وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے۔ وہ ہر بات کا علم رکھنے والا اور ہر چیز پر قادر ہے۔ اس آیت مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے انسان کی زندگی کے تین مرحلوں کا ذکر کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ انسان کو پیدائش کے وقت انتہائی کمزور پیدا کرتا ہے۔ انسان اعضاء کے اعتبار سے اس قدر چھوٹا اور کمزور ہوتا ہے کہ وہ نہ چل سکتا ہے نہ اپنے آپ بیٹھ سکتا ہے اور نہ ہی کوئی چیز اپنے ہاتھ سے کھا، پی سکتا ہے۔ یہاں تک کہ ابتدائی ایّام میں وہ کروٹ بھی نہیں بدل سکتا۔ اس کے باوجود اللہ تعالیٰ اسے اس کی مامتا کے ذریعے کھلاتا پلاتا ہے۔ پھر انسان پر ایسا وقت آتا ہے کہ جب یہ اپنی قدوقامت، جسمانی قوت اور فکری صلاحیت کے اعتبار سے عالم شباب کو پہنچ جاتا ہے پھر اللہ تعالیٰ اسی انسان کی آہستہ آہستہ قوت سلب کرکے اسے بڑھاپے میں مبتلا کردیتا ہے جس کا کوئی علاج نہیں اس فرمان میں انسان کو اس کے تخلیقی مراحل یاد کروائے گئے ہیں تاکہ وہ اپنے خالق کو پہچانے اور اسی کے سامنے سرفگندہ رہنے کی کوشش کرے۔ اور اسی کا قانون تسلیم کرے اور ہر وقت اس کا ذہن رہے کہ میں جو کچھ بھی ہوں اور جوکر رہا ہوں وہ سب کا سب میرے رب کا عطا کردہ ہے اور سب کچھ اس کے علم میں ہے اور وہ ہر چیز پر مکمل اختیار رکھتا ہے۔ جس طرح میری زندگی کے مختلف مراحل اس کے قبضے میں ہیں اسی طرح ہی وہ میری نافرمانی پر مجھے پکڑنے پر قادر ہے۔ (وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْاِِنسَانَ مِنْ سُلاَلَۃٍ مِّنْ طِیْنٍ ثُمَّ جَعَلْنَاہُ نُطْفَۃً فِیْ قَرَارٍ مَّکِیْنٍ ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَۃَ عَلَقَۃً فَخَلَقْنَا الْعَلَقَۃَ مُضْغَۃً فَخَلَقْنَا الْمُضْغَۃَ عِظَامًا فَکَسَوْنَا الْعِظَامَ لَحْمًا ثُمَّ اَنشَءْنٰہُ خَلْقًا آخَرَ فَتَبَارَکَ اللّٰہُ اَحْسَنُ الْخَالِقِیْنَ) [ المؤمنوں : ١٢ تا ١٤] ” یقیناً ہم نے انسان کو مٹی کے جوہر سے پیدا کیا۔ پھر اسے نطفہ بنا کر محفوظ جگہ ٹھہرایا۔ پھر نطفہ کو ہم نے جما ہوا خون بنایا، پھر اس خون کے لوتھڑے کو گوشت کے ٹکڑے میں تبدیل کیا۔ پھر گوشت کے ٹکڑے کو ہڈیاں بنایا۔ پھر ہڈیوں کو ہم نے گوشت پہنایا۔ پھر ایک شکل وصورت میں اسے پیدا کیا۔ برکتوں والاہے وہ اللہ جو سب سے بہترین پیدا کرنے والا ہے۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ ہی انسان کو پیدا کرتا پھر جوان کرتا اور اس کے بعد ضعیف اور بوڑھا کرتا ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ ہر بات کو جاننے والا اور ہر چیز پر قدرت رکھنے والاہے۔ تفسیر بالقرآن انسانی زندگی کے مختلف مراحل : ١۔ یقیناً ہم نے انسان کو کھنکھناتی ہوئی مٹی سے پیدا کیا۔ (الحجر : ٢٦) ٢۔ انسان کو اللہ نے مٹی سے پیدا کیا۔ (آل عمران : ٥٩) ٣۔ اللہ نے انسان کو مٹی کے جوہر سے پیدا کیا۔ (المومنون : ١٢) ٤۔ حوا کو آدم سے پیدا فرمایا۔ (النساء : ١) ٥۔ اللہ نے انسان کو مخلوط نطفہ سے پیدا کیا۔ (الدھر : ٢) ٦۔ اللہ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی یہ بھی ہے کہ اس نے تمہیں مٹی سے پیدا فرمایا۔ (الروم : ٢٠) ٧۔ اللہ تعالیٰ نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا، پھر نطفہ سے، پھر تمہارے جوڑے جوڑے بنائے۔ (فاطر : ١١) ٨۔ اللہ نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا، پھر اسے نطفہ بنایا، پھر اس سے خون کا لوتھڑا، پھر اس سے بوٹی بنا کر انسان پیدا کیا۔ (الحج : ٥) ٩۔ اللہ نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا، پھر نطفہ، پھر لوتھڑا بنا کر تمہیں پیدا کرتا ہے کہ تم بچے ہوتے ہو۔ پھر تمہیں بوڑھا کرتا اور کچھ تم میں بڑھاپے سے پہلے فوت ہوجاتے ہیں اور کچھ اپنی عمر کو پہنچ جاتے ہیں کیا پھر بھی تم عقل نہیں کرتے۔ (المومن : ٦٧) ١٠۔ کیا تو اس ذات کا کفر کرتا ہے جس نے انسان کو مٹی سے پیدا کیا پھر نطفہ سے تجھے آدمی بنایا۔ (الکھف : ٣٧) الروم
55 فہم القرآن ربط کلام : جو ” اللہ“ انسان کو پیدا کرنے، جوان اور بوڑھا کرنے پر قادر ہے وہی قیامت کے دن انسان کو پیدا کرنے پر قادر ہے۔ اللہ تعالیٰ قیامت برپا فرما کر لوگوں کو زندہ کرکے اپنی بارگاہ میں پیش کرے گا۔ مجرم قیامت کی سختی اور اللہ تعالیٰ کا جلال دیکھ کر قسمیں اٹھا اٹھا کر ایک دوسرے سے کہیں گے کہ ہم دنیا میں ایک لمحہ سے زیادہ نہیں ٹھہرے تھے۔ انہیں فرمایا جائے گا جس طرح تم دنیا میں رہنے کی مدّت کو بھول چکے ہو اسی طرح تم قیامت کو فراموش کرچکے تھے۔ جس بنا پر تم سوچتے نہیں تھے کہ کل ہمیں اپنے عقائد اور اعمال کا جواب دینا ہے۔ جب مجرم ایک دوسرے کے سامنے قسمیں کھا رہے ہوں گے تو قیامت پریقین رکھنے والے ایمان دار لوگ انہیں کہیں گے تم اللہ تعالیٰ کی کتاب یعنی جو اس نے لوح محفوظ میں لکھ رکھا ہے یعنی تم اپنی عمر کے مطابق دنیا میں رہے یہاں تک کہ قیامت قائم ہوگئی یہی وہ دن ہے جس کا تم انکار کرتے تھے۔ اس دن وہ معذرت پر معذرت کریں گے لیکن ان کی معذرت اور آہ زاریاں قبول نہیں کی جائیں گی۔ مسائل ١۔ قیامت کے دن مجرم دنیا میں رہنے کی مدّت کو بھول جائیں گے۔ ٢۔ صاحب ایمان لوگ مجرموں کو یاد کروائیں گے یہی قیامت ہے جس کا تم انکار کرتے تھے۔ ٣۔ قیامت کے دن مجرموں کو معذرت کرنے کا کچھ فائدہ نہ ہوگا۔ ٤۔ قیامت کے دن مجرموں کی توبہ قبول نہ کی جائے گی۔ تفسیر بالقرآن قیامت کے دن مجرمین کی حسرت اور التجائیں : ١۔ اسلام کا انکار کرنا منکرین کے لیے حسرت کا باعث ہوگا۔ (الحاقۃ: ٥٠) ٢۔ مشرکین قیامت کے دن حسرت کا اظہار کریں گے۔ (البقرۃ: ١٦٧) ٣۔ قیامت کے دن منکر حسرت وافسوس کریں گے۔ (الانعام : ٣١) ٤۔ قیامت کے دن مجرم دنیا کی بری دوستی پر افسوس کا اظہار کریں گے۔ (الفرقان : ٢٧ تا ٢٩) ٥۔ مجرم مٹی کے ساتھ مٹی ہوجانے کی خواہش کریں گے۔ (النساء : ٤٢، النباء : ٤٠) ٦۔ مجرم دنیا میں لوٹ کر نیک عمل کرنے کی تمناکریں گے۔ (السجدۃ: ١٢) ٧۔ مجرم افسوس کا اظہار کریں گے کاش میں فلاں کو دوست نہ بناتا۔ (الفرقان : ٢٨) ٨۔ جہنم کے داروغہ سے درخواستیں کریں گے۔ (الزخرف : ٧٧) ٩۔ اپنے مرشدوں اور لیڈروں کو دگنی سزا دینے کا مطالبہ کریں گے۔ (الاحزاب : ٦٨) ١٠۔ مرید اپنے مرشدوں کو اپنے پاؤں تلے روندنے کا مطالبہ کریں گے۔ (السجدۃ: ٢٩) ١١۔ مجرم کہیں گے اب ہمارا چیخنا چلانا اور صبر کرنا برابر ہے۔ (ابراہیم : ٢١) الروم
56 الروم
57 الروم
58 فہم القرآن ربط کلام : مجرموں کی معذرتیں اس لیے قبول نہیں ہوں گی کیونکہ اللہ تعالیٰ نے دین اور اپنی توحید سمجھانے کے لیے قرآن مجید میں ہر طرح کی مثالیں دے کر انہیں سمجھایا ہے۔ اس فرمان کے دو مطالب ہیں ایک طرف قبل از وقت مجرموں کو بتایا جا رہا ہے کہ اگر تم نے کفر و شرک پر تکرار جاری رکھا تو یاد رکھو وہ دن دور نہیں جب تم اپنے کیے پر معذرتیں کروگے لیکن تمہاری معذرتوں کو درخوراعتنا نہیں سمجھا جائے گالہٰذا سنبھلنا چاہتے ہو تو آج موقعہ ہے سنبھل جاؤ ورنہ پچھتاوے کے سو اکچھ نہ ہوگا۔ دوسری طرف نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلّی دی گئی ہے کہ اگر آپ ان کے سامنے مزید دلائل اور معجزے پیش کریں تو پھر بھی یہ لوگ آپ پر جھوٹ کا الزام لگائیں گے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جو لوگ حقیقت کا علم نہیں جاننا چاہتے اللہ تعالیٰ ان کے دلوں پر مہرثبت کردیتا ہے جس وجہ سے ان کا ہدایت قبول کرنا ممکن نہیں رہتا۔ اللہ تعالیٰ کا وعدہ سچا ہے وہ انہیں ان کے کیے کی ضرور سزا دے گا ایسا نہ ہو کہ یہ لوگ آپ کو ہلکا کردیں اس لیے آپ کو صبر کرنا چاہیے۔ ” وَلَا یَسْتَخِفَّنَّکَ“ کا دوسرا معنٰی یہ بھی کیا گیا ہے کہ یہ لوگ آپ کی ذات اور کام کو ہلکا بنانا چاہتے ہیں جس میں یہ ہرگز کامیاب نہیں ہو سکتے۔ یعنی دشمن تم کو ایسا کمزور نہ پائیں کہ ان کے شور و غوغا سے تم دب جاؤ یا ان کی بہتان و افتراء کی مہم سے مرعوب ہوجاؤیا ان کی پھبتیوں اور طعنوں اور تضحیک و استہزاء سے تم پست ہمّت ہوجاؤ یا ان کی دھمکیوں اور طاقت کے مظاہروں اور ظلم وستم سے تم ڈرجاؤ یا ان کے دیے ہوئے لالچوں سے تم پھسل جاؤ یا قومی مفاد کے نام پر جواپیلیں وہ تم سے کررہے ہیں ان کی بنا پر تم ان کے ساتھ مصالحت کرلینے پر اتر آؤ۔ اس کی بجائے وہ تم کو اپنے مقصد کے شعور میں اتنا ہوشمند اور اپنے یقین و ایمان میں اتنا پختہ اور اس عزم میں اتنا راسخ اور اپنے کیرکٹر میں اتنا مضبوط پائیں کہ نہ کسی خوف سے تمہیں ڈرایا جاسکے، نہ کسی قیمت پر تمہیں خریدا جاسکے، نہ کسی فریب سے تم کو پھسلایا جاسکے، نہ کوئی خطرہ یا نقصان یا تکلیف تمہیں اپنی راہ سے ہٹا سکے اور نہ دین میں کسی لین دین کا سودا تم سے چکایا جاسکے۔ یہ سارا مضمون اللہ تعالیٰ کے کلام کی بلاغت نے اس ذرا سے فقرے میں سمیٹ دیا ہے کہ یہ بےیقین لوگ تم کو ہلکا نہ پائیں۔ اب اس بات کا ثبوت تاریخ کی بے لاگ شہادت دیتی ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دنیا پر ویسے ہی بھاری ثابت ہوئے جیسا کہ اللہ اپنے آخری نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھری بھرکم دیکھنا چاہتا تھا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے جس نے جس میدان میں بھی زور آزمائی کی۔ اس نے اسی میدان میں مات کھائی اور آخر اس شخصیت عظمیٰ نے وہ انقلاب برپا کردکھایا جسے روکنے کے لیے عرب کے کفر و شرک نے اپنی ساری طاقت صرف کردی اور اپنے سارے حربے استعمال کرڈالے۔ (تفہیم القرآن جلد ٣) مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں دین اور اپنی توحید سمجھانے کے لیے کئی مثالیں بیان فرمائی ہیں۔ ٢۔ قیامت کے منکروں کے دلوں پر اللہ تعالیٰ گمراہی کی مہر لگا دیتا ہے۔ ٣۔ قیامت ہر صورت برپا ہو کر رہے گی۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ کے وعدے سچے ہیں۔ تفسیر بالقرآن نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو صبر کرنے کی تلقین : ١۔ اگر یہ لوگ آپ سے منہ موڑ لیں تو آپ ” اللہ“ پر بھروسہ کریں اس کے سوا کوئی معبود نہیں وہ عرش عظیم کا مالک ہے۔ ( التوبہ : ١٢٩) ٢۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو صبر کا حکم دیا گیا۔ (المعارج : ٥) ٣۔ اپنے رب کے حکم کے مطابق صبر کیجیے۔ (الدھر : ٢٤) ٤۔ تکلیف پر صبر کیجیے یقیناً یہ بڑے کاموں میں سے ہے۔ (لقمان : ١٧) ٥۔ صبر کیجیے اللہ کا وعدہ سچا ہے۔ ( الحج : ٥٥) ٦۔ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! کفار کی باتوں پر صبر کیجیے اور صبح و شام اللہ کی تسبیح کرتے رہیں۔ (طٰہٰ: ١٣٠) الروم
59 الروم
60 الروم
0 لقمان
1 فہم القرآن سورۃ الرّوم کا اختتام اس فرمان پر ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں لوگوں کی راہنمائی کے لیے ہر طرح کی مثالیں بیان کی ہیں مگر قرآن کا انکار کرنے والے کہتے ہیں کہ یہ جھوٹ ہے اس لیے ہم نہیں مانیں گے۔ ان کے انکار کا بنیادی سبب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں پر مہر لگا دی ہے۔ اے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! اس پر صبر کیجیے کہ آپ کے مخالف آپ میں ہلکا پن پیدانہ کردیں۔ سورۃ لقمان کی ابتداء قرآن مجید کے تعارف سے ہوتی ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے نیک لوگوں کے لیے ہدایت اور رحمت کاسرچشمہ بنایا ہے گویا کہ یہی قرآن کچھ لوگوں کی گمراہی کاسبب بن رہا ہے اور کچھ کے لیے باعث ہدایت ثابت ہورہا ہے۔ ہدایت یافتہ لوگ یہی کامیاب ہونگے۔ الف، لام، میم حروف مقطعات ہیں جن کے بارے میں عرض ہوچکا ہے کہ ان کا معنٰی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ثابت نہیں لہٰذا انہیں اسی طرح ہی پڑھنا چاہیے۔ یہ کتاب حکیم کی آیات ہیں جو نیکی کرنے والوں کے لیے ہدایت اور رحمت ہیں۔ ایسے لوگ نماز قائم کرتے اور زکوٰۃ کی ادائیگی کا اہتمام کرتے ہیں۔ انہیں آخرت کے قائم ہونے پر پورا یقین ہے کہ یہ برپا ہو کر رہے گی اور اس میں نیکی کی جزا اور بدی کی سزا دی جائے گی۔ یہ لوگ اپنے رب کی طرف سے ہدایت پر ہیں اور یہی لوگ کامیاب ہونے والے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام مجید کے بے شمار اوصاف جمیلہ کا تذکرہ کیا ہے۔ ان میں مرکزی اور بنیادی وصف دو ہیں 1 قرآن مجید پڑھنے، اس پر غور کرنے اور اس کے مطابق زندگی بسر کرنے سے انسان اپنے رب کی رحمت کا مستحق ٹھہرتا ہے اور دنیا اور آخرت کی کامیابیوں سے ہمکنار ہوتا ہے قرآن مجید کے بنیادی مضامین میں توحید ورسالت کے بعد تین مضامین ہیں جن کی باربار تاکید کی جاتی ہے۔ نماز کو اس کے تقاضوں کے مطابق ادا کرنا، زکوٰۃ کو اس کے اصولوں کے تحت خرچ کرنا، اور آخرت پر یقین رکھنا ہے 2 یقین کا معنٰی ہے کہ آدمی زبان سے اقرار اور اس کے مطابق عمل کرتے ہوئے دل کی اتھاہ گہرائیوں سے تسلیم کرے کہ جو کچھ میں کر رہا ہوں ایک دن اس کا حساب دینا ہے۔ اسی تصور کے پیش نظر آخرت کے بارے میں قرآن مجید اکثر مقامات پر ایمان کی بجائے یقین کا لفظ استعمال کرتا ہے۔ انسان کا ایمان وایقان جس قدر مضبوط ہوگا اسی قدر اس کے اخلاق اور اعمال میں نکھار اور سنوار پیدا ہوگا۔ مسائل ١۔ قرآن مجید پر حکمت، ہدایت اور رحمت کا مرقع ہے۔ ٢۔ قرآن مجید سے وہی لوگ مستفید ہوسکتے ہیں جو نیکی کے طالب ہوں گے۔ ٣۔ تمام نیکیوں کا انحصار نماز قائم کرنے، زکوٰۃ ادا کرنے اور آخرت پر یقین رکھنے میں ہے۔ تفسیر بالقرآن قرآن مجید کے اوصاف حمیدہ کی ایک جھلک : ١۔ قرآن مجیدلاریب کتاب ہے۔ (البقرۃ: ٢) ٢۔ قرآن مجید کی آیات واضح ہیں۔ (یوسف : ١) ٣۔ قرآن مجیدکی آیات محکم ہیں۔ (ھود : ١) ٤۔ قرآن مجید برہان اور نور مبین ہے۔ (النساء : ١٧٤) ٥۔ قرآن کریم لوگوں کے لیے ہدایت ہے۔ (البقرۃ: ١٨٥) ٦۔ قرآن مجیددلوں کے لیے شفا ہے۔ (یونس : ٥٧) ٧۔ قرآن مجید لوگوں کے لیے ہدایت اور نصیحت ہے۔ (آل عمران : ١٣٨) ٨۔ قرآن مومنوں کے لیے شفاء اور رحمت ہے۔ (بنی اسرائیل : ٨٢) ٩۔ جن و انس مل کراس جیسا قرآن نہیں لاسکتے۔ (بنی اسرائیل : ٨٨) ١٢۔ ہم نے اس قرآن کو لیلۃ القدر میں نازل کیا۔ (القدر : ١) ١٠۔ ہم ہی قرآن مجید کو نازل کرنے والے ہیں اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔ (الحجر : ٩) لقمان
2 لقمان
3 لقمان
4 لقمان
5 لقمان
6 فہم القرآن ربط کلام : قرآن مجید ہدایت کی کتاب ہے مگر اس کی ہدایت سے وہی شخص مستفید ہوسکتا ہے جو لغویات سے اجتناب کرنے والا ہو۔ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کی راہنمائی کے لیے قرآن مجید نازل کیا ہے لیکن لوگوں میں بے شمار ایسے لوگ ہیں۔ جو اچھائی کے مقابلہ میں برائی، نیکی کی بجائے گمراہی کے طلبگار اور پرستار بن جاتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی نشاندہی کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ لوگوں میں بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو برائی کے خریدار ہوتے ہیں۔ اپنی جہالت کی بنا پر ناصرف خود گمراہ ہوتے ہیں بلکہ لوگوں کو اللہ کے راستے سے ہٹانے اور گمراہ کرنے میں اپنا مال اور صلاحیتیں صرف کرتے ہیں۔ پھر عملاً یا قولاً اللہ تعالیٰ کی آیات کو استہزاء کا نشانہ بناتے ہیں ان کے لیے رسوا کردینے والا عذاب ہوگا۔ اس آیت کا پس منظر ذکر کرتے ہوئے مفسّرین نے لکھا ہے کہ نضر بن حارث نے ایران اور روم سے ایسا لٹریچر درآمد کیا جس میں فحاشی اور بے حیائی کو داستان گوئی کے انداز میں بیان کیا گیا تھا۔ اس نے مکہ معظمہ میں اسے قرآن مجید کے مقابلے میں عام کرنے کی کوشش کی تاکہ لوگ قرآن مجید کے مقابلے میں ان باتوں اور کاموں میں مصروف رہیں۔ اس کے بارے میں یہاں تک لکھا گیا ہے کہ اس نے فاحشہ عورتوں کی ڈیوٹی لگا رکھی تھی کہ وہ نوجوان نسل کو اپنی طرف راغب کرنے کی کوشش کریں اس کے ساتھ ہی وہ سرورگرامی کی ذات اطہر اور قرآن مجید کی مقدس آیات کو استہزاء کا نشانہ بناتا اور لوگوں کے سامنے آیات ربانی کو حقیر بنا کر پیش کرتا۔ اس کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی کہ لوگوں میں ایسا بیہودہ شخص بھی ہے جو اپنا مال خرچ کرکے بے حیائی خریدتا ہے اور جہالت کی بنیاد پر لوگوں کو اللہ کے راستے سے گمراہ کرتا ہے۔ نضربن حارث خود حیرہ گیا۔ وہاں سے باشاہوں کے حالات اور رستم و اسفندیار کے قصّے سیکھے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جہاں کہیں بھی جا کراپنا پیغام سناتے، ابو لہب کی طرح پیچھا کرتے ہوئے نضربن حارث بھی وہاں پہنچ کر یہ قصّے سناتا۔ پھر لوگوں سے پوچھتا کہ آخر کس بنا پر محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کلام مجھ سے بہتر ہے ؟ علاوہ ازیں اس نے چند لونڈیاں بھی خرید رکھی تھیں۔ جب کوئی شخص رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف مائل ہونے لگتاتو وہ کسی لونڈی کو اس پر مسلّط کردیتا مقصد یہ تھا کہ لونڈی اسے کھلائے پلائے اور اس کی سوچ کا رخ موڑ دے اسی سلسہ میں یہ آیت نازل ہوئی [ سیرت ابن ہشام : جلد ١] نیکی کو چھوڑ کر برائی اختیار کرنے والا شخص کتنا ہی پڑھا لکھا اور سمجھدار کیوں نہ ہو حقیقت میں وہ جاہل ہی ہوتا ہے کیونکہ وہ آخرت کے مقابلے میں دنیا کو ترجیح دیتا ہے۔ اسے ذلیل کرنے والے عذاب میں مبتلا کیا جائے گا اس شخص کا کردار پیش فرما کر ایک پورے کلچر کی نفی کی گئی ہے۔ افسوس ! مسلمان حکومتوں میں شاید کوئی حکومت اور معاشرہ ایسا ہو جو کروڑوں، اربوں ڈالربے حیائی خریدنے اور ا سے پھیلانے کے لیے صرف نہ کررہے ہوں جسے کلچر، ثقافت اور تفریح کا نام دیا گیا ہے۔ کفار کو چھوڑیں صرف مسلمان ملکوں میں نئی نسل کو اخلاقی اور عملی طور پر تباہ کرنے کے لیے سینکڑوں ٹی وی چینل چل رہے ہیں اور ہزاروں کی تعداد میں بے ہودہ رسائل چھپ رہے ہیں۔ قرآن مجید نے ” لَھْوَ الْحَدِیْثِ“ کے لیے ” اِشْتَرَ“ کا لفظ استعمال کیا ہے ” اِشْتَرَ“ عربی زبان میں صرف خریدو فروخت کے لیے استعمال نہیں ہوتا بلکہ یہ کسی چیز کو بدلے میں لینے کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے ” لَھْوَ“ کا لفظ بیہودہ اور بے حیائی کے لیے استعمال ہوتا ہے قرآن مجید نے بے مقصد کام اور بات کو بھی ” لَھْوَ“ قرار دیا ہے۔ جو شخص لغویات کا عادی ہوجائے اس کے لیے نیکی کی بات سننا بوجھ بن جاتا ہے اور بیہودہ کاموں پر خوش ہوتا ہے یہی حالت اہل مکہ کی تھی انہیں قرآن مجید کی طرف دعوت دی جاتی تو وہ غرور اور تعصب کی بناء پر یوں پیٹھ پھیرجاتے جیسا کہ انہوں نے قرآن سنا ہی نہیں یا ان کے کانوں میں سکہ پڑچکا ہے ایسے لوگوں کے لیے صرف یہی پیغام ہے کہ انہیں اذّیت ناک عذاب کی خوشخبری سنائی جائے۔ لَھْوَ الْحَدِیْثِ: (عَنْ أَبِیْ أُمَامَۃَ َ قَالَ قاَلَ النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) إِنَّ اللّٰہَ تَعَالٰی بَعَثَنِیْ رَحْمْۃً لِّلْعٰالَمِیْنَ وَہُدًی لِّلْعَالَمِیْنَ وَأَمَرَنِیْ رَبِّیْ عَزَّ وَجَلَّ بِمَحْقِ الْمَعَازِفِ وَالْمَزَامِیْرِ وَالاأَوْثَانِ وَالصُّلْبِ وَأَمْرِ الْجَاہِلِیَّۃِ)[ رواہ احمدبحوالۃ مشکوٰۃ : باب بیان الخمر ووعید شاربہا] ” سیّدناابو امامہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے مجھے رحمۃ اللعالمین بنا کر بھیجا ہے اور میرے پروردگار نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں باجوں گاجوں، ساز و مضراب، بتوں، صلیبوں اور جاہلیّت کے کاموں کو ختم کردوں۔“ (أَبُو مَالِک الأَشْعَرِی ُّ وَاللَّہِ مَا کَذَبَنِیْ سَمِعَ النَّبِیَ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَقُوْلُ لَیَکُوْنَنَّ مِنْ أُمَّتِیْ أَقْوَامٌ یَسْتَحِلُّوْنَ الْخِزَّ وَالْحَرِیرَ وَالْخَمْرَ وَالْمَعَازِفَ)[ رواہ البخاری : کتاب الاشربۃ: باب مَا جَاء فیمَنْ یَسْتَحِلُّ الْخَمْرَ وَیُسَمِّیہِ بِغَیْرِ اسْمِہِ] ” ابومالک اشعری (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ میری امت میں ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو زنا، ریشم، شراب اور معازف یعنی آلات موسیقی اور گانے بجانے کو جائز کہیں گے۔“ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مِنْ حُسْنِ إِسْلَامِ الْمَرْءِ تَرْکُہٗ مَا لَا یَعْنِیْہِ) [ رواہ الترمذی : کتاب الزہد] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا حقیقت یہ ہے کہ آدمی کے اسلام کی اچھائی یہ ہے کہ وہ فضول باتوں کو چھوڑ دے۔“ مسائل ١۔ جو لوگ اللہ کی آیات سے مذاق کرتے ہیں ان کے لیے درد ناک عذاب ہے۔ ٢۔ جب کفار کو قرآن کی آیات پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو وہ اس طرح دکھائی دیتے ہیں جیسے انہوں نے سنا ہی نہیں۔ تفسیر بالقرآن قرآن مجید سے اعراض کرنے کا نتیجہ : ١۔ قرآن سے اعراض کرنے والے ظالم اور گمراہ ہیں۔ (الکہف : ٥٧) ٢۔ قرآن سے منہ پھیرنے والوں کی سزا۔ (السجدۃ: ٢٢) ٣۔ قرآن سے اعراض کرنے والے قیامت کے دن اندھے ہوں گے۔ (طٰہٰ: ١٢٤، ١٢٥) ٤۔ اعراض کرنے والوں کو اپنے گناہوں کا بوجھ اٹھانا پڑے گا۔ (طٰہٰ: ١٠٠، ١٠١) ٥۔ قرآن کا انکار برے لوگ ہی کیا کرتے ہیں۔ (البقرۃ: ٩٩) ٦۔ قرآن سے اعراض کرنے والوں کو آخرت میں دوہرا عذاب ہوگا۔ (بنی اسرائیل : ٧٥) لقمان
7 لقمان
8 فہم القرآن ربط کلام : ” عَذَابٌ مُّھِیْنٌ“ پانے والوں کے بعد ” جَنّٰتُ النَّعِیْمِ“ کا انعام پانے والوں کا ذکر خیر۔ فہم القرآن میں کئی مقامات پر یہ وضاحت ہوچکی ہے کہ قرآن مجید کا یہ اسلوب ہے کہ اکثر مقام پر جنّت اور جہنم کا بیک مقام ذکر کرتا ہے تاکہ قارئ قرآن کے سامنے بیک وقت دونوں قسم کے انجام آجائیں اور وہ غور کرے کہ مجھے کس قسم کے اعمال اختیار کرنے چاہئیں تاکہ میں دنیا وآخرت کی ذلّت سے بچ جاؤں اور اپنے رب کے انعامات کا حقدار ہوجاؤں ایسے لوگوں کو خوشخبری سنائی جا رہی ہے جو اپنے رب پر بلا شرکت غیرے ایمان لائے اور اس کے بتلائے ہوئے نیک اعمال کرتے رہے۔ وہ نعمتوں والی جنت میں داخل ہوں گے اور اس میں ہمیشہ ہمیش رہیں گے۔ ان کے ساتھ ” اللہ“ کا سچاوعدہ ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنا ہر وعدہ پورا کرنے پر غالب اور اس کے ہر حکم اور فیصلے میں اَن گنت حکمتیں ہوتی ہیں۔ جنت کے حسن وجمال کی ایک جھلک : (عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) الْجَنَّۃُ مَا بِنَاؤُہَا قَالَ لَبِنَۃٌ مِنْ فِضَّۃٍ وَلَبِنَۃٌ مِنْ ذَہَبٍ وَمِلاَطُہَا الْمِسْکُ الأَذْفَرُ وَحَصْبَاؤُہَا اللُّؤْلُؤُ وَالْیَاقُوتُ وَتُرْبَتُہَا الزَّعْفَرَانُ مَنْ یَّدْخُلْہَا یَنْعَمْ وَلاَ یَبْأَسْ وَیُخَلَّدْ وَلاَ یَمُوْتُ لاَ تَبْلَی ثِیَابُہُمْ وَلاَ یَفْنٰی شَبَابُہُمْ) [ رواہ الترمذی : کتاب صفۃ الجنۃ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جنّت اس طرح بنائی گئی ہے کہ اس کی ایک اینٹ چاندی کی اور دوسری سونے کی ہے اور اس کا گارا خوشبودار کستوری کا ہے۔ اس کے کنکر لؤلؤ اور یاقوت کے ہیں اور اس کی مٹی زعفران کی ہے جو اس میں داخل ہوگا وہ خوش و خرم رہے گا۔ اسے کوئی تکلیف نہ ہوگی وہ اس میں ہمیشہ رہے گا اسے موت نہیں آئے گی نہ اس کے کپڑے بوسیدہ ہوں گے اور نہ ہی وہ بوڑھا ہوگا۔“ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَال اللّٰہُ تَعَالٰی اَعْدَدْتُّ لِعِبَادِیَ الصَّالِحِیْنَ مَالَا عَیْنٌ رَأَتْ وَلَآ اُذُنٌ سَمِعَتْ وَلَا خَطَرَ عَلٰی قَلْبِ بَشَرٍ وَّاقْرَءُ وْا إِنْ شِءْتُمْ (فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّآاُخْفِیَ لَھُمْ مِّنْ قُرَّۃِ اَعْیُنٍ) [ رواہ البخاری : کتاب بدء الخلق، باب ماجاء فی صفۃ الجنۃ وأنھا مخلوقۃ ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں میں نے اپنے نیک بندوں کے لیے وہ نعمتیں تیار کی ہیں، جن کو نہ کسی آنکھ نے دیکھا اور نہ ہی ان کے متعلق کسی کان نے سنا اور نہ کسی انسان کے دل میں ان کا خیال پیدا ہوا۔ اگر چاہو تو اس آیت کی تلاوت کرو۔ (کوئی نہیں جانتا کہ ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک کے لیے کیا چیز چھپا کے رکھی گئی ہے)۔“ مسائل ١۔ صاحب ایمان اور صالح اعمال کرنے والوں کے لیے نعمتوں والی جنت ہوگی۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ کے وعدے سچے ہوتے ہیں۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ حکیم اور غالب ہے۔ تفسیر بالقرآن جنت کی نعمتوں کی ایک جھلک : ١۔ ہم ان کے دلوں سے کینہ نکال دیں گے اور سب ایک دوسرے کے سامنے تکیوں پر بیٹھے ہوں گے۔ انہیں کوئی تکلیف نہیں پہنچے گی اور نہ وہ اس سے نکالے جائیں گے۔ (الحجر : ٤٧۔ ٤٨) ٢۔ جس جنت کا مومنوں کے ساتھ وعدہ کیا گیا ہے۔ اس کے نیچے نہریں جاری ہیں اور اس کے پھل اور سائے ہمیشہ کے لیے ہوں گے۔ (الرعد : ٣٥) ٣۔ جنت میں بے خار بیریاں، تہہ بہ تہہ کیلے، لمبا سایہ، چلتا ہوا پانی، اور کثرت سے میوے ہوں گے۔ (الواقعۃ : ٢٨ تا ٣٠) ٤۔ جنت کے میوے ٹپک رہے ہوں گے۔ (الحاقۃ: ٢٣) ٥۔ جنت میں وہ سب کچھ ہوگا جس کی جنتی خواہش کرے گا۔ (حٰم السجدۃ: ٣١) ٦۔ مومنوں کے ساتھ جس جنت کا وعدہ کیا گیا ہے اس میں چار قسم کی نہریں ہوں گی۔ ( محمد : ١٠) ٧۔ جنت میں نیچی نگاہ رکھنے والی حوریں ہوں گی جنہیں کسی جن وانس نے چھوا تک نہیں ہوگا۔ ( الرحمن : ٥٦) ٨۔ جنت میں محبت کرنے والی ہم عمر حوریں ہوں گی۔ ( الواقعہ : ٣٧) لقمان
9 لقمان
10 فہم القرآن ربط کلام : جو ” اللہ“ کفار کو عذاب الیم دے گا اور ایمان داروں کو جنت عطا فرمائے گا اس کی شان یہ ہے کہ اس نے بغیر ستونوں کے آسمان ٹھہرائے اور بلند وبالا پہاڑ بنائے۔ اللہ تعالیٰ نے یہاں اپنی دو عظیم قدرتوں اور دوبڑی نعمتوں کا ذکر فرمایا ہے۔ اللہ وہ ہے جس نے بغیر ستونوں کے ایک دوسرے پر آسمان کھڑے کیے ہیں۔ جن کے بارے میں اب تک سائنسدانوں کا خیال ہے کہ صرف ایک ہی آسمان ہے اور وہ بھی ٹھوس میٹریل سے بنا ہوا نہیں بلکہ اکثر سائنسدان کہتے ہیں کہحدِّ نظر کا نام آسمان ہے۔ کچھ سائنسدانوں کا نقطہ نظر ہے کہ آسمان موجود ہے۔ لیکن یہ ٹھوس چھت ہونے کی بجائے ایک دھواں ہے جس تک ہماری نظر نہیں پہنچ سکتی۔ حالانکہ حدیث میں اس بات کی وضاحت ہے کہ آسمان ایک دوسرے کے اوپر ہیں ان کے درمیان فاصلے ہیں اور ان میں دروازے میں جن سے ملائکہ زمین پر آتے جاتے ہیں۔ کچھ اہل علم نے یہ بھی ترجمہ اور مفہوم لکھا ہے کہ آسمان کے نیچے ستون ہیں لیکن انسان انہیں دیکھ نہیں سکتے۔ پہاڑوں کے بارے میں جدید تحقیقات جاننے کے لیے فہم القرآن کی جلد ٣ سورۃ الرّعد آیت : ٣ ملاحظہ فرمائیں۔ اللہ تعالیٰ ہی آسمان سے بارش نازل کرتا ہے اور اس کے ذریعے ہر قسم کے پھل پیدا کرتا ہے یہاں ” زَوْجٌ کَرِیْمٌ“ کے الفاظ استعمال کیے ہیں۔ قرآن مجید نے دنیا کو پہلی بار اس حقیقت سے آگاہ فرمایا کہ جاندار چیزوں کے نر اور مادہ کی طرح اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کے جوڑے بنائے ہیں۔ جس طرح کھجور کے درخت میں نر اور مادہ ہوتے ہیں اسی طرح دوسرے درختوں میں بھی نر اور مادہوتے ہیں۔ ” حضرت عمران بن حصین (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس موجود تھا جب آپ کے پاس بنو تمیم کے کچھ لوگ آئے۔ آپ نے فرمایا‘ اے بنو تمیم! خوشخبری قبول کرو۔ انہوں نے کہا آپ ہمیں خوشخبری دیتے ہیں، لیکن کچھ ہمیں عطا بھی کریں۔ ان کے بعد اہل یمن کے کچھ لوگ آئے آپ نے فرمایا کہ اے اہل یمن ! خوشخبری قبول کرو‘ آپ سے پہلے بنو تمیم نے اسے قبول نہیں کیا۔ انہوں نے کہا ہم قبول کرتے ہیں آپ کی خدمت میں ہم اس لیے حاضر ہوئے ہیں تاکہ ہم دین کی سمجھ حاصل کریں اور ہم آپ سے کائنات کی ابتداء کے بارے میں پوچھیں کہ سب سے پہلے کیا چیز تھی؟ آپ نے فرمایا کہ ” اللہ“ تھا‘ اور اس سے پہلے کوئی چیز نہیں تھی اس کا عرش پانی پر تھا اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمینوں کو پیدا فرمایا۔ پھر لوح محفوظ میں تمام امور لکھے۔ عمران (رض) کہتے ہیں پھر ایک شخص میرے پاس آیا، اس نے کہا، اے عمران! اپنی اونٹنی کو تلاش کروکیونکہ وہ بھاگ گئی ہے۔ میں اسے ڈھونڈنے نکلا اللہ کی قسم مجھے یہ زیادہ پسند تھا کہ اونٹنی چلی جاتی‘ لیکن میں نہ اٹھتا۔“ [ رواہ البخاری : باب قَوْلِہِ (وَکَانَ عَرْشُہُ عَلَی الْمَاءِ )] مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے بغیر ستونوں کے آسمان کھڑے کیے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے زمین پر پہاڑ گاڑ دئیے ہیں۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ ہی آسمان سے بارش برساتا ہے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ نباتات، پھل اور ہرقسم کا اناج پیدا کرتا ہے۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ نے نباتات کے بھی جوڑے پیدا کیے ہیں۔ تفسیر بالقرآن قرآن مجید میں پہاڑوں کا ذکر : ١۔ اللہ نے تمہارے لیے سایہ دار چیزیں بنائیں اور اسی نے تمہارے لیے پہاڑوں میں چھپنے کی جگہ بنائی ہے۔ (النحل : ٨١) ٢۔ کیا ہم نے زمین کو بچھونا اور پہاڑوں کو میخیں نہیں بنایا؟ (النباء : ٦، ٧) ٣۔ اللہ تعالیٰ نے زمین میں پہاڑگاڑ دیے۔ (النازعات : ٣٢) ٤۔ اللہ تعالیٰ نے پہاڑوں میں راستے بنائے ہیں۔ (الانبیاء : ٣١) ٥۔ تم پہاڑوں کو کھود کھود کر خوبصورت گھر بناتے ہو۔ (الشعراء : ١٤٩) ٦۔ اللہ نے زمین کو جائے قرار بنایا اس میں پہاڑ اور دو سمندروں کے درمیان پردہ بنایا۔ (النمل : ٦١) ٧۔ ہم نے داؤد (علیہ السلام) کے ساتھ پہاڑوں کو مسخر کیا اور وہ بھی صبح و شام اللہ کی تسبیح بیان کرتے۔ (الانبیاء : ٧٩) ٨۔ کیا آپ نے نہیں دیکھا ؟ کہ زمین و آسمان کی ہر چیز، چاند، سورج اور ستارے، پہاڑ، درخت اور چوپائے اللہ کو سجدہ کرتے ہیں۔ (الحج : ١٨) لقمان
11 فہم القرآن ربط کلام : عظیم نشانیوں اور نعمتوں کا تذکرہ کرنے کے بعد مشرکین سے سوال۔ ارشاد ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بغیر ستونوں کے آسمان پیدا کیے اور زمین پر پہاڑ گاڑ دئیے۔ وہ آسمان سے بارش نازل کرتا اور اس کے ساتھ بے شمار عمدہ اناج اور نباتات پیدا کرتا ہے تم بتاؤ کہ تمہارے خداؤں نے کیا پیدا کیا ہے ؟ حقیقت یہ ہے کہ خالق حقیقی کے ساتھ دوسروں کو معبود بنانے اور مشکل کشا، حاجت روا سمجھنے والے ظالم ہیں۔ اور یہ ظالم کھلی گمراہی میں مبتلا ہیں۔ دوسرے مقام پر ظالموں کو درج ذیل سوالات کیے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ہر دور کے مشرکوں کے پاس اس کے سوا نہ کوئی جواب ہے اور نہ ہوگا حقیقت یہ ہے کہ سب کچھ اللہ تعالیٰ نے ہی پیدا کیا ہے، وہی خالق اور مالک ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں شرک کرنے والوں کو کئی مرتبہ ظالم قرار دیا ہے۔ اس لیے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی صفات دوسروں میں سمجھتے اور بیان کرتے ہیں ظلم کا معنٰی ہے کہ کسی چیز کو اس کی اصل جگہ سے ہٹا کر دوسری جگہ رکھا جائے۔ مسائل ١۔ ساری کی ساری مخلوق اللہ تعالیٰ نے پیدا کی ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ کے بغیر کسی نے کچھ بھی نہیں پیدا کیا۔ ٣۔ مشرک کھلی گمراہی میں مبتلا ہوتا ہے۔ تفسیر بالقرآن مشرکین سے سوالات : ١۔ مشرک سے سوال کیا جائے کہ آسمان و زمین سے رزق کون دیتا ہے کہتے ہیں اللہ ہی رزق دیتا ہے۔ (یونس : ٣١) ٢۔ مشرکین سے پوچھا جائے مخلوق کو پیدا کرنے والا کون ہے؟ جواب دیتے ہیں اللہ ہی پیدا کرنے والا ہے۔ (یونس : ٣٤) ٣۔ اگر ان سے پوچھا جائے کہ زمین و آسمان کا خالق کون ہے؟ کہتے ہیں اللہ ہی ہے۔ (الزمر : ٣٨) ٤۔ مشرکوں سے پوچھاجائے سات آسمانوں اور عرش عظیم کا مالک کون؟ جواباً کہتے ہیں، اللہ ہی ہے۔ (المومنون : ٨٦۔ ٨٧) ٥۔ مزید حوالوں کے لیے دیکھیں۔ (المومنون : ٨٨۔ ٨٩) (العنکبوت : ٦١) ( لقمان : ٢٥) لقمان
12 فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان اور ہر قسم کے چوپائے پیدا کیے اور پھر اسی سے انسان کے رزق کا بندوبست فرمایا۔ جس پر ہر انسان کو اپنے رب کا شکر گزار ہونا چاہیے اور یہی عقل مندی ہے۔ اب ایک عقل مند شخص کا عقیدہ اور اس کی دانائی پر مبنی نصیحتوں کا ذکر کیا جاتا ہے۔ عرب کی تاریخ میں حضرت لقمان ایک جانی پہچانی شخصیت سمجھے جاتے تھے۔ ان کے بارے میں مشہور مؤرّخ لکھتے ہیں کہ یہ نسب کے اعتبار سے خالص عربی تھے۔ بعض مؤرّخین نے انہیں افریقی نسل قرار دیا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ عربی النسل تھے۔ ان کا قدر چھوٹا، رنگ کالا اور بدن بھاری تھا۔ ظاہری طور پر پرکشش شخصیت نہ ہونے کے باوجود اپنی دانشمندی کی وجہ سے اس زمانے کی پوری دنیا پر ان کے اقوال حوالے کے طور پر پیش کیے جاتے تھے۔ ان کی دانائی کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ انہوں نے اس وقت ” اللہ“ کی توحید کو سمجھا اور اس کا پرچار کیا جب دنیا کفر و شرک کے اندھیرے میں بھٹک رہی تھی۔ اہل عرب بالخصوص مکہ کے لوگ ان کی دانائی کے بڑے معترف تھے جس وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان کے نام پر یہ سورت نازل فرمائی اور ان کے نصائح میں سب سے پہلے یہ نصیحت ذکر فرمائی کہ انہوں نے اپنے بیٹے کو نصیحتیں کرتے ہوئے سب سے زیادہ جس بات پر زور دیا وہ عقیدہ توحیدتھا۔ شکر وہ جذبہ ہے جس سے انسان اپنے محسن کو پہنچانتا ہے۔ انسان کا سب سے بڑا محسِن اس کا خالق ہے۔ اس لیے، حضرت لقمان نے اپنے بیٹے کو اللہ تعالیٰ کا شکر گزار رہنے کی نصیحت فرمائی۔ یہی انسان کے دانشمند ہونے کی پہلی دلیل ہے۔ شکر کے بے شمار فوائد ہیں۔ جن میں چند ایک کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے احسانات اور اس کی نعمتوں کا شکر ادا کرنا۔ مزید ملنے کی گارنٹی اور زوال نعمت سے مامون رہنے کی ضمانت ہے۔ اور یہ رب کی بارگاہ میں نہایت پسندیدہ عمل ہے۔ اس کے مقابلہ میں ناشکری کفر کے مترادف ہے۔ شرک خالق کی سب سے بڑی ناشکری ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی کسی عبادت اور دین کے کسی عمل کے بارے میں بیک وقت یہ نہیں فرمایا کہ اس کے کرنے سے تم عذاب سے محفوظ رہو گے اور مزیدنعمتیں پانے کے حقدار بن جاؤ گے۔ صرف شکر ایسا عمل ہے جس کے بارے میں فرمایا کہ اگر شکر کرو گے تو اللہ تعالیٰ تمہیں مزید عطا فرمائے گا (ابراہیم : ٧) اس دوہرے انعام کی وجہ سے شیطان نے سرکشی اور بغاوت کی حدود پھلانگتے ہوئے کہا تھا۔ (وَلَاتَجِدُ اَکْثَرَھُمْ شٰکِرِےْنَ) [ الاعراف : ١٧]” اور تو ان میں سے اکثر کو شکر گزار نہ پائے گا۔“ شکروہ جذبہ ہے جس سے انسان کی طبیعت خود بخود اپنے محسن کے ادب واحترام اور اس کی سمع واطاعت کے لیے آمادہ ہوتی ہے۔ اعتراف احسانات سے ” اللہ“ کی ذات کے ساتھ والہانہ لگاؤ اور محبت کے جذبات میں اضافہ ہوتا ہے۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ذات باری تعالیٰ کے شکریے کو ہر محسن کے شکر یے کے ساتھ منسلک فرمایا ہے (مَنْ لَمْ یَشْکُرِالنَّاسَ لَمْ یَشْکُرِاللّٰہَ ) ” جو لوگوں کا شکر ادا نہیں کرتا وہ ” اللہ“ کا شکر بھی ادا نہیں کرتا۔“ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فرمان کا مقصدیہ ہے کہ جو شخص اپنے جیسے انسانوں کے چھوٹے چھوٹے احسانات کا شکریہ نہیں ادا کرتا وہ خالق کائنات کے پہاڑوں جیسے ان گنت احسانات کا شکریہ کس طرح ادا کرسکتا ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعا : آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہر فرض نماز کے بعد یہ دعا پڑھا کرتے تھے۔ (اَللّٰھُمَّ أَعِنِّیْ عَلٰی ذِکْرِکَ وَشُکْرِکَ وَحُسْنِ عِبَادَتِکَ) [ رواہ ابوداوٗد : کتاب الصلاۃ]” اے اللہ اپنے شکر اور بہترین اندازسے عبادت کرنے کی توفیق نصیب فرما۔“ ” حضرت ابی سعید مقبری حضرت ابوہریرہ (رض) سے بیان کرتے ہیں کہ یہ دعا میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے جب سے یاد کی اس کو چھوڑا نہیں۔ (اللَّہُمَّ اجْعَلْنِی أُعْظِمُ شُکْرَکَ وَأُکْثِرُ ذِکْرَکَ وَأَتَّبِعُ نَصِیحَتَکَ وَأَحْفَظُ وَصِیَّتَکَ) اے اللہ مجھے سب سے زیادہ شکر گذار، کثرت سے ذکر کرنے، ہدایت کی پیروی کرنے اور نصیحت کی حفاظت کرنے والا بنا دے۔“ [ رواہ الترمذی : باب فی الاستعاذۃ] مسائل ١۔ عقیدہ توحید اپنانا اور اس کا پرچار کرنا بہت بڑی دانائی ہے۔ ٢۔ شرک بہت بڑی ناشکری ہے۔ ٣۔ شکر کا فائدہ انسان ہی کو ہوتا ہے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ کو کسی کے کفر کی کوئی پرواہ نہیں ہوتی۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ غنی اور صاحب تعریف ہے۔ لقمان
13 فہم القرآن ربط کلام : سب سے بڑی حکمت کی بات یہ ہے کہ انسان اپنے رب پر بلاشرکت غیرے ایمان لائے اور اس کا شکریہ ادا کرے۔ جس نے نعمتوں کا اعتراف کیا اور اپنے رب کا شکرادا کیا یقیناً وہ شرک سے بچ جائے گا اور یہی سب سے بڑی دانائی ہے۔ حضرت لقمان کے بارے میں صحابہ کرام (رض) اور مفسرین کی غالب اکثریت کی رائے ہے کہ وہ نبی نہیں تھے بلکہ صرف نیک اور انتہائی دانشور انسان تھے۔ اہل عرب نہ صرف ان کی دانشمندی کے قائل تھے بلکہ بوقت ضرورت ان کے اقوال کا حوالہ بھی دیا کرتے تھے۔ قرآن مجید نے اس لیے حضرت لقمان کے ارشادات کا ذکر کیا ہے تاکہ مشرکین مکہ کو معلوم ہو کہ جس توحید کی وجہ سے ہم نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مخالفت کرتے ہیں اسی توحید کی حضرت لقمان تبلیغ کیا کرتے تھے۔ انہوں نے اپنے لخت جگر کو جو نصیحتیں اور وصیتیں کیں ان میں سرفہرست یہ وصیّت تھی کہ میرے بیٹے! اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا۔ بیٹا یقین جان! کہ سب سے بڑا ظلم اللہ تعالیٰ کی ذات یا اس کی صفات میں کسی کو شریک کرنا ہے ظلم کی تعریف کرتے ہوئے اہل لغت نے لکھا ہے۔ ” وَضْعُ الشَّیْءِ غَیْرَ مَحَلِّہٖ“ ” کسی چیز کو اس کی اصل جگہ سے ہٹا دینا۔“ حضرت لقمان کی وصیتوں کو اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف منسوب فرمایا ہے کہ ہم نے لقمان کو یہ حکمت عطا فرمائی تھی جس سے ثابت ہوا کہ دنیا میں سب سے بڑی حکمت اور عقل کی بات اللہ تعالیٰ کی توحید کو سمجھنا، اس پر پکے رہنا اور اس کا پرچار کرنا ہے۔ عقیدہ توحید کے برخلاف نظریہ رکھنا۔ صرف کفرو شرک کی بات نہیں بلکہ سب سے بڑا ظلم ہے۔ حضرت ابراہیم اور حضرت یعقوب (علیہ السلام) کی اپنی اولاد کو وصیت : (وَوَصَّی بِہَا إِبْرَاہِیمُ بَنِیہِ وَیَعْقُوبُ یَا بَنِیَّ إِنَّ اللَّہَ اصْطَفَی لَکُمُ الدِّینَ فَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُون أَمْ کُنْتُمْ شُہَدَاءَ إِذْ حَضَرَ یَعْقُوبَ الْمَوْتُ إِذْ قَالَ لِبَنِیہِ مَا تَعْبُدُونَ مِنْ بَعْدِی قَالُوا نَعْبُدُ إِلَہَکَ وَإِلَہَ آَبَاءِکَ إِبْرَاہِیمَ وَإِسْمَاعِیلَ وَإِسْحَاقَ إِلَہًا وَاحِدًا وَنَحْنُ لَہُ مُسْلِمُونَ)[ البقرہ : ١٣١، ١٣٢] ” جب ابراہیم کے رب نے اسے فرمایا کہ فرمانبردار ہوجا اس نے عرض کی میں نے اپنے آپ کو رب العالمین کے سامنے جھکا دیا ہے۔ ابراہیم اور یعقوب ( علیہ السلام) نے اپنی اولاد کو وصیت فرمائی کہ اے میرے بیٹو! اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے اس دین کو پسند فرمایا لیا ہے تمہیں موت مسلمان ہونے کی حالت میں آنی چاہیے۔“ (عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ (رض) قَالَ کُنْتُ خَلْفَ رَسُوْلِ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَوْمًا فَقَالَ یَاغُلَامُ إِنِّیْ أُعَلِّمُکَ کَلِمَاتٍ احْفَظِ اللّٰہَ یَحْفَظْکَ احْفَظِ اللّٰہَ تَجِدْہُ تُجَاھَکَ إِذَ ا سَأَلْتَ فَاسْأَلِ اللّٰہَ وَإِذَا اسْتَعَنْتَ فَاسْتَعِنْ باللّٰہِ وَاعْلَمْ أَنَّ الْأُمَّۃَ لَوِ اجْتَمَعَتْ عَلآی أَنْ یَنْفَعُوْکَ بِشَیْءٍ لَمْ یَنْفَعُوْکَ إِلَّا بِشَیْءٍ قَدْ کَتَبَہُ اللّٰہُ لَکَ وَلَوِ اجْتَمَعُوْا عَلٰی أَنْ یَّضُرُّوْکَ بِشَیْءٍ لَمْ یَضُرُّوْکَ إِلَّا بِشَیْءٍ قَدْ کَتَبَہُ اللّٰہُ عَلَیْکَ رُفِعَتِ الْأَقْلَامُ وَجَفَّتِ الصُّحُفُ) [ رواہ الترمذی : کتاب صفۃ القیامۃ والرقائق والورع، باب منہ] ” حضرت عبداللہ بن عباس (رض) بیان کرتے ہیں ایک دن میں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پیچھے سوار تھا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : بچے! میں تجھے چند کلمات سکھاتاہوں تو اللہ کو یاد رکھنا وہ تجھے یاد رکھے گا، جب تو اللہ تعالیٰ کو یاد رکھے گا تو تو اسے اپنے سامنے پائے گا، جب تو سوال کرے تو اللہ ہی سے سوال کر، جب تو مدد طلب کرے تو اللہ تعالیٰ ہی سے مدد طلب کر اور یقین رکھ کہ اگر پوری مخلوق تجھے کچھ نفع دینے کے لیے جمع ہوجائے تو وہ اتنا ہی نفع دے سکتی ہے جتنا اللہ تعالیٰ نے تیرے لیے لکھ رکھا ہے اور اگر وہ تجھے نقصان پہنچانے پر تل جائے تو تجھے اتنا ہی نقصان پہنچے گا جتنا تیرے حق میں لکھا گیا ہے، قلمیں اٹھالی گئیں ہیں اور صحیفے خشک ہوگئے ہیں۔“ مسائل ١۔ حضرت لقمان نے اپنے بیٹے کو وصیّت کی کہ ” بیٹا“ اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک نہ کرنا۔ ٢۔ شرک سب سے بڑا ظلم ہے۔ تفسیر بالقرآن شرک کی قباحتیں : ١۔ شرک کی ممانعت۔ (البقرۃ : ٢٢) ٢۔ شرک بڑا ظلم ہے۔ (لقمان : ١٣) ٣۔ مشرک ناپاک ہے۔ (التوبۃ: ٢٨) ٤۔ مشرکوں کے اعمال برباد ہوجاتے ہیں۔ (الانعام : ٨٨) ٥۔ مشرکوں پر اللہ کی لعنت ہوتی ہے۔ (الفتح : ٦) ٦۔ مشرکوں پر جنت حرام ہے۔ (المائدۃ: ٧٢) ٧۔ شرک معاف نہیں ہوگا۔ (النساء : ٤٨) ٨۔ شرکیہ عقیدے کی کوئی دلیل نہیں۔ (المومنون : ١١٧) ٩۔ شرک سے آدمی ذلیل ہوجاتا ہے۔ (الحج : ٣١) ١٠۔ بتوں کے الٰہ ہونے کی کوئی دلیل نہیں۔ (النجم : ٢٣) ١١۔ اٹھارہ جلیل القدر انبیاء ( علیہ السلام) کا تذکرہ کر کے فرمایا اگر یہ شرک کرتے تو ان کے اعمال بربادہوجاتے۔ (الانعام : ٨٨) لقمان
14 فہم القرآن ربط کلام : حقوق اللہ کے بعد سب سے پہلے والدین کے حقوق ہیں اس لیے ان کے بارے میں نصیحت کی جا رہی ہے۔ اردوزبان میں وصیّت سے مراد وہ بات لی جاتی ہے جو فوت ہونے والا شخص کسی کے بارے میں اپنے ورثاء کو نصیحت کرتا ہے لیکن عربی زبان میں ہر نصیحت کے لیے وصیّت اور نصیحت کے الفاظ استعمال ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی توحید اور اس کی بندگی کے بعد انسان پر سب سے زیادہ حق اس کے والدین کا ہے یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید میں کئی مقامات پر توحید باری تعالیٰ کے ذکر کے بعد والدین کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیا گیا ہے۔ والدین میں جس شخصیت کا حق فائق ہے وہ انسان کی ماں ہے کیونکہ ماں اپنے بچے کے لیے بڑی مشقت برداشت کرتی ہے صاحب امید ہونے کے بعد بچے کو جنم دینے تک ہر آنے والا دن ماں کے لیے بھاری ہوتا ہے۔ ماں کے لیے بچے کو جنم دینا کا یہ دورانیہ موت وحیات کے مترادف ہوتا ہے۔ اس کے بعد ماں اپنے نونہال کو دوسال تک دودھ پلاتی ہے جس دوران ماں ایسی خوراک نہیں کھا سکتی جس کا بچے کی افزائش پر منفی اثر پڑنے کا اندیشہ ہو۔ اس طرح ماں پہلے دن سے لے کر بچے کا دودھ چھڑانے تک آزمائش کے دور سے گزرتی ہے۔ اسی لیے احادیث کی مقدس دستاویزات میں باپ سے زیادہ ماں کے حقوق کا تذکرہ ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ اے انسان ہر دم میرا شکر ادا کرنے کے ساتھ اپنے والدین بالخصوص اپنی ماں کا شکر گزار رہنا۔ کیونکہ اس نے تجھے بڑی تکلیف کے ساتھ جنم دیا اور تجھے دو سال دودھ پلایا ہے اور یاد رکھنا بالآخر تجھے میری ہی طرف پلٹ کر آنا ہے۔ آخرت کی یاد دلاکر آدمی کو ایک انتباہ کیا گیا ہے تاکہ اولاد اپنے والدین کا زیادہ سے زیادہ خیال رکھے۔ شکر وہ جذبہ ہے جس سے انسان اپنے محسن کی قدر جاننے کے ساتھ اس کی فرمانبرداری میں لذت محسوس کرتا ہے اس لیے شکرگزار ہی نیک ہوتے ہیں۔ ابتدائی دور میں بے شمار ایسے صحابہ کرام (رض) تھے جن کی مشرکوں کے ساتھ قریبی رشتہ داریاں تھیں۔ مالدار صحابہ قبل از ایمان مشرک رشتہ داروں کے ساتھ تعاون کرتے تھے۔ لیکن کلمہ پڑھنے کے بعد انہوں نے ایسے لوگوں کے ساتھ تعاون کرنے سے ہاتھ کھینچ لیا۔ جس پر یہ فرمان نازل ہوا جس میں وضاحت فرمائی ہے کہ جو کچھ بھی تم اللہ کی رضا کے لیے غریبوں اور مسکینوں پر خرچ کرو گے اس کا پورا پورا اجر عنایت کیا جائے گا۔ حضرت اسماء (رض) کی والدہ اپنی بیٹی اسماء (رض) سے تعاون حاصل کرنے کے لیے مکہ سے مدینہ آئی جس پر حضرت اسماء (رض) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہو کر پوچھتی ہیں کہ میری والدہ مجھ سے مالی تعاون کی امید رکھتی ہے۔ کیا میں مشرکہ والدہ کے ساتھ تعاون کرسکتی ہوں؟ آپ نے فرمایا : تمہیں اس کے ساتھ تعاون کرنا چاہیے۔“ [ رواہ البخاری : کتاب الھبۃ وفضلھا، باب الھدیۃ للمشرکین] (عَنْ بَہْزِ بْنِ حَکِیْمٍ عَنْ أَبِیْہِ عَنْ جَدِّہِ قَالَ قُلْتُ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَنْ أَبَرُّ قَالَ أُمَّکَ ثُمَّ أُمَّکَ ثُمَّ أُمَّکَ ثُمَّ أَبَاکَ ثُمَّ الأَقْرَبَ فَالأَقْرَبَ)[ رواہ ابوداؤد : کتاب الأدب، باب فی برالوالدین] ” بہزبن حکیم اپنے باپ سے اور وہ اپنے والد سے بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا : میں نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول ! میں کس سے اچھا سلوک کروں ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اپنی ماں سے، پھر اپنی ماں سے، پھر اپنی ماں سے، پھر اپنے باپ سے اور پھر قریبی رشتہ داروں سے۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو اس کے والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنے کا حکم دیا ہے۔ ٢۔ والدین میں والدہ کے حقوق فائق ہیں۔ ٣۔ بچے کی رضاعت کی مدّت دو سال ہے۔ تفسیر بالقرآن والدین کے بارے میں اولاد کو قرآن مجید کی ہدایات : ١۔ بنی اسرائیل سے والدین کے ساتھ احسان کا عہدلیا گیا۔ (البقرۃ: ٨٣) ٢۔ والدین کے سامنے عاجزی سے رہنا اور ان کے لیے دعا کرنی چاہیے۔ (بنی اسرائیل : ٢٤) ٣۔ غیر مسلم والدین کے ساتھ بھی اچھا سلوک کرنا چاہیے۔ (لقمان : ١٥) ٤۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو والدہ کے ساتھ حسن سلوک کا حکم۔ (مریم : ٣٢) ٥۔ والدین سے نیکی کرنے کا حکم۔ (بنی اسرائیل : ٢٣) ٦۔ والدین کو اف کہنا اور جھڑکناجائز نہیں۔ (بنی اسرائیل : ٢٣) لقمان
15 فہم القرآن ربط کلام : والدین کی فرمانبرداری کی حدود۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جنم اور نسب کے حوالے سے انسان پر اس کے والدین کا بہت زیادہ حق ہے۔ لیکن انسان کا حقیقی خالق اور مالک ” اللہ“ ہے۔ اس نے انسانی افزائش کے لیے والدین کو اپنی تخلیق کا ذریعہ بنایا ہے اس لیے اس نے اپنی بندگی کے بعد ماں باپ کی سمع و اطاعت کا حکم دیا ہے۔ لیکن والدین کی اطاعت کی بھی ایک حد مقرر فرمائی ہے۔ بیشک والدین یہودی، عیسائی یا کسی بھی دین پر ہوں ان کی سمع و اطاعت کرنے کا حکم ہے۔ اس وقت تک جب تک وہ کفرو شرک کا حکم نہ دیں۔ اگر وہ کفرو شرک، اور بدعات کا حکم دیں تو ان کا حکم ماننا جائز نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے کفرو شرک کی تائید میں کوئی دلیل نازل نہیں کی۔ لہٰذا دنیا کے اچھے معاملات میں والدین کی تابعداری کرنی ہے۔ مگر دین کے معاملہ میں پیروی اس شخص کی کرنی ہے جو ” اللہ“ کے راستے کی طرف بلانے والا ہو بالآخر سب کو ” اللہ“ کی طرف پلٹ کر جانا ہے۔ وہ بتائے گا کہ تم کیا عمل کرتے رہے ہو۔ (عَنِ النَوَّاسِ بْنِ سَمْعَانَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لَا طَاعَۃَ لِمَخْلُوْقٍ فِیْ مَعْصِیَۃِ الْخَالِقِ) [ مشکوۃ : باب کتاب الامارۃ والقضاء] ” حضرت نواس بن سمعان (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ کی نافرمانی کرتے ہوئے مخلوق کی اطاعت جائز نہیں۔“ حضرت سماک بن حرب بیان کرتے ہیں میں نے مصعب بن سعد (رض) سے سنا وہ اپنے باپ سعد (رض) سے بیان کرتے ہیں کہ میرے متعلق چار آیات نازل ہوئی انہوں نے اپنی والدہ کا قصہ بیان کیا سعد (رض) کی والدہ کہنے لگی کیا اللہ نے ماں کے ساتھ نیکی کا حکم نہیں دیا ؟ اللہ کی قسم اس وقت تک نہ کھانا کھاؤں گی اور نہ پانی پیؤں گی یہاں تک کہ میں مر جاؤں۔ جب تک تو محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا انکار نہ کرے۔ راوی کہتے ہیں جب سعد ماں کو کھانا کھلانا چاہتے تو وہ منہ بند کرلیتی۔ اس وقت یہ آیت نازل ہوئی (اور ہم نے انسان کو تاکیدی حکم دیا ہے کہ وہ اپنے والدین سے نیک سلوک کرے اور اگر وہ اس بات کا مطالبہ کریں کہ تو کسی کو میرا شریک ٹھہرائے جسکا تجھے علم نہیں تو ان کی اطاعت نہیں کرنا۔ میری طرف ہی تمہیں لوٹ کر آنا ہے۔ میں تمہیں بتلا دوں گا جو کچھ تم کیا کرتے تھے۔) [ رواہ الترمذی : باب وَمِنْ سُورَۃِ الْعَنْکَبُوتِ] اس آیت میں ارشادفرمایا گیا ہے کہ کسی کو ” اللہ“ کا شریک اس لیے نہیں بنانا کیونکہ تجھے اس کا علم نہیں۔ علم اور معرفت کسی چیز کو جاننے کا نام ہے، جس کی بنیاد ٹھوس اور واضح دلیل پر ہونی چاہیے۔ کیونکہ شرک کی واضح اور ٹھوس دلیل نہیں ہوتی اس لیے فرمایا ہے کہ جس کا تو علم نہیں رکھتا اسے اپنے رب کا شریک نہ بنانا۔ اسی بنیاد پر فرمایا گیا ہے کہ اندھیرا اور روشنی برابر نہیں ہوسکتے۔ (فاطر : ٢٠) مسائل ١۔ کفرو شرک میں کسی کی تابعداری کرناجائز نہیں۔ ٢۔ کافر اور مشرک والدین کے ساتھ بھی اچھا سلوک کرنا لازم ہے۔ ٣۔ جو شخص اللہ کے راستے کی طرف بلائے اس کی بات ماننا چاہیے۔ ٤۔ سب نے ” اللہ“ کی طرف پلٹنا ہے وہ لوگوں کو ان کے اعمال کی خبر دیگا۔ تفسیر بالقرآن شرک کی کوئی دلیل نہیں : ١۔ جو اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی غیر کو پکارتا ہے اس کے پاس کوئی دلیل نہیں ہے۔ (المؤمنون : ١١٧) ٢۔ انھوں نے اللہ کے علاوہ کئی معبود بنالیے ہیں آپ فرمائیں کوئی دلیل لاؤ۔ (الانبیاء : ٢٤) ٣۔ اس کے سوا کوئی اور بھی الٰہ ہے کوئی دلیل لاؤ اگر تم سچے ہو۔ (النمل : ٦٤) ٤۔ کچھ لوگ ” اللہ“ کے سوا ان کی عبادت کرتے ہیں جن کی عبادت کے لیے کوئی دلیل نازل نہیں کی گئی۔ (الحج : ٧١) ٥۔ لوگو! تم اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک ٹھہراتے ہوئے نہیں ڈرتے حالانکہ اللہ نے اس کی کوئی دلیل نازل نہیں کی۔ (الانعام : ٨١) ٦۔ اے لوگو! تمہارے پاس رب کی طرف سے اس کی توحید کی دلیل آچکی ہے۔ (النساء : ١٧٥) لقمان
16 فہم القرآن ربط کلام : حضرت لقمان کی اپنے بیٹے کو دوسری وصیت۔ حضرت لقمان نے اپنے بیٹے کو آخرت کی جو ابدہی کا احساس دلاتے ہوئے فرمایا کہ بیٹا انسان چھپ کر گناہ کرے یا اعلانیہ۔ رات کو کرے یا دن کی روشنی میں۔ گناہ بڑا ہو یا چھوٹا۔ بے شک وہ رائی کے دانے کے برابر ہی کیوں نہ ہو وہ زمین کی گہرائیوں میں ہو یا پہاڑ کی چوٹی پر یہاں تک کہ آسمانوں میں چھپا ہوا ہو۔ اللہ تعالیٰ اسے اپنی بارگاہ میں ضرور حاضر کرے گا کیونکہ وہ باریک سے باریک چیز کی خبر رکھنے والا ہے۔ جس شخص کا یہ ذہن بن جائے کہ اللہ تعالیٰ ہر وقت اور ہر چیز کو دیکھ رہا ہے۔ وہ جب چاہے پکڑ سکتا ہے اس نے پکڑ لیا تو اس کی پکڑ سے کوئی چھڑا نہیں سکتا۔ وہ شخص گناہ نہیں کرسکتا اگر بتقاضأ بشریت اس سے گناہ سرزد ہوجائے تو وہ زیادہ دیرتک توبہ کے بغیر نہیں رہ سکتا۔ اس لیے قرآن مجید انسان کو یہ عقیدہ اور ذہن دیتا ہے کہ اے انسان تو جہاں کہیں ہو تیرا رب اپنے علم اور اقتدار کے حوالے سے تیرے ہی ساتھ ہوتا ہے۔ ” کیا آپ کو معلوم نہیں کہ جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے سب کو اللہ جانتا ہے۔ جب تین آدمی سرگوشی کرتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کے ساتھ چوتھا ہوتا ہے اور جب پانچ آدمی سرگوشی کرتے ہیں تو اللہ ان کے ساتھ چھٹا ہوتا ہے۔ اسی طرح اس سے کم یا زیادہ ہوں تو اللہ ضرور ان کے ساتھ ہوتا ہے وہ کہیں بھی ہوں۔ پھر قیامت کے دن جو کام انہوں نے کیے ہیں ان کی ان کو خبر دے گا۔ بے شک اللہ تعالیٰ ہر چیز کا علم رکھنے والاہے۔“ (المجادلۃ: ٧) اللہ تعالیٰ ذات کے اعتبار سے نہیں اپنے علم، اقتدار اور اختیارات کے حوالے سے ہر جگہ موجود ہوتا ہے۔ ” اور اسی کے پاس غیب کی چابیاں ہیں انہیں اس کے سوا کوئی نہیں جانتا اور وہ جانتا ہے جو کچھ خشکی اور سمندر میں ہے اور کوئی پتا نہیں گرتا مگر وہ اسے جانتا ہے اور زمین کے اندھیروں میں کوئی تر اور خشک دانہ نہیں مگر وہ ایک واضح کتاب میں لکھا ہوا ہے۔“ [ الانعام : ٥٩] (عَنْ أَبِیْ سَعِیْدٍ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) أَنَّ رَجُلاً کَانَ قَبْلَکُمْ رَغَسَہُ اللَّہُ مَالاً فَقَالَ لِبَنِیْہِ لَمَّا حُضِرَ أَیَّ أَبٍ کُنْتُ لَکُمْ قَالُوا خَیْرَ أَبٍ قَالَ فَإِنِّیْ لَمْ أَعْمَلْ خَیْرًا قَطُّ، فَإِذَا مُتُّ فَأَحْرِقُوْنِی ثُمَّ اسْحَقُوْنِیْ ثُمَّ ذَرُّونِیْ فِی یَوْمٍ عَاصِفٍ فَفَعَلُوْا، فَجَمَعَہُ اللَّہُ عَزَّ وَجَلَّ، فَقَالَ مَا حَمَلَکَ قَالَ مَخَافَتُکَ فَتَلَقَّاہُ بِرَحْمَتِہِ) [ رواہ البخاری : باب حدثنا ابو الیمان] ” حضرت ابو سعید نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں کہ تم سے پہلے ایک آدمی گزرا ہے جسے اللہ نے مال کی فراوانی عطا کی تھی اس نے موت کے وقت اپنے بیٹوں کو کہا میں نے کبھی نیک عمل نہیں کیا جب میں مرجاؤں تو مجھے جلا کر میری راکھ کو ہواؤں میں اڑا دینا، انہوں نے ایسا ہی کیا اللہ عزوجل نے اسے زندہ کیا، اور پوچھا کہ تجھے اس کام پر کس چیز نے ابھارا تھا ؟ وہ کہنے لگا کہ آپ کے ڈر نے۔ اللہ تعالیٰ نے اسے اپنی رحمت میں لے لیا۔“ مسائل ١۔ انسان جہاں کہیں ہو وہ اللہ تعالیٰ سے نہیں چھپ سکتا۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ باریک سے باریک چیز کو جانتا ہے۔ ٣۔ قیامت کے دن انسان کا ہر عمل اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کیا جائے گا۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ سب کچھ جانتا ہے : ١۔ اللہ تعالیٰ دلوں کے راز جانتا ہے۔ (ہود : ٥) ٢۔ جوا للہ جانتا ہے تم نہیں جانتے۔ (البقرہ : ٢١٦) ٣۔ اللہ تعالیٰ کا علم فرشتے بھی نہیں جانتے۔ (البقرہ : ٣٠) ٤۔ اللہ تعالیٰ خشکی اور تری کی پوشیدہ چیزوں کو جانتا ہے۔ (الانعام : ٥٩) ٥۔ ہر گرنے والا پتّہ اللہ تعالیٰ کے علم میں ہوتا ہے۔ (الانعام : ٥٩) ٦۔ اللہ تعالیٰ آنکھوں کی خیانت کو جانتا ہے۔ (المومن : ١٩) ٧۔ اللہ تعالیٰ کے لیے یکساں ہے جو لوگ چھپاتے ہیں اور ظاہر کرتے ہیں۔ ( الرعد : ١٠) لقمان
17 فہم القرآن ربط کلام : حضرت لقمان کی اپنے بیٹے کو تیسری، چوتھی، پانچویں اور چھٹی وصیّت۔ عظیم باپ اپنے لخت جگر کو نصیحت پر نصیحت کرتے ہوئے فرماتا ہے اے بیٹا آخرت کی فکر کرو، فکر آخرت کا تقاضا ہے کہ انسان نیک بن جائے۔ عقیدہ توحید پر کار بند ہونے کے بعد سب سے بڑی نیکی یہ ہے کہ انسان اپنے رب کے حضور نماز پڑھے۔ نماز نہ صرف اللہ تعالیٰ کی محبوب عبادت ہے بلکہ یہ عظیم ترین نیکی ہونے کے ساتھ نمازی کو برائی اور بے حیائی سے روکتی ہے۔ بشرطیکہ اس کو اس کے تقاضوں کے ساتھ ادا کیا جائے۔ نمازی بننے کے ساتھ لوگوں کو نیکی کی تلقین کرو اور برائی سے منع کرتے رہو اسی بات کو ” قرآن مجید“ نے امر بالعمروف اور نہی عن المنکر کا نام دیا ہے۔ اگر یہ کام روایتی اور پیشہ کے طور پر نہ کیا جائے تو اس راستے میں مشکلات کا آنا یقینی امر ہے۔ جس پر تمام انبیاء کرام (علیہ السلام) اور ان کے ساتھیوں کی زندگیاں گواہ ہیں اس لیے حضرت لقمان فرماتے ہیں بیٹا صبر کے ساتھ مصائب و آلام کو برداشت کرنا بڑے عزم کا کام ہے۔ مسائل ١۔ نماز قائم کرنا، لوگوں کو اچھائی کا حکم دینا اور برائی سے منع کرنا چاہیے۔ ٢۔ امربالمعروف اور نہی عن المنکر کے راستے میں مصائب پر صبر کرنا بڑے عزم کی بات ہے۔ تفسیر بالقرآن امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی اہمیت : ١۔ مؤمن امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ سر انجام دیتے ہیں۔ (آل عمران : ١١٤) ٤۔ اے ایمان والو ! اپنے آپ اور اپنے اہل وعیال کو جہنم کی آگ سے بچاؤ۔ (التحریم : ٦) بہترین امت (آل عمران : ١١٠) لقمان
18 فہم القرآن ربط کلام : حضرت لقمان کی اپنے بیٹے کو مزید چار وصیتیں۔ ایک اچھے مسلمان اور بہترین مبلّغ کے لیے لازم ہے کہ وہ ان باتوں کا خیال کرے جو حضرت لقمان نے اپنے بیٹے کو ارشاد فرمائی ہیں۔ عظیم دانشور اپنے بیٹے کو اخلاق اور کردار کے حوالے سے سمجھاتے ہوئے فرماتے ہیں کہ لوگوں سے تکبر اور لاپرواہی سے اپنے چہرہ کو نہ پھیرنا۔ زمین پر اکڑ کر نہ چلنا۔ یقیناً یہ فخرو غرور کا انداز ہے یاد رکھ کہ رب ذوالجلال کو فخروغرور کرنے والے لوگ پسند نہیں۔ جو شخص ان باتوں کا خیال نہیں رکھتا بے شک وہ علمی، مالی، سماجی اور سیاسی لحاظ سے کتنا بڑا کیوں نہ ہو بالآخر لوگ اس سے نفرت کرنے لگتے ہیں بسا اوقات متکبر شخص کے سامنے لوگوں کی گردنیں جھکی ہوئی ہوتی ہیں۔ مگر ان کے دل اس سے نفرت کا اظہار کرتے ہیں۔ ( وَعَنْ اَنسٍ (رض) اَنَّ رَسُوْ لَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کَانَ اِذَا صَافَحَ الرَّجُلُ لَمْ یَنْزِعْ یَدَہٗ مِنْ یَدِہٖ حَتّٰی یَکُوْنَ ہَوُ الَّذِیْ یَنْزِعْ یَدَہٗ وَلَا یَصْرِفُ وَجَہَہٗ عَنْ وَجْہِہٖ حَتّٰی یَکْوْنَ ہُوَالَّذِیْ یَصْرِفُ وَجْہَہٗ عَنْ وَجْہِہٖ وَلَمْ یُرَ مُقَدِّماً رُکْبَتَیْہِ بَیْنَ یَدَیْ جَلِیْسٍ لَہٗ) [ رواہ الترمذی : باب المصافحۃ] ” حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ بے شک رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب کسی آدمی سے ہاتھ ملاتے تو آپ اس کے ہاتھ کھینچے سے پہلے اپنے ہاتھ کو الگ نہ کرتے اور نہ ہی آپ اپنے چہرے کو اس کے چہرے سے ہٹاتے جب تلک وہ اپنے چہرے کو خود نہ ہٹا لیتا۔ چلنا، اکڑ کر اور نہ ہی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجلس میں بیٹھے ہوئے اپنے گھٹنوں کو کبھی دراز کیا۔“ چال ڈھال میں میانہ روی : حضرت لقمان اپنے بیٹے کو یہ وصیت بھی کرتے ہیں کہ بیٹا اکڑ کر نہ چلنے کا یہ معنٰی نہیں کہ آدمی بیماروں کی طرح چلے اس کا مفہوم یہ ہے کہ درمیانے انداز اور رفتار میں چلنا چاہیے۔ جس میں تندرستی کے اظہار کے ساتھ، تواضع بھی ہونی چاہیے اس میں پیدل چلنا ہی شامل نہیں بلکہ سواری کی رفتار بھی اسی انداز کی ہونی چاہیے بعض لوگ گاڑی ڈرائیو کر رہے ہوں تو اس سپیڈ کے ساتھ گزرتے ہیں کہ پیدل چلنے والے کا کلیجہ کانپ جاتا ہے۔ راستے میں پانی ہو تو راہگیروں کے کپڑے گندے ہوجاتے ہیں ایسے آدمی کو لوگ بدعائیں ہی دیا کرتے ہیں۔ دنیا بھر میں یہ اصول مسلّمہ ہے کہ تیز رفتاری سے ایکسیڈنٹ زیادہ ہوتے ہیں اس لیے آدمی پیدل ہو یا سوار اسے میانہ روی کا خیال رکھنا چاہیے۔ چلنے کا انداز اور میانہ روی : زمین پر اکڑ کر چلنے سے انسان بڑا نہیں ہوجاتا انسان بڑا ہوتا ہے تواضح اور انکساری کے ساتھ۔ جس قدر لوگوں کے ساتھ تواضح اختیار کرے گا۔ اسی قدر ہی ان میں بڑا بنتا جائے گا۔ اکڑ کر چلنے کے بارے میں قرآن مجید میں ان الفاظ کے ساتھ مذمت کی گئی ہے۔ (وَ لَا تَمْشِ فِی الْاَرْضِ مَرَحًا اِنَّکَ لَنْ تَخْرِقَ الْاَرْضَ وَ لَنْ تَبْلُغَ الْجِبَالَ طُوْلًا) [ بنی اسرائیل : ٣٧] ” اور زمین میں اکڑ کر نہ چل، بے شک تو نہ زمین کو پھاڑ سکے گا اور نہ اونچائی میں پہاڑوں تک پہنچ پائے گا۔“ (عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَ (رض) قاَلَ مَارَایْتُ شَیْءًا اَحْسَنَ مِنْ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کَاَنَّ الشَّمْسَ تَجْرِیْ فِیْ وَجْہِہٖ وَمَا رَایْتُ اَحَدًا اَسْرَعَ فِیْ مَشْیِہٖ مِنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کَاَنَّمَا الْاَرْضُ تُطْوٰی لَہٗ اِنَّا لَنُجْہِدُ اَنْفُسَنَا وَاِنَّہٗ لَغَیْرُ مُکْتَرِثٍ) [ رواہ الترمذی : باب فی صفۃ النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بڑھ کر کسی کو حسین نہیں دیکھا گویا کہ سورج آپ کے چہرے میں رواں دواں ہو۔ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے زیادہ تیز چلنے والا کسی کو نہیں دیکھا اس طرح دکھائی دیتا گویا کہ آپ کے لیے زمین سکڑ گئی ہے۔ ہمیں آپ کے ساتھ ملنے کے لیے کوشش کرنا پڑتی، اور آپ کو کسی قسم کی مشقت کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔“ (کَانَ عَلِیٌّ إِذَا وَصَفَ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ۔۔ إِذَا مَشٰی تَقَلَّعَ کَأَنَّمَا یَمْشِیْ فِی صَبَبٍ)[ رواہ الترمذی : باب مَا جَاءَ فِی صِفَۃِ النَّبِیّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ] ” حضرت علی (رض) نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صفات بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قدرے جھک کرچلتے جیسے ڈھلوان سے نیچے اتر رہے ہوں۔“ (یعنی گردن اکڑا کر نہیں چلتے بلکہ ہلکا سا جھکاؤ لیے ہوئے چلا کرتے ہیں۔) گفتگو میں میانہ روی رکھیں : حضرت لقمان اپنے بیٹے کو پے درپے نصیحتیں کرتے ہوئے سمجھاتے ہیں کہ میرے لخت جگر اپنی آواز بھی بلا ضرورت بلند نہ کرو۔ خواہ مخواہ اور بلا وجہ اونچی آواز سے بولنا گدھے کی طرح بولنا ہے۔ عقل مندی اور سنجیدگی کا تقاضا ہے کہ آدمی ماحول اور ضرورت کا خیال رکھتے ہوئے آواز بلند کرے۔ چاہے وہ کتنا بڑا خطیب کیوں نہ ہو۔ اسے ہمیشہ خیال رکھنا چاہیے کہ کہیں میری آواز اور لب ولہجہ میں تصنّع اور کراہت تو نہیں پائی جاتی۔ یہی اصول نماز میں ہونا چاہیے لاؤڈ اسپیکر کی آواز کاتوبالخصوص خیال رکھنا چاہیے۔ (عَنْ اَبِیْ ھُرَےْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اِذَا سَمِعْتُمْ صِےَاح الدِّےْکَۃِ فَسَلُوْا اللّٰہَ مِنْ فَضْلِہٖ فَاِنَّھَا رَأَتْ مَلَکًا وَاِذَا سَمِعْتُمْ نَھِےْقَ الْحِمَارِ فَتَعَوَّذُوْا باللّٰہِ مِنَ الشَّےْطَان الرَّجِےْمِ فَاِنَّہُ رَاٰی شَےْطَانًا) [ رواہ البخاری : باب خیر مال المسلم] حضرت ابوہریرہ (رض) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کرتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب تم مرغ کی اذان سنو تو اللہ تعالیٰ سے اس کا فضل مانگا کرو۔ کیونکہ وہ فرشتے کو دیکھتا ہے اور جب گدھے کو ہینگتا سنو تو ” اَعُوْذُ باللّٰہِ مِن الشَّےْطٰنِ الرَّجِےْمِ“ پڑھو۔ کیونکہ گدھا شیطان کو دیکھ کر ہینگتا ہے۔ مسائل ١۔ لوگوں کے ساتھ متکبرانہ انداز اختیار نہیں کرنا چاہیے۔ ٢۔ چال، ڈھال اور بولنے میں میانہ روی ہونی چاہیے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ متکبر اور مغرور آدمی کو پسند نہیں کرتا۔ ٤۔ سب سے مکروہ آواز گدھے کی آواز ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ متکبر اور مغرور آدمی کو پسند نہیں کرتا۔ ١۔ متکبر کو اللہ تعالیٰ پسند نہیں کرتا۔ (النحل : ٢٣) ٢۔ اللہ تعالیٰ اترانے والے کو پسند نہیں کرتا۔ ( القصص : ٧٦) ٣۔ زمین میں اکڑ کر نہ چل! نہ تو زمین کو پھاڑ سکتا ہے اور نہ پہاڑوں کی بلندیوں کو پہنچ سکتا ہے۔ (بنی اسرائیل : ٣٧) ٤۔ اللہ تکبر اور فخر کرنے والے کو پسند نہیں فرماتا۔ (لقمان : ١٨) ٥۔ جو کچھ اللہ نے تمہیں عطا کیا ہے، اس پر اتراؤ نہیں کیونکہ اللہ فخر کرنے والے کو پسند نہیں کرتا۔ (الحدید : ٢٣) ٦۔ یقیناً اللہ تکبر اور فخر کرنے والے کو پسند نہیں فرماتا۔ (النساء : ٣٦) لقمان
19 لقمان
20 فہم القرآن ربط کلام : حضرت لقمان کی وصیتوں میں سر فہرست وصیت ” اللہ“ کی توحید ہے۔ توحید سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کی نعمتوں پر غوکرے۔ کیا انسان اس حقیقت پر غور نہیں کرتے کہ اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمانوں اور ہر چیز کو ان کی خدمت میں لگا رکھا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اتنی نعمتیں عطا کر رکھی ہیں کہ ان کا شکر ادا کرنا تو درکنار انہیں شمار کرنا بھی مشکل ہے۔ انسان اپنے رب کی شکر گزاری اور تابعداری کرنے کی بجائے اپنے رب کے بارے میں جھگڑا کرتا ہے۔ کافر اپنے رب کی ذات کا انکار کرتا ہے اور مشرک اس کی ذات اور صفات میں دوسروں کو شریک بناکر جھگڑا کرتا ہے۔ اگر ان کو سمجھایا جائے تو یہ اپنے رب کی ذات اور صفات کے خلاف من گھڑت دلیلیں ہی نہیں دیتے بلکہ موحد کے ساتھ لڑنے مرنے کے لیے تیار ہوجاتے ہیں۔ حالانکہ کافر اور مشرک کے پاس اپنے باطل عقیدہ کی تائید میں کوئی دلیل نہیں ہوتی۔ یہ لوگ کسی حقیقی علم، آسمانی ہدایت اور کتاب الٰہی کی دلیل کے بغیر جھگڑتے ہیں۔ یہاں تک اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا تعلق ہے ان میں کھلی نعمتیں تو انسان کے سامنے ہیں۔ جن نعمتوں کا انسان تصور نہیں کرسکتا تھا وہ بھی ظاہر کی جا رہی ہیں۔ کیا آج سے کچھ مدّت پہلے کا انسان گیس، بجلی، ہوائی جہاز، ٹرانسپورٹ اور بے شمار موجودہ ایجادات کو جانتا تھا؟ کیا ہم جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ آنے والے انسانوں کو، کونسی نعمتوں سے نوازنے والا ہے۔ لیکن نعمتوں میں سب سے بڑی نعمت دین اسلام ہے جو ہمارے رب نے ہم پر مکمل کردیا ہے۔ لقمان
21 فہم القرآن ربط کلام : انسان کا اپنے رب کے ساتھ جھگڑنے کا ایک انداز۔ انسان کا حقائق ٹھکرانے اور اپنے رب کے ساتھ جھگڑنے کا یہ بھی انداز ہے کہ جب اسے یہ بات کہی جاتی ہے کہ صرف اس کی اتباع کرو جو اللہ تعالیٰ نے نازل فرمائی ہے تو یہ لوگ کہتے ہیں ہم تو اسی کی اتّباع کریں گے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے گویا کہ یہ اپنے آباء و اجداد کی رسومات کو دین سمجھتے ہیں۔ جس کے بارے میں سورۃ البقرہ آیت ١٧١ میں یہ ارشاد ہوا کہ ” کیا ان کے باپ دادا دین کے بارے میں کوئی سمجھ اور رہنمائی نہ رکھتے تھے“ اس کے باوجود یہ ان کی پیروی کریں گے۔ ایسے کفار کی مثال تو اس شخص کی ہے جو شخص چِلّانے کی آواز کے سوا کچھ نہیں سمجھتا یہ بہرے، گونگے، اندھے ہیں ایسے لوگ کبھی عقل سے کام نہیں لیتے۔ (البقرۃ: ١٧١) یہاں یہ ارشاد ہوا ہے کیا ان کے باپ دادا کو شیطان جہنم کے عذاب کی طرف بلاتا رہا اور وہ جہنم کے راستے پر ہی چلتے رہے اس کے باوجود یہ لوگ اپنے باپ، دادا کے طریقے پر چلتے رہیں گے؟ اس فرمان میں سمجھانا مقصود یہ ہے کہ دانشمندی کا تقاضا اور جہنم کے راستے سے بچنے کا طریقہ صرف یہ ہے کہ آدمی اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ رہنمائی کے مطابق زندگی بسر کرے۔ کسی اور کے پیچھے نہ چلے۔ مسائل ١۔ اکثر لوگ بلا دلیل اپنے آباء و اجداد کی پیروی کرتے ہیں۔ ٢۔ شیطان انسان کو جہنم کے راستے کی دعوت دیتا ہے۔ لقمان
22 فہم القرآن ربط کلام : آباؤ اجداد کی تقلید اور ادھر ادھر دینے کی بجائے آدمی کو اپنے رب کا فرمانبردار ہونا چاہیے۔ قرآن وسنت کے دلائل سے بے اعتنائی کرنا اور مذہبی رسومات یا خاندانی روایات کا لحاظ رکھتے ہوئے آباء و اجداد کی ڈگر پر چلنا حقیقت میں شیطان کی پیروی کرنا ہے۔ شیطان انسان کو جہنم میں لے جانا چاہتا ہے جہنم سے بچنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ انسان اپنے چہرے کو اللہ کے حوالے کرے اور نیک کام کرتا رہے۔ جس نے اس فکر وعمل کو اپنالیا گویا کہ اس نے مضبوط کڑے کو تھام لیا جس کا ٹوٹنا نا ممکنات میں سے ہے۔ انسان کو یقین رکھنا چاہیے کہ تمام کاموں کا انجام اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے۔ اس بات کو یوں بھی بیان کیا گیا ہے کہ اے صاحب ایمان لوگو ! اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو جس طرح اس سے ڈرنا چاہیے یہاں تک کہ تمہیں موت بھی اس کی تابعداری میں آئے اللہ کی رسی کو سب مل کر تھامے رکھو اور آپس میں تفریق پیدا نہ کرو (البقرہ : ١٠٢، ١٠٣) ” العُرْوَۃِ الْوُثْقٰی“ کا معنٰی مضبوط کڑا ہے جسے ” حَبْلُ اللّٰہ“ بھی کہا گیا ہے۔ آدمی جب گرنے یا ڈوبنے لگتا ہے تو وہ کسی نہ کسی چیز کو تھامنے کی کوشش کرتا ہے تاکہ وہ گرنے اور ڈوبنے سے بچ جائے اگر اس کا ہاتھ مضبوط کڑے ( Ring) کو پڑجائے تو اسے یقین ہوجاتا ہے کہ وہ گرنے سے بچ جائے گا۔ یہی حقیقی ایمان کا فائدہ ہے۔ کہ جس آدمی کا اپنے رب پر سچا اور پکا ایمان ہو تو وہ کسی صورت بھی کفر و شرک کے گڑھے میں نہیں گرتا اس فرمان سے یہ سبق ملتا ہے کہ انسان کو اپنا ایمان اللہ تعالیٰ پر مضبوط سے مضبوط رکھنا چاہیے۔ ایسا شخص ہر حال میں اپنے رب پر راضی رہتا اور اس سے اجر پاتا ہے۔ اپنے چہرے کو اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ رکھنے یا حوالے کرنے کا معنٰی پوری طرح اس کی تابعداری کرنا ہے۔ کیونکہ انسان جب کسی راستے پر چلتا ہے تو اس کے چہرے کا رخ بھی اسی طرف ہوتا ہے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اسی بات کا حکم دیا گیا۔ (فَاَقِمْ وَجْھَکَ للدِّیْنِ حَنِیْفًا فِطْرَتَ اللّٰہِ الَّتِیْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَیْھَا لَا تَبْدِیْلَ لِخَلْقِ اللّٰہِ ذٰلِکَ الدِّیْنُ الْقَیِّمُ وَ لٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْن) [ الروم : ٣٠] ” اے نبی یک سو ہو کر اپنا رخ اس دین پر قائم رکھو، وہ فطرت ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو پیدا کیا ہے، اللہ کی بنائی ہوئی فطرت بدلی نہیں جا سکتی، یہی مستقل دین ہے، مگر اکثر لوگ نہیں جانتے۔“ (کِتَاب اللّٰہِ ھُوَحَبْلُ اللّٰہِ اَلْمَمْدُوْدُ مِنَ السَّمَآءِ اِلَی الْاَرْضِ) [ جامع الصغیر للألبانی] ” اللہ کی کتاب ہی اللہ کی رسّی ہے جو آسمان سے زمین کی طرف لٹکائی گئی ہے۔“ (عَنْ صُہَیْبٍ (رض) قَالَ قَالَ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عَجَبًا لِأَمْرِ الْمُؤْمِنِ إِنَّ أَمْرَہٗ کُلَّہٗ خَیْرٌ وَلَیْسَ ذَاکَ لِأَحَدٍ إِلَّا لِلْمُؤْمِنِ إِنْ أَصَابَتْہُ سَرَّاءُ شَکَرَ فَکَانَ خَیْرًا لَہٗ وَإِنْ أَصَابَتْہُ ضَرَّاءُ صَبَرَ فَکَانَ خَیْرًا لَہٗ)[ رواہ مسلم : کتاب الزہد والرقائق، باب المؤمن أمرہ کلہ خیر] ” حضرت صہیب (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا مومن کے معاملات عجیب ہیں۔ اس کے تمام معاملات میں خیر ہے اور یہ صرف مومن کے لیے ہے اگر اس کو آسانی ملتی ہے تو وہ اللہ کا شکر ادا کرتا ہے یہ اسکے لیے بہتر ہے اور اگر اسے تکلیف آتی ہے تو وہ صبر کرتا ہے یہ بھی اس کے لیے بہتر ہے۔“ مسائل ١۔ انسان کو ہر حال میں اپنی توجہ اللہ تعالیٰ کی طرف رکھنا چاہیے۔ ٢۔ انسان کو ہر حال میں نیکی کرنے کی کوشش کرنا چاہیے۔ ٣۔ کتاب اللہ کے ساتھ تمسّک کرنے والا ہی آخرت میں کامیاب رہے گا۔ تفسیر بالقرآن محسن کے اوصاف : ١۔ اللہ کے سامنے جھک جانے والامحسن ہے۔ (لقمان : ٢٢) ٢۔ بے شک اللہ محسنین کا اجر ضائع نہیں کرتا۔ (یوسف : ٩٠) ٣۔ صبر کرو اللہ محسنین کے اجر کو ضائع نہیں کرتا۔ ( ھود : ١١٥) ٤۔ اللہ کی رحمت محسنین کے قریب ہوا کرتی ہے۔ (الاعراف : ٥٦) ٥۔ ہم تمہارے گناہ مٹا دیں گے اور عنقریب ہم محسنین کو زیادہ عطا کریں گے۔ (البقرۃ: ٥٨) ٦۔ احسان کرو یقیناً اللہ احسان کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے۔ (البقرۃ: ١٩٥) ٧۔ انہیں معاف کیجیے اور در گزر کیجیے یقیناً اللہ محسنین کو پسند فرماتا ہے۔ (المائدۃ: ١٣) لقمان
23 فہم القرآن ربط کلام : جس نے کتاب اللہ کے ساتھ تمسّک کرنے سے انکار کردیا اس کا انجام بدترین ہوگا۔ سروردوعالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صبح و شام اس فکر اور کوشش میں رہتے تھے کہ لوگ ہدایت پر گامزن ہو کر جہنم کی ہولناکیوں سے اپنے آپ کو بچالیں۔ لیکن لوگ ہدایت کی طرف آنے کی بجائے گمراہی کی طرف سرپٹ دوڑے جاتے تھے۔ جس پر آپ دل گرفتہ ہوجاتے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی اور ڈھارس دینے کے لیے ارشاد ہوا کہ ان کے کفرو شرک پر جمے رہنے سے آپ دل گرفتہ نہ ہوں۔ آپ کا کام حق بات پہنچانا ہے جس کا آپ حق ادا کر رہے ہیں منوانا آپ کا کام نہیں۔ جو لوگ حق کا انکار کرتے ہیں بالآخر انہیں ہماری طرف لوٹنا ہے دنیا میں ہم ان کو قلیل فائدہ دیں گے اور پھر انہیں شدید عذاب کی طرف مجبور کردیں گے۔ دنیا کا فائدہ ہے آخرت کے مقابلے مدّت اور حیثیت کے اعتبار سے بالکل ہی قلیل ہے۔ جہنم کی طرف مجبور کرنے کا معنٰی یہ ہے کہ جہنمی جہنم کو دیکھ کر آہ وزاریاں کریں گے مگر ملائکہ ان کو ہانک کر اور کسی کو چہرے کے بل گھسیٹ کر جہنم میں پھینک دیں گے۔ مسائل ١۔ داعی کو لوگوں کے کفرو شرک پر دل گرفتہ ہونے کی بجائے اپنا کام جاری رکھنا چاہیے۔ ٢۔ ہر کسی نے اپنے رب کے حضور پیش ہونا اور اپنے اعمال کا سامنا کرنا ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ لوگوں کے اعمال ہی نہیں بلکہ ان کے دلوں کی حالت بھی جانتا ہیں۔ لقمان
24 لقمان
25 فہم القرآن ربط کلام : کفرو شرک اختیار کرنے والوں سے ایک سوال۔ جو لوگ دنیا کی مختصر مدّت اور قلیل فائدے کی خاطر کفرو شرک اختیار کرتے ہیں۔ اس حقیقت کا وہ بھی اعتراف کرتے ہیں کہ جن کو ہم اللہ تعالیٰ کا شریک بناتے ہیں ان کا زمین و آسمان کی تخلیق میں کوئی حصہ نہیں یہ ایسی حقیقت ہے جس کا اعتراف نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بدترین دشمن بھی کیا کرتے تھے۔ اس لیے آپ کو حکم ہوا کہ ان سے استفسار فرمائیں کہ بتاؤ کہ زمینوں آسمانوں کو کس نے پیدا کیا ہے ؟ کفار مکہ کا جواب یہی ہوتا تھا کہ انہیں تو اللہ تعالیٰ نے ہی پیدا کیا ہے۔ اس طرح وہ ” اللہ“ کے خالق ہونے کا اقرار کرنے پر مجبور تھے۔ اس پر ارشاد ہوا کہ اے نبی اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیجیے کہ مشرکوں کے پاس حقیقت تسلیم کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں مگر اس کے باوجود ان کی اکثریت جہالت کا اظہار کرتی ہے حالانکہ انہیں اسی خالق کی عبادت کرنی چاہیے۔ انہیں فرمائیں کہ زمین و آسمانوں کے درمیان جو کچھ ہے وہ سب کا سب ” اللہ“ کا ہے۔ اللہ تعالیٰ بے نیاز اور حمدوستائش کے لائق ہے اگر تمام کے تمام انسان کفرو شرک پر تل جائیں تو اس کی بادشاہی اور حمدوستائش میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ (یَا عِبَادِی لَوْ أَنَّ أَوَّلَکُمْ وَآخِرَکُمْ وَإِنْسَکُمْ وَجِنَّکُمْ کَانُوا عَلَی أَتْقٰی قَلْبِ رَجُلٍ وَاحِدٍ مِنْکُمْ مَا زَادَ ذَلِکَ فِیْ مُلْکِیْ شَیْءًا یَا عِبَادِیْ لَوْ أَنَّ أَوَّلَکُمْ وَآخِرَکُمْ وَإِنْسَکُمْ وَجِنَّکُمْ کَانُوْا عَلٰی أَفْجَرِ قَلْبِ رَجُلٍ وَاحِدٍ مَا نَقَصَ ذَلِکَ مِنْ مُلْکِیْ شَیْءًا) [ رواہ مسلم : باب تَحْرِیم الظُّلْمِ] ” اے میرے بندو ! اگر تمہارے پہلے، آخری اور تمام انسان اور جن ایک متقی آدمی کے دل کی طرح ہوجائیں تو میری بادشاہت میں کچھ بھی اضافہ نہیں کرسکتے۔ اے میرے بندو! اگر تمہارے پہلے، اور بعد والے، تمام کے انسان اور جن ایک فاجرشخص کے دل کی طرح ہوجائیں تو بھی میری بادشاہت میں ذرا برابر کمی نہیں کرسکتے۔“ غنی کا معنٰی دولتمند، مالدار، مستغنی، مکتفی اور حمید کا معنٰی تعریف کرنے والا، تعریف کیا ہوا ہے۔ مسائل ١۔ ہر دور کے کافر اور مشرک اقرار کرتے ہیں کہ زمین و آسمانوں کا خالق ” اللہ“ ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ حمدوستائش کے لائق اور بے نیاز ہے۔ تفسیر بالقرآن کفار اور مشرکین کا توحید باری تعالیٰ کا اعتراف : ١۔ اگر آپ ان سے پوچھیں کہ ارض وسماوات کو کس نے پیدا کیا، سورج اور چاند کو کس نے مسخر کر رکھا ہے مشرک ضرور کہیں گے کہ اللہ نے پھر یہ کہاں سے دھوکہ کھا جاتے ہیں۔ ( العنکبوت : ٦١) ٢۔ اگر آپ ان سے پوچھیں کہ آسمانوں اور زمین کو کس نے پیدا کیا ؟ تو یقیناً کہیں گے کہ انہیں زبردست اور سب کچھ جاننے والے ” اللہ“ نے پیدا کیا ہے۔ (لزخرف : ٩ ) ٣۔ اگر ان سے پوچھا جائے کہ ہر چیز پرکس کی بادشاہت ہے ؟ جواب دیتے ہیں ” اللہ“ کی بادشاہت ہے۔ (المومنون : ٨٨۔ ٨٩) ٥۔ اگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان سے زمین و آسمان کی تخلیق کے بارے میں سوال کریں گے تو اللہ ہی کا نام لیں گے۔ (لقمان : ٢٥) ٦۔ مشرکین سے پوچھا جائے مخلوق کو پیدا کرنے والا کون ہے؟ جواب دیتے ہیں ” اللہ“ ہی پیدا کرنے والا ہے۔ (النمل : ٦٤) ٧۔ اگر ان سے پوچھا جائے کہ زمین و آسمان کا خالق کون ہے؟ تو کہتے ہیں ” اللہ“ ہی خالق ہے۔ (الزمر : ٣٨) ٨۔ فرما دیں کون ہے جو تمھیں آسمان اور زمین سے رزق دیتا ہے ؟ یا کون ہے جو کانوں اور آنکھوں کا مالک ہے؟ اور کون زندہ کو مردہ سے نکالتا اور مردہ کو زندہ سے نکالتا ہے ؟ اور کون ہے جو ہر کام کی تدبیر کرتا ہے ؟ تو وہ فوراً کہیں گے ” اللہ“ تو فرما دیں پھر کیا تم ڈرتے نہیں ؟ (یونس : ٣١) لقمان
26 لقمان
27 فہم القرآن ربط کلام : جو ” اللہ“ زمین و آسمانوں کا مالک اور تعریف کے لائق ہے یاد رکھو کہ اس کی حمدوستائش کی انتہا نہیں۔ اس سے پہلی آیت میں ارشاد ہوا کہ اللہ تعالیٰ حمدوثنا کے لائق ہے اگر کافر اور مشرک اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا نہیں کرتے تو اسے اس کی کوئی پروا نہیں کیونکہ وہ اس قدر اَن گنت تعریفات کا مالک اور حق دار ہے کہ اگر کائنات کے تمام درختوں کی قلمیں بنالی جائیں اور سات سمندر سیاہی بنا دئیے جائیں۔ جن و انس، ملائکہ اور ہر جاندار چیز اپنے رب کی حمد لکھنے بیٹھ جائے تو ساتوں سمندر ختم ہوجائیں، قلمیں گھس گھس کر اپنا وجود کھو بیٹھیں سب کو سات گنا اور بڑھا لیاجائے تو پھر بھی آپ کے رب کی حمدوثنا ختم نہ ہو پائے گی کیونکہ جس کی نعمتوں کا شمار نہیں کیا جا سکتا۔ (ابراہیم : ٣٤) اور نہ ہی اس کی مخلوق کا احاطہ کیا جا سکتا ہے۔ (المدثر : ٣١) غور فرمائیں کہ کون ہے جو زمین کے ذرّات اور حشرات، سمندر کے قطرات اور اس کی مخلوقات، پہاڑوں کے سنگرات، زمین و آسمانوں کے ملائکہ کا شمار کرسکے۔ جب ہم اس کی نعمتوں اور مخلوقات کا شمار نہیں کرسکتے تو خالق کی حمدوثنا کس طرح احاطہ اور شمار کرسکتے ہیں نہ ہی خالق کی تخلیق کے فوائد اور اس کے حسن وجمال کا احاط کیا جا سکتا ہے۔ جب انسان اپنے خالق کے سامنے اس قدر بے بس اور اس کا خالق اس قدر تعریفات کے لائق اور اختیارات رکھنے والا ہے تو پھر دوسروں کو اس کا شریک بنانے اور اس کی نافرمانی کرنے کا کیا معنٰی؟ ” حضرت عائشہ (رض) بیان فرماتی ہیں۔۔ آپ دعا کر رہے تھے۔” اے اللہ! میں تیری ناراضگی کی بجائے تیری رضاکا طلب گار ہوں۔“ سزاکی بجائے معافی کا خواست گار ہوں اور میں تیری پناہ چاہتاہوں۔ مجھ میں تیری شایان شان تعریف کرنے کی طاقت وصلاحیّتیں نہیں۔“ [ رواہ مسلم : باب مَا یُقَالُ فِی الرُّکُوعِ وَالسُّجُودِ] لقمان
28 فہم القرآن ربط کلام : جس اللہ نے زمین و آسمانوں کو پیدا کیا۔ وہی پوری کی پوری کائنات کا مالک اور بادشاہ ہے اس کی تعریفات ختم ہونے والی نہیں وہی دوبارہ پیدا کرنے اور مارنے والا ہے۔ قرآن مجید نے تخلیق انسان کا بڑی تفصیل کے ساتھ تذکرہ کیا اور بتایا ہے کہ اے لوگو! اپنے پروردگار سے ڈرو جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اسی سے اس کی بیوی کو پیدا فرما کر پھر بے شمار مرد اور عورتیں پھیلا دیے۔ اس اللہ سے ڈرو جس کے نام پر ایک دوسرے سے سوال کرتے ہو اور رشتے ناطے توڑنے سے بھی بچو یقیناً اللہ تعالیٰ تم پر نگران ہے۔“ [ النساء : ١] کفار کا سوال تھا کہ انسان مر کر مٹی کے ساتھ مٹی ہوجاتا ہے تو پھر اسے کس طرح پیدا کیا جا سکتا ہے قرآن مجید نے اس کے کئی جواب دئیے ہیں یہاں یہ جواب دیا کہ اللہ تعالیٰ کے لیے تمام انسانوں کو پیدا کرنا اور ان کی موت کے بعد اٹھانا ایک انسان کو پیدا کرنے اور اس کو اٹھانے کی طرح ہے کیونکہ وہ کسی کام کے لیے صرف ” کُنْ“ کہتا ہے اور وہ کام بالکل اس کے حکم کے مطابق ہوجاتا ہے۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ کے لیے تمام لوگوں کو پیدا کرنا ایک انسان کے پیدا کرنے کے برابر ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ ہر بات سننے اور ہر چیز کو دیکھنے والا ہے۔ تفسیر بالقرآن موت کے بعد جی اٹھنے کے ثبوت : ١۔ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کے مقتول کو زندہ فرمایا۔ (البقرۃ: ٧٣) ٢۔ حضرت عزیر (علیہ السلام) کو زندہ فرمایا۔ (البقرۃ: ٢٥٩) ٣۔ چار پرندوں کو زندہ فرمایا۔ (البقرۃ : ٢٦٠) ٤۔ اصحاب کہف کو تین سو سال کے بعد اٹھایا۔ (الکہف : ٢٥) ٥۔ مزید حوالوں کے لیے دیکھیں : (البقرۃ: ٢٤٣) (الاعراف : ١٥٥) (المائدۃ : ١١٠) لقمان
29 فہم القرآن ربط کلام : جو ” اللہ“ رات کو دن میں اور دن کو رات میں داخل کرتا اور نکالتا ہے کیا وہ انسان کو مٹی سے دوبارہ پیدا نہیں کرسکتا؟ اللہ تعالیٰ انسان کو باربار اپنی قدرتوں کی طرف توجہ دلاتا ہے کہ اے انسان دیکھ اور غور کر کہ جس زمین پر تیرا بسیرا اور جس آسمان کے نیچے تیرا ڈیرہ ہے۔ جس لیل ونہار پر تیری زندگی کا انحصارہے اور جس شمس وقمر کے آنے جانے پر تیری زندگی کے رات دن بنتے ہیں۔ غور کر کہ کبھی رات کا کچھ حصہ دن میں ضم ہوجاتا ہے اور کبھی دن رات میں کئی کئی گھنٹے گم ہوجاتی ہے۔ سورج کو دیکھ کہاں سے نکلتا ہے اور کہاں غروب ہوتا ہوا نظر آتا ہے۔ اب چاند پر توجہ کر کہ وہ پندرہ راتیں کہاں غائب رہتا ہے جب نکلتا ہے تو کس قدر باریک ہوتا ہے۔ جب غائب ہونے کو آتا ہے تو چودھویں رات کو کس طرح تاباں ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے اوقات مقرر کر رکھے ہیں یہ اسی طرح اپنی ڈیوٹی دیتے رہیں گے یہاں تک کہ قیامت قائم ہوجائے گا جو دن سے رات اور رات سے دن نکالتا ہے وہی ” اللہ“ تمہارا حقیقی خالق اور معبود ہے اور وہی تمہیں دوبارہ زندہ کرے گا اور اپنے حضور پیش کرے گا۔ بس ہر حال میں اسی کو پکارو، اسی کی بندگی کرو اور اس کی غلامی میں آجاؤ۔ اس کے سوا جن کو تم پکارتے اور جن کے سامنے نذرونیاز پیش کرتے اور جن کے حضور سجدے کرتے ہو وہ سب کے سب باطل ہیں اور معبود نہیں ہیں۔ اللہ تمہارے شرکیہ تصورّات اور اعمال سے بلندوبالا ہے ہاں یہ بھی یاد رکھو جو کچھ تم کر رہے ہو اللہ تعالیٰ اس کی اچھی طرح خبر رکھنے والا ہے۔ لقمان
30 (فَذٰلِکُمُ اللّٰہُ رَبُّکُمُ الْحَقُّ فَمَاذَا بَعْدَ الْحَقِّ اِلَّا الضَّلٰلُ فَاَنّٰی تُصْرَفُوْنَ) [ یونس : ٣٢] ” سو اللہ ہی تمھارا سچا رب ہے۔ پھر سچ کے بعد گمراہی کے سوا کیا ہے ؟ بس تم کہاں پھیرے جاتے ہو۔“ مسائل ١۔ ” اللہ“ ہی رات کو دن میں اور دن کو رات میں داخل کرتا اور نکالتا ہے۔ ٢۔ ” اللہ“ ہی نے سورج اور چاند کو پیدا کیا اور وہی انہیں مقررہ وقت پر چلائے جا رہا ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ کے سوا باقی تمام معبود باطل ہیں۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ مشرکوں کے شرک سے بلندوبالا اور ہر چیز کی خبر رکھنے والا ہے۔ تفسیر بالقرآن مشرک جن معبودوں کو پکارتے ہیں ان کی حقیقت : ١۔ کیا تم ایسے لوگوں کو معبود مانتے ہو جو نفع ونقصان کے مالک نہیں۔ (الرعد : ١٦) ٢۔ کیا تم اللہ کے سوا ان کی عبادت کرتے ہو جو نفع ونقصان کے مالک نہیں ہیں؟ (المائدۃ: ٧٦) ٣۔ اگر اللہ تعالیٰ تمہیں نقصان میں مبتلا کرے تو کون تمہیں بچائے گا۔ (الفتح : ١١) ٤۔ معبودان باطل اپنی جانوں کے نفع ونقصان کے مالک نہیں۔ (الفرقان : ٣) ٥۔ کیا تم اللہ کے سوا ان کی عبادت کرتے ہو جو تمہارے نفع ونقصان کے مالک نہیں ؟ (المائدۃ: ٨٦) ٦۔ جن کو تم اللہ کے سوا پکارتے ہو وہ تمہاری مدد کرنے کی طاقت نہیں رکھتے۔ (الاعراف : ١٩٧) ٧۔ جنہیں تم اللہ کے سوا پکارتے ہو وہ مکھی بھی پیدا نہیں کرسکتے۔ (الحج : ٧٣) لقمان
31 فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ کی قدرت کی ایک اور بڑی دلیل جس سے فائدہ اٹھانے کے باوجود لوگ شرک سے توبہ نہیں کرتے۔ قرآن مجید اس بات کی طرف کئی بار توجہ دلاتا ہے کہ سمندروں میں سفر کرنے والے مسافرو! اللہ تعالیٰ کی قدرت کو دیکھو اور غور کرو کہ یہ تمہارے رب کا کتنا عظیم کرم ہے کہ تم سمندروں میں اس طرح سفر کرتے ہو جیسے خشکی پر۔ اگر غور کرو تو تمہیں احساس ہوگا کہ سمندر کا سفر تمہارے پیدل چلنے سے بھی آسان بنادیا گیا ہے۔ تم بحری جہازوں پر اس طرح بیٹھے سمندر کا نظارہ کرتے اور آپس میں خوش گپیاں مار رہے ہوتے ہو جیسے اپنے گھروں میں بیٹھے ہوئے ہوتے ہو۔ پھر غور کرو! جس سمندر پر ایک قدم رکھو تو ڈوب جاؤ وہ نہ صرف تمہیں اٹھائے ہوئے ہے بلکہ ٹنوں من بوجھ بھی اپنے آپ پر لادے ہوئے ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنے میں تمہارا خادم بنا ہوا ہے۔ ایک دفعہ پھر توجہ کرو! جو پانی ایک سوئی کا بوجھ برداشت نہیں کرسکتا وہ تمہارے سمیت پورے بیڑے کا بوجھ کس طرح اٹھاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنی نشانیاں تمہیں اس لیے دکھاتا ہے تاکہ تم ان پر غور وخوض کرو یقیناً مشکلات پر صبر کرنے اور نعمتوں پر شکر کرنے والے لوگ ہی نصیحت حاصل کرتے ہیں۔ صبرو شکر نہ کرنے والوں کی عادت ہے کہ جب انہیں سائبانوں کی طرح موجیں گھیر لیتی ہیں تو وہ اپنے مشکل کشاؤں کو چھوڑ کر صرف ایک ” اللہ“ کو پکارتے ہیں۔ جب اللہ تعالیٰ انہیں نجات دے کر خشکی پرلاتا ہے تو پھر اپنے کفر و شرک پر تکرار اور اصرار کرتے ہیں۔ یہی لوگ عہد توڑنے والے اور ناشکرے ہیں۔ لغت کے اعتبار سے مخلص کا معنٰی چُن لینے یا منتخب کرنے والا، ریاکاری یا دکھلاوا نہ کرنے والا، بات کو کھوٹ سے خالی رکھنے والا ہے۔ اور جب آپ کے رب نے آدم کے بیٹوں سے ان کی پشتوں میں سے ان کی اولاد کو نکالا اور انہیں خود ان کی جانوں پر گواہ بنایا کیا میں واقعی تمہارا رب نہیں ہوں؟ انہوں نے کہا کیوں نہیں ہم شہادت دیتے ہیں فرمایا ایسا نہ ہو کہ قیامت کے دن کہو بے شک ہم اس سے غافل تھے۔ ( الاعراف : ١٧٢) مسائل ١۔ سمندر میں چلنے والے بحری جہاز اللہ تعالیٰ کی مہربانی سے چلتے ہیں۔ ٢۔ سمندر کے سینے پر چلنے والے جہاز اللہ تعالیٰ کی قدرت کی نشانی ہے۔ ٣۔ مصائب پر صبر اور نعمتوں پر شکر کرنے والے لوگ ہی نصیحت حاصل کرتے ہیں۔ ٤۔ مشرک مصیبت کے وقت صرف ایک ” اللہ“ کو پکارتا ہے۔ ٥۔ مشرک عہد شکنی کرتا ہے۔ ٦۔ مشرک مشکل سے نجات پانے کے بعد اپنے شرک پر اصرار کرتا ہے۔ ٧۔ مشرک اپنے رب کا ناشکرا ہوتا ہے۔ تفسیر بالقرآن اخلاص کا حکم اور مخلصین کا مقام : ١۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اخلاص کا حکم۔ (الزمر : ١١) ٢۔ تمام امتوں کو اخلاص کا حکم۔ (الاعراف : ٢٩) ٣۔ اخلاص والے مومن ہیں۔ (النساء : ١٤٦) ٤۔ مخلص بندوں پر شیطان قابو نہیں پاسکتا۔ (ص : ٨٣) ٥۔ پہلے لوگوں کو اخلاص کا حکم۔ (البینۃ: ٥) ٦۔ سب کو خالص اللہ کی عبادت کرنے کا حکم۔ (المومن : ٦٥) ٧۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مخلص لوگوں کے ساتھ رہنے کی ہدایت۔ (الکہف : ٢٨) لقمان
32 لقمان
33 فہم القرآن ربط کلام : جو شخص اللہ تعالیٰ کی آیات کے بارے میں جھگڑا کرتا ہے دراصل وہ اپنے رب سے جھگڑتا ہے۔ انسان کو اپنے رب سے جھگڑنے کی بجائے اللہ تعالیٰ سے ڈرنا اور قیامت کے عذاب سے بچنا چاہیے۔ اے لوگو ! اپنے رب سے ڈرو اور اس دن سے خوف کھاؤ جس دن باپ اپنے بیٹے کے اور بیٹا اپنے باپ کے کچھ کام نہیں آسکے گا۔ اس دن کو برپا کرنا اور لوگوں سے ان کے اعمال کا حساب لینا اللہ تعالیٰ کے ذمّہ ہے۔ تمہیں اس دن کے بارے میں دنیاکی زندگی دھوکے میں مبتلا نہ کرے اور نہ ہی شیطان تمہیں تمہارے رب کے بارے میں کسی فریب میں مبتلا کرے۔ قرآن مجید میں یہ بات پوری طرح کھول کر بیان کی گئی ہے کہ قیامت کے دن نہ سفارش چلے گی نہ فدیہ قبول ہوگا اور نہ ہی کسی قسم کا اثر ورسوخ کام آئے گا حالت یہ ہوگی کہ جونہی کسی مجرم کی گرفتاری عمل میں آئے گی تو اس کے عزیزو اقربا اس سے دوربھاگ جائیں گے یہاں تک کہ بھائی اپنے بھائی سے ماں، باپ اپنی اولاد سے سے دور بھاگ جائے گی ( عبس : ٣٣ تا ٣٦) یہ صورتحال دیکھ کر مجرم خواہش کرے گا کہ کاش میری اولاد، میری بیوی، میرے بھائی اور میرے خاندان کے افراد اور زمین کے برابر سونا لے کر مجھے چھوڑ دیا جائے۔ (المعارج : ١١ تا ١٤) جس دنیا کی خاطر انسان اللہ اور آخرت کو بھول جاتا ہے اس دن اس کی کوئی چیز کام نہیں آئے گی اس لیے فرمایا کہ اے لوگو تمہیں دنیا کی زندگی اور شیطان تمہارے رب سے دور نہ کر دے۔ قیامت کے دن حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی بے بسی : (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ یَلْقٰی إِبْرَاہِیْمُ أَبَاہُ آزَرَیَوْمَ الْقِیَامَۃِ وَعَلٰی وَجْہِ آزَرَ قَتَرَۃٌوَغَبَرَۃٌ فَیَقُوْلُ لَہٗ إِبْرَاہِیْمُ أَلَمْ أَقُلْ لَّکَ لَا تَعْصِنِیْ فَیَقُوْلُ أَبُوْہُ فَالْیَوْمَ لَآأَعْصِیْکَ فَیَقُوْلُ إِبْرَاہِیْمُ یَارَبِّ إِنَّکَ وَعَدْتَّنِیْ أَنْ لَّا تُخْزِیَنِیْ یَوْمَ یُبْعَثُوْنَ فَأَیُّ خِزْیٍ أَخْزٰی مِنْ أَبِی الْأَبْعَدِفَیَقُوْلُ اللّٰہُ تَعَالٰی إِنِّیْ حَرَّمْتُ الْجَنَّۃَ عَلٰی الْکَافِرِیْنَ ثُمَّ یُقَالُ یَآ إِبْرَاہِیْمُ مَا تَحْتَ رِجْلَیْکَ فَیَنْظُرُ فَإِذَا ھُوَ بِذِیْخٍ مُتَلَطِّخٍ فَیُؤْخَذُ بِقَوَآءِمِہٖ فَیُلْقٰی فِی النَّارِ) [ رواہ البخاری : باب قول اللّٰہ تعالیٰ (واتخذ اللّٰہ ابراھیم خلیلا)] ” حضرت ابوہریرہ (رض) نبی گرامی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں آپ نے فرمایا ابراہیم (علیہ السلام) قیامت کے دن اپنے باپ آزر سے ملیں گے اس کے چہرے پر سیاہی اور گردو غبار ہوگا۔ ابراہیم (علیہ السلام) اپنے باپ سے کہیں گے میں نے آپ سے نہیں کہا تھا کہ میری نافرمانی نہ کرو۔ تو وہ کہے گا کہ آج میں تیری نافرمانی نہیں کروں گا۔ ابراہیم (علیہ السلام) فریاد کریں گے کہ اے میرے رب آپ نے مجھ سے قیامت کے دن مجھے ذلیل نا کرنے کا وعدہ کیا تھا میرے باپ سے زیادہ بڑھ کر اور کونسی ذلت ہوگی؟ اللہ تعالیٰ فرمائیں گے میں نے کافروں پر جنت حرام کردی ہے۔ پھر کہا جائے گا ابراہیم اپنے پاؤں کی طرف دیکھو۔ وہ دیکھیں گے تو ان کا باپ کیچڑ میں لتھڑا ہوا بجو بن چکا ہوگا جسے ٹانگوں سے پکڑ کر جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔“ لفظ غرور کے دو معانی ہیں۔1 اگر ” غین“ پر زبر پڑھیں تو اس کا معنٰی شیطان ہوگا۔ جیسے قرآن مجید میں ہے ” وَلَا یَغُرَّنَّکُمْ باللّٰہِ الْغَرُوْرُ“ کہ شیطان تمہیں اللہ کے بارے میں دھوکہ نہ دے۔2 دوسرا معنٰی ہے دھوکہ، فراڈ۔ مسائل ١۔ انسان کو اپنے رب سے ڈر کر زندگی بسر کرنی چاہیے۔ ٢۔ انسان کو دنیا کی زیب و زینت پر فریفتہ نہیں ہونا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن قیامت کے دن مجرم کو کوئی چیز فائدہ نہ دے گی : ١۔ کافر زمین کے برابر سونا دے کر بھی جہنم سے نجات نہیں پاسکے گا۔ (آل عمران : ٩١) ٢۔ قیامت کے دن ان کا کوئی سفارشی نہیں ہوگا۔ (الانعام : ٥١) ٣۔ کافر بغیر حساب کے جہنم میں دھکیل دیے جائیں گے۔ (الکہف : ١٠٥) ٤۔ کافروں کو ان کی جمعیت اور تکبر کام نہیں آئے گا۔ (الاعراف : ٤٨) لقمان
34 فہم القرآن ربط کلام : جس دن سے لوگوں کو ڈرایا جاتا ہے اسے اللہ تعالیٰ کے بغیر کوئی نہیں جانتا۔ یقیناً اللہ ہی جانتا ہے کہ قیامت کب برپا ہوگی وہی بارش نازل کرتا ہے وہ جانتا ہے کہ ماں کے رحم میں کیا ہے کوئی شخص نہیں جانتا کہ وہ کل کیا کرے گا۔ کسی نفس کو معلوم نہیں کہ اس کی موت کس جگہ واقع ہوگی۔ یقیناً اللہ ہی سب کچھ جاننے والا اور ہر چیز کی خبر رکھنے والا ہے اس آیت مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے پانچ چیزوں کے بارے میں ارشاد فرمایا ہے کہ انہیں حتمی طور پر کوئی نہیں جانتا۔ علم قیامت : کتب حدیث میں قیامت کے بارے میں بہت سی نشانیوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہاں تک ارشاد فرما دیا ہے کہ قیامت جمعہ کے دن واقع ہوگی اور جن لوگوں پر قیامت برپا ہوگی وہ بدترین لوگ ہوں گے۔ قیامت کا آغاز اچانک ہوگا۔ واضح نشانیاں بتلانے کے باوجود قیامت کے برپا ہونے کا سال، مہینہ اور دن کسی کو معلوم نہیں کہ وہ کون سے سال اور مہینے کا کونسا جمعہ ہوگا۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جبریل امین (علیہ السلام) کے ایک سوال کے جواب میں یہی ارشاد فرمایا تھا کہ جس طرح تجھے معلوم نہیں اسی طرح مجھے خبر نہیں کہ قیامت کب برپا ہوگی۔ (عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ قَالَ کَان النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بَارِزًا یَوْمًا للنَّاسِ فَأَتَاہُ جِبْرِیلُ۔۔ فقَالَ مَتٰی السَّاعَۃُ قَالَ مَا الْمَسْءُوْلُ عَنْہَا بِأَعْلَمَ مِنَ السَّاءِلِ)[ رواہ البخاری : کتاب الایمان باب سؤال جبریل ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں ایک دن نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صحابہ کرام (رض) کے پاس بیٹھے تھے۔ جبرائیل (علیہ السلام) آئے۔۔ انہوں نے پوچھا کہ قیامت کب آئے گی؟ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس سے سوال کیا گیا ہے وہ سوال کرنے والے سے زیادہ نہیں جانتا۔“؟ (عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لَتَقُوْمَنَّ السَّاعَۃُ وَثَوْبُہُمَا بَیْنَہُمَا لَا یَطْوِیَانِہٖ وَلَا یَتَبَایَعَانِہٖ وَلَتَقُوْمَنَّ السَّاعَۃُ وَقَدْ حَلَبَ لِقْحَتَہٗ لَا یَطْعَمُہٗ وَلَتَقُوْمَنَّ السَّاعَۃُ وَقَدْ رَفَعَ لُقْمَتَہٗ إِلٰی فِیْہٖ وَلَا یَطْعَمُہَا وَلَتَقُوْمَنَّ السَّاعَۃُ وَالرَّجُلُ یَلِیْطُ حَوْضَہٗ لَا یَسْقِیْ مِنْہٗ )[ رواہ احمد : مسند ابی ہریرۃ (رض) ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کپڑا بیچنے اور خریدنے والا ابھی کپڑا سمیٹ نہیں سکیں گے کہ قیامت آجائے گی۔ ایک آدمی اپنی اونٹنی کا دودھ دوھ رہا ہوگا اور وہ اس کو پی نہیں سکے گا کہ قیامت قائم ہوجائے گی۔ کھانا کھانے والا لقمہ اپنے منہ کی طرف اٹھائے گا اور اپنے منہ میں نہیں ڈال سکے گا کہ قیامت قائم ہوجائے گی۔ ایک آدمی اپنا حوض ٹھیک کر رہا ہوگا وہ اس سے پانی پی نہیں سکے گا کہ قیامت قائم ہوجائے گی۔“ (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ لَا تَقُوْمُ السَّاعَۃُ إِلَّا عَلٰی شِرَار النَّاسِ )[ رواہ مسلم : کتاب الفتن واشراط الساعۃ باب قرب الساعۃ] ” حضرت عبداللہ (رض) نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان نقل کرتے ہیں کہ قیامت صرف برے لوگوں پر قائم ہوگی۔“ رحم مادر : رحم مادر کے بارے میں دوسرا شخص تو کجا جنم دینے والی مامتا کو علم نہیں ہوتا کہ بیٹا جنم دے گی یا اس کے ہاں بیٹی پیدا ہوگی کیونکہ ابتدائی ایام میں بیٹی بیٹے کا قطعاً کسی کو علم نہیں ہوتا۔ جہاں تک الٹرا ساؤنڈ یا ایکسرے کا تعلق ہے اس سے اس وقت ہی معلوم ہوسکتا ہے جب مادہ منویہ لوتھڑے کی شکل اختیار کرتا ہے۔ کیونکہ اس وقت لوتھڑے میں کچھ آثار پیدا ہوجاتے ہیں جس سے کافی حد تک معلوم ہوجاتا ہے کہ پیدا ہونے والابیٹا ہوگا یا بیٹی تاہم الٹرا ساؤنڈ یادیگر طریقوں سے رحم کی حالت پوری معلوم کرنا مشکل ہے بے شک میڈیکل سائنس اپنے عروج پر ہے لیکن اس کے باوجود الٹرا ساؤنڈ اور ایکسرے کے ذریعے معلوم ہونے والی رحم مادر کی کیفیت سو فیصد پر فیکٹ (perfect) معلوم نہیں ہوتی اس لیے کئی واقعات ایسے ہوئے ہیں کہ الٹرا ساؤنڈ کے رزلٹ کے خلاف نتیجہ نکلتا ہے۔ اس طرح یہ حقیقت بھی سو فیصد مسلّمہ ہے کسی مشین کے ذریعے معلوم نہیں ہو سکے گا کہ پیدا ہونے والا بچہ نیک ہوگا یا بد، غریب ہوگا یا امیر۔ خوبصورت ہوگا یا عام صورت لیے ہوئے ہوگا۔ بارش کب ہوگی : اس میں کوئی شک نہیں بارش ہونے سے پہلے ہوا کا درجہ حرارت ایک خاص ڈگری تک پہنچنا ضروری ہے جب ہوا کی کیفیت نقطہ انجماد کے قریب پہنچتی ہے تو بارش ہونے کے امکانات غالب دکھائی دیتے ہیں۔ لیکن دنیا میں کتنے واقعات ہیں کہ محکمہ موسمیات نے اپنے طور پر یقینی خبر دی کہ فلاں علاقہ میں فلاں وقت بارش ہوگی مگر وقت آنے پر بارش کا نام ونشان تک نہ تھا۔ پھر برسنے والی بارش کا اندازہ تو لگا لیا جاتا ہے کہ فلاں علاقہ میں اتنی سینٹی میٹر بارش ہوئی لیکن بارش کے قطرات شمار کرنا اور پانی کی مقدار کا ٹھیک ٹھیک اندازہ لگانا۔ ناممکن ہے اس لیے بارش کے بارے میں پوری معلومات صرف اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے۔ کوئی نہیں جانتا کہ کل کیا ہوگا : انسان نے علم وہنر میں بے انتہا ترقی کی ہے اس نے دریاؤں کارخ موڑ دئیے سمندروں پر گزر گاہیں بنالیں چاند پر کمندیں ڈالیں ہر ایجاد کی گارنٹی دے ڈالی مگر اسے اپنے بارے میں معلوم نہیں کہ کل اس کے ساتھ کیا واقعات پیش آنے والے ہیں اسے یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ کل کی رات اپنے بستر پرلیٹوں گا یاقبر کی لحد میں اترجاؤں گا۔ انسان کی بے خبری اور بے بسی کا اندازہ لگائیں کہ مستقبل کے اندازے لگانے والا۔ آنے والے کل کے بارے میں نہیں جانتا اس لیے پوری نفی کے ساتھ ارشاد ہوا ہے کہ انسان نہیں جانتا کہ کل کیا کرے گا۔ موت کہاں واقع ہوگی : یہ تو معلوم ہے کہ ہر انسان کا ایک وقت مقرر ہے وقت آنے پر ہر انسان موت کے گھاٹ اترجائے گا حکیم اور ڈاکٹر کافی حد تک اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اس شخص کی موت فلاں بیماری کی وجہ سے ہوگی اور مریض اتنے دن تک زندہ رہ سکے گا لیکن ڈاکٹر قطعی طور پر نہیں بنا سکتے کہ اس کی موت کس دن اور کس وقت واقع ہوگی۔ لیکن آج تک نہ کسی کو معلوم ہوا اور نہ ہوگا کہ انسان کی موت کہاں واقع ہوگی اور اسے کس جگہ سپرد خاک کیا جائے گا۔ یہ بھی ایسی حقیقت ہے جسے نہ کوئی شخص پاسکا ہے اور نہ ہی پاسکے گا۔ قیامت کے آثار کے بارے میں کتاب وسنت میں کافی حد تک معلومات فراہم کردی گئی ہیں۔ بارش ہونے کے آثار بھی کافی حد تک واضح ہوجاتے ہیں۔ رحم مادر کے بارے میں بھی کسی حد تک آثار ظاہر ہوجاتے ہیں اس لئے ان تین باتوں کے بارے میں کلیتاً نفی کے الفاظ استعمال نہیں فرمائے۔ انسان کے ساتھ کل کیا ہونے والا ہے اور اس کی موت کہاں واقع ہوگی ان کے بارے میں حتمی طور پر نفی کی گئی ہے اس لیے کوئی شخص ان پانچ باتوں کے بارے میں سو فیصد آگاہی کا دعویٰ نہیں کرسکتا۔ ان کے بارے میں کامل اور اکمل علم صرف ” اللہ“ کی ذات کے پاس ہے اس لیے فرمایا کہ اس کے سوا ان کے بارے میں کوئی قطعی اور یقینی علم نہیں رکھتا۔ مسائل ١۔ 1 قیامت، 2 بارش، 3 رحم مادر، 4 کل کیا ہوگا، 5 موت کہاں واقع ہوگی۔ ان کے بارے میں قطعی علم اللہ ہی کے پاس ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ ہر بات کو جاننے والا ہر چیز کی خبر رکھنے والاہے۔ تفسیر بالقرآن غائب صرف ” اللہ“ ہی جانتا ہے : ١۔ اللہ تعالیٰ ظاہر اور غائب کو جانتا ہے۔ (التوبۃ: ٩٤) ٢۔ اللہ تعالیٰ جانتا ہے جو تم چھپاتے ہو اور جو تم ظاہر کرتے ہو۔ (النحل : ١٩) ٣۔ تم اپنی بات کو پوشیدہ رکھو یا ظاہر کرواللہ تعالیٰ سینوں کے بھید جانتا ہے۔ (الملک : ١٣) ٤۔ اللہ تعالیٰ کے لیے برابر ہے جو انسان چھپاتے اور جو ظاہر کرتے ہیں۔ (الرعد : ١٠) ٥۔ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں وہ غائب اور حاضر کو جانتا ہے۔ (الحشر : ٢٢) ٦۔ کیا وہ نہیں جانتے کہ اللہ تعالیٰ ظاہر اور پوشیدہ کو جانتا ہے؟ (البقرۃ: ٧٧) ٧۔ کیا انہیں اس بات کا علم نہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کی پوشیدہ سرگوشیوں سے بھی واقف ہے؟ (التوبۃ: ٧٨) اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو غیب کا علم نہیں : ١۔ اللہ ہی کے پاس غیب کی چابیاں ہیں اس کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ (الانعام : ٥٩) ٢۔ آپ فرما دیں کہ غیب ” اللہ“ ہی کے پاس ہے۔ (یونس : ٢٠) ٣۔ آپ فرما دیں کہ زمین اور آسمانوں کے غیب ” اللہ“ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ (النمل : ٦٥) ٤۔ نہ میں غیب جانتا ہوں اور نہ ہی میرے پاس اللہ تعالیٰ کے خزانے ہیں۔ (ھود : ٣١) ٥۔ آپ فرما دیں میں نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں اور نہ ہی میں غیب جانتاہوں۔ (الانعام : ٥٠) ٦۔ اگر میں غیب جانتا ہوتا تو میں اپنے لیے بہت سی بھلائیاں جمع کرلیتا۔ (الاعراف : ١٨٨) ٧۔ حضرت ابراہیم کو فرشتوں کے متعلق علم نہ ہوسکا۔ (ھود : ٦٩) ٨۔ حضرت لوط فرشتوں کو نہ پہچان سکے۔ (ھود : ٧٧) لقمان
0 السجدة
1 فہم القرآن سورہ لقمان کے آخر میں یہ ارشاد ہوا کہ قیامت، بارش، ماں کے رحم، انسان نے کل جو کرنا ہے اور جہاں اس نے مرنا ہے ان سب امور کو صرف اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے کیونکہ وہ علیم اور خبیر ہے۔ لوگوں کو معلوم ہے کہ حقیقی اور قطعی علم صرف اللہ تعالیٰ کے پاس ہے۔ انہیں یہ بھی یقین کرلینا چاہیے کہ قرآن کو اللہ تعالیٰ نے ہی نازل کیا ہے جس کی تنزیل اور تعلیمات میں کوئی شریک نہیں لہٰذا لوگوں کو اس میں کسی قسم کا شبہ نہیں کرنا چاہیے۔ الف، لام، میم کے بارے میں وضاحت ہوچکی کہ یہ حروف مقطعات میں سے ہیں۔ اہل مکہ کا الزام تھا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ قرآن اپنی طرف سے بنالیا ہے اس الزام کے کئی جواب دیے گئے ہیں یہاں اس کا پہلا جواب یہ دیا گیا ہے کہ یہ قرآن جہانوں کے رب کی طرف سے نازل کیا گیا ہے۔ اس کے ” منزل من اللہ“ ہونے میں ذرہ برابر شک کی گنجائش نہیں ہے گویا کہ یہ شاہی اعلان اور فرمان ہے اسے تسلیم کرو۔ دوسرا جواب یہ دیا گیا ہے کہ تم کہتے ہو کہ یہ قرآن اس نے اپنی طرف سے بنالیا ہے ایسا ہرگز نہیں یہ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے رب کی طرف سے حق نازل ہوا ہے۔ حق سے مراد یہ ہے کہ کفار اپنے الزامات میں جھوٹے ہیں اور تیرے رب کا فرمان حق اور سچ ہے کہ اس قرآن کو جہانوں کے رب نے نازل فرمایا ہے۔ حق کا یہ بھی معنٰی ہے کہ ” قرآن“ میں جو کچھ بیان ہوا اس میں کسی قسم کی غلط بیانی نہیں اور نہ اس کے کیے ہوئے اعلان کبھی جھوٹ ثابت ہوں گے۔ اس میں جو کچھ بیان ہوا وہ دنیا اور آخرت میں جوں کا توں پورا ہوگا اور اس پر عمل کرنے والا کبھی نقصان نہیں پائے گا۔ نزول قرآن کا مقصد یہ ہے کہ ان لوگوں کو برے انجام سے ڈرائیں جن کے پاس مدّت دراز سے کوئی ڈرانے والا نہیں آیا تاکہ یہ لوگ ہدایت پائیں۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت سے پہلے عرب میں حضرت ھود (علیہ السلام) اور حضرت صالح (علیہ السلام) مبعوث ہوئے ان کے بعد حضرت اسماعیل (علیہ السلام) مکہ میں مبعوث کئے گئے۔ حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کے بعد نبی آخرالزماں (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہی مکہ میں مبعوث کیے گئے قرآن مجید کے پہلے مخاطب اہل مکہ تھے اس لیے حکم ہوا کہ انہیں ڈرائیں کیونکہ ان کے پاس اس سے پہلے کوئی ڈرانے والا نہیں آیا، ڈرانے کا مقصد یہ ہے کہ یہ برے عقائد اور کام چھوڑ کر صراط مستقیم پر آجائیں۔ مسائل ١۔ قرآن مجید رب العالمین نے نازل فرمایا ہے۔ ٢۔ نزول قرآن کا مقصد یہ ہے کہ لوگ اس سے رہنمائی حاصل کریں، اور اپنے رب کی نافرمانی سے ڈر جائیں۔ تفسیر بالقرآن قرآن مجید کے اوصاف حمیدہ کا اختصار : ١۔ قرآن مجیدلاریب کتاب ہے۔ (البقرۃ: ٢) ٢۔ قرآن مجید کی آیات واضح ہیں۔ (یوسف : ١) ٣۔ قرآن مجیدکی آیات محکم ہیں۔ (ھود : ١) ٤۔ قرآن مجید برہان اور نور مبین ہے۔ (النساء : ١٧٤) ٥۔ قرآن کریم لوگوں کے لیے ہدایت ہے۔ (البقرۃ: ١٨٥) ٦۔ قرآن مجیددلوں کے لیے شفا ہے۔ (یونس : ٥٧) ٧۔ قرآن مجید لوگوں کے لیے ہدایت اور نصیحت ہے۔ (آل عمران : ١٣٨) ٨۔ ہم نے قرآن کو نازل کیا جو مومنوں کے لیے شفاء اور رحمت ہے۔ (بنی اسرائیل : ٨٢) ٩۔ ہم ہی قرآن مجید کو نازل کرنے والے ہیں اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔ (الحجر : ٩) ١٠۔ جن و انس مل کراس قرآن جیسا قرآن نہیں لاسکتے۔ (بنی اسرائیل : ٨٨) ١١۔ قرآن مجید رمضان المبارک میں نازل ہوا۔ (البقرۃ: ١٨٥) ١٢۔ قرآن مجید لیلۃ القدر میں نازل ہوا۔ ( القدر : ١) السجدة
2 السجدة
3 السجدة
4 فہم القرآن ربط کلام : قرآن مجید اس ذات کبریا نے نازل کیا ہے جس نے زمین و آسمان اور جو کچھ ان میں ہے اسے چھ دن میں پیدا کیا اور پھر عرش بریں پر مستوی ہوا۔ اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمانوں اور جو کچھ ان میں ہے اسے چھ دن میں پیدا فرمایا پھر جس طرح اس کی شان ہے عرش معلی پر متمکن ہوا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے عرش کے بارے میں یہ بھی فرمایا ہے کہ اس ذات نے زمین و آسمانوں کو چھ دن میں پیدا کیا اور ان کی تخلیق سے پہلے اس کا عرش پانی پر تھا۔ (ھود : ٧) جہاں تک زمین و آسمانوں اور جو کچھ ان کے درمیان ہے اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے اے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) انہیں فرمائیں کیا تم اس ذات کا انکار کرتے ہو جس نے زمینوں کو دو دن میں پیدا کیا پھر زمین پر پہاڑ گاڑے اور زمین میں ہر قسم کا رہنے سہنے کا سامان بنایا اور اس میں برکت پیدا فرمائی۔ پھر آسمان کی طرف متوجہ ہوا جو دھواں کی صورت میں تھا ان کو دو دنوں میں سات آسمان بنایا پھر ہر آسمان کو اس کے متعلقہ امور کا حکم دیا اس کے بعد پہلے آسمان کو ستاروں کے ذریعے خوبصورت بنایا اور اس کی حفاظت کا بندوبست کیا یہ کام اس ذات کبریا نے کئے ہیں جو ہر چیز کو جاننے والا اور ہر کام کرنے پر غالب ہے ( حٰم السجدہ : ٩ تا ١٣) اس کے سوا نہ تمہارا کوئی خیرخواہ ہوسکتا ہے اور نہ ہی کوئی سفارش کرنے والا ہوگا۔ کیا پھر بھی تم سمجھنے کے لیے تیار نہیں ہو؟ قرآن مجید یہ حقیقت مختلف الفاظ اور انداز میں بیان کرتا ہے کہ لوگو! تم اپنے رب کی خالص عبادت کرو اور کسی اور کو اس کی عبادت میں شریک نہ بناؤ۔ تم دوسروں کو اس لیے اس کی عبادت میں شریک کرتے ہو کہ قیامت کے دن وہ تمہاری سفارش اور مدد کریں گے ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا کیونکہ جس نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی انداز میں بھی کفرو شرک کیا اس کی کوئی سفارش اور خیرخواہی کرنے ولا نہیں ہوگا کیا تم اتنی آسان اور کھلی حقیقت سمجھنے کے لیے تیار نہیں ہو؟ (اِنَّ رَبَّکُمُ اللّٰہُ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ فِیْ سِتَّۃِ اَیَّامٍ ثُمَّ اسْتَوٰی عَلَی الْعَرْشِ یُغْشِی الَّیْلَ النَّھَارَ یَطْلُبُہٗ حَثِیْثًا لاوَّ الشَّمْسَ وَ الْقَمَرَ وَ النُّجُوْمَ مُسَخَّرٰتٍ بِاَمْرِہٖ اَلَا لَہُ الْخَلْقُ وَ الْاَمْرُ تَبٰرَکَ اللّٰہُ رَبُّ الْعٰلَمِیْنَ) [ الاعراف : ٤٥] ” بے شک تمہارا رب اللہ ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دن میں پیدا کیا، پھر عرش پر قائم ہوا، وہ رات کو دن پر اوڑھا دیتا ہے جو تیز چلتا ہوا اس کے پیچھے چلاآتا ہے اور سورج اور چاند اور ستارے پیدا کیے، اس حال میں کہ اس کے حکم کے تابع ہیں سن لو پیدا کرنا اور حکم دینا اللہ ہی کا کام ہے، بہت برکت والا ہے اللہ جو سارے جہانوں کا رب ہے۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمانوں کو چھ دن میں پیدا فرمایا۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ اپنی شان کے مطابق عرش بریں پر متمکن ہے۔ ٣۔ قیامت کے دن کافر اور مشرک کی کوئی بھی خیرخواہی اور سفارش نہیں کرسکے گا۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ کی اجازت کے بغیر کوئی سفارش اور خیرخواہی نہیں کرسکے گا : ١۔ اللہ تعالیٰ کی اجازت کے بغیر سفارش نہیں ہوسکے گی۔ (البقرۃ: ٢٥٥) ٢۔ سفارش بھی اللہ تعالیٰ کی مرضی کے مطابق ہوگی۔ (النبا : ٣٨) ٣۔ اللہ تعالیٰ اپنی پسندکی بات ہی قبول فرمائیں گے۔ (طٰہٰ: ١٠٩) ٤۔ اللہ تعالیٰ کی اجازت کے بغیر کوئی سفارش کا حقدار نہ ہوگا۔ (یونس : ٣) ٥۔ سفارش کا اختیار اسی کو ہوگا جسے الرّحمن اجازت دے گا۔ (مریم : ٨٧) ٦۔ اگر الرّحمن نقصان پہنچانا چاہے تو کسی کی سفارش کچھ کام نہ آئے گی۔ (یٰس : ٢٣) ٧۔ سفارشیوں کی سفارش ان کے کسی کام نہ آئے گی۔ (المدثر : ٤٨) السجدة
5 فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ عرش بریں پر متمکن ہونے کے باوجود پوری کائنات کا مالک اور اس کا نظام چلا رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ عرش بریں پر متمکن ہو کر کائنات کے نظام سے لاتعلق نہیں ہوا اور نہ ہی اس نے کائنات کانظام چلانے کے لیے کچھ ذمہ داریاں دوسروں کو سونپ رکھی ہیں۔ ایسا عقیدہ رکھنا بدترین شرک ہے اس کی نفی کے لیے ارشاد ہوا ہے کہ وہ آسمان سے لے کر زمین تک بلا شرکت غیرے پورے کا پورا نظام چلارہا ہے۔ جو ہستی اتنی زبردست ہے کہ پوری کائنات کو عدم سے وجود میں لائی ہے اور اس کا نظام بلاشرکت غیرے چلا رہی ہے اس کے مقابلہ میں تمہارے معبودج نہیں تم سرپرست اور سفارشی سمجھ بیٹھے ہو تمہارے کس کام آسکتے ہیں۔ کیا تمہیں اتنی موٹی حقیقت بھی سمجھ نہیں آتی ؟ اسے کسی کی مشاورت اور معاونت کی ضرورت نہیں کیونکہ وہ ہر پوشیدہ اور ظاہر چیز کو جانتا ہے۔ ہر اعتبار سے غالب ہے۔ سب پر غالب ہونے کے باوجود نہایت مہربان ہے۔ پہلی آیت میں تدبیرِ کائنات کے بارے میں ارشاد ہوا کہ جو تمہاری گنتی کے مطابق ایک ہزار سال بنتا ہے۔ تمہارا ہزار سال اس کے ہاں ایک دن کے برابر ہے۔ اللہ تعالیٰ کے نزدیک ایک دن ایک ہزار سال کے برابر ہونے کا حقیقی معنٰی کیا ہے اس کے بارے میں اہل تفسیر نے پانچ آراء کا اظہار فرمایا ہے۔ 1 جو کام ایک ہزار سال کی مدت میں پورے ہونے والے ہوتے ہیں۔ اس کے ہاں یہ مدت ایک دن کے برابر ہے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ کچھ کام ملائکہ کے حوالے کرتے ہیں۔ جب ہزار سالہ منصوبہ مکمل ہوجاتا ہے تو ملائکہ اس کی رپورٹ اپنے رب کے حضور پیش کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ اگلے ایک ہزار سال کا منصوبہ ان کے حوالے کردیتے ہیں۔ 3 اس سے مراد قیامت کا ایک دن ہے جو دنیا کے ایک ہزار سال کے برابر ہوگا۔ اس طرح قیامت کا دن پچاس ہزار سال کا ہوگا۔ 4 قرآن پاک نے جب یہ بات کفار کو بتلائی کہ اگر تم اپنے فکروعمل سے باز نہ آئے تو تم پر عذاب نازل ہوگا۔ اس سے سبق حاصل کرنے کی بجائے کفار نے اس دن کا مذاق اڑایا اور مطالبہ کیا کہ اب تک عذاب نازل کیوں نہیں ہوا؟ اس کے جواب میں ارشاد ہوا کہ جس مدت کو تم ایک ہزار سال سمجھتے ہو اللہ تعالیٰ کے نزدیک وہ ایک دن کے برابر ہے۔ ( الحج : ٤٧) 5 مفسر قرآن حضرت عبداللہ بن عباس (رض) اس آیت کو متشابہات میں شمار کرتے تھے ان کا فرمان ہے کہ ہمیں اس دن کے بارے میں قیل وقال کرنے کی بجائے خاموشی اختیار کرنا چاہیے۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ اکیلا ہی پوری کائنات کے نظام کو چلارہا ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ ظاہر اور باطن کو جانتا ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر غالب ہونے کے باوجود نہایت مہربان ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ ہی کائنات کو بنانے اور اس کے نظام کو چلانے والاہے : ١۔ اللہ تعالیٰ سب کو پیدا کرنے والا ہے۔ ( النساء) ٢۔ اللہ تعالیٰ سب کو پالنے والا ہے۔ (الفاتحۃ: ١) ٣۔ اللہ تعالیٰ ساری کائنات کا خالق ہے۔ (الانعام : ١٠٢) ٤۔ اللہ تعالیٰ کائنات کا مالک ہے۔ (یونس : ٣١) ٥۔ اللہ تعالیٰ کائنات کا نظام چلانے والا۔ (فاطر : ١٣) ٦۔ اللہ تعالیٰ حاکم مطلق ہے۔ (یوسف : ٤٠) ٧۔ اللہ تعالیٰ ہی عطا کرنے والا ہے۔ ( سبا : ١٥) ٨۔ اللہ ہی پیدا کرنے والاہے اور اس کا ہی حکم چلنا چاہیے۔ (الاعراف : ٥٤) ٩۔ تمہارا رب ہر چیز کو پیدا کرنے والاہے اس کے علاوہ کوئی معبود نہیں پھر تم کہاں بہک گئے ہو ؟ (المومن : ٦٢) ١٠۔ اللہ تعالیٰ ہر چیز کو پیدا کرنے والا ہے اسی کی عبادت کرو اور وہ ہر چیز پر کارساز ہے۔ (آل عمران : ١٠٢) ١١۔ اللہ تعالیٰ ہی مخلوق کو پیدا کرنے والا ہے، اور وہی اسے دوبارہ لوٹائے گا۔ (یونس : ٤) السجدة
6 السجدة
7 فہم القرآن ربط کلام : جس ” اللہ“ نے زمین و آسمان اور ہر چیز بنائی اور پورے کے پورے نظام کو بلا شرکت غیرے چلارہا ہے اسی نے انسان کو مٹی سے بنایا اور ہر چیز کو اس کے مناسب حال نہایت خوبصورت پیدا کیا۔ اللہ تعالیٰ نے جو چیز بھی بنائی اور پیدا کی ہے اسے نہایت ہی خوبصورت اور متوازن بنایا ہے۔ پھول کی پتیوں کو دیکھیں تو عقل دنگ رہ جاتی ہے کس قدر بھولی بھالی، پیاری، پیاری اور نہایت ہی دلکش ہوتی ہے پتیوں کی تراش، خراش دیکھو تو یوں لگتا ہے کہ کسی خاص ڈائی سے نکالی ہوئی ہیں رنگت پر نظر پڑتی ہے تو دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ ایک ہی پتی پر رنگ کے کسی شیڈ میں۔ گلاب کی پتی کا ابتدائی حصہ سفیدی لئے ہوئے ہے اوپر کا حصہ نہایت ہی سرخ رنگ سے مّزین ہے۔ درندوں کو، دیکھو شیر کا چہرہ کس قدر بارعب اور جسم کتنا پھرتیلا ہے۔ بلی کے بچے کو دیکھو کتنا بھولہ بھالا لگتا ہے یہاں تک کتے کا بچہ بھی پیارا لگتا ہے۔ غرض کہ جو چیز بنائی خوب سے خوب تر بنائی۔ ہر کسی کو اس کی طبع کے مطابق ماحول دیا اور اس کی خوراک کا بندوبست فرمایا۔ حضرت آدم (علیہ السلام) کو مٹی سے پیدا کیا اور پھر اس کی نسل کا سلسلہ مرد، زن کے پانی کے ایک قطرہ سے شروع کیا جو عورت کے رحم میں پہنچ کر خون بنتا ہے اس کے بعد لوتھڑے کی شکل اختیار کرتا ہے پھر اسے ایک وجود بخشا جاتا ہے۔ اس کے بعد اس میں روح پھونکی جاتی ہے پھر اسے سننے کے لیے کان، دیکھنے کے لیے آنکھیں اور سوچنے کے لیے دل دیا تاکہ سچائی کو سنے، حقیقت کو دیکھے اور دل کے ساتھ سوچے کہ میں نے کس کے حکم کے مطابق زندگی بسر کرنی ہے اور کس کا سب سے زیادہ شکر گزار رہنا ہے لیکن انسانوں کی اکثریت اپنے خالق اور مالک کی ناقدری اور ناشکری کرتے ہیں۔ کان، آنکھیں اور دل اللہ تعالیٰ نے ہر جاندار کو دیے ہیں مگر ان کی اور انسان کی سماعت، بصارت اور سوچ میں بے انتہا فرق ہے اس لیے انسان سے شکر گزار رہنے کا مطالبہ کیا ہے۔ شکر کا جذبہ محسن کی قدر کرنے کا احساس دلاتا ہے اور شکر گزارہی تابعدار ہوا کرتے ہیں۔ (حَدَّثَنَا أَبُوْ مُوْسَی الأَشْعَرِیُّ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) إِنَّ اللّٰہَ خَلَقَ آدَمَ مِنْ قَبْضَۃٍ قَبَضَہَا مِنْ جَمِیْعِ الأَرْضِ فَجَاءَ بَنُوْ آدَمَ عَلَی قَدْرِ الأَرْضِ جَاءَ مِنْہُمُ الأَحْمَرُ وَالأَبْیَضُ وَالأَسْوَدُ وَبَیْنَ ذَلِکَ وَالسَّہْلُ وَالْحَزْنُ وَالْخَبِیْثُ وَالطَّیِّبُ) [ رواہ ابوداؤد : باب فِی الْقَدَرِ] ” حضرت ابو موسیٰ اشعری (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کو مٹی کی ایک مٹھی سے پیدا فرمایا اسی لیے آدم کی اولاد زمین کی رنگت کے مطابق ہے بعض ان میں سے سرخ ہیں اور بعض سفید، اور بعض سیاہ اور ان میں کچھ آرام اور سکون سے زندگی بسر کرنے والے ہیں اور کچھ غم زدہ اور کچھ خبیث النّفس اور کچھ نیک ہیں۔“ (عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ (رض) وَرَفَعَ الْحَدِیْثَ أَنَّہُ قَالَ إِنَّ اللَّہَ عَزَّ وَجَلَّ قَدْ وَکَّلَ بالرَّحِمِ مَلَکًا فَیَقُوْلُ أَیْ رَبِّ نُطْفَۃٌ أَیْ رَبِّ عَلَقَۃٌ أَیْ رَبِّ مُضْغَۃٌ فَإِذَا أَرَاد اللَّہُ أَنْ یَقْضِیَ خَلْقًا قَالَ قَالَ الْمَلَکُ أَیْ رَبِّ ذَکَرٌ أَوْ أُنْثٰی شَقِیٌّ أَوْ سَعِیْدٌ فَمَا الرِّزْقُ فَمَا الأَجَلُ فَیُکْتَبُ کَذَلِکَ فِی بَطْنِ أُمِّہٖ) [ رواہ مسلم : باب کَیْفِیَّۃِ الْخَلْقِ الآدَمِیِّ فِی بَطْنِ أُمِّہِ وَکِتَابَۃِ رِزْقِہِ وَأَجَلِہِ وَعَمَلِہِ وَشَقَاوَتِہِ وَسَعَادَتِہِ] ” حضرت انس بن مالک (رض) سے روایت ہے وہ حدیث کو مرفوع بیان کرتے ہیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے رحم میں ایک فرشتہ مقرر کیا ہے وہ پوچھتا ہے اے میرے رب ! یہ نطفہ ہے اے میرے رب! یہ گوشت کا لوتھڑا ہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب اللہ تعالیٰ کسی کی تخلیق کا فیصلہ فرماتا ہے تو فرشتہ کہتا ہے اے میرے رب مذکر یا مؤنث بدبخت یا خوش بخت اس کا رزق کتنا ہے اس کی عمر کتنی ہے اسی طرح اس کا نیک اور بد ہونا اس کی ماں کے پیٹ میں لکھ دیا جاتا ہے۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ جو چیز پیدا فرماتا ہے نہایت خوبصورت پیدا کرتا ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم کو مٹی سے پیدا کیا۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کی افزائش کا انتظام اسی کے وجود کے ذریعے سے فرمایا ہے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو آنکھ، کان اور دل عنایت کیے تاکہ وہ اس کا شکر ادا کرے۔ السجدة
8 السجدة
9 السجدة
10 فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ نے انسان کو بہترین شکل وصورت اور صلاحیتوں کے ساتھ پیدا فرمایا ہے تاکہ یہ اپنے رب کو پہچانے اور اس کا تابعدار اور شکر گزار رہے لیکن انسان کی ناشکری کی انتہا۔ ناقدری اور ناشکری کی انتہاء ہے کہ قیامت کے منکر کہتے ہیں کہ کیا ہم مٹی کے ساتھ مٹی ہوجائیں گے تو پھر ازسر نو پیدا کیے جائیں گے۔ ایسا کہنے والے دراصل اپنے رب کی ملاقات کا انکار کرتے ہیں۔ انہیں آگاہ فرمادیں کہ ہاں جو فرشتہ تم پر مقرر کیا گیا ہے وہ تمہیں موت دے گا پھر تم اپنے رب کے حضور پیش کیے جاؤ گے۔ (عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَا بَیْنَ النَّفْخَتَیْنِ اَرْبَعُوْنَ قَالُوْ یَا اَبَا ھُرَیْرۃَ اَرْبَعُوْنَ یَوْمًا قَالَ اَبَیْتُ قَالُوْا اَرْبَعُوْنَ شَھْرًا قَالَ اَبَیْتُ قَالُوْا اَرْبَعُوْنَ سَنَۃً قَالَ اَبَیْتُ ثُمَّ یُنْزِلُ اللّٰہُ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَیُنْبَتُوْنَ کَمَآ یَنْبُتُ الْبَقْلُ قَالَ وَلَیْسَ مِنَ الْاِنْسَانِ شَیْءٌ لَا یَبْلٰی اِلَّاعَظْمًا وَاحِدًا وَّھُوَ عَجْبُ الذَّنَبِ وَمِنْہُ یُرَکَّبُ الْخَلْقُ یَوْمَ الْقِیَا مَۃِ) [ متفق علیہ] وَفِیْ رِوَایَۃٍ لِمُسْلِمِ قَالَ کُلُّ ابْنِ اٰدَمَ یَاکُلُہٗ التُّرَاب الاَّ عَجْبَ الذَّنَبِ مِنْہُ خُلِقَ وَفِیْہِ یُرَکَّبُ [ متفق علیہ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا دوسرا صور پھونکنے کا عرصہ چالیس ہوگا۔ حضرت ابوہریرہ (رض) سے ان کے شاگردوں نے پوچھا چالیس دن ؟ حضرت ابوہریرہ (رض) نے فرمایا کہ میں یہ نہیں جانتا۔ انہوں نے استفسار کیا چالیس ماہ ؟ حضرت ابوہریرہ (رض) نے جواباً فرمایا میرا کوئی جواب نہیں۔ انہوں نے پھر پوچھا چالیس سال ہیں؟ ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں میں یہ بھی نہیں کہتا۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ بارش نازل فرمائے گا۔ لوگ یوں اگیں گے جس طرح انگوری اگتی ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا، انسان کی دمچی کے علاوہ ہر چیز مٹی ہوجائے گی۔ قیامت کے دن اسی سے تمام اعضاء کو جوڑا جائے گا۔ (بخاری و مسلم) مسلم میں ہے۔ کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا انسان کے تمام اعضاء کو مٹی کھا جائے گی سوائے دمچی کے انسان اسی سے پیدا ہوا اور اسی سے جوڑا جائے گا۔“ مسائل ١۔ قیامت کا انکار کرنا کفر ہے۔ ٢۔ ہر کسی کو موت آنی ہے اور اس نے اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہونا ہے۔ تفسیر بالقرآن موت کے بعد جی اٹھنے کے دلائل : ١۔ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کے مقتول کو زندہ فرمایا۔ (البقرۃ: ٧٣) ٢۔ حضرت عزیر (علیہ السلام) کو سو سال کے بعد زندہ فرمایا۔ (البقرۃ: ٢٥٩) ٣۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے سامنے ان کے ذبح کیے ہوئے چار پرندوں کو زندہ فرمایا۔ (البقرۃ : ٢٦٠) ٤۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اپنے رب کے حکم سے مردوں کو زندہ کرتے تھے۔ (آل عمران : ٤٩، المائدۃ: ١١٠) ٥۔ اصحاب کہف کو تین سو سال کے بعد اٹھایا۔ (الکہف : ٢٥) ٦۔ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کے ہزاروں لوگوں کو دوبارہ زندہ کیا۔ (البقرۃ: ٢٤٣) ٧۔ پہلے اور دوبارہ پیدا کرنا اور زمین و آسمان سے تمہارے لیے روزی کا بندوبست کرنے والا اللہ کے سوا کوئی اور الٰہ ہے؟ (النمل : ٦٤) ٨۔ آپ فرما دیں ” اللہ“ ہی نے تخلیق کی ابتداء کی پھر دوبارہ پیدا کرے گا پھر تم کہاں بہک گئے ہو؟ (یونس : ٣٤) ٩۔ اللہ تعالیٰ مخلوق کو دوبارہ لوٹائے گا تاکہ نیک و بد کو جزاو سزا مل سکے۔ (یونس : ٤) ١٠۔ تعجب کے قابل ان کی یہ بات ہے کہ جب ہم مٹی ہوجائیں گے تو ہمیں دوبارہ اٹھایا جائے گا۔ (الرعد : ٥) ١١۔ مردوں کو اللہ تعالیٰ اٹھائے گا پھر اس کی طرف ہی لوٹائیں جائیں گے۔ (الانعام : ٣٦ ) ١٢۔ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن تمام کو اٹھائے گا اور ہر کسی کو اس کے اعمال کے متعلق بتلائے گا۔ (المجادلۃ: ٦) السجدة
11 السجدة
12 فہم القرآن ربط کلام : جو لوگ مر کر جی اٹھنے کا انکار کرتے ہیں قیامت کے دن ان کی حالت دیدنی ہوگی۔ سروردوعالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے منکرین قیامت اس بات پر جھگڑا کرتے تھے کہ مرنے کے بعد کسی نے زندہ نہیں ہونا حالانکہ قرآن مجید نے مرنے کے بعد جی اٹھنے کے درجنوں دلائل دئیے ہیں جن میں ثبوت کے طور پر عزیر (علیہ السلام) اور ان کے گدھے کا زندہ کیا جانا، ابراہیم (علیہ السلام) کے سامنے چار پرندوں کا دوبارہ زندہ ہونا، اصحاب کہف کا (٣٠٩) تین سو نوسال بعد جی اٹھنا، موسیٰ (علیہ السلام) کے سامنے مقتول کا زندہ ہونا بنی اسرائیل کے ہزاروں لوگوں کا مرنے کے بعد زندہ کیا جانا۔ (البقرہ آیت ٢٥٩) عیسیٰ ( علیہ السلام) کا مردوں کو زندہ کرنا۔ (المائدہ : ١١٠) اس بات کا کھلا ثبوت ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہر صورت لوگوں کو دوبارہ پیدا فرما کر اپنی بارگاہ میں حاضر کرے گا جب منکرین قیامت اس کی بارگاہ میں پیش ہوں گے تو وہ ذلّت اور خوف کی وجہ سے اپنے رب کے سامنے گردنیں جھکائے ہوئے فریاد پر فریاد کریں گے۔ اے ہمارے رب! ہم نے اپنی آنکھوں سے قیامت دیکھ لی اور سب کچھ اپنے کانوں سے سن لیا ہے اب ہمیں واپس جانے دیجیے تاکہ ہم نیک عمل کریں کیونکہ اب ہمیں یقین ہوچکا ہے کہ قیامت برحق ہے۔ مسائل ١۔ قیامت کے دن ذلّت اور خوف کی وجہ سے مجرم سرجھکائے ہوئے ہوں گے۔ ٢۔ مجرم دنیا میں واپس لوٹنے کی فریاد کریں گے۔ تفسیر بالقرآن قیامت کے دن مجرمین کی فریادیں : ١۔ جہنمی کہیں گے اے اللہ ہم نے دیکھ لیا اور سن لیا اب ہم کو واپس لوٹا دے۔ (السجدۃ: ١٢) ٢۔ اے ہمارے پروردگار ہمیں یہاں سے نکال ہم پہلے سے نیک عمل کریں گے۔ (الفاطر : ٣٧۔ المومنون : ١٠٧) السجدة
13 فہم القرآن ربط کلام : مجرموں کی درخواست کے جواب میں اللہ تعالیٰ کا حکم۔ مجرموں کو مزید احساس دلانے اور ذلیل کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ ارشاد فرمائے گا کہ اگر ہم چاہتے تو ہر شخص کو ہدایت دے دیتے لیکن میرا فرمان سچ ثابت ہوا کہ میں جہنم کو بہت سے جنوں اور انسانوں سے بھروں گا لہٰذا اب جہنم کا عذاب چکھو اس لیے کہ تم میری ملاقات کو فراموش کرچکے تھے لہٰذا ہم نے بھی تمہیں فراموش کردیا ہے بس اب تم اپنے کیے کے بدلے میں ہمیشہ کا عذاب سہتے رہو۔ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے تین ارشادات فرمائے ہیں۔ 1 اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو تمام جنوں اور انسانوں کو ہدایت سے سرفراز کردیتا چاہنے سے مراد جبراً ہدایت دینا ہے اللہ تعالیٰ نے جن وانس کو اچھائی اور برائی کا شعور دے کریہ اختیار بخشا ہے کہ وہ اپنی مرضی سے اچھائی کریں یا برائی کریں۔ جہنم میں داخل ہونے والوں نے اللہ تعالیٰ کے ارشادات کو فراموش کیا اور دنیا کو مقدم سمجھا جس وجہ سے انہیں جہنم میں داخل کیا جائے گا۔ 2 یہاں مجرمین کے لیے ” اَجْمَعِیْنَ“ کا لفظ استعمال کیا ہے جس سے مراد تمام کے تمام نافرمان جنّ اور انسان ہیں۔ 3 اللہ تعالیٰ کا کسی کو فراموش کرنے کا یہ معنٰی نہیں کہ خاکم بدھن کہ اللہ تعالیٰ بھی بھول جاتا ہے۔ فراموش کرنے کا معنٰی ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں ہمیشہ کے لیے اپنی رحمت سے دور کر دے گا اور ان پر نظر کرم نہیں فرمائے گا۔ (عَنْ أَبِیْ الدَّرْدَاءِ قَالَ قَا لَ رَسُوْلُ اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یُلْقٰی عَلَی أَہْلِ النَّارِ الْجُوْعُ فَیَعْدِلُ مَا ہُمْ فِیْہِ مِنَ الْعَذَابِ فَیَسْتَغِیْثُوْنَ فَیُغَاثُوْنَ بِطَعَامٍ مِنْ ضَرِیْعٍ لاَ یُسْمِنُ وَلاَ یُغْنِیْ مِنْ جُوْعٍ فَیَسْتَغِیْثُوْنَ بالطَّعَامِ فَیُغَاثُوْنَ بِطَعَامٍ ذِیْ غُصَّۃٍ فَیَذْکُرُوْنَ أَنَّہُمْ کَانُوْا یُجِیْزُوْنَ الْغُصَصَ فِیْ الدُّنْیَا بالشَّرَابِ فَیَسْتَغِیْثُوْنَ بالشَّرَابِ فَیُرْفَعُ إِلَیْہِمُ الْحَمِیْمُ بِکَلاَلِیْبِ الْحَدِیْدِ فَإِذَا دَنَتْ مِنْ وُجُوْہِہِمْ شَوَتْ وُجُوْہَہُمْ فَإِذَا دَخَلَتْ بُطُوْنَہُمْ قَطَّعَتْ مَا فِیْ بُطُوْنِہِمْ فَیَقُوْلُوْنَ ادْعُوْا خَزَنَۃَ جَہَنَّمَ فَیَقُوْلُوْنَ أَلَمْ تَکُ تَأْتِیْکُمْ رُسُلُکُمْ بالْبَیِّنَاتِ قَالُوْا بَلٰی قَالُوْا فَادْعُوْا وَمَا دُعَاءُ الْکَافِرِیْنَ إِلاَّ فِیْ ضَلاَلٍ قَالَ فَیَقُوْلُوْنَ ادْعُوْا مَالِکًا فَیَقُوْلُوْنَ (یَا مَالِکُ لِیَقْضِ عَلَیْنَا رَبُّکَ) قَالَ فَیُجِیْبُہُمْ (إِنَّکُمْ مَاکِثُوْنَ) قَالَ الأَعْمَشُ نُبِّءْتُ أَنَّ بَیْنَ دُعَاءِہِمْ وَبَیْنَ إِجَابَۃِ مَالِکٍ إِیَّاہُمْ أَلْفَ عَامٍ قَالَ فَیَقُوْلُوْنَ ادْعُوْا رَبَّکُمْ فَلاَ أَحَدَ خَیْرٌ مِنْ رَبِّکُمْ فَیَقُوْلُوْنَ (رَبَّنَا غَلَبَتْ عَلَیْنَا شِقْوَتُنَا وَکُنَّا قَوْمًا ضَالِّیْنَ رَبَّنَا أَخْرِجْنَا مِنْہَا فَإِنْ عُدْنَا فَإِنَّا ظَالِمُوْنَ) قَالَ فَیُجِیْبُہُمْ (اخْسَءُوْا فِیْہَا وَلاَ تُکَلِّمُوْنِ) قَالَ فَعِنْدَ ذَلِکَ یَءِسُوْا مِنْ کُلِّ خَیْرٍ وَعِنْدَ ذَلِکَ یَأْخُذُوْنَ فِیْ الزَّفِیْرِ وَالْحَسْرَۃِ وَالْوَیْلِ) [ رواہ الترمذی : باب مَا جَاءَ فِی صِفَۃِ طَعَامِ أَہْلِ النَّارِ] ” حضرت ابی دردا (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جہنمیوں پر بھوک مسلط کردی جائے گی اور وہ بھوک اس عذاب کے برابر ہوگی جس میں وہ مبتلا ہوں گے وہ کھانا طلب کریں گے تو انہیں کھانے میں سوکھی گھاس دی جائے گی جس سے نہ وہ موٹے ہو نگے اور نہ ان کی بھوک دور ہوگی وہ کھانا طلب کریں گے تو انہیں ایسا کھانا دیا جائے گا کہ ان کے حلق میں اٹک جائے گا۔ وہ کہیں گے کہ دنیا میں جب کھانا حلق میں اٹک جاتا تھا تو ہم پانی کے ساتھ اسے نیچے اتارتے تھے۔ پانی طلب کریں گے تو انہیں گرم پانی لوہے کے برتنوں میں دیا جائے گا جب وہ اسے اپنے چہروں کے قریب کریں گے تو ان کے چہرے جھلس جائیں گے اور جب اسے اپنے پیٹ میں داخل کریں گے تو ان کے پیٹ کٹ کے رہ جائیں گے وہ جہنم کے دروغے سے فریاد کریں گے انہیں جواب دیا جائے گا کیا تمہارے پاس رسول معجزات لے کر نہیں آئے تھے جہنمی جواب دیں گے ہاں! تو فرشتے کہیں گے تم چیختے چلاتے رہو تمہاری فریاد رائیگاں جائے گی وہ کہیں گے مالک کو پکارو تو جہنمی مالک کو پکاریں گے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے کہے کہ ہمارے مرنے کا فیصلہ فرما دے انہیں جواب دیا جائے گا تم ہمیشہ اسی میں رہو گے حدیث بیان کرنے والے اعمش نے کہا ان کو جہنم کے کنٹرولر فرشتے مالک کی طرف سے ایک ہزار سال کے بعد جواب دیا جائے گا۔ دوزخی آپس میں کہیں گے کہ اپنے پروردگار کو پکارو تمہارے رب سے بہتر کوئی نہیں تو وہ کہیں گے اے ہمارے پروردگار ہم پر ہماری بدبختی غالب آگئی اور ہم گمراہ تھے اے ہمارے پروردگار ہمیں اس جہنم سے نکال دے اگر ہم دوبارہ ایسے اعمال کریں تو ہم ظالم ہوں گے۔ انہیں جواب دیا جائے گا اسی دوزخ میں رہو اور ہم سے کوئی بات نہ کرو اب وہ ہر بھلائی سے نا امید ہوجائیں گے اور آہ وزاریاں کریں گے اور کھانے پینے پر حسرت کا اظہار کریں گے اور واویلا کرتے رہیں گے۔“ مسائل ١۔ اگر اللہ تعالیٰ لوگوں کو جبراً ہدایت دینا چاہتا تو کوئی شخص گمراہ نہ ہوتا۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نافرمان جنوں اور انسانوں کو جہنم میں داخل کرے گا۔ ٣۔ جو لوگ قیامت کو فراموش کریں گے قیامت کے دن اللہ تعالیٰ انہیں فراموش کردے گا۔ ٤۔ کفار اور مشرکین ہمیشہ جہنم میں رہیں گے۔ تفسیر بالقرآن جہنمیوں کی جہنم میں آہ زاریاں : ١۔ اے ہمارے رب ہمیں تھوڑی دیر کے لیے مہلت دے ہم تیری دعوت قبول اور تیرے رسول کی بات کو تسلیم کریں گے۔ (ابراہیم : ٤٤) ٢۔ جہنمی کہیں گے اے اللہ ہم نے دیکھ لیا اور سن لیا اب ہم کو واپس لوٹا دے۔ (السجدۃ: ١٢) ٣۔ اے ہمارے پروردگار ہمیں یہاں سے نکال ہم پہلے سے نیک عمل کریں گے۔ (الفاطر : ٣٧) ٤۔ اے ہمارے رب! ہمیں یہاں سے نکال اگر دوبارہ ایسا کریں تو بڑے ظالم ہوں گے۔ (المومنون : ١٠٧) ٥۔ جب بھی جہنم سے نکلنے کا ارادہ کریں گے تو دوبارہ لوٹائے جائیں گے۔ (السجدۃ: ٢٠) ٦۔ ہر جہنمی کی خواہش ہوگی کہ اسے دنیا میں واپس بھیج دیا جائے۔ (الانعام : ٢٧ تا ٢٨) ٧۔ اے رب ہمارے! ہمیں یہاں سے نکال ہم پہلے سے نیک عمل کریں گے۔ (الفاطر : ٣٧) ٨۔ جب بھی ارادہ کریں گے کہ ہم نکلیں جہنم سے تو اس میں واپس لوٹائے جائیں گے۔ (الحج : ٢٢) السجدة
14 السجدة
15 فہم القرآن ربط کلام : ” اللہ“ کے احکام اور قیامت کو فراموش کردینے والوں کے مقابلے میں اللہ تعالیٰ کو یاد کرنے اور قیامت پر یقین رکھنے والوں کا کردار۔ ” اللہ“ کے باغیوں اور قیامت کے منکروں کے سامنے باربار نصیحت کرنے کا کچھ اثر نہیں ہوتا ان کے مقابلے میں جو لوگ اپنے رب پر ایمان رکھتے ہیں اور قیامت کے دن پر یقین کرتے ہیں۔ ان کی یہ حالت ہوتی ہے کہ جب بھی انہیں دین کی کوئی بات سمجھائی جائے یا ان کے سامنے اللہ تعالیٰ کا کوئی ایسا حکم آئے جس پر فوری طور پر سرجھکا نامقصود ہو تو وہ اپنے رب کے حضور سجدے میں پڑ کر اس کی حمدو ثناء کرتے ہیں وہ کسی حال میں بھی تکبر کرنے والے نہیں ہوتے۔ ان میں یہ بات بدرجہ اتم پائی جاتی ہے کہ جب انہیں نماز کے لیے بلایا جائے تو وہ اپنے رب کے حکم پر لبیک کہتے ہوئے اس کے حضور قیام وسجود کرنے کے لیے حاضر ہوتے ہیں۔ تکبر کا معنٰی پہلے بھی بیان ہوچکا ہے تاہم موقع کی مناسبت سے پھر تحریر کیا جاتا ہے۔ (اَلْکِبْرُ بَطَرُ الْحَقِّ وَغَمْطُ النَّاسِ) [ رواہ مسلم : کتاب الایمان، باب تحریم الکبر وبیانہ] ” تکبر حق بات کو چھپانا اور لوگوں کو حقیر جاننا ہے۔“ ( عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ رَسُول اللَّہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کَانَ یَقْرَأُ فِیْ صَلاَۃِ الْفَجْرِ یَوْمَ الْجُمُعَۃِ تَنْزِیْلَ السَّجْدَۃِ وَ (ہَلْ أَتَی عَلٰی الإِنْسَانِ حِیْنٌ مِنَ الدَّہْر)[ رواہ ابوداوٗد : باب مَا یُقْرَأُ فِیْ صَلاَۃِ الصُّبْحِ یَوْمَ الْجُمُعَۃِ] ” حضرت عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جمعہ کے دن فجر کی نماز میں سورۃ سجدہ اور سورۃ دھر کی تلاوت کیا کرتے تھے۔“ نبی محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مشکل ترین وقت میں اللہ کی بارگاہ میں سجدہ ریز ہو کر اس کی مدد کے طلب گارہوتے تھے۔ غزوہ بدر کے موقعہ پر اللہ کے حضور ان الفاظ میں عرض کرتے رہے۔ (عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ قَال النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَوْمَ بَدْرٍاللَّہُمَّ أَنْشُدُکَ عَہْدَکَ وَوَعْدَکَ، اللَّہُمَّ إِنْ شِءْتَ لَمْ تُعْبَدْ فَأَخَذَ أَبُو بَکْرٍ بِیَدِہِ فَقَالَ حَسْبُکَ فَخَرَجَ وَہْوَ یَقُولُ (سَیُہْزَمُ الْجَمْعُ وَیُوَلُّون الدُّبُرَ)[ رواہ البخاری : کتاب المغازی] ” حضرت عبداللہ بن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بدر کے دن یہ دعا کی۔” اے اللہ میں تیرے عہد اور وعدے کا تجھے واسطہ دیتا ہوں اے اللہ اگر تو چاہتا ہے کہ تیری عبادت نہ کی جائے۔“ ابوبکر (رض) نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ہاتھ پکڑ لیا اور عرض کی اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بس کیجیے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ کہتے ہوئے نکلے کہ عنقریب لشکروں کو شکست دی جائے گی اور وہ پیٹھ پھیر کر بھاگ جائیں گے۔“ [ رواہ البخاری : باب قصۃ غزوۃ بدر) حالات کا دباؤ اس قدر تھا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سجدے میں پڑے روتے ہوئے یہ دعا مانگ رہے ہیں کہ اے ہمیشہ زندہ اور قا ئم رہنے والے اللہ ہماری نصرت فرما۔ سجدہ تلاوت کی دعا : (عَنْ عَاءِشَۃَ (رض) قَالَتْ کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَقُوْلُ فِیْ سُجُوْدِ الْقُرْاٰنِ بالَّلیْلِ سَجَدَ وَجْہِیَ لِلَّذِیْ خَلَقَہٗ وَشَقَّ سَمْعَہٗ وَبَصَرَہٗ بِحَوْلِہِ وَقُوَّتِہِ فَتَبارَکَ اللّٰہُ أحْسَنَ الْخَالِقِیْنَ) [ المستد رک علی الصحیحین للحاکم] ” حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قیام اللیل میں سجدہ تلاوت کے وقت یہ دعا کرتے تھے۔ میرا چہرہ اس ذات کا مطیع ہوا جس نے اپنی قدرت سے اسے بنا کرکان اور آنکھیں عطاکیے۔ اللہ تعالیٰ بہترین پیدا کرنے والا ہے۔“ مسائل ١۔ ایمان دار لوگ متکبر نہیں ہوتے۔ ٢۔ ایمان داروں کے سامنے سجدہ کی آیات پڑھی جائیں تو وہ اپنے رب کے حضور سربسجود ہوتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن تکبر سے بچنے کا حکم : ١۔ سب سے پہلے شیطان نے تکبر کیا۔ (ص : ٧٤) ٢۔ تکبر کرنا فرعون اور اللہ کے باغیوں کا طریقہ ہے۔ (القصص : ٣٩) ٣۔ تکبر کرنے والے کے دل پر اللہ مہر لگا دیتا ہے۔ (المؤمن : ٣٥) ٤۔ متکبّر کو اللہ تعالیٰ پسند نہیں کرتا۔ (النحل : ٢٣) ٥۔ اللہ تعالیٰ فخر وغرور کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا۔ (النساء : ٣٦) ٦۔ تکبر کرنے والے جہنم میں جائیں گے۔ (المومن : ٧٦) ٧۔ اللہ نے جو تمہیں دیا ہے اس پر اتراؤ نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ فخر کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ (الحدید : ٢٣) السجدة
16 فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ کے حضور جھکنے والے لوگ رات کے وقت اٹھ کر بھی اس کے سامنے سجدہ ریز ہوتے ہیں۔ نیک لوگوں کے اوصاف حمیدہ میں یہ وصف ضرور شامل ہوتا ہے کہ وہ ساری رات خراٹے لے کر نہیں سوتے جونہی سحری کا وقت قریب ہوتا ہے وہ نیند سے اچاٹ ہوتے ہیں اور اپنے نرم ونازک اور آرام دہ بستروں سے اٹھ کر اپنے رب کے حضور خوف وطمع کی حالت میں فریادیں کرتے ہیں اور جو کچھ اللہ تعالیٰ نے انہیں دے رکھا ہے اس میں سے خرچ کرتے رہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں کے قرار اور آنکھوں کی ٹھنڈک کے لیے وہ کچھ تیار کر رکھا جس کا کسی کے دل میں خیال بھی پیدا نہیں ہو سکتا۔ یہ ان کے اچھے اعمال کا بدلہ ہوگا یہاں مومن کے دل کی کیفیت کا ذکر خوف اور طمع کے حوالے سے کیا گیا ہے مومن کی یہی حالت ہوتی ہے کہ جب وہ اپنے اعمال کی طرف نگاہ کرتا ہے تو اسے ” اللہ“ کی پکڑ کا خیال آتا ہے جس پر لرزاں وترساں ہوتا ہے جب اس کا خیال اللہ تعالیٰ کی بے کراں رحمت کی طرف جاتا ہے تو اس کی امید اپنے رب پر مضبوط ہوجاتی ہے اس کیفیت کی وجہ وہ عسر، یسر میں اپنے عزیز و اقرباء اور مساکین پر خرچ کرتا ہے۔ (عَنْ سَعِیْدِ بْنِ الْمُسَیِّبِ اأنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ (رض)، اِشْتَکٰی فَدَخَلَ عَلَیْہِ النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَعُوْدُہٗ فَقَالَ کَیْفَ تَجِدُکَ یَا عُمَرُ ؟ فَقَالَ اأرْجُوْ وَأَخَافُ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَا اجْتَمَعَ الرَّجَاءُ وَالُخَوْفُ فِیْ قَلْبِ مَؤْمِنٍ إِلَّا اأعْطَاہ اللّٰہُ الرَّجَاءَ وَأَمِنَہُ الْخَوْفَ) [ رواہ البیھقی : باب فی الرجاء من اللہ تعالی] ” سعید بن مسیب (رض) سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن خطاب (رض) بیمار ہوگئے تو نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا اے عمر! اپنے آپ کو کیسے محسوس کررہے ہو؟ انہوں نے جواب دیا مجھے امید بھی ہے اور خوف بھی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ مومن کے دل میں امید اور خوف دونوں حالتیں نہیں جمع ہوتیں مگر اللہ تعالیٰ اس کی امید پوری کردیتے ہیں اور اسے خوف سے محفوظ فرمالیتے ہیں۔“ (عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَال اللّٰہُ تَعَالٰی اَعْدَدْتُّ لِعِبَادِیَ الصَّالِحِیْنَ مَالَاعَیْنٌ رَاأتْ وَلَآ اُذُنٌ سَمِعَتْ وَلَاخَطَرَ عَلٰی قَلْبِ بَشَرٍ وَّاقْرَءُ وْٓا اِنْ شِءْتُمْ (فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّآ اُخْفِیَ لَھُمْ مِنْ قُرَّۃِ اَعْیُنٍ) [ رواہ البخاری : باب ما جاء فی صفۃ الجنۃ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں نے اپنے نیک بندوں کے لیے ایسی نعمتیں تیار کی ہیں‘ جن کو نہ کسی آنکھ نے دیکھا اور نہ ان کے بارے میں کسی کان نے سنا اور نہ ہی کسی انسان کے دل میں ان کا خیال پیدا ہوا اگر تمہیں پسند ہو تو اس آیت کی تلاوت کرو ” کوئی نہیں جانتا کہ ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک کے لیے کیا چیز چھپا کے رکھی گئی ہے۔“ نماز تہجد کی فضیلت : عبادات میں سب سے افضل عبادت فرض نماز ہے۔ فرض نماز کے بعد سب سے افضل نماز تہجد کی نماز ہے۔ جسے نفل نماز قرار دیا گیا ہے۔ نفل کا معنیٰ ہوتا ہے ” زائد چیز“۔ رسول محترم نے نوافل کا فائدہ ذکر کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ قیامت کے دن فرض نماز کی کمی نفل نماز سے پوری کی جائے گی۔ بعض اہل علم کے نزدیک پہلے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر تہجد فرض تھی۔ بعد ازاں اسے نفل قرار دے دیا گیا۔ تہجد کا لفظ ” جہد“ سے نکلاہے۔ جس سے مراد ” نیند کے بعد بیدار ہونا“ ظاہر ہے یہ کام ہمّت اور کوشش کے بغیر نہیں ہوتا۔ اس لیے جہد کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ کچھ اہل علم ضروری سمجھتے ہیں کہ تہجدکچھ دیر سونے کے بعداٹھ کر پڑھنی چاہیے۔ ان کے بقول سونے سے پہلے پڑھے جانے والے نوافل تہجد شمار نہیں ہوتے۔ لیکن احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ آدمی اپنی صحت اور فرصت کے پیش نظر رات کے کسی پہر میں تہجد پڑھ سکتا ہے۔ البتہ تہجد کے لیے افضل ترین وقت آدھی رات کے بعد شروع ہوتا ہے۔ سحری کا وقت حاجات و مناجات اور سکون و اطمینان کے لیے ایسا وقت ہے کہ لیل و نہار کا کوئی لمحہ ان لمحات کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔ زمین و آسمان کی وسعتیں نورانی کیفیت سے لبریز دکھائی دیتی ہیں۔ ہر طرف سکون و سکوت انسان کی فکر و نظر کو جلابخشنے کے ساتھ خالق حقیقی کی طرف متوجہ کر رہا ہوتا ہے۔ ایک طرف رات اپنے سیاہ فام دامن میں ہر ذی روح کو سلائے ہوئے ہے اور دوسری طرف بندۂ مومن اپنے خالق حقیقی کی بارگاہ میں پیش ہونے کے لیے کروٹیں بدلتا ہوا اٹھ کھڑا ہوتا ہے کہ کہیں نیند کی غفلت میں پرنور لمحات گذر نہ جائیں۔ وہ ٹھنڈی راتوں میں یخ پانی سے وضو کرکے رات کی تاریکیوں میں لرزتے ہوئے وجود اور کانپتی ہوئی آواز کے ساتھ شکر و حمد اور فقر و حاجت کے جذبات میں زار و قطار روتا ہوا فریاد کناں ہوتا ہے۔ وہ آنسوؤں کے پانی سے اس طرح اپنی ردائے حیات کو دھو ڈالتا ہے کہ اس کا دامن گناہوں کی آلودگی سے پاک اور وجود دنیا کی تھکن سے ہلکا ہوجاتا ہے۔ طویل ترین قیام اور دیر تک رکوع وسجود میں پڑارہنے سے تہجد بندۂ مومن کو ذہنی اور جسمانی طور پر طاقت و توانائی سے ہمکنار کردیتی ہے۔ اگر وہ خورد و نوش میں مسنون طریقوں کو اپنائے تو اس کو کسی قسم کی سیر و سیاحت حتیٰ کہ معمولی ورزش کی بھی حاجت نہیں رہتی۔ اللہ تعالیٰ تہجد گزار بندوں کی اس طرح تعریف فرماتا ہے۔ (تَتَجَا فٰی جُنُوْبُھُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ یَدْعُوْنَ رَبَّھُمْ خَوْفًا وَّطَمَعاً وَّمِمَّا رَزَقْنٰھُمْ یُنْفِقُوْنَ) [ السجدۃ: ١٦] ” وہ اپنے بستروں سے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں اپنے رب کو خوف اور امید کے ساتھ پکارتے ہیں اور جو ہم نے انہیں دیا ہے اس سے خرچ کرتے ہیں۔“ (عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَ ۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَنْزِلُ رَبُّنَا تَبَارَکَ وَتَعَالٰی کُلَّ لَیْلَۃٍ اِلَی السَّمَآء الدُّنْیَا حِیْنَ یَبْقَی ثُلُثُ اللَّیْلِ الْاٰخِرُ یَقُوْلُ مَنْ یَدْعُوْنِیْ فَأَسْتَجِیْبَ لَہُ مَنْ یَسْاَلْنِیْ فأُعْطِیَہٗ مَنْ یَسْتَغْفِرْنِیْ فَأَغْفِرَلَہُ) [ رواہ البخاری : باب التحریض علی قیام الیل] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ رب تعالیٰ رات کے آخری حصے میں آسمان دنیا پر تشر یف لاکر فرماتا ہے : کون ہے جو مجھ سے طلب کرے کہ میں اسکو عطاکروں اور کون ہے جو مجھ سے بخشش اور مغفرت چاہے میں اسکوبخش دوں۔“ تفصیل کے لیے دیکھئے : (میری کتاب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا تہذیب وتمدن اور فہم القرآن جلد ٣ صفحہ نمبر : ٩٢٩۔ ٩٣٠) صدقہ کی فضیلت : (اِنَّ الصَّدَ قَۃَ لَتُطْفِئُ غَضَبَ الرَّ بِّ وَ تَدْفَعُ مِےْتَۃَ السَّوْءِ) (مشکوۃ: باب فضل الصدقۃ) ” صدقہ اللہ تعالیٰ کے غضب کو ٹھنڈا کرتا ہے اور بری موت سے بچا تا ہے۔“ ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جس نے پاکیزہ کمائی سے ایک کھجور کے برابر بھی صدقہ کیا اور اللہ تعالیٰ صرف پاکیزہ چیز ہی قبول فرماتے ہیں۔ بے شک اللہ تعالیٰ اسے اپنے دائیں ہاتھ میں لیتے ہیں پھر اس کو صدقہ کرنے والے کے لیے بڑھاتے رہتے ہیں جس طرح تم میں سے کوئی اپنے بچھڑے کی پرورش کرتا ہے یہاں تک کہ آدمی کا کیا ہوا صدقہ پہاڑ کی مانند ہوجاتا ہے۔“ [ رواہ البخاری : کتاب الزکاۃ، باب الصدقۃ من کسب طیب] (مَامِنْ مُّسْلِمٍ غَرَسَ غَرْسًا فَأَکَلَ مِنْہُ إِنْسَانٌ أَوْ دَآبَّۃٌ إِلَّا کَانَ لَہٗ بِہٖ صَدَقَۃٌ) [ رواہ البخاری : کتاب الأدب] ” جس مسلمان کے کھیت سے کسی انسان یا جانورنے دانہ کھایا اسے بھی صدقہ کا ثواب ملے گا۔“ (کُلُّ سُلَامٰی عَلَیْہِ صَدَقَۃٌ کُلَّ یَوْمٍ یُعِیْنُ الرَّجُلَ فِیْ دَابَّتِہٖ یُحَامِلُہٗ عَلَیْھَا أَوْ یَرْفَعُ عَلَیْھَا مََتَاعَہٗ صَدَقَۃٌ وَالْکَلِمَۃُ الطَّیِّبَۃُ وَکُلُّ خُطْوَۃٍ یَمْشِیْھَا إِلَی الصَّلٰوۃِ صَدَقَۃٌ وَدَلُّ الطَّرِیْقِ صَدَقَۃٌ) [ رواہ البخاری : کتاب الجھاد والسیر] ” روزانہ ہر جوڑ پر صدقہ ہے کسی آدمی کو سواری کے لیے سواری دے دینا یا کسی کے سامان کو سواری پر رکھ لینا صدقہ ہے اور اچھی بات کہناصدقہ ہے۔ نماز کے لیے جاتے ہوئے ہرقدم کا بدلہ صدقہ ہے اور کسی کو راستہ بتلانا صدقہ ہے۔“ مسائل ١۔ اللہ کے بندے اپنے رب کے خوف اور اس کی رحمت کی طلب میں رات کے وقت اپنے بستروں سے اٹھ کر اپنے رب کے حضور قیام کرتے ہیں۔ ٢۔ اللہ کے بندے اپنے رب سے ڈرتے بھی ہیں اور اس کی رحمت کی امید بھی رکھتے ہیں۔ ٣۔ اللہ کے بندے عسر، یسر میں خرچ کرتے رہتے ہیں۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لیے وہ کچھ تیار کر رکھا ہے جس کا خیال کسی کے دل میں نہیں آسکتا۔ تفسیر بالقرآن نماز تہجد اور صدقہ کی فضیلت : ١۔ نماز کی پابندی کیجئے دن کے دونوں کناروں پر اور رات کے کچھ حصوں میں بھی بے شک نیکیاں برائیوں کو ختم کردیتی ہیں بے شک نماز بے حیائی اور برے کاموں سے روکتی ہے۔ ( العنکبوت : ٤٥) ٢۔ صدقہ کرنے والے کو اللہ تعالیٰ دگنا تگنا کرکے واپس کرے گا۔ (التغابن : ١٧) ٣۔ اللہ تعالیٰ سات سو گنا تک بڑھا دیتا ہے۔ (البقرۃ: ٢٦١) ٤۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں ثواب کی کوئی حد نہیں ہے۔ (البقرۃ: ٢٦١) ٥۔ صدقہ کرنا اللہ تعالیٰ کو قرض دینا ہے۔ (الحدید : ١١) ٦۔ اللہ تعالیٰ صدقہ کرنے والوں کو جزا دیتا ہے۔ (یوسف : ٨٨) ٧۔ جو کچھ تم خرچ کرو گے اللہ تعالیٰ تمھیں اس سے زیادہ دے گا۔ (سبا : ٣٩) ٨۔ مومنین اللہ کے راستے میں خفیہ اور اعلانیہ خرچ کرتے ہیں۔ (الرعد : ٢٢) السجدة
17 السجدة
18 فہم القرآن ربط کلام : آیت ١٠ تا ١٧ میں تابعدار اور نافرمانوں کے کردار اور انجام کا ذکر ہوا ہے اب کھلے الفاظ میں اعلان ہوتا ہے کہ تابعدار اور نا فرمان برابر نہیں ہو سکتے۔ اس سے پہلی آیات میں نافرمانوں کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو مٹی سے بنا کر اس کو کان، آنکھیں اور دل دیا تاکہ یہ اپنے وجود اور ” اللہ“ کی قدرت کی نشانیاں دیکھ کر اس کا شکر گزار بننے کی کوشش کرے اس کے شکر کی حقیقی صورت یہ ہے کہ انسان اپنے رب کے حکم کے مطابق زندگی بسر کرے اور آخرت میں کامیاب ٹھہرے۔ لیکن نافرمان اور قیامت کے منکر کہتے ہیں کیا ہمیں مرنے کے بعد پھر اٹھایا جائے گا؟ ایسے لوگوں کے انجام کا ذکر کرتے ہوئے بتلایا کہ ہاں ! نہ صرف انہیں اٹھایاجائے گا بلکہ جہنم میں بھی جھونکا جائے گا۔ ان کے مقابلے میں صاحب ایمان لوگوں کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ جونہی ان کے سامنے ان کے رب کی آیات پڑھی جاتی ہیں تو یہ تکبر کرنے کی بجائے اپنے رب کے حضور سزبسجود ہوتے ہیں۔ رات کو اٹھ اٹھ کر اپنے رب کے حضور خوف اور امید کے جذبات کے ساتھ دعائیں کرتے ہیں اور جو کچھ انہیں عطا کیا گیا ہے اس میں سے خرچ کرتے رہتے ہیں۔ ان کے لیے ایسی نعمتیں تیار کی گئی ہیں جن کے بارے میں کسی انسان کے دل میں تصور بھی پیدا نہیں ہو سکتا۔ اس تقابل کے بعد اعلان ہوتا ہے کہ مومن اور فاسق برابر نہیں ہو سکتے۔ ایمان دار اور صاحب کردار لوگوں کے لیے جنت ہے جس میں ان کی مہمان نوازی کی جائے گی اور ان کے اعمال کا بہترین بدلہ دیا جائے گا۔ جو دنیا میں نافرمان ٹھہرے ان کے رہنے کی جگہ جہنم کی دہکتی ہوئی آگ ہے جب وہ اس سے نکلنے کا ارادہ کریں گے تو ملائکہ انہیں مارتے اور جھڑکیاں دیتے ہوئے جہنم میں دور تک دھکیل دیں گے۔ ان کی اذیت اور تڑپ میں اضافہ کرنے کے لیے فرشتے اعلان کریں گے کہ بس تم جہنم کی آگ میں جلتے رہو کیونکہ تم قیامت اور جہنم کو جھٹلایا کرتے تھے۔ مسائل ١۔ مومن اور فاسق برابر نہیں ہو سکتے۔ ٢۔ مومنوں کو جنت میں داخل کیا جائے گا اور ان کے اعمال کی بہترین جزادی جائے گی۔ ٣۔ فاسقوں کا ٹھکانہ جہنم ہوگا انہیں کہا جائے گا کہ ہمیشہ آگ کے عذاب میں مبتلا رہو۔ تفسیر بالقرآن جنتیوں کی جزا اور جہنمیوں کی سزا : ١۔ جنت میں جنتیوں کو ہر نعمت میسر ہوگی جس کی وہ چاہت کریں گے۔ ( الانبیاء : ١٠٢) ٢۔ جنت کے میوے ٹپک رہے ہوں گے۔ (الحاقۃ: ٢٣) ٣۔ یقیناً متقی نعمتوں والی جنت میں ہوں گے۔ (الطور : ١٧) ٤۔ جنت میں سونے اور لؤلو کے زیور پہنائے جائیں گے۔ (فاطر : ٣٣) ٥۔ جنتی سبز قالینوں اور مسندوں پر تکیہ لگا کر بیٹھے ہوں گے۔ (الرحمٰن : ٧٦) ٦۔ جنتیوں کو شراب طہور دی جائے گی۔ (الدھر : ٢١) ٧۔ جہنمیوں کو پیپ اور لہو پلایا جائے گا۔ (ابراہیم : ١٦) ٨۔ جہنمیوں کو آگ کے ستونوں سے باندھ دیا جائے گا۔ (ہمزہ : ٩٠) ٩۔ جہنمیوں کے جسم بار بار بدلے جائیں گے تاکہ انہیں پوری پوری سزادی جا سکے۔ (النساء : ٥٦) السجدة
19 السجدة
20 السجدة
21 فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ کی آیات کی تکذیب کرنے والوں کی آخرت سے پہلے دنیا میں سزا۔ جو لگ اپنے رب کے احکام کا انکار کرتے ہیں اور قیامت کے حساب و کتاب کو جھٹلاتے ہیں انہیں اللہ تعالیٰ کی آیات کے ساتھ نصیحت کی جاتی ہے تو یہ ان سے اعراض کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی آیات سے اعراض کرنے والا شخص بڑا ظالم ہوتا ہے ان مجرموں سے اللہ تعالیٰ دنیا اور آخرت میں انتقام لیں گے قیامت کو انہیں بڑا عذاب ہوگا لیکن دنیا میں بھی چھوٹے چھوٹے عذابوں کے ساتھ ان سے انتقام لیا جاتا ہے۔ کافر اور مشرک آخرت کے عذاب سے یہ کبھی چھٹکارا نہیں پائیں گے لیکن دنیا کے چھوٹے عذاب سے انہیں اکثر اوقات اس لیے نجات دی جاتی ہے تاکہ یہ اپنے رب کی طرف لوٹ آئیں۔ آخرت اور دنیا کے عذاب میں یہ فرق ہے کہ آخرت کا عذاب کافر، مشرک پر ہلکا نہیں ہوگا۔ لیکن دنیا کے عذاب میں سزا کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی رحمت بھی شامل ہوتی ہے جس کا مقصد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ لوگ اس کے عذاب سے نجات پانے کے لیے اس کی طرف رجوع کریں اور اپنے گناہوں کی معافی مانگیں تاکہ اللہ تعالیٰ انہیں معاف فرما کر قیامت کے بڑے عذاب سے بچا لے اس طرح دنیا کے عذاب میں شفقت کا پہلو بھی موجود ہوتا ہے۔ بڑے عذاب سے مراد آخرت کا عذاب ہے اور دنیا میں چھوٹے چھوٹے عذابوں کے بعد بڑا عذاب بھی آ سکتا ہے۔ مسائل ١۔ جو شخص اللہ تعالیٰ کی آیات کو جھٹلاتا ہے وہ بڑا ظالم ہے۔ ٢۔ ظالموں سے اللہ تعالیٰ دنیا میں بھی انتقام لیتا ہے۔ ٣۔ دنیا میں سزا دینے کا ایک مقصد یہ بھی ہے تاکہ بندہ اپنے رب سے معافی مانگ لے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ بڑے عذاب سے پہلے چھوٹے چھوٹے عذاب دیتا ہے تاکہ لوگ اپنے رب کی طرف رجوع کریں۔ ٥۔ دنیا کے عذاب اللہ تعالیٰ اس کی شفقت پنہاں ہوتی ہے۔ السجدة
22 فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ لوگوں کو دنیا میں ہلکے پھلکے عذاب اس لیے دیتا ہے تاکہ لوگ اس کی طرف رجوع کریں اور اس کی رحمت کے حقدار بن جائیں مگر ظالم پھر بھی اعراض کیے رکھتے ہیں۔ اس سے پہلی آیت میں ارشاد ہوا کہ ہم لوگوں کو بڑا عذاب دینے سے پہلے اس لیے چھوٹے، چھوٹے عذاب دیتے ہیں تاکہ وہ اپنے رب کی طرف متوجہ ہوجائیں۔ لیکن ظالم لوگ نہ نصیحت قبول کرتے ہیں اور نہ ہی وہ چھوٹے، چھوٹے عذابوں سے ڈرتے ہیں۔ جب لوگوں کی یہ حالت ہوجائے تو پھر ظالموں سے انتقام لیا جاتا ہے اور ایک طرف ان کے گناہوں کی سزا دی جاتی اور دوسری طرف مظلوموں کا بدلہ چکایا جاتا ہے تاکہ دنیا کا نظام درہم برہم ہونے سے بچ جائے اور مظلوموں کو ریلیف دیا جائے۔ اسی اصول کے پیش نظر قوم نوح، قوم عاد، قوم ثمود، قوم مدین، آل فرعون اور دیگر اقوام پر عذاب نازل ہوئے اور انہیں نیست ونابود کر کے دوسری اقوام کو اپنا کردار ادا کرنے کا موقعہ دیا گیا۔ مسائل ١۔ جو قوم مسلسل اعراض کا رویّہ اختیار کرئے اس پر بڑا عذاب نازل کیا جاتا ہے اس طرح ظالموں سے انتقام لیا جاتا ہے۔ تفسیر بالقرآن ظالم اقوام پر نازل ہونے والے عذاب : ١۔ قوم نوح طوفان کے ذریعے ہلاک ہوئی۔ (الاعراف : ١٣٦) ٢۔ عاد زبر دست آندھی کے ذریعے ہلاک ہوئے۔ (الحاقۃ: ٦) ٣۔ قوم عاد کو تند وتیز آندھی کے ساتھ ہلاک کردیا گیا۔ (الحاقۃ : ٦) ٤۔ ثمود زور دار دھماکے کے ساتھ ہلاک کیے گئے۔ (الحاقۃ: ٥) ٥۔ قوم لوط کی بستی کو الٹ کر ان پر پتھروں کی بارش برسائی گئی۔ (الحجر : ٧٤) ٦۔ ہم نے اوپر والی سطح کو نیچے کردیا اور ہم نے ان پر پتھروں کی بارش برسا دی جو تہہ بہ تہہ تھے خاص نشان لگے ہوئے۔ (ھود : ٨٢) السجدة
23 فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ نے جن لوگوں سے انتقام لیاان میں آل فرعون بھی شامل ہے۔ اس لیے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا مختصر ذکر کرنے کے بعد آل فرعون کے انجام کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے کہ ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو کتاب دی۔ جس میں بنی اسرائیل کے لیے راہنمائی تھی اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل میں ایسے راہنما مقرر فرمائے جو اس کے حکم کے مطابق لوگوں کی راہنمائی کرتے مگر لوگوں نے ان کی راہنمائی قبول کرنے کی بجائے ان کی مخالفت کی اور انہیں طرح طرح کی تکلیفیں دیں جس پر راہنماؤں نے صبر سے کام کیا کیونکہ وہ اپنے رب کے ارشادات پر یقین رکھنے والے تھے کہ انہیں تکلیفوں کے بدلے ضرور اجرسے نوازا جائے گا۔ جن لوگوں نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے مقرر کردہ راہنماؤں سے اختلاف کیا۔ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ ان کے درمیان حق وانصاف کے ساتھ فیصلہ فرمائے گا۔ بنی اسرائیل میں ائمہ مقرر کرنے سے مراد انبیاء عظام ہیں جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد مبعوث کیے ان سے مراد بارہ رہنما بھی ہو سکتے ہیں جنہیں موسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے اپنے نائب کے طور پر بارہ قبیلوں کا نقیب مقرر کیا تھا یہاں پہلی آیت میں (فَلَا تَکَنْ فِیْ مِرْیَۃٍ مِنْ لِقَاءِہٖ) کے الفاظ استعمال فرمائے ہیں جس کا ایک معنٰی یہ ہے کہ کفار اپنے رب کی ملاقات یعنی قیامت کے دن کے منکر ہیں لیکن اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ کو اپنے رب کی ملاقات پر کامل یقین رہنا چاہیے کہ اس دن آپ کے اور آپ کے مخالفوں کے درمیان ٹھیک ٹھیک فیصلہ سنا دیا جائے گا۔ بعض اہل علم نے ان الفاظ کا یہ بھی معنٰی لیا ہے کہ اس ملاقات سے مراد نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی معراج میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے ہونے والی ملاقات ہے۔ (عَنْ اَبِیْ سَعِےْدِنِ الْخُدْرِیِّ (رض) قَالَ اِنَّ اُنَاسًا مِّنَ الْاَنْصَارِ سَاَلُوْا رَسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَاَعْطَاھُمْ حَتّٰی نَفِدَ مَا عِنْدَہُ فَقَالَ مَا ےَکُوْنُ عِنْدِیْ مِنْ خَےْرٍ فَلَنْ اَدَّخِرَہُ عَنْکُمْ وَمَنْ یَّسْتَعِفَّ ےُعِفَّہُ اللّٰہُ وَمَنْ یَّسْتَغْنِ ےُغْنِہِ اللّٰہُ وَمَنْ یَّتَصَبَّرْ ےُصَبِّرْہُ اللّٰہُ وَمَا اُعْطِیَ اَحَدٌ عَطَآءً ھُوَ خَےْرٌ وَّاَوْسَعُ مِنَ الصَّبْرِ) [ رواہ البخاری : باب الصَّبْرِ عَنْ مَحَارِمِ اللَّہِ] ” حضرت ابو سعید خدری (رض) بیان کرتے ہیں انصار کے کچھ لوگوں نے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مال کیلئے سوال کیا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو مال دے دیا حتیٰ کہ جو مال آپ کے پاس تھا ختم ہوگیا پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میرے پاس جتنا بھی مال ہو میں کبھی انکار نہیں کروں گا لیکن جو شخص سوال کرنے سے خود کو بچائے تو اللہ تعالیٰ بھی اسے بچائے گا اور جو شخص بے نیازی اختیار کریگا اللہ تعالیٰ اس کو غنی کر دیگا۔ جو شخص صبر کریگا اللہ تعالیٰ اسے صبر عنایت فرمائیگا۔ کوئی شخص صبر سے بہتر اور فراخی والے تحفہ سے بڑھ کر کوئی عطیہ نہیں دیا گیا۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو تورات عطا فرمائی جو بنی اسرائیل کے لیے ہدایت کا سرچشمہ تھی۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کی رہنمائی کے لیے دینی رہنما مقرر فرمائے۔ ٣۔ قوم کے راہنما کو صابر ہونا چاہیے۔ ٤۔ رہنما کو اللہ تعالیٰ پر یقین ہونا چاہیے۔ کہ اسے ضرور بہترین بدلہ دیا جائے گا۔ تفسیر بالقرآن صبر کے فوائد : ١۔ اللہ کی رفاقت اور دستگیری صبر کرنے والوں کے لیے ہے۔ (البقرۃ: ١٥٢) ٢۔ صبر اور نماز کے ذریعے اللہ کی مدد طلب کرو۔ (البقرۃ: ١٥٢) ٣۔ صبر کرنے والوں کو بے حساب اجر دیا جائے گا۔ (الزمر : ١٠) ٤۔ بے شک جنہوں نے اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتے ہوئے صبر و استقامت کا مظاہرہ کیا انہیں کوئی خوف اور حز ن و ملال نہیں ہوگا۔ (الاحقاف : ١٣) السجدة
24 السجدة
25 السجدة
26 فہم القرآن ربط کلام : حق اور انبیاء (علیہ السلام) کے ساتھ اختلاف کرنے والوں کا انجام۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ اختلاف کرنے والے فرعون، ہامان، قارون اور ان کے ساتھیوں کا کیا انجام ہوا اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد آنے والے انبیاء (علیہ السلام) کے ساتھ جن لوگوں نے اختلاف کیا ان کا حشر دیکھنا چاہو تو دنیا کی تاریخ پڑھو اور چل پھر کر ان کے مقامات دیکھو۔ تمہیں معلوم ہوجائے گا کہ جن کے اقتدار کا پھریرا چار سو لہرا رہا تھا۔ رب ذوالجلال کا حکم نازل ہوا تو ان کا نام ونشان مٹا دیا گیا۔ قوم عاد، قوم صالح اور قوم مدین عرب کے علاقہ میں شامل تھیں۔ مکہ والے تجارت کے لیے سفر کرتے تو ان کے کھنڈرات سے گزرتے تھے۔ ان کے واقعات میں عبرت کے بہت سے اسباق ہیں مگر ان لوگوں کے لیے جو عبرت کی نگاہ سے دیکھتے اور نصیحت پانے کے لیے سنتے ہیں۔ قرن سے مراد کسی قوم کے اقتدار کا دورانیہ، ایک نسل یا ایک صدی شمار کیا جاتا ہے۔ مسائل ١۔ تباہ ہونے والی اقوام اپنے سے بعد والی اقوام کے لیے نشان عبرت ہیں۔ ٢۔ قوموں کے انجام میں عبرت پنہاں ہوتی ہے۔ تفسیر بالقرآن اقوام کی تباہی : ١۔ اللہ تعالیٰ نے بہت سی اقوام کو تباہ کیا۔ (الانعام : ٦) ٢۔ جب تم سے پہلے لوگوں نے ظلم کیا تو ہم نے ان کو تباہ کردیا۔ (یونس : ١٣) ٣۔ قوم نوح طوفان کے ذریعے ہلاک ہوئی۔ (الاعراف : ١٣٦) ٤۔ ثمود زور دار آواز کے ساتھ ہلاک کیے گئے۔ (الحاقۃ: ٥) ٥۔ عاد زبر دست آندھی کے ذریعے ہلاک ہوئے۔ (الحاقۃ: ٦) ٦۔ (آل فرعون کو سمند میں ڈبو دیا گیا۔ (ٍیونس : ٩٠) السجدة
27 فہم القرآن ربط کلام : پہلی اقوام کے جرائم میں ایک جرم یہ بھی تھا کہ وہ قیامت کے دن زندہ ہونے کا انکار کرتے تھے یہاں تاریخی اور جغرافیائی نشانیوں کی نشاندہی کرنے کے بعد بارش سے سبق حاصل کرنے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ پہلی آیت میں اقوام کے تباہ شدہ کھنڈرات سے عبرت حاصل کرنے کی طرف اشارہ ہے اور اب بارش اور اس کے پانی سے اگنے والی نباتات پر غور کرنے کی طرف توجہ دلائی گئی ہے دیکھو اور غور کرو کہ اللہ تعالیٰ کس طرح بارش نازل کرتا ہے اور پھر اس پانی سے زمین کو سیراب کرتا اور فصلیں اگاتا ہے اس سے تمہارے چوپائے بھی کھاتے اور تم بھی اپنی خوراک حاصل کرتے ہو لیکن پھر بھی تم عبرت کی نگاہ سے نہیں دیکھتے! بارش بذات خود اللہ تعالیٰ کی قدرت کا کرشمہ اور اس کی رحمت کاسرچشمہ ہے اس سے کیڑے مکوڑے، درند، پرند، چوپائے اپنے حسب حال اور ضرورت مستفید ہوتے ہیں اللہ تعالیٰ اس سے نباتات، انگوریاں اور فصلیں پیدا کرتا ہے جس سے دوسری مخلوق کے ساتھ چوپائے اور انسان اپنی روزی حاصل کرتے ہیں۔ بارش کے فوائد ذکر کرنے کے ساتھ یہ بتانا مقصود ہے کہ بارش کی وجہ سے زمین سے نباتات اگتی ہے اسی طرح ایک دن آئے گا جب تمہاری موت کے بعد تمہیں بھی اٹھا لیاجائے گا۔ سب کچھ سننے اور دیکھنے کے باوجود آپ سے سوال کرتے ہیں کہ فیصلے کا دن کب آئے گا ؟ اس سوال کے پہلے بھی جواب دئیے گئے ہیں یہاں صرف یہ بتلایا ہے کہ آپ انہیں فرمادیں کہ جو لوگ قیامت کا انکار کرتے ہیں یہ قیامت دیکھنے کے بعد ایمان لائیں گے۔ لیکن ان کا ایمان اس دن انہیں فائدہ نہیں دے گا اور نہ ہی انہیں مہلت دی جائے گی اگر یہ لوگ اس پر ایمان لانے کے لیے تیار نہیں ہیں تو آپ ان کا خیال چھوڑ دیں آپ بھی انتظار فرمائیں اور یہ بھی انتظار کریں۔ اللہ تعالیٰ چاہے گا تو دنیا میں ان کی پکڑ کرے گا ورنہ قیامت کے دن ان سے ضرور پوچھا جائے گا۔ مسائل ١۔ قیامت کے دن کفار کا ایمان لانا انہیں کچھ فائدہ نہ دے گا۔ ٢۔ ضدی لوگوں کے ساتھ الجھنے کی بجائے انہیں ان کے حال پر چھوڑ دینا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن ہٹ دھرم اور جہالوں اعراض کرنے کا حکم : ١۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جاہلوں سے اعراض کی ہدایت تھی۔ (اعراف : ١٩٩) ٢۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے جہالت سے پناہ مانگی۔ (البقرۃ: ٦٧) ٣۔ حضرت نوح کو جہالت سے بچنے کا حکم۔ (ہود : ٤٦) ٤۔ جاہلوں سے بحث کی بجائے اجتناب اور اعراض کرنا چاہیے۔ (الفرقان : ٦٣) ٥۔ اگر اللہ چاہتا تو انہیں ہدایت پر جمع فرما دیتا پس آپ جاہلوں میں سے نہ ہوں۔ (الانعام : ٣٥) ٦۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جاہلوں سے اعراض کریں اور اللہ پربھروسہ کریں کیونکہ اللہ ہی نگہبان ہے۔ (النساء : ٨١) السجدة
28 السجدة
29 السجدة
30 السجدة
0 الأحزاب
1 فہم القرآن سورۃ السجدۃ کا اختتام اس فرمان پر ہوا کہ ہٹ دھرم لوگوں سے اعراض کرنا چاہیے الاحزاب کا آغاز اس بات سے کیا کہ ہٹ دھرم اور جاہلوں سے صرف اعراض ہی نہیں کرنا بلکہ ان کی مخالفت کو بھی خاطر میں نہیں لانا۔ لہٰذاے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ کو ہر حال میں وحی الٰہی کی اتباع کرنا ہے۔ مکہ معظمہ میں آپ کے مخالف مشرکین تھے۔ مدینہ تشریف آوری کے بعد آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا واسطہ، یہود اور منافقوں سے پڑا۔ جو صبح و شام آپ کے خلاف سازشیں کرتے اور نئے سے نیا الزام لگاتے اور اسے پھیلاتے رہتے تھے۔ مفسرین نے لکھا ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی پھوپھی زاد بہن سیدہ زینب (رض) کا نکاح اپنے متبنّٰی بیٹے زید (رض) بن حارثہ کے ساتھ کیا تاکہ مسلم معاشرے میں طبقاتی اونچ نیچ ختم کی جا سکے۔ سیدہ زینب (رض) ذہنی طور پر حضرت زید (رض) کے ساتھ نکاح کرنے کے حق میں نہ تھیں۔ مگر اللہ کے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا حکم سمجھ کر آمادہ ہوگئیں۔ لیکن معاشرتی امتیاز اور طبیعتیں نہ ملنے کی وجہ سے نباہ مشکل ہوا۔ حضرت زید (رض) گاہے گاہے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں گھر یلو حالات عرض کرتے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پیار اور محبت سے سمجھاتے کہ جس طرح بھی ممکن ہوسکتا ہے نباہ کرنا چاہیے۔ اس کوشش کے باوجود رشتہ ٹوٹ جاتا ہے جونہی یہ رشتہ منقطع ہوا ” اللہ“ کا حکم ہوا کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ زینب کو اپنے حرم میں شامل کرلیں تاکہ زینب کی دلجوئی کے ساتھ ایک اور رسم کا خاتمہ ہوسکے۔ اس زمانے میں لوگ متبنّٰی بیٹے کی بیوی کو حقیقی بہو کا درجہ دیتے تھے متبنّٰی کی مطلقہ کے ساتھ نکاح کرنا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے بڑی آزمائش اور مخالفوں کے لیے پراپیگنڈہ کا ایسا بہانہ تھا جس کا دفاع کرنا اس وقت کے حالات کے مطابق انہتائی مشکل تھا اس لیے اس سورۃ کی ابتداہی ان الفاظ سے ہوئی کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کفار اور مشرکین کے پیچھے لگنے کی بجائے آپ کو صرف ” اللہ تعالیٰ“ سے ڈرنا چاہیے اللہ تعالیٰ ہرقسم کے حالات کو اچھی طرح جانتا ہے اور اس کے ہر حکم میں حکمت پائی جاتی ہے۔ اس لیے آپ کو اپنے رب کی وحی کی پیروی کرنی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال اور معاملات سے اچھی طرح باخبر ہے اس پر بھروسہ کیجئے وہ ہر معاملے میں کافی ہے یعنی اسے معلوم ہے کہ میں نے اپنے بندے کا دفاع کس طرح کرنا ہے جب وہ کسی کی حفاظت اور دفاع کا فیصلہ کرتا ہے تودنیا کی کوئی طاقت اس کا بال برابر بھی نقصان نہیں کرسکتی۔ ” حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ زید بن حارثہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس سیدہ زینب (رض) کی شکایت لے کر آئے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت زید کو فرمایا کہ اللہ سے ڈرو اور اپنی بیوی کو نہ چھوڑو۔ سیدہ عائشہ (رض) کہتی ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اگر کسی چیز کو چھپانے والے ہوتے تو آپ اس بات کو چھپاتے۔ راوی بیان کرتے ہیں سیدہ زینت (رض) اسی بنیاد پر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دوسری ازواج مطہرات پر فخر کیا کرتی تھیں کہ تمہارے نکاح تمہارے اہل وعیال نے کیے لیکن۔ میرے نکاح کا فیصلہ اللہ تعالیٰ نے سات آسمانوں کے اوپر فرمایا ہے۔“ [ رواہ البخاری : باب وکان عرشہ علی الماء] مسائل ١۔ مسلمان کو صرف ایک ” اللہ“ سے ڈرنا اور اسی کے حکم کی اتباع کرنا چاہیے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ ہمارے اعمال سے اچھی طرح باخبر ہے۔ ٣۔ اللہ پر ہی بھروسہ کرنا چاہیے جو اس پر بھروسہ کرتا ہے ” اللہ“ اس کے لیے کافی ہوجاتا ہے۔ الأحزاب
2 الأحزاب
3 الأحزاب
4 فہم القرآن ربط کلام : نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ” اللہ“ پر توکل کرنے کی تلقین کرنے کے بعد مسلم معاشرے سے رسومات کو ختم کرنے کا اعلان۔ اللہ تعالیٰ پر توکل کرنے والے ہی لوگوں کی مخالفت کی پر وہ کیے بغیر رسومات کا خاتمہ کیا کرتے ہیں۔ عرب معاشرہ میں متبنّٰی بیٹے کو حقیقی بیٹے کا درجہ دینا اور جذبات میں آکر اپنی بیوی کو ماں کہہ بیٹھنا حرف آخر سمجھا جاتا تھا۔ ان الفاظ اور رسومات کے خلاف کرنا اس طرح تھا جیسے کوئی شخص خودکشی کرنے کا اعلان کردے۔ لوگوں کے دلوں سے ان رسومات کو کھرچ ڈالنے کے لیے ارشاد ہوا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کسی شخص کے سینے میں دو دل نہیں بنائے کہ ایک دل میں اپنے رب کا خوف رکھے اور دوسرے دل میں لوگوں کا خوف سمایا رہے۔ جب اللہ تعالیٰ نے انسان کے سینے میں ایک ہی دل رکھا ہے تو اس کے دل میں ایک ہی ذات کا خوف اور اس کے حکم کا احترام ہونا چاہیے۔ لہٰذا حکم دیا جاتا ہے کہ تم میں سے جو لوگ اپنی بیویوں کو ماں کہہ بیٹھتے ہیں انہیں سن لینا چاہیے کہ اس طرح ان کی بیویاں ان کی مائیں نہیں بن جاتیں اور جن لے پالکوں کو تم اپنا بیٹا قرار دیتے ہو وہ تمہارے حقیقی بیٹوں کا درجہ نہیں حاصل کرسکتے۔ یہ تمہارے منہ کی باتیں ہیں یعنی تمہارے اپنے الفاظ اور محبت کے جذبات ہیں جن کی کوئی شرعی حیثیت نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ جو فرماتا ہے وہی سچ ہے اور وہ ہر معاملے میں سیدھے راستے کی رہنمائی کرنے والا ہے۔ اس کا حکم ہے کہ تم اپنے لے پالک بچوں کو ان کے حقیقی باپوں کے نام سے پکارا کرو۔ ” اللہ“ کے نزدیک یہی انصاف کی بات ہے اگر تمہیں ان کے باپوں کا نام معلوم نہ ہو تو وہ تمہارے دینی بھائی اور دوست ہیں۔ اس معاملے میں جو تم سے پہلے غلطی ہوگئی اس میں تم پر کوئی گناہ نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ معاف کرنے والا مہربان ہے۔ اگر تم دانستہ طور پر غلطی کروگے تو اس پر مواخذہ کیا جائے گا۔ حضرت عبداللہ بن عمر (رض) ذکر کرتے ہیں یہ فرمان نازل ہونے سے پہلے لوگ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متبنّٰی زید کو زید بن محمد کہتے تھے (رواہ البخاری : کتاب السیف) جونہی یہ حکم نازل ہوا تو ہم اسے زید (رض) بن حارثہ کے نام سے پکارنے لگے۔ حضرت سلمان فارسی (رض) فارس کے رہنے والے اور حضرت صہیب (رض) روم کے رہنے والے تھے جس وجہ سے رومی کہلائے چھوٹی عمر میں وہ دشمن کے ہاتھ چڑھ گئے انہیں خود بھی معلوم نہ تھا کہ ان کے باپوں کے نام کیا ہیں۔ ( بخاری : کتاب المناقب) لوگوں کو اس بات پر الجھن ہوتی تھی کہ ضرورت کے وقت انہیں کس کا بیٹا کہہ کر پکارا جائے اس پر یہ حکم نازل ہوا کہ جن کے باپ تمہیں معلوم نہیں وہ دینی اعتبار سے تمہارے بھائی اور دوست ہیں۔ آپ انہیں بھائی اور دوست کہہ کر پکار سکتے ہیں۔ اسی طرح کسی کو پیار سے بھائی اور بیٹا بھی کہا جا سکتا ہے لیکن وہ حقیقی بھائیوں اور بیٹوں کا درجہ نہیں پا سکتے۔ (عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ (رض) قَالَ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَقُوْلُ مَنِ ادَّعٰی إِلٰی غَیْرِ أَبِیْہِ أَوِ انْتَمیٰ إِلٰی غَیْرِ مَوَالِیْہِ فَعَلَیْہِ لَعْنَۃُ اللّٰہِ الْمُتَتَابِعَۃُ إِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ) [ رواہ أبوداوٗد : باب فی الرجل ینتمی الخ] ” حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا آپ فرماتے تھے جس نے اپنے باپ کے علاوہ کسی اور کے باپ کو اپنا باپ بنانے کا دعویٰ کیا یا کسی نے اپنے آقا کے علاوہ کسی اور کے آقا کی طرف اپنے آپ کو منسوب کیا۔ اس پر قیامت کے دن تک ” اللہ“ کی لعنت برستی رہے گی۔“ (عَنْ سَعْدٍ (رض) قَالَ سَمِعْتُ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَقُوْلُ مَنِ ادَّعٰی إِلٰی غَیْرِ أَبِیہِ، وَہْوَ یَعْلَمُ أَنَّہُ غَیْرُ أَبِیْہِ، فَالْجَنَّۃُ عَلَیْہِ حَرَامٌ)[ رواہ البخاری : باب مَنِ ادَّعٰی إِلٰی غَیْرِ أَبِیْہِ] ” حضرت سعد (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے ہوئے سناکہ جس شخص نے اپنے باپ کا علم ہونے کے باوجود کسی دوسرے شخص کی طرف اپنی نسبت کی اس پر جنت حرام ہے۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے کسی شخص کے سینے میں دو دل نہیں بنائے۔ ٢۔ بیوی کو ماں کہنے سے وہ اپنے خاوند کی ماں نہیں بن جاتی۔ ٣۔ متبنّٰی تمہارے حقیقی بیٹے نہیں بن سکتے۔ ٤۔ اللہ کا ہر فرمان سچ ہے اور وہ سیدھے راستے کی رہنمائی کرتا ہے۔ ٥۔ اپنے لے پالکوں کو ان کے باپوں کے نام سے پکارا کرو۔ ٦۔ جن کے باپ کا نام تم نہیں جانتے وہ تمہارے دینی بھائی اور دوست ہیں۔ ٧۔ اللہ تعالیٰ معاف کرنے والا نہایت ہی مہربان ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ راہنمائی فرمانے والا ہے : ١۔ اللہ تعالیٰ کی راہنمائی کے بغیر کوئی ہدایت نہیں پا سکتا۔ (الاعراف : ٤٣) ٢۔ اللہ تعالیٰ مومنوں کی صراط مستقیم کی طرف راہنمائی کرتا ہے۔ (الانعام : ١٦١) ٣۔ اللہ تعالیٰ صراط مستقیم کی طرف راہنمائی کرنے والا ہے۔ ( الحج : ٥٤) ٤۔ ہم نے قوم ثمود کی راہنمائی کی مگر انہوں نے ہدایت کے بدلے جہالت پسند کی۔ (حٰم السجدۃ: ١٧) ٥۔ ہدایت وہی ہے جسے اللہ تعالیٰ ہدایت قرار دے۔ (البقرۃ: ١٢٠) ٦۔ ہدایت اللہ کے اختیار میں ہے۔ (القصص : ٥٦) ٧۔ وہ جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے۔ (البقرۃ : ٢١٣) ٨۔ ہدایت پانا اللہ تعالیٰ کا احسان ہے۔ (الحجرات : ١٧) الأحزاب
5 الأحزاب
6 فہم القرآن ربط کلام : اس سے پہلے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مسلمانوں کو کسی کو اپنا بیٹا قرار دینے سے منع کیا گیا ہے اب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا امت کے ساتھ رشتہ اور مسلمانوں کے آپس میں رشتے کی وضاحت کی گئی ہے۔ اس فرمان میں یہ بتلایا ہے کہ سروردوعالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اپنی امت کے ساتھ اور امت کا اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ کیا رشتہ ہے یہ ایسا رشتہ ہے جو تمام رشتوں سے زیادہ مقدس اور مقدم ہے اور ہونا چاہیے۔ سروردوعالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے ساتھیوں کے لیے خود ان کی جانوں سے زیادہ خیرخواہ ہیں۔ لہٰذا مومنوں کے لیے بھی نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سب سے زیادہ محبوب اور مقدم ہونے چاہیں۔ اس خصوصیت کے ساتھ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بیویاں اسی طرح ان کے لیے حرام ہیں جس طرح مسلمانوں کی مائیں ان پر حرام ہیں۔ یہ مخصوص معاملہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سوا دنیا میں اور کسی انسان کے ساتھ نہیں ہے۔ اس سلسلہ میں یہ بھی جان لینا چاہیے کہ ازواج مطہرات صرف اسی معنٰی میں امّہات المومنین ہیں کہ ان کی تعظیم و تکریم مسلمانوں پر واجب ہے اور ان کے ساتھ کسی مسلمان کا نکاح نہیں ہوسکتا تھا۔ باقی دوسرے احکام میں وہ ماں کی طرح نہیں ہیں۔ مثلاً ان کے حقیقی رشتہ داروں کے سوا باقی سب مسلمان ان کے لیے غیر محرم تھے جن سے پردہ واجب تھا ان کی صاحبزادیاں مسلمانوں کے لیے بہنیں نہیں تھیں ورنہ ان سے بھی مسلمانوں کا نکاح حرام ہوتا۔ ان کے بھائی بہن مسلمانوں کے لیے خالہ اور ماموں کے حکم میں نہ تھے۔ ان سے کسی غیر رشتہ دار مسلمان کو وہ میراث نہیں پہنچتی تھی جو ایک شخص کو اپنی ماں سے پہنچتی ہے۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ قرآن مجید کی رو سے یہ مرتبہ تمام ازواج نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حاصل ہے جن میں لامحالہ حضرت عائشہ (رض) بھی شامل ہیں۔ لیکن ایک گروہ نے جب حضرت علی، حضرت فاطمہ (رض) اور ان کی اولاد کو مرکز دین بنا کر سارا نظام دین انہی کے گرد گھمادیا اور اس بنا پر دوسرے بہت سے صحابہ کے ساتھ حضرت عائشہ (رض) کو بھی ہدف لعن وطعن بنایا، تو ان کی راہ میں قرآن مجید کی یہ آیت حائل ہوگئی جس کی رو سے ہر اس شخص کو انہیں اپنی ماں تسلیم کرنا پڑتا ہے جو ایمان کا مدعی ہو۔ آخر کار اس مشکل کو رفع کرنے کے لیے یہ عجیب و غریب دعویٰ کیا گیا کہ حضور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت علی (رض) کو یہ اختیار دے دیا تھا کہ آپ کی وفات کے بعد آپ کی ازواج مطہرات میں سے جس کو چاہیں آپ کی زوجیت میں باقی رکھیں اور جسے چاہیں آپ کی طرف سے طلاق دے دیں۔ ابو منصور احمد بن ابو طالب طبرسی نے کتاب الاحتجاج میں یہ بات لکھی ہے اور سلیمان بن عبداللہ البحرانی نے اسے نقل کیا ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت علی (رض) سے فرمایا : ” یَااَبَا الْحَسَنِ اَنَّ ہٰذَا الشَّرْفَ بَانٍ مَادُمْنَا عَلٰی طَاعَۃِ اللّٰہِ تَعَالیٰ فَاَیَّتُہُنَّ عَصَتِ اللّٰہَ تَعَالیٰ بَعْدِیْ بالْخُرُوْجِ عَلَیْکَ فَطَلِّقْہَا مِنَ الْاَزْوَاجِ وَاسْتَقِطْہَا مِنْ شَرْفِ اُمَّہَاتِ الْمُوؤمِنِیْنَ“ ” اے ابو الحسن ! یہ شرف تو اسی وقت تک باقی ہے جب تک ہم لوگ اللہ کی اطاعت پر قائم رہیں۔ لہٰذا میری بیویوں میں سے جو بھی میرے بعد تیرے خلاف خروج کر کے اللہ کی نافرمانی کرے اسے تو طلاق دے دیجیو اور اس کو امہات المؤمنین کے شرف سے ساقط کر دیجیو۔“ اصول روایت کے اعتبار سے تو یہ روایت سراسر بے اصل ہے ہی لیکن اگر آدمی اسی سورۃ احزاب کی آیت ٢٨۔ ٢٩ اور ٥١۔ ٥٢ پر غور کرے تو معلوم ہوجاتا ہے کہ یہ روایت قرآن کے بھی خلاف پڑتی ہے کیونکہ آیت ” تخییر“ کے بعد جن ازواج مطہرات نے ہر حال میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہی کی رفاقت کو اپنے لیے پسند کیا تھا انہیں طلاق دینے کا اختیار حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو باقی نہ رہا تھا۔ علاوہ بریں ایک غیر متعصب آدمی اگر محض عقل ہی سے کام لے کر اس روایت کے مضمون پر غور کرے تو صاف نظر آتا ہے کہ یہ انتہائی لغو اور رسول پاک (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حق میں سخت توہین آمیز افترا ہے۔ رسول کا مقام تو بہت بالا تروبرتر ہے ایک معمولی شریف آدمی سے بھی یہ توقع نہیں کی جا سکتی کہ وہ اپنی وفات کے بعد اپنی بیوی کو طلاق دینے کی فکر کرے گا اور دنیا سے رخصت ہوتے وقت اپنے داماد کو یہ اختیار دے جائے گا کہ اگر کبھی تیرا اس کے ساتھ جھگڑا ہو تو میری طرف سے تو اسے طلاق دے دیجیو۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جو لوگ اہل بیت کی محبت کے مدعی ہیں ان کے دلوں میں صاحب البیت کی عزت وناموس کا پاس کتنا کچھ ہے اور اس سے بھی گزر کر خود اللہ تعالیٰ کے ارشادات کا وہ کتنا احترام کرتے ہیں۔ (تفہیم القرآن : جلد ٤) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا امت کے ساتھ تعلق اور محبت : (لَقَدْ جَآءَ کُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْہِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْکُمْ بالْمُؤْمِنِیْنَ رَءُ وْفٌ رَّحِیْمٌ) [ التوبۃ: ١٢٨] ” بلاشبہ یقیناً تمہارے پاس تم میں سے ایک رسول آیا ہے جس پر تمہارا مشقت میں پڑنا بہت شاق گزرتا ہے، تمہاری بھلائی کے بارے میں بہت خواہش رکھتا ہے، ایمان والوں پر بہت شفقت کرنے والا اور نہایت مہربان ہے۔“ (لَا یُؤْمِنُ أَحَدُکُمْ حَتّٰی أَکُوْنَ أَحَبَّ إِلَیْہِ مِنْ وَّالِدِہٖ وَوَلَدِہٖ وَالنَّاسِ أَجْمَعِیْنَ) [ رواہ البخاری : کتاب الایمان] ” تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتاجب تک میں اسے اپنے والدین‘ اولاد اور تمام لوگوں سے بڑھ کر محبوب نہ ہوجاؤں۔“ مواخات صحابہ (رض) : ہجرت کے بعد مہاجروں کی آباد کاری کا مسئلہ بہت اہم تھا نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس مسئلہ کو یوں حل فرمایا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انس (رض) کے گھر مہاجر اور انصار کو ایک دوسرے کا بھائی قرار دیا یہ رشتہ اس قدر مضبوط اور محترم ہوا کہ مواخاتی بھائی ایک دوسرے کی وراثت میں حصہ دار بن گئے جب مسلمانوں کی حالت بہتر ہوگئی تو اس قانون کو ختم کردیا گیا اور حکم ہوا کہ کتاب اللہ میں جن وارثوں کی تفصیل دی گئی وہی رشتہ دار ہی ایک دوسرے کی وراثت میں حقدار ہوں گے البتہ ایک دوسرے کے ساتھ تعاون ہوسکتا ہے اور کسی کے حق میں اپنے مال سے تیسرے حصہ تک وصیت کی جا سکتی ہے۔ البتہ جو وراثت میں حصہ دار ہے اس کے لیے مال والا وصیت نہیں کرسکتا۔ مسائل ١۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مسلمانوں کے لیے ان کی ذات سے مقدم ہیں۔ ٢۔ ازواج مطہرات امت کی مائیں ہیں۔ ٣۔ مومن ایک دوسرے سے ان کے غیر مسلم رشتہ داروں سے زیادہ قریب ہیں۔ الأحزاب
7 فہم القرآن ربط کلام : سابقہ آیات میں یہ بات واضح کی گئی ہے کہ حالات جیسے بھی ہوں اور مخالفت کرنے والے جس قدر چاہیں حق کی مخالفت کرنے پر تل جائیں اے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ نے لوگوں تک حق پہنچانا اور ہر حال میں حق پر قائم رہنا ہے۔ اس حوالے سے آپ کے سامنے پہلے انبیاء کرام (علیہ السلام) کا ذکر کیا جاتا ہے۔ ارشاد ہوا کہ ہم نے انبیاء کرام، نوح، ابراہیم، موسٰی، عیسیٰ (علیہ السلام) اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عہد لیا ہے کہ ہر حال میں لوگوں تک حق پہنچانا اور اس پر قائم رہنا ہے۔ اس بارے میں آپ اور دوسرے انبیاء سے سوال کیا جائے گا۔ لہٰذا لوگوں کے حق کے بارے میں جذبات کچھ بھی ہوں آپ کو پہنچانا ہوگا۔ جو لوگ سچائی کا انکار کریں گے ان کے لیے اذّیت ناک عذاب تیار کیا گیا ہے۔ یہاں سچائی سے مراد ہرقسم کی سچائی ہے جس میں پہلی سچائی جس کا عہد لیا گیا وہ اللہ تعالیٰ کی توحید پر ایمان لانا اور اس کا پرچار کرنا ہے۔ دوسری سچائی اور عہد یہ ہے کہ ہر نبی اپنے سے پہلے نبی کی تائید کرے گا اور لوگوں تک حق بات پہنچائے۔ (عَنْ أَبِیْ سَعِیْدِنِ الْخُدْرِیِّ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یُدْعٰی نُوْحٌ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ فَیُقَالُ لَہٗ ھَلْ بَلَّغْتَ فَیَقُوْلُ نَعَمْ فَیُدْعٰی قَوْمُہٗ فَیُقَالُ لَھُمْ ھَلْ بَلَّغَکُمْ فَیَقُوْلُوْنَ مَا اَتَانَا مِنْ نَّذِیْرٍ أَوْ مَآ أَتَانَا مِنْ أَحَدٍ قَالَ فَیُقَالُ لِنُوْحٍ مَنْ یَّشْھَدُ لَکَ فَیَقُوْلُ مُحَمَّدٌ وَأُمَّتُہٗ قَالَ فَذٰلِکَ قَوْلُہٗ (وَکَذٰلِکَ جَعَلْنَاکُمْ أُمَّۃً وَّسَطًا)) [ مسند أحمد : کتاب باقی مسند المکثرین، باب : مسند أبی سعید الخدری] ” حضرت ابو سعید خدری (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ قیامت کے دن نوح (علیہ السلام) کو بلا کر پوچھا جائے گا کہ کیا تو نے میرا پیغام پہنچایا تھا؟ وہ جواب دیں گے ہاں پھر ان کی قوم کو بلا کر پوچھا جائے گا کیا نوح (علیہ السلام) نے میرا پیغام پہنچایاتھا۔ وہ کہیں گے ہمارے پاس تو کوئی ڈرانے والا نہیں آیا۔ نوح (علیہ السلام) سے پوچھا جائے گا کہ آپ کی گواہی کون دے گا؟ وہ کہیں گے، محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور اس کی امّت۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا یہی اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ (اسی طرح ہم نے تمہیں امّتِ وسط بنایا ہے)۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے ہر نبی سے عہد لیا کہ وہ حق پر قائم اور حق کا پرچار کرتا رہے گا۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ سچ پر قائم رہنے والوں سے سوال کرے گا اور سچ کا انکار کرنے والوں کو سزا دے گا۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ کا انبیاء کرام (علیہ السلام) سے جواب طلب فرمانا اور نبیوں کا انکار کرنے والوں کو سزا دینا : ١۔ ہم ان لوگوں سے بھی ضرور سوال کریں گے جن کی طرف رسول بھیجے گئے اور رسول سے بھی جواب طلب کیا جائے گا۔ (الاعراف : ٦) ٢۔ اللہ تعالیٰ سچوں سے ان کی سچائی کے متعلق ضرور سوال کرے گا۔ (الاحزاب : ٨) ٣۔ کفار کے لیے دنیا میں تھوڑا سا فائدہ ہے پھر انکا ہماری طرف لوٹنا ہوگا پھر ہم انہیں سخت عذاب میں مبتلا کریں گے۔ (یونس : ٧٠) ٤۔ ہم ان کی کہی ہوئی بات لکھ لیں گے اور ان کے عذاب کو بڑھا دیا جائے گا۔ (مریم : ٧٩) ٥۔ ہم ان کے پاس اچانک عذاب لے آئیں گے اور انہیں اس کا علم بھی نہیں ہوگا۔ (العنکبوت : ٥٣ ) ٦۔ وہ لوگ جو دین کو کھیل تماشا بناتے ہیں اور دنیا کی زندگی نے انہیں دھوکے میں ڈال رکھا، قیامت کے دن ہم ان کو بھلا دیں گے۔ (الاعراف : ٥١) ٧۔ قیامت کے دن ہم انہیں فرموش کردیں گے جس طرح وہ قیامت کی ملاقات کو بھول گئے کیونکہ وہ ہماری آیات کا انکار کرتے تھے۔ (الاعراف : ٥١) ٨۔ ان کے کفر کی وجہ سے ہم انہیں شدید ترین عذاب چکھائیں گے۔ (یونس : ٧٠) الأحزاب
8 الأحزاب
9 فہم القرآن ربط کلام : اصولی اور بنیادی ہدایات دینے کے بعد اب اس سورۃ کے عنوان اور واقعات پرخطاب شروع ہوتا ہے۔ قرآن مجید تاریخ کی کتاب نہیں کہ جس میں واقعات کو انہی ترتیب کے ساتھ بیان کیا جائے جس طرح وہ رونما ہوئے ہوں۔ قرآن مجید بنیادی طور پر ہدایت کی کتاب ہے جس میں انسان کی زندگی کے بارے میں کامل اور اکمل ہدایات کا انتظام کیا گیا ہے یہی وجہ ہے قرآن کسی واقعے کو محض واقعاتی انداز میں بیان نہیں کرتا اس لیے غزوہ احزاب کا خلاصہ بیان کرنے سے پہلے بنیادی ہدایات دی گئیں اور مسلمانوں کو یہ احساس دلایا گیا کہ دشمن کے اس قدر ہمہ جہت حملہ کے باوجود اللہ تعالیٰ نے آپ کو جو کامیابی عنایت فرمائی۔ یہ ” اللہ“ کا انعام تھا جس کو تمہیں یاد رکھنا چاہیے۔ لہٰذا وہ وقت یاد کرو کہ جب تمہارا دشمن ہر جانب سے تم پر حملہ آور ہوچکا تھا۔ جس سے تمہاری آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں اور کلیجے منہ کو آچکے تھے تم میں کچھ لوگوں نے اللہ تعالیٰ کے بارے میں مختلف قسم کے گمان کیے اور اس موقعہ پر مومنوں کو پوری طرح ہلایا گیا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے تمہارے دشمن کو سخت آندھی میں پھنسایا اور ایسے لشکر کے ساتھ پسپا کیا جو تمہیں نظر نہیں آتا تھا۔ یاد رکھو کہ جو تم عمل کرتے ہو اللہ تعالیٰ اسے پوری طرح دیکھنے والا ہے۔ غزوہ خندق میں کفار کے لشکر کی کیفیت : حزب کی جمع احزاب ہے جو مختلف قسم کے لوگوں اور لشکر پر بولا جاتا ہے اس جنگ میں مشرکین مکہ، یہودیوں کے مختلف گروہ اور دیگر قبائل نے حصہ لیا اس لیے اسے غزوہ احزاب کہا جاتا ہے۔ مدینہ کے منافقین سامنے آنے کی جرأت نہ کرسکے لیکن انہوں نے دشمن کے ساتھ سازباز کرتے ہوئے مسلمانوں کو ہر طرح سے نقصان پہنچانے کی کوشش کی اس لشکر کی تیاری کے لیے مشرکین مکہ اور عرب کے یہودیوں نے آپس میں مل کر دیگر قبائل کو اکسایا اور اپنے ساتھ ملایا۔ اس طرح دس ہزار کا لشکر لے کر مدینہ کی طرف روانہ ہوئے رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی حالات پرکڑی نظر رکھے ہوئے تھے اس لیے آپ نے دشمن کے حملہ آور ہونے سے پہلے مدینہ کے دفاع کا بندوبست فرما لیا۔ خندق کی کھدائی : آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے رفقاء کرام سے مشورہ کیا کہ مدینہ کا دفاع کس طرح کیا جائے؟ حضرت سلمان فارسی (رض) کی تجویز پر اتفاق کرتے ہوئے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مدینہ کی خالی جانب خندق کی کھدائی کا کام شروع کیا دس، دس آدمیوں کا گروپ بنا کر انہیں چالیس، چالیس ہاتھ خندق کھودنے پر مامور کیا۔ جو کھدائی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حصہ میں آئی آپ بھی اپنے ساتھیوں کے ساتھ اس کی کھدائی میں مصروف ہوگئے۔ سخت ترین حالات کے باوجود صحابہ (رض) خندق کھودتے ہوئے مندرجہ ذیل شعر پڑھ رہے تھے۔ (نَحْنُ الَّذِینَ بَایَعُوْا مُحَمَّدًا عَلٰی الْجِہَادِ مَا بَقِیْنَا أَبَدًا) [ رواہ البخاری : باب التَّحْرِیْضِ عَلَی الْقِتَالِ] ” ہم وہ لوگ ہیں جنہوں نے موت تک محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہاتھ پر جہاد کی بیعت کی۔ جس کے جواب میں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آخرت کی بھلائی اور دنیا کی کامیابی کی دعا دیتے۔ ( اللَّہُمَّ لاَ عَیْشَ إِلاَّ عَیْشَ الآخِرَۃِ، فَاغْفِرْ لِلْمُہَاجِرِینَ وَالأَنْصَارِ) [ رواہ البخاری : باب التَّحْرِیْضِ عَلَی الْقِتَالِ] ” اے اللہ اصل زندگی تو آخرت کی زندگی ہے مہاجرین اور انصار کو معاف فرما۔“ اسی دوران کئی واقعات پیش آئے جن میں سرفہرست تین واقعات ہیں : آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اپنے پیٹ پر پتھر باندھنا : معاشی تنگی کا حال یہ تھا کہ صحابہ کرام (رض) میں سے کئی افراد ایسے تھے جو کئی کئی دن بھوکے رہ کر خندق کی کھدائی میں مصروف تھے۔ ایک صحابی (رض) بھوک سے مجبور ہو کر رسول مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اپنے پیٹ سے کپڑا اٹھا کر عرض کرتا ہے کہ بھوک کی وجہ سے اس نے اپنی کمر کو سیدھا رکھنے کے لیے اپنے پیٹ پر پتھر باندھا ہوا ہے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کے اطمینان کی خاطر اپنے پیٹ سے قمیض اٹھائی، صحابہ کرام (رض) یہ دیکھ کر حیران اور غمزدہ ہوگئے کہ سرور دو عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے پیٹ پر دو پتھر باندھے ہوئے ہیں اس کے باوجود لوگوں سے بڑھ کر خندق کی کھدائی میں مصروف ہیں۔[ رواہ الترمذی : باب مَا جَاءَ فِیْ مَعِیْشَۃِ أَصْحَاب النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ] چٹان کا واقعہ : صحابہ کرام (رض) کے ایک دستہ کے حصہ میں خندق کا وہ ٹکڑا آیا جس میں ایسا پتھر آیا کہ جس کو دس صحابہ بھی مل کر نہ توڑ سکے صحابہ کرام (رض) مایوس ہو کر آپ کی خدمت میں اس صورتحال کا تذکرہ کرتے ہیں۔ آپ اپنا کدال لے کر خندق کے اس حصہ میں اترے اور اس زور سے پے درپے تین دفعہ کدال مارا جس سے چنگاریاں نکلیں اور چٹان کئی حصوں میں تقسیم ہوگئی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا صحابہ کرام (رض) کو خوشخبری سنانا : (قَال اللَّہُ أَکْبَرُ أُعْطِیْتُ مَفَاتِیْحَ فَارِسَ) [ مسند احمد : باب حدیث البراء بن عازب] ” آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ میرے صحابہ خوش ہوجاؤ! اللہ تعالیٰ نے قیصرو کسریٰ کے خزانوں کی چابیاں مجھے عطا فرمادیں ہیں۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے غزوہ احزاب کے موقع پر نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تیز آندھی اور غیر مرئی لشکر کے ساتھ مدد فرمائی۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے غزوہ احزاب کے موقع پر صحابہ کرام (رض) کو بڑی شدید آزمائش سے آزمایا۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ کے احسانات کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو کفار کے مقابلہ میں کامیاب فرمایا : ١۔ بدر میں مشرکین پسپا ہوئے اور مسلمانوں کو فتح نصیب ہوئی۔ (آل عمران : ١٢٣ تا ١٢٧) ٢۔ احد میں پہلے مسلمان غالب رہے۔ (آل عمران : ١٥٢) ٣۔ ٨ ہجری کو اہل مکہ مغلوب ہوئے اور مسلمان کامیاب ہوئے۔ (الفتح : ١) ٤۔ غزوۂ حنین میں مشرک شکست خوردہ ہوئے اور مسلمان امن میں رہے۔ (التوبۃ: ٢٦) ٥۔ جنگ خندق میں اہل مکہ اور دیگر قبائل کو شکست ہوئی۔ (الاحزاب : ٢٥ تا ٢٧) الأحزاب
10 الأحزاب
11 الأحزاب
12 فہم القرآن ربط کلام : غزوہ احزاب میں منافقوں کا کردار۔ منافقت انسان کے دل کی بیماری ہے جس کے اثرات انسان کے اخلاق اور کردار پر ضرور ظاہر ہوتے ہیں بالخصوص اسلام اور مسلمانوں پر مشکل وقت آئے تو منافق کی منافقت ظاہر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتی ایسے موقعہ پر منافق کی ہمدردیاں کفار اور مشرکین کے ساتھ ہوجایا کرتی ہیں۔ غزوہ احد کے موقع پر منافقوں نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اس وقت ساتھ چھوڑا جب کفار احد کے مقام پر پڑاؤ ڈال چکے تھے۔ غزوہ احزاب کے موقع پر بھی منافقوں کی ہمدردیاں مدینہ کے یہودیوں اور اہل مکہ کے ساتھ تھیں۔ منافقوں نے دیکھا کہ دس ہزار کا لشکر مدینہ پر امڈ آیا ہے اور مسلمان اپنے بچاؤ کے لیے خندق کھودنے پر مجبور ہوگئے ہیں، مدینہ کے یہودی بھی نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کیے ہوئے عہد کو توڑ چکے ہیں تو منافقوں نے مسلمانوں کے حوصلے پست کرنے اور انہیں محاذ سے واپس لانے کے لیے یہ کہنا شروع کیا کہ اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تم سے جو فتح کا وعدہ کیا ہے وہ سراسر دھوکہ اور فراڈ ہے۔ منافق مسلمانوں کو یہ بھی کہتے کہ خندق چھوڑو اور اپنے گھروں کو واپس لوٹ چلو۔ دکھلاوے کے طور پر جو منافق نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ تھے ان کی حالت یہ تھی کہ وہ ٹولیوں کی صورت میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں درخواست کر رہے تھے کہ ہمیں میدان جنگ سے واپس جانے دیجیے۔ کیونکہ مدینہ میں ہمارے گھروں کو شدید خطرہ ہے۔ حالانکہ ان کے گھروں کو کوئی خطرہ نہیں تھا وہ صرف جنگ سے فرار چاہتے تھے یاد رہے کہ نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مدینہ میں سب کے گھروں کی حفاظت پر کچھ لوگ مامور کر رکھے تھے۔ اس کے باوجود منافق اپنے گھر غیر محفوظ ہونے کا بہانہ بنا کر آپ سے اجازت لیتے رہے ان کے دل کی کیفیت یہ تھی کہ اگر دشمن کی فوج مدینہ میں گھس کر ان سے تعاون چاہتی تو معمولی توقف کے بعد منافق ان کے ساتھ مل کر مسلمانوں کو نقصان پہنچانے پر تیار ہوجائے۔ ایسے لوگوں کو یہ وارننگ دی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہاری بدعہدی کے بارے میں تم سے ضرور بازپرس کرے گا۔ ” حضرت ابوہریرہ (رض) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں۔ آپ نے فرمایا منافق کی تین نشانیاں ہیں، جب بات کرتا ہے تو جھوٹ بولتا ہے، وعدہ کرتا ہے تو وعدہ خلافی کرتا ہے اور جب اس کے پاس امانت رکھی جاتی ہے تو خیانت کرتا ہے۔“ [ رواہ البخاری : باب علامۃ المنافق] (عَنِ ابْنِ عُمَرَ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ مَثَلُ الْمُنَافِقِ کَمَثَلِ الشَّاۃِ الْعَاءِرَۃِ بَیْنَ الْغَنَمَیْنِ تَعِیْرُإِ لٰی ھٰذِہٖ مَرَّۃً وَ إِلٰی ھٰذِہٖ مَرَّۃً) [ رواہ مسلم : کتاب صفات المنافقین وأَحکامھم ] ” حضرت عبداللہ بن عمر (رض) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں آپ نے فرمایا منافق کی مثال اس بکری کی طرح ہے جو دو ریوڑوں کے درمیان پھرتی ہے کبھی ایک ریوڑکی طرف جاتی ہے کبھی دوسرے کی طرف۔“ ” حضرت ابوہریرہ (رض) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : سات ہلاک کرنے والے گناہوں سے بچو صحابہ کرام (رض) نے عرض کی اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! وہ کون سے گناہ ہیں؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرنا‘ جادو کرنا‘ ناحق کسی جان کو قتل کرنا‘ سود کھانا‘ یتیم کا مال کھانا‘ میدان جنگ سے پیٹھ پھیر کر بھاگنا اور پاکدامن‘ مومن‘ بے خبر عورتوں پر تہمت لگانا۔“ [ رواہ البخاری : باب قول اللہ تعالیٰ إن الذین یأکلون أموال الیتامی ظلما] (عَنْ أَنَسٍ (رض) قَالَ قَلَّمَا خَطَبَنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) إِلَّا قَالَ لَاإِیْمَانَ لِمَنْ لَّآ أَمَانَۃَ لَہٗ وَلَادِیْنَ لِمَنْ لَّا عَھْدَ لَہٗ) [ رواہ احمد : مسند أنس بن مالک] ” حضرت انس (رض) فرماتے ہیں ہمیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خطبہ ارشاد فرماتے تو اکثر فرماتے کہ جو امانت دار نہیں وہ ایمان دار نہیں اور جو بدعہد ہے وہ دین دار نہیں۔“ ” حضرت ابو سعید (رض) بیان کرتے ہیں نبی مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا قیامت کے دن ہر عہد شکن انسان کی دبر کے نزدیک جھنڈا ہوگا۔ ایک روایت میں ہے ہر عہد شکن کے لیے قیامت کے دن جھنڈا ہوگا، جو اس کی عہد شکنی کے بقدر بلند کیا جائے گا۔ خبردار! سربراہ مملکت سے بڑھ کر کسی کی عہد شکنی بڑی نہیں ہوتی۔“ [ رواہ مسلم : باب تحریم الغدر] مسائل ١۔ منافق جھوٹے بہانے بنا کر مسلمانوں کا ساتھ چھوڑ جاتا ہے۔ ٢۔ منافق مسلمانوں میں انتشار اور بددلی پیدا کرتا ہے۔ ٣۔ منافق وعدہ خلافی کرتا ہے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ وعدہ خلافی کرنے والے کو ضرور پوچھے گا۔ تفسیر بالقرآن عہد کو پورا کرنے کا حکم : ١۔ اللہ کے بندے وعدہ ایفاء کرتے ہیں۔ (البقرۃ: ١٧٧) ٢۔ اللہ کے ساتھ کیے ہوئے عہد کو پورا کرو۔ (الانعام : ١٥٢) ٣۔ ایماندار اللہ تعالیٰ کے ساتھ اپنا عہد پورا کرتے ہیں۔ (الرعد : ٢٠) ٤۔ اللہ کے عہد کا ایفاء ضروری ہے۔ (النحل : ٩١) ٥۔ قیامت کے دن ایفائے عہد کے بارے میں سوال ہوگا۔ (الاسراء : ٣٤) ٦۔ اے ایمان والوں عہد پورے کرو۔ (المائدہ : ١) ٧۔ جو اللہ کا وعدہ پورا کرے گا اللہ تعالیٰ اس کے ساتھ اپنا وعدہ پورا فرمائے گا۔ (البقرۃ: ٤٠) الأحزاب
13 الأحزاب
14 الأحزاب
15 الأحزاب
16 فہم القرآن ربط کلام : منافقین کو مزید دو چیلنج۔ اس سے پہلے منافقین کو یہ وارننگ دی گئی کہ تمہاری وعدہ خلافی کے بارے میں اللہ تعالیٰ تم سے ضرور بازپرس کرے گا اب ان کے بارے میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرمایا ہے کہ ان سے فرما دیجیے اگر تم موت یامیدان جنگ میں مارے جانے سے ڈرتے ہو تو اس بھاگنے کا تمہیں معمولی فائدہ ہوگا کیونکہ بالآخر تم موت سے بچ نہیں پاؤ گے۔ انہیں یہ بھی فرمادیجیے کہ جس نقصان سے بچنے کے لیے تم جنگ سے فرار اور بدعہدی کرتے ہو اگر اللہ تعالیٰ تمہیں نقصان پہنچانے کا فیصلہ کرلے تو دنیا کی کونسی طاقت تمہیں اس سے بچا سکتی ہے اگر تم پر اپنی رحمت فرمانا چاہے تو کون اس کی رحمت کو ہٹا سکتا ہے یہ لوگ نقصان کی صورت میں اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو اپنا دوست اور مددگار نہیں پاسکتے۔ جہاں تک اللہ تعالیٰ کی رحمت کا تعلق ہے وہ مومنوں کے لیے خاص ہے۔ منافق منافقت سے توبہ کیے بغیر اللہ کی رحمت کا حقدار نہیں ہوسکتا۔ اللہ تعالیٰ منافقوں کو خوب جانتا ہے جو مسلمانوں کو جہاد سے روکتے ہیں اور خود بھی جہاد کے لیے نہیں نکلتے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ابن عباس کو نصیحت : (عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ (رض) قَالَ کُنْتُ خَلْفَ رَسُوْلِ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَوْمًا فَقَالَ یَاغُلَامُ إِنِّیْ أُعَلِّمُکَ کَلِمَاتٍ احْفَظِ اللّٰہَ یَحْفَظْکَ احْفَظِ اللّٰہَ تَجِدْہُ تُجَاھَکَ إِذَ ا سَأَلْتَ فَاسْأَلِ اللّٰہَ وَإِذَا اسْتَعَنْتَ فَاسْتَعِنْ باللّٰہِ وَاعْلَمْ أَنَّ الْأُمَّۃَ لَوِ اجْتَمَعَتْ عَلآی أَنْ یَنْفَعُوْکَ بِشَیْءٍ لَمْ یَنْفَعُوْکَ إِلَّا بِشَیْءٍ قَدْ کَتَبَہُ اللّٰہُ لَکَ وَلَوِ اجْتَمَعُوْا عَلٰی أَنْ یَّضُرُّوْکَ بِشَیْءٍ لَمْ یَضُرُّوْکَ إِلَّا بِشَیْءٍ قَدْ کَتَبَہُ اللّٰہُ عَلَیْکَ رُفِعَتِ الْأَقْلَامُ وَجَفَّتِ الصُّحُفُ) [ رواہ الترمذی : کتاب صفۃ القیامۃ والرقائق والورع، باب منہ] ” حضرت عبداللہ بن عباس (رض) بیان کرتے ہیں ایک دن میں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پیچھے سوار تھا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : بچے! میں تجھے چند کلمات سکھاتاہوں۔ اللہ کو یاد رکھنا وہ تجھے یاد رکھے گا، جب تو اللہ تعالیٰ کو یاد کرے گا تو اسے اپنے سامنے پائے گا، جب سوال کرے تو اللہ ہی سے سوال کر، جب مدد طلب کرے تو اللہ تعالیٰ ہی سے مدد طلب کر اور یقین رکھ کہ اگر پوری مخلوق تجھے کچھ نفع دینے کے لیے جمع ہوجائے تو وہ اتنا ہی نفع دے سکتی ہے جتنا اللہ تعالیٰ نے تیرے لیے لکھ رکھا ہے اور اگر وہ تجھے نقصان پہنچانے پر تل جائے تو تجھے اتنا ہی نقصان پہنچے گا جتنا تیرے حق میں لکھا گیا ہے، قلمیں اٹھالی گئیں ہیں اور صحیفے خشک ہوگئے ہیں۔“ مسائل ١۔ طبعی یا غیر طبعی موت کا ایک دن مقرر ہے۔ ٢۔ ” اللہ“ کی پکڑ سے کوئی طاقت بچا اور چھڑا نہیں سکتی۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ کسی پر اپنی رحمت فرمانا چاہے تو کوئی اسے روک نہیں سکتا۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ کے سوا انسان کا کوئی مددگار اور خیرخواہ نہیں ہوسکتا۔ الأحزاب
17 الأحزاب
18 الأحزاب
19 فہم القرآن ربط کلام : منافق کی ایک اور بری عادت اور اس کے بزدل ہونے کی انتہاء۔ درحقیقت منافق ابن الوقت اور مفاد کا بندہ ہوتا ہے اس لیے کسی اچھے کام پر مال خرچ کرنے کا حوصلہ نہیں پاتا۔ نہ صرف خود بخیل ہوتا ہے بلکہ دوسرے لوگوں کو بھی بخل پر آمادہ کرتا ہے۔ یہی حالت منافقین مدینہ کی تھی۔ وہ اپنے رشتہ دار مخلص مسلمانوں کو جہاد پر مال خرچ کرنے سے روکتے تھے۔ مال کی محبت کی وجہ سے انسان بخل کرتا ہے اور بخیل آدمی دوسروں کی نسبت موت سے زیادہ ڈرتا ہے یہی حال منافقین کا تھا۔ جن کے بارے میں صحابہ (رض) کو فرمایا گیا کہ ان کی طرف دیکھو اور غور کرو کہ جب تم انہیں جہاد کے لیے کہتے ہو تو ان کی آنکھیں پھٹ جاتی ہیں جیسے مرنے والا ایک ہی طرف ٹکٹکی لگائے دیکھ رہا ہوتا ہے۔ جب جہاد کا خوف جاتا رہتا ہے تو پھر ان کی زبانیں قینچی کی طرح چلتی ہیں اور یہ مال غنیمت لینے کے لیے ایک دوسرے سے بڑھ کر مطالبہ کرتے ہیں۔ الأحزاب
20 حقیقت یہ ہے کہ یہ لوگ ایمان ہی نہیں لائے۔ اللہ تعالیٰ پر کوئی مشکل نہیں کہ ان کے اعمال ضائع کر دے۔ منافق اس حد تک بزدل ہوچکے ہیں کہ اپنے گھروں میں جانے کے باوجود خیال کرتے ہیں کہ ابھی تک کفار کے لشکر واپس نہیں گئے اگر کفار کے لشکر واپس آجائیں تو ان کی خواہش ہوگی کہ وہ مدینہ چھوڑ کر دیہاتوں میں نکل جائیں اور وہاں جا کر تمہارے بارے میں معلومات لیتے رہیں کیونکہ یہ تمہارے ساتھ رہ کر لڑنے کے لیے تیار نہیں ” اَشِحَّۃٌ“ کی جمع ” شیح“ ہے جس کا معنٰی بہت زیادہ بخل کرنا اور لوگوں کو خیر کے کاموں سے روکنا ہے۔ مسائل ١۔ منافق بزدل اور بخیل ہوتا ہے۔ ٢۔ منافق کے اعمال ضائع ہوجائیں گے۔ ٣۔ حقیقت میں منافق بے ایمان ہوتا ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ کے لیے کوئی کام مشکل نہیں ہے : ١۔ اگر اللہ چاہے تو تمہیں فنا کردے اور نئی مخلوق لے آئے یہ اللہ کے لیے کچھ مشکل نہیں ہے۔ (ابراہیم : ١٩۔ ٢٠) ٢۔ اگر اللہ چاہے تو تم کو فنا کر کے دوسری مخلوق لے آئے یہ اللہ کے لیے مشکل نہ ہے۔ (فاطر : ١٦۔ ١٧) ٣۔ اگر اللہ چاہے تو تمہیں لے جائے اور تمہاری جگہ دوسروں کو لے آئے۔ (انساء : ١٢٣) ٤۔ اگر اللہ چاہے تو تمہیں لے جائے اور تمہارے بعد جسے چاہے لے آئے۔ (الانعام : ١٣٣) ٥۔ اے ایمان والو ! اگر تم دین سے مرتد ہوجاؤ تو اللہ تعالیٰ تمھاری جگہ دوسری قوم کو لے آئے گا۔ (المائدۃ : ٥٤) الأحزاب
21 فہم القرآن ربط کلام : حالات جیسے بھی ہوں مسلمانوں تمہارے لیے رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات ہی اسوہ حسنہ ہے اور ہونی چاہیے۔ اس فرمان کی اہمیت اور فرضیت کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ سابقہ آیات کا خلاصہ ذہن میں رکھا جائے تاکہ اس فرمان کی اہمیت اور فرضیت کا تصور پوری طرح اجاگر ہوجائے اس تصور سے ہی ایک مسلمان کی زندگی اسلام کے سانچے میں ڈھل سکتی ہے غزوہ احزاب جسے تاریخ اور سیرت کی کتابوں میں غزوہ خندق لکھا جاتا ہے اس کے خوف ناک اور بھیانک منظر کی تصویر چند سطور میں ملاحظہ فرمائیں۔ ١۔ موسم نقطہ انجماد سے نیچے گر چکا ہے جس وجہ سے سردی اس قدر زیادہ اور ناقابل برداشت ہے کہ خیموں میں بیٹھے ہوئے مجاہدوں کی بغلیں بج رہی ہیں۔ خیمے سے باہر نکلنے کے خیال ہی سے جان کے لالے پڑجاتے ہیں۔ ٢۔ سروردو عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھوک کی وجہ سے اپنے پیٹ پر دوپتھر باندھے ہوئے ہیں صحابہ (رض) روٹی کے خشک ٹکڑے اور بوسیدہ گوشت کھانے پر مجبور ہیں۔ اور کچھ نے کمر سیدھی رکھنے کے لیے پیٹ پر پتھر باندھ رکھے ہیں۔ ٣۔ مدینہ میں منافقین کی سازشیں اپنے عروج پر ہیں۔ ٤۔ یہودیوں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ کیا ہوا بقائے باہمی کا معاہدہ توڑ کر حملہ آوروں کے ساتھ سازباز کرلی ہے۔ اور عورتوں کے کیمپ پر دھاوا بولنے کے لیے تیاری کرچکے ہیں۔ ٥۔ مدینہ میں چند مسلمانوں کے سوا باقی مسلمان خندق کی حفاظت اور اپنے دفاع میں رات دن مصروف ہیں۔ ٦۔ دشمن پوری قوت کے ساتھ باربار خندق عبور کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ ٧۔ مسلمانوں کی دفاعی پوزیشن اس قدر کمزور ہے کہ آنکھ جھپکنے کے برابر بھی ادھر ادھر توجہ نہیں کرسکتے جس وجہ سے سرور دوعالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام (رض) ظہر، عصر، مغرب اور عشاء کی نمازیں آدھی رات کے وقت پڑھنے پر مجبور ہوئے ہیں۔ ٨۔ دشمن دس ہزار سورماؤں کے ساتھ پچیس دن سے مدینے کی چھوٹی سی ریاست کا محاصرہ کیے ہوئے ہے جس بنا پر باہر سے مدینہ میں کسی چیز کا آنا ناممکن ہوچکا ہے جس وجہ سے بچے بھوک سے بلک بلک کر روتے ہیں۔ ٩۔ خوف و ہراس اور دشمن کے دباؤ کی وجہ سے مسلمانوں کے کلیجے منہ کی طرف آچکے ہیں جس کا نقشہ ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔ (وَ اِذْ زَاغَتِ الْاَبْصَارُ وَ بَلَغَتِ الْقُلُوْبُ الْحَنَاجِرَ) [ الاحزاب : ١٠] ” جب آنکھیں پتھرا گئیں اور دل گلے میں اٹک گئے“ حالات کے اس تناظر میں حکم ہوتا ہے کہ اے مسلمانو! اللہ کا رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمہارے لیے بہترین نمونہ ہے۔ خاص طور پر اس شخص کے لیے نمونہ ہے جو اللہ تعالیٰ سے ملنے کی امید، آخرت کے حساب و کتاب پریقین اور ہر حال میں اللہ تعالیٰ کو کثرت کے ساتھ یاد کرنے والا ہے۔ اس فرمان میں اسوہ حسنہ سے مراد رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حیات طیبہ کا کوئی خاص پہلو مراد نہیں۔ بلکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پوری حیات مبارکہ امت کے لیے عظیم اور حسین نمونہ ہے۔ جس میں یہ بات واضح کی گئی ہے کہ حالات کتنے پرفتن ہوں مسائل اور مصائب کا طوفان سر سے گزرچکا ہو مشکلات پہاڑوں کی مانند سامنے کھڑی ہوں، کلیجہ حلق میں آکے اٹک چکا ہوباد مخالف طوفان کی شکل اختیار کر جائے غربت اپنی انتہاء کو پہنچ جائے۔ موت آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر سامنے کھڑی ہوجائے ان حالات میں بھی مسلمان کے لیے اسوہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بڑھ کر کوئی اسوہ قابل عمل نہیں ہوسکتا البتہ اس پر وہی شخص ایمان لائے گا اور عمل کرے گا جو اپنے رب کی ملاقات کی امید، آخرت پر یقین اور اللہ تعالیٰ کو ہر وقت یاد کرنے والا ہے ” اللہ“ کی یاد دل اور زبان سے بھی ہو اور مسلمان کا عمل بھی اس کی شہادت دیتا ہو۔ مسائل ١۔ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مسلمانوں کے لیے بہترین نمونہ ہیں۔ ٢۔ ہر حال میں اللہ کی ذات اور اس کے فرمان کو یاد رکھنا چاہیے۔ ٣۔ جو شخص اللہ، آخرت پر یقین رکھتا ہے وہ ہر صورت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنا اسوہ بنائے گا۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ کو کثرت کے ساتھ یاد کرنے کے فائدے : ١۔ اللہ کا ذکر صبح اور شام کثرت سے کرو۔ (آل عمران : ٤١) ٢۔ نماز جمعہ کی ادائیگی کے بعد زمین میں نکل جاؤ اور اللہ کو کثرت سے یاد کرو۔ (الجمعۃ: ١٠) ٣۔ ایام تشریق میں اللہ کو زیادہ یاد کرو۔ (البقرۃ: ٢٠٢) ٤۔ جب حج کے مناسک ادا کر چکو تو اللہ کو یاد کرو۔ (البقرۃ: ١٩٨) ٥۔ جنگ کے دوران اللہ کو کثرت سے یاد کرو تاکہ تم کامیاب ہوجاؤ۔ (الانفال : ٤٥) الأحزاب
22 فہم القرآن ربط کلام : رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا نمونہ پیش کرنے اور اس کی اہمیت ذکر کرنے کے بعد صحابہ کرام (رض) کا کردار پیش کیا جاتا ہے۔ ” الْمُؤْمِنُوْنَ“ سے مراد صحابہ کرام] کی جماعت ہے جنہوں نے موسم کی شدت، افراد کی قلت، انتہائی غربت، دشمن کا خوف، داخلی، خارجی مصائب اور مسائل کے باوجود اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اس یقین کے ساتھ ساتھ دیا کہ اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جو بھی ہمارے ساتھ وعدہ کیا وہ سچ ثابت ہوا اور ہوگا۔ مصائب اور مسائل نے ان کے ایمان میں کمزوری پیدا کرنے کی بجائے اضافہ ہی کیا ان میں ایسے لوگ بھی ہیں جنہوں نے مال و جان کی قربانی دے کر اللہ کے ساتھ کیے ہوئے عہد کو پورا کردیا ہے جو باقی ہیں وہ اپنے عہد پر قائم رہتے ہوئے شہادت کا انتظار کررہے ہیں۔ یقیناً اللہ تعالیٰ قول وفعل میں سچے لوگوں کو ان کی سچائی کی جزا دے گا اور منافقت پر قائم رہنے والوں کو سز ادے گا اگر منافق اپنی منافقت سے باز آجائیں تو اللہ تعالیٰ ان پر مہربانی فرمائے گا کیونکہ اللہ تعالیٰ معاف کرنے والا مہربان ہے۔ جنگ کے دوران آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کردار آپ ہر حال میں سب مسلمانوں کے لیے واجب الاتباع نمونہ ہیں : جنگ کی سب سے زیادہ ذمہ داری سپہ سالار پر ہوتی ہے۔ غزوہ خندق میں مسلمانوں کے سپہ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تھے۔ دشمن کی کثرت مسلمانوں کی تعداد اور خوراک کی قلت، حالات کی سنگینی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پائے ثبات میں ذرہ بھر بھی لغزش پیدا نہ کرسکی۔ مسلمانو! تمہارا کردار بھی ایسا ہی ہونا چاہیے اور تمہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات کو بطور نمونہ اپنے سامنے رکھنا چاہیے۔ جنگ میں ہی نہیں بلکہ زندگی کے ہر پہلو میں رسول کی ذات تمہارے لیے نمونہ ہونی چاہیے اس مختصر جملہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت اور اتباع کو تمام مسلمانوں پر لازم اور واجب قرار دیا گیا ہے۔ سیدنا انس بن مالک (رض) فرماتے ہیں کہ میرا نام میرے چچا انس بن نضر کے نام پر رکھا گیا تھا۔ وہ جنگ بدر میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ حاضر نہ ہو سکے اور یہ بات ان پر بہت شاق گزرتی تھی اور اس نے کہا کہ اللہ کی قسم! اب اگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ حاضر ہونے کا موقع آیا تو اللہ تعالیٰ دیکھ لے گا کہ میں کیا کچھ کرتا ہوں۔ راوی کہتا ہے کہ پھر وہ ڈر گئے اور ان الفاظ کے علاوہ کچھ اور لفظ کہنا مناسب نہ تھا۔ جب اگلے سال احد کے دن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ حاضر ہوئے تو انہیں راستے میں سعد بن معاذ (رض) ملے۔ انہوں نے پوچھا ابو عمر کہاں جاتے ہو ؟ انس (رض) کہنے لگے۔ ” واہ میں تو احدپہاڑ کے پار جنت کی خوشبو پا رہا ہوں۔ چنانچہ وہ بڑی جرأت سے لڑے۔ حتیٰ کہ شہید ہوگئے اور ان کے جسم پر ضربوں، نیزوں اور تیروں کے اسی (٨٠) سے زیادہ زخم پائے گئے۔ میری پھوپھی ربیع بنت نضرنے کہا کہ ” میں اپنے بھائی کی نعش کو صرف اس کے پوروں سے پہچان سکی اس وقت یہ آیت نازل ہوئی۔ (رواہ ترمذی : ابواب التفسیر) حیی بن اخطب نے بنو قریظہ کو کس طرح بدعہدی پر آمادہ کیا : اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی ایسی مدد فرمائی کہ عام لڑائی کی نوبت ہی نہ آنے دی اور کفار کے محاصرہ کو اٹھانے کے لیے یخ بستہ ہوا اور فرشتے بھیج دئیے۔ یہود میں اور مکہ کے اتحادیوں میں پھوٹ ڈال دی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ دشمن بدحواس ہو کر بھاگ کھڑا ہوا۔ بھلا اللہ کی زبردست قوت کے سامنے کون ٹھہر سکتا ہے؟ یہود بنو قریظہ تھے جو مسلمانوں کے معاہد تھے۔ بنو قینقاع اور بنی نضیر کی جلا وطنی کے بعد مدینہ میں یہود کا یہی قبیلہ باقی رہ گیا تھا۔ کیونکہ یہ قبیلہ دوسروں کی نسبت قدرے شریف اور اپنے عہد کا پاس رکھنے والا تھا۔ جب بنونضیر کو خیبر کی طرف جلا وطن کردیا گیا اور جنگ احزاب کی تیاریاں شروع ہوگئیں تو بنو نضیر کا رئیس حیی بن اخطب رات کی تاریکیوں میں بنو قریظہ کے سردار کعب بن اسد کے پاس گیا۔ کعب کو اندازہ ہوگیا تھا کہ حیی مجھے مسلمانوں سے عہد شکنی پر آمادہ کرنے کے لیے آیا ہے۔ لہٰذا اس نے دروازہ ہی نہ کھولا۔ حیی نے اس سے کچھ چکنی چپڑی باتیں کیں تو آخر اس نے دروازہ کھول دیا۔ حیی کہنے لگا کعب میں تمہارے پاس زمانے کی عزت اور چڑھتا ہوا سمندر لے کر آیا ہوں۔ ان لوگوں نے مجھ سے عہدوپیمان کیا ہے کہ وہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور اس کے ساتھیوں کا صفایا کیے بغیر یہاں سے نہ ٹلیں گے۔ اس کے جواب میں جو کچھ کعب نے کہا وہ سنہری حروف میں لکھنے کے قابل ہے۔ اس نے کہا حیی واللہ تم میرے پاس زمانے کی ذلت اور برسا ہوا بادل لے کر آئے ہو جو صرف گرج چمک رہا ہے۔ تم پر افسوس مجھے میرے حال پر چھوڑ دو۔ میں نے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں صدق وصفا کے سوا کچھ نہیں دیکھا۔ ( ابن ہشام) مگر حیی نے کعب کو سبز باغ دکھا دکھا کر بالآخر بدعہدی پر مجبور کر ہی لیا وہ کہنے لگا اگر قریش محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا خاتمہ کیے بغیر ہی واپس چلے گئے تو میں بھی تمہارے ساتھ قلعہ بند ہوجاؤں گا اور واپس نہیں جاؤں گا پھر جو انجام تمہارا ہوگا وہی میرا ہوگا۔ اس شرط پر کعب بھی اتحادیوں میں شامل ہوگیا۔ یہود کا انجام اور ان کا سیدنا سعد بن معاذ (رض) کو حکم تسلیم کرنا : یہودیوں کے پاس وافر مقدار میں راشن موجود تھا اور انہوں نے مسلمانوں کے استیصال کے لیے ڈیڑھ ہزار تلواریں، دو ہزار نیزے تین سو زرہیں اور پانچ سو ڈھالیں بھی تیار کر رکھی تھیں۔ مگر وقت پر کوئی چیز بھی ان کے کام نہ آئی۔ انہوں نے صرف ٢٥ دن کے محاصرہ کے بعد اس شرط پر ہتھیار ڈال دیے کہ ان کے حق میں جو بھی فیصلہ ان کے حلیف سعد بن معاذ کریں گے وہ انہیں منظور ہوگا۔ حالانکہ ان کے پاس قلعہ میں اس قدر راشن موجود تھا کہ اگر وہ چاہتے تو پورا سال قلعہ بند رہ کر آسانی سے گزارا کرسکتے تھے مگر ان کے ضمیر نے انہیں جلد ہی بے چین کردیا اور اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں میں مسلمانوں کی دھاک بٹھا دی۔ بنو قریظہ کا انجام : سیدنا سعد بن معاذ (رض) کو جنگ احزاب میں کاری زخم لگا تھا جیسا کہ درج ذیل حدیث سے ظاہر ہے کہ (عَنْ عَاءِشَۃَ قَالَتْ أُصِیْبَ سَعْدٌ یَوْمَ الْخَنْدَقِ فِیْ الأَکْحَلِ، فَضَرَبَ النَّبِی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خَیْمَۃً فِی الْمَسْجِدِ لِیَعُوْدَہُ مِنْ قَرِیْبٍ، فَلَمْ یَرُعْہُمْ وَفِیْ الْمَسْجِدِ خَیْمَۃٌ مِنْ بَنِیْ غِفَارٍ إِلاَّ الدَّمُ یَسِیْلُ إِلَیْہِمْ فَقَالُوْا یَا أَہْلَ الْخَیْمَۃِ، مَا ہَذَا الَّذِیْ یَأْتِیْنَا مِنْ قِبَلِکُمْ فَإِذَا سَعْدٌ یَغْذُوْ جُرْحُہُ دَمًا، فَمَاتَ فِیْہَا)[ رواہ بخاری : کتاب الصلوٰۃ، باب الخیمۃ فی المسجد للمرضی وغیرہم] ” سیدہ عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ جنگ خندق میں سعد بن معاذ (رض) کو ہفت اندام کی رگ میں تیر لگا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مسجد میں ہی ان کے لیے خیمہ لگوادیا۔ تاکہ ان کی عیادت کرتے رہیں۔ مسجد میں بنو غفار کا خیمہ بھی تھا۔ جب سیدنا معاذ (رض) کا خون بہہ کر ان کے خیمہ کی طرف آیا تو وہ ڈر کر کہنے لگے اے خیمہ والو! یہ کیا ہے جو تمہاری طرف سے بہہ کر ہماری طرف آرہا ہے دیکھا تو سعد (رض) کے زخم سے خون بہہ رہا تھا بالآخر اسی زخمی سے وہ چل بسے۔“ مسائل ١۔ صحابہ کرام ] نے ہر حال میں اپنے رب سے کیے ہوئے وعدے پورے کیے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ صحابہ کرام (رض) اور اپنے قول وفعل میں سچے مسلمانوں کو جزائے خیر دے گا۔ ٣۔ منافقت سے تائب ہونے والے کو اللہ تعالیٰ معاف کردیتا ہے کیونکہ وہ مہربان ہے۔ تفسیر بالقرآن سچائی اور اس کی جزا : ١۔ جنہوں نے اللہ اور اس کے رسول کی مدد کی وہی سچے ہیں۔ (الحشر : ٨) ٢۔ اللہ تعالیٰ سچوں کو ان کی سچائی کا بدلہ دے گا۔ (الاحزاب : ٢٤) ٣۔ جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے گا وہ نبیوں، صدیقین، شہداء اور صالحین کے ساتھ ہوگا۔ (النساء : ٦٩) ٤۔ قیامت کے دن سچے لوگوں کو ان کی سچائی کا صلہ دیا جائے گا۔ (المائدۃ: ١١٩) ٥۔ سچے مومن وہ ہیں جو اپنے مال اور جانوں سے اللہ کی راہ میں جہاد کرتے ہیں۔ (الحجرات : ١٥) ٦۔ اے ایمان والو سچے لوگوں کا ساتھ دو۔ (التوبۃ: ١١٩) الأحزاب
23 الأحزاب
24 الأحزاب
25 فہم القرآن ربط کلام : رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اسوہ کی اہمیت اور صحابہ کرام ] کا کردار بیان کرنے کے بعد احزاب میں شریک ہونے والے کفار کی ہزیمت کا ذکر۔ کفار، یہود اور ان کے حلیف اس نیت کے ساتھ مدینہ پر حملہ آور ہوئے تھے کہ مدینہ کی ننھی منی ریاست کی اینٹ سے اینٹ بجا دی جائے۔ اور مسلمانوں کو تہس نہس کردیا جائے گا۔ اس کے لیے انہوں نے مدینہ کے یہودیوں کے ساتھ بھی ساز باز کرلی۔ اہل مکہ نے تقریباً ایک مہینہ تک مدینہ کا محاصرہ کیے رکھا اور باربارخندق عبور کرنے کی کوشش کرتے رہے لیکن ناکام رہے۔ اس کے باوجود انہوں نے مسلمانوں پر اس قدر دباؤ قائم رکھا کہ ایک دن نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے رفقاء کو ظہر، عصر، مغرب اور عشاء کی نماز بروقت پڑھنے کا موقعہ نہ مل سکا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے چاروں نمازیں نصف رات کے قریب بالترتیب ادا کیں۔ بالآخر اللہ تعالیٰ نے باد وباراں کے شدید ترین طوفان کے ذریعے مسلمانوں کی مدد فرمائی۔ جس سے کفارکے خیمے اکھڑ گئے۔ یہاں تک کہ چولہوں پر پڑی ہنڈیاں الٹ گئیں اس کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے ملائکہ کی کمک بھیجی۔ جنہوں نے کفار کو بھاگنے پر مجبور کردیا۔ اس طرح کفار پوری دنیا میں ذلیل ہوئے اور اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو دو بدو جنگ کرنے سے بچالیا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نہایت طاقتور اور زبردست ہے۔ غزوہ احزاب کی واپسی کے موقعہ پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا۔ ( الآنَ نَغْزُوْہُمْ وَلاَ یَغْزُوْنَنَا، نَحْنُ نَسِیْرُ إِلَیْہِمْ )[ رواہ البخاری : باب غَزْوَۃُ الْخَنْدَقِ] ” اب ہم کفار پر یلغار کریں گے وہ ہم پر یلغار نہیں کرسکیں گے۔ ہم ہی ان کی طرف پیش قدمی کریں گے۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے غزوہ احزاب کے موقع پر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام (رض) کی مدد فرمائی اور کفار کو ذلیل کیا۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ بڑا طاقتور اور ہر اعتبار سے غالب ہے۔ الأحزاب
26 فہم القرآن ربط کلام : غزوہ خندق کا انجام۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت وسطوت کا مظاہرہ کرتے ہوئے مسلمانوں کا یہودیوں پر رعب اور دبدبہ ڈال دیا۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مکہ سے مدینہ ہجرت فرمائی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مدینہ کے یہودیوں سے بقائے باہمی کی بنیاد پر امن کا معاہدہ کیا جس میں ایک شرط یہ تھی کہ اگر کوئی مدینہ پر حملہ آور ہوگا تو ہم مل کراس کا دفاع کریں گے۔ لیکن یہودی اس معاہدے پر قائم نہ رہے اور ان کی ہمدردیاں اہل مکہ کے ساتھ رہیں اور خفیہ طور پر اہل مکہ کو مسلمانوں کے حالات بتلاتے رہتے تھے۔ غزوہ خندق کے موقع پر انہوں نے با ضابطہ طور پر مکہ والوں کے ساتھ معاہدہ کیا اور کچھ لوگوں نے مسلمان خواتین کو بھی پریشان کرنے کی کوشش کی۔ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) غزوہ خندق سے ظہر کے وقت مدینہ پہنچے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی بیوی حضرت امّ سلمہ (رض) کے گھر میں غسل فرمارہے تھے تو جبرائیل امین تشریف لائے اور فرمایا۔ اے اللہ کے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ نے ہتھیار ڈال دیئے ہیں لیکن ملائکہ نے ابھی تک نہیں رکھے آپ ہتھیارپہنیں اور بنوقریظہ کے قلعوں کا محاصرہ کریں۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے غسل سے فارغ ہوتے ہی یہودیوں کے قلعوں کا محاصرہ کا اعلان کیا اور تین ہزار صحابہ کے ساتھ یہودیوں کے علاقہ کی ناکہ بندی کرلی یہودیوں نے کچھ دن قلعہ بند ہو کر گزارے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے یہودیوں پر مسلمانوں کارعب ڈال دیا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہودیوں کے سامنے تین تجاویز پیش کیں۔ لیکن انہوں نے کوئی تجویزقبول نہ کی۔ بالآخر یہودیوں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے اس شرط پر ہتھیار ڈال دئیے کہ جو فیصلہ سعدبن معاذ (رض) کریں گے ہمیں قبول ہوگا۔ حضرت سعد (رض) نے یہ فیصلہ کیا کہ ان کے مردوں کو قتل کردیا جائے اور ان کی عورتوں کو قیدی بنا لیا جائے۔ اس طرح جن لوگوں نے عہد شکنی کی تھی انہیں قتل کردیا گیا اور اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو ان کی زمینوں اور گھروں کا مالک بنا دیا جس کے بارے میں ارشاد ہوا کہ جن یہودیوں نے عہد شکنی کی تھی اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں پر رعب ڈال دیاان میں کچھ کو تم نے قیدی بنایا اور کچھ کو قتل کردیا۔ اللہ تعالیٰ نے تمہیں ان کے گھروں اور زمینوں کا مالک بنایا حالانکہ تم نے اس زمین پر قدم بھی نہیں رکھا تھا۔ ایسا اس لیے کیا کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے۔ (تفصیل کے لیے سیرت کی کتب کا مطالعہ فرمائیں ) حضرت سعد (رض) نے بنو قریضہ کے بارے میں یہ فیصلہ سنایا کہ ان کے مردوں کو قتل کردیا جائے، عورتوں اور بچوں کو قید میں رکھا جائے اور ان کی جائیداد کو تقسیم کردینا چاہیے۔ نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سعد کے فیصلہ کے مطابق عملدرآمد کروایا۔ جب سعد (رض) نے اپنے قبیلے والوں کے درمیان فیصلہ کیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے فیصلے کی تائید کرتے ہوئے فرمایا کہ تو نے بادشاہوں جیسا فیصلہ کیا ہے۔[ رواہ البخاری : باب اذا نزل العدوّعلیٰ حکم رجل] مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے یہودیوں پر مسلمانوں کا رعب ڈال دیا۔ ٢۔ مسلمانوں نے کچھ یہودیوں کو قتل کردیا اور باقی کو قیدی بنا لیا۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو یہودیوں کے قلعوں اور زمینوں کا وارث بنادیا۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے۔ تفسیربالقرآن اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے : ١۔ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے (البقرۃ: ٢٠) ٢۔ اللہ آسمانوں و زمین کی ہر چیز کو جانتا ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ (آل عمراٰن : ٢٩) ٣۔ اللہ تعالیٰ ہر اس چیز کو جانتا ہے جو زمین میں داخل ہوتی اور نکلتی ہے۔ ( الحدید : ٤) ٤۔ اللہ تعالیٰ آسمانون و زمین کی ہر چیز کو جانتا ہے۔ ( المجادلۃ: ٧) ٥۔ اللہ تعالیٰ حاضر اور غیب کو جاننے والا ہے۔ ( الرعد : ٩) ٦۔ تم جہاں کہیں بھی ہوگے اللہ تمہیں قیامت کے دن جمع فرمائیگا وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ (البقرۃ: ١٤٨) الأحزاب
27 الأحزاب
28 فہم القرآن ربط کلام : آیت ٢١ میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو امت کے لیے بہترین نمونہ قرار دیا ہے اس کے بعد غزوہ احزاب کا اختتام اور انجام بیان کیا اب اہل بیت کے حوالے سے نبی کریم کا اسوہ بیان کیا جاتا ہے۔ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی بیویوں سے فرماؤ۔ کہ اگر تم دنیا اور اسکی آرائش وزیبائش چاہتی ہو تو آؤ میں تمہیں حسب توفیق دے کر اچھے طریقے کے ساتھ رخصت کرتا ہوں اگر تم اللہ اور اس کے رسول اور آخرت کے گھر کو پسند کرتی ہو تو یقین کرو کہ اللہ تعالیٰ نے نیک لوگوں کے لیے بہترین اجر تیار کر رکھا ہے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی امت کے باپ تھے اور ازواج مطہرات گھر یلو خواتین تھیں انہیں کیا معلوم کہ صحابہ کرام (رض) کے معاشی حالات کیسے ہیں یہ بھی حقیقت ہے کہ ایک سربراہ کو اپنے ساتھیوں اور آئندہ نسلوں کے لیے نمونہ بننا ہوتا ہے۔ چند آیات پہلے یہ حقیقت بیان ہوچکی ہے کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمام مسلمانوں کے لیے بہترین نمونہ بنائے گئے ہیں ظاہر بات ہے کہ نمونہ تو وہی ذات ہو سکتی ہے جس کا ظاہر، باطن، گھریلو اور پبلک زندگی کا ایک ایک لمحہ امت کے لیے مثال ہو۔ امّہات المومنین نے آپ سے جب خوشحالی کا مطالبہ کیا تو آپ کو یہ بات اس قدر ناگوار گزری کہ آپ ایک مہینہ کے لیے ان سے الگ تھلگ ہوگئے۔ یہاں تک کہ یہ بات مشہور ہوگئی کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی بیویوں کو طلاق دے دی ہے۔ (عَنْ عَاءِشَۃَ (رض) زُوْجَ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اَخْبَرَتْہُ اَنَّ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جَآَءَ ہَا حِیْنَ اَمَرَ اللّٰہُ اَنْ یُخْیِّرَ اَزْوَاجَہٗ فَبَدَاءَ بِرَسُوْلِ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَقَالَ اِنِّیْ ذَاکِرٌ لَّکَ اَمْرًا فَلَا عَلَیْکِ اَنْ تَسْتَعْجِلِیْ حَتّٰی تَسْتَاْمِرِیْ اَبَوَیْکِ وَقَدْ عَلِمَ اَنَّ اَبَوَیَّ لَمْ یَکُوْنَا یَاْمُرَانِیْ بِفَرَاقِہٖ قَالَتْ ثُمَّ قَالَ اِنَّ اللّٰہَ قَالَ یَاَیُّہَا النَّبِیُّ قُلْ لِاَزْوَجِکَ اِلٰی تَمَامِ الْاٰیَتَیْنِ فَقُلْتُ لَہٗ فَفِیْ اَیْ ہَذَا اَسْتَاْمِرُ اَبَوَیَّ فَاِنِّیْ اُرِیْدُ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ وَالدَّارَ الْاٰخِرَۃَ )[ رواہ البخاری : کتاب التفسیر باب قولہیا ایھا النبی قل لازواجک] ” سیدہ عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں اللہ تعالیٰ نے جب رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیا کہ آپ اپنی بیویوں کو اختیار دے دیں تو آپ ان کے پاس تشریف لائے اور فرمایا میں تیرے سامنے ایک معاملہ رکھنے لگا ہوں اور اس میں جلدی نہ کرنا یہاں تک کہ اپنے والدین سے مشورہ کرلو۔ سیدہ عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ آپ کو علم تھا کہ میرے والدین مجھے آپ سے جدا ہونے کی ہرگز اجازت نہیں دیں گے، پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے اے نبی اپنی بیویوں سے کہہ دیں۔ دو آیات تلاوت کیں تو میں نے عرض کی کہ کیا اس بارے میں، میں اپنے والدین سے مشوہ کروں ؟ میں تو اللہ اور اس کے رسول اور آخرت کے گھر کو ترجیح دیتی ہوں۔“ مسائل ١۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی ذات اور اپنے گھر والوں کے لیے دنیا کی زیبائش پسند نہیں کرتے تھے۔ ٢۔ میاں، بیوی کے درمیان علیحدگی احسن طریقہ سے ہونی چاہیے۔ ٣۔ نیک بیوی کے لیے لازم ہے کہ وہ دنیا کی بجائے آخرت کو پسند کرے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ نے کن لوگوں کے لیے بہترین اجرتیار کر رکھا ہے : ١۔ اللہ تعالیٰ نیک لوگوں کو ان کے اعمال کا بہترین صلہ دے گا۔ (التوبۃ: ١٢١) ٢۔ اللہ تعالیٰ صابر لوگوں کو ان کے صبر کی بہترین جزا دے گا۔ (النحل : ٩٦) ٣۔ اللہ تعالیٰ نیکوں کو ان کے اعمال سے بہتر جزا دے گا۔ (العنکبوت : ٧) ٤۔ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے مزیداجر عطا کرے گا۔ (النور ؛ ٣٨) ٥۔ اللہ تعالیٰ نیکوں کے اعمال سے بہتر صلہ عطاکریں گے۔ (النحل : ٩٧) ٦۔ اللہ صبر کرنے والوں اور توکل کرنے والوں کو بہترین اجر عطا فرمائے گا۔ (العنکبوت : ٥٩) ٧۔ ایمان لانے والوں، نماز قائم کرنے والوں اور زکٰوۃ دینے والوں کے لیے اللہ کے ہاں اجر ہے۔ (البقرۃ: ٢٧٧) الأحزاب
29 الأحزاب
30 فہم القرآن ربط کلام : نبی مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ آپ کی ازواج کا کردار بھی امت کی عورتوں کے لیے نمونہ قرار دیا۔ اس لیے آپ کی ازواج کو حکم ہوا۔ سادگی اور شرم وحیاء کی اہمیت اجاگر کرنے کے لیے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ازواج کو براہ راست مخاطب کیا گیا ہے۔ کیونکہ ان کا مقام عام عورتوں جیسا نہیں وہ تو امہات المومنین ہیں اس لحاظ سے امّہات المؤمنین تمام عورتوں سے افضل اور اعلیٰ ہیں لہٰذا ان کا کردار بھی اعلی ہونا چاہیے تھا۔ یہاں یہ مفہوم لینے کی ہرگز اجازت نہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی کسی بیوی سے کردار اور حیا کے حوالے سے کسی گراوٹ کا خدشہ تھا ایسا سوچنا بھی گناہ ہے۔ بتلانا مقصودیہ ہے کہ جس طرح نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ازواج مطہرات کو سادگی میں مسلمان عورتوں کے لیے نمونہ بننا ہے اسی طرح انہیں کردار اور حیا میں بھی نمونہ بننا ہے کیونکہ اولاد اپنی ماں سے زیادہ متاثر ہوتی ہے بالخصوص بیٹیاں ماں کے نقش قدم پر چلتی ہیں اس لیے امّہات المؤمنین کو اپنی روحانی اولاد کے لیے نمونہ بننا چاہیے اس کے ساتھ یہ بھی بیان کردیا گیا کہ اگر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ازواج سے کسی اخلاقی گرواٹ کا اظہار ہوگا تو انہیں سزابھی دوگنی ہوگی انہیں عذاب دینا اللہ تعالیٰ کے لیے کوئی مشکل نہیں جس کا معنٰی ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عظمت اور حرمت تمہیں اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بچا نہیں سکے گی۔ اس سے یہ مسئلہ خود بخود نکلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو کسی کی حرمت اور واسطے کا کوئی بوجھ نہیں ہے۔ ہاں ازواج مطہرات میں سے جو اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تابعداری اور نیک عمل کرے گی ان کے لیے اجر بھی دوگنا ہوگا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے بہترین رزق تیار کر رکھا ہے اس فرمان میں یہ اصول اشارتاً بتلایا گیا ہے کہ معاشرے کے بڑے لوگ اور قوموں کے راہنماؤں کی وجہ سے لوگ بگڑتے اور سنورتے ہیں۔ اس لیے انہیں اپنی اور دوسروں کی سزا بھی بھگتنا پڑے گی اگر یہ نیک ہوں گے تو ان کی وجہ سے لوگوں میں سنوار پیدا ہوگا ہے لہٰذا انہیں اجر بھی دوگنا دیا جائے گا اس میں ماں، باپ، استاد اور مذہبی رہنما بھی شامل ہیں۔ اسی بات کو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) انے یک خط میں یوں تحریر فرمایا تھا۔ نبی محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خط کا اقتباس : نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صلح حدیبیہ کے بعد دنیا کے اکثر حکمرانوں کو خطوط لکھے جن میں انہیں اسلام کی دعوت دی۔ ان میں ایک خط روم کے بادشاہ ہرقل کو لکھا جس میں اسلام کی دعوت دینے کے بعد تحریر کروایا کہ اگر تو مسلمان نہ ہوا تو (فَإِنِّیْ أَدْعُوْکَ بِدِعَایَۃِ الْإِسْلاَمِ، أَسْلِمْ تَسْلَمْ، وَأَسْلِمْ یُؤْتِکَ اللَّہُ أَجْرَکَ مَرَّتَیْنِ، فَإِنْ تَوَلَّیْتَ فَعَلَیْکَ إِثْمُ الأَرِیسِیِّیْنَ) [ رواہ البخاری : باب دُعَاء النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) إِلَی الإِسْلاَمِ وَالنُّبُوَّۃِ] ” میں تجھے اسلام کی دعوت دیتا ہوں۔ اسلام قبول کرلو تو سلامت رہو گے اور اللہ تعالیٰ تجھے دوہرا اجر عطاکرے گا۔ اگر تو نے اعراض کیا تو تیری رعایا کا گناہ بھی تجھ پر ہوگا۔“ روم کی اکثر آبادی کسان پیشہ تھی اس لیے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہرقل کی عوام کے لیے ” اَلْاَرِیْسِیِّیْنَ“ کا لفظ استعمال کیا ہے۔ مسائل ١۔ بڑے لوگوں کو دوگنا عذاب ہوگا۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ کے لیے کسی بڑے کو عذاب دینا مشکل نہیں۔ ٣۔ جو بڑے لوگ اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تابعداری کریں گے انہیں دوگنے اجر سے نوازا جائے گا۔ تفسیر بالقرآن بڑے مجرموں کو دوگنا عذاب ہوگا : ١۔ جہنم میں داخل ہونے والے اپنے سے پہلوں کو دیکھ کرکہیں گے۔ ہمیں گمراہ کرنے والے یہی لوگ تھے انہیں دوگنا عذاب دیا جائے اللہ تعالیٰ فرمائے گا ہر ایک کے لیے دوگنا ہے لیکن تم نہیں جانتے۔ (الاعراف : ٣٨۔ ٣٩) ٢۔ اے ہمارے پروردگار ان کو دوگنا عذاب دے اور ان کو لعنت سے دوچار کر۔ (الاحزاب : ٦٨) ٣۔ انہیں دنیا اور آخرت میں دوہرا عذاب ہوگا۔ (بنی اسرائیل : ٧٥) ٤۔ مجرموں کے لیے دنیا میں ذلت اور آخرت میں عذاب کے سوا کچھ نہیں۔ ( البقرۃ : ٨٥) ٣۔ کفار کے لیے دنیا میں ذلت اور آخرت میں برا عذاب ہے۔ (البقرۃ: ١١٤) ٤۔ کافروں کے لیے دنیا میں رسوائی اور آخرت میں بڑا عذاب ہے۔ (المائدۃ: ٤١) ٥۔ کفارکے لیے دنیا میں ذلت ورسوائی ہے اللہ قیامت کو سخت عذاب چکھائے گا۔ (الحج : ٩) الأحزاب
31 فہم القرآن ربط کلام : ازواج مطہرات کا مقام اور اجروثواب۔ اکیسویں پارے کا اختتام اس فرمان پر ہوا کہ اے نبی کی ازواج ! اگر تم میں سے کسی نے بے حیائی کا ارتکاب کیا تو اسے دوگنی سزا دی جائے گی ہاں جو تم میں ” اللہ“ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے گی۔ اسے دوہرا ثواب اور بہترین رزق دیا جائے گا۔ کیونکہ تمہارا مقام عام مسلمان عورتوں جیسا نہیں بلکہ تم ان سے ممتاز مقام کی حامل ہو۔ کیونکہ تمہارے گھروں میں ” اللہ“ کی آیات کا نزول ہوتا ہے اور اس کا رسول شب وروز تمہارے گھروں میں تشریف فرما ہوتا ہے۔ لہٰذا تمہیں ہر حال میں ” اللہ“ اور اس کے رسول کی اطاعت کرنا اور مسلمان عورتوں کے لیے نمونہ بننا چاہیے۔ دین اسلام کی اشاعت اور ترقی پر غور کیا جائے تو یہ حقیقت روز روشن کی طرح دکھائی دیتی ہے کہ دین کا بیشتر حصہ بالخصوص ازواجی اور گھریلو زندگی کے مسائل کی اشاعت اور ترویج امہات المؤمنین کے ذریعے ہی عمل میں آئی ہے۔ اسی لیے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو چار بیویوں کی قید سے مستثنیٰ قرار دیا گیا۔ ازواج مطہرات کو معلوم تھا کہ ہمارے فرائض مسلمان خواتین سے بہت زیادہ ہیں اس لیے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ہر بیوی نے اپنے خاندان میں تبلیغ دین کے لیے محنت فرمائی اور اپنے عزیز واقرباء کو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پاکیزہ زندگی سے آگاہ کیا۔ جس کے نتیجہ میں ان کے خاندان کے لوگ حلقہ اسلام میں داخل ہوگئے۔ اس طرح نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ازواجی زندگی اسلام کی ہمہ جہت ترقی میں بہترین ذریعہ ثابت ہوئی۔ قرآن مجید نے امہات المؤمنین کے حوالے سے یہ اصول واضح فرمایا ہے کہ جس شخص کی ذمہ داری زیادہ ہوتی ہے اگر وہ دین کی اشاعت میں محنت کرے گا تو اس کا اجر بھی دوگنا ہوگا۔ اسی اصول کے پیش نظر نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہر قل کو یہ تحریر فرمایا تھا۔ (فَإِنِّی أَدْعُوکَ بِدِعَایَۃِ الإِسْلاَمِ، أَسْلِمْ تَسْلَمْ، وَأَسْلِمْ یُؤْتِکَ اللَّہُ أَجْرَکَ مَرَّتَیْنِ، فَإِنْ تَوَلَّیْتَ فَعَلَیْکَ إِثْمُ الأَرِیسِیِّینَ) [ رواہ البخاری : باب دُعَاء النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) إِلَی الإِسْلاَمِ وَالنُّبُوَّۃِ] ” میں تجھے اسلام کی دعوت دیتا ہوں۔ اسلام قبول کرلے تو سلامت رہے گا اور اللہ تعالیٰ تجھے دوہرا اجر عطاکرے گا اگر تو نے اعراض کیا تو تیری رعایا کا گناہ بھی تجھ پر ہوگا۔“ (عَنْ جَرِےْرٍ (رض) قَالَ کُنَّا فِی صَدْرِ النَّھَارِ عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰہِ ٌ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَنْ سَنَّ فِی الْاِسْلَامِ سُنَّۃً حَسَنَۃً فَلَہُ اَجْرُھَا وَاَجْرُ مَنْ عَمِلَ بِھَا مِنْ بَعْدِہٖ مِنْ غَےْرِ اَنْ یُّنْقَصَ مِنْ اُجُوْرِھِمْ شَیءٌ وَمَنْ سَنَّ فِی الْاِسْلَامِ سُنَّۃً سَیِّءَۃً کَانَ عَلَےْہِ وِزْرُھَا وَوِزْرُ مَنْ عَمِلَ بِھَا مِنْ بَعْدِہٖ مِنْ غَےْرِ اَنْ یُّنْقَصَ مِنْ اَوْزَارِھِمْ شَیءٌ) [ رواہ مسلم : باب الحث علی الصدقۃ ولو بشق تمرۃ او کلمۃ طیبۃ وانہا حجاب من النار] حضرت جریر (رض) فرماتے ہیں کہ ہم دن کے پہلے پہررسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر تھے۔ آپ نے فرمایا کہ جس نے اسلام میں نیکی کی ابتدا کی جب تک لوگ اس پر عمل کرتے رہیں گے اسے اپنا اور دوسروں کے برابر ثواب ملتا رہے گا۔ جبکہ لوگوں کے اجر میں کسی قسم کی کمی واقع نہیں ہوگی۔ اور جس نے اسلام میں کسی برے کام کی بنیاد رکھی اس کو اپنا بھی اور اس پر عمل کرنے والوں کا بھی برابر گناہ ہوتا رہے گا اور ان کے گناہوں میں کوئی کمی واقع نہیں ہوگی۔ ” حضرت ابوبردہ (رض) نے اپنے والد گرامی کو نبی مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان بیان کرتے ہوئے سنا سرکاردو عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تین طرح کے افراد کو دوہرا اجر عطا کیا جائے گا ان میں سے ایک وہ ہوگا جس کے پاس لونڈی ہو اس نے اسے اچھی طرح تعلیم دی اور اس کو ادب سکھایا اچھے انداز سے اس کی تربیت کی پھر وہ اس کو آزاد کردے اور اس سے نکاح کرلے۔ دوسرایہود و نصاریٰ کا وہ شخص جو اپنے دین میں پکا تھا اور بعد ازاں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لے آیا اس کے لیے بھی دوہرا اجر ہے تیسرا وہ شخص جو غلام ہے اللہ تعالیٰ کے حقوق ادا کرتے ہوئے اپنے مالک کے کام اور خدمت میں اس کی خیرخواہی کرتا ہے۔“ [ رواہ البخاری : کتاب الجھاد و السیر، بَاب فَضْلِ مَنْ أَسْلَمَ مِنْ أَہْلِ الْکِتَابَیْنِ ] مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ ازواج مطہرات کو دوگنا اجر عنایت فرمائے گا۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن ازواج مطہرات کو رزق کریم سے سرفراز کرے گا۔ ٣۔ ازواج مطہرات کا مقام اور مرتبہ امت کی خواتین سے بلند وبالا ہے۔ الأحزاب
32 فہم القرآن ربط کلام : بے حیائی سے بچنے کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ عورت غیر محرم سے بات کرتے ہوئے اپنی زبان میں کسی حد تک بے اعتنائی کا اظہار کرے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ دین اسلام اخلاق اور اچھی گفتگو کرنے کا حکم دیتا ہے۔ لیکن عورت کا غیر محرم کے ساتھ اخلاق یہ ہے کہ وہ اس سے بات کرتے ہوئے اپنی زبان میں نسبتاً بیگانگی کا اظہار کرے تاکہ جس شخص کے دل میں بے حیائی کا کچھ مرض ہے وہ غلط توقعات وابستہ نہ کر بیٹھے۔ تاہم اس ہدایت کا یہ معنٰی نہیں کہ عورت غیرمحرم سے بات کرتے ہوئے سخت الفاظ استعمال کرے یا ایسا انداز اختیار کرے جس میں بد خلقی پائی جائے اس کی اجازت نہیں ہے۔ مسلمان عورتوں کو بے حیائی سے بچانے اور مسئلہ کی اہمیت جتلانے کے لیے امہات المؤمنین کو مخاطب کیا گیا ہے۔ تاکہ مسلمان بیٹیوں کو احساس ہو کہ اہم ضرورت کے وقت ہم نے غیر محرم سے کس طرح بات کرنی ہے۔ عورتوں کے لیے یہ بھی لازم ہے کہ بلا ضرورت گھر سے باہر نہ نکلیں۔ کیونکہ عورت بازا رحسن یا مارکیٹ کا مال نہیں بلکہ گھر کی محافظ، وقار اور ملکہ ہے۔ اگر عورت صحیح معنوں میں گھر کی ذمہ داری نبھائے تو اسے سخت مجبوری کے سوا گھر سے نکلنے کی فرصت کہاں ملتی ہے۔ پابندی کا یہ مطلب نہیں کہ عورت رشتہ داروں اور اپنی سہیلیوں کے ہاں نہیں جا سکتی یا مجبوری کے تحت کوئی کاروبار نہیں کرسکتی۔ قرآن مجید عورت پر ضرورت کے تحت گھر سے باہرنکلنے پر پابندی نہیں لگاتا بلکہ پابندی اس بات پر ہے کہ جب گھر سے نکلنا پڑے تو حسن وجمال کی نمائش کرتے ہوئے نہ نکلے جسے قرآن مجید نے دورِجاہلیت کا نکلنا قرار دیا ہے۔ حدیث شریف میں عورت کو یہاں تک ہدایت کی گئی ہے کہ اگر وہ باجماعت نماز ادا کر رہی ہو تو امام کے بھولنے کی صورت میں کوئی مرد لقمہ نہ دے پائے تو عورت لقمہ دینے کی بجائے اپنے الٹے ہاتھ پر دوسرا ہاتھ مار کر امام کو اس کی غلطی سے متنبہ کرے۔ (رواہ البخاری : باب التصفیق للنساء) اس سے اندازہ فرمائیں کہ دین غیر محرم عورت اور مرد کے اختلاط کو کس قدر نا پسند کرتا ہے۔ چہ جائیکہ عورت ٹی وی، ریڈیو، کیبل اور اخبارات میں آ کر پورے ناز نخرے کے ساتھ لوگوں کے سامنے اپنے انگ انگ کی نمائش کرے۔ قرآن مجید کی ہدایت ہے کہ عورتیں اپنے گھروں میں باوقار طریقے کے ساتھ رہیں جس کے لیے ” وَ قَرْنَ فِیْ بُیُوْتِکُنَّ“ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں جس کا معنٰی قرار اور وقار کیا گیا ہے۔ یعنی اپنے گھر میں قرار پکڑو اور وقار کے ساتھ رہو اور نماز پڑھو، زکوٰۃ دیتی رہو اور اللہ اور اسکے رسول کی تابعداری میں لگی رہو۔ ” تَبَرُّجْ“ کا معنی بے پردگی اور خوبصورتی کا اظہار کرنا ہے۔ اسی طرح ” تَبَرُّجْ“ کا معنٰی ابھار اور نمایاں ہونا بھی ہے۔ آسمانی برج کو بھی اسی لیے برج کہا جاتا ہے۔ کہ وہ حدِّنگاہ سے اوپر ہوتے ہیں۔ اہل لغت اور اہل تفسیرنے ” تَبَرُّجْ‘ کا معنٰی عورت کا اپنے حسن وجمال کو نمایاں کرنالکھا ہے۔ بالفاظ دیگر اپنے حسن وجمال کو چھپانے کی بجائے لوگوں کے سامنے ظاہر کرنا ہے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا کہ میں جہالت سے اللہ کی پناہ مانگتاہوں۔ (البقرۃ: ٦٧) عورت کے اس فعل کو جاہلیت قرار دیا گیا ہے۔ یعنی وہ جہالت جو اسلام سے پہلے عربوں میں موجود تھی۔ (اَنَّ أَبَا مَالِکِ الأَشْعَرِیِّ حَدَّثَہُ أَنَّ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ أَرْبَعٌ فِی أُمَّتِی مِنْ أَمْرِ الْجَاہِلِیَّۃِ لاَ یَتْرُکُونَہُنَّ الْفَخْرُ فِی الأَحْسَابِ وَالطَّعْنُ فِی الأَنْسَابِ وَالاِسْتِسْقَاء بالنُّجُومِ وَالنِّیَاحَۃُ)[ رواہ مسلم : باب التَّشْدِیدِ فِی النِّیَاحَۃِ] ” ابو مالک اشعری (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میری امت کے لوگ جاہلیت کی چار عادات کو نہیں چھوڑیں گے۔ حسب ونسب پر فخر کرنا، نسب پر طعن کرنا، ستاروں سے بارش طلب کرنا اور نوحہ کرنا۔“ اہل بیت اور ان کا مقام پاکستان میں شیعہ اور بریلوی حضرات فکر وعمل کے اعتبار سے ایک دوسرے کے زیادہ قریب ہیں اس لیے مولانا پیر کرم شاہ صاحب بریلوی کی تفسیر سے من وعن اقتباس تحریر کیا جاتا ہے : اس آیت کا سیاق و سباق دیکھنے کے بعد یہ تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ آیت کے اس جملہ (اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰہُ) میں بھی وہی مخاطب ہیں جن سے پہلے اور بعد میں خطاب ہورہا ہے۔ اور وہ ازواج مطہرات ہیں اور اہل بیت سے بھی ازواج مراد ہیں۔ فرقہ وارانہ تعصّب سے بلند اور خالی الذّہن ہو کر اگر ان آیات کا مطالعہ کیا جائے تو ان آیات کا یہی مفہوم ہے جو بلا تکلّف سمجھ آتا ہے یعنی خدا نہ بھلا کرے فرقہ ورانہ تعصّبات کا کہ وہ حق فہمی کی راہ میں پہاڑ بن کر کھڑے ہوجاتے ہیں۔ شیعہ حضرات کو اس بات پر اصرار ہے کہ اہل بیت میں ازواج مطہرات داخل نہیں۔ اس سے مراد فقط حضرات خمسہ ہیں یعنی امام المرسلین (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)، امیر المومنین حضرت علی المرتضیٰ، حضرت سیّدہ فاطمہ طاہرہ اور حضرت حسنین کریمین (رض) اپنے اس نظریہ کو ثابت کرنے کے لیے جو دلائل انہوں نے پیش کیے ہیں وہ پیش خدمت ہیں۔ انہیں پڑھیے ! سنجیدگی سے ان پر غور کیجیے اور ازروئے انصاف یہ فیصلہ کیجیے کہ راہ حق سے کون بہک گیا ہے۔ وہ فرماتے ہیں : 1 اس جملہ میں ضمیریں مذکر ذکر کی گئی ہیں ” عَنْکُمُ“ اور ” یُطَھِّرَکُمْ“ اگر ان کا مرجع ازواج مطہرات ہوتیں تو مؤنث کی ضمیریں ذکر کی جاتیں۔ ” عَنْکُمُ“ کی بجائے ’ عَنْکُنَّ“ آجاتا اور ” یُطَھِّرَکُمْ“ کی بجائے ” یُطَہِّرُکُنَّ“ ہوتا۔ 2 آیت کے اس حصہ میں ” بَیْتِ“ واحد مذکور ہے۔ یہ چیز ازواج کی نفی کرتی ہے کیونکہ جہاں ان کے گھروں کا ذکر ہے وہاں بیت کی جمع بیوت مذکور ہے۔ جیسے ” وَ قَرْنَ فِیْ بُیُوْتِکُنَّ“ اور ” وَاذْکُرْنَ مَایُتْلٰی فِیْ بُیُوْتِکُنَّ“ ہیں۔ 3 اس سلسہ میں جو بڑی وزنی بات انہوں نے کہی ہے کہ ” اِنَّمَا“ حصر کے لیے آتا ہے یعنی جو چیز اس کے بعد مذکور ہے اس کے لیے یہ فعل ثابت ہے اور جو مذکور نہیں اس سے یہ فعل منفی ہے۔ نیز ارادہ کی دو قسمیں ہیں وہ ارادہ جس کی مراد کا پایا جانا یا نہ پایا جانا مستلزم نہیں، دوسرا وہ ارادہ جس کے ساتھ مراد کا پایا جانا ضروری ہے یعنی ایسا ارادہ جس پر ” تَطْہِیْرًا“ اور ” اذھاب رجس“ ضرور مرتب ہوگا۔ اس مقام پر ارادہ ” محصّنہ“ نہیں ہے۔ کیونکہ ایسا ارادہ تو ہر مومن کے لیے ہے کہ وہ ہر ناپاکی سے منزّہ ہو، ظاہری اور باطنی نجاستوں سے اس کا دامن حیات پاک ہو۔ اہل بیت کی اس میں کوئی خصوصیت نہیں۔ حالانکہ یہ مقام مدح اہل بیت کا ہے۔ یہاں تو کسی ایسی چیز کا ذکر ہونا چاہیے جو ان کے ساتھ مخصوص ہو اور وہ ارادہ کا دوسرا معنٰی ہے جس سے ان حضرات کی عصمت ثابت ہوتی ہے۔ لیکن ازواج مطہرات کی عصمت کا کوئی بھی قائل نہیں۔ یہاں وہی لوگ مراد ہوں گے جن کی عصمت ثابت ہے اور وہ حضرات خمسہ ہیں۔ اس لیے ثابت ہوا کہ یہاں اہل بیت سے مراد ازواج نہیں ہیں۔ امید ہے کہ یہ دلیل پیچ در پیچ آپ نے سمجھ لی ہوگی۔ 4 کتب اہل سنت میں بھی ایسی احادیث بکثرت موجود ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ اہل بیت سے مراد ازواج نہیں بلکہ حضرات خمسہ ہیں۔ شیخ الطائفہ طوسی نے التبیان میں اور شیخ طبرسی نے مجمع البیان میں اور اسی فرقہ کے دوسرے مفسرین نے اپنی تفاسیر میں یہی دلائل پیش کیے ہیں۔ آئیے ! ان دلائل کا بنظر انصاف جائزہ لیں۔ ان کی پہلی دلیل یہ ہے کہ اگر ازواج مراد ہوتیں تو ضمیریں مؤنث کی ذکر کی جاتیں۔ اس لیے گزارش ہے کہ آیت کے اس حصّہ میں اہل بیتکا لفظ استعمال ہوا ہے۔ یہ لفظ مذکر ہے اگرچہ معنٰی مؤنث ہے اور عربی زبان میں بسا اوقات معنٰی کا لحاظ نہیں رکھا جاتا۔ صرف لفظ کے مطابق ضمیر ذکر کی جاتی ہے۔ قرآن مجید میں اس کی متعدد مثالیں موجود ہیں۔ سورۃ ہود کی آیت ٧١، ٧٢، ٧٣ ملاحظہ فرمائیے ! جہاں فرشتے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی خدمت میں حاضر ہیں۔ حضرت اسحاق (علیہ السلام) کی ولادت کا مژدہ سنا رہے ہیں۔ پاس ہی حضرت سارہ [ کھڑی ہیں۔ آپ وفود مسرّت سے ہنس پڑی ہیں۔ ساتھ ہی اظہار تعجب کرتے ہوئے فرماتی ہیں۔ (یٰوَیْلَتٰٓی ءَ اَلِدُ وَ اَنَا عَجُوْزٌ وَّ ھٰذَا بَعْلِیْ شَیْخًااِنَّ ھٰذَا لَشَیْءٌ عَجِیْبٌ) یعنی میں بوڑھی اور میرا خاوند بھی بوڑھا ہے کیا میرے ہاں بچہ پیدا ہوگا ؟ یہ بڑی عجیب وغریب بات ہے۔ فرشتے حضرت سارہ (علیہ السلام) کو خطاب کرتے ہوئے کہتے ہیں (قَالُوْٓا اَتَعْجَبِیْنَ مِنْ اَمْرِ اللّٰہِ رَحْمَتُ اللّٰہِ وَ بَرَکٰتُہٗ عَلَیْکُمْ اَھْلَ الْبَیْتِ) اے حضرت خلیل (علیہ السلام) کی رفیقہ حیات ! کیا تم اللہ تعالیٰ کے حکم پر تعجب کررہی ہو۔ اے اہل بیت ! تم پر اللہ تعالیٰ کی رحمت اور اس کی برکتیں ہوں۔” تَعْجَبِیْنَ“ مؤنث کا صیغہ ہے لیکن بعد میں اہل بیت کے لفظ کے پیش نظر ” عَلَیْکُمْ“ میں مذکر کی ضمیر استعمال ہوئی ہے۔ آپ دور کیوں جاتے ہیں اسی صفحہ کی پہلی آیت میں ” مَنْ یَّقْنُتْ مِنْکُنَّ“ پر غور کیجیے۔” یَّقْنُتْ“ مذکر کا صیغہ ہے لیکن بلا اختلاف اس سے مراد ازواج ہیں۔ چاہیے تو یہ تھا کہ ” مَنْ تَّقْنُتْ“ ہوتا لیکن ” مَنْ“ کے لفظ کو ملحوظ رکھتے ہوئے ” یَّقْنُتْ“ فرمایا گیا۔ اس لیے شیعہ حضرات کا یہ استدلال کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔ دوسری دلیل کے بارے میں عرض ہے کہ ازواج مطہرات کے حجروں کی دو حیثیتیں ہیں ایک حیثیت تو یہ ہے کہ امّہات المومنین کی قیام گاہیں ہیں۔ دوسری حیثیت یہ ہے کہ ان حجروں میں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ازواج مطہرات اقامت گزیں ہیں۔ جب ان حجروں کا ذکر ازواج کی قیام گاہوں سے ہو تو انہیں جمع ذکر کیا جاتا اور جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نسبت سے ہو تو واحد ” وَقَرْنَ فِیْ بُیُوْتِکُنَّ“ میں ہر زوجہ محترمہ کو حکم ہے کہ وہ اپنے اپنے حجرہ میں ٹھہرے۔ اسی طرح ” مَایُتْلٰی فِیْ بُیُوْتِکُنَّ“ میں بھی ہر بی بی کا حجرہ مراد ہے۔ کیونکہ وحی کا نزول مختلف حجرات میں ہوتا تھا۔ لیکن اہل البیت میں ” بَیْتِ“ سے مراد آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی قیام گاہ ہے اس لیے اس کو واحد ذکر کیا گیا۔ تیسرا استدلال بھی بڑا انوکھا ہے۔ آپ کی دلیل کا دارومداراس بات پر ہے کہ یہ مقام مدح اہل بیت ہے۔ حالانکہ یہ مقام مقام مدح نہیں بلکہ مقام موعظت و ارشاد ہے۔ جو باتیں اور جو خوبیاں اہل بیت کو اپنانی چاہئیں اور جس ضابطہ حیات کی انہیں پابندی کرنا چاہیے اس کا تفصیلی ذکر ہور ہا ہے اس لیے اس دلیل کی بنیاد ہی درست نہیں۔ نیزعصمت انبیاء کا عقیدہ تو متفقہ عقیدہ ہے۔ لیکن دوسرے حضرات کی عصمت آپ کا اپنا مفروضہ ہے۔ اس پر دلیل کی عمارت کیسے تعمیر کی جاسکتی ہے۔ نیز اگر بنظرِ غائر دیکھا جائے تو یہاں سے عدم عصمت ثابت ہوتی ہے ورنہ تحصیل لاحاصل لازم آئے گی۔ یعنی جو ہستیاں پہلے ہی معصوم اور ہر طرح کے رجس سے منزّہ اور مبرّہ ہیں ان کے متعلق یہ کہنا کہ اللہ تعالیٰ ان کو پاک اور طاہر کرنا چاہتا ہے اس کا کوئی مطلب نہیں۔ اس کے علاوہ اگر اہل سنت کی عصمت کا ذکر ہی بطور مدح کرنا مقصود ہوتا تو آیت یوں ہونی چاہیے تھی۔ ” اِنَّمَا اَرَاد اللّٰہُ اَذْھَبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ اَھْلَ الْبَیْتِ وَطَہَّرَکُمْ تَطْھِیْرًا“۔ لیکن سب جانتے ہیں کہ آیت اس طرح نہیں ہے۔ ان صاحبان نے چوتھی دلیل یہ پیش کی ہے کہ اہلِسنت کی کتب میں بھی بکثرت ایسی احادیث ہیں جو اکابر صحابہ ابو سعیدخدری، انس بن مالک، واثلہ بن اسقع، امّ المومنین عائشہ اور امّ المومنین امّ سلمہ (رض) سے مروی ہیں۔ جس سے ثابت ہوتا ہے کہ اہل بیت سے مراد حضرات خمسہ ہیں اور ازواج اہل بیت میں داخل نہیں۔ اس کے متعلق گزارش ہے کہ وہ احادیث جن میں یہ مذکور ہے کہ یہ آیت فقط ان حضرات قدسی صفات کے حق میں نازل ہوئی۔ ان کے راوی مجروح اور ساقط الاعتبار ہیں۔ جن کی تفصیل ذیل میں پیش کی جارہی ہے اور جن کے راوی ثقہ اور قابل اعتماد ہیں۔ ان میں کوئی تخصیص مذکور نہیں۔ ان سے ثابت ہوتا ہے کہ امّہات المومنین اور یہ حضرات سب اہل بیت میں شامل ہیں اور یہی حق ہے اور اسی پر ہمارا ایمان ہے۔ کچھ لوگوں نے اہل بیت کے لفظ کو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ازواج کے لیے مخصوص کردیا ہے۔ حالانکہ حدیث کی روشنی میں اہل بیت میں ازواج مطہرات کے ساتھ حضرت علی، حضرت فاطمہ (رض) اور حضرت حسن و حسین (رض) بھی شامل ہیں۔ (عَنْ اُمِّ سَلْمَۃَ قَالَتْ فِیْ بَیْتِیْ اُنْزِلَتْ (اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰہُ لِیُذْہِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ اَہْلَ الْبَیْتِ وَیُطَہِّرَکُمْ تَطْہِیْرًا) قَالَتْ فَاَرْسَلَ رَسُوْلُ اللّٰہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) إِلٰی فَاِطِمَۃَوَعَلِیٍّ وَالْحَسَنِ وَالْحُسَیْنِ فَقَالَ ہٰؤُلٓاءِ اَہْلُ بَیْتِیْ قَالَتْ فَقُلْتُ یَا رَسُوْلُ اللّٰہِ مَا اَنَا مِنْ اَہْلِ الْبَیْتِ قَالَ بَلٰی اِنْ شَاء اللّٰہُ تَعَالٰی)[ رواہ البیھقی : باب الدلیل علی ان ازواجہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) من اہل بیتہ فی الصلوۃ علیہن] ” حضرت امّ سلمہ (رض) فرماتی ہیں کہ یہ آیت میرے گھر میں نازل ہوئی۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت فاطمہ، حضرت علی اور حضرت حسن و حسین] کو بلایا اور فرمایا کہ یہ میرے اہل بیت ہیں۔ حضرت امّ سلمہ کہتی ہیں کہ میں نے کہا اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیا میں اہل بیت میں شامل نہیں ہوں؟ آپ نے فرمایا کیوں نہیں انشاء اللہ تعالیٰ !“ مخصوص نظریہ رکھنے والے ایک فرقہ کی ستم ظریفی مولانا مودودی کا ارشاد : مولانا مرحوم کی کتاب خلافت ملوکیت کے حوالے سے کچھ اہل علم کا خیال ہے کہ مولانا صاحب کا رجحان اہل تشیع کی طرف ہے اس لیے ان کی تحریر پیش خدمت ہے۔ ایک گروہ نے اس آیت کی تفسیر میں صرف اتنا ہی ستم نہیں کیا کہ ازواج مطہرات کو ” اہل بیت“ سے خارج کرکے صرف حضرت علی، فاطمہ (رض) اور ان کی اولاد کے لیے اس لفظ کو خاص کردیا بلکہ اس پر مزید ستم یہ کیا کہ اس کے الفاظ ” اللہ تو یہ چاہتا ہے کہ تم سے گندگی کو دور کرے اور تمہیں پوری طرح پاک کردے“ سے یہ نتیجہ نکال لیا کہ حضرت علی و فاطمہ (رض) اور ان کی اولادانبیائے کرام (علیہ السلام) کی طرح معصوم ہیں۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ ” رِجْسٌ“ سے مراد خطا اور گناہ ہے اور ارشاد الٰہی کی رو سے یہ ” اَہْلَ الْبَیْتِ“ اس سے پاک کردیئے گئے ہیں۔ حالانکہ آیت کے الفاظ یہ نہیں ہیں کہ تم سے گندگی دور کردی گئی اور تم بالکل پاک کردیئے گئے بلکہ الفاظ یہ ہیں کہ اللہ تم سے گندگی کو دور کرنا اور تمہیں پاک کردینا چاہتا ہے۔ سیا ق و سباق بھی ہی نہیں بتاتا کہ یہاں مناقب اہل بیت بیان کرنے مقصود ہیں بلکہ یہاں تو اہل بیت کو نصیحت کی گئی ہے کہ تم فلاں کام کرو اور فلاں کام نہ کرو اس لیے کہ اللہ تمہیں پاک کرنا چاہتا ہے۔ بالفاظ دیگر مطلب یہ ہے کہ تم فلاں رویّہ اختیار کروگے تو پاکیزگی کی نعمت تمہیں نصیب ہوگی ورنہ نہیں۔ تاہم اگر ” یُرِیْدُ اللّٰہُ لِیُذْھِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ اَھْلَ الْبَیْتِ وَیُطَھِّرَکُمْ تَطْھِیْرًا“ کا مطلب یہ لے لیا جائے کہ اللہ نے ان کو معصوم کردیا تو پھر کوئی وجہ نہیں کہ وضو، غسل اور تیمم کرنے والے سب مسلمانوں کو معصوم نہ مان لیا جائے کیونکہ ان کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ” وَّ لٰکِنْ یُّرِیْدُ لِیُطَھِّرَکُمْ وَ لِیُتِمَّ نِعْمَتَہٗ عَلَیْکُمْ“ ” مگر اللہ چاہتا ہے کہ تم کو پاک کرے اور اپنی نعمت تم پر تمام کردے (المائدۃ: ٦) (تفہیم القرآن : جلد ٤) مسائل ١۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بیویوں کا مقام و مرتبہ عام عورتوں جیسا نہیں ہے۔ ٢۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بیویوں کو حکم دیا گیا ہے کہ اپنی آوازوں میں جھکاؤ پیدا نہ کرو۔ ٣۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بیویوں کو معقول بات کرنے کی تلقین کی گئی ہے۔ ٤۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بیویوں کو اپنی زیب وزینت ظاہر کرنے اور جاہلیت کے گمان کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ ٥۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بیویوں کو اخلاقی اطوار سمجھانے کے ساتھ نماز قائم کرنے، زکوٰۃ ادا کرنے اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ ٦۔ اللہ تعالیٰ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بیویوں کو ان احکام پر عمل کرنے کا اس لیے حکم دیا تاکہ ان کو پاک کردے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ کن لوگوں کو پاک کرتا ہے : ١۔ پاک وہی ہے جسے اللہ پاک کرے۔ (النساء : ٤٩) ٢۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو یہود کے الزام سے پاک کیا۔ (الاحزاب : ٦٩) ٣۔ حضرت یوسف کو اللہ نے حکمرانی اور پاک دامنی عطا فرمائی۔ (یوسف : ٣١) ٤۔ عیسیٰ نے گود میں اپنی والدہ کی پاکدامنی کا اعلان فرمایا۔ (مریم : ٣٠) ٥۔ اللہ تعالیٰ پاک صاف رہنے والوں سے محبت کرتا ہے۔ (التوبۃ: ١٠٨) ٦۔ ہم نے اسے لڑکپن میں دانائی عطا فرمائی تھی اور اپنی جناب سے پاکیزگی اور شفقت عطا فرمائی تھی وہ پرہیزگار تھے اور ماں باپ کے ساتھ نیکی کرنے والے، سرکش اور نافرمان نہ تھے۔ (مریم : ١٢ تا ١٤) ٧۔ جس نے اپنے آپ کو پاک کرلیا وہ فلاح پا گیا۔ (الاعلیٰ: ١٤) الأحزاب
33 الأحزاب
34 فہم القرآن ربط کلام : نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے گھر کا ماحول۔ آیت ٢٨ سے لے کر مختلف انداز میں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے گھر والوں کو خطاب کیا ہے اس موقعہ پر آخری حکم ہوا کہ پاک صاف ماحول میں رہتے ہوئے ” اللہ“ کی آیات اور حکمت کی باتیں جو تمہارے گھروں میں وحی کی صورت میں پڑھی جاتی ہیں ان کو یاد رکھو اور ان کی تلاوت کیا کرو۔ ہمیشہ عقیدہ اپناؤ کہ اللہ تعالیٰ نہایت مہربان اور ہر بات کی خبر رکھنے والا ہے۔ اس فرمان میں یہ بات کھل گئی ہے کہ اہل بیت میں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ازواج بدرجہ اولیٰ شامل ہیں کیونکہ وحی حضرت علی (رض) کے گھر میں نازل نہیں ہوتی تھی جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) گھر میں ہوتے تو وحی امّہات المؤمنین کے حجروں میں ہی نازل ہوا کرتی تھی۔ اکثر اہل علم اور مفسرین نے حکمت کے معانی فہم و فراست، علم وحلم، عدل و انصاف، حقیقت اور سچائی تک پہنچنا اور دین کی سمجھ حاصل کرنا بیان کیے ہیں اس کی تائید حدیث شریف سے بھی ہوتی ہے۔ (عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ ضَمَّنِی النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) إِلَی صَدْرِہِ وَقَال اللَّہُمَّ عَلِّمْہُ الْحِکْمَۃَ )[ رواہ البخاری : باب ذِکْرُ ابْنِ عَبَّاسٍ (رض) ] ” حضرت عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے انہوں نے فرمایا کہ نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے اپنے گلے لگایا اور میرے لیے دعا کی کہ اے اللہ ! اسے قرآن کا فہم عطا فرما۔“ (عَنْ اأمِّ سَلْمَۃَ أَنَّ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ لَا تُؤْذِیْنِیْ فِیْ عَاءِشَۃَ، فَوَاللّٰہِ مَا مِنْکُنَّ اِمْرَأَۃً یَنْزِلُ عَلَّیَّ الْوَحْیُ وَأَنَا فِیْ لِحَافِہَا لَیْسَ عَاءِشَۃَ قُلْتُ لَا جَرَمَ، وَاللّٰہِ لَا أُؤْذِیْکَ فِیْہَا اأبَدًا) [ مسند ابی یعلیٰ الموصلی] ” ام سلمہ (رض) بیان فرماتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ مجھے عائشہ کے بارے میں پریشان نہ کرنا۔ اللہ کی قسم ! عائشہ کے علاوہ تم میں سے کوئی بیوی نہیں کہ جس کے لحاف میں مجھ پر وحی نازل ہوتی ہو۔ میں نے کہا کوئی شک نہیں ! اللہ کی قسم میں عائشہ کے بارے میں آپ کو کبھی پریشان نہیں کروں گی۔“ گھر میں نماز اور تلاوت کرنے کا حکم : (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ أَنَّ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ لاَ تَجْعَلُوا بُیُوتَکُمْ مَقَابِرَ إِنَّ الشَّیْطَانَ یَنْفِرُ مِنَ الْبَیْتِ الَّذِی تُقْرَأُ فیہِ سُورَۃُ الْبَقَرَۃِ )[ رواہ : باب اسْتِحْبَابِ صَلاَۃِ النَّافِلَۃِ فِی بَیْتِہِ وَجَوَازِہَا فِی الْمَسْجِدِ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اپنے گھروں کو قبرستان نہ بناؤ، جس گھر میں سورۃ البقرۃ پڑھی جاتی ہے اس گھر سے شیطان بھاگ جاتا ہے۔“ (عَنْ سَعْدِ بْنِ إِسْحَاقَ بْنِ کَعْبِ بْنِ عُجْرَۃَ عَنْ أَبِیہِ عَنْ جَدِّہِ أَنَّ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) أَتَی مَسْجِدَ بَنِی عَبْدِ الأَشْہَلِ فَصَلَّی فیہِ الْمَغْرِبَ فَلَمَّا قَضَوْا صَلاَتَہُمْ رَآہُمْ یُسَبِّحُونَ بَعْدَہَا فَقَالَ ہَذِہِ صَلاَۃُ الْبُیُوتِ) [ رواہ ابوداؤد : باب رَکْعَتَیِ الْمَغْرِبِ أَیْنَ تُصَلَّیَانِ] ” سعد بن اسحاق بن کعب بن عجرہ اپنے باپ اور وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بنو عبدالاشہل کی مسجد میں تشریف لائے۔ آپ نے وہاں مغرب کی نماز پڑھی۔ جب انہوں نے فرض نماز مکمل کی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں نفل پڑھتے ہوئے دیکھا۔ تو آپ نے فرمایا یہ گھروں میں پڑھی جانے والی نماز ہے، یعنی نفلی نماز گھر میں پڑھنی زیادہ افضل ہے۔“ مسائل ١۔ گھر میں قرآن مجید کی تلاوت اور حدیث شریف کا تذکرہ کرنا چاہیے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نہایت مہربان اور ہر بات کی خبر رکھنے والاہے۔ تفسیربالقرآن تلاوت قرآن اور اس کی حکمت : ١۔ قرآن کی تلاوت کا حق ادا کرنا چاہیے۔ (البقرۃ: ١٢١) ٢۔ قرآن کی تلاوت کے وقت تدبر کرنا چاہیے۔ (النساء : ٨٢) ٣۔ سحری کے وقت تلاوت کرنا افضل ہے۔ (الاسراء : ٧٨) ٤۔ اللہ کے بندے رات کو اٹھ اٹھ کر قران مجید کی تلاوت کرتے ہیں۔ (آل عمران : ١١٣) ٥۔ ایمانداروں کے دل اللہ کے ذکر سے سہم جاتے ہیں جب ان کے سامنے اللہ کی آیات تلاوت کی جاتی ہیں تو ان کے ایمان میں اضافہ ہوجاتا ہے وہ اللہ پر توکل کرتے ہیں۔ (الانفال : ٢) ٦۔ جن کو کتاب دی گئی وہ اس کی تلاوت اسی طرح کرتے ہیں جس طرح تلاوت کرنے کا حق ہے۔ (البقرۃ: ١٢١) الأحزاب
35 فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ کی آیات کو یاد کرنے اور اس کی نازل کردہ حکمت کا تقاضا ہے کہ مسلمان مرد اور خواتین میں درج ذیل اوصاف کا ہونا ضروری ہے۔ جن حضرات میں یہ اوصاف ہوں گے اللہ تعالیٰ ان کی کوتاہیوں کو معاف فرمائے گا اور انہیں اجر عظیم عطا کرے گا۔ اس آیت کا پس منظر بیان کرتے ہوئے مفسّرین نے لکھا ہے کہ امّہات المؤمنین میں سے حضرت امّ سلمہ (رض) نے عرض کی کہ اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! قرآن مجید میں بار بار مردوں کو ہی مخاطب کیا گیا ہے عورتوں کو مخاطب کیوں نہیں کیا جاتا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی جس میں مومن مردوں اور عورتوں کو نہ صرف یکساں طور پر مخاطب کیا گیا ہے بلکہ اس میں ایک سچے اور پکے مسلمان مرد اور عورت کے کردار کا خاکہ بھی پیش کیا گیا ہے۔ ان اوصاف کا مرد ہو یا عورت، جوان ہو یا بوڑھا، امیر ہو یا غریب، عربی ہو یا عجمی، گورا ہو یا کالا، حکمران ہو یا محکوم جس میں بھی یہ اوصاف ہوں گے اللہ تعالیٰ اس کی خطاؤں کو معاف فرمائے گا اور اسے اجر عظیم سے نوازے گا۔ 1 مسلمان : اسلام کا معنٰی سلامتی اور تابعداری ہے اسلام کا جامع تصور۔ ” ابراہیم (علیہ السلام) کو اس کے رب نے فرمایا کہ فرمانبردار ہوجا۔ اس نے عرض کی کہ میں نے اپنے آپ کو رب العالمین کے سامنے جھکا دیا ہے۔ (البقرۃ: ١٣١) ابراہیم اور یعقوب (علیہ السلام) نے اپنی اولاد کو وصیت فرمائی کہ اے بیٹو! اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے اس دین کو پسند فرما لیا ہے تمہیں موت اسلام کی حالت میں آنی چاہیے۔“ (البقرہ : ١٣٢) 2 مومن : مومن کا معنٰی ہے ایمان دار کچھ اہل علم نے مسلم اور مومن کے الفاظ کو ایک دوسرے کا مترادف قرار دیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ایک مسلم اور مومن کے درمیان درجہ بندی کے لحاظ سے بڑا فرق ہے۔ مسلمان وہ ہے جو اسلام کے ظاہری ارکان پر واجبی طور پر عمل کرتا ہے۔ مومن وہ ہے جو ارکان اسلام پر عمل کرنے کے ساتھ ساتھ ایک تڑپ اور لگن کے ساتھ نیکی کے معاملات میں دوسروں سے سبقت لے جانے کی کو شش کرتا ہے۔ مومن کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ چھوٹی سے چھوٹی نیکی سے بھی محروم نہ رہے۔ گویا کہ وہ اسلام کے ہر پہلو پر پوری طرح عمل کرنے کی فکر میں رہتا ہے۔ اسی لیے قرآن مجید نے عام مسلمانوں کو یوں خطاب فرمایا۔ ” دیہاتی لوگ کہتے ہیں کہ ہم ایمان لا چکے ہیں۔ اے پیغمبر! انہیں فرما دیں کہ تم ہرگز ایمان نہیں لائے۔ ہاں یہ کہو کہ ہم مسلمان ہیں۔ ایمان تو ابھی تک تمہارے دلوں میں داخل نہیں ہوا۔ اگر تم اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو گے تو اللہ تمہارے اعمال میں سے کچھ کمی نہیں کرے گا کیونکہ اللہ بڑا بخشنے والا اور مہربان ہے۔ ایمان دار تو وہ لوگ ہیں جو اللہ پر ایمان لاتے ہیں اور اس کے رسول کی رسالت پر ایمان لاتے ہیں پھر اس میں کوئی شک نہیں کرتے اور اپنے مالوں اور نفسوں کے ذریعے اللہ کی راہ میں جہاد کرتے ہیں۔ یہی لوگ سچے مومن ہیں۔“ (الحجرات : آیت ١٤۔ ١٥) 3 قٰانِتِ: مرد کے لیے قٰانِتِ اور عورت کے لیے قٰانِتٰتِ کے الفاظ استعمال ہوتے ہیں جس سے مراد وہ شخص اور عورت ہے جو دل کی اتھاہ گہرائیوں کے ساتھ قولاً اور فعلاً اللہ تعالیٰ کی تابعداری کرتے ہوئے طبیعت میں سکون محسوس کرے۔ نماز کے بارے میں بالخصوص یہ حکم دیا گیا ہے (وَقُومُوا لِلَّہِ قَانِتِین) [ البقرۃ: ٢٣٨] ” اللہ تعالیٰ کے سامنے عاجزی سے کھڑے ہوا کرو۔“ 4 اَلصَّادِقْ: ہر حال میں ” اَلصِّدْقَ“ اختیار کرنے والے کو الصَّادِقْ کہا جاتا ہے یعنی ایسا مسلمان جو اپنے قول اور فعل کے ساتھ اسلام کی صداقت کا ترجمان ہو۔ ایک مسلمان کو قولاً اور فعلاً اسلام کا ترجمان بنتے ہوئے اس بات کا بھی التزام کرنے کا حکم ہے کہ وہ ہمیشہ سچے لوگوں کا ساتھ دے۔ (یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آَمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَکُوْنُوْا مَعَ الصّٰادِقِیْنَ) [ التوبہ : ١١٩] ” اے مسلمانو! اللہ سے ڈرتے رہو اور سچے لوگوں کا ساتھ دیا کرو۔“ 5 صَابِرْ: صبر بے بسی اور بے کسی کا نام نہیں۔ صبر قوت برداشت‘ قوت مدافعت کو بحال رکھنے اور طبیعت کو شریعت کا پابند بنانے کا نام ہے۔ دشمن کے مقابلے میں جرات‘ بہادری دکھانا بھی صبر میں شامل ہے۔ صابر کو آخرت میں بغیرحساب و کتاب کے جنت میں داخلہ نصیب ہوگا اور دنیا میں اللہ تعالیٰ کی رفاقت ودستگیری حاصل ہوگی۔ (اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الصَّابِرِیْنَ) [ البقرۃ: ١٥٢] ” اللہ کی رفاقت اور دستگیری صبر کرنیوالوں کے لیے ہے۔“ ٰ6 خَاشِعِیْنَ: ” خَاشِعِیْنَ“ ” خَاشِعٌ“ کی جمع ہے۔ مسلمان کی کوئی عبادت ایسی نہیں جس میں خشیت الٰہی نہ پائی جائے۔ خشیت دل کی اس کیفیت کا نام ہے جس کی وجہ سے انسان اپنے رب کی نافرمانی اور اس کی گرفت سے ڈرتا رہتا ہے۔ جس میں یہ صفت ہوگی وہ مسلمان ہر وقت اپنے اخلاق اور اعمال کا محاسبہ کرے گا۔ ان لوگوں کی یوں تعریف کی گئی ہے۔ (الَّذِینَ ہُمْ فِیْ صَلَاتِہِمْ خَاشِعُوْنَ )[ المومنون : ٢] ” مومن اپنی نماز میں خشیت اختیار کرتے ہیں۔“ 7 مُتَصَدِّقْ: ” مُتَصَدِّقْ“ حقیقت میں وہ شخص ہوتا ہے جو عسر اور یسر میں اللہ کی راہ میں خرچ کرتا رہتا ہے کیونکہ صحیح معنوں میں مسلمان وہ ہے جو اپنے سے کمزور مسلمان کے ساتھ تعاون کرئے۔ قرآن مجید نے اس بات کو متقین کی ایک صفت کے طور پر ہی نہیں لیا بلکہ اسے ایمان کی مبادیات میں شامل کیا ہے۔ (الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ فِی السَّرَّآءِ وَ الضَّرَّآءِ وَ الْکٰظِمِیْنَ الْغَیْظَ وَ الْعَافِیْنَ عَنِ النَّاسِ وَ اللّٰہُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ) [ آل عمران : ١٣٤] ” متقین عسر، یُسر میں خرچ کرتے ہیں اور غصے کو پی جاتے ہیں اور لوگوں کو معاف کردیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ محسنین سے محبت کرتا ہے۔“ (الَّذِیْنَ یَؤْمِنُوْنَ بالْغَیْبِ وَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ وَ مِمَّا رَزَقْنٰھُمْ یُنْفِقُوْنَ) [ البقرۃ: ٣] ” جو لوگ غیب پر ایمان لاتے‘ نماز قائم کرتے اور جو کچھ ہم نے انہیں دیا اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔“ 8 اَلصَّوْمْ: ” اَلصَّوْم“ کا شرعی معنٰی سحری سے لے کر مغرب تک روزہ رکھنا ہے۔ روزہ اس بات کا بالفعل احساس دلاتا ہے کہ بھوک اور تنگ دستی کی سختیاں غریب کی زندگی پر کیا اثرات مرتب کرتی ہیں۔ روزہ سے آدمی کے گناہ معاف ہونے کے ساتھ دوسرے سے ہمدردی پیدا ہوتی ہے۔ 9 عفت و عصمت کی حفاظت کرنے والے : قرآن مجید میں ایسے احکام نازل ہوئے ہیں۔ اگر مسلمان ان کی پاسداری کریں تو مسلم معاشرہ میں ہر کسی کی عزت وعفت محفوظ رہ سکتی ہے۔ تفصیل میں جانے کی بجائے یہاں صرف دو حوالے پیش کیے جاتے ہیں۔ جس سے ہر شخص اندازہ لگا سکتا ہے کہ اسلام کس طرح لوگوں کی عفت کی حفاظت کرتا ہے۔ ” اے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! مومنوں سے کہہ دیجیے کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کیا کریں یہ ان کے حق میں زیادہ بہتر ہے اللہ تعالیٰ کو ان کے سب کاموں کی خبر ہے۔ اے پیغمبر مومن عورتوں سے بھی کہہ دیں کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کو بچاتے رہیں اور اپنی سج دھج کو ظاہر نہ کیا کریں۔“ (النور : ٣٠، ٣١) ” زنا کے قریب بھی نہ جاؤ کیونکہ یہ برائی اور بہت برا راستہ ہے۔ (بنی اسرائیل : ٣٢) ” سہل بن سعد (رض) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا جو شخص مجھے اپنی زبان اور شرمگاہ کی ضمانت دے میں اسے جنت کی ضمانت دیتا ہوں۔“ [ رواہ البخاری : باب حِفْظِ اللِّسَانِ] 0 اَلذَّاکِرِیْن : ” الذّٰکِرِیْنَ وَّ الذّٰکِرٰتِ“ سے مراد مخصوص لوگ نہیں جو مجالس پڑھنے کے حوالے سے پہچانے جاتے ہیں۔” الذّٰکِرِیْنَ وَّ الذّٰکِرٰ تِ“ سے مراد وہ خوش قسمت اور با نصیب لوگ ہیں جوہر وقت اللہ تعالیٰ کے ذکر میں مصروف رہتے ہیں۔ ذکر کے بارے میں فہم القرآن جلد ١ آیت ١٥٢ میں قدرے تفصیل سے لکھا جا چکا ہے۔ یہاں صرف اتنا عرض کرنا ہے کہ ذکر سے مراد اللہ کا نام، صفات اور ذات کا ذکر کرنا اور اس کے احکام پر عمل پیرا ہونا ہے۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ذکر کے تصور کو اس قدر وسعت سے بیان فرمایا ہے۔ (اِنَّمَا جُعِلَ الطَّوَاف بالْبَیْتِ وَبَیْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَۃِ وَرَمْیُ الْجِمَارِ لِاِقَامَۃِ ذِکْرِ اللّٰہِ) [ رواہ أبو داوٗد : کتاب المناسک‘ باب فی الرمل] ” یقینا! بیت اللہ کا طواف‘ صفا ومروہ کی سعی اور شیاطین کو کنکریاں مارنا ” اللہ“ کا ذکر بلند کرنے کے لیے ہیں۔“ (عَنْ عَاءِشَۃَ قَالَتْ کَان النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَذْکُرُ اللَّہَ عَلَی کُلِّ أَحْیَانِہِ)[ رواہ مسلم : باب ذِکْرِ اللَّہِ تَعَالَی فِیْ حَالِ۔۔] ” حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہر حال میں اللہ کا ذکر کیا کرتے تھے۔“ (عَنْ اَبِیْ مُوْسٰی (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَثَلُ الَّذِیْ ےَذْکُرُ رَبَّہُ وَالَّذِیْ لَا ےَذْکُرُ مَثَلُ الْحَیِّ وَالْمَےِّتِ) [ رواہ البخاری : باب فَضْلِ ذِکْرِ اللَّہِ عَزَّ وَجَلَّ] ” حضرت ابو موسیٰ اشعری (رض) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان بیان کرتے ہیں کہ اپنے ” رب“ کا ذکر کرنے والے کی مثال زندہ اور نہ کرنے والے کی مثال مردہ شخص کی ہے۔“ مسائل ١۔ صالح اعمال کے حوالے سے مرد اور عورت کے درمیان کوئی فرق نہیں۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے صالح مردوں اور عورتوں کے لیے اجر عظیم تیار کر رکھا ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو بخشنے والا اور اجرِعظیم عطا کرنے والا ہے : ١۔ اللہ ہی کے لیے زمین و آسمان کی ملکیت ہے وہ جسے چاہے معاف کرے گا۔ (الفتح : ١٤) ٢۔ اللہ توبہ کرنے والوں کو اپنی رحمت میں داخل کرتا ہے بے شک اللہ معاف کرتا اور رحم فرماتا ہے۔ (التوبۃ: ٩٩) ٣۔ کیا تم پسند کرتے ہو کہ اللہ تمھیں معاف کر دے وہ غفور الرّحیم ہے۔ (النور : ٢٢) ٤۔ جو سچے دل سے تائب ہوجائے ایمان کے ساتھ اعمال صالح کرتا رہے۔ اللہ تعالیٰ اس کی برائیوں کو نیکیوں میں بدل دے گا کیونکہ اللہ معاف کرنے والا رحم فرمانے والا ہے۔ (الفرقان : ٧٠) ٥۔ جو توبہ کرے اور اصلاح کرے تیرا رب بڑا غفور الرحیم ہے۔ (النحل : ١١٩) ٦۔ اللہ جلد پکڑنے والا اور غفور الرحیم ہے۔ (الانعام : ١٦٥) ٧۔ گناہ گار کو اللہ کی رحمت سے مایوس نہیں ہونا چاہیے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ معاف کرنے والا، رحم کرنے والا ہے۔ (الزمر : ٥٣) ٨۔ ہم ان کو ان کے اعمال سے بہتر جزا دیں گے۔ (النحل : ٩٧) ٩۔ اللہ ان کو ان کے اعمال سے بہتر صلہ عطا فرمائے گا۔ ( الزمر : ٣٥) الأحزاب
36 فہم القرآن ربط کلام : اس سے پہلی آیت میں ذکر ہونے والے اوصاف حمیدہ کا تقاضا ہے کہ کوئی شخص اس وقت تک مومن کہلوانے کا حق نہیں رکھتا جب تک وہ اللہ اور اس کے رسول کے فیصلے کو اپنے لیے قطعی اور آخری فیصلہ تسلیم نہ کرلے۔ نبی نے معاشرے میں سماجی اونچ نیچ ختم کرنے کے لیے اپنے متبنّٰی بیٹے زید کے لیے حضرت زینب کا رشتہ اس کے قریبی رشتہ داروں سے طلب کیا زینب (رض) اور ان کے قریبی رشتہ داروں نے اسے ناپسند جانا کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ ہم قریش کے رؤسا ہیں اور زید ایک آزاد کردہ غلام ہے۔ حضرت زینب آپ کی پھوپھی امیمہ بنت عبدالمطلب کی بیٹی تھی انہوں نے نکاح کے پیغام کے ردِعمل میں یہ الفاظ کہے کہ ” اَنَا خَیْرٌ مِنْہُ نَسَبًا“ میں زید سے نسب کے لحاظ سے اعلیٰ ہوں اس بنا پر اس نے نکاح کرنے سے انکار کردیا۔ اس پر یہ فرمان نازل ہوا۔ کہ کسی مومن مرد اور عورت کے لیے یہ جائز نہیں کہ اللہ اور اس کا رسول کسی معاملے میں فیصلہ کریں تو پھر اسے اس معاملے میں فیصلہ کرنے کا اختیار باقی رہے۔ جو بھی اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے گا وہ کھلی گمراہی میں مبتلا ہوگا۔ جونہی یہ آیت کریمہ نازل ہوئی۔ حضرت زینب اور اس کے رشتہ داروں نے اسے سنا تو انہوں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے آکر اپنی آمادگی کا اظہار کردیا۔ اس کے بعد نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت زید کا نکاح حضرت زینب سے کردیا۔ تاہم ان کا آپس میں نباہ نہ ہوسکا۔ جس کا ذکر اگلی آیت میں کیا گیا ہے۔ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کا ازواجی زندگی میں عجب واقعہ : (عَنْ مَعْقِلِ بْنِ یَسَارٍ (رض) أَنَّہٗ زَوَّجَ أُخْتَہٗ رَجُلًا مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ عَلٰی عَھْدِ رَسُوْلِ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَکَانَتْ عِنْدَہٗ مَاکَانَتْ ثُمَّ طَلَّقَھَا تَطْلِیْقَۃًلَمْ یُرَاجِعْھَا حَتَّی انْقَضَّتِ الْعِدَّۃُ فَھَوِیَھَا وَھَوِیَتْہُ ثُمَّ خَطَبَھَا مََعَ الْخُطَّابِ فَقَالَ لَہٗ یَا لُکَعْ أَکْرَمْتُکَ بِھَا وَزَوَّجْتُکَھَا فَطَلَّقْتَھَا وَاللّٰہِ لَاتُرَاجِعُ إِلَیْکَ أَبَدًا آخِرُ مَا عَلَیْکَ قَالَ فَعَلِمَ اللّٰہُ حَاجَتَہٗ إِلَیْھَا وَحَاجَتَھَا إِلٰی بَعْلِھَا فَأَنْزَلَ اللّٰہُ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی (وَإِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَبَلَغْنَ أَجَلَھُنَّ )إِلٰی قَوْلِہٖ (وَأَنْتُمْ لَاتَعْلَمُوْنَ) فَلَمَّا سَمِعَھَا مَعْقِلٌ قَالَ سَمْعًا لِّرَبِّیْ وَطَاعَۃً ثُمَّ دَعَاہُ فَقَالَ أُزَوِّجُکَ وَأُکْرِمُکَ) [ رواہ الترمذی : کتاب التفسیر، باب ومن سورۃ البقرۃ] ” حضرت معقل بن یسار (رض) نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دور میں مسلمانوں میں سے ایک آدمی کے ساتھ اپنی بہن کی شادی کردی وہ اس کے پاس کچھ عرصہ رہی پھر اس کے خاوندنے اسے ایک طلاق دی اور عدت گزر گئی لیکن رجوع نہ کیا۔ پھر میاں بیوی ایک دوسرے کو چاہنے لگے اس آدمی نے نکاح کے لیے آدمی بھیجا تو معقل بن یسار (رض) نے کہا‘ کمینے! میں نے تیری عزت کرتے ہوئے اپنی بہن کے ساتھ شادی کی اور تو نے اسے طلاق دے دی۔ اللہ کی قسم! اب یہ کبھی بھی تیرے پاس نہیں لوٹے گی یہ آخری باری تھی۔ اللہ تعالیٰ نے دونوں میاں بیوی کی خواہش کے پیش نظر آیت نازل فرمائی (وَإِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَآءَ فَبَلَغْنَ أَجَلَھُنَّ) جب معقل بن یسار (رض) نے یہ آیت سنی تو فرمایا کہ میں نے اپنے رب کی بات کو سنا اور مان لیا۔ پھر انہوں نے اس آدمی کو بلایا اور کہا میں تیرا نکاح کرتا ہوں اور تیری عزت بھی کروں گا۔“ مسائل ١۔ اللہ اور اس کے رسول کے حکم کے بعد کسی مومن مرد اور عورت کا اختیار باقی نہیں رہتا۔ ٢۔ اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرنے والا واضح طور پر بھٹک جاتا ہے۔ تفسیر بالقرآن ہرمؤمن اور مؤمنہ پر فرض ہے کہ وہ اللہ اور اس کے رسول کا حکم تسلیم کرے : ١۔ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو۔ (الانفال : ٤٦) ٢۔ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔ (آل عمران : ١٣٢) ٣۔ اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور اپنے اعمال کو برباد نہ کرو۔ (محمد : ٣٣) ٤۔ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور نافرمانی سے بچو۔ (المائدۃ: ٩٢) ٥۔ اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول اور صاحب امر کی اطاعت کرو۔ (النساء : ٥٩ ) الأحزاب
37 فہم القرآن ربط کلام : پہلی آیت میں یہ ارشاد ہوا کہ اللہ اور اس کے رسول کے فیصلے کے بعد کسی مومن کے لیے جائز نہیں کہ وہ اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے۔ اب بتلایا ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کے تابع رہ کر میاں اپنی بیوی کو طلاق دے سکتا ہے۔ جس کی مثال حضرت زینب اور حضرت زید کے حوالے سے پیش کی گئی ہے۔ اس سورۃ مبارکہ کی آیت پانچ کی تشریح میں عرض کیا گیا ہے کہ حضرت زید بن حارثہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے غلام تھے جسے آپ نے آزاد فرما کر اپنا متبنّٰی بنا لیا تھا۔ زید بن حارثہ کا تعلق قبیلہ کلب سے تھا جب آٹھ سال کے ہوئے تو ان کی والدہ انہیں ننھال لے گئی وہاں دشمن قبیلے نے ان کے ننھال پر حملہ کردیا۔ دشمن دوسرے آدمیوں کے ساتھ زید بن حارثہ کو پکڑ کر اپنے ساتھ لے گئے۔ کچھ عرصہ کے بعد انہوں نے طائف کے قریب عکاظ کی منڈی میں اسے فروخت کردیا۔ خریدنے والے حضرت خدیجہ (رض) کے بھتیجے حکیم بن حزام (رض) تھے انہوں نے زید کو اپنی پھوپھی خدیجہ کو دے دیا حضرت خدیجہ (رض) کا نکاح نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ہوا تو انہوں نے زید کو آپ کی خدمت میں پیش کیا اس طرح زید (رض) کے بخت جاگ اٹھے اور زید اس ہستی کے غلام ٹھہرے جس کی غلامی پر آزادی بھی ناز کرتی ہے اور جس کی غلامی پر پوری دنیا بھی قربان کر دینی چاہیے۔ زید (رض) کی عمر تقریباً پندرہ سال کی ہوچکی تھی جب اس کے والد اور چچا کو معلوم ہوا کہ ہمارا بچہ مکہ میں ہے۔ وہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے اس وقت تک آپ ختم نبوت کے تاج سے سرفراز نہیں ہوئے تھے گویا کہ آپ محمد بن عبداللہ کے نام سے پہچانے جاتے تھے۔ زید کے والد اور چچا نے آپ سے پورا ماجرہ عرض کیا اور نہایت عاجزی سے درخواست کی کہ اسکی والدہ اس کی جدائی میں نڈھال ہوچکی ہے آپ ہم سے جو قیمت لینا چاہتے ہیں وصول کرلیں اور ہمارا بچہ ہمارے حوالے کردیں۔ آپ نے فرمایا کہ زید کو بلا کر پوچھتا ہوں اگر وہ آپ کے ساتھ جانا چاہتا ہے تو میں آپ سے اس کے عوض ایک دمڑی بھی لینے کے لیے تیار نہیں ہوں۔ زید کو بلایا اور اس سے پوچھا کہ زید ان بزرگوں کو جانتے ہو ؟ زید نے عرض کی کہ ہاں یہ میرے والد ہیں اور یہ میرے چچا ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ زید یہ تجھے اپنے ساتھ لے جانا چاہتے ہیں اگر تم جانا چاہتے ہو تو میں تجھے خوشی سے اجازت دیتا ہوں۔ زید نے ایک مرتبہ اپنے باپ اور چچا کو دیکھا اور پھر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے چہرہ مبارک پر نظر ڈالی اور عرض کی کہ آقا میں آپ کا دامن چھوڑ کر کہیں نہیں جانا چاہتا۔ نہ معلوم زید کے والد اور چچا نے کس کس انداز میں ان کو سمجھایاہو گا جس کا اندازہ کرنا ہمارے لیے مشکل ہے۔ زید کی وفا شعاری اور فدا کاری کی وجہ سے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حرم مکہ میں جا کر زید کی نہ صرف آزادی کا اعلان کیا بلکہ قریش کے معززین کے سامنے یہ بھی اعلان فرمایا کہ گواہ رہنا زید میرا بیٹا ہے۔ اس کے بعد حضرت زید کو زید بن محمد کے نام سے بلایا جاتا تھا۔ یہ واقعہ نبوت سے تقریباً پندرہ سال پہلے کا ہے جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نبوت سے سرفراز فرمایا گیا تو اس وقت حضرت زید (رض) کی عمر تیس سال تھی۔ نبوت کی تصدیق کرنے والوں میں زید (رض) کا چوتھا نام ہے۔ پہلی حضرت خدیجہ (رض) دوسرے حضرت ابو بکر (رض) تیسرے حضرت علی (رض) ہیں۔ معاشرے میں اونچ نیچ ختم کرنے کے لیے نبوت کے چوتھے سال نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی پھوپھی زاد بہن زینب (رض) کا نکاح حضرت زید (رض) سے کردیا حق مہر بھی اپنی طرف سے ادا فرمایا اور کچھ گھریلو سامان بھی دیا۔ حضرت زینب (رض) اور جناب زید (رض) کے درمیان وہ ہم آہنگی اور یگانگت پیدا نہ ہوسکی جو ازواجی زندگی کا جزوِلازم ہے چناچہ حضرت زید (رض) نے زینب (رض) کو طلاق دے دی جس کے بارے میں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اشارہ ہوچکا تھا کہ جب زید (رض) حضرت زینب (رض) کو طلاق دے دے اور زینب (رض) اپنی عدت پوری کرلے تو آپ نے اس سے نکاح کرنا ہوگا۔ جس کے بارے ا رشاد ہوا کہ ہم نے اس سے آپ کا نکاح کردیا تاکہ منہ بولے بیٹوں کی بیویوں کے بارے میں کوئی قدغن نہ رہے۔ وضاحت کرنے کا مقصد یہ ہے کہ نہ تمہارے منہ بولے لڑکے تمہارے حقیقی بیٹے بن سکتے ہیں اور نہ ہی ان کی بیویاں تمہاری بہو ہو سکتی ہیں۔ حضرت زینب (رض) سے نکاح کرنے سے پہلے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس بات سے خوف زدہ تھے کہ اگر میں نے زینب (رض) سے نکاح کرلیا تو منافق اور یہود و نصارٰی طوفان بد تمیزی برپا کردیں گے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی بہو کو اپنے نکاح میں لے لیا ہے۔ اس کے متعلق ارشاد ہوا کہ آپ کو حق بات پر عمل کرنے میں صرف اللہ تعالیٰ سے ڈرنا چاہیے کیونکہ وہی حقدار ہے کہ بندہ اسی سے ڈرتا رہے۔ جہاں تک حضرت زید (رض) پر اللہ تعالیٰ کے انعام کا تعلق ہے اس سے بڑا انعام کیا ہوسکتا ہے کہ جو غلام در بدر کی ٹھوکریں کھاتا پھرتا تھا اللہ تعالیٰ نے اسے اپنے فضل خاص سے سرور دو عالم کی چوکھٹ پر خادم ہونے کا شرف بخشا اور نبی کے خاندان کا داماد بنایا۔ مسائل ١۔ اچھے خاندان سے ازواجی تعلق قائم ہونا اللہ تعالیٰ کا خاص انعام ہوتا ہے۔ ٢۔ حق کے بارے میں آدمی کو لوگوں سے ڈرنے کی بجائے اللہ تعالیٰ سے ہی ڈرنا چاہیے۔ ٣۔ متبنّٰی کی بہو سے نکاح کرنا جائز ہے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ کا ہر حکم عمل کرنے کے لیے ہوتا ہے۔ تفسیر بالقرآن آدمی کو صرف ” اللہ تعالیٰ“ سے ڈرنا چاہیے : ١۔ اے عقل مندو اللہ سے ڈر جاؤ۔ (الطلاق : ١٠) ٢۔ اللہ سے ڈر جاؤ اے عقل مند و تاکہ تم فلاح پاؤ۔ (المائدۃ: ١٠٠) ٣۔ اے ایمان والو اللہ سے ڈرو اور صاف گوئی اختیار کرو۔ (الاحزاب : ٧٠) ٤۔ اے لوگو اس اللہ سے ڈرو جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا فرمایا۔ (النساء : ١) ٥۔ مومن آپس میں بھائی بھائی ہیں ان میں صلح کروادو اور اللہ سے ڈرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔ (الحجرات : ١٠) ٧۔ اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو جس طرح ڈرنے کا حق ہے۔ (آل عمران : ١٠٢) ٨۔ اللہ سے ڈرو اور اطاعت کرو۔ (التغابن : ١٦) الأحزاب
38 فہم القرآن ربط کلام : پہلے فرمان کا تتمہّ۔ اللہ تعالیٰ کا ہر حکم تعمیل کے لیے ہوتا ہے جس بنا پر سب سے پہلے اس پر نبی عمل کرتا ہے لہٰذا کسی نبی کی یہ شان نہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کے کسی حکم پر عمل کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس کرے۔ اللہ تعالیٰ کا پہلے انبیاء کے بارے میں بھی یہی طر یقہ رہا ہے۔ اس کا حکم قطعی ہوا کرتا ہے یعنی اس میں کسی قسم کا ابہام نہیں ہوتا اور نہ ہی اس میں پس وپیش کی کوئی گنجائش باقی رہتی ہے۔ یہی پیغمبروں کی شان ہے کہ ان پر جو احکام نازل ہوئے انہوں نے لوگوں کی ملامت اور طعن و تشنیع کی پروا کیے بغیر انہیں من و عن اپنی امتوں تک پہنچایا اور اس پر عمل کر کے دکھلایا۔ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ کو بھی اسی طرح کرنا چاہیے۔ یہاں تک لوگوں کی مخالفت کا تعلق ہے آپ اس سے بے پروا ہوجائیں اللہ تعالیٰ آپ کو ہر حال میں کافی ہوگا۔ قرآن مجید کے دوسرے مقام پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یوں مخا طب فرمایا گیا ہے۔ ” اے پیغمبر! جو آپ پر آپ کے پروردگار کی طرف سے اترا ہے لوگوں تک پہنچا دیجیے اور اگر تو نے ایسا نہ کیا تو تو نے اپنے رب کا پیغام نہیں پہنچایا ” اللہ“ ہی تجھے لوگوں کی تکلیف سے محفوظ رکھے گا۔ وہ کافروں کو ہدایت نہیں دیتا۔“ ( المائدہ : آیت ٦٧) حضرت حسن بصری کی والدہ حضرت ام المومنین امّ سلمہ (رض) کی کنیز تھیں۔ اس بدولت حسن بصری نے حضرت ام المومنین امّ سلمہ (رض) کے ہاں پرورش پائی وہ اس آیت کی تصریح میں فرمایا کرتے تھے کہ یہ عہد اللہ تعالیٰ نے بالواسطہ امت محمدیہ کے علماء سے بھی لیا ہے کہ وہ حق کو چھپانے کی بجائے اسے ہر حال میں بیان کرتے رہیں۔ حضرت حسن بصری (رض) کا اپنا کردار یہ تھا کہ وہ حجاج بن یوسف پر سر عام تنقید کرتے۔ ایک دن حجاج نے انہیں بلا کر تلوار لہراتے ہوئے پوچھاکہ آپ میرے بارے میں یہ یہ باتیں کرتے ہیں؟ حضرت حسن بصری نے وہی باتیں حجاج کے رو برو کہتے ہوئے فرمایا کہ ہاں جب تک تم ان جرائم سے باز نہیں آؤ گے میں تمہیں ٹوکتا رہوں گا۔ اس کے بعد انہوں نے مذکورہ آیات کی تلاوت کرتے ہوئے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ہم سے سچ بولنے کا وعدہ لیا ہے جس کی پاسداری کرنا ہمارا فرض ہے۔ (تفسیررازی) مسائل ١۔” اللہ ” کے پیغمبر صرف ” اللہ“ ہی سے ڈرتے ہیں اور لوگوں سے نہیں ڈرتے تھے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے لیے کافی ہوا کرتا ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ ہر حال میں اپنے بندے کے لیے کافی ہے۔ ١۔ جو اللہ پر توکل کرتا ہے اللہ اسے کافی ہوجاتا ہے۔ (الطلاق : ٣) ٢۔ احد کے غازیوں نے کہا ہمارا بھروسہ اللہ پر ہے اور وہی ہمیں کافی ہے۔ (آل عمران : ١٧٣) ٣۔ میرے بندوں پر شیطان کی کوئی دلیل کار گر نہ ہوگی اور تیرا رب تجھے کافی ہے۔ (بنی اسرائیل : ٦٥) ٤۔ اللہ تمہارے دشمنوں کو خوب جانتا ہے، اللہ کافی ہے ولی اور مددگار۔ (النساء : ٤٥) ٥۔ ان سے اعراض کیجیے اور اللہ پر توکل کیجیے اللہ ہی کارساز کافی ہے۔ (النساء : ٨١) ٦۔ اللہ ہی کے لیے آسمان و زمین کی بادشاہت ہے اور اللہ کارساز کافی ہے۔ (النساء : ١٧١) ٧۔ اللہ پر توکل کیجیے، وہی کارساز کافی ہے۔ (الاحزاب : ٣) الأحزاب
39 الأحزاب
40 فہم القرآن ربط کلام : متبنّٰی کے متعلقہ مسائل بیان کرنے اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فرض منصبی کا ذکر کرنے کے بعد اب مردوں سے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا تعلق اور آپ کی رفعت شان اور مقام کا بیان ہوتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ازواج مطہرات مومنوں کی مائیں تھیں۔ ان میں سے حضرت خدیجۃ الکبریٰ کے بطن سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی چاربیٹیاں ہوئیں جن کے اسمائے گرامی زینب، رقیہ، امّ کلثوم، فاطمہ (رح) ہیں اور حضرت خدیجہ (رض) سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے تین بیٹے ہوئے جن کے اسمائے گرامی قاسم، ابراہیم، طیب ہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے تینوں بیٹے اس آیت کریمہ کے نازل ہونے سے پہلے فوت ہوچکے تھے ان کے بعدآپ کے ہاں کوئی بیٹا پیدا نہیں ہوا۔ اس لیے ارشاد ہوا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں آپ ” اللہ“ کے رسول اور خاتم المرسلین ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ ہر بات اور کام کو اچھی طرح جانتا ہے۔1 اللہ تعالیٰ کو معلوم ہے کہ اس نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بیٹوں کو کیوں حیات نہیں رکھا۔ 2 اس میں کوئی شبہ نہیں کہ حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خاتم المرسلین ہیں جو بہت بڑا مقام اور مرتبہ ہے مگر تم نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شوکت و عظمت کو پوری طرح نہیں جانتے۔ اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ اس کے نبی کا کیا مقام ہے۔ 3 جب حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمہارے مردوں میں کسی کے باپ نہیں تو زید کی بیوی آپ کی بہو کیسے بن گئی۔ 4 خاتم المرسلین ہونے کی حیثیت سے آپ کا فرض ہے کہ آپ ہر چیز کی حلّت اور حرمت واضح کریں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پہلے سلسلہ نبوت اس لیے جاری رکھا گیا کہ درج ذیل ضرورتوں میں سے کوئی ایک ضرورت باقی رہتی تھی۔ آپ کی تشریف آوری کے بعد اب کسی بات اور نبی کی ضرورت باقی نہیں رہی۔ اب نبی کی ضرورت کیوں نہیں؟ 1 پہلے نبی کو کلی طور پر جھٹلا دیا جائے تو اس کی تائید کے لیے دوسرے نبی کی ضرورت ہوتی ہے : بے شک کچھ لوگوں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جھٹلا دیا تھا لیکن آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کلمہ پڑھنے والے حضرات مکی دور سے لے کر اب تک رہے ہیں اور قیامت تک رہیں گے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی امت قیامت کے دن تمام امتوں سے زیادہ ہوگی۔ ” حضرت ابو سعید خدری (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا قیامت کے دن اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ اے آدم ! وہ کہیں گے میں حاضر ہوں! میں حاضر ہوں! ہر قسم کی خیر آپ کے ہاتھ میں ہے اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ جہنمیوں کو الگ کرو آدم (علیہ السلام) پوچھیں گے جہنمی کتنے ہیں؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ ایک ہزار میں سے نو سو ننانوے ہیں۔ اس وقت بچے بوڑھے ہوجائیں گے۔ ہر حاملہ کا حمل گر جائے گا اور آپ دیکھیں گے کہ لوگ نشہ میں ہوں گے لیکن حقیقت میں نشہ کی حالت نہ ہوگی‘ بلکہ اللہ تعالیٰ کا عذاب سخت ہوگا صحابہ (رض) نے پوچھا اے اللہ کے رسول! کیا ہزار میں سے ایک شخص ہم میں سے ہوگا؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا خوش ہوجاؤ! اس لیے کہ ایک شخص تم میں سے ہوگا اور ہزار یا جوج ماجوج سے ہوگا۔ پھر آپ نے فرمایا اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، میں امید کرتا ہوں کہ جنتیوں میں چوتھائی تعداد تمہاری ہوگی ہم نے اللہ اکبر کہا پھر آپ نے فرمایا میں امید کرتا ہوں کہ جنتیوں میں تمہاری تعداد تیسرا حصہ ہوگی ہم نے اللہ اکبر کہا پھر آپ نے فرمایا میں امید کرتا ہوں، کہ تم جنت والوں میں نصف ہو گے ہم نے اللہ اکبر کہا آپ نے فرمایا تمہارا تناسب لوگوں میں ایک سیاہ بال کی طرح ہے جو سفید رنگ کے بیل پر ہو یا سفید بال کی مانند جو سیاہ رنگ کے بیل پر ہو۔“ [ رواہ البخاری : باب قصۃ یأجوج ومأجوج] 2 پہلے انبیاء کرام (علیہ السلام) کی شریعتیں نامکمل تھیں۔ آپ کا دین کامل اور اکمل ہے اس لیے آپ کے بعد کسی نبی کی ضرورت نہیں ہے : (اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَ رَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا) [ المائدۃ: ٣] ” آج میں نے تمہارے لیے تمہارے دین کو مکمل کردیا ہے اور میں نے تم پر اپنی نعمت پوری کردی اور اسلام کو دین کے طور پر پسند کرلیا“ 3 پہلے انبیاء کرام (علیہ السلام) کی لائی ہوئی کتب مسخ ہوگئیں، اس لیے کتاب اور نبی کی ضرورت تھی لہٰذا آپ مبعوث کیے گئے۔ تب اللہ تعالیٰ نے ایک کے بعد دوسرا نبی مبعوث فرمایا۔ یہاں تو قرآن مجید اپنی زبر، زیر کے ساتھ محفوظ ہے اور قیامت تک محفوظ رہے گا یہاں تک کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشادات اور ان کے بیان کرنے والے راویوں کے نام اور کوائف بھی محفوظ کر لئے گئے ہیں۔ (اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَ اِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْنَ) [ الحجر : ٩] ” یقیناً ہم نے قرآن نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔“ (وَ اَنْزَلْنَآ اِلَیْکَ الذِّکْرَ لِتُبَیِّنَ للنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَیْھِمْ وَ لَعَلَّھُمْ یَتَفَکَّرُوْنَ) [ النحل : ٤٤] ” اور ہم نے آپ کی طرف نصیحت اتاری، تاکہ آپ لوگوں کے سامنے کھول کر بیان کریں جو کچھ ان کی طرف اتارا گیا ہے اور تاکہ وہ غوروفکر کریں۔“ 4 پہلے انبیاء کرام (علیہ السلام) مخصوص قوم اور زمانے کے لیے مبعوث کیے گئے تھے لیکن آپ کو (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قیامت تک کے لیے تمام انسانوں کے لیے رسول بنایا گیا ہے۔ اس لیے اب کسی نبی کی ضرورت نہیں : (قُلْ یٰٓا أَ یُّھَا النَّاسُ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ اِلَیْکُمْ جَمِیْعَا)[ الاعراف : ١٥٨ ] ” فرما دیں اے لوگو! بے شک میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں۔“ ” حضرت ابوذر (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ مجھے پانچ ایسی چیزیں عطا کی گئی ہیں جو مجھ سے پہلے کسی نبی کو عطا نہیں ہوئیں۔ ١۔ مجھے اللہ تعالیٰ نے ہر کالے اور گورے کے لیے رسول بنایا ہے ٢۔ میرے لیے ساری زمین مسجد بنادی گئی ہے۔ ٣۔ میرے لیے مال غنیمت حلال کیا گیا ہے جبکہ مجھ سے پہلے کسی رسول کے لیے حلال نہیں تھا۔ ٤۔ ایک مہینہ کی مسافت پر ہونے کے باوجود دشمن مجھ سے لرزاں رہتا ہے۔ ٥۔ مجھے قیامت کے دن سب سے پہلے شفاعت کا حق دیا جائے گا۔“ [ رواہ احمد : مسند ابی ذر ] مسائل ١۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مردوں میں کسی کے باپ نہیں۔ ٢۔ حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خاتم المرسلین ہیں۔ ٣۔ آپ کے بعد قیامت تک کوئی نبی نہیں آئے گا۔ تفسیر بالقرآن آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عالمگیر نبوت کے چند دلائل : ١۔ اے رسول اعلان فرمائیں کہ ” اللہ“ نے مجھے تمام لوگوں کے لیے رسول منتخب فرمایا ہے۔ (الاعراف : ١٥٨) ٢۔ رسول اللہ پوری دنیا کے رسول ہیں۔ (سباء : ٢٨) ٣۔ رسول اللہ مبشر اور نذیر ہیں۔ (الاحزاب : ٤٥) ٤۔ رسول اللہ پوری دنیا کے لیے رحمت عالم ہیں۔ (الانبیاء : ١٠٧) ٥۔ رسول اللہ خاتم النبیین ہیں۔ (الاحزاب : ٤٠) ٦۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نبوت اور حکمت عنایت فرمائی۔ ( الجمعہ : ٢) ٧۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت مومنوں پر اللہ تعالیٰ کا احسان عظیم ہے۔ (آل عمران : ١٦٤) الأحزاب
41 فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ نے امّتِ محمدیہ کو یہ اعزاز بخشا ہے کہ اس کو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جیسا عظیم الشّان، عدیم المرتبت رحمت عالم اور ختم المرسلین نبی عطا فرمایا جس پر امت کو اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہیے۔ شکر کا تقاضا ہے ہر وقت اللہ تعالیٰ کو یاد کیا جائے۔ ذکر ایسی عبادت ہے جس کے بارے میں حکم ہوا ہے کہ اسے کثرت کے ساتھ کیا کرو۔ یہاں ذکر کے دو مخصوص اوقات کی نشاندہی کی گئی ہے کہ صبح اور شام اللہ تعالیٰ کا ذکر کیا کرو۔ کیونکہ صبح و شام سے ہی انسان کی زندگی بنتی ہے۔ ہر انسان ہر صبح اپنی زندگی کا آغاز کرتا ہے اور شام کو اس کی دن بھر کی سرگرمیوں کا اختتام ہوتا ہے اس لحاظ سے دونوں اوقات بڑے اہم ہیں۔ ان اوقات میں ” اللہ“ کے ذکر کی خاص اہمیت اور فضیلت ہے۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صبح و شام خاص طور پر اذکار کیا کرتے تھے۔ حدیث کی مقدس دستاویزات میں آپ کے (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اذکار موجود ہیں جن کو یاد کرنا اور پڑھنا چاہیے یہاں صرف ذکر کی فضیلت کے بارے میں آپ کے تین ارشادات لکھے جاتے ہیں۔ (أَللّٰھُمَّ أَعِنِّیْ عَلٰی ذِکْرِکَ وَشُکْرِکَ وَحُسْنِ عِبَادَتِکَ) [ رواہ أبوداوٗد : کتاب الصلاۃ] ” الٰہی ! اپنے ذکر، شکر اور بہترین طریقے سے عبادت کرنے پر میری مدد فرما۔“ اللہ تعالیٰ کے ذکر کی فضیلت : (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَال اللّٰہُ تَعَالٰی أَنَا مَعَ عَبْدِیْ حَیْثُمَا ذَکَرَنِیْ وَتَحَرَّکَتْ بِیْ شَفَتَاہُ) [ رواہ البخاری : کتاب التوحید، باب قول اللہ تعالیٰ لاتحرک بہ لسانک الخ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں میں اپنے بندے کے ساتھ ہوتاہوں‘ وہ جہاں بھی میرا ذکر کرے اور اس کے ہونٹ میرے ذکر میں حرکت کریں۔“ (عَنْ اَبِیْ مُوْسٰی (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَثَلُ الَّذِیْ ےَذْکُرُ رَبَّہُ وَالَّذِیْ لَا ےَذْکُرُ مَثَلُ الْحَیِّ وَالْمَےِّتِ)[ رواہ البخاری : باب فَضْلِ ذِکْرِ اللَّہِ عَزَّ وَجَلَّ] ” حضرت ابو موسیٰ اشعری (رض) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان بیان کرتے ہیں کہ اپنے پروردگار کا ذکر کرنے والے کی مثال زندہ شخص کی ہے اور نہ ذکر کرنے والے کی مثال مردہ کی ہے۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ کا ذکر کثرت کے ساتھ کرنا چاہیے۔ ٢۔ اللہ کا ذکربالخصوص صبح و شام کرنا لازم ہے۔ الأحزاب
42 الأحزاب
43 فہم القرآن ربط کلام : ” اللہ“ کا ذکر لازم ہے اور اس کے بے شمارفوائد ہیں جن میں سے چھ کا یہاں ذکر کیا گیا ہے۔ ذکر کرنے والے پر اللہ تعالیٰ کی رحمت کا نزول : (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ َ أَنَّ رَسُول اللَّہِ قَالَ إِنَّ لِلَّہِ عَزَّ وَجَلَّ مَلاَءِکَۃً فُضُلاً یَتَّبِعُونَ مَجَالِسَ الذِّکْرِ یَجْتَمِعُونَ عِنْدَ الذِّکْرِ فَإِذَا مَرُّوا بِمَجْلِسٍ عَلاَ بَعْضُہُمْ عَلَی بَعْضٍ حَتَّی یَبْلُغُوا الْعَرْشَ فَیَقُول اللَّہُ عَزَّ وَجَلَّ لَہُمْ وَہُوَ أَعْلَمُ مِنْ أَیْنَ جِءْتُمْ فَیَقُولُونَ مِنْ عِنْدِ عَبِیدٍ لَکَ یَسْأَلُونَکَ الْجَنَّۃَ وَیَتَعَوَّذُونَ بِکَ مِنَ النَّارِ وَیَسْتَغْفِرُونَکَ فَیَقُولُ یَسْأَلُونِی جَنَّتِی ہَلْ رَأَوْہَا فَکَیْفَ لَوْ رَأَوْہَا وَیَتَعَوَّذُونَ مِنْ نَارِ جَہَنَّمَ فَکَیْفَ لَوْ رَأَوْہَا فَإِنِّی قَدْ غَفَرْتُ لَہُمْ فَیَقُولُونَ رَبَّنَا إِنَّ فیہِمْ عَبْدَکَ الْخَطَّاءَ فُلاَناً مَرَّ بِہِمْ لِحَاجَۃٍ لَہُ فَجَلَسَ إِلَیْہِمْ فَقَال اللَّہُ عَزَّ وَجَلَّ أُولَءِکَ الْجُلَسَاءُ لاَ یَشْقَی بِہِمْ جَلِیسُہُمْ) [ رواہ مسلم : باب فَضْلِ مَجَالِسِ الذِّکْرِ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : بے شک اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو مقرر کر رکھا ہے جو ذکر کی مجالس کے متلاشی رہتے ہیں جہاں ذکر ہو رہا ہو ملائکہ وہاں جمع ہوجاتے ہیں اور جب ان کا کسی ایسی مجلس کے پاس گذر ہوتا ہے تو فرشتے ایک دوسرے کے اوپر کھڑے ہوجاتے ہیں یہاں تک کہ وہ عرش تک پہنچ جاتے ہیں۔ اللہ عزوجل فرماتے ہیں تم کہاں سے آئے ہو۔ حالانکہ اللہ کو علم ہے کہ وہ کہاں سے آئے ہیں۔ فرشتے عرض کرتے ہیں۔ ” اللہ“ تیرے بندوں کے ہاں سے آئے ہیں، وہ تجھ سے تیری جنت کے طلب گار ہیں اور تیری جہنم سے پناہ مانگتے ہیں اور تجھ سے اپنے گناہوں کی معافی طلب کر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرشتوں سے پوچھتے ہیں وہ مجھ سے جنت مانگ رہے تھے کیا انہوں نے جنت کو دیکھا ہے۔ اگر وہ جنت کو دیکھ لیں تو ان کی کیفیت کیا ہو ؟ اور وہ جہنم سے پناہ مانگ رہے ہیں اگر وہ جہنم کو دیکھ لیں تو ان کی حالت کیا ہو؟ میں نے انہیں معاف کردیا ہے فرشتے عرض کرتے ہیں اے ہمارے پروردگار! ان میں ایک فلاں گناہگار بھی ہے جو اپنی ضرورت کے تحت آیا اور وہاں بیٹھ گیا۔ اللہ عزوجل فرماتا ہے کہ اس مجلس میں بیٹھنے والے ایسے نیک بخت ہیں کہ ان کی وجہ سے اسے بھی رحمت سے محروم نہیں کیا جاتا۔“ ملائکہ کی دعائیں : جب کوئی شخص اپنے رب کا ذکر کرتا ہے تو نہ صرف اس پر رب کریم کی رحمتوں کا نزول ہوتا ہے بلکہ اس دورانیہ میں ملائکہ اسکے لیے دعا گو رہتے ہیں۔ ذکر کرنے والے پر اللہ تعالیٰ کا فضل ہوتا ہے اور ملائکہ اس کے لیے خیر و برکت کی دعائیں کرتے ہیں ذکر کرنے سے انسان شیطان کے تسلط سے نجات پاتا ہے جس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ اسے ہر ظلمت سے نکال کر نورِبصیرت اور نورِشریعت سے ہمکنار کرتا ہے۔ ” عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا، شیطان انسان کے دل کے ساتھ چمٹا رہتا ہے جب آدمی اللہ کا ذکر کرتا ہے تو شیطان اس سے دور ہوجاتا ہے۔ جب انسان اللہ کے ذکر سے غافل ہوتا ہے تو شیطان اس کے دل میں وسوسہ ڈالتا ہے۔“ [ رواہ البخاری : تعلیقاً] ذکر کا صرف یہ معنٰی نہیں کہ انسان زبان سے ” اللہ، اللہ“ کرتا رہے اور عمل کی دنیا میں جو چاہے کرتا پھرے۔ ایسے شخص کو دنیا میں ذکر کرنے کا ضرور کچھ نہ کچھ فائدہ ہوگا لیکن قیامت کے دن اسے کچھ نہیں ملے گا۔ ذکر کا حقیقی مفہوم یہ ہے کہ انسان شرک وبدعت سے اجتناب کرے اور اپنے آپ کو اپنے رب کے تابع کردے۔ ایسے شخص کو دنیا میں ذکر کے فوائد سے سر فراز کیا جاتا ہے اور آخرت میں بھی اس کے لیے رب کریم نے اجر کریم تیار کر رکھا ہے۔ مسائل اس آیت میں بیان ہونے والے ذکر کے چھ فوائد : ١۔ ذکر کرنے والے پر اللہ کا فضل نازل ہوتا ہے۔ ٢۔ ذکر کرنے والے کے لیے ملائکہ دعائیں کرتے ہیں۔ ٣۔ ذکر کرنے والے کو اللہ تعالیٰ ظلمت سے نکال کر نورِہدایت نصیب کرتا ہے۔ ٤۔ موت کے وقت ملائکہ اسے سلام کرتے ہیں۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ ذکر کرنے والے پر اپنی رحمت نازل کرتا ہے۔ ٦۔ ذاکر کے لیے اللہ تعالیٰ نے اجرِعظیم تیار کر رکھا ہے۔ الأحزاب
44 الأحزاب
45 فہم القرآن ربط کلام : نبی آخر الزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لوگوں کو ” اللہ“ کی یاد دلانے اور اس کی توحید کی شہادت دینے کے لیے مبعوث کیے گئے۔ نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس لیے مبعوث فرمایا گیا تاکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لوگوں کو ” اللہ“ کے حکم کے مطابق ” اللہ ” کی طرف بلائیں اور ” اللہ“ کی توحید کی دعوت اور شہادت دیں اور لوگوں کو ” اللہ“ کی یاد کی تلقین کریں۔ جو لوگ اس دعوت کو قبول کریں انہیں دنیا و آخرت میں کامیابی اور اللہ تعالیٰ کے عظیم فضل کی خوشخبری سنائیں۔ جو اس دعوت کا انکار کریں انہیں ان کے برے انجام سے ڈرائیں اور جو لوگ دعوت کے راستے میں رکاوٹ بنیں وہ کافر ہوں یا منافق انہیں انکے حال پر چھوڑ دیں اور اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرتے ہوئے اپنا مشن جاری رکھیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کے مشن کو کامیاب فرمائے گا کیوں کہ اللہ تعالیٰ ہر اعتبار سے اپنے بندے کے لیے کافی ہے۔ یہاں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات اقدس کو سراج منیر قرار دیا گیا ہے۔ یعنی ہدایت کا چمکتا ہوا سورج جس سے کفر و شرک کی تاریکیاں چھٹ گئیں اور نور ہدایت سے فضا منور ہوگئی گویا کہ آپ نور ہدایت تھے نور مجسم نہ تھے۔ اس حقیقت کے باوجود کچھ علماء نے اپنے باطل عقیدہ کی بناء پر نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نورِمجسم لکھا ہے حالانکہ نوع ذات کے اعتبار سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) انسان تھے اور حضرت آدم (علیہ السلام) کی اولاد میں شامل ہیں جو شخص آپ کے پیکر خاکی کو نور مجسم کہتا ہے وہ کفر و شرک کی بات کرتا ہے کیونکہ قرآن مجید نے بار بار آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بشر کہا ہے۔ (قُلْ اِنَّمَآ اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ یُوْحٰٓی اِلَیَّ اَنَّمَآ اِلٰھُکُمْ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ فَمَنْ کَانَ یَرْجُوْا لِقَآءَ رَبِّہٖ فَلْیَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَّ لَا یُشْرِکْ بِعِبَادَۃِ رَبِّہٖٓ اَحَدًا) [ الکہف : ١١٠] ” اے نبی فرمادیں میں تو تمہاری طرح کا ایک انسان ہوں میری طرف وحی کی جاتی ہے کہ تمہارا معبود بس ایک ہی معبود ہے پس جو کوئی اپنے رب کی ملاقات کا امیدوار ہے۔ اسے چاہیے کہ نیک عمل کرے اور عبادت میں اپنے رب کے ساتھ کسی اور کو شریک نہ کرے۔“ شاہد : کچھ مفسرین نے اس جہالت کا مظاہرہ کیا ہے کہ انسان جو بھی عمل کرتا ہے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کے عمل پر گواہ ہوتے ہیں اور قیامت کے دن لوگوں کے ہر عمل پر شہادت دیں گے۔ حالانکہ عقل و نقل کے لحاظ سے یہ بات سو فیصد غلط ہے یہ ایسا عقیدہ اور بات ہے کہ جس کا کوئی صحابی (رض) بھی قائل نہ تھا۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو توحید کی شہادت اور حق کی گواہی دینے والا بنا کر مبعوث فرمایا ہے۔ ٢۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مومنوں کو خوشخبری دینے والے اور کفار اور منافقوں کو انتباہ کرنے والے تھے۔ ٣۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نور مجسم نہیں بلکہ نورِہدایت تھے۔ ٤۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لوگوں کو اللہ کے حکم سے اللہ کی طرف بلانے والے تھے۔ ٥۔ کفار اور منافقوں کی مخالفت کو خاطر میں نہیں لانا چاہیے۔ ٦۔ اللہ تعالیٰ مومنوں کو اپنے فضل عظیم کی بشارت دیتا ہے۔ تفسیر بالقرآن نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عظمت و شان : ١۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شان میں گستاخی کرنے والے کافر ہیں ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔ (البقرۃ: ١٠٤) ٢۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو شاہد، مبشر اور نذیر بنا کر بھیجا ہے۔ (الفتح : ٨) ٣۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا منصب لوگوں پر شہادت قائم کرنا ہے۔ (المزمل : ١٥) ٤۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور دوسرے انبیاء ( علیہ السلام) اپنی اپنی امت کے بارے میں گواہی دیں گے۔ (النساء : ٤١) ٥۔ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) شاہد اور مبشر بنا کر بھیجے گئے ہیں۔ (الاحزاب : ٤٥) الأحزاب
46 الأحزاب
47 الأحزاب
48 الأحزاب
49 فہم القرآن ربط کلام : اس سے پہلے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو اس لیے مبعوث فرمایا ہے کہ آپ لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف بلائیں۔ اب لوگوں پر لازم ہے کہ وہ کفار اور مشرکین کی بات ماننے کی بجائے اللہ اور اس کے رسول کی بات مانیں جس ایک کا تقاضا یہ ہے کہ اگر تم اپنی بیویوں کو چھوئے بغیر طلاق دے دو تو پھر بھی انہیں رخصت کرتے ہوئے ان کے ساتھ بہترین سلوک کرو۔ گویا کہ گھریلو معاملات میں بھی نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا حکم ماننا چاہیے۔ ارشادہوا کہ اے صاحب ایمان لوگو! تم مومن عورتوں سے نکاح کرو۔ اگر انہیں چھونے سے پہلے طلاق کی نوبت پیش آجائے تو تمہاری بیویوں پر عدّت گذارنے کی کوئی پابندی نہیں۔ طلاق کے بعد جب چاہیں آگے نکاح کرسکتی ہیں۔ البتہ خاوندوں پر لازم ہے کہ جب انہیں رخصت کریں توبہتر سے بہتر طریقے سے رخصت کیا کریں۔ بہتر طریقے سے رخصت کرنے کا مطلب یہ ہے کہ رخصت کرتے وقت اپنی استعداد کے مطابق کچھ نہ کچھ انہیں ضرور دینا چاہیے تاکہ ان کی دلجوئی ہونے کے ساتھ جس اعتماد اور تعلق کی بناء پر یہ رشتہ قائم ہوا تھا اسے کم سے کم نقصان پہنچے۔ یہاں ” مَسَّ“ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے جس سے مراد بیوی سے خلوت کرنا ہے۔ خاوند اپنی منکوحہ سے جماع کرلے تو طلاق دینے کی صورت میں پورے کا پورا حق مہرادا کرنا ہوگا اور اگر مباشرت یعنی جماع نہیں کیا تو آدھا حق مہر ادا کرنا ہوگا بشرطیکہ حق مہر مقرر ہوچکا ہو۔ یعنی واضح ہونا چاہیے کہ کتنا ادا کرنا ہے۔ جماع سے پہلے طلاق دی جائے توحق مہر نہ مقرر ہونے کی صورت میں کچھ نہ کچھ دے کر بیوی کو رخصت کرنا چاہیے۔ اچھے طریقے سے رخصت کرنے کا یہ بھی معنٰی ہے کہ بیوی کی عیب جوئی نہیں ہونی چاہیے۔ اگر مباشرت سے پہلے خاوند فوت ہوجائے تو عورت پر کوئی عدت نہ ہوگی۔ (عَنْ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ سَعْدٍ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا سَعِیدٍ الْخُدْرِیَّ یَقُولُ قَالَ رَسُول اللَّہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) إِنَّ مِنْ أَشَرِّ النَّاسِ عِنْدَ اللَّہِ مَنْزِلَۃً یَوْمَ الْقِیَامَۃِ الرَّجُلَ یُفْضِی إِلَی امْرَأَتِہِ وَتُفْضِی إِلَیْہِ ثُمَّ یَنْشُرُ سِرَّہَا )[ رواہ مسلم : باب تَحْرِیمِ إِفْشَاءِ سِرِّ الْمَرْأَۃِ] ” عبدالرحمن بن سعد (رض) سے روایت وہ کہتے ہیں کہ میں نے ابو سعید خدری (رض) کو فرماتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا قیامت کے دن اللہ کے نزدیک لوگوں میں سب سے بد ترین وہ شخص ہوگا جو اپنی بیوی کی مخصوص باتیں لوگوں کے سامنے بیان کرتا ہے۔“ مسائل ١۔ نکاح کے لیے مسلمان عورت کو ترجیح دینا چاہیے۔ ٢۔ جماع سے پہلے طلاق کی صورت میں عورت کے لیے عدّت نہیں۔ ایسی صورت میں رجوع نہیں ہوسکتا البتہ عقد ثانی ہوسکتا ہے۔ ٣۔ حق مہر مقرر نہ ہونے کی صورت میں بیوی کو رخصت کرتے وقت کچھ نہ کچھ دینا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ معاف فرمانے اور رحم کرنے والا ہے : ١۔ اے نبی! میرے بندوں کو بتاؤ کہ میں بخشنے اور رحم کرنے والا ہوں اور میرا عذاب بھی دردناک ہے۔ (الحجر : ٤٩ تا ٥٠) ٢۔ ” اللہ“ توبہ کرنے والوں کو اپنی رحمت میں داخل کرتا ہے بے شک اللہ معاف کرتا اور رحم فرماتا ہے۔ (التوبۃ: ٩٩) ٣۔ ” اللہ“ توبہ کرنے والوں کو معاف کرنے اور رحم کرنے والا ہے۔ (التوبۃ: ٢٧) ٤۔ جو سچے دل سے تائب ہوجائے ایمان کے ساتھ اعمال صالح کرتا رہے۔ اللہ تعالیٰ اس کی برائیوں کو نیکیوں میں بدل دے گا کیونکہ اللہ معاف کرنے والا رحم فرمانے والا ہے۔ (الفرقان : ٧٠) ٥۔ گناہ گار کو اللہ کی رحمت سے مایوس نہیں ہونا چاہیے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ معاف کرنے والا ہے۔ (الزمر : ٥٣) ٦۔ جو توبہ کرے اور اصلاح کرے تیرا رب بڑا غفور الرّحیم ہے۔ (النحل : ١١٩) ٧۔ ” اللہ“ جلد پکڑنے والا اور غفور الرّحیم ہے۔ (الانعام : ١٦٥) ٨۔ کیا تم پسند کرتے ہو کہ اللہ تعالیٰ تمہیں معاف کر دے کیونکہ وہ غفور الرّحیم ہے۔ (النور : ٢٢) الأحزاب
50 فہم القرآن ربط کلام : جس طرح مومنوں کو حکم ہے کہ وہ اللہ اور اس کے رسول کی تابعداری کرتے ہوئے اپنی بیویوں کے ساتھ اچھا سلوک کریں۔ اسی طرح سرور دوعالم کے لیے بھی ضروری ہے کہ آپ بھی اپنی بیویوں کے حقوق کا خیال رکھیں۔ تاہم آپ کو اپنی بیویوں کے بارے میں کچھ رعایت دی گئی ہے تاکہ فریضہ نبوت کی ادائیگی میں گھریلو حالات رکاوٹ نہ بن سکیں۔ 1 مسئلہ کی اہمیت کے پیش نظر اس آیت میں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات کو مخاطب کرتے ہوئے ازواجی مسائل ذکر کیے گئے ہیں۔ جس میں ازواجی زندگی میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے امتیازات کا ذکر کیا گیا ہے۔ اس آیت میں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حق مہر کی پابندی سے مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے اس لیے پہلے وضاحت فرمادی کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے وہ عورتیں بھی حلال ہیں جن کا آپ حق مہرادا کردیں اور آپ کے لیے مال غنیمت میں آنے والی لونڈیاں بھی حلال ہیں۔ حضرت زینب (رض) نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پھوپھی زاد بہن تھیں جن کو حضرت زید (رض) نے طلاق دی۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے وحی آنے پر ان کے ساتھ نکاح کیا لیکن رسومات کے پجاریوں نے اسے پراپیگنڈہ کا ذریعہ بنا کر آپ کے خلاف ہرزہ سرائی کی۔ حالانکہ آپ نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے حضرت زینب (رض) کو اپنے حرم میں داخل فرمایا تھا جس کا ذکر اسی سورۃ کی آیت ٣٧ میں ہوچکا ہے اب پھر ضروری سمجھا گیا کہ ایک دفعہ پھر وضاحت کردی جائے جس طرح دوسرے مردوں کے لیے یہ رشتے حلال ہیں اسی طرح نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے بھی یہ رشتے حلال ہیں۔ چنانچہ ارشاد ہوا کہ اے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ کے لیے آپ کی پھوپھیوں کی بیٹیاں اور آپ کی خالاؤں کی بیٹیاں حلال ہیں اور وہ مومن عورت بھی آپ کے لیے حلال ہے جو اپنے آپ کو آپ کے لیے وقف کرتی ہے بشرطیکہ آپ اس سے نکاح کرنے کے لیے تیار ہوں یہ آپ کے لیے خصوصی رعایت ہے کہ آپ حق مہر کے بغیر کسی مومنہ سے نکاح کرسکتے ہیں۔ البتہ کوئی مومن حق مہر مقرر کیے بغیر نکاح نہیں کرسکتا۔ اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ مومنوں پر ان کی بیویوں اور لونڈیوں کے بارے میں کیا چیز فرض قرار دی ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حق مہر سے اس لیے مستثنیٰ قراردیا گیا ہے تاکہ آپ کو کسی قسم کا مالی بوجھ نہ اٹھانا پڑے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے حق مہر کی رخصت کے باوجود آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی تمام بیویوں کا حسب استطاعت حق مہر ادا فرمایا۔ آیت مبارکہ میں حلال رشتوں کی وضاحت کرتے ہوئے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر یہ شرط عائد فرمائی گئی کہ بے شک یہ عورتیں آپ کے لیے حلال قرار دی گئی ہیں لیکن آپ ان عورتوں کے ساتھ نکاح کرسکتے ہیں جنہوں نے اللہ اور اس کے رسول کی خاطر ہجرت کی ہے۔ بے شک انہوں نے آپ کے ساتھ ہجرت کی ہو یا آپ کے بعد۔ اس آیت میں یہ وضاحت بھی کردی گئی ہے کہ چار بیویوں کی پابندی صرف مومنوں کے لیے ہے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس تعداد سے مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے۔ اس کی یہ وجہ نہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جسمانی اور نفسیاتی طور پر چار سے زیادہ بیویوں کی ضرورت تھی۔ سبب یہ ہے کہ آپ کے ذمے جو مشن لگایا گیا تھا اس کا تقاضا تھا کہ آپ کے خاندانی تعلقات وسیع تر ہوں تاکہ دین کی دعوت تھوڑے عرصے میں زیادہ سے زیادہ پھیل سکے چناچہ یہی کچھ ہوا کہ آپ کے ازواجی رشتوں کی بنا پر عرب کے بڑے بڑے قبائل میں دین بڑی سرعت سے پھیل گیا۔ مسائل ١۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر حق مہر کی پابندی نہ تھی۔ ٢۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) چار بیویوں کی پابندی سے مستثنیٰ تھے۔ ٣۔ اس فرمان کے بعد نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس مسلمان عورت سے نکاح نہیں کرسکتے تھے جس نے مدینہ طیّبہ کی طرف ہجرت نہ کی ہو۔ عام مسلمانوں کے لیے یہ پابندی نہ تھی۔ ٤۔ مخصوص حالات میں شریعت کی پابندیوں کے ساتھ لونڈی رکھنا جائز ہے۔ تفسیر بالقرآن قرآن مجید میں بیویوں کے حقوق : ١۔ عورتوں کو ان کا حق مہرخوشی سے ادا کیا جائے۔ (النساء : ٤) ٢۔ بیویوں پر بے جا سختی نہ کی جائے۔ (النساء : ١٩) ٣۔ بیویوں کو تکلیف نہ دی جائے۔ (الطلاق : ٦) ٤۔ حق زوجیت ادا کیا جائے۔ (النساء : ٣) ٥۔ حق مہر واپس نہیں لینا چاہیے۔ (النساء : ٢٠) ٦۔ بچے کی وجہ سے ماں کو تکلیف نہ دی جائے۔ (البقرۃ: ٢٣٣) ٧۔ اگر تمہیں خدشہ ہو کہ تم چار بیویوں کے درمیان عدل نہیں کرسکو گے توایک بیوی یا ایک لونڈی ہی کافی ہے۔ ( النساء : ٣) ٨۔ اگر ایک سے زیادہ بیویاں نکاح میں ہوں تو سب کے ساتھ ایک جیسا سلوک کیا جائے۔ (النساء : ١٢٩) ٩۔ طلاق دینے کے بعد جب مدت پوری ہوجاۓ تو بیوی کو اچھے طریقے سے رخصت کیا جائے یا اچھے انداز سے رکھ لیا جائے۔ (البقرۃ: ٢٣١) الأحزاب
51 فہم القرآن ربط کلام : ازواج مطہرات کے بارے میں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مزید اختیارات۔ نبوت کے فرائض کی انجام دہی کے لیے نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حق مہر اور بعض ازواجی پابندیوں سے آزاد کردیا گیا تاکہ آپ ایک حد تک گھریلو ما حول سے آزاد ہو کر دعوت کا کام جاری رکھ سکیں۔ آپ کو یہ بھی اختیار دیا گیا ہے کہ جس بیوی کو چاہیں اپنے سے الگ رکھیں جس کو چاہیں اپنے ساتھ رکھیں اور جس کو چاہیں الگ رکھنے کے بعد اپنے پاس بلالیں۔ گویا کہ جس بیوی سے جیسا برتاؤ کرنا چاہیں کریں آپ پر کوئی مؤاخذہ نہیں ہوگا۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ بفرض محال اگر کسی بیوی کے ساتھ کوئی کمی، بیشی ہوجاتی ہے تو وہ اسے محسوس نہ کرے۔ اس طرح ہر بیوی اپنے مقام پر مطمئن رہے گی۔ کہ یہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا مجھ پر احسان ہے کہ آپ نے مجھے اپنے جرم میں رکھا ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہر کسی کی حالت سے واقف ہے اور سب کو جاننے کے باوجودحوصلے والا ہے۔ اس رعایت کا یہ بھی مقصد تھا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی بیویوں کی باہمی رقابت سے بے نیاز ہوجائیں۔ اس رعایت کے باوجود نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ازراہ شفقت اپنی ازواج کے لیے باری مقرر کی اور اسکی پابندی فرمائی۔ یہی وجہ ہے کہ جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آخری بیماری میں مبتلا ہوئے تو آپ نے اپنی بیویوں سے اجازت طلب فرمائی کہ مجھے عائشہ (رض) کے گھر میں رہنے کی اجازت ہونی چاہیے۔ تمام ازواج مطہرات نے خوشی سے اجازت دی۔ کیونکہ وہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خوشی کو اپنی خوشی سے مقدم جانتی تھیں اور یہ بات اچھی طرح سمجھتی تھیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ہمیں اپنے حرم میں شامل فرمانا ہم پر ایسا احسان ہے جس کا بدلہ چکاناہم میں سے کسی کے بس کا روگ نہیں۔ یہی وجہ ہے ایلا کے موقع پر جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ازواج مطہرات کو دو باتوں میں سے کسی ایک کو اختیار کرنے کا موقعہ دیا تو تمام ازواج نے بیک زبان عرض کی کہ ہم دنیا کے مال و متاع کے مقابلے میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ رہنے کو ترجیح دیتی ہیں۔ (عَنْ أَنَس (رض) قَالَ آلَی رَسُول اللَّہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مِنْ نِسَاءِہِ، وَکَانَتِ انْفَکَّتْ رِجْلُہُ، فَأَقَامَ فِی مَشْرُبَۃٍ تِسْعًا وَعِشْرِینَ لَیْلَۃً، ثُمَّ نَزَلَ فَقَالُوا یَا رَسُول اللَّہِ آلَیْتَ شَہْرًافَقَالَ إِنَّ الشَّہْرَ یَکُونُ تِسْعًا وَعِشْرِینَ ) [ رواہ البخاری : باب قَوْلِ النَّبِی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) إِذَا رَأَیْتُمُ الْہِلاَلَ فَصُومُوا وَإِذَا رَأَیْتُمُوہُ فَأَفْطِرُوا] ” حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی بیویوں سے ایک ماہ کے لیے ایلاء کیا آپ کے پاؤں کو موچ آئی اور آپ نے بالاخانے میں انتیس راتیں بسرکیں پھر آپ نیچے تشریف لائے۔ صحابہ نے عرض کی کہ اے اللہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ نے تو ایک مہینہ کے لیے ایلاء کیا تھا۔ آپ نے جواب دیا کہ مہینہ انتیس دن کا بھی ہوتا ہے۔“ نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی بیویوں کو اپنے ساتھ رہنے یا الگ ہونے کا کلّی اختیار دیا تو ازواج مطہر ات نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات اقدس کو ترجیح دی۔ کسی ایک بیوی نے بھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے الگ ہونا گوارہ نہ کیا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی اس محبت اور تعلق کو قبول نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حق میں قبول فرمایا اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پابند کردیا کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ نے اپنی بیویوں کے ایثار، اخلاص اور انپے ساتھ پرخلوص تعلق کو جانچ لیا ہے لہٰذا آپ کو اب اختیار نہیں کہ آپ کسی ایک بیوی کو طلاق دے کر اس کی جگہ کوئی اور بیوی لے آئیں بے شک وہ کتنی ہی حسین کیوں نہ ہو۔ البتہ لونڈیاں رکھنے کی آپ کو اجازت ہے۔ ہمیشہ یاد رکھیں کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز کی نگرانی کرنے والا ہے۔ مسائل ١۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنے بیویوں کے بارے میں کلّی اختیار حاصل تھا۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ چیز پر نگران ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ ہر بات کو جاننے والا اور ہر چیز پر نگران ہے : ١۔ جو بھی تم عمل کرتے ہو وہ اللہ کے علم میں ہوتا ہے۔ (یونس : ٦١) ٢۔ اللہ تعالیٰ تمام مخلوقات کو جاننے والا ہے۔ (یٰس : ٧٩) ٣۔ جو لوگ جہالت کی وجہ سے برائی کرتے ہیں، پھر جلدی سے توبہ کرلیتے ہیں اللہ ان کی توبہ قبول کرتا ہے اور اللہ ہر چیز کو جاننے اور حکمت والا ہے۔ (النساء : ١٧) ٤۔ اللہ سے اس کے فضل کا سوال کرو یقیناً اللہ ہر چیز کو جاننے والا ہے۔ (النساء : ٣٢) ٥۔ جو کچھ تم اللہ کے دیے ہوئے میں سے خرچ کرتے ہو اللہ تعالیٰ اس کو جاننے والا ہے۔ (النساء : ٣٩) ٦۔ قیامت کا، بارش کے نازل ہونے کا، اور جو کچھ رحموں میں ہے اور انسان کل کیا کمائے گا اور اسے کہاں موت آئے گی اللہ تعالیٰ کے علم میں ہے۔ (لقمان : ٣٤) ٧۔ اللہ تعالیٰ بحروبر اور ہر گرنے والے پتے کو جانتا ہے۔ (الانعام : ٥٩) ٨۔ فرشتوں نے کہا تو پاک ہے ہمیں تو اتنا ہی علم ہے جتنا تو نے ہمیں سکھلایا ہے اور تو جاننے والا، حکمت والا ہے۔ (البقرۃ: ٣٢) الأحزاب
52 الأحزاب
53 فہم القرآن ربط کلام : ازواجی زندگی کے اصول بتلانے کے ساتھ مسلمانوں کو آداب معاشرت سمجھائے جاتے ہیں یہاں دورِجاہلیت کی ایک اور رسم کے خاتمے کا حکم دیا گیا ہے۔ اس فرمان کے نازل ہونے سے پہلے کچھ مسلمان نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے گھر میں بلا اجازت داخل ہوجاتے اور بن بلائے مہمان بن جایا کرتے تھے۔ حیا کے پیش نظر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) انہیں کچھ نہ کہتے۔ اس پر یہ فرمان نازل ہوا کہ اے صاحب ایمان لوگو! نبی کے گھر میں بلا اجازت داخل نہ ہوا کرو اور نہ ہی بن بلائے مہمان بننے کی کوشش کیا کرو۔ جب تمہیں کھانے کی دعوت دی جائے تو جاؤ اور جب کھانا کھانے سے فارغ ہوجاؤ تو اٹھ جایا کرو۔ خواہ مخواہ باتیں کرتے ہوئے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے گھر میں بیٹھے رہنے سے آپ کو تکلیف ہوتی ہے۔ آپ حیا کی وجہ سے تمہیں اٹھنے کے لیے نہیں کہتے۔ جبکہ اللہ تعالیٰ حق بات بتلانے میں حیا نہیں کرتا۔ جب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اہل خانہ سے کوئی چیز لینا مقصود ہو تو ان سے پردہ میں رہ کر مانگا کرو۔ یہ تمہارے لیے نہایت پاکیزہ طریقہ ہے اور نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اہل خانہ کے لیے بھی بہتر ہے۔ اے مسلمانو! ایسی ہر حرکت سے اجتناب کرو جس سے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تکلیف پہنچنے کا اندیشہ ہو۔ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بیویاں تمہارے لیے محترم ہیں جن کے ساتھ تمہارا کبھی نکاح نہیں ہوسکتا۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ امت کے رشتے کا ذکر کرتے ہوئے اسی سورت کی آیت ٦ میں ارشاد ہوا ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بیویاں تمہاری مائیں ہیں۔ ظاہر بات ہے کہ ماں کے ساتھ کسی صورت میں بھی بیٹا نکاح نہیں کرسکتا ایسا سوچنا بھی اللہ تعالیٰ کے نزدیک بہت بڑا گناہ ہے۔ امّت کے لوگوں کو مزید انتباہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ تم کوئی بات ظاہر کرو یا چھپائے رکھو۔ اللہ تعالیٰ ہر چیزکو جاننے والا ہے۔ اس آیت کریمہ میں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حوالے سے مسلمانوں کو معاشرت کے عظیم اور بہترین آداب سے سکھلائے گئے ہیں۔ اگر مسلمان معاشرہ میں ان آداب کا خیال رکھا جائے تو بہت سی اخلاقی بیماریوں کا از خود قلع قمع ہوسکتا ہے۔ اس حکم کے مطابق غیر محرم عورتوں سے ہر سطح پر ہر قسم کا اختلاط ناجائز ہے۔ افسوس اس کے باوجود آج کے نام ونہاد دانشور سکولوں، کالجز، یونیورسٹیوں اور دفاتر میں مرد وزن کا اختلاط جائز قرار دیتے ہیں حالانکہ اس کے مضمرات نے معاشرے کو اخلاقی طور پر تباہ کے رکھ دیا ہے۔ (عَنْ أَبِی مَسْعُودٍ الأَنْصَارِیِّ قَالَ کَانَ مِنَ الأَنْصَارِ رَجُلٌ یُقَالُ لَہُ أَبُو شُعَیْبٍ، وَکَانَ لَہُ غُلاَمٌ لَحَّامٌ فَقَالَ اصْنَعْ لِی طَعَامًا أَدْعُو رَسُول اللَّہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خَامِسَ خَمْسَۃٍ، فَدَعَا رَسُول اللَّہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خَامِسَ خَمْسَۃٍ، فَتَبِعَہُمْ رَجُلٌ فَقَال النَّبِی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) إِنَّکَ دَعَوْتَنَا خَامِسَ خَمْسَۃٍ وَہَذَا رَجُلٌ قَدْ تَبِعَنَا، فَإِنْ شِءْتَ أَذِنْتَ لَہُ، وَإِنْ شِءْتَ تَرَکْتَہُ قَالَ بَلْ أَذِنْتُ لَہُ )[ رواہ البخاری : باب الرَّجُلِ یَتَکَلَّفُ الطَّعَامَ لإِخْوَانِہِ] ” ابو مسعود انصاری بیان کرتے ہیں ایک انصاری آدمی جس کا نام ابو شعیب تھا اس کا ایک غلام قصاب تھا۔ ابو شعیب نے اپنے غلام کو کہا میرے لیے کھانا تیار کرو تاکہ میں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور پانچ آدمیوں کو دعوت دوں۔ چنانچہ ابو مسعود (رض) نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سمیت پانچ آدمیوں کو دعوت دی۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ ایک اور آدمی چل پڑا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ابو شعیب کو فرمایا کہ آپ نے پانچ آدمیوں کو دعوت پر بلایا ہے لیکن یہ آدمی اپنے طور پر آ گیا ہے اگر تو چاہتا ہے تو اسکو اجازت دے دے اور اگر نہیں چاہتا ہے تو اسے واپس کر دے۔ ابو شعیب نے کہا کہ میں اسے اجازت دیتا ہوں۔“ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ أَبُو الْقَاسِمِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لَوْ أَنَّ امْرَأً اطَّلَعَ عَلَیْکَ بِغَیْرِ إِذْنٍ، فَخَذَفْتَہُ بِعَصَاۃٍ، فَفَقَأْتَ عَیْنَہُ، لَمْ یَکُنْ عَلَیْکَ جُنَاحٌ )[ رواہ البخاری : باب مَنْ أَخَذَ حَقَّہُ أَوِ اقْتَصَّ دُون السُّلْطَانِ ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ ابو القاسم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اگر کوئی بندہ اجازت طلب کیے بغیر کسی کے گھر میں جھانکے اور گھر والا لاٹھی کے ساتھ اس کی آنکھ پھوڑ دے تو لاٹھی مارنے والے پر کوئی گناہ نہیں۔“ مسائل ١۔ کسی کے گھر میں بلا اجازت داخل ہونا گناہ ہے۔ ٢۔ کسی کے ہاں بن بلائے مہمان بن بیٹھنا جائز نہیں۔ ٣۔ دعوت کھانے کے بعد خواہ مخواہ میزبان کے گھر بیٹھے رہنا آداب کے منافی ہے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ حق بیان کرنے سے نہیں شرماتا۔ ٥۔ غیر محرم عورتوں سے اختلاط حرام ہے۔ ٦۔ کسی کے اہل خانہ سے کوئی چیز لینا مطلوب ہو تو پردے میں رہ کر سوال کرنا چاہیے۔ ٧۔ امہات المومنین کے بارے میں ہرزہ سرائی کرنا اور ان کے بارے میں بد کلامی کرنا بہت بڑا گناہ ہے۔ ٨۔ ازواج مطہرات امت کی مائیں تھیں اس لیے ان کے ساتھ نکاح کرنا جائز نہیں تھا۔ تفسیر بالقرآن نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے اہل خانہ کا احترام فرض ہے : ١۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دور سے آواز نہ دی جائے۔ (الحجرات : ٤) ٢۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آواز سے اونچی آواز نہ کی جائے۔ (الحجرات : ٢ ) ٣۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے آگے قدم نہ اٹھایا جائے۔ (الحجرات : ١) ٤۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مکمل اتباع کی جائے۔ (محمد : ٣٣) ٥۔ نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے گھر میں بغیر اجازت کے داخل نہیں ہونا چاہیے۔ (الاحزاب : ٥٣) الأحزاب
54 الأحزاب
55 فہم القرآن ربط کلام : اس سے پہلی آیت میں پردے کا ذکر ہوا۔ اب ان رشتوں کا ذکر کیا جاتا ہے جن سے پردہ کرنے کی ضرورت نہیں۔ پہلی آیت میں ازواج مطہرات کے حوالے سے صحابہ کرام (رض) کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ پردے میں رہ کر ان سے سوال کیا کریں۔ بظاہر یہ حکم امّہات المومنین کے متعلق دکھائی دیتا ہے لیکن حقیقت میں امت کی ماؤں کو مخاطب کر کے پو ری امت کی عورتوں کو پردے کا حکم دیا گیا ہے۔ جس میں یہ وضاحت موجود نہ تھی کہ کون سے مردوں سے پردہ نہیں کرنا چاہیے۔ اب ان رشتوں کی وضاحت کی جاتی ہے جن سے پردہ نہیں کرنا۔ اگر خاوند، باپ اور بھائی کے علاوہ ہر کسی سے پردہ کرنا عورت کے لیے واجب ہوتا تو اس سے عورت ایک طرح کی قیدی بن کر رہ جاتی۔ اسلام نے جائز حد تک عورت کو آزادی عنایت فرمائی ہے۔ اس لیے یہ حکم نازل ہوا کہ عورتوں پر اپنے باپوں اپنے بیٹوں، اپنے بھائیوں، اپنے بھتیجوں، اپنے بھانجوں، اپنی عورتوں اور غلاموں سے کوئی پردہ نہیں۔ عورتوں کو ہر حال میں اللہ سے ڈرنا چاہیے کیونکہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر نگران ہے۔ ” وَلَانِسَآءِہِنَّ“ کے بارے میں اہل علم کے تین مؤقف ہیں۔1 عورت کو عورت سے پردہ کرنے کی ضرورت نہیں۔2 مسلمان عورت کو غیر رشتہ دار عورتوں سے پردہ کرنا چاہیے۔3 مسلمان عورتوں کو ان عورتوں سے بھی پردہ کرنا چاہیے جو معاشرے میں بے حیائی پھیلاتی ہیں تاکہ ان کے ساتھ نفرت کا اظہار کرنے کے ساتھ ان کے شر سے بچا جا سکے۔ (کَتَبَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ (رض) إِلَی أَبِی عُبَیْدَۃَ بْنِ الْجَرَّاحِ أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّہُ بَلَغَنِی أَنَّ نِسَاءً مِنْ نِسَاءِ الْمُسْلِمِینَ یَدْخُلْنَ الْحَمَّامَاتِ وَمَعَہُنَّ نِسَاءُ أَہْلِ الْکِتَابِ فَامْنَعْ ذَلِکَ۔۔)[ رواہ البیھقی : باب مَا جَاءَ فِی إِبْدَاءِ الْمُسْلِمَۃِ زینَتَہَا لِنِسَاءِہَا دُونَ الْکَافِرَاتِ قَال اللَّہُ جَلَّ ثَنَاؤُہُ (أَوْ نِسَاءِہِنَّ)] ” حضرت عمر بن خطاب (رض) نے ابو عبیدہ بن جراح (رض) کو ایک خط میں یہ بات لکھی کہ مجھے پتہ چلا ہے کہ مسلمان عورتیں اہل کتاب کی عورتوں کے ساتھ حمام میں اکٹھی غسل کرتی ہیں لہٰذا میں اس سے منع کرتا ہوں۔“ پردہ کی اہمیت : (عَنْ عَبْدِ اللَّہِ عَنِ النَّبِی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ الْمَرْأَۃُ عَوْرَۃٌ فَإِذَا خَرَجَتِ اسْتَشْرَفَہَا الشَّیْطَانُ)[ رواہ الترمذی : باب مَا جَاءَ فِی کَرَاہِیَۃِ الدُّخُولِ عَلَی الْمُغِیبَاتِ] ” جناب عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب کوئی عورت بے پردہ باہر نکلتی ہے تو شیطان صفت لوگ اس کو اپنی نظروں کا نشانہ بناتے ہیں۔“ ” حضرت ابوہریرہ (رض) ہی بیان کرتے ہیں کہ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا‘ دوگروہ ایسے ہیں جنہیں میں نے ابھی تک نہیں دیکھا ہے (١) ایک گروہ وہ جن کے ہاتھوں میں بیل کی دموں کی مانند کوڑے ہوں گے اور وہ ان کوڑوں کے ساتھ بلاجواز لوگوں کو ماریں گے۔ (٢) اور دوسراگروہ ان عورتوں کا ہے جنہوں نے بظاہر لباس پہنا ہوا ہوگا۔ لیکن حقیقت میں ان کے بدن ننگے ہوں گے۔ وہ لوگوں کو اپنی طرف مائل کرنے والی اور مٹک مٹک کر چلنے والی ہوں گی۔ ان کے سر لمبی گردنوں والے اونٹوں کی کوہانوں کی طرح اٹھے ہوئے ہوں گے وہ جنت میں داخل نہ ہوں گی۔ بلکہ جنت کی خوشبو کو بھی نہ پاسکیں گی۔ جبکہ جنت کی خوشبو اتنے اور اتنے فاصلے سے محسوس کی جائے گی۔“ [ رواہ مسلم : باب النَّارُ یَدْخُلُہَا الْجَبَّارُونَ وَالْجَنَّۃُ یَدْخُلُہَا الضُّعَفَاءُ ] مسائل ١۔ باپ، بیٹے، بھائی، بھتیجے، اور بھانجے سے پردہ نہیں۔ ٢۔ جس طرح نسبی رشتوں سے پردہ کرنے کی ضرورت نہیں اسی طرح رضاعی رشتوں سے بھی پردہ نہ کرنے کی اجازت ہے۔ جیسا کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان ہے :” یَحْرُمُ مِنَ الرَّضَاعَۃِ مَایَحْرُمُ مِنَ النَّسَبِ“ (رواہ البخاری : باب مَا یَحِلُّ مِنَ الدُّخُولِ وَالنَّظَرِ۔۔” رضاعت سے وہ رشتے حرام ہوجاتے ہیں جو نسب کے لحاظ سے حرام ہیں۔ الأحزاب
56 فہم القرآن ربط کلام : آیت ٥٤ میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ذات اور ازواج مطہرات کے حوالے سے ایذاء پہچانے سے منع کیا گیا ہے یہاں بین السطور یہ بات سمجھائی گئی ہے کہ نبی کی ذات اقدس کو کسی اعتبار سے معمولی نہ سمجھو، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات اس قدر اعلیٰ مقام کی حامل اور واجب الاحترام ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے بھی آپ پر درود بھیجتے ہیں اس لیے نبی کو تکلیف پہنچانے سے اجتناب کرنے کے ساتھ تم اس کے لیے درود پڑھا کرو۔ سرورِ دو عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مخالفین آپ کو ہر وقت آپ کی اذّیت پہنچانے کے درپے رہتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کے مراتب کو بلند کرنے اور آپ کے مخالفین کو رسوا کرنے کے لیے آپ کو ایسا اعزاز بخشا جو کسی نبی بھی کو عطا نہیں کیا گیا۔ وہ یہ کہ ربِّ کریم اور ملائکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر درود بھیجتے ہیں۔ یہی حکم مومنوں کو دیا گیا ہے کہ وہ بھی اللہ کے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر درود بھیجا کریں۔ یہ اعزاز آپ کو اس وقت عطا کیا گیا جب آپ کی عظمت اور دین کی سر بلندی دیکھ کر منافق اور یہود ونصاریٰ ہر قسم کی ہرزہ سرائی کرنے کے ساتھ آپ کے خلاف کئی قسم کی سازشیں کر رہے تھے۔1 اللہ تعالیٰ کا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر درود پڑھنے کا یہ معنٰی ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کی ذات اقدس پر لگاتار اپنی رحمتوں کا نزول فرما رہا ہے۔2 ملائکہ کے درود کا معنٰی یہ ہے کہ وہ ہر وقت اپنے رب کے حضور التجائیں اور دعائیں کرتے ہیں کہ اے ہمارے رب حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات اقدس پر مسلسل اپنی رحمت فرما اور آپ کی دعوت کو کامیاب فرما۔ 3 مومنوں کے درود کا مفہوم یہ ہے کہ وہ اپنے رب سے دعائیں کرتے رہیں کہ بارِ الٰہا نبی کریم کی ذات اقدس پر ہر وقت اپنی رحمتوں کا نزول فرمانے کے ساتھ آپ کی دعوت کو ترقی عطا فرما۔ درود آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے احسانات کا اعتراف، آپ کی قربت و محبت کا وسیلہ، غموں اور پریشانیوں سے نجات کا ذریعہ، گناہوں کی معافی، بلندئ درجات اور روز محشر آپ کی سفارش کا موجب ہے مگر شر ط یہ ہے کہ درود کے الفاظ وہ ہونے چاہییں جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی ذات اقدس کے لیے پسند فرمائے ہیں۔ جامع اور بہترین درود التحیات میں پڑھا جانے والا درود ابراہیم ہے جس پر پوری امت کا اتفاق ہے۔ ایسا درود جس میں الفاظ کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف نہ ہو وہ درود کہلوانے کے حقدار نہیں ہوسکتا۔ آج کل درود ہزاری‘ لکھی اور بے شمار مصنوعی درود تیار کیے گئے ہیں جو نبی محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شان والاصفات کے شایان شان نہیں اور من گھڑت ہیں ان سے پرہیز لازم ہے۔ درود پڑھو! ضرور پڑھو! مگر مسنون پڑھو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے شرف و کمال کی انتہا ہے کہ خالق کائنات نے کسی کام کا اس نسبت کے ساتھ حکم نہیں دیا کہ یہ کام میری ذات عظیم بھی کر رہی ہے، لہٰذا مسلمانوں کو بھی کرنا چاہیے۔ یہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شان و صفات ہے کہ درود پاک کا حکم دیتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے اس عمل کا آغاز اپنی ذات سے فرمایا ہے۔ درود پڑھنے کی فضیلت اور نہ پڑھنے والے کی مذمت : (قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَنْ صَلَّی عَلیَّ وَاْحِدَۃً صَلَّی اللّٰہُ عَلَےْہِ عَشْرًا) [ مسلم : باب الصلوۃ علی النبی] ” رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو مجھ پر ایک مر تبہ دردوبھیجتا ہے اللہ تعالیٰ اس پر دس رحمتیں نازل فرما تا ہے۔“ (عَنْ عَلِیِّ بْنِ أَبِی طَالِبٍ (رض) قَالَ قَالَ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) الْبَخِیلُ الَّذِی مَنْ ذُکِرْتُ عِنْدَہُ فَلَمْ یُصَلِّ عَلَیَّ)[ باب قَوْلِ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رَغِمَ أَنْفُ رَجُلٍ] ” حضرت علی بن ابو طالب (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (رض) نے فرمایا وہ شخص بخیل ہے جس کے سامنے میرا نام لیا جائے لیکن وہ مجھ پر درود نہ پڑھے۔“ صلوٰۃ کا معنی رحمت، دعا اور تعریف و توصیف کرنا ہے اور سلام کا معنی سلامتی ہے مفہوم یہ ہواکہ ہمیشہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا نام اور کام سلامت رہے پھر سلام اللہ تعالیٰ کے اسمائے گرامی میں سے ایک نام ہے جس کا مفہوم یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کی خیرو عافیت اور سلامتی کا اہتمام قیامت تک کردیا گیا ہے۔ درود پاک سے یہ بات نمایاں ہوتی ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مخالف آپ کے کام اور نام کو نیچا نہیں دکھا سکیں گے۔ کیونکہ آپ کا تذکرہ آسمانوں سے اوپر عرش معلی پر خالق کائنات فرما رہے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دنیا اور آخرت میں عزت و عظمت کی ان بلندیوں پر فائز ہوں گے جو کائنات میں کسی کے نصیب اور حصہ میں نہیں آسکتیں۔ (أَلَمْ نَشْرَحْ لَکَ صَدْرَک وَوَضَعْنَا عَنْکَ وِزْرَکَ الَّذِیْ أَنْقَضَ ظَھْرَکَ وَرَفَعْنَا لَکَ ذِکْرَ کَ) [ الانشراح : ١ تا ٤] ” اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! کیا ہم نے تیرا سینہ آپ کے لیے کھول نہیں دیا؟ اور آپ سے وہ بھاری بو جھ نہیں اتاردیا جو آپ کی کمر تو ڑے جا رہا تھا اور آپ کی خاطر آپ کا ذکر کا شہرہ بلند نہیں کردیا۔“ (وَالضُّحٰی۔ وَاللَّےْلِ إِذَا سَجٰی۔ مَا وَدَّعَکَ رَبُّکَ وَمَا قَلٰی۔ وَللَاْٰخِرَۃُ خَےْرٌلَّکَ مِنَ الْأُوْلٰی۔ وَلَسَوْفَ ےُعْطِےْکَ رَبُّکَ فَتَرْضٰی۔ )[ والضحیٰ: ١ تا ٥] ” قسم ہے روز روشن اور رات کی جبکہ وہ سکون کے ساتھ طاری ہوجائے۔ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! تمہارے رب نے تم کو ایک لمحہ کے لیے بھی نہیں چھوڑا اور نہ وہ ناراض ہوا ہے یقیناً آپ کے لیے آنے والا وقت پہلے وقت سے بہتر ہے اور عنقریب آپ کا رب آپ کو اتنا دے گا کہ آپ خو ش ہوجائیں گے۔“ الأحزاب
57 فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ ایک طرف اپنے محبوب پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر درود و سلام بھیجتا ہے اور دوسری جانب ان لوگوں پر پھٹکار کرتا ہے جو نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی گستاخیاں کرتے ہیں۔ اس فرمان میں سب سے پہلے اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کبریاء کے بارے میں فرمایا کہ جو لوگ ” اللہ“ کو تکلیف دیتے ہیں ” اللہ“ ان پر لعنت پھٹکار کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کو ” فِیْ نَفْسِہٖ“ کوئی چیز تکلیف نہیں دے سکتی۔ بالفرض کائنات کی ہر چیز اللہ تعالیٰ کی باغی اور سرکش ہوجائے تو رائی کے دانے سے ہزاروں گنا کم بھی اللہ تعالیٰ کو تکلیف نہیں پہنچا سکتے۔ وہ کا ئنات کی خیر وشر سے کامل اور اکمل طور پربے نیاز اور بے پرواہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کو تکلیف پہنچانے سے مراد اس کے رسول اور مومن بندوں اور بندیوں کو تکلیف پہنچانا ہے۔ گستاخوں کی گستاخی اور بد فطرت لوگوں کی بد فطرتی کو واضح اور ان کے جرم کی سنگینی بتلانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے ان کی اذّیت کو اپنی طرف منسوب فرمایا ہے تاکہ جرم کی سنگینی کا احساس کرتے ہوئے گستاخ لوگ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی گستاخی کرنے سے باز آجائیں۔ جہاں تک نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تکلیف پہنچانے کا تعلق ہے کفار، مشرکین، منافق اور یہود و نصارٰی نے کوئی کسر اٹھا نہ رکھی تھی لیکن اس کے باوجود نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پورے حوصلے کے ساتھ اپنی دعوت کو پھیلاتے رہے تآنکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو دنیا میں وہ کامیابی اور شہرت دوام عنایت فرمائی جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پہلے اور آپ کے بعد قیامت تک کسی کو حاصل نہ ہوگی۔ جس طرح دین اسلام کے مخالفوں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اذیتیں پہنچائیں اسی طرح ہی انہوں نے صحابہ (رض) اور صحابیات (رض) کو ہر قسم کی تکالیف دیں۔ حالانکہ صحابہ اور صحابیات کا کوئی گناہ نہیں تھا جس کی بناء پر دشمن انہیں تکلیف دیتے۔ یہاں تک کہ حضرت عائشہ طاہرہ صدیقہ (رض) کے دامن پاک پر دھبہ لگانے کی کوشش کی لیکن اللہ تعالیٰ نے حضرت عائشہ (رض) کے دامن کو پاک صاف رکھا۔ جن لوگوں نے حضرت عائشہ پر الزام لگایا اور نبی اور صحابہ کرام (رض) اور مومن خواتین و حضرات کو اذیت پہنچائی۔ اللہ تعالیٰ دنیا و آخرت میں ان پر لعنت برساتا ہے اور آخرت میں انہیں ذلیل کردینے والا عذاب دے گا۔ (عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) إنَّّ اللّٰہَ قَالَ مَنْ عَادٰی لِیْ وَلِیًّا فَقَدْ آذَنْتُہٗ بالْحَرْب) [ رواہ البخاری : باب التواضع ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جس نے میرے دوست سے دشمنی کی۔ میں اس سے اعلان جنگ کرتا ہوں۔“ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ إجْتَنِبُوا السَّبْعَ الْمُْوْبِقَاتِ قَالُوْا یَارَسُوْلَ اللّٰہِ وَمَاھُنَّ قَالَ اَلشِّرْکُ باللّٰہِ وَالسِّحْرُ وَقَتْلُ النَّفْسِ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّٰہُ إِلَّا بالْحَقِّ وَأَکْلُ الرِّبَاوَأَکْلُ مَالِ الْیَتِیْمِ وَالتَّوَلِّیْ یَوْمَ الزَّحْفِ وَقَذْفُ الْمُحْصَنَاتِ الْمُؤْمِنَاتِ الْغَافِلَاتِ) [ رواہ البخاری : کتاب الوصایا] ” حضرت ابوہریرہ (رض) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : سات ہلاک کرنے والے گناہوں سے بچ جاؤ صحابہ کرام (رض) نے کہا اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! وہ گناہ کون کون سے ہیں؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرنا، جادو کرنا، ناحق کسی جان کو قتل کرنا، سود کھانا، یتیم کا مال کھانا، میدان جنگ سے پیٹھ پھیر کر بھاگنا اور پاکدامن، مومن، بے خبر عورتوں پر تہمت لگانا۔“ مسائل ١۔ جو لوگ اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی گستاخیاں کرتے ہیں اللہ تعالیٰ ان پر دنیا و آخرت میں لعنت کرتا ہے۔ ٢۔ جو لوگ پاک دامن مومن خواتین و حضرات پر تہمت لگاتے ہیں اللہ تعالیٰ انہیں ذلیل کردینے والا عذاب دے گا۔ الأحزاب
58 الأحزاب
59 فہم القرآن ربط کلام : مومن عورتوں کو اوباش لوگوں کی اذّیت سے بچانے کے لیے پردے کا حکم اور اس کا طریقہ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مکہ کے مشرکین اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے انتہا درجہ کے مخالف تھے۔ اور انہوں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مخالفت میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی تھی لیکن اس کے باوجود وہ خاندانی روایات کا خیال رکھتے ہوئے کسی حد تک اخلاقی اقدار کا احترام کرتے تھے۔ یہ اخلاقی پاسداری کا نتیجہ تھا کہ ہجرت کے موقع پر انہوں نے رات بھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے گھر کا محاصرہ کیے رکھا لیکن دیواریں پھلانگ کر آپ کے گھر داخل نہ ہوئے کہ اس طرح خواتین خانہ کی بے حرمتی ہوگی اور عرب میں ہماری بدنامی ہوگی۔ ان کے مقابلے میں مدینہ کے یہود اور منافقین کی اخلاقی گراوٹ کا یہ حال تھا کہ انہیں جونہی موقعہ ملتاوہ مسلمان عورتوں کو پریشان کرنے کی کوشش کرتے۔ اس صورت حال کے پیش نظر اور مسلمان خواتین کی ناموس کو بچانے کے لیے ہمیشہ کے لیے یہ قانون جاری ہوا کہ اے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! اپنی بیویوں، اپنی بیٹیوں اور مومن خواتین کو حکم دیں کہ جب وہ گھروں سے باہر نکلیں تو اپنے چہروں پر چادریں لٹکا کر گھونگھٹ نکال لیا کریں۔ اس طرح وہ عام عورتوں سے ممتاز ہوں گی اور اوباش آدمی ان پر دست درازی کرنے سے گھبرائے گا۔ اس سے پہلے پردہ کے بارے میں جو کوتاہی سرزد ہوگئی اللہ تعالیٰ اسے معاف کرے گا کیونکہ وہ انتہائی شفقت فرمانیوالا ہے۔ اس کے باوجود منافق اور وہ لوگ جن کے دلوں میں شرارت اور بے حیائی کا روگ ہے اگر وہ تہمت طرازی اور بے حیائی پھیلاتے ہیں تو ہم مسلمانوں کو ان پر مسلط کردیں گے پھر وہ تھوڑی مدت ہی مدینہ میں ٹھہر سکیں گے۔ وہ جہاں بھی ہوں گے ان پر پھٹکار ہوگی اور جہاں پائے جائیں گے قتل کردیئے جائیں گے۔ اللہ تعالیٰ کا ان سے پہلے مجرموں کے ساتھ یہی سلوک اور قانون تھا۔ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ ” اللہ“ کے قانون میں کبھی تبدیلی نہیں پائیں گے۔ پردے کے بارے میں اس سورۃ کی آیت ٥٣ میں اور سورۃ نور کی کی آیت ٣١ میں تفصیلی احکام گزر چکے ہیں۔ یہاں صرف یہ بات عرض کی جائے گی کہ قرآن مجید نے پردہ کے لیے جلابیب کا لفظ استعمال کیا ہے جس کا معنٰی اہل علم نے گھونگھٹ کیا ہے۔ جو لوگ چہرے کے پردے کی مخالفت کرتے ہیں انہیں اللہ تعالیٰ سے ڈرنا چاہیے۔ کیونکہ انسان کا چہرہ ہی اس کی پہچان، اس کے حسن و جمال اور جذبات کا ترجمان ہوتا ہے۔ اگر کسی عورت کا چہرہ ناپسند ہو تو کوئی آدمی اس عورت کی طرف راغب نہیں ہوتا۔ اس لیے عورت کے لیے چہرے کا پردہ کرنا فرض ہے۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا دستور تھا کہ سفر کے دوران جب کوچ کرتے تو ایک آدمی کو پیچھے چھوڑتے تاکہ قافلے کی گری پڑی چیز کو اٹھائے اور اس کے مالک تک پہنچائے۔ اس آیت کا یہی مفہوم امہات المومنین سمجھتی تھیں۔ حضرت عائشہ (رض) اپنا واقعہ بیان فرماتی ہیں کہ غزوہ تبوک سے واپسی پر ” صفوان بن معطل (رض) لشکر کے پیچھے تھے۔ صبح کے وقت وہ میری ٹھکانہ پر پہنچ گئے انہوں نے مجھے سوئے ہوئے دیکھا تو پہچان لیا کیونکہ انہوں نے پردے کا حکم نازل ہونے سے پہلے مجھے دیکھا ہوا تھا۔ صفوان (رض) نے مجھے دیکھ کرافسوس کا اظہار کیا۔ میں نے اٹھ کر فوراً اپنا چہرہ چادر کے ساتھ ڈھانپ لیا۔ اللہ کی قسم ! میں نے افسوس کے کلمات کے علاوہ ان سے کوئی بات نہیں سنی۔“ [ رواہ البخاری : باب حدیث الافک] حضرت عائشہ (رض) کے عمل سے ثابت ہوا کہ چہرے کا پردہ لازم ہے۔ اگر عورت نے پوری سنجیدگی کے ساتھ شرعی پردہ کیا ہو اور اس کی چال ڈھال میں شرافت اور متانت ہو تو اوباش آدمی اس کی طرف بڑھنے سے گھبراتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے پردہ میں عورت کے لیے ایک رعب اور وقار رکھا ہے۔ جو لوگ باحیا اور پردہ نشین عورتوں کے بارے میں تہمت درازی کرتے ہیں اللہ تعالیٰ ان پر پھٹکار کرتا ہے یاد رہے کہ مسلمان معاشرے میں اخلاقی قدریں اتنی بلند ہونی چاہیے کہ اوباش آدمی جہاں جائے اسے نفرت کی نگاہ سے دیکھا جانا چاہیے۔ حکومت کا فرض ہے کہ وہ اوباش لوگوں کو گرفتار کرے اور انہیں قرار واقعی سزا دے ہجرت کے بعد اور مدینہ کے ابتدائی دور میں کچھ اوباش بازار میں چلتے وقت مسلمان عورتوں کو تنگ کرتے اس لیے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہودیوں اور عیسائیوں کے بارے میں ارشاد فرمایا : (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ (رض) أَنَّ رَسُول اللَّہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ لاَ تَبْدَءُ وا الْیَہُودَ وَلا النَّصَارَی بالسَّلاَمِ فَإِذَا لَقِیتُمْ أَحَدَہُمْ فِی طَرِیقٍ فَاضْطَرُّوہُ إِلَی أَضْیَقِہِ) [ رواہ الترمذی : باب النَّہْیِ عَنِ ابْتِدَاء۔۔] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا یہودیوں اور عسائیوں کو سلام میں پہل نہ کرو ! جب ان میں سے کوئی راستے میں ملے تو اس کو تنگ راستے کی طرف مجبور کردو!“ مسائل ١۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بیویوں اور بیٹیوں کے ساتھ مسلمان عورتوں کو بھی پردے کا حکم دیا گیا ہے۔ ٢۔ پردہ مومن عورتوں کی پہچان اور شان ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔ تفسیر بالقران اللہ تعالیٰ بخشنے والا اور معاف کرنے والا ہے : ١۔ میرے بندوں کو میری طرف سے خبر کردو کہ میں بخشنے والا، رحم کرنے والا ہوں۔ (الحجر : ٤٩) ٢۔ تیرا پروردگار بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔ (الکہف : ٥٨) ٣۔ یہی لوگ اللہ تعالیٰ کی رحمت کے امیدوار ہیں اللہ تعالیٰ انہیں بخشنے والا مہربان ہے۔ (البقرۃ: ٢١٨) ٤۔ اے رب ہمیں معاف کردے اور ہم پر رحم فرما توسب سے بڑا رحم کرنے والا ہے۔ (المومنون : ١٠٩) الأحزاب
60 الأحزاب
61 الأحزاب
62 الأحزاب
63 فہم القرآن ربط کلام : جن لوگوں کے دلوں میں منافقت اور بے حیائی کی بیماری ہے حقیقت یہ ہے کہ وہ قیامت پر بھی یقین نہیں رکھتے۔ اگر ان کا قیامت پر یقین ہو تو وہ بے حیائی اور منافقت سے باز آجائیں۔ اگر منافقین کا قیامت پر سچا ایمان ہو تو وہ ایسی حرکات سے اجتناب کریں۔ ان کا قیامت پر یقین نہیں ہے اس لیے یہ لوگ معاشرے میں بے حیائی پھیلاتے ہیں رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بار بار سوال کرتے ہیں کہ قیامت کب آئے گی۔ اس پر آپ کو حکم ہوا کہ دلائل کے تکرار کی بجائے آپ اس موقعہ پر بس اتنا فرمائیں کہ قیامت کے برپا ہونے کا دن صرف اللہ ہی جانتا ہے۔ انہیں یہ بھی ارشاد فرمائیں کہ تمہیں کیا خبر ! کہ قیامت قریب ہی آپہنچی ہو۔ جس طرح منافقوں اور بے حیاؤں پر دنیا میں اللہ کی لعنت برستی ہے اسی طرح ہی ان پر قیامت کے دن پھٹکار ہوگی اور ان کے لیے جہنم کی آگ تیار کی گئی یہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔ وہاں نہ ان کے دوست کام آئیں گے اور نہ ہی ان کی کوئی مدد کرنے والا ہوگا۔ قیامت قریب آچکی ہے یہ زمین و آسمانوں پر بھاری ہوگی : (اِقْتَرَبَ للنَّاسِ حِسَابُھُمْ وَ ھُمْ فِیْ غَفْلَۃٍ مُّعْرِضُوْنَ مَا یَاْتِیْھِمْ مِّنْ ذِکْرٍ مِّنْ رَّبِّھِمْ مُّحْدَثٍ اِلَّا اسْتَمَعُوْہُ وَ ھُمْ یَلْعَبُوْنَ) [ الانبیاء : ١، ٢] ” لوگوں کے حساب کا وقت قریب آگیا ہے اور وہ غفلت میں منہ موڑے ہوئے ہیں۔ ان کے پاس ان کے رب کی طرف سے جو نصیحت آتی ہے اس کو مشکل سے سنتے ہیں اور کھیل کود میں پڑے رہتے ہیں۔“ ” آپ سے قیامت کے بارے میں پوچھتے ہیں کہ یہ کب واقع ہوگی؟ فرمادیں اس کا علم میرے رب کے پاس ہے اسے اس کے وقت پر اس کے سوا کوئی ظاہر نہیں کرے گا وہ آسمانوں اور زمین پربھاری ہوگئی ہے اور تم پر اچانک آئے گی۔“ (الاعراف : ١٨٧) جہنم کی آگ : (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ أُوقِدَ عَلَی النَّارِ أَلْفَ سَنَۃٍ حَتَّی احْمَرَّتْ ثُمَّ أُوقِدَ عَلَیْہَا أَلْفَ سَنَۃٍ حَتَّی ابْیَضَّتْ ثُمَّ أُوقِدَ عَلَیْہَا أَلْفَ سَنَۃٍ حَتَّی اسْوَدَّتْ فَہِیَ سَوْدَاءُ مُظْلِمَۃٌ) [ رواہ الترمذی : کتاب صفۃ جہنم] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ایک ہزار سال تک دوزخ کی آگ کو بھڑکا یا گیا یہاں تک کہ وہ سرخ ہوگئی پھر اس کو ایک ہزار سال تک جلایا گیا تو وہ سفید ہوگئی پھر اس کو ایک ہزار سال تک جلایا گیا یہاں تک کہ وہ سیاہ ہوگئی اب اس کا رنگ سیاہ ہے۔“ مسائل ١۔ منافقین کو قیامت کے قائم ہونے پر یقین نہیں آتا۔ ٢۔ قیامت ہر صورت برپا ہو کر رہے گی۔ ٣۔ قیامت کے منکروں پر اللہ کی لعنت برستی ہے۔ ٤۔ منکرین قیامت کے لیے جہنم کی آگ بھڑکائی جا چکی ہے۔ ٥۔ جہنم میں ان کا کوئی دوست اور مددگار نہیں ہوگا۔ تفسیر بالقرآن قیامت کے برپا ہونے کے دلائل : ١۔ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ سوال کرے گا کہ آج کس کی بادشاہی ہے؟۔ (المومن : ١٦) ٢۔ قیامت کے دن اللہ ہی کی بادشاہی ہوگی۔ (الفرقان : ٢٦) ٣۔ اللہ تعالیٰ مخلوق کو دوبارہ لوٹائے گا تاکہ نیک وبد کو جزا وسزا مل سکے۔ ( یونس : ٤) ٤۔ اللہ تعالیٰ کا قیامت قائم کرنے کا وعدہ برحق ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔ (النحل : ٣٨) ٥۔ اے لوگو! اللہ سے ڈر جاؤ بے شک قیامت کا زلزلہ بہت ہی سخت ہوگا۔ (الحج : ١) ٦۔ قیامت کے دن اللہ ہی فیصلے صادر فرمائے گا۔ (الحج : ٥٦) ٧۔ قیامت کے دن کوئی کسی کو فائدہ نہیں دے سکے گا۔ (الانفطار : ١٩) الأحزاب
64 الأحزاب
65 الأحزاب
66 فہم القرآن ربط کلام : جہنمیوں کی جہنم میں حالت اور فریادیں۔ جہنمیوں کو جہنم میں جھونک دیا جائے گا جہنمی سانس لینے کی غرض سے جہنم کی آگ سے منہ نکال کر آہ و زاریاں کرتے ہوئے کہیں گے ہائے کاش! ہم اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے۔ اس کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ سے فریاد کریں گے کہ اے ہمارے رب ہم نے سرداروں اور بڑوں کی پیروی کی اور گمراہ ہوئے۔ اے ہمارے رب ہماری درخواست ہے کہ ہمارے سیاسی اور مذہبی پیشواؤں کو دوگنا عذاب کیجیے اور ان پر بڑی سے بڑی پھٹکار کیجئے۔ قرآن مجید کے دوسرے مقام پر یہ وضاحت کی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی فریاد کے مقابلے میں فرمائے گا کہ تم سب کو دوگنا عذاب ہے لیکن تمہیں معلوم نہیں۔ ( الاحزاب : ٣٨) فہم القرآن جلد دوم سورۃ الاعراف کی آیت ٣٨ میں وضاحت موجود ہے کہ انہیں دوگنا عذاب کیوں دیا جائے گا کیونکہ یہ لوگ خود بھی گمراہ تھے اور اپنی اولاد اور آنے والی نسلوں کی گمراہی کا بھی سبب بنے تھے اس لیے حکم ہوگا کہ سب کے لیے دوگنا عذاب ہے۔ اور تم سب کے سب جہنم میں جلتے رہو گے۔ آج تمہاری کوئی بھی مدد نہیں کرسکے گا یہاں تک کہ شیطان بھی انہیں کہہ دے گا کہ آج میں تمہارا کچھ نہیں کرسکتا۔ ( ابراہیم : ٢٢) (عَنْ بِلَالٍ بْنِ الْحَارِثِ الْمُزَنِیِّ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ أَنَّہُ مَنْ أَحْیَا سُنَّۃً مِنْ سُنَّتِی قَدْ أُمِیتَتْ بَعْدِی فَإِنَّ لَہُ مِنَ الأَجْرِ مِثْلَ مَنْ عَمِلَ بِہَا مِنْ غَیْرِ أَنْ یَنْقُصَ مِنْ أُجُورِہِمْ شَیْءًا وَمَنِ ابْتَدَعَ بِدْعَۃَ ضَلاَلَۃٍ لاَ یَرْضَاہَا اللَّہُ وَرَسُولُہُ کَانَ عَلَیْہِ مِثْلُ آثَامِ مَنْ عَمِلَ بِہَا لاَ یَنْقُصُ ذَلِکَ مِنْ أَوْزَار النَّاسِ شَیْءًا )[ رَوَاہٗ التِّرْمَذِیُّ: باَبُ مَا جَاءَ فِی الأَخْذِ بالسُّنَّۃِ وَاجْتِنَابِ الْبِدَعِ] ” حضرت بلال بن حارث مزنی (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس نے میری سنت کو اس کے مٹ جانے کے بعدجاری کیا اس کو اس نیکی کا اجر بھی اور بعد میں عمل کرنے والوں کے برابر بھی اجر ملے گا لیکن ان کے اجر میں سے کچھ کم نہیں کیا جائے گا۔ جس نے ایسا طریقہ رائج کیا جو اللہ اور اس کے رسول کو پسند نہیں۔ اس کو اس کا گناہ ہوگا اور بعد میں اس کا ارتکاب کرنے والوں کا گناہ بھی اسے ملے گا مگر ان کے گناہوں سے کچھ کم نہیں کیا جائے گا۔“ مسائل ١۔ جہنمی جہنم میں آہ وزاریاں کرتے ہوئے اپنے گناہوں کا اعتراف کریں گے۔ ٢۔ جہنمی اپنے بڑوں پر پھٹکار بھیجیں گے۔ ٣۔ گناہ کرنے والوں کو اپنے اور دوسروں کے گناہوں کی بھی سزا ملے گی۔ تفسیر بالقرآن جہنمیوں کا ایک دوسرے پر پھٹکار کرنا : ١۔ اس دن اللہ تعالیٰ انہیں جمع کرے گا اور وہ خیال کریں گے گویا کہ وہ دنیا میں دن کی ایک گھڑی ہی ٹھہرے ہیں اور وہ ایک دوسرے کو پہچان لیں گے۔ (یونس : ٤٥) ٢۔ جب سارے جہنم میں جمع ہوجائیں گے تو پچھلے پہلوں کے بارے میں کہیں گے انہوں نے ہمیں گمراہ کیا تھا۔ (الاعراف : ٣٨) ٣۔ تم پر اللہ کی مار تمہاری وجہ سے اس مصیبت کا ہمیں سامنا کرنا پڑا ہے۔ (ص : ٦٠) ٤۔ اے کاش آپ ظالموں کو دیکھتے جب وہ اپنے رب کے حضور کھڑے ہوں گے اور ایک دوسرے کی بات کا جواب دیں گے۔ (سبا : ٣١) ٥۔ جب وہ جہنم میں ایک دوسرے سے جھگڑیں گے تو کمزور بڑوں کو کہیں گے کہ یقیناً ہم تو تمہارے پیچھے چلنے والے تھے، تو کیا تم ہم سے آگ کا کوئی حصہ ہٹاسکتے ہو؟“ (المومن : ٤٧) الأحزاب
67 الأحزاب
68 الأحزاب
69 فہم القرآن ربط کلام : اس خطاب کا آغاز آیت ٥٣ سے ہوا تھا جس میں مسلمانوں کو یہ تعلیم دی گئی کہ اے مسلمانو! نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہاں بن بلائے مہمان نہ بنا کرو اس طرح مہمان بننے سے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تکلیف ہوتی ہے۔ اب اس خطاب کا اختتام بھی مومنوں کو آداب سکھلاتے ہوئے کیا جارہا ہے ارشاد ہوتا ہے کہ اے ایمان والو ! کہیں موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھیوں جیسا کردار اختیار نہ کرنا۔ انہوں نے موسیٰ (علیہ السلام) کو اذّیت پہنچائی اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) پر کرم فرمایا اسے ان کی یا وہ گوئی سے بچا لیا۔ کیونکہ موسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے بڑا وجیہ پیدا فرمایا تھا وجیہ کا معنٰی ہے جمال اور جلال رکھنے والا اور بڑی عزت کا مالک۔ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ کَانَتْ بَنُوْ إِسْرَاءِیْلَ یَغْتَسِلُوْنَ عُرَاۃً یَنْظُرُ بَعْضُھُمْ إِلٰی بَعْضٍ وَ کَانَ مُوْسٰی یَغْتَسِلُ وَحْدَہٗ فَقَالُوْا وَاللّٰہِ مَایَمْنَعُ مُوْسٰی أَنْ یَّغْتَسِلَ مَعَنَا إِلَّا أَنَّہٗ آدَرُ فَذَھَبَ مَرَّۃً یَغْتَسِلُ فَوَضَعَ ثَوْبَہٗ عَلٰی حَجَرٍ فَفَرَّ الْحَجَرُ بِثَوْبِہٖ فَخَرَجَ مُوْسٰی فِیْ إِثْرِہٖ یَقُوْلُ ثَوْبِیْ یَاحَجَرُ حَتّٰی نَظَرَتْ بَنُوْ إِسْرَاءِیْلَ إِلٰی مُوْسٰی فَقَالُوْا وَاللّٰہِ مَابِمُوْسٰی مِنْ بَأْسٍ وَأَخَذَ ثَوْبَہٗ فَطَفِقَ بالْحَجَرِ ضَرْبًا) [ رواہ البخاری : کتاب الغسل، باب من اغتسل عریاناوحدہ ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا بنی اسرائیل کے لوگ ننگے نہایا کرتے اور ایک دوسرے کو دیکھا کرتے تھے لیکن موسیٰ (علیہ السلام) اکیلے ہی غسل کرتے تھے۔ یہودیوں نے کہا اللہ کی قسم ہمارے ساتھ موسیٰ (علیہ السلام) اس وجہ سے غسل نہیں کرتے کہ ان کے خصیتین میں بیماری ہے۔ ایک مرتبہ موسیٰ (علیہ السلام) اپنے کپڑے پتھر پر رکھ کر غسل کررہے تھے تو پتھر کپڑے لے کر چل نکلا۔ موسیٰ (علیہ السلام) پتھر کے پیچھے یہ کہتے ہوئے بھاگے کہ اے پتھر ! میرے کپڑے دے دے۔ یہاں تک کہ بنی اسرائیل کے لوگوں نے موسیٰ (علیہ السلام) کو برہنہ حالت میں دیکھ کر کہا : اللہ کی قسم ! موسیٰ (علیہ السلام) کو کوئی تکلیف نہیں موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے کپڑے پکڑ کر پتھر کو مارنا شروع کردیا۔“ مسلمانوں کو حکم : (یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آَمَنُوا لَا تَقُولُوا راعِنَا وَقُولُوا انْظُرْنَا وَاسْمَعُوا وَلِلْکَافِرِینَ عَذَابٌ أَلِیمٌ)[ البقرۃ: ١٠٤] ” اے ایمان والو! تم ” رَاعِنَا“ نہ کہو بلکہ ” اُنْظُرْنَا“ کہو اور سنو ! کافروں کے لیے درد ناک عذاب ہوگا۔“ حضرت علی (رض) فرماتے ہیں : (قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَنْ سَبَّ نَبِّیًا قُتِلَ وَمَنْ سَبَّ اَصْحَابَہٗ جُلِدَ) [ رواہ الطبرانی فی الصغیر صفحہ ٢٣٦ جلد ١] ” رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو نبی کو گالی دے اسے قتل کیا جائے اور جو صحابہ کو گالی دے اسے کوڑے مارے جائیں۔“ (تفصیل جاننے کے لیے البقرۃ آیت ١٠٤ کی تفسیر ملاحظہ فرمائیں۔) مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو لوگوں کی ایذا سے محفوظ فرمایا۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کی برأت کا اہتمام کیا۔ ٣۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) بڑے ہی صاحب جمال اور کمال پیغمبر تھے۔ تفسیر بالقرآن انبیاء کرام (علیہ السلام) کے مرتبہ ومقام کی ایک جھلک : ١۔ آدم (علیہ السلام) کو اللہ نے خلیفہ بنایا۔ (البقرۃ: ٣٠) ٢۔ ابراہیم (علیہ السلام) کو اللہ نے اپنا خلیل بنایا۔ (النّساء : ١٢٥) ٣۔ سلیمان (علیہ السلام) کو اللہ نے سب سے بڑا حکمران بنایا۔ (ص : ٣٥) ٤۔ داؤد (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے زمین میں خلیفہ بنایا۔ (ص : ٢٦) ٤۔ داؤد (علیہ السلام) کو اللہ نے دانائی عطا فرمائی۔ (ص : ٢٠) ٥۔ یعقوب (علیہ السلام) کو اللہ نے صبر جمیل عطا فرما یا۔ ( یو سف : ٨٣) ٦۔ یوسف (علیہ السلام) کو اللہ نے حکمرانی اور پاک دامنی عطا فرمائی۔ (یوسف : ٣١) ٧۔ ادریس (علیہ السلام) کو اللہ نے مقا مِ علیا سے سرفراز کیا۔ (مریم : ٥٧) ٨۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رحمۃ العالمین ہیں۔ (الانبیاء : ١٠٧) ٩۔ موسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ نے ہم کلامی کا شرف بخشا۔ (طٰہٰ: ١٢ تا ١٤) ١٠۔ عیسیٰ (علیہ السلام) کو اپنا کلمہ قرار دیا۔ (لنّساء : ١٧١) الأحزاب
70 فہم القرآن ربط کلام : جاری خطاب کی ابتدا میں مومنوں کو ایک دوسرے کو اذّیت دینے سے منع کیا گیا ہے۔ یہاں اسی فرمان کا تتّمہ ہورہا ہے۔ اے مومنو! ہر حال میں اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو اور ایک دوسرے سے ہمیشہ صاف اور سیدھی بات کیا کرو۔ اگر تم صاف اور سیدھی بات کا طریقہ اپناؤ گے تو اللہ تعالیٰ تمہارے کردار کی اصلاح فرمائے گا۔ جس کے بدلے تمہارے گناہ معاف کیے جائیں گے۔ تمہارے رب کی طرف سے یہ کھلی اور عام دعوت ہے کہ جو بھی اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے گا وہ بڑی کامیابی پائے گا۔ یہ آیات ان آیات میں شامل ہیں جنہیں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خطبہ نکاح میں پڑھا کرتے تھے۔ ان میں تین ہدایات دی گئی ہیں۔ 1 انسان کوہر حال میں اللہ تعالیٰ سے ڈرنا چاہیے۔ 2 ہمیشہ صاف اور سیدھی بات کرنی چاہیے۔ 3 ہر حال میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی اطاعت کرنا فرض ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ سے ڈرنے کا حکم اور اس کے فائدے : ١۔ (النساء : ٧٧۔ یٰسین : ١١۔ آل عمران : ١٧٥۔ البقرہ : ١٨٩۔ الاحزاب : ٧٠۔ المائدۃ: ١٠٠۔ الحجرات : ١٠۔ النساء : ١) الأحزاب
71 الأحزاب
72 فہم القرآن ربط کلام : جس نے اللہ اور اسکے رسول کی اطاعت کی وہ کامیابی پائے گا اور وہی امانت کا حق ادا کرنے والا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ہم نے بارِامانت کو آسمانوں، زمینوں اور پہاڑوں پر پیش کیا۔ لیکن انہوں نے اس بوجھ کو اٹھانے سے معذرت کی۔ کیونکہ وہ اس امانت کی ذمہ داری سے ڈر گئے لیکن انسان نے اسے اٹھا لیا۔ بے شک انسان بڑا ظالم اور جاہل ہے۔ اہل علم کی اکثریت اس بات پر متفق ہے کہ ” اَلْاَمَانَۃَ“ سے مراد خلافت کی ذمہ داریاں ہیں۔ یہ ایسا اختیار اور ذمہ داری ہے جس کو اٹھانے سے آسمانوں نے اپنی وسعت وبلندی، زمین نے اپنی جسامت اور کشادگی، پہاڑوں نے اپنی بلندیوں اور مضبوطی کے باوجودعرض کی کہ بارِالٰہا ہم یہ اختیار لینے سے آپ کے حضور معذرت کرتے ہیں۔ ہم تو صرف آپ کی سمع و اطاعت کرتے رہیں گے۔ جب یہ امانت انسان کے سامنے پیش کی گئی تو اس نے کمزور ہونے کے باوجود اسے اٹھا لیا جس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ انسان کی فطرت میں اپنی حد سے آگے بڑھنا اور بلا سوچے سمجھے کوئی کام کرگزرنا اور اس میں منصب کے حصول کا شوق بھی پایا جاتا ہے۔ جو جہالت اور ظلم کی ایک قسم ہے۔ اسی سبب اپنے آپ اور دوسروں پر انسان ظلم اور جہالت کا ارتکاب کرتا ہے۔ جب کسی کو کچھ اختیار ملتے ہیں تو وہ یہ سوچنے کی زحمت گوارہ نہیں کرتاکہ میں اس منصب کا حق ادا کرسکوں گا یا نہیں۔ انسان منصب، شہرت، مفادات اور اختیارات کے شوق میں ذمہ داری پر ذمہ داری اٹھاتا جاتا ہے۔ ایک طرف اس کا حق ادا نہ کر کے اپنے آپ پر ظلم کر رہا ہوتا ہے اور دوسری طرف اپنے اقتدار اور اختیار سے تجاوز کر کے دوسروں پر ظلم ڈھاتا ہے اور اپنے رب کا باغی بن جاتا ہے یہ انسان کی بہت بڑی جہالت اور ظلم ہے۔ جن لوگوں نے اپنے رب کے عطا کردہ اختیارات سے تجاوز یا جان بوجھ کر تساہل کیا اور جن لوگوں نے منافقت کی یا اپنے رب کی ذات اور اسکی صفات میں کسی کو شریک ٹھہرایا وہ مرد ہو یا عورت اللہ تعالیٰ انہیں سزا دے گا۔ جنہوں نے خدائی اختیارات کو امانت و دیانت اور پوری ذمہ داری کے ساتھ ادا کیا۔ اللہ تعالیٰ ان کی کوتاہیوں کو معاف فرمائے گا کیونکہ وہ نہایت مہربانی کرنے والا ہے۔ ” حضرت ابوذر (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے کہا‘ کہ اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ مجھے کوئی عہدہ کیوں نہیں دیتے؟ آپ نے اپنا ہاتھ میرے کندھے پر مارتے ہوئے فرمایا‘ اے ابوذر! یقیناً تو کمزور آدمی ہے اور یہ عہدہ امانت ہے جو بلا شبہ قیامت کے دن رسوائی اور ذلت کا باعث ہوگا‘ سوائے ان لوگوں کے جنہوں نے اس کے حق کو سوچ سمجھ کر استعمال کیا اور ذمہ داریوں کو صحیح طور پر نبھایا۔“ ” حضرت ابو موسیٰ (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں اور میرے قبیلے کے دو آدمی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ دونوں میں سے ایک نے کہا : اے اللہ کے رسول! مجھے عہدہ دیجیے اور دوسرے نے بھی ایسا ہی مطالبہ کیا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : یقیناً ہم ایسے شخص کو عہدہ نہیں دیتے جو عہدہ طلب کرے اور نہ ہی ایسے شخص کو جو عہدے کا حریص ہو۔“ ” حضرت عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں میں نے رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تم میں سے ہر کوئی ذمہ دار ہے اور وہ اپنی ذمہ داری کا جواب دہ ہے۔“ [ رواہ البخاری : کتاب الجمعۃ] مسائل ١۔ اَلْاَمَانَۃُ سے مراد خلافت کی ذمہ داری ہے۔ ٢۔ انسان اختیارات کے بارے میں بڑا ظالم اور جاہل واقع ہوا ہے۔ تفسیر بالقرآن انسان کی فطرتی کمزوریاں : ١۔ انسان کمزور پیدا کیا گیا ہے۔ (النساء : ٢٨) ٢۔ انسان جلد باز ہے۔ (بنی اسرائیل : ١١) ٣۔ انسان فطرتاً جلد باز ہے۔ (الانبیاء : ٣٧) ٤۔ انسان بڑا ہی ناشکرا ہے۔ (بنی اسرائیل : ١٠٠) ٥۔ یقیناً انسان اپنے رب کا ناشکرا ہے۔ ( العادیات : ٦) ٦۔ بے شک انسان بڑا ہی ناانصاف اور ناشکرا ہے۔ (ا برا ہیم : ٣٤) الأحزاب
73 الأحزاب
0 سبأ
1 فہم القرآن الاحزاب کے آخر میں فرمایا کہ منافقین اور مشرکین کو ان کے کیے کی ٹھیک ٹھیک سزا دینا اور ایمانداروں کی کمزوریوں کو معاف کرتے ہوئے ان پر اپنا کرم فرمانا یہ اللہ تعالیٰ کی بخشش اور مہربانی کا نتیجہ ہے۔ سورۃ سبا کا آغاز اس ارشاد سے ہو رہا ہے کہ اس پر مومنوں کو اپنے رب کا شکر گزار ہونا چاہیے۔ عربی زبان میں ” ال“ کا لفظ کئی معنوں کے لیے استعمال ہوتا ہے جن میں استغراق بھی شامل ہے۔ استغراق کا معنٰی ہے جس میں ہر چیز کا احاطہ کرلیا جائے۔ گویا کہ ” اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ“ سے مراد ہے کہ ہر قسم کی تعریف اللہ تعالیٰ کے لیے ہے۔ تعریف با لواسطہ ہو یا بلا واسطہ۔ مفہوم یہ ہوا کہ اگر کوئی شخص پھول کے حسن وجمال کی تعریف کرتا ہے تو دراصل یہ اللہ تعالیٰ ہی کی تعریف ہے کیونکہ پھول کو حسن وجمال دینے والا صرف ” اللہ“ ہے۔ اس طرح جو خوبی اور صفت مخلوق میں پائی جاتی ہے در حقیقت وہ اللہ کی ہی عطا کردہ ہے۔ اس لیے اللہ کی ذات کو کوئی مانے یا نہ مانے، وہ شعوری یا غیر شعوری طور پر نہ صرف اللہ تعالیٰ کو تسلیم کرتا ہے بلکہ اس کی تعریف بھی کرتا ہے۔ فرق یہ ہے کہ شعوری طور پر اپنے رب کو مان کر اس کی تعریف کرنے والا اجر پائے گا۔ اور جو اس پر ایمان نہیں رکھتا اور اس کی محض عادتاً تعریف کرتا ہے وہ اجر سے محروم ہوگا۔ حمد کے لفظ میں شکر اور تعریف دونوں کا تصور پایا جاتا ہے۔ اس لحاظ سے یہاں الحمد کا معنٰی ہے کہ تمام تعریفات اس ” اللہ“ کے لیے ہیں جو زمین و آسمانوں کی ہر چیز کا خالق اور مالک ہے۔ دنیا میں بھی تعریف اس کے لیے ہے اور آخرت میں بھی اسی کی تعریف کی جائے گی۔ اس نے جو چیز بھی پیدا فرمائی اور جو بھی حکم دیا اس میں لا تعداد حکمتیں ہیں۔ وہ انسان کے ایک ایک لمحے سے واقف اور اپنی مخلوق کے تمام حالات سے ہر وقت با خبررہتا ہے۔ حمد کی فضیلت : (عَنْ صُہَیْبٍ (رض) قَالَ قَالَ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عَجَبًا لِأَمْرِ الْمُؤْمِنِ إِنَّ أَمْرَہٗ کُلَّہٗ خَیْرٌ وَلَیْسَ ذَاکَ لِأَحَدٍ إِلَّا لِلْمُؤْمِنِ إِنْ أَصَابَتْہُ سَرَّاءُ شَکَرَ فَکَانَ خَیْرًا لَہٗ وَإِنْ أَصَابَتْہُ ضَرَّاءُ صَبَرَ فَکَانَ خَیْرًا لَہٗ) [ رواہ مسلم : کتاب الزہد والرقائق، باب المؤمن أمرہ کلہ خیر] ” حضرت صہیب (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا مومن کے معاملات عجیب ہیں۔ اس کے تمام معاملات میں خیر ہے اور یہ صرف مومن کے لیے ہے اگر اس کو آسانی ملتی ہے تو وہ اللہ کا شکر ادا کرتا ہے یہ اسکے لیے بہتر ہے۔ اگر اسے تکلیف آتی ہے تو وہ صبر کرتا ہے یہ بھی اس کے لیے بہتر ہے۔“ (عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَال النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کَلِمَتَانِ حَبِیْبَتَانِ إِلَی الرَّحْمَنِ، خَفِیْفَتَانِ عَلَیْ اللِّسَانِِ، ثَقِیْلَتَانِ فِیْ الْمِیْزَانِ سُبْحَان اللَّہِ وَبِحَمْدِہِ، سُبْحَان اللَّہِ الْعَظِیمِ )[ رواہ البخاری : کتاب التوحید] ” حضرت ابوہریرہ (رض) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا دو کلمے رحمٰن کو بڑے پسند ہیں، زبان سے ادا کرنے میں آسان اور وزن کے لحاظ سے بھاری ہیں۔ ” حضرت ابومالک اشعری (رض) رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان ذکر کرتے ہیں کہ پاکیزگی ایمان کا حصہ ہے، ” الحمدللہ“ کے الفاظ میزان کو بھر دیتے ہیں۔“ [ رواہ مسلم : باب فَضْلِ الْوُضُوءِ] مسائل ١۔ ہر قسم کی حمدو ستائش اللہ کے لیے ہے جو زمین و آسمانوں کی ہر چیز کا مالک ہے۔ ٢۔ ہر چیز اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا کرتی ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ کے ہر حکم میں حکمت مضمر ہوتی ہے اور وہ ہر چیز سے باخبر ہے۔ تفسیر بالقرآن ہر چیز اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کرتی ہے : ١۔ تمام تعریفیں جہانوں کو پالنے والے ” رب“ کے لیے ہیں۔ (الانعام : ٤٥) ٢۔ اللہ کی حمدوثنا بیان کرنا مومنوں کی صفت ہے۔ ( التوبۃ: ١١٢) ٣۔ بجلی کی کڑک اور فرشتے بھی اللہ کی حمد بیان کرتے ہیں۔ ( الرعد : ١٣) ٤۔ زمین و آسمان کی ہر چیز اللہ تعالیٰ کی تسبیح بیان کرتی ہے۔ (الحدید : ١) ٥۔ ساتوں آسمان اور زمین اور جو کچھ ان میں ہے اللہ تعالیٰ کی حمد بیان کرتے ہیں۔ (بنی اسرائیل : ٤٤) ٦۔ فرشتے اللہ تعالیٰ کی تسبیح اور حمد بیان کرتے ہیں اور مومنوں کے لیے مغفرت طلب کرتے ہیں۔ ( الشوریٰ: ٥) سبأ
2 فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ کے باخبر ہونے کی انتہا ہی نہیں۔ اس سے پہلی آیت کے ابتدائی الفاظ میں اللہ تعالیٰ کی دو صفات کا ذکر ہوا ہے۔ ایک یہ کہ ہر چیز اس کی حمدوثنا میں رطب اللّسان ہے اور دوسری یہ کہ وہ ہر چیز کا مالک ہے۔ مالک کے لیے یہ لازم ہے کہ وہ اپنی مملوک کی زبان کو جانتاہو اور اسے یہ بھی معلوم ہو کہ کونسی چیز کہاں اور کس حالت میں ہے۔ انسان کو یہ حقیقت سمجھانے کے لیے بتلایا گیا ہے کہ ” اللہ“ وہ ہے جو سب کچھ جانتا ہے جو زمین میں داخل ہوتا ہے اور جو اس سے نکلتا ہے اور وہ یہ بھی جانتا ہے کہ آسمان سے کیا نازل ہوتا ہے اور کیا اوپر جاتا ہے۔ یہ بات بتلا کر انسان کو یہ عقیدہ سمجھایا ہے کہ اے انسان جس طرح ہر چیز اپنے خالق کی حمد و شکر میں لگی ہوئی ہے تجھے بھی اپنے رب کی حمد وشکر میں رطب اللّسان رہنا چاہیے۔ اے انسان ! تجھے یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ تیرا رب جانتا ہے جو کچھ تو زبان سے کہتا ہے اور جو تیرے اعضاء سے صادر ہوتا ہے۔ یہ اس کی مہربانی ہے کہ وہ تیری خطاؤں اور گناہوں کو معاف کرتارہتا ہے کیونکہ وہ نہایت رحم فرمانے والا اور معاف کرنے والا ہے۔ ” اللہ جانتا ہے جو ہر مادہ اٹھائے ہوئے ہے اور رحم جو کچھ کم کرتے ہیں اور جو زیادہ کرتے ہیں اور اس کے ہاں ہر چیز کا اندازہ مقرر ہے۔“ (الرعد : ٨) ” میری رحمت نے ہر چیز کو گھیر رکھا ہے۔ میں اسے ان لوگوں کے لیے لکھ دوں گا جو ڈرتے ہیں اور زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اور ہماری آیات پر ایمان لاتے ہیں۔“ [ الاعراف : ١٥٦] مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ جانتا ہے جو کچھ زمین میں داخل ہوتا ہے اور جو زمین سے باہر نکلتا ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ جانتا ہے جو کچھ آسمان سے اترتا ہے اور جو کچھ اس کی طرف چڑھتا ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ بہت رحم کرنے والا اور معاف فرمانے والا ہے۔ سبأ
3 فہم القرآن ربط کلام : جس طرح صرف ” اللہ“ ہی جانتا ہے کہ جو کچھ زمین سے نکلتا ہے اور جو اس میں داخل ہوتا ہے اور جو کچھ آسمان سے اترتا ہے اور جو کچھ اوپر چڑھتا ہے۔ قیامت کب قائم ہوگی صرف اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے اس کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی مہربانی سے لوگوں کو ایک وقت تک مہلت دے رکھی جس سے غلط فائدہ اٹھاتے ہوئے منکرین قیامت اپنی ہٹ دھرمی کی بناء پر یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ جب انسان مر کر مٹی کے ساتھ مٹی ہوجاتا ہے تو پھر اسے کس طرح اٹھایا جا سکتا ہے۔ اس کا جواب دیتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ارشاد فرمایا کہ آپ انہیں اپنے رب کی قسم اٹھا کر بتلائیں کہ مجھے اپنے رب کی قسم ہے کہ قیامت ہر صورت برپا ہو کر رہے گی۔ یہ اعلان اس رب کی طرف سے ہے جس سے زمین و آسمانوں میں ذرہ برابر بھی کوئی چیز پوشیدہ نہیں ہے وہ ہر چھوٹی، بڑی چیز کو جانتا ہے اور اس نے ہر چیز کو لوح محفوظ میں درج کر رکھا ہے۔ کفار کا خیال تھا اور ہے کہ آج تک کروڑوں، اربوں انسان مر کر مٹی کے ساتھ مٹی ہوچکے ہیں ان میں آگ میں جل کر مرنے والے بھی ہیں اور پانی میں ڈوب کر جان دینے والے بھی۔ جنہیں مچھلیوں نے کھالیا ان سب کو کیسے زندہ کیا جا سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس سوال کے اور بھی جواب دئیے ہیں۔ یہاں قیامت کے قیام کی ایک عقلی دلیل دی ہے کہ قیامت برپا کرنا اس لیے ضروری ہے تاکہ اللہ تعالیٰ صاحب کردار ایمانداروں کو بہترین جزا دے اور ان کی خطائیں معاف کرے اور ان کو بہترین نعمتوں سے نوازے۔ ان کے مقابلے میں جن لوگوں نے اللہ تعالیٰ کے ارشادات کو حقیر جانا اور ان کے مقابلے میں اپنے آپ کو بڑا سمجھا انہیں اذّیت ناک عذاب دے گا۔ منکرین قیامت ہمیشہ سے یہی دلیل پیش کرتے ہیں کہ جب انسان مٹی کے ساتھ مٹی ہوجائے گا تو دوبارہ کس طرح اسے زندہ کیا جائے گا۔ قرآن مجید نے مختلف مقامات پر اس بات کی تردید اور قیامت برپا ہونے کے درجنوں ثبوت دینے کے ساتھ ساتھ انبیاء کے ذریعے اس کے عملی تجربے پیش کیے ہیں۔ مثال کے طور پر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے ہاتھوں چار پرندوں کو ذبح کروانے کے بعد انہیں زندہ کرنا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے سامنے ایک مقتول کا زندہ ہو کر اپنے قاتلوں کا نام بتلانا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد بنی اسرائیل کے ہزاروں لوگوں کو زندہ کیا جانا۔ حضرت عزیر (علیہ السلام) اور ان کا گدھا سو سال کے بعد زندہ کیے گئے۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے مردوں کو زندہ کیا۔ اتنے ٹھوس دلائل اور واضح حقائق پیش کرنے کے باوجود جو لوگ قیام قیامت کو نہیں مانتے انہیں درد ناک عذاب دیا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ سے زمین و آسمان کی کوئی چیز پوشیدہ نہیں ہے : (وَ عِنْدَہٗ مَفَاتِحُ الْغَیْبِ لَا یَعْلَمُھَآ اِلَّا ھُوَ وَ یَعْلَمُ مَا فِی الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ وَ مَا تَسْقُطُ مِنْ وَّ رَقَۃٍ اِلَّا یَعْلَمُھَا وَ لَا حَبَّۃٍ فِیْ ظُلُمٰتِ الْاَرْضِ وَ لَا رَطْبٍ وَّ لَا یَابِسٍ اِلَّا فِیْ کِتٰبٍ مُّبِیْنٍ)[ الانعام : ٥٩] ” اور اسی کے پاس غیب کی چابیاں ہیں انہیں اس کے سوا کوئی نہیں جانتا اور وہ جانتا ہے جو کچھ خشکی اور سمندر میں ہے اور کوئی پتا نہیں گرتا مگر وہ اسے جانتا ہے اور زمین کے اندھیروں میں کوئی تر اور خشک دانہ نہیں مگر وہ ایک واضح کتاب میں لکھا ہوا ہے۔“ (یٰبُنَیَّ اِنَّھَآ اِنْ تَکُ مِثْقَالَ حَبَّۃٍ مِّنْ خَرْدَلٍ فَتَکُنْ فِیْ صَخْرَۃٍ اَوْ فِی السَّمٰوٰتِ اَوْ فِے الْاَرْضِ یَاْتِ بِھَا اللّٰہُ اِنَّ اللّٰہَ لَطِیْفٌ خَبِیْرٌ) [ لقمان : ١٦] ” بیٹا کوئی چیز رائی کے دانہ کے برابر ہو۔ کسی چٹان یا آسمانوں یا زمین میں کہیں چھپی ہوئی ہو اللہ تعالیٰ اسے لے آئے گا۔ کیونکہ وہ نہایت باریک بین اور خبر رکھنے والاہے۔“ مسائل ١۔ اللہ کی قسم! قیامت ہر صورت برپا ہوگی۔ ٢۔ زمین و آسمانوں میں کوئی چیز بھی اللہ تعالیٰ سے پوشیدہ نہیں۔ ٣۔ قیامت اس لیے برپا کی جائے گی تاکہ ایمان داروں کو جزا ملے اور انکار کرنے والوں کو سزا دی جائے۔ تفسیر بالقرآن مرنے کے بعد زندہ ہونے کے ثبوت : ١۔ آپ فرما دیں کہ تم ضرور اٹھائے جاؤ گے۔ (التغابن : ٧) ٢۔ اللہ تعالیٰ لوگوں کو اٹھائے گا تاکہ ان کے درمیان فیصلہ صادر فرمائے۔ (الانعام : ٦٠) ٣۔ ” اللہ“ تمام مردوں کو اٹھائے گا پھر تم اسی کی طرف لوٹائے جائیں گے۔ (الانعام : ٣٦) ٤۔ قیامت کے دن ” اللہ“ سب کو اٹھائے گا پھر ان کے اعمال کی انہیں خبر دے گا۔ (المجادلۃ: ٦ تا ١٨) ٥۔ موت کے بعد تمہیں ضرور اٹھایا جائے گا۔ (ھود : ٧) ٦۔ یقیناً قیامت کے دن اللہ تعالیٰ تمہیں جمع کرے گا جس میں کوئی شک نہیں۔ (الانعام : ١٢) ٧۔ آپ فرما دیں تمہارے پہلے اور پچھلوں کو ضرور اکٹھا کیا جائے گا۔ (الواقعۃ: ٤٧ تا ٥٠) ٨۔ پھر ہم تمہیں تمہاری موت کے بعد اٹھائیں گے۔ (البقرۃ: ٥٦) ٩۔ جس دن تم سب کو جمع ہونے والے دن میں اللہ تعالیٰ جمع کرے گا۔ (التغابن : ٩) ١٠۔ جس دن اللہ رسولوں کو جمع کرے گا۔ (المائدۃ: ١٠٩) ١١۔ یہ فیصلہ کا دن ہے ہم نے تم کو اور تم سے پہلوں کو بھی جمع کرلیا ہے۔ (المرسلات : ٣٨) سبأ
4 سبأ
5 سبأ
6 فہم القرآن ربط کلام : قیامت برپا ہونے کے بارے میں ایک اور ثبوت۔ کسی بھی حقیقت کو جاننے کے لیے دنیا میں جو ثبوت اور دلائل پائے جاتے ہیں ان میں یہ بات ہمیشہ سے مسلّمہ رہی ہے کہ اس مسئلہ کے بارے اس دور کے منعف مزاج اہل علم کا نقطۂ نظر کیا ہے۔ اگر صحیح اور ٹھوس علم رکھنے والے لوگ اس بات کی تائید کریں تو معاشرتی اعتبار سے اس کو تسلیم کرلیا جاتا ہے۔ جہاں تک قیامت برپا ہونے کا عقیدہ ہے اس کے بارے میں ہر دور کے دانش ور اور اہل علم یہ عقیدہ رکھتے ہیں اور رکھیں گے کہ قیامت ہر صورت برپا ہوگی۔ اور عقل کا بھی یہ تقاضا ہے کہ قیامت قائم ہونی چاہیے تاکہ ہر کسی کو اس کے کیے کی جزا یا سزا مل سکے۔ اسی فکر کی بنیاد پر قرآن مجید نے منکرین قیامت کو یہ بات سمجھانے کی کو شش کی ہے کہ اگر تمہیں قیامت کے برپا ہونے کے بارے میں شک ہے تو اپنے دور کے اہل علم سے استفسارکیجیے وہ یقیناً تمہیں بتلائیں گے کہ جس قرآن سے تمہیں قیامت برپا ہونے کے دلائل دیئے جاتے ہیں وہ حقیقتاً آپ کے رب کی طرف سے سچ اور حق بن کر نازل ہوا ہے قرآن کو نازل کرنے والا ہی کائنات کی ہر چیز پر غالب اور ہر لحاظ سے تعریف کے لائق ہے۔ اور قرآن صراط مستقیم کی طرف راہنمائی کرنے والا ہے۔ اہل علم سے مراد صحابہ (رض) اور وہ حضرات ہیں جو اہل کتاب کے نیک علماء ہیں اور جن پر ان کے ہم عصر اور ہم مکتب لوگ اعتماد کرتے تھے۔ عبداللہ بن سلام (رض) یہود کے ممتاز علماء میں سے تھے اور حقیقت پسند تھے۔ جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہجرت کر کے مدینہ تشریف لائے اور عبداللہ بن سلام نے آپ میں وہ نشانیاں دیکھیں جو تورات میں نبی آخر الزماں کی بتلائی گئی ہیں آپ سے چند سوالات پوچھنے کے بعد وہ اسلام لے آئے۔ اور رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہود کی سرشت سے آگاہ کیا‘ جس پر یہود ان کے دشمن بن گئے۔ بعد ازاں زنا کے ایک مقدمہ میں یہود نے تورات سے رجم کی آیت کو چھپانا چاہا تو عبداللہ بن سلام (رض) نے اس آیت کی نشاندہی کر کے یہود کو شرمندہ کیا۔ [ رواہ ابوداؤد : کتاب الحدود، باب فی رجم الیہودیین] (عَنْ قَیْسِ بْنِ عُبَاد۔۔ رَأَیْتُ رُؤْیَا عَلَی عَہْدِ النَّبِی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَقَصَصْتُہَا عَلَی النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَال۔۔ فَأَنْتَ عَلَی الإِسْلاَمِ حَتَّی تَمُوت۔۔)[ رواہ البخاری : کتاب المناقب‘ باب مناقب عبداللہ بن سلام] ” قیس بن عباد بیان کرتے ہیں کہ عبداللہ بن سلام (رض) کو ایک خواب آیا جس کی تعبیر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ بتلائی کہ عبداللہ بن سلام آخر دم تک اسلام پر ثابت قدم رہیں گے۔“ مسائل ١۔ ہر دور کے اہل علم قیامت آنے کی تصدیق کرتے رہے ہیں اور کرتے رہیں گے۔ ٢۔ اہل علم سے مراد وہ لوگ ہیں جو تورات، انجیل اور قرآن مجید کو تسلیم کرتے ہیں ٣۔ ” اللہ“ ہی ہدایت دینے والا ہے۔ ٤۔ قیامت ہر صورت قائم ہو کر رہے گی۔ تفسیر بالقرآن ” اللہ“ ہی ہدایت دینے والا ہے : ١۔ ہدایت وہی ہے جسے اللہ تعالیٰ ہدایت قرار دے۔ (البقرۃ: ١٢٠) ٢۔ ہدایت اللہ کے اختیار میں ہے۔ (القصص : ٥٦) ٣۔ ” اللہ“ جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے۔ (البقرۃ : ٢١٣) ٤۔ ہدایت پر چلانا انبیاء کی ذمہ داری نہیں۔ (البقرۃ: ٢٧٢) ٥۔ اللہ تعالیٰ کی راہنمائی کے بغیر کوئی ہدایت نہیں پا سکتا۔ (الاعراف : ٤٣) ٦۔ جس کو اللہ گمراہ کرے اس کو کوئی ہدایت دینے والا نہیں۔ (الرعد : ٣٣) ٧۔ ہدایت پانا اللہ تعالیٰ کا احسان ہے۔ (الحجرات : ١٧) ٨۔ جسے اللہ ہدایت دے وہی ہدایت یافتہ ہے۔ (الکہف : ١٧) ٩۔ اللہ جسے چاہتا ہے صراط مستقیم کی ہدایت دیتا ہے۔ (البقرۃ: ١٤٢) ١٠۔ اللہ جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے۔ (ابراہیم : ٤) ١١۔ جسے اللہ گمراہ کر دے کوئی اسے ہدایت نہیں دے سکتا۔ (الاعراف : ١٨٦) ١٢۔ اللہ تعالیٰ آسمانوں اور زمین کا نور (ہدایت دینے والا) ہے۔ (النور : ٣٥) ١٣۔ اللہ ہی اندھیرے اور روشنی پیدا کرنے والا ہے۔ (الانعام : ١) سبأ
7 فہم القرآن ربط کلام : منکرین قیامت کی سب سے بڑی دلیل اور اس کا ردّ۔ منکرین قیامت ہمیشہ سے یہ دلیل دیتے آئے ہیں کہ جب انسان مر کر مٹی کے ساتھ مٹی ہوجائے گا تو اسے دوبارہ کس طرح زندہ کیا جاۓ گا۔ نبی آخر الزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے یہی دلیل ایک شخص نے دی جس نے اپنے ہاتھ پر ایک مردہ انسان کی بوسیدہ ہڈی رکھ کر اسے مسلتے ہوئے کہا کہ اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس خاک میں کون جان پیدا کرے گا؟ جس کا تفصیلی جواب سورۃ یٰس کی آخری پانچ آیات میں دیا گیا ہے۔ لیکن پھر بھی منکرین قیامت لوگوں کو اپنا ہم فکر رکھنے کے لیے کہا کرتے تھے کہ ہم تمہیں ایسا شخص نہ دکھلائیں جو اس بات کا دعویٰ کرتا ہے کہ جب تم مر کر ریزہ ریزہ ہوجاؤ گے تو تمہیں از سرنو پیدا کرلیا جائے گا۔ ہمارے خیال کے مطابق یہ شخص جھوٹ بولتا ہے یا پھر اسے پاگل پن کا مرض لاحق ہوچکا ہے۔ کفار کے بے ہودہ الفاظ اور پراپیگنڈہ کے جواب میں یہاں صرف اتنی بات کہی گئی ہے کہ جو لوگ آخرت کا انکار کرتے ہیں وہ پرلے درجے کی گمراہی میں مبتلا ہیں اور انہیں ہر صورت عذاب سے دوچار ہونا پڑے گا۔ دنیا میں ان کے لیے عذاب یہ ہے کہ بعض بھلے کام کرنے کے باوجود ان کے دل اللہ تعالیٰ کے ہاں اجرپانے سے مایوس ہوتے ہیں۔ ان کی صرف یہی ایک سزا نہیں بلکہ آخرت کے منکر ہونے کی وجہ سے یہ موت سے بھی ڈرتے ہیں۔ اگر ان کا مقابلہ مجاہدین اسلام سے ہو تو آخرت کے انکار کی وجہ سے یہ بزدلی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ جہاں تک آخرت کے عذاب کا معاملہ ہے یہ لوگ ہمیشہ جہنم میں رکھے جائیں گے۔ ان کی گمراہی کو دور کی گمراہی اس لیے کہا گیا ہے کہ انسان بنیادی طور پر دو ہی وجہ سے ہدایت کی جستجو کرتا ہے اللہ تعالیٰ کا خوف اور آخرت میں اپنے اعمال کی جوابدہی کا تصور۔ یہی دو سبب انسان کو حقیقت پر غور کرنے کے لیے مجبور کرتے ہیں۔ منکرین قیامت کا ذہن ان دونوں باتوں سے خالی ہوتا ہے جس وجہ سے ان کا ہدایت پانا بعید از قیاس قرار دیا گیا ہے۔ ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا دوسرا صور پھونکنے کا عرصہ چالیس ہوگا۔ حضرت ابوہریرہ (رض) سے ان کے شاگردوں نے پوچھا چالیس دن ؟ حضرت ابوہریرہ (رض) نے فرمایا کہ میں یہ نہیں جانتا۔ انہوں نے استفسار کیا چالیس ماہ ؟ حضرت ابوہریرہ (رض) نے جواباً فرمایا میرا کوئی جواب نہیں۔ انہوں نے پھر پوچھا چالیس سال ہیں؟ ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں میں یہ بھی نہیں کہتا۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ بارش نازل فرمائے گا۔ لوگ یوں اگیں گے جس طرح انگوری اگتی ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا، انسان کی دمچی کے علاوہ ہر چیز مٹی ہوجائے گی۔ قیامت کے دن اسی سے تمام اعضاء کو جوڑا جائے گا۔ [ رواہ مسلم : باب مَا بَیْنَ النَّفْخَتَیْنِ] مسائل ١۔ منکرین قیامت دنیا اور آخرت میں سزا پائیں گے۔ تفسیر بالقرآن گمراہ لوگ : ١۔ جو ایمان کو کفر کے ساتھ بدل دے وہ سیدھے راستہ سے گمراہ ہوگیا۔ (البقرۃ: ١٠٨) ٢۔ جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرتا ہے وہ دور کی گمراہی میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ (النساء : ١١٦) ٣۔ جس نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ کفر کیا وہ دور کی گمراہی میں جا پڑا۔ (النساء : ١٣٦) ٤۔ جو نافرمانی کرے اللہ اور اس کے رسول کی وہ گمراہ ہوگیا۔ (الاحزاب : ٣٦) ٥۔ اللہ تعالیٰ کی بیان کردہ مثال کے ساتھ فاسق ہی گمراہ ہوتے ہیں۔ ( البقرۃ: ٢٦) ٦۔ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کیے ہوئے عہد کو پامال کرنے والا سیدھے راستہ سے بھٹک جاتا ہے۔ (المائدۃ: ١٢) ٧۔ کفار سے دلی دوستی رکھنے والا سیدھی راہ سے دور چلا جاتا ہے۔ (الممتحنۃ: ١) ٨۔ دین کے معاملات میں غلو کرنے والا سیدھی راہ سے گمراہ ہوجاتا ہے۔ (المائدۃ : ٧٧) ٩۔ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی اور کو شریک ٹھہرانے والا سیدھے راستہ سے بھٹک جاتا ہے۔ (ابراہیم : ٣٠) سبأ
8 سبأ
9 فہم القرآن ربط کلام : گمراہ لوگوں کو انتباہ۔ یہاں منکرینٍ قیامت کو اس بات کی طرف توجہ دلائی گئی ہے کیا یہ لوگ اس بات پر غور نہیں کرتے کہ انہیں اوپر نیچے اور آگے پیچھے سے زمین و آسمان نے گھیر رکھا ہے اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو ان کے کفر کی وجہ سے انہیں زمین میں دھنسا دے یا پھر آسمان سے کوئی آفت انہیں تہس نہس کردے اگر یہ غور کریں تو اس انتباہ میں ان کے لیے بڑی عبرت ہے۔ لیکن اس انتباہ سے وہی لوگ متنبہ ہوتے ہیں جو اپنے رب کی طرف رجوع کرنیوالے ہیں۔ آسمان کے حوالے سے ڈراتے ہوئے انہیں بتایا ہے کہ جس آسمان کی چھت کے تلے تم اللہ تعالیٰ کی بغاوت کرتے اور اپنی موت کے بعد زندہ ہونے کا انکار کرتے ہو اگر یہی تم پر ٹوٹ پڑے تو تم اس سے بچ نہیں سکتے گویا کہ تم ہر وقت مقیّدہو اور تم کسی اعتبار سے بھی اللہ تعالیٰ کی گرفت سے باہر نہیں ہو اس لیے اس سے ڈرو اور حقائق کو تسلیم کر کے اپنے آپ کو اسکی گرفت سے محفوظ کرلو اگر تم نصیحت حاصل کرنا چاہتے ہو۔ (یَامَعْشَرَ الْجِنِّ وَالْاِِنسِ اِِنْ اسْتَطَعْتُمْ اَنْ تَنفُذُوْا مِنْ اَقْطَار السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ فَانفُذُوْا لاَ تَنفُذُوْنَ اِِلَّا بِسُلْطٰنٍ) [ الرحمن : ٣٣] ” اے جنوں اور انسانوں کی جماعت اگر تم میں طاقت ہو کہ آسمانوں و زمین کے کناروں سے نکل جاؤ تو نکل جاؤ اور سلطٰنکے سوا تم نکل نہیں سکتے۔“ (عَنِ ابْنِ عُمَر (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بَیْنَمَا رَجُلٌ یَجُرُّ اِزَارَہٗ مِنَ الْخُیَلَاءِ خُسِفَ بِہٖ فَھُوَ یَتَجَلْجَلُ فِی الْاَرْضِ اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ) [ رواہ البخاری : کتاب أحادیث الأنبیاء ] ” حضرت عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ایک دفعہ ایک شخص تکبر کے ساتھ چادر گھسیٹ کر چل رہا تھا تو اسے زمین میں دھنسا دیا گیا۔ وہ قیامت تک زمین میں دھنستا جائے گا۔“ مسائل ١۔ انسان زمین و آسمان کے درمیان مقیّد ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ انسان کو زمین میں دھنسانے اور اس پر آسمان کا ٹکڑا گرانے پر قادر ہیں۔ ٣۔ عبرت حاصل کرنے والے کے لیے زمین و آسمان میں بے شمار عبرت کے آثار موجود ہے۔ تفسیر بالقرآن زمین میں دھنسائے جانا اور آسمان سے آفت آنا : ١۔ کیا وہ لوگ بے فکر ہوگئے ہیں کہ اللہ انہیں زمین میں دھنسا دے؟ (النحل : ٤٥) ٢۔ اگر اللہ کا ہم پہ احسان نہ ہوتا تو ہم زمین میں دھنسا دیے جاتے۔ ( القصص : ٨٢) ٣۔ کیا تم بے خوف ہوگئے ہو کہ اللہ تمہیں دریا کے کنارے زمین میں دھنسا دے یا تم پر تندوتیز آندھی بھیج دے۔ (بنی اسرائیل : ٦٨) ٤۔ ان کے گناہ کی پاداش میں پکڑ لیا کسی پر تند ہوا بھیجی، کسی کو ہولناک آواز نے آلیا، کسی کو ہم نے زمین میں دھنسا دیا اور کچھ کو غرق کردیا۔ (العنکبوت : ٤٠) ٥۔ کیا بستیوں والے بے فکر ہوگئے ہیں کہ اللہ کا عذاب رات کے وقت اپنی لپیٹ میں لے لے اور وہ سوئے ہوئے ہوں۔ (الاعراف : ٩٥) ٦۔ جب ہمارا حکم آپہنچا تو ہم نے ان کی بستی کو الٹا دیا اور ان پر پتھروں کی بارش برسا دی۔ (ھود : ٨٢) ٧۔ قوم لوط کو ایک سخت آواز نے پکڑ لیا۔ (الحجر : ٧٣) ٨۔ قوم لوط پر کنکر کے پتھر برسائے گئے۔ (الذاریات : ٣٣) ٩۔ ہم نے قوم لوط پر پتھروں کی بارش نازل کی دیکھیے مجرموں کا انجام کیسے ہوا۔ (الاعراف : ٨٤) سبأ
10 فہم القرآن ربط کلام : ” اللہ“ کی طرف رجوع کرنے والے بندے کے لیے زمین و آسمان میں بہت سے نشان عبرت ہیں۔ اور ” اللہ“ کی طرف رجوع کرنے والوں میں حضرت داؤد (علیہ السلام) سر فہرست ہیں۔ اس لیے اس موقعہ پر ان کا تذکرہ ضروری سمجھا گیا۔ اللہ تعالیٰ نے داؤد (علیہ السلام) کو بہت سی نعمتوں سے نوازا تھا۔ حضرت داؤد (علیہ السلام) بیت اللحم کے رہنے والے قبیلہ یہودہ کے ایک نوجوان تھے۔ فلسطینیوں کے خلاف ایک معرکے میں جالوت جیسے کڑیل اور جری دشمن کو قتل کیا جس بنا پر بنی اسرائیل میں مقبول ہوئے اور طالوت کی وفات کے بعد پہلے موجودہ الخلیل میں یہودیہ کے حکمران بنائے گئے۔ کچھ عرصہ کے بعد بنی اسرائیل نے مل کر ان کو اپنا بادشاہ منتخب کیا اور انہوں نے یروشلم کو فتح کرکے اسے اسرائیل کا دارالحکومت بنایا۔ ان کوششوں سے پہلی مرتبہ ایک فلسطین میں اسلامی سلطنت قائم ہوئی۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد (علیہ السلام) کو ایک سپاہی کے درجے سے اٹھا کر نہ صرف ملک کا حکمران بنایا بلکہ تاج نبوت اور زبور جیسی پُر تاثیر کتاب عطا فرمائی جس کے بارے میں ارشاد ہوا ہے کہ جب حضرت داؤد (علیہ السلام) زبور کی تلاوت کرتے تو نہ صرف پرندے مسحور ہوجاتے بلکہ جہاں تک ان کے پڑھنے کی آواز جاتی پہاڑ بھی جھوم اٹھتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد (علیہ السلام) پر اپنا فضل ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ ہم نے پہاڑوں اور پرندوں کو حکم دے رکھا تھا کہ داؤد (علیہ السلام) کے ساتھ مل کر اپنے رب کی تسبیح بیان کیا کرو اور ہم نے اس کے لیے لوہے کو نرم کردیا تاکہ داؤد (علیہ السلام) ایسی زرہیں بنائیں جن کی کڑیاں مضبوط ہونے کے ساتھ ایک دوسرے کے ساتھ جڑی ہوئی ہوں۔ اسے اور پہننے والے کو کسی قسم کی الجھن محسوس نہ ہو۔ حضرت داؤد (علیہ السلام) کو یہ بھی حکم دیا گیا کہ اقتدار اور طاقت کے نشہ سے بچتے ہوئے صالح اعمال کرتے رہنا اور ہر دم یاد رکھنا کہ تمہارا رب تمہیں ہر حال میں دیکھ رہا ہے۔ حضرت داؤد (علیہ السلام) کے ساتھ پہاڑوں کا نغمہ سرا ہونا، پرندوں کا جھوم اٹھنا اور انکے ہاتھ میں لوہے کا نرم ہوجانا، یہ ان کا معجزاتی عمل تھے۔ امام رازی (رض) لکھتے ہیں کہ صرف پہاڑوں اور پرندوں پر یہ کیفیت نہ ہوتی بلکہ ہر چیز پر یہی حالت طاری ہوجاتی تھی۔ ( تفسیر کبیر) مسائل ١۔ مسلمانوں کو صنعت و حرفت میں ترقی کرنا چاہیے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے لوہے میں طاقت اور برکت رکھی ہے۔ ٣۔ اقتدار اور قوت حاصل ہوجانے کے بعد آدمی کو نیک اعمال سے غافل نہیں ہونا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن حضرت داؤد (علیہ السلام) کی خصوصیت اور قرآن مجید میں ان کا تذکرہ : ١۔ داؤد (علیہ السلام) حضرت نوح (علیہ السلام) کی اولاد میں سے تھے۔ ( الانعام : ٨٤) ٢۔ اللہ تعالیٰ نے داؤد (علیہ السلام) کو بادشاہت اور نبوت سے سرفراز فرمایا۔ ( البقرۃ: ٢٥١) ٣۔ ہم نے داؤد (علیہ السلام) کو زبور عطا کی۔ ( النساء : ١٦٣) ٤۔ اے داؤد ہم نے تجھے زمین میں خلیفہ بنایا۔ (ص : ٢٦) ٥۔ ہم نے داؤد اور سلیمان ( علیہ السلام) کو علم عطا فرمایا۔ (النمل : ١٥) ٦۔ ہم نے داؤد (علیہ السلام) کو اپنے فضل سے نوازا۔ (سبا : ١٠) ٧۔ ہم نے داؤد (علیہ السلام) کے ساتھ پہاڑوں کو حمد و ثنا کے لیے مسخر کردیا۔ (الانبیاء : ٧٩) ٨۔ ہم نے داؤد (علیہ السلام) کی سلطنت مضبوط کی اور انہیں فیصلہ کن خطاب کا ملکہ دیا۔ ( ص : ٢٠) سبأ
11 سبأ
12 فہم القرآن ربط کلام : حضرت داؤد (علیہ السلام) کے بعد ان کے صاحبزادے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کا تذکرہ۔ حضرت داؤد (علیہ السلام) کے بعد اللہ تعالیٰ نے ان کے بیٹے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو نبوت اور اقتدار عطا فرمایا۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے اللہ کے حضور یہ درخواست پیش کی۔” اے میرے رب! مجھے ایسا اقتدار عطا فرماکہ اس جیسا اقتدار میرے بعد کسی شخص کو حاصل نہ ہو۔“ [ صٓ: ٣٥] اس دعا کا نتیجہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو ہوا پر اختیار دیا کہ وہ صبح سے شام تک اور شام سے صبح تک دو مہینوں کی مسافت طے کرلیتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے لیے تانبے کا چشمہ جاری کردیا اور جنات کو ان کے تابع فرما دیا۔ جو اللہ کے حکم کے مطابق ان کی خدمت میں لگے رہتے تھے۔ اگر کوئی جِن حکم عدولی کرتا تو اسے آگ کا عذاب دیا جاتا۔ ہوا پر اختیار دینے کا مفہوم بیان کرتے ہوئے مفسرین نے دو طرح کی تشریح کی ہے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو ایسی تکنیک سکھلائی گئی جس کی بنیاد پر وہ ہوا پر کنٹرول کرتے تھے اس وجہ سے ان کے بحری بیڑے ہر موسم میں اس قدر تیز رفتاری سے سمندر میں چلتے کہ وہ صبح سے شام تک اتنی منزلیں عبور کرجاتے جتنا سفر ایک سبک رفتار گھوڑا مہینے میں طے کرتا ہے۔ گویا کہ موسم کی ناہمواری دن کی تپش اور رات کے اندھیرے ان کے بحری بیڑوں کے سامنے رکاوٹ نہیں بن سکتے تھے۔ دوسرے مفسرین کا خیال ہے کہ انہوں نے ایسا تخت تیار کیا تھا کہ جس پر بیٹھ کر وہ صبح و شام دو مہینوں کی مسافت طے کرجایا کرتے تھے۔ جس کے بارے میں یہ خیال کیا جا سکتا ہے کہ انہوں نے ضرور ایسا ہوائی جہاز تیار کیا ہوگا جسے صبح وشام اتنی مسافت عبور کرنے میں کوئی مشکل پیش نہ آتی تھی۔ جہاں تک ان کے لیے تانبے کا چشمہ جاری کرنے کا معاملہ ہے عین ممکن ہے کہ انہیں زمین سے معدنیات کے نکالنے کا علم اور طریقہ بھی سکھلایا گیا ہو۔ ان کے ملک میں جو معدنیات کے ذخائر نکلے ان میں تانبے کی معدنیات سرِفہرست تھی۔ تانباوہ معدنی قوت ہے جو ایٹم بم میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ زمین سے تانبانکالنے اور پھر اس سے مختلف قسم کی مصنوعات تیار کرنے کے لیے جنات کو ان کے تابع کردیا گیا تھا۔ اگر کوئی جِنّ اپنی ڈیوٹی سے کوتاہی کرتا تو اسے آگ کے کوڑوں سے سزا دی جاتی۔ آگ کے کوڑے انسانوں پر برسانا ہماری شریعت میں حرام قرار دیا گیا لیکن جنات کی تخلیق آگ سے ہوئی ہے اس لیے انہیں آگ کے کوڑوں سے سزا دی جاتی تھی۔ ” حضرت عبدالرحمن بن عبداللہ (رض) اپنے باپ سے بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ سفر پر روانہ ہوئے آپ قضائے حاجت کے لیے علیحدہ ہوئے۔ اچانک ہمیں ایک فاختہ اور اس کے دو بچے نظر آئے ہم نے اس کے بچوں کو پکڑ لیا فاختہ نے پھڑ پھڑ انا شروع کردیا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) واپس آئے اور آپ نے فاختہ کو پریشان دیکھ کر پوچھا کہ اس کو اس کے بچوں کی وجہ سے کس نے پریشان کیا ہے اس کے بچوں کو چھوڑ دو۔ اسی طرح آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کچھ چیونٹیوں کو جلا ہوا دیکھ کر پوچھا کہ ان کو کس نے جلایا ہے ہم نے عرض کیا کہ ہم نے جلایا ہے۔ آپ نے فرمایا آگ کا عذاب اللہ رب العزت کے علاوہ کوئی نہیں دے سکتا۔“ [ رواہ ابوداؤد : باب فِی کَرَاہِیَۃِ حَرْقِ الْعَدُوِّ بالنَّار]ِ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے ہوا کو حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے تابع کردیا تھا۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے جنات کو حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے تابع کردیا۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو تانبے کی معدنیات عطا فرمائیں۔ تفسیر بالقرآن حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی خصوصیات : ١۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمان کو غیر معمولی بادشاہت عطا فرمائی۔ ( الانبیاء : ٧٩) ٢۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو تابنے کے چشمے عطا فرمائے۔ ( سبا : ١٢) ٣۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو صنعت وحرفت میں کمال عطا فرمایا۔ ( سبا : ١٣) ٤۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمان کو فہم و فراست عطا کی۔ (الانبیاء : ٧٩) ٥۔ اللہ تعالیٰ نے ہوا کو حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے لیے مسخر کردیا۔ (الانبیاء : ٨١) سبأ
13 فہم القرآن ربط کلام : گزشتہ سے پیوستہ۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے لیے جو کام جنات کرتے ان میں بڑے بڑے حفاظتی قلعے بھی تعمیر کیا کرتے تھے جن پر بہترین قسم کے نقش ونگار بنائے جاتے اور ایسی دیگیں بنائی جاتیں جنہیں ایک جگہ نصب کرکے بیک وقت ہزاروں لوگوں کا کھانا تیار کیا جاتا۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں ہر قسم کی خوشحالی اور عروج و اقبال سے نوازتے ہوئے یہ حکم دیا اے داؤد اور اس کے گھر والو ! تمہیں ان انعامات پر اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے۔ یاد رکھو ! اللہ کے شکر گزار بندے تھوڑے ہی ہوا کرتے ہیں۔ قلعے :۔ قرآن مجید سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ دفاع کے طور پر وسیع قلعے تعمیر کرنے کی ابتداء حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے دور میں ہوئی۔ تَمَاثِیْلَ : ” تَمْثَالٌ“ کی جمع ہے۔ اس کے مندرجہ ذیل معانی ہیں۔1 ” تَمْثَالٌ“ عربی زبان میں ہر اس چیز کو کہتے ہیں جو کسی قدرتی شے کے مشابہ بنائی جائے۔2 ” تَمْثَالٌ“ نام ہے ہر اس مصنوعی چیز کا جو اللہ تعالیٰکی بنائی ہوئی چیز کے مانند بنائی گئی ہو۔ 3 ” تَمْثَالٌ“ ہر اس تصوّر کو کہتے ہیں جو کسی دوسری چیز کی صورت کے مماثل ہو۔ خواہ وہ جاندار ہو یا بے جان۔ طشت اور دیگیں : حضرت سلیمان (علیہ السلام) اپنی رعایا پر بڑے مہربان اور فیّاض تھے۔ انہوں نے پورے ملک میں معذروں، مسافروں اور غریبوں کے لیے ریسٹورنٹ قائم کیے۔ جہاں صبح و شام بڑے بڑے عوامی دستر خوان بچھائے جاتے جن پر ہزاروں لوگ کھانا کھایا کرتے تھے۔ اس لیے کھانا پکانے کے لیے غیر معمولی قسم کی دیگیں اور اچھے خاصے تالاب کی مانند طشت تیار کیے جاتے تھے تاکہ لوگوں کے لیے بروقت اور وافر کھاناتیار ہوسکے اور وہ پوری آزادی کے ساتھ کھا سکیں۔ تصویر کشی حرام ہے : (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ (رض) أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ أَشَدُّ النَّاسِ عَذَابًا یَوْمَ الْقِیَامَۃِ رَجُلٌ قَتَلَہٗ نَبِیٌّ أَوْ قَتَلَ نَبِیًّا وَإِمَامُ ضَلَالَۃٍ وَمُمَثِّلٌ مِّنَ الْمُمَثِّلِیْنَ) [ مسندا حمد : باب مسند عبداللہ بن مسعود] ” حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : قیامت کے دن سخت ترین عذاب اس شخص کو ہوگا جس کو نبی نے قتل کیا یا اس نے نبی کو قتل کیا اور گمراہ امام اور تصویریں بنانے والے کو عذاب ہوگا۔“ (عَنْ أَبِی الْہَیَّاجِ الأَسَدِیِّ قَالَ قَالَ لِی عَلِیُّ بْنُ أَبِی طَالِبٍ (رض) أَلاَّ أَبْعَثُکَ عَلَی مَا بَعَثَنِی عَلَیْہِ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) أَنْ لاَ تَدَعَ تِمْثَالاً إِلاَّ طَمَسْتَہُ وَلاَ قَبْرًا مُشْرِفًا إِلاَّ سَوَّیْتَہُ)[ رواہ مسلم : کتاب الجنائز] ” ابو الھیاج اسدی کہتے ہیں مجھے علی بن ابی طالب (رض) نے کہا کیا میں تجھے اس کام پر نہ بھیجوں جس پر مجھے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھیجا تھا کہ ہر تصویرکو مٹادو اور جو اونچی قبر نظر آئے اسے برابر کردو۔“ کون سی تصویر جائز ہے؟ (عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ (رض) سَمِعْتُ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَقُولُ کُلُّ مُصَوِّرٍ فِی النَّارِ یَجْعَلُ لَہُ بِکُلِّ صُورَۃٍ صَوَّرَہَا نَفْسًا فَتُعَذِّبُہُ فِی جَہَنَّمَ وَقَالَ إِنْ کُنْتَ لاَ بُدَّ فَاعِلاً فَاصْنَعِ الشَّجَرَ وَمَا لاَ نَفْسَ لَہُ)[ رواہ مسلم : باب لاَ تَدْخُلُ الْمَلاَءِکَۃُ بَیْتًا فیہِ کَلْبٌ وَلاَ صُورَۃٌ] ” حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے ہوئے سنا ہر تصویر بنانے والا آگ میں جلے گا ہر تصویر کو ایک نفس کی شکل دی جائے گی اور تصویر بنانے والے کو اس کی وجہ سے عذاب دیا جائے گا۔ حضرت ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ اگر تو ضرور تصویر بنانا چاہتا ہے تو درخت یا اس چیز کی تصویر بنا جس میں جان نہ ہو۔ مسائل ١۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے لیے جنات بڑے بڑے قلعے، طشت اور دیگیں تیار کیا کرتے تھے۔ ٢۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) اپنی رعایا پر بڑے مہربان اور فیاض تھے۔ ٣۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) اور ان کے اہل و عیال اپنے رب کا شکر ادا کرنے والے تھے۔ سبأ
14 فہم القرآن ربط کلام : حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی موت۔ دنیا میں جو شخص آیا ہے اسے بالآخر یہاں سے جانا ہے۔ بے شک وہ بادشاہ ہو یا فقیر، نیک ہو یا بد یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کے محبوب پیغمبر بھی دنیا سے کوچ کر گئے مفسرین نے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی موت کا واقعہ بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ سلیمان (علیہ السلام) نے اپنی زندگی کے آخری دور میں مسجد اقصیٰ کی تعمیر شروع کروائی جسے یہودی ہیکل سلیمانی کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ مسجد اقصیٰ کی تعمیرجاری تھی کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو بذریعہ وحی بتلایا گیا کہ آپ کی موت کا وقت قریب آ پہنچا ہے۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) حجرے میں جا کر اللہ تعالیٰ کی عبادت میں مصروف ہوگئے۔ طویل قیام کے لیے لاٹھی کے سہارے پر کھڑے تھے کہ ان کی روح قبض کرلی گئی۔ جس کے متعلق بتلایا جارہا ہے کہ جب ہم نے ان کی موت کا فیصلہ کیا یعنی حضرت سلیمان (علیہ السلام) فوت ہوگئے۔ فوت ہونے کے باوجود جنات کوا نکی خبر نہ ہوپائی وہ اسی طرح ہی تعمیر اور مشکل کاموں میں لگے رہے۔ یہاں تک کہ جس لاٹھی کے سہارے پر کھڑے ہو کر عبادت کررہے تھے اسے دیمک نے چاٹ لیا اور حضرت کا جسداطہر زمین پر گر پڑا۔ اب جنوں کو پتہ چلا کہ ہمارا بادشاہ تو فوت ہوچکا ہے۔ جنات کی فطرت کا ذکر کرتے ہوئے بتلایا ہے۔ کہ اگر جنّات کو پہلے سے معلوم ہوجاتا تو وہ کبھی بھی مشکل کام کرنے کے لیے تیار نہ ہوتے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی موت سے یہ حقیقت واضح ہوگئی کہ جنات بھی غیب نہیں جانتے۔ سلیمان (علیہ السلام) کا وجودِاطہرکتنا عرصہ جوں کاتوں کھڑا رہا۔ اسکے بارے میں غیر مستند حوالوں سے لکھا گیا ہے کہ انکا وجود چار مہینے یا ایک سال تک کھڑا رہا۔ واللہ اعلم (عَنْ عَاءِشَۃَ أُمِّ الْمُؤْمِنِینَ أَنَّہَا قَالَتْ لَمَّا قَدِمَ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) الْمَدِینَۃَ وُعِکَ أَبُو بَکْرٍ وَبِلاَل (رض) قَالَت فَدَخَلْتُ عَلَیْہِمَا فَقُلْتُ یَا أَبَتِ کَیْفَ تَجِدُکَ وَیَا بلاَلُ کَیْفَ تَجِدُکَ قَالَتْ فَکَانَ أَبُو بَکْرٍ إِذَا أَخَذَتْہُ الْحُمَّی یَقُولُ کُلُّ امْرِءٍ مُصَبَّحٌ فِی أَہْلِہِ وَالْمَوْتُ أَدْنَی مِنْ شِرَاکِ نَعْلِہِ) [ رواہ البخاری : باب مَا جَاءَ فِی وَبَاءِ الْمَدِینَۃِ] ” ام المؤمنین حضرت عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ وہ فرماتی ہیں کہ جب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مدینہ آئے تو حضرت ابوبکر اور بلال (رض) کو شدید بخار ہوگیا حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ میں ان کے ہاں گئی اور ان کی تیماداری کی۔ ابو بکر (رض) نے فرمایا کہ ہر انسان اپنے گھر میں صبح کرتا ہے اور موت جوتے کے تسمے سے بھی زیادہ قریب ہے۔“ (عَنْ عَبْدِ اللَّہِ (رض) قَالَ خَطَّ النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خَطًّا مُرَبَّعًا، وَخَطَّ خَطًّا فِی الْوَسَطِ خَارِجًا مِنْہُ، وَخَطَّ خُطُطًا صِغَارًا إِلَی ہَذَا الَّذِی فِی الْوَسَطِ، مِنْ جَانِبِہِ الَّذِی فِی الْوَسَطِ وَقَالَ ہَذَا الإِنْسَانُ، وَہَذَا أَجَلُہُ مُحِیطٌ بِہِ أَوْ قَدْ أَحَاطَ بِہِ وَہَذَا الَّذِی ہُوَ خَارِجٌ أَمَلُہُ، وَہَذِہِ الْخُطُطُ الصِّغَارُ الأَعْرَاضُ، فَإِنْ أَخْطَأَہُ ہَذَا نَہَشَہُ ہَذَا، وَإِنْ أَخْطَأَہُ ہَذَا نَہَشَہُ ہَذَا )[ رواہ البخاری : باب فِی الأَمَلِ وَطُولِہِ ] ” حضرت عبداللہ (رض) بیان کرتے ہیں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے چوکور خط کھینچا اور ایک خط اس کے درمیان میں سے کھینچا جو چوکور خط سے باہر نکل رہا تھا اور اس کے ارد گرد چھوٹے چھوٹے اور خط کھینچے آپ نے فرمایا درمیان والا خط انسان ہے اور چاروں طرف سے اس کی اجل اسے گھیرے ہوئے ہے اور یہ جو خط باہر نکل رہا ہے یہ اس کی حرص ہے اور چھوٹے چھوٹے جو خطوط ہیں یہ اس کی خواہشات ہیں اگر ایک سے بچے تو دوسری خواہش دامن تھام لیتی ہے۔“ مسائل ١۔ موت ایک اٹل حقیقت ہے جس سے کوئی بچ پایا اور نہ بچ پائے گا۔ ٢۔ جنات غیب نہیں جانتے۔ تفسیربالقرآن موت ہر ذی روح کا مقدر ہے : ١۔ ہر شے فنا ہوجائے گی۔ (الرحمن : ٢٦، القصص : ٨٨) ٢۔ قلعہ بند ہونے کے باوجود کسی کو موت نہیں چھوڑتی۔ (النساء : ٧٨) ٣۔ موت کی جگہ اور وقت مقرر ہے۔ (الاعراف : ٣٤) ٤۔ سب کو موت آنی ہے۔ (الانبیاء : ٣٥) ٥۔ پہلے انبیاء فوت ہوئے۔ (آل عمران : ١٤٤) ٦۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی موت سے ہمکنار ہوئے۔ (الزمر : ٣٠) سبأ
15 فہم القرآن ربط کلام : حضرت سلیمان (علیہ السلام) بے پناہ وسائل کے حامل، زبردست حکمران اور انتہائی ترقی یافتہ مملکت کے سربراہ ہونے کے باوجود اللہ تعالیٰ کے شکر گزار بندے تھے یہاں تک کہ موت کے وقت بھی اپنے رب کے شکر میں مشغول تھے ان کے بعد ایک نافرمان ترقی یافتہ قوم کا ذکر۔ قوم سبا کا علاقہ موجودہ یمن کی سرزمین تھی۔ سبا ایک شخص کا نام تھا جس کے دس بیٹے تھے۔ اس سے دس قبیلے معرض وجود میں آئے۔ اس قوم کے عروج وزوال کا دور صدیوں پر محیط ہے۔ ایک وقت تھا کہ اقتدار اور اختیار اور تہذیب وتمدن کے حوالے سے اس قوم کا طوطی بولتا تھا اور روم اور یونان کی تہذیبیں ان کے مقابلے میں کوئی حیثیت نہیں رکھتی تھیں۔ اس قوم کا آب پاشی کا نظام نہایت ہی مربوط اور منظم تھا۔ اس قوم نے بارش کا پانی ذخیرہ کرنے کے لیے بند بنا رکھے تھے۔ ان کا دارالخلافہ مآرب تھا۔ سب سے مضبوط بند اسی جگہ تعمیر کیا گیا جو سدِّ مآرب کے نام سے معروف تھا۔ ان کی مملکت میں اکثر راستوں کے دونوں طرف باغات کا لامتناہی سلسلہ پھیلا ہوا تھا۔ سفر کرنے والے کو یوں محسوس ہوتا تھا جیسے وہ باغات کی سیر کر رہا ہے۔ آبپاشی کا نظام اور قوم کی مسلسل محنت کی وجہ سے ہزاروں میلوں پر پھیلا ہوا علاقہ حسن وجمال کا پیکر دکھائی دیتا تھا۔ اس ملک کی فصلوں میں انگور، کھجور، دارچینی اور بخارات کے درخت کثرت سے پائے جاتے تھے۔ صبح اور شام کے وقت باغات کی بھینی بھینی خوشبو پورے علاقے کو معطر کردیتی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے اس زمین کو ” بَلَدٌ طَیْبَۃٌ“ قرار دیا ہے۔ رزق کی فراوانی اور وسائل کی بہتات کی وجہ سے یہاں کے لوگ عیش وعشرت کی زندگی میں اس قدر مست ہوئے کہ انہوں نے خالق حقیقی کو اس طرح فراموش کردیا جیسے ان کا کوئی خالق ہی نہ ہو۔ اہل علم نے لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف انبیاء کرام (علیہ السلام) کو مبعوث کیا۔ مگر اس قوم نے فخر وغرور کی بناء پر انبیاء کرام (علیہ السلام) کی دعوت کو مسترد کردیا۔ جس مآرب نامی مضبوط ڈیم پر یہ قوم فخر کرتی اور اس کے بل بوتے پر ترقی کر رہی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے بارشوں کا ایسا سلسلہ جاری فرمایا کہ ڈیم پانی کو برداشت نہ کرسکا اور وہ اس طرح پھٹ پڑا جیسے خربوزہ پھٹ جاتا ہے۔ اوپر سے بارشیں اور نیچے سے بند ٹوٹنے کی وجہ سے اس قدر تباہ کن سیلاب آیا کہ جس کا قوم تصور بھی نہیں کرسکتی تھی۔ فصلیں تباہ ہوگئیں۔ ملک کا وسیع علاقہ ریت اور بھل کی وجہ سے دلدل بن گیا۔ اور آبپاشی کا نظام درہم برہم ہوا، بڑے بڑے محلات میں ناقابل مرمت دراڑیں واقع ہوگئیں۔ تعمیر نوکی کوئی صورت کار گر ثابت نہ ہوئی۔ جس سرزمین پر باغات مہکتے تھے اور فصلیں لہلہایا کرتی تھیں وہاں خار دار جھاڑیاں اور اس طرح کی جڑی بوٹیاں پیدا ہوئیں کہ ملک ایک بھیانک جنگل کا منظر پیش کر رہا تھا۔ خار دار جھاڑیوں میں کہیں کہیں خود رو بیریوں کے درخت اگ پڑے۔ جن کے بیروں پر یہ قوم ایک عرصہ تک اپنا پیٹ بھرنے پر مجبور ہوئی۔ جو ملک اپنی ترقی کے حوالے سے دوسری اقوام کے لیے ایک نمونہ تھا وہی عبرت کا مجسمہ بنا۔ جس کے بارے میں ارشاد فرمایا ہے کہ قوم سبا کو یہ سزا ان کی نا شکری کی وجہ سے دی گئی جو صرف ان کے لیے مخصوص نہیں بلکہ ہم ہر نا شکرے کو ایسی ہی سزا دیا کرتے ہیں۔ (عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِیرٍ (رض) قَالَ قَال النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عَلَی الْمِنْبَرِ مَنْ لَمْ یَشْکُرِ الْقَلِیلَ لَمْ یَشْکُرِ الْکَثِیرَ وَمَنْ لَمْ یَشْکُرِ النَّاسَ لَمْ یَشْکُرِ اللَّہَ عَزَّ وَجَلَّ وَالتَّحَدُّثُّ بِنِعْمَۃِ اللَّہِ شُکْرٌ وَتَرْکُہَا کُفْرٌ وَالْجَمَاعَۃُ رَحْمَۃٌ وَالْفُرْقَۃُ عَذَابٌ)[ رواہ احمد : مسند نعمان بن بشیر] ” حضرت نعمان بن بشیر (رض) سے روایت ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے منبر پر کھڑے ہو کر ارشاد فرمایا جس نے چھوٹی نعمت پر اللہ کا شکر ادا نہ کیا وہ بڑی نعمت پر شکر ادا نہیں کرسکتا اور جس نے لوگوں کا شکریہ ادا نہ کیا اس نے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا نہ کیا۔ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا اعتراف کرنا اس کا شکر کرنے کے مترادف ہے اور جس نے ان نعمتوں کو استعمال نہ کیا گویا اس نے ناشکری کی جماعت اللہ کی رحمت کا باعث ہے اور تفرقہ بازی اللہ کا عذاب ہے۔“ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شکر کی دعا : (اَللّٰھُمَّ أَعِنِّیْ عَلٰی ذِکْرِ کَ وَشُکْرِکَ وَحُسْنِ عِبَادَتِکَ) [ رواہ ابوداوٗد : کتاب الصلاۃ] ” الٰہی! اپنے ذکر، شکر اور اچھی طرح عبادت کرنے پر میری مدد فرما۔“ مسائل ١۔ قوم سبا کو ان کی ناشکری کی وجہ سے تباہ کردیا گیا۔ ٢۔ قوم سبا کے بیراج ہی ان کی تباہی کا سبب ثابت ہوئے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ ناشکرے لوگوں کو دنیا اور آخرت میں سزا دے گا۔ تفسیر بالقرآن ناشکری اور کفر کے نقصانات : ١۔ اگر تم اس کی ناشکری کرو گے تو اللہ تعالیٰ بے پروا اور لائقِ تعریف ہے۔ (ابراہیم : ٨) ٢۔ اگر تم شکر کرو گے تو میں تمہیں زیادہ دوں گا اگر ناشکری کرو تو اس کا عذاب بڑا سخت ہے۔ (ابراہیم : ٧) ٣۔ اللہ تمہیں عذاب نہیں دے گا اگر تم شکر کرو اور ایمان لے آؤ۔ (النساء : ١٤٧) ٤۔ بستی والوں نے اللہ کی نعمتوں کی ناشکری کی تو اللہ نے ان پر بھوک اور خوف مسلّط کردیا۔ (النحل : ١١٢) ٥۔ جو شخص شکر کرتا ہے اس کا فائدہ اسی کو ہے اور جو ناشکری کرتا ہے میرا رب اس سے بے پروا ہے۔ (النمل : ٤٠) ٦۔ اگر انسان پر اس کے کرتوتوں کی وجہ سے مصیبت آجائے تو ناشکرا ہوجاتا ہے۔ (الشوریٰ: ٤٨) ٧۔ بے شک انسان بڑا ہی ناانصاف اور ناشکرا ہے۔ (ابراہیم : ٣٤) ٨۔ انسان بڑا ہی ناشکرا ہے۔ (بنی اسرائیل : ١٠٠) ٩۔ اللہ تعالیٰ انسانوں پر فضل فرماتا ہے لیکن ان کی اکثریت شکرادا نہیں کرتی۔ (یونس : ٦٠) ١٠۔ اگر انسان کو اللہ رحمت دے کر چھین لے تو یہ مایوس اور ناشکرا ہوجاتا ہے۔ (ہود : ٩) سبأ
16 سبأ
17 سبأ
18 فہم القرآن ربط کلام : قوم سبا کا تمدّن۔ قوم سبا اپنے دور میں نظام آبپاشی اور زراعت میں ہی خود کفیل اور انتہائی ترقی یافتہ نہ تھی بلکہ تہذیب و تمدّن کے اعتبار سے بھی اپنی مثال آپ اور باکمال تھی۔ اس کے اکثر شہر اور بستیاں شاہراؤں پر واقع تھے جس سے سفر آسان، محفوظ اور مسافروں کو کھانے پینے اور قیام میں کوئی دقت پیش نہیں آیا کرتی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں تعمیر و ترقی کی ایسی صلاحیتیں عطا فرمائیں تھیں جنہیں بروئے کار لاتے ہوئے انہوں نے ٹھیک منصوبہ بندی کے ساتھ تعمیراتی کام کیے اور شہروں کے بہترین نقشے بنائے جس سے عوام کو ہر قسم کی سہولت میسرتھی۔ لوگ پُر سکون اور عیش کی زندگی بسر کررہے تھے۔ چاہیے تو یہ تھا کہ یہ لوگ پُر سکون زندگی اور ملک کی ترقی پر اللہ تعالیٰ کے شکر گزار ہوتے لیکن انہوں نے شکر کی بجائے نا شکری کا رویہ اختیار کیا اور اس قدر بغاوت کی۔ کہنے لگے کہ اے ہمارے رب! ہمارے شہروں کے درمیان مسافت پیدا کردے۔ اس طرح انہوں نے آبادی کی کثرت اور اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو اپنے لیے بوجھ جانا۔ انہوں نے اپنے آپ پر ظلم کیا جس پر اللہ تعالیٰ نے ان کی ترقی اور خوشحالی کو ان کے لیے وبال بنایا اور شدید سیلاب کے ذریعے انہیں تہس نہس کردیا جو طویل عرصہ تک اپنے بعد آنیوالی اقوام کے لیے عبرت گاہ بن گئے۔ قوم سبا کی تاریخ اور آثار اس شخص کے لیے سامان عبرت ہیں جو مشکلات پر صبر اور خوشحالی پر اپنے رب کا شکر ادا کرتا ہے۔ ضروری نہیں ہے کہ انہوں نے زبان ہی سے یہ دعا کی ہو کہ ” اللہ“ ہماری بستیوں کو ایک دوسرے سے دور کر دے۔ دراصل جو شخص اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی ناشکری کرتا ہے گویا وہ زبان حال اور اپنے برے کردار کے ذریعے یہ کہتا ہے کہ الٰہی میں ان نعمتوں کا مستحق نہیں ہوں۔ سبأ
19 امام رازی نے لکھا ہے کہ جس طرح بنی اسرائیل نے من وسلویٰ کے بارے میں اکتاہٹ کا اظہار کیا اور پیاز وغیرہ کا مطالبہ کیا تھا اسی طرح ہی قوم سبانے یہ مطالبہ کیا تھا یا پھر وہ تکبر کے طور پر کہنے لگے کہ ہمارے با غات تباہ نہیں ہوسکتے اور ہمارے سفر مشکل نہیں بن سکتے۔ اس تکبر کے نتیجے میں ہی ان کا سب کچھ تباہ کردیا گیا۔ (اللہ اعلم) مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے قوم سبا کو بہت سی برکات سے نوازا تھا۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے قوم سبا کو سفر وحضر میں ہر قسم کی سہولت عنایت فرمائی تھی۔ ٣۔ قوم سبا نے شکر کی بجائے کفر کا راستہ اختیار کیا جس بناء پر انہیں تہس نہس کردیا گیا۔ تفسیر بالقرآن نشانات عبرت سے سبق سیکھنے والے لوگ : ١۔ حضرت یوسف اور ان کے بھائیوں کے قصہ میں پوچھنے والوں کے لیے نشانیاں ہیں۔ (یوسف : ٧) ٢۔ انبیاء کے قصے برحق ہیں مومنین کے لیے اس میں نصیحت ہے۔ (ھود : ١٢٠) ٣۔ یہ قصے برحق ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی الٰہ نہیں۔ (آل عمران : ٦٢) ٤۔ حضرت یوسف اور ان کے بھائیوں کے قصے میں عقل مندوں کے لیے عبرت ہے۔ (یوسف : ١١١) ٥۔ انبیاء کے واقعات میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے تابع داروں کے لیے تسلی کا سامان ہے۔ ( ہود : ١٢٠) ٦۔ رات اور دن کے مختلف ہونے، آسمان سے رزق اتارنے میں عقل والوں کے لیے نشانیاں ہیں۔ (الجاثیۃ: ٥) ٧۔ بے شک دن اور رات کے مختلف ہونے میں اور جو کچھ اللہ نے زمین و آسمان میں پیدا کیا ہے، اس میں ڈرنے والوں کے لیے نشانیاں ہیں۔ (یونس : ٦) سبأ
20 فہم القرآن ربط کلام : جو مصیبت پر صبر نہیں کرتا اور اپنے رب کی نعمتوں کا شکر ادا نہیں کرتا وہ شیطان کی بات کو سچ کر دکھاتا ہے۔ ہمیشہ ان لوگوں کی اکثریت رہی ہے۔ ابلیس غیب کا علم نہیں جانتا تھا لیکن وہ سمجھتا تھا کہ جن عناصر پر حضرت آدم (علیہ السلام) کو تخلیق کیا گیا ہے وہ باہم متصادم ہیں جس بنا پر آدم (علیہ السلام) اور اس کی اولاد کو گمراہ کرنا آسان ہوگا۔ اس کے علاوہ ابلیس جِنّات کو بھی دیکھ چکا تھا کہ ان کی اکثریت گمراہ ہوچکی ہے۔ ابلیس کے اسی گمان کے بارے میں کہا گیا ہے کہ ابلیس نے اپنے گمان کو سچ کر دکھایا کہ مومنوں کی جماعت کے علاوہ باقی سب لوگ اس کی پیروی کریں گے۔ اللہ تعالیٰ نے شیطان کو لوگوں کو گمراہ کرنے کے لیے ایسا اختیار نہیں دیا جس سے وہ اپنی طاقت کے زور پر لوگوں کو گمراہ کرسکے۔ شیطان کو صرف یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ اپنے جھوٹے وعدوں، مکر وفریب اور برے اعمال کو فیشن کے طور پر پیش کرکے لوگوں کو گمراہ کرسکے۔ اسی بنیاد پر شیطان سچے اور پکے ایمان داروں کے سوا دوسرے لوگوں کو گمراہ کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ اختیاراس لیے دیا ہے کہ شیطان کے ذریعے امتیاز ہوسکے کہ کون شخص آخرت پر سچا اور پکا ایمان رکھتا ہے اور کون آخرت کے بارے میں شک کا شکار ہوتا ہے۔ اے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ کا رب ہر چیز پر نگران ہے۔ آخرت پر ایمان کا اس لیے حوالہ دیا ہے کہ آخرت پر یقین رکھنے والا شخص بالآخر سیدھے راستے پر آجاتا ہے۔ کیونکہ اسے احساس ہوتا ہے کہ میں نے اپنے اعمال کا اپنے رب کے حضور جواب دینا ہے۔ نگران کی صفت بیان فرما کر یہ واضح کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز کا محافظ اور نگہبان ہے یعنی اس سے کوئی بات اور چیز پوشیدہ نہیں۔ لیکن اس کے باوجود لوگوں کی آزمائش کرنے اور مومنوں سے گمراہوں کو جدا کرنے کے لیے اس نے شیطان کو ایک حد تک اختیار دے رکھا ہے جس بنا پر وہ ایسے لوگوں کو گمراہ کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے جن کا آخرت پر سچا اور پکا ایمان نہیں ہوتا۔ جس آدمی کا جس قدر آخرت کی جوابدہی کے بارے میں سچا اور پکا ایمان ہوگا وہ اسی قدر ہی شیطان کے پھندوں سے محفوظ رہے گا۔ کیونکہ شیطان کو اس طرح کا اختیار اور غلبہ نہیں دیا گیا جس بنا پر وہ لوگوں کو گمراہ کرسکے اس لیے قیامت کے دن جہنمیوں کے سامنے شیطان اپنے بارے میں اس بات کا اظہار کرے گا۔ کہ جو وعدہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے ساتھ کیا تھا وہ سچا تھا اور جو وعدہ میں تمہارے ساتھ کیا کرتا تھا وہ جھوٹا تھا۔ میرا تم پر کوئی زور نہ تھا۔ بس میں نے تمہیں گمراہی کی دعوت دی جسے تم نے قبول کرلیا۔ اب مجھے ملامت کرنے کی بجائے اپنے آپ کو ملامت کرو۔ نہ میں تمہاری مدد کرسکتا ہوں اور نہ ہی تم میری مدد کرسکتے ہو۔ دنیا میں جو تم مجھے اللہ کا شریک بناتے رہے ہو میں اس کا انکار کرتاہوں۔ یقیناً ظالموں کے لے اذّیت ناک عذاب ہے (ابراہیم : ٣٢) مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ کا ہر وعدہ سچا ہے اور شیطان کے تمام وعدے جھوٹے ہیں۔ ٢۔ شیطان قیامت کے دن ہر قسم کے شرک سے انکار کردے گا۔ ٣۔ انسان کو گمراہ کرنے کے لے اللہ تعالیٰ نے شیطان کو کوئی تسلّط نہیں دیا۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ نے ظالموں کے لیے اذّیت ناک عذاب تیار کر رکھا ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ کا ہر وعدہ سچا ہے اور شیطان کے تمام وعدے جھوٹے ہیں : ١۔ اللہ تعالیٰ کی بات سے کسی کی بات سچی نہیں ہو سکتی۔ (النساء : ٨٧) ٢۔ اللہ تعالیٰ وعدہ خلافی نہیں کرتا۔ (آل عمران : ٩) ٣۔ اللہ تعالیٰ کا وعدہ حق ہے تمہیں دنیا کی زندگی دھوکے میں نہ ڈال دے۔ (لقمان : ٣٣) ٤۔ جو اللہ کا وعدہ پورا کرے گا اللہ تعالیٰ اس کے ساتھ اپنا وعدہ پورا فرمائے گا۔ (البقرۃ: ٤٠) ٥۔ شیطان کا وعدہ فریب ہے۔ (بنی اسرائیل : ٦٤) ٦۔ شیطان مفلسی سے ڈراتا اور بے حیائی کا حکم دیتا ہے۔ (البقرۃ: ٢٦٨) ٧۔ شیطان برے اعمال فیشن بنا دیتا ہے۔ (النحل : ٦٣) ٨۔ لوگو! شیطان تمہارا دشمن ہے اسے اپنا دشمن سمجھو۔ ( فاطر : ٦) سبأ
21 سبأ
22 فہم القرآن ربط کلام : شیطان کا سب سے بڑا حربہ یہ ہے کہ وہ انسان سے شرک کروائے، مشرک کا گمان ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کچھ بزرگوں کو اپنی اپنی خدائی میں شریک کر رکھا ہے جس کی تردید کی گئی ہے۔ اے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ان لوگوں خو بتلائیں جو اللہ تعالیٰ کے سوا دوسروں کو حاجت روا اور مشکل کشا سمجھتے ہیں کہ وہ انہیں اپنی مدد کے لیے بلائیں۔ انہیں معلوم ہوجائے گا کہ وہ زمین و آسمان میں ایک ذرہ کے برابر بھی کسی چیز کے مالک نہیں اور نہ ہی ان میں کسی چیز میں حصہ دار ہیں اور نہ ہی ان میں کوئی اللہ تعالیٰ کا معاون اور مددگار تھا اور ہے اور نہ ہوگا۔ جب اللہ تعالیٰ کی خدائی میں رائی کے دانے کے برابر بھی حصہ دار نہیں تو وہ اس کے حضور سفارش کرنے کا اختیار بھی نہیں رکھتے۔ اللہ تعالیٰ کے حضور وہی سفارش کرپائے گا جسے وہ اجازت عنایت کرے گا۔ ہر دور کے مشرکوں کا یہ عقیدہ رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بزرگوں کی عبادت اور ریاضت سے خوش ہو کر انہیں کچھ اختیارات دے رکھے ہیں اس لیے اگر بزرگ کسی کے حق میں سفارش کریں تو اللہ تعالیٰ ان کی سفارش کو مسترد نہیں کرپائے گا۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے کسی کو ایسا اختیار نہیں دیا البتہ جن بزرگوں کو اللہ تعالیٰ سفارش کا حق دے گا وہ بھی کسی کے حق میں اتنی ہی سفارش کریں گے جتنی اللہ تعالیٰ اجازت دے گا۔ سفارش کرنے والے اور جن کے حق میں سفارش کی جائے گی وہ ڈر کے مارے بڑی آہستہ آواز اور چپکے سے ایک دوسرے سے پوچھیں گے کہ رب ذوالجلال نے اس سفارش کا کیا جواب دیا ہے ؟ سفارش کرنے والا اور جس کے حق میں سفارش کی جائے گی وہ خوف کے مارے ایک دوسرے سے کہیں گے کہ ہمارا رب جو حکم صادر فرمائے گا وہ ہر حال میں حق اور عدل پر مبنی ہوگا کیونکہ وہ ظلم کرنے سے مبّرا اور ہر قسم کے شرک سے بلند وبالا ہے۔ بعض مفسرین نے اس گفتگو کو ملائکہ کی طرف منسوب کیا ہے کہ ملائکہ ایک دوسرے سے کہیں گے کہ اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہر اعتبار سے حق اور سچ ہے۔ یہاں دونوں مفہوم لینے کی گنجائش پائی جاتی ہے۔ مسائل ١۔ کائنات کی تخلیق میں اللہ تعالیٰ کا کوئی شریک اور معاون نہ تھا اور نہ ہے اور نہ ہو گا ٢۔ مشرک اللہ تعالیٰ کے سوا یا اس کے ساتھ جس کو پکارتے ہیں وہ ذرہ برابر بھی کسی چیز کے مالک نہیں ہیں۔ ٣۔ مشرک جن کو حاجت روا اور مشکل کشا سمجھتے ہیں وہ اللہ تعالیٰ کے حضور کوئی سفارش کرنے کا اختیار نہیں رکھتے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ کے حضور صرف وہی سفارش کرسکے گا جسے اللہ تعالیٰ اجازت عطا فرمائے گا۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ ہر اعتبار سے مشرکوں کے تصورات سے بلندو بالا ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ کے حضور سفارش کرنے کے آداب : ١۔ کون ہے جو اللہ کی اجازت کے بغیر سفارش کرسکے۔ (البقرۃ: ٢٥٥) ٢۔ قیامت کے دن سفارش کام نہ آئے گی۔ (البقرۃ: ٢٥٤) ٣۔ کافر اور مشرک کو کوئی سفارش فائدہ نہیں پہنچائے گی۔ (المدثر : ٤٨) ٤۔ کافروں کا کوئی سفارشی نہیں ہوگا۔ (انعام : ٥١) ٥۔ ظالموں کا کوئی دوست ہوگا اور نہ سفارشی۔ (المومن : ١٨) ٦۔ بزرگ اور سرداربھی سفارش نہ کریں گے۔ (الروم : ١٣) سبأ
23 سبأ
24 فہم القرآن ربط کلام : مشرک کا یہ بھی عقیدہ ہے کہ جن بزرگوں کو اللہ تعالیٰ نے کچھ اختیار دے رکھے ہیں وہ ان کے رزق کے بارے میں بھی اختیار رکھتے ہیں۔ مشرک کا یہ بھی عقیدہ ہے کہ جب تک کسی بت یا قبر پر نذرانہ پیش نہ کیا جائے اس وقت تک ہمارے رزق میں اضافہ نہیں ہوسکتا۔ اس لیے مشرک سمجھتا ہے کہ دنیا میں جو کچھ اسے مل رہا ہے وہ ان بزرگوں کی طفیل ملتا ہے۔ اسی بناء پر بت پرست بتوں کے سامنے، فوت شدگان کے سامنے جھکنے والے مزارات پر اور حضرت خضر کو حاجت روا سمجھنے والے دریاؤں اور سمندروں میں نذرانے ڈالتے ہیں۔ یہاں تک کہ کلمہ پڑھنے والوں کی ایک اچھی خاصی تعداد یہ عقیدہ رکھتی ہے کہ اگر ہم نے پیر عبدالقادر جیلانی کے نام پر گیارہویں پیش نہ کی تو وہ ناراض ہو کر ہمارے رزق میں کمی کردیں گے۔ قرآن مجید نے ایسے لوگوں سے کئی مرتبہ سوال کیا ہے کہ بتلاؤ اللہ تعالیٰ کے سوا کون رزق دینے اور اس میں کمی بیشی کرنے والا ہے ؟ اس کے جواب میں ہر دور کا مشرک یہ اقرار کرتاآرہا ہے اور کرتا رہے گا کہ رزق دینا اور اس میں کمی بیشی کرناصرف اللہ تعالیٰ کا کام ہے۔ اس اقرار کے باوجود مشرک اپنے عقیدہ سے تائب ہونے اور شرک کو چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ یہی مشرکین مکہ کی کیفیت تھی جس کے بارے میں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ارشاد ہوا کہ کہ آپ ان سے سوال کریں کہ زمین و آسمان سے تمہیں رزق کون دیتا ہے ؟ کون تمہارے کانوں اور آنکھوں کا مالک ہے ؟ کون زندہ سے مردہ اور مردہ سے زندہ پیدا کرتا ہے ؟ کون پوری کائنات کو چلا رہا ہے۔ (یونس : ٣١) ان کا جواب یہ تھا کہ اللہ ہی ہر چیز کا مالک ہے اور سارے کام چلا رہا ہے۔ ان سے فرمائیں کہ پھر تم شرک سے باز کیوں نہیں آتے ؟ اللہ ہی تمہارا سچا رب ہے۔ اس سچائی کے بعد تو گمراہی ہی گمراہی ہے۔ اس کے باوجود تم کیوں بہکے جا رہے ہو ؟ در اصل آپ کے رب کا فرمان نافرمانوں کے بارے میں سچ ثابت ہوا کہ وہ سب کچھ سمجھنے کے بعد ایمان نہیں لائیں گے۔ (یونس : ٣١ تا ٣٣) پھر ارشاد ہوا کہ مشرکین سے استفسار کریں کہ بتاؤ کون مخلوق کو پہلی بار پیدا کرنے والا ہے اور پھر اپنی طرف لوٹائے گا اور کون آسمان اور زمین سے تمہیں رزق دیتا ہے کیا ” اللہ“ کیساتھ کوئی اور بھی شامل ہے ؟ اگر تم سچے ہو تو اس کی دلیل پیش کرو۔ (النمل : ٦٤) سورۃ روم میں اس مسئلے کو یوں بیان کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ وہ ہستی ہے جس نے تمہیں پیدا کیا پھر تمہیں رزق دیتا ہے، پھر تمہیں موت دے گا موت کے بعد پھر تمہیں زندہ کرے گا۔ کیا تمہارے شریکوں میں سے کوئی ہے جو ان کاموں میں کوئی کام کرکے دکھائے ؟ حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہارے مشرکانہ عقیدہ سے مبرّا اور باطل تصورات سے بالاتر ہے۔ کیونکہ ہر دور کا مشرک اس حقیقت کا اعتراف کرتا ہے۔ لہٰذا اس مقام پر فرمایا کہ آپ خود ہی جواب دیں کہ ” اللہ“ ہی زمین و آسمان سے رزق دینے والاہے۔ اب ان سے پوچھیں کہ بتلاؤہم میں سے کون سیدھے راستے پر ہے اور کون گمراہ ہوچکا ہے۔ یہ جانتے ہیں کہ ہم بھٹکے ہوئے ہیں مگر اس کے باوجود یہ لوگ حقائق تسلیم نہیں کرتے لہٰذا انہیں فرما دیں کہ ہمارے گناہوں پر تمہیں پکڑ نہیں ہوگی اور نہ تمہارے جرائم کے بارے میں ہم سے سوال نہیں ہوگا۔ انہیں پھر فرمادیں کہ جس قیامت کا تم انکار کرتے ہو ہمارا رب اس دن سب کو جمع فرماکر ہمارے درمیان حق اور عدل کے ساتھ فیصلہ فرمائے گا۔ وہ بہترین فیصلہ کرنے والا اور سب کچھ جاننے والاہے۔ ایک مرتبہ پھر ان سے مطالبہ کریں کہ مجھے وہ لوگ دکھاؤ جن کو تم نے اللہ کا شریک بنا رکھا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ ایسا کبھی نہیں کرسکتے کیونکہ حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات، اس کی صفات اور اس کے کاموں میں کوئی شریک نہیں ہے اور نہ ہوگا۔ وہی ہر چیز پر غالب ہے اور اس کے ہر فرمان اور کام میں حکمت ہوتی ہے۔ مسائل ١۔ ہر دور کا مشرک اس بات کا اقرار کرتا رہا اور کرتا رہے گا کہ صرف ” اللہ“ ہی رزق دینے والاہے۔ ٢۔ ہر شخص اپنے عقیدہ و عمل کا ذمہ دار ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن سب کو اپنے حضور جمع فرماکرحق اور عدل کے ساتھ فیصلہ فرمادے گا۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ بہترین فیصلہ کرنیوالا اور سب کچھ جاننے والاہے۔ ٥۔ ہر دورکامشرک حقائق کی روشنی میں کسی کو بھی اللہ تعالیٰ کا شریک نہ ثابت کرسکا اور نہ ہی کبھی ثابت کرسکے گا۔ ٦۔ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر غالب ہے اور اس کے ہر فرمان اور کام میں حکمت ہوتی ہے۔ تفسیر بالقرآن ہر دورکے مشرک سے سوالات : ١۔ مشرک سے سوال کیا جائے کہ آسمان و زمین سے رزق کون دیتا ہے کہتے ہیں اللہ ہی رزق دیتا ہے۔ (یونس : ٣١) ٢۔ مشرکین سے پوچھا جائے مخلوق کو پیدا کرنے والا کون ہے؟ جواب دیتے ہیں اللہ ہی پیدا کرنے والا ہے۔ (یونس : ٣٤) ٣۔ اگر ان سے پوچھا جائے کہ زمین و آسمان کا خالق کون ہے؟ کہتے ہیں اللہ ہی خالق ہے۔ (الزمر : ٣٨) ٤۔ مشرکوں سے پوچھاجائے سات آسمانوں اور عرش عظیم کا مالک کون ہے؟ جواب میں کہتے ہیں کہ اللہ ہی مالک ہے۔ (المومنون : ٨٦۔ ٨٧) ٥۔ اگر ان سے پوچھا جائے کہ ہر چیز پربادشاہت کس کی ہے ؟ جواب دیتے ہیں اللہ کی بادشاہی ہے۔ (المومنون : ٨٨۔ ٨٩) ٦۔ اگر تو ان سے پوچھیں کہ کس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور کس نے سورج اور چاند کو مسخر کیا ؟ تو وہ ضرور کہیں گے کہ اللہ نے، اب فرمائیں کہ پھر کہاں سے بہکائے جا رہے ہیں۔ (العنکبوت : ٦١) سبأ
25 سبأ
26 سبأ
27 سبأ
28 فہم القرآن ربط کلام : اگر مشرکین ” اللہ“ کی توحید کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں تو اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ اپنا کام کرتے جائیں۔ کیونکہ آپ صرف مکہ والوں کے لیے نہیں بلکہ تمام انسانوں کے لیے رسول بنائے گئے ہیں۔ اس فرمان میں ایک طرف نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دی گئی ہے کہ اگر آپ کے مخاطبین آپ کی دعوت قبول کرنے کے لیے تیار نہیں تو آپ کو دل برداشتہ ہونے کی بجائے اپنا کام جاری رکھنا چاہیے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو کسی ایک بستی، قوم یا نسل کے لیے رسول منتخب نہیں کیا۔ آپ توہر دور کے تمام انسانوں کے لیے رسول منتخب کیے گئے ہیں۔ آپ کی دعوت کا خلاصہ یہ ہے کہ جو اس پر ایمان لائیں گے وہ دنیا میں کامیاب اور آخرت میں سرخرو ہوں گے۔ جنہوں نے اس کا انکار کیا وہ دنیا میں نقصان اٹھائیں گے اور آخرت میں اذیت ناک عذاب میں مبتلا ہوں گے۔ آپ کی دعوت سراسر لوگوں کی خیر خواہی کے لیے ہے لیکن اس کے باوجود لوگوں کی غالب اکثریت اسے جاننے اور ماننے کے لیے تیار نہیں۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پہلے جتنے بھی انبیاء مبعوث کیے گئے وہ محدود علاقے اور مخصوص وقت کے لیے نبی بنائے گئے تھے۔ صرف آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات ایسی ہے جسے قیامت تک کے لیے ہر علاقے اور نسل کے لیے رسول منتخب کیا گیا ہے۔ ” اے پیغمبر اعلان فرما دیں کہ اے لوگو! میں تم سب کے لیے اللہ کا رسول بنایا گیا ہوں۔“ [ الاعراف : ١٥٨] (بُعِثْتُ إِلَی النَّاسِ کَافَّۃً الْأَحْمَرِ وَالْأَسْوَدِ) [ رواہ احمد]” میں کالے اور گورے سب کی طرف بھیجا گیا ہوں۔“ تفسیر بالقرآن نبی (علیہ السلام) کی عالمگیر نبوت : ١۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پوری دنیا کے رسول ہیں۔ (الاعراف : ١٥٨) ٢۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سب کے رسول ہیں۔ (سباء : ٢٨) ٣۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مبشر اور نذیر ہیں۔ (الاحزاب : ٤٥) ٤۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رحمتِ دو عالم ہیں۔ (الانبیاء : ١٠٧) ٥۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خاتم النبیین ہیں۔ (الاحزاب : ٤٠) سبأ
29 فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بشیر اور نذیر بنا کر مبعوث فرمایا۔ آپ لوگوں کو آخرت کے عذاب سے ڈراتے تو کفار اس بات کا مذاق اڑاتے اور کہتے ہیں کہیں کہ قیامت کب آئے گی؟ سرور دو عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قرآن مجید کی روشنی میں یہ ثابت کردیا ہے کہ قیامت ہر صورت قائم ہو کر رہے گی۔ لیکن منکرین قیامت ہر قسم کے دلائل کو مسترد کرتے ہوئے باربار مطالبہ کرتے تھے کہ جس قیامت کے برپا ہونے کا آپ بار بار تذکرہ کرتے ہیں اور اسے اپنے رب کا وعدہ قرار دیتے ہیں اگر آپ سچے ہیں تو بتائیں کہ یہ وعدہ کب پورا ہوگا ؟ کیونکہ اس سوال کے متعدد جواب دیئے جا چکے ہیں اس لیے اس موقعہ پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فقط یہ حکم ہواکہ آپ انہیں یہ فرمائیں کہ قیامت کا دن متعین ہے جب وہ دن آئے گا تو نہ تم اسے ٹال سکو گے اور نہ کوئی اسے پہلے لا سکتا ہے۔ اس میں کوئی ایک لمحہ تقدیم و تاخیر نہیں کرسکتا۔ با لفاظ دیگر قیامت کا برپا کرنا اللہ تعالیٰ کی مرضی پر منحصر ہے جس کا اس نے ایک دن مقرر کر رکھا ہے کسی کے ٹالنے سے وہ دن ٹل نہیں سکتا اور کسی کے مطالبے پر وہ پہلے نہیں آسکتا۔ البتہ جس دن کے لیے تم عجلت کا مظاہرہ کرتے ہو وہ زمین و آسمان پر بھاری ہوگا۔ تفسیر بالقرآن قیامت کا ایک دن مقرر ہے : ١۔ یقیناً قیامت کے دن اللہ تمھیں جمع کرے گا جس میں کوئی شک نہیں۔ (الانعام : ١٢) ٢۔ آپ فرما دیں تمھارے پہلے اور آخر والے ضرور اکٹھے کیے جائیں گے۔ (الواقعۃ: ٤٧ تا ٥٠) ٣۔ جس دن ” اللہ“ رسولوں کو جمع کرے گا۔ (المائدۃ: ١٠٩) ٤۔ آپ فرما دیں کہ تم ضرور اٹھائے جاؤ گے۔ (التغابن : ٧) ٥۔ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ سب کو اٹھائے گا پھر ان کے اعمال کی انہیں خبر دے گا۔ ( المجادلۃ: ٦ تا ١٨) سبأ
30 سبأ
31 فہم القرآن ربط کلام : منکرین قیامت کی ہٹ دھرمی کی انتہا اور اس کا جواب۔ توحید و رسالت اور قیامت کے دلائل سُننے اور ان کے سامنے جھکنے کی بجائے منکرین قیامت ہٹ دھرمی کی بنیاد پر کہا کرتے ہیں کہ ہم نہ اس قرآن کو ماننے کے لیے تیار ہیں اور نہ ہی اس سے پہلی کتابوں کو تسلیم کرتے ہیں۔ ظاہر ہے جو شخص کسی دلیل کو ماننے اور کھلی حقیقت کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہ ہو تو اسے سمجھانا اور منوانا مشکل ہوجاتا ہے۔ یہی کیفیت منکرین قیامت کی تھی اس لیے ان کے بارے میں یہ کہا گیا ہے کہ اے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! اب تو یہ لوگ پوری ڈھٹائی کے ساتھ انکار کیے جاتے ہیں۔ کاش ! آپ اس وقت ان کا حال دیکھیں جب ظالم اپنے رب کے سامنے کھڑے کیے جائیں گے اس وقت یہ لوگ اپنے کفر کو ایک دوسرے کے ذمے لگائیں گے۔ ماتحت لوگ اپنے بڑوں سے کہیں گے کہ اگر تم رکاوٹ نہ بنتے تو ہم ضرور ایمان لانے والوں میں شامل ہوتے۔ گویا کہ مرید اپنے پیروں، ور کراپنے لیڈروں اور ماتحت اپنے حاکموں کو مورودِالزام ٹھہراتے ہوئے اپنے آپ کو بری الذّمہ قرار دینے کی کوشش کریں گے۔ اس کے جواب میں پیر، لیڈر اور حاکم اپنے ماتحتوں سے کہیں گے کیا ہم نے تمہیں اس ہدایت سے روکا تھا جو تمہارے پاس آئی تھی ؟ ایسا ہرگز نہیں تم تو خود ہی مجرم تھے یعنی تم پہلے سے ہی دین کے باغی اور قیامت کے منکر بنے ہوئے تھے۔ مسائل ١۔ ہٹ دھرم لوگ کسی دلیل کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ ٢۔ حق کا انکار کرنیوالے لوگ ایک دوسرے کو مجرم ٹھہرائیں گے۔ تفسیر بالقرآن جہنمیوں کا آپس میں تکرار کرنا : ١۔ جہنم میں مرید، پیروں، ور کر، لیڈروں سے کہیں گے کہ ہم تمہارے تابع تھے کیا تم اللہ کے عذاب کا کچھ حصہ دور کرسکتے ہو؟ (ابراہیم : ٢١) ٢۔ جب جہنمی اپنے سے پہلے لوگوں کو دیکھیں گے تو کہیں گے انہوں نے ہمیں گمراہ کیا تھا انہیں دوگنا عذاب دیا جائے۔ (الاعراف : ٣٨) ٣۔ قیامت کے دن وہ ایک دوسرے کا انکار کریں گے اور ایک دوسرے پر پھٹکار کریں گے۔ (العنکبوت : ٢٥) ٤۔ وہ آہ زاریاں کریں گے کہ اے ہمارے رب ہم نے اپنے سرداروں اور اپنے بڑوں کی اطاعت کی اور انہوں نے ہمیں سیدھے راستے سے گمراہ کردیا۔ (الاحزاب : ٦٧) ٥۔ اے رب ان کو دوہرا عذاب دو اور ان پر سخت لعنت کرو۔ (الاحزاب : ٦٨) ٦۔ قیامت کے دن پیروکار کہیں گے اگر دنیا میں جانا ہمارے لیے ممکن ہو تو ہم تم سے براءت کا اظھار کریں گے۔ (البقرۃ: ١٦٧) سبأ
32 سبأ
33 فہم القرآن ربط کلام : قیامت کے دن مجرموں کا آپس میں تکرار اور کمزور لوگوں کا بڑے لوگوں کو جواب۔ تابع لوگ اپنے مطاع لوگوں کی بات کو رد کرتے ہوئے کہیں گے کہ ہرگز نہیں ! بلکہ تمہاری صبح و شام کی مکاریاں تھیں کہ تم نے اپنے مکرو فریب سے ہمیں ایسے راستے پر چلایا کہ ہم اللہ کیساتھ کفر کریں اور دوسروں کو اس کا شریک بنائیں۔ صبح و شام کے مکروفریب سے مراد پیروں کے گھو رکھ دندھے، لیڈروں کی چالبازیاں اور علمائے سوء کی بدعات و رسومات ہیں جن کے لیے سیاست دان سیاست اور مذہبی پیشوا مذہب کے نام پر عوام کو قابو میں رکھتے ہیں۔ بہرحال ماتحت لوگ اپنے کفر و شرک کو بڑوں کے ذمّے لگائیں گے اور خود اپنی براءت کا اظہار کریں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ سیاسی رہنما عوام کو کفر اور بےدینی کے کاموں میں مبتلا کرتے ہیں۔ برے علماء اور پیر بظاہر کفر یہ حرکات کی دعوت نہیں دیتے لیکن دین کے نام پر بنائی ہوئی رسومات اور بدعات سے لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں۔ اور جھوٹی کرامات سنا، سنا کر مریدوں سے کفر و شرک کے کام کرواتے اور نذرانے وصول کرتے ہیں۔ جب بڑے اور چھوٹے، حاکم اور محکوم، پیر اور مرید، علماء اور مقتدی جہنم کا عذاب دیکھیں گے تو ان کے چہروں پر پریشانی عیاں ہوگی۔ بڑے لوگ اس لیے پریشان ہوں گے کہ دنیا میں جو ہم لوگوں سے وعدے کیا کرتے تھے وہ جھوٹے ثابت ہوئے۔ چھوٹے اس لیے پریشان ہوں گے کہ ہم نے اپنی حماقت کی بنیاد پر ان پربھروسہ کیا جبکہ آج یہ ہماری طرح ہی مجرموں کے کٹہرے میں کھڑے ہیں۔ بڑے اور چھوٹے اس سوچ و بچار میں ہوں گے تو اچانک ملائکہ ان کی گردنوں میں طوق اور پاؤں میں بیڑیاں ڈالتے ہوئے کہیں گے کہ یہ تمہارے کفر و شرک کا بدلہ ہے۔ اس حالت میں گھسیٹ کر انہیں جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔ مسائل ١۔ قیامت کے دن جہنمی اپنی گمراہی کو ایک دوسرے کے ذمّہ لگائیں۔ ٢۔ جہنمیوں کو محشر کے میدان میں طوق اور بیڑیاں پہنائی جائیں گی۔ ٣۔ جہنمیوں کو ان کے کفر و شرک کی پوری پوری سزا دی جائے گی۔ تفسیر بالقرآن جہنمیوں کو زنجیروں میں جکڑ کر جہنم میں پھینکا جائے گا : ١۔ قیامت کے دن مجرموں کو با ہم زنجیروں میں جکڑدیا جائے گا۔ (ابراہیم : ٤٩) ٢۔ قیامت کے دن کفار کو طوق پہنا کر جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔ (الحاقۃ: ٣٠۔ ٣١) ٣۔ بدترین لوگوں کو منہ کے بل جہنم میں پھینکا جائے گا۔ (الفرقان : ٣٤) ٤۔ قیامت کے دن مجرموں کی آنکھیں جھکی ہوئی ہوں گی اور ان پر ذلت چھائی ہوگی۔ (المعارج : ٤٤) ٥۔ قیامت کے دن مجرموں کو دھکتی ہوئی آگ میں داخل کیا جائے گا۔ (الغاشیۃ : ٤) ٦۔ جہنمیوں کو آگ کا لباس پہناکر آگ میں پھینک دیا جائے گا۔ (الحج : ١٩) ٧۔ جو شخص برے اعمال کے ساتھ آیا اسے اوندھے منہ جہنم میں پھینکا جائے گا۔ (النمل : ٩٠) ٨۔ اللہ کے ساتھ کسی اور الہ کو پکارنے والاجہنم میں پھینک دیا جائیگا۔ (بنی اسرائیل : ٣٩) ٩۔ منافق جہنم میں ہمیشہ رہیں گے اور ان پر اللہ تعالیٰ کی لعنت و پھٹکار پڑتی رہے گی۔ (التوبۃ: ٦٨) سبأ
34 فہم القرآن ربط کلام : لوگوں کی گمراہی میں مال دار طبقہ کا کردار۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ہم نے جس بستی میں بھی لوگوں کو ان کے برے انجام سے ڈرانے والا بھیجا۔ وہاں کے مال دار طبقے نے ہمیشہ انہیں کہا کہ جس دعوت کے ساتھ تم بھیجے گئے ہو ہم اس کا انکار کرتے ہیں۔ ان کے انکار کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ وہ سمجھتے اور کہتے تھے کہ ہم اس ڈرانے والے اور اس کی اتباع کرنے والوں سے مال اور افرادی قوت میں زیادہ ہیں اور ہم کسی صورت عذاب میں مبتلا نہیں ہوں گے۔ یہی سوچ اور کردار مکہ والوں کا تھا۔ وہ اپنی افرادی قوت اور مال پر اتراتے ہوئے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو طعنہ دیا کرتے تھے کہ اگر تم واقعی اللہ کے رسول ہو اور تیری پیروی کرنے والے حق پر ہیں تو پھر تمہیں دنیا کا مال و دولت کیوں نہیں دیا گیا ؟ تمہارے بقول اگر ہم اللہ تعالیٰ کے نزدیک برے اور مغضوب ہیں تو ہم پر عذاب نازل کیوں نہیں ہوتا ؟ تمہارے بار بار اعلان کرنے کے باوجود ہم پر عذاب نازل نہیں ہوا تو اس کا صاف مطلب ہے کہ اللہ ہم پر راضی ہے اس لیے اس نے ہمیں مال ودولت، وقار اور اقتدار دے رکھا ہے اور قیامت کے دن بھی ہمیں سزا نہیں دی جائے گی۔ (عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ (رض) أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَرَّ بالسُّوْقِ دَاخِلًا مِّنْ بَعْضِ الْعَالِیَۃِ وَالنَّاسُ کَنَفَتُہٗ فَمَرَّ بِجَدْیٍ أَسَکَّ مَیِّتٍ فَتَنَاوَلَہٗ فَأَخَذَ بِأُذُنِہٖ ثُمَّ قَالَ أَیُّکُمْ یُحِبُّ أَنَّ ھٰذَا لَہٗ بِدِرْھَمٍ فَقَالُوْا مَانُحِبُّ أَنَّہٗ لَنَا بِشَیْءٍ وَمَا نَصْنَعُ بِہٖ قَالَ أَتُحِبُّوْنَ أَنَّہٗ لَکُمْ قَالُوْا وَاللّٰہِ لَوْکَانَ حَیًّاکَانَ عَیْبًا فِیْہِ لِأَنَّہٗ أَسَکَّ فَکَیْفَ وَھُوَ مَیِّتٌ فَقَالَ فَوَاللّٰہِ لَلدُّنْیَا أَھْوَنُ عَلَی اللّٰہِ مِنْ ھٰذَا عَلَیْکُمْ) [ رواہ مسلم : کتاب الزھد والرقائق ] ” حضرت جابر بن عبداللہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک جانب سے بازار میں داخل ہوئے آپ کے ساتھ کچھ لوگ بھی تھے آپ ایک مردہ بکری کے بچے کے پاس سے گزرے آپ نے اس کے ایک کان کو پکڑ کر پوچھا کون اسے ایک درہم کے بدلے لینا پسند کرے گا؟ صحابہ کرام (رض) نے کہا : ہم تو اسے کسی چیز کے بدلے بھی لینا نہیں چاہتے۔ ہم اس کا کیا کریں گے؟ آپ نے فرمایا : کیا تم اسے پسند کرتے ہو کہ یہ بکری کا بچہ تمہارا ہوتا؟ صحابہ کرام (رض) نے کہا : اللہ کی قسم ! اگر یہ زندہ بھی ہوتا تو کان چھوٹے ہونے کی وجہ سے اسے قبول نہ کیا جاتا۔ اب تو یہ مردہ ہے اس لیے ہم اسے کیسے پسند کریں۔ آپ نے فرمایا : جیسے تمہارے نزدیک یہ بکری کا مردہ بچہ بڑا ہی حقیر ہے۔ اللہ کی قسم! اللہ کے نزدیک دنیا اس سے بھی زیادہ حقیر ہے۔“ مسائل ١۔ مال دارطبقہ کی اکثریت نے ہمیشہ انبیائے کرام کی دعوت کوٹھکرایا ہے۔ ٢۔ مال دار لوگوں کی اکثریت اپنے مال اور افرادی قوت پر اترایا کرتی ہے۔ ٣۔ بےدین اور مال دار لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ہم پر گرفت نہیں ہوگی۔ تفسیر بالقرآن مال دار لوگوں کا کردار اور مال کی حقیقت : ١۔ جو کچھ زمین میں ہے وہ باعث آزمائش ہے۔ (الکہف : ٧) ٢۔ دنیا کی زندگی کا سامان آخرت کے مقابلے میں قلیل اور حقیر ہے۔ (التوبۃ: ٣٨) ٣۔ دنیا کی زندگی صرف کھیل تماشا ہے۔ (العنکبوت : ٦٤) ٤۔ دنیاکی زندگی دھوکے کا سامان ہے۔ (آل عمران : ١٨٥) ٥۔ لوگ دنیا کی زندگی پر خوش ہوگئے ہیں حالانکہ دنیا کی زندگی معمولی فائدہ ہے۔ (الرعد : ٢٦) ٦۔ دنیا کی زندگی کھیل تماشا ہے۔ (الحدید : ٢٠) ٧۔ دنیا کی زندگی کی مثال آسمان سے نازل ہونے والی بارش کی طرح ہے۔ (یونس : ٢٤) ٨۔ مالدار بخل کو اپنے لیے اچھا خیال کرتے ہیں حالانکہ وہ ان کے لیے برا ہے۔ (آل عمران : ١٨٠) ٩۔ اللہ کی آیات کے مقابلے میں پوری دنیا حقیر ہے۔ (البقرۃ: ١٧٤) سبأ
35 سبأ
36 فہم القرآن ربط کلام : بےدین مال دار طبقہ کا جواب اور رزق کی حقیقت۔ مال دار آدمی کا آہستہ آہستہ یہ ذہن بن جاتا ہے کہ مال کی فراوانی میری محنت اور ذہانت کا نتیجہ ہے بالخصوص وہ مال دار طبقہ جنہیں کئی نسلوں سے مال کی کشادگی حاصل ہو اور وہ من مانی کی زندگی گزار رہے ہوں۔ جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کی رسی دراز کردی جاتی ہے تو وہ یقین کر بیٹھتے ہیں کہ یہ مال ہماری اور ہمارے بڑوں کی محنت اور ذہانت کا صلہ ہے۔ ان لوگوں کو یہ حقیقت باور کروانے کے لیے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ارشاد ہوا کہ آپ انہیں بتلائیں کہ رزق کی کشادگی اور اس کا کم کرنا۔ اللہ تعالیٰ کی مرضی پر منحصر ہے۔ انسان کو صرف محنت اور ذہانت کی بنیاد پر رزق کی کشادگی حاصل نہیں ہوتی۔ یہ تو اللہ تعالیٰ کی حکمت ہے کہ جسے چاہے رزق کی فراخی سے سرفراز کرے اور جس کا چاہے رزق کم کردے لیکن لوگوں کی اکثریت اس حقیقت سے لا علم ہوتی ہے۔ یعنی اس پر یقین کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتی۔ لوگو! مال اور اولاد پر اترانے کی بجائے اپنے رب کا شکرادا کرو اور اس کی فرمانبرداری میں زندگی بسر کرو۔ جس مال پر تم اتراتے ہو یہ اللہ تعالیٰ کے مقرب ہونے کی نشانی نہیں۔ مال اور اولاد اکثر دفعہ انسان کو اپنے رب سے دور کردیتے ہیں۔ ہاں وہ شخص اللہ تعالیٰ کے ضرور قریب ہوگا بے شک وہ مال دار ہو یا غریب جو حقیقی طور پر ایمان لائے اور صالح اعمال کرتا رہے۔ ایسے لوگوں کے لیے ان کے اعمال کا دوگنا بدلہ ہوگا اور وہ جنت کے بالاخانوں میں پُر سکون رہیں گے۔ سکون کے ذکر فرما کر اشارہ کیا ہے کہ ضروری نہیں کہ دنیا کا مال اور اولاد انسان کے لیے سکون کا باعث ہو اکثر دفعہ مال اور اولاد بے سکونی کا باعث ہوتے ہیں۔ جو لوگ اللہ تعالیٰ کے ارشادات اور احکام کو حقیر سمجھتے ہیں۔ ان کی پرواہ نہیں کرنی چاہیے کیونکہ انہیں جہنم کے عذاب میں مبتلا کیا جائے گا جس میں یہ نا قابل برداشت اذّیت پائیں گے۔ مسائل ١۔ قیامت کے دن نیک اور بد لوگوں کو ان کے اعمال کے مطابق جزا اور سزا مل کررہے گی۔ ٢۔ نیک لوگ جنت میں امن وسلامتی کے ساتھ رہیں گے۔ ٣۔ کفار جہنم میں ہمیشہ رسوا ہوتے رہیں گے۔ تفسیر بالقرآن مال اور اولاد آزمائش ہیں : ١۔ مال اور اولاد دنیا کی نمائش ہیں باقی رہنے والے نیک اعمال ہیں۔ (الکہف : ٤٦) ٢۔ قیامت کے دن مال اور اولاد کام نہیں آئیں گے۔ (الشعراء : ٨٨) ٣۔ جان لو کہ مال اور اولاد تمھارے لیے فتنہ ہیں۔ (الانفال : ٢٨) ٤۔ اے ایمان والو تمہیں مال اور اولاد اللہ کے ذکر سے غافل نہ کردیں۔ (المنافقون : ٩) ٥۔ مال اور اولاد تمہارے لیے آزمائش ہیں اللہ کے پاس بڑا اجر ہے۔ (التغابن : ١٥) ٦۔ اللہ تعالیٰ نے مومنین سے ان کے مال اور جان کے بدلے جنت کا وعدہ کیا ہے۔ (التوبۃ: ١١١) سبأ
37 سبأ
38 سبأ
39 فہم القرآن ربط کلام : بےدین مالداروں کا انجام بتلانے کے بعد اب پھر مال کی حقیقت بتلائی جارہی ہے۔ دنیا پرست لوگوں کے دلوں میں یہ بات سما جاتی ہے کہ مال و اسباب اور اقتدار ہماری محنت اور ذہانت کا نتیجہ ہے یہ لوگ اس غلط فہمی کا بھی شکار ہوجاتے ہیں کہ کسی کو مال اور اقتدار کا ملنا اللہ تعالیٰ کی رضا کا نتیجہ ہے۔ حالانکہ یہ اللہ تعالیٰ کی حکمت ہے کہ جسے چاہے رزق کشادہ عطا فرمائے اور جس کا چاہے رزق تنگ کر دے یہ اس کی اپنی حکمت ہے کہ دنیا میں اقتدار اور اسباب اکثر ان لوگوں کے پاس رہے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے نافرمان اور اس کے بندوں پر ظلم کرنے والے تھے اور ہیں۔ ان کے مقابلے میں جو لوگ اپنے رب سے ڈر ڈر کر زندگی گزار نے والے ہوتے ہیں نہ صرف اکثر ان کی گزران تنگ ہوتی ہے بلکہ ہمیشہ ظالموں کے ظلم کا شکار رہتے ہیں۔ ظالموں کے رزق کو بڑھانا اور نیک لوگوں کا رزق کم رکھنا یہ منعم حقیقی کی مشیّت پر منحصر ہے۔ وہ جس کا چاہے رزق کم کرے اور جس کا چاہے بڑھاتا چلا جائے یہ اس کی مرضی ہے اس میں کسی کا عمل دخل نہیں اور نہ ہی اس کے ہاں یہ کسی کے اچھا اور برا ہونے کا معیار ہے۔ البتہ جو نیک لوگ اس کی رضا کے لیے خرچ کریں گے وہ اس کا بدلہ پائیں گے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ بہترین رزق دینے والاہے۔ حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس شخص نے حلال کمائی سے ایک کھجور کے برابر صدقہ کیا۔ بلاشبہ اللہ تعالیٰ صرف حلال چیزوں سے صدقہ قبول فرماتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے اپنے دائیں ہاتھ میں لیتے ہوئے شرف قبولیت بخشتے ہیں۔ پھر اس کو اس طرح بڑھاتے ہیں جس طرح کہ تم اپنے بچھڑے کی پرورش کرکے اسے بڑا کرتے ہو۔ یہاں تک کہ ایک کھجور کا ثواب پہاڑ کے برابر ہوجاتا ہے۔[ رواہ البخاری : باب الصَّدَقَۃِ مِنْ کَسْبٍ طَیِّبٍ ] سبأ
40 فہم القرآن ربط کلام : سابقہ آیات میں مال کو کفر و شرک کا ایک سبب قرار دیا ہے جس پر اترا کر لوگ کفر و شرک کا ارتکاب کرتے ہیں۔ اس کے بعد مال کا انجام ذکر کیا اور اس کے ساتھ ہی نیکو کار مخیرحضرات کا تذکرہ فرمایا کہ وہ جو خرچ کرتے ہیں انہیں اس کا بدلہ دیا جائے گا۔ اب ان مشرکوں کا عقیدہ اور انجام ذکر کیا جاتا ہے جو ملائکہ کو اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں سمجھتے ہیں اور ان کی عبادت کرتے ہیں۔ مشرکین میں ہمیشہ سے ایک طبقہ ایسا رہا ہے جو ملائکہ کو اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں قرار دیتا اور ان سے مدد طلب کرتا ہے ان کا کہنا ہے کہ قیامت کے دن ملائکہ ہماری سفارش کریں گے۔ ایسے لوگوں کے سامنے ملائکہ کو کھڑے کر کے سوال کیا جائے گا کہ بتلاؤ یہ لوگ تمہاری عبادت کرتے تھے اور تمہارا ان کے ساتھ کیا واسطہ تھا ؟ ملائکہ دست بستہ ہو کر عرض کریں گے کہ بار الٰہا آپ تو ہر قسم کے شرک سے پاک اور مبرّا ہیں جہاں تک ہمارا معاملہ ہے۔ ہمارا مشرکوں سے کیا واسطہ، ہمارے مالک تو آپ ہیں یہ لوگ ہمارے نام پر جنوں کی عبادت کیا کرتے تھے اور انکاجنات پر ہی ایمان تھا۔ ملائکہ کی برأت کے بعد رب ذو الجلال اعلان فرمائیں گے کہ آج تم میں سے کوئی ایک دوسرے کو نفع اور نقصان دینے کا اختیار نہیں رکھتا۔ اس کے بعد حکم صادر ہوگا کہ انہیں جہنم کے دہکتے ہوئے انگاروں میں جھونک دیا جائے کیونکہ یہ جہنم کو جھٹلایا کرتے تھے۔ یاد رہے کہ ملائکہ کو ” اللہ“ کی بیٹیاں قرار دینے اور ان کی عبادت کرنے والے صرف مکہ اور عرب کے مشرک ہی نہ تھے بلکہ آج بھی جاپان، فرانس اور دیگر ممالک میں کروڑوں لوگ ایسے ہیں جو ملائکہ کو اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں سمجھ کر ان کی عبادت کرتے اور ان سے مدد مانگتے ہیں اور یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ قیامت کے دن ملائکہ ہمارے سفارشی ہوں گے۔ (کَانُوْا إِذَا نَزَلُوْا الْوَادِیَ قَالُوْا نَعُوْذُ بِسِیِّدِ ہٰذَا الْوَادِیْ مِنْ شرِّ مَا فِیْہِ، فَتَقُوْلُ الْجِنُّ م (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ا نَمْلکُِ لَکُمْ وَلَا لِاأنْفُسِنَا ضَرًّا وَلَا نَفْعاً)[ تفسیر الطبری : تفسیر سورۃ الجن] ” عرب لوگ جاہلیت میں جب کسی جنگل یا وادی میں سفر کرتے تو آوازیں دیتے کہ ہم اس جنگل کی چیزوں کے شر سے سردار جن سے پناہ مانگتے ہیں۔ جن آگے سے جواب دیتے کہ ہم نہ تمہارے اور نہ اپنے نفع و نقصان کا اختیار رکھتے ہیں۔“ مسائل ١۔ مشرکوں میں ایک طبقہ ہمیشہ سے ملائکہ اور جنّات کی عبادت کرتا آرہا ہے۔ ٢۔ قیامت کے دن ملائکہ اپنے ساتھ کیے گئے شرک کی برأت کریں گے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ ہر قسم کے شرک سے پاک اور مبرّا ہے۔ ٤۔ مشرکوں کو جہنم کی آگ میں جھونکا جائے گا۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ کے سوا دنیا اور آخرت میں کوئی نفع و نقصان کا مالک نہیں۔ تفسیر بالقرآن قیامت کے دن ملائکہ کی حالت : ١۔ قیامت کے دن تمام فرشتے اور جبرائیل (علیہ السلام) اپنے رب کے روبرو قطار میں کھڑے ہوں گے۔ (النباء : ٣٨) ٢۔ قیامت کے دن فرشتے صف بنا کراپنے رب کے سامنے حاضر ہوں گے۔ (الفجر : ٢٢) ٣۔ قیامت کے دن فرشتے جنتیوں کو سلام پیش کرتے ہوئے انہیں جنت میں داخل کریں گے۔ (الرعد : ٢٣، ٢٤) ٤۔ قیامت کے دن ملائکہ اپنے ساتھ کیے گئے شرک کا انکار کردیں گے۔ (سبا : ٤١) سبأ
41 سبأ
42 سبأ
43 فہم القرآن ربط کلام : توحید کی دعوت کے مقابلے میں مشرکین کا ردّ عمل۔ مشرکین مکہ کو اللہ تعالیٰ کی توحید کی آیات پڑھ کر سنائی جاتیں تو ان کے کئی قسم کے ردّعمل ہوا کرتے تھے۔ کبھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مجنون اور جادو گر قرار دیتے اور کبھی جادو زدہ کہتے تھے۔ کبھی جھوٹا ہونے کا الزام لگایا کرتے اور لوگوں کو باور کرانے کی کوشش کرتے کہ یہ آدمی اپنی طرف سے آیات بنا بنا کر ہمیں اپنے آباء واجداد کے طریقۂ عبادت سے ہٹانا چاہتا ہے۔ جب دیکھتے کہ ہمارے تمام الزامات اور ہتھکنڈوں کے باوجود لوگ حلقۂ اسلام میں داخل ہوتے جارہیں تو یہ لوگ قرآن مجید کو کھلا جادو قرار دے دیتے۔ ان کے جواب میں ارشاد ہوا کہ اس سے پہلے ان کی طرف نہ کوئی کتاب نازل کی گئی اور نہ ہی کوئی رسول ان کے پاس بھیجا گیا ہے۔ اس وجہ سے یہ لوگ بلا دلیل اپنی جہالت پر قائم ہیں۔ دراصل یہ لوگ اپنی مالداری کی بنا پر حقائق کو جھٹلائے جارہے ہیں۔ حالانکہ انہیں پہلے لوگوں کے مقابلے میں دنیا کے مال کا عشروعشیر بھی نہیں دیا گیا۔ ان سے پہلے لوگوں نے بھی انبیاء کرام (علیہ السلام) کی تکذیب کی جنہیں ہولناک عذاب نے آلیا جس سے انہیں بچانے والا کوئی نہ تھا۔ مسائل ١۔ اکثر لوگ حقائق کے باوجود اپنے آباء و اجداد کے طریقہ پر قائم رہتے ہیں۔ ٢۔ لوگ بلا دلیل انبیائے کرام (علیہ السلام) کو جھٹلایا کرتے تھے۔ ٣۔ اہل مکہ کے پاس قرآن مجید اور نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پہلے کوئی کتاب اور نبی نہیں آیا تھا۔ ٤۔ کسی قوم کودنیا کے مال و اسباب عذاب سے نہیں بچا سکتے۔ تفسیر بالقرآن دنیا کے مال و اسباب کی حیثیت : ١۔ مال اور اولاد دنیا کی زینت ہیں۔ باقی رہنے والے نیک اعمال ہیں۔ (الکہف : ٤٦) ٢۔ قیامت کے دن مال اولاد کام نہیں آئیں گے۔ (الشعراء : ٨٨) ٣۔ جان لو کہ مال، اولاد تمھارے لیے فتنہ ہیں۔ (الانفال : ٢٨) ٤۔ اے ایمان والو تمھیں مال اور اولاد اللہ کے ذکر سے غافل نہ کردیں۔ (المنافقون : ٩) سبأ
44 سبأ
45 سبأ
46 فہم القرآن ربط کلام : منکرین حق کو پے در پے پانچ استفسارات کرنے کے بعد سمجھایا گیا ہے کہ عذاب الٰہی سے بچنا چاہتے ہو تو اپنے قول و کردار پر غور کرو۔ قرآن مجید اپنی دعوت کو جبر سے منوانے کی بجائے لوگوں کو غورو فکر کی دعوت دیتا ہے۔ اس لیے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ارشاد ہوا کہ آپ انہیں فرمائیں کہ اللہ کے لیے دو، دو یا اکیلے اکیلے ہو کر سوچو کہ کیا مجھے جنون ہوگیا ہے؟ میں تو تمہیں سخت عذاب سے متنبہ کررہا ہوں کہ اگر تم اسی روش پر چلتے رہے تو شدید عذاب میں مبتلا کیے جاؤ گے اور تمہیں کوئی بھی بچانے والا نہ ہوگا۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لوگوں کی اصلاح اور فلاح کے لیے رات دن ایک کیے ہوئے تھے۔ مگر اس کے باوجود لوگ بالخصوص اہل مکہ آپکی دعوت پر غور کرنے کی بجائے آپ کو مجنون کہتے۔ حالانکہ آپ نے ان میں چالیس سال کا عرصہ گزارا تھا جب صفا پہاڑی پر کھڑے ہو کر سر عام دعوت پیش کی تو سب سے پہلے یہ سوال کیا تھا کہ بتاؤ میرے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے؟ جواب میں لوگوں نے بیک زبان ہو کر کہا تھا کہ ہم نے آپ کوہر اعتبار سے سچا اور امین پایا ہے۔ (سیرت ابن ہشام) مگر اس کے باوجودکبھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مجنون کہتے اور کبھی جادو گر قرار دیتے تھے۔ حالانکہ بیت اللہ میں حجر اسود نصب کرنے کے وقت تمام لوگ آپ کی عقل ودانش کو خراج تحسین پیش کرچکے تھے۔ (عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ (رض) قَالَ لَمَّا نَزَلَتْ ” وَاَنْذِرْ عَشِیْرَتَکَ الْاَقْرَبِیْنَ“ خَرَجَ النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حَتّٰی صَعِدَ الصَّفَا فَجَعَلَ یُنَادِیْ یَابَنِیْ فِھْرٍ یَابَنِیْ عَدِیٍّ لِبُطُوْنِ قُرَیْشٍ حَتَّی اجْتَمَعُوْا فَجَعَلَ الرَّجُلُ اِذَا لَمْ یَسْتَطِعْ اَنْ یَّخْرُجَ اَرْسَلَ رَسُوْلًا لِیَنْظُرَ مَاھُوَ فَجَاءَ اَبُوْ لَھَبٍ وَقُرَیْشٌ فَقَالَ اَرَءَیْتُمْ اِنْ اَخْبَرْتُکُمْ اَنَّ خَیْلاً تَخْرُجُ مِنْ سَفْحِ ھٰذَا الْجَبَلِ وَفِیْ رِوَایَۃٍ اَنَّ خَیْلًا تَخْرُجُ بالْوَادِیْ تُرِیْدُ اَنْ تُغِیْرَ عَلَیْکُمْ اَکُنْتُمْ مُصَدِّقِیَّ قَالُوْا نَعَمْ مَا جَرَّبْنَا عَلَیْکَ اِلَّا صِدْقًا قَالَ فَاِنِّیْ نَذِیْرٌ لَّکُمْ بَیْنَ یَدَیْ عَذَابٍ شَدِیْدٍ قَالَ اَبُوْ لَھَبٍ تَبًّا لَّکَ اَلِھٰذَا جَمَعْتَنَا فَنَزَلَتْ تَبَّتْ یَدَااَبِیْ لَھَبٍ وَّتَبَّ) [ رواہ البخا ری : باب وانذرعشیرتک الاقربین] ” عبداللہ بن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی ” آپ اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈرائیں“ تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نکلے اور صفا پہاڑی پر چڑھ گئے‘ آپ پکارنے لگے‘ اے بنو فہر! اے بنوعدی! اسی طرح آپ نے قریش کے تمام قبائل کو مخاطب کیا۔ یہاں تک کہ وہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے گرد جمع ہوگئے۔ اور جو شخص نہ آسکا تو اس نے معلوم کرنے کے لیے کہ کیا معاملہ ہے، اپنا نمائندہ بھیج دیا۔ ابولہب اور قریش کے لوگ بھی آئے۔ آپ نے فرمایا‘ مجھے بتاؤ‘ اگر میں تمہیں یہ خبر دوں کہ ایک لشکر اس پہاڑ کی اوٹ سے نکل رہا ہے دوسری روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ ایک لشکر وادی سے نکل کر تم پر حملہ آور ہونا چاہتا ہے، تو کیا تم مجھے سچا سمجھو گے؟ سب نے اثبات میں جواب دیا اور کہا کہ ہم نے آپ کے بارے میں ہمیشہ سچائی کا تجربہ کیا ہے۔ آپ نے فرمایا‘ میں تمہیں اس شدید عذاب سے ڈراتا ہوں جو تمہیں پیش آنے والا ہے۔ یہ سن کر ابو لہب کہنے لگا، تو تباہ ہوجائے کیا تو نے ہمیں اسی لیے جمع کیا تھا؟ اس پر یہ سورت نازل ہوئی ” ابو لہب کے دونوں ہاتھ ٹوٹ جائیں اور وہ تباہ و بربادہو جائے۔“ مسائل ١۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لوگوں کو بار بار غور و فکر کی دعوت دی۔ ٢۔ اہل مکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دانشمندی کا اعتراف کرنے کے باوجود آپ کو مجنون کہتے تھے۔ ٣۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لوگوں کو عذاب شدید سے متنبہ فرمایا کرتے تھے۔ تفسیر بالقرآن نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر لگائے گئے الزامات : ١۔ کفار نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جادوگر کہا کرتے تھے۔ (یونس : ٢) ٢۔ کفار آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کاہن اور مجنون کہتے تھے اللہ تعالیٰ نے جواب دیا کہ آپ کاہن اور مجنون نہیں ہیں۔ (الطور : ٢٩) ٣۔ کفار آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو شاعر کہتے تھے۔ (الطور : ٣٠) ٤۔ کفار نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جادوگر اور کذّاب کہتے تھے۔ (ص : ٤) ٥۔ کفار آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر الزام لگاتے تھے کہ آپ قرآن مجید خود بنا لیتے ہیں۔ (النحل : ١٠١) ٦۔ کفار نے انبیاء ( علیہ السلام) کو جادو گر اور مجنوں قرار دیا۔ (الذّاریات : ٥٢) سبأ
47 فہم القرآن ربط کلام : آدمی کی حماقت کی ایک وجہ اس کا مفاد اور لالچ ہوا کرتا ہے نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو لوگوں سے کوئی دنیوی مفاد نہ تھا جس بنا پر کفار کے سامنے حق بیان کرتے ہوئے چار استفسار کیے گئے ہیں۔ اے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! انہیں فرما دیں کہ کیا میں نے تم سے اس دعوت کے کام پر کسی قسم کا کوئی مطالبہ کیا ہے جس بنا پر تم مجھے مجنون کہتے ہو ؟ کیا تم سمجھتے ہو کہ میں کسی لالچ کے پیش نظرتمہارے نظریات کی مخالفت کرتا ہوں ؟ ہرگز نہیں میرا مقصد تمہاری اصلاح کرنا ہے۔ لہٰذا اپنا مال اپنے پاس رکھو۔ میرا صلہ میرے رب کے ذمہ ہے جو میرے اور تمہارے احوال کو اچھی طرح جانتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ میرا رب مجھ پر حق نازل کرتا ہے جسے میں من و عن تم تک پہنچا رہا ہوں۔ اس سے کسی کا کوئی معاملہ اور بات پوشیدہ نہیں کیونکہ وہ ہر قسم کے غیب سے واقف ہے۔ یاد رکھو ! حق آشکا رہ ہوچکا ہے کہ معبودان باطل نے نہ پہلی بار کسی چیز کو پیدا کیا اور نہ دوسری مرتبہ کسی کو پیدا کرسکتے ہیں۔ ان حقائق کے باوجود تم اپنے نقطہ نظر کے مطابق مجھے بھٹکا ہوا سمجھتے ہو تو اس کا وبال مجھ پر ہوگا اگر میں ہدایت پر ہوں تو یہ اس وحی کا نتیجہ ہے جو میری طرف میرا رب بھیجتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہر بات فوری طور پر سننے والا ہے۔ یہ آپ کے بارے میں ایک سوال کا جواب ہے ورنہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حق پر تھے اس لیے اللہ تعالیٰ نے سورۃ یٰس میں قسم کھا کر فرمایا ہے۔ (یٰسٓ وَ الْقُرْاٰنِ الْحَکِیْمِ اِنَّکَ لَمِنَ الْمُرْسَلِیْنَ عَلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ) [ یٰسٓ: ١ تا ٤] ” یٰسٓ۔ قسم ہے قرآن حکیم کی۔ کہ یقیناً آپ رسولوں میں سے ہیں۔ اور سیدھے راستے پر ہو۔“ ان آیات میں قل کہہ کر چار باتیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان سے کہلوائی گئی ہیں۔1 میں تم سے کچھ نہیں مانگتا۔2 جو کچھ میں تمہیں پہنچاتا ہوں وہ ” اللہ“ ہی کا نازل کرتا ہے۔3 حق یہ ہے کہ معبودان باطل نہ پہلی بار پیدا کرسکتے ہیں اور نہ دوسری بار 4 یقیناً میں اپنے رب کی ہدایت پر ہوں۔ مسائل ١۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دعوت کے بدلے میں کچھ نہیں لیتے تھے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ ہر بات سے باخبر ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ نے ہی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر حق نازل فرمایا ہے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ ہر بات فی الفور سنتا ہے۔ ٥۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حق پر قائم اور لوگوں تک حق پہنچانے والے تھے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ ہر انسان کے قریب ہے اور اس کی ہر بات سننے والا ہے : ١۔ بے شک میرا رب دعاؤں کو سننے والا ہے۔ ( آل عمران : ٣٨) ٢۔ بیشک اللہ دعاؤں کو سننے والا ہے۔ ( ابراہیم : ٣٩) ٣۔ اللہ سے ڈر جاؤ اللہ تعالیٰ سننے والا، جاننے والا ہے۔ (الحجرات : ١) ٤۔ اللہ تعالیٰ شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے۔ (ق : ١٦) ٥۔ اللہ تعالیٰ انسان کے قریب ہے اور ہر کسی کی دعا کو سنتا اور قبول کرتا ہے۔ ( البقرۃ: ١٨٦) سبأ
48 سبأ
49 سبأ
50 سبأ
51 سبأ
52 فہم القرآن ربط کلام : کفر و شرک پر قائم رہنے والوں کا انجام۔ کفار اور مشرکین جہنم کو دہکتے اور ہانپتے ہوئے دیکھیں گے تو ان کے پسینے چھوٹ جائیں گے اور ان کے کلیجے منہ کو آجائیں گے وہ اپنے طور پر بھاگنے کی کوشش کریں گے۔ ابھی وہ بھاگنے کا سوچ ہی رہے ہوں گے کہ ملائکہ ان کی گردنیں دبوچتے ہوئے ان کے گلے میں جہنم کے طوق ڈال دیں گے اور ان کے پاؤں میں بیڑیاں پہنا دیں گے۔ ان کو کوڑوں سے ہانکتے ہوئے جہنم کی طرف دھکیل دیں گے۔ اس صورت حال میں جہنمی حسرت بھرے الفاظ اور انداز میں فریاد کریں گے کہ اب ہم ایمان لاتے ہیں کیونکہ ہم نے وہ سب کچھ دیکھ اور پالیا ہے جس کی ہم تکذیب کیا کرتے تھے۔ لیکن اس وقت ایمان لانے کا مقام اور موقعہ کہاں ہوگا۔ ایمان ان سے بہت دور ہوگا۔ یعنی انہیں ایمان لانے اور اس کے مطابق عمل کرنے کے لیے دنیا کی زندگی میں پورا پورا موقعہ دیا گیا تھا لیکن انہوں نے اپنے اندھے پن کی وجہ سے اس موقعہ کو کھو دیا۔ اب دار العمل کی بجائے دار الامتحان ہوگا اور اس کا انجام پانے کا وقت اور مقام ہوگا اس وقت ان کی امیدوں اور ان کے درمیان پردہ حائل کردیا جائے گا۔ جس طرح ان سے پہلے جہنمیوں کے درمیان حائل کردیا گیا۔ کیونکہ یہ لوگ اللہ، اس کے رسول اور آخرت کے بارے میں بےیقینی کا شکار تھے جو لوگ دنیا میں بے چینی کا شکار تھے اور آخرت میں ان کے اضطراب کی کوئی حد نہ ہوگی۔ کچھ مفسرین نے ان آیات کو دنیا کے عذاب پر منطبق کیا ہے کہ جب ایسے لوگوں پر اللہ تعالیٰ کا عذاب آتا ہے تو وہ اس وقت بھاگنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کی گرفت سے بچ نہیں پاتے وہ ایمان لانے کا اظہار کرتے ہیں لیکن ان کا ایمان قبول نہیں کیا جاتا۔ جس شک میں مبتلا ہوتے اسی حالت میں موت کے گھاٹ اتار دیئے جاتے ہیں اور اسی انجام کو پہنچ جاتے ہیں جس انجام سے ان کے پیش رو دوچار ہوئے تھے۔ مسائل ١۔ مجرم جہنم کا عذاب دیکھ کر گھبرا کر بھاگنے کی کوشش کررہے ہوں گے تو انہیں جکڑ لیا جائے گا۔ ٢۔ مجرم ایمان لانے کی خواہش کا اظہار کریں گے لیکن انہیں موقعہ نہیں دیا جائے گا۔ تفسیر بالقرآن مجرموں کی خواہش اور آرزوئیں : ١۔ جہنمی کہیں گے اے اللہ ہم نے دیکھ لیا اور سن لیا اب ہم کو واپس لوٹا دے۔ (السجدۃ: ١٢) ٢۔ جہنمی جہنم سے نکلنے کا ارادہ کریں گے تو دوبارہ لوٹادیے جائیں گے۔ (السجدۃ: ٢٠) ٣۔ جب بھی ارادہ کریں گے کہ ہم جہنم سے نکلیں تو اس میں واپس لوٹائے جائیں گے۔ (الحج : ٢٢) ٤۔ اے رب ہمارے! ہمیں یہاں سے نکال ہم پہلے سے نیک عمل کریں گے۔ (الفاطر : ٣٧) ٥۔ اے رب ہمارے! ہم کو یہاں سے نکال اگر دوبارہ ایسا کریں تو بڑے ظالم ہوں گے۔ (المؤمنون : ١٠٧) سبأ
53 سبأ
54 سبأ
0 سورۃ فاطر کا تعارف سورۃ فاطر مکہ کی سرزمین پر نازل ہوئی۔ اس کا نام اس کی پہلی آیت کا تیسرا لفظ ہے۔ یہ سورت پانچ رکوع اور پینتالیس آیات پر مشتمل ہے۔ ربط سورۃ: سورۃ سبا کے اختتام میں یہ فرمایا گیا ہے کہ جو لوگ آخرت کے بارے میں شک کرتے ہیں۔ وقت آئے گا کہ وہ آخرت پر ایمان لائیں گے لیکن اس وقت انہیں ایمان لانے کا کچھ فائدہ نہیں ہوگا۔ وہ بھاگنے کی کوشش کریں گے لیکن فوراً گرفتار کرلیے جائیں گے۔ سورۃ فاطر کی ابتداء ” اللہ“ کی حمد سے ہوئی ہے اور ملائکہ کی قوت کا ذکر کرتے ہوئے بتلایا ہے کہ کچھ ملائکہ کے دو دو پر ہیں کچھ کے تین تین اور کچھ ملائکہ چار پروں والے ہیں۔ اور جبریل امین (علیہ السلام) کے بارے میں اللہ کے نبی نے فرمایا ہے کہ ” لَہُ سِتُّ ماءَۃِ جَنَاحٍ قَد سَدَّالْاُفُقَ“ (رواہ الترمذی : باب ومن سورۃ النجم) ان کے چھ سو پر ہیں۔ اس کا ایک پر حد نگاہ سے بھی بڑا ہے۔ اللہ تعالیٰ جس طرح چاہتا ہے اپنی مخلوق کو پیدا کرتا ہے اور وہ ہر کام کرنے پر پوری قوت اور اختیار رکھتا ہے۔ ملائکہ کی تخلیق کا ذکر کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے اپنے اختیارات کا تذکرہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ جسے چاہے اپنی رحمت سے سرفراز کرے اور جسے چاہے اپنی رحمت سے محروم رکھے۔ نہ اس کی رحمت کو کوئی روک سکتا ہے اور نہ اسے جبراً کوئی حاصل کرسکتا ہے وہ ہر اعتبار سے غالب اور حکمت والا ہے۔ یہ اس کی رحمت کا ہی انداز ہے کہ وہ جس کا چاہتا ہے رزق فراخ کرتا ہے اور جس کا چاہتا ہے کم کرتا ہے۔ اس کے سوا کوئی معبود نہیں لیکن اس کے باوجود لوگ دوسروں کو معبود بناتے اور بہک جاتے ہیں۔ قیامت قائم کرنے کے بارے میں اس کا وعدہ برحق ہے۔ اس دن کفار کو شدید عذاب ہوگا اور نیک لوگوں کو اجر عظیم دیا جائے گا۔ سورۃ کے دوسرے رکوع میں انسان کی تخلیق کے مراحل کا ذکر فرما کر واضح کیا ہے کہ انسان کن مراحل سے گزر کر پیدا ہوتا ہے۔ اس کے بعد بتلایا کہ سمندر میں میٹھے اور کڑوے پانی کا اکٹھا چلنا، سمندر سے مچھلیوں اور موتیوں کا نکلنا، رات اور دن کا ایک دوسرے کے کچھ حصہ پر غالب آنا اور چاند اور سورج کا اپنی اپنی ڈیوٹی پر وقت مقرر کے مطابق چلتے رہنا، یہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کی نشانیاں ہیں۔ عظیم نشانیوں کا ذکر کرنے کے بعد ارشاد فرمایا کہ یہی تمہارا ” اللہ“ ہے جس نے تمہیں پیدا کیا ہے اور سب کچھ اسی کا ہے جن کو اللہ تعالیٰ کے ساتھ پکارتے ہو وہ کھجور کی گٹھلی میں پڑے ہوئے پردے کے برابر بھی اختیارات نہیں رکھتے۔ یہاں تک کہ وہ تمہاری فریاد بھی نہیں سن سکتے جن کو تم اپنے رب کا شریک بناتے ہو وہ قیامت کے دن اپنے ماننے والوں کا انکار کریں گے۔ لہٰذا لوگو! اِدھر ادھر جانے کی بجائے صرف اپنے رب سے مانگا کرو۔ وہ غنی اور صاحب تعریف ہے اور تم سب اس کے در کے فقیر ہو۔ اگر وہ چاہے تو سب کو ختم کر کے نئی مخلوق پیدا کر دے وہ ایسا کرنے پر پوری طرح قدرت رکھتا ہے۔ اور نہ ہی قیامت کے دن بھی کوئی اس کے کام میں دخل انداز نہیں ہو سکے گا یہاں تک کہ کوئی کسی کا بوجھ نہیں اٹھائے گا اس حقیقت سے آگاہ کرنے کے بعد توحید اور کفر کا تقابل کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ جس طرح اندھا اور دیکھنے والا، اندھیرا اور روشنی، دھوپ اور سایہ، زندہ اور مردے برابر نہیں ہوتے یہی توحید اور شرک کا آپس میں فرق ہے۔ اتنا فرق ہونے کے باوجود لوگ ” اللہ“ کی توحید کو ماننے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دل چھوٹا کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ آپ سے پہلے انبیاء کرام (علیہ السلام) کو بھی جھٹلایا گیا تھا یہ لوگ حقیقت میں مردہ ہوچکے ہیں آپ مردوں کو نہیں سنا سکتے۔ اس کے بعد بارش، پہاڑوں اور چوپاؤں کا ذکر فرماکر اشارۃً سمجھایا ہے کہ جس طرح بارش سے مختلف قسم کی نباتات نکلتی ہیں اور پہاڑوں کی مختلف اقسام اور رنگ ہوتے ہیں، چوپاؤں اور انسانوں کے مختلف رنگ ہوتے ہیں اسی طرح لوگوں کے مزاج میں فرق ہوتا ہے کچھ لوگ نرم اور سلیم الفطرت ہوتے ہیں جو حق بات کو جلد قبول کرلیتے ہیں اور کچھ ان میں سے سخت طبیعت اور بدمزاج ہوتے ہیں جو حق بات کو قبول کرنے کی بجائے اس کے ساتھ جھگڑا کرتے ہیں البتہ جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے حقیقی علم سے نوازا ہے وہ اپنے رب سے ڈرنے اور اس کی طرف رجوع کرنے والے ہوتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی خطاؤں کو اللہ تعالیٰ معاف فرمانے والا ہے کیونکہ وہ بخشنے والا نہایت مہربان ہے۔ سورت کے آخری دو رکوع میں دیگر مسائل بتلانے کے بعد مشرکوں کو چیلنج دیا ہے اگر تمہارے بنائے ہوئے شریکوں کے پاس ان کی پیدا کردہ کوئی چیز ہو یا کوئی اور دلیل ہو تو وہ پیش کرو۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ بڑا بردبار اور بخشنہار ہے۔ اگر وہ لوگوں کو ان کے گناہوں کی وجہ سے پکڑنے پر آئے تو زمین پر کوئی چیز باقی نہ رہے لیکن اس نے لوگوں کو ایک وقت تک مہلت دے رکھی ہے۔ یقیناً وہ اپنے بندوں کی ہر وقت نگرانی کرنے والا ہے۔ فاطر
1 فہم القرآن تمام تعریفات ” اللہ“ ہی کے لیے ہیں جس نے زمین و آسمانوں کو پیدا فرمایا۔ وہی ملائکہ کو پیغام رساں بنانے والاہے۔ اسی نے ملائکہ کو دو دو، تین تین اور چارچار پَر عطا فرمائے ہیں۔ وہ جو چاہے اور جس طرح چاہے پیدا کرتا ہے کیونکہ وہ ہر کام کرنے پر قادر ہے۔ اللہ تعالیٰ اس لیے بھی تعریف کا مستحق ہے کہ اس نے زمین و آسمانوں کو نہ صرف پیدا کیا بلکہ اس نے آسمانوں کو اسی ساخت اور پرداخت کیساتھ بنایا جس طرح ان کی تخلیق کا مقصد تھا۔ زمین کو تہہ در تہہ بچھایا اور اس میں ایسی صلاحیتیں رکھیں جو اس کے بسنے والوں کے لیے ضروری تھیں۔ ملائکہ کی تخلیق کے بیان کے فوراً بعد ” یَزِیْدُ“ کا لفظ لا کر یہ واضح فرمایا کہ ملائکہ صرف چار چار پَر رکھنے والے ہی نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ نے ایسے ملائکہ بھی پیدا فرمائے ہیں جن کا وجود سینکڑوں پروں پر مشتمل ہے۔ اس کی تخلیق میں جمود اور ٹھہراؤ نہیں بلکہ وہ مخلوق در مخلوق پیدا کرنیوالا ہے۔ زمین کی طرف دیکھیے جو نباتات آج سے ایک صدی پہلے موجود نہ تھی آج وہ بھی دکھائی دے رہی ہیں۔ نا معلوم قیامت تک کون کون سی نباتات زمین سے برآمد ہونے والی ہیں۔ یہی حالت معدنیات کی ہے جس میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے۔ آسمان کی طرف کسی لطیف ترین دوربین سے دیکھیں تو عقل حیران رہ جائے گی کہ لاکھوں کی تعداد میں مٹنے والے سیاروں کی جگہ دوسرے سیارے نمودار ہورہے ہیں۔ آسمان کے بارے میں ارشاد ہے کہ ہم نے اسے اپنے ہاتھوں سے بنایا اور ہم ہی انہیں وسعت دینے والے ہیں۔ (الذّاریات : ٤٧) ملائکہ کی تخلیق کے ذکر میں ارشاد ہے کہ انہیں پیغام رسانی کے لیے بنایا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے کائنات کانظام چلانے کے لیے ملائکہ کو مختلف قسم کی ذمہ داریاں دے رکھی ہیں جو انتہائی تابع فرمان خادم کی حیثیت سے اپنے خالق کے حکم پر عمل درآمد کرتے ہیں ان کی ذمہ داریوں میں پیغام رسانی کا ذکر فرما کر انسانوں کو یہ احساس دلایا ہے کہ تمہاری تمام حرکات و سکنات کو ملائکہ نہ صرف نوٹ کرتے ہیں بلکہ وہ اسے اپنے رب کے حضور پیش بھی کرتے ہیں۔ ملائکہ اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ نظام کے کارکنان ہیں ورنہ اللہ تعالیٰ ہر چیز کو براہ راست دیکھنے والا اور جاننے والاہے۔” قَدِیْرٌ“ کا لفظ استعمال فرما کر مشرکوں کے اس عقیدہ کی نفی کی گئی ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی خدائی میں ملائکہ کو بھی کچھ اختیار دے رکھے ہیں ایسا ہرگز نہیں۔ کیونکہ وہ پوری کائنات میں بلا شرکت غیرے کامل اور مکمل اختیار رکھنے والا ہے۔ (عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ أَنَّ النَّبِی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رَأَی جِبْرِیلَ وَلَہُ سِتُّمِاءَۃِ جَنَاحٍ)[ رواہ الترمذی : باب وَمِنْ سُورَۃِ وَالنَّجْمِ] ” حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جبرائیل (علیہ السلام) کو دیکھا اس کے چھ سو پر تھے۔“ تفسیر بالقرآن قرآن مجید میں ملائکہ کا تذکرہ اور ان کے کام : ١۔ فرشتے اللہ تعالیٰ کی ذات اور صفات کی گواہی دیتے ہیں۔ ( النساء : ١٦٦) ٢۔ قرآن مجید میں ٤ فرشتوں کا نام آیا ہے۔ جبرائیل، میکائیل، ملک الموت، مالک۔ (البقرۃ، ٩٨، السجدۃ: ١١، الزخرف : ٧٧) ٣۔ حضرت جبریل امین (علیہ السلام) ملائکہ کے سردار ہیں۔ (نبا : ٣٨) ٤۔ جبریل (علیہ السلام) مقرب ترین فرشتہ ہے۔ (النجم : ٨) ٥۔ جبریل (علیہ السلام) طاقتور فرشتہ ہے۔ (النّجم : ٥) ٦۔ جبریل (علیہ السلام) دیانت دار فرشتہ ہے۔ (الشعراء : ١٩٣) ٧۔ جبرائیل (علیہ السلام) نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قلب اطہر پر قرآن اتارا ہے۔ (البقرۃ : ٩٧) ٨۔ (اسرافیل) قیامت کے دن صور پھونکے گے۔ (الزمر : ٦٨) ٩۔ جہنم کے کنٹرولر فرشتے کا نام مالک ہے۔ (الزخرف : ٧٧) ١٠۔ قیامت کے دن ٨ فرشتے اللہ تعالیٰ کے عرش کو اٹھائے ہوئے ہوں گے۔ (الحاقۃ: ١٧) ١١۔ اللہ تعالیٰ کے عرش کو ملائکہ اٹھائے ہوئے ہیں اور مومنوں کے لیے بخشش کی دعائیں کرتے ہیں۔ (المؤمن : ٧) ١٢ فرشتے جنت پر معمور ہیں۔ (الزمر : ٧٣) ١٣۔ فرشتے جہنم پر ڈیوٹی کر رہے ہیں۔ ( الزمر ٧١) ١٤۔ فرشتے اللہ تعالیٰ کی حمد بیان کرتے ہیں۔ (البقرۃ: ٣٠) ١٥۔ فرشتے اللہ تعالیٰ کی طرف سے بشارت دیتے ہیں۔ ( ہود : ٦٩) ١٦۔ اللہ تعالیٰ کے حکم سے فرشتے نافرمانوں کو عذاب دیتے ہیں۔ (ہود : ٧٧) ١٧۔ ملائکہ لوگوں کے اعمال کا درج کرتے ہیں۔ ( انفطار : ١١) ١٨۔ اللہ تعالیٰ کے حکم سے فرشتے مسلمانوں کی مدد کرتے ہیں۔ ( آل عمران : ١٢٤، ١٢٥) فاطر
2 فہم القرآن ربط کلام : قادر قدیر کے اختیار ات کی ایک اور جھلک پر غور کریں۔ مشرکین میں سے ایک گروہ کا عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ملائکہ کو کچھ اختیارات دے رکھے ہیں یہاں اس عقیدہ کی کھلے الفاظ میں نفی کرتے ہوئے سمجھایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ملائکہ یا کسی ذات کو رائی کے دانے کے برابر بھی اپنی خدائی میں اختیارات نہیں دیئے۔ وہ کسی کو اپنی رحمت سے سرفراز کرنا چاہے تو اسکی رحمت کو کوئی روکنے والا نہیں اگر وہ اپنی رحمت کو روک لے تو اسے کوئی نازل کرنے والا نہیں ہے۔ وہ اپنے حکم اور فیصلے نافذ کرنے پر غالب ہے۔ پوری طرح غلبہ حاصل ہونے کے باوجود اس کے ہر کام اور حکم میں حکمت پائی جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھنا کہ وہی دینے اور عطا فرمانے والا ہے۔ یہ ایسا عقیدہ اور فکر ہے جس سے انسان نہ صرف مخلوق سے بے نیاز ہوجاتا ہے بلکہ در در کی ٹھوکریں کھانے سے بھی بچ جاتا ہے۔ اس کے اخلاق اور معاملات میں اخلاص کا پہلو غالب رہتا ہے۔ وہ کسی کے ساتھ ہمدردی اس لیے نہیں کرتا کہ آنے والے کل کو یہ اسے ضرور فائدہ پہنچائے گا۔ وہ کسی بڑے کو سلام کرتا ہے تو اس کے دل میں یہ خوف نہیں ہوتا کہ اگر اس نے اسے سلام نہ کیا تو یہ اسے کسی چیز سے محروم کر دے گا۔ کیونکہ اس کا یہ عقیدہ ہوتا ہے کہ جو چیز میرا رب مجھے عطا کرنا چاہے گا اسے کوئی روک نہیں سکتا اور جس چیز کو اس نے روک لیا اسے کوئی دے نہیں سکتا۔ اسی عقیدہ کو تازہ اور پختہ رکھنے کے لیے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ دعا پڑھا کرتے تھے۔ ” حضرت ابو سعیدخدری (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رکوع سے اپنا سر اٹھاتے تو پڑھتے، اے ہمارے رب! تمام تعریفیں تیرے لیے ہیں آسمانوں و زمین کے درمیان خلاء جتنی اور اس کے بعد جتنی تو چاہتا ہے، تو اس ثناء کا سب سے زیادہ اہل ہے اور اس بزرگی کا سب سے زیادہ حق رکھتا ہے جو ثناء اور عظمت تیرے لیے بندہ بیان کرتا ہے ہم تیرے ہی بندے ہیں اے اللہ! جو چیز تو عطاء کرنا چاہیے اسے کوئی روکنے والا نہیں اور جو چیز تو روک لے اس کو کوئی عطا کرنے والا نہیں تجھ سے بڑھ کر کوئی عظمت والا اور نفع دینے والا نہیں۔“ [ رواہ مسلم : باب مَا یَقُولُ إِذَا رَفَعَ رَأْسَہُ مِنَ الرُّکُوعِ] ” حضرت عبداللہ بن عباس (رض) بیان کرتے ہیں ایک دن میں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پیچھے سوار تھا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : بچے! میں تجھے چند کلمات سکھاتاہوں۔ اللہ کو یاد رکھنا وہ تجھے یاد رکھے گا، جب تو اللہ تعالیٰ کو یاد رکھے گا۔ تو تواسے اپنے سامنے پائے گا، جب تو سوال کرے تو اللہ ہی سے سوال کر، جب تو مدد طلب کرے تو اللہ تعالیٰ ہی سے مدد طلب کر اور یقین رکھ کہ اگر پوری مخلوق تجھے کچھ نفع دینے کے لیے جمع ہوجائے تو وہ اتنا ہی نفع دے سکتی ہے جتنا اللہ تعالیٰ نے تیرے لیے لکھ رکھا ہے اور اگر وہ تجھے نقصان پہنچانے پر تل جائے تو تجھے اتنا ہی نقصان پہنچے گا جتنا تیرے حق میں لکھا گیا ہے، قلمیں اٹھالی گئیں ہیں اور صحیفے خشک ہوگئے ہیں۔“ [ رواہ الترمذی : کتاب صفۃ القیامۃ والرقائق والورع، باب منہ] مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ کے ہر حکم میں حکمت ہوتی ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ کسی پر کرم فرمائے تو کوئی اسے روک نہیں سکتا۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے محروم کرنا چاہے تو کوئی اسے دے نہیں سکتا۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ ہر لحاظ سے غالب ہے۔ تفسیر بالقرآن زمین اور آسمان اللہ ہی کی ملکیت ہیں : ١۔ ” اللہ“ ہی کے لیے زمین و آسمان کی ملکیت ہے۔ (البقرۃ: ١٠٧) ٢۔ اللہ تعالیٰ مالک الملک ہے۔ (آل عمران : ٢٦) ٣۔ ” اللہ“ جسے چاہتا ہے اسے حکومت دیتا ہے۔ (آل عمران : ٢٦) ٤۔ ” اللہ“ جس سے چاہتا ہے حکومت چھین لیتا ہے۔ (آل عمران : ٢٦) ٥۔ اللہ ہی کے لیے زمین و آسمان کی بادشاہی ہے۔ (الشوریٰ : ٤٩) ٦۔ بابرکت ہے وہ ذات جس کے ہاتھ میں سب کچھ ہے۔ (الملک : ١) ٧۔ اللہ ہی کے لیے زمین و آسمان کی ملکیت ہے وہ جسے چاہے معاف کرے گا۔ (الفتح : ١٤) فاطر
3 فہم القرآن ربط کلام : یہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کا نتیجہ ہے کہ وہ لوگوں کو اپنی نعمتوں سے سرفراز کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہی لوگوں کو رحمت اور نعمتوں سے نوازنے والا ہے اس کے سوا کوئی کسی کو ادنیٰ سے ادنیٰ چیز بھی عطا نہیں کرسکتا۔ وہی منعم حقیقی اور خالقِ کل ہے اس کا ارشاد ہے کہ لوگو! میری نعمتوں کو یاد رکھا کرو۔ جب انسان کا یہ عقیدہ پختہ ہوجائے کہ مجھے صرف اللہ ہی نوازنے والاہے، وہی میرا رازق اور خالق ہے تو پھر اس کے حاشیہ خیال سے یہ بات نکل جاتی ہے کہ مجھے کوئی اور بھی نوازسکتا ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ لوگوں سے استفسار فرماتا ہے کہ بتاؤ اللہ تعالیٰ کے سوا تمہارا کوئی اور بھی خالق ہے جو تمہیں زمین و آسمان سے رزق فراہم کرتا ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ اس کے سوا کوئی خالق اور رازق نہیں۔ جب اس کے سوا کوئی خالق اور رازق نہیں تو پھر کس بنیاد پرتم دوسروں کو داتاو دستگیر، حاجت روا، مشکل کشا کہتے اور سمجھتے ہو؟ یاد رہے کہ یہاں الٰہ کا لفظ خالق اور رازق کے معنٰی کے لیے استعمال کیا گیا ہے۔ جب اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی خالق اور رازق نہیں تو پھر اس کو چھوڑ کر یا اس کے ساتھ دوسروں کو ملا کر کیوں گمراہی میں بھٹکتے ہو؟ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ کے سوا انسان کو کوئی ادنیٰ سے ادنیٰ نعمت بھی عطا نہیں کرسکتا۔ ٢۔ اللہ ہی کائنات کا خالق اور رازق ہے۔ ٣۔ اس کے سوا زمین و آسمان میں کچھ بھی کوئی دینے والا نہیں۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ کے سوا دوسروں کو داتا و دستگیر کہنے والا راہ ہدایت سے بھٹک جاتا ہے۔ فاطر
4 فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ کی توحید کی وجہ سے ہی لوگوں نے انبیاء کرام (علیہ السلام) کو جھٹلایا اور توحید کی وجہ سے ہی مشرکین مکہ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جھوٹا ہونے کا الزام دیا۔ اعلان توحید سے پہلے اہل مکہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ” الصّادق“ اور ” الامین“ القاب کے ساتھ مخاطب کیا کرتے تھے۔ لیکن جونہی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے توحید کی دعوت کا آغاز فرمایا تو وہ لوگ نہ صرف آپ کے مخالف ہوئے بلکہ انہوں نے آپ کو جھوٹا قرار دیا۔ جس پر آپ کا رنجیدہ ہونا فطری بات تھی۔ حقیقت بتلانے اور آپ کو تسلی دینے کے لیے ارشاد ہواکہ آپ کو جھٹلانا کوئی انوکھی بات نہیں۔ آپ سے پہلے انبیاء کو بھی جھٹلایا گیا لہٰذا گھبرانے اور افسردہ خاطرہونے کی ضرورت نہیں۔ کیونکہ انجام کار اللہ کے ہاتھ میں ہے اور ہر کسی نے لوٹ کر اسی کے حضور پیش ہونا ہے۔ ان الفاظ میں آخرت کا عقیدہ سمجھاتے ہوئے ایک انتباہ بھی کیا گیا ہے کہ دنیا میں جو چاہو کرلو بالآخر تم نے ہمارے حضور حاضر ہونا ہے۔ سورۃ الانعام آیت ٣٣ میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس طرح تسلی دی گئی کہ ہم جانتے ہیں کہ ان کی ہرزہ سرائی آپ کو پریشان کرتی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ظالم آپ کو نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی آیات کو جھٹلاتے ہیں۔ سورۃ الانعام آیت ٣٤ میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ بتلا کر تسلی دی گئی کہ آپ سے پہلے بھی رسولوں کو جھٹلایا گیا ہے لیکن انہوں نے اس تکذیب پر صبر کیا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کی مدد آپہنچی۔ اے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ کے رب کے ارشادات تبدیل نہیں ہوا کرتے یقیناً آپ کے پاس پہلے انبیاء (علیہ السلام) کے حالات پہنچ چکے ہیں۔ (عَنْ طَارِقِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ، قَالَ إِنِّی لَقَاءِمٌ بِسُوْقِ الْمَجَازِ إِذْ اأقْبَلَ رَجُلٌ عَلَیْہِ جُبَّۃٌ لَہٗ وَہُوَ یَقُوْلُ یٰاَ یُّہَا النَّاسُ قُوْلُوْا لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ تُفْلِحُوْا، وَرَجُلٌ یَتْبَعُہٗ یَرْمِیْہِ بالْحِجَارَۃِ یَقُوْلُ یٰاَ یُّہَا النَّاسُ إِنَّہٗ کَذَّابٌ فَلَا تُصَدِّقُوْہٗ، فَقُلْتُ مَنْ ہٰذَا ؟ قَالَ ہٰذَا غُلَامٌ مِنْ بَنِیْ ہَاشِمٍ الَّذِیْ یَزْعَمُ اَنَّہٗ رَسُوْلُ اللّٰہِ، قَالَ فَقُلْتُ مَنْ ہٰذَا الَّذِیْ یَفْعَلُ بِہٖ ہٰذَا ؟ قَالَ ہٰذَا عَمُّہٗ عَبْدُ الْعُزّٰی )[ رواہ البیہقی فی دلائل النبوۃ: باب قدوم طارق بن عبداللہ وأصحابہ علی النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وقول المرأۃ التی کانت معہم فی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ] ” طارق بن عبداللہ بیان کرتے ہیں کہ میں مکہ کے مجاز نامی بازار میں کھڑا تھا جب ایک آدمی بازار میں داخل ہوا اور وہ جبّہ پہنے ہوئے تھا۔ وہ کہہ رہا تھا اے لوگو! اس بات کا اقرار کرلو کہ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں۔ فلاح پا جاؤ گے۔ دوسرا آدمی اس کے پیچھے پیچھے اسے پتھر مار رہا تھا اور کہہ رہا تھا لوگو! اس جھوٹے کی بات کو نہ مانوں میں نے پوچھا یہ کون؟ ہے اس نے کہا یہ بنی ہاشم کا ایک فرد ہے جو اپنے آپ کو اللہ کا رسول کہتا ہے میں نے کہا جو اس کے ساتھ یہ سلوک کر رہا ہے وہ کون ہے ؟ اس نے کہا یہ اس کا چچا عبدالعزیّٰ ہے۔ (ابو لہب) “ مسائل ١۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ان سے پہلے انبیاء کو جھٹلایا گیا۔ ٢۔ بالآخر ہر کام کا انجام اللہ کے ہاں پیش ہوتا ہے تفسیر بالقرآن آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ سے پہلے انبیاء کرام (علیہ السلام) کے ساتھ لوگوں کا سلوک : ١۔ اگر انہوں نے آپ کو جھٹلا دیا ہے تو آپ سے پہلے بھی کئی رسول جھٹلائے گئے۔ (آل عمران : ١٨٤) ٢۔ آپ کو اگر انہوں نے جھٹلادیا ہے آپ فرما دیں میرے لیے میرے عمل اور تمہارے لیے تمہارا عمل ہے۔ (یونس : ٤١) ٣۔ اگر انہوں نے آپ کو جھٹلا دیا ہے تو آپ فرما دیں تمہارا رب وسیع رحمت والا ہے۔ (الانعام : ١٤٧) ٤۔ اگر انہوں نے آپ کو جھٹلا دیا ہے تو جھٹلائے گئے ان سے پہلے حضرت نوح اور دوسرے انبیاء۔ (الحج : ٤٢) ٥۔ جو لوگ جو ہماری آیات کے ساتھ کفر کرتے ہیں اور ان کی تکذیب کرتے ہیں وہ ہمیشہ جہنم میں رہیں گے۔ (البقرۃ: ٣٩) ٦۔ قوم نے شعیب (علیہ السلام) کو جھٹلایا تو انہیں ہلاک کردیا گیا۔ (العنکبوت : ٣٧) ٧۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کی قوم کے لوگ ان کے پاس سے گذرتے تھے تو وہ ان سے مذاق کرتے۔ (ہود : ٣٨) ٨۔ یہ لوگ آپ سے مذاق کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان سے مذاق کرے گا اور ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔ (التوبۃ: ٧٩) ٩۔ جب وہ ہماری نشانی دیکھتے ہیں تو مذاق کرتے ہیں۔ (الصّٰفٰت : ١٤) ١٠۔ جب بھی ان کے پاس رسول آیا تو وہ اس کا مذاق اڑاتے۔ (الحجر : ١١) ١١۔ جب بھی ان کے پاس آپ سے پہلے رسول آئے تو انہوں نے انہیں جادو گر اور مجنوں قرار دیا۔ (الذّاریات : ٥٢) ١٢۔ لوگوں پر افسوس ہے کہ ان کے پاس جب بھی رسول آئے تو انہوں نے ان کے ساتھ استہزاء کیا۔ (یٰس : ٣٠) فاطر
5 فہم القرآن ربط کلام : سب نے ” اللہ“ کی طرف لوٹ کر جانا ہے یہ ایک اعلان ہی نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کا لوگوں کے ساتھ وعدہ ہے جو ہر صورت پورا ہوگا۔ ہر کسی نے اپنے رب کے حضور پیش ہونا ہے۔ اس لیے سمجھایا گیا ہے کہ لوگو! اللہ تعالیٰ کا وعدہ سچا اور پکا ہے کہ بالآخر تمہیں اپنے اعمال کے ساتھ میرے حضور پیش ہونا ہے۔ لہٰذا دنیا کے دھندوں اور مفادات میں پھنس کر اپنے رب کے وعدے کو بھول نہ بیٹھنا اور نہ ہی اپنے رب کے بارے میں شیطان کے فریب میں آنا۔ شیطان تمہارا کھلا دشمن ہے اسے دشمن ہی سمجھنا اور اس سے بچتے رہنا وہ اپنے پیچھے چلنے والوں کو جہنم کی طرف ہی بلاتا اور دھکیلتا ہے۔ دوسرے مقام پر شیطان کی شیطنت سے بچانے کے لیے یہاں تک ارشاد فرمایا کہ اے آدم کی اولاد! شیطان تمہیں اس طرح نہ پھسلا دے جس طرح تمہارے ماں، باپ آدم اور حوا ( علیہ السلام) کو پھسلا کر جنت سے نکلوا دیا تھا۔ جنت میں انکا لباس اتر گیا اور وہ جنت کے درختوں کے پتوں سے اپنی شرمگاہوں کو چھپاتے رہے۔ خبر دار ! شیطان اور اس کے چیلے تمہیں وہاں سے دیکھتے ہیں جہاں سے تم انہیں نہیں دیکھ سکتے۔ (الاعراف : ٢٨) (عَنْ أَنَسٍ (رض) أَنَّ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کَانَ مَعَ إِحْدَی نِسَاءِہِ فَمَرَّ بِہِ رَجُلٌ فَدَعَاہُ فَجَاءَ فَقَالَ یَا فُلاَنُ ہَذِہِ زَوْجَتِی فُلاَنَۃُ فَقَالَ یَا رَسُول اللَّہِ مَنْ کُنْتُ أَظُنُّ بِہِ فَلَمْ أَکُنْ أَظُنُّ بِکَ فَقَالَ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) إِنَّ الشَّیْطَانَ یَجْرِی مِنَ الإِنْسَانِ مَجْرَی الدَّمِ)[ رواہ مسلم : باب بَیَانِ أَنَّہُ یُسْتَحَبُّ لِمَنْ رُءِیَ خَالِیًا بامْرَأَۃٍ وَکَانَتْ زَوْجَۃً أَوْ مَحْرَمًا لَہُ أَنْ یَقُولَ ہَذِہِ فُلاَنَۃُلِیَدْفَعَ ظَنَّ السَّوْءِ بِہِ] ” حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی بیویوں میں سے کسی کے ساتھ کھڑے تھے وہاں سے ایک آدمی کا گذر ہوا آپ نے اسے بلا کر فرمایا اے فلاں یہ میری فلاں بیوی ہے۔ اس نے عرض کی آپ کے متعلق کون ایسا گمان کرسکتا ہے ؟ نہ ہی میں نے ایسا سوچاہے۔ آپ نے فرمایا شیطان خون کی گردش کی طرح آدمی پر اثر انداز ہوتا ہے۔“ شیطان سے بچنے کا حکم اور دعا : ” حضرت سلیمان بن صرد (رض) بیان کرتے ہیں دو آدمیوں نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی موجودگی میں آپس میں گالی گلوچ کی اور ہم آپ کی مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے۔ ان دونوں میں سے ایک شدید غصے میں تھا اور دوسرے کو برا بھلا کہہ رہا تھا۔ جس کی وجہ سے اس کا چہرہ سرخ تھا۔ سرکار دو عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میں ایسی بات جانتا ہوں اگر وہ اسے پڑھ لے تو اس سے اس کا غصہ جاتا رہے۔ وہ پڑھے :أَعُوذ باللّٰہِ مِنَ الشَّیْطَان الرَّجِیمِ ” میں شیطان مردود سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتا ہوں۔“ صحابہ کرام (رض) نے اس شخص سے کہا کیا تم نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان نہیں سنتے ہو ؟ اس شخص نے کہا میں پاگل تو نہیں ہوں۔ (اس کا یہ مقصد ہے کہ میں نے آپ کا فرمان سن لیا ہے اور اسے پڑھتا ہوں) “ [ رواہ البخاری : کتاب الأدب، باب الحذر من الغضب] مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ کا وعدہ سچا ہے کہ قیامت برپاہو کر رہے گی۔ ٢۔ دنیا کے مال و اسباب پر دھوکہ نہیں کھانا چاہیے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ کے بارے میں شیطان کے مغالطوں سے بچنا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن دنیا کی حقیقت : ١۔ آخرت کے مقابلہ میں دنیا کی کوئی حقیقت نہیں۔ (الرّعد : ٢٦) ٢۔ دنیا کی زندگی آخرت کے مقابلہ میں نہایت مختصر ہے۔ (التّوبۃ: ٣٨) ٣۔ دنیا کی زندگی تھوڑی ہے اور آخرت متقین کے لیے بہتر ہے۔ (النّساء : ٧٧) ٤۔ یقیناً دنیا کی زندگی عارضی فائدہ ہے اور آخرت کا گھر ہی اصل رہنے کی جگہ ہے۔ (المؤمن : ٤٣) ٥۔ دنیا کا فائدہ قلیل ہے۔ (النساء : ٧٧) ٦۔ اللہ کی آیات کے مقابلے میں پوری دنیا حقیر ہے۔ (البقرۃ: ١٧٤) فاطر
6 فاطر
7 فہم القرآن ربط کلام : شیطان کے پیچھے لگنے اور قیامت کے دن کو جھٹلانے کا انجام۔ شیطان سے بچنے، آخرت پر ایمان لانے اور اس کے تقاضے پورے کرنے کا انعام۔ قرآن مجید اپنے اسلوب کے مطابق یہاں بھی نیکی اور بدی، اچھائی اور برائی کا نتیجہ بیک مقام ذکر کرتا ہے تاکہ قرآن کے قاری کوفی الفور معلوم ہو کہ برائی کا انجام کیا ہوگا اور اچھائی کا کیا صلہ ملے گا۔ جن لوگوں نے اللہ تعالیٰ کی ذات کے ساتھ کفر و شرک کیا اور قیامت کی تکذیب کی انہیں جہنم میں شدید عذاب دیا جائے گا۔ جو اللہ اور اس کے رسول پر حقیقتاً ایمان لائے اور صالح اعمال کرتے رہے۔ ان کی بشری کوتاہیوں کو معاف کرتے ہوئے انہیں اجرِعظیم سے نوازاجاۓ گا۔ جنت اور جہنم کا موازنہ : (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ نَارُکُمْ جُزْءٌ مِّنْ سَبْعِیْنَ جُزْءً ا مِّنَ نَّارِ جَھَنَّمَ قِیْلَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ إِنْ کَانَتْ لَکَافِیَۃً قَالَ فُضِّلَتْ عَلَیْھِنَّ بِتِسْعَۃٍ وَّتِسْعِیْنَ جُزْءً ا کُلُّھُنَّ مِثْلُ حَرِّھَا) [ رواہ البخاری : کتاب بدء الخلق، باب صفۃ النار وأنھا مخلوقۃ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں یقیناً اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تمہاری یہ آگ جہنم کی آگ کا سترواں حصہ ہے۔ عرض کیا گیا کہ اللہ کے رسول! جلانے کے لیے یہی آگ کافی تھی۔ آپ نے فرمایا اس آگ سے وہ انہتر حصے زیادہ گرم ہے ان میں سے ہر حصے کی گرمی دنیا کی آگ جیسی ہے۔“ (وَعَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اِنَّ فِیْ الْجَنَّۃِ شَجَرَۃٌ یَّسِیْرُ الرَّاکِبُ فِیْ ظِلِّھَا ماءَۃَ عَامٍ لَایَقْطَعُھَا وَلَقَابُ قَوْسِ اَحَدِکُمْ فِیْ الْجَنَّۃِ خَیْرٌ مِّمَّا طَلَعََتْ عَلَیْہِ الشَّمْسُ اَوْتَغْرُبُ) [ رواہ البخاری : باب مَا جَاءَ فِی صِفَۃِ الْجَنَّۃِ وَأَنَّہَا مَخْلُوقَۃٌ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جنت میں ایک ایسا درخت ہے کہ اگر کوئی سوار اس کے سایہ میں سو سال چلتا رہے‘ تب بھی اس سایہ ختم نہ ہو سکے گا اور یقیناً تم میں سے کسی ایک شخص کی جنّت میں کمان کے برابر جگہ ان تمام چیزوں سے بہتر ہے‘ جن پر سورج طلوع یا غروب ہوتا ہے۔“ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَال اللّٰہُ تَعَالٰی اَعْدَدْتُّ لِعِبَادِیَ الصَّالِحِیْنَ مَالَا عَیْنٌ رَأَتْ وَلَآ اُذُنٌ سَمِعَتْ وَلَا خَطَرَ عَلٰی قَلْبِ بَشَرٍ وَّاقْرَءُ وْٓا إِنْ شِءْتُمْ (فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّآاُخْفِیَ لَھُمْ مِّنْ قُرَّۃِ اَعْیُنٍ) [ رواہ البخاری : کتاب بدء الخلق، باب ماجاء فی صفۃ الجنۃ وأنھا مخلوقۃ ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں میں نے اپنے نیک بندوں کے لیے وہ نعمتیں تیار کی ہیں، جن کو نہ کسی آنکھ نے دیکھا اور نہ ہی ان کے متعلق کسی کان نے سنا اور نہ کسی انسان کے دل میں ان کا خیال پیدا ہوا۔ اگر چاہو تو اس آیت کی تلاوت کرو۔ (کوئی نہیں جانتا کہ ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک کے لیے کیا چیز چھپا کے رکھی گئی ہے)۔“ مسائل ١۔ کفر و شرک کرنے والوں کو شدید عذاب دیا جائے گا۔ ٢۔ سچے ایمان کے مطابق صالح اعمال کرنے والوں کو اجرِکبیر سے سرفراز کیا جائے گا۔ تفسیر بالقرآن برے لوگوں کی سزا اور نیک لوگوں کی جزا : ١۔ جس نے ذرہ برابر نیکی کی ہوگی وہ اس کو دیکھ لے گا۔ جس نے ذرہ برابر برائی کی ہوگی وہ بھی اس کو دیکھ لے گا۔ (الزلزال : ٧ تا ٨) ٢۔ برائیوں میں مرنے والے کے لیے جہنم ہے۔ (البقرۃ: ٧١) ٣۔ جس نے سرکشی کی اور دنیا کی زندگی کو ترجیح دی اس کا بدلہ جہنم ہے۔ (النازعات : ٣٧) ٤۔ شیطان اور اس کے پیروکاروں کو جہنم کی سزا دی جائے گی۔ (بنی اسرائیل : ٦٣) ٥۔ جو ایک نیکی کرے گا اس کو دس نیکیوں کا بدلہ ملے گا جو برائی کرے گا اس کی سزا صرف اتنی ہی ہوگی۔ (الانعام : ١٦٠) ٦۔ اللہ تعالیٰ نے نیک لوگوں کو اپنی رحمت میں داخل کرلیا ہے۔ (الانبیاء : ٨٦) ٧۔ اللہ تعالیٰ نیک لوگوں کو اپنی رحمت میں داخل کرے گا۔ یہ ظاہر کامیابی ہے۔ (الجاثیۃ : ٣٠) ٨۔ قیامت کے دن نیک لوگ جنت میں داخل کیے جائیں گے اس میں ان کی دعا سلام ہوگا۔ (ابراہیم : ٢٣) ٩۔ قیامت کے دن نیک لوگوں کے چہروں پر ذلت اور نحوست نہ ہوگی اور وہ جنت میں رہیں گے۔ (یونس : ٢٦) فاطر
8 فہم القرآن ربط کلام : لوگوں کے جہنم میں جانے کی بنیادی وجہ۔ قرآن مجید نے کئی مقامات پر یہ حقیقت واضح کی ہے کہ شیطان انسان کے سامنے برے اعمال کو خوبصورت بنا کرپیش کرتا ہے۔ جو لوگ فکری طور پر گمراہ ہوچکے ہوتے ہیں انہیں ایسے اعمال اور حرکات بہت اچھی لگتی ہیں۔ جیسا کہ ہمارے دور میں بے شمار نوجوان ہیں جو عورتوں کی طرح لمبے لمبے بال رکھتے ہیں اور الٹی سلائی والے لباس پہنتے ہیں۔ دیکھنے والے کو ان کی شکل وصورت اور لباس اس قدر مکروہ نظر آتے ہیں کہ شریف آدمی دوبارہ دیکھنا گوارا نہیں کرتا۔ لیکن ایسے نوجوانوں کو بالکل حیا نہیں آتی بلکہ وہ اس تہذیب پر فخر کرتے ہیں۔ اسی طرح ہر دور اور معاشرے میں فیشن کے نام پر نئے سے نئے ڈیزائن اپنائے جاتے ہیں جو دیکھنے میں انتہائی برے لگتے ہیں لیکن شیطان برے لوگوں کے لیے ایسے کاموں کو فیشن بنا دیتا ہے۔ ابتدا میں یہ باتیں کچھ لوگوں کے ضمیر پر بوجھ ہوتی ہیں لیکن آہستہ آہستہ شیطان ان کے ضمیر پر اس طرح مسلط ہوجاتا ہے کہ جوکام کل انہیں برے محسوس ہوتے تھے اگلے دن وہی کام ان کے لیے خوبصورت بن چکے ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو گمراہی میں کھلا چھوڑ دیتا ہے کیونکہ یہ ہدایت کے مقابلے میں گمراہی، اچھائی کے بدلے برائی پسند کرنے والے ہیں۔ کیونکہ ہدایت اور گمراہی اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے جو اس سے ہدایت چاہتا ہے اسے ہدایت مل جاتی ہے اور جو گمراہی کا طلبگار ہوتا ہے اسے کھلا چھوڑ دیا جاتا ہے۔ اس اصول کے پیش نظر اللہ تعالیٰ گمراہی اور ہدایت کو اپنی طرف منسوب کرتا ہے۔ اے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ہدایت واضح ہونے کے باوجود ان لوگوں نے اپنے لیے گمراہی کو پسند کرلیا ہے تو آپ کو ان کی حالت پر حد سے زیادہ غمگین نہیں ہونا چاہیے۔ البتہ انہیں خبردار کرتے رہیں کہ جو کچھ یہ کہتے اور کرتے ہیں اللہ تعالیٰ اس سے پوری طرح آگاہ ہے۔ گویا کہ ان الفاظ میں ان کے لیے ایک انتباہ ہے تاکہ یہ لوگ اپنے افکار و اعمال پرنظر ثانی کریں۔ (فَلَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَفْسَکَ عَلَی آَثَارِہِمْ إِنْ لَمْ یُؤْمِنُوْا بِہَذَا الْحَدِیْثِ أَسَفًا) [ الکھف : ٦] ” شاید آپ اپنے آپ کو ہلاک کرنے والے ہیں، اگر وہ اس بات پر ایمان نہ لائے۔“ (فَلَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَفْسَکَ أَلَّا یَکُوْنُوْا مُؤْمِنِیْنَ) [ الشعراء : ٣] ” اے نبی شاید آپ اس غم میں اپنی جان کھودیں گے اس لیے کہ یہ لوگ ایمان نہیں لاتے۔“ مسائل ١۔ برے لوگوں کے لیے شیطان ان کے اعمال خوبصورت بنا دیتا ہے۔ ٢۔ ہدایت اور گمراہی اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے۔ ٣۔ برے لوگوں کے اعمال پر حد سے زیادہ افسردہ نہیں ہونا چاہیے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ لوگوں کے اعمال سے پوری طرح واقف ہے۔ تفسیر بالقرآن شیطان کن لوگوں کے لیے ان کے اعمال خوبصورت بنا دیتا ہے : ١۔ ظالموں کے دل سخت ہوگئے اور شیطان ان کے اعمال کو مزین کر دکھاتا ہے۔ (الانعام : ٤٣) ٢۔ اکثر مشرکین کے لیے قتل اولاد کا عمل مزین کردیا۔ (الانعام : ١٣٧) ٣۔ اللہ کے علاوہ سورج کو سجدہ کرنے والوں کے برے اعمال کوشیطان نے ان کے لیے مزین کردیا۔ (النمل : ٢٤) ٤۔ قوم عاد و ثمود کے اعمال بد کو شیطان نے مزین کردیا۔ (العنکبوت : ٣٨) ٥۔ ہر گروہ کے بد اعمال کو شیطان نے ان کے لیے مزین کردیا۔ (الانعام : ١٠٩) ٦۔ شیطان نے کہا میں ضرور ان کے اعمال ان کے سامنے مزین کر کے پیش کروں گا اور انہیں گمراہ کرونگا۔ (الحجر : ٣٩) ٧۔ حد سے تجاوز کرنے والوں کے اعمال ان کے لیے مزین کیے جاتے ہیں۔ (یونس : ١٢) ٨۔ انہوں نے اللہ کی حلال کردہ چیزوں کو حرام قرار دیا ان کے لیے برے اعمال مزین کر دئیے گئے۔ (التوبۃ: ٣٧) ٩۔ کفار کے لیے ان کی تدابیر کو مزین کردیا گیا تو انہوں نے اللہ کی راہ سے روکنا شروع کردیا۔ (الرعد : ٣٣) فاطر
9 فہم القرآن ربط کلام : برے اعمال پرخوش ہونے والے لوگ در حقیقت آخرت کو بھول جاتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو ان کے مرنے کے بعد جی اٹھنے کا ثبوت بارش کے حوالے سے دیا اور سمجھایا گیا ہے۔ دنیا میں بے شمار ایسے لوگ ہیں جو اعتقاداً یا عملاً آخرت کے منکر ہوتے ہیں۔ اعتقادی طور پر آخرت کا انکار کرنے والے یہ سمجھتے ہیں کہ جب انسان مٹی کے ساتھ مٹی ہوجائے گا تو پھر اسے کس طرح زندہ کیا جاۓ گا۔ ایسے لوگوں کو سمجھایا جارہا ہے کہ سوچو اور دیکھو! کہ جب بارش کا نام و نشان نہیں ہوتا اور لوگ بارش کی ایک ایک بوند کو ترس رہے ہوتے ہیں فصلیں ویران اور جڑی بوٹیاں گل سڑ جاتی ہیں۔ جس سے نہ صرف صحراء اور بیاباں بھیانک منظر پیش کرتے ہیں بلکہ شہروں میں بسنے والے ہزاروں لوگ کئی قسم کی بیماریوں میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ شہروں کی چہل پہل پر مردگی چھا جاتی ہے۔ ایسی صورت حال میں اللہ تعالیٰ ہوائیں چلاتا ہے جو اللہ تعالیٰ کے حکم سے سینکڑوں میلوں سے بادلوں کو اٹھا کر ایسے مقامات پر بارش برساتی ہیں جہاں کی زمین مردہ ہوچکی ہوتی ہیں یعنی وہ چیز اگاتی۔ بارش کے بعد وہی مردہ زمین زندہ ہوجاتی ہے جہاں صحراء نظر آتا تھا وہاں ہریالی اور سبزہ دکھائی دیتا ہے۔ جو اللہ مردہ زمین سے نباتات پیدا کرتا ہے وہی قیامت کے دن اس زمین سے مردوں کو زندہ کرے گا۔ (عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَا بَیْنَ النَّفْخَتَیْنِ اَرْبَعُوْنَ قَالُوْ یَا اَبَا ھُرَیْرۃَ اَرْبَعُوْنَ یَوْمًا قَالَ اَبَیْتُ قَالُوْا اَرْبَعُوْنَ شَھْرًا قَالَ اَبَیْتُ قَالُوْا اَرْبَعُوْنَ سَنَۃً قَالَ اَبَیْتُ ثُمَّ یُنْزِلُ اللّٰہُ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَیُنْبَتُوْنَ کَمَآ یَنْبُتُ الْبَقْلُ قَالَ وَلَیْسَ مِنَ الْاِنْسَانِ شَیْءٌ لَا یَبْلٰی اِلَّاعَظْمًا وَاحِدًا وَّھُوَ عَجْبُ الذَّنَبِ وَمِنْہُ یُرَکَّبُ الْخَلْقُ یَوْمَ الْقِیَا مَۃِ)[ متفق علیہ] وَفِیْ رِوَایَۃٍ لِمُسْلِمِ قَالَ کُلُّ اِبْنِ اٰدَمَ یَاکُلُہٗ التُّرَاب الاَّ عَجْبَ الذَّنَبِ مِنْہُ خُلِقَ وَفِیْہِ یُرَکَّبُ ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا دو صور پھونکنے کا عرصہ چالیس ہوگا۔ ابوہریرہ (رض) سے ان کے شاگردوں نے کہا چالیس دن ؟ حضرت ابوہریرہ (رض) نے فرمایا کہ میں یہ نہیں کہتا انہوں نے استفسار کیا چالیس ماہ ہیں؟ حضرت ابوہریرہ (رض) نے جواباً فرمایا میں یہ نہیں کہتا انہوں نے پھر پوچھا چالیس سال ہیں؟ ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں میں یہ بھی نہیں کہتا۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ بارش نازل فرمائے گا۔ لوگ یوں اگیں گے جس طرح انگوری اگتی ہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا، انسان کی دمچی کے علاوہ ہر چیز بو سیدہ ہوجائے گی۔ قیامت کے دن اسی سے تمام اعضاء کو جوڑا جائے گا۔ (بخاری و مسلم) مسلم کی ایک روایت میں ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا انسان کے تمام اعضاء کو مٹی کھا جائے گی۔ لیکن دمچی کو نہیں کھائے گی انسان اس سے پیدا کیا جائے گا اور اسی سے جوڑا جائے گا۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ ہی ہواؤں کے ذریعے بادلوں کو چلاتا اور بارش برساتا ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ مردہ زمین کو بارش کے بعد زندہ کرتا ہے۔ ٣۔ قیامت کے دن اسی طرح ہی مردوں کو زندہ کیا جائے گا۔ تفسیر بالقرآن قیامت کے دن اللہ تعالیٰ لوگوں کو دوبارہ پیدا کرے گا : ١۔ آپ فرما دیں کہ تم ضرور اٹھائے جاؤ گے۔ (التغابن : ٧) ٢۔ اللہ تعالیٰ لوگوں کو اٹھائے گا تاکہ ان کے درمیان فیصلہ صادر فرمائے۔ (الانعام : ٦٠) ٣۔ تمام مردوں کو اللہ تعالیٰ اٹھائے گا پھر اسی کی طرف لوٹائے جائیں گے۔ (الانعام : ٣٦) ٤۔ قیامت کے دن ” اللہ“ ہی سب کو اٹھائے گا پھر ان کے اعمال کی انھیں خبر دے گا۔ (المجادلۃ: ٦ تا ١٨) ٥۔ یقیناً قیامت کے دن اللہ تمھیں جمع کرے گا جس میں کوئی شک نہیں۔ (الانعام : ١٢) ٦۔ آپ فرما دیں تمھارے پہلے اور آخر والے سب کو ضرور اکٹھا کیا جائے گا۔ (الواقعۃ: ٤٧ تا ٥٠) ٧۔ پھر ہم تمھیں تمھاری موت کے بعد اٹھائیں گے۔ (البقرۃ: ٥٦) ٨۔ آپ فرما دیں اللہ ہی نے تخلیق کی ابتداء کی پھر دوبارہ پیدا کرے گا پھر تم کہاں بہک گئے ہو؟ (یونس : ٣٤) ٩۔ ” اللہ“ ہی نے مخلوق کو پیدا کیا، پھر وہ اسے دوبارہ پیدا کرے گا، پھر تم اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔ (الروم : ١١) فاطر
10 فہم القرآن ربط کلام : جس طرح زندگی اور موت اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے اسی طرح ہی عزت اور ذلّت کا مالک ہے۔ انسان کا وقار اور اقبال اسی میں ہے کہ وہ قیامت کے قائم ہونے کا عقیدہ اپنے ذہن میں ہر دم تازہ اور قائم رکھے اور اس کے تقاضے پورے کرنے کی کوشش کرتا رہے۔ جس انسان کا آخرت کے بارے میں عقیدہ اٹھ جاتا ہے وہ بے ہودہ اور برے کاموں میں عزت تلاش کرتا ہے۔ یہی سوچ اور روّیہ اہل مکہ کا تھا وہ سمجھتے تھے کہ اگر ہم نے اس نبی کی دعوت تسلیم کرلی تو لوگوں کی نظروں میں ہمارا وقار ختم ہوجائے گا۔ اسی کے پیش نظر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مخالفت کے درپے رہتے تھے۔ انہیں اور ان کے حوالے سے دنیا بھر کے لوگوں کو یہ عقیدہ بتلایا اور سمجھایا جارہا ہے کہ عزت ساری کی ساری اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے وہ چاہے تو ایک خاک نشین کو آسمان کی بلندیوں سے ہمکنار کردے اور چاہے تو بادشاہ کو اس کے برے اعمال کی وجہ سے ذلت سے دوچار کر دے۔ وہ عزت اور ذلّت دینے پر پوری طرح قادر ہے۔ اسی کی طرف پاکیزہ کلمات اور صالح اعمال اٹھائے جاتے ہیں جو انسان کی حقیقی عزت اور دائمی اقبال کا زینہ ہیں۔ جو شخص پاکیزہ خیالات، اچھے کلمات، اعلیٰ اخلاق اور صالح کردار کا حامل ہوتا ہے وہی اس کی بارگاہ میں عزت پاتا ہے۔ جو لوگ دین حنیف کے مقابلے میں بری تدبیریں کرتے ہیں نا صرف ان کے مکروفریب نا کام ہوجائیں گے بلکہ انہیں شدید عذاب سے بھی دوچار کیا جائے گا۔ کلمہ طیبہ سے مراد عقیدہ توحید ہے۔ جس بنا پر آدمی ذہنی پستی سے نکل کر فکر وکردار کی بلندی حاصل کرتا ہے۔ وہ کسی کی تکریم اس لیے نہیں کرتا کہ اس سے مجھے عزت ملے گی۔ اس کا ایمان ہوتا ہے کہ عزت اور ذلّت صرف ” اللہ“ کے ہاتھ میں ہے۔ یہاں تک ” حق“ کے خلاف مکرو فریب کرنے والوں کا تعلق ہے اللہ تعالیٰ انہیں دنیا میں ذلیل کردیتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ مکروفریب کو پسند نہیں کرتا اور آخرت میں مکروفریب کرنے والوں کو شدید عذاب دیا جائے گا۔ (عَنْ تَمِیمٍ الدَّارِیِّ (رض) قَالَ سَمِعْتُ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَقُولُ لَیَبْلُغَنَّ ہَذَا الأَمْرُ مَا بَلَغَ اللَّیْلُ وَالنَّہَارُ وَلاَ یَتْرُکُ اللَّہُ بَیْتَ مَدَرٍ وَلاَ وَبَرٍ إِلاَّ أَدْخَلَہُ اللَّہُ ہَذَا الدِّینَ بِعِزِّ عَزِیزٍ أَوْ بِذُلِّ ذَلِیلٍ عِزًّا یُعِزُّ اللَّہُ بِہِ الإِسْلاَمَ وَذُلاًّ یُذِلُّ اللَّہُ بِہِ الْکُفْرَوَکَانَ تَمِیمٌ الدَّارِیُّ یَقُولُ قَدْ عَرَفْتُ ذَلِکَ فِی أَہْلِ بَیْتِی لَقَدْ أَصَابَ مَنْ أَسْلَمَ مِنْہُمُ الْخَیْرُ وَالشَّرَفُ وَالْعِزُّ وَلَقَدْ أَصَابَ مَنْ کَانَ مِنْہُمْ کَافِراً الذُّلُّ وَالصَّغَارُ وَالْجِزْیَۃُ) [ رواہ احمد : مسند تمیم دارمی] ” حضرت تمیم داری (رض) بیان کرتے ہیں میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے ہوئے سنا آپ نے فرمایا دین اسلام وہاں تک پہنچے گا جہاں تک رات کا اندہیرا اور دن کا اجالاپہنچتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کسی کچے پکے مکان کو نہیں چھوڑے گا مگر دین کو وہاں داخل فرمائے گا۔ معزز کو عزت دے گا اور ذلیل کو مزید ذلیل کرے گا۔ اللہ تعالیٰ معزز کو دین اسلام کے ساتھ عزت دے گا اور ذلیل کو مزید ذلت کفر سے ملے گی۔ حضرت تمیم داری (رض) کہا کرتے تھے میں اپنے گھروالوں میں سے انہیں پہچانتا ہوں جو دین کی وجہ سے معزز ہوئے اور بھلائی حاصل کی۔ اور جو کافر تھے ان پر ذلت، حقارت مسلط کردی گئی اور وہ جزیہ دینے پر مجبور ہوئے۔“ مسائل ١۔ ہر قسم کی عزت اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے۔ ٢۔ مکّار لوگوں کے مکر وفریب بالآخر نا کام ہوجاتے ہیں۔ ٣۔ عقیدہ توحید اور صالح کردار کے سبب ہی انسان حقیقی عزت پا سکتا ہے۔ ٤۔ دین کے خلاف مکروفریب کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ شدید ترین عذاب دے گا۔ تفسیر بالقرآن مکرو فریب کی ناکامیاں : ١۔ ان کے مکر کا انجام دیکھیں ہم نے مکر کرنے والوں اور ان کی قوم کو ہلاک کردیا۔ (النّمل : ٥١) ٢۔ عنقریب جرائم اور مکر وفریب کرنے والوں کو اللہ کے ہاں ذلت اور سخت عذاب کا سامنا کرناپڑے گا۔ (الانعام : ١٢٤) ٣۔ ان سے پہلے لوگ بھی مکر وفریب کرچکے ہیں۔ اللہ کے مقابلہ میں کسی کی تدبیر کارگر نہیں ہوتی۔ (الرّعد : ٤٢) ٤۔ عیسائیوں نے تدبیرکی اللہ نے وہ تدبیر انہی پر لوٹا دی اللہ بہترین تدبیر کرنے والا ہے۔ (آل عمران : ٥٤) ٥۔ انہوں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلاف سازش کی اللہ تعالیٰ نے ان کی سازش ناکام بنا دی۔ (الانفال : ٣٠) فاطر
11 فہم القرآن ربط کلام : مرنے کے بعد قیامت کے دن جی اٹھنے کی دوسری دلیل۔ اس آیت سے دو آیات پہلے ” بعث بعد الموت“ کو بارش اور مردہ زمین سے تشبیہ دی گئی ہے یہاں انسان کی مرحلہ وارتخلیق کے حوالہ سے انسان کو دوبارہ زندہ ہونے کا ثبوت دیا گیا ہے۔ مرنے کے بعد جی اٹھنے کا انکار کرنے والو ! ذرا اپنی تخلیق پر غور کرو کہ جس ” اللہ“ نے تمہیں پیدا کیا ہے وہی تمہاری موت کے بعد تمہیں اٹھائے گا اس نے حضرت آدم (علیہ السلام) کو مٹی سے پیدا کیا ہے پھر نطفے کو تمہاری تخلیق کا ذریعہ بنایا، پھر تمہارے درمیان میاں بیوی کا ناطہ جوڑا۔ کوئی عورت نہ حاملہ ہوتی ہے اور نہ ہی کوئی بچہ جنتی ہے مگر یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے علم میں ہوتا ہے۔ کسی کو زیادہ یا تھوڑی عمر ملنا بھی کسی کے اختیار میں نہیں۔ عمر میں کمی، بیشی کا اختیار صرف اللہ تعالیٰ کے پاس ہے اور سب کچھ اس کے ہاں لوح محفوظ میں تحریر ہے۔ یہ تمام معاملات اور اختیارات اللہ تعالیٰ کے پاس ہیں جنہیں بروئے کا لانا اللہ تعالیٰ کے لیے نہایت ہی آسان ہے۔ اس آیت مبارکہ میں سات کاموں کا ذکر کیا گیا ہے جن کی تفصیلات قرآن مجید کے کئی مقامات پر بیان ہوئی ہیں۔1 اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کو مٹی سے پیدا کیا اور پھر مٹی کے جوہر سے انسان کی تخلیق کا سلسلہ شروع کیا۔2 ہر انسان جوہرِحیات یعنی نطفے سے تخلیق پاتا ہے۔ 3 اللہ تعالیٰ نے انسانی تخلیق کے سلسلہ کو جاری رکھنے کے لیے میاں بیوی کا رشتہ قائم فرمایا۔4 اللہ تعالیٰ حاملہ کے حمل سے پوری طرح واقف ہوتا ہے۔5 کسی کو زیادہ یا تھوڑی عمر دینا صرف اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے۔ 6 اللہ تعالیٰ نے ہر بات لوح محفوظ پر درج کر رکھی ہے۔ 7 اللہ تعالیٰ کے لیے کوئی کام کرنا مشکل نہیں۔ (عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ (رض) وَرَفَعَ الْحَدِیثَ أَنَّہُ قَالَ إِنَّ اللَّہَ عَزَّ وَجَلَّ قَدْ وَکَّلَ بالرَّحِمِ مَلَکًا فَیَقُولُ أَیْ رَبِّ نُطْفَۃٌ أَیْ رَبِّ عَلَقَۃٌ أَیْ رَبِّ مُضْغَۃٌ فَإِذَا أَرَاد اللَّہُ أَنْ یَقْضِیَ خَلْقًا قَالَ قَالَ الْمَلَکُ أَیْ رَبِّ ذَکَرٌ أَوْ أُنْثَی شَقِیٌّ أَوْ سَعِیدٌ فَمَا الرِّزْقُ فَمَا الأَجَلُ فَیُکْتَبُ کَذَلِکَ فِی بَطْنِ أُمِّہِ )[ رواہ مسلم : باب کَیْفِیَّۃِ الْخَلْقِ الآدَمِیِّ فِی بَطْنِ أُمِّہِ وَکِتَابَۃِ رِزْقِہِ وَأَجَلِہِ وَعَمَلِہِ وَشَقَاوَتِہِ وَسَعَادَتِہِ] ” حضرت انس بن مالک (رض) سے روایت ہے وہ حدیث کو مرفوع بیان کرتے ہیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے رحم میں ایک فرشتہ مقرر کیا ہے وہ پوچھتا ہے اے میرے رب ! یہ نطفہ ہے اے میرے رب! یہ گوشت کا لوتھڑا ہے جب اللہ تعالیٰ کسی کی تخلیق کا فیصلہ فرماتا ہے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ فرشتہ کہتا ہے اے میرے رب مذکر یا مؤنث بدبخت یا خوش بخت اس کا رزق کتنا ہے اس کی عمر کتنی ہے اسی طرح سب کچھ انسان کی ماں کے پیٹ میں لکھ دیا جاتا ہے۔“ تفسیر بالقرآن انسان کی تخلیق کے مراحل : ١۔ اللہ تعالیٰ نے آدم کو مٹی سے پیدا کیا۔ (آل عمران : ٥٩) ٢۔ ہم نے انسان کو مٹی کے جوہر سے پیدا کیا۔ (المومنون : ١٢) ٣۔ اللہ نے انسان کو کھنکھناتی ہوئی مٹی سے پیدا فرمایا۔ (الحجر : ٢٧) ٤۔ حوا کو آدم سے پیدا کیا۔ (النساء : ١) ٥۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو نطفہ سے پیدا کیا۔ (النحل : ٤) ٦۔ ہم نے انسان کو مخلوط نطفہ سے پیدا کیا۔ (الدھر : ٢) ٧۔ اے لوگو! اپنے پروردگار سے ڈرو جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا ہے۔ (النساء : ١) ٨۔ اللہ نے انسانوں میں سے ہی ان کی بیویاں بنائیں اور ان سے بچے پیدا فرمائے۔ (النحل : ٧٢) ٩۔ اللہ نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا، پھر نطفہ سے، پھر تمہارے جوڑے جوڑے بنائے۔ (فاطر : ١١) ١٠۔ کیا تو اس ذات کا کفر کرتا ہے جس نے انسان کو مٹی سے پیدا کیا پھر نطفہ سے تجھے آدمی بنایا۔ (الکھف : ٣٧) ١١۔ اللہ نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا، پھر اسے نطفہ بنایا، پھر اس سے خون کا لوتھڑا، پھر اس سے بوٹی بنا کر انسان بنایا۔ (الحج : ٥) فاطر
12 فہم القرآن ربط کلام : سابقہ آیات میں اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کا تعارف کرواتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے کہ اللہ وہ ذات ہے جو ہوائیں چلاتا اور بارش برساتا ہے، وہی عزت کا مالک ہے اور اسی نے انسان کو مٹی سے پیدا کیا اور پھر ایک نطفے سے انسان کی تخلیق کا سلسلہ شروع فرمایا۔ اب ارشاد ہوتا ہے کہ اللہ ہی سمندر کے میٹھے اور کڑوے پانی کو اکٹھا چلانے والاہے۔ وہ اپنی قدرتوں اور نعمتوں کا اس لیے تذکرہ کرتا ہے تاکہ تم اس کا شکر ادا کرو۔ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا کہ کیا کفار نے غور نہیں کیا کہ زمین و آسمان باہم ملے ہوئے تھے اللہ تعالیٰ نے انہیں الگ الگ کیا اور اسی نے ہر زندہ چیز پانی سے پیدا فرمائی۔ کیا پھر بھی تم اللہ پر ایمان نہیں لاتے۔ (الانبیاء : ٣٠) جس پانی سے زندہ مخلوق کو پیدا کیا گیا ہے اس پانی کی بنیادی طور پر دو اقسام ہیں ایک میٹھا اور خوش ذائقہ ہے دوسرا اتنا کھاری ہے جو حلق کو زخمی کردیتا ہے۔ سورۃ الرحمن آیت ١٩ تا ٢٠ میں یہ بھی وضاحت فرمائی ہے کہ دو سمندر ہیں ایک میٹھا اور دوسرا کھاری، دو نوں ایک ہی جگہ بہہ رہے ہیں۔ لیکن آپس میں خلط ملط نہیں ہوتے کیوں کہ رب رحمن نے دونوں کے درمیان نظر نہ آنے والا پردہ حائل کر رکھا ہے جو ایک دوسرے کو ملنے نہیں دیتا ؟ پردے سے مراد وہ اجزا بھی ہو سکتے ہیں جو دونوں پانیوں میں الگ الگ ہوتے ہیں جو دونوں پانیوں کو آپس میں ملنے نہیں دیتے۔ (اللہ اعلم) لوگو! تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کی نا قدری کرو گے۔ غور کرو ! کہ ایک سمندر کا پانی اتنانمکین اور کڑوا ہے کہ حلق سے گزر نہیں سکتا لیکن اسی پانی میں پیدا ہونے اور پلنے والی مچھلیاں جن کا تم گوشت کھاتے ہو ان میں کسی قسم کی کڑواہٹ نہیں پائی جاتی۔ آخر یہ کس کی قدرت کا نتیجہ ہے کہ عمر بھر کڑوئے پانی میں رہنے والی مچھلی کا گوشت نہ صرف کڑواہٹ سے پاک ہے بلکہ خوراک کے اعتبار سے انتہائی مفید ہے جس میں دل کوتکلیف پہنچانے والی چکناہٹ نہیں پائی جاتی ہے۔ بے شک انسان نے تیز سے تیز رفتار ہوائی جہاز اور مواصلات کے ذرائع تیار کر لئے ہیں مگر آج بھی پوری دنیا کی تجارت کا بیشتر حصہ بحری جہازوں اور کشتیاں کا محتاج ہے۔ اسی طرح سب سے قیمتی ہیرے، جوہرات سمندر سے نکالے جاتے ہیں۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے سمندرکے پانی کو کھاری اور میٹھا بنایا۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے سمندر کی تہہ میں ہیرے جواہرات پیدا فرمائے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ نے ہی انسان کو سمندر کے سینے پر جہاز چلانے کی صلاحیت عطا فرمائی۔ تفسیر بالقرآن پانی اور اس کے فوائد : ١۔ ہم نے ہر چیز کو پانی سے زندگی بخشی۔ (الانبیاء : ٣٠) ٢۔ اللہ تعالیٰ پانی سے تمہارے لیے کھیتی، زیتون، کھجور اور انگور اگاتا ہے۔ (النحل : ١١) ٣۔ اللہ تعالیٰ نے آسمان سے پانی نازل فرمایا تاکہ تم طہارت حاصل کرو۔ (الانفال : ١١) ٤۔ اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان کو پیدا کیا اور پھر آسمان سے پانی اتار کر باغات اگائے۔ (النمل : ٦٠) ٥۔ اللہ تعالیٰ نے پانی سے ہر قسم کی نباتات کو پیدا کیا۔ (الانعام : ٩٩) ٦۔ اللہ تعالیٰ نے آسمان سے پانی اتارا اور اس سے مختلف انواع کے پھل پیدا فرمائے۔ (فاطر : ٣٧) ٧۔ اللہ تعالیٰ نے پانی کے ذریعے تمہیں پھلوں جیسا رزق عطا فرمایا : (البقرۃ: ٢٢) ٨۔ اللہ تعالیٰ نے تمام نباتات کو پانی کے ذریعے پیدا کیا۔ ( طٰہٰ: ٥٣) ٩۔ پانی کے ذریعے ہی بنجر زمین زرخیز ہوتی ہے۔ ( النحل : ٦٥) ١٠۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو پانی اور مٹی سے پیدا کیا۔ ( الطارق : ٦) ١١۔ اللہ تعالیٰ نے آسمان سے برکت والا پانی نازل فرما کر اس کے ذریعے بہت سے باغات سرسبز وشاداب کر دئیے۔ ( ق : ٩) فاطر
13 فہم القرآن ربط کلام : میٹھے اور کڑوے پانی، مچھلیوں، کشتیوں اور جوہرات کے ذکر کے بعد رات اور دن کا ذکر کیونکہ رات اور دن بھی قدرت کی بڑی، بڑی نشانیوں میں سے عظیم نشانی ہیں اور اسی سے ہی زندگی کا نظام ترتیب پاتا ہے۔ قرآن مجید میں کئی بار ذکر ہوا ہے کہ لیل و نہار کی گردش، سورج اور چاند کا آنا جانا ” اللہ“ کی قدرت کی عظیم نشانیاں ہیں۔ بنیادی طور پر دن اور رات کا تعلق سورج اور چاند کی گردش کے ساتھ ہے۔ سورج اور چاند کے بارے میں سورۃ یٰس میں فرمایا ہے کہ نہ سورج چاند کو پاسکتا ہے اور نہ چاند سورج کے ساتھ مل سکتا ہے۔ دونوں اپنے اپنے مدار میں گھوم رہے ہیں۔ رات اور دن کے آنے، جانے میں سورج کا مرکزی کردار ہے۔ جونہی سورج طلوع ہوتا ہے تو رات کی تاریکیاں چھٹ جاتی ہیں اور جب سورج غروب ہوتا ہے تو رات کا اندھیرا عود کر آتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے رات اور دن کا نظام اس طرح بنایا اور چلایا ہے کہ کبھی دن رات پر ایک حد تک غلبہ پاتا ہے اور کبھی رات دن کے ایک حصے کو اپنے دامن میں چھپا لیتی ہے۔ نہ دن رات کے کچھ حصہ پریکدم غلبہ پاتا ہے اور نہ رات یکبارگی دن کو اپنے دامن میں لپیٹتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے دونوں کے لیے ایک رفتار اور نظام الاوقات مقرر کر رکھا ہے۔ سائنسدان کی ریسرچ کے مطابق کھربوں سال سے یہ سلسلہ جاری ہے۔ آج تک لیل ونہار کی آمد ورفت میں خلل واقع نہیں ہوا۔ یہ سلسلہ مضبوط نظم کے ساتھ قیامت تک جاری رہے گا۔ اس میں قدرت کی سب سے بڑی نشانی یہ ہے کہ انہیں بنانے اور چلانے والا صرف ایک ” اللہ“ ہے۔ اگر اس کے سوا یا اس کے ساتھ اور کوئی چلانے والے ہوتے تو بالیقین اس نظام میں کوئی نہ کوئی خلل واقع ہوتا۔ کیونکہ اسے چلانے والا ایک ہی الٰہ ہے۔ اس لیے یہ نظام منظم طریقے کے ساتھ جاری و ساری ہے جو قیامت تک اس طرح ہی چلتا رہے گا۔ جہاں تک سورج کی روشنی اور اس کی تپش کے فوائد ہیں اور چاند کی چاندنی اور اس کے فائدے ہیں وہ اس قدر زیادہ ہیں کہ کوئی ان کا شمار نہیں کرسکتا اور یہی حال رات اور دن کے فوائد کا ہے جن سے ہر آدمی مستفید ہوتا ہے۔ اپنی نعمتوں سے مستفید کرنے والا اور لوگوں کی زندگی ترتیب دینے والا صرف ایک اللہ ہے اور وہی لوگوں کا رب اور بادشاہ ہے۔ لیکن لوگوں کی اکثریت کا حال یہ ہے کہ وہ اپنے خالق اور مالک کو چھوڑ کر دوسروں کو اپنا خیرخواہ اور مددگار سمجھتے ہیں۔ حالانکہ جنہیں اللہ تعالیٰ کے سوا یا اس کے ساتھ پکارا جاتا ہے وہ کھجور کی گھٹلی کے پردے کے برابر بھی اختیارات نہیں رکھتے۔” قِطْمِیْرُ“ کھجورکے اس پردے کو کہا جاتا ہے جو اس کی گھٹلی کے درمیان لکیر میں پایا جاتا ہے یہ پردہ اس قدر باریک اور نازک ہوتا ہے کہ اکثر اوقات کھجور کے گودے کے ساتھ چمٹا رہتا ہے اور دیکھنے والے کو دکھائی نہیں دیتاگویا کہ بہت ہی حقیر اور کمزور ہوتا ہے۔ مگر مشرک ان لوگوں کو خدا کی خدائی میں شریک کرتے ہیں جن کے پاس اتنا بھی اختیار نہیں۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ رات کو دن میں اور دن کو رات میں داخل کرتا ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ ہی سب کا مالک ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ ہی نے چاند اور سورج کو مسخر فرمایا ہے۔ ٤۔ چاند اور سورج اپنے اپنے وقت اور مدار میں چلے جارہے ہیں۔ ٥۔ تمام لوگوں کو اللہ تعالیٰ ہی پیدا کرنے اور ان کی ضروریات پوری کرنیوالا ہے۔ ٦۔ اللہ تعالیٰ نے کسی کو کھجور کی گٹھلی کے پردے کے برابر بھی اختیار نہیں دیا۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ نے اپنی بادشاہی میں کسی کو کچھ بھی اختیار نہیں دیا : ١۔ ہر کام کا انجام اللہ کے اختیار میں ہے۔ (الحج : ٤١) ٢۔ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے۔ (البقرہ : ٢٠) ٣۔ ” اللہ“ پیدا کرتا ہے اور مختار کل ہے دوسروں کو کوئی اختیار نہیں ہے اللہ تعالیٰ مشرکوں کے شرک سے پاک ہے۔ (القصص : ٦٨) ٤۔ قیامت کے دن آسمانوں کو اللہ تعالیٰ اپنے دائیں ہاتھ پر لپیٹ لے گا۔ اللہ تعالیٰ پاک ہے اور بہت بلند ہے اس چیز سے جو وہ شرک کرتے ہیں۔ ( الزمر : ٦٧) فاطر
14 فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ کے سوا جن کو مشرکین پکارتے ہیں ان کی حیثیت۔ قرآن مجید باربار ارشاد فرماتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو نہ پکارا جائے۔ مطلب یہ ہے کہ ایک شخص اللہ تعالیٰ سے بھی مدد مانگتا ہے اور اس کے ساتھ بتوں، فوت شدگان، جنّات، ملائکہ یا کسی اور غیر مری طاقت سے بھی امداد طلب کرتا ہے جس طرح اللہ تعالیٰ کے سامنے قیام، رکوع، سجدہ اور نذرونیاز پیش کرتا ہے اسی طرح ہی درسروں کے سامنے جھکتا اور نذرانے پیش کرتا ہے۔ گو یا کہ یہ شخص اللہ تعالیٰ کی عبادت کے ساتھ ساتھ دوسروں کی عبادت کرتا اور ان کو پکارتا ہے۔ قرآن مجید اس بات سے بھی روکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کو نہ پکاراجائے۔ پہلے طریقہ کے لیے ” وَلَا تَدْعُ مَعَ اللّٰہٖ“ کے الفاظ آئے ہیں اور دوسرے انداز کے لیے ” مِنْ دُوْنِ اللّٰہٖ“ یا ” مِنْ دُوْنِہٖ“ کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں۔ جس کا صاف معنٰی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی سے مدد طلب نہیں کرنی چاہیے۔ بے شک وہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) ہوں یا حضرت عزیر (علیہ السلام) یا کوئی فوت شدہ ہستی۔ تمام فوت شدگان کے بارے میں ارشاد ہوا ہے کہ وہ نہیں سنتے۔ بفرض محال اگر وہ سن بھی لیں تو وہ تمہاری فریاد کا جواب نہیں دے سکتے۔ قیامت کے دن جب ان سے سوال کیا جائے گا تو وہ اپنے پکارنے والوں کا انکار کردیں گے۔ اگر سن بھی لیں تو جواب نہیں دے سکتے یہ الفاظ لا کر ثابت کیا ہے کہ وہ کسی صورت بھی نہ سن سکتے ہیں اور نہ جواب دینے کی طاقت رکھتے ہیں۔ لوگو! سنو اور سوچو! تمہارا رب تمہیں شرک کے بارے میں کس طرح باربار روکتا ہے اور اسے کھول کھول کر بیان کرتا ہے۔ اس علیم و خبیر کے سوا کوئی تمہیں اس طرح نہ سمجھا سکتا اور نہ بتلا سکتا ہے۔ (عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ یَقُوْلُ اللَّہُ تَبَارَکَ وَتَعَالَی لأَہْوَنِ أَہْلِ النَّارِ عَذَابًا لَوْ کَانَتْ لَکَ الدُّنْیَا وَمَا فِیْہَا أَکُنْتَ مُفْتَدِیًا بِہَا فَیَقُوْلُ نَعَمْ فَیَقُوْلُ قَدْ أَرَدْتُ مِنْکَ أَہْوَنَ مِنْ ہَذَا وَأَنْتَ فِیْ صُلْبِ اٰدَمَ أَنْ لاَ تُشْرِکَ أَحْسَبُہُ قَالَ وَلاَ أُدْخِلَکَ النَّارَ فَأَبَیْتَ إِلاَّ الشِّرْکَ) [ رواہ مسلم : کتاب صفۃ القیامۃ والجنۃ والنار، باب طَلَبِ الْکَافِرِ الْفِدَاءَ بِمِلْءِ الأَرْضِ ذَہَبًا] ” حضرت انس بن مالک (رض) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں اللہ تبارک و تعالیٰ جہنمیوں میں سے کم ترین عذاب پانے والے سے فرمائے گا کہ اگر دنیا اور جو کچھ اس میں ہے تیرے پاس ہو۔ کیا تو اسے فدیہ کے طور پردینے کے لیے تیار ہے؟ وہ کہے گا جی ہاں ! اللہ تعالیٰ فرمائے گا میں نے تجھ سے اس سے بھی ہلکی بات کا مطالبہ کیا تھا جب تو آدم کی پشت میں تھا وہ یہ کہ میرے ساتھ شرک نہ کرنا۔ راوی بیان کرتا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میں تجھے جہنم میں داخل نہ کرتا مگر تو شرک سے باز نہ آیا۔“ مسائل ١۔ فوت شدگان کسی کی بات نہیں سنتے اور نہ ہی جواب دے سکتے ہیں۔ ٢۔ قیامت کے دن فوت شدگان اپنے ساتھ کیے گئے شرک کی نفی کریں گے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ باربار لوگوں کو شرک کے بارے میں آگاہ کرتا ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ کے ساتھ یا اس کے سوا کسی اور کو پکارنا شرک ہے : ١۔ بس ایک الٰہ کے سوا کسی دوسرے الٰہ کو نہ پکارو۔ (القصص : ٨٨) ٢۔ اللہ ہی کو پکارو وہی تکلیف دور کرتا ہے۔ (الانعام : ٤١) ٣۔ اللہ کے سوا کسی کو نہ پکاروجو نہ نقصان پہنچا سکتا ہے اور نہ نفع دے سکتا ہے۔ (یونس : ١٠٦) ٤۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ زندہ ہے اس کے سوا کوئی الٰہ نہیں صرف اسی کو پکارو (المومن : ٦٥) ٥۔ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی اور الٰہ کو نا پکارو اس کے سوا کوئی الٰہ نہیں مگر وہی ہے۔ (القصص : ٨٨) ٦۔ وہ زندہ ہے اس کے سوا کوئی الٰہ نہیں خالصتاً اسی کو پکارو۔ (المومن : ٦٥) ٧۔ سب کو صرف اسی بات کا حکم دیا گیا ہے کہ صرف ایک اللہ کو پکارو۔ (البینۃ: ٥) ٨۔ اللہ کے ساتھ کسی اور کو نہ پکاریں ورنہ آپ عذاب میں مبتلا ہونے والوں میں سے ہوجائیں گے۔ (الشعراء : ٢١٣) ٩۔ اللہ تعالیٰ کی عبادت میں کسی کو شریک نہ کیا جائے۔ (النساء : ٣٦) ١٠۔ مومنو! اللہ کو اخلاص کے ساتھ پکارو اگرچہ کفار کے لیے یہ ناپسند ہی کیوں نہ ہو۔ (المومن : ١٤) فاطر
15 فہم القرآن ربط کلام : ” اللہ“ ہی کی بادشاہی ہے۔ اس کی باشاہی میں کوئی اس کا شریک نہیں۔ طالب اور مطلوب سب کے سب اسی کے درکے فقیر ہیں۔ اے لوگو! تم تمام کے تمام اپنے رب کی بارگاہ کے فقیر ہو اور اللہ غنی ہے۔ ساری کائنات اسی کی ثناء خواں اور محتاج ہے۔ وہ چاہے تو تمہیں ختم کرکے نئی مخلوق پیدا کردے وہ اتنا بڑا فیصلہ کرنے اور اسے نافذ کرنے پر قادر ہے۔ اس سے پہلے اللہ تعالیٰ نے اپنی بڑی بڑی قدرتوں کا ذکر کرنے کے بعد فرمایا کہ جن کو ” اللہ“ کی خدائی میں شریک سمجھتے ہو وہ توایک چھلکے کے بھی مالک نہیں ہیں اور نہ ہی تمہاری دعاؤں کو سننے اور قبول کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اب ارشاد فرمایا کہ جن سے تم مانگتے ہو یا جنہیں تم اپنے رب کی ذات اور اختیار ات میں شریک سمجھتے ہو وہ اور تم سب کے سب اپنے رب کے در کے فقیر اور محتاج ہو اور اللہ تعالیٰ ہر اعتبار سے غنی ہے۔ اس کے خزانوں میں نہ کمی واقع ہوئی ہے اور نہ ہوگی۔ اسے نہ کسی کے تعاون کی ضرورت ہے اور نہ ہوگی۔ تمام کی تمام مخلوق اس کے خزانوں سے فیض یاب ہورہی ہے اور اس کی شکر گزار ہے۔ اے انسانو! اگر تم اس کے شکر گزار نہیں بنتے تو اسے تمہاری نا فرمانی اور نا قدری کرنے کی کوئی پروا نہیں۔ کیونکہ وہ ہر ضرورت سے بے نیاز ہے اور اس کی ہر کوئی تعریف کررہا ہے۔ ہاں! اگر وہ تمہیں ختم کرنے کا فیصلہ کرلے اور تمہاری جگہ کوئی دوسری مخلوق لے آئے تو تم اس کا کچھ بھی بگاڑ نہیں سکتے کیونکہ وہ اپنے فیصلے نافذ کرنے پر کلی طور پر غالب ہے۔ تاریخ کے دریچوں میں جھانک کر دیکھو ! اس نے تم سے پہلے کتنی اقوام کو صفحۂ ہستی سے مٹایا اور ان کی جگہ پر دوسروں کو بسایا۔ مٹنے والوں کو بچانے والا کوئی نہ تھا اور نہ ہی وہ خود اپنے آپ کو بچا سکے۔ ” حضرت ابوذر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا‘ اللہ تبارک وتعالیٰ فرماتا ہے : میرے بندو! تم میں سے ہر ایک گمراہ ہے سوائے اس کے جس کو میں ہدایت سے سرفراز کروں بس تم مجھ سے ہدایت مانگو میں تمہیں ہدایت دوں گا۔ تم میں سے ہر ایک بھوکا ہے سوائے اس کے جس کو میں کھلاؤں پس تم مجھ سے مانگومیں تمہیں کھلاؤں گا۔ میرے بندو! تم سب ننگے ہو سوائے اس کے جس کو میں پہناؤں پس تم مجھ سے پہناوا طلب کرو میں تمہیں پہناؤں گا۔ میرے بندو! تم رات دن گناہ کرتے ہو‘ میں تمام گناہوں کو بخش دینے والا ہوں۔ مجھ سے بخشش طلب کرو، میں تمہیں بخش دوں گا۔ میرے بندو! تم مجھے نقصان اور نفع پہنچانے کی طاقت نہیں رکھتے۔ میرے بندو! تمہارے تمام اگلے پچھلے‘ جن وانس سب سے زیادہ متّقی انسان کے دل کی طرح ہوجائیں تو یہ میری سلطنت میں ذرّہ بھر اضافہ نہیں کرسکتے۔ میرے بندو! تمہارے اگلے پچھلے جن وانس بدترین فاسق وفاجر انسان کی طرح ہوجائیں تو یہ میری حکومت میں کوئی کمزوری پیدا نہیں کرسکتے۔ میرے بندو! تمہارے اگلے پچھلے‘ جن وانس سب کھلے میدان میں اکٹھے ہوجائیں پھر وہ مجھ سے مانگنے لگیں اور میں ہر کسی کی منہ مانگی مرادیں پوری کر دوں تو میرے خزانوں میں اتنی کمی بھی واقع نہیں کرسکتے جتنی سوئی کو سمندر میں ڈبونے سے کمی واقع ہوتی ہے۔“ [ رواہ مسلم : کتاب البر والصلۃ و الآداب، باب تحریم الظلم] مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ غنی ہے تمام لوگ اس کے محتاج اور فقیر ہیں۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ ہر اعتبار سے تعریف کے لائق ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ اپنے فیصلے نافذ کرنے پر پوری طرح قادر ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ نے کتنی اقوام کو نیست و نابود کیا : ١۔ اللہ تعالیٰ نے حق کی تکذیب کرنے والوں کو انکے گناہوں کی وجہ سے ہلاک کر کے دوسری قوم کو پیدا فرمایا۔ (الانعام : ٦) ٢۔ آل فرعون نے ” اللہ“ کی آیات کی تکذیب کی اللہ تعالیٰ نے ان کو ان کے گناہوں کیوجہ سے ہلاک کردیا۔ (الانفال : ٥٤) ٣۔ بستی والوں نے جب ظلم کیا اللہ تعالیٰ نے انھیں ہلاک کردیا۔ (الکہف : ٥٩) ٤۔ قوم عاد نے جھٹلایا تو اللہ نے ان کو ہلاک کردیا۔ (الشعراء : ١٣٩) ٥۔ قوم تُبَّعْ اور ان سے پہلے مجرموں کو اللہ تعالیٰ نے ہلاک کردیا۔ (الدخان : ٣٧) ٦۔ قوم عاد کو تند وتیز ہوا کے ساتھ ہلاک کردیا گیا۔ (الحاقۃ : ٦) ٧۔ کیا وہ نہیں جانتے اللہ تعالیٰ نے ان سے بھی بڑے مجرموں کو ہلاک کردیا۔ (القصص : ٧٨) ٨۔ اللہ تعالیٰ نے انبیاء کی طرف وحی کی کہ ظالموں کو ضرور ہلاک کرے گا۔ (ابراہیم : ١٣) فاطر
16 فاطر
17 فاطر
18 فہم القرآن ربط کلام : جو دنیا میں اپنے آپ کو نہیں بچاسکتے وہ آخرت میں کسی کی ذمہ داری کیا اٹھائیں گے۔ مشرکین کا عقیدہ ہے کہ جن بزرگوں کے حضور ہم نذرو نیاز دیتے ہیں وہ قیامت کے دن ہمیں اللہ تعالیٰ کی گرفت سے چھڑا لیں گے۔ ایسا عقیدہ رکھنے والوں پر یہ حقیقت واضح کی گئی ہے کہ اس دن کوئی بوجھ اٹھانے والا دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا جو شخص بوجھ تلے دبا ہوگا وہ بڑی آہ و زاری کے ساتھ اپنے اقرباء اور احباب کو آواز پر آواز دے گا لیکن اس کا بوجھ اٹھانے کے لیے کوئی تیار نہ ہوگا۔ یہاں تک کہ باپ بیٹے سے، بھائی اپنے بھائی سے، ماں اپنے جگر گوشوں سے، بیٹیاں اپنی مامتا سے دور بھاگ جائیں گی۔ اسی لیے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم ہوا کہ آپ بالخصوص ان لوگوں کو قیامت کے دن کی پکڑ سے ڈرائیں جو اپنے رب سے اس کو دیکھے بغیرڈرتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں۔ جس نے اپنے آپ کو گناہ کی نحوست سے پاک رکھا اس کا فائدہ اسی کو ہوگا اور بالآخر ہر کسی نے اپنے رب کی طرف ہی پلٹ کرجانا ہے۔ قرآن مجید نے گناہوں کے لیے بوجھ کا لفظ استعمال کیا ہے یہ ایسا بوجھ ہوگا کہ جس کے تلے مجرم دبا ہوا ہوگا۔ وہ اپنے عزیز و اقرباء اور جاننے والوں کو اپنی مدد کے لیے باربار پکارے گا لیکن کوئی بھی اس کی مدد کرنے کے لیے تیار نہ ہوگا۔ اس صورت حال سے وہی لوگ بچ سکیں گے جو اپنے رب پر فی الحقیقت ایمان رکھنے والے اور نماز کی پابندی کرنے والے ہیں۔ یاد رہے کہ گناہوں کا آخرت میں ہی بوجھ نہیں ہوگا۔ دنیا میں بھی اس کا بوجھ ہوتا ہے جس وجہ سے انسان پریشان ہوتا ہے اور کئی انسان گناہ کے بوجھ اور شرمندگی کی وجہ سے خودکشی کرلیتے ہیں۔ جو پہلے گناہوں سے بڑا گناہ ہے۔ ” حضرت ابوذر غفاری (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک دن نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سردیوں کے موسم میں باہر تشریف لائے اور پتے گر رہے تھے آپ نے درخت کی دو ٹہنیوں کو پکڑا جس سے ٹہنی کے پتے زمین پر گر پڑے پھر فرمایا : ابوذر! میں نے عرض کی اے اللہ کے رسول! حاضرہوں آپ نے فرمایا : مسلمان جب اخلاص کے ساتھ نماز پڑھتا ہے تو اس کے گناہ ایسے ہی گر جاتے ہیں جس طرح اس درخت کے پتے گر گئے ہیں۔“ [ مسند احمد : کتاب مسند الأنصار، باب حدیث أبی ذر (رض) ] ” حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) اس بات کو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حوالے سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا جو آدمی اپنے مال کی زکوٰۃ نہیں دیتا۔ اللہ تعالیٰ روز قیامت یہ مال اس کی گردن میں گنجا سانپ بنا کر ڈالے گا۔ پھر آپ نے کتاب اللہ سے اس آیت کی تلاوت کی (وَلَا یَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ یَبْخَلُوْنَ بِمَا آتَاھُمُ اللّٰہُ مِنْ فَضْلِہٖ) “ [ رواہ الترمذی : کتاب : تفسیرالقرآن، باب ومن سورۃ آل عمران] مسائل ١۔ انسان کے گناہ قیامت کے دن بوجھ بن جائیں گے۔ ٢۔ قیامت کے دن کوئی کسی کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے والے اور نماز قائم کرنے والے ہی گناہوں سے بچا کرتے ہیں۔ ٤۔ بالآخر ہر کسی نے اللہ تعالیٰ کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔ تفسیر بالقرآن قیامت کے دن کوئی کسی کا بوجھ نہیں اٹھائے گا : ١۔ کوئی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔ (بنی اسرائیل : ١٠۔ فاطر : ١٨) ٢۔ کوئی شخص کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔ (الزّمر : ٧) ٣۔ خبر دار کوئی شخص کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔ (النجم : ٣٨) ٤۔ انسان جو بھی کرتا ہے اس کابوجھ اسی پہ ہے۔ کوئی کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔ (الانعام : ١٦٤) ٥۔ ہر ایک اپنے معاملے کا خود ذمہ دار ہے۔ (البقرہ : ١٤١) ٦۔ قیامت کے دن دوست کام نہیں آئیں گے۔ (البقرہ : ٢٥٤) فاطر
19 فہم القرآن ربط کلام : عقیدہ توحید اور دین سے انحراف کرنے والا در حقیقت اندھا ہوتا ہے۔ اندھا اور بینا برابر نہیں ہو سکتے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو بصیرت اور بصارت اس لیے عطا فرمائی ہے کہ وہ اپنے رب کو پہنچانے اور اس کی فرمانبرداری اختیار کرے۔ جو انسان اپنے رب کوفراموش کردیتا ہے در حقیقت وہ اندھا ہوتا ہے۔ کیونکہ وہ کائنات کی سب سے بڑی حقیقت اور ضمیر کی آواز فراموش کرکے دل کی روشنی کھو بیٹھتا ہے۔ ضمیر کی روشنی اور کائنات کی حقیقت یہ ہے کہ انسان اپنے خالق، مالک اور رازق کو پہچانے اور اس کی فرمانبرداری میں زندگی بسر کرے۔ پہلی بات کا نام عقیدہ توحید اور دوسری بات کا نام دین ہے۔ جو اس پر عمل کرتا ہے وہ بینا ہے اور جس نے اس حقیقت کو فراموش کردیا وہ اندھا ہے بینا نہیں۔ وہ اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ نور کی بجائے اپنے توہمات اور معاشرے کی رسومات کی تاریکی میں زندگی بسر کرتا ہے۔ ایسے شخص کے بارے میں یہ استفسار ہوا ہے کہ بتاؤ اندھا اور بینا، اندھیرے اور روشنی، چھاؤں اور دھوپ برابرہوسکتے ہیں ؟ ظاہر ہے کہ یہ برابر نہیں ہوسکتے۔ جب برابر نہیں ہو سکتے تو آدمی کو اندھے پن کی بجائے بصیرت کیساتھ، اندھیروں سے نکل کر روشنی میں چلنا چاہیے اور اسے دھوپ کی بجائے سائے کو ترجیح دینا چاہیے۔ یہی عقل سلیم کا تقاضا ہے اس کا ہر شخص کو خیال اور احترام کرنا چاہیے تاکہ دنیا میں در در کی ٹھوکروں سے بچ جائے اور آخرت میں اپنے رب کی بارگاہ میں سروخرو ہوجائے۔ یہاں اندھا پن، اندھیرے اور دھوپ سے پہلی مراد شرک ہے اور ” التوحید“ کو بصیرت، النور اور ٹھنڈا سایہ قرار دیا گیا ہے جس سے انسان کودنیا میں سکون، روشنی اور بصیرت حاصل ہوتی ہے اور موت کے بعد لمحہ بہ لمحہ اسے اپنے رب کی دست گیری اور نور میسّر ہوگا۔ تفسیر بالقرآن التوحید اور شرک کا موازنہ : ١۔ توحید سب سے بڑی سچائی ہے۔ (المائدۃ: ١١٩، النساء : ٨٧، ١٢٢) ٢۔ شرک سب سے بڑا جھوٹ ہے۔ (ھود : ١٨) ٣۔ توحید سب سے بڑی گواہی ہے۔ (آل عمران : ١٨، الانعام : ١٩، الروم : ٣٠) ٤۔ توحید عدل ہے۔ (آل عمران : ١٨) ٥۔ شرک سب سے بڑا ظلم ہے۔ (لقمان : ١٣) ٦۔ توحید دانائی ہے۔ (بنی اسرائیل : ٣٩) ٧۔ شرک بیوقوفی ہے۔ (الجن : ٤) فاطر
20 فاطر
21 فاطر
22 فہم القرآن ربط کلام : شرک اور التوحید کا ایک اور موازنہ۔ جس طرح اندھا اور بینا، اندھیرے اور روشنی، دھوپ اور سایہ برابر نہیں ہوسکتے اسی طرح زندہ اور مردہ برابر نہیں ہوتے۔ توحید اور شرک کے درمیان موازنہ فرما کریہ ثابت کیا گیا ہے کہ توحید کا عقیدہ رکھنے والے زندہ ہیں اور شرک میں مبتلا ہونے والے مردہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے اسے سننے کی توفیق بخشتا ہے۔ اے حبیب (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ قبروں میں دفن لوگوں کو نہیں سنا سکتے۔ آپ تو لوگوں کو ان کے برے اعمال کے نتیجہ سے ڈرا نے والے ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو حق کے ساتھ اس لیے بھیجا ہے کہ آپ حق قبول کرنے والوں کو خوشخبری سنائیں اور انکار کرنے والوں کو ان کے انجام سے ڈرائیں۔ اللہ تعالیٰ نے کوئی امت ایسی نہیں چھوڑی جن میں ڈرانے والا مبعوث نہ کیا ہو۔ یہ بات ” فہم القرآن“ کے کئی مقامات پر بیان ہوچکی ہے کہ پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت دو نتائج پر مبنی ہے۔ تسلیم کرنے والوں کے لیے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بشیر تھے اور انکار کرنے والوں کے لیے آپ نذیر بنا کر بھیجے گئے تھے۔ اللہ تعالیٰ کا ہمیشہ سے یہ دستور رہا ہے کہ اس نے ہر زمانے کے لوگوں میں اپنا رسول مبعوث فرمایا جو لوگوں کو ان کے برے انجام سے ڈراتا اور ایمان والوں کو ان کے روشن مستقبل کی خوشخبری دیا کرتا تھا۔ ہر زمانے اور ہر امت میں رسول بھیجنے کا یہ مفہوم ہے کہ جہاں اور جب تک نبی کی شریعت اصل حالت میں موجود رہتی ہے۔ اس وقت تک وہاں نبی مبعوث نہیں کیا جاتا۔ جب پہلے نبی کی شریعت اپنی حالت میں نہیں رہتی تو اللہ تعالیٰ اس نبی کے دور اور علاقے میں ایک اور نبی مبعوث فرماتارہا۔ تاآنکہ خاتم المرسلین مبعوث کردئیے گئے۔ اب قیامت تک کوئی نبی مبعوث نہیں کیا جائے گا۔ کیونکہ دین مکمل ہوا جو اصل حالت میں ہمیشہ رہے گا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی امت کے علماء یہ فرض ادا کرتے رہیں گے۔ آیت ٢٢ میں یہ بات بھی واضح کردی گئی ہے کہ نبی مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی مردوں کو نہیں سنا سکتے تھے۔ ہاں! اللہ تعالیٰ جسے چاہے سنوا سکتا ہے جیسا کہ حدیث مبارکہ میں بدر کے مردوں کے بارے میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے۔ (عَنْ أَنَسٍ (رض) قَالَ کُنَّا مَعَ عُمَرَ بَیْنَ مَکَّۃَ وَالْمَدِینَۃِ أَخَذَ یُحَدِّثُنَا عَنْ أَہْلِ بَدْرٍ فَقَالَ إِنَّ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لَیُرِینَا مَصَارِعَہُمْ بالْأَمْسِ قَالَ ہٰذَا مَصْرَعُ فُلَانٍ إِنْ شَاء اللّٰہُ غَدًا قَالَ عُمَرُ وَالَّذِی بَعَثَہُ بالْحَقِّ مَا أَخْطَءُوا تیکَ فَجُعِلُوا فِی بِءْرٍ فَأَتَاہُمْ النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَنَادٰی یَا فُلَانُ بْنَ فُلَانٍ یَا فُلَانُ بْنَ فُلَانٍ ہَلْ وَجَدْتُّمْ مَا وَعَدَ رَبُّکُمْ حَقًّا فَإِنِّی وَجَدْتُّ مَا وَعَدَنِی اللّٰہُ حَقًّا فَقَالَ عُمَرُ تُکَلِّمُ أَجْسَادًا لَا أَرْوَاح فیہَا فَقَالَ مَا أَنْتُمْ بِأَسْمَعَ لِمَا أَقُولُ مِنْہُمْ) [ رواہ مسلم : کتاب الجنائز، باب أرواح المؤمنین] ” حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں ہم حضرت عمر (رض) کے ساتھ مکہ اور مدینہ کے درمیان سفر میں تھے وہ ہمیں اہل بدر کے متعلق بتانے لگے۔ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے وہ جگہیں ہمیں دکھائیں جہاں اگلے دن کافروں نے قتل ہونا تھا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ نے چاہا تو فلاں فلاں کے قتل ہونے کی یہ یہ جگہ ہے۔ عمر (رض) فرماتے ہیں اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا۔ کافر مقررہ جگہوں سے ذرا برابر بھی ادھر ادھر نہیں قتل ہوئے انہیں کنویں میں پھینک دیا گیا۔ کنویں کے پاس نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آئے اور انہیں آواز دیتے ہوئے فرمایا اے فلاں بن فلاں، اے فلاں بن فلاں کیا تم سے تمہارے رب نے جو وعدہ کیا تھا تم نے اسے سچ پایا ہے۔ بلاشبہ میرے رب نے میرے ساتھ جو وعدہ کیا تھا میں نے اسے سچ پا یا ہے۔ حضرت عمر (رض) کہتے ہیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لاشوں کو مخاطب فرمایا حالانکہ یہ مر چکے ہیں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو ان سے کہہ رہا ہوں یہ تم سے زیادہ سن رہے ہیں۔“ تفسیر بالقرآن مردے نہیں سنتے : ١۔ اللہ جسے چاہے سنا سکتا ہے جو قبروں میں ہیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کو نہیں سنا سکتے۔ (فاطر : ٢٢۔ النمل : ٨٠) ٢۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بہروں کو نہیں سنا سکتے۔ (یونس : ٤٢) ٣۔ مدفون نہیں سنتے وہ قیامت کے دن اپنے پکارنے والوں کا انکار کریں گے۔ (فاطر : ١٤) فاطر
23 فاطر
24 فاطر
25 فہم القرآن ربط کلام : توحید و رسالت کا پیغام واضح ہوجانے کے باوجود اگر کفار آپ کو جھٹلاتے ہیں تو اے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! یہ واقعہ صرف آپ کے ساتھ ہی پیش نہیں آیا۔ آپ سے پہلے لوگوں کے ساتھ بھی یہی کچھ ہوتا رہا ہے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جس قدر محنت اور دلسوزی کے ساتھ لوگوں کو سمجھاتے۔ لوگ اسے قبول کرنے کی بجائے اتنی سختی کے ساتھ مخالفت کا اظہار کرتے۔ اس صورت حال پر دل گرفتہ ہونا انسانی فطرت کا تقاضا ہے جس بنا پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) افسردہ خاطر ہوجاتے۔ قرآن مجید میں آپ کی ڈھارس اور تسلی کے لیے کئی انداز اختیار کیے گئے ہیں۔ جن میں سے ایک انداز یہ بھی ہے کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ کو حد سے زیادہ دل گر فتہ نہیں ہونا چاہیے کیونکہ آپ سے پہلے انبیاء کرام (علیہ السلام) کے ساتھ بھی منکرین حق نے تکذیب کا رویہ اختیار کیا تھا۔ حالانکہ یہ رسول بڑے بڑے معجزات، بھر پور دلائل، صحیفے اور روشن کتاب دے کر بھیجے گئے تھے۔ لیکن حق کا انکار کرنے والوں نے انبیائے کرام (علیہ السلام) کو جھٹلایا اور ان کی دعوت کو مسترد کیا۔ جس کی پاداش میں اللہ تعالیٰ نے ان کی سخت گرفت کی اور انہیں بدترین عذاب میں مبتلا کیا۔ اہل علم نے کتاب سے مراد تورات لی ہے جو نزول قرآن سے پہلے آسمانی کتابوں میں سب سے واضح اور مدلّل کتاب ہے۔ مسائل ١۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پہلے انبیاء کو بھی جھٹلایا گیا تھا۔ ٢۔ انبیائے کرام (علیہ السلام) معجزات واضح، دلائل، اور روشن کتابوں کے ساتھ مبعوث کیے گئے تھے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ نے منکرین حق کو ان کے انکار اور استکبار کی وجہ سے عذاب میں مبتلا کیا۔ فاطر
26 فاطر
27 فہم القرآن ربط کلام : توحید کا انکار کرنے اور حق بات کوٹھکرانے والوں کو غوروفکر کی دعوت۔ کیا توحید کا انکار اور حق بات کو ٹھکرانے والے اس بات پر غور نہیں کرتے کہ اللہ تعالیٰ کس طرح آسمان سے بارش برساتا ہے پھر اس کے ذریعے مختلف قسم کے پھل پیدا کرتا ہے جن کے رنگ آپس میں نہیں ملتے۔ اسی ذات نے پہاڑ پیدا کیے جن میں سفید، سرخ اور نہایت ہی کالے رنگ کے پہاڑ ہوتے ہیں۔ اسی ذات نے انسانوں، جانوروں اور چوپاؤں کے مختلف رنگ اور جسم بنائے جو اس کی قدرت کا پتہ دیتے ہیں۔ لوگوں میں وہی لوگ اپنے رب سے زیادہ ڈرتے ہیں جوصاحب علم ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر کام پر غالب اور بخشنے والاہے۔ سورۃ الرّعدکی آیت ٣، ٤ میں ارشاد فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر پھل کے جوڑے پیدا کیے اور زمین کو مختلف قطعات میں تقسیم فرمایا ہے جو اپنے مزاج کے مطابق مختلف قسم کے پھل پیدا کرتی ہے۔ حالانکہ ان کو ایک ہی پانی سیراب کرتا ہے لیکن انگور اور کھجور رنگ اور ذائقہ کے اعتبار سے ایک دوسرے سے کسی قدر مختلف ہوتے ہیں۔ اسی طرح پہاڑ ہیں جو مختلف رنگ لیے ہوئے ہیں۔ بعض پتھر قیمت کے اعتبار سے اس قدربیش بہا ہیں کہ غریب آدمی ان کے حصول کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔ انسانوں، جانوروں اور چوپایوں کے رنگ اور مزاج کی طرف توجہ کریں تو انسان حیرت زدہ رہ جاتا ہے کہ ایک ہی ماں باپ کی اولاد شکل وصورت، عادات اور خصائل کے اعتبار سے آپس میں مختلف ہوتے ہیں یہی صورت حال چوپایوں اور جانوروں میں پائی جاتی ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کے عظیم مظاہر ہیں جن کا ادراک وہی لوگ کرپاتے ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے حقیقی علم سے سرفراز فرمایا ہو۔ حقیقی علم سے مراد وہ معرفت ہے جس کے سبب انسان اپنے رب کو پہچانتا ہے اور اس کی نافرمانی سے بچتا ہے۔ ایسے شخص سے بتقاضأبشریت کوتاہی سرزد ہوجائے تو اللہ تعالیٰ اسے معاف فرمانے والاہے۔ ان آیات میں لوگوں کے مزاج کی نشاندہی کی گئی ہے بارش اور نباتات کا ذکر فرما کر ثابت کیا ہے کہ بارش کا پانی تو ایک ہی ہوتا مگر اس کے ذریعے اگنے والی نباتات مختلف ہوتی ہیں۔ یہی معاملہ ہدایت کا ہے ہدایت تو ایک ہے مگر اس کے رد عمل مختلف ہوتے ہیں کچھ لوگ اس سے صراط مستقیم پاتے ہیں اور کچھ مزید گمراہ ہوجاتے ہیں۔ اس بات کو مزید سمجھنے کے لیے پہاڑوں پر غور فرمائیں کچھ سخت ہوتے اور کچھ نرم کچھ کالے ہوتے اور کچھ سفید جس طرح پہاڑوں کے رنگ مختلف اور ان میں نرم اور سخت ہوتے ہیں اسی طرح ہدایت کے مقابلے میں لوگوں کے مزاج اور ردّعمل مختلف ہوتے ہیں۔ البتہ جو لوگ حقیقی علم رکھتے ہیں وہ اپنے رب سے ڈرنے والے ہیں۔ (عَنْ سُفْیَانَ أَنَّ عُمَرَ قَالَ لِکَعْب مَنْ أَرْبَابُ الْعِلْمِ ؟ قَالَ الَّذِینَ یَعْمَلُونَ بِمَا یَعْلَمُون قالَ فَمَا أَخْرَجَ الْعِلْمَ مِنْ قُلُوبِ الْعُلَمَاءِ ؟ قَال الطَّمَعُ)[ رواہ الدارمی : باب صِیَانَۃِ الْعِلْمِ] ” حضرت سفیان (رض) بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے حضرت کعب احبار (رض) سے استفسار کیا کہ حقیقی عالم کون ہیں ؟ انہوں نے جواب دیا وہ لوگ جو اپنے علم کے مطابق عمل کرتے ہیں۔ پھر انہوں نے عرض کی کہ کون سی چیز علماء کے دلوں سے علم کو نکال دے گی۔ کعب (رض) نے جواب دیا لالچ۔“ تفسیر بالقرآن حقیقی علم کا تقاضا اور اس کے فضائل : ١۔ اس بات کا علم حاصل کریں کہ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں۔ (محمد : ١٩) ٢۔ کیا علم والا اور علم نہ رکھنے والا برابر ہوسکتے ہیں۔ (الزمر : ٩) ٣۔ اللہ تعالیٰ علم کی بنیاد پر لوگوں کے درجات بلند فرماتا ہے۔ (المجادلۃ: ١١) فاطر
28 فاطر
29 فہم القرآن ربط کلام : حقیقی علم کا تقاضا ہے کہ انسان اپنے رب کو پہچانے اور اس سے ڈر کر زندگی بسر کرنے کی کوشش کرے۔ علم اور تقویٰ ! کتاب اللہ کی تلاوت سے حاصل ہوتا ہے بشرطیکہ انسان یقین اور غور و فکر کے ساتھ کتاب اللہ کی تلاوت کرے۔ حقیقی عالم وہ ہوتا ہے جو کتاب اللہ کی تلاوت کرتا اور اس پر غوروفکر کرتا ہے۔ کتاب اللہ کی تلاوت کا منطقی نتیجہ ہے اور ہونا چاہیے، کہ وہ شخص پانچ وقت نماز ادا کرے اور جو کچھ اللہ تعالیٰ نے اسے دے رکھا ہے اس سے پوشیدہ اور ظاہری طور پر خرچ کرتارہے۔ اس امید اور یقین کیساتھ کہ وہ انفاق فی سبیل اللہ کی صورت میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ لین دین کررہا ہے یہ ایسی سودا گری ہے جس میں اسے کبھی نقصان نہیں ہوگا۔ اخلاص اور سنت نبوی کے مطابق خرچ کرنے والے لوگ اپنے اعمال اور انفاق کا نہ صرف پورا پورا اجر پائیں گے بلکہ اللہ تعالیٰ انہیں اپنے عظیم فضل اور اجر سے سرفراز فرمائے گا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ انسان کی کمی، کوتاہی کو معاف کرنے والا اور اس کی نیکی کا قدر دان ہے۔ اسی بات کو دوسرے مقام پر یوں ارشاد فرمایا ہے کہ اے مومنو! میں تمہیں ایسی سوداگری بتلائے دیتاہوں جو تمہیں ” عذاب الیم“ سے نجات دے گی وہ تجارت یہ ہے کہ تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور اللہ کے لیے اپنے مال اور جان سے اس کے دین کی سر بلندی کے لیے محنت کرتے رہو۔ تو یہ تمہارے لیے بہت ہی بہتر ہے بشرطیکہ تم اسے جان لو۔ اس تجارت کے بدلے اللہ تعالیٰ تمہارے گناہ معاف فرمائے گا اور تمہیں ایسی جنت میں داخل کرے گا جس کے نیچے سے نہریں جارہی ہیں۔ انہیں جنت عدن کے بہترین محلات میں ٹھہرایا جائے گا۔ یہ بہت بڑی کامیابی ہے اور اللہ تعالیٰ کی مدد سے تم دنیا میں بھی کامیاب ہو گے جو تمہارے لے پسندیدہ بات ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مومنوں کو خوشخبری ہے۔ (الصف : ١٠ تا ١٣) اس بات کو ایک اور انداز میں بھی بیان کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مومنوں کے ساتھ ان کی جانوں اور ان کے مالوں کے بدلے میں جنت کا سودا کرلیا ہے۔ مومن اللہ کے راستے میں قتال کرتے ہیں جن میں کچھ شہید ہوتے ہیں اور باقی غازی بنتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس وعدہ کا ذکر تورات، انجیل اور قرآن میں کیا ہے جسے وہ ہر صورت پورا کرے گا۔ کیونکہ اس سے بڑھ کر کوئی وعدہ ایفاء کرنے والا نہیں۔ اے مومنو! تمہیں اس تجارت پر خوش ہونا چاہیے یہ بہت بڑی کامیابی ہے۔ (التوبۃ: ١١١) نماز کا فائدہ : (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَال الصَّلَوَاۃُ الْخَمْسُ وَالْجُمْعَۃُ إِلَی الْجُمْعَۃِ کَفَّارَۃٌ لِّمَا بَیْنَھُنَّ مَالَمْ تُغْشَ الْکَبَاءِرُ) [ رواہ مسلم : باب الصلواۃ الخمس والجمعۃ إلی الجمعۃ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب کبیرہ گناہ کا ارتکاب نہ کیا جائے تو پانچ نمازیں اور پہلا جمعہ دوسرے جمعہ تک گناہوں کا کفارہ بن جاتا ہے۔“ صدقہ کرنے کا فائدہ : (عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ (رض) قَالَ قَالَ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اِنَّ الصَّدَ قَۃَ لَتُطْفِئُ غَضَبَ الرَّ بِّ وَ تَدْفَعُ مِےْتَۃَ السَّوْءِ) [ رواہ الترمذی : باب مَا جَاءَ فِی فَضْلِ الصَّدَقَۃِ] ” حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا صدقہ اللہ تعالیٰ کے غضب کو ٹھنڈا کرتا ہے اور بری موت سے بچا تا ہے۔“ تفسیر بالقرآن صاحب علم کے اوصاف : ١۔ صاحب علم اور جاہل برابر نہیں ہو سکتے۔ (الزّمر : ٩) ٢۔ یقیناً اللہ سے علماء ہی زیادہ ڈرتے ہیں۔ (فاطر : ٢٨) ٣۔ اللہ تعالیٰ ایمانداروں اور علم والوں کے درجات بلند فرماتا ہے۔ (المجادلۃ: ١١) ٤۔ اللہ تعالیٰ نے داؤد اور سلیمان (علیہ السلام) کو علم عطا کیا۔ (النمل : ١٥) ٥۔ یہ مثالیں ہم لوگوں کے لیے بیان کرتے ہیں انہیں علم والے ہی سمجھتے ہیں۔ (العنکبوت : ٤٣) ٦۔ راسخ العلم اللہ تعالیٰ کی آیات انکار کرنے کی بجائے ان پر ایمان لاتے ہیں۔ (آل عمران : ٧) فاطر
30 فاطر
31 فہم القرآن ربط کلام : یہ اللہ تعالیٰ کی قدر افزائی کا نتیجہ ہے کہ وہ اپنے بندوں میں کچھ بندوں کو اپنی کتاب کا وارث بنا دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر قرآن مجید نازل فرمایا جس کے ” من جانب اللہ“ ہونے میں کسی شک کی گنجائش نہیں۔ قرآن واقعتا حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل ہوا یہ حقیقی اور ٹھوس دلائل پر مبنی ہے۔ اس کے ارشادات سچے ہیں اس کی تعلیمات پہلی آسمانی کتابوں کی تائید کرتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی ہر بات سے باخبر اور ان کے ہر کام کو دیکھنے والاہے۔ وہی لوگوں میں سے اپنے بندوں کو اپنی کتاب کا وارث بنانے والا ہے جن میں سے کچھ اپنے آپ پرزیادتی کرنے والے ہیں۔ کچھ ان میں میانہ رو ہیں اور کچھ ان میں سے اپنے رب کی توفیق سے نیکیوں میں دوسروں سے آگے نکل جانے والے ہیں۔ جن لوگوں کو نیکی میں سبقت کرنے کی توفیق مل جائے ان پر اللہ تعالیٰ کا بڑا ہی فضل ہوتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ قرآن مجید نبی آخر الزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل کیا گیا ہے۔ اسے لوگوں تک پہنچانا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذمہ داری تھی لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ آپ کی وفات کے بعد اس پر عمل کرنا اور لوگوں تک پہنچانا امّتِ محمدیہ کی ذمہ داری ہے۔ قرآن مجید نے مسلمانوں کو صرف نیکی کرنے کا حکم ہی نہیں دیا بلکہ نیکیوں میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کا حکم بھی دیا ہے۔ جس معاشرے اور قوم میں نیکی اور اچھائی کے کاموں میں مسابقت کا جذبہ مفقود ہوجائے وہ معاشرہ اور قوم بالآخر مردہ ہوجاتی ہے۔ مسلمانوں کو مردگی سے بچانے اور اقوام عالم کی قیادت پر فائز کرنے کے لیے کئی بار حکم دیا کہ اچھائی کے کاموں میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرو یہی ترقی کا راز اور اجتماعی زندگی کا جوہر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو تین طبقات میں شمار فرمایا ہے۔ 1 مسلمان ہیں مگر ان سے کبیرہ گناہ بھی سرزد ہوجاتے ہیں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے کتاب مبین کے وارث ہونے کے باوجود انفرادی اور اجتماعی طور پر اپنے آپ پر ظلم کرنے والے ہیں۔ یہاں ظلم سے مراد چھوٹے بڑے گناہ ہیں۔ جنہیں اللہ تعالیٰ معاف کرنے والا ہے 2 مسلمانوں میں دوسرا طبقہ وہ ہے جوفرائض پورے کرتا ہے اور کبیرہ گناہوں سے بچتا ہے لیکن نفلی کاموں میں بڑھ چڑھ کر زیادہ حصہ نہیں لیتا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو بھی اپنے بندوں میں شمار فرمایا ہے۔ 3 امت محمدیہ کا آخری اور بہترین طبقہ وہ ہے جوفرائض کو بطریق احسن انجام دینے کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ کے بتلائے ہوئے نفلی کاموں میں بھی دوسرے مسلمانوں سے سبقت لے جانے کی کوشش کرتا ہے۔ ایسے لوگ نیکی کے معاملہ میں امت محمدیہ کا سرخیل اور ہر اوّل دستہ ہیں۔ جن میں صحابہ کرام] پوری امت کے امام اور پیش رو ہیں اور ان کے بعد ان کی اولادیں پوری امت سے افضل ہیں۔ (عَنْ عَبْدِ اللَّہِ (رض) عَنِ النَّبِی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ خَیْرُ النَّاسِ قَرْنِی، ثُمَّ الَّذِینَ یَلُونَہُمْ، ثُمَّ الَّذِینَ یَلُونَہُمْ، ثُمَّ یَجِیءُ مِنْ بَعْدِہِمْ قَوْمٌ تَسْبِقُ شَہَادَتُہُمْ أَیْمَانَہُمْ وَأَیْمَانُہُمْ شَہَادَتَہُمْ)[ رواہ البخاری : باب مَا یُحْذَرُ مِنْ زَہْرَۃِ الدُّنْیَا وَالتَّنَافُسِ فیہَا] ” حضرت عبداللہ (رض) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا، بہترین لوگ میرے زمانے کے ہیں، پھر ان کے بعد والے، پھر جو ان کے بعد والے۔ اس کے بعد ایسے لوگ آئیں گے جن کی گواہی ان کی قسم پر اور قسم ان کی شہادت پر سبقت لے جائے گی۔“ (یعنی انہیں قسم اور گواہی کی کوئی پرواہ نہیں ہوگی۔) کچھ مفسرین نے تین طبقات سے مراد اہل کتاب لیے ہیں ان میں سے ایک طبقہ کھل کردین کی مخالفت کرکے اپنے آپ پر ظلم ڈھارہا ہے۔ دوسرا طبقہ مسلمانوں کی مخالفت تو کرتا ہے لیکن اخلاقی حدود سے تجاوز نہیں کرتا۔ تیسرا طبقہ وہ ہے جو تمام قسم کے تحفظات اور مخالفتوں کی پروا کیے بغیر دین اسلام کو قبول کرتا ہے۔ (عَنْ مُّعَاوِےَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَنْ یُّرِدِ اللّٰہُ بِہٖ خَےْرًا یُّفَقِّھْہُ فِی الدِّےْنِ وَاِنَّمَا اَنَا قَاسِمٌ وَّاللّٰہُ ےُعْطِیْ) [ رواہ البخاری : کتاب العلم، باب من یرد اللہ بہ خیرا یفقہ فی الدین] ” حضرت معاویہ (رض) رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں کہ رسول مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ تعالیٰ جس شخص کے ساتھ خیر خواہی کرنا چاہتے ہیں اسے دین کی سمجھ عطا فرماتا ہے۔ میں تقسیم کرنے والاہوں اور اللہ مجھے عنا یت فرمانے والا ہے۔“ (یُؤْتِی الْحِکْمَۃَ مَنْ یَشَاءُ وَمَنْ یُؤْتَ الْحِکْمَۃَ فَقَدْ أُوتِیَ خَیْرًا کَثِیرًا وَمَا یَذَّکَّرُ إِلَّا أُولُو الْأَلْبَابِ) [ البقرۃ: ٢٦٩] ” وہ جسے چاہے حکمت عطا کرتا ہے اور جسے حکمت عطا کی گئی اسے خیر کثیر عطا کردی گئی نصیحت تو صرف عقل مندہی قبول کرتے ہیں۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے لوگوں میں اپنے بندوں کو اپنی کتاب کا وارث بنایا ہے۔ ٢۔ مسلمانوں میں سب سے بہترین طبقہ وہ ہے جو نیکی کے کاموں میں ایک دوسرے سے سبقت کرنیوالاہے۔ ٣۔ نیکی میں سبقت کرنیوالے پر اللہ کا بڑا ہی فضل ہوتا ہے۔ تفسیر بالقرآن نیکیوں میں سبقت کرنے کا حکم اور سبقت کرنے والوں کی فضیلت : ١۔ اللہ کی مغفرت اور جنت کے حصول کے لیے ایک دوسرے سے سبقت کرو۔ (الحدید : ٢١) ٢۔ نیکی کے حصول میں جلدی کرو۔ (البقرۃ: ١٤٨) ٣۔ نیکیوں میں سبقت کرنے والے سب سے اعلیٰ ہوں گے۔ (فا طر : ٣٢) ٤۔ سبقت کرنے والے اللہ کے مقرب ہوں گے۔ (الواقعۃ: ١٠، ١١) ٥۔ اللہ کی جنت اور بخشش میں سبقت کرو۔ ( آل عمران : ١٣٣) فاطر
32 فاطر
33 فہم القرآن ربط کلام : دنیا میں فضل کبیر اور آخرت میں اجرِعظیم۔ جن لوگوں نے کتاب الٰہی کی وراثت کا قولاً اور عملاً حق ادا کرنے کی کوشش کی اللہ تعالیٰ ان کو اجرِعظیم سے سرفراز کرتے ہوئے سدابہارجنت میں داخل فرمائے گا۔ ان کی کلائیوں میں موتیوں سے سجے ہوئے سونے کے کنگن پہنائے جائیں گے اور ان کالباس جنت کی ریشم سے تیار کیا ہوگا۔ جونہی وہ جنت کے محلات میں داخل ہوں گے۔ تو بے ساختہ پکار اٹھیں گے کہ تمام تعریفات اللہ تعالیٰ کے لیے ہیں جس نے ہمیں ہر قسم کی پریشانیوں سے بچا لیا۔ وہ اس بات کا بھی اقرار اور اظہار کریں گے کہ دنیا میں رہتے ہوئے ہم سے بے شمار کوتاہیاں ہوئیں لیکن ہمارے رب نے ہمیں معاف فرماکر ہمیں جنت کے عیش و آرام سے سرفراز فرما دیا ہے۔ یقیناً ہمارا رب اپنے بندوں کے گناہوں کو معاف کرنے والا اور ان کے اعمال کی قدر کرنے والاہے۔ رب شکور نے ہمیں اپنے خاص فضل سے ہمیشہ رہنے والے گھر میں ٹھہرایا جہاں نہ ہمیں کسی قسم کا رنج پہنچے گا اور نہ ہی ہمیں کوئی نقاہت اور تھکان ہوگی۔ ” حضرت ابوہریرہ (رض) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں آپ نے فرمایا جو بندہ جنت میں داخل ہوگا وہ عیش میں ہوگا، بدحال نہیں ہوگا اور اس کے کپڑے بوسیدہ نہیں ہوں گے اور نہ اس کی جوانی ختم ہوگی۔“ [ رواہ مسلم : کتاب الجنۃ وصفۃ نعیمہا وأہلہا] (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ قَیْسٍ (رض) عَنْ أَبِیْہِ عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ إِنَّ لِلْمُؤْمِنِ فِی الْجَنَّۃِ لَخَیْمَۃً مِنْ لُؤْلُؤَۃٍ وَاحِدَۃٍ مُجَوَّفَۃٍ طُوْلُھَا سِتُّوْنَ مِیْلًا لِلْمُؤْمِنِ فِیْھَا أَھْلُوْنَ یَطُوْفُ عَلَیْھِمُ الْمُؤْمِنُ فَلَا یَرٰی بَعْضُھُمْ بَعْضًا) [ رواہ مسلم : باب فی صفۃ خیام الجنۃ ....] ” حضرت عبداللہ بن قیس اپنے باپ سے اور وہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں آپ کا فرمان ہے کہ جنت میں مومن کے لیے موتی کا ایک ایسا خیمہ ہوگا جس کی لمبائی ساٹھ میل ہوگی وہاں مومن کے گھر والے ہوں گے جن کے ہاں وہی جائے گا دوسرا انہیں نہیں دیکھ سکے گا۔“ مسائل ١۔ جنتی جنت میں ہمیشہ ہمیش رہیں گے۔ ٢۔ جنتی جنت میں ہر دم اپنے رب کا شکر ادا کریں گے۔ ٣۔ جنتیوں کو موتیوں سے جڑے ہوئے سونے کے کنگن اور ریشمی لباس پہنایا جائے گا۔ ٤۔ جنت میں جنتیوں کو کسی قسم کا غم، مشقت اور تھکاوٹ نہیں ہوگی۔ تفسیر بالقرآن جنت کی نعمتوں کی ایک جھلک : ١۔ ہم ان کے دلوں سے کینہ نکال دیں گے اور سب ایک دوسرے کے سامنے تکیوں پر بیٹھے ہوں گے۔ انہیں کوئی تکلیف نہیں پہنچے گی اور نہ وہ اس سے نکالے جائیں گے۔ (الحجر : ٤٧۔ ٤٨) ٢۔ جنت کی مثال جس کا مومنوں کے ساتھ وعدہ کیا گیا ہے۔ اس کے نیچے نہریں جاری ہیں اور اس کے پھل اور سائے ہمیشہ کے لیے ہوں گے۔ (الرّعد : ٣٥) ٣۔ جنت میں بے خار بیریاں، تہہ بہ تہہ کیلے، لمبا سایہ، چلتا ہوا پانی، اور کثرت سے میوے ہوں گے۔ (الواقعۃ: ٢٨ تا ٣٠) ٥۔ جنت میں وہ سب کچھ ہوگا جس کی جنتی خواہش کریں گے۔ (حٰم السجدۃ: ٣١) ٦۔ مومنوں کے ساتھ جس جنت کا وعدہ کیا گیا ہے اس میں شہد، دودھ، شراب اور شفاف پانی کی نہریں ہوں گی۔ ( محمد : ١٥) فاطر
34 فاطر
35 فاطر
36 فہم القرآن ربط کلام : جنتیوں کے مقابلے میں جہنمیوں کی سزا اور ان کی آہ زاریاں۔ جو لوگ کفر وشرک، بدعت و رسومات پر قائم رہے انہیں جہنم کی آگ میں جھونکا جائے گا۔ نہ ان کو موت آئے گی اور نہ ہی ان پر جہنم کا عذاب ہلکا کیا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ مجرموں کو ٹھیک، ٹھیک سزا دیں گے وہ جہنم میں چیختے چلاتے ہوئے اپنے رب کے حضور آہ و زاریاں کریں گے کہ اے ہمارے رب ! تیرے حضور ہم فریاد پر فریاد کرتے ہیں کہ ہمیں ایک دفعہ جہنم سے نکال دے اور ہمیں دنیا میں جانے کا موقعہ عنایت فرما ہم واپس جا کر بدی کی بجائے نیکی اور برائی کی جگہ اچھائی کریں گے۔ جہنمیوں کی آہ زاری کے جواب میں اس موقعہ پر صرف اتناارشاد ہوگا کہ کیا ہم نے دنیا میں رہنے کے لیے تمہیں ایک عرصہ نہیں دیاتھا ؟ اور تمہارے پاس برے انجام سے ڈرانے والے نبی نہیں بھیجے تھے ؟ لیکن تم نے ان کی نصیحت کو درخور اعتناء نہ سمجھا لہٰذا جہنم کی سزائیں بھگتتے رہو۔ ظالموں کے لیے کوئی مددگار نہیں ہوگا۔ ” حضرت ابی دردا (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جہنمیوں پر بھوک مسلط کردی جائے گی۔ وہ بھوک اس عذاب کے برابر ہوگی جس میں وہ مبتلاہوں گے اور کھانا طلب کریں گے تو انہیں کھانے میں سوکھی گھاس پیش کی جائے گی جس سے نہ تو وہ موٹے ہو پائیں گے اور نہ ان کی بھوک دور ہوگی وہ کھانا طلب کریں گے تو انہیں ایسا کھانا دیا جائے گا جو ان کے حلق میں اٹک جائے گا۔ وہ کہیں گے کہ دنیا میں کھانا حلق میں اٹک جاتا تھا تو ہم پانی کے ساتھ اسے نیچے اتارتے تھے۔ پانی طلب کریں گے تو انہیں گرم پانی لوہے کے پیالوں میں دیا جائے گا جب اسے اپنے چہروں کے قریب کریں گے تو ان کے چہرے جھلس جائیں گے۔ جب اسے اپنے پیٹ میں داخل کریں گے تو ان کے پیٹ کٹ جائیں گے۔ وہ کہیں گے جہنم کے داروغے کو بلاؤ انہیں جواب دیا جائے گا۔ کیا تمہارے پاس معجزات لے کر رسول نہیں آئے تھے ؟ وہ جواب دیں گے ہاں! فرشتے کہیں گے تم چیختے چلاتے رہو! تمہاری فریاد رائیگاں جائے گی۔ وہ کہیں گے مالک کو پکارو! تو جہنمی جہنم کے کنٹرولر مالک فرشتے کو پکاریں گے کہ اللہ تعالیٰ سے عرض کرو کہ ہمارے مرنے کا فیصلہ فرما دے جواب دیا جائے گا تم ہمیشہ اسی میں رہو گے۔ اعمش نے کہا ان کو مالک کی طرف سے ایک ہزار سال کے بعد جواب دیا جائے گا۔ جہنمی کہیں گے کہ اپنے پروردگار کو پکارو! تمہارے رب سے بہتر کوئی سننے والا نہیں۔ وہ فریاد کریں گے اے ہمارے پروردگار! ہم پر ہماری بدبختی غالب آگئی اور ہم گمراہ ہوگئے اے ہمارے پروردگار! ہمیں اس جہنم سے نکال دے اگر ہم دوبارہ ایسے اعمال کریں تو ہم ظالم ہوں گے۔ انہیں جواب دیا جائے گا۔ اسی دوزخ میں رہو اور کسی قسم کی کلام نہ کرو! اس وقت وہ ہر بھلائی سے ناامید ہوجائیں گے، وہ آہ وزاریاں کریں گے اور کھانے پے حسرت کا اظہار کرتے ہوئے واویلا کریں گے۔“ [ رواہ الترمذی : باب مَا جَاءَ فِی صِفَۃِ طَعَامِ أَہْلِ النَّارِ] مسائل ١۔ جہنمیوں کو جہنم میں موت نہیں آئے گی۔ ٢۔ جہنم کا عذاب کبھی ہلکا نہیں ہوگا۔ ٣۔ جہنمی جہنم میں چیخ چیخ کر آہ و زاریاں کریں گے مگر ان کی فریادیں مسترد کردی جائیں گی ٤۔ جہنم میں جہنمیوں کی کوئی مدد نہیں کرسکے گا۔ فاطر
37 فاطر
38 فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ کے حضور جہنمی فریاد پر فریاد کریں گے کہ ہمیں ایک مرتبہ دنیا میں جانے کا موقع دیا جائے ہم صالح اعمال کریں گے۔ لیکن اللہ تعالیٰ ان کی فریاد کو مستر کردے گا۔ اللہ تعالیٰ زمین و آسمانوں کے غیب ہی نہیں جانتا بلکہ وہ تو لوگوں کے سینوں کے رازوں سے بھی واقف ہے۔ اللہ تعالیٰ انسان کے ماضی، حال اور مستقبل سے پوری طرح واقف ہے۔ اسے معلوم ہے کہ جہنمی دنیا میں واپس جاکر وہی اعمال کریں گے جن سے انبیائے کرام (علیہ السلام) اور دین کے مبلغین منع کیا کرتے تھے اس لیے ان کی آہ وزاریوں کو مسترد کردیا جائے گا۔” اللہ“ ہی لوگوں کو ایک دوسرے کا جانشین بنانے والا اور ان تک اپنے احکام پہنچانے والا ہے۔ لیکن انکار کرنے والے اپنی ہٹ دھرمی پر قائم رہے۔ یہ لوگ اپنے انجام کو پالیں گے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا اصول ہے کہ جس نے اس کی ذات اور بات کا انکار کیا اس کا بوجھ اسی پر ہوگا۔ کفارکا کفر اللہ تعالیٰ کے غضب کو زیادہ ہی کرتا ہے۔ ” خَلِیْفَۃٌ“ کی جمع ” خَلَا ءِفٌ“ ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ ایک نسل ختم ہونے کے بعد دوسری نسل کا وارث بننا۔ بعض لوگوں نے خلیفہ سے مراد حضرت آدم (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ کا خلیفہ قرار دیا ہے۔ جس کے لیے ان کے پاس کوئی ٹھوس دلیل نہیں۔ آدم (علیہ السلام) سے پہلے زمین پرجنات بستے تھے اس لیے بہتر ہے کہ آدم (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ کا خلیفہ قرار دینے کی بجائے جنوں کا خلیفہ قرار دیا جائے۔ کچھ اہل علم نے خلیفہ کا معنٰی حکمران لیا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو ایک حد تک زمین میں حکمرانی عطا فرمائی ہے۔ اسی بنیاد پر ارشاد فرمایا : (وَ ھُوَ الَّذِیْ جَعَلَکُمْ خَلٰٓءِفَ الْاَرْضِ وَ رَفَعَ بَعْضَکُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجٰتٍ لِّیَبْلُوَکُمْ فِیْ مَآ اٰتٰکُمْ اِنَّ رَبَّکَ سَرِیْعُ الْعِقَابِ وَاِنَّہٗ لَغَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ) [ الانعام : ١٦٥] ” اور وہی ہے جس نے تمہیں زمین کا جانشین بنایا اور تمہیں ایک دوسرے پر درجات میں بلند کیا تاکہ ان چیزوں میں تمہاری آزمائش کرے جو اس نے تمہیں دی ہیں بے شک آپ کا رب بہت جلد سزا دینے والا ہے اور بے شک وہ بے حد بخشنے والا، مہربان ہے۔“ (اَلَّذِیْنَ اِنْ مَّکَّنّٰھُمْ فِی الْاَرْضِ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَ اٰتَوُا الزَّکٰوۃَ وَ اَمَرُوْا بالْمَعْرُوْفِ وَ نَھَوْا عَنِ الْمُنْکَرِ وَ لِلّٰہِ عَاقِبَۃُ الْاُمُوْرِ) [ الحج : ٤١] ” یہ وہ لوگ ہیں جنہیں اگر ہم زمین میں اقتدار بخشیں تو وہ نماز قائم کریں گے، زکوٰۃ دیں گے، نیکی کا حکم دیں گے اور برائی سے منع کریں گے اور تمام معاملات کا انجام کار اللہ کے ہاتھ میں ہے۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ زمین و آسمان کی ہر بات اور لوگوں کے دلوں کے راز کو جانتا ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو ایک دوسرے کا خلیفہ بنایا ہے۔ ٣۔ کفار کا کفر انہی کے نقصان میں اضافہ کرتا ہے۔ تفسیر بالقرآن خلیفہ اور اس کی ذمہ داریاں : ١۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم (علیہ السلام) کو زمین میں خلیفہ بنایا۔ ( البقرۃ: ٣٠) ٢۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد (علیہ السلام) کو خلیفہ بنایا۔ (ص : ٢٦) ٣۔ ہم نے زمین میں ان کے بعد تمہیں خلافت دی تاکہ ہم دیکھیں تم کیسے عمل کرتے ہو۔ (یونس : ١٤) ٤۔ اگر اللہ چاہتا تو تمہیں لے جاتا اور تمہارے بعد کسی اور کو خلیفہ بنا دیتا۔ (الانعام : ١٣٣) ٥۔ میرا رب تمہارے سوا کسی اور کو خلافت دے دے تو تم اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ (ہود : ٥٧) ٦۔ عنقریب تمہارا رب تمہارے دشمن کو ہلاک کردے گا اور تمہیں زمین کی خلافت عطا کرے گا۔ (الاعراف : ١٢٩) فاطر
39 فاطر
40 فہم القرآن ربط کلام : انسان نے نا صرف اپنے رب کے ساتھ کفر کیا ہے بلکہ اس نے اللہ تعالیٰ کے شریک بنا کراپنے خلیفہ ہونے کی بھی توہین کی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو زمین میں حکمرانی عطا فرمائی اور زمین و آسمانوں کی ہر چیز کو اس کی خدمت پر لگایا (الجاثیۃ: ٣١) اور اسے حکم دیا کہ میرے سوا تو نے کسی کے سامنے نہ جھکنا ہے اور نہ ہی کسی کو اپنے نفع و نقصان کا مالک سمجھنا۔ مگر بے شمار لوگوں نے صرف ایک ” اللہ“ کو پکارنے اور صرف اسی کی عبادت کرنے کی بجائے اس کے شریک بنائے، اور ذات کبریاء کو چھوڑ کر دوسروں کے سامنے اپنی فریادیں رکوع وسجود اور نذر ونیاز پیش کیے اور ان کا حکم مانا۔ ایسے لوگوں کو چیلنج کے انداز میں مخاطب کیا جارہا ہے کہ جن کو اللہ تعالیٰ کے سواپکارتے ہو۔ دکھاؤ انہوں نے پوری دھرتی میں کونسی چیز پیدا کی ہے ؟ یا آسمانوں کی بناوٹ اور ان کے درمیان بسنے والی مخلوق میں سے کس کی تخلیق میں وہ شامل تھے ؟ یا ان کے پاس کوئی ایسی آسمانی کتاب ہے جس میں ان کے باطل عقیدہ اور طریقہ کی کوئی ادنیٰ سے ادنیٰ دلیل موجود ہو ؟ اگر کوئی دلیل ہے تو اسے پیش کرو۔ ظاہر ہے کہ ان کے شریکوں نے زمین و آسمانوں اور پوری مخلوق میں سے نہ کسی چیز کو پیدا کیا ہے اور نہ ہی یہ آسمانوں کی ساخت اور پرداخت میں شریک ہوئے اور نہ ہی ان کے پاس کسی آسمانی کتاب کی کوئی ایک دلیل ہے۔ ان کے شرکیہ عقائد اور اعمال کا اس کے علاوہ کوئی وجود نہیں کہ یہ جھوٹی داستانوں، من گھڑت کہانیوں اور کرامات کے ساتھ ایک دوسرے کو دھوکادیتے ہیں۔ قبروں کے مجاور اور بتوں کے پرستار اپنے اپنے بتوں اور مزارات کے بارے میں جھوٹی کرامات، بے بنیادداستانیں اور من گھڑت مشکل کشائی کے واقعات بیان کرتے ہیں۔ تاکہ بتوں کے پوجنے والوں اور قبروں کے پرستاروں سے اپنے اپنے انداز میں نذر و نیاز وصول کرتے رہیں۔ یہاں تک کہ آخرت کے بارے میں بھی دھوکا دیتے ہیں کہ یہ بزرگ ” اللہ“ کے ہاں آپ کے سفارشی ہوں گے۔ مسائل ١۔ مشرک اللہ تعالیٰ کے سوا جن کو پکارتے ہیں ان کا زمین و آسمانوں میں کوئی حصہ اور اختیارات نہیں ہیں۔ ٢۔ مشرک کے پاس اپنے باطل عقیدہ کی تائید میں کسی آسمانی کتاب سے کوئی دلیل نہیں۔ ٣۔ باطل عقیدہ رکھنے والے پیر اور مرید جھوٹی داستانوں اور کرامتوں کے ذریعے ایک دوسرے کو دھوکا دیتے ہیں۔ ٤۔ مشرک دنیا کے معاملات میں کتنا ہی منصف مزاج کیوں نہ ہو اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کا شمار ظالموں میں ہوتا ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ کے سوا کسی نے کوئی چیز پیدا کی ہے تو اس کی دلیل پیش کرو؟ ١۔ جو ” اللہ“ کے علاوہ کسی غیر کو پکارتا ہے اس کے پاس کوئی دلیل نہیں۔ (المؤمنون : ١١٧) ٢۔ انہوں نے اللہ تعالیٰ کے علاوہ کئی معبود بنالیے ہیں آپ فرمائیں کوئی دلیل لاؤ۔ (الانبیاء : ٢٤) ٣۔ اس کے سوا کوئی اور الٰہ ہے تو دلیل لاؤ اگر تم سچے ہو۔ (النمل : ٦٤) ٤۔ وہ ” اللہ“ کے سوا ان کی عبادت کرتے ہیں جن کی عبادت کے لیے کوئی دلیل نازل نہیں کی گئی۔ (الحج : ٧١) ٥۔ تم ” اللہ“ کے ساتھ شریک ٹھہراتے ہوئے نہیں ڈرتے جس کی اللہ تعالیٰ نے کوئی دلیل نازل نہیں کی۔ (الانعام : ٨١) ٦۔ انہوں نے اللہ کے سوا ان کو الٰہ بنا لیا ہے جنہوں نے کوئی چیز پیدا نہیں کی بلکہ وہ خود پیدا کیے گئے ہیں۔ (الفرقان : ٣) ٧۔ کیا تم ان کو شریک بناتے ہو جنہوں نے کوئی چیز پیدا نہیں کی بلکہ وہ تو خود پیدا کیے گئے ہیں۔ (الاعراف : ١٩١) ٨۔ جن کو تم اللہ کے سوا پکارتے ہو وہ کوئی چیز پیدا نہیں کرسکتے وہ تو خود مخلوق ہیں۔ (النحل : ٢٠) ٩۔ اے لوگو! تمہارے پاس رب کی طرف سے اس کی توحید کی دلیل آچکی ہے۔ (النساء : ١٧٥) فاطر
41 فہم القرآن ربط کلام : زمین و آسمان کی تخلیق میں شریک ہونا تو درکنار، ان کے قائم رکھنے میں بھی کسی کا عمل دخل نہیں ہے۔ یقین جانو کہ اللہ تعالیٰ نے ہی زمین و آسمانوں کو پیدا فرمایا اور وہی انہیں تھامے ہوئے ہے۔ تاکہ اپنے مقام سے ہلنے نہ پائیں اگر وہ اپنی جگہ سے ہل جائیں تو پھر کون ہے جو انہیں اسی جگہ پر لے آئے؟ آسمان کو تھامنا تو درکنار، پوری دنیا کے حکمران اور عوام مل کر زمین کوہلنے یعنی زلزلہ سے نہیں بچا سکتے۔ زلزلہ سے بچانا تو دور کی بات ہے ارضیات کے سائنسدان یہ پتہ نہیں چلا سکے کہ زمین میں کہاں اور کب زلزلہ واقع ہوگا۔ تاریخ انسانی میں کتنی بار زلزلہ آیا جس نے چند لمحوں کے اندر نہ صرف انسانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا بلکہ اس علاقے کا نقشہ بدل کر رکھ دیا۔ اب تک نہ ہوا ہے اور نہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی زلزلوں کو روک سکے اس کی قوت و قدرت کی کوئی انتہا نہیں۔ اس کے باوجود اللہ تعالیٰ نے انسان کو ایک حد تک اختیار دے رکھا ہے۔ جس وجہ سے انسان زمین و آسمانوں کے خالق اور مالک کو بھول کراس کی مخلوق میں سے دوسروں کو اللہ تعالیٰ کا شریک بنا لیتا ہے۔ ظلم اور سرکشی کی حد ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جن کو موت کے گھاٹ اتار دیا ہے اور وہ نہیں جانتے کہ انہیں کب اٹھایا جائے گا مشرک انہیں حاجت روا اور مشکل کشا سمجھ کر پکارتا ہے اور جن قبروں اور مورتیوں کو اپنے ہاتھ سے بناتا ہے۔ انہیں کے سامنے جھکتا ہے اور دنیا میں ایسے جاہل اور ظالم بھی ہیں جو اپنے مقابلے میں حقیر مخلوق سانپ، بچھو اور اس سے بھی کم تر مخلوق کی پوجا کرتے ہیں۔ یہ سب کچھ زمین کی چھاتی اور آسمان کے سائے تلے ہورہا ہے۔ اللہ تعالیٰ سب کچھ دیکھنے اور جاننے کے باوجود کفر، شرک اور ظلم پر لوگوں کو فی الفور نہیں پکڑتا وہ مہلت پر مہلت دیئے جاتا ہے تاکہ انسان اپنے گناہوں سے تائب ہوجائے۔ یا پھر گناہ کرنے میں اسے کوئی حسرت نہ رہے یہ مہلت اس لیے بھی دی جاتی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ عظیم حوصلے والا، بہت ہی زیادہ معاف کرنے والاہے۔ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃ (رض) قَالَ قَال النَّبِی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَقُول اللَّہُ شَتَمَنِی ابْنُ آدَمَ وَمَا یَنْبَغِی لَہُ أَنْ یَشْتِمَنِی، وَتَکَذَّبَنِی وَمَا یَنْبَغِی لَہُ، أَمَّا شَتْمُہُ فَقَوْلُہُ إِنَّ لِی وَلَدًا وَأَمَّا تَکْذِیبُہُ فَقَوْلُہُ لَیْسَ یُعِیدُنِی کَمَا بَدَأَنِی) [ رواہ البخاری : باب مَا جَاءَ فِی قَوْلِ اللَّہِ تَعَالَی (وَہُوَ الَّذِیْ یَبْدَأُالْخَلْقَ ثُمَّ یُعِیْدُہٗ)] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ آدم کا بیٹا مجھے گالیاں دیتا ہے اور یہ اس کے لیے لائق نہیں۔ وہ میری تکذیب کرتا ہے اور یہ بھی اسے زیب نہیں دیتا۔ اس کا مجھے گالی دینا یہ ہے کہ میں نے اولاد بنا رکھی ہے۔ اس کا جھٹلانا یہ ہے کہ وہ کہتا ہے کہ مجھے دوبارہ پیدا نہیں کیا جائے گا جس طرح مجھے پہلی بار پیدا کیا گیا ہے۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ ہی زمین و آسمانوں کوتھامے ہوئے ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ زمین و آسمانوں کو حرکت دے تو انہیں کوئی نہیں روک سکتا۔ ٣۔ یقیناً اللہ تعالیٰ عظیم حوصلے والا اور بڑا ہی معاف کرنے والاہے۔ تفسیر بالقرآن زمین و آسمان کی تخلیق اور ان کی حفاظت : ١۔ اللہ تعالیٰ نے بغیر نمونے کے زمین و آسمان بنائے۔ (البقرۃ : ١١٧) ٢۔ اللہ تعالیٰ نے آسمان اور زمین کو پیدا کیا۔ (البقرۃ: ٢٩) ٣۔ اس نے آسمان و زمین کو برابر کیا۔ (البقرۃ: ٢٩) ٤۔ اللہ تعالیٰ نے زمین پر پہاڑ بنائے تاکہ زمین ہل نہ سکے۔ (فاطر : ٤١) ٥۔ آسمان کو چھت اور زمین کو فرش بنایا۔ (البقرۃ : ٢٢) ٦۔ اللہ تعالیٰ نے آسمان کو بغیر ستونوں کے کھڑا کیا۔ ( الرعد : ٢) ٧۔ زمین اور آسمانوں کو چھ دنوں میں بنایا۔ (الاعراف : ٥٤) ٨۔ اگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان سے زمین و آسمان کی تخلیق کے بارے میں سوال کریں گے تو اللہ ہی کا نام لیں گے۔ (لقمان : ٢٥) ٩۔ زمین و آسمان بنانے اور بارش اتارنے والا“ اللہ“ ہے کیا اس کے ساتھ کوئی اور برسانے والا ہے ؟ (النمل : ٦٠) ١٠۔ تیرا رب ہر چیز کی حفاظت کرنے والا ہے۔ (سبا : ٢١) فاطر
42 فہم القرآن ربط کلام : اے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آج جو لوگ آپ کی دعوت اور ذات کی مخالفت کرتے ہیں ان کی حالت یہ تھی کہ آپ کی بعثت کے انتظار میں ایک دوسرے کے سامنے قسمیں اٹھایا کرتے اور کہتے تھے کہ ہم مبعوث ہونے والے نبی پر ضرور ایمان لائیں گے۔ مکہ اور سرزمین حجاز میں مدت مدید تک کوئی پیغمبر نہیں آیا تھا۔ یہاں کے باسیوں کو اہل کتاب جہالت اور گمراہی کے طعنہ دیتے تھے جس کے جواب میں اہل مکہ قسمیں اٹھا اٹھا کرکہتے کہ جب ہم میں کوئی نبی مبعوث ہوگا تو ہم اس کی دعوت ضرور قبول کریں گے اور تم سے زیادہ ہدایت یافتہ ہوں گے۔ لیکن جوں ہی اللہ تعالیٰ نے مکہ والوں میں حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو رسول منتخب فرمایا اور آپ نے اپنی دعوت کا آغاز اللہ کی توحید سے کیا تو اہل مکہ نے شرک و کفر چھوڑنے کی بجائے آپ کے خلاف ایک سے ایک بڑھ کر گھناؤنی سازش کی۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو نہ صرف ان کی مخالفت میں ناکام اور نامراد کیا بلکہ ان کی مخالفت کا نتیجہ انہیں کے خلاف نکلا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بسا اوقات سازش کرنے والوں کی سازشیں کامیاب بھی ہوجاتی ہیں۔ جس طرح پہلے انبیائے کرام (علیہ السلام) اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں کچھ واقعات پائے جاتے تھے۔ جس میں بظاہر کفار کامیاب ہوئے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) طائف گئے تو وقتی طور پر آپ کو سخت تکلیف کا سامنا کرنا پڑا لیکن آخر کار اہل طائف آپ پر ایمان لائے اہل مکہ نے بھی متحد ہو کر آپ کو قتل کرنے کے لیے آپ کے گھر کا محاصرہ کیا جس میں آپ کا بچ نکلنا محال تھا۔ لیکن اہل مکہ کو اپنے منصوبہ میں بد ترین ذلت اٹھانا پڑی۔ اس کے بعد بار بار مدینہ پر یلغار کرتے رہے لیکن بالآخر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے معافی کے خواستگار ہوئے۔ ” علی ھٰذا لدّلائل“ کفار کے مکر و فریب ان کے خلاف ثابت ہوئے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا اصول ہے کہ مکروفریب کرنے والا بالآخر خود ہی اس کا خمیازہ بھگتا کرتا ہے۔ دنیا میں اکثر اور آخرت میں ہر صورت ایسا ہی ہوگا۔ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جہاں تک آپ کے مخالفوں کا معاملہ ہے یہ بھی عملاً اسی انتظار میں ہیں کہ ان کے ساتھ پہلے لوگوں جیسا سلوک کیا جائے۔ یقین رکھیں کہ ان کے ساتھ ایسا ہو کر رہے گا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کے اصول کبھی تبدیل نہیں ہوتے۔ چنانچہ مکہ کے اکثر سردار بدر میں قتل ہوئے اور باقی مسلمان ہوگئے۔ مسائل ١۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت سے پہلے آپ کا انتظار ہورہا تھا۔ ٣۔ مکرو فریب کا انجام خود مکار کے خلاف ہوا کرتا ہے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ کے اصول بدلا نہیں کرتے۔ تفسیر بالقرآن انبیاء کے خلاف سازشیں اور انکا انجام : ١۔ کفار نے حضرت نوح (علیہ السلام) کو قتل کرنے کی کوشش کی لیکن ناکام ہوئے۔ ( الشعراء : ١١٩) ٢۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی قوم نے ان کو جلانے کی کوشش کی مگر ناکام ہوئے۔ ( الانبیاء : ٦٨) ٣۔ فرعون نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو قتل کرنے کی دھمکی دی مگر ناکام ہوا۔ ( الشعراء : ٦٥) ٤۔ حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کو پھانسی دینے کی کوشش کی گئی۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے آپ کو آسمان پر اٹھا لیا۔ (النساء : ١٥٨) ٥۔ منافقین نے سازشیں کرنے کے لیے مسجد ضراربنائی جسے مسمار کردیا گیا۔ (التوبۃ: ١٠٧) ٦۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو قتل کرنے کی سازش کی گئی مگر مکہ والے ناکام اور ذلیل ہوئے۔ (الانفال : ٣٠) فاطر
43 فاطر
44 فہم القرآن ربط کلام : نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آمد اور حقائق جاننے کے باوجود اہل مکہ آپ کے خلاف مکروفریب کر رہے تھے اس لیے انہیں تاریخ کے حوالے سے انتباہ کرتے ہوئے ایک بار پھر سمجھایا گیا ہے۔ دنیا میں عبرت و بصیرت حاصل کرنے کے ذرائع میں ایک بہت بڑا ذریعہ تاریخ عالم پڑھنا اور اس پر غور کرنا ہے۔ جس سے آدمی کو معلوم ہوجاتا ہے کہ پہلی اقوام کا کردار کیا تھا اور ان کا انجام کیا نکلا ؟ اسی لیے قرآن مجید کئی مرتبہ لوگوں کی توجہ اس طرف مبذول کرواتا اور فرماتا ہے کہ اگر تمہیں اپنے برے کردار کے برے انجام کے بارے میں شک ہے تو دنیا کی تاریخ پڑھو اور اس کا جغرافیہ دیکھو! یقیناً تمہیں معلوم ہوجائے گا کہ جو لوگ تم سے پہلے نیست و نابود کیے گئے ان کا کردار اور انجام کیا ہوا ؟ مکر کرنے والے اپنی جاہ و حشمت اور مال و دولت پر بڑے نازاں تھے۔ اس لیے آپ کے مخالفوں کو باربار انتباہ کیا گیا ہے کہ دیکھو اور غور کرو کہ تم سے پہلے ذلت کے گھاٹ اترنے والی قومیں کس قدر قوت و سطوت کی مالک تھیں۔ جب ان پر اللہ تعالیٰ کے عذاب کا کوڑا برسا تو وہ سسکیاں لے لے کر اپنی جانیں جان آفریں کے حوالے کررہے تھے اس وقت کوئی ان کو چھڑا نے اور بچانے والا نہ تھا۔ اگر تمہیں اللہ تعالیٰ مہلت دیئے ہوئے ہے تو یہ اس کی کرم نوازی اور مشیت کا تقاضا ہے۔ لیکن جب وہ کسی فرد اور قوم کو ذلّت کے گھاٹ اتارنے کا فیصلہ کرتا ہے تو پھر زمینوں اور آسمانوں میں کوئی بھی اللہ تعالیٰ کو عاجز اور بے بس کرنے والا نہیں ہوتا۔ کیونکہ وہ سب کچھ جاننے والا اور اپنے فیصلے نافذ کرنے پر پوری طرح قادر ہے۔ فاطر
45 فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ لوگوں کو اس لیے مہلت دیتا ہے تاکہ وہ اس کے حضور اپنے گناہوں کی توبہ کرلیں۔ رب کریم کی عطاکردہ مہلت سے حقیقی فائدہ اٹھانے کی بجائے مجرم یہ سمجھ بیٹھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ فی الفور ہماری گرفت نہیں کرتا اور ہمیں بدستور دنیا کے مال و دولت اور شان و شوکت دیئے جارہا ہے۔ تو اس کا مطلب ہے کہ وہ ہم پر ناراض نہیں۔ ایسے لوگوں کی خوش فہمی دور کرنے کے لیے ارشاد فرمایا ہے کہ ” اگر اللہ تعالیٰ لوگوں کے جرائم کی وجہ سے انہیں دنیا میں پوری، پوری سزا دینا چاہے تو روئے زمین پر کوئی بھی چلنے پھر نے والا باقی نہ رہے۔ اللہ تعالیٰ لوگوں کو ایک وقت معین تک مہلت پر مہلت دیئے جاتا ہے جب کسی قوم یا فرد کی مہلت پوری ہوجاتی ہے تو وہ اپنے انجام کو پہنچ جاتی ہے۔ اس میں دنیا اور آخرت کے دونوں انجام شامل ہیں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کوہر جگہ اور ہر لمحہ دیکھ رہا ہے۔ ” بَصِیْرً“ کی صفت لا کر ایک دفعہ پھر انتباہ کیا ہے کہ مجرموں کو مہلت دینے کا معنٰی یہ نہیں کہ ” اللہ“ ان کے باطل افکار اور برے کردار سے بے خبر ہے۔ نہیں وہ سب کچھ دیکھتا ہے مگر اپنے طے شدہ فیصلے کے مطابق مہلت دئیے جاتا ہے۔ کچھ لوگوں کی دنیا میں پکڑ کرتا ہے اور کچھ کو چھوڑ دیتا ہے۔ تاہم آخرت میں مجرموں کو پوری پوری سزا دی جائے گی۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ مجرموں کو پوری، پوری طرح سزا دینا چاہے تو زمین پر کوئی چلنے پھرنے والا باقی نہ رہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ لوگوں کو باربار مہلت دیتا ہے۔ ٢۔ ہر شخص کی موت کا ایک وقت مقرر ہے۔ فاطر
0 یٰس کا تعارف سورہ یٰس مکی دورکے آخر میں نازل ہوئی۔ پانچ رکوع اور تراسی آیات پر مشتمل ہے۔ ربط سورۃ: سورۃ فاطر کا اختتام اس انتباہ پر ہوا کہ اگر اللہ تعالیٰ لوگوں کو ان کے جرائم کی وجہ سے پکڑنے پر آئے تو زمین میں انسان ہی نہیں بلکہ چوپائے بھی نہ بچ سکیں لیکن اللہ تعالیٰ نے ایک وقت تک لوگوں کو مہلت دے رکھی ہے جب اس مہلت کا وقت ختم ہوگا تو اللہ تعالیٰ سب لوگوں کے سامنے پیش کر دے گا کیونکہ وہ اپنے بندوں کو ہر حال میں دیکھنے والا ہے۔ سورۃ یٰس کا آغاز اس فرمان سے شروع ہوا کہ اے رسول لوگوں کی ہرزہ سرائی پر پریشان ہونے کی ضرورت نہیں آپ اپنے رب کے نزدیک لوگوں کے لیے قائد اور سردار ہیں اور آپ انبیائے کرام (علیہ السلام) میں شامل ہیں لہٰذا اپنا کام جاری رکھیں اور ” اللہ“ پر بھروسہ رکھیں۔ (عَنْ أَنَسٍ قَالَ قَال النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) إِنَّ لِکُلِّ شَیْءٍ قَلْبًا وَقَلْبُ الْقُرْآنِ یسَ مَنْ قَرَأَ یس کَتَبَ اللَّہُ لَہُ بِقِرَاءَتِہَا قِرَاءَ ۃَ الْقُرْآنِ عَشْرَ مَرَّاتٍ وَقَالَ أَبُو عیسَی ہَذَا حَدِیثٌ غَرِیبٌ)[ رواہ الترمذی : باب مَا جَاءَ فِی فَضْلِ یٰسٓ] ” حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہر چیز کا دل ہوتا ہے قرآن کا دل سورۃ یٰسٓ ہے جوایک دفعہ سورۃ یٰس پڑھتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے لیے دس بار قرآن پڑھنے کا ثواب لکھ دیتا ہے۔“ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) إِنَّ اللَّہَ تَبَارَکَ وَتَعَالَی قَرَأَ طہ ویس قَبْلَ أَنْ یَخْلُقَ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضَ بِأَلْفِ عَامٍ، فَلَمَّا سَمِعْتِ الْمَلاَءِکَۃُ الْقُرْآنَ قَالَتْ طُوبَی لأُمَّۃٍ یَنْزِلُ ہَذَا عَلَیْہَا، وَطُوبَی لأَجْوَافٍ تَحْمِلُ ہَذَا، وَطُوبَی لأَلْسِنَۃٍ تَتَکَلَّمُ بِہَذَا) [ رواہ الدارمی : باب فِی فَضْلِ سُورَۃِ طہ ویس (لم تتم دراستہ)] ” حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے آسمان و زمین کی تخلیق سے ہزار سال پہلے سورۃ طٰہ اور یٰس کی تلاوت فرمائی۔ فرشتوں نے قرآن کی تلاوت سنی تو کہنے لگے اس امت کے لیے خوشخبری ہو جس پر یہ قرآن نازل ہوگا، ان سینوں کے لیے مبارک ہو جو اس قرآن کو اٹھائیں گے اور ان زبانوں کو خوش آمدید ہو جو اس قرآن کی تلاوت کریں گی۔“ سورہ یٰسکے پہلے دورکوع میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت کا ثبوت دیا گیا ہے جس کی ابتدا اس طرح کی ہے کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ سردار ہیں اللہ تعالیٰ نے آپ پر قرآن نازل کیا ہے تاکہ آپ لوگوں کو ڈرائیں جن کے ہاں اس سے پہلے ڈرانے والا نہیں آیا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان لوگوں کی اکثریت ایمان نہیں لائے گی کیونکہ ان کی گردنوں میں جہالت کے طوق پڑچکے ہیں اس لیے ان کو سمجھانا یا نہ سمجھانا برابر ہوچکا ہے۔ ان کے سامنے اس بستی کا ذکر کریں جس میں اللہ تعالیٰ نے یکے بعد دیگرے تین پیغمبر بھیجے۔ بستی والوں نے ان پر ایمان لانے کی بجائے یہ دھمکی دی کہ کہ ہم تمہیں پتھر مار مار کر ختم کردیں گے۔ پیغمبروں کی تائید کے لیے اسی بستی کے مضافات سے ایک شخص دوڑتا ہوا آیا اور اس نے اس بستی والوں کو سمجھایا لیکن انہوں نے اسے شہید کردیا۔ اسے اللہ تعالیٰ نے جنّت میں داخل کیا اور اس کے پیغام کو قرآن مجید میں ذکر فرمایا۔ سورت کے تیسرے اور چوتھے رکوع میں ہر قسم کی نباتات اور شمس و قمر کا حوالہ دے کر ثابت کیا ہے کہ جس طرح چاند اور سورج طلوع اور غروب ہوتے ہیں اور مردہ زمین سے نباتات اگتی ہیں یہی انسان کی زندگی کا معاملہ ہے اور اسی طرح ہی اللہ تعالیٰ قیامت کے دن لوگوں کو اٹھائے گا۔ جوں ہی اسرافیل دوسرا صور پھونکے گا تو لوگ اپنی قبروں سے نکل کر اپنے رب کی طرف اس طرح جائیں گے جس طرح تیر اپنے نشانے پر جاتا ہے۔ جوں ہی لوگ قبروں سے اٹھیں گے تو قیامت کا انکار کرنے والے اپنے آپ پر افسوس کرتے ہوئے کہیں گے کہ ہم پر افسوس ! ہم قیامت کا انکار کرتے تھے حالانکہ انبیائے کرام (علیہ السلام) صحیح فرماتے تھے۔ اس دن جنتی لوگ اپنی بیویوں کے ساتھ مسندوں پر بیٹھے ہوئے خوش گپیوں میں مشغول ہوں گے اور جو چاہیں گے ان کے سامنے پیش کیا جائے گا۔ ان پرربّ کریم کی مسلسل اور ہمیشہ ہمیش کرم نوازیاں ہوتی رہیں گی۔ ان کے مقابلے میں مجرموں کو کٹہرے میں کھڑا کرکے پوچھا جائے گا کیا تم سے یہ عہد نہیں لیا گیا تھا کہ شیطان کی پیروی نہ کرنا کیونکہ وہ تمہارا کھلا دشمن ہے مگر تم نے اپنے عہد کی پاسداری نہ کی لہٰذا جہنّم میں داخل ہوجاؤ۔ سورہ یًٰس کا اختتام اس بات پر ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو شعروشاعری نہیں سکھلائی اور نہ ہی آپ کی شان ہے کہ آپ لوگوں کے سامنے شعرگوئی کریں۔ اس لیے قرآن مجید شاعرانہ تخیّل نہیں ہے۔ اس کے بعد ارشاد ہوا کہ تمہاری موت کے بعد تمہیں دوبارہ زندہ کیا جائے گا۔ اگر تمہیں اس بات پر یقین نہیں آتا تو اپنی پیدائش پر غور کرو اور زمین و آسمان کو دیکھو ! جس رب نے تمہیں پہلی مرتبہ پیدا کیا وہ دوبارہ پیدا نہیں کرسکتا؟ اگر انہیں اس بات پر یقین نہیں آتا تو انہیں بتلائیں اور سمجھائیں وہی رب دوبارہ پیدا کرے گا جس نے تمہیں پہلی مرتبہ پیدا کیا ہے۔ کیا تم نہیں جانتے کہ اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمانوں کو بغیر نمونے کے پیدا کیا ہے۔ اور وہ اس بات پر قادر ہے کہ اپنی مخلوق کو دوبارہ پیدا کرے کیونکہ وہ سب کچھ پیدا کرنے والا اور ہر بات کا علم رکھنے والا ہے جب کسی کام کے کرنے کا فیصلہ کرتا ہے تو صرف ” کُنْ“ کا حکم صادر فرماتا ہے اور وہ کام بالکل اس کی مرضی کے مطابق ہوجاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہر قسم کی کمزوری سے پاک ہے اور زمین و آسمانوں کی ہر چیز اس کے قبضۂ قدرت میں ہے اور تم سب نے اسی کے حضور پیش ہونا ہے۔ يس
1 يس
2 فہم القرآن سورۃ فاطر کے آخری رکوع میں اہل مکہ کے ایک قول کا ذکر کیا گیا ہے کہ وہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت سے پہلے قسمیں اٹھا اٹھا کر کہا کرتے تھے کہ جو نہی نبی آخرالزماں آئے گا تو ہم دوسروں سے بڑھ کر ہدایت پانے والے ہوں گے لیکن جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی نبوت کا اعلان کیا تو یہ لوگ تکبر کی بنا پرکفر و شرک میں اور ہی آگے بڑھ گئے اور پروپگنڈا کرنے لگے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صراط مستقیم سے بھٹک چکا ہے۔ سورۃ یٰس کی ابتدا میں اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کی قسم اٹھا کر فرمایا ہے کہ آپ لوگوں کے سردار ہیں، انبیاء (علیہ السلام) کی جماعت میں شامل ہیں اور صراط مستقیم پر گامزن ہیں۔ اہل علم نے لفظ ” یٰسین“ کے دو معانی ذکر کیے ہیں۔ عربی کی ایک لغت کے مطابق یٰس کا معنٰی اے انسان ! اور دوسری لغت کے مطابق اس کا معنٰی ہے اے سردار۔ دونوں حوالوں اور اس سورت کے سیاق و سباق کے اعتبار سے یہ حقیقت بالکل آشکارا ہے کہ یٰس سے مراد سرورِدوعالم کی ذات اقدس ہے کیونکہ جنس کے اعتبار سے آپ انسان تھے اور مقام کے لحاظ سے تمام انسانوں بلکہ تمام انبیاء کے سردار ہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سردار کے لقب سے پکارنے کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ آپ کے مخالفوں کو معلوم ہو کہ جس شخصیت کی شان گھٹانے کے درپے ہو وہ تو اللہ تعالیٰ کے ہاں اس قدر صاحب شان اور علوّمرتبت کی حامل ہے کہ خالق کائنات اسے انسانوں کا سردار کہہ کر پکارتا ہے اس میں ایک طرف سرور دوعالم کے لیے تسلی کا پہلو پایا جاتا ہے اور دوسری طرف مخالفین کو یہ باور کرانا مقصود ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو کس شان سے نوازا ہے۔ آپ کی شان صرف سردار کے لقب کے ساتھ ہی خاص نہیں کیا گیا بلکہ خالقِ کائنات نے قرآن کریم کی قسم اٹھا کر آپ کو اطمینان بخشا ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ کا تعلق اور شمار ” اللہ“ کے رسولوں میں ہے۔ کفار آپ کے بارے میں جو چاہیں ہرزہ سرائی کریں لیکن آپ ہر حال میں سردار اور صراط مستقیم پر ہیں۔ قرآن مجید کی قسم اٹھانا : حضرت امام بخاری (رح) نے اپنی کتاب صحیح بخاری میں ایک باب باندھا ہے (باب الْحَلِفِ بِعِزَّۃِ اللَّہِ وَصِفَاتِہِ وَکَلِمَاتِہٖ) جس میں انہوں نے دواحادیث ذکر کی ہیں۔ جن سے ثابت ہوتا ہے کہ قرآن مجید کی قسم اٹھائی جاسکتی ہے کیونکہ قرآن مجید ” اللہ“ کا کلام اور اس کی صفت ہے اس لیے قرآن مجید کی قسم اٹھانا جائز ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شان اور مقام : ” بے شک میری اور مجھ سے پہلے انبیاء کی مثال اس طرح ہے جس نے ایک گھر بنایا پھر اس کو مزین کیا لیکن صرف ایک اینٹ کی جگہ باقی تھی۔ لوگ اس گھر کو دیکھتے اور اس ایک اینٹ کی جگہ خالی پا کر تعجب کا اظہار کرتے اور کہتے : یہ اینٹ کیوں نہیں لگائی گئی؟ آپ نے فرمایا : میں ہی وہ اینٹ ہوں اور میں ہی خاتم النبیین ہوں۔“ [ رواہ البخاری : باب خاتم النبیین] (أَنَا سَیِّدُ وُلْدِ آدَمَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ وَلَا فَخْرَ وَبِیَدِیْ لِوَاءُ الْحَمْدِ وَلَا فَخْرَ وَمَا مِنْ نَبِیٍّ یَوْمَءِذٍ آدَمُ فَمَنْ سِوَاہُ إِلَّا تَحْتَ لِوَاءِیْ وَأَنَا أَوَّلُ مَنْ تَنْشَقُّ عَنْہُ الْأَرْضُ وَلَا فَخْرَ) [ رواہ الترمذی : کتاب المناقب ] ” میں قیامت کے دن آدم کی ساری اولاد کا سردار ہوں گا مگر اس اعزاز پر فخر نہیں کرتا اور میرے ہاتھ میں حمد کا جھنڈا ہوگا اس پر میں اتراتا نہیں۔ قیامت کے دن آدم (علیہ السلام) سمیت تمام نبی میرے جھنڈے کے نیچے ہوں گے، میں قیامت کے دن سب سے پہلے اپنی قبر سے اٹھوں گا مگر اس پر کوئی فخر نہیں کرتا۔“ مسائل ١۔ سرورِدوعالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پوری کائنات کے سردار اور امام ہیں۔ ٢۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صراط مستقیم کے داعی ہیں۔ ٣۔ قرآن مجید بڑی ہی پُر حکمت کتاب ہے۔ تفسیر بالقرآن سرورِدوعالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا مقام اور آپ کی شان : ١۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پوری دنیا کے لیے نبی بنا کر بھیجا گیا۔ (الاعراف : ١٥٨) ٢۔ آپ کو رحمۃ للعالمین بنا کر بھیجا گیا۔ (الانبیاء : ١٠٧) ٣۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خاتم النبیین ہیں۔ (الاحزاب : ٤٠) ٤۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو لوگوں کے لیے ر ؤف، رحیم بنایا گیا ہے۔ (التوبۃ : ١٢٨) ٥۔ آپ کو پوری دنیا کے لیے داعی الی اللہ، بشیر اور نذیر بنا کر مبعوث کیا گیا ہے۔ (الاحزاب : ٤٥۔ ٤٦) يس
3 يس
4 يس
5 فہم القرآن ربط کلام : آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر قرآن نازل ہونا شروع ہوا تو کفار آپ کے مخالف ہوگئے۔ ان کی مخالفت کا سبب بیان کیا جاتا ہے۔ قرآن مجید کے بارے میں کفار کا پروپیگنڈہ تھا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ قرآن اپنی طرف سے بنا لیا ہے۔ کچھ لوگ یہ بھی ہرزہ سرائی کرتے تھے کہ سردار عبد المطلب کا پوتا راہ راست سے بھٹک چکا ہے۔ ان الزامات کی تردید کے لیے آپ کو سردار کے لقب سے پکارتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کا حلف دے کر ارشاد فرمایا کہ ہم نے آپ کو اس لیے صاحب قرآن رسول بنا کر بھیجا تاکہ ان لوگوں کو ان کے برے اعمال کے انجام سے ڈرائیں جن کے باپ دادا کو متنبّہ نہیں کیا گیا تھا اور وہ غفلت میں پڑے ہوئے ہیں۔ ان پر آپ کے رب کا فرمان سچ ثابت ہوا کہ ان کی اکثریت ایمان نہیں لائے گی کیونکہ اللہ تعالیٰ کو انسان کے ماضی، حال اور مستقبل کا علم ہے اس لیے یہ بات آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے واضح کردی گئی کہ آپ کا کام لوگوں کو غفلت سے بیدار کرنا ہے منوانا نہیں۔ جہاں تک ان کے فکر و عمل کا معاملہ ہے ان کی اکثریت ایمان نہیں لائے گی اور یہی کچھ ہوا کہ نبوت کے آغاز میں مکہ کے جو سردار آپ کی مخالفت میں پیش پیش تھے آخر دم تک ان کی اکثریت ایمان کی دولت سے محروم رہی اور اسی حالت میں نبوت کے چودھویں سال بدر کے میدان میں قتل کردئیے گئے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تشریف آوری سے پہلے لوگوں کو ڈرانے والا کوئی رسول نہیں آیا تو پھر وہ ان کے باپ دادا مجرم کیسے ٹھہرے ؟ اس میں کوئی شک نہیں کہ اہل مکہ اور اس کے قرب و جوار میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور ان کے صاحبزادے حضرت اسمٰعیل (علیہ السلام) کے بعد کوئی رسول نہیں آیا لیکن بیت اللہ کی برکت اور اس کی مرکزیت کی وجہ سے حضرت ابراہیم اور حضرت اسمٰعیل ( علیہ السلام) کے بعد جو رسول عرب میں مبعوث کیے گئے ان کی تعلیم یقیناً اہل مکہ تک پہنچتی رہی جس میں ملت ابراہیم کی اتباع کا حکم دیا گیا تھا مگر اس کے باوجود اہل مکہ نے ملت ابراہیم (علیہ السلام) سے تغافل اختیار کیے رکھا۔ اسی بنا پر یہ الفاظ استعمال ہوئے کہ اہل مکہ کو ان کے برے انجام سے آگاہ کیا جاۓ کیونکہ ایک مدت بیت چکی ہے کہ ان کے پاس براہ راست ڈرانے والا نہیں آیا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کے بارے میں حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل کی دعا۔ (رَبَّنَا وَابْعَثْ فِیْھِمْ رَسُوْلًا مِّنْھُمْ یَتْلُوْا عَلَیْھِمْ اٰیٰتِکَ وَ یُعَلِّمُھُمْ الْکِتٰبَ وَ الْحِکْمَۃَ وَ یُزَکِّیْھِمْ اِنَّکَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ) [ البقرۃ: ١٢٩] ” اے ہمارے رب! ان میں انہیں میں سے ایک رسول مبعوث فرما جو ان کے سامنے تیری آیات پڑھے انہیں کتاب و حکمت سکھائے۔ اور وہ انہیں پاک کرے یقیناً تو غالب حکمت والا ہے۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر قرآن مجید نازل فرمایا۔ ٢۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کا مقصد لوگوں کو غفلت سے بیدا کرنا ہے۔ ٣۔ لوگوں کی اکثریت ایمان نہیں لایا کرتی۔ تفسیر بالقرآن نزول قرآن کا مقصد : ١۔ قرآن مجید شک و شبہ سے بالا تر کتاب ہے۔ (البقرۃ : ٢) ٣۔ قرآن کریم برہان اور نور مبین ہے۔ (النساء : ١٧٤) ٢۔ قرآن مجید ایمان والوں کے لیے باعث ہدایت اور رحمت ہے۔ (النحل : ٦٤) ٤۔ قرآن مجید اللہ تعالیٰ کی طرف سے واضح کتاب ہے۔ قرآن مجید لوگوں کے لیے ہدایت ہے۔ (البقرۃ: ١٨٥) ٥۔ ہم نے قرآن کو نازل کیا جو مومنوں کے لیے باعث رحمت اور شفا ہے۔ (بنی اسرائیل : ٨٢) ٦۔ قرآن حمید کے نزول کا مقصد لوگوں کو اندھیروں سے نکال کر روشنی کی طرف لانا ہے۔ (ابراہیم : ١) لوگوں کی اکثریت کا حال : ١۔ اکثر لوگ حقیقت نہیں جانتے۔ (یوسف : ٢١) ٢۔ لوگوں کی اکثریت شکر نہیں کرتی۔ (یوسف : ٣٨) ٣۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے چاہنے کے باوجود لوگوں کی اکثریت ایمان نہیں لائے گی۔ (یوسف : ١٠٣) ٤۔ قرآن آپ کے رب کی طرف سے برحق ہے لیکن اکثر لوگ ایمان نہیں لاتے۔ (ھود : ١٧) يس
6 يس
7 يس
8 فہم القرآن ربط کلام : لوگوں کی اکثریت کیوں ایمان نہیں لاتی؟ ایمان کی دولت پانے کے لیے لازم ہے کہ انسان اپنی انا اور جہالت سے کنارہ کش ہوجائے۔ جو شخص جہالت اور انا پرستی نہیں چھوڑتا درحقیقت وہ متکبر ہوتا ہے۔ متکبر انسان حقیقت اور سچائی کو تسلیم کرنا اپنے لیے عار سمجھتا ہے۔ یہی حالت اہل مکہ کی تھی جس بنا پر ان کے بڑوں نے یہ کہہ کر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبّوت کا انکار کیا اور کہا کہ نبّوت مکہ یا طائف کے بڑے سرداروں میں سے فلاں کو ملنا چاہیے تھی۔ کچھ لوگوں نے آباء واجداد کی رسومات کا بہانہ بنا کر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اتباع سے اجتناب کیا۔ اس طرح وہ مختلف قسم کے تعصبات اور فخر و غرور میں مبتلا تھے۔ جس کی وجہ سے ان کی گردنیں اس طرح اکڑی ہوئی تھیں جیسے ان کی گردنوں میں لوہے کے طوق پڑے ہوئے ہوں۔ جس کی وجہ سے ان کے سر نہیں جھکتے۔ اس استکبار کی وجہ سے مکہ والوں کی حالت یوں ہوچکی تھی جیسے ان کے آگے پیچھے دیوار کھڑی کردی گئی ہو اور ان کے چہروں پر پردہ ڈال دیا گیا ہو جس وجہ سے وہ نہ ہدایت کی طرف آسکتے ہیں اور نہ ہی چشم بصیرت سے دیکھ سکتے ہیں۔ جس شخص یا قوم کی یہ حالت ہوجائے ظاہر ہے کہ اسے کوئی بھی راہ راست پر نہیں لا سکتا۔ انہیں سمجھانا اور نہ سمجھانا یکساں ہوا کرتا ہے اس لیے ارشاد ہوا کہ اے (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) محبوب آپ ! انہیں ڈرائیں یا نہ ڈرائیں وہ ایمان نہیں لائیں گے۔ اسی بات کو سورۃ البقرہ کی آیت ٧ میں یوں بیان کیا گیا ہے کہ ” اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں اور کانوں پر مہر لگا رکھی ہے اور ان کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا ہے ان کو عظیم عذاب ہوگا“ البقرۃ کی آیت گیارہ میں فرمایا کہ بہرے، گونگے اور اندھے ہیں اب یہ ہدایت نہیں پائیں گے۔ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ إِنَّ الْعَبْدَ إِذَا أَخْطَأَ خَطِیْءَۃً نُکِتَتْ فِیْ قَلْبِہٖ نُکْتَۃٌ سَوْدَآءُ فَإِذَا ھُوَ نَزَعَ وَاسْتَغْفَرَ وَتَابَ سُقِلَ قَلْبُہٗ وَإِنْ عَادَ زِیْدَ فِیْھَا حَتّٰی تَعْلُوَ قَلْبَہٗ وَھُوَ الرَّانُ الَّذِیْ ذَکَرَ اللّٰہُ (کَلَّا بَلْ رَانَ عَلٰی قُلُوْبِھِمْ مَّاکَانُوْا یَکْسِبُوْنَ ))[ رواہ الترمذی : کتاب تفسیر القرآن ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : جب بندہ کوئی غلطی کرتا ہے تو اس کے دل پرسیاہ نکتہ پڑجاتا ہے جب وہ گناہ چھوڑ دے اور توبہ و استغفار کرے تو اس کا دل پالش ہوجاتا ہے۔ اگر وہ دوبارہ گناہ کی طرف پلٹے تو سیاہی اس کے دل پر چڑھ جاتی ہے یہی وہ زنگ ہے جس کا تذکرہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں کیا ہے کہ (ہرگز نہیں بلکہ ان کے دلوں پر ان کے گناہوں کی وجہ سے زنگ چڑھ چکا ہے۔) “ مسائل ١۔ ہدایت کے مقابلے میں تعصب اور تکبر اختیار کرنے والوں کے آگے پیچھے دیوار کردی جاتی ہے۔ ٢۔ گمراہی پر مطمئن ہونے والوں کو سمجھانا اور نہ سمجھانا برابر ہوتا ہے۔ تفسیر بالقرآن گمراہ لوگوں کی حالت : ١۔ جو ایمان کو کفر کے ساتھ بدل دے وہ سیدھے راستہ سے گمراہ ہوگیا۔ (البقرۃ: ١٠٨) ٢۔ جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرتا ہے وہ دور کی گمراہی میں مبتلا ہوا۔ (النّساء : ١١٦) ٣۔ جو اللہ کے ساتھ کفر کرے وہ دور کی گمراہی میں جا پڑا۔ (النساء : ١٣٦) ٤۔ جو اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے وہ گمراہ ہوگیا۔ (الاحزاب : ٣٦) ٥۔ جس کو اللہ گمراہ کرے اس کو کوئی ہدایت دینے والا نہیں۔ (الرّعد : ٣٣) ٦۔ اللہ تعالیٰ کی بیان کردہ مثال کے ساتھ فاسق ہی گمراہ ہوتے ہیں۔ ( البقرۃ: ٢٦) ٧۔ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کیے ہوئے عہد کو پامال کرنے والا سیدھے راستہ سے بھٹک جاتا ہے۔ (المائدۃ: ١٢) ٨۔ کفار سے دلی دوستی کرنے والا سیدھی راہ سے دور چلا جاتا ہے۔ (الممتحنۃ: ١) ٩۔ دین کے معاملات میں غلو کرنے والا سیدھی راہ سے گمراہ ہوجاتا ہے۔ (المائدۃ : ٧٧) ١٠۔ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی اور کو شریک ٹھہرانے والا سیدھے راستہ سے بھٹک جاتا ہے۔ (ابراہیم : ٣٠) يس
9 يس
10 يس
11 فہم القرآن ربط کلام : بے شک لوگوں کی اکثریت ایمان کے بارے میں اندھی ہوچکی ہے لیکن آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لوگوں کو ضرور انتباہ فرمائیں کیونکہ جو شخص اپنے رب سے غیب میں ڈرنے والاہے وہ ضرور ہدایت پالے گا۔ ہدایت پانے والے کو جنت کی خوشخبری دیجیے۔ بے شک گمراہ لوگ آپ کی محنت کو قدر کی نگاہ سے نہیں دیکھتے اور حق کے معاملے میں اندھے ہوچکے ہیں لیکن آپ سلیم الفطرت لوگوں کو سمجھاتے رہیں کیوں کہ ” اللہ“ سے ڈرنے والے نصیحت حاصل کیا کرتے ہیں۔ جو انسان آخرت کی جواب دہی کو بھول جائے حقیقت میں وہ اندھا ہوجاتا ہے۔ ایسے شخص کی آنکھوں سے غفلت کا پردہ اٹھانے اور آخرت کی جواب دہی کا احساس دلانے کے لیے اسے حقیقت حال سے آگاہ کیا جارہا ہے کہ اس سچائی میں کوئی شک نہیں کہ ہم قیامت کے دن مردوں کو زندہ کریں گے اور مرنے والے جو کچھ آگے بھیجتے رہے اور جو اپنے پیچھے چھوڑ گئے ہم اس کو ضبط تحریر میں لارہے ہیں اور ہم نے اسے کتاب مبین میں واضح طور پر لکھ رکھا ہے۔ بنیادی طور پر ہر انسان کے اچھے اور برے اعمال کی دو صورتیں ہوتی ہیں۔ جن کا ہر حال میں اندراج ہوتا رہتا ہے۔ انسان جونہی کوئی عمل کرتا ہے تو کراماً کاتبین اس کے نامۂ اعمال میں لکھ کر صبح و شام آسمان کی طرف لے جاتے ہیں جو اس کے دفترِاعمال میں محفوظ کرلیے جاتے ہیں۔ اعمال کی دوسری صورت یہ ہے کہ انسان دنیا میں رہ کر جو نیکی یا بدی کرتا ہے اس کے برے اور بھلے اثرات دنیا میں بھی باقی رہتے ہیں۔ نیک اعمال کرنے والے کو نیکی کی جزا قیامت تک ملتی رہے گی اور جس نے اپنے حلقہ اثر میں برے اعمال چھوڑے وہ ان کے منفی اثرات کی سزا قیامت تک بھگتتا رہے گا۔ قیامت کے دن اس کے تمام اعمال کا ریکارڈ اس کے سامنے رکھ دیا جائے گا۔ اگر اس کا اعمال نامہ اچھا ہوا تو وہ اپنے عزیز و اقرباء کو بلا بلا کرک ہے گا کہ دیکھیے میرا اعمال نامہ کس قدر اچھا ہے (الحاقۃ: ١٩۔ ٢٠) اس کے مقابلے میں برا آدمی اپنے اعمال نامے کو دیکھے گا تو اس تمنا کا اظہار کرے گا کہ کاش ! میں مٹی کے ساتھ مٹی ہی بنا رہتا۔ (النباء : ٤٠) (عَنْ اَبِیْ ھُرَےْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ےَتَعَاقَبُوْنَ فِےْکُمْ مَلَآءِکَۃٌ باللَّےْلِ وَمَلَآءِکَۃٌ بالنَّھَارِ وَےَجْتَمِعُوْنَ فِیْ صَلٰوۃِ الْفَجْرِ وَصَلٰوۃِ الْعَصْرِ ثُمَّ ےَعْرُجُ الَّذِےْنَ بَاتُوْا فِےْکُمْ فَےَسْأَلُھُمْ رَبُّھُمْ وَھُوَ اَعْلَمُ بِھِمْ کَےْفَ تَرَکْتُمْ عِبَادِیْ فَےَقُوْلُوْنَ تَرَکْنٰھُمْ وَھُمْ ےُصَلُّوْنَ وَاٰتَےْنٰھُمْ وَھُمْ ےُصَلُّوْنَ)[ رواہ البخاری : کتاب مواقیت الصلاۃ، باب فَضْلِ صَلاَۃِ الْعَصْر] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تمہارے پاس رات اور دن میں فرشتے ایک دوسرے کے آگے پیچھے آتے ہیں۔ وہ فجر اور عصر کی نماز میں جمع ہوتے ہیں۔ جب رات والے فرشتے جاتے ہیں تو ان سے اللہ تعالیٰ سوال کرتا ہے کہ تم نے میرے بندوں کو کس حال میں چھوڑا حالانکہ اللہ تعالیٰ سب کچھ جانتا ہے ملائکہ جواب دیتے ہیں کہ جب ہم ان کے ہاں گئے تو وہ نماز ادا کررہے تھے اور جب ان کو چھوڑ کر آئے تو پھر بھی نماز پڑھ رہے تھے۔“ (عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ إِنَّ أَعْمَالَ بَنِیْٓ آدَمَ تُعْرَضُ کُلَّ خَمِیْسٍ لَیْلَۃَ الْجُمُعَۃِ فَلاَ یُقْبَلُ عَمَلُ قَاطِعِ رَحِمٍ) [ رواہ أحمد وہوحدیث حسن ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے ہوئے سنا آپ نے فرمایا یقیناً انسان کے اعمال جمعرات کو پیش کیے جاتے ہیں۔ پس رشتہ داری توڑنے والے کے اعمال قبول نہیں کیے جاتے۔“ (وَإِنَّ عَلَیْکُمْ لَحَافِظِیْنَ کِرَامًا کَاتِبِیْنَ)[ الانفطار : ١٠، ١١] ” اور بے شک تم پر عزت دار لکھنے والے نگران مقرر کیے گئے ہیں۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن ہر کسی کو زندہ فرمائے گا۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ نے ہر چیز اور ہر کسی کے اعمال کو لوح محفوظ پر لکھ رکھا ہے۔ ٢۔ ہر کسی کے اگلے پچھلے اور اچھے برے اعمال اس کے سامنے پیش کردئیے جائیں گے۔ تفسیر بالقرآن انسان کے تمام اچھے برے اعمال لکھے جاتے ہیں : ١۔ بے شک تمہاری چال بازیوں کو ہمارے قاصد لکھ رہے ہیں۔ (یونس : ٢١) ٢۔ ہم ان کی جزا لکھ لیں گے جو تقویٰ اختیار کرتے ہیں اور زکوٰۃ ادا کرتے ہیں۔ (الاعراف : ١٥٦) ٣۔ جو لوگ بولتے ہیں ہم لکھ لیتے ہیں۔ (آل عمران : ١٨١) ٤۔ ہمارے قاصد ان کے اعمال لکھ رہے ہیں۔ (الزخرف : ٨٠) ٥۔ ہم ان کی کہی ہوئی بات لکھ لیں گے اور ان کے عذاب کو بڑھا دیا جائے گا۔ (مریم : ٧٩) ٦۔ کسی کی کوشش رائیگاں نہیں جائے گی بے شک ہم اس کو لکھ لیتے ہیں۔ (الانبیاء : ٩٤) يس
12 يس
13 فہم القرآن ربط کلام : اس سے پہلے ارشاد ہوا ہے کہ ہم موت و حیات پر اختیار رکھنے والے اور ہر بات کو اپنے ہاں لکھنے والے ہیں۔ اب موت وحیات کے حوالے سے ایک قریہ کی مثال بیان کی جاتی ہے۔ اے محبوب پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے سامعین کے سامنے اس بستی کی تاریخ اور مثال پیش فرمائیں جس کے پاس آپ کے رب نے یکے بعد دیگرے تین رسول مبعوث فرمائے تھے۔ واقعہ یہ ہے کہ ہم نے اس بستی کے رہنے والوں کے لیے دو رسول بھیجے جنہوں نے بڑے خلوص اور جانفشانی کے ساتھ اہل قریہ کو سمجھانے کی کوشش کی لیکن قریہ والوں نے انہیں یکسر طور پر مسترد کردیا۔ ان کی تائید کے لیے ہم نے تیسرا رسول بھیجا اس نے پہلے دو انبیاء کی تائید کی اور ان کے ساتھ مل کر لوگوں کو اللہ کی توحید اور اس کی عبادت کرنے کی طرف دعوت دی لیکن بد بخت قوم نے تینوں رسولوں کو یہ کہہ کر جھٹلا دیا کہ تم ہمارے جیسے انسان ہو اور تم جھوٹ بولتے ہو۔ رب رحمن نے تمہاری طرف کوئی پیغام نازل نہیں کیا اور نہ ہی تم اس کے رسول ہو۔ قوم کے الزام کے جواب میں انبیائے کرام (علیہ السلام) نے فقط اتنا ہی ارشاد فرمایا کہ اے قوم! اگر تم ہمیں ماننے کے لیے تیار نہیں تو ہمارا کام اپنے رب کا پیغام پہنچانا تھا جسے ہم نے پوری طرح پہنچا دیا۔ اب تمہارا معاملہ ” اللہ“ کے حوالے ہے۔ مفسرین نے لکھا ہے کہ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اس بستی کو نیست و نابود کردیا۔ یہ کون سی بستی تھی اس کے بارے میں بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ یہ شام کا ایک مشہور شہر انطاکیہ ہے لیکن قدیم مفسرین میں سے علامہ ابن کثیر اور عصر حاضر کے مفسرین نے تاریخی حوالوں کے ساتھ ثابت کیا ہے کہ اس سے مراد انطاکیہ نہیں کیونکہ انطاکیہ ہمیشہ سے عسائیت کا گڑھ رہا ہے اور انطاکیہ کی بربادی کا تاریخ میں کوئی ثبوت نہیں ملتا۔ جہاں تک رسولوں کی ذات کا معاملہ ہے ان سے مراد عیسیٰ ( علیہ السلام) کے حواری اور ان کے بھیجے ہوئے نمائندے نہیں بلکہ یہ شخصیات براہ راست اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس شہر کی طرف مبعوث کی گئی تھیں جنہیں اس شہر کے لوگوں نے ماننے سے انکار کیا اور وہ برے انجام سے دوچار ہوئے۔ جہاں تک اہل قریہ کی اس بات کا تعلق ہے کہ اے رسولو! تم ہمارے جیسے انسان ہو۔ اللہ تعالیٰ نے جتنے بھی رسول مبعوث فرمائے ہیں وہ بشر ہی تھے۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد کہ میں بشر ہوں : (عَنْ رَافِعُ بْنُ خَدِیجٍ قَالَ قَدِمَ نَبِیُّ اللَّہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) الْمَدِینَۃَ وَہُمْ یَأْبُرُون النَّخْلَ یَقُولُونَ یُلَقِّحُون النَّخْلَ فَقَالَ مَا تَصْنَعُونَ قَالُوا کُنَّا نَصْنَعُہُ قَالَ لَعَلَّکُمْ لَوْ لَمْ تَفْعَلُوا کانَ خَیْرًافَتَرَکُوہُ فَنَفَضَتْ أَوْ فَنَقَصَتْ قَالَ فَذَکَرُوا ذَلِکَ لَہُ فَقَالَ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ إِذَا أَمَرْتُکُمْ بِشَیْءٍ مِنْ دینِکُمْ فَخُذُوا بِہِ وَإِذَا أَمَرْتُکُمْ بِشَیْءٍ مِنْ رَأْیٍ فَإِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ )[ رواہ مسلم : باب وُجُوبِ امْتِثَالِ مَا قَالَہُ شَرْعًا دُونَ مَا ذَکَرَہ مِنْ مَعَایِشِ الدُّنْیَا عَلَی سَبِیل الرَّأْیِ] ” سیدنا رافع بن خدیج (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مدینہ تشریف لائے تو اس وقت لوگ کھجور کی پیوندکاری کرتے تھے آپ نے فرمایا : یہ کیا کرتے ہو؟ صحابہ کرام (رض) نے جواب دیا ہمارا یہی طریقہ ہے آپ نے فرمایا : اگر تم یہ کام نہ کرو تو ہوسکتا ہے اس میں بہتری ہو۔ صحابہ (رض) نے پیوند کرنا چھوڑ دیا۔ تو کھجوریں پھل کم لائیں۔ صحابہ (رض) نے یہ بات رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کی۔ آپ نے فرمایا : میں بھی ایک بشر ہوں جب میں تمہیں تمہارے دین کے بارے میں کسی بات کا حکم دوں تو اس پر عمل کرو۔ جب میں کوئی بات اپنی رائے سے کہوں تو آخر میں بھی آدمی ہوں۔“ مسائل ١۔ انبیائے کرام (علیہ السلام) ایک دوسرے کی تائید کرتے تھے۔ ٢۔ تمام انبیاء کرام (علیہ السلام) انسان تھے۔ ٣۔ انبیاء کی ذمہ داری حق پہنچانا تھا منوانا نہیں تھا۔ تفسیر بالقرآن انبیائے کرام (علیہ السلام) کا اقرار کہ ہم انسان ہیں : ١۔ نبی آخر الزماں (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اعتراف کہ میں تمہاری طرح کا بشر ہوں۔ (حم السجدۃ: ٦) ٢۔ رسول اللہ کا اعتراف کہ میں تمہاری طرح بشرہوں۔ (الکہف : ١١٠) ٣۔ تمام رسولوں کو ان کی قوم میں انہی کی زبان میں بھیجا گیا۔ (ابراہیم : ٤) ٤۔ انبیاء (علیہ السلام) اقرار کرتے تھے کہ ہم بشر ہیں۔ (ابراہیم : ١١) ٥۔ اللہ تعالیٰ نے جتنے بھی رسول بھیجے وہ آدمی تھے۔ (یوسف : ١٠٩) ٦۔ اللہ تعالیٰ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پہلے جتنے بھی نبی بھیجے وہ بشرہی تھے۔ (النحل : ٤٣) ٧۔ عیسیٰ نے اپنی والدہ کی گود میں اپنی نبوت اور بندہ ہونے کا اعلان فرمایا۔ (مریم : ٢٩، ٣٠) ٨۔ شعیب (علیہ السلام) کی قوم نے کہا کہ تو ہماری طرح بشر ہے اور ہم تجھے جھوٹا تصور کرتے ہیں۔ (الشعراء : ١٨٦) ٩۔ نہیں ہے یہ مگر تمہارے جیسا بشر اور یہ تم پر فضیلت حاصل کرنا چاہتا ہے۔ (المومنون : ٢٤) ١٠۔ نہیں ہے تو مگر ہمارے جیسا بشر کوئی نشانی لے کر آ اگر تو سچا ہے۔ (الشعراء : ١٥٤) ١١۔ نہیں ہے یہ مگر تمہارے جیسا بشر جیسا تم کھاتے ہو، ویسا وہ کھاتا ہے۔ (المومنون : ٣٣) يس
14 يس
15 يس
16 يس
17 يس
18 فہم القرآن ربط کلام : تین انبیائے کرام (علیہ السلام) کو قوم کی دھمکی اور الزام۔ بدبخت لوگوں کا ہمیشہ سے وطیرہ رہا ہے کہ وہ اپنی اصلاح کرنے کی بجائے انبیائے کرام اور مصلح حضرات کو طعن و تشنیع اور تضحیک کا نشانہ بناتے ہیں۔ یہی کچھ اس شہر کے لوگوں نے انبیاء (علیہ السلام) کے ساتھ کیا۔ قوم انبیائے کرام (علیہ السلام) کو کہنے لگی کہ جب سے تم ہمارے شہر میں آئے ہو اس وقت سے لے کر ہم مسائل اور مصائب کا شکار ہوئے جارہے ہیں۔ اگر تم اپنے کام سے باز نہ آئے تو ہم ہر صورت تمہیں سنگسار کرڈالیں گے اور تمہیں اذیت ناک سزا دیں گے۔ انبیائے کرام (علیہ السلام) نے جواباً فرمایا کہ جن مسائل اور مصائب سے تم دوچار ہو یہ تمہارے اپنے کیے کا نتیجہ ہے۔ مگر افسوس ! تم سمجھنے اور سدھرنے کی بجائے ہمیں سنگسار کرنے کی سوچتے ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ تم شرافت کی تمام حدوں کو پھلانگ چکے ہو۔ انبیائے کرام (علیہ السلام) کی دعوت کا یہ منطقی نتیجہ ہوتا ہے کہ جو قوم اپنے نبی کی نافرمانی پر تل جائے اسے آخرت کے عذاب سے پہلے دنیا میں بھی اپنے اعمال کا نتیجہ بھگتنا پڑتا ہے۔ جن لوگوں کے مقدر میں تباہی لکھی ہوتی ہے وہ اپنی اصلاح کی بجائے بگاڑ میں آگے ہی بڑھا کرتے ہیں اور اصلاح کرنے والوں کو اپنے انجام کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔ ہر پیغمبر کے ساتھ اس کی قوم کے فجار اور سرکش لوگوں نے یہی روّیہ اختیار کیا تھا۔ جہاں تک بد شگونی اور بری فال نکالنے کا تعلق ہے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے منع فرمایا ہے کیونکہ ایک طرف انسان کا عقیدہ کمزور ہوتا ہے اور دوسری طرف وہ اعصابی اور ذہنی طور پر مفلوج ہو کر رہ جاتا ہے۔ ( لَیْسَ مِنَّا مَنْ تَطَیَّرَ اَوْتُطُیِّرَلَہٗ اَوْتَکَھَّنَ اَوْتُکُھِّنَ لَہُ اَوْ سَحَرَ اَوْ سُحِرَ لَہُ وَمَنْ اَتیٰ کَا ھِنًا فَصَدَّقَہُ بِمَا یَقُوْلُ فَقَدْ کَفَرَ بِمَااُنْزِلَ عَلٰی مُحَمَّدٍ) [ الترغیب و الترہیب]ِ ” جو شخص فال نکالے یا اس کے لیے فال نکالی جائے‘ کوئی غیب کی خبریں دے یا اس کے لیے کوئی دوسرا ایسی خبر دے ایسے ہی کوئی خود جادو کرئے یا دوسرا شخص اس کے لیے جادو کرے وہ ہم میں سے نہیں ہے۔ جو کوئی ایسے شخص کے پاس جائے اور اسکی باتوں کی تصدیق کرے اس نے ہر اس بات کا انکار کیا جو محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل ہوئی ہے۔“ کیا کوئی چیز منحوس ہو سکتی ہے؟ (وَعَنْہُ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لَا عَدْوٰی وَلَا طِےْرَۃَ وَ لَا ھَامَۃَ وَلاَ صَفَرَ وَفِرَّ مِنَ الْمَجْذُوْمِ کَمَا تَفِرُّ مِنَ الْاَسَدِ۔) [ رواہ البخاری : باب الْجُذَامِ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) ہی بیان کرتے ہیں کہ رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا‘ کوئی بھی بیماری متعدی نہیں۔ بد شگونی بھی نہیں ہے۔ نہ الوبد روح ہے اور نہ صفر کا مہینہ نحوست والا ہے اور کوڑھی شخص سے اس طرح بھاگوجس طرح شیر سے بھاگتے ہو۔“ مسائل ١۔ مشرکین اور کفار انبیائے کرام (علیہ السلام) کو منحوس قرار دیتے تھے۔ ٢۔ انسان کو اپنے برے اعمال کی کچھ نہ کچھ سزا دنیا میں بھگتنا پڑتی ہے۔ ٣۔ سرکش اور نافرمان لوگ ہمیشہ انبیائے کرام (علیہ السلام) کو جان سے مار دینے کی دھمکیاں دیتے رہے۔ تفسیر بالقرآن نافرمان قوم کا اپنے انبیاء (علیہ السلام) کے ساتھ رویہ : ١۔ کفار کہتے تھے کہ تم ہمارے جیسے بشر ہو تم چاہتے ہو کہ ہم اپنے آباء واجداد کے معبودوں کو چھوڑ دیں۔ (ابراہیم : ١٠) ٢۔ کفار نے انبیاء سے کہا کہ ہم تمہیں اپنی زمین سے نکال دیں گے۔ (ابراہیم : ١٣) ٣۔ حضرت نوح کو قوم کے سرداروں نے کہا تو تو ہمارے جیسا ہی ایک آدمی ہے اور تیری پیروی کرنے والے بھی ادنیٰ لوگ ہیں۔ (ھود : ٢٧) ٤۔ حضرت موسیٰ کو فرعون نے کہا کیا تم اپنے جادو سے ہمیں ہماری زمین سے نکالنا چاہتے ہو۔ (طٰہٰ: ٥٧ ) ٥۔ انبیاء ( علیہ السلام) کو قتل کیا گیا۔ ( البقرۃ: ٨٧) ٦۔ موسیٰ (علیہ السلام) پر آل فرعون نے منحوس ہونے کا الزام لگایا۔ (الاعراف : ١٣١) يس
19 يس
20 فہم القرآن ربط کلام : تین انبیائے کرام (علیہ السلام) کے ساتھ قوم کی کشمکش کی انتہا اور ایک خیرخواہ کا قوم کو آخری بار سمجھانا۔ قوم نے شرافت کی دیواریں پھلانگتے ہوئے جب یہ فیصلہ کرلیا کہ تینوں انبیاء کو بیک وقت قتل کردیا جائے۔ اس صورت حال کا جونہی شہر کے مضافات میں رہنے والے ایک شخص کو علم ہوا تو وہ بے قرار ہو کر دوڑتا ہوا اپنی قوم کے سر کردہ لوگوں کے پاس آیا اور انہیں سمجھاتے ہوئے کہا کہ اے میری قوم کے لوگو! تمہیں انبیائے کرام (علیہ السلام) کے خلاف سازشیں کرنے کی بجائے ان کی اتباع کرنی چاہیے۔ ناصرف یہ ہستیاں افکار اور کردار کے لحاظ سے ہم سب سے اعلیٰ اور ممتاز ہیں بلکہ اس بات پر بھی غور کرو کہ ان کی دعوت کے پیچھے ان کا کوئی ذاتی مفاد نہیں اور یہی وجہ ہے کہ یہ تم سے کسی معاوضہ کے طلب گار نہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کے فرستادہ اور اس کی طرف سے ہدایت یافتہ اور تمہیں ہدایت کی دعوت دینے والے انبیاء کرام ہیں۔ مضافات شہر سے آنے والی شخصیت کا نام ” حبیب“ بتلایا گیا ہے اس نے حالات کی نزاکت اور موقع کی مناسبت کی بنیاد پر رسولوں کے دو اوصاف کا ذکر کیا ہے۔ 1 یہ رسول اپنے رب کی طرف سے ہدایت یافتہ اور تمہارے لیے ہدایت کے امام ہیں۔ 2 اس دعوت کے نتیجہ میں جو مصائب اور مشکلات برداشت کررہے ہیں اس کے پیچھے ان کا کوئی مفاد وابستہ نہیں۔ انبیائے کرام (علیہ السلام) کے اوصاف حمیدہ میں یہ اوصاف ہمیشہ نمایاں اور ممتاز رہے ہیں کہ ناصرف وہ اللہ تعالیٰ کے فرستادہ ہوا کرتے تھے بلکہ ان کی زندگی کا ایک ایک لمحہ اپنے رب کی ہدایت کے مطابق بسر ہوتا تھا۔ وہ اپنے رب کی طرف سے لوگوں کے لیے ہدایت کے پیشوا ہوتے تھے۔ انہوں نے اپنی دعوت کے سلسلہ میں جتنی مشقتیں اٹھائیں اور جس قدر محنت کی اس کے پیچھے ان کا ذاتی مفاد نہیں ہوا کرتا تھا۔ اہل مکہ اور نبی محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے درمیان کشمکش اپنی انتہا کو پہنچی تو اہل مکہ نے اپنے ایک سردار ولید بن عتبہ کو آپ کی خدمت میں بھیجا۔ اس نے آپ کے سامنے تین پیشکشیں کیں۔1 اگر کسی حسین لڑکی کے ساتھ شادی کے خواہش مند ہو تو جہاں چاہتے ہو ہم شادی کروا دیتے ہیں۔2 اگر دولت چاہتے ہو تو ہم آپ کی خواہش کے مطابق دولت پیش کردیتے ہیں۔3 مکہ کا سب سے بڑا سردار بننا پسند کرتے ہو ہم آپ کی سرداری قبول کرتے ہیں۔ آپ نے تینوں باتوں کو مسترد کرتے ہوئے سورۃ حٰم سجدہ کی ابتدائی آیات تلاوت کیں۔ جن میں مرکزی بات یہ ہے کہ میں تو بشیر اور نذیر بنا کر بھیجا گیا ہوں اور تمہارے جیسا انسان ہوں مگر میری طرف میرے رب کی وحی آتی ہے جس میں پہلی دعوت یہ ہے لوگو! تمہارا معبود صرف ایک ہے اس کے تابعدار ہوجاؤ۔ (وَعَنْ اَنَسٍ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اُنْصُرْ أَخَاکَ ظَالِمًا أَوْ مَظْلُومًا فَقَالَ رَجُلٌ یَّا رَسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) أَنْصُرُہٗ مَظْلُومًا فَکَیْفَ أَنْصُرُہٗ ظَالِمًا قَالَ تَمْنَعُہٗ مِنَ الظُّلْمِ فَذٰلِکَ نَصْرُکَ اِیَّاُہ )[ رواہ البخاری : باب اعن اخاک ظالمًا او مظلوماً] ” حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا‘ اپنے بھائی کی مدد کرو‘ خواہ ظالم ہو یا مظلوم۔ ایک شخص نے عرض کیا مظلوم کی مدد کروں‘ مگر ظالم کی کیسے کروں؟ آپ نے فرمایا‘ تمہارا اس کو ظلم سے روکنا ہی اس کی مدد کرنا ہے۔“ مسائل ١۔ مظلوم کی مدد کرنے میں آدمی کو پوری مستعدی سے کام لینا چاہیے۔ ٢۔ انبیائے کرام (علیہ السلام) ہدایت کے پیکر اور مبلغ ہوا کرتے تھے۔ ٣۔ انبیائے کرام (علیہ السلام) اپنی قوم سے کسی قسم کے مفاد اور معاوضہ کے طلب گ انکار نہیں ہوتے تھے۔ تفسیر بالقرآن تمام انبیائے کرام (علیہ السلام) بلا معاوضہ دین اور قوم کی خدمت سرانجام دیتے تھے : ١۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے فرمایا میں تم سے اس تبلیغ پر کوئی معاوضہ نہیں مانگتا۔ (ہود : ٢٩) ٢۔ حضرت ہود (علیہ السلام) نے فرمایا کہ میں تم سے تبلیغ کا کوئی معاوضہ طلب نہیں کرتا۔ (الشعرا : ١٢٧) ٣۔ حضرت صالح (علیہ السلام) نے فرمایا کہ میرا اجر اللہ رب العالمین پر ہے اور میں تم سے کچھ نہیں مانگتا۔ (الشعرا : ١٤١، ١٤٥) ٤۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میرا اجر اللہ پر ہے اور وہی ہر چیز پر گواہ ہے۔ (سبا : ٤٧) ٥۔ میرا اجر اللہ پر ہے جس نے مجھے پیدا کیا ہے۔ (ہود : ٥١) ٦۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میں تجھ سے نہ اجر چاہتاہوں اور نہ کسی قسم کا تکلف کرتا ہوں۔ (ص : ٨٦) يس
21 يس
22 فہم القرآن ربط کلام : مضافات شہر سے آنے والے صالح انسان کا اپنی قوم کو خطاب جاری ہے۔ انبیائے کرام (علیہ السلام) کے اوصاف حمیدہ کا تذکرہ اور ان کی اتباع کی تلقین کرنے کے بعد صالح انسان نے اپنا عقیدہ قوم کے سامنے پیش کرتے ہوئے فرمایا کہ میرے پاس کیا عذر ہے کہ میں اس ذات کی عبادت نہ کروں ؟ جس نے مجھے پیدا کیا ہے اور اسی کی طرف تم نے بھی لوٹ کرجانا ہے کیا میں اسے چھوڑ کر کسی اور کو معبود بنا لوں جبکہ اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور وہی انسان کے نفع ونقصان کا مالک ہے۔ اگر رب رحمن میرے نقصان کا فیصلہ کرے تو جن کی تم عبادت کرتے ہو ان کی سفارش نہ مجھے فائدہ پہنچا سکتی ہے اور نہ ہی یہ کسی مصیبت سے نجات دلا سکتے ہیں اگر میں انہیں عبادت کے لائق، حاجت روا اور مشکل کشا سمجھوں تو میں بھی گمراہ ہوجاؤں گا۔ میں اس رب پر ایمان لایا ہوں جو میرا اور تمہارا رب ہے۔ اس لیے میری بات پر توجہ فرماؤ۔ اس صالح انسان نے اپنے خطاب میں اللہ تعالیٰ کی ان صفات کا ذکر فرمایا ہے جو انسان کی فطرت میں رچی بسی ہوئی ہیں۔ کون نہیں جانتا کہ پوری کائنات اور انسان کو صرف اللہ تعالیٰ نے ہی پیدا کیا ہے۔ ہر انسان یہ بھی عقیدہ رکھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ سب سے بڑھ کر مہربان ہے۔ ہر کوئی مانتا ہے کہ نفع و نقصان اللہ کے اختیار میں ہے لیکن اس کے باوجود لوگ اللہ تعالیٰ کے سوا دوسروں کو بھی حاجت روا اور مشکل کشا سمجھتے ہیں یہی شرک کی بنیاد ہے کہ مشرک سمجھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فلاں فلاں کو اپنی خدائی میں سے کچھ اختیارات دے رکھے ہیں اور یہ بزرگ اللہ تعالیٰ کو اس قدر محبوب ہیں کہ ان کی سفارش کو اللہ تعالیٰ مسترد نہیں کرسکتا۔ اس باطل عقیدہ کی تردید اور مشرک کی تیز مزاجی کو سمجھتے ہوئے مخاطب کی ضمیر استعمال کرنے کی بجائے صالح اور سمجھ دار مبلّغ نے اپنے آپ کو خطاب کیا اور دوسروں کو یہ بات سمجھائی ہے کہ اگر ربٍ رحمٰن مجھے کوئی تکلیف پہنچانا چاہے تو تمہارے سفارشی مجھے چھڑا اور بچا نہیں سکتے۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ کے سوا یا اس کے ساتھ کسی کو حاجت روا اور مشکل کشا سمجھنا بڑا ہی گمراہ کن عقیدہ ہے اگر میں اس عقیدہ کو اختیار کروں تو میرے گمراہ ہونے میں کوئی کسر باقی نہیں رہے گی۔ جس رب نے مجھے اور تمہیں پیدا کیا ہے میں اس پر ایمان لایا اور تمہیں بھی اس بات کی دعوت دیتاہوں۔ اس دعوت پر توجہ فرماؤ تاکہ تم ہدایت پاجاؤ۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے ہی کائنات اور انسان کو پیدا فرمایا ہے۔ ٢۔ ہر شخص نے اپنے رب کے حضور حاضر ہونا ہے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ جسے مشکل میں مبتلا کرے اسے کوئی چھڑانے اور بچانے والا نہیں۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو نفع و نقصان کا مالک سمجھنا پرلے درجے کی گمراہی ہے۔ ٦۔ توحید کے مبلّغ کو اپنی دعوت سمجھداری کے ساتھ پیش کرنا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی الٰہ نہیں : ١۔ ” اللہ“ نے زمین و آسمان کو پیدا کیا اور پھر آسمان سے پانی اتار کر باغات اگائے کیا اس کے ساتھ کوئی اور بھی الٰہ ہے؟ (النمل : ٦٠) ٢۔ ” اللہ“ نے زمین کو جائے قرار بنایا اس میں پہاڑ اور دو سمندروں کے درمیان پردہ بنایا۔ کیا اس کے ساتھ اور بھی الٰہ ہے؟ (النمل : ٦١) ٣۔ کون ہے جو لاچار کی فریاد رسی کرتا ہے اور اس کی تکلیف کو دور کرتا ہے کیا کوئی اور بھی الٰہ ہے ؟ (النمل : ٦٢) ٤۔ خشکی اور سمندر کی تاریکیوں میں اللہ کے سواکون رہنمائی کرتا ہے کیا کوئی اور بھی اس کے ساتھ الٰہ ہے۔ (النمل : ٦٣) ٥۔ آپ فرما دیں سوائے ایک الٰہ کے آسمان وز میں کے غیب کو کوئی نہیں جانتا۔ (النمل : ٦٥) يس
23 يس
24 يس
25 يس
26 فہم القرآن ربط کلام : شہید مبلّغ کا بہترین انجام اور صلہ۔ قرآن مجید نے لفظاً یہ بات واضح نہیں فرمائی کہ اس عظیم مبلّغ کا اپنی قوم کے ہاتھوں کیا انجام ہوا۔ البتہ سیاق و سباق سے یہ بات اخذ کی جاسکتی ہے کہ قوم نے اس عظیم مبلّغ کو شہیدکر ڈالا۔ اللہ تعالیٰ نے اسے جنت میں داخل فرمایا جونہی اس کی روح جنت میں داخل ہوئی تو پکار اٹھی کہ کاش! میری قوم کو میرے بہترین انجام کی خبر ہوجائے۔ میرے رب نے میری خطاؤں کو معاف فرما کر مجھے اپنے مقرب بندوں میں شامل کرلیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی رہتی دنیا تک اسے یہ اعزاز بخشا گیا کہ اس کے خیالات کو اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کے الفاظ میں ہمیشہ ہمیش کے لیے محفوظ فرمایا اور آنے والے انسانوں کو اس کے پیغام اور بہترین انجام سے آگاہ فرمایا تاکہ توحید کی دعوت دینے والے حضرات جان جائیں کہ بے شک یہ راستہ پر کٹھن ہے لیکن بالآخر اس کی منزل جنت الفردوس اور اپنے رب کا تقرب پانا ہے۔ (عَنْ عَاءِشَۃَ (رض) قَالَتْ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لِجَابِرٍ یَاجَابِرُ أَلَاأُبَشِّرُکَ قَالَ بَلٰی بَشِّرْنِیْ بَشَّرَکَ اللّٰہُ بالْخَیْرِ قَالَ أَشَعَرْتَ أَنَّ اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ أَحْیَاأَبَاکَ فَأَقْعَدَہٗ بَیْنَ یَدَیْہِ فَقَالَ تَمَنَّ عَلَیَّ عَبْدِیْ مَاشِءْتَ أُعْطِکَہٗ فَقَالَ یَارَبِّ مَاعَبَدْتُّکَ حَقَّ عِبَادَتِکَ أَتَمَنّٰیْ عَلَیْکَ أَنْ تَرُدَّنِیْ إِلَی الدُّنْیَا فَأُقَاتِلُ مَعَ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَرَّۃً أُخْرٰی فَقَالَ سَبَقَ مِنِّیْ إِنَّکَ إِلَیْھَا لَاتَرْجِعُ) [ المستدرک علی الصحیحین : باب مناقب عبداللہ بن عمروحرام] ” حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جابر (رض) سے فرمایا جابر! کیا میں تجھے بشارت نہ دوں؟ انہوں نے عرض کی کیوں نہیں! اللہ آپ کو بہتری اور خیر کی بشارتعطا فرمائے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تجھے معلوم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے والد کو زندہ کرکے اپنے سامنے بٹھاکر فرمایا کہ میرے بندے مجھ سے مانگ ! میں تجھے عطا کروں۔ انہوں نے عرض کی : اے میرے پروردگار ! میں نے تیری عبادت کا حق ادا نہیں کیا میری عرض ہے کہ آپ مجھے دنیا میں بھیج دیں تاکہ میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ مل کر قتال کروں اور پھر تیری راہ میں شہید ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : میرا فیصلہ ہوچکا ہے کہ تودنیا میں دوبارہ نہیں جائے گا۔“ ” عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا جب تمہارے بھائی احد کے دن شہید کیے گئے تو اللہ نے ان کی روحوں کو سبز چڑیوں کے پوٹوں میں رکھ دیا وہ جنت کی نہروں پر پھرتی ہیں اور اس کے میوے کھاتی ہیں اور عرش کے سایہ میں سونے کی قندیلوں میں بسیرا اور ٹھکانہ کرتی ہیں جب ان کی روحوں کو کھانے، پینے اور سونے کی خوشی حاصل ہوئی، تو کہا کون ہے جو ہماری طرف سے ہمارے بھائیوں کو یہ خبر پہنچا دے کہ ہم جنت میں زندہ ہیں اور کھاتے پیتے ہیں تاکہ وہ بھی جنت کے حصول میں بے رغبتی نہ کریں اور قتال کے وقت سستی نہ دکھائیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا میں تمہاری خبر پہنچاؤں گا اس وقت اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی (جو لوگ اللہ کی راہ میں مارے گئے ان کو مردہ مت سمجھو بلکہ وہ زندہ ہیں اپنے رب کے پاس کھلائے، پلائے جاتے ہیں)۔“ [ رواہ ابوداؤد : کتاب الجہاد، باب فی فضل الشہادۃ] شہید کے گناہ معاف : (أَوَّلُ مَا یُہْرَاقُ مِنْ دَمٍ اَلشَّہِیْدُ یُغْفَرُ لَہٗ ذَنْبُہٗ کُلُّہٗ إِلَّا الدّیْنَ) [ صحیح الجامع : باب اول مایقضیٰ بین الناس یوم القیامۃ فی الدماء] ” شہید کے خون کے پہلے قطرہ سے قرض کے سوا سب گناہ معاف کردیے جاتے ہیں۔“ مسائل ١۔ صالح لوگوں کی ارواح کو جنت میں داخل کردیا جاتا ہے۔ ٢۔ شہادت کے وقت شہید کے گناہ معاف کردیئے جاتے ہیں۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ شہید اور صالح لوگوں کو اپنے نیک بندوں میں شامل فرماتا ہے۔ تفسیر بالقرآن صالح لوگوں کا صلہ : ١۔ اللہ تعالیٰ نے مومنوں اور مومنات سے ہمیشہ کی جنت اور اپنی رضا مندی کا وعدہ فرمایا ہے یہ بڑی کامیابی ہے۔ (التوبۃ: ٧٢، ٨٩، ١٠٠) ٢۔ اللہ تعالیٰ نے مومنین سے جنت کے بدلے ان کے مال و جان خرید لیے ہیں یہ بڑی کامیابی ہے۔ (التوبۃ: ١١١) ٣۔ اے اللہ نیک لوگوں کو برائی سے بچا جو برائی سے بچ گیا اس پر تیرا رحم ہوا یہ بڑی کامیابی ہے۔ (المومن : ٩) ٤۔ ان کا جہنم کے عذاب سے بچنا اللہ کے فضل سے ہوگا اور یہی کامیابی ہے۔ (الدّخان : ٥٧) ٥۔ اللہ تعالیٰ نیک لوگوں کو اپنی رحمت میں داخل کرے گا یہ واضح کامیابی ہے۔ (الجاثیۃ : ٣٠) ٦۔ مومنوں کے لیے ہمیشہ کی جنت ہے جس میں پاک صاف مکان ہیں یہ بڑی کامیابی ہے۔ (الصف : ١٢) يس
27 يس
28 فہم القرآن ربط کلام : عظیم مبلّغ کے عظیم اور بہترین انجام کے مقابلے میں قوم کا بد ترین انجام۔ اللہ تعالیٰ نے اس شہر کے رہنے والوں کو ایک چٹخار کے ذریعے اس طرح نیست و نابود کیا کہ دیکھنے والے کو اس کا نشان بھی دکھائی نہیں دیتا تھا۔ جونہی شہر والوں نے اس عظیم مبلّغ کو قتل کیا رب ذوالجلال کا فرمان ہے کہ ہم نے اس کی موت کے بعد اس شہر کو تباہی کے گھاٹ اتار دیا۔ اسے تباہ کرنے کے لیے ہم نے کوئی لشکر جرار نہیں بھیجا تھا کیونکہ ہمارا فیصلہ یہ تھا کہ انہیں تباہ کرنے کے لیے ملائکہ بھیجنے یا ان پر لشکر اتارنے کی ضرورت نہیں۔ انہیں تباہ کرنے کے لیے ایک خوفناک چیخ ہی کافی ہے۔ لہٰذا انہیں ایک دھماکہ خیز چٹخار نے خاکستر بنا دیا۔ ایسا اس لیے کیا گیا تاکہ اللہ کے باغیوں اور نافرمانوں کو معلوم ہوجائے کہ انہیں تباہ کرنے کے لیے چٹخار ہی کافی ہے۔ مسائل ١۔ کسی قوم کو تباہ کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ کا حکم ہی کافی ہوتا ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ کے غضب کی ایک چٹخار نے اس بستی کو بے نام و نشان کردیا۔ يس
29 يس
30 فہم القرآن ربط کلام : تباہ ہونے والی اقوام کا انبیائے کرام (علیہ السلام) کے ساتھ سلوک اور ان کا انجام۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ ” اَرْحَمَ الرّٰحِمِیْن“ ہے اس لیے اپنے بندوں کو باربار موقعہ اور مہلت دیتا ہے کہ وہ بغاوت اور سرکشی سے باز آجائیں لیکن جب کوئی قوم اور لوگ تمرد اور سرکشی کی انتہا کردیتے ہیں تو پھر زمین کا نظام چلانے اور اسے متوازن رکھنے کے لیے اللہ تعالیٰ اس قوم کو صفحۂ ہستی سے مٹا دیتا ہے۔ جس میں ایک طرف ظالموں کو کیفرِکردار تک پہنچانا مطلوب ہوتا ہے اور دوسری طرف حق والوں اور مظلوموں کی مدد کرنا مقصود ہوتی ہے۔ لیکن اس کے باوجود اللہ تعالیٰ اپنی شفقت کا اظہار کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے کہ ظالموں پر افسوس ! کہ وہ اپنے سے پہلی اقوام کا انجام دیکھنے اور اس سے عبرت حاصل کرنے کی بجائے اپنی تباہی کو ترجیح دیتے ہیں۔ ان کے پاس جب کبھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے رسول آیاتو انہوں نے اس کی دعوت پر غور کرنے کی بجائے اسے استہزا کانشانہ بنایا جس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو ذلت کی موت مارا اور قیامت کے دن انہیں اللہ تعالیٰ کے حضور پیش ہونا ہوگا۔ جب یہ لوگ اپنے رب کے حضور پیش کیے جائیں گے تو اس وقت افسوس کا اظہار کریں گے کہ ہم تو سمجھتے تھے کہ ہم مر کر مٹی کے ساتھ مٹی ہوجائیں گے لیکن آج ہمیں اپنے اپنے اعمال نامے کے ساتھ رب ذوالجلال کے سامنے پیش کردیا گیا ہے۔ اس پر وہ اپنے ہاتھ کاٹیں گے اور حسرت کا اظہار کریں گے کہ کا ش! ہم انبیائے کرام (علیہ السلام) کی دعوت کو قبول کرتے اور اس انجام سے بچ جاتے۔ قیامت کے دن آپ دیکھیں گے کہ ہر امت گھٹنوں کے بل گھڑی ہوگی اور ہر امت کو اس کی کتاب کی طرف بلایا جائے گا۔ (الجاثیہ : ٢٨) جس دن صور پھونکا جائے گا اور ہم اکٹھا کریں گے اس دن آنکھیں پیلی ہوچکی ہوں گی۔ ( طٰہٰ: ١٠٢) ” اس دن آسمان کو چیرتا ہوا ایک بادل ظاہر ہوگا اور فرشتے گروہ درگروہ اتاردیے جائیں گے۔ اس دن حقیقی بادشا ہی صرف الرّحمان کی ہوگی وہ دن منکرین کے لیے بڑاسخت ہوگا۔ ظالم انسان اپنے ہاتھ کاٹے گا اور کہے گا کاش میں نے رسول کا راستہ اختیار کیا ہوتا ہائے میری کم بختی۔ کاش میں نے فلاں شخص کو دوست نہ بنایا ہوتا۔“ (الفرقان : ٢٥، ٢٨) ” جس دن روح القدس اور فرشتے صف باندھ کر کھڑے ہوں گے کوئی بات تک نہ کرسکے گا مگر جس کو الرّحمن اجازت دے گا اور وہ ٹھیک ٹھیک بات کہے گا۔ یہی وہ دن ہے جس کا آنا برحق ہے پھر جس کا جی چاہے وہ اپنے مالک کے پاس ٹھکانہ بنا لے۔ ہم نے تم کو اس عذاب سے ڈرایا ہے جو نزدیک ہے جس دن آدمی اپنے کیے ہوئے اعمال کو دیکھے گا اور کافر کہے گا کاش! میں مٹی بنا رہتا۔“ (النبا : ٣٨ تا ٤٠) مسائل ١۔ بے شمار اقوام نے اپنے انبیائے کرام (علیہ السلام) کو تضحیک کا نشانہ بنایا۔ ٢۔ انبیاء ( علیہ السلام) کو تضحیک کا نشانہ بنانے والوں کا بدترین انجام ہوا۔ ٣۔ نیک و بد نے بالآخر اللہ تعالیٰ کے حضور پیش ہونا ہے۔ تفسیر بالقرآن بڑی بڑی اقوام کی تباہی : ١۔ ہم نے ان سے پہلے کئی بستیوں کو ہلاک کیا جو ٹھاٹھ باٹھ میں بہت آگے تھے۔ (مریم : ٧٤) ٢۔ ہم نے ان سے پہلے کئی امتیں ہلاک کر ڈالیں، جو قوت میں مکہ والوں سے بڑھ کر تھیں۔ (ق : ٣٦) ٣۔ کیا وہ نہیں جانتے کہ اللہ نے ان سے پہلے بستیوں والوں کو ہلاک کیا۔ (القصص : ٧٨) ٤۔ اللہ تعالیٰ نے بہت سی اقوام کو تباہ کیا۔ (الانعام : ٦) ٥۔ قوم لوط کو آسمان کے قریب لے جاکر الٹا دیا گیا۔ ( ھود : ٨٢) ٦۔ جب تم سے پہلے لوگوں نے ظلم کیا تو ہم نے ان کو تباہ کردیا۔ (یونس : ١٣) ٧۔ فاسق ہلاک کردیے گئے۔ (الاحقاف : ٣٥) ٨۔ قوم نوح سیلاب کے ذریعے ہلاک ہوئی۔ (الاعراف : ١٣٦) ٩۔ قوم نوح کی ہلاکت کا سبب بتوں کی پرستش تھی۔ (نوح : ٢٣) ١٠۔ قوم لوط کی تباہی کا سبب اغلام بازی کرنا تھی۔ (الاعراف : ٨١) ١١۔ شعیب (علیہ السلام) کی قوم کی تباہی کا سبب ماپ تول میں کمی تھی۔ (ھود : ٨٤، ٨٥) يس
31 يس
32 يس
33 فہم القرآن ربط کلام : ہلاک ہونے والے باغیوں اور نافرمانوں کا خیال تھا کہ مرنے کے بعد ہمیں کوئی اٹھا نہیں سکے گا۔ لہٰذا مارنے کے بعد اٹھا لینے کی دلائل اور مشاہدات پیش کیے جاتے ہیں۔ انسان! اللہ تعالیٰ کا تابع فرمان ہو یا نافرمان ہر کوئی اسی زمین پر رہتا اور مرتا ہے۔ موت کے بعد زندہ ہونے کی مثال زمین اور لیل و نہار سے پیش کی جاتی ہے۔ جس کا ہر شخص صبح و شام زندگی بھر مشاہدہ کرتا ہے۔ زمین پر غور فرمائیں تو بظاہر یہ بے جان دکھائی دیتی ہے۔ دیکھنے میں اس میں کوئی حِس و حرکت دکھائی نہیں دیتی۔ لیکن اللہ تعالیٰ اسے نہ صرف بارش سے زندہ کرتا ہے بلکہ اَن گنت مخلوق کی زندگی کا سبب بھی بنا دیتا ہے۔ بارش سے پہلے زمین مردہ ہوتی ہے۔ جوں ہی یہ سیراب ہوتی ہے تو اپنے پیٹ میں چھپائے ہوئے بیج کو اس طرح اپنے سینے پر سجا لیتی ہے کہ جس کا اس سے پہلے تصور کرنا محال تھا۔ خاص طور پر ویران زمین پر غور کریں کہ بارش سے پہلے آدمی سوچتا ہے کہ یہ زمین بھی سر سبزو شاداب ہوسکے گی لیکن جوں ہی بارش ہوتی ہے تو اس طرح سبزہ اگاتی ہے کہ دیکھنے والا ” اللہ“ کی قدرت پر عش عش کر اٹھتا ہے۔ بالخصوص ایک زمیندار کو اس پر ضرور غور کرنا چاہیے کہ کس طرح وہ زمین میں دانہ ڈالتا ہے اور اس کے سامنے کس طرح بیج اگتا، پودا بنتا اور پھل دیتا ہے۔ پھر یہ بھی اللہ تعالیٰ کی قدرت کا کرشمہ ہے کہ زمین، پانی، فضا اور ہوا ایک ہی ہوتی ہے لیکن ہر بیج اپنی جوہری صلاحیت کی بنیاد پر اگتا، پرورش پاتا اور پھل دیتا ہے۔ جس کے لیے چار چیزوں کا قدرت کاملہ نے اہتمام کیا ہے جو کسی زرعی سائنسدان اور حکمران کے بس کی بات نہیں۔1۔ زمین کو ایک خاص حد تک نرم رکھنا۔ یہاں تک کہ پہاڑ کے سینے میں بھی یہ نرمی رکھی گئی ہے کہ وہ بیج کو اگائے جس کا مشاہدہ ہم پہاڑوں پر اگنے والے بلندو بالا اور سرسبزو شاداب درختوں کی صورت میں کرتے ہیں۔2۔ بارش، شبنم، چشموں اور ندی نالوں کے ذریعے زمین کو سیراب کرنا اور اس میں پانی جذب کرنے کی صلاحیت پیدا کرنا۔ 3۔ ہوا میں ایک مخصوص مقدار میں نمی قائم رکھنا اور ہوا کے ذریعے نردرختوں کے جرثوموں کو مادہ درختوں تک پہنچانا اور پھر اسے ہائیڈروجن مہیا کرنا۔ 4۔ سورج کے ذریعے زمین میں پڑے ہوئے بیج کو ایک خاص مقدار سے حرارت دینا اور فصلوں، پودوں اور درختوں تک سورج کی توانائی کو پہنچانا۔ اس سارے نظام میں اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کا عمل دخل نہیں۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے انسانوں، چوپاؤں، جانوروں اور کیڑے مکوڑوں کی روزی کا بندوبست فرمایا ہے۔ اس نظام پر انسان معمولی سا بھی غور کرے تو اسے توحید باری تعالیٰ کی سمجھ آسکتی ہے۔ اس حیرت انگیز انتظام پر جو شخص بھی غور کرے گا بشرطیکہ وہ ہٹ دھرمی اور تعصّب میں مبتلا نہیں تو اس کا دل گواہی دے گا کہ یہ سب کچھ آپ سے آپ نہیں ہوسکتا۔ اس میں صریح طور پر ایک حکیمانہ منصوبہ کام کررہا ہے جس کے تحت زمین، پانی، ہوا اور موسم کی مناسبتیں نباتات کے ساتھ اور نباتات کی مناسبتیں حیوانات اور انسانوں کی حاجات کے ساتھ، انتہائی نزاکتوں اور باریکیوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے قائم کی گئی ہیں۔ کوئی ہوش مند انسان یہ تصور نہیں کرسکتا کہ ایسی ہمہ گیر مناسبتیں محض حادثہ کے طور پر قائم ہوسکتی ہیں۔ پھر یہی انتظام اس بات پر بھی دلالت کرتا ہے کہ یہ بہت سے خداؤں کا کارنامہ نہیں ہوسکتا۔ یہ تو ایک ہی ایسے خدا کا انتظام ہے اور ہوسکتا ہے جو زمین، ہوا، پانی، سورج، نباتات، حیوانات اور نوع انسانی میں سے سب کا خالق و مالک ہے۔ ان میں سے ہر ایک کے خدا الگ الگ ہوتے تو کیسے تصور کیا جاسکتا ہے کہ ایک جامع، ہمہ گیر اور گہری حکیمانہ مناسبتیں رکھنے والا منصوبہ بن جاتا اور لاکھوں کروڑوں برس تک اتنی باقاعدگی سے چلتا رہتا۔ (تفہیم القرآن، سورۃ یٰسٓ ) توحید کے حق میں دلائل دینے کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :” اَفَلَا یَشْکُرُوْنَ“ کیا جس رب نے سب سامان ان کے لیے مہیا کیا ہے اس کے یہ شکرگزار نہیں ہوتے اور اس کی نعمتیں کھا کھا کر دوسروں کے شکریے ادا کرتے ہیں؟ اس کے آگے نہیں جھکتے اور ان معبودوں کے سامنے سجدہ ریز ہوتے ہیں جنہوں نے ایک تنکا بھی ان کے لیے نہیں پیدا کیا۔ مسائل ١۔ مردہ زمین کو زندہ کرنا صرف اللہ تعالیٰ کا کام ہے۔ ٢۔ اللہ ہی زمین کو زندہ کرنے والا اور اس سے اناج نکالنے والاہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ ہی زمین سے بیج اگاتا ہے : ١۔ بھلا دیکھو جو کچھ تم بوتے ہو کیا تم اسے اگاتے ہو یا ہم اگاتے ہیں۔ (الواقعۃ: ٦٣۔ ٦٤) ٢۔ اللہ تعالیٰ پانی سے تمہارے لیے کھیتی، زیتون، کھجور اور انگور اگاتا ہے۔ (النحل : ١١) ٣۔ اللہ تعالیٰ نے کھجوروں اور انگوروں کے باغات پیدا کیے۔ (المومنون : ١٩) ٤۔ اللہ تعالیٰ نے پانی سے ہر قسم کی نباتات کو پیدا کیا۔ (الانعام : ٩٩) ٥۔ اللہ نے باغات، کھجور کے درخت اور کھیتی پیدا کی جوذائقہ کے لحاظ سے مختلف ہیں۔ (الانعام : ١٤١) ٦۔ تمہارے لیے مسخر کیا نباتات کو زمین پر پھیلاکر، ان کی اقسام مختلف ہیں۔ (النحل : ١٣) يس
34 فہم القرآن ربط کلام : جو ذات زمین سے دانہ اگاتی ہے اسی ذات نے کھجوروں اور انگوروں کے باغ پیدا کیے ہیں۔ عرب میں کھجور اور انگور کے باغ کثرت سے پائے جاتے تھے۔ صحراء میں رہنے والے لوگ عام طور پر کھجور پر ہی گزارا کرتے تھے۔ متمدن لوگ کھجور اور انگور کو مختلف طریقوں کے ساتھ خوراک کے طور پر استعمال کرتے اور کھجور اور انگور سے کئی قسم کے مشروبات تیار کرتے اور اسی سے شراب بناتے تھے جسے اللہ تعالیٰ نے حرام قرار دیا ہے۔ جن لوگوں کو کھجور اور انگورکا مشترکہ باغ دیکھنے کا موقع ملاہے وہ جانتے ہیں کہ اس سے پُر کشش باغ کسی اور درخت کا نہیں ہوتا۔ خاص طور پر انگوروں اور کھجوروں کے جس باغ میں پانی کے چشمے جاری ہوں اس کی ہریالی اور خوبصورتی کا اَن دیکھے تصور کرنا محال ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے ایسے باغات اور چشموں کو اپنی قدرت کی نشانی کے طور پر پیش فرمایا ہے اور مشرکین کو اس حقیقت کی طرف توجہ دلائی ہے کہ اپنے رب کی قدرتوں کی طرف دیکھو کہ اس نے تمہارے لیے کس قسم کے باغات پیدا کیے تاکہ تم ان کے ثمرات سے لطف اندوز ہو سکو کیا پھر تم اپنے رب کا شکر ادا نہیں کرتے۔ نمک حرامی کی حد یہ ہے کہ مشرک اپنے رب کی نعمتیں کھاتا ہے لیکن اس کے سامنے جھکنے کی بجائے دوسروں کے سامنے جھکتا ہے جنہوں نے اس کے لیے ایک ذرہ بھی پیدا نہیں کیا۔ اللہ تعالیٰ ہر قسم کے شرک سے پاک ہے۔ اسی نے نباتات کو جوڑوں کی شکل میں پیدا کیا اور اسی نے انسانوں کے جوڑے بنائے۔ اس نے ان چیزوں کے جوڑے پیدا کیے ہیں جو لوگوں کے احاطۂ علم سے باہر ہیں۔ انسان شروع ہی سے صرف اپنے بارے میں جانتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مرد وزن کی شکل میں جوڑے پیدا کیے ہیں لیکن یہ حقیقت بہت کم لوگ جانتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے زمین سے اگنے والی ہر چیز کو ازواج کی شکل میں پیدا فرمایا ہے۔ عرب، کھجور کے بارے میں کسی حد تک علم رکھتے تھے کہ کھجور کی نسل میں نر اور مادہ پائے جاتے ہیں اس سے آگے نباتات کے بارے میں وہ کچھ نہیں جانتے تھے یہ حقیقت پہلی دفعہ قرآن مجید نے لوگوں کے سامنے آشکارا کی ہے کہ نباتات میں بھی ازواج ہوتے ہیں۔ ” زَوْجٌ“ کی جمع ” اَزْوَاجٌ“ ہے جس کا معنٰی جوڑا ہے یعنی نر اور مادہ، میٹھا اور پھیکا وغیرہ۔ لیکن یہاں صرف کھجور اور انگور کے بارے میں کچھ معلومات دی جاتی ہیں۔ کیونکہ ان کو دیگر پودوں پر ایک امتیاز اور برتری حاصل ہے۔ یوں تو تمام نباتات اور پودے خالق ارض و سماء کے پیدا کیے ہوئے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ نے ان پودوں کا اپنے کلام میں تذکرہ فرما کر ان پودوں کا نام ابد الآباد تک کلام الٰہی میں محفوظ کردیا گیا ہے۔ کھجور قرآنی نام : ١۔ نَخْل، نَخِیل، نَخْلَۃ دیگر نام : Date (انگریزی )، Datte (فرانسیسی)، Tamar-Tamarim (عبرانی )، کھجور (اردو، پنجابی، ہندی)، خرما (فارسی )، کھرجور (سنسکرت) کرجور و (کشمیری)۔ نباتاتی نام : (Phoenix dactylifera Linn. (Family: Palmae /Aracaceae ) قرآنی ارشادات کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے متعدد بار ان احسانوں اور مہربانیوں کا ذکر کیا ہے جو اس نے پھلوں کی صورت میں انسان پر کیے ہیں۔ جس پھل اور درخت کا حوالہ سب سے زیادہ دیا گیا ہے وہ کھجورہے۔ اس کا بیان مختلف الفاظ میں قرآن کریم میں بیس مرتبہ آیا ہے۔ سائنس دانوں کا خیال ہے کہ کھجور کی کاشت آٹھ ہزار سال قبل جنوبی عراق میں شروع ہوئی تھی۔ اس وقت دنیا میں کہیں بھی پھلدار پودوں کی کھیتی کا تصور تک نہ تھا۔ کھجور کا پھل انسان کے لیے بہترین غذا ہے۔ اس کی غذائیت کا اندازہ اس کے کیمیاوی اجزاء سے کیا جا سکتا ہے کیونکہ اس میں تقریباً ساٹھ فیصد Invert sugar اور Sucrose کے علاوہ اسٹارچ، پروٹین، Cellulose,pe ctin,Tannin اور چربی مختلف مقدار میں موجود ہیں۔ علاوہ ازیں اس میں وٹامن اے، وٹامن بی، وٹامن بی ٹو اور وٹامن سی بھی پائے جاتے ہیں۔ اس کے معدنیاتی اجزاء بھی بہت اہمیت کے حامل ہیں، یعنی یہ سوڈیم، کیلشیم، سلفر، کلورین، فاسفورس اور آئرن، سے بھرپور ہے۔ کھجور میں نر اور مادہ ہوتے ہیں۔ دونوں کے پھولوں کے ذریعہ (Cross Polination) ہوتا ہے۔ تب ہی مادہ پودوں میں پھل آتے ہیں۔ ایک نر درخت کے پھول ایک سو مادہ درختوں کے (Polination) کے لیے کافی سمجھے جاتے ہیں۔ (تفصیل کے دیکھیں الانعام : ١٤٧) انگور انگور کا شمار قدرت کی بہترین نعمتوں میں کیا جاتا ہے۔ اسی لیے قرآن حکیم میں اس کا ذکر ” عِنْبٌ“ اور ” اَعْنَابٌ“ (جمع) کے نام سے گیارہ آیات میں کیا گیا ہے۔ انگور فارسی کا لفظ ہے جس کا نباتاتی نام Vitis Vinifera ہے۔ کھجور کے بعد انگور کی تاریخ بھی پھلوں میں سب سے قدیم مانی جا سکتی ہے۔ انگور کی قسمیں آٹھ ہزار تک پہنچ چکی ہے۔ کیمیاوی طور سے انگور، گلوکوز اور فرکٹوزکا بہترین ذریعہ ہے جو اس میں پندرہ سے پچیس فیصد تک پائے جاتے ہیں اس کے سوا Tartaric acid اور Malic acid بھی خاصی مقدار میں ملتے ہیں۔ سوڈیم پوٹاشیم، کیلشیم اور آئرن کی قابل قدر مقدار اس میں موجود ہے جبکہ پروٹین اور چربی برائے نام ہے۔ اس میں ایک بہت اہم کمپاؤنڈ بھی دریافت ہوا ہے جس کو وٹامن ” پی“ (P) کہا گیا ہے۔ یہ کیمیاوی جز ذیابیطس سے پیدا شدہ خون کے بہنے کو روکتا ہے۔ جسم کے ورم اور نسوں کی سوجن کو کم کرتا ہے اور Athe rosclerosis کا مؤثر علاج ہے۔ کیمیاوی اجزاء کی بنا پر انگور ایک ایسا لاجواب ثمر ہے جو نہایت ہاضم ہونے کے ساتھ انتہائی فرحت بخش اور Demulcent ہے۔ خون کو صاف کرتا ہے اور جسم میں خون کی مقدار بڑھاتا ہے اور جسمانی کمزوری کو دور کرتا ہے۔ کچے انگور کا رس گلے کی خرابیوں میں مفید سمجھا جاتا ہے۔ اس کی پتیاں اسہال کو روکتی ہیں۔ اس کی بیلوں سے حاصل کیا گیا رس (Sap) جلدکی بیماریوں میں کام میں لایا جا سکتا ہے۔ انگوری سرکہ معدہ کی خرابیوں، ہیضہ اور قولنج کی اچھی دوا ہے۔ ( تفصیل کے لیے دیکھئے الانعام آیت ١٤١) يس
35 يس
36 يس
37 فہم القرآن ربط کلام : نباتات اور لوگوں کے اپنے نفوس سے اپنی قدرت کی نشاندہی کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے انسان کی توجہ آفاق کی نشانیوں کی طرف مبذول کروائی ہے۔ انسان ہی نہیں دنیا میں بسنے والی ہر چیز کی زندگی، رات اور دن کے حساب سے شمار کی جاتی ہے۔ ہر ذی روح اور ہر چیز پر رات اور دن کے مثبت اور منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ دن کی روشنی اور اس کی تپش کے اپنے اثرات اور فوائد ہیں۔ رات کی تاریکی اور اس کی نم ناکی کے اپنے نتائج ہیں جو ہر متحرک اور غیر متحرک چیز پر اثرانداز ہوتے ہیں۔ رات اور دن میں سب سے بڑی ” اللہ“ کی قدرت کی نشانی یہ ہے کہ رات کی تاریکی ہر چیز کو اپنے دامن میں چھپا لیتی ہے۔ ہر ذی روح نیند کی آغوش میں چلا جاتا ہے اور صبح طلوع ہونے پر اپنی سرگرمیوں میں مصروف ہوجاتا ہے یہی انسان کی موت وحیات کا معاملہ ہے۔ جس طرح ہر ذی روح نیند کے بعد اپنے آپ بیدار ہوجاتا ہے اسی طرح ہی قیامت کے دن صور پھونکنے پر ہر کوئی اپنے اپنے مدفن سے نکل کھڑا ہوگا۔ اللہ تعالیٰ کی عظیم نشانیوں میں سورج اور چاند ایسی نشانیاں ہیں جس کی کائنات میں کوئی نظیر موجود نہیں۔ سورج کی وجہ سے رات دن تبدیل ہوتے ہیں اور چاند رات کے ساتھ منسلک کردیا گیا ہے۔ رات کو پوری طرح تاریک رکھنے کے لیے چاند اپنے مدار کے اس حصہ میں داخل ہوجاتا ہے جہاں اس کی روشنی زمین کے حصہ سے غائب ہوجاتی ہے بالآخر چاند کھجور کی سوکھی ہوئی لکڑی کی طرح ٹیڑھا دکھائی دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سورج اور چاند کے مدار قائم کر رکھے ہیں جو اپنی اپنی منازل طے کرتے ہوئے طلوع اور غروب کے عمل سے دوچار ہوتے ہیں۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ سورج چاند کے مدار میں داخل ہوجائے یا چاند سورج کو پالے۔ نامعلوم کتنی صدیاں بیت چکیں لیکن چاند اور سورج، رات اور دن ایک دوسرے سے سبقت نہیں کرسکے اور نہ ہی کبھی ایسا ہوگا۔ یہاں سورج کے بارے میں ارشاد ہوا کہ یہ چاند کو نہیں پاسکتا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ چاند سورج کے آگے آگے چلتا ہے کیونکہ رات پہلے ہوتی ہے اور دن رات کے بعد نمودار ہوتا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا مقرر کیا ہوا تقویمی حساب ہے جوقیامت تک اسی طرح جاری اور ساری رہے گا لیکن جب اللہ تعالیٰ کا حکم صادر ہوگا تو چاند بے نور ہو کر گر پڑے گا اور سورج اپنی جگہ پر تھم جائے گا۔ چاند اور سورج کے آنے جانے، رات اور دن کی آمدروفت میں انسان کے لیے ایک ایسا سبق ہے جس سے انسان اپنی موت اور زندگی کے بارے میں سوچ سکتا ہے کہ اسی طرح ہی ایک وقت آئے گا کہ میری زندگی کے سورج نے غروب ہونا ہے اور قیامت کے دن مجھے زندہ کیا جائے گا۔ یہاں سورج کے لیے ” مُسْتَقَرٌّ“ کا لفظ استعمال ہوا ہے اہل علم نے اس کے دو مفہوم اخذ کیے ہیں۔ ایک جماعت کا خیال ہے کہ مستقر سے مراد وہ جائے استقرار ہے جہاں پہنچ کر سورج دنیا کے ایک حصہ سے اوجھل ہوجاتا ہے اور اس عمل کو سورج کا سجدہ قرار دیا گیا ہے۔ دوسری جماعت کا خیال ہے کہ مستقر سے مراد وہ مقام ہے جہاں قیامت کے دن سورج کو رک جانے کا حکم ہوگا۔ رات کے بارے میں فرمایا کہ ہم اس سے دن ہٹا دیتے تو اندھیرہ چھا جاتا ہے۔ غور فرمائیں کہ اگر دن آدھی رات کے وقت نکل آئے تو لوگوں اور درندوں، پرندوں کی کیا حالت ہوگی۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے لیل ونہار کا ایسا نظام ترتیب دیا ہے کہ دونوں اپنے اپنے وقت کے مطابق آتے جاتے ہیں کبھی اس نظام میں خلل واقع نہیں ہوا۔ (عَنْ اَبِیْ ذَرٍّ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حِیْنَ غَرَبَتِ الشَّمْسُ اَتَدْرِیْ اَیْنَ تَذْھَبُ ھٰذِہٖ قُلْتُ اَللّٰہُ وَرَسُوْلُہٗٓ اَعْلَمُ قَالَ فَاِنَّھَا تَذْھََبُ حَتّٰی تَسْجُدَتَحْتَ الْعَرْشِ فَتَسْتَاْذِنُ فَیُؤْذَنُ لَھَا وَیُوْشِکُ اَنْ تَسْجُدَوَلَاتُقْبَلُ مِنْھَا وَتَسْتَأْذِنُ فَلَا یُوؤذَنُ لَھَا وَیُقَالُ لَھَآ اِرْجِعِیْ مِنْ حَیْثُ جِءْتِ فَتَطْلُعُ مِنْ مَّغْرِبِھَا فَذَالِکَ قَوْلُہٗ وَالشَّمْسُ تَجْرِیْ لِمُسْتَقَرٍّلَّھَا قَالَ مُسْتَقَرُّھَا تَحْتَ الْعَرْشِ) [ رواہ البخاری : باب صِفَۃِ الشَّمْسِ وَالْقَمَرِ ] ” حضرت ابوذر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کیا تجھے معلوم ہے جب سورج غروب ہوتا ہے تو کہاں جاتا ہے؟ میں نے کہا‘ اللہ اور اس کے رسول کو علم ہے۔ آپ نے فرمایا سورج عرش کے نیچے جاکر سجدہ کرتا ہے اور اجازت طلب کرتا ہے۔ اسے اجازت مل جاتی ہے قریب ہے کہ وہ سجدہ کرے اور اس کا سجدہ قبول نہ ہو وہ طلوع ہونے کی اجازت طلب کرے گا مگر اسے اجازت نہ ملے۔ اسے حکم ہوگا جدھر سے آیا اسی طرف سے طلوع ہوجا۔ چنانچہ سورج مغرب کی طرف سے طلوع ہوگا۔ یہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے سورج اپنے مستقر کی طرف چلا جاتا ہے آپ نے فرمایا اس کا ٹھکانا عرش کے نیچے ہے۔‘ ‘ سورج اور چاند کا انجام : ” حضرت ابو سلمہ (رض) فرماتے ہیں کہ ہمیں ابوہریرہ (رض) نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کیا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا قیامت کے دن سورج اور چاند کو اکٹھا جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔ حسن (رح) نے پوچھا ان کا جرم کیا ہے ؟ انہوں نے جواب دیا میں تمہیں نبی (رض) کی حدیث سنا رہا ہوں ابو سلمہ کی بات سن کر حسن خاموش ہوگئے۔“ [ الابانۃ الکبریٰ لابن بطۃ : باب ذکر ما جاءت بہ السنۃ من طاعۃ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ] مسائل ١۔ رات اور دن کے آنے جانے میں انسان کے لیے ہدایت کا عظیم سبق ہے۔ ٢۔ چاند اور سورج اپنے اپنے مدار میں رواں دواں ہیں۔ ٣۔ سورج اور چاند ایک دوسرے کو نہیں پا سکتے۔ ٤۔ نہ رات دن پر سبقت کرسکتی ہے اور نہ دن رات سے آگے نکل سکتا ہے۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ نے چاند کے لیے منازل اور سورج کے لیے ایک مستقر قائم کیا ہے۔ تفسیر بالقرآن لیل و نہار کا آنا جانا : ١۔ رات دن ایک دوسرے کے پیچھے آنے والے ہیں۔ (الاعراف : ٥٤) ٢۔ رات دن کو اور دن رات کو ڈھانپ لیتا ہے۔ (الزمر : ٥) ٣۔ رات اور دن کا بڑھنا، گھٹنا۔ (الحدید : ٦) ٤۔ رات آرام اور دن کام کے لیے ہے۔ (الفرقان : ٤٧) ٥۔ رات کے سکون پر غور کرنے کی دعوت۔ (القصص : ٧٢) ٦۔ دن رات کے بدلنے میں غور و خوض کی دعوت۔ (المومنون : ٨٠) يس
38 يس
39 يس
40 يس
41 فہم القرآن ربط کلام : آفاق کی نشانیاں پیش کرنے کے بعد بحری نشانی کی طرف توجہ مبذول کروائی گئی ہے۔ دنیا میں بے شمار لوگ موجود رہے ہیں اور رہیں گے جو آمدروفت اور تجارت کی غرض سے بحری سفر اختیار کرتے ہیں۔ بحری سفر کرنے والے لوگوں کی حالت یہ ہے کہ جب وہ بھنور میں پھنستے ہیں تو صرف اور صرف ایک ” اللہ“ کو صدائیں دیتے ہیں۔ لیکن ساحل سمندر پر پہنچ کر شر کیہ کلمات ادا کرتے ہیں۔ کوئی خضر (علیہ السلام) کو نجات دہندہ قرار دیتا ہے اور کوئی بہاول حق کا نام لیتا ہے۔ یہاں نوح (علیہ السلام) کی کشتی کا اشارتاً ذکر فرما کر مشرکوں کے سامنے یہ حقیقت واضح کی ہے کہ قوم نوح (علیہ السلام) کی طرف دیکھیے جو ود، سواع، یغوث، یعوق اور نسر کو حاجت روا اور مشکل کشا سمجھتے تھے اور ان کے سامنے سجدہ ریز ہوتے اور نذرانے پیش کرتے تھے۔ جب ان کا واسطہ ایسے طوفان کے ساتھ پڑا جس کی لہریں بلندو بالا پہاڑوں کی چوٹیوں کے ساتھ ٹکرا رہی تھیں، اوپر سے موسلا دھار بارش برس رہی تھی اور نیچے سے زمین سے چشمے جاری تھے۔ ایک طرف مشرک ڈبکیاں لے رہے تھے اور دوسری طرف حضرت نوح (علیہ السلام) اور ان کے ساتھی کشتی پر بیٹھے ہوئے اپنی قوم کا انجام دیکھ رہے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے نوح (علیہ السلام) کی کشی کے ذریعے مومنوں کو نجات دی اور مشرکوں کو ڈبکیاں دے دے کر ذلت آمیز موت کے منہ دھکیل دیا۔ نہ صرف حضرت نوح (علیہ السلام) اور ان کی روحانی اولاد کو طوفان باد و باراں سے نجات بخشی بلکہ لوگوں کو کشتی بانی کے ہنر سے بھی سرفراز فرمایا۔ اس کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے انسان کو یہ سمجھ بھی عطا فرمائی کہ وہ نقل و حمل کے لیے دیگر ذرائع اختیار کرے جس میں ہر دور کے ذرائع شامل ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی عطاکردہ فہم کا نتیجہ ہے کہ انسان نے اپنی زبان سے نکلی ہوئی آواز سے زیادہ تیز رفتار جہاز تیار کرلیے ہیں۔ نہ معلوم کہ قیامت تک مزید کون کون سی تیز رفتار سواریاں معرض وجود میں آئیں گی۔ ذرائع آمدروفت کی نئی نئی ایجادات کا اشارہ دے کر ایک دفعہ پھر بحری سفر کرنے والوں کو یہ حقیقت باور کروائی ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ انہیں غرق کرنے پر آجائے تو زمین آسمان میں کوئی ایسی طاقت نہیں جو ڈوبنے والوں کو بچا سکے۔ پھر بھی مشرک شرک کرنے سے باز نہیں آتے لیکن اس کے باوجود اللہ تعالیٰ لوگوں کو مہلت دیئے جاتا ہے۔ بھری ہوئی کشتی سے مراد حضرت نوح (علیہ السلام) کی کشتی ہے جس میں نوح (علیہ السلام) اور آپ کے ساتھی سوار تھے۔ کیونکہ ان کے سوا باقی لوگوں کو غرق کردیا گیا تھا۔ اس لیے بعد کے لوگ انہی کی اولاد میں سے ہیں جن کے لیے ” ذُرِّیَّتَھُمْ“ کا لفظ بولا گیا ہے۔ اس کا یہ مفہوم لینے کی بھی گنجائش ہے کہ حضرت نوح (علیہ السلام) پر ایمان لانے والوں میں نوجوان نسل سے تعلق رکھنے والے حضرات زیادہ تھے جس بنا پر ” ذُرِّیَّتَھُمْ“ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح (علیہ السلام) اور ان کے ساتھیوں کو طوفان سے نجات بخشی۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو نقل و حمل کے لیے بہترین سواریاں بنانے کی صلاحیت عطا فرمائی۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ چاہے تو مشرکوں کو سمندر میں غرق کر دے لیکن وہ اپنی رحمت سے لوگوں کو نجات اور مہلت دیتا ہے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ کسی کو غرقاب کرنا چاہے تو زمین و آسمان میں اسے کوئی بچا نہیں سکتا۔ تفسیر بالقرآن قرآن مجید میں کشتیوں کا تذکرہ : ١۔ اللہ تعالیٰ نے نہروں اور کشتیوں کو مسخر فرمایا۔ (ابراہیم : ٣٢) ٢۔ کشتیوں کا غرق ہونے سے بچنا اللہ کی رحمت کا نتیجہ ہے۔ (یٰس : ٤٤) ٣۔ جب وہ کشتیوں میں سوار ہوتے ہیں تو خالصتاً اللہ کو پکارتے ہیں۔ (العنکبوت : ٦٥) ٤۔ اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے زمین کی ہر چیز مسخر کردی، اور کشتیاں دریاؤں میں اسی کے حکم سے چلتی ہیں۔ (الحج : ٦٥) ٥۔ کیا تم نہیں دیکھتے کہ کشتیاں سمندروں میں اللہ کے فضل سے چلتی ہیں۔ (لقمان : ٣١) ٦۔ اللہ وہ ذات ہے جس نے تمہارے لیے دریاؤں کو مسخر کردیا تاکہ کشتیاں اس کے حکم سے رواں دواں ہوں۔ (الجاثیہ : ١٢) يس
42 يس
43 يس
44 يس
45 فہم القرآن ربط کلام : لوگوں کو مہلت پر مہلت دینے کا مقصد یہ ہے کہ لوگ اپنے اعمال کی درستگی کرلیں۔ مگر پھر بھی لوگ اعراض ہی کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ مشرکین کو اپنی قدرتیں بتلا اور دکھلا کر باربار سدھرنے کا موقع دیتا ہے مگر ان کی حالت یہ ہے کہ جونہی انہیں سمجھانے والا یہ بات سمجھاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور شرک سے باز آجاؤ۔ ورنہ جو کچھ تم اپنے آگے بھیج رہے ہو اور جو کچھ چھوڑ جاؤ گے وہ تمہاری ذلت و رسوائی کا سبب بنے گا لیکن مشرک اور نافرمان لوگ اپنے رب سے ڈرنے کی بجائے اس کی طرف سے دئیے جانے والے دلائل سے اعراض کرتے ہیں۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ یہ لوگ اللہ تعالیٰ کی مہربانی کے مستحق قرار پانے کی بجائے اس کے غضب کے سزاوار ہورہے ہیں۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر مہربان ہے اور مہربانی فرمانا چاہتا ہے۔ مسائل ١۔ مشرک اور نافرمان لوگ اپنے انجام سے نہیں ڈرتے۔ ٢۔ انسان جو کچھ اپنے آگے بھیجے گا اور جو کچھ پیچھے چھوڑے گا اس کا اچھا یا برا انجام دیکھ لے گا۔ ٣۔ مشرک اور نافرمان لوگ کسی دلیل سے قائل ہونے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ يس
46 يس
47 فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ کی نشانیوں سے اعراض کرنے والوں کا انفاق فی سبیل اللہ کے بارے میں رویہ۔ جب کوئی شخص اللہ تعالیٰ کے احکام اور اس کی قدرت کی نشانیوں سے اعراض کرنے کا رویہ اختیار کرلے تو وہ اس بات کو فراموش کردیتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو مجھے رزق عطا فرمایا ہے۔ اس میں کسی غریب کا حق بھی پایا جاتا ہے۔ دنیادار مال کی محبت میں اس حد تک مبتلاہوجاتا ہے کہ اگر اسے انفاق فی سبیل اللہ کی تلقین کی جائے تو وہ کسی غریب پر خرچ کرنے کی بجائے یہ کہتا ہے کہ میں اسے کیوں دوں؟ جسے اللہ نے کچھ نہیں دیا۔ اگر اللہ تعالیٰ کو اس کی تونگری منظور ہوتی تو وہ خود اسے رزق کی فروانی سے ہمکنار کرتا۔ جب اللہ تعالیٰ نے اسے کشادگی سے ہمکنار کرنا ٹھیک نہیں سمجھا تو ہم اس کی امداد کیوں کریں؟ کسی شخص کا ایسا سوچنا اور کہنا اس کی پرلے درجے کی گمراہی ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے دنیا کا نظام چلانے اور لوگوں کو ایک دوسرے کے قریب رکھنے کے لیے انہیں ایک دوسرے کا ضرورت مند بنایا ہے اس کا فرمان ہے۔ (اَہُمْ یَقْسِمُوْنَ رَحْمَۃَ رَبِّکَ نَحْنُ قَسَمْنَا بَیْنَہُمْ مَعِیْشَتَہُمْ فِی الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا وَرَفَعْنَا بَعْضَہُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجَاتٍ لِیَتَّخِذَ بَعْضُہُمْ بَعْضًا سُخْرِیًّا وَرَحْمَۃُ رَبِّکَ خَیْرٌ مِّمَّا یَجْمَعُوْنَ) [ الزخرف : ٣٢] ” کیا تیرے رب کی رحمت یہ لوگ تقسیم کرتے ہیں؟ دنیا کی زندگی کے لیے وسائل ہم نے ان کے درمیان تقسیم کیے ہیں۔ اور ان میں بعض کو بعض پر ہم نے برتری دی ہے۔ تاکہ یہ ایک دوسرے سے خدمت لیں اور جو وہ سمیٹ رہے ہیں تیرے رب کی رحمت اس سے زیادہ قیمتی ہے۔“ (عَنْ مُصْعَبِ بْنِ سَعْدٍ قَالَ۔۔، فَقَال النَّبِی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہَلْ تُنْصَرُونَ وَتُرْزَقُونَ إِلاَّ بِضُعَفَاءِکُمْ)[ رواہ البخاری : باب مَنِ اسْتَعَان بالضُّعَفَاءِ وَالصَّالِحِینَ فِی الْحَرْبِ] ” حضرت مصعب بن عمیر (رض) بیان کرتے ہیں۔۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تمہاری مدد اور تمہیں رزق تمہارے کمزوروں کی وجہ سے دیا جاتا ہے۔“ يس
48 فہم القرآن ربط کلام : بخیل اور گمراہ شخص آخرت کے بارے میں شک کرتا ہے۔ مال کی محبت ایک حد سے آگے بڑھ جائے تو انسان میں بخل پیدا ہوجاتا ہے۔ بخیل انسان عملاً قیامت کا منکر ہوتا ہے مکہ کے اکثر سردار قیامت کے منکر تھے جس وجہ سے وہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بار بار سوال کرتے کہ جس قیامت کا ہمارے ساتھ وعدہ کیا جاتا ہے وہ وعدہ کب پورا ہوگا ؟ اگر تم سچے ہو تو اس وعدے کے بارے میں بتلاؤ کہ وہ کون سے سال، کس مہینے اور کس دن پورا ہوگا؟ سورۃ الاعراف کی آیت ١٨٧ میں کفار کے اس سوال کا یہ جواب دیا ہے کہ یہ آپ سے قیامت کے بارے میں سوال کرتے ہیں کہ کب نازل ہوگی؟ ان سے فرمائیں! اس کا علم میرے رب کے پاس ہے۔ وہ اپنے وقت پر ہر صورت برپا ہوگی۔ البتہ یاد رکھو کہ جب برپا ہوگی تو اچانک آجائے گی اور وہ زمین و آسمان پر اس طرح بھاری ہوگی کہ وہ اس کے وارد ہونے کا بوجھ برداشت نہیں کرسکیں گے۔ اس مقام پر کفار کے سوال کا صرف اتنا جواب دیا ہے کہ جب قیامت کا پہلا نفخہ پھونکا جائے گا تو اس قدر اچانک ہوگا کہ تم آپس میں دنیا کے معاملات میں بحث وتکرار کررہے ہو گے تو قیامت برپا ہوجائے گی۔ کسی شخص کو اپنی اولاد کو وصیت کرنے کا موقعہ نہیں مل سکے گا اور اپنے گھر سے باہر ہونے والا شخص اپنے گھر نہ پلٹ سکے گا تو قیامت اسے دبوچ لے گی۔ ہر انسان کی فطری کمزوری اور خواہش ہوتی ہے کہ اسے گھر میں موت آئے اور وہ اپنی اولاد کو کوئی نہ کوئی نصیحت کرجائے۔ اگر گھر سے باہر ہو تو وہ مصیبت کے وقت جلد از جلد گھر پلٹنا چاہتا ہے۔ لیکن قیامت کے دن کسی کو کسی حال میں مہلت نہیں مل سکے گی۔ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ (رض) أَنَّ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ لاَ تَقُوم السَّاعَۃُ حَتَّی تَطْلُعَ الشَّمْسُ مِنْ مَغْرِبِہَا فَإِذَا طَلَعَتْ فَرَآہَا النَّاسُ آمَنُوا أَجْمَعُونَ، فَذَلِکَ حینَ لاَ یَنْفَعُ نَفْسًا إِیمَانُہَا، لَمْ تَکُنْ آمَنَتْ مِنْ قَبْلُ، أَوْ کَسَبَتْ فِی إِیمَانِہَا خَیْرًا، وَلَتَقُومَنَّ السَّاعَۃُ وَقَدْ نَشَرَ الرَّجُلاَنِ ثَوْبَہُمَا بَیْنَہُمَا فَلاَ یَتَبَایَعَانِہِ وَلاَ یَطْوِیَانِہِ، وَلَتَقُومَنَّ السَّاعَۃُ وَقَدِ انْصَرَفَ الرَّجُلُ بِلَبَنِ لِقْحَتِہِ فَلاَ یَطْعَمُہُ، وَلَتَقُومَنَّ السَّاعَۃُ وَہْوَ یَلِیطُ حَوْضَہُ فَلاَ یَسْقِی فیہِ، وَلَتَقُومَنَّ السَّاعَۃُ وَقَدْ رَفَعَ أُکْلَتَہُ إِلَی فیہِ فَلاَ یَطْعَمُہَا)[ رواہ البخاری : باب قَوْلِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بُعِثْتُ أَنَا وَالسَّاعَۃَ کَہَاتَیْنِ ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں آپ نے فرمایا قیامت قائم نہ ہوگی یہاں تک کہ سورج مغرب سے طلوع ہوجائے جب سورج مغرب سے طلوع ہوگا تو اسے دیکھ کرتمام کے تمام لوگ ایمان لے آئیں گے۔ لیکن اس وقت ان کو ایمان لانے کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا جو اس سے قبل ایمان نہ لایا اور نہ اس نے نیک اعمال کیے۔ دو آدمیوں نے کپڑا پھیلایا ہوگا دکاندار کپڑے کو بیچ اور سمیٹ نہیں پائے گا کہ قیامت قائم ہوجائے گی۔ دودھ دوہنے والادودھ پی نہیں سکے گا کہ قیامت قائم ہوجائے گی۔ حوض پروارد ہونے والا پانی نہیں پی سکے گا کہ قیامت قائم ہوجائے گی۔ انسان منہ میں ڈالا ہوا لقمہ کھا نہیں پائے گا کہ قیامت قائم ہوجائے گی۔ مسائل ١۔ منکرین حق قیامت برپا ہونے سے پہلے حق بات تسلیم نہیں کریں گے۔ ٢۔ قیامت کے دن کوئی شخص کسی کو وصیّت کرنے کی مہلت نہیں پائے گا۔ ٣۔ قیامت کے دن اپنے گھر سے باہر ہونے والا شخص گھر نہیں پلٹ سکے گا کہ قیامت کا زلزلہ اسے مار ڈالے گا۔ تفسیربالقرآن قیامت کا اچانک برپا ہونا اور اس کی ہولناکیاں : ١۔ جب زمین کو ہلا دیا جائے گا پوری طرح ہلا دینا۔ (الزلزال : ١) ٢۔ جب واقعہ ہوگی واقعہ ہونے والی۔ (الواقعۃ: ١) ٣۔ لوگو! اپنے رب سے ڈر جاؤ قیامت کا زلزلہ بہت سخت ہے۔ (الحج : ١) ٤۔ قیامت زمین و آسمانوں پر بھاری ہوگی۔ (الاعراف : ١٨٧) ٥۔ قیامت کے دن لوگ اڑتے ہوئے پروانوں کی طرح ہوں گے۔ (القارعۃ : ٤) ٦۔ قیامت کے دن پہاڑ اون کی طرح ہوں گے۔ (القارعۃ: ٥) ٧۔ زمین چٹیل میدان بنا دی جائے گی۔ ( الواقعہ : ٤) ٨۔ قیامت کے دن لوگ مدہوش ہونگے حالانکہ انہوں نے شراب نہیں پی ہوگی۔ ( الحج : ٢) يس
49 يس
50 يس
51 فہم القرآن ربط کلام : قیامت کے دن لوگ اپنی قبروں سے نکل کر محشر کے میدان کی طرف دوڑیں گے۔ دوسرے نفخہ کے بعد لوگ قبروں سے نکل کر محشر کے میدان کی طرف اس طرح جائیں گے جیسے شکاری شکار کی طرف دوڑتا ہے۔ اللہ کے باغی قبروں سے نکلتے ہی واویلا کریں گے۔ ہائے افسوس ! ہمیں کس نے قبروں سے نکال باہر کیا ہے۔ قیامت کی ہولناکیوں اور محشر کے میدان میں اکٹھے کیے جانے کا حال دیکھ کر انہیں یقین ہوجائے گا کہ یہی قیامت کا دن ہے جس کا ہمارے ساتھ ربِّ رحمن نے وعدہ کیا تھا اور جس کی پیغمبریاد دہانی کروایا کرتے تھے۔ جس قیامت کے بارے میں یہ لوگ جھگڑتے اور کہتے ہیں کہ یہ کبھی نہیں آئے گی وہ تو اسرافیل کی ایک پھونک کا نتیجہ ہوگی۔ اللہ تعالیٰ کے حکم سے جوں ہی اسرافیل صور میں پھونک ماریں گے تو زمین میں شدید ترین زلزلے ہوں گے یہاں تک کہ پھٹ جائے گی۔ ہر کوئی اپنے اپنے مدفن سے نکل کھڑا ہوگا اور سب کے سب ربِّ ذوالجلال کے حضور کھڑے ہوجائیں گے۔ لوگ پسینے سے شرابور ہوں گے اور اس طرح حواس باختہ ہوں گے جیسے انہوں نے نشہ کیا ہوا ہو۔ یہ حالت ان کی نشہ کی وجہ سے نہیں بلکہ محشر کی سختی اور ربِّ ذوالجلال کے جلال کی وجہ سے ہوگی۔ اس موقع پر اعلان ہوگا کہ آج کسی پر رائی کے دانے کے برابر ظلم نہیں ہوپائے گا۔ (عَنْ عَاءِشَۃَ (رض) قَالَتْ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَقُوْلُ یُحْشَرُالنَّا سُ یَوْمَ الْقِیاَمَۃِ حُفَاۃً عُرَاۃً غُرْلًا قُلْتُ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ اَلرِّجَالُ وَالنِّسَاءُ جَمِیْعًا یَنْظُرُ بَعْضُھُمْ اِلٰی بَعْضٍ فَقَالَ یَا عَاءِشَۃُ اَلْاَمْرُ اَشَدُّ مِنْ اَنْ یَّنْظُرَ بَعْضُھُمْ اِلٰی بَعْضٍ) [ رواہ البخاری : کتاب الرقاق، باب کَیْفَ الْحَشْر] يس
52 حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ میں نے رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ لوگ قیامت کے دن ننگے پاؤں‘ ننگے بدن اور بلا ختنہ اٹھائے جائیں گے۔ میں نے کہا اے اللہ کے رسول کیا مرد اور عورتیں اکٹھے ہوں گے وہ ایک دوسرے کی طرف نہ دیکھیں گے؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اس دن معاملہ اس کے برعکس ہوگا یعنی کوئی ایک دوسرے کی طرف نہیں دیکھ سکے۔“ (عَنْ حُذَیْفَۃَ بْنِ أَسِیدٍ عَنْ أَبِی ذَرٍّ قَالَ إِنَّ الصَّادِقَ الْمَصْدُوق (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حَدَّثَنِی أَنَّ النَّاسَ یُحْشَرُونَ ثَلاَثَۃَ أَفْوَاجٍ فَوْجٌ رَاکِبِینَ طَاعِمِینَ کَاسِینَ وَفَوْجٌ تَسْحَبُہُمُ الْمَلاَءِکَۃُ عَلَی وُجُوہِہِمْ وَتَحْشُرُہُمُ النَّارُ وَفَوْجٌ یَمْشُونَ وَیَسْعَوْنَ یُلْقِی اللَّہُ الآفَۃَ عَلَی الظَّہْرِ فَلاَ یَبْقَی حَتَّی إِنَّ الرَّجُلَ لَتَکُونُ لَہُ الْحَدِیقَۃُ یُعْطِیہَا بِذَاتِ الْقَتَبِ لاَ یَقْدِرُ عَلَیْہَا )[ رواہ النسائی : باب البعث] حضرت حذیفہ بن اسید حضرت ابوذر (رض) سے بیان کرتے ہیں بے شک کائنات میں سے سچے انسان نے مجھے خبر دی کہ قیامت کے دن لوگوں کو تین طریقوں سے جمع کیا جائیگا۔ ان میں سے ایک جماعت کے لوگ سوارہوں گے، بھوکے اور ننگے ہوں گے، اور تیسری جماعت کو فرشتے چہروں کے بل گھسیٹیں گے اور آگ ان کو اکٹھا کرے گی اور ایک جماعت بھاگ دوڑ میں مصروف ہوگی کہ اللہ تعالیٰ ان پر آفت مسلط فرمائیں گے اس سے کوئی بھی بچ نہیں پائے گا حتیٰ کہ ایک آدمی کا باغ ہوگا وہ اس باغ کو ایسی سواری کے بدلے دیدے گا جس پر اسے کچھ اختیار نہ ہوگا۔ ( عَنْ حُذَیْفَۃَ بْنِ أَسِیدٍ الْغِفَارِیِّ قَالَ کُنَّا قُعُودًا نَتَحَدَّثُ فِی ظِلِّ غُرْفَۃٍ لِرَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَذَکَرْنَا السَّاعَۃَ فَارْتَفَعَتْ أَصْوَاتُنَا فَقَالَ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لَنْ تَکُونَ أَوْ لَنْ تَقُوم السَّاعَۃُ حَتّٰی یَکُونَ قَبْلَہَا عَشْرُ آیَاتٍ طُلُوع الشَّمْسِ مِنْ مَغْرِبِہَا وَخُرُوج الدَّابَّۃِ وَخُرُوجُ یَأْجُوجَ وَمَأْجُوجَ وَالدَّجَّالُ وَعِیسَی ابْنُ مَرْیَمَ وَالدُّخَانُ وَثَلَاثَۃُ خُسُوفٍ خَسْفٌ بالْمَغْرِبِ وَخَسْفٌ بالْمَشْرِقِ وَخَسْفٌ بِجَزِیرَۃِ الْعَرَبِ وَآخِرُ ذٰلِکَ تَخْرُجُ نَارٌ مِنَ الْیَمَنِ مِنْ قَعْرِ عَدَنٍ تَسُوق النَّاسَ إِلَی الْمَحْشَرِ) [ رواہ ابوداؤد، کتاب الملاحم، باب أمارات الساعۃ] ” حضرت حذیفہ بن اسید غفاری (رض) بیان کرتے ہیں ہم نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حجرہ مبارک کے سائے میں بیٹھے باتیں کر رہے تھے دوران گفتگو ہم نے قیامت کا ذکر کیا اور بات چیت کے دوران ہماری آوازیں بلند ہوگئیں۔ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی جب تک اس سے پہلے دس نشانیاں نہ پوری ہوجائیں۔ سورج کا مغرب سے طلوع ہونا، دابہ جانور کا نکلنا، یاجوج و ماجوج کا ظاہر ہونا، دجال کا آنا، عیسیٰ ابن مریم [ کا نزول، دھواں کا ظاہرہونا اور زمین کا تین مرتبہ دھنسنا ایک مرتبہ مغرب میں، ایک مرتبہ مشرق میں اور ایک مرتبہ جزیرۃ العرب میں اور آخر میں آگ یمن سے عدن کی طرف رونما ہوگی جو لوگوں کو محشر کے میدان میں اکٹھا کرے گی۔“ مسائل ١۔ اسرافیل کے دوسری دفعہ صور پھونکنے پر لوگ اپنے اپنے مدفن سے اٹھ کھڑے ہوں گے۔ ٢۔ لوگ محشر کے میدان کی طرف دوڑے جارہے ہوں گے کوئی ادھر ادھر نہیں جا سکے گا۔ ٣۔ قبروں سے اٹھتے ہی ظالموں کو یقین ہوجائے گا کہ قیامت بر پا ہوچکی ہے۔ ٤۔ رب رحمن کی طرف سے اعلان ہوگا کہ آج کسی پر کچھ ظلم نہیں ہوگا۔ تفسیر بالقرآن صور کا پھونکا جانا : ١۔ پہلے نفخہ سے لوگ بے ہوش ہوجائیں گے۔ اور دوسرے نفخہ سے تمام لوگ اٹھ کھڑے ہوں گے۔ (الزّمر : ٦٢) ٢۔ دوسرے نفخہ کے ساتھ ہی تمام لوگ قبروں سے نکل کر اپنے رب کی طرف چل پڑیں گے۔ (یٰس : ٥١) ٣۔ ایک چیخ سے ہی تمام لوگ ہمارے سامنے حاضر ہوجائیں گے۔ (یٰس : ٥٣) ٤۔ جس دن صور پھونکا جائے گا تم گروہ در گروہ چلے آؤ گے۔ (النبا : ١٨) ٥۔ جب دوسری دفعہ صور پھونکا جائے گا تو ہم ان سب کو جمع کرلیں گے۔ (الکھف : ٩٩) ٦۔ جس دن صور پھونکا جائے گا اور ہم مجرموں کو نیلی پیلی آنکھوں کے ساتھ گھیر لائیں گے۔ (طہٰ: ١٠٢) ٧۔ جس دن صورپھونکا جائے گا توسب آسمان اور زمین والے سب کے سب گھبرا اٹھیں گے مگر جسے اللہ چاہے اور سارے کے سارے عاجز و پست ہو کر اس کے سامنے حاضر ہوں گے۔ (النّمل : ٧٨) يس
53 يس
54 يس
55 فہم القرآن ربط کلام : جہنمی حواس باختہ، پریشان اور انتہائی ذلت میں ہوں گے۔ ان کے مقابلے میں جنتی چمکتے ہوئے چہروں کے ساتھ ہشاش بشاش اور خوش و خرم ہوں گے۔ مجرموں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ انہیں محشر کے میدان میں اکٹھا کیا جائے گا جن کے لیے اعلان ہوگا کہ آج تم پر کسی قسم کا کوئی ظلم نہیں ہوگا۔ جنتیوں کا ذکر کرتے ہوئے محشر کے دن کے مختلف مراحل کا ذکر چھوڑ کر انہیں خوشخبری سنائی گئی ہے کہ آج تمہیں جنت میں داخل کیا جاتا ہے جس میں تم ایک دوسرے کے سامنے صوفوں پر خوش و خرم بیٹھے ہوئے خوش گپیاں کرو گے اور جو چاہو گے وہ پاؤ گے۔ قبروں سے نکلتے ہی جہنمیوں اور جنتیوں کے درمیان واضح فرق دکھائی دے گا۔ جہنمیوں کے چہروں پر ذلت اور نحوست چھائی ہوگی۔ جنتیوں کے چہروں پر نور اور خوشی پھوٹ رہی ہوگی۔ جہنمیوں کو رسوا کرکے محشر کے میدان میں اکٹھا کیا جائے گا۔ ان میں سے کثیر تعداد کو منہ کے بل چلا کر محشر کے میدان میں لے جایا جائے گا اور ان کے پیچھے آگ لگی ہوگی۔ ان کے مقابلے میں جنتیوں کو درجہ بدرجہ سواریاں مہیا کیں جائیں گی۔ ان میں سے ایسے بھی خوش قسمت ہوں گے جو آنکھ جھپکنے سے پہلے محشر کے میدان میں پہنچادیئے جائیں گے۔ جہنمیوں کو دبر کی طرف سے بائیں ہاتھ میں اعمال نامے دئیے جائیں گے جنتیوں کو دائیں ہاتھ میں پیش کیے جائیں۔ جہنمی اپنے اعمالنامے دیکھ کر اپنے ہاتھ کاٹیں گے جنتی اعمالنامے دیکھ کر خوش ہونگے اور اپنے عزیزواقربا کو دکھائیں گے۔ حساب و کتاب کے بعد اعلان ہوگا کہ جنتیوں اپنے رب کی جنت میں داخل ہوجاؤ۔ جنتی جنت میں اپنی بیویوں کے ساتھ بیٹھے ہوئے خوش گپیوں میں مصروف ہوں گے۔ ان کے لیے ہر قسم کے پھل ہوں گے۔ ان کے دل میں جو بھی چاہت پیدا ہوگی پوری کردی جائے گی۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان پر سلامتی نازل ہوگی اور ملائکہ انہیں سلام پیش کریں گے۔ ( عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ بُرَیْدَۃَ عَنْ أَبِیہِ أَنَّ رَجُلاً سَأَلَ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَقَالَ یَا رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہَلْ فِی الْجَنَّۃِ مِنْ خَیْلٍ قَالَ إِنِ اللَّہُ أَدْخَلَکَ الْجَنَّۃَ فَلاَ تَشَاءُ أَنْ تُحْمَلَ فیہَا عَلَی فَرَسٍ مِنْ یَاقُوتَۃٍ حَمْرَاءَ یَطِیرُ بِکَ فِی الْجَنَّۃِ حَیْثُ شِءْتَ إِلاَّ فَعَلْتَ قَالَ وَسَأَلَہُ رَجُلٌ فَقَالَ یَا رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہَلْ فِی الْجَنَّۃِ مِنْ إِبِلٍ قَالَ فَلَمْ یَقُلْ لَہُ مِثْلَ مَا قَالَ لِصَاحِبِہِ قَالَ إِنْ یُدْخِلْکَ اللَّہُ الْجَنَّۃَ یَکُنْ لَکَ فیہَا مَا اشْتَہَتْ نَفْسُکَ وَلَذَّتْ عَیْنُکَ) [ رواہ الترمذی : باب مَا جَاءَ فِی صِفَۃِ خَیْلِ الْجَنَّۃِ] ” حضرت سلیمان بن بریدہ (رض) اپنے باپ سے بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیا جنت میں گھوڑے ہوں گے آپ نے فرمایا اللہ تجھے جنت میں داخل کرے۔ اگر تیری جنت میں یہ چاہت ہوئی کہ تو سرخ یاقوت سے مزین گھوڑے پر سوارہو۔ تو گھوڑے تجھے جنت میں لیے اڑتے پھریں گے تیری یہ خواہش بھی پوری ہوجائے گی۔ ایک اور آدمی نے پوچھا کیا جنت میں اونٹ ہوں گے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے بھی پہلے شخص جیسا جواب دیا اس کے ساتھ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ بھی فرمایا اگر اللہ تعالیٰ نے تجھے جنت میں داخل کردیاتو تجھے جنت میں وہ کچھ ملے گا جو تیرا جی چاہے گا اور جو تیری آنکھ کو بھائے گا۔“ مسائل ١۔ جنتی جنت میں ہشاش بشاش اور آپس میں شغل مغل کریں گے۔ ٢۔ جنت میں میاں بیوی صوفوں پر بیٹھے ہوئے جو چاہیں گے وہ پائیں گے۔ تفسیر بالقرآن جنتیوں کو سلامیاں پیش کی جائیں گی : ١۔ جنتی جنت میں آپس میں ملاقات کے وقت اللہ کی تسبیح بیان کریں گے اور سلام کہیں گے۔ (یونس : ١٠) ٢۔ جنتیوں کا ایک دوسرے کو تحفہ سلام ہوگا۔ (الاحزاب : ٤٤) ٣۔ جنتیوں کو بالاخانے ملیں گے اور وہ آپس میں ملتے وقت دعا و سلام کریں گے۔ (الفرقان : ٧٥) ٤۔ ملائکہ جنتیوں کو سلام کہتے ہوئے کہیں گے کہ جنت کے دروازوں سے داخل ہوجاؤ۔ (الرعد : ٢٣۔ ٢٤) ٥۔ فرشتے کہیں گے کہ تم پر سلامتی ہو اپنے اعمال کے بدلے جنت میں داخل ہوجاؤ۔ (النحل : ٣٢) ٦۔ جنت کے دربان کہیں گے کہ تم پر سلامتی ہو مزے سے رہو اور ہمیشہ کے لیے جنت میں داخل ہوجاؤ۔ (الزمر : ٧٣) يس
56 يس
57 يس
58 يس
59 فہم القرآن ربط کلام : جنتیوں کو جنت میں داخل کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ کا جہنمیوں کو خطاب۔ محشر کے میدان میں جہنمیوں کو جنتیوں سے الگ کردیا جائے گا۔ بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ اس موقعہ پر جہنمیوں کو ان کے جرائم کے مطابق گروہوں میں تقسیم کردیا جائے گا۔ قرآن مجید کی دوسری آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ اگلے مرحلے میں ہوگا۔ کیونکہ قرآن مجید کا سیاق و سباق بتلا رہا ہے کہ اس موقعہ پر تمام جہنمیوں کو اجتماعی خطاب ہوگا جس میں رب ذوالجلال انہیں وہ عہد یاد دلائیں گے جو عالم ارواح میں پوری بنی نوع انسان سے لیا تھا۔ ” اور جب آپ کے رب نے آدم کے بیٹوں سے ان کی پشتوں میں سے ان کی اولادکونکالا اور انہیں خود ان کی جانوں پر گواہ بنایا کہ کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں ؟ تو انہوں نے کہا کیوں نہیں ہم شہادت دیتے ہیں۔ کہ آپ ہمارے رب ہیں فرمایا ایسا نہ ہو کہ قیامت کے دن کہو کہ ہم اس عہد سے غافل تھے یا یہ کہو کہ شرک تو ہم سے پہلے ہمارے باپ دادا نے کیا تھا اور ہم ان کے بعد آئے کیا ہمیں ان کی وجہ سے ہلاک کرتا ہے جو ان لوگوں نے کیا ؟“ (الاعراف : ١٧٢، ١٧٣) (عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ أَخَذَ اللّٰہُ الْمِیثَاقَ مِنْ ظَہْرِ اٰدَمَ بِنَعْمَانَ یَعْنِی عَرَفَۃَ فَأَخْرَجَ مِنْ صُلْبِہٖ کُلَّ ذُرِّیَّۃٍ ذَرَأَہَا فَنَثَرَہُمْ بَیْنَ یَدَیْہٖ کَالذَّرِّ ثُمَّ کَلَّمَہُمْ قِبَلًا قَالَ أَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ قَالُوا بَلٰی شَہِدْنَا أَنْ تَقُولُوا یَوْمَ الْقِیَامَۃِ إِنَّا کُنَّا عَنْ ہَذَا غَافِلِینَ أَوْ تَقُولُوا إِنَّمَا أَشْرَکَ آبَاؤُنَا مِنْ قَبْلُ وَکُنَّا ذُرِّیَّۃً مِنْ بَعْدِہِمْ أَفَتُہْلِکُنَا بِمَا فَعَلَ الْمُبْطِلُونَ )[ رواہ احمد : مسند عبداللہ بن عباس (رض) ] ” حضرت عبداللہ بن عباس (رض) نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے عرفہ کے مقام پر آدم اور اس کی اولاد سے وعدہ لیا۔ اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کی پشت سے تمام اولاد نکالی جس کو پیدا فرمانا تھا۔ انھیں اپنے سامنے چیونٹیوں کی طرح پھیلایا پھر ان سے کلام فرمایا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کیا میں تمھارا رب نہیں ہوں ؟ انہوں نے کہا کیوں نہیں۔ ہم اس کی گواہی دیتے ہیں۔ اب قیامت کے دن یہ نہ کہنا کہ ہم تو اس سے غافل تھے یا تم کہو شرک تو ہمارے آباؤ اجداد نے کیا تھا اور ہم ان کی اولاد تھے۔ کیا تو ہمیں باطل کام کرنے والوں کی وجہ سے ہلاک کرتا ہے۔ مسائل ١۔ اسرافیل کے دوسری مرتبہ صور پھونکنے کے ساتھ ہی محشر کے دن کا آغاز ہوجائے گا۔ ٢۔ قیامت کے منکر اس دن اپنے آپ پر افسوس کا اظہار کریں گے۔ تفسیربالقرآن صراط مستقیم کا تعارف : ١۔ اللہ تعالیٰ میرا اور تمہارا رب ہے۔ تم اسی کی عبادت کرو یہی صراط مستقیم ہے۔ ( مریم : ٣٦) ٢۔ اللہ تعالیٰ نے انبیاء کی جماعت کو چن لیا اور ان کو صراط مستقیم کی ہدایت دی۔ (الانعام : ٨٧) ٣۔ اللہ کی عبادت کرو یہی سیدھا راستہ ہے۔ (یٰسٓ: ٦١) ٤۔ یہی سیدھا دین ہے لیکن اکثر بے خبر ہیں۔ (الروم : ٤٠) ٥۔ اللہ کی خالص عبادت کرنا صراط مستقیم پر گامزن ہونا ہے۔ (آل عمران : ٥١) ٦۔ اللہ کے پاس قیامت کا علم ہے اس میں شک نہیں کرنا چاہیے یہی صراط مستقیم ہے۔ (الزخرف : ٦٨) ٧۔ یقیناً اللہ میرا اور تمہارا پروردگار ہے۔ اسی کی عبادت کرو یہی صراط مستقیم ہے۔ (الزخرف : ٦٤) ٨۔ آپ اسے مضبوطی سے پکڑ لیں جو آپ کی طرف وحی کی جاتی ہے یہی صراط مستقیم ہے۔ (الزخرف : ٣ ٤) ٩۔ اے اللہ ہمیں صراط مستقیم دکھا۔ ( الفاتحہ : ٦) ١٠۔ اللہ تعالیٰ ہی ایمان والوں کو صراط مستقیم کی ہدایت دیتا ہے۔ (الحج : ٥٤) ١١۔ صراط مستقیم کے سنگ میل۔ (الانعام : ١٥١ تا ١٥٣) ١٢۔ ہر کسی کو صراط مستقیم کی ہی دعوت دینا چاہیے۔ ( الانعام : ١٥٣) ١٣۔ اللہ جسے چاہتا ہے صراط مستقیم کی ہدایت دیتا ہے۔ (البقرۃ: ١٤٢) ١٤۔ اللہ تعالیٰ کی کتاب کے ساتھ تمّسک کا نتیجہ صراط مستقیم ہے۔ (آل عمران : ١٠١) يس
60 يس
61 يس
62 فہم القرآن ربط کلام : رب رحمٰن نے بنی آدم سے عہد لینے کے ساتھ ہی بتا دیا تھا کہ شیطان تمہارا کھلا دشمن ہے اس لیے اس سے بچنا اور صرف میرا ہی حکم ماننا اور میری ہی بندگی کرنا۔ خالق حقیقی سے عہد کرنے کے باوجود لوگوں کی اکثریت نے شیطان کی پیروی کی۔ جسے شیطان کی عبادت قرار دیا گیا ہے۔ کیونکہ عبادت میں اطاعت شرطِ اوّل ہے۔ البتہ ہر اطاعت بندگی اور عبادت میں شامل نہیں ہوتی۔ اللہ تعالیٰ نے ناصرف لوگوں سے اپنی عبادت کرنے کا عہد لیاتھا بلکہ انہیں اس بات سے بھی آگاہ کیا تھا کہ شیطان تمہارا دشمن ہے اس سے ہر صورت بچے رہنا۔ لیکن لوگوں کی اکثریت شیطان کے پیچھے چل کر گمراہ ہوئی اور انہوں نے اتنی بھی عقل اور غیرت نہ کی کہ وہ اپنے ازلی دشمن کے پیچھے نہ چلے۔ یاد رہے کہ اللہ کے سوا کسی سے دعا کرنا، اس کے سامنے جھکنا، سجدہ کرنا اور نذرو نیاز پیش کرنا اور شریعت کو چھوڑ کر کسی دوسرے کا حکم ماننا۔ حقیقت میں یہ شیطان کی عبادت کرنا ہے۔ عبادت میں ہر قسم کی تابعداری شامل ہوتی ہے اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کی عبادت کرنا کفر اور شرک ہے جس سے منع کیا گیا ہے ایسے لوگوں کو کہا جائے گا کہ یہ جہنم ہے جس کا تمہارے ساتھ وعدہ کیا گیا تھا۔ لہٰذا شیطان کی عبادت کرنے کی وجہ سے جہنم میں داخل ہوجاؤ۔ مسائل ١۔ لوگوں کی اکثریت کو شیطان گمراہ کردیتا ہے۔ ٢۔ عقل مند وہ ہے جو شیطان کی پیروی کرنے سے بچا رہے۔ يس
63 يس
64 يس
65 فہم القرآن ربط کلام : جہنم کے داخلے کا اعلان سنتے ہی مجرموں کی حالت۔ محشر میں ایک مرحلہ ایسا آئے گا کہ مجرم اپنے اعمال نامے اور دوسری شہادتوں کا انکار کردیں گے۔ اس پر ان کے مونہوں پر مہریں لگا دی جائیں گی۔ حکم ہوگا کہ آج تمہارے ہاتھ اور پاؤں ہمارے حضور گواہی دیں گے۔ دوسرے مقام پر ہے کہ مجرموں کے ہاتھ پاؤں گواہی دینے کے ساتھ ساتھ ان کی آنکھیں، کان اور جسم کا ایک ایک رونگٹا بول پڑے گا کہ خدایا اس کی زبان جھوٹ بول رہی ہے اس شخص نے ہمارے ذریعے یہ تمام جرم کیے ہیں جو اس کے اعمال نامے میں درج ہیں ( حٰمٓ السجدۃ : ٢٠، ٢١) اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو دنیا میں بھی مجرموں کے اعضاء ختم اور ان کی آنکھیں مسخ کردے جس سے ان کا وجود جامد اور ساکت ہوکررہ جائے۔ بعض مجرموں کو قیامت کے دن یہ سزا دی جائے گی جس وجہ سے وہ ان الفاظ میں آہ و زاریاں کریں گے۔ ” جو کوئی میری نصیحت سے منہ پھیرے گا اس کی زندگی بد نصیبی کی ہوگی اور قیامت کے دن ہم اس کو اندھا کرکے اٹھائیں گے۔ کہے گا کہ اے میرے پر ودگا مجھے تو نے اندھا کر کے کیوں اٹھایا حالانکہ میں تو دیکھا کرتا تھا اللہ تعالیٰ فرمائیں گے۔ تیرے پاس میرے احکام پہنچے تھے مگر تو ان کو بھول گیا اسی طرح آج تجھے بھلا دیا گیا ہے۔ جو کوئی اپنے پروردگار کے احکام سے تجاوز کرے اور ایمان نہ لائے ہم اس کو اسی طرح سزا دیں گے اور آخرت کا عذاب بہت ہی سخت اور دائمی ہے۔“ (طہٰ : ١٢٤ تا ١٢٧) انسان کی بے بسی کا عالم : اگر مجرموں کو اس بات پر یقین نہیں تو کسی بوڑھے کو دیکھ لیں جس کے کان، ناک، آنکھیں اور بظاہر پورے کا پور اجسم موجود ہوتا ہے لیکن نہ سن سکتا ہے اور نہ اسے بو اور خوشبو کا احساس ہوتا ہے۔ آنکھیں ہیں مگر دکھائی نہیں دیتا، پاؤں ہیں لیکن چل نہیں سکتا، زبان ہے مگر بات سمجھا نہیں سکتا۔ یہاں تک سوچتا کچھ ہے اور کہتاکچھ ہے۔ گویا کہ پورا جسم نکارہ ہوچکا ہے۔ بس روح اور جسم کے رشتہ کے سوا کچھ بھی نہیں۔ اسی طرح بعض لوگ اس قدر ضعف اور بڑھاپے کا شکار ہوجاتے ہیں کہ بچوں کی طرح دوسرے کے سہارے کے بغیرنہ چل سکتے نہ خود کھا سکتے ہیں۔ یہاں تک کہ اٹھنے، بیٹھنے میں بھی دوسرے کے محتاج ہوتے ہیں اور بچوں جیسی باتیں اور حرکتیں کرتے ہیں۔ (عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَیْنٍ (رض) أَنَّ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ فِی ہَذِہِ الأُمَّۃِ خَسْفٌ وَمَسْخٌ وَقَذْف فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الْمُسْلِمِینَ یَا رَسُول اللَّہِ وَمَتَی ذَاکَ قَالَ إِذَا ظَہَرَتِ الْقَیْنَاتُ وَالْمَعَازِفُ وَشُرِبَتِ الْخُمُورُ) [ رواہ البخاری : باب مَا جَاءَ فِی عَلاَمَۃِ حُلُولِ الْمَسْخِ وَالْخَسْفِ] ” عمران بن حصین (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا، اس امت میں دھنسایا جانا، شکلیں تبدیل ہونا اور تہمت لگا ناعام ہوجائے گا۔ مسلمانوں میں سے ایک آدمی نے پوچھا اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ایسا وقت کب آئے گا۔ آپ نے فرمایا جب گانا گانے والیاں، بانسریاں بجانا اور شراب نوشی عام ہوجائے گی۔“ (عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِک ٍ اَنَّ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کَانَ یَدْعُو أَعُوذُ بِکَ مِنَ الْبُخْلِ وَالْکَسَلِ، وَأَرْذَلِ الْعُمُرِ، وَعَذَابِ الْقَبْرِ، وَفِتْنَۃِ الدَّجَّالِ، وَفِتْنَۃِ الْمَحْیَا وَالْمَمَاتِ) [ رواہ البخاری : باب قَوْلِہِ (وَمِنْکُمْ مَنْ یُرَدُّ إِلَی أَرْذَلِ الْعُمُرِ)] ” حضرت انس بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دعا کیا کرتے تھے اے اللہ ! میں بخیلی، سستی، رذیل عمر، عذاب قبر، دجال کے فتنے اور زندگی اور موت کے فتنے سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔“ مسائل ١۔ قیامت کے دن مجرم کے ہاتھ اور پاؤں اس کے جرائم کی گواہی دیں گے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ چاہے تو مجرموں کے اعضاء ختم اور ان کی شکلیں مسخ کردے۔ يس
66 يس
67 يس
68 يس
69 فہم القرآن ربط کلام : جس طرح مشرکین مکہ اللہ کی توحید کے بارے میں بے سمجھی کا مظاہرہ کرتے اسی طرح ہی قرآن مجید کے متعلق بے عقلی کی بات کرتے کہ قرآن کسی شاعر کا کلام ہے یہاں ان کے الزام کا جواب دیا گیا ہے۔ کفار کا کہنا تھا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) شاعرانہ تخیلات پیش کرتا ہے جس کی تردید کے لیے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ ہم نے اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو شعر و شاعری نہیں سکھلائی اور نہ ہی اس کی یہ شان ہے کہ وہ شعرگوئی کرے۔ یہ قرآن فصیح عربی زبان میں ہے۔ جو لوگوں کے لیے نصیحت کے طور پر اتارا گیا ہے لیکن نصیحت وہی شخص حاصل کرکے گا جو ہوش، گوش رکھتا ہے۔ اور قرآن لوگوں پر کھلی حجت ہے یہاں تک شاعر اور اس کے تخیلات کا تعلق ہے اس کے بارے میں سورۃ الشعراء کی آیت ٢٢١ تا ٢٢٦ میں وضاحت کی گئی ہے کہ شیطان ہر جھوٹے اور برے آدمی پر آیا کرتے ہیں۔ جو ان کے کان میں جھوٹی باتیں ڈالتے ہیں اور شاعروں کی پیروی کرنے والے اکثر لوگ گمراہ ہوتے ہیں۔ کیا تم لوگ شاعروں کو نہیں جانتے کہ وہ ہر وادی میں سرگردان پھرتے ہیں اور جو کچھ وہ کہتے ہیں اس پر ان کا عمل نہیں ہوتا۔ ان کے مقابلے میں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نبوت سے پہلے بھی بات کے سچے اور قول کے پکے تھے اور آپ کے قول و فعل میں کوئی تضاد نہیں تھا۔ اللہ تعالیٰ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر شاعرانہ کلام نازل نہیں کیا اور نہ ہی آپ کی شان ہے کہ آپ لوگوں کے سامنے شعر گاتے پھریں۔ شعروں کے پرستار لوگ قرآن و سنت اور عقل کی بات پر اتنی توجہ نہیں دیتے جتنی شعر وشاعری پر دیا کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے سامنے شعر نہ پڑھا جائے تو انہیں قرآن سننے کا بھی لطف نہیں آتا جو لطف وہ شعر میں محسوس کرتے ہیں۔ یہاں تک اگر قرآن مجید فطری اور سادہ انداز میں پڑھا جائے تو انہیں ایسی تلاوت سے کوئی سروکار نہیں ہوتا۔ اس کا ثبوت عوامی جلسوں میں دیکھا اور سنا جاسکتا۔ جس جماعت اور معاشرے میں یہ صورت حال پیدا ہوجائے۔ اس معاشرے اور جماعت میں دن بدن شعور اور علم رخصت اور جہالت کا غلبہ ہوتا جاتا ہے۔ مولانا حالی کا قول : متحدہ ہندوستان کے دور میں مولانا الطاف حسین حالی ان چند شعراء میں شامل تھے جن کا اس زمانہ میں طوطی بولتا تھا وہ اپنی کتاب مقدمہ شعر و شاعری میں لکھتے ہیں۔ شاعری کا ماحول عام طور پر جہالت کے دور میں زیادہ پنپتا ہے۔ اس کے بعد انہوں نے یونان کے مشہور فلسفی اور مفکر ارسطو کا حوالہ دیا ہے کہ جب اس نے پہلی مرتبہ یونان کا دستور مرتب کیا تو ہر طبقہ کی ضرورت محسوس کی لیکن شاعروں کے طبقہ کو اس لیے در غور اعتنانہ سمجھا کیونکہ بقول اس کے کہ شاعر لوگ عام طور پر باتیں جوڑنے اور بنانے کے سوا کسی کام کے نہیں ہوتے۔ ارسطو کے قول کے بارے میں نہ معلوم دانشوروں کی کیا رائے ہوگی تاہم یہ بات مسلمہ ہے کہ شعر وشاعری کے ماحول میں علم اور عقل کی بات کو ترجیح نہیں دی جاتی۔ میں نے زندگی میں ان گنت عوامی اجتماعات میں تقریر کی اور خطیبوں کے خطاب سنے ہیں۔ جس اجتماع میں کوئی خطیب شعر یا ترنم کے ساتھ بات نہیں کرتا بیشک وہ کتنا ہی اچھا خطیب اور عالم کیوں نہ ہو اکثر لوگ اس کی بات سننے کی طرف دھیان نہیں دیتے۔ جس معاشرے اور جماعت میں ایسا ماحول پیدا ہوجائے وہاں علم اور علماء کی قدر اٹھ جاتی ہے۔ ان حقائق کے پیش نظر یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ شعر و شاعری کے فوائد کم اور اس کے نقصانات گہرے، زیادہ اور دیرپا ہوتے ہیں۔ امام جصّاص (رض) نے اپنی سند سے روایت کیا ہے کہ عائشہ (رض) سے کسی نے سوال کیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کبھی شعر پڑھتے تھے ؟ تو انہوں نے فرمایا کہ نہیں۔ البتہ ایک شعر ابن طرفہ کا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پڑھا تھا۔ ؂ ستبدی لک الایام ما کنت جاھلا و یأتیک بالاخبار من لم تزوّد ” اس کو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے وزن شعری کو توڑ کر من لم تزوّد بالاخبار پڑھا۔ حضرت ابو بکر (رض) نے عرض کی کہ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ شعر اس طرح نہیں۔ آپ نے فرمایا کہ میں شاعر نہیں، نہ ہی میرے لیے شعرو شاعری مناسب ہے“۔[ مسند احمد : باب مَا جَاءَ فِی إِنْشَاد الشِّعْر]ِ اس لیے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوری حیات مبارکہ میں کسی خطاب میں شعر کہنا پسند نہیں فرمایا۔ حالانکہ بعض شاعروں کے کلام کی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نہ صرف تعریف فرمائی ہے بلکہ حضرت حسان بن ثابت (رض) کو اپنے ممبر پر بٹھایا اور خود نیچے تشریف فرما ہوتے ہوئے اس کے لیے ان الفاظ میں دعا کی ” اَللّٰہُمَّ اَیِّدْہُ بِرُوْحِ الْقُدُسِ“” اے اللہ جبرائیل (علیہ السلام) کے ذریعے اس کی مدد فرما۔ [ رواہ البخاری : باب ذِکْرِ الْمَلاَءِکَۃِ ] اس لیے کسی خلیفہ اور صحابی (رض) سے ثابت نہیں کہ اس نے خطبہ جمعہ میں کبھی شعر پڑھا ہو۔ ہمیں بھی شعر و شاعری سے اجتناب کرنا چاہیے۔ يس
70 يس
71 فہم القرآن ربط کلام : سورۃ یٰس کا مرکزی مضمون بعث بعد الموت ہے۔ سابقہ آیات میں اسی کے دلائل دیئے گئے ہیں۔ درمیان میں قرآن مجید کے بارے میں کفار کے ایک الزام کی تردید کی گئی ہے۔ اب پھر موت کے بعد جی اٹھنے کے دلائل پیش کیے جاتے ہیں۔ قرآن مجید تحریر کی صورت میں نہیں بلکہ تقریر اور خطاب کے انداز میں نازل ہوا ہے۔ خطاب کے دوران اگر سامع کوئی اعتراض یا سوال اٹھاۓ یا خطاب کرنے والا خود محسوس کرے تو وہ اپنے مضمون سے زرا ہٹ کر اس اعتراض کا جواب دینا لازم سمجھتا ہے اگر ایسا نہ کیا جائے تو پورے کا پورا خطاب بے اثر ہوجانے کا اندیشہ ہوتا ہے اسی اصول کے پیش نظر قرآن مجید ایک مضمون بیان کرتے ہوئے اس کے متعلقات کا جواب دینا بھی ضروری سمجھتا ہے۔ کیونکہ اہل مکہ توحید و رسالت اور عقیدہ آخرت کی تردید کے لیے ضروری سمجھتے تھے کہ سرے سے قرآن مجید کو ہی مشکوک قرار دے دیا جائے اس لیے اس موقعہ پر قرآن مجید کے بارے میں وضاحت کردی گئی کہ یہ شاعرانہ کلام نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کردہ قرآن کی صورت میں نصیحت ہے مگر اس سے وہی شخص فائدہ اٹھا سکتا ہے جس کا ضمیر زندہ ہوگا۔ مردہ ضمیر کو بیدار کرنے کے لیے یہ دلیل دی جارہی ہے کیا انہوں نے کبھی غور کیا کہ اللہ تعالیٰ نے کیسے کیسے چوپائے پیدا کیے اور پھر لوگوں کو ان کا مالک بنا دیا۔ انسان سے کئی گنا زیادہ، جسیم اور طاقتور چوپائے اس کے تابع فرمان کردیے ہیں۔ کچھ ایسے ہیں جن پر یہ سواری کرتے ہیں اور کچھ ایسے ہیں جن کا انسان دودھ پیتے اور گوشت کھاتے ہیں۔ ان کے علاوہ بھی بے شمار فوائد ہیں مگر لوگ اپنے رب کا شکر ادا نہیں کرتے۔ اونٹ کو دیکھیں کس قدر طویل القامت، جسیم اور طاقتور جانور ہے لیکن اس کی مہار پکڑے ہوئے ایک بچہ بھی اس کو ادھر ادھر لیے پھر تا ہے۔ گھوڑے پر غور کریں کہ اس قدر سر پٹ دھوڑتا ہے کہ آدمی اسے پکڑنا چاہے تو پکڑ نہیں سکتا۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے اسے اس طرح انسان کا تابع دار بنا دیا ہے کہ یہ جب چاہے گھوڑے پر سورا ہوجائے اور جب چاہے اس سے باربرداری کا کام لینا شروع کر دے۔ جانوروں کے بارے میں فرمایا کہ ہم نے انہیں اپنے ہاتھوں سے بنایا۔ لغت کے اعتبار سے ید کی جمع ” اَیْدِیْ“ ہے جس کا معنٰی ہاتھ ہے۔ اس کا معنٰی نعمت بھی کیا گیا ہے۔ یہاں اہل علم نے ” اَیْدِیْ“ کا معنٰی قدرت کیا ہے۔ جس کے بارے میں ارشاد ہوا ہے کیا لوگوں نے غور نہیں کیا ؟ کہ ہم نے اپنی قدرت سے چوپائے پیدا کیے اور لوگوں کو ان کا مالک بنایا ہے۔ چوپاؤں کو ہم نے لوگوں کے تابع کردیا کچھ پر یہ سوار ہوتے اور کچھ کا گوشت کھاتے ہیں۔ چوپاؤں میں اور فائدوں کے ساتھ یہ فائدہ بھی ہے کہ ان کے ذریعے آبپاشی کا کام بھی لیا جاتا ہے۔ یہ نعمتیں پیدا کرنے میں اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کا عمل دخل نہیں لیکن پھر بھی لوگ اس کا شکر ادا نہیں کرتے۔ قرآن مجید میں چوپاؤں، آسمانوں اور انسان کے بارے میں ” یَدٌ“ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ہم نے انہیں اپنے ہاتھ سے پیدا کیا ہے۔ آدم (علیہ السلام) کے بارے میں ” یَدٌ“ کا لفظ استعمال کیا ہے اور باقی کے بارے میں ” اَیْدِیْ“ کا لفظ استعمال فرمایا ہے۔ ” یَدٌ“ کا ہاتھ کے علاوہ کوئی معنٰی نہیں کیا جاسکتا اس کی تاویل کر ناجائز نہیں۔ لیکن ” اَیْدِیْ“ کے بارے میں صحابہ کرام (رض) سے منقول ہے کہ وہ اس کا معنٰی ہاتھ کی بجائے قدرت کرتے تھے اور اس پر اہل علم کا اتفاق ہے۔ مسائل ١۔ اللہ کی تخلیق پر انسان کو غور کرنا چاہیے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کے لیے بے شمار فوائد رکھے ہیں۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا شکر ادا کرنا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن شکر کا حکم اور فائدے : ١۔ لوگو ! اللہ کو یاد کرو اللہ تمھیں یاد کرے گا اور اس کا شکر ادا کرو کفر نہ کرو۔ (البقرۃ: ١٥٢) ٢۔ لوگو! تم اللہ کا شکر ادا کرو اور ایمان لاؤ۔ اللہ بہت ہی قدر دان ہے۔ (النساء : ١٤٧) ٣۔ اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہے کہ اگر تم شکر کرو گے تو وہ مزید عطا فرمائے گا۔ (ابراہیم، آیت : ٧) ٥۔ اللہ کی پاکیزہ نعمتیں کھا کر اس کا شکر کرو۔ (البقرۃ: ١٧٢) ٦۔ اللہ کی عبادت کرتے ہوئے اس کا شکر ادا کرو۔ (العنکبوت : ١٧) يس
72 يس
73 يس
74 فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا شکر ادا کرنا تو درکنار اکثر انسان اللہ تعالیٰ کو اعتقاداً اور عملاً الٰہ ہی نہیں مانتے۔ انسان کی اپنے رب کے بارے میں ناقدری اور بغاوت کی انتہا دیکھیں کہ کھاتا، پیتا، پہنتا اور نعمتیں اپنے رب کی استعمال کرتا ہے۔ جن میں بے شمار نعمتیں ایسی ہیں جن کو کسی صورت میں بھی انسان اپنے استعمال میں نہیں لا سکتا۔ اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو ان نعمتوں کو انسان کے تا بع فرمان نہ کرتا۔ جن میں چوپائے بھی شامل ہیں جو جسم اور طاقت کے اعتبار سے انسان سے کئی گنا بڑے اور طاقتور ہیں۔ مگر وہ انسان کے غلام ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے انہیں انسان کے مطیع کردیا ہے۔ چاہیے تو یہ تھا کہ انسان اپنے خالق اور منعم حقیقی کے سوا کسی کے سامنے نہ جھکتا اور نہ ہی کسی کو مشکل کشا اور حاجت روا سمجھتا۔ مگر انسان نے اللہ تعالیٰ کے سوا کئی معبود اور مشکل کشا بنا رکھے ہیں۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مرضی کے بغیر ان میں سے کوئی بڑا، نوری ہو یا ناری کوئی بھی انسان کی مدد نہیں کرسکتا۔ یہ تو سب کے سب اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر کیے جائیں گے۔ ان الفاظ کے اہل علم نے دو مفہوم اور بھی لیے ہیں کہ معبودان باطل اور ان کی عبادت کرنے والوں کو محشر کے میدان میں اکٹھا کردیا جائے گا۔ معبودان باطل اور ان کے پیچھے لگنے والوں کو جہنّم میں ایک دوسرے کے سامنے حاضر کیا جائے گا۔ یہ ایک دوسرے کی کوئی مدد نہیں کرسکیں گے۔ نہ صرف قیامت کے دن ایک دوسرے کی مدد نہیں کر پائیں گے۔ بلکہ دنیا میں بھی اس کی ہر دور میں مثالیں موجود رہی ہیں اور رہے گی کہ جب اللہ تعالیٰ کی پکڑ آتی ہے تو وہ فرد ہویا قوم اسے کوئی بھی نہیں بچا سکتا۔ نوح (علیہ السلام) کی قوم نے ود، سُواع، یغوث، یعوق اور نسر کو پنچتن پاک بنا رکھا تھا۔ لیکن جب اللہ تعالیٰ کا عذاب آیا تو کوئی بھی کسی کو نہیں بچا سکا تھا۔ فرعون اپنی قوم کا رب الاعلیٰ بنا ہوا تھا۔ جب وقت آیا تو سب کے سب سمندر میں غرق کردئیے گئے۔ رب الاعلیٰ کا دعویٰ کرنے والا خود اپنی مدد کے لیے دوہائی دے رہا تھا۔ یہی صورتحال ہر دور کے ظالموں کی رہی ہے۔ ابوسفیان کا اقرار : فتح مکہ کے موقع پر ابوسفیان رات کے وقت مسلمانوں کے لشکر کا جائزہ لے رہا تھا۔ اچانک اس کی ملاقات حضرت عباس (رض) کے ساتھ ہوگئی رات کے اندھیرے میں دونوں نے ایک دوسرے کو پہچان لیا۔ اس موقعہ پر دونوں کے درمیان اور باتیں بھی ہوئیں جن میں ایک بات یہ تھی کہ عباس (رض) نے ابوسفیان سے پوچھا کیا اب بھی تجھے یقین نہیں آتا کہ لات، عزیٰ اور ہبل کسی کی مدد نہیں کرسکتے۔ ابوسفیان نے اس بات کا اعتراف کیا کہ اگر واقعی ہبل اور دوسرے خدا مدد کرسکتے تو آج ہماری مدد کرتے۔ یہی بات عکرمہ بن ابوجہل نے فتح مکہ کے وقت کہی تھی۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ کے سوا مشرک اس لیے دوسروں کے سامنے جھکتا، سجدہ کرتا اور نذرونیاز پیش کرتا ہے تاکہ مشکل کے وقت اس کی مدد کی جائے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی کسی کی مدد نہیں کرسکتا۔ ٣۔ معبودان باطل اور ان کے چاہنے والوں کو جہنّم میں اکٹھا کردیا جائیگا۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور نہ ہی کوئی حاجت روا اور مشکل کشا ہے : ١۔ جنوں اور انسانوں کو اللہ نے صرف اپنی عبادت کے لیے پیدا فرمایا ہے۔ (الذاریات : ٥٦) ٢۔ تمام رسول، اللہ کی عبادت کی دعوت دیتے تھے۔ (النحل : ٣٦) ٣۔ اللہ ہی کے لیے رکوع و سجود اور ہر عبادت ہونی چاہیے۔ (الحج : ٧٧) ٤۔ اللہ کی عبادت میں کسی کو شریک نہ کیا جائے۔ (النساء : ٣٦) ٥۔ اللہ کی عبادت اخلاص کے ساتھ کرنی چاہیے۔ (الزمر : ٢) ٦۔ اللہ ہی مشکل کشا ہے۔ (الانعام : ١٧) ٧۔ اللہ ہی حاجت رواہے۔ (الانبیاء : ٨٧) ٨۔ اللہ ہی کو پکارو وہی تکلیف دور کرتا ہے۔ (الانعام : ٤١) ٩۔ اگر آپ کو کوئی تکلیف پہنچ جائے تو سوائے اللہ کے اسے کوئی نہیں ہٹا سکتا۔ (یونس : ١٠٧) ١٠۔ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی تکلیف دور کرنے والا نہیں۔ (بنی اسرائیل : ٥٦) ١١۔ کون ہے جو اللہ کے سوا مجبور کی دعا سننے والا اور مصیبت دور کرنے والا ہے۔ (النمل : ٦٢) ١٢۔ کہہ دیجیے اگر اللہ تعالیٰ نقصان پہچانے پر آئے کیا کوئی نقصان دور کرسکتا ہے؟ (الفتح : ١١) ١٣۔ کیا تم ایسے لوگوں کو معبود مانتے ہو جو نفع ونقصان کے مالک نہیں۔ (الرعد : ١٦) يس
75 يس
76 فہم القرآن ربط کلام : شرک کی حقیقت اور اس کا انجام بتلانے کے بعد نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دی گئی۔ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو رؤف اور رحیم بنایا تھا۔ ( التوبۃ: ١٢٨) اللہ تعالیٰ نے آپ کو رحمۃ العٰلمین بنایا۔ (الانبیاء : ١٠٧) آپ نرم دل تھے۔ ( آل عمران : ١٥٩) اپنی طبیعت اور منصب نبوت کی اہمیت کے پیش نظر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صبح وشام لوگوں کو سمجھاتے، مگر مکہ کے لوگوں کی حالت یہ تھی کہ وہ سمجھنے کی بجائے آپ کی جان کے دشمن بن چکے تھے۔ انہوں نے بار ہا دفعہ آپ کو قتل کرنے کی کوشش کی۔ اس کے باوجود آپ کی کیفیت یہ تھی کہ آپ لوگوں کی اصلاح کی خاطر دن رات ایک کیے ہوئے تھے۔ رات کو تہجد میں رو رو کر دعائیں کرتے اور دن کو دعوت الی اللہ دیتے۔ آپ کی محنت کا عالم یہ تھا کہ ایک مرتبہ ایک صحابی (رض) نے حضرت عائشہ (رض) سے استفسار کیا کہ کیا اللہ کے رسول بیٹھ کر بھی نفل پڑھا کرتے تھے؟ ام المؤمنین (رض) نے فرمایا ہاں اس وقت جب آپ کو لوگوں نے چور چُور کردیا تھا۔ (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ شَقِیقٍ (رض) قَالَ قُلْتُ لِعَاءِشَۃَ (رض) ہَلْ کَان النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یُصَلِّی وَہُوَ قَاعِدٌ قَالَتْ نَعَمْ بَعْدَ مَا حَطَمَہُ النّاسُ)[ رواہ مسلم : کتاب صلاۃ المسافر ین، باب جواز النافلۃ قائما وقاعدا] ” حضرت عبداللہ بن شقیق بیان کرتے ہیں میں نے حضرت عائشہ (رض) سے پو چھا کیا نبی محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بیٹھ کر بھی نماز پڑھا کرتے تھے ؟ ام المومنین (رض) نے فرمایا ہاں لوگوں نے آپ کو چور چُور کردیا تھا۔“ (قَالَ ہَنْدُ بْنُ اَبِیْ ہَالَۃَ کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مُتَوَاصِلَ الْاَحْزَنِ دَاءِمَ الْفِکْرَۃِ لَیْثَتْ لَہٗ رَاحَۃٌ) [ الرحیم المختوم : باب کمال النفس ومکارم الاخلاق] ” ہند بن ابی ہالہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مسلسل غم سے دوچار رہتے، ہمیشہ غوروفکر فرماتے رہتے تھے۔ آپ کے لیے راحت نہ تھی۔“ (یعنی جب آپ خلوت میں ہوتے تو لوگوں کے غم میں مسلسل فکر مند رہتے۔) اس صورت حال میں اللہ تعالیٰ نے کئی بار نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دی کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایک حد سے زیادہ غمگین نہیں ہونا چاہیے آپ کا کام لوگوں تک حق پہچانا ہے منوانا نہیں۔ جہاں تک ان لوگوں کی سازشوں اور شرارتوں کا معاملہ ہے آپ یقین کریں کہ اللہ تعالیٰ ان کے اعلانیہ اور خفیہ کی ہوئی ہر حرکت کو جانتا ہے۔ (عَنِ ابْنِ عُمَرَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) الْمُؤْمِنُ الَّذِیْ یُخَالِطُ النَّاسَ وَیَصْبِرُ عَلٰی أَذَاھُمْ أَعْظَمُ أَجْرًا مِّنَ الْمُؤْمِنِ الَّذِیْ لَایُخَالِطُ النَّاسَ وَلَا یَصْبِرُ عَلٰی أَذَاھُمْ) [ رواہ ابن ماجۃ: کتاب الفتن، باب الصبر علی البلاء] ” حضرت عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جو مومن لوگوں کے ساتھ مل جل کر رہتا ہے اور ان کی طرف سے پہنچنے والی تکلیفوں پر صبر کرتا ہے وہ اس مومن سے زیادہ اجر والا ہے جو نہ لوگوں میں گھل مل کررہتا ہے اور نہ ان کی دی ہوئی تکلیفوں پر صبر کرتا ہے۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے کئی بار نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی عطا فرمائی۔ ٢۔ داعی الی اللہ کو ایک حد سے زیادہ پریشان نہیں ہونا چاہیے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ ہر حال میں لوگوں کے خفیہ اور اعلانیہ گفتگو اور معاملات سے واقف رہتا ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ کا نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پریشانی کے وقت تسلی دینا : ١۔ کفار کی باتوں سے آپ پریشان نہ ہوں۔ (یٰسٓ: ٧٦) ٢۔ کیا آپ اپنے آپ کو ہلاک کرلیں گے۔ ( الشعراء : ٣) ٣۔ آپ اس لیے پریشان نہ ہوں کہ یہ لوگ ایمان نہیں لاتے۔ ( الکہف : ٦) ٤۔ جو لوگ کفر میں جلدی کرتے ہیں وہ آپ کو پریشان نہ کردیں۔ (آل عمران : ١٧٦) ٥۔ آپ صبر کریں یقیناً اللہ کا وعدہ سچا ہے۔ (الروم : ٦٠) ٦۔ آپ صاحب عزم رسولوں کی طرح صبر کریں۔ (الاحقاف : ٣٥) ٧۔ آپ ان کے ایمان نہ لانے پر افسوس کرتے ہوئے اپنے آپ کو پریشانی میں مبتلا نہ کریں۔ (الاحقاف : ٦) ٨۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! کو صبر کا حکم دیا گیا۔ (المعارج : ٥) ٩۔ اے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! صبر کرو متقین کا بہتر انجام ہے۔ (ہود : ٤٩) يس
77 فہم القرآن ربط کلام : اہل مکہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ہی نہیں جھگڑتے تھے بلکہ اللہ تعالیٰ سے بھی جھگڑا کرتے تھے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دینے کے بعد ارشاد ہوتا ہے کہ کیا انسان اپنی تخلیق پر غور نہیں کرتا کہ ہم نے اسے ایک نطفہ سے پیدا کیا ہے اور پھر انسان اپنے رب سے ہی جھگڑا کرنے پر اترآتا ہے۔ اس میں بھی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مخصوص انداز میں تسلی دی گئی ہے کہ غور فرمائیں کہ یہ لوگ صرف آپ سے ہی جھگڑا نہیں کرتے بلکہ اپنے خالق کے ساتھ بھی جھگڑا کرتے ہیں۔ قرآن مجید نے انسان کو کئی بار اس کی تخلیق کے بارے میں توجہ دلائی ہے کہ وہ اس بات پر غور کرے کہ کیا اس کی تخلیق میں کسی اور کا عمل دخل ہے ؟ اس میں کوئی شک نہیں کہ والدین انسان کی تخلیق کا ذریعہ بنائے گئے ہیں لیکن کتنے جوڑے ہیں جو صحت مند ہونے اور زندگی بھر ازدواجی عمل کرنے کے باوجود اولاد سے محروم رہتے ہیں۔ یہی حقیقت انسان کی سمجھ میں آجائے تو وہ غیروں کی بجائے رب کا بندہ بن سکتا ہے۔ مگر مشرک کی حالت یہ ہے کہ وہ صرف اللہ تعالیٰ کو خالق ماننے کی بجائے یہ عقیدہ رکھتا اور کہتا ہے کہ فلاں بزرگ اولاد دینے یا دلوانے کی قدرت رکھتا ہے۔ اگر اسے سمجھایا جائے تو وہ اپنے شرکیہ عقیدہ کے بارے میں بحث وتکرار کرتا ہے اور جن کو وہ خدا کی خدائی میں شریک سمجھتا ہے ان کے بارے میں جھگڑا کرتا ہے۔ ایسا ہی طرز عمل ان لوگوں کا ہے جو آخرت کو جی اٹھنے کا یقین نہیں رکھتے۔ مکہ کے لوگوں کی غالب اکثریت کا یہ بھی عقیدہ تھا کہ مرنے کے بعد انسان مٹی کے ساتھ مٹی بن جاتا ہے اور اس کے بعد اس نے زندہ نہیں ہونا اور نہ ہی اسے کوئی زندہ کرسکتا ہے۔ کیونکہ انسان مٹی سے بنا تھا اور وہ مرنے کے بعد مٹی کے ساتھ مٹی بن جاتا ہے۔ ایسا عقیدہ رکھنے والا ایک شخص رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس حاضر ہوا اور ایک گلی سڑی ہڈی کو اپنے ہاتھ سے مسلتے ہوئے کہا کہ اے محمد! اس مٹی کو کس طرح انسان کی شکل میں زندہ کیا جائے گا اس کے تکرار کو اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف منسوب کرتے ہوئے فرمایا کہ انسان ہمارے سامنے بوسیدہ ہڈی کی مثال پیش کرتا ہے۔ کہ اسے کون زندہ کرے گا؟ حقیقت یہ ہے کہ یہ اپنی پیدائش بھول گیا ہے اگر اسے اپنی پیدائش یاد ہوتی تو یہ ہمارے سامنے یہ مثال ہرگز پیش نہ کرتا۔ (قَالَ قَتَادَۃُ (رض) جَاءَ أُبَیٌّ بْنُ خَلْفٍ إِلٰی رَسُو (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لِ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وَفِیْ یَدِہٖ عَظْمٌ رَمِیْمٌ وَہُوَ یُفَتِّتُہٗ وَیُذْرِیْہِ فِیْ الْہَوَاءِ وَہُوَ یَقُوْل یَا مُحَمَّدُ، اأتَزْعَمُ اأنَّ اللّٰہَ یَبْعَثُ ہٰذَا؟ فَقَالَ نَعَمْ، یُمِیْتُکَ اللّٰہُ تَعَالٰی ثُمَّ یَبْعَثُکَ، ثُمَّ یَحْشُرُکَ إِلٰی النَّاِروَنَزَلَتْ ہٰذِہِ الْآیَاتُ مِنْ آخِرِ یٰس (أَوَلَمْ یَرَ الإنْسَانُ أَنَّا خَلَقْنَاہُ مِنْ نُطْفَۃٍ )، إِلٰی آخِرِہُنَّ)[ تفسیر ابن کثیر، سورۃ یٰسٓ ] ” حضرت قتادہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ ابی بن خلف نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس ایک بوسیدہ ہڈی لے کر آیا۔ ہڈی کو مسلا اور ہوا میں اڑا کر کہنے لگا۔ اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ یہ دعوی کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اس کو زندہ کرلے گا۔ آپ نے جواب دیاہاں ایسا ہوگا۔ اللہ تعالیٰ تجھے فوت کرے گا پھر زندہ کرے گا پھر وہ تجھے جہنّم کی طرف لے جائے گا۔ اس پر سورۃ یٰسکی آخری آیات نازل ہوئیں۔“ مسائل ١۔ مشرک اپنی تخلیق کو بھول کر اپنے رب کے ساتھ جھگڑا کرتا ہے۔ ٢۔ آخرت کا منکر بوسیدہ ہڈی کے ذریعے سمجھتا ہے کہ اسے کوئی زندہ کرنے والا نہیں۔ ٣۔ آخرت کا انکار کرنے والا حقیقت میں اپنی تخلیق کو بھول جاتا ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ مردوں کو ضرور زندہ کرے گا : ١۔ وہ کہتے ہیں ہمیں کون دوبارہ زندہ کرے گا ؟ فرما دیجیے جس نے پہلی بار پیدا کیا تھا۔ (بنی اسرائیل : ٥١) ٢۔ ہم نے زمین سے تمہیں پیدا کیا اسی میں لوٹائیں گے اور اسی سے دوبارہ اٹھائیں گے۔ (طٰہٰ: ٥٥) ٣۔ اللہ ہی مخلوق کو پیدا کرنے والا ہے، پھر وہی اسے دوبارہ لوٹائے گا۔ (یونس : ٤) ٤۔ اللہ ہی نے مخلوق کو پیدا کیا، پھر وہ اسے دوبارہ پیدا کرے گا، پھر تم اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔ (الروم : ١١) ٥۔ کیا اللہ تعالیٰ کو اس بات پر قدرت نہیں ؟ کہ وہ مردوں کو زندہ فرمائے۔ (القیامۃ: ٤٠) يس
78 يس
79 يس
80 فہم القرآن ربط کلام : قیامت کے منکر کو اس کی پیدائش کا حوالہ دے کر قیامت قائم ہونے کا ثبوت دیا جاتا ہے۔ اس سے پہلی آیت میں یہ فرمایا کہ اگر انسان کو اپنی تخلیق یاد ہو تو وہ قیامت کا انکار نہ کرے اور نہ ہی اس کے بارے میں بحث وتکرار کرے۔ کیونکہ اسے اللہ تعالیٰ نے ہی پہلی بار پیدا کیا ہے اور وہ سب کچھ پیدا کرنا جانتا ہے۔ اس نے نہ صرف انسان کو مٹی سے پیدا کیا ہے بلکہ تمہارے لیے ہر بھرے درخت سے آگ پیدا کی ہے جس سے تم آگ حاصل کرتے ہو۔ کیا انسان اس پر بھی غور نہیں کرتا کہ جس نے انسان کو پہلی مرتبہ پیدا کیا اور جس نے سبز درخت میں آگ پیدا کی اور جس نے زمین و آسمانوں کو پیدا کیا۔ کیا اب وہ انہیں پیدا کرنے کی قدرت نہیں رکھتا؟ کیوں نہیں! وہ تو بڑی سے بڑی چیز پیدا کرنے والا اور سب کچھ جاننے والا ہے۔ اس کی طاقت اور اختیارات کا عالم یہ ہے کہ جب کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے تو صرف اتنا حکم صادر فرماتا ہے کہ ہوجا۔ وہ چیز اس کی منشاء کے مطابق معرض وجود میں آجاتی ہے۔ اس مقام پر اللہ تعالیٰ نے انسان کو دوبارہ پیدا کرنے کا ثبوت دیتے ہوئے چار دلائل دئیے ہیں۔ 1 پہلے انسان اپنی تخلیق پر غور کرے کہ اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کو مٹی سے پیدا کیا پھر ہر انسان کو اس کے ماں باپ کے نطفہ سے پیدا کرتا ہے اب نطفہ پر غور کریں کہ اللہ تعالیٰ اس سے کس طرح انسان کو پیدا کرتا ہے۔ 2 وہ انسان کو اس لیے دوبارہ پیدا کرسکتا ہے اور کرے گا کیونکہ اس نے اسے پہلی مرتبہ پیدا کیا ہے۔ ظاہر ہے جو کسی میٹریل اور پہلے سے موجودہ نقشے کے بغیر انسان کو پیدا کرسکتا ہے تو دوبارہ کیوں نہیں پیدا کرسکتا؟ اس کے ثبوت اس سے پہلی آیت کی تفسیر بالقرآن میں دئیے گئے ہیں۔ 3 انسان اپنی محدود عقل کے مطابق سمجھتا ہے کہ انسان مر کر مٹی کے ساتھ مل جائے گا تو اس کے ذرّات کو مٹی سے الگ کرنا پھر اس کا ڈھانچہ بنانا اور اس میں زندگی پیدا کرنا مشکل ہے۔ اس باطل عقیدہ کے حامل شخص کو ایک ایسے درخت کے ذریعے آخرت کا عقیدہ سمجھایا گیا ہے جس سے پرانے زمانے کے عرب آگ حاصل کیا کرتے تھے۔ انہیں توجہ دلائی گئی ہے کہ غور کرو۔ درخت اپنے بیج کی بنیاد پر مٹی اور پانی کے جوہر سے اگتا ہے اور اس کے پتے اور ٹہنیاں انتہائی سبز ہوتی ہیں۔ جن میں ایک خاص مقدار میں پانی ہوتا ہے مگر جب تم اس کی ٹہنیوں کو آپس میں رگڑتے ہو تو اس سے آگ نکلتی ہے حالانکہ دونوں چیزیں آپس میں متضاد ہیں۔ جو ذات سبز اور تروتازہ ٹہنی سے آگ نکال سکتی ہے کیا وہ مٹی سے بنے ہوئے انسان کو دوبارہ پیدا نہیں کرسکتی؟۔ یہ اشارہ مرخ اور عفار نامی دو درختوں کی طرف ہے جن کی ہری بھری ٹہنیوں کو لے کراہل عرب ایک دوسرے پر مارتے تو ان سے آگ جھڑنے لگتی۔ قدیم زمانے میں عرب کے بدو آگ جلانے کے لیے چقماق استعمال کرتے تھے اور ممکن ہے دور دراز کے صحراؤں میں رہنے والے بادیہ نشین آج کل ایسا کرتے ہوں۔ 4 قیامت کا منکر انسان اپنی سمجھ کے مطابق دوبارہ پیدا ہونے کو انوکھا اور بڑا کام سمجھتا ہے کیا وہ غور نہیں کرتا کہ زمین و آسمان اس کے وجود اور اس کی تخلیق کے اعتبار سے بڑے نہیں ہیں؟ اللہ تعالیٰ نے ہی انہیں پیدا کیا ہے اور وہ پوری مخلوق اور اس جیسی دوسری مخلوقات کو دوبارہ پیدا کرسکتا ہے۔ کیونکہ وہ بڑا ہی خلّاق اور علیم ہے۔ اسے پیدا کرنے کے لیے کسی بنے بنائے نقشے اور میٹریل کی ضرورت نہیں جب وہ کسی کام یا چیز کو پیدا کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو صرف ” کُنْ“ کا لفظ بولتا ہے اور وہ چیز عین اس کی مرضی کے مطابق بن جاتی ہے۔ مسائل ١۔ منکرین قیامت کو بتلائیں کہ وہی ” اللہ“ انہیں دوبارہ پیدا کرے گا جس نے پہلی مرتبہ انہیں پیدا کیا ہے۔ ٢۔ اسی نے ہرے بھرے درخت سے آگ پیدا کی جس سے تم آگ حاصل کرتے ہو۔ ٣۔ وہی ذات کبریا ہے جس نے زمین و آسمانوں کو پیدا کیا ہے اور وہ جب چاہے اس جیسی مخلوق پیدا کرسکتا ہے۔ ٤۔ صرف ایک ” اللہ“ ہی سب کچھ پیدا کرنے والا اور سب کچھ جاننے والا ہے۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ جب کوئی کام کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو صرف کن فرماتا ہے اور وہ کام اس کی مرضی کے مطابق ہوجاتا ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ ہر کام کرنے پر قادرہے : ١۔ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے (البقرۃ: ٢٠) ٢۔ اللہ تعالیٰ آسمانوں و زمین کی ہر چیز کو جانتا ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ (آل عمراٰن : ٢٩) ٣۔ تم جہاں کہیں بھی ہوگے اللہ تمہیں قیامت کے دن جمع فرمائیگا وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ (البقرۃ: ١٤٨) ٤۔ اللہ تعالیٰ جسے چاہے عذاب دے جسے چاہے معاف کردے وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ (البقرۃ: ٢٨٤) ٥۔ آسمان و زمین کی بادشاہت ” اللہ“ ہی کے لیے ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ (آل عمران : ١٨٩) ٦۔ اللہ اپنے ہر کام پر غالب ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔ (یوسف : ٢١) ٧۔ آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے وہ اللہ ہی کے لیے ہے۔ اللہ نے ہر چیز کو اپنے احاطہ قدرت میں لے رکھا ہے۔ (النساء : ١٢٦) ٨۔ لوگ جو کچھ کرتے ہیں ان سب چیزوں کو اللہ نے احاطہ میں لے رکھا ہے۔ (النساء : ١٠٨) ٩۔ حضرت شعیب (علیہ السلام) نے کہا کہ بے شک میرے رب نے جو تم کرتے ہو اس کا احاطہ کیا ہوا ہے۔ (ھود : ٩٢) ١٠۔ جو وہ عمل کرتے ہیں اللہ نے اس کا احاطہ کر رکھا ہے۔ (آل عمران : ١٢٠) ١١۔ اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کا اپنے علم کے ذریعہ احاطہ کر رکھا ہے۔ (الطلاق : ١٢) يس
81 يس
82 يس
83 فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ ہر قسم کی کمزوری سے پاک ہے اور مشرک کے عقیدہ اور قیامت کے منکر کی سوچ سے اعلیٰ اور مبرّا ہے۔ مشرک کا عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اتنے وسیع وعریض نظام کو اکیلا نہیں چلا سکتا اس لیے اسے معاونین کی ضرورت ہے قیامت کا منکر اس لیے جی اٹھنے سے انکار کرتا ہے کہ ایسا ہونا اس کے نزدیک بڑا محال ہے۔ ایسے لوگوں کے نظریات کی تردید کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ اپنی قوت وسطوت، اقتدار اور اختیار کا ذکر پورے جلال کے ساتھ کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ جس ذات کے بارے میں ضعیف اور کمزور تصورات رکھتے ہو اس کے اقتدار واختیار کا عالم یہ ہے کہ ہر چیز کی بادشاہی اس کے پاس ہے وہی سب کا مالک اور خالق ہے۔ وہ اس قدر قادر ہے کہ تم چاہو یا نہ چاہو بالآخر تم سب نے اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے اس کا فرمان ہے : (قُلْ کُوْنُوْا حِجَارَۃً اَوْ حَدِیْدًا۔ اَوْ خَلْقًا مِّمَّا یَکْبُرُ فِیْ صُدُوْرِکُمْ فَسَیَقُوْلُوْنَ مَنْ یُّعِیْدُنَا قُلِ الَّذِیْ فَطَرَکُمْ اَوَّلَ مَرَّۃٍ فَسَیُنْغِضُوْنَ اِلَیْکَ رُءُ وْسَھُمْ وَ یَقُوْلُوْنَ مَتٰی ھُوَ قُلْ عَسٰٓی اَنْ یَّکُوْنَ قَرِیْبًا) [ بنی اسرائیل : ٥٠ تا ٥١] ” فرما دیں کہ تم پتھر بن جاؤ یا لوہا۔ یا کوئی ایسی مخلوق جو تمہارے دلوں میں بڑی ہے عنقریب وہ کہیں گے کون ہمیں لوٹائے گا ؟ فرما دیں جس نے تمھیں پہلی بار پیدا کیا۔ پھر وہ آپ کے سامنے اپنے سر ہلائیں گے اور کہیں گے یہ کب ہوگا ؟ فرمادیں امید ہے عنقریب ہوگا۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ ہر قسم کی کمزوری اور شرک سے پاک ہے۔ ٢۔ کائنات کے ذرّہ ذرّہ پر اس کی بادشاہی ہے۔ ٣۔ وہی ہر چیز کا مالک اور خالق ہے اور سب نے اسی کی طرف پلٹ کر جانا ہے۔ يس
0 الصافات
1 فہم القرآن سورہ یٰس کا اختتام اس بات پر ہوا کہ اللہ تعالیٰ اس بات پر قادر کہ وہ انسان کو دوبارہ پیدا کرے کیونکہ ہر چیز اس کے قبضہ میں ہے۔ اس کے کن کہنے سے ہر چیز عین اس کی منشا کے مطابق معرض وجود میں آجاتی ہے۔ سورۃ صافات کی ابتدا میں اپنی قدرت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ ” اللہ“ وہ ذات ہے کہ جس کے سامنے ملائکہ قطار اندر قطار اور دست بستہ کھڑے رہتے ہیں۔ وہی حقیقی الٰہ ہے اسی نے زمین و آسمانوں کو پیدا کیا ہے اور ان کی حفاظت کا بندوبست فرمایا۔ وہی قیامت کے دن انسان کو پیدا فرمائے گا۔ ” اَلصّٰفّٰتِ“ کا معنی ہے صفیں باندھنے والے۔” اَلزّٰجِرَاتَ“، ڈانٹنے والے۔ اور ” اَلتّٰلِیٰتَ“ تلاوت کرنے والے۔ رب ذوالجلال نے یہاں تین قسمیں اٹھائی ہیں جن کے بارے میں مفسرین کی غالب اکثریت کا خیال ہے کہ صفیں باندھنے والے، ڈانٹ ڈپٹ کرنے والے اور اللہ کے ارشادات کو یاد رکھنے والوں سے مراد مخصوص ملائکہ ہیں جو اپنے رب کے حضور ہر وقت صف بندی کی صو رت میں دست بستہ کھڑے رہتے ہیں کہ کب رب ذوالجلال کا حکم صادر ہو اور ہم اس کی تعمیل میں کمر بستہ ہوجائیں۔ یہ ملائکہ تعمیل حکم میں اپنے رب کے احکام کو من وعن یاد رکھتے ہیں اور اس پیغام کی شیاطین سے حفاظت بھی کرتے ہیں۔ بعض مفسرین نے ملائکہ کی تین اقسام مراد لی ہیں۔ 1 اللہ کے حضور ہر وقت صف بستہ رہنے والے 2 اللہ تعالیٰ کے احکام عرش معلی سے نیچے پہنچانے والے 3 آسمان دنیا تک پہنچنے والے شیاطین کا تعاقب کرنے والے۔ تدبرِقرآن کے مفسر نے ملائکہ کی تین حالتیں مراد لیتے ہوئے لکھا ہے کہ بندے کی نماز میں یہی تین حالتیں ہوتی ہیں نماز میں پہلے صف بندی ہوتی ہے پھر اللہ تعالیٰ سے شیطان سے بچنے کے لیے حفاظت طلب کی جاتی ہے اور اس کے بعد اس کی حمد و ستائش کی جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا قسمیں اٹھانا : آدمی کے لیے حکم ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی دوسرے کی قسم نہیں اٹھا سکتا۔ انسان دوسرے کے سامنے دو وجوہات کی بنا پر قسم اٹھاتا ہے۔ اپنی بات میں پختگی پیدا کرنے اور سننے والے کے اعتماد میں اضافہ کرنے کے لیے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ سے بڑی کوئی چیز نہیں ہے۔ اس لیے وہ اپنی مخلوق میں سے جس کی چاہے قسم اٹھائے اس کی ذات پر کسی قسم کی پابندی نہیں اور نہ ہی اسے اپنے بارے میں کسی کا اعتماد بڑھانے کی ضرورت ہے۔ اس کی ذات حق اور اس کی ہر بات سچ ہے۔ البتہ انسانی ذہن کے پیش نظر اللہ تعالیٰ کسی چیز کی قسم اس لیے اٹھاتا ہے تاکہ انسان کے ذہن میں اس چیز یا اس کی تاریخی حیثیت کو اجاگر کیا جائے اور اس کے بعد ہونے والی بات پر انسان پوری توجہ مبذول کرئے۔ اللہ تعالیٰ نے ملائکہ کی قسمیں اس لیے کھائی ہیں کہ ہر دور میں ایسے لوگ رہے ہیں اور ہونگے جو ملائکہ کو اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں تصور کرتے ہوئے اور ان کی عبادت کرتے ہیں۔ گویا کہ ملائکہ کو اللہ کی ذات کا حصہ اور اس کی خدائی میں شریک سمجھتے ہیں۔ کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ملائکہ کی کچھ ڈیوٹیاں لگارکھی ہیں لیکن اس کا یہ معنٰی نہیں کہ وہ رب کی خدائی میں شریک ہوگئے ہیں ایسا ہرگز نہیں۔ زمین و آسمان اور جو کچھ ان کے درمیان ہے سب کو پیدا کرنے والا ایک ہی رب ہے اور صرف وہی عبادت کے لائق ہے۔ اس کے سوا کوئی رکوع وسجود کے لائق نہیں۔ وہی عطا کرنے والا اور بگڑی بنانے والا ہے اور نظامِ کائنات میں اسی کا حکم چلتا ہے۔ یہاں ” مَشَارِقْ“ کا لفظ لا کر یہ واضح فرمایا ہے کہ بے شک سورج مشرق کی جانب سے طلوع ہوتا ہے لیکن معلوم ہونا چاہیے سورج ہمیشہ مشرق کے ایک ہی مقام سے طلوح نہیں ہوتا بلکہ ہر روز اپنی جگہ بدلتا ہے۔ جسے موجودہ سائنسدان اور فلکیات کے ماہرین بھی تسلیم کرتے ہیں۔ اس لیے ” مَشَارِقْ“ کا لفظ استعمال فرمایا ہے۔ عربی میں ” مَشَارِقْ“ کا لفظ فاصلے کی طوالت کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔ سبحان اللہ قرآن مجید میں کیسی بلاغت پائی جاتی ہے۔ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ یَبْلُغُ بِہِ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ إِذَا قَضَی اللَّہُ الأَمْرَ فِی السَّمَاءِ ضَرَبَتِ الْمَلاَءِکَۃُ بِأَجْنِحَتِہَا خُضْعَانًا لِقَوْلِہِ کَالسِّلْسِلَۃِ عَلَی صَفْوَانٍ قَالَ عَلِیٌّ وَقَالَ غَیْرُہُ صَفْوَانٍ یَنْفُذُہُمْ ذَلِکَ فَإِذَا فُزِّعَ عَنْ قُلُوبِہِمْ قَالُوا ماذَا قَالَ رَبُّکُمْ، قَالُوا لِلَّذِی قَالَ الْحَقَّ وَہْوَ الْعَلِیُّ الْکَبِیرُ) [ رواہ البخاری : باب قَوْلِہِ (إِلاَّ مَنِ اسْتَرَقَ السَّمْعَ فَأَتْبَعَہُ شِہَابٌ مُبِینٌ) ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا‘ اللہ تعالیٰ جب آسمان پر کوئی فیصلہ صادر فرماتا ہے تو اللہ کے ڈر کی وجہ سے فرشتوں کے پروں میں آواز پیدا ہوتی ہے جیسے صاف پتھر پر لوہے کی زنجیر کھینچنے سے آواز پیدا ہوتی ہے۔ جب ان کے دلوں سے گھبراہٹ دورہوجاتی ہے تو وہ پوچھتے ہیں‘ تمہارے پروردگار نے کیا فرمایا؟ اوپر والے ملائکہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد کو بیان کرتے اور اس کی تصدیق کرتے ہوئے کہتے ہیں یہ ہے اللہ کا ارشاد ہے جو بلند وبالا ہے۔ (عَنْ اَبِیْ ذَرٍّ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حِیْنَ غَرَبَتِ الشَّمْسُ اَتَدْرِیْ اَیْنَ تَذْھَبُ ھٰذِہٖ قُلْتُ اَللّٰہُ وَرَسُوْلُہٗٓ اَعْلَمُ قَالَ فَاِنَّھَا تَذْھََبُ حَتّٰی تَسْجُدَتَحْتَ الْعَرْشِ فَتَسْتَاْذِنُ فَیُؤْذَنُ لَھَا وَیُوْشِکُ اَنْ تَسْجُدَوَلَاتُقْبَلُ مِنْھَا وَتَسْتَأْذِنُ فَلَا یُوؤذَنُ لَھَا وَیُقَالُ لَھَآ اِرْجِعِیْ مِنْ حَیْثُ جِءْتِ فَتَطْلُعُ مِنْ مَّغْرِبِھَا فَذَالِکَ قَوْلُہٗ وَالشَّمْسُ تَجْرِیْ لِمُسْتَقَرٍّلَّھَا قَالَ مُسْتَقَرُّھَا تَحْتَ الْعَرْشِ) [ رواہ البخاری : باب صِفَۃِ الشَّمْسِ وَالْقَمَرِ ] ” حضرت ابوذر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کیا تجھے معلوم ہے جب سورج غروب ہوتا ہے تو کہاں جاتا ہے؟ میں نے کہا‘ اللہ اور اس کے رسول کو علم ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا سورج عرش کے نیچے جاکر سجدہ کرتا ہے اور اجازت طلب کرتا ہے۔ اسے اجازت مل جاتی ہے قریب ہے کہ وہ سجدہ کرے اور اس کا سجدہ قبول نہ ہو وہ طلوع ہونے کی اجازت طلب کرے اس کو اجازت نہ ملے بلکہ اسے حکم ہو کہ جدھر سے آیا اسی طرف سے طلوع ہوجا۔ چنانچہ سورج مغرب کی طرف سے طلوع ہوگا۔ یہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے سورج اپنے مستقر کی طرف چلا جاتا ہے آپ نے فرمایا اس کا ٹھکانا عرش کے نیچے ہے۔“ مسائل ١۔ ملائکہ اپنے رب کے حضور صف بندی کی حالت میں دست بستہ حاضر رہتے ہیں۔ ٢۔ ملائکہ اپنے رب کے احکام کو یاد رکھنے اور انہیں آسمان دنیا تک پہنچاتے ہیں۔ ٣۔ ملائکہ اپنے رب کے حکم کی حفاظت کرتے ہوئے شیطان کا تعاقب کرتے ہیں۔ ٤۔ زمین و آسمان اور جو کچھ ان کے درمیان ہے سب کچھ ایک رب کا پیدا کردہ اور اس کی ملکیت ہے۔ ٥۔ زمین آسمان اور ہر چیز کا رب ہی الٰہ حقیقی ہے بس اسی کی ہی عبادت کرنا اور اسی سے ہی مانگنا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن الٰہ ایک ہی ہے اس کے سوا کوئی الٰہ نہیں : ١۔ اللہ کے سوا کوئی معبودِ بر حق نہیں۔ (النساء : ٨٧) ٢۔ معبود حقیقی صرف ایک اللہ ہے۔ (النساء : ١٧١) ٣۔ اللہ کے علاوہ کوئی خالق نہیں۔ (فاطر : ٣) ٤۔ اللہ رحمٰن اور رحیم ہے۔ (الفاتحۃ: ٣) ٥۔ اللہ ہی رزّاق ہے۔ (الذّاریات : ٥٨) ٦۔ اللہ ہی مشکل کشا ہے۔ (الانعام : ١٧) الصافات
2 الصافات
3 الصافات
4 الصافات
5 الصافات
6 فہم القرآن ربط کلام : جس رب نے آسمانوں کو بنایا ہے اسی نے پہلے آسمان کو ستاروں سے روشن فرمایا ہے اور اس کی حفاظت کا بندوبست بھی کیا ہے۔ قرآن مجید نے یہ بات کئی مقامات پر بیان فرمائی ہے کہ آسمان دنیا یعنی پہلا آسمان جو لوگوں کو نظر آتا ہے۔ اسے اللہ تعالیٰ نے ستاروں سے مزّین فرمایا ہے۔ ستاروں کے دو فائدے اور بھی ذکر فرمائے ہیں۔ ان سے لوگ راستوں کی راہنمائی حاصل کرتے ہیں اور انہی ستاروں سے آسمان دنیا کی حفاظت کا بندو بست کیا گیا ہے۔ کیونکہ شیاطین آسمان دنیا کے دروازوں کے قریب جا کر ملائکہ کی گفتگو سننا چاہتے ہیں تو ستارے شیاطین پر انگارے بن کر بر ستے ہیں اس طرح شیاطین پر مستقل طور پر عذاب مسلّط کردیا گیا ہے۔ اس بندوبست سے پہلے شیاطین آسمان کے قریب جا کر ملائکہ کی کچھ نہ کچھ باتیں سن کر کاہنوں، نجومیوں اور اس قسم کے لوگوں کے دلوں میں جھوٹ، سچ ملا کر کوئی نہ کوئی بات القا کرتے تھے۔ جسے آٹھویں پارے میں یوں بیان کیا گیا ہے۔ جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے ان کے دل اس جھوٹ کی طرف مائل ہوں اور وہ اسے پسند کریں اور تاکہ وہ برائیاں کریں جو یہ کررہے ہیں۔“ (الانعام : ١١٣) اسی بات کو اہل مکہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر چسپاں کرتے اور کہتے تھے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس فرشتہ نہیں بلکہ جنات آتے ہیں جو پہلے لوگوں کے واقعات سنانے کے ساتھ اسے مزید باتیں بتاتے ہیں۔ اس الزام کی یہاں خاص انداز میں تردید کی گئی ہے۔ انیسویں پارے میں کھلے الفاظ میں وضاحت فرمائی۔ ” کیا میں تمہیں بتلاؤں کہ شیاطین کن لوگوں پر نازل ہوتے ہیں وہ ہر ایک جھوٹے اور بد کردار پر اترتے ہیں اور سنی سنائی باتیں پہنچاتے ہیں۔“ (الشعراء : ٢٢١ تا ٢٢٣) ستاروں کے بارے میں کیا عقیدہ ہونا چاہیے : ” حضرت خالد جہنی (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم (رض) نے حدیبیہ مقام پر ہمیں صبح کی نماز پڑھائی۔ رات کو ہونے والی بارش کے اثرات فضا میں نمایاں تھے۔ نماز سے فارغ ہونے کے بعد آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اور صحابہ سے پوچھا کیا تم جانتے ہو کہ تمہارے رب نے کیا ارشاد فرمایا ہے۔ انہوں نے جواب دیا اللہ اور اس کا رسول زیادہ جانتے ہیں۔ آپ نے فرمایا کچھ بندوں نے ایمان کی حالت میں صبح کی اور کچھ نے کفر کی حالت میں۔ جس نے کہا اللہ کے فضل اور اس کی رحمت سے بارش ہوئی وہ مجھ پر ایمان لایا اور اس نے ستاروں کا انکار کیا اور جس نے کہا کہ فلاں ستارے کی وجہ سے بارش ہوئی اس نے میرا انکار کیا اور ستاروں پر ایمان لایا۔“ [ رواہ البخاری : باب یَسْتَقْبِلُ الإِمَام النَّاسَ إِذَا سَلَّمَ] تفسیر بالقرآن ستاروں کابیان اور ان کے فوائد : ١۔ وہ ذات جس نے ستاروں کو اندھیروں میں تمہاری رہنمائی کے لیے پیدا فرمایا۔ (الانعام : ٩٧) ٢۔ لوگ ستاروں کی علامات سے راہ پاتے ہیں۔ (النحل : ١٦) ٣۔ چاند، سورج اور ستارے اللہ کے حکم کے پابند ہیں۔ (الاعراف : ٥٤) ٤۔ ہم نے آسمان میں برج بنائے اور دیکھنے والوں کے لیے انھیں خوبصورت بنایا۔ (الحجر : ١٦) ٥۔ بابرکت ہے وہ ذات جس نے آسمان میں برج بنائے۔ (الفرقان : ٦١) ٦۔ ہم نے آسمان دنیا کو ستاروں سے خوبصورت بنایا ہے۔ (الصّٰفٰت : ٦) ٧۔ ہم نے آسمان دنیا کو ستاروں سے مزین کیا اور شیطانوں سے محفوظ فرمایا۔ (حٰم السجدۃ: ١٢) ٨۔ کیا انہوں نے اپنے اوپر آسمان کی طرف نگاہ نہیں کی کہ ہم نے اس کو کیسے بنایا اور سجایا ہے۔ (ق : ٦) ٩۔ جِنّات نے کہا کہ ہم نے آسمان کو ٹٹولا تو اسے مضبوط چوکیداروں اور انگاروں سے بھرا ہو اپایا۔ (الجن : ٨) الصافات
7 الصافات
8 الصافات
9 الصافات
10 الصافات
11 فہم القرآن ربط کلام : زمین و آسمانوں کی تخلیق، سورج کے طلوع وغروب اور ستاروں کا حوالہ دے کر انسان کو دوبارہ زندہ ہونے کا ثبوت دیا گیا ہے۔ سورہ یٰس کا اختتام اس مسئلہ پرہوا تھا کہ جس رب نے زمین آسمانوں کو بنایا ہے۔ اس کے لیے انسان کو دوبارہ پیدا کرنا کس طرح مشکل ہوسکتا ہے۔ سورۃ صافات کی ابتدا میں تین قسمیں کھا کر بتلایا کہ معبود حقیقی ایک ہی ہے جس نے زمین و آسمانوں کو بنایا اور آسمان دنیا کو ستاروں سے سجایاا اور ان کے ذریعے آسمان دنیا کی حفاظت کا بندوبست فرمایا ہے۔ اب انسان سے استفسار فرمایا ہے کہ وسیع و عریض زمین اور اتنے بڑے آسمانوں کو پیدا کرنا زیادہ مشکل ہے یا انسان کو دوبارہ پیدا کرنا زیادہ مشکل ہے۔ اے انسان ذرا سوچ کہ تجھے صرف چپکنے والے گارے سے پیدا کیا گیا ہے۔ انسانوں کی ابتدا آدم (علیہ السلام) سے اور آدم (علیہ السلام) کو مٹی سے پیدا کیا گیا ہے۔ ستاروں کا ذکر فرما کر بات مزید کھول دی ہے کہ جو رب لاکھوں، کروڑوں کی تعداد میں بڑے بڑے ستارے پیدا کرتا اور انہیں شہاب ثاقب کی صورت میں گراتا اور ختم کرتا رہتا ہے کیا اسے انسان جیسی ناچیز شے کو پیدا کرنا مشکل ہے؟۔ ” کیا آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنا! لوگوں کے دوبارہ پیدا کرنے سے بڑا کام نہیں ہے ؟ ظاہر ہے کہ انسان کو پیدا کرنا زمین و آسمانوں، ستاروں اور سیّاروں سے پیدا کرنا بہت آسان ہے۔ لیکن بہت سے لوگ یہ حقیقت نہیں جانتے۔“ (المومن : ٥٧) یاد رہے کہ ہر روز لاکھوں کی تعداد میں ستارے معرض وجود میں آتے ہیں اور مٹتے رہتے ہیں۔ جنہیں فلکیات کا علم رکھنے والے سائنسدان بھی تسلیم کرتے ہیں۔ مگر اس کے باوجود کافر اس حقیقت کا مذاق اڑاتے ہیں۔ جب انہیں بعث بعد الموت کے دلائل دیئے جاتے ہیں تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جادو گر قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کیا ہم مر کر مٹی کے ساتھ مٹی ہوجائیں گے تو ہمیں اور ہمارے آباء واجداد کو پھر زندہ کیا جائے گا۔ اے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) انہیں بتا دیں کہ ہاں صرف زندہ ہی نہیں کیا جائے گا بلکہ تمہیں ذلیل کرکے اٹھایا جائے گا۔ مسائل ١۔ زمین و آسمانوں کی تخلیق سے کہیں بڑھ کر انسان کو دوبارہ پیدا کرنا آسان ہے۔ ٢۔ جو لوگ آخرت کے منکر ہیں انہیں ذلیل کرکے اٹھایا جائے گا۔ تفسیر بالقرآن دوبارہ زندہ ہونے کے عقلی اور مشاہدتی دلائل : ١۔ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کے مقتول کو زندہ فرمایا۔ (البقرۃ: ٧٣) ٢۔ عزیر (علیہ السلام) کو سو سال کے بعد زندہ فرمایا۔ (البقرۃ: ٢٥٩) ٣۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے ہاتھوں چار پرندوں کو زندہ فرمایا۔ (البقرۃ : ٢٦٠) ٤۔ اصحاب کہف کو تین سو نو سال کے بعد اٹھایا۔ (الکہف : ٢٥) ٥۔ عیسیٰ نے اللہ کے حکم سے مردہ زندہ کیا : (المائدۃ : ١١٠) ٦۔ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کے ہزاروں لوگوں کو دوبارہ زندہ کیا۔ (البقرۃ: ٢٤٣) ٧۔ وہ کہتے ہیں ہمیں کون دوبارہ زندہ کرے گا ؟ فرما دیجیے جس نے پہلی بار پیدا کیا تھا۔ (بنی اسرائیل : ٥١) ٨۔ ہم نے زمین سے تمہیں پیدا کیا اسی میں لوٹائیں گے اور اسی سے دوبارہ اٹھائیں گے۔ (طٰہٰ: ٥٥) الصافات
12 الصافات
13 الصافات
14 الصافات
15 الصافات
16 الصافات
17 الصافات
18 الصافات
19 فہم القرآن ربط کلام : جس قیامت کا لوگ انکار کرتے ہیں اس کا آغاز اس طرح ہوگا۔ اللہ تعالیٰ قیامت برپا کرنے کا فیصلہ فرمائے گا جس کا دن اور وقت مقرر کیا جاچکا ہے۔ جوں ہی وہ دن اور گھڑی آئے گی تو اسرافیل فرشتہ کو صور پھونکنے کا حکم ہوگا۔ صور میں پھونک مارنے کی دیر ہوگی تو زمین میں ایسے زلزلے ہوں گے جس سے پہاڑ روئی کی طرح اڑنے شروع ہوں گے۔ دیکھتے ہی دیکھتے ہر چیز فنا ہوجائے گی۔ اس کے بعد نہ معلوم کتنی مدت مخلوق فنا رہے گی۔ اس کے بعد اسرافیل کو زندہ کیا جائے گا اسے دوبارہ صور میں پھونک مارنے کا حکم ہوگا۔ اس کے پھونک مارنے کے ساتھ ہی لوگ قبروں سے اٹھنا شرو ع ہوں گے۔ اس وقت قیامت کے منکروں کو یقین ہوجائے گا کہ یہ تو وہی دن ہے جس کی ہم تکذیب کیا کرتے تھے۔ کہیں گے کہ ہم پر افسوس یہ تو فیصلے کا دن آ پہنچا ہے۔ تفسیر بالقرآن دوسرے صور کے بعد مردوں کا زندہ ہونا : ١۔ پہلے نفخہ سے لوگ بے ہوش ہوجائیں گے اور دوسرے نفخہ سے تمام لوگ اٹھ کھڑے ہوں گے۔ (الزمر : ٦٨) ٢۔ دوسرے نفخہ کے ساتھ ہی تمام لوگ قبروں سے نکل کر اپنے رب کی طرف چل پڑیں گے۔ (یٰس : ٥١) ٣۔ ایک چیخ سے ہی تمام لوگ ہمارے سامنے حاضر ہوجائیں گے۔ (یٰس : ٥٣) ٤۔ جس دن صور پھونکا جائے گا تم گروہ در گروہ چلے آؤ گے۔ (النّبا : ١٨) ٥۔ جب دوسری دفعہ صور پھونکا جائے گا تو ہم ان سب کو جمع کرلیں گے۔ (الکہف : ٩٩) ٦۔ صور پھونک دیا جائے گا اور وہی دن عذاب کے وعدے کا ہو گاہے۔ (ق ٓ: ٢٠) الصافات
20 الصافات
21 الصافات
22 الصافات
23 الصافات
24 الصافات
25 الصافات
26 فہم القرآن ربط کلام : جب قیامت کے دن تمام لوگوں کو اکٹھا کیا جائے گا توقیامت کو جھٹلانے والوں سے سوال ہوگا۔ جب حساب و کتاب کے بعد مجرمین کا فیصلہ ہوچکا ہوگا کہ انہیں جہنم میں داخل کردیا جائے۔ ملائکہ انہیں ہانک کر جہنم کی طرف لے جا رہے ہونگے تو ذات کبریاء کی طرف سے حکم ہوگا کہ انہیں چند لمحے ٹھہرایا جائے۔ جہنمی کہیں گے کہ شاید ہمیں کوئی رعایت دی جارہی ہے۔ ابھی وہ یہ سوچ ہی رہے ہوں گے کہ رب ذوالجلال ارشاد فرمائیں گے کہ تمہیں کیا ہے کہ تم ایک دوسرے کی مدد نہیں کرتے ؟ اگر ایک دوسرے کی مدد کرسکتے ہو تو کرو ! اس وقت حالت یہ ہوگی کہ پیر اور ان کے مرید، لیڈر اور ان کے ور کر، عابد، اور ان کے معبود علماء سو اور ان کے مقتدی سب کے سب فرمانبرداری کا مظاہرہ کررہے ہوں گے۔ رب ذوالجلال کا ارشاد سنتے ہی یہ لوگ اپنے بڑوں سے کہیں گے کہ آج ہماری مدد کیوں نہیں کرتے ہو؟ دنیا میں ہمارے پاس آکر بڑے بڑے دعوے کرتے اور ہمیں امیدیں دلایا اور کہا کرتے تھے کہ ہم دنیا میں بھی تمہارے خیر خواہ ہیں اور آخرت میں بھی تمہارے نجات دہندہ ہوں گے۔ بالخصوص جھوٹے پیر اور برے علماء یہ بات کہہ کر لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں کہ مرشد کے بغیر ہدایت نصیب نہیں ہوتی اور مرشد ہی قیامت کے دن اپنے مریدوں کی نجات کا ذمہ دار ہوگا۔ اس امید کی بنیاد پر مرید اپنے پیروں کو ور کر اپنے لیڈروں کو کہیں گے کہ آج ہماری چارہ جوئی کرو کیونکہ تم دنیا میں ہماری نجات کی ذمہ داری کا دعویٰ کیا کرتے تھے۔ عربی زبان میں ” یَمِیْنٌ“ کے کئی معانی ہیں جن میں مشہور تین ہیں 1” یَمِیْنِ“ کا معنٰی دایاں ہاتھ یا جانب 2 قسم 3 غلام۔ گویا کہ جہنمی کہیں گے کہ ہم تو کسی نہ کسی طرح تمہارے غلام یعنی ماتحت تھے اور تم ہی نے قسمیں اٹھا، اٹھا کر ہمیں گمراہ کیا تھا اب ہماری چارہ جوئی کرو! ” مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ“ کی وضاحت اس سے پہلے بھی کئی مرتبہ کی جاچکی ہے موقع کی منا سبت سے یہاں پھر مختصر وضاحت کی جاتی ہے۔ 1” مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ“ سے مراد ہر وہ چیز ہے جو اللہ تعالیٰ کی عبادت میں حائل ہوتی ہو یا اسے حائل کرلیا جائے۔ اس میں وہ بت اور مجسمّے بھی شامل ہیں جن کے بارے میں یہ عقیدہ رکھا جائے کہ ان کی وجہ سے اللہ تعالیٰ دعا قبول کرتا ہے اور ان کے واسطے سے اللہ تعالیٰ کا تقرب حاصل ہوتا ہے۔ قیامت کے دن انہیں بھی جہنم میں جھونک دیا جائے گا تاکہ انہیں متبرکسمجھنے والے اپنی آنکھوں سے ان کا حشر دیکھ سکیں۔ یہ بت جہنم کے انگارے بن کر انکی سزا میں اضافہ کا باعث ثابت ہوں گے۔ 2 ” مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ“ سے مراد ہر قسم کے گمراہ پیر، حکمران، لیڈر اور مرشد ہیں جنہوں نے اپنے چاہنے والوں کو راہ راست سے گمراہ کیا یا گمراہی کا ماحول پیدا کیا۔ تمام انبیاء کرام (علیہ السلام) اور بزرگان دین جہنم سے محفوظ ہوں گے۔ بے شک لوگوں نے ان کے نام سے شرک کیا اور بدعات ورسومات رائج کیں۔ یہ بزرگ اس لیے جہنم سے دور رکھے جائیں گے کیونکہ وہ لوگوں کو شرک و بدعات سے منع کرتے تھے۔ جہنم کی ہولناکیاں دیکھ کر پیر اپنے مریدوں، عابد اپنے معبودوں اور لیڈر اپنے ور کروں، علماء اپنے مقتدیوں کو کہیں گے تمہاری گمراہی میں ہمارا کوئی عمل دخل نہیں۔ کیونکہ تم خود ہی ایمان لانے کے لیے تیار نہ تھے۔ تمہیں گمراہ کرنے میں ہمیں کوئی اختیارنہ تھا۔ تم تو خود ہی اللہ اور اس کے رسول کے نافرمان تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم سب پر ہمارے رب کا فرمان سچ ثابت ہوا کہ ہم مجرموں کو عذاب کا ذائقہ چکھاتے ہیں اس کے ساتھ ہی وہ اس کا اعتراف کریں گے کہ ہم نے تمہیں اس طرح گمراہ کیا جس طرح ہم خود گمراہ تھے۔ اس طرح عذاب پانے والے ایک دوسرے کے ساتھی ہوں گے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ ہم مجرموں کو اس طرح ہی سزا دیتے ہیں۔ مسائل ١۔ جہنمیوں کو ایک جگہ جمع کرکے آخری مرتبہ سوال ہوگا کہ تم ایک دوسرے کی مدد کیوں نہیں کرتے ؟ ٢۔ جہنمی اپنے گناہوں کی ذمہ داری اپنے راہنماؤں پر عائد کریں گے۔ ٣۔ جہنمیوں کے پیشوا گناہوں کی ذمہ داری اٹھانے سے انکار کریں گے۔ تفسیر بالقرآن محشر کے میدان میں جہنمیوں کا ایک دوسرے کے ساتھ تکرار کرنا : ١۔ قیامت کے دن معبودان باطل اپنی عبادت کا انکار کردیں گے۔ (یونس : ٢٨) ٢۔ قیامت کے دن مشرک اپنے شرکاء کو دیکھ کر کہیں گے کہ ہم ان کی عبادت کرتے تھے اور ان کے معبود انکار کریں گے۔ (النحل : ٨٦) ٣۔ قیامت کے دن مشرک اپنے معبودان کو دیکھ کر کہیں گے ہمیں یہ گمراہ کرنے والے تھے۔ (القصص : ٦٣) ٤۔ قیامت کے دن پیر اپنے مریدوں سے بیزاری کا اظہار کریں گے۔ (البقرۃ: ١٦٦) ٥۔ جہنم میں داخل ہونے والے اپنے سے پہلوں کو دیکھ کرکہیں گے۔ ہمیں گمراہ کرنے والے یہی لوگ تھے الٰہی انہیں دوگنا عذاب دیا جائے۔ (الاعراف : ٣٨) الصافات
27 الصافات
28 الصافات
29 الصافات
30 الصافات
31 الصافات
32 الصافات
33 الصافات
34 الصافات
35 فہم القرآن ربط کلام : جہنمیوں کا سب سے بڑا جرم۔ جہنمیوں کے جہنم میں داخل ہونے کا سب سے بڑا جرم یہ ہوگا کہ وہ ” لَا اِلٰٰہَ اِلَّا اللّٰہُ“ کے منکرہوں گے۔ دنیا میں جب بھی ایسے لوگوں کو انبیائے کرام یا ان کے سچے جانشینوں نے ” لَا اِلٰٰہَ اِلَّا اللّٰہُ“ کی دعوت دی کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور وہی حاجت روا اور مشکل کشا ہے۔ لوگوں کی غالب اکثریت نے اس دعوت کے ساتھ تکبر کا مظاہرہ کیا۔ مشرک کی عادت ہے کہ جوں ہی اسے توحیدِخالص کی دعوت دی جاتی ہے تو وہ منہ بسوڑتا اور تکبر کا اظہار کرتا ہے۔ دعوت توحید کے ساتھ تکبر کرنے والوں نے انبیائے کرام (علیہ السلام) اور نبی آخر الزّماں کی دعوت کو یہ کہہ کر ٹھکرایا کیا ہم اس شاعر اور دیو انے کے کہنے پر اپنے معبودوں کو چھوڑ دیں ؟ اس الزام اور خرافات کے ساتھ انہوں نے یہ بھی پراپیگنڈہ کیا کہ ہمارے لیے اس نبی کی دعوت انوکھی ہے حالانکہ ان کے پہلے الزامات کی طرح یہ بات بھی سراسر جھوٹ تھی اور ہے۔ کیونکہ نبی آخر الزماں (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صرف دعوت حق پیش کرنے والے نہیں تھے بلکہ پہلے تمام انبیائے کرام (علیہ السلام) کی تصدیق بھی فرماتے تھے۔ ” ان کو تعجب ہوتا ہے کہ ان کے پاس انہی میں سے ایک آدمی سمجھانے والا آیا اور منکر کہتے ہیں کہ یہ جادوگر اور بڑا جھوٹا ہے۔ اس نے تمام معبودوں کو چھوڑ کر ایک معبود بنا لیا ہے کچھ شک نہیں کہ یہ عجیب بات ہے۔ ان کے سردار کہنے لگے کہ اپنے معبودوں پر جمے رہواس کے پیچھے تو کوئی غرض دکھائی دیتی ہے۔“ (صٓ: ٤ تا ٧) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کافر اس لیے دیوانہ کہتے تھے کہ اس شخص کی معاشرے میں بہت عزت بنی ہوئی تھی لیکن اس نے محض اپنی دعوت کی خاطر ساری عزت برباد کرلی ہے اور دیوانوں کی طرح ایک ہی بات دھراے جاتا ہے۔ وہ اس لیے بھی آپ کو دیوانہ کہتے تھے کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ایک ہی خدا اتنی بڑی کائنات کا نظام اکیلا چلا سکے۔ وہ آپ کو اس لیے بھی دیوانہ کہتے تھے کہ ہر قسم کی پیشکش کی ہے لیکن یہ دیوانوں کی طرح ہر بات کو ٹھکراتے جا رہا ہے۔ ان کے بارے میں ارشاد ہے کہ یہ ضرور اذّیت ناک عذاب میں مبتلاہوں گے اور یہ ان کو ان کے کیے کی سزا ملے گی۔ مسائل ١۔ لوگوں کی غالب اکثریت دعوت توحید کے ساتھ تکبر کرتی ہے۔ ٢۔ مشرکین اور کفار نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیوانہ اور شاعر ہونے کا الزام دیا۔ ٣۔ کفار نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت کو انوکھی بات قرار دیا۔ ٤۔ نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمام انبیائے کرام (علیہ السلام) کی تصدیق کرنے والے تھے۔ تفسیر بالقرآن لَا اِلٰٰہَ اِلَّااللّٰہَ کے ساتھ منکرین کا روّیہ : ١۔ جب مشرکین سے کہا جاتا ہے کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں تو وہ تکبر کرتے ہیں۔ ( الصافات : ٣٥) ٢۔ جب ایک اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے تو ان کے دل جل اٹھتے ہیں۔ ( الزمر : ٤٥) ٣۔ جب تنہا ایک رب کی طرف بلایا جاتا ہے تو مشرکین اس دعوت کو ٹھکرا دیتے ہیں۔ ( المؤمن : ١٢) ٤۔ جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو سجدہ کرو تو وہ انکار کرتے ہوئے مزید نفرت کا اظہار کرتے ہیں۔ (الفرقان : ٦٠) ٥۔ جب قرآن میں آپ کے اکیلے رب کا تذکرہ کیا جاتا ہے تو وہ اپنی پیٹھوں کے بل بھاگ کھڑے ہوتے ہیں۔ (بنی اسرائیل : ٤٦) ٦۔ جب مشرکین سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ احکام کی پیروی کرو تو کہتے ہیں کہ ہم تو اپنے آباء و اجداد کی پیروی کریں گے۔ ( البقرۃ: ١٧٠) الصافات
36 الصافات
37 الصافات
38 الصافات
39 الصافات
40 فہم القرآن ربط کلام : جہنمیوں کے مقابلے میں جنت میں داخل ہونے والوں کا مقام اور احترام۔ قرآن مجیدنے اپنے دلنشین اسلوب کے تحت یہاں بھی دو قسم کے افراد اور ان کے انجام کا تقابل پیش کیا ہے۔ جہنمیوں کے مقابلے میں جنتیوں کے لیے اللہ کے مخلص بندوں کی اصطلاح استعمال فرمائی ہے۔ مخلصین کے القاب سے یہ ثابت کیا ہے کہ جنت میں وہی لوگ داخل ہوپائیں گے جن کے عقیدہ اور کردار میں شرک کی ملاوٹ نہ ہوگی اور نہ ہی وہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی گستاخی کے مرتکب ہوں گے بلکہ یہ لوگ انتہائی فرمانبردار اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے محبت کرنے والے ہوں گے۔ ان کے لیے انواع و اقسام کا رزق ہوگا جو بڑے اہتمام اور تکریم کے ساتھ انہیں پیش کیا جائے گا۔ وہ نعمتوں بھری جنت میں ہوں گے اور اس میں بہترین صوفوں پر ایک دوسرے کے سامنے تشریف فرما ہو کر شراب کے جام لوٹا رہے ہوں گے۔ یہ شراب رنگت کے اعتبار سے دودھ سے زیادہ سفید اور انتہائی لذت دار ہوگی اس میں نہ نشہ ہوگا اور نہ کسی قسم کی تلخی پائی جائے گی۔ جب جنت کے پھل جنتیوں کے سامنے پیش کیے جائیں گے تو وہ ایک دم پکاراٹھیں گے کہ یہ تو وہی پھل ہیں جو ہمیں دنیا میں عطا کیے گئے تھے۔ شکل و صورت اور رنگت کے اعتبار سے جنت کے پھل اس لیے دنیا کے پھلوں کی مانند ہوں گے تاکہ جنتیوں کو پہچاننے میں کسی قسم کی پریشانی نہ اٹھانی پڑے۔ اس لیے ارشاد ہوا کہ جنتیوں کو دنیا کے پھلوں کے متشابہ پھل دیئے جائیں گے (البقرۃ : ٢٥) یاد رہے کہ جنت میں مشروبات کی چار قسم کی نہریں ہوں گی۔1 صاف اور شفاف پانی نہ اس کا رنگ بدلے گا اور نہ اس میں بو ( SMELL) پیدا ہوگی۔2 دودھ جس کا ذائقہ کبھی تبدیل نہیں ہوگا۔3 شہد اتنا شفاف اور روشن ہوگا جس میں پینے والے کو اپنا چہرہ نظر آئے گا۔ 4 شراب جس میں نشہ نہیں ہوگا۔ جنتیوں کے لیے ہرقسم کے میوہ جات ہوں گے اور ہمیشہ کے اللہ تعالیٰ کی رضا مندی ہوگی۔ مسائل ١۔ جنت میں داخل ہونے والے لوگ عقیدہ اور کردار کے اعتبار سے خالص اور نہایت مخلص ہوں گے۔ ٢۔ جنتیوں کو بڑی تکریم کے ساتھ ان کی چاہت کے مطابق پھل اور میوہ جات پیش کیے جائیں گے۔ ٣۔ جنتی صوفوں پر بیٹھے ہوئے ایک دوسرے کے سامنے شراب کے جام اڑا رہے ہوں گے۔ ٤۔ جنت کی شراب میں کسی قسم کی تلخی اور نشہ نہیں پایاجائے گا۔ تفسیر بالقرآن جنت کی نعمتوں کی ایک جھلک : ١۔ ہم ان کے دلوں سے کینہ نکال دیں گے اور وہ ایک دوسرے کے سامنے تکیوں پر بیٹھے ہوں گے۔ انہیں کوئی تکلیف نہیں پہنچے گی اور نہ وہ اس سے نکالے جائیں گے۔ (الحجر : ٤٧۔ ٤٨) ٢۔ جس جنت کا مومنوں کے ساتھ وعدہ کیا گیا ہے۔ اس کے نیچے سے نہریں جاری ہیں اور اس کے پھل اور سائے ہمیشہ کے لیے ہوں گے۔ (الرّعد : ٣٥) ٣۔ جنت میں بے خار بیریاں، تہہ بہ تہہ کیلے، لمبا سایہ، چلتا ہوا پانی، اور کثرت سے میوے ہوں گے۔ (الواقعۃ : ٢٨ تا ٣٠) ٤۔ جنت کے میوے ٹپک رہے ہوں گے۔ (الحاقۃ: ٢٣) ٥۔ جنت میں وہ سب کچھ ہوگا جس کی جنتی خواہش کرے گا۔ (حٰم السجدۃ: ٣١) ٦۔ ایمان والوں اور عمل صالح کرنے والوں کے لیے جنت الفردوس ہے۔ (الکہف : ١٠٧) ٧۔ یقیناً متقین سایوں اور چشموں اور پسندیدہ میوہ جات میں رہیں گے۔ (المرسلات : ٤١۔ ٤٢) الصافات
41 الصافات
42 الصافات
43 الصافات
44 الصافات
45 الصافات
46 الصافات
47 الصافات
48 فہم القرآن ربط کلام : جنتیوں کی ازواج مطہرات کا ذکر۔ دنیا میں شراب اور شباب کا لفظ جب استعمال کیا جاتا ہے تو اس میں بے حیائی کا عنصر پایا جاتا ہے۔ اس لیے کوئی شریف آدمی اپنے لیے ان الفاظ کو پسند نہیں کرتا۔ لیکن جنت میں شراب اور شباب اپنی کامل اور اکمل پاکیزگی کے ساتھ جنتیوں کی خدمت میں پیش کی جائیں گی۔ شراب کے بارے میں پچھلی آیت میں ذکر ہوا کہ اس میں کسی قسم کی غنودگی اور تلخی نہیں پائی جائے گی۔ جنت کی ازواج کا تعارف ان الفاظ میں کروایا جارہا ہے کہ وہ اس قدر پاکباز اور شرم و حیا کا پیکر ہوں گی کہ اپنے خاوندوں کے سوا کسی دوسرے جنتی کی طرف نگاہ اٹھانے کا تصور بھی نہ کر پائیں گی۔ ان کے حسن و جمال کا عالم یہ ہوگا کہ پُر جمال چہرے، بہترین نقش ونگار اور حیا سے بھری موٹی موٹی آنکھیں گویا کہ وہ چمکتے ہوئے محفوظ انڈے ہیں جنہیں نہ کسی آنکھ نے دیکھا ہوگا اور نہ کسی ہاتھ نے چھوا ہوگا۔ خوبصورت چہرے اور حسن وجمال کے پیکر کوہر زبان میں انڈے کے ساتھ تشبیہ دی جاتی ہے اور انڈوں میں سب سے خوبصورت انڈہ شتر مرغ کا سمجھا جاتا ہے۔ اس لیے بعض مفسرین نے جنتیوں کی ازواج مطہرات کوشترمرغ کے انڈوں کے ساتھ تشبیہ دی ہے۔ اس کا یہ معنٰی نہیں کہ ان تشبیہات سے جنت کی عورتوں کے حسن کا تصور انسان کے احاطہ خیال میں سما سکتا ہے۔ یہ تشبیہ تو محض انسان کے تصور کو جلا بخشنے کے لیے دی گئی ہے ورنہ جنت کی بیویوں کا حسن دنیا کی عورتوں سے ہزاروں گنا بڑھ کر ہوگا۔ (وَلَوْ اَنَّ اِمْرَاَۃً مِّنْ نِّسَآءِ أَھْلِ الْجَنَّۃِ اطَّلَعَتْ اِلَی الْاَرْضِ لَاَضَآءَ تْ مَا بَیْنَھُمَا وَلَمَلَاَتْ مَا بَیْنَھُمَا رِیْحًا وَلَنَصِیْفُھَا یَعْنِی الْخِمَارَ خَیْرٌ مِّنَ الدُّنْیَا وَمَا فِیْھَا) [ رواہ البخاری : باب صفۃ الجنۃ والنار ] ” اگر اہل جنت کی عورتوں سے کوئی زمین کی طرف جھانک لے تو مشرق و مغرب اور جو کچھ اس میں ہے روشن اور معطر ہوجائے۔ نیز اس کے سر کا دوپٹہ دنیا اور جو کچھ دنیا میں ہے اس سے قیمتی ہے۔“ (وَعَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اِنَّ اَوَّلَ زُمْرَۃٍ یَدْخُلُوْنَ الْجَنَّۃَ عَلٰی صُوْرَۃِ الْقَمَرِ لَیْلَۃَ الْبَدْرِ ثُمَّ الَّذِیْنَ یَلُوْنَھُمْ کَاَشَدِّ کَوْکَبٍ دُرِّیٍٍٍٍّ فِیْ السَّمَاءِ اِضَاءَ ۃً قُلُوْبُھُمْ عَلٰی قَلْبِ رَجُلٍ وَّاحِدٍ لَا اخْتِلَافَ بَیْنَھُمْ وَلَا تَبَاغُضَ لِکُلِّ امْرِیئ مِّنْھُمْ زَوْجَتَانِ مِنَ الْحُوْرِ الْعِیْنِ یُرٰی مُخُّ سُوْ قِھِنَّ مِنْ وَّرَاءِ الْعَظْمِ وَاللَّحْمِ مِنَ الْحُسْنِ یُسَبِّحُوْنَ اللّٰہَ بُکْرَۃً وَّعَشِیًّا لَایَسْقَمُوْنَ وَلَا یَبُوْلُوْنَ وَلَا یَتَغَوَّطُوْنَ وَلَایَتْفُلُوْنَ وَلَا یَمْتَخِطُوْنَ اٰنِیَتُھُمُ الذَّھَبُ وَالْفِضَّۃُ وَاَمْشَاطُھُمُ الذَّھَبُ وَوُقُوْدُ مَجَامِرِھِمُ الْاُلُوَّۃُ وَرَشْحُھُمُ الْمِسْکُ عَلٰی خَلْقِ رَجُلٍ وَّاحِدٍ عَلٰی صُوْرَۃِ اَبِیْھِمْ اٰدَمَ سِتُّوْنَ ذِرَاعًا فِیْ السَّمَاءِ) [ رواہ البخاری : باب قَوْلِ اللَّہِ تَعَالَی (وَإِذْ قَالَ رَبُّکَ لِلْمَلاَءِکَۃِ إِنِّی جَاعِلٌ فِی الأَرْضِ خَلِیفَۃً )] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جنت میں سب سے پہلے داخل ہونے والے چودھویں رات کے چاند کی طرح روشن ہوں گے۔ ان کے بعد داخل ہونے والے، آسمان پر بہت تیز چمکنے والے ستارے کی طرح ہوں گے۔ تمام جنتیوں کے دل ایک جیسے ہوں گے نہ ان کے درمیان اختلاف ہوگا اور نہ ہی ایک دوسرے سے بغض رکھیں گے۔ ان میں سے ہر شخص کے لیے حوروں میں سے دو بیویاں ہوں گی۔ جن کے حسن کی وجہ سے ان کی پنڈ لیوں کا گودا‘ ہڈی اور گوشت کے پیچھے دکھائی دے گا۔ اہل جنت صبح شام اللہ تعالیٰ کی تسبیح بیان کریں گے نہ وہ بیمار ہوں گے اور نہ ہی پیشاب کریں گے‘ نہ رفع حا جت کریں گے اور نہ ہی تھوکیں گے اور نہ ہی ناک سے رطوبت بہائیں گے ان کے برتن سونے چاندی کے ہوں گے۔ اور ان کی کنگھیاں سونے کی ہوں گی۔ ان کی انگیٹھیوں کا ایندھن عود ہندی ہوگا اور ان کا پسینہ کستوری کی طرح ہوگا۔ سب کا اخلاق ایک جیسا ہوگا نیز وہ سب شکل و صورت میں اپنے باپ آدم (علیہ السلام) کی طرح ہوں گے آدم کا قد ساٹھ ہاتھ لمبا تھا۔“ تفسیر بالقرآن جنت کی بیویوں کے حسن وجمال کی ایک جھلک : ا۔ حوریں نوجوان، کنواریاں اور ہم عمرہوں گی۔ (الواقعہ : ٢٥ تا ٣٨) ٢۔ یا قوت و مرجان کی مانند ہوں گی۔ (الرّحمن : ٥٨) ٣۔ خوبصورت اور خوب سیرت ہوں گی۔ (الرّحمن : ٧٠) ٤۔ جنت کی حوریں خیموں میں چھپی ہوئی ہوں گی۔ (الرّحمن : ٧٢) ٥۔ شرم و حیا کی پیکر اور انہیں کسی نے چھوا نہیں ہوگا۔ (الرّحمن : ٥٦) ٦۔ جنت کی حوریں ایسی دیکھائی دیں گی جیسے چھپائے ہوئے موتی ہوں۔ (الواقعہ : ٢٣) ٧۔ جنتیوں کو خوبصورت بڑی بڑی آنکھوں والی حوریں عطا کی جائیں گی۔ (الصّٰفٰت : ٤٨، ٤٩) ٨۔ جنتیوں بیویاں ان کی ہم عمرہوں گی۔ (صٓ: ٥٢) ٩۔ جنتیوں کے لیے پاک صاف بیویاں ہوں گی۔ (البقرۃ: ٢٥) الصافات
49 الصافات
50 فہم القرآن ربط کلام : جنت میں بیٹھے ہوئے جنتیوں کا جہنمیوں کے ساتھ ہم کلام ہونا۔ جنتی حضرات جنت میں کھانے پینے اور خوش گپیوں میں مصروف ہوں گے۔ اس ماحول میں اچانک ایک جنتی دوسرے سے کہے گا کہ دنیا میں میرا ایک ساتھی تھا جو مجھے کہا کرتا تھا کہ کیا تو بھی اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ جب ہماری ہڈیاں مٹی کے ساتھ مٹی ہوجائیں گی تو ہمیں اٹھا کر سزا یا جزا دی جائے گی۔ اس کے ساتھ ہی اپنے ساتھیوں سے کہے گا کیا اسے دیکھنا چاہتے ہو ؟ یہ کہنے کے بعد وہ نظر اٹھائے گا تو اسے اس کا ساتھی جہنم میں جلتا ہوا دکھائی دے گا۔ کچھ اہل علم نے لکھا ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرمائیں گے کہ کیا اپنے ساتھی کو دیکھنا چاہتے ہو تب جنتی اس جہنّمی کو مخاطب کرتے ہوئے کہے گا کہ اللہ کی قسم۔ اگر مجھ پر میرے رب کا کرم نہ ہوتا تو تو مجھے بھی ہلاک کرچکا ہوتا۔ جس طرح تم سزا پارہے ہو اس طرح میں بھی تیرے ساتھ اس عذاب میں مبتلا ہوتا۔ اس کے ساتھ ہی وہ کہے گا کہ ہم نے ایک دفعہ مرنا تھا سو مر چکے اب ہمیں نہ موت آئے گی اور نہ ہی کسی قسم کی تکلیف پہنچے گی۔ یہ ہم پر اللہ کا عظیم فضل ہوا ہے جو بہت بڑی کامیابی ہے۔ یہ فضل اور کامیابی پانے کے لیے ہر کسی کو اس جیسے اعمال کرنے چاہییں۔ قرآن مجید نے یہ بات دو ٹوک انداز میں بتلائی ہے کہ جنتی جنت میں ہمیشہ ہمیش رہیں گے اور جہنمی جہنم میں ابدی سزا پائیں گے۔ کیونکہ موت کو موت کے گھاٹ اتار دیا جائے گا۔ جہاں تک کہ آخری آیت کے مفہوم کا تعلق ہے یہ جنتی کی زبان میں ایک پیغام ہے جو لوگوں کو دیا گیا ہے تاکہ لوگ جنت کے لیے صحیح عقیدہ اور صالح اعمال اختیار کریں۔ (عَنْ أَبِیْ سَعِیْدٍ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یُجَاٗٗءُ بالْمَوْتِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ کَأَنَّہُ کَبْشٌ أَمْلَح۔۔ یَا أَہْلَ الْجَنَّۃِ ہَلْ تَعْرِفُوْنَ ہَذَا فَیَشْرَءِبُّوْنَ وَیَنْظُرُوْنَ وَیَقُوْلُوْنَ نَعَمْ ہَذَا الْمَوْتُ قَالَ وَیُقَالُ یَا أَہْلَ النَّارِ ہَلْ تَعْرِفُوْنَ ہَذَا قَالَ فَیَشْرَءِبُّوْنَ وَیَنْظُرُوْنَ وَیَقُوْلُوْنَ نَعَمْ ہَذَا الْمَوْتُ قَالَ فَیُؤْمَرُ بِہِ فَیُذْبَحُ قَالَ ثُمَّ یُقَالُ یَا أَہْلَ الْجَنَّۃِ خُلُوْدٌ فَلاَ مَوْتَ وَیَا أَہْلَ النَّارِ خُلُوْدٌ فَلاَ مَوْتَ) [ رواہ مسلم : کتاب الجنۃ] ” حضرت ابو سعید (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ نے فرمایا موت قیامت کے دن مینڈھے کی شکل میں لائی جائے گی۔ ابو کریب نے کچھ الفاظ زیادہ بیان کیے ہیں کہ اسے جنت اور جہنم کے درمیان روک لیا جائے گا۔ پھر جنتیوں سے کہا جائے گا کیا تم اسے پہچانتے ہو تو وہ اسے پہچاننے کی کوشش کریں گے۔ اس کی طرف دیکھیں گے اور کہیں گے ہاں یہ موت ہے۔ جہنمیوں سے کہا جائے گا کیا تم بھی اسے پہچانتے ہو وہ بھی پہچاننے کی کوشش کریں گے غور سے دیکھ کر کہیں گے ہاں یہ موت ہے پھر حکم ہوگا۔ اسے ذبح کردیا جائے گا پھر کہا جائے گا اے جنتیوتم جنت میں ہمیشہ رہوتمہیں موت نہیں آئے گی۔ اے جہنمیو! تم بھی جہنم میں ہمیشہ رہو تمہیں بھی موت نہیں آئے گی۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ آیت تلاوت کی انہیں حسرتوں والے دن سے ڈرائیں جب فیصلہ کیا جائے گا جس کے بارے میں وہ غفلت میں ہیں اور یہ ایمان نہیں لائیں گے۔“ اس میں کوئی شک نہیں کہ جہنم طول و عرض، گہرائی اور بالا خانوں کے اعتبار سے لا محدود ہوگی لیکن جونہی جنتی کسی جہنمی سے ہم کلام ہونے کی خواہش کرے گا تو اللہ تعالیٰ اس کی یہ خواہش بھی پوری فرما دے گا تاکہ جنتی کو اللہ کی رحمت اور اس کے انعامات کا احساس ہو اور جہنمی کی اذیت میں اضافہ ہوجائے جہنمی کہے گا کاش! میں ” لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ“ پڑھتا اور اس کے تقاضے پورے کرتا تو آج اپنے ساتھی کی طرح جنت کی نعمتوں سے لطف اندوز ہوتا اور جہنم کے عذاب سے محفوظ رہتا۔ جنتیوں کی جہنمیوں کے ساتھ گفتگو : ” جنتی باغوں میں ہوں گے مجرموں سے پوچھیں گے کہ تم جہنم میں کس وجہ سے داخل ہوئے ؟ وہ کہیں گے ہم نماز ادا نہیں کرتے تھے اور ہم مسا کین کو کھانا نہ کھلاتے تھے اور کاموں میں لگے رہتے تھے اور ہم یوم جزا کا انکار کرتے تھے یہاں تک کہ ہمیں اس کا یقین ہوگیا۔“ (المدثر : ٤٠ تا ٤٨) مسائل ١۔ جنتیوں کو جہنمیوں سے ہم کلام ہونے کا موقع دیا جائے گا۔ ٢۔ جنتیوں کو کسی قسم کی تکلیف نہ پہنچے گی۔ ٣۔ جنت میں داخلہ نصیب ہونا سب سے بڑی کامیابی ہے۔ ٤۔ سب لوگوں کو جنتیوں والے اعمال کرنے چاہییں۔ ٥۔ قیامت کو زندہ ہونے کے بعد موت نہیں آئے گی۔ تفسیر بالقرآن سب سے بڑی کامیابی : ١۔ ” اللہ“ کا انسان کو ہمیشگی والی جنت میں داخل فرمانابڑی کامیابی ہے۔ (التوبۃ: ٨٩) ٢۔ اللہ تعالیٰ کا مومنین کو باغات عطا کرنا اور اپنی رضا مندی کا سر ٹیفکیٹ عطا فرمانابڑی کامیابی ہے۔ (التوبۃ: ٧٢) ٣۔ اللہ تعالیٰ کا مومنین کے ساتھ ان کی جانوں اور مالوں کے بدلے جنت کا سودا فرمانا۔ (التوبۃ: ١١١) ٤۔ اللہ تعالیٰ پہ ایمان لانا اور اسی سے ڈرنا اور اللہ تعالیٰ کا انھیں بشارت سے نوازنا۔ (یونس : ٦٣ تا ٦٤) ٥۔ اللہ تعالیٰ کی کرم نوازی سے برائی سے بچ جانا کامیابی ہے۔ (المومن : ٩) ٦۔ ہمیشہ رہنے والے باغات اور رہائش گاہوں کا وعدہ فرمانا۔ (الصف : ١٢) الصافات
51 الصافات
52 الصافات
53 الصافات
54 الصافات
55 الصافات
56 الصافات
57 الصافات
58 الصافات
59 الصافات
60 الصافات
61 الصافات
62 فہم القرآن ربط کلام : جنت کی نعمتوں اور عیش و عشرت کے مقابلے میں جہنمیوں کی سزا اور ان کی بدترین خوراک۔ جنتیوں کی تکریم و تعظیم اور اس کی نعمتوں کا ذکر کرنے کے بعد جہنم کی بدترین خوراک بتلا کر استفسار فرمایا ہے کہ بتاؤ ! جنت کے انواع و اقسام کے کھانے اور پھل بہتر ہیں یا کہ تھوہر کا درخت ؟ جسے اللہ تعالیٰ نے ظالموں کے لیے آزمائش بنایا ہے یہ درخت جہنم کی تہہ سے اگے گا اس کے شگوفے شیطانوں کے سروں کی طرح ہوں گے۔ جہنمی اس کو کھائیں گے اور اپنے پیٹ بھرنے کی کوشش کریں گے۔ اس کو نگلنے کے لیے ابلتا ہوا پانی دیا جائے گا اور پھر انہیں جہنم کے ایک اور گڑھے کی طرف دھکیلا جائے گا۔ یہ سزا اس لیے ہوگی کیونکہ یہ لوگ اللہ اور اسکے رسول کی اطاعت کرنے کی بجائے اپنے گمراہ آباء و اجداد کی پیروی کرتے رہے اور اسی طرح نسل در نسل گمراہ ہوتے چلے گئے۔ حالانکہ انہیں انتباہ کرنے کے لیے ان کی طرف رسول بھیجے تھے لیکن مخلص بندوں کے سوا باقی تمام لوگ گمراہ ہوئے۔ جس کے نتیجہ میں ان کا دنیا میں بھی انجام بدتر ہوا۔ اگر دیکھنا چاہو تو تاریخ کے اوراق اور جغرافیائی نشانات سے ان کا انجام دیکھ سکتے ہو۔ جہنم کی تہہ سے اگنے والے شجرۃ الزّقوم جسے اردو زبان میں تھوہر کا درخت کہا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں اکثر یہ درخت قبرستانوں میں پایا جاتا ہے جس کی کچھ قسمیں ایسی ہیں جو بالکل شیطان کے سر دکھائی دیتے ہیں۔ شیطان کا سر ایک محاورہ بھی ہے۔ لوگ ہر اس بری اور پراگندہ چیز کو شیطان کے سر سے تشبیہ دیتے ہیں جسے دیکھتے ہی آدمی کی طبیعت میں کراہت اور نفرت پیدا ہوتی ہے۔ ” شَجَرَۃُ الزَّقُّوْمِ“ اسی قسم کا درخت ہوگا جو جہنم کی تہہ میں پیدا ہوگا جسے کفار مکہ نے یہ کہہ کر مذاق کا نشانہ بنایا کہ آگ میں درخت کس طرح پیدا ہوسکتا ہے۔ در حقیقت یہ ان کے دماغ کا فتور اور قرآن مجید کے انکار کرنے کا انداز تھا ورنہ وہ بھی جانتے تھے کہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کے سامنے یہ مشکل کام نہیں کہ وہ آگ کی تہہ سے درخت پیدا کرے۔ کیونکہ ان کا یہ ایمان تھا کہ ابراہیم (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے نمرود کی آگ سے محفوظ رکھا تھا۔ ” حضرت ابوسعید خدری (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ تبارک وتعالیٰ جنتیوں کو فرمائے گا کہ اے جنتیو! جنتی عرض کریں گے اے ہمارے رب! ہم حاضر ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کیا تم راضی ہو؟ جنتی کہیں گے ہم کیوں راضی نہ ہوں۔ کیونکہ آپ نے ہمیں وہ کچھ عطا کیا ہے جو آپ نے اپنی مخلوق میں سے کسی کو بھی عطا نہیں کیا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا میں تمہیں اس سے بھی افضل چیز دینا چاہتاہوں۔ جنتی کہیں گے اے ہمارے رب ! اس سے افضل چیز کون سی ہو سکتی ہے ؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا میں تم پر راضی ہوگیا ہوں اور اس کے بعد تم پر کبھی ناراض نہیں ہوں گا۔“ [ رواہ البخاری : باب صفۃ الجنۃ والنار] (عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَیْبٍ عَنْ أَبِیْہِ عَنْ جَدِّہٖ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ یُحْشَرُ الْمُتَکَبِّرُوْنَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ أَمْثَال الذَّرِّ فِیْ صُوَرِ الرِّجَالِ یَغْشَاھُمُ الذُّلُّ مِنْ کُلِّ مَکَانٍ فَیُسَاقُوْنَ إِلٰی سِجْنٍ فِیْ جَھَنَّمَ یُسَمّٰی بُوْلَسَ تَعْلُوْھُمْ نَارُ الْأَنْیَارِ یُسْقَوْنَ مِنْ عُصَارَۃِ أَھْلِ النَّارِ طِیْنَۃَ الْخَبَالِ) [ رواہ الترمذی : کتاب صفۃ القیامۃ] ” حضرت عمرو بن شعیب اپنے باپ سے وہ اپنے دادا (رض) سے وہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : قیامت کے دن متکبر لوگ چیونٹیوں کی صورت میں لائے جائیں گے انہیں ہر طرف سے ذلت ڈھانپے ہوئے ہوگی اور انہیں بولس نامی جہنم کی جیل میں لے جایا جائے گا ان پر آگ کے شعلے بلند ہورہے ہوں گے اور انہیں جہنمیوں کی زخموں کی پیپ پلائی جائے گی۔“ مسائل ١۔ جہنمیوں کو کھانے کے لیے تھوہر کا درخت اور پینے کے لیے ابلتا ہوا پانی دیا جائے گا۔ ٢۔ جہنمیوں کا جہنم میں جانے کا ایک بنیادی سبب یہ ہوگا کہ وہ اللہ اور اس کے رسول کے مقابلے میں اپنے آباء اجداد کے رسم و رواج کو دین سمجھتے تھے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو ان کے برے انجام سے آگاہ کرنے کے لیے انبیائے کرام (علیہ السلام) مبعوث فرمائے۔ تفسیر بالقرآن جنتیوں کے اور جہنمیوں میں فرق : ١۔ قیامت کے دن جنتیوں کے چہروں پر ذلت اور نحوست نہ ہوگی اور وہ جنت میں رہیں گے۔ (یونس : ٢٦) ٢۔ جنتیوں کے چہرے تروتازہ ہوں گے (القیامۃ : ٢٢) ٣۔ جنتیوں کو ملائکہ سلام کہیں گے۔ (الزمر : ٧٣) ٤۔ جنتیوں کا استقبال ہوگا۔ ( الزمر : ٧٣) ٥۔ جنتیوں کو ملائکہ سلام کریں گے۔ (الفرقان : ٧٥) ٦۔ جہنمیوں کے چہروں پر ذلت چھائی ہوگی انہیں اللہ سے کوئی نہ بچا سکے گا۔ (یونس : ٢٧) ٧۔ جہنمیوں کے چہرے بگڑے ہوئے ہوں گے۔ (الحج : ٧٣) ٨۔ جہنمیوں کے چہروں پر گردو غبار ہوگا۔ (عبس : ٤٠) ٩۔ خدا کے باغیوں پر پھٹکار ہوگی۔ (یونس : ٢٧) ١٠۔ مجرموں کے چہرے ڈرے اوراُوندھے ہوں گے۔ (الغاشیۃ: ٢) ١١۔ کفار کے چہرے مرجھائے اور اڑے ہوئے ہوں گے۔ (القیامۃ: ٢٤) ١٢۔ جہنمیوں پر ملائکہ لعنت کرینگے۔ (لزمر : ٧٢) الصافات
63 الصافات
64 الصافات
65 الصافات
66 الصافات
67 الصافات
68 الصافات
69 الصافات
70 الصافات
71 الصافات
72 الصافات
73 الصافات
74 الصافات
75 فہم القرآن ربط کلام : جہنمیوں کے مقابلے میں مخلص بندوں کا انجام ان میں حضرت نوح (علیہ السلام) بھی شامل ہیں لہٰذا ان کا واقعہ سماعت فرمائیں۔ اللہ تعالیٰ نے بڑی بڑی اقوام میں انبیائے کرام (علیہ السلام) کو مبعوث فرمایا۔ مگر لوگوں نے ان کی دعوت کو قبول کرنے سے انکار کیا جس کے نتیجے میں دنیا میں ذلیل ہوئے اور آخرت میں جہنم کا ایندھن بنیں گے۔ سوائے ان لوگوں کے جنہوں نے اخلاص کے ساتھ اللہ اور اس کے رسولوں کی اطاعت کی انہیں دنیا کے عذاب سے بچا لیا گیا اور آخرت میں وہ کامیاب ٹھہریں گے۔ ان مخلصین میں حضرت نوح (علیہ السلام) اور ان کے رفقائے کرام سر فہرست ہیں۔ جب نوح (علیہ السلام) کو ان کی قوم نے یکسر طور پر ٹھکرادیا اور باربار ان سے عذاب لانے کا مطالبہ کیا تو حضرت نوح (علیہ السلام) نے اپنے رب کے حضور ان الفاظ میں فریاد کی۔ بارِالٰہا میں اپنی قوم کے سامنے بے بس ہوگیا ہوں اس لیے میری مدد فرما۔ (المومنون : ٢٦) اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح (علیہ السلام) کی فریاد کو قبول فرمایا جس کے نتیجے میں آسمان کے دروازے کھول دیئے گئے اور زمین سے پانی کے چشمے ابل پڑے۔ پانی پہاڑوں کی چوٹیوں کے اوپر سے بہنے لگا۔ حضرت نوح (علیہ السلام) اور ان کے ساتھیوں کے سوا سب لوگوں کو غرقاب کردیا گیا۔ جس کا تذکرہ سورۃ ہود، سورۃ شعراء، سورۃ قمر اور سورۃ نوح میں موجود ہے۔ یہاں اختصار کے ساتھ صرف اتنا بیان کیا گیا ہے کہ ہم نے نوح (علیہ السلام) اور اس کے اہل کو کرب عظیم سے نجات دی اور ان کی اولاد کو باقی رکھا اور رہتی دنیا تک ان کا ذکر خیر جاری فرمایا۔ نوح (علیہ السلام) پر ہمیشہ اللہ کی رحمتوں کا نزول ہوتا رہے گا۔ اللہ تعالیٰ نیک لوگوں کو ایسی ہی جزا دیتے ہیں۔ حضرت نوح (علیہ السلام) اللہ کے برگزیدہ بندوں میں شامل ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں نجات بخشی اور ان کے مخالفوں کو ڈبکیاں دے دے کر موت کے گھاٹ اتار دیا۔ یہ بحث سورۃ ہود میں گزر چکی ہے کہ طوفان نوح پوری دنیا میں آیا تھا یا کہ زمین کے اس حصہ پر جہاں نوح (علیہ السلام) اور ان کی قوم آباد تھی۔ البتہ یہ وضاحت کردی گئی کہ حضرت نوح (علیہ السلام) کی بیوی اور ان کا بیٹا غرق ہونے والوں میں شامل تھے۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کے باقی بیٹے ان پر ایمان لائے جن کی نسل کو اللہ تعالیٰ نے بڑی افزائش سے نوازا جس کا ذکر یہاں خصوصی طور پر کیا گیا ہے۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح (علیہ السلام) اور ان کے ساتھیوں کو کرب عظیم سے بچا لیا۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ کی حضرت نوح (علیہ السلام) پر ہمیشہ رحمتیں ہوتیں رہیں گی۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح (علیہ السلام) کی اولاد کو ہر قسم کی برکات سے سرفراز فرمایا۔ ٤۔ نوح (علیہ السلام) کے مخالفوں کو غرق کردیا گیا۔ تفسیر بالقرآن طوفان نوح (علیہ السلام) کا ایک منظر : ١۔ قوم نوح طوفان کے ذریعے ہلاک ہوئی۔ (الاعراف : ١٣٦) ٢۔ حضرت نوح نے اپنے بیٹے کو فرمایا آج کے دن اللہ کے عذاب سے کوئی بچانے والا نہیں۔ (ہود : ٤٣) ٣۔ عذاب کے وقت تندور نے ابلنا شروع کردیا۔ ( ہود : ٤٠) ٤۔ قوم نوح پر عذاب کی صورت میں آسمان سے پانی برسا اور جگہ جگہ زمین پھٹ پڑی۔ (ہود : ٤٤) ٥۔ قوم نوح کو تباہ کرنے کے لیے آسمان سے موسلاد ھار بارش کے دھانے کھول دئیے گئے۔ ( القمر : ١١) ٦۔ اللہ تعالیٰ نے نوح (علیہ السلام) کی تکذیب کرنے والوں کو تباہ وبرباد کردیا۔ (الشعراء : ١٢٠) الصافات
76 الصافات
77 الصافات
78 الصافات
79 الصافات
80 الصافات
81 الصافات
82 الصافات
83 فہم القرآن ربط کلام : حضرت نوح (علیہ السلام) کے بعد کئی پیغمبر مبعوث کیے گئے۔ ان میں سب سے نمایاں ابراہیم (علیہ السلام) کی شخصیت گرامی ہے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) بھی اسی دعوت کے ساتھ مبعوث کیے گئے جو حضرت نوح (علیہ السلام) اور ان کے پیروکار انبیاء کرام دیا کرتے تھے۔ اس لیے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا تعارف یوں کروایا گیا ہے کہ ابراہیم (علیہ السلام) اسی مقدس جماعت کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں۔ جن کا تعلق حضرت نوح (علیہ السلام) کے ساتھ ہے۔ حضرت ابراہیم کو جب بھی اللہ تعالیٰ نے کوئی حکم دیا یا کسی آزمائش میں ڈالا تو وہ دل وجان سے اپنے رب کے حضور پیش ہوئے۔ جنہیں اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ میں خراج تحسین سے نوازا ہے جب ابر اہیم قلب سلیم کے ساتھ اپنے رب کی بارگاہ میں حاضر ہوئے۔ قلب سلیم سے مراد وہ دل ہے جس میں اللہ کے سوا کسی کی محبت غالب نہ ہو اور وہ ہر حال میں بلا شرکت غیرے اپنے رب کی سمع و اطاعت کے لیے تیار رہے۔ قلب سلیم کی بنا پر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے باپ، قوم اور حکمرانوں کی مخالفت مول لی اور آگ میں جانا گوارا کرلیا۔ مگر اپنے رب کے ساتھ کسی قسم کا شرک گوارا نہ کیا قلب سلیم کی بدولت حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنا وطن چھوڑا۔ قلب سلیم کی بنیاد پر ہی انہوں اپنی رفیقہ حیات اور نونہال کو عرب کے ویرانے میں چھوڑا تھا اور اسی قلب سلیم کی بنیاد پر ہی انہوں نے اپنے اکلوتے بیٹے اسماعیل (علیہ السلام) کے حل قوم نازک پر چھری چلائی۔ اسی قلب سلیم کی وجہ سے انہوں نے بتوں کو پاش پاش کیا تھا۔ (عَنْ شَدَّادِ بْنِ أَوْسٍ أَنَّ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کَانَ یَقُولُ فِی صَلاَتِہِ اللَّہُمَّ إِنِّی أَسْأَلُکَ قَلْبًا سَلِیمًا وَلِسَانًا صَادِقًا)[ روا النسائی : باب نَوْعٌ آخَرُ مِنَ الدُّعَاءِ] ” شدّاد بن اوس (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نماز میں یہ دعا پڑھا کرتے تھے : اے اللہ ! میں تجھ سے قلب سلیم، صدق لسان کا سوال کرتا ہوں۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ سے قلب سلیم کی دعا کرنی چاہیے۔ ٢۔ قلب سلیم والاشخص ہی جنت میں داخل ہوگا۔ الصافات
84 الصافات
85 فہم القرآن ربط کلام : حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا اپنے باپ اور قوم کو مشتر کہ خطاب۔ سورۃ مریم آیت ٤٢ تا ٤٥ میں موجود ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے سب سے پہلے اپنے وا لد گرامی کو سمجھایا کہ اے میرے والد گرامی ! جن کے سامنے آپ اپنی حاجات اور نذر ونیاز پیش کرتے ہیں نہ یہ سنتے ہیں اور نہ دیکھتے ہیں اور نہ ہی آپ کو کوئی فائدہ دے سکتے ہیں۔ اسی بات کو ابراہیم (علیہ السلام) نے باپ اور قوم سے مشترکہ خطاب میں یوں بیان فرمایا۔ اے والد گرامی اور میری قوم کے لوگو! اللہ کے سوا جن کی تم عبادت کرتے ہو اور جن کے سامنے تم اپنی حاجات پیش کرتے ہو ان کی کوئی حقیقت اور حیثیت نہیں۔ یہ بتاؤ! کہ رب العالمین کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے ؟ یعنی جو عبادات اور آداب اللہ کے حضور بجالانے چاہییں وہ تم اس کے سوا دوسروں کے سامنے کرتے ہو۔ قرآن مجید کی تلاوت سے یہ بات آشکارہ ہوتی ہے کہ ہر دور کے کلمہ پڑھنے والے مشرک زندہ اور فوت شدہ بزرگوں اور غیر مسلم اپنے دیوتاؤں کے بارے میں ایسے ہی تخیلات رکھتے اور باتیں کرتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے بارے میں رکھنے اور کرنی چاہییں۔ ابراہیم (علیہ السلام) مشرکوں کے عقیدہ اور خیالات کے لیے ” اِفْکًا“ کا لفظ استعمال کیا ہے جس کا معنٰی جھوٹ اور بناوٹی عقائد اور خیالات ہیں۔ اسی بنا پر ایک مشرک کہتا ہے کہ فلاں قبر والا یا دیوتا اولاد دیتا ہے۔ دوسرا کہتا ہے کہ فلاں بزرگ فلاں کام کرتا ہے۔ یہ لوگ جھوٹی کرامات اور من گھڑت افسانے ایک نسل سے دوسری نسل تک منتقل کرتے رہتے ہیں حالانکہ ان میں کوئی حقیقت نہیں ہوتی۔ قرآن مجید نے ایسے خیالات اور آداب کو بزرگوں اور دیوتاؤں کی عبادت کرنے کے ساتھ تعبیر کیا ہے۔ یہاں تک کہ زندہ یا فوت شدہ بزرگ یا بت وغیرہ کے سامنے ادب سجدہ کرنا، جھکنا اور نذرونیاز پیش کرنا ہے یہ تو ہر مذہب میں عبادت شمار کیے جاتے ہیں۔ بے شک اسے تعظیم اور ثواب کے طور پر ادا کیا جائے یا عادتاً یا سیاسی اور سماجی رسم کے طور پر کیا جائے۔ حقیقت میں یہ اللہ تعالیٰ کے سوا یا اللہ کے ساتھ دوسروں کی عبادت کرنا ہے۔ جس سے تمام انبیائے کرام (علیہ السلام) منع کرتے رہے ہیں۔ مزارات پر چڑھاوا چڑھانا اور میّت کے لیے نذرماننا حرام ہے : بریلوی مکتبہ فکر کے مفتی علامہ غلام رسول سعیدی تحریر فرماتے ہیں کہ جو شخص اولیاء اللہ کی نذر ونیاز اس طرح مانتا ہے ” اے سیدی ! اگر میرا گم شدہ شخص لوٹ آئے یا میرا بیمار تندرست ہوگیا یا میری حاجت پوری ہوگئی تو میں آپ کو اتنا سونا، چاندی، کھانا، موم بتیاں یا تیل دوں گا۔ یہ نذرونیاز بالاجماع باطل اور حرام ہے اور اس پر متعدد دلائل ہیں۔ پہلی دلیل یہ ہے کہ یہ مخلوق کی نذر ہے اور مخلوق کی نذر جائز نہیں ہے کیونکہ نذر عبادت ہے اور مخلوق کی عبادت جائز نہیں ہے۔ دوسری دلیل یہ ہے کہ نذر ماننے والے کا یہ گمان ہے کہ اشیاء میں اللہ نہیں میّت کا تصرّف ہے تو اس کا یہ اعتقاد کفر ہے۔[ شرح صحیح مسلم ازغلام رسول سعیدی : کتاب النذر] شرکیہ مقام سے بچنا بھی لازم ہے : ” مجھے ثابت بن ضحاک (رض) نے بتایا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دور میں ایک آدمی نے بوانہ نامی جگہ پر اونٹ ذبح کرنے کی نذر مانی۔ اس نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آکر عرض کی میں نے نذر مانی ہے کہ میں بوانہ کے مقام پر اونٹ ذبح کروں گا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : کیا وہاں جاہلیت کے بتوں میں سے کوئی بت تھا جس کی عبادت کی جاتی تھی؟ صحابہ نے عرض کیا نہیں۔ آپ نے پھر پوچھا : کیا وہاں کوئی ان کا میلہ لگتا تھا؟ صحابہ نے نفی میں جواب دیا۔ آپ نے فرمایا : اپنی نذر پوری کرو کیونکہ اللہ کی نافرمانی والی نذر پوری نہیں کرنا چاہیے اور نہ ہی وہ نذر پوری کرنالازم ہے جس کی انسان طاقت نہیں رکھتا۔“ [ رواہ أبوداؤد : کتاب الأیمان والنذور ] مسائل ١۔ مشرک اپنے من ساختہ معبودوں کے بارے میں جھوٹی کرامات اور من گھڑت واقعات بیان کرتے ہیں۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ کی بجائے مشرک غیروں پر زیادہ بھروسہ کرتا ہے۔ تفسیر بالقرآن انبیائے کرام کی دعوت کا مرکزی پیغام : ١۔ نوح (علیہ السلام) کا فرمان کہ صرف ایک اللہ کی عبادت کرو اور دوسروں کو چھوڑ دو۔ (ھود : ٢٦) ٢۔ ھود (علیہ السلام) نے صرف ایک اللہ کی عبادت کرنے کی دعوت دی اور غیر اللہ کی عبادت سے منع کیا۔ (الاعراف : ٦٥) ٣۔ صالح (علیہ السلام) نے صرف ایک اللہ کی عبادت کرنے کی دعوت دی۔ اور غیر اللہ کی عبادت سے منع کیا۔ (الاعراف : ٧٣) ٤۔ شعیب (علیہ السلام) نے صرف ایک اللہ کی عبادت کرنے کی طرف بلایا اور غیر اللہ کی عبادت سے منع کیا۔ (الاعراف : ٨٥) ٥۔ یوسف (علیہ السلام) نے اللہ کی عبادت کرنے کی طرف بلایا۔ (یوسف : ٤٠) ٦۔ عیسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ کی عبادت کرنے کا حکم دیا۔ (المائدۃ: ٧٢) ٧۔ تمام انبیاء کو صرف اللہ کی عبادت کرنے کا حکم۔ (البینۃ: ٥) الصافات
86 الصافات
87 الصافات
88 فہم القرآن ربط کلام : حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا معبودان باطل کے خلاف اقدام۔ نہ معلوم حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کتنا عرصہ باپ اور قوم کو سمجھاتے رہے۔ طویل عرصہ تک سمجھانے کے باوجود جب قوم سمجھنے کے لئے تیار نہ ہوئی تو آپ نے سوچا کہ اگر دلائل انکی سمجھ میں نہیں آرہے اور یہ لوگ اپنی ہٹ دھرمی پر ڈٹے ہوئے ہیں اور ان مورتیوں پر مرے جا رہے ہیں۔ تو اب ان کے معبودوں کی عملی طور پرخبر لینی چاہئے، تب بلا خوف وخطر فرمایا کہ اللہ کی قسم یہ مجسمے میرے لیے ناقابل برداشت ہوگئے ہیں۔ (الانبیاء : ٥٧) اتفاق کی بات دیکھیے اسی کشمکش میں قوم کا میلہ آجاتا ہے۔ مشرک قوم ایسے میلوں میں نہ صرف خود جاتی ہے۔ بلکہ ہر کسی کو ان خرافات میں دیکھنا چاہتی ہے۔ اسی شوق غلیظ کے ساتھ انہوں نے جناب ابراہیم (علیہ السلام) کو دعوت دی آئیں آپ بھی چلیں، لیکن انہیں کیا معلوم کہ ابراہیم (علیہ السلام) تو ایسی خرافات کو مٹانے کے لیے دن رات پیچ و تاب کھا رہے ہیں آپ نے ارشاد فرمایا۔ (فَنَظَرَ نَظْرَۃً فِی النُّجُوم۔ فَقَالَ إِنِّی سَقِیْمٌ)[ الصّٰفٰت ٨٨، ٨٩] ” تاروں کی طرف دیکھا اور کہا میں بیمار ہوں۔“ اس جملے کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ وہ کچھ بیمار ہوں یا اس لیے آسمان کی طرف دیکھا ہو کہ اے مالک! اب میرے اعلان پر عمل کرنے کا وقت آگیا ہے تو میری مدد فرما۔ یا پھر اس حیرانگی سے دیکھا ہو جیساکہ بعض موقعوں پر آدمی حیران ہو کر آسمان کی طرف دیکھتا ہے کہ عجب لوگ ہیں میرے عقیدے کو جاننے کے باوجود مجھے دعوت میلہ دے رہے ہیں۔ بعض لوگوں نے یہ لکھا ہے کیونکہ آپ کی قوم ستاروں سے شگون لیتی تھی اس لئے آپ نے اوپر دیکھ کر ”إِ نِّیْ سَقِےْمٌ“ کہا تاکہ یہ اصرار نہ کریں اور اپنے عقیدہ کے مطابق تاثر لے کر بغیر تکرار کے چلے جائیں (واللہ اعلم) بہرحال وہ آپ کو چھوڑ کر عوامی میلے کی طرف چل دے ئے۔ (فَتَوَلَّوْا عَنْہُ مُدْبِرِیْنَ )[ الصّٰفٰت : ٩٠] ” چنانچہ وہ انہیں پیچھے چھوڑ گئے۔“ دن گنے جاتے تھے جس دن کے لیے اب وہ وقت آیا ہے جو کہا تھا اسے کر دکھایا جائے چنانچہ مندر میں گھس گئے اور غیرت وجلال میں آکر فرمانے لگے۔ (فَرَاغَ اِِلٰی آلِہَتِہِمْ فَقَالَ اَلاَ تَاْکُلُوْنَ۔ مَا لَکُمْ لاَ تَنْطِقُوْنَ) [ الصّٰفٰت : ٩١، ٩٢] ” ابراہیم چپکے سے ان کے معبودوں میں جا گھسے اور کہا تم کھاتے کیوں نہیں؟ تم بولتے کیوں نہیں ہو؟ اللہ اللہ! آپ کی غیرت وجلالت کا عجیب منظر ہوگا۔ معلوم تھا اور خود ہی تو اعلان کیا کرتے تھے یہ نہ سنتے ہیں، نہ دیکھتے ہیں اور نہ ہی بول سکتے ہیں۔ لیکن آج خود ہی بلائے جا رہے ہیں۔ کبھی مومن پر ایسا وقت بھی آتا ہے کہ وہ غیرت توحید سے لبریز اور دوسروں کو درس توحید دینے کے لیے ایسا بھی کرتا ہے، جیساکہ فاروق اعظم (رض) نے طواف کعبہ کے وقت حجر اسود کو کہا تھا ” میں جانتا ہوں تیری حقیقت کو کہ تو ایک پتھر کا ٹکڑا ہے۔ میں تو تجھے اس لیے چوم رہا ہوں کیونکہ میں نے سرور گرامی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تجھے چومتے ہوئے دیکھا تھا۔ دیکھتے جائیے اب باطل معبودوں کی شامت آنے والی ہے۔“ (فَرَاغَ عَلَیْہِمْ ضَرْبًا بالْیَمِیْنِِ)[ الصّٰفٰت : ٩٣] ” پھر ان کو دائیں ہاتھ سے پھوڑنا شروع کیا۔“ ابراہیم (علیہ السلام) بڑے ذہین تھے : (فَجَعَلَہُمْ جُذَاذًا إِلَّا کَبِیْرًا لَہُمْ لَعَلَّہُمْ إِلَیْہِ یَرْجِعُوْنَ) [ اأانبیاء : ٥٨] ” پھر بتوں کو توڑ پھوڑ کر ریزہ ریزہ کردیا مگر بڑے کو چھوڑ دیا تاکہ وہ اسکی طرف رجوع کریں۔“ جتنے بھی نبی اپنے اپنے زمانے میں تشریف لائے وہ اپنے دور کے سب سے بڑے ذہین اور فطین تھے۔ دیکھیے ابراہیم (علیہ السلام) کتنے زیرک اور فطین ہیں کہ سب بتوں کو توڑا مگر بڑے کو چھوڑ دیا تاکہ جب قوم واپس آکر دیکھے گی تو اس حادثے پر غور وفکر کرتے ہوئے یقیناً اس کی طرف رجوع کرے گی۔ اگر ” اِلَیْہِ“ کی ضمیر (اشارہ) بڑے بت کی طرف ہو تو مطلب یہ ہے کہ لوگ واپس آکر سوچیں گے کہ بڑے میاں نے کسی بات پر ناراض ہو کر چھوٹوں کا تیا پانچہ کردیا ہے۔ یا کم ازکم یہ تو ان کے دلوں میں خیال آئے گا کہ واقعی ابراہیم سچ کہتا تھا کہ یہ سب بے کار ہیں۔ نہ انہوں نے اپنے آپ کو بچایا اور نہ یہ بڑے میاں ہی روک سکے ہاں اگر ” اِلَیْہِ“ کا اشارہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی طرف ہو تو معنی بالکل صاف ہے کہ جب میرے پاس آئیں گے تو بات کرنے کا مزید موقعہ مل جائے گا۔ میں کہونگا مجھ سے پوچھنے کی بجائے اپنے عقیدے کے مطابق ان سے پوچھو اگر واقعی بت بولتے ہیں تو ان کا بڑا تو موجود ہے اس سے پوچھ لیجئے۔ (قَالُوْا مَنْ فَعَلَ ہٰذَا بِاٰ لِہَتِنَا إِنَّہُ لَمِنَ الظَّالِمِیْنَ۔ قَالُوْا سَمِعْنَا فَتًی یَّذْکُرُہُمْ یُقَالُ لَہُ إِبْرَاہِیْمُ)[ الانبیاء : ٥٩، ٦٠] ” کہنے لگے ہمارے خداؤں کا یہ حال کس نے کیا ہے؟ وہ بڑا ہی ظالم ہے۔ کچھ کہنے لگے ہم نے ان کے خلاف ایک ابراہیم نامی نوجوان کو چیلنج کرتے سنا ہے۔“ نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سنت اور فرمان : (٢) (عَنْ أَبِی الْہَیَّاجِ الأَسَدِیِّ قَالَ قَالَ لِی عَلِیُّ بْنُ أَبِی طَالِبٍ (رض) أَلاَّ أَبْعَثُکَ عَلَی مَا بَعَثَنِی عَلَیْہِ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) أَنْ لاَ تَدَعَ تِمْثَالاً إِلاَّ طَمَسْتَہُ وَلاَ قَبْرًا مُشْرِفًا إِلاَّ سَوَّیْتَہُ)[ رواہ مسلم : کتاب الجنائز] ” ابو الھیاج اسدی کہتے ہیں مجھے علی بن ابی طالب (رض) نے کہا : کیا میں تجھے اس کام پر نہ بھیجوں جس پر مجھے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھیجا تھا کہ ہر تصویرکو مٹادے اور جو اونچی قبر دیکھے اسے برابر کردے۔“ مسائل ١۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) شرک سے انتہائی نفرت کرنے والے تھے۔ ٢۔ انبیاء کرام (علیہ السلام) میلوں ٹھیلوں میں شرکت نہیں کرتے تھے۔ ٣۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے بڑے بت کے سوا سب کو توڑدیا۔ ٤۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے غیرت توحید میں آکر بتوں کو مخاطب کیا حالانکہ ان کا عقیدہ تھا کہ بت نہ سنتے ہیں اور نہ نفع ونقصان کے مالک ہیں۔ ٥۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے بتوں کو توڑ کر ثابت کردیا کہ یہ اپنے یا کسی کے نفع ونقصان کے مالک نہیں ہیں۔ الصافات
89 الصافات
90 الصافات
91 الصافات
92 الصافات
93 الصافات
94 فہم القرآن ربط کلام : قوم کا شدید ردِعمل۔ قوم جب واپس پلٹی تو ان کی خوشی، غم اور پریشانی میں تبدیل ہوگئی زبردست اضطراب اور شدید ہنگامہ برپا ہوا۔ ہنگامی حالات کا اعلان ہوا اجلاس پہ اجلاس بلائے جا رہے ہیں۔ تاکہ عوام کو اپنی کارکردگی دکھا کر فوری طور پر مطمئن کیا جائے، چنانچہ دفعتًا فیصلہ سنایا جاتا ہے۔ (قَالُوْا فَاْتُوْا بِہٖ عَلٰٓی اَعْیُنِ النَّاسِ لَعَلَّھُمْ یَشْھَدُوْنَ)[ الانبیاء : ٦١] ” انھوں نے کہا کہ ابراہیم کو لوگوں کے سامنے لاؤ تاکہ لوگ گواہ ہوں۔“ (فَأَقْبَلُوْا إِلَیْہِ یَزِفُّونَ) [ الصّٰفٰت : ٩٤] ” وہ ابراہیم کی طرف دوڑتے ہوئے آئے۔“ اللہ ہی کو معلوم ہے کہ لوگ کس غیظ وغضب کے ساتھ آپ (علیہ السلام) کو پکڑ کر لائے ہوں گے۔ کتنے آوازے کسے ہوں گے اور کتنی گستاخیاں کی ہوں گی ؟ لیکن ابراہیم ہجوم مشرکین کو زمین کے ذرات سے بھی حقیر تصور کرتے ہوئے ایسی جرأت اور مردانگی سے جواب دیتے ہیں کہ ان کی کئی کئی گز لمبی زبانیں اس طرح گنگ ہوگئیں، جیسے ان کو سانپ سونگھ گیا ہو۔ ان میں نام نہاد دانشور، پڑھے لکھے اور ان پڑھ ہر قسم کے لوگ موجود ہیں لیکن کوئی بولنے کی جرأت نہیں کر پاتا۔ کیوں بولیں اور کس بنیاد پربات بولیں۔ (وَمَنْ یَّدْعُ مَعَ اللّٰہِ اِِلٰہًا آخَرَ لاَ بُرْہَانَ لَہٗ بِہٖ فَاِِنَّمَا حِسَابُہُ عِنْدَ رَبِّہٖ اِِنَّہُ لاَ یُفْلِحُ الْکٰفِرُوْنَ) [ المؤمنون : ١١٧] ” جو اللہ کے ساتھ کسی اور کو پکارتے ہیں ان کے پاس ان کو پکارنے کی کوئی دلیل نہیں ان کا حساب رب کے ذمہ ہے۔ یقین جانئییکافر کبھی کامیاب نہیں ہوتے۔“ اسی لیے تو ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمایا تھا کہ تم سب کو اللہ تعالیٰ نے ہی پیدا کیا ہے لہٰذا اسی کی عبادت کرو۔ لیکن قوم ایمان لانے کی بجائے ابراہیم (علیہ السلام) کو جلا دینے کا فیصلہ کرتی ہے۔ الصافات
95 الصافات
96 الصافات
97 فہم القرآن ربط کلام : قوم کا حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے خلاف فیصلہ۔ (قَالُوْا مَنْ فَعَلَ ہٰذَا بِاٰ لِہَتِنَا إِنَّہُ لَمِنَ الظَّالِمِیْنَ۔ قَالُوْا سَمِعْنَا فَتًی یَذْکُرُہُمْ یُقَالُ لَہُ إِبْرَاہِیْمُ۔ قَالُوْا فَأْتُوْا بِہِ عَلٰی أَعْیُنِ النَّاسِ لَعَلَّہُمْ یَشْہَدُوْنَ) [ الانبیاء : ٥٩ تا ٦١] ” کہنے لگے ہمارے معبودوں کے ساتھ جس نے یہ زیادتی کی ہے واقعتا وہ بڑا ظالم شخص ہے (مجمع سے آواز آئی) ہم نے سنا ہے ایک نوجوان ان بتوں کے خلاف گفتگو کرتا ہے۔ اس کا نام ابراہیم ہے۔ سردار کہنے لگے اس کو پکڑ کر لوگوں کے سامنے حاضر کرو تاکہ لوگ بھی اس کی شکل دیکھ لیں۔“ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو مجمع میں بلانے کا مقصد یہ تھا کہ عوام بھی گواہ اور مطمئن ہوجائیں کہ جو سزا اس کو دی جا رہی ہے واقعی یہ اسی سزا کا مستحق ہے۔ ” کہنے لگے اگر کچھ کر گزرنا چاہتے ہوتواسے زندہ جلا دو اس طرح اپنے خداؤں کی مدد کرو۔۔“ [ الانبیاء : ٦٨] امن عامہ کے تحت گرفتاری حکمران نے فوراً حکم دیا کہ امن عامہ کے تحت ابراہیم (علیہ السلام) کو گرفتار کرلیا جائے۔ چنانچہ آپ کو دس دن تک جیل میں رکھا گیا اور پھر بادشاہ کی کونسل نے انہیں زندہ جلاد ینے کا فیصلہ کیا بالفاظ دیگر عوام اور حکمران سب کے سب اس بات پر متفق ہوئے کہ اسکو زندہ نہ چھوڑا جائے بلکہ عبرتناک سزا دی جائے۔” اس کے لیے ایک بڑا گہرا گڑھا بناؤ اور اس کو آگ سے بھر کر ابراہیم (علیہ السلام) کو دہکتے ہوئے انگاروں میں پھینک دو۔“ شا ہی آرڈنینس کے تحت پوری مشینری آگ کو بھڑ کا نے میں لگی ہوئی ہے۔ علامہ ابن کثیر نے لکھا ہے کہ لوگوں کے جذ بات کا عالم یہ تھا کہ عورتیں نذریں ما نتی تھی۔ اگر میری فلاں مشکل یا بیماری رفع ہوجائے تو میں اتنی لکڑیاں آگ میں پھینکوں گی مؤ رخین نے تحریر کیا ہے۔ عراق میں آج تک آگ کا اتنا بڑا الاؤ دیکھنے میں نہیں آیا۔ آگ کے شعلے آسمان سے باتیں کرتے ہوئے دکھائی دیتے تھے۔ جب آگ میں پھینکنے کا وقت آیا تو مسئلہ پیدا ہوا کہ اتنی بڑی آگ میں کس طرح پھینکا جائے۔ شاہی کونسل کا ہنگامی اجلاس طلب کیا جاتا ہے۔ زیر غور مسئلہ یہ ہے کہ ابر اہیم (علیہ السلام) کو آگ میں کس طرح پھینکا جاۓ ؟ فیصلہ ہوتا ہے کہ ایسی کرین تیار کی جائے جس کے ذریعے ابراہیم کو آگ کے درمیان میں پھینکا جائے لہٰذا اس طرح کیا گیا ( اس تجویز دینے والے کو اللہ تعالیٰ نے اسی وقت زمین میں دھنسا دیا اور قیامت تک وہ زمین میں دھنستا جاۓ گا۔) (تفسیر ابن کثیر سورۃ الانبیاء : ٦٨) آز مائش کے آخری لمحات اُف خدا یا یہ کیسا منظر ہے جو آج تک تیرے فرشتوں نے بھی نہیں دیکھاہو گا نظر اٹھائی تو جبرا ئیل (علیہ السلام) نمو دار ہوئے۔ روح الا میں عرض کرتے ہیں جناب میں حا ضر ہوں کوئی خد مت ہو تو فرمائیں ابرا ہیم (علیہ السلام) نے کہا کہ آپ کو رب العزت کی طرف سے کوئی حکم ہے جبریل (علیہ السلام) جواب دیتے ہیں کہ نہیں۔ فرمایا پھر جا میں مجھے آپ کی ضرورت نہیں۔ کیونکہ میرا رب مجھے دیکھ رہا ہے۔ (تفسیر ابن کثیر سورۃ الانبیاء : ٦٨) ابرا ہیم (علیہ السلام) نے ” حَسْبِیَ اللّٰہُ“ کہہ کر اپنے آپ کو اللہ کے سپرد کیا۔ اب کا رروائی زمین پر نہیں عرش پر ہوگی۔ (وَمَنْ یَّتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ فَہُوَ حَسْبُہُ)[ الطلاق : ٣]” جس نے اللہ پر توکل کیا اللہ اسے کافی ہوگا۔“ اب دیکھیے ادھر حاکم وقت کا اشارہ ہوا کہ پھینک دو، کرین کا بٹن دبادیا گیا۔ مجمع سے آواز آتی ہے اچھاہو تا اگر معافی مانگ لیتا خو اہ مخواہ جان گنوائی۔ انہیں کیا خبر آسما نوں میں کیا فیصلہ ہوچکا ہے۔ حافظ ابن کثیر (رض) ابن عباس (رض) کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ بارش کافر شتہ ہمہ تن گوش تھا کہ کب حکم ہو اور میں اتنی بارش کروں کہ ایک لمحہ میں آگ بھسم ہو کر رہ جائے۔ لیکن فرشتے کی بجائے آج حکم بر اہ راست آگ کو پہنچتا ہے : (قُلْنَا یَا نَارُکُونِی بَرْدًا وَسَلَامًا عَلٰی إِبْرَاہِیمَ )[ الانبیاء : ٦٩] ” ہم نے حکم دیا اے آگ ابر اہیم کے لئے ٹھنڈی ہوجا اور سلامتی بن جا۔“ تفسیر ابن ابی حا تم میں ہے کہ ابرا ہیم (علیہ السلام) چا لیس دن تک آگ میں رہے۔ ابرا ہیم (علیہ السلام) فرمایا کرتے تھے جتنا آرام میں نے چالیس دن آگ کے اندر پا یا ساری زندگی اتنا آرام میسر نہیں آیا۔ (تفسیر ابن کثیرسورہ الانبیاء : ٦٩) یاد رہے کہ ابرا ہیم (علیہ السلام) کو آگ میں برہنہ کرکے پھینکا گیا تھا۔ اسی لئے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : (أَوَّلُ مَنْ یُکْسٰی یَوْمَ الْقِیَامَۃِ إِبْرَاہِیمُ)[ رواہ البخاری : کتاب احادیث الانبیاء، باب قَوْلِ اللَّہِ تَعَالَی وَاتَّخَذَ اللَّہُ إِبْرَاہِیمَ خَلِیلاً ] ” قیا مت کے دن جس خوش نصیب کو سب سے پہلے جنت کا لباس پہنا یا جاۓ گا وہ ابرا ہیم (علیہ السلام) ہوں گئے۔“ الصافات
98 الصافات
99 فہم القرآن ربط کلام : آگ سے نکلنے کے بعد حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا ہجرت کرنے کا فیصلہ۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے الفاظ بتا رہے ہیں کہ پہلے سے آپ کو معلوم نہ تھا کہ مجھے کدھر جانا ہے وطن چھوڑتے وقت آپ نے کہا۔ بس میں اللہ کے بھروسے پر نکل رہا ہوں وہ جدھر رہنمائی کرے گا میں چلا جاؤں گا۔ صاحب قصص القرآن نے لکھا ہے کہ آپ ( علیہ السلام) نے دوران ہجرت پہلا قیام کلدانین میں فرمایا۔ کچھ عرصہ جہاں قیام کرنے کے بعد آپ ( علیہ السلام) بمعہ حضرت سارہ اور لوط (علیہ السلام) کے حاران نامی بستی میں قیام پذیر ہوئے۔ کچھ عرصہ تک حاران نامی بستی میں ٹھہرے۔ یہاں بھی دین حنیف کی دعوت کا کام جاری رکھا۔ بالآخر آپ اپنی رفیقہ حیات اور بھتیجے کے ساتھ ارض فلسطین میں تشریف لے گئے۔ (وَنَجَّیْنَاہُ وَلُوْطًا إِلَی الْأَرْضِ الَّتِی بَارَکْنَا فِیْہَا لِلْعَالَمِیْنَ) [ الانبیاء : ٧١] ” پھر ہم لوط (علیہ السلام) اور ابراہیم (علیہ السلام) کو ظالموں سے نکال کر ارض مقدس کی طرف لے گئے جو اس دنیا کے لیے برکت والی ہے۔“ فلسطین میں قیام : حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے بھتیجے لوط (علیہ السلام) کو شرق اردن میں تبلیغ کے لئے مقرر فرمایا اور فلسطین کے مغربی اطراف میں خود سکونت پذیر ہوئے۔ اس زمانے میں یہ علاقہ کنعانیوں کے زیر اقتدار تھا۔ یہاں کچھ عرصہ قیام فرمانے کے بعد آپ مصر کی طرف چلے گئے۔ (از قصص القرآن) نازک ترین آزمائش : حضرت امام بخاری (رح) نے تفصیل کے ساتھ ایک حدیث صحیح بخاری میں نقل فرمائی ہے۔ جس میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی ایک ایسی آزمائش کا ذکر ہے کہ ایسے موقعہ پر بڑے بڑے لوگوں کے اوسان خطا ہوجایا کرتے ہیں لیکن جناب خلیل (علیہ السلام) بڑے حوصلہ کے ساتھ اپنی رفیقہ حیات کو ایک تجویز سمجھاتے ہیں۔ ” جب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور بی بی سارہ ایک ظالم حکمران کے ملک سے گزرے تو اسکے نوکر چاکروں نے بادشاہ کو کہا کہ ہمارے شہر میں ایک مسافر آیا ہے جس کی عورت بہت ہی خوبصورت ہے۔ ظالم بادشاہ نے حکم دیا، ابراہیم کو فوراً میرے سامنے پیش کرو۔ آپ سے پوچھا گیا کہ یہ عورت کون ہے؟ ابراہیم نے کہا یہ میری بہن ہے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) بادشاہ سے فارغ ہو کر حضرت سارہ کے پاس آئے اور کہا اے سارہ! اس سرزمین میں میرے اور تیرے سوا کوئی مومن نہیں اور ظالم بادشاہ نے مجھے پوچھا ہے کہ تیرے ساتھ عورت کون ہے؟ میں نے تجھے اپنی بہن کہا ہے۔ تو بھی اس کے سامنے بہن بتلانا۔ ایسا نہ ہو میں جھوٹا ہوجاؤں۔ اس ظالم بادشاہ نے حضرت بی بی سارہ کو جبرا منگوایا۔ جب وہ اس کے پاس پہنچائی گئیں تو ظالم نے دست اندازی کی کوشش کی لیکن دھڑام نیچے گرا۔ فریاد کرنے لگا اے نیک خاتون اپنے رب سے میری عافیت کی دعا کر میں تجھے کچھ نہیں کہوں گا۔ آپ کی دعا سے وہ اچھا ہوگیا پھر دوسری مرتبہ زیادتی کی کوشش کی۔ دوبارہ پھر پہلے کی طرح یا اس سے بھی زیادہ اللہ کی گرفت میں آیا۔ التجا کی۔ اے نیک عورت۔ اب پھر دعا کر میں اچھا ہوجاؤں تو تجھے کچھ نہیں کہوں گا۔ حضرت سارہ ( علیہ السلام) نے دعا کی۔ اللہ کے فضل وکرم سے وہ پھر تندرست ہوا۔ اس بار اس نے اپنے نوکر کو بلا کر کہا تم اچھی عورت میرے پاس لائے ہو یہ عورت ہے یا شیطان ؟ ( بے شرم اپنی بے شرمی کو مٹانے کے لیے ایسا کہہ رہا تھا حالانکہ شیطان لعین وہ خودتھا اس نے ہاجرہ[ کو سارہ (علیہ السلام) کی خدمت میں دے دیا۔ جب سارہ [ جناب ابراہیم (علیہ السلام) کی خدمت میں آئیں تو آپ اللہ کے حضور نماز میں مصروف تھے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نماز کی حالت میں اشارہ کرتے ہیں کیا کہ معاملہ ہوا؟ حضرت سارہ (علیہ السلام) نے عرض کیا، اللہ ذوالجلال نے کافر وفاجر کی شرارت کو اس کے اوپر الٹ دیا ہے۔ سارا ماجرا ذکر کیا اور کہا بالآخر اس نے اپنی اس لڑکی کو خادمہ کے طور پر میرے حوالے کردیا ہے۔ جناب ابوہریرہ (رض) نے یہ حدیث مبارکہ ذکر کرنے کے بعد فرمایا۔ اے بارش پر پلنے والو۔ یعنی اے عرب قوم یہی تو تمہاری والدہ ہاجرہ[ ہیں۔“ [ رواہ البخاری : باب قول اللہ تعالیٰ واتخذ اللہ ابراہیم خلیلا ] تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ ہی راہنمائی کرنے والا ہے اسی سے راہنمائی طلب کرنی چاہیے : ١۔ اللہ کی راہنمائی کے بغیر کوئی ہدایت نہیں پا سکتا۔ (الاعراف : ٤٣) ٢۔ اللہ مومنوں کی صراط مستقیم کی طرف راہنمائی کرتا ہے۔ (الانعام : ١٦١) ٣۔ ” اللہ“ صراط مستقیم کی راہنمائی کرنے والا۔ ( الحج : ٥٤) ٤۔ ہم نے قوم ثمود کی راہنمائی کی مگر انہوں نے ہدایت کے بدلے جہالت کو پسند کیا۔ (حٰآ السجدۃ: ١٧) ٥۔ ہدایت وہی ہے جسے اللہ تعالیٰ ہدایت قرار دے۔ (البقرۃ: ١٢٠) ٦۔ ہدایت اللہ کے اختیار میں ہے۔ (القصص : ٥٦) ٧۔ وہ جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے۔ (البقرۃ : ٢١٣) ٨۔ ہدایت جبری نہیں اختیاری چیز ہے۔ (الدھر : ٣) ٩۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی کسی کو ہدایت نہیں دے سکتے تھے۔ (القصص : ٥٦) الصافات
100 الصافات
101 فہم القرآن ربط کلام : ہجرت کے دوران حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی بیٹے کے لیے دعا۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے جب اپنے گھر بار، باپ اور اپنی قوم کو چھوڑا تو اس وقت ان کو بڑی شدت کے ساتھ بیٹے کی کمی محسوس ہوئی اور دعا کی اے اللہ اگر یہ قوم تیرے دین کو نہیں مانتی تو کم از کم نیک اولاد عنایت کردے جو میرا سہارا اور غمخوار بننے کے ساتھ تیرے دین کا پر چار کرتی رہے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی یہ دعا اسی وقت قبول نہیں ہوئی۔ بلکہ قرآن حکیم میں یہ بات انہی کی زبان اطہر سے بیان کی گئی ہے۔ کہ دعا بہت مدت کے بعد بلکہ عمر کے آخری حصے میں مستجاب ہوئی۔ ” سب تعریف اس اللہ کے لیے ہے جس نے مجھے بڑھاپے میں اسماعیل اور اسحاق عطا فرمائے بلاشبہ میرا رب دعا سننے والا ہے۔“ [ ابراہیم : ٣٩] تمام مفسرین نے لکھا ہے جناب خلیل (علیہ السلام) کو ٨٦ سال کی عمر میں حضرت اسماعیل (علیہ السلام) عطا کئے گئے۔ اللہ پاک کی عجب سنت ہے کہ جب کسی بندے کو نعمت عطا فرماتا ہے تو ساتھ ہی نیک لوگوں کی آزمائش بھی شروع کرتا ہے۔ جن کے مرتبے بلند ہوتے ہیں ان کی آزمائش بھی بڑی ہوتی ہے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے خواب میں دیکھا کہ میں بیٹے کو ذبح کررہا ہوں۔ فلسطین سے مکہ آئے اور خواب کا بیٹے سے ذکر کیا اور پوچھا۔ بیٹا تیرا کیا خیال ہے ؟ بیٹے سے پوچھنے کی کئی وجوہ ہو سکتی ہیں کہ اگر بیٹے نے خوشی سے اپنے آپ کو تعمیل حکم کے لئے پیش کیا تو وہ بھی ثواب کا مستحق ہوجائے گا ورنہ حکم خداوندی کی تعمیل تو بہر حال کی جائے گی۔ شاید وہ دیکھنا چاہتے ہوں کہ جس صالح بیٹے کی میں نے آرزو کی تھی کیا واقعتا وہ صالح ہے۔ تیسری وجہ ظاہر ہے کہ خواب کا تعلق بیٹے سے بھی ہے لہٰذابیٹے سے پوچھنا مناسب سمجھا۔ اسماعیل نے عرض کی ابو جان آپ کو جو حکم ہوا ہے اس کے مطابق عمل فرمائیں انشاء اللہ آپ مجھے حوصلہ مند پائیں گے۔ حضرت اسمٰعیل (علیہ السلام) کا جواب آداب فرزندی کی معراج ہے۔ باپ اور بیٹا بڑے اعتماد سے میدان منٰی کی طرف جارہے ہیں۔ شیطان کا اضطراب : اللہ تعالیٰ کی عبادت واطاعت کا عظیم الشان اور عدیم المثال مظاہرہ شیطان مردود کس طرح دیکھ سکتا تھا۔ چنانچہ شیطان بھاگم بھاگ حضرت ہاجرہ[ کے پاس گیا اور کہنے لگا اے ام اسماعیل آپ کا بیٹا کدھر گیا ہے۔ حضرت ہاجرہ [ نے فرمایا وہ اپنے والد کے ساتھ گیا ہے۔ شیطان نے کہا اے ہاجرہ تجھے خبر نہیں اسے ابراہیم (علیہ السلام) ذبح کرنے کے لیے لے گیا ہے۔ حضرت ہاجرہ[ حیران ہو کر پوچھتی ہیں کہ کبھی ایسے بھی ہوا ہے کہ باپ اپنے بیٹے کو ذبح کرے اور خاص کراتنے خوبصورت اور نیک سیرت بیٹے کو ؟ شیطان نے سوچا شاید اب میرا داؤ چل جائے گا کہنے لگا اے ام اسماعیل! آج ابراہیم اسے ضرور ذبح کر دے گا۔ کیونکہ اس کا کہنا ہے کہ مجھے ایسا کرنے کا ” اللہ“ نے حکم دے رکھا ہے۔ حضرت ہاجرہ[ نے فرمایا اگر اللہ پاک نے یہ حکم دیا ہے تو جاؤ چلے جاؤ۔ میں اپنے اللہ کی رضا پر راضی ہوں۔ [ رواہ احمد : مسند عبداللہ بن عباس (رض) ] حضرت ہاجرہ[ سے مایوس ہو کر شیطان جمرہ عقبہ (آج کل جس کو بڑا شیطان کہا جاتا ہے) کے پاس کھڑا ہو کر ابراہیم (علیہ السلام) کو پھسلانے کی کوشش کرتا ہے۔ لیکن ابراہیم (علیہ السلام) نے سات پتھر مارے۔[ رواہ احمد : مسند ابن عباس] ابراہیم (علیہ السلام) کی اپنے رب کے حضور بے مثال قربانی : آج سے ہزاروں سال پیشتر دنیا کے ایک گوشے میں عجیب وغریب واقعہ رونما ہورہا ہے کہ وادی ” غَیْرِذِیْ زَرْعٍ“ پر دومخلص ترین بندے جمع ہیں۔ باپ کی زبان پر ! (إِنِّی وَجَّہْتُ وَجْہِیَ لِلَّذِی فَطَرَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ حَنِیفًا وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِکِینَ) [ الانعام : ٧٩] ” میں سب کو چھوڑ چھاڑ کر ایک ہی ذات کبریا کا ہوگیا ہوں جس نے زمین و آسمان کو پیدا کیا اور میں مشرکوں سے نہیں ہوں۔“ بیٹا آنکھیں موند کر چہرہ زمین کے ساتھ لگائے ہوئے کہہ رہا ہے۔ (سَتَجِدُنِی إِنْ شَاء اللَّہُ مِنَ الصَّابِرِینَ)[ الصّافّات : ١٠٢] ” آپ انشاء اللہ مجھے صابروں میں سے پائیں گے۔“ پھر دوسری جگہ جمرہ وسطی کے پاس آکر اور اس کے بعد تیسری دفعہ جمرہ اولی کے پاس شیطان نے آخری کوشش کی حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے تینوں جگہ سات سات کنکریاں ماریں۔ نبی پاک (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کنکریاں مارنے کو بھی حجاج کے لئے شعائر قرار دے دیا۔ چشم فلک نے ایسا نظارہ نہ پہلے کبھی کیا اور نہ ہی کبھی آئندہ کرے گی۔ کہ حکم الٰہی کی تعمیل میں جناب خلیل اللہ (علیہ السلام) نے اپنے جگر گوشے کو پیشانی کے بل کنکریلی زمین پر لٹایا تاکہ پیارے اور معصوم رخ زیبا کو دیکھ کر پدری جذبہ استقامت کی راہ میں حائل نہ ہوجائے۔ (فَلَمَّا أَسْلَمَا وَتَلَّہُ لِلْجَبِیْنِ)[ الصّٰفّٰت : ١٠٣] ” جب باپ اور بیٹے نے سر تسلیم خم کردیا اور ابراہیم (علیہ السلام) نے بیٹے کو پیشانی کے بل لٹا دیا۔“ جس بیٹے کے لیے مدت مدید دعائیں مانگیں تھیں۔ جس کی خبر گیری کے لیے میلوں سفر کیا تھا جس کو ہاجرہ[ نے پیار کی لوریاں دی تھیں اور جس چہرے کو چوم کر اپنے دل کو تنہائی میں تسلی دیا کرتی تھیں آج وہی چہرہ مٹی میں لتھڑا ہوا الٹاپڑا ہے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے بیٹے کو زمین پر لٹا کر یہ ثابت کردیا کہ اللہ کی رضا جوئی کے لئے ہر چیز قربان کی جا سکتی ہے اور یہی راستہ ہے جس سے آدمی اصل نیکی تک پہنچتا ہے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔ لیکن اللہ کا فضل وکرم کہ اس نے اسمعیل (علیہ السلام) کو بچا کر ایک دنبے کی قربانی قبول کی۔ کیونکہ مقصود امتحان تھا نہ کہ جان!” ہم نے آواز دی کہ اے ابراہیم تو نے اپنا خواب سچ کر دکھایا ہے۔ ہم نیکی کرنے والوں کو ایسے ہی جزا دیا کرتے ہیں یقیناً یہ ایک بڑی آزمائش تھی اور ہم نے ایک بڑی قربانی دے کر اسمعیل کو چھڑا لیا ہم نے اس کا ذکر خیربعد میں آنے والوں میں ہمیشہ کے لئے رکھ دیا۔ سلام ہو ابراہیم پر۔ ہم نیکی کرنے والوں کو ایسے ہی جزا دیتے ہیں یقیناً وہ ہمارے مومن بندوں میں سے تھا۔“ [ الصّٰفّٰت : ١٠٤ تا ١١١] بعض لوگوں نے عقل پرستی کی بنا پر لکھا کہ چھری کا پھل، چھری کے دستے میں داخل ہوگیا۔ کسی نے کہا جناب اسمٰعیل (علیہ السلام) کی گردن تا نبے کی بن گئی اور کچھ تو عقل کے آگے لگ کر بھا گنے لگے اور کہا کہ لٹانے کا معنٰی ہے کہ دونوں اللہ کے سامنے جھک گئے۔ حا لانکہ قرآن حکیم نے ” فَلَمَّا اَسْلَمَا وَتَلَّہٗ لِلْجَبِےْنِ“ کے الفاظ کہہ کر آگلی کیفیت کو اہل دل پر چھوڑ دیا ہے۔ (سَلَامٌ عَلٰی إِبْرَاہِیْمَ)[ الصّافّات : ١٠٩]” ابراہیم (علیہ السلام) پرسلام ہو“ مسائل ١۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ سے نیک بیٹے کی دعا کی۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو اسماعیل (علیہ السلام) کی صورت میں نیک اور باحوصلہ بیٹا عطا فرمایا۔ ٣۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اسماعیل سے اپنے خواب کا ذکر کیا تو حضرت اسماعیل (علیہ السلام) نے عرض کی کہ آپ اپنے خواب پر عمل پیرا ہوجائیں۔ ٤۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنا خواب سچ کردکھایا تو اللہ تعالیٰ نے اسماعیل (علیہ السلام) کے بدلے ایک دنبے کی قربانی قبول فرمائی۔ ٥۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی اس سنت کو آنے والے لوگوں کے لیے نمونہ قرار دیا گیا۔ ٦۔ ابراہیم (علیہ السلام) پر اللہ تعالیٰ کی رحمتیں نازل ہوتی رہیں گی۔ الصافات
102 الصافات
103 الصافات
104 الصافات
105 الصافات
106 الصافات
107 الصافات
108 الصافات
109 الصافات
110 الصافات
111 الصافات
112 فہم القرآن ربط کلام : حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کے بعد حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو حضرت اسحاق (علیہ السلام) کی خوشخبری۔ حضرت اسماعیل (علیہ السلام) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے فرزند اکبر ہیں۔ اس حقیقت کا اعتراف تحریف ہونے کے باوجود تورات کتاب پیدائش (باب ١٧، ٢٤، ٢٥) میں موجود ہے۔ اس تصریح کے ساتھ کہ جس وقت اسماعیل (علیہ السلام) پیدا ہوئے تو خلیل (علیہ السلام) کی عمر ٨٦ سال کی تھی اور جب حضرت اسحق (علیہ السلام) پیدا ہوئے تو آپ ( علیہ السلام) کی عمر ننانوے یا سو سال تھی۔ تحقیق کے مطابق آپ کنعان میں پیدا ہوئے اور آپ ( علیہ السلام) نے مکہ معظمہ میں ١٣٧ سال کی عمر میں وفات پائی۔ جناب اسحاق (علیہ السلام) حضرت اسماعیل (علیہ السلام) سے تیرہ یا چودہ سال چھوٹے ہیں۔ حضرت اسحاق حضرت سائرہ (رض) کے بطن مبارک سے پیدا ہوئے۔ جیسا کہ آپ پیچھے پڑھ آئے ہیں انہی کے بارے میں ارشاد فرمایا گیا کہ ہم نے ابراہیم (علیہ السلام) کو اسحاق (علیہ السلام) اور یعقوب (علیہ السلام) عطا کیے اور اس کی نسل کو کتاب اور نبوت سے سرفراز فرمایا۔ آپ ( علیہ السلام) کی وفات : حضرت اسحاق (علیہ السلام) نے ١٨٠ سال کی عمر میں وفات پائی۔ آپ کو آپ کی والدہ ماجدہ حضرت سارہ کے پہلو میں دفن کیا گیا۔ جب آپ نے انتقال کیا تو حضرت یعقوب (علیہ السلام) جوان ہوچکے تھے۔ حضرت اسحاق (علیہ السلام) کے دوبیٹے تھے ایک کا نام عیسو اور لقب اودم تھا انہی کی نسل سے ایوب (علیہ السلام) کا تعلق ہے۔ دوسرے حضرت یعقوب (علیہ السلام) تھے اور ان کا لقب اسرائیل تھا ان کی اولاد سے حضرت یوسف، حضرت سلیمان، حضرت یحییٰ، حضرت موسیٰ، حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) ہوئے گویا کہ اکثریت انبیاء کی اسی خاندان سے تعلق رکھتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم کو اور حضرت اسحاق کی اولاد کو بڑی برکات سے سرفراز فرمایا۔ ان میں نیکوکار بھی ہوئے اور اپنے آپ پر ظلم کرنے والے بھی تھے۔ حضرت اسحاق (علیہ السلام) سے حضرت یعقوب (علیہ السلام) پیدا ہوئے جن کا اسرائیل لقب تھا۔ ان کی اولاد بنی اسرائیل کے نام سے مشہور ہوئی جو صدیوں تک مصر اور اس کے ملحقہ علاقوں میں برسر اقتدار رہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان میں ہزاروں انبیاء کو مبعوث فرمایا۔ ان کے مقابلے میں حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کی نسل میں کوئی نبی پیدا نہیں ہوا تآنکہ اللہ تعالیٰ نے نبی آخر الزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مبعوث فرمایا اور قیامت تک کے لیے ختم المرسلین کے اعزاز سے سرفراز فرمایا۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو اسماعیل (علیہ السلام) کے بعد حضرت اسحاق (علیہ السلام) کی بشارت سے سرفراز فرمایا۔ ٢۔ حضرت اسحاق (علیہ السلام) انبیاء کی جماعت میں سے ہیں۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور حضرت اسحاق (علیہ السلام) کو بے شمار برکات سے ہمکنار کیا۔ ٤۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور حضرت اسحاق (علیہ السلام) کی اولاد سے نیکوکار بھی ہوئے اور برے لوگ بھی پیدا ہوئے۔ تفسیر بالقرآن حضرت اسحاق (علیہ السلام) کا تذکرہ : ١۔ ابراہیم، اسماعیل، اسحاق، یعقوب اور ان کی اولاد موسیٰ، عیسیٰ اور دوسرے انبیاء ( علیہ السلام)۔ (البقرۃ: ١٣٦) ٢۔ حضرت ابراہیم، لوط، اسحاق و یعقوب (علیہ السلام) کو زکوٰۃ کا حکم۔ (الانبیاء : ٧٣) ٣۔ حضرت اسحاق و یعقوب (علیہ السلام) اللہ کے منتخب کردہ ہیں۔ (ص : ٤٥ تا ٤٧) ٤۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو حضرت اسحاق (علیہ السلام) اور پوتے کی خوشخبری۔ (ھود : ٧١) ٥۔ ہم نے اسحاق اور یعقوب ( علیہ السلام) کو ہدایت سے نوازا۔ ( الانعام : ٨٤) ٦۔ حضرت اسحاق اور یعقوب ( علیہ السلام) نیکوکار تھے۔ ( الانبیاء : ٧٢) ٧۔ ہم نے ابراہیم (علیہ السلام) کو نیکوکار نبی اسحاق کی بشارت دی۔ (الصّٰفّٰت : ١١٢) حضرت ابراہیم اور حضرت یعقوب ( علیہ السلام) کی وصیّت : ١۔ ” ابراہیم اور یعقوب ( علیہ السلام) نے اپنی اولاد کو وصیت فرمائی کہ اے میرے بیٹو! اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے اس دین کو پسند فرمایا لیا ہے تمہیں موت مسلمان ہونے کی حالت میں آنی چاہیے۔“ (البقرۃ: ١٣٢) الصافات
113 الصافات
114 الصافات
115 الصافات
116 الصافات
117 الصافات
118 فہم القرآن ربط کلام : حضرت موسیٰ، حضرت اسحاق (علیہ السلام) کی نسل سے تعلق رکھتے ہیں اس لیے حضرت موسیٰ اور ہارون ( علیہ السلام) کا ذکر ہوتا ہے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت ہارون (علیہ السلام) کا تذکرہ کرنے سے پہلے ارشاد ہوا۔ ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) اور ہارون (علیہ السلام) پر بہت احسان فرمایا جس کی تفصیل یوں بیان فرمائی کہ ہم نے انہیں اور ان کی قوم کو بڑی مصیبت سے نجات دی۔ ہم نے ان کی مدد فرمائی جس بنا پر وہ اپنے دشمنوں پر غالب آئے۔ ہم نے انہیں کھلی کتاب سے سرفراز کیا اور ہم نے دونوں کی ٹھیک ٹھیک راہنمائی کی اور ہم نے ان کی سیرت اور جدوجہد کو آنے والی نسلوں کے لیے مشعل راہ بنایا۔ موسیٰ (علیہ السلام) اور ہارون (علیہ السلام) پر ہمیشہ ہمیش ” اللہ“ کی رحمتیں نازل ہوتی رہیں گی۔ ہم اخلاص کے ساتھ نیکی کرنے والوں کو ایسی ہی جزا دیتے ہیں۔ یقیناً وہ ہمارے مومن بندوں میں شمار ہوتے ہیں۔ موسیٰ (علیہ السلام) کا تذکرہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے باربار اپنے لیے ” ہم“ یعنی جمع کی ضمیر استعمال فرمائی ہے جس میں جلال اور دبدبہ پایا جاتا ہے۔ جس سے یہ ثابت کرنا مقصود ہے کہ بے شک فرعون بڑا ظالم اور جابر حکمران تھا اور بنی اسرائیل بہت کمزور تھے۔ لیکن جب ہم نے فرعون کو ذلیل کرنے اور بنی اسرائیل کی مدد کرنے کا فیصلہ فرمایا تو ہمارے سامنے کوئی چیز نہ ٹھہر سکی۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے بھائی ہارون (علیہ السلام) کی کامیابی کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں تورات سے سرفراز فرمایا تھا۔ جس میں قدم قدم پر ان کی راہنمائی کی گئی اور انہیں صراط مستقیم پر چلنے کی ہمت اور توفیق عنایت فرمائی۔ قوموں کی راہنمائی کے لیے یہی دوبنیادی اصول ہیں جو قوم کتاب اللہ سے راہنمائی پائے اور اس کا قائد باکردار اور بہادر ہو تو وہ قوم دنیا میں ضرور کامیاب ہوتی ہے اور آخرت میں ہمیشہ رہنے والی جنت میں داخل ہوگی۔ سرور دوعالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نماز سے فارغ ہونے کے بعد یہ دعا پڑھا کرتے تھے : (عَنْ ثَوْبَانَ قَالَ کَانَ رَسُول اللَّہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) إِذَا انْصَرَفَ مِنْ صَلاَتِہِ اسْتَغْفَرَ ثَلاَثًا وَقَال اللَّہُمَّ أَنْتَ السَّلاَمُ وَمِنْکَ السَّلاَمُ تَبَارَکْتَ ذَا الْجَلاَلِ وَالإِکْرَامِ)[ روا مسلم : باب اسْتِحْبَاب الذِّکْرِ بَعْدَ الصَّلاَۃِ وَبَیَانِ صِفَتِہِ] ” حضرت ثوبان (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب نماز سے فارغ ہوتے تو تین مرتبہ استغفار کرتے اور پھر یہ دعا پڑھتے۔ ” اللَّہُمَّ أَنْتَ السَّلاَمُ وَمِنْکَ السَّلاَمُ تَبَارَکْتَ ذَا الْجَلاَلِ وَالإِکْرَام) “ ُُُمسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) اور ہارون (علیہ السلام) پر بڑا ہی احسان فرمایا۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے بھائی ہارون (علیہ السلام) اور بنی اسرائیل کو بڑی طویل اور کربناک آزمائش سے نجات عطا فرمائی۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) ہارون (علیہ السلام) کو تورات عطا فرمائی اور دونوں کو صراط مستقیم پر گامزن فرمایا۔ ٤۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت ہارون (علیہ السلام) پر اللہ تعالیٰ کی ہمیشہ ہمیش رحمتیں نازل ہوتی رہیں گی۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ اخلاص کے ساتھ نیکی کرنے والوں کو اس طرح ہی جزا دیتا ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ نے انبیائے کرام (علیہ السلام) اور ان کے ساتھیوں کو دنیا و آخرت کی جزا سے سرفراز فرمایا : ١۔ ہم ظالموں کو ہلاک کریں گے اور تمہیں ان کے بعد زمین میں بسائیں گے یہ وعدہ ہر اس شخص کے لیے ہے جو اللہ کے سامنے کھڑا ہونے سے ڈرجائے۔ (ابراہیم : ١٣۔ ١٤) ٢۔ کفارنے حضرت نوح کو جھٹلایا ہم نے نوح اور اس کے ماننے والوں کو نجات دی۔ (الاعراف : ٦٤) ٣۔ ہم نے موسیٰ اور ان کے ساتھیوں کو نجات دی۔ (الشعرا : ٦٥) ٤۔ ہم نے شعیب اور ایمان لانے والوں کو نجات دی۔ (ہود : ٩٤) الصافات
119 الصافات
120 الصافات
121 الصافات
122 الصافات
123 فہم القرآن ربط کلام : حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد حضرت الیاس (علیہ السلام) کا تذکرہ۔ حضرت الیاس (علیہ السلام) انبیائے بنی اسرائیل میں سے تھے۔ ان کا ذکر قرآن مجید میں صرف دو ہی مقامات پر آیا ہے ایک مرتبہ یہاں اور دوسری مرتبہ سورۃ انعام آیت ٨٥ میں ذکر ہوا ہے موجودہ زمانہ کے محققین ان کا زمانہ ٨٧٥ اور ٨٥٠ ق م کے درمیان متعین کرتے ہیں۔ وہ جلعاد کے رہنے والے تھے۔ قدیم زمانہ میں جِلْعاد اس علاقے کو کہتے تھے جو دریائے یرموک کے جنوب میں واقع ہے۔ حضرت الیاس (علیہ السلام) جنہیں اس مقام پر قرآن مجید نے الیاسین بھی کہا ہے۔ انہوں نے اپنی قوم کو انہی الفاظ کے ساتھ خطاب فرمایا جن الفاظ میں پہلے انبیائے کرام (علیہ السلام) اپنی اپنی قوم کو خطاب کرتے رہے۔ ارشاد فرماتے ہیں۔ اے میری قوم! اللہ سے ڈرو اس کے ساتھ شرک کرنا چھوڑ دو اور اسکی نافرمانی سے باز آجاؤ! تمہارا کردار یہ ہے کہ تم بعل کے سامنے رکوع، سجود کرتے اور نذرونیاز پیش کرتے ہو اور اللہ تعالیٰ کو چھوڑے ہوئے ہو۔ حالانکہ اس نے انسان اور ہر چیز کو اس کے ماحول کے مطابق بہتر سے بہتر پیدا فرمایا ہے۔ اللہ ہی تمہیں اور تمہارے آباؤ اجداد کو پیدا کرنے والا اور ہر چیز عطا کرنے والا ہے۔ حضرت الیاس (علیہ السلام) کی قوم نے اس فطری اور سادہ دعوت کو جھٹلادیا۔ جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ انہیں حاضر کیا جائے گا یعنی دعوت توحید ٹھکرانے اور حضرت الیاس (علیہ السلام) کی نافرمانی کرنے کی وجہ سے انہیں ٹھیک ٹھیک سزا دی جائے گی اس سزا سے وہی لوگ بچ پائیں گے جنہوں نے عقیدہ توحید اختیار کیا اور مخلصانہ طور پر اس کے تقاضے پورے کرنے کی کوشش کرتے رہے۔ بے شک قوم نے حضرت الیاس (علیہ السلام) کی دعوت کو ٹھکرادیا لیکن اللہ تعالیٰ نے الیاس (علیہ السلام) کی محنت قبول کرتے ہوئے ان کے کام اور نام کو ہمیشہ کے لیے باقی رکھا۔ ان پر اللہ کی رحمتیں برستی رہیں گی۔ کیونکہ جو لوگ اخلاص اور اپنے رب کے حکم کے مطابق زندگی بسر کرتے ہیں اللہ تعالیٰ انہیں بہترین جزا دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے الیاس (علیہ السلام) کو یہ بھی اعزاز بخشا کہ انہیں دنیا اور آخرت میں اپنے مومن بندوں میں شامل فرمایا۔ مسائل ١۔ الیاس (علیہ السلام) بھی اللہ کے پیغمبروں میں شامل ہیں۔ ٢۔ حضرت الیاس (علیہ السلام) کی قوم نے بعل (بت) کے مقابلے میں عقیدہ توحید کو ٹھکرادیا۔ ٣۔ قیامت کے دن ان کی قوم کو اللہ کے حضور پیش کیا جائے گا۔ ٤۔ حضرت الیاس (علیہ السلام) پر ہمیشہ ہمیش اللہ تعالیٰ کی رحمتیں برستی رہیں گی۔ تفسیر بالقرآن اللہ کی رحمتیں انبیائے کرام (علیہ السلام) پر ہمیشہ نازل ہوتی رہیں گی : ١۔ حضرت نوح، ابراہیم اور الیاس پر ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی رحمت برستے رہے گی۔ (الصّافّات : ٧٩، ١٠٩، ١٢٣) ٢۔ اگر انہوں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جھٹلا دیا ہے تو آپ فرما دیں تمھارا رب وسیع رحمت والا ہے۔ (الانعام : ١٤٧) ٣۔ اللہ تعالیٰ انبیاء کو اپنی رحمت کے ساتھ مخصوص کرتا ہے۔ (الانبیاء : ٨٦) (الصّافّات : ١٣٠) الصافات
124 الصافات
125 الصافات
126 الصافات
127 الصافات
128 الصافات
129 الصافات
130 الصافات
131 الصافات
132 الصافات
133 فہم القرآن ربط کلام : حضرت الیاس (علیہ السلام) کے بعد حضرت لوط (علیہ السلام) کا ذکر۔ حضرت لوط (علیہ السلام) بھی انبیائے کرام (علیہ السلام) میں شامل ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں اور ان کے اہل کو ذلّت آمیز عذاب سے محفوظ رکھا البتہ ان کی بیوی اور دوسرے لوگوں کو ہلاک کردیا۔ اے عرب کے لوگو! تم سفر کے دوران صبح و شام قوم لوط (علیہ السلام) کی بستیوں کے کھنڈرات کے قریب سے گزرتے اور انہیں دیکھتے ہو۔ لیکن پھر بھی عقل سے کام لینے کے لیے تیار نہیں ہو ؟۔ حضرت لوط (علیہ السلام) اور ان کی قوم کے بارے میں قرآن مجید میں کئی مرتبہ ذکر ہوچکا ہے اس لیے یہاں اختصار کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے کہ حضرت لوط (علیہ السلام) مرسلین میں سے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں اور ان کے ایمان دار ساتھیوں کو عذاب سے محفوظ رکھا۔ لیکن ان کی بیوی اور ان کی قوم کو آسمان کے قریب لے جا کر الٹ دیا گیا اور پھر ان پر پتھروں کی بارش برسائی جو نشان زدہ تھے۔ تفسیر بالقرآن حضرت لوط (علیہ السلام) کا تذکرہ : ١۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) پر حضرت لوط (علیہ السلام) ایمان لائے اور انہوں نے اللہ کی راہ میں ہجرت کی۔ (العنکبوت : ٢٦) ٢۔ حضرت لوط (علیہ السلام) اللہ کے رسولوں میں سے تھے۔ (الصّٰفّٰت : ١٣٣) ٣۔ اللہ تعالیٰ نے اسماعیل، یسع، یونس اور لوط کو لوگوں پر فضیلت دی۔ (الانعام : ٨٦) ٤۔ اللہ تعالیٰ نے لوط کو دانائی اور علم عطا فرمایا۔ (الانبیاء : ٧٤) الصافات
134 الصافات
135 الصافات
136 الصافات
137 الصافات
138 الصافات
139 فہم القرآن ربط کلام : حضرت لوط (علیہ السلام) کے بعد حضرت یونس (علیہ السلام) کا ذکر گرامی۔ حضرت یونس (علیہ السلام) بھی اللہ کے برگزیدہ انبیائے کرام (علیہ السلام) میں شامل ہیں۔ انہیں نینوا کے علاقہ میں ایک لاکھ سے زائد لوگوں کی آبادی میں مبعوث کیا گیا۔ نہ معلوم حضرت یونس (علیہ السلام) نے کتنا عرصہ اپنی قوم کو سمجھایا لیکن قوم سدھرنے کی بجائے بگڑتی چلی گئی۔ اس پر یونس (علیہ السلام) نے قوم کو انتباہ کیا کہ اگر تم راہ ہدایت پر نہ آئے تو فلاں دن تمہیں اللہ کا عذاب آلے گا لیکن اس دن عذاب نہ آیا جس پر قوم نے حضرت یونس (علیہ السلام) کو طعنے دیئے اور جھوٹا قرار دیا جس پر یونس (علیہ السلام) پریشان ہو کر اللہ کی اجازت کے بغیر ہجرت کے لیے نکل کھڑے ہوئے جس کے لیے قرآن مجید نے ” اَبَقَ“ کا لفظ استعمال کیا ہے جس کا معنٰی ہے آقا سے بھاگنے والا غلام۔ حضرت یونس (علیہ السلام) قوم سے ناراض ہو کر اپنے شہر سے نکلے اور دریا عبور کرنے کے لیے کشتی پر سوار ہوئے کشتی دریا میں تھوڑی دیر چلی تو ہچکولے کھانے لگی۔ ملاح نے اپنے تجربے کی بنیاد پر کہا کہ جب کشتی ہموار موسم میں ہچکولے کھانے لگے تو میرا تجربہ ہے کہ کشتی میں کوئی ایسا شخص ضرور سوار ہوتا ہے جو اپنے مالک سے بھاگ آکر آیا ہوتا ہے۔ لگتا ہے کہ آج بھی کوئی سوار اس طرح ہی اپنے مالک سے بھاگ کر آیا ہے۔ اس پر قرعہ اندازی کی گئی بالآخر قرعہ یونس (علیہ السلام) کے نام نکلا جس پر یونس (علیہ السلام) نے کشتی کو بچانے کے لیے دریا میں چھلانگ لگا دی۔ جونہی دریا میں کودے تو ایک مچھلی نے انہیں نگل لیا۔ وہ نہایت افسردگی کے عالم میں مچھلی کے پیٹ میں جاکر ان الفاظ میں اللہ تعالیٰ کو پکارنے لگے،” لَا اِلٰہَ الاَّاَنْتَ سُُبْحَانَکَ اِنِّی کُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِیْنَ“ اے اللہ تیرے سوا کوئی الٰہ نہیں بے شک میں ظالموں میں سے ہوں۔“ یونس (علیہ السلام) نے اپنی دعا میں اللہ تعالیٰ کا نام لینے کی بجائے ” اَنْتَ“ کی ضمیر استعمال کی جس سے ان کے احساسات اور جذبات کی ترجمانی ہوتی ہے کہ اتنی بڑی مصیبت میں مبتلا ہونے اور مچھلی کے پیٹ میں جانے کے باوجود ” اَنْتَ“ کی ضمیر استعمال کرتے ہیں جو واحد حاضر کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ گویا کہ انتہائی پریشانی کے باوجود اپنے رب کی قربت محسوس کرتے ہوئے یوں پکارتے ہیں گویا کہ رب تعالیٰ ان کے سامنے موجود ہیں یہی ذکر کا بہترین طریقہ ہے۔ جس طرح حدیث میں نماز کے بارے میں آیا کہ نماز اس طرح پڑھنی چاہیے جیسے نمازی اپنے رب کو دیکھ رہا ہے۔ اگر یہ نہیں تو یہ تصور تو ہونا چاہیے کہ میرا رب مجھے دیکھ رہا ہے۔ (رواہ البخاری : کتاب الایمان) اس بات کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ اگر یونس (علیہ السلام) مجھے یاد نہ کرتا تو قیامت کے دن تک مچھلی کے پیٹ میں رہتا اور مچھلی کے پیٹ سے ہی اٹھایا جاتا۔ گویا کہ مچھلی کی موت کے ساتھ ہی انہیں موت آجاتی۔ اور قیامت کو مچھلی کے پیٹ سے نکالے جاتے۔ یونس (علیہ السلام) کی فریاد کو اللہ تعالیٰ نے قبول فرمایا اور مچھلی کو حکم دیا کہ یونس (علیہ السلام) کو دریا کے کنارے اگل دے۔ یونس (علیہ السلام) مچھلی کے پیٹ سے باہر آئے تو اتنے کمزور ہوچکے تھے کہ چلنے پھرنے کے قابل نہ تھے۔ اس حالت میں یونس (علیہ السلام) دریا کے کنارے بے سدھ ہو کر لیٹے ہوئے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی خوراک اور سائے کے لیے ایک بیل دار پودا اگا دیا جس کے بارے میں مفسرین کا خیال ہے کہ وہ کدو یا بڑے بڑے پتوں والا بیل دار درخت تھا۔ اس مقام پر ضرورت سے زیادہ عقل رکھنے والے حضرات یہ کہتے ہیں کہ مچھلی کے پیٹ میں جا کر کسی انسان کا زندہ نکل آنا غیر ممکن ہے۔ لیکن پچھلی ہی صدی کے اواخر میں انگلستان کے ساحل کے قریب ایک واقعہ پیش آچکا ہے جو ایسے لوگوں کے دعوے کی تردید کردیتا ہے۔ اگست ١٨٩١ ؁ء میں ایک جہاز پر کچھ مچھیرے وہیل کے شکار کے لیے گہرے سمندر میں گئے۔ وہاں انہوں نے ایک بہت بڑی مچھلی کو جو ٢٠ فٹ لمبی ٥٠ فٹ چوڑی اور سوٹن وزنی تھی شکاریوں نے سخت زخمی کردیا مچھلی کو قابو کرتے ہوئے جمیز بار ٹلے نامی ایک مچھیرے کو اس کے ساتھیوں کے سامنے مچھلی نے نگل لیا۔ دوسرے روز وہی مچھلی اس جہاز کے لوگوں کو مری ہوئی مل گئی۔ انہوں نے بمشکل ہی اسے جہاز پر چڑھایاجب اس کا پیٹ چاک کیا تو بارٹلے اس کے اندر زندہ برآمد ہوگیا۔ یہ شخص مچھلی کے پیٹ میں پورے ٦٠ گھنٹے رہا تھا۔ (اردو ڈائجسٹ، فروری ١٩٦٤ ؁ء) غور کرنے کی بات ہے کہ اگر معمولی حالات میں فطری طور پر ایسا ہونا ممکن ہے تو غیر معمولی حالات میں اللہ تعالیٰ کے معجزے کے طور پر ایسا ہونا کیوں غیر ممکن ہے ؟ ٢٠٠٥ رمضان المبارک میں آزاد کشمیر میں شدید زلزلہ آیا۔ اس زلزلہ میں پانچ اور چھ سیکنڈ کے اندر اسی ہزار افراد موت کا لقمہ بنے گھروں کے گھر ملیامیٹ ہوگئے۔ مواصلات کا نظام مکمل طور پر درہم برہم ہوگیا۔ تقریباً ایک سال تک ہیلی کا پٹروں کے ذریعے لوگوں تک خوراک پہنچائی جاتی رہی اور کئی ماہ تک مکانوں سے لاشیں نکالنے کا سلسلہ جاری رہا۔ مظفر آباد شہر میں ایک بلڈنگ کاملبہ صاف کیا جارہا تھا کہ ایک گھر سے چھ ماہ بعد جواں سال لڑکی زندہ ملی جس کا سرکاری طور پر اسلام آبادہسپتال میں علاج کیا گیا جو دو مہینے کے بعدلڑکی چلنے پھرنے کے قابل ہوگئی۔ ذکر کے فائدے : (یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا لَقِیْتُمْ فِءَۃً فَاثْبُتُوْا وَ اذْکُرُوا اللّٰہَ کَثِیْرًا لَّعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْن) [ الانفال : ٤٥] ” اے لوگو جو ایمان لائے ہو جب تم کسی گروہ کا مقابلہ کرو تو ثابت قدم رہو اور اللہ کو بہت زیادہ یاد کرو تاکہ تم کامیاب ہوجاؤ۔“ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَال اللّٰہُ تَعَالٰی أَنَا مَعَ عَبْدِیْ حَیْثُمَا ذَکَرَنِیْ وَتَحَرَّکَتْ بِیْ شَفَتَاہُ) [ رواہ البخاری : کتاب التوحید، باب قول اللہ تعالیٰ لاتحرک بہ لسانک الخ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں میں اپنے بندے کے ساتھ ہوتاہوں‘ وہ جہاں کہیں بھی میرا ذکر کرے اور جب اس کے ہونٹ میرے ذکر کے لیے حرکت کرتے ہیں۔“ مسائل ١۔ یونس (علیہ السلام) اللہ تعالیٰ کے رسول اور نبی تھے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے یونس (علیہ السلام) کے لیے ایک بیلدار درخت اگادیا۔ ٣۔ یونس (علیہ السلام) اللہ تعالیٰ کو یاد نہ کرتے تو قیامت تک مچھلی کے پیٹ میں رہتے۔ تفسیر بالقرآن قرآن مجید میں حضرت یونس (علیہ السلام) کا تذکرہ : ١۔ اللہ تعالیٰ نے یونس (علیہ السلام) کی طرف وحی نازل فرمائی۔ (النساء : ١٦٣) ٢۔ یونس (علیہ السلام) رسولوں میں سے تھے۔ (الصّٰفّٰت : ١٣٩) ٣۔ اللہ تعالیٰ نے اسماعیل، یسع، یونس اور لوط کو جہان والوں پر فضیلت عطا فرمائی۔ (الانعام : ٨٦) ٤۔ یونس (علیہ السلام) کی اللہ نے دعا قبول فرما کر مچھلی کے پیٹ سے نجات دی۔ (الانبیاء : ٨٨) ٥۔ حضرت یونس کی قوم کے سوا کسی قوم کو عذاب کے وقت ایمان لانے کا فائدہ نہ ہوا۔ (یونس : ٩٨) الصافات
140 الصافات
141 الصافات
142 الصافات
143 الصافات
144 الصافات
145 الصافات
146 الصافات
147 الصافات
148 الصافات
149 الصافات
150 فہم القرآن ربط کلام : حضرت یونس (علیہ السلام) کی قوم نے شرک سے توبہ کی جس کے نتیجے میں عذاب سے بچ گئی۔ اہل مکہ کو اس واقعہ کے ذریعے سمجھایا گیا ہے کہ اگر اللہ کے عذاب سے بچنا چاہتے ہو تو شرک سے توبہ کرلو بصورت دیگر تباہی تمہارا مقدر ہوگی۔ قرآن مجید نے یہ بات واضح نہیں فرمائی کہ یونس (علیہ السلام) کی قوم کس قسم کے شرک میں ملوث تھی۔ تاہم آیات کے سیاق و سباق سے معلوم ہوتا ہے کہ شرک کی دیگر اقسام کے ساتھ یونس (علیہ السلام) کی قوم میں یہ شرک بھی پایا جاتا تھا کہ وہ ملائکہ کو اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں خیال کرتے اور ان کے واسطے اور طفیل دعائیں کیا کرتے تھے۔ اس کے ساتھ جنّات کے بارے میں بھی ان کے ایسے ہی خیالات تھے جس طرح جنات کے بارے میں اہل مکہ کے خیالات تھے۔ مچھلی کے پیٹ سے نکل کر یونس (علیہ السلام) اپنی قوم کے پاس گئے۔ جن کی اکثریت یا پھر تمام کے تمام لوگ ایمان لائے اور انہوں نے اللہ کے حضور سچی توبہ کی تو اللہ تعالیٰ نے انہیں معاف فرما دیا۔” اٰمَنُوْا“ کا لفظ استعمال فرما کرثابت کیا ہے کہ شرک کا عقیدہ رکھنے والا شخص ایماندار نہیں ہوتا۔ ان لوگوں کی تعداد ایک لاکھ سے زائد تھی۔ جنہیں ایک مدت تک مہلت دی گئی۔ اللہ تعالیٰ کو معلوم تھا اور ہے کہ یونس (علیہ السلام) کی قوم کے کتنے افراد تھے لیکن بات میں حسن پیدا کرنے کے لیے ” اَوْ یَزِیْدُوْنَ“ کے الفاظ ارشاد فرمائے جس میں حسن ہونے کے ساتھ بلاغت بھی پائی جاتی ہے تاکہ کلام سننے والے کے دل میں جستجو پیدا ہو۔ کلام کا رخ موڑکر اہل مکہ سے سوال کیا گیا ہے کہ کیا ملائکہ کی پیدائش کے وقت یہ لوگ موجود تھے ؟ کہ یہ جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ملائکہ کو مؤنث (FEMAIL) پیدا کیا ہے۔ آگاہ رہیں کہ یہ لوگ جھوٹے ہیں اور جو ان کے منہ میں آتا ہے کہے جارہے ہیں۔ حالانکہ کسی کو ” اللہ“ کی اولاد قرار دینا سب سے بڑا جھوٹ اور بہتان ہے۔ کیا یہ نہیں سوچتے کہ اللہ تعالیٰ نے بیٹوں کی بجائے اپنے لیے بیٹیاں پسند کی ہیں ؟ ظاہر بات ہے کہ اگر اسے اولاد کی محبت اور اپنے لیے معاونین کی ضرورت ہوتی تو وہ بیٹیوں کی بجائے بیٹے پسند کرتا۔ تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ اپنی طرف سے ہی فیصلے کیے جاتے ہو۔ آخر فیصلہ کرنے کے لیے عقلی یا نقلی دلیل تو ہونی چاہیے۔ ہاں اگر تمہارے پاس عقلی یا مشاہداتی دلیل نہیں تو کسی مستند کتاب سے حوالہ پیش کرو۔ جس سے ثابت ہوسکے کہ اللہ تعالیٰ نے ملائکہ یا کسی اور کو اپنی اولاد کے طور پر پیدا کیا ہے۔ یہی تمہارا عقیدہ جنّات کے بارے میں ہے جس بنا پر جنات کو اللہ کا رشتہ دار ٹھہراتے ہو۔ حالانکہ جنّات بھی جانتے ہیں کہ جس نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کا حسب و نسب جوڑا اسے پوچھاجائے گا۔ جس سے اللہ تعالیٰ نے پوچھ لیا وہ مارا جائے گا۔ یاد رہے کہ اہل مکہ یہ بھی ہرزہ سرائی کرتے تھے کہ جنات کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی رشتہ داری ہے۔ جس سے ملائکہ کی شکل میں بیٹیاں پیداہوئی ہیں۔ اس سے اپنے آپ یہ بات نکلتی ہے کہ ” نعوذباللہ“ اللہ تعالیٰ بھی جنسی خواہش رکھتا ہے۔ یہ ایسی خرافات ہیں کہ جس کے تصور سے ایک شریف آدمی کا دل کانپ جاتا ہے اس لیے معمولی عقل رکھنے والا انسان بھی پکار اٹھتا ہے کہ سبحان اللہ کہ ہمارا رب ہر خواہش اور کمزوری سے مبرا اور پاک ہے یہ باتیں تو مشرک کیا کرتے تھے۔ جو لوگ عقیدہ اور عمل میں مخلص ہیں یعنی شرک سے نفرت اور اجتناب کرتے ہیں ان سے یہ بات کوئی نہیں کہلواسکتا ایسی باتیں تو وہی لوگ کرتے ہیں جن پر جہنم واجب ہوچکی ہے۔ ” اے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! فرما دیجیے کہ میری طرف اللہ تعالیٰ کی وحی آئی ہے کہ جنوں کی ایک بڑی جماعت نے قرآن سنا تو انہوں نے کہا کہ ہم نے عجیب قرآن سنا ہے جو نیکی کی طرف راہنمائی کرتا ہے پس ہم اس پر ایمان لائے۔ ہم آئندہ اپنے رب کے ساتھ کسی کو بھی شریک نہ ٹھہر ائیں گے۔ کیونکہ ہمارے رب کی شان بہت بلند ہے۔ اس کی نہ بیوی ہے اور نہ اولاد، یقیناً ہم میں سے بیوقوف لوگ اللہ کے بارے میں غلط باتیں کہتے ہیں۔“ (الجن : ١ تا ٥) سنگین جرم : ” قریب ہے کہ آسمان پھٹ پڑیں اور زمین شق ہوجائے اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہوجائیں۔ اس بات پر کہ انہوں نے رحمٰن کی اولاد ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔ رحمان کی شان نہیں کہ وہ کسی کو اولاد بنائے۔“ (٩٠، ٩١، ٩٢) ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا آدم کا بیٹا مجھے گالیاں دیتا ہے اور یہ اس کے لیے لائق نہیں اور وہ میری تکذیب کرتا ہے اور وہ بھی اس کے لیے لائق نہیں اس کا مجھے گالی دینا یہ ہے کہ میری اولاد ہے اس کا مجھے جھٹلانا یہ ہے کہ وہ کہتا ہے کہ مجھے دوبارہ پیدا نہیں کیا جائے گا جس طرح مجھے پہلی بار پیدا کیا گیا ہے۔“ [ رواہ البخاری : باب مَا جَاءَ فِی قَوْلِ اللَّہِ تَعَالَی (وَہُوَ الَّذِی یَبْدَأُ الْخَلْقَ ثُمَّ یُعِیدُہُ)] جس سے رب ذوالجلال نے سوال کرلیا وہ پکڑا جائے گا : (عَنْ عَاءِشَۃَ (رض) اَنَّ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ لَیْسَ اَحَدٌ یُّحَا سَبُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ اِلَّاھَلَکَ قُلْتُ اَوَلَیْسَ یَقُوْلُ اللّٰہُ فَسَوْفَ یُّحَاسَبُ حِسَابًا یَّسِیْرًا فَقَالَ اِنَّمَا ذٰلِکَ الْعَرْضُ وَلٰکِنْ مَّنْ نُوْقِشَ فِیْ الْحِسَابِ یَھْلِکُ) [ رواہ البخاری : باب مَنْ سَمِعَ شَیْءًا فَرَاجَعَ حَتَّی یَعْرِفَہُ] ” حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ نبی گرامی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا قیامت کے دن جس سے حساب لے لیا گیا وہ ہلاک ہوا میں نے پوچھا اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! کیا اللہ تعالیٰ کا ارشاد نہیں کہ ” عنقریب اس کا آسان حساب ہوگا۔“ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا یہ تو معمولی پیشی ہے جس شخص سے باز پرس ہوئی وہ ہلاک ہوگیا۔“ مسائل ١۔ جو لوگ کہتے ہیں کہ ملائکہ اللہ کی اولاد ہیں وہ جھوٹ بولتے ہیں۔ ٢۔ لوگ بلا دلیل جنات اور دوسروں کو اللہ تعالیٰ کے رشتہ دار بناتے ہیں۔ ٣۔ ایسا عقیدہ رکھنے والے جہنمی ہیں۔ ٤۔ اللہ کے مخلص بندے ایسی بات نہیں کہتے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ اولاد اور ہر قسم کی کمزوری سے پاک ہے : ١۔ اللہ تعالیٰ ان کے شرک سے پاک اور برتر ہے۔ (النحل : ١) ٢۔ اللہ تعالیٰ نے آسمان و زمین کو برحق پیدا کیا۔ اللہ تعالیٰ شریکوں سے بلند و بالا ہے۔ (النحل : ٣) ٣۔ اللہ تعالیٰ غائب اور حاضر کو جاننے والا ہے اللہ شریکوں کی شراکت سے بلند ہے۔ (المومنون : ٩٢) ٤۔ کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور بھی الٰہ ہے؟ اللہ تعالیٰ ان کے شرک سے بالا ہے۔ (النمل : ٦٣) ٥۔ اللہ تعالیٰ نے تمہیں پیدا کیا، رزق دیا، تمہیں مارے گا اور تمہیں زندہ کرے گا۔ کیا تمہارے شرکا میں سے بھی کوئی ہے جو یہ کام کرسکے؟ اللہ مشرکوں کے شرک سے پاک ہے۔ (الروم : ٤٠) ٦۔ قیامت کے دن آسمان اس کے داہنے ہاتھ میں لپٹے ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ لوگوں کے شرک سے پاک و برتر ہے۔ (الزمر : ٦٧) ٧۔ اللہ تعالیٰ اولاد سے پاک ہے۔ (الانعام : ١٠١) ٨۔ عزیر (علیہ السلام) ” اللہ“ کے بیٹے نہیں اس کے بندے تھے۔ ( التوبۃ: ٣٠) ٩۔ حضرت عیسیٰ اور حضرت مریم ( علیہ السلام) اِلٰہ نہیں اللہ کے بندے تھے۔ (المائدۃ: ٧٥) ١٠۔ کسی کو اللہ تعالیٰ کی اولاد قرار دینا سنگین ترین جرم ہے۔ (مریم : ٩١، ٩٢) الصافات
151 الصافات
152 الصافات
153 الصافات
154 الصافات
155 الصافات
156 الصافات
157 الصافات
158 الصافات
159 الصافات
160 الصافات
161 الصافات
162 الصافات
163 الصافات
164 فہم القرآن ربط کلام : نیک جنّات اور مواحد بندوں کا عقیدہ بیان کرنے کے بعدملائکہ کا عقیدہ اور ان کا اعتراف ذکر کیا جاتا ہے۔ اس سے پہلے نیک جنّات اور مخلص بندوں کا عقیدہ بیان کیا گیا ہے کہ وہ اقرار کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی کوئی اولاد نہیں۔ نہ ہی اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کی رشتہ داری ہے۔ جنّات، انسان اور ہر چیز اس کی مخلوق ہے۔ وہ سب کا واحد خالق، مالک اور رازق ہے یہی عقیدہ تمام ملائکہ کا ہے۔ وہ اقرار کرتے ہیں کہ ہماری کیا مجال ہے کہ جہاں ہماری ڈیوٹی لگائی گئی ہے اس سے ایک انچ آگے پیچھے ہوسکیں اور جو ہمیں حکم دیا جاتا ہے اس میں بال برابر سستی کریں۔ ہم تو اپنی اپنی جگہ پر کھڑے اپنے خالق کے حکم کے منتظر رہتے اور ہر وقت اپنے رب کے حضور صف بستہ حاضر رہتے ہیں اور ہر حال میں اپنے رب کی تسبیح پڑھتے رہتے ہیں۔ قیامت کے دن بھی ملائکہ کی یہی حالت گی۔ (الَّذِیْنَ یَحْمِلُوْنَ الْعَرْشَ وَمَنْ حَوْلَہُ یُسَبِّحُوْنَ بِحَمْدِ رَبِّہِمْ وَیُؤْمِنُوْنَ بِہٖ وَیَسْتَغْفِرُوْنَ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا رَبَّنَآ وَسِعْتَ کُلَّ شَیْءٍ رَحْمَۃً وَّعِلْمًا فَاغْفِرْ لِلَّذِیْنَ تَابُوْا وَاتَّبَعُوْا سَبِیْلَکَ وَقِہِمْ عَذَابَ الْجَحِیْمِ) [ المومن : ٧] ” عرشِ الٰہی کے حامل فرشتے اور جو عرش کے گردوپیش حاضر رہتے ہیں، سب اپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کر رہے ہیں، وہ ” اللہ“ پر ایمان رکھتے ہیں اور ایمانداروں کے حق میں دعائے مغفرت کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں اے ہمارے رب تو اپنی رحمت اور اپنے علم کے ساتھ ہر چیز پر چھایا ہوا ہے جنہوں نے توبہ کی اور تیرے راستے کی اتباع کی انہیں جہنم کے عذاب سے محفوظ فرما۔“ (یَوْمَ یَقُوم الرُّوحُ وَالْمَلَاءِکَۃُ صَفًّا لَا یَتَکَلَّمُونَ إِلَّا مَنْ أَذِنَ لَہُ الرَّحْمَنُ وَقَالَ صَوَابًا) [ النبا : ٣٨] ” جس دن جبرائیل امین اور دوسرے فرشتے صف باندھ کر کھڑے ہوں گے اس دن صرف وہی بول سکے گا جس کو الرّحمن نے اجازت دی ہوگی۔“ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ یَبْلُغُ بِہِ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ إِذَا قَضَی اللَّہُ الأَمْرَ فِی السَّمَاءِ ضَرَبَتِ الْمَلاَءِکَۃُ بِأَجْنِحَتِہَا خُضْعَانًا لِقَوْلِہِ کَالسِّلْسِلَۃِ عَلَی صَفْوَانٍ قَالَ عَلِیٌّ وَقَالَ غَیْرُہُ صَفْوَانٍ یَنْفُذُہُمْ ذَلِکَ فَإِذَا فُزِّعَ عَنْ قُلُوبِہِمْ قَالُوا ماذَا قَالَ رَبُّکُمْ، قَالُوا لِلَّذِی قَالَ الْحَقَّ وَہْوَ الْعَلِیُّ الْکَبِیرُ) [ رواہ البخاری : باب قَوْلِہِ (إِلاَّ مَنِ اسْتَرَقَ السَّمْعَ فَأَتْبَعَہُ شِہَابٌ مُبِینٌ ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا‘ اللہ تعالیٰ جب آسمان پر کوئی فیصلہ صادر فرماتا ہے تو اللہ کے فرمان کے جلال کی وجہ سے فرشتوں کے پروں میں آواز پیدا ہوتی ہے۔ جیسے ہموار پتھر پر لوہے کی زنجیر کھینچنے سے آواز پیدا ہوتی ہے۔ جب ملائکہ کے دلوں سے گھبراہٹ دورہوجاتی ہے تو وہ ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں کہ تمہارے پروردگار نے کیا ارشاد فرمایا ہے ؟ اوپر والے ملائکہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد کا ذکر کرتے اور اس کی تصدیق کرتے ہوئے کہتے ہیں اس اللہ کا یہ ارشاد ہے جو بلند وبالاہے۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ کے حکم کے بغیر ملائکہ ایک انچ بھی ادھر ادھر نہیں ہوسکتے۔ ٢۔ ملائکہ اپنی ڈیوٹی ادا کرنے کے ساتھ ہر دم اپنے رب کا ذکر کرتے رہتے ہیں۔ ٣۔ ملائکہ ہر وقت اپنے رب کے حضور صف بستہ رہتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن ملائکہ اور جنات بھی اللہ تعالیٰ کے حکم کے پابند اور اس کی بندگی میں لگے ہوئے ہیں : ١۔ یقیناً جو ملائکہ آپ کے رب کے پاس ہیں وہ اس کی عبادت سے تکبر نہیں کرتے، اس کی تسبیح بیان کرتے اور اس کو سجدہ کرتے ہیں۔ (الاعراف : ٢٠٦) ٢۔ فرشتے اللہ تعالیٰ کی تسبیح اور حمد بیان کرتے ہیں اور مومنوں کے لیے مغفرت طلب کرتے ہیں۔ (الشوریٰ : ٥) ٣۔ قیامت کے دن تمام فرشتے اور جبرائیل (علیہ السلام) اپنے رب کے روبرو قطار میں کھڑے ہوں گے۔ (النباء : ٣٨) ٤۔ قیامت کے دن فرشتے صف بنا کراپنے رب کے سامنے حاضر ہوں گے۔ (الفجر : ٢٢) ٥۔ جن اور انسان اللہ کی عبادت کے لیے پیدا کئے گئے ہیں۔ (الذاریات : ٥٦) ٦۔ اے انسانوں اور جنوں اگر تم خدا کی خدائی سے نکل سکتے ہو نکل جاؤ۔ ( الرّحمن : ٣٣) الصافات
165 الصافات
166 الصافات
167 فہم القرآن ربط کلام : اہل مکہ اور دیگر لوگوں کا دعویٰ۔ حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کے بعد اہل مکہ کے پاس براہ راست کوئی نبی نہیں آیا۔ جس بنا پر اہل مکہ اپنے آپ میں یہ کمی محسوس کرتے اور کہتے تھے کہ کاش ! ہمارے ہاں بھی کوئی نبی مبعوث کیا جاتا۔ جس کی اتّباع کرکے ہم دوسری اقوام بالخصوص اہل کتاب پر برتری حاصل کرلیتے اور اللہ کے مخلص بندے بن جاتے۔ اس خواہش اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پہنچاننے کے باوجود یہ لوگ انکار کیے جا رہے ہیں۔ اگر یہ لوگ اپنی روش سے باز نہ آئے تو انہیں بہت جلد معلوم ہوجائے گا کہ اللہ تعالیٰ اپنے نبی کی کس طرح مدد کرتا ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولوں سے وعدہ کر رکھا ہے کہ وہ ہر صورت ان کی مدد کرے گا۔ جس بنا پر وہ اپنے مخالفوں پر غالب آئیں گے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ” اللہ“ کی فوج ہی غالب آیا کرتی ہے۔ چنانچہ بدر سے لے کر غزوہ تبوک تک تمام غزوات کی تاریخ اس بات پر گواہ ہے کہ نبی آخر الزمان (علیہ السلام) اور آپ کے اصحاب ہمیشہ کفار پر غالب رہے۔ (اُحد میں پہلے غالب رہے اور بعد میں نقصان اٹھانا پڑا۔) یہاں تک مسلمانوں کی کامیابی کا تعلق ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد بھی تقریباً ایک ہزار سال تک مسلمان دنیا میں واحد اخلاقی، سیاسی اور عسکری قوت کے طور پر تسلیم کیے جاتے رہے۔ کفر پر غالب آنے کا اہل علم نے دوسرا مفہوم یہ بھی بیان کیا ہے کہ مخالف جو چاہیں اور جس قدر چاہیں دین اسلام کی مخالفت کریں۔ لیکن وہ اسلام کی سچائی اور حقانیت پر دلائل کی بنیاد پر کبھی غالب نہ آسکیں گے۔ کیونکہ اسلام غالب رہنے کے لیے آیا ہے۔ اگر کوئی حکمران خلوص نیت اور جرأت کے ساتھ اسلام کو اس کے تقاضوں کے ساتھ نافذ کرے گا تو اسلام کا نظام کامیاب ہوگا یہ کبھی ناکام نہیں ہوسکتا۔ (کَتَبَ اللّٰہُ لاََغْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِی اِِنَّ اللّٰہَ قَوِیٌّ عَزِیْزٌ) [ المجادلۃ: ٢١] ” اللہ تعالیٰ نے لکھ دیا ہے کہ میں اور میرے رسول ہی غالب رہیں گے، بے شک اللہ تعالیٰ طاقت ور اور زور آور اور زبردست ہے۔“ (اَلْاِسْلَامُ یَعْلَمُوْ وَلَا یَعْلیٰ) [ ارواء الغلیل حدیث نمبر : ١٢٦٨] ” اسلام غالب آئے گا اور اس پر کوئی غالب نہیں آئے گا۔“ مسائل ١۔ اہل مکہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آمد سے پہلے آپ کی نبوت کے منتظر تھے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے تمام رسولوں سے وعدہ کیا کہ وہ غالب آئیں گے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ کی فوج ہی ہمیشہ غالب آیا کرتی ہے۔ تفسیر بالقرآن دین حق اور رسولوں کے غالب آنے کا وعدہ : ١۔ وہ ذات جس نے رسول کو مبعوث کیا تاکہ دین اسلام تمام ادیان پر غالب آجائے۔ (الفتح : ٢٨) ٢۔ ان سے لڑائی کرو یہاں تک کہ فتنہ ختم ہوجائے اور دین خالصتاً اللہ کے لیے ہوجائے۔ (البقرۃ: ١٩٣) ٣۔ اگر اللہ تعالیٰ تمہاری مدد کرے تو پھر تم پر کوئی غالب نہیں آسکتا۔ (آل عمران : ١٦٠) ٤۔ اللہ تعالیٰ اپنے امر پر غالب ہے لیکن لوگ نہیں جانتے۔ (یوسف : ٢١) ٥۔ اگر تم ” اللہ“ کی مدد کرو گے وہ تمہاری مدد کرے گا۔ (محمد : ٧) ٦۔” اللہ“ کی فوج ہی غالب آیا کرتی ہے۔ ( المائدۃ: ٥٦) ٧۔ کتنی قلیل جماعتیں ” اللہ“ کے حکم سے غالب آئیں۔ ( البقرۃ: ٢٤٩) ٨۔ ” اللہ“ کا وعدہ ہے کہ میں اپنے رسولوں کو ضرور غالب کروں گا۔ (المجادلۃ: ٢١) الصافات
168 الصافات
169 الصافات
170 الصافات
171 الصافات
172 الصافات
173 الصافات
174 فہم القرآن ربط کلام : اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ کے ساتھ بھی اللہ کا وعدہ ہے جو ہر صورت پورا ہو کر رہے گا اس لیے آپ کو ان سے الجھنے کی بجائے ایک وقتتک ان سے اعراض اور انتظار کرنا چاہیے۔ بے شک یہ آپ سے عذاب کا مطالبہ کرتے ہیں۔ لیکن آپ ان کو ایک وقت کے لیے صرف نظر فرمائیں کیونکہ عنقریب یہ کھلی آنکھوں کے ساتھ دیکھ لیں گے کہ ہمارا عذاب ان کو کس طرح آلیتا ہے۔ جہاں تک دنیا کی پکڑ کا معاملہ ہے جب ہم نے انہیں ذلیل کرنے کا فیصلہ کرلیا تو پھر کوئی طاقت انہیں بچانے والی نہ ہوگی۔ لہٰذا جب اللہ کے وعدے کا وقت آن پہنچا تو نبی آخر الزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس طرح اہل مکہ اور یہود ونصارٰی پر غالب آئے کہ کوئی دم مارنے کی جرأت نہ کرسکا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دس ہزار کا لشکر جرار لے کر مکہ کا محاصرہ کیا تو چڑیا بھی پر نہیں مار سکی تھی اور دنیا جان گئی کہ مکہ کے بڑے بڑے سردار آپ سے معافی کے خواستگار ہوئے۔ اور آپ نے انہیں معاف کرتے ہوئے فرمایا کہ جاؤ تم آزاد ہو تم پر کوئی مواخذہ نہیں ہے۔ جہاں تک یہودیوں کا معاملہ ہے۔ انہیں ہمیشہ کے لیے مدینہ سے نکال باہر کیا اور جب خیبرکا محاصرہ کیا تو شہر کی طرف پیش قدمی کرتے ہوئے اس آیت کی تلاوت کی۔ (فَاِِذَا نَزَلَ بِسَاحَتِہِمْ فَسَاءَ صَبَاحُ الْمُنْذَرِیْنَ) [ الصّٰفّٰت : ١٧٧] ” جب عذاب کا نزول کسی کے آنگن میں ہوتا ہے تو ڈرائے گئے لوگوں کی صبح بڑی بھیانک ہوتی ہے۔“ سلطنت رومہ کا اس طرح برا حال ہوا کہ جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تیس ہزار کالشکر لے کرتبوک کے میدان میں اترے تو اس وقت کی واحد سیاسی اور عسکری طاقت روم بھی آپ کا سامنا کرنے کی جرأت نہ کرسکا۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے عسکری، اخلاقی اور دینی طور پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کامیابیوں سے سرافراز فرمایا اور صرف تیئس سال میں امن وسکون کا وہ انقلاب آیا جس کی دنیا میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ مسائل ١۔ اے نبی ! کفار آپ سے عذاب کا مطالبہ کرتے ہیں آپ ان کی بات پر توجہ نہ دیں۔ ٢۔ کافر اللہ تعالیٰ کے عذاب میں جلدی کرتے ہیں۔ ٣۔ عنقریب کافر اپنا انجام دیکھ لیں گے۔ تفسیر بالقرآن کفارکا انجام : ١۔ اللہ تعالیٰ نے متقین کے ساتھ جنت کا وعدہ فرمایا ہے اور کافروں کا انجام دوزخ کی آگ ہے۔ (الرعد : ٣٥) ٢۔ کفار کے چہرے کالے ہوں گے اور جنتیوں کے چہرے پرنور ہوں گے۔ (آل عمران : ١٠٦۔ ١٠٧) ٣۔ کافر ہمیشہ جہنم میں رہیں گے۔ (الزخرف : ٧٤) ٤۔ مجرم کے لیے جہنم ہے۔ (طٰہٰ: ٧٤) ٥۔ کفار کے چہروں پر ذلت چھائی ہوگی اور متقین کے چہرے ہشاش بشاش ہوں گے۔ (یونس : ٢٦۔ ٢٧) ٦۔ زمین میں چل پھر کر دیکھو جھٹلانے والوں کا انجام کیسا ہوا۔ (النحل : ٣٦) ٧۔ ہم نے ان سے انتقام لیا دیکھئے جھٹلانے والوں کا انجام کیسا ہوا۔ (الزخرف : ٢٥) ٨۔ قیامت کے دن منکرین کے لیے ہلاکت ہے۔ (الطور : ١١) ٩۔ منکرین کے لیے جہنم کا کھولتا ہوا پانی ہے۔ (الواقعۃ: ٩٢) ١٠۔ کفار سے فرما دیں کہ عنقریب تم مغلوب ہوگے اور تمہیں جہنم کی طرف اکٹھا کیا جائے گا۔ (آل عمران : ١٢) ١١۔ کفار کا ٹھکانہ جہنم ہے اور وہ بہت ہی بری جگہ ہے۔ (النساء : ٩٧) ١٢۔ کفار کے لیے جہنم کی آگ ہے۔ اس میں انہیں موت نہیں آئے گی۔ (فاطر : ٣٦) ١٣۔ مجرم لوگ ہمیشہ جہنم کے عذاب میں مبتلا رہیں گے۔ (الزخرف : ٧٤) ١٤۔ کفار کا ٹھکانہ جہنم ہے جب اس کی آگ ہلکی ہونے لگے گی تو ہم اس کو اور بھڑکا دیں گے۔ (بنی اسرائیل : ٩٧) الصافات
175 الصافات
176 الصافات
177 الصافات
178 الصافات
179 الصافات
180 فہم القرآن ربط کلام : پہلی آیت میں مشرکین کو چیلنج کیا گیا ہے کہ بہت جلد تمہیں اپنے انجام اور نبی آخر الزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی کامیابی کا علم ہوجائے گا اور یہ ہو کر رہے گا۔ کیونکہ ہر قسم کی عزت اور عظمت رب العالمین کے لیے ہے اس کی طرف سے مرسلین پر سلام ہو۔ سورۃ کا خاتمہ ان الفاظ پر ہو رہا ہے کہ اے کفار اور مشرکین ! کان کھول کر سن لو! کہ اللہ تعالیٰ نا صرف تمہارے غلیظ نظریات، شرکیہ عقائد اور تمہاری ہرزہ سرائی سے پاک ہے بلکہ وہ ہر قسم کی کمزوری سے بھی مبرّا ہے۔ وہ بڑی عزت و عظمت والا ہے۔ اس کی عزت و عظمت کا کوئی تصور بھی نہیں کرسکتا۔ وہ جسے عزت اور عظمت دینا چاہے تو اسے کوئی نیچا نہیں دکھا سکتا۔ اس نے فیصلہ کر رکھا ہے کہ وہ اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کامیاب کرے گا۔ کیونکہ اس کی رحمتیں نبی آخر الزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور تمام مرسلین ( علیہ السلام) پر برستی ہیں جنہوں نے اس کی توحید اور دین کی سربلندی کے لیے تن من دھن قربان کیے۔ اے کفار اور مشرکین ! تم ایک بار نہیں ہزار بار ” اللہ“ کی ذات اور صفات کا انکار کرو۔ حقیقت یہ ہے صرف اللہ تعالیٰ ہی تمام جہانوں کا خالق، مالک، رازق اور بادشاہ ہے اس لیے زمین کا ذرہ ذرہ، آسمانوں کا چپہ چپہ اور کائنات کا ایک ایک حصہ ماضی، حال میں اس کی حمد و ستائش میں لگا ہوا ہے اور مستقبل میں لگا رہے گا۔ کیونکہ وہ رب العالمین ہے۔ ” ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے انہوں نے کہا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا دو کلمے ایسے ہیں جو اللہ تعالیٰ کو بڑے محبوب ہیں اور زبان سے نہایت آسانی کے ساتھ ادا ہوجاتے ہیں اور ترازو میں بہت وزنی ہیں (سُبْحَان اللَّہِ وَبِحَمْدِہِ، سُبْحَان اللَّہِ الْعَظِیمِ ) “ [ رواہ البخاری : باب قَوْلِ اللَّہِ تَعَالَی (وَنَضَعُ الْمَوَازِینَ الْقِسْطَ )] (عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عُمَرَ (رض) أَنَّ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حَدَّثَہُمْ أَنَّ عَبْدًا مِنْ عِبَاد اللَّہِ قَالَ یَا رَبِّ لَکَ الْحَمْدُ کَمَا یَنْبَغِی لِجَلاَلِ وَجْہِکَ وَلِعَظِیمِ سُلْطَانِکَ فَعَضَّلَتْ بالْمَلَکَیْنِ فَلَمْ یَدْرِیَا کَیْفَ یَکْتُبَانِہَا فَصَعِدَا إِلَی السَّمَاءِ وَقَالاَ یَا رَبَّنَا إِنَّ عَبْدَکَ قَدْ قَالَ مَقَالَۃً لاَ نَدْرِی کَیْفَ نَکْتُبُہَا قَال اللَّہُ عَزَّ وَجَلَّ وَہُوَ أَعْلَمُ بِمَا قَالَ عَبْدُہُ مَاذَا قَالَ عَبْدِی قَالاَ یَا رَبِّ إِنَّہُ قَالَ یَا رَبِّ لَکَ الْحَمْدُ کَمَا یَنْبَغِی لِجَلاَلِ وَجْہِکَ وَعَظِیمِ سُلْطَانِکَ فَقَال اللَّہُ عَزَّ وَجَلَّ لَہُمَا اکْتُبَاہَا کَمَا قَالَ عَبْدِی حَتَّی یَلْقَانِی فَأَجْزِیَہُ بِہَا)[ رواہ ابن ماجۃ: باب فَضْلِ الْحَامِدِینَ] ” حضرت عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ ہمیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بتلایا کہ اللہ کے بندوں میں سے ایک بندے نے یہ کلمات کہے اے میرے پروردگار تیرے لیے ہر قسم کی تعریف ہے ایسی تعریف جیسی تیرے پرجلال چہرے کے لیے زیبا اور تیری عظیم سلطنت کے لائق ہے۔ دو فرشتوں نے ان کلمات کا اجر لکھنے میں دقت محسوس کی کہ وہ کیا لکھیں ؟ دونوں آسماں کی طرف گئے اور اللہ کے سامنے عرض کی اے ہمارے پروردگار تیرے بندے نے ایسے کلمات کہے ہیں کہ جس کے اجر کے بارے میں ہمیں علم نہیں اللہ عزوجل نے ان سے پوچھا میرے بندے نے کیا کہا حالانکہ اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ اس نے کیا کہا تھا۔ فرشتے کہتے ہیں کہ اس نے یہ کلمات کہے ہیں (یَا رَبِّ لَکَ الْحَمْدُ کَمَا یَنْبَغِی لِجَلاَلِ وَجْہِکَ وَعَظِیمِ سُلْطَانِکَ) اللہ عزوجل نے فرمایا تم یہی کلمات لکھ دو جو کلمات میرے بندے نے ادا کیے ہیں یہاں تک کہ وہ مجھے آ ملے تو پھر میں اسے ان کلمات کا صلہ عطا کروں گا۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ بڑی عزت وعظمت والاہے ٢۔ اللہ تعالیٰ ہر قسم کے شرک سے پاک اور ہر کمزوری سے مبرا ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ کی رحمتیں ہر وقت انبیائے کرام (علیہ السلام) پر برستی ہیں۔ ٤۔ تمام تعریفات اللہ کے لیے ہیں۔ ٥۔ کائنات کا ہر جز اور فرد اپنے رب کی حمد و ستائش بیان کرنے میں لگا ہوا ہے۔ تفسیر بالقرآن ساری کائنات اللہ رب العالمین کی حمد و ستائش اور پاکی بیان کر رہی ہے : ١۔ زمین و آسمان کی ہر چیز اللہ تعالیٰ کی تسبیح بیان کرتی ہے۔ (الحدید : ١) ٢۔ ساتوں آسمان اور زمین اور جو کچھ ان میں ہے اللہ تعالیٰ کی حمد بیان کرتے ہیں۔ (بنی اسرائیل : ٤٤) ٣۔ رعد اس کی حمد وتسبیح بیان کرتی ہے۔ (الرّعد : ١٣) ٤۔ فرشتے اللہ تعالیٰ کی تسبیح اور حمد بیان کرتے ہیں اور مومنوں کے لیے مغفرت طلب کرتے ہیں۔ (الشوریٰ : ٥) ٥۔ مومن اللہ کی حمد اور تسبیح بیان کرتے ہیں اور تکبر نہیں کرتے۔ (السجدۃ: ١٥) الصافات
181 الصافات
182 الصافات
0 سورۃ ص کا تعارف سورۃ ص مکہ مکرمہ میں نازل ہوئی یہ پانچ رکوع اور اٹھاسی آیات پر مشتمل ہے۔ ربط سورۃ: سورۃ الصافات کے آخر میں اس بات کی تردید کی گئی ہے کہ نہ اللہ تعالیٰ نے کسی کو بیٹا بنایا ہے اور نہ ہی ملائکہ کو اپنی بیٹیاں قرار دیا ہے اس تردید کے باوجود کافر اور مشرک حسد وبغض کی بنا پر وہی بات کیے جا رہے ہیں جس کا ان کے پاس کوئی ثبوت نہیں اس پر نبی آخرالزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں سمجھایا تو انہوں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ساحر اور کذّاب کہا، مشرک اس بات پر تعجب کا اظہار کرتے ہیں کہ ایک الٰہ پوری دنیا کے لیے کس طرح کافی ہوسکتا ہے ان کا کہنا ہے کہ ہم نے یہ بات اپنے باپ دادا سے نہیں سنی اس وجہ سے وہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کے بارے میں شک کرتے ہیں۔ جس وجہ سے انہیں عذاب سے دوچار ہونا پڑے گا۔ اس بیان کے بعد حضرت نوح (علیہ السلام) کی قوم عاد، فرعون، ثمود، قوم لوط اور اصحاب ایکہ کا انجام بتلایا گیا ہے۔ سورت کے دوسرے اور تیسرے رکوع میں حضرت داؤد (علیہ السلام) اور حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے سامنے پیش ہونے والے مقدمے کی تفصیل اور سرمایہ دارانہ ذہن کی عکاسی کی گئی ہے کہ انسان میں حد سے زیادہ مال کی ہوس پیدا ہوجائے تو اس کے سامنے کسی اصول اور رشتہ کا احترام باقی نہیں رہتا۔ پھر آدم (علیہ السلام) کے واقعہ کا اختصار پیش کرتے ہوئے بتلایا کہ شیطان نے معذرت پیش کرنے کی بجائے اپنے گناہ پر اصرار کرتے ہوئے کہا کہ میرے رب مجھے قیامت تک مہلت دے تاکہ میں لوگوں کو گمراہ کردوں۔ اللہ تعالیٰ نے جواباً ارشاد فرمایا کہ تجھے قیامت تک کے لیے مہلت دی جاتی ہے۔ شیطان نے کہا اے رب تیری عزت کی قسم! میں تیرے مخلص بندوں کے سوا سب کو گمراہ کر کے چھوڑوں گا۔ جس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں تجھے اور تیرے ساتھیوں کے ساتھ جہنم کو بھردوں گا۔ چوتھے رکوع میں حضرت ایوب (علیہ السلام) کی بیماری اور ان کے صبر وشکر کا ذکر ہوا ہے۔ سورت کے آخر میں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ اعلان کروایا گیا کہ آپ اس بات کا برملا اعلان فرمائیں کہ میں نبوت کے کام پر کسی اجر کا طالب نہیں اور نہ ہی میں کسی قسم کا تکلف کرنے والا ہوں۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے قرآن لوگوں کے لیے خیر خواہی اور رہنمائی ہے جو لوگ اس رہنمائی اور خیر خواہی کا انکار کریں گے ایک مدت کے بعد ان کے انکار کا انجام ان کے سامنے آجائے گا۔ ص
1 فہم القرآن سورۃ الصّٰفّٰت کے اختتام پر ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ملائکہ یا کسی اور کو اپنی اولاد قرار نہیں دیا اور اللہ تعالیٰ مشرکوں کی یا وہ گوئی سے مبّرا ہے۔ اس کی طرف سے انبیائے کرام (علیہ السلام) پر ہمیشہ رحمت کا نزول ہوتا رہے گا۔ سورۃ صٓ ابتدا میں قرآن مجید کو الذّکر قراردیا گیا ہے۔ الذّکر کا معنٰی نصیحت اور خیرخواہی ہے۔ کافر اور مشرک خیر خواہی قبول کرنے کی بجائے اس کی مخالفت میں آکر کہتے ہیں کہ یہ نبی کذّاب اور جادوگر ہے۔ ” ص“ حروف مقطعات میں سے ہے۔ اس حرف کا بھی مفہوم بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ لیکن اس کی بھی وہی حقیقت ہے جو دوسرے حروف مقطعات کی ہے۔ یعنی اللہ اور اس کے رسول کے بغیر اس کا حقیقی مفہوم کوئی نہیں جانتا۔ حرف ” و“ قسم کے لیے لا یا گیا ہے۔ معنٰی یہ ہوگا کہ اس پیکر نصیحت قرآن مجید کی قسم ! یہ لوگ اس قرآن کا انکار اس لیے نہیں کرتے کہ انہیں قرآن سمجھ نہیں آرہا ہے یا قرآن کوئی انوکھی بات کررہا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ یہ لوگ غرور اور تکبر کی بنا پر اس کا انکار کرتے ہیں۔ حالانکہ ان کے سامنے تفصیل کے ساتھ باربار بیان ہوچکا ہے کہ ان سے پہلے جس جس نے حق کے ساتھ تکبر اور اپنے نبی کا انکار کیا اس کا انجام کیا ہوا؟ جب ان کے تکبر اور انکار کی وجہ سے اللہ کا عذاب نازل ہوا تو وہ چیخ و پکار اور آہ وزاریاں کرتے رہے لیکن اس وقت انہیں مہلت نہ دی گئی۔ لہٰذا مکہ والو! سوچ لو ! کہ جب تم پر عذاب کا کوڑا برسے گا تو تمہیں بھی مہلت نہ مل سکے گی نہ ہی تمہیں کوئی بچانے والا ہوگا۔ ” کیا ان کو صرف یہی انتظار ہے کہ ان کے پاس فرشتے آئیں یا خود اللہ تعالیٰ آئے یا تیرے رب کی نشانیوں میں سے کوئی نشانی آئے۔ نشانی سے مردار عذاب ہے جس دن ” اللہ“ کے عذابوں میں سے کوئی عذاب آئے گا تو جو شخص اس سے پہلے ایمان نہ لایا ہوگا یا اس نے ایمان لانے کے بعد کوئی نیکی کا کام کیا ہوگا اس کا ایمان اسے ہرگز فائدہ نہیں دے گا۔ فرما دیجیے کہ تم انتظار کرو ہم بھی انتظار کرتے ہیں۔“ (الانعام : ١٥٩) تکبر کیا ہے؟ (عَنْ عَبْدِاللّٰہِ بْنِ مَسْعُوْدٍ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لَا یَدْخُلُ الجَنَّۃَ مَنْ کَانَ فِیْ قَلْبِہٖ مِثْقَالُ ذَرَّۃٍ مِنْ کِبْرٍ فَقَالَ رَجُلٌ اِنَّ الرَّجُلَ یُحِبُّ اَنْ یَّکُوْنَ ثَوْبُہٗ حَسَنًا وَ نَعْلُہٗ حَسَنًا قَالَ اِنَّ اللّٰہَ تَعَالٰی جَمِیْلٌ یُّحِبُّ الجَمَالَ اَلْکِبْرُ بَطَرُ الْحَقِّ وَ غَمْطُ النَّاسِ) [ رواہ مسلم : باب تحریم الکبر وبیانہ] ” حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس شخص کے دل میں رائی کے دانے کے برابر تکبر ہوگا وہ جنت میں داخل نہیں ہو سکے گا۔ ایک آدمی نے آپ سے عرض کی کہ ایک شخص پسند کرتا ہے کہ اس کے کپڑے اور جوتے اچھے ہوں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ خوبصورت ہے خوبصورتی کو پسند فرماتا ہے۔ تکبر حق بات کو چھپانا اور لوگوں کو حقیر جاننے کا نام ہے۔“ لغت کے مطابق ” عِزَّۃٍ“ کا معنٰی طاقتور ہونا ،” شِقَاقٍ“ کا معنٰی مخالفت اور دشمنی ہے۔” مَنَاصٍ“ کا معنٰی جھگڑا کرنے کے ہیں۔ گویا کہ قرآن کے مخالفوں میں یہ تینوں باتیں پائی جاتی تھیں جس شخص میں یہ تینوں عیب پائے جائیں اس کا ہدایت قبول کرنا مشکل ہوتا ہے۔ مسائل ١۔ قرآن مجید نصیحت کا مرقع ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے بہت سی متکبر قوموں کو تباہ و برباد کردیا ہے۔ ٣۔ قرآن کا انکار کرنے والے کسی معقول عذر کی وجہ سے نہیں بلکہ تکبر کی بنا پر اس کا انکار کرتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن قرآن مجید کے اوصاف حمیدہ کی ایک جھلک : ١۔ قرآن مجید لاریب کتاب ہے۔ (البقرۃ: ١) ٢۔ قرآن مجید لوگوں کے لیے ہدایت اور نصیحت ہے۔ (آل عمران : ١٣٨) ٣۔ قرآن مجید اللہ تعالیٰ کی طرف سے کھلی کتاب ہے۔ (ھود : ١) ٤۔ قرآن مجید لوگوں کے لیے ہدایت ہے۔ (البقر ۃ: ١٨٥) ٦۔ قرآن مجید کے نزول کا مقصد لوگوں کو اندھیروں سے نکال کر روشنی کی طرف لانا ہے۔ (ابراہیم : ١) ٥۔ قرآن مجید برہان اور نور مبین ہے۔ (النساء : ١٧٤) ص
2 ص
3 ص
4 فہم القرآن ربط کلام : کفار اور مشرک تکبر کی بنیاد پر اللہ کی وحدت اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کا انکار کرتے اور اس کے لیے لیڈر عوام کو روکتے تھے۔ کفار کی اکثریت یہ بات جانتی تھی کہ پہلی امتوں میں جو رسول بھیجے گئے وہ اپنی قوم کے ایک فرد ہی ہوا کرتے تھے۔ یہ حقیقت جاننے کے باوجودکفار پراپیگنڈہ کرتے کہ یہ کیسے ممکن ہوسکتا ہے کہ رب تعالیٰ اپنے پیغام اور کام کے لیے کسی انسان کو منتخب کرے اگر اس نے کسی انسان کو ہی رسول بنانا ہوتا تو ایسے شخص کو کیوں منتخب کرتا جو مالی لحاظ سے کنگال اور سماجی اعتبار سے یتیم ہے۔ فی الواقع لوگوں میں ہی کسی کو رسول منتخب کرنا ہوتا تو وہ مکہ کے سرداروں یا طائف کے بڑے لوگوں میں سے کسی کو رسول بناتا۔ اس بنا پر وہ نبی آخر الزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جھوٹا اور جادو گر قرار دیتے تھے۔ جادو گر کہنے کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان میں غضب کی تاثیر تھی پھر آپ کی شخصیت اتنی پُر کشش تھی کہ جو آپ کا کلام سنتا وہ متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا تھا اور جس نے آپ کی شخصیت کو نظر بھر کر دیکھا وہ آپ کا گرویدہ ہو کر رہ گیا۔ کیونکہ کفار کے دل میں تکبر تھا جس وجہ سے وہ آپ کے کلام اور شخصیت سے متاثر ہونے کے باوجود آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت کا اقرار کرنے کے لیے تیارنہ تھے۔ جہاں تک اللہ تعالیٰ کی وحدت کا معاملہ ہے یہ عقیدہ ان کے لیے اس لیے تعجب کا باعث تھا کہ وہ سمجھتے تھے کہ ہم نے ہر مشکل اور ضرورت کے لیے الگ الگ خدا بنا رکھے ہیں اتنے خداؤں کے باوجود ہماری حاجات پوری نہیں ہوتیں اور انفرادی اور اجتماعی مشکلات کا مداوا نظر نہیں آتا تو ایک الٰہ ہماری مشکلات کس طرح حل کرسکتا ہے ؟ یہ عجب عقیدہ ہے جس کی یہ رسول دعوت دیتا ہے۔ اس دعوت کی مخالفت میں انہوں نے یہ بات طے کی کہ ہر قبیلے کا سردار اور اپنے اپنے خاندان میں لوگوں کو سمجھائے کہ لوگو! اپنے اپنے خداؤں اور دیوتاؤں پر پکے رہو ! اگر تم نے کسی قسم کی غفلت اور سستی کا مظاہرہ کیا تو یہ شخص تم پر برتری حاصل کرلے گا۔ یہی اس کا مقصد ہے۔ جہاں تک اس کی دعوت کا تعلق ہے ہم نے کسی مذہب میں یہ بات نہیں سنی۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ من گھڑت دعوت اور خود ساختہ عقیدہ ہے۔ مکہ والوں کی یہ بات بھی پہلی دوباتوں کی طرح بے بنیاد تھی۔ کیونکہ مکہ ہی میں ایسے لوگ موجود تھے جو پوری طرح سمجھتے تھے کہ ملت ابراہیم (علیہ السلام) میں ایک الٰہ کی عبادت کے سوا کسی کی عبادت کرنا جائز نہیں۔ اسی بنا پر زید بن عمرو نے کعبۃ اللہ میں بیٹھ کر فی البدیع یہ اشعار کہے تھے۔ أَرَبّا وَاحِدًا أَمْ أَلْفَ رَبّ أَدِینُ إذَا تُقُسّمَتْ الْأُمُورُ ایک خدا کو مانوں یا ہزاروں کو؟ جب کہ تقدیر کے فیصلے ہوچکے ہیں عَزَلْتُ اللّاتَ وَالْعُزّی جَمِیعًا کَذَلِکَ یَفْعَلُ الْجَلْدُ الصّبُورُ میں نے لات اور عزیٰ سب کو چھوڑ دیا ہے۔ سمجھ دار آدمی ایسا ہی کیا کرتے ہیں وَلَکِنْ أَعْبُدُ الرّحْمَنَ رَبّی لِیَغْفِرَ ذَنْبِی الرّبّ الْغَفُورُ میں اپنے رب ” رحمن“ کی بندگی کرتا ہوں تاکہ وہ میرے گناہوں کو معاف فرما دے اور وہ بڑا بخشنہار ہے۔ فَتَقْوَی اللّہِ رَبّکُمْ احْفَظُوہَا مَتَی مَا تَحْفَظُوہَا لَا تَبُورُوا اللہ کا خوف اختیار کرو تم نے اسے اپنا لیا تو کبھی ناکام نہیں ہو گے [ سیرۃ ابن ہشام : باب شعر زیدحین یستقبل القبلۃ] نبوت کے انکار کے لیے اہل مکہ مختلف بہانے بنایا کرتے تھے۔ کبھی کہتے کہ نبوت کے منصب جلیلہ کے لیے معاشی اعتبار سے خوشحال، سیاسی لحاظ سے طاقتور اور خاندانی اعتبار سے کسی بڑے قبیلے کا سردار ہونا چاہیے تھا۔ پھر مکہ میں ابو الحکم بن ہشام یعنی ابوجہل اور کبھی طائف کے مختلف سرداروں کے نام لیتے تھے حالانکہ لوگوں کی نظروں میں آپ کے مقابلہ میں کسی دوسرے کا نام جچتاہی نہیں تھا۔ کیونکہ سیرت و صورت کے حوالے سے آپ کا پلہ سب پر بھاری تھا۔ جب اس میں ناکامی کا منہ دیکھتے تو پروپیگنڈہ کرتے کہ روم کے فلاں شخص سے خفیہ پیغام رسانی کے ذریعہ یہ کلام پیش کیا جا رہا ہے۔ قرآن مجید نے پہلے اور دوسرے اعتراض کا یہ جواب دیا کہ نبوت تو سراسر اللہ تعالیٰ کی رحمت اور اس کا انتخاب ہوتا ہے۔ وہی بہتر جانتا ہے کہ کون سا دل نور الٰہی کا اہل، کونسی زبان اس کے بیان کرنے پر قادر، اور کون سے کندھے اس بار گراں کو اٹھانے کے متحمل ہو سکتے ہیں۔[ الانعام : ١٢٤] اہل مکہ اپنے دل میں یہ حقیقت تسلیم کرتے تھے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) واقعی اللہ کا رسول ہے لیکن محض تعصبات کی وجہ سے آپ پر ایمان نہیں لاتے تھے۔ جس کا اس موقعہ پر یہ جواب دیا گیا ہے کہ دراصل انہیں اللہ تعالیٰ کے عذاب کا مزا نہیں پایا جب اس کا عذاب نازل ہوگا تو ان کے بل درست ہوجائیں گے۔ مسائل ١۔ کفار تکبر کی بنیاد پر نبی آخر الزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جھوٹا اور جادوگر کہتے تھے۔ ٢۔ کفار نے منظم طریقے کے ساتھ دعوت توحید کو روکنے کی کوشش کی مگر سو فیصد ناکام رہے۔ تفسیر بالقرآن الٰہ صرف ایک ہی ہے : ١۔ اللہ نے زمین و آسمان کو پیدا کیا اور پھر آسمان سے پانی اتار کر باغات اگائے کیا اس کے ساتھ کوئی اور بھی الٰہ ہے؟ (النمل : ٦٠) ٢۔ اللہ نے زمین کو جائے قرار بنایا اس میں پہاڑ اور دو سمندروں کے درمیان پردہ بنایا کیا اس کے ساتھ اور بھی الٰہ ہے؟ (النمل : ٦١) ٣۔ کون ہے جو لاچار کی فریاد رسی کرتا ہے اور اس کی تکلیف کو دور کرتا ہے کیا کوئی اور بھی الٰہ ہے ؟ (النمل : ٦٢) ٤۔ خشکی اور سمندر کی تاریکیوں میں اللہ کے سواکون رہنمائی کرتا ہے کیا کوئی اور بھی اس کے ساتھ الٰہ ہے۔ (النمل : ٦٣) ٥۔ پہلے اور دوبارہ پیدا کرنا اور زمین و آسمان سے تمہارے لیے روزی کا بندوبست کرنے والا اللہ ہے کیا اس کے سوا کوئی اور الٰہ ہے؟ (النمل : ٦٤) ٦۔ آپ فرما دیں سوائے ایک الٰہ کے آسمان وز میں کے غیب کو کوئی نہیں جانتا۔ (النمل : ٦٥) ٧۔ کیا کوئی ہے اس الٰہ کے سوا جو رات ختم کرکے دن لائے ؟ (القصص : ٧١) ٨۔ الٰہ ایک ہی ہے اس کے علاوہ کوئی معبود نہیں۔ (البقرۃ: ١٦٣) ٩۔ ا لٰہ تمھارا ایک ہی ہے لیکن آخرت کے منکر نہیں مانتے۔ (النحل : ٢٢) ١٠۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرما دیں میں تمھاری طرح بشر ہوں میری طرف وحی کی جاتی ہے تمھارا الٰہ ایک ہی الٰہ ہے۔ (الکہف : ١١٠) ١١۔ الٰہ تمھارا ایک اللہ ہی ہے۔ (طہ : ٩٨) ١٢۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرمادیں میری طرف وحی کی جاتی ہے تمہارا الٰہ صرف ایک ہی الٰہ ہے۔ (الانبیاء : ١٠٨) ١٣۔ تمھارا صرف ایک ہی الٰہ ہے اسی کے تابع ہوجاؤ۔ (الحج : ٢٤) ١٤۔ ہمارا الٰہ اور تمھارا الٰہ صرف ایک ہی ہے۔ ہم اسی کے لیے فرمانبردار ہیں۔ (العنکبوت : ٤٦) ١٥۔ کیا اللہ کے سوا کوئی اور الٰہ ہے جو میں تلاش کروں۔ (الاعراف : ١٤٠) ١٦۔ اسکے سوا کوئی الٰہ نہیں مگر وہ اکیلا ہی ہے ( المائدۃ: ٧٣) ١٧۔ اعلان کردیں اللہ ہی ایک الٰہ ہے اور میں تمہارے شرک سے بری ہوں۔ (الانعام : ١٩) ص
5 ص
6 ص
7 ص
8 ص
9 ص
10 ص
11 فہم القرآن ربط کلام : فرعون اور اس سے پہلی اقوام پر اس لیے عذاب آئے کہ وہ اپنے انبیاء کی تکذیب کرنے والے تھے۔ اہل مکہ ! تم بھی وہی وطیرہ اختیار کیے ہوئے ہو جب کہ تم ایک جھٹکے کی ما رہو اور ناکامی تمہارا مقدر بن چکی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی ڈھیل سے مکہ والے اس قدر دلیر ہوچکے تھے کہ وہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بار بار کہتے کہ جس عذاب کی ہمیں دھمکی دی جاتی ہے اس کے آنے میں کیا رکاوٹ ہے ؟ یہ عذاب کیوں نہیں آتا ؟ وہ لوگ تمرد میں اتنے آگے بڑھ گئے کہ ایک دن اپنے لیے ان الفاظ میں بد دعا کرتے ہیں کہ اے ہمارے رب قیامت کی بجائے دنیا میں ہی ہمارا حساب چکادے۔ انہوں نے اس طرح بھی دعا کی کہ ” کافروں نے کہا کہ اللہ اگر یہ قرآن حقیقت میں تیری طرف سے ہے تو تو ہم پر آسمان سے پتھر برسا دے یا ہم پر کوئی دکھ کی مار نازل کر دے۔“ (الانفال : ٣٢) انہیں ایک بار پھر سمجھایا اور موقعہ دیا گیا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ تم بداخلاقی اور بغاوت کی تمام حدودپھلانگ چکے۔ مگر سوچ لو! کہ جب اللہ کا عذاب یا قیامت نازل ہوگی تو پھر اس میں نہ کوئی وقفہ ہوگا اور نہ ہی مہلت دی جائے گی۔ حقیقت یہ ہے کہ انہیں محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صداقت پر شک نہیں۔ انہیں تو یہ شک ہے کہ اس غریب اور یتیم پر وحی کیوں نازل ہوئی ہے۔ دوسرے الفاظ میں میری قدرت اور انتخاب پر شک کرتے ہیں۔ یہ شک کسی دلیل کی بنیاد پر نہیں بلکہ اس کے پیچھے ان کا تکبرچھپا ہوا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اب تک بیت اللہ کے پڑوسی اور متولی ہونے کی وجہ سے میری نعمتوں سے لطف اندوز ہورہے ہیں۔ انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ جوں ہی میرا عذاب انہیں آلے گا تو ان کا سارا غرورخاک میں مل جائے گا۔ یا پھر ان کے پاس اللہ تعالیٰ کے خزانے ہیں کہ یہ جسے چاہیں عنایت کریں اور جسے چاہیں محروم رکھیں؟ یہ اس قدر تکبر کا اظہار کرتے ہیں کیا انہیں زمین و آسمان کی بادشاہت حاصل ہے ؟ کہ جب چاہیں آسمان پر چڑھ جائیں اور جب چاہیں زمین کے خزانے نکال لائیں ؟ ظاہر بات ہے کہ ان کے اختیار میں کچھ بھی نہیں۔ البتہ یہ بزعم خود اپنے آپ کو بڑا سمجھتے ہیں۔ حالانکہ انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ یہ لوگ قوم نوح کے مقابلے میں کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔ یہی ان کی حالت قوم عاد کے مقابلے میں ہے۔ قوم ثمود اور قوم شعیب اہل مکہ سے تعداد اور اسباب میں زیادہ تھیں لیکن جب ربِّ ذوالجلال نے گرفت فرمائی تو انہیں کوئی بچانے اور چھڑانے والا نہ تھا۔ جہاں تک فرعون کا معاملہ ہے وہ اتنے بڑے لاؤ لشکر رکھنے اور ظلم کرنے والا تھا کہ اپنے مخالفوں کو زمین پر لٹاکر ان پر میخیں گاڑ دیا کرتا تھا۔ مظلوم سسکیاں لے لے کر مر جاتے لیکن اسے تر س نہیں آیا کرتا تھا۔ جب اس پر اللہ کی گرفت آئی تو دہائی دیتا رہا ہے کہ میں موسیٰ (علیہ السلام) اور ہاورن (علیہ السلام) اور بنی اسرائیل کے رب پر ایمان لاتا ہوں۔ لیکن اس کا ایمان مسترد کردیا گیا۔ اس موقعہ پر اہل مکہ کے سامنے فرعون اور بڑی بڑی اقوام کا ذکر کرکے انہیں بتلایا گیا ہے کہ سمجھ جاؤ اب بھی موقعہ ہے ورنہ جس عذاب کا تم باربار مطالبہ کرتے ہو جب وہ آجائے گا تو آہ وزاریاں کر وگے لیکن بے سود ثابت ہوں گی۔ اس کے ساتھ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے اصحاب کو تسلی دی گئی ہے کہ اطمینان خاطر رکھو۔ اللہ کے ہاں نہ دیر اور نہ اندھیر ہے جب مقررہ وقت آپہنچے گا تو آپ کے مخالفوں کا پورا پورا حساب چکا دیا جائے گا جس طرح فرعون اور اس سے پہلی اقوام کا حساب چکایاجا چکا ہے۔ مسائل ١۔ اہل مکہ غرورکی بنیاد پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت پر شک کرتے تھے۔ ٢۔ اہل مکہ اپنے سے پہلی اقوام سے بڑھ کر نہیں تھے مگر اس کے باوجود انہوں نے تکبر کی انتہا کردی تھی۔ ص
12 ص
13 ص
14 ص
15 ص
16 ص
17 فہم القرآن ربط کلام : حالات سے دل گرفتہ ہونے کی بجائے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے ساتھیوں کو صبر کرنے اور حضرت داؤد (علیہ السلام) کا واقعہ ذہن میں رکھنے اور ان کی طرح حوصلہ کرنے کی تلقین کی گئی ہے۔ کفار مکہ نے عجب صورت حال اختیار کر رکھی تھی۔ ایک مجلس میں کہتے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جادوگر ہیں۔ دوسری مجلس میں پروپیگنڈہ کرتے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر جادو ہوچکا ہے۔ آپ توحید کی دعوت دیتے تو کہتے کہ یہ شخص کذّاب ہے۔ اندازہ کیجیے کہ جس شخص کا جادو اور جادوگروں سے کبھی واسطہ نہ پڑا ہو۔ جس نے زندگی بھر جھوٹ بولنا تو دور کی بات کبھی مغالطہ دینے والی بات نہ کی ہو۔ اس کے خلاف گھر گھر اور ہر مقام پرالزامات لگائے جارہے ہوں بحیثیت انسان اس کی کیا حالت ہوگی۔ اس صورت حال میں یہ فرمان نازل ہوا کہ اے محبوب (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ اور آپ کے ساتھی صبر کا دامن نہ چھوڑیں اور داؤد (علیہ السلام) کا واقعہ یاد کریں جو ہر حال میں اپنے رب کی طرف رجوع کرنے والے تھے۔ اس کی قوت کا عالم یہ تھا کہ ہم نے پہاڑوں کو اس کے تابع کردیا تھا ان کی زبان اس قدر پُر تاثیر تھی کہ جب وہ صبح شام زبور کی تلاوت کرتے تو پہاڑ بھی ان کے ساتھ جھوم پڑتے ان کی تلاوت کے دوران اڑتے ہوئے پرندے رک کر ان کی طرف متوجہ ہوجاتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی حکومت اور مملکت کو ہر اعتبار سے مضبوط کر رکھا تھا۔ بے مثال اقتدار اور اختیار کے ساتھ انہیں دانائی اور قوت فیصلہ کی صلاحیت سے بھی سرفراز کیا گیا۔ اس کے سامنے دم مارنے اور اس کے فیصلے کو چیلنج کرنے والا کوئی نہ تھا۔ اس کے باوجود ایسا ہوا کہ آپس میں جھگڑنے والے دو شخص بلا اجازت اور اچانک ان کی عبادت گاہ میں دیوار پھلانگ کر گھس گئے۔ ان کے دیوار پھلانگنے اور اچانک اندرگھس آنے پر داؤد (علیہ السلام) گھبرائے اور خوف زدہ ہوگئے۔ گھس آنے والوں نے حضرت داؤد (علیہ السلام) سے درخواست کی کہ ہم سے خوف زدہ نہ ہوں۔ ہم تو آپ کی خدمت میں اپنا مقدمہ پیش کرنا چاہتے ہیں۔ آپ سے استدعا ہے کہ آپ ہمارے درمیان ٹھیک ٹھیک فیصلہ صادر فرما دیں اور ہم میں سے کسی کیساتھ زیادتی نہیں ہونی چاہیے۔ حضرت داؤد (علیہ السلام) جلیل القدر پیغمبر اور بہت بڑے حکمران تھے دیوار پھلانگ کر اندر داخل ہونے والوں نے زیادتی کی حد کردی تھی لیکن اس کے باوجود حضرت داؤد (علیہ السلام) نے ان سے درگزر کرتے ہوئے ٹھنڈے دل سے ان کی بات سنی اور ان کے درمیان عدل کے ساتھ فیصلہ فرمایا اور اپنے جذبات پر قابو رکھا۔ ان میں سے ایک نے کہا یہ میرا بھائی ہے جو مجھ پر زیادتی کرنے پرتلا ہوا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ اس کے پاس ننانوے دنبیاں ہیں اور میرے پاس صرف ایک دنبی ہے یہ مجھ پر دباؤ ڈال رہا ہے کہ اپنی دنبی بھی میرے حوالے کردے۔ حضرت داؤد (علیہ السلام) نے اس کی بات سنکر فرمایا کہ اس کا تجھ سے دنبی کا مطالبہ کرنا سرا سر ظلم ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اکثر شراکت دار ایک دوسرے پر زیادتی کرتے ہیں۔ سوائے ان لوگوں کے جو ایمان دار اور صالح کردار کے حامل ہوتے ہیں۔ ایسے لوگ تھوڑے ہی ہوا کرتے ہیں۔ یہ بات کرتے ہی داؤد (علیہ السلام) کو احساس ہوگیا کہ میرے رب نے مجھے اس مقدمہ میں آزمایا ہے۔ یہ احساس ہوتے ہی داؤد (علیہ السلام) اپنے رب سے معافی کے خواستگار ہوئے اور نہایت ہی عاجزانہ انداز میں اپنے رب کے حضور گڑ گڑ انے لگے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ ہم نے اسے معاف کردیا۔ بلا شبہ وہ ہمارے ہاں بڑی شان اور بڑے مقام والا تھا۔ اس مقام پر داستان گوئی سے دلچسپی رکھنے والے مفسرین نے اسرائیلی روایات سے کچھ بے ہودہ قسم کی باتیں درج کی ہیں۔ حالانکہ پیغمبر کے بارے میں ایسی باتیں سوچنا اور لکھنا بہت بڑا گناہ ہے۔ اسی لیے مشہور مفسرامام ابن کثیر نے یہ کہہ کر خاموشی اختیار کی ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد (علیہ السلام) کی خطا ذکر کیے بغیر انہیں معاف فرما دیا تو ہمیں بھی اس خطا کی کھوج میں نہیں پڑنا چاہیے۔ (عَنْ نَافِعٍ (رض) قَالَ قَالَ عَبْدُ اللَّہِ بْنُ عُمَرَ (رض) قَالَ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَنْ دُعِیَ فَلَمْ یُجِبْ فَقَدْ عَصَی اللَّہَ وَرَسُولَہُ وَمَنْ دَخَلَ عَلَی غَیْرِ دَعْوَۃٍ دَخَلَ سَارِقًا وَخَرَجَ مُغِیرًا۔ (قَالَ الْاَلْبَانِیُّ لَمْ تَتَمَّ دِرَاسَتُہٗ) [ رواہ ابوداوٗد : باب مَا جَاءَ فِی إِجَابَۃِ الدَّعْوَۃِ] ” نافع (رض) حضرت عبداللہ بن عمر (رض) سے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس شخص نے کسی کی دعوت قبول نہ کی اس نے اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی اور جو بغیر اجازت کے دوسرے کے گھر میں داخل ہو اوہ چور بن کرداخل ہوا اور غاصب بن کر نکلا۔“ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ أَبُو الْقَاسِمِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لَوْ أَنَّ امْرَأً اطَّلَعَ عَلَیْکَ بِغَیْرِ إِذْنٍ، فَخَذَفْتَہُ بِعَصَاۃٍ، فَفَقَأْتَ عَیْنَہُ، لَمْ یَکُنْ عَلَیْکَ جُنَاحٌ )[ رواہ البخاری : باب مَنْ أَخَذَ حَقَّہُ أَوِ اقْتَصَّ دُون السُّلْطَانِ ] حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ ابو القاسم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اگر کوئی بندہ اجازت طلب کیے بغیر کسی کے گھر میں جھانکے اور گھر والا لاٹھی کے ساتھ اس کی آنکھ پھوڑ دے اس پر کوئی گناہ نہیں۔“ مسائل ١۔ ایک داعی اور مبلغ کو لوگوں کی ہرزہ سرائی پر صبر کرنا چاہیے۔ ٢۔ حضرت داؤد (علیہ السلام) قوت والے ہونے کے باوجود ہر حال میں اپنے رب کی طرف رجوع کرتے تھے۔ ٣۔ حضرت داؤد کے ساتھ صبح، شام پہاڑ بھی اپنے رب کی حمد کرتے تھے۔ ٤۔ حضرت داؤد (علیہ السلام) کے سامنے پرندے بھی حاضر ہوتے تھے۔ ٥۔ حضرت داؤد (علیہ السلام) کی حکومت بڑی مستحکم تھی اور اللہ تعالیٰ نے انہیں دانائی عطا فرمائی تھی۔ ٦۔ حضرت داؤد (علیہ السلام) بہت ہی اچھا خطاب فرمانے والے اور صحیح فیصلہ کرنے کی مکمل صلاحیت رکھتے تھے۔ تفسیر بالقرآن صبر کی فضیلت اور صابر کا مقام ومرتبہ : ١۔ اللہ کی رفاقت اور دستگیری صبر کرنے والوں کے لیے ہے۔ (البقرۃ: ١٥٢) ٢۔ صبر اور نماز کے ذریعے اللہ کی مدد طلب کرو۔ (البقرۃ: ١٥٣) ٣۔ صبر کرنے والوں کو بے حساب اجر دیا جائے گا۔ (الزمر : ١٠) ٤۔ بے شک جنھوں نے اللہ تعالیٰ پر ایمان کا اظہار کرتے ہوئے صبر و استقامت کا ثبوت دیا انھیں کوئی خوف اور حز ن وملال نہیں۔ (الاحقاف : ١٣) ٥۔ اللہ تعالیٰ صابر لوگوں کو ان کے صبر کی بہترین جزا دے گا۔ (النحل : ٩٦) ٦۔ جو لوگ صبر اور نیک عمل کرتے ہیں ان کے لیے مغفرت اور اجرعظیم ہے۔ (ہود : ١١) ٧۔ صبر کرنے والوں کا انجام بہترین ہوتا ہے۔ (الحجرات : ٥) ٨۔ اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ (البقرۃ: ١٥٣) ص
18 ص
19 ص
20 ص
21 فہم القرآن ربط کلام : حضرت داؤد (علیہ السلام) کی حیات مبارکہ کا اہم واقعہ۔ قرآن مجید کا یہ بھی انداز تکلم ہے کہ وہ بعض دفعہ اہم ترین واقعات کو سوالیہ انداز میں شروع کرتا ہے تاکہ سننے والا ہمہ تن گوش ہو کر بات سنے اسی بنا پر حضرت داؤد (علیہ السلام) کا واقعہ بیان کرنے سے پہلے نبی محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ارشاد ہوا کہ کیا آپ کے پاس جھگڑنے والے دو آدمیوں کی خبر پہنچی ہے جو داؤد (علیہ السلام) کے خلوت خانہ میں دیوار پھلانگ کر داخل ہوئے تھے۔ یہاں سرمایہ دارانہ ذہن کی عکاسی کرتے ہوئے بتلا یا گیا ہے کہ ایک کے پاس ننانوے دنبیاں تھیں اور اس کے بھائی کے پاس ایک تھی ننانوے دنبی رکھنے والے کی حرص کا یہ عالم تھا کہ اسے اپنے بھائی کے ہاں ایک دنبی بھی گوارا نہ تھی۔ حضرت داؤد (علیہ السلام) نے فیصلہ دیا کہ سو دنبی رکھنے والے کا آپ کی دنبی کا مطالبہ کرنا ظلم ہے اور ایمانداروں کے سوا اکثر شراکت دار ایساہی کیا کرتے ہیں اس کے ساتھ حضرت داؤد (علیہ السلام) کو اپنی غلطی کا احساس ہوا انہوں نے اپنے رب سے معافی طلب کی اللہ تعالیٰ نے انہیں معاف کردیا۔ کیونکہ وہ اپنے رب کے بہت مقرب اور بہترین مقام کے حامل تھے اس کی تفصیل پہلی آیت کے تفسیر میں گزر چکی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جب کوئی شخص دولت کا پجاری اور سرمایہ پرستی کا شکار ہوجائے تو اس کی کوشش ہوتی ہے کہ میں مارکیٹ کے سارے کاروبار پر قبضہ کرلوں اور جب چاہوں لوگوں کو بلیک میل کروں اسی ذہنیت کا نتیجہ ہے۔ کہ ہمارے ملک میں کبھی اناج کے لوگوں کو چینی میسر نہیں ہوتی اور کبھی ایک ایک دانے کے پیچھے سرگرداں دکھائی دیتے ہیں اور یہی صورتحال بین الاقوامی مارکیٹ میں دکھائی دیتی ہے کہ سرمایہ دار طبقہ ہوس پرستی کی وجہ سے جب چاہتا ہے کسی چیز کا قحط پیدا کردیتا ہے۔ نبی آخر الزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایسے لوگوں کی ہوس کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا۔ (عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ (رض) أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ لَوْ أَنَّ لِإِبْنِ آدَمَ وَادِیًا مِّنْ ذَھَبٍ أَحَبَّ أَنْ یَکُوْنَ لَہٗ وَادِیَانِ وَلَنْ یَمْلَأَ فَاہُ إِلَّا التُّرَابُ وَیَتُوْبُ اللّٰہُ عَلٰی مَنْ تَابَ) [ رواہ البخاری : باب مایتقی من فتنۃ المال] ” حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ بے شک رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اگر آدم کے بیٹے کے پاس سونے کی ایک وادی ہو تو وہ پسند کرے گا کہ اس کے پاس سونے کی دو وادیاں ہوں۔ اس کے منہ کو مٹی کے علاوہ کوئی چیز نہیں بھر سکتی۔ اللہ جس پر چاہتا ہے توجہ فرماتا ہے۔“ سرمایہ رکھنے والے حضرات میں اکثر طور پر رعونت پیدا ہوجاتی ہے وہ دولت کے بل بوتے پر ہر کسی پر حکم چلانا چاہتا ہے۔ اسی ذہن کی بدولت اہل مکہ نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر یہ بھی اعتراض کرتے تھے کہ آپ مال کے اعتبار سے کمزور اور سماجی حوالے سے یتیم ہیں۔ اگر اللہ تعالیٰ نے ضرور ہی کسی شخص کو نبی بنانا تھا تو وہ طائف اور مکہ میں سے کسی سردار کو بناتا۔ (وَقَالُوْا لَوْلاَ نُزِّلَ ہٰذَا الْقُرْاٰنُ عَلٰی رَجُلٍ مِّنَ الْقَرْیَتَیْنِ عَظِیْمٍ )[ الزخرف : ٣١] ” کہتے ہیں یہ قرآن دو شہروں کے بڑے آدمیوں میں سے کسی ایک پر کیوں نہ نازل کیا گیا۔“ اسی ذہنیت کی بنیاد پر سو دنبی رکھنے والا شخص اپنے بھائی سے تحکمانہ انداز میں مطالبہ کرتا تھا کہ تجھے اپنے دنبی میرے حوالے کر دینی چاہیے۔ اس زیادتی کے باوجود غریب آدمی حضرت داؤد (علیہ السلام) کے سامنے اپنا مقدمہ پیش کرتے ہوئے ننانوے دنبی رکھنے والے کو بھائی کے لفظ سے پکارتا ہے۔ غریب اور امیر کی زبان میں یہ فرق ہے جو ہر دور میں دکھائی دیتا ہے۔ مسائل ١۔ لوگوں کے درمیان عدل کے ساتھ فیصلہ کرنا چاہیے۔ ٢۔ حکمران کو لوگوں کی صحیح راہنمائی کرنی چاہیے۔ ٣۔ بڑے لوگوں کو چھوٹے لوگوں کے حقوق غصب نہیں کرنے چاہیے۔ ٤۔ اکثر شراکت دار ایک دوسرے پر زیادتی کرتے ہیں۔ ٥۔ حضرت داؤد (علیہ السلام) کو اپنی غلطی کا احساس ہوا تو انہوں نے اپنے رب کے حضور استغفار کیا۔ ٦۔ حضرت داؤد (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے معاف فرما دیا۔ ٧۔ حضرت داؤد (علیہ السلام) اپنے رب کے ہاں بڑے مقام والے تھے۔ ص
22 ص
23 ص
24 ص
25 ص
26 فہم القرآن ربط کلام : حضرت داؤد (علیہ السلام) دنیا میں بڑے مرتبے اور مقام کے حامل تھے اور قیامت کے دن بھی اللہ تعالیٰ کے ہاں بڑے مقرب ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں زمین میں خلیفہ بنا کر خصوصی ہدایات فرمائیں۔ حضرت آدم (علیہ السلام) کی اولاد میں بڑے بڑے حکمران اور ذیشان انبیائے کرام (علیہ السلام) ہوئے لیکن ان کی اولاد میں صرف حضرت داؤد (علیہ السلام) ایسی شخصیت ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کے بعد خلیفہ فی الارض ہونے کا اعزاز بخشا۔ اس لیے انہیں ارشاد ہوا کہ اے داؤد (علیہ السلام) ! ہم نے تجھے زمین میں خلیفہ بنایا ہے۔ لہٰذا تیرا فرض بنتا ہے کہ تو لوگوں کے درمیان حق اور سچ کے ساتھ فیصلے کرے۔ تجھے کسی صورت بھی حق بات چھوڑ کر اپنی خواہش کی پیروی نہیں کرنا چاہیے۔ اگر تو اپنی خواہش کے پیچھے چل پڑے گا۔ تو اللہ کے راستے سے بھٹک جائے گا جو لوگ اللہ کے راستے سے بھٹک جاتے ہیں ان کے لیے شدید عذاب ہوگا کیونکہ انہوں نے آخرت کے حساب کو فراموش کردیا تھا۔ ” خَلِیْفَۃٌ“ کا معنٰی ہے ” دوسرے کے پیچھے آنے والا“ البقرۃ کی آیت ٣٠ کی تشریح میں عرض کیا جا چکا ہے کہ خلیفہ کا معنٰی اللہ تعالیٰ کا نائب نہیں بلکہ اس کا معنٰی حکمران کچھ اہل علم نے لکھا ہے کہ آدم (علیہ السلام) سے پہلے زمین میں جنات رہتے تھے ان کے بعد دنیا کا نظام کے حوالے کیا گیا جس بنا پر آدم (علیہ السلام) کو خلیفہ فی الارض کے لقب سے نوازا گیا۔ حضرت داؤد (علیہ السلام) بکریوں کے چرواہے تھے۔ اپنے دور کے ایک جرنیل طالوت کی فوج میں شامل ہوئے جن کا مقابلہ جالوت کے ساتھ ہوا۔ داؤدنے اپنی شجاعت کے جوہر دکھائے جس کی وجہ سے فوج کے کمانڈر کے مقبول نظر ٹھہرے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں حسن وجمال اور کمال صلاحیتوں سے سرافراز فرمایا تھا اس لیے بہت جلد اپنی قوم کی آنکھوں کا تارا بنے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں نبوت سے سرفراز کیا اور بے مثال حکمران بنایا۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم (علیہ السلام) کے بعد حضرت داؤد (علیہ السلام) کو خلیفہ فی الارض ہونے کا شرف بخشا۔ ٢۔ حضرت داؤد (علیہ السلام) خلیفہ ہونے کے ساتھ عظیم حکمران بھی تھے۔ ٣۔ خواہشات کی پیروی کرنے والا گمراہ ہوجاتا ہے۔ ٤۔ قیامت کے دن گمراہ لوگوں کو شدید عذاب کا سامنا کرنا پڑے گا۔ تفسیربالقرآن اللہ تعالیٰ زمین میں لوگوں کو ایک دوسرے کا خلیفہ بنا تا ہے : ١۔ اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کو زمین میں خلیفہ بنایا۔ (البقرۃ: ٣٠) ٢۔ اللہ تعالیٰ نے مومنوں کے ساتھ وعدہ کیا ہے کہ وہ ان میں سے ضرور خلیفہ بنائے گا جس طرح ان سے پہلے لوگوں کو بنایا۔ (النور : ٥٥) ٣۔ اللہ چاہے تو تمھیں اٹھا لے اور تمھارے بعد جس کو چاہے تمہارا خلیفہ بنادے۔ (الانعام : ١٣٣) ٤۔ تمہارا رب جلد ہی تمھارے دشمن کو ہلاک کردے اور ان کے بعد تم کو خلیفہ بنائے گا۔ (الاعراف : ١٢٩) ٥۔ پھر ہم نے زمین میں ان کے بعد تمہیں خلافت دی تاکہ ہم دیکھیں تم کیسے عمل کرتے ہو۔ (یونس : ١٤) ٦۔ میرا رب تمہارے سوا کسی اور کو خلافت دے دے تو تم اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ (ہود : ٥٧) اپنی یا لوگوں کی خواہشات کے پیچھے چلنے والے گمراہ ہوجاتے ہیں : ١۔ لوگوں کی خواہشات کے پیچھے لگنے والا گمراہ ہوجاتا ہے۔ (صٓ: ٢٦) ٢۔ اپنی خواہشات کی پیروی کرنے والا تباہ ہوجاتا ہے۔ (طٰہٰ: ١٦) ٣۔ سب سے بڑا گمراہ اپنی خواہشات کی پیروی کرنے والا ہے۔ (القصص : ٥٠) ٤۔ خواہشات کی پیروی کرنے والا خواہشات کو اِلٰہ بنا لیتا ہے۔ (الفرقان : ٤٣) ٥۔ حق کو چھوڑ کر خواہشات کی پیروی کرنے سے زمین و آسمان میں فساد پیدا ہوتا ہے۔ (المومنون : ٧١) ص
27 فہم القرآن ربط کلام : جو لوگ آخرت کے حساب کو بھول گئے اور اپنی خواہشات کے پیچھے چلتے ہیں وہ زینًا یا عملاً سمجھتے ہیں کہ ہم نے دنیا کو بے مقصد پیدا کیا ہے حالانکہ اللہ تعالیٰ نے ہر شخص کے ذمے کچھ ذمہ داریاں لگائیں ہیں جن کا حساب دینا پڑے گا۔ اس سے پہلی آیت میں حضرت داؤد (علیہ السلام) کے حوالے سے ہر شخص کو بتلایا اور سمجھایا ہے کہ اپنی خواہش کے پیچھے نہیں لگنا۔ جو اپنی خواہش کے پیچھے چلا وہ گمراہ ہوا۔ اس کی گمراہی کا بنیادی سبب یہ ہے کہ وہ قیامت کے حساب و کتاب کو بھول چکا ہے۔ جو قیامت کے حساب کو بھول گیا وہ زبان سے کہے یا نہ کہے اس کا عمل اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ اس دنیا کے بعد کوئی جہان نہیں جو کچھ دنیا میں ہوا سو ہوا۔ اس سے آگے کچھ نہ ہوگا۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمانوں میں کوئی چیز بے کار اور بے مقصد پیدا نہیں کی۔ ایسا تو وہ لوگ سوچتے اور کہتے ہیں جو اللہ اور اس کے رسول اور آخرت کے انکاری ہیں۔ انکار کرنے والوں کے لیے آگ کا عذاب تیار کیا گیا ہے۔ کیا ایمان داروں اور نیک اعمال کرنے والوں کو دنیا میں فساد کرنے والوں کے برابر کردیا جائے گا؟ کیا اللہ سے ڈر کرز ندگی گزارنے والوں اور فسق وفجور کرنے والوں کو ایک جیسا سمجھاجائے گا؟ ظاہر بات ہے کہ ایسا ہرگز نہیں ہوگا۔ یہاں کفار کو مفسدین کہا گیا ہے اسے لیے کہ ان کا عقیدہ یہ ہے کہ دنیا کا نظام یوں ہی چلتا رہے گا اور قیامت قائم نہیں ہوگی گویا کہ وہ اپنے اعمال کی جوابدہی کا انکار کرتے ہیں اس عقیدہ کی بنا پر یہ لوگ دنیا میں فساد کا موجب ہوتے ہیں۔ کائنات کو پیدا کرنے کے بنیادی طور پر دو مقاصد ہیں ایک مقصد تو یہ ہے کہ ہر چیز اپنے خالق کے بتلائے ہوئے طریقہ کے مطابق اس کی عبادت اور اطاعت کرتی رہے۔ دوسرا مقصد یہ ہے کہ ہر چیز اپنے خالق کے حکم کے مطابق انسان کی خدمت کرے۔ جو شخص آخرت کو فراموش کردیتا ہے وہ نہ تو اپنے خالق کا تابعدار رہتا ہے اور نہ ہی ٹھیک طور پر بندوں کے حقوق پورے کرتا ہے۔ ظاہر بات ہے جب حقداروں کے حقوق پورے نہیں ہوں گے تو اس کا نتیجہ فساد ہوگا۔ سوچیں کہ فساد کرنے اور فساد نہ کرنے والے کس طرح برابر ہوسکتے ہیں؟ (ظَھَرَ الْفَسَادُ فِی الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ بِمَا کَسَبَتْ اَیْدِی النَّاسِ لِیُذِیْقَھُمْ بَعْضَ الَّذِیْ عَمِلُوْا لَعَلَّھُمْ یَرْجِعُوْنَ قُلْ سِیْرُوْا فِے الْاَرْضَ فَانْظُرُوْا کَیْفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلُ کَانَ اَکْثَرُھُمْ مُّشْرِکِیْنَ) [ الروم : ٤١، ٤٢] ” لوگوں کے اپنے ہاتھوں کی کمائی کی وجہ سے خشکی اور تری میں فساد برپا ہوگیا ہے تاکہ ان کو ان کے بعض اعمال کا مزا چکھایاجائے شاید کہ وہ باز آجائیں۔ اے نبی ان سے کہو کہ زمین میں چل کر دیکھو پہلے گزرے ہوئے لوگوں کا کیا انجام ہوا ہے، ان میں سے اکثر مشرک تھے۔“ (الرّوم : ٤١، ٤٢) مسائل ُ١۔ اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان اور کسی چیز کو بے مقصد پیدا نہیں کی۔ ٢۔ دنیا کو بے مقصد سمجھنے والے کافر ہیں کفار کو جہنم کی آگ میں جھونکا جائے گا۔ ٣۔ کافر فی الحقیقت فساد کرنیوالے ہیں اور مؤمن امن پسند ہوتے ہیں۔ ٤۔ متقی اور فاسق برابر نہیں ہوسکتے۔ تفسیر بالقرآن مومن اور فاسق برابر نہیں ہوسکتے : ١۔ مومن اور فاسق برابر نہیں ہیں۔ (السجدۃ: ١٨) ٢۔ کیا اندھا اور بینا، بہرا اور سننے والا برابر ہوسکتے ہیں؟ (ہود : ٢٤) ٤۔ اللہ تعالیٰ مجرموں اور مومنوں کو برابر نہیں کرے گا۔ (القلم : ٣٥۔ ٣٦) ٥۔ کتاب اللہ پر ایمان لانے والا اور نہ لانے والا برابر نہیں ہو سکتے۔ (الرّعد : ١٩) ٦۔ ایمان دار اور عمل صالح کرنے والا اور بدکار برابر نہیں ہو سکتے۔ (المومن : ٥٨) ٧۔ نیک اعمال کرنے والے اور فساد کرنے والے اور متقین اور گنہگار برابر نہیں ہوسکتے۔ (صٓ: ٢٨) ص
28 ص
29 فہم القرآن ربط کلام : فساد سے بچنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ قرآن مجید کے ارشاد ات پر عمل کیا جائے۔ فساد سے امن و امان تباہ ہوتا ہے جہاں امن و امان تباہ ہوگا وہاں سے برکات اٹھ جاتی ہیں۔ لہٰذا دنیا کی برکات اور آخرت کے ثمرات حاصل کرنے کے کا واحد راستہ اور طریقہ ہے کہ لوگ اللہ تعالیٰ کی کتاب قرآن مجید پر غور و فکر کریں اور اس کے مطابق عمل کریں۔ یہی عقل مندی ہے اور عقل مند لوگ ہی نصیحت حاصل کرتے ہیں۔ یہی بات جنت سے نزول کے وقت آدم (علیہ السلام) کو بتلائی گئی تھی۔ سب نیچے اتر جاؤ۔ میری طرف سے تمہیں ہدایت پہنچے گی جو لوگ میری ہدایت کی پیروی کریں گے ان کو نہ خوف ہوگا اور نہ ہی وہ غم زدہ ہوں گے۔“ ( البقرۃ: ٣٨) ” اور اگر بستیوں والے واقعی ایمان لے آتے اور ڈرتے تو ہم ضرور ان پر آسمان اور زمین سے بہت سی برکات کھول دیتے۔ لیکن انہوں نے جھٹلایا ہم نے انہیں اس وجہ سے پکڑ لیا جو وہ کیا کرتے تھے۔“ (الاعراف : ٩٦) مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر قرآن مجید نازل فرمایا جو بابرکت کتاب ہے۔ ٢۔ قرآن مجید پر غور کرنا چاہیے۔ ٣۔ عقل مندوں کو قرآن مجید سے نصیحت حاصل کرنی چاہیے۔ تفسیر بالقرآن غوروفکر کرنے کا حکم : ١۔ حق پہچاننے کے لیے آفاق پر غور کرنے کی دعوت۔ (حٰمٓ السجدۃ: ٥٣) ٢۔ اپنی ذات پر غور وفکر کی دعوت۔ (الذاریات : ٢١) ٣۔ رات کے سکون پر غور کرنے کی دعوت۔ (القصص : ٧٢) ٤۔ دن رات کے بدلنے میں غور و خوض کی دعوت۔ (المومنون : ٨٠) ٥۔ شہد کی بناوٹ پر غور کرنے کی دعوت۔ (النحل : ٦٩) ٦۔ ہم نے بابرکت کتاب نازل کی تاکہ لوگ اس کی آیات میں غور و فکر کریں اور نصیحت حاصل کریں۔ (ص : ٢٩) ص
30 فہم القرآن ربط کلام : اولوالباب میں سے دو عظیم عقل مندوں کا کردارپیش کیا جاتا ہے۔ اسی سورۃ میں ارشاد فرمایا ہے کہ اے محبوب (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ہمارے بندے داؤد (علیہ السلام) کو یاد فرمائیں جو طاقت ورہونے کے باوجود ہر حال میں اپنے رب کی طرف رجوع کرنے والا تھا۔ ہم نے اس کے لیے پہاڑ اور پرندے مسخر کیے تھے۔ ہم نے اس کی مملکت کو مضبوط کیا اور اسے فیصلہ کرنے کی صلاحیتوں سے سرفراز فرمایا۔ ہم نے ہی اسے سلیمان (علیہ السلام) جیسا بیٹا عطا فرمایا۔ سلیمان (علیہ السلام) بھی بہترین بندہ اور ہر حال میں اپنے رب کی طرف رجوع کرنے والا تھا، اس کا اہم واقعہ یہ ہے کہ جب شام کے وقت اس کے سامنے سکھلائے ہوئے تیز رفتار گھوڑے پیش کیے گئے تو اس نے کہا کہ میں نے اللہ کے لیے ان گھوڑوں سے محبت کی ہے۔ یہاں تک کہ گھوڑے دوڑتے ہوئے اس کی نگاہ سے اوجھل ہوگئے۔ حکم دیا کہ ان گھوڑوں کو میرے سامنے پیش کیا جائے۔ گھوڑے ان کے سامنے پیش کیے گئے تو سلیمان (علیہ السلام) پیار سے گھوڑوں کی پنڈلیوں اور گردنوں پر ہاتھ پھیرنے لگے۔ اس آیت کریمہ کی تشریح میں مفسرین نے دو آراء کا اظہار فرمایا ہے۔ ایک جماعت کا خیال ہے کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے گھوڑوں کی دوڑ لگوائی۔ دوڑ کے بعد حکم دیا کہ گھوڑے میرے سامنے پیش کیے جائیں۔ جب گھوڑے ان کی خدمت میں پیش کیے گئے تو وہ پیار کرتے ہوئے گھوڑوں کی پنڈلیوں اور گردنوں پر ہاتھ پھیرے جارہے تھے۔ یہاں تک کہ ان کی عصر کی نماز یا خاص ذکر جو غروب آفتاب سے پہلے کرتے تھے وہ بھول گئے۔ اس مصروفیت میں نماز مغرب کا وقت ہوگیا۔ اس پر انہوں نے اظہار خیال کرتے ہوئے فرمایا کہ مجھ پر افسوس! کہ میں گھوڑوں کی محبت میں اللہ کا ذکر بھول گیا ہوں۔ اس پر انہوں نے تمام گھوڑوں کی ٹانگیں اور گردنیں کاٹ دیں۔ یہ تفسیر کرنے والے حضرات میں سے کچھ کا خیال ہے کہ گردنیں اور ٹانگیں کاٹنے سے مراد انہوں نے تمام گھوڑے اللہ کی راہ میں ذبح کردئیے۔ یاد رہے کہ گھوڑا ہماری شریعت میں بھی حلال ہے آج بھی انڈونیشیا، قازقستان، ترکستان اور وسطی ریاستوں میں گھوڑے اس طرح ہی ذبح کیے جاتے ہیں جس طرح پاکستان اور دوسرے ممالک میں گائے، اونٹ، دبنے، چھترے اور بکرے ذبح کیے جاتے ہیں۔ جن بزرگوں نے اس آیت کا ترجمہ درج ذیل کیا ہے ان میں ماضی قریب کے مفسر شیخ الاسلام مولانا ثناء اللہ اور مفکرمولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی بھی شامل ہیں۔ ان بزرگوں کا خیال ہے کہ عربی گرائمر کے لحاظ سے یہ ترجمہ کیا جائے کہ ” میں نے اس مال یعنی گھوڑوں سے محبت اپنے رب کے ذکر کے لیے کی ہے“ تاکہ گھوڑوں پر سوار ہو کر جہاد کیا جائے جس سے دین کو غلبہ حاصل ہو اس لیے انہوں نے گھوڑوں کی دوڑلگوائی۔ یہاں تک کہ وہ دور نکل گئے اور سلیمان (علیہ السلام) کی آنکھوں سے اوجھل ہوگئے۔ تب انہوں نے حکم دیا کہ گھوڑوں کو واپس لایا جائے۔ جب گھوڑے ان کے حضور پیش کیے گئے تو پیار کرتے ہوئے گھوڑوں کی ٹانگوں اور گردنوں پر ہاتھ پھیرتے ہوئے مغرب ہوگئی اور عصر کی نماز یا خاص ذکر بھول گئے۔ اس تفسیر کے مطابق اس آیت مبارک کا ترجمہ یوں ہوگا ” انہوں نے کہا میں نے اس مال کی محبت اپنے رب کی یاد کی وجہ سے اختیار کی ہے۔“ (ص : ٣٢، ٣٣) مسائل ١۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) بھی اپنے باپ حضرت داؤد (علیہ السلام) کی طرح اللہ تعالیٰ کے نبی اور محبوب ترین بندے تھے۔ ٢۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) بھی اپنے باپ کی طرح ہر حال میں اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرنے والے تھے۔ تفسیر بالقرآن انبیائے کرام (علیہ السلام) ہر حال میں اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرنے والے تھے : ١۔ آدم (علیہ السلام) نے کہا ہمارے رب ! ہم نے اپنے آپ پر ظلم کیا اگر تو ہمیں معاف نہیں کرے گا اور رحم نہیں فرمائے گا تو ہم یقیناً نقصان اٹھائیں گے۔ (الاعراف : ٢٣) ٢۔ یعقوب (علیہ السلام) نے کہا میں اپنی بے قراری اور غم کی شکایت صرف اللہ کے حضور پیش کرتا ہوں۔ (یوسف : ٨٦) ٣۔ زکریا (علیہ السلام) نے کہا اے میرے پروردگار ! مجھے تنہا نہ چھوڑ اور تو ہی بہترین وارث ہے۔ (الانبیاء : ٨٩) ص
31 ص
32 ص
33 ص
34 فہم القرآن ربط کلام : حضرت سلیمان (علیہ السلام) کا دوسرا واقعہ۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں انسان کی آزمائش کے لیے بہت سے طریقے ہیں جن میں دو بڑے طریقے یہ ہیں۔ کبھی اپنے بندے کو نعمت دے کر آزماتا ہے اور کبھی اس سے نعمت چھین کر آزمائش کرتا ہے۔ پہلے واقعہ میں سلیمان (علیہ السلام) کو گھوڑوں کے ذریعے آزمایا گیا جو اللہ تعالیٰ نے انہیں عطا فرمائے تھے۔ اس واقعہ میں ان سے نعمت چھین کر آزمایا گیا جس کے بارے میں ارشاد ہوا کہ ہم نے سلیمان (علیہ السلام) کو آزمائش میں ڈالا اور کرسی پر ایک جسد ڈال دیا۔ اس حال میں سلیمان (علیہ السلام) نے اپنے رب کی طرف رجوع کیا اور دعا کی کہ اے میرے رب مجھے معاف فرما اور مجھے ایسی بادشاہت عطا فرما کہ جو میرے بعد کسی کو حاصل نہ ہو۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ توہی عطا فرمانے والا ہے۔ کچھ مفسرین نے حضرت سیلمان (علیہ السلام) کی دعا کے سلسلہ میں لکھا ہے کہ ایک پیغمبر کی یہ شان نہیں کہ وہ اقتدار کی خواہش کرے۔ اس بات میں کوئی کلام نہیں کہ کسی شخض کے سامنے منصب اور اقتدار کی خواہش کرنا جائز نہیں اور نہ ہی پیغمبر کی یہ شان ہے کہ وہ منصب اور اقتدار کے لیے کوشش کرے۔ لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے اقتدار کی خواہش کا اظہار کسی انسان کے سامنے تو نہیں کیا۔ انہوں نے اقتدار کی خواہش اور دعا اپنے رب کے حضور کی ہے جس سے ہر وقت اور ہر چیز کا سوال کیا جاسکتا ہے۔ وہی اقتدار اور سب کچھ عطا کرنے والا ہے۔ اس کے بغیر تو کہیں سے کچھ بھی نہیں مل سکتا۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) اپنے وقت کے نبی تھے۔ ان سے بڑھ کر کس کی خواہش ہوسکتی ہے کہ اللہ کا دین غالب ہو اور لوگ خوشحال ہوں۔ ظاہر بات ہے کہ انہوں نے دین کے غلبہ اور لوگوں کی فلاں کے لیے ہی اللہ کے حضور یہ درخواست کی تھی کہ مجھے ایسا اقتدار نصیب فرما جو میرے بعد کسی کو حاصل نہ ہو۔ جہاں تک حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی آزمائش کا معاملہ ہے اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ ہم نے سلیمان (علیہ السلام) کو آزمائش میں ڈالا اور اس کی کرسی پر ایک ناقص جسد رکھ دیا۔ اس آزمائش کے بارے میں مفسرین نے تین قسم کی تفسیر کی ہے۔1 حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے پاس ایک انگوٹھی تھی جس بنا پر وہ جن و انس، پرندوں اور ہواؤں پر کنٹرول کرتے تھے۔ ایک مرتبہ انگوٹھی گم ہوگئی جو شیطان کے ہاتھ چڑھ گئی۔ شیطان حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی شکل اختیار کرکے کچھ دن ان کی کرسی پر براجمان ہو کر حکومت کرتا رہا لیکن اس کی عادتیں دیکھ کر لوگوں کو شک پڑا کہ یہ سلیمان (علیہ السلام) نہیں ہیں۔ پھر کسی طریقہ سے انگوٹھی سلیمان (علیہ السلام) کے ہاتھ آئی اور وہ دوبارہ حکومت کرنے لگے۔2 حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے ایک دن اپنے دل میں یہ بات کہی کہ میں ایک ہی رات میں اپنی تمام بیویوں سے جماع کروں گا۔ ان سے بیٹے پیدا ہوں گے جو میدان کارزار میں میرے شانہ بشانہ ہو کر جہاد کریں گے۔ لیکن یہ بات کہتے ہوئے انشاء اللہ کہنا بھول گئے انہوں نے حسب ارادہ اپنی تمام بیویوں سے جماع کیا جن کی تعداد ستر سے زائد تھی ایک کے سوا کوئی بیوی بھی حاملہ نہ ہوئی جس نے بچہ جنم دیا وہ بھی ناقص الوجود تھا جسے ملازم نے اٹھا کر کرسی پر رکھ دیا۔ جہاں تک بیویوں کے ساتھ ہم بستری کا معاملہ ہے اس سے بعض مفسرین نے یہ بات سمجھ لی کہ یہ حدیث اسی آیت کی تفسیر ہے اس لیے انہوں نے اس آیت کی تفسیر میں یہ حدیث نقل فرمائی ہے جس سے یہ تاثر پیدا ہوا کہ اس آیت میں جس جسدِناقص کا ذکر کیا گیا ہے وہ یہی واقعہ ہے حالانکہ محدثین کے سرخیل حضرت امام بخاری (رح) نے کتاب التفسیر میں اس آیت کے ضمن میں یہ حدیث نقل نہیں کی۔ جہاں تک کثرت ازواج کا معاملہ ہے پہلے زمانہ میں لوگ اس قابل ہوتے تھے کہ وہ بیک وقت اتنی بیویوں کے حقوق ادا کرلیں۔ اس ضمن میں کئی غیرمسلم حکمرانوں کی مثالیں بھی موجود ہیں لیکن نزول قرآن کے بعد یہ پابندی عائد کردی گئی کہ کوئی آدمی بیک وقت چاربیویوں سے زائد بیوی نہیں رکھ سکتا اگر اس میں غیر معمولی طاقت ہو تو وہ شریعت کے اصول و ضوابط پورے کرتے ہوئے چار بیویوں کے ساتھ لونڈیاں رکھ سکتا ہے۔ ایک رات میں بیویوں کے ساتھ جماع کرنے کے بارے میں کچھ لوگوں نے اس بات کو عقل کی کسوٹی پر پرکھنے کی کوشش کی ہے جس وجہ سے انہوں نے مستند حدیث کو ماننے سے انحراف کیا ہے۔ حالانکہ وہ بھی مانتے ہیں کہ پیغمبر میں عام لوگوں کی نسبت غیر معمولی صلاحیتیں ہوتی ہیں اور اللہ تعالیٰ نے انبیاء کو مختلف قسم کے معجزات سے سرافراز فرمایا تھا۔ عین ممکن ہے کہ یہ بات بھی معجزات میں شامل ہو۔ 3 امام رازی (رض) نے یہ تفسیر کی ہے کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) ایک دفعہ شدید بیمار ہوئے جس وجہ سے وہ ہڈیوں کا ڈھانچہ بن کر رہ گئے اس حالت میں اپنی کرسی پر تشریف فرما تھے تو انہوں نے اللہ تعالیٰ کے حضور یہ دعا کی کہ بار الہا! مجھے ایسا اقتدار نصیب فرما جو میرے بعد کسی کو نہ مل سکے۔ اس دعا کے بدلے میں اللہ تعالیٰ نے انہیں صحت اور ایسا اقتدار عنایت کیا جو قیامت تک کسی شخص کو حاصل نہیں ہوگا۔ دوسری تفاسیر کی نسبت امام رازی (رض) کی تفسیر صائب لگتی ہے۔ اللہ اعلم یہ واقعات بیان کرنے کا مقصد : یہ سورۃ مکہ معظمہ میں نازل ہوئی جس کی ابتدا میں کفار کی منفی سوچ اور سر گرمیوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ جونہی نبی آخر الزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ” لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ“ کی دعوت پیش کی تو مکہ کے سرداروں نے کہا کہ اے لوگو! اپنے اپنے خداؤں پرجمے رہنا یہ شخص جادو گر اور جھوٹا ہے اس لیے ہمیں اس کی باتیں سمجھ میں نہیں آتی اور نہ ہی ہم نے اس سے پہلے کبھی یہ بات سنی ہے۔ اس طرح مکہ میں حق و باطل کی کشمکش اپنی انتہا کو پہنچ چکی تھی۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے دونوں واقعات سے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ بات سمجھائی گئی ہے کہ آپ کو یہ فکر لاحق نہیں ہونی چاہیے کہ میرے پاس اقتدار اور وسائل ہوتے تو کفار یہ رویہ اختیار نہ کرتے۔ اے محبوب (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! لازم نہیں کہ کسی مبلّغ کے پاس اقتدار اور اختیارہی ہو تو وہ کامیاب ہو۔ ایسا ہرگز نہیں کیونکہ ہدایت اللہ کے اختیار میں ہے وہ جسے چاہتا ہے ہدایت فرماتا ہے۔ یاد رہے کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) ” اللہ“ کے نبی ہونے کے ساتھ بے مثال حکمران بھی تھے لیکن ان کے دور میں بھی تمام لوگوں نے ان کا حکم نہیں پڑھا تھا۔ (البقرۃ: ١٠٣) مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی آزمائش کی جس میں انہوں نے اللہ کی طرف رجوع کیا اور پورے اترے۔ ٢۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے آزمائش کے وقت اللہ تعالیٰ سے معافی طلب کی۔ ٣۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ سے غیر معمولی اقتدار کی دعا کی۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ ہی ہر چیز عطا فرمانے والا ہے : ١۔ اللہ ہی خلافت عطا کرتا ہے۔ (الانعام : ١٣٣، الاعراف : ١٢٩) ٢۔ ابراہیم (علیہ السلام) کو اللہ نے اپنا خلیل بنایا۔ (النساء : ١٢٥) ٣۔ آدم (علیہ السلام) کو اللہ نے خلیفہ بنایا۔ (البقرۃ: ٣٠) ٤۔ سلیمان (علیہ السلام) کو اللہ نے سب سے بڑا حکمران بنایا۔ (ص : ٣٥) ٥۔ ادریس (علیہ السلام) کو اللہ نے مقا مِ علیا سے سرفراز کیا۔ (مریم : ٥٧) ٦۔ داؤد (علیہ السلام) کو اللہ نے دانائی عطا فرمائی۔ (ص : ٢٠) ٧۔ موسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ نے ہم کلامی کا شرف بخشا۔ (طٰہٰ: ١٢ تا ١٤) ٨۔ عیسیٰ (علیہ السلام) کو اپنا کلمہ قرار دیا۔ (النساء : ١٧١) ٩۔ یوسف (علیہ السلام) کو اللہ نے حکمرانی اور انتہا درجہ کی پاک دامنی عطا فرمائی۔ (یوسف : ٣١) ص
35 ص
36 فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی دعا قبول فرمائی اور انہیں ایسے اختیارات دیئے جو کسی حکمران کو حاصل نہیں ہوئے۔ اللہ تعالیٰ نے ہوا کو حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے لیے مسخر کردیا وہ ملک کے جس حصے کا دورہ کرنا چاہتے تھے۔ ہوا انہیں وہاں پہنچا دیا کرتی تھی وہ دو ماہ کا سفر صبح و شام طے کرلیتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے بڑے بڑے دیو ہیکل جِنّات کو ان کے تابع کردیا تھا حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے جِنّوں کو مختلف کاموں پر مامور کر رکھا تھا۔ ایک جماعت کو تعمیرات کے کام پر لگایا اور دوسری جماعت کو سمندر پر مامور کیا جو غوطہ زنی کرتے ہوئے سمندر سے ہیرے جواہرات نکالا کرتے تھے۔ ان میں سے کوئی سرکشی کرتا تو انہیں بڑی بھاری بھرکم زنجیروں میں جکڑ دیا جاتا اور سخت سزا دی جاتی تھی جس کے لیے اللہ تعالیٰ نے سلیمان کو اختیار دیا تھا کہ چاہیں تو انہیں معاف کردیں اگر چاہیں تو انہیں سزا دیں۔ اس پر آپ پر کوئی مواخذہ نہیں ہوگا اللہ تعالیٰ نے ایک طرف انہیں عظیم ترقی یافتہ مملکت کا فرما نروا بنایا اور دوسری طرف اپنے ہاں قرب حضوری بخشا اور اعلیٰ مقام سے سرفراز کیا۔ ١۔ اللہ تعالیٰ نے جنات اور ہوا کو سلیمان (علیہ السلام) کے تابع کردیا تھا۔ ٢۔ اللہ کے ہاں سلیمان (علیہ السلام) بڑے مرتبہ کے حامل تھے۔ ص
37 ص
38 ص
39 ص
40 ص
41 فہم القرآن ربط کلام : حضرت سلیمان (علیہ السلام) کا شان و شکوہ بیان کرنے کے بعد حضرت ایوب (علیہ السلام) کی بے بسی اور تکلیف کا تذکرہ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ایوب ہمارا پسندیدہ بندہ تھا۔ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ان کی بیماری اور کمزوری کا لوگوں کے سامنے تذکرہ کریں کہ انتہا درجہ کی بیماری اور کمزوری کے باوجود اس نے اپنے رب کو یاد رکھا اور اس کی رضا پر راضی رہا۔ واقعہ یہ ہے کہ ایوب (علیہ السلام) اس قدر بیمار ہوئے کہ چلنے پھرنے سے بھی عاجز آگئے۔ مفسرین نے لکھا کہ اس دوران ان کا مال بھی تباہ ہوا اور ایک بیوی کے سوا باقی بیویاں ان سے الگ ہوگئیں۔ شدید بیماری اور شدید ترین آزمائشوں کے باوجود ایوب (علیہ السلام) کی زبان پر کوئی حرف شکایت نہ آیا جب بھی ہونٹ ہلے تو اپنے رب کے حضور فریاد کی کہ میرے رب! مجھے شیطان نے سخت تکلیف میں مبتلا کردیا ہے۔ صبر اور ادب کا انذازہ کیجیے کہ بیماری کی نسبت اپنے رب کی طرف کرنے کی بجائے شیطان کی طرف کی ہے کیونکہ ہر تکلیف اور نقصان کا بنیادی سبب شیطان کی شیطنت کا نتیجہ ہوتا ہے اگر کسی بد پرہیزی کی وجہ سے انسان بیمار ہو تو اس بدپرہیزی کے پیچھے بھی شیطان ہی ہوتا ہے۔ حضرت ایوب (علیہ السلام) کی دعا مستجاب ہوئی اللہ تعالیٰ نے انہیں حکم فرمایا کہ اپنا پاؤں زمین پر مارو جونہی انہوں نے اپنا پاؤں زمین پر مارا تو اللہ تعالیٰ نے ٹھنڈے اور میٹھے پانی کا چشمہ جاری کیا اور حکم فرمایا کہ اے ایوب (علیہ السلام) اس میں غسل کرو جس سے اللہ تعالیٰ نے انہیں شفا کاملہ عطا فرمائی۔ ایک طرف حضرت ایوب (علیہ السلام) صحت یاب ہوئے اور دوسری طرف اللہ تعالیٰ نے انہیں نیک اہل و عیال عطا فرمائے اور ان کے ساتھ اور بہت کچھ دیا۔ کچھ اہل علم نے لکھا ہے کہ سخت بیماری کی وجہ سے جو بیویاں چھوڑ گئی تھیں وہ بھی بچوں سمیت واپس آگئیں جن سے اللہ تعالیٰ نے مزید اولاد عنایت فرمائی اور تباہ ہونیوالے مال کے بدلے بہت سا مال بھی عطا فرمایا۔ اس میں بہت سی نصیحتیں ہیں ان لوگوں کے لیے جو صاحب عقل ہیں۔ اسرئیلی روایات کے حوالے سے لکھا گیا ہے کہ بیماری کے دوران حضرت ایوب (علیہ السلام) کی بیوی کے پاس انسان کی شکل میں شیطان آیا اور اس نے کہا کہ میں آپ کے خاوند کا اس شرط پر علاج کرتاہوں کہ اگر وہ صحت یاب ہوجائے۔ تو پھر تو نے یہ الفاظ کہنا ہوں گے یہی میرے علاج کا معاوضہ ہے۔ حضرت ایوب (علیہ السلام) کی بیوی نے آپ ( علیہ السلام) کی خاطر وہ الفاظ کہنے کا وعدہ کرلیا بعد ازاں اس کا ذکر حضرت ایوب (علیہ السلام) سے کیا تو وہ اس بات پر سخت نالاں ہوئے اور فرمایا کہ یہ انسان نہیں بلکہ شیطان تھا جس نے تجھ سے ایسے الفاظ کہلوانے کا وعدہ لیا ہے۔ جن میں شرک پایا جاتا ہے جن مفسرین نے اس روایت کو تسلیم نہیں کیا ان کا خیال ہے کہ حضرت ایوب کسی اور بات سے اپنی بیوی پرخفا ہوئے تھے۔ اس پر ایوب (علیہ السلام) نے قسم اٹھائی کہ جب میں صحت مند ہوں گا تو تجھے سو کوڑے ماروں گا جب ایوب (علیہ السلام) چشمہ سے غسل کرنے کے بعد صحت یاب ہوگئے تو انہوں نے اپنی قسم پوری کرنے کا عزم کیا جس پر اللہ تعالیٰ نے انہیں حکم دیا کہ قسم توڑنے کی بجائے اسے اس طرح پورا کرو کہ سو تنکے کا جھاڑو لے کر اپنی بیوی کو ایک ضرب لگاؤ جس سے ہمارے ہاں تمہاری قسم پوری ہوجائے گی۔ حضرت ایوب (علیہ السلام) کو خراج تحسین سے نوازتے ہوئے ارشادفرمایا ہے کہ ہم نے اسے بڑے حوصلے والا پایا وہ بہت ہی اچھا انسان اور ہر حال میں ہماری طرف رجوع کرنے والا تھا۔ اس واقعہ میں ایک طرف نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو شکر ادا کرنے کا اشارہ دیا گیا ہے اور دوسری طرف آپ کو سمجھایا ہے کہ آپ کے رب نے آپ کو مثالی صحت سے ہمکنار فرمایا ہے لہٰذا خدمت دین کا کام کرتے رہیں اور مشکلات پر صبر کرتے جائیں۔ امت مسلمہ کو یہ سبق دیا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی ہر نعمت دینے والا ہے اور وہی اس سے محروم کرنے کا اختیار رکھتا ہے۔ اللہ کا بندہ وہ ہے جو مشکل کے وقت صبر سے کام لے اور آسانی کے وقت اس کا شکر ادا کرے۔ گویا کہ ہر حال میں اپنے رب کی طرف رجوع کرنے والاہی اس کا پسندیدہ بندہ ہوتا ہے۔ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ بَیْنَمَا أَیُّوبُ یَغْتَسِلُ عُرْیَانًا خَرَّ عَلَیْہِ رِجْلُ جَرَادٍ مِنْ ذَہَبٍ، فَجَعَلَ یَحْثِی فِی ثَوْبِہِ، فَنَادَی رَبُّہُ یَا أَیُّوبُ، أَلَمْ أَکُنْ أَغْنَیْتُکَ عَمَّا تَرَی قَالَ بَلَی یَا رَبِّ، وَلَکِنْ لاَ غِنَی لِی عَنْ بَرَکَتِکَ) [ رواہ البخاری : کتاب الانبیاء] ” حضرت ابوہریرہ (رض) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں آپ نے فرمایا حضرت ایوب غسل فرما رہے تھے تو اللہ تعالیٰ نے سونے کی ٹڈیاں آسمان سے برسائیں۔ حضرت ایوب (علیہ السلام) انہیں پکڑ پکڑ کر کپڑے میں ڈالنے لگے۔ اللہ تعالیٰ نے ایوب (علیہ السلام) سے استفسار فرمایا کہ ایوب! کیا ہم نے سب کچھ دے کر تجھے غنی نہیں کردیا؟ ایوب (علیہ السلام) کہنے لگے کیوں نہیں لیکن میں آپ کی رحمت سے لا پروا نہیں ہوسکتا۔“ قسم کے بارے میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان : ” حضرت زھدم (رض) بیان کرتے ہیں کہ ہم ابو موسیٰ اشعری (رض) کے پاس تھے وہ فرماتے ہیں میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس اشعری قبیلہ کے کچھ افراد کے ہمراہ اس وقت حاضر ہوا جب آپ غصہ میں تھے۔ ہم نے سواری کا مطالبہ کیا تو آپ نے قسم اٹھائی کہ میں تمہیں کچھ نہیں دوں گا۔ پھر آپ نے فرمایا : اللہ کی قسم! اگر اللہ کی مشیّت شامل حال ہو تو جس کام پر میں قسم کھاتا ہوں اگر میں اس کے بجائے دوسرے کام کو بہتر سمجھوں تو میں افضل کام کرنا پسند کرتا ہوں اور قسم کا کفارہ ادا کردیتا ہوں۔“ [ رواہ البخاری : باب الیمین فیما لایملک الخ] (وَعَنْ عُقْبَۃَ ابْنِ عَامِرٍ (رض) عَنْ رَّسُوْلِ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ کَفَّارَۃُ النَّذْرِ کَفَّارَۃُ الْیَمِیْنِ )[ رواہ مسلم : باب فِی کَفَّارَۃِ النَّذْرِ] حضرت عقبہ بن عامر (رض) رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان نقل کرتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا نذر کا کفارہ وہی ہے‘ جو قسم کا کفارہ ہے۔“ مسائل ١۔ ایوب (علیہ السلام) نے بیماری کو شیطان کی طرف منسوب فرمایا۔ ٢۔ ایوب (علیہ السلام) نے صرف اپنے رب سے شفا طلب کی۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت ایوب (علیہ السلام) کو دوبارہ اہل وعیال عطا کیے اور بہت سی نعمتوں سے نوازا۔ ٤۔ حضرت ایوب (علیہ السلام) اپنے رب کے بہترین بندے اور ہر حال میں اس کی طرف رجوع کیا کرتے تھے۔ تفسیربالقرآن اللہ تعالیٰ ہی مشکلات دور کرنے والاہے : ١۔ اللہ ہی کو پکارو وہی تکلیف دور کرتا ہے۔ (الانعام : ٤١) ٢۔ اللہ کے سوا کوئی تکلیف دور کرنے والا نہیں۔ (الاسراء : ٥٦) ٣۔ اگر آپ کو کوئی تکلیف ہوجائے تو سوائے اللہ کے اسے کوئی نہیں دور کرسکتا۔ (یونس : ١٠٧) ٤۔ کون ہے جو اللہ کے سوا مجبور کی دعا سننے والا اور مصیبت دور کرنے والا ہے؟ (النمل : ٦٢) ٥۔ کہہ دیجیے اگر اللہ تعالیٰ نقصان پہچانے پر آئے کیا تو اس نقصان سے کوئی نہیں بچا سکتا۔ (الفتح : ١١) ٦۔ کیا تم ایسے لوگوں کو معبود مانتے ہو جو نفع ونقصان کے مالک نہیں ہیں۔ (الرعد : ١٦) ص
42 ص
43 ص
44 ص
45 فہم القرآن ربط کلام : حضرت داؤد (علیہ السلام)، حضرت سلیمان (علیہ السلام) اور حضرت ایوب (علیہ السلام) کے تذکرہ کے بعد ان کے جدّ امجد حضرت ابراہیم (علیہ السلام)، حضرت اسحاق (علیہ السلام)، حضرت یعقوب (علیہ السلام) حضرت اسماعیل (علیہ السلام) اور کچھ دوسری شخصیات کا مختصر بیان۔ سورہ ہودکی آیت ٧١ میں ذکر ہوا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو اسحاق کے ساتھ ہی پوتے یعقوب (علیہ السلام) کی خوشخبری دی۔ جس طرح یہ حضرات ایک ہی خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ اسی طرح دیگر اوصاف حمیدہ کے ساتھ ان میں یکساں طور پر ایک خوبی بدرجہ اتم پائی جاتی تھی۔ وہ یہ تھی کہ یہ حضرات ہاتھوں اور آنکھوں والے یعنی صاحب قوت، سخی اور صاحب بصیرت تھے۔ یہ بات حقیقت ہونے کے ساتھ ہر زبان میں محاورہ کے طور پر بھی استعمال ہوتی ہے کہ فلاں شخص آنکھیں اور ہاتھ رکھتا ہے۔ جس کا معنٰی ہے کہ یہ شخص ہوشیار، طاقتور اور فیاض ہے۔ جو کام کرنا چاہیے کرسکتا اور اسے اندھووں کی طرح نہیں بلکہ سوچ، سمجھ کر کرتا ہے۔ مقصد یہ ہے کہ طاقت اور بصیرت رکھنے والا ہے۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ طاقت رکھنے والے لوگ فہم و بصیرت سے کورے ہوتے ہیں اور صاحب بصیرت لوگ قوت کے استعمال میں تذبذب کا شکار رہتے ہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے ان شخصیات کو بصیرت کے ساتھ قوت فیصلہ بھی دی تھی۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام)، حضرت اسحاق (علیہ السلام) حضرت یعقوب (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے دعوت دین کے لیے وسائل بھی دیئے اور بصیرت سے سرفراز بھی فرمایا۔ ان کی بصیرت کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ ان کے کسی کام کے پیچھے دنیا کی غرض نہ تھی۔ وہ جو کام کرتے قیامت پر نظر رکھتے ہوئے کرتے جس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے انہیں آخرت میں بھی پسند فرما لیا اور دنیا میں بھی وہ ” اللہ“ کے بہت ہی پسندیدہ اور نیک بندے تھے۔ ذالا ید کا مفہوم : ” حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بیویوں میں بعض نے آپ سے پوچھا کہ ہم میں سے کون سی بیوی آپ سے جنت میں پہلے ملے گی؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس کے ہاتھ لمبے ہیں۔ چنانچہ انہوں نے چھڑی کے ساتھ اپنے ہاتھوں کو ناپنا شروع کیا تو سودہ (رض) کے ہاتھ سب سے لمبے تھے لیکن ہمیں بعد میں پتہ چلاکہ ہاتھ لمبے ہونے سے مراد زیادہ صدقہ دیناتھا۔ چنانچہ ہم سے جو پہلے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ملیں وہ زینب (رض) تھی جو صدقہ وخیرات کرنے کو بہت پسند کرتی تھی۔ (بخاری) مسلم کی روایت میں ہے حضرت عائشہ (رض) نے بیان کیا رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جنت میں مجھے سب سے پہلے وہ بیوی ملے گی جس کے ہاتھ لمبے ہیں۔ عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بیویاں اندازہ لگاتی تھیں کہ کس کے ہاتھ لمبے ہیں چنانچہ ہم میں سے زینب کے ہاتھ لمبے ثابت ہوئے اس لیے کہ وہ اپنے ہاتھوں کی کمائی صدقہ وخیرات کردیا کرتی تھیں۔“ [ متفق علیہ : باب الانفاق وکراھیۃ الامساک ] مسائل ١۔ حضرت داؤد (علیہ السلام) اور حضرت سلیمان (علیہ السلام) غیر معمولی اقتدار اور اختیارات رکھنے کے باوجود اپنے رب کی طرف رجوع کرنے والے تھے۔ ٢۔ حضرت ایوب (علیہ السلام) شدید بیماری اور سخت ترین آزمائشوں میں صابر رہے اور صرف اپنے رب سے فریاد کرتے رہے۔ ٣۔ حضرت ایوب (علیہ السلام) نے نعمتیں چھن جانے کے وقت صبر کیا اور نعمتیں ملنے کے بعد شکر ادا کیا۔ ٤۔ حضرت ابراہیم، حضرت اسحاق، حضرت یعقوب، حضرت اسماعیل حضرت الیاس اور ذوالکفل اللہ تعالیٰ کے نیک بندے اور آخرت پر نظر رکھنے والے تھے۔ ٥۔ پرہیزگاروں کے لیے آخرت میں بہترین مقام ہوگا۔ ص
46 ص
47 ص
48 ص
49 ص
50 فہم القرآن ربط کلام : متقین کو جہاں رکھا جائے گا اس کی سہولیات اور انعامات کا مختصر بیان۔ متقین کے لیے ہمیشہ ہمیش کے باغات اور محلات ہوں گے۔ جن کے دروازے ان کے لیے کھلے ہوئے ہوں گے۔ یعنی جنت کی حوریں اور نعمتیں ان کے انتظار میں ہوں گی۔ یہ ہر زبان میں ایک محاورہ بھی ہے۔ جو مہمان کے لیے میزبان کی طرف سے بولا جاتا ہے کہ آپ جب آنا چاہیں ہمارے دروازے ہر وقت آپ کے لیے کھلے ہیں اور ہمیشہ کھلے رہیں گے۔ جنتی جنت میں ایک دوسرے کے سامنے تکیے لگائے تشریف فرما ہوں گے اور ان کے کھانے پینے کے لیے کثیر تعداد میں ہر قسم کے پھل اور مشروبات ہوں گے جس میں شراب طہور بھی ہوگی، جنہیں جنتی طلب فرمایں گے جو فی الفور ان کے سامنے پیش کر دئیے جائیں گے ان کے پس ان کی ہم عمر اور ہم مزاج بیویاں ہوں گی جن کی حیا کا عالم یہ ہوگا کہ وہ اپنے خاوندوں کو اس طرح دیکھیں گی جس طرح ایک باحیا بیوی سہاگ کی رات اپنے خاوند کو دیکھتی ہے۔ اسی طرح ہی نیک عورتوں کو ان کے ہم عمر اور ہم مزاج خاوند ملیں گے۔ لیکن قرآن مجید حیا دارانہ اسلوب کی وجہ سے عورتوں کے لیے کھلے الفاظ میں یہ بات بیان نہیں کرتا ہے کہ انہیں ان کی پسند کے خاوند دیئے جائیں گے۔ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَال اللّٰہُ تَعَالٰی اَعْدَدْتُّ لِعِبَادِیَ الصَّالِحِیْنَ مَالَا عَیْنٌ رَأَتْ وَلَآ اُذُنٌ سَمِعَتْ وَلَا خَطَرَ عَلٰی قَلْبِ بَشَرٍ وَّاقْرَءُ وْٓا إِنْ شِءْتُمْ (فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّآاُخْفِیَ لَھُمْ مِّنْ قُرَّۃِ اَعْیُنٍ) [ رواہ البخاری : کتاب بدء الخلق، باب ماجاء فی صفۃ الجنۃ وأنھا مخلوقۃ ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں میں نے اپنے نیک بندوں کے لیے وہ نعمتیں تیار کی ہیں، جن کو نہ کسی آنکھ نے دیکھا اور نہ ہی ان کے متعلق کسی کان نے سنا اور نہ کسی انسان کے دل میں ان کا خیال پیدا ہوا۔ اگر چاہو تو اس آیت کی تلاوت کرو۔ (کوئی نہیں جانتا کہ ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک کے لیے کیا چیز چھپا کے رکھی گئی ہے)۔“ مسائل ١۔ جنتیوں کے لیے جنت کے دروازے کھول دئیے جائیں گے۔ ٢۔ جنتی جنت میں تکیوں پر بیٹھے ہوئے ایک دوسرے کے سامنے کھانے پینے میں مصروف ہوں گے۔ ٣۔ جنت کی عورتیں بے انتہاحیادار ہوں گی۔ ٤۔ جنت میں میاں بیوی ہم عمر اور ہم مزاج ہوں گے۔ تفسیر بالقرآن جنت کی بیویاں اور نعمتیں : ١۔ جنت کی بیویاں پاک ہونگی۔ (البقرۃ: ٢٥) ٢۔ خوبصورت بڑی بڑی آنکھوں والیاں ہونگی۔ (الصّٰفّٰت : ٤٨، ٤٩) ٣۔ جنتیوں کی ہم عمرہوں گی۔ (ص ٓ: ٥٢) ٤۔ یاقوت و مونگے کی طرح خوبصورت ہونگی۔ (الرّحمن : ٥٨) ٥۔ چھپائے ہوئے موتی کی طرح ہونگی۔ (الواقعہ : ٢٣) ٦۔ کنواری اور ہم عمرہوں گی۔ (الواقعہ : ٣٦، ٣٧) ٧۔ ہم نے اس میں کھجوروں، انگوروں کے باغ بنائے ہیں اور ان میں چشمے جاری کیے ہیں۔ (یٰس : ٣٤) ٨۔ یقیناً متقین باغات اور چشموں میں ہوں گے۔ (الذاریات : ١٥) ٩۔ یقیناً متقی نعمتوں والی جنت میں ہوں گے۔ (الطور : ١٧) ١٠۔ جنت میں جنتیوں سونے اور لولو کے زیور پہنائے جائیں گے۔ (فاطر : ٣٣) ١١۔ جنت میں تمام پھل دو، دو قسم کے ہوں گے۔ (الرّحمن : ٥٢) ١٢۔ جنتیوں کو شراب طہور دی جائے گی۔ (الدھر : ٢١) ١٣۔ جنتی سبز قالینوں اور مسندوں پر تکیہ لگا کر بیٹھے ہوں گے۔ (الرّحمن : ٧٦) ص
51 ص
52 ص
53 ص
54 ص
55 فہم القرآن ربط کلام : متقین کے مقابلے میں نافرمانوں اور باغیوں کا ٹھکانہ اور سزائیں۔ قرآن مجید کا تسلسل کے ساتھ یہ اسلوب ہے کہ جنتیوں کے انعامات کے مقابلے میں جہنمیوں کی سزاؤں کا ذکر کرتا ہے تاکہ قرآن پڑھنے والا اس بات پر غور کرے کہ اسے کونسا عقیدہ اور کیا کردار اختیار کرنا چاہے۔ لہٰذا جنتیوں کے انعامات کے بیان کے بعد جہنمیوں کی سزا کا ذکر ہوتا ہے۔ باغیوں اور نافرمانوں کا ٹھکانہ جہنم ہوگا جو رہنے کے اعتبار سے بد ترین جگہ ہوگی۔ انہیں پینے کے لیے گرم ترین پانی اور پیپ دی جائے گی اس کے ساتھ ہی انہیں مختلف قسم کے عذاب دیئے جائیں گے۔ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ اِنَّ الْحَمِیمَ لَیُصَبُّ عَلَی رُءُ وسِہِمْ فَیَنْفُذُ الْحَمِیمُ حَتَّی یَخْلُصَ إِلَی جَوْفِہِ فَیَسْلِتَ مَا فِی جَوْفِہِ حَتَّی یَمْرُقَ مِنْ قَدَمَیْہِ وَہُوَ الصَّہْرُ ثُمَّ یُعَادُ کَمَا کَانَ )[ رواہ الترمذی : باب مَا جَاءَ فِی صِفَۃِ شَرَابِ أَہْلِ النَّارِ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں آپ نے فرمایا بے شک گرم پانی جہنمیوں کے سروں میں ڈالا جائیگاتو وہ پانی ان کے سروں کو چھیدتے ہوئے انکے پیٹوں میں پہنچے گا تو ان کی آنتیں پاؤں کے راستے پگھل کر نکل جائیں گی پھر انہیں اسی طرح لوٹا دیا جائے گا۔“ (عَنْ سَمُرَۃَ بْنِ جُنْدُبٍ (رض) اَنَّ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ مِنْھُمْ مَنْ تَاْخُذُہُ النَّارُاِلٰی کَعْبَیْہِ وَمِنْھُمْ مَنْ تَاْخُذُُہُ النَّارُاِلٰی رُکْبَتَیْہِ وَمِنْھُمْ مَنْ تَاْخُذُہُ النَّارُ اِلٰی حُجْزَتِہٖ وَمِنْھُمْ مَنْ تَاْخُذُہُ النَّارُ اِلٰی تَرْقُوَتِہٖ) [ رواہ مسلم : باب فی شدۃ حر النار] ” حضرت سمرہ بن جندب (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی گرامی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جہنم کی آگ نے بعض لوگوں کے ٹخنوں تک، بعض کے گھٹنوں تک اور بعض کو کمر تک گھیرا ہوگا اور بعض کی گردن تک پہنچی ہوگی۔“ ” حضرت ابی درداء (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جہنمیوں پر بھوک مسلط کردی جائے گی اور وہ بھوک اس عذاب کے برابر ہوگی جس میں وہ مبتلا ہوں گے اور کھانا طلب کریں گے تو انہیں کھانے میں سوکھی گھاس پیش کی جائے گی جس سے نہ تو وہ موٹے ہو پائیں گے اور نہ ان کی بھوک دور ہوگی وہ کھانا طلب کریں گے تو انہیں ایسا کھانا دیا جائے گا جو ان کے حلق میں اٹک جائے گا۔ وہ کہیں گے کہ دنیا میں جب کھانا حلق میں پھنس جاتا تھا تو ہم پانی کے ساتھ اسے نیچے اتارتے تھے۔ وہ پانی طلب کریں گے تو انہیں گرم پانی لوہے کے پیالوں میں پیش کیا جائے گا جب وہ اسے اپنے چہروں کے قریب کریں گے تو ان کے چہرے جھلس جائیں گے اور جب اسے اپنے پیٹ میں داخل کریں گے تو ان کے پیٹ کٹ کر رہ جائیں گے۔[ باب مَا جَاءَ فِی صِفَۃِ طَعَامِ أَہْلِ النَّارِ] مسائل ١۔ اللہ کے باغیوں اور نافرمانوں کو جہنم میں جھونکا جائے گا۔ ٢۔ جہنم رہنے کے اعتبار سے بد ترین جگہ ہے۔ ٣۔ جہنمیوں کو پینے کے لیے گرم ترین پانی اور پیپ دی جائے گی۔ ٤۔ جہنمیوں کو جہنم میں مختلف قسم کے عذاب دیئے جائیں گے۔ تفسیر بالقرآن جہنم میں مختلف قسم کے عذاب : ١۔ آنتوں اور کھالوں کا بار بار گلنا۔ (النساء : ٥٦) ٢۔ دوزخیوں کی کھال کا بار بار بدلا جانا۔ (الحج : ٢٠) ٣۔ کانٹے دار جھاڑیوں کا کھانادیا جانا۔ (الغاشیہ : ٦) ٤۔ لوہے کے ہتھوڑوں سے سزا پانا۔ (الحج : ٢١، ٢٢) ٥۔ کھانا گلے میں اٹک جانا۔ (المزمل : ١٣) ٦۔ دوزخیوں کو کھولتا ہوا پانی دیا جانا۔ (الانعام : ٧٠) ٧۔ دوزخیوں کو پیپ پلایا جانا۔ (النّبا : ٢٥) ٨۔ آگ کا لباس پہنایا جانا۔ (الحج : ١٩) ٩۔ دوزخیوں کو پیپ پلایا جانا۔ (النبا : ٢٥) ١٠۔ قیامت کے دن مجرم اپنے ہاتھوں کو کاٹیں گے۔ (الفرقان : ٢٧) ص
56 ص
57 ص
58 ص
59 فہم القرآن ربط کلام : جہنم کے عذابوں میں ایک عذاب یہ بھی ہوگا کہ جہنمی آپس میں لڑتے رہیں گے۔ جہنمیوں کا ایک گروہ جہنم کے کنارے کھڑا ہوگا تو دوسرا گروہ پہنچ جائے گا۔ آنے والا گروہ پہلے کھڑے ہوئے گروہ کو طعنہ دے گا کہ اگر تم ٹھیک ہوتے تو ہمیں یہ وقت نہ دیکھنا پڑتا۔ تمہاری وجہ سے جہنم کا ہمیں سامنا کرنا پڑ رہا ہے جو بد ترین ٹھکانہ ہے۔ اس کے بعداپنے رب سے فریاد کریں گے کہ اے اللہ ! ہم سے پہلے آنے والوں کو جہنم میں دوگنا عذاب دیجیے۔ پھر کہیں گے کیا وجہ ہے کہ وہ لوگ ہمیں یہاں نظر نہیں آتے جن کو ہم شرارتی سمجھا کرتے تھے۔ کیا ہم نے انہیں مذاق سمجھا یا ہماری آنکھوں کو ان سے پھیر دیا گیا ہے۔ جہنمیوں کا آپس میں لڑناجھگڑنا ہر صورت ہوگا۔ دنیا میں جنہیں کمزور اور برے سمجھتے تھے ان کو دیکھ کر حسرت کا اظہار کریں گے کہ ہائے افسوس ! جن لوگوں کو ہم اپنے سے کمزور سمجھتے تھے اور عقیدہ و عمل کے لحاظ سے برا جانتے تھے وہ تو ہم سے بہتر ثابت ہوئے۔ حق کا انکار کرنے والوں کا ہمیشہ سے وطیرہ رہا ہے کہ وہ معلم اور نیک لوگوں کو شرارتی قرار دیتے ہیں۔ ” اس کے بعد یہ ایک دوسرے کی طرف منہ کریں گے اور آپس میں بحث و تکرار شروع کردیں گے۔ پیروی کرنے والے اپنے پیشیواؤں سے کہیں گے تم ہمارے پاس سیدھے رخ سے آتے تھے۔ وہ جواب دیں گے تم تو خود ہی ایمان لانے والے نہ تھے۔ ہمارا تم پر کوئی زور نہ تھا کیونکہ تم خود ہی سرکش تھے۔ آخر کار ہم اپنے رب کے اس فرمان کے مستحق ہوگئے کہ ہم عذاب کا مزا چکھنے والے ہیں۔ سو ہم نے تمہیں بہکایا ہم خود بہکے ہوئے تھے۔ اس طرح وہ سب اس دن عذاب میں اکٹھے ہوں گے۔ ہم مجرموں کے ساتھ یہی سلوک کیا کرتے ہیں۔“ (الصافات : ٣٧ تا ٣٤) مسائل ُ١۔ جہنم میں داخل ہونے والی ہر جماعت اپنے سے پہلے لوگوں کے ساتھ جھگڑا کرے گی۔ ٢۔ بعد میں داخل ہونے والے جہنمی پہلے لوگوں کے بارے میں بد دعائیں کریں گے۔ ٣۔ دنیا میں نیک لوگوں کے ساتھ مذاق کرنے والے کفار اور مشرکوں کو حسرتوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ تفسیر بالقرآن جہنمیوں کا آپس میں ایک دوسرے کو الزام دینا اور جھگڑنا : ١۔ دنیا میں بھی لعنت ان کے پیچھے لگی رہی اور قیامت کو بھی لگی رہے گی (ھود : ٩٩) ٢۔ دنیا میں بھی ان پر لعنت ہے اور قیامت کو بھی ان پر لعنت ہوگی۔ (ھود : ٦٠) ٣۔ اے ہمارے پروردگار ان کو دوگنا عذاب دے اور ان کو لعنت سے دوچار فرما۔ (الاحزاب : ٦٨) ٤۔ قیامت کے دن جہنمی ایک دوسرے کا انکار کریں گے اور ایک دوسرے پر لعنت بھیجیں گے۔ (العنکبوت : ٢٥) ٥۔ اللہ کی کافروں پر لعنت ہے اور اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے جہنم کو بھڑکا رکھا ہے۔ (الاحزاب : ٦٤) ص
60 ص
61 ص
62 ص
63 ص
64 ص
65 ص
66 فہم القرآن ربط کلام : لوگوں کو اچھے اور برے انجام سے آگاہ کرنے کے بعد نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کا مقصد بیان کیا گیا ہے۔ اللہ کے رسول کی بعثت کا بنیادی اور مرکزی مقصد توحید کی دعوت دینا تھا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس دعوت کا آغاز فرمایا تو اہل مکہ نے اس پر تعجب کا اظہار کرتے ہوئے آپ کی مخالفت کا فیصلہ کیا جس پر قوم کے سرداروں نے ایک دوسرے کی ذمہ داری لگائی کہ وہ اپنے اپنے قبیلے کے لوگوں کو ان کے آباؤ اجداد کے عقیدہ پر قائم رکھیں۔ اس پر اس سورۃ مبارکہ کی ابتدا میں پہلے اہل مکہ کو ڈرایا اور پھر سمجھایا کہ تم قوم نوح، عاد، فرعون، ثمود اور اصحاب الایکہ سے بڑھ کر نہیں ہو۔ راہ راست پر آجاؤ ورنہ ان کے انجام کا انتظار کرو۔ اس کے بعد چند انبیائے کرام (علیہ السلام) کی مختلف قسم کی آزمائشوں کا ذکر فرما کر نبی محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دی گئی ہے کہ آپ جس دعوت کو لے کر اٹھے ہیں اس کے راستے میں مشکلات ضرور آیا کرتی ہیں۔ آپ ثابت قدمی کے ساتھ اپنا کام کرتے جائیں کفار اور مشرکین سے کھلے انداز میں کہہ دیں کہ میرا کام تمہیں برے فکر وعمل کے برے انجام سے انتباہ کرنا ہے۔ جسے میں کھلے الفاظ میں سر انجام دے رہا ہوں۔ کان کھول کر سن لوکہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق اور مسائل حل کرنے والا نہیں۔ وہ اپنی ذات اور صفات کے اعتبار سے اکیلا اور قہار ہے۔ جب وہ اپنی قہاریت کا مظاہرہ کرنے پر آئے گا تو کوئی زندہ اور مردہ اس کے سامنے دم نہیں مار سکے گا۔ وہ زمین و آسمانوں اور جو کچھ ان کے درمیان ہے اس کا خالق، مالک، رازق اور بادشاہ ہے۔ وہ ہر اعتبار سے غالب ہونے کے باوجود معاف کرنے والا ہے۔ میں نے تمہیں اللہ کی توحید، اس کے تقاضوں اور قیامت کی ہولناکیوں سے آگاہ کردیا ہے۔ قیامت آنے ہی والی ہے مگر تم اس سے اعراض کیے ہوئے ہو۔ مجھے خبر نہیں کہ ملاء الاعلیٰ کس بات پرجھگڑا کررہے تھے۔ میں آسمان کے بارے میں وہی باتیں جانتا ہوں جو میری طرف وحی کی جاتیں ہیں۔ جن تمہیں کھلے الفاظ میں آگاہ کررہا ہوں۔ (عَنْ عَبْدُ اللَّہِ بْنُ عُمَرَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَطْوِی اللَّہُ عَزَّ وَجَلَّ السَّمَوَاتِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ ثُمَّ یَأْخُذُہُنَّ بِیَدِہِ الْیُمْنَی ثُمَّ یَقُولُ أَنَا الْمَلِکُ أَیْنَ الْجَبَّارُوْنَ أَیْنَ الْمُتَکَبِّرُوْنَ ثُمَّ یَطْوِی الأَرَضِینَ بِشِمَالِہِ ثُمَّ یَقُولُ أَنَا الْمَلِکُ أَیْنَ الْجَبَّارُوْنَ أَیْنَ الْمُتَکَبِّرُوْنَ)[ رواہ مسلم : باب صفۃ القیامۃ والجنۃ والنار] ” حضرت عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ تعالیٰ آسمان کو قیامت کے دن لپیٹ لے گا پھر اس کو دائیں ہاتھ میں پکڑے گا، پھر فرمائے گا میں بادشاہ ہوں۔ کہاں ہیں جابر لوگ ؟ کہاں ہیں تکبر کرنے والے؟ پھر زمین کو بائیں ہاتھ میں لپیٹ کر اعلان کرے میں بادشاہ ہوں کہاں ہیں جابر لوگ؟ اور کہاں ہیں تکبر کرنے والے ؟“ (عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَل (رض) قَالَ احْتُبِسَ عَنَّا رَسُول اللَّہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ذَاتَ غَدَاۃٍ عَنْ صَلاَۃِ الصُّبْحِ حَتَّی کِدْنَا نَتَرَاءَی عَیْنَ الشَّمْسِ فَخَرَجَ سَرِیعًا فَثُوِّبَ بالصَّلاَۃِ فَصَلَّی رَسُول اللَّہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وَتَجَوَّزَ فِی صَلاَتِہِ فَلَمَّا سَلَّمَ دَعَا بِصَوْتِہِ قَالَ لَنَا عَلَی مَصَافِّکُمْ کَمَا أَنْتُمْ ثُمَّ انْفَتَلَ إِلَیْنَا ثُمَّ قَالَ أَمَا إِنِّی سَأُحَدِّثُکُمْ مَا حَبَسَنِی عَنْکُمُ الْغَدَاۃَ إِنِّی قُمْتُ مِنَ اللَّیْلِ فَتَوَضَّأْتُ وَصَلَّیْتُ مَا قُدِّرَ لِی فَنَعَسْتُ فِی صَلاَتِی حَتَّی اسْتَثْقَلْتُ فَإِذَا أَنَا بِرَبِّی تَبَارَکَ وَتَعَالَی فِی أَحْسَنِ صُورَۃٍ فَقَالَ یَا مُحَمَّدُ قُلْتُ لَبَّیْکَ رَبّ قَال فیمَ یَخْتَصِمُ الْمَلأُ الأَعْلَی قُلْتُ لاَ أَدْرِی قَالَہَا ثَلاَثًا قَالَ فَرَأَیْتُہُ وَضَعَ کَفَّہُ بَیْنَ کَتِفَیَّ حَتَّی وَجَدْتُ بَرْدَ أَنَامِلِہِ بَیْنَ ثَدْیَیَّ فَتَجَلَّی لِی کُلُّ شَیْءٍ وَعَرَفْتُ فَقَالَ یَا مُحَمَّد قُلْتُ لَبَّیْکَ رَبِّ قَال فیمَ یَخْتَصِمُ الْمَلأُ الأَعْلَی قُلْتُ فِی الْکَفَّارَاتِ قَالَ مَا ہُنَّ قُلْتُ مَشْیُ الأَقْدَامِ إِلَی الْجَمَاعَاتِ وَالْجُلُوسُ فِی الْمَسَاجِدِ بَعْدَ الصَّلَوَاتِ وَإِسْبَاغُ الْوُضُوءِ فِی الْمَکْرُوہَات قال فیمَ قُلْتُ إِطْعَام الطَّعَامِ وَلِینُ الْکَلاَمِ وَالصَّلاَۃُ باللَّیْلِ وَالنَّاسُ نِیَامٌ قَالَ سَلْ قُلْتُ اللَّہُمَّ إِنِّی أَسْأَلُکَ فِعْلَ الْخَیْرَاتِ وَتَرْکَ الْمُنْکَرَاتِ وَحُبَّ الْمَسَاکِینِ وَأَنْ تَغْفِرَ لِی وَتَرْحَمَنِی وَإِذَا أَرَدْتَ فِتْنَۃَ قَوْمٍ فَتَوَفَّنِی غَیْرَ مَفْتُونٍ أَسْأَلُکَ حُبَّکَ وَحُبَّ مَنْ یُحِبُّکَ وَحُبَّ عَمَلٍ یُقَرِّبُ إِلَی حُبِّکَ قَالَ رَسُول اللَّہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) إِنَّہَا حَقٌّ فَادْرُسُوہَا ثُمَّ تَعَلَّمُوہَا)[ رواہ الترمذی : باب وَمِنْ سُورَۃِ ص] ” حضرت معاذ بن جبل (رض) فرماتے ہیں کہ ایک دن صبح کی نماز کا وقت تھا اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) معمول کے مطابق تشریف نہ لائے۔ قریب تھا کہ سورج طلوع ہوجائے۔ پھر آپ (علیہ السلام) تیزی سے تشریف لائے تکبیر ہوئی اور نماز پڑھائی۔ سلام کے بعد ارشاد فرمایا اپنی جگہ پربیٹھے رہو۔ پھر ہماری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا کہ میں تمہیں دیر سے آنے کی وجہ بتاتا ہوں۔ میں نے آج رات یاد الٰہی میں قیام کیا جتنا مقدور تھا۔ نماز پڑھی پھر مجھے نماز میں ہی اونگھ آگئی۔ یہاں تک کہ مجھے گرانی محسوس ہونے لگی۔ میں کیا دیکھتاہوں کہ میرا رب بڑی پیاری صورت میں تشریف فرما ہے اور ارشاد فرمایا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! میں نے عرض کی۔ اے میرے رب ! میں حاضر ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے پوچھایہ آسمان کے فرشتے کس بات پرجھگڑ رہے ہیں۔ میں نے عرض کی کہ میں نہیں جانتا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی ہتھیلی میرے دونوں کندھوں کے درمیان رکھی۔ میں نے اس کی ٹھنڈک کو اپنے سینے میں محسوس کیا۔ اس کی برکت سے میرے لیے ہر چیز روشن ہوگئی اور میں نے اس کو پہچان لیا۔ دوسری روایت میں ہے کہ جو کچھ آسمانوں اور زمین میں تھا میں نے اسے جان لیا۔ اللہ تعالیٰ نے پھر فرمایا۔ اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! میں نے عرض کی یا رب حاضر ہوں۔ پوچھا آسمان کے فرشتے کس بات پر جھگڑ رہے ہیں۔ میں نے عرض کی درجات اور کفارات کے بارے میں۔ اللہ تعالیٰ نے پوچھا درجات کیا ہیں ؟ میں نے عرض کی کھانا کھلانا، سلام کو عام کرنا اور رات کے وقت جب لوگ سورہے ہوں اٹھ کر نماز پڑھنا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا آپ نے سچ کہا ہے۔ اب بتاؤ ! کفارات کیا ہیں؟ میں نے عرض کی کہ تکلیف کی حالت میں مکمل وضو کرنا، نماز سے فارغ ہونے کے بعد دوسری نماز کا انتظار کرنا اور جماعت میں شریک ہونے کے لیے چل کر جانا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا اے نبی تو نے سچ کہا۔ اب مانگو جو مانگنا چاہتے ہو۔ میں نے عرض کی۔ الٰہی ! میں تجھ سے نیک کام کرنے کی تو فیق اور برے کاموں کو چھوڑنے کی طاقت اور مسکینوں سے محبت کرنے کی توفیق مانگتاہوں۔ میں التجا کرتاہوں کہ تو مجھے بخش دے۔ مجھ پر رحم فرما اور جب اپنے بندوں کو کسی فتنہ میں مبتلا کرنا چاہے تو مجھے فتنہ سے بچا کر اپنی طرف بلا لے۔ اے اللہ ! میں تجھ سے تیری محبت، اور جو تجھ سے محبت کرتا ہے اس کی محبت اور اس عمل کی محبت کا سوال کرتا ہوں جو مجھ کو تیری محبت کے قریب کردے۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ کو فرمایا۔ اس دعا کے الفاظ تم بھی سیکھ لو ! کیونکہ یہ بہت ہی بہتر ہیں۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں وہ ہر اعتبار سے غالب ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ ہی زمین و آسمانوں اور جو کچھ ان کے درمیان ہے ان کا خالق اور مالک ہے ٣۔ اللہ تعالیٰ ہر اعتبار سے غالب ہونے کے باوجود اپنے بندوں کو معاف کرنے والاہے۔ ٤۔ نبی آخر الزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کھلے الفاظ میں لوگوں کو اللہ کی توحید اور قیامت کی ہولناکیوں سے آگاہ فرمایا۔ ٥۔ نبی آخر الزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وہی کچھ جانتے تھے جس کے بارے میں آپ کو وحی کی جاتی تھی۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ ہر اعتبار سے اکیلا اور غالب ہے : ١۔ ” اللہ“ ہی رب ہے۔ ( لانعام : ١٠٢) ٢۔ اللہ تعالیٰ ہر چیز کا خالق ہے۔ ( الرعد : ١٦) ٣۔ اللہ کی ذات ہی ازلی اور ابدی ہے۔ (الحدید : ٣) ٤۔ اللہ ہی مشرق ومغرب کا مالک ہے۔ (البقرۃ: ١٤٢) ٥۔ ” اللہ“ غنی ہے تعریف کیا گیا۔ ( فاطر : ٣٥) ٦۔ زمین و آسمان پر اللہ کی بادشاہی ہے۔ (آل عمران : ١٨٩) ٧۔ قیامت کو بھی ” اللہ“ ہی کی حکومت ہوگی۔ (الفرقان : ٢٦) ٨۔ جو کچھ آسمان و زمین میں ہے وہ اللہ ہی کی ملکیت ہے اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔ (آل عمران : ١٨٩) ٩۔ کیا آپ نہیں جانتے ؟ کہ زمین و آسمان کی بادشاہت اللہ کے لیے ہے۔ (البقرۃ: ١٠٧) ١٠۔ ” اللہ“ سخت عذاب دینے والا۔ ( البقرۃ: ١٦٥) ١١۔ ” اللہ“ توبہ قبول کرنے والا ہے۔ ( النساء : ١٦) ١٢۔ صراط مستقیم کی راہنمائی کرنے والا۔ ( الحج : ٥٤) ١٣۔ ” اللہ“ غیب وحاضر کو جاننے والا ہے۔ ( الحشر : ٢٢) ١٤۔ اللہ تعالیٰ ہی زندہ کرنے والا اور موت دینے والا ہے۔ ( البقرۃ: ٢٥٥) ١٥۔ اللہ تعالیٰ بندوں پر شفقت اور نرمی کرنے والا ہے۔ ( آل عمران : ٣٠) ١٦۔ اللہ ایک ہے اور زبردست طاقت والا ہے۔ ( ص ٦٥) ص
67 ص
68 ص
69 ص
70 ص
71 ص
72 ص
73 ص
74 ص
75 فہم القرآن ربط کلام : نبی کا کام لوگوں کو برے انجام سے ڈرانا ہے جو لوگ برے انجام سے بے خوف ہوں گے ان کا انجام ابلیس جیسا ہوگا۔ نبی آخر الزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کفار اور مشرکین کو بار بار برے انجام سے متنبہ فرمایا مگر وہ لوگ دعوت قبول کرنے کی بجائے مخالفت میں آگے ہی بڑھتے چلے گئے اس پر آدم (علیہ السلام) کے واقعہ کا وہ حصہ انہیں سنایا جارہا ہے جس کے نتیجہ میں ملائکہ اپنے رب کی بارگاہ میں سرخرو ہوئے اور شیطان ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ذلیل ٹھہرا۔ حضرت آدم (علیہ السلام) کا یہ واقعہ قرآن مجید میں کئی مقامات پر بیان ہوا ہے لیکن ہر موقعہ پر جدا گانہ الفاظ اور استدلال پیش کیا گیا ہے۔ تخلیق آدم (علیہ السلام) سے پہلے اللہ تعالیٰ نے ملائکہ سے ارشاد فرمایا کہ میں مٹی سے بشر پیدا کرنے والا ہوں۔ جب اسے بنا کر میں اس میں اپنی روح پھونک دوں تو تم سب نے اس کے سامنے سجدہ کرنا ہے۔ ابلیس کے سوا تمام ملائکہ نے سجدہ کیا۔ اللہ تعالیٰ نے ابلیس سے استفسار فرمایا کہ اے ابلیس ! جسے میں نے اپنے ہاتھوں سے پیدا کیا ہے اسے سجدہ کرنے سے تجھے کس بات نے روکا ہے۔ کیا تو نے تکبر کیا ہے یا اپنے آپ کو بڑا سمجھتا ہے؟ ابلیس نے جواب دیا کہ میں آدم (علیہ السلام) سے بہتر ہوں۔ تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا ہے اور اسے مٹی سے پیدا کیا ہے۔ حکم ہوا کہ تو یہاں سے نکل جا کیونکہ تو راندہ اور دھتکارہ ہوا ہے۔ تجھ پر قیامت تک میری لعنت برستی رہے گی۔ ابلیس نے عرض کی۔ اے میرے رب! مجھے اس دن تک مہلت دے جس دن لوگوں کو اٹھا یا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا۔ تجھے قیامت تک مہلت دی جاتی ہے۔ چاہیے تو یہ تھا کہ ابلیس حضرت آدم (علیہ السلام) اور حوا ( علیہ السلام) کی طرح اپنے رب سے معافی کی درخواست کرتا لیکن اس نے معافی مانگنے کی بجائے اپنی غلطی پر اصرار کیا اور دلیل دی کہ میں آدم سے بہتر ہوں۔ کیوں کہ مجھے آگ سے اور آدم کو مٹی سے پیدا کیا گیا ہے۔ اس پر بس نہیں کی بلکہ کہنے لگا کہ اے میرے رب ! تیری عزت کی قسم ! میری کوشش ہوگی کہ تیرے مخلص بندوں کے سوا سب کو گمراہ کردوں۔ اللہ تعالیٰ نے اس موقعہ پر اور بھی ارشادات فرمائے جن میں ایک ارشاد یہ تھا کہ میرا فرمان سچ اور اٹل ہے جو ہمیشہ سچ ہوا کرتا ہے کہ میں تجھ سے اور تیرے ماننے والوں سے جہنم کو بھردوں گا۔ جہاں تک ابلیس کا یہ کہنا کہ آگ مٹی سے بہتر ہے۔ یہ اس کی غلط بیانی تھی۔ 1 آگ ہر چیز کو بھسم کردینے کے بعد خود بھی ختم ہوجاتی ہے۔ 2 مٹی صدیوں تک چیز کو محفوظ رکھتی ہے اور خود ختم نہیں ہوتی۔ 3 آگ کی تپش کی وجہ سے ہر جاندار اس سے دور بھاگتا ہے۔ 4 زمین میں اپنانیت ہے اور ہر جاندار اس پر قیام کرتا ہے اور اس کی ان گنت ضروریات زمین سے وابستہ ہیں۔ 5 آگ کی خاصیت تیزی اور تلخی ہے۔ 6 زمین میں ٹھہراؤ اور برداشت ہے۔ 7 آگ سے تپش کے سوا کوئی چیز نہیں نکلتی 8 زمین میں پانی ہے اور ہر چیز اس سے پیدا ہوتی ہے۔ علیٰ ھٰذا القیاس مٹی ہر اعتبار سے آگ سے بہتر ہے کیونکہ شیطان نے آدم (علیہ السلام) کو سجدہ کرنے سے انکار اور تکبر کیا۔ تکبر اور غرور میں خیر کی بجائے شر ہوتا ہے۔ جس وجہ سے ابلیس ذات کبریا سے معافی مانگنے کی بجائے گستاخی پر گستاخی کرتے ہوئے آدم (علیہ السلام) کے ساتھ دشمنی میں آگے ہی بڑھتا گیا جس وجہ سے قیامت اور قیامت کے بعد تک اس پر لعنتیں برستی رہیں گی۔ لعنت کا معنٰی اللہ کی رحمت سے دور ہونا ہے۔ (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَمْرٍو (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لَایُؤْمِنُ أَحَدُکُمْ حَتّٰی یَکُوْنَ ھَوَاہُ تَبْعًا لِّمَا جِءْتُ بِہٖ) [ مشکوٰۃ: باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ] ” حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : آدمی جب تک اپنی خواہشات میری لائی ہوئی شریعت کے تابع نہ کردے تب تک وہ ایمان والا نہیں ہوسکتا۔“ مسائل ١۔ ابلیس نے تکبر کی وجہ سے آدم (علیہ السلام) کو سجدہ کرنے سے انکار کیا۔ ٢۔ ابلیس نے ذات کبریا سے معافی مانگنے کی بجائے گستاخی پر گستاخی کی۔ ٣۔ ابلیس نے اپنے رب سے مہلت مانگی تو اسے قیامت تک مہلت دے دی گئی۔ ٤۔ ابلیس نے اقرار کیا کہ میں اللہ کے مخلص بندوں کو گمراہ نہیں کرسکوں گا۔ ٥۔ قیامت کے دن ابلیس اور اس کے پیچھے چلنے والوں کو جہنم میں جھونکا جائے گا۔ تفسیر بالقرآن ابلیس کی آدم (علیہ السلام) سے دشمنی اور اس کی گستاخیاں : ١۔ جب ہم نے فرشتوں کو حکم دیا آدم کو سجدہ کرو تو ابلیس اس سے انکاری ہوا۔ (بنی اسرائیل : ٦١) ٢۔ تمام فرشتوں نے سجدہ کیا مگر ابلیس نے انکار کیا۔ (الحجر : ٣٠۔ ٣١) ٣۔ ابلیس کہنے لگا کیا میں اسے سجدہ کروں جسے تو نے مٹی سے پیدا کیا ہے۔ (بنی اسرائیل : ٦١) ٤۔ ابلیس نے کہا میں اس سے بہتر ہوں تو نے مجھے آگ سے اور اسے مٹی سے پیدا کیا۔ (الاعراف : ١٢) ٥۔ اگر تو مجھے قیامت تک مہلت دے تو میں تھوڑے لوگوں کے علاوہ اس کی اولاد کی جڑ کاٹتا رہوں گا۔ (بنی اسرائیل : ٦٢) ٦۔ شیطان نے کہا تو نے مجھے اس کی وجہ سے گمراہ کیا ہے میں بھی ان کے راستے میں بیٹھوں گا۔ (الاعراف : ١٦) ٧۔ میں اسے آگے پیچھے، دائیں بائیں سے گمراہ کروں گا۔ (الاعراف : ١٧) ٨۔ یقیناً شیطان تمہارا دشمن ہے اسے اپنا دشمن ہی سمجھو شیطان اور اس کا گروہ چاہتا ہے کہ تم جہنمی بن جاؤ۔ ( فاطر : ٦) ص
76 ص
77 ص
78 ص
79 ص
80 ص
81 ص
82 ص
83 ص
84 ص
85 ص
86 فہم القرآن ربط کلام : ابلیس اور اس کے ساتھیوں کا انجام ذکر کرنے کے بعد ایک دفعہ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان سے کہلوایا گیا کہ یہ قرآن مجید دنیا والوں کے لیے نصیحت ہے جو اسے تسلیم نہیں کرے گا۔ ایک وقت کے بعد اسے خود ہی اپنے انجام کی خبر ہوجائے گی۔ لہٰذا میں نے ” لِوَجْہِ اللّٰہِ“ تمہیں اس سے آگاہ کردیا ہے۔ اس خطاب کا آغاز آیت ٦٥ سے ہوا جس میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم ہوا کہ آپ اعلان کرتے جائیں کہ اللہ کے سوا کوئی قیام، رکوع، سجود اور ہر قسم کی بندگی کے لائق نہیں۔ وہی نعمتیں عطا کرنے والا اور بگڑی بنانے والا ہے۔ وہ اپنی ذات اور صفات کے حوالے سے اکیلا اور ہر اعتبار سے غالب ہے۔ سورۃ صٓ اور اس کے آخری حصہ کا اختتام اس فرمان پر ہو رہا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ بھی اعلان کرتے رہیں کہ تم میری مخالفت کرو یا موافقت۔ اس دعوت اور محنت کے بدلے میں تم سے کسی ستائش اور مفاد کا طلب گار نہیں ہوں اور نہ ہی کوئی بات اپنی طرف سے کہتاہوں اور نہ میں تصنع اور تکلف کرتا ہوں جس دعوت کی تم مخالفت کررہے ہو یہ تو لوگوں کے لیے نصیحت ہے۔ اگر تم اسی طرح ہی مخالفت کرتے رہے تو تمہیں ایک مدت کے بعد اس کے انجام کا علم ہوجائے گا۔ یہ وقت تمہاری زندگی میں بھی آسکتا ہے۔ البتہ موت کے بعد یقیناً تم اس کے انجام سے پوری طرح آگاہ ہوجاؤگے۔ (عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ مَسْعُوْدِ الْعَبَدِیِ قَالَ سَمِعْتُ سَلَمَانَ الْفَارَسِیَ (رض) یَقُوْلُ نَہَانَا رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) أَنْ نَتَکَلَّفَ للضَّیْفِ)[ رواہ الحاکم فی المستدرک وہو حدیث صحیح ] ” حضرت عبدالرحمن بن مسعود العبدی کہتے ہیں کہ میں نے سلمان فارسی (رض) کو فرماتے ہوئے سنا کہ ہمیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مہمانوں کے لیے تکلف کرنے سے منع کیا تھا۔“ (عَنْ أَنَسٍ (رض) قَالَ کُنَّا عِنْدَ عُمَرَ (رض) فَقَالَ نُہِیْنَا عَنِ التَّکَلُّفِ)[ رواہ البخاری : کتاب الاعتصام] ” حضرت انس (رض) کہتے ہیں کہ ہم حضرت عمر (رض) کے پاس تھے تو انہوں نے کہا کہ ہم تکلف کرنے سے منع کیے گئے تھے۔“ یعنی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صحابہ کو تکلف کرنے سے منع کرتے تھے۔ (عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ (رض) قَالَ فَانْظُرِ السَّجْعَ مِنَ الدُّعَآءِ فَاجْتَنِبْہُ، فَإِنِّی عَہِدْتُ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وَأَصْحَابَہٗ لاَ یَفْعَلُوْنَ إِلاَّ ذٰلِکَ یَعْنِی لاَ یَفْعَلُونَ إِلاَّ ذٰلِکَ الاِجْتِنَابَ )[ رواہ البخاری کتاب الدعوات، باب مَا یُکْرَہُ مِنَ السَّجْعِ فِی الدُّعَآءِ ] ” حضرت عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ دعا میں قافیہ بندی سے بچو۔ کیونکہ میں ایک عرصہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے صحابہ کے ساتھ رہا ہوں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ (رض) دعا میں تکلف اور قافیہ بندی نہیں کرتے تھے۔“ مسائل ١۔ نبی آخر الزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کسی سے کسی قسم کا مفاد طلب نہیں کرتے تھے۔ ٢۔ نبی محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کوئی بات اپنی طرف سے کرنے والے نہ تھے۔ ٣۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تکلف پسند نہیں کرتے تھے۔ ٤۔ قرآن مجید لوگوں کے لیے نصیحت ہے۔ ٥۔ قرآن اور اس کی دعوت کا انکار کرنے والوں کو اپنے انجام کا علم ہوجائے گا۔ تفسیر بالقرآن دنیا اور آخرت میں مجرمین کا اعتراف حقیقت کرنا : ١۔ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ جہنمیوں سے فرمائے گا کیا آج کا عذاب برحق نہیں وہ کہیں گے کیوں نہیں۔ (الاحقاف : ٣٤) ٢۔ جہنمی کی خواہش ہوگی کہ مجھے دنیا میں واپس بھیج دیا جائے۔ (الانعام : ٢٧ تا ٢٨) ٣۔ اے رب ہمارے! ہمیں یہاں سے نکال ہم پہلے سے نیک عمل کریں گے۔ (فاطر : ٣٧) ٤۔ اے رب ہمارے! ہم کو یہاں سے نکال اگر دوبارہ ایسا کریں تو بڑے ظالم ہوں گے۔ (المؤمنون : ١٠٧) ٥۔ جہنمیوں سے ملائکہ کا خطاب۔ (الزمر : ٧١، ٧٢) ٦۔ جہنمیوں سے جنتیوں کے سوالات اور جہنمی اپنے گناہوں کا اقرار کریں گے۔ (المدثر : ٤٠ تا ٤٨) ٧۔ جہنمیوں سے اللہ تعالیٰ کا سوال۔ (الصّٰفٰت : ٥) ٨۔ جہنمیوں کی باہم گفتگو۔ (الصّٰفّٰت : ٢٧ تا ٣٣) ص
87 ص
88 ص
0 سورۃ الزّمر کا تعارف سورۃ الزّمر مکہ اور اس کے گردوپیش میں نازل ہوئی۔ یہ سورۃ آٹھ رکوع اور پچھتر آیات پر محیط ہے۔ ربط سورۃ: سورۃ صٓ کا اختتام اس ارشاد پر ہوا کہ لوگوں کے لیے قرآن مجید ایک نصیحت ہے جو اس نصیحت کا انکار کرتا ہے اسے اپنے انجام کا بہت جلد پتہ چل جائے گا۔ الزّمر کا آغاز اس فرمان سے ہو رہا ہے کہ یہ ذکر ” اللہ“ غالب حکمت والے کی طرف سے نازل کیا گیا ہے اس کا پہلا پیغام اور فرمان یہ ہے کہ ایک ” اللہ“ کی عبادت کرو کہ جس طرح اس نے اپنی عبادت کرنے کا حکم دیا ہے۔ جو لوگ اس فرمان کے ساتھ اختلاف اور تکرار کرتے ہیں وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک کذاب اور ناشکرے ہیں ایسے لوگوں کو اللہ تعالیٰ ہدایت نہیں دیا کرتا۔ جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ ہدایت نہیں دیتا ان میں سرفہرست وہ لوگ ہیں جو اس بات پر اسرار کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ملائکہ کو اپنی اولاد بنا رکھا ہے۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ کو اولاد کی خواہش اور ضرورت نہیں۔ اولاد کی ضرورت اس لیے پیش آتی ہے کہ وہ کمزوری اور مجبوری کے عالم میں ماں باپ کا سہارا ثابت ہو اللہ تعالیٰ ایسی خواہش اور ہر قسم کی کمزوری سے پاک ہے کیونکہ زمین و آسمان کی ہر چیز اس کی ملک اور تابع فرمان ہے اس وضاحت کے باوجود جو لوگ اللہ تعالیٰ کی بات نہیں مانتے اور اس کی خالص عبادت نہیں کرتے وہ اور اس عقیدہ کی حامل ان کی اولاد قیامت کے دن نقصان پائیں گے۔ ان کے اوپر نیچے آگ ہوگی اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو اس آگ سے ڈراتا ہے تاکہ وہ جہنم کی آگ سے بچ جائیں۔ لیکن مشرک کی حالت یہ ہے کہ جب اس کے سامنے اللہ وحدہ لاشریک کا تذکرہ کیا جاتا ہے۔ تو وہ منہ بسورتا اور ناراض ہوتا ہے۔ جب غیر اللہ کا تذکرہ کیا جاتا ہے تو خوش ہوجاتا ہے حالانکہ ” اللہ“ ہی زمین و آسمانوں کو پیدا کرنے والا ہے اور وہی رزق میں کمی، بیشی کرنے کا اختیار رکھتا ہے۔ کفار کے کفر اور مشرکوں کے شرک کے باوجود اس کا فرمان ہے کہ اے پیغمبر جن لوگوں نے کفرو شرک اور اپنے رب کی نافرمانیوں کا ارتکاب کر کے اپنے آپ پر ظلم کیا ہے انہیں کھلے الفاظ میں فرمائیں کہ لوگو! تمہارے رب کا ارشاد ہے کہ میری رحمت سے مایوس نہیں ہونا کیونکہ میں سب گناہوں کو معاف کرنے والا مہربان ہوں لہٰذا ہر حال میں میری طرف رجوع کرو اور عذاب سے پہلے میرے تابع فرمان ہوجاؤ۔ جب میرا عذاب نازل ہوتا ہے تو کوئی کسی کی مدد نہیں کرسکتا۔ اے حبیب (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان سے یہ بھی ارشاد فرمائیں کہ کیا میں اللہ کو چھوڑ کر غیروں کی عبادت کروں حالانکہ اس نے مجھ پر اور مجھ سے پہلے تمام انبیائے کرام (علیہ السلام) پر وحی بھیجی کہ اگر کسی نبی نے شرک کیا تو اس کے اعمال ضائع کر دئیے جائیں گے اور وہ ہمیشہ کے لیے نقصان پانے والوں میں سے ہوگا۔ جو لوگ شرک کرتے ہیں حقیقت یہ ہے انہوں نے اللہ تعالیٰ کی اس طرح قدر نہیں کی جس طرح اس کی قدر کرنے کا حق ہے۔ اس کی قدرت کا عالم یہ ہے کہ قیامت کے دن زمین و آسمان اس کے دائیں ہاتھ میں ہوں گے اور کوئی اس کے سامنے بولنے اور دم مارنے کی جرأت نہیں کرے گا۔ اس دن تیرے رب کے جمال سے زمین منور ہوجائے گی اور لوگوں کے اعمال نامے ان کے سامنے رکھ دئیے جائیں گے۔ انبیائے کرام (علیہ السلام) کو گواہ کے طور پر بلایا جائے گا اور پورے عدل وانصاف کے ساتھ لوگوں کے درمیان فیصلے کر دئیے جائیں گے اور کسی پر ذرہ برابر ظلم نہیں ہو پائے گا۔ جہنمی جہنم کی طرف گروہ در گروہ جائیں گے جونہی جہنم کے قریب پہنچیں گے تو ان کے لیے جہنم کے دروازے کھول دیے جائیں گے اور جہنم کے ملائکہ ان سے استفسار کریں گے کیا تمہارے پاس انبیاء کرام (علیہ السلام) تشریف نہیں لائے تھے جو تمہیں تمہارے رب کے فرامین پڑھ کر سناتے اور اس دن کی ہولناکیوں سے آگاہ کرتے؟ جہنمی اقرار کریں گے کیوں نہیں ہمارے پاس انبیاء کرام تشریف لائے اور انہوں نے ہمیں بار بار سمجھایا لیکن ہم اپنے کفر و شرک پر قائم رہے۔ جہنمیوں کا جواب سن کر ملائکہ کہیں گے تو پھر جہنم میں داخل ہوجاؤ جس میں تم نے ہمیشہ رہنا ہے اور متکبرین کے لیے رہنے کی یہ بدترین جگہ ہے۔ ان کے مقابلے میں جنتیوں کو ارشاد ہوگا کہ تم جنت میں داخل ہوجاؤ۔ جونہی جنتی جنت کے دروازوں کے سامنے پہنچیں گے تو ملائکہ جنت کے دروازے کھولتے ہوئے جنتیوں کو سلام کریں گے اور ان سے درخواست کریں گے کہ جنت میں داخل ہوجائیں۔ یہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے آپ کو عنایت کردی گئی ہے۔ جنتی اس پر اللہ کا شکر ادا کریں گے اس فیصلے کے بعد عدالت کبریٰ ختم کردی جائے گی اور سب پکار اٹھیں گے ہر قسم کی تعریف رب العالمین کے لیے ہے۔ الزمر
1 فہم القرآن سورۃ صٓ کے آخر میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہلوایا گیا کہ نبوت کے کام کے بدلے نہ میں تم سے کسی قسم کی طالب ہوں اور نہ میں تکلّف کرنے والا ہوں۔ جو کچھ تمہارے سامنے بیان کررہاہوں وہ رب العالمین کی طرف سے ایک نصیحت ہے۔ جو اس نصیحت کو تسلیم نہیں کرے گا وہ ایک وقت کے بعد خود اس کا انجام دیکھ لے گا۔ سورۃ الزمر کا آغاز اس فرمان سے ہو رہا ہے کہ جو برے انجام سے بچنا چاہتا ہے اس کے لیے پیغام یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی عبادت اس طرح کرے جس طرح اسے کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ قرآن مجید کو اس ” اللہ“ نے نازل کیا ہے جو ہر اعتبار سے اپنی مخلوق پر غالب اور زبردست ہے۔ غالب اور زبردست ہونے کے باوجود اس کے ہر حکم اور کام میں حکمت پائی جاتی ہے۔ اے حبیب (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ہم ہی نے آپ کی طرف قرآن مجید کو حق اور سچ کے ساتھ نازل فرمایا ہے جس کا پہلا حکم یہ ہے کہ صرف ایک اللہ کی عبادت کرو اور اسی کی فرمانبرداری کرتے رہو ! اہل مکہ کو بارہا دفعہ یہ بات بتلائی گئی کہ یہ قرآن اللہ تعالیٰ نے ہی اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل فرمایا ہے اس کے باوجود مکہ والے قرآن کو من جانب اللہ ماننے کے لیے تیا نہ تھے۔ حالانکہ انہیں مختلف الفاظ میں کئی مرتبہ چیلنج دیا گیا کہ اگر تم قرآن کے بارے میں یہ سمجھتے ہو کہ یہ نبی یا کسی شخص کا بنایا ہوا ہے تو پھر تمہیں موقع دیا جاتا ہے کہ تم بھی اس جیسا قرآن بنا کرلے آؤ۔ تمہیں یہاں تک سہولت دی جاتی ہے کہ قرآن مجید کی کسی ایک سورت جیسی کوئی سورت بنا لاؤ۔ کفار اس چیلنج کا جواب دینے میں زندگی بھر ناکام رہے۔ مگر اس کے باوجود قرآن مجید کے من جانب اللہ ہونے کا انکار کرتے رہے۔ نہ صرف انکار کرتے تھے بلکہ قرآن مجید کے خلاف مسلسل پروپیگنڈہ کرتے تھے کہ یہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اپنی اختراع ہے۔ ان کے مسلسل پروپیگنڈہ کی تردید میں قرآن مجید نے یہ اسلوب اپنایا کہ موقع محل کے مطابق کھلے الفاظ میں یا بین السطور یہ وضاحت کی جاتی ہے کہ یہ قرآن صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کیا گیا ہے جو ہر اعتبار سے اپنی مخلوق پر غالب ہے۔ وہ چاہے تو لوگوں کو اپنی قوت و سطوت کے ذریعے اسے تسلیم کروا سکتا ہے لیکن اس نے اپنی حکمت کاملہ کے تحت لوگوں کو اختیار دیا ہے کہ وہ اسے تسلیم کریں یا اس کا انکار کرتے رہیں۔ قرآن مجید کا پہلا پیغام اور حکم یہ ہے کہ صرف ” اللہ“ کی تابعداری کرتے ہوئے اسی ایک کی عبادت کی جائے۔ یہی پہلی اور بڑی حکمت ہے۔ عبادت کے اس تصور کا وسیع تر تخیل یہ ہے کہ آدمی منڈی اور بازار میں ہو تو امانت و دیانت کا نمونہ بن جائے، کسی کے ہاں مزدور اور خدمت گزار ہو تو وفاداری کا پیکر ہوجائے، حکمران ہو یا کوئی ذمہ داری اٹھائے تو قوم کا خادم اور مالک حقیقی کا غلام بن کر رہے۔ غرضیکہ زندگی کا ایک ایک لمحہ اور شعبہ رب کی غلامی اور سرافگندگی کے لیے وقف کرنے کا نام عبادت ہے۔ یہی انسان کی تخلیق کا مقصد اور اسی کے لیے انسان کا ہر عمل وقف ہونا چاہیے۔ انبیائے عظام اپنی دعوت کا آغاز اسی سے کیا کرتے تھے۔ اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہی بات کہلوائی گئی ہے۔ (قُلْ اِنَّ صَلَاتِیْ وَ نُسُکِیْ وَ مَحْیَایَ وَ مَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَ بِذٰلِکَ اُمِرْتُ وَ اَنَا اَوَّلُ الْمُسْلِمِیْنَ) [ الانعام : ١٦٢ تا ١٦٣] ” کہہ دیجیے! یقیناً میری نماز‘ میری قربانی‘ میری زندگی اور میری موت اللہ رب العالمین کے لیے ہے‘ اس کا کوئی شریک نہیں اسی بات کا مجھے حکم دیا گیا ہے اور میں سب سے پہلے ماننے والا ہوں۔“ الدّین کا مفہوم : دین اسلام اپنے نام اور نظام کے اعتبار سے کامل اور اکمل ہے دین کے لفظی معانی ہیں تابع دار ہونا، دوسرے کو اپنا تابع دار بنانا۔ مکمل اخلاص اور یکسوئی کا اظہار کرنا، قانون، مکمل ضابطۂ حیات، جزا وسزا اور قیامت کے دن کے لیے بھی الدّین بولا جاتا ہے۔ (مزید تفصیل جاننے کے لیے درج ذیل تفسیربالقرآن آیات کی تفسیر ملاحظہ فرمائیں) تفسیر بالقرآن ” اَلدِّیْنَ“ کے معانی : ١۔ دین سے مراد قیامت کا دن ہے۔ ( الفاتحۃ: ٣) ٢۔ دین کا معنٰی شریعت ہے۔ (النساء : ١٢٥) ٥۔ قانون : (یوسف : ٧٦) ٣۔ اطاعت اور بندگی۔ (الزّمر : ١١) ٤۔ شریعت : (یونس : ١٠٤)۔ حکمرانی : (المومن : ٥٦) ٧۔ جزاء وسزا (بدلہ): (الذّ اریا ت : ٦ ) الزمر
2 الزمر
3 فہم القرآن ربط کلام : الدّین کی بنیادی دعوت اور اس کا پہلا نقطہ۔ عبادت بھی خالص اور تابعداری بھی خالص : ارشاد ہوا کہ اللہ کی عبادت بھی خالص کرنی ہے اور تابعداری بھی خالصتاً“ اللہ“ ہی کی ہونی چاہیے۔ عبادت کی تین بڑی اقسام ہیں۔ ” اَلتَّحَیَاتُ لِلّٰہِ وَالصَّلَوٰاتُ وَالطَّیِّبَاتُ“” زبانی، بدنی اور مالی عبادتیں اللہ ہی کے لیے ہیں۔“ 1 زبانی عبادت کا مفہوم : زبان سے جو بات بھی نکالی جائے وہ اللہ کے حکم کے مطابق اور اس کی رضا کے لیے ہونی چاہیے۔ (عَنْ حُذَیْفَۃَ عَنِ النَّبِیّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ لاَ تَقُولُوا مَا شَاء اللَّہُ وَشَاءَ فُلاَنٌ وَلَکِنْ قُولُوا مَا شَاء اللَّہُ ثُمَّ شَاءَ فُلاَنٌ)[ رواہ ابوداود : باب لاَ یُقَالُ خَبُثَتْ نَفْسِی] ” حضرت حذیفہ (رض) نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا تم یہ نہ کہو کہ جو اللہ چاہے اور فلاں چاہے بلکہ کہو جو اللہ چاہے پھر جو فلاں چاہے۔“ 2 بدنی عبادات : بدنی عبادات میں نماز، روزہ، حج اور لوگوں کی خدمت کرنا شامل ہے۔ بشرطیکہ اس میں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی شامل نہ ہو۔ کیونکہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے۔ (عِنِ النَّوَاسِ بْنِ سَمْعَانَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لَا طَاعَۃَ لِمَخْلُوْقٍ فِیْ مَعْصِیَۃِ الْخَالِقِ رواہ فی شرح السنۃ)[ مشکوۃ المصابیح : باب کتاب الامارۃ والقضاء] ” حضرت نواس بن سمعان (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا مخلوق کی اطاعت میں اللہ کی نافرمانی جائز نہیں۔“ 3 مالی عبادات : ” تَشٰھُدْ“ میں مالی عبادت کو ” الطَّیِّبَاتُ“ کہا گیا ہے۔ اس کی پہلی شرط یہ ہے کہ مال پاک ہو اور حلال طریقہ سے کمایا گیا ہو۔ دوسری شرط یہ ہے کہ صدقہ کرتے وقت صرف اللہ کی رضا مطلوب ہو۔ خرچ کرنے کا طریقہ اور مقام بھی شریعت کے مطابق ہونا چاہیے۔ (عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) أَیُّھَاالنَّاسُ إِنَّ اللّٰہَ طَیِّبٌ لَایَقْبَلُ إِلَّا طَیِّبًا وَإِنَّ اللّٰہَ أَمَرَ الْمُؤْمِنِیْنَ بِمَا أَمَرَ بِہِ الْمُرْسَلِیْنَ فَقَالَ (یَاأَیُّھَا الرُّسُلُ کُلُوْامِنَ الطَّیِّبٰتِ وَاعْمَلُوْا صَالِحًا إِنِّیْ بِمَا تَعْمَلُوْنَ عَلِیْمٌ) وَقَالَ (یَا أَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُلُوْا مِنْ طَیِّبٰتِ مَارَزَقْنٰکُمْ) [ رواہ مسلم : کتاب الزکوٰۃ ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : لوگو ! اللہ پاک ہے ا ورپاک چیز ہی قبول کرتا ہے۔ اللہ نے مومنوں کو وہی حکم دیا ہے جو رسولوں کو حکم دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : اے رسولو! حلال چیزیں کھاؤ اور نیک عمل کرو جو کچھ تم کرتے ہو میں اسے جانتا ہوں اور فرمایا : اے مومنو! ہم نے جو تمہیں دیا ہے اس میں سے حلال کھاؤ۔“ شرکیہ مقام پر صدقہ کرنے سے بچنا چاہیے : (حَدَّثَنِیْ ثَابِتُ بْنُ الضَّحَاکِ (رض) قَالَ نذَرَ رَجُلٌ عَلٰی عَھْدِ رَسُوْلِ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) أَنْ یَنْحَرَ إِبِلًا بِبُوَانَۃَ فَأَتَیالنَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَقَالَ إِنِّیْ نَذَرْتُ أَنْ أَنْحَرَ إِبِلًا بِبُوَانَۃَ فَقَال النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ھَلْ کَانَ فِیْھَا وَثَنٌ مِنْ أَوْثَانِ الْجَاھِلِیَّۃِ یُعْبَدُ قَالُوْا لَا قَالَ ھَلْ کَانَ فِیْھَا عِیْدٌ مِنْ أَعْیَادِھِمْ قَالُوْا لَا قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) أَوْفِ بِنَذْرِکَ فَإِنَّہٗ لَاوَفَاءَ لِنَذْرٍ فِیْ مَعْصِیَۃِ اللّٰہِ وَلَا فِیْمَا لَا یَمْلِکُ ابْنُ آدَمَ) [ رواہ أبوداوٗد : باب مایؤمربہ من وفاء النذر] ” مجھے ثابت بن ضحاک (رض) نے بتایا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دور میں ایک آدمی نے بوانہ نامی جگہ پر اونٹ ذبح کرنے کی نذر مانی۔ اس نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آکر عرض کی میں نے نذر مانی ہے کہ میں بوانہ کے مقام پر اونٹ ذبح کروں گا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : کیا وہاں جاہلیت کے بتوں میں سے کوئی بت تھا جس کی عبادت کی جاتی تھی؟ صحابہ نے عرض کی نہیں۔ آپ نے پوچھا : کیا وہاں کوئی ان کا میلہ لگتا تھا؟ صحابہ نے نفی میں جواب دیا تو آپ نے فرمایا : اپنی نذر پوری کرو کیونکہ اللہ کی نافرمانی والی نذر پوری نہیں کرنا چاہیے اور نہ ہی وہ نذر پوری کرنالازم ہے جس کی انسان طاقت نہیں رکھتا۔“ مسافر مکھی نذرانہ کرنے کی وجہ سے جہنم رسید ہوا : (عَنْ طَارِقِ بْنِ شَہَابٍ (رض) أنَّ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ دَخَلَ الْجَنَّۃَ رَجُلٌ فِیْ ذُبَابٍ، وَدَخَلَ النَّارَ رَجُلٌ فِیْ ذُبَابٍ قَالُوْا وَکَیْفَ ذٰلِکَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ؟ قَالَ مَرَّ رَجُلَانِ عَلٰی قَوْمٍ لَہُمْ صَنَمٌ لَا یَجُوْزُہٗ أحَدٌ حَتّٰی یُقَرِّبَ لَہٗ شَیْءًا، فَقَالُوْا لأحَدِہِمَا قَرِّبْ، قَالَ لَیْسَ عِنْدِیْ شَیْءٌ أُقَرِّبُ، قَالُوْا لَہٗ قَرِّبْ وَلَوْ ذُبَابًا، فَقَرَّبَ ذُبَابًا فَخَلُّوْا سَبِیْلَہٗ، فَدَخَلَ النَّارَوَقَالُوْا للآخَرِقَرِّبْ، قَالَ مَا کُنْتُ لأُقَرِّبَ لأَحَدٍ شَیْءًا دُوْنَ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ، فَضَرَبُوْا عُنَقَہٗ، فَدَخَلَ الْجَنَّۃَ )[ رواہ أحمد : مسند طارق بن شہاب ] ” حضرت طارق بن شہاب (رض) بیان کرتے ہیں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ایک آدمی مکھی کا نذرانے کی وجہ سے جنت میں داخل ہوگیا اور دوسر امکھی کے نذرانہ کی وجہ سے جہنم میں چلا گیا۔ صحابہ (رض) نے عرض کی اللہ کے رسول ! وہ کس طرح ؟ آپ نے فرمایا دو آدمی ایک بت پرست قوم کے پاس سے گزرے جو بتوں کے نام نذرانہ دیے بغیر گزرنے نہیں دیتے تھے۔ انھوں نے ان دونوں میں سے ایک کو کہا کوئی نذرانہ پیش کرو۔ اس نے کہا میرے پاس نذرانے کے لیے کچھ نہیں۔ انہوں نے کہا ایک مکھی ہی نذرانہ دے دو۔ اس نے ایک مکھی کا نذرانہ دے دیا۔ اس پر انہوں نے اس کا راستہ چھوڑ دیا اس وجہ سے وہ جہنم میں داخل ہوا۔ انہوں نے دوسرے سے بھی نذرانہ دینے کے لیے کہا۔ اس نے جواب دیا میں اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کے لیے نذرانہ نہیں دوں گا۔ انہوں نے اس کی گردن اڑا دی تو وہ جنت میں داخل ہوا۔“ مشرک ” اللہ“ کے حکم کو نہیں مانتا : ہر دور کے مشرک کی یہ عادت اور عبادت رہی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی خالص عبادت اور اس کے حکم کے مطابق کرنے کی بجائے اپنی مرضی سے کرتا اور دوسروں کو اس میں شریک کرتا ہے۔ بے شمار کلمہ پڑھنے والے مشرک اللہ تعالیٰ کے سامنے بھی قیام، رکوع اور سجدے کرتے ہیں اور اپنے اپنے عقیدہ اور طریقہ کے مطابق دوسروں کے سامنے بھی قیام، رکوع اور سجدے کرتے ہیں۔ مسجدوں، مدرسوں اور غریبوں پر صدقے کرتے ہیں اور مزارات پر بھی خیرات کرتے ہیں۔ کافر قبروں، بتوں، چاند، سورج اور بیشمار چیزوں کے سامنے بھی قیام، رکوع اور سجدے کرتے ہیں اور بت خانوں پر خرچ بھی کرتے ہیں۔ مشرکین کے دو گروہ : مشرکین کے ہمیشہ سے دو گروہ رہے ہیں۔ جو کسی نبی کا کلمہ نہیں پڑھتے ان کا عقیدہ ہے کہ چاند، سورج اور ستارے ” اللہ“ کی قدرت کا مظہر ہیں۔ لہٰذا ان کے ذریعے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ہوتا ہے۔ اس لیے ان کی حرمت اور واسطے سے اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنا زیادہ ثواب اور اقرب سمجھتے ہیں۔ جو لوگ کسی نہ کسی نبی کا کلمہ پڑھنے والے ہیں ان کا عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بزرگوں کی عبادت سے خوش ہو کر انہیں اپنی خدائی میں کچھ اختیارات تفویض کر رکھے ہیں جس کی وجہ سے ہم ان کی روحوں کے وسیلے اور حرمت سے مانگتے ہیں۔ یہی بات بت پرست کہتے ہیں کہ ہم بتوں کی عبادت نہیں کرتے بلکہ بت کے تصور سے ” اللہ“ کی عبادت کرنے میں یکسوئی پیدا ہوتی ہے یہی ان لوگوں کا عقیدہ اور طریقہ ہے جو تصور شیخ کے قائل اور فاعل ہیں۔ اس بارے میں بے شمار لوگوں کا عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہماری سنتا نہیں اور ان کی ردّ نہیں کرتا۔ قرآن مجید اس مقام پر اسی عقیدہ کی نفی کررہا ہے کہ جب ان لوگوں کو بلاواسطہ صرف ایک اللہ کی عبادت کرنے کے لیے کہا جاتا ہے تو یہ کہتے ہیں کہ ہم ان کی عبادت نہیں کرتے۔ ہم تو انہیں صرف وسیلہ بناتے ہیں کیونکہ یہ ہمیں اللہ کے قریب کردیتے ہیں۔ پھر زندہ اور مردہ بزرگوں کے بارے میں من گھڑت کرامتیں بناتے اور سناتے ہیں۔ ایسا عقیدہ اور طریقہ اختیار کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ ہدایت نہیں دیتا کیونکہ یہ لوگ اپنے عقیدہ، طریقہ اور پروپیگنڈہ میں جھوٹے اور اللہ تعالیٰ کے ناشکرے ہیں۔ قیامت کے دن ان کے اختلافات کا ٹھیک ٹھیک فیصلہ کردیا جائے گا۔ مشرک کو ہدایت اس لیے حاصل نہیں ہوتی کیونکہ یہ شرک کو دین سمجھتا ہے اور اس پر اصرار اور تکرار کرتا ہے۔ مشرک کیوں جھوٹے ہیں : 1 اللہ کا فرمان ہے کہ میں نے اپنی خدائی میں کسی کو شریک نہیں کیا۔2 مشرک کہتے ہیں کہ اللہ نے زندہ اور فوت شدہ بزرگوں کو اختیار ات دے رکھے ہیں۔3 اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ صرف میری ہی عبادت کرو اور مجھ ہی سے مانگو۔4 مشرک نہ اللہ کی خالص عبادت کرتا ہے اور نہ ہی اس کے بتلائے ہوئے طریقہ کے مطابق اس سے مانگتا ہے۔ 5 اللہ تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا اور اپنے سامنے جھکنے اور صرف اپنی ذات سے مانگنے کا حکم دیا ہے۔6 مشرک ناشکرا ہوتا ہے اس لیے اللہ کا شکر گزار ہونے اور صرف اس سے مانگنے کی بجائے در در کی ٹھوکریں کھاتا پھرتا ہے۔ اس اعتبار سے توحید شکر ہے اور شرک ناشکری ہے۔ توحید سچائی ہے اور شرک کذب بیانی ہے۔ وسیلے کے نقصانات : خالق و مخلوق کے درمیان وسیلے اور حرمت کے حوالے سے عیسائیوں کو گمراہ کرنے کے لیے پوپ نے یہ تصور دیا۔ کہ اللہ تعالیٰ تک پہنچنے کے لیے واسطہ کی ضرورت ہے اسی نظریے کی بدولت پادری نے جائیدادیں بنائیں لوگوں کی عزتوں پر ڈاکے ڈالے اور انسان پر انسان کی خدائی قائم کی۔ بدقسمتی سے بزرگوں کی محبت و عقیدت کے نام پر مسلمانوں میں بھی عقیدہ عام کردیا گیا اور اس کا نتیجہ نکلا کہ چند پاک باز لوگوں کو چھوڑ کر پیروں اور گدی نشینوں نے کتنی بیٹیوں کو بے آبرو کیا۔ سینکڑوں مربعے زمین اور کروڑوں کی جائیدادیں بنائیں۔ اجازت تو اس بات کی تھی کہ زندہ بزرگ سے دعا کروائی جاسکتی ہے مگر غالب اکثریت نے اس کو کاروبار بنا لیا ہے اور بزرگوں کے فوت ہونے کے بعد ان کی قبریں زیارت گاہ نہیں تجارت کے اڈے بن چکی ہیں۔ جو لوگ سالہا سال اپنے ماں باپ کی قبر پر نہیں جاتے وہ ہزاروں روپے خرچ کر کے مزارات پر ایمان اور مال ضائع کر رہے ہیں۔ حالانکہ رحیم و کریم مالک نے اپنے تک پہنچنے کے لیے گناہ گاروں کی جھجک کو اتنے مؤثر اور دلنشیں انداز میں دور فرمایا ہے کہ اس کے بعد کسی بہانے کی گنجائش باقی نہیں رہتی۔ بندے کو خالق سے دور رکھنے کے گھٹیا بہانے : (وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْاِِنْسَانَ وَنَعْلَمُ مَا تُوَسْوِسُ بِہٖ نَفْسُہُ وَنَحْنُ اَقْرَبُ اِِلَیْہِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِیْدِ) [ قٓ: ١٦] ہم نے انسان کو پیدا کیا اور اس کے دل میں جو خیالات اٹھتے ہیں ہم ان سے وقف ہیں اور اس کی رگ جان سے بھی زیادہ اس سے قریب ہیں۔“ بندے کو اللہ تعالیٰ سے دور رکھنے کے لئے یہ گھٹیا اور سطحی تصور دیتے ہوئے، اتنی کمزور اور سطحی مثالیں دی جاتی ہیں کہ جس پر آدمی حیرت کا اظہار کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ ایسے علماء کا کہنا ہے کہ ڈی سی او سے ملنے کے لیے چپڑاسی کی ضرورت ہے مکان کی چھت پر چڑھنے کے لیے سیڑھی کی ضرورت ہے۔ اس بات کو اس شدومد کے ساتھ پھیلایا گیا ہے کہ اچھے بھلے پڑھے لکھے حضرات حتیٰ کہ عدالتیں کرنے والے جج، قانون کی باریکیوں اور موشگافیوں سے واقف ماہر وکلاء، اندرون اور بیرون ملک یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل سکالر اور دانشور حضرات اس پروپیگنڈے سے اس قدر متاثر ہوئے کہ وہ صحیح بات ماننا تو درکنار اسے ٹھنڈے دل و دماغ سے سننے کے لیے بھی تیار نہیں۔ حالانکہ ذرا غور کیا جائے۔ کہ جس مدفون بزرگ کا وسیلہ تلاش کیا جا رہا ہے۔ زندگی اور ان کے فوت ہونے کے بعد کتنا فرق ہے؟ ١۔ بزرگ بیمار ہوئے ہزار دعاؤں اور دواؤں کے باوجود صحت حاصل نہ کرسکے۔ ٢۔ فوت ہوئے تو گھر میں میّت پڑی ہونے کے باوجود روتی ہوئی بیٹیوں، تڑپتی ہوئی والدہ، بلکتی ہوئی بیوی، سسکتے ہوئے بیٹے اور آہ وبکا کرنے والے بھائیوں اور مریدوں کو تسلی نہیں دے سکتے۔ ٣۔ شرم و حیا کے مالک ہونے کے باوجود نہ استنجا کرنے کی سکت ہے اور نہ غسل کرنے کی ہمت۔ ٤۔ اپنی زندگی میں اپنا مزار بنوانے والے بھی چل کر اپنی قبر تک نہ پہنچ سکے۔ ٥۔ جو زندگی میں صرف ایک زبان جانتے تھے فوت ہونے کے بعد دوسری زبانوں میں فریاد کرنے والوں کی زبان سے کس طرح واقف ہوگئے؟ ٦۔ جو خوداولاد سے محروم تھے مثال کے طور پر حضرت علی ہجویری ایک سے زائد شادی کروانے کے باوجود اولاد سے محروم رہے وہ دوسروں کو کس طرح اولاد عطا کرسکتے ہیں؟ ٧۔ جو زندگی میں گہری نیند یا کسی بیماری کی وجہ سے بے ہوشی کے عالم میں دیکھ اور سن نہیں سکتے۔ موت کے بعد کس طرح سننے اور دیکھنے کے قابل ہوگئے ؟ ٨۔ جو زندگی میں دیوار کی دوسری طرف نہیں دیکھ سکتے تھے قبر کی منوں مٹی اور مضبوط دیواروں کے پیچھے کس طرح دیکھ سکتے ہیں؟ ٩۔ جو اپنی حالت سے کسی کو آگاہ نہیں کرسکتے۔ دوسرے کی حالت رب کے حضور کس طرح پیش کرسکتے ہیں؟ توہین آمیز اور مضحکہ خیز مثال واعظ کا یہ کہنا ہے کہ چھت پر چڑھنے کے لیے سیڑھی کی ضرورت ہے۔ اس حد تک تو اس بات میں کوئی شبہ نہیں مگر غور فرمائیں کہ چھت تو جامد اور ساکت ہے وہ قریب نہیں آ سکتی اس لیے اس پر چڑھنے کے لیے سیڑھی کی ضرورت ہے۔ اللہ کی قدرت و سطوت تو ہر جگہ موجود ہے اور وہ اپنے علم اور اختیارات کے ذریعے سب سے زیادہ انسان کے قریب حتیٰ کے دل اور شہ رگ پر اس کا اختیار ہے یہاں تو کسی وسیلے و سفا رش اور سیڑھی کی ضرورت نہیں۔ خالق کائنات کے لیے یہ مثالیں اور تشبیہ دینا اس کی توہین کرنے کے مترادف ہے۔ (فَلَا تَضْرِبُوْا لِلّٰہِ الْاَمْثَالَ) [ النحل : ٧٤] ” اللہ کے لیے ایسی مثالیں بیان نہ کیا کرو۔“ تفسیر بالقرآن سفارش کی حیثیت اور حقیقت : ١۔ کون ہے جو اللہ تعالیٰ کی اجازت کے بغیر سفارش کرسکے۔ (البقرۃ: ٢٥٥) ٢۔ قیامت کے دن دوستی اور سفارش کام نہیں آئے گی۔ (البقرۃ: ٢٥٤) ٣۔ مجرموں کو کسی کی سفارش کوئی فائدہ نہیں پہنچائے گی۔ (المدثر : ٤٨) ٤۔ ظالموں کا کوئی دوست ہوگا اور نہ سفارشی۔ (المؤمن : ١٨) ٥۔ کافروں کا کوئی سفارشی نہیں ہوگا۔ (الانعام : ٥١) ٦۔ بزرگ اور سرداربھی سفارش نہ کریں گے۔ (الرّوم : ١٣) ٧۔ مرنے والوں کو معلوم نہیں کہ وہ کب اٹھائے جائیں گے۔ (النحل : ٢١) الزمر
4 فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ نے نہ کسی کو اپنی خدائی میں شریک کیا ہے اور نہ ہی کسی ذات کے ساتھ اس کی رشتہ داری ہے۔ اس سے پہلی آیت میں اس بات کو کذب اور گمراہی قرار دیا گیا ہے کہ کوئی کہے کہ اللہ تعالیٰ نے کسی کو اپنی خدائی میں کچھ اختیارات دیئے ہیں۔ اب اس بات کی نفی کی جارہی ہے کہ ذات کبریا کی نہ کسی کے ساتھ رشتہ داری ہے اور نہ ہی اس نے کسی کو بیٹا یا بیٹیاں بنایا ہے اور نہ ہی اس کی ذات کو یہ بات زیبا ہے۔ اسے کسی کو بیٹا یا بیٹی بنانے کی کیا ضرورت ہے ؟ اگر اسے کسی معاون کی ضرورت ہوتی تو مخلوق میں سے کسی کو اپنی ذات کے لیے مختص کرلیتا یعنی اسے اپنی خدائی میں شریک بنا لیتا۔ اسے اپنی ذات اور خدائی میں کسی کے تعاون کی ضرورت نہیں۔ کیونکہ وہ ہر قسم کی مجبوری اور معذوری سے پاک ہے۔ وہ اکیلا ہی ہر چیز پر پوری طرح اختیار رکھنے والا ہے۔ اس کے اقتدار اور اختیار کا کچھ اندازہ کرنا چاہو تو زمین و آسمانوں کی تخلیق پر غور کرکہ اربوں سال سے زمین پانی پرکھڑی ہے نہ کسی طرف سے جھکی اور نہ ہی اس میں کوئی دراڑ واقع ہوئی ہے۔ اب آسمان کی طرف توجہ کرو ! جو ستونوں کے بغیر کھڑا ہے نہ کسی جانب سے جھکا ہے اور نہ ہی اس میں کوئی کمزوری پیدا ہوئی ہے یہاں تک اس کی رنگت میں بھی کوئی فرق نہیں پیدا ہوا۔ زمین و آسمانوں میں کوئی چیز اس نے بے مقصد پیدا نہیں کی اور نہ ہی ان کی تخلیق میں کوئی نقص چھوڑا۔ جو کچھ پیدا کیا ٹھیک ٹھیک پیدا کیا اور اس میں کوئی نہ اس کا کوئی شریک تھا اور نہ معاون۔ اب رات اور دن کے نظام پر غور کرو! کہ رات کس طرح دن کے حصے کو ڈھانپ لیتی ہے اور دن کس طرح رات کے کچھ حصہ پر چھا جاتا ہے۔ سورج اور چانداپنے مقررہ اوقات اور حساب کے مطابق اپنی اپنی ڈیوٹی پر لگے ہوئے ہیں۔ کیا مجال کبھی ان کے درمیان ٹکراؤ پیدا ہوا۔ یا ان میں سے کوئی اپنے وقت سے آگئے پیچھے ہوا ہو۔ اس پورے نظام کو بنانے اور چلانے والاصرف ایک ” اللہ“ ہے۔ چاہیے تو یہ کہ وہ کفار، مشرکین اور نافرمانوں کو ایک لمحہ میں نیست ونابود کردے۔ مگر ہر اعتبار سے غالب ہونے کے باوجود لوگوں کو باربار معاف کرنے اور ان سے در گزر فرمانے والاہے۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے نہ کسی کو اپنی اولادبنایا اور نہ ہی اپنی خدائی میں کسی کو اختیار دیا ہے۔ ٢۔” اللہ“ ہی نے زمین و آسمانوں کو پیدا کیا ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ ہر قسم کی حاجت اور معذوری سے پاک ہے۔ ٤۔ ” اللہ“ اکیلا ہی ہر قسم کی قوت کا مالک ہے۔ ٥۔ اللہ ہی رات اور دن کو چھوٹا اور لمبا کرنے والا ہے۔ ٦۔ ” اللہ“ ہی سورج اور چاند کو مسخر کرنے والا ہے۔ ٧۔ اللہ تعالیٰ ہر اعتبار سے غالب ہونے کے باوجود لوگوں کو معاف کرنیوالا ہے۔ تفسیر بالقرآن رات اور دن، سورج اور چاند پر صرف ” اللہ“ کا اختیار ہے : ١۔ سورج اور چاند اپنے مقررہ وقت کے پابند ہیں۔ (الرعد : ٢) ٢۔ رات اور دن اپنے وقت کے پابند ہیں۔ (الزمر : ٥) ٣۔ وہ ذات جس نے ستاروں کو اند ہیروں میں تمہاری رہنمائی کے لیے پیدا فرمایا۔ (الانعام : ٩٧) ٤۔ چاند، سورج اور ستارے اللہ تعالیٰ کے حکم کے پابند ہیں۔ (الاعراف : ٥٤) ٥۔ اللہ تعالیٰ نے سورج کو ضیاء اور چاند کو روشنی عطا کی ہے۔ (یونس : ٥) ٦۔ اللہ تعالیٰ نے آسمان میں چاند کو روشنی کا باعث اور سورج کو روشن چراغ بنایا۔ (نوح : ١٦ ) الزمر
5 الزمر
6 فہم القرآن ربط کلام : تخلیق کا ئنات کے ذکر کے بعد انسان اور چوپاؤں کی تخلیق کا بیان۔ اے لوگو! جس ” اللہ“ نے زمین و آسمانوں کو پیدا کیا، لیل و نہار کا نظام ترتیب دیا اور سورج، چاند کو تمہاری خدمت پر لگایا۔ اسی نے تمہیں آدم (علیہ السلام) سے پیدا فرمایا اور آدم (علیہ السلام) سے اس کی بیوی حوا [ کو پیدا کیا۔ پھر تمہیں تمہاری ماؤں کے بطنوں میں تین اندھیروں میں پیدا کرتا ہے۔ یہ ہے تمہارا ” اللہ“ جس نے تمہیں پیدا کیا اور وہی تمہاری ہر قسم کی ضرورتوں کو پورا کرتا ہے۔ اسی کی بادشاہی ہے اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں۔ اسے چھوڑ کر تم کہاں بھٹک رہے ہو۔ اسی نے تمہارے لیے آٹھ قسم کے چوپائے پیدا فرمائے۔ کچھ کو تم بار برداری اور سواری کے لیے استعمال کرتے ہو، کچھ کا دودھ پیتے اور گوشت کھاتے ہو، ان سے اور بھی فوائد حاصل کرتے ہو۔ چوپاؤں کے لیے ” اَنْزَلَ“ کا لفظ استعمال فرمایا ہے جس کے مفسرین نے تین معانی سمجھے ہیں۔ 1” اَنْزَلَ“ بمعنٰی پیدا کرنا 2 اللہ تعالیٰ نے ابتدا میں چوپاؤں کو جنت میں پیدا فرمایا پھر ان کی نسل کو زمین پر اتار دیا۔3 انسان اور ہر جاندار چیز کا رزق زمین سے وابستہ ہے جسے پیدا کرنے کے لیے پانی کی ضرورت ہے اور پانی کا بنیادی تعلق آسمان یعنی بارش کے ساتھ ہے اس لیے مجازاً چوپاؤں کے لیے ” اَنْزَلَ“ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ آٹھ چوپائے : بھیڑ اور بکری، گائے اور اونٹ، جو جنس کے اعتبار سے جوڑا، جوڑا ہیں اور ان کی تعداد آٹھ بنتی ہے۔ تخلیق انسان کے مختلف مراحل اور مقام : ” پھر ہم نے اسے ایک محفوظ جگہ ٹپکی ہوئی بوند میں تبدیل کیا۔ پھر اس بوند کو لوتھڑے کی شکل دی پھر لوتھڑے کو بوٹی بنایا۔ پھر بوٹی سے ہڈیاں بنائیں پھر ہڈیوں پر گوشت چڑھایا پھر اسے ایک دوسری شکل میں بناکھڑا کیا۔ بڑا ہی بابرکت ہے اللہ سب کاریگروں سے بہترین۔“ [ المؤمنون : ١٣۔ ١٤] (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ قَالَ حَدَّثَنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وَھُوَ الصَّادِقُ الْمَصْدُوْقُ قَالَ إِنَّ أَحَدَکُمْ یُجْمَعُ خَلْقُہٗ فِیْ بَطْنِ أُمِّہٖ أَرْبَعِیْنَ یَوْمًانُطْفَۃً ثُمَّ یَکُوْنُ عَلَقَۃً مِثْلَ ذٰلِکَ ثُمَّ یَکُوْنُ مُضْغَۃً مِثْلَ ذٰلِکَ ثُمَّ یَبْعَثُ اللّٰہُ مَلَکًا فَیُؤْمَرُ بِأَرْبَعِ کَلِمَاتٍ وَیُقَالُ لَہٗ أُکْتُبْ عَمَلَہٗ وَرِزْقَہٗ وَأَجَلَہٗ وَشَقِیٌّ أَوْ سَعِیْدٌ ثُمَّ یُنْفَخُ فِیْہِ الرُّوْحُ ) [ رواہ البخاری : کتاب بدء الخلق، باب ذکر الملائکۃ] ” حضرت عبداللہ (رض) بیان کرتے ہیں صادق و مصدوق رسول مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بیان فرمایا کہ تم میں سے ہر کوئی اپنی ماں کے پیٹ میں چالیس دن ٹھہرتا ہے اور جما ہوا خون بن جاتا ہے پھر چالیس دن بعد گوشت کا لوتھڑا بن جاتا ہے اس کے بعد اللہ تعالیٰ فرشتہ بھیجتے ہیں اس اس کا عمل، رزق، موت، نیک یا بد ہونا لکھنے کا حکم ہوتا ہے پھر اس میں روح پھونک دی جاتی ہے۔“ تین اندھیرے : 1 ماں کے پیٹ کا اندھیرا 2 پیٹ میں رحم کا اندھیرا 3 رحم میں اس جھلی کا اندھیرا جس میں بچہ لپٹا ہوا ہوتا ہے۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں کو آدم (علیہ السلام) سے پیدا فرمایا۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے حوا [ کو حضرت آدم (علیہ السلام) سے پیدا کیا۔ ٣۔ ہر انسان کی تخلیق تین اندھیروں میں ہوتی ہے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ نے آٹھ چوپائے پیدا فرمائے۔ ٥۔ اللہ ہی سب کو پیدا کرنے والا ہے اور وہی سب کا مالک ہے۔ ٦۔ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور نہ ہی اس کے سوا کوئی ضرورتیں پوری کرنے والاہے۔ ٧۔ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کی عبادت کرنے اور اس کو حاجت روا ماننے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ الزمر
7 فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر یا اس کے ساتھ کسی کی عبادت کرنا پرلے درجے کی گمراہی اور ناشکری ہے جسکی اللہ تعالیٰ کو کوئی پرواہ نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو ہر حوالے سے یہ حقیقت بتلائی اور سمجھائی ہے کہ اے انسان ! میرے سوا نہ تجھے کسی نے پیدا کیا ہے اور نہ میرے سوا کوئی تیری ضرورتیں پوری کرنیوالاہے۔ لہٰذا تجھے صرف میری ہی عبادت کرنا ہے اور مجھ سے اپنی حاجات مانگنا چاہیے۔ لیکن ہر دور میں بے شمار ایسے لوگ رہے ہیں اور ہوں گے جو اپنے خالق اور مالک کی اتنی بات بھی اس کے حکم کے مطابق ماننے کے لیے تیار نہیں ہوتے یہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کفر کرنا اور اس کی بے انتہا درجے کی ناشکری ہے، جسے اللہ تعالیٰ ہرگز پسند نہیں کرتا۔ وہ انسان کی ناشکری کی بجائے اس کی شکر گزاری اور تابعداری پر خوش ہوتا ہے۔ اس کے باوجود انسان ناشکری پر تلا رہے اور غیروں کی تابعداری کرتا ہے۔ تو اللہ تعالیٰ کو اس کی رائی کے دانے کے برابر بھی پرواہ نہیں ہے اور نہ ہی اس کی خدائی اور بادشاہی کو بال کے برابر فرق پڑتا ہے۔ سورۃ کی ابتداء میں اس شرک کی مذمت کی گئی کہ کسی فوت شدہ شخصیت یا بت وغیرہ کو اللہ کے قرب کاذریعہ بنانا گمراہی ہے۔ جس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ مشرک سمجھتا ہے کہ فلاں شخصیت قیامت کے دن میری نجات کی ذمہ داری اٹھالے گی کیونکہ قبروں کے مجاور، بتوں کے پجاری اور شرک کا پرچار کرنے والے علماء، پیر اور فقیر لوگوں کو یہی کہہ کر گمراہ کرتے ہیں کہ بزرگ اور مرشد دنیا میں خدا کی خدائی میں اختیارات رکھتے ہیں اور قیامت کے دن بھی تمہاری نجات کے ذمہ دار ہوں گے۔ اس بات کی یہاں نفی کی جارہی ہے کہ قیامت کے دن کوئی کسی کا بوجھ نہیں اٹھا سکے گا۔ جو لوگ سمجھانے کے باوجود اپنے باطل عقیدہ پر قائم رہتے اور اس کے لیے جھگڑتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں ان کے باطل عقیدہ اور عمل کے بارے میں بتلائے گا یعنی انہیں پوری پوری سزا دے گا۔ کیونکہ بالآخر سب نے اسی کے حضور حاضر ہونا ہے۔ اور کوئی اس سے بات چھپا نہیں سکتا کیونکہ وہ دلوں کے راز جاننے والاہے۔ وہاں کوئی کسی کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔ مجرم کو جب یہ الفاظ کہے جائیں کہ وقت آنے پر تجھے سب کچھ بتلا دیا جائے تو یہ الفاظ ہر زبان میں زبردست مجرم کے لیے انتباہ کی حیثیت رکھتے ہیں تاکہ وہ اپنے کردار پر نظر ثانی کرے۔ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَامَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حِیْنَ أَنْزَلَ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ (وَأَنْذِرْ عَشِیْرَتَکَ الْأَقْرَبِیْنَ) قَالَ یَامَعْشَرَ قُرَیْشٍ أَوْ کَلِمَۃً نَحْوَھَا اشْتَرُوْٓا أَنْفُسَکُمْ لَآأُغْنِیْ عَنْکُمْ مِنَ اللّٰہِ شَیْءًا یَابَنِیْ عَبْدِ مَنَافٍ لَآأُغْنِیْ عَنْکُمْ مِنَ اللّٰہِ شَیْءًا یَاعَبَّاسَ بْنَ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ لَآأُغْنِیْ عَنْکَ مِنَ اللّٰہِ شَیْءًا وَیَاصَفِیَّۃُ عَمَّۃُ رَسُوْلِ اللّٰہِ لَآأُغْنِیْ عَنْکِ مِنَ اللّٰہِ شَیْءًا وَیَافَاطِمَۃُ بِنْتُ مُحَمَّدٍ سَلِیْنِیْ مَاشِءْتِ مِنْ مَالِیْ لَآأُغْنِیْ عَنْکِ مِنَ اللّٰہِ شَیْءًا) [ رواہ البخاری : کتاب الوصایا، باب ھل یدخل النساء والولد فی الأقارب] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں جب یہ آیت (اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈرائیے) نازل ہوئی تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کھڑے ہوئے اور فرمایا : اے قریش کے لوگو! اپنے لیے کچھ کر لومیں تمہیں اللہ کے عذاب سے کوئی فائدہ نہیں دے سکوں گا، اے بنی عبد منا ف میں تمہیں اللہ کے عذاب سے نہیں بچا سکتا۔ اے عباس بن عبدالمطلب ! میں تمہیں اللہ کے عذاب سے کچھ فائدہ نہیں دے سکوں گا، اے صفیہ ! رسول کی پھوپھی! میں تمہیں اللہ کے عذاب سے کچھ فائدہ نہیں دے سکتا۔ اے فاطمہ بنت محمد! میرے مال سے جو چاہتی ہے مانگ لے میں تجھے اللہ کے عذاب سے نہیں بچا سکوں گا۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ ناشکری نہیں شکرگزاری پر خوش ہوتا ہے۔ ٢۔ قیامت کے دن کوئی کسی کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ لوگوں کو سب کچھ بتلائے گا اور نا شکروں کو سز ا دے گا۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ دلوں کے راز جاننے والا ہے کیونکہ سب نے اس کے حضور پیش ہونا ہے۔ الزمر
8 فہم القرآن ربط کلام : اس سورۃ کی تیسری آیت میں فرمایا گیا ہے کہ مشرک اپنے عقیدہ اور بات میں جھوٹا ہے۔ اب اس کے جھوٹ کا عملی ثبوت پیش کیا جارہا ہے۔ یہاں انسان سے مراد مشرک انسان ہے۔ مشرک کو تکلیف پہنچتی تو وہ اٹھتا، بیٹھتا، چلتا، پھرتا، رات اور دن اپنے رب کو پکارتا اور اس کے حضور فریادیں کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ جب بیماری کے بعد صحت، تنگی کے بعد فراخی اور غم کے بعد اسے خوشی نصیب کرتا ہے تو مشرک کو نہ اپنی فریادیں یاد رہتی ہیں اور نہ ہی رب یاد رہتا ہے۔ رب کو یاد رکھنا تو دور کی بات وہ نام و نہاد مسلمان کہلوانے کے باوجوداس بات کا دعویٰ اور پرچار کرتا ہے کہ میری حاجت روائی اور مشکل کشائی فلاں بزرگ اور مزار کے طفیل اور صدقے سے ہوئی ہے۔ اگر وہ کلمہ گو نہیں تو بتوں یا کسی اور چیز کا نام لیتا ہے۔ اس طرح دوسروں کو اللہ تعالیٰ کا شریک ٹھہراتا ہے۔ خود گمراہ ہونے کے ساتھ جھوٹی کرامات اور من گھڑت کہانیوں سے دوسروں کو بھی گمراہ کرتا ہے۔ اس شخص کو کہا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی مہلت اور اپنے کفر سے تھوڑا سا فائدہ اٹھا لے بالآخر تو نے جہنم میں جانا ہے۔ قرآن مجید کے کئی مقامات پر شرک کو کفر سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اس لیے سورۃ الکافرون پارہ ٣٠ میں مکہ کے مشرکوں کو کافر کے لفظ کسے مخاطب کیا ہے کیونکہ کفر اور شرک نتیجہ کے اعتبار سے ایک ہیں۔ اس سے پہلی آیت میں شرک کو نا شکری کہا گیا اور اب شرک کو کفر قرار دیا گیا ہے۔ مشرک کے مقابلے میں مومن کا کردار یہ ہے کہ وہ مشکلات اور پریشانیوں میں بھی اپنے رب کو پکارتا اور رات کی تاریکیوں میں اٹھ کر اس کے حضور قیام، سجود اور اس کی بارگاہ میں رو روکر فریاد پر فریاد کرتا ہے۔ کہ اے میرے پالنہار مجھے آخرت کی سختیوں سے مامون فرما۔ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان سے پوچھیں کیا علم والے اور علم نہ رکھنے والے برابر ہو سکتے ہیں ؟ ظاہر بات ہے یہ برابر نہیں ہو سکتے نصیحت تو عقل والے ہی حاصل کرتے ہیں۔ گویا کہ علم کے ساتھ عقل کی بہت ضرورت ہے اور صحیح عقل والا وہ ہے جو کفر و شرک اور اپنے رب کی نافرمانی سے بچے اور آخرت کا فکر کرے۔ یہاں مشرک کو بے علم بھی قرار دیا گیا ہے۔ کیونکہ حقیقی علم اور عقل رکھنے والا شخص اپنے رب کے ساتھ نہ کفر کرتا ہے اور نہ ہی کسی کو شریک نہیں ٹھہراتا ہے۔ (عَنْ أَبِی یَعْلٰی شَدَّادِ بْنِ أَوْسٍ (رض) قَالَ قَالَ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) الْکَیِّسُ مَنْ دَانَ نَفْسَہُ وَعَمِلَ لِمَا بَعْدَ الْمَوْتِ وَالْعَاجِزُ مَنْ أَتْبَعَ نَفْسَہُ ہَوَاہَا ثُمَّ تَمَنَّی عَلَی اللّٰہِ)[ رواہ ابن ماجۃ: باب ذکر الموت والاستعداد لہ] ” حضرت ابو یعلیٰ شداد بن اوس (رض) سے بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا عقلمند وہ ہے جو اپنے آپ کو پہچانتا ہے اور مرنے کے بعد فائدہ دینے والے اعمال سر انجام دیتا ہے۔ نادان وہ ہے جس نے اپنے آپ کو اپنے نفس کے پیچھے لگا اور اس کے باوجود وہ اللہ تعالیٰ سے امید رکھتا ہے۔“ (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ قَالَ قَالَ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَنْ مَّاتَ یُشْرِکُ باللّٰہِ شَیْءًا دَخَلَ النَّارَ وَقُلْتُ أَنَا مَنْ مَّاتَ لَا یُشْرِکُ باللّٰہِ شَیْءًا دَخَلَ الْجَنَّۃَ) [ رواہ البخاری : کتاب الجنائز، باب ماجاء فی الجنائز] ” حضرت عبداللہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو کوئی اس حال میں مرا کہ اس نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کیا وہ جہنم میں جائے گا اور میں کہتا ہوں جس شخص نے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرایا اور وہ اسی حال میں فوت ہوا وہ جنت میں جائے گا۔“ مسائل ١۔ مشرک صرف مصیبت کے وقت خالصتاً اللہ تعالیٰ کو پکارتا ہے۔ ٢۔ مشرک مصیبت ٹل جانے کے بعد اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرتا ہے۔ ٣۔ شرک اور کفر ایک دوسرے کے مترادف ہیں۔ ٤۔ مشرک آگ میں داخل کیے جائیں گے۔ ٥۔ علم والے اور علم نہ رکھنے والے برابر نہیں ہوسکتے۔ گویا کہ مشرک جاہل ہے اور توحید والا صاحب علم ہوتا ہے۔ تفسیر بالقرآن توحید اور شرک میں فرق : ١۔ توحید سب سے بڑی سچائی ہے۔ (المائدۃ: ١١٩، النساء : ٨٧، ١٢٢) ٢۔ شرک سب سے بڑا جھوٹ ہے۔ (ھود : ١٨) ٣۔ توحید عدل ہے۔ (آل عمران : ١٨) ٤۔ شرک سب سے بڑا ظلم ہے۔ (لقمان : ١٣) ٥۔ توحید دانائی ہے۔ (بنی اسرائیل : ٣٩) ٦۔ شرک بیوقوفی ہے۔ (الجن : ٤) ٧۔ توحید سب سے بڑی نیکی ہے۔ (البقرۃ : ١٧٧) ٨۔ شرک سب سے بڑا گناہ ہے۔ (النساء : ٤٨) ٩۔ توحید فرمانبرداری کا نام ہے۔ (النحل : ٤٨، الرعد : ١٥) ١٠۔ شرک بغاوت ہے۔ (یونس : ٢٣) ١١۔ شرک حقیقت کو چھپانا ہے۔ (البقرۃ: ٤٢) ١٢۔ توحید سب سے بڑی گواہی ہے۔ (آل عمران : ١٨، الانعام : ١٩، الروم : ٣٠) الزمر
9 الزمر
10 فہم القرآن ربط کلام : عقل مند وہ ہے جو کفر و شرک اور اپنے رب کی نافرمانی سے بچتارہے۔ اور دنیا کے مقابلے میں ایمان کو ترجیح دے اور ایمان کی خاطر وطن چھوڑنا پڑے تو ہجرت کر جائے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی توحید کی عظمت اور اہمیت اجاگر فرمانے کے لیے نبی محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پے درپے سات مرتبہ لفظ ” قُلْ“ سے حکم دیا ہے۔ اور اس موقعہ پر آخر میں فرمایا : اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ بات بھی فرما دیں کہ علم والے اور بے علم یعنی موحد اور مشرک برابر نہیں ہو سکتے۔ اس لیے موحدین سے فرما دیں کہ کفار اور مشرکین سے ڈرنے کی بجائے صرف اپنے رب سے ڈرتے رہو اور ہمیشہ یاد رکھو کہ جن لوگوں نے اس دنیا میں نیکی کی۔ ان کے لیے دنیا اور آخرت میں اچھائی اور بہتری ہے۔ اگر کہیں دین پر عمل کرنا مشکل ہوجائے تو وہاں سے ہجرت کر جاؤ کیونکہ اللہ کی زمین بہت وسیع ہے۔ بے شک ہجرت کرنا آسان کام نہیں لیکن جو لوگ صبر سے مشکلات کا سامناکریں گے ان کے لیے قیامت کے دن بے حساب اجر ہوگا۔ ” حَسَنَۃٌ“ کا لفظ بھلائی، نیکی اور فائدہ کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ ہجرت کا لغوی معنٰی : ہجرت کا لغوی معنٰی ہے کسی چیز کو ترک کرنا، چھوڑ دینا۔ عرف عام میں دین کی خاطر کسی مقام کو چھوڑنے کا نام ہجرت ہے۔ شریعت کے وسیع تر مفہوم میں ہر اس چیز کو چھوڑ دینا ہجرت ہے۔ جس سے اللہ اور اس کے رسول نے منع فرمایا ہے۔ (وَالْمُھَاجِرُ مَنْ ھَجَرَ مَانَھَی اللّٰہُ عَنْہُ) [ رواہ البخاری : باب المسلم من سلم المسلمون] ” مہاجر وہ ہے جو اللہ کی منع کردہ چیزوں کو چھوڑ دے۔“ کن حالات میں ہجرت کا حکم ہے؟ جیسا کہ ابھی ذکر ہوا کہ مقصد حیات یعنی ایمان کے لیے ہر چیز قربان کردینا ہی اکمل ایمان کی نشانی ہے۔ ایسے ہی جذبات کا مندرجہ ذیل آیت میں ذکر کیا گیا ہے۔ (یٰعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا إِنَّ أَرْضِیْ وَاسِعَۃٌ فَإِیَّایَ فَاعْبُدُوْنِ) [ العنکبوت : ٥٦] ” اے میرے بندو جو ایمان لائے ہو! میری زمین بہت وسیع ہے بس تم میری بندگی کئے جاؤ۔“ اس آیت مبارکہ میں و اضح اشا رہ موجود ہے اگر مکے میں اللہ کی بند گی کرنا مشکل ہو رہی ہے تو ملک چھوڑ کر نکل جاؤ۔ ملک خدا تنگ نیست۔ اللہ کی زمین تنگ نہیں ہے جہاں بھی تم اللہ کے بندے بن کر رہ سکتے ہو وہاں چلے جاؤ۔ ہجرت ایمان کی کسوٹی ہے : اللہ اور اس کے رسول کی خاطر ہجرت کرنا ہر کسی کے بس کا روگ نہیں۔ یہ ایسی پل صراط ہے جس کی دھار تلوار سے زیادہ تیز اور بال سے زیادہ باریک ہے ایمان سے خالی دل ہجرت کی تکالیف اور مشکلات برداشت نہیں کرسکتا یہ ایسا ترازو ہے جس میں ہر آدمی نہیں بیٹھ سکتا۔ اس پیمانے سے کھرے کھوٹے کا اندازہ ہوجاتا ہے۔ اس لیے قرآن مجید نے اسے ایمان کا معیار قرار دیا ہے۔ (العنکبوت : ٢٦) ” حضرت عمر بن خطاب (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تمام اعمال کا انحصار نیتوں پر ہے۔ آدمی اپنی نیت کے مطابق ہی صلہ پائے گا۔ جس نے اللہ اور اس کے رسول کے لیے ہجرت کی اس کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول کے لیے ہے جس نے دنیا کے فائدے یا کسی عورت سے نکاح کرنے کے لیے ہجرت کی اس کی ہجرت اسی کے لیے ہوگی۔“ [ رواہ البخاری : باب بدء الوحی] مسائل ١۔ مومن کو ہر حال میں اپنے رب سے ڈرنا چاہیے۔ ٢۔ آخرت میں نیکی کا بدلہ بہترین اور بے حساب اجر ہے۔ ٣۔ جہاں دین پر عمل کرنا مشکل ہو وہاں سے ہجرت کرنے کا حکم ہے۔ ٤۔ صبر کرنے والوں کو بے حساب اجر دیا جائے گا۔ تفسیر بالقرآن ہجرت کا حکم اور اجر : ١۔ ہجرت کا اجر و ثواب اور فضیلت۔ (آل عمران : ١٩٥) ٢۔ ہجرت کے دوران فوت ہونے والے کو پورا ثواب ملے گا۔ (النساء : ١٠٠) ٣۔ ہجرت کا دنیا میں اجر۔ (النحل : ٤١، ٤٢) ٤۔ ہجرت نہ کرنے والوں کی سزا۔ (النساء : ٩٧، ٩٩) الزمر
11 فہم القرآن ربط کلام : اس سے پہلے ایمانداروں کو حکم ہوا کہ اگر کسی جگہ ایمان بچانا مشکل ہوجائے تو وہاں سے ہجرت کرجانی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ کی زمین بڑی کشادہ ہے۔ وہ صبر کرنے والوں کو بے حساب اجر عطا فرمائے گا۔ اس آیت میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مخاطب کرتے ہوئے حکم دیا گیا ہے کہ حالات جیسے بھی ہوں ہر حال میں دین پر عمل کرنا ہوگا۔ الدّین سے پہلی مراد اللہ تعالیٰ کی توحید ہے جس کے لیے ہر چیز قربان کردینی چاہیے۔ اے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ لوگوں پر واضح فرمائیں کہ میرے اللہ نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں اس کی عبادت بلاشرکت غیرے اس طرح کروں جس طرح اس نے مجھے عبادت کرنے کا حکم دیا ہے۔ حالات جیسے بھی ہوں مجھے حکم ہے کہ میں سب سے پہلے اپنے رب کا فرما نبردار بنوں۔ اور اس کی توحید کا پرچار کرتا رہوں اس کے ساتھ یہ بھی مجھے حکم ہوا ہے کہ برملا اعلان کروں کہ میں اپنے رب کی نافرمانی کرتے ہوئے قیامت کے دن سے ڈرتا ہوں یعنی اگر میں اپنے رب کی نافرمانی کروں تو میں بھی اس کے عذاب سے نہیں بچ سکتا۔ اس لیے مجھے باربار تاکید کی گئی ہے کہ میں کھلے الفاظ میں کہوں کہ میں صرف ایک۔” اللہ“ کی عبادت کرتاہوں ٹھیک اس طریقہ پر جس کا مجھے حکم دیا گیا ہے۔ اس میں بال برابر بھی میری مرضی کا عمل دخل نہیں ہے۔ یہی بات میں نے تمہیں بار بار بتلائی اور سمجھائی ہے۔ اگر تم سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کے لیے تیار نہیں ہو تو تمہاری مرضی۔ البتہ کان کھول کر سن لو کہ وہ لوگ اور ان کے اہل و عیال جو کفر و شرک اختیار کریں گے قیامت کے دن بڑا اور ناقابل تلافی نقصان پائیں گے۔ انہیں اوپر نیچے سے آگ نے گھیر رکھا ہوگا۔ ان پر جہنم کے دروازے بند کردئیے جائیں گے اور انہیں آگ کے ستونوں سے باندھ دیا جائے گا۔ اس عذاب سے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو ڈراتا ہے کہ میرے بندو! مجھ سے ڈرتے رہو اور میری عبادت اس طرح کرو جس طرح میں تمہیں حکم دیتا ہوں۔ خالص عبادت کا تقاضا ہے کہ نہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کی عبادت کی جائے اور نہ اس کی عبادت میں کسی دوسرے کو شریک بنایا جائے۔ جس نے نیت میں بھی کسی کو اس کا شریک کرلیا وہ شرک کا مرتکب ہوگا۔ جو لوگ طاغوت کی عبادت سے بچیں اور دل و جان سے اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ رہیں۔ یعنی ان کا عقیدہ شرک سے پاک ہو اور اس کا عمل شریعت کے مطابق ہو۔ ان کے لیے اس کے رب کی طرف سے خوشخبری ہے کہ اے میرے بندو ! خوش ہوجاؤ کہ تمہیں جہنم کے عذاب سے بچا کر ہمیشہ کی جنت میں داخلہ دیا جائے گا کیونکہ اس کا ارشاد ہے کہ جسے جہنم سے بچا لیا گیا اور جنت میں داخلہ دے دیا گیا ہے وہ کامیاب ہوگیا۔ (آل عمران : ١٥٨) ” حضرت انس بن مالک (رض) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں اللہ تبارک و تعالیٰ جہنمیوں میں سے کم ترین عذاب پانے سے کہے گا۔ دنیا اور جو کچھ اس میں ہے۔ تیرے پاس ہو۔ کیا تو اسے فدیہ کے طور پردینے کے لیے تیار ہے وہ کہے گا جی ہاں ! اللہ تعالیٰ فرمائے گا میں نے تجھ سے اس سے ہلکی بات کا مطالبہ کیا تھا جب تو آدم کی پشت میں تھا وہ یہ کہ میرے ساتھ شرک نہ کرنا۔ راوی کا خیال ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میں تجھے جہنم میں داخل نہ کرتا لیکن تو شرک سے باز نہ آیا۔“ [ رواہ مسلم : باب طَلَبِ الْکَافِرِ الْفِدَاءَ بِمِلْءِ الأَرْضِ ذَہَبًا] والدین کی ذمہ داری : ” اے ایمان والو! اپنے آپ کو اور اپنے اہل کو جہنم کی آگ سے بچا لو جس کا ایندھن لوگ اور پتھر ہوں گے۔ جس پر سخت دل فرشتے مقرر ہیں جنہیں جو حکم دیا جاتا ہے وہ اس کی نافرمانی نہیں کرتے بلکہ اسے فوراً بجا لاتے ہیں۔“ [ التحریم : ٦] مسائل ١۔ انسان کو ہر وقت اللہ کے عذاب سے ڈرتے رہنا چاہیے۔ ٢۔ عبادت صرف ایک اللہ کی ہی کرنی چاہیے۔ ٣۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھی ایک اللہ کی عبادت کرنے کا حکم دیا گیا۔ ٤۔ اللہ کے سوا دوسروں کی عبادت کرنے والے دنیا اور آخرت میں خسارہ پائیں گے۔ تفسیر بالقرآن ” اللہ“ کی خالص عبادت کرنے کا حکم : ١۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم ہے کہ آپ فرما دیں کہ میں تو صرف ایک اللہ کی عبادت کرتا ہوں۔ (یونس : ١٠٤) ٢۔ اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بناؤ۔ (الرعد : ٣٦) ٣۔ اللہ کے علاوہ کسی کی عبادت نہ کرو۔ (ہود : ٢) ٤۔ اے لوگو اپنے پروردگار کی عبادت کرو۔ (البقرۃ: ٢١) ٥۔ اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو۔ (یوسف : ٤٠) ٦۔ اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی شریک نہ بناؤ (النساء : ٣٦) ٧۔ حضرت نوح، ہود، صالح، اور شعیب نے اپنی قوم کو ایک اللہ کی عبادت کا حکم دیا۔ (ہود : ٥٠۔ ٦١۔ ٨٤) ٨۔ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ سے پہلے جتنے نبی معبوث کیے گئے انہیں یہی حکم تھا کہ صرف میری عبادت کرو۔ ( الانبیاء : ٢٥) الزمر
12 الزمر
13 الزمر
14 الزمر
15 الزمر
16 الزمر
17 فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے کے ساتھ طاغوت کا انکار کرنا بھی لازم ہے۔ قرآن مجید کا صرف اتنا حکم نہیں کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کی جائے۔ اس کا یہ بھی حکم ہے کہ طاغوت کی اطاعت کا قلباً قولاً اور عملاً انکار کیا جائے۔ اسی لیے کلمہ طیبہ میں پہلے معبودان باطل کی نفی ہے اور پھر اللہ کی ذات کا اثبات کیا گیا ہے۔ کیونکہ طاغوت انسان کو توحید کی روشنی سے نکال کر کفر و شرک کے اندھیروں میں لے جاتا ہے۔ جو چیز بھی انسان کو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت سے دور کرے وہ طاغوت ہے۔ بے شک انسان کا اپنا نفس کیوں نہ ہو۔ جو لوگ طاغوت سے اجتناب کرتے ہیں اور ہر حال میں اپنے رب کی طرف انابت رکھتے ہیں ان کے لیے ان کے رب کا ارشاد ہے کہ یہ میرے بندے ہیں اس لیے انہیں خوشخبری کا پیغام دیا جائے ان کے رب کی رضا اور جنت ہے۔ طاغوت سے مراد سرکش، گمراہ کرنے والا، شیطان اور ہر باطل معبود ہے۔ مسائل ١۔ اللہ کے بندے طاغوت سے کلیتاً اجتناب کرتے ہیں۔ ٢۔ اللہ کے بندے کا مل یکسوئی کے ساتھ اپنے رب کی عبادت کرتے ہیں۔ ٣۔ طاغوت کا انکار کرنے اور اپنے رب کی یکسوئی کے ساتھ عبادت کرنے والوں کے لیے خوشخبری کا پیغام ہے۔ تفسیر بالقرآن طاغوت سے بچنے کا حکم : ١۔ طاغوت کے انکار کا حکم۔ (النساء : ٦٠) ٢۔ طاغوت کی عبادت سے بچنے والے کے لیے خوشخبری ہے۔ (الزمر : ١٧) ٣۔ کفار طاغوت کی راہ میں لڑتے ہیں۔ (النساء : ٧٦) ٤۔ اہل کتاب میں سے بھی طاغوت کی عبادت کرنے والے ہیں۔ (المائدۃ: ٦٠) ٥۔ طاغوت کا انکار کرنے والا مضبوط کڑے کو تھامتا ہے۔ (البقرۃ: ٢٥٦) ٦۔ کفار طاغوت کے ساتھی ہیں۔ (البقرۃ: ٢٥٧) الزمر
18 فہم القرآن ربط کلام : طاغوت سے اجتناب کرنے والوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ اچھی بات کو توجہ سے سنیں اور اس پر عمل کریں یہی عقل سلیم کا تقاضا ہے۔ اخلاص اور یکسوئی کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے اور طاغوت سے اجتناب برتنے والوں کی یہ خوبی ہوتی ہے کہ وہ اچھی سے اچھی بات کو قبول کرتے ہیں۔ انہی لوگوں کی اللہ تعالیٰ راہنمائی کرتا ہے اور یہی عقل والے والے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی ہدایت اور عقل مندی کا نتیجہ ہے کہ مختلف قسم کی باتیں سننے کے باوجود ” اللہ“ کے بندے ہمیشہ اچھی بات قبول کرتے ہیں۔ اچھی بات کی قرآن مجید نے ان الفاظ میں وضاحت فرمائی ہے۔ (وَمَنْ اَحْسَنُ قَوْلًا مِمَّنْ دَعَا اِِلَی اللّٰہِ وَعَمِلَ صَالِحًا وَّقَالَ اِِنَّنِی مِنَ الْمُسْلِمِیْن)[ حٰمٓ السجدہ : ٣٣] ” اس سے زیادہ اچھی بات کس کی ہوسکتی ہے جو اللہ کی طرف بلائے اور اچھے کام کرے اور کہے میں اللہ کا تابعدار ہوں۔“ بہترین اسلام کی خوبی ہے : (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مِنْ حُسْنِ إِسْلَامِ الْمَرْءِ تَرْکُہُ مَا لَا یَعْنِیہٖ)[ رواہ الترمذی : کتاب الزہد] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بلاشبہ آدمی کے اسلام کا حسن یہ ہے کہ وہ فضول باتوں کو چھوڑ دے۔“ جو اچھی بات قبول نہیں کرتے انہیں ہدایت نصیب نہیں ہوتی۔ جو ہدایت سے محروم ہوں گے ان پر اللہ تعالیٰ کا فرمان سچ ثابت ہوگا کہ یہ لوگ جہنم میں گرنے والے ہیں۔ اے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بے شک آپ ہزار کوشش کرلیں آپ انہیں جہنم کی آگ سے نہیں بچا سکتے۔ (عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَثَلِیْ کَمَثَلِ رَجُلٍ اسْتَوْقَدَ نَاراً فَلَمَّا اَضَآءَ تْ مَا حَوْلَھَا جَعَلَ الْفِرَاشُ وَھٰذِہِ الدَّوَآبُّ الَّتِی تَقَعُ فِی النَّارِ یَقَعْنَ فِیْھَا وَجَعَلَ یَحْجُزُھُنَّ وَیَغْلِبْنَہٗ فَیَتَقَحَّمْنَ فِیْھَا فَاَنَا اٰخِذٌ بِحُجَزِکُمْ عَنِ النَّارِ وَأَ نْتُمْ تَقَحَّمُوْنَ فِیْھَا ھٰذِہٖ رِوَایَۃُ الْبُخَارِیِّ وَلِمُسْلِمٍ نَحْوُھَا وَقَالَ فِیْ اٰخِرِھَا قَالَ فَذَالِکَ مَثَلِیْ وَمَثَلُکُمْ اَنَا اٰخِذٌ بِحُجَزِکُمْ عَنِ النَّارِ ہَلُّمَ عَنِ النَّارِ ھَلُمَّ عَنِ النَّارِ فَتَغْلِبُوْنِیْ تَقَحَّمُوْنَ فِیْھَا)[ رواہ البخاری : کتاب الرقاق، رواہ مسلم : کتاب الفضائل] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : میری مثال آگ روشن کرنے والے کی طرح ہے۔ جب آگ سے اس کا آس پاس روشن ہوگیا تو پروانے اس میں گرنے لگے۔ آگ جلانے والے نے انہیں بچانے کی سر توڑ کوشش کی لیکن پروانے اس سے بے قابو ہو کر گرتے رہے۔ بس میں تمہیں آگ سے بچانے کے لیے پیچھے سے پکڑتا ہوں مگر تم اس میں گرتے جا رہے ہو۔ یہ بخاری کے الفاظ ہیں اور مسلم میں اس طرح ہے کہ میری اور تمہاری مثال ایسے ہے کہ میں تمہیں پیچھے سے پکڑ کر آگ سے بچانے کی کوشش کرتے ہوئے کہہ رہا ہوں کہ میری طرف آؤ اور آگ سے بچو، لوگو! آگ کی بجائے میری طرف آؤ۔ لیکن تم مجھ سے بے قابو ہو کر آگ میں گرے جا رہے ہو۔“ (عَنْ بُسْرِ بْنِ أَرْطَاۃَ الْقُرَشِیِّ (رض) یَقُولُ سَمِعْتُ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَدْعُواللَّہُمَّ أَحْسِنْ عَاقِبَتَنَا فِی الأُمُورِ کُلِّہَا وَأَجِرْنَا مِنْ خِزْیِ الدُّنْیَا وَعَذَاب الآخِرَۃِ )[ رواہ احمد : مسند بسر بن ارطاۃ] ” حضرت بسر بن ارطاۃ قرشی (رض) کہتے ہیں میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ دعا کرتے ہوئے سنا اے اللہ ! ہمارے تمام معاملات کا انجام اچھا فرما اور ہمیں دنیا اور آخرت کی رسوائی سے محفوظ فرما۔“ مسائل ١۔ اللہ کے بندے احسن بات کو قبول کرتے ہیں۔ ٢۔ احسن بات قبول کرنے والوں کی اللہ تعالیٰ راہنمائی فرماتا ہے۔ ٣۔ احسن بات قبول کرنے والے ہی عقلمند ہوتے ہیں۔ ٤۔ جو لوگ احسن بات قبول نہیں کرتے وہ آگ سے نہیں بچ سکتے۔ تفسیر بالقرآن احسن کیا ہے ؟ ١۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو احسن پیدا کیا ہے۔ ( التین : ٤) ٢۔ اللہ تعالیٰ نے موت اور زندگی اس لیے بنائی ہے کہ انسان احسن عمل کرے۔ (الملک : ٢) ٣۔ توحید کی دعوت دینے اور اس کے تقاضے پورے کرنے والے کی بات سے کسی کی بات احسن نہیں ہو سکتی۔ (حم ٓ السجدۃ: ٣٣) الزمر
19 الزمر
20 فہم القرآن ربط کلام : احسن بات کو قبول کرنے اور طاغوت سے بچنے والوں کا صلہ۔ طاغوت سے بچنے اور اپنے رب سے ڈر کر زندگی گزارنے والے کو ان کا رب جنت کے بلند وبالا محلات اور اعلیٰ مقامات میں داخل فرمائے گا۔ جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی۔ متقین کے ساتھ ان کے رب کا وعدہ ہے۔ اور اللہ تعالیٰ اپنے وعدے کی خلاف ورزی نہیں کرتا۔ تقویٰ کیا ہے : ” اللہ کی ذات، احکام اور اس کے شعائرکے احترام کرنے کا نام تقویٰ ہے۔“ (الحج : ٣٢) ” تقویٰ نام ہے اللہ کے احکام پر عمل پیرا ہونے اور اس کی نافرمانیوں سے بچنے کا۔“ (النور : ٥٢) ” تقویٰ نام ہے سمع و اطاعت کے باوجود اپنے رب سے ڈرتے رہنے کا۔“ (التغابن : ١٦) (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) إِنَّ فِی الْجَنَّۃِ ماءَۃَ دَرَجَۃٍ أَعَدَّہَا اللّٰہُ لِلْمُجَاہِدِینَ فِی سَبِیل اللّٰہِ مَا بَیْنَ الدَّرَجَتَیْنِ کَمَا بَیْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ فَإِذَا سَأَلْتُمُ اللّٰہَ فَاسْأَلُوہُ الْفِرْدَوْسَ فَإِنَّہٗ أَوْسَطُ الْجَنَّۃِ وَأَعْلَی الْجَنَّۃِ أُرَاہُ فَوْقَہٗ عَرْشُ الرَّحْمَنِ وَمِنْہُ تَفَجَّرُ أَنْہَارُ الْجَنَّۃِ) [ رواہ البخاری : کتاب الجہاد والسیر، باب درجات المجاہدین فی سبیل اللہ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔۔ بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے جنت میں سودرجے مجاہدین کے لیے تیار کیے ہیں دو درجوں کے درمیان زمین و آسمان کے برابر فاصلہ ہے۔ جب تم اللہ تعالیٰ سے سوال کرو تو اس سے جنت الفردوس مانگا کرو۔ بلاشبہ وہ جنت کے درمیان اور سب سے اعلیٰ جنت ہے میں نے دیکھا کہ اس کے اوپر اللہ تعالیٰ کا عرش ہے اور اس سے ہی جنت کی نہریں پھوٹتی ہیں۔“ (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ قَیْسٍ (رض) عَنْ أَبِیْہِ عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ إِنَّ لِلْمُؤْمِنِ فِی الْجَنَّۃِ لَخَیْمَۃً مِنْ لُؤْلُؤَۃٍ وَاحِدَۃٍ مُجَوَّفَۃٍ طُوْلُھَا سِتُّوْنَ مِیْلًا لِلْمُؤْمِنِ فِیْھَا أَھْلُوْنَ یَطُوْفُ عَلَیْھِمُ الْمُؤْمِنُ فَلَا یَرٰی بَعْضُھُمْ بَعْضًا) [ رواہ مسلم : کتاب الجنۃ وصفۃ نعیمھا وأھلھا، باب فی صفۃ خیام الجنۃ ....] ” حضرت عبداللہ بن قیس اپنے باپ سے اور وہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان ہے کہ جنت میں مومن کے لیے موتی کا ایک ایسا خیمہ ہوگا جس کی لمبائی ساٹھ میل ہوگی وہاں مومن کے گھر والے ہوں گے جن کے ہاں وہی جائے گا۔ جنتی ایک دوسرے کے ہاں جھانک نہیں سکیں گے۔“ مسائل ١۔ متقین کو جنت کے محلات میں داخل کیا جائے گا۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں کے ساتھ جنت کا وعدہ ہے جو ہر صورت پورا ہوگا۔ تفسیربالقرآن جنت اور اس کی نعمتیں : ١۔ ہم ان کے دلوں سے کینہ نکال دیں گے اور سب ایک دوسرے کے سامنے تکیوں پر بیٹھے ہوں گے۔ انہیں کوئی تکلیف نہیں پہنچے گی اور نہ وہ اس سے نکالے جائیں گے۔ (الحجر : ٤٧۔ ٤٨) ٢۔ جنت کے نیچے سے نہریں جاری ہیں اور اس کے پھل اور سائے ہمیشہ کے لیے ہوں گے۔ (الرعد : ٣٥) ٣۔ جنت میں بے خار بیریاں، تہہ بہ تہہ کیلے، گھنا سایہ، چلتا ہوا پانی، اور کثرت سے میوے ہوں گے۔ (الواقعۃ: ٢٨ تا ٣٠) ٤۔ جنت کے میوے ٹپک رہے ہوں گے۔ (الحاقۃ: ٢٣) ٥۔ جنت میں وہ سب کچھ ہوگا جس کی جنتی خواہش کرے گا۔ (حٰم السجدۃ: ٣١) ٦۔ جنت میں نیچی نگاہ رکھنے والی حوریں ہوں گی جنہیں کسی جن وانس نے چھوا تک نہیں ہوگا۔ ( الرحمن : ٥٦) ٧۔ جنت میں محبت کرنے والی ہم عمر حوریں ہوں گی۔ ( الواقعہ : ٣٧) ٨۔ حوریں نوجوان، کنواریاں اور ہم عمرہوں گی۔ (الواقعہ : ٢٥ تا ٣٨) الزمر
21 فہم القرآن ربط کلام : جس اچھے قول کی متقی پیروی کرتے ہیں اس کی مثال بارش کی مانند ہے : اچھے قول سے مراد ” اللہ“ کا دین ہے جسے ” اللہ“ نے وحی کے ذریعے نبی آخر الزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل فرمایا ہے۔ اس کی مثال یہاں اور سورۃ البقرہ کی آیت ١٩ میں بارش کے ساتھ دی گئی ہے۔” اس کی مثال آسمان سے بارش کی طرح جس میں اندھیرے گرج‘ اور بجلی ہے لوگ موت سے اور کڑک سے ڈر کر اپنی انگلیاں اپنے کانوں میں ڈال لیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کافروں کو گھیرے ہوئے ہے۔“ (البقرۃ: ١٩) اس مقام پر ارشاد ہے کہ اللہ تعالیٰ آسمان سے پانی نازل کرتا ہے جسے زمین کے سوتوں میں پہنچاتا اور چشمے جاری کرتا ہے۔ پھر اس کے ذریعے مختلف قسم کی فصلیں اگاتا ہے۔ ان میں ایسی جڑی بوٹیاں بھی ہوتی ہیں جو صرف بارش سے اگتی ہیں اور کچھ مدّت کے لیے لہلاتی ہیں او پھر گل سڑ جاتی ہیں۔ بارش کے نزول اور اس کے ذریعے اگنے والی مختلف قسم کی نباتات میں عقل سے کام لینے والوں کے لیے بہت سی نصیحتیں ہیں۔” لُبّ“ کا معنٰی عقل، فہم، فراست، دانائی اور سمجھ وغیرہ ہے۔ ” حضرت ابوموسیٰ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے جس علم اور ہدایت کے ساتھ مجھے بھیجا ہے اس کی مثال زمین پر برسنے والی موسلا دھار بارش کی طرح ہے جو زمین کا قطعہ اچھا تھا اس نے اسے قبول کیا۔ اس نے گھاس اور سبزہ خوب اگایا۔ جو زمین سخت تھی پانی اس میں جذب ہونے کی بجائے کھڑارہا۔ اللہ تعالیٰ نے اس سے لوگوں کو فائدہ پہنچایا۔ لوگوں نے خود پانی پیا اور جانوروں کو پلایا اور پھر اس سے کھیتی باڑی بھی کی۔ زمین کا تیسرا ٹکڑا چٹیل میدان تھا نہ اس نے پانی جذب کیا اور نہ ہی پانی اس کے اوپر ٹھہرا۔ اللہ تعالیٰ نے جو دین دے کر مجھے مبعوث فرمایا اس دین کی فہم حاصل کرنے والے اور اس سے نفع اٹھانے والے کی مثال ایسے ہے کہ اس نے علم سے فائدہ اٹھایا خود سیکھا اور لوگوں کو بھی سکھلایا۔ دوسری زمین کی مثال اس شخص کی طرح ہے جس نے دین کے علم کی طرف توجہ نہ کی اور نہ ہی اس بات کو قبول کیا جس کے ساتھ مجھے بھیجا گیا۔“ [ رواہ البخاری : کتاب العلم، باب فضل من علم] مسائل ١۔ ” اللہ“ ہی آسمان سے بارش نازل کرنے والا ہے۔ ٢۔” اللہ“ ہی بارش کے ذریعے مختلف قسم کی نباتات اگاتا ہے۔ ٣۔ ” اللہ“ ہی بارش کے پانی کو زمین میں داخل کرتا اور چشمے جاری کرتا ہے۔ ٤۔ بارش اور اس سے اگنے والی نباتات میں عقل والوں کے لیے نصیحت ہے۔ تفسیربالقرآن اللہ ہی بارش نازل کرنیوالاہے : ١۔ زمین و آسمان بنانے اور بارش اتارنے والا ” اللہ“ ہے کیا اس کے ساتھ کوئی اور برسانے والا ہے ؟ (النمل : ٦٠) ٢۔ ” اللہ“ وہ ذات ہے جو ہواؤں کو خوشخبری دینے کے لیے بھیجتا ہے جو بھاری بادل اٹھاتی ہیں۔ (الاعراف : ٥٧) ٣۔ آسمانوں و زمین کی پیدائش، دن اور رات کی گردش، سمندر میں کشتیوں کے چلنے، آسمان سے بارش نازل کرنے، بارش سے زمین کو زندہ کرنے، چوپایوں کے پھیلنے، ہواؤں کے چلنے اور بادلوں کے مسخر ہونے میں قدرت کی نشانیاں ہیں۔ (البقرۃ : ١٦٤) ٤۔ قیامت برپا ہونے، بارش کے نازل ہونے، جو کچھ رحموں میں ہے اور انسان کل کیا کمائے گا اور اسے کہاں موت آئے گی انہیں صرف اللہ ہی جانتا ہے۔ (لقمان : ٣٤) ٥۔ تم ” اللہ“ سے مغفرت طلب کرو اور اس کی طرف رجوع کرو۔ وہ آسمان سے تمہارے لیے بارش نازل فرمائے گا اور تمہاری قوت میں اضافہ کرے گا۔ (ہود : ٥٢) الزمر
22 فہم القرآن ربط کلام : جس طرح بارش کا پانی جذب کرنے کے بعد زمین گل و گلزار اگاتی ہے اسی طرح ہی جو شخص ہر حال میں اپنے رب کی طرف رجوع کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کا سینہ اسلام کے لیے کھول دیتا ہے اور وہ اسلام کی روشنی میں زندگی بسر کرتا ہے۔ اسلام کی پہلی دعوت ” اللہ“ کی ذات اور اس کی صفات پر اسی طرح ایمان لانا ہے جس طرح اس کا حکم اور تقاضا ہے۔ جو شخص توحید کے تقاضے پورے کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کا سینہ کھول دیتا ہے جس بنا پر اس کے سینے میں ہدایت کا نور پیدا کردیتا ہے۔ ایسا شخص بڑی سے بڑی مصیبت میں اپنے رب پر راضی رہتا ہے۔ اسے غیر معمولی کا میابی اور خوشی نصیب ہوتی ہے تو بھی اپنے آپ سے باہر نہیں ہوتا۔ اس کے مقابلے میں وہ شخص ہے جس کا دل کفر و شرک اور گناہوں کی وجہ سے سخت ہوگیا ہو۔ اسے نصیحت کی جائے تو وہ اس سے چڑتا ہے۔ اللہ کی توحید کا تذکرہ ہو تو اس سے بد کتا ہے۔ اس قسم کے لوگ راہ راست سے اس قدر بھٹک جاتے ہیں کہ ان کی گمراہی میں رتی بھربھی شک باقی نہیں رہتا۔ کیونکہ ان کے دل اس قدر سخت ہوجاتے ہیں کہ ان پر کوئی نصیحت اثر انداز نہیں ہوتی۔ یہ بدقسمتی اور نافرمانی کا وہ درجہ ہے۔ جس کے بارے میں قرآن مجید نے بتلایا ہے کہ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کے دلوں اور کانوں پر مہر لگا دیتا ہے اور ان کی آنکھوں پر گمراہی کا پردہ ڈال دیا جاتا ہے۔ قیامت کے دن ان کے لیے عظیم عذاب ہوگا۔ ( البقرہ : ٧) الزمر
23 فہم القرآن ربط کلام : جس نور کا پچھلی آیت میں ذکر ہوا وہ قرآن مجید کی شکل میں نازل ہوا ہے اور ” اللہ“ سے ڈرنے والوں کے لیے ہدایت کا سرچشمہ ہے۔ اس سے پہلی آیت میں یہ ارشاد ہواکہ اللہ تعالیٰ جس کا سینہ اسلام کے لیے کھول دیتا ہے وہ اپنے رب کے نور پر ہوتا ہے۔ المائدۃ آیت ١٥ میں اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کو نور قرار دیا ہے پھر ارشاد ہوا کہ اس قرآن کو ہم نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف نازل فرمایا تاکہ آپ اپنے رب کے حکم سے لوگوں کو تاریکیوں سے نکال کر قرآن کے نور کی طرف لے آئیں۔ (ابراہیم : ١) یہاں قرآن مجید کو ” اَحْسَنَ الْحَدِیْثِ“ فرمایا ہے۔ اس کی آیات اور مضامین آپس میں ملتے جلتے ہیں اور باربار دوہرائے جاتے ہیں۔ جو لوگ اپنے رب سے ڈرنے والے ہیں۔ قرآن کی آیات سن کر ان کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں، اور ان کے وجود کانپ اٹھتے ہیں۔ ان کے دل اپنے رب کی ذات اور اس کے فرمان کی طرف مزید متوجہ ہوجاتے ہیں۔ یہ ” اللہ“ کی ہدایت ہے وہ جسے چاہتا ہے اس کی طرف راہنمائی کرتا ہے۔ جس کو اللہ گمراہ کر دے اسے کوئی ہدایت دینے والا نہیں ہوتا۔ قرآن مجید کے بے شمار اوصاف ہیں اس مقام پر اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کے چار اوصاف حمیدہ کا ذکر فرمایا ہے۔ 1 قرآن مجید کے احکام اور اس کے ارشادات ہر اعتبار سے بہترین اور دنیا اور آخرت کے لیے بے انتہا مفید ہیں۔ نبی آخرالزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے خطبہ میں اکثر یہ الفاظ پڑھا کرتے تھے۔ (فَإِنَّ خَیْرَ الْحَدِیثِ کِتَاب اللَّہِ وَخَیْرُ الْہُدَی ہُدَی مُحَمَّدٍ وَشَرُّ الأُمُورِ مُحْدَثَاتُہَا وَکُلُّ بِدْعَۃٍ ضَلاَلَۃٌ) [ رواہ مسلم : باب تَخْفِیف الصَّلاَۃِ وَالْخُطْبَۃِ] ” بے شک سب سے بہترین بات اللہ تعالیٰ کی کتاب ہے اور بہترین طریقہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا طریقہ ہے۔ بدترین کام بدعات ہیں اور ہر بدعت گمراہی ہے۔“ 2 قرآن مجید کے مضامین آپس میں ملتے جلتے ہیں۔ ان میں کسی قسم کا تعارض اور تنا قص نہیں پایا جاتا۔ یوسف (علیہ السلام) کے واقعہ کے سوا جو واقعات قرآن مجید میں بیان ہوئے ہیں انہیں مختلف الفاظ میں اور کئی مقامات پر بیان کیا گیا ہے لیکن کسی ایک واقعہ میں تضاد کا شائبہ تک نہیں پایا جاتا۔ 3 قرآن مجید اس قدر محبوب اور دل آویز کتاب ہے کہ اسے جتنی بار بھی پڑھا جائے اس کی کشش اور لذّت میں اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ دنیا میں کوئی ایسی کتاب موجود نہیں اور نہ ہوگی جسے باربار پڑھنے سے دل کی چاہت میں اضافہ ہوتا ہو یہ لذت اور سرور صرف کتاب اللہ میں ہی پایا جاتا ہے۔ 4 قرآن مجید کی تاثیر کا عالم یہ ہے کہ کوئی شخص اسے سمجھ کر پڑھے یا صرف اس کی تلاوت کرے تب بھی یہ کتاب پڑھنے والے پر اپنا غیر معمولی اثر پیدا کرتی ہے جس وجہ سے ترجمہ نہ جاننے والے شخص پر بھی اس قدر گہرا اثر ہوتا ہے کہ اس کے جسم کے رو نگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں، اس کا وجود لرزتا ہے اور دل اللہ کی یاد میں مسرور اور مسحور ہوجاتا ہے۔ جس نے سمجھ کر اس کی تلاوت کا حق ادا کرنے کی کوشش کی اس میں کسی قسم کا تکبر نہیں پایا جاتا اگر کسی وقت اس پر شیطان کا غلبہ ہو۔ تو وہ اللہ کی یاد سے شیطان کے اثرات سے نجات پاتا ہے۔ ہدات اور گمراہی کے بارے میں فہم القرآن کے کئی مقامات پر عرض ہوا ہے کہ جس طرح دوسری نعمتیں اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہیں اسی طرح ہدایت اور گمراہی بھی اس کے قبضہ میں ہے۔ جو شخص ہدایت کا طالب ہوتا ہے اسے اللہ تعالیٰ ہدایت نصیب کرتا ہے اور جو ہدایت نہیں چاہتا اسے گمراہی کے لیے کھلا چھوڑ دیا جاتا ہے۔ اسی بات کو اللہ تعالیٰ اپنی طرف منسوب کرتا ہے۔ کہ وہ جسے چاہے ہدایت دے اور جسے چاہے گمراہ کر دے۔ ” جسے اللہ ہدایت دے سو وہی ہدایت والا ہے اور جسے وہ گمراہ کردے وہ شخص خسارہ پانے والا ہے۔“ (الاعراف : ١٧٨) (عَنِ ابْنِ عَبَّاس (رض) قَالَ قَالَ أَبُو بَکْرٍ (رض) یَا رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَدْ شِبْتَ قَالَ شَیَّبَتْنِی ہُودٌ وَالْوَاقِعَۃُ (وَالْمُرْسَلاَتُ) وَ (عَمَّ یَتَسَاءَ لُونَ) وَ (إِذَا الشَّمْسُ کُوِّرَتْ) قَالَ أَبُو عیسَی ہَذَا حَدِیثٌ حَسَنٌ غَرِیبٌ لاَ نَعْرِفُہُ مِنْ حَدِیثِ ابْنِ عَبَّاسٍ (رض) إِلاَّ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ وَرَوَی عَلِیُّ بْنُ صَالِحٍ ہَذَا الْحَدِیثَ عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ عَنْ أَبِی جُحَیْفَۃَ نَحْوَ ہَذَا وَرُوِیَ عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ عَنْ أَبِی مَیْسَرَۃَ شَیْءٌ مِنْ ہَذَا مُرْسَلاً] [ رواہ الترمذی : باب وَمِنْ سُورَۃِ الْوَاقِعَۃِ ] ” حضرت عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ حضرت ابوبکر (رض) نے عرض کی کہ اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ بوڑھے ہوئے جا رہے ہیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا سورۃ ھود، واقعہ، مرسلات، عم یتساء لون اور سورۃ تکویر نے مجھے بوڑھا کردیا ہے۔“ ” حضرت نعمان بن بشیر (رض) بیان کرتے ہیں۔ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ یقیناً دوزخیوں میں سب سے معمولی عذاب پانے والے کے پاؤں میں آگ کے جوتے اور تسمے ہوں گے۔ جس کی وجہ سے اس کا دماغ ہنڈیا کی طرح کھول رہا ہوگا۔ وہ یہ خیال کرے گا کہ دوسرے شخض کو اس سے زیادہ عذاب نہیں ہو رہا، حالانکہ وہ سب سے ہلکے عذاب میں مبتلا ہوگا۔“ [ رواہ مسلم : باب أھون أھل النار عذابا] مسائل ١۔ قرآن مجید کے احکام اور ارشادات ہر حوالے سے بے مثال اور دنیا اور آخرت میں بے انتہا فائدہ دینے والے ہیں۔ ٢۔ قرآن مجید کے مضامین اور احکام میں یکسانیت پائی جاتی ہے۔ ٣۔ قرآن مجید ہی باربار پڑھی جانے والی کتاب ہے۔ ٤۔ قرآن مجید کی تلاوت سے انسان کے جسم کے رونگٹے کھڑے ہوتے ہیں اور وجود میں لرزہ طاری ہوتا ہے اور دل اپنے رب کی طرف مائل ہوتے ہیں۔ ٥۔ ہدایت اور گمراہی اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے۔ تفسیربالقرآن قرآن مجید کی تاثیر : ١۔ قرآن مجید لوگوں کے لیے ہدایت اور نصیحت ہے۔ (آل عمران : ١٣٨) ٢۔ قرآن مجید لوگوں کو اندھیروں سے نکال کر روشنی کی طرف لاتا ہے۔ (ابراہیم : ١) ٣۔ قرآن مجید لوگوں کے لیے ہدایت ہے۔ (البقرۃ: ١٨٥) ٤۔ قرآن مجید دلوں کے لیے شفا ہے۔ ( یونس : ٥٧) ٥۔ تلاوت قرآن سے اللہ کا خوف پیدا ہوتا ہے۔ (الانفال : ٢) ٦۔ قرآن کی تلاوت سے ایمان میں اضافہ ہوتا ہے۔ (الانفال : ٢) الزمر
24 فہم القرآن ربط کلام : جن لوگوں نے ہدایت کے باوجود گمراہی کو پسند کیا ان کا انجام۔ جس شخص نے اپنے لیے گمراہی کو پسند کیا اس کو اللہ تعالیٰ ہدایت نہیں دیتا اور جسے اللہ تعالیٰ ہدایت نہ دے قیامت کے دن اسے بد ترین عذاب ہوگا اور انہیں کہا جائے گا کہ ظالمو ! اپنے کیے کا مزہ چکھو۔ انسان کی فطرت ہے کہ جب اس پر کوئی چیز سامنے سے حملہ آور ہوتی ہے تو وہ سب سے پہلے اس سے اپنا چہرہ چھپانے اور بچانے کی کوشش کرتا ہے۔ جہنم کی آگ اس قدر شعلہ فگن ہوگی جس کے شعلے پہاڑوں کی مانند ہوں گے اور جہنمی کا جسم اتنا بڑا گا کہ اس کی زبان تین میل لمبی اور اس کی ایک ڈاڑھ احد پہاڑ کے برابر ہوگی۔ (رواہ البخاری : کتاب الرقاق) جب اسے جہنم میں دھکیلا جائے گا تو جہنم کی آگ طوفان کی شکل میں اس کا استقبال کرے گی اور اس کے شعلے اس قدر جوش مارتے ہوئے جہنمی کے چہرے کی طرف لپکیں گے۔ کہ وہ ہر ممکن کوشش کرے گا کہ اس کا چہرہ بچ جائے لیکن وہ کسی صورت اپنا چہرہ اور جسم نہ بچا سکے گا۔ (کَلَّا لَیُنْبَذَنَّ فِی الْحُطَمَۃِ وَمَا اَدْرٰکَ مَا الْحُطَمَۃُ نَار اللّٰہِ الْمُوْقَدَۃُ الَّتِیْ تَطَّلِعُ عَلَی الْاَفْءِدَۃِ اِِنَّہَا عَلَیْہِمْ مُوْصَدَۃٌ فِیْ عَمَدٍ مُّمَدَّدَۃٍ )[ الہمزۃ: ٤ تا ٩] ” ہرگز ایسا نہیں ہوسکتا یقیناً وہ حطمہ میں ڈال دیا جائے گا اور تجھے کیا معلوم حطمہ کیا ہے۔ حطمہ اللہ کی بھڑکائی ہوئی آگ ہے جو دلوں تک چڑھ آئے گی وہ آگ ان کو گھیرے ہوئے ہے لمبے لمبے ستونوں میں بندھے ہوئے ہیں۔“ (لَہُمْ مِنْ فَوْقِہِمْ ظُلَلٌ مِنَ النَّارِ وَمِنْ تَحْتِہِمْ ظُلَلٌ ذَلِکَ یُخَوِّفُ اللَّہُ بِہِ عِبَادَہُ یَا عِبَادِ فَاتَّقُونِ)[ الزمر : ١٦] ” ان کے اوپر اور نیچے سے آگ ہوگی یہ وہ انجام ہے جس سے اللہ اپنے بندوں کو ڈراتا ہے پس اے میرے بندو میرے عذاب سے بچو۔“ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ أَنَّ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ نَارُکُمْ جُزْءٌ مِنْ سَبْعِینَ جُزْءً ا مِنْ نَارِ جَہَنَّمَ قیلَ یَا رَسُول اللّٰہِ إِنْ کَانَتْ لَکَافِیَۃً قَالَ فُضِّلَتْ عَلَیْہِنَّ بِتِسْعَۃٍ وَسِتِّینَ جُزْءً ا کُلُّہُنَّ مِثْلُ حَرِّہَا) [ رواہ البخاری : کتاب بدء الخلق، باب صفۃ النار] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں ایک دفعہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تمھاری دنیاکی آگ جہنم کی آگ کے ستر درجے کم ہے۔ صحابہ نے عرض کی کیا یہی آگ کافی نہیں تھی۔ آپ نے فرمایا وہ اس سے انہتر درجے زیادہ تیز ہے اور ہر درجہ دوسرے کے برابر ہے۔“ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ أُوقِدَ عَلَی النَّارِ أَلْفَ سَنَۃٍ حَتَّی احْمَرَّتْ ثُمَّ أُوقِدَ عَلَیْہَا أَلْفَ سَنَۃٍ حَتَّی ابْیَضَّتْ ثُمَّ أُوقِدَ عَلَیْہَا أَلْفَ سَنَۃٍ حَتَّی اسْوَدَّتْ فَہِیَ سَوْدَاءُ مُظْلِمَۃٌ) [ رواہ الترمذی : کتاب صفۃ جہنم] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا دوزخ کی آگ کو ایک ہزار سال تک کو بھڑکا یا گیا تو وہ سرخ ہوگئی پھر اس کو ایک ہزار سال تک بھڑکا یا گیا یہاں تک کہ وہ سفید ہوگئی پھر اس کو ایک ہزار سال تک بھڑکایا گیا حتی کہ وہ سیاہ ہوگئی اب اس کا رنگ سیاہ ہے۔“ مسائل ١۔ جہنمی جہنم کی آگ سے اپنے چہرے بچانے کی کوشش کریں گے لیکن وہ ہرگز نہ بچا سکیں گے۔ ٢۔ قیامت کے دن ظالموں کو ہر صورت اپنے کردار کا خمیازہ بھگتنا ہوگا۔ تفسیربالقرآن جہنم کی آگ کا جوش : ١۔ جہنم کا ایندھن لوگ اور پتھر ہوں گے۔ (البقرۃ: ٢٤) ٢۔ جہنم کی آگ بہت زیادہ تیز ہوگی۔ (التوبۃ: ٨١) ٣۔ مجرم لوگ جہنم کے گرجنے برسنے کی آوازیں سنیں گے۔ (الفرقان : ١٢) ٤۔ جہنم بھرنے کا نام نہیں لے گی۔ (ق : ٣٠) ٥۔ جہنم کا ایندھن لوگ اور پتھر ہوں گے اور اس پر سخت گیر فرشتوں کی ڈیوٹی لگائی گئی ہے۔ (التحریم : ٦) ٦۔ مجرموں کو جب جہنم میں ڈالا جائے گا تو وہ اس کی چٹخارسنیں گے۔ (الملک : ٧) ٧۔ جہنم کی آگ کے شعلے بڑے بڑے مکانوں کے برابر بلند ہوں گے۔ ( المرسٰلٰت : ٣٢) الزمر
25 فہم القرآن ربط کلام : ظالموں کو صرف آخرت میں سزا نہیں ملے گی بلکہ دنیا میں بھی انہیں ذلّت سے دوچار ہونا پڑے گا۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کفار اور مشرکین کو باربار سمجھاتے کہ اگر تم نے کفر و شرک کو نہ چھوڑا تو قیامت کے دن تمہیں اذیت ناک عذاب کا سامنا کرنا پڑے گا اور دنیا میں بھی تم پر عذاب نازل ہوسکتا ہے۔ اس بات پر لوگ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا مذاق اڑاتے اور تکرار کے ساتھ مطالبہ کرتے کہ جس عذاب سے ہمیں ڈرایا اور دھمکایا جاتا ہے ہم پر نازل کیوں نہیں ہوتا؟ عذاب کا مطالبہ کرنے والوں کو ایک مرتبہ پھر سمجھایا گیا ہے کہ جس عذاب کا تم مذاق اڑاتے ہو وہ تمہیں ایسے مقام اور وقت میں آلے گا جس کا تم تصور بھی نہیں کرسکتے۔ اگر سمجھنا اور بچنا چاہتے ہو تو اپنے سے پہلے ظالموں کی تاریخ پڑھو اور ان کا جغرافیہ دیکھو ! تمہیں معلوم ہوجائے گا کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں دنیا کی زندگی میں کس طرح ذلیل کیا اور آخرت میں ان کے لیے بہت بڑا عذاب ہوگا۔ کا ش! لوگ حقیقت پانے کی کوشش کریں۔ تفسیر بالقرآن پہلی اقوام پر عذاب کی مختلف صورتیں : ١۔ کیا وہ لوگ بے فکر ہوگئے ہیں کہ اللہ انہیں زمین میں دھنسا دے؟ (النحل : ٤٥) ٢۔ قوم عاد کو تیز و تند ہوا نے ہلاک کیا۔ (الحاقۃ : ٦) ٣۔ قوم ثمود کو چیخ نے آپکڑا۔ وہ اپنے گھروں میں اوندھے پڑے رہ گئے۔ (ھود : ٦٧) ٤۔ آل فرعون کو غرق کردیا گیا۔ (البقرۃ : ٥٠) ٥۔ بنی اسرائیل کو اللہ نے ذلیل بندر بنا دیا۔ (البقرۃ : ٦٥) الزمر
26 الزمر
27 فہم القرآن ربط کلام : ظالموں کو عذاب میں مبتلا کرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ نے انہیں بارہا دفعہ سمجھایا تاکہ یہ عذاب سے بچ جائیں۔ اللہ تعالیٰ کا یہ ضابطہ ہے کہ اس وقت تک کسی قوم کو عذاب نہیں دیتا جب تک ان کے پاس حق کا پیغام نہ پہنچ جائے اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے پہلی اقوام کے پاس انبیائے کرام (علیہ السلام) بھیجے جو انہیں ٹھوس دلائل اور مؤثر انداز میں سمجھاتے رہے۔ اسی اصول کے پیش نظر اللہ تعالیٰ نے نبی آخر الزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مبعوث فرمایا اور قرآن مجید میں مختلف امثال کے ذریعے لوگوں کو نصیحتیں فرمائیں تاکہ لوگ کفر و شرک اور ہر قسم کی نافرمانیوں سے بچ کر قرآن کی ہدایت کے مطابق زندگی گزاریں۔ قرآن مجید عربی زبان میں نازل کیا گیا ہے جس میں کسی قسم کا کوئی اختلاف اور ابہام نہیں پایا جاتا۔ قرآن مجید یکبار نہیں بلکہ تئیس (٢٣) سال میں وقفہ وقفہ سے نازل ہوا۔ اس کے باوجود اس میں کسی قسم کا تعارض نہیں پایا جاتا۔ قرآن مجید اپنا پیغام اس قدر پُر حکمت اور شفاف انداز میں پیش کرتا ہے کہ معمولی سمجھ رکھنے والا انسان بھی اس سے کامل راہنمائی حاصل کرسکتا ہے۔ پھر لوگوں کی فہم کی آسانی کے لیے توحید و رسالت اور موت کے بعد جی اٹھنے کے عقیدہ کو کئی مثالوں کے ذریعے بیان اور ثابت کیا گیا ہے تاکہ لوگ اس پر ایمان لائیں، اس کے تقاضے پورے کریں اور اپنے رب کی نافرمانی سے بچیں۔ تفسیر بالقرآن قرآن مجید میں کوئی ابہام اور اختلاف نہیں پایا جاتا : ١۔ یہ کتاب مبین ہے اس میں کسی قسم کا شک نہیں ہے۔ (البقرۃ: ٢) ٢۔ قرآن مجید میں کوئی کجی نہیں ہے۔ (الکہف : ١) ٣۔ قرآن مجید لوگوں کے لیے باعث ہدایت اور رحمت ہے۔ (یونس : ٥٧) الزمر
28 الزمر
29 فہم القرآن ربط کلام : قرآن مجید میں بیان کی گئی امثال میں سے ایک مثال۔ قرآن مجید کی پہلی اور بنیادی دعوت ” اللہ“ کی ذات اور اس کی صفات کا شعور حاصل کرنا اور اس کے مطابق اپنی زندگی ڈھالنا ہے اس لیے توحید کو مختلف انداز اور امثال کے ذریعے سمجھایا گیا ہے۔ مشرک اور موحد کے درمیان فرق سمجھانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے دو آدمیوں کی مثال دی ہے۔ ان میں سے ایک شخص وہ ہے جو کئی آقاؤں کا زر خرید غلام ہے۔ جو مختلف مزاج رکھنے والے اور ایک دوسرے سے بڑھ کر بد اخلاق ہیں۔ اس غلام کو ایک مالک اپنی طرف بلاتا ہے اور دوسرا اپنے پاس آنے کا حکم دیتا ہے۔ ایک آقا اپنی مرضی کا کام دیتا ہے اور دوسرا اس کے الٹ ڈیوٹی لگاتا ہے۔ اس غلام کی بے بسی اور مظلومیت کا کون تصور کرسکتا ہے کہ جو ایک قدم آگے بڑھانے پر مجبور ہے اور دوسرا قدم پیچھے کی طرف اٹھانے پر مجبور کردیا جاتا ہے۔ جائے تو کہاں جائے حکم مانے تو کس کا مانے۔ گویا کہ وہ جائے رفتن نہ پائے ماندن کی کشمکش میں مبتلا ہے۔ اس کے مقابلے میں وہ شخص ہے جس کا صرف ایک ہی مالک ہے جو نہایت ہی خیر خواہ اور بہت مہربان ہے وہ اسے حکم دیتے ہوئے اس کی طبیعت اور استعداد کا خیال رکھتا ہے۔ کیا یہ دونوں غلام برابر ہوسکتے ہیں ؟ ظاہر ہے کہ کوئی ادنیٰ عقل رکھنے والا شخص بھی انہیں ایک جیسا نہیں کہہ سکتا۔ اسی لیے موحد کو حکم فرمایا کہ وہ اپنے رب کا شکر ادا کرے جس نے اسے صرف اپنے سامنے جھکنے کا حکم دیا اور اس کو دردر کی ٹھوکروں سے بچا لیا۔ اور توحید کے ایسے دلائل دیئے کہ جو ہر دورکے مشرک کو لاجواب کردیتے ہیں لیکن مشرک اس قدر حقیقی علم سے بے خبر ہوتا ہے کہ وہ دو غلاموں کا فرق سمجھنے اور اس سچائی کو جاننے کے باوجود صرف اللہ کی بندگی اور بہت سے خداؤں کی بندگی میں فرق کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ یہی مشرک اور موحد کا فرق ہے۔ موحد کا عقیدہ ہے کہ میرا رب میری طاقت سے زیادہ مجھ پر بوجھ نہیں ڈالتا۔ اس کے ہر حکم اور کام میں حکمت اور خیر خواہی ہوتی ہے جس بنا پر موحّد عُسر اور یسر، خوشی اور غمی میں اپنے رب پر راضی رہتا ہے۔ اس کے مقابلے میں مشرک نہ اپنے رب کے حکم کی اتباع کرتا ہے اور نہ ہی اس کے فیصلوں پر راضی ہوتا ہے رب کا حکم ہے کہ میرے سوا کسی کی بندگی نہ کی جائے اور نہ میرے حکم کے خلاف کسی کا حکم تسلیم کیا جائے۔ مشرک نہ اپنے رب کے فیصلوں پر راضی ہوتا ہے اور نہ اس کے حکم کو تسلیم کرتا ہے۔ وہ ایک رب کی عبادت کرنے کی بجائے جگہ جگہ ٹکریں مارتا پھرتا ہے۔ ایک مالک کا حکم ماننے کی بجائے کبھی کسی ڈکیٹر کا حکم مانتا ہے اور کبھی جمہوریت کو حاکم اعلیٰ تسلیم کرتا ہے۔ وہ ایک رسول کی اطاعت کرنے کی بجائے جو حقیقتاً اللہ کی اطاعت ہے کئی اماموں اور بزرگوں کی اطاعت کا دم بھرتا ہے۔ کیا ” اللہ“ اور اس کے رسول کی تابعداری بہتر ہے یا کئی خداؤں اور بہت سے اماموں کی تابعداری بہتر ہے ؟ پھر سوچ لیجیے کہ دونوں میں کون بہتر ہے ؟ لیکن مشرک اس حقیقت کو پانے کے لیے تیار نہیں۔ مسائل ١۔ کیا ایک کی غلامی بہتر ہے یا کئی آقاؤں کی غلامی بہتر ہے؟ ٢۔ کیا ایک الٰہ کا بندہ بننا اور اس کی عبادت کرنا بہتر ہے یا کئی خداؤں کا بندہ بننا اور ان کے سامنے جھکنا بہتر ہے؟ ٣۔ کیا حاکم حقیقی کا حکم ماننا بہتر ہے یاکسی ڈکٹیٹر اور جمہوریت کو حاکم اعلیٰ تسلیم کرنا بہتر ہے ؟ ٤۔ کیا اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت بہتر ہے یا درجنوں خداؤں، کئی اماموں اور پیروں کی تابعداری بہتر ہے ؟ ٥۔ تمام تعریفات اللہ کے لیے ہیں جس نے انسان کو صرف اپنی بندگی کا حکم دیا ہے۔ ٦۔ لوگوں کی اکثریت حقائق جاننے اور انہیں ماننے کے لیے تیار نہیں ہوتی۔ تفسیر بالقرآن قرآن کی امثال : ١۔ ایک غلام کے دو مالک ہوں تو؟۔ (الزمر : ٢٩) ٢۔ ناکارہ اور کار آمد غلام کی مثال۔ (النحل : ٧٦) ٣۔ مشرک کی تباہی کی مثال۔ (الحج : ٣١) ٤۔ باطل معبودوں اور مکھی کی مثال۔ (الحج : ٧٣) ٥۔ دھوپ اور سایہ کی مثال۔ (فاطر : ٢١) ٦۔ اندھیرے اور روشنی کی مثال۔ (فاطر : ٢٠) ٧۔ اندھے، دیدے، بہرے اور سننے والے کی مثال۔ (ھود : ٢٤) الزمر
30 فہم القرآن ربط کلام : بے علمی کی انتہا اور اس کے برے نتائج۔ مکہ کے ابتدائی سالوں کی بات ہے کہ اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قرآن مجید کے دلائل اور اس میں دی جانے والی امثال کے ذریعے توحید و رسالت اور آخرت کا عقیدہ بیان فرماتے تو مکہ کے بڑے بڑے لوگ لاجواب ہوجاتے لیکن عوام کو مطمئن کرنے کے لیے کہتے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خود ساختہ دعوت از خود ختم ہوجائے گی تھوڑے سے انتظار کی ضرورت ہے اس کے مرنے کے بعد اس کا قصہ بالکل پاک ہوجائے گا۔ نہ اس کا بیٹا ہے جو اس کے مشن کو جاری رکھ سکے اور نہ اس کے ساتھی اتنے زیادہ ہیں جو ہمارا مقابلہ کرسکیں۔ اس موقعہ پر انہیں یہ جواب دیا گیا کہ ان کا کہنا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو موت آجائے گی۔ کیا آپ کو موت آئے گی تو انہوں نے دنیا میں ہمیشہ رہنا ہے؟ ہرگز نہیں بلکہ انہوں نے بھی مرنا ہے اور آپ کو بھی موت آئے گی کیونکہ موت ہر ذی روح کا مقدر ہے۔ صرف آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا رب ہمیشہ سے ہے اور اس نے ہمیشہ رہنا ہے۔ اسی کے سامنے قیامت کے دن تنا زعات پیش ہوں گے اور وہی تمہارے تنازعات کے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ کرے گا۔ تنازعات انفرادی ہوں یا اجتماعی، مذہبی ہوں یا سیاسی، مالیاتی ہوں یا فوج داری غرض کے جس قسم کے بھی چھوٹے بڑے تنازعات ہوں گے اللہ تعالیٰ ان کے درمیان ٹھیک ٹھیک فیصلے صادر فرمائے گا۔ یہاں تک کہ جانوروں کے درمیان بھی عدل کے ساتھ فیصلے کیے جائیں گے۔ (عَنْ اَبِی ھُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لَتُؤَدُّنَّ الْحُقُوْقَ إِلٰی أَھْلِھَا یَوْمَ الْقِیَامَۃِ‘ حَتّٰی یُقَاد للشَّاۃِ الْجَلْحَاءِ مِنَ الشَّاۃِ الْقَرْنَاءِ) [ رواہ مسلم : کتاب البروالصلۃ، باب تحریم الظلم] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تمہیں قیامت کے دن لوگوں کے حقوق ان کے مالکوں کو ادا کرنا پڑیں گے، یہاں تک کہ جس بکری کے سینگ نہیں ہیں اس کو سینگ والی بکری سے بدلہ دلایا جائے گا۔“ (عَنْ عُبَادَۃَ بْنِ الصَّامِتِ عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ مَنْ أَحَبَّ لِقَاء اللّٰہِ أَحَبَّ اللّٰہُ لِقَاءَ ہٗ وَمَنْ کَرِہَ لِقَاء اللّٰہِ کَرِہَ اللّٰہُ لِقَاءَ ہٗ قَالَتْ عَاءِشَۃُ أَوْ بَعْضُ أَزْوَاجِہٖ إِنَّا لَنَکْرَہُ الْمَوْتَ قَالَ لَیْسَ ذَاکِ وَلٰکِنَّ الْمُؤْمِنَ إِذَا حَضَرَہُ الْمَوْتُ بُشِّرَ بِرِضْوَان اللّٰہِ وَکَرَامَتِہِ فَلَیْسَ شَیْءٌ أَحَبَّ إِلَیْہِ مِمَّا أَمَامَہٗ فَأَحَبَّ لِقَاء اللّٰہِ وَأَحَبَّ اللّٰہُ لِقَاءَ ہٗ وَإِنَّ الْکَافِرَ إِذَا حُضِرَ بُشِّرَ بِعَذَاب اللّٰہِ وَعُقُوبَتِہٖ فَلَیْسَ شَیْءٌ أَکْرَہَ إِلَیْہِ مِمَّا أَمَامَہٗ کَرِہَ لِقَاء اللّٰہِ وَکَرِہَ اللّٰہُ لِقَاءَ ہٗ) [ رواہ البخاری : کتاب الرقاق، باب، من أحب لقاء اللّٰہ أحَب اللّٰہ لقاء ہ] ” حضرت عبادہ بن صامت (رض) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : جو اللہ کی ملاقات کو پسند کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی ملاقات کو پسند کرتا ہے اور جو اللہ کی ملاقات کو ناپسند کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی ملاقات کو ناپسند کرتا ہے۔ حضرت عائشہ (رض) یا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بیویوں میں سے کسی نے عرض کیا ہم تو موت کو ناپسند کرتے ہیں۔ آپ نے فرمایا بات یہ نہیں بلکہ بات یہ ہے کہ جب مومن کی موت کا وقت آتا ہے تو اس کو اللہ کی رضامندی اور انعام واکرام کی بشارت دی جاتی ہے۔ اس بشارت کی وجہ سے موت اسے تمام چیزوں سے زیادہ محبوب ہوجاتی ہے اس وجہ سے وہ اللہ کی ملاقات کو پسند کرتا ہے اور اللہ اس کی ملاقات کو پسند کرتا ہے۔ جب کافر کی موت کا وقت آتا ہے تو اسے اللہ کے عذاب کی وعید سنائی جاتی ہے۔ یہ وعید اسے اپنے سامنے چیزوں سے سب سے زیادہ ناپسند ہوتی ہے اسی وجہ سے وہ اللہ کی ملاقات کو ناپسند کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ اس کی ملاقات کو ناپسند کرتا ہے۔ (مومن موت سے پہلے گھبراتا ہے جب آجاتی ہے تو اپنے مالک کی ملاقات کے لیے خوش ہوجاتا ہے۔) مسائل ١۔ اے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ کو بھی موت آئے گی اور آپ کے مخالفوں نے بھی مرنا ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن سب کے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ فرمائے گا۔ تفسیر بالقرآن موت سب کو آنی ہے : ١۔ ہر شے فنا ہوجائے گی۔ صرف رب رحمن باقی رہے گا۔ (الرحمن : ٢٦، القصص : ٨٨) ٢۔ قلعہ بند ہونے کے باوجود موت تمہیں نہیں چھوڑے گی۔ (النساء : ٧٨) ٣۔ موت کی جگہ اور وقت مقرر ہے۔ (الاعراف : ٣٤) ٤۔ پہلے انبیاء فوت ہوئے۔ (آل عمران : ١٤٤) ٥۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی موت سے ہمکنار ہوں گے۔ (الزمر : ٣٠) ٦۔ ہر نفس کو موت آئے گی جو جہنم سے بچا کر جنت میں داخل کیا گیا وہ کامیاب ہوگا۔ ( آل عمران : ١٨٥) الزمر
31 الزمر
32 فہم القرآن ربط کلام : اللہ کی توحید کا انکار اور دین حق کو جھٹلانے والوں کا انجام۔ اہل مکہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں ہرزہ سرائی کرتے تھے کہ آپ قرآن اپنی طرف سے بنا لیتے ہیں یہاں بین السطور اس کی تردید کرتے ہوئے فرمایا کہ سب سے بڑا اور برا جھوٹ یہ ہے کہ کوئی شخص اللہ تعالیٰ پر جھوٹ بولے اور جب اس کے سامنے قرآن و سنت پیش کیے جائیں تو وہ ان کی تکذیب کرے ایسے جھگڑالو اور جھوٹے آدمی کی سزا جہنم کے سوا کوئی اور نہیں ہوسکتی۔ اللہ تعالیٰ پر جھوٹ بولنے کا یہ بھی معنٰی ہے کہ کوئی شخص یہ دعویٰ کرے کہ اللہ تعالیٰ نے زندہ یا فوت شدہ کسی ہستی کو اپنی خدائی میں شریک کر رکھا ہے۔ ایسا کہنے والا پرلے درجے کا ظالم، کذاب اور جھگڑالو ہے۔ اس کے ساتھ وہ شخص بھی بالواسطہ طور پر اللہ تعالیٰ کے ذمہ جھوٹ لگاتا ہے جو سرورِدوعالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تکذیب کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں کافرقرار دیتے ہوئے فرمایا ہے کہ ان کے لیے جہنّم تیار کی گئی ہے۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ پر جھوٹ بولنے والا سب سے بڑا ظالم ہے۔ ٢۔ نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تکذیب کرنے والا بھی ظالم ہے۔ ٣۔ اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تکذیب کرنیوالے کافر ہیں۔ ان کے لیے جہنم تیار کی گئی ہے۔ تفسیر بالقرآن بڑے بڑے ظالم : ١۔ اللہ کی آیات کو جھٹلانے والا ظالم ہے۔ (الاعراف : ٣٧) ٢۔ سچ بات کو جھٹلانے والا ظالم ہے۔ (الزمر : ٣٢) ٣۔ اللہ پر جھوٹ باندھنے والا ظالم ہے۔ (الانعام : ١٢) ٤۔ نبوت کا دعویٰ کرنے والا ظالم ہے۔ (الانعام : ٩٣) الزمر
33 فہم القرآن ربط کلام : حق کو جھٹلانے والے کے مقابلے میں سچائی کی تصدیق کرنے والے کا مقام اور صلہ۔ جو شخص لوگوں کے سامنے سچائی کے ساتھ آیا اور جس نے سچائی کی حمایت کی وہی لوگ اپنے رب سے ڈرنے والے ہیں۔ ان کے لیے ان کے رب کے پاس وہ سب کچھ ہوگا جس کی وہ تمنا کریں گے۔ نیکی کرنے والوں کو اس طرح ہی صلہ دیا جائے گا۔ حق لانے والے سے مراد سرور دوعالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات گرامی ہے۔ تصدیق کرنے والوں میں سر فہرست صحابہ کرام (علیہ السلام) کی جماعت ہے۔ اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ ( علیہ السلام) کو حق بات کی دعوت دی تو انہوں نے اسے قبول کیا اور دل و جان کے ساتھ حق کا ساتھ دیا۔ اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ (رض) کے بعدہر آدمی اس صلہ کا حق دار ٹھہرے گا۔ جس نے سچائی کو قبول کیا اور خلوصِ دل کے ساتھ لوگوں تک حق بات پہنچانے کی جدوجہد کرتا رہا۔ ایسے لوگ ہی صاحب تقویٰ ہیں انہیں وہ سب کچھ دیا جائے گا جس کی وہ چاہت کریں گے۔ اللہ تعالیٰ ان کے گناہوں کو ختم فرمائے گا اور ان کے نیک کاموں کا بہترین بدلہ دینے کے ساتھ انہیں اپنے کرم سے مزید نوازتا رہے گا۔ گناہوں کے خاتمہ کے بارے میں ” کَفَّرَ“ کا لفظ استعمال کیا ہے جس کا معنٰی ہے کسی بات کو ہر اعتبار سے چھپادیا جائے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ صدق دل سے حق کو ماننے والے اور اپنی استعداد کے مطابق اس کا پرچار کرنے والوں کے نامہ اعمال سے ان کے گناہوں کو کلیتاً ختم کردیا جائے گا۔ الحمد للہ علی ذالک! (مَنْ دَلَّ عَلٰی خَیْرٍ فَلَہٗ مِثْلُ أَجْرِ فَاعِلِہٖ) [ رواہ مسلم : کتاب الإمارۃ، باب فضل إعانۃ الغازی ....] ” جس نے نیکی کے کام کی رہنمائی کی اس کو نیکی کرنے والے کے برابر اجر ملے گا۔“ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعا : (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ (رض) أَنَّ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کَانَ یَقُولُ فِی سُجُودِہٖ اللّٰہُمَّ اغْفِرْ لِی ذَنْبِی کُلَّہٗ دِقَّہٗ وَجِلَّہٗ وَأَوَّلَہٗ وَآخِرَہٗ وَعَلَانِیَتَہٗ وَسِرَّہٗ)[ رواہ مسلم : کتاب الصلاۃ ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں بلاشبہ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے سجدوں میں پڑھا کرتے تھے اے اللہ میرے چھوٹے اور بڑے پہلے اور بعد والے، اعلانیہ اور پوشیدہ کیے ہوئے تمام کے تمام گناہ معاف فرمادے۔“ احسن بات اور احسن عمل : (وَمَنْ اَحْسَنُ قَوْلًا مِمَّنْ دَعَا اِِلَی اللّٰہِ وَعَمِلَ صَالِحًا وَّقَالَ اِِنَّنِی مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ )[ حم السجدہ : ٣٣] ” اور اس شخص کی بات سے اچھی بات کسی کی ہوسکتی ہے کہ جس نے لوگوں کو اللہ کی طرف بلایا اور نیک عمل کیے اور اقرار کیا کہ میں مسلمان ہوں۔“ مسائل ١۔ جس شخص نے حق قبول کیا اور اسے لوگوں تک پہنچایا اس کے لیے بہترین اجر ہوگا۔ ٢۔ حق قبول کرنے اور اسے دوسروں تک پہنچانے والے کے گناہوں کو بالکل ختم کردیا جاتا ہے۔ ٣۔ مذکورہ شخص پر اللہ تعالیٰ اپنی طرف سے بے انتہا کرم نوازیاں فرمائے گا۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ ان لوگوں کے گناہ معاف کرتا ہے : ١۔ میں اللہ سے مغفرت طلب کروں گا بے شک وہ بخشنے اور رحم کرنے والا ہے۔ (یوسف : ٩٨) ٢۔ اللہ تعالیٰ جسے چاہے معاف کر دے، جسے چاہے عذاب دے، وہ بخشنے اور رحم کرنے والا ہے۔ (آل عمران : ١٢٩) ٣۔ اللہ تعالیٰ نیک لوگوں کو اپنی رحمت میں داخل فرمائے گا یقیناً وہ بخشنے والا مہربان ہے۔ (التوبۃ: ٩٩) ٤۔ اللہ تعالیٰ سے بخشش طلب کرو یقیناً وہ معاف کرنے والا مہربان ہے۔ (البقرۃ : ١٩٩) ٥۔ اگر تم اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو شمار کرنا چاہو تو شمار نہیں سکتے اللہ بخشنے والا رحم کرنے والا ہے۔ ( النحل : ١٨) ٦۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت کے یہی لوگ امیدوار ہیں اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔ (البقرۃ: ٢١٨) ٧۔ اے رب ہمیں معاف کردے اور ہم پر رحم فرما تو سب سے زیادہ رحم کرنے والا ہے۔ (المومنون : ١٠٩) الزمر
34 الزمر
35 الزمر
36 فہم القرآن ربط کلام : حق کی تصدیق اور تبلیغ کرنے والوں کے لیے آخرت کے اجر کے ساتھ دنیا میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے دستگیری کا اعلان۔ حق بات کو قبول اور اس کا پرچار کرنا بالخصوص توحید باری تعالیٰ کا پرچار کرنا ہمیشہ سے مشکل ترین کام رہا ہے۔ جس شخص نے بھی توحیدِباری تعالیٰ کا پرچار کرنے کی کوشش کی۔ کفر و شرک کے دلدادہ لوگوں نے اس کا جینا دوبھر کردیا۔ اس راستے میں سب سے زیادہ مشکلات کا سامنا انبیائے کرام (علیہ السلام) کو کرنا پڑا۔ مشرکین نے انبیائے کرام (علیہ السلام) کو جسمانی اذّیتوں میں مبتلا کرنے کے ساتھ انہیں اعصابی اور فکری طور پر توڑے دینے کی کوشش کی۔ ” اللہ“ کی توحید کا پرچار اور حق کے ابلاغ میں سب سے زیادہ تکلیفیں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پہنچائیں گئیں۔ جسمانی اور ذہنی تکالیف کے ساتھ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ کہہ کر دبانے کی کوشش کی گئی کہ اگر تو نے ہمارے خداؤں کی مخالفت جاری رکھی تو یہ تجھے تہس نہس کردیں گے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ضمانت دی ہے۔ کیا اللہ اپنے بندے کے لیے کافی نہیں؟ ہجرت کے وقت جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ابوبکر صدیق (رض) غار ثور میں تھے تو کفار تلاش کرتے کرتے غار کے دہانے پر پہنچ گئے حضرت ابوبکر (رض) گھبراکر کہنے لگے اللہ کے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وہ تو یہاں بھی پہنچ گئے ہیں آپ نے فرمایا ابوبکر گھبراؤ نہیں ” اللہ“ ہمارے ساتھ ہے۔ اس کا دوسرا معنٰی یہ ہے کہ میرے نبی کی مخالفت کرنے والو! تم ایڑی چوٹی کا زور لگا لو۔ تم نہ میرے نبی کو گزند پہنچا سکتے ہو اور نہ ہی دین حق کو دبا سکتے ہو۔ تمہاری مخالفت کرنا انوکھی بات نہیں۔ یہ شروع سے ہوتا آرہا ہے کہ مشرک حق والوں کو اپنے معبودوں سے ڈراتے رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے سوا دوسروں سے ڈرانے والے گمراہ ہوتے ہیں۔ جسے اللہ تعالیٰ گمراہی کے لیے کھلا چھوڑ دے اسے کوئی ہدایت دینے والا نہیں اور جسے اللہ تعالیٰ ہدایت پر قائم رکھے اسے کوئی گمراہ نہیں کرسکتا۔ ہر کسی کو معلوم ہونا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ بدلہ لینے میں پوری طرح غالب ہے۔ اس فرمان میں اللہ تعالیٰ نے توحید کے داعی اور حق کے مبلغ کو ہدایت پر قائم رہنے کی ضمانت دی ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعا : (یَا مُقَلِّبَ الْقُلُوْبِ ثَبِّتْ قَلْبِیْ عَلٰی دِیْنِکَ) [ رواہ الترمذی : کتاب الدعوات] ” اے دلوں کو پھیرنے والے! میرے دل کو اپنے دین پر ثابت رکھنا۔“ مسائل ١۔ ١ للہ تعالیٰ ہر حال میں اپنے بندے کے لیے کافی ہوتا ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ کے سوا دوسروں سے ڈرانے والے گمراہ ہوتے ہیں۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ جسے گمراہی کے لیے کھلا چھوڑ دے اسے کوئی ہدایت نہیں دے سکتا۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ جسے ہدایت پر قائم فرمائے اسے کوئی گمراہ نہیں کرسکتا۔ تفسیر بالقرآن مشرکین کا انبیاء ( علیہ السلام) کو ڈرانا : ١۔ مشرکوں کی حضرت نوح (علیہ السلام) کو دھمکی اگر تو باز نہ آیا تو تجھے سنگسار کردیا جائے گا۔ (الشعراء : ١١٦) ٢۔ ابراہیم (علیہ السلام) کے باپ نے کہا اگر تو باز نہ آیا تو تجھے سنگسار کردوں گا۔ (مریم : ٤٦) ٣۔ فرعون نے موسیٰ (علیہ السلام) کو قتل کی دھمکی دی۔ ( المؤمن : ٢٦) ٤۔ شعیب (علیہ السلام) کو سنگسار کرنے کی دھمکیاں دیں۔ (ھود : ٩١) ٥۔ فرعون کی ایمانداروں کو دھمکیاں کہ میں تمھارے ہاتھ پاؤں مخالف سمت سے کاٹ دوں گا اور تمھیں کھجور کے تنوں پر سولی چڑھا دوں گا۔ (طٰہٰ : ٧١) ٦۔ مشرکوں کی حضرت لوط (علیہ السلام) کو دھمکی کہ اگر تو باز نہ آیا تو تمھیں شہر بدر کردیں گے۔ (الشعراء : ١٦٧) ٧۔ مشرکوں نے حضرت شعیب (علیہ السلام) سے کہا کہ ہم تجھے اور تجھ پر ایمان لانے والوں کو شہر سے نکال دیں گے۔ (الاعراف : ٨٨) ٨۔ یہودیوں نے عیسیٰ (علیہ السلام) کو پھانسی چڑھانے کی کوشش کی۔ (النساء : ١٥٧) ٩۔ کفار نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو قتل کرنے کی سازش کی۔ (الانفال : ٣٠) الزمر
37 الزمر
38 فہم القرآن ربط کلام : اللہ کی توحید اور دین حق سے بھٹکے ہوئے لوگوں سے ایک سوال۔ قرآن مجید نے اللہ کی توحید سمجھانے اور دین حق کی پہچان کروانے کے لیے ہر زاویہ سے کوشش فرمائی ہے کہ لوگ اللہ کی توحید کا اقرار کریں جو دین حق کی مرکزی اور پہلی اساس ہے۔ مشرکین کی سوئی ہوئی حِس کو بیدار کرنے کے لیے سوال کیا جارہا ہے کہ اے حبیب (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! اگر آپ ان سے استفسار فرمائیں کہ زمین و آسمانوں کو کس نے پیدا کیا ہے ان کا جواب یہی ہوگا کہ انہیں اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا ہے اب ان سے پھر سوال کریں کہ جن کو تم اللہ تعالیٰ کے سواپکارتے ہو اگر مجھے اللہ کی طرف سے تکلیف پہنچے تو کیا وہ اس تکلیف کو دور کرسکتے ہیں؟ اگر میرا رب مجھ پر اپنی رحمت کا نزول فرمائے تو زمین و آسمانوں میں کوئی ایسی ہستی اور طاقت ہے جو اللہ کی رحمت کے نزول میں رکاوٹ ڈال سکے ؟ ظاہر بات ہے کہ جس طرح زمین و آسمانوں کی تخلیق میں کسی کا کوئی عمل دخل نہیں۔ اسی طرح کوئی نفع اور نقصان پر اختیار رکھنے والا نہیں ہے۔ اسی حقیقت کے پیش نظر مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں خوشی اور غم، عُسر اور یسر میں اپنے ” اللہ“ پر بھروسہ کروں۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ کے بندے ” اللہ“ ہی پر بھروسہ کرتے ہیں۔ اس سے پہلی آیت کے تناظر میں اس کا یہ بھی مفہوم لیا جاسکتا ہے۔ کہ جن بتوں، دیوتاؤں اور زندہ اور فوت شدہ ہستیوں سے مجھے ڈراتے ہو وہ میرا کچھ بھی بگاڑ اور سنوار نہیں سکتیں۔ اگر تم اتنی بڑی سچائی پر ایمان لانے کے لیے تیار نہیں ہو۔ تو مجھ سے الجھنے کی بجائے اپنے عقیدہ پر عمل کرو اور میں اپنے عقیدہ پر قائم رہتاہوں۔ عنقریب تمہیں معلوم ہوجائے گا کہ کس پر دنیا کی ذلت نازل ہوتی ہے اور کون ہمیشہ کے عذاب میں مبتلا ہوتا ہے۔ (عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ قَالَ کَانَ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) إِذَا رَفَعَ رَأْسَہُ مِنَ الرُّکُوعِ قَالَ رَبَّنَا لَکَ الْحَمْدُ مِلْءَ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضِ وَمِلْءَ مَا شِءْتَ مِنْ شَیْءٍ بَعْدُ أَہْلَ الثَّنَاءِ وَالْمَجْدِ أَحَقُّ مَا قَالَ الْعَبْدُ وَکُلُّنَا لَکَ عَبْدٌ اللَّہُمَّ لاَ مَانِعَ لِمَا أَعْطَیْتَ وَلاَ مُعْطِیَ لِمَا مَنَعْتَ وَلاَ یَنْفَعُ ذَا الْجَدِّ مِنْکَ الْجَدّ) [ رواہ مسلم : باب مَا یَقُولُ إِذَا رَفَعَ رَأْسَہُ مِنَ الرُّکُوعِ] ” حضرت ابو سعید (رض) سے روایت ہے انہوں نے کہا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب رکوع سے سر اٹھاتے تو کہتے، اے ہمارے رب! تمام تعریفیں تیرے لیے ہیں آسمانوں و زمین کے درمیان خلاء جتنی اور اس کے بعد جتنی تو چاہتا ہے۔ تو اس تعریف کا سب سے زیادہ اہل ہے اور اس بزرگی کا سب سے زیادہ حق رکھتا ہے جو تعریف اور عظمت بندے بیان کرتے ہے ہم سب کے سب تیرے ہی بندے ہیں اے اللہ! جو چیز تو عطاء فرمائے اسے کوئی روکنے والا نہیں اور جو چیز تو روک لے اس کو کوئی عطا کرنے والا نہیں۔ تجھ سے بڑھ کر کوئی عظمت والا اور نفع نہیں دے سکتا۔“ (عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ (رض) قَالَ کُنْتُ خَلْفَ رَسُوْلِ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَوْمًا فَقَالَ یَاغُلَامُ إِنِّیْ أُعَلِّمُکَ کَلِمَاتٍ احْفَظِ اللّٰہَ یَحْفَظْکَ احْفَظِ اللّٰہَ تَجِدْہُ تُجَاھَکَ إِذَ ا سَأَلْتَ فَاسْأَلِ اللّٰہَ وَإِذَا اسْتَعَنْتَ فَاسْتَعِنْ باللّٰہِ وَاعْلَمْ أَنَّ الْأُمَّۃَ لَوِ اجْتَمَعَتْ عَلآی أَنْ یَنْفَعُوْکَ بِشَیْءٍ لَمْ یَنْفَعُوْکَ إِلَّا بِشَیْءٍ قَدْ کَتَبَہُ اللّٰہُ لَکَ وَلَوِ اجْتَمَعُوْا عَلٰی أَنْ یَّضُرُّوْکَ بِشَیْءٍ لَمْ یَضُرُّوْکَ إِلَّا بِشَیْءٍ قَدْ کَتَبَہُ اللّٰہُ عَلَیْکَ رُفِعَتِ الْأَقْلَامُ وَجَفَّتِ الصُّحُفُ) [ رواہ الترمذی : کتاب صفۃ القیامۃ والرقائق والورع، باب منہ] ” حضرت عبداللہ بن عباس (رض) بیان کرتے ہیں ایک دن میں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پیچھے سوار تھا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : بچے! میں تجھے چند کلمات سکھاتاہوں اللہ کو یاد رکھنا وہ تجھے یاد رکھے گا، جب تو اللہ تعالیٰ کو یاد کرے گا تو اسے اپنے سامنے پائے گا، جب تو سوال کرے تو اللہ ہی سے سوال کر، جب تو مدد طلب کرے تو اللہ تعالیٰ ہی سے مدد طلب کر اور یقین رکھ کہ اگر پوری مخلوق تجھے کچھ نفع دینے کے لیے جمع ہوجائے تو وہ اتنا ہی نفع دے سکتی ہے جتنا اللہ تعالیٰ نے تیرے لیے لکھ رکھا ہے اور اگر وہ تجھے نقصان پہنچانے پر تل جائے تو تجھے اتنا ہی نقصان پہنچے گا جتنا تیرے حق میں لکھا گیا ہے، قلمیں اٹھالی گئیں ہیں اور صحیفے خشک ہوگئے ہیں۔“ مسائل ١۔ ہر دور کے مشرک اس بات کا اعتراف کرتے رہے اور کرتے رہیں گے کہ زمین و آسمانوں کو صرف ایک اللہ نے پیدا کیا ہے؟ ٢۔ اللہ کے سوا کوئی نفع اور نقصان کا مالک نہیں ہے۔ ٣۔ حقیقت یہ ہے کہ سب کو اللہ پر ہی بھروسہ کرنا چاہیے۔ ٤۔ مشرک دنیا میں ذلیل ہوتا ہے اور آخرت میں ہمیشہ کے عذاب میں مبتلا ہوگا۔ تفسیر بالقرآن اللہ ہی نفع اور نقصان، شر اور خیر کا مالک ہے : ١۔ کیا تم اللہ کے سوا دوسروں کو خیر خواہ سمجھتے ہو۔ جو اپنے بھی نفع ونقصان کے مالک نہیں ہیں۔ (الرعد : ١٦) ٢۔ میں انپے نفع ونقصان کا بھی مالک نہیں مگر جو اللہ چاہے؟ (یونس : ٤٩) ٣۔ کیا تم اللہ کے سوا ان کی عبادت کرتے ہو جو نفع ونقصان کے مالک نہیں ہیں؟ (المائدۃ: ٧٦) ٤۔ اگر اللہ تمہیں نفع ونقصان میں مبتلا کرنا چاہے تو کون اس سے بچائے گا۔ (الفتح : ١١) ٥۔ معبودان باطل اپنی جانوں کے نفع ونقصان کے مالک نہیں۔ (الفرقان : ٣) ٦۔ فرما دیجیے کہ میں اپنے نفس کے نفع و نقصان کا مالک نہیں مگر جو اللہ چاہے۔ (الاعراف : ١٨٨) ٧۔ اللہ کے سوا کسی کو نہ پکاروجو نہ نقصان پہنچا سکتا ہے اور نہ نفع دے سکتا ہے۔ (یونس : ١٠٦) ٨۔ اللہ کے سوا کوئی ذرہ بھر بھی نفع و نقصان کا مالک نہیں ہے۔ (الانبیاء : ٦٦) الزمر
39 الزمر
40 الزمر
41 فہم القرآن ربط کلام : عقیدہ توحید کے مفہوم میں یہ بات بنیادی حیثیت رکھتی ہے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی اپنے اور دوسرے کے نفع اور نقصان کا مالک نہیں۔ اسی طرح کوئی اپنی اور کسی کی ہدایت اور گمراہی کا بھی اختیار نہیں رکھتا۔ یہاں تک کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی کسی کو ہدایت نہیں دے سکتے تھے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دن کے وقت لوگوں کی ہدایت کے لیے محنت فرماتے اور رات کو تہجد کی نماز میں ان کے لیے رو رو کر دعائیں کرتے۔ اسکے باوجود لوگ آپ کی مخالفت میں آگے ہی بڑھتے جارہے تھے۔ اس صورت حال پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رنجیدہ خاطر ہوجاتے۔ جس پر آپ کو تسلی دینے کے ساتھ یہ حقیقت بتلائی گئی ہے کہ ہم نے آپ کی طرف قرآن مجید اس لیے نازل فرمایا کہ آپ اس کے ذریعے لوگوں کی راہنمائی فرمائیں۔ اگر لوگ قرآن مجید سے راہنمائی پانے کے لیے تیار نہیں ہیں تو آپ دو باتیں یاد رکھیں جن میں پہلی بات یہ ہے کہ آپ کا کام حق بات پہنچانا ہے منوانا نہیں۔ دوسری حقیقت یہ ہے کہ جو قرآن مجید سے راہنمائی پائے گا دنیا اور آخرت میں اس کا فائدہ اسی کو ہوگا۔ جس نے رہنمائی پانے کی بجائے اپنے لیے گمراہی کو پسند کیا اس کا نقصان بھی اسے ہی اٹھاناپڑے گا کیونکہ ہم نے آپ کو ان کا وکیل نہیں بنایا۔ لہٰذا آپ کا کام لوگوں تک حق بات پہنچانا ہے سو آپ پہنچاتے جائیں۔ اس کا دوسرا معنٰی یہ بھی ہے کہ اے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ان کی گمراہی کا آپ کو کوئی نقصان نہیں ہوگا۔ اس بات کو یوں بھی بیان فرمایا ہے۔ (فَذَکِّرْ اِنَّمَا اَنْتَ مُذَکِّرٌ) [ الغاشیہ : ٢١] ” آپ انہیں نصیحت کرتے رہیں آپ کا کام بس پہنچانا ہے“ الزمر
42 فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ نے نبی آخر الزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کسی شخص کی ہدایت کا ذمہ دار نہیں بنایا۔” اللہ“ ہی ہدایت اور گمراہی کا مالک ہے۔ جس طرح اللہ تعالیٰ ہدایت وگمراہی کا مالک ہے اسی طرح ہی وہ لوگوں کی موت وحیات پر بھی اختیار رکھتا ہے۔ اس نے موت وحیات کا سلسلہ اس لیے بنایا ہے تاکہ لوگ اپنے انجام کے بارے میں غوروفکر کریں۔ اللہ ہی روحوں کو موت دیتا ہے۔ جن کی موت کا وقت نہیں آتا ان کو ان کی نیند کے بعد لٹا دیتا ہے۔ نیند اور بیداری کے عمل سے گزرتے ہوئے انسان کی زندگی پوری ہوجاتی ہے۔ جب اس کی زندگی پوری ہوجاتی ہے یعنی اس کی موت کا وقت آجاتا ہے تو اس کی روح کو قبض کرلیا جاتا ہے۔ اگر انسان نیند اور بیداری کے عمل پر غور کرے تو رب تعالیٰ کو پہنچاننے کے لیے یہی دلیل کافی ہے۔ اسی لیے فرمایا ہے کہ غور کرنے والوں کے لیے اس میں راہنمائی کے بہت سے دلائل ہیں۔ اس سے پہلی آیت میں ہدایت اور گمراہی کی بات کی ہے اس لیے یہاں جسمانی موت کے ذکر میں روحانی موت کی طرف بھی اشارہ ہے۔ ہدایت یافتہ انسان روحانی یعنی ایمانی پرزندہ ہے اور گمراہ شخص روحانی طور پر مردہ ہوتا ہے۔ قرآن مجید میں متعدد مقامات پر نیند کو موت کے ساتھ تعبیر کیا گیا ہے کیونکہ نیند اور موت میں کافی حد تک مشابہت پائی جاتی ہے۔1 جس طرح موت کے بعد انسان کو اپنے آپ اور گردوپیش کا علم نہیں ہوتا اسی طرح گہری نیند سونے والے کو اپنے آپ اور اردگرد کے ماحول کی خبر نہیں ہوتی۔ 2 جس طرح موت کے بعد انسان کا عمل ختم ہوجاتا ہے اسی طرح سونے والے کا عمل بھی رک جاتا ہے۔ 3 جس طرح موت کے بعد انسان اپنا دفاع نہیں کرسکتا اسی طرح نیند کے دوران آدمی اپنا دفاع نہیں کرسکتا۔ 4 جس طرح موت کے بعد آدمی سننے، دیکھنے اور پکڑنے کی صلاحیتوں سے محروم ہوجاتا ہے۔ اسی طرح گہری نیند میں آدمی ایک حد تک سننے، دیکھنے اور پکڑنے کی طاقت سے محروم ہوجاتا ہے۔5 جس طرح فوت شدہ آدمی بے بس اور دنیا سے لاتعلق ہوتا ہے اسی طرح گہری نیند سونے والا بھی بے بس اور کچھ وقت کے لیے دنیا سے لاتعلق ہوجاتا ہے۔ 6 جس طرح مرنے والے کیر وح کو کوئی واپس نہیں لا سکتا اسی طرح سونے والے کی روح کو بھی اللہ کے سوا کوئی واپس نہیں لٹا سکتا۔ اسی لیے نیند کے لیے ” یَتَوَفَّی“ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے جس کا معنٰی ہے پورا پورا لینا۔ ان وجوہات کی بنا پر نیند کو موت کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے۔ میڈیکل سانئس اس نقطہ پر نہیں پہنچ پائی لیکن قرآن مجید اور حدیث شریف کے الفاظ سے اشارہ ملتا ہے۔ کہ نیند کے دوران ایک لمحہ ایسا آتا ہے جب انسان کی روح حقیقتاً اس کے جسم سے نکلتی جاتی ہے۔ (اللہ اعلم) نیند کے بے شمار فوائد میں ایک فائدہ کی طرف توجہ فرمائیں اور غور کریں کہ انسان کا جسم تھکاوٹ سے چکنا چور ہوچکا ہو۔ جوں ہی نیند اسے اپنی آغوش میں لیتی ہے تو تھکاوٹ دور اور طبیعت تازہ ہی نہیں بلکہ پہلے کی طرح آدمی کی انرجی بحال ہوجاتی ہے۔ سب سے بڑی حقیقت سمجھنے والی یہ ہے۔ جو رب انسان کو نیند سے اٹھاتا ہے وہی قیامت کے دن اسے اٹھاۓ گا۔ سونے کی دعا عَنْ حُذَےْفَۃَ (رض) قَالَ کَان النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اِذَا اَخَذَ مَضْجِعَہُ مِنَ اللَّےْلِ وَضَعَ ےَدَہُ تَحْتَ خَدِّہٖ ثُمَّ ےَقُوْلُ اَللّٰھُمَّ بِاِسْمِکَ اَمُوْتُ وَاَحْےٰی وَاِذَا اسْتَےْقَظَ قَالَ (الْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ اَحْےَانَا بَعْدَ مَا اَمَاتَنَا وَاِلَےْہِ النُّشُوْرُ) [ بخاری ومسلم عن البراء] حضرت حذیفہ (رض) بیان کرتے ہیں جب رات کو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے بستر پر لیٹتے تو اپنا ہاتھ اپنے رخسار کے نیچے رکھتے اور یہ دعا کرتے۔” الٰہی! تیرے نام کے ساتھ مرتا ہوں اور اسی کے ساتھ زندہ ہوتا ہوں۔“ اٹھنے کے بعد پڑھتے ” تمام تعریفوں اور شکرانوں کے لائق اللہ تعالیٰ ہے جس نے ہمیں مرنے کے بعد زندہ کیا اور اسی کی طرف اٹھ کر جانا ہے۔“ (بخاری) مزید دعائیں حدیث کی کتب میں ملاحظہ فرمائیں اور یاد کریں۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ ہی انسان کو موت دینے والا ہے۔ ٢۔ نیند میں موت کا سبق پوشیدہ ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ ہی انسان کو نیند کی صورت میں مارتا اور بیداری کی صورت میں زندگی دیتا ہے۔ الزمر
43 فہم القرآن ربط کلام : جو سونے کے بعد اٹھنے پر اختیار نہیں رکھتے وہ رب ذوالجلال کے سامنے اپنی مرضی سے سفارش کس طرح کرسکتے ہیں؟ اس آیۃ مبارکہ سے چار آیات پہلے اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول سے فرمایا کہ کفار اور مشر کین سے پوچھو کہ زمین و آسمانوں کو کس نے پیدا کیا ہے؟ ان کا جواب یہی ہوگا کہ اللہ تعالیٰ نے ہی زمین و آسمانوں کو پیدا کیا ہے۔ جب زمین و آسمانوں اور جو کچھ ان کے درمیان ہے اس میں سے کوئی چیز بھی اللہ کے سوا کسی نے پیدا نہیں کی تو پھر تم کس بنیاد پر یہ عقیدہ رکھتے ہو کہ اللہ تعالیٰ نے فلاں فلاں کو اپنی خدائی میں کچھ اختیارات دے رکھے ہیں۔ جس بنیاد پربزرگ سفارش کریں گے اور وہ مسترد نہ ہو سکے گی۔ اے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ان سے استفسار فرمائیں کہ بے شک انہیں سفارش کا اختیار نہ ہو اور جس کے بارے میں سفارش کرنی ہے اس کے بارے میں کچھ علم نہ ہو تو پھر بھی وہ سفارش کریں گے؟ انہیں سمجھائیں کہ سفارش کی اجازت دینے اور اسے قبول کرنے کا اختیار صرف اللہ تعالیٰ کے پاس ہے کیونکہ وہی زمین و آسمانوں کا مالک ہے۔ تم اس کے مملوک ہو اور اسی کے ہاں تم نے پلٹ کر جانا ہے۔ وہ تمہیں بتائے گا کہ تم دنیا میں کیا کر کے آئے ہو۔ سفارش کے بارے میں قرآن مجید اور حدیث میں وضاحت موجود ہے کہ سفارش کرنے کی کن حضرات کو اجازت ہوگی اور وہ کن اصولوں کے تحت کس کس کی اور کس دائرہ کار کے اندر رہ کر سفارش کرسکیں گے۔ قرآن و حدیث میں یہ بات کھول کر بیان کردی گئی ہے کہ کافر، مشرک اور ظلم کرنے والوں کی سفارش کوئی بھی نہیں کرسکے گا۔ اسی لیے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی بیٹی اور پھوپھی کو فرمایا اور اپنے جدِانبیاء حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا واقعہ بیان فرمایا تاکہ کسی کو غلط سفارش کے بارے میں کوئی شبہ باقی نہ رہے۔ ” حضرت ابوہریرہ (رض) نبی گرامی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں آپ نے فرمایا ابراہیم (علیہ السلام) قیامت کے دن اپنے باپ آزر سے ملیں گے اس کے چہرے پر سیاہی اور غبار ہوگا۔ ابراہیم (علیہ السلام) اسے کہیں گے کیا میں نے آپ سے کہا نہیں تھا؟ کہ میری نافرمانی نہ کرو۔ وہ کہے گا آج میں تیری نافرمانی نہیں کروں گا۔ ابراہیم (علیہ السلام) عرض کریں گے کہ اے میرے رب آپ نے مجھ سے وعدہ کیا تھا کہ میں تجھے قیامت کے دن رسوا نہیں کرونگا میرے باپ سے زیادہ بڑھ کر اور کونسی رسوائی ہوگی؟ اللہ تعالیٰ فرمائیں گے کہ میں نے جنت کافروں پر حرام کردی ہے۔ پھر کہا جائے گا ابراہیم اپنے پاؤں کی طرف دیکھو۔ ابراہیم (علیہ السلام) اپنے پاؤں کی طرف دیکھیں گے تو ان کا باپ کیچڑ میں لتھڑا ہوا بجو بن چکا ہوگا۔ جسے اس کی ٹانگوں سے پکڑ کر جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔“ [ رواہ البخاری : باب قول اللّٰہ تعالیٰ واتخذ اللّٰہ ابراھیم خلیلا] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں جب یہ آیت (اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈرائیے) نازل ہوئی تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کھڑے ہوئے اور فرمایا : اے قریش کے لوگو! اپنے لیے کچھ کر لومیں تمہیں اللہ کے عذاب سے فائدہ نہیں دے سکوں گا، اے بنی عبد منا ف میں تمہیں اللہ کے عذاب سے نہیں بچا سکوں گا‘ اے عباس بن عبدالمطلب ! میں تمہیں اللہ کے عذاب سے کچھ فائدہ نہیں دے سکوں گا، اور رسول کی پھوپھی صفیہ! میں تمہیں اللہ کے عذاب سے کچھ فائدہ نہیں دے سکوں گا اور اے فاطمہ بنت محمد! میرے مال سے جو چاہتی ہے مانگ لے میں تجھے اللہ کے عذاب سے نہیں بچا سکوں گا۔“ [ رواہ البخاری : کتاب الوصایا] تفسیر بالقرآن قیامت کے دن سفارش کے اصول : ١۔ کون ہے جو اس کے حکم کے بغیر سفارش کرے۔ (البقرۃ: ٢٥٥) ٢۔ قیامت کے دن سفارشی کسی کو فائدہ یا نقصان نہیں دیں گے۔ (یونس : ١٨) ٣۔ سفارش بھی اللہ تعالیٰ کی مرضی کے مطابق ہوگی۔ (الانبیاء : ٢٨) ٤۔ اللہ تعالیٰ اپنی پسندکی بات ہی قبول فرمائیں گے۔ (طٰہٰ: ١٠٩) ٥۔ قیا مت کے دن کسی سفارشی کی سفارش کام نہیں آئے گی۔ (المدثر : ٤٨) ٦۔ سفارش کا اختیار اسی کو ہوگا جسے رحمن اجازت دے گا۔ (مریم : ٨٧) ٧۔ اگر رحمننقصان پہنچانا چاہے تو کسی کی سفارش کچھ کام نہ آئے گی۔ (یٰس : ٢٣) الزمر
44 الزمر
45 فہم القرآن ربط کلام : سفارش کے ختیارات تمام کے تمام اللہ تعالیٰ کے پاس ہیں۔ وہ اپنی ذات، صفات کے اعتبار سے اکیلا ہے۔ اس بات کا کھول کر ذکر کیا جاتا ہے تو مشرک اسے برا سمجھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہر چیز کا دائمی اور حقیقی مالک ہے۔ وہ اپنی مخلوق پر بلا شرکت غیرے اختیار رکھتا ہے۔ اس نے کسی اعتبار سے کسی کو بھی کوئی اختیار نہیں دیا۔ توحید کے اس پہلو کو کھول کر بیان کیا جائے تو مشرک کو یہ بات بری لگتی ہے جس بنا پر توحید کے بیان سے نفرت کرتا ہے۔ لیکن جوں ہی بزرگوں کی جھوٹی، سچی کرامات اور ان کی شخصیت کا ذکر کیا جائے تو شرک سے محبت رکھنے والے لوگوں کے چہرے کھل جاتے ہیں۔ مشرکانہ ماحول کے غلبہ کی وجہ سے اہل توحید کی غالب اکثریت ایسی ہے جو توحید خالص اور عقیدہ کے مختلف پہلوں پر گفتگو سننے کی بجائے دوسرے عنوانات پر وعظ سننا زیادہ پسند کرتی ہے۔ اسی وجہ سے توحید سے نفرت کرنے کی وجہ سے اہل مکہ مطالبہ کرتے تھے کہ اس قرآن کو بدل دیا جائے۔ آج کے مشرک یہ مطالبہ کرنے کی جرأت تو نہیں کرتے۔ لیکن ان کی حالت یہ ہے کہ قرآن مجید میں جہاں بھی ” مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ“ اور ” مِنْ دُوْنِہٖ“ کے الفاظ آئے ہیں ان کا ترجمہ صرف بت ہی کرتے ہیں۔ یقین کے لیے مشرکانہ عقیدہ رکھنے والے کسی بھی مفسر کی تفسیر دیکھی جا سکتی ہے۔ حالانکہ اکثر مقامات پر ” مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ“ سے مراد بت نہیں زندہ یا فوت شدہ شخصیات ہیں۔ ایسے لوگوں کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ یہ لوگ آخرت پر حقیقی ایمان نہیں رکھتے۔ اگر ان کا آخرت پر حقیقی ایمان ہو تو ان کے دل اللہ کی ذات، اس کی صفات اور اختیارات کی بات سن کر باغ باغ ہوجانے چاہییں۔ کیونکہ کہ بڑی سے بڑی ہستی کو پیدا کرنے اور اسے شان دینے والا تو صرف ایک ” اللہ“ ہے مشرک کے آخرت پر ایمان کی اس لیے بھی نفی کی گئی ہے کہ اگر اس کا آخرت پر حقیقی ایمان ہو تو ” اللہ“ کی ذات، صفات اور اختیارات کو بلا شرکت غیرے تسلیم کرئے۔ اور اللہ تعالیٰ کی توحید پر مطمئن ہوجائے اور اس کے ذکر پر انقباض کی بجائے خوشی کا اظہار کرتا۔ من دون اللہ سے مراد بزرگ ہیں : (اِنَّ الَّذِیْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ عِبَادٌ اَمْثَالُکُمْ فَادْعُوْھُمْ فَلْیَسْتَجِیْبُوْا لَکُمْ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ) [ الاعراف : ١٩٤] ” بے شک جنہیں تم اللہ کے سوا پوجتے ہو، وہ تمہاری طرح کے بندے ہیں، تو انہیں پکارو، پس چاہیے کہ تمہاری پکار کو قبول کریں، اگر تم سچے ہو (یعنی وہ تمہاری دعاؤں اور پکار سے بے خبر ہیں۔ ) “ (تفصیل کیلئے دیکھیں میری کتاب ” انبیاء کا طریقہ دعا“ ) من دون اللہ سے مراد علماء، اولیاء اور عیسیٰ ( علیہ السلام) : (اِتَّخَذُوْا أَحْبَارَہُمْ وَرُہْبَانَہُمْ أَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ وَالْمَسِیْحَ ابْنَ مَرْیَمَ) [ توبۃ: ٣١] ” انہوں نے بنا لیا اپنے پادریوں کو راہبوں کو پروردگار اللہ کو چھوڑ کر اور مریم کے فرزند مسیح کو بھی۔“ من دون اللہ سے مراد بت : (قَالَ أَفَتَعْبُدُونَ مِنْ دُون اللَّہِ مَا لَا یَنْفَعُکُمْ شَیْءًا وَلَا یَضُرُّکُمْ )[ الانبیاء : ٦٦] ” ابرہیم (علیہ السلام) نے کہا کیا تم اللہ تعالیٰ کے سوا ان کی عبادت کرتے ہو جو کچھ بھی نفع و نقصان نہیں پہنچا سکتے۔“ مسائل ١۔ اللہ کی توحید پر مشرک ناراض ہوتا ہے۔ ٢۔ اللہ کے سوا دوسروں کے ذکر پر مشرک خوش ہوتا ہے۔ ٣۔ مشرک کا آخرت پر حقیقی ایمان نہیں ہوتا۔ تفسیر بالقرآن من دون کے دلائل : ١۔ میں ان کی عبادت نہیں کرتا جن کی تم اللہ کے سوا عبادت کرتے ہو۔ (یونس : ١٠٤) ٢۔ مجھے منع کیا گیا ہے کہ میں ان کی عبادت کروں جن کی تم اللہ کے سوا عبادت کرتے ہو۔ (الانعام : ٥٦) ٣۔ کیا میں اللہ کے سوا ان کو پکاروں جو نفع اور نقصان نہیں پہنچا سکتے۔ (الانعام : ٧١) ٤۔ جن کو لوگ اللہ کے سوا پکارتے ہیں انھوں نے کوئی چیز پیدا نہیں کی بلکہ وہ خود پیدا کیے گئے ہیں۔ (النحل : ٢٠) ٥۔ جن کو تم اللہ کے سوا پکارتے ہو وہ تمھارے جیسے بندے ہیں۔ (الاعراف : ١٩٤) ٦۔ انہوں نے اپنے پادریوں اور راہبوں اور مسیح ابن مریم کو اللہ کے سوا معبود بنا لیا۔ (التوبۃ: ٣١) نوٹ : مشرکین کی توحید سے نفرت کے دلائل کے لیے سورۃ المومن کی آیت ١٢ ملاحظہ فرمائیں! الزمر
46 فہم القرآن ربط کلام : بے شک مشرک اللہ تعالیٰ کی توحید کے ذکر سے ناراض اور دوسروں کے ذکر پر خوش ہوتے ہیں۔ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ کو اس بات کی پرواہ کیے بغیر صرف ایک رب کا ذکر کرنا اور اسی سے مانگنا ہے۔ اے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے رب سے دعا کیجیے ! الٰہی ! تو ہی زمینوں اور آسمانوں کو پیدا کرنے والا اور تو ہی ہر چیز کے ظاہر اور باطن کو جاننے والا ہے اور تو ہی اپنے بندوں کے درمیان ان کے اختلافات کا فیصلہ کرنے والا ہے۔ مشرک اللہ کی وحدت کے ذکر پر ناراض اور اپنے معبودوں کے ذکر پر خوش ہوتے ہیں اور اہل توحید سے جھگڑا کرتے ہیں۔ ان کے مقابلے میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مسلمانوں کو یہ دعا سکھلائی گئی ہے کہ تمہیں مشرکین کی مخالفت کی پرواہ کیے بغیر اپنے رب کو یاد کرنا اور اس کی توحید کا پرچار کرتے رہنا چاہیے۔ اس کے ساتھ ساتھ ذات کبریا کے حضور دعا کرتے رہو کہ اے بارِ الٰہا! تو ہی زمینوں آسمانوں کا پیدا کرنے والا، غائب اور ظاہر کو جاننے والا ہے اور قیامت کے دن اپنے بندوں کے اختلافات کے درمیان فیصلہ صادر فرمانے والا ہے۔ اس کا بین السطور معنٰی یہ ہے کہ الٰہی ہمیں ایسی طاقت عطا فرما کہ دنیا میں بھی حق و باطل کے درمیان فیصلہ ہوجائے۔ اسی لیے ہجرت سے پہلے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ دعا سکھلائی گئی۔ (وَ قُلْ رَّبِّ اَدْخِلْنِیْ مُدْخَلَ صِدْقٍ وَّ اَخْرِجْنِیْ مُخْرَجَ صِدْقٍ وَّ اجْعَلْ لِّیْ مِنْ لَّدُنْکَ سُلْطٰنًا نَّصِیْرًا وَ قُلْ جَآءَ الْحَقُّ وَ زَھَقَ الْبَاطِلُ اِنَّ الْبَاطِلَ کَانَ زَھُوْقًا) [ بنی اسرائیل : ٨٠۔ ٨١] ” اور دعا کیجیے میرے رب ! داخل کر مجھے سچائی کے ساتھ داخل کرنا اور نکال مجھے سچائی کے ساتھ نکالنا اور مجھے غلبہ اور مدد عطا فرما۔ اور فرما دیں حق آگیا اور باطل مٹ گیا، بے شک باطل مٹنے ہی والا تھا۔“ (رَبَّنَا افْتَحْ بَیْنَنَا وَ بَیْنَ قَوْمِنَا بالْحَقِّ وَ اَنْتَ خَیْرُ الْفٰتِحِیْن)[ الاعراف : ٨٩] ” اے ہمارے رب ! ہمارے اور ہماری قوم کے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ کر دے اور تو سب فیصلہ کرنے والوں سے بہتر ہے۔“ جانوروں کے درمیان فیصلہ : (عَنْ اَبِی ھُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لَتُؤَدُّنَّ الْحُقُوْقَ إِلٰی أَھْلِھَا یَوْمَ الْقِیَامَۃِ‘ حَتّٰی یُقَاد للشَّاۃِ الْجَلْحَاءِ مِنَ الشَّاۃِ الْقَرْنَاءِ) [ رواہ مسلم : کتاب البروالصلۃ، باب تحریم الظلم] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تمہیں قیامت کے دن لوگوں کے حقوق ان کے مالکوں کو ادا کرنا پڑیں گے، یہاں تک کہ جس بکری کے سینگ نہیں ہیں اس کو سینگ والی بکری سے بدلہ دلایا جائے گا۔“ مسائل ١۔ اللہ ہی زمینوں آسمانوں کا خالق اور ظاہر اور باطن کو جاننے والا ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ ہی اپنے بندوں کے درمیان فیصلہ کرنے والا ہے۔ ٣۔ مومن کو ہر حال میں اللہ تعالیٰ سے ہی مدد طلب کرنی چاہیے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ ہی لوگوں کے درمیان قطعی اور آخری فیصلہ کرنے والا ہے : ١۔ بے شک تیرا رب قیامت کے دن ان کے درمیان فیصلہ کرے گا جس میں وہ اختلاف کرتے تھے۔ (یونس : ٩٣) ٢۔ اللہ تعالیٰ ان کے معاملات کا فیصلہ فرمائے گا۔ (البقرۃ : ٢١٠) ٣۔ اللہ تعالیٰ حق کے ساتھ فیصلہ فرماتا ہے۔ (المومن : ٢٠) ٤۔ یقیناً اللہ تعالیٰ تمہارے درمیان اپنے حکم سے فیصلہ فرمائے گا۔ (النمل : ٧٨) ٥۔ اللہ تعالیٰ ان کے درمیان انصاف کے ساتھ فیصلہ فرمائے گا۔ (یونس : ٥٤) ٦۔ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن تمہارے اختلافات کا فیصلہ فرمائے گا۔ (الحج : ٦٩) ٧۔ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن عدل وانصاف کا ترازو قائم فرمائے گا۔ (الانبیاء : ٤٧) ٨۔ یقیناً اللہ تعالیٰ ان کے درمیان فیصلہ فرمائے گا جو وہ اختلاف کرتے تھے۔ (الزمر : ٣) ٩۔ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن تمہارے درمیان فیصلہ فرمائے گا اور مومنوں پر کافر کوئی راستہ نہیں پائیں گے۔ (النساء : ١٤١) ١٠۔ یا اللہ میرے حق میں فیصلہ فرمادے تو بہترین فیصلہ کرنے والا ہے۔ (یوسف : ٨٠) ١١۔ اے اللہ یقیناً تیرا وعدہ سچا ہے اور تو سب سے بہتر فیصلہ کرنے والا ہے۔ (ھود : ٤٥) ١٢۔ وحی کی فرمانبرداری کرو اور صبر کرو تاآنکہ اللہ فیصلہ فرمادے اللہ تعالیٰ بہترین فیصلہ کرنے والا ہے۔ (یونس : ١٠٩) الزمر
47 فہم القرآن ربط کلام : پہلی آیت میں ارشاد ہوا کہ اللہ تعالیٰ فیصلہ کرنے والا ہے لہٰذا قیامت کے دن ظالموں کے بارے میں جو فیصلہ ہوگا اس کا اعلان۔ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن ظالموں کے درمیان حق و انصاف کے ساتھ فیصلہ صادر فرمائے گا۔ ظالم سے مراد ہر قسم کے ظالم ہیں۔ ان میں سرِفہرست وہ ظالم ہیں جنہوں نے اللہ تعالیٰ کی ذات اور صفات میں دوسروں کو شریک کیا ہوگا جس طرح یہودیوں نے عزیر (علیہ السلام) کو رب کا بیٹا قراردیا۔ عسائیوں نے حضرت مریم، حضرت عیسیٰ اور ذات کبریا کو شامل کر کے تثلیث کا عقیدہ بنایا۔ مشرکین مکہ ملائکہ کو اللہ کی بیٹیاں قرار دیتے تھے اور اللہ تعالیٰ کی صفات بتوں اور فوت شدگان میں تصور کرتے تھے۔ جیسا کہ لاکھوں کلمہ گو لوگ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نور من نور اللہ کہتے ہیں اور علی ہجویری کو داتا گنج بخش اور عبدالقادر جیلانی (رض) کو پیر دستگیر اور نا معلوم فوت شدگان اور زندہ بزرگوں کے بارے میں مشرک کیا کیا کہتے اور عقیدہ رکھتے ہیں۔ ایسے ظالموں کو جب جہنم میں جھونکا جائے گا۔ تو یہ اس بات کی خواہش کریں گے کہ کاش! ہمارے پاس زمین کے خزانے اور اتنا کچھ اور ہو تو ہم جہنم کے عذاب سے بچنے کے لیے سب کچھ دینے کے لیے تیار ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کے سامنے وہ کچھ ظاہر فرمائے گا جس کا آج یہ تصور بھی نہیں کرسکتے۔ ان کے برے اعمال ایک ایک کر کے ان کے سامنے لائے جائیں گے اور جس عذاب کو یہ مذاق سمجھتے تھے وہ ان کو ہر جانب سے گھیرے ہوئے ہوگا۔ (عَنْ أَنَسٍ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ َیُؤْتٰی بالرَّجُلِ مِنْ أَھْلِ النَّارِ فَیَقُوْلُ لَہٗ یَا ابْنَ آدَمَ کَیْفَ وَجَدْتَّ مَنْزِلَکَ فَیَقُوْلُ أَیْ رَبِّ شَرُّّ مَنْزِلٍ فَیَقُوْلُ لَہٗ أَتَفْتَدِیْ مِنْہُ بِطِلَاعِ الْأَرْضِ ذَھَبًا فَیَقُوْلُ أَیْ رَبِّ نَعَمْ فَیَقُوْلُ کَذَبْتَ فَقَدْ سَأَلْتُکَ أَقَلَّ مِنْ ذٰلِکَ وَأَیْسَرَ فَلَمْ تَفْعَلْ فَیُرَدُّ إِلَی النَّارِ) [ مسند أحمد : کتاب باقی مسند المکثرین، باب باقی المسند السابق] ” حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ ایک جہنمی لایا جائے گا اللہ تعالیٰ اس سے پوچھے گا۔ اے ابن آدم تو نے اپنا ٹھکانہ کیسا پایا؟ وہ جواب دے گا اے میرے رب! بدترین ٹھکانہ ہے اللہ تعالیٰ اسے کہیں گے کیا تو زمین بھر کر سونا فدیہ کے طور پر دے گا؟ وہ کہے گا ہاں میرے رب۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا تو جھوٹ بولتا ہے میں نے تو تجھ سے اس سے کم اور آسان کام کا مطالبہ کیا تھا جو تو نے نہ کیا پھر اسے جہنم میں داخل کردیا جائے گا۔“ 1 اللہ تعالیٰ نے انسان کے شرف اور مقام کے پیش نظر اسے صرف اپنے سامنے جھکنے کا حکم دیا ہے لیکن مشرک اس کی ناقدری کرتے ہوئے دردر کی ٹھوکریں کھاتا پھرتا ہے۔ 2 اللہ تعالیٰ نے انسان کو صرف اپنی بارگاہ سے مانگنے کا حکم دیا لیکن مشرک ہر جگہ جھولی پھیلائے پھرتا ہے۔ مسائل ١۔ قیامت کے دن ظالم خواہش کریں گے کہ زمین اور اس کے برابر چیز دے کر ہماری جان چھوٹ جائے۔ ٢۔ قیامت کے دن ظالموں کے تمام اعمال ان کے سامنے لائے جائیں گے۔ ٣۔ قیامت کے دن ظالموں کو ہر طرف سے گھیر لیا جائے گا۔ تفسیر بالقرآن مذاق کرنے والے اور ان کا انجام : ١۔ وہ چیز ان کو گھیرہی لے گی جس کی بنا پر یہ مذاق کرتے تھے۔ (ہود : ٨) ٢۔ جب وہ ہماری نشانیاں دیکھتے ہیں تو مذاق کرتے ہیں۔ (الصّٰفّٰت : ١٤) ٣۔ وہ تعجب کرتے ہیں اور مذاق کرتے ہیں۔ (الصّٰفّٰت : ١٢) ٤۔ جب نوح (علیہ السلام) کی قوم کے لوگ ان کے پاس سے گزرتے تھے تو مذاق کرتے تھے۔ (ہود : ٣٨) ٥۔ کفار نے رسولوں سے باطل دلائل کے ساتھ جھگڑا کیا تاکہ وہ حق کو نیچا دکھائیں اور میری آیات، تنبیہات کا مذاق اڑائیں (الکہف : ٥٦) ٦۔ جہنم ان کے کفر اختیار کرنے کا بدلہ ہے جو میری آیات اور میرے رسولوں کا مذاق اڑاتے رہے۔ (الکہف : ١٠٦) الزمر
48 الزمر
49 فہم القرآن ربط کلام : جہنمیوں کے جہنم میں داخل ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہوگی کہ جب انہیں دنیا میں تکلیف پہنچتی تھی تو صرف ایک رب کو پکارتے تھے اور جب انہیں کوئی نعمت دی جاتی تھی تو وہ کہتے تھے کہ یہ ہماری فہم وفراست کا نتیجہ ہے۔ انسان کی فطرت میں یہ کمزوری ہے کہ جب اسے کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو وہ ” اللہ“ کو یاد کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ جب اس کی تکلیف رفع کردیتا ہے اور اسے اپنی نعمت سے نوازتا ہے تو پھر وہ سمجھتا اور بعض مرتبہ زبان سے بھی کہتا ہے کہ یہ تو میری قابلیت کا نتیجہ ہے۔ بیماری کے بعد صحت کے بارے میں کہتا ہے کہ بروقت اور مناسب علاج کی وجہ سے صحت یاب ہوا ہوں۔ تونگری کے بارے میں برملا اظہار کرتا ہے کہ یہ میری منصوبہ بندی اور محنت کا صلہ ہے۔ منصب اور اقتدار حاصل ہو تو اپنی ذہانت اور سیاست کی بات کرتا ہے۔ اگر کہیں اللہ کا ذکر کرتا ہے تو بڑی بے توجہگی کے ساتھ اور رواجی طور پر کرتا ہے۔ اس میں شکر کا فقدان ہوتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ دین بروقت علاج اور ہر کام میں توجہ اور محنت کا حکم دیتا ہے۔ لیکن فرق یہ ہے کہ مومن اسباب کی بجائے مسبب الاسباب پر نظر رکھتا ہے اور پورے خلوص کے ساتھ ذکر اور اس کا شکر کرتا ہے۔ مومن کے مقابلے میں دنیا پرست اپنی لیاقت اور اسباب پر بھروسہ کرتا ہے۔ کلمہ پڑھنے والا مشرک درباروں اور کافربتوں کے بارے میں کہتا ہے کہ یہ سب کچھ ان کے طفیل ملا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ایسے لوگوں کی آزمائش کی جاتی ہے۔ لیکن ان کی توجہ اس کی طرف مبذول نہیں ہوتی۔ اس جہالت اور سوچ کا پہلے لوگ بھی اظہار کرتے تھے جس کا اظہار مکہ والے کررہے ہیں۔ ان سے پہلے ظالموں نے جو کچھ کمایا اس کا انہیں کچھ فائدہ نہ ہوا۔ ان لوگوں کو بھی اپنے کیے کا وبال بھگتنا پڑے گا۔ اللہ تعالیٰ کو کسی معاملہ میں کوئی عاجز نہیں کرسکتا۔ مسائل ١۔ انسان تکلیف کے وقت اللہ تعالیٰ کو یاد کرتا ہے اور خوشی کے وقت اسے بھول جاتا ہے۔ ٢۔ اکثر مال دار یہ سمجھتے ہیں کہ ان کی محنت اور لیاقت کی وجہ سے ان کو مال دیا گیا ہے۔ ٣۔ مال آزمائش ہے لیکن اکثر لوگ اس آزمائش کو نہیں جانتے۔ ٤۔ پہلے لوگ بھی اپنے مال پر اتراتے تھے جب ان پر عذاب نازل ہوا تو ان کا مال کسی کام نہ آیا۔ ٥۔ مکہ والے بھی مال و اسباب پر اتراتے ہیں۔ عنقریب یہ اپنے کیے پر پکڑے جائیں گے۔ ٦۔ اللہ تعالیٰ کو کوئی کسی طرح بھی مجبور نہیں کرسکتا۔ تفسیربالقرآن دولت کے منفی اثرات : ١۔ مال اور اولاد انسان کے لیے آزمائش ہیں اللہ کے ہاں بہت بڑا اجر ہے۔ (التغابن : ١٥) ٢۔ مال ودولت اور دنیا کی زندگی انسان کے لیے آزمائش ہے۔ (طٰہ : ١٣١) ٣۔ لوگوں کو مال اور اولاد کی کثرت نے ہلاک کردیا۔ (التکاثر : ١) ٤۔ قوم عاد نے زمین میں تکبر کیا اور کہا کہ ہم سے طاقت میں کون زیادہ ہے۔ (حٰم السجدۃ: ١٥) الزمر
50 الزمر
51 الزمر
52 فہم القرآن ربط کلام : جس مال پر مال دار اتراتے ہیں اس کی حقیقت۔ کیا لوگوں کو معلوم نہیں کہ ” اللہ“ ہی رزق بڑھانے اور تنگ کرنے والا ہے۔ بلا شبہ اس میں بھی ایمان لانے والوں کے لیے اللہ کی قدرت کی نشانیاں ہیں۔ اس فرمان میں پہلا سبق یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی داتا نہیں۔ وہی ہر چیز کا مالک ہے اور وہ اپنی حکمت کے تحت لوگوں کو رزق عطا کرتا ہے۔ دوسرا سبق اس میں یہ پایا جاتا ہے کہ کسی مالدار کو اپنے مال پر اترانا نہیں چاہیے کیونکہ رزق کی کشادگی اور تنگی کسی کی لیاقت اور محنت پر منحصر نہیں۔ دنیا میں کتنے ہی لوگ ہیں جو شب و روز محنت کرتے ہیں مگر رزق کی کشادگی دیکھنا ان کے نصیب میں نہیں ہوتی۔ کچھ ایسے ہیں۔ جو اپنی محنت سے کہیں گنا زیادہ پاتے ہیں۔ اس حقیقت کو جاننے کے لیے زمیندار کی مثال سامنے رکھیں۔ زمین ایک ہی ہے جس کا پانی، موسم اور بیج یکساں ہوتا ہے اور دیگر ذرائع بھی برابر استعمال کیے جاتے ہیں مگر فی ایکڑ کے حساب سے ایک قطعہ کی فصل بہت اچھی ہوتی ہے اور دوسرے کی بہت کم یہی صورت حال منڈی اور بازار میں دیکھی جاتی ہے۔ ایک ساتھ دکانیں اور ایک جیسا مال ہونے کے باوجود ایک کو سر کھجانے کی فرصت نہیں اور دوسرا خالی ہاتھ بیٹھا ہوتا ہے۔ ایسا کیوں ہے ؟ اس لیے کہ رزق بڑھانا اور کم کرنا صرف اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے اس لیے مالدار کو اپنے مال پر اترانے کی بجائے اپنے رب کا شکر گزارہونا چاہیے اور تنگ دست کو اپنی حالت پر صبر کرتے ہوئے اپنے رب کے حضور دعا کرنی چاہیے۔ (اَللّٰہُمَّ اکْفِنِی بِحَلَالِکَ عَنْ حَرَامِکَ وَأَغْنِنِی بِفَضْلِکَ عَمَّنْ سِوَاکَ) [ رواہ الترمذی : باب اللھم اکفنی حلالک عن حرامک] ” اے اللہ ! مجھے حرام سے بچا اور اپنے حلال کے ساتھ میری کفالت فرما اور اپنے فضل کے ساتھ مجھے بے نیاز کردے۔“ الزمر
53 فہم القرآن ربط کلام : اس سے پہلی آیت میں مال کی کمی، بیشی کے بارے میں ایک غلط فہمی کا ازالہ فرمایا ہے۔ اب گناہگاروں کی غلط فہمی دور کی جارہی ہے : گناہگار بالخصوص بڑے بڑے جرائم کرنے والوں کو ہمیشہ سے غلط فہمی رہی ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے گناہ کبھی معاف نہیں کرے گا۔ اس غلط فہمی کی بنیاد پر کچھ لوگ جرائم میں آگے ہی بڑھتے چلے جاتے ہیں یہاں تک کہ انہیں موت آ لیتی ہے۔ کچھ لوگ یہ یقین کرلیتے ہیں کہ جب تک فلاں قبر والے یا زندہ بزرگ کو راضی نہیں کریں گے اس وقت تک ہماری توبہ قبول نہ ہوگی۔ اس غلط فہمی کو ان لوگوں نے مزید پختہ کیا جو مذہب کی آڑ میں مال بٹورتے اور لوگوں کی حرمتوں سے کھیلتے ہیں۔ اس لیے مسلمانوں میں بے شمار پیر، ہندؤوں میں سادھو، عیسائیوں میں پادری بدنام ہیں اور یہ لوگ دین اور توبہ کے راستے میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔ قرآن مجید نے ان کے بارے میں نشاندہی فرمائی ہے۔ ” مسلمانو! بہت سے مولوی اور مشائخ لوگوں کے مال ناحق کھاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی راہ سے روکتے ہیں۔“ (التوبہ : ٣٤) گناہگاروں بالخصوص کفر و شرک اور بڑے بڑے جرائم کرنے والوں کو رب کریم نے بڑے پیار اور دلرُباانداز میں بلایا ہے اور یقین دلایا ہے کہ اے میرے بھٹکے ہوئے بندو ! تمہیں مایوس ہونے اور کہیں جانے کی ضرورت نہیں۔ آؤ میری بارگاہ میں آجاؤ تم جیسے بھی ہو میرے ہی بندے ہو۔ میری رحمت بے کنارہے لہٰذا میری رحمت سے مایوس نہیں ہونا۔ یقین کرو کہ میں تمہارے تمام کے تمام گناہ معاف کردوں گا کیونکہ میں معاف کرنے والا اور مہربان ہوں۔ اس آیت کریمہ کی باربار تلاوت کریں اور اس کے الفاظ پر غور فرمائیں کہ کہ اللہ تعالیٰ نے دو مرتبہ اپنا عظیم نام اللہ لے کر نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرمایا کہ میرے بندوں کو میرا نام لے کر کہیں کہ میری رحمت سے مایوس نہیں ہونا۔ ” حضرت عبداللہ بن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ کچھ مشرکوں نے بہت سے قتل اور بکثرت زنا کیے تھے وہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آ کر کہنے لگے آپ جو کچھ کہتے ہیں اور جس دین کی طرف دعوت دیتے ہیں وہ بہت اچھا ہے۔ مگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمیں یہ بتائیں کہ کیا ہمارا اسلام لانا ہمارے گناہوں کا کفارہ بن جائے گا؟ اس وقت (وَالَّذِیْنَ لاَ یَدْعُوْنَ مَعَ اللَّہِ إِلَہًا آخَرَ) اور وہ لوگ جو اللہ کے ساتھ کسی دوسرے کو نہیں پکارتے۔“ تا آخر اور سورۃ الزمر کی یہ آیت (قل یعبادی الذین) تا آخر نازل ہوئی۔“ [ رواہ البخاری : باب قَوْلِہِ (یَا عِبَادِیَ الَّذِینَ أَسْرَفُوا عَلَی أَنْفُسِہِمْ )] (عَنْ أَبِیْ سَعَیْدٍ (رض) أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ إِنَّ الشَّیْطَانَ قَالَ وَعِزَّتِکَ یَا رَبِّ لَا أَبْرَحُ أَغْوِیْ عِبَادَکَ مَا دَامَتْ أَ رْوَاحُہُمْ فِیْ أَجْسَادِہِمْ، فَقَال الرَّبُّ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی وَعِزَّتِیْ وَجَلاَلِیْ لاَ أَزَالُ أَغْفِرُ لَہُمْ مَا اسْتَغْفَرُوْنِیْ )[ رواہ الحاکم فی المستدرک : کتاب التوبۃ والانابۃ ] ” حضرت ابو سعید (رض) بیان کرتے ہیں بے شک رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا شیطان نے کہا اے میرے رب! تیری عزت کی قسم میں ہمیشہ تیرے بندوں کو گمراہ کرتا رہوں گا جب تک ان کے جسموں میں روحیں موجود ہیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا مجھے میری عزت اور جلال کی قسم! میں ہمیشہ انہیں معاف کرتا رہوں گا جب تک یہ مجھ سے بخشش طلب کرتے رہیں گے۔“ (عَنْ أَنَسٍ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فِیْمَا یَرْوِیْہِ عَنْ رَبِّہٖ قَالَ إِذَا تَقَرَّبَ الْعَبْدُ إِلَیَّ شِبْرًا تَقَرَّبْتُ إِلَیْہِ ذِرَاعًا وَإِذَا تَقَرَّبَ مِنِّیْ ذِرَاعًا تَقَرَّبْتُ مِنْہُ بَاعًا وَإِذَا أَتَانِیْ یَمْشِیْ أَتَیْتُہٗ ھَرْوَلَۃً) [ رواہ البخاری : کتاب التوحید] ” حضرت انس (رض) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں جو آپ نے اللہ تعالیٰ سے بیان کی گویا کہ یہ حدیث قدسی ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جب بندہ میری طرف ایک بالشت بڑھتا ہے تو میں اس کی طرف ایک ہاتھ بڑھتاہوں۔ جب وہ میری طرف ایک ہاتھ بڑھتا ہے تو میں اس کی طرف دو ہاتھ بڑھتاہوں۔ جب وہ میری طرف چل کر آتا ہے تو میں اس کی طرف دوڑ کر آتاہوں۔“ ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک دن مجھے ایک عورت کہنے لگی کیا میرے لیے بھی توبہ ہے۔ میں نے زنا کیا حمل سے بچہ پیدا ہوا اور میں نے اسے قتل کر ڈالا۔ میں یہ جاننا چاہتی ہوں کہ میرا گناہ معاف ہونے کی کوئی صورت ہے ؟ میں نے کہا ہرگز نہیں وہ بڑی حسرت کے ساتھ آہیں بھرتی ہوئی واپس چلی گئی۔ اگلے دن میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پیچھے صبح کی نماز پڑھ کر فارغ ہوا تو میں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے رات کا قصہ عرض کیا آپ نے فرمایا تو نے غلط جواب دیا ابوہریرہ تو نے قرآن میں یہ آیت نہیں پڑھی (وَالَّذِینَ لا یَدْعُونَ مَعَ اللَّہِ إِلَہًا آخَرَ )إِلٰی قَوْلِہ (إِلا مَنْ تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ عَمَلا صالِحًا فَأُولَءِکَ یُبَدِّلُ اللَّہُ سَیِّءَاتِہِمْ حَسَنَاتٍ وَکَان اللَّہُ غَفُورًا رَحِیمًا) ” (اور وہ لوگ جو اللہ کے ساتھ کسی دوسرے الٰہ کو نہیں پکارتے) اس فرمان تک (مگر جس نے توبہ کی اور نیک اعمال کیے یہی وہ لوگ ہیں اللہ تعالیٰ جن کی برائیوں کو نیکیوں میں تبدیل کردیتا ہے اور اللہ تعالیٰ بخشنے والا رحم کرنے والا ہے۔) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا جواب سن کر میں نکلا اور اس عورت کو تلاش کرنا شروع کیا، وہ مجھے عشاء ہی کے وقت ملی میں نے اسے بشارت دی اور بتایا کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تیرے سوال کا جواب یہ دیا ہے عورت سنتے ہی سجدے میں گر گئی اور کہنے لگی شکر ہے اس رب کا جس نے میرے لیے معافی کا دروازہ کھولا اور میری نجات کی راہ بنائی۔“ [ تفسیر طبری : جلد ١٩] (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لَمَّا قَضَی اللَّہُ الْخَلْقَ کَتَبَ فِی کِتَابِہٖ فَہُوَ عِنْدَہٗ فَوْقَ الْعَرْشِ إِنَّ رَحْمَتِی غَلَبَتْ غَضَبِی)[ رواہ البخاری : کتاب بدء الخلق ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب اللہ تعالیٰ کائنات کی تخلیق سے فارغ ہوا تو اپنی کتاب میں جو کہ اللہ تعالیٰ کے پاس عر ش کے اوپر ہے اس میں لکھا ہے کہ میری رحمت میرے غضب پر غالب رہے گی۔“ مسائل ١۔ بڑے سے بڑے مجرم کو اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس نہیں ہونا چاہیے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ تمام کے تمام گناہ معاف کرنے والا ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ گناہ معاف کرنے والا مہربان ہے۔ تفسیربالقرآن ” اللہ“ کی رحمت سے مایوس نہیں ہونا چاہیے : ١۔ ” اللہ“ کی رحمت سے کافر ہی مایوس ہوا کرتے ہیں۔ (یوسف : ٨٧) ٢۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے ناامید نہیں ہونا چاہیے۔ (الزمر : ٥٣) ٣۔ ” اللہ“ کی رحمت سے گمراہوں کے سوا کوئی ناامید نہیں ہوتا۔ (الحجر : ٥٦) ٤۔ اللہ کی آیات اور اس کی ملاقات کا انکار کرنے والے اللہ کی رحمت سے مایوس ہیں۔ (العنکبوت : ٢٣) ٥۔ مومن اللہ کی رحمت کے امیدوار ہوتے ہیں اور اللہ بخشنے والا رحم کرنے والا ہے۔ (البقرۃ: ٢١٨) ٦۔ ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا میں اپنے پروردگار کو پکاروں گا امید ہے کہ میں اس کو پکار کر محروم نہیں رہوں گا۔ (مریم : ٤٨) ٧۔ اس کی رحمت ہر چیز کو گھیرے ہوئے ہے۔ (الاعراف : ١٥٦) ٨۔ اللہ کی رحمت نیک لوگوں کے قریب ہوا کرتی ہے۔ (الاعراف : ٥٦) ٩۔ اللہ تعالیٰ نے لوگوں پر مہربانی کرنا از خود اپنے آپ پرلازم قرار دے لیا ہے۔ (الانعام : ٥٤) الزمر
54 فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ غفور الرّحیم ہے لہٰذا اس کی گرفت سے پہلے پہلے اس کے حضور حاضر ہوجاؤ۔ اس انتباہ میں دنیا اور آخرت کے دونوں عذاب شامل ہیں۔ گناہگاروں کو ہدایت کی جارہی ہے کہ اگر اپنے رب کی بخشش اور رحمت چاہتے ہو تو فوراً اپنے رب کی طرف رجوع کرو قبل اس کے کہ تم پر عذاب نازل ہوجائے اور تمہیں اس کی خبر نہ ہوپائے۔ اس وقت افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہو کہ کاش! میں اپنے رب کے معاملے میں کوتاہی نہ کرتا اور نہ ہی اس کی آیات کو مذاق کرنے والوں میں شامل ہوتایا اس تمنا کا اظہار کرے کہ کاش! میں اللہ تعالیٰ کی ہدایت پاکر متقی بن جاتا یا موت دیکھ کر کہے کہ ہائے افسوس! میرے لیے کسی طرح دنیا میں لوٹ جانے کی کوئی صورت بن جائے اور میں نیکی کرنے والوں میں شامل ہوجاؤں۔ ان آیات میں اس کیفیت کا ذکر کیا گیا ہے جو اللہ کے عذاب یا موت کے وقت کافر، مشرک اور مجرموں پر وارد ہوتی ہے۔ ایسے لوگ حسرت پر حسرت کا اظہار کرتے ہیں۔ لیکن اس وقت انہیں اپنی حسرتوں کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ اسی بات کو دوسرے مقام پر یوں بیان کیا گیا ہے۔ ” جو ہم نے تم کو دیا ہے اس میں کچھ خرچ کرو اس سے پہلے کہ تمہیں موت آجائے اس وقت کہنے لگو کہ اے ہمارے رب! اگر تو ہمیں تھوڑی سی اور مہلت دیتا تو ہم صدقہ کرتے اور نیک بندوں میں شریک ہوجاتے۔ جب کسی کو موت کا وقت آن پہنچے تو اللہ تعالیٰ کسی کو مہلت نہیں دیتا اور اللہ تمہارے کاموں کی خبر رکھنے والا ہے۔“ (المنافقون : ١١، ١٢) (عَنِ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) إِنَّ الْعَبْدَ الْکَافِرَ إِذَا کَانَ فِی انْقِطَاعٍ مِنَ الدُّنْیَا وَإِقْبَالٍ مِنَ الآخِرَۃِ نَزَلَ إِلَیْہِ مِنَ السَّمَآءِ مَلَآءِکَۃٌ سُوْدُ الْوُجُوْہِ مَعَہُمُ الْمُسُوْحُ فَیَجْلِسُوْنَ مِنْہُ مَدَّ الْبَصَرِ ثُمَّ یَجِیْٓءُ مَلَکُ الْمَوْتِ حَتّٰی یَجْلِسَ عِنْدَ رَأْسِہٖ فَیَقُولُ أَیَّتُہَا النَّفْسُ الْخَبِیْثَۃُ اخْرُجِیْٓ إِلَی سَخَطٍ مِّنَ اللّٰہِ وَغَضَبٍ قَالَ فَتُفَرَّقُ فِیْ جَسَدِہٖ فَیَنْتَزِعُہَا کَمَا یُنْتَزَعُ السَّفُّوْدُ مِنَ الصُّوْفِ الْمَبْلُوْلِ) [ رواہ أحمد : مسند براء بن عازب] ” حضرت براء بن عازب (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب کافر کا دنیا سے رخصت ہونے اور موت کا وقت آ تا ہے تو آسمان سے کالے چہروں والے فرشتے اترتے ہیں۔ ان کے پاس ٹاٹ کا لباس ہوتا ہے۔ فرشتے فوت ہونے والے کافر سے حد نگاہ تک دور بیٹھ جاتے ہیں۔ ملک الموت اس کے سرہانے آکر کہتا ہے۔ اے خبیث جان۔ اللہ کی ناراضگی اور غضب کا سامنا کر پھر روح اس کے جسم سے الگ ہوتی۔ فرشتے اسے اس طرح کھینچتے ہیں جیسے گرم سلاخ کو روئی سے کھینچا جاتا ہے۔“ اس لیے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ اس کے عذاب سے بچنا اور اس کی رحمت کے حقدار بننا چاہتے ہو تو رجوع الی اللہ کے لیے یکسو ہوجاؤ تمہارے رب کی رحمت بے کنار ہے اس کی بخشش کا دروازہ ہر ایک کے لیے اس کے نزع کے وقت تک کھلا ہے جو قیامت تک کھلا رہے گا۔ مگر ان لوگوں کے لیے جو اپنے رب کی طرف اخلاص کے ساتھ رجوع کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں کے لیے ارشاد ہے کہ اے میرے بندو! اِدھر ادھر کی بجائے اور میرے عذاب سے پہلے پہلے صرف میری طرف رجوع کرو۔ جب میرا عذاب نازل ہوگا تو اس وقت اس کو کوئی دور کرنے والا نہ ہوگا۔ لہٰذا اس کی پیروی کرو جو بہترین چیز تمہارے رب کی طرف سے تم پر اتاری ہے۔ اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بچنے اور اس کی رحمت اور بخشش کے حقدار ہونے کی دو صورتیں ہیں۔1 اِدھر ادھر کی بجائے صرف اپنے رب کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔ 2 اس طریقہ کے مطابق جس کی وضاحت قرآن مجید میں کی گئی ہے۔ جس کے لیے ” اَحْسَنَ مَا اُنْزِلَ“ کے الفاظ استعمال فرمائے ہیں۔ مسائل ١۔ انسان کو ” اللہ“ کی گرفت سے پہلے توبہ کرنی چاہیے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ کا عذاب اچانک آیا کرتا ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ کے عذاب یا موت کے بعد نیکی کی حسرت کرنے سے کچھ فائدہ نہ ہوگا۔ ٤۔ نیکی اور توبہ کا موقعہ عذاب اور موت سے پہلے ہوتا ہے جس سے فائدہ اٹھا کر اپنے رب کے حضور توبہ کرنی چاہیے۔ تفسیربالقرآن توبہ و استغفار کی اہمیت و فضیلت : ١۔ وہ لوگ جو جہالت کی بنا پر برے عمل کرتے ہیں اور اس کے بعد توبہ اور اپنی اصلاح کرتے ہیں اللہ بخشنے والا رحم کرنے والا ہے۔ (النحل : ١١٩) ٢۔ جو شخص جرم کرنے کے بعد توبہ کرلے اور اپنی اصلاح کرے بے شک اللہ بخشنے والا، رحم کرنے والا ہے۔ (المائدۃ : ٣٩) ٣۔ اگر وہ توبہ کرلیں تو ان کے لیے بہتر ہے۔ (التوبۃ : ٧٤) ٤۔ اے ایمان والو ! خالص توبہ کرو۔ (التحریم : ٨) ٥۔ یقیناً میں اسے معاف کردوں گا جو توبہ کرے اور ایمان لائے اور نیک عمل کرے۔ (طٰہٰ: ٨٢) ٦۔ جو شخص توبہ کرے، ایمان لائے اور عمل صالح کرے تو میں اس کی برائیوں کو نیکیوں میں تبدیل کر دوں گا۔ (الفرقان : ٧٠) ٧۔ اگر تم کبیرہ گناہوں سے بچتے رہو گے تو اللہ تمہارے چھوٹے گناہ معاف کر دے گا۔ (النساء : ٣١) ٨۔ توبہ کرنا مومن کا شیوہ ہے۔ (التوبۃ: ١١٢) ٩۔ توبہ کرنے والوں سے اللہ تعالیٰ محبت کرتا ہے۔ (البقرۃ: ٢٢٢) الزمر
55 الزمر
56 الزمر
57 الزمر
58 الزمر
59 فہم القرآن ربط کلام : کفر و شرک اور بڑے گناہوں سے توبہ نہ کرنے کا نقصان۔ ” اللہ“ کے نافرمان عذاب اور موت کی سختیوں میں مبتلا ہوتے ہیں تو پھر زبان سے یا دل ہی دل میں ان حسرتوں کا اظہار کرتے ہیں جن کا ذکر اس سے پہلی آیات میں ہوا ہے۔ اس وقت ملائکہ اپنے رب کی طرف سے جواب دیتے ہیں کہ تیرے پاس تیرے رب کے احکام اور ارشادات پہنچے لیکن تو نے انہیں جھٹلایا اور تکبر کیا اور تو انکار کرنے والوں میں شامل رہا۔ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ دیکھیں گے کہ جن لوگوں نے اللہ تعالیٰ پر جھوٹ بولا۔ ان کے چہرے کا لے ہوں گے اور ان کا ٹھکانہ جہنم ہوگا۔ ان کے مقابلے میں جو لوگ کفر و شرک اور نافرمانیوں سے بچے رہے۔ اللہ تعالیٰ انہیں جنت میں داخل فرمائے گا۔ وہاں انہیں معمولی تکلیف بھی نہیں ہوگی اور نہ ہی وہ غمگین ہوں گے۔ کچھ اہل علم نے ” بِمَفَازَتِہِمْ“ میں ” ب“ ظرفیہ اور ” مَفَاذَۃٌ“ کا معنٰی ” مَامَنْ“ کیا ہے۔ جس سے مراد جنت ہے۔ (اَلْکِبْرُ بَطَرُ الْحَقِّ وَغَمْطُ النَّاسِ) [ رواہ مسلم : کتاب الایمان، باب تحریم الکبر وبیانہ] ” تکبر حق بات کو چھپانا اور لوگوں کو حقیر جاننے کا نام ہے۔“ مسائل ١۔ اللہ کی آیات کو جھٹلانے والوں کے منہ کالے ہوں گے اور ان کاٹھکانہ جہنم ہوگا۔ ٢۔ متقی جنت میں ہوں گے وہاں انہیں کوئی تکلیف اور غم نہیں ہوگا۔ تفسیربالقرآن جنتیوں اور جہنمیوں میں فرق : ١۔ ہم نے جنت میں کھجوروں، انگوروں کے باغ بنائے ہیں اور ان میں چشمے جاری کیے ہیں۔ (یٰس : ٣٤) ٣۔ یقیناً متقین باغات اور چشموں میں ہوں گے۔ (الذاریات : ١٥) ٤۔ یقیناً متقی نعمتوں والی جنت میں ہوں گے۔ (الطور : ١٧) ٥۔ جنت میں انہیں سونے اور لولو کے زیور پہنائے جائیں گے۔ (فاطر : ٣٣) ٦۔ جنت میں تمام پھل دو، دو قسم کے ہوں گے۔ (الرحمن : ٥٢) ٧۔ جنتی سبز قالینوں اور مسندوں پر تکیہ لگا کر بیٹھے ہوں گے۔ (الرحمٰن : ٧٦) ٨۔ جنتیوں کو شراب طہور دی جائے گی۔ (الدھر : ٢١) ٩۔ جنتیوں کے چہرے روشن ہوں گے۔ (عبس : ٣٨) ١٠۔ جہنمیوں کے چہرے کالے ہوں گے۔ (عبس : ٤١) ١١۔ اس دن ہم ان کا مال جہنم کی آگ میں گرم کریں گے اس کے ساتھ ان کی پیشانیوں، کروٹوں اور پیٹھوں کو داغا جائے گا۔ (التوبہ : ٣٥) ١٢۔ ان کا ٹھکانہ جہنم ہے جب وہ ہلکی ہونے لگے گی تو ہم اسے مذید بھڑکا دیں گے۔ (بنی اسرائیل : ٩٧) ١٣۔ تھور کا درخت گنہگاروں کا کھانا ہوگا۔ (الدخان : ٤٤) ١٤۔ اس میں وہ کھولتا ہوا پانی پیئیں گے اور اس طرح پیئیں گے جس طرح پیا سا اونٹ پانی پیتا ہے۔ (الواقعہ : ٥٤ تا ٥٥) ١٥۔ ہم نے ظالموں کے لیے آگ تیار کی ہے جو انہیں گھیرے ہوئے ہوگی اور انہیں پانی کی جگہ پگھلا ہو اتانبا دیا جائے گا جو ان کے چہروں کو جلا دے گا۔ (الکہف : ٢٩) ١٦۔ جہنمیوں کے جسم بار بار بدلے جائیں گے تاکہ انہیں پوری پوری سزامل سکے۔ (النساء : ٥٦) الزمر
60 الزمر
61 الزمر
62 فہم القرآن ربط کلام : جس ” اللہ“ نے ظالموں کو سزا دینا اور تقویٰ اختیار کرنے والوں کو جزا اور انہیں جنت میں داخل کرنا ہے وہی ” اللہ“ ہر چیز کو پیدا کرنے والا اور اس پر نگران ہے۔ زمین و آسمان کے اختیارات اسی کے پاس ہیں۔ جاندار ہو یا غیر جاندار، چھوٹی ہو یا بڑی غرض کہ زمین و آسمانوں، ہواؤں اور فضاؤں میں ہو یا کوئی چیز تحت الثّریٰ میں ہویا عرش معلی پر ہو۔ ہر چیز کو پیدا کرنے والا صرف اور صرف ایک ” اللہ“ ہے۔ اس کے سوا نہ کسی نے کوئی چیز پیدا کی ہے اور نہ کوئی پیدا کرسکتا ہے۔ یادرہے کہ پیدا کرنے اور کسی چیز کے بنانے میں بہت فرق ہے۔ پیدا کرنے کا معنٰی ہے کہ وہ چیز، اس کا نمو نہ اور اس کا مٹیریل سرے سے ہی موجود ہی نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ نے کچھ چیزوں کے لیے ” جَعَلَ“ کا لفظ بھی استعمال کیا ہے۔ جس کا معنٰی بنانا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہی اس چیز کا مٹیریل پیدا کیا اور پھر اسی نے ہی اسے اس طرح بن جانے کا حکم دیا جس طرح اس کی منشا تھی۔ بنانے کا لفظ آدمی کے لیے بھی بولا جاسکتا ہے کہ فلاں شخص نے فلاں چیز بنائی ہے۔ لیکن خالق کا لفظ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کے لیے نہیں بولا جاسکتا۔ جس طرح ہمارے ملک میں کچھ سیاستدان بانئ پاکستان کو خالق پاکستان کہتے ہیں۔ ایسا کہنا غلط ہے کیونکہ ہر چیز کو پیدا کرنے والا صرف ” اللہ“ ہے۔ لہٰذا خالق کا لفظ اس کے سوا کسی کے لیے بولنا جائز نہیں وہ صرف خالق ہی نہیں بلکہ ہر چیز کا وکیل بھی ہے۔ وکیل کا لفظ جزوی معنوں میں کسی انسان کے لیے بولا جا سکتا ہے۔ لیکن کلی مفہوم کے لحاظ سے صرف اللہ تعالیٰ ہی ہر چیز کا وکیل ہے۔ جو تخلیق سے لے کر موت تک ہر جاندار کی تمام ضرورتیں پوری کرنے والا ہے یعنی وہ ہر اعتبار سے اس کا ذمہ دار ہے۔ اسی کے پاس زمین و آسمانوں کی چابیاں ہیں۔ ہر زبان میں عام طور پر چابی کا لفظ تین معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ ١۔ تالا یا کسی بند چیز کو کھولنے والی چیز۔ ٢۔ کسی چیز کا قبضہ اور اختیار رکھنا۔ ٣۔ خزانے کا مالک ہونا۔ اللہ تعالیٰ کے پاس ہر اعتبار سے زمین و آسمانوں کی چابیاں ہیں۔ اس نے کسی زندہ یا مردہ کو اپنی خدائی میں کوئی اختیار نہیں دیا۔ جو لوگ اس کے ارشادات اور احکام کا جزوی یا کلی طور پر انکار کرتے ہیں وہ ناقابل تلافی اور دائمی نقصان پائیں گے۔ (عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّہِ عَنْ أَبِیہِ أَنَّ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ مَفَاتِحُ الْغَیْبِ خَمْسٌ إِنَّ اللَّہَ عِنْدَہُ عِلْمُ السَّاعَۃِ، وَیُنَزِّلُ الْغَیْثَ، وَیَعْلَمُ مَا فِی الأَرْحَامِ، وَمَا تَدْرِی نَفْسٌ مَاذَا تَکْسِبُ غَدًا، وَمَا تَدْرِی نَفْسٌ بِأَیِّ أَرْضٍ تَمُوتُ، إِنَّ اللَّہَ عَلِیمٌ خَبِیرٌ) [ رواہ البخاری : باب (وَعِنْدَہُ مَفَاتِحُ الْغَیْبِ لاَ یَعْلَمُہَا إِلاَّ ہُوْ)] ” حضرت عبداللہ بن سالم (رض) اپنے باپ سے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا غیب کی پانچ چابیاں ہیں۔ اللہ تعالیٰ کو قیامت کا علم ہے۔ وہی بارش نازل کرتا ہے اور وہی جانتا ہے کہ رحم مادر میں کیا ہے ؟ کوئی نہیں جانتا کہ اس نے کل کیا کرنا ہے ؟ اور کسی کو علم نہیں کہ اسے کس سرزمین پر موت آئے گی۔ یقیناً اللہ جاننے والا، ہر چیز کی خبر رکھنے والا ہے۔“ تفسیربالقرآن اللہ ہی خالق اور ہر چیز کا وکیل ہے : ١۔ اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں اور زمین و آسمانوں کو پیدا فرمایا۔ (البقرۃ: ٢٢) ٢۔ اللہ ہی نے انسان کو بڑی اچھی شکل و صورت میں پیدا فرمایا۔ (التین : ٤) ٣۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو ایک نطفے سے پیدا کیا۔ (الدھر : ٢) ٤۔ اللہ نے انسان کو مٹی سے پیدا کیا۔ (الروم : ٢٠) ٥۔ اللہ نے ایک ہی جان سے سب انسانوں کو پیدا کیا۔ (الاعراف : ١٨٩) ٦۔ اللہ ہی پیدا کرنے والاہے اور اس کا ہی حکم چلنا چاہیے۔ (الاعراف : ٥٤) ٧۔ لوگو ! اس رب سے ڈر جاؤ جس نے تمہیں پیدا کیا ہے۔ (النساء : ١) ٨۔ اللہ ہر چیز کو پیدا کرنے والا ہے، سو تم اس کی عبادت کرو اور وہ ہر چیز پر کارساز ہے۔ (الانعام : ١٠٢) ٩۔ بے شک آپ ڈرانے والے ہیں اور اللہ ہی ہر چیز پر کارساز ہے۔ (ہود : ١٢) ١١۔ جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے اللہ ہی کا ہے اور وہی کارساز کافی ہے۔ (النساء : ١٣٢) ١٢۔ میرے بندوں پر شیطان کا داؤ پیچ نہیں چلے گا اللہ اپنے بندوں کے لیے کار ساز ہے۔ (بنی اسرائیل : ٦٥) الزمر
63 الزمر
64 فہم القرآن ربط کلام : جب ہر چیز کا خالق اور وکیل صرف اللہ تعالیٰ ہے تو پھر عبادت اور تابعداری بھی اسی کی ہونی چاہیے۔ اس کے سوا کسی کی بندگی کی دعوت دینا جہالت کے سوا کچھ نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اپنے آپ کو ہر حوالے سے کا ئنات کا خالق، مالک، بادشاہ اور وکیل ثابت کیا ہے۔ اس لیے ہر انسان کا فرض بنتا ہے کہ وہ اسی کا حکم تسلیم کرے اور اسی کی بندگی بجالائے۔ لیکن کافر اور مشرک ایسا کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ مکہ کے مشرک نہ صرف اس بات کے انکاری تھے بلکہ ان کی کوشش تھی کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس دعوت کو چھوڑ دیں یا کم از کم اس بات پر سمجھوتہ کرلیں کہ ہم اس کے الٰہ کی عبادت کریں گے اور یہ وہ ہمارے معبودوں کی عبادت کرے۔ اس پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم ہوا کہ ان جاہلوں سے فرمادیں کہ مجھے اللہ کے سوا دوسروں کی بندگی کے لیے کہتے ہو؟ حالانکہ اس نے میری طرف اور مجھ سے پہلے تمام انبیائے کرام (علیہ السلام) کی طرف وحی کی ہے کہ اگر تو نے شرک کیا تو تیرا ہر عمل ضائع ہوجائے گا اور تو نقصان پانے والوں میں شامل ہوگا۔ انبیاء ( علیہ السلام) کا ذکر فرما کر اشارہ دیا ہے کہ ہر نبی کو انہیں الفاظ میں کہا گیا تھا کہ اگر تو نے شرک کیا تو تیرے تمام اعمال ضائع کرد ئیے جائیں گے۔ دوسرے مقام پر بڑے بڑے اٹھارہ ( ١٨) انبیاۓ کرام (علیہ السلام) کا نام لے کر یہ بات کہی گئی ہے۔ ” یہ ہماری دلیل تھی جو ہم نے ابراہیم کو اس کی قوم کے مقابلے میں دی ہم جس کے چاہتے ہیں درجات بلند کرتے ہیں بے شک آپ کا رب بڑی حکمت والا، خوب جاننے والاہے۔” اور ہم نے اسے اسحق اور یعقوب عطاکیے۔ ان سب کو ہدایت دی اور اس سے پہلے نوح کو ہدایت دی اور اس کی اولاد میں سے داؤد، سلیمان، ایوب، یوسف، موسیٰ اور ہارون کو اور اسی طرح ہم نیکی کرنے والوں کو جزا دیتے ہیں۔ اور زکریا اور یحییٰ اور عیسیٰ اور الیاس کو یہ سب نیک لوگوں میں سے تھے۔” اور اسماعیل اور یسع اور یونس اور لوط کو اور ان سب کو جہانوں پر فضیلت دی۔ اور ان کے باپ دادا اور ان کی اولاد اور انکے بھائیوں میں سے بعض کو بھی اور ہم نے انہیں چن لیا اور انہیں سیدھے راستے کی طرف ہدایت دی۔“ (الانعام : ٨٣ تا ٨٧) (ذٰلِکَ ھُدَی اللّٰہِ یَھْدِیْ بِہٖ مَنْ یَّشَآءُ مِنْ عِبَادِہٖ وَ لَوْ اَشْرَکُوْا لَحَبِطَ عَنْھُمْ مَّا کَانُوْا یَعْمَلُوْن)[ الانعام : ٨٨] ” یہ اللہ کی ہدایت ہے وہ اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا ہے عطا کرتا ہے اور اگر یہ لوگ شرک کرتے تو ان کے اعمال بھی ضائع ہوجاتے۔“ (٨٨) مسائل ١۔ مشرک آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھی شرک کی دعوت دیتے تھے۔ ٢۔ شرک سے نیک اعمال برباد اور ضائع ہوجاتے ہیں۔ ٣۔ تمام انبیاء کی طرف یہ وحی کی گئی کہ ان میں سے کسی نے بھی شرک کیا تو اس کے اعمال اکارت ہوجائیں گے۔ ٤۔ شرک کی دعوت دینا جاہلوں کا کام ہے۔ تفسیر بالقرآن شرک کی بڑی بڑی اقسام : ١۔ اللہ کی ذات میں کسی کو شریک ٹھہرانا۔ (الکہف : ٤٢) ٢۔ اللہ تعالیٰ کے حکم میں دوسروں کو اس کا شریک بنانا۔ (الکہف : ٢٦) ٣۔ اللہ کی صفات میں شرک کرنا۔ (الکہف : ١٠٢) ٤۔ اللہ تعالیٰ کی عبادت میں کسی کو شریک نہ بنائیں : (الکہف : ١١٠) ٥۔ اللہ ہی پیدا کرتا ہے اور ووہی مختار کل ہے دوسروں کو کوئی اختیار نہیں ہے اللہ ان کے شرک سے پاک ہے۔ (القصص : ٦٨) ٦۔ کیا تم اللہ تعالیٰ کو ایسی چیزیں بتاتے ہو جس کا اسے علم نہیں ہے اللہ پاک ہے اور مشرکوں کے شرک سے بلندو بالا ہے۔ (یونس : ١٨) ٧۔ اللہ تعالیٰ کا حکم آچکا ہے کہ وہ پاک ہے اور بہت بلند ہے اس چیز سے جو وہ شرک کرتے ہیں۔ (النحل : ١) ٨۔ مشرک اپنے آباؤ اجداد کی اندھی تقلید کرتے ہیں۔ (البقرۃ: ١٧٠) ٩۔ مشرک کو اللہ کی بیٹیاں سمجھ کر عبادت کرتے ہیں۔ (النجم : ٢٨) ١٠۔ جب انہیں اللہ اور اس کے رسول کی طرف بلایا جاتا ہے تو کہتے ہیں ہمیں ہمارے آباء و اجداد کافی ہیں۔ (المائدۃ: ١٠٤) الزمر
65 الزمر
66 فہم القرآن ربط کلام : لوگوں کی بندگی اور شرک سے بچنا ہی نہیں بلکہ ایک رب کی عبادت بھی کرناضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو ہر قسم کے شرک سے منع کرنے کے ساتھ صرف اپنی عبادت کرنے کا حکم دیا۔ عبادت کا بنیادی مقصد اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا ہے۔ کیونکہ ” اللہ“ خالق بھی ہے اور انسان کی تمام ضرورتوں کا ذمہ دار بھی ہے۔ اس لیے اس کا شکر ادا کرناانسان پر لازم ہے۔ اسے دوسری طرح یوں سمجھنا چاہیے۔ جس نے اللہ تعالیٰ کو اپنا خالق اور الوکیل مانا۔ اس کے دل میں شکر کا جذبہ پیدا ہوگا۔ جس کے دل میں شکر کا جذبہ ضرور پیدا ہوا وہ اپنے رب کی ہر حال میں بندگی کرے گا۔ اکثر مفسرین نے عبادت کا معنی تذلّل یعنی نہایت عاجزی کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی پرستش کرنا بیان کیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ عبادت میں عاجزی اور انتہا درجے کی انکساری ضروری ہے۔ آدمی اللہ کے حضور قیام کرے تو نا صرف زبان سے اقرار کرے بلکہ اس کا پورا جسم گواہی دے رہا ہو کہ میرے جسم کا ایک ایک ریشہ تیرے حضور عاجزوبے بس ہے۔ جبین نیاز جھکائے تو اپنے آپ کو عجز و انکساری کی انتہا تک لے جائے گویا کہ وہ پستیوں کے سمندر میں ڈوب چکا ہے۔ زبان جنبش کرے تو اس کی حمد و ثنا کے گیت گائے۔ دست سوال دراز کرے تو سراپا التجا بن جائے۔ مال خرچ کرے تو اس عاجزی کے ساتھ کہ میں تو مالک کی ملکیت ہی واپس لوٹا رہا ہوں نہ یہ میرا مال ہے اور نہ اس میں میرا کمال ہے۔ باالفاظ دیگر پری زندگی میں اپنے کا حکم ماننا اور اس رب کے تابع رہنے نام عبادت ہے۔ مسائل ١۔ صرف ایک ” اللہ“ ہی کی عبادت کرنا چاہیے۔ ٢۔ ایک اللہ کی عبادت کرنے والا ہی حقیقت میں اس کا شکرگزار ہوتا ہے۔ الزمر
67 فہم القرآن ربط کلام : جو لوگ اللہ کے علاوہ یا اس کے ساتھ کسی کی عبادت کرتے ہیں وہ مشرک ہونے کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے ناقدردان اور ناشکرے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس مقام پر اپنی عبادت کا حکم دینے سے پہلے ارشاد فرمایا ہے کہ اللہ ہی ہر چیزکا خالق اور اس کا وکیل ہے۔ اسی کے پاس آسمانوں اور زمین کی چابیاں ہیں۔ جاہل لوگوں کی خواہش اور کوشش ہے کہ اللہ کے سوا دوسروں کی عبادت کی جائے حالانکہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ صرف اسی کی عبادت کی جائے۔ یہی اس کے شکر ادا کرنے کا صحیح طریقہ ہے جو لوگ اللہ کے سوا یا اس کے ساتھ دوسروں کی عبادت کرتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے رب ذوالجلال کی قدرہی نہیں کی جس طرح اس کی قدر کرنے کا حق ہے۔ اسی کے پاس زمین و آسمانوں کی چابیاں ہیں اور قیامت کے دن بھی پوری کی پوری زمین اس کے قبضہ میں ہوگی اور ساتوں آسمان اس کے دائیں ہاتھ میں لپٹے ہوں گے وہ مشرکوں کی مشرکانہ عبادت سے پاک اور ان کے بے ہودہ عقائد سے بلند و بالاہے۔ ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا قیامت کے دن اللہ تعالیٰ زمین کو اپنے قبضہ میں لے لے گا اور آسمانوں کو لپیٹ کر اپنے دائیں ہاتھ میں لے کر فرمائے گا میں ہی بادشاہ ہوں زمین کے بادشاہ کہاں ہیں؟“ [ رواہ البخاری : باب یقبض اللّٰہ الارض] (عَنْ عَبْدِ اللَّہِ قَالَ جَاءَ حَبْرٌ مِنَ الأَحْبَارِ إِلَی رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَقَالَ یَا مُحَمَّدُ، إِنَّا نَجِدُ أَنَّ اللَّہَ یَجْعَلُ السَّمَوَاتِ عَلَی إِصْبَعٍ وَالأَرَضِینَ عَلَی إِصْبَعٍ، وَالشَّجَرَ عَلَی إِصْبَعٍ، وَالْمَاءَ وَالثَّرَی عَلَی إِصْبَعٍ، وَسَاءِرَ الْخَلاَءِقِ عَلَی إِصْبَعٍ، فَیَقُولُ أَنَا الْمَلِکُ فَضَحِکَ النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حَتَّی بَدَتْ نَوَاجِذُہُ تَصْدِیقًا لِقَوْلِ الْحَبْرِ ثُمَّ قَرَأَ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (وَمَا قَدَرُوا اللَّہَ حَقَّ قَدْرِہِ وَالأَرْضُ جَمِیعًا قَبْضَتُہُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ وَالسَّمَوَاتُ مَطْوِیَّاتٌ بِیَمِینِہِ سُبْحَانَہُ وَتَعَالَی عَمَّا یُشْرِکُونَ))[ رواہ البخاری : باب قَوْلِہِ (وَمَاقَدَرُوا اللَّہَ حَقَّ قَدْرِہِ )] ” حضرت عبد اللہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک یہودی عالم نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آکر کہنے لگا اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ہم تورات میں پاتے ہیں کہ قیامت کے دن اللہ آسمانوں کو ایک انگلی پر، زمینوں کو ایک انگلی پر، تمام درختوں کو ایک انگلی پر، پانی اور مٹی کو ایک انگلی پر اور تمام مخلوقات کو ایک انگلی پر رکھ کر فرمائیں گے میں بادشاہ ہوں۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہودی کی بات کی تصدیق کرتے ہوئے مسکرا پڑے یہاں تک آپ کی ڈاڑھیں ظاہر ہوگئیں۔ پھر آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی۔ ( وَمَا قَدَرُوا اللَّہَ حَقَّ قَدْرِہِ وَالأَرْضُ جَمِیعًا قَبْضَتُہُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ وَالسَّمَوَاتُ مَطْوِیَّاتٌ بِیَمِینِہِ سُبْحَانَہُ وَتَعَالَی عَمَّا یُشْرِکُونَ) “ 1۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کے شرف اور مقام کے پیش نظر اسے صرف اپنے سامنے جھکنے کا حکم دیا ہے لیکن مشرک اس کی ناقدری کرتے ہوئے در، در کی ٹھوکریں کھاتا پھرتا ہے۔2۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو صرف اپنی بارگاہ سے مانگنے کا حکم دیا لیکن مشرک ہر جگہ جھولی پھیلائے پھرتا ہے۔ مسائل ١۔ مشرک اللہ تعالیٰ کی قدر نہیں کرتا۔ ٢۔ قیامت کے دن زمین و آسمان اللہ تعالیٰ کی مٹھی میں ہوں گے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ مشرکین کے شرک سے پاک اور بلندو بالا ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ کا مشرک اور اس کے عقائد سے کوئی تعلق نہیں : ١۔ اللہ تعالیٰ بہت بلند ہے اس سے جو لوگ شرک کرتے ہیں۔ (النحل : ٣) ٢۔ اللہ تعالیٰ کا حکم آچکا وہ پاک ہے اور بہت بلند ہے اس چیز سے جو وہ شرک کرتے ہیں۔ (النحل : ١) ٣۔ کیا اللہ کے علاوہ کوئی اور الٰہ ہے بہت بلند ہے اللہ اس سے جو وہ شرک کرتے ہیں۔ (النمل : ٦٣) ٤۔ اللہ پیدا کرتا ہے اور مختار کل ہے دوسروں کو کوئی اختیار نہیں ہے اللہ ان کے شرک سے پاک ہے۔ (ا لقصص : ٦٨) ٥۔ قیامت کے دن آسمانوں کو اللہ اپنے دائیں ہاتھ پر لپیٹ لے گا۔ اللہ پاک ہے اور بہت بلند ہے اس چیز سے جو وہ شرک کرتے ہیں۔ ( الزمر : ٦٧) ٦۔ کیا ان کے لیے اللہ کے سوا کوئی اور الٰہ ہے۔ اللہ بری ہے اس چیز سے جو وہ شرک کرتے ہیں۔ (الطور : ٤٣) الزمر
68 فہم القرآن ربط کلام : جس قیامت کا پچھلی آیت میں ذکر ہوا ہے اس کی ابتدا یوں ہوگی۔ اللہ تعالیٰ جب قیامت برپا کرنے کا فیصلہ فرمائے گا تو اسرافیل کو صور پھونکنے کا حکم دے گا۔ یونہی اسرافیل صور پھونکیں گے تو جو بھی جاندار آسمانوں میں ہیں اور جو زمین میں ہیں وہ بے ہوش ہوکرگرپڑیں گے۔ سوائے اس کے جسے اللہ تعالیٰ محفوظ رکھے۔ اس کے بعد پھر اسرافیل کو دوسری مرتبہ حکم ہوگا جونہی صور پھونکا جائے گا تو سب لوگ اپنی اپنی جگہ سے اٹھ کھڑے ہوں گے۔ اس فرمان میں ” اِلّا مَنْ شَاءَ“ فرما کر کچھ لوگوں کا استثناء کیا ہے کہ وہ بے ہوش ہونے سے بچ جائیں گے۔ حدیث مبارکہ میں کھلے الفاظ میں یہ ذکر نہیں ملتا کہ اللہ تعالیٰ کس کس کو بے ہوش ہونے سے محفوظ رکھے گا۔ البتہ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کچھ ایسی مخلوق بھی ہوگی جو بے ہوش نہیں ہوگی۔ بعض اہل علم نے غیر مستند روایات کے حوالے سے کچھ شخصیات کا نام لیا ہے۔ اس سے چاروں فرشتے یعنی جبرائیل، میکائیل، اسرافیل اور عزرائیل مراد لیے ہیں۔ بعض نے اس میں حاملین عرش کو بھی شامل کیا ہے اور بعض نے انبیاء، صلحاء اور شہداء کو بھی۔ لیکن حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ انسانوں میں سے کوئی بھی اس بے ہوشی سے نہ بچے گا۔ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی بے ہوش ہوں گے تو دوسرے کیسے بچ سکتے ہیں۔ ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ مدینے کے بازار میں ایک یہودی نے قسم کھا کر کہا اس ذات کی جس نے موسیٰ (علیہ السلام) کو بشریت (محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پہ فضیلت عطا فرمائی ایک انصاری اٹھا اس نے اس کے چہرے پہ تھپڑ مارتے ہوئے کہا تو اس طرح کہتا ہے جب کہ اللہ کے نبی ہم میں موجود ہیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا صور پھونکا جائے گا آسمانوں اور زمین کی ہر چیز بے ہوش ہوجائے گی مگر وہی بچے گا جسے اللہ چاہے، پھر دوبارہ صور پھونکا جائے گا سارے کے سارے رب کے روبرو پیش ہوجائیں گے آپ نے فرمایا : میں سب سے پہلے سر اٹھاؤں گا موسیٰ (علیہ السلام) کو عرش کا پایہ تھامے ہوئے پاؤں گا۔ میں نہیں جانتا موسیٰ (علیہ السلام) نے مجھ سے پہلے سر اٹھایا یا وہ ان لوگوں میں سے ہیں جن کو اللہ کی طرف سے استثنا حاصل ہے جس نے کہا میں یونس بن متی سے بہتر ہوں اس نے جھوٹ بولا۔“ [ رواہ الترمذی : باب وَمِنْ سُورَۃِ الزُّمَرِ] الزمر
69 فہم القرآن ربط کلام : لوگوں کا اپنی اپنی جگہ سے نکل کر محشر کے میدان میں جمع ہونا اور عدالت کبریٰ کا قیام۔ قرآن مجید نے یہ بھی بتلایا ہے کہ پہلے نفخہ کے بعد زمین و آسمانوں کو تبدیل کردیا جائے گا۔ ( ابراہیم : ٨ ٤) زمین اس قدر چٹیل میدان ہوگی کہ کوئی اس پرنشیب و فراز نہیں ہوگا۔ (طہٰ: ١٠٦، ١٠٧) اس کے بعد اسرا فیل کو دوسری مرتبہ صور پھونکنے کا حکم صادر ہوگا جونہی وہ صور پھونکے گا لوگ اپنے اپنے مقام سے نکل کر محشر کے میدان میں جمع ہوجائیں گے۔ قرآن مجید اور احادیث میں اس بات کی پوری تفصیل بیان کی گئی ہے کہ لوگوں کو کس طرح میدان محشر میں اکٹھا کیا جائے گا۔ لوگ محشر کے میدان میں اکٹھے ہوجائیں گے تو ملائکہ کو محشر کے میدان میں پہنچنے کا حکم جاری ہوگا۔ ملائکہ اور جبرائیل امین قطار اندر قطار کھڑے ہوں گے۔ (النبا : ٣٨) اسی اثناء میں رب ذوالجلال جلوہ افروز ہوں گے۔ پوری کی پوری زمین رب ذوالجلال کے جمال سے منور ہوجائے گی۔ لوگوں کے اعمال نامے ان تک پہنچ جائیں گے۔ جس سے انبیائے کرام (علیہ السلام) اور گواہ حاضر کیے جائیں گے۔ لوگوں کے درمیان حق اور عدل کے ساتھ فیصلہ کیا جائے گا۔ کسی پر رائی کے دانے برابر بھی زیادتی نہیں ہوگی ہر کسی کے عمل کے مطابق اسے بدلہ دیا جائے گا۔ جو کچھ لوگ عمل کرتے ہیں اللہ تعالیٰ جانتا ہے۔ یعنی اعمال ناموں اور گواہوں پر ہی اکتفا نہیں کیا جائے گا بلکہ اللہ تعالیٰ کو بلاواسطہ بھی سب کچھ معلوم ہوگا۔ (عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَال قیلَ لَہُ مَا الْمَقَامُ الْمَحْمُودُ ؟ قَالَ ذَاکَ یَوْمٌ یَنْزِلُ اللَّہُ تَعَالَی عَلَی کُرْسِیِّہِ یَءِطُّ کَمَا یَءِطُّ الرَّحْلُ الْجَدِیدُ مِنْ تَضَایُقِہِ بِہِ وَہُوَ کَسَعَۃِ مَا بَیْنَ السَّمَاءِ وَالأَرْضِ) [ رواہ الدارمی : باب فِی شَأْنِ السَّاعَۃِ وَنُزُول الرَّبِّ تَعَالَی] ” حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں کہ آپ سے پوچھا گیا مقام محمود کیا ہے؟ آپ نے فرمایا یہ وہ دن ہوگا جس دن اللہ تعالیٰ اپنی کرسی پر جلوہ افروز ہوں گے، اللہ کے عرش سے اس طرح آواز آئے گی جس طرح کہ نئے پالان سے آواز آتی ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کے عرش کی وسعت آسمانوں اور زمینوں کی وسعت کے کے برابر ہوگی۔“ مسائل ١۔ قیامت کے دن پوری کی پوری زمین اپنے رب کے نور سے منور ہوجائے گی۔ ٢۔ قیامت کے دن ہر شخص کا اعمال نامہ اس تک پہنچ جائے گا۔ ٣۔ قیامت کے دن انبیائے کرام (علیہ السلام) اور گواہ اپنی اپنی شہادت پیش کریں گے۔ ٤۔ قیامت کے دن کسی پر کوئی زیادتی نہ ہوپائے گی۔ ٥۔ قیامت کے دن حق کے ساتھ فیصلہ کیا جائے گا۔ ٦۔ ہر کسی کو اس کے اعمال کے مطابق بدلہ دیا جائے گا۔ ٧۔ اللہ تعالیٰ لوگوں کے اعمال سے پوری طرح باخبر ہے۔ تفسیربالقرآن عدالت کبریٰ کا ایک منظر : ١۔ اللہ تعالیٰ انصاف کے ساتھ فیصلہ فرمائیں گے اور لوگوں پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔ (یونس : ٥٤) ٢۔ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن حق کے ساتھ فیصلہ فرمائیں گے اور کسی پر ظلم نہ ہوگا۔ (الزمر : ٦٩) ٣۔ اللہ تعالیٰ ہر کسی کو پورا پورا اجر دے گا اور کسی پر ظلم نہ ہوگا۔ (البقرۃ: ٢٨١) ٤۔ ” اللہ“ کی عدالت میں مجرم کی سفارش قبول نہ ہوگی۔ (البقرۃ : ٤٨) ٥۔ ” اللہ“ کی عدالت میں خریدو فروخت، دوستی اور کسی کی سفارش کام نہ آئے گی۔ (البقرۃ : ٢٥٤) ٦۔ اس دن عدل وانصاف کا ترازو قائم کیا جائے گا اور کسی پر رائی کے دانے کے برابر بھی ظلم نہیں کیا جائے گا۔ (الانبیاء : ٤٧) ٧۔ قیامت کے دن کوئی دوست کسی دوست کے کام نہیں آئے گا۔ (الدخان : ٤١، ٤٢) ٨۔ قیامت کے دن متقین کے سوا سب ایک دوسرے کے دشمن بن جائیں گے۔ (الزخرف : ٦٧) الزمر
70 الزمر
71 فہم القرآن ربط کلام : عدالت کبریٰ کے فیصلے بعد کفار کو جہنم کی طرف ہانکا جانا۔ جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کردیا جائے گا تو رب ذوالجلال کی طرف سے حکم ہوگا۔ کہ جہنمیوں کو ان کے جرائم کے مطابق گروہ بندی کرکے جہنم کی طرف دھکیل دیا جائے گا۔ جہنمی جہنم کے پاس پہنچیں گے تو جہنم کے دروغے جہنم کے دروازے کھولتے ہوئے جہنمیوں کو طعنہ اور جھڑکتے ہوئے پوچھیں گے کہ کیا تمہارے پاس اللہ کے رسول نہیں آئے تھے جو تمہارے سامنے تمہارے رب کے ارشادات پڑھتے اور تمہیں آج کے دن سے ڈراتے۔ جہنمی زارو قطارورتے ہوئے اقرار کریں گے۔ کیوں نہیں! ہمارے پاس ہمارے رب کے رسول آئے۔ اور انہوں نے ہمیں باربار اخلاص کے ساتھ سمجھایا لیکن ہم باز نہ آئے جس وجہ سے عذاب کا حکم ہم پر برحق ثابت ہوا اور ہم اس کے سزا وار ٹھہرے۔ اس کے بعد ملائکہ انہیں جہنم کے دروازوں میں دھکیلتے ہوئے کہیں گے تم نے فخر و غرور کی وجہ سے اپنے رب کے ارشادات کا انکار کیا لہٰذا تکبر کرنے والوں کے لیے جہنم ہے جو بدترین ٹھکانہ ہے اور تمہیں یہاں ہمیشہ رہنا ہوگا۔ یادرہے کہ رب کی عبادت کے پیچھے شکر گزاری کا جذبہ کار فرما ہوتا ہے اور اس کی نافرمانی کے پیچھے شعوری یا بے پرواہی اور تکبر ہوا کرتا ہے۔ (لَھَا سَبْعَۃُ اَبْوَابِ لِکُلِّ بَابٍ مِنْھُمْ جُزْءٌ مَّقْسُوْمٌ) [ الحجر : ٤٤] ” اس کے سات دروازے ہیں اور ہر دروازے کا ایک گروہ مقرر ہے۔“ مسائل ١۔ کفارکو گروہوں کی صورت میں جہنم کی طرف دھکیلا جائے گا۔ ٢۔ کفار کو دیکھتے ہی جہنّم کے دروازے کھول دیئے جائیں گے اور ملائکہ ان سے سوال کریں گے۔ ٣۔ جہنّمی اقرار کریں گے کہ ہمارے پاس اللہ کے رسول آئے تھے اور انہوں نے اس کا پیغام پہنچایا تھا۔ ٤۔ جہنّمیوں کے اقرار کے بعد ملائکہ انہیں جہنّم میں دھکیل دیں گے۔ ٥۔ جہنّم رہنے کے اعتبار سے بدترین جگہ ہے۔ تفسیر بالقرآن منکرین کا انجام : ١۔ زمین میں چل، پھر کردیکھو جھٹلانے والوں کا انجام کیسا ہوا۔ (النحل : ٣٦) ٢۔ ہم نے ان سے انتقام لیا دیکھئے جھٹلانے والوں کا انجام کیسا ہوا۔ (الزخرف : ٢٥) ٣۔ قیامت کے دن منکرین کے لیے ہلاکت ہے۔ (الطور : ١١) ٤۔ منکرین کے لیے جہنم کا کھولتا ہوا پانی ہے۔ (الواقعۃ: ٩٢) ٥۔ متکبر کو اللہ تعالیٰ پسند نہیں کرتا۔ (النحل : ٢٣) ٦۔ تکبر کرنے والے جہنم میں جائیں گے۔ (المومن : ٧٦) الزمر
72 الزمر
73 فہم القرآن ربط کلام : جہنمیوں کے مقابلے میں جنتیوں کو جنت میں جانے حکم۔ اور انہیں ملائکہ کا سلام پیش کرنا۔ یہاں دو وجہ سے جنتیوں سے پہلے جہنمیوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ پہلی وجہ یہ ہے کہ پچھلی آیات میں عدالت کبرٰی کے قیام کے ذکر سے پہلے جہنمیوں کا ذکر ہورہا تھا۔ دوسری وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ حساب و کتاب کے بعد جنتیوں کو جہنمیوں کی حالت زار دکھانا چاہیں گے۔ تاکہ انہیں احساس ہو کہ اگر ہم پر ہمارے رب کا فضل نہ ہوتا تو آج ہم بھی جہنمیوں میں شامل ہوتے۔ یہ مشاہدہ اور احساس کروانے کے بعد جنتیوں کو حکم ہوگا کہ تم نے تکبر اور نافرمانیوں سے بچ کر زندگی گزاری۔ لہٰذا اپنے رب کی جنت میں داخل ہوجاؤ ! جنتی خراماں خراماں جنت کے دروازوں کے پاس پہنچیں گے تو فرشتے ڈھک، ڈھک جنت کے دروازے کھولتے ہوئے انہیں سلام کہیں گے اور خراج تحسین پیش کرتے ہوئے عرض کریں گے کہ تم بہت اچھے رہے اس لیے ہمیشہ کے لیے جنت میں داخل ہوجاؤ۔ اس پر جنتی اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہوئے کہیں گے کہ تمام تعریفات اس ذات پاک کے لیے ہیں جس نے ہمارے ساتھ اپنے وعدے کو سچ کردکھایا اور ہمیں جنت کی سرزمین کا وارث بنایا اور جنت میں اپنی مرضی کے مطابق رہنے کی اجازت عنایت فرمائی۔ اچھے عمل کرنے والوں کے لیے کتنا ہی اچھا اجر ہے۔ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) أَوَّلُ زُمْرَۃٍ تَدْخُلُ الْجَنَّۃَ عَلٰی صُوْرَۃِ الْقَمَرِ لَیْلَۃَ الْبَدْرِ وَالَّذِیْنَ عَلٰی آثَارِھِمْ کَأَحْسَنِ کَوْکَبٍ دُرِّیٍّ فِی السَّمَآءِ إِضَآءَ ۃً قُلُوْبُھُمْ عَلٰی قَلْبِ رَجُلٍ وَاحِدٍلَاتَبَاغُضَ بَیْنَھُمْ وَلَاتَحَاسُدَ لِکُلِّ امْرِیءٍ زَوْجَتَانِ مِنَ الْحُوْرِ الْعِیْنِ یُرٰی مُخُّ سُوْقِھِنَّ مِنْ وَرَآءِ الْعَظْمِ وَاللَّحْمِ) [ رواہ البخاری : کتاب بدء الخلق، باب ماجاء فی صفۃ الجنۃ وأنھامخلوقۃ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں پہلا گروہ جنت میں چودھویں رات کے چاند کی صورت میں داخل ہوگا ان کے بعد کے لوگ آسمان میں چمکدار اور حسین ستارے کی مانند ہوں گے۔ ان کے دل ایک ہی آدمی کے دل کی طرح ہوں گے ان کے درمیان نہ کوئی بغض ہوگا اور نہ ہی حسد۔ ہر جنتی کے لیے حور العین میں سے دو بیویاں ہوں گی جن کی ہڈیوں کا گودا، گوشت ہڈیوں کے درمیان سے نظر آئے گا۔“ تفسیربالقرآن متقین کا استقبال : ١۔ جب فرشتے پاکباز لوگوں کی روحیں قبض کرتے ہیں توانھیں سلام کہتے ہیں اور جنت کی خوشخبری دیتے ہیں۔ (النحل ٣٢) ٢۔ فرشتے کہتے ہیں تم پر سلامتی ہو تم نے صبر کیا آخرت کا گھر بہت ہی بہتر ہے۔ (الرعد : ٢٤) ٣۔ داخل ہوجاؤ جنت میں سلامتی کے ساتھ آج تمھارے لیے داخل ہونے کا دن ہے۔ (ق : ٣٤) ٤۔ جب ملائکہ جنتیوں کے پاس آئیں گے تو انہیں سلام کہیں گے۔ (الزمر : ٨٩) ٥۔ قیامت کے دن نیک لوگ جنت میں داخل کیے جائیں گے اس میں ان کے لیے دعا سلام ہوگا۔ (ابراہیم : ٢٣) ٦۔ اللہ کی توحید پر استقامت اختیار کرنے والوں پر فرشتوں کا نزول ہوتا ہے اور وہ انہیں خوشخبری دیتے ہوئے کہتے ہیں غم وحزن میں مبتلا ہونے کی ضرورت نہیں تمہارے لیے جنت ہے جس کا تمہارے ساتھ وعدہ کیا گیا ہے۔ ( حٰم السجدۃ: ٣٠) الزمر
74 الزمر
75 فہم القرآن ربط کلام : جہنمیوں اور جنتیوں کے درمیان فیصلہ کرنے کے بعد عدالت کبریٰ کا اختتام۔ جب جہنمی جہنم میں چلے جائیں گے اور جنتی جنت میں داخل ہوجائیں گے تو عدالت کبریٰ برخاست ہوجائے گی۔ جہنمیوں کے انجام اور جنتیوں کے انعام کا ذکر کرنے کے بعد ارشاد ہوا اے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ دیکھیں گے کہ ملائکہ اپنے رب کے عرش کے چاروں طرف کھڑے ہوئے اپنے رب کی حمد کر رہے ہوں گے اور لوگوں کے درمیان پورے انصاف کے ساتھ فیصلہ کردیا جائے گا اور ہر چیز پکار اٹھے گی کہ تمام تعریفیں اللہ رب العالمین کے لیے ہیں۔ اس فرمان سے معلوم ہوتا ہے کہ جونہی رب ذوالجلال عدالت کبریٰ قائم فرمائیں گے تو ملائکہ کی ایک جماعت اللہ تعالیٰ کے عرش کیچاروں طرف موجود ہوگی جو رب ذوالجلال کی جلالت و جبروت کی وجہ سے دل ہی دل میں اس کی حمد و ستائش کررہے ہوں گے۔ لیکن جونہی جہنمیوں اور جنتیوں کے درمیان فیصلہ سنایا جائے گا تو اللہ تعالیٰ کے عدل و انصاف اور اس کے رحم و کرم کو دیکھتے ہوئے ملائکہ بے ساختہ پکاراٹھیں گے کہ تمام تعریفات جہانوں کے رب کے لیے ہیں۔ کیونکہ اس نے عدل پر مبنی فیصلہ صادر فرمایا ہے۔ اس کے ساتھ ہی جنتی حضرات اپنے رب کی حمد وستائش میں مصروف ہوجائیں گے۔ اللہ تعالیٰ کے عدل و انصاف کی بنا پر یقین ہے کہ جہنمی بھی اپنے رب کے عدل و انصاف کی تعریف کریں گے۔ اس لیے سب کے لیے ” قِیْلَ“ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ ” عرشِ الٰہی کے حامل فرشتے اور جو ملائکہ عرش کے گردوپیش حاضر رہتے ہیں، سب اپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کر رہے ہیں، وہ ” اللہ“ پر ایمان رکھتے ہیں اور ایمانداروں کے حق میں دعائے مغفرت کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں اے ہمارے رب تو اپنی رحمت اور اپنے علم کے ساتھ ہر چیز پر چھایا ہوا ہے جنہوں نے توبہ کی اور تیرے راستے کی اتباع کی انہیں جہنم کے عذاب سے محفوظ فرما۔“ (المومن : ٧) الزمر
0 سورۃ المؤمن کا تعارف یہاں سے ان سورتوں کا سلسلہ شروع ہوتا ہے جن کی ابتدالفظ ” حٰآ“ سے ہوتی ہے ان کو اہل علم ” حوامیم“ کے نام سے پکارتے ہیں۔ ہر ” حٰمٓ“ کی ابتدائی آیات میں قرآن مجید کا تعارف مختلف الفاظ میں کروایا گیا ہے جس میں ثابت کیا ہے کہ قرآن مجید صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کیا گیا ہے۔ یہ لوگوں کے لیے رحمت، برکت اور ہدایت کا سرچشمہ ہے۔ المؤمن نو رکوع اور پچاس آیات پر مشتمل ہے یہ سورۃ مبارکہ مکہ اور اس کے گردوپیش نازل ہوئی۔ ربط سورۃ: الزّمر کا اختتام اس ارشاد پر ہوا کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے عرش کے پاس حاضر فرشتے اپنے رب کی تسبیح پڑھ رہے ہوں گے اور جب لوگوں کے درمیان عدل وانصاف کے ساتھ فیصلے کر دئیے جائیں گے تو ہر کوئی اللہ تعالیٰ کے فیصلے کی تعریف کر رہا ہوگا۔ المؤمن کی ابتدا میں یہ بتلایا گیا ہے کہ الکتاب کو اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا ہے جو سب کو جاننے والا اور ہر چیز اور کام پر غالب ہونے کے باوجود لوگوں کے گناہوں کو معاف کرتا اور ان کی توبہ قبول کرتا ہے۔ وہ بڑا طاقتور اور مجرموں کو سخت سزا دینے والا ہے اس سے بڑھ کر کوئی طاقت ور نہیں اور ہر کسی نے اسی کی طرف پلٹ کر جانا ہے۔ اس کے باوجودجو لوگ اللہ تعالیٰ کے احکام اور ارشادات کے بارے میں جھگڑتے ہیں ایسے لوگوں کے رہن سہن اور چال ڈھال سے مرعوب نہیں ہونا چاہیے۔ حقیقت یہ ہے ان سے پہلے نوح (علیہ السلام) کی قوم اور بہت سے گروہوں نے اللہ تعالیٰ کی آیات کی تکذیب اور انبیائے کرام (علیہ السلام) کو جھٹلایا جس پر اللہ تعالیٰ نے ان کا سخت احتساب کیا اور آخرت میں یہ لوگ جہنم رسید کر دئیے جائیں گے ان کے مقابلے میں اللہ تعالیٰ ایمانداروں اور ان کے نیک اہل خانہ کو جنت میں داخل کرے گا ان کے لیے یہ بہت بڑی کامیابی ہوگی۔ مشرکوں کا حال یہ ہے جب انہیں اللہ وحدہ لاشریک کی طرف بلایا جاتا ہے تو انکار کرتے ہیں اور جب کوئی اس کے ساتھ شرک کرتا ہے تو اس کے ساتھی بن جاتے ہیں۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ کا حکم یہ ہے کہ صرف اسی کی عبادت کی جائے بے شک یہ کفار کے لیے کتنی ہی ناگوار کیوں نہ ہو۔ یہ اصولی دعوت پیش کرنے کے بعد آل فرعون کے مظالم کا ذکر کیا کیونکہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور فرعون کے درمیان بنیادی اختلاف یہی تھا۔ اس بنا پر فرعون نے موسیٰ (علیہ السلام) کو قتل کرنے کا فیصلہ کیا تو اس کی برادری کا ایک شخص جس نے اب تک اپنے ایمان کا اظہار نہیں کیا تھا وہ کھڑا ہوا اور اس نے فرعون اور اس کے ساتھیوں کے سامنے فطری دلائل اور تاریخی حقائق کے حوالے سے انہیں سمجھانے کی کوشش کی کہ جس شخص کی جان کے دشمن بن چکے ہو اس کی دعوت پر غور کرو کہ یہ تمہیں کہتا کیا ہے لیکن فرعون نے اس کی بات کی طرف توجہ دینے کی بجائے اپنے وزیر ہامان سے کہا کہ میرے لیے ایک ایسا مینار کھڑا کیا جائے جس کے ذریعے میں آسمان پر چڑھ کر میں موسیٰ کے خدا کو دیکھنا چاہتا ہوں اس پر مرد مومن نے فرعون اور اس کے ساتھیوں کو آخری بار سمجھایا کہ میں تمہیں نجات کی طرف بلاتا ہوں اور تم مجھے آگ کی دعوت دیتے ہو۔ اگر تم میری بات کو ماننے کے لیے تیار نہ ہو تو میں اپنے کام کو اللہ کے سپرد کرتا ہوں جو ہر حال میں اپنے بندوں کو دیکھ رہا ہے۔ یہ واقعہ بیان کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مومنوں کو تسلی دی ہے کہ ہم اپنے بندوں کی دنیا میں بھی مدد کرتے ہیں اور آخرت میں بھی ان کے مددگار ہوں گے۔ پھر ارشاد فرمایا ہے کہ اندھا اور بینا، نیک اور بد برابر نہیں ہو سکتے لیکن نصیحت حاصل کرنے والے ہمیشہ تھوڑے لوگ ہوا کرتے ہیں۔ لوگو! اپنے رب کی دعوت قبول کرو جو اس کی دعوت قبول نہیں کریں گے انہیں بہت جلد جہنم میں ذلیل کیا جاۓ گا۔ اللہ تعالیٰ نے سورت کے آخر میں اپنی توحید کے چھ دلائل دئیے ہیں۔ 1۔” اللہ“ ہی تمہارا رب ہے اور اسی نے ہر چیز کو پیدا کیا لہٰذا اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کی جائے۔ 2۔” اللہ“ ہی نے تمہارے لیے زمین کو جائے قرار دیا اور آسمان کو چھت بنایا اسی نے تمہاری شکل وصورت بنائی اور وہی تمہیں پاکیزہ رزق دیتا ہے۔ تمہارا رب بڑی برکت والا ہے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ زندہ ہے اور زندہ رہے گا اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اس کا حکم ہے کہ ہر حال میں صرف اسی کو پکارا جائے کیونکہ تمام تعریفات اسی کے لیے ہیں جو رب العالمین ہے۔ 4۔” اللہ“ ہی نے مٹی سے، پھر نطفہ سے، پھر لوتھڑے سے تمہیں بچے کی صورت میں پیدا کیا تاکہ تم جوان ہو کر اپنے بڑھاپے تک پہنچ جاؤ۔ کچھ کو بڑھاپے سے پہلے موت دیتا ہے اور کچھ طبعی عمر کو پہنچ کر فوت ہوتے ہیں۔ غور کرو کہ ان کاموں میں کسی اور کا عمل دخل ہے؟ 5۔” اللہ“ ہی موت وحیات کا مالک ہے جب وہ کسی کام کا فیصلہ کرتا ہے تو ” کُنْ“ کا فیصلہ صادر کرتا ہے۔ وہ کام اس کی مرضی کے مطابق ہوجاتا ہے۔ 6۔” اللہ“ نے ہی تمہارے لیے چوپائے پیدا کیے تم ان پر سواری کرتے ہو ان کا گوشت کھاتے ہو ان سے اور بھی فائدے اٹھاتے ہو۔ سورۃ المؤمن کا اختتام اس بات پر کیا کہ اللہ تعالیٰ کی گرفت سے پہلے اس پر سچا ایمان لے آؤ۔ جب اس کا عذاب نازل ہوگا تو اس وقت تمہیں ایمان لانے کا کوئی فائدہ نہیں پہنچے گا۔ اللہ تعالیٰ کا پہلے لوگوں میں بھی یہی اصول تھا اور آئندہ کے لیے بھی یہ اصول کار فرما رہے گا۔ غافر
1 غافر
2 فہم القرآن سورۃ الزمر کا اختتام اس بات پر ہوا ہے کہ اللہ تعالیٰ کفار کو جہنم میں داخل کرے گا اور ایماندار لوگوں کو جنت میں داخل فرمائے گا۔ جنتی اپنے اعمال کے بدلے اور اللہ تعالیٰ کی بخشش کے نتیجے میں جنت میں جائیں گے اور جہنمی برے اعمال کے نتیجے میں جہنّم میں داخل کیے جائیں گے۔ سورۃ المومن کی ابتدا میں کھلے الفاظ میں یہ بتلایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی گناہوں کو معاف کرنے والا ہے اور وہی ظالموں کو سخت عذاب دینے والا ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں اور سب نے اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔ قرآن مجیدکی ترتیب کے مطابق اب تک یہ پہلی سورۃ ہے جو حٰمٓ سے شروع ہورہی ہے۔ یہ لفظ بھی حروف مقطعات میں سے ہے۔ اس کا معنٰی حدیث رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ثابت نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کو نازل کیا ہے جو انتہا درجہ کی صفات حسنہ سے متصف ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہاں اپنی صفات میں درج ذیل کا تذکرہ کیا ہے۔ 1 اللہ ہر اعتبار سے اپنی مخلوق پر غالب ہے۔ کوئی اس کے ارادے کو بدل اور اس کے حکم کو ٹال نہیں سکتاوہ حکیم ہے۔ 2 وہ علیم ہے سب کچھ جاننے والا ہے یہاں تک کہ دلوں کے راز بھی جانتا ہے۔ کوئی اپنی بات چھپائے یا اسے ظاہر کرے اللہ تعالیٰ کے لیے ظاہر اور باطن دونوں برابر ہیں۔ 3 اللہ تعالیٰ بڑے سے بڑے مجرموں پر غلبہ پانے والا ہے۔ 4 سب کچھ جاننے کے باوجود گناہوں کو معاف کرنے والا ہے۔ 5 لوگوں کی توبہ قبول کرنے والا ہے۔ 6 شدید سزا دینے والا ہے وہ کسی کو سزا دینے کا فیصلہ کرے تو کوئی طاقت نہیں جو مجرم کو سز ا سے بچا سکے کیونکہ اس کی گرفت بہت شدید ہے۔ 7 بڑا انعام کرنے والا ہے وہ کسی پر انعام کرنا چاہے تو کوئی اس کے فضل و کرم کو روک نہیں سکتا۔ 8 اس کے سوا کوئی الٰہ نہیں۔ الٰہ کا پہلا معنٰی یہ ہے کہ جس کی عبادت کی جائے۔ عبادت میں حکم، تابعداری اور تمام عبادات شامل ہیں۔ 9 مرنے کے بعد کسی نے ادھر اُ دھر نہیں جانا سب نے اسی کے حضور حاضر ہونا ہے۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ ہر حال میں سب پر غالب ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ سب کچھ جاننے والا ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ تمام گناہ معاف کرنے والا ہے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی توبہ قبول کرنے والا ہے۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ سخت عذاب دینے والاہے۔ ٦۔ اللہ تعالیٰ بڑے فضل والا ہے۔ ٧۔ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی الٰہ نہیں۔ ٨۔ مرنے کے بعد سب نے ” اللہ“ کے حضور حاضر ہونا ہے۔ تفسیر بالقرآن ” اللہ“ ہی الٰہ ہے : ١۔ الٰہ ایک ہی ہے اس کے علاوہ کوئی الٰہ نہیں۔ (البقرۃ: ١٦٣) ٥۔ تمہارا صرف ایک ہی الٰہ ہے اسی کے تابع ہوجاؤ۔ (الحج : ٣٤) ٢۔ تمہارا الٰہ ایک ہی ہے لیکن آخرت کے منکر نہیں مانتے۔ (النحل : ٢٢) ٣۔ الٰہ تمہارا ایک اللہ ہی ہے۔ (طہ : ٩٨) ٤۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرمادیں میری طرف وحی کی جاتی ہے تمہارا الٰہ صرف ایک ہی الٰہ ہے۔ (الانبیاء : ١٠٨) ٦۔ ہمارا الٰہ اور تمہارا الٰہ صرف ایک ہی ہے۔ ہم اسی کے فرمانبردار ہیں۔ (العنکبوت : ٤٦) ٧۔ کیا اللہ کے سوا کوئی اور الٰہ ہے جسے میں تلاش کروں۔ (الاعراف : ١٤٠) ٨۔ اللہ ہی الٰہ ہے وہی اکیلا ہی عبادت کے لائق ہے۔ ( الانعام : ١٠٢) ٩۔ کوئی اور الٰہ نہ بناؤ الٰہ تو ایک ہی ہے (النحل : ٥١) ١١۔ اسکے سوا کوئی الٰہ نہیں مگر وہ اکیلا ہی ہے ( المائدۃ: ٧٣) ١٠۔ اعلان کردیں اللہ ہی ایک الٰہ ہے اور میں تمہارے شرک سے بری ہوں۔ (الانعام : ١٩) غافر
3 غافر
4 فہم القرآن ربط کلام : عظیم ترین صفات رکھنے والے ایک الٰہ کو اس کی پوری مخلوق مانتی ہے لیکن صرف کافر نہیں مانتے۔ اللہ تعالیٰ نے اس سورۃ کی ابتداء میں اپنی سات صفات کا حوالہ دے کریہ بات واضح فرمائی ہے کہ قرآن مجید کو اسی ذات نے نازل فرمایا ہے جس کے سوا کوئی الٰہ نہیں۔ لیکن قرآن مجید اور ” اللہ“ کو ایک الٰہ نہ ماننے والے اس کی آیات یعنی دلائل کے بارے میں بحث و تکرار کرتے ہیں۔ اے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! کفار کا شہروں میں چلنا پھرنا اور ان کی ترقی سے آپ کو دھوکہ نہیں کھانا چاہیے۔ اگر یہ آپ کو جھٹلاتے ہیں تو ان سے پہلے نوح (علیہ السلام) کی قوم نے اور ان کے بعد کئی گروہوں نے اپنے پیغمبروں کی تکذیب کی ہے۔ جس طرح یہ لوگ آپ کے خلاف منصوبہ بندی کررہے ہیں اسی طرح ہر دور کے لوگوں نے اپنے رسول کے خلاف منصوبہ بنایا کہ اسے گرفتار کرلیا جائے یا شہید کر دیاجائے۔ وہ حق کے بارے میں جھگڑتے رہے تاکہ حق کو دبا دیا جائے لیکن اللہ تعالیٰ نے انہیں پکڑلیا دیکھ لیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر کس قدر سخت گرفت کی۔ جس طرح انہیں پکڑ لیا گیا تھا اسی طرح ہی آپ کے دور کے کفار کو پکڑ لیا جائے اور آخرت میں یقیناً یہ لوگ جہنم میں جھونکے جائیں گے۔ اللہ تعالیٰ کی آیات کے بارے میں کفار اور مشرکین کے جھگڑنے کی جو صورتیں ہوسکتی ہیں ان میں چند ایک درج ذیل ہیں۔ 1 اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرا کوئی شریک نہیں۔ مشرک اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک ثابت کرتے ہیں۔ 2 اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ میں نے اپنی خدائی میں کسی کو کوئی اختیار نہیں دیا۔ مشرک بحث کرتا ہے کہ ” اللہ“ نے فوت شدگان کو کچھ نہ کچھ اختیار دے رکھے ہیں۔ 3 اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ میری کوئی اولاد نہیں۔ کافر لوگ ملائکہ کو اللہ کی بیٹیاں، یہودی حضرت عزیر (علیہ السلام) کو اور عیسائی عیسیٰ ( علیہ السلام) کو اللہ کا بیٹا قرار دیتے ہیں۔ 4 اللہ کا فرمان ہے کہ میرا کوئی جز نہیں۔ مشرک نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نور من نور اللہ کہتے ہیں۔ 5 اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تمام کے تمام انبیاء (علیہ السلام) میرے بندے اور انسان تھے۔ کافر کہتے ہیں کہ بشر رسول نہیں ہوسکتا ہے بعض کلمہ گو کہتے ہیں کہ رسول بشر نہیں ہوتا۔ 6 اللہ فرماتا ہے کہ میں نے قرآن مجید نازل کیا ہے۔ کافر کہتے ہیں قرآن نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خود بنا لیا ہے۔ 7 اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے سوا کوئی مشکل کشا اور حاجت روا نہیں۔ مشرک کہتا ہے اولیاء بھی مشکل کشائی اور حاجت روائی کرتے ہیں۔ اے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ کفار اور مشرکین کے تہذیب و تمدن اور شان و شوکت سے دھوکہ نہ کھائیں۔ کیونکہ یہ زندگی عارضی اور قلیل ہے۔ اکثر لوگ سمجھتے ہیں کہ فلاں لوگ نسل در نسل خوشحالی، اقتدار اور اختیار کی زندگی بسر کررہے ہیں۔ تو شاید اللہ تعالیٰ ان پر راضی ہے ایسا ہرگز نہیں۔ ان لوگوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا اصول یہ ہے کہ وہ انہیں مہلت پہ مہلت دئیے جاتا ہے۔ تاکہ انہیں گناہ کرنے میں کوئی حسرت باقی نہ رہے اس کا ارشاد ہے : ” کافر ہماری دی ہوئی مہلت کو اپنے حق میں بہتر نہ سمجھیں یہ مہلت تو ہم نے اس لیے دی ہے کہ وہ گناہوں میں اور بڑھ جائیں اور ان کے لیے ذلیل کرنے والا عذاب ہے۔“ (آل عمران : ١٧٨) ” ہم نے ان پر ہر چیز کے دروازے کھول دیے یہاں تک کہ جب وہ ان چیزوں کے ساتھ خوش ہوگئے جو انہیں دی گئی تھیں ہم نے انہیں اچانک پکڑ لیا تو پھر وہ اچانک ناامیدہوگے۔ جنہوں نے ظلم کیا تھا ان لوگوں کی جڑکاٹ دی گئی اور سب تعریف اللہ کے لیے ہے جو سب جہانوں کا رب ہے۔“ (الانعام : ٤٤، ٤٥) قوم نوح اور اس کے بعد جس قوم نے بھی اپنے رسول کو گوفتار کرنے یا قتل کرنے کی سازش اور حق کو دبانے کی کوشش کی اللہ تعالیٰ نے انہیں عبرت ناک عذاب سے دوچار کیا۔ دیکھنا چاہو تو ان قوموں کے کھنڈرات دیکھو۔ وہ زبان حال سے بتائیں گے کہ تیرے رب کا عذاب کس قدر شدید تھا۔ قیامت کے دن یہ لوگ جہنم میں پھینکیں جائیں گے۔ مسائل ١۔ مشرک اور کافر اللہ کی آیات کے ساتھ جھگڑا کرتے ہیں۔ ٢۔ بےدین لوگوں کی ترقی پر فریفتہ نہیں ہونا چاہیے۔ ٣۔ پہلی اقوام نے بھی اپنے رسولوں کو قابو کرنے اور حق کو دبانے کی کوشش کی تھی۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ نے نافرمان قوموں کو دنیا میں سزادی اور آخرت میں یہ لوگ جہنم میں جھونکیں جائیں گے۔ تفسیر بالقرآن پہلی اقوام کے عذاب کا ایک منظر : ١۔ کیا وہ لوگ بے فکر ہوگئے ہیں کہ اللہ انہیں زمین میں دھنسا دے؟ (النحل : ٤٥) ٢۔ قوم ثمود کو چیخ نے آپکڑا۔ وہ اپنے گھروں میں اوندھے پڑے رہ گئے۔ (ھود : ٦٧) ٣۔ قوم عاد کو تندو تیز ہوا نے ہلاک کیا۔ (الحاقۃ : ٦) ٤۔ قوم لوط کی بستی کو الٹاکر دیا اور ان پرکھنگر والے پتھر برسائے گئے۔ (الحجر : ٧٤) ٥۔ آل فرعون کو غرق کردیا گیا۔ (البقرۃ : ٥٠) ٦۔ بنی اسرائیل کو اللہ نے ذلیل بندر بنا دیا۔ (البقرۃ : ٦٥) ٧۔ ان کے گناہ کی پاداش میں پکڑ لیا کسی پر تند ہوا بھیجی، کسی کو ہولناک آواز نے آلیا، کسی کو ہم نے زمین میں دھنسا دیا اور کچھ کو غرق کردیا۔ (العنکبوت : ٤٠) غافر
5 غافر
6 غافر
7 فہم القرآن ربط کلام : اللہ کے حکم سے ملائکہ کفار اور مشرکین کو سزا دیتے ہیں اور مومنوں کے لیے دعائیں کرتے ہیں۔ پہلی اقوام کا اپنے رسولوں کے ساتھ سلوک اور حق کے معاملہ میں ان کا رویہ بتلا کر رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو آگاہ کیا جارہا ہے کہ اے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! مومنوں کو بتلائیں کہ انہیں دل چھوٹا کرنے اور ہمت نہیں ہارنا چاہیے۔ بے شک کفار اور مشرکین ان کی جان کے درپے اور حق کو دبانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں۔ لیکن انہیں خوش ہونا چاہیے کہ ان کی دنیا اور آخرت میں کامیابی کے لیے ملائکہ صبح و شام دعائیں کرتے ہیں جو اپنے رب کا عرش تھامے ہوئے اور اپنے رب کی حمد میں رطب اللسان رہتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں اے ہمارے رب تو نے ہر چیز کو اپنی رحمت اور علم سے گھیر رکھا ہے تو ان لوگوں کو معاف کردے جو تیرے حضور توبہ کرتے اور تیرے راستے کی پیروی کرتے ہیں انہیں جہنم کے عذاب سے بچائے رکھنا۔ اے ہمارے رب ! انہیں اپنے وعدے کے مطابق ہمیشہ کی جنت میں داخل فرما اور ان کے ساتھ ان کے نیک ماں باپ، ان کی بیویوں اور ان کی اولاد کو جنت میں داخل فرما۔ کیونکہ تو ہی غالب حکمت والا ہے اور تو ہی ان کے گناہوں کو معاف کرنے والا اور آخرت میں جہنم کے عذاب سے محفوظ فرمانے والا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جسے تو نے قیامت کے عذاب سے بچا لیا اس پر تیرا بڑا کرم ہوا اور یہ سب سے بڑی کامیابی ہے۔ ملائکہ کی دعاؤں اور مومنوں کی نیکیوں کے بدلے اللہ تعالیٰ جنتیوں پر کرم فرماتے ہوئے ان کے قریبی رشتہ داروں کو اکٹھا فرمائے گا۔ اہل علم نے لکھا ہے کہ جنت کے نچلے درجے میں رہنے والوں کو جنت کے اعلیٰ مقام میں رہنے والوں کے ساتھ ملا دیا جائے گا۔ گویا کہ اللہ تعالیٰ اپنے خصوصی کرم کے ساتھ جنت میں بھی لوگوں کو ترقیوں سے ہمکنار فرمائیں گے۔ یہاں ملائکہ کی دعا میں ” السَّیِّئاٰتِ“ کا لفظ آیا ہے اس کے مفسرین نے تین معنٰی کیے ہیں۔1 گناہ 2 ہر قسم کا نقصان 3 عذاب۔ مسائل ١۔ عرش معلی کے فرشتے اپنے رب کی حمد بیان کرنے کے ساتھ مومنوں کے لیے استغفار کرتے ہیں۔ ٢۔ عرش معلی کے ملائکہ مومنوں کے لیے جہنم کے عذاب سے نجات اور جنت میں داخلے کی دعائیں کرتے ہیں۔ ٣۔ جہنم سے نجات پا کر جنت میں داخل ہونا بہت بڑی کامیابی ہے۔ غافر
8 غافر
9 غافر
10 فہم القرآن ربط کلام : جنتیوں کے بعد جہنمیوں کا ذکر۔ جہنمی جہنم میں نہ صرف اپنے علماء، پیروں اور لیڈروں پر غصہ نکالیں گے بلکہ وہ اپنے آپ پر بھی غضبناک ہوں گے۔ یہاں تک کہ اپنے ہاتھوں کو کاٹتے ہوئے کہیں گے کہ کاش! ہم رسول کا راستہ چھوڑ کر فلاں فلاں کو اپنا خیر خواہ نہ بناتے۔ (الفرقان : ٢٧۔ ٢٨) جب وہ اپنے ہاتھ کاٹ رہے ہوں گے تو رب ذوالجلال انہیں مخاطب کرتے ہوئے ارشاد فرمائیں گے کہ جس طرح آج تمہیں اپنی حالت زار پر غصہ آرہا ہے۔ جب دنیا میں تم مجھ پر ایمان لانے سے انکار کرتے اور میرے شریک بناتے تھے تو مجھے اس سے کہیں زیادہ غصہ آتا تھا۔ لیکن میں نے تمہیں مہلت دئیے رکھی تاآنکہ تم جہنم میں داخل کردئیے گئے۔ اس وقت جہنمی فریاد پر فریاد کریں گے کہ اے ہمیں پیدا کرنے اور پالنے والے رب ! تو نے ہمیں دو مرتبہ پیدا کیا اور دو مرتبہ زندہ فرمایا اب ہم اپنے گناہوں کا اقرار کرتے ہیں۔ کیا ہماری نجات کا کوئی راستہ ہے۔ تمام اہل علم نے لکھا ہے کہ دو مرتبہ موت سے مراد ایک انسان کی وہ حالت ہے جب اس کا وجود عدم میں ہوتا ہے۔ دوسری مرتبہ جب زندگی گزار کر مرتا ہے۔ اسی طرح پہلے ماں کے پیٹ سے جنم لینا اور دوسری مرتبہ موت کے بعد زندہ ہونا ہے جسے ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔” تم کیوں اللہ کے ساتھ کفر کرتے ہو ؟ حالانکہ تم مردہ تھے اس نے تمہیں زندہ کیا پھر تمہیں مارے گا پھر تمہیں زندہ کرے گا پھر اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے۔“ (البقرہ : ٢٨) قرآن مجید کے دوسرے مقام پر بیان ہوا ہے کہ کاش آپ دیکھیں کہ جب جہنمی جہنم میں سر جھکائے فریادیں کریں گے کہ اے ہمارے رب ہم نے سب کچھ دیکھ اور سن لیا۔ ہماری التجاء ہے کہ ہمیں ایک مرتبہ دنیا میں لٹادیجیے ہم نیک عمل کریں گے اور آپ کے ارشادات پر یقین کریں گے۔ (السجدۃ: ١٢) اس کے جواب میں انہیں فرمایا جائے گا۔ تمہارا سب سے بڑا گناہ یہ ہے کہ جب تمہیں ایک اللہ کی طرف بلایا جاتا تھا تو تم انکار کرتے تھے۔ جب اللہ کے ساتھ دوسروں کو شریک کیا جاتا تھا تو تم مان لیتے تھے۔ یعنی آج تم مجھے ” اللہ“ مانتے ہو لیکن دنیا میں تم میرے ساتھ تو کفر و شرک کیا کرتے تھے سورۃ الزمر آیت ٤٥ میں بیان ہوا ہے کہ جب ایک اللہ کا ذکر ہوتا تھا تو تمہارے چہرے بگڑ جاتے تھے اور دوسروں کا ذکر ہوتا تو تمہارے چہرے کھل جاتے تھے۔ لہٰذا کفر و شرک کی وجہ سے تمہیں ہمیشہ کے لیے جہنم میں رہنا ہے۔ اس کے ساتھ ہی کہا جائے گا کہ فیصلے کا اختیار ” اللہ“ اعلیٰ اور اکبر کو ہے۔ یہ فرما کر انہیں مزید احساس دلایا جائے گا کہ تم دنیا میں اس لیے دوسروں کو اللہ کا شریک بناتے تھے کہ یہ بزرگ اور بت تمہیں اللہ تعالیٰ سے چھڑالیں گے یہ تمہاری خام خیالی تھی۔ اب دیکھ لو کہ بلندو بالاہستی کے سامنے کوئی دم نہیں مار سکتا لہٰذا اس کا فیصلہ اٹل ہے جو اپنی ذات و صفات کے لحاظ سے اعلیٰ ہے اور اقتدار اور اختیار کے اعتبار سے اس کا کوئی شریک نہیں۔ پھر دیکھ لو کہ اس کی بڑائی اور کبریائی کے سامنے کوئی دم نہیں مار سکتا۔ (عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ یَقُوْلُ اللّٰہُ تَعَالٰی لِأَھْوَنِ أَھْلِ النَّارِ عذَابًا یَوْمَ الْقِیَامَۃِ لَوْ أَنَّ لَکَ مَافِی الْأَرْضِ مِنْ شَیْءٍ أَکُنْتَ تَفْتَدِیْ بِہٖ فَیَقُوْلُ نَعَمْ فَیَقُوْلُ أَرَدْتُّ مِنْکَ أَھْوَنَ مِنْ ھٰذَا وَأَنْتَ فِیْ صُلْبِ آدَمَ أَنْ لَّاتُشْرِکَ بِیْ شَیْءًا فَأَبَیْتَ إِلَّآأَنْ تُشْرِکَ بِیْ) [ رواہ البخاری : باب صفۃ الجنۃ والنار] ” نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں ایک جہنمی کو قیامت کے دن کہا جائے گا تیرا کیا خیال ہے کہ اگر تیرے پاس زمین میں جو کچھ ہے وہ توجہنم کے عذاب کے بدلے فدیہ دے ؟ وہ کہے گا ہاں۔ اللہ تعالیٰ فرمائیں گے میں نے تجھ سے اس سے ہلکی اور کم چیز کا مطالبہ کیا تھا۔ میں نے تجھ سے تیرے باپ آدم کی پشت میں عہد لیا تھا کہ تو میرے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائے گا لیکن تو نے انکار کیا اور میرا شریک ٹھہرایا۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ جہنمیوں کے واویلا پر غضب کا اظہار کریں گے۔ ٢۔ جہنمی اپنے کفر و شرک کی وجہ سے جہنم میں جھونکے جائیں گے۔ ٣۔ جہنمی جہنم میں اپنے گناہوں کا اعتراف کریں گے مگر انہیں کوئی فائدہ نہیں ہوگا تفسیربالقرآن مشرکین کا ” اللہ“ کی توحید کے ساتھ وطیرہ : ١۔ کیا تو ہمیں ان معبودوں کی عبادت سے روکتا ہے جن کی عبادت ہمارے آباء کرتے رہے ہیں۔ (ھود : ٦١) ٢۔ جب انہیں اللہ اور اس کے رسول کی طرف بلایا جاتا ہے تو کہتے ہیں ہمیں ہمارے آباء و اجداد کافی ہیں۔ (المائدۃ: ١٠٤) ٣۔ جب ان کے پاس اللہ وحدہٗ لاشریک کا ذکر کیا جاتا ہے تو ان کے دل جل جاتے ہیں۔ (الزمر : ٤٥) ٤۔ جب مشرکین کو توحید کی دعوت دی جاتی ہے تو وہ تکبر کرتے ہوئے اسے ٹھکرا دیتے ہیں۔ (الصّٰفّٰت : ٣٥) ٥۔ جب انہیں اللہ اور اس کے رسول کی طرف بلایا جاتا ہے تو وہ اللہ کے راستے میں رکاوٹ پیدا کرتے ہیں۔ (النساء : ٦١) ٦۔ جب ان سے کہا جاتا ہے اللہ کی نازل کردہ کتاب کی پیروی کرو تو جواب میں اپنے آباء واجداد کی پیروی کا حوالہ دیتے ہیں۔ (البقرۃ: ١٧٠) ٧۔ جب ان کو اللہ تعالیٰ کی کتاب کی پیروی کا حکم دیا جاتا ہے تو اپنے آباء اجداد کی پیروی کو ترجیح دیتے ہیں۔ ( لقمان : ٢١) ٨۔ کفار کہتے تھے کہ تم ہمارے جیسے بشر ہو تم چاہتے ہو کہ ہم اپنے آباء واجداد کے معبودوں کو چھوڑ دیں۔ (ابراہیم : ١٠) ٩۔ انبیاء نے کفار کو توحید کی دعوت دی تو انہوں نے کہا ہم تمہیں اپنی زمین سے نکال دیں گے۔ (ابراہیم : ١٣) غافر
11 غافر
12 غافر
13 فہم القرآن ربط کلام : جس ایک ” اللہ“ کے ساتھ مشرک شرک کرتے ہیں صرف وہی تو ہے جو سب کو رزق دیتا ہے۔ مگر مشرک اس کی خالص عبادت کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ مشرک کی عادت اور بد قسمتی پر غور فرمائیں کہ جو ” اللہ“ اسے اور سب کو آسمانوں سے رزق فراہم کرتا ہے۔ اسے حقیقی داتا ماننے کے لیے تیار نہیں اور نہ اس کی خالص عبادت کرنے کے لیے آمادہ ہوتا ہے۔ شرک کی نحوست اور جہالت کی وجہ سے مشرک اس قدر اپنے رب سے ذہنی اور عملی طور پر دور ہوچکا ہوتا ہے کہ جوں ہی اللہ تعالیٰ کی وحدت اور توحیدِخالص کا ذکر ہو۔ مشرک کو ایسی بات نہایت ہی گراں گزرتی ہے۔ جس وجہ سے مشرک نصیحت پانے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ حقیقی نصیحت کی ابتدا اور انتہا صرف توحید کو سمجھنا اور اس کے تقاضے پورے کرنا ہے۔ اس سے بڑی کوئی حقیقی نصیحت نہیں جو آخرت میں انسان کے کام آسکے۔ ” اللہ تعالیٰ نے کئی بار بارش کو اپنی توحید کی دلیل کے طور پر پیش کیا ہے جس کے بارے میں ارشاد فرمایا ہے کہ ” اللہ“ ہی تمہارے لیے آسمان سے رزق نازل کرتا ہے۔ اس سے مراد اکثر مفسرین نے بارش لی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بارش رزق کا بہت بڑا ذریعہ ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ہم نے ہر چیزکی زندگی کا انحصار پانی پر رکھا ہے۔“ (الانبیاء : ٣٠) بارش تو ایک ذریعہ ہے کیونکہ رزق کے بارے میں ارشاد ہے۔ اے لوگو! جس رزق کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے وہ آسمانوں میں ہے۔ (الذٰریات : ٢٢) اگر صرف بارش کے حوالے سے بات کی جائے تو غور فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ بارش کا کس طرح انتظام کرتا ہے۔ اس اللہ کی قدرت سے سمندر کا پانی بخارات کے ذریعے اوپر جاتا ہے اور اس کے حکم سے ہوا بخارات اٹھائے پھرتی ہے۔ پھر بخارات بادل بنتے ہیں اور بادلوں کو برسنے کا حکم ہوتا ہے۔ (الاعراف : ٥٧) اس پورے نظام میں دنیا کے حکمران، کسی ستارے، دیوتا اور فوت شدگان کا کوئی عمل دخل نہ ہے اور نہ ہوگا۔ اس لحاظ سے بارش اللہ تعالیٰ کی قدرت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے جو ہر دور کے انسانوں کو اللہ تعالیٰ دکھلاتا آرہا ہے اور دکھلاتا رہے گا۔ مگر اس کے باوجود کافر اور مشرک نہ اس کو ایک الٰہ مانتے ہیں اور نہ اسی ایک کی عبادت کرنے کے لیے تیار ہیں۔ اس لیے مومنوں کو حکم ہے کہ کفار کو یہ دعوت اور یہ طریقہ عبادت کتنا ہی برا لگے۔ تمہارا فرض ہے کہ وہ اپنے رب کے حکم کے مطابق صرف اور صرف ایک اللہ کی عبادت کرو۔ وہی بلندو بالا اور عرش کا مالک ہے۔ وہ اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے وحی نازل کرتا ہے۔ جس پر وحی کی جائے وہ لوگوں کو قیامت کی ہولناکیوں سے ڈرائے۔ جس دن لوگ اپنے اپنے مدفن سے نکل کر اپنے رب کے حضور حاضر ہوں گے اور ان کی کوئی بات اللہ تعالیٰ سے پوشیدہ نہ ہوگی۔ رب ذوالجلال فرمائے گا کہ آج کس کی بادشاہی ہے ؟ بالآخر خود جواب دے گا کہ آج اکیلے اللہ قہار کی بادشاہی ہے۔ پھر اعلان ہوگا کہ بے شک آج ایک اللہ قہار کی بادشاہی ہے لیکن اس کے باوجود کسی پر رتی برابر بھی زیادتی نہ ہونے پائے گی۔ ہر کسی کو اس کے عمل کے مطابق بدلہ دیا جائے گا۔ اے لوگو! ہوش کرو! تمہارا رب بہت جلد حساب لینے والا ہے۔ آیت ١٥ میں درج ذیل چار الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ 1 رَفِیْعُ الدََّرَجَاتِ: اس کے مفسرین نے دو معنٰی کیے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اپنی ذات، صفات، رفعت مکانی اور علوِّمرتبت کے لحاظ سے لاثانی، بے مثال اور اعلیٰ ہے اور وہی اپنے فضل سے مومنوں کے درجات بلندفرمانے والا ہے۔ 2 ذُوالْعَرْشِ بڑے عرش والا جس کے بارے میں عرش عظیم اور عرش کریم کے الفاظ بھی استعمال فرمائے ہیں۔ 3 یُلْقِی الرُّوْحَ: الرّوح کے کئی معانی ہیں جن میں ایک معنٰی وحی ہے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا ہے اپنی وحی کے لیے منتخب کرتا ہے۔ جن بندوں کو اس نے اپنی وحی کے لیے منتخب کیا۔ ان میں آخری اللہ کے بندے حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں جو اللہ کے آخری رسول ہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد قیامت تک کوئی رسول اور نبی نہیں آئے گا۔ رسولوں کا کام لوگوں تک حق بات پہچانا تھا منوانا نہیں تھا۔ 4 یَوْمَ التَّلَاقِ: مختلف مراحل کے حوالے سے قیامت کے کئی نام ہیں ان میں ایک نام ” یَوْمَ التَّلَاقِ“ ہے جس کا معنٰی ملاقات کا دن ہے۔ اس میں ہر شخص بلاواسطہ اپنے رب کے حضور پیش ہوگا اور اسے اپنے اچھے اعمال کی جزا ملے اور برے اعمال کی سزا ہوگی۔ (عَنْ عَبْدُ اللَّہِ بْنُ عُمَرَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَطْوِی اللَّہُ عَزَّ وَجَلَّ السَّمَوَاتِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ ثُمَّ یَأْخُذُہُنَّ بِیَدِہِ الْیُمْنَی ثُمَّ یَقُولُ أَنَا الْمَلِکُ أَیْنَ الْجَبَّارُوْنَ أَیْنَ الْمُتَکَبِّرُوْنَ ثُمَّ یَطْوِی الأَرَضِینَ بِشِمَالِہِ ثُمَّ یَقُولُ أَنَا الْمَلِکُ أَیْنَ الْجَبَّارُوْنَ أَیْنَ الْمُتَکَبِّرُوْنَ)[ رواہ مسلم : باب صفۃ القیامۃ والجنۃ والنار] ” حضرت عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ آسمان کو قیامت کے دن لپیٹ لے گا پھر اس کو دائیں ہاتھ میں پکڑے گا، پھر فرمائے گا میں بادشاہ ہوں۔ کہاں ہیں جابر لوگ؟ کہاں ہیں تکبر کرنے والے؟ پھر زمین کو بائیں ہاتھ میں لپیٹ لے گا، پھر اعلان ہوگا میں بادشاہ ہوں کہاں ہیں جابر لوگ؟ اور کہاں ہیں تکبر کرنے والے ؟“ (عَنْ عَاءِشَۃَ (رض) قَالَتْ قَالَ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تُحْشَرُونَ حُفَاۃً عُرَاۃً غُرْلًا قَالَتْ عَاءِشَۃُ فَقُلْتُ یَا رَسُول اللّٰہِ الرِّجَالُ وَالنِّسَاءُ یَنْظُرُ بَعْضُہُمْ إِلٰی بَعْضٍ فَقَالَ الْأَمْرُ أَشَدُّ مِنْ أَنْ یُہِمَّہُمْ ذَاکَ)[ رواہ البخاری : کتاب الرقاق، باب کیف الحشر] ” حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تم ننگے پاؤں، ننگے بدن اور بغیر ختنے کے جمع کیے جاؤ گے حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں میں نے پوچھا اے اللہ کے رسول! کیا مرد اور عورتیں ایک دوسرے کی طرف نہیں دیکھیں گے ؟ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اس دن معاملہ اس قدر شدید ہوگا کہ انھیں اس کا خیال تک بھی نہیں آئے گا۔“ بارش کی دعا : (اللّٰہُمَّ اسْقِ عِبَادَکَ وَبَہِیمَتَکَ وَانْشُرْ رَحْمَتَکَ وَأَحْیِ بَلَدَکَ الْمَیِّتَ)[ رواہ ابو داؤد : باب رَفْعِ الْیَدَیْنِ فِی الاِسْتِسْقَاءِ] ” اے اللہ اپنے بندوں اور جانوروں کو بارش کے ذریعے پانی پلا اور اپنی رحمت کو پھیلاتے ہوئے مردہ زمین کو زندہ کردے“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ ہر اعتبار سے بلندوبالا ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ عرش عظیم کا مالک ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں جس پر چاہتا ہے وحی نازل کرتا ہے۔ وحی کا ایک مقصد آخرت کے عذاب سے لوگوں کو ڈرانا ہے۔ ٤۔ رب ذوالجلال سے لوگوں کی کوئی بات پوشیدہ ہے اور نہ رہے گی۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن سوال کرے گا کہ آج کس کی بادشاہی ہے ؟ ٦۔ قیامت کے دن ہر کسی کو اس کے عمل کے مطابق جزا یا سزا دی جائے گی۔ ٧۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے کسی پر رائی کے دانے برابر زیادتی نہ ہوگی۔ ٨۔ اللہ تعالیٰ بہت جلد حساب لینے والاہے۔ تفسیربالقرآن بارش کس طرح نازل ہوتی ہے : ١۔ ہوائیں بخارات اٹھاتی اور بادلوں کو چلاتی ہیں۔ (الاعراف : ٥٧) ٢۔ آسمان سے بارش نازل ہونے، بارش سے زمین کو زندہ کرنے، چوپایوں کے پھیلنے، ہواؤں کے چلنے اور بادلوں کے مسخر ہونے میں نشانیاں ہیں۔ (البقرۃ : ١٦٤) ٣۔ تم اللہ سے مغفرت طلب کرو اور اس کی طرف رجوع کرو وہ آسمان سے تمہارے لیے بارش نازل فرمائے گا اور تمہاری قوت میں اضافہ فرما دے گا۔ (ہود : ٥٢) ٤۔ اللہ سے بخشش طلب کرو وہ معاف کردے گا اور بارش نازل فرمائے گا اور تمہارے مال و اولاد میں اضافہ فرمائے گا۔ (نوح : ١٠۔ ١٢) غافر
14 غافر
15 غافر
16 غافر
17 غافر
18 فہم القرآن ربط کلام : قیامت کے دن کسی پر کوئی زیادتی نہ ہوگی اس کے باوجود لوگوں کے کلیجے منہ کو آرہے ہوں گے۔ رب ذوالجلال کا رعب اور قیامت کے حساب و کتاب کے ڈر کی وجہ سے لوگوں کے کلیجے ان کے حلق تک آچکے ہوں گے۔ اس وقت ظالموں کا کوئی خیر خواہ اور سفارشی نہ ہوگا۔ اللہ تعالیٰ آنکھوں کی خیانت اور دلوں میں چھپے ہوئے خیالات کو جانتا ہے وہ اپنے بندوں کو سچائی کا حکم دیتا ہے۔ اس کے سوا جن کو پکارا جاتا ہے وہ کوئی بھی حکم نہیں دے سکتے۔ یقیناً اللہ تعالیٰ سب کو سننے والا اور ہر چیز کو دیکھنے والاہے۔ سچائی سے پہلی مراد ” اللہ“ کی توحید اور اس کے تقاضے ہیں۔ قیامت کے دن ظالموں کا یہ حال ہوگا کہ ربِّ ذوالجلال کے خوف کی وجہ سے ان کے کلیجے ان کے حلقوں میں اٹک جائیں گے اور ظالم اس قدر پریشان ہوگے کہ ان کے چہروں سے ان کی ذلت اور پریشانی بالکل عیاں ہوگی۔ وہ اپنے دوست و احباب سے مدد طلب کریں گے مگر کوئی بھی ان کی مدد کے لیے تیار نہ ہوگا۔ مجرم حساب و کتاب کے ابتدائی مرحلے میں جھوٹی قسمیں کھا کر اپنے گناہوں کا انکار اور انہیں چھپانے کی کوشش کریں گے مگر اللہ تعالیٰ سے کچھ بھی چھپا نہیں سکیں گے۔ کیونکہ وہ انسان کی آنکھوں کی خیانت اور اس کے دل میں چھپے ہوئے خیالات کو جانتا ہے۔ مشرک اس لیے شرک کرتا ہے کہ قیامت کے دن اس کے ٹھہرائے ہوئے شریک اسے بچالیں گے مگر جب قیامت قائم ہوگی تو اللہ تعالیٰ سے کوئی کسی کو چھڑانہیں سکے گا۔ وہاں صرف اللہ تعالیٰ ہی فیصلے کرنے والا ہوگا جو حق اور سچ کے ساتھ لوگوں کے درمیان فیصلے صادر فرمائے گا۔ اس کا فرمان ہے کہ کسی پر ذرہ برابر زیادتی نہ ہوپائے گی۔ دنیا میں بھی ہر چیز اللہ تعالیٰ کے سامنے ہے اور قیامت کے دن بھی سامنے ہوگی۔ وہ ہر حال میں ہر بات سننے والا اور ہر چیز کو دیکھنے والا ہے۔ (عَنِ الْمِقْدَادِ (رض) قَالَ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَقُوْلُ تُدْ نَیْ الشَّمْسُ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ مِنَ الْخَلْقِ حَتّٰی تَکُوْنَ مِنْھُمْ کَمِقْدَارِ مِیْلٍ فَیَکُوْنُ النَّا سُ عَلٰی قَدْرِ اَعْمَالِھِمْ فِیْ الْعََرَ قِ فَمِنْھُمْ مَنْ یَّکُوْنُ اِلٰی کَعْبَیْہِ وَمِنْھُمْ مَنْ یَّکُوْنُ اِلٰی رُکْبَتَیْہِ وَمِنْھُمْ مَنْ یَّکُوْنُ اِلٰی حَقْوَیْہِ وَمِنْھُمْ مَنْ یُّلْجِمُھُمُ الْعَرَقُ اِلْجَامًا وَاَشَارَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بِیَدِہٖ اِلٰی فِیْہِ) [ رواہ مسلم : باب فِی صِفَۃِ یَوْمِ الْقِیَامَۃِ أَعَانَنَا اللَّہُ عَلَی أَہْوَالِہَا] ” حضرت مقداد (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے سرورِدو عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے سنا‘ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرمارہے تھے قیامت کے دن سورج لوگوں سے ایک میل کی مسافت پر ہوگا لوگوں کا پسینہ ان کے اعمال کے مطابق ہوگا بعض لوگوں کے ٹخنوں تک‘ بعض کے گھٹنوں تک بعض کی کمر تک اور بعض کے منہ تک پسینہ ہوگا یہ بیان کرتے ہوئے رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے منہ کی طرف اشارہ فرمایا۔“ مسائل ١۔ قیامت کے دن ربِّ ذوالجلال کے خوف کی وجہ سے ظالموں کے کلیجے ان کے حلق میں اٹک جائیں گے۔ ٢۔ قیامت کے دن ظالموں کا نہ کوئی دوست ہوگا اور نہ کوئی سفارشی کہ جس کی بات مانی جائے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ آنکھوں کی خیانت اور دلوں کے بھید جانتا ہے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ ہی قیامت کے دن حق اور سچ کیساتھ فیصلہ فرمائے گا۔ ٥۔ قیامت کے دن اللہ کے سوا کسی کے پاس کوئی اختیار نہیں ہوگا۔ ٦۔ یقین جانو کہ اللہ تعالیٰ ہر بات سننے والا اور سب کچھ جاننے والا ہے۔ تفسیربالقرآن قیامت کے دن کفار اور مشرکین کا کوئی مددگار نہیں ہوگا : ١۔ اللہ تعالیٰ کے مقابلہ میں ان کا کوئی مددگار نہ ہوگا۔ (ہود : ٢٠۔ البقرۃ: ١٠٧) ٢۔ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی ایسا نہیں جو تمہاری مدد کرسکے۔ (البقرۃ: ١٢٠) ٣۔ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی ولی اور بچانے والا نہیں ہے۔ (الرعد : ٣٧) ٤۔ اللہ تعالیٰ کے سوا تمہارا کوئی ولی اور مددگار نہیں۔ (العنکبوت : ٢٢۔ الشوریٰ: ٣١) غافر
19 غافر
20 غافر
21 فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ کو پوری کائنات پر کلی اختیارات حاصل ہیں۔ لیکن معبودان باطل کو کسی قسم کا کوئی اختیار حاصل نہیں۔ اس حقیقت کو دیکھنا چاہو تو زمین میں چل پھر کر دیکھ لو۔ ہلاک ہونے والی اقوام کا سب سے بڑا جرم اپنے رب کے ساتھ شرک کرنا اور انبیائے کرام (علیہ السلام) کی تعلیمات کا انکار کرنا تھا۔ اپنے اپنے اعتقاد اور سوچ کے مطابق ان کا یقین تھا کہ ہمارے دیوتے، بزرگ اور اسباب ہمیں مشکل کے وقت بچا لیں گے۔ اسی طرح ہی مکہ والے اپنے بتوں کے بارے میں اعتقاد رکھتے اور اپنے وسائل پر اتراتے تھے۔ یہاں تک مکہ والوں کے اسباب اور قوت کا معاملہ ہے انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ ان سے پہلی اقوام اسباب اور قوت کے اعتبار سے ان سے کہیں آگے تھیں۔ ان کی ترقی اور اسباب کا عالم یہ تھا کہ ان میں کسی نے پہاڑوں کے سینے چیر کر ان میں کالونیاں بنائیں اور بڑے بڑے محل تعمیر کیے۔ کسی نے اپنی شان و شوکت کے لیے بڑی بڑی یاد گاریں تعمیر کیں۔ لیکن رب ذوالجلال نے انہیں ان کے جرائم کی بنا پر پکڑا تو ان کے بت، دیوتے، بزرگ اور ان کے وسائل انہیں بچا نہ سکے۔ حالانکہ ان کے پاس ان کے رسول بڑے بڑے معجزات اور ٹھوس دلائل کے ساتھ آئے اور انہیں شب وروز سمجھاتے رہے۔ لیکن انہوں نے کفر ہی اختیار کیے رکھا۔ جس کی پاداش میں اللہ تعالیٰ نے انہیں پکڑ لیا۔ اس کی پکڑ بڑی شدید ہوا کرتی ہے کیونکہ وہ بڑی قوت والا اور سخت گرفت کرنے والا ہے۔ مسائل ١۔ ہلاک ہونے والی اقوام اہل مکہ سے زیادہ طاقتور تھیں۔ ٢۔ ہلاک ہونے والی اقوام نے اپنے انبیاء (علیہ السلام) کی تعلیمات کا انکار کیا۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی گرفت کی تو انہیں کوئی نہ بچا سکا۔ تفسیربالقرآن ہلاک ہونے والی چند اقوام کی تباہی کا ایک منظر : ١۔ اللہ تعالیٰ نے حق کی تکذیب کرنے والوں کو انکے گناہوں کی وجہ سے ہلاک کر کے دوسری قوم کو پیدا فرمایا۔ (الانعام : ٦) ٢۔ اللہ تعالیٰ نے قوم نوح کو غرق کردیا۔ (الشعراء : ١٢٠) ٣۔ آل فرعون نے اللہ کی آیات کی تکذیب کی اللہ تعالیٰ نے ان کو ان کے گناہوں کیوجہ سے ہلاک کردیا۔ (الانفال : ٥٤) ٤۔ بستی والوں نے جب ظلم کیا تو اللہ تعالیٰ نے انہیں ہلاک کردیا۔ (الکہف : ٥٩) ٥۔ قوم عاد نے جھٹلایا تو اللہ تعالیٰ نے ان کو ہلاک کردیا۔ (الشعراء : ١٣٩) ٦۔ قوم تبع اور ان سے پہلے مجرموں کو اللہ تعالیٰ نے ہلاک کردیا۔ (الدخان : ٣٧) ٧۔ اللہ تعالیٰ نے انبیاء کی طرف وحی کہ کہ وہ ظالموں کو ضرور ہلاک کرے گا۔ (ابراہیم : ١٣) ٨۔ ہم کسی بستی والوں کو اس وقت تک ہلاک نہیں کرتے جب تک ان میں ڈرانے والے نہ بھیج دیں۔ (الشعراء ٢٠٨) غافر
22 غافر
23 فہم القرآن ربط کلام : ہلاک کی جانے والی اقوام میں آل فرعون بھی شامل تھے۔ جس نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی تکذیب کی۔ ارشاد ہوتا ہے کہ ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو بڑے بڑے معجزات اور دلائل دے کر فرعون، ہامان اور قارون کی طرف بھیجا، مگر انہوں نے موسیٰ (علیہ السلام) کو جھوٹا اور جادوگر قرار دیا۔ جوں ہی موسیٰ (علیہ السلام) ہماری طرف سے حق لے کر پہنچے تو فرعون اور ان کے ساتھیوں نے فیصلہ کیا کہ جو بھی موسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لائے اسے قتل کردیا جائے اور اس کی عورتوں کو اپنے لیے باقی رہنے دیا جائے۔ حق کے مقابلے میں کفار کی منصوبہ بندیاں ہمیشہ انہیں دنیا اور آخرت کے نقصان میں زیادہ ہی کرتی ہیں۔ انسان مشکل کے وقت تدبیر اسے لیے کرتا ہے کہ وہ مصیبت سے نجات پائے۔ لیکن جب انسان اپنے رب کا باغی بن جائے اور حق بات کو ٹھکراتاچلا جائے تو اس کی عقل الٹی ہوجاتی ہے۔ ایسی تدابیر کرتا ہے اور اس کے ساتھی اپنے مفاد اور اس کی خوشنودی کے لیے اسے ایسے مشورے دیتے ہیں کہ جس سے اس کی ذلت اور نقصان میں اضافہ ہی ہوتا ہے۔ یہی حالات فرعون اور اس کے ساتھیوں کے تھے۔ جوں ہی موسیٰ (علیہ السلام) نے ان کے سامنے بڑے بڑے معجزات پیش کیے اور انہیں ٹھوس دلائل کے ساتھ اللہ کی توحید کی دعوت دی تو انہوں نے حق تسلیم کرنے کی بجائے یہ فیصلہ کیا کہ ایمان لانے والے مردوں اور ان کے بیٹوں کو قتل کیا جائے اور ان کی بیویوں اور بیٹیوں کو باقی رہنے دیا جائے۔ یاد رہے کہ فرعون کی طرف سے بنی اسرائیل کو قتل کرنے کی یہ دوسری مہم تھی۔ اس سے پہلے موسیٰ (علیہ السلام) کی پیدائش کے وقت بھی بنی اسرائیل کا قتل عام کیا گیا تھا۔ جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ یہ بہت بڑی آزمائش تھی۔[ البقرۃ: ٤٩] دنیا میں بنی اسرائیل کے علاوہ شاید ہی کوئی قوم ہو جسے اجتماعی طور پر یہ سزا دی گئی ہو کہ ان کے مردوں کو کئی سال تک قتل کیا گیا اور ان کی بہو بیٹیوں کو ہر قسم کی زیادتی کا نشانہ بنانے کے لیے زندہ رہنے دیا گیا۔ بنی اسرائیل دو مرتبہ طویل عرصہ تک اس آزمائش کا شکار ہوئے۔ بالآخر اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت ہارون (علیہ السلام) کی بے مثال جدوجہد کے نتیجہ میں بنی اسرائیل کو فرعون اور اس کے ساتھیوں کے مظالم سے نجات دی۔ ” سُلْطَانٍ مُّبِیْنٌ“ سے مراد ایسے دلائل ہیں جنہیں سننے کے بعد آدمی کے دل میں یقین پیدا ہوجائے کہ واقعی حق یہی ہے۔ فرعون اور اس کے ساتھیوں کو پہلے دن ہی موسیٰ (علیہ السلام) کے عصا کا اژدھا اور ید بیضا دیکھ کر یقین ہوگیا تھا کہ موسیٰ (علیہ السلام) اور ہارون (علیہ السلام) اللہ تعالیٰ کے فرستادہ ہیں۔ وہ یہ بھی سوچنے پر مجبور ہوئے تھے کہ جو شخص کچھ عرصہ پہلے گرفتاری کے ڈر سے یہاں سے بھاگ نکلا تھا آج کس جرأت کے ساتھ ہمارے سامنے کھڑا ہو کر آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ہمارے نظریات کے خلاف باتیں کررہا ہے۔ انہیں یہ بھی یقین ہوچکا تھا کہ اگر موسیٰ (علیہ السلام) کو ڈھیل دی گئی تو اس کے ساتھیوں میں دن بدن اضافہ ہی ہوتا جائے گا۔ اس لیے موسیٰ (علیہ السلام) سے لوگوں کو دور رکھنے اور حکومت کا دبدبہ قائم کرنے کے لیے۔ فرعون نے فوری طور پر حکم جاری کیا کہ جو شخص بھی موسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لائے اسے اور اس کے رشتہ داروں کو سرِعام قتل کردیا جائے۔ البتہ ان کی بیویوں اور بہو، بیٹیوں کو اپنے لیے باقی رہنے دیا جائے۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو بڑے بڑے معجزات اور ٹھوس دلائل دے کر فرعون اور اس کے ساتھیوں کی طرف بھیجا۔ ٢۔ فرعون اور اس کے ساتھیوں نے موسیٰ (علیہ السلام) کو کذّاب اور جادوگر قراردیا۔ ٣۔ فرعون نے موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھیوں کو سر عام قتل کرنے کی مہم چلائی۔ ٤۔ فرعون نے اپنی اور اپنی قوم کی خدمت کے لیے بنی اسرائیل کی بہو بیٹیوں کو باقی رکھا۔ تفسیربالقرآن موسیٰ (علیہ السلام) کو دیے جانے والے عظیم معجزات اور دلائل : ١۔ (یونس : ٧٥) ٢۔ (المومنون : ٤٦) ٣۔ (العنکبوت : ٣٩) ٤۔ (الاعراف : ١٣٣) ٥۔ (المومن : ٢٧) غافر
24 غافر
25 غافر
26 فہم القرآن ربط کلام : بنی اسرائیل کے قتل عام کے بعد فرعون کا انتہائی اقدام کرنے کا فیصلہ۔ نامعلوم فرعون نے کتنی مدّت تک بنی اسرائیل کا قتل عام جاری رکھا۔ اس ظالمانہ اقدام کے باوجود بنی اسرائیل کا نوجوان طبقہ موسیٰ (علیہ السلام) پر دھڑا دھڑ ایمان لانے لگا جس کا قرآن مجید نے ان الفاظ میں ذکر فرمایا ہے۔ ” موسیٰ پر اس کی قوم کے نو جوانوں کے سوا فرعون اور اس کے سرداروں کے خوف اور ان کے فتنہ میں مبتلا کرنے کی وجہ سے کوئی ایمان نہ لایا اور بلا شبہ فرعون زمین میں سرکش اور حد سے بڑھنے والوں میں تھا۔ موسیٰ نے فرمایا اے میری قوم ! اگر تم اللہ پر ایمان لائے ہو تو اسی پر توکل کرو، اگر تم فرمانبردار ہو۔ تو انہوں نے کہا ہم نے اللہ پر ہی توکل کیا، اے ہمارے رب ہمیں ظالم لوگوں کے سے بچا۔ اور اپنی رحمت کے ساتھ ہمیں کافر لوگوں سے نجات عطا فرما۔“ (یونس : ٨٣ تا ٨٦) اس صورت حال میں فرعون نے یہ محسوس کیا کہ بنی اسرائیل کے قتل عام کا فیصلہ جس مقصد کے لیے کیا گیا تھا اس کا نتیجہ ہماری بجائے موسیٰ (علیہ السلام) کے حق میں جارہا ہے۔ اس لیے اس نے موسیٰ (علیہ السلام) کے خلاف انتہائی اقدام کرنے کا اعلان کیا۔ جس کے لیے اس نے وزیروں مشیروں کو کہا کہ میرے راستے سے ہٹ جاؤ۔ اب میں موسیٰ (علیہ السلام) کو قتل کر کے رہوں گا۔ بیشک وہ اپنے رب کو میرے مقابلے میں لے آئے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر موسیٰ (علیہ السلام) کو اسی طرح ڈھیل دیئے رکھی تو وہ تمہارے دین کو بدل دے گا اور ملک کو برباد کر دے۔ قرآن مجید کے الفاظ سے ظاہر ہورہا ہے کہ فرعون غصہ میں اپنے آپ سے باہر ہوا جارہا تھا اور اس کی قتل عام کی مہم ناکام ہوچکی تھی اس لیے اس نے موسیٰ (علیہ السلام) پر الزام لگائے کہ یہ ہمارے دین کو بدلنا چاہتا ہے اور ملک کو برباد کرنے درپے ہے۔ مجھے چھوڑ دو کے بارے میں مفسرین نے تین آراء کا اظہار کیا ہے۔ 1 موسیٰ (علیہ السلام) کی جرأت اور ان کے معجزات دیکھ کر فرعون اپنے دل میں خوف زدہ تھا کہ اگر میں نے موسیٰ (علیہ السلام) کو کوئی گزند پہنچائی تو ” اللہ“ کے ہاں فوری طور پر میری گرفت ہوجائے گی۔ 2 جس طرح اس نے یہ جھوٹ بولا تھا کہ موسیٰ (علیہ السلام) ملک میں فساد برپا کرنا چاہتا ہے۔ اسی طرح ہی اس نے جھوٹی دھمکی دی تھی کہ میں موسیٰ (علیہ السلام) کو قتل کرنا چاہتا ہوں۔ 3 فرعون موسیٰ (علیہ السلام) کو قتل کرنے کی وارننگ دے کر انہیں مرعوب کرنا چاہتا تھا۔ حالانکہ اسے معلوم تھا کہ موسیٰ (علیہ السلام) کو قتل کرنا آسان نہیں۔ کیونکہ موسیٰ (علیہ السلام) سچے رسول ہیں اور اپنے رب کی نگرانی میں ہیں۔ یہاں تک کہ فرعون کا یہ کہنا تھا کہ موسیٰ (علیہ السلام) تمہارا دین بدلنا چاہتا ہے اور موسیٰ (علیہ السلام) ملک میں فساد برپا کرنا چاہتا ہے۔ یہ بات شروع سے ہی حکمران اور دنیا دار انبیاء اور داعی حق کے بارے میں کہتے آ رہے ہیں۔ اکثر مفسرین نے لکھا ہے کہ فرعون کی دین سے مراد اس کا نظام حکومت ہے یہ بات بھی ٹھیک ہے لیکن اس بات کی گنجائش بھی موجود ہے کہ مشرک جس کی بھی پوجا کرتے ہیں وہ دین اور ثواب سمجھ کرہی کرتے ہیں۔ فرعون کے ا لفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس نے مذہبی لوگوں کو دین کے حوالے سے اور سیاسی لوگوں کو ملک کے نظام کے حولے سے اکسایا تھا تاکہ بیک وقت مذہب اور سیاست کے نام پر لوگوں کو موسیٰ (علیہ السلام) کے خلاف بھڑکایا جاسکے۔ قرآن مجید کے الفاظ سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ فرعون نے کسی دوسرے موقع پر براہ راست موسیٰ (علیہ السلام) کو قتل کرنے کی دھمکی دی تھی۔ جس پر موسیٰ (علیہ السلام) نے کھلے الفاظ میں فرمایا کہ میں قیامت کا انکار کرنے والے ہر متکبر سے اپنے اور تمہارے رب کی حفاظت میں آچکا ہوں۔ (المومن : ٢٧ ) تکبر کی سزا : (عَنِ ابْنِ عُمَر (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بَیْنَمَا رَجُلٌ یَجُرُّ اِزَارَہٗ مِنَ الْخُیَلَاءِ خُسِفَ بِہٖ فَھُوَ یَتَجَلْجَلُ فِی الْاَرْضِ اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ )[ رواہ البخاری : کتاب أحادیث الأنبیاء ] ” حضرت عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا‘ ایک دفعہ ایک شخص تکبر کے ساتھ چادر گھسیٹ کر چل رہا تھا تو اسے زمین میں دھنسا دیا گیا۔ اب وہ قیامت تک زمین میں دھنستا جائے گا۔“ (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ لَا یَدْخُلُ الْجَنَّۃَ مَنْ کَانَ فِیْ قَلْبِہٖ مِثْقَالُ ذَرَّۃٍ مِّنْ کِبْرٍ) [ رواہ مسلم : کتاب الایمان، باب تحریم الکبر وبیانہ] ” حضرت عبداللہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی تکبرہوا وہ جنت میں داخل نہیں ہوگا۔“ مسائل ١۔ فرعون نے موسیٰ (علیہ السلام) کو ملک میں فساد کرنے والا قرار دیا۔ ٢۔ فرعون نے موسیٰ (علیہ السلام) کو قتل کی دھمکی دی۔ ٣۔ فرعون نے اپنے ساتھ ملائے رکھنے کے لیے لوگوں کو کہا کہ موسیٰ (علیہ السلام) تمہارا دین بدلنا چاہتا ہے۔ ٤۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے بلا خوف یہ بات فرمائی کہ میری حفاظت میرے رب نے اپنے ذمے لے رکھی ہے۔ ٥۔ مومن کو متکبر شخص سے بچنے کے لیے اللہ کی پناہ مانگنی چاہیے۔ ٦۔ جو شخص قیامت کے حساب و کتاب کو نہیں مانتا حقیقتاً وہ متکبر ہوتا ہے۔ تفسیربالقرآن متکبر شخص کی عادات اور اس کا انجام : ١۔ سب سے پہلے شیطان نے تکبر کیا۔ (ص : ٧٤) ٢۔ تکبر کرنا فرعون اور اللہ کے باغیوں کا طریقہ ہے۔ (القصص : ٣٩) ٣۔ تکبر کرنے والے کے دل پر اللہ مہر لگا دیتا ہے۔ (المؤمن : ٣٥) ٤۔ متکبر کو اللہ تعالیٰ پسند نہیں کرتا۔ (النحل : ٢٣) ٥۔ تکبر کرنے والے جہنم میں جائیں گے۔ (المومن : ٧٦) ٦۔ اللہ تعالیٰ ہر جابر اور متکبر کے دل پر مہر لگا دیتا ہے۔ (المومن : ٣٥) ٧۔ کافروں کو ان کی جمعیت اور تکبر کام نہ آسکے گا۔ (الاعراف : ٤٨) ٨۔ تکبر کرنے والوں کو ذلت آمیز سزا دی جائے گی۔ (الاحقاف : ٢٠) ٩۔ جو لوگ اللہ کی آیات کو جھٹلاتے ہیں اور تکبر کرتے ہیں وہ ہمیشہ جہنم میں رہیں گے۔ (الاعراف : ٣٦) ١٠۔ جہنم کے دروازوں سے ہمیشہ کے لیے داخل ہوجاؤ۔ تکبر کرنے والوں کا کیسا برا ٹھکانہ ہے۔ (النحل : ٢٩) غافر
27 غافر
28 فہم القرآن ربط کلام : فرعون کی دھمکی کے رد عمل میں ایک مومن کا درد مندانہ خطاب۔ فرعون نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو قتل کرنے کی دھمکی دی تو موسیٰ (علیہ السلام) نے اس کے جواب میں صرف اتنا فرمایا کہ میں تیرے اقدام قتل سے نہیں ڈرتا کیونکہ میری حفاظت میرے رب کے ذمے ہے۔ اس صورت حال میں ایک مومن تڑپ اٹھا۔ جس کے بارے میں قرآن مجید بتلارہا ہے کہ اس نے حالات کے جبر کی وجہ سے اپنا ایمان چھپا رکھا تھا۔ جوں ہی اس نے محسوس کیا کہ موسیٰ (علیہ السلام) کے خلاف فرعون انتہائی اقدام کرنے والاہے تو وہ بےدھڑک ہو کر فرعون کے سامنے پرسوز لہجہ اور پورے جلال کے ساتھ اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے باربار اپنی قوم کو سمجھاتا ہے۔ اہل تاریخ نے لکھا ہے کہ یہ فرعون کا چچا زاد بھائی تھا۔ اس نے کہا کہ کیا موسیٰ (علیہ السلام) کو اس لیے قتل کرنا چاہتے ہو کہ وہ کہتا ہے کہ میرا رب ” اللہ“ ہے اور وہ تمہارے رب کی طرف سے تمہارے پاس ٹھوس اور واضح دلائل لایا ہے بالفرض اگر وہ جھوٹا ہے تو اس کے جھوٹ کا وبال اسی پر ہوگا۔ اگر وہ سچا ہے تو پھر تمہیں وہ عذاب ضرور آ لے گا جس سے وہ تمہیں ڈراتا ہے۔ یاد رکھو! اللہ تعالیٰ جھوٹے اور زیادتی کرنے والے کو ہدایت نہیں دیتا۔ آل فرعون سے تعلق رکھنے والے مومن نے یہ کہہ کر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی دعوت کا تعارف کروایا کہ موسیٰ (علیہ السلام) تمہیں ” اللہ“ کی طرف بلاتے ہیں اور اس نے دلائل سے ثابت کردیا ہے کہ وہی تمہارا اور موسیٰ (علیہ السلام) کا رب ہے۔ مرد مومن نے بڑی جرأت سے کام لیتے ہوئے موسیٰ (علیہ السلام) کی دعوت کا انہی الفاظ میں تعارف کروایا۔ جن الفاظ کے ساتھ موسیٰ (علیہ السلام) نے پہلے دن فرعون کے سامنے اپنی دعوت پیش کی تھی۔ (الاعراف : ١٠٤) تعجب کی بات یہ ہے کہ مرد مومن نے نہ صرف فرعون اور اس کے ساتھیوں کو کھلے الفاظ میں اللہ تعالیٰ کے رب ہونے کا تعارف کروایا بلکہ اس نے موسیٰ (علیہ السلام) کے دلائل کی تائید کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ اللہ تعالیٰ جھوٹے اور زیادتی کرنے والے کو ہدایت نہیں دیتا۔ گویا کہ اس نے ایک حد تک اپنے الفاظ میں واضح کردیا کہ تم جھوٹے ہو اور موسیٰ (علیہ السلام) سچے ہیں۔ آل فرعون کا مرد مومن اور سیدنا ابو بکر صدیق (رض) : (عَنْ عُرْوَۃَ بْنِ الزُّبَیْرِ قَالَ سَأَلْتُ عَبْدَ اللَّہِ بْنَ عَمْرٍو عَنْ أَشَدِّ مَا صَنَعَ الْمُشْرِکُونَ بِرَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ رَأَیْتُ عُقْبَۃَ بْنَ أَبِی مُعَیْطٍ جَاءَ إِلَی النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وَہُوَ یُصَلِّی، فَوَضَعَ رِدَاءَ ہُ فِی عُنُقِہِ فَخَنَقَہُ بِہِ خَنْقًا شَدِیدًا، فَجَاءَ أَبُو بَکْرٍ حَتَّی دَفَعَہُ عَنْہُ فَقَالَ أَتَقْتُلُونَ رَجُلاً أَنْ یَقُولَ رَبِّیَ اللَّہُ وَقَدْ جَاءَ کُمْ بالْبَیِّنَاتِ مِنْ رَبِّکُمْ)[ رواہ البخاری : باب قَوْلِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لَوْ کُنْتُ مُتَّخِذًا خَلِیلاً ] ” عروہ بن زبیر (رض) کہتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن عمرو بن عاص (رض) سے پوچھا :” مجھے بتاؤ کہ مشرکین مکہ نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سب سے زیادہ جو تکلیف دی وہ کیا تھی؟ وہ کہنے لگے کہ ” ایک دفعہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کعبہ کے صحن میں نماز پڑھ رہے تھے عقبہ بن ابی معیط آگے بڑھا۔ آپ کے کندھے پکڑے اور آپ کی گردن میں کپڑا ڈال کر زور سے گلا گھونٹا۔ اتنے میں ابو بکر صدیق (رض) آگئے۔ انہوں نے عقبہ کو کندھے سے پکڑ کر اور آپ سے اسے پیچھے دھکیل دیا اور فرمایا کیا تم اس شخص کو اس لیے مار ڈالنا چاہتے ہو کہ وہ کہتا ہے کہ میرا پروردگار اللہ ہے۔ حالانکہ وہ تمہارے پاس تمہارے پروردگار کی طرف سے واضح نشانیاں بھی لے کر آیا ہے۔“ غافر
29 فہم القرآن ربط کلام : مرد مومن کے خطاب کے جواب میں فرعون کا جواب۔ مرد مومن نے اپنا خطاب جاری رکھتے ہوئے قوم کو یہ کہہ کر مزید احساس دلایا کہ آج ملک پر تمہاری بادشاہی ہے اور تم مملکت مصر پر برسراقتدار ہو۔ لیکن یاد رکھو ! اگر ہم پر اللہ کا عذاب نازل ہوا تو بتاؤ ہمیں کون اس کے عذاب سے بچائے گا؟ مرد مومن نے اس قدر مؤثر اور جاندار انداز میں فرعون اور اپنی قوم کے نمائندوں کو خطاب کیا کہ جو فرعون توحیدکی بات سننا گوارا نہیں کرتا تھا۔ وہ مرد مومن کے جواب میں صرف اتنی بات کہہ سکا کہ میں تو تمہیں وہی کچھ کہہ رہا ہوں جو کچھ میں دیکھتا اور سمجھتا ہوں۔ میرے خیال کے مطابق اسی میں تمہاری بھلائی ہے۔ فرعون کی بات سن کر مرد مومن چونک اٹھا اور اس نے اپنی قوم کو انتباہ کرتے ہوئے فرمایا کہ میں اس بات سے ڈرارہا ہوں کہ کہیں تم پر ایسے حالات وارد نہ ہوجائیں جو پہلے لوگوں پر وارد ہوئے تھے۔ جس طرح قوم نوح (علیہ السلام) قوم ثمود، قوم عاد اور ان کے بعد کچھ قوموں پر نازل ہوئے۔ اے میری قوم کے لوگو! اگر ایسا ہوا تو یاد رکھنا کہ یہ تمہارے اعمال کا نتیجہ ہوگا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے ساتھ زیادتی نہیں کرتا۔ اے میری قوم! مجھے یہ بھی ڈر ہے کہ اس دن تم ایک دوسرے کو آواز پے آواز دو گے لیکن تمہاری فریاد سننے والا کوئی نہیں ہوگا۔ اس دن تم پیٹھ پھیر کر بھاگو گے لیکن اللہ تعالیٰ کے سوا تمہیں کوئی پناہ نہیں دے سکے گا۔ یاد رکھو! جسے اللہ تعالیٰ گمراہی کے لیے کھلا چھوڑ دے اسے کوئی ہدایت نہیں دے سکتا۔ اس دن سے مراد کچھ بزرگوں نے عذاب کا دن لیا ہے۔ لیکن یہ بات صحیح نہیں کیونکہ عذاب کے دن کے بارے میں مردِمومن نے قوم نوح (علیہ السلام)، قوم عاد، قوم ثمود اور دیگراقوام کا حوالہ دے کر ڈرایا ہے۔ اس لیے ” یَوْمَ التَّنَادِ“ سے مراد قیامت کا دن ہے جس دن لوگ ” اللہ“ کے عذاب سے بچنے کے لیے ایک دوسرے کو دوہائی دیں گے۔“ (عبس : ٣٤ تا ٣٧) ” کوئی دوست کسی دوست کو نہ پوچھے گا۔ ایک دوسرے کو دکھادیئے جائیں گے۔ گناہ گار اس دن کے عذاب کے بدلے فدیے میں اپنے بیٹوں کو، اپنی بیوی کو اور اپنے کنبے کو جو اسے پناہ دیتا تھا اور زمین کی ہر چیز کو دینا چاہے گا تاکہ یہ اسے نجات دلا دے۔ ہرگز یہ نہ ہوگا۔ یقیناً وہ شعلہ والی آگ ہے جو منہ اور سر کی کھال کھینچ لینے والی ہے وہ ہر اس شخص کو پکارے گی جو پیچھے ہٹتا اور منہ موڑتا ہے اور مال جمع کرکے رکھتا ہے ”(المعارج : ١٠ تا ١٨) مسائل ١۔ مرد مومن کے جواب میں فرعون کوئی معقول بات نہ کرسکا۔ ٢۔ مرد مومن نے اپنی قوم کو دنیا اور آخرت کے عذاب سے ڈرایا۔ ٣۔ قیامت کے دن مجرم ایک دوسرے کو پکاریں گے لیکن کوئی کسی کی مدد نہیں کرسکے گا۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ جسے گمراہی کے لیے کھلا چھوڑ دے اسے کوئی ہدایت نہیں دے سکتا۔ تفسیربالقرآن ہدایت صرف ” اللہ“ کے اختیار میں ہے : ١۔ ہدایت وہی ہے جسے اللہ تعالیٰ ہدایت قرار دے۔ (البقرۃ: ١٢٠) ٢۔ ہدایت اللہ کے اختیار میں ہے۔ (القصص : ٥٦) ٣۔ وہ جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے۔ (البقرۃ : ٢١٣) ٤۔ اللہ تعالیٰ کی راہنمائی کے بغیر کوئی ہدایت نہیں پا سکتا۔ (الاعراف : ٤٣) ٥۔ ہدایت جبری نہیں اختیاری چیز ہے۔ (الدھر : ٣) ٦۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی کسی کو ہدایت نہیں دے سکتے۔ (القصص : ٥٦) ٧۔ ہدایت اللہ تعالیٰ کے کرم سے حاصل ہوتی ہے۔ (الحجرات : ١٧) ٨۔ ہدایت پر استقامت کی دعا کرنا چاہیے۔ (آل عمران : ٨) ٩۔ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تابعداری انسان کی ہدایت کی ضمانت ہے۔ (النور : ٥٤) ١٠۔ صحابہ کرام (رض) کا ایمان ہدایت کی کسوٹی ہے۔ (البقرۃ: ١٣٧) غافر
30 غافر
31 غافر
32 غافر
33 غافر
34 فہم القرآن ربط کلام : مرد مومن کا خطاب جاری ہے۔ مرد مومن نے مصر کی پرانی تاریخ کا حوالہ دے کر اپنی قوم کو سمجھایا کہ یاد کرو ! جب تمہارے پاس اس سے پہلے یوسف (علیہ السلام) کھلے دلائل کے ساتھ آئے تھے۔ تم نے ان کے بارے میں بھی شک کا اظہار کیا تھا۔ جب یوسف (علیہ السلام) فوت ہوگئے تو تم کہنے لگے کہ اللہ تعالیٰ ان کے بعد کوئی رسول نہیں بھیجے گا۔ اسی طرح اللہ گمراہ کرتا ہے۔ ایسے لوگوں کو جو حق بات میں شک کرنے والے اور حد سے تجاوز کرنے والے ہوتے ہیں اور بغیر کسی دلیل کے اللہ کے احکام اور ارشادات کے بارے میں جھگڑتے ہیں۔ بلاجواز جھگڑنا اللہ تعالیٰ اور اس کے مومن بندوں کے نزدیک بڑی بری بات ہے۔ اللہ تعالیٰ اس فعل کی وجہ سے مغرور انسان کے دل پر گمراہی کی مہر ثبت کردیتا ہے۔ ” اللہ“ کی ناراضگی تو واضح ہے کیونکہ وہ ہر برے کام پر ناراض ہوتا ہے۔ مومنوں کی ناراضگی کا اس لیے حوالہ دیا گیا ہے کہ مومن کی خوشی اور ناراضگی اپنے رب کی خوشی اور ناراضگی کے تابع ہوتی ہے۔ مرد مومن نے یہ بات بھی کھلے الفاظ میں فرعون اور اپنی قوم کو سمجھائی کہ موسیٰ (علیہ السلام) کی دعوت پر تمہیں ناراض نہیں ہونا چاہیے کیونکہ موسیٰ (علیہ السلام) اس لیے تمہارے نظریات اور کردار پر اعتراض کرتے اور ناراض ہیں کہ اللہ تعالیٰ تمہارے عقائد اور کردار پر ناراض ہے۔ مرد مومن نے حضرت یوسف (علیہ السلام) کا حوالہ اس لیے دیا کہ مصرکے خاص و عام یوسف (علیہ السلام) کے جمال اور کمال سے پوری طرح آگاہ تھے۔ مصر میں حضرت یوسف (علیہ السلام) کے حسن کے چرچے اور ان کی پاکدامنی کے قصّے لوگوں کی زبان پر عام تھے۔ ان کے نظام حکومت کی خوبیاں اور عدل و انصاف کے واقعات نسل در نسل تاریخ کا حصہ بن چکے تھے۔ یوسف (علیہ السلام) کے بعد اس طرح نہ مصر کی خوشحالی باقی رہی اور نہ ہی ان جیسا کوئی عدل و انصاف قائم کرسکا۔ تاریخ میں یوسف (علیہ السلام) کا دور مصر کا سنہری دورشمار ہوتا ہے۔ اس بنا پر ہر سمجھدار شخص کہتا تھا کہ اللہ تعالیٰ ہم پر ناراض ہوچکا ہے لہٰذا اب کوئی رسول نہیں بھیجے گا۔ کیونکہ ہم نے یوسف (علیہ السلام) کی قدر نہیں کی تھی جس وجہ سے اب رسول نہیں آئے گا۔ اس کا یہ معنٰی بھی کیا گیا ہے کہ انہوں نے کہا نہ یوسف (علیہ السلام) جیسا رسول آئے گا اور نہ ہی ہم اس پر ایمان لائیں گے۔ بندہ مومن نے یہ بات بھی سمجھانے کی کوشش کی۔ اے میری قوم لوگو! اب تو موسیٰ (علیہ السلام) تشریف لاچکے ہیں۔ لہٰذا پہلے کی طرح شک کرنے سے بچو اور موسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لاؤ۔ گویا کہ اس نے بین السطور یہ بات سمجھا دی کہ فرعون کے پیچھے مت چلو۔ یہ مغرور اور متکبر آدمی کا راستہ ہے۔ جو خود گمراہ ہے اور لوگوں کو گمراہ کررہا ہے۔ اس مومن نے اپنے خطاب میں یہ بھی فرمایا کہ تم نے یوسف (علیہ السلام) کو بھی شک کی نظر دیکھا تھا۔ حالانکہ یوسف (علیہ السلام) کئی صدیاں پہلے فوت ہوچکے تھے۔ مومن کے فرمان کا مقصد یہ تھا کہ تمہارے باپ دادانے یوسف (علیہ السلام) پر شک کیا اور تم موسیٰ (علیہ السلام) کی نبوت پر شک کررہے ہو۔ حالانکہ موسیٰ (علیہ السلام) بھی وہی دعوت دے رہے ہیں جو یوسف (علیہ السلام) نے جیل کی کال کوٹھڑی میں قیدیوں کو اور مصر کے بادشاہ بننے کے بعد پوری قوم کو دی تھی۔ انہوں نے یوسف (علیہ السلام) پر الزام لگا یا اور انہیں جیل بھیج دیا لیکن اللہ تعالیٰ نے حضرت یوسف (علیہ السلام) کو باعزت جیل سے نکال کر بادشاہ بنا یا۔ تم بھی موسیٰ (علیہ السلام) پر الزام لگاتے ہو اور اسے قتل کرنے کے درپے چکے ہو۔ سوچو اور غور کرو! مرد مومن نے یوسف (علیہ السلام) کا حوالہ دے کر اپنی قوم کو فرعون اور قوم کے نمائندوں کو خطاب فرمایا اور بتلایا کہ گمراہی کا دوسرا نام شک ہے۔ گویا کہ ہدایت یقین سے حاصل ہوتی ہے لہٰذا موسیٰ (علیہ السلام) کی ذات اور بات پر یقین کرو۔ نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی اپنی قوم کے ہاتھوں ایسی صورت حال سے دوچار تھے۔ جس بنا پر یہ واقعات بیان کیے جارہے ہیں۔ دل پر گمراہی کی مہر لگنا : (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ إِنَّ الْعَبْدَ إِذَا أَخْطَأَ خَطِیْءَۃً نُکِتَتْ فِیْ قَلْبِہٖ نُکْتَۃٌ سَوْدَآءُ فَإِذَا ھُوَ نَزَعَ وَاسْتَغْفَرَ وَتَابَ سُقِلَ قَلْبُہٗ وَإِنْ عَادَ زِیْدَ فِیْھَا حَتّٰی تَعْلُوَ قَلْبَہٗ وَھُوَ الرَّانُ الَّذِیْ ذَکَرَ اللّٰہُ ( کَلَّا بَلْ رَانَ عَلٰی قُلُوْبِھِمْ مَّاکَانُوْا یَکْسِبُوْنَ ))[ رواہ الترمذی : کتاب تفسیر القرآن ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : جب بندہ کوئی غلطی کرتا ہے تو اس کے دل پرسیاہ نکتہ پڑجاتا ہے جب وہ گناہ چھوڑ دے اور توبہ و استغفار کرے تو اس کا دل پالش ہوجاتا ہے۔ اگر وہ دوبارہ گناہ کی طرف پلٹے تو سیاہی اس کے دل پر چڑھ جاتی ہے یہی وہ زنگ ہے جس کا تذکرہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں کیا ہے کہ (ہرگز نہیں بلکہ ان کے دلوں پر ان کے گناہوں کی وجہ سے زنگ چڑھ چکا ہے۔) “ مسائل ١۔ یوسف (علیہ السلام) اپنی قوم کے سامنے حق پیش کرتے رہے لیکن لوگوں نے حق کے بارے میں شک کا اظہار کیا۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ حد سے تجاوز کرنے اور حق کے بارے میں شک کرنیوالے کو ہدایت نہیں دیتا۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ اور مومن بری باتوں پہ ناراض ہوتے ہیں۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ متکبر اور مغرور کے دل پر مہر لگا دیتا ہے۔ تفسیربالقرآن اللہ تعالیٰ کن لوگوں کے دلوں پر مہر لگاتا ہے : ١۔ کافروں کے دلوں پر مہر لگادی جاتی ہے۔ (البقرۃ: ٧) ٢۔ مشرکوں کے دلوں پر مہرلگادی جاتی ہے۔ (الانعام : ٤٦) ٣۔ اللہ کے علاوہ دوسرے کو معبود بنانے والوں کے دلوں پر مہر ثبت کردی جاتی ہے۔ (الجاثیۃ: ٢٣) ٤۔ افتراء بازی کرنے والوں کے دل پر مہر لگ جاتی ہے۔ (الشوریٰ: ٢٤) ٥۔ مرتد ہونے والے کے دل پر اللہ تعالیٰ مہر لگا دیتا ہے۔ (المنافقون : ٣) ٦۔ تکبر کرنے والے کے دل پر مہر لگائی جاتی ہے۔ (المومن : ٣٥) ٧۔ جہاد سے پیچھے رہنے والوں کے دلوں پر مہر ثبت کردی جاتی ہے۔ (التوبۃ: ٩٣) غافر
35 غافر
36 فہم القرآن ربط کلام : مرد حق کے خطاب کے مقابلے میں فرعون کا ردّ عمل۔ چاہیے تو یہ تھا کہ مرد حق کے مدلّل اور مؤثر خطاب کے بعد فرعون ہدایت قبول کرتا۔ لیکن اس نے اپنے خصوصی مشیر ہامان کو حکم دیا کہ میرے لیے ایک بلندو بالا عمارت تعمیر کی جائے تاکہ میں اس کے ذریعے آسمان کے دروازوں تک پہنچ جاؤں اور دیکھوں کہ موسیٰ (علیہ السلام) کا الٰہ کہاں بیٹھا ہوا ہے۔ میں تو موسیٰ (علیہ السلام) کو جھوٹا سمجھتا ہوں۔ فرعون کے تکبّر اور حد سے تجاوز کرنے کی وجہ سے اس کی رسی کھلی چھوڑ دی گئی۔ جس بنا پر اسے اپنی غلط سوچ، سیاست اور کردار بہترین دکھائی دیتا تھا۔ اسی بنا پر وہ سیدھے راستہ سے روک دیا گیا۔ فرعون کا ہر قدم اس کے لیے تباہی کا سبب ثابت ہوا۔ جسے اس کی بداعمالیوں کی وجہ سے اللہ تعالیٰ ہدایت سے روک دے پھر اسے کون ہدایت دے سکتا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ یہ مردِحق اپنی قوم اور حکومت کے ایوانوں میں بہت اثر رسوخ رکھنے والا تھا۔ جس بنا پر فرعون نے نہ تو اسے کسی قسم کی دھمکی دی اور نہ ہی اس کے خطاب کا سخت جواب دیا۔ اس لیے اب بھی موسیٰ (علیہ السلام) کو ہدف تنقید بنارہا ہے۔ چنانچہ کہنے لگا زمین میں تو مجھے موسیٰ (علیہ السلام) کا خدا دکھائی نہیں دیتا۔ اب دیکھتے ہیں کہ وہ آسمان میں کہاں رہتا ہے۔ اگر موسیٰ (علیہ السلام) کا خدا مل گیا تو پوچھیں گے کہ جناب نے ہمارے پاس موسیٰ جیسا رسول بھیجا ہے۔ کہ جسے بات کرنے کا بھی سلیقہ نہیں آتا کہ بادشاہ کے حضور کس طرح فریاد کی جاتی ہے۔ کیا تجھے موسیٰ (علیہ السلام) کے علاوہ کوئی اور آدمی نہیں مل سکا۔ ایسے ہی بیہودہ خیالات کا اظہار اہل مکہ بھی کیا کرتے تھے کہ اگر واقعی اللہ نے کسی کو نبی بنانا ہوتا تو مکہ یا طائف کے سرداروں میں سے کسی کو نبی بناتا۔ پہلی دفعہ لفظ اسباب سے مراد وہ ذرائع ہیں جن کے ذریعے وہ آسمان تک پہنچنا چاہتا تھا اور دوسری مرتبہ اسباب سے مراد آسمان کے دروازے ہیں۔ جس شخص کو باربار اس کی گمراہی سے آگاہ کیا جائے اور وہ توبہ کرنے کی بجائے گمراہی کو اپنے لیے بہتر سمجھے تو ایسے شخص کو کون ہدایت دے سکتا ہے۔ ایسے شخص کو اس کے گناہوں کے حوالے کردیا جاتا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کی حد ہوتی ہے جس بنا پر اللہ تعالیٰ اس کے دل پر گمراہی کی مہر لگا دیتا ہے۔ مسائل ١۔ فرعون کو اپنے برے اعمال اچھے دکھائی دیتے تھے۔ ٢۔ جسے اپنے برے اعمال اچھے دکھائی دیں اسے ہدایت نصیب نہیں ہوتی۔ ٣۔ فرعون کے بد ترین اعمال کی وجہ سے اسے ہدایت سے روک دیا گیا۔ کیونکہ اس کا ہر قدم گمراہی اور تباہی کی طرف اٹھتا تھا۔ تفسیربالقرآن کن لوگوں کے برے اعمال ان کے لیے خوبصورت بنادئیے جاتے ہیں : ١۔ ظالموں کے دل سخت ہوگئے اور شیطان ان کے اعمال کو مزین کر دکھاتا ہے۔ (الانعام : ٤٣) ٢۔ اکثر مشرکین کے لیے قتل اولاد کا عمل مزّین کردیا۔ (الانعام : ١٣٧) ٣۔ شیطان نے اللہ کے راستہ سے روکنے والوں کے برے اعمال کو مزین کردیا اور کہا تم ہی غالب ہو گے۔ (الانفال : ٤٨) ٤۔ اللہ تعالیٰ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پہلے کئی امتوں کی طرف رسول بھیجے شیطان نے ان کے بد اعمال کو مزّین کردیا۔ (النحل : ٦٣) ٥۔ اللہ تعالیٰ کے سوا سورج کو سجدہ کرنے والوں کے برے اعمال کوشیطان نے ان کے لیے مزّین کردیا۔ (النمل : ٢٤) ٦۔ قوم عاد و ثمود کے اعمال بد کو شیطان نے مزین کردیا۔ (العنکبوت : ٣٨) ٧۔ ہر گروہ کے بد اعمال کو شیطان نے ان کے لیے مزین کردیا۔ (الانعام : ١٠٩) ٨۔ حد سے تجاوز کرنے والوں کے اعمال ان کے لیے مزّین کردیے جاتے ہیں۔ (یونس : ١٢) غافر
37 غافر
38 فہم القرآن ربط کلام : فرعون کے جواب میں مرد حق کا جواب۔ قرآن مجید کسی بات کو داستان گوئی کے انداز میں بیان نہیں کرتا۔ قرآن کا اسلوب یہ ہے کہ قاری کی توجہ صرف ان نکات پر مرکوز رکھی جائے جو اس کی راہنمائی کے لیے مفید ہوں۔ اس لیے یہ نہیں بتلایا گیا کہ فرعون اور مرد مومن کی گفتگو کسی ایک اجتماع میں ہوئی یا مختلف مجالس میں ہونے والی گفتگو کا خلاصہ ہے۔ البتہ یہ بات واضح ہے کہ مرد مومن کے خطاب کے وقت فرعون کے ہاں اس کی قوم کے نمائندے ضرور موجود تھے۔ جس بنا پر مرد مومن فرعون کی بجائے باربار قوم کو مخاطب کرتے ہیں۔ اور فرعون کی بیہودہ باتوں کے جواب کا جواب دینے کی بجائے قوم کے نمائندوں کو مخاطب کرتے اور بار، بار فرماتے ہیں کہ اے میری قوم! میری بات مانو ! میں تمہیں سیدھے راستے کی راہنمائی کررہاہوں۔ باربار سمجھانے کے باوجود قوم دنیاوی مفادات کی خاطر مرد مومن کی طرف توجہ دینے کے لیے تیار نہیں۔ اس پر انہیں احساس دلانے کی کوشش کی کہ جس دنیا کے عہدوں، محلات اور مفادات کی خاطر دعوت حق سے منہ موڑے ہوئے ہویہ سب عارضی ہیں۔ آخرت کی زندگی اور اس کا گھر ہمیشہ کے لیے ہے۔ یاد رکھو ! جس نے برے کام کیے وہ اس کے مطابق اس کی سزا پائے گا اور جس نے صالح اعمال کیے وہ اس کی جزا پائے گا بے شک وہ مرد ہو یا عورت، بشرطیکہ وہ ایمان دار ہو۔ وہ ضرور جنت میں داخل ہوگا۔ اس میں اسے بے حدوحساب رزق دیا جائے گا۔ مومن نے ایمان کی شرط سے ثابت کیا کہ صالح اعمال کی قبولیت اور جنت میں داخلے کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے ایمان میں خالص اور اپنے رب کی توحید پر پکا ہو۔ مسائل ١۔ فرعون کے لیے اس کے برے اعمال مزین کردیئے گئے۔ ٢۔ فرعون کی تدبیر ناکام ہوگئی۔ ٣۔ مرد مومن نے کہا اے میری قوم! میری پیروی کرو! میں تمہاری سیدھے راستے کی طرف راہنمائی کرتاہوں۔ ٤۔ دنیا کی زندگی تھوڑا سا فائدہ ہے اس کے مقابلے میں آخرت کی زندگی ہمیشہ ہمیش رہے گی۔ ٥۔ نیکوکاروں اور بدکاروں کو ان کے کیے کی جزا وسزا دی جائے گی۔ ٦۔ جنتیوں کو بغیرحساب کے رزق دیا جائے گا۔ تفسیر بالقرآن نیکی کی جزا اور برائی کی سزا : ١۔ جس نے ذرہ برابر نیکی کی ہوگی وہ اس کو دیکھ لے گا۔ جس نے ذرہ برابر برائی کی ہوگی وہ بھی اس کو دیکھ لے گا۔ (الزلزال : ٧ تا ٨) ٢۔ برائیوں میں مرنے والے کے لیے جہنم ہے۔ (البقرۃ: ٧١) ٣۔ برائی کا بدلہ اس کی مثل ہی ہوگا۔ (القصص : ٨٤) ٤۔ جو ایک نیکی کرے گا اس کو دس نیکیوں کا بدلہ ملے گا جو برائی کرے گا اس کی سزا صرف اتنی ہی ہوگی۔ (الانعا م : ١٦٠) ٥۔ جس نے سرکشی کی اور دنیا کی زندگی کو ترجیح دی اس کا بدلہ جہنم ہے۔ (النازعات : ٣٧) ٦۔ نافرمانوں کو ہمیشہ کے عذاب کی سزادی جائے گی۔ (یونس : ٥٢) ٧۔ تکبر کرنے والوں کو ذلت آمیز سزا دی جائے گی۔ (احقاف : ٢٠) ٨۔ شیطان اور اس کے پیروکاروں کو جہنم کی سزا دی جائے گی۔ (بنی اسرائیل : ٦٣) ٩۔ صبر کرنے والوں کے لیے جنت کی جزا ہے۔ (الدھر : ١٢) ١٠۔ اللہ تعالیٰ صدقہ کرنے والوں کو جزا دیتا ہے۔ (یوسف : ٨٨) غافر
39 غافر
40 غافر
41 فہم القرآن ربط کلام : مرد حق کے خطاب کا آخری حصہ۔ مردِ حق نے اپنی قوم کو پہلی اقوام کی تباہی کے حوالے سے بھی سمجھایا اور پھر دنیا کی بے ثباتی بتلانے کے ساتھ جنت کی نعمتوں کی ترغیب بھی دی۔ مگر قوم سمجھنے کی بجائے الٹا اس پر دباؤ بڑھاتی ہے کہ تجھے یہ دعوت چھوڑ کر اپنی قوم کا ساتھ دینا چاہیے۔ نہ معلوم فرعون اور اس کے ساتھیوں نے مرد مومن پر کتنا دباؤ ڈالا ہوگا۔ جس سے مجبور ہو کر اللہ کا بندہ پکار اٹھتا ہے کہ اے میری قوم! تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ میں تمہیں نجات کی طرف بلاتا ہوں اور تم مجھے آگ کی طرف بلارہے ہو۔ تم مجھے اس بات کی طرف کھینچتے ہو کہ میں اللہ کے ساتھ کفر کروں اور اس کے ساتھ دوسروں کو شریک ٹھہراؤں۔ جس کے لیے میرے پاس کوئی علمی آؤڑ عقلی بنیاد نہیں۔ تم مانو یا نہ مانو میں پھر بھی تمہیں اس اللہ کی طرف بلاتا رہوں گا جو ہر اعتبار سے غالب اور اپنے بندوں کے گناہوں کو معاف کرنے والاہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ جس بات کی طرف تم مجھے بلاتے ہو اس کا دنیا اور آخرت میں کوئی ثبوت نہیں۔ یادرکھو! ہم سب نے اللہ تعالیٰ کی طرف لوٹنا ہے۔ یقین جانو! کہ حد سے آگے نکلنے والے جہنّم کی آگ میں جھونکے جائیں گے جو نصیحت میں تمہیں کررہا ہوں۔ اگر تم نے اسے قبول نہ کیا تو وقت آنے پر تم پچھتاؤ گے اور اس نصیحت کو یاد کرو گے۔ بس میں اپنا کام اللہ کے حوالے کرتا ہوں۔ یقیناً اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو پوری طرح دیکھنے والا ہے۔ مرد حق نے اپنے خطاب کے اختتام پر شرک کی بے حیثیتی کا ذکر کرتے ہوئے واضح فرمایا کہ شرک کفر ہے اور اس کی بنیاد کسی دلیل پر نہیں اور نہ ہی دنیا اور آخرت میں اس کی قبولیت ہوگی۔ کفار اور مشرکین کو اللہ تعالیٰ جہنّم میں جھونک دے گا۔ بس میں نے اپنا فرض پورا کردیا ہے اب معاملہ ” اللہ“ کے حوالے کرتاہوں جو اپنے بندوں کو ہر حال میں دیکھنے والا ہے۔ مسائل مردِ حق کے خطاب کا خلاصہ : ١۔ موسیٰ (علیہ السلام) کو اس لیے قتل کرنا چاہتے ہو کہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف بلاتے ہیں۔ ٢۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے ٹھوس دلائل کے ساتھ سمجھایا ہے کہ میرا اور تمہارا رب صرف ” اللہ“ ہے۔ ٣۔ بالفرض موسیٰ (علیہ السلام) جھوٹے ہیں تو جھوٹ کا وبال انہیں پر ہوگا۔ اگر وہ سچے ہیں تو پھر ” اللہ“ کا عذاب تمہیں آلے گا۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ جھوٹے اور زیادتی کرنیوالے کو ہدایت نہیں دیتا۔ ٥۔ ” اللہ“ کا عذاب نازل ہوا تو ہمیں کوئی بچا نہیں سکے گا۔ ٦۔ میری قوم کے لوگو! اگر تم کفر و شرک پر قائم رہے تو تمہیں قوم نوح (علیہ السلام)، عاد اور ثمود جیسے حالات سے واسطہ پڑے گا۔ ٧۔ اے میری قوم! قیامت کے دن تم ایک دوسرے کو مدد کے لیے بلاؤ گے لیکن اللہ تعالیٰ سے تمہیں کوئی چھڑا نہیں سکے گا۔ ٨۔ اے میری قوم ! تم اللہ تعالیٰ کے ارشادات کے بارے میں بلادلیل جھگڑتے ہو۔ ٩۔ اللہ تعالیٰ اور اس کے ایماندار بندے کفر و شرک پر ناراض ہوتے ہیں ١٠۔ اللہ تعالیٰ متکبّر اور سرکش انسان کے دل پر گمراہی کی مہر لگا دیتا ہے۔ ١١۔ اے میری قوم! میں تمہیں سیدھے راستے کی طرف بلاتا ہوں اور تم مجھے جہنّم کی آگ کی دعوت دیتے ہو۔ ١٢۔ اے میری قوم! یہ دنیا عارضی ہے اور آخرت ہمیشہ رہنے والی ہے۔ ١٣۔ جو برا کام کرے گا وہ اس کے برابر سزا پائے گا۔ جو نیکی کرے گا وہ اس کی جزا پائے گا۔ ١٤۔ جس مردیا عورت نے ایمان کی حالت میں صالح اعمال کیے اسے جنّت میں بے حساب رزق دیا جائے گا۔ ١٥۔ اے میری قوم ! تم مجھے کفر و شرک کی طرف بلاتے ہو اور میں تمہیں اللہ تعالیٰ کی طرف بلاتاہوں جو گناہوں کو معاف کرنے والاہے۔ ١٦۔ اے میری قوم ! جس بات کی طرف تم مجھے دعوت دیتے ہو یہ دنیا اور آخرت میں منظور نہیں ہوگی۔ ١٧۔ اے میری قوم! ہم سب نے اللہ کی طرف لوٹ کر جانا ہے اور اللہ تعالیٰ حد سے نکل جانے والوں کو آگ میں جھونک دے گا۔ ١٨۔ اے میری قوم ! وقت آنے پر تم میری دعوت اور نصیحت کو ضرور یاد کرو گے۔ ١٩۔ اے میری قوم ! میں اپنے کام کو ” اللہ“ کے حوالے کرتا ہوں۔ یقیناً اللہ تعالیٰ ہر حال میں اپنے بندوں کو دیکھنے والا ہے۔ تفسیربالقرآن شرک کے حق میں کوئی دلیل نہیں : ١۔ جو اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی غیر کو پکارتا ہے اس کے پاس کوئی دلیل نہیں ہے۔ (المؤمنون : ١١٧) ٢۔ انہوں نے اللہ کے علاوہ کئی معبود بنالیے ہیں آپ فرمائیں اس کی دلیل لاؤ۔ (الانبیاء : ٢٤) ٣۔ ” اللہ“ کے سوا کوئی اور الٰہ ہے اگر تم سچے ہو تو اس کی دلیل لاؤ۔ (النمل : ٦٤) ٤۔ وہ اللہ تعالیٰ کے سوا ان کی عبادت کرتے ہیں جن کی عبادت کے لیے کوئی دلیل نازل نہیں کی گئی۔ (الحج : ٧١) ٥۔ تم اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک ٹھہراتے ہوئے نہیں ڈرتے جس کی اس نے کوئی دلیل نازل نہیں کی۔ (الانعام : ٨١) ٦۔ اے لوگو! تمہارے پاس رب کی توحید کی دلیل آچکی ہے۔ (النساء : ١٧٥) غافر
42 غافر
43 غافر
44 غافر
45 فہم القرآن ربط کلام : مرد حق نے اپنے خطاب میں فرعون اور قوم کے سامنے وہی باتیں کیں جو موسیٰ (علیہ السلام) نے فرعون اور اس کے ساتھیوں کے سامنے پیش کی تھیں۔ جن باتوں سے فرعون اور اس کی قوم کو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور ہارون (علیہ السلام) ڈرایا کرتے تھے وہی باتیں مرد حق نے آل فرعون کو سمجھائیں مگر وہ نہ سمجھے۔ جس کے نتیجے میں انہوں نے وہی پایا جس سے ان کو ڈرایا گیا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو فرعون کی سازشوں سے محفوظ رکھا فرعون اور آل فرعون کو بدترین عذاب میں مبتلا کیا۔ عالم برزخ میں صبح و شام انہیں آگ کے سامنے پیش کیا جاتا ہے اور قیامت کے دن فرعون اور اس کے ساتھیوں کو حکم ہوگا کہ شدید ترین عذاب میں داخل ہوجاؤ۔ صبح و شام آگ کے سامنے پیش کرنے سے مراد ہر وقت جہنّم کی آگ میں جلنا ہے۔ عالم برزخ میں عذاب : ” سیدہ عائشہ (رض) کے پاس ایک یہودی عورت آئی اس نے قبر کے عذاب کا ذکر کیا اور کہنے لگی آپ کو اللہ عذاب قبر سے محفوظ فرمائے۔ سیدہ عائشہ (رض) نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عذاب قبر کے متعلق پوچھا آپ نے فرمایا ہاں عذاب قبر برحق ہے سیدہ عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ اس کے بعد میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کوئی ایسی نماز پڑھتے نہیں دیکھا جس میں آپ نے عذاب قبر سے پناہ نہ مانگی ہو۔“ غافر
46 غافر
47 فہم القرآن ربط کلام : آل فرعون اور دوسرے جہنّمیوں کا جہنّم میں کیا حال ہوگا؟ جب جہنّمی جہنم میں جھونکے جائیں گے تو وہ آپس میں جھگڑیں گے۔ جو لوگ دنیا میں جس کسی کی تابعداری کرتے تھے ان سے کہیں گے کہ ہم تمہارے تابعدار تھے۔ کیا اب تم آگ کا کچھ حصہ ہم سے ہٹا سکتے ہو۔ بڑے لوگ کہیں گے کہ ہم سب اس آگ میں اکٹھے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے درمیان فیصلہ کرچکا ہے۔ اس کا فیصلہ بدلنے کی نہ ہم میں ہمّت ہے اور نہ تم بدل سکتے ہو۔ لہٰذا ہم نے اسی آگ میں رہنا ہے۔ اس کے بعد نہایت مجبور ہو کر جہنم کے فرشتوں سے کہیں گے کہ تم ہی ہمارے لیے اپنے پروردگار سے سفارش کرو! کہ ایک دن تو عذاب سے رخصت مل جایا کرے۔ ملائکہ جواب دیں گے کہ کیا تمہارے پاس تمہیں سمجھانے والے نہیں آئے تھے ؟ جہنمی جواب دیں گے کہ کیوں نہیں وہ تو ہمیں سمجھاتے رہے لیکن ہماری بدبختی ہم پر غالب آگئی۔ فرشتے کہیں گے۔ ہم میں تو تمہاری سفارش کرنے کی ہمت نہیں۔ تم خود ہی اپنے رب سے فریاد کرو! لیکن کفار کا فریاد کرنا انہیں کچھ فائدہ نہ دے گا۔ دوسرے مقام پر جہنّمیوں کی حالت زار کو یوں بیان کیا گیا ہے۔ (وَسِیقَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا اِِلٰی جَہَنَّمَ زُمَرًا حَتّٰی اِِذَا جَاءُوہَا فُتِحَتْ اَبْوَابُہَا وَقَالَ لَہُمْ خَزَنَتُہَا اَلَمْ یَاْتِکُمْ رُسُلٌ مِّنْکُمْ یَتْلُوْنَ عَلَیْکُمْ اٰیٰتِ رَبِّکُمْ وَیُنْذِرُوْنَکُمْ لِقَاءَ یَوْمِکُمْ ہٰذَا قَالُوْا بَلٰی وَلٰکِنْ حَقَّتْ کَلِمَۃُ الْعَذَابِ عَلَی الْکٰفِرِیْنَ قِیْلَ ادْخُلُوْا اَبْوَابَ جَہَنَّمَ خٰلِدِیْنَ فِیْہَا فَبِءْسَ مَثْوَی الْمُتَکَبِّرِیْنَ)[ الزمر : ٧١، ٧٢] ” کافرگروہ در گروہ جہنم کی طرف ہانکے جائیں گے۔ جب وہ جہنم کے پاس پہنچے جائیں گے تو اس کے دروازے کھول دیئے جائیں گے۔ جہنم کے دربان جہنمیوں سے سوال کریں گے کہ کیا تمہارے پاس تم میں سے رسول نہیں آئے تھے ؟ تمہیں تمہارے رب کی آیات سناتے تھے اور تمہیں اس دن کی ملاقات سے ڈراتے۔ جہنمی جواب دیں گے کہ ہاں آئے تھے لیکن عذاب کا حکم ہم پر ثابت ہوگیا۔ کہا جائے گا کہ اب جہنّم کے دروازوں سے داخل ہوجاؤ ! جہاں تم نے ہمیشہ رہنا ہے، پس سرکشوں کا ٹھکانہ بہت ہی برا ہے۔“ (قَالَ ادْخُلُوْا فِیْٓ اُمَمٍ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِکُمْ مِّنَ الْجِنِّ وَ الْاِنْسِ فِی النَّارِکُلَّمَا دَخَلَتْ اُمَّۃٌ لَّعَنَتْ اُخْتَھَاحَتّآی اِذَا ادَّارَکُوْا فِیْھَا جَمِیْعًاقَالَتْ اُخْرٰیھُمْ لِاُوْلٰھُمْ رَبَّنَا ھآؤُلَآءِ اَضَلُّوْنَا فَاٰتِھِمْ عَذَابًا ضِعْفًا مِّنَ النَّارِ قَالَ لِکُلٍّ ضِعْفٌ وَّ لٰکِنْ لَّا تَعْلَمُوْنَ وَ قَالَتْ اُوْلٰھُمْ لِاُخْرٰیھُمْ فَمَا کَانَ لَکُمْ عَلَیْنَا مِنْ فَضْلٍ فَذُوْقُوا الْعَذَابَ بِمَا کُنْتُمْ تَکْسِبُوْن)[ الاعراف : ٣٨، ٣٩] ” اللہ تعالیٰ فرمائے گا ان جماعتوں کو جو تم سے پہلے گزرچکی ہیں آگ میں داخل ہوجاؤ، جب بھی کوئی جماعت داخل ہوگی اپنے سے پہلی جماعت پر لعنت کرے گی یہاں تک کہ جب سب ایک دوسرے سے آملیں گے تو ان کی پچھلی جماعت اپنے سے پہلی جماعت کے متعلق کہے گی اے ہمارے رب ! ان لوگوں نے ہمیں گمراہ کیا تھا تو انہیں آگ کا دگنا عذاب دے۔ اللہ فرمائے گا سبھی کے لیے دگنا ہے لیکن تم نہیں جانتے۔ اور ان کی پہلی جماعت اپنے سے بعد والی جماعت سے کہے گی تمہیں ہم پر کوئی برتری حاصل نہیں عذاب چکھو اس کے بدلے جو تم کمایا کرتے تھے۔“ مسائل ١۔ جہنمی جہنم میں ایک دوسرے سے جھگڑا کریں گے۔ ٢۔ کمزور اپنے بڑوں سے کہیں گے کہ ہماری کچھ نہ کچھ مدد کرو! ٣۔ بڑے کہیں گے کہ اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہوچکا۔ ہم تمہاری مدد نہیں کرسکتے۔ ٤۔ جہنمی جہنم کے فرشتوں سے کہیں گے کہ اپنے رب سے فریاد کرو ! لیکن ملائکہ سفارش کرنے سے انکار کریں گے۔ تفسیربالقرآن جہنم میں جہنمیوں کا آپس میں جھگڑا کرنا : ١۔ قیامت کے دن پیر مرید ایک دوسرے کا انکار کریں گے اور ایک دوسرے پر پھٹکار کریں گے۔ (العنکبوت : ٢٥) ٢۔ قیامت کے دن پیشوا اپنے پیرو کاروں سے براءت کا اظہار کریں گے۔ (البقرۃ: ١٦٦) ٣۔ قیامت کے دن گمراہ پیروں اور لیڈروں کے پیچھے لگنے والے کہیں گے اگر دنیا میں جانا ہمارے لیے ممکن ہو تو ہم تم سے علیحدگی اختیار کریں گے۔ (البقرۃ: ١٦٥) ٤۔ کمزور بڑوں سے کہیں گے کہ اگر تم نہ ہوتے تو ہم مومن ہوتے۔ (سبا : ٣٢۔ ٣١) ٥۔ قیامت کے دن مجرم دوزخ میں جھگڑیں گے تو چھوٹے لوگ اپنے بڑوں سے کہیں گے کہ ہم تو تمہارے تابع تھے۔ (المومن : ٤٨) ٦۔ قیامت کے دن جہنمیوں کا آپس میں جھگڑنا یقینی ہے۔ ( ص : ٦٤ ) ٧۔ مجرم اپنے آپ کو جہنم سے بچانے کے لیے اپنے برے اعمال کا کلیتاً انکار کریں گے۔ (الانعام : ٢٣) ٨۔ مجر م اپنی جان بچانے کے لیے اپنے گناہوں کی ذمہ داری دوسروں پر ڈالیں گے۔ (الاحزاب : ٦٦۔ ٦٨) غافر
48 غافر
49 غافر
50 غافر
51 فہم القرآن ربط کلام : قیامت کے دن کفار کی فریاد بھی قبول نہ ہوگی۔ ان کے مقابلے میں اللہ تعالیٰ دنیا میں اپنے رسولوں اور مومنوں کی مدد کرتا ہے اور اس دن بھی مدد کرے گا جس دن گواہ پیش کیے جائیں گے۔ اللہ تعالیٰ اپنے رسولوں اور بندوں کی دنیا میں مدد کرتا ہے اور قیامت کے دن بھی مدد فرمائے گا۔ جس دن ظالموں کی معذرت تک قبول نہیں کی جائے گی۔ ان کے لیے برا ٹھکانہ ہوگا اور ان پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہمیشہ پھٹکار برستی رہے گی۔ دنیا میں رسولوں اور مومنوں کی مدد کرنے کی کئی صورتیں ہوسکتی ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ کے سوا پوری طرح کوئی نہیں جانتا۔ تاہم قرآن مجید، تاریخ اور انبیاء کی سیرت سے جو بات سمجھ میں آتی ہے وہ اس طرح ہے۔ 1 اللہ تعالیٰ نے انبیائے کرام (علیہ السلام) کو اخلاق اور کردار کے حوالے سے ہمیشہ سربلند فرمایا۔ جس کا اعتراف ان کے مخالفین بھی کرتے تھے۔ 2 انبیائے کرام (علیہ السلام) کی دعوت کی سچائی کفار بھی دل میں تسلیم کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے کئی انبیائے کرام (علیہ السلام) کو شہادت کے منصب پر فائز فرمایا۔ جوہر نبی کی تمنا تھی اور یہی ہر مومن کی خواہش ہوتی ہے۔ 3 اللہ تعالیٰ نے بعض انبیاء ( علیہ السلام) کو نبوت کے ساتھ سیاسی اقتدار بھی نصیب فرمایا۔ 4 کفار اور مشرکین انبیاء ( علیہ السلام) کی دعوت مٹانا چاہتے لیکن اللہ تعالیٰ نے انبیاۓ کرام (علیہ السلام) کا کام اور نام باقی رکھا 5 اللہ تعالیٰ نے بعض انبیائے کرام (علیہ السلام) کو نبوت کے ساتھ دنیا کے مال و اسباب سے بھی ہمکنار فرمایا۔ 6 اللہ تعالیٰ نے بالآخر انبیائے کرام (علیہ السلام) کے دشمنوں کو ذلیل کیا اور اپنے رسولوں کو دنیا میں احترام اور مقام بخشا۔ 7 اللہ تعالیٰ بے شمار نیک بندوں کو دنیا میں بھی کفار سے برتر رکھتا ہے۔ 8 اللہ تعالیٰ قیامت کے دن ہر صورت اپنے رسولوں اور بندوں کو معزز فرمائے گا۔ 9 اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اپنے رسولوں اور بندوں کی سفارش قبول کرے گا۔ ان کے مقابلے میں کفار کی معذرت بھی قبول نہیں کی جائے گی۔ 0 اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اپنے رسولوں اور بندوں کو بے حساب انعامات سے نوازے گا۔ ان کے مقابلے میں کفار پر اللہ تعالیٰ اور اس کے ملائکہ لعنت برسائیں گے۔ ! قیامت کے دن اللہ تعالیٰ انبیائے کرام (علیہ السلام) اور مومنوں کو جنّت میں اعلیٰ مقام دے گا اور ان کے مخالفین کو جہنّم میں جھونکا جائے گا۔ جو رہنے کے اعتبار سے بدترین ٹھکانہ ہوگا۔ تفسیربالقرآن لعنت کن لوگوں پر برستی ہے : ١۔ شیطان لعنتی ہے۔ (النساء : ١١٨) ٢۔ شیطان پر قیامت تک لعنت برستی رہے گی۔ (ص : ٧٥) ٣۔ اصحاب السبت لعنتی ہیں۔ (النساء : ٤٧) ٤۔ جھوٹے پر لعنتی برستی ہے۔ (آل عمران : ٦١) ٥۔ ظالم پر لعنت برستی ہے،(ھود : ١٨) ٦۔ حق چھپانے والے لعنتی ہیں۔ (البقرۃ: ١٥٩) ٧۔ اللہ اور رسول کو تکلیف دینے والے لعنتی ہیں۔ (الاحزاب : ٥٧) ٨۔ یہودی لعنتی ہیں۔ (المائدۃ: ٧٨) ٩۔ بے گناہ مومن کو جان بوجھ کر قتل کرنے والے پر لعنت اور اللہ کا عذاب ہوگا۔ (النساء : ٩٣) ١٠۔ کافروں پر اللہ تعالیٰ کی لعنت اور جہنم کا عذاب۔ (الاحزاب : ٦٤) ١١۔ ظالموں کے لیے جہنم کا عذاب اور لعنت ہے۔ (حٰمٓ السجدۃ: ٥٢) ١٢۔ یہودیوں پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہے۔ (المائدۃ: ٦٤) ١٣۔ جہنمی ایک دوسرے پر لعنت کریں گے۔ (الاعراف : ٣٨) ١٤۔ منافقین پر اللہ تعالیٰ کی لعنت اور جہنم کا عذاب ہوگا۔ (الفتح : ٦) ١٥۔ بچھڑا پوجنے والوں پرخدا کی لعنت ہوئی۔ (طٰہٰ: ٨٧) ١٦۔ اللہ اور رسول کو ایذا پہنچانے والوں پرلعنت برستی ہے۔ (الاحزاب : ٥٧) ١٧۔ اللہ تعالیٰ کے کلام کو بدلنے کی وجہ سے یہودیوں پر لعنت کی گئی۔ (النساء : ٤٦) ١٨۔ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کیے ہوئے میثاق کو توڑنے پر لعنت ہوئی۔ (الرعد : ٢٥) غافر
52 غافر
53 فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ نے لوگوں کی راہنمائی کے لیے موسیٰ (علیہ السلام) کو ہدایت اور کتاب کے ساتھ مبعوث فرمایا اور بنی اسرائیل کو تورات کا وارث بنایا۔ جس میں عقل مندوں کے لیے نصیحت اور راہنمائی موجود ہے۔ کتاب سے مراد تورات ہے جو پہلی آسمانی کتابوں کی ترجمان ہے اور ہدایت سے مراد وہ راہنمائی ہے جس پر اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو چلنے کی توفیق دیتا ہے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے بعد آنے والے انبیائے کرام (علیہ السلام) اور علماء کی ذمہ داری لگائی گئی کہ وہ اس کتاب کے مطابق لوگوں کی راہنمائی کریں۔ جو عقل مندوں کے لیے راہنمائی اور نصیحت کا سرچشمہ تھی۔ اولی الالباب کی تخصیص اس لیے کی گئی ہے کہ صحیح عقل مند وہی ہوتا ہے جو اللہ کی ہدایت پر مستقل مزاجی سے گامزن رہتا ہے۔ اسی لیے رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم ہوا کہ آپ کے راستے میں جو مشکلات آرہی ہیں اس پر صبر فرمائیں اور یقین رکھیں کہ اللہ کا وعدہ سچا اور پکا۔ اپنی کوتاہیوں کی معافی مانگو اور صبح و شام اپنے رب کی حمد کرتے رہو! آپ کے رب کا وعدہ سچا ہے وہ آپ کی ضرور مدد فرمائے گا۔ حالات کے جبر سے پریشان ہو کر صحابہ کرام (رض) باربار نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں عرض کرتے کہ اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے رب سے عرض کیجیے کہ کوئی ایسا معجزہ نازل کرے جس سے کفار ایمان لانے پر مجبور ہوجائیں یا پھر انہیں تہس نہس کردیاجائے۔ ان حالات کی وجہ سے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دل میں کئی باربار یہ خیال پیدا ہوتا کہ اللہ تعالیٰ کی مدد کیوں نازل نہیں ہورہی۔ اللہ کی مدد طلب کرنا ہر شخص کے لیے لازم ہے۔ لیکن نبی کا مقام اتنا ارفع ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ معمولی عجلت بھی پسند نہیں کرتا۔ آپ عجلّت پسندی پر اپنے رب سے معافی مانگیں۔ اس کی تشریح کرتے ہوئے بریلوی مکتبہ فکر کے ترجمان پیر کرم شاہ صاحب لکھتے ہیں۔ افضل اور اولیٰ کا ترک عام لوگوں کے لیے جرم اور گناہ تصور نہیں ہوتا۔ لیکن مقرّبین صمدیت سے غیر اولیٰ کا صدور بھی قابلِ مؤاخذہ ہوتا ہے۔ یہاں بھی جس ذنب سے استغفار کی ہدایت کی جارہی ہے اس سے مراد ایسے امر سے استغفارہے جو بذات خود اگرچہ مباح اور جائز ہے لیکن نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مقام رفیع اور شان عالی کے شایان شان نہیں اور سالکان راہ محبت سے یہ چیز مخفی نہیں کہ منزل محبوب کی طرف ان کے سفر میں ایک لمحہ کے لیے توقف بھی ناقابل برداشت ہے اور لائقِ صدا استغفار ہے۔ (ضیاء القرآن جلد ٤ ص : ٣١١، ٣١٢) صبح و شام تسبیح کرنے کے دو مطلب ہوسکتے ہیں۔ ایک یہ کہ ہمیشہ اللہ کو یاد کرتے رہو! دوسرا یہ کہ ان مخصوص اوقات میں نماز ادا کرو! یہ دوسرے معنٰی لینے کی صورت میں اشارہ نماز کے ان پانچوں اوقات کی طرف ہے جو اس سورت کے نزول کے کچھ مدت بعد تمام اہل ایمان پر فرض کردیئے گئے۔ اس لیے عشیّ کا لفظ عربی زبان میں زوال آفتاب سے لیے کر رات کے ابتدائی حصے تک کے لیے بولا جاتا ہے جس میں ظہر سے عشاء تک کی چاروں نمازیں آجاتی ہیں۔ اور ابکار صبح کی پَو پھوٹنے سے طلوع آفتاب تک کے وقت کو کہتے ہیں جو نماز فجر کا وقت ہے۔ (تفہیم القرآن جلد ٤) (عَنِ ابْنِ عُمَرَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَا أَیُّہَا النَّاسُ تُوْبُوْا إِلَی اللَّہِ فَإِنِّی أَتُوْبُ فِی الْیَوْمِ إِلَیْہِ ماءَۃَ مَرَّۃٍ) [ رواہ مسلم : کتاب الذکر والدعاء والتوبۃ، باب اسْتِحْبَاب الاِسْتِغْفَارِ وَالاِسْتِکْثَارِ مِنْہُ] ” حضرت ابن عمر (رض) سے ہی روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا لوگو! اللہ تعالیٰ کے حضور توبہ کرو۔ بلاشبہ میں ہر روز سو مرتبہ توبہ کرتا ہوں۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو تورات اور راہنمائی سے سرفراز فرمایا۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو تورات کا وارث بنایا۔ ٣۔ عقل مند لوگ ہی نصیحت حاصل کرتے اور اپنے رب کی ہدایت پر چلتے ہیں۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ کے وعدے سچے ہوتے ہیں۔ ٥۔ انسان کو اپنے گناہوں کی معافی مانگتے رہنا چاہیے۔ ٦۔ ہر مسلمان کو نماز کی پابندی اور بالخصوص صبح و شام اپنے رب کا ذکر کرنا چاہیے۔ غافر
54 غافر
55 غافر
56 فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ کی طرف سے واضح راہنمائی آجانے کے باوجود جو لوگ اس کے بارے میں جھگڑا کرتے ہیں۔ درحقیقت ان لوگوں کے دلوں میں کبر ہوتا ہے۔ جو لگ اللہ تعالیٰ کے ارشادات کے بارے میں جھگڑا کرتے ہیں۔ ان کے پاس جھگڑا کرنے کی کوئی دلیل نہیں۔ سوائے اس کے کہ ان کے دلوں میں یہ خواہش اور کوشش ہے کہ حق پر غالب آجائیں اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بڑا بن جائیں۔ مگر ان کی خواہش کبھی پوری نہ ہو پائے گی۔ اے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ” آپ“ ہر قسم کے کبر، فخر سے پناہ مانگیں۔ یقیناً اللہ تعالیٰ ہر بات کوسننے اور سب کچھ دیکھنے والا ہے۔ اس فرمان میں یہ بات واضح کردی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی آیات سے ساتھ جھگڑا کرنے والوں کے پاس تکبر کے سوا کوئی معقول وجہ نہیں ہوتی۔ کِبر کی بنیاد عام طور پر دوباتوں پر ہوتی ہے۔ پہلی وجہ ہے کہ آدمی دوسرے کو اپنے آپ سے نیچ سمجھے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ تکبر کرنے والا اپنے نظریات کو سچی بات پر مقدم جانتا ہے۔ اہل مکہ میں دونوں گناہ پائے جاتے تھے ان کا کہنا تھا کہ اگر اللہ تعالیٰ نے واقعی ہی کسی شخص کو نبی بنانا ہوتا تو وہ عمرو بن ہشام (ابوجہل) یا پھر طائف کے سردار اس لائق تھے کہ ان میں سے کسی کو نبی بنایا جاتا۔ مکہ والوں میں یہ کبر بھی پایا جاتا تھا۔ وہ کہتے تھے کیا ہم محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے کہنے پر اپنے آباء اجداد کا دین چھوڑ دیں۔ اس کبر کی وجہ سے مکہ کے کئی سردار ہدایت سے محروم رہے۔ اللہ تعالیٰ کو کبر پسند نہیں۔ اس لیے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیا گیا کہ آپ اللہ کے حضور کبر سے پناہ مانگا کریں۔ یقیناً اللہ تعالیٰ ہر بات سننے والا اور ہر چیز کو دیکھنے والا ہے۔ اللہ تعالیٰ کو معلوم ہے کہ کون کس نیت کے ساتھ بات کرتا ہے اور حق کی مخالفت کرتا ہے اور حق کی مخالفت کرنے والے دل میں کیا جذبات چھپے ہوئے ہیں۔ (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَسْعُودٍ (رض) عَنْ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ لَا یَدْخُلُ الْجَنَّۃَ مَنْ کَانَ فِی قَلْبِہٖ مِثْقَالُ ذَرَّۃٍ مِنْ کِبْرٍ قَالَ رَجُلٌ إِنَّ الرَّجُلَ یُحِبُّ أَنْ یَکُونَ ثَوْبُہٗ حَسَنًا وَنَعْلُہٗ حَسَنَۃً قَالَ إِنَّ اللّٰہَ جَمِیلٌ یُحِبُّ الْجَمَالَ الْکِبْرُ بَطَرُ الْحَقِّ وَغَمْطُ النَّاسِ)[ رواہ مسلم : کتاب الایمان، باب تحریم الکبر] ” حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں کہ جس شخص کے دل میں ذرہ برابر بھی تکبر ہوگا وہ جنت میں داخل نہیں ہوگا۔ ایک آدمی نے عرض کی کہا بلاشبہ ہر آدمی پسند کرتا ہے کہ اس کے کپڑے اور جوتے اچھے ہوں، نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ تعالیٰ خوبصورت ہے اور خوبصورتی کو پسند کرتا ہے۔ تکبر حق کو جھٹلانا اور لوگوں کو حقیر جاننا ہے۔“ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعا : (عَنْ أَنَسٍ (رض) قَالَ کَانَ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَتَعَوَّذُ بِہَؤُلاَءِ الْکَلِمَاتِ کَانَ یَقُول اللَّہُمَّ إِنِّی أَعُوذُ بِکَ مِنَ الْکَسَلِ وَالْہَرَمِ وَالْجُبْنِ وَالْبُخْلِ وَسُوءِ الْکِبَرِ وَفِتْنَۃِ الدَّجَّالِ وَعَذَابِ الْقَبْرِ)[ رواہ النسائی : باب الاستعاذۃ من شر الکبر] ” حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کلمات کے ساتھ پناہ مانگا کرتے تھے ” اے اللہ! میں سستی، بڑھاپے، بزدلی، بخیلی، تکبرکی برائی، دجّال کے فتنہ اور قبرکے عذاب سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ کی آیات کو جھٹلانا یا ان کا انکار کرنا آیات کے ساتھ جھگڑا کرنے کے مترادف ہے۔ ٢۔ تکبر انسان کو حق بات قبول کرنے نہیں دیتا۔ ٣۔ تکبر سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگنا چاہیے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ ہر بات سننے والا اور سب کچھ دیکھنے والاہے۔ تفسیربالقرآن کِبر کا گناہ اور اس کے نقصانات : ١۔ اللہ تعالیٰ فخر وغرور کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا۔ (النساء : ٣٦) ٢۔ اللہ تعالیٰ نے جو تمہیں دیا ہے اس پر نہ اتراؤ اللہ فخر کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ (الحدید : ٢٣) ٣۔ زمین میں اکڑ اکڑ کر نہ چل تو زمین کو پھاڑ نہیں سکتا۔ (بنی اسرائیل : ٣٧) ٤۔ زمین میں اکڑاکڑکر نہ چل اللہ تعالیٰ اترانے والے کو پسند نہیں کرتا۔ (لقمان : ١٨) ٥۔ آخرت کا گھر ان لوگوں کے لیے تیار کیا گیا ہے جودنیا میں تکبر اور فساد نہیں کرتے۔ (القصص : ٨٣) غافر
57 فہم القرآن ربط کلام : حق کے بارے میں کبر اختیار کرنے والوں کو دیکھنا اور سوچنا چاہیے کہ پیدائش اور وجود کے اعتبار سے وہ بڑے ہیں یا زمین و آسمان بڑے ہیں۔ ظاہر ہے کہ زمین و آسمان بڑے ہیں مگر جو لوگ بلادلیل اللہ کی آیات کے بارے میں جھگڑتے ہیں حقیقتاً وہ اندھے ہیں اس لیے بہت کم نصیحت حاصل کرتے ہیں۔ ان کو معلوم ہونا چاہیے کہ قیامت برپا ہونے والی ہے جس کے بارے میں یہ شک یعنی قیامت کے دن ان کے کبر کا فیصلہ ہوجائے گا۔ جب آدمی تکبر کا شکار ہوجاتا ہے تو حقیقت پر غور کرنا تو درکنار اسے سننا بھی پسند نہیں کرتا۔ ایسا آدمی کافر ہے تو قولاً بھی قیامت کا انکار کرتا ہے۔ پھر اپنے انکار کو برحق ثابت کرنے کے لیے کہتا ہے کہ جب انسان مر کرمٹی کے ذرات بن جاتا ہے تو پھر اسے کس طرح زندہ کیا جاسکتا ہے۔ آخرت کے منکر یہ بھی کہتے ہیں کہ ہزاروں سال گزر چکے لیکن آج تک کوئی شخص مر کر زندہ نہیں ہوا۔ ان لوگوں کے کان کھولنے کے لیے اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے۔ اے قیامت کا انکار کرنے والو! ذرا رمین و آسمان کی تخلیق پر غور کرو کہ اللہ تعالیٰ نے اس وسیع و عریض زمین اور بلند وبالا آسمانوں کو کس طرح پیدا کیا ہے۔ کیا لوگوں کو پیدا کرنا بڑا کام ہے یا زمین و آسمان کو پیدا کرنا بڑا کام ہے ؟ اتنی واضح حقیقت دیکھنے اور جاننے کے باوجود لوگوں کی اکثریت اس کو ماننے کے لیے تیار نہیں۔ جو لوگ کھلے حقائق کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ حقیقت میں وہ اندھے ہیں اندھا اور بینا برابر نہیں ہوسکتے۔ اور نہ ہی باطل عقیدہ رکھنے والے اور برے کردار کے حامل لوگ صالح اعمال کرنے والوں کے برابر ہوسکتے ہیں۔ برے لوگوں کو اسے لیے اندھا کہا گیا ہے کہ یہ ان کے اندھے پن کی دلیل ہے کہ کوئی شخص یہ کہے کہ قیامت قائم نہیں ہوگی۔ اگر قیامت قائم نہیں ہوگی تو دنیا میں بے بس مظلوم کو انصاف کہاں سے ملے گا ؟ کیا ظالم کو اللہ تعالیٰ نے اس لیے پیدا کیا ہے کہ وہ کمزوروں پر ظلم کرتارہے اور اسے پوچھنے والا کوئی نہ ہو۔ کیا ایسا سوچنا اور عقیدہ رکھنا اندھے پن کی دلیل نہیں؟ ایک آدمی دنیا میں اپنے رب سے ڈر ڈر کر زندگی گزارتا اور دوسرا اپنے رب کے ساتھ کفر و شرک کرتا اور ہر قسم کی نافرمانی کرتا رہتا ہے۔ کیا نیک کو جزا دینے والا اور نافرمان کو سزا دینے والا کوئی نہیں ہونا چاہیے ؟ اگر ہونا چاہیے تو اس کے لیے ایک وقت اور مقام ہونا بھی ضروری ہے اس دن کا نام قیامت اور اس جگہ کا نام محشر ہے۔ لہٰذا تم مانو یا انکار کرو قیامت آکر رہے گی۔ جو اس پر ایمان لاتا ہے اور اس کے تقاضے پورے کرتا ہے وہ بینا اور نیک ہے۔ جو اس کا انکار کرتا ہے وہ اندھا اور متکبر ہے۔ عقل کا تقاضا ہے کہ قیامت ضرور برپا ہونی چاہیے لیکن اس کے باوجود اکثر لوگ اس پر ایمان لانے اور اپنے رب کی نصیحت قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ ” حضرت شداد بن اوس (رض) سے روایت ہے وہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا دانا وہ ہے جس نے اپنے آپ کو عقل مند بنالیا اور موت کے بعد والی زندگی کے لیے عمل کیے اور نادان وہ ہے جس نے اپنے آپ کو خواہشات کے پیچھے لگا لیا اور اللہ تعالیٰ سے امید رکھی۔“ [ رواہ الترمذی : باب الکیس من دان نفسہ] مسائل ١۔ لوگوں کو پیدا کرنے سے زمین و آسمان کو پیدا کرنا بڑاکام ہے۔ ٢۔ اندھا اور دیکھنے والا برابر نہیں ہوتے۔ ٣۔ صالح کردار ایمان دار اور براشخص برابر نہیں ہوسکتے۔ ٤۔ لوگوں کی اکثریت نصیحت قبول کرنے پر تیار نہیں ہوتی۔ تفسیربالقرآن قیامت ہر صورت برپا ہو کر رہے گی : ١۔ یقیناً قیامت آنے والی ہے۔ (الحجر : ٨٥) ٢۔ یقیناً قیامت آنے والی ہے اور اللہ تعالیٰ لوگوں کو ان کی قبروں سے اٹھائے گا۔ (الحج : ٧) ٣۔ قیامت برپا ہونے میں کوئی شک نہیں اللہ تعالیٰ کا وعدہ سچا ہے۔ (الکہف : ٢١) ٤۔ اے لوگو! اللہ سے ڈر جاؤ بے شک قیامت کا زلزلہ بہت بڑی چیز ہے۔ (الحج : ١) ٥۔ کافر ہمیشہ شک میں رہیں گے، یہاں تک کہ قیامت اچانک آجائے گی۔ (الحج : ٥٥) غافر
58 غافر
59 غافر
60 فہم القرآن ربط کلام : اندھے پن سے نجات اور قیامت کی ہولناکیوں سے بچنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ صرف ایک رب کی عبادت کی جائے۔ اور صرف اسی سے دعائیں کی جائیں۔ قیامت کا انکار کرنے والوں کی اکثریت ہمیشہ ایسی رہی ہے جو اپنے رب کی عبادت کرنے اور صرف اسی سے مانگنے کی بجائے بتوں، دیوتاؤں، جنّات اور فوت شدہ بزرگوں سے بالواسطہ یا بلاواسطہ مانگتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے سوا بالواسطہ یا بلاواسطہ کسی اور ہستی سے مانگنا اپنے رب کے ساتھ تکبّر کرنا ہے۔ کیونکہ اس کا حکم ہے کہ لوگو! صرف مجھ ہی سے مانگا کرو۔ میں ہی تمہاری دعاؤں کو قبول کرتا ہوں۔ جو لوگ للہ تعالیٰ سے اس کے حکم کے مطابق نہیں مانگتے وہ متکبر ہیں۔ اس کا فرمان ہے کہ عنقریب میں متکبرین کو جہنم میں ذلیل کروں گا۔ اس آیت کریمہ میں ہمارے رب کا حکم ہے کہ لوگو! دعا مجھ ہی سے کیا کرو۔ پھر اس دعا کو عبادت قرار دیا ہے۔ قرآن مجید میں ” اُدْعُوْا“ کو تین معنوں میں استعمال کیا گیا ہے۔ دعا بمعنٰی عبادت : (وَقَالَ رَبُّکُمُ ادْعُوْنِیْ اَسْتَجِبْ لَکُمْ إِنَّ الَّذِےْنَ ےَسْتَکْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِیْ سَےَدْ خُلُوْنَ جَھَنَّمَ دٰخِرِےْنَ) [ المومن : ٦٠] ” تمہارے رب کا ارشاد ہے کہ مجھے پکارو میں تمہاری دعائیں قبول کروں گا جو لوگ میری عبادت سے بے پرواہی کرتے ہیں ضرور وہ ذلیل وخوار ہو کر جہنم میں داخل ہوں گے۔“ دعا کا معنی مدد طلب کرنا : (وَادْعُوْا شُھَدَاٰءَ کُمْ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ إِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِےْنَ) [ البقرۃ: ٢٣] ” اللہ کے بغیر اپنے مدد گاروں سے مدد مانگواگر تم اپنے دعوے میں سچے ہو۔“ دعا اور پکار : (وَلَا تَدْعُ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ مَا لَا ےَنْفَعُکَ وَلَا ےَضُرُّکَ فَإِنْ فَعَلْتَ فَإِنَّکَ إِذًا مِّنَ الظّٰلِمِےْنَ) [ یونس : ١٠٦] ” اور اللہ کو چھوڑ کر کسی ایسی ہستی کو نہ پکار جو تجھے نہ فائدہ پہنچا سکتی ہے اور نہ نقصان اگر تو ایسا کرے گا تو ظالموں میں سے ہوگا۔“ دعا اور عقیدہ : انسان جس سے مانگتا ہے اس کے بارے میں تین باتوں میں سے کوئی ایک بات اس کے سامنے ضرور ہوتی ہے۔ وہ مجھے دیکھتا ہے، میری فریاد کو سنتا ہے اور میری مدد کرتا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ اوصاف اور قدرت رکھنے والاتو صرف ایک ” اللہ“ ہے۔ لہٰذا جو شخص ان میں کسی ایک بات کے بارے میں عقیدہ رکھتا ہے کہ یہ خوبی فلاں بزرگ، فرشتے، جن یا کسی اور میں بھی پائی جاتی ہے۔ تو وہ صرف شرک ہی نہیں کرتا بلکہ کفر کا مرتکب بھی ہوتا ہے۔ کیونکہ ان میں کوئی خوبی اللہ تعالیٰ کے سوا کسی میں حقیقی طور پر نہیں پائی جاتی۔ ( اَلدُّعَاءُ ہُوَ الْْعِبَادَۃُ) [ رواہ أبوداوٗد : کتاب الصلوۃ، باب الدعاء] ” دعا عبادت ہے۔“ (رُوْحُ الدُّعَاءِ اَنْ یَّرٰی کُلَّ حَوْلٍ وَقُوَّۃٍ مِنَ اللّٰہِ وَےَصِےْرُ کَالْمَےِّتِ فِیْ ےَدِ الْغُسَّالِ) [ حجۃ اللّٰہ البالغۃ] ” دعا کی روح یہ ہے کہ دعا کرنے والا ہر قسم کی طاقت وقوت کا سر چشمہ اللہ تعالیٰ کی ذات کو تصور کرے اور اس کی قوت وعظمت کے سامنے اپنے آپ کو اس میت کی طرح سمجھے جو نہلانے والے کے ہاتھوں میں ہوتی ہے۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ مجھ سے مانگو میں تمہاری دعا کو قبول کرتا ہوں۔ ٢۔ جو لوگ صرف ایک رب سے نہیں مانگتے وہ تکبر کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ تکبر کرنے والوں کو جہنم میں داخل کریگا۔ تفسیر بالقرآن دعا کے بارے میں ہدایات : ١۔ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ مجھ سے مانگو۔ ( المؤمن : ٦٠) ٢۔ اللہ تعالیٰ شہ رگ سے زیادہ قریب ہے۔ ( ق : ١٦) ٣۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ میں اپنے بندوں کے قریب ہوں اور ان کی دعاؤں کو قبول کرتا ہوں۔ ( البقرۃ: ١٨٦) ٤۔ اے لوگو! تم محتاج ہو اور اللہ تعالیٰ غنی ہے۔ ( فاطر : ١٥) ٥۔ ہمارے رب ہم نے ایمان کی دعوت قبول کی تو ہماری خطاؤں کو معاف فرما۔ (آل عمران : ١٩٣ ) ٦۔ اے رب ہمارے ! ہمیں اور ہمارے مومن بھائیوں کو معاف فرما۔ (الحشر : ١٠) ٧۔ جب طالوت اور جالوت کے لشکر بالمقابل ہوئے تو انھوں نے کہا اے ہمارے پروردگار ہم پر صبر نازل فرما اور ہمیں ثابت قدم فرما اور کافروں کی قوم پر ہماری مدد فرما۔ (البقرۃ: ٢٥٠) ٨۔ وہ کہتے ہیں اے ہمارے رب بے شک ہم ایمان لائے ہمارے گناہ معاف فرما اور ہمیں آگ کے عذاب سے محفوظ فرما۔ (آل عمران : ١٦) غافر
61 فہم القرآن ربط کلام : جس رب کی عبادت کرنے اور اس سے مانگنے کا حکم دیا گیا ہے اس کی صفات یہ ہیں۔ جوکسی اور میں نہیں پائی جاتیں۔ لہٰذا صرف اسی کی عبادت کرو اور اسی کے سامنے اپنا دامن حاجت پھیلاؤ۔ جس طرح تمہاری نیند کے بعد تمہیں اٹھاتا ہے اسی طرح تمہاری موت کے بعد تمہیں اٹھائے گا اور تم سے حساب لے گا۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اپنی جن قدرتوں کا کئی بار تذکرہ کیا ہے ان میں سے لیل و نہار بھی ہیں۔ انہیں اپنی قدرت کی عظیم دلیل کے طور پر پیش کیا ہے۔ رات کو لباس اور باعث سکون بنایا ہے۔ رات کے مقابلے میں دن ہے جس کے لیے یہاں ” مُبْصِراً“ کا لفظ استعمال کیا ہے۔ یعنی دن کو دیکھنے والا بنایا گیا ہے۔ لیل و نہار کو بنانے والا ” اللہ“ اپنے بندوں پر بڑا ہی فضل کرنے والا ہے لیکن اکثر لوگ اس کا شکر ادا نہیں کرتے۔ یہاں شکر سے پہلی مراد یہ ہے کہ آدمی صرف ایک رب کی عبادت کرے اور اسی کے سامنے اپنا دامن حاجت پھیلائے۔ جو لوگ ایسا نہیں کرتے وہ اپنے رب کے ناشکرے اور متکبر ہیں۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ ہی لوگوں کا رب ہے اور اسی نے ہر چیز پیدا فرمائی ہے اس کے سوا نہ کسی نے کوئی چیز پیدا کی اور نہ کسی کی عبادت کرنا جائز ہے۔ نہ اس کے سوا کوئی ذات ایسی ہے جو اپنی مخلوق کی ضرورتیں پوری کرے اور لوگوں کی مشکلات کو رفع فرمائے۔ ایسی قدرتوں اور فضل کرنے والے رب کو چھوڑ کر کہاں ٹکریں کھاتے پھرتے ہو۔ جس طرح مشرک در درکی ٹھوکریں کھاتے پھرتے ہیں اسی طرح وہ لوگ بھی مارے مارے پھرتے ہیں۔ جو اللہ تعالیٰ کی آیات کے بارے میں جھگڑا کرتے ہیں۔ یعنی کافر ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں اپنی قدرت اور تخلیق کی سب سے پہلی دلیل یہ دی ہے کہ اس نے رات کو سکون کا باعث قرار دیا ہے۔ جو انسانوں کے لیے ہی باعث سکون نہیں کہ تھکے ماندے انسان کی تھکاوٹ دور ہوجاتی ہے اور صبح کے وقت وہ گزرے ہوئے کل کی طرح پھر تازہ دم ہو کر اپنے کام کے لیے نکل کھڑا ہوتا ہے۔ رات ہر جاندار کے لیے باعث سکون بنائی گئی ہے اور وہ بھی صبح کے وقت تازہ دم ہوجاتا ہے۔ دن کو اس لیے روشن بنایا گیا ہے تاکہ لوگوں کو اپنا کام کاج کرنے اور ادھر سے ادھرجانے میں پریشانی نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر ہرقسم کا فضل فرماتا ہے۔ صرف رات اور دن پر غور فرمائیں کہ اگر رات کو روشن کردیا جائے تو لوگوں کی نیند حرام ہوجائے گی اور دن کے کسی حصہ کو تاریک کردیا جائے تو لوگوں کے کام کاج ٹھپ ہوجائیں۔ رات اور دن کا حوالہ دے کر یہ بھی اشارہ کیا ہے کہ جس طرح رات کے بعد دن ہے اسی طرح مرنے کے بعد زندگی اور دنیا کے بعد آخرت ہے۔ مگر پھر بھی لوگ خالص ” اللہ“ کی عبادت کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ یہ سب سے بڑا تکبر اور اللہ تعالیٰ کی ناشکری ہے۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے ہی رات کو باعثّ سکون اور دن کو روشن بنایا ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ ہی ہر چیز کو پیدا کرنے والا اور اس کی ضرورتیں پوری کرتا ہے۔ ٣۔ ہر دور کے مشرک اور کافر اللہ تعالیٰ کی آیات کے بارے میں جھگڑتے رہے ہیں۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی عبادت کے لائق اور حاجت روا، مشکل کشا نہیں۔ ٥۔ مگر اس کے باوجود لوگ ادھر ادھر بہکے پھر رہے ہیں۔ ٦۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر بہت فضل کرنے والا ہے لیکن لوگوں کی اکثریت اس کا شکر ادا نہیں کرتی۔ تفسیر بالقرآن ” اللہ“ ہی پیدا کرنے والا ہے۔“ ١۔ (البقرۃ: ٢٢) (الروم : ٢٠) (التین : ٤) (الدھر : ٢) (الاعراف : ١٨٩) (الاعراف : ٥٤) (النساء : ١) (الانعام : ١٠٢) غافر
62 غافر
63 غافر
64 فہم القرآن ربط کلام : جس ” اللہ“ نے اپنی ذات سے مانگنے کا حکم دیا ہے اور جس نے رات کو پرسکون بنایا اور دن کو روشن کیا ہے اس کی یہ بھی صفت اور قدرت ہے کہ اس نے زمین کو جائے قرار بنایا اور وہی لوگوں کی شکل و صورت بناتا ہے اور انہیں پاکیزہ چیزوں سے رزق دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کی صفات کے بارے میں مشرک اور کافر جھگڑتے ہیں۔ حالانکہ اللہ ہی وہ ذات ہے جس نے لوگوں کے لیے زمین کو جائے قرار بنایا اور آسمان کو چھت ٹھہرایا ہے اور پھر وہی ہے جو لوگوں کی بہتر سے بہتر شکل و صورت بناتا ہے اور اسی نے انسانوں کے لیے پاکیزہ رزق کا بندوبست کیا ہے۔ اس کے سوا کوئی زندہ یا فوت شدہ اور کوئی بھی ہستی نہیں جس نے ان میں سے کوئی ایک کام کیا ہو یا ان کاموں میں کسی کا عمل دخل ہو۔ صرف ایک ” اللہ“ ہی سب کچھ پیدا کرنے والا ہے اور سارے کا سارا نظام چلا نے والا ہے۔ اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ اپنی تین قدرتوں کا ذکر فرمایا ہے۔1 اس نے صرف زمین بنائی ہی نہیں بلکہ لوگوں اور ہر جاندارکے رہنے کے لیے اسے جائے قرار بھی بنایا ہے۔ پہلے یہ زمین حرکت کرتی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے اس پر پہاڑوں کی میخیں لگا دیں جس سے زمین میں ٹھہراؤ اور قرار پیدا ہوا۔2 اللہ تعالیٰ نے زمین کے ساتھ انسان کا انس یعنی قرار پیدا کردیا ہے جس وجہ سے ہر انسان اور جاندار اپنے علاقہ، بستی اور گھرکے ساتھ پیار کرتا ہے۔ بیشک پردیس میں اسے ہر چیز میسر ہو مگر پھر بھی اس کا دل اپنے وطن اور گھر کی طرف ہی مائل رہتا ہے۔ 3 زمین اس لحاظ سے بھی جائے قرار ہے کہ انسان کی زندگی بھر کی جسمانی ضروریات کا تعلق زمین کے ساتھ وابستہ ہیں۔ 4۔ انسان کا وجود زمین سے بنایا گیا ہے اور موت کے بعد اس نے مٹی میں جانا ہے لہٰذا اوّل و آخر انسان کاٹھکانہ یہی زمین ہے۔ بہرحال یہ زمین انسان کے لیے کئی اعتبار سے جائے قرار ہے۔ ” اللہ“ ہی لوگوں کی شکل و صورت بنانے والاہے : اللہ تعالیٰ نے انسان کی پیدائش کا تذکرہ کرتے ہوئے اس کی تخلیق کے مختلف مراحل کا بار ہا دفعہ ذکر فرمایا ہے۔ یہاں انسان کی تخلیق کے آخری مرحلہ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ ” اللہ“ ہی وہ ذات بابرکات ہے جس نے تمہیں بہتر سے بہترین شکل میں پیدا فرمایا۔ اسی بات کو دوسرے مقام پریوں بیان فرمایا ہے۔“ ” بے شک اللہ تعالیٰ سے زمین و آسمان کی کوئی چیز چھپی نہیں ہے۔ وہی ماں کے پیٹ میں تمہاری صورتیں جس طرح چاہتا ہے بناتا ہے۔ اس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں وہ نہایت غالب اور خوب حکمت والا ہے۔“ (آل عمران : ٥، ٦) ” قسم ہے انجیر کی اور زیتون کی اور طو رسیناء کی اور اس امن والے شہر کی۔ یقیناً ہم نے انسان کو بہترین صورت میں پیدا کیا ہے“ (التین : ١ تا ٤) (عَن أَبِیْ مُوسَی الْأَشْعَرِیِ قَالَ قَالَ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) إِنَّ اللّٰہَ خَلَقَ آدَمَ مِنْ قَبْضَۃٍ قَبَضَہَا مِنْ جَمِیعِ الْأَرْضِ فَجَاءَ بَنُو آدَمَ عَلٰی قَدْرِ الْأَرْضِ جَاءَ مِنْہُمْ الْأَحْمَرُ وَالْأَبْیَضُ وَالْأَسْوَدُ وَبَیْنَ ذٰلِکَ وَالسَّہْلُ وَالْحَزْنُ وَالْخَبِیثُ وَالطَّیِّبُ) [ رواہ ابو داود : کتاب السنہ، باب فی القد ر] ” حضرت ابو موسیٰ اشعری (رض) بیان کرتے ہیں رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کو مٹی سے پیدا کیا جو ساری زمین سے لی گئی آدم کی اولاد زمین کے مطابق ہوئی۔ ان میں سرخ، سفید سیاہ اور درمیانی رنگت کے لوگ ہیں ان میں سخت بھی ہیں اور نرم طبیعت بھی، نیک بھی ہیں اور بد بھی۔“ ” اللہ“ ہی لوگوں کو رزق دینے والاہے : اللہ تعالیٰ نے انسان کے صرف رزق کام بندوبست نہیں کیا بلکہ رزق طیب سے نوازا ہے۔ طیب کا معنٰی ایسا رزق جو پاک بھی ہو اور طبع انسانی کے موافق بھی۔ انسان جب شکم مادر میں تھا تو اس کے لوتھڑے کو خون کی ضرورت تھی۔ اللہ تعالیٰ نے ماں کے خون سے اس لوتھڑے کی پرورش کی۔ جب لوتھڑے نے انسانی وجودکی شکل اختیارکی تو ماں کی خوراک سے اس کی خوراک کا بندوسبت فرمایا۔ جب پیدا ہوا تو کھانے پینے کے قابل نہ تھا تو اس کے لیے ماں کی چھاتی سے دودھ جاری کیا۔ اس طرح عمر کے لحاظ سے اس کے رزق کابندوبست کیا جاتا ہے۔ انسان کے لیے جو چیز پیدا کی وہ اپنی اصلیت کے اعتبار سے پاکیزہ اور طیّب پیدا فرمائی۔ پھلوں کو لیجیے ! اللہ تعالیٰ نے انہیں کس طرح چھلکوں میں سنبھال کر رکھا ہے۔ گندم، چاول اور دیگراشیاء کو دیکھیں۔ بے شک وہ گندے پانی میں ہی تیار کیوں نہ ہوئے ہوں۔ اس کے ذائقہ میں کسی قسم کی غلاظت کا ایک ذرہ بھی شامل نہیں ہوتا۔ یہاں تک کہ اس میں بو تک نہیں پائی جاتی گائے، بھیڑ، بکری اور دیگر دودھ دینے والے چوپاؤں کو دیکھیں کہ بیشک وہ گلاسڑا چارہ کھائیں لیکن ان کے دودھ اور گوشت میں کڑواہٹ یا گندگی کا کوئی اثر نہیں پایا جاتا۔ اس کے ساتھ ہی اس بات پر غور کریں کہ دنیا میں کروڑوں انسان ہوئے اور ہوں گے لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کی روزی کا اس قدر انتظام کیا ہے کہ ہر آنے والے وقت میں ان کی روزی میں اضافہ ہی کیا جارہا ہے۔ گندم اور چاول وغیرہ آج سے پہلے جس زمین میں تھوڑی مقدار میں پیدا ہوتے تھے آج وہی زمین دگنی مقدار دے رہی ہے۔ اس لیے ارشاد ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ بڑی بابرکت ذات ہے جوجہانوں کو پیدا کرنے اور پالنے والا ہے۔ مسائل ١۔ ” اللہ“ ہی نے زمین کو باعث قرار اور آسمان کو چھت بنایا۔ ٢۔ ” اللہ“ لوگوں کی شکل و صورت بنانے والاہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ ہی رزق دینے والا ہے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ تمام کائنات کا پیدا کرنے والا اور سب کی ضرورتیں پوری کرنے والا ہے۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ بابرکت ذات ہے۔ تفسیربالقرآن اللہ تعالیٰ بابرکت ہستی ہے : ١۔ اللہ تعالیٰ بابرکت ذات ہے جس نے اپنے بندے پر حق و باطل میں فرق کرنے والی کتاب نازل کی تاکہ آپ لوگوں کو ڈرائیں۔ (الفرقان : ١) ٢۔ بابرکت ہے وہ ذات جس کے ہاتھ میں زمین و آسمان کی بادشاہت ہے۔ (الملک : ١) ٣۔ بابرکت ہے وہ ذات جس نے آسمان میں برج بنائے۔ (الفرقان : ٦١) ٤۔ ہر چیز تباہ ہوجائے گی صرف اللہ ہی وہ بابرکت ذات ہے جس کو دوام حاصل ہے۔ (الرحمن : ٢٧) ٥۔ اللہ تعالیٰ کی ذات زمین و آسمان کا نور ہے۔ (النور : ٣٥) ٦۔ بابرکت ہے وہ ذات جو سب سے احسن پیدا کرنے والی ہے۔ (النور : ١٤) ٧۔ بابرکت ہے وہ ذات جو تمام جہانوں کو پالنے والی ہے۔ (المومن : ٦٤) غافر
65 فہم القرآن ربط کلام : جس ” اللہ“ سے مانگنے اور صرف اس کی عبادت کرنے کا حکم دیا گیا ہے اس کی یہ صفت ہے کہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ جس ” اللہ“ نے زمین کو باعث قرار، آسمان کو چھت بنایا اور لوگوں کی بہترین شکلیں بنائیں اور ان کے لیے پاکیزہ رزق کابندوبست فرمایا وہ بابرکت ذات ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گی۔” اَلْحَیُّ“ کا معنٰی ہے ہمیشہ ہمیش زندہ رہنے والا اور جب تک چاہے مخلوق کو زندہ رکھنے والا۔ اس کے سوانہ کوئی ہمیشہ سے زندہ ہے اور نہ رہے گا اور نہ اس کے سوا زمین و آسمانوں، اور انسان کی شکل و صورت بنانے والا ہے اور نہ ہی اس کے سوا کوئی رزق دینے والا ہے۔ وہ اپنی صفات اور ذات میں اکیلا ہے لہٰذا اس کی اسی طرح عبادت کرنی چاہیے۔ جس طرح اس نے حکم دیا ہے۔ اس لیے تمام تعریفات اللہ رب العالمین کے لیے ہیں۔ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ فرما دیں کہ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں ان کی ہرگز عبادت نہ کروں جن کی تم اللہ کے سوا عبادت کرتے ہو۔ اس لیے کہ میرے پاس میرے رب کی طرف سے ٹھوس دلائل آچکے ہیں کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہیں کرنا۔ اسی بنا پر مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں کائنات کے رب کی بندگی کرتا رہوں۔ اس مقام پر توحید کابیان آیت ٦٠ سے شرو ع ہوا۔ جس میں دعا کو عبادت قرار دیا گیا ہے۔ لہٰذا یہاں ” اَعْبُدُ“ اور ” تَدْعُوْنَ“ کے الفاظ کا پہلا مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی سے بالواسطہ یا بلا واسطہ مانگنا جائز نہیں۔ کیونکہ صرف ایک اللہ ہی پوری کائنات کا رب ہے۔ اس کے سوا کسی سے مانگنے اور اس کی عبادت کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ (وَلَا تَدْعُ مِنْ دُون اللَّہِ مَا لَا یَنْفَعُکَ وَلَا یَضُرُّکَ فَإِنْ فَعَلْتَ فَإِنَّکَ إِذًا مِنَ الظَّالِمِینَ وَإِنْ یَمْسَسْکَ اللَّہُ بِضُرٍّ فَلَا کَاشِفَ لَہُ إِلَّا ہُوَ وَإِنْ یُرِدْکَ بِخَیْرٍ فَلَا رَادَّ لِفَضْلِہِ یُصِیبُ بِہِ مَنْ یَشَاءُ مِنْ عِبَادِہِ وَہُوَ الْغَفُور الرَّحِیمُ )[ یونس : ١٠٦، ١٠٧] ” اور اللہ کو چھوڑ کر اس چیز کو مت پکاریں جو نہ آپ کو نفع دے سکتی ہے اور نہ آپ کو نقصان پہنچا سکتی ہے۔ اگر تو نے ایسا کیا تو بلاشبہ اس وقت ظالموں میں سے ہوجائے گا۔ اگر اللہ تجھے کوئی نقصان پہنچائے تو اس کے سوا کوئی اس کو دور کرنے والا نہیں اور اگر وہ تیرے ساتھ بھلائی کا ارادہ کرے تو اس کو رد کرنے والا نہیں۔ وہ اسے اپنے بندوں میں سے جسے چاہے مستفید کرتا ہے اور وہی بخشنے والا، نہایت مہربان ہے۔“ مسائل ١۔ ” اللہ“ ہمیشہ زندہ ہے اور ہمیشہ زندہ رہے گا۔ ٢۔ ” اللہ“ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق صرف اسی کی ہی عبادت کرنی چاہیے۔ ٤۔ اللہ ہی پوری کائنات کا خالق اور مالک ہے۔ لہٰذا اسی کی تابعداری کرنی چاہیے۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اور آپ کے ذریعے لوگوں کو حکم دیا ہے کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کی جائے تفسیربالقرآن ” اللہ“ کے علاوہ کسی کو نہیں پکارنا چاہیے : ١۔ میں ان کی عبادت نہیں کرتا جن کی تم اللہ کے سوا عبادت کرتے ہو۔ (یونس : ١٠٤) ٢۔ مجھے منع کیا گیا ہے کہ میں ان کی عبادت کروں جن کی اللہ کے سوا تم عبادت کرتے ہو۔ (الانعام : ٥٦) ٣۔ کیا میں اللہ کے سوا ان کو پکاروں جو نفع اور نقصان نہیں پہنچا سکتے۔ (الانعام : ٧١) ٤۔ جن کو لوگ اللہ کے سوا پکارتے ہیں انہوں نے کوئی چیز پیدا نہیں کی وہ تو خود پیدا کیے گئے ہیں۔ (النحل : ٢٠) ٥۔ جن کو تم اللہ کے سوا پکارتے ہو وہ تمھارے جیسے بندے ہیں۔ (الاعراف : ١٩٤) ٦۔ اللہ کے سوا کسی کو مت پکاریں جو نفع اور نقصان نہیں پہنچا سکتے۔ (یونس : ١٠٦) غافر
66 غافر
67 فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اپنی الوہیت کے واضح دلائل دے کر حکم دیا ہے کہ صرف میری ہی فرمانبرداری کی جائے۔ اس لیے کہ اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور اسی نے ہی انسان کو مختلف مراحل کے بعد پیدا کیا ہے۔ جس رب کی تابعداری کا حکم ہوا ہے اسی نے انسانوں کو پیدا کیا ہے۔ لفظ رب کا پہلا معنٰی خالق ہے۔ اس بنا پر ارشاد ہوا کہ اسی نے تمہیں پہلے مٹی سے پیدا کیا۔ یعنی حضرت آدم (علیہ السلام) اور آدم (علیہ السلام) سے اس کی بیوی کو پیدا کیا۔ پھر ان سے انسان کی آفزائش کا سلسلہ شروع فرمایا۔ (النساء : ١) اور تمام انسانوں کی تخلیق کا آغاز نطفہ سے کیا۔ جس سے لوتھڑا بنایا۔ پھر بچہ بنا کرتمہیں تمہاری ماؤں کے بطن سے پیدا کیا اور تمہیں بھرپور جوانی تک پہنچایا۔ پھر تمہیں بوڑھا کرتا ہے اور اس کے بعد تم اپنی موت کے وقت کو پہنچ جاتے ہو۔ یہ تخلیقی مراحل اس لیے بتائے اور سمجھائے جارہے ہیں تاکہ تم سمجھنے کی کوشش کرو کہ وہی ایک ذات ہے جو تمہیں زندگی عطا کرتی ہے اور وہی موت سے ہمکنار کرتی ہے۔ اللہ تعالیٰ جب کسی کام کا ارادہ کرتا ہے تو اسے صرف ہوجانے کا حکم دیتا ہے تو وہ کام اس کی منشا اور نقشے کے مطابق ہوجاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے خالق ہونے کے ثبوت میں انسان کی تخلیق کا کئی بار تذکرہ کیا ہے اور بار بار انسان کو توجہ دلائی ہے تاکہ انسان اپنے بارے میں غور کرے کہ اسے کیسے اور کس نے اور کس لیے پیدا کیا ہے۔ ظاہربات ہے کہ اسے صرف ایک ” اللہ“ ہی نے پیدا کیا ہے۔ لہٰذا اسی سے مانگنا اور اسی کی عبادت کرنی چاہیے۔ ” حضرت انس بن مالک (رض) سے روایت ہے وہ حدیث کو مرفوع بیان کرتے ہیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے رحم میں ایک فرشتہ مقرر کر رکھا ہے وہ پوچھتا ہے اے میرے رب ! یہ نطفہ ہے اے میرے رب! یہ گوشت کا لوتھڑا ہے جب اللہ تعالیٰ کسی کی تخلیق کا فیصلہ فرماتا ہے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ فرشتہ کہتا ہے اے میرے رب مذکر یا مؤنث بدبخت یا خوش بخت اس کا رزق کتنا ہے اس کی عمر کتنی ہے اس طرح سب کچھ انسان کی ماں کے پیٹ میں لکھ دیا جاتا ہے۔“ [ رواہ مسلم : باب کَیْفِیَّۃِ الْخَلْقِالْخَلْقِ الآدَمِیِّ فِی بَطْنِ أُمِّہِ وَکِتَابَۃِ رِزْقِہِ وَأَجَلِہِ وَعَمَلِہِ وَشَقَاوَتِہِ وَسَعَادَتِہِ] مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کو مٹی سے پیدا فرمایا۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ انسان کو مختلف مراحل سے گزار کر ایک بچے کی شکل میں ماں کے پیٹ سے پیدا کرتا ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ ہی آدمی کو جوان اور بوڑھا کرتا ہے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ ہی موت دیتا ہے۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ نے ہر کسی کی موت کا وقت مقرر کر رکھا ہے۔ ٦۔ اللہ تعالیٰ ہی موت و حیات کا مالک ہے۔ ٧۔ اللہ تعالیٰ جو کام کرنا چاہے تو اس کے لیے صرف لفظ کُنْ کہتا ہے تو وہ کام اس کی مرضی کے مطابق ہوجاتا ہے۔ ٨۔ انسان کو اپنی تخلیق اور اللہ کی توحید کے دلائل سمجھنے کے لیے عقل سے کام لینا چاہیے۔ تفسیربالقرآن انسان کی تخلیق کے مختلف مراحل : ١۔ ” اللہ“ نے آدم کو مٹی سے پیدا کیا۔ (آل عمران : ٥٩) ٢۔ حوّا کو آدم سے پیدا کیا۔ (النساء : ١) ٣۔ ہم نے انسان کو مٹی کے جوہر سے پیدا کیا۔ (المومنون : ١٢) ٤۔” اللہ“ نے انسان کو نطفہ سے پیدا کیا۔ (النحل : ٤) ٥۔ ہم نے انسان کو مخلوط نطفہ سے پیدا کیا۔ (الدھر : ٢) ٦۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو بہترین شکل وصورت میں پیدا فرمایا۔ (التین : ٤) غافر
68 غافر
69 فہم القرآن ربط کلام : جو لوگ واضح دلائل آجانے کے باوجود اللہ کی آیات کے بارے میں جھگڑتے ہیں ان کا انجام۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں توحید و رسالت اور قیامت کے بارے میں اتنے واضح اور ٹھوس دلائل دیئے ہیں کہ معمولی سے معمولی عقل رکھنے والا انسان بھی انہیں قبول کیے بغیر نہیں سکتابشرطیکہ وہ جھگڑالو نہ ہو۔ جھگڑالو آدمی اپنی انا اور تعصب کی بنیاد پر حقیقت قبول کرنے لیے تیار نہیں ہوتا۔ بالخصوص مشرک توحید کی بات سمجھنا تو دور کی بات اسے سننا بھی گوارہ نہیں کرتا۔ اس قسم کے لوگوں کے بارے میں فرمایا ہے کہ جو ” اللہ“ کی آیات کے بارے میں جھگڑتے ہیں۔ کیا آپ نے غور نہیں کیا کہ یہ لوگ کہاں سے بھٹک رہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ان کے بھٹک جانے کی کوئی معقول وجہ نہیں ہے۔ اسی طرح کوئی شخص دین کے کسی مسئلہ کو مخصوص نقطہ نظر سے اختیار کرلے تو اس کے پاس بھی جھگڑا کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ جن لوگوں نے کتاب اللہ اور اس چیز کو جھٹلایا جن کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولوں کو مبعوث فرمایا۔ کتاب اللہ کے ساتھ جو چیز انبیائے کرام (علیہ السلام) کو دی جاتی تھی وہ کتاب اللہ کی تشریح اور اس پر عمل کرنے کا عملی طریقہ تھا جس کے بغیر کوئی شخص کتاب اللہ سے صحیح استفادہ نہیں کرسکتا۔ اس لیے قرآن مجید کے ساتھ مستند حدیث پر ایمان لانا اور اس کے مطابق عمل کرنا فرض عین ہے اس کے بغیر گمراہی ہے۔ جو لوگ قرآن و حدیث کو ماننے اور ان پر عمل کرنے کی بجائے حیلے بہانے بناتے ہیں۔ عنقریب انہیں اپنے انجام کا علم ہوجائے گا۔ ان کی گردنوں میں طوق پہنائے جائیں گے اور انہیں زنجیروں سے جکڑکر جہنّم میں پھینکا جائے گا۔ جب انہیں پیاس لگے گی تو جہنّم کا ابلتا ہوا پانی پلایا جائے گا اور وہ جہنم میں جلتے رہیں گے۔ (وَعَنِ ابْنْ مَسْعُوْدٍ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یُوؤتٰی بِجَھَنَّمَ یَوْمَءِذٍ لَھَا سَبْعُوْنَ اَلْفَ زِمَامٍ مَعَ کُلِّ زِمَامٍ سَبْعُوْنَ اَلْفَ مَلَکٍ یَّجُرُّوْنَھَا۔) [ رواہ مسلم : باب فِی شِدَّۃِ حَرِّ نَارِ جَہَنَّمَ وَبُعْدِ۔۔] ” حضرت ابن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ قیامت کے دن دوزخ کو لایا جائے گا اس کی ستر ہزار لگامیں ہوں گی اور ہر لگام کے ساتھ ستر ہزار فرشتے ہوں گے‘ جو اسے کھینچ کر لائیں گے۔“ مسائل ١۔ کتاب اللہ اور حدیث رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جھٹلانے والے گمراہ ہوتے ہیں۔ موت کے بعد انہیں اپنے انجام کا علم ہوجائے گا۔ ٢۔ گمراہ شخص کے پاس اس کی گمراہی کی معقول وجہ نہیں ہوتی۔ ٣۔ جہنّمیوں کے گلے میں جہنّم کے طوق اور انہیں بڑی بڑی زنجیروں سے جکڑا جائے گا۔ ٤۔ جہنّمیوں کو جہنّم سے بے انتہا ابلتا ہوا پانی پلا یا جائے گا۔ تفسیربالقرآن جہنّمیوں کو جہنّم میں مختلف سزائیں دی جائیں گی : ١۔ آنتوں اور کھالوں کا بار بار گلنا۔ (النساء : ٥٦) ٢۔ دوزخیوں کی کھال کا بار بار بدلنا۔ (الحج : ٢٠) ٣۔ کانٹے دار جھاڑیوں کا کھانادیا جانا۔ (الغاشیہ : ٦) ٤۔ کھانے کا گلے میں اٹک جانا۔ (المزمل : ١٣) ٥۔ دوزخیوں کو کھولتا ہوا پانی دیا جانا۔ (الانعام : ٧٠) ٦۔ دوزخیوں کو پیپ پلایا جانا۔ (النبا : ٢٥) ٧۔ جہنمیوں کو آگ کا لباس پہنایا جانا۔ (الحج : ١٩) ٨۔ لوہے کے ہتھوڑوں سے سزا دیا جانا۔ (الحج : ٢١، ٢٢) ٩۔ ان کا ٹھکانہ جہنم ہے جب آگ ہلکی ہونے لگے گی تو ہم اسے مزید بھڑکا دیں گے۔ (بنی اسرائیل : ٩٧) ١٠۔ اس میں وہ کھولتا ہوا پانی پیئیں گے اور اس طرح پئیں گے جس طرح پیا سا اونٹ پیتا ہے۔ (الواقعہ : ٥٤ تا ٥٥) ١١۔ جہنمی گرم ہوا کی لپیٹ میں اور کھولتے ہوئے پانی میں ہوں گے۔ (الواقعۃ: ٤٢) غافر
70 غافر
71 غافر
72 غافر
73 فہم القرآن ربط کلام : جہنمیوں سے کیے جانے والے سوالات میں سے ایک سوال۔ جہنمیوں کو جہنّم میں داخل کرنے سے پہلے میدان محشر میں دوسری مرتبہ عین جہنّم کے دروازوں کے سامنے کھڑا کرکے اور تیسری دفعہ جہنّم میں جھونک دینے کے بعد دیگرسوالات کے ساتھ ہر مرحلہ پر ان سے پہلا یہ سوال ہوگا کہ دنیا میں جن کو تم اللہ تعالیٰ کے سوا مشکل کشا سمجھ کر پکارتے تھے۔ آج وہ کہاں ہیں اور وہ تمہاری مدد کیوں نہیں کرتے ؟ جہنمی کہیں گے۔ مولا ہمیں تو کچھ یاد نہیں کہ وہ کون تھے۔ خوف کے مارے یہ بھی کہیں گے کہ ہم نے تو کبھی کسی کو پکارا ہی نہیں تھا۔ رب ذوالجلال کے رعب اور جہنم کے عذاب کی وجہ سے وہ سب کچھ بھول جائیں گے۔ دنیا میں کفار اللہ تعالیٰ کو بھول گئے تھے اور آخرت میں کچھ مدت کے لیے اپنے خداؤں کو بھی بھول جائیں گے۔ کچھ مدت کے بعد انہیں ان کے مشکل کشا یاد کروائے جائیں گے تاکہ یہ ایک دوسرے کو ذلیل کریں۔ جب آپس میں جھگڑ رہے ہوں گے تو انہیں کہا جائے گا۔ یہ ذلّت اور عذاب تمہیں اس لیے دیا جا رہا ہے کہ تم باطل نظریات پر خوش ہوتے اور حق بات کا انکار کیا کرتے تھے۔ جہنّم کے دروازوں میں داخل ہوجاؤ اب اس میں تم نے ہمیشہ رہنا ہے۔ جو متکبّرین کے لیے بد ترین جگہ ہے۔ (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ لَا یَدْخُلُ الْجَنَّۃَ مَنْ کَانَ فِیْ قَلْبِہٖ مِثْقَالُ ذَرَّۃٍ مِّنْ کِبْرٍ) [ رواہ مسلم : کتاب الایمان، باب تحریم الکبر وبیانہ] ” حضرت عبداللہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی تکبرہوا وہ جنت میں داخل نہیں ہوگا۔“ مسائل ١۔ میدان محشر میں جہنّمیوں کو پہلا سوال یہ ہوگا کہ تمہارے مشکل کشا کہاں ہیں؟ ٢۔ ایک مرحلہ میں جہنّمی سب کو بھول جائیں گے اور پھر بالکل ہی انکار کردیں گے۔ ٣۔ جہنمیوں کا ایک گناہ یہ بھی ہوگا کہ وہ اپنے گناہوں پر اترایا کرتے تھے۔ ٤۔ جہنّم متکبرین کے لیے بد ترین جگہ ہے۔ تفسیربالقرآن جہنمیوں سے کیے جانے والے سوالات : ١۔ مجرموں سے سوال کیا جائیگا کہ تم ایک دوسرے کی مدد کیوں نہیں کرتے؟ وہ اپنے گناہوں کی ایک دوسرے پر ذمہ داری ڈالیں گے۔ (الصّٰفّٰت : ٢٢۔ ٣١) ٢۔ ان کو ٹھہراؤ ان سے کچھ پوچھنا ہے۔ تمہیں کیا ہوگیا اب ایک دوسرے کی مدد نہیں کرتے؟۔ (الصّافات : ٢٤ تا ٢٥) ٣۔ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ پوچھے گا آج کس کی بادشاہی ہے؟ (المومن : ١٦) ٤۔ بلاؤ اپنے معبودوں کو اگر تم سچے ہو۔ (البقرۃ: ٢٣) ٥۔ اللہ کے علاوہ جن معبودوں کا تمھیں زعم ہے انھیں بلاؤ آج وہ بھی تمہاری مصیبت دور نہیں کرسکتے۔ (بنی اسرائیل : ٥٦) ٦۔ انہیں بلاؤ آج وہ تمھیں جواب بھی نہیں دیں گے۔ (الاعراف : ١٩٤) ٧۔ اس دن ان سے کہا جائے گا بلاؤ اپنے معبودان کو، وہ بلائیں گے تو انھیں جواب نہیں ملے گا۔ (القصص : ٦٤) غافر
74 غافر
75 غافر
76 غافر
77 فہم القرآن ربط کلام : ٹھوس دلائل اور پُر خلوص کوشش کے ساتھ سمجھانے کے باوجود جو لوگ نصیحت حاصل کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے تو اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ کو صبر سے کام لینا اور اپنے رب کے حکم کا انتظار کرنا چاہیے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنا کام اور آرام چھوڑ کر دن، رات اس کوشش میں لگے رہتے کہ لوگ ہدایت پاجائیں۔ لیکن آپ کے مخاطب ہدایت حاصل کرنے کی بجائے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا مذاق اڑاتے۔ آپ اور آپ کے ساتھیوں پر ہر قسم کی زیادتیاں کرتے۔ جس پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو رنج پہنچتا اور آپ سوچتے کہ یہ کیسے ناہنجار لوگ ہیں کہ میں کسی مفاد کے بغیر ان کے لیے رات، دن ایک کیے ہوئے ہوں۔ لیکن یہ ” اللہ“ کا قرآن سمجھنے کی بجائے اس سے مزید دور ہورہے ہیں۔ اس پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم ہوا کہ آپ صبر وحوصلہ کے ساتھ اپنا کام جاری رکھیں۔ اگر یہ لوگ اپنی روش سے باز نہ آئے تو ہم آپ کی زندگی میں وہ کچھ دکھائیں گے جس کا ان سے وعدہ کرتے ہیں یا پھر آپ کی وفات کے بعد انہیں دکھایا جائے گا۔ بالآخر انہوں نے ہمارے پاس ہی آنا ہے۔ وہاں اپنے کیے کا پورا انجام پالیں گے بلاشبہ ہم نے آپ سے پہلے بہت سے رسول بھیجے۔ جن میں بعض کے واقعات ہم نے آپ کے سامنے بیان کر دئیے ہیں اور بعض کے حالات ہم نے بیان نہیں کیے۔ کسی رسول کو یہ اختیار نہ تھا کہ وہ کوئی معجزہ اپنی مرضی سے پیش کرسکے۔ ہاں جس وقت ” اللہ“ کا حکم یعنی اس کا عذاب آئے گا تو ان کا قضیہ پورے عدل و انصاف کے ساتھ چکا دیا جائے گا۔ البتہ باطل کو اختیار کرنے والے ہر صورت دنیا اور آخرت میں نقصان پائیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ اپنا وعدہ آپ کی زندگی میں اس طرح پورا فرمایا کہ آپ کے بڑے بڑے دشمن بدر کے میدان میں قتل ہوئے اور باقی مسلمان ہوگئے۔ کچھ آپ کی حیات مبارکہ میں اور باقی یہودی اور عیسائی خلفائے راشدین کے دور میں سرنگوں ہوگئے۔ اس طرح اسلام سربلند ہوا اور کفر و شرک ذلیل ہوئے۔ یہاں تک پہلے انبیائے کرام (علیہ السلام) کے واقعات بیان کرنے کا مقصد ہے ان میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے ساتھیوں کے لیے راہنمائی اور تسلی کا سامان ہے۔ نوح (علیہ السلام) کو دیکھیں ساڑھے نو سو سال دن، رات محنت کرتے رہے لیکن چند لوگ مسلمان ہوئے بالآخر ان کے مخالفین کو ڈبکیاں دے دے کر ختم کردیا گیا۔ ابراہیم (علیہ السلام) کی جد وجہد پر غور فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے خلیل کو کس طرح بچایا اور کامیاب فرمایا۔ ان کے مخالف اپنی سازشوں اور شرارتوں میں کیسے ناکام اور ذلیل ہوئے۔ موسیٰ (علیہ السلام) کے واقعات پر توجہ فرمائیں کہ ان پر اور ان کے ساتھیوں پر کتنا اور کتنی مدت تک ظلم ہوتا رہا۔ لیکن موسیٰ (علیہ السلام) ہمت نہ ہارے اور ان کے ساتھیوں نے بھی صبر کے ساتھ موسیٰ (علیہ السلام) کا ساتھ دیا۔ نتیجتاً فرعون اور اس کے لشکر و سپاہ ذلّت کی موت مرے۔ موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے ساتھی کامیاب ٹھہرے۔ حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) نے اپنے رب کی طرف سے عطا کردہ عظیم معجزے بنی اسرائیل کے سامنے پیش کیے لیکن انہوں نے عیسیٰ (علیہ السلام) کو نہ صرف جھٹلایا بلکہ اپنی طرف سے انہیں تختہ دار پر لٹکا دیا۔ اللہ تعالیٰ نے عیسیٰ ( علیہ السلام) کو آسمانوں پر اٹھاکران کی مد فرمائی اور ان کے دشمنوں کو ہمیشہ کے لیے ناکام اور ذلیل کردیا۔ یقین رکھیں کہ جب اللہ تعالیٰ کا حکم نافذہوتا ہے تو اہل باطل دنیا میں بھی ناقابل تلافی نقصان پایا کرتے ہیں اور آخرت کا عذاب تو لامحدود اور لامتناہی ہے۔ ” حضرت خباب (رض) بیان کرتے ہیں ہم نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس وقت شکایت کی جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کعبہ کے سایہ میں چادر لپیٹ کر بیٹھے ہوئے تھے۔ ہم نے عرض کی آپ اللہ سے ہمارے لیے دعا کیوں نہیں کرتے ہیں کہ وہ ہماری مدد فرمائے۔ آپ اپنے چہرے سے چادر ہٹاکر بیٹھ گئے اور فرمایا اللہ کی قسم تم سے پہلے لوگوں کو پکڑا جاتا اور ان کو ایک گھڑھے میں گاڑ کر اس کے سر پر آرا چلا کر دو ٹکڑے کردیا جاتا۔ وہ پھر بھی اپنے دین پر قائم رہتا اس کا گوشت لوہے کی کنگھیوں سے نوچ لیا جاتا لیکن پھر بھی دین سے منحرف نہ ہوتا، اللہ تعالیٰ اس دین کو غالب فرمائے گا کہ ایک سوار صنعا سے لے کر حضرموت تک تن تنہا سفر کرے گا۔ اسے اللہ کے سوا کسی کا ڈر نہیں ہوگا اسے صرف اپنی بکریوں کے متعلق بھیڑیے کا خوف ہوگا، لیکن تم عجلت کا مظاہرہ کر رہے ہو۔“ [ رواہ البخاری : باب علامات النبوۃ] مسائل ١۔ مسلمان کو مصیبت کے وقت صبر کرنا چاہیے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی دنیا میں بھی مدد کرتا ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کامیاب فرمایا اور آپ کے دشمنوں کو ذلیل کیا۔ ٤۔ کسی نبی نے کوئی معجزہ اپنی مرضی سے پیش نہیں کیا۔ ٥۔ اہل باطل دنیا اور آخرت میں نقصان اٹھایا کرتے ہیں۔ ٦۔ بالآخر سب نے اللہ تعالیٰ کے حضور پیش ہونا ہے۔ تفسیربالقرآن صبر کا حکم اور اس کا اجر : ١۔ صبر کیجئے اللہ نیکو کاروں کا اجر ضائع نہیں کرتا۔ (ھود : ١١٥) ٢۔ اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ ( البقرۃ : ١٥٣) ٣۔ صبر کرنے والے کا میاب ہوں گے۔ (المومنون : ١١١) ٤۔ صبر کرنے والے کی آخرت اچھی ہوگی۔ (الرعد : ٢٤) ٥۔ صبر کرنے والوں کو جنت میں سلامتی کی دعائیں دی جائیں گی۔ ( الفرقان : ٧٥) ٦۔ صبر کرنے والے بغیر حساب کے جنت میں جائیں گے۔ ( الزمر : ١٠) ٧۔ صبر کیجیے اللہ کا وعدہ برحق ہے۔ (الروم : ٦٠) ٨۔ اگر تم صبر کرو تو صبر کرنے والوں کے لیے بہترین اجر ہے۔ (النحل : ١٢٦) ٩۔ صبر کرو یقیناً اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ (الانفال : ٤٦) ١٠۔ اپنے رب کے حکم کے مطابق صبر کیجیے۔ (الدھر : ٢٤) ١١۔ بہت سی چھوٹی جماعتیں بڑی جماعتوں پر غالب آجاتی ہیں۔ یقیناً اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ (البقرۃ: ٢٤٩) غافر
78 غافر
79 فہم القرآن ربط کلام : اگر باطل پرست حق پانا اور دنیا، آخرت کے نقصان سے بچنا چاہتے ہیں تو انہیں کم ازکم چوپاؤں اور کشتیوں پر ہی غور کرلینا چاہیے اگر بلا تعصّب غور کریں گے تو یقیناً ہدایت پائیں گے۔ اس آیت کریمہ سے پہلے آیت نمبر ٦٠ میں حکم دیا گیا ہے کہ صرف اپنے رب سے مانگو اور اس کی عبادت کرو اس کے بعد آفاق اور انسان کو اپنی تخلیق اور خوراک پر غور کرنے کا حکم دیتے ہوئے فرمایا کہ تمہیں پیدا کرنے اور پالنے والا صرف ایک ” اللہ“ ہے۔ بس اس کے حکم کے مطابق اور پورے اخلاص کے ساتھ صرف اسی ہی کی عبادت کرو کیونکہ وہ ہمیشہ زندہ رہنے والا اور زندگی و موت کا مالک ہے۔ پھر مشرکین کے روییّ ان کے انجام کا ذکر کیا اور اس کے ساتھ ہی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو صبر کرنے کا حکم دیا اور اس بات سے آگاہ فرمایا کہ کہ کفر و شرک پر اصرار کرنے والے بالآخر نقصان اٹھائیں گے۔ اب کفر و شرک کے متوالوں کو ایک دفعہ پھر توحید کے ایسے دلائل دیئے جارہے ہیں۔ جن سے ہر کس وناکس کا واسطہ پڑتا ہے اور ہر دور کے انسانوں کو ان سے واسطہ پڑتا رہے گا۔ کون سا علاقہ اور ملک ہے جہاں چوپاۓ نہیں ہوتے اور لوگ ان سے استفادہ نہیں کرتے۔ لہٰذا توجہ دلائی جارہی ہے کہ جس اللہ سے مانگنے اور جس کی عبادت کا تمہیں حکم دیا جاتا ہے اسی نے تمہارے لیے چوپائے بنائے ہیں۔ جن میں ایسے بھی ہیں جن پر تم سواری کرتے ہو اور ان کا گوشت بھی کھاتے ہو اور کچھ ایسے بھی ہیں جن کا دودھ، گوشت استعمال کرنے کے ساتھ ان سے اور بھی کام لیتے ہو اور جہاں جانا چاہتے ہو انہیں سواری کے طور پر استعمال کرتے ہو۔ اللہ تعالیٰ اپنی قدرت کی نشانیاں دکھلاتا اور بتاتا ہے۔ لہٰذا تم اس کی کس کس قدرت کا انکار کرو گے۔ صرف اس بات پر غور کرو کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو جو سواریاں عطا فرمائی ہیں بیک وقت ان کے کتنے فائدے ہیں۔ انسان کو ابتدائے آفرینش سے یہ چوپائے میسر ہیں کہ ہزاروں سال شہری اور دیہاتی انہیں سواریوں کو ہی استعمال کرتے رہے ہیں۔ اونٹ پر غور فرمائیں کہ آج بھی یہ ایسی سواری ہے جو صحراء میں کئی کئی دن کھائے پیے بغیر مسافر کو لیے پھرتا ہے۔ بے شک انسان نے تیز سے تیز تر سواریاں بنالی ہیں۔ مگر عام لوگوں کو صحراء میں صرف اونٹ ہی کام دیتا ہے۔ جس کا گوشت کھایا جاتا ہے اور اس کی مادہ کا دودھ پیا جاتا ہے۔ اس کے اور بھی فوائد ہیں۔ اسی طرح گھوڑے کو دیکھیں کہ بڑی بڑی حکومتوں نے جدید سے جدید ترین ہیلی کا پٹر، گاڑیاں اور ٹینک تیار کرلیے ہیں۔ مگر گھوڑے کے بغیر آج بھی گزارا نہیں۔ کیونکہ پہاڑوں میں نقل و حمل کے لیے گھوڑے اور گدھے ہی فوج کے کام آتے ہیں۔ گھوڑے، اونٹ اور ہاتھی کی طاقت اور وجود کا اندازہ کریں۔ اگر انہیں طبعاً سرکش بنایا جاتا تو انسان کے بس میں تھا کہ اتنے آرام سے ان پر سواری کرلیتا۔ اب کشتی پر غور کریں کہ اگر اللہ تعالیٰ انسان کو کشتی بنانے کی سمجھ نہ دیتا تونہ صرف دنیا کے انسان ایک دوسرے سے کٹ کررہ جاتے بلکہ باہمی تجارت بھی اس قدر محدود ہوتی کہ لوگ ایک دوسرے سے استفادہ کرنے سے محروم رہ جاتے۔ کشتی سازی اور کشتی رانی اللہ تعالیٰ کا لوگوں پر وہ فضل عظیم ہے کہ جس کا جتنا شکریہ ادا کیا جائے وہ کم ہے۔ بعض اہل علم کا خیال ہے کہ کشتی بنانا سب سے پہلے نوح (علیہ السلام) کو سکھلایا گیا تھا۔ یہ بات اس لیے قرین قیاس نظر آتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح (علیہ السلام) کے بارے میں ارشاد فرمایا ہے کہ ہم نے نوح (علیہ السلام) پر وحی کی کہ تیری قوم میں جو لوگ ایمان لاچکے ہیں ان کے بعد کوئی شخص ایمان نہیں لائے گا ان پر افسوس کرنے کی بجائے آپ ہمارے سامنے ہماری وحی کے مطابق ایک کشتی تیار کریں اور ظالموں سے مخاطب ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ وہ اب غرق ہونے والے ہیں۔ (ھود : ٣٦، ٣٧) اللہ تعالیٰ انسان کو ہر حوالے سے اپنی قدرتیں دکھلاتا ہے جس کابرے سے برا شخص بھی اعتراف کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ اس کے باوجود کافر اپنے رب کا انکار کرتا ہے اور مشرک اس کے ساتھ دوسروں کو شریک بناتا ہے۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کے لیے چوپائے بنائے جن کا انسان دودھ پیتا، گوشت کھاتا اور ان پر سواری کرتا ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کے لیے چوپاؤں میں بے شمار فوائد رکھ دیئے ہیں۔ ٣۔ انسان چوپاؤں کو اپنی مرضی سے ہانکتا اور ان سے کام لیتا ہے۔ ٤۔ کافر اور مشرک اپنے رب کی قدرتوں کو جانتے ہیں مگر پھر بھی اس کے ساتھ کفر و شرک کرتے ہیں۔ غافر
80 غافر
81 غافر
82 فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ کی قدرت، اس کی نعمتوں اور اس کے واضح دلائل کو جھٹلانے والوں کا انجام۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کی راہنمائی کے لیے خارجی اور داخلی اسباب پیدا فرمائے ہیں۔ لیکن ان کی حقیقت پانے کے لیے انسان کا سلیم الفطرت ہونا ضروری ہے۔ انسان کی فطرت جتنی زندہ اور بیدار ہوگی اتنا ہی وہ ہدایت قبول کرنے میں مستعد ہوگا۔ خارجی اسباب میں خوف اور ڈر ایک ایسا سبب ہے کہ اگر انسان کو اپنے رب کا خوف پیدا ہوجائے تو وہ خود بخود نافرمانی کاراستہ چھوڑ کر اپنے رب کی تابعد اری کی شاہراہ پر گامزن ہوجاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے خوف کے ساتھ اور بھی خوف ہیں جن کی بنا پر آدمی نافرمانی کو چھوڑ کر ہدایت قبول کرلیتا ہے۔ اس خوف کو بیدار کرنے کے لیے قرآن مجید میں کئی بار اس طرف توجہ دلائی گئی ہے۔ اگر ظالموں کو اللہ تعالیٰ کی گرفت پر یقین نہیں آرہا تو انہیں چاہیے وہ زمین میں چل پھر کر ان کھنڈرات کا مشاہدہ کریں اور قرآن مجید اور تاریخ میں ان کے حالات پڑھیں۔ یقیناً انہیں معلوم ہوجائے گا کہ بالآخر ظالموں کا کیا انجام ہوا۔ ان میں اکثریت ایسے لوگوں کی تھی جو اہل مکہ سے زیادہ طاقتور اور ترقی کے اعتبار سے بہت آگے تھے۔ انہوں نے اپنی ترقی کی نمائش اور اپنا نام اور کام باقی رکھنے کے لیے بڑی بڑی یادگاریں تعمیر کیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کی گرفت کی تونہ وہ اپنے آپ کو بچا سکے اور نہ ہی انہیں کوئی اور بچانے والا تھا۔ ان کی بستیاں اجڑ گئیں، محلات قبرستانوں کی شکل اختیار کرگئے اور ان کی ترقی ہی ان کے لے وبال جان ثابت ہوئی۔ ان کا سب سے بڑا جرم یہ تھا کہ جب ان کے پاس ان کے رسول واضح دلائل کے ساتھ آئے تو انہوں نے ان کی دعوت قبول کرنے کی بجائے اپنے علم، عقل اور ترقی پر ناز کیا۔ رسولوں نے انہیں ” اللہ“ کے عذاب سے بہت ڈرایا مگر وہ انہیں مذاق کرتے رہے اور یہی مذاق ہی ان کی تباہی کا سبب ثابت ہوا۔ جب انہوں نے عذاب کو اپنے سامنے دیکھا تو بے ساختہ پکار اٹھے کہ جن کو ہم اپنے رب کے شریک بنایا کرتے تھے۔ ہم ان کا انکار کرتے ہیں اور اللہ وحدہ لاشریک پر ایمان لاتے ہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ کا اصول اور طریقہ یہ ہے کہ جب وہ کسی قوم پر عذاب نازل کرتا ہے تو پھر اس کا ایمان لانا اور اور آہ وزاریاں کرنا اسے کوئی فائدہ دیتا۔ یہی پہلی قوموں کے لیے اصول تھا کہ نزول عذاب سے پہلے جو لوگ اللہ تعالیٰ کو وحدہ لاشریک نہیں مانتے تھے۔ وہ دنیا میں ذلیل ہوئے اور آخرت میں نا ختم ہونیوالانقصان پائیں گے۔ (فَلَوْ لَا کَانَتْ قَرْیَۃٌ اٰمَنَتْ فَنَفَعَھَآ اِیْمَانُھَآ اِلَّا قَوْمَ یُوْنُسَ لَمَّآ اٰمَنُوْا کَشَفْنَا عَنْھُمْ عَذَابَ الْخِزْیِ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَ مَتَّعْنٰھُمْ اِلٰی حِیْنٍ) [ یونس : ٩٨] ” پھر کوئی ایسی بستی نہ تھی جو ایمان لائی ہو اور اس کے ایمان نے اسے فائدہ دیاہو، سوائے یونس کی قوم کے وہ ایمان لائے تو ہم نے ان سے دنیا کی زندگی میں ذلت کا عذاب دور کردیا اور انہیں ایک وقت تک فائدہ پہنچایا۔“ توبہ کب تک قبول ہوتی ہے؟ (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ إِِنَّ اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ لَیَقْبَلُ تَوْبَۃَ الْعَبْدِ مَالَمْ یُغَرْغِرْ) [ رواہ ابن ماجۃ: کتاب الزھد، باب ذکرا لتوبۃ] ” حضرت عبداللہ بن عمر (رض) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا یقیناً اللہ عزوجل بندے کی توبہ قبول کرتارہتا ہے جب تک جان حلق تک نہ پہنچ جائے۔“ مسائل ١۔ مغضوب قوموں نے اپنے علم و فہم اور ترقی کو انبیاء ( علیہ السلام) کی دعوت پر ترجیح دی اور انہیں مذاق کا نشانہ بنایا۔ ٢۔ پہلی اقوام کی تباہی سے عبرت حاصل کرنی چاہیے۔ تفسیر بالقرآن پہلی اقوام کی تباہی کا ایک منظر : ١۔ اللہ تعالیٰ نے بہت سی اقوام کو تباہ کیا۔ (الانعام : ٦) ٢۔ قوم نوح طوفان کے ذریعے ہلاک ہوئی۔ (الاعراف : ١٣٦) ٣۔ جب تم سے پہلے لوگوں نے ظلم کیا تو ہم نے ان کو تباہ کردیا۔ (یونس : ١٣) ٤۔ ثمود زور دار آواز کے ساتھ ہلاک کیے گئے۔ (الحاقۃ: ٥) ٥۔ قوم ثمود کے لیے دوری ہے۔ (ھود : ٦٨) ٦۔ عاد زبر دست آندھی کے ذریعے ہلاک ہوئے۔ (الحاقۃ: ٦) ٧۔ فاسق ہلاک کردیے گئے۔ (الاحقاف : ٣٥) ٨۔ قوم لوط کو زمین سے اٹھا کر آسمان کے قریب لے جاکر الٹا دیا گیا۔ (ھود : ٨٢) ٩۔ مدین والوں کا نام ونشان مٹ گیا۔ قوم ثمود کی طرح مدین والوں کے لیے دوری ہے۔ (ھود : ٩٥) ١٠۔ قوم عاد نے اپنے پروردگار کے ساتھ کفر کیا۔ قوم عاد کے لیے دوری ہے۔ (ھود : ٦٠) ١١۔ یہودیوں پر اللہ نے ذلت و محتاجی مسلط کردی۔ (البقرۃ: ا ٦) ١٢۔ یہودی اللہ کے غضب کے ساتھ لوٹے۔ (البقرۃ : ٩٠) ١٣۔ بنی اسرائیل پر حضرت داؤد اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے لعنت کی۔ (المائدۃ: ٧٨) غافر
83 غافر
84 غافر
85 غافر
0 سورۃ حٰمٓ السجدۃ کا تعارف یہ سورۃ ٥٤ آیات اور ٦ رکوع پر مشتمل ہے۔ مکہ معظمہ اور اس کے گردوپیش میں نازل ہوئی۔ ربط سورۃ: سورۃ المؤمن کا اختتام اس فرمان پر ہوا کہ مجرموں کے پاس جب بھی ان کے رسول واضح دلائل کے ساتھ آئے تو ان کی اقوام نے اپنے علم اور تجربہ پر ناز کرتے ہوئے انبیائے کرام (علیہ السلام) کو استہزا کا نشانہ بنایا۔ اس جرم کی پاداش میں اللہ تعالیٰ نے ان پر عذاب نازل کیا تو وہ پکار اٹھے کہ ہم ایک اللہ پر ایمان لاتے ہیں لیکن اس وقت ان کا ایمان ان کے لیے فائدہ مند ثابت نہ ہوا کیونکہ اللہ تعالیٰ کا اصول ہے کہ وہ عذاب نازل کرنے کے بعد مجرموں کو موقع نہیں دیا کرتا۔ سورۃ حٰم السجدۃ کی ابتداء اس فرمان سے ہو رہی ہے کہ اللہ تعالیٰ بڑا ہی مہربان اور شفقت فرمانے والا ہے۔ اس نے اپنی رحمت کی بنا پر لوگوں کی راہنمائی کے لیے مفصل کتاب نازل فرمائی ہے۔ جس میں برے لوگوں کو انتباہ کیا ہے اور اچھے لوگوں کو خوشخبری کا پیغام دیا ہے۔ لیکن لوگوں کی اکثریت اس طرح اعراض کرتی ہے جس طرح انہوں نے حق بات کو سنا ہی نہیں۔ حٰمٓ سورتوں میں یہ دوسری سورۃ ہے اس کا آغاز قرآن مجید کے تعارفی کلمات سے ہوتا ہے جس میں بتلایا گیا ہے کہ قرآن کی دعوت دو باتوں پر مشتمل ہے۔ جو اس پر ایمان لائیں گے ان کے لیے خوشخبری ہے اور جو اس سے اعراض کریں گے انہیں کھلے الفاظ میں انتباہ کیا جاتا ہے لیکن لوگوں کی اکثریت ہمیشہ اعراض ہی کیا کرتی ہے۔ اس سورۃ کی ابتدا میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ کہلوایا گیا ہے کہ آپ لوگوں میں واضح الفاظ میں اعلان کرتے جائیں کہ میں رشتہ انسانی کے اعتبار سے تمہارے جیسا انسان ہوں مگر میرا یہ اعزاز ہے کہ میری طرف وحی آئی ہے کہ میں تمہیں سمجھاؤں اور بتلاؤں کہ تمہارا الٰہ صرف ایک ہے۔ لہٰذا اس بات پر قائم ہوجاؤ۔ ہمیشہ اپنے گناہوں کی معافی مانگتے رہو اور یاد رکھو جو لوگ اپنے رب کی ذات اور صفات میں کسی دوسرے کو شریک کریں گے ان کے لیے ہلاکت ہی ہلاکت ہے۔ جو لوگ اپنے رب پر ایمان لائیں گے اور اس کے احکام کو تسلیم کریں گے ان کے لیے ایسا صلہ ہے جس میں کبھی کمی واقع نہیں ہوگی۔ جو لوگ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کفر کرتے ہیں کیا انہوں نے اس بات پر کبھی غور نہیں کیا کہ اللہ تعالیٰ نے زمین کو دو دن میں پیدا فرمایا پھر اس پر پہاڑ گاڑ دئیے۔ اس کے بعد دو دن میں سات آسمان بنائے ہر آسمان کو اس کے متعلقہ امور کا حکم دیا۔ پھر آسمان دنیا کو ستاروں سے سجایا اور شہاب ثاقب سے اس کی حفاظت کا بندوبست کیا۔ یہ ہے تمہارا رب جس نے پوری کائنات کو پیدا کیا ہے۔ اس حقیقت کے باوجود اہل مکہ اللہ کی توحید کا انکار کرتے اور لوگوں کو قرآن پڑھنے اور سننے سے روکتے تھے۔ انہیں سمجھانے اور برے انجام سے آگاہ کرنے کے لیے قوم عاد کا مختصر ذکر کیا گیا ہے۔ اس سورت میں آپ کو ارشاد فرمایا کہ سب سے بہتر وہ لوگ ہیں جو ” اللہ“ کی توحید پر ایمان لاتے ہیں اور اس کے تقاضے پورے کرتے ہیں۔ یاد رکھیں کہ نیکی اور بدی، اچھائی اور برائی برابر نہیں ہوتے لہٰذا آپ برائی کا جواب نیکی اور حسن اخلاق سے دیں تاکہ تمہارا دشمن تمہارے اخلاق اور دعوت کا اعتراف کرنے پر مجبور ہوجائے اور وہ آپ کا جگری دوست بن جائے۔ یہ مقام صبر سے حاصل ہوتا ہے۔ اگر کسی وقت آپ کو شیطان ورغلانے اور بھڑکانے کی کوشش کرے تو آپ ” اللہ“ کی پناہ مانگیں کیونکہ اللہ تعالیٰ ہی انسان کو شیطان کی شرارتوں اور سازشوں سے بچانے والا ہے۔ حٰمٓ السجدہ کے آخر میں ان لوگوں کو خوشخبری سنائی گئی ہے جو اپنے رب پر ایمان لائے اور مصائب، مشکلات کے باوجود اپنے ایمان پر پکے رہے۔ جب ان کو موت آئے گی تو ملائکہ انہیں تسلی دیں گے کہ کسی قسم کا خوف کھانے کی ضرورت نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے تمہارے لیے جنت کی خوشخبری ہے تم اس میں ہمیشہ رہو گے اور ہم دنیا میں بھی تمہارے ساتھی تھے اور آخرت میں بھی تمہارے ساتھ ہوں گے، جنت میں جو چاہو گے سو پاؤ گے وہاں رب رحیم کی طرف سے تمہاری مہمان نوازی کی جائے گی۔ یہ مہمانوازی ان لوگوں کے نصیب میں ہوگی جو ” اللہ“ کی توحید اور اس کے تقاضے پورے کریں گے۔ سجدہ تلاوت کی دعا (عَنْ عَاءِشَۃَ (رض) قَالَتْ کَانَ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَقُوْلُ فِیْ سُجُوْدِ الْقُرْاٰنِ بالَّلیْلِ سَجَدَ وَجْہِیَ لِلَّذِیْ خَلَقَہٗ وَشَقَّ سَمْعَہٗ وَبَصَرَہٗ بِحَوْلِہِ وَقُوَّتِہِ فَتَبارَکَ اللّٰہُ أحْسَنَ الْخَالِقِیْنَ) [ المستد رک علی الصحیحین للحاکم] ” حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قیام اللیل میں سجدہ تلاوت کے وقت یہ دعا کرتے تھے۔ میرا چہرہ اس ذات کا مطیع ہوا جس نے اپنی قدرت سے اسے بنا کرکان اور آنکھیں عطاکیے۔ اللہ تعالیٰ بہترین پیدا کرنے والا ہے۔“ فصلت
1 فہم القرآن سورۃ المومن کا خاتمہ اس بات پر ہوا تھا کہ باطل پر اصرار کرنے والے بالآخرنقصان اٹھائیں گے۔ سورۃ حٰمٓ سجدہ کا آغاز اس بات سے ہورہا ہے کہ اگر دنیا اور آخرت کے نقصان سے بچنا چاہتے ہو تو رب رحمٰن کی اتاری ہوئی کتاب پر پوری طرح ایمان لاؤ۔ لیکن اکثر لوگ اعراض ہی کیا کرتے ہیں۔ حم ٓ حروف مقطعات ہیں۔ جن کے بارے میں قرآن مجید کا فہم رکھنے والا جانتا ہے کہ ان کا معنٰی نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ثابت نہیں۔ سورۃ حٰمٓ سجدہ کا آغاز لفظ ” تَنْزِیْلٌ“ کے بعد ” اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ“ کی صفات سے ہورہا ہے۔ جس سے یہ بتانا مقصود ہے کہ بے شک تم انکار کرو لیکن یہ ناقابل تردید حقیقت ہے کہ اس قرآن میں ایک لفظ بھی ایسا نہیں جسے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی طرف سے بنایا اور شامل کیا ہو۔ قرآن سارے کا سارا اسی ذات اقدس نے نازل فرمایا ہے۔ جس کی شفقت اور مہربانی کی کوئی انتہا نہیں۔ لوگوں کی مکمل راہنمائی اور سہولت کی خاطر اس کی آیات اپنا مفہوم خود واضح کرتی ہیں۔ یہ عربی زبان میں ہے۔ اس سے وہی لوگ راہنمائی حاصل کریں گے جو صحیح دانست سے کام لیں گے۔ یہاں قرآن مجید کی تین صفات کو کھلے الفاظ میں اور ایک وصف کا اشارتاً ذکر کیا گیا ہے۔ 1 قرآن کے نزول میں کسی بندے یا پوری مخلوق میں سے کسی کا کوئی عمل دخل نہیں ہے۔ 2 اس کی آیات اپنا مدّعا کھول کر بیان کرتی ہیں۔ جس میں حق اور باطل، کھرے اور کھوٹے، نیک اور بد، نفع اور نقصان کے درمیان فرق واضح کردیا گیا ہے۔ 3 قرآن مجید عربی زبان میں نازل کیا گیا ہے جو دنیا کی تمام زبانوں سے زیادہ پُر تاثیر اور جامع زبان ہے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ قرآن عربی کے علاوہ کسی اور زبان میں کیوں نہیں نازل کیا گیا۔ اس کی تین وجوہات ہیں۔ 1 قرآن نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل ہوا ہے آپ اپنے اخلاق، کردار اور صلاحیتوں کے اعتبار سے پوری دنیا میں منفرد انسان تھے۔ جیسا نہ کوئی انسان تھا اور نہ ہوگا۔2 نزول قرآن کے وقت عربی تمام زبانوں میں فصیح زبان تھی اور اب بھی ہے اور انشاء اللہ قیامت تک رہے گی۔ 3 قرآن مجید کسی اور زبان میں نازل ہوتا تو اعتراض کرنے والے پھر اس زبان پر اعتراض کرتے کیونکہ آپ عربی تھے اس لیے قرآن عربی زبان میں ہے اور ہونا چاہیے تھا۔ 4 قرآن کسی فرشتے، جن اور بندے کی طرف سے نازل نہیں کیا گیا۔ یہ رب رحمن اور الرحیم نے نازل فرمایا ہے۔ جس میں کھلا اشارہ ہے کہ اگر اپنے رب کی شفقت اور مہربانی چاہتے ہو تو اس کی شفقت و مہربانی قرآن کی تعلیم اور اس پر عمل کرنے میں مضمر ہے۔ بالفاظ دیگر یہ قرآن تمہارے رب کی رحمت کا سرچشمہ ہے۔ قرآن کا لفظ تین معانی کے لیے استعمال کیا گیا ہے : 1۔ ایسی کتاب جو بار بار پڑھی جائے کیونکہ قرآن کی تلاوت بار بار اور کثرت کے ساتھ کی جاتی ہے اس لیے اس کو اللہ تعالیٰ نے قرآن کا نام دیا ہے۔ 2۔ جو حوض پانی سے لبالب بھرا ہوا ہو عرب اسے ” قرات الحوض“ کہتے ہیں، اسی سے ہی قرآن کا لفظ لیا گیا ہے۔ یعنی وہ کتاب جو علم معرفت سے لبالب ہے۔ 3۔ قرن کا معنی ملانا ہے، قرآن مجید کے الفاظ اور مضامین آپس میں ملے اور جڑے ہوئے ہیں اس لیے اس کا نام قرآن رکھا گیا ہے۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے ہی قرآن مجید نازل فرمایا ہے۔ ٢۔ قرآن مجید پیکر رحمت ہے۔ ٣۔ قرآن مجید کی آیات بہت ہی واضح ہیں ٤۔ قرآن مجید عربی زبان میں نازل کیا گیا ہے۔ تفسیربالقرآن قرآن مجید کے اوصاف حمیدہ کی ایک جھلک : ١۔ قرآن مجید لاریب کتاب ہے۔ (البقرۃ: ٢) ٢۔ قرآن مجید رحمت اور ہدایت کی کتاب ہے۔ (لقمان : ٣) ٣۔ قرآن مجیدلوگوں کے لیے ہدایت و رہنمائی کی کتاب ہے۔ (البقرۃ: ١٨٥) ٤۔ قرآن مجید بابرکت اور پہلی کتابوں کی تصدیق کرنے والا ہے۔ (الانعام : ٩٢) ٥۔ قرآن مجید میں ہدایت واضح کردی گئی ہے۔ (النحل : ٨٩) ٦۔ قرآن مجید روشن اور بین کتاب ہے۔ (المائدۃ: ١٥) ٧۔ قرآن مجید عربی زبان میں نازل ہوا ہے۔ (یوسف : ٣) ٨۔ قرآن مجید اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کیا گیا ہے۔ (الشعراء : ١٩٢) فصلت
2 فصلت
3 فصلت
4 فہم القرآن ربط کلام : قرآن مجید کے نزول اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کا مقصد نیک لوگوں کو خوشخبری سنانا اور بروں لوگوں کو ان کے برے انجام سے ڈرانا ہے نزول قرآن کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ اس کے ذریعے نیک لوگوں کو ان کے بہتر انجام کی خوشخبری دی جائے اور برے لوگوں کو ان کے برے انجام سے ڈرایا جائے۔ قرآن مجید نے متعدد مقامات پر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کا مقصد بیان کرتے ہوئے یہی بات بیان فرمائی ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تشریف آوری کا مقصد حقیقی ایمان اور صالح کردار رکھنے والوں کو دنیا اور آخرت کی خوشخبری سنانا اور باطل عقائد اور برا کردار رکھنے والوں کو ان کے بھیانک انجام سے ڈرانا ہے۔ جسے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پورے خلوص اور جانفشانی کے ساتھ کھول کر بیان کردیا۔ لیکن اس کے باوجود لوگوں کی اکثریت نے اعراض کیا اور آپ کی بات سننے کے لیے تیارنہ ہوئے۔ نہ صرف سننے کے لیے تیارنہ ہوئے بلکہ کھلے الفاظ میں کہتے ہیں کہ جس بات کی آپ دعوت دیتے ہیں اس کے بارے میں ہمارے دلوں پر پردے پڑچکے ہیں۔ ہمارے کان اسے سننے سے بہرے ہیں اور ہمارے اور تیرے درمیان ایک پردہ حائل ہوچکا ہے۔ تم اپنا کام کرو اور ہم اپنا کام کرتے رہیں گے۔ مکہ کی غالب اکثریت کا یہی رویہّ تھا اس لیے انہوں نے اپنے بارے میں یہ الفاظ استعمال کیے۔ اس کے دو مفہوم بنتے ہیں۔ ١۔ تم دعوت دینے سے باز آنے والے نہیں اور ہم مرتے دم تک آپ کی مخالفت چھوڑنے والے نہیں۔ ٢۔ تم اپنا کام کرو اور ہم اپنا کام کریں گے۔ یعنی تم اپنے طریقے کے مطابق رب کی عبادت کرو ہم اپنے طریقے کے مطابق عبادت کریں گے۔ سرداران قریش دعوت اسلام کو نیچا دکھانے کے لیے کئی طرح کے ہتھکنڈے استعمال کرتے رہے۔ مگر ناکام ہوئے بالآخر انہوں نے یہ ہتھکنڈا استعمال کیا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ان کے درمیان سمجھوتہ ہوجائے۔ ایک دن رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حرم کے ایک گوشہ میں تشریف فرما تھے اور دوسرے گوشہ میں چند سرداران قریش بیٹھے ہوئے تھے۔ عتبہ بن ربیعہ ایک معزز قریشی سردار، نہایت بہادر اور فطرتاً نیک دل انسان تھا۔ وہ اپنے ساتھیوں سے کہنے لگا کہ میں محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے کچھ باتیں پیش کرنا چاہتا ہوں۔ امید ہے کہ وہ ان میں سے ایک نہ ایک ضرور مان لے گا۔ اگر اس نے میری بات قبول کرلی تو ہم اس مصیبت سے نجات حاصل کرلیں گے۔ اس کے ساتھیوں نے کہا : ابو الولید ! آپ یہ کام ضرور کریں۔ چنانچہ عتبہ وہاں سے اٹھ کر رسول اکر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آکر کہنے لگا۔ بھتیجے! قوم میں جو تفریق پیدا ہوچکی ہے آپ اسے جانتے ہیں۔ میں چند باتیں پیش کرتاہوں ان میں سے جو چاہو پسند کرلو۔ مکہ کی حکومت چاہتے ہو یا کسی بڑے گھرانے میں شادی یا مال و دولت ؟ اور اگر آپ کے پاس کوئی جن بھوت آتا ہے تو اس کے علاج کی بھی ذمہ داری قبول کرتے ہیں۔ مگر آپ اپنی دعوت سے باز آجائیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عتبہ کی باتیں سنتے رہے۔ جب عتبہ خاموش ہوگیا تو آپ نے فرمایا۔ اب میرا جواب سن لیں آپ نے سب باتوں کے جواب میں اسی سورۃ کی ابتدائی چند آیات تلاوت فرمائیں۔ جب آپ اس آیت پر پہنچے تو عتبہ کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے اور اس نے آپ کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا۔ اسے یہ خطرہ محسوس ہوا کہ کہیں یہ عذاب اسی وقت نہ اتر پڑے پھر وہ اٹھ کراپنے ساتھیوں کے پاس آکر کہنے لگا۔ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو کلام پیش کرتا ہے وہ شاعری نہیں۔ بلکہ کلام ربانی ہے تم اسے اس کے حال پر چھوڑ دو۔ اگر وہ عرب پر غالب آگیا تو اس میں تمہاری ہی عزت ہے اور اگر وہ خود ہی ختم ہوگیا تو یہی تم چاہتے ہو۔ اس کے ساتھیوں نے کہا : ابو الولید ! معلوم ہوتا ہے کہ تم پر بھی اس کا جادو چل گیا ہے۔ (تفسیر ابن کثیر) مسائل ١۔ اللہ کے رسول ایمانداروں کو خوشخبری دینے اور دوسروں کو ڈرانے کے لیے تشریف لاتے تھے۔ ٢۔ کفار فخر و غرور اور جہالت کی بنیاد پر کہتے تھے کہ ہمارے دلوں پر پردہ، کانوں پر بوجھ اور تیرے اور ہمارے درمیان ایک رکاوٹ کھڑی ہوچکی ہے۔ ٣۔ لوگوں کی اکثریت حقیقت سننے کے لیے تیار نہیں ہوتی۔ فصلت
5 فصلت
6 فہم القرآن ربط کلام : قرآن مجید کو اپنے لیے بوجھ قرار دینے والوں کو نبی محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا جواب۔ جو شخص گمراہی اور اپنی جہالت کا اعتراف کرنے کے باوجود اس پر اترائے۔ اس کے ساتھ جھگڑنے یا اس پر مزید وقت صرف کرنے کی بجائے اس سے کنارہ کشی اختیار کرنی چاہیے۔ اسی کے پیش نظر اللہ تعالیٰ نے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے فرمایا کہ آپ ان لوگوں سے فرما دیں کہ بحیثیت انسان میں بھی تمہارے جیسا ایک بشر ہوں۔ فرق یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے رسول منتخب کیا اور مجھے حکم دیا ہے کہ میں تم پر واضح کروں کہ ہر قسم کی عبادت کے لائق صرف ایک اللہ کی ذات ہے۔ اس کا حکم ہے کہ ادھر ادھر کے راستوں کو چھوڑ کر صرف اسی کے راستے پر پکے ہوجاؤ۔ اپنے گناہوں کی معافی مانگو ! اور کفر و شرک سے تائب ہوجاؤ ! یاد رکھو ! کہ مشرکین کے لیے ویل ہے۔ ویل سے مراد افسوس اور جہنّم ہے۔ ان کے لیے بھی ویل ہے جو زکوٰۃ ادا نہیں کرتے اور آخرت پر ایمان نہیں لاتے۔ ان کے مقابلے میں جو لوگ جو ایمان لائے اور صالح اعمال کرتے رہے ان کے لیے ایسا اجر ہے جو نہ کم ہوگا اور نہ ہی ختم ہوگا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے آپ کی بشریت کا اعلان کروانے کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ لوگوں کو معلوم ہو کہ نبی کا کام حق بات پہنچانا ہے منوانا نہیں کسی کو ہدایت دینا صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے۔ لہٰذا اگر تم نے اپنے لیے گمراہی کو پسند کرلیا ہے تو پھر میں کیا کرسکتا ہوں ؟ بحیثیت انسان میرے ذمّہ حق بات پہنچانا ہے کسی کو ہدایت دینا میرے بس کی بات نہیں۔ البتہ یہ بات یادرکھوکہ مشرک اور وہ لوگ بھی جہنّم میں جائیں گے جو زکوٰۃ اور آخرت کے منکر ہیں۔ اکثر اہل علم نے یہاں لفظ زکوٰۃ کا معنٰی شرک سے پاک ہونا مراد لیا ہے۔ (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَسْعُوْدٍ (رض) یَبْلُغُ بِہِ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ مَامِنْ رَجُلٍ لَا یُؤَدِّیْ زَکَاۃَ مَالِہٖ إِلَّا جَعَلَ اللّٰہُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ فِیْ عُنُقِہٖ شُجَاعًا ثُمَّ قَرَأَ عَلَیْنَا مِصْدَاقَہُ مِنْ کِتَاب اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ (وَلَا یَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ یَبْخَلُوْنَ بِمَا آتَاھُمُ اللّٰہُ مِنْ فَضْلِہٖ) الآیۃَ) [ رواہ الترمذی : کتاب : تفسیرالقرآن، باب ومن سورۃ آل عمران] ” حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) اس بات کو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حوالے سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا جو آدمی اپنے مال کی زکوٰۃ نہیں دیتا۔ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کا مال اس کی گردن میں گنجا سانپ بنا کر ڈالے گا۔ پھر آپ نے کتاب اللہ سے اس آیت کی تلاوت کی (وَلَا یَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ یَبْخَلُوْنَ بِمَا آتَاھُمُ اللّٰہُ مِنْ فَضْلِہٖ)۔“ مسائل ١۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بشر تھے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ کے سوا دوسرا کوئی الٰہ نہیں۔ ٣۔ جو لوگ زکوٰۃ کی ادائیگی کا خیال نہیں رکھتے یقیناً وہ آخرت کے انکاری ہیں۔ ٤۔ ایمان لانے اور صالح اعمال کرنے والوں کے لیے دائمی اجر وثواب ہے۔ تفسیر بالقرآن تمام انبیاء (علیہ السلام) بشر تھے : ١۔ انبیاء ( علیہ السلام) کا اقرار کہ ہم بشر ہیں۔ (ابراہیم : ١١) ٣۔ ہم نے آدمیوں کی طرف وحی کی۔ (یوسف : ١٠٩) ٢۔ ہم نے آپ سے پہلے جتنے نبی بھیجے وہ بشر ہی تھے۔ (النحل : ٤٣) ٤۔ شعیب (علیہ السلام) کی قوم نے کہا کہ تو ہماری طرح بشر ہے اور ہم تجھے جھوٹا تصور کرتے ہیں۔ (الشعراء : ١٨٦) ٥۔ نہیں ہے یہ مگر تمہارے جیسا بشر اور یہ تم پر فضیلت حاصل کرنا چاہتا ہے۔ (المومنون : ٢٤) ٦۔ نہیں ہے تو مگر ہمارے جیسا بشر کوئی نشانی لاؤ اگر تو سچا ہے۔ (الشعراء : ١٥٤) ٧۔ نہیں ہے یہ مگر تمہارے جیسا بشر جیسا تم کھاتے ہو، ویسا وہ کھاتا ہے۔ (المومنون : ٣٣) ٨۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اعلان فرمائیں کہ میں تمہارے جیسا انسان ہوں۔ (الکہف : ١١٠) ٩۔ نبی آخر الزماں (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اعتراف کہ میں تمہاری طرح بشر ہوں۔ (حٰمٓالسجدۃ: ٦) فصلت
7 فصلت
8 فصلت
9 فصلت
10 فہم القرآن ربط کلام : مشرک اور کافر جس حقیقی الٰہ کے ساتھ شرک اور کفر کرتے ہیں صرف اسی ایک ذات نے زمین و آسمانوں اور پہاڑوں کو بنایا ہے۔ کیا کوئی ہستی ہے ؟ جس نے یہ کام کیے ہوں؟ قرآن مجید نے یہ بات بھی بار ہا دفعہ بتلائی ہے کہ رمینوں آسمانوں کو اللہ تعالیٰ کے سوا کسی نے نہیں بنایا اور نہ ہی ان کے بنانے میں کوئی اللہ تعالیٰ کا شریک تھا۔ اس لیے یہاں کفار سے استفسار کیا گیا ہے کہ کیا تم اس ذات کبریا کا انکار کرتے ہو جس نے زمین کو دویوم میں پیدا فرمایا۔ تم بتوں، بزرگوں اور دوسروں کو اس کا شریک ٹھہراتے ہو۔ حالانکہ تمام جہانوں کا پیدا کرنے والا ایک ” اللہ“ ہی عبادت کے لائق ہے۔ اسی نے زمین پر پہاڑ بنائے اور زمین میں برکت پیدا فرمائی اور اس میں ہر قسم کا معیشت کا سامان رکھا۔ جو ضرورت مندوں کے لیے برابر ہے۔ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جنہوں نے آپ سے سوال کیا ہے ان کا یہ جواب ہے۔ یہودیوں کا ایک وفد آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہو کر زمین و آسمانوں کے بارے میں سوال کرتا ہے جس کے جواب میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ زمین اتوار اور پیر کے دن، پہاڑ اور جو کچھ ان میں معدنیات ہیں انہیں منگل کے دن، درخت، دریا، سمندر اور صحراء وغیرہ بدھ کے دن بنائے گئے اس طرح یہ نظام چار دن میں اپنی تکمیل کو پہنچا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے آسمان بنانے کا ارادہ فرمایا جو دھویں کی شکل میں تھا۔ زمین اور آسمان کو حکم صادر فرمایا کہ خوشی یا نا خوشی سے میرے پاس حاضر ہوجاؤ۔ زمینوں اور آسمانوں نے عرض کی کہ ہم بڑی خوشی کے ساتھ آپ کے حضور حاضر ہیں۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے دو دن میں آسمان بنائے اور ہر آسمان میں جو کچھ پیدا فرمایا اسے حکم دیا کہ تو نے یہ یہ کام سرانجام دینے ہیں۔ پھر آسمان دنیا کو ستاروں سے مزیّن فرمایا اور شیطانوں سے اس کی حفاظت کا بندوبست کیا۔ اس نظام کو صرف ” اللہ“ غالب جاننے والے نے ہی اپنی مرضی سے بنایا اور پوری طرح مربوط کیا ہے۔ پہلی آیت میں یہ ذکر ہوا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آسمان بنانے کا ارادہ فرمایا تو زمین اور آسمان کو حکم دیا کہ خوشی یا نا خوشی شے میرے پاس حاضر ہوجاؤ۔ گویا کہ یہ شاہی فرمان تھا کہ تم چاہو یا نہ چاہو بہرحال تمہیں یہ کام کرنا ہوگا۔ ان الفاظ میں بین السطور اللہ تعالیٰ کی رفعت وجلالت کا پتہ چلتا ہے۔ زمین و آسمان سے مراد ان کا میٹریل ہے۔ جو اللہ تعالیٰ کے پہلے حکم پر معرض وجود میں آچکا تھا۔ جس کی موجودہ زمانے کے کچھ سائنسدان بھی تائید کرتے ہیں۔ اس کا دوسرا معنٰی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے زمین میں ہر چیز کا ذخیرہ فرمادیا تاکہ زمین میں رہنے والی مخلوق قیامت تک اپنی ضرورت پوری کرتی رہے گی۔ اس میں پہاڑ، سمندر، صحراء اور ہر چیز شامل ہے اس میں اس بات کا بھی خیال رکھا گیا۔ کہ کسی ایک علاقے کی بجاۓ مختلف چیزوں کو زمین کے مختلف طبقات میں رکھا جائے تاکہ تمام لوگ ایک دوسرے کے محتاج ہوں اور آپس میں رابطہ رکھنے کی ضرورت محسوس کرتے رہیں۔ اس لیے سائلین کا معنٰی حاجت مند بھی کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے زمین، سمندر اور پہاڑوں میں اس طرح خزانے چھپادئیے ہیں کہ ہر دور کے انسان اپنی کوشش اور صلاحیت کے مطابق نکالتے رہیں گے۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے زمین کو دو دنوں میں تخلیق فرمایا۔ ٢۔ اللہ نے زمین کی تخلیق کے بعد اس میں پہاڑ جما دیے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ نے سات آسمانوں کو دو دنوں میں پیدا کیا۔ ٤۔ زمین و آسمانوں میں اللہ کا ہی حکم چلتا ہے۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ نے انسان اور ہر جاندار کے لیے زمین، پہاڑ اور سمندر میں رزق رکھ کر اس میں برکت پیدا کردی ہے۔ ٦۔ اللہ تعالیٰ نے آسمان دنیا کو ستاروں سے مزین کیا اور اس سے آسمان کی حفاظت کا بندوبست بھی فرمایا ہے۔ ٧۔ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر غالب اور سب کچھ جاننے والا ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ ہی ہر چیز کا خالق ہے : ١۔ اللہ نے انسان کو مٹی سے پیدا کیا۔ (الروم : ٢٠) ٢۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو ایک نطفے سے پیدا کیا۔ (الدھر : ٢) ٣۔ اللہ ہی نے انسان کو بڑی اچھی شکل و صورت میں پیدا فرمایا۔ (التین : ٤) ٤۔ اللہ نے ایک ہی جان سے سب انسانوں کو پیدا کیا۔ (الاعراف : ١٨٩) ٥۔ اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں اور زمین و آسمانوں کو پیدا فرمایا۔ (البقرۃ: ٢٢) ٦۔ اللہ ہی پیدا کرنے والاہے اور اس کا ہی حکم چلنا چاہیے۔ (الاعراف : ٥٤) ٧۔ لوگو اس رب سے ڈر جاؤ جس نے تمہیں پیدا کیا ہے۔ (النساء : ١) ٨۔ اللہ تعالیٰ ہی رازق ہے۔ (الذاریات : ٥٨) ٩۔ اللہ ہی رزق فراخ کرتا اور کم کرتا ہے۔ (ا لسباء : ٣٩) ١٠۔ اللہ تعالیٰ لوگوں سے رزق طلب نہیں مانگتا بلکہ وہ لوگوں کو رزق دیتا ہے۔ (طٰہٰ : ١٣٢) فصلت
11 فصلت
12 فصلت
13 فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ کی قدرتیں دیکھنے اور اس کی نعمتیں استعمال کرنے کے باوجود جو لوگ اپنے رب کے ساتھ کفر و شرک کرتے ہیں۔ انہیں قوم عاد اور قوم ثمود کے انجام پر نظر رکھنا چاہیے۔ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ کے مخاطبین ہر قسم کے دلائل سُننے اور حقائق جاننے کے باوجود اپنے رب کے ساتھ کفر و شرک چھوڑ نے کے لیے تیار نہیں تو انہیں فرما دیں کہ میں نے تمہیں قوم عاد اور قوم ثمود کے دھماکوں سے ڈرا دیا ہے۔ ان کے پاس اور ان کے بعد رسول آئے اور انہوں نے زندگی بھر انہیں دعوت دی کہ اللہ کے سوا نہ کسی کو معبود مانو اور نہ کسی اعتبار سے ان کی بندگی کرو۔ قوم عاد اور ثمود نے اس بات کو قبول کرنے سے انکار کیا اور کہا اگر واقعی ” اللہ“ اپنا پیغام پہنچانا چاہتا تو تمہاری بجائے ہمارے پاس فرشتے بھیجتا۔ جس چیز کی تم دعوت دیتے ہو ہم اسے ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ حق کے منکرین کی شروع سے یہ عادت ہے کہ وہ رسولوں کو انسان تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ فرق صرف یہ ہے پہلے لوگ انبیائے کرام (علیہ السلام) کی نبوت کا اس لیے انکار کرتے تھے کہ بشر نبوت جیسے عظیم منصب پر فائز نہیں ہوسکتا اور آج کلمہ پڑھنے والے بعض مسلمان کہتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بشر کہنا آپ کی توہین ہے۔ فرق یہ ہے کہ اہل مکہ آپ کو بشر مانتے تھے لیکن رسالت کا انکار کرتے تھے۔ آج کچھ مسلمان آپ کی نبوت مانتے ہیں لیکن بشریت کا انکار کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان اور پہاڑوں کا ذکر فما کر اپنی کبریائی کا اشارہ کیا اور بتلایا کہ قوم عاد اور قوم ثمود بھی اپنے آپ کو بڑا سمجھتے تھے۔ اور اہل مکہ بھی اپنے اپ کو بڑا سمجھتے ہیں۔ جس طرح قوم عاد اور ثمود کا برا انجام ہے اسی طرح مکہ والے بھی برے انجام کو پہنچے گے۔ مسائل ١۔ قوم عاد اور قوم ثمود کی تباہی سے عبرت حاصل کرنی چاہیے۔ ٢۔ کفار نے انبیاء (علیہ السلام) کی نبوت کا اس لیے انکار کیا کہ وہ انسان تھے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے رسول اس لیے مبعوث فرمائے تاکہ وہ لوگوں کو سمجھائیں کہ صرف ایک اللہ کی عبادت کی جائے۔ تفسیربالقرآن نبوت کو تسلیم نہ کرنے کے بہانے : ١۔ مشرکین نے کہا اگر اللہ چاہتا تو ہم اس کے علاوہ کسی کی عبادت نہ کرتے۔ (النحل : ٣٥) ٢۔ عنقریب مشرکین کہیں گے اگر اللہ چاہتا تو ہم شرک نہ کرتے۔ (الانعام : ١٤٨) ٣۔ کفار نے کہا ہم اس وقت تک ایمان نہیں لائیں گے جب تک تو زمین سے ہمارے لیے کوئی چشمہ جاری نہ کر دے۔ (بنی اسرائیل : ٩٠) ٤۔ مشرکین نے آپ پر اعتراض کیا کہ آپ پر خزانہ کیوں نہیں نازل ہوتا۔ (ھود : ١٢) ٥۔ بنی اسرائیل نے کہا اے موسیٰ جب تک ہم اللہ کو اپنے سامنے نہیں دیکھ لیتے ہم ایمان نہیں لائیں گے۔ (البقرۃ: ٥٥) ٦۔ قرآن کے نزول کے وقت منافقین ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگتے تھے۔ (التوبۃ: ١٢٧) ٧۔ منافقین قرآن مجید کے نزول کا مذاق اڑاتے اور کہتے ہیں اس سے کس کے ایمان میں اضافہ ہوا؟ (التوبۃ: ١٢٤) ٨۔ جب قرآن کا کوئی حصہ نازل ہوتا ہے کہ اللہ پر ایمان لاؤ اور اس کے رسول سے مل کر جہاد کرو تو منافق بہانے تراشنے لگتے ہیں۔ (التوبۃ: ٨٦) ٩۔ جب کوئی محکم سورۃ نازل ہوتی اور اس میں قتال کا تذکرہ ہوتا ہے تو منافق آپ کی طرف ایسے دیکھتے جیسے ان پر موت کی بیہوشی طاری ہوگئی ہو۔ (سورہ محمد : ٢٠) فصلت
14 فصلت
15 فہم القرآن ربط کلام : قوم عاد کا کفر اور اس کا انجام۔ حضرت ھود (علیہ السلام) کا تعلق عرب کے عاد قبیلے سے تھا جن کی رہائش موجودہ جغرافیے کے مطابق عمان اور یمن کے علاقے حضرموت کے درمیان تھی۔ یہ علاقہ سمندر کے کنارے پر واقع تھا یہاں ریت کے بڑے بڑے ٹیلے اور بلندوبالا پہاڑ ہیں۔ قوم عاد کے لوگ جسمانی اعتبار سے دراز قامت، کڑیل جوان اور قوی ہیکل تھے۔ دنیا میں ان کا کوئی ثانی نہیں تھا۔ انہوں نے پہاڑتراش، تراش کر خوبصورت محلات تعمیر کر رکھے تھے۔ ان کی سرزمین نہایت سر سبزتھی جس میں ہر قسم کے باغات آراستہ تھے انھیں قرآن مجید میں ” احقاف والے“ کہا گیا ہے۔ احقاف ریت کے بڑے بڑے ٹیلوں کو کہا جاتا ہے جو عرب کے جنوب مغربی حصہ میں واقع تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اسی علاقہ میں حضرت ھود علیہ السلامکو مبعوث فرمایا جو خوش اندام، کڑیل جوان اور بہترین صورت و سیرت کے حامل تھے۔ قوم عاد کی خصوصیات اور جرائم : ١۔ اللہ تعالیٰ نے عاد کو قوم نوح کے بعد زمین پر اقتدار اور اختیار بخشا۔ (الاعراف : ٦٩) ٢۔ قوم عاد اس قدر کڑیل اور قوی ہیکل جوان تھے کہ ان جیسا دنیا میں کوئی اور پیدا نہیں کیا گیا۔ (الفجر ٦ تا ٨ ) انھیں افرادی قوت اور مویشیوں سے نوازا گیا۔ (الشعراء : ١٣٣) ٣۔ یہ قوم بڑے بڑے محلات میں رہتی تھی۔ کھیتی باڑی اور باغات میں ان کا کوئی ثانی نہیں تھا۔ (الشعراء ١٢٩ تا ١٣٤) ٤۔ انھوں نے خود ساختہ معبود بنا رکھے تھے۔ (الانعام : ١٠١) ٥۔ قوم ثمود آخرت کو جھٹلانے والے اور دنیا پر اترانے والے تھے۔ (المؤمنون : ٣٣) ٦۔ ان کا عقیدہ تھا کہ اس دنیا کے سوا اور کوئی جہاں برپا نہیں ہوگا۔ (المؤمنون : ٣٧) ٧۔ قوم عاد اپنی قوت پر اترانے والے تھے۔ (حآالسجدۃ : ١٥) قوم عاد کے کفر کو اللہ تعالیٰ نے تکبّر قرار دیا ہے۔ بے شک کفر کرنے والا بول چال اور معاملات میں کتنا ہی بااخلاق کیوں نہ ہو حقیقت میں وہ متکبر ہوتا ہے۔ کیونکہ وہ اللہ اور اس کے رسول کی بات کو ترجیح دینے کی بجائے اپنے مفاد اور نظریات کو مقدّم سمجھتا ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے کافر اور مشرک کو متکبّر قرار دیا ہے۔ قوم ثمود نے اس لیے تکبّر کیا تھا وہ سمجھتے تھے کہ جسمانی قوت اور دنیوی ترقی کے اعتبار سے ہم سے بڑھ کر کوئی نہیں۔ حالانکہ انہیں غور کرنا چاہیے تھا کہ جس ” اللہ“ نے انہیں پیدا کیا ہے وہ کتنا قوت والا ہے۔ انہوں نے اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کے احکام کا انکار کیا۔ جس بنا پر اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے کچھ دن منحوس بنا دئیے ان میں زبردست آندھیاں چلائیں۔ مسلسل آندھی اور بادوباراں کے طوفان کے ذریعے دنیا میں ذلّت کی موت مری اور آخرت میں ان کے لیے بڑا عذاب ہوگا اور انہیں کسی طرف سے کوئی مدد نہیں مل سکے گی۔ یاد رہے کہ اللہ تعالیٰ نے کوئی دن اور چیز فی نفسہٖ منحوس پیدا نہیں کی۔ منحوس ایام سے مراد جن ایام میں قوم ثمود پر عذاب نازل کیا گیا۔ وہ دن قوم ثمود کے لیے منحوس ثابت ہوئے۔ (وَعَنْہُ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لَا عَدْوٰی وَلَا طِےْرَۃَ وَ لَا ھَامَۃَ وَلاَ صَفَرَ وَفِرَّ مِنَ الْمَجْذُوْمِ کَمَا تَفِرُّ مِنَ الْاَسَدِ) [ رواہ بخاری : بَابُ الْجُذْامِ ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) ہی بیان کرتے ہیں کہ رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا‘ کوئی بھی بیماری متعدی نہیں۔ بد شگونی کی بھی نہیں ہے۔ نہ الوبد روح ہے اور نہ صفر کا مہینہ نحوست والا ہے۔ اور کوڑھی شخص سے اس طرح بھاگوجس طرح شیر سے بھاگتے ہو۔“ قوم عاد پر ” اللہ“ کے عذاب کی مختلف صورتیں : ١۔ سات راتیں اور آٹھ دن زبردست آندھی اور ہوا کے بگولے چلے۔ (الحاقۃ : ٧) (الشعراء : ٢٠) ٢۔ گرج چمک اور بادو باراں کا طوفان آیا۔ (الاحقاف : ٢٤) ٣۔ آندھیوں نے انھیں کھجور کے تنوں کی طرح پٹخ پٹخ کر دے مارا۔ (الحاقۃ: ٧) ٤۔ انھیں ریزہ ریزہ کردیا گیا۔ (الذاریات : ٤١، ٤٢) ٥۔ قوم عاد کو نیست و نابود کردیا گیا۔ (الاعراف : ٧٢) مسائل ١۔ قوم عاد اپنی طاقت کی وجہ سے متکبّر ہوگئی۔ حالانکہ جس ذات نے انہیں پیدا کیا وہ زیادہ طاقت ور ہے۔ ٢۔ قوم عاد نے تکبّر کی بنیاد پر اپنے رب کی ذات اور اس کے ارشادات کا انکار کیا۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ نے قوم عاد پر شدید آندھیاں چلائیں۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ نے قوم عادکودنیا میں ذلیل کیا اور آخرت میں شدید عذاب میں مبتلا ہوں گے۔ ٥۔ قوم عاد کی کوئی بھی مدد نہ کرسکا۔ ٦۔ قیامت کے دن بھی قوم عاد کی کوئی مدد نہیں کرسکے گا۔ تفسیربالقرآن قوم عاد کی تباہی کا ایک منظر : ١۔ قوم عاد کی تباہی کا سبب رسولوں کی نافرمانی تھی۔ (ھود : ٥٩) ٢۔ عاد زبر دست آندھی کے ذریعے ہلاک ہوئے۔ (الحاقۃ: ٦) ٣۔ قوم عاد نے اپنے رسول کو جھٹلایا تو اللہ نے ان کو ہلاک کردیا۔ (الشعراء : ١٣٩) ٤۔ (الحاقۃ : ٧) (الشعراء : ٢٠) (الاعراف : ٧٢) (الذاریات : ٤١، ٤٢) (الحاقۃ: ٧) (الاحقاف : ٢٤) فصلت
16 فصلت
17 فہم القرآن ربط کلام : قوم عاد کے بعد قوم ثمود کا کردار اور انجام۔ اس قوم کو اصحاب الحجر بھی کہا گیا ہے۔ اصحاب الحجر سے مراد وہ قوم اور علاقہ ہے جو مدینہ سے تبوک جاتے ہوئے راستے میں پڑتا ہے۔ یہ علاقہ جغرافیائی اعتبار سے خلیج اربعہ کے مشرق میں اور شہر مدین کے جنوب مشرق میں واقع ہے۔ قوم ثمود اس قدر ٹیکنالوجی اور تعمیرات کے معاملے میں ترقی یافتہ تھی کہ انہوں نے پہاڑوں کو تراش تراش کر مکانات اور محلات تعمیر کیے تھے تاکہ کوئی زلزلہ اور طوفان انہیں نقصان نہ پہنچا سکے۔ قوم ثمود کا کردار : ١۔ قوم ثمود اللہ کے ساتھ شرک کیا کرتی تھیں۔ (ھود : ٦٢۔ ٦١) ٢۔ ثمود انبیاء کو جھوٹا قرار دیتے تھے۔ (الشعراء : ١٤١) ٣۔ وہ پہاڑوں اور نرم زمین پر بڑے بڑے محل تعمیر کیا کرتے تھے۔ (الاعراف : ٧٤) ٤۔ وہ لوگ بہت زیادہ اسراف، تکبر اور زمین میں فساد کرنے والے تھے۔ (الشعراء : ١٥٢، ١٥١) ٥۔ قوم ثمود ہدایت کے بجائے گمراہی کو پسند کرتی تھی۔ ( حٰمٓ السجدۃ: ١٧) ٦۔ انہوں نے اللہ کی نشانی کو جھٹلایا۔ (ھود : ٦٦) قوم کے جواب اور الزامات : ١۔ اے صالح ہم تجھے بہت اچھا سمجھتے تھے مگر تو ہمارے آباؤ اجداد کو گمراہ قرار دیتا ہے۔ (ھود : ٦٢) ٢۔ کیا تو ہمیں ان کاموں سے روکتا ہے جو ہمارے بزرگ کرتے چلے آئے ہیں۔ (ھود : ٦٢) ٣۔ ہم تمھیں اور تمھارے ساتھیوں کو منحوس سمجھتے ہیں۔ (النمل : ٧٤) ٤۔ کیا ہم اپنے بزرگوں، آباؤ اجداد کے مذہب کو چھوڑ کر صرف تمھاری پیروی کریں۔ (القمر : ٢٤) ٥۔ صالح تو بہت جھوٹا اور متکبر ہے۔ (القمر : ٢٥) ٦۔ تم پر کسی نے جادو کردیا ہے۔ (الشعراء : ١٥٣) قوم کی ہٹ دھرمی اور عذاب کا مطالبہ : ١۔ انہوں نے قسمیں اٹھائیں کہ حضرت صالح کو اہل وعیال سمیت ختم کردیں گے۔ (النمل : ٤٩) ٢۔ قوم نے اونٹنی کی کونچیں کاٹ ڈالیں۔ (القمر : ٢٩) ٣۔ اے صالح ! ہم تمہارے عقیدے کا انکار کرتے رہیں گے۔ (الاعراف : ٧٦) ٤۔ اے صالح! تو جس چیز سے ہمیں ڈراتا ہے وہ لے آ۔ (الاعراف : ٧٧) عذاب کا وقت اور اس کی تباہ کاری : ١۔ قوم ثمود کو صبح کے وقت ہولناک دھماکے نے آلیا اور ان کی کمائی ان کے کچھ کام نہ آئی۔ (الحجر ٨٣۔ ٨٤) ٢۔ قوم ثمود کو تین دن کی مہلت دی گئی۔ (ھود : ٤٥) ٣۔ ہم نے ان پر ہولناک چیخ نازل کی وہ ایسے ہوگئے جیسے بوسیدہ اور سوکھی ہوئی باڑ ہوتی ہے۔ (القمر : ٣١) قوم ثمود کو حضرت صالح (علیہ السلام) نے زندگی بھر سمجھایا۔ مگر ان کی گمراہی ہدایت پر غالب آگئی۔ جس کے نتیجہ میں انہیں ایک دھماکہ کی صورت میں ذلّت آمیز عذاب نے آلیا۔ اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو عذاب سے بچا لیا جو صالح کردار اور ایماندار تھے۔ تفسیربالقرآن قوم ثمود کا انجام : ١۔ انھوں نے اونٹنی کی کونچیں کاٹ ڈالیں اور وہ نادم ہونے والوں میں سے ہوگئے۔ (الشعراء : ١٥٧) ٢۔ حضرت صالح اور حضرت شعیب کو جادو زدہ کہا گیا۔ (الشعراء : ١٥٣۔ ١٨٥) ٣۔ قوم ثمود نے حضرت صالح (علیہ السلام) سے عذاب کا مطالبہ کیا۔ (الاعراف : ٧٧) ٤۔ قوم ثمود کے بدبختوں نے اونٹنی کی ٹانگیں کاٹ دیں۔ الشمس : ١٤) ٥۔ ثمود زور دار آواز کے ساتھ ہلاک کیے گئے۔ (الحاقۃ: ٥) ٦۔ قوم عاد و ثمود کے اعمال بد کو شیطان نے ان کے لیے فیشن بنا دیا تھا۔ (العنکبوت : ٣٨) ٧۔ قوم ثمود کو زلزلے نے آپکڑا اور وہ اپنے گھروں میں اوندھے پڑے رہ گئے۔ (الاعراف : ٧٨) ٨۔ قوم ثمود کو چیخ نے آپکڑا۔ وہ اپنے گھروں میں اوندھے پڑے رہ گئے۔ (ھود : ٦٧) فصلت
18 فصلت
19 فہم القرآن ربط کلام : قوم عاد اور ثمود دنیا میں ذلّت کی موت مرے اور آخرت میں انہیں جہنّم میں داخل کیا جائے گا۔ اس سے پہلے قوم عاد اور ثمودکی تباہی کا ذکر ہوا جس میں یہ بتایا گیا کہ ہم نے صالح کردار ایمانداروں کو عذاب سے بچا لیا۔ تفصیل بیان نہیں کی گئی کہ صاحب ایمان اور صالح کردار کو کس طرح بچایا گیا تاہم یہ بات حقیقت ہے کہ جس نبی کی موجودگی میں اس کی قوم پر عذاب نازل ہوا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی اور اس کے ساتھیوں کو وہاں سے ہجرت کرنے کا حکم دیا تاکہ وہ لوگ عذاب سے محفوظ ہوجائیں۔ اب مجرموں کے اخروی انجام کا ذکر کیا جاتا ہے۔ جس کی ابتدا یوں ہوگی کہ جب محشرکے میدان میں تمام لوگ اکٹھے ہوں گے تو ایماندار اور صالح کردار حضرات کو ہلکے پھلکے حساب کے بعد جنت میں داخل ہونے کی اجازت دے دی جائے گی۔ ان کے مقابلے میں کفر و شرک کا عقیدہ رکھنے اور برے اعمال کرنے والوں سے کڑا حساب لیا جائے گا۔ ان میں ایسے مجرم بھی ہوں گے جو اپنے اعمال نامے کا انکار کردیں گے اور انبیائے کرام (علیہ السلام) کی شہادت کو یہ کہہ کر مسترد کردیں گے کہ ہمارے پاس تو کوئی نبی آیا ہی نہیں اور ہمیں کسی سمجھانے والے نے سمجھایا ہی نہیں تھا۔ ایسے مجرموں کے خلاف زمین گواہی دے گی اور ان کے اعضاء اور جسم شہادت دیں گے کہ ان کے مجرم ہونے میں کوئی شک نہیں ہے۔ حساب و کتاب کے وقت جنت اور جہنم کا قریب ہونا : (وَاُزْلِفَتِ الْجَنَّۃُ لِلْمُتَّقِیْنَ۔ وَبُرِّزَتِ الْجَحِیْمُ لِلْغَاوِینَ۔ وَقِیْلَ لَہُمْ اَیْنَ مَا کُنْتُمْ تَعْبُدُوْنَ) [ الشعراء : ٩٠ تا ٩٢] ” اس دن جنت پرہیزگاروں کے قریب لائی جائے گی۔ اور دوزخ گمراہ لوگوں کے سامنے کھڑی کی جائے گی۔ اور ان سے پوچھا جائے گا کہ کہاں ہیں وہ جن کی تم اللہ کو چھوڑ کر عبادت کرتے تھے؟“ مسائل ١۔ قیامت کے دن ” اللہ“ کے دشمنوں کو جہنّم کے قریب لاکھڑا کیا جائے۔ ٢۔ مجرموں کے اعضاء اور ان کے وجود ان کے خلاف گواہی دیں گے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ ہی ہر چیز کو بولنے کی صلاحیت عطا فرماتا ہے۔ تفسیربالقرآن قیامت کے دن شہادتیں : ١۔ قیامت کے دن ہر کسی اس کا اعمال نامہ دے کر کہا جائے گا اسے پڑھ۔ (بنی اسرائیل : ١٤) ٢۔ اعمال نامہ پڑھ کر مجرم کہیں گے کہ اس کتاب نے تو کوئی بات نہیں چھوڑی۔ ( الکہف : ٤٩) ٣۔ قیامت کے دن مجرموں کے خلاف گواہ پیش کیے جائیں گے۔ (ہود : ١٨) ٤۔ قیامت کے دن مجرم کے ہاتھ، پاؤں اور زبان اس کے خلاف گواہی دیں گے۔ (النور : ٢٤) ٥۔ قیامت کے دن مجرموں کے منہ پر مہر لگادی جائے گی پھر اس کے ہاتھ اور پاؤں اس کے خلاف گواہی دیں گے۔ (یٰس : ٦٥) ٦۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی امت کے بارے میں گواہی دیں گے۔ (البقرۃ: ١٤٣) ٧۔ تمام انبیاء ( علیہ السلام) اپنی اپنی امت کے بارے میں گواہی دیں گے۔ (النساء : ٤١) فصلت
20 فصلت
21 فصلت
22 فہم القرآن ربط کلام : جہنمیوں کے اعضاء کی مزید گواہی۔ جب جہنمیوں کے اعضاء اور ان کے وجود گواہی دے رہے ہوں گے تو اللہ تعالیٰ ارشاد فرمائے گا کہ کیا تم اپنا گھناؤنا کردار اس لیے چھپایا کرتے تھے کہ شاید تمہارے کان، تمہاری آنکھیں اور تمہاری چمڑیاں گواہی نہ دیں گی اور تم یہ بھی گمان رکھتے تھے کہ تمہارے بہت سے اعمال کا تمہارے رب کو علم نہیں ہوگا۔ اپنے رب کے بارے میں جو تم گمان رکھتے تھے۔ اسی نے تمہیں ہلاک کردیا اور تم نقصان پانے والوں میں شامل ہوگئے۔ اب صبر کرو یا واویلا کرو دونوں صورتوں میں تمہارا ٹھکانہ آگ ہے اور تمہاری توبہ قبول نہیں ہوگی۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو گناہوں سے بچانے کے لیے یہ سوچ اور عقیدہ دیا ہے کہ اسے ہر کوئی کام کرنے سے پہلے دو باتیں ذہن میں رکھنی چاہییں۔ پہلی بات یہ ہے کہ اسے کوئی دیکھے یا نہ دیکھے اللہ تعالیٰ اسے ہر حال میں دیکھ رہا ہوتا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ جن اعضاء کے ساتھ انسان حرکات و سکنات کرتا ہے یہ اعضاء اور انسان کا وجود اس کے حق یا اس کے خلاف گواہی دے گا۔ ” وہ غیب اور ظاہر کو جاننے والا، بہت بڑا اور نہایت بلندو بالا ہے۔ برابر ہے تم میں سے جو بات چھپا کر کرے یا اسے بلند آواز سے کرے اور جو رات کو چھپا ہوا ہے اور جو دن کو سرعام پھرنے والاہے۔ اس کے لیے اس کے آگے اور اس کے پیچھے یکے بعد دیگرے نگران لگے ہوئے ہیں، جو اللہ کے حکم سے اس کی حفاظت کرتے ہیں۔ بے شک اللہ نہیں بدلتا کسی قوم کو، یہاں تک کہ وہ اپنے آپ کو خود بدلے جو ان کے دلوں میں ہے اور جب اللہ کسی قوم پر مصیبت کا ارادہ کرلے تو اسے کوئی ہٹانے والا نہیں اور اللہ تعالیٰ کے سوا ان کا کوئی مددگار نہیں۔“ (الرعد : ٩ تا ١١) ” کیا تو نے نہیں دیکھا کہ اللہ تعالیٰ آسمانوں کی اور زمین کی ہر چیز سے واقف ہے۔ تین آدمیوں کی سرگوشی نہیں ہوتی مگر اللہ ان کا چوتھا ہوتا ہے اور نہ پانچ کی مگر ان کا چھٹا ہوتا ہے اور نہ ہی اس سے کم اور نہ ہی زیادہ۔ مگر ” اللہ“ ساتھ ہی ہوتا ہے جہاں بھی وہ ہوں۔ قیامت کے دن وہ انہیں ان کے اعمال سے آگاہ کرے گا بیشک اللہ تعالیٰ ہر چیز سے واقف ہے۔“ (المجادلۃ: ٧) مسائل ١۔ انسان اپنے رب سے کوئی بات چھپا نہیں سکتا۔ ٢۔ قیامت کے دن انسان کے اعضاء اس کے حق یا اس کے خلاف گواہی دیں گے۔ ٣۔ جہنمی آہ وزاریاں کریں گے لیکن ان کی توبہ قبول نہ ہوگی۔ تفسیر بالقرآن جہنم میں کفار اور مشرکین کی آہ زاریاں : ١۔ اے ہمارے رب ہمیں تھوڑی دیر کے لیے مہلت دے ہم تیری دعوت کو قبول اور تیرے رسول کی بات کو تسلیم کریں گے۔ (ابراہیم : ٤٤) ٢۔ جہنمی کہیں گے اے اللہ ہم نے دیکھ لیا اور سن لیا اب ہم کو واپس لوٹا دے۔ (السجدۃ: ١٢) ٣۔ اے ہمارے پروردگار ہمیں یہاں سے نکال لے ہم پہلے سے نیک عمل کریں گے۔ (فاطر : ٣٧) ٤۔ اے ہمارے رب! ہمیں یہاں سے نکال لے اگر دوبارہ ایسا کریں تو بڑے ظالم ہوں گے۔ (المومنون : ١٠٧) فصلت
23 فصلت
24 فصلت
25 فہم القرآن ربط کلام : جب انسان فکری اور اعتقادی طور پر اللہ تعالیٰ کو فراموش کردیتا ہے تو پھر وہ اپنے نظریات اور معاشرے کی رسومات کو اپنے لیے حرف آخر سمجھتا ہے اور یہ چیز اس پر اس طرح مسلط ہوجاتی ہے کہ وہ اس کے سوا کوئی بات سننا گوارا نہیں کرتا ایسے شخص کو اللہ تعالیٰ بھی کھلا چھوڑ دیتا ہے۔ انسان میں لاپرواہی اس وقت پیدا ہوتی ہے جب کوئی برا کام اس کے لیے فیشن بن جاتا ہے۔ جو لوگ قیامت کے حساب اور اپنے رب کو بھول جاتے ہیں۔ ان پر شیطان مسلّط کردیا جاتا ہے۔ جس پرشیطان مسلّط کردیاجائے۔ تو اس کی سوچ، کردار اور ماحول برا بن جاتا ہے۔ اگر حکمران ہے تو اس کے وزیر، مشیر، اس کے برے کاموں کی تعریف کرتے ہیں اور اسے باور کرواتے ہیں کہ آپ اور ملک لازم ملزوم ہیں۔ آپ کے جانے کے بعد ملک کا برا حال ہوجائے گا۔ اگر وہ کسی جماعت، قبیلے کا سربراہ ہے تو اس کے حواری کہتے ہیں کہ آپ تو جماعت اور قبیلے کے لیے ناگزیر ہیں۔ یہ سلسلہ اس وقت تک چلتا رہتا ہے جب تک وہ شخص لوگوں کی نظروں میں ذلیل نہیں ہوجاتا۔ جوں ہی وہ ذلّت کے گھاٹ اترتا ہے جو اس کی تعریف کرنے والے اس کی جگہ لینے والے کی تعریفیں کررہے ہوتے ہیں۔ ایسے شخص کو غلط کاموں اور خوشامد میں لذّت محسوس ہوتی ہے۔ اسی وجہ سے جنوں اور انسانوں کے پہلے گروہ گمراہ ہوئے اور انہیں کے گناہوں کے اثرات کے وجہ ان کی آنے والی نسلیں گمراہی کا شکار ہوئیں۔ قیامت کے دن یہ لوگ یقیناً نقصان پانے والے ہیں۔ یہ بات فہم القرآن کے کئی مقامات پر عرض کی ہے کہ جب گمراہی کی نسبت ” اللہ“ کی طرف ہوتی ہے تو اس کا معنٰی ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے اس کے گناہوں کے حوالے کردیتا ہے جو گمراہی اور تباہی کا آخری درجہ ہے۔ اس سے بچنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ انسان اپنے رب سے سچی توبہ اور برے ماحول سے نکل جائے۔ (عَنْ أَبِیْ مُوْسٰی (رض) عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ مَثَلُ الْجَلِیْسِ الصَّالِحِِ وَالسُّوْءِ کَحَامِلِ الْمِسْکِ وَنَافِخِ الْکِیْرِ فَحَامِلُ الْمِسْکِ إِمَّآ أَنْ یُّحْذِیَکَ وَإِمَّآ أَنْ تَبْتَاعَ مِنْہُ وَإِمَّآ أَنْ تَجِدَ مِنْہُ رِیْحًاطَیِّبَۃً وَنَافِخُ الْکِیْرِ إِمَّآ أَنْ یُّحْرِقَ ثِیَابَکَ وَإِمَّا أَنْ تَجِدَ رِیْحًاخَبِیْثَۃً) [ رواہ البخاری : کتاب الذبائح والصید، باب المسک] ” حضرت ابوموسیٰ (رض) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان فرماتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : اچھے اور برے ساتھی کی مثال کستوری بیچنے والے اور بھٹی پھونکنے والے کی طرح ہے۔ کستوری بیچنے والا یاتجھے تحفہ دے گا یا تم اس سے خرید لو گے یا تم اس سے اچھی خوشبو پاؤ گے اور بھٹی پھونکنے والا یا تمہارے کپڑوں جلا دے گا یا تو اس سے بری بو محسوس کرے گا۔“ (وَمَنْ یَّعْشُ عَنْ ذِکْرِ الرَّحْمٰنِ نُقَیِّضْ لَہٗ شَیْطٰنًا فَہُوَ لَہٗ قَرِیْنٌ) [ الزخرف : ٣٦] ” جو شخص رحمن کے ذکر سے منہ موڑتا ہے ہم شیطان کو اس کا ساتھی بنا دیتے ہیں۔“ مسائل ١۔ برے لوگوں کے لیے ان کے اعمال خوبصورت بنا دئیے جاتے ہیں۔ ٢۔ برے لوگوں پر اللہ کا عذاب برحق ثابت ہوتا ہے۔ ٣۔ برے جنّات اور انسان ناقابل تلافی نقصان پائیں گے۔ تفسیربالقرآن دنیا اور آخرت میں نقصان پانے والے لوگ : ١۔ اللہ کفار کے اعمال دنیا میں تباہ کرے گا اور وہ آخرت میں خسارہ پائیں گے۔ (التوبۃ: ٦٩) ٢۔ اسلام کا انکار کرنے والے نقصان پائیں گے۔ (البقرۃ : ١٢١) ٣۔ اسلام کے بغیر دین تلاش کرنے والے نقصان پائیں گے۔ (آل عمران : ٨٥) ٤۔ شیطان کی تابعداری کرنے والے نقصان پائیں گے۔ (المجادلۃ: ١٩) ٥۔ مشرک نقصان پائیں گے۔ (الزمر : ٦٥) ٦۔ کافر نقصان پائیں گے۔ (النحل : ١٠٩) ٧۔ اگر تو نے ہمیں معاف نہ کیا اور ہم پر رحم نہ فرمایا تو ہم نقصان پانے والے ہوں گے۔ (الاعراف : ٢٣) ٨۔ جس نے اللہ کے سوا شیطان کو دوست بنالیا اس نے بہت نقصان پایا۔ (النساء : ١١٩) ٩۔ ان لوگوں نے نقصان پایا جنہوں نے اللہ کی ملاقات کی تکذیب کی۔ (الانعام : ٣١) فصلت
26 فہم القرآن ربط کلام : جس طرح پہلے لوگ گمراہ ہوئے اسی طرح ہی اہل مکہ نے گمراہی اختیار کی۔ ابھی بیان ہوا ہے کہ جو لوگ اپنے لیے گمراہی کا راستہ پسند کرتے ہیں ان کے لیے ان کے اعمال خوبصورت بنا دیئے جاتے ہیں۔ جس کے لیے شیطان برے اعمال خوبصورت بنا دے پھر اسے سمجھ نہیں رہتی کہ میں کس قدر گمراہی میں آگے نکل چکا ہوں۔ یہی صورت حال اہل مکہ کی تھی۔ اللہ کے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) انہیں قرآن مجید اس لیے سناتے تھے تاکہ یہ لوگ گمراہی کے راستے کو چھوڑ کر صراط مستقیم پر آجائیں۔ آپ کی تلاوت سن کر لوگ بالخصوص نوجوان طبقہ آپ کی طرف متوجہ ہورہا تھا۔ یہاں تک کہ نبوت کے ابتدائی تین سالوں میں ابوجہل کے بھتیجے بھی مسلمان ہوچکے تھے۔” قرآن“ کے انقلاب کو روکنے کے لیے کفار نے یہ حربہ بھی استعمال کیا کہ اس کے مقابلے میں شورو غوغا کرو تاکہ تمہاری آواز قرآن کی دعوت پر غالب رہے۔ اندازہ لگائیں کہ اہل مکہ کس قدر گمراہ ہوچکے تھے کہ وہ قرآن مجید کے بارے میں ایک دوسرے کو کہتے کہ جب محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمہارے سامنے قرآن مجید کی تلاوت کریں اسے تو خاموشی سے سننے کی بجائے جواب میں شورو غوغا کیا کرو تاکہ تمہاری آواز قرآن مجیدکی تلاوت اور دعوت پر غالب رہے۔ اس کے جواب میں قرآن مجیدنے انہیں ایک بار پھر سمجھایا۔ ” کہ جب قرآن پڑھا جائے تو اسے کان لگا کر سنو اور چپ رہو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔“ (الاعراف : ٢٠٤) لیکن اس کے باوجود کفار شوروغوغا کرنے سے باز نہ آئے۔ جس پررب ذوالجلال نے ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر یہ لوگ اپنے کفر پر ڈٹے رہے تو ہم ان کو ان کے برے اعمال کے بدلے شدید ترین عذاب میں مبتلا کریں گے۔ یہ اللہ کے دشمن ہیں اس لیے انہیں جہنّم کی آگ میں جھونکا جائے گا جس میں ہمیشہ رہیں گے۔ یہ سورۃ مبارکہ مکہ میں نازل ہوئی اور ان آیات کا سیاق و سباق بتلارہا ہے کہ اہل مکہ قرآن مجید کے جواب اور اس کی تاثیر کے مقابلے میں بے بس ہوچکے تھے جس بنا پر وہ اوچھے ہتھکنڈوں پر اتر آئے۔ اس کے لیے انہیں سمجھایا گیا ہے کہ اللہ کے غضب کو چیلنج کرنے کی بجائے اس کا رحم مانگو ! جو قرآن مجید سننے اور اس پر عمل کرنے سے نصیب ہوگا۔ قرآن مجید کی تلاوت کے اثرات اور برکات : ” حضرت ابی اسحاق کہتے ہیں کہ میں نے براء بن عازب (رض) سے سنا کہ ایک آدمی اپنے گھر میں سورۃ الکہف کی تلاوت کر رہا تھا۔ اس کے گھوڑے نے بدکنا شروع کردیا تو اس نے سلام پھیر کر آسمان کی طرف نظر اٹھائی تو اسے بادلوں کا ایک ٹکڑا نظر آیا جو اسے ڈھانپے ہوئے تھا۔ اس نے اس کا تذکرہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے کیا آپ نے فرمایا کہ آپ کو تلاوت کرتے رہنا چاہیے تھا یہ تو سکینت تھی جو قرآن کے لیے نازل ہوئی تھی۔“ [ رواہ البخاری : باب علاَمَات النُّبُوَّۃِ فِی الإِسْلاَمِ] مسائل ١۔ کفار ایک دوسرے کو قرآن سننے سے منع کرتے تھے۔ ٣۔ قرآن مجید کا مقابلہ کرنے والوں کو سخت ترین عذاب ہوگا۔ ٢۔ کفار نے قرآن مجید پر غالب آنے کی کوشش کی لیکن ناکام رہے۔ ٤۔ قرآن مجید کی مخالفت کرنے والے ” اللہ“ کے دشمن ہیں جنہیں جہنّم کی آگ میں جھونکا جائے گا۔ تفسیربالقرآن قرآن مجید کے بارے میں منافقین اور کفار کا رویہ : ١۔ جب قرآن سنایا جاتا تو منافقین ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگتے تھے۔ (التوبۃ: ١٢٧) ٢۔ منافقین قرآن مجید کے نزول کا مذاق اڑاتے اور کہتے ہیں اس سے کس کے ایمان میں اضافہ ہوا ہے ؟ (التوبۃ: ١٢٤) ٣۔ جب قرآن کا کوئی حصہ نازل ہوتا ہے تو یہ بہانے تراشنے لگتے ہیں۔ (التوبۃ: ٨٦) ٤۔ جب قرآن میں قتال کا تذکرہ ہوتا ہے تو منافق آپ کی طرف ایسے دیکھتے جیسے ان پر موت کی بیہوشی طاری ہوگئی ہو۔ (سورہ محمد : ٢٠) ٥۔ کفار کہتے کہ اس قرآن کو بدل دو۔ ( یونس : ١٥) فصلت
27 فصلت
28 فصلت
29 فہم القرآن ربط کلام : جہنمیوں کا جہنم میں داخل ہونے کے بعد اپنے لیڈروں، علماء اور مرشدوں کے خلاف رد عمل۔ رب ذوالجلال سے جہنّمی مطالبہ کریں گے کہ ہمارے رب ! ہمیں جنوں اور انسانوں میں سے وہ لیڈر اور مرشد دکھلا جنہوں نے ہمیں گمراہ کیا اور ان کی وجہ سے ہم جہنّم میں داخل ہوئے۔ اگر وہ ہمارے ہاتھ چڑھ جائیں تو ہم انہیں اپنے پاؤں تلے روند کر سب کے سامنے ذلیل کریں گے اور کہیں گے کہ اے ذلیلو! اگر تم ہمیں گمراہ نہ کرتے تو آج ہم جہنم کی بجائے جنت میں موجیں مار رہے ہوتے۔ تفسیربالقرآن جہنم میں لیڈر اور ان کے ور کر، پیر اور ان کے مرید، علماء اور ان کے مقتدی آپس میں جھگڑا کریں گے : ١۔ پوجنے والے اور جن کو وہ پوجتے تھے انہیں اکٹھا کیا جائے گا۔ پھر انہیں جہنم کے راستہ پر ڈال دیا جائے گا۔ (الصّٰفّٰت : ٢٢ تا ٣١) ٢۔ تم پر اللہ کی مار تمہاری وجہ سے اس مصیبت کا ہمیں سامنا کرنا پڑا ہے۔ (ص : ٦٠) ٣۔ جہنمی جہنم میں ایک دوسرے کو پہچان لیں گے۔ (یونس : ٤٥) ٤۔ جہنمی اپنے سے پہلوں کے بارے میں کہیں گے انہوں نے ہمیں گمراہ کیا تھا۔ (الاعراف : ٣٨) ٥۔ جب وہ جہنم میں ایک دوسرے سے جھگڑیں گے تو کمزور اپنے بڑوں سے کہیں گے کہ یقیناً ہم تو تمہارے پیچھے چلنے والے تھے، تو کیا تم ہم سے آگ کا کوئی حصہ ہٹاسکتے ہو۔ (المومن : ٤٧) ٦۔ بڑے اور تکبر کرنے والے کمزوروں سے کہیں گے کہ تم تو خودہی مجرم تھے۔ ( سبا : ٣٢) فصلت
30 فہم القرآن ربط کلام : کفار کے مقابلے میں موحّدوں کے ساتھ ملائکہ کا سلوک اور ان کا اکرام۔ جن لوگوں نے کہا کہ ہمار رب ” اللہ“ ہے پھر اس پر مرتے دم تک قائم رہے۔ ان کی موت کے وقت ان کے لیے ملائکہ آتے ہیں جو انہیں تسلی دیتے ہیں کہ غمگین اور پریشان نہیں ہونا۔ بلکہ اس جنت کے ساتھ خوش ہوجاؤ جس کا تمہارے ساتھ وعدہ کیا گیا تھا۔ ہم دنیا کی زندگی میں تمہارے ساتھ تھے اور آخرت میں بھی تمہارے ساتھ رہیں گے۔ تمہارے لیے تمہارے رب کی طرف سے وہ سب کچھ ہے جو تمہارا دل چاہے گا اور تمہارے رب کے ہاں تمہاری مہمان نوازی ہوگی۔ ” رَبُّنَا اللّٰہُ“ سے مراد یہ نہیں کہ بس انہوں نے ایک مرتبہ کہہ دیا کہ ہمارا رب ” اللہ“ ہے اور پھر اپنی مرضی کرتے رہے۔ اس کا معنٰی ہے کہ انہوں نے دل کی سچائی اور کردار کی گواہی سے مرتے دم تک ثابت کر دکھایا کہ واقعی ہمارا خالق، مالک، رازق اور حقیقی حکمران صرف ایک ” اللہ“ ہے، ہم اسی کے بندے اور غلام ہیں۔ ہمارا مال، جان، عزت و اقبال اسی کا دیا ہوا ہے اور اسی کے نام اور کام پر قربان ہوگا۔ جسے دوسرے مقام پر یوں بیان کیا گیا ہے۔” فرما دیجیے کہ بے شک میری نماز اور میری قربانی اور میری زندگی اور میری موت ” اللہ“ کے لیے ہے جو جہانوں کا رب ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں اور مجھے اسی بات حکم دیا گیا ہے کہ میں سب سے پہلے حکم ماننے والوں میں ہوجاؤں۔ فرما دیجیے کہ کیا میں اللہ کے سوا کوئی اور رب تلاش کروں؟ حالانکہ وہ ہر چیز کا رب ہے۔“ (الانعام : ١٦٢ تا ١٢٤) (اآمآ اَحَسِبَ النَّاسُ اَنْ یُّتْرَکُوْٓا اَنْ یَّقُوْلُوْٓا اٰمَنَّا وَ ھُمْ لَا یُفْتَنُوْنَ وَ لَقَدْ فَتَنَّا الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِھِمْ فَلَیَعْلَمَنَّ اللّٰہُ الَّذِیْنَ صَدَقُوْا وَ لَیَعْلَمَنَّ الْکٰذِبِیْنَ) [ العنکبوت : ١ تا ٣] ” الف۔ لام۔ میم۔ کیا لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ بس اتنا کہنے پر چھوڑ دیے جائیں گے کہ ہم ایمان لائے ہیں اور ان کو آزمایا نہیں جائے گا۔ حالانکہ ہم ان سے پہلے لوگوں کی آزمائش کرچکے ہیں۔ اللہ ضرور دیکھے گا کہ سچے کون ہیں اور جھوٹے کون ہیں۔“ (عَنْ سُفْیَانَ بْنِ عَبْدِ اللَّہِ الثَّقَفِی ِّ قَالَ قُلْتُ یَا رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قُلْ لِی فِی الإِسْلاَمِ قَوْلاً لاَ أَسْأَلُ عَنْہُ أَحَدًا بَعْدَکَ وَفِی حَدِیثِ أَبِی أُسَامَۃَ غَیْرَکَ قَالَ قُلْ آمَنْتُ باللَّہِ فَاسْتَقِمْ)[ رواہ الترمذی : کتاب الایمان، باب جامِعِ أَوْصَافِ الإِسْلاَمِ] ” حضرت سفیان بن عبداللہ ثقفی (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کی اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! مجھے اسلام کے بارے میں کوئی ایسی بات بتائیں جو مجھے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد ابو اسامہ کی روایت میں ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے علاوہ کسی سے پوچھنے کی ضرورت محسوس نہ ہو۔ آپ نے فرمایا تو کہہ! میں اللہ پر ایمان لایا پھر اس پر استقامت اختیار کر!“ (عَنْ وَّھْبِ ابْنِ مُنَبِِِِّۃٍ قِےْلَ لَہٗ اَلَےْسَ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مِفْتَاحُ الْجَنَّۃِ قَالَ بَلٰی وَلٰکِنْ لَّےْسَ مِفْتَاحٌ اِلَّا وَلَہٗٓ اَسْنَانٌ فَاِنْ جِءْتَ بِمِفْتَاحٍ لَّہٗٓ اَسْنَانٌ فُتِحَ لَکَ)[ رواہ البخاری فی ترجمۃ الباب] ” حضرت وہب بن منبہ (رض) سے کسی نے یہ سوال کیا کیا لا الہ الا اللہ جنت کی چابی نہیں ہے؟ انہوں نے فرمایا کیوں نہیں؟ لیکن ہر چابی کے دندانے (پیچ) ہوا کرتے ہیں اگر تو پیچ دار چابی سے تالا کھولے گا تو کھل سکتا ہے (بصورت دیگر تیرے لیے دروازہ نہیں کھل سکتا۔) “ استقامت کی دعا : (عَنْ أَنَسٍ (رض) قَالَ کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یُکْثِرُ أَنْ یَّقُوْلَ یَا مُقَلِّبَ الْقُلُوْبِ ثَبِّتْ قَلْبِیْ عَلٰی دِیْنِکَ فَقُلْتُ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ ! اٰمَنَّا بِکَ وَبِمَا جِءْتَ بِہٖ فَھَلْ تَخَافُ عَلَیْنَا قَالَ نَعَمْ إِنَّ الْقُلُوْبَ بَیْنَ إِصْبَعَیْنِ مِنْ أَصَابِعِ اللّٰہِ یُقَلِّبُھَا کَیْفَ یَشَآءُ) [ رواہ الترمذی : کتاب القدر، باب ماجاء أن القلوب ...] ” حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اکثر دعا کرتے۔ اے دلوں کو پھیرنے والے! میرے دل کو اپنے دین پر قائم رکھنا۔ میں نے کہا : اللہ کے رسول! ہم آپ پر اور آپ کی لائی ہوئی شریعت پر ایمان لائے۔ کیا آپ ہمارے بارے میں بھی خطرہ محسوس کرتے ہیں؟ آپ نے فرمایا : ہاں! دل اللہ کی دو انگلیوں کے درمیان ہیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں جیسے چاہتا ہے پھیر دیتا ہے۔“ (عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ (رض) أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کَانَ یَقُوْلُ یَا وَلِیَ الإِْسْلَامِ وَأَہْلِہٖ ثَبِّتْنِیْ حَتّٰی أَلْقَاکَ) [ رواہ الطبرانی : فی الأوسط وہوحدیث صحیح ] ” حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دعا کرتے تھے کہ اے سلامتی کے مالک اور اس کے اہل ! مجھے اسلام پر ثابت قدم رکھ۔ یہاں تک کہ تجھ سے آملوں۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے کے بعد عقیدہ توحید پر استقامت اختیار کرنی چاہیے۔ ٢۔ جو لوگ عقیدۃ توحید پر جم جاتے ہیں ان پر فرشتوں کا نزول ہوتا ہے۔ ٣۔ صراط مستقیم پر گامزن رہنے والوں کو فرشتے تسلی اور جنت کی خوشخبری دیتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن دین پر استقامت اختیار کرنے والوں کی جزا : ١۔ ایمان لانے کے بعد استقامت دکھلانے والوں پر کوئی خوف نہیں ہوگا۔ (الاحقاف : ١٣) ٢۔ مومنوں کی استقامت دیکھ کر شیطان خود ڈر جاتا ہے۔ (الانفال : ٤٨) ٣۔ اللہ کی توحید پر استقامت اختیار کرنے والوں پر فرشتوں کا نزول ہوتا ہے اور وہ انہیں خوشخبری دیتے ہوئے کہتے ہیں غم وحزن میں مبتلا ہونے کی ضرورت نہیں تمہارے لیے جنت ہے جس کا تمہارے ساتھ وعدہ کیا گیا ہے۔ ( حٰم السجدۃ: ٣٠) فصلت
31 فصلت
32 فصلت
33 فہم القرآن ربط کلام : ایمانداروں میں اعلیٰ کردار اور بلند مقام کے حامل حضرات۔ اپنے رب پر ایمان لانا اور اس پر مرتے دم تک قائم رہنا بہت بڑاکام اور مقام ہے۔ مگر ایک جماعت ان حضرات سے بھی ارفع مقام کی حامل ہے اور ہوگی جن کے بارے میں ارشاد ہورہا ہے کہ یہ لوگ قول اور کردار کے لحاظ سے دوسرے مسلمانوں سے بہتر ہیں۔ جس نے اسلام قبول کیا اور پھر لوگوں کو اللہ کی طرف بلایا اور خود صالح اعمال کرتا رہا۔” اللہ“ کی طرف بلانے سے مراد اس کے دین کی بلامفاد اور پوری جانفشانی کیساتھ دعوت دینا ہے۔ جس میں سرِفہرست رب کی توحید کی دعوت ہے۔ کیونکہ دین کی ابتدا اور اس کی انتہا توحید پر رکھی گئی ہے۔ اسلامی انقلاب اور اصلاح انسان کے لیے اس سے بہتر اور زودِاثر کوئی دعوت نہیں ہوسکتی۔ اسی لیے تمام انبیاء ( علیہ السلام) کے بارے میں ارشاد ہوا ہے کہ ” اے رسول ہم نے آپ سے پہلے جو بھی رسول بھیجا اس کی طرف یہی وحی کی کہ میرے سوا کوئی معبود نہیں سو تم میری ہی بندگی کرو۔“ (الانبیاء : ٢٥) اسی بنا پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مکہ میں تیرہ سال اسی بات پر زور دیا اور ماریں کھائیں۔ اگر آپ اپنی دعوت میں کسی اور بات کو سرفہرست رکھتے تو اتنی تکلیفیں کبھی نہ اٹھانا پڑتیں۔ توحید میں بھی سر فہرست توحید الوہیّت کو رکھا۔ اس لیے پوری امت کے اہل علم کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اس آیت کے پہلے حضرت سرور دو عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں۔ جنہوں نے لوگوں کو اللہ کی طرف بلانے اور صالح نمونہ پیش کرنے کا حق ادا کردیا۔ پھر آپ کے صحابہ کرام (رض) کی عظیم جماعت ہے جنہوں نے دعوت الیٰ اللہ کی خاطر وہ تکالیف بردشت کیں اور مال و جان کی قربانیاں دیں۔ جس کی مثال قیامت تک کوئی شخص پیش نہیں کرسکتا۔ (عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ (رض) أَنَّ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بَعَثَ مُعَاذًا (رض) إِلَی الْیَمَنِ فَقَالَ ادْعُھُمْ إِلٰی شَھَادَۃِ أَنْ لَّاإِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَأَنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ فَإِنْ ھُمْ أَطَاعُوْا لِذٰلِکَ فَأَعْلِمْھُمْ أَنَّ اللّٰہَ قَدِ افْتَرَضَ عَلَیْھِمْ خَمْسَ صَلَوَاتٍ فِیْ کُلِّ یَوْمٍ وَّلَیْلَۃٍ فَإِنْ ھُمْ أَطَاعُوْا لِذٰلِکَ فَأَعْلِمْھُمْ أَنَّ اللّٰہَ افْتَرَضَ عَلَیْھِمْ صَدَقَۃً فِیْ أَمْوَالِھِمْ تُؤْخَذُ مِنْ أَغْنِیَاءِھِمْ وَتُرَدُّ عَلٰی فُقَرَاءِھِمْ) [ رواہ البخاری : کتاب الزکوٰۃ، باب وجوب الزکوٰۃ] ” حضرت عبداللہ بن عباس (رض) بیان کرتے ہیں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت معاذ (رض) کو یمن کی طرف بھیجتے ہوئے فرمایا انہیں اس بات کی دعوت دو کہ وہ گواہی دیں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں اور یقیناً میں اللہ کا رسول ہوں اگر وہ آپ کی دعوت مان لیں تو انہیں بتلائیے کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر دن رات میں پانچ نمازیں فرض کی ہیں اگر وہ آپ کی اس بات میں اطاعت کریں تو انہیں بتائیے کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر ان کے اموال میں زکوٰۃ فرض کی ہے جو ان کے امیروں سے لے کر ان کے غریبوں کو دی جائے گی۔“ (عَنْ أَبِیْ بَکْرَۃَ قَالَ خَطَبَنَا النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَوْمَ النَّحْرِ فَإِنَّ دِمَآءَ کُمْ وَأَمْوَالَکُمْ عَلَیْکُمْ حَرَامٌ کَحُرْمَۃِ یَوْمِکُمْ ھٰذَا فِیْ شَھْرِکُمْ ھٰذَا فِیْ بَلَدِکُمْ ھٰذَا إِلٰی یَوْمِ تَلْقَوْنَ رَبَّکُمْ أَلَا ھَلْ بَلَّغْتُ قَالُوْا نَعَمْ۔۔) [ رواہ البخاری : کتاب الحج، باب الخطبۃ أیام منی] ” حضرت ابو بکرہ (رض) بیان کرتے ہیں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حج کا خطبہ دیتے ہوئے فرمایا یقیناً تمہارے خون اور تمہارے مال تم پر ایسے ہی حرام ہیں جیسے تمہارے لیے آج کا دن، مہینہ اور یہ شہر قیامت تک کے لیے حرام ہے۔ پھر آپ نے فرمایا کیا میں نے ” اللہ“ کا پیغام تم تک پہنچا دیا ہے؟ تو لوگوں نے جواب دیا ہاں۔“ مسائل ١۔ سب سے بہتر دعوت اللہ کی توحید کی دعوت ہے۔ ٢۔ توحید پورے دین کی بنیاد ہے۔ ٣۔ بہترین مبلّغ وہ ہے جو اپنی دعوت میں توحید کو سرِفہرست رکھے اور خود بھی دین پر عمل کرے۔ تفسیربالقرآن احسن قول اور احسن مسلمان : ١۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو احسن التقویم بنایا ہے۔ ( التین : ٤) ٢۔ اللہ تعالیٰ نے احسن حدیث اتاری ہے۔ (الزمر : ٣٣) ٣۔ اللہ تعالٰٰ نے موت وحیات اس لیے بنائے تاکہ انسان احسن عمل کرئے۔ ( الملک : ٢) ٤۔ اللہ تعالیٰ کی توحید کی دعوت دینا احسن بات ہے۔ (حم ٓ السجدۃ: ٣٣) ٥۔ برائی کا جواب اچھائی سے دینا احسن ہے۔ (حم ٓ السجدۃ: ٣٤) ٦۔ جھگڑے کی بجائے احسن انداز اختیار کرنا۔ (النحل : ١٢٥) فصلت
34 فہم القرآن ربط کلام : داعئ حق کے لیے بنیادی ہدایت۔ ایک داعی کو اپنی دعوت کے دوران اس بات کو ہمیشہ مدِّ نظر رکھنا چاہیے کہ اچھائی اور برائی، نیکی اور بدی کبھی برابر نہیں ہوسکتے۔ برائی پر چلنے اور اس کا پرچار کرنیوالے لوگ ہمیشہ جلد باز اور جذباتی ہوتے ہیں بالخصوص مشرک کی فطرت ہے کہ وہ شرک اور غیر اللہ کی محبت میں بڑا غالی اور جذباتی ہوتا ہے۔ جونہی اس کے سامنے اللہ وحدہٗ لاشریک کی بات کی جائے تو وہ سیخ پا ہوجاتا ہے اور توحید بیان کرنے والے کو بزرگوں کا گستاخ اور بے ادب کہتا ہے۔ اس کے لیے وہابی کا لفظ استعمال کرتا ہے۔ جس طرح نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دور میں صحابہ کرام (رض) کو مکہ کے کافرصابی کہتے تھے ہر دور میں مشرک ایسا ماحول پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ جس میں داعی کے لیے بات کرنا مشکل ہوجاتی ہے۔ داعی کی دانش اور حکمت یہ ہونا چاہیے کہ وہ اشتعال انگیز ماحول بنانے سے اجتناب کرے۔ ظاہر بات ہے کہ اس کے لیے ٹھنڈے دل و دماغ اور بڑے حوصلے کی ضرورت ہے یہ حوصلہ پیدا کرنے کے لیے داعی کے ذہن میں ہمیشہ یہ بات پختہ رہنی چاہیے کہ اچھائی اور برائی برا بر نہیں ہوتے۔ اچھائی کی اشاعت کے لیے تین باتیں ضروری ہوتی ہیں۔1 الدّاعی کا اخلاق اور کردار اچھا ہونا چاہیے۔2 الدّاعی کو اپنا حوصلہ بڑا رکھنا چاہیے۔3 الدّاعی کو اچھے ماحول میں بہتر سے بہتر سلیقہ کے ساتھ بات کرنے کا ڈھنگ اپنانا چاہیے۔ اس کے باوجود اگر کوئی اچھائی کا جواب برائی سے دیتا ہے تو پھر بھی برائی کا جواب برائی سے نہیں دینا چاہیے۔ بُرائی کا جواب برائی کے ساتھ دینے سے ماحول میں تلخی بڑھتی ہے اور جس قدر ماحول میں تلخی بڑھے گی اسی قدر ہی داعی کی مشکلات میں اضافہ ہوتا چلاجائے گا۔ اس لیے داعی کو ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے کہ وہ برائی کو اچھائی کے ساتھ ٹالنے کی کوشش کرے۔ بلکہ اس سے آگے بڑھ کر زیادتی کرنے والے کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آئے۔ جس کا بالآخر یہ نتیجہ نکلے گا کہ وہ اور اس کے ساتھی یہ سوچنے پر مجبور ہوں گے کہ جو شخص تعصّب اور کسی مفاد کے بغیر ہماری خیر خواہی کر رہا ہے اور ہماری زیادتی کا جواب حسن سلوک سے دیتا ہے یقیناً وہ ہماری بھلائی چاہتا ہے۔ داعی جن لوگوں کو راہ راست پر لانے کے لیے مخاطب کررہا ہے۔ اگر وہ طبقہ نرم نہیں ہوتا تو بالآخر ان میں سے کچھ لوگ ضرور متوجہ ہوں گے جو اس کے ہمسفر ہوجائیں گے۔ اس کی ہر دور میں بے شمار مثالیں پائی جاتی ہیں۔ دور نہ جائیں آج سے تقریباً ساٹھ سال پہلے کسی مسجد میں توحیدوسنت کی بات کی جاتی تو بات کرنے والے کو مسجد سے اٹھا کرباہر پھینک دیا جاتا تھا اور لوگوں میں نفرت پیدا کرنے کے لیے مسجد کو دھویا جاتا تھا۔ لیکن آج لوگ قرآن و سنت کی بات کو ترجیح دیتے ہیں۔ برائی کا جواب اچھائی سے دینا، زیادتی کے مقابلے میں خیر خواہی کرنا ہر کسی کا کام نہیں۔ یہ وہی مبلّغ اور کارکن کرسکتا ہے جسے اپنا مشن عزیز اور اپنے رب کی رضا مطلوب ہوتی ہے۔ ورنہ دوسرا شخص مخالف کی بات کو اپنی انا کا مسئلہ اور اپنے دھڑے کے لیے ذلّت سمجھتا ہے۔ بعض اَن پڑھ مبلّغ اور جذباتی کارکن کسی ایک صحابی کے ذاتی اور انفرادی واقعہ کو دلیل بنا کر اسے تبلیغ پر چسپاں کرتے ہیں۔ حالانکہ تبلیغ کے میدان میں پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور کسی صحابی نے گالی کا جواب گالی سے نہیں دیا۔ یہاں تک کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ذاتی معاملات میں بھی کسی صحابی کی طرف سے گالی کا جواب گالی سے دینا پسند نہیں فرمایا۔ حالانکہ اس کی ایک حد تک گنجائش بھی پائی جاتی ہے۔ مسائل ١۔ نیکی اور برائی برابر نہیں ہوتے۔ ٣۔ برائی کا جواب اچھائی سے دینا مخالف کو اپنا گرویدہ بنانا ہے۔ ٢۔ برائی کا جواب اچھائی سے دینا چاہیے۔ ٤۔ برائی کا جواب اچھائی سے دینے والا بڑے حوصلے کا مالک اور خوش نصیب ہوتا ہے۔ تفسیربالقرآن مبلّغ کے لیے ہدایات : ١۔ اللہ کے دین کی طرف لوگوں کو حکمت اور اچھے طریقے سے بلائیں۔ (النحل : ١٢٥) ٢۔ فرما دیجیے یہ میرا راستہ ہے میں اس کی طرف بصیرت کے ساتھ بلاتاہوں۔ (یوسف : ١٠٨) ٣۔ آپ انہیں دین حق کی طرف بلائیں اور اللہ کے حکم پر قائم رہیں۔ (الشوریٰ : ١٥) ٤۔ حضرت ابراہیم نے دعا کی کہ اے رب ان میں نبی بھیج جو ان کو علم اور عقل کی باتیں سکھلائے۔ ( البقرۃ: ١٢٩) ٥۔ داعی اور قائد کو ہمدرد ہونا چاہیے۔ (التوبۃ: ١٢٨) ٦۔ قائد میں عفو ودرگزر کا جذبہ ہونا چاہیے۔ (المائدۃ: ١٣) نوٹ : مزید ہدایات سورۃ مزمل اور مدثر کی ابتدائی آیات میں ملاحظہ فرمائیں۔ فصلت
35 فصلت
36 فہم القرآن ربط کلام : مبلّغ کو اپنے بچاؤ کے لیے ہدایات۔ مبلّغ بھی انسان ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہر انسان میں دفاع کے لیے غیرت اور غصّہ رکھا ہے۔ اگر انسان میں غیرت اور غصہ نہ ہوتا تو یہ کبھی اپنی عزت اور مال و جان کی حفاظت نہ کرسکتا۔ غیرت کا اظہار اور غصہ کرنا بعض مواقع پر فرض ہے۔ لیکن کچھ مواقع ایسے ہیں جن میں غیرت اور غصہ کا اظہار فائدے کی بجائے نقصان کا باعث ثابت ہوتا ہے۔ بالخصوص اگر الداعی جذباتی اور جھگڑالو ہوگا تو فائدے کی بجائے اپنا اور دین حنیف کا نقصان کربیٹھے گا۔ طبیعت میں غصہ اور طیش آئے تو حکم ہے کہ ” اَعُوْذُبِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ“ پڑھے۔ یقیناً اللہ تعالیٰ ہر بات سننے والا اور جاننے والا ہے۔ توجہ اور بار بار پڑھنے اس کا غصہ یقیناً رفوہوجائے گا۔ عربی میں عوذ چوپائے کے اس بچے کو کہتے ہیں جو ابتدائی ایّام میں چلنے کے قابل نہیں ہوتا۔ جس وجہ سے گرتے اور لڑکھڑاتے ہوئے چل کر اپنی مامتا کے دودھ تک پہنچتا ہے۔ مقصد یہ ہے کہ ” اَعُوْذُبِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ“ پڑھنے والا اس قدر اپنے آپ کو بے بس سمجھ کر پڑھے اور اپنے رب سے پناہ طلب کریں۔ (عن سُلَیْمَان بن صُرَدٍ (رض) قَالَ اسْتَبَّ رَجُلَانِ عِنْدَ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وَنَحْنُ عِنْدَہٗ جُلُوسٌ وَأَحَدُہُمَا یَسُبُّ صَاحِبَہٗ مُغْضَبًا قَدْ اِحْمَرَّ وَجْہُہٗ فَقَال النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) إِنِّی لَأَعْلَمُ کَلِمَۃً لَوْ قَالَہَا لَذَہَبَ عَنْہُ مَا یَجِدُ لَوْ قَالَ أَعُوذ باللّٰہِ مِنَ الشَّیْطَان الرَّجِیمِ فَقَالُوا للرَّجُلِ أَلَا تَسْمَعُ مَا یَقُول النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ إِنِّی لَسْتُ بِمَجْنُونٍ) [ رواہ البخاری : کتاب الأدب، باب الحذر من الغضب] ” حضرت سلیمان بن صرد (رض) بیان کرتے ہیں کہ ہم آپ کی مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے دو آدمیوں نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی موجودگی میں آپس میں گالی گلوچ کی۔ دونوں میں ایک شدید غصے میں تھا وہ دوسرے کو برا بھلا کہہ رہا تھا۔ جس کی وجہ سے اس کا چہرہ سرخ تھا۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میں ایسی بات جانتا ہوں اگر وہ اسے پڑھے تو اس کا غصہ جاتا رہے گا۔ :” اَعُوْذُبِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ“ ” میں شیطان مردود سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتا ہوں۔“ صحابہ کرام (رض) نے اس شخص سے کہا کیا تم نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان نہیں سنتے؟ اس شخص نے کہا میں پاگل تو نہیں ہوں۔ یعنی میں نے سن لیا اور اس پر عمل کرتا ہوں۔“ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ: لَیْسَ الشَّدِیْدُ بالصُّرْعَۃِ إِنَّمَا الشَّدِیْدُ الَّذِیْ یَمْلِکُ نَفْسَہٗ عِنْدَ الْغَضَبِ) [ رواہ البخاری : کتاب الأدب، باب الحذر من الغضب] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : کسی کو پچھاڑنے والا طاقتور نہیں ہے طاقتور تو وہ ہے جو غصے کے وقت اپنے آپ پر قابو رکھے۔“ (قِیْلَ نَزَلَتِ الْآیَۃُ فِیْ أَبِیْ بَکَرٍ (رض)، فَإِنَّ رَجُلاً شَتَمَہٗ فَسَکَتَ مِرَاراً، ثُمَّ رَدَّ عَلَیْہِ فَقَام النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)، فَقَالَ أَبُوْ بَکْرٍ شَتَمَنِیْ وَأَنْتَ جَالِسٌ، فَلَمَّا رَدَدْتُ عَلَیْہِ قُمْتَ، قَالَ إِنَّ مَلِکًا کَانَ یُجِیْبُ عَنْکَ، فَلَمَّا رَدَدْتَ عَلَیْہِ ذَہَبَ ذٰلِکَ الْمَلَکُ وَجَاء الشَّیْطَانْ، فَلَّمْ أَجْلِسُ عِنْدَ مُجِیْءِ الشَّیْطَانِ) (تفسیر الرازی) ” ایک موقعہ پر حضرت ابوبکر صدیق (رض) سے ایک شخص بد زبانی کر رہا تھا تنگ آکر جناب ابو بکر صدیق (رض) نے اس جیسی زبان استعمال کی تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب تک آپ صبر اور درگزر کر رہے تھے۔ اس وقت تک آپ کی طرف سے ایک فرشتہ جواب دے رہاتھا جب آپ نے اس کا جواب دیاتو اس کی جگہ شیطان آ گیا۔“ (الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ فِی السَّرَّآءِ وَ الضَّرَّآءِ وَ الْکٰظِمِیْنَ الْغَیْظَ وَ الْعَافِیْنَ عَنِ النَّاسِ وَ اللّٰہُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ) [ آل عمران : ١٣٤] ” جو لوگ آسانی اور سختی میں اللہ کے راستے میں خرچ کرتے ہیں غصہ پینے والے اور لوگوں سے درگزر کرنے والے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نیکو کاروں سے محبت کرتا ہے۔“ مسائل ١۔ غصہ سے نجات پانے کے لیے ” اَعُوْذُبِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ“ پڑھنا چاہیے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں شیطان لعنتی اور پھٹکارا ہوا ہے۔ تفسیربالقرآن تعوذ کی ترغیب اور اس کے فائدے : ١۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے جہالت سے پناہ مانگی۔ (البقرۃ: ٦٧) ٢۔ حضرت نوح کو جہالت سے بچنے کا حکم۔ (ہود : ٤٦) ٣۔ جاہلوں سے بحث کی بجائے اجتناب اور اعراض کرنا چاہیے۔ (الفرقان : ٦٣) فصلت
37 فہم القرآن ربط کلام : جس رب پر ایمان لانا اور اس کی توحید کی دعوت دینا ہے اس کی وحدت کے دلائل۔ جس رب کی طرف لوگوں کو بلانا اور غصہ کی حالت میں شیطان سے جس رب کی پناہ چاہنا ہے۔ اس کی قدرت کا عالم یہ ہے کہ رات اور دن سورج اور چاند اسی کے تابع فرمان ہیں۔ کیا مجال کہ ان میں سے کوئی ایک اپنے رب کی سرمو حکم عدولی کرے۔ جب رات اور دن، سورج اور چاند اس کے حکم کے تابع ہیں تو پھر چاند اور سورج کو سجدہ کرنا کیا معنٰی دارد ؟ سجدہ تو اس اللہ کو کرنا چاہیے جس نے سورج اور چاند کو پیدا کیا، رات اور دن بنائے۔ جو حقیقتاً اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتا ہے اسے سب کی بندگی چھوڑ کر صرف اور صرف ایک رب کی عبادت کرنی چاہیے۔ جو لوگ ایک رب کی عبادت کرنے کے لیے تیار نہیں وہ متکبر ہوتے ہیں متکبروں کا ٹھکانہ جہنم ہے۔ اپنے رب کی عبادت کا اندازہ کرنا چاہو توسنو! جو فرشتے ہمہ وقت اس کے حضور حاضر رہتے ہیں۔ وہ رات اور دن کی ہر گھڑی میں اس کی عبادت میں مصروف رہتے ہیں۔ انہیں کبھی اکتاہٹ اور تھکاوٹ محسوس نہیں ہوتی۔ جو لگ اپنے رب کی بندگی نہیں کرتے یا اس کی بندگی میں دوسروں کو شریک کرتے ہیں۔ حقیقت میں وہ اپنے رب کی ذات اور اس کے حکم کے ساتھ تکبر کرتے ہیں۔ یادرہے ! کہ چاند اور سورج کی عبادت کرنے والے یہ کہتے ہیں کہ ہم چاند اور سورج کی عبادت نہیں کرتے۔ بلکہ انہیں خدا کی قدرت کا مظہر سمجھ کر اللہ کی قربت کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ یہی بات قبروں کے بچاری اور بتوں کے مجاور کہتے ہیں جسے اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات اور حکم کے ساتھ تکبّر قرار دیا ہے۔ ” حضرت ابوذر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کیا تجھے معلوم ہے جب سورج غروب ہوتا ہے تو کہاں جاتا ہے؟ میں نے کہا‘ اللہ اور اس کے رسول کو علم ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا سورج عرش کے نیچے جاکر سجدہ کرتا ہے اور اجازت طلب کرتا ہے۔ اسے اجازت مل جاتی ہے قریب ہے کہ وہ سجدہ کرے گا اور اس کا سجدہ قبول نہ ہو وہ طلوع ہونے کی اجازت چاہے مگر اسے اجازت نہ ملے اسے حکم ہو کہ جدھر سے آیا اسی طرف سے طلوع ہوجا۔ پھر سورج مغرب کی طرف سے طلوع ہوگا۔ یہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے سورج اپنے مستقر کی طرف چلا جاتا ہے آپ نے فرمایا اس کا ٹھکانا عرش کے نیچے ہے۔“ [ رواہ البخاری : کتاب بدأ الخلق باب صِفَۃِ الشَّمْسِ وَالْقَمَرِ ] ” حضرت عبداللہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی تکبرہوا وہ جنت میں داخل نہیں ہوگا۔“ [ رواہ مسلم : کتاب الایمان، باب تحریم الکبر وبیانہ] مسائل ١۔ رات اور دن، سورج اور چاند اللہ کی قدرت کی نشانیاں ہیں۔ ٢۔ سورج اور چاند کو سجدہ کرنے کی بجائے اللہ تعالیٰ کو سجدہ کرنا چاہیے جوسورج اور چاند کا خالق ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ نے صرف اپنی عبادت کا حکم دیا ہے جو اس کا حکم نہیں مانتا وہ تکبُّر کرتا ہے۔ ٤۔ اللہ کے حضور حاضر رہنے والے فرشتے ہر وقت اس کی عبادت کرتے ہیں اور عبادت کرنے میں اکتاہٹ اور تھکاوٹ محسوس نہیں کرتے۔ تفسیربالقرآن ہر چیز اللہ تعالیٰ کی حمد کرتی ہے اور اس کے حضور سجدہ ریز ہوتی ہے : ١۔ زمین و آسمان کی ہر چیز اللہ تعالیٰ کی تسبیح بیان کرتی ہے۔ (الحدید : ١) ٢۔ رعد اس کی حمد وتسبیح بیان کرتی ہے۔ (الرعد : ١٢) ٣۔ ساتوں آسمان اور زمین اور جو کچھ ان میں ہے اللہ تعالیٰ کی حمد بیان کرتے ہیں۔ (بنی اسرائیل : ٤٤) ٤۔ فرشتے اللہ تعالیٰ کی تسبیح اور حمد بیان کرتے ہیں اور مومنوں کے لیے مغفرت طلب کرتے ہیں۔ (الشوریٰ : ٥) فصلت
38 فصلت
39 فہم القرآن ربط کلام : ” اللہ“ کی قدرت کی ایک اور نشانی۔ جس ذات کبریا نے سورج اور چاند پیدا کیے، رات اور دن بنائے۔ اس کی نشانیوں میں ایک نشانی بارش بھی ہے ہر کوئی دیکھتا ہے کہ زمین خشک اور ویران ہوچکی ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ اس پر بارش برساتا ہے اور جو بیج اس میں پڑے ہوتے ہیں وہ اگ آتے ہیں۔ جس سے زمین سبز لباس پہن لیتی ہے۔ جس زمین پر ویرانی کی وجہ سے نظر نہیں ٹکتی تھی آج ہریالی کی وجہ سے اس قدر پُر کشش ہوچکی ہے کہ نظر کو سکون اور دل کو قرار حاصل ہوتا اور نظر اس سے اٹھنے کے لیے تیار نہیں ہوتی۔ زمین سے نباتات کا اگنا اس بات کی دلیل ہے کہ جس ذات کبریا نے بارش سے مردہ زمین کو زندہ کیا اور اس میں مدت سے دبے ہوئے بیج اگائے ہیں۔ وہی ذات قیامت کے دن مردوں کو زندہ کرے گی۔ وہ دنیا کی ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے اور قیامت کے دن بھی وہی ہر چیز پر قادر ہوگا۔ (عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَا بَیْنَ النَّفْخَتَیْنِ اَرْبَعُوْنَ قَالُوْ یَا اَبَا ھُرَیْرۃَ اَرْبَعُوْنَ یَوْمًا قَالَ اَبَیْتُ قَالُوْا اَرْبَعُوْنَ شَھْرًا قَالَ اَبَیْتُ قَالُوْا اَرْبَعُوْنَ سَنَۃً قَالَ اَبَیْتُ ثُمَّ یُنْزِلُ اللّٰہُ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَیُنْبَتُوْ نَ کَمَآ یَنْبُتُ الْبَقْلُ قَالَ وَلَیْسَ مِنَ الْاِنْسَانِ شَیْءٌ لَا یَبْلٰی اِلَّاعَظْمًا وَاحِدًا وَّھُوَ عَجْبُ الذَّنَبِ وَمِنْہُ یُرَکَّبُ الْخَلْقُ یَوْمَ الْقِیَا مَۃِ)[ متفق علیہ] وَفِیْ رِوَایَۃٍ لِمُسْلِمِ قَالَ کُلُّ اِبْنِ اٰدَمَ یَاکُلُہٗ التُّرَاب الاَّ عَجْبَ الذَّنَبِ مِنْہُ خُلِقَ وَفِیْہِ یُرَکَّبُ [ متفق علیہ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا دو صور پھونکنے کا عرصہ چالیس ہوگا۔ حضرت ابوہریرہ (رض) سے ان کے شاگردوں نے پوچھا کہ چالیس دن ؟ حضرت ابوہریرہ (رض) نے فرمایا کہ میں یہ نہیں کہتا انہوں نے استفسار کیا چالیس ماہ ہیں؟ حضرت ابوہریرہ (رض) نے جواباً فرمایا میں یہ نہیں کہتا انہوں نے پھر پوچھا چالیس سال ہیں؟ ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں میں یہ بھی نہیں کہتا۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ بارش نازل فرمائے گا۔ لوگ یوں اگیں گے جس طرح انگوری اگتی ہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا، انسان کی دمچی کے علاوہ ہر چیز ختم ہوجائے گی۔ قیامت کے دن انسان کی دمچی سے تمام اعضاء کو جوڑا جائے گا۔ (بخاری و مسلم) اور مسلم کی ایک روایت میں ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا انسان کے تمام اعضاء کو مٹی کھا جائے گی۔ لیکن دمچی کو نہیں کھائے گی انسان اسی سے پیدا اور جوڑا جائے گا۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ بارش کے بعد مردہ زمین کو زندہ کرتا ہے۔ ٢۔ جس طرح زمین سے بیج اگتا اور نکلتا ہے اسی طرح قیامت کے دن مردوں کو زندہ کر کے نکال لیاجائے گا۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ مردوں کو زندہ کرے گا کیونکہ وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ تفسیربالقرآن اللہ تعالیٰ قیامت کے دن لوگوں کو زندہ کرے گا : ١۔ آپ فرما دیں کہ تم ضرور اٹھائے جاؤ گے۔ (التغابن : ٧) ٢۔ اللہ تعالیٰ لوگوں کو اٹھائے گا تاکہ ان کے درمیان فیصلہ صادر فرمائے۔ (الانعام : ٦٠) ٣۔ اللہ تعالیٰ تمام مردوں کو اٹھائے گا پھر اسی کی طرف لوٹائے جائیں گے۔ (الانعام : ٣٦) ٤۔ قیامت کے دن اللہ سب کو اٹھائے گا پھر ان کے اعمال کی انھیں خبر دے گا۔ (المجادلۃ: ٦ تا ١٨) ٥۔ موت کے بعد تمھیں ضرور اٹھایا جائے گا۔ (ھود : ٧) ٦۔ یقیناً قیامت کے دن اللہ تمھیں جمع کرے گا جس میں کوئی شک نہیں۔ (الانعام : ١٢) ٧۔ آپ فرما دیں تمھارے پہلے اور آخر والے سب کو ضرور اکٹھا کیا جائے گا۔ (الواقعۃ: ٤٧ تا ٥٠) ٨۔ پھر ہم تمھیں تمھاری موت کے بعد اٹھائیں گے۔ (البقرۃ: ٥٦) ٩۔ جس دن تم سب کو جمع ہونے والے دن اللہ جمع کرے گا۔ (التغابن : ٩) ١٠۔ جس دن اللہ رسولوں کو جمع کرے گا۔ (المائدۃ: ١٠٩) ١١۔ یہ فیصلہ کا دن ہے ہم نے تمھیں اور پہلوں کو بھی جمع کردیا ہے۔ (المرسلات : ٣٨) فصلت
40 فہم القرآن ربط کلام : دلائل اور حقائق کو جھٹلانے والے لوگوں کا انجام۔ اللہ تعالیٰ نے توحید و رسالت اور قیامت کے دن لوگوں کو زندہ کرنے کے سینکڑوں دلائل دیئے ہیں جن میں عقلی ور نظری دلائل بھی شامل ہیں۔ نظری دلائل میں سے آسمان سے بارش نازل کرنا اور اس کے ذریعے زمین سے ہرقسم کی نباتات کو اگانا ہے۔ کافر ہو یا مسلمان ہر کوئی مانتا ہے کہ بارش نازل کرنا اور زمین سے نباتات کو اگانا صرف اللہ تعالیٰ کا کام ہے۔ مگر اس کے باوجود کافر ” اللہ“ کی ذات کا انکار کرتا ہے اور مشرک اسکے ساتھ دوسروں کو شریک بناتا ہے۔ اور اس کی آیات کو غلط معانی پہنچاتے ہیں ایسے لوگ اور ان کے خیالات اللہ تعالیٰ سے پوشیدہ نہیں ہیں۔ بھلا جو شخص جہنّم کی آگ میں ڈالا جائے گا وہ بہتر ہے یا جو قیامت کے دن امن وسکون سے ہوگا وہ بہتر ہے ؟ ٹھوس دلائل اور واضح حقائق ہونے کے باوجود کافر اور مشرک نہیں مانتے تو انہیں انتباہ فرمائیں کہ جو چاہوعمل کرو لیکن اس بات پر یقین رکھو کہ جو بھی تم عمل کرو گے اللہ تعالیٰ تمہیں دیکھ رہا ہے۔ یہاں توحید و رسالت اور قیامت کا انکار کرنے والوں کے لیے ” اِلْحَادْ“ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے جس کا معنٰی ہے کہ ” اللہ“ کے احکام اور ارشادات کی غلط تأویل کرنا اور اس پر اصرار کرنا۔ جس طرح بےدین سائنسدان ایٹم کے حوالے سے کہتے ہیں کہ دنیا کو پیدا کرنے والا کوئی نہیں۔ مادہ خود بخود اپنی حالت بدلتارہتا ہے اور یہ سلسلہ ہمیشہ جاری رہے گا اور اس کی کوئی ابتدا اور انتہانہیں۔ مشرک یہ کہہ کر ” اللہ“ کی ذات اور صفات کا انکار کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بزرگوں کی ریاضت سے خوش ہو کر انہیں اپنی خدائی میں شامل کر رکھا ہے۔ اسی طرح کافر اپنے کفر اور مشرک اپنے شرک پر اصرار کرتا ہے۔ مسائل ١۔ جو لوگ اللہ تعالیٰ کی آیات کی من گھڑت تاویلیں کرتے ہیں حقیقت میں وہ کج روی کا شکار ہیں۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ سے کسی کی نیت اور عمل پوشیدہ نہیں رہتا۔ ٣۔ کیا جہنّم کی آگ میں جانا بہتر ہے یا ہر قسم کے خوف سے مامون ہونا بہتر ہے؟ ٤۔ لوگ جو بھی عمل کرتے ہیں اللہ تعالیٰ اسے دیکھتا اور جانتا ہے۔ تفسیربالقرآن اللہ تعالیٰ سب کچھ جانتا اور دیکھتا ہے : ١۔ اللہ تعالیٰ تمہارے دلوں کی خیانت کو جانتا ہے۔ (البقرۃ: ١٨٧) ٢۔ ہر ایک کی نماز اور تسبیح اللہ جانتا ہے۔ (النور : ٤١) ٣۔ اللہ تعالیٰ دلوں کے بھید جانتا ہے۔ (المائدۃ: ٧) ٤۔ اللہ پر بھروسہ کیجیے کیونکہ وہ سنتا اور جانتا ہے۔ (الانفال : ٦١) ٥۔ اللہ سب کچھ جاننے والا اور حکمت والا ہے۔ (النور : ١٨) ٦۔ اللہ دیکھنے والا ہے جو لوگ عمل کرتے ہیں۔ (آل عمران : ١٦٣) ٧۔ اللہ تعالیٰ جانتا ہے جو کچھ آسمانوں اور جو کچھ زمین میں ہے۔ (الحجرات : ١٦) ٨۔ اللہ تعالیٰ لوگوں کے باطن اور ظاہر کو جانتا ہے وہی غیب کو جاننے والا ہے۔ (التوبۃ: ٧٨) ٩۔ کیا آپ نہیں جانتے اللہ آسمان و زمین کی ہر چیز کو جانتا ہے۔ (الحج : ٧٠) ١٠۔ اللہ تعالیٰ کے لیے مثالیں بیان نہ کرو اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔ (النحل : ٧٤) ١١۔ اس بات کو اچھی طرح جان لو کہ اللہ تمہارے دلوں میں پیدا ہونے والے خیالات سے واقف ہے۔ (البقرۃ : ٢٣٥) ١٢۔ اللہ سے ڈرؤ اور جان لو کہ اللہ تمہارے اعمال کو دیکھنے والا ہے۔ (البقرۃ: ٢٣٣) ١٣۔ اللہ ہی زندہ کرتا ہے اور مارتا ہے اور وہی تمھارے اعمال کو دیکھنے والا ہے۔ (آل عمران : ١٥٦) ١٤۔ بے شک جو وہ عمل کرتے ہیں اللہ اس کی خبر رکھنے والا ہے۔ (ھود : ١١١) فصلت
41 فہم القرآن ربط کلام : جو لوگ اللہ تعالیٰ کی آیات میں کج روی تلاش کرتے ہیں درحقیقت وہ اپنے رب کی نصیحت کا انکار کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے توحید و رسالت اور قیامت قائم ہونے کے سینکڑوں دلائل دیئے ہیں اور باربار لوگوں کو سمجھایا ہے کہ تمہاری بہتری اسی بات میں ہے کہ تم اپنے رب کے ارشادات کو قبول کرو اور ان کے مطابق عمل کرتے رہو۔ اور یقین کرو کہ قیامت کے دن تمہیں اپنے کیے کا حساب دینا ہے۔ لیکن لوگ اپنے رب کی نصیحت کا انکار کرتے ہیں۔ حالانکہ ان کے پاس قرآن عزیز پہنچ چکا ہے۔ جس پر باطل کسی اعتبار سے دخل انداز نہیں ہوسکتا۔ یہ قرآن اس رب کی طرف سے نازل کیا گیا ہے جو بڑا ہی حکمت والا اور صاحب تعریف ہے۔ اے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ کے بارے میں وہی باتیں کہی جاتیں ہیں جو آپ سے پہلے انبیاۓ کرام (علیہ السلام) کو کہی گئی ہیں۔ آپ کا رب بخشنہاربھی ہے اور سخت عذاب دینے والا بھی۔ قرآن مجید کے بارے میں کفار کئی قسم کے الزمات لگاتے تھے جن میں ایک الزام یہ تھا کہ اس شخص کو یہ باتیں شیطان القاء کرتا ہے۔ جس کی یہ کہہ کر تردید کی گئی ہے۔ ” اس قرآن کوشیاطین لے کر نہیں اترے۔ نہ یہ کام ان کو لائق ہے اور نہ وہ ایسا کرسکتے ہیں۔ وہ تو اس کوسننے سے بھی دور کر دے ئے گئے ہیں۔“ (الشعراء : ٢١٠ تا ٢١٢) اتنی کھلی وضاحت کے باوجود کفار باربار یہ الزام دہراتے تھے کہ قرآن مجید اللہ تعالیٰ کی طرف سے نہیں یہ تو اس پر شیطان القاء کرتے ہیں۔ اس پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دوانداز میں تسلی دی گئی۔ اے محبوب (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ کو اس پرزیادہ افسردہ نہیں ہونا چاہیے کیونکہ آپ اس معاملے میں اکیلے نہیں بلکہ آپ سے پہلے جتنے رسول گزر چکے ہیں۔ ان کے بارے میں بھی ان کے مخالف ایسی ہی بے ہودہ باتیں کیا کرتے تھے۔ اس کے باوجود آپ کا رب لوگوں کو مہلت پر مہلت دیئے جاتا ہے کیونکہ وہ گناہوں کو بخشنے والا ہے۔ اور جو لوگ کفر و شرک سے باز نہیں آئیں گے انہیں سخت سزا دینے والاہے۔ مسائل ١۔ قرآن مجید ہر اعتبار سے باطل کی آمیزش سے پاک ہے۔ ٢۔ قرآن مجید عظیم المرتبت کتاب ہے۔ ٣۔ قرآن مجید کو اللہ حکمت والے اور ہمہ صفت موصوف نے نازل کیا ہے۔ ٤۔ جو الزامات اور باتیں نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں کی گئیں۔ ایسی ہی یا وہ گوئی پہلے انبیاء (علیہ السلام) کے بارے میں بھی کی گئی تھی۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ بخشنہار بھی ہے اور سخت عذاب دینے والابھی۔ تفسیربالقرآن پہلے انبیائے کرام (علیہ السلام) کے بارے میں کفار کی یا وہ گوئی : ١۔ حضرت نوح کی قوم کے لوگ ان کے پاس سے گذرتے تھے تو وہ ان سے مذاق کرتے تھے۔ (ہود : ٣٨) ٢۔ یہ لوگ مذاق کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان سے مذاق کرے گا اور ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔ (التوبۃ: ٧٩) ٣۔ جب ہماری نشانی دیکھتے ہیں تو مذاق کرتے ہیں۔ (الصّٰفّٰت : ١٤) ٤۔ ان کے پاس کوئی نبی نہیں آیا مگر وہ اس کے ساتھ استہزاء کرتے تھے۔ (الزخرف : ٧) ٥۔ جب بھی ان کے پاس آپ سے پہلے رسول آئے انہوں نے انہیں جادو گر اور مجنوں قرار دیا۔ (الذاریات : ٥٢) ٦۔ لوگوں پر افسوس ہے کہ ان کے پاس جب بھی رسول آیا تو انہوں نے ان کے ساتھ استہزاء کیا۔ (یٰس : ٣٠) فصلت
42 فصلت
43 فصلت
44 فہم القرآن ربط کلام : قرآن مجید کے بارے میں کفار کی ایک اور یا وہ گوئی۔ اس سے پہلے آیت ٤٠ اور ٤١ میں بتایا گیا ہے کہ لوگ اللہ تعالیٰ کی آیات کی غلط توجیح کرتے ہیں اور اس کی نازل کردہ نصیحت کا انکار کرتے ہیں۔ حالانکہ قرآن مجید اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کیا گیا ہے۔ اس میں کسی باطل کی کسی حوالے سے بھی آمیزش نہیں ہے۔ کفار یہ بھی کہتے ہیں کہ قرآن کسی غیر عربی پر نازل ہونا چاہیے تھا۔ اگر ہم اسے غیر عربی میں نازل کرتے تو یہ اعتراض کرتے کہ ہم عربی ہیں اور قرآن مجید کی زبان عجمی ہے۔ ہم اسے سمجھیں تو کسی طرح ؟ یہ عربی میں ہونا چاہیے تھا۔ تاکہ اس کی زبان اور احکام کو ہم اچھی طرح سمجھ جاتے۔ درحقیقت ان کی نیت میں خرابی ہے جس بنا پر یہ ایک ہی وقت میں متضاد قسم کے اعتراضات کرتے ہیں۔ ان کے دلوں میں کفر کا مرض ہے۔ جس وجہ سے یہ قرآن مجید کو من جانب اللہ تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ انہیں فرمادیجیے کہ جو لوگ اخلاص نیت کے ساتھ قرآن مجید پر ایمان لاتے ہیں۔ ان کے لیے قرآن ہدایت کا سرچشمہ ہونے کیساتھ شفا بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن کے ذریعے لوگوں کی راہنمائی کرتا اور ان کے دلوں کو کفر و شرک سے پاک کرتا ہے۔ لیکن جو لوگ اس پر ایمان نہیں لاتے ان کے دل اس کی تلاوت سے بوجھ محسوس کرتے ہیں اور ان کی آنکھیں اور دل اندھے ہوچکے ہیں۔ اس وجہ سے قرآن مجید کی دعوت ان کے لیے اس طرح ہے جس طرح کسی شخص کو دور سے آواز دی جائے تو اس کے لیے اس بات کو سمجھنا مشکل ہوتا ہے۔ (وَ مَثَلُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا کَمَثَلِ الَّذِیْ یَنْعِقُ بِمَا لَا یَسْمَعُ اِلَّا دُعَآءً وَّ نِدَآءً صُمٌّ بُکْمٌ عُمْیٌ فَھُمْ لَا یَعْقِلُوْنَ)[ البقرہ : ١٧١] ” کفار کی مثال ان جانوروں کی طرح ہے جو چرواہے کی صرف پکار اور آواز ہی کو سنتے ہیں وہ بہرے، گونگے اور اندھے ہیں‘ انہیں عقل نہیں۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید عربی میں نازل کیا ہے۔ ٢۔ قرآن مجید عربی میں اس لیے نازل کیا گیا کیونکہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عربی تھے۔ ٢۔ عربی ہر دور میں جامع اور پُر کشش زبان رہی ہے اور رہے گی۔ ٣۔ قرآن مجید کو نہ ماننے والے لوگ اس پر بے ہودہ اعتراض کرتے ہیں۔ ٤۔ قرآن مجید پر ایمان نہ لانے والا حقیقت میں اندھا اور بہرہ ہوتا ہے۔ تفسیربالقرآن قرآن مجید اور ہدایت کے بارے میں اندھے بہرے لوگ : ١۔ کفار کی مثال اندھے بہرے کی طرح ہے۔ (ھود : ٢٤) ٢۔ ” اللہ“ کی آیات کی تکذیب کرنے والے اندھے بہرے ہیں۔ (الانعام : ٣٩) ٣۔ کانوں آنکھوں کا صحیح استعمال نہ کرنے والے لوگ جانوروں سے بدتر ہیں۔ (الاعراف : ١٧٩) ٤۔ اندھے بہرے لوگ عقل نہیں رکھتے۔ (البقرۃ: ١٧١) ٥۔ اندھے بہرے لوگ ہدایت کی طرف نہیں آتے۔ (البقرۃ: ١٨) ٦۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی اندھے بہرے لوگوں کو ہدایت نہیں دے سکتے تھے۔ (الروم : ٥٢) ٧۔ جہنمی کہیں گے کہ کاش ہم صحیح بات سنتے اور عقل سے کام لیتے اور جہنم میں داخل نہ ہوتے۔ ( الملک : ١٠) فصلت
45 فہم القرآن ربط کلام : اللہ اور اس کے رسول پر ایمان نہ لانے والوں کا صرف قرآن کے بارے میں یہ رویہ نہیں بلکہ ایسے لوگوں کا تورات کے بارے میں بھی یہی رویہ تھا۔ قرآن مجید سے پہلے نازل ہونے والی کتابوں میں سب سے جامع اور مفصّل کتاب تورات ہے جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر نازل کی گئی۔ اس کے بارے میں بھی اختلاف کیا گیا۔ کچھ لوگ ایمان لائے اور باقی نے انکار کردیا۔ اگر اللہ تعالیٰ کا فیصلہ طے شدہ نہ ہوتا تو ان کا دنیا میں ہی فیصلہ کردیا جاتا۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے طے کر رکھا ہے کہ لوگوں کو دنیا میں اچھے، برے عمل کے لیے مہلت دی جائے۔ اور آخرت میں حساب و کتاب کیا جائے۔ اس مہلت کی وجہ سے ہی لوگوں تورات کے بارے میں اختلاف کیا اور اسی مہلت سے غلط فائدہ اٹھاتے ہوئے یہ لوگ قرآن اور قیامت کے بارے میں شک میں پڑے ہوئے ہیں۔ بالآخر قیامت کے دن ان لوگوں سے ان کے اعمال کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ لیکن کسی پر کوئی زیادتی نہ ہوگی کیونکہ آپ کا رب اپنے بندوں پر زیادتی نہیں کرتا۔ مکہ والوں کے سامنے یہ حقیقت بالکل واضح ہوچکی تھی کہ یہ قرآن من جانب اللہ ہے اور اس کے دلائل ناقابل تردید ہیں۔ اس لیے ان کے دل میں یہ بات سخت اضطراب پیدا کیے ہوئے تھی۔ لیکن ضد کی بنا پر ایمان لانے کے لیے تیار نہ تھے۔ کیونکہ جوکتاب اللہ کو نہیں مانتا وہ یقین کی دولت سے تہی دامن ہوتا ہے۔ جو یقین کی دولت سے محروم ہوتا ہے وہ ذہنی کشمکش کا شکار رہتا ہے۔ جسے یوں بھی بیان کیا گیا ہے یہ لوگ اپنی سرکشی میں پریشان پھرتے ہیں۔ ( البقرۃ: ١٥) یہ کیفیت انسان کے لیے بڑی تکلیف دہ ہوتی ہے۔ قیامت پر یقین ہی انسان کو نیکی میں اطمینان دلاتا اور برائی سے خوف پیدا کرتا ہے۔ لہٰذا جو شخص اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قیامت پر ایمان لائے اور نیک عمل کرے گا۔ اس کے اعمال کا اسے ہی فائدہ ہوگا۔ جس نے ایمان لانے سے انکار کیا اور برے اعمال کرتا رہاوہ اس کا خمیازہ بھگتے گا۔ ” حضرت ابوذر (رض) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں۔ آپ نے اللہ تعالیٰ سے بیان کیا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : میرے بندو! یقیناً میں نے اپنے آپ پر ظلم کرنا حرام کرلیا ہے اور تمہارے درمیان بھی حرام قرار دیتاہوں پس تم آپس میں ظلم نہ کیا کرو۔“ [ رواہ مسلم : کتاب البر والصلۃ، باب تحریم الظلم] مسائل ١۔ جس طرح لوگ قرآن مجید کے بارے میں اختلاف کرتے ہیں اسی طرح تورات کے بارے میں بھی اختلاف کیا گیا تھا۔ ٢۔ کتاب اللہ اور اس کی تعلیم کے بارے میں اختلاف کرنے والے ہمیشہ اضطراب میں رہتے ہیں۔ ٣۔ نیکی کا فائدہ اور برائی کا نقصان اس کے کرنے والے کو ہی ہوگا۔ ٤۔ رب کریم اپنے بندوں پر زیادتی نہیں کرتا۔ تفسیربالقرآن رب کریم اپنے بندوں پر زیادتی نہیں کرتا : ١۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر ظلم نہیں کرتا لیکن لوگ خود اپنی جانوں پر ظلم کرتے ہیں۔ (التوبۃ: ٧٠) ٢۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر ظلم نہیں کرتا لیکن وہ خود اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں۔ (الروم : ٩) ٣۔ اللہ تعالیٰ لوگوں پر ذرہ بھر ظلم نہیں کرتا لیکن لوگ خود اپنی جانوں پر ظلم کرتے ہیں۔ (یونس : ٤٤) ٤۔ قیامت کے دن لوگ اپنے اعمال کو اپنے روبرو پائیں گے اور تیرا رب کسی پر ظلم نہیں کرے گا۔ (الکھف : ٤٩) ٥۔ قیامت کے دن انصاف کا ترازو قائم کیا جائیگا اور کسی پر کچھ ظلم نہیں ہوگا۔ (الانبیاء : ٤٧) ٦۔ آج کے دن کسی پر ظلم نہیں کیا جائیگا اور ہر کسی کو اس کے اعمال کا صلہ دیا جائیگا۔ (یس : ٥٤) ٧۔ اللہ تعالیٰ بلاوجہ عذاب دینا پسند نہیں کرتا۔ (النساء : ١٤٧) ٨۔ اللہ تعالیٰ ذرّہ برابر ظلم نہیں کرتا۔ (النساء : ٤٠) فصلت
46 فصلت
47 فہم القرآن ربط کلام : جو شخص کتاب اللہ کے بارے میں شک کرتا ہے وہ قیامت کے بارے میں بھی شک کا شکار ہوتا ہے۔ قرآن مجید کا اسلوب بیان خطاب برائے خطاب نہیں۔ قرآن انسان کی ہر پہلو پر راہنمائی کرتے ہوئے اس کی توجہ حقیقت پر مرکوز رکھتا ہے۔ اس کے بنیادی مضامین تین ہیں۔ توحید، رسالت اور آخرت پر ایمان لانے کی ترغیب دینا ہے۔ فکر آخرت کو اس لیے بنیادی عقائد میں شامل کیا ہے کہ اس کے سوا آدمی کو نہ نیکی کرنے میں حوصلہ ملتا ہے اور نہ ہی برائی کرنے میں خوف محسوس ہوتا ہے۔ اس لیے توحید و رسالت کی تسلیم و اطاعت کے لیے آخرت کا احساس دلایا جاتا ہے۔ اہل مکہ کی غالب اکثریت قیام آخرت کی منکر تھی جس بنا پر وہ نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بار بار سوال کرتے کہ جس قیامت سے ہمیں ڈرایا جاتا ہے وہ کب برپا ہوگی ؟ قرآن مجید نے اس سوال کے کئی جواب دیئے ہیں۔ اس موقع پر صرف یہ ارشاد فرمایا کہ جس قیامت کے بارے میں تم استفسار کرتے ہو اس کا علم صرف اللہ تعالیٰ کے پاس ہے۔ کوئی پھل اپنے خوشے سے نہیں نکلتا اور نہ ہی مامتا اپنے بچے کو جنم دیتی ہے مگر اللہ تعالیٰ کو اس کا مکمل علم ہوتا ہے جس قیامت کا تم انکار کرتے ہو اس کا علم بھی اسی کے پاس ہے اس دن اللہ تعالیٰ مشرکوں کو حکم فرمائے گا کہ جنہیں تم میرا شریک بناتے تھے وہ کہاں ہیں ؟ انہیں سامنے لایا جائے۔ قبروں کے پجاری، بتوں کے مجاور، بزرگوں اور حکمرانوں کے پرستار عرض کریں گے۔ بارِ الٰہا! ہم پہلے بھی عرض کرچکے ہیں کہ ہم میں سے کسی کو معلوم نہیں کہ وہ اس وقت کہاں ہیں۔ قیامت کے بارے میں یہ جواب دینے کے بعد پھل کا اپنے خوشے سے نکلنا اور مامتاکا بچے کو جنم دینے کا اس لیے ذکر کیا ہے تاکہ منکرین قیامت کو احساس ہو کہ جس طرح کوئی انسان ماں کے رحم سے جنم لینے والے بچے اور خوشے سے نکلنے والے پھل کے بارے میں حقیقی علم نہیں رکھتا۔ اسی طرح ہی قیامت کے بارے میں اسے کچھ علم نہیں ہوسکتا۔ جو ذات بیج سے خوشہ اور خوشے سے پودا پھر پودے سے پھل نکالتی ہے اور جو ماں کے رحم سے بچہ کو مختلف مراحل سے گزار کر پیدا کرتی ہے اسی ذات کا فرمان ہے کہ قیامت ہر صورت قائم ہو کر رہے گی۔ جنہیں تم اس کا شریک بناتے اور سمجھتے ہو وہ قیامت کے دن تمہیں ” اللہ“ کی گرفت سے چھڑا نہیں سکیں گے۔ جب قیامت قائم ہوگی تو تمہاری حالت یہ ہوگی کہ تم اس بات کا اقرار کرو گے کہ جنہیں ہم دنیا میں اپنا سہارا سمجھتے تھے آج وہ ہمیں دکھائی نہیں دیتے۔ اس وقت تمہیں یقین ہوجائے گا کہ آج ہماری کسی طرح نجات نہیں ہوسکتی نہ ہی بھاگنے کی جگہ ہوگی۔ مشرک کے بنائے ہوئے شریکوں کے لیے ” ضَلَّ“ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ ” ضَلَّ“ کا معنٰی ہے گم ہوجانا، بھول جانا، راستے سے بھٹک جانا، دین سے پھر جانا۔ قیامت کے مراحل میں ایک مرحلہ ایسا بھی آئے گا کہ رب ذوالجلال کے جلال کی وجہ سے مشرکوں کو ان کے شریک بھول جائیں گے۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا کہ قیامت کب قائم ہوگی۔ ٢۔ کوئی نہیں جانتا کہ پھل پکے گا یا پہلے ضائع ہوجائے گا۔ ٣۔ کوئی ماں نہیں جانتی کہ وہ کب صاحب امید ہوگی اور کیسا بچہ جنم دے گی۔ ٤۔ قیامت کے دن مشرک اپنے مشکل کشاؤں کو بھول جائیں گے۔ ٥۔ قیامت کے دن مشرکوں کی نجات نہ ہوگی۔ فصلت
48 فصلت
49 فہم القرآن ربط کلام : مشرک کے شرک کی بنیادی وجہ مفاد پرستی اور جلد بازی کرنا ہے۔ مشرک کی طبیعت میں مفاد پرستی اور جلد بازی کا عنصر ہمیشہ غالب رہتا ہے۔ مشرک دنیا کے بارے میں بڑا حریص ہوتا ہے۔ مشرک اور دنیا پرست انسان معمولی آزمائش اور نقصان برداشت نہیں کرسکتا۔ ہمیشہ دنیا کے لیے ہی دعائیں کرتارہتا ہے۔ (البقرۃ: ٢٠٠) مشرک کو تکلیف پہنچے اور اس کی دعا جلد قبول نہ ہو تو یہ اپنے رب سے ہی مایوس ہوجاتا ہے۔ مایوسی کے عالم میں اسے اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے نواز دے تو سمجھتا ہے کہ یہ میری کوشش کا نتیجہ ہے۔ بسا اوقات اپنی زبان سے بھی کہتا ہے کہ میری تکلیف اس لیے رفع ہوئی کہ میں نے اس کے لیے بہتر منصوبہ بندی اختیار کی اور ہر وقت اس کا علاج کرلیا ہے۔ مشرکانہ عقیدہ اور دنیا پرستی کی وجہ سے اس کا مستقل ذہن بن جاتا ہے۔ بالخصوص ان لوگوں کا جو کئی نسلوں سے دولت مند ہوتے ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ دنیا کانظام اس طرح ہی چلتارہے گا۔ بالفرض اگر قیامت قائم ہوگئی تو وہاں بھی ہمیں دوسروں پر برتری حاصل ہوگی۔ یہ لوگ چاہتے ہیں کہ ہمیں طویل سے طویل تر زندگی حاصل ہوجائے۔ یہاں تک کہ ہم ہزار سال زندہ رہیں۔ حالانکہ طویل زندگی انہیں اللہ کے عذاب سے نہیں بچا سکتی (البقرۃ: ٩٦) ایسے انسان کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے انعام ملے تو منہ پھیر لیتا ہے اور ناشکری کرتا ہے۔ تکلیف پہنچے تو لمبی لمبی دعائیں کرتا ہے۔ یہ حالت اس شخص کی ہوتی ہے جو رسمی طور پر اسلام کا نام لیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کو کافر گردانا ہے جنہیں سخت اور شدید عذاب دیا جائے گا۔ (عَنْ خَبَّابٍ (رض) قَالَ کُنْتُ قَیْنًا بِمَکَّۃَ، فَعَمِلْتُ لِلْعَاصِ بْنِ وَاءِلِ السَّہْمِیِّ سَیْفًا، فَجِءْتُ أَتَقَاضَاہُ فَقَالَ لاَ أُعْطِیکَ حَتَّی تَکْفُرَ بِمُحَمَّدٍ قُلْتُ لاَ أَکْفُرُ بِمُحَمَّدٍ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حَتَّی یُمِیتَکَ اللَّہُ، ثُمَّ یُحْیِیَکَ قَالَ إِذَا أَمَاتَنِی اللَّہُ ثُمَّ بَعَثَنِی، وَلِی مَالٌ وَوَلَدٌ فَأَنْزَلَ اللَّہُ (أَفَرَأَیْتَ الَّذِی کَفَرَ بآیَاتِنَا وَقَالَ لأُوتَیَنَّ مَالاً وَوَلَدًا أَطَّلَعَ الْغَیْبَ أَمِ اتَّخَذَ عِنْدَ الرَّحْمَنِ عَہْدًا)[ رواہ البخاری : کتاب التفسیر، باب قَوْلِہِ (أَطَّلَعَ الْغَیْبَ أَمِ اتَّخَذَ عِنْدَ الرَّحْمَنِ عَہْدًا )] ” حضرت خباب (رض) کہتے ہیں کہ میں مکہ میں لوہار تھا۔ میں نے عاص بن وائل سھمی کے لیے تلوار بنائی۔ اس کے پاس مزدوری لینے کے لیے گیا۔ تو اس نے کہا میں اس وقت تک تجھے تیری اجرت نہیں دوں گا جب تک تو محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت کا انکار نہ کردے۔ میں نے کہا اللہ تجھے موت دے پھر زندہ کرے میں پھر بھی محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کا انکار نہیں کروں گا۔ اس نے کہا۔ جب اللہ تعالیٰ میری موت کے بعدمجھے زندہ کرے گا تو اس وقت بھی میرے پاس مال ہوگا لہٰذا میں قیامت کے دن تیری مزدوری ادا کردوں گا۔ اللہ تعالیٰ نے اس وقت یہ آیت نازل فرمائی کہ کیا اسے غیب کا علم ہے یا اس نے اللہ تعالیٰ سے معاہدہ کر رکھا ہے کہ اسے آخرت میں بھی اچھا مقام اور مال دیا جائے گا۔“ دنیا دار کے مقابلے میں مؤمن کا کردار : (عَنْ صُہَیْبٍ (رض) قَالَ قَالَ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عَجَبًا لِأَمْرِ الْمُؤْمِنِ إِنَّ أَمْرَہٗ کُلَّہٗ خَیْرٌ وَلَیْسَ ذَاکَ لِأَحَدٍ إِلَّا لِلْمُؤْمِنِ إِنْ أَصَابَتْہُ سَرَّاءُ شَکَرَ فَکَانَ خَیْرًا لَہٗ وَإِنْ أَصَابَتْہُ ضَرَّاءُ صَبَرَ فَکَانَ خَیْرًا لَہٗ) [ رواہ مسلم : کتاب الزہد والرقائق، باب المؤمن أمرہ کلہ خیر] ” حضرت صہیب (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا مومن کے معاملات عجیب ہیں۔ اس کے تمام معاملات میں خیر ہے اور یہ صرف مومن کے لیے ہے اگر اس کو آسانی ملتی ہے تو وہ اللہ کا شکر ادا کرتا ہے یہ اسکے لیے بہتر ہے اور اگر اسے تنگدستی آتی ہے تو وہ صبر کرتا ہے یہ بھی اس کے لیے بہتر ہے۔“ مسائل ١۔ مشرک اور کافر دنیا کے معاملے میں بڑا حریص ہوتا ہے۔ ٢۔ دنیا دار شخص تکلیف کے وقت اپنے رب سے مایوس ہوجاتا ہے۔ ٣۔ دنیا دار شخص کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے خیر حاصل ہو تو وہ اسے اپنی لیاقت سمجھتا ہے۔ ٤۔ دنیا پرست انسان کو اللہ تعالیٰ سخت عذاب دے گا۔ تفسیربالقرآن دنیا پرست انسان کا انجام : ١۔ جو لوگ دنیا کو آخرت پر ترجیح دیتے ہیں اور اللہ کی راہ سے روکتے ہیں اور اس میں کجی تلاش کرتے ہیں یہ دور کی گمراہی میں ہیں۔ (ابراہیم : ٣) ٢۔ جن لوگوں کو دنیا کی زندگی نے دھوکے میں ڈال رکھا، قیامت کے دن ہم ان کو بھلا دیں گے۔ (الاعراف : ٥١) ٣۔ یہی ہیں وہ لوگ جنہوں نے دنیا کو آخرت پر ترجیح دی بے شک اللہ کافروں کو ہدایت نہیں دیتا۔ (النحل : ١٠٧) ٤۔ جس نے سرکشی اختیار کی اور دنیا کو ترجیح دی اس کا ٹھکانہ جہنم ہے۔ (الناز عات : ٣٧ تا ٣٩) ٥۔ دنیا چاہنے والوں کو دنیا اور آخرت چاہنے والوں کو آخرت ملتی ہے۔ (آل عمران : ١٤٥) فصلت
50 فصلت
51 فصلت
52 فہم القرآن ربط کلام : قیامت کے منکر دنیا کے فائدے کی خاطر قرآن مجید کی مخالفت کرتے ہیں۔ اس سے پہلے یہ ارشاد فرمایا ہے کہ ہم انسان پر جب انعام کرتے ہیں تو وہ شکر ادا کرنے کی بجائے ناشکری اور اعراض کا رویہ اختیار کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے انعامات میں سب سے بڑا انعام قرآن مجید کا نزول ہے جس میں انسان کی راہنمائی کا انتظام کیا گیا ہے اکثر انسان اس پر ایمان لانے کی بجائے کفر اختیار کرتے ہیں جو شخص قرآن کا انکار کرتا ہے اس سے بڑا کوئی گمراہ نہیں ہو سکتا۔ اے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ان لوگوں سے استفسار فرمائیں کہ جس قرآن اور اس کی تعلیمات کا انکار کرتے ہو۔ اگر واقعی ہی یہ اللہ تعالیٰ کا نازل کردہ ہے اور تم نے اسے نہ مانا اور اس کی مخالفت میں دور نکل گئے تو بتاؤ! اس سے زیادہ کون گمراہ ہوگا۔ قرآن مجید کے سمجھانے کا یہ بھی ایک اسلوب ہے کہ وہ انسان کو توجہ دلاتا ہے کہ اے انسان! بار بار سوچ ! کہ جس قرآن کا تو انکار کرتا ہے۔ اگر وہ واقعی اللہ تعالیٰ کا نازل کردہ ہے۔ تو پھر قیامت کے دن تیرا کیا حال ہوگا؟ قرآن مجید کا انکار کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ نے کئی قسم کے دلائل کے ساتھ سمجھایا ہے کہ یہ قرآن اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کیا گیا ہے۔ اس میں جن و انس کا کوئی عمل دخل نہیں۔ یہ شیطان کی شیطنیت سے ہر اعتبار سے محفوظ ہے اور نہ ہی یہ شاعرانہ کلام ہے۔ اگر پھر بھی تمہیں یقین نہیں آتا تو سب کے سب جمع ہو کر قرآن کی کسی چھوٹی سے چھوٹی سورت جیسی کوئی سورت بنا لاؤ۔ لیکن تم ہرگز اس جیسا کلام نہیں بنا سکتے۔ جب تم ایسا کر نہیں سکتے تو پھر اس آگ سے بچو جس کا ایندھن لوگ اور پتھر ہیں یہ منکرین کے لیے تیار کی گئی ہے۔ (البقرۃ: ٢٣، ٢٤) اس انتباہ کے باوجود اگر تم انکار کیے جارہے ہو تو یاد رکھو ! جو قرآن کی مخالفت میں ہر قسم کی اخلاقی حدود پھلانگ جائے۔ کہ اس شخص سے بڑھ کر کوئی شخص گمراہ نہیں ہوسکتا۔ مسائل ١۔ قرآن مجید اللہ تعالیٰ کا نازل کردہ ہے۔ ٢۔ قرآن کی مخالفت کرنے والا پرلے درجے کا گمراہ ہوتا ہے۔ فصلت
53 فہم القرآن ربط کلام : قرآن کی مخالفت کرنے والوں کو ایک اور انتباہ۔ اللہ تعالیٰ نے ہر انسان اور قوم کے لیے ایک حد مقرر کر رکھی ہے۔ جب کوئی انسان اور قوم اس حد کو پھلانگ جاتی ہے تو اللہ تعالیٰ کے اعتاب کا کوڑا حرکت میں آجاتا ہے۔ منکرین حق کو اس وقت سے آگاہ کرنے کے لیے بتلایا گیا ہے کہ ہم عنقریب انہیں آفاق اور ان کی ذات سے اپنی قدرت کی نشانیاں دکھلائیں گے۔ یہاں تک کہ ان پر حق آشکارا ہوجائے گا۔ یعنی اس وقت حق کا اعتراف کیے بغیر نہ رہ سکیں گے۔ لیکن اس وقت اعتراف اور اظہارِ حق کا نہیں کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ اے محبوب (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ اس یقین کے ساتھ اپنا کام کرتے جائیں کہ آپ کا رب ہر حال میں ہر چیز کو دیکھتا اور اس پر گواہ ہوتا ہے۔ اُفق کی جمع آفاق ہے جس کا معنٰی حد نگاہ یا آسمان کا کنارہ ہے اور نفس کی جمع نفوس یا اَنْفُس آتی ہے جس سے مراد تمام انسان ہیں۔ لیکن یہاں انسان سے مراد کافر لوگ ہیں۔ انہیں انتباہ کیا گیا ہے کہ عنقریب اللہ تعالیٰ انہی کے نفوس میں سے اور آفاق سے اپنی قدرت کی نشانیاں ظاہر کرے گا۔ اکثر مفسّرین نے آفاق سے مراد اسلام کی فتوحات لی ہیں اور وضاحت فرمائی ہے کہ فتوحات بذات خود کوئی بڑی بات نہیں۔ کیونکہ دنیا میں ظالم اور فاسق قومیں ہوئیں اور صدیوں تک برسر اقتدار رہی ہیں۔ اسلامی فتوحات کی خوبی یہ ہے کہ اس میں دیانت و امانت کا بول بالا ہوا، شرم و حیا نے اپنا مقام پایا اور مظلوم کا ہاتھ ظالم کے گریباں تک پہنچا۔ اور عدل وانصاف قائم ہوا۔ جس سے دنیا جنت کی نظیر پیش کرنے کے قابل ہوئی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مسلمانوں کی فتوحات ” اللہ“ کی قدرت اور اس کی رحمت کا کرشمہ تھیں کہ جس بنا پر دنیا نے اسلام کے دامن میں سکون پایا۔ مگر آفاق کی نشانیوں میں ان نشانیوں کو بھی شامل کرنا چاہیے۔ جنہیں مکہ میں ظاہر کیا گیا۔ اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی انگلی کے اشارے سے مکہ والوں کے سامنے چاند دو ٹکڑے ہوا جس کی شہادت دینے پر اہل مکہ مجبور ہوئے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مسجد حرام سے لے کر مسجد اقصیٰ اور مسجد اقصیٰ سے لے کر آسمانوں کی سیر کروائی۔ کفار نے مسجد اقصیٰ کی نشانیاں طلب کیں تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے مسجد اقصیٰ پیش کردی گئی۔ جن کے سامنے انہیں خاموشی اختیار کرنا پڑی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت کی گواہی پتھروں نے دی۔ مکہ کے بڑے بڑے سردار میدان بدر میں تہہ تیغ ہوئے اور باقی نے اللہ کی وحدت، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت اور قرآن کی صداقت کو دل وجان سے قبول کیا۔ اس طرح ہمارے رب کا فرمان سچ ثابت ہوا اور قیامت تک اللہ تعالیٰ اپنی قدرت کی نشانیاں دکھلاتا رہے گا۔ اس آیت مبارکہ کو سائنسی تجربات اور میڈیکل سائنس کے حوالے سے دیکھا جائے تو اللہ تعالیٰ کا فرمان اور بھی آشکارا ہوجاتا ہے۔ ” فَلِلّٰہِ الْحَمْدُ“! اس لیے انسان کو اپنے افکار اور اعمال کو قرآن و سنت کے تابع کردینا چاہیے اور ہر دم یہ عقیدہ تازہ رکھنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز کو دیکھ رہا ہے۔ آفاق، نباتات اور قدرت کے عجائبات کا ادراک کرنے کے لیے ملاحظہ فرمائیں سوسائنسدانوں کے مشاہدات پر مشتمل کتاب ” اللہ“ موجود ہے۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ لوگوں کو ان کے نفوس اور آفاق میں سے اپنی قدرت کی نشانیاں دکھاتا ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ دلائل اور اپنی قدرت کی نشانیوں سے حق کو واضح کرتا ہے۔ ٣۔ ہر انسان کو ہر وقت یہ عقیدہ رکھنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز اور کام کو دیکھ رہا ہوتا ہے۔ تفسیربالقرآن اللہ تعالیٰ ہر چیز کو دیکھتا اور جانتا ہے : ١۔ تم جو بھی عمل کرتے ہو وہ اللہ کے علم میں ہوتا ہے۔ (یونس : ٦١) ٢۔ اللہ تعالیٰ تمام مخلوقات کو جاننے والا ہے۔ (یٰس : ٧٩) ٣۔ جو لوگ جہالت کی وجہ سے برائی کرتے ہیں، پھر جلدہی توبہ کرلیتے ہیں اللہ ان کی توبہ قبول کرتا ہے۔ اللہ ہر چیز کو جانتا اور حکمت والا ہے۔ (النساء : ١٧) ٤۔ اللہ سے اس کے فضل کا سوال کرو یقیناً اللہ تعالیٰ ہر چیز کو جاننے والا ہے۔ (النساء : ٣٢) ٥۔ جو کچھ تم اللہ کے دئیے ہوئے میں سے خرچ کرتے ہو اللہ تعالیٰ اس کو جانتا ہے۔ (النساء : ٣٩) ٦۔ قیامت کا، بارش کے نازل ہونے کا، اور جو کچھ رحموں میں ہے اور انسان کل کیا کمائے گا اور اسے کہاں موت آئے گی اللہ تعالیٰ کے علم میں ہے۔ (لقمان : ٣٤) ٧۔ فرشتوں نے کہا تو پاک ہے ہمیں تو اتنا ہی علم ہے جتنا تو نے ہمیں سکھلایا ہے اور تو جاننے والا، حکمت والا ہے۔ (البقرۃ: ٣٢) فصلت
54 فہم القرآن ربط کلام : کفار اپنے رب کی قدرتیں دیکھنے کے باوجود اس کی ذات اور ملاقات سے انکار کرتے ہیں۔ انسان کا ذہن آخرت کے فکرسے خالی ہوجائے تو وہ بڑے سے بڑے حقائق اور دلائل کو ٹھکراتا چلا جاتا ہے۔ یہی حالت اہل مکہ کی تھی۔ ان کے سامنے اللہ کی الوہیّت کے دلائل پیش کیے جاتے تو وہ انہیں مسترد کردیتے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت کا ثبوت دیا جاتا تو وہ مذاق کا نشانہ بناتے۔ فکر آخرت کی بات ہوتی تو اہل مکہ یہ کہہ کر انکار کرتے کہ جب انسان مر کر مٹی کے ساتھ مٹی ہوجائے گا تو اسے کس طرح دوبارہ زندہ کیا جاسکتا ہے ؟ ان کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ دیکھیں یہ لوگ کس طرح اپنے رب کی ملاقات کے بارے میں متردّد اور شک کا شکار ہیں۔ کیا انہیں معلوم نہیں کہ جو رب انہیں آفاق اور ان کے نفوس میں اپنی قدرتیں دکھلاتا ہے۔ جنہیں دیکھ کر یہ لوگ بے بس ہوجاتے ہیں اور اکثر مرتبہ ان کا اعتراف کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ پھر غور کرو! کہ جس نے زمین و آسمان، صحراء، دریا، شجرو حجر اور انسان کو پیدا کیا۔ کیا وہ انسان کو مارنے کے بعد اسے زندہ کرنے پر قادر نہیں ہے ؟ بلاشبہ وہ اس بات پر قادرہے اور اس نے انسان کو ہر حالت میں دوبارہ زندہ کرنے کے بعد اپنی بارگاہ میں حاضر کرنا ہے۔ کوئی اس کا اقرار کرے یا انکار کرے اللہ تعالیٰ ایسا کرنے پر قادر ہے۔ کیونکہ اس نے اپنے علم، اختیار اور اقتدار کے حوالے سے ہر چیز کا احاطہ کیا ہوا ہے۔ انسان جل کر مرے یا پانی میں تحلیل ہوجائے۔ اللہ تعالیٰ ہر صورت اسے اپنے حضور حاضر کرے گا۔ مسائل ١۔ آخرت کے منکرکے پاس کوئی عقلی اور نقلی دلائل موجود نہیں۔ ٢۔ کوئی چاہے یا نہ چاہے اس کی اپنے رب کے ساتھ ملاقات ضرور ہوگی۔ ٣۔ یقین کریں! کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ فصلت
0 سورۃ الشّوریٰ کا تعارف الشّوریٰ مکہ معظمہ میں نازل ہوئی ترپن (٥٣) آیات اور پانچ رکوع پر مشتمل ہے۔ اور حٰمٓ کے لفظ سے شروع ہونے والی یہ تیسری سورت ہے۔ ربط سورۃ: سورۃ حٰمٓ السجدہ کا اختتام اس بات پر ہوا کہ اگر قرآن مجید ” اللہ“ کی طرف سے نازل ہوا ہے، یقیناً ہوا۔ تم اس کا انکار کرتے ہو تو پھر بتاؤ اس شخص سے زیادہ کون گمراہ ہوگا جو جان بوجھ کر قرآن مجید کا انکار کرتا ہے۔ الشوریٰ کا آغاز ان الفاظ سے ہوا کہ اے نبی آپ پر اسی طرح ہی وحی کی جا رہی ہے جس طرح آپ سے پہلے انبیاء کرام (علیہ السلام) پر وحی کی جاتی تھی۔ وحی کا مرکزی پیغام یہ ہے کہ اللہ کی توحید پر ایمان لا کر اس کے تقاضے پورے کیے جائیں۔ جو لوگ توحید کا انکار کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے سوا دوسروں کو اپنا خیر خواہ سمجھتے ہیں ان پر مزید وقت صرف کرنے کی بجائے انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو کسی پر نگران اور پاسبان نہیں بنایا۔ جو لوگ اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر دوسروں سے امیدیں وابستہ رکھتے ہیں۔ انہیں دیکھنا اور سوچنا چاہیے کہ جس رب پر ایمان لانے اور اس کی بات ماننے کا حکم دیا جاتا ہے۔ اسی نے زمین و آسمان، انسان اور چوپاؤں کو پیدا کیا ہے اور وہی رزق کا بندوبست کرنے والا ہے۔ یہ باتیں حضرت نوح (علیہ السلام) سے لے کر عیسیٰ ( علیہ السلام) تک تمام انبیاء کرام (علیہ السلام) پر وحی کی گئیں لیکن ہر دور کے مشرک نے ان باتوں کا انکار کیا۔ اے نبی مشرک کا روّیہ جو بھی ہو آپ کو یہی دعوت دینا اور اس پر استقامت اختیار کرنا ہے۔ البتہ انہیں ارشاد فرمائیں کہ میں اس دعوت کے عوض میں رشتہ داری کی محبت کے سوا تم سے کسی بات کا مطالبہ نہیں کرتا۔ یاد رکھو جو کچھ تمہیں دیا گیا ہے وہ عارضی ہے اور جو اللہ تعالیٰ نے آخرت میں اپنے بندوں کے لیے تیار کر رکھا ہے وہ ہمیشہ ہمیش رہنے والا ہے۔ الشوریٰ کی آیت ٣٨ میں مسلمانوں کے اجتماعی نظام کی خوبی بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے کہ ان کا اجتماعی نظام آمریت کی بجائے شورائیت پر مبنی ہوتا ہے۔ اور اس اجتماعیت کا تقاضا ہے کہ مسلمان باجماعت نماز کا اہتمام کرتے اور مال دار لوگ دوسروں پر خرچ کرتے ہیں۔ سورت کا آغاز اس بات سے ہوا کہ قرآن مجید بھی اسی طرح وحی کے ذریعے نازل کیا جا رہا ہے جس طرح پہلے انبیاء پر وحی کے ذریعے کتابیں نازل کی گئی تھیں۔ کفار کے الزام کے جواب میں یہ بات بھی واضح کردی گئی ہے کہ کسی بشر کے لائق نہیں کہ اللہ تعالیٰ اس کے ساتھ براہ راست کلام فرمائے اس نے جس پر اپنا پیغام نازل فرمایا وہ وحی اور حجاب کے ذریعے ہی نازل کیا جاتا تھا۔ اور اسی طرح ہی آپ پر وحی کی جاتی ہے۔ وحی سے پہلے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نہیں جانتے تھے کہ قرآن اور ایمان کیا ہیں؟ یہ تو اللہ کا کرم ہوا ہے کہ اس نے آپ پر قرآن نازل کیا اور آپ کو صراط مستقیم کی رہنمائی فرمائی۔ آپ یاد رکھیں کہ ہر کام کا نتیجہ اللہ کے ہاں مرتب ہوا ہے۔ باالفاظ دیگر انجام کار ” اللہ“ کے ہاتھ میں ہے۔ الشورى
1 فہم القرآن سورہ حم ٓ سجدہ کا اختتام اس بات پر ہوا کہ قرآن مجید اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کردہ ہے۔ جو شخص اس کا انکار کرتا ہے اس سے بڑا ظالم کوئی نہیں۔ سورۃ الشّوریٰ کا آغاز اس بات سے ہورہا ہے کہ جس طرح قرآن کی شکل میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف وحی کی جاررہی ہے۔ اسی طرح ہی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پہلے انبیاء ( علیہ السلام) کی طرف وحی کی جاتی تھی۔ حم ٓ، عسق حروف مقطّعات میں سے ہیں۔ ان کا معنٰی اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ” اللہ“ ہی وحی کے ذریعے قرآن مجید آپ کی طرف نازل کررہا ہے۔ اس طرح جیسے اس نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) پر صحائف، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر تورات، حضرت داؤد (علیہ السلام) پر زبور اور حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) پر انجیل نازل فرمائی اور ان کے علاوہ دوسرے انبیاء کرام (علیہ السلام) پر وحی بھیجی۔ قرآن مجید اس ذات نے نازل فرمایا ہے جو ہر کام کرنے پر غالب ہے اس کے ہر حکم میں دانش ہوتی ہے اور اس کے احکامات محکم ہوتے ہیں۔ وہی زمین و آسمانوں اور ان کی ہر چیز کا مالک ہے۔ وہ اپنی ذات اور صفات کے اعتبار سے بلند وبالا اور عظیم تر ہے۔ یہاں پہلے انبیائے کرام (علیہ السلام) کی طرف وحی بھیجنے کا ذکر فرما کر یہ ثابت کیا ہے کہ جن انبیائے کرام (علیہ السلام) کے بارے میں تمہارا ایمان ہے کہ ان پر اللہ تعالیٰ وحی نازل کرتا تھا۔ اسی طرح تمہارا یہ بھی ایمان ہونا چاہیے کہ وہی ” اللہ“ حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر وحی کے ذریعے قرآن نازل کررہا ہے۔ اہل مکہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور کچھ اور پیغمبروں کے بارے میں ایمان رکھتے تھے کہ ان پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی نازل ہوتی تھی۔ یہودی بالخصوص حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت داؤد ( علیہ السلام) کے بارے میں اور عیسائی عیسیٰ ( علیہ السلام) کے بارے میں یقین رکھتے ہیں کہ ان پر وحی کی جاتی تھی اور وہ اللہ کے پیغمبر تھے۔ اللہ تعالیٰ نے کسی پیغمبر کا نام لیے بغیر ارشاد فرمایا ہے کہ جس طرح ان پر وحی کی جاتی تھی۔ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ پر بھی اسی طرح وحی کی جارہی ہے۔ اگر یہ لوگ نہیں مانتے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ آپ پر وحی نازل نہیں ہوتی یا یہ لوگ اللہ تعالیٰ کی گرفت سے باہر ہیں۔ ایسا ہرگز نہیں کیونکہ زمین و آسمان اور ان میں جو چیز ہے وہ اللہ کی ملکیت میں ہے اور اللہ اپنی ذات، صفات، اقتدار اور اختیار کے حوالے سے بلندو بالا اور عظیم تر ہے۔ باربار دلائل پیش کرنے کے باوجود یہ لوگ نہیں مانتے تو یہ اللہ تعالیٰ کی حکمت کا تقاضا ہے کہ وہ انہیں مہلت دیے جارہا ہے۔ جب پکڑنے پر آئے گا تو کوئی چیزاس کے سامنے مزاحم نہیں ہوسکے گی۔ ان آیات میں ایک طرف نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دی گئی ہے اور دوسری طرف قرآن مجید کے مخالفوں کو انتباہ کیا گیا ہے کہ تم بلندو بالا اور عظیم تر ہستی کی دسترس سے باہر نہیں ہو۔ اگر تم اپنی نافرمانیوں کے باوجود بچے ہوئے ہو تو یہ اس کی حکمت کا تقاضا ہے کہ اس نے تمہیں ایک مقررہ وقت تک مہلت دے رکھی ہے۔ مسائل ١۔ حٰآ عسق حروف مقطعات ہیں۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر وحی نازل فرمائی جس طرح پہلے انبیائے کرام (علیہ السلام) پر نازل کی گئی۔ ٣۔ زمین و آسمان اور ان کی ہر چیز اللہ تعالیٰ کی ملک ہے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ بلند بالا، عظیم تر، غالب اور حکمت والا ہے۔ تفسیر بالقرآن ہر چیز اللہ تعالیٰ کی ملک ہے : ١۔ ہدایت وہی ہے جسے اللہ تعالیٰ ہدایت قرار دے۔ (البقرۃ: ١٢٠) ٢۔ ہدایت اللہ کے اختیار میں ہے۔ (القصص : ٥٦) ٣۔ وہ جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے۔ (البقرۃ : ٢١٣) ٤۔ اللہ زندہ کو مردہ اور مردہ کو زندہ سے نکالتا ہے۔ (آل عمران : ٢٧) ٥۔ اللہ جسے چاہتا ہے معزز اور جسے چاہتا ہے ذلیل کرتا ہے۔ (آل عمران : ٢٦) ٦۔ اللہ مردے کو زندہ کرنے پر قادر ہے۔ (الاحقاف : ٣٣) ٧۔ عزت ساری کی ساری اللہ ہی کے پاس ہے۔ (فاطر : ١٠) ٨۔ اللہ سب کو موت دے کر دوسری مخلوق پیدا کرسکتا ہے۔ (النساء : ١٣٣) ٩۔ ہر قسم کی عزت اللہ کے لیے ہے وہ سننے اور جاننے والا ہے۔ (یونس : ٦٥) الشورى
2 الشورى
3 الشورى
4 الشورى
5 فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ اس قدر بلند وبالا اور عظیم تر ہے کہ وہ چاہے تو منکرین قرآن پر آسمان گرا دے۔ وہ ایسا اس لیے نہیں کرتا کیونکہ وہ غفور الرّحیم ہے۔ منکرین حق قرآن مجید کا اس لیے انکار کرتے ہیں کہ وہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت کو نہیں مانتے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت اور قرآن مجید کا انکار کرنا درحقیقت اللہ تعالیٰ پر جھوٹ بولنا ہے۔ اس لیے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دعویٰ نبوت اپنی طرف سے نہیں کیا تھا بلکہ اللہ تعالیٰ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ اعلان کروایا اور آپ پر قرآن نازل فرمایا۔ اس لیے قرآن اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا انکار کرنا ربِّ ذوالجلال کو (خاکم بدھن) جھوٹا کہنے کے مترادف ہے۔ یہ اتنا سنگین گناہ ہے کہ اللہ تعالیٰ درگزر نہ فرماتا تو قریب تھا اور ہے کہ منکرین قرآن پر آسمان پھٹ پڑے اور اللہ کے ملائکہ اتر پڑیں۔ جو ہر وقت اپنے رب کی شان کے لائق اس کی تسبیح پڑھتے رہتے ہیں اور ہر دم اہل زمین کے لیے اپنے رب کے حضور معافی کی درخوست کرتے ہیں، جس بنا پر اللہ تعالیٰ قرآن اور رسالت کے منکرین سے درگزر کرتا ہے۔ مجرموں کو یاد ہونا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ بار بار معاف کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔ فرشتوں کے نازل کرنے کا مقصد مجرموں کو عذاب دینا یا پھر قیامت برپا کرنا ہے۔ حمد کی عظمت : (عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَال النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کَلِمَتَانِ حَبِیْبَتَانِ إِلَی الرَّحْمَنِ، خَفِیْفَتَانِ عَلَیْ اللِّسَانِِ، ثَقِیْلَتَانِ فِیْ الْمِیْزَانِ سُبْحَان اللَّہِ وَبِحَمْدِہِ، سُبْحَان اللَّہِ الْعَظِیمِ )[ رواہ البخاری : کتاب التوحید ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا دو کلمے رحمٰن کو بڑے پسند ہیں، زبان سے ادا کرنے میں آسان اور وزن کے لحاظ سے بھاری ہیں۔“ (عَنْ اَبِیْ مَالِکِ الْاَشْعَرِیِّ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اَلطُّھُوْرُ شَطْرُ الْاِےْمَانِ وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ تَمْلَاُ الْمِےْزَانَ وَسُبْحَان اللّٰہِ وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ تَمْلَاٰنِ اَوْ تَمْلَأُ مَا بَےْنَ السَّمٰوٰتِ وَالاْرَضِ) [ رواہ مسلم : باب فَضْلِ الْوُضُوءِ] حضرت ابومالک اشعری (رض) رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان ذکر کرتے ہیں کہ پاکیزگی ایمان کا حصہ ہے‘ ” الحمدللہ“ کے الفاظ میزان کو بھر دیتے ہیں۔ ” سبحان اللہ“ اور ” الحمدللہ“ دونوں کلمے زمین و آسمان کو بھر دیتے ہیں۔ استغفار کی فضیلت : ” حضرت ابو سعید خدری (رض) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کرتے ہیں آپ نے فرمایا بنی اسرائیل میں ایک شخص نے ننانوے قتل کیے تھے۔ پھر توبہ کے لیے ایک راہب کے پاس پہنچا اور اس سے پوچھا۔ کیا اس کی توبہ قبول ہو سکتی ہے ؟ راہب نے جواب دیا نہیں اس نے اسے بھی قتل کردیا۔ پھر وہ مسئلہ پوچھنے کے لیے دوسرے عالم کے پاس گیا، اس شخص نے اسے ایک بستی کی طرف رہنمائی کی۔ راستے میں اس کو موت نے آلیا تو وہ اپنے سینے کے بل اس بستی کی طرف گرا۔ اس شخص کے بارے میں رحمت اور عذاب کے فرشتے جھگڑنے لگے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے اس بستی کو حکم دیا کہ مرنے والے کے قریب ہوجائے اور چھوڑی ہوئی بستی کو اس سے دوری کا حکم دیا۔ پھر دونوں کے درمیان فاصلہ ناپنے کا حکم ہوا۔ مرنے والا منزل مقصود کے بالشت بھر قریب پا یا گیا اس لیے اس کو معاف کردیا گیا۔“ [ رواہ البخاری : باب حدیث الغار] مسائل ١۔ قریب ہے کہ منکرین قرآن پر آسمان ٹوٹ پڑے یا فرشتے اتر پڑیں۔ ٣۔ یقیناً اللہ تعالیٰ معاف کرنے والا اور بڑا رحیم ہے۔ ٢۔ ملائکہ اپنے رب کی تسبیح پڑھنے کے ساتھ اہل زمین کے لیے بخشش مانگتے ہیں۔ تفسیربالقرآن استغفار کی برکات : ١۔ حضرت یونس کی قوم کے سوا کسی قوم کو عذاب کے وقت ایمان لانے کا فائدہ نہ ہوا۔ (یونس : ٩٨) ٢۔ اللہ سے بخشش طلب کیجیے یقیناً وہ معاف کرنے والا، رحم فرمانے والا ہے۔ (النساء : ١٠٦) ٣۔ اگر تم استغفار کرو تو اللہ تعالیٰ تمہیں اس کا بہتر صلہ دے گا۔ (ہود : ٣) ٤۔ اللہ تعالیٰ سے استغفار کرو اور اس کی طرف رجوع کرو میرا رب رحم کرنے اور شفقت فرمانے والا ہے۔ (ہود : ٩٠) ٥۔ اللہ تعالیٰ سے استغفار کرو یقیناً وہ بخشنے والا، رحم کرنے والا ہے۔ (المزمل : ٢٠) الشورى
6 فہم القرآن ربط کلام : بخشنہار اور مہربان ” اللہ“ کو چھوڑ کر لوگ دوسروں کو اپنا کارساز اور خیر خواہ بناتے ہیں۔ حالانکہ وہ سب پر نگران اور سب کا ذمہ دار ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے تمام گناہوں کو معاف کرنے والا اور ان کے جرائم سے درگزر کرنے والا ہے۔ چاہیے تو یہ کہ ہر انسان ایسے مہربان کو اپنا کارساز اور خیرخواہ مانے۔ مگر مشرک کی حالت یہ ہے کہ وہ ” اللہ“ بخشنہار اور مہربان کو چھوڑ کر دوسروں کو اپنا کارساز اور خیر خواہ سمجھتا ہے۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ ہر کسی پر نگران اور اس کی نیّت و عمل سے آگاہ ہے۔ اے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ اپنا کام کرتے جائیں اور یہ بات ذہن میں رکھیں کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو رسول بنایا ہے۔ رسول کا کام لوگوں کو حق کا پیغام دینا ہے منوانا اس کی ذمہ داری نہیں۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صبح و شام پوری جانفشانی اور اخلا ص کے ساتھ لوگوں کو توحید اور دین حق کی دعوت دیتے۔ مگر مشرکین کی حالت یہ تھی کہ وہ کفر و شرک میں آگے بڑھے جارہے تھے۔ اس صورت حال پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) افسردہ اور دل گرفتہ ہوجاتے۔ جس پر آپ کی طبیعت مضمحل ہوجاتی۔ اس پر آپ کو تسلی دی جارہی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو حق کا ابلاغ کرنے کے لیے مبعوث فرمایا ہے کسی پر پاسبان اور چوکیدار مقرر نہیں کیا۔ قرآن مجید نے مشرکین کے لیے کئی بار یہ لفظ استعمال کیا ہے کہ مشرک اللہ تعالیٰ کے سوا دوسروں کو اپنا اولیاء سمجھتے ہیں۔ ولی کی جمع اولیاء ہے جس کا معنٰی خیر خواہ اور دلی دوست ہے۔ مفسرین نے ولی کے مختلف معنٰی و مفہوم بیان کیے ہیں ان میں سے چند ایک درج ذیل ہیں۔ 1 جس کے کہنے پر آدمی چلے، جس کی ہدایات پر عمل کرے، اور جس کے مقرر کیے ہوئے طریقوں کی پیروی کرے۔ (النساء : ١١٩، الاعراف : ٣، ٢٧، ٣٠) 2 جس کی راہنمائی پر آدمی اعتماد کرے اور یہ سمجھے کہ وہ اسے صحیح راستہ بتانے اور غلطی سے بچانے والا ہے۔ (بنی اسرائیل : ٩٧، الکہف : ١٧، ٥٠، الجاثیۃ: ١٩) 3 جس کے متعلق آدمی عقیدہ رکھے کہ میں دنیا میں خواہ کچھ کرتا رہوں وہ مجھے اس کے برے نتائج سے بچالے گا۔ (النساء : ١٢٣، ١٧٣، الانعام : ٥١، الرعد : ٣٧، العنکبوت : ٢٢، الاحزاب : ٦٥، الزمر : ٣) 4 جس کے متعلق آدمی یہ سمجھے کہ وہ دنیا میں ما فوق الفطرت طریقے سے اس کی مدد کرتا ہے، آفات و مصائب سے اس کی حفاظت کرتا ہے، اسے روزگار دلواتا ہے، مرادیں برلاتا ہے اور ہر طرح کی حاجتیں پوری کرتا ہے۔ (ہود : ٢٠، الرعد : ١٦، العنکبوت : ٤١) بعض مقامات پر قرآن مجید میں ولی کا لفظ ان میں کسی ایک معنٰی میں استعمال کیا گیا ہے اور بعض مقامات پر اس کے سارے ہی مفہوم مراد ہوتے ہیں۔ یہاں اللہ کے سوا دوسروں کو ولی بنانے سے مراد مذکورہ بالا چاریا کسی ایک معنٰی میں ان کو اپنا سرپرست بنانا اور حامی ومددگار سمجھنا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے دنیوی وسائل کے تحت ایک حد تک انسان کو ایک دوسرے کا خیر خواہ اور کارساز بنایا ہے۔ لیکن یہ کارسازی اور خیر خواہی انسان کے اپنے بس کی بات نہیں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نہ چاہے تو عام انسان تو درکنار جنم دینے والی ماں بھی اپنی اولاد کی خیر خواہی اور اس کی چارہ جوئی نہیں کرسکتی۔ ماں کے دل سے رحم کا جذبہ ختم ہوجائے تو اپنے ہی لخت جگر کا گلا گھونٹ دیتی ہے۔ ماں بیماری کی وجہ سے لاچار ہوجائے تو جگر گوشے کو دودھ پلانا تو درکنار اسے آنکھیں کھول کر دیکھ بھی نہیں سکتی۔ یہ اللہ تعالیٰ کی مہربانی کا نتیجہ ہے کہ انسان ایک دوسرے کی چارہ جوئی کرتا ہے۔ لہٰذاحقیقی اور بنیادی طور پر خیر خواہ اور کا ساز صرف ایک ” اللہ“ ہے۔ لیکن مشرک اسے چھوڑ کر یا اس کے ساتھ دوسروں کو بھی اپنا چارہ گر اور خیر خواہ سمجھتا ہے۔ مسائل ١۔ مشرک اللہ تعالیٰ کے سوا دوسروں کو اپنا کارساز اور خیرخواہ سمجھتا ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ ہر کسی پر نگران اور پاسبان ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو کارساز اور حقیقی خیرخواہ نہیں سمجھنا چاہیے۔ ١۔ اللہ تعالیٰ ہر چیز کو پیدا کرنے والا ہے۔ تم اس کی عبادت کرو کیونکہ وہ ہر کسی کا کارساز ہے۔ (الانعام : ١٠٢) ٢۔ بے شک آپ ڈرانے والے ہیں اور اللہ ہی ہر چیز پر کارساز ہے۔ (ہود : ١٢) ٣۔ اللہ تعالیٰ ہر چیز کا پروردگار ہے اور وہ ہر چیز پر کارساز ہے۔ (الزمر : ٤١) ٤۔ جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے اللہ ہی کا ہے اور وہی کارساز کافی ہے۔ (النساء : ١٣٢) ٥۔ میرے بندوں پر شیطان کا داؤ پیچ نہیں چلے گا۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے لیے کار ساز ہے۔ (بنی اسرائیل : ٦٥) ٦۔ وہ مشرق ومغرب کا رب ہے اس کے سوا کوئی الٰہ نہیں اسی کو کار سازمانو۔ (المزمل : ٩) الشورى
7 فہم القرآن ربط کلام : مشرکین نے اللہ تعالیٰ کے سوا دوسروں کو اپنا خیرخواہ اور کارساز بنا لیا ہے۔ اِ ن کو ان کے برے عقیدے کے انجام سے ڈرانے کے لیے آپ کی طرف قرآن وحی کیا گیا ہے کہ آپ انہیں ان کے برے انجام سے متنبہ فرمائیں جس کا آغاز مکہ اور گردونواح سے ہونا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر قرآن مجید نازل کیا جو عربی زبان میں ہے۔ عربی زبان میں نازل کرنے کی بنیادی طور پر تین وجوہات ہیں۔ پہلی وجہ یہ ہے کہ اگر قرآن مجید غیر عربی میں ہوتا تو نہ صرف آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مخاطبین کو سمجھنے میں مشکل پیش آتی ملکہ آپ کو بھی قرآن سمجھنے میں دقت کا سامنا کرنا پڑتا۔ عربی زبان میں قرآن نازل فرماکر اللہ تعالیٰ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس دقت سے بچالیا۔ دوسری وجہ عربی میں قرآن نازل کرنے کی یہ ہے کہ اس زمانے میں صرف عربی زبان ہی ایسی زبان تھی جس کی جامعیت کا اہل علم اعتراف کرتے تھے اور آج بھی یہ زبان پوری دنیا کی زبانوں میں الفاظ اور قواعد کے اعتبار سے زیادہ جامع ہے۔ تیسری وجہ یہ ہے کہ آخر کسی نہ کسی زبان میں قرآن مجید نازل ہونا تھا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ان تمام اوصاف سے متصف فرمایا تھا جو آخر الزماں پیغمبر میں ہونا چاہیے تھے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عربی تھے اس لیے قرآن مجید عربی زبان میں نازل کیا گیا۔ جس کا مقصد یہ تھا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) امّ القریٰ اور اس کے گرد و پیش میں ر ہنے والے لوگوں کو آخرت کے ثواب اور احتساب سے آگاہ فرمائیں جس دن کے آنے میں کوئی شک نہیں۔ اس دن ذات پات اور ہر قسم کی اونچ نیچ کے سوا صرف لوگ دو حصوں میں تقسیم ہوں گے۔ صحیح عقیدہ اور صالح اعمال رکھنے والے لوگ جنت میں جائیں گے اور بدبخت لوگوں کو جہنّم میں جھونکا جائے گا۔ قرآن مجید نے سورۃ الاعراف میں ایک تیسرے گروہ کا ذکر بھی کیا ہے جہنیں قیامت کے دن اصحاب الاعراف کے نام سے پکارا جائے گا۔ یہ بالآخر جنت میں جائیں گے۔ لیکن کچھ بنیادی کوتاہیوں کی وجہ سے انہیں ایک عرصہ کے لیے جنّت اور جہنّم کے درمیان روک لیا جائے گا۔ ان کا ذکر یہاں اس لیے نہیں کیا گیا۔ کیونکہ بالآخر وہ جنت کے مہمان ہوں گے۔ اس لیے انہیں جنتیوں میں ہی شمار کیا گیا ہے۔ قرآن مجید نے مکہ معظّمہ کو امّ القریٰ قرار دیا ہے۔ جس کا معنٰی ہے بستیوں کی ماں۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جب زمین و آسمان بنانے کا فیصلہ کیا تو سب سے پہلے بیت اللہ کے مقام پر زمین کا آغاز ہوا۔ (آل عمران : ٩٦) دوسری وجہ یہ ہے کہ مکہ معظّمہ بیت اللہ کی وجہ سے ابتداء ہی سے مرجع خلائق رہا ہے۔ امّ القریٰ کے آس پاس سے مراد مکہ کے گرد و نواح کی بستیاں ہیں۔ اس آیت میں تبلیغ کا نیٹ ورک بتلایا گیا ہے کہ کام کا آغاز اپنے قریب سے کرنا چاہیے۔ جس کے لیے حکم ہے کہ اپنے آپ اور اپنے عزیز و اقربا کو جہنم کی ہولناکیوں سے بچاؤ۔ ( الشعراء : ٢١٤) اکثر اہل علم نے امّ القریٰ سے پوری دنیا مراد لی ہے۔ کیونکہ قرآن مجید کا ارشاد اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان ہے کہ میں کالے اور گورے، عربی اور عجمی کے لیے رسول بنایا گیا ہوں اور قیامت اس وقت تک قائم نہ ہوگی جب تک اسلام کا پیغام دنیا کے ہر گھر تک نہ پہنچ جائے۔[ رواہ احمد : مسند ابی ذر] (قُلْ یٰٓا أَ یُّھَا النَّاسُ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ اِلَیْکُمْ جَمِیْعَا) [ الاعراف : ١٥٨] ” اے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرما دیجئے! اے لوگو میں تم تمام کی طرف اللہ کا رسول ہوں۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر قرآن مجید نازل کیا ہے۔ ٢۔ قرآن مجید عربی زبان میں نازل کیا گیا ہے۔ ٣۔ اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اہل مکہ اور پوری دنیا کو قیامت کے حساب و کتاب سے متنبّہ کرنے کے لیے مبعوث کیے گئے۔ ٤۔ قیامت کے دن حساب و کتاب کے بعد لوگ دو اقسام میں تقسیم کیے جائیں گے۔ ٥۔ ایک فریق جنتی ہوگا اور دوسرا فریق دوزخ میں جھونکا جائے گا۔ تفسیر بالقرآن جنت اور جہنم کا ایک منظر : ١۔ ہم ان کے دلوں سے کینہ نکال دیں گے اور سب ایک دوسرے کے سامنے تکیوں پر بیٹھے ہوں گے۔ انہیں کوئی تکلیف نہیں پہنچے گی اور نہ وہ اس سے نکالے جائیں گے۔ (الحجر : ٤٧۔ ٤٨) ٢۔ جنت کے نیچے سے نہریں جاری ہیں اور اس کے پھل اور سائے ہمیشہ کے لیے ہوں گے۔ (الرعد : ٣٥) ٥۔ جہنم سے نکلنے کی کوئی صورت نہیں ہوگی۔ (البقرۃ: ١٦٧) ٦۔ جہنم سے چھٹکارا پانا مشکل ہے۔ (الزخرف : ٧٧) ٧۔ جہنم میں موت و حیات نہیں ہوگی۔ (طٰہٰ: ٧٤) ٨۔ دنیا میں لوٹ آنے کی خواہش پوری نہیں ہوگی۔ (الانعام : ٢٧) ٩۔ جہنم کی سزا میں وقفہ نہیں ہوگا۔ (فاطر : ٣٦) ١٠۔ جہنم کا عذاب چمٹ جانے والا ہے۔ (الفرقان : ٦٥) الشورى
8 فہم القرآن ربط کلام : اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو لوگ جہنّمی نہ بنتے اور سب کے سب لوگ جنت میں داخل ہوتے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو حق پر مجبور کرنے کی بجائے اس نے لوگوں کو حق وباطل میں انتخاب کا اختیار دے رکھا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات بنا کر زمین میں حکمرانی عطا فرمائی اور ہر چیز کو اس کی خدمت پر لگا دیا۔ اشرف المخلوقات اور زمین پر خلیفہ ہونے کی حیثیت سے اسے اس کی ذات کے بارے میں ایک حد تک اختیارات عطا فرمائے ہیں۔ جس میں سب سے بڑا اختیار یہ دیا کہ یہ چاہے تو ” اللہ“ کی نازل کردہ ہدایت قبول کرے نہ چاہے تو گمراہی کا راستہ اختیار کرلے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے انسان کے سامنے ہدایت اور گمراہی کو کھول کر بیان کردیا ہے۔ اللہ تعالیٰ چاہتا تو وہ لوگوں کو ایک ہی امت یعنی ہدایت پر جمع کرسکتا تھا۔ لیکن وہ جسے چاہتا ہے اپنی رحمت سے سرفراز کرتا ہے اور جو لوگ اس کی ہدایت کو قبول نہیں کرتے وہ ظالم ہیں اور ظالموں کے لیے قیامت کے دن کوئی خیر خواہ اور مددگار نہیں ہوگا۔ ظالم سے پہلی مراد مشرک ہیں۔ مشرک کا سب سے بڑا ظلم یہ ہے کہ اس نے اللہ تعالیٰ کے سوا دوسروں کو اپنا کارساز اور حقیقی خیرخواہ سمجھ رکھا ہے۔ حالانکہ موت وحیات صرف اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے جو ہر چیز پر اقتدار اور اختیار رکھتا ہے۔ لفظ ولی کی تشریح اس پہلے آیت ٦ میں کردی گئی ہے۔ شرک کی حمایت کرنے والے مفسّرین نے یہاں بھی من دونہٖ اولیاء سے مراد بت لیے ہیں۔ حالانکہ ان سے مرادوہ بزرگ ہیں جن کی زندگی میں یا ان کے فوت ہونے کے بعد لوگوں نے انہیں حاجت روا اور مشکل کشا بنا لیا ہے۔ یہاں اولیاء سے مراد اس لیے بزرگ لیے گئے ہیں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے موت و حیات کے الفاظ استعمال فرما کر کھلا اشارہ دیا ہے کہ جن بزرگوں اور اولیاء کے سامنے لوگ فریادیں کرتے ہیں وہ تو اپنی موت اور زندگی پر بھی اختیار نہیں رکھتے۔ جب کسی کو اپنی موت اور زندگی کے بارے میں اختیار نہیں تو وہ کسی کی بگڑی کس طرح سنوار سکتا ہے۔ جو لوگ ہر مقام پر من دون اللہ سے مراد بت لیتے ہیں۔ انہیں انصاف سے سوچنا اور اقرار کرنا چاہیے کہ کیا بت میں روح ہوتی ہے؟ اس کے بارے میں موت اور زندگی کا لفظ استعمال کیا جا سکتا ہے ؟ کیا بتوں کو قیامت کے دن زندہ کرکے ان سے حساب لیا جائے گا ؟ یہاں پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو لوگوں کو ایک ہی امت بنا دیتا۔ لیکن اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے اپنی رحمت میں داخل فرماتا ہے۔ یہاں رحمت سے مراد دین کا فہم اور اس پر عمل کرنا ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ جسے اپنی رحمت میں شامل کرنا چاہتا ہے اسے دین کی سمجھ عطا کرتا ہے۔[ رواہ البخاری : کتاب العلم] مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ چاہتا تو تمام لوگوں کو ہدایت پر جمع کردیتا۔ ٢۔ جسے اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے سرفراز فرمانا ہے اسے دین کی سمجھ عطا کرتا ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مشرک دور ہوتا ہے۔ ٤۔ قیامت کے دن ظالموں کا کوئی خیر خواہ اور مددگار نہیں ہوگا۔ ٥۔ مشرک اللہ تعالیٰ کے سوا بتوں اور بزرگوں کو اپنا مشکل کشا اور حاجت روا سمجھتے ہیں۔ ٦۔ صرف اللہ تعالیٰ ہی موت و حیات کا مالک ہے اور ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔ تفسیربالقرآن مشرک اللہ کے سوا اور اس کے ساتھ دوسروں کو اپنا کارساز سمجھتے ہیں : ١۔ کیا کافر لوگ یہ تصور کرتے ہیں کہ وہ میرے بندوں کو میرے سوا کار ساز بنا لیں گے۔ (الکہف : ١٠٢) ٢۔ جن کو تم اللہ کے سوا پکارتے ہو وہ تمہاری طرح کے ہی بندے ہیں۔ (الاعراف : ١٩٤) ٣۔ جن کو تم اللہ کے سوا پکارتے ہو وہ تمہاری مدد کرنے کی طاقت نہیں رکھتے۔ (الاعراف : ١٩٧) ٤۔ سوال کیجیے کہ جنہیں تم اللہ کے سوا پکارتے ہو انہوں نے زمین میں کیا پیدا کیا ہے ؟ (الاحقاف : ٤) ٥۔ جنہیں تم اللہ کے سوا پکارتے ہو وہ مکھی بھی پیدا نہیں کرسکتے۔ (الحج : ٧٣) ٦۔ تم بعل (بت) کو پکارتے ہو اور احسن الخالقین کو چھوڑدیتے ہو۔ (الصّٰفٰت : ١٢٥) الشورى
9 الشورى
10 فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ نے انسان کو فکر و عمل کا اختیار دینے کے باوجود حکم فرمایا ہے کہ وہ ہر حال میں اس کے حکم کی پیروی کرے۔ اور اس کی ذات پر بھروسہ کرے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو فکرو عمل کی آزادی عطا فرمائی ہے۔ جس وجہ سے لوگوں کی فکر اور عمل میں تضاد اور اختلاف پایا جاتا ہے۔ دین میں اختلاف اس وقت رونما ہوتا ہے جب کوئی شخص بالخصوص عالم دین اپنی ذاتی رائے کو حرف آخر سمجھ لیتا ہے۔ اگر اس کی سوچ دین کے بنیادی اصولوں کے خلاف نہ ہو اور اس اختلاف کے پیچھے دینوی مفاد اور فرقہ واریت ہونے کی بجائے اخلاص ہو تو اس اختلاف کے نقصانات تھوڑے ہوتے ہیں اور اس کی ایک حد تک دین میں گنجائش بھی موجود ہے۔ اگر یہ اختلاف عقیدہ توحید، رسالت اور آخرت یعنی دین کے بنیادی اصولوں میں پایا جائے تو اس کے نقصانات ناقابل تلافی ہوتے ہیں۔ جس کا پہلا نقصان یہ ہے کہ آدمی دین سے نکل کر دائرہ کفر میں داخل ہوجاتا ہے۔ اختلاف بنیادی ہویا فروعی، معاشی ہو یا معاشرتی، سیاسی ہویا سماجی، انفرادی ہو یا اجتماعی بیشک اختلاف حاکم اور محکوم کے درمیان کیوں نہ ہو ہر کسی کے لیے حکم ہے کہ اس کا حل اللہ تعالیٰ کے فیصلہ کے مطابق کیا جائے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ ہی سب کا خالق اور مالک ہے۔ یہی سرور دو عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ارشاد ہوا کہ آپ اپنے مخالفوں کو بتلائیں اور سمجھائیں کہ جس بات میں تم میرے ساتھ اختلاف کررہے ہو۔ اس کا فیصلہ اللہ تعالیٰ ہی کرنے والا ہے۔ وہ میرا خالق ہے اسی پر میں بھروسہ کرتاہوں اور ہر حال میں اسی کی طرف رجوع کرنے والاہوں۔ میرا رب چاہے گا تو دنیا میں ہی میرے اور تمہارے درمیان فیصلہ کردے گا۔ اگر دنیا میں فیصلہ نہ ہوا تو آخرت میں بہرحال یہ فیصلہ ہوجائے گا کہ کون ہدایت پر تھا اور کون گمراہی میں مبتلا تھا۔ مومن کو ہر حال میں اپنے رب پر بھروسہ کرنا چاہیے اور اسی کی طرف متوجہ رہنا چاہیے۔ قرآن مجید نے دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا کہ اگر تمہارے درمیان کسی بات میں اختلاف ہوجائے تو اسے اللہ اور اس کے رسول اور اپنے امیر کی طرف لوٹاؤ۔ (النساء : ٥٩) کیونکہ اصل حاکم اللہ کی ذات ہے اس لیے یہاں اللہ تعالیٰ نے صرف اپنا نام لیا ہے اگر اس حکم سے مراد قیامت کے متعلق حکم لیا جائے تو وہاں صرف ایک ” اللہ“ کا ہی حکم چلے گا۔ الشورى
11 فہم القرآن ربط کلام : جس اللہ پر بھروسہ کرنا ہے اسی نے زمین و آسمان اور لوگوں کو پیدا کیا ہے۔ فاطر کا لغوی معنٰی ہے پیدا کرنے والا اور کسی کام کو بالکل ابتدا سے شروع کرنے والا۔ اللہ تعالیٰ ہی آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنے والا ہے اور اسی نے آدم (علیہ السلام) کو مٹی سے پیدا کیا اور پھر حضرت آدم (علیہ السلام) سے اس کی بیوی کو پیدا کیا اور اس کے بعد نسل انسانی کی افزائش کاسلسلہ جاری فرمایا۔ (النساء : ١) اللہ تعالیٰ نے ہی انسان کی خدمت کے لیے چوپائے پیدا کیے۔ ان میں بھی نر اور مادہ بنائے تاکہ ان کی افزائش کاسلسلہ جاری رہے۔ اسی نے جاندار اور غیر جاندار چیزیں پیدا فرمائی ہیں۔ زمین و آسمانوں میں کوئی چیز ایسی نہیں جو کسی اعتبار سے اللہ تعالیٰ کے ساتھ مشابہت رکھتی ہو۔ وہ اپنی مخلوق کی ہر بات سنتا ہے اور اسے ہر حال میں دیکھ رہا ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے بارے میں ” لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَیْءٌ“ کے الفاظ استعمال فرما کر یہ واضح کیا ہے کہ مخلوق میں کوئی چیز اس کے مشابہ نہیں ہے اور وہ عرش پر متمکّن ہے۔ جس طرح اس کی ذات کے لائق ہے۔ گویا کہ رفع مکانی کے لحاظ سے بھی کوئی چیز اس سے ارفع و اعلیٰ نہیں۔ وہ ہر چیز کو دیکھتا ہے اس کے دیکھنے کی طرح کوئی نہیں دیکھ سکتا۔ وہ ہر بات سنتا ہے اس کے سننے کی طرح کوئی سن نہیں سکتا۔ اس کی مخلوق کا شمار نہیں وہ سب کی بولیاں سمجھتا اور سنتا ہے۔ جن و انس اور ملائکہ سب سے اعلیٰ مخلوق ہیں مگر ان میں بھی کسی کی یہ استعداد نہیں کہ بیک وقت وہ اپنے ہی ہم جنس افراد کی باتیں سمجھ سکیں اور سب کو دیکھ پائیں۔ یہ صرف اللہ ہی کی شان ہے جو اپنی مخلوق کو جانتا، ان کی بولیاں سمجھتا ہے اور ہر چیز کو ہر حالت میں دیکھتا ہے۔ اس لیے اس کا ارشاد ہے کہ اس کی ذات اور صفات کے ساتھ کسی چیز کی مثال نہ دی جائے۔ کیونکہ اس کی ذات اور صفات بے مثال ہیں۔ لیکن افسوس ! مشرک پھر بھی ایسی باتیں کرتے اور مثالیں دیتے ہیں۔ جس سے اللہ تعالیٰ کی توہین کا پہلو نکلتا ہے۔ ا اللہ تعالیٰ سے بندے کو دور رکھنے کے لئے اپنے رب کے بارے میں اتنی کمزور اور سطحی مثالیں دی جاتی ہیں کہ جس پر آدمی حیرت کا اظہار کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ ایسے علماء کا کہنا ہے کہ ڈی سی سے ملنے کے لیے چپڑاسی کی ضرورت ہے اور مکان کی چھت پر سیڑھی کے بغیر نہیں چڑھا جا سکتا۔ اس مثال اور باطل عقیدے کو اس شدومد کے ساتھ پھیلایا گیا ہے کہ اچھے بھلے، پڑھے لکھے حضرات حتیٰ کہ عدالتیں کرنے والے جج، قانون کی باریکیوں اور موشگافیوں سے واقف وکلاء، اندرون اور بیرون ملک یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل سکالر، اس پراپیگنڈے سے اس قدر متاثر ہوئے کہ وہ صحیح بات ماننا تو درکنار اسے ٹھنڈے دماغ سے سننے کے لیے بھی تیار نہیں ہوتے۔ ڈی سی او ایک انسان ہے جو بیک وقت ایک ہی انسان کی بات سن اور سمجھ سکتا ہے کمزور آدمی اس تک اس لیے نہیں پہنچ سکتا کہ اس نے لوگوں کے درمیان چھوٹے بڑے کا امتیاز قائم کر رکھا ہے۔ کیا اللہ تعالیٰ بھی ایسا ہے کہ اس نے امیر اور غریب چھوٹے اور بڑے کے درمیان امتیاز قائم کر رکھا ہے ؟ چھت قریب آنہیں سکتی اور انسان سیڑھی کے بغیر اس پر چڑھ نہیں سکتا کیا اللہ تعالیٰ کا بھی یہی معاملہ ہے؟ ( نعوذ باللہ من ذالک) مسائل ١۔ اللہ ہی نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے۔ ٢۔ اللہ ہی نے انسانوں اور چوپاؤں کے جوڑے بنائے ہیں۔ ٣۔ اللہ ہی انسانوں اور چوپاؤں کی افزائش کرنے والا ہے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ ہر بات سننے والا اور سب کچھ دیکھنے والا ہے۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کی صفات لازوال اور بے مثال ہیں۔ ٦۔ مخلوقات میں کوئی کسی اعتبار سے بھی اس جیسا نہیں۔ تفسیربالقرآن اللہ ہر اعتبار سے سے لازوال اور بے مثال ہے : ١۔ ہر چیز تباہ ہوجائے گی صرف اللہ کی ذات کو دوام حاصل ہے۔ (الرحمن : ٢٦ تا ٢٧) ٢۔ اللہ تعالیٰ کے علاوہ ہر شے ہلاک ہوجائے گی۔ (القصص : ٨٨) ٣۔ قیامت کے دن اللہ ہی کی بادشاہی ہوگی۔ (الفرقان : ٢٦) ٤۔ اللہ تعالیٰ ہی ازلی اور ابدی ذات ہے۔ (الحدید : ٣) ٥۔ اللہ تعالیٰ کی ذات زمین و آسمان کا نور ہے۔ (النور : ٣٥) ٦۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ زندہ ہے اس کے سوا کوئی الٰہ نہیں لہٰذا صرف اسی کو پکارو (المومن : ٦٥) ٧۔ ہمیشہ زندہ رہنے والے اللہ پر توکل کرو جسے کبھی موت نہیں آئے گی۔ (الفرقان : ٥٨) ٨۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ سے زندہ ہے اور ہمیشہ قائم رہے گا۔ (آل عمران : ٢) ٩۔ اللہ تعالیٰ ہی وہ ذات ہے جس کو نیند اور اونگھ نہیں آتی۔ (البقرۃ: ٢٥٥) الشورى
12 فہم القرآن ربط کلام : جس ” اللہ“ جیسا کوئی نہیں ہے۔ اس کے اختیارات دائمی اور لا محدود ہیں اور اسی کے پاس زمین و آسمانوں کے خزانوں کا کنٹرول ہے۔ اللہ تعالیٰ کے پاس ہی زمین و آسمانوں کی چابیاں ہیں۔ وہ جس کا چاہتا ہے رزق فراخ کرتا ہے اور جس کا چاہتا ہے تنگ کردیتا ہے۔ یقیناً وہ ہر چیز کو پوری طرح جانتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جو بھی جاندار پیدا کیا ہے۔ اس کی روزی کا ذمہ لے رکھا ہے وہ ہر کسی کے مستقل قیام اور عارضی ٹھہراؤ کو جانتا ہے اور اس نے ہر بات لوح محفوظ میں لکھ رکھی ہے۔ (ھود : ٦) قرآن مجید میں یہ بھی ارشاد ہے کہ اے انسان! تیرے رب کے لشکروں کو اس کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ (المدّثر : ٣١) اللہ تعالیٰ ہی انسان کو پیدا کرنے والا ہے اور اس نے ہی اس کے رزق کا ذمہ لے رکھا ہے۔ رزق سے مراد صرف کھانے پینے والی چیزیں نہیں بلکہ اس سے مراد ہر وہ چیز ہے جو ایک ذی روح کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس میں ہوا، پانی، خوراک اور رہن سہن کی ضروریات شامل ہیں۔ یہ سب چیزیں عطا کرنے والا صرف اللہ تعالیٰ ہے۔ اس نے اپنا دسترخوان اتنا وسیع اور ( Mobile) بنایا ہے کہ ہر کھانے والے کو اس کی خوراک مل رہی ہے۔ گوشت کھانے والے کو گوشت مل رہا ہے اور دانہ دنکا لینے والے کو دانہ دنکا میسر ہے۔ چند جمع کرنے والوں کے سوا باقی سب کے سب صبح وشام تازہ خوراک سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ جہاں تک انسان کا معاملہ ہے اس کا رزق بھی اللہ تعالیٰ نے اپنے ذمہ لیا ہے البتہ حکم ہے کہ اللہ کا رزق تلاش کیا کرو۔ اس کے لیے محنت ومشقت کرنا لازم ہے لیکن رزق کی کمی وبیشی کا انحصار انسان کی محنت پر نہیں۔ اگر رزق محنت کی بنیاد پر دیا جاتا تو معذور اور لاچار بھوکے مرجاتے۔ جہاں تک رزق کی کمی و بیشی کا تعلق ہے یہ اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ اصول کے مطابق ہے جس کے پیش نظر لوگوں کا رزق بڑھتا اور گھٹتا رہتا ہے۔ اگر کہیں قحط سالی پیدا ہوجاتی ہے تو یہ اللہ تعالیٰ کے طے شدہ اصول کے مطابق ہوتی ہے جس کا سبب بنیادی طور پر انسان ہی ہوا کرتا ہے۔ بے شک وہ قحط سالی بارش کی کمی کی وجہ سے ہی کیوں نہ ہو بارش کی کمی بھی انسان کے اعمال کا نتیجہ ہوتی ہے۔ اس قانون کے مطابق اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کے رزق کا ذمہ لیا ہے۔ وہ لوگوں کی مستقل قیام گاہوں اور عارضی رہائش کو جانتا ہے۔ کیونکہ لوگوں کے اعمال اور ضروریات سے باخبر رہنا اس کی صفت کاملہ ہے۔ اس لیے نہ صرف ہر لحاظ سے باخبر رہتا ہے بلکہ اس نے انسان اور دنیا کی ہر چیز کے بارے میں سب کچھ لوح محفوظ میں ثبت کر رکھا ہے۔ (عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ قَالَ کَانَ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) إِذَا رَفَعَ رَأْسَہُ مِنَ الرُّکُوعِ قَالَ رَبَّنَا لَکَ الْحَمْدُ مِلْءَ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضِ وَمِلْءَ مَا شِءْتَ مِنْ شَیْءٍ بَعْدُ أَہْلَ الثَّنَاءِ وَالْمَجْدِ أَحَقُّ مَا قَالَ الْعَبْدُ وَکُلُّنَا لَکَ عَبْدٌ اللَّہُمَّ لاَ مَانِعَ لِمَا أَعْطَیْتَ وَلاَ مُعْطِیَ لِمَا مَنَعْتَ وَلاَ یَنْفَعُ ذَا الْجَدِّ مِنْکَ الْجَدّ) [ رواہ مسلم : باب مَا یَقُولُ إِذَا رَفَعَ رَأْسَہُ مِنَ الرُّکُوعِ] ” حضرت ابو سعید (رض) سے روایت ہے انہوں نے کہا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب رکوع سے اپنا سر اٹھاتے تو پڑھتے، اے ہمارے رب! تمام تعریفیں تیرے لیے ہیں آسمانوں و زمین کے درمیان خلاء جتنی اور اس کے بعد جتنی تو چاہتا ہے، تو اس ثناء کا سب سے زیادہ اہل ہے اور اس بزرگی کا سب سے زیادہ حق رکھتا ہے جو ثناء اور عظمت بندہ بیان کرتا ہے ہم سب تیرے ہی بندے ہیں اے اللہ! جو چیز تو عطاء کرنا چاہے اس کو کوئی روکنے والا نہیں اور جو چیز تو روک لے اس کو کوئی عطا کرنے والا نہیں۔ تجھ سے بڑھ کر کوئی عظمت والا نفع نہیں دے سکتا۔“ مسائل ١۔ زمین و آسمان کی چابیاں صرف اللہ تعالیٰ کے پاس ہیں۔ ٢۔ اللہ ہی رزق بڑھانے اور گھٹانے والا ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ ہی ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے۔ تفسیربالقرآن اللہ تعالیٰ ہی رزق دینے والا ہے : ١۔ اللہ تعالیٰ ہی رازق ہے۔ (الذاریات : ٥٨) ٢۔ اللہ ہی رزق فراخ کرتا اور کم کرتا ہے۔ (سباء : ٣٩) ٣۔ اللہ تعالیٰ لوگوں سے رزق نہیں مانگتا بلکہ وہ لوگوں کو رزق دیتا ہے۔ (طٰہٰ : ١٣٢) ٤۔ بے شک اللہ بغیر حساب کے جس کو چاہتا ہے رزق عطا کرتا ہے۔ (آل عمران : ٣٧) ٥۔ ہم نے اس زمین میں تمہارے لیے معاش کا سامان بنایا اور ان کے لیے بھی جنہیں تم روزی نہیں دیتے۔ (الحجر : ٢٠) ٦۔ کتنے ہی چوپائے ایسے ہیں کہ تم انہیں رزق نہیں دیتے اللہ ہی ان کو رزق دینے والا ہے۔ (العنکبوت : ٦٠) ٧۔ اپنی اولاد کو مفلسی کے ڈر سے قتل نہ کرو کیونکہ اللہ تمہیں اور انھیں بھی رزق دینے والا ہے۔ (الانعام : ١٥١) الشورى
13 فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ نے جس طرح لوگوں کی روزی کا بندوبست کیا ہے اسی طرح ہی اس نے ان کی راہنمائی کا انتظام فرمایا ہے۔ انسان کا وجود بنیادی طور پر دوچیزوں پر مشتمل ہے۔ اس کا جسم مٹی سے بنایا گیا ہے۔ جسم کی بنیادی ضروریات مٹی کے ساتھ تعلّق رکھتی ہیں۔ انسان کے وجود کو جو چیز حرکت میں رکھتی ہے اس کا نام ” اَلرُّوْحُ“ ہے۔ ” اَلرُّوْحُ“ کا تعلق اللہ تعالیٰ کے حکم کے ساتھ ہے۔ جسے اہل علم نے ملکوتی چیز قرار دیا ہے۔ ” اَلرُّوْحُ“ کی خوراک اور راہنمائی کے لیے اللہ تعالیٰ نے انبیائے کرام (علیہ السلام) پر وحی کا سلسلہ جاری فرمایا۔ جو نبی آخر الزماں (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر مکمل ہوا۔ اس راہنمائی کا نام ” اَلدِّیْنُ“ ہے۔ جس کے بنیادی اصول اور مسائل ہمیشہ سے ایک رہے ہیں۔ البتہ وقت کے تقاضوں کے مطابق اس کی شروعات میں تبدیلی ہوتی رہی ہے۔ اس کے لیے مشہور مثال یہ ہے کہ آدم (علیہ السلام) کے دور میں بہن اور بھائی کا آپس میں نکاح جائز تھا۔ جونہی انسان کی نسل افزائش پذیر ہوئی تو بہن بھائی کا نکاح حرام قرار پایا۔ پہلی شریعتوں میں ایک آدمی کے نکاح میں بیک وقت دو بہنیں جائز قرار پائیں۔ لیکن شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں اسے بھی ناجائز قراردیا گیا۔ پہلی شریعتوں میں تعظیمی سجدہ جائز تھا اب کلیتاً حرام ہے۔ لہٰذا شرع سے مراد وہ تشریح اور تفسیر ہے جس سے دین کے تقاضے پورے ہوتے ہیں یہ تشریح اور تفصیل بھی وحی کے ذریعے نبی کو بتلائی اور سمجھائی جاتی ہے۔ اس لیے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے کہ مجھے قرآن اور اس کی مثل ایک اور چیز بھی عطا کی گئی ہے۔ اسے ہم حدیث رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نام سے جانتے اور مانتے ہیں۔ قرآن و حدیث کے بارے میں ہی فرمایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے وہی دین تمہارے لیے پسند فرمایا ہے جس کی وحی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پرکی گئی ہے۔ اس طرح ہی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پہلے ابراہیم (علیہ السلام)، موسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) پر کی گئی تھی۔ مقصد یہ تھا اور ہے کہ دین کو قائم رکھو اور اس میں تفرقہ بازی پیدا نہ کرو۔” اَلدِّیْنُ“ سے پہلی مراد اللہ کی توحید ہے جس کی دعوت مشرکین پر بڑی گراں گزرتی ہے۔ جسے اللہ تعالیٰ اپنی توحید کی سمجھ دے دے اسے اپنی بارگاہ میں برگزیدہ کرلیتا ہے۔ جو شخص بھی خلوص نیت کے ساتھ اللہ سے اس کی توحید کی راہنمائی چاہے گا۔ اللہ تعالیٰ اس کی ضرور راہنمائی کرے گا۔ اس بات کو یوں بھی بیان کیا گیا ہے کہ جو لوگ اللہ کے راستے میں کوشش کرتے ہیں اللہ تعالیٰ انہیں ضرور ہدایت دیتا ہے کیونکہ وہ نیکی کرنے والوں کی دستگیری کرتا ہے۔ (العنکبوت : ٦٩) اس آیت میں جودوسری بات سمجھائی گئی ہے وہ یہ ہے کہ ” اَلدِّیْنُ“ میں تفرّقہ پیدا نہیں کرنا چاہیے۔ تفرّقہ سے بچنے کے لیے جو اصول سمجھایا گیا ہے وہ یہ ہے کہ اے مسلمانو! اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور اپنے امیر کا حکم مانو ! اگر امیر کے ساتھ کسی مسئلہ میں اختلاف ہوجائے تو اسے اللہ اور اس کے رسول کے سامنے پیش کردو۔ (النساء : ٥٩) اللہ اور اس کے رسول کے سامنے پیش کرنے کا مقصد یہ ہے کہ قرآن مجید اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فرمان کے سامنے پیش کرو۔ یہ اس قدر سادہ اور ٹھوس اصول ہے کہ نیت میں اخلاص اور رب کی رضا مطلوب ہو تو آج بھی اس میں ہمارے اختلافات کا حل موجود ہے۔ لہٰذا ہر شخص اور فرقہ اپنے عقیدہ اور عمل کو بالخصوص قرآن مجید اور بخاری و مسلم کے سامنے پیش کرے۔ بالیقین امت میں اٹھانویں فیصد اختلافات دور ہوجائیں گے۔ مگر یہ بات مشرک اور مفاد پرست علماء اور دنیادار لوگوں کو پسند نہیں کیونکہ یہ لوگ اپنے معاملات کو قرآن و سنت کے حوالے کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ جس وجہ سے امت اختلافات کا شکار ہے۔ اختلافات سے بچنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ پورے اخلاص کے ساتھ دین کو انفرادی اور اجتماعی زندگی میں نافذ کیا جائے۔ حقیقتاً یہی اس کے قیام کا معنٰی ہے جو پورا ہونا چاہے۔ (عَنِ الْمِقْدَامِ بْنِ مَعْدِ یکَرِبَ الْکِنْدِیِّ قَالَ قَالَ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) أَلاَ إِنِّی أُوتِیتُ الْکِتَابَ وَمِثْلَہُ مَعَہُ أَلاَ إِنِّی أُوتِیتُ الْقُرْآنَ وَمِثْلَہُ مَعَہُ) [ مسند احمد : باب حدیث المقدام بن معدیکرب] ” مقدام بن معدیکرب (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا خبردار بے شک مجھے کتاب اور اس جیسی اور چیز عطا کی گئی ہے۔ خبردار مجھے قرآن اور اس جیسی ایک اور چیز عطا کی گئی ہے۔“ مسائل ١۔ ” اَلدِّیْنُ“ ہمیشہ سے ایک ہے اور اس کی تشریح حدیث کی شکل میں موجود ہے۔ ٢۔ قرآن مجید کی طرح حدیث بھی وحی کی صورت میں نازل کی گئی۔ ٣۔” اَلدِّیْنُ“ سے پہلی مراد اللہ کی توحید ہے۔ ٤۔ اللہ کی توحید مشرکین پر بڑی گراں گزرتی ہے۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے اپنی ہدایت سے سرفراز فرماتا ہے۔ ٦۔ جو شخص ” اللہ“ کی طرف خلوص نیت کے ساتھ متوجہ ہوتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی ضرورراہنمائی کرتا ہے۔ تفسیربالقرآن مشرک کو توحید خالص اور دین کی دعوت گراں گزرتی ہے : ١۔ کیا تو ہمیں ان معبودوں کی عبادت سے روکتا ہے جن کی عبادت ہمارے آباء کرتے رہے ہیں۔ (ھود : ٦٢) ٢۔ جب انہیں اللہ اور اس کے رسول کی طرف بلایا جاتا ہے تو کہتے ہیں ہمیں ہمارے آباء و اجداد کافی ہیں۔ (المائدۃ: ١٠٤) ٣۔ جب ان کے پاس اللہ وحدہٗ لاشریک کا ذکر کیا جاتا ہے تو ان کے دل جل جاتے ہیں۔ (الزمر : ٤٥) ٤۔ جب مشرکین کو توحید کی دعوت دی جاتی ہے تو وہ تکبر کرتے ہوئے اسے ٹھکرا دیتے ہیں۔ (الصّٰفّٰت : ٣٥) ٥۔ جب انہیں اللہ اور اس کے رسول کی طرف بلایا جاتا ہے تو وہ اللہ کے راستے میں رکاوٹ پیدا کرتے ہیں۔ (النساء : ٦١) ٦۔ جب ان پر اللہ کی آیات پڑھی جاتی ہیں تو کہتے ہیں یہ پہلے لوگوں کے قصے کہانیاں ہیں۔ (المطففین : ١٣) ١١۔ جب انہیں قرآن کی پیروی کے لیے کہا جاتا ہے تو جواب دیتے ہیں ہمیں اپنے باپ دادا کافی ہیں۔ (البقرۃ: ١٧٠) ١٢ جہنمیوں کو جواب دیا جائے گا کہ جس حالت میں تم مبتلا ہو اس کی وجہ یہ ہے کہ جب صرف ایک اللہ کی طرف بلایا جاتا تھا تو تم ماننے سے انکار کرتے تھے اور جب اس کے ساتھ دوسروں کو ملایا جاتا تو تم مان لیتے تھے اب فیصلہ اللہ بزرگ وبرتر کے اختیار ہیں۔ (المومن : ١٢) ١٣۔ اس اللہ کو چھوڑ کر لوگ ان کی عبادت کرتے ہیں جو انہیں نفع اور نقصان نہیں پہنچاسکتے اور کافر اپنے رب کا مخالف بنا ہوا ہے۔ (الفرقان : ٥٥) الشورى
14 فہم القرآن ربط کلام : تمام انبیائے کرام (علیہ السلام) کا دین ایک ہی تھا مگر ان کے بعد ان کے نا خلف وارثوں نے باہمی حسد وبغض کی وجہ سے اس میں اختلافات پیدا کردیئے۔ دین کی بنیاد توحید ورسالت پر ہے۔ توحید کا معنٰی ہے کہ ایک اللہ کا حکم مانا جائے اور صرف اسی کی عبادت کی جائے۔ رسالت کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کے رسول نے جو فرمایا اور کرکے دکھلایا اس کے مطابق عمل کیا جائے۔ ان دونوں چیزوں سے جو شخص جتنا آگے پیچھے ہوگا اتنا ہی وہ اتحاد امت سے دور ہوگا اور عملاً اختلافات کا باعث بنے گا۔ اگر اس اختلاف میں حسد وبغض شامل ہوجائے تو دین اور ملت تفرّقہ بازی کا شکارہوجائیں گے پہلی امتوں میں یہی کچھ ہوا۔ قرآن مجید بتلا رہا ہے کہ یہ تفرقہ بندی بے علمی کی وجہ سے نہیں ہوئی تھی کہ انہیں علم نہ تھا کہ حق کیا ہے اور باطل کیا ہے ؟ جھوٹ کیا ہے اور سچ کیا ہے ؟ پہلی امتوں کے علماء اور زعماء کو سب کچھ بتلادیا گیا تھا مگر ذاتی مفاد اور باہمی عناد کی وجہ سے ایک دوسرے کو نیچا دکھانے، ذاتی اور جماعتی مفادات کی خاطر تقسیم در تقسیم کا شکار ہوگئے۔ جس کا نتیجہ نکلا کہ آنے والی نسلوں کا دین سے اعتماد اٹھ گیا۔ اگر اللہ تعالیٰ کے ہاں یہ بات طے نہ ہوتی کہ لوگوں کو فکروعمل کی آزادی دی جائے اور ان کے اختلافات کا فیصلہ قیامت کے دن کیا جائے گا تو اللہ تعالیٰ دنیا میں ہی ان کا فیصلہ چکا دیتا۔ امت مسلمہ کو اس صورت حال سے بچانے کے لیے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یوں راہنمائی فرمائی ہے۔ ( عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عَمْرٍو (رض) قَالَ قَالَ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لَیَأْتِیَنَّ عَلٰی أُمَّتِی مَا أَتَی عَلٰی بَنِی إِسْرَاءِیلَ حَذْوَ النَّعْلِ بالنَّعْلِ حَتّٰی إِنْ کَانَ مِنْہُمْ مَنْ أَتٰی أُمَّہُ عَلَانِیَۃً لَکَانَ فِی أُمَّتِی مَنْ یَصْنَعُ ذَلِکَ وَإِنَّ بَنِی إِسْرَاءِیلَ تَفَرَّقَتْ عَلَی ثِنْتَیْنِ وَسَبْعِینَ مِلَّۃً وَتَفْتَرِقُ أُمَّتِی عَلٰی ثَلَاثٍ وَسَبْعِینَ مِلَّۃً کُلُّہُمْ فِی النَّارِ إِلَّا مِلَّۃً وَاحِدَۃً قَالُوْا وَمَنْ ہِیَ یَا رَسُول اللَّہِ قَالَ مَا أَنَا عَلَیْہِ وَأَصْحَابِی) [ رواہ الترمذی : باب ماجاء فی افتراق ہذ ہ لامۃ] ” حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) بیان کرتے ہیں رسول مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میری امت میں ایسا وقت ضرور آئے گا کہ وہ بنی اسرائیل کے ساتھ بالکل اس طرح مل جائے گی جس طرح جو تا ایک دوسرے کے ساتھ ملا ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ اگر ان میں سے کسی نے اپنی ماں سے اعلانیہ زنا کیا ہوگا تو میری امت میں بھی ایسا ضرور ہوگا۔ بنی اسرائیل بہتر فرقوں میں تقسیم ہوئی۔ میری امت تہتر فرقوں میں بٹ جائے گی۔ ایک گروہ کے علاوہ سارے کے سارے جہنم میں جائیں گے۔ صحابہ نے استفسار کیا اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! وہ کون سا گروہ ہے ؟ آپ نے فرمایا جو میرے اور میرے صحابہ کرام (رض) کے طریقے پر عمل کرنے والا ہوگا۔ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ إِیَّاکُمْ وَالظَّنَّ، فَإِنَّ الظَّنَّ أَکْذَبُ الْحَدِیثِ، وَلاَ تَحَسَّسُوا، وَلاَ تَجَسَّسُوا، وَلاَ تَحَاسَدُوا، وَلاَ تَدَابَرُوا، وَلاَ تَبَاغَضُوا، وَکُونُوا عِبَاد اللَّہِ إِخْوَانًا ) [ رواہ البخاری : باب مَا یُنْہَی عَنِ التَّحَاسُدِ وَالتَّدَابُرِ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں آپ نے فرمایا تم بد گمانی سے بچو کیونکہ بدگمانی بہت بڑا جھوٹ ہے۔ تم کسی کی عیب جوئی، جاسوسی اور حسد نہ کرو، نہ کسی کی غیر حاضری میں باتیں کرو‘ نہ ہی دشمنی کرو۔ اللہ کے بندو! بھائی بھائی بن جاؤ۔“ مسائل ١۔ پہلی امتوں کے علماء اور زعماء نے باہمی حسد کی وجہ سے دین اور امت کو ٹکڑوں میں تقسیم کیا۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کے اختلافات کا فیصلہ قیامت پر چھوڑ رکھاہے ٣۔ دین میں اختلافات پیدا کرنے سے لوگوں کا دین پر اعتماداٹھ جاتا ہے۔ تفسیربالقرآن دین اور امت میں اختلافات سے بچنے کا حکم : ١۔ اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو ! تفر قہ بازی میں نہ پڑو!(آل عمران : ١٠٣) ٢۔ اتحاد واتفاق اللہ تعالیٰ کی توفیق کا نتیجہ ہے۔ (الانفال : ٦٣) ٣۔ اتحاد اللہ کی عظیم نعمت ہے۔ (آل عمران : ١٠٣) ٤۔ کتاب اللہ کارشتہ نہ ٹوٹنے والا ہے۔ (البقرۃ: ٢٥٦) ٥۔ باہمی اختلاف اللہ کا عذاب ہوتا ہے۔ (الانعام : ٦٥) الشورى
15 فہم القرآن ربط کلام : پہلی امتوں کے لوگ حسد وبغض کی وجہ سے تفرقہ بازی کا شکار ہوئے۔ جس کے نتیجہ میں اللہ کا دین تقسیم ہوا اور لوگ دین کے بارے میں شک کا شکار ہوگئے۔ افتراق اور شک سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ انسان دین پر پکا رہے۔ دین پر پکا رہنے اور اس میں شک وشبہ سے بچنے کے لیے یہاں چار باتوں کا حکم دیا گیا ہے۔ مسئلہ کی اہمیت کے پیش نظر باربار نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مخاطب کرتے ہوئے حکم ہوا ہے کہ آپ کو ان باتوں پر ہر حال میں توجہ دینا اور ان پر قائم رہنا ہوگا۔ 1 قرآن مجید اور پہلی کتابوں پر ایمان لانا۔2 حالات جیسے بھی ہوں دین پر استقامت اختیار کرنا۔3 لوگوں کی خواہشات کی پیروی سے اجتناب کرنا۔4 حالات کی پروا کیے بغیر دین حق کی لوگوں کو دعوت دیتے رہنا۔ جس داعی میں یہ چار اوصاف پائے جائیں وہی عدل کی بات کرسکتا اور لوگوں کے درمیان عدل وانصاف کے ساتھ فیصلہ کرسکتا ہے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان اطہر سے عدل کا ذکر فرما کر یہ ثابت کیا گیا ہے کہ جو کچھ میں تمہارے سامنے بیان کرتا ہوں اس میں کسی کی حمایت اور مخالفت مقصود نہیں۔ میں تو اسی بات کی دعوت دیتاہوں جو انصاف پر مبنی ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے مجھے اسی کی دعوت دینے کا حکم دیا گیا ہے۔” اُمِرْتُ لِاَ عْدِ لَ بَیْنَکُمْ“ کا دوسرا مقصد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے اپنے دین کے ساتھ اس لیے مبعوث فرمایا ہے کہ میں تمہارے درمیان تمہارے دینی اور دنیاوی اختلافات میں عدل کے ساتھ فیصلہ کروں۔ اگر تم اسے قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہو تو ہمارے ساتھ جھگڑنے کی بجائے تم اپنا کام کرو اور ہمیں اپنا کام کرنے دو کیونکہ ہمارے لیے ہمارے اعمال اور تمہارے لیے تمہارے اعمال ہیں۔ نہ ہمارے اعمال کے بارے میں تمہیں پکڑا جائے گا اور نہ تمہارے اعمال کے بارے میں ہم پر کوئی گرفت ہوگی۔ اس کے باوجود تم جھگڑتے ہو تو یاد رکھو ! اللہ تعالیٰ ہم سب کو قیامت کے دن اکٹھا فرما کرسب کے درمیان عدل و انصاف کے ساتھ فیصلہ فرمائے گا۔ ہمیں تو ہر حال میں دین پر پکے رہنے اور لوگوں کی خواہشات کے پیچھے لگنے سے منع کیا گیا ہے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعا : (عَنْ أَنَسٍ (رض) قَالَ کَانَ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یُکْثِرُ أَنْ یَقُولَ یَا مُقَلِّبَ الْقُلُوبِ ثَبِّتْ قَلْبِی عَلَی دینِکَ فَقُلْتُ یَا رَسُول اللَّہِ آمَنَّا بِکَ وَبِمَا جِءْتَ بِہِ فَہَلْ تَخَافُ عَلَیْنَا قَالَ نَعَمْ إِنَّ الْقُلُوبَ بَیْنَ أَصْبُعَیْنِ مِنْ أَصَابِعِ اللَّہِ یُقَلِّبُہَا کَیْفَ یَشَاءُ) [ رواہ الترمذی : باب مَا جَاءَ أَنَّ الْقُلُوبَ بَیْنَ أَصْبُعَیِ الرَّحْمَنِ] ” حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اکثر یہ دعا کیا کرتے تھے اے دلوں کو پھیرنے والے ” اللہ“ میرے دل کو دین پر ثابت فرما۔ میں نے عرض کی اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم آپ پر ایمان لائے اور جو کچھ آپ لے کر آئے اسے تسلیم کیا۔ کیا آپ ہمارے بارے میں خطرہ محسوس کرتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا ہاں! بے شک دل اللہ کی دو انگلیوں کے درمیان ہیں وہ جدھر چاہتا ہے اسے پھیرتا ہے۔“ مسائل ١۔ مسلمان کوہر حال میں لوگوں کو دین کی دعوت دینا چاہیے۔ ٢۔ ہر حال میں دین پر استقامت اختیار کرنی چاہیے۔ ٣۔ گمراہ لوگوں کی خواہشات کے پیچھے نہیں چلنا چاہیے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ کتب اور قرآن مجید پر ایمان لانا فرض ہے۔ ٥۔ دین کا ایک مقصد یہ ہے کہ اس کے ذریعے لوگوں کے درمیان عدل قائم کیا جائے۔ ٦۔ کوئی شخص دوسرے کے اعمال کا ذمہ دار نہیں۔ ٧۔ اللہ تعالیٰ سب کو جمع کرے گا اور اسی کی طرف پلٹ کرجانا ہے۔ اور وہی لوگوں کے درمیان عدل کے ساتھ فیصلے کرے گا۔ تفسیربالقرآن دین پر استقامت اختیار کرنے کا حکم : ١۔ دین پر قائم رہو اور جدا جدا نہ ہوجاؤ۔ (الشوریٰ: ١٣) ٢۔ دین پر قائم رہو اور بے علموں کے راستہ کی پیروی نہ کرو۔ (یونس : ٨٩) ٣۔ ایمان لانے کے بعد استقامت دکھلانے والوں پر کوئی خوف نہیں ہوگا۔ (الاحقاف : ١٣) الشورى
16 فہم القرآن ربط کلام : ” اللہ“ کی ذات اور آیات کے بارے میں جھگڑا کرنے والوں کی سزا۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ہر قسم کے دلائل دیتے ہوئے ثابت فرمایا ہے کہ وہ اپنی ذات، صفات اور اختیارات میں اکیلا ہے۔ زمین و آسمان میں کوئی ذات ایسی نہیں جو کسی اعتبار سے اس کی معاون اور شریک ہو۔ اتنی ٹھوس اور واضح بات ہونے کے باوجود کافر اپنے رب کی ذات کا انکار کرتے ہیں اور مشرک اس کی ذات، صفات اور اختیارات کے بارے میں اہل توحید کے ساتھ جھگڑا کرتے ہوئے لایعنی قسم کے دلائل دیتے ہیں۔ جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ کفار اور مشرکین کے دلائل اس قدر بوسیدہ اور بے ہودہ ہیں۔ جیسے کسی چیز کو پاؤں تلے مسل دیا گیا ہو۔ سمجھانا یہ مقصود ہے کہ کفار اور مشرکین کی حجّت بازی اللہ تعالیٰ کے نزدیک انتہائی گھٹیا اور ذلیل ہے۔ اسی لیے موحّدین کو ایسی باتوں کو درخوراعتنا نہیں سمجھنا چاہیے۔ جسے مشرک دلیل سمجھ کر پیش کرتے ہیں درحقیقت یہ اپنے رب کے ساتھ جھگڑا کرنے کے کچھ بھی نہیں ہے ان پر اللہ تعالیٰ کا غضب ہے اور قیامت کے دن انہیں شدید ترین عذاب دیا جائے گا۔ مسائل ١۔ کفار اور مشرکین کے دلائل حجّت بازی کے سوا کوئی حقیقت نہیں رکھتے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ کے نزدیک کفار اور مشرکین کی حجّت بازی انتہائی گھٹیا اور ذلیل حرکت ہے ٣۔ جو لوگ اللہ کی ذات اور صفات کے بارے میں حجت بازی کرتے ہیں انہیں شدید ترین عذاب دیا جائے گا۔ الشورى
17 فہم القرآن ربط کلام : ” اللہ“ کی ذات اور صفات کے بارے میں جھگڑا کرنے والے لوگ اگر اپنے بے حیثیت دلائل کو حق کے ترازو میں رکھ کر وزن کرتے تو وہ عذاب شدید سے مامون ہو سکتے ہیں۔ ہر جھگڑا کرنے والے کے پاس کوئی نہ کوئی حجّت اور دلیل ہوا کرتی ہے۔ دلیل کو پرکھنے اور حق بات تک پہنچنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید اور ایک میزان نازل فرمائی ہے۔ اس لیے کہ لوگ کتاب الٰہی سے راہنمائی حاصل کریں اور اس میزان کے ذریعے اپنی دلیل کا وزن کریں۔ تاکہ انہیں معلوم ہوجائے کہ ان کی حجت اور بات کی حیثیت کیا ہے۔ جہاں تک قیامت کی آمد کا معاملہ ہے۔ کوئی نہیں جانتا کہ قیامت کس قدر قریب آپہنچی ہے۔ لوگ اپنی بات کا میزان میں وزن کرنے کی بجائے قیامت کے بارے میں جلد بازی کا اظہار کررہے ہیں اور اسی وجہ سے وہ لوگ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہتے کہ جس کی آمد سے ہمیں ڈرایا جاتا ہے وہ اب تک کیوں برپا نہیں ہوئی۔ ان کے مقابلے میں جو لوگ قیامت پر ایمان رکھتے ہیں وہ اس سے خائف رہتے ہیں۔ کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ قیامت ہر حال میں برپا ہونی ہے۔ اس لیے وہ اس کی ہولناکیوں اور حساب و کتاب سے ڈرتے ہیں۔ جو لوگ قیامت کے بارے میں جھگڑتے ہیں وہ پرلے درجے کی گمراہی میں مبتلا ہیں۔ اس لیے کہ جو شخص قیامت کے برپا ہونے کا انکار کرتا ہے درحقیقت وہ کائنات کے نظام اور اپنی تخلیق کو بے مقصد قرار دیتا ہے۔ حالا نکہ اللہ تعالیٰ نے کوئی چیز بے مقصد پیدا نہیں کی۔ قرآن مجید میں ” اَلْمِیْزَانُ“ کا لفظ ٩ دفعہ آیا ہے تاہم دو آیات میں ارشاد فرمایا ہے کہ ہم نے ایک میزان بھی نازل فرمایا ہے۔” اَلْمِیْزَانُ“ کے بارے میں اہل علم کے چار قسم کے خیالات ہیں۔ جو اپنی اپنی حیثیت کے مطابق حق پر مبنی ہیں۔ 1” اَلْمِیْزَانُ“ درحقیقت الکتاب کی تشریح ہے۔2 ” اَلْمِیْزَانُ“ سے مراد قرآن وسنت کی تعلیم ہے جس کے ذریعے انسان حق وباطل کے درمیان وزن اور فرق کرسکتا ہے۔ 3” اَلْمِیْزَانُ“ سے مراد وہ عقل سلیم ہے جس کی روشنی میں آدمی حق اور ناحق کی پہچان کرتا ہے۔ 4 ” اَلْمِیْزَانُ“ سے مراد دنیا کی کسی چیز کی پیمائش یا وزن کرنے کا وہ پیمانہ ہے جس کے ذریعے لوگ اپنا لین دین کرتے ہیں۔ جن آیات میں ” اَلْمِیْزَانُ“ کا لفظ ہے وہ مندرجہ ذیل ہیں۔ (الانعام : ١٥٢، الاعراف : ٨٥، ھود : ٨٤، ٨٥، الشوریٰ: ١٧، الرحمن : ٧، ٨، ٩، الحدید : ٢٥) مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید اور میزان نازل فرمایا ہے۔ ٢۔ قیامت کا انکار کرنے والے لوگ پرلے درجے کے گمراہ ہیں۔ ٣۔ قرآن مجید اور میزان کے ذریعے لوگوں کو حق و باطل کے درمیان امتیاز کرنا چاہیے۔ ٤۔ جو لوگ قیامت پر ایمان نہیں رکھتے وہی اس کے بارے میں جلدی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ ٥۔ قیامت پر ایمان رکھنے والے لوگ اس کی ہولناکیوں اور اپنے حساب و کتاب سے ڈرتے ہیں۔ تفسیربالقرآن دور کی گمراہی میں مبتلا ہونے والے لوگ : ١۔ جس نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کیا وہ دور کی گمراہی میں مبتلا ہوا۔ (النساء : ١١٦) ٢۔ ” اللہ“ کے راستہ سے روکنے والے دور کی گمراہی میں ہیں۔ (النساء : ١٦٧) ٣۔ سب سے بڑا گمراہ اپنی خواہشات کی پیروی کرنے والا ہے۔ (القصص : ٥٠) ٤۔ کفار سے دوستی کرنے والا سیدھی راہ سے دور چلا جاتا ہے۔ (الممتحنۃ: ١) ٥۔ جس نے اللہ، رسول، ملائکہ، کتابوں اور دن آخرت کا انکار کیا وہ دور کی گمراہی میں مبتلا ہوا۔ (النساء : ١٣٦) ٦۔ جو لوگ دنیا کو آخرت پر ترجیح دیتے ہیں اور اللہ کی راہ سے روکتے ہیں اور اس میں کجی تلاش کرتے ہیں یہ دور کی گمراہی میں مبتلا ہیں۔ (ابراہیم : ٣) الشورى
18 الشورى
19 فہم القرآن ربط کلام : جس طرح حق وباطل میں فرق سمجھنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے ایک میزان قائم فرمایا ہے اسی طرح اس کے ہاں رزق کے لیے ایک میزان ہے جس کے مطابق اللہ تعالیٰ لوگوں کا رزق کم اور زیادہ کرتا رہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ننانوے سے زائد اسماء الحسنیٰ ہیں۔ اسم ” اللہ“ کے علاوہ تمام کے تمام صفاتی اسمائے گرامی ہیں۔ ہر اسم اپنے آپ میں ایک متعین معنٰی رکھنے کے باوجود دوسری صفات کی بھی ترجمانی کرتا ہے۔ اسماء عالی مرتبت میں ایک مبارک نام ” اللَّطِیْفُ“ بھی ہے۔ ” اللَّطِیْفُ“ کا معنٰی باریک سے باریک چیز کو جاننے والا اور اپنی مخلوق پر ہمہ وقت لطف و کرم کی برکھابرسانے والاہے۔ اسی لطف وکرم کا نتیجہ ہے کہ انسان اس کی بغاوت کی انتہا کردیتا ہے مگر پھر بھی وہ اسے اپنی عنایات سے نوازتا ہے۔ اس کی بڑی بڑی نوازشات میں انسان کے رزق کا اہتمام کرنا بھی ہے۔ وہ اپنی حکمت کاملہ کے تحت جتنا اور جسے چاہتا ہے رزق سے نوازتا ہے۔ اس کے خزانوں میں کمی واقع نہیں ہوتی اور اس کے نظام میں کوئی دخل انداز نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ ہی انسان کو پیدا کرنے والا ہے اور اس نے ہی اس کے رزق کا ذمہ لے رکھا ہے۔ لہٰذا انسان کو چاہیے اللہ پر ہی بھروسہ کرے۔ کسی اور کی آس میں نہ بیٹھا رہے۔ (عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لَوْ أَنَّکُمْ کُنْتُمْ تَوَکَّلُوْنَ عَلَی اللَّہِ حَقَّ تَوَکُّلِہٖ لَرُزِقْتُمْ کَمَا تُرْزَقُ الطَّیْرُ تَغْدُوْ خِمَاصًا وَتَرُوْحُ بِطَانًا)[ رواہ الترمذی : کتاب الزہد، باب فِی التَّوَکُّلِ عَلَی اللَّہِ] ” حضرت عمر بن خطاب (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اگر تم اللہ تعالیٰ پر توکل کرو جس طرح توکل کرنے کا حق ہے۔ تو تمہیں اسی طرح رزق دیا جائے جس طرح پرندوں کو رزق دیا جاتا ہے۔ وہ خالی پیٹوں کے ساتھ صبح کرتے ہیں اور شام کو بھرے پیٹوں کے ساتھ لوٹتے ہیں۔“ تفسیربالقرآن اللہ ہی رزق عطا کرنے والا ہے : (الذاریات : ٥٨) (سباء : ٣٩) (یونس : ٣١) (الزمر : ٥٢) (ھود : ٦) (الحجر : ٢٠) (طٰہٰ : ١٣٢) (البقرۃ: ٢١٢) (العنکبوت : ٦٠) الشورى
20 فہم القرآن ربط کلام : اس میں کوئی شک نہیں کہ صرف ” اللہ“ ہی رزق دینے والا ہے۔ لیکن اس نے انسان کو رزق کے حصول کے لیے محنت کرنے کا حکم دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے دنیا و آخرت کی کامیابی کے لیے محنت کرنے کا حکم دیا ہے۔ اس کا ارشاد ہے کہ انسان وہی کچھ پائے گا جس کے لیے وہ محنت کرے گا۔ (النّجم : ٣٩) دنیا اور آخرت کے حصول کو ” حرث“ کہا گیا ہے۔ ” حرث“ کا معنٰی کھیتی ہے۔ جس میں ہر قسم کی فصل اور پودا جات شامل ہیں۔ کھیتی پر غور فرمائیں تو اس سے غلّہ حاصل کرنے میں زمیندار کو کتنے مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔ بار بار ہل چلاکر زمین کو بیج کے قابل بنانا، صحیح وقت پر اسے سیراب کرنا، جڑی بوٹیوں اور کیڑوں مکوڑوں سے اس کی حفاظت کرنا، مناسب مقدار میں کھاد لگانا اس طرح بہت سے مراحل طے کرنے کے بعد انسان لقمہ کھانے کے قابل ہوتا ہے۔ یہی حال پھل اور میوہ جات کا ہے کہ کتنی محنت کے بعد انسان اس قابل ہوتا ہے کہ ان سے لطف اندوزہوسکے۔ اللہ تعالیٰ نے ” حَرْثَ“ کا لفظ بول کر انسان کو دنیا اور آخرت کے لیے محنت کرنے کی ترغیب دی ہے۔ بے شک دنیا کے رزق کی ذمہ داری اللہ تعالیٰ نے اپنے ذمہ لی ہے۔ لیکن آخرت کی کامیابی اسی شخص کو حاصل ہوگی جو اس کے لیے اخلاص اور قرآن و سنت کے مطابق کوشش کرے گا۔ آخرت کی کامیابی کا حصول دنیا کی کامیابی کے مقابلے میں نسبتاً مشکل ہے۔ اس لیے ارشاد فرمایا ہے کہ جو آخرت کی کھیتی کے لیے کوشش کرے گا ہم اس کی کھیتی میں اضافہ کریں گے اور جودنیا کی کھیتی کے لیے کوشش کرے گا ہم اسے دنیا کا حصہ دیں گے۔ لیکن جس نے صرف دنیا کے لیے کوشش کی اس کے لیے آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہوگا۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے آخرت کی کھیتی کے اضافہ کے بارے میں یوں ارشاد فرمایا ہے۔ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَنْ تَصَدَّقَ بِعَدْلِ تَمْرَۃٍ مِّنْ کَسْبٍ طَیِّبٍ وَّلَا یَقْبَلُ اللّٰہُ إِلَّا الطَّیِّبَ فَإِنَّ اللّٰہَ یَتَقَبَّلُھَا بِیَمِیْنِہٖ ثُمَّ یُرَبِّیْھَا لِصَاحِبِہٖ کَمَا یُرَبِّیْ أَحَدُکُمْ فُلُوَّہٗ حَتّٰی تَکُوْنَ مِثْلَ الْجَبَلِ) [ رواہ البخاری : کتاب الزکوۃ، باب الصدقۃ من کسب طیب ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو آدمی کھجور کے برابر اپنی پاک کمائی سے صدقہ کرتا ہے اور اللہ کے ہاں صرف پاک چیز ہی قبول ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ اسے قبول کرتے ہوئے اپنے دائیں ہاتھ میں لے کر اس کو اس طرح پالتا اور بڑھاتا ہے جیسے تم میں سے کوئی بچھڑے کو پالتا ہے یہاں تک کہ صدقہ پہاڑکی مانند ہوجاتا ہے۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ انسان کی محنت کے مطابق اسے دنیا اور آخرت کا صلہ دیتا ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ مسلمان کو آخرت میں اس کی محنت سے زیادہ اجر عطا فرمائے گا۔ ٣۔ جس نے آخرت کے مقابلہ میں دنیا کو ترجیح دی اس کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہوگا۔ تفسیربالقرآن دنیا اور آخرت کا تقابل : ١۔ دنیا کھیل اور تماشا ہے۔ (الانعام : ٣٢) ٢۔ آخرت کے مقابلے میں دنیا کی زندگی عارضی ہے۔ (الرعد : ٢٦) ٣۔ دنیا عارضی اور آخرت پائیدار ہے۔ (المؤمن : ٣٩) ٤۔ دنیا کی زندگی محض دھوکے کا سامان ہے۔ (الحدید : ٢٠) ٥۔ دنیا آخرت کے مقابلہ میں بہت کمتر ہے۔ (التوبۃ: ٣٨) ٦۔ جو چیز تم دیے گئے ہو یہ تو دنیا کا سامان اور زینت ہے۔ (القصص : ٦٠) ٧۔ نہیں ہے دنیا کی زندگی مگر دھوکے کا سامان۔ (آل عمران : ١٨٥) ٨۔ مال اور اولاد دنیا کی زندگی کی زینت ہیں۔ (الکہف : ٤٦) ٩۔ مال اور اولاد تمہارے لیے فتنہ ہے۔ (التغابن : ١٥) ١٠۔ آپ فرما دیں کہ دنیا کا سامان تھوڑا ہے اور آخرت بہتر ہے۔ (النساء : ٧٧) ١١۔ تم دنیا کی زندگی کو ترجیح دیتے ہو جبکہ آخرت اس سے بہتر ہے۔ (الاعلیٰ: ١٧) الشورى
21 فہم القرآن ربط کلام : جن کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہوگا ان لوگوں میں سرفہرست مشرک ہیں۔ ” اَلدِّیْنِ“ اللہ تعالیٰ کے احکام اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشادات پر مبنی ہے۔ جس میں زندگی گزارنے کا مکمل ضابطہ دیا گیا ہے۔ اس میں کسی چھوٹے، بڑے، نیک اور بد یہاں تک کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھی یہ اختیار نہیں دیا گیا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس میں اپنی مرضی سے بال برابر بھی کمی بیشی کرسکیں۔ آپ نے جو کچھ فرمایا اللہ تعالیٰ کی وحی کے مطابق ارشاد فرمایا۔ اس قدر واضح اور ٹھوس اصول ہونے کے باوجود مشرکین نے کچھ لوگوں کو یہ اختیار دے رکھا ہے کہ وہ دین کے نام پر جو چاہیں مسائل بناتے اور چلاتے رہیں۔ یہ بات بالکل واضح ہے کہ یہاں شرکاء سے پہلی مراد وہ لوگ ہیں جو حکمرانوں یا پارلیمنٹ کو اکثریت کی نمائندہ ہونے کی بنیاد پر آئین سازی کا اختیار دیتے ہیں۔ جس بنا پر مسلمان ملکوں کی پارلیمنٹوں اور حکمرانوں نے اسلام کا حلیہ بگاڑ کر رکھ دیا ہے۔ اس میں ماضی، حال کے وہ علماء اور پیر بھی شامل ہیں جنہوں نے اپنے فتویٰ اور فرمان کو شریعت بنا کر لوگوں کے سامنے پیش کیا اور لوگوں نے اسے عقیدت کی بنیاد پر ٹھنڈے دل سے قبول کرلیا۔ جس طرح غیر اسلامی قانون بنانے والے رب کے شریک بن بیٹھے ہیں اسی طرح انہیں خاموشی سے قبول کرنے والے بھی ایک حد تک شرک کا ارتکاب کرتے ہیں۔ گویا کہ دونوں فریق اپنے اپنے مقام پر شرک فی الحکم میں ملوث ہیں۔ اگر اللہ تعالیٰ نے ان کے فیصلے کا ایک وقت مقرر نہ کر رکھا ہوتا تو ان کا جرم اتنا بھاری تھا کہ انہیں نیست ونابود کردیا جاتا۔ ظالموں کے لیے آخرت میں اذیت ناک عذاب ہوگا اس لیے کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کو حاکمِ کل تسلیم کرنے کی بجائے دوسروں کو بھی اس کی حاکمیّت میں شریک کر رکھا ہے۔ اس ظلم کا نتیجہ ہے کہ ظالم کو پکڑنے والا اور مظلوم کی داد رسی کرنے والا کوئی نہیں ہے۔ (عَنْ عَدِیِّ بْنِ حَاتِمٍ قَالَ أَتَیْتُ النَّبِی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وَفِی عُنُقِی صَلِیبٌ مِنْ ذَہَب فَقَالَ یَا عَدِیُّ اطْرَحْ عَنْکَ ہَذَا الْوَثَنَ وَسَمِعْتُہُ یَقْرَأُ فِی سُورَۃِ بَرَاءَ ۃَ (اتَّخَذُوا أَحْبَارَہُمْ وَرُہْبَانَہُمْ أَرْبَابًا مِنْ دُون اللَّہِ) قَالَ أَمَا إِنَّہُمْ لَمْ یَکُونُوا یَعْبُدُونَہُمْ وَلَکِنَّہُمْ کَانُوا إِذَا أَحَلُّوا لَہُمْ شَیْءًا اسْتَحَلُّوہُ وَإِذَا حَرَّمُوا عَلَیْہِمْ شَیْءًا حَرَّمُوہُ) [ رواہ الترمذی : باب وَمِنْ سُورَۃِ التَّوْبَۃِ] ” حضرت عدی بن حاتم (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیامیری گردن میں سونے کی صلیب لٹک رہی تھی آپ نے فرمایا اس بت کو پھینک دو۔ میں نے سنا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سورۃ برأۃ کی تلاوت فرما رہے تھے (اِتَّخَذُوا أَحْبَارَہُمْ وَرُہْبَانَہُمْ أَرْبَابًا مِنْ دُون اللَّہِ) (میں نے عرض کیا کہ ہم انہیں رب نہیں مانتے) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ایسا نہیں کہ وہ ان کی عبادت نہیں کرتے لیکن جب وہ کسی چیز کو حلال کہتے ہیں تو یہ اس کو حلال سمجھتے ہیں۔ جب وہ کسی چیز کو حرام قرار دیتے ہیں تو وہ اس کو حرام جانتے ہیں۔“ مسائل ١۔ ظالمو! نے دین میں ملاوٹ کرکے دوسروں کو اللہ کا شریک بنا لیا ہے۔ ٢۔ اللہ کے قانون کے سوا دوسروں کا قانون ماننا اور چلانا اللہ تعالیٰ کے ساتھ دوسروں کو شریک بنانا ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ اپنی حاکمیت میں دوسروں کو شریک کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔ ٤۔ دوسروں کا قانون بنانے اور چلانے والے ظالم ہیں۔ ظالموں کے لیے اذیت ناک عذاب ہوگا۔ تفسیربالقرآن ” اللہ“ کے قانون کے علاوہ قانون بنانے اور اسے ماننے والے ظالم ہیں : ١۔ اللہ تعالیٰ نے جو کتاب آپ پر نازل کی ہے آپ لوگوں کے درمیان اس کے مطابق فیصلہ کریں۔ (المائدۃ: ٤٨) ٢۔ جو کتاب اللہ کے بغیر اپنی مرضی سے فیصلہ کرے گا وہ اللہ تعالیٰ کے راستے سے بھٹک جائے گا۔ (ص : ٢٦) ٣۔ قانون الٰہی کے خلاف فیصلہ دینے والے فاسق ہیں۔ (المائدۃ: ٤٧) ٤۔ جو قانون الٰہی کے خلاف فیصلہ کرتا ہے وہ کافر ہے۔ (المائدۃ: ٤٤) ٥۔ جو قانون الٰہی کے خلاف فیصلہ کرے وہ ظالم ہے۔ (المائدۃ: ٤٥) الشورى
22 فہم القرآن ربط کلام : ظالموں کی سزا اور نیک لوگوں کی جزا کا ذکر۔ قرآن مجید یہاں بھی اپنے اسلوب کے مطابق ظالموں کی سزا کا تذکرہ کرنے کے بعد جنتیوں کی جزا کا ذکر کرتا ہے لہٰذا ارشاد ہوتا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ظالموں کو دیکھیں گے کہ جوں ہی وہ جہنم کا عذاب دیکھیں گے جو ان پر وارد ہونے والا ہوگا تو اپنے اعمال کے انجام پر خوف زدہ ہوں گے۔ ان کے مقابلے میں جو لوگ ایمان لائے اور صالح اعمال کرتے رہے وہ جنت کے لہلہاتے اور مہکتے ہوئے باغات میں ہوں گے اور جو چاہیں گے پائیں گے یہ ان کے رب کا ان پر بڑا فضل ہوگا۔ مسائل ١۔ جہنّم کا عذاب دیکھ کر ظالم اپنے انجام سے خوف زدہ ہوں گے۔ ٢۔ صالح اعمال کرنے والے ایماندار جنت کے باغات میں رہیں گے اور جو چاہیں گے پائیں گے۔ ٣۔ جنتیوں کو ان کے اعمال سے زیادہ عطا کیا جائے گا۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ جنتیوں پر بڑا فضل فرمائیں گے۔ الشورى
23 فہم القرآن ربط کلام : نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کا مقصد برے لوگوں کو ان کے برے انجام سے ڈرانا اور صاحب ایمان اور صالح اعمال لوگوں کو ان کے تابناک مستقبل کی بشارت دینا تھا۔ اس پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کسی معاوضہ کے طلب گار نہ تھے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) برے لوگوں کو ڈرانے اور نیک لوگوں کو بشارت دینے کے ساتھ یہ بھی فرمایا کرتے تھے کہ میں اس دعوت کے بدلے تم سے کسی اجر کا طلبگار نہیں ہوں۔ البتہ تمہیں قرابت داری کا لحاظ تو رکھنا چاہیے۔ جو شخص نیکی کرے گا اللہ تعالیٰ اسے نیکی کرنے کی مزید توفیق عنایت فرمائے گا۔ اگر نیک لوگوں سے بتقاضأ بشریّت کوئی غلطی ہوگی تو اللہ تعالیٰ اسے معاف فرمائے گا۔ کیونکہ وہ معاف فرمانے والا، نیکی اور نیک لوگوں کی قدر کرنے والا ہے۔ اس آیت مبارکہ میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان اطہر سے اس بات کا اظہار کروایا گیا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان لوگوں سے فرمائیں کہ میں قرابت داری کی محبت کے سوا تم سے کسی چیز کا سوال نہیں کرتا۔ ان الفاظ کے مفسّرین نے تین مفہوم لیے ہیں۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صبح و شام اخلاص اور جانفشانی کے ساتھ لوگوں کو برے اعمال اور اس کے انجام سے بچنے کی تلقین کرتے تھے۔ مگر ان کی حالت یہ تھی کہ وہ برے کاموں سے بچنے کی بجائے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جان کے درپے ہوچکے تھے۔ 1 اس پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں سمجھایا کہ اگر تم برائی سے بچنے کے لیے تیار نہ ہو تو کم ازکم تمہیں معاشرتی حقوق اور نسبی رشتوں کا خیال رکھنا چاہیے۔ سیّدنا عباس (رض) سے کسی نے پوچھا کہ (اِلَّا الْمَوَدَّۃَ فِی الْقُرْبیٰ) کا کیا مطلب ہے ؟ سعید بن جبیر (رض) نے فوراً کہہ دیا اس سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آ ل مراد ہے۔ ابن عباس (رض) کہنے لگے تم جلد بازی کررہے ہو۔ بات یہ ہے کہ قریش کا کوئی قبیلہ ایسا نہ تھا جس سے آپ کی کچھ نہ کچھ قرابت نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر سے فرمایا کہ انہیں کہیے کہ اگر تم اور کچھ نہیں کرتے توکم از کم قرابت ہی کا لحاظ رکھو ! (رواہ البخاری : کتاب التفسیر) 2 میں تم سے اس دعوت کا کوئی صلہ نہیں مانگتا۔ سوائے اس کے کہ تم برے اعمال چھوڑ کر اپنے رب کے قریب ہونے کی کوشش کرو! یہی میری دعوت کا صلہ ہے۔ 3 کچھ لوگوں نے اپنے مخصوص نظریات کی خاطر یہ تفسیر کی ہے کہ میں تم سے اس کے سوا کوئی اجر نہیں مانگتا کہ تم میرے رشتہ داروں کا بالخصوص اہل بیت کا خیال رکھو! ظاہر ہے کہ جن میں حضرت حسن اور حسین (رض) شامل ہیں۔ اس تفسیر کو بڑے بڑے مفسّرین نے من گھڑت قراردیا ہے۔ کیونکہ جب یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی تھی تو اس وقت حضرت فاطمہ کا حضرت علی (رض) کیساتھ نکاح بھی نہیں ہوا تھا۔ (ضیاء القرآن : جلد ٤ حضرت پیر کرم شاہ صاحب بریلوی) مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو دنیا کی کامیابی اور جنت کی خوشخبری دیتا ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نیک لوگوں کو نیکی کی مزید توفیق دیتا ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو معاف کرنے والا اور ان کی نیکی کی قدر کرنے والا ہے۔ ٤۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نبوت کے کام پر کسی قسم کے معاوضے کے طلبگار نہیں تھے۔ تفسیربالقرآن انبیائے کرام (علیہ السلام) نبوت کے کام پر کسی قسم کا معاوضہ وصول نہیں کرتے تھے : ١۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے فرمایا میں تم سے اس تبلیغ پر کوئی معاوضہ نہیں مانگتا۔ (ہود : ٢٩) ٢۔ حضرت ہود (علیہ السلام) نے فرمایا کہ میں تم سے تبلیغ کا کوئی معاوضہ طلب نہیں کرتا۔ (الشعرا : ١٢٧) ٣۔ حضرت صالح (علیہ السلام) نے فرمایا کہ میرا اجر اللہ رب العالمین پر ہے اور تم سے کچھ نہیں مانگتا۔ (الشعرا : ١٤٥) ٤۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میں تم سے نہ اجر چاہتاہوں اور نہ کسی قسم کا تکلف کرتا ہوں۔ (ص : ٨٦) ٥۔ ہود (علیہ السلام) نے کہا میرا اجر اللہ پر ہے جس نے مجھے پیدا کیا ہے۔ (ہود : ٥١) ٦۔ میرا اجر اللہ پر ہے اور وہی ہر چیز پر گواہ ہے۔ (سبا : ٤٧) الشورى
24 فہم القرآن ربط کلام : سابقہ آیات میں ظالموں کی سزا اور نیک لوگوں کی جزا کا ذکر ہوا۔ اب یہ اعلان ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ باطل کو مٹائے گا اور حق کو حق ثابت کر دکھائے گا۔ وہ جانتا ہے کون حق کو قبول کرتا ہے اور کون اس کا انکار کرتا ہے۔ وہ لوگوں کے سینے کے راز جانتا ہے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں کفار اچھی طرح جانتے تھے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نبوت سے پہلے بھی نہ کسی کے ساتھ غلط بیانی کی اور نہ ہی کسی معاملے میں آپ سے کوئی خیانت سرزد ہوئی۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو قبل از نبوت بھی ہر قسم کے عیب سے پاک رکھا۔ جس کا اہل مکہ برملا اعتراف کرتے تھے۔ اس حقیقت کا اعتراف کرنے کے باوجود کفار آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر الز ام لگاتے کہ آپ قرآن اور نبوت کے نام پر اللہ تعالیٰ پر جھوٹ بول رہے ہیں۔ جس کی تردید کرتے ہوئے اس موقع پر اللہ تعالیٰ کفار کے الزام کا یوں جواب دیتا ہے۔ کہ اگر محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ پر جھوٹ بولتے تو اللہ تعالیٰ اس کے دل پر گمراہی کی مہر لگا دیتا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ پر جھوٹ بولنا بہت بڑا ظلم ہے۔ جس کی سنگینی کو واضح کرنے کے لیے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو براہ راست یہ الفاظ کہے گئے ہیں کہ اگر اللہ چاہے تو آپ کے دل پر مہر لگا دے۔ اس ارشاد سے یہ بھی ثابت کیا ہے کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا وجود ہی نہیں بلکہ دل بھی اللہ تعالیٰ کے اختیار میں تھا اور یہی نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان ہے کہ تمام انسانوں کے قلوب اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہیں۔ وہ جس طرح چاہتا ہے لوگوں کے دلوں کو پھیر دیتا ہے۔ اسی عقیدہ کی بنیاد پر آپ یہ دعا کیا کرتے تھے کہ اے دلوں کو پھیرنے والے ! میرے دل کو ہدایت پر قائم فرما ! یہاں یہ حقیقت بھی بتلائی ہے کہ اگر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی قرآن مجید میں کمی بیشی کرتے تو اللہ تعالیٰ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھی سزا دیتا۔ جس کے نتیجہ میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دل پر مہر لگا دی جاتی۔ کسی کے دل پر گمراہی کی مہرلگنا سب سے بڑی سزا ہے۔ کیونکہ یہ رب ذوالجلال کی ناراضگی کی انتہا ہے۔ اسی لیے تو کفار کے بارے میں کہا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں اور ان کے کانوں پر مہر لگا دی ہے اور ان کی آنکھوں پر پردہ ہے اور ان کے لیے عظیم عذاب ہے۔“ (البقرۃ: ٧) اس لیے ارشاد فرمایا : کہ اللہ تعالیٰ باطل کو ایک حد سے آگے نہیں بڑھنے دیتا۔ جب باطل اس کی مقرر کی ہوئی حد سے آگے بڑھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے مٹا دیتا ہے اور حق کو حق ثابت کردکھاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ دلوں کے راز تک جاننے والا ہے۔ (وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَیْنَا بَعْضَ الْاَقَاوِیْلِ لاََخَذْنَا مِنْہُ بالْیَمِیْنِ ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْہُ الْوَتِیْنَ) [ الحاقۃ: ٤٤ تا ٤٦] ” اگر یہ پیغمبر ہماری نسبت کوئی جھوٹی بات بنا دیتے تو ہم ان کے دایاں ہاتھ پکڑ لیتے اور پھر اس کی شہ رگ کاٹ ڈالتے۔“ مسائل ١۔ اگر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قرآن مجید میں ترمیم و اضافہ کرتے تو اللہ تعالیٰ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دل پر مہر لگا دیتا۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ بالآخر باطل کو مٹا کر حق کو حق کردکھاتا ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ دلوں کے راز جاننے والا ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ باطل کو مٹا کر حق کو حق ثابت کردیتا ہے : ١۔ اللہ تعالیٰ نے قوم کو غرقاب کرکے حضرت نوح (علیہ السلام) کی دعوت کو حق کر دکھایا۔ (ھود : ٤٨) ٢۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو آگ سے بچا کر حق کو حق کر دکھایا۔ (الانبیاء : ٦٩، ٧٠) ٣۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو جادو گروں کے مقابلے میں کامیاب فرما کر حق کو حق کردکھایا۔ (یونس : ٨٢) ٤۔ اللہ تعالیٰ نے ہجرت کے موقعہ پر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بچا کر حق کو بلند کر فرمایا۔ ( التوبۃ: ٤٠) الشورى
25 فہم القرآن ربط کلام : اسلام کے مخالفین کو تو بہ کرنے کی ترغیب۔ اہل مکہ کے الزام کی تردید کرنے اور قرآن مجید کو ہر قسم کی دست برد سے محفوظ ثابت کرنے کے بعد ایک مرتبہ پھر اہل مکہ کو ترغیب دی گئی ہے کہ اے مکہ والو! نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر الزام لگانے سے باز آجاؤ اور اپنے رب کے حضور سچی توبہ کرو اور یقین کرو کہ تمہارا رب توبہ قبول کرنے اور گناہوں کو معاف کرنے والا ہے۔ جو لوگ ایمان لائے اور صالح اعمال کرنے والے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی دعاؤں کو قبول کرنے کے ساتھ اپنے فضل سے بہت کچھ عطا فرماتا ہے۔ جو کافر ہیں ان کے لیے شدید عذاب وگا۔ پوری طرح جان لو! جو کچھ تم کرتے ہو اسے اللہ تعالیٰ جانتا ہے۔ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے صاحب ایمان اور صالح کردار لوگوں کو انعامات کی خوشخبری سنائی ہے۔1 اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی توبہ قبول کرتا ہے۔ 2 اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے گناہوں کو معاف کرتا ہے۔ 3 اللہ تعالیٰ ہی اپنے بندوں کی دعاؤں کو مستجاب فرماتا ہے۔4 اللہ تعالیٰ لوگوں کی دعاؤں سے بڑھ کر انہیں عطا کرتا ہے۔ اس کے فضل کی انتہا دیکھیے کہ وہ نہ صرف اپنے بندوں کے گناہوں کو معاف کرتا ہے بلکہ ان کے گناہوں کو نیکیوں میں تبدیل کردیتا ہے۔ (الفرقان : ٧٠) الشورى
26 الشورى
27 فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ کے فضل کی ایک صورت بارش بھی ہے اس لیے یہاں بارش کا ذکر کیا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ہر قسم کے دلائل سے ثابت کیا ہے کہ ” اللہ“ ہی اپنی پوری مخلوق کو رزق دینے والا ہے اور وہی اپنے مقرر کردہ اصولوں کے مطابق اپنے بندوں کو رزق عطا کرتا ہے۔ اس کے رزق عطا کرنے کے اصولوں میں ایک اصول یہ ہے کہ وہ کسی کو ایک حد سے بڑھ کر رزق عطا نہیں کرتا۔ اگر وہ لامحدود طریقہ سے کسی کو رزق عطا کرے تو لوگ زمین میں بغاوت کرنے لگیں۔ وہ اپنے بندوں کو پوری طرح جانتا اور ہر وقت انہیں دیکھنے والا ہے۔ یہ بات تو اللہ ہی جانتا ہے کہ اس نے ہر انسان کے لیے اس کے رزق کی کیا حد مقرر کر رکھی ہے۔ لیکن یہ حقیقت بالکل واضح ہے کہ جب لوگوں کو رزق کی فروانی حاصل ہوتی ہے تو چند لوگوں کے سوا باقی لوگ اپنے رب کا شکر ادا کرنے کی بجائے اس کی بغاوت پر اتر آتے ہیں۔ دنیا میں کتنے لوگ ہوئے اور ہیں جنہوں نے رزق کی بنیاد پر لوگوں میں بے حیائی پھیلائی، کسی نے وسائل کی بنیاد پر اپنی قوم کو غلام بنایا اور ان کے لیے فرعون بن بیٹھا۔ رزق کی فراوانی پر ہی بے شمار مالداروں نے غریبوں پر ظلم ڈھائے۔ اگر اللہ تعالیٰ اپنے مقرر کردہ اصولوں سے بڑھ کر ان لوگوں کو رزق دیتا تو نامعلوم یہ لوگ کیا کیا ظلم کرتے ؟ رزق سے مرادصرف خوردونوش کا سامان ہی نہیں بلکہ رزق سے مراد ہر قسم کے وسائل ہیں جن میں سیاسی اقتدار بھی شامل ہے۔ آیت کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے ” خَبِیْرٌ“ اور ” بَصِیْرٌ“ کی صفات کا ذکر فرما کر باغی لوگوں کو تنبیہ فرمائی ہے کہ یہ بات نہ بھولنا کہ تمہیں کوئی دیکھنے اور جاننے والانہیں۔ یقین کرو کہ جو تمہیں رزق عطا کرتا ہے وہ ہر حال میں تمہیں دیکھنے والا اور تمہارے ہر قسم کے اعمال کی خبر رکھنے والا ہے۔ الشورى
28 فہم القرآن ربط کلام : جو ” اللہ“ لوگوں کا رزق مقرر کرتا اور انہیں عطا کرتا ہے وہی آسمان سے بارش برساتا ہے۔ صرف ایک ” اللہ“ ہے جو لوگوں کے مایوس ہونے کے وقت آسمان سے بارش نازل کرتا ہے اور اس کے ذریعے اپنی رحمت بکھیر دیتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ وہی لوگوں کا والی اور خیرخواہ ہے جو ہر تعر یف کے لائق ہے۔ اس کے سوا کوئی بارش کا ایک قطرہ بھی نہیں برسا سکتا۔ بارش سراسر ” اللہ“ کی رحمت ہے۔ بالخصوص جب لوگ اس کے برسنے سے ناامید ہوجاتے ہی۔ تو پہلے ٹھنڈی ہوائیں چلتی ہیں اور اس کے بعد موسلادھار بارش برستی ہے جس کے بارے میں ” یَنْشُرُ رَحْمَتَہٗ“ کے الفاظ استعمال فرمائے ہیں۔ ” یَنْشُرُ“ کے لفظ پر غور فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ ہواؤں کے ذریعے کس طرح بخارات کو اٹھاتا اور ان کو بادلوں میں تبدیل کرتا ہے۔ پھر اس کے حکم سے بادل اس طرح ٹپکتے اور برستے ہیں کہ ہر چیز گرد غبار سے دھل جاتی ہے آج تک کبھی نہیں ہوا کہ بادل کسی آبشار یا پرنالے کی طرح ایک ہی جگہ پر پانی انڈیل دیں۔ اللہ تعالیٰ کے حکم سے بادل اس طرح برستے ہیں جس طرح کسی فوارے سے پانی نکلتا ہے۔ اگر بادل ایک ہی دفعہ پانی انڈیل دیں تو کوئی بستی اور شہر باقی نہ رہے۔ بارش کے برسنے کا انداز اور اس کا پانی سراسر اللہ تعالیٰ کی رحمت کا کرشمہ ہے۔ بارش کا پانی ندی نالوں اور دریاؤں کے ذریعے ایک مقام سے دوسرے مقام تک منتقل ہوتا ہے۔ بارش اس قدر اپنے وجود میں اللہ تعالیٰ کی رحمت لیے ہوئے ہوتی ہے جس کے فوائد کا احاطہ کرنا ممکن نہیں۔ البتہ چند فوائد ذکر کیے جاتے ہیں تاکہ ہم بارش کی افادیت کو کسی حد تک سمجھ سکیں۔ 1 بارش سے پوری فضاصاف اور جراثیم سے پاک ہوجاتی ہے۔2 بارش سے موسم کی تلخی ختم ہوجاتی ہے اور فضا خوشگوار بن جاتی ہے۔3 بارش سے درختوں کا پتاپتا دھل جاتا ہے اور پھلوں میں مٹھاس پیدا ہوتی ہے۔4 بارش سے نہ صرف دریاؤں اور جھیلوں میں پانی کی مقدار بڑھتی ہے بلکہ زمین کے اندر کا پانی بھی اوپر آجاتا ہے۔ 5 بارش سے انسان ہی نہیں بلکہ ہر جاندار چیز مستفید ہوتی ہے۔6 بروقت بارش سے فصلیں دوگنی ہونے کے ساتھ بجلی کی بچت ہوتی ہے۔ الشورى
29 فہم القرآن ربط کلام : اس سے پہلی آیات میں رزق اور بارش کے بارے میں ارشاد فرمایا ہے کہ یہ آسمان سے نازل ہوتے ہیں۔ رزق اور بارش کا تعلق زمین کے ساتھ بھی ہے اس لیے زمینوں آسمانوں کو اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کی نشانیاں قرار دیا ہے۔ جس طرح بارش اللہ کی قدرت کی نشانی ہے اسی طرح چوپائے بھی اس کی قدرت کا کرشمہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمانوں کی ہیت اور تخلیق کے بارے میں بارہا دفعہ ارشاد فرمایا ہے کہ لوگو! ان پر غور کرو کہ زمین و آسمان کی تخلیق کس طرح ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے انہیں کس طرح قائم کر رکھا ہے اور پھر ان دونوں میں بے شمار مخلوقات کو پھیلا دیا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کے لشکرہیں جنہیں اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ (المدّثر : ٣١) وہ جب چاہے انہیں اکٹھا کرنے پر قادر ہے۔ اللہ تعالیٰ کی مخلوق کو مجموعی طور پر ہم تین حصوں میں تقسیم کرسکتے ہیں۔1 آسمانوں میں بسنے والی مخلوق میں سے ہم صرف ملائکہ کے بارے میں چند معلومات رکھتے ہیں۔ ان کی تعداد کے بارے میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رحمت کا ارشاد ہے۔ ( عَنْ اَنَسٍ (رض) اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ اُتِیْتُ بالْبُرَاق وَھُوَ دَآبَّۃٌ اَبْیَضُ طَوِیْلٌ فَوْقَ الْحِمَارِوَدُوْنَ الْبَغْلِ یَقَعُ حَافِرُہٗ عِنْدَ مُنْتَھٰی طَرَفِہٖ فَرَکِبْتُ حَتّٰی اَتَیْتُ بَیْتَ الْمَقْدَسِ فَرَبَطْتُّہٗ بالْحَلْقَۃِ الَّتِیْ تَرْبِطُ بِھَا الْاَنْبِیَاءُ قَالَ ثُمَّ دَخَلْتُ الْمَسْجِدَ فَصَلَّیْتُ فِیْہِ رَکْعَتَیْنِ ثُمَّ خَرَجْتُ فَجَاءَ نِیْ جِبْرَءِیْلُ بِاِنَاءٍ مِّنْ خَمْرٍٍ وَّاِنَاءٍ مِّنَ لَبَنٍ فَاخْتَرْتُ اللَّبَنَ فَقَالَ جِبْرَءِیْلُ اِخْتَرْتَ الْفِطْرَۃَ ثُمَّ عُرِجَ بِنَا اِلَی السَّمَاءِ۔۔ وَقَالَ فِیْ السَّمَاء السَّابِعَۃ فَاِذَا اَنَا بِاِبْرَاھِیْمَ مُسْنِدًا ظَھْرَہٗ اِلَی الْبَیْتِ الْمَعْمُوْرِ وَاِذَا ھُوَ یَدْخُلُہٗ کُلَّ یَوْمٍ سَبْعُوْنَ اَلْفَ مَلَکٍ لَّا یَعُوْدُوْنَ اِلَیْہِ۔۔) [ رواہ مسلم : باب الإِسْرَاءِ بِرَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) إِلَی السَّمَوَاتِ وَفَرْضِ الصَّلَوَاتِ] حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے معراج کا واقعہ بیان کرتے ہوئے فرمایا، پھر آسمان کی طرف ہمارا عروج شروع ہوا۔۔ مجھے ساتویں آسمان پر لے جایا گیا میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے سامنے تھا۔ وہ بیت المعمور سے کمر لگائے ہوئے تشریف فرما تھے۔ بیت المعمور میں ہر روز ستر ہزار فرشتے داخل ہوتے ہیں اور جن کی باری پھر کبھی نہیں آتی۔۔“ 2 زمین اور فضا میں رہنے الی مخلوق کی تعداد شمار کرنا کسی کے بس میں نہیں۔ صرف کیڑوں مکوڑوں کے بارے میں ماہرین ارضیات اب تک کے اندازے کے مطابق ان کی تعدادساٹھہزار سے زائد بتلاتے ہیں۔ 3 زمین کی تہہ میں بسنے والی مخلوق پانی میں رہتی ہو یا زمین کے اندر بستی ہو اس کے بارے میں بھی کوئی اندازہ نہیں کیا جاسکتا۔ اللہ تعالیٰ کی مخلوق زمین و آسمانوں، فضاؤں اور ہواؤں میں جہاں کہیں رہتی ہے اللہ تعالیٰ اس کی وہاں ہی ضرورتیں پوری کررہا ہے اور وہ جب چاہے انہیں اکٹھا کرنے پر قدرت رکھتا ہے۔” دَآبَّۃٍ“ کا لفظ عربی زبان میں عام طور پر چوپاؤں کے لیے بولا جاتا ہے۔ لیکن یہاں اللہ تعالیٰ نے ” دَآبَّۃٍ“ کا لفظ اپنی پوری مخلوق کے لیے استعمال فرمایا۔” دَآبَّۃٍ“ کا مصدر (ROOT) دبیب ہے جس کا معنٰی حرکت کرنے والا۔ کیونکہ زمین و آسمانوں کی ہر چیز اپنے اپنے مقام پر متحرک ہے۔ اس لیے ان سب کے لیے دآبّۃ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے جس میں نوری، ناری، خاکی اور تمام مخلوقات شامل ہیں۔ مسائل ١۔ زمین و آسمانوں کی پیدائش اللہ تعالیٰ کی عظیم قدرت کی نشانیاں ہیں۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمانوں میں بے شمار مخلوقات پیدا کر رکھیں ہیں جنہیں اس کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق کو جب چاہے اکٹھا کرسکتا ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے : ١۔ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے (البقرۃ: ٢٠) ٢۔ ہر چیز اللہ تعالیٰ کے احاطہ علم میں ہے۔ (الطلاق : ١٢) ٣۔ اللہ تعالیٰ آسمانوں وزمین کی ہر چیز کو جانتا ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ (آل عمراٰن : ٢٩) ٤۔ تم جہاں کہیں بھی ہوگے اللہ تمہیں قیامت کے دن جمع فرمائیگا وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ (البقرۃ: ١٤٨) ٥۔ اللہ تعالیٰ جسے چاہے عذاب دے جسے چاہے معاف کردے وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ (البقرۃ: ٢٨٤) ٧۔ بے شک میرا پروردگار جو تم عمل کرتے ہو اس کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ (ھود : ٩٢) ٨۔ یقیناً اللہ ہر چیز کو گھیرنے والا ہے۔ (حٰم السجدۃ: ٥٤) ٩۔ اللہ ہر چیزکا احاطہ کرنے والا ہے۔ (النساء : ١٢٦) الشورى
30 فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ صرف قیامت کے دن لوگوں کو جمع کرنے پر قادر نہیں بلکہ وہ دنیا میں بھی لوگوں پر ہر قسم کا اختیار رکھتا ہے۔ وہ جسے چاہتا ہے اسکی کوتاہی پر پکڑ لیتا ہے اور جسے چاہتا ہے اس سے درگزر کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہر اعتبار سے اپنی مخلوق پر قادر ہے۔ یہ اس کی قدرت کی نشانی اور اختیار ہے کہ جسے چاہے اس کے گناہوں کی پاداش میں پکڑ لے اور جسے چاہے معاف کردے۔ اکثر انسانوں میں ہمیشہ سے یہ کوتاہی اور کمزوری رہی ہے کہ وہ اپنی غلطیوں کا اعتراف کرنے کی بجائے اپنے گناہوں، پر اصرار اور ان کا جواز تلاش کرتے ہیں۔ بسا اوقات خدا کے باغی یہ کہتے ہوئے سنائی دیتے ہیں یہ تو لیل ونہار کی گردش اور حالات کے تغیر وتبدل کا نتیجہ ہے گویا ان کے نزدیک ایسا ہوا ہی کرتا ہے۔ (وَقَالُوا مَا ھِیَ إلاّ حَیَاتُنَا الدُّنْیَا نَمُوْتُ وَنَحْیَا وَمَا یُھْلِکُنَا إلاّ الدَّھْرُ وَمَا لَھُمْ بِذَلِکَ مِنْ عِلْمٍ إنْ ھُمْ إلاّیَظُنُّوْنَ) [ الجاثیۃ: ٢٤] ” وہ کہتے ہیں ہماری اس زندگی کے علاوہ کوئی دوسری زندگی نہیں ہمیں یہیں زندہ رہنا اور مرنا ہے، اور ہماری ہلاکت گردش زما نہ کی وجہ سے ہے۔ حالانکہ انہیں اس حقیقت کا کوئی علم نہیں، یہ محض ان کے خیالات ہیں۔“ ایسے انسان بھی ہر دور میں موجود رہے ہیں جو اپنے احوال کی درستگی کے برعکس اس کی ذمہ داری ان لوگوں پر ڈالتے رہے ہیں جو حالات کو بدلنے اور ان کو برے اعمال چھوڑنے کی تلقین کرتے ہیں۔ (قَالُوْا إنَّا تَطَیَّرْنَا بِکُمْ لَءِنْ لَّمْ تَنْتَھُوْا لَنَرْجُمَنَّکُمْ وَلَیَمَسَّنَّکُمْ مِّنَّا عَذَابٌ ألِیْمٌ) [ یٰس : ١٨] ” وہ مصلحین کو کہنے لگے کہ ہم تمہیں اپنے لیے منحوس خیال کرتے ہیں، اگر تم باز نہ آئے تو ہم تمہیں ضرور سنگسار کردیں گے اور تمہیں ہماری طرف سے درد ناک سزا کا سامنا کرنا ہوگا۔“ ان کا کہنا تھا کہ یہ مشکلات ومصائب ہماری وجہ سے نہیں، تمہاری وجہ سے آیا کرتی ہیں جب ان کے سامنے حقائق کے پردے کھلتے ہیں تو تسلیم و اعتراف کی گردن جھکا نے کی بجائے سب کچھ تقدیر کے حوالے کرتے ہوئے اپنے آپ کو پاک دامن اور معصوم خیال کرتے ہیں۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ جو کچھ تمہارے ساتھ بیت رہی ہے وہ تمہارے گناہوں کی ہلکی سی سرزنش ہے۔ جبکہ تمہاری بے شمار غلطیوں اور زیادتیوں سے صرف نظر کیا جاتا ہے۔ دنیا میں تمہارے دامن کو تھوڑا سا کھینچا اور گریبان کو ہلکا سا جھنجھوڑا جاتا ہے تو اس میں بھی اللہ تعالیٰ کی شفقت و مہربانی پنہاں ہے تاکہ تمہارے قدم بغاوت ونا فرمانی سے رک جائیں اور تم مالک حقیقی کی طرف پلٹ آؤ۔ سمجھدار اور نیکو کار لوگ اپنی کمزوریوں اور ان کے بدلے میں پیدا ہونے والے حا لات کو اپنے کردار کے حوالے سے ہی دیکھا کرتے ہیں۔ (ظَھَرَ الْفَسَادُ فِی الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ بِمَا کَسَبَتْ اَیْدِی النَّاسِ لِیُذِیْقَھُمْ بَعْضَ الَّذِیْ عَمِلُوْا لَعَلَّھُمْ یَرْجِعُوْنَ)[ الروم : ٤١] ” لوگوں کے اپنے ہاتھوں کے کیے کی وجہ سے خشکی اور سمندر میں فساد برپا ہوگیا ہے تاکہ ان کو ان کے بعض اعمال کا مزا چکھایاجائے شاید کہ وہ باز آجائیں۔“ (وَ لَنُذِیْقَنَّھُمْ مِّنَ الْعَذَابِ الْاَدْنٰی دُوْنَ الْعَذَابِ الْاَکْبَرِ لَعَلَّھُمْ یَرْجِعُوْنَ) [ السجدۃ: ٢١] ” اس بڑے عذاب سے پہلے ہم اسی دنیا میں کسی نہ کسی چھوٹے عذاب کا مزا انہیں چکھاتے رہیں گے، شاید وہ اپنی باغیانہ روش سے باز آجائیں۔“ (فَلَنُذِیقَنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا عَذَابًا شَدِیْدًا وَّلَنَجْزِیَنَّہُمْ اَسْوَاَ الَّذِیْ کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ) [ حٰم السجدۃ: ٢٧] ” ان کافروں کو ہم سخت عذاب کا مزا چکھائیں گے اور ہم ان کے برے اعمال کی پوری پوری سزا دیں گے۔“ الشورى
31 الشورى
32 فہم القرآن ربط کلام : جس اللہ کو کوئی عاجز اور بے بس نہیں کرسکتا۔ اسی کی قدرت کا کرشمہ ہے کہ سمندر میں پہاڑوں کی طرح لمبے، چوڑے اور بلندو بالاجہاز دوڑے پھر رہے ہیں۔ قرآن مجید نے متعدد آیات میں سمندر میں چلنے والی کشتیوں کو اللہ تعالیٰ کی قدرت کا کرشمہ قرار دیا ہے اور کشتیوں میں سفر کرنے والوں کو اس بات پر غور کرنے کا حکم دیا ہے۔ غور کرو! کہ جو پانی ایک سوئی کا بوجھ برداشت نہیں کرتا وہی پانی ہزاروں ٹن کا بوجھ اٹھائے ہوئے بحری جہازوں اور کشتیوں کو سمندر کے ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک پہنچاتا ہے۔ نزول قرآن کے زمانے میں بادبانی کشتیاں ہوتی تھیں جن کی چوٹیاں دور سے پہاڑوں کی طرح دکھائی دیتی تھیں۔ ان کشتیوں کا دارومدار باد موافق پر تھا۔ اگر کسی وقت ہوا کا رخ مخالف ہوجاتا تو کئی کئی دن تک کشتیاں سمندر کے سینے پر ٹھہری رہتی تھیں۔ بسا اوقات باد مخالف اس قدر تیز اور زور آور ہوتی کہ کشتی کے ملّاح اور اس کے ساتھیوں کو پتوار کو سنبھالنا مشکل ہوجاتا۔ کشتی میں سفر کرنے والے لوگوں کو اپنی جان کے لالے پڑجاتے اور وہ سب کچھ بھول کر صرف ایک الٰہ کو پکارنے پر مجبور ہوتے تھے۔ اس صورت حال کے بارے میں بتلایا جارہا ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو کشتیوں کو سمندر کے پانی پر جامد کردے۔ اس صورت میں اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جو کشتی کو ساحل سمندر تک پہنچا سکے۔ اگر وہ چاہے تو لوگوں کے باطل نظریات اور برے اعمال کی وجہ سے کشتی کو غرق کردے۔ لیکن یہ اس کا کرم اور حوصلہ ہے کہ لوگوں کی بغاوت کے باوجود ان کی اکثر خطاؤں سے در گزر کرتا ہے۔ کشتیوں کی آمد روفت میں صابر اور شکرگزار لوگوں کے لیے بہت ساسامان عبرت ہے۔ صابر اور شکرگزار لوگوں کی طرف اشارہ فرماکریہ حقیقت واضح کی ہے کہ عبرت وہی شخص حاصل کرسکتا ہے جو مشکل کے وقت صبر کرتا ہے اور آسانی کے وقت اپنے رب کا شکرگزار ہوتا ہے۔ جہاں تک موجودہ ٹیکنالوجی اور جہادرانی کا معاملہ ہے اس میں کوئی شک نہیں۔ ہزاروں (HORSE POWER) رکھنے والے بحری جہاز ہزاروں ٹن بوجھ اٹھائے ہوئے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کی قدرت کے سامنے یہ اس طرح ہی بے بس ہیں جس طرح بادبانی کشتیاں بے بس ہوجایا کرتی تھیں۔ سمندر میں طغیانی اور طوفان ہو تو آج بھی بحری جہاز کئی کئی دن تک سمندر میں جامد اور ساکت کھڑے رہتے ہیں۔ کپتان اور اس کا عملہ اسی طرح بے بس ہوجاتا ہے جس طرح پرانے زمانے کے ملّاح بے بس ہوجایا کرتے تھے۔ آج بھی جہاز پانی میں غرقاب ہوجاتے ہیں اور آبدوزیں سمندر کی تہہ میں ڈوب جاتی ہیں۔ انہیں کوئی بھی بچانے والا نہیں ہوتا۔ یہاں تک کہ اکثراوقات ان کا ملبہ بھی ہاتھ نہیں آتا۔ بڑی بڑی ترقی یافتہ حکومتیں بھی بے بس دکھائی دیتی ہیں۔ اسی بنا پر فرمایا ہے کہ جو لوگ ” اللہ“ کی آیات کے ساتھ جھگڑتے اور ان کا انکار کرتے ہیں وہ جان لیں کہ جس طرح وہ دنیا میں بے بس ہوجاتے ہیں اس سے ہزار گناہ زیادہ قیامت کے دن بے بس ہونگے اور جہنم کے عذاب سے چھٹکارا نہیں پائیں گے۔ مسائل ١۔ سمندروں میں بحری جہاز اور کشتیوں کا چلنا اللہ تعالیٰ کی قدرت کا کرشمہ ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ چاہے توجہازوں اور کشتیوں کو سمندر میں جامد اور ساکت کردے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ لوگوں کی بہت سی غلطیوں سے درگزر فرما دیتا ہے۔ ٤۔ اللہ کی آیات کے بارے میں جھگڑنے والے لوگوں کو جان لینا چاہیے کہ وہ اللہ کی گرفت سے نہیں بچ سکتے۔ تفسیر بالقرآن قرآن میں کشتیوں کا تذکرہ : ١۔ کشتیوں کا غرق ہونے سے بچنا اللہ کی رحمت کا نتیجہ ہے۔ (یٰسٓ: ٤٣، ٤٤) ٢۔ سمندر میں کشتیوں کا چلنا ” اللہ“ کی قدرت کی نشانی ہے۔ (البقرۃ : ١٦٤) ٣۔ کشتیاں دریاؤں میں ” اللہ“ کے حکم سے چلتی ہیں۔ (الحج : ٦٥) ٤۔ اللہ نے کشتیوں، نہروں، چاند، سورج، دن اور رات کو تمہارے لیے مسخر کردیا ہے۔ (ابراہیم : ٣٢۔ ٣٣) ٥۔ جب وہ کشتیوں میں سوار ہوتے ہیں تو خالصتاً اللہ کو پکارتے ہیں۔ (العنکبوت : ٦٥) الشورى
33 الشورى
34 الشورى
35 الشورى
36 فہم القرآن ربط کلام : جو لوگ اپنے رب کے احکام اور ارشادات کے بارے میں بحث و تکرار کرتے ہیں انہیں جان لینا چاہیے کہ دنیا کی زندگی اور اس کا سازو سامان قلیل اور عارضی ہے۔ اس لیے ” اللہ“ کے نیک بندے کبیرہ گناہوں اور بے حیائی سے اجتناب کرتے ہیں اور جب انہیں غصہ آتا ہے تو دوسرے کو معاف کردیتے ہیں۔ کبیرہ گناہوں سے اجتناب کرنے کی تلقین کے ساتھ معاف کردینے کا اس لیے ذکر کیا ہے کیونکہ انسان غصے کی حالت میں دوسرے پر زیادتی کرتا ہے۔ یہاں تک کہ قتل نفس کا واقعہ بھی پیش آجاتا ہے جو کبیرہ گناہوں میں شامل ہے۔ جس دنیا کے اسباب و وسائل پر لوگ اتراتے اور اپنے رب کے احکام کے بارے میں بحث و تکرار کرتے ہیں۔ اس دنیا کی حقیقت یہ ہے کہ اس کے اسباب ووسائل تھوڑے اور نہ پائیدار ہیں۔ یہاں تک کہ انسان کی زندگی بھی تھوڑی اور عارضی ہے۔ اس کے مقابلے میں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لیے جو کچھ تیار کر رکھا ہے وہ دنیا ومافیہا سے بہت بہتر اور ہمیشہ رہنے والا ہے۔ ہمیشہ کی بقا اور خیر کثیران لوگوں کو حاصل ہوگی جو اپنے رب پر سچا اور پکا ایمان رکھتے ہیں اور دنیا کے اسباب وسائل پر بھروسہ کرنے کی بجائے مسبب الاسباب پر توکل اور بھروسہ کرتے ہیں۔ توکل کا یہ معنٰی نہیں کہ انسان وسائل کو استعمال کرنے سے اجتناب کرے اور ان پر ایک حد تک اعتماد کرنے کی بجائے بے اعتمادی کا شکار رہے۔ بے اعتمادی کا شکار آدمی نہ دشمن کے مقابلے میں کامیاب ہوسکتا ہے اور نہ ہی منزل مقصود پاسکتا ہے۔ توکل کا معنٰی ہے کہ اپنی محنت اور وسائل پر بھروسہ کرنے کی بجائے اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کی رحمت پربھروسہ کرے۔ کیونکہ وہی وسائل دینے والا ہے اور اسی نے وسائل کو بروئے کار لانے کی توفیق دینے کے ساتھ انہیں مؤثر بناتا ہے۔ ایماندار لوگوں کے اوصاف میں نمایاں وصف یہ ہیں۔1 اللہ اور اس کے رسول کے بتلائے ہوئے کبیرہ جرائم سے بچتے ہیں۔ کبیرہ گناہوں سے اس لیے بچنے کا حکم دیا گیا ہے۔ ایک تو نافرمانی کے اعتبار سے یہ بڑے گناہ ہیں اور دوسری وجہ یہ ہے کہ جو شخص اپنے آپ کو کبیرہ گناہ سے بچا لیتا ہے اسے چھوٹے گناہ چھوڑنے مشکل نہیں رہتے۔ 2 اللہ پر ایمان اور توکل رکھنے والے لوگ ہر قسم کی بے حیائی سے اجتناب کرتے ہیں۔ فواحش سے مراد ہر وہ بری حرکت ہے جو شریف معاشرے میں ایک شریف انسان کو زیب نہیں دیتی۔ اس میں بھی وہی فلسفہ پنہاں ہے جس بنا پر بڑے گناہوں سے روکا گیا ہے۔ کیونکہ جو شخص بڑی بے حیائی سے بچتا ہے اس کے لیے چھوٹی بے حیائی سے بچنا آسان ہوجاتا ہے۔ مثال کے طور پر ایک آدمی بدکاری سے نفرت کرتا ہے تو اسے کیا ضرورت پڑی ہے کہ وہ غیر محرم عورت کو اشارے کرے یا اس کے ساتھ آنکھ لڑانے کی کوشش کرے۔ کبیرہ گناہ : ” فرما دیجیے کہ آؤ میں تمہیں بتاتا ہوں کہ جو تمہارے رب نے تم پر حرام کیا ہے اس نے حکم دیا ہے کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ اور ماں باپ کے ساتھ احسان کرو اور اپنی اولاد کو مفلسی کے ڈرسے قتل نہ کرو ہم ہی تمہیں رزق دیتے ہیں اور ان کو بھی اور ہرقسم کی بے حیائی کے قریب نہ جاؤ جو ظاہر ہیں اور جو چھپی ہوئی ہیں اور ناحق کسی جان کو قتل نہ کرو جسے اللہ نے محترم ٹھہرایا ہے۔ یہ اللہ نے تمہیں وصیت کی ہے تاکہ تم سمجھ جاؤ۔“ (الانعام : ١٥١) (عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عَمْرٍو (رض) عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ الْکَبَاءِرُ الإِشْرَاک باللَّہِ، وَعُقُوقُ الْوَالِدَیْنِ، وَقَتْلُ النَّفْسِ، وَالْیَمِینُ الْغَمُوسُ )[ رواہ البخاری : باب الْیَمِینِ الْغَمُوسِ] ” حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں آپ نے فرمایا اللہ کے ساتھ شرک کرنا، والدین کی نافرمانی کرنا، کسی کو ناحق قتل کرنا اور جھوٹی قسم اٹھانا کبیرہ گناہوں میں سے ہیں۔“ 3 جب انہیں غصہ آتا ہے تو بدلہ اور انتقام لینے کی بجائے ایک دوسرے کو معاف کردیتے ہیں۔ غصہ انسان کی فطری کمزوری بھی ہے اور اس کی ضرورت بھی۔ کیونکہ غصہ کے بغیر انسان اپنی عزت، جان اور آبرو کی حفاظت نہیں کرسکتا۔ اس لیے کلّی طور پر غصہ کرنے سے منع نہیں کیا گیا۔ البتہ اس میں یہ بات ضرور ہونی چاہیے کہ جب کوئی صالح شخص غیر ارادی طور پر زیادتی کربیٹھے تو بدلہ لینے کی بجائے اسے معاف کردینا اللہ کے بندوں کا شیوہ ہونا چاہیے۔ نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے غصہ پر قابو پانے کے لیے یہ طریقہ اور ذکر بتلایا ہے۔ (عَنْ أَبِی ذَرٍّ قَالَ۔۔ إِنَّ رَسُول اللَّہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ لنَا إِذَا غَضِبَ أَحَدُکُمْ وَہُوَ قَاءِمٌ فَلْیَجْلِسْ فَإِنْ ذَہَبَ عَنْہُ الْغَضَبُ وَإِلاَّ فَلْیَضْطَجِعْ) [ رواہ احمد : مسند ابی ذر الغفاری] ” حضرت ابوذر (رض) فرماتے ہیں کہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں حکم دیا کہ جب تم میں سے کسی کو کھڑے ہونے کی حالت میں غصہ آئے تو وہ بیٹھ جائے اگر غصہ چلا جائے تو ٹھیک ورنہ لیٹ جائے۔“ (عن سُلَیْمَان بن صُرَدٍ (رض) قَالَ اسْتَبَّ رَجُلَانِ عِنْدَ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وَنَحْنُ عِنْدَہٗ جُلُوسٌ وَأَحَدُہُمَا یَسُبُّ صَاحِبَہٗ مُغْضَبًا قَدْ اِحْمَرَّ وَجْہُہٗ فَقَال النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) إِنِّی لَأَعْلَمُ کَلِمَۃً لَوْ قَالَہَا لَذَہَبَ عَنْہُ مَا یَجِدُ لَوْ قَالَ أَعُوذ باللّٰہِ مِنَ الشَّیْطَان الرَّجِیمِ فَقَالُوا للرَّجُلِ أَلَا تَسْمَعُ مَا یَقُول النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ إِنِّی لَسْتُ بِمَجْنُونٍ) [ رواہ البخاری : کتاب الأدب، باب الحذر من الغضب] ” حضرت سلیمان بن صرد (رض) بیان کرتے ہیں دو آدمیوں نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی موجودگی میں آپس میں گالی گلوچ کی اور ہم آپ کی مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے۔ ان میں ایک شدید غصے میں تھا وہ دوسرے کو برا بھلا کہہ رہا تھا۔ جس کی وجہ سے اس کا چہرہ سرخ تھا۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میں ایسی بات جانتا ہوں اگر وہ اسے پڑھ لے تو اس کا غصہ جاتا رہے۔ : ”أَعُوذ باللّٰہِ مِنَ الشَّیْطَان الرَّجِیمِ“” میں اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتا ہوں شیطان مردود سے۔“ صحابہ کرام (رض) نے اس شخص سے کہا کیا تو نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان نہیں سنا ؟ اس نے کہا میں پاگل تو نہیں ہوں۔ (یعنی میں نے سنا ہے اور اسے پڑھتا ہوں) “ مسائل ١۔ لوگوں کو دنیا میں جو کچھ بھی دیا گیا ہے وہ تھوڑا اور ناپائیدا رہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے صاحب ایمان لوگوں کے لیے جو کچھ تیار کر رکھا ہے وہ ہمیشہ رہنے والا اور دنیا سے بیش بہا بہتر ہے۔ ٣۔ اللہ کے بندے ہر حال میں اپنے رب پربھروسہ کرتے ہیں۔ ٤۔ اللہ کے بندوے بڑے گناہوں، ہر قسم کی بے حیائی سے بچتے اور ایک دوسرے کو معاف کردیتے ہیں۔ تفسیربالقرآن توکل اور اس کے فوائد : ١۔ رسول کریم کو اللہ پر تو کل کرنے کی ہدایت۔ (النمل : ٧٩) ٢۔ مومنوں کو اللہ تعالیٰ پر توکل کرنے کا حکم۔ (المجادلۃ: ١٠) ٣۔ انبیاء اور نیک لوگ اللہ پر توکل کرتے ہیں۔ (یوسف : ٦٧) ٤۔ جو اللہ پر توکل کرتا ہے اللہ تعالیٰ اسے کافی ہوجاتا ہے۔ (الطلاق : ٣) ٥۔ اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرنا چاہیے کیونکہ وہی عرش عظیم کا مالک ہے۔ (التوبۃ: ١٢٩) ٦۔ اللہ تعالیٰ توکل کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔ (آل عمران : ١٥٩) الشورى
37 الشورى
38 فہم القرآن ربط کلام : اللہ کے نیک بندوں کے مزید اوصاف۔ مشاورت کی اہمیت اور اس کی غرض وغایت : قرآن پاک نے مسلمانوں کو مشاورت کرنے کا حکم دیا ہے تاکہ مسلمان اجتماعی مسائل کو اجتماعی انداز میں حل کرنے کی کوشش کریں۔ اس طرز عمل کے بیک وقت کئی فوائد ہیں۔ ایک طرف اہل دانش کی دلجوئی ہے اور دوسری جانب ان کی صلاحیتوں سے اجتماعی فائدہ اٹھانا اور ان کی انفرادی فکر کو اجتماعی سوچ میں ڈھالنا اور باہمی فکرو عمل کا موقع فراہم کرنا ہے۔ یہ ایسا خیرو برکت سے بھرپور عمل ہے جس سے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھی مستثنیٰ قرار نہیں دیا گیا۔ حالانکہ آپ مسلسل اللہ تعالیٰ کی نگرانی اور ہدایات میں زندگی گزارتے ہوئے لوگوں کی راہنمائی فرمارہے تھے۔ آپ کی ذات گرامی کو حکم ہوا۔ (وَشَاوِرْھُمْ فِی الْاَمْرِ فَاِذَا عَزَمْتَ فَتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ إِنَّ اللّٰہَ ےُحِبُّ الْمُتَوَکِّلِےْنَ) [ آل عمران : ١٥٩] ” اور معاملات میں ان کو شریک مشورہ رکھا کرو، پھر جب آپ کا عزم کسی رائے پر پختہ ہوجائے تو اللہ پر بھروسہ کرو، اللہ کو وہ لوگ پسند ہیں جو اس پر بھروسہ کرتے ہیں۔“ اس عمل کی اہمیت کو اجاگر اور ممتاز کرنے کے لیے پانچ رکوع پر مشتمل اس سورۃ کا نام ہی الشّورٰی رکھ دیا گیا تاکہ مسلمان مشاورت کے اصولوں کو اپناتے ہوئے اجتماعی زندگی بسر کرتے رہیں۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس حکم کے نزول سے قبل بھی صحابہ (رض) سے مشورہ فرماتے تھے لیکن نزول حکم کے بعد تو یہ حالت ہوگئی کہ آپ ہر کام میں صحابہ سے مشورہ فرماتے تھے۔ دیکھنا یہ ہے کہ مشورہ کن امور میں کرنا چاہیے ؟ مشاورت کا حدود اربعہ کیا ہے ؟ بدر، احد، خندق غرضیکہ ہر اہم معاملہ میں آپ نے صحابہ کرام سے مشورہ فرمایا۔ جنگ سے پہلے مشاورت کا مقصد یہ نہیں تھا کہ جہاد کرنا چاہیے یا نہیں۔ اللہ کے واضح احکامات آجانے کے بعد ان کے کرنے یا نہ کرنے کے بارے میں مشورہ کرنا تو درکنار، سوچنا بھی کبیرہ گناہ ہے۔ مشاورت تو اس بات پر کرنی ہے کہ دشمن پر فوری حملہ کرنا ہے یا کہ موسم، وقت، میدان جنگ کا انتخاب، اپنی اور دشمن کی جنگی تیاریوں کا پورا پورا اندازہ کرکے کرنا ہے۔ ان امور کو اللہ تعالیٰ نے امت کے ذمہ داران پر چھوڑ دیا ہے کہ وہ دیانت داری اور غیر جذباتی فضا میں تجزیہ کریں کہ ہم نے آگے بڑھ کر یلغار کرنی ہے یا صرف دفاع کرنا ہے اور کس وقت یہ اقدام اٹھانا ہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دور مبارک میں مجلس شوریٰ کے اجلاس اور ان کا ایجنڈا نماز باجماعت کے لیے مشورہ : انس بن مالک (رض) اور ابن عمر (رض) سے مروی ہے کہ مدنی دور کی ابتدا میں لوگ نماز کے اوقات اپنے اپنے اندازے سے متعین کرتے تھے۔ ایک دن جماعت کے لیے مشورہ کیا گیا۔ کسی نے یہود کے بوق کی تجویز پیش کی اور کسی نے نصاریٰ کے ناقوس بجانے کے لیے کہا۔ حضرت عمر (رض) نے یہ رائے دی کہ ایک شخض کو مقرر کیا جائے جو نماز کے اوقات میں بلند آواز سے لوگوں کو بلائے۔ بالآخر اسی پر فیصلہ ہوا اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کام پر حضرت بلال (رض) کو مقرر فرمایا۔ حضرت بلال (رض) نماز کے اوقات میں بلند آواز سے الصلوۃ جامعۃ کہا کرتے تھے۔ یعنی لوگو! نماز کے لیے جماعت تیار ہے لیکن بعد میں حضرت عبداللہ بن زید (رض) نے خواب میں اذان کے مروجہ الفاظ سنے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے بیان کیے آپ نے انہیں حکم دیا کہ یہ الفاظ بلال کو سکھلاؤ پھر بلال (رض) کو انہی الفاظ کے ساتھ اذان کہنے کا حکم دیا حضرت عمر (رض) نے اذان سنی تو دوڑتے ہوئے آئے اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کی کہ اللہ کی قسم میں نے یہی الفاظ خواب میں سنے ہیں۔ (رواہ ابوداؤد : باب کَیْفَ الأَذَانُ) بعد ازاں وحی بھی اسکی تائید میں آگئی۔ ابن حجر (رض) فرماتے ہیں۔ (مَبْدَاءُ الْاَذَانِ کَانَ عَنْ مَشْوَرَۃٍ اَوْقَعَھَا النَّبِیُّ بَےْنَ اَصْحَابِہِ حَتّٰی اِسْتَقَرَّ بِرُؤْےَا بَعْضُھُمْ وَفِےْہِ مَشْرُوْعِیَّۃٌ تَشَاوِرُ فِی الْاُمُوْرِ الْمُھِمَّۃِ) ” اذان کا آغاز مشاورت سے ہوا تھا جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے صحابہ (رض) کے ساتھ کی تھی۔ بعد میں بعض صحابہ (رض) کے خواب کے ذریعے اذان مقرر ہوئی۔ اس حدیث میں اس بات کی دلیل ہے کہ اہم امور میں مشاورت کرنا شرعی طریقہ ہے۔“ غزوہ بدر کے بارے میں مش اور ت : انس بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے غزوہ بدر کے موقع پر صحابہ (رض) سے مشورہ کیا۔ ابوبکر (رض) اور عمر (رض) نے اپنی رائے دی مگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) انصار کی رائے حاصل کرنے کے لیے خاموش رہے۔ انصار کے سردار سعد بن عبادہ انصاری (رض) نے اٹھ کر عرض کیا : اگر آپ حکم دیں تو ہم برک الغماد (یمن) تک گھوڑے دوڑانے کے لیے بھی تیار ہیں۔ اس کے بعد روانگی کا حکم ہوا اور فوج مقام بدر پر مورچہ زن ہوگئی۔ کفار سے معاہدہ کرنے کے بارے میں مشورہ : غزوہ خندق کے موقع پر جب محاصرہ سخت ہوگیا تو رسول اللہ نے بنو غطفان کے لیڈروں عیینہ بن حصن اور حارث بن عوف کے ساتھ مدینہ منورہ کے باغات کے پھلوں کا ٣؍١ (ثلث) دے کر مصالحت کی بات کی تاکہ یہ دونوں سردار قریش کی حمایت سے دستبردار ہوجائیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اپنی رائے یہ تھی کہ مصالحت ہوجائے لیکن آخری فیصلہ کرنے سے قبل مشورہ کرنا ضروری سمجھا۔ انصار کے رہنماؤں میں سے سعد بن معاذ (رض) اور سعد بن عبادہ (رض) نے عرض کیا کہ اگر یہ ” اللہ“ کا حکم ہے تو ہمیں تسلیم ہے۔ اگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حالات کی وجہ سے حکم دینا چاہتے ہیں تو پھر ہمیں تسلیم نہیں ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اگر یہ اللہ کا حکم ہوتا تو میں آپ سے مشورہ نہ کرتا۔ چنانچہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے خیال پر شوریٰ کی رائے کو ترجیح دی اور مصالحت کی بات ختم کردی۔ سفر جاری رکھنے یا واپس پلٹنے کے بارے میں مش اور ت : حدیبیہ کے سفر میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب غدیر الاشطاط کے مقام پر پہنچے تو مسلمانوں کے مخبر نے اطلاع دی کہ قریش مکہ نے اپنے حلیف قبائل کو جمع کرلیا ہے جو آپ کو بیت اللہ سے روکنا چاہتے ہیں۔ اس موقع پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا مسلمانو! مجھے مشورہ دو کہ اب کیا اقدام کیا جائے۔ کیا یہ مناسب ہے کہ قریش کے ان دوستوں (احابیش) کے گھروں پر حملہ کیا جائے۔ ابوبکر (رض) نے رائے دی کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کعبہ کی زیارت کی غرض سے آئے ہیں۔ پس آپ اسی غرض کے لیے آگے بڑھیں جو ہمیں روکے گا ہم اس سے لڑیں گے لیکن بعد میں معاہدہ صلح حدیبیہ طے پا گیا۔ جنگی قیدیوں کے بارے میں مشورہ : بدر کے قیدیوں کے متعلق رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ (رض) سے مشورہ کیا اور فرمایا قیدیوں کے بارے تمہاری کیا رائے ہے ؟ ابوبکر (رض) نے عرض کیا کہ فدیہ لے کر چھوڑ دے ئے جائیں۔ لیکن عمر (رض) نے فرمایا، ان کی گردنیں اڑا دی جائیں اس لیے کہ یہ کفر کے امام اور دشمن قوم کے سردار ہیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ابوبکر (رض) کی رائے کے مطابق فدیہ لے کر قیدیوں کو آزاد کردیا۔ غزوہ حنین میں بنو ہوازن کے ٦ ہزار قیدی اور بہت سارا مال ہاتھ آیا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جعرانہ کے مقام پر کچھ دن انتظار کیا اس خیال سے کہ اگر یہ لوگ ایمان لے آئیں تو ان کا مال اور قیدی دونوں واپس کر دے ئے جائیں۔ لیکن حنین والوں نے آنے میں دیر کی تو مال غنیمت تقسیم کردیا گیا۔ بعد میں جب یہ لوگ پشیمان ہو کر آئے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لوگوں کو بلایا اور فرمایا کہ میں چاہتا ہوں کہ ان کے قیدی رہا کر دے ئے جائیں تم میں سے جو خوشی سے اپنا قیدی آزاد کرنا چاہے تو بہتر ہے ورنہ ہم اسے معاوضہ دے کراس سے قیدی آزاد کرا لیں گے۔ کچھ لوگوں نے کہا ہم بخوشی آزاد کرتے ہیں کچھ نے انکار کیا۔ صورتحال واضح نہ ہوسکی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تم واپس جا کر اپنے نمائندوں (عرفاء) کو اپنی رائے دو۔ نمائندوں نے آکر کر رپورٹ دی کہ سب کے سب راضی ہیں۔ تب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تمام قیدی رہا کر دے ئے۔ تفصیل کے لیے میری کتاب (اتحاد امت اور نظم جماعت) ملاحظہ فرمائیں۔ الشورى
39 فہم القرآن ربط کلام : اہل ایمان کی نویں صفت۔ اہل ایمان کی یہ بھی صفت ہے کہ ان پر کوئی جارحیّت کرئے تو وہ پوری غیرت کے ساتھ اس کا جواب دیتے ہیں۔ اس سے پہلے اہل ایمان کی چوتھی یہ صفت بیان کی گئی ہے کہ جب انہیں غصہ آتا ہے تو وہ دوسرے کو معاف کردیتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ دوسرے کو معاف کرنا بہت بڑا کام ہے۔ لیکن جو لوگ اہل ایمان کو کمزور سمجھ کر دبانے اور جھکانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس وقت اہل ایمان کا فرض ہوجاتا ہے کہ وہ جارحیّت کرنے والوں کا پوری جرأت کے ساتھ جواب دیں۔ جارحیّت کرنے والوں سے مراد کافر بھی ہیں اور وہ مسلمان بھی جو کمزوروں کے ساتھ زیادتی کرتے ہیں ان کا ہاتھ روکنا لازم ہے۔ اگر ایسے لوگوں کے ہاتھ نہ روکے جائیں تو قوم اور معاشرہ عدم تحفظ کا شکار ہوجاتا ہے۔ اگر جارح غیر مسلم ہو تو اس کے خلاف اٹھ کھڑا ہونا ہر مسلمان کا فرض ہے۔ جارحیّت کرنے والا مسلم ہو یا غیر مسلم اس کا بدلہ اتنا ہی لینا ہوگا جتنی وہ زیادتی کرے گا۔ اگر زیادتی کرنے والا مسلمان ہو اور وہ اپنی اصلاح کرنے پر آمادہ ہوجائے تو اسے معاف کردینا چاہیے۔ معاف کرنے والے کا اجر اللہ تعالیٰ نے اپنے ذمہ لیا ہے۔ بدلہ لینے والے کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ ظالموں کو پسند نہیں کرتا ہاں جو لوگ زیادتی کا بدلہ لینا چاہیں ان پر کوئی گناہ نہیں۔ البتہ وہ لوگ ضرور گناہ گا رہوں گے جو لوگوں پر ظلم کرتے ہیں اور زمین میں ناحق فساد کرتے ہیں۔ انہیں اذیّت ناک عذاب ہوگا۔ جو صبر کرے اور اپنے مسلمان بھائی کو معاف کردے۔ ایسا کرنا اللہ تعالیٰ کے ہاں بڑے کاموں میں شمار ہوتا ہے۔ یادرہے کہ معافی فوج داری، مقدمات اور لین دین کے معاملے میں ہوگی۔ (عَنْ عَاءِشَۃَ أَنَّھَا قَالَتْ مَاخُیِّرَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بَیْنَ أَمْرَیْنِ إِلَّآأَخَذَ أَیْسَرَھُمَا مَالَمْ یَکُنْ إِثْمًا فَإِنْ کَانَ إِثْمًا کَانَ أَبْعَدَ النَّاسِ مِنْہُ وَمَا انْتَقَمَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لِنَفْسِہٖٓ إِلَّا أَنْ تُنْتَھَکَ حُرْمَۃُ اللّٰہِ فَیَنْتَقِمُ لِلّٰہِ بِھَا) [ رواہ البخاری : کتاب المناقب، باب صفۃ النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ] ” حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دو کاموں میں اختیار دیا جاتا تو آپ دونوں میں سے آسان کام کو اختیار کرتے بشرطیکہ وہ گناہ کا کام نہ ہوتا۔ اگر کام گناہ کا ہوتا تو آپ سب سے زیادہ اس سے دور رہتے۔ آپ نے اپنی ذات کے لیے کسی سے انتقام نہ لیا البتہ جب اللہ کی حرمتوں کو پامال کیا جاتا تو اللہ کے لیے انتقام لیتے۔“ مسائل ١۔ اللہ کے بندوں پر جارحیّت کی جائے تو وہ اس کا بدلہ لیتے ہیں۔ ٢۔ بدلہ لیتے ہوئے زیادتی کرنا جائز نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ زیادتی کرنے والے کو پسند نہیں کرتا۔ ٣۔ جس نے مسلمان بھائی کو معاف کردیا اس کا اجر اللہ کے ہاں ثابت ہوگیا۔ ٤۔ جو معاف کرنے کی بجائے بدلہ لینا چاہے اس پر کوئی گناہ نہیں۔ ٥۔ جو لوگوں پر ظلم اور زمین میں ناحق فساد کرتے ہیں انہیں اذیّت ناک عذاب ہوگا۔ ٦۔ صبر کرنا اور دوسرے کو معاف کردینا عظیم کاموں میں سے ایک بڑا کام ہے۔ الشورى
40 الشورى
41 الشورى
42 الشورى
43 الشورى
44 فہم القرآن ربط کلام : جو لوگوں پر ظلم کرتے ہیں اور زمین پر فساد برپا کرتے ہیں درحقیقت وہ صحیح راستے سے گمراہ ہوجاتے ہیں جسے اللہ تعالیٰ گمراہ کردے اس کی کوئی راہنمائی کرنے والا نہیں ہوتا۔ جسے اللہ تعالیٰ گمراہ کردے اس کا کوئی خیرخواہ اور دوست نہیں ہوگا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ظالموں کو دیکھیں گے کہ جب یہ جہنم کے عذاب کو دیکھیں گے تو آہ وزاریاں کرتے ہوئے کہیں گے کہ کیا جہنّم سے بچ نکلنے کا کوئی راستہ ہے۔ آپ انہیں دیکھیں گے کہ جب وہ جہنّم کے سامنے کھڑے کیے جائیں گے تو ذلّت کی وجہ سے اپنی نگا ہوں کو نیچے کیے ہوئے ترشی آنکھوں سے اسے دیکھ رہے ہوں گے اس وقت مومن کہیں گے۔ یقیناً یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے اپنے آپ اور اپنے اہل وعیال کو آج کے دن کے بارے میں نقصان میں رکھا۔ آگاہ ہوجاؤ کہ ظالم ہمیشہ رہنے والے عذاب میں مبتلاہوں گے۔ اللہ تعالیٰ کے سوا ان کا کوئی دوست اور خیر خواہ نہیں ہوگا۔ جو ان کی مدد کرسکے۔ حقیقت یہ ہے کہ جسے اللہ تعالیٰ گمراہ کردے اس کے لیے ہدایت کا کوئی راستہ اور طریقہ باقی نہیں رہتا۔ فہم القرآن میں کئی مرتبہ اس بات کی وضاحت کی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی شخص کو گمراہ نہیں کرتا۔ اس کے گمراہ کرنے کا معنٰی یہ ہے کہ جو شخص اپنے لیے گمراہی کو پسند کرتا ہے اللہ تعالیٰ اسے کھلا چھوڑ دیتا ہے۔ گمراہی کو اپنی طرف منسوب کرنے کا ایک مفہوم یہ بھی ہے کہ ہر شخص کو اللہ تعالیٰ سے ہدایت مانگتے ہوئے گمراہی سے بچنے کی توفیق بھی مانگنا چاہیے۔ کیونکہ ہدایت اور گمراہی اسی کے اختیار میں ہے۔ جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ گمراہی میں کھلا چھوڑ دیتا ہے۔ قیامت کے دن ان کی حالت یہ گی کہ وہ ذلّت کے مارے اپنی نگاہوں کو نیچے کیے ہوئے جہنّم کو ترشی نظروں کے ساتھ دیکھ رہے ہوں گے۔ جس طرح مجرم سزا کے وقت دیکھتا ہے اس حالت میں فریاد کریں گے کہ کاش! جہنّم سے بچ نکلنے کا کوئی راستہ نکل آئے۔ جنہیں دنیا میں اپنا نجات دہندہ سمجھتے تھے ان میں سے کوئی بھی انہیں بچانے والا نہیں ہوگا۔ جن لوگوں نے اپنے آپ اور اپنے اہل وعیال کو گمراہ کیا انہیں ہمیشہ رہنے والے عذاب میں داخل کیا جائے گا۔ یادرہے کہ برے سے برا شخص بھی اپنی اولاد کے نقصان کے لیے نہیں سوچتا۔ مگر اس کے فکر و عمل سے متاثر ہو کر اس کی اولاد اس طرح ہی ہوجاتی ہے جس قسم کا اس نے ماحول دیا ہوتا ہے۔ اگر ماں باپ فکرو عمل کے اعتبار سے صالح لوگ ہیں تو غالب امکان ہے کہ ان کی اولاد بھی صالح ہوگی۔ بصورت دیگر جیسے ماں باپ ہوں گے ویسی ہی اولاد ہوگی۔ اسی بنا پر قیامت کے دن جنتی جہنمیوں کے بارے میں کہیں گے کہ یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے اپنے آپ اور اپنی اولاد کو ناقابل تلافی نقصان میں ڈال دیا ہے۔ یعنی یہ لوگ جہنم میں داخل ہوچکے ہیں۔ (عَنْ اَبِیْ ہُرَےْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَا مِنْ مَّوْلُوْدٍ اِلَّا ےُوْلَدُ عَلَی الْفِطْرَۃِ فَاَبَوَاہُ ےُھَوِّدَانِہٖ اَوْ ےُنَصِّرَانِہٖ اَوْ ےُمَجِّسَانِہٖ کَمَا تُنْتَجُ الْبَھِےْمَۃُ بَھِےْمَۃً جَمْعَآءَ ھَلْ تُحِسُّوْنَ فِےْھَا مِنْ جَدْعَآءَ ثُمَّ ےَقُوْلُ ” فِطْرَۃَ اللّٰہِ الَّتِیْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَےْھَا لَا تَبْدِےْلَ لِخَلْقِ اللّٰہِ ذَالِکَ الدِّےْنُ الْقَےِّمُ“ ) [ رواہ البخاری : باب اذا اسلم الصبی فمات] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہر بچہ فطرت اسلام پر پیدا ہوتا ہے۔ اس کے والدین اس کو یہودی، عیسائی یا مجوسی بنا دیتے ہیں جس طرح چارپائے اپنے بچے کو تام الخلقت جنم دیتے ہیں۔ کیا تم ان میں سے کسی بچے کو کان کٹا پاتے ہو؟ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ آیت تلاوت کی۔” اللہ کی فطرت ہے جس پر اللہ نے لوگوں کو پیدا کیا ہے اللہ کی تخلیق میں تبدیلی نہیں ہے یہ بالکل سیدھا اور درست دین ہے۔“ (ٰٓیاََیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْا اَنفُسَکُمْ وَاَہْلِیکُمْ نَارًا وَّقُوْدُہَا النَّاسُ وَالْحِجَارَۃُ عَلَیْہَا مَلاَءِکَۃٌ غلاَظٌ شِدَادٌ لاَ یَعْصُون اللّٰہَلاَ یَعْصُون اللّٰہَ مَا اَمَرَہُمْ وَیَفْعَلُوْنَ مَا یُؤْمَرُوْنَ) [ التحریم : ٦] اے ایمان والو! اپنے آپ کو اور اپنے اہل وعیال کو جہنم کی آگ سے بچا لو جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہیں اور جس پر تند خو اور سخت مزاج فرشتے مقرر ہیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں جو حکم کرتا ہے وہ اس کی نافرمانی نہیں کرتے اور جو حکم ان کو دیا جاتا ہے اس کی تعمیل کرتے ہیں۔“ مسائل ١۔ قیامت کے دن جہنمی ذلّت کے مارے نگاہیں نیچے کیے ہوئے جہنّم کو دیکھیں گے۔ ٢۔ جہنمی اس بات کی خواہش اور اظہار کریں گے کہ کاش ! یہاں سے بچ نکلنے کا کوئی راستہ مل جائے۔ ٣۔ اہل ایمان جہنمیوں کو کہیں گے کہ تم نے اپنے آپ اور اپنے اہل و عیال کو بڑے نقصان میں مبتلا کردیا ہے۔ ٤۔ جہنمی ہمیشہ اذیّت ناک عذاب میں مبتلا رہیں گے۔ ٥۔ جہنمیوں کی کوئی خیر خواہی اور مدد نہیں کرسکے گا۔ تفسیربالقرآن اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی کسی کی مدد نہیں کرسکتا : ١۔ نہیں ہے تمہارا کوئی اللہ کے سوا دوست اور نہ مددگار۔ (البقرۃ: ١٠٧) ٢۔ نہ ملے ان کو اللہ کے سوا کوئی دوست اور نہ مددگار۔ (الاحزاب : ١٧) ٣۔ اللہ کے سوا کوئی مدد نہیں کرسکتا۔ (ھود : ٣٠، ٦٣) ٤۔ نہیں ہے ان کے لیے زمین میں کوئی دوست اور نہ کوئی مدد گار۔ (التوبۃ: ٧٤) ٥۔ نہیں ہے تمہارے لیے اللہ کے سوا کوئی دوست اور سفارشی پھر تم نصیحت کیوں نہیں حاصل کرتے۔ (السجدۃ: ٤) الشورى
45 الشورى
46 الشورى
47 فہم القرآن ربط کلام : صراط مستقیم پانے اور جہنم سے نجات حاصل کرنے کا ایک ہی راستہ ہے کہ لوگوں کو اپنے رب کی بات مان کر اس کا تابع فرمان ہوجانا چاہیے۔ جب اللہ تعالیٰ کے سوا دنیا اور آخرت میں کوئی مدد کرنے والا نہیں اور نہ ہی کوئی دوسرا جہنّم سے بچا سکتا ہے تو پھر لوگوں کو اپنے رب کے حکم کے مطابق ہی زندگی بسر کرنی چاہیے۔ جو لوگ اپنے رب کی نافرمانی میں زندگی گزارتے ہیں انہیں ایک مرتبہ پھر سمجھایا گیا ہے کہ اس دن کے عذاب سے پہلے اپنے آپ کو سدھار لو جس دن کا عذاب کسی کے ٹالنے سے ٹل نہیں سکتا اور نہ ہی کوئی جائے پناہ ہوگی اور نہ ہی کوئی نکیر کرسکے گا۔ نکیر کا لفظ نکر سے نکلا ہے۔ جس کے اہل علم نے چار مفہوم ذکر کیے ہیں۔1” مَالَکُمْ مِّنْ نَّکِیْرٍ“ تم اپنے کیے کا انکار نہیں کرسکو گے۔2 تم اپنی حالت بدل نہیں سکو گے۔3 تمہارے لیے جائے پناہ نہیں ہوگی۔4 تم کسی قسم کا احتجاج نہیں کرسکو گے۔ مسائل ١۔ لوگوں کو اپنے رب کا حکم مان کر اپنے آپ کو بدل لینا چاہیے۔ ٢۔ قیامت کا دن اور اس کا عذاب کسی کے ٹالنے سے ٹل نہیں سکتا۔ ٣۔ قیامت کے دن کوئی جائے پناہ اور گناہوں سے انکار کی کوئی صورت نہ ہوگی۔ الشورى
48 فہم القرآن ربط کلام : قیامت کے دن مجرموں کے بچ نکلنے کی کوئی صورت نہیں ہوگی۔ اس کے باوجود یہ لوگ حق بات سے اعراض ہی کیے جارہے ہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کام صرف لوگوں تک حق بات کا ابلاغ کرنا ہے۔ لہٰذا یہ کام آپ کو کرتے رہنا چاہیے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پوری محنت اور اخلاص کے ساتھ شب وروز لوگوں کو سمجھا رہے تھے کہ اے لوگو! قیامت کا دن آنے سے پہلے اپنے آپ کو سدھار لو! قیامت کے دن کوئی اپنے آپ اور کسی دوسرے کو نہیں بچا سکے گا۔ لیکن کفار اور مشرکین کی حالت یہ تھی کہ وہ حق قبول کرنے کی بجائے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مخالفت میں روز بروز آگے ہی بڑھتے جارہے تھے۔ جس پر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دل آزردہ ہوجاتے اور اللہ تعالیٰ کے حضور رو رو کر دعائیں کرتے۔ قریب تھا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کوئی عارضہ لاحق ہوجاتا۔ اس صورت حال میں آپ کو تسلی دینے کے لیے یہ ارشاد ہوا کہ کیا آپ اپنے آپ کو اس لیے بیمار کرلیں گے کہ یہ لوگ حق بات قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ (الشعراء : ٣) آپ کو یہ کہہ کر بھی ڈھارس دی گئی کہ اللہ تعالیٰ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نصیحت کرنے کے لیے بھیجا ہے۔ اس نے آپ کو لوگوں پر داروغہ بنا کر نہیں بھیجا۔ اس لیے آپ کا کام نصیحت کرنا ہے۔ آپ نصیحت کرتے جائیں۔ (الغاشیۃ: ٢١، ٢٢) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تسلی کے لیے یہاں ارشادفرمایا کہ اگر یہ لوگ آپ سے اعراض کرنے پر تلے ہوئے ہیں تو آپ کو ایک حد سے زیادہ فکرمند نہیں ہونا چاہیے کیونکہ ہم نے آپ کو ان پر چوکیدار نہیں بنایا۔ آپ کا کام صرف حق بات کی دعوت دینا ہے۔ لہٰذا آپ ان کو دعوت دیتے جائیں اور اس کا نتیجہ اپنے رب کے حوالے کریں۔ لوگوں کی حالت یہ ہے کہ جب ہم ان کو اپنی رحمت سے نوازتے ہیں تو یہ اس کے ساتھ خوش ہوجاتے ہے۔ اگر ہم ان کو ان کے اعمال کی سزا دیتے ہیں تو اپنے رب کی ناشکری کرنے پر اتر آتے ہیں۔ اس آیت کے آغاز میں مخاطب تو اہل مکہ ہیں۔ مگر نعمت اور سزا کا ذکر کرتے ہوئے ” الانسان“ کا لفظ لا کر پوری بنی نوع انسان کو مخاطب کیا گیا ہے۔ کیونکہ یہ دعوت اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت صرف اہل مکہ کے لیے نہیں تھی۔ آپ کی دعوت تو رہتی دنیا تک تمام انسانوں کے لیے ہے۔ جس بنا پر ہر داعی کو یہ بات سمجھائی گئی ہے کہ وہ اپنے مخاطب کی فطرت کا خیال رکھتے ہوئے دعوت کا کام جاری رکھے۔ انسان کا یہ مزاج ہے کہ اپنے پسند کی بات پر خوش ہوتا ہے اور ناپسند پر ناراض ہوتا ہے۔ یہی رویہ اس کا اپنے رب کے بارے میں ہوتا ہے کبھی اس پر خوش ہوتا ہے اور کبھی ناراض ہوجاتا ہے۔ اس میں داعی کو یہ بھی سمجھایا جارہا ہے کہ لوگوں کی خوشی اور ناراضگی کی پروا کیے بغیر اسے حق کا ابلاغ کرتے رہنا چاہیے۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو لوگوں پر چوکیدار نہیں بنایا تھا۔ ٢۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کام حق بات کا ابلاغ کرنا تھا جسے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کامل اور اکمل طریقے کے ساتھ سرانجام دیا۔ ٣۔ انسان کی حالت یہ ہے کہ اسے کچھ ملے تو خوش ہوجاتا ہے۔ اگر اسے تکلیف پہنچے تو وہ اپنے رب کا بھی ناشکرا بن جاتا ہے۔ تفسیربالقرآن نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کام حق بات پہچانا تھا منوانا نہیں : ١۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تو ڈرانے والے ہیں اور اللہ ہر چیز پر کارساز ہے۔ (ہود : ١٢) ٢۔ آپ کا کام تبلیغ کرنا ہے اور حساب لیناہمارا کام ہے۔ (الرعد : ٤٠) ٣۔ آپ کو ان پر نگران نہیں بنایا گیا آپ کا کام تبلیغ کرنا ہے۔ (الشوریٰ: ٤٨) ٤۔ (پیغمبروں نے کہا) ہمارے ذمہ دین کی تبلیغ کرنا ہے۔ (یٰس : ١٧) ٥۔ آپ نصیحت کریں آپ کا کام بس نصیحت کرنا ہے، آپ کو چوکیدار نہیں بنایا گیا۔ (الغاشیۃ: ٢١۔ ٢٢) ٦۔ رسولوں کا کام صرف تبلیغ کرنا ہے۔ (النحل : ٣٥) ٧۔ نہیں ہے رسول پر مگر واضح طور پر پیغام پہنچانا۔ (النور : ٥٤) الشورى
49 فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور کسی دوسرے کو ہدایت دینے کا اختیار نہیں دیا۔ ہدایت اور ہر قسم کے اختیارات صرف اللہ تعالیٰ کے پاس ہیں۔ یہاں تک انسان اپنی اولاد کے بارے میں بھی اختیار نہیں رکھتا۔ اللہ تعالیٰ ہی زمین و آسمانوں کا مالک اور بادشاہ ہے۔ اس کے اختیارات کا عالم یہ ہے کہ وہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے۔ جسے چاہتا ہے صرف بیٹیاں ہی عنایت کرتا ہے اور جس کے لیے چاہتا ہے اسے صرف بیٹے عطا کرتا ہے۔ کسی کو بیٹے اور بیٹیاں دیتا ہے اور کسی کو زندگی بھر بانجھ رکھتا ہے۔ وہ ہر چیز کا کامل اور اکمل علم رکھنے کے ساتھ ہر کسی پر قدرت رکھنے والا ہے۔ اس آیت مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے تخلیق کے حوالے سے انسان کو یہ حقیقت سمجھائی ہے کہ اے انسان! جس رب کے ساتھ تو کفر و شرک کرتا ہے اس کے اختیارات کا عالم یہ ہے کہ وہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے۔ وہ جسے چاہے بیٹے عطا فرمائے اور جس کو چاہے بیٹیاں دے اور جسے چاہے بیٹے، بیٹیاں دے اور جسے چاہے اسے بے اولاد رکھتا ہے۔ دنیا میں کوئی ایسا جوڑا نہیں جو اپنی مرضی سے بیٹے یا بیٹی کو جنم دے سکے اور نہ ہی اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی ایسی ذات ہے جو کسی کو بیٹے یا بیٹیاں دے سکے اور نہ ہی بانجھ کو کوئی اولاد دے سکتا ہے۔ جب انسان اپنے رب کے سامنے اتنا بے بس ہے تو اسے دل کی رغبت کے ساتھ اپنے رب کا حکم ماننا چاہیے تاکہ دنیا میں اس کا بھلا ہو اور آخرت میں وہ سرخرو ہوسکے۔ اس کے باوجود مشرک کسی کو داتا کہتا ہے اور کسی کو اپنا دستگیر بنائے ہوئے ہے۔ جس شخصیت کو داتا کہا جاتا ہے اس کا اپنا حال یہ تھا کہ انہوں نے دو سے زائد شادیاں کیں مگر زندگی بھر بیٹے اور بیٹی سے محروم رہے۔ (سوانح علی ہجویری (رض)، مطبع محکمہ اوقاف پنجاب) ہدایت کے بارے میں بھی لوگوں کی یہی حالت ہوتی ہے کہ کچھ لوگ نہایت صالح، کچھ لوگ ملے جلے کام کرنے والے اور کچھ بالکل ہدایت سے محروم رہتے ہیں۔ الشورى
50 الشورى
51 فہم القرآن ربط کلام : انسان ہی نہیں بلکہ انسانوں کے سردار اور اللہ تعالیٰ کے محبوب ترین بندے انبیائے کرام (علیہ السلام) بھی کوئی اختیارات نہیں رکھتے تھے۔ یہاں تک وہ اللہ تعالیٰ سے برائے راست بات بھی نہیں کرسکتے تھے۔ اس سورۃ مبارکہ کا آغاز توحید و رسالت سے ہوا ہے۔ اس کا اختتام بھی توحید ورسالت کے عنوان پر ہورہا ہے۔ عام انسان نہیں بلکہ انسانوں کے سردار جنہیں نبوت کے منصب پر فائز کیا گیا۔ ان کی بے اختیاری کا عالم یہ تھا کہ وہ بھی اللہ جلّ جلالہٗ سے براہ راست بات کرنے کی سکت نہیں رکھتے تھے اور نہ ہی کسی انسان میں یہ سکت ہے کہ وہ بلاواسطہ اپنے رب کے ساتھ ہم کلام ہوسکے۔ اللہ تعالیٰ نے جس کے ساتھ بھی کلام فرمایا اس پر وحی نازل فرمائی یا نور کے حجاب کے پیچھے اس سے کلام کیا یا فرشتہ بھیج کر اس تک اپنا پیغام پہنچایا ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ بہت ہی بلند وبالا اور حکمت والاہے۔ اس ارشاد میں اللہ تعالیٰ نے کسی انسان کے ساتھ اپنے کلام کرنے کے تین طریقے ارشاد فرمائے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نینبی آخرالزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تینوں طریقوں کے ساتھ ہی اپنے ارشادات سے سرفراز فرمایا۔ وحی کا لغوی معنٰی الہام، لکھا ہواپیغام، اشارہ کرنا، چھپا کر بات کرنا اور کسی بات پر آمادہ کرنا۔ (عَنْ عَاءِشَۃَ (رض) أُمِّ الْمُؤْمِنِینَ أَنَّہَا قَالَتْ أَوَّلُ مَا بُدِءَ بِہِ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مِنَ الْوَحْیِ الرُّؤْیَا الصَّالِحَۃُ فِی النَّوْمِ۔۔) [ رواہ البخاری : باب بدء الوحی] ” حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو وحی کی ابتدا نیند میں سچے خوابوں سے ہوئی۔“ 2 حجاب کا یہ معنٰی نہیں کہ اللہ تعالیٰ حجاب میں رہتا ہے۔ اس کا معنٰی ہے کہ اللہ اور نبی کے درمیان حجاب ہوتا ہے۔ (وَعَنْ اَبِیْ ذَرٍّ (رض) قَالَ سَاَلْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ھَلْ رَاَیْتَ رَبَّکَ قَالَ نُوْرٌ اَنّٰی أرَاہُ) [ رواہ مسلم : باب قولہ (علیہ السلام) (نُوْرٌ اَنّٰی أرَاہُ)] حضرت ابوذر (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا کیا آپ نے (معراج کی رات) اپنے پروردگار کو دیکھا تھا؟ آپ نے فرمایا کہ وہ تو نور ہے میں اسے کیسے دیکھ سکتا تھا؟ 3 تیسری قسم کے بارے میں قرآن شہادت دیتا ہے کہ قرآن مجید جبرائیل امین کے ذریعے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تک پہنچایا گیا ہے۔ ” بلاشک جبرائیل (علیہ السلام) نے ہی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دل پر اللہ کے حکم سے کتاب نازل کی ہے جو اپنے سے پہلی کتابوں کی تصدیق کرتی ہے اور مومنوں کے لیے ہدایت اور خوشخبری ہے۔“ ( البقرۃ: ٩٧) ” یہ قرآن رب العالمین کی طرف سے نازل کردہ ہے۔ اسے امانت دارفرشتہ لے کر آیا اور اس نے اسے آپ کے دل پر اتارا ہے۔ تاکہ آپ ان لوگوں میں شامل ہوں جو ڈرانے والے ہیں۔ یہ قرآن واضح عربی زبان میں ہے۔“ (الشعراء : ١٩٢ تا ١٩٥) کفار کا مطالبہ تھا کہ آخر کیا وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ سے بات کرتا ہے ہم سے کیوں بات نہیں کرتا، اس کا جواب دیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر عیرے غیرے کے ساتھ بات نہیں کرتا وہ نبی کے ساتھ بھی براۂ راست بات کرنے کی بجائے صرف تین صورتوں میں بات کرتا ہے۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ کسی بشر کے ساتھ براہ راست بات نہیں کرتا۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق میں کسی کو بھی القاء کرسکتا ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ انبیائے کرام (علیہ السلام) کے ساتھ وحی کے ذریعے بات کرتا تھا۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ نے انبیائے کرام (علیہ السلام) کے ساتھ پردے میں گفتگو فرمائی۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ ملائکہ کے ذریعے انبیائے کرام (علیہ السلام) تک اپنا پیغام پہنچاتا تھا۔ ٦۔ اللہ تعالیٰ ہر اعتبار سے بلندوبالا اور حکمت والاہے۔ تفسیربالقرآن وحی کے مختلف طریقے : ١۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے اللہ تعالیٰ پر دے میں بات کرتا تھا۔ ( الشورٰی : ٥١) ٢۔ اللہ تعالیٰ نے شہد کی مکھی کی طرف القاء کیا کہ پہاڑوں اور درختوں پر اپنے گھر بنائے۔ ( النحل : ٦٨) ٣۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی والدہ کے دل میں یہ بات ڈالی کہ وہ موسیٰ (علیہ السلام) کو دودھ پلائے۔ ( القصص : ٧) ٤۔ اللہ تعالیٰ نے جبریل امین (علیہ السلام) کے ذریعے اپنا پیغام انبیاء تک پہنچایا۔ (الشعراء : ١٩٣) الشورى
52 فہم القرآن ربط کلام : قرآن مجید بھی وحی کے ذریعے نازل ہوا ہے۔ لیکن یہ وحی جبرائیل امین (علیہ السلام) کے ذریعے آیا کرتا تھی۔ اس لیے بالخصوص جبرائیل امین (علیہ السلام) کا ذکر کیا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے کہ ہم نے اپنے حکم سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف جبریل امین (علیہ السلام) کے ذریعے قرآن نازل کیا۔ حالانکہ اس سے پہلے آپ نہیں جانتے تھے کہ“ اَلْکِتَابُ“ اور ” اَلْاِیْمَانُ“ کیا ہوتا ہے؟ لیکن اللہ تعالیٰ نے اسے نور ہدایت بنایا ہے۔ اس کے ساتھ جسے چاہتا ہے اپنے بندوں کو ہدایت کے ساتھ سرفراز فرماتا ہے۔ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! یقین جانو! کہ آپ صراط مستقیم کی راہنمائی کرنے والے ہیں۔ یہ صراط مستقیم اللہ کا متعین کردہ ہے۔ اللہ ہی وہ ذات ہے جو زمین و آسمانوں کی ہر چیز کا مالک ہے۔ سب کام اللہ تعالیٰ کی طرف لوٹائے جاتے ہیں اور وہی لوگوں کے درمیان فیصلہ کرنے والاہے۔ سورۃ کے اختتام میں ایک مرتبہ پھر بالواسطہ کفار کے اس الزام کی تردید کی گئی ہے جو کہتے تھے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قرآن اپنی طرف سے تیار کرلیا ہے۔ حالانکہ قرآن مجید اللہ تعالیٰ کے حکم سے جبرائیل امین (علیہ السلام) نے آپ کے دل پر نازل کیا ہے۔ اس بات کو ان الفاظ میں بھی بیان کیا گیا ہے۔ (وَاِِنَّہٗ لَتَنْزِیْلُ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ نَزَلَ بِہِ الرُّوْحُ الْاَمِیْنُ عَلٰی قَلْبِکَ لِتَکُوْنَ مِنَ الْمُنْذِرِیْنَ بِلِسَانٍ عَرَبِیٍّ مُّبِیْنٍ وَاِِنَّہٗ لَفِیْ زُبُرِ الْاَوَّلِیْنَ )[ الشعراء : ١٩٢ تا ١٩٦] الشورى
53 ” یہ قرآن رب العالمین کی طرف سے نازل کردہ ہے۔ اسے لے کر امانت دارفرشتہ آیا اور اس نے اسے آپ کے دل پر اتارا ہے۔ تاکہ آپ ان لوگوں میں شامل ہوں جو ڈرانے والے ہیں۔ یہ قرآن واضح عربی زبان میں ہے اور پہلی کتابوں میں بھی اس کا ذکر موجود ہے۔“ اسی فرمان کی بنیاد پر امت کے علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ قرآن مجید القاء، خواب یا کسی اور ذریعے سے نہیں بلکہ سارے کا سارا قرآن جبرائیل امین (علیہ السلام) کے ذریعے نازل ہوا۔ نزول قرآن سے پہلے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نہیں جانتے تھے کہ قرآن اور اس کی دعوت یعنی ایمان کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کو نور قرار دیا ہے۔ جس کے ذریعے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا ہے ہدایت سے سرفراز کرتا ہے اور یہی نبی آخرالزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کا مقصد تھا اور ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قرآن کے ذریعے لوگوں کی راہنمائی کرتے تھے۔ یہاں ہدایت سے مراد قرآن مجید کی تعلیم اور راہنمائی ہے۔ (عَنْ سَعِیْدِ بْنِ الْمُسَیِّبِ اأنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ (رض)، اِشْتَکٰی فَدَخَلَ عَلَیْہِ النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَعُوْدُہٗ فَقَالَ کَیْفَ تَجِدُکَ یَا عُمَرُ ؟ فَقَالَ اأرْجُوْ وَأَخَافُ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَا اجْتَمَعَ الرَّجَاءُ وَالُخَوْفُ فِیْ قَلْبِ مَؤْمِنٍ إِلَّا اأعْطَاہ اللّٰہُ الرَّجَاءَ وَأَمِنَہُ الِخَوْفَ) [ رواہ البیھقی : باب فی الرجاء من اللہ تعالی] ” سعید بن مسیب (رض) سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن خطاب (رض) بیمار ہوگئے تو نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے استفسار فرمایا اے عمر! اپنے آپ کو کیسے محسوس کررہے ہو؟ عمر (رض) نے جواب دیا مجھے امید بھی ہے اور خوف بھی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ مومن کے دل میں امید اور خوف دونوں جمع ہوتے ہیں مگر اللہ تعالیٰ اس کی امید پوری کردیتے ہیں اور اسے خوف سے محفوظ فرمالیتے ہیں۔“ (عَنِ الْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ (رض) أَنَّہُ سَمِعَ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَقُولُ ذَاقَ طَعْمَ الْإِیمَانِ مَنْ رَضِیَ باللّٰہِ رَبًّا وَّبِا لإِْسْلَام دینًا وَّبِمُحَمَّدٍ رَسُولًا) [ رواہ مسلم : باب الدلیل علی ان من رضی باللہ ربا] ” حضرت عباس بن عبدالمطلب (رض) بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا آپ نے فرمایا جو شخص اللہ کے رب ہونے پر، اسلام کے دین ہونے پر اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے رسول ہونے پر راضی ہوگیا اس نے ایمان کا لطف پالیا۔“ اہل علم نے ہدایت کے مدارج کی بہت سی قسمیں بیان فرمائی ہیں لیکن بنیادی طور پر اس کی چار اقسام ہیں : 1 طبعی اور فطری ہدایت 2 الہامی ہدایت 3 توفیقی ہدایت 4 ہدایت وحی۔ طبعی اور فطری ہدایت : چاند، سورج اور سیارے طبعی رہنمائی کے مطابق اپنے مدار میں رواں دواں ہیں۔ ہوائیں اسی اصول کی روشنی میں رخ بدلتی اور چلتی ہیں۔ بادل فطری رہنمائی سے ہی راستے تبدیل کرتے اور برستے ہیں یہاں تک کہ اسی اصول کے تحت درخت روشنی کی تلاش میں ایک دوسرے سے اوپر نکلتے ہیں۔ فطری ہدایت کے مطابق ہی مرغی کا بچہ انڈے سے نکلتے ہی مرغی کے قدموں میں پڑجاتا ہے، بطخ کا بچہ خود بخود پانی کی طرف چلتا اور انسان کا نومولود ماں کی چھاتی کے ساتھ چمٹتا ہے۔ اس طبعی اور فطری ہدایت کی قرآن نے ان الفاظ میں نشاندہی فرمائی ہے : (وَھَدَیْنَاہ النَّجْدَیْنِ) [ البلد : ١٠] ” ہم نے اسے دو واضح راستے دکھا دیئے۔“ الہامی ہدایت : الہام وحی کی ایک قسم ہے لیکن وحی اور الہام میں فرق یہ ہے کہ وحی صرف انبیاء کے ساتھ خاص ہے جب کہ الہام انبیاء کے علاوہ نیک اور عام آدمی حتی کہ قرآن مجید نے شہد کی مکھیوں کے لیے بھی وحی یعنی الہام کا لفظ استعمال فرمایا ہے جس کا معنٰی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی کے دل میں کوئی بات القا فرما دیتا ہے۔ اسے ہدایت وہبی بھی کہا جاتا ہے۔ ( النحل : ٦٨) ہدایت بمعنٰی توفیق اور استقامت : ہدایت کی تیسری قسم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی عنایت اور توفیق سے اپنے بندے کی رہنمائی کرتے ہوئے اسے صراط مستقیم پر گامزن رہنے کی توفیق عطا فرما دیتا ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اکثر یہ دعا کرتے تھے۔ (یَا مُقَلِّبَ الْقُلُوْبِ ثَبِّتْ قَلْبِیْ عَلٰی دِیْنِکَ) [ رواہ الترمذی : کتاب الدعوات] ” اے دلوں کو پھیرنے والے! میرے دل کو اپنے دین پر ثابت رکھنا۔“ (اَللّٰھُمَّ اَلْھِمْنِیْ رُشْدِیْ وَأَعِذْنِیْ مِنْ شَرِّ نَفْسِیْ) [ رواہ الترمذی : کتاب الدعوات، باب ماء فی جامع الدعوات] ” اے اللہ! میری راہنمائی فرما اور مجھے میرے نفس کے شر سے محفوظ رکھ۔“ وحی اور حقیقی ہدایت : یہ بات اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ اس ہدایت کی دوشکلیں ہیں اور دونوں آپس میں لازم وملزوم اور ضروری ہیں۔ ایک ہدایت ہے ہر نیکی کی ظاہری حالت اور اس کی ادائیگی کا طریقہ جو ہر حال میں سنت نبوی کے مطابق ہونا چاہیے۔ دوسری اس کی روح اور اصل۔ اسے قرآن نے اخلاص سے تعبیر فرمایا ہے۔ اخلاص کے اثرات دل پر اثر انداز ہوں گے تو اللہ تعالیٰ کی قربت حاصل ہوگی جس کا بدلہ جنّت ہے۔ کردار پر مرتب ہوں گے تو نفس اور معاشرے میں پاکیزگی پیدا ہوگی جس سے آدمی کو دنیا اور آخرت میں کامیابی حاصل ہوگی۔ صراط مستقیم کا تعارف : ” حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے ہاتھ سے ایک لکیر کھینچی پھر فرمایا یہ اللہ کاسیدھا راستہ ہے پھر اس کے دائیں اور بائیں خط کھینچ کر فرمایا یہ راستے ہیں ان میں سے ہر ایک پر شیطان کھڑا ہے اور وہ اس کی طرف بلاتا ہے پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس آیت کی تلاوت کی (بے شک یہ میرا سیدھا راستہ ہے اسی پر چلتے رہنا اور پگڈنڈیوں پر نہ چلنا۔“ [ مسند احمد : باب مسند عبدا اللہ بن مسعود] قرآن مجید نے اس راستے کو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا راستہ قرار دیا اور اسے بصیرت سے تعبیر کیا ہے۔ (قُلْ ھٰذِہٖ سَبِیْلِیْ أَدْعُو إِلَی اللّٰہِ عَلٰی بَصِیْرَۃٍ أَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِیْ) [ یوسف : ١٠٨] ” آپ فرمادیجئے یہ میرا راستہ ہے میں اور میرے پیرو کار بصیرت کی بنیاد پر اللہ کی طرف بلاتے ہیں۔“ ” حضرت عرباض بن ساریہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ ہمیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایسا وعظ فرمایا جس سے آنکھیں بہہ پڑیں اور دل ڈر گئے ہم نے کہا اللہ کے رسول یقیناً یہ تو الوداعی وعظ لگتا ہے اس لیے آپ ہمیں کیا حکم دیتے ہیں؟ آپ نے فرمایا میں تمہیں واضح دین پر چھوڑ کر جارہا ہوں جس کی رات بھی دن کی طرح ہے ہلاک ہونے والے کے علاوہ کوئی اس سے نہیں ہٹے گا تم میں سے جو زندہ رہے گا عنقریب وہ بہت سے اختلاف دیکھے گا تم نے جو میرا اور میرے صحابہ کا طریقہ جانا اس کو لازم پکڑنا اور اسے داڑھوں کے ساتھ مضبوطی سے تھامنا اور امیر کی اطاعت کرتے رہنا اگرچہ وہ حبشی ہی کیوں نہ ہو۔ مومن نکیل والے اونٹ کی طرح ہوتا ہے اسے جہاں بھی لے جایا جائے وہ چلا جاتا ہے۔“ [ رواہ ابن ماجۃ: کتاب المقدمۃ،] تفسیربالقرآن صراط مستقیم اور اس کے سنگ میل : ١۔ اللہ تعالیٰ ہی ایمان والوں کو صراط مستقیم کی ہدایت دیتا ہے۔ (الحج : ٥٤) ٢۔ اللہ جسے چاہتا ہے صراط مستقیم کی ہدایت دیتا ہے۔ (البقرۃ: ٢١٣) ٣۔ اللہ تعالیٰ میرا اور تمہارا رب ہے۔ تم اسی کی عبادت کرو یہی صراط مستقیم ہے۔ (آل عمران : ٥١، مریم : ٣٦) ٤۔ اللہ تعالیٰ نے انبیاء کی جماعت کو چن لیا اور ان کو صراط مستقیم کی ہدایت دی۔ (الانعام : ٨٧) ٥۔ اللہ کی عبادت کرو یہی سیدھا راستہ ہے۔ (یٰس : ٦١) ٦۔ صراط مستقیم کی ہی پیروی کرو۔ (الانعام : ١٥٣) الشورى
0 سورۃ الزّخرف کا تعارف یہ سورت مکہ مکرمہ میں نازل ہوئی اس کی نواسی آیات اور سات رکوع ہیں۔ ربط سورۃ: سورۃ حٰمٓ السجدۃ اور الشوریٰ کی طرح اس سورۃ کی ابتداء بھی قرآن مجید کے تعارف سے ہوتی ہے۔ ارشاد ہوا کہ قرآن بڑی واضح کتاب ہے اور اس کو ہم نے عربی زبان میں نازل کیا ہے اور یہ ہمارے پاس لوح محفوظ میں بھی درج ہے اس کا مرکزی مضمون اللہ کی توحید ہے اور اس میں خاص طور پر اس بات کی نفی کی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ملائکہ یا کسی اور کو اپنی بیٹیاں نہیں بنایا۔ اس وضاحت کے ساتھ مشرکین کو انسانی فطرت کے حوالے سے یہ بات سمجھائی گئی ہے کہ تم اپنے لیے بیٹیوں کی بجائے بیٹے پسند کرتے ہو اور اللہ تعالیٰ کے لیے ملائکہ کو بیٹیاں قرار دیتے ہو۔ سوچو اور غور کرو کہ یہ بات حقیقی علم اور فطرت کے خلاف کس قدر ہے۔ اس کے بعد حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی قوم کا مشرکانہ عقیدہ بیان کرنے کے بعد حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی نصیحت کا ذکر فرمایا کہ انہوں نے اپنی اولاد کو شرک سے بچنے کی تلقین کی تھی۔ پھر کفار کے اس مطالبے کا ذکر کیا ہے کہ ان کا کہنا تھا کہ قرآن مجید مکہ یا طائف کے کسی بڑے آدمی پر نازل کیوں نہیں کیا گیا۔ اس کے جواب میں یہ ارشاد فرمایا کیا آپ کے رب کی رحمت تقسیم کرنے کا انہیں اختیار ہے یا اللہ تعالیٰ اپنی رحمت تقسیم کرنے پر اختیار رکھتا ہے اس کے ساتھ ہی یہ وضاحت فرمائی کہ لوگ دنیا کے مال کو عزت کا باعث سمجھتے ہیں۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس کی پر کاہ کے برابر بھی حیثیت نہیں۔ دنیا کی دولت بےدین شخص کے لیے صرف آزمائش نہیں بلکہ سزا بھی ہوا کرتی ہے کیونکہ اس سے گمراہی میں اضافہ ہوتا ہے۔ دنیادار شخص اللہ کی یاد سے غافل ہوجاتا ہے جس وجہ سے اس پر شیطان مسلط کردیا جاتا ہے۔ ایسے شخص کو قیامت کے دن پتہ چل جائے گا کہ شیطان اس کا کس قدر بدترین ساتھی تھا۔ اس کے بعد حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور فرعون کی کشمکش کا ذکر کیا گیا ہے اور یہ بھی بتلایا کہ جب فرعون اپنی حد سے آگے بڑھاتو اللہ تعالیٰ نے اسے عبرت کا نشان بنا دیا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد عیسیٰ ( علیہ السلام) کا ذکر ہوا اور ان کی دعوت کی وضاحت کی گئی جس طرح نبی آخر الزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) توحید کی دعوت دے رہے ہیں یہی دعوت عیسیٰ ( علیہ السلام) بھی دیا کرتے تھے۔ توحید ہی صراط مستقیم کی بنیاد اور اساس ہے۔ سورت کے آخر میں ارشاد فرمایا کہ قیامت کے دن متقین کو حکم ہوگا کہ نہ آج تمہیں خوف کھانا چاہیے اور نہ آئندہ تمہیں کسی قسم کا غم ہوگا۔ متقین کو ان کی نیک بیویوں کے ساتھ جنت میں داخل کیا جائے گا۔ اور مجرمین ہمیشہ کے عذاب میں مبتلا رہیں گے۔ ان کا سب سے بڑا گناہ شرک ہوگا اور یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے بارے میں جھوٹ بولتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے ملائکہ یا کچھ لوگوں کو اپنی اولاد بنا لیا ہے حالانکہ اللہ تعالیٰ ان باتوں سے مبّرا اور بے نیاز ہے۔ الزخرف
1 الزخرف
2 فہم القرآن الشوریٰ کا اختتام اس ارشاد پر ہوا کہ ہم نے آپ پر وحی نازل فرمائی۔ اس سے پہلے آپ نہیں جانتے تھے کہ قرآن اور ایمان کیا ہے۔ الزّخرف کی ابتدا اس بات سے ہو رہی ہے کہ وحی کی صورت میں جوکتاب آپ پر نازل کی گئی ہے اس کا نام قرآن ہے جو عربی میں نازل کیا گیا ہے تاکہ لوگ اسے سمجھنے کی کوشش کریں۔ حٰمٓ حروف مقطعات میں سے تین حروف ہیں۔ اب تک یہ چار سورتوں کی ابتدا میں آچکے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کا مختلف الفاظ میں تعارف کروایا ہے۔ یہاں قرآن مجید کی قسم اٹھا کر ارشار فرمایا کہ یہ کتاب مبین ہے۔ ہم نے اس کو عربی زبان میں نازل کیا تاکہ تم عقل و فکرسے کام لو۔ یہ ہمارے ہاں لوح محفوظ میں ثبت ہے۔ یہ بڑی ہی عالی مرتبت اور پُر حکمت کتاب ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کی قسم اٹھا کر اس کی عظمت و حرمت میں مزید اضافہ فرمادیا ہے۔ یادرہے کہ انسان کے لیے اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کی قسم اٹھانا جائز نہیں لیکن اللہ تعالیٰ کو حق حاصل ہے کہ اپنی مخلوق میں سے جس کی چاہے قسم اٹھائے۔ قسم اٹھانے سے مقصود لوگوں کے یقین کو مضبوط بنانا اور اس چیزکی اہمیت کو اجاگر کرنا ہے۔ قرآن مجید اللہ تعالیٰ کا کلام ہے۔ کلام کرنا اللہ تعالیٰ کی صفات میں شامل ہے۔ اس لیے اس موقع پر قرآن مجید کی پانچ صفات کا ذکر کیا ہے۔1 قرآن مجید کتاب مبین ہے۔ مبین کا معنٰی ایسی کتاب جس کے ارشادات واضح اور اس کے احکام غیر مبہم ہیں۔2 قرآن مجید عربی زبان میں نازل کیا گیا ہے۔ جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عربی تھے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پہلے مخاطب بھی عربی بولنے والے تھے۔ عربی زبان نزول قرآن کے وقت سے لے کر اب تک اور قیامت تک ہر اعتبار سے جامع ترین زبان ہے اور رہے گی۔ کیونکہ قرآن مجید عربی میں نازل ہوا ہے۔ اس لیے اہل مکہ کو سمجھایا گیا کہ تم اس کی مخالفت کرنے کی بجائے اس پر غور کرو کہ کیا کوئی انسان اس جیسا کلام کرسکتا ہے اور جو بعید ترین ماضی کے واقعات اور قوموں کے احوال اس میں بیان کیے گئے ہیں اس کا ریکارڈ کہیں موجود ہے ؟ پھر سوچو کہ قرآن مجید جو پیشین گوئیاں کررہا ہے اب تک کوئی اس میں ایک پیش گوئی غلط ثابت ہوئی ہے ؟ اس کے ساتھ ہی اس بات پر غور کرو کہ جنّت اور دوزخ کے بارے میں جو حقائق بیان کیے گئے ہیں کیا وہ اس سے پہلے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے آپ کے سامنے کبھی بیان کے تھے ؟۔ ظاہر ہے کہ اس سے پہلے کوئی بات بھی محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کبھی نہیں کہی تھی۔ کیا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے پہلے چالیس سال کی زندگی میں کبھی جھوٹ بولا ہے ؟ تم اقرار کرتے ہو کہ حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تم میں الصادق اور الامین ہیں۔ جب یہ مبنی علیٰ الحق حقائق اور دلائل ہیں تو پھر تمہیں ہر صورت عقل سے کام لینا چاہیے۔ اس کتاب کو اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا ہے اور یہ اس کے ہاں لوح محفوظ میں محفوظ ہے۔ یہ ہر اعتبار سے علوِّ مرتبت کی حامل اور پُر حکمت کتاب ہے۔ یہ اپنے اوصاف حمیدہ کے اعتبار سے لاریب اور جامع کتاب ہے۔” اُمِّ الْکِتَابَ“ کا لفظ استعمال فرما کر یہ بھی ارشارہ کردیا ہے کہ پہلی آسمانی کتابوں کی تعلیمات کی یہ کتاب ترجمان اور محافظ ہے۔” جَعَلْنَاہٗ“ کا معنٰی اہل زبان نے ” اَنْزَلْنَا“ کے ساتھ کیا ہے۔ ” جَعَلَ“ کا لفظ قرآن مجید نے پیدا کرنے، بنانے اور حکم لگانے کے معنٰی میں بھی استعمال کیا ہے۔ مسائل ١۔ ح م حروف مقطعات میں شامل ہیں۔ ٢۔ قرآن مجید ہر حوالے سے کتاب مبین ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کو عربی زبان میں نازل فرمایا ہے۔ ٤۔ قرآن مجید لوح محفوظ میں لکھا ہوا ہے۔ ٥۔ عربی زبان جاننے والوں کو بالخصوص قرآن مجید پر غور وخوض کرنا چاہیے۔ ٦۔ قرآن مجید احکام اور ارشادات کے حوالے سے امّ الکتاب ہے۔ ٧۔ قرآن مجید ہر اعتبار سے عالی مرتبت اور پُر حکمت کتاب ہے۔ تفسیربالقرآن قرآن مجید کے اوصاف حمید کی ایک جھلک : ١۔ قرآن مجید لاریب کتاب ہے۔ (البقرۃ: ٢) ٢۔ قرآن مجید رحمت اور ہدایت کی کتاب ہے۔ (لقمان : ٣) ٣۔ قرآن مجیدلوگوں کے لیے ہدایت و رہنمائی کی کتاب ہے۔ (البقرۃ: ١٨٥) ٤۔ قرآن مجید بابرکت اور پہلی کتابوں کی تصدیق کرنے والا ہے۔ (الانعام : ٩٢) الزخرف
3 الزخرف
4 الزخرف
5 فہم القرآن ربط کلام : اگر لوگوں کا ایک طبقہ قرآن مجید کو سمجھنے کے لیے تیار نہیں تو کیا ان کی وجہ سے اللہ تعالیٰ اپنے نیک بندوں کی راہنمائی نہ کرے ؟ ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا وہ مہربان ہے اور اس کی مہربانی کا تقاضا ہے کہ وہ لوگوں کی راہنمائی کرے جس کے لیے اس نے قرآن مجید نازل کیا ہے۔ قرآن مجید پہلی کتب آسمانی کا ترجمان، ان کے مضامین کا محافظ، پُر حکمت، عالی مرتبت اور عربی زبان میں ہے۔ اس کے باوجود اہل مکہ اس کی مخالفت میں اٹھ کھڑے ہوئے اور انہوں نے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا کہ ہر صورت قرآن مجید کی آوازکو دبا دیا جائے۔ اسی بنیاد پر وہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے جانی دشمن ہوچکے تھے۔ وہ کسی طرح بھی گوارہ نہیں کرتے تھے کہ ان کی قوم کے سامنے قرآن مجید کی دعوت پیش کی جائے۔ اس پر انہیں سمجھایا گیا ہے کہ کیا تمہاری ہٹ دھرمی اور مخالفت کی وجہ سے ہم قرآن کو حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پرنازل کرنا اور لوگوں کی راہنمائی کرنا چھوڑ دیں ؟ ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ تم سے پہلے بھی ہم نے بہت سے رسول مبعوث کیے۔ لوگوں کے پاس کوئی نبی نہیں آیا مگر وہ اس کا مذاق اڑاتے رہے۔ جس کی پاداش میں ہم نے ان کو ہلاک کردیا۔ حالانکہ وسائل واسباب، قوت وسطوت کے اعتبار سے وہ تم سے بڑھ کرتھے۔ اللہ تعالیٰ کا اصول ہے کہ وہ چند باغیوں کی خاطر اپنے بندوں پر کرم فرمانا ترک نہیں کرتا۔ وہ ” اَلرَّحْمٰنُ‘ اور ” اَلْحَکِیْمُ“ ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ لوگ سرکشی چھوڑ کر اس کی غلامی میں زندگی بسر کریں تاکہ انہیں دنیا اور آخرت میں اپنی رحمت سے سرفراز فرمائے۔ وہ حکیم ہے۔ حکیم کا کام ہے کہ وہ پر حکمت طریقہ کے ساتھ بگاڑ کا سدھار کرے۔ حکیم مریض کی خیر خواہی کی خاطر اس کی غلطی اور غفلت سے درگزر کرتے ہوئے اس کا علاج جاری رکھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ حکیم اور سب کچھ جانتا ہے۔ اس لیے اس نے ایک عرصہ تک مکہ میں نزول قرآن کا سلسلہ جاری رکھا تاکہ چند سرداروں کو چھوڑ کرباقی لوگ اس سے ہدایت پائیں۔ چنانچہ ایساہی ہوا کہ کچھ لوگ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ہجرت سے پہلے اور باقی فتح مکہ کے موقع پر قرآن مجید کی نصیحت سے سرفراز ہوئے اور دنیا و آخرت میں کامیاب ٹھہرے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں ” رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہٗ وَرَضُوْعَنْہٗ“ کے عظیم ترین اعزاز سے سرفراز فرمایا۔ لغت میں ذکر کے معنٰی یاد کرنا، کسی کی بزرگی بیان کرنا، یاد رکھنا، بات سمجھنا، سمجھانا، نصیحت کرنا اور اس کی حفاظت کرنا ہے۔ مسائل ١۔ قرآن مجید اللہ تعالیٰ کی طرف سے نصیحت ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ چند ظالموں کی وجہ سے اپنے بندوں پر رحم کرنا نہیں چھوڑتا۔ ٣۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پہلے جتنے انبیائے کرام (علیہ السلام) مبعوث کیے گئے ان سب کے ساتھ ان کی قوم نے مذاق کیا۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ نے ظالم قوموں کو ہلاک کردیا جو مکہ والوں سے قوت و سطوت میں کہیں زیادہ تھے۔ تفسیربالقرآن اقوام کا اپنے انبیاء ( علیہ السلام) کے ساتھ سلوک : ١۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کی قوم کے لوگ ان کے پاس سے گذرتے تھے تو ان سے مذاق کرتے۔ (ہود : ٣٨) ٢۔ یہ مذاق کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان سے مذاق کرے گا اور ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔ (التوبۃ: ٧٩) ٣۔ وہ تعجب کرتے اور مذاق کرتے ہیں۔ (الصٰفٰت : ١٢) ٤۔ جب وہ ہماری نشانی دیکھتے ہیں تو مذاق کرتے ہیں۔ (الصٰفٰت : ١٤) ٥۔ جب بھی ان کے پاس رسول آیا تو انہوں نے اس سے مذاق کیا۔ (الحجر : ١١) ٦۔ ان کے پاس کوئی نبی نہیں آیا مگر وہ اس کے ساتھ استہزاء کرتے تھے۔ (الزخرف : ٧) ٧۔ لوگوں پر افسوس ہے کہ ان کے پاس جب کبھی رسول آئے تو انہوں نے ان کے ساتھ استہزاء کیا۔ (یٰس : ٣٠) ٨۔ جب بھی ان کے پاس آپ سے پہلے رسول آئے انہوں نے انہیں جادو گر اور مجنوں قرار دیا۔ (الذاریات : ٥٢) ٩۔ کفار کہتے تھے کہ تم ہمارے جیسے بشر ہو تم چاہتے ہو کہ ہم اپنے آباء واجداد کے معبودوں کو چھوڑ دیں۔ (ابراہیم : ١٠) الزخرف
6 الزخرف
7 الزخرف
8 الزخرف
9 فہم القرآن ربط کلام : انبیائے کرام (علیہ السلام) کے ساتھ ان کی اقوام کا بنیادی اختلاف اللہ کی توحید تھا اور یہی اختلاف اہل مکہ کو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ تھا۔ حالانکہ وہ مانتے تھے کہ کائنات کا خالق اور مالک صرف اللہ تعالیٰ ہے۔ اہل مکہ کا عقیدہ تھا کہ زمین و آسمانوں کو صرف اللہ تعالیٰ نے ہی پیدا کیا ہے۔ مکہ والے یہ بھی اقرار کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ جو چاہے کرسکتا ہے اور وہ کائنات کے ذرہ ذرہ کو جانتا اور اس کا خالق اور مالک ہے۔ جب بھی ان سے یہ سوال کیا جاتا تو وہ ان باتوں کا اقرار اور اظہار کرتے تھے۔ اس لیے انہیں فرمایا گیا ہے کہ جس اللہ نے زمین و آسمانوں کو پیدا کیا ہے اسی نے تمہارے لیے زمین میں راستے بنائے ہیں۔ عربی زبان میں مھد اس جھولے کو کہا جاتا ہے جس میں بچے کو سلایا جاتا ہے۔ دوسرے مقام پر زمین کو فرش قرار دیا ہے مگر یہاں اس کے لیے گہوارے کا لفظ استعمال فرمایا ہے یعنی جس طرح ایک بچہ پنگھوڑے میں آرام سے لیٹا ہوتا ہے، ایسے ہی تمہارے لیے اس عظیم الشان کُرّے کو پرسکون ٹھکانہ بنا دیا جو فضا میں معلق ہے، جو ایک ہزار میل فی گھنٹہ کی رفتار سے اپنے محور پر گھوم رہا ہے۔ جو ٦٦٦٠٠ میل فی گھنٹہ کی رفتار سے رواں دواں ہے جس کے پیٹ میں وہ آگ بھری ہے کہ پتھروں کو پگھلا دیتی ہے اور آتش فشانوں کی شکل میں لاوا اگل کر کبھی کبھی تمہیں بھی اپنی شان دکھا دیتی ہے۔ مگر اسکے باوجود تمہارے خالق نے اسے اتنا پرسکون بنا دیا ہے کہ تم آرام سے اس پر سوتے ہو اور تمہیں ذرا جھٹکا تک نہیں لگتا۔ تم اس پر رہتے ہو اور تمہیں یہ محسوس تک نہیں ہوتا کہ یہ کُرّہ مُعلّق ہے اور تم اس پر سر کے بل لٹکے ہوئے ہو۔ تم اطمینان سے اس پر چلتے پھرتے ہو اور تمہیں یہ خیال تک نہیں آتا کہ تم بندوق کی گولی سے بھی زیادہ تیز رفتار گاڑی پر سوار ہو۔ بے تکلف اسے کھودتے ہو، اس کا سینہ چیرتے ہو طرح طرح سے اس کے پیٹ سے اپنا رزق اس سے وصول کرتے ہو، حالانکہ اس کی ایک معمولی سے جھرجھری کبھی زلزلے کی شکل میں آکر تمہیں خبردے دیتی ہے کہ یہ کس بلا کا خوفناک دیو ہے جسے اللہ نے تمہارے لیے مسخر کر رکھا ہے۔ (تفہیم القرآن : جلد ٤) جہاں تک زمین میں راستوں کا تعلق ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ عوام اور حکومتوں نے راستے بنائے تاکہ آمدروفت اور نقل وحمل آسان سے آسان تر ہوجائے۔ لیکن اگر راستوں کی تاریخ پر غور کیا جائے تو ہر علاقہ میں قدرت کی طرف سے ایسے راستے اور نشانات ضرور پائے جاتے ہیں جن کی مدد سے سڑکیں اور نئے راستے بنائے جاتے ہیں۔ پہاڑی علاقوں میں یہ حقیقت بالکل واضح ہے کہ اللہ تعالیٰ نے دونوں پہاڑوں کی ساخت اس طرح بنا دی ہے کہ ان کے درمیان راستے بنا دئیے ہیں۔ جن کو ہزاروں سالوں سے انسان راستوں کے طور پر استعمال کررہے ہیں اور کرتے رہیں گے۔ اگر پوری زمین چٹیل میدان ہوتی تو ابتدائی طور پر انسان کو راستے متعیّن کرنے میں مشکل ہوتی۔ اب بھی صحراؤں اور ریگستانوں میں جو راستے بنائے جاتے ہیں وہ بھی کسی نہ کسی نشان کو سامنے رکھ کر بنائے جاتے ہیں۔ جہاں زمین کے نشان نظروں سے دور ہوتے ہیں وہاں ستاروں کی مدد سے راستے متعین کیے جاتے ہیں۔ آج ایسے آلات ایجاد ہوچکے ہیں جن سے دن کے وقت بھی ستارے نظر آتے ہیں اور فاصلے قریب دکھائی دیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو یہ سہولت اس لیے عطا فرمائی ہے تاکہ اسے ایک علاقہ سے دوسرے علاقے تک پہنچنے میں آسانی ہو۔ اس کے لیے ہدایت کا لفظ استعمال کیا گیا ہے جس میں یہ اشارہ موجود ہے کہ جس طرح منزل مقصود تک پہنچنے کے لیے تم صحیح راستوں کا انتخاب کرتے ہو اسی طرح ہی جنّت میں داخلے کے لیے تمہیں اللہ تعالیٰ کے متعین کردہ راستوں کو اختیار کرنا چاہیے۔ جس کا بنیادی سنگ میل عقیدہ توحید اور اس کے تقاضے پورے کرنا ہے۔ مسائل ١۔ اہل مکہ یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ زمین و آسمانوں کو اللہ تعالیٰ نے ہی پیدا کیا ہے۔ ٢۔ اہل مکہ کا یہ بھی عقیدہ تھا کہ اللہ تعالیٰ ہر کسی پر غالب اور سب کچھ جانتا ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ نے زمین پر بسنے والوں کی سہولت کے لیے زمین کو بچھونا بنا دیا ہے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو ایک دوسرے کے ساتھ رابطہ رکھنے اور نقل و حمل کے لیے زمین میں راستے بنادیئے ہیں۔ تفسیر بالقرآن زمین کے بارے میں قرآن مجید کے ارشادات : ١۔ اللہ تعالیٰ نے بغیر نمونے کے زمین و آسمان بنائے۔ (البقرۃ : ١١٧) ٣۔ اس نے آسمان و زمین کو برابر کیا۔ (ا لبقرۃ: ٢٩) ٤۔ آسمان کو چھت اور زمین کو فرش بنایا۔ (البقرۃ : ٢٢) (الاعراف : ٥٤) ٥ (البقرۃ: ٢٩) (النمل : ٦١) (النمل : ٠ ٦) (النمل : ٦٠) (یٰس : ٣٤) (الروم : ٨) (الزلزال : ١) الزخرف
10 الزخرف
11 فہم القرآن ربط کلام : جس ذات کبریا نے زمین و آسمانوں کو پیدا کیا اور زمین کو بچھونا بنایا اور اس میں راستے بنائے وہی آسمان سے بارش نازل کرتا ہے۔ قرآن مجید نے درجنوں مقامات پر بارش کو اللہ تعالیٰ کی قد رت کی نشانی کے طور پر پیش فرمایا ہے۔ بارش کے فوائد بتلانے کے ساتھ یہ استدلال بھی لوگوں کے سامنے رکھا کہ بارش پر غور کرو کہ اللہ تعالیٰ کس طرح اسے ایک خاص مقدار اور انداز میں نازل کرتا ہے۔ سورۃ الشوریٰ کی تفسیر میں یہ بات عرض کی ہے کہ کبھی نہیں ہوا کہ بادل پورے کا پورا پانی پرنالے کی طرح ایک ہی جگہ انڈیل دے۔ اللہ تعالیٰ ہواؤں کے ذریعے بادلوں کو نہ صرف ایک جگہ سے دوسری جگہ چلاتا ہے بلکہ پہاڑوں کی مانند دکھائی دینے والے بادلوں کو ہوائیں زمین پر گرنے نہیں دیتیں۔ بادلوں سے اس طرح پانی برستا ہے جس طرح آبشاریں پانی برساتی ہیں۔ اس طرح ہی اللہ تعالیٰ کے حکم کے ساتھ ہر علاقے میں ایک خاص کوٹہ کے مطابق پانی برسایا جاتا ہے۔ لوگوں کے پانی حاصل کرنے کاسب سے بڑا ذریعہ بارش ہے۔ اسی کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ ویران زمین کو ہریالی کا لباس پہناتا ہے جس زمین پر ویرانی کی وجہ سے آنکھ نہیں ٹکتی تھی۔ بارش کے بعد وہی زمین اس طرح سرسبز و شاداب ہوجاتی ہے کہ آنکھ اسے بار بار دیکھ کر ٹھنڈک محسوس کرتی ہے۔ آدمی بارش پر غور کرے تو اسے فوراً اس بات پر یقین آجائے گا کہ جس طرح اللہ تعالیٰ مردہ زمین سے سبز و شاداب کھیتیاں پیدا کرتا ہے اسی طرح ہی قیامت کے دن لوگوں کو قبروں سے اٹھالے گا۔ (عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَا بَیْنَ النَّفْخَتَیْنِ اَرْبَعُوْنَ قَالُوْ یَا اَبَا ھُرَیْرۃَ اَرْبَعُوْنَ یَوْمًا قَالَ اَبَیْتُ قَالُوْا اَرْبَعُوْنَ شَھْرًا قَالَ اَبَیْتُ قَالُوْا اَرْبَعُوْنَ سَنَۃً قَالَ اَبَیْتُ ثُمَّ یُنْزِلُ اللّٰہُ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَیُنْبَتُوْنَ کَمَآ یَنْبُتُ الْبَقْلُ قَالَ وَلَیْسَ مِنَ الْاِنْسَانِ شَیْءٌ لَا یَبْلٰی اِلَّاعَظْمًا وَاحِدًا وَّھُوَ عَجْبُ الذَّنَبِ وَمِنْہُ یُرَکَّبُ الْخَلْقُ یَوْمَ الْقِیَا مَۃِ)[ متفق علیہ] وَفِیْ رِوَایَۃٍ لِمُسْلِمِ قَالَ کُلُّ اِبْنِ اٰدَمَ یَاکُلُہٗ التُّرَاب الاَّ عَجْبَ الذَّنَبِ مِنْہُ خُلِقَ وَفِیْہِ یُرَکَّبُ ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا دو صور پھونکنے کا عرصہ چالیس ہوگا۔ حضرت ابوہریرہ (رض) سے ان کے شاگردوں نے پوچھا چالیس دن ؟ حضرت ابوہریرہ (رض) نے فرمایا کہ میں یہ نہیں کہتا انہوں نے استفسار کیا چالیس ماہ ہیں؟ حضرت ابوہریرہ (رض) نے جواباً فرمایا میں یہ نہیں کہتا انہوں نے پھر پوچھا چالیس سال ہیں؟ ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں میں یہ بھی نہیں کہتا۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ بارش نازل فرمائے گا۔ لوگ یوں اگیں گے جس طرح انگوری اگتی ہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا، انسان کی دمچی کے علاوہ ہر چیز بو سیدہ ہوجائے گی۔ قیامت کے دن اسی سے تمام اعضاء کو جوڑا جائے گا۔ (بخاری و مسلم) اور مسلم کی ایک روایت میں ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا انسان کے تمام اعضاء کو مٹی کھا جائے گی۔ لیکن دمچی کو نہیں کھائے گی انسان اسی سے پیدا کیا جائے گا اور جوڑا جائے گا۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ ایک خاص مقدار اور انداز میں آسمان سے بارش نازل کرتا ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ ہی بارش کے ذریعے مردہ زمین کو ہریالی بخشتا ہے۔ ٣۔ جس طرح ایک مدت کے بعد بیج زمین سے اگتا ہے اسی طرح ہی قیامت کے دن لوگوں کو زمین سے زندہ کرکے نکالا جائے گا۔ تفسیربالقرآن بارش اور زمین کے حوالے سے انسان کی پیدائش اور اس کی موت کا ثبوت : ١۔ دانے اور گٹھلی کو پھاڑنا، زندہ سے مردہ اور مردہ سے زندہ کرنا اللہ ہی کا کام ہے تم کہاں بہک گئے ہو؟ (الانعام : ٩٥) ٢۔ اللہ سے بخشش طلب کرو وہ تمہیں معاف کردے گا اور بارش نازل فرمائے گا اور تمہارے مال و اولاد میں اضافہ فرمائے گا۔ (نوح : ١٠۔ ١٢) ٣۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو مٹی سے پیدا کیا۔ (الروم : ٢٠) ٤۔ ہم نے انسان کو مٹی کے جوہر سے پیدا کیا۔ (المومنون : ١٢) ٥۔ حضرت آدم بد بودار مٹی سے پیدا کیے گئے۔ (الحجر : ٢٦) ٦۔ اللہ نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا، پھر نطفہ سے، پھر تمہارے جوڑے جوڑے بنائے۔ (فاطر : ١١) ٧۔ کیا تو اس ذات کا کفر کرتا ہے جس نے انسان کو مٹی سے پیدا کیا پھر نطفہ سے تجھے آدمی بنایا۔ (الکہف : ٣٧) الزخرف
12 فہم القرآن ربط کلام : جو ذات حق قیامت کے دن مردوں کو زندہ کرے گی اسی نے ہی ساری مخلوق کے جوڑے پیدا فرمائے ہیں۔ جوڑوں کا ذکر فرما کر اشارہ دیا کہ جس طرح ہر چیز کے جوڑے ہیں اسی طرح زندگی کے بعد موت اور موت کے بعد زندگی ہے۔ یعنی دنیا کے بعد آخرت ہے۔ قیامت کے دن زندہ ہونے کا ایک اور ثبوت یہ ہے کہ جس ذات نے مردوں کو زندہ کرنا ہے اسی ذات نے ہر چیز کا جوڑا جوڑا پیدا کیا ہے اور اسی نے انسانوں کے لیے کشتیاں اور چوپائے بنائے جن پر انسان سواری کرتے ہیں۔ اس کا حکم ہے کہ جب تم سواریوں پر سوار ہو تو اپنے رب کے اس انعام کو یاد کرو کہ اسی نے چوپاؤں اور کشتیوں کو تمہارے تابع کیا ہے۔ جب تم ان پر اچھی طرح بیٹھ جاؤ تو یہ دعا پڑھو! وہ ذات ہر قسم کے شرک اور کمزوریوں سے پاک ہے جس نے ہمارے لیے انہیں مسخر کردیا ہے ورنہ انہیں تابع کرنا ہمارے بس کی بات نہ تھی۔ اور یقیناً ہم اپنے رب کی طرف ہی منتقل ہونے والے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے جب سے انسان کو تخلیق فرمایا ہے اس وقت سے ہی اس کی آمدروفت اور باربرداری کے لیے چوپاؤں کو پیدا کیا اور پھر انسان کو کشتی بنانے کا شعور بخشا۔ ابتداء آفرینش سے لے کر اب تک ذرائع مواصلات میں سب سے آسان ذریعہ چوپائے ہیں۔ جن پر نہ صرف انسان سواری کرتا ہے بلکہ ان کے گوشت سے دیگر فوائد بھی حاصل کررہا ہے۔ چوپاؤں پر غور فرمائیں ! کہ اونٹ اپنی قدو قامت اور جسامت کے اعتبار سے انسان سے کتنا بڑا ہے مگر ایک چھوٹا سا بچہ اسے نکیل ڈالے جہاں چاہتا ہے لیے پھرتا ہے۔ سینکڑوں اونٹوں پر مشتمل ریوڑ کو ایک دو آدمی جہاں چاہتے ہیں ہانک کرلے جاتے ہیں۔ ایسا اس لیے ہے کہ اللہ تعالیٰ نے چوپاؤں کے ذہنوں میں انسان کی برتری اور تابعداری پیدا کردی ہے۔ ہاتھی کو دیکھیں ! کتنا بڑا جانور، کس قدر لمبی سونڈ ہے مگر ایک فیل بان بے شک وہ بچہ ہی کیوں نہ ہو ہاتھی کو ادھراُدھر لیے پھرتا ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ انہیں انسان کے تابع نہ کرتا تو دس آدمی مل کر بھی ہاتھی پر قابو نہ پاسکتے تھے۔ پھر غور کیجیے ! کہ سائیکل سے لے کر ہوائی جہاز کی تکنیک انسان کے شعور میں کس نے پیدا کی ؟ نہ معلوم ! قیامت تک اللہ تعالیٰ انسان کے ذریعے کون کونسی ایجادات معرض وجود میں لائے گا۔ انسان کو چاہیے کہ جونہی سواری پر براجمان ہو تو وہ سنت نبوی کے مطابق دعائیں پڑھے۔ جس میں رب کا شکر بھی ہے اور اس کی طرف سے حفاظت کا بندوبست بھی۔ حضرت علی (رض) فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بسم اللہ کہہ کر رکاب میں پاؤں رکھا، پھر سوار ہونے کے بعد فرمایا ” اَلْحَمْدُ الِلّٰہِ، سُبْحَانَ الَّذِیْ سَخَّرَ لَنَا ھٰذَا وَمَا کُنَّا لَہٗ مُقْرِنِےْنَ وَاِنَّآ اِلٰی رَبِّنَا لَمُنْقَلِبُوْنَ پھر تین مرتبہ ” اَلْحَمْدُ الِلّٰہِ“ اور تین دفعہ ” اَللّٰہُ اَکْبَرُ“ کہا، پھر فرمایا ” سُبْحَانَکَ“ لَااِلٰہَ اِلَّا اَ نْتَ“ قَدْ ظَلَمْتُ نَفْسِیْ فَاغْفِرْلِیْ“ اس کے بعد آپ ہنس دئیے، میں نے پوچھا یا رسول اللہ آپ کس بات پر ہنسے ہیں؟ فرمایا، بندہ جب ” ربِّ اغْفِرْلِیْ“ کہتا ہے تو اللہ تعالیٰ کو یہ بات بہت اچھی لگتی ہے وہ فرماتا ہے کہ میرا یہ بندہ جانتا ہے کہ میرے سوا اسے کوئی بخشنے والا نہیں۔ (رواہ الترمذی : باب مَا یَقُولُ إِذَا رَکِبَ النَّاقَۃَ) مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کے جوڑے بنائے ہیں۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے کشتیاں اور چوپائے اس لیے بنائے تاکہ لوگ ان پر سوار ہوسکیں۔ ٣۔ سواری پر بیٹھ کر اپنے رب کو یاد کرنا چاہیے اور یہ دعا پڑھنی چاہیے۔ ٤۔ ہر کسی نے اپنے رب کے پاس جانا ہے۔ تفسیربالقرآن اللہ تعالیٰ ہر قسم کے نقائص اور کمزوریوں سے پاک ہے : ١۔ اللہ تعالیٰ مشرکوں کے شرک سے پاک اور برتر ہے۔ (النحل : ١) ٢۔ اللہ نے آسمان و زمین کو برحق پیدا کیا۔ اللہ تعالیٰ شریکوں سے بلند و بالا ہے۔ (النمل : ٣) ٣۔ اللہ غائب اور حاضر کو جاننے والا ہے اور وہ شریکوں کی شراکت سے بلند وبالا ہے۔ (المومنون : ٩٢) ٤۔ کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور بھی الٰہ ہے؟ اللہ تعالیٰ مشرکوں کے شرک سے بالا تر ہے۔ (النمل : ٦٣) الزخرف
13 الزخرف
14 الزخرف
15 فہم القرآن ربط کلام : ” اللہ“ کی توحید کا اقرار کرنے کے باوجود مشرک دوسروں کو اللہ تعالیٰ کا شریک بناتا ہے۔ یہ اس کی واضح طور پر ناشکری کی دلیل ہے۔ اس جاری خطاب میں اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے مشرکین کے بارے میں یہ ارشاد فرمایا کہ اگر ان سے پوچھا جائے کہ زمین و آسمانوں کو کس نے پیدا کیا ہے ؟ تو ان کا جواب ہوتا ہے اور ہوگا کہ زمین و آسمانوں کو صرف ایک ” اللہ“ نے پیدا کیا ہے۔ اس کے بعد اپنی آٹھ قدرتوں اور نعمتوں کا ذکر فرمایا جس سے تمام انسان مستفید ہوتے ہیں۔ مشرکین اللہ تعالیٰ کی خالقیّت کا اعتراف کرنے اور اس کی نعمتوں سے مستفید ہونے کے باوجود ” اللہ“ کے بندوں میں سے کچھ بندوں کو اس کا حصہ بناتے ہیں۔ جو مشرک کفر اور اس کی ناشکری کی واضح نشانی ہے۔ قوم نوح (علیہ السلام) نے پانچ فوت شدگان کو اللہ تعالیٰ کا جز بنایا۔ ابراہیم (علیہ السلام) کی قوم نے اپنے بادشاہ کو رب تسلیم کیا۔ فرعون نے اپنے آپ کو ” رب الاعلیٰ“ کے طور پر منوایا۔ یہودیوں نے عزیر (علیہ السلام) کو اللہ کا بیٹا قرار دیا۔ عسائیوں نے عیسیٰ ( علیہ السلام) اور ان کی والدہ مریم (علیہ السلام) کو رب کا جز بنایا۔ امت مسلمہ اس حد تک گراوٹ کا شکار ہوئی کہ ایک فرقہ پنچتن پاک کی محبت میں شرک کا ارتکاب کر رہا ہے۔ امت مسلمہ کی کثیر تعداد نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ” نور من نور اللہ“ کے طور پر متعارف کروایا اور یارسول اللہ کہہ کر آپ سے مدد مانگتے ہیں۔ کسی کو داتا گنج بخش کہا، کسی کو دستگیر کے لقب سے یاد کیا۔ کسی کو گنج بخش کے طور پر اور کسی کو امام بری، میری قسمت کردے ہری بھری کہہ کر پکارا جاتا ہے۔ کسی کو عزت کا مالک سمجھتے ہوئے اس طرح پکارا جاتا ہے کہ شہباز قلندرمیری پت رکھنا۔ کسی کو لجپال کہا جاتا ہے نہ معلوم مشرکین نے کس کس کو کیا کیا اختیارات سونپ رکھے ہیں۔ یہاں شرک کو پرلے درجے کی ناشکری قراردیا گیا ہے۔ شرک کرنے والا اس لیے ناشکرا ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کی عزت و عظمت کی خاطر اسے صرف اپنے سامنے جھکنے اور دردر کی ٹکروں سے بچنے کا حکم دیا۔ لیکن مشرک عقیدہ توحید پر راضی اور شکرگزارہونے کی بجائے دردر کی ٹھوکروں کو اختیار کرتا ہے۔ اس سے بڑھ کر انسان کی ناشکری کیا ہوسکتی ہے ؟ اسی حالت کے بارے میں ارشاد فرمایا۔ ” یکسو ہو کر اللہ کے بندے بن جاؤ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بناؤ اور جو کوئی اللہ کے ساتھ شریک بنائے گا گویا وہ آسمان سے گر پڑا۔ اسے پرندے اچک لے جائیں گے یا ہوا اس کو ایسی جگہ لے جا کر پھینک دے گی جہاں اس کے چیتھڑے اڑ جائیں گے۔“ [ الحج : ٣١] الزخرف
16 فہم القرآن ربط کلام : ” اللہ“ کے بندوں میں کسی کو اس کا جز بنانے کا ثبوت۔ اہل مکہ نے خود ساختہ تصورات کی بنیاد پر کچھ شخصیات کو اللہ تعالیٰ کی ذات کا جز اور کچھ کو اس کی صفات کا مظہر بنا رکھا تھا۔ جن شخصیات کو اللہ تعالیٰ کا جز قرار دیتے تھے ان میں ملائکہ بھی شامل تھے۔ ملائکہ کے بارے میں ان کا عقیدہ تھا کہ یہ اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں ہیں۔ مشرکین کی مردہ فطرت کو بیدار کرنے کے لیے ان کی اپنی نفسانی خواہش پیش کر کے سوال کیا گیا ہے کہ کیا اللہ تعالیٰ نے اپنے لیے بیٹیاں پسند کی ہیں اور تمہارے لیے بیٹے پسند کرتا ہے؟ حالانکہ تمہاری حالت یہ ہے کہ جب تم میں کسی کو بیٹی کی پیدائش کی خوشخبری دی جاتی ہے تو اس کا چہرہ کالاہوجاتا اور وہ غم سے بھر جاتا ہے۔ کیا جو زیور میں پرورش پائے اور کسی بحث کے دوران اپنا مؤقف کھول کر بیان نہ کرسکے اسے ” الرحمن“ کے لیے پسند کرتے ہو اور اپنے لیے اسے عار سمجھتے ہو۔ غور کرو کہ یہ کیسی سوچ اور فیصلہ ہے ؟ جس بنا پر تم نے ملائکہ کو ” الرحمن“ کی بیٹیاں قرار دے رکھا ہے حالانکہ ملائکہ اس کے غلام ہیں۔ کیا یہ بات کہنے والے اس وقت موجود تھے ؟ کہ جب اللہ تعالیٰ نے ملائکہ کو اپنی بیٹیاں قرار دیا تھا کہ ان کی گواہی لکھ لی جائے۔ ایسی بات ہرگز نہیں ہوئی لہٰذا اس ہرزہ سرائی اور یہ عقیدہ رکھنے والوں کو قیامت کے دن پوچھا جائے گا۔ ملائکہ کو اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں قرار دینے والوں سے اللہ تعالیٰ نے پہلے تو بیٹیوں کی ولادت کے وقت جو ان کی حالت ہوتی ہے اس کا ذکر کیا ہے اور اس کے بعد ان سے دوسوال کیے ہیں۔ اولاد کی ضرورت انسان کو تین وجوہات کی بنا پر ہوتی ہے۔ 1 نسل کا تسلسل قائم رکھنا۔2 فطری جذبہ اور محبت کے تحت اولاد کی خواہش کرنا۔3 اولاد اپنے ماں باپ کا سہارا ہوتی ہے اس لیے ہر ماں باپ اولاد کا طلبگار ہوتا ہے لیکن والدین بیٹی کی بجائے بیٹے پسند کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ تینوں قسم کے جذبات سے مبرّا ہے لہٰذا اسے اولاد کی ضرورت نہیں۔ جہاں تک فرشتوں کا معاملہ ہے وہ اس کی بیٹیاں نہیں بلکہ وہ اس کے عاجز اور تابع فرمان غلام ہیں جو اس کے حکم کے مطابق اس کی طرف سے تفویض کردہ کام سرانجام دیتے ہیں ان کی کیا مجال کہ وہ بال برابر بھی نافرمانی کر پائیں۔ 2۔ انسان اپنی فطرت اور ضرورت کے تحت بیٹیوں کی بجائے بیٹے پسند کرتا ہے۔ بیٹی پیدا ہونے سے والدین اپنی ذمہ داریوں میں اضافہ محسوس کرتے ہیں اور بیٹے کو اپنا مددگار اور سہارا سمجھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان باتوں اور کمزوریوں سے مبرّا اور ماورأ ہے۔ اس لیے اسے بیٹے اور بیٹی کی ضرورت نہیں اور نہ اس کی شان ہے کہ وہ کسی کو بیٹا یا بیٹی بنائے۔ یہاں تک بیٹی کا معاملہ ہے وہ تو فطری طور پر مرد کے مقابلے میں ناتواں ہوتی ہے اور طبعی طور پر اچھے لباس اور زیور کو پسند کرتی ہے۔ وہ اپنی فطری حیا کی وجہ سے جھگڑے کے وقت اپنی بات کھل کر بیان نہیں کرسکتی۔ عورت میں فطری طورپرمرد کے مقابلے میں حیا زیادہ ہوتی ہے۔ اعصابی اور ذہنی اعتبار سے بھی عورت مرد کے مقابلے میں کمزور ہوتی ہے۔ اگر کسی وجہ سے کسی مرد کے ساتھ اس کا جھگڑا ہوجائے توحیا اور جذبات سے مغلوب ہو کر اپنا مؤقف بھی کھل کر بیان نہیں کرسکتی بے شک اس کا جھگڑا خاوند کے ساتھ ہی کیوں نہ ہو۔ ایسا معاملہ بزرگوں کے سامنے پیش ہو تو اکثر عورتیں اپنی بات کرتے ہوئے رو پڑتی ہیں۔ بیٹیاں آزمائش ہیں : ماں، باپ کے لیے ساری اولاد آزمائش ہوتی ہے بالخصوص بیٹیاں بڑی آزمائش ہیں۔ (اِِنَّمَا اَمْوَالُکُمْ وَاَوْلاَدُکُمْ فِتْنَۃٌ وَّاللّٰہُ عِنْدَہٗ اَجْرٌ عَظِیْمٌ) [ التغابن : ١٥] تمہارا مال اور تمہاری اولاد آزمائش ہے اور ” اللہ“ کے ہاں برا اجر ہے۔“ (عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ قَالَ قَالَ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَنْ عَالَ ثَلاَثَ بَنَاتٍ فَأَدَّبَہُنَّ وَزَوَّجَہُنَّ وَأَحْسَنَ إِلَیْہِنَّ فَلَہُ الْجَنَّۃُ) [ رواہ ابو داؤد : باب فِی فَضْلِ مَنْ عَالَ یَتَامَی] ” حضرت ابو سعید خدری (رض) سے روایت ہے انہوں نے کہا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس نے تین بچیوں کی پرورش کی انہیں ادب سکھایا اور ان کی شادی کی اور ان کے ساتھ اچھا سلوک کیا اس کے لیے جنت واجب ہوگئی۔“ مسائل ١۔ بعض مشرک ملائکہ کو اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں سمجھتے ہیں حالانکہ اپنے لیے وہ بیٹوں کو ترجیح دیتے ہیں۔ ٢۔ اکثر باپ بیٹی کی خوشخبری سن کر غم زدہ ہوجاتے ہیں۔ ٣۔ عورت فطری طور پر زیور کو پسند کرتی ہے اور جھگڑے کے وقت اپنا مؤقف کھل کر بیان نہیں کرسکتی۔ ٤۔ بعض مشرک ملائکہ کو خواہ مخواہ اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں قرار دیتے ہیں۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ کی اولاد ٹھہرانے والوں کو قیامت کے دن اچھی طرح پوچھ گچھ کی جائے گی۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ کی اولاد قرار دینے کا گناہ اور اس کی سزا : ١۔ ” اللہ“ اولاد سے پاک ہے۔ (الانعام : ١٠١) ٢۔ عیسیٰ (علیہ السلام) اور مریم [ خدا نہیں اللہ کے بندے تھے۔ (المائدۃ: ٧٥) ٣۔ کسی کو اللہ تعالیٰ کی اولاد قرار دینا سنگین ترین جرم ہے۔ (مریم : ٩١، ٩٢) ٤۔ اللہ تعالیٰ کی نہ بیوی ہے اور نہ اولاد۔ (الجن : ٣) ٥۔ اللہ تعالیٰ کو کسی نے جنم نہیں دیا نہ اس نے کسی کو جنم دیا ہے۔ (الاخلاص : ٣) ٦۔ کیا تمہارے رب نے تمہیں بیٹے دئیے ہیں اور خود فرشتوں کو بیٹیاں بنایا ہے؟ یہ بڑی نامعقول بات ہے۔ (بنی اسرائیل : ٤٠) ٧۔ انہوں نے کہا اللہ کی اولاد ہے حالانکہ وہ اس سے پاک ہے۔ (البقرۃ: ١١٦) ٨۔ انہوں نے کہا ” الرحمن“ کی اولاد ہے حالانکہ وہ اولاد سے پاک ہے۔ (الانبیاء : ٢٦) ٩۔ اللہ تعالیٰ کی اولاد نہیں ہے نہ اس کے ساتھ کوئی اور الٰہ ہے۔ (المومنون : ٩١) الزخرف
17 الزخرف
18 الزخرف
19 الزخرف
20 فہم القرآن ربط کلام : قیامت کے دن مشرک سے اس کے شرک کے بارے میں ہر صورت سوال ہوگا۔ دنیا میں اس سے اس کے شرک کے بارے میں سوال کیا جائے اور اس کو اس کے باطل عقیدہ کے بارے میں سمجھایا جائے تو وہ سمجھنے کی بجائے مختلف قسم کے بہانے پیش کرتا ہے۔ اس کے بہانوں میں سے ایک بہانہ یہ ہوتا ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو ہم شرکیہ عقیدہ اختیار نہ کرتے۔ قرآن مجید نے ہر قسم کے دلائل کے ساتھ مشرکین کو یہ بات سمجھائی ہے کہ نہ تو اللہ تعالیٰ نے کسی کو اپنی اولاد بنایا ہے اور نہ ہی اس نے اپنی خدائی میں کسی کو اپنا شریک ٹھہرایا ہے۔ مشرکین مکہ کے پاس ان دلائل کا کوئی جواب نہ تھا اور نہ ہی آج کا مشرک اس کا جواب دے سکتا ہے اور نہ کوئی آئندہ اس کا جواب دے سکے گا۔ اس کے باوجود مشرکین دیگر بہانوں کے ساتھ یہ بہانے بھی پیش کرتے ہیں کہ اگر اللہ تعالیٰ کی مرضی نہ ہو تو ہم کس طرح شرک کرسکتے ہیں؟ اس کے جواب میں فرمایا ہے کہ درحقیقت ان کے پاس علم نہیں جس وجہ سے یہ اٹکل پچو بیان کرتے ہیں۔ جو حقیقی معنوں میں شریعت کا علم جانتا ہے وہ اس قسم کی بے معنٰی باتیں نہیں کرتا۔ مشرک کے پاس علم نہ ہونے کا دوسرامعنٰی یہ ہے کہ کیا اسے معلوم نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو ایک حد تک آزادی دے رکھی ہے۔ چاہے تو ہدایت قبول کرے نہ چاہے تو گمراہی کے راستے پر چلتا رہے۔ علم نہ ہونے کا صاف معنٰی ہے کہ مشرک جاہل ہوتا ہے کیا ان کے پاس پہلی آسمانی کتابوں میں سے کوئی آسمانی کتاب ہے کہ جس کی بنیاد پر اپنے باطل عقیدہ کے ساتھ چمٹے ہوئے ہیں۔ ان الفاظ کے مخاطب اہل مکہ ہیں کیونکہ ان کے پاس قرآن مجید سے پہلے کوئی کتاب نہیں آئی تھی۔ اس کا دوسرا مفہوم یہ ہے کہ ایمان کی بنیاد عقیدہ توحید پر ہے اور توحید کے دلائل آسمانی کتابوں میں دیئے گئے ہیں یہی حقیقی اور ٹھوس علم ہے اس کے علاوہ ایمان کی حقیقی تشریح کہیں اور جگہ نہیں ملتی اور نہ ہی وہ قابل قبول ہوگی۔ کیونکہ علم کی حقیقی بنیاد وحی ہے۔ مشرکین مکہ سے ان دلائل کا جواب نہ بن پڑا تو کہنے لگے کہ ہم تو اسی راستے پر چلتے رہیں گے جن پرہم نے اپنے آباء و اجداد کو چلتے ہوئے پایا۔ قرآن مجید نے دوسرے موقع پر اس کا جواب یہ دیا ہے۔ کیا ان کے باپ دادا دین کی سمجھ اور ہدایت نہ رکھتے ہوں اس کے باوجودبھی یہ لوگ ان کاراستہ اختیار کریں گے اس سے بڑھ کرے بے عقلی اور گمراہی کی کیا دلیل ہوسکتی ہے ؟ (البقرۃ: ١٧٠) مسائل ١۔ مشرک بہانہ پیش کرتے ہیں کہ اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو ہم شرک نہ کرتے۔ ٢۔ حق کے منکراپنے آباء اجداد کی تقلید کو ہدایت کی دلیل سمجھتے ہیں۔ ٣۔ مشرک جہالت کی بنا پر گمراہی پر قائم رہتے ہیں۔ ٤۔ مشرک حقیقت سے ناواقف ہوتا ہے۔ تفسیر بالقرآن علم کی حقیقت اور اس کا فائدہ : ١۔ صاحب علم اور جاہل برابر نہیں ہو سکتے۔ (الزمر : ٩) ٢۔ اللہ تعالیٰ ایمانداروں اور علم والوں کے درجات بلند فرماتا ہے۔ (المجادلۃ: ١١) ٣۔ اللہ تعالیٰ نے داؤد اور سلیمان ( علیہ السلام) کو علم عطا کیا۔ (النمل : ١٥) ٤۔ یقیناً اللہ سے علماء ہی ڈرتے ہیں۔ (فاطر : ٢٨) ٥۔ ہم لوگوں کے لیے مثالیں بیان کرتے ہیں مگر ان کو عالم لوگ ہی سمجھتے ہیں۔ (العنکبوت : ٤٣) ٦۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو وہ کچھ بتلایا جو یہ نہیں جانتا تھا۔ (العلق : ٥) ٧۔ انسان کو رحمٰن نے قرآن سکھایا۔ (الرحمن : ٢) ٨۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو لکھنا سکھایا۔ (العلق : ٤) ٩۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو بولنا اور بیان کرنا سکھلایا۔ (الرحمن : ٤) ١٠۔ آدم (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے علم دیا۔ (البقرۃ: ٣١) ١١۔ فرشتوں نے بھی سب کچھ اللہ تعالیٰ سے سیکھا۔ (البقرۃ: ٣٢) الزخرف
21 الزخرف
22 الزخرف
23 فہم القرآن ربط کلام : جس طرح کے بہانے مشرکین مکہ پیش کرتے تھے۔ اسی طرح کے بہانے پہلے لوگوں نے اپنے انبیائے کرام (علیہ السلام) کے سامنے پیش کیے۔ بہانے پیش کرنے والوں میں سر فہرست ان کا مال دار طبقہ تھا۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے ساتھیوں کے اطمینان کی خاطر بتلایا گیا کہ آپ سے پہلے جس بستی میں بھی رسول مبعوث کیا گیا وہاں کے سرمایہ دار طبقہ نے اپنے نبی کے سامنے یہی بہانہ پیش کیا کہ ہم اسی راستے پر چلتے رہیں گے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے اور ہم اپنے بزرگوں کا مذہب اور کلچر نہیں چھوڑ سکتے۔ ہر قوم کے نبی نے اپنی قوم کو سمجھایا کہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے تمہارے لیے بہترین راہنمائی لایا ہوں۔ کیا پھر بھی تم اپنے باپ دادا کے دین اور رسم ورواج کو اپنائے رکھو گے ؟ ان لوگوں نے کھلے الفاظ میں کہا ہاں ہم تمہاری بات اور طریقے کا انکار ہی کرتے رہیں گے۔ جب یہ لوگ ایک حد سے آگے بڑھ گئے اور انہوں نے اپنے پیغمبر کا رہنا سہنا محال کردیا۔ تو اللہ تعالیٰ نے ان کی بغاوت کا انتقام لیا۔ تاریخ کے اوراق اور ان قوموں کے آثار دیکھو! انبیاء ( علیہ السلام) کو جھٹلانے والوں کا کیا انجام ہوا۔ ان آیات میں یہ حقیقت ثابت ہوتی ہے کہ ہر قوم کے مال دار طبقہ کی اکثریت ایسی ہی ہوتی ہے جو باطل تحریکوں اور تنظیموں کی اس لیے بشت پنا ہی کرتی ہے تاکہ وہ اپنے سے پہلے لوگوں کی تہذیب اور رسومات کا بہانہ بنا کر اپنی عیش وعشرت کو جاری رکھ سکیں یہی کچھ اہل مکہ نبی آخر الزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ کررہے تھے اور یہی ہر دور میں ہوتا آرہا ہے۔ مسائل ١۔ مال دار طبقہ کی اکثریت نے ہر دورکے نبی کی مخالفت کی ہے۔ ٢۔ بالخصوص مال دار طبقہ باطل تحریک اور تہذیب وتمدن کی حمایت کرتا ہے۔ ٣۔ بڑے لوگوں کی اکثریت نے ہمیشہ سے انبیائے کرام (علیہ السلام) کی دعوت کا انکار کیا ہے۔ ٤۔ انبیائے کرام (علیہ السلام) کو جھٹلانے والوں سے اللہ تعالیٰ نے انتقام لیا۔ تفسیربالقرآن بے دین مال دار طبقہ کا کردار اور انجام : ١۔ مالدار بخل کو اپنے لیے اچھا خیال کرتے ہیں حالانکہ وہ ان کے لیے برا ہے۔ (آل عمران : ١٨٠) ٢۔ جب ہم ارادہ کرتے ہیں کہ کسی بستی کو ہلاک کریں تو اس کے خوشحال لوگوں کو حکم دیتے ہیں، پھر وہ اس میں فسق و فجور کرتے ہیں تو اس بستی پر بات ثابت ہوجاتی ہے پھر ہم اسے بری طرح برباد کردیتے ہیں۔ (بنی اسرائیل : ١٦) ٣۔ جب بھی ہم نے کسی بستی میں رسول بھیجا تو مالدار لوگوں نے یہی کہا کہ ہم نے اپنے باپ دادا کو ایک طریقے پر پایا ہے اور ہم انہی کے نقش قدم پر چلتے رہیں گے۔ (الزخرف : ٢٣) ٤۔ کبھی ایسا نہیں ہوا ہم نے کسی بستی میں رسول بھیجا ہو اور اس کو مالدار طبقے نے نہ جھٹلایا ہو۔ ( سبا : ٣٤) ٥۔ جو کچھ زمین میں ہے وہ باعث آزمائش ہے۔ (الکہف : ٧) ٦۔ دنیا کی زندگی کا سامان آخرت کے مقابلے میں قلیل اور حقیر ہے۔ (التوبۃ: ٣٨) ٧۔ دنیا کی زندگی صرف کھیل تماشا ہے۔ (العنکبوت : ٦٤) ٨۔ دنیاکی زندگی دھوکے کا سامان ہے۔ (آل عمران : ١٨٥) ٩۔ لوگ دنیا کی زندگی پر خوش ہوگئے ہیں حالانکہ دنیا کی زندگی معمولی فائدہ ہے۔ (الرعد : ٢٦) الزخرف
24 الزخرف
25 الزخرف
26 فہم القرآن ربط کلام : جس طرح ہر قوم کے حکمران اور امیر لوگوں نے اپنے رسول کی مخالفت کی اور اپنے آباء و اجداد کے رسم ورواج پر قائم رہے۔ اسی طرح ہی حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے والد اور ان کی قوم باطل عقیدہ اور اپنے رسم ورواج پر قائم رہے۔ اہل مکہ اپنے آپ کو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے دین کا وارث سمجھتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ ابراہیم (علیہ السلام) بھی اسی طریقہ سے اپنے رب کی عبادت کرتے تھے جس انداز میں ہم عبادت کرتے ہیں۔ قرآن مجید نے مختلف الفاظ میں اس بات کی تردید کی ہے کہ ابراہیم (علیہ السلام) کا شرکیہ عقیدہ کے ساتھ کوئی تعلق نہیں تھا اور نہ ہی ان کا مشرکین کے ساتھ کوئی واسطہ تھا وہ صرف اور صرف زمین و آسمان کے رب کی عبادت کرنے والے اور اسی کی طرف لوگوں کو بلانے والے تھے اور اپنے عقیدہ میں یکسو تھے۔ انہوں نے سب سے پہلے توحید کی دعوت اپنے والد کے سامنے پیش فرمائی اور اپنی قوم کو باربار سمجھایا کہ اے میری قوم! جن کی تم عبادت کرتے ہو میں ان سے لاتعلق ہوں۔ میں تو صرف اسی کی عبادت کرتا ہوں جس نے مجھے پیدا کیا ہے اور وہی میری راہنمائی کرتا ہے۔ ابراہیم (علیہ السلام) یہی عقیدہ اور دعوت اپنی اولاد میں چھوڑ کرگئے تاکہ ان کی اولاد ہر حال میں اپنے رب کی عبادت کرے اور اس کی طرف رجوع کرتی رہے۔ اے اہل مکہ تم اپنے آپ کو ابراہیم (علیہ السلام) کی اولاد سمجھتے ہو اور ان کی ملت کے دعوے دار ہو۔ لہٰذا تمہیں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت کو قبول کرنا چاہیے کیونکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اسی بات کی دعوت دیتے ہیں لیکن تم اس طرح ہی مخالفت کر رہے ہو جس طرح ابراہیم (علیہ السلام) کے باپ، اس کی قوم اور حکمران طبقہ نے کی تھی۔ (وَ مَنْ یَّرْغَبُ عَنْ مِّلَّۃِ اِبْرٰھٖمَ اِلَّا مَنْ سَفِہَ نَفْسَہٗ وَلَقَدِ اصْطَفَیْنٰہُ فِی الدُّنْیَا وَ اِنَّہٗ فِی الْاٰخِرَۃِ لَمِنَ الصّٰلِحِیْن اِذْ قَالَ لَہٗ رَبُّہٗٓ اَسْلِمْ قَالَ اَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعٰلَمِیْن وَ وَصّٰی بِھَآ اِبْرٰھٖمُ بَنِیْہِ وَ یَعْقُوْبُ یٰبَنِیَّ اِنَّ اللّٰہَ اصْطَفٰی لَکُمُ الدِّیْنَ فَلَا تَمُوْتُنَّ اِلَّا وَ اَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ اَمْ کُنْتُمْ شُھَدَآءَ اِذْ حَضَرَ یَعْقُوْبَ الْمَوْتُ اِذْ قَالَ لِبَنِیْہِ مَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ بَعْدِیْ قَالُوْا نَعْبُدُ اِلٰھَکَ وَ اِلٰہَ اٰبَآءِکَ اِبْرَھٖمَ وَاِسْمٰعِیْلَ وَ اِسْحٰقَ اِلٰھًا وَّاحِدًا وَّ نَحْنُ لَہٗ مُسْلِمُوْنَ) [ البقرۃ: ١٣٠ تا ١٣٣] ” دین ابرہیمی سے وہی بے رغبتی کرے گا جس نے اپنے آپ کو بے وقوف بنا لیا ہے۔ بلا شک ہم نے ابراہیم کو دنیا میں چن لیا اور آخرت میں بھی وہ صالحین میں سے ہوں گے۔ جب اسے اس کے رب نے فرمایا کہ فرمانبردار ہوجاؤ اس نے عرض کی میں نے اپنے اپ کو رب العالمین کے سامنے جھکا دیا ہے۔ ابراہیم اور یعقوب نے اپنی اولاد کو وصیت فرمائی کہ اے میرے بیٹو! اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے اس دین کو پسند فرمایا لیا ہے تمہیں موت مسلمان ہونے کی حالت میں آنی چاہیے۔ کیا تم یعقوب کی موت کے وقت موجود تھے؟ جب اس نے اپنی اولاد کو فرمایا کہ میرے بعد تم کس کی عبادت کرو گے؟ سب نے جواب دیا کہ تیرے معبود کی اور تیرے آباء ابراہیم، اسماعیل، اور اسحاق کے معبود کی جو ایک ہی معبود ہے اور ہم اسی کے فرمانبردار رہیں گے۔“ مسائل ١۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے باپ اور قوم کے عقیدے سے برأت کا اعلان کیا تھا۔ ٢۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) مشرکوں کے طریقہ کے مطابق اللہ کی عبادت نہیں کرتے تھے۔ ٣۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے ہمیشہ خالق حقیقی کی طرف لوگوں کو بلایا۔ ٤۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنی اولاد کو توحید کی دعوت دی اور اسی عقیدے پر پکے رہنے کی تلقین فرمائی۔ تفسیر بالقرآن حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا عقیدہ اور دعوت : ١۔ حضرت ابراہیم نے اپنی قوم کو فرمایا اے میری قوم اللہ کی عبادت کرو اور اسی سے ڈرو۔ (العنکبوت : ١٦) ٢۔ حضرت ابراہیم نے فرمایا کہ اے میری قوم! میں تمہارے شرک سے برأت کا اظہار کرتا ہوں۔ (الانعام : ٧٩) ٣۔ مشرکین نے ابراہیم (علیہ السلام) کے لیے آگ کا الاؤ جلایا اور انہیں آگ میں ڈال دیا۔ ( الصّٰفّٰت : ٩٧) الزخرف
27 الزخرف
28 الزخرف
29 فہم القرآن ربط کلام : حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی دعوت کا مختصر ذکر کرنے کے بعد اب پھر اہل مکہ کو برائے راست مخاطب کیا گیا ہے۔ اہل مکہ تعصّب میں آکر اس قدر بوکھلا چکے تھے کہ وہ کسی ایک بات پر قائم نہیں رہتے تھے۔ جس بنا پر نئی سے نئی بات اور انوکھے سے انوکھا الزام لگاتے تھے۔ جس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ اللہ تعالیٰ انہیں مہلت پہ مہلت دئیے جارہا تھا۔ جب کسی ظالم شخص کو طویل مدت تک مہلت حاصل ہوجائے تو وہ اپنے آپ کو حق پر سمجھنے لگتا ہے۔ حالانکہ وہ حق پر نہیں ہوتا۔ اہل مکہ بھی اپنے آپ کو حق پر گمان کرتے تھے۔ ان کی غلط فہمی کو دور کرنے کے لیے ارشاد فرمایا کہ ان کی گمراہی اور مخالفت کا بنیادی سبب یہ ہے کہ ہم انہیں مہلت دئیے جا رہے ہیں۔ جبکہ ان میں حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) واضح حق کے ساتھ مبعوث کردئیے گئے ہیں۔ کفار کی تاریخ یہ ہے کہ جب بھی ان کے پاس حق پہنچا تو انہوں نے اسے جادوقرار دیا اور کہا کہ ہم کھلے بندوں حق کا انکار کرتے ہیں۔ یہی اہل مکہ کا تھا ان کا کہنا تھا کہ اگر اللہ تعالیٰ نے واقعی قرآن کسی شخص پر نازل کرنا ہوتا تو مکہ اور طائف کے بڑے سرداروں میں سے کسی ایک پر نازل کیا جاتا۔ نبوت کے لیے وہ ابوجہل اور طائف کے سرداروں کا نام لیتے تھے۔ قرآن مجید میں اس بات کے اور بھی جواب دیئے گئے ہیں جن میں ایک جواب یہ ہے کہ کیا آپ کے رب کی رحمت کو یہ تقسیم کرنے والے ہیں یا آپ کا رب اسے تقسیم اور نازل کرنے پر اختیار رکھتا ہے۔ ظاہر بات ہے کہ ہر قسم کے اختیارات اللہ تعالیٰ ہی کو حاصل ہیں اور وہ اپنی رحمت اپنی مرضی کے مطابق تقسیم کرنے والا ہے۔ یہاں رحمت سے پہلی مراد نبوت اور دوسری مراد معیشت ہے۔ (اَللّٰہُ اَعْلَمُ حَیْثُ یَجْعَلُ رِسَالَتَہٗ سَیُصِیْبُ الَّذِیْنَ اَجْرَمُوْا صَغَارٌ عِنْدَ اللّٰہِ وَ عَذَابٌ شَدِیْدٌ بِمَا کَانُوْا یَمْکُرُوْنَ) [ الانعام : ١٢٤] ” اللہ زیادہ جانتا ہے کہ اپنی رسالت کہاں بھیجے۔ عنقریب ان لوگون کو جنہوں نے جرم کیے اللہ کے ہاں ذلت اور سخت عذاب پہنچے گا۔ اس وجہ سے کہ وہ مکرو فریب کرتے تھے۔“ (مَا یَوَدُّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْ اَھْلِ الْکِتٰبِ وَ لَا الْمُشْرِکِیْنَ اَنْ یُّنَزَّلَ عَلَیْکُمْ مِّّنْ خَیْرٍ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَ اللّٰہُ یَخْتَصُّ بِرَحْمَتِہٖ مَنْ یَّشَآءُ وَ اللّٰہُ ذُوْ الْفَضْلِ الْعَظِیْمِ [ البقرۃ: ١٠٥] ” نہ اہل کتاب کے کافر اور نہ ہی مشرکین چاہتے ہیں کہ تم پر تمہارے رب کی طرف سے کوئی بھلائی نازل ہو اللہ تعالیٰ جسے چاہے اپنی رحمت کے ساتھ خاص فرماتا ہے۔ اللہ بڑے فضل والا ہے۔“ مسائل ١۔ اکثر لوگ اپنے رب کی دی ہوئی مہلت سے غلط فائدہ اٹھاتے ہیں۔ ٢۔ کفار کے پاس جب بھی حق آیا انہوں نے اس کا انکار ہی کیا۔ ٣۔ اہل مکہ کا یہ بھی اعتراض تھا کہ نبّوت طائف یا مکہ کے کسی سردار پر نازل ہونی چاہیے تھی۔ ٤۔ کسی کو الرّسول منتخب کرنا اللہ تعالیٰ کی خاص رحمت ہے۔ وہ جسے چاہتا ہے اپنا رسول نامزد کرتا ہے۔ ٥۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد قیامت تک نبوت کا سلسلہ ختم کردیا گیا ہے۔ تفسیر بالقرآن کفار اور مشرکین کا حق کے ساتھ رویہ : ١۔ مشرکین نے کہا اگر اللہ چاہتا تو ہم اس کے علاوہ کسی کی عبادت نہ کرتے۔ (النحل : ٣٥) ٢۔ مشرکین نے آپ پر اعتراض کیا کہ آپ پر خزانہ کیوں نہیں نازل کیا جاتا۔ (ھود : ١٢) ٣۔ بنی اسرائیل نے کہا اے موسیٰ جب تک ہم اللہ کو اپنے سامنے نہیں دیکھ لیتے ہم ایمان نہیں لائیں گے۔ (البقرۃ: ٥٥) ٤۔ کفار اور مشرکین نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جادوگر کہا۔ (الذاریات : ٥٢) ٥۔ کفار اور مشرکین نے کہا یہ نبی کذاب اور جادوگر ہے۔ ( ص : ٤) الزخرف
30 الزخرف
31 الزخرف
32 فہم القرآن ربط کلام : اہل مکہ کا اعتراض تھا کہ نبوت کسی مالدار شخص کو ملنی چاہیے تھی ان کے جواب میں دولت اور نبوت میں فرق بتلایا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کے درمیان سماجی، سیاسی اور معاشی تفاوت اس لیے قائم فرمایا ہے تاکہ لوگ ایک دوسرے کی ضرورت محسوس کریں اور دنیا کا نظام چلتا رہے۔ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! یہ حقیقت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو عزت و احترام، مقام اور شان آپ کو عطا فرمایا ہے وہ اس سے کروڑہاگنا بہتر ہے جو کچھ یہ لوگ کماتے اور جمع کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کے درمیان جو تفاوت قائم فرمایا ہے اس کی بنیادی حکمت اور مقصد یہ ہے کہ لوگ ایک دوسرے کے ساتھ رابطہ رکھیں۔ اسی اصول کے پیش نظر بادشاہ کو وزیروں، مشیروں اور انتظامیہ کی ضرورت ہے۔ وزیر، مشیر اور انتظامیہ بادشاہ کے ساتھ تعلق رکھنے میں مجبور ہیں۔ کارخانے دار کو مزدور کی ضرورت ہے۔ مزدور کارخانے میں کام کیے بغیر اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ نہیں پال سکتے۔ لینڈ لارڈ زرعی آلات رکھنے کے باوجود مزارع اور مزدور کے بغیر زمیندارا نہیں کرسکتا۔ اس حقیقت کو سمجھنے کے لیے ایک واقعہ پیش خدمت ہے۔ متحدہ پاکستان کے دور میں پاکستان دو صوبوں پر مشتمل تھا، مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان اسے پاکستان کہا جاتا تھا۔ جس کا موجودہ پاکستان ایک صوبہ تھا۔ ١٩٥٨ ء سے لے کر ١٩٦٦ ء تک اس کا گورنر نواب آف کالا باغ تھا۔ جو بڑا منتظم اور سخت گورنر شمار ہوتا تھا۔ اس کے دور میں پشاور شہر کے خاکروبوں نے ہڑتال کی۔ شہر کے میئر اور صوبائی وزراء نے خاکروبوں سے بار بار مذاکرات کیے لیکن خاکروبوں نے یہ شرط پیش کی کہ جب تک صوبائی گورنر ہمارے مطالبات تسلیم کرنے کی براہ راست گارنٹی نہیں دیتے اس وقت تک ہم ہڑتال ختم نہیں کریں گے اس دور میں فلش سسٹم کا نیٹ ورک جامع اور شہر کی ضرورت کے مطابق نہیں تھا۔ خاکروبوں کی ہڑتال طول پکڑ گئی جس وجہ سے شہر میں شدید تعفن پیدا ہوا اور کئی قسم کی بیماریوں نے شہریوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ شہر کے لوگوں نے مجبور ہو کر گورنر سے اپیل کی کہ وہ پشاور تشریف لا کر خاکروب حضرات سے مذاکرات کریں تاکہ شہر میں صفائی کا نظام بحال ہو سکے لیکن گورنر نے یہ مطالبہ مسترد کردیا۔ ہڑتال کو زیادہ دن ہوئے تو پشاور میں وباء نے شدت اختیار کرلی جس وجہ سے ہزاروں کی تعداد میں لوگ ہسپتالوں میں داخل ہوئے جس سے مجبور ہو کر میر محمد خان پشاور گئے اور خاکروبوں کے مطالبات تسلیم کیے تب جا کر شہریوں نے سکھ کا سانس لیا۔ بظاہر ایک شہر کا واقعہ ہے لیکن یہ اس حقیقت کا ترجمان ہے کہ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو ایک دوسرے کا محتاج بنایا ہے۔ باہمی ضرورت اور مفاد کے تحت بڑے اور ترقی یافہ ممالک چھوٹے ملکوں کے رابطہ رکھنے پر مجبور ہیں۔ ایسا اس لیے کیا گیا تاکہ لوگ بقائے باہمی کی بنیاد پر آپس میں رابطہ رکھیں اور بحیثیت انسان ایک دوسرے کی خیر خواہی کریں۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ ہی اپنی رحمت کا مالک ہے اور وہی لوگوں پر رحمت نازل فرمانے والا ہے۔ ٢۔ یہاں رحمت سے پہلی مراد نبوت ہے اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے نبوت عطا فرماتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہی حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خاتم النّبیّین بنایا ہے۔ ٣۔ یہاں رحمت سے دوسری مراد دنیا کی خوشحالی ہے بشرطیکہ خوشحال شخص صاحب ایمان اور صالح اعمال کرنے والا ہو۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ نے دنیا کے وسائل کے بارے میں لوگوں کے درمیان ایک فرق رکھا ہے۔ تفسیر بالقرآن دنیا کے مال کی حیثیت : ١۔ جو چیز تم دیے گئے ہو یہ تو دنیا کا سامان اور زینت ہے۔ (القصص : ٦٠) ٢۔ نہیں ہے دنیا کی زندگی مگر کھیل تماشا۔ (العنکبوت : ٦٤) ٣۔ مال اور اولادتمہارے لیے فتنہ ہے۔ (التغابن : ١٥) ٤۔ کفار کے مال واولاد ہرگزان کے کام نہ آسکیں گے۔ (آل عمران : ١٠) ٥۔ جو چیز تم دیے گئے ہو یہ تو دنیا کا سامان اور زینت ہے۔ (القصص : ٦٠) ٦۔ مال اور اولاد دنیا کی زندگی کی زینت ہیں۔ (الکہف : ٤٦) ٧۔ دنیا آخرت کے مقابلہ میں بہت کمتر ہے۔ (التوبۃ: ٣٨) الزخرف
33 فہم القرآن ربط کلام : جس مال کو لوگ جمع کرتے ہیں اور جس کی محبت میں مرے جاتے ہیں اس کی حقیقت۔ قرآن مجید نے بار بار لوگوں کو یہ حقیقت بتلائی اور سمجھائی ہے کہ دنیا اور دنیا کی ہر چیز عارضی اور ناپائیدار ہے۔ ہمیشہ رہنے والی آخرت ہے اس دن سچا ایمان اور صالح اعمال کام آئیں گے۔ جہاں تک دنیا کے وسائل اور اس کی زیب و زینت کا معاملہ ہے۔ اس بات کا اندیشہ نہ ہوتا کہ دنیا کی خاطر سب کے سب لوگ کفر پر اکٹھے ہوجائیں گے تو اللہ تعالیٰ کفار کے گھر ہی نہیں ان کے مکانوں کی چھتیں، سیڑھیاں، گھروں کے دروازے اور جہاں وہ تکیہ لگائے اپنی مجالس کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں بھی سونے چاندی کے بنا دیتا۔ یعنی اس قدر انہیں مال کی فروانی سے ہمکنار کردیتا لیکن سب کچھ دینے کے باوجوددنیا کی حقیقت صرف اتنی ہے کہ یہ آخرت کے مقابلے میں عارضی اور قلیل سامان ہے۔ اللہ تعالیٰ کے نزدیک آخرت ہر حال میں متقین کے لیے بہتر ہے۔ آیت نمبر ٣٢ کے ابتدائی الفاظ میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ اگر لوگوں کے پھسل جانے کا خدشہ نہ ہوتا تو وہ کفار کو اس قدر دنیا کا مال و متاع عنایت کرتا کہ یہ اپنے مکانوں کی چھتیں اور دروازے بھی سونے، چاندی کے بنا لیتے۔ انسان آخر انسان ہے بے شک وہ کتنا ہی ایمان میں پختہ کیوں نہ ہو لیکن پھر بھی وہ ماحول سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ اللہ تعالیٰ نے متقین کو گمراہی سے بچانے کے لیے کفار کو ایک حد تک ہی وسائل عطا کیے ہیں۔ لیکن آخرت کے مقابلے میں اللہ تعالیٰ کے نزدیک ان کی کوئی حیثیت نہیں۔ (عَنْ سَہْلِ بْنِ سَعْدٍ قَالَ قَالَ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لَوْ کَانَتِ الدُّنْیَا تَعْدِلُ عِنْدَ اللَّہِ جَنَاحَ بَعُوضَۃٍ مَا سَقٰیکَافِرًا مِنْہَا شَرْبَۃَ مَاءٍ )[ رواہ الترمذی : کتاب الزہد وہو حدیث صحیح] ” حضرت سہل بن سعد کہتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اگر اللہ کے نزدیک دنیا کی وقعت مچھر کے پر کے برابر بھی ہوتی تو وہ کافر کو ایک گھونٹ بھی پانی کا نہ دیتا۔“ (عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ (رض) أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَرَّ بالسُّوْقِ دَاخِلًا مِّنْ بَعْضِ الْعَالِیَۃِ وَالنَّاسُ کَنَفَتُہٗ فَمَرَّ بِجَدْیٍ أَسَکَّ مَیِّتٍ فَتَنَاوَلَہٗ فَأَخَذَ بِأُذُنِہٖ ثُمَّ قَالَ أَیُّکُمْ یُحِبُّ أَنَّ ھٰذَا لَہٗ بِدِرْھَمٍ فَقَالُوْا مَانُحِبُّ أَنَّہٗ لَنَا بِشَیْءٍ وَمَا نَصْنَعُ بِہٖ قَالَ أَتُحِبُّوْنَ أَنَّہٗ لَکُمْ قَالُوْا وَاللّٰہِ لَوْکَانَ حَیًّاکَانَ عَیْبًا فِیْہِ لِأَنَّہٗ أَسَکَّ فَکَیْفَ وَھُوَ مَیِّتٌ فَقَالَ فَوَاللّٰہِ لَلدُّنْیَا أَھْوَنُ عَلَی اللّٰہِ مِنْ ھٰذَا عَلَیْکُمْ) [ رواہ مسلم : کتاب الزھد والرقائق، باب] ” حضرت جابر بن عبداللہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بازار میں ایک جانب سے داخل ہوئے اور آپ کے ساتھ کچھ لوگ بھی تھے آپ ایک مردہ بکری کے بچے کے پاس سے گزرے آپ نے اس کے ایک کان کو پکڑ کر پوچھا کون اسے ایک درہم کے بدلے لینا پسند کرے گا؟ صحابہ نے کہا : ہم تو اسے کسی چیز کے بدلے بھی لینا نہیں چاہتے۔ ہم اس کا کیا کریں گے؟ آپ نے فرمایا : کیا تم اسے پسند کرتے ہو کہ یہ بکری کا بچہ تمہارا ہوتا؟ صحابہ کرام (رض) نے کہا : اللہ کی قسم ! اگر یہ زندہ بھی ہوتا تو کان چھوٹے ہونے کی وجہ سے اسے قبول نہ کیا جاتا۔ اب یہ مرا ہوا ہے تو ہم اسے کیسے پسند کریں۔ آپ نے فرمایا : جیسے تمہارے نزدیک یہ بکری کا مردہ بچہ بڑا حقیر ہے۔ اللہ کی قسم! اللہ کے نزدیک دنیا اس سے بھی زیادہ حقیر ہے۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے ایمانداروں کو بڑی آزمائش سے بچانے کے لیے کفار کو ایک حد تک وسائل عطا کیے ہیں۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ چاہتا توکفار کو اس قدر دنیا عطا کرتا کہ ان کے مکانوں کی چھتیں اور دروازے بھی چاندی کے ہوتے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ کے نزدیک متقین کے لیے آخرت کے مقابلے میں دنیا کی کوئی حیثیت نہیں۔ الزخرف
34 الزخرف
35 الزخرف
36 فہم القرآن ربط کلام : دنیا کوسب کچھ سمجھنے والا شخص نہ صرف آخرت کو فراموش کرتا ہے بلکہ اپنے رب کی یاد سے بھی غافل ہوتا ہے۔ جس کے نتیجے میں شیطان اس کا ساتھی بنا دیا جاتا ہے۔ جو شخص اپنے رب کی یاد سے غافل ہوجائے اللہ تعالیٰ اس پر شیطان مسلط کردیتا ہے اور وہ اس کا مستقل ساتھی بن جاتا ہے۔ ایسے لوگوں کو شیطان نیکی کے کاموں سے روک لیتا ہے لیکن اس کے باوجود وہ سمجھتے ہیں۔ ہم صحیح راستہ اختیار کیے ہوئے ہیں۔ موت کے بعد جب اس کی حاضری اپنے رب کے حضور ہوگی تو وہ افسوس کے ساتھ اس بات کا اظہار کرے گا کہ کاش! دنیا میں میرے اور شیطان کے درمیان مشرق اور مغرب کی دوری ہوتی۔ اس کے ساتھ ہی شیطان کو مخاطب کرتے ہوئے کہے گا کہ تو میرا بدترین ساتھی ثابت ہوا۔ اس موقعہ پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے اعلان ہوگا کہ تمہارا ایک دوسرے سے جھگڑنا اور اپنے کیے پر افسوس کا اظہار کرنا۔ آج کے دن اس کا تمہیں کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ تم نے ہرقسم کے مظالم کیے ہیں لہٰذا عذاب میں بھی تم ایک دوسرے کے ساتھی ہوگے۔ ان آیات میں تین باتوں کی طرف خصوصی طور پر توجہ دینا چاہیے۔ 1” ذکر الرحمن“ سے مراد صرف زبانی ذکر نہیں بلکہ ہر حال میں اللہ تعالیٰ کا حکم ماننا اور اس کو یاد رکھنا ہے۔ 2 اللہ تعالیٰ کا کسی پر شیطان مسلط کرنے کا یہ معنٰی ہے کہ جب کوئی شخص اپنے لیے برا راستہ اختیار کرلیتا اور اس پر اصرار کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو شیطان کے حوالے کردیتا ہے۔ گویا کہ اللہ تعالیٰ نے ناراض ہو کر اس پر شیطان کو مسلط کردیا ہے۔ جس پر شیطان مسلط کردیا جائے وہ مرتے دم تک نیکی اختیار کرنے کی طرف متوجہ نہیں ہوتا۔ 3 شیطان پہلا کام یہ کرتا ہے کہ وہ برائی اور بے حیائی کو لوگوں کے سامنے فیشن کے طور پر پیش کرتا ہے۔ برائی کو فیشن کے طور پر اختیار کرنے والے لوگوں کی حالت یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنے آپ کو ترقی یافتہ سمجھتے ہیں۔ جس کی وجہ سے وہ اپنے طرز زندگی کو صحیح تصور کرتے ہیں۔ ایسے شخص کا صحیح راستے کی طرف آنا ممکن نہیں ہوتا۔ قیامت کے دن یہ لوگ ایک دوسرے کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکیں گے۔ یہاں تک کہ شیطان بھی ان سے برأت کا اعلان کر دے گا۔[ ابراہیم : ٢٢] مسائل ١۔ الرحمن کے ذکر سے غفلت کرنے والے پر شیطان مسلط کردیا جاتا ہے ٢۔ جس پرشیطان مسلط کردیا جائے وہ برائی کو اچھائی سمجھتا ہے۔ ٣۔ قیامت کے دن مجرم اس بات کی خواہش کرے گا کہ کاش! دنیا میں میرے اور شیطان کے درمیان بُعْدَ الْمَشْرِقَیْنِہوتا۔ ٤۔ قیامت کے دن ظالم ایک دوسرے کی مدد نہیں کرسکیں گے اور جہنّم میں اکٹھے ہوں گے۔ تفسیر بالقرآن قیامت کے دن مجرمین کی خواہش اور آرزو : ١۔ جہنمی کہیں گے اے اللہ ہم نے دیکھ لیا اور سن لیا اب ہم کو واپس لوٹا دے۔ (السجدۃ: ١٢) ٢۔ جب بھی جہنم سے نکلنے کا ارادہ کریں گے تو دوبارہ جہنم میں لٹادئیے جائیں گے۔ (السجدۃ: ٢٠) ٣۔ جب بھی ارادہ کریں گے کہ ہم نکلیں جہنم سے تو اس میں واپس لٹائے جائیں گے۔ (الحج : ٢٢) ٤۔ جہنمی کی خواہش ہوگی کہ دنیا میں واپس بھیج دیا جائے۔ (الانعام : ٢٧ تا ٢٨) ٥۔ اے رب ہمارے! ہمیں یہاں سے نکال ہم پہلے سے نیک عمل کریں گے۔ (الفاطر : ٣٧) الزخرف
37 الزخرف
38 الزخرف
39 الزخرف
40 فہم القرآن ربط کلام : جس شخص پر شیطان مسلّط کردیا جائے وہ برائی کو اچھائی سمجھنے کی وجہ سے اندھا اور بہرا ہوجاتا ہے۔ یہ حقیقت بڑی واضح ہے کہ جو شخص برائی کو اچھائی سمجھ کر کرتا ہے اسے جس طرح بھی سمجھایا جائے وہ نہ صرف اچھی بات کو سمجھنے کے لیے تیار نہیں ہوتا بلکہ اسے سننا بھی گوارا نہیں کرتا۔ ایسا اس لیے ہوتا ہے کہ دل کے اندھے پن کی وجہ سے وہ اچھی بات پر غور کرنا اور اسے توجہ کے ساتھ سننا اپنے لیے بوجھ سمجھتا ہے۔ یہی صورت حال اہل مکہ اور اہل کتاب کی غالب اکثریت کی تھی۔ اہل مکہ دین ابراہیم (علیہ السلام) کے نام پر شرک و بدعات کرتے اور اہل کتاب اپنے آپ کو اہل حق سمجھتے تھے۔ ان لوگوں کو جب بھی سمجھایا جاتا تو ان کارد عمل اندھے اور بہرے لوگوں جیسا ہوتا۔ اس پر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ارشاد ہوا کہ کیا آپ بہرے شخص کو سنا سکتے ہیں اور اندھے کو راستہ دکھا سکتے ہیں اور اس شخص کو ہدایت دے سکتے ہیں جو پوری طرح گمراہ ہوچکا ہے ؟ گمراہ شخص کی صورت حال بیان کرنے کے بعد آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ارشاد ہوا کہ اگر ہم آپ کو فوت کرلیں تو ان سے ضرور بدلہ لیں گے یا آپ کی زندگی میں وہ کر دکھائیں گے جس کا ان کے ساتھ ہم وعدہ کرتے تھے۔ ہم ان سے انتقام لینے پر پوری طرح قدرت رکھتے ہیں۔ اہل مکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے باربار مطالبہ کرتے کہ جس عذاب سے ہمیں ڈرایا جاتا ہے وہ اب تک کیوں نازل نہیں ہوا؟ اس کا جواب اس موقع پریوں دیا گیا کہ ہم چاہیں تو آپ کی موت کے بعدان سے بدلہ لیں اور اگر چاہیں تو آپ کی زندگی میں انہیں عذاب میں مبتلا کریں گے۔ دونوں صورتوں میں ہمارے لیے کوئی مشکل نہیں کیونکہ ہم ان پر ہر اعتبار سے اقتدار اور اختیار رکھتے ہیں۔ ہدایت کے لیے لازم ہے کہ انسان عقل وفکر سے کام لے : (اِِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَذِکْرٰی لِمَنْ کَانَ لَہٗ قَلْبٌ اَوْ اَلْقَی السَّمْعَ وَہُوَ شَہِیْدٌ) [ قٓ: ٣٧] ” جو شخص دل سے اس کی طرف متوجہ ہو کر اسے سنتا ہے اس کے لیے اس میں نصیحت ہے۔“ (اَفَلَمْ یَسِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ فَتَکُوْنَ لَھُمْ قُلُوْبٌ یَّعْقِلُوْنَ بِھَآ اَوْ اٰذَانٌ یَّسْمَعُوْنَ بِھَا فَاِنَّھَا لَا تَعْمَی الْاَبْصَارُ وَ لٰکِنْ تَعْمَی الْقُلُوْبُ الَّتِیْ فِے الصُّدُوْرِ) [ الحج : ٤٦] ” کیا یہ لوگ زمین میں چلے پھرے نہیں ہیں کہ ان کے دل سمجھنے والے یا ان کے کان سننے والے ہوتے؟ حقیقت یہ ہے کہ آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں مگر سینوں میں دل اندھے ہوجاتے ہیں۔“ مسائل ١۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی بہرے کو سنا اور اندھے کو راستہ نہیں دکھا سکتے تھے۔ ٢۔ یہاں بہرے اور اندھے سے پہلی مراد سچائی سننے سے بہرا ہونا اور ہدایت پانے سے اندھا ہونا ہے۔ ٣۔ جو شخص برائی کو اچھائی سمجھتا ہے وہ گمراہ ہوچکا ہوتا ہے۔ ٤۔ موت نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا بھی مقدر تھی اس لیے آپ وفات پاچکے ہیں۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ نے کفار کو عذاب دینے کے لیے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے جو وعدہ فرمایا اسے آپ کی زندگی میں ہی پورا کردیا۔ ٦۔ مشرک اور کافر کو اس کی موت کے بعد بھی سخت عذاب ہوگا۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ ہر اعتبار سے قادر مطلق ہے : ١۔ اللہ تعالیٰ آسمانوں وزمین کی ہر چیز کو جانتا ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ (آل عمراٰن : ٢٩) ٢۔ تم جہاں کہیں بھی ہوگے اللہ تعالیٰ تمہیں قیامت کے دن جمع فرمائیگا وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ (البقرۃ: ١٤٨) ٣۔ اللہ تعالیٰ جسے چاہے عذاب دے جسے چاہے معاف کردے وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ (البقرۃ: ٢٨٤) ٤۔ اللہ تعالیٰ تمہارا خیر خواہ اور ذمہ دار ہے اور وہی مردوں کو زندہ کرے گا اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ (الشورٰی : ٩) ٥۔ اللہ تعالیٰ ہی مردوں کو زندہ کرے گا اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ ( الروم : ٥٠) ٦۔ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے (البقرۃ: ٢٠) الزخرف
41 الزخرف
42 الزخرف
43 فہم القرآن ربط کلام : نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم ہوا کہ حالات جیسے بھی ہوں آپ نے اپنے رب کی وحی کے مطابق چلنا اور اس کا ابلاغ کرنا ہے۔ اور یہی سیدھا راستہ ہے۔” تَمَسَّک“ کا معنٰی ہے چمٹنا، تھامنا، کسی چیز کو مضبوطی سے پکڑنا۔ اللہ تعالیٰ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنا رسول منتخب فرمایا۔ الرسول کا سب سے پہلا کام ” اللہ“ کی وحی پر اس کے تقاضوں کے مطابق عمل کرنا اور مکمل طور پر لوگوں تک پہنچانا ہے۔ وحی کا بنیادی مقصد لوگوں کی صراط مستقیم کی طرف راہنمائی کرنا ہے۔ یہی صراط مستقیم ہے جس پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تادم واپسیں قائم رہے اور لوگوں کی راہنمائی کرتے رہے۔ یہاں کفار کی اس یا وہ گوئی کا جواب دیا گیا ہے جو وہ عوام میں کرتے اور پھیلاتے تھے۔ کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے آباؤ اجداد کے صحیح راستے سے بہک گیا ہے۔ اس کا جواب سورۃ یًٰس کی ابتدائی آیات میں یوں دیا گیا ہے۔ اے سردار ! قرآن مجید کی قسم یقیناً آپ انبیاء میں شامل ہیں اور صراط مستقیم پر گامزن ہیں۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ” میری اور ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کی سنت کو لازم پکڑلو! (عَضُّوا عَلَیْہَا بالنَّوَاجِذِ وَعَلَیْکُمْ) تم اسے دانتوں کے ساتھ مضبوطی سے پکڑنا“ [ رواہ ابن ماجۃ: فی المقدمۃ : باب اتِّبَاعِ سُنَّۃِ الْخُلَفَآء الرَّاشِدِیْنَ الْمَہْدِیِّیْن] مسائل ١۔ نبی محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی اپنے رب کی وحی کے پابند تھے۔ ٢۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صراط مستقیم پر قائم رہے اور لوگوں کی راہنمائی کرتے رہے۔ تفسیربالقرآن صراط مستقیم کے بنیادی اصول : ١۔ کچھ نہ کرنے والا اور اچھی باتوں کی تعلیم دینے والا اور صراط مستقیم پر چلنے والا برابر ہو سکتے ہیں؟ (النحل : ٧٦) ٢۔ جس شخص نے اللہ کی رسی کو پکڑلیا اس کی صراط مستقیم کی طرف رہنمائی کی گئی۔ (آل عمران : ١٠١) ٣۔ اللہ کو ایک ماننا صراط مستقیم ہے۔ (آل عمران : ٥١) ٤۔ ایک اللہ کی عبادت کرنے والا صراط مستقیم پر ہے۔ (یٰس : ٦١) الزخرف
44 فہم القرآن ربط کلام : جس کے ساتھ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تمسک کرنے کا حکم ہوا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی وحی ہے جو آپ اور آپ کی قوم کے لیے نصیحت ہے اس کا پہلا نقطہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔ قرآن مجید وحی کے ذریعے نازل کیا گیا ہے جو اللہ تعالیٰ کو یاد کرنے کا ذریعہ اور اس کی طرف سے نصیحت ہے۔ جسے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور لوگوں کی راہنمائی کے لیے نازل کیا گیا ہے۔ اب لوگوں کافرض ہے وہ اس کے مطابق اپنی زندگی بسر کریں۔ اللہ تعالیٰ ان سے بات پرس کرے گا۔ جو لوگ قرآن مجید کی آمد اور اس کے منع کرنے کے باوجود شرک کرتے ہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان سے استفسار فرمائیں جنہیں ہم نے آپ سے پہلے رسول بنایا تھا۔ کیا ہم نے الرحمن کے سوا کوئی اور الٰہ بنایا ہے کہ اس کی عبادت کی جائے؟ ان آیات میں پہلا ارشاد یہ ہے کہ جو قرآن آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل کیا گیا ہے وہ آپ اور آپ کی قوم کے لیے نصیحت ہے جو لوگ اسے تسلیم نہیں کرتے اور اس کے بتلائے ہوئے راستے پر گامزن نہیں ہوتے ہم انہیں بہت جلد پوچھ لیں گے۔ پھر ارشاد ہواکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے سے پہلے انبیاء سے پوچھ لیں کہ کیا اللہ تعالیٰ نے اپنے علاوہ کوئی معبود بنایا تھا یا بنایا ہے جس کی یہ لوگ عبادت کریں اس حقیقت کوہر کوئی جانتا تھا اور مانتا ہے کہ پہلے انبیاء آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تشریف آوری سے پہلے فوت ہوچکے تھے۔ اس کے باوجود یہاں یہ الفاظ استعمال کیے گئے ہیں کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! پہلے انبیاء سے سوال کریں۔ اس کا یہ ہرگز معنٰی نہیں کہ پہلے انبیائے کرام (علیہ السلام) جسمانی یا روحانی طور پر دنیا میں موجود تھے۔ جن سے جاکر آپ پوچھتے۔ اس کا معنٰی یہ ہے کہ جو لوگ پہلے انبیائے کرام (علیہ السلام) کی اتباع اور ان کی نبوت کا حوالہ دیتے ہیں آپ ان لوگوں سے سوال کریں کہ اپنے انبیائے کرام (علیہ السلام) کی صحیح تعلیم کے مطابق بتاؤ کہ رب الرّحمن نے کسی آسمانی کتاب میں یہ بات ذکر فرمائی ہے کہ اس نے اپنے سوا یا اپنے ساتھ کسی اور کو الٰہ بنایا ہے کہ جس کی عبادت کی جائے ؟ ظاہر بات ہے کہ کسی آسمانی کتاب میں رب رحمن کے سوا کوئی الٰہ نہیں کہ جس کی عبادت کرناجائز تھی اور نہ ہی قرآن مجید میں رب رحمن کے سوا کسی کو معبود بنانے کا اشارہ ملتا ہے۔ الٰہ کا معنٰی ہے کہ جس کی عبادت کی جائے اور جسے حاجت روا اور مشکل سمجھا جائے وہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں۔ لہٰذاصرف اسی کی عبادت کرنا اور اسی کو حاجت روا اور مشکل کشا سمجھنا اور ماننا چاہیے۔ مسائل ١۔ قرآن مجید وحی کے ذریعے نازل ہوا اور یہ اللہ تعالیٰ کا ذکر اور اس کی طرف سے نصیحت ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ اپنی نصیحت کے بارے میں ہر شخص سے باز پرس کرے گا۔ ٣۔ الرحمن کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں کہ جس کی عبادت کی جائے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ ہی عبادت کے لائق، حاجت روا اور مشکل کشا ہے۔ تفسیر بالقرآن الٰہ کے معانی اور مفہوم : ١۔ اللہ کے ساتھ دوسرا الٰہ نہ بناؤ ورنہ بدحال بےیارومددگار ہوجاؤ گے۔ (بنی اسرائیل : ٢٢) ٢۔ اللہ کے سوا کسی اور کو نہ پکارو اس کے سوا کوئی الٰہ نہیں وہ عرش عظیم کا مالک ہے۔ (القصص : ٨٨) ٣۔ اگر یہ اِلٰہ ہوتے تو جہنم میں داخل نہ ہوتے۔ (الانبیاء : ٩٩) ٤۔ انہوں نے اللہ کے سوا اِلٰہ بنا لیے ہیں جنہوں نے کچھ بھی پیدا نہیں کیا۔ (الفرقان : ٣) ٥۔ کیا انہوں نے اللہ کے سوا اپنی مدد کے لیے الٰہ بنا لیے ہیں ؟ (یٰس : ٢٣) ٦۔ زمین و آسمان بنانے اور بارش اتارنے والا اللہ ہے کیا اس کے ساتھ دوسرا الٰہ ہے ؟ (النمل : ٦٠) ٧۔ اللہ نے زمین کو جائے قرار بنایا اس میں پہاڑ اور دو سمندروں کے درمیان پردہ بنایا کیا اس کے ساتھ اور بھی الٰہ ہے؟ (النمل : ٦١) ٨۔ کون ہے جو لاچار کی فریاد رسی کرتا ہے اور اس کی تکلیف کو دور کرتا ہے کیا کوئی اور بھی الٰہ ہے ؟ (النمل : ٦٢) ٩۔ خشکی اور سمندر کی تاریکیوں میں اللہ کے سواکون رہنمائی کرتا ہے کیا کوئی اس کے ساتھ الٰہ ہے۔ (النمل : ٦٣) ١٠۔ پہلے اور دوبارہ پیدا کرنا اور زمین و آسمان سے تمہارے لیے روزی کا بندوبست کرنے والا اللہ کے سوا کوئی اور الٰہ ہے؟ (النمل : ٦٤) ١١۔ تمہارا اِلٰہ ایک ہی ہے اس کے سوا کوئی اِلٰہ نہیں وہ بڑا مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے۔ (البقرۃ: ١٦٣) الزخرف
45 الزخرف
46 فہم القرآن ربط کلام : اہل مکہ غرور اور تکبرکی بنا پر نبی محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو رسول تسلیم کرنے کے لیے تیار نہ تھے۔ اس لیے اس موقع پر موسیٰ (علیہ السلام) اور فرعون کے درمیان ہونے والی کشمکش کا کچھ حصہ بیان کیا جاتا ہے۔ تاکہ مکہ والوں اور دوسرے لوگوں کو معلوم ہو کہ فرعون نے تکبر کی بنیاد پر موسیٰ (علیہ السلام) کی مخالفت کی تھی جس بنا پر اس کا بدترین انجام ہوا۔ اے مکہ والو ! تم نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مخالفت کر رہے ہو لہٰذا اپنا انجام سوچ لو۔۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) غلام قوم کے ایک فرد تھے۔ جب جوان ہوئے تو ان کے ہاتھوں سرکاری پارٹی کا ایک آدمی سہواً قتل ہوا جس بنا پر موسیٰ (علیہ السلام) مدین کی طرف ہجرت کرگئے۔ مدین میں ایک عرصہ گزارنے کے بعد اپنی اہلیہ کے ساتھ مصر واپس آرہے تھے تو راستہ میں انہیں نبوت عطا ہوئی۔ نبوت ملنے کے ساتھ دو معجزات بھی عطا کیے گئے۔ حکم ہوا کہ فرعون اور اس کے ساتھیوں کے پاس جاؤ اور انہیں اپنے رب کی توحید سمجھاؤ ! حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے رب کے حضور یہ درخواست کی کہ میری معاونت کے لیے میرے بھائی ہارون (علیہ السلام) کو بھی نبی بنایا جائے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی درخواست قبول فرمائی اور حضرت ہارون (علیہ السلام) کو ان کا معاون بنایا۔ حضرت موسیٰ، ہارون کے ساتھ فرعون اور ان کے وزیروں کے پاس گئے اور انہیں اللہ کی توحید کا پیغام سنایا اور اپنی قوم کی آزادی کا مطالبہ کیا۔ نہ معلوم ! موسیٰ (علیہ السلام) نے کتنی مدت تک جدوجہد جاری رکھی۔ اس دوران جادوگروں کے ساتھ معرکہ پیش آیا جس میں موسیٰ (علیہ السلام) کامیاب ہوئے اور جادوگر موسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لے آئی۔ لیکن فرعون اور اس کے ساتھی موسیٰ کے معجزات دیکھنے کے باوجود بھی ایمان نہ لائے۔ نہ صرف ایمان نہ لائے بلکہ وہ موسیٰ (علیہ السلام) سے بار بار مطالبہ کرتے رہے کہ تیرے کہنے کے باوجودہم پر عذاب نازل کیوں نہیں ہوتا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے آل فرعون کو پانچ سخت اور ذلیل کردینے والے عذاب دیے۔ سیلاب : ١۔ بارش انسانی صحت اور ہر چیز کی نشوونما کے لیے نہایت ضروری ہے۔ اس کے بغیر زمین مردہ اور ہر چیز مرجھا جاتی ہے۔ بشرطیکہ یہ مناسب مقدار میں ہو۔ اگر بارش غیر معمولی ہو تو اس سے ہر چیز تباہ ہوجاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آل فرعون پر غیر معمولی بارشیں نازل کیں۔ جس سے ان کی فصلیں تباہ، جانور بدحال اور مکانات گر گئے۔ باد وباراں کے طوفان اس لیے نازل کیے گئے تاکہ یہ لوگ توبہ و استغفار کریں۔ لیکن توبہ کرنے کے بجائے یہ لوگ تکبرّاور نافرمانی میں آگے ہی بڑھتے گئے۔ اس کے بعد ٹڈیوں کا عذاب نازل ہوا۔ ٹڈیوں کے جھنڈ : ٢۔ ٹڈیوں کے دل کے دل امڈ آئے اور انہوں نے سیلاب سے بچ جانے والی فصلوں کو تباہ کیا بلکہ درختوں کی ٹہنیاں تک چبا ڈالیں۔ جوؤں کی بہتات : ٣۔ آل فرعون کے لباس اور جسم کے ایک ایک روؤگٹے میں اس قدر جوئیں پیدا ہوئیں کہ ان کا رات کا سونا اور دن کا سکون غارت ہوگیا۔ لوگوں نے خارش کر کر کے اپنے جسم لہولہان کرلیے مگر ایمان نہ لائے۔ مینڈکوں کی بہتات : ٤۔ جوؤں کے بعد مینڈکوں کا اتنا شدید سیلاب آیا کہ مینڈکوں کے ڈَل کے ڈَل ان کے کھیتوں، کھلیانوں اور گھروں میں اس طرح گھس آئے کہ ان کے لیے چار پائی پر سونا بھی حرام ہوگیا۔ خوفناک شکل اور بھاری بھرکم مینڈک ملک میں اس طرح پھیل گئے کہ ہر شخص خوف کے مارے چھپتا پھرتا تھا۔ خون ہی خون : ٥۔ ہر کھانے پینے والی چیز میں خون ہی خون پیدا ہوا، یہاں تک کہ آل فرعون خواتین کی چھاتیوں میں دودھ کی بجائے خون اتر آیا حتیٰ کہ آل فرعون میں سے کوئی کسی اسرائیلی سے پانی طلب کرتا تو جونہی پانی کو پینے لگتا تو وہ بھی گندے خون میں تبدیل ہوجاتا۔ بعض مفسرین نے یہاں تک لکھا ہے کہ آل فرعون کی ایک عورت نے انتہائی قلق کی حالت میں اپنی پڑوسن اسرائیلی عورت کو کہا کہ پانی کی ایک کلی میرے منہ میں ڈال دے تاکہ مجھے سکون حاصل ہو۔ جب اس کی پڑوسن نے ایسا کیا تو پانی کی کلی آل فرعون کی عورت کے منہ میں جا کر خون میں تبدیل ہوگئی۔ نہ معلوم فرعون نے پہلے پہل ان عذابوں کے بارے میں عوام میں کیا تاثر دیا ہوگا اور ان کے مقابلہ میں سرکاری سطح پر کیا کیا جتن کیے ہوں گے لیکن جب اس کی تمام کوششیں ناکام ہوئیں تو وہ ہر عذاب کے بعد مجبور ہو کر موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس حاضر ہو کر انتہائی عاجزی کے ساتھ پختہ وعدہ کرتے ہوئے کہتا کہ اے موسیٰ ! اپنے رب کے حضور دعا کیجیے کہ یہ عذاب ہم سے ٹل جائے۔ اس عذاب سے نجات ملے گئی تو ہم آپ پر ایمان لاکر بنی اسرائیل کو آزاد کردیں گے۔ لیکن جونہی موسیٰ (علیہ السلام) کی دعا سے عذاب ٹلتا تو وہ عہد شکنی کرتے ہوئے پہلے سے زیادہ شرک و کفر کرتے اور بنی اسرائیل کو اذیتیں دیتے۔ قرآن و حدیث میں ان عذابوں کے دورانیہ کی وضاحت نہیں ملتی تاہم تفسیر روح المعانی اور قرطبی کے مؤلفین نے بنی اسرائیل کی روایات کو بنیاد بنا کر لکھا ہے کہ ہر عذاب کا دورانیہ ایک ہفتہ پر محیط ہوتا تھا۔ اور اس کے بعد ایک مہینہ کی مہلت دی جاتی تھی جب کہ لوگ کچھ آسودہ حال ہوتے تو پہلے سے زیادہ کفر و شرک اور مظالم کا ارتکاب کرتے تھے۔ موسیٰ (علیہ السلام) سے فرعون ہر مشکل موقع پر فریاد کرتا مگر اس کی رعونت کا حال یہ تھا کہ وہ موسیٰ (علیہ السلام) کو جادو گر کہہ کر پکارتا تھا۔ لیکن موسیٰ (علیہ السلام) اپنے عظیم حوصلہ اور قوم کی خیرخواہی کی خاطر یہ گستاخی برداشت کرتے کہ شاید ان میں سے کچھ لوگ ایمان لے آئیں۔ فرعون اور اس کے ساتھی ہر بار عہد شکنی کرتے تھے۔ ایک موقعہ پر فرعون نے یہاں تک ہرزہ سرائی کرتے ہوئے کہا۔ الزخرف
47 الزخرف
48 الزخرف
49 الزخرف
50 الزخرف
51 فہم القرآن ربط کلام : فرعون کا تکبر کی انتہا اور اس کی ہرزہ سرائی۔ فرعون اور اس کے ساتھی عذاب ٹل جانے کے بعد بار بار عہد شکنی کرتے اور موسیٰ (علیہ السلام) کو جادوگر کہہ کر بلاتے تھے۔ اس کے باوجود لوگ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی بے مثال جدوجہد سے متاثر ہورہے تھے۔ متاثر ہونے والوں میں فرعون کا ایک قریبی رشتہ دار بھی تھا جو موسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لے آیا۔ قریب تھا کہ جادو گروں کی طرح فرعون کے اور رشتہ دار بھی موسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لانے کا اظہار کرتے۔ لیکن فرعون بڑا جابر اور شاطر انسان تھا۔ جونہی وہ لوگوں کو موسیٰ (علیہ السلام) سے متاثر ہوتے ہوئے محسوس کرتا تو وہ کوئی نہ کوئی نیا ہتھکنڈا اور پراپیگنڈہ شروع کردیتا۔ اس بار اس نے اپنی قوم سے خطاب کرتے ہوئے ایک طرف تکبر کی انتہا کردی اور دوسری طرف اپنے کارناموں کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ اے میری محبوب عوام! تم خواہ مخواہ موسیٰ سے متاثر ہوئے جارہے ہو۔ دیکھو اور غور کرو! کہ ملک کا حکمران میں ہوں یا کوئی اور ؟ کیا آپ نہیں دیکھتے کہ میں نے اپنے محل کے نیچے نہریں جاری کر رکھی ہیں۔ یعنی دیکھو کہ ملک کا دارالخلافہ کس قدر خوبصورت ہے اس کے ساتھ میرے اور موسیٰ (علیہ السلام) کے درمیان تجزیہ کرو ! کیا میں بہتر ہوں یا وہ ذلیل شخص (نعوذ باللہ) جو صاف گفتگو بھی نہیں کرسکتا ؟ اس کی غربت اور کمپرسی کا یہ عالم ہے کہ نہ اس کے پاس سونے کے کنگن ہیں اور نہ ہی کوئی اس کے باڈی گارڈ۔ اس طرح اس نے عوام کو موسیٰ (علیہ السلام) کے خلاف مشتعل کرنے کی کوشش کی۔ فرعون نے اپنے ملک کی ترقی بالخصوص شہروں میں ترسیلِ آب اور زراعت کے لیے آب پاشی کے نظام کا حوالہ دے کر قوم کو ورغلایا اور اپنے آپ کو ممتاز اور منفرد شخصیت کے طور پر پیش کرتے ہوئے ملک کے لیے ناگزیر قرار دیا۔ فرعون نے اپنے مقابلے میں موسیٰ (علیہ السلام) کو حقیر اور گونگا کہا اور ملک کی خوشحالی کا حوالہ دیتے ہوئے قوم کو اپنی کلائیوں کے سونے کے کنگن دکھلائے اور جاہ و حشمت کے اظہار کے لیے اپنے لشکر و سپاہ کا حوالہ دیا۔ یاد رہے کہ ہر ڈکٹیٹر اپنے بارے میں یہی سوچتا ہے اور تاثر دیا کرتا ہے یاد رہے اس قسم کے خیالات کا اظہار اہل مکہ بھی کیا کرتے تھے ان کا کہنا تھا کہ یہ تو غریب ہے نبی تو طائف یا مکہ کے فلاں سردار کو ہونا چاہیے تھا، جس لیے فرعون کی اس گفتگو کا قدرِتفصیل سے ذکر کیا گیا ہے۔ فرعون نے اس بات کا بھی اظہار کرتا تھا کہ اگر واقعی موسیٰ (علیہ السلام) اللہ کا رسول ہوتا تو اس کے ساتھ ہر وقت ملائکہ کا دستہ ہونا چاہیے تھا تاکہ وہ ہر موقع پر اس کی تائید اور مدد کرتے۔ ایسی ہی گفتگو اہل مکہ نبی محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں کیا کرتے تھے۔ اہل مکہ کو یہ کہہ کر سمجھایا گیا کہ تم ملائکہ کی آمد کا مطالبہ کرتے ہو۔ (وَ قَالُوْا لَوْ لَآ اُنْزِلَ عَلَیْہِ مَلَکٌ) [ الانعام : ٨] ” اور انہوں نے کہا اس پر کوئی فرشتہ کیوں نہ اتارا گیا ؟“ زمانہ قدیم کے بادشاہ اور مالدار لوگ دولت کی نمائش کے لیے اپنی کلائیوں میں سونے کے کنگن پہنا کرتے تھے جس طرح آج کل کچھ لوگ کلائی میں کڑا، اور ہاتھ میں سونے کی انگوٹھی پہنتے ہیں اور گلے میں سونے کی زنجیر لٹکاتے ہیں۔ کچھ لوگ سونے کی گھڑی پہننے پر فخر محسوس کرتے ہیں حالانکہ ہماری شریعت میں مردوں کو سونا پہننے سے منع کیا گیا ہے۔ (عَنْ عُقْبَۃَ بْنَ عَامِرٍ یُخْبِرُ عَنْ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) أَنَّہُ کَانَ یَمْنَعُ أَہْلَ الْحِلْیَۃِ وَالْحَرِیرِ وَیَقُولُ إِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّونَ حِلْیَۃَ الْجَنَّۃِ وَحَرِیرَہَا فَلاَ تَلْبَسُوہَا فِی الدُّنْیَا)[ رواہ احمد : باب حدیث عقبۃ بن عامر الجھنی] ” حضرت عقبہ بن عامر بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) انے زیور اور ریشم سے منع کرتے اور فرماتے تھے کہ اگر تم جنت میں زیور اور ریشم پہننا چاہتے ہو تودنیا میں نہ پہنا کرو!“ (عن عَبْد اللّٰہِ بْنَ عُکَیْمٍ قَالَ کُنَّا مَعَ حُذَیْفَۃَ (رض) بِالْمَدَآءِنِ فَاسْتَسْقٰی حُذَیْفَۃُ فَجَآ ءَ ہٗ دِہْقَانٌ بِشَرَابٍ فِیْٓ إِنَاءٍ مِّنْ فِضَّۃٍ فَرَمَاہُ بِہٖ وَقَالَ إِنِّیْٓ أُخْبِرُکُمْ أَنِّیْ قَدْ أَمَرْتُہٗ أَنْ لاَّ یَسْقِیَنِیْ فِیْہِ فَإِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ لاَ تَشْرَبُوْا فِیْٓ إِنَآء الذَّہَبِ وَالْفِضَّۃِ وَلاَ تَلْبَسُوا الدِّیْبَاجَ وَالْحَرِیْرَ فَإِنَّہٗ لَہُمْ فِی الدُّنْیَا وَہُوَ لَکُمْ فِی الآخِرَۃِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ )[ رواہ مسلم : کتاب اللباس والزینۃ، باب تَحْرِیمِ اسْتِعْمَالِ إِنَاءِ۔۔] ” حضرت عبداللہ بن عکیم (رض) بیان کرتے ہیں کہ ہم حذیفہ (رض) کے ساتھ مدائن میں تھے۔ حذیفہ (رض) نے پانی طلب کیا تو ایک کاشتکار چاندی کے برتن میں پانی لے کر حاضر ہوا حضرت حذیفہ نے اسے پھینک دیا اور فرمانے لگے کہ میں تمہیں یہ بات بتلاتے ہوئے حکم دیتاہوں کہ کوئی مجھے ایسے برتن میں نہ پلائے۔ کیونکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے کہ سونے اور چاندی کے برتنوں میں نہ پیو۔ زیور اور ریشمی لباس نہ پہنو (مرد) یقیناً یہ دنیا میں کافروں کے لیے ہے اور تمہارے لیے آخرت میں ہے۔“ مسائل ١۔ فرعون نے اپنی قوم کو ملک کی ترقی کا حوالہ دے کر ورغلایا۔ ٢۔ فرعون نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) جیسے صاحب جمال اور جلیل القدر پیغمبر کو اپنے مقابلے میں ذلیل کہا۔ (نعوذباللہ) ٣۔ فرعون نے اپنے مقابلے میں موسیٰ (علیہ السلام) کو گونگا قرار دیا۔ ٤۔ فرعون نے اپنی جاہ وحشمت کا مظاہرہ کیا۔ تفسیربالقرآن نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اہل مکہ کے مطالبات : ١۔ منکرین حق اس قرآن کے علاوہ قرآن یا اس میں تبدیلی کا مطالبہ کرتے ہیں۔ (یونس : ١٥) ٢۔ کافر کہتے ہیں کہ نبی پر اس کے رب کی طرف سے کوئی نشانی کیوں نہیں نازل ہوئی۔ (یونس : ٢٠) ٣۔ کفار کہتے ہیں کہ نبی پر اس کے رب کی طرف سے معجزات کیوں نازل نہیں ہوتے۔ (العنکبوت : ٥٠) ٤۔ کفارنے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا کہ ہم آپ پر ایمان نہیں لائیں گے یہاں تک کہ تو ہمارے لیے زمین سے چشمہ جاری کردے۔ (بنی اسرائیل : ٩٠) ٥۔ کفار نے نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مطالبہ کیا کہ تیرے لیے کھجور اور انگور کا ایک باغ ہو پھر اس کے درمیان نہریں جاری کر دے۔ (بنی اسرائیل : ٩١) ٦۔ آسمان کو ٹکڑے کرکے ہم پر گرا دے جیسا کہ تو نے دعویٰ کیا ہے۔ یا تو اللہ اور فرشتوں کو سامنے لے آئے۔ (بنی اسرائیل : ٩٢) ٧۔ تیرے لیے سونے کا ایک گھر ہو یا تو آسمان میں چڑھ جائے اور ہم تیرے چڑھنے کا یقین نہیں کریں گے یہاں تک کہ تو ہم پر کتاب لے آئے جسے ہم پڑھیں۔ آپ فرما دیں میرا رب پاک ہے میں تو ایک پیغام پہنچانے والا بشر ہوں۔“ (٩٣) الزخرف
52 الزخرف
53 الزخرف
54 فہم القرآن ربط کلام : فرعون کے تشدد اور پراپیگنڈہ کے قوم پر منفی اثرات۔ فرعون نے قوم کو ہر اعتبار سے مرعوب اور اپنے تابع رکھنے کے لیے مختلف قسم کے ہتھکنڈے استعمال کیے جس کے نتیجہ میں قوم نے فرعون کی ہر بات کوتسلیم کیا جس کا سبب یہ تھا کہ یہ قوم بھی اللہ تعالیٰ کی نافرمان تھی۔ فرعون اور اس کی قوم نے جب اللہ تعالیٰ کو ناراض کردیا تو اللہ تعالیٰ نے ان سے انتقام لیا اور سب کو سمندر میں غرق کرڈالا اور انہیں ان کے بعد آنے والوں کے لیے عبرت بنادیا۔ فرعون کی قوم کے لیے ” فَاسْتَخَفَّ“ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے جس کے مفسرین نے دو معانی بیان کیے ہیں۔ 1 فرعون نے اپنی قوم کو بے وقوف بنایا۔2 اس نے اپنی قوم کو ڈرا دھمکا کر اور مختلف قسم کے لالچ دے کر ہلکا کردیا۔ ہر ڈکٹیٹر اور ظالم حکمران کا یہی طریقہ رہا ہے کہ وہ کچھ لوگوں کو مختلف قسم کے لالچ دے کر خرید لیتا ہے جس سے ان لوگوں کے ضمیر ہلکے ہوجاتے ہیں اور ڈکٹیٹرر کو خوش کرنے کے لیے وہ حق والوں کی مخالفت کرتے ہیں۔ جو لوگ بکنے والے نہیں ہوتے ان پر مظالم ڈھائے جاتے ہیں۔ جس کے نتیجے میں ان کی اکثریت دب کررہ جاتی ہے۔ یہی کچھ فرعون نے اپنی قوم کے ساتھ کیا۔ جس کے نتیجے میں لوگ اس کے سامنے جھک گئے اور ان کے ضمیر ہلکے ہوگئے۔ اللہ تعالیٰ نے قوم فرعون کا عذر قبول نہ کیا اور ان کو نافرمان قرار دیتے ہوئے فرعون کے ساتھ ہی غرق کردیا۔ فرعون کی قوم کے ساتھ یہ سلوک اس لیے ہوا کہ لوگوں کا اجتماعی طور پر فرض ہوتا ہے کہ وہ ظالم کا ہاتھ روکیں اور سچے لوگوں کا ساتھ دیں۔ لیکن انہوں نے موسیٰ (علیہ السلام) کی بجائے فرعون اور اس کی پارٹی کا ساتھ دیا۔ جس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے ان سے انتقام لیا اور انہیں سمندر میں غرق کیا۔ اس طرح انہیں آنے والی نسلوں کے لیے نشان عبرت بنایا۔ لوگوں کا اجتماعی فرض (یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَ کُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ) [ التوبۃ: ١١٩] ” اے لوگو جو ایمان لائے ہو ! اللہ سے ڈرو اور سچے لوگوں کے ساتھی بن جاؤ۔“ (مَثَلُ الْقَاءِمِ عَلٰی حُدُوْدِ اللّٰہِ وَالْوَاقِعِ فِیْھَا کَمَثَلِ قَوْمٍ اسْتَھَمُّوْا عَلٰی سَفِیْنَۃٍ فَأَصَابَ بَعْضُھُمْ أَعْلَاھَا وَبَعْضُھُمْ أَسْفَلَھَا فَکَانَ الَّذِیْنَ فِیْ أَسْفَلِھَا إِذَا اسْتَقَوْا مِنَ الْمَاءِ مَرُّوْا عَلٰی مَنْ فَوْقَھُمْ فَقَالُوْا لَوْ أَنَّا خَرَقْنَا فِیْ نَصِیْبِنَا خَرْقًا وَلَمْ نُؤْذِ مَنْ فَوْقَنَا فَإِنْ یَتْرُکُوْھُمْ وَمَا أَرَادُوْاھَلَکُوْا جَمِیْعًآ وَإِنْ أَخَذُوْا عَلٰی أَیْدِیْھِمْ نَجَوْا وَنَجَوْا جَمِیْعًا) [ رواہ البخاری : کتاب الشرکۃ، ھل یقرع فی القسمۃ والإستھام فیہ] ” اللہ تعالیٰ کی حدود پر قائم رہنے والے اور اس میں ملوث ہونے والوں کی مثال ان لوگوں جیسی ہے جنہوں نے ایک بحری جہاز کے بارے میں قرعہ اندازی کی۔ بعض کو اوپر والے حصے میں اور کچھ کو نیچے والے حصے میں جگہ ملی۔ نیچے والوں کو جب پانی کی ضرورت پڑتی تو اوپر والوں کے پاس جاتے۔ نیچے والوں نے کہا کہ ہم اپنے حصے میں سوراخ کرلیتے ہیں اور اوپر والوں کو تکلیف نہیں دیتے۔ اگر اوپر والے انہیں اسی حالت پر چھوڑ دیں تو سب لوگ ہلاک ہوجائیں گے اور اگر ان کے ہاتھوں کو روک لیں گے تو سب بچ جائیں گے۔“ مسائل ١۔ فرعون نے مختلف ہتھکنڈوں کے ذریعے اپنی قوم کو ہلکا کردیا۔ ٢۔ فرعون کی قوم بھی درحقیقت فاسق لوگ تھے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ نے فاسق قوم سے بدلہ لیا اور انہیں فرعون کے ساتھ غرقاب کردیا۔ ٤۔ فرعون اور اس کی قوم کو ان سے بعد آنے والوں کے لیے عبرت کا نشان بنا دیا گیا۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ نے کن لوگوں سے انتقام لیا : ١۔ ان کے پاس انہی سے رسول آئے لیکن انہوں نے تکذیب کی جس بنا پر انہیں عذاب نے آلیا۔ (النحل : ١١٣) ٢۔ ان کے لیے کہا جائے گا تکذیب کرنے کی وجہ سے عذاب میں مبتلا رہو۔ (السجدۃ : ٢٠) ٣۔ انہوں نے رسولوں کو جھٹلایا تو ہم نے انہیں ہلاک کردیا۔ (الشعراء : ١٣٩) ٤۔ قوم نوح نے جب حضرت نوح کی تکذیب کی تو ہم نے انہیں غرق کردیا۔ (الفرقان : ٣٧) ٥۔ ہم نے آل فرعون سے انتقام لیا اور انہیں دریا میں غرق کردیا۔ (الاعراف : ١٣٦) ٦۔ ہم مجرموں سے انتقام لیا کرتے ہیں۔ ( سجدہ ٢٢) الزخرف
55 الزخرف
56 الزخرف
57 فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ نے آل فرعون کو ان کے بعد آنے والوں کے لیے عبرت کا نشان بنایا اور عیسیٰ ( علیہ السلام) کو اہل مکہ اور دیگر لوگوں کے لیے قدرت کا نمونہ اور مثال بنایا ہے۔ اسی سورت کی آیت ٤٥ میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ارشاد ہوا کہ آپ اپنے سے پہلے انبیائے کرام (علیہ السلام) سے پوچھیں۔ انبیاء ( علیہ السلام) سے پوچھنے سے مراد ان کی کتابیں اور اہل کتاب کے منصف مزاج اہل علم سے پوچھنا ہے۔ کیا اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کے علاوہ کوئی معبود اور مشکل کشا بنایا ہے ؟ جس کی یہ لوگ عبادت کرتے ہیں۔ ظاہربات ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے سوا کسی کو معبود نہیں بنایا۔ جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اہل مکہ کے سامنے ان آیات کی تلاوت تو وہ کھل کھلا کر ہنسنے اور چلّانے لگے کہ کیا ہمارے معبود بہتر ہیں یا عیسیٰ ( علیہ السلام) بہتر ہیں ؟ حقیقت یہی ہے کہ عیسیٰ ( علیہ السلام) بہتر تھے اور بہتر ہیں۔ اس پر انہوں نے یہ دلیل لی کہ اگر عیسیٰ ( علیہ السلام) جہنم میں جائیں گے (نعوذ باللہ) تو ہم اور ہمارے معبود بھی جہنّم میں جانے کے لیے تیار ہیں۔ حالانکہ عیسیٰ ( علیہ السلام) صرف ایک ” اللہ“ کی عبادت کا حکم دیا کرتے تھے جس کا ذکر اگلی آیات میں کیا گیا ہے، جہاں تک ان لوگوں کا جہنم میں داخل ہونے کا معاملہ ہے ان میں وہ پیر اور لوگ جہنم میں پھینکیں جائیں گے۔ جنہوں نے شرک کی تعلیم دی یا ایسا ماحول دیا کہ لوگ ان کی یا دوسروں کی عبادت کرنے لگے ان سب کو جہنم میں داخل کیا جائے گا۔ عیسیٰ ( علیہ السلام) اللہ کے بندے تھے جن پر اللہ تعالیٰ نے بڑا انعام فرمایا اور انہیں بنی اسرائیل کے لیے نمونہ قراردیا۔ جہاں تک مشرکین کی دلیل کا تعلق ہے بحث وتکرار اور جھگڑے کے سوا اس کی کوئی حقیقت نہیں۔ کیونکہ عیسیٰ ( علیہ السلام) بنی اسرائیل کو شرک و خرافات سے روکتے رہے۔ جس کا ثبوت دو آیات کے بعد دیا جارہا ہے۔ عیسیٰ ( علیہ السلام) پر اللہ تعالیٰ نے جو انعامات فرمائے ان کا اختصار یہ ہے۔ 1 اللہ تعالیٰ نے عیسیٰ ( علیہ السلام) کی والدہ حضرت مریم [ کو بڑی عزت عطا فرمائی ہے۔ 2 اللہ تعالیٰ نے عیسیٰ ( علیہ السلام) کو بغیر باپ کے پیدا فرما کر اپنی قدرت کا نشان قرار دیا ہے۔ 3 اللہ تعالیٰ نے عیسیٰ (علیہ السلام) کو بڑے بڑے معجزات عطا فرمائے۔ 4 اللہ تعالیٰ نے عیسیٰ ( علیہ السلام) کو وجیہ اور معزز بنایا۔ 5 اللہ تعالیٰ نے عیسیٰ ( علیہ السلام) کو جسم سمیت آسمان پر اٹھالیا۔ 6 اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کو قیامت کی نشانی قرار دیا۔ 7 اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کو صاحب کتاب نبی بنایا۔ مسائل ١۔ مشرک اپنے شرک کی تائید میں خواہ مخواہ بہانے تلاش کرتا ہے۔ ٢۔ مشرک کے پاس علم اور حقیقت پر مبنی دلیل نہیں ہوتی اس لیے وہ بحث و تکرار اور جھگڑا کرتا ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ نے عیسیٰ ( علیہ السلام) پر بہت زیادہ فضل و کرم فرمایا تھا۔ تفسیر بالقرآن حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کا عقیدہ اور دعوت : ١۔ عیسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ کی عبادت کرنے کا حکم دیا۔ (المائدۃ: ٧٢) ٢۔ عیسیٰ (علیہ السلام) نے تورات کی تصدیق کی۔ (آل عمران : ٥٠) ٣۔ عیسیٰ نے اپنی والدہ کی گود میں اپنی نبوت اور بندہ ہونے کا اعلان فرمایا۔ (مریم : ٢٩، ٣٠) ٤۔ حضرت عیسیٰ نے فرمایا بے شک میرا اور تمہارا پروردگار ” اللہ“ ہے بس اسی کی عبادت کرو۔ (مریم : ٣٦) الزخرف
58 الزخرف
59 الزخرف
60 فہم القرآن ربط کلام : اہل مکہ کے ایک اور اعتراض کا جواب۔ جس طرح فرعون نے اپنی قوم سے کہا کہ میں موسیٰ (علیہ السلام) پر اسے لیے بھی ایمان نہیں لاتا کہ اس کی معاونت کے لیے ملائکہ مقرر نہیں کیے گئے۔ اعتراض کی شکل میں اہل مکہ کا بھی یہ مطالبہ تھا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تائید میں ملائکہ مقرر کیوں نہیں کیے گئے۔ جس کا اس موقع پر یہ جواب دیا گیا کہ اگر ہم چاہیں تو زمین میں فرشتے تمہارے جانشین بنا دیں۔ دوسرے موقع پرکفار کے اعتراض کے یہ جواب دیئے گئے۔ (قُلْ لَوْ کَانَ فِی الْأَرْضِ مَلَاءِکَۃٌ یَمْشُونَ مُطْمَءِنِّینَ لَنَزَّلْنَا عَلَیْہِمْ مِنَ السَّمَاءِ مَلَکًا رَسُولًا) [ بنی اسرائیل : ٩٥] ” اگر زمین میں فرشتے اطمینان سے چل پھر رہے ہوتے تو ہم ضرور ان پر آسمان سے کوئی فرشتہ رسول بناتے۔“ (وَقَالُوا لَوْلَا أُنْزِلَ عَلَیْہِ مَلَکٌ وَلَوْ أَنْزَلْنَا مَلَکًا لَقُضِیَ الْأَمْرُ ثُمَّ لَا یُنْظَرُونَ وَلَوْ جَعَلْنَاہُ مَلَکًا لَجَعَلْنَاہُ رَجُلًا وَلَلَبَسْنَا عَلَیْہِمْ مَا یَلْبِسُونَ)[ الانعام : ٨، ٩ ] ” اور انہوں نے کہا اس پر کوئی فرشتہ کیوں نہ اتارا گیا ؟ اور اگر ہم کوئی فرشتہ اتارتے تو ضرور کام تمام کردیا جاتا، پھر انہیں مہلت نہ دی جاتی۔ اور اگر ہم اسے فرشتے بناتے تو یقیناً اسے آدمی بناتے اور یہ اس پر وہی مغالطہ دیتے جو وہ معالطہ اب ڈال رہے ہیں۔“ (الانعام : ٨، ٩) یعنی یہ کہتے کہ ہم انسان میں ہمارے لیے انسان رسول کیوں نہ بھیجا گیا۔ جہاں تک عیسیٰ ( علیہ السلام) کی ذات کا تعلق ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں قیامت کی نشانی بنایا ہے۔ لوگوں کی اس میں شک نہیں کرنا چاہیے۔ اے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! لوگوں سے فرمادیں کہ بس میری اتباع کرو یہی سیدھا راستہ ہے۔ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے اپنی توحید، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت اور قیامت کی نشانی کا ذکر فرماکر واضح کیا ہے کہ یہ عقیدہ اور سوچ صراط مستقیم ہے۔ لوگوں کو اس کے مطابق ہی چلنا چاہیے۔ اس لیے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ بات کہلوائی گئی کہ لوگوں کو یہ بھی سمجھائیں کہ تمہیں شیطان صراط مستقیم سے نہ بہکائے اور پوری طرح جان لو ! کہ وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔ (عَنْ أبی ہُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِہِ لَیُوشِکَنَّ أَنْ یَنْزِلَ فیکُمْ ابْنُ مَرْیَمَ حَکَمًا عَدْلًا فَیَکْسِرَ الصَّلِیبَ وَیَقْتُلَ الْخِنْزِیرَ وَیَضَعَ الْجِزْیَۃَ وَیَفِیضَ الْمَالُ حَتّٰی لَا یَقْبَلَہٗ أَحَدٌ حَتّٰی تَکُون السَّجْدَۃُ الْوَاحِدَۃُ خَیْرًا مِنْ الدُّنْیَا وَمَا فیہَا) [ رواہ البخاری : کتاب احادیث الانبیاء] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! عنقریب تم میں عیسیٰ ابن مریم عادل حکمران کی حیثیت میں آئیں گے۔ صلیب کو توڑ دیں گے۔ خنزیر کو قتل کر ڈالیں گے اور جزیہ ختم کریں گے مال ودولت کی اس قدر بہتات ہوگی کوئی اس کو لینے والا نہ ہوگا یہاں تک کہ ایک سجدہ کرنا دنیا ومافیہا سے بہتر ہوگا۔“ مسائل ١۔ اگر زمین میں بسنے والے فرشتے ہوتے تو اللہ تعالیٰ کسی فرشتے کو نبی منتخب کرتا۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے عیسیٰ ( علیہ السلام) کو قیامت کی نشانی بنایا ہے اس میں شک کی کوئی گنجائش نہیں۔ ٣۔ لوگوں کو شیطان کے پیچھے چلنے کی بجائے صراط مستقیم پر چلنا چاہیے۔ ٤۔ شیطان لوگوں کا کھلادشمن ہے۔ تفسیر بالقرآن شیطان کی لوگوں کے ساتھ دشمنی : ئ١۔ شیطان انسان کا دشمن ہے۔ (البقرۃ : ١٦٨) ٢۔ شیطان کی رفاقت کا بدترین انجام ہوگا۔ (الفرقان : ٢٩) ٣۔ شیطان بے وفائی کرتا ہے۔ (الحشر : ١٦) ٤۔ شیطان بدترین ساتھی ہے۔ (النساء : ٣٨) ٥۔ شیطان نے حضرت آدم (علیہ السلام) کے ساتھ دشمنی کی۔ (الاعراف : ٢٠ تا ٢٢) ٦۔ شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے۔ (یوسف : ٥) الزخرف
61 الزخرف
62 الزخرف
63 فہم القرآن ربط کلام : اس آیت سے پہلے عیسیٰ ( علیہ السلام) کا ذکر ہورہا تھا۔ اب عیسیٰ ( علیہ السلام) کی تشریف آوری اور ان کی دعوت کا ذکر کیا جاتا ہے۔ جب عیسیٰ ( علیہ السلام) کو نبوت سے سرفراز کیا گیا تو انہوں نے بنی اسرائیل کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ میری بعثت کا مقصد یہ ہے کہ میں تمہیں حکمت کی باتیں سکھلاؤں اور تمہارے درمیان ان باتوں کا فیصلہ کروں جن میں تم اختلاف کرتے ہو۔ بس اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور میری تابعداری کرؤ۔ یقین جانو کہ ” اللہ“ ہی میرا اور تمہارا رب ہے صرف اسی کی عبادت کرو ! یہی صراط مستقیم ہے۔ عیسیٰ ( علیہ السلام) کی ہدایت کے باوجود بنی اسرائیل کئی فرقوں میں بٹ گئے۔ جن لوگوں نے عیسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ اختلاف کیا انہوں نے ظلم کیا اس لیے انہیں اذیت ناک عذاب دیا جائے گا۔ ظالم لوگوں کو صرف اس بات کا انتظار ہے کہ ان پر قیامت برپا ہوجائے وہ ان پر اس طرح ٹوٹ پڑے گی کہ انہیں اس کی خبر تک نہ ہوگی۔ اہل مکہ کا یہ سوال تھا کہ عیسیٰ ( علیہ السلام) کی پوجا کی جاتی ہے تو کیا عیسیٰ ( علیہ السلام) بھی جہنّم میں جائیں گے ؟ اس بات کی وضاحت کے لیے عیسیٰ ( علیہ السلام) کی تعلیم کا حوالہ دیا ہے کہ عیسیٰ ( علیہ السلام) اللہ تعالیٰ کے سوا اپنی یا کسی دوسرے کی عبادت کا سبق نہیں دیتے تھے۔ وہ تو زندگی بھر یہی تلقین کرتے رہے کہ لوگو! صرف ایک اللہ کی عبادت کرو! وہ میرا اور تمہارا رب ہے۔ صرف ایک رب کی عبادت کرنا ہی صراط مستقیم ہے۔ لیکن لوگوں نے ان کی زندگی اور ان کے بعد عقیدہ توحید اور دوسرے مسائل میں اختلاف کیا۔ حالانکہ عیسیٰ ( علیہ السلام) ان اختلافات کو مٹانے اور سلجھانے کے لیے مبعوث کیے گئے تھے۔ مگر اس کے باوجود اہل کتاب نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا اور کئی گروہوں میں تقسیم ہوگئے۔ عقیدہ توحید اور دین کے بنیادی مسائل میں اختلاف پیدا کرنا پرلے درجے کا ظلم ہے۔ دین کے نام پر ظلم کرنے والوں کو جتنا بھی سمجھایا جائے ان کی اکثریت اس ظلم سے باز نہیں آتی۔ اس لیے ارشاد ہوا ہے کہ یہ لوگ تو صرف قیامت کے منتظر ہیں۔ انہیں کیا خبر کہ قیامت اس قدر اچانک برپا ہوگی کہ انہیں خبر تک نہ ہوگی۔ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ (رض) أَنَّ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ تَفَرَّقَتِ الْیَہُودُ عَلَی إِحْدَی وَسَبْعِینَ أَوِ اثْنَتَیْنِ وَسَبْعِینَ فِرْقَۃً وَالنَّصَارَی مِثْلَ ذَلِکَ وَتَفْتَرِقُ أُمَّتِی عَلَی ثَلاَثٍ وَسَبْعِینَ فِرْقَۃً )[ رواہ الترمذی : باب ماجاء فی افتراق ہذہ الامۃ] ” رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ یہودی اپنے دین میں اختلاف کرنے کی وجہ سے اکہتر فرقے ہوئے، عیسائی اختلاف کی بنا پر بہتر گروہوں میں تقسیم ہوگئے اور میری امت تہتر فرقوں میں تقسیم ہوجائے گی۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے عیسیٰ ( علیہ السلام) کو حکمت اور واضح دلائل کے ساتھ مبعوث فرمایا تھا۔ ٢۔ عیسیٰ ( علیہ السلام) نے اپنی قوم کو فرمایا کہ اللہ تعالیٰ سے ڈر کر ہر قسم کا شرک اور ظلم چھوڑ دو اور میری اتباع کرو۔ ٣۔ صرف ایک اللہ ہی کی عبادت کرنی چاہیے کیونہ وہ سب کا پیدا کرنے والا اور پالنہار ہے۔ ٤۔ صراط مستقیم کی نشانی یہ ہے کہ صرف ایک ” اللہ“ کی عبادت کی جائے۔ ٥۔ بنی اسرائیل نے عیسیٰ ( علیہ السلام) کے بعد اپنے دین کے ٹکڑے ٹکڑے کیے اور لوگوں کو انتشار کا شکار کیا۔ ٦۔ جو لوگ دین میں اختلاف اور امت میں انتشار ڈالتے ہیں اللہ تعالیٰ انہیں قیامت کے دن اذیت ناک سزا دے گا۔ ٧۔ قیامت اچانک برپا ہوجائے گی اور لوگوں کو اس کے آنے کی خبر نہ ہوپائے گی۔ الزخرف
64 الزخرف
65 الزخرف
66 الزخرف
67 فہم القرآن ربط کلام : عیسائیوں میں شرک کی ابتدا حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کی محبت میں غلو کی بنا پر ہوئی۔ جس وجہ سے قیامت کے دن کے بارے میں بتلایا ہے کہ اس دن متقین کی دوستی کے علاوہ کسی کی دوستی اور محبت باقی نہیں رہے گا۔ قیامت کے لمحات کے بارے میں قرآن مجید نے بڑی تفصیل کے ساتھ ذکر فرمایا ہے۔ قیامت کے تین مراحل جب کوئی کسی کو یاد نہیں کریگا : (عَنْ عَاءِشَۃ أَنَّہَا ذَکَرَتِ النَّارَ فَبَکَتْ فَقَالَ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَا یُبْکِیک قالَتْ ذَکَرْتُ النَّارَ فَبَکَیْتُ فَہَلْ تَذْکُرُونَ أَہْلِیکُمْ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ قَالَ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) أَمَّا فِی ثَلاَثَۃِ مَوَاطِنَ فَلاَ یَذْکُرُ أَحَدٌ أَحَدًا عِنْدَ الْمِیزَانِ حَتَّی یَعْلَمَ أَیَخِفُّ میزَانُہُ أَوْ یَثْقُلُ وَعِنْدَ الْکِتَاب حینَ یُقَالُ (ہَاؤُمُ اقْرَءُ وا کِتَابِیَہْ) حَتَّی یَعْلَمَ أَیْنَ یَقَعُ کِتَابُہُ أَفِی یَمِینِہِ أَمْ فِی شِمَالِہِ أَمْ مِنْ وَرَاءِ ظَہْرِہِ وَعِنْدَ الصِّرَاطِ إِذَا وُضِعَ بَیْنَ ظَہْرَیْ جَہَنَّمَ)[ رواہ ابوداؤد : باب فی ذکر المیزان] ” سیدہ عائشہ (رض) ایک دن جہنم کو یاد کر کے رورہی تھی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا اے عائشہ! تجھے کس چیز نے رولایا ہے۔ سیدہ عائشہ نے کہا جہنم کی آگ یاد آئی تو میں رو پڑی۔ کیا قیامت کے دن آپ اپنے اہل وعیال کو یاد رکھ پائیں گے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تین مواقع ایسے ہیں جن میں کوئی کسی کو یاد نہیں کرے گا۔1 اعمال تولے جانے کے وقت جب تلک یہ نہ پتہ چل جائے کہ اس کا نیکیوں والا پلڑا بھاری ہوا یا ہلکا۔2 نامہ اعمال دئیے جانے کے وقت جب کہنے والا کہے آؤ میرے نامہ اعمال کو پڑھ کر دیکھو حتٰی کہ اسے علم ہوجائے کہ اس کو نامہ اعمال دائیں ہاتھ میں دیا جا رہا ہے یا پیٹھ کے پیچھے سے بائیں ہاتھ میں 3 جب جہنم پر پل صراط کو رکھا جائے گا۔“ ” اس دن گنہگار آرزو کرے گا کہ کاش! اپنے بیٹے، اپنی بیوی، اپنے بھائی اور اپنے کنبے والوں کو جو اس کو پناہ دیا کرتے تھے اور زمین کو فدیے میں دے دے اور خود نجات پاجائے“ (المعارج : ١١ تا ١٤) ” اس دن آدمی اپنے بھائی، اپنے والدین، اپنی بیوی، اور اپنی اولاد سے بھاگ جائے گا۔“ (عبس : ٣٤ تا ٣٦) متقین کی دوستی اور محبت قائم رہے گی : اس میں کوئی شک نہیں کہ قیامت کے دن کافر اور مشرک کے بارے میں کوئی سفارش نہیں کرسکے گا۔ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ قیامت کے دن کچھ مراحل ایسے ہوں گے جب متقین تو درکنار انبیائے کرام (علیہ السلام) بھی نفسا نفسی کے عالم میں ہوں گے۔ لیکن جب لوگوں کا حساب و کتاب ہوجائے گا تو اللہ تعالیٰ متقین کی سفارشات کو ایسے لوگوں کے حق میں قبول فرمائے گا جو کفر و شرک سے بچے ہوئے ہوں گے۔ ان کے لیے ان کے فوت ہونے والے نابالغ بچوں اور کچھ لوگوں کی سفارش کو قبول کیا جائے گا جن میں آخری اور سب سے بڑی سفارش نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ہوگی۔ مسائل ١۔ قیامت کے دن متقین کے سوا سب کے تعلقات ختم ہوجائیں گے۔ ٢۔ قیامت کے دن متقین کے سوا سب لوگ آپس میں دشمن بن جائیں گے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ متقین کو ارشاد فرمائے گا۔ اے میرے بندو! تم اور تمہاری نیک بیویاں جنت میں تشریف لے جاؤ۔ تفسیربالقرآن قیامت کے دن اللہ کے بندوں کو کوئی خوف نہیں ہوگا بلکہ ملائکہ انہیں سلام کریں گے : ١۔ اللہ کی ہدایت پر عمل کرنے والا بے خوف ہوگا۔ (البقرۃ: ٣٨) ٢۔ ا ولیاء اللہ پر کوئی خوف نہیں ہوگا۔ (یونس : ٦٢) ٣۔ اللہ اور آخرت پر یقین رکھنے والے کو کوئی ڈر نہیں ہوگا۔ (المائدۃ: ٦٩) ٤۔ ایمان لانے کے بعد استقامت دکھلانے والوں پر کوئی خوف نہیں ہوگا۔ (الاحقاف : ١٣) ٥۔ رب کے سامنے اپنے آپ کو مطیع کردینے والا بے خوف ہوگا۔ (البقرۃ: ١١٢) ٦۔ جب فرشتے پاکباز لوگوں کی روحیں قبض کرتے ہیں توانھیں سلام کہتے ہیں اور جنت کی خوشخبری دیتے ہیں۔ (النحل : ٣٢) ٧۔ داخل ہوجاؤ جنت میں سلامتی کے ساتھ آج تمھارے لیے داخلے کا دن ہے۔ (ق : ٣٤) الزخرف
68 الزخرف
69 الزخرف
70 الزخرف
71 فہم القرآن ربط کلام : جنت میں داخل ہونے کے بعد متقی لوگوں کی ضیافت۔ جونہی جنتی جنت میں پہنچ کر اپنے محلّات میں داخل ہوں گے تو جنت کے خدّام شراب طہور سے بھرے ہوئے سونے کے جام جنتیوں کے سامنے پیش کریں گے اور اس کے ساتھ ہی سونے، چاندی کی پلیٹوں میں رکھے ہوئے پھل اور خورد نوش کی دوسری چیزیں پیش کی جائیں گی۔ جنتیوں کے کھانے کے لیے جنت میں بے شمار قسم کے پھل ہوں گے۔ جنتی جنت میں جو چاہیں گے انہیں فی الفور پیش کردیا جائے گا۔ وہ جدھر دیکھیں گے انہیں آنکھوں کی لذت اور دل کا سرور حاصل ہوگا۔ جب سب کے سب جنتی جنت میں داخل ہوجائیں گے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملائکہ اعلان کریں گے کہ جس جنت کے تم مالک بنا دیئے گئے ہو یہ تمہارے صالح اعمال کا صلہ ہے۔ ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جنت میں سب سے پہلے داخل ہونے والوں کے چہرے چودھویں رات کے چاند کی طرح روشن ہوں گے۔ جو ان کے بعد داخل ہوں گے یہ آسمان کے تیز چمکنے والے ستارے کی طرح ہوں گے۔ تمام جنتیوں کے دل ایک جیسے ہوں گے نہ تو ان کے درمیان اختلاف ہوگا اور نہ ہی ایک دوسرے سے بغض رکھیں گے۔ ان میں سے ہر شخص کے لیے حوروں میں سے دو بیویاں ہوں گی۔ حسن کی وجہ سے جن کی پنڈ لیوں کا گودا‘ ہڈی اور گوشت کے پیچھے دکھائی دے گا۔ اہل جنت صبح شام اللہ تعالیٰ کی تسبیح بیان کریں گے۔ نہ وہ بیمار ہوں گے اور نہ ہی پیشاب کریں گے‘ نہ رفع حا جت کریں گے اور نہ ہی تھوکیں گے اور نہ ہی ناک سے رطوبت بہائیں گے۔ ان کے برتن سونے چاندی کے ہوں گے، ان کی کنگھیاں سونے کی ہوں گی، انگیٹھیوں کا ایندھن عود ہندی ہوگا اور ان کا پسینہ کستوری کی طرح ہوگا۔ سب کا اخلاق ایک جیسا ہوگا نیز شکل و صورت میں سب اپنے باپ آدم (علیہ السلام) کی طرح ہوں گے۔ آدم کا قد ساٹھ ہاتھ لمبا تھا۔“ [ رواہ مسلم : کتاب الجنۃ ونعیمہا] (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَال اللّٰہُ تَعَالٰی اَعْدَدْتُّ لِعِبَادِیَ الصَّالِحِیْنَ مَالَا عَیْنٌ رَأَتْ وَلَآ اُذُنٌ سَمِعَتْ وَلَا خَطَرَ عَلٰی قَلْبِ بَشَرٍ وَّاقْرَءُ وْٓا إِنْ شِءْتُمْ (فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّآاُخْفِیَ لَھُمْ مِّنْ قُرَّۃِ اَعْیُنٍ) [ رواہ البخاری : کتاب بدء الخلق، باب ماجاء فی صفۃ الجنۃ وأنھا مخلوقۃ ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں میں نے اپنے نیک بندوں کے لیے وہ نعمتیں تیار کی ہیں، جن کو نہ کسی آنکھ نے دیکھا اور نہ ہی ان کے متعلق کسی کان نے سنا اور نہ کسی انسان کے دل میں ان کا خیال پیدا ہوا۔ اگر چاہو تو اس آیت کی تلاوت کرو۔ (کوئی نہیں جانتا کہ ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک کے لیے کیا چیز چھپا کے رکھی گئی ہے)۔“ مسائل ١۔ جونہی جنتی جنت میں داخل ہوں گے تو ان کے سامنے سونے کے جام شراب طہور سے بھرے ہوئے پیش کیے جائیں گے۔ ٢۔ جنتیوں کے سامنے جنت کے پھل اور خورد نوش کا سامان سونے چاندی کی پلیٹوں میں پیش کیا جائے گا۔ ٣۔ جنتی جنت میں جس چیز کی چاہت کریں گے وہ فی الفور ان کے حضور پیش کردی جائے گی۔ ٤۔ اعلان ہوگا کہ تمہیں جنت کا وارث اس لیے بنایا گیا ہے کہ تم نیک اعمال کیا کرتے تھے۔ تفسیربالقرآن جنت کے پھل اور نعمتوں کی ایک جھلک : ١۔ ایمان دار اور عمل صالح کرنے والوں کے لیے جنت الفردوس ہے۔ (الکہف : ١٠٧) ٢۔ جنتیوں کے لیے جنت میں وہ کچھ ہوگا جو وہ چاہیں گے۔ (حٰم السجدۃ: ٣١) ٣۔ جنت کے پھل ٹپک رہے ہوں گے۔ (الحاقۃ: ٢٣) ٤۔ یقیناً متقین سایوں اور چشموں اور پسندیدہ میوہ جات میں رہیں گے۔ (المرسلات : ٤١۔ ٤٢) ٥۔ اللہ کے مخلص بندے نعمتوں والی جنت میں ہوں گے ایک دوسرے کے سامنے صوفوں پربیٹھے ہونگے۔ (الصٰفٰت : ٤٣۔ ٤٤) ٦۔ پرہیزگاروں کے لیے عمدہ مقام ہے۔ ہمیشہ رہنے کے باغ ہیں جن کے دروازے ان کے لیے کھلے ہوں گے اور ان میں تکیے لگا کر بیٹھے ہوں گے۔ (ص : ٤٩ تا ٥٠) الزخرف
72 الزخرف
73 الزخرف
74 فہم القرآن ربط کلام : جنتیوں کے انعامات کے مقابلے میں جہنمیوں کی سزائیں۔ جنتی جنت میں ہر قسم کی نعمتوں اور خوشیوں سے سرفراز ہوں گے اور وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔ ان کے مقابلے میں جن پر فرد جرم ثابت ہوجائے گی وہ جہنم میں ہمیشہ رہیں گے۔ ان کی آہ زاریوں کے باوجود ان پر عذاب ہلکا نہیں کیا جائے گا۔ وہ جہنّم سے نجات پانے میں مایوس ہوجائیں گے اور اسی مایوسی میں ہمیشہ مبتلا رہیں گے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان پر کوئی زیادتی نہیں ہوگی۔ جہنم کا عذاب ان کی اپنی زیادتیوں کا نتیجہ ہوگا۔ جہنمی جہنم کی اذیّت ناکیوں سے تنگ آ کر بالآخر جہنّم کے سردار فرشتے جس کا نام مالک ہے اس سے درخواست کریں گے کہ اے مالک! ہماری کوئی فریاد بھی قبول نہیں ہوئی اب آپ سے درخواست ہے کہ آپ اپنے رب کے حضور ہماری طرف سے درخواست پیش کریں کہ اللہ تعالیٰ ہماری موت کا فیصلہ کردے۔ جہنمیوں کے جواب میں جہنمکا فرشتہ کہے گا کہ ہم تمہارے پاس حق لے کر آئے مگر تم نے ہمیشہ حق سے کراہت کا اظہار کیا۔ ان الفاظ کے مفسرین نے دو مفہوم اخذ کیے ہیں۔ پہلا مفہوم یہ ہے۔” لَقَدْ جِءْنٰکُمْ بالْحَقِّ“ ہم تمہارے پاس حق لے کر آئے۔ اس سے مراد ملائکہ ہیں جو ملائکہ میں شامل ہونے کی وجہ سے وحی لانے والے فرشتے کی ترجمانی کریں گے۔ دوسرا مفہوم یہ ہے کہ جہنمیوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ جواب دیا جائے گا کہ تم دنیا میں حق کی مخالفت کرتے رہے۔ جب کہ ہم نے تم تک حق پہنچا دیا تھا، لہٰذا اب تمہیں ہمیشہ کے لیے سزا بھگتنا ہوگی۔ دنیا میں انسان مایوس ہوجائے تو وہ خودکُشی کے ذریعے اپنی جان ختم کرلیتا ہے۔ مگر قیامت کے دن جہنّمی خود کشی بھی نہیں کرسکیں گے۔ کیونکہ موت کو موت دے دی جائے گی۔ ” حضرت ابو سعید (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا قیامت کے دن موت مینڈھے کی شکل میں لائی جائے گی۔ ابو کریب نے کچھ الفاظ زیادہ بیان کیے ہیں کہ اسے جنت اور جہنم کے درمیان روک لیا جائے گا۔ پھر جنتیوں سے کہا جائے گا کیا تم اسے پہچانتے ہو تو وہ اسے پہچاننے کی کوشش کریں گے اور اس کی طرف دیکھیں گے اور کہیں گے ہاں یہ موت ہے۔ جہنمیوں سے کہا جائے گا کیا تم اسے پہچانتے ہو وہ بھی پہچاننے کی کوشش کریں گے۔ اچھی طرح دیکھ کر کہیں گے ہاں یہ موت ہے پھر حکم ہوگا اور اسے ذبح کردیا جائے گا اسکے بعد اعلان ہوگا اے جنتیو! جنت میں ہمیشہ رہوتمہیں موت نہیں آئے گی۔ اے جہنمیو! جہنم میں ہمیشہ رہو تمھیں بھی موت نہیں آئے گی۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ آیت تلاوت کی اور انہیں حسرت والے دن سے ڈرایئے جب فیصلہ کیا جائے گا۔ وہ غفلت میں ہیں اور ایمان نہیں لائیں گے۔“ [ رواہ مسلم : کتاب الجنۃ] مسائل ١۔ مجرم ہمیشہ جہنّم کے عذاب میں مبتلا رہیں گے۔ ٢۔ ان پر کبھی بھی عذاب ہلکا نہیں کیا جائے گا۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان پر کوئی زیادتی نہیں ہوگی یہ لوگ خود ہی اپنے آپ پر ظلم کرنے والے تھے۔ ٤۔ جہنّی جہنّم سے نجات کے بارے میں مایوس ہوجائیں گے۔ ٥۔ جہنّمی اس لیے جہنّم میں جائیں گے کیونکہ وہ حق کو ٹھکرایا کرتے تھے۔ تفسیر بالقرآن جہنمیوں کی آہ و بکا اور فریادیں : ١۔ ہمارے رب ہمیں تھوڑی سی مہلت دے ہم تیری دعوت قبول اور تیرے رسول کی بات کو تسلیم کریں گے۔ (ابراہیم : ٤٤) ٢۔ جہنمی کہیں گے اے اللہ ہم نے دیکھ لیا اور سن لیا اب ہم کو واپس لوٹا دے۔ (السجدۃ: ١٢) ٣۔ اے ہمارے پروردگار ہمیں یہاں سے نکال ہم پہلے سے نیک عمل کریں گے۔ (الفاطر : ٣٧) ٤۔ اے ہمارے رب! ہمیں یہاں سے نکال اگر دوبارہ ایسا کریں تو بڑے ظالم ہوں گے۔ (المومنون : ١٠٧) الزخرف
75 الزخرف
76 الزخرف
77 الزخرف
78 الزخرف
79 فہم القرآن ربط کلام : اہل مکہ کے سامنے باربار جنتیوں کے انعامات اور جہنّمیوں کی سزاؤں کا ذکر کیا گیا تاکہ یہ اپنے انجام پر غور کریں۔ مگر اس کے باوجود انہوں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا۔ نبی محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) شب وروز اس بات پر محنت کررہے تھے کہ مکہ کے لوگ کفرو شرک سے باز آجائیں اور کلمہ حق قبول کرلیں۔ مگر ان کی حالت یہ تھی کہ وہ دن بدن کفر و شرک میں آگے ہی بڑھتے جا رہے تھے۔ وہ حق کی مخالفت میں اس قدر آگے بڑھے کہ انہوں نے یہ فیصلہ کرلیا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو قتل کردیا جائے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے انہیں کھلے الفاظ میں چیلنچ کیا کہ اگر انہوں نے قطعی فیصلہ کرلیا ہے تو ہم نے بھی آخری فیصلہ کرلیا ہے۔ لہٰذا انہیں یہ خیال چھوڑ دینا چاہیے کہ ہم ان کی خفیہ باتوں کو نہیں سنتے۔ کیوں نہیں ہم ان کی خفیہ باتوں اور مجالس سے پوری طرح آگاہ ہیں اور جو کچھ وہ چھپاتے ہیں ہمارے فرشتے وہ سب کچھ لکھ رہے ہیں۔ اہل مکہ نے دار الندوہ میں منصوبہ بنایا کہ ہر خاندان کا ایک ایک آدمی مسلّح ہو کر محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے گھر کا محاصرہ کرے۔ جب صبح کے وقت نکلے تو اس پر یکبارگی حملہ کرکے ختم کردیا جائے۔ اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائیں اور انہیں کھلے الفاظ میں چیلنج کیا کہ اگر تم نے یہ فیصلہ کرلیا ہے تو یاد رکھو ! اللہ تعالیٰ کا فیصلہ یہ ہے کہ وہ اپنے نبی کی حفاظت کرے گا اور تمہیں ذلت اٹھانا پڑے گی۔ چنانچہ یہی کچھ ہوا۔ (واقعہ کی تفصیل جاننے کے لیے سیرت طیبہ کا مطالعہ کیجیے ) ” جب کفر کرنے والے لوگ آپ کے خلاف تدبیریں کر رہے تھے کہ آپ کو قید کردیں یا آپ کو قتل کردیں یا آپ کو نکال دیں وہ سازش کررہے تھے جبکہ اللہ بھی تدبیر کر رہا تھا اور اللہ تدبیر کرنے والوں میں سے سب سے بہتر تدبیر کرنے والاہے۔“ [ الانفال : ٣٠] الزخرف
80 الزخرف
81 فہم القرآن ربط کلام : نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ مکہ والوں کا بنیادی اختلاف ” اللہ“ کی توحید پر تھا۔ ان کا عقیدہ تھا کہ جس طرح اللہ تعالیٰ نے کچھ ہستیوں کو اپنی خدائی میں شریک کر رکھا ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ نے ملائکہ کو بیٹیاں بنا کر انہیں اپنی خدائی میں شریک کرلیا ہے۔ قرآن مجید نے کئی بار اس بات کی نفی کی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نہ تو کسی کو اپنی خدائی میں شریک کیا ہے اور نہ ہی کسی کو اپنی اولاد بنایا ہے۔ اس موقع پر اس بات کا صرف یہ جواب دیا ہے کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ان سے ارشاد فرمائیں کہ اگر الرّحمن کی اولاد ہوتی توسب سے پہلے میں اس کی عبادت کرتا یعنی اسے تسلیم کرتا۔ مطلب یہ ہے کہ نہ اس کی اولاد ہے اور نہ میں اس بات کو تسلیم کرتا ہوں۔ یہ بھی ارشاد فرمائیں کہ جو کچھ الرّحمن کے بارے میں یہ یا وہ گوئی کرتے ہیں وہ اس سے پاک اور مبرّا ہے۔ وہ زمین و آسمانوں کا پیدا کرنے والا اور عرش کا مالک ہے۔ اگر یہ لوگ اتنی بڑی حقیقت کو نہیں مانتے تو انہیں ان کی یا وہ گوئی اور بے ہودگی کے لیے چھوڑ دیجیے ! یہاں تک کہ یہ اس دن کو پالیں جس دن کا ان کے ساتھ وعدہ کیا جاتا ہے۔ الرحمن ہی زمین و آسمانوں کا اکیلا الٰہ ہے۔ وہ سب کچھ جانتا ہے اور اس کے ہر فرمان میں حکمت پنہاں ہوتی ہے۔ مشرکین کی یا وہ گوئی کے باوجود اس نے انہیں ڈھیل دے رکھی ہے تو اس میں بھی اس کی حکمت پوشیدہ ہے کہ یہ لوگ کھل کر گناہ کرلیں تاکہ ان کے دل میں کوئی حسرت باقی نہ رہے اور قیامت کے دن انہیں ٹھیک، ٹھیک سزا دی جائے۔ یہ بات پہلے بھی عرض کی جا چکی ہے کہ اللہ تعالیٰ کو اولاد اور کسی شریک کی اس لیے ضرورت نہیں کیونکہ وہ زمین و آسمانوں اور جو کچھ ان کے درمیان ہے ان سب کا خالق، مالک، رازق اور بلاشرکت غیرے بادشاہ ہے۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے ملائکہ اور کسی کو اپنی اولاد نہیں بنایا۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ زمین و آسمانوں کا اکیلا ہی رب ہے۔ ٣۔ مشرکین اپنی یا وہ گوئی سے باز نہیں آتے تو انہیں ان کی حالت پر چھوڑیں۔ ٤۔ اللہ ہی زمین و آسمانوں میں اکیلا الٰہ ہے جو بڑا حکمت والا اور سب کچھ جانتا ہے۔ تفسیر بالقرآن زمین و آسمانوں میں صرف ایک ہی الٰہ ہے : ١۔ ” اللہ“ نے زمین و آسمان کو پیدا کیا اور پھر آسمان سے پانی اتار کر باغات اگائے کیا اس کے ساتھ کوئی اور بھی الٰہ ہے؟ (النمل : ٦٠) ٢۔ ” اللہ“ نے زمین کو جائے قرار بنایا اس میں پہاڑ اور دو سمندروں کے درمیان پردہ بنایا کیا اس کے ساتھ اور بھی الٰہ ہے؟ (النمل : ٦١) ٣۔ کون ہے جو لاچار کی فریاد رسی کرتا ہے اور اس کی تکلیف کو دور کرتا ہے کیا کوئی اور بھی الٰہ ہے ؟ (النمل : ٦٢) ٤۔ خشکی اور سمندر کی تاریکیوں میں اللہ کے سواکون رہنمائی کرتا ہے کیا کوئی اور بھی اس کے ساتھ الٰہ ہے۔ (النمل : ٦٣) ٥۔ پہلے اور دوبارہ پیدا کرنا اور زمین و آسمان سے تمہارے لیے روزی کا بندوبست کرنے والا اللہ کے سوا کوئی اور الٰہ ہے؟ (النمل : ٦٤) ٦۔ آپ فرما دیں سوائے ایک الٰہ کے آسمان وز میں کے غیب کو کوئی نہیں جانتا۔ (النمل : ٦٥) ٧۔ کیا کوئی ہے اس الٰہ کے سوا ہے جو رات ختم کرکے دن لائے ؟ (القصص : ٧١) ٨۔ کیا کوئی ہے اس الٰہ کے علاوہ الٰہ ہے جو دن ختم کرکے رات لے آئے ؟ (القصص : ٧٢) ٩۔ بس اس ایک الٰہ کے سوا کسی دوسرے الٰہ کو نہ پکارو۔ (القصص : ٨٨) الزخرف
82 الزخرف
83 الزخرف
84 الزخرف
85 فہم القرآن ربط کلام : پچھلی آیات میں یہ بتلایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو اولاد کی کیا ضرورت ہے ؟ جبکہ زمین و آسمانوں کا وہی بادشاہ ہے اور ہر چیز اس کے تابع فرمان ہے۔ اس کے باوجود کچھ لوگ ملائکہ یا کسی اور کو اللہ تعالیٰ کا شریک یا اس کی اولاد ٹھہراتے ہیں تاکہ وہ ان کی قیامت کے دن سفارش کریں۔ اہل مکہ کے سامنے جب بھی قیامت کا ذکر کیا جاتا تو وہ چلّا کر کہتے کہ قیامت کب آئے گی ؟ ہر موقع پر انہیں اس بات کا شافی جواب دیا گیا۔ مگر پھر بھی وہ لوگ اپنی ہٹ دھرمی پہ قائم رہتے تھے۔ اس بار یہ جواب دیا گیا کہ اللہ کی ذات بڑی بابرکت ہے اور زمین و آسمان اور جو کچھ ان کے درمیان ہے اسی کی ملک ہیں۔ وہی قیامت کا علم رکھنے والا ہے اور اسی کی طرف تمہیں لوٹ کر جانا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے سوا جن لوگوں کو یہ پکارتے ہیں وہ اس کے ہاں سفارش کرنے کا کوئی اختیار نہیں رکھتے۔ سفارش وہی لوگ کرسکیں گے جو علم و یقین کے ساتھ حق کی گواہی دیں گے اور ان کا اپنا عقیدہ اور عمل ٹھیک ہوگا۔ قرآن مجید نے یہ مسئلہ بھی بڑی تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں کوئی شخص اس کی اجازت کے بغیر سفارش نہیں کرسکے گا۔ جس کو اس کے حضور سفارش کی اجازت ملے گی وہ بھی وہی بات کرے گا جو حق اور ٹھوس معلومات پر مبنی ہوگی۔ مفسرین نے ” اِلَّا مَنْ شَھِدَ بالْحَقِّ“ کا یہ مفہوم بیان کیا ہے کہ سفارش کرنے والا خود بھی حق کی گواہی دینے والا ہو یعنی اس کا کلمہ طیبہ پر پورا یقین اور اس پر عمل کرنے والا ہو جس کے متعلق گواہی دے گا وہ بھی اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانے والا ہو۔ اس حقیقت کا وہ مفسر بھی اعتراف کرتے ہیں جو من دون اللہ اور من دونہٖ کے الفاظ کو مخصوص معانی پہناتے ہیں۔ یہاں اس مفسر کا حوالہ دیا جاتا ہے جو قرآن مجید کے اکثر مقامات پر من دون اللہ اور من دونہٖ کی تفسیر اپنی مرضی سے کرتے ہیں۔ کفار اس گھمنڈ میں تھے کہ یہ بت اور فرشتے ان کی شفاعت کریں گے۔ بتا دیا کہ ایسا نہیں ہوگا ہر ایک کی مجال نہیں کہ بارگاہِ رب العزت میں شفاعت کرنے کی جرأت کرسکے اور نہ ہر شخص اس قابل ہے کہ اس کی شفاعت کی جائے۔ شفاعت کرنے کا وہ مجاز ہوگا جو اللہ تعالیٰ کی توحید کی گواہی بھی دے اور اس کی یہ گواہی علم یقین پر مبنی ہو۔ اسی طرح شفاعت اس کی کی جائے گی جس کا خاتمہ ایمان پر ہوا ہو۔ یہ بات خوب ذہن نشین رہے کہ شفاعت صرف ان گناہگاروں کے لیے ہوگی جو ایمان کے ساتھ اس دنیا سے رخصت ہوئے اور جن کا خاتمہ کفر یا شرک پر ہوگا ان کے لیے شفاعت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوگا۔ ( ضیاء القرآن : جلد ٤۔ مولانا پیر کرم شاہ بریلوی) یہاں بھی موصوف مفسر نے اپنے مشرکانہ عقیدہ کی تائید کے لیے (مِنْ دُوْنِہٖ الشَّفَاعَۃَ) سے مراد بت لیے ہیں۔ حالانکہ اگلی آیت میں واضح طور پر بتلایا گیا ہے کہ اگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے سوال کریں کہ انہیں کس نے پیدا کیا ہے تو یہ جواب دیں گے کہ ہمیں ” اللہ“ نے پیدا کیا ہے ان سے فرمائیں پھر تم کیوں بہکے پھر رہے ہو۔ 1 کیا نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بتوں سے سوال کرنا تھا؟ 2 کیا بتوں نے کہا تھا کہ ہمیں ” اللہ“ نے پیدا کیا ہے؟ 3 کیا پتھروں کو کہا تھا گمراہی میں کیوں بھٹکے پھر رہے تھے؟ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لِکُلِّ نَبِیٍّ دَعْوَۃٌ مُسْتَجَابَۃٌ فَتَعَجَّلَ کُلُّ نَبِیٍّ دَعْوَتَہٗ وَإِنِّی اخْتَبَأْتُ دَعْوَتِیْ شَفَاعَۃً لِأُمَّتِیْ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ فَھِیَ نَآءِلَۃٌ إِنْ شَآء اللّٰہُ مَنْ مَاتَ مِنْ أُمَّتِیْ لَایُشْرِکُ باللّٰہِ شَیْءًا) [ رواہ مسلم : کتاب الإیمان، باب اختباء النبی دعوۃ الشفاعۃ لأمتہ ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ہر نبی کی ایک مقبول دعا ہوتی ہے ہر نبی نے اپنی دعا کرنے میں جلدی کی میں نے اپنی دعا کو قیامت کے دن اپنی امت کی سفارش کے لیے بچا کر رکھا ہوا ہے وہ میری امت کے ہر اس شخص کو فائدہ دے گی جو اس حال میں مرا کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراتا تھا۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ کی اجازت کے بغیر کوئی بھی اس کے حضور سفارش نہیں کرسکے گا۔ ٢۔ سفارش کرنے والے کے لیے لازم ہے کہ وہ خود بھی کلمہ پر یقین اور اس کا علم رکھنے والا ہو۔ ٣۔ سفارش کرنے والا اسی کی سفارش کرسکے گا جس کا کلمہ پر پورا ایمان ہو۔ ٤۔ ” اَلْحَقُّ“ سے مراد کلمہ طیبہ کو سمجھ کر پڑھنا اور حتّٰی المقدور اس کے تقاضے پورے کرنا ہے۔ الزخرف
86 الزخرف
87 فہم القرآن ربط کلام : جو لوگ اللہ تعالیٰ کے سوا یا اس کے ساتھ کسی کو شریک بناتے ہیں ان سے سوال کیا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنی توحید سمجھانے کے لیے بے شمار اسلوب اختیار فرمائے ہیں جن میں ایک اسلوب اور طریقہ یہ بھی اختیار کیا ہے کہ مشرکوں سے پوچھا جائے کہ خود ان کی ذات کو کس نے پیدا کیا ہے۔ اس سوال کا یہ بھی مفہوم ہے کہ جن کو تم پکارتے ہو ان کو کس نے پیدا کیا ہے۔ دونوں صورتوں میں ہر دور کے مشرک اور کافر یہی جواب دیتے ہیں اور دیتے رہیں گے کہ ہم سب کو صرف ایک ” اللہ“ نے پیدا کیا ہے۔ تو پھر اللہ تعالیٰ کے ساتھ یا اس کے سوا دوسروں کو پکارنے کا کیا جواز ہے ؟ جو لوگ حقیقت مان کر بھی سچا ایمان لانے اور توحید خالص کو ماننے کے لیے تیار نہیں۔ قسم ہے رسول کے اس فرمان کی کہ اے رب! یہ لوگ ایمان نہیں لائیں گے۔ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! بس ان سے درگزر کرو اور انہیں سلام کہہ دو اور یہ فرماؤ کہ عنقریب تمہیں سب کچھ معلوم ہوجائے گا۔ یہاں سلام کا لفظ سلامتی کی دعا کے طور پر نہیں بلکہ قطع تعلق کے لیے ہے۔ جس طرح حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے باپ سے مایوس ہو کر کہا تھا۔ (سَلٰمٌعَلَیْکَ) [ مریم : ٤٧] ” تجھ پر سلامتی ہو۔“ یہی مومنوں کی صفت ہے۔ ” الرحمان کے بندے وہ ہیں جو زمین پر آہستگی سے چلتے ہیں اگر جاہل ان سے جھگڑیں تو وہ ان کو سلام کہہ کر چل دیتے ہیں۔“ [ الفرقان : ٦٣] اللہ تعالیٰ نے یہاں رسول کے اس فرمان کی قسم کھائی ہے کہ ” اے میرے رب! یہ قوم ایمان لانے والی نہیں۔“ بالآخر ہر پیغمبر کی جدوجہد کے دوران ایک مرحلہ ایسا آتا ہے جب پیغمبر اپنی قوم کے ایمان لانے سے مایوس ہوجاتا ہے۔ ایسے مرحلہ میں نبی ہجرت کر جاتے تھے یا پھر قوم کے لیے بدعا کرتے تھے۔ سورۃ یوسف کی آیت ١١٠ میں اسی مایوسی کا ذکر کیا گیا ہے۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے ایسے موقع پر اپنی قوم کے لیے بدعا کی تھی (نوح : ٢٧) جہاں تک سرور دوعالم کا معاملہ ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس قسم کے الفاظ ثابت نہیں۔ ممکن ہے کہ ہجرت سے پہلے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے یہ جذبات ہوں جنہیں قرآن مجید نے اپنے الفاظ میں بیان کیا ہے۔ یاد رہے کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس ہونا کبیرہ گناہ ہے۔ لیکن لوگوں کے رویہ سے مایوس ہونا گناہ نہیں۔ لوگوں کے رویہ سے مایوس ہو کر ہی انبیائے کرام (علیہ السلام) اپنے وطن سے ہجرت کیا کرتے تھے۔ مسائل ١۔ ہر دور کا کافر اور مشرک اس بات کا اقرار کرتا ہے اور کرتا رہے گا کہ سب کو پیدا کرنے والا صرف ایک ” اللہ“ ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ کو خالق، رازق، مالک اور بادشاہ ماننے کے باوجود مشرک صرف اس ایک کی عبادت کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ ٣۔ ہر نبی کی زندگی میں ایسا وقت ضرور آتا ہے جب اسے یقین ہوجاتا ہے کہ اس کی قوم کے لوگ ایمان نہیں لائیں گے۔ ٤۔ جن لوگوں کے ایمان لانے سے مبلغ مایوس ہوجائے ان سے جھگڑنے کی بجائے انہیں سلام کہنا ہی بہتر ہوتا ہے۔ تفسیر بالقرآن مشرکین کا اعتراف : ١۔ مشرک سے سوال کیا جائے کہ آسمان و زمین سے رزق کون دیتا ہے کہتے ہیں ” اللہ“ ہی رزق دیتا ہے۔ (یونس : ٣١) ٢۔ مشرکین سے پوچھا جائے مخلوق کو پیدا کرنے والا کون ہے؟ جواب دیتے ہیں ” اللہ“ ہی پیدا کرنے والا ہے۔ (یونس : ٣٤) ٣۔ اگر ان سے پوچھا جائے کہ زمین و آسمان کا خالق کون ہے؟ تو کہتے ہیں ” اللہ“ ہی خالق ہے۔ (الزمر : ٣٨) ٤۔ مشرکوں سے پوچھاجائے سات آسمانوں اور عرش عظیم کا مالک کون؟ جواباً کہتے ہیں، اللہ ہی مالک ہے۔ (المومنون : ٨٦۔ ٨٧) ٥۔ اگر ان سے پوچھا جائے کہ ہر چیز پرکس کی بادشاہت ہے ؟ جواب دیتے ہیں اللہ کی بادشاہی ہے۔ (المومنون : ٨٨۔ ٨٩) ٦۔ یقیناً اگر تو ان سے پوچھے کہ کس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور سورج اور چاند کو مسخر کیا ؟ تو وہ ضرور کہیں گے کہ اللہ نے، پوچھیں کہ پھر کہاں سے بہکائے جا رہے ہیں۔ (العنکبوت : ٦١) الزخرف
88 الزخرف
89 الزخرف
0 سورۃ الدّخان کا تعارف الدّخان مکہ معظمہ اور اس کے گردوپیش میں نازل ہوئی۔ یہ سورت انسٹھ آیات اور تین رکوعات پر مشتمل ہے۔ اس کا نام الدّخان ہے جو دسویں آیت میں موجود ہے۔ قیامت کے ایک مرحلہ پر آسمان دھوئیں کی شکل اختیار کر جائے گا اس لیے اس سورت کا نام الدّخان رکھا گیا۔ ربط سورۃ: سورۃ الزخرف کا اختتام اس فرمان پر ہوا کہ اگر آپ مشرکین سے سوال کریں کہ تمہیں کس نے پیدا کیا ہے؟ تو ان کا جواب ہوگا کہ ہمیں اللہ تعالیٰ نے ہی پیدا کیا ہے جو لوگ حقیقت کا اعتراف کرنے کے باوجود ایمان نہیں لاتے ان کو ان کی حالت پر چھوڑ دینا چاہیے۔ سورۃ الدّخان کی ابتداء بھی قرآن مجید کے تعارف سے کی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسے مبارک رات میں نازل فرمایا جس میں ہر کام کا فیصلہ کیا جاتا ہے اور یہ فیصلے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتے ہیں جو زمین و آسمانوں اور جو ان کے درمیان ہے ان کا رب ہے اگر تم یقین کرنے والے ہو تو تمہیں اس پر ایمان لانا چاہیے۔ سورۃ الدّخان کا پہلا مضمون یہ ہے کہ زمین و آسمانوں کا ایک ہی رب ہے۔ اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ وہی موت وحیات کا مالک اور سب لوگوں کا رب ہے۔ یہ حقیقت ٹھوس اور واضح ہونے کے باوجود لوگ اس میں شک کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کا شک اس وقت ہی دور ہوگا جب ان پر قیامت ٹوٹ پڑے گی۔ اس دن آسمان دھوئیں کی مانند ہوگا اور نافرمانوں کو پوری پوری سزا دی جائے گی۔ اللہ تعالیٰ مجرموں سے بدلہ لے گا اس کے بعد فرعون کی غرقابی کا ذکر کیا اور فرمایا کہ ہم نے بنی اسرائیل کو فرعون کے ذلت آمیز مظالم سے نجات دی اور انہیں دنیا کی اقوام پر فضلیت اور برتری عنایت فرمائی۔ بنی اسرائیل نے اپنے رب کا شکر ادا کرنے کی بجائے نافرمانی کا راستہ اختیار کیا جس طرح قوم تبّع نے نافرمانی کی۔ سورۃ کے آخری رکوع میں جہنمیوں کی خوراک کا ذکر کرتے ہوئے بتلایا کہ ان کی غذا زقوم کا درخت ہوگا۔ جو پگھلے ہوئے تانبے کی طرح ان کے پیٹ میں کھلبلی پیدا کر دے گا۔ جہنمیوں کے سروں پر کھولتا ہوا پانی ڈالا جائے گا جب یہ چیخ وپکار کریں گے تو کہا جائے گا کہ اپنے کیے کا مزہ چکھو۔ کیونکہ تم دنیا میں اپنے آپ کو بڑا معزز سمجھتے تھے اور قیامت کے دن کے بارے میں شک کا اظہار کیا کرتے تھے۔ جہنمیوں کے مقابلے میں جنتی جنت میں امن وسکون کے ساتھ رہیں گے۔ انہیں پہننے کے لیے ریشم کا لباس دیا جائے گا۔ ان کی بیویاں جنت کی حوریں ہوں گی اور وہ جنت میں ایک دوسرے کے سامنے تکیوں پر بیٹھے ہوئے خوش گپیوں میں مصروف ہوں گے انہیں سب کچھ دیا جائے گا جس کی وہ چاہت کریں گے۔ انہیں پہلی موت کے سوا پھر موت نہیں آئے گی۔ ان پر ان کے رب کا بڑا فضل ہوگا حقیقت میں یہی بڑی کامیابی ہے۔ سورۃ الدّخان کا اختتام اس بات پر ہوا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی زبان پر قرآن کو آسان فرما دیا تاکہ یہ لوگ نصیحت حاصل کریں۔ اگر یہ نصیحت حاصل نہیں کرتے تو ان سے ارشاد فرمائیں کہ تم اپنی جگہ انتظار کرو ہم اپنی جگہ انتظار کرتے ہیں۔ الدخان
1 الدخان
2 فہم القرآن ربط سورت : الزّخرف کا اختتام اس بات پر ہوا کہ جو لوگ اللہ تعالیٰ کو خالقِ کل ماننے کے باوجود اس کی خالص بندگی کرنے کے لیے تیار نہیں۔ ان سے جھگڑا کرنے کی بجائے آپ ان کو سلام کہہ کرالگ ہوجائیں۔ الدّخان کی ابتداء اس فرمان سے ہوئی کہ ہم نے آپ پر قرآن مجید اس لیے نازل کیا ہے تاکہ ہم اس کے ذریعے کفار اور مشرکین کو ڈرائیں شاید کہ وہ اپنی روش سے باز آجائیں۔ جن سورتوں کی ابتداء میں حٰمٓ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں ان میں یہ پانچویں سورت ہے۔ حٰمٓ حروف مقطعات میں شمار ہوتے ہیں۔ جن کے بارے میں ہر صاحب علم جانتا ہے کہ ان کا معنٰی اور مفہوم نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بیان نہیں فرمایا اور نہ صحابہ کرام نے ان کا معنٰی آپ سے پوچھنے کی ضرور محسوس فرمائی۔ لہٰذا حروف مقطعات کا معنٰی جانے بغیر ہی ان کی تلاوت کرنی چاہیے۔ حم ٓ کے بعد اللہ تعالیٰ نے اس سورۃ کی ابتداء اس بات سے کی ہے کہ اس کھلی کتاب کی قسم! ہم نے اسے مبارک رات میں نازل فرمایا ہے۔ یقیناً ہم لوگوں کو ان کے برے انجام سے ڈرانے والے ہیں۔ جس رات میں قرآن مجید نازل کیا گیا اس میں ہر کام کے حکیمانہ فیصلے کیے جاتے ہیں۔ یہ فیصلے صرف ہماری طرف سے صادر ہوتے ہیں اور ہم ہی رسول کو بھیجنے والے ہیں۔ باالفاظ دیگر ہم نے اس رات فیصلہ صادر فرمایا کہ ایک صاحب کتاب رسول مبعوث کرنا چاہیے۔ کتاب مبین اور رسول کو بھیجنا سراسر آپ کے رب کی رحمت کا کرشمہ ہے۔ یقیناً وہ سب کچھ سننے والا اور جاننے والا ہے۔ کچھ اہل علم نے کمزور روایات کی بنیاد پر لکھا ہے کہ مبارک رات سے مراد شعبان کی پندرہویں رات ہے۔ جسے شب برأت کہا جاتا ہے۔ یہ نام کسی حدیث سے ثابت نہیں کیونکہ شب فارسی زبان کا لفظ ہے اور برأت عربی کا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس رات کے بارے میں کچھ روایات ایسی ہیں جن سے اس رات کی کچھ نہ کچھ فضیلت معلوم ہوتی ہے لیکن جو فضائل اس رات سے منسوب کیے جاتے ہیں وہ سب کے سب اس رات کے بارے میں ہیں جس رات میں قرآن مجید نازل کیا گیا ہے۔ یہاں اس رات کو مبارک رات اور سورۃ القدر میں اسے عزت والی رات کہا گیا ہے۔ یہ رات رمضان المبارک میں آتی ہے کیونکہ قرآن مجید نے یہ بات کھلے الفاظ میں بیان فرمائی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید رمضان میں نازل کیا ہے۔ ( البقرۃ: ١٨٥)۔ اس فرمان کے بعد اس رات کا قطعی فیصلہ ہوجاتا ہے کہ یہ شعبان کی پندرہویں رات نہیں بلکہ یہ مبارک اور عزت والی رات رمضان المبارک میں آتی ہے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس رات کی فضیلت اور نشاندہی فرمائی ہے جس میں قرآن مجید نازل کیا گیا ہے اور اسی رات میں لوگوں کی زندگی کے بارے میں اہم فیصلے ہوتے ہیں۔ یہ شب برأت نہیں بلکہ شب قدر ہے۔ جو رمضان المبارک کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں سے کوئی ایک رات ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کتاب کو رحمت قرار دیا ہے جس کا معنٰی ہے کہ جہاں یہ کتاب پڑھی جائے گی اور جن لوگوں پر اس کا نفاذ ہوگا اللہ تعالیٰ اس ملک اور ان لوگوں پر اپنی رحمت کا سایہ فرمائے گا۔ اللہ تعالیٰ لوگوں کی نیت وعمل کو جاننے والا اور ہر بات کو سننے والا ہے۔ رسول اور کتاب بھیجنا آپ کے رب کی اپنے بندوں پر رحمت ہے تاکہ وہ صحیح عقیدہ اور صالح اعمال کریں اور اپنے رب کی رحمت کے دائمی طور پر حقدار ہوجائیں۔ مسائل ١۔ قرآن مجید روشن کتاب ہے۔ ٢۔ اس مبارک رات میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے حکیمانہ فیصلے صادر ہوتے ہیں۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کو مبارک اور عزت والی رات نازل فرمایا ہے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ ہی رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھیجنے والا ہے۔ ٥۔ کتاب کے نزول اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آمد کا مقصد لوگوں کو ان کے برے انجام سے ڈرانا ہے۔ ٦۔ قرآن مجید کو نازل کرنا اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مبعوث فرمانا اللہ تعالیٰ کی رحمت کا مظہر ہے۔ ٧۔ اللہ تعالیٰ ہر بات سننے والا اور سب کچھ جاننے والا ہے۔ تفسیر بالقرآن قرآن مجید کس مہینے اور رات میں نازل ہوا : ١۔ قرآن مجید رمضان المبارک میں نازل کیا گیا۔ (البقرۃ: ١٨٥) ٢۔ قرآن مجید عزت والی رات میں نازل کیا گیا۔ (القدر : ١) ٣۔ قرآن مجید مبارک رات میں نازل کیا گیا۔ (الدخان : ٣) ٤۔ اس رات اہم ترین فیصلے صادر ہوتے ہیں۔ ( الدخان : ٤) الدخان
3 الدخان
4 الدخان
5 الدخان
6 الدخان
7 فہم القرآن ربط کلام : جس رب نے مبارک رات میں قرآن مجید نازل کیا ہے وہی زمین و آسمانوں اور جو کچھ ان کے درمیان ہے ان کو پیدا کرنے والا اور مالک ہے۔ قرآن مجید کا پہلا اور مرکزی پیغام ” اللہ“ کی ذات اور اس کی صفات کی پہچان کروانا ہے۔” اللہ“ ہی سب کا رب ہے اور اسی نے زمین و آسمانوں اور جو کچھ ان کے درمیان ہے سب کو پیدا کیا ہے۔ اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور وہی کائنات کی موت اور زندگی پر اختیار رکھنے والا ہے۔ وہ تمہارا اور تمہارے آباؤ اجداد کا رب ہے۔ اگر واقعی تم اس پر یقین کرنے والے ہو۔ لیکن اکثر لوگ اپنے رب کی ذات اور اس کی صفات میں شک کرتے ہیں۔ اہل علم کی تقسیم کے مطابق یہ توحید کی دوسری بڑی قسم ہے جسے توحید ربوبیت کہا جاتا ہے۔ قرآن مجید نے اکثر مقامات پر توحید ربوبیت کو توحید الوہیت کے اثبات کے لیے ذکر فرمایا ہے۔ توحید کی اقسام میں توحید الوہیت ہی مرکزی حیثیت رکھتی ہے۔ جو شخص توحید الوہیت کا انکاریا اس میں ملاوٹ کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کا کوئی عمل قبول نہیں کرتا۔ توحید الوہیت کا مختصر مفہوم یہ ہے کہ انسان اپنے رب کی ذات اور اس کی صفات کا پوری طرح اقرار کرئے اور بلاشرکت غیرے اس کی عبادت کرے۔ لیکن لوگوں کی غالب اکثریت کا حال یہ ہے کہ وہ اپنے رب کی ذات اور اس کی صفات کے بارے میں شک کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو سمجھایا جائے تو وہ اس بات کو شغل کے طور پر لیتے ہیں۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی قوم نے انہیں یہی کہا تھا ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے تین مرتبہ اپنا تعارف رب کہہ کر کروایا ہے۔ لفظِ رب کے چار معانی ہے اور اس نام میں قربت اور شفقت پائی جاتی ہے۔1۔ پوری کائنات کو پیدا کرنے والا۔ 2۔ مخلوق کی تمام ضروریات کو پورا کرنے والا۔3۔ پوری کائنات کا مالک 4۔ پوری کائنات کا بادشاہ۔ (قَالُوْٓا اَجِءْتَنَا بالْحَقِّ اَمْ اَنْتَ مِنَ اللّٰعِبِیْنَ)[ الانبیاء : ٥٥] ” انہوں نے کہا کیا تو ہمارے سامنے حقیقت پیش کر رہا ہے یا مذاق کر رہا ہے ؟“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ ہی زمین و آسمانوں اور جو کچھ ان کے درمیان ہے اس کا رب ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ ہی تمام انسانوں کا رب ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ ہی عبادت کے لائق ہے وہی کائنات کی موت و حیات پر اختیار رکھنے والا ہے۔ ٤۔ لوگوں کی اکثریت اللہ تعالیٰ کو حقیقی رب ماننے کی بجائے دوسروں کو بھی رب کا درجہ دیتی ہے۔ تفسیر بالقرآن زمین و آسمانوں میں صرف ایک ہی الٰہ ہے : ١۔ اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان کو پیدا کیا اور پھر آسمان سے پانی اتار کر باغات اگائے کیا اس کے ساتھ کوئی اور بھی الٰہ ہے؟ (النمل : ٦٠) ٢۔ تمہارا الٰہ ایک ہے وہ رحمن اور رحیم ہے۔ (البقرۃ: ١٦٣) ٣۔ اللہ تعالیٰ نے زمین کو جائے قرار بنایا اس میں پہاڑ اور دو سمندروں کے درمیان پردہ بنایا۔ کیا اس کے ساتھ اور بھی الٰہ ہے؟ (النمل : ٦١) ٤۔ کون ہے جو لاچار کی فریاد رسی کرتا ہے اور اس کی تکلیف کو دور کرتا ہے کیا کوئی اور بھی الٰہ ہے ؟ (النمل : ٦٢) ٥۔ خشکی اور سمندر کی تاریکیوں میں اللہ کے سواکون رہنمائی کرتا ہے کیا کوئی اور بھی اس کے ساتھ الٰہ ہے۔ (النمل : ٦٣) ٦۔ پہلے اور دوبارہ پیدا کرنا اور زمین و آسمان سے تمہارے لیے روزی کا بندوبست کرنے والا اللہ کے سوا کوئی اور الٰہ ہے؟ (النمل : ٦٤) ٧۔ آپ فرما دیں سوائے ایک الٰہ کے آسمان وز میں کے غیب کو کوئی نہیں جانتا۔ (النمل : ٦٥) ٨۔ کیا کوئی ہے اس الٰہ کے سوا ہے جو رات ختم کرکے دن لائے ؟ (القصص : ٧١) ٩۔ کیا اس الٰہ کے علاوہ کوئی اور الٰہ ہے جو دن ختم کرکے رات لے آئے ؟ (القصص : ٧٢) ١٠۔ بس اس ایک الٰہ کے سوا کسی دوسرے الٰہ کو نہ پکارو۔ (القصص : ٨٨) الدخان
8 الدخان
9 الدخان
10 فہم القرآن ربط کلام : رب تعالیٰ کی ذات اور صفات میں شک کرنے والے لوگ قرآن مجید کو شغل کے طور پر لیتے ہیں اس پر ان لوگوں کو انتباہ کیا جاتا ہے۔ جو لوگ اپنے رب کو رب ماننے کے لیے تیار نہیں اور قرآن مجید کی دعوت کو کھیل کود سمجھتے ہیں انہیں ایک بار پھر انتباہ کیا جاتا ہے کہ وہ اس وقت کا انتظار کریں جب آسمان دھویں سے بھر جائے گا اور لوگوں کو بری طرح ڈھانپ لے گا۔ اس دن شک کرنے والوں کو اذیت ناک عذاب ہوگا۔ مجرم اپنے رب کے حضور فریاد پہ فریاد کریں گے کہ اے ہمارے رب! اس عذاب کو ہم سے دور کردے یقیناً ہم تجھ پر ایمان لائیں گے۔ لیکن اس وقت نصیحت حاصل کرنے کا موقع گزرچکا ہوگا۔ کیونکہ اس سے پہلے رسول نے ان تک حق پہنچا دیا تھا۔ لیکن انہوں نے یہ کہہ کر منہ موڑے رکھا کہ یہ کسی کا پڑھایا ہوا اور پاگل شخص ہے۔ ہم کچھ مدت کے لیے عذاب ہٹا دیں گے مگر تم لوگ وہی کچھ کرو گے جو پہلے کرتے رہے ہو بالآخر ایک دن ان کی سخت گرفت کریں گے اور ہم پوری طرح ان سے انتقام لیں گے۔ مفسرین نے ان آیات کی تشریح کرتے ہوئے دو موقف اختیار کیے ہیں۔ ایک جماعت کا خیال ہے کہ ان آیات میں جس دھویں اور عذاب کا ذکر کیا گیا ہے وہ قیامت کے دن کا دھواں ہے۔ دوسری جماعت کا نقطہ نظر ہے کہ بے شک آسمان اور لوگوں کو گھیر لینے والا دھواں قیامت کے دن ضرور نمودار ہوگا۔ لیکن قیامت سے پہلے اس کا کچھ حصہ اہل مکہ پر اس وقت نازل ہوا جب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اہل مکہ کے لیے قحط کی دعا کی تھی۔ جس کے نتیجے میں تین سال تک مکہ کی سرزمین پر بارش نہ ہوئی جس سے ایک طرف ان پر قحط مسلط ہوا اور دوسری طرف ثمامہ بن اثال نے اپنے علاقہ سے غلہ کی ترسیل روک دی جس وجہ سے اہل مکہ مردار کھانے پر مجبور ہوئے۔ قحط سالی کے عالم میں وہ جدھر دیکھتے بھوک اور موسم کی حدت کی وجہ سے انہیں ہر طرف دھواں ہی دھواں نظر آتا تھا۔ اس صورت حال سے مجبور ہو کر ابوسفیان نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں مدینہ حاضر ہو کر درخواست کرتا ہے کہ یامحمد! آپ کی قوم کے لوگ بھوکے مررہے ہیں اس لیے آپ اپنے امتی ثمامہ بن اثال کو حکم جاری فرمائیں کہ وہ تاجرحضرات کو مکہ کی منڈی میں غلہ لانے کی اجازت دے اور اس کے ساتھ اپنے رب کے حضور دعا کریں کہ وہ رحمت کی بارش نازل فرمائے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ابوسفیان کی دونوں درخواستیں قبول فرمائیں۔ بارش کی دعا کی اور ثمامہ بن اثال کو خط لکھا کہ مکہ والوں کے لیے غلہ کی جاری کیا جائے۔ بعض اہل علم نے لکھا ہے کہ اس موقع پر ابوسفیان نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ عہد کیا تھا کہ اگر یہ عذاب ٹل جائے تو ہم آپ پر ایمان لے آئیں گے۔ لیکن جب یہ عذاب ٹل گیا تو مکہ والوں نے پرانی ہرزہ سرائی کرتے ہوئے کہا کہ یہ تو کسی کا سکھلایا ہوا اور پاگل شخص ہے۔ قرآن مجید نے اسی بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ ہم کچھ مدت کے لیے عذاب ٹال دیں گے مگر یہ لوگ وہی کچھ کہیں اور کریں گے جو پہلے سے کررہیں۔ چنانچہ عذاب ٹل جانے کے بعداہل مکہ اسی طرح کفر و شرک کرتے رہے جس طرح عذاب سے پہلے کیا کرتے تھے۔ ایسے لوگوں کی قیامت کے دن سخت پکڑ ہوگی اور ان کے کفر و شرک کی پوری پوری سزا دی جائے گی۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ مجرموں سے سخت انتقام لینے والا ہے۔ اس کا یہ بھی مفہوم لیا گیا ہے کہ جب تم نہ رسول کی بات سنتے ہو اور نہ چھوٹے بڑے عذاب سے سمجھتے ہو تو اس دن کا انتظار کرو جس دن دھواں چھا جائے گا اور تم فریادیں کرو گے کہ اے رب قیامت کا عذاب ٹال دے۔ اب ہم ایمان لاتے ہیں۔ کہا جائے گا کہ اب ایمان لانے اور نصیحت پانے کا وقت گزر گیا۔ جب تمہارے پاس رسول آیا اور اس نے تمہیں سمجھایا تو تم اسے پاگل کہتے تھے اور الزام دیتے تھے کہ اس پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے قرآن نازل نہیں ہوا بلکہ کسی سے پڑھ کر ہمیں سناتا ہے اور یہ شخص مجنون ہے۔ لہٰذا آج تم سے پوری طرح انتقام لیا جائے گا۔ ( عَنْ حُذَیْفَۃَ بْنِ أَسِیدٍ الْغِفَارِیِّ قَالَ کُنَّا قُعُودًا نَتَحَدَّثُ فِی ظِلِّ غُرْفَۃٍ لِرَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَذَکَرْنَا السَّاعَۃَ فَارْتَفَعَتْ أَصْوَاتُنَا فَقَالَ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لَنْ تَکُونَ أَوْ لَنْ تَقُوم السَّاعَۃُ حَتّٰی یَکُونَ قَبْلَہَا عَشْرُ آیَاتٍ طُلُوع الشَّمْسِ مِنْ مَغْرِبِہَا وَخُرُوج الدَّابَّۃِ وَخُرُوجُ یَأْجُوجَ وَمَأْجُوجَ وَالدَّجَّالُ وَعِیسَی ابْنُ مَرْیَمَ وَالدُّخَانُ وَثَلَاثَۃُ خُسُوفٍ خَسْفٌ بالْمَغْرِبِ وَخَسْفٌ بالْمَشْرِقِ وَخَسْفٌ بِجَزِیرَۃِ الْعَرَبِ وَآخِرُ ذٰلِکَ تَخْرُجُ نَارٌ مِنَ الْیَمَنِ مِنْ قَعْرِ عَدَنٍ تَسُوق النَّاسَ إِلَی الْمَحْشَرِ)[ رواہ ابوداؤد : باب أمارات الساعۃ] ” حضرت حذیفہ بن اسید غفاری (رض) بیان کرتے ہیں ہم نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حجرہ مبارک کے سائے میں بیٹھے باتیں کر رہے تھے ہم نے گفتگو کے دوران قیامت کا ذکر کیا اس کے ساتھ ہی ہماری آوازیں بلند ہوگئیں۔ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی جب تک اس سے پہلے دس نشانیاں نہ پوری ہوجائیں۔ 1 سورج کا مغرب سے طلوع ہونا، 2 دابہ جانور کا نکلنا، 3 یاجوج و ماجوج کا ظاہر ہونا، 4 دجال کا نکلنا، 5 عیسیٰ بن مریم ( علیہ السلام) کا نازل ہونا، 6 دھواں کا ظاہرہونا 7 زمین کا تین مرتبہ دھنسنا ایک مرتبہ مغرب میں 8 ایک مرتبہ مشرق میں 9 ایک مرتبہ جزیرۃ العرب میں ۔ آخری آگ یمن کے علاقہ سے عدن کی طرف رونما ہوگی جو لوگوں کو محشر کے میدان میں اکٹھا کرے گی۔“ تفسیربالقرآن اللہ تعالیٰ مجرموں سے انتقام لینے والا ہے : ١۔ ان کے پاس ان میں سے رسول آئے لیکن انہوں نے تکذیب کی تب انہیں عذاب نے آلیا۔ (النحل : ١١٣) ٢۔ ان کے لیے کہا جائے گا تکذیب کرنے کی وجہ سے عذاب میں مبتلا رہو۔ (السجدۃ : ٢٠) ٣۔ انہوں نے رسولوں کو جھٹلایا تو ہم نے انہیں ہلاک کردیا۔ (الشعراء : ١٣٩) ٤۔ قوم نوح نے جب حضرت نوح کی تکذیب کی تو ہم نے انہیں غرق کردیا۔ (الفرقان : ٣٧) ٥۔ ہم نے آل فرعون سے انتقام لیا اور انہیں دریا میں غرق کردیا۔ (الاعراف : ١٣٦) ٦۔ ان کے جھٹلانے کی وجہ سے انہیں دردناک عذاب میں مبتلا کیا جائے گا۔ (البقرۃ: ١٠) ٧۔ ہم مجرموں سے انتقام لیتے ہیں۔ (السجدۃ: ٢٢) الدخان
11 الدخان
12 الدخان
13 الدخان
14 الدخان
15 الدخان
16 الدخان
17 فہم القرآن ربط کلام : جس طرح مکہ والوں کو اللہ تعالیٰ نے دنیا میں عذاب میں مبتلا کیا اسی طرح ہی قوم فرعون کو مختلف قسم کے عذابوں میں مبتلا کیا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اہل مکہ کو خطاب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ ہم نے تمہاری طرف ایسا رسول بھیجا ہے جس طرح قوم فرعون کی طرف رسول بھیجا تھا۔ لیکن فرعون نے اسے ماننے سے انکار کردیا تھا جس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے اسے بڑے عذاب میں مبتلا کیا۔ (المزمل : ١٥، ١٦) ارشاد فرمایا کہ ہم نے اس سے پہلے ایک معزز رسول کے ذریعے قوم فرعون کو آزمایا۔ اس کے رسول نے فرعون کو یہ بات کہی تھی کہ اللہ کے بندوں یعنی بنی اسرائیل کو میرے حوالے کر دو۔ میں تمہارے لیے امین اور ذمہ دار رسول بنا کر بھیجا گیا ہوں۔ اللہ تعالیٰ کی بغاوت نہ کرناکیونکہ میں تمہارے پاس واضح دلیل لے کر آیا ہوں۔ اس مقام پر موسیٰ (علیہ السلام) کو کریم نبی کے نام سے یاد کیا گیا ہے۔ اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں رؤف رحیم اور رحمت للعالمین کے الفاظ استعمال کیے ہیں۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی عظیم اور طویل جدو جہد کو اس مقام پراشارات کے ذریعے بیان کیا گیا ہے۔ ان کی طویل جدوجہد کا خلاصہ بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ ہم نے قوم فرعون کی طرف معزز رسول طرف معزز رسول کو بھیجا اور اس نے اپنی قوم کی آزادی کا مطالبہ کیا جس کی مختصر روئیداد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے بھائی ہارون (علیہ السلام) کو فرعون کی طرف بھیجا۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے سب سے پہلے فرعون اور اس کی قوم کو اللہ کی توحید کی دعوت دی اور اس کے ساتھ ہی اپنی قوم کی آزادی کا مطالبہ کیا۔ جب فرعون نے انہیں ماننے سے انکار کیا تو موسیٰ (علیہ السلام) نے ان کے سامنے دو عظیم معجزے پیش فرمائے۔ مگر فرعون نے انہیں جادوگر کہہ کر ٹھکرا دیا۔ موسیٰ (علیہ السلام) کی عظیم اور طویل جدوجہد کے دوران فرعون کے ساتھ کئی معرکے ہوئے۔ مگر فرعون اور اس کی قوم موسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لانے کے لیے تیار نہ ہوئی۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں راہ راست پرلانے کے لیے ان پر کئی عذاب نازل کیے لیکن پھر بھی وہ لوگ اپنی ہٹ دھرمی پر قائم رہے۔ البتہ موسیٰ (علیہ السلام) کی جد وجہد کا یہ نتیجہ نکلا کہ بنی اسرائیل کے علاوہ فرعون کی قوم کے نوجوان اور کچھ سر کردہ لوگ موسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لے آئے۔ جس کے رد عمل میں فرعون نے موسیٰ (علیہ السلام) کو رجم اور قتل کرنے کی دھمکی دی۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے اس دھمکی کا جواب دیتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ مجھے تمہاری دھمکیوں کا کوئی ڈر نہیں کیونکہ میں اپنے اور تمہارے رب کی پناہ میں آچکا ہوں۔ اگر تم مجھ پر ایمان لانے کے لیے تیار نہیں تو میرا راستہ چھوڑ دو! مگر فرعون نے موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھیوں کا ایک دفعہ پھر قتل عام شروع کردیا۔ نہ معلوم یہ قتل عام کتنا عرصہ جاری رہا۔ بالآخر موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے رب کے حضور التجا کی کہ اے میرے رب! یہ قوم جرائم میں آگے ہی بڑھتی جارہی ہے اس لیے آپ سے عاجزانہ التجا ہے ہے کہ اب انہیں تہس نہس کردیا جائے۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کی التجا قبول فرمائی اور انہیں مصر سے ہجرت کرجانے کا حکم دیا۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے آخری دفعہ پھر فرعون کو توحید کی دعوت دیتے ہوئے فرمایا کہ میرا اور تمہارا رب ” اللہ“ ہے جس نے مجھے واضح دلائل اور بڑے بڑے معجزات کیساتھ تمہاری طرف بھیجا ہے۔ میں اسی کی طرف سے امانت دار رسول بنا کر بھیجا گیا ہوں۔ یعنی جو کچھ میں تمہیں کہہ رہا ہوں اس میں میری ذات کا کوئی عمل دخل نہیں اور جو کچھ تمہارے سامنے پیش کرتاہوں وہ پوری ذمہ داری سے پیش کررہا ہوں۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ کی سرکشی چھوڑ کر اس کی تابعداری اختیار کرو یہی تمہارے لیے بہتری کاراستہ ہے۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے قوم فرعون کی طرف حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو مبعوث فرمایا۔ ٢۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ کی توحید سمجھانے کے ساتھ بنی اسرائیل کی آزادی کا مطالبہ کیا۔ ٣۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) بڑے ہی معزز اور امانت دار رسول تھے۔ ٤۔ فرعون نے موسیٰ (علیہ السلام) کو رجم کردینے دھمکی دی۔ ٥۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے واضح دلائل اور بڑے بڑے معجزات کے ساتھ فرعون اور اس کے ساتھیوں کو توحید کی دعوت دی اور فرمایا کہ تمہیں اللہ کی سرکشی سے بازآنا چاہیے۔ ٦۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا کہ اگر تم ایمان نہیں لاتے تو میرا راستہ چھوڑ دو۔ ٧۔ فرعون کے بے انتہا مظالم کے بعد موسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ سے مجرموں کی تباہی کی بدعا کی۔ تفسیر بالقرآن مجرم اقوام کی انبیائے کرام (علیہ السلام) کو دھمکیاں : ١۔ مشرکوں کی حضرت نوح (علیہ السلام) کو دھمکی اگر تو باز نہ آیا تو تجھے سنگسار کردیا جائے گا۔ (الشعراء : ١١٦) ٢۔ ابراہیم (علیہ السلام) کے باپ نے کہا اگر تو باز نہ آیا تو میں تجھے سنگسار کردوں گا بس تو ہمیشہ کے لیے مجھ سے دور ہوجا۔ (مریم : ٤٦) ٣۔ حکمران اور قوم نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو آگ میں پھینک دیا۔ ( الانبیاء : ٦٨) ٤۔ قوم نے حضرت لوط (علیہ السلام) کو رجم کرنے کی دھمکی دی۔ (ہود : ٩١ ) ٥۔ مشرکوں کی حضرت لوط (علیہ السلام) کو دھمکی کہ اگر تو باز نہ آیا تو تمھیں شہر بدر کردیں گے۔ (الشعراء : ١٦٧) ٦۔ فرعون کی ایمانداروں کو دھمکیاں کہ میں تمھارے ہاتھ پاؤں مخالف سمت سے کاٹ دوں گا اور تمھیں کھجور کے تنوں پر سولی چڑھا دوں گا۔ (طٰہٰ : ٧١) ٧۔ فرعون کی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو دھمکی کہ میں تجھے سنگسار کر دوں گا۔ ( الدخان : ٢٠) ٨۔ فرعون نے اپنی قوم کو کہا کہ میرا راستہ چھوڑ دو کیونکہ میں موسیٰ کو قتل کرنا چاہتا ہوں۔ (المومن : ٢٦) ٩۔ مشرکوں نے حضرت شعیب (علیہ السلام) سے کہا کہ ہم تجھے اور تیرے ساتھ ایمان لانے والوں کو شہر سے نکال دیں گے۔ (الاعراف : ٨٨) ١٠۔ یہودیوں نے اپنے طور پر عیسیٰ ( علیہ السلام) کو سولی پر لٹکایا لیکن اللہ تعالیٰ انہیں اپنے پاس اٹھا لیا۔ ( النساء : ١٥٧۔ ١٥٨) ١١۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو قتل اور ملک بدر کرنے کی سازش۔ (الانفال : ٣٠) ١٢۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اللہ کی ہدایت سے پھیر دینے کی سازش۔ (البقرۃ: ١٠٩) الدخان
18 الدخان
19 الدخان
20 الدخان
21 الدخان
22 الدخان
23 فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ نے قوم فرعون کے بارے میں موسیٰ (علیہ السلام) کی بدعا قبول فرمائی اور موسیٰ (علیہ السلام) کو ہجرت کرنے کا حکم دیا۔ یاد رہے کہ ہجرت معمولی کام نہیں کہ پیغمبر کا دل اکتائے اور وہ اپنی قوم کو چھوڑ کرکہیں اور چلاجائے۔ یہ مشکل ترین کام ہے جسے انتہائی مشکل ترین حالات میں کرنے کی اجازت دی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جس پیغمبر کو بھی ہجرت کی اجازت دی گئی اس کے حالات اتنے پرکٹھن تھے کہ پیغمبر کا مزید وہاں رہنا سود مند نہیں تھا۔ اس لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے پیغمبروں کو ہجرت کرنے کی اجازت دی جاتی تھی۔ جب موسیٰ (علیہ السلام) کے حالات اس نہج پر پہنچ چکے تو اللہ تعالیٰ نے انہیں مصر سے ہجرت کرنے کی اجازت عطا فرمائی اور یہ ہدایت کی کہ رات کے وقت اپنے ساتھیوں کے ساتھ نکل جاؤ لیکن یاد رکھنا کہ تمہارا تعاقب ضرور کیا جائے گا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے ہجرت کی اجازت ملنے پر اپنے ساتھیوں کو حکم دیا کہ وہ پوری احتیاط کے ساتھ فلاں دن اور فلان وقت سمندر کے فلاں مقام پر پہنچ جائیں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں مصر کی سرزمین چھوڑنے کا حکم دے دیا ہے۔ موسیٰ (علیہ السلام) کے حکم کے مطابق ان کے ساتھی ہر شہر اور علاقے سے نکل کر سمندر کے اس مقام پر پہنچے جس کی انہیں نشاندہی کی گئی تھی۔ جن کی تعداد مؤرخین نے ایک لاکھ کے قریب بتلائی ہے اتنی تعداد میں مختلف شہروں اور علاقوں سے لوگوں کا اپنے گھر بار چھوڑ کر نکلنا اور ایک ہی مقام کی طرف رخ کرنا زیادہ دیر تک کس طرح خفیہ رہ سکتا تھا۔ ہجرت کرنے والوں نے بے شک پوری احتیاط کی۔ لیکن فرعون کی ایجنسیاں ان پر کڑی نگاہ رکھے ہوئے تھیں۔ جونہی انہوں نے فرعون تک اطلاع پہنچائی تو فرعون نے انتظامیہ کو ان الفاظ میں حکم جاری کیا کہ یہ مٹھی بھر لوگ ہیں۔ جنہوں نے ہمیں بہت غصہ دلادیا ہے اور ہم ایک ایسی جماعت ہیں جس کاشیوہ ہر وقت چوکس رہنا ہے۔ (الشعراء : ٥٤ تا ٥٦) فرعون کے حکم کے مطابق انتظامیہ کے لوگ اور بڑے بڑے لیڈر اپنے گھروں سے نکل کر اجتماعی شکل میں بنی اسرائیل کا تعاقب کرتے ہیں۔ ان کے نکلنے کو اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف منسوب کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ ہم نے انھیں ان کے باغات، چشموں، خزانوں اور عمدہ مکانوں سے نکالا اور اس طرح ہم نے بنی اسرائیل کو ان چیزوں کا وارث بنایا۔ فرعون نے بنی اسرائیل کا تعاقب کرتے وقت سرکاری طور پر جو اعلان کیا اس کے الفاظ یہ تھے کہ لوگو! اپنے اپنے شہروں سے باہر نکلو بے شک بنی اسرائیل تھوڑے ہیں لیکن ان کا پوری طرح تعاقب کرو یہ لوگ جانے نہ پائیں۔ انتظامی نقطہ نظر سے چاہیے تو یہ تھا کہ فو ج کے چند دستے اور سول انتظامیہ کی بھاری نفری بھیج کر نہتے اسرائیلیوں کو گرفتار کرلیا جاتا یا پھر مار مار کر ملک کی سرحد سے باہر نکال دیا جاتا۔ لیکن فرعون نے طیش میں آکر سول انتظامیہ اور فوج کے ساتھ وزیروں، مشیروں اور ملک بھر سے بڑے بڑے پارٹی لیڈروں کو اکٹھا کر کے بنی اسرائیل کا پیچھا کیا۔ ان کے اس طرح نکلنے کو اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف منسوب فرماکر ثابت کیا ہے کہ یہ ہماری منشاء کے مطابق ہوا تاکہ ہم انھیں ان کے باغات، چشموں، خزانوں اور ان کے محلاّت سے بےدخل کریں اور دوسری قوم کو ان کی تمام چیزوں کا وارث بنائیں۔ جب موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھیوں نے فرعون اور اس کے لشکر و سپاہ کو اپنی طرف آتے ہوئے دیکھا تو وہ پکار اٹھے کہ ہم تو مارے گئے۔ (فَلَمَّا تَرَاءَ الْجَمْعَانِ قَالَ اَصْحٰبُ مُوْسٰی اِِنَّا لَمُدْرَکُوْنَقَالَ کَلَّا اِِنَّ مَعِی رَبِّی سَیَہْدِیْنِی ) [ الشعراء : ٦١، ٦٢] ” جب دونوں گروہوں کا آمنا سامنا ہوا تو موسیٰ کے ساتھی چیخ اٹھے کہ ہم تو پکڑے گئے۔ موسیٰ نے فرمایا ہرگز نہیں میرے ساتھ میرا رب ہے وہ ضرور میری رہنمائی فرمائے گا۔“ (فَاَوْحَیْنَا اِِلٰی مُوْسٰی اَنْ اضْرِبْ بِعَصَاکَ الْبَحْرَ فَانفَلَقَ فَکَانَ کُلُّ فِرْقٍ کَالطَّوْدِ الْعَظِیْمِ) [ الشعراء : ٦٣] ” ہم نے موسیٰ کو وحی کے ذریعہ حکم دیا کہ سمندر پراپنا عصا مار تو یکایک سمندر پھٹ گیا۔ اور اس کی ہر لہر بہت بڑے پہاڑکی طرح کھڑی ہوگئی۔“ ادھر موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے ساتھی سمندر عبور کررہے تھے دوسری طرف فرعون اپنے ساتھیوں سمیت سمندر میں انہی راستوں سے داخل ہوا جہاں سے موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے ساتھی گزر چکے تھے۔ موسیٰ (علیہ السلام) چاہتے تھے کہ ایک دفعہ پانی پر عصا مار کر راستے بند کردئیے جائیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے یہ کہہ کر روک دیا کہ فرعون اور اس کے ساتھیوں کو سمندر میں داخل ہونے دیں۔ جونہی وہ سمندر میں داخل ہوں تو اپنا عصا سمندر پر ماریں تاکہ فرعون اور اس کے ساتھیوں کو غرق کردیا جائے موسیٰ (علیہ السلام) نے اس طرح ہی کیا۔ جس کے نتیجے میں پہاڑوں کی طرح ٹھہری ہوئی لہریں چل پڑیں۔ فرعون اور اس کے ساتھی غرق کردئیے گئے۔ اس طرح فرعون اور اس کے ساتھی مہکتے ہوئے باغ، جاری چشمے، لہلہاتی ہوئی کھیتیاں، پُرشکوہ محلات اور بیش بہا عیش وعشرت کا سامان چھوڑ کر سمندر میں غرق ہوئے۔ اللہ تعالیٰ نے دوسری قوم کو ان کا وارث بنایا اور ان کے ڈوب مرنے پر نہ زمین کو رونا آیا اور نہ ہی آسمان نے آنسو بہائے اور نہ ہی انہیں مہلت دی گئی۔ ان آیات میں فرعون کی ترقی اور ان کی عیش وعشرت کا نقشہ پیش کیا گیا ہے اور یہ بھی بتلایا گیا ہے کہ زمین و آسمان میں کوئی بھی ان پر رونے کے لیے تیار نہ ہوا۔ جو لوگ فرعون اور اس کے وزیروں، مشیروں کی تعریفیں کرتے ہوئے نہیں تھکتے تھے اور ان کے استقبال کے لیے پہروں کھڑے رہتے تھے اور فرعون کے سامنے سرجھکاتے تھے۔ ان میں ایک نفس بھی ایسا نہیں تھا جس نے افسوس کا اظہار کیا ہو۔ جس کے لیے یہ الفاظ کہے گئے کہ ان پر نہ زمین روئی اور نہ آسمان کو افسوس ہوا۔ یہ ایک حقیقت ہونے کے ساتھ ہر زبان میں محاورہ بھی ہے کہ جب بدترین شخص دنیا سے جاتا ہے تو اس پر افسوس کرنے والا کوئی نہیں ہوتا۔ جہاں تک قوم فرعون کے بعد مصر کی سرزمین کے وارث بننے والوں کا تعلق ہے اس میں اہل علم کے دو آراء ہیں۔ بے شک تاریخ سے بنی اسرائیل کا آل فرعون کے محلاّت اور باغات کا مالک ہونا ثابت نہیں۔ لیکن دیکھنا یہ ہے کہ قرآن مجید نے یہاں دوسری قوم کے الفاظ استعمال فرمائے ہیں لیکن سورۃ الشعراء میں کھلے الفاظ میں کہا ہے کہ ہم نے آل فرعون کو غرق کیا اور بنی اسرائیل کو ان کے باغوں، چشموں اور محلّات کا مالک بنا یا۔ (الشعراء : ٥٩) اس وضاحت کے بعد تاریخ کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے ؟ جب کہ تاریخی ریکارڈ تسلسل کے ساتھ دنیا میں موجود نہیں ہے۔ لہٰذا قرآن مجید کے الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ بنی اسرائیل فلسطین کے ساتھ مصر کے بھی مالک ہوئے اور انہیں وہ سب کچھ ملا جو آل فرعون کے پاس ہوا کرتا تھا۔ حضرت عمر (رض) کا بیت المقدس کی فتح کے موقع پر ان آیات کی تلاوت کرنا : حضرت عمر (رض) جب بیت المقدس شہر کے قریب پہنچے تو ایک اونچے ٹیلے پر کھڑے ہو کر چاروں طرف نگاہ ڈالی۔ القدس کا دلفریب منظر اور شاندار مکانات سامنے تھے۔ دل پر ایک خاص اثر ہوا۔ عبرت کے لہجہ میں یہ آیت پڑھی۔ (کَمْ تَرَکُوْا مِنْ جَنّٰتٍ وَعُیُوْنٍ) [ الدخان : ٢٥] َُْْمسائل ١۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو قبل از وقت بتلا دیا گیا کہ فرعون تمہارا تعاقب کرے گا۔ ٢۔ موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے ساتھیوں نے رات کے وقت ہجرت کی۔ ٣۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے دوبارہ عصا مارنے پرسمندر کا پانی پہلے کی طرح ٹھاٹھیں مارنے لگا۔ ٤۔ فرعون اور اس کے ساتھی غرق کردئیے گئے۔ ٥۔ موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے ساتھی امن و امان کے ساتھ سمندر پار کرگئے۔ ٦۔ فرعون اور ان کے ساتھی اپنے باغات، بہتے ہوئے چشمے، لہلہاتی ہوئی کھیتیاں، بڑے بڑے محلات اور عیش وعشرت کا سامان چھوڑ کر سمندر میں غرق ہوئے۔ ٧۔ فرعون اور اس کے ساتھیوں پر کوئی ایک شخص بھی رونے کے لیے تیارنہ ہوا۔ ٨۔ اللہ تعالیٰ نے مصر پر دوسری قوم کو اقتدار اور اختیار بخشا۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ جسے چاہے زمین کا وارث بناتا ہے : ١۔ اللہ تعالیٰ نے حق کی تکذیب کرنے والوں کو ہلاک کر کے دوسری قوم کو وارث بنایا۔ (الانعام : ٦) ٢۔ اے ایمان والو ! اگر تم دین سے مرتد ہوجاؤ تو اللہ تعالیٰ تمہاری جگہ دوسری قوم کو لے آئے گا۔ (المائدۃ : ٥٤) ٣۔ اگر اللہ چاہے تو تمہیں فنا کردے اور نئی مخلوق لے آئے۔ یہ اللہ کے لیے کچھ مشکل نہیں ہے۔ (ابراہیم : ١٩۔ ٢٠) ٤۔ اگر اللہ چاہے تو تم کو فنا کر کے دوسری مخلوق لے آئے یہ اللہ کے لیے مشکل نہیں۔ (فاطر : ١٦۔ ١٧) ٥۔ اگر اللہ چاہے تو تمہیں لے جائے اور تمہاری جگہ دوسروں کو لے آئے۔ (النساء : ١٢٣) ٦۔ اگر اللہ چاہے تو تمہیں لے جائے اور تمہارے بعد جسے چاہے لے آئے۔ (الانعام : ١٣٣) الدخان
24 الدخان
25 الدخان
26 الدخان
27 الدخان
28 الدخان
29 الدخان
30 فہم القرآن ربط کلام : بنی اسرائیل کا اذیت ناک عذاب سے نجات پانا ہے۔ فرعون اور اس کے ساتھیوں کا غرق ہونا۔ اللہ تعالیٰ نے فرعون اور اس کے ساتھیوں کو سمندر میں غرقاب کیا کیونکہ وہ بڑا ہی عالی اور غالی انسان تھا۔ دنیا میں بڑے بڑے باغی اور سرکش انسان گزرے ہیں مگر کسی نے رب الاعلیٰ ہونے کا دعویٰ نہیں کیا۔ فرعون ایساغالی اور متکبر انسان تھا کہ اس نے رب الاعلیٰ ہونے کا دعویٰ کیا اور لوگوں کو جبراً اپنے سامنے جھکا یا کرتا تھا۔ وہ بنی اسرائیل کو اذیت ناک سزائیں دیتا تھا۔ اللہ تعالیٰ جنہیں بنی اسرائیل موسیٰ (علیہ السلام) کی بے مثال جدوجہد کے نتیجے میں نجات عطا فرمائی۔ جس کے بارے میں عذاب مھین کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں اور اسے جنت بڑی آزمائش قرا ردیا۔ اس ذلت ناک سزا کا تذکرہ قرآن مجید میں ان الفاظ کے ساتھ بیان ہوا ہے۔ (وَ اِذْ نَجَّیْنٰکُمْ مِّنْ اٰلِ فِرْعَوْنَ یَسُوْمْوْنَکُمْ سُوْٓءَ الْعَذَابِ یُذَبِّحُوْنَ اَبْنَآءَ کْمْ وَ یَسْتَحْیُوْنَ نِسَآءَ کُمْ وَفِیْ ذٰلِکُمْ بَلَآءٌ مِّنْ رَّبِّکُمْ عَظِیْمٌ)[ البقرۃ: ٤٩] ” اور جب ہم نے تمہیں فرعونیوں سے نجات دی جو تمہیں بد ترین عذاب دیتے تھے۔ وہ تمہارے لڑکوں کو مار ڈالتے اور تمہاری لڑکیوں کو چھوڑ دیتے تھے اس میں تمہارے رب کی طرف سے بڑی آزمائش تھی۔“ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو اپنی نعمتوں کا احساس، آخرت کا خوف اور ان کے ماضی کے الم ناک دور کا حوالہ دیتے ہوئے سمجھایا ہے کہ آج تم کمزور اور بے خانماں مسلمانوں پر ظلم کررہے ہو تمہیں وہ وقت بھی یاد رکھنا چاہیے جب فرعون تمہارے جوانوں اور نونہالوں کو سر عام ذبح کرتا تھا اور تمہاری ماؤں اور بہو‘ بیٹیوں کو باقی رہنے دیتا تھا۔ قرآن مجید نے اسے بلائے عظیم قرار دے کر ان تمام مضمرات کی طرف اشارہ کیا ہے جو مظلوم اور غلام قوم کو پیش آیا کرتے ہیں۔ ظالم لوگ مغلوب اور مظلوم قوم کی بہو بیٹیوں کے ساتھ وہ سلوک روا رکھتے ہیں جس کے تصور سے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ اے بنی اسرائیل ! اللہ تعالیٰ نے تم پر احسان عظیم کرتے ہوئے ان مظالم سے تمہیں نجات دلائی اور تمہاری آنکھوں کے سامنے تمہارے بد ترین دشمن کو ذلت کی موت دیتے ہوئے ہمیشہ کے لیے اسے نشان عبرت بنا دیا۔ اس سے دنیا میں تمہاری عظمت و سچائی اور بزرگی کی دھوم مچ گئی کہ بنی اسرئیل کے لیے دریا رک گیا اور ان کی آنکھوں کے سامنے بد ترین مغروروسفّاک، خدائی اور مشکل کشائی کا دعوی کرنے والا ڈبکیاں لیتے ہوئے دہائی دیتا رہا کہ لوگو! میں موسیٰ (علیہ السلام) اور اس کے خدا پر ایمان لاتا ہوں لیکن آواز آئی کہ تیرا ایمان ہرگز قبول نہیں ہوگا اب تجھے آئندہ نسلوں کے لیے نشان عبرت بنا دیا جائے گا۔[ یونس : ٩١] مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو ذلت آمیز سزاؤں سے نجات دی۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے فرعون اور اس کے ساتھیوں کو ذلت کی موت مارا۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو پوری دنیا پر فضیلت اور عظمت عطا فرمائی۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ کے بنی اسرائیل پرانعامات : ١۔ اے بنی اسرائیل میری نعمتوں کو یاد کرو جو میں نے تم پر انعام فرمائیں۔ (البقرۃ: ٤٠) ٢۔ بنی اسرائیل کو ساری دنیا پر فضیلت دی گئی۔ (البقرۃ: ٤٧) ٣۔ بنی اسرائیل کے لیے سمندر کو پھاڑا گیا۔ ( البقرۃ: ٠ ٥) ٤۔ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو آل فرعون سے نجات دی۔ (البقرۃ: ٤٩) ٥۔ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کے لیے بارہ چشمے جاری فرمائے۔ (الاعراف : ١٦٠) ٦۔ بنی اسرائیل پر اللہ تعالیٰ نے بادلوں کا سایہ کیا اور من و سلویٰ نازل فرمایا۔ (البقرۃ: ٥٧) ٧۔ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کے لیے مقتول کو زندہ فرمایا۔ (البقرۃ: ٧٣) ٨۔ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کے ہزاروں لوگوں کو دوبارہ زندہ کیا۔ (البقرۃ: ٢٤٣) ٩۔ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کے کمزوروں کی مدد فرمائی۔ (القصص : ٥) ١٠۔ ہم نے بنی اسرائیل کوا ذیت ناک عذاب سے نجات دی۔ (الدخان : ٣٠) الدخان
31 الدخان
32 الدخان
33 الدخان
34 فہم القرآن ربط کلام : فرعون اور اس کے ساتھیوں کا انجام ذکر کرنے کے بعد اہل مکہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ تم بھی گھمنڈ میں آکر کہتے ہو کہ دنیا کی موت ہی ہمارا آخری انجام ہے کیا انہیں معلوم نہیں کہ قیامت کا انکار کرنے والوں کا کیا انجام ہوا جن میں قوم آل فرعون کے ساتھ تبع بھی شامل ہے۔ قرآن مجید نے منکرین قیامت کو سمجھانے کے لیے عقلی اور نقلی دلائل کے ذریعے ثابت کیا ہے کہ قیامت ہر صورت قائم ہوگی۔ لیکن قیامت کا انکار کرنے والے بلادلیل اپنی بات اور ہٹ دھرمی پر قائم رہتے ہیں۔ یہی حالت اہل مکہ کی تھی۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں قرآن مجید کے دلائل کے ساتھ بار بار سمجھایا کہ قیامت ہر صورت برپا ہوکررہے گی۔ کوئی ڈوب کے مرے یا آگ میں جل کرخاکستر ہوجائے۔ ہر صورت اللہ تعالیٰ اسے اپنی بارگاہ میں حاضر کرے گا اور اس سے پورا، پورا حساب لیا جائے گا۔ اتنے واضح اور ٹھوس دلائل ہونے کے باوجود مکہ کے لوگ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے اس بات پر مصرّ تھے کہ بس آدمی جب مرجاتا ہے تو پھر اس نے دوبارہ زندہ نہیں ہونا۔ وہ یہ دلیل پیش کرتے کہ اگر واقعی قیامت آنی ہے تو ہمارے باپ دادا کو اٹھالائیں۔ ہم ان سے پوچھیں گے کہ مرنے کے بعد کیا ہوتا ہے ؟ اس سوال کے جواب میں قرآن مجید نے کئی واقعات کا ذکر کیا ہے خاص طور پر حضرت ابر ہیم، حضرت موسیٰ، حضرت عزیر، حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے ہاتھوں زندہ ہونے والے افراد کا قدرے تفصیل کے ساتھ ذکر کیا اور فرمایا۔ (وَقَالُوا أَءِذَا کُنَّا عِظَامًا وَرُفَاتًا أَءِنَّا لَمَبْعُوثُونَ خَلْقًا جَدِیدًا۔ قُلْ کُونُوا حِجَارَۃً أَوْ حَدِیدًا۔ أَوْ خَلْقًا مِمَّا یَکْبُرُ فِی صُدُورِکُمْ فَسَیَقُولُونَ مَنْ یُعِیدُنَا قُلِ الَّذِی فَطَرَکُمْ أَوَّلَ مَرَّۃ) [ بنی اسرائیل : ٤٩ تا ٥١] ” اور وہ کہتے ہیں کہ جب ہم ہڈیاں اور ریزہ ریزہ ہوجائیں گے تو کیا واقعی ہم پھر اٹھائے جائیں گے۔ فرما دیں کہ تم پتھر بن جاؤ یا لوہا۔ یا کوئی ایسی مخلوق بن جاؤ جو تمہارے دلوں میں بڑی ہے لیکن عنقریب وہ کہیں گے کون ہمیں لوٹائے گا ؟ فرما دیں جس نے تمہیں پہلی بار پیدا کیا۔“ مسائل ١۔ قیامت کا انکار کرنے والے کہتے ہیں کہ ہم نے مرنے کے بعد دوبارہ زندہ نہیں ہونا۔ ٢۔ قیامت کا انکار کرنے والے سب سے بڑی دلیل یہ پیش کرتے ہیں کہ ہمارے آباؤ اجداد کو ہمارے سامنے لایا جائے تب ہم ایمان لائیں گے کہ واقعی قیامت قائم ہوگی۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ کا مردوں کو دوبارہ زندہ کرنا : ١۔ وہ کہتے ہیں ہمیں کون دوبارہ زندہ کرے گا ؟ فرما دیجیے جس نے پہلی بار پیدا کیا تھا۔ (بنی اسرائیل : ٥١) ٢۔ ہم نے زمین سے تمہیں پیدا کیا اسی میں لوٹائیں گے اور اسی سے دوبارہ اٹھائیں گے۔ (طٰہٰ: ٥٥) ٣۔ اللہ ہی مخلوق کو پیدا کرنے والا ہے، پھر وہی اسے دوبارہ لوٹائے گا۔ (یونس : ٤) ٤۔ اللہ وہ ذات ہے جس نے مخلوق کو پہلی بار پیدا کیا، پھر اسے لوٹائے گا اور یہ کام اس کے لیے آسان ہے۔ (الروم : ٢٧) ٥۔ اللہ ہی نے مخلوق کو پیدا کیا، پھر وہ اسے دوبارہ پیدا کرے گا، پھر تم اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔ (الروم : ١١) ٦۔ کیا اللہ کو اس بات پر قدرت نہیں ؟ کہ وہ مردوں کو زندہ فرمائے۔ (القیامۃ: ٤٠) ٧۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم کے سامنے چار پرندوں کو زندہ کیا۔ (البقرہ : ٢٦٠ ) ٨۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ کے سامنے ان کی قوم کے ستر سرداروں کو موت دے کر دوبارہ زندہ کیا۔ (الاعراف : ١٥٥ ) ٩۔ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کے ہزاروں لوگوں کو موت دے کر دنیا میں دوبارہ زندہ کیا۔ (البقرۃ: ٢٤٣ ) ١٠۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کی قوم کے سامنے ایک مقتول کو زندہ کیا۔ ( البقرۃ: ٧٣) ١١۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ کے ہاتھوں مردوں کو زندہ فرمایا۔ (المائدۃ : ١١٠) ١٢۔ اللہ تعالیٰ نے اصحاب کہف کو تین سو نو سال سلاکر بیدار فرمایا۔ (الکہف : ٢٥) ١٣۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت عزیر کوسو سال مارنے کے بعد زندہ فرمایا۔ (البقرۃ: ٢٥٩ ) ١٤۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت عزیرکے گدھے کو ان کے سامنے دوبارہ زندہ فرمایا۔ (البقرۃ: ٢٥٩) الدخان
35 الدخان
36 الدخان
37 فہم القرآن ربط کلام : آل فرعون اور اس کے ساتھیوں کا ظلم بیان کرنے کے بعد اہل مکہ کو قوم تبّع کا حوالہ دیا ہے جس میں یہ اشارہ موجود ہے کہ فرعون اور قوم تبّع کی تاریخ سامنے رکھو! جو اقتدار اور وسائل کے اعتبار سے تم سے بڑھ کرتھے۔ ان کے جرائم کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے انہیں ہلاک کردیا۔ تم ان کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں ہو۔ اگر تم ہلاکت سے بچنا چاہتے ہو تو پھر اپنے آپ کو ” اللہ“ اور اس کے رسول کے تابع کرلو۔ جس طرح فارس کا بادشاہ کسریٰ، روم کا حکمران قیصر، مصر کا فرمانروا اپنے آپ کو فرعون کہلواتا تھا اسی طرح یمن کا بادشاہ تبع کے نام سے پکارا جاتا تھا۔ تبع وہاں کی سب سے بڑی قوم تھی۔ یہ قوم یمن میں ممتاز سمجھی جاتی تھی۔ اس قوم نے یمن میں تین سو سال حکمرانی کی۔ قوت اور سطوت کے اعتبار سے ان کا کوئی ثانی نہ تھا۔ طویل اقتدار اور مال واسباب کی فراوانی نے اس قوم کو مغرور اور متکبر کردیا۔ جس پر اللہ تعالیٰ نے گرفت فرمائی اور ان پر ایسا زوال آیا کہ یہ گلی کے تنکوں سے بھی ہلکے ہوگئے۔ اس قوم کے لیے خیر کا لفظ استعمال کیا گیا ہے جس کا معنٰی فکرو عمل کے اعتبار سے بہتر ہونا نہیں بلکہ خیر سے مراد مال و اسباب کے لحاظ سے مکہ والوں سے بہتر ہونا ہے۔ کیونکہ ان کے مال کی طرف اشارہ فرما کراہل مکہ کو سمجھایا ہے کہ تم قوم تبع سے مالی لحاظ سے بڑے نہیں بلکہ کمتر ہو۔ لیکن پھر بھی سرکشی اختیار کیے ہوئے ہو۔ اسی علاقے سے ہی وہ لوگ اٹھے تھے جنہوں نے بیت اللہ کو شہید کرنے فیصلہ کیا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے ابابیل بھیج کر انہیں تہس نہس کردیا۔ جس کی تفصیل سورۃ الفیل کی تفسیر پڑھنی چاہیے۔ کچھ مفسرین نے اپنے مشرکانہ عقیدہ کی تائید اور زیب داستان کے لیے اسرائیلی روایات کی بنیاد پر تبع کی قوم کے اس بادشاہ کا ایک واقعہ لکھا ہے کہ وہ مدینہ کی سرزمین سے گزرہا تھا۔ اس کے اہل علم نے اسے بتلایا کہ یہاں آخر الزماں پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف فرما ہوں گے۔ اس نے اپنے اہلکار کے ذریعے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں خط لکھا جس میں یہ درخواست کی کہ آپ میرا اسلام قبول کریں اور قیامت کے دن میری سفارش فرمائیں۔ یہ خط جن لوگوں کے حوالے کیا۔ اس قبیلے نے اسے نسل درنسل محفوظ رکھا اور جب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مدینہ تشریف لائے تو اس قبیلے کے افراد نے وہ خط نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں پیش کیا تو آپ نے اس بادشاہ کا اسلام قبول کیا اور اس کے لیے دعا کی۔ (اس کا کوئی ثبوت موجود نہیں ہے۔) الدخان
38 فہم القرآن ربط کلام : جرائم میں وہی شخص آگے بڑھتا ہے جو زبانی یا عملی طور پر آخرت کا انکار کرتا ہے۔ جو آخرت کا انکار کرتا ہے وہ قولاً یا فعلاً سمجھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کائنات کو محض شغل کے طور پر پیدا کیا ہے۔ آخرت کا انکار کرنے اور کائنات کو شغل قرار دینے والوں کو سمجھانے کے لیے ارشاد فرمایا ہے کہ ہم نے زمین و آسمانوں اور جو کچھ ان کے درمیان ہے انہیں شغل کے طور پر پیدا نہیں کیا۔ زمین و آسمانوں کے درمیان جو کچھ پیدا کیا گیا ہے یا آئندہ پیدا کیا جائے گا اس کا ایک مقصد ہے لیکن لوگوں کی اکثریت اس مقصد کی طرف متوجہ نہیں ہوتی۔ سورۃ الانبیاء آیت ١٦ میں ارشاد فرمایا کہ ہم نے زمین و آسمانوں کو اور جو کچھ ان کے درمیان ہے شغل کے طور پر پیدا نہیں کیا۔ اگر ہم انہیں شغل کے طور پر پیدا کرتے تو پھر یہ شغل اور کھیل تماشہ ہمیں اپنے پاس ہی کرنا چاہیے تھا۔ ہم حق کو باطل پر غلبہ دیتے ہیں۔ باطل مٹ جاتا ہے اور جو لوگ زمین و آسمانوں کی تخلیق کو شغل اور کھیل تماشا سمجھتے ہیں ان کے لیے ہلاکت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمانوں میں جو کچھ پیدا کیا ہے اس کے پیدا کرنے کے دو مقصد ہیں۔ ایک طرف وہ اپنے خالق اور مالک کی عبادت اور تابعداری کریں اور دوسری طرف وہ انسان کی خدمت میں لگے رہیں۔ یہی انسان کی تخلیق کا مقصد ہے کہ ایک طرف اپنے رب کی عبادت کرئے اور دوسری طرف اپنے بھائیوں کی خدمت بجا لائے۔ لیکن لوگوں کی اکثریت اپنے مقصد حیات کو جاننے کے لیے تیار نہیں۔ ایسے لوگ عملاً یا قولاً آخرت کا انکار کرتے ہیں۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے جس دن لوگوں کو اکٹھا کیا جائے گا اور ان کے درمیان فیصلے کیے جائیں گے۔ اس دن کا ایک وقت مقرر ہے جو کسی کے انکار یا اقرار سے آگے پیچھے نہیں ہوسکتا۔ اس دن کوئی جگری دوست بھی اپنے دوست کی مدد نہیں کرسکے گا سوائے اس کے جس پر اس کا رب مہربانی فرمائے۔ اللہ تعالیٰ کی کرم نوازی سے نیک لوگ موحد گناہگاروں کے لیے سفارش کرسکیں گے۔ اللہ تعالیٰ العزیز اور الحکیم ہے۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان اور جو کچھ ان کے درمیان ہے اسے بے مقصد پیدا نہیں کیا۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے جس مقصد کے لیے انسان کو پیدا کیا ہے لوگوں کی اکثریت اس مقصد کو جاننے کے لیے تیار نہیں۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کے درمیان فیصلے کرنے کے لیے ایک دن مقرر کر رکھا ہے۔ ٤۔ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کی اجازت کے بغیر کوئی کسی کی خیر خواہی اور مدد نہیں کرسکے گا۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر غالب اور بڑا مہربان ہے۔ تفسیربالقرآن قیامت ہر صورت برپا ہوگی : ١۔ قیامت قریب ہے۔ (الحج : ١) ٢۔ قیامت کے دن کوئی کسی کو فائدہ نہیں دے سکے گا۔ (الانفطار : ١٩) ٣۔ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ سوال کرے گا کہ آج کس کی بادشاہی ہے؟۔ (المومن : ١٦) ٤۔ قیامت کے دن صرف ایک اللہ کی بادشاہی ہوگی۔ (الفرقان : ٢٦) ٥۔ قیامت کے دن اللہ ہی فیصلے صادر فرمائے گا۔ (الحج : ٥٦) ٦۔ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کی اجازت کوئی سفارش نہیں کرسکے گا۔ ( البقرۃ: ٢٥٥) الدخان
39 الدخان
40 الدخان
41 الدخان
42 الدخان
43 فہم القرآن ربط کلام : جو لوگ کائنات کو کھیل تماشا سمجھتے ہیں اور آخرت کا انکار کرتے ہیں انہیں جہنّم میں داخل کیا جائے گا جس میں انہیں یہ سزائیں دی جائیں گی۔ جہنمی جہنّم میں اس لیے جائیں گے کہ انہوں نے اپنے رب کی نافرمانی کی انتہا کی ہوگی۔ ایسے نافرمانوں کو کھانے کے لیے تھوہر کادرخت دیا جائے گا وہ اسے کھانے کی کوشش کریں گے لیکن ان کے حلق میں اٹک جائے گا۔ اسے حلق سے اتارنے کے لیے پانی طلب کریں گے انہیں پینے کے لیے کھولتا ہوا پانی اور جہنمیوں کی پیپ دی جائے گی۔ جونہی تھوہر کا درخت ان کے حلق سے نیچے اترے گا تو وہ اس طرح ان کے پیٹوں میں ہول پیدا کرے گا جس طرح پگھلا ہوا تانبا زمین پر انڈیلا جائے تو زمین ابل پڑتی ہے۔ اس کے ساتھ ہی جہنمیوں کے سروں پربے انتہا گرم پانی ڈالا جائے گا۔ جہنمی چیخ وپکار اور آہ و زاریاں کرے گا تو فرشتے اسے مزید سزا دیتے ہوئے کہیں گے اپنے اعمال کا مزہ چکھ ! کیونکہ تو دنیا میں اپنے آپ کو بڑا اور عزت والا سمجھتا تھا۔ یہ وہی دن ہے جس کے بارے میں تو شک کیا کرتا تھا۔ جہنم کے عذاب کے بارے میں دوسرے مقام پر بتلایا گیا ہے کہ اس میں صرف ایک ہی قسم کا عذاب نہیں ہوگا بلکہ جہنمیوں کو مختلف قسم کے عذاب دیئے جائیں گے۔ (ص : ٥٧) قرآن مجید نے یہ بات کئی مرتبہ ارشاد فرمائی ہے کہ شیطان لوگوں کے لیے ان کے گناہوں کو خوبصورت بنا دیتا ہے۔ جسے لوگ فیشن کے طور پر اختیار کرتے ہیں۔ ظاہر بات ہے کہ فیشن انسان اپنی عزت اور خوبصورتی کے لیے کرتا ہے۔ ایسے لوگوں کو گناہ سے روکا جائے تو وہ اپنی بے عزتی سمجھتے ہیں۔ ان کی یہ سزا ہوگی کہ ملائکہ ان کے سروں پر شدید ترین ابلتا ہوا پانی انڈلیتے ہوئے کہیں گے کہ یہ تیرے کیے کی سزا ہے کیونکہ دنیا میں تو اپنے آپ کو بڑا اور عزت والا سمجھتا تھا۔ مسائل ١۔ جہنمیوں کو کھانے کے لیے تھوہر کادرخت دیا جائے گا۔ ٢۔ جہنمیوں کے پیٹوں میں تھوہر طوفان برپا کردے گا۔ ٣۔ ملائکہ جہنمیوں کے سروں پرشدید ترین کھولتا ہوا پانی انڈیلتے ہوئے کہیں گے کہ اپنے کیے کی سزا پاؤ کہ تم دنیا میں اپنے آپ کو بڑا اور عزت والا سمجھتے تھے۔ ٤۔ جہنمیوں کو اس لیے سزا دی جائے گی کہ وہ قیامت کے بارے میں شک کیا کرتے تھے۔ تفسیربالقرآن جہنّم میں جہنمیوں کی مختلف سزائیں : ١۔ اس دن ہم ان کا مال جہنم کی آگ میں گرم کریں گے اس کے ساتھ ان کی پیشانیوں، کروٹوں اور پیٹھوں کو داغاجائے گا۔ (التوبہ : ٣٥) ٢۔ ان کا ٹھکانہ جہنم ہے جب آگ ہلکی ہونے لگے گی تو ہم اسے مزید بھڑکا دیں گے۔ (بنی اسرائیل : ٩٧) ٣۔ اس میں وہ کھولتا ہوا پانی پیئیں گے اور اس طرح پیئیں گے جس طرح پیا سا اونٹ پیتا ہے۔ (الواقعہ : ٥٤ تا ٥٥) ٤۔ ہم نے ظالموں کے لیے آگ تیار کی ہے جو انہیں گھیرے ہوئے ہوگی اور انہیں پانی کی جگہ پگھلا ہو اتانبا دیا جائے گا جو ان کے چہروں کو جلا دے گا۔ (الکہف : ٢٩) ٥۔ ان کے پینے کے لیے کھولتا ہوا پانی اور درد ناک عذاب ہوگا۔ (الانعام : ٧٠) ٧۔ تھور کا درخت گنہگاروں کا کھانا ہوگا۔ (الدخان : ٤٣، ٤٤) ٨۔ جہنمیوں کو پیپ اور لہو پلایا جائے گا۔ (ابراہیم : ١٦) ٩۔ ان کے لیے کھانے کی کوئی چیز نہیں ہوگی مگر ضریع ہے۔ جونہ موٹا کرے گا اور نہ بھوک ختم کرے گا۔ (الغاشیۃ: ٦۔ ٧) ١٠۔ جہنمیوں کے جسم بار، بار بدلے جائیں گے تاکہ انہیں پوری، پوری سزا دی جائے۔ (النساء : ٥٦) الدخان
44 الدخان
45 الدخان
46 الدخان
47 الدخان
48 الدخان
49 الدخان
50 الدخان
51 الدخان
52 فہم القرآن ربط کلام : جہنمیوں کی سزا کے بیان کے بعد جنتیوں کے انعامات کا تذکرہ۔ فہم القرآن کا مطالعہ کرنے والے حضرات جانتے ہیں کہ یہ بات کئی مقامات پر ذکر ہوچکی ہے کہ قرآن مجید کا اسلوب تکلّم ہے کہ وہ اپنے مخاطبین کے سامنے بیک وقت جنتیوں کے انعامات اور جہنمیوں کے عذاب کا ذکر کرتا ہے تاکہ قرآن کی تلاوت کرنے والا شخص موقع پر فیصلہ کرپائے کہ اس نے کس چیز کا انتخاب کرنا ہے۔ اسی اسلوب کے پیش نظر جہنمیوں کی سزاؤں کا ذکر کرنے کے متصل بعد جنتیوں کے انعامات کا تذکرہ کیا جارہا ہے۔ جنت میں وہی شخص داخل ہوگا جس کا عقیدہ کفر و شرک کی ملاوٹ سے پاک ہوگا اور اس نے سنت رسول کے مطابق زندگی گزارنے کی کوشش کی ہوگی۔ جو شخص اپنے رب کی نافرمانی سے بچنا ہے اور اس کی تابعد اری کرنے کے ساتھ اس سے ڈر ڈر کرزندگی گزارتا ہے۔ ایسے شخص کو متقی کہا گیا ہے اور قیامت کے دن متقین ہر طرح امن و امان میں ہوں گے۔ انہیں جنات میں جگہ دی جائے گی جن میں چشمے اور آبشاریں جاری ہوں گی۔ انہیں نہایت ہی نفیس اور باریک ریشم کالباس پہنایا جائے گا۔ وہ جنت میں ایک دوسرے کے سامنے بیٹھ کر اپنے رب کی حمد وثنا کریں گے اور خوش گپیوں میں مصروف ہوں گے اور انہیں موٹی موٹی آنکھوں والی خوبصورت بیویاں عطا کی جائیں گی۔ جنتی پرسکون ماحول میں جنت کے پھلوں سے لطف اندوز ہوں گے۔ جو طلب کریں ان کے سامنے پیش کیا جائے گا۔ انہیں دنیا کی موت کے بعد موت نہیں آئے گی۔ اللہ تعالیٰ انہیں جہنّم کے عذاب سے ہر طرح محفوظ رکھے گا جو سراسر آپ کے رب کا فضل ہوگا اور یہ سب سے بڑی کامیابی ہے۔ یاد رہے کہ جو عورتیں نیک ہوں گی اور ان کے خاوند جہنمی ہوں گے ان کے نکاح خوبصورت جنتیوں کے ساتھ کیے جائیں گے۔ قرآن مجید عورتوں کی حیا کی خاطر اس کا تذکرہ نہیں کرتا ورنہ حقیقتاً ایسا ہوگا۔ مسائل ١۔ متقی جنت میں امن و سکون سے رہیں گے۔ ٢۔ جنت کے باغوں میں چشمے جاری ہوں گے۔ ٣۔ جنتیوں کو نفیس ترین باریک ریشم کالباس پہنایا جائے گا۔ ٤۔ جنتیوں کو موٹی موٹی آنکھوں والی نہایت خوبصورت بیویاں دی جائیں گی۔ ٥۔ جنتی ایک دوسرے کے سامنے بیٹھ کر خوش گھپیوں میں مصر وف ہوں گے۔ ٦۔ جنتی جو چاہیں گے ان کے سامنے پیش کردیا جائے گا۔ ٧۔ جنت اللہ تعالیٰ کے فضل سے حاصل ہوگی۔ ٨۔ جنتیوں کو موت نہیں آئے گی۔ ٩۔ اللہ تعالیٰ جنتیوں کو جہنّم کے ہر قسم کے عذاب سے محفوظ رکھے گا۔ ١٠۔ جوجہنّم سے بچ کرجنت میں داخل ہوگیا اسے بہت بڑی کامیابی نصیب ہوئی۔ تفسیربالقرآن جنت کے انعامات کی ایک جھلک : ١۔ ہم ان کے دلوں سے کینہ نکال دیں گے اور سب ایک دوسرے کے سامنے تکیوں پر بیٹھے ہوں گے۔ انہیں کوئی تکلیف نہیں پہنچے گی اور نہ وہ اس سے نکالے جائیں گے۔ (الحجر : ٤٧۔ ٤٨) ٢۔ جس جنت کا مومنوں کے ساتھ وعدہ کیا گیا ہے۔ اس کے نیچے نہریں جاری ہیں اور اس کے پھل اور سائے ہمیشہ کے لیے ہوں گے۔ (الرعد : ٣٥) ٣۔ جنت میں بے خار بیریاں، تہہ بہ تہہ کیلے، لمبا سایہ، چلتا ہوا پانی، اور کثرت سے میوے ہوں گے۔ (الواقعۃ : ٢٨ تا ٣٢) الدخان
53 الدخان
54 الدخان
55 الدخان
56 الدخان
57 الدخان
58 فہم القرآن ربط کلام : الدّخان کی ابتداء قرآن مجید کے تعارف سے ہوئی اور اس کا اختتام بھی قرآن مجید کے بیان پر ہورہا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے نبی آخرالزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر قرآن مجید اس لیے نازل فرمایا تاکہ آپ لوگوں کو اس کے ساتھ نصیحت فرمائیں۔ اس لیے قرآن مجید کو ” مَوْعِظَۃً“ اور ذکر کہا ہے۔ ذکر کا معنٰی ہے ایسی نصیحت جسے بار بار پیش کیا جائے اور اسے یاد رکھا جائے۔ ” مَوْعِظَۃً“ ایسی نصیحت کو کہتے ہیں جو سننے والے کے دل پر اثر کرے۔ ظاہر بات ہے کہ نصیحت وہی مؤثر اور بہتر ہوتی ہے جس کا انداز اور الفاظ آسان تر ہوں۔ اس لیے قرآن مجید کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ہم نے اس کو آسان کردیا ہے کیا کوئی اسے سمجھنے کے لیے تیار ہے ؟ (القمر : ٢٢) قرآن مجید کے آسان اور پرتاثیر ہونے کے باوجوداگر اسے لوگ نہیں مانتے تو پھر انہیں فرمائیں کہ تم بھی انتظار کرو اور ہم بھی انتظار کرتے ہیں تاآنکہ اللہ تعالیٰ ہمارے اور تمہارے درمیان فیصلہ صادر فرما دے۔ دوسرے الفاظ میں اس کا مفہوم یہ ہے کہ ہمارے ساتھ الجھنے کی بجائے تم اپنا کام کرو ہمیں اپنا کام کرنے دو۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان پر قرآن کو آسان تر کردیا۔ ٢۔ قرآن مجید کو اس لیے آسان بنایا تاکہ لوگوں کو اس کی نصیحت سمجھنے میں مشکل پیش نہ آئے۔ ٣۔ جو لوگ آسان اور پرتاثیر قرآن کو نہیں مانتے انہیں اللہ تعالیٰ کے فیصلے کا انتظار کرنا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید اور دین کو آسان بنایا ہے : ١۔ اللہ تعالیٰ تم پر آسانی کرنا چاہتا ہے۔ (البقرۃ: ١٨٥، النساء : ٢٨) ١۔ دین میں جبر نہیں۔ (البقرۃ: ٢٥٦) ٣۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کو نصیحت کے لیے آسان بنایا۔ (مریم : ٩٧، القمر : ١٧، ٢٢، ٣٢، ٤٠، الدخان : ٥٨) الدخان
59 الدخان
0 سورۃ الجاثیہ کا تعارف الجاثیہ کا نام اس سورۃ کی ٢٨ آیت میں آیا ہے۔ مفہوم یہ ہے کہ قیامت کے دن ایک مرحلہ ایسا آئے گا کہ جب ہر امت رب ذوالجلال کے حضور گھٹنوں کے بل جھکی ہوئی ہوگی۔ اس سورۃ کی سینتس (٣٧) آیات ہیں اور یہ چار رکوعات پر مشتمل ہیں۔ مکہ معظمہ میں نازل ہوئی۔ ربِط سورۃ: الدّخان کا اختتام اس فرمان پر ہوا کہ قرآن مجید کو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان اطہر پر آسان کردیا گیا تاکہ لوگ نصیحت حاصل کریں۔ الجاثیہ کی ابتداء میں ارشاد ہوا کہ قرآن ” اللہ“ کی طرف سے نازل کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی پہچان کے لیے زمین و آسمانوں میں بے شمار نشانیاں ہیں مگر ان لوگوں کے لیے جو ایمان لانے والے ہیں۔ الجاثیہ کی ابتداء میں اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کی نشانیاں ذکر فرما کر یہ بتلایا ہے کہ جھوٹا اور مغرور انسان جان بوجھ کر حقیقت کو جھٹلاتا ہے۔ جو لوگ حقیقت کو جھٹلاتے اور اللہ تعالیٰ کی آیات کے ساتھ مذاق کرتے ہیں انہیں ذلت آمیز عذاب دیا جائے گا۔ اس کے بعد پھر اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرتوں کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ تمہارے لیے سمندر کو مسخر کردیا تاکہ تم بحری جہازوں اور کشتیوں کے ذریعے اس کا فضل تلاش کرو۔ اس نے انسانوں کے لیے صرف سمندر اور کشتیوں کو تابع نہیں کیا بلکہ زمین و آسمانوں کی ہر چیز کو ان کی خدمت میں لگا رکھا ہے تاکہ لوگ اس پر غوروفکر کریں۔ اس کا ارشاد ہے کہ جس نے اچھے اعمال اختیار کیے۔ ان کا فائدہ صرف اسی کو ہوگا اور جس نے برے اعمال کیے ان کا وبال اس پر ہوگا۔ اور تم سب نے اپنے رب کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔ اس کے ساتھ ہی یہ حقیقت بتلائی کہ اللہ تعالیٰ زندگی اور موت کے حوالے سے نیک اور برے لوگوں کو برابر نہیں کرے گا وہ ہر کسی کو اس کے اعمال کا بدلہ دے گا اور کسی پر ذرّہ برابر ظلم نہیں کیا جائے گا۔ جس شخص نے اپنے نفس کو الٰہ کا درجہ دے دیا حقیقت میں اس نے اپنے آپ کو گمراہ کرلیا ہے۔ ایسے لوگوں کے دلوں پر اللہ تعالیٰ گمراہی کی مہر ثبت کردیتا ہے جس وجہ سے یہ ہدایت پانے سے محروم ہوجاتے ہیں الجاثیہ کے آخر میں فرمایا کہ زمین و آسمانوں کی بادشاہی ” اللہ“ کے ہاتھ میں ہے۔ قیامت کے دن جھوٹے لوگ ذلیل ہوں گے اور نیک لوگوں کو اللہ تعالیٰ اپنی رحمت میں داخل فرمائے گا جو لوگ اپنے رب کی آیات کا مذاق اڑاتے ہیں انہیں جہنم میں داخل کیا جائے گا۔ وہاں ان کی کوئی مدد کرنے والا نہیں ہوگا۔ حقیقت یہ ہے کہ تمام تعریفات اللہ تعالیٰ کے لیے ہیں جو زمین و آسمانوں اور پوری کائنات کا رب ہے اور زمین و آسمانوں میں ہر قسم کی کبریائی اسی کو زیب دیتی ہے کیونکہ وہ ہر کام کرنے پر غالب اور اس کے ہر فرمان اور کام میں حکمت ہوتی ہے۔ الجاثية
1 الجاثية
2 فہم القرآن سورۃ الدّخان کے آخر میں ارشاد ہوا ہے کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ہم نے آپ کی زبان پر قرآن مجید کو آسان کردیا ہے تاکہ لوگ نصیحت حاصل کریں۔ سورۃ الجاثیہ کی ابتداء میں یہ ارشاد ہوا کہ جس قرآن کو آپ کے لیے آسان بنایا گیا ہے اس کو صرف ” اللہ“ نے نازل فرمایا ہے جو ہر کام کرنے پر غالب اور اس کے ہر حکم میں حکمت پائی جاتی ہے۔ ” اللہ“ ہی نے قرآن کو نازل فرمایا ہے۔ وہ ہر اعتبار سے اپنے بندوں پر غالب ہے مگر اس نے اپنی حکمت کے تحت لوگوں کو اختیاردیا ہے کہ وہ اس کی نازل کردہ کتاب پر ایمان لائیں یا انکار کریں۔ البتہ اگر لوگ زمین و آسمان کی بناوٹ اور سجاوٹ پر غور کریں تو یقیناً قرآن مجید کی نصیحت پر ایمان لائیں گے۔ قرآن کی پہلی نصیحت یہ ہے کہ اپنے رب کو پہچانو اور اس کا حکم تسلیم کرو۔ اس کی ذات کو پہچاننے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ انسان اپنی اور چوپاؤں کی تخلیق پر غور کرئے تو اسے یقین آجائے گا کہ زمین و آسمان، انسان اور چوپاؤں کو پیدا کرنے والا صرف ایک ” رب“ ہے۔ جس نے پوری دنیا میں مختلف قسم کے چوپائے پیدا کیے اور انہیں لوگوں کی ضرورت کے لیے پھیلادیا ہے۔ قرآن مجید نے زمین و آسمان کی بناوٹ، انسان کی تخلیق اور چوپاؤں کا کئی دفعہ حوالہ دیا اور ان کے فوائد کا تذکرہ کیا ہے۔ انسان صرف اپنی شکل و صورت اور صلاحیتوں پر غور وفکر کرے تو یہ الفاظ کہے بغیر نہیں رہ سکتا۔ (فَتَبَارَکَ اللّٰہُ اَحْسَنَ الْخَالِقِیْنَ)[ المومنون : ١٤] ” بابرکت وہ ذات جو سب سے بہتر پیدا کرنے والا ہے۔‘ ‘ اللہ تعالیٰ جس طرح زمین میں لوگوں کو پھیلا رہا ہے اسی طرح چوپاؤں کو بھی زمین پر پھیلارہا ہے تاکہ جہاں انسان رہتے ہوں وہاں چوپائے بھی موجود ہوں تاکہ لوگ ان سے استفادہ کریں۔ ” اے لوگو! اپنے پروردگار سے ڈرو جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اسی سے اس کی بیوی کو پیدا فرمایا پھر دونوں سے بہت سے مرد اور عورتیں پھیلا دیے۔ اس اللہ سے ڈرو جس کے نام پر ایک دوسرے سے سوال کرتے ہو اور رشتے ناطے توڑنے سے بھی بچو۔ یقیناً اللہ تعالیٰ تم پر نگران ہے۔“ (النساء : ١) مسائل ١۔ قرآن مجید کو صرف اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ کے ہر کام اور فرمان میں حکمت ہوتی ہے۔ ٣۔ انسان کے اپنے وجود اور چوپاؤں میں ” اللہ“ کی قدرت کی نشانیاں ہیں مگر ان لوگوں کے لیے جو اپنے رب کے فرمان پر یقین رکھتے ہیں۔ ٤۔ زمین و آسمان کی تخلیق اور بناوٹ میں اللہ کی قدرت کی بے شمار نشانیاں ہیں مگر ان لوگوں کے لیے جو اپنے رب پر ایمان لاتے ہیں۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ ہر اعتبار سے اپنی مخلوق پر غالب ہے۔ تفسیربالقرآن انسان، زمین و آسمان اور چوپاؤں میں قدرت کی نشانیوں کی ایک جھلک : ١۔ دن اور ات کے مختلف ہونے اور زمین و آسمان کی پیدائش میں نشانیاں ہیں۔ (یونس : ٦) ٢۔ آسمانوں و زمین کی پیدائش، دن اور رات کی گردش، سمندر میں کشتیوں کے چلنے، آسمان سے بارش نازل ہونے، بارش سے زمین کو زندہ کرنے، چوپایوں کے پھیلنے، ہواؤں کے چلنے اور بادلوں کے مسخر ہونے میں نشانیاں ہیں۔ (البقرۃ : ١٦٤) ٣۔ آسمان سے رزق اتارنے میں عقل والوں کے لیے نشانیاں ہیں۔ (الجاثیۃ: ٥) ٤۔ آسمانوں و زمین کی پیدائش اور دن رات کے مختلف ہونے میں نشانیاں ہیں۔ (آل عمران : ١٩٠) ٥۔ کیا تم اپنے آپ پر غور نہیں کرتے۔ ( الذٰریات : ٢١) ٦۔ ہم عنقریب تمہیں تمہاری جانوں اور آفاق میں نشانیاں دکھائیں گے۔ (حم السجدۃ: ٥٣) الجاثية
3 الجاثية
4 الجاثية
5 فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ کی قدرت کی مزید نشانیوں کا تذکرہ۔ قرآن مجید کی تلاوت کرنے والا شخص جانتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے رات اور دن کے آنے جانے اور آسمان سے بارش برسانے اور بارش کے ذریعے مردہ زمین کو زندہ کرنے اور ہواؤں کا کئی بار تذکرہ کیا ہے۔ یہ تمام کام صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی قدرت کے مظہر ہیں۔ ان میں کوئی ایک کام ایسا نہیں جس کا معمولی حصہ بھی اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی کرسکے اور نہ ہی ان کاموں میں اس کا کوئی معاون ہے اور نہ ہوگا۔ لیکن ان کاموں پروہی شخص غور کرے گا جو اپنی عقل سے کام لے گا۔ جس نے ان چیزوں پر غور کرلیا وہ ” اللہ“ پر ضرور ایمان لائے گا۔ اس لیے ان آیات میں پہلے ایمان کا ذکر ہوا پھر یقین کرنے کی بات ہوئی اور اب عقل کا حوالہ دیا گیا ہے۔ ایمان تک پہنچنے کے لیے یہی تین مدارج ہیں۔ انسان اللہ تعالیٰ کے کاموں پر غور کرے تو اس کی عقل تسلیم کرے گی کہ میرے رب نے جو کچھ ارشاد فرمایا ہے وہ یقین کرنے کے قابل ہے۔ جس میں یقین پیدا ہوگا وہ ایمان کی دولت سے سرفراز ہوجائے گا۔ یہاں رزق کا تعلق آسمان سے بیان کیا گیا ہے جس کے بنیادی طور پر دو اسباب ہیں۔ 1 رزق کا کنٹرول آسمان میں ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ جس رزق کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے وہ آسمان میں ہے۔ (الذٰریات : ٢٢) اس کا دوسرا تعلق زمین کے ساتھ ہے جس کے بارے میں بتلایا ہے کہ زمین میں جو بھی چلنے والا ہے اس کا رزق اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہے۔ (ہود : ٦) رزق کاسب سے بڑا سبب پانی ہے اور پانی کا سب سے بڑا ذریعہ بارش ہے۔ اگر طویل عرصہ تک بارش نہ ہو تو زمین کا پانی اتنا گہرا ہوجاتا ہے کہ اسے انسان کے لیے حاصل کرنا ممکن نہیں رہتا۔ بارش کے ذریعے ہی زمین نباتات اگانے کے قابل ہوتی ہے اور بارش کانظام ہوا کے ساتھ تعلق رکھتا ہے اور ہوا بھی کئی قسم کی ہوتی ہے۔ دنیا کے کچھ حصوں میں ہوا گر م مرطوب ہوتی ہے اور کچھ حصوں میں ہوا میں رطوبت کی بجائے جدّت زیادہ ہوتی ہے۔ کچھ ہوائیں بادلوں کو دھکیل کردور سے دور لے جاتی ہیں اور کچھ ہوائیں بادل برسانے والی ہوتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ہوا کے لیے بھی ایک مدار قائم فرمایا ہے اس مدار سے اوپر ہوا بہت کم رہ جاتی ہے۔ پھر فضا میں ہر مقام پر ہوا کا دباؤ ایک جیسا نہیں رہتا۔ فضا کے اندر ہوا کے درمیان خلا پائے جاتے ہیں۔ جنہیں ائیر لائن کی زبان میں (AIR POCKET) کہا جاتا ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ فضا میں صرف پانچ منٹ کے لیے ہوا ختم کردے تو زمین پر ہی نہیں بلکہ زمین کے اندر اور پانی میں رہنے والی مخلوق بھی ختم ہوجائے۔ یہاں تک کہ فضا میں اڑنے والے پرندے اور جہاز بھی زمین پر گر پڑیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے ہوا کو شیشے کی طرح صاف بنایا ہے۔ اگر ہوا کو رنگ آلود کردیا جاۓ تو سورج کی روشنی کے باوجود کوئی چیز نظرنہ آئے۔ جس سے ہرقسم کی آمدروفت جامد ہو کر رہ جائے۔ غور فرمائیں کہ اگر اللہ تعالیٰ مقررہ حد سے زیادہ ہوا چلا دے تو ہر چیز اڑنا شروع ہوجائے گی۔ فوائد کے اعتبار سے ہوا انسان کے کھانے پینے سے بھی زیادہ اہم نعمت ہے۔ اللہ کی نعمتوں کی وہی لوگ قدر کرتے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے عقل سلیم عطا فرمائی ہے۔ عقل سلیم ہی انسان کو صراط مستقیم پر گا مزن کرتی ہے۔ اس لیے فرمایا ہے کہ ان دلائل کے بعد پھر کون سے دلائل ہوں گے جن پر کافر اور مشرک ایمان لائیں گے۔ مسائل ١۔ رات اور دن کے آنے جانے، آسمان سے رزق کے نازل ہونے، بارش کے ساتھ زمین کے زندہ ہونے اور ہوائیں اللہ تعالیٰ کی قدرت کے دلائل ہیں۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ اپنی نشانیاں کھول کھول کر بیان کرتا ہے مگر اس کے باوجود لوگ عقل سے کام نہیں لیتے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ نے توحید و رسالت اور قیامت کے بارے میں کھول کھول کر حقائق بیان کیے ہیں مگر مشرک اور کافر ماننے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ الجاثية
6 الجاثية
7 فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ کی عظیم نشانیاں دیکھنے اور اس کی نعمتوں سے مستفید ہونے کے باوجود جھوٹا اور متکبر آدمی اپنے رب کو اس کے حکم کے مطابق ماننے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ ایسے شخص کا انجام بدترین ہوگا۔ جو آدمی توحید ورسالت کو جھٹلانے اور تکبر کا راستہ اختیار کرلیتا ہے اس کی حالت یہ ہوتی ہے کہ جب بھی اسے اللہ کی توحید کی آیات پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو وہ انہیں سننے کے باوجود ایسا رویہ اختیار کرتا ہے گویا کہ اس نے اپنے رب کی آیات کو سنا ہی نہیں۔ اگر کسی وقت توجہ سے سن لیتا ہے تو ایمان لانے کی بجائے انہیں مذاق کرتا ہے۔ اس کے بارے میں ارشاد ہواکہ اس کو اذیت ناک عذاب کی خوشخبری سنائیں۔ جو اذیّت ناک ہونے کے ساتھ اپنے آپ میں ہر قسم کی ذلت بھی لیے ہوئے ہوگا۔ قرآن مجید ان لوگوں کے لیے ہدایت ہے جو ہدایت قبول کرنے کے لیے سنتے ہیں۔ جو قرآن مجید کو ہدایت کے لیے نہیں بلکہ اس کا مقابلہ کرنے یا اس کا جواب دینے کے لیے سنتا ہے اسے سخت ترین عذاب دیا جائے گا۔ تکبر کے بارے میں پہلے بھی عرض کیا جاچکا ہے کہ اس کا معنٰی ہے لوگوں سے منہ پھیرنا اور حق بات کا انکار کرنا۔ ظاہر بات ہے کہ جس میں یہ عیب پائے جائیں گے اس کا صراط مستقیم کی طرف آنا ناممکن ہوگا۔ جہاں تک اللہ تعالیٰ کی آیات کو مذاق کا نشانہ بنانے کا تعلق ہے اس کی کئی صورتیں ہیں۔ جو لوگ کسی حد تک خوف خدا رکھتے ہیں۔ وہ براہ راست آیات ربانی کو مذاق کرنے کی بجائے علماءِ حق کو مذاق کانشانہ بناتے ہیں۔ جن لوگوں کے دلوں سے اللہ کا خوف اٹھ جاتا ہے وہ اللہ کی آیات بالخصوص اسلامی قوانین کو ناقابل عمل قرار دیتے ہیں۔ کچھ اتنے بے خوف ہوتے ہیں کہ وہ حدود اللہ کو وحشیانہ سزائیں قرار دیتے ہیں۔ درحقیقت یہ مذاق اور انکار کرنے کی مختلف صورتیں ہیں جن کے انداز اور الفاظ حالات کے مطابق بدلے جاتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی دنیا میں کوئی نہ کوئی حمایت کرنے والا ہوتا ہے لیکن آخرت میں ان کی کوئی بھی مدد نہیں کر پائے گا۔ جنہوں نے اپنے رب کی ہدایت کا انکار کیا ان کو ذلت ناک عذاب دیا جائے گا۔ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ إِیَّاکُمْ وَالظَّنَّ، فَإِنَّ الظَّنَّ أَکْذَبُ الْحَدِیثِ، وَلاَ تَحَسَّسُوا، وَلاَ تَجَسَّسُوا، وَلاَ تَحَاسَدُوا، وَلاَ تَدَابَرُوا، وَلاَ تَبَاغَضُوا، وَکُونُوا عِبَاد اللَّہِ إِخْوَانًا ) [ رواہ البخاری : باب مَا یُنْہَی عَنِ التَّحَاسُدِ وَالتَّدَابُرِ] حضرت ابوہریرہ (رض) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں آپ نے فرمایا بد گمانی سے بچو کیونکہ بدگمانی بہت بڑا جھوٹ ہے۔ کسی کی عیب جوئی، جاسوسی اور حسد نہ کرو، نہ پیٹھ پیچھے باتیں کرو‘ نہ ہی دشمنی کرو۔ اللہ کے بندو! بھائی بھائی بن کر رہو۔“ (عَنْ أُمِ مَعْبَدٍ (رض) قَالَتْ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَقُوْلُ اَللّٰہُمَّ طَہِّرْ قَلْبِیْ مِنَ النِّفَاِقِ وَعمَلِیْ مِنَ الرِّیَاءِ وَلِسَانِیْ مِنَ الْکَذِبِ وَعَیْنِیْ مِنَ الْخِیَانَۃَ فَإِنَّکَ تَعْلَمْ خَاءِنَۃَ الْأَعَیْنِ وَمَا تُخْفِی الصُّدُوْرِ)[ رواہ البیہقی فی الدعوات الکبیر] ” حضرت ام معبد (رض) بیان کرتی ہیں میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دعا کرتے ہوئے سنا آپ دعا کیا کرتے تھے۔ اے اللہ ! میرے دل کو نفاق سے، میرے عمل کو ریاء کاری سے، میری زبان کو جھوٹ سے اور میری آنکھوں کو خیانت سے محفوظ فرما۔ یقیناً آپ خیانت کرنے والی آنکھ اور دلوں کے خیالات سے واقف ہیں۔“ (عَنْ أبِی أمَامَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَطْبَعُ الْمُؤمِنُ عَلٰی الْخِلَالِ کُلِّہَا اِلَّا الْخِیَانَۃَ وَالْکِذْبَ) [ رواہ أحمد : مسند ابی امامۃ] ” حضرت ابو امامہ بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا مومن میں ہر قسم کی کمزوری پائی جا سکتی ہے مگر خیانت اور جھوٹ نہیں پائے جا سکتے۔“ مسائل ١۔ جھوٹے او گناہ گار کے لیے جہنّم ہوگی۔ ٢۔ قیامت کے دن مجرموں کی کوئی خیرخواہی نہیں کرسکے گا۔ ٣۔ جو شحص اللہ کی آیات کو سنی اَن سنی کرتا ہے اسے اذیت ناک عذاب ہوگا۔ ٤۔ جو شخص اللہ کی آیات کو استہزاء کانشانہ بناتا ہے اسے ذلیل کردینے والا عذاب دیا جائے گا۔ ٥۔ قرآن مجید ہدایت بن کر آیا ہے لیکن جو لوگ اس کے فرامین کا انکار کرتے ہیں ان کے لیے درد ناک عذاب ہوگا۔ تفسیربالقرآن قیامت کے دن مجرموں کی کوئی بھی مدد نہیں کرسکے گا : ١۔ اللہ کے مقابلہ میں ان کا کوئی مددگار نہ ہوگا۔ (ہود : ٢٠) ٢۔ اللہ تعالیٰ کے سوا تمہارا کوئی ولی اور مددگار نہیں۔ (العنکبوت : ٢٢) ٣۔ تمہارے لیے اللہ کے سوا کوئی دوست اور مددگار نہیں ہے۔ (البقرۃ: ١٠٧) ٤۔ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی ایسا نہیں جو تمہاری مدد کرسکے۔ (البقرۃ: ١٢٠) ٥۔ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی ولی اور بچانے والا نہیں ہے۔ (الرعد : ٣٧) ٦۔ اللہ تعالیٰ کے سوا تمہارا کوئی دوست اور مددگار نہیں ہے۔ (الشوریٰ: ٣١) الجاثية
8 الجاثية
9 الجاثية
10 الجاثية
11 الجاثية
12 فہم القرآن ربط کلام : مجرموں کو عذاب کی خوشخبری سنانے کے بعد ایک دفعہ پھر اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کی نشانیوں کا تذکرہ کیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں کئی مرتبہ لیل ونہار کی گردش چاند، سورج کا آنا جانا بارش کا برسنا اور کشتیوں کا سمندر میں چلناان سب کو اپنی قدرت کی نشانیاں بتلایا ہے۔ لیکن جہاں بھی ان چیزوں کا ذکر کیا ہے انداز اور استدلال جدا جدا ہے۔ غور فرمائی ! اس مقام پر کشتیوں کا سمند میں چلنے کے عمل کو اللہ تعالیٰ نے اپنے حکم کے ساتھ منسوب کیا اور فرمایا ہے کہ یہ کشتیاں میرے حکم کے ساتھ سمندر میں چلتی ہیں تاکہ تم سمندر سے اللہ کا فضل تلاش کرو اور اس کا شکریہ ادا کرتے رہو ! دنیا میں کشتیوں اور بحری جہازوں کے کاروبار کے ساتھ لاکھوں نہیں کروڑوں انسان وابستہ ہیں۔ جو کشتیوں کے ذریعے محنت مزدوری کرتے ہیں اور سمندرسے مچھلیاں اور ہیرے جواہرات نکال کر اربوں، کھربوں روپے کما رہے ہیں مگر ان کی اکثریت کفار کی ہے۔ جو مسلمان اس کاروبار کے ساتھ وابستہ ہیں ان کی غالب اکثریت بےدین طبقہ پر مشتمل ہے۔ حالانکہ سمندر میں کاروبار کرنے والے جانتے ہیں کہ جب سمندر میں طوفان آتا ہے تو جدیدٹیکنالوجی کے باوجود غوطہ زنی اور ماہی گیری کاسارے کا سارا نظام معطل ہوجاتا ہے۔ اس وقت پرلے درجے کا کافر اور مشرک بھی صرف اور صرف ایک رب کو پکارتا ہے۔ لیکن جونہی ان لوگوں کو سمندری طوفان سے نجات ملتی ہے تو پھر شرک و کفر کرنے لگتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے نہ صرف سمندروں اور کشتیوں کو انسان کے تابع کیا ہے بلکہ اس نے جو کچھ بھی زمین و آسمانوں میں پیدا کیا ہے۔ سب کو انسان کی خدمت میں لگا رکھا ہے۔ نباتات ہوں یا جمادات، حیوانات ہوں یا کوئی اور چیز یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے مقرب ترین فرشتے کو بھی انسان کی خدمت میں لگا رکھا ہے۔ جس کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ انسان اپنے رب کا شکر گزار ہوجائے کیونکہ شکر گزار ہی اس کے تابعدار ہوتے ہیں۔ تابعدار اور شکر گزار ہونے کے لیے ضروری ہے کہ انسان اپنے رب کی عطا کردہ نعمتوں پر غور کرے۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے سمندر اور دریاؤں کو انسان کے تابع کردیا ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے کشتیوں کو انسان کے اس لیے تابع کیا ہے تاکہ انسان سمندر سے اپنے رب کا فضل تلاش کرے اور اس کا شکر ادا کرے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان کی ہر چیز انسان کی خدمت میں لگا رکھی ہے۔ ٤۔ قدرت کی نشانیوں میں اللہ تعالیٰ کی پہچان پائی جاتی ہے لیکن اس قوم کے لیے جو غور وفکر کرتی ہے۔ تفسیربالقرآن شکر گزاری کا حکم اور اس کے فوائد : ١۔ لوگو ! اللہ کو یاد کرو اللہ تمھیں یاد کرے گا اور اس کا شکر ادا کرو کفر نہ کرو۔ (البقرۃ: ١٥٢) ٢۔ اللہ نے تمھیں دل، آنکھیں اور کان دیے تاکہ تم شکرادا کرو۔ (السجدۃ: ٩) ٣۔ اللہ کی عبادت کرتے ہوئے شکر گزار بندوں میں شامل ہوجائیے۔ (الزمر : ٦٦) ٤۔ اللہ تعالیٰ شکر کرنے والوں کو جزا دے گا۔ (آل عمران : ١٤٤۔ ١٤٥) ٥۔ اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے سماعت، بصارت اور دل بنایا تاکہ تم شکر کرو۔ (النحل : ٧٨) ٦۔ اللہ کی پاکیزہ نعمتیں کھا کر اس کا شکر کرو۔ (البقرۃ: ١٧٢) ٧۔ اللہ کی عبادت کرتے ہوئے اس کا شکر ادا کرو۔ (العنکبوت : ١٧) ٨۔ اللہ تعالیٰ شکر کرنے والے کو زیادہ عطا کرتا ہے۔ (ابراہیم : ٧) ٩۔ شکر کرنے والوں سے اللہ تعالیٰ راضی ہوتا ہے۔ (الزمر : ٧) ١٠۔ اللہ تعالیٰ شکر کرنے والوں کو بہتر جزا دیتا ہے۔ (القمر : ٣٥) ١١۔ اللہ تعالیٰ شکر گزار بندوں کا قدردان ہے۔ (النساء : ١٤٧) ١٢۔ جو شخص شکر کرتا ہے اس کا فائدہ اسی کو ہے اور جو ناشکری کرتا ہے میرا رب اس سے بے پروا ہے۔ (النمل : ٤٠) الجاثية
13 الجاثية
14 فہم القرآن ربط کلام : جو شخص اپنے رب کی قدرتوں پر غوروفکر اور اس کی نعمتوں کا شکرادا کرتا ہے وہ ہر صورت اپنے رب پر ایمان لاتا ہے۔ ایمان لانے والوں کو خصوصی ہدایت کی گئی ہے۔ ایمان کی ابتدا ” لا الٰہ الا اللہ“ سے ہوتی ہے جس کا معنٰی ہے کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں وہی ضرورتیں پوری کرنے اور بگڑی بنانے والا ہے ہے۔ اس بات کا اقرار کرنے سے پہلے ہر معبود کی نفی کرنا فرض ہے۔ جو شخص اللہ کے سوا دوسرے معبودوں کی نفی نہیں کرتا اللہ تعالیٰ اس کا کلمہ قبول نہیں کرتا۔ کلمہ طیبہ میں پہلے معبودان باطلہ کی نفی ہے۔ ظاہر بات ہے کہ جب ایماندار اللہ تعالیٰ کے سوا دوسروں کی نفی کرتا ہے تو کافر اور مشرک کو یہ بات برداشت نہیں ہوتی۔ اس پرکافر اور مشرک موحّد کے خلاف ہر اقدام کرنے کے لیے تیار ہوجاتا ہے۔ ان حالات میں اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبروں اور مومن بندوں کو درگزر کرنے کا حکم دیا ہے۔ چنانچہ ارشاد فرمایا کہ اے نبی! ایمان والوں سے فرمائیں کہ ان لوگوں سے درگزر کریں جو برے اعمال کرنے کے باوجود اللہ تعالیٰ کے ایام سے نہیں ڈرتے۔ انہیں یہ بھی ارشاد فرمائیں کہ جو ایمان لانے کے بعد صالح عمل کرے گا اس کا فائدہ اسی کو ہوگا اور جس نے ایمان لانے سے انکار کیا اور برے اعمال کرتارہا اس کا وبال اسی پر ہوگا۔ بالآخر تم سب نے اپنے رب کی طرف لوٹ کرجانا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہر کسی کو اس کے عمل کے مطابق بدلہ دے گا۔ پہلی آیت میں ان لوگوں سے درگزر کرنے کا حکم دیا گیا ہے جو اللہ کے ایام کا خوف نہیں رکھتے۔ ایام کے بارے میں اہل علم کا اتفاق ہے کہ یہاں ایام سے مراد ایسے دن ہیں جن میں اللہ تعالیٰ کسی قوم کی پکڑ کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی پکڑ سے جو لوگ بے پرواہ ہوتے ہیں وہ بات بات پرجنگ و جدال پر اتر آتے ہیں۔ ایسے لوگوں سے الجھنے سے پرہیز کرنا چاہیے کیونکہ اس سے تبلیغ کے کام میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے۔ اس لیے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم ہوا اور دوسرے مقام پر ایمانداروں کی یہ صفت بیان کی ہے۔ ” اور اگر کبھی آپ کو شیطان ابھارے تو اللہ کی پناہ طلب کریں بے شک وہ سب کچھ سننے والا سب کچھ جاننے والاہے“ (الاعراف : ٢٠٠) یہ خوبی حاصل نہیں ہوتی مگر ان لوگوں کو جو صبر کرتے ہیں اور یہ مقام حاصل نہیں ہوتا مگر ان لوگوں کو جو بڑے نصیبے والے ہیں۔“ (حم سجدہ : ٣٥) ” اہل کتاب کے اکثر لوگ چاہتے ہیں کہ حق واضح ہوجانے اور تمہارے ایمان لانے کے بعدوہ تمہیں اپنے حسد و بغض کی بناء پر ایمان سے ہٹا کر کافر بنا دیں۔ بس تم معاف کرو اور درگزر کرو۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اپنا فیصلہ فرما دے یقیناً اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔“ (البقرۃ: ١٠٩) ” رحمان کے بندے وہ ہیں جو زمین پر آہستگی سے چلتے ہیں اگر ان سے جاہل جھگڑیں تو وہ ان کو سلام کہہ کر چل دیتے ہیں۔“ (الفرقان : ٦٣) مسائل ١۔ جو لوگ اپنے رب کی پکڑ سے بے خوف ہوتے ہیں۔ ایمانداروں کو ان سے درگزر کرنا چاہیے۔ ٢۔ جو ایماندار صالح عمل کرے گا وہ اس کی جزا پائے گا اور جو برے عمل کرے گا وہ اس کی سزا پائے گا۔ ہر کسی نے اپنے رب کی طرف لوٹ کرجانا ہے۔ تفسیربالقرآن حق کا انکار کرنے والوں کے ساتھ مومنوں کا کیا رویہ ہونا چاہیے : ١۔ ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا میں آپ لوگوں سے اور جنہیں تم اللہ کے سوا پکارتے ہو ان سے کنارہ کش ہوتا ہوں۔ (مریم : ٤٨) ٢۔ اے ایمان والو! یہودیوں اور عیسائیوں کو اپنا دوست نہ بناؤ۔ (المائدۃ: ٥١) ٣۔ اے ایمان والو! اگر تمہارے آباء اسلام پر کفر کو ترجیح دیں تو اپنے آباء اور بھائیوں کو دوست نہ بناؤ۔ (التوبۃ: ٢٣) ٤۔ اے ایمان والو! کفار کو مومنوں کے مقابلہ میں دوست نہ بناؤ۔ (النساء : ١٤٤) ٥۔ اے ایمان والو! جن لوگوں نے تمھارے دین کو کھیل تماشہ بنا رکھا ہے انہیں دوست نہ بناؤ۔ (المائدۃ: ٥٧) ٦۔ ابراہیم (علیہ السلام) نے معبودباطل کا انکار کیا اور ان سے براءت کا اظہار کیا۔ (الممتحنہ : ٤) الجاثية
15 الجاثية
16 فہم القرآن ربط کلام : جن لوگوں نے ایام اللہ کی پرواہ نہ کی ان میں بنی اسرائیل بھی شامل ہیں۔ قرآن مجید نے جن اقوام کے حالات اور واقعات سب سے زیادہ بیان کئے گئے ہیں ان میں سرفہرست بنی اسرائیل ہیں۔ بنی اسرائیل پر فرعون نے مظالم کی انتہا کر رکھی تھی۔ فرعون ان کے مردوں کو قتل کرتا اور ان کی بہوبیٹیوں کو باقی رہنے دیتا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اس قوم کو فرعون کے عذاب اور اس کی غلامی سے نکالنے کے لیے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے بھائی کو رسول منتخب کیا۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے عظیم اور طویل جدوجہد کی جس کے نتیجہ میں فرعون اور اس کے ساتھی غرق ہوئے اور بنی اسرائیل کو اللہ تعالیٰ نے نجات عطا فرمائی۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد کئی صدیوں تک بنی اسرائیل کو کتاب، حکومت، نبوت اور رز قِ حلال کی فراوانی سے سرفراز فرمایا اور بنی اسرائیل کو طویل عرصہ تک پوری دنیا میں عزت و عظمت کے ساتھ ہمکنار کیا۔ انہیں راہ راست پر لانے اور اس پر قائم رکھنے کے لیے بڑے بڑے معجزات دکھلائے اور ٹھوس دلائل کے ساتھ ان کی راہنمائی فرمائی۔ مگر یہ قوم بغاوت اور سرکشی ہی اختیار کرتی رہی۔ جس کا بنیادی سبب ان کا مفاد اور آپس میں حسد و عنادتھا۔ آپ کا رب قیامت کے دن یقیناً ان کے اختلافات کا فیصلہ کرے گا۔ کسی قوم کی راہنمائی اور سربلندی کے لیے چار چیزیں ناگزیر ہوتی ہیں۔ اگر قوم اخلاص نیت اور پوری ہمت کے ساتھ ان باتوں کا خیال رکھے تو وہ صدیوں تک لوگوں پر اپنی عظمت اور سطوت کا سکہ جما سکتی ہے۔ 1۔ قوم کی راہنمائی کے لیے آسمانی کتاب کا اصلی حالت میں موجود ہونا۔ 2 اللہ تعالیٰ کی طرف سے نبی کی صورت میں قیادت کا پایا جانا۔3 اقتدار اور اختیار کا حاصل ہونا۔ 4 رزق حلال اور جائز وسائل کی فراوانی ہونا۔ جس قوم کے پاس یہ چار چیزیں موجود ہوں وہ دنیا میں ضرور عزت کی مالک ہوگی۔ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو صدیوں تک یہ نعمتیں عطا فرمائیں۔ مگر انہوں نے ہر دور میں اپنے انبیاء کا مذاق اڑایا اور حق بات کے ساتھ اختلاف کیا اور حسد وبغض کا شکار ہوئے۔ جس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے انہیں ہمیشہ کے لیے مغضوب قرار دیا اور حضرت داود (علیہ السلام) اور عیسیٰ ( علیہ السلام) کی زبان سے ان پرلعنت برسائی۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو الکتاب، حکومت، نبوت اور وا فرمقدار میں رزق حلال عطا فرمایا۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو ہزاروں سال لوگوں پر عزت و عظمت عطا فرمائی۔ ٣۔ بڑے بڑے معجزات دیکھنے اور واضح دلائل پانے کے باوجود بنی اسرائیل حسد وبغض کا شکار ہوئے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن لوگوں کے اختلافات کا فیصلہ فرمائے گا۔ تفسیربالقرآن انبیاء اور حق کے ساتھ اختلاف کرنے کی وجہ سے بنی اسرائیل کا انجام : ١۔ اللہ تعالیٰ کے گستاخ ہوئے۔ (آل عمران : ١٨١) ٢۔ انبیاء کے قاتل اور گستاخ ٹھہرے۔ (آل عمران : ٢١) ٣۔ اللہ تعالیٰ کی آیات کے انکاری ہیں۔ (البقرۃ: ٦١) ٤۔ شرک کی وجہ سے ذلیل ورسوا ہوئے۔ (المائدۃ: ١٨) ٥۔ اللہ تعالیٰ کی حکم عدولی کی وجہ سے رسوا ہوئے۔ (البقرۃ: ٨٣ تا ٨٥) ٦۔ کتاب اللہ میں تحریف کرنے کی وجہ سے خوار ہوئے۔ (النساء : ٤٦) الجاثية
17 الجاثية
18 فہم القرآن ربط کلام : بنی اسرائیل حق کی ناقدری کرنے اور آپس کے اختلافات کی وجہ سے دنیا کی قیادت سے محروم ہوئے۔ ان کے بعد اللہ تعالیٰ نے امت مسلمہ کو قیادت کے منصب پر فائز فرمایا ہے۔ بنی اسرائیل میں سب سے آخر میں حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) مبعوث کئے گئے۔ جنہیں اللہ تعالیٰ نے انجیل اور بڑے، بڑے معجزات عطا فرمائے مگر بنی اسرائیل کی غالب اکثریت نے ناصرف عیسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ اختلاف کیا بلکہ انہوں نے اپنے طور پر عیسیٰ ( علیہ السلام) کو تختہ دار پر لٹکادیا۔ اللہ تعالیٰ نے عیسیٰ ( علیہ السلام) کو صحیح و سالم آسمانوں پر اٹھالیا جوقیامت کے قریب دنیا میں نزول فرمائیں گے اور حضرت امام مہدی (رض) کے ساتھ مل کر عیسائیوں اور یہودیوں کے ساتھ جہاد کریں گے۔ حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کے آسمان پر اٹھائے جانے کے بعد تقریباً پانچ سو سال تک کسی شخصیت کو نبوت سے سرفراز نہیں کیا گیا تاآنکہ اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو آخری نبی کے طور پر مبعوث فرمایا اور آپ کو خاتم النبیین کے لقب سے سرفراز کیا۔ اس لیے آپ کے بارے میں ارشاد ہوا کہ بنی اسرائیل کے بعد ہم نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایک واضح دین کی راہنمائی فرمائی ہے۔ لہٰذا آپ کو صرف اسی کی اتباع کرنا چاہیے اور ان لوگوں کے پیچھے نہیں لگنا جو جہالت کی وجہ سے اپنی خواہشات کے بندے بن چکے ہیں۔ اگر آپ ان لوگوں کے پیچھے چلیں گے تو آپ کو اللہ تعالیٰ کی پکڑ سے کوئی بچا نہیں سکتا۔ یقین فرمائیں! کہ ظالم لوگ ایمانداروں کے خیر خواہ نہیں ہوتے۔ جو دوسروں کی خواہشات کے پیچھے لگنے کی بجائے اپنے رب کا حکم مانتے اور اس کی نافرمانی سے پرہیز کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی راہنمائی اور خیر خواہی کرتا ہے۔” اَلْاَمْرِ“ سے مراد اللہ کا دین ہے اور ” شریعت“ سے مراد اللہ تعالیٰ کی راہنمائی اور اس کا بتایا ہوا راستہ ہے جس کی ہر حال میں اتباع کرنا چاہیے اسی بات کو قرآن مجید نے یوں بھی بیان فرمایا ہے۔ ” اسی طرح ہم نے تمہیں امت وسط بنایا تاکہ تم لوگوں پر گواہ ہو اور رسول تم پر گواہ ہو۔ [ البقرۃ: ١٤٣] ظالم سے مراد کافر، مشرک اور وہ لوگ ہیں جو اللہ کے دین کی مخالفت کرتے ہیں۔ یہ لوگ امت کے کبھی خیر خواہ نہیں ہوسکتے۔ ان کی خیر خواہی اور ہمدردی ہمیشہ ایک دوسرے کے ساتھ ہوتی ہے۔ جس وجہ سے اس بات کی وضاحت کی گئی ہے کہ ظالم لوگ ظالموں کے دوست اور بہی خواہ ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کا ولی نہیں ہوتا۔ وہ تو متقین کا ولی ہے۔ جن کا اللہ ولی ہوجائے انہیں کسی ظالم کی پرواہ نہیں ہونی چاہیے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے لوگوں کے لیے ہدایت کی باتیں ہیں جو یقین کرنے والوں کے لیے ہدایت اور رحمت ہیں۔ ولی کا معنٰی دوست، خیر خواہ اور ذمہ دار ہے۔ مسائل ١۔ پہلی امتیں شریعت کا علم رکھنے کے باوجود اختلافات کا شکار ہوئیں۔ ٢۔ پہلی امتوں نے باہمی حسدوبغض کی بنا پر آپس میں اختلاف کیا۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن سب کے اختلاف کا فیصلہ کرے گا۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ نے امت مسلمہ کو واضح دین عطا فرمایا ہے۔ ٥۔ لوگوں کی خواہشات کی پرواہ کئے بغیر مسلمان کو دین کی اتباع کرنی چاہیے۔ ٦۔ کسی کو کوئی طاقت دنیا اور آخرت میں اللہ تعالیٰ کی گرفت سے بچا نہیں سکتی۔ ٧۔ ظالم لوگ ایک دوسرے کے ساتھی اور خیر خواہ ہوتے ہیں۔ ٨۔ اللہ تعالیٰ متقی لوگوں کا خیر خواہ اور ساتھی ہوتا ہے۔ ٩۔ قرآن مجید ہدایت کاسرچشمہ اور اللہ تعالیٰ کی رحمت کاذریعہ ہے۔ ١٠۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں بصیرت کی باتیں بتلائی ہیں مگر ان سے وہی لوگ فائدہ اٹھاتے ہیں جو ان پر یقین کرتے ہیں۔ تفسیربالقرآن لوگوں کے پیچھے لگنے کی بجائے انسان کو قرآن وسنت کی اتباع کرنا چاہیے : ١۔ کتاب اللہ کے مقابلے میں لوگوں کی خواہشات پر عمل نہیں کرنا چاہیے۔ (المائدۃ: ٤٨) ٢۔ خواہشات کی اتباع کرنے کی بجائے کتاب اللہ کے مطابق فیصلے ہونے چاہییں۔ (المائدۃ: ٤٩) ٣۔ اپنی خواہشات کی پیروی کرنے والا تباہ ہوجاتا ہے۔ (طٰہٰ: ١٦) الجاثية
19 الجاثية
20 الجاثية
21 فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ نے انسان کی راہنمائی کے لیے شریعت نازل فرمائی ہے لیکن اس کے باوجود لوگ اپنی ضد اور جہالت پر قائم رہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں یہ حقیقت کھول کر بیان فرمائی ہے کہ نیک اور برے لوگ کسی اعتبار سے برابر نہیں ہوسکتے۔ مگر اس کے باوجود ظالم لوگ سمجھتے ہیں کہ ہمیں اللہ تعالیٰ نے دنیا میں ہر قسم کی فراوانی اس لیے دے رکھی ہے کہ وہ ہمیں پسند کرتا ہے اور ہمارے مقابلے میں نیک لوگوں کی کوئی حیثیت نہیں۔ ایسے لوگوں میں یہ غلط فہمی بھی پائی جاتی ہے کہ ہم آخرت میں بھی ایمانداروں سے بہتر ہوں گے۔ ایسے لوگوں کو انتباہ کے انداز میں سمجھایا گیا ہے کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ایماندار اور صالح کردار لوگوں کی زندگی اور موت کو مجرم لوگوں کی زندگی اور موت جیسی کردے۔ مجرم جو کچھ سوچتے اور کہتے ہیں وہ ہر اعتبار سے ان کے لیے برا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے زندگی اور موت کے حوالے سے بتلایا ہے کہ مومن اور ظالم برابر نہیں ہوسکتے۔ جہاں تک دنیا کی زندگی کا معاملہ ہے بظاہر دنیا دار لوگ مومنوں سے برتر ہوتے ہیں۔ لیکن گہرائی سے دیکھا اور سوچا جائے تو دنیا میں بھی ایک مومن اور ظالم کی زندگی میں بڑا فرق ہوتا ہے۔ بے شک مومن غریب ہو مگر اس کا دل مطمئن ہوتا ہے۔ جس وجہ سے وسائل کی کمی کے باوجود وہ پرسکون زندگی گزارتا ہے۔ مومن کے مقابلے میں فاسق شخص وسائل کی فراوانی کے باوجود پریشانی اور بے سکونی کا شکار رہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایسے لوگ اپنے آپ کو پرسکون رکھنے کے لیے ہر قسم کی برائی اور بے حیائی کرتے ہیں۔ کئی لوگ سکون نہ پانے کی وجہ سے خودکشی کے گھاٹ اتر جاتے ہیں۔ جہاں تک موت کا تعلق ہے بے شک مرنے والا موت کی کیفیت سے دوسروں کو آگاہ نہیں کرسکتا۔ لیکن ایک مومن اور فاسق کی موت میں اتنا فرق ہوتا ہے کہ جس کا ہم تصور نہیں کرسکتے۔ اسی لیے قرآن مجید نے دوسرے مقام پریوں ارشاد فرمایا ہے۔ (اَفَمَنْ کَانَ مُؤْمِنًا کَمَنْ کَانَ فَاسِقًا لَا یَسْتَوٗنَ اَمَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ فَلَھُمْ جَنّٰتُ الْمَاْوٰی نُزُلًا بِمَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ وَ اَمَّا الَّذِیْنَ فَسَقُوْا فَمَاْوٰیھُمُ النَّارُ کُلَّمَآ اَرَادُوْٓا اَنْ یَّخْرُجُوْا مِنْھَآ اُعِیْدُوْا فِیْھَا وَ قِیْلَ لَھُمْ ذُوْقُوْا عَذَاب النَّارِ الَّذِیْ کُنْتُمْ بِہٖ تُکَذِّبُوْنَ) [ السجدۃ: ١٨ تا ٢٥] ” بھلا یہ ہوسکتا ہے کہ جو شخص مومن ہے وہ اس شخص کی طرح ہوجائے جو فاسق ہے یہ دونوں برابر نہیں ہو سکتے۔ جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے نیک عمل کیے ان کے اعمال کے بدلے۔ ان کی ضیافت کے لیے جنتوں کی قیام گاہیں ہیں اور جنہوں نے نافرمانی اختیار کی ہے ان کا ٹھکانا آگ ہے، جب اس سے نکلنا چاہیں گے اسی میں دھکیل دیے جائیں گے، اور ان سے کہا جائے گا کہ اب آگ کے عذاب کا مزا چکھو جسے تم جھٹلایا کرتے تھے۔“ اس فرق کو یہ کہہ کر واضح کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمانوں کو بامقصد پیدا کیا ہے۔ تاکہ ہر شخص اپنے اعمال کے مطابق بدلہ پائے اور کسی پر کوئی ظلم نہیں کیا جائے گا۔ اس فرمان میں استعارے کی زبان سے بتلایا گیا ہے کہ جو لوگ سمجھتے ہیں کہ مرنے کے بعد برے اعمال کی ہمیں کوئی باز پرس نہیں ہوگی کہ وہ شعوری اور غیر شعوری طور پر یہ سمجھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے دنیا کا نظام یوں ہی بنادیا ہے۔ انسان کی زندگی لیل ونہار کی گردش سے منسلک ہے۔ اس لیے زمین و آسمان کا نام لے کر بتلایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں بامقصد پیدا کیا ہے۔ یعنی انسان کی زندگی کا ایک مقصد ہے جس وجہ سے ہر کسی کو اپنے اعمال کا بدلہ پانا ہے۔ ” حضرت براء بن عازب (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب کافر کا دنیا سے رخصت ہونے اور موت کا وقت آتا ہے تو آسمان سے کالے چہروں والے فرشتے اترتے ہیں۔ ان کے پاس کھردرا لباس ہوتا ہے۔ وہ فوت ہونے والے کافر سے حد نگاہ تک دور بیٹھ جاتے ہیں۔ ملک الموت اس کے سرہانے آکر کہتا ہے۔ اے خبیث جان! اللہ کی ناراضگی اور غضب کا سامنا کر پھر روح اس کے جسم سے الگ ہوجاتی ہے۔ اسے اس طرح کھینچتے ہیں جیسے گرم سلاخ کو روئی سے کھینچا جاتا ہے۔ اس روح کو فرشتے پکڑتے ہیں اور کوئی فرشتہ اسے اپنے ہاتھ میں آنکھ جھپکنے سے زیادہ اپنے ہاتھ میں نہیں رہنے دیتا اور اسے بدبودار ٹاٹ میں لپیٹ دیتے ہیں۔ اس سے مردار جیسی گندی بدبو نکلتی ہے جس طرح کی بدبو تم زمین پر مردار کی طرح محسوس کرتے ہو۔ وہ اسے لیکر آسمانوں کی طرف جاتے ہیں ان کا گذر جس فرشتے کے پاس ہوتا تو وہ کہتا ہے یہ کس کی خبیث روح ہے لیکن وہ جواب دیتے ہیں وہ فلاں ابن فلاں ہے اس کے برے برے نام لیتے ہیں جن کے ساتھ اسے دنیا میں پکارا جاتا تھا حتیٰ کہ اسے آسمان دنیا کی طرف لے جایا جاتا ہے۔ اس کے لیے دروازہ کھولنے کے لیے کہا جاتا ہے لیکن دروازہ نہیں کھولا جاتا، پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ آیت پڑھی ( ان کے لیے آسمان کے دروازے نہیں کھولے جائیں گے اور نہ ہی وہ جنت میں داخل ہو سکیں گے حتی کہ اونٹ کو سوئی کے سوراخ میں داخل کردیں) اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس کا اعمال نامہ سجین میں لکھ دو جو زمین کی سب سے نچلی وادی ہے اس کی روح کو پھینکا جائے گا پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ آیت تلاوت کی (اور جو اللہ کے ساتھ شرک کرتا ہے گویا کہ وہ آسمان سے گرگیا پرندے اسے اچک رہے ہیں یا ہوا نے اس کو دور جگہ پھینک دیا) “ [ رواہ احمد : مسند براء بن عازب] مسائل ١۔ برے لوگ سمجھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ مومن اور فاسق کو برابر رکھے گا ایسے لوگوں کی سوچ اور دعویٰ غلط ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے مومن اور فاسق کی موت اور زندگی میں نمایاں فرق رکھا ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان کو بامقصدپیدا کیا ہے۔ ٤۔ ہر انسان کو اپنے عمل کا بدلہ دیا جائے گا۔ ٥۔ قیامت کے دن کسی پر کوئی زیادتی نہیں ہوگی۔ تفسیر بالقرآن مومن اور کافر کی موت کا فرق اور انجام : ١۔ فرشتے مومن کی روح قبض کرتے وقت سلام کہتے ہیں۔ (النحل : ٣٢) ٢۔ کفار کی روح قبض کرتے وقت فرشتے ان کے چہروں اور پیٹھوں پر مارتے ہیں۔ (الانفال : ٥٠) ٣۔ کافر ہمیشہ جہنم میں رہیں گے۔ (البقرۃ: ٣٩) ٤۔ ایمان لانے والے اور نیک عمل کرنے والے جنت میں جائیں گے۔ (البقرۃ: ٨٢) ٥۔ موت کے وقت فرشتے فاسق کو کہتے ہیں کہ آج تجھے عذاب دیا جائے گا۔ (الانعام : ٩٣) الجاثية
22 الجاثية
23 فہم القرآن ربط کلام : جو آدمی یہ سمجھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمانوں کو یونہی پیدا کیا ہے اور مومن اور فاسق کے انجام میں کوئی فرق نہیں۔ درحقیقت وہ شخص اپنے آپ کو خدا سمجھ بیٹھتا ہے۔ کیونکہ کسی کے انجام کو جاننا اور اس کا فیصلہ کرنا صرف اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے۔ جس شخص نے اپنے نظریات اور جذبات کو الٰہ بنا لیا ہے۔ اس کے افکار اور کردار پر غور کریں کہ اللہ تعالیٰ نے اسے علم دینے کے باوجود گمراہی میں کھلا چھوڑ دیا ہے جس کے نتیجے میں اس کے کانوں اور دل پر مہر لگا دی گئی ہے اور اس کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا گیا ہے۔ اب اللہ تعالیٰ کے سوا اسے کون ہدایت دے سکتا ہے؟ اس کے باوجود تم نصیحت حاصل کرنے کے لیے تیار نہیں۔ الٰہ کا معنٰی ہے معبود یعنی جس کی عبادت کی جائے۔ عبادت کا جامع مفہوم یہ ہے کہ انسان کی پوری زندگی اپنے رب کی غلامی میں بسر ہونی چاہیے۔ جس شخص نے اپنے نفس کو الٰہ بنا لیا ہے وہ اللہ کی ذات اور اس کی بات کی پرواہ کیے بغیر زندگی گزارتا ہے ایسا شخص کسی اخلاق اور ضابطے کا پابند نہیں ہوتا۔ اس کے سامنے اپنی خواہشات کی تکمیل اور دنیا کی ترقی کے سوا کوئی مشن نہیں ہوتا۔ اس شخص کو اقتدار ملے تو اپنے آپ کو فرعون سمجھتا ہے۔ اسے طاقت نصیب ہو تو درندہ بن جاتا ہے۔ اس کے پاس مال ہو تو غریبوں کے لیے قارون بن ثابت ہوتا ہے۔ اسے افرادی طاقت مل جائے تو ابوجہل کا کردار پیش کرتا ہے۔ یہ شخص اپنے مفاد اور اقتدار کی خاظر اور ملک و ملت کے ساتھ غداری کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتا۔ اپنے نفس کو معبود بنانے والا شخص عالمِدین ہو تو اپنے ایمان اور دین کو دنیا کی خاطر بیچ ڈالتا ہے۔ ایسی سوچ رکھنے والا آدمی گھٹیا سے گھٹیا حرکت کرنے میں عار محسوس نہیں کرتا۔ اللہ تعالیٰ ایسے شخص کو اس کی گمراہی کے حوالے کردیتا ہے۔ جس کے نتیجے میں اس کے کان حق بات سننا گوارہ نہیں کرتے۔ دل سچائی کی طرف متوجہ نہیں ہوتا اور اللہ تعالیٰ کی عظیم قدرتوں کو دیکھنے کے باوجود اس کی آنکھیں اندھی رہتی ہیں۔ اس شخص کو اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی ہدایت نہیں دے سکتا۔ اللہ تعالیٰ اسی شخص کو ہدایت دیتا ہے جوہدایت حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ ” وَاَضَلَّہُ اللّٰہُ عَلٰی عِلْمٍ“ کے مفسرین نے تین مفہوم بیان کیے ہیں۔1 یہ شخص اپنے نفس کا بچاری ہونے کی وجہ سے عالم ہونے کے باوجود گمراہی کے حوالے کردیا گیا ہے۔2 اپنے نفس کو معبود بنانے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اسے گمراہی میں پھینک دیا ہے۔ 3 اپنے نفس کو معبود بنانے والا شخص اپنے نظریات اور جذبات کو حق اور اس کا معیار سمجھتا ہے اس لیے وہ گمراہی میں مبتلارہتا ہے۔ (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَمْرٍو (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لَایُؤْمِنُ أَحَدُکُمْ حَتّٰی یَکُوْنَ ھَوَاہُ تَبْعًا لِّمَا جِءْتُ بِہٖ) [ مشکوٰۃ: باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ] ” حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : آدمی اپنی خواہشات کو جب تک میری لائی ہوئی شریعت کے تابع نہ کرے تب تک وہ ایمان دار نہیں ہوسکتا۔“ مسائل ١۔ جو شخص اپنے نفس کا غلام بن جائے اللہ تعالیٰ اسے ہدایت نہیں دیتا۔ ٢۔ جس کی گمراہی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ اس کے دل پر مہر لگا دے وہ بھی ہدایت نہیں پاسکتا۔ ٣۔ لوگوں کو اللہ تعالیٰ کے ارشادات سے نصیحت حاصل کرنی چاہیے۔ تفسیربالقرآن اپنی اور لوگوں کی خواہشات کے پیچھے لگنے والا شخص گمراہ ہوتا ہے : ١۔ لوگوں کی خواہشات کے پیچھے لگنے والا گمراہ ہوتا ہے۔ (صٓ: ٢٦) ٢۔ اپنی خواہشات کی پیروی کرنے والا تباہ ہوجا تا ہے۔ (طٰہٰ: ١٦) ٣۔ سب سے بڑا گمراہ اپنی خواہشات کی پیروی کرنے والا ہے۔ (القصص : ٥٠) ٤۔ خواہشات کی پیروی کرنے والا خواہشات کو الٰہ بنا لیتا ہے۔ (الفرقان : ٤٣) ٥۔ حق کو چھوڑ کر خواہشات کی پیروی کرنے سے زمین و آسمان میں فساد پیدا ہوتا ہے۔ (المؤمنون : ٧١) الجاثية
24 فہم القرآن ربط کلام : اپنے نفس کو معبود بنانے والا شخص دنیا کی لذات پر اس قدر فریفتہ ہوجاتا ہے کہ اس کا مرنے کو جی نہیں چاہتا اس وجہ سے یہ سمجھتا ہے کہ ہمارا جینا اور مرنا صرف دنیا میں ہے موت کے بعد نہ ہم نے زندہ ہونا ہے اور نہ کسی کے سامنے جواب دینا ہے۔ انسان اپنے نظریات اور جذبات کو اس وقت الٰہ کا درجہ دیتا ہے جب دنیا پر بے حد فریفتہ ہو کر وہ حقیقی الٰہ کو بھول جاتا ہے۔ اس وجہ سے نفس کا بچاری سمجھ بیٹھتا ہے کہ مرنے کے بعد نہ میں نے زندہ ہونا ہے اور نہ کسی کے سامنے حساب دینا ہے۔ اس بنیاد پر کہتا ہے کہ بس ہم نے اسی دنیا میں جینا اور مرنا ہے۔ ہماری زندگی اور موت کا معاملہ زمانے کے ساتھ تعلق رکھتا ہے زمانے کے ردّ بدل کی وجہ سے ہم جیتے اور مرتے ہیں۔ اس کے سوا ہماری زندگی اور موت کا کوئی مالک نہیں۔ ان کے اپنے اٹکل پچو کے سوا اس نظریے کی کوئی علمی دلیل نہیں۔ جب ان کے سامنے موت و حیات کے حوالے سے اللہ تعالیٰ کی آیات پڑھی جاتی ہیں تو یہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ اگر قیامت کے بارے میں سچے ہو تو ہمارے باپ دادا کو زندہ کرکے دکھلاؤ؟ انہیں فرمائیں کہ زمانہ یا کوئی اور موت و حیات کا مالک نہیں۔ اللہ تعالیٰ ہی تمہیں پیدا کرتا ہے اور وہی تمہیں موت دیتا ہے۔ موت دینے کے بعد پھر اسی نے قیامت کے دن تمہیں اٹھانا اور اکٹھا کرنا ہے۔ قیامت کے آنے میں کوئی شک نہیں۔ لیکن لوگوں کی اکثریت اس حقیقت کو جاننے اور ماننے کے لیے تیار نہیں۔ زمین و آسمان کی بادشاہی صرف اللہ کے پاس ہے جس دن قیامت برپا ہوگی۔ جھوٹے نظریات رکھنے اور برے اعمال کرنے والے لوگ نقصان پائیں گے۔ یہاں پہلی آیت میں مادہ پرست لوگوں کا دعویٰ اور نظریہ پیش کیا گیا ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ہماری موت و حیات زمانے کے تغیر و تبدل کی وجہ سے ہے۔ یہ ایسا نظریہ ہے جسے نہ عقل مانتی ہے اور نہ ہی علم تسلیم کرتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود اپنے آپ کو جدّت پسند اور ترقی یافتہ سمجھنے والے لوگ اہل مکہ کی جہالت کو اپنائے ہوئے ہیں۔ جو سائنسدان کسی آسمانی کتاب پر ایمان نہیں رکھتے وہ اس بات پر اصرار کرتے ہیں کہ مادہ میں از خود یہ صلاحیت ہوتی ہے جس وجہ سے اس میں خود بخود تبدیلیاں آتی رہتی ہیں۔ جس کے لیے وہ بگ بینگ (BIG BANG) کا حوالہ دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ کائنات ایک دھماکہ کے ذریعے معرض وجود میں آئی ہے اور اس کی وجہ سے ہی مادہ معرض وجودآیا۔ مادہ کے بارے میں جس سائنسدان کو سائنس کی دنیا کا باپ تصور کیا جاتا ہے۔ آئن سٹائن (EIEN STIEN) اس کانظریہ ہے کہ مادہ کو نہ کوئی پیدا کرسکتا ہے اور نہ ہی یہ ختم ہوگا۔ (MATTER CAN NIETHER BE CREATED NOR DESTROYED) (تفصیل کے لیے فہم القرآن جلد ٢: الاعراف : ٥٤ کی تفسیر دیکھیں) آسمانی کتابوں پر یقین رکھنے والے عیسائی، یہودی اور مسلمان سائنسدان اس بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ اس کائنات کی ابتدا کرنے والا ” اللہ“ ہے اور اسی کے حکم سے بگ بینگ (BIG BANG) ہوا۔ اللہ تعالیٰ جب تک چاہے گا کائنات کو قائم رکھے گا اور جب چاہے گا اسے فنا کر ڈالے گا۔ اس کے بعد قیامت قائم کرے گا جس میں لوگوں کو ان کے اعمال کی جزا اور سزا دی جائے گی۔ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُول اللَّہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَال اللَّہُ عَزَّ وَجَلَّ یُؤْذِینِی ابْنُ آدَمَ، یَسُبُّ الدَّہْرَ وَأَنَا الدَّہْرُ، بِیَدِی الأَمْرُ، أُقَلِّبُ اللَّیْلَ وَالنَّہَارَ) [ رواہ البخاری : باب (وَمَا یُہْلِکُنَا إِلاَّ الدَّہْرُ )] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ ابن آدم مجھے اذیت دیتا ہے۔ وہ زمانے کو گالی دیتا ہے اور زمانہ میں ہوں۔ تمام اختیارات میرے پاس ہیں۔ میں ہی دن رات کو بدلتا ہوں۔“ جہاں تک قیامت کا انکار کرنے والوں کا یہ کہنا ہے کہ ہمارے باپ دادا کو زندہ کرکے دکھلایا جائے۔ پہلی بات یہ ہے کہ قیامت کے بارے میں انسان کا عقیدہ یہ ہونا چاہیے کہ اس کا علم صرف اللہ کے پاس ہے اور ہمیں اس پر اعتراض کیے بغیر من و عن ایمان لانا چاہیے۔ دوسرا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں بڑے بڑے انبیائے کرام (علیہ السلام) کے سامنے مردوں کو زندہ فرمایا اور اس زمانے کے لوگوں نے انہیں کھلی آنکھوں کے ساتھ دیکھا لیکن اس کے باوجود قیامت کا انکار کرنے والے اپنی ہٹ دھرمی پر قائم رہے۔ اگر ان لوگوں کے سامنے مردے زندہ کیے جائیں تو یہ لوگ پھر بھی ایمان نہیں لائیں گے۔ (الاعراف : ١١) مسائل ١۔ مادہ پرست لوگوں کا عقیدہ ہے کہ انسان کی موت اور زندگی صرف زمانے کے مدّ و جزر کی وجہ سے واقع ہوتی ہے۔ ٢۔ زمانے کو موت وحیات کا سبب قرار دینے والوں کے پاس عقلی اور علمی دلیل نہیں ہوتی۔ ٣۔ قیامت کا انکار کرنے والے سب سے بڑی دلیل یہ دیتے ہیں کہ ہمارے آباؤ اجداد کو زندہ کرکے دکھلایا جائے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ ہی لوگوں کو پیدا کرتا ہے اور وہی موت دیتا ہے اور اسی نے قیامت کے دن سب کو اکٹھا کرنا ہے۔ ٥۔ زمین و آسمان کی بادشاہی اللہ تعالیٰ کے پاس ہے اور وہی قیامت برپا کرے گا۔ ٦۔ قیامت کو جھٹلانے والے قیامت کے دن لامتناہی نقصان پائیں گے۔ تفسیربالقرآن انبیائے کرام (علیہ السلام) کے سامنے مردوں کا زندہ کیا جانا : ١۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم کے سامنے چار پرندوں کو زندہ کیا۔ (البقرہ : ٢٦٠ ) ٢۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ کے سامنے ان کی قوم کے ستر سرداروں کو موت دے کر دوبارہ زندہ کیا۔ (الاعراف : ١٥٥ ) ٣۔ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کے ہزاروں لوگوں کو موت دے کر دنیا میں دوبارہ زندہ کیا۔ (البقرۃ: ٢٤٣ ) ٤۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ کے ہاتھوں مردوں کو زندہ فرمایا۔ (المائدۃ : ١١٠) ٥۔ اللہ تعالیٰ نے اصحاب کہف کو تین سو نو سال سلاکر بیدار فرمایا۔ (الکہف : ٢٥) الجاثية
25 الجاثية
26 الجاثية
27 الجاثية
28 فہم القرآن ربط کلام : قیامت کے دن لوگوں کی حالت۔ قیامت کا دن اس قدر ہولناک ہوگا کہ حاملہ اپنا حمل ساقط کربیٹھے گی اور دودھ پلانے والی اپنے بچے کو پھینک دے گی۔ ربِّ ذولجلال کے جلال کی وجہ سے لوگ اس طرح حواس باختہ ہوں گے جس طرح نشہ پینے والا حواس باختہ ہوتا ہے۔ حالانکہ کسی نے کوئی نشہ نہیں پیا ہوگا۔ یہ حالت لوگوں کی اس وجہ سے ہوگی کہ اس دن اللہ تعالیٰ کی پکڑ بڑی سخت ہوگی (الحج : ٢) لوگ آپس میں بات کرنے کی جرأت نہیں کرسکیں گے سوائے اس کے کہ وہ ایک دوسرے کی بھنک سنیں گے (طہٖ: ١٠٨) خوف کی وجہ سے لوگوں کی آنکھیں نیلی پیلی ہوچکی ہوں گی اور حواس باختگی کی وجہ سے وہ دنیا کی زندگی کے بارے میں کہیں گے کہ ہم دنیا میں صرف دس دن ٹھہرے تھے۔ جو ان میں زیادہ اعتماد کے ساتھ بات کرنے والا ہوگا وہ کہے گا کہ ہم دنیا میں دس دن نہیں بلکہ صرف ایک دن ٹھہرے تھے۔ (طہٰ: ١٠٢) قیامت کے دن ایک مرحلہ ایسا آئے گا جب لوگ حساب و کتاب اور رب ذوالجلال کے خوف کی وجہ سے گھٹنوں کے بل ٹیڑھے کھڑ ہوں گے۔ اس حالت میں ہر جماعت اپنے اعمال نامے کی طرف بلائی جائے گی اور اعلان ہوگا کہ آج تمہیں تمہارے کیے کی جزا یا سزا دی جائے گی۔ ہماری کتاب تمہارے بارے میں جو بیان کرے گی وہ سچ ہوگا۔ یہ اس لیے ہے کہ جو کچھ تم دنیا میں کرتے تھے ہم اسے تحریر کروایا کرتے تھے۔ جونہی لوگوں کو ان کے اعمال نامے ملیں گے تو لوگ اپنا اپناردّعمل ظاہر کریں گے۔ اللہ تعالیٰ نے اس مقام پر وضاحت فرمائی ہے کہ ہماری طرف سے جو اعمال نامے لوگوں کو دیے جائیں گے وہ ہر انسان کو بول بول کر بتلائے گا کہ تو کیا عمل کرتارہا ہے۔ آج سے کچھ صدیاں پہلے بے شمار لوگ اس بات پر گمراہ ہوئے کہ انسان کے اعمال کا وزن نہیں ہو سکتا۔ اور لوگ یہ بھی سمجھنے کے لیے تیار نہ تھے کہ قیامت کے دن کھربوں لوگوں کے اعمال نامے کس طرح ان تک پہنچ جائیں گے۔ الحمد للہ جدید ٹیکنالوجی نے سب کچھ سچ کر دکھایا اور نہ معلوم آئندہ کیا کیا چیزیں ایجاد ہوں گی اور کس کس انداز میں قیامت کی تصدیق ہوگی۔ جہاں تک اعمال نامے بولنے کا تعلق ہے آج ڈیجیٹل سی ڈی کا ایک ایک لفظ بولتا سنائی دیتا ہے۔ اور بولنے کی شکل اور پوز (POSE) بھی دکھائی دیتے ہیں۔ ای میل کے ذریعے ہزاروں میلوں دور کی معلومات ایک، ایک لمحہ میں دوسرے تک پہنچ رہی ہیں۔ جس رب نے انسان کو یہ صلاحیت بخشی ہے کیا وہ سب کچھ نہیں کرسکتا؟ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یُعْرَضُ النَّاسُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ ثَلاَثَ عَرَضَاتٍ فَأَمَّا عَرْضَتَانِ فَجِدَالٌ وَمَعَاذِیرُ وَأَمَّا الْعَرْضَۃُ الثَّالِثَۃُ فَعِنْدَ ذَلِکَ تَطِیر الصُّحُفُ فِی الأَیْدِی فَآخِذٌ بِیَمِینِہِ وَآخِذٌ بِشِمَالِہِ) [ رواہ الترمذی : باب ماجاء فی العرض] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا قیامت کے دن لوگوں کو تین مرتبہ پیش کیا جائے گا۔ دو پیشیاں لڑائی جھگڑوں اور عذروں کے بارے میں ہوں گی اور تیسری پیشی اس وقت ہوگی جب صحیفے اڑ کر ہاتھوں میں پہنچ جائیں گے۔ کچھ لوگ اسے دائیں ہاتھ سے پکڑنے والے ہوں گے اور کچھ لوگ اسے بائیں ہاتھ سے پکڑنے والے ہوں گے۔“ قرآن مجید نے یہ بھی بتلایا ہے کہ جرائم کے اعتبار سے مجرموں کی درجہ بندی کی جائے گی۔ ہوسکتا ہے کہ درجہ بندی کے حوالے سے لوگوں کو اعمال نامے دیئے جائیں۔ جس کے لیے یہ الفاظ استعمال کیے گئے ہیں۔” کُلُّ اُمَّۃٍ تُدْعیٰ الیٰ کِتَابِھَا“ کہ ہر امت اپنے، اپنے اعمال نامے کی طرف بلائی جائے گی۔ مسائل ١۔ قیامت کے خوف اور رب ذوالجلال کے جلال کی وجہ سے لوگ گھٹنوں کے بل کھڑے ہوں گے۔ ٢۔ ہر جماعت کو اس کے اعمال نامے کی طرف بلایا جائے گا۔ ٤۔ ہر کسی کو اس کے اعمال کے مطابق بدلہ دیا جائے گا۔ ٣۔ لوگوں کے اعمال نامے ٹھیک ٹھیک انداز میں سب کچھ بتلائیں گے جو کچھ وہ دنیا میں کیا کرتے تھے۔ تفسیر بالقرآن اعمال ناموں کی کیفیت : ١۔ ہر کوئی اپنا اعمال نامہ دیکھے گا اور کہے گا یہ کیسا اعمال نامہ ہے ؟ جس نے کوئی چھوٹی بڑی بات نہیں چھوڑی گئی۔ (الکھف : ٤٩) ٢۔ قیامت کے دن ہر کسی کا اعمال نامہ اس کے سامنے کھول کر رکھ دیا جائے گا۔ (بنی اسرائیل : ١٣) ٤۔ جس کو اعمال نامہ اس کے دائیں ہاتھ میں دیا گیا وہ اپنے اعمال نامے کو پڑھے گا اور اس پر ظلم نہ ہوگا۔ (بنی اسرائیل : ٧١) الجاثية
29 الجاثية
30 فہم القرآن ربط کلام : لوگوں کو ملنے والے اعمال ناموں کا نتیجہ۔ جو لگ سچے دل کے ساتھ ایمان لائے اور صالح اعمال کرتے رہے۔ اللہ تعالیٰ انہیں اپنی رحمت میں داخل فرمائے گا۔ جس کو اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت کے دامن میں لیے لیا اس کے لیے بہت بڑی کامیابی ہوگی اور جن لوگوں نے کفر اختیار کیا۔ اللہ تعالیٰ انہیں جھڑکنے کے انداز میں استفسار فرمائے گا۔ کیا میرے ارشاد تم تک نہیں پہنچے تھے؟ لیکن تم نے ان کے ساتھ تکبر کیا اور تم مجرم ٹھہرے۔ یقیناً قیامت کے دن مجرموں کو ان کے جرم کے مطابق سزا ہوگی اور کسی پرکسی قسم کی زیادتی نہیں ہوگی۔ ان کے مقابلے میں نیک لوگوں کو نہ صرف ان کے ایمان اور اعمال کی جزا دی جائے گی۔ بلکہ اللہ تعالیٰ انہیں اپنی طرف سے بے انتہا اجر سے سرفراز فرمائے گا یہ سراسر اللہ تعالیٰ کی رحمت ہوگی۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت کا تذکرہ کرتے ہوئے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ رب کی رحمت کے بغیر کوئی شخص جنت میں نہیں جاسکتا۔ صحابہ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے استفسار کیا۔ کیا آپ بھی رب کریم کی رحمت کے بغیر جنت میں داخل نہ ہوں گے ؟ آپ نے فرمایا میں بھی اپنے رب کی رحمت کے بغیر جنت میں نہیں جاسکتا۔ آپ کے فرمان کا مقصد یہ ہے کہ رب کریم کے کرم کے بغیر نہ کوئی ایمان لاسکتا ہے اور نہ ہی صالح اعمال کی توفیق مل سکتی ہے۔ ” اللہ“ ہی نیک اعمال قبول کرنے والا ہے اس لیے انسان جنت میں صرف رب کریم کی رحمت کے ساتھ ہی داخل ہوپائے گا۔ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ قَالَ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَقُوْلُ لَنْ یُّدْخِِلَ أَحَدًا عَمَلُہُ الْجَنَّۃَ قَالُوْا وَلَآ أَنْتَ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ قَالَ لَا وَلَآ أَنَا إِلَّا أَنْ یَّتَغَمَّدَنِیَ اللّٰہُ بِفَضْلٍ وَّرَحْمَۃٍ فَسَدِّدُوْا وَقَارِبُوْا وَلَا یَتَمَنَّیَنَّ أَحَدُکُمُ الْمَوْتَ إِمَّامُحْسِنًا فَلَعَلَّہٗ أَنْ یَّزْدَادَ خَیْرًا وَإِمَّا مُسِیْءًا فَلَعَلَّہٗ أَنْ یَّسْتَعْتِبَ) [ رواہ البخاری : کتاب المرضٰی، باب تمنی المریض الموت] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا آپ فرماتے تھے کہ کسی کو اس کے عمل جنت میں داخل نہیں کریں گے۔ صحابہ کرام (رض) نے عرض کیا اے اللہ کے نبی! آپ بھی آپ نے فرمایا ہاں ! میں بھی نہیں۔ سواۓ اس کے کہ اللہ اپنے فضل و رحمت سے مجھے نوازے۔ اس لیے میانہ روی اختیار کرو اور قریب قریب چلو۔ تم میں کوئی شخص موت کی تمنا نہ کرے کیونکہ نیک ہوگا تو اس کے اعمال میں اضافہ ہوجائے گا۔ وہ برا ہے تو ممکن ہے وہ توبہ کرلے۔“ مسائل ١۔ سچا ایمان اور صالح اعمال رکھنے والے اپنے رب کی رحمت کی وجہ سے جنت میں داخل ہوں گے۔ ٢۔ جنت میں داخل ہونا بہت بڑی کامیابی ہوگی۔ ٣۔ جن لوگوں نے کفر اختیار کیا وہ قیامت کے دن مجرموں کے کٹہرے میں کھڑے ہوں گے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کے ارشادات کے ساتھ کفر کرنے کا بنیادی سبب تکبر ہی ہوا کرتا ہے۔ تفسیر بالقرآن نیک لوگوں کی جزا اور برے لوگوں کی سزا : ١۔ جس نے ذرہ برابر نیکی کی وہ اس کو دیکھ لے گا۔ جس نے ذرہ برابر برائی کی وہ بھی اس کو دیکھ لے گا۔ (الزلزال : ٧ تا ٨) ٢۔ جو ایک نیکی کرے گا اس کو دس نیکیوں کا بدلہ ملے گا جو برائی کرے گا اس کی سزا صرف اتنی ہی ہوگی۔ (الانعام : ١٦٠) ٣۔ برائی کا بدلہ اس کی مثل ہی ہوگا۔ (القصص : ٨٤) ٤۔ برائیوں میں مرنے والے کے لیے جہنم ہے۔ (البقرۃ: ٧١) ٥۔ جس نے سرکشی کی اور دنیا کی زندگی کو ترجیح دی اس کی سزا جہنم ہے۔ (النازعات : ٣٧) ٦۔ اللہ کی رحمت نیک لوگوں کے قریب ہوا کرتی ہے۔ (الاعراف : ٥٦) ٧۔ مصلحین کا اجر ضائع نہیں ہوتا۔ (الاعراف : ١٧٠) ٨۔ نیک عمل کرنے والے کا عمل برباد نہیں ہوگا۔ (الکہف : ٣٠) ٩۔ نیکو کار کا اجر ضائع نہیں ہوتا۔ (التوبۃ: ١٢٠) الجاثية
31 الجاثية
32 فہم القرآن ربط کلام : مجرموں کے تکبر کا نتیجہ تھا کہ وہ قیامت کے بارے میں شک کا اظہار کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ہر نبی کے ذریعے یہ اعلان کروایا کہ لوگو! قیامت کا برپا ہونا یقینی ہے مگر تکبر کرنے والوں کو جب بھی کہا جائے کہ اللہ کا وعدہ سچا ہے کہ قیامت ہر صورت قائم ہوگی۔ تو متکبر لوگ شک کی بنا پر کہتے ہیں کہ ہم نہیں سمجھتے کہ قیامت قائم ہوگی۔ یہ محض خیالی باتیں ہیں اس لیے ہمیں ان پر یقین نہیں آتا۔ حالانکہ ان لوگوں کی بےیقینی کے باوجود قیامت قائم ہوگی اور ان کے سامنے ان کے برے اعمال پیش کردیئے جائیں گے۔ جس قیامت کا وہ مذا ق اڑاتے ہیں وہی انہیں گھیر لے گی انہیں کہا جائے گا کہ اس دن کی ملاقات کو تم نے فراموش کیا ہوا تھا آج ہم بھی تمہیں فراموش کیے دیتے ہیں۔ تمہارا ٹھکانہ آگ ہے اب کوئی بھی تمہاری مدد نہیں کرسکے گا۔ کیونکہ تم اللہ کی آیات کو مذاق کرتے تھے اور تمہیں دنیا کی زندگی نے دھوکے میں مبتلا کردیا تھا۔ آج یہ لوگ نہ جہنّم سے نکالے جائیں گے اور نہ ہی ان کی توبہ قبول کی جائے گی۔ مجرموں کوفراموش کردینے کا معنٰی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں اپنی رحمت سے محروم کردے گا۔ ان کے جرائم میں یہ جرم بھی شامل ہوں گے۔ 1۔ قیامت کے بارے میں شک کا کرنا۔2۔ مجرموں کا یہ کہنا ہے کہ قیامت کے دن فلاں فلاں بزرگ ہماری مدد کریں گے۔ 3 اللہ تعالیٰ کے ارشادات کو مذاق کرنا۔4 دنیا کی زندگی سے دھوکہ کھانا اور اللہ تعالیٰ کی ملاقات کو فراموش کردینا۔ یہ چاروں جرائم ایسے ہیں کہ ہر جر م انسان کو جہنّم میں لے جانے والا ہے۔ جب یہ لوگ جہنّم کی آگ میں جھونکے جائیں گے تو اس سے نکلنے کی تمنا کریں گے اور اپنے رب سے باربار معافی مانگیں گے۔ نہ ان کی توبہ قبول ہوگی اور نہ ہی انہیں جہنّم سے نکالا جائے گا۔ کیونکہ ان میں ہر جرم کی سزا دائمی ہوگی۔ مسائل ١۔ قیامت کے دن مجرموں کا ہر جرم ان کے سامنے کردیا جائے گا۔ ٢۔ جس قیامت کا مجرم انکار کرتے ہیں وہی انہیں گھیر لے گی۔ ٣۔ جس طرح مجرم اپنے رب کی ملاقات کو بھولے ہوئے تھے اسی طرح انہیں بھلا دیا جائے گا۔ ٤۔ جو لوگ اللہ تعالیٰ کی آیات کو مذاق کرتے ہیں اور دنیا کی زندگی پر مطمئن ہوتے ہیں نہ ان کی توبہ قبول ہوگی اور نہ انہیں جہنّم سے نکالا جائے گا۔ الجاثية
33 الجاثية
34 الجاثية
35 الجاثية
36 فہم القرآن ربط کلام : الجاثیہ کی آیت ٣٢ میں ارشاد ہوا ہے کہ ” اللہ“ کا وعدہ سچا ہے کہ قیامت ہر صورت برپا ہوگی مگر قیامت کے منکراس پر ایمان لانے کی بجائے اسے مذاق کانشانہ بناتے ہیں جس کی وجہ یہ ہے کہ وہ دنیا کے اسباب پر اتراتے ہیں۔ حالانکہ ہرقسم کی بڑائی اور کبریائی اللہ تعالیٰ کے لیے ہے جو ہر اعتبار سے غالب اور حکمت والا ہے۔ ” اللہ“ ہی کے لیے تمام تعریفات ہیں جو آسمانوں، زمینوں اور پوری کائنات کا رب ہے۔ زمین و آسمانوں میں ہر قسم کی کبریائی اسی کے لیے ہے اور وہ ہر چیز پر غالب ہے اس کے ہر کام میں حکمت پائی جاتی ہے۔ یہاں پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے لیے تین مرتبہ ” رب“ کا لفظ استعمال کیا اور فرمایا کہ تمام تعریفات اللہ تعالیٰ کے لیے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی ساری مخلوق زمین و آسمانوں اور جو ان کے درمیان موجود ہے۔ وہ ” الْعٰلَمِیْنَ“ میں شامل ہے۔ ” الْعٰلَمِیْنَ“ کا لفظ استعمال فرما کر اپنی ساری مخلوقات کا احاطہ کرلیا ہے۔ جس کے بارے میں اس کا ارشاد ہے کہ میری مخلوقات کو میرے سوا کوئی نہیں جانتا (المدثر : ٣١) لفظ رب کے چار معانی ہیں۔ خالق، رازق، مالک اور بادشاہ یہاں بار، بار رب کا لفظ استعمال فرما کر ثابت کیا ہے کہ زمین و آسمان اور پوری کائنات کا صرف ایک ہی رب ہے۔ جب پوری کائنات کا ایک ہی رب ہے تو ہر قسم کی کبریائی اسی کو زیب دیتی ہے۔ وہ ہر اعتبار سے غالب ہے اور اس کے ہر کام میں حکمت ہوتی ہے۔ جب کبریائی صرف اسی کو زیب دیتی ہے تو پھر انسان کا فرض بنتا ہے کہ وہ اپنے رب کی ذات اور اس کے احکامات کے سامنے سرنگوں ہوجائے۔ انسان کے لیے اسی میں دنیا اور آخرت کی بہتری ہے۔ جو لوگ اس کی ذات اور احکامات کے ساتھ تکبر کرتے ہیں انہیں سوچ لینا چاہیے کہ وہ اپنے رب کے سامنے کتنے سامنے بے بس ہیں اور ہوں گے۔ (عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الْخُدَرِیِّ وَأَبِی ہُرَیْرَۃَ (رض) قَالاَ قَالَ رَسُوْلُ اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) الْعِزُّ إِزَارُہُ وَالْکِبْرِیَاءُ رِدَاؤُہُ فَمَنْ یُنَازِعُنِی عَذَّبْتُہُ )[ رواہ مسلم : کتاب البر والصلۃ والآداب باب تحریم الکبر ) ” حضرت ابو سعید خدری اور حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا عزت اللہ تعالیٰ کا ازار ہے اور کبریائی اس کی چادر ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو ان کو مجھ سے چھینے گا میں اس کو عذاب دوں گا۔“ (عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَیْبٍ عَنْ أَبِیْہِ عَنْ جَدِّہٖ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ یُحْشَرُ الْمُتَکَبِّرُوْنَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ أَمْثَال الذَّرِّ فِیْ صُوَرِ الرِّجَالِ یَغْشَاھُمُ الذُّلُّ مِنْ کُلِّ مَکَانٍ فَیُسَاقُوْنَ إِلٰی سِجْنٍ فِیْ جَھَنَّمَ یُسَمّٰی بُوْلَسَ تَعْلُوْھُمْ نَارُ الْأَنْیَارِ یُسْقَوْنَ مِنْ عُصَارَۃِ أَھْلِ النَّارِ طِیْنَۃَ الْخَبَالِ) [ رواہ الترمذی : کتاب صفۃ القیامۃ والرق ائق والورع ] ” حضرت عمرو بن شعیب اپنے باپ سے وہ اپنے باپ سے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : قیامت کے دن متکبر لوگ چیونٹیوں کی صورت میں لائے جائیں گے انہیں ہر طرف سے ذلت ڈھانپے ہوئے ہوگی اور انہیں بولس نامی جہنم میں ڈالا جائے گا۔ ان پر آگ کے شعلے بلند ہورہے ہوں گے اور انہیں جہنمیوں کی زخموں کے پیپ پلائی جائے گی۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ ہی زمین و آسمانوں اور پوری کائنات کا رب ہے۔ ٢۔ زمین و آسمانوں میں اللہ ہی کو کبریائی زیب دیتی ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ ہر اعتبار سے غالب اور اس کے ہر کام میں حکمت پائی جاتی ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ ہر لحاظ سے غالب ہے : ١۔ اللہ تعالیٰ اپنے ہر کام پر غالب ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔ (یوسف : ٢١) ٢۔ اللہ تعالیٰ جب کسی کام کا ارادہ کرتا ہے تو حکم کرتا ہے کہ ہوجا تو وہ ہوجاتا ہے۔ (البقرۃ: ١١٧) ٣۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر غالب ہے اس نے اپنے بندوں کی حفاظت کے لیے فرشتے مقرر کیے ہیں۔ (الانعام : ٦١) ٤۔ زمین و آسمان کی ہر چیز اللہ تعالیٰ کی تسبیح بیان کرتی ہے وہ غالب، حکمت والا ہے۔ (الحشر : ١) ٦۔ اللہ تعالیٰ قوی اور غالب ہے۔ ( المجادلۃ: ٢١) ٧۔ بے شک اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے۔ (البقرۃ : ٢٠) الجاثية
37 الجاثية
0 سورۃ الاحقاف کا تعارف اس سورت کا نام اس کی آیت ٢١ میں موجود ہے۔ یہ سورت ٤ رکوع اور ٣٥ آیات پر مشتمل ہے اور مکہ میں نازل ہوئی اکثر مفسرین کا خیال ہے کہ یہ سورت ہجرت سے تقریباً تین سال پہلے اس وقت نازل ہوئی جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) طائف تشریف لے گئے اور طائف والاوں نے آپ کے ساتھ بد ترین سلوک کیا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کے رویے سے مایوس ہو کر مکہ واپس آ رہے تھے کہ راستے میں 3 کی ایک جماعت نے آپ سے ملاقات کی اور آپ نے انہیں توحید کی دعوت دی۔ جنات نے جب آپ کی دعوت کو سنا تو انہوں نے ایک دوسرے سے کہا کہ اس قرآن کو نہایت خاموشی کے ساتھ سنو کیونکہ یہ ایسی کتاب ہے جو موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد نازل کی گئی ہے اور تورات کی تصدیق کرنے والی ہے۔ یہ کتاب حق بات اور صراط مستقیم کی راہنمائی کرتی ہے۔3 نے اپنے ساتھیوں سے یہ بھی کہا کہ اے ہماری قوم کے لوگو ! تمہیں اس داعی کی دعوت کو ضرورقبول کرنا لینا چاہیے۔ اس سے اللہ تعالیٰ تمہارے گناہ معاف کریں گے اور تمہیں عذاب علیم سے نجات دیں گے۔ اس سورت کی ابتدا میں اللہ تعالیٰ نے اہل مکہ کو مخاطب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ کیا تم غور نہیں کرتے کہ جن کو تم اللہ تعالیٰ کے سواہ پکارتے ہو انہوں نے زمین میں کون سی چیز پیدا کی ہے؟ یا وہ آسمانوں کی تخلیق میں اللہ تعالیٰ کے معاون تھے؟ اگر تمہارے پاس اس بات کا عقلی یانقلی ثبوت ہے تو پیش کرو۔ یاد رکھو اس شخص سے بڑھ کر کوئی گمراہ نہیں ہوسکتا۔ جو اللہ تعالیٰ کے سواہ دوسروں سے مانگتا ہے اور انھیں مشکل کے وقت پکارتا ہے ان کی حالت یہ ہے کہ وہ قیامت تک مانگنے والوں کی دعاؤں اور صداؤں سے غافل ہیں۔ قیامت کے دن انہیں ایک دوسرے کے سامنے اکٹھا کیا جائے گا تو وہ اپنے پکارنے والوں کی پکار سے انکار کریں گے اس کے بعد یہ ارشاد ہوا کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان سے فرمائیں کہ میں کوئی نیا اور انوکھا رسول نہیں ہوں اور نہ ہی میں کوئی انوکھی تعلیم دیتا ہوں میں وہی دعوت دے رہا ہوں جو پہلے انبیاء کرام کی دعوت ہے۔ میں اللہ تعالیٰ کا بھیجا ہوا رسول ہوں میں نہیں جانتا کہ میرے اور تمہارے ساتھ کیا معاملہ ہونے والا ہے بے شک جو لوگ اللہ کی توحید پر استقامت اختیار کریں گے انہیں کوئی خوف و خطر نہیں ہوگا توحید اور نبی کی رسالت بیان کرنے کے بعد والدین کے ساتھ احسان کرنے کا حکم دیا اور بتلایا کہ اولاد افکار اور کردار کے لخاظ سے دو قسم کی ہوتی ہے ایک اولاد وہ ہے جو اپنے رب کا حکم مان کر اپنے والدین کے ساتھ نہ صرف حسن سلوک کرتی ہے بلکہ ان کے لیے دعا گو رہتی ہے، دوسری اولاد وہ ہے جو اپنے ماں باپ کی نافرمان اور قیامت کا انکار کرتی ہے اور قیامت کے عقیدہ کو پہلے لوگوں کی کہانیاں سمجھتی ہے اس سورت کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے قوم عاد کا شرکیہ عقیدہ بیان کرنے کے بعد انکے انجام کا ذکر کیا اور اہل مکہ کو سمجھایا ہے کہ جب قوم عاد پر برا وقت آیا تھا تو انکے خداؤں نے ان کی کوئی مدد نہیں کی تھی جب تم پر برا وقت آئے گا تو تمہاری مدد کرنے والا بھی کوئی نہیں ہوگا۔ سورۃ الاحقاف کا اختتام اس بات پر کیا ہے کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پہلے انبیاء کی طرح صبرو حوصلہ سے کام لو اور جلد بازی سے اجتناب کرو جو لوگ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت کو ٹھکراتے ہیں۔ وقت آئے گا کہ قیامت کے خوف کی وجہ سے وہ کہیں گے کہ ہم دنیا میں تھوڑی ہی مدت رہے تھے۔ نافرمانوں کے لیے اس دن ہلاکت کے سوا کچھ نہیں ہوگا۔ الأحقاف
1 فہم القرآن ربط سورت : سورۃ الجاثیہ کے آخر میں ارشاد ہوا ہے کہ جس رب نے زمین و آسمان پیدا کیے ہیں وہی رب العالمین ہے اور زمین و آسمانوں میں صرف وہی ایک کبریا ہے۔ الاحقاف کا آغاز اس بات سے ہوا ہے کہ اس کی کبریائی کا عالم یہ ہے کہ زمین و آسمانوں میں کوئی ایسی ہستی نہیں جو کسی چیز کی تخلیق میں اس کی شریک ہو یا اسے اس کی خدائی میں کوئی اختیار حاصل ہو۔ حمٓ سورتوں میں سے ساتویں سورت ہے۔ حمٓ کا لفظ حروف مقطعات میں شامل ہے۔ اس کا معنٰی صرف اللہ تعالیٰ جانتا ہے یا اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جانتے تھے۔ الکتاب سے مراد قرآن مجید ہے جسے اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا ہے جو ہر اعتبار سے اپنی مخلوق پر غلبہ رکھنے والا اور اپنا ہر حکم نافذ کرنے پر قادر ہے۔ کائنات پر قوت وسطوت رکھنے اور ہر اعتبار سے غالب ہونے کے باوجود اس کے ہر کام میں حکمت پائی جاتی ہے۔” اَلْحَکِیْمِ“ کا لفظ ” حُکْمَ“ سے نکلا ہے جس کا دوسرا معنٰی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ پوری کائنات کا حاکم ہے اس لیے 3 جن و انس کا فرض بنتا ہے کہ وہ دل وجان سے اس کے حکم کو تسلیم کریں اور ہر حال میں اس کی بندگی کرتے رہیں۔ قرآن مجید کے مخالف باربار پراپیگنڈہ کرتے تھے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس قرآن کو اپنی طرف سے بنالیا ہے۔ اس الزام کے کافی اور شافی جواب دیئے گئے مگر پھر بھی وہ یہی کہتے تھے کہ ” محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) “ نے قرآن اپنی طرف سے بنالیا ہے۔ ان کی ہٹ دھرمی کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں بار بار ارشاد فرمایا ہے کہ قرآن نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا خود ساختہ یا کسی کا بنایا ہوا نہیں بلکہ اس کا ایک ایک حرف اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا ہے۔ مسائل ١۔ حروف مقطعات کا معنٰی اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ ٢۔ قرآن مجید ” اللہ“ غالب حکمت والے نے نازل فرمایا ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ ہر اعتبار سے اپنی مخلوق پر غالب ہے : (یوسف : ٢١) (البقرۃ: ١١٧) (الانعام : ٦١) ( المجادلہ : ٢١) (البقرۃ : ٢٠) (الحشر : ١) (الانفال : ٤٩) الأحقاف
2 الأحقاف
3 فہم القرآن ربط کلام : ” اَلْحَکِیْمِ“ کی حکمت کا نتیجہ ہے کہ اس نے جو کچھ زمین و آسمانوں میں پیدا کیا ہے اس کا ایک مقصد ہے لیکن کافر اس مقصد کا انکار کرتے ہیں۔ ” اللہ“ کی ذات اور صفات کا انکار کرنے والوں میں بے شمار لوگ ایسے ہیں جو سمجھتے ہیں کہ کائنات کا نظام خود بخود معرض وجود میں آیا ہے اور یہ اس طرح ہی چلتا رہے گا۔ قرآن مجید نے متعدد مقامات پر کفار کی اس سوچ کی تردید کرتے ہوئے بتلایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمانوں میں کوئی ایک چیز بھی بے مقصد پیدا نہیں کی ہر چیز کو پیدا کرنے کے مجموعی طور پر دو مقصد ہیں۔ پہلا مقصد یہ ہے کہ ہر چیز اپنے رب کو یاد کرے اور اس کے حکم کے مطابق کام کرے، دوسرا مقصدیہ ہے کہ وہ انسان کی خدمت کرتی رہے۔ یہی انسان کی زندگی کا مقصد ہے کہ وہ اپنے رب کی عبادت اور اطاعت کرنے کے ساتھ دوسرے لوگوں کی خدمت کرتا رہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کسی چیز کو لامحدود زندگی عطا نہیں کی بلکہ ذرّہ سے لے کرپہاڑتک، شمس و قمر اور زمین و آسمانوں میں ہر چیز کی ایک مدت مقرر کردی گئی ہے جب یہ مدت پوری ہوجائے گی تو اللہ تعالیٰ ہر چیزکوفنا کے گھاٹ اتار دے گا۔ پھر ایک مدت کے بعد حشر کامیدان قائم کرے گا وہاں 3 وانس کو ان کی زندگی کے مقصد کے بارے میں پوچھ گچھ کی جائے گی لیکن کفار اس دن کا انکار کرتے ہیں۔ جو قیامت کا انکار کرتے ہیں گویا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمانوں، 3 اور انسانوں کو یوں ہی پیدا کردیا ہے۔ حالانکہ اس کا فرمان ہے کہ اس نے کوئی چیز بے مقصد پیدا نہیں کی۔ (اَفَحَسِبْتُمْ اَنَّمَا خَلَقْنَاکُمْ عَبَثًا وَّاَنَّکُمْ اِِلَیْنَا لَا تُرْجَعُوْنَ فَتَعٰلَی اللّٰہُ الْمَلِکُ الْحَقُّ لَآ اِِلٰہَ اِِلَّا ہُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْکَرِیْمِ) (المومنوں : ١١٥، ١١٦) ” کیا تم نے یہ سمجھ لیا کہ ہم نے تمہیں بے مقصد پیدا کیا اور تمہیں ہماری طرف کبھی پلٹ کر نہیں آنا۔ پس اللہ بلند و بالا اور حقیقی بادشاہ ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں وہ عرش کریم کا مالک ہے۔“ (وَ مَا خَلَقْنَا السَّمَآءَ وَ الْاَرْضَ وَ مَا بَیْنَہُمَا لٰعِبِیْنَ لَوْ اَرَدْنَآ اَنْ نَّتَّخِذَ لَہْوًا لَّا تَّخَذْنٰہُ مِنْ لَّدُنَّآ اِنْ کُنَّا فٰعِلِیْنَ) (الانبیاء : ١٦، ١٧) ” ہم نے آسمان اور زمین کو اور جو کچھ ان میں ہے کھیل کے طور پر نہیں بنایا ہے۔ اگر ہم کھیل تماشا کرنا چاہتے تو یہ تماشا اپنے ہاں کرتے۔“ (الَّذِیْنَ یَذْکُرُوْنَ اللّٰہَ قِیٰمًا وَّ قُعُوْدًا وَّ عَلٰی جُنُوْبِہِمْ وَ یَتَفَکَّرُوْنَ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ ہٰذَا بَاطِلًا سُبْحٰنَکَ فَقِنَا عَذَاب النَّارِ) (آل عمران : ١٩١) ” جو لوگ اللہ کا ذکر کھڑے، بیٹھے اور اپنے پہلوؤں پر کرتے ہیں اور آسمانوں اور زمین کی تخلیق پر غور کرتے اور کہتے ہیں اے پروردگار تو نے کوئی چیز بے فائدہ پیدا نہیں کی۔ تو پاک ہے پس ہمیں آگ کے عذاب سے بچا۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق میں کوئی بھی چیز بے مقصد پیدا نہیں کی۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کا وقت مقرر کر رکھا ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن 3 و انس سے ان کے اعمال کے بارے میں سوال کرے گا۔ ٤۔ کافر قیامت کے دن اور اس کے حساب و کتاب کا انکار کرتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ نے کوئی چیز بے مقصد پیدا نہیں کی : ١۔ کیا تم نے یہ سمجھ لیا تھا کہ ہم نے تمہیں بے مقصد پیدا کیا اور تمہیں ہماری طرف کبھی پلٹ کر نہیں آنا۔ (المومنون : ١١٥) ٢۔ عقل مند وہ ہیں جو کہتے ہیں اے ہمارے پروردگار تو نے یہ سب کچھ بے فائدہ نہیں بنایا۔ تو پاک ہے پس ہمیں آگ کے عذاب سے بچا۔ (آل عمران : ١٩١) ٣۔ بے شک دن اور رات کے مختلف ہونے میں اور جو کچھ ” اللہ“ نے زمین و آسمان میں پیدا کیا ہے، اس میں لوگوں کے لیے نشانیاں ہیں۔ (یونس : ٦) ٤۔ زمین کی ہر چیز انسان کے لیے پیدا کی گئی ہے۔ (البقرۃ: ٢٩) الأحقاف
4 فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کو پیدا فرمایا اور اس کی ایک مدت مقرر کی ہے۔ پوری مخلوق کے پیدا کرنے اور ان کی ایک مدت مقرر کرنے میں کسی کا ذرّہ برابر عمل دخل نہیں۔ لیکن اس کے باوجود لوگ حقیقی خالق اور مالک کو چھوڑ کردوسروں کی بندگی اور غلامی کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو ٹھوس دلائل کے ساتھ باربار یہ حقیقت بتلائی اور سمجھائی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا اس کائنات کا کوئی خالق اور مالک نہیں۔ چاہے تو یہ کہ لوگ اپنے خالق اور مالک کی بندگی کریں اور اس کا حکم مانیں لیکن ” اللہ“ کو خالق اور مالک ماننے کے با وجود لوگ دوسروں کی بندگی اور غلامی کرتے ہیں۔ ان لوگوں کے کان کھولنے کے لیے پھر ارشاد فرمایا ہے کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ان لوگوں سے اس بات کا جواب طلب کریں کہ جن کو تم ” اللہ“ کے سوا پکارتے اور جن کی تم عبادت کرتے ہو بتاؤ! انہوں نے زمین میں کون سی چیز پیدا کی ہے یا آسمانوں کی تخلیق اور ان کے معاملات میں وہ کس کام میں شریک ہوئے؟ اگر تمہارے پاس کسی آسمانی کتاب کا کوئی ثبوت ہو یا کوئی علمی دلیل ہو تو اسے پیش کرو اگر تم اپنے کفر و شرک کے بارے میں سچے ہو۔ ظاہر بات ہے کہ ان کے پاس کسی آسمانی کتاب کا حوالہ اور کوئی عقلی اور علمی ثبوت نہیں۔ مگر پھر بھی ذات کبریا کے سوا دوسروں کے سامنے جھکتے اور انہیں پکارتے ہیں۔ ان کے باطل عقیدہ کی کلی کھولتے ہوئے یہ بات سمجھائی ہے کہ دین کی بنیاد کتاب اللہ، نبی کی سنت اور ٹھوس علمی ثبوت پر ہے۔ اس کے سوا کسی کی رائے دین کی تشریح میں معاون ہوسکتی ہے مگر دین کہلوانے کی حقدار نہیں ہوسکتی۔ جہاں تک کفار سے اس سوال کا تعلق ہے کہ جن کی یہ عبادت اور غلامی کرتے ہیں انہوں نے زمین و آسمان میں کیا پیدا کیا ہے تو ہر مشرک اور کافر اس کا اقرار کیے بغیر نہیں رہ سکتا کہ زمین و آسمان اور ہر چیز کو صرف اللہ تعالیٰ نے ہی پیدا کیا ہے۔ الأحقاف
5 فہم القرآن ربط کلام : مشرکین کے پاس باطل عقیدہ کی کوئی دلیل نہیں مگر پھر بھی ” اللہ“ کے سوا دوسروں کی عبادت کرتے اور ان سے مانگتے ہیں یہ لوگ پرلے درجے کے گمراہ ہیں۔ قرآن مجید نے مِن دون اللہ سے مراد صرف بت نہیں لیے بلکہ اللہ تعالیٰ کے سوا جسے بھی پکارا جائے اور جس کی بھی عبادت کی جائے گی وہ ” مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ“ میں شامل ہوگا۔ یہاں تفسیر بالقرآن میں ان آیات کے حوالے پیش کیے گئے ہیں جن میں بتوں کے علاوہ ” مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ“ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ افسوس! اتنی واضح آیات ہونے کے باوجود شرک کی حمایت کرنے والے ایک مفسر نے جو کچھ لکھ دیا ہے اس پر افسوس کرنے کے سوا کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ فہم القرآن کا مطالعہ کرنے والے حضرات سے گزارش ہے کہ وہ خود فیصلہ کریں کہ شرک کے بچاری لوگ کس قدر شرک کی حمایت میں آگے بڑھ جاتے ہیں۔ موصوف اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں۔ مشرکین جو بڑے زور شور سے اپنے بتوں کی عبادت کیا کرتے تھے اور اگر اس پر انہیں ٹوکا جاتا تو وہ بہت برہم ہوتے۔ ان سے پوچھا جارہا ہے کہ جن کو تم نے معبود بنا رکھا ہے، اللہ تعالیٰ کی عبادت کو چھوڑ کر تم نے ان کی پوجا شروع کر رکھی ہے۔ کیا اس کی کوئی معقول وجہ بھی تم بتا سکتے ہو؟ کیا کرّہ زمین کی کسی چیز کے وہ خالق ہیں، آسمان کی آفرینش میں کیا ان کا کوئی حصہ ہے ؟ اگر تمہارے پاس کو تحریری ثبوت ہے تو پیش کرو اور اگر تم خود اس بات کا اعتراف کرتے ہو کہ اس وسیع وعریض کائنات کی ہر چھوٹی بڑی چیز کا خالق اللہ تعالیٰ ہے تم پھر اس خالق وحکیم کو چھوڑ کر کسی پتھر، کسی بے روح یا ذی روح شے کی پوجا کرنا کتنی بڑی حماقت ہے۔ (ضیاء القرآن جلد چہارم، ص : ٤٧٢) غور فرمائیں کہ اس پہرہ کی آخری سطر میں من دون اللہ کا ترجمہ کرتے ہیں کہ تم پھر خالق وحکیم کو چھوڑ کر کسی پتھر یا کسی بے روح یا ذی روح شے کی پوجا کرنا کتنی بڑی حماقت ہے، لیکن اس کے باوجود صحیح عقیدہ لوگوں کے بارے میں لکھتے ہیں۔ بعض مہم جو لوگ جو ملت کے اتحاد کو انتشار کا شکار بنانا چاہتے ہیں، رات دن اس دھن میں لگے رہتے ہیں کہ ملت میں نئی ملت تخلیق کریں وہ یہ آیت اہل سنت پر چسپاں کرتے ہیں۔ (معاذ اللہ) بحمدہٖ تعالیٰ اہل سنت میں سے کوئی اَن پڑھ سے اَن پڑھ بھی اللہ جلَّ مجدہٗ کے سوا کسی کی خدائی اور الوہیت کا عقیدۂ فاسدہ نہیں رکھتا۔ جب وہ اللہ تعالیٰ کے محبوب، تمام نبیوں کے سردار، تمام رسولوں کے تاج، اپنے آقا و مولیٰ اور دونوں جہانوں کے سردار محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ ” اَشْہَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ“ اور نماز میں کئی کئی بار اس شہادت کا اعادہ کرتا ہے تو وہ کسی اور کو کیونکر خدا یا خدا کا ہمسر اور شریک تصور کرسکتا ہے۔ یہ محض بہتان اور افترائے عظیم ہے کہ اہل سنت کو خدا کا شریک بناتے ہیں۔” ھذا افک مبین وبہتان عظیم“ مزید لکھتے ہیں۔ خارجیوں (جدید اور قدیم) کے علاوہ تمام امت اس بات پر متفق ہے کہ حضور سرور دوعالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بارگاہ بکیس پناہ میں جب کوئی غلام صلوٰۃ و سلام عرض کرتا تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کو سلام کا جواب دیتے ہیں جس کو خواص اپنے کانوں سے سنتے ہیں اور لذّتِ جواب سے سرشار ہوتے ہیں۔ مصر کے مشہور ولئ کامل حضرت سید احمد رفاعی (رح) جب روضۂ اقدس پر حاضر ہوئے تو بصد ادب و نیاز عرض کی ” الصلوٰۃ والسلام علیک یا جدّی“ اے میرے نانا پاک آپ پر صلوٰۃ و سلام ہو۔ روضۂ اقدس سے جواب آیا ” وعلیک السلام یا ولدی“ اے میرے بچے تجھ پر بھی سلام ہو۔ یہ سن کر آپ پر وجد کی 3 طاری ہوگئی اور فی البدیہہ یہ رباعی عرض کی : (ضیاء القرآن) فی حالۃ البعد روحی کنت ارسلھا تقبل الارض عنی وھی نائبتی ” جب میرا جسد خاکی یہاں سے دورتھا تو میں آستانہ بوسی کے لیے اپنی روح کو بھیجا کرتا تھا۔“ وھذہ دولۃ الاشباح قد حضرت فامدد یمینک کی تحظٰی بھا شفتی اب تو میں خود بارگاہ اقدس میں حاضر ہوں۔ دست پاک نکالیے تاکہ میں بوسہ دے کر دل کی حسرت پوری کرسکوں۔ دست مبارک باہر آیا جس کو آپ نے بوسہ دیا۔ ہزارہا آدمیوں نے اس کو دیکھا۔ (ضیاء القرآن) بالفرض صحیح سند کے ساتھ ثابت ہوجائے کہ کسی بزرگ نے روضۃ الرّسول یا کسی قبر کے پاس جاکر فوت شدہ بزرگ سے مدد مانگی ہو تو کیا اس کا عمل امت کے لیے دلیل اور اللہ کے ہاں قابل قبول ہوگا؟ جبکہ قرآن مجید من دون اللہ کو پکارنے سے بار بار منع کرتا ہے۔ من دون اللہ کا معنی ہے۔” اللہ“ کے سوا۔ اس میں حجر و شجر، شمس و قمر، اولیاء اور انبیاء شامل ہیں، لہٰذا قرآن مجید کی تاویلات کرنے کی بجائے سیدھے طریقے سے اس کا فرمان قبول کرنا چاہیے یہی ہدایت کا راستہ ہے۔ عقل و انصاف کا تقاضا : عقل کے ساتھ انصاف فرمائیں کہ جو لوگ دنیا سے چل بسے اور زندگی بھر لوگوں کو من دون اللہ سے روکتے رہے اور اپنے مریدوں کو صرف ” اللہ“ کے حضور دعائیں کرنے کی تلقین اور تبلیغ کرتے رہے۔ ان کے رخصت ہونے کے بعد لوگوں نے ان کی قبروں پر مزار بنائے اور شرک کے اڈے قائم کیے۔ اگر وہ لوگوں کی فریاد سنتے ہوں اور اپنی قبروں پر سجدے، رکوع کرتے ہوئے دیکھتے ہوں تو کیا ان کو خوشی ہوگی یا پریشانی ؟ ظاہر بات ہے ان کو پریشانی ہوگی۔ کیا اللہ تعالیٰ انبیائے کرام (علیہ السلام) اور صالح حضرات کو موت کے بعد کوئی پریشانی آنے دیتا ہے ؟ بالکل نہیں اس لیے عقل وانصاف کا تقاضا ہے کہ نہ وہ سنتے ہیں اور نہ کسی کو دیکھتے ہیں، اور نہ کسی کی مدد کرتے ہیں۔ من دون اللہ میں شامل بت ہوں یا فوت شدگان نہ وہ سنتے ہیں اور نہ ہی پکارنے والے کی فریاد کا جواب دیتے ہیں : 1۔ کوئی برا ہو یا نیک موت کے بعد اس کی روح ایسے مقام پر پہنچا دی جاتی ہے جہاں پکارنے والے کی پکار ان تک نہیں پہنچ سکتی۔2۔ اللہ تعالیٰ نے فوت شدگان کو یہ صلاحیت اور اختیار نہیں دیا کہ وہ کسی پکارنے والے کی فریاد سنیں اور ان کی مدد کرسکیں۔ جو لوگ فوت شدگان کو حاجت روا، مشکل کشا سمجھ کر پکارتے ہیں ان کے پاس بے سند کہانیوں کے سوا کوئی ثبوت نہیں۔ اوپر دی ہوئی ضیاء القرآن کی عبارت آپ ایک دفعہ پھر پڑھیں اور غور فرمائیں کہ قرآن و سنت سے دلیل پیش کرنے کی بجائے صرف کمزوراسناد پر مبنی بزرگوں کے واقعات لکھ کر شرک کی حمایت کی گئی ہے۔ (اعانت و استعانت کی شرعی حقیقت از قلم حضرت پیر سید نصیر الدین صاحب آف گولڑہ) مسائل ١۔ زمین و آسمان اور جو کچھ ان کے درمیان ہے اسے صرف ” اللہ“ نے پیدا کیا ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی نے نہ کوئی چیز پیدا کی ہے اور نہ کرسکتا ہے۔ ٣۔ کسی آسمانی کتاب، کسی نبی کی شریعت اور علمی ثبوت کے ذریعے من دون اللہ سے مانگنے کا ثبوت نہیں ملتا۔ تفسیر بالقرآن من دون اللہ سے مراد زندہ اور مردہ، بت اور جاندار سب شامل ہیں : ١۔ میں ان کی عبادت نہیں کرتا جن کی تم اللہ کے سوا عبادت کرتے ہو۔ (یونس : ١٠٤) ٢۔ مجھے منع کیا گیا ہے کہ میں ان کی عبادت کروں جن کی تم اللہ کے سوا عبادت کرتے ہو۔ (الانعام : ٥٦) ٣۔ کیا میں اللہ کے سوا ان کو پکاروں جو نفع اور نقصان نہیں پہنچا سکتے۔ (الانعام : ٧١) ٤۔ جن کو لوگ اللہ کے سوا پکارتے ہیں انھوں نے کوئی چیز پیدا نہیں کی بلکہ وہ خود پیدا کیے گئے ہیں۔ (النحل : ٢٠) ٥۔ جن کو تم اللہ کے سوا پکارتے ہو وہ تمھارے جیسے بندے ہیں۔ (الاعراف : ١٩٤) ٦۔ انھوں نے اپنے پادریوں اور راہبوں اور مسیح ابن مریم کو اللہ کے سوا معبود بنا لیا۔ (التوبہ : ٢١) الأحقاف
6 فہم القرآن ربط کلام : جو لوگ ” اللہ تعالیٰ“ کے سوا یا اس کے ساتھ دوسروں کو شریک بناتے ہیں وہ ان کے حق میں واضح دلیل نہیں رکھتے مگر اس کے باوجود اپنے باطل عقیدہ پر قائم رہتے اور جھگڑتے ہیں۔ یہ انداز اللہ تعالیٰ کے ہاں کفر کرنے کے مترادف ہے۔ ہر دور کے کفار اور مشرک اس بات کا اقرار کرتے رہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی خدائی میں نہ کوئی شریک تھا اور نہ ہے اور نہ ہوگا۔ لیکن اس کے باوجود مشرک اور کافر۔ اللہ تعالیٰ کے سوا یا اس کے ساتھ دوسروں کو پکارتے اور ان سے مانگتے ہیں۔ حالانکہ ان میں سے کوئی ایک بھی قیامت تک ان کی پکار کا جواب نہیں دے سکتا۔ یہاں تک کہ وہ ان کے پکارنے سے بھی بے خبر ہیں۔ (فاطر : ١٤) جب قیامت کے دن ان معبودوں کو ان کے سامنے اکٹھا کیا جائے گا تو وہ اپنے عابدوں کی عبادت اور پکارنے والوں کی پکار کا انکار کریں گے۔ ان میں دو قسم کے لوگ ہوں گے۔ 1۔ انبیائے کرام (علیہ السلام) اور صالح حضرات جو دنیا میں کفرو شرک کی مخالفت کرتے رہے لیکن ان کے فوت ہونے کے بعد بد عقیدہ امتیّوں، برے مقتدیوں اور مریدوں نے انہیں لوگوں کے سامنے حاجت روا مشکل کشا بنا کر پیش کیا اور ان کے بارے میں جھوٹی سچی کرامات بیان کرکے لوگوں کو گمراہ کرتے رہے۔ قیامت کے دن جب انبیائے کرام (علیہ السلام) اور صالح حضرات سے ان کے نام پر کیے گئے شرک کے بارے میں پوچھا جائے گا تو وہ اپنے رب کے حضور معذرت پیش کرتے ہوئے اپنے نام پر کیے ہوئے کفر و شرک کا انکار کریں گے۔ 2۔ جو پیر اور فقیر، علماء اور بادشاہ شرک کی تبلیغ کرتے یا اس کا ماحول بناتے رہے۔” اللہ“ کا جلال اور اس کا عذاب دیکھ کر ہر قسم کے شرک کا انکار کریں گے یعنی جھوٹ بولیں گے۔ اللہ تعالیٰ انہیں اور ان کی عبادت کرنے والوں کو 3 میں پھینک دے گا اور وہ ہمیشہ جلتے رہیں گے۔ ” اور جس دن ہم ان سب کو اکٹھا کریں گے پھر جنھوں نے شریک بنائے، ان سے کہیں گے تم اور تمھارے شریک اپنی جگہ ٹھہرے رہو۔ پھر ہم ان کے درمیان علیحدگی کردیں گے اور ان کے شریک کہیں گے تم ہماری عبادت نہیں کیا کرتے تھے؟“ (یونس : ٢٨) (ثُمَّ لَمْ تَکُنْ فِتْنَتُہُمْ اِلَّآ اَنْ قَالُوْا وَ اللّٰہِ رَبِّنَا مَا کُنَّا مُشْرِکِیْنَ) (الانعام : ٢٣) ” پھران کا فریب اس کے سواکچھ نہ ہوگا کہ کہیں گے اللہ کی قسم! اے ہمارے رب! ہم شریک بنانے والے نہ تھے۔“ (اِنَّکُمْ وَ مَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ حَصَبُ جَہَنَّمَ اَنْتُمْ لَہَا وٰرِدُوْنَ) (الانبیاء : ٩٨) ” بے شک تم اور تمہارے معبود جنہیں تم اللہ کے سوا پکارتے ہو 3 کا ایندھن ہیں اور تم نے بھی 3 میں جانا ہے۔“ مسائل ١۔ جو شخص اللہ تعالیٰ کے سوا دوسروں کو پکارتا ہے اس سے بڑھ کر کوئی گمراہ نہیں ہوسکتا۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ کے سوا جن کو پکارا جاتا ہے وہ قیامت تک پکارنے والوں کی پکار کا جواب نہیں دے سکتے۔ ٣۔ جن صالح فوت شدگان کو مصیبت کے وقت بلایا جاتا ہے اور ان کے حضور فریادیں کی جاتی ہیں قیامت کے دن وہ پکارنے والوں کا انکار کریں گے۔ ٤۔ جن فوت شدگان کو پکارا جاتا ہے وہ پکارنے والوں کی پکار سے بے خبر ہوتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن قیامت کے دن عابد اور معبودوں کا ایک دوسرے کا انکار کرنا : ١۔ قیامت کے دن معبود اپنی عبادت کا انکار کریں گے۔ (یونس : ٢٨) ٢۔ قیامت کے دن مشرک اپنے شرکاء کو دیکھ کر کہیں گے کہ ہم ان کی عبادت کرتے تھے لیکن ان کے معبود انکار کریں گے۔ (النحل : ٨٦) ٣۔ قیامت کے دن مشرک اپنے معبودوں کو دیکھ کر کہیں گے یہ ہمیں گمراہ کرنے والے تھے۔ (القصص : ٦٣) ٥۔ اس دن اللہ تعالیٰ مشرکوں سے فرمائے گا میرے شریک کہاں ہیں وہ کہیں گے ہم میں سے کوئی اس کا دعویدار نہیں ہے۔ (حٰم السجدۃ: ٤٧) ٤۔ قیامت کے دن پیر اپنے مریدوں سے بیزاری کا اظہار کریں گے۔ (البقرۃ: ١٦٦) ٦۔ قیامت کے دن مشرکوں سے کہا جائے گا اپنے معبودوں کو پکارو لیکن ان کے معبود ان کی پکار کا کوئی جواب نہیں دیں گے۔ (الکھف : ٥٢) ٧۔ 3 میں داخل ہونے والے اپنے سے پہلوں کو دیکھ کرکہیں گے۔ ہمیں گمراہ کرنے والے یہی لوگ تھے۔ الٰہی انہیں دوگنا عذاب دیا جائے۔ (الاعراف : ٣٨) الأحقاف
7 الأحقاف
8 فہم القرآن ربط کلام : مشرکین کی گمراہی کی ایک اور انتہا۔ مشرکین مکہ ” اللہ“ کو خالق، مالک اور رازق ماننے کے باوجود توحید پر مبنی آیات سنتے تو کہتے کہ یہ تو واضح طور پر جادو دکھائی دیتا ہے۔ اس کے ساتھ ان کا یہ بھی پراپیگنڈہ تھا کہ قرآن مجید اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل نہیں کیا گیا۔ بلکہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی طرف سے بنا لیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ان دونوں الزامات کے کئی جواب دیئے ہیں مگر اہل مکہ اپنی یا وہ گوئی پر اصرار کرتے رہے۔ آج بھی کچھ لوگ بلا دلیل نزول قرآن کا انکار کرتے ہیں۔ یہاں ان کے انکار اور الزام کا یہ جواب دیا گیا کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ان سے فرمائیں کہ اگر میں نے قرآن مجید اپنی طرف سے بنا لیا ہے تو پھر مجھے تم ” اللہ“ کے عذاب سے نہیں بچا سکتے۔ البتہ جو باتیں تم میرے اور قرآن مجید کے بارے میں بناتے اور کرتے ہو اللہ تعالیٰ انہیں خوب جانتا ہے۔ وہی میرے اور تمہارے درمیان گواہ ہے۔ اہل مکہ اس بات کو اچھی طرح جانتے تھے کہ اعلان نبوت سے پہلے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس طرح کی بات کبھی نہیں کی تھی۔ وہ یہ بھی جانتے تھے کہ حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کبھی جھوٹ نہیں بولا۔ پھر بھی آپ پر الزام لگاتے کہ آپ نے قرآن اپنی طرف سے بنا لیا ہے۔ ان کی یا وہ گوئی کا مزید جواب دینے کی بجائے اسے یہ کہہ کر مسترد کردیا گیا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرما دیں کہ میرے اور تمہارے درمیان اللہ ہی گواہ کافی ہے اور وہی حق اور سچ کا فیصلہ کرے گا۔ وہی اپنے بندوں پر رحم فرمانے والا اور ان کے گناہوں کو معاف کرنے والا ہے۔ غفور الرحیم کی صفات لا کر اشارہ کیا ہے اے قرآن کا انکار کرنے والواگر تم اپنا رویہ تبدیل کرلو اور قرآن پر ایمان لے آؤ تو اللہ تعالیٰ تمہاری گستاخیوں اور غلطیوں کو معاف کرنے والا ہے۔ لہٰذا تمہیں اپنے رب سے معافی مانگ لینی چاہیے تاکہ وہ تم پر رحم فرمائے۔ (عَنْ عَبْدِ اللّٰہ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) التَّاءِبُ مِنَ الذَّنْبِ کَمَنْ لَا ذَنْبَ لَہٗ) (رواہ ابن ماجۃ: کتاب الزھد، باب ذکرا لتوبۃ، قال الشیخ البانی حسنٌ) ” حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا گناہ سے توبہ کرنے والا ایسے ہی پاک ہوجاتا ہے جیسے اس نے کوئی گناہ نہیں کیا۔“ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ إِنَّ الْعَبْدَ إِذَا أَخْطَأَ خَطِیْءَۃً نُکِتَتْ فِیْ قَلْبِہٖ نُکْتَۃٌ سَوْدَآءُ فَإِذَا ھُوَ نَزَعَ وَاسْتَغْفَرَ وَتَابَ سُقِلَ قَلْبُہٗ وَإِنْ عَادَ زِیْدَ فِیْھَا حَتّٰی تَعْلُوَ قَلْبَہٗ وَھُوَ الرَّانُ الَّذِیْ ذَکَرَ اللّٰہُ ( کَلَّا بَلْ رَانَ عَلٰی قُلُوْبِھِمْ مَّاکَانُوْا یَکْسِبُوْنَ )) (رواہ الترمذی : کتاب تفسیر القرآن ) ” حضرت ابوہریرہ (رض) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : جب بندہ کوئی غلطی کرتا ہے تو اس کے دل پرسیاہ نکتہ پڑجاتا ہے جب وہ گناہ چھوڑ دے اور توبہ و استغفار کرے تو اس کا دل پالش ہوجاتا ہے۔ اگر وہ دوبارہ گناہ کی طرف پلٹے تو سیاہی اس کے دل پر چڑھ جاتی ہے یہی وہ زنگ ہے جس کا تذکرہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں کیا ہے کہ (ہرگز نہیں بلکہ ان کے دلوں پر ان کے گناہوں کی وجہ سے زنگ چڑھ چکا ہے۔) “ مسائل ١۔ قرآن مجید کی تاثیر دیکھ کر اہل مکہ اسے جادو قرار دیتے تھے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے فرامین کو کھول کھول کر بیان کردیا ہے۔ ٣۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا عقیدہ اور اعلان یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ میری گرفت کرنے پر آئے تو کوئی بھی مجھے چھڑا نہیں سکتا۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ لوگوں پر گواہ ہے۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو معاف کرنے والا اور ان پر مہربانی فرمانے والا ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ کسی کو عذاب دینا چاہے تو اسے کوئی نہیں بچا سکتا : ١۔ ” اللہ“ کا عذاب برحق ہے اور تم اللہ تعالیٰ کو عاجز نہیں کرسکتے۔ (یونس : ٥٣) ٢۔ کفار کے چہروں پر ذلت چھا جائے گی انہیں اللہ کے عذاب سے بچانے والا کوئی نہیں ہوگا۔ (یونس : ٢٧) ٣۔ اس دن وہ پیٹھیں پھیر کر بھاگیں گے انہیں اللہ کی پکڑ سے بچانے والا کوئی نہیں ہوگا۔ (المومن : ٣٣) ٤۔ اگر ” اللہ“ کسی کو تکلیف دے تو کون ہے جو اسے اس سے بچا سکے۔ (الاحزاب : ١٧) ٥۔ حضرت نوح نے اپنے بیٹے کو فرمایا آج کے دن اللہ کے عذاب سے کوئی بچانے والا نہیں۔ (ہود : ٤٣) الأحقاف
9 فہم القرآن ربط کلام : اہل مکہ کے پراپیگنڈہ کے جواب میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے ایک اور اعلان۔ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ان سے یہ بھی فرمائیں کہ میں کوئی نیا رسول نہیں اور نہ ہی مجھے یہ علم ہے کہ میرے اور تمہارے ساتھ کیا سلوک کیا جائے گا۔ میں تو صرف اس بات کی پیروی کرتا ہوں جو میری طرف وحی کی جاتی ہے اور میں کھلے الفاظ میں برے لوگوں کو ان کے برے انجام سے ڈرانے والا ہوں۔ اہل مکہ ایک طرف نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جھوٹا قرار دیتے اور آپ پر مختلف قسم کے الزام لگاتے تھے لیکن دوسری طرف آپ سے مطالبات کرتے کہ اگر آپ حقیقتاً اللہ کے رسول ہیں تو پھر آپ کے پاس کم از کم یہ چیزیں ہونا ضروری ہیں۔ ان کے مطالبات کا مقصد یہ تھا کہ اگر آپ ان کے مطالبات پورے نہیں کرتیتو ہم لوگوں کے سامنے کہیں گے کہ یہ شخص نبوت کا جھوٹا دعویٰ کرتا ہے اور اس میں کوئی خاص بات نہیں یہ تو ہمارے جیسا انسان ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) انسانی حاجات کے حوالے سے ایک انسان تھے لیکن اپنے مقام، اوصاف اور دعوت کے حوالے سے بے مثال انسان اور رسول تھے۔ بلکہ تمام رسولوں کے سردار تھے۔ اس لیے آپ کی زبان اطہر سے اس موقع پردو باتیں کہلوائیں گئیں کہ آپ اعلان فرمائیں کہ میں کوئی انوکھا رسول نہیں ہوں بلکہ اس طرح ہی اللہ کا رسول ہوں جس طرح اللہ تعالیٰ نے مجھ سے پہلے حضرت نوح، ابراہیم اور دیگر انبیائے کرام (علیہ السلام) کو مبعوث فرمایا تھا۔ پہلے انبیاء بھی رسول ہونے کے ساتھ انسان تھے اور میں بھی اللہ کا رسول ہونے کے ساتھ ایک انسان ہوں۔ نہ پہلے انبیائے کرام (علیہ السلام) کو اللہ کی خدائی میں کوئی اختیار حاصل تھا اور نہ ہی مجھے اس کی خدائی میں کسی قسم کا کوئی اختیار ملا ہے۔ میں تو یہ بھی نہیں جانتا کہ اللہ تعالیٰ میرے ساتھ کیا معاملہ کرنے والا ہے اور تمہارے ساتھ کیا کچھ ہونے والا ہے۔ میرا کام ” اللہ“ کے پیغامات کو لوگوں تک پہچانا اور انہیں کھلے الفاظ میں انتباہ کرنا ہے۔ اس آیت میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ اعلان کروایا گیا ہے کہ آپ کہیں کہ میں کوئی انوکھا یعنی نیا رسول نہیں ہوں مجھ سے پہلے کئی رسول آئے اور وہ لوگوں کو ” اللہ“ کے احکام پہنچاتے رہے میں بھی تمہیں وحی کے مطابق تمہارے برے اعمال کے انجام سے ڈراتاہوں لہٰذا وقت ہے سمجھ جاؤ ورنہ ایک دن آئے گا کہ تمہیں اپنے اعمال کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔ (وَمَآ اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا کَآفَّۃً لِّلنَّاسِ بَشِیْرًا وَّنَذِیْرًا وَّلٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ) (سبا : ٢٨) ” اور اے نبی ہم نے آپ کو لوگوں کے لیے بشیر اور نذیر بنا کر بھیجا ہے مگر اکثر لوگ نہیں جانتے۔“ مسائل ١۔ نبی آخرالزماں (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پہلے رسولوں کی طرح ایک رسول تھے۔ ٢۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی نہیں جانتے تھے کہ ان کے ساتھ کیا معاملہ پیش آنے والا ہے اور آپ کے مخالفوں کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے گا۔ ٣۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ” اللہ“ کی وحی کے پابند تھے۔ ٤۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لوگوں کو کھلے الفاظ میں انتباہ کرنے والے تھے۔ تفسیر بالقرآن نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) غیب نہیں جانتے تھے : ١۔ ” اللہ“ ہی کے پاس غیب کی چابیاں ہیں اس کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ (الانعام : ٥٩) ٢۔ آپ فرما دیں کہ زمین اور آسمانوں کے غیب ” اللہ“ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ (النمل : ٦٥) ٣۔ نہ ہی میں غیب جانتا ہوں اور نہ ہی میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں۔ (ھود : ٣١) ٤۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اعلان اگر میں غیب جانتا ہوتا تو بہت ساری بھلائیاں اکٹھی کرلیتا۔ (الاعراف : ١٨٨) ٥۔ یہ غیب کی خبریں ہیں جو ہم آپ کی طرف وحی کرتے ہیں آپ اس وقت موجود نہ تھے۔ (یوسف : ١٢) ٦۔ میں نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں اور نہ ہی میں غیب جانتا ہوں۔ (الانعام : ٥٠) ٧۔ فرما دیجیے غیب اللہ کے لیے ہے تم انتظار کرو میں بھی تمھارے ساتھ انتظار کرتا ہوں۔ (یونس : ٢٠) الأحقاف
10 فہم القرآن ربط کلام :” نبی آخر الزّماں (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پہلے اور انوکھے رسول نہیں تھے۔“ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا تذکرہ پہلی کتابوں میں پایا جاتا ہے جس کا حوالہ دیا جا رہا ہے۔ اہل مکہ اور یہود ونصاریٰ اپنے اپنے انداز میں یہ پراپیگنڈہ کرتے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کا رسول نہیں۔ یہ اپنی طرف سے قرآن مجید بنا کر نبوت کا دعویٰ کیے جارہا ہے اس موقع پر ان کے پراپیگنڈہ کے دو جواب دیئے گئے۔ ایک کا ذکر اس سے پہلی آیت میں ہوا اور دوسرے کا ذکر ان الفاظ میں کیا گیا ہے۔ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! انہیں فرمائیں کہ اگر قرآن مجید اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اور یقیناً یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اور تم اس کا انکار کرتے ہو۔ حالانکہ اس سے پہلے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) قرآن اور نبی آخر الزماں (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تائید کرچکے ہیں۔ جس کا ثبوت تورات اور انجیل میں جابجا پایا جاتا ہے اسی بنا پر اب بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو قرآن اور نبی آخر الزماں کے بارے میں گواہی دیتے ہیں کہ قرآن اللہ کی طرف سے نازل کیا گیا ہے اور حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حقیقتاً اللہ کے آخری رسول ہیں۔ سیرت رسول اور حدیث کی کتب میں یہ واقعہ بڑی تفصیل کے ساتھ موجود ہے کہ جب نبی آخر الزماں (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مکہ سے ہجرت کرکے مدینہ تشریف لے گئے تو ایک دن مدینہ کے بہت بڑے دانشور، تورات اور انجیل کے عالم عبداللہ بن سلام آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اس نے آپ سے چند سوالات کیے۔ اپنے سوالات کا تسلی بخش جواب پاکر ابن سلام نے آپ کی بیعت کی۔ بیعت کرنے کے بعد عرض کرتے ہیں کہ اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! یہود کے فلاں فلاں آدمی کو طلب کریں اور ان سے میرے بارے میں استفسار فرمائیں کہ میں ان کے ہاں کیسا آدمی ہوں؟ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مدینہ کے چند بڑے یہودیوں کو اپنے ہاں بلایا اور ان سے استفسار فرمایا کہ عبداللہ بن سلام کیسا آدمی ہے ؟ یہودیوں نے کہا وہ ہم سب سے زیادہ پڑھا لکھا اور معزز انسان ہے، اور ہمیں اس کی دیانت وامانت پر پورا یقین ہے۔ آپ نے فرمایا اگر عبداللہ بن سلام اسلام قبول کرلے تو کیا تم ایسا کرنے کے لیے تیار ہو ؟ یہودی کہنے لگے یہ ہرگز نہیں ہوسکتا۔ یہ سن کر حضرت عبداللہ بن سلام (رض) اچانک ان کے سامنے آئے اور کلمہ طیبہ پڑھا۔ اس پر یہودی کہنے لگے عبداللہ خود بھی برا آدمی ہے اور اس کا باپ بھی ایسا ہی تھا۔ (بخاری : کتاب المناقب) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دور میں عبداللہ بن سلام (رض) کچھ یہودی مسلمان ہوئے لیکن یہودیوں کی غالب اکثریت تکبر کی بنیاد پر ایمان لانے سے انکاری رہی۔ جو شخص حقیقت جاننے کے باوجود قرآن مجید کے من جانب اللہ ہونے کا انکار کرتا ہے وہ اقرار کرے یا نہ کرے حقیقت میں وہ متکبر ہوتا ہے۔ متکبر شخص ظالم ہوتا ہے اور ظالموں کو اللہ تعالیٰ ہدایت نہیں دیتا۔ (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَسْعُوْدٍ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ لَایَدْخُلُ الْجَنَّۃَ مَنْ کَانَ فِیْ قَلْبِہٖ مِثْقَالُ ذَرَّۃٍ مِّنْ کِبْرٍ قَالَ رَجُلٌ إِنَّ الرَّجُلَ یُحِبُّ أَنْ یَّکُوْنَ ثَوْبُہٗ حَسَنًا وَّنَعْلُہٗ حَسَنَۃً قَالَ إِنَّ اللّٰہَ جَمِیْلٌ یُّحِبُّ الْجَمَالَ الْکِبْرُ بَطَرُ الْحَقِّ وَغَمْطُ النَّاسِ) (رواہ مسلم : باب تحریم الکبر وبیانہ) ” حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر تکبر ہوا وہ 3 میں داخل نہیں ہوگا۔ ایک آدمی نے کہا کہ آدمی یہ پسند کرتا ہے کہ اس کے کپڑے اور اس کے جوتے اچھے ہوں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اللہ تعالیٰ خوبصورت ہے اور خوبصورتی کو پسند کرتا ہے۔ تکبر حق کو جھٹلانا اور لوگوں کو حقیر جاننا ہے۔“ مسائل ١۔ قرآن مجید حقیقتاً اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کیا گیا ہے۔ ٢۔ یہود و نصاریٰ قرآن کی حقیقت جاننے کے باوجود تکبر کی بنیاد پر انکار کرتے ہیں۔ ٣۔ تورات، انجیل میں جا بجا قرآن مجید اور نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نبی آخر الزمان ہونے کی تائید پائی جاتی ہے۔ ٤۔ جو شخص حق بات کا انکار کرتا ہے وہ ظالم اور متکبر ہے۔ ظالموں کو اللہ تعالیٰ ہدایت نہیں دیتا۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ کن لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا : ١۔ اللہ تعالیٰ ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔ (البقرۃ: ٢٥٨) ٢۔ اللہ تعالیٰ فاسق لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔ (المائدۃ: ١٠٨) ٣۔ آخرت پر دنیا کو ترجیح دینے والوں کو ہدایت نہیں ملتی۔ (النحل : ١٠٧) ٤۔ اللہ تعالیٰ کافروں کو ہدایت نہیں دیتا۔ (البقرۃ: ٢٦٤) ٥۔ گمراہی کا راستہ اختیار کرنے والوں کو ہدایت نہیں دی جاتی۔ (النحل : ٣٧) الأحقاف
11 فہم القرآن ربط کلام : نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت اور قرآن مجید کا انکار کرنے والے ظالموں کا ایک اور بہانہ۔ اہل مکہ کا یہ بھی پراپیگنڈہ تھا کہ اگر قرآن من جانب اللہ ہوتا اور اس دین میں خیر پائی جاتی تو ہم مسلمانوں سے سبقت لے جاتے کیونکہ ہمیں اس میں کوئی بہتری نظر نہیں آتی اس لیے ہم حلقہ اسلام میں داخل ہونے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ اس بہانے کی بنیاد پر اہل مکہ ایمان لانے سے محروم ہوئے۔ اس محرومی کی بنا پر کہتے یہ تو بڑا قدیمی جھوٹ ہے۔ اس یا وہ گوئی کے ساتھ مکہ والے یہ بات بھی کہا کرتے تھے کہ اس نبی پر ایمان لانے والے سماجی اور معاشی اعتبار سے نہایت ہی کم درجہ کے لوگ ہیں۔ اہل مکہ غرور میں آکر یہ بھی کہتے تھے کہ یہ قدیمی جھوٹ ہے اور پہلے لوگوں کے قصے کہانیاں ہیں اس لیے ہم قرآن مجید اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان نہیں لائیں گے۔ مسائل ١۔ نبی آخر الزماں (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت اور قرآن کا انکار کرنے والے سمجھتے ہیں کہ ہم اسلام اور مسلمانوں سے بہتر ہیں۔ ٢۔ حقیقت کا انکار کرنے والے اپنی گمراہی کے سبب قرآن اور اس کی دعوت کو قدیمی جھوٹ قرار دیتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن قرآن اور نبی آخر الزماں (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں یہود، نصاریٰ اور کفار کی یا وہ گوئی : ١۔ جب قرآن سنایا جاتا تو منافقین ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگتے تھے۔ (التوبہ : ١٢٧) ( یونس : ١٥) (ص : ٤) ٢۔ منافقین قرآن مجید کے نزول کا مذاق اڑاتے اور کہتے ہیں اس سے کس کے ایمان میں اضافہ ہوا ہے ؟ (التوبہ : ١٢٤) ٣۔ جب قرآن میں قتال کا تذکرہ ہوتا ہے تو منافق آپ کی طرف ایسے دیکھتے جیسے ان پر موت کی بیہوشی طاری ہوگئی ہو۔ (سورہ محمد : ٢٠) ٤۔ جب قرآن کا کوئی حصہ نازل ہوتا ہے تو یہ بہانے تراشنے لگتے ہیں۔ (التوبہ : ٨٦) الأحقاف
12 فہم القرآن ربط کلام : پہلی آیت میں کفار سے مراد اہل مکہ اور یہودی ہیں اس لیے یہودیوں کے سامنے تورات اور قرآن مجید کی حیثیت بیان کی گئی ہے۔ یہودی مالی، سیاسی اور علمی اعتبار سے عرب پر بڑا اثرورسوخ رکھتے تھے اور یہی لوگ مکہ والوں کو اوٹ پٹانگ باتیں بتلاتے تھے۔ یہودیوں کے علمی غرور اور سیاسی تسلط کو توڑنے اور لوگوں کو ان کی حقیقت بتلانے کے لیے قرآن مجید نے موسیٰ (علیہ السلام) کی شخصیت اور تورات کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ نزول قرآن اور نبی آخر الزماں (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پہلے اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو تورات عنایت فرمائی جو اپنے دور میں لوگوں کے لیے راہنما اور رحمت کا باعث تھی۔ اس دور میں تورات پر عمل کرنا فرض تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اب عربی زبان میں قرآن مجید نازل کیا ہے جو پہلی کتابوں بالخصوص تورات کی تائید اور تصدیق کرتا ہے اور ظالموں کے لیے انتباہ ہے اور ان لوگوں کے لیے خوشخبری ہے جو قرآن پر ایمان لانے کے ساتھ نیکی کرنے والے ہیں۔ اس سے پہلے آیت ٩ میں یہود و نصاریٰ اور کفار کے پراپیگنڈہ کا جواب دیتے ہوئے۔ آپ کی زبان اطہر سے یہ کہلوایا گیا کہ آپ لوگوں میں اعلان فرمائیں کہ میں پہلا اور انوکھا رسول نہیں ہوں۔ میں اس بات کی پیروی کرتا ہوں جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے مجھ پر نازل کی جاتی ہے اور لوگوں کو کھلے الفاظ میں انتباہ کرنے والا ہوں۔ یہی قرآن مجید کی دعوت کا خلاصہ ہے کہ انکار کرنے والوں کو ڈرایا جائے اور ایمان لانے والوں کو خوشخبری دی جائے۔ کفار میں سے کچھ لوگ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر یہ بھی الزام لگاتے تھے کہ آپ فلاں عجمی سے پڑھ کر ہمیں سنا دیتے ہیں۔ اس پر یہ جواب دیا گیا کہ جس شخص کا نام لیتے ہو وہ تو عجمی ہے یعنی وہ عربی نہیں جانتا جب کہ قرآن عربی زبان میں ہے۔ اس میں عربوں کو یہ سمجھایا ہے کہ تم عربی ہو اور قرآن بھی عربی زبان میں ہے، لہٰذا اسے سمجھنے کی کوشش کرو تاکہ تم ہدایت پا جاؤ۔ یہاں انجیل کا دو وجہ سے ذکر نہیں کیا گیا ہے۔ پہلی آیات میں یہودیوں کی طرف اشارہ ہے اس لیے موسیٰ (علیہ السلام) کا حوالہ دیا گیا ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ انجیل تورات کا ہی تتمہ ہے لہٰذا تورات کے ذکر میں انجیل بھی شامل ہے۔ (وَ اَنْزَلْنَآ اِلَیْکَ الْکِتٰبَ بالْحَقِّ مُصَدِّقًا لِِّمَا بَیْنَ یَدَیْہِ مِنَ الْکِتٰبِ وَ مُہَیْمِنًا عَلَیْہِ فَاحْکُمْ بَیْنَہُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ وَ لَا تَتَّبِعْ اَہْوَآءَ ہُمْ عَمَّا جَآءَ کَ مِنَ الْحَقِّ لِکُلٍّ جَعَلْنَا مِنْکُمْ شِرْعَۃً وَّ مِنْہَاجًا وَ لَوْ شَآء اللّٰہُ لَجَعَلَکُمْ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً وَّ لٰکِنْ لِّیَبْلُوَکُمْ فِیْ مَآ اٰتٰکُمْ فَاسْتَبِقُوا الْخَیْرٰتِ اِلَی اللّٰہِ مَرْجِعُکُمْ جَمِیْعًا فَیُنَبِّءُکُمْ بِمَا کُنْتُمْ فِیْہِ تَخْتَلِفُوْنَ) (المائدۃ: ٤٨) ” اور ہم نے آپ کی طرف یہ کتاب حق کے ساتھ بھیجی، اس حال میں کہ کتابوں کی تصدیق کرنے والی اور اس پر محافظ ہے، پس ان کے درمیان اس کے مطابق فیصلہ کریں جو اللہ نے نازل کیا اور جو حق آپ کے پاس آیا ہے اس سے ہٹ کر ان کی خواہشوں کی پیروی نہ کریں تم میں سے ہر ایک کے لیے ہم نے ایک راستہ اور ایک طریقہ مقرر کیا ہے اور اگر اللہ چاہتا تو تمہیں ایک امت بنا دیتا لیکن وہ تمہیں اس میں آزماتا ہے جو اس نے تمہیں دیا ہے، پس نیکیوں میں ایک دوسرے سے آگے بڑھو، اللہ ہی کی طرف تم سب کالوٹ کر جانا ہے، پھر وہ تمہیں بتائے گا جن باتوں میں تم اختلاف کیا کرتے تھے۔“ مسائل ١۔ قرآن مجید کے نازل کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ظالم لوگوں کو ان کے انجام سے ڈرایا جائے اور حقیقی ایمانداروں کو خوشخبری دی جائے۔ ٢۔ قرآن مجید سے پہلے تورات راہنما اور باعث رحمت کتاب تھی۔ ٣۔ اب لوگوں کی راہنمائی کے لیے اللہ تعالیٰ نے عربی زبان میں قرآن مجید نازل کیا ہے۔ تفسیر بالقرآن نیکی کی جزا، برائی کی سزا : ١۔ جس نے ذرہ برابر نیکی کی ہوگی وہ اس کو دیکھ لے گا۔ جس نے ذرہ برابر برائی کی ہوگی وہ بھی اس کو دیکھ لے گا۔ (الزلزال : ٧ تا ٨) ٢۔ برائیوں میں مرنے والے کے لیے 3 ہے۔ (البقرۃ: ٧١) ٣۔ جو ایک نیکی کرے گا اس کو دس نیکیوں کا بدلہ ملے گا جو برائی کرے گا اس کی سزا صرف اتنی ہی ہوگی۔ (الانعام : ١٦٠) ٤۔ برائی کا بدلہ اس کی مثل ہی ہوگا۔ (القصص : ٨٤) ٥۔ صبر کرنے والوں کے لیے 3 کی جزا ہے۔ (الدھر : ١٢) ٦۔ جس نے سرکشی کی اور دنیا کی زندگی کو ترجیح دی اس کا بدلہ 3 ہے۔ (النازعات : ٣٧) ٧۔ نافرمانوں کو ہمیشہ کے عذاب کی سزادی جائے گی۔ (یونس : ٥٢) ٨۔ تکبر کرنے والوں کو ذلت آمیز سزا دی جائے گی۔ (احقاف : ٢٠) ٩۔ شیطان اور اس کے پیروکاروں کو 3 کی سزا دی جائے گی۔ (بنی اسرائیل : ٦٣) الأحقاف
13 فہم القرآن ربط کلام : قرآن مجید جن لوگوں کو خوشخبری سناتا ہے ان کی پہلی صفت یہ ہے کہ وہ اپنے رب پر ایمان لاتے ہیں اور تادم آخر اس پر پکے رہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس سورت کی تیسری آیت میں اپنی توحید کی یہ دلیل دی ہے کہ جو لوگ ” اللہ“ کے سوا دوسروں کو مانتے اور پکارتے ہیں۔ اے نبی! ان سے فرمائیں کہ یہ زمینوں اور آسمانوں میں کسی ایسی چیز کی نشاندہی کریں جو ان کے معبودوں نے پیدا کی ہو یا اللہ کی کسی تخلیق میں وہ شریک کار ہوں۔ پھر فرمایا کہ موسیٰ (علیہ السلام) کو جوکتاب دی گئی اسی کی ہدایت اور دعوت یہ تھی کہ ” اللہ“ کے سوا کسی کی عبادت نہ کی جائے اور قرآن مجید بھی یہی دعوت دیتا ہے۔ دعوت توحید کا پہلا اور آخری تقاضا یہ ہے کہ جو لوگ اس بات کا اقرار اور اظہار کریں وہ تادم آخر اس پر پکے رہیں ان کے لیے خوشخبری ہے کہ ان کی موت کے وقت سے لے کر 3 میں داخلے تک اور پھر جنت میں داخل ہونے کے بعد ان پر نہ خوف ہوگا اور نہ ہی یہ حزن و ملال سے دوچار ہوں گے۔ یہ لوگ ہمیشہ 3 میں بسیرا کریں گے جو ان کے اعمال کا صلہ ہوگا۔ اسی بات کو دوسرے مقام پر قدرے تفصیل کے ساتھ یوں بیان کیا گیا ہے۔ ” جن لوگوں نے کہا کہ ہمارا رب ” اللہ“ ہے اور اس پر ثابت قدم رہے یقیناً ان پر ملائکہ نازل ہوتے ہیں اور ان سے کہتے ہیں کہ نہ ڈرو، اور نہ غم کرو، بلکہ اس 3 کے بارے میں خوش ہوجاؤ جس کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے۔ ہم اس دنیا کی زندگی میں بھی تمہارے ساتھی ہیں اور آخرت میں بھی تمہارے ساتھ ہوں گے، وہاں جو چاہو گے تمہیں ملے گا اور جس کی خواہش کرو گے اسے پاؤ گے۔ یہ اس ” ب“ کی طرف سے مہمان نوازی ہے جو غفور ورحیم ہے۔“ (حٰم السجدۃ٣٠ تا ٣٢) (عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ (رض) قَالَ قَالَ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَنْ کَانَ آخِرُ کَلَامِہِ لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ دَخَلَ الْجَنَّۃَ) ( رواہ ابوداؤد : کتاب الجنائز، باب فی التلقین، قال الشیخ البانی صحیح) ” حضرت معاذ بن جبل (رض) بیان کرتے ہیں رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس کا آخری کلام ” لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ“ ہو وہ 3 میں داخل ہوگا۔“ (وَعَنْ سُفْےَانَ ابْنِ عَبْدِاللّٰہِ الثَّقَفِیِّ (رض) قَالَ قُلْتُ ےَا رَسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قُلْ لِّیْ فِی الْاِسْلَامِ قَوْلًا لَّا اَسْاَلُ عَنْہُ اَحَدًا بَعْدَکَ وَفِیْ رِوَاے َۃٍ غَےْرَکَ قَالَ قُلْ اٰمَنْتُ باللّٰہِ ثُمَّ اسْتَقِمْ) (رواہ مسلم : باب جامِعِ أَوْصَافِ الإِسْلاَمِ) ” حضرت سفیان بن عبداللہ ثقفی (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں عرض کی مجھے اسلام کے بارے میں ایسی بات ارشاد فرمائیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد کسی سے سوال کرنے کی ضرورت باقی نہ رہے دوسری روایت میں ہے کہ ” آپ کے علاوہ“ کسی سے پوچھنے کی حاجت نہ رہے۔ فرمایا ” اللہ“ پر ایمان لانے کے بعد اس پر قائم رہو۔“ مسائل ١۔ جو لوگ اقرار کریں کہ ہمارا رب ” اللہ“ ہے پھر اس پر استقامت اختیار کریں انہیں کوئی خوف و خطر اور حزن و ملال نہیں ہوگا۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ کی توحید پر قائم رہنے والوں کا صلہ 3 ہے۔ ٣۔ اللہ کی توحید کا اقرار کرنے اور تقاضے پورے کرنے والوں کو ہمیشہ ہمیش 3 میں بسایا جائے گا۔ تفسیر بالقرآن توحید کی اہمیت اور اس کے فائدے : ١۔ توحید سب سے بڑی سچائی ہے۔ (المائدۃ: ١١٩، النساء : ٨٧، ١٢٢) ٢۔ توحید سب سے بڑی گواہی ہے۔ (آل عمران : ١٨) ٣۔ توحید عدل ہے۔ (آل عمران : ١٨) ٤۔ توحید دانائی ہے۔ (بنی اسرائیل : ٣٩) ٥۔ توحید سب سے بڑی نیکی ہے۔ (البقرۃ : ١٧٧) ٦۔ توحید فرمانبرداری کا نام ہے۔ (النحل : ٤٨، الرعد : ١٥) ٧۔ اللہ کی توحید پر استقامت اختیار کرنے والوں پر فرشتوں کا نزول ہوتا ہے اور وہ انہیں خوشخبری دیتے ہوئے کہتے ہیں غم وحزن میں مبتلا ہونے کی ضرورت نہیں تمہارے لیے 3 ہے جس کا تمہارے ساتھ وعدہ کیا گیا ہے۔ ( حٰم السجدۃ: ٣٠) الأحقاف
14 الأحقاف
15 فہم القرآن ربط کلام : حقوق اللہ کے ذکر کے بعد حقوق العباد کا تذکرہ حقوق میں سب سے پہلے والدین کا حق ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کے کئی مقامات پر اپنی توحید کا تذکرہ کرنے کے فوراً بعد انسان کو یہ وصیت فرمائی ہے کہ وہ اپنے والدین کا خیال رکھے اور ان کے ساتھ احسان کا رویہ اختیار کرے۔ البقرہ آیت ٨٣ میں ارشاد فرمایا کہ ہم نے بنی اسرائیل سے یہ عہد لیا کہ ” اللہ“ کی عبادت کے سوا کسی کی عبادت نہ کی جائے اور اپنے والدین کے ساتھ احسان کا رویہ اختیار کرنا۔ سورۃ بنی اسرائیل میں یہ ارشاد ہوا کہ اے انسان ! تیرے رب کا قطعی فیصلہ ہے کہ صرف اپنے رب کی عبادت کرنا اور والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرنا۔ سورۃ لقمان میں ” قَضیٰ“ البقرۃ میں اَخَذْنَا اور یہاں ” وَصَّیْنَا“ کے الفاظ استعمال فرما کر والدین کے حقوق کی فرضیت اور افادیت بیان کی گئی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مرد یعنی باپ کو گھر کا سربراہ اور قوّام بنایا گیا ہے لیکن خدمت اور حقوق کے حوالے سے ماں کا اولاد پر باپ سے حق فائق ہے۔ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ انسان کی پیدائش اور اس کی تربیت میں اس کی ماں کا زیادہ کردار ہوتا ہے۔ استقرار حمل سے لے کر بچے کی پیدائش تک ماں بڑی تکلیف اٹھاتی ہے۔ اس طرح وضع حمل سے لے کر بچے کے دودھ چھڑانے تک تیس مہینے ماں کے لیے ہر اعتبار سے آزمائش کے مہینے ہوتے ہیں۔ ماں کے رحم میں جونہی بچے کی تخلیق کی ابتدا ہوتی ہے۔ تو ماں کی زندگی کیمعمولات اور ماکولات بدل ہوجاتے ہیں۔ نہ احتیاط کے بغیر چل سکتی ہے اور نہ ہی اپنی مرضی سے کھا پی سکتی ہے کیونکہ اس کے چلنے پھرنے اور کھانے پینے کے اثرات بچے کی پیدائش اور پرورش پر فوری طور پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ اکثر ماؤں کی حالت یہ ہوتی ہے کہ اپنی مرضی سے کھانا پینا تو درکنار، ان کے لیے باورچی خانے میں جانا بھی تکلیف دہ عمل بن جاتا ہے۔ وہ کھانا جس سے وہ لطف اندوز ہوا کرتی تھی آج اس کی خوشبو بھی اسے ناگوار گزرتی ہے۔ لیکن وہ اپنے بچے کی خاطر ہر تکلیف برداشت کیے جاتی ہے اس امید کے ساتھ کہ اس کی امید اور محنت کا ثمر پھلے پھولے گا اور بڑھاپے میں اس کا سہارا بنے گا۔ اللہ نے اس کی دعاؤں اور محنت کو قبول فرمایا جس کے نتیجے میں اس کا نیک سیرت بیٹا جوان ہوا۔ جب وہ چالیس سال کی عمر کو پہنچا تو اس کے احساسات اور جذبات کا عالم یہ ہے کہ وہ اپنے رب کے حضور دعائیں اور التجائیں کرتا ہے کہ اے میرے رب ! تو نے میرے والدین اور مجھ پر احسانات فرمائے ہیں مجھے تو فیق عطا فرما کہ میں اس پر تیرا شکر ادا کرتا رہوں اور ایسے عمل کروں جس سے تو راضی ہوجائے۔ میرے رب! میری اولاد کو بھی یہ توفیق دینا کہ وہ بھی ان باتوں کا خیال رکھے اور تیری شکر گزار بن کر زندگی بسر کرے۔ اے رب! میں تیرے حضور توبہ کرتا ہوں اور تیرے تابعدار بندوں میں شامل ہونا چاہتا ہوں۔ قرآن مجید نے والدین کے حقوق کے تذکرہ کے دوران ” اَخَذَ“، ” قَضٰی“ اور ” وَصَّیْنَا“ کے الفاظ استعمال کیے ہیں تاکہ انسان کو معلوم ہو کہ اس کے رب کے نزدیک انسان کے والدین کا کیا مقام اور احترام ہے۔ اس آیت مبارکہ میں عورت کے حمل اور بچے کے دودھ پلانے کی مدّت کو تیس مہینے شمار کیا گیا ہے۔ البقرۃ آیت ٢٣٣ سورۃ لقمان آیت ١٤ میں بچے کے دودھ پلانے کی مدت دوسال بیان کی گئی ہے۔ یہاں حمل اور دودھ پلانے کی مدت کو شامل کر کے تیس مہینے شمار کیا ہے کچھ لوگوں کو چھوڑ کر امت کے اہل علم کا اس بات پر اتفاق ہے کہ بچے کو دودھ پلانے کی مدّت زیادہ سے زیادہ دوسال ہے۔ تیس مہینوں سے چوبیس مہینے نکال دیئے جائیں تو چھ مہینے باقی رہ جاتے ہیں۔ بچہ پیدا ہونے کی یہ کم سے کم مدت ہے جس کی موجودہ میڈیکل سائنس بھی تصدیق کرتی ہے کہ چھ مہینے میں پیدا ہونے والا بچہ اپنی تخلیق کے اعتبار سے مکمل ہوتا ہے۔ اس لیے قرآن مجید نے بچے کی پیدائش کی کم سے کم مدت بیان کی ہے۔ اس آیت اور سورۃ لقمان کی آیت ١٤ اور سورۃ البقرہ کی آیت ٢٣٣ سے ایک اور قانونی نکتہ نکلتا ہے جس کی نشاندہی ایک مقدمے میں حضرت علی اور حضرت عبداللہ بن عباس (رض) نے کی اور حضرت عثمان (رض) نے اپنا فیصلہ بدل دیا۔ قصہ یہ ہے کہ حضرت عثمان (رض) کے عہد خلافت میں ایک شخص نے قبیلہ جہنیہ کی ایک عورت سے نکاح کیا شادی کے چھ مہینے بعد اس کے ہاں صحیح و سالم بچہ پیدا ہوگیا۔ اس شخص نے حضرت عثمان (رض) کے سامنے یہ معاملہ پیش کیا۔ حضرت عثمان (رض) نے اس عورت کو زانیہ قرار دے کر حکم دیا کہ اسے رجم کردیا جائے۔ حضرت علی (رض) نے یہ قصہ سنا تو فوراً حضرت عثمان (رض) کے پاس پہنچے اور کہا کہ یہ آپ نے کیا فیصلہ کردیا؟ انہوں نے جواب دیا کہ نکاح کے چھ مہینے بعد اس نے زندہ سلامت بچہ کو جنم دیا ہے کیا یہ اس کے زانیہ ہونے کا واضح ثبوت نہیں۔ حضرت علی (رض) نے فرمایا نہیں۔ پھر انہوں نے قرآن مجید کی مذکورہ بالا تینوں آیتیں ترتیب کے ساتھ پڑھیں۔ سورۃ بقرہ میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ” مائیں اپنے بچوں کو پورے دوسال دودھ بلائیں۔ سورۃ لقمان میں فرمایا : ” دو سال اس کا دودھ چھوٹنے میں لگے۔“ سورۃ احقاف میں فرمایا :” اس کے حمل اور اس کا دودھ چھڑانے میں تیس مہینے لگے۔“ اب اگر تیس مہینوں میں سے رضاعت کے دوسال نکال دیئے جائیں تو حمل کے چھ مہینے رہ جاتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ حمل کی کم سے کم مدّت، جس میں زندہ سلامت بچہ پیدا ہوسکتا ہے چھ مہینے ہے۔ لہٰذا جس عورت نے نکاح کے چھ مہینے بعد بچہ جنم دیا اسے زانیہ قرار نہیں دیا جاسکتا۔ حضرت علی (رض) کا یہ استدلال سن کر حضرت عثمان (رض) نے فرمایا اس بات کی طرف میرا ذہن نہیں تھا۔ حضرت عثمان (رض) نے عورت کو واپس بلوایا اور اپنا فیصلہ بدل دیا۔ ایک روایت میں ہے کہ حضرت علی (رض) کے استدلال کی تائید حضرت عبداللہ بن عباس (رض) نے بھی کی اور اس کے بعد حضرت عثمان (رض) نے اپنے فیصلے سے رجوع فرمالیا۔ (ابن جریر، احکام القرآن للجصاص) (بحوالہ تفہیم القرآن جلدچہارم ) (وَ الْوَالِدٰتُ یُرْضِعْنَ اَوْلَادَہُنَّ حَوْلَیْنِ کَامِلَیْنِ لِمَنْ اَرَادَ اَنْ یُّتِمَّ الرَّضَاعَۃَ) (البقرۃ: ٢٣٣) ” اور مائیں اپنی اولاد کو پورے دو سال دودھ پلائیں جن کا ارادہ دودھ پلانے کی مدت پوری کرنے کا ہو۔“ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ جَاءَ رَجُلٌ إِلَی رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَقَالَ یَا رَسُول اللّٰہِ مَنْ أَحَقُّ بِحُسْنِ صَحَابَتِی قَالَ أُمُّکَ قَالَ ثُمَّ مَنْ قَالَ أُمُّکَ قَالَ ثُمَّ مَنْ قَالَ أُمُّکَ قَالَ ثُمَّ مَنْ قَالَ ثُمَّ أَبُوکَ.) (رواہ البخاری : باب البِرِّ وَالصِّلَۃِ) حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا اور اس نے استفسار کیا کہ اے اللہ کے رسول! میرے حسن سلوک کا سب سے زیادہ حقدار کون ہے ؟ آپ نے فرمایا تیری ماں۔ پھر تیری ماں۔ پھر تیری ماں۔ پھر تیرا باپ۔“ (عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَیْبٍ عَنْ أَبِیہِ عَنْ جَدِّہِ قَالَ جَاءَ رَجُلٌ إِلَی النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَقَالَ إِنَّ أَبِی اِجْتَاحَ مَالِی فَقَالَ أَنْتَ وَمَالُکَ لِأَبِیْکَ وَقَالَ رَسُولُ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) إِنَّ أَوْلاَدَکُمْ مِنْ أَطْیَبِ کَسْبِکُمْ فَکُلُوا مِنْ أَمْوَالِہِمْ) (رواہ ابن ماجہ : بَابُ مَا للرَّجُلِ مِنْ مَالِ وَلَدِہِ) ” عمرو بن شعیب اپنے باپ سے اور وہ اپنے باپ سے بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آکر کہنے لگا کہ میرا باپ میرے مال کا محتاج ہے آپ نے فرمایا : تو اور تیرا مال تیرے باپ کا ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تمہاری اولاد تمہاری بہترین کمائی ہے اپنی اولاد کے مال سے کھاؤ۔“ (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَمْرٍو عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ رِضَی الرَّبِّ فِیْ رِضَی الْوَالِدِ وَسُخْطُ الرَّبِّ فِیْ سُخْطِ الْوَالِدِ) (رواہ الترمذی : باب ما جاء من الفضل فی رضا الوالدین ) ” حضرت عبداللہ بن عمرو نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : والد کی خوشی میں رب کی رضا ہے اور والد کی ناراضگی میں رب کی ناراضگی ہے۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو یہ حکم دیا ہے کہ وہ اپنے والدین کے ساتھ احسان کا رویہ اختیار کرے۔ (بنی اسرائیل : ٢٣) ٢۔ ماں اپنی اولاد کی خدمت کی زیادہ حق دار ہے کیونکہ وہ بڑی تکلیف کے بعد بچے کو جنم دیتی ہے۔ ٣۔ وضع حمل کی کم از کم مدت چھ ماہ ہے۔ ٤۔ بچے کو دودھ پلانے کی مدت دوسال ہے۔ (البقرۃ: ٢٣٣) ٥۔ انسان کو اپنے رب کا شکر گزار رہنے اور والدین کی خدمت پر اللہ تعالیٰ سے توفیق مانگتے رہنا چاہیے۔ ٦۔ انسان کو چاہیے کہ وہ ہر حال میں اپنے رب کا تابع فرمان رہے۔ تفسیر بالقرآن والدین کے حقوق : ١۔ والدین سے نیکی کرنے کا حکم۔ (بنی اسرائیل : ٢٣) ٢۔ والدین کو اف کہنا اور جھڑکناجائز نہیں۔ (بنی اسرائیل : ٢٣) ٣۔ والدین کے سامنے عاجزی سے رہنا اور ان کے لیے دعا کرنی چاہیے۔ (بنی اسرائیل : ٢٤) ٤۔ غیر مسلم والدین کے ساتھ بھی اچھا سلوک کرنا چاہیے۔ (لقمان : ١٥) ٥۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو والدہ کے ساتھ حسن سلوک کا حکم۔ (مریم : ٣٢) ٦۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کی اپنے والدین کے لیے مغفرت کی دعا۔ (نوح : ٢٨) الأحقاف
16 فہم القرآن ربط کلام : نیک اولاد اور صالح اعمال کرنے والے لوگوں کی جزا۔ جو ایماندار لوگ ” اللہ“ کے شکر گزار، اپنے والدین کے تابع فرمان ہوں گے اور صالح اعمال اختیار کریں گے۔ ان کے بارے میں ارشاد ہے کہ ہم ان لوگوں کے نیک اعمال منظور فرمائیں گے اور ان کی بشری کوتاہیوں سے صرف نظر کریں گے اور انہیں اہل 3 میں شامل کردیں گے۔ اللہ تعالیٰ کا ان کے ساتھ سچا وعدہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ہر وعدہ اور فرمان سچا اور اٹل ہوتا ہے۔ والدین کی تابعدار اور شکرگزار اولاد کے لیے بالخصوص ” وَعْدَ الصِّدْقِ“ کے الفاظ استعمال فرما کر یہ پیغام دیا ہے کہ لوگو! اپنے والدین کا تابع فرمان رہنا اور میرا شکر گزار بننا۔ میرا شکر گزار اور والدین کا تابعدار ہونے کا صلہ یہ ہے کہ میں تمہاری نیکیوں کو مستجاب اور غلطیوں سے درگزر فرما کر تمہیں اہل 3 میں شامل کروں گا۔ (أَللّٰھُمَّ أَعِنِّیْ عَلٰی ذِکْرِکَ وَشُکْرِکَ وَحُسْنِ عِبَادَتِکَ) (رواہ أبوداوٗد : باب فی الإستغفار) ” الٰہی ! اپنے ذکر، شکر اور بہترین طریقے سے عبادت کرنے پر میری مدد فرما۔“ (عَنْ بُسْرِ بْنِ أَرْطَاۃَ الْقُرَشِیِّ (رض) یَقُولُ سَمِعْتُ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَدْعُواللَّہُمَّ أَحْسِنْ عَاقِبَتَنَا فِی الأُمُورِ کُلِّہَا وَأَجِرْنَا مِنْ خِزْیِ الدُّنْیَا وَعَذَاب الآخِرَۃِ) (رواہ احمد : مسند بسر بن ارطاۃ، ہذا حدیث حسن غریب) ” حضرت بسر بن ارطاۃ قرشی (رض) کہتے ہیں میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ دعا کرتے ہوئے سنا اے اللہ! ہمارے تمام معاملات کا انجام اچھا فرما اور ہمیں دنیا اور آخرت کی رسوائی سے محفوظ فرما۔“ (رَبَّنَآ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّ فِی الْاٰخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّ قِنَا عَذَاب النَّارِ) (البقرۃ: ٢٠١) ” اے ہمارے رب! ہمیں دنیا میں بھلائی دے اور آخرت میں بھی بھلائی عطا فرما اور ہمیں 3 کے عذاب سے محفوظ فرما۔“ الأحقاف
17 فہم القرآن ربط کلام : نیک والدین اور صالح اولاد کے تذکرہ کے بعد بری اولاد کے خیالات اور اس کے کردار کا ذکر۔ اللہ تعالیٰ کی عظیم نعمتوں میں ایک بڑی نعمت اولاد کا صالح ہونا ہے۔ اولاد نیک اور باصلاحیت ہوتوبوڑھے والدین اپنے آپ میں ایک قوت اور اطمینان محسوس کرتے ہیں۔ اولاد اعتقادی طور پر بری ہو اور عملی طور پر نافرمان ہو تو والدین کی زندگی اجیرن ہوجاتی ہے۔ یہاں نیک اور بری اولاد کاموازنہ کیا جارہا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ اور اس کے رسول کے نافرمان لوگ بھی اولاد کی نافرمانی کا دکھ برداشت نہیں کرسکتے لیکن نیک والدین کے لیے یہ دکھ زیادہ ہی اذّیت کا باعث ہوتا ہے۔ جب ان کی اولاد اعتقادی طور پر دین کی مخالف اور عملی طور پر اپنے ماں باپ کی نافرمان ہو تو والدین کے لیے یہ اذّیت اس قدر کربناک ہوتی ہے کہ جس سے ماں، باپ کی زندگی دکھوں، پریشانیوں کا گہوارہ بن جاتی ہے۔ یہاں اسی کیفیت کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ نیک ماں، باپ اپنی بدعقیدہ اولاد کو بار بار سمجھاتے ہیں کہ بیٹا اپنے رب کے تابعدار ہوجاؤ اور ہمارا خیال رکھو۔ بری اولاد نہ صرف ماں باپ کو دکھ پہنچاتی ہے بلکہ وہ اس بات کا بھی مذاق اڑاتی ہے کہ بڑے افسوس کی بات ہے کہ پرانے اور بوسیدہ خیالات کی بنیاد پر مجھے ڈراتے اور خوفزدہ کرتے ہو کہ مرنے کے بعد مجھے زندہ کیا جائے گا اور وہاں مجھے سے پوچھ گچھ ہوگی۔ میں اس عقیدے کو نہیں مانتاکیونکہ یہ پرانی باتیں ہیں۔ مجھ سے پہلے اَن گنت لوگ فوت ہوچکے آج تک ان میں سے کوئی ایک بھی زندہ ہو کر واپس نہیں آیا۔ نافرمان بیٹے کی اصلاح اور فلاح کے لیے والدین اپنے رب سے رو رو کر دعائیں اور التجائیں کرتے ہیں لیکن نافرمان بیٹا کسی صورت بھی تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتا کہ مجھے مر کر زندہ ہونا اور اپنے رب کی بارگاہ میں جواب دینا ہے۔ والدین پھر سمجھاتے ہیں کہ اے ناعاقبت اندیش بیٹے ! تجھ پر افسوس! اللہ تعالیٰ کا وعدہ سچا ہے کہ وہ لوگوں کو ہر صورت زندہ کرے گا اور ان سے حساب و کتاب لے گا۔ جو کسی کے انکار کرنے سے ٹل نہیں سکتا۔ یہاں ایک طرف اولاد کی نافرمانی کا کرب بیان کیا گیا ہے اور دوسری طرف آخرت پر یقین نہ رکھنے والی نسل کے نظریات اور کردار کی نشاندہی کی گئی ہے۔ جب کوئی شخص آخرت کی جوابدہی کا عقیدہ فراموش کردیتا ہے تو اسے کسی رشتے کا احترام اور اپنے محسن کے احسان کا احساس نہیں رہتا۔ فکر آخرت کا عقیدہ جس قدرکمزور ہوگا تو اسی قدر ہی انسان کے کردار اور اخلاق میں کمزوری واقع ہوگی۔ فکر آخرت کا عقیدہ جس قدر مضبوط اور تازہ ہوگا اس قدر ہی انسان اپنے والدین کا فرمانبردار اور اپنے رب کا عبادت گزار ہوگا۔ (عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ (رض) قَالَ ذَکَرَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) الْکَبَآءِرَ فَقَال الشِّرْکُ باللّٰہِ وَقَتْلُ النَّفْسِ وَعُقُوْقُ الْوَالِدَیْنِ فَقَالَ أَلَآ أُنَبِّءُکُمْ بِأَکْبَرِ الْکَبَاءِرِ قَالَ شَھَادَۃُ الزُّوْرِ) (رواہ البخاری : کتاب الأدب، باب عقوق الوالدین من الکبائر) ” حضرت انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کبیرہ گناہوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا : بڑے گناہ یہ ہیں : اللہ کے ساتھ شرک کرنا، ناحق خون کرنا، والدین کی نافرمانی کرنا۔“ پھر فرمایا : کیا میں تمہیں بڑے گناہ سے آگاہ نہ کروں؟ وہ جھوٹی گواہی دینا ہے۔“ مسائل ١۔ آخرت کا انکار کرنے والے لوگوں کی اکثریت اپنے ماں، باپ کی گستاخ ہوتی ہے۔ ٢۔ آخرت کانکار کرنے والوں کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ ہم سے پہلے لوگ اب تک کیوں زندہ نہیں ہوئے ؟ ٣۔ قیامت کا انکار کرنے والے دوبارہ زندہ ہونے کو پہلے لوگوں کے قصے کہانیاں قرار دیتے ہیں۔ ٤۔ قیامت کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا وعدہ سچا ہے وہ ہر صورت لوگوں کو دوبارہ زندہ کرے گا اور ان سے ان کے عقیدہ وعمل کا حساب لے گا۔ ٥۔ نیک ماں باپ کو نافرمان اولاد کا بڑا دکھ ہوتا ہے۔” اللہ“ اس دکھ سے بچائے رکھے۔ آمین یا رب العالمین! تفسیر بالقران قیامت سے پہلے لوگوں کو زندہ کرنے کی مثالیں : ١۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے سامنے چار پرندوں کو زندہ فرمایا۔ (البقرۃ : ٢٦٠) ٢۔ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کے مقتول کو زندہ فرمایا۔ (البقرۃ: ٧٣) ٣۔ حضرت عزیر (علیہ السلام) کو زندہ فرمایا۔ (البقرۃ: ٢٥٩) ٤۔ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کے ہزاروں لوگوں کو دوبارہ زندہ کیا۔ (البقرۃ: ٢٤٣) ٥۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کے ذریعے مردوں کو زندہ کیا۔ ( آل عمران : ٤٩) (الکہف : ٢٥) الأحقاف
18 فہم القرآن ربط کلام : جو لوگ اللہ کی توحید کا انکار اور اپنے ماں باپ کی نافرمانی کرتے ہیں وہ دنیا اور آخرت میں نقصان پائیں گے۔ جو لوگ ” اللہ“ کی توحید اور اپنے والدین کی نافرمانی کریں گے وہ لوگ دنیا اور آخرت میں نقصان پائیں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ ان کی نافرمانی کی وجہ سے ان پر اللہ تعالیٰ کا فرمان اسی طرح سچ ثابت ہوگا جس طرح اس کا فرمان ان سے پہلے نافرمان جنوں اور انسانوں پر سچ ثابت ہوا جس کے نتیجہ میں وہ دنیا میں اپنے رب کے غضب کا شکار ہوئے اور آخرت میں ہمیشہ ہمیش نقصان میں رہیں گے۔ نقصان سے مراد جنت سے محرومی ہے اور جہنم میں داخل کیا جانا ہے۔ اس کا اصول ہے کہ ” کوئی جیسا کرے گا ویسا بھرے گا۔“ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن لوگوں کو ان کے اعمال کی پوری، پوری سزا اور جزا دے گا۔ کسی کے ساتھ کسی قسم کا ظلم نہیں ہوگا۔ دنیا دار لوگ دنیا میں اچھے اعمال کریں گے تو اللہ تعالیٰ ان کے وسائل میں اضافہ کرتا ہے اور انہیں نیک نامی سے نوازتا ہے لیکن یہ لوگ آخرت کے اجر سے محروم ہوں گے۔ ان کے مقابلے میں صحیح العقیدہ اور صالح کردار رکھنے والے لوگ دنیا میں بھی صلہ پاتے ہیں اور آخرت میں اَن گنت اور لامحدود اجر پائیں گے۔ دنیا کے اجر میں سب سے نمایاں بات یہ ہے کہ نیک لوگوں کو دل کے اطمینان سے نوازا جاتا ہے۔ ان سے کوئی چیز چھن جائے تو حد سے زیادہ پریشان نہیں ہوتے۔ انہیں عطا کیا جائے تو وہ اپنے آپ سے باہر نہیں ہوتے۔ گویا کہ وہ ہر حال میں اپنے رب پر راضی اور مطمئن رہتے ہیں۔ یہ ایسی نعمت ہے کہ دنیا کی کوئی نعمت اس کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔ (قُلْ ہَلْ نُنَبِّءُکُمْ بالْاَخْسَرِیْنَ اَعْمَالًا۔ اَلَّذِیْنَ ضَلَّ سَعْیُہُمْ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَ ہُمْ یَحْسَبُوْنَ اَنَّہُمْ یُحْسِنُوْنَ صُنَعًا۔ اُولٰٓءِکَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا بِاٰیٰتِ رَبِّہِمْ وَ لِقَآءِہٖ فَحَبِطَتْ اَعْمَالُہُمْ فَلَا نُقِیْمُ لَہُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ وَزْنًا۔ ذٰلِکَ جَزَآؤُہُمْ جَہَنَّمُ بِمَا کَفَرُوْا وَ اتَّخَذُوْٓا اٰیٰتِیْ وَ رُسُلِیْ ہُزُوًا۔ اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ کَانَتْ لَہُمْ جَنّٰتُ الْفِرْدَوْسِ نُزُلًا۔ خٰلِدِیْنَ فِیْہَا لَا یَبْغُوْنَ عَنْہَا حِوَلًا) (الکہف : ١٠٣ تا ١٠٨) ” اے نبی ان سے فرما دیں کیا ہم تمہیں بتائیں کہ اعمال کے اعتبار سے نقصان پانے والے کون لوگ ہیں ؟ یہ وہ ہیں جن کی دنیا کی زندگی میں ہی ساری محنت ضائع ہوگئی اور وہ سمجھتے رہے کہ وہ سب کچھ ٹھیک کر رہے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے رب کی آیات کو ماننے سے انکار کیا اور اس کے حضور پیش ہونے کا یقین نہ کیا۔ ان کے سارے اعمال ضائع ہوگئے قیامت کے دن ہم انہیں کوئی وزن نہیں دیں گے۔ ان کی سزا جہنم ہے اس کفر کے بدلے جو انہوں نے کیا اور اس وجہ سے کہ وہ میری آیات اور میرے رسولوں کے ساتھ مذاق کرتے رہے۔ یقینا جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے نیک عمل کیے ان کی میزبانی کے لیے فردوس کے باغات ہوں گے۔ جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے اور اس سے نکلنے کی کبھی خواہش نہیں کریں گے۔“ مسائل ١۔ نافرمان لوگوں پر ” اللہ“ کا عذاب برحق ثابت ہوتا ہے۔ ٢۔ بے شمار جن اور لاتعداد انسان دنیا میں ” اللہ“ کے عذاب میں گرفتار ہوئے اور آخرت میں جہنم میں داخل ہوں گے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ ہر کسی کو اس کے عمل کے مطابق جزا یا سزا دے گا۔ کسی پر کسی اعتبار سے ظلم نہیں ہوگا۔ تفسیر بالقرآن دنیا اور آخرت میں نقصان پانے والے لوگ : ١۔ اپنے مالوں اور اولادوں کے بارے میں سستی کرنے والے دنیا اور آخرت میں نقصان پائیں گے۔ ( المنافقون : ٩) ٢۔ جو لوگ مساجد کو برباد کرتے ہیں وہ دنیا وآخرت میں ذلّت اٹھائیں گے۔ ( البقرۃ: ١١٤) ٣۔ جو لوگ اللہ کی راہ میں رکاوٹ بنتے ہیں وہ دنیا وآخرت میں خسارہ پانے والوں میں سے ہوں گے۔ ( ہود : ٢١) ٤۔ جن لوگوں نے دنیا کی زندگی کو آخرت پر ترجیح دی وہ دنیا وآخرت میں خسارہ پائیں گے۔ ( النحل : ١٠٩) الأحقاف
19 الأحقاف
20 فہم القرآن ربط کلام : ” اللہ“ کی توحید کا انکار اور والدین کی نافرمانی وہی شخص کرتا ہے جو آخرت کو فراموش کردیتا ہے۔ اس لیے یہاں اس کے انجام کا ذکر کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن ہر صورت لوگوں کو زندہ کرے گا اور ان سے حساب و کتاب لے گا۔ نیک لوگ اپنے عقیدہ اور عمل کی جزا پائیں گے۔ برے لوگ اپنے برے عقیدہ اور عمل کے مطابق سزا سے دو چار ہوں گے۔ ایسے لوگوں کو جب جہنم کے سامنے کھڑا کیا جائے گا تو ان سے کہا جائے گا کہ تم اس سے پہلے دنیا کی زندگی اور اس کی نعمتوں سے لذّت یاب ہوچکے اب تمہارے لیے اذّیت اور ذلّت ناک عذاب کے سوا کچھ نہیں ہوگا کیونکہ تم نے دنیا میں بلادلیل حق کے ساتھ تکبر کا رویہ اختیار کیا اور تم اپنے رب کی نافرمانی کرتے رہے۔ قرآن مجید نے لوگوں کو یہ حقیقت بار بار بتلائی اور سمجھائی ہے کہ دنیا کی زندگی اور اس کی نعمتیں تھوڑی اور ناپائیدار ہیں۔ دنیا اور اس کی نعمتوں کے مقابلے میں آخرت کی زندگی اور جنت کی نعمتیں لامحدود اور بے شمار ہیں۔ اس لیے دنیا کی خاطر آخرت کا نقصان نہیں کرنا چاہیے۔ لیکن لوگوں کی اکثریت سب کچھ دنیا ہی کو سمجھ بیٹھتی ہے۔ اس وجہ سے اپنے رب کے ارشادات سے لاپرواہی کرتے ہوئے اس کی نافرمانی میں زندگی بسر کرتے ہیں جس وجہ سے انہیں ذلّت ناک عذاب کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ” حضرت عبداللہ بن حکیم (رض) بیان کرتے ہیں کہ ہم حذیفہ (رض) کے ساتھ مدائن میں تھے۔ حذیفہ (رض) نے پانی طلب کیا تو ایک کاشتکار چاندی کے برتن میں پانی لے کر حاضر ہوا۔ حضرت حذیفہ (رض) نے اسے پھینک دیا اور فرمانے لگے کہ میں تمہیں بتاتے ہوئے حکم دیتاہوں کہ کوئی شخص ایسے برتن میں نہ دے۔ کیونکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے کہ سونے اور چاندی کے برتنوں میں نہ پیو۔ زیور اور ریشمی لباس نہ پہنو (مرد) یقیناً یہ دنیا میں کافروں کے لیے ہے اور تمہارے لیے آخرت میں ہے۔“ (رواہ مسلم : باب تَحْرِیمِ اسْتِعْمَالِ إِنَاء الذَّہَبِ وَالْفِضَّۃِ عَلَی الرِّجَالِ وَالنِّسَاءِ) (عَنْ عَبْدِ اللَّہِ قَالَ نَامَ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عَلَی حَصِیرٍ فَقَامَ وَقَدْ أَثَّرَ فِی جَنْبِہِ فَقُلْنَا یَا رَسُول اللَّہِ لَوِ اتَّخَذْنَا لَکَ وِطَاءً فَقَالَ مَا لِی وَمَا للدُّنْیَا مَا أَنَا فِی الدُّنْیَا إِلاَّ کَرَاکِبٍ اِسْتَظَلَّ تَحْتَ شَجَرَۃٍ ثُمَّ رَاحَ وَتَرَکَہَا) (رواہ الترمذی : باب مَا جَاءَ فِی أَخْذِ الْمَال) ” حضرت عبد اللہ (رض) فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک چٹائی پر سوئے تو آپ کے پہلو پر چٹائی کے نشان پڑگئے۔ ہم نے عرض کی اللہ کے رسول! آپ اجازت دیں تو ہم آپ کے لیے اچھا سا بستر تیار کردیں ؟ آپ نے فرمایا : میرا دنیا کے ساتھ ایک مسافر جیسا تعلق ہے جو کسی درخت کے نیچے تھوڑا سا آرام کرتا ہے اور پھر اسے چھوڑ کر آگے چل دیتا ہے۔“ مسائل ١۔ قیامت کے دن منکرین کو جہنم کی آگ کے سامنے کھڑا کر کے کہا جائے گا۔ ٢۔ تم نے دنیا کی لذت سے فائدہ اٹھا لیا اب جہنم کے اذیت اور ذلت ناک عذاب میں مبتلا رہوگے۔ ٣۔ جہنم میں تمہیں اس لیے جھونکا جارہا ہے کہ تم حق بات کے ساتھ تکبر کرنے والے اور اپنے رب کے نافرمان تھے۔ تفسیر بالقرآن جہنم کی ہولناکیوں کا ایک منظر : ١۔ اس دن ہم ان کا مال جہنم کی آگ میں گرم کریں گے اس کے ساتھ ان کی پیشانیوں، کروٹوں اور پیٹھوں کو داغا جائے گا۔ (التوبہ : ٣٥) ٢۔ ان کا ٹھکانہ جہنم ہے جب وہ ہلکی ہونے لگے گی تو ہم اسے مذید بھڑکا دیں گے۔ (بنی اسرائیل : ٩٧) ٣۔ اس میں وہ کھولتا ہوا پانی پئیں گے اور اس طرح پئیں گے جس طرح پیا سا اونٹ پانی پیتا ہے۔ (الواقعہ : ٥٤ تا ٥٥) ٤۔ تھور کا درخت گنہگاروں کا کھانا ہوگا۔ (الدخان : ٤٣) ٥۔ ہم نے ظالموں کے لیے آگ تیار کی ہے جو انہیں گھیرے ہوئے ہوگی اور انہیں پانی کی جگہ پگھلا ہو اتانبا دیا جائے گا جو ان کے چہروں کو جلا دے گا۔ (الکھف : ٢٩) ٦۔ جہنمی کے جسم بار بار بدلے جائیں گے تاکہ انہیں پوری پوری سزامل سکے۔ (النساء : ٥٦) الأحقاف
21 فہم القرآن ربط کلام : حق کے ساتھ استکبار کرنے والے لوگوں میں قوم عاد بھی شامل ہے اس لیے ان کے انجام کا ذکر کیا جاتا ہے۔ حضرت ہود (علیہ السلام) کا تعلق عرب کے عاد قبیلے سے تھا جن کی رہائش موجودہ جغرافیے کے مطابق عمان اور یمن کے علاقے حضرموت کے درمیان تھی۔ یہ علاقہ سمندر کے کنارے پر واقع تھا یہاں ریت کے بڑے بڑے ٹیلے اور بلندوبالا پہاڑ تھے۔ اس کے رہنے والے جسمانی اعتبار سے دراز قامت، کڑیل جوان اور قوی ہیکل تھے۔ دنیا میں ان کا کوئی ثانی پیدا نہیں ہوا۔ انھوں نے پہاڑتراش، تراش کر خوبصورت محلات تعمیر کر رکھے تھے۔ ان کی سرزمین نہایت سر سبزتھی جس میں ہر قسم کے باغات آراستہ تھے قرآن مجید نے انھیں ” احقاف والے“ کہا ہے۔ احقاف ریت کے بڑے بڑے ٹیلوں کو کہا جاتا ہے جو عرب کے جنوب مغربی حصہ میں واقع تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اسی علاقہ میں حضرت ہود (علیہ السلام) کو مبعوث فرمایا جو خوش اندام، کڑیل جوان اور بہترین سیرت وصورت کے حامل تھے۔ حضرت ہود (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو بار بار نصیحت فرمائی کہ اللہ تعالیٰ سے ڈرو۔ کفر و شرک اور برے کاموں کو چھوڑ دو اور میرے پیچھے چلو۔ میں پوری دیانت داری کے ساتھ تمھیں یقین دلاتا ہوں کہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے تمھارے لیے رسول منتخب کیا گیا ہوں۔ اس خدمت پر میں آپ سے کوئی اجر طلب نہیں کرتا، میرا صلہ رب العالمین کے ذمہ ہے۔ حضرت ھود (علیہ السلام) نے انھیں سمجھایا کہ تم ہر اونچی جگہ پر یاد گاریں بناتے ہو اور تم بے مقصد بڑے بڑے محلات تعمیر کرتے ہو جیسے تم نے دنیا میں ہمیشہ رہنا ہے۔ تم میں یہ برائی بھی موجود ہے کہ جب کسی پر گرفت کرتے ہو تو تمھاراروّیہ ظالموں اور ” اللہ“ کے باغیوں جیسا ہوتا ہے۔ میں تمھیں پھر سمجھتاتا ہوں کہ اللہ سے ڈرو میں اس کارسول ہوں اور میری تابعداری کرو۔ (الشعراء : ١٢٥ تا ١٣١) حضرت ھود (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو ” اللہ“ کی عبادت اور توبہ واستغفار کی دعوت دی۔ لیکن قوم نے اس کا یہ جواب دیا کہ اے ھود! تو ہمارے پاس ٹھوس اور واضح دلائل نہیں لایا۔ اس لیے ہم تیری بے بنیاد باتوں پر اپنے معبودوں کو چھوڑنے کے لیے تیار نہیں اور نہ ہی تجھ پر ایمان لائیں گے۔ ہم تو سمجھتے ہیں کہ ہمارے معبودوں کی مخالفت کی وجہ سے ہمارے کچھ معبودوں کی تجھ پر مار پڑگئی ہے۔ جس کی وجہ سے تو الٹی سیدھی باتیں کرتا ہے۔ حضرت ھود (علیہ السلام) نے فرمایا تم جو چاہو کہو۔ لیکن میں اس بات پر اللہ کو گواہ بناتا ہوں کہ جو کچھ میں کہہ رہا ہوں وہ سچ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔ گواہ رہنا کہ جن کو اللہ کا شریک بناتے ہو میں ان سے نفرت اور برأت کا اعلان کرتا ہوں۔ جہاں تک تمہاری اس بات کا تعلق ہے کہ مجھے تمہارے معبودوں نے کچھ کردیا ہے، اس میں کوئی حقیقت نہیں۔ میں تمہیں چیلنج کرتا ہوں کہ تم اور تمہارے معبود اکٹھے ہو کر میرے خلاف جو اقدام کرنا چاہتے ہو کرو۔ میں تم سے ایک لمحہ بھی مہلت مانگنے کے تیار نہیں ہوں۔ (ھود : ٥٢ تا ٥٥) حضرت ھود علیہ السلامسے ان کی قوم نے وہی مطالبہ کیا جو ان سے پہلے حضرت نوح (علیہ السلام) کی قوم مطالبہ کرچکی تھی۔ حضرت ھود علیہ السلامنے اپنی قوم کے مطالبہ پر تین باتیں ارشاد فرمائیں۔1۔ میں نہیں جانتا کہ اللہ تعالیٰ تم پر کب اور کس طرح کا عذاب نازل کرے گا۔ 2۔ میرا کام تم تک اپنے رب کے پیغامات پہچانا ہے۔ 3۔ اے میری قوم! تم نے ہدایت کی بجائے عذاب کا مطالبہ کیا ہے جو پرلے درجے کی جہالت ہے۔ یاد رہے کہ مشرکین کی شروع سے عادت ہے کہ وہ اپنے باطل عقیدہ کو سچ ثابت کرنے کے لیے نہ صرف اپنے معبودوں کے متعلق جھوٹے دعوے اور پروپیگنڈہ کرتے ہیں۔ بلکہ توحید کی دعوت دینے والوں کو یہ کہہ کر ڈراتے ہیں کہ اگر تم نے ہمارے حاجت روا اور مشکل کشاؤں کے خلاف بات کی تو وہ تمہارا قلع قمع کردیں گے۔ اگر کسی موحد کو ناگہانی مشکل آن پڑے یا کوئی نقصان ہوجائے تو مشرکین یہ کہنے میں جھجک محسوس نہیں کرتے کہ یہ سب کچھ ہمارے بزرگوں کا کیا دھرا ہے۔ ایسا ہی دعویٰ حضرت ھود (علیہ السلام) کے مخالفوں نے کیا تھا حالانکہ ہر دور میں یہ مثالیں موجود رہی ہیں کہ مشرکین جن کو حاجت روا اور مشکل کشا سمجھتے ہیں وہ اپنے اور کسی دوسرے کے نفع و نقصان کے مالک نہیں ہیں۔ پاکستان میں علی ہجویری کے مزار کی تعمیر کے دوران مزار کی چھت گِر پڑی جس سے درجنوں مزدور لقمہ اجل بنے، سندھ میں شہباز قلندر کے مزار میں آگ لگ گئی جس سے سب کچھ جل کر خاکستر ہوا۔ ٢٠١٠ ء میں بڑے بڑے مزارات پر دھماکے ہوئے جن میں درجنوں لوگ چل بسے۔ پنجاب حکومت نے لاہور کی سڑکیں کھلی کرنے کے لیے کئی مزارات مسمار کیے لیکن مسمار کرنے والوں کو کوئی نقصان نہ پہنچا۔ حالانکہ اس وقت کے وزیر اعلیٰ یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ قبروں والے مدد کرتے ہیں۔ اسی عقیدہ کی بنا پر اس نے مزارات پر کروڑوں روپے لگا کر انہیں نئے سرے سے تعمیر کروایا۔ مسائل ١۔ حضرت ھود علیہ السلامنے قوم عاد کو سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کی بندگی کرنے کی تلقین فرمائی۔ ٢۔ حضرت ھود (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو عظیم دن کے عظیم عذاب سے ڈرایا۔ ٣۔ قوم عاد نے حضرت ھود علیہ السلامکی دعوت کے مقابلے میں اپنے باطل معبودوں پر اصرار کیا اور ھود علیہ السلامسے عذاب لانے کا مطالبہ کیا۔ ٤۔ قوم عاد کی دھمکی پر حضرت ھود علیہ السلامنے فرمایا کہ تم جہالت کا مظاہرہ کر رہے ہو۔ تفسیر بالقرآن حضرت ھود (علیہ السلام) کی بدعا اور قوم کا انجام : ١۔ میرے رب میری مدد فرما انھوں نے مجھے کلی طور پر جھٹلا دیا ہے۔ (المومنون : ٣٩) ٢۔ قوم ہود پر سات راتیں اور آٹھ دن زبردست آندھی اور ہوا کے بگولے چلے۔ (الحاقہ : ٧) ٣۔ گرج چمک اور بادو باراں کا طوفان آیا۔ (الاحقاف : ٢٤) ٤۔ آندھی نے انھیں کھجور کے تنوں کی طرح پٹخ پٹخ کر دے مارا۔ (الحاقہ : ٧) ٥۔ انھیں ریزہ ریزہ کردیا گیا۔ (الذاریات : ٤٢) ٦۔ قوم ھود کو نیست و نابود کردیا گیا۔ (الاعراف : ٧٢) ٧۔ دنیا اور آخرت میں ان پر پھٹکار برستی رہے گی۔ (حٰم السجدۃ : ١٦) ٨۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت ھود اور ایمانداروں کو اس عذاب سے محفوظ رکھا۔ (ھود : ٥٨) الأحقاف
22 الأحقاف
23 الأحقاف
24 فہم القرآن ربط کلام : قوم کے مطالبہ پر عذاب نازل ہونا اور قوم عاد کا انجام۔ نامعلوم حضرت ھود علیہ السلامنے اپنی قوم کو کس کس انداز میں اور کتنی مدت سمجھایا اور اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بچانے کی کوشش فرمائی لیکن ناہنجار قوم نے بالآخر حضرت ھود علیہ السلامکو بدعا کرنے پر مجبور کردیا۔ حضرت ھود (علیہ السلام) نے جب پوری طرح محسوس کیا کہ یہ قوم کسی طرح سدھرنے کے لیے تیار نہیں تو انہوں نے قوم کے اصرار پر اللہ تعالیٰ کے حضور فریاد کی کہ اب اس قوم کا فیصلہ ہوجانا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر کی بدعا قبول کی اور قوم عاد پر عذاب نازل کرنے کا فیصلہ صادر فرمایا۔ جس کی ابتدا اس طرح ہوئی کہ بڑی مدت کے بعد ایک دن قوم عاد پر کالے بادل اس طرح امڈ کر آئے کہ چند لمحوں میں قوم عاد کے پورے علاقے پر چھا گئے۔ قوم عادنے گھنے اور کالے بادل دیکھ کر انتہائی خوشی محسوس کی اور یہ امید لگا بیٹھے کہ ابھی موسلا دھار بارش ہونے والی ہے۔ لیکن انہیں کیا معلوم تھا کہ یہ کالے بادل ان پر پانی برسانے کی بجائے ان کے لیے جان لیوا ثابت ہوں گے۔ کالے اور گھنے بادلوں کے ساتھ اس قدر تیز آندھی چلی کہ جو اپنے گھر سے باہر نکلتا تھا ہوا اسے کئی فٹ اوپر اٹھا کر زمین پر یوں دے مارتی کہ اس شخص کا کچونبر نکل جاتا۔ یہ زمین پر اس طرح گِر پڑے جیسے کھجور کے تنے زمین پر پڑے ہوتے ہیں۔ (وَاَمَّا عَادٌ فَاُہْلِکُوْا بِرِیحٍ صَرْصَرٍ عَاتِیَۃٍ سَخَّرَہَا عَلَیْہِمْ سَبْعَ لَیَالٍ وَّثَمَانِیَۃَ اَیَّامٍ حُسُومًا فَتَرَی الْقَوْمَ فِیْہَا صَرْعَی کَاَنَّہُمْ اَعْجَازُ نَخْلٍ خَاوِیَۃٍ) (الحاقۃ: ٦، ٧) ” اور عاد ایک شدید آندھی سے تباہ کر دئیے گئے۔ اللہ تعالیٰ نے آندھی کو مسلسل سات رات اور آٹھ دن ان پر مسلط کیے رکھا آپ وہاں ہوتے تو دیکھتے کہ وہ اس طرح پڑے ہیں جیسے وہ کھجور کے بوسیدہ تنے ہوں۔“ قوم عاد جن بادلوں کے بارے میں ابر رحمت کی امید لگائے ہوئے تھی وہی بادل ان کی تباہی کا سبب بنے۔ آندھی نے ان لوگوں کو اس طرح تباہ و برباد کیا کہ دیکھنے والا یوں محسوس کرتا تھا جیسے ان کے مکانوں میں کوئی بسا ہی نہیں تھا۔ اللہ تعالیٰ مجرموں کو اس طرح ہی سزا دیتا ہے۔ (عَنْ عَآءِشَۃَ (رض) قَالَتْ مَا رَاَےْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ضَاحِکًا حَتّٰی اَرٰی مِنْہُ لَھَوَاتِہٖ اِنَّمَا کَانَ ےَتَبَسَّمُ فَکَانَ اِذَا رَاٰی غَےْمًا اَوْ رِےْحًا عُرِفَ فِیْ وَجْھِہٖ) (رواہ البخاری : باب التبسّم والضحک) ” حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ میں نے رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کبھی کھل کھلا کر ہنستے ہوئے نہیں دیکھا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اکثر مسکرایا کرتے تھے۔ آندھی یا بارش کے وقت آپ کے چہرے پر پریشانی کے آثار نمایاں ہوجاتے تھے۔“ مسائل ١۔ قوم عاد نے جن بادلوں پر بارش کی امید لگائی تھی وہی بادل ان کے لیے جان لیوا ثابت ہوئے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے قوم عاد پر سات راتیں اور آٹھ دن آندھی چلائی اور انہیں پٹک پٹک کر دے مارا۔ ٣۔ آندھی اور بادلوں کی کڑک نے قوم عاد کو اس طرح کردیا جیسے وہ اپنے گھروں میں کبھی بسے ہی نہیں تھے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ مجرموں کو ایسی ہی سزا دیا کرتا ہے۔ تفسیر بالقرآن قوم عاد کے جرائم : ١۔ قوم عاد نے جھٹلایا تو اللہ نے ان کو ہلاک کردیا۔ (الشعراء : ١٣٩) ٢۔ قوم عاد و ثمود کے اعمال بد کو شیطان نے مزین کردیا۔ (العنکبوت : ٣٨) ٣۔ قوم عاد نے زمین میں تکبر کیا اور کہا کہ ہم سے طاقتور کوئی نہیں۔ (حٰم السجدۃ: ١٥) ٤۔ قوم عاد کی تباہی کا سبب رسولوں کی نافرمانی تھی۔ (ھود : ٥٩) ٥۔ قوم عاد سفّاک اور بڑے ظالم لوگ تھے۔ ( النجم : ٥٢) ٦۔ قوم عاد نے حضرت ہود (علیہ السلام) سے عذاب کا مطالبہ کیا۔ (الاحقاف : ٢٢) ٧۔ قوم عاد نے اپنے پروردگار کے ساتھ کفر کیا۔ قوم عاد کے لیے دوری ہے۔ (ھود : ٦٠) الأحقاف
25 الأحقاف
26 فہم القرآن ربط کلام : قوم عاد کے انجام کا ذکر کرنے کے بعد اہل مکہ کو ان کے انجام سے ڈرایا گیا ہے۔ قوم عاد جسمانی اعتبار سے اس قدر کڑیل جوان تھے کہ جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔ ہم نے ان جیسے لوگ پیدا نہیں کیے۔ (الفجر : ٨) اللہ تعالیٰ نے عاد کو قوم نوح کے بعد زمین پر اقتدار اور اختیار بخشا۔“ (الاعراف : ٦٩) ” انھیں افرادی قوت اور مویشیوں سے نوازا گیا۔“ (الشعراء : ١٣٣) یہ بڑے بڑے محلات میں رہتے تھے۔ کھیتی باڑی اور باغات میں ان کا کوئی ثانی نہیں تھا۔“ (الشعراء : ١٢٩ تا ١٣٣) اللہ تعالیٰ نے انہیں کان، آنکھیں اور دل عطا کیے لیکن انہوں نے اپنے کانوں، اپنی آنکھوں اور اپنے دلوں کو حقیقت کو پانے کے لیے استعمال نہ کیا۔ بلکہ اپنے عقیدے پر تکرار اور اصرار کرتے ہوئے ” اللہ“ کی آیات کا مذاق کرتے رہے۔ قوم عاد کا حوالہ دے کر اہل مکہ کو ارشاد فرمایا کہ اے مکہ والو! اللہ تعالیٰ نے نہ تمہیں ان جیسی جسمانی طاقت دی ہے اور نہ ہی ان سے بڑھ کر وسائل دیئے ہیں۔ سوچو اور غور کرو کہ قوم عاد ” اللہ“ کے عذاب کے سامنے نہ ٹھہر سکی تو تم کس طرح اس کے عذاب کے سامنے ٹھہر سکتے ہو؟ جس روّیے کی بنا پر انہیں نیست و نابود کیا گیا وہی روّیہ تمہارا ہے کہ تم نبی آخر الزماں (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے ساتھیوں پر مظالم ڈھاتے ہو اور اللہ تعالیٰ کے ارشادات سے مذاق کرتے ہو۔ قوم عاد کو اللہ تعالیٰ نے کان، آنکھیں اور دل عطا فرمائے مگر انہوں نے ان سے کوئی فائدہ نہ اٹھایا یہی تمہاری حالت ہے کہ تم بھی اپنے کانوں، آنکھوں اور دلوں سے فائدہ اٹھانے کے لیے تیار نہیں۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو سننے کے لیے کان، دیکھنے کے لیے آنکھیں اور سوچنے کے لیے دل عطا فرمایا ہے تاکہ انسان حق بات کو سنے، بصیرت کی آنکھوں سے دیکھے اور اپنے دل سے فیصلہ کرے کہ حق کیا ہے اور باطل کیا ہے ؟ حق تک پہنچنے کے یہی وہ بنیادی ذرائع ہیں۔ اگر یہ ذرائع مفلوج ہوجائیں تو انسان کا ہدایت پانا نہ ممکن ہوجاتا ہے۔ ” ان کے دل ہیں جن سے وہ سمجھتے نہیں اور ان کی آنکھیں ہیں جن سے وہ دیکھتے نہیں اور ان کے کان ہیں جن سے وہ سنتے نہیں یہ لوگ چوپاؤں جیسے ہیں بلکہ یہ زیادہ بھٹکے ہوئے ہیں یہی ہیں جو بالکل غافل ہیں۔“ (الاعراف : ١٧٩) (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ إِنَّ الْعَبْدَ إِذَا أَخْطَأَ خَطِیْءَۃً نُکِتَتْ فِیْ قَلْبِہٖ نُکْتَۃٌ سَوْدَآءُ فَإِذَا ھُوَ نَزَعَ وَاسْتَغْفَرَ وَتَابَ سُقِلَ قَلْبُہٗ وَإِنْ عَادَ زِیْدَ فِیْھَا حَتّٰی تَعْلُوَ قَلْبَہٗ وَھُوَ الرَّانُ الَّذِیْ ذَکَرَ اللّٰہُ ( کَلَّا بَلْ رَانَ عَلٰی قُلُوْبِھِمْ مَّاکَانُوْا یَکْسِبُوْنَ )) (رواہ الترمذی : کتاب تفسیر القرآن ) ” حضرت ابوہریرہ (رض) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : جب بندہ کوئی غلطی کرتا ہے تو اس کے دل پرسیاہ نکتہ پڑجاتا ہے جب وہ گناہ چھوڑ دے اور توبہ و استغفار کرے تو اس کا دل پالش ہوجاتا ہے۔ اگر وہ دوبارہ گناہ کی طرف پلٹے تو سیاہی اس کے دل پر چڑھ جاتی ہے یہی وہ زنگ ہے جس کا تذکرہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں کیا ہے کہ (ہرگز نہیں بلکہ ان کے دلوں پر ان کے گناہوں کی وجہ سے زنگ چڑھ چکا ہے۔) “ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے قوم عاد کو جو کچھ دیا تھا وہ اہل مکہ کو حاصل نہیں تھا۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو کان، آنکھیں اور دل دیئے ہیں مگر وہ ان سے حقیقی فائدہ نہیں اٹھاتے۔ تفسیربالقرآن اللہ تعالیٰ کی آیات کے ساتھ تکرار اور استہزا کرنے والوں کا انجام : ١۔ استہزا کرنے والوں کو رسوا کن عذاب ہوگا۔ ( الجاثیہ : ٩) ٢۔ اللہ کی آیات اور انبیاء سے مذاق کی سزا جہنم ہے۔ ( الکہف : ١٠٦) ٣۔ وہ چیز ان کو گھیرلے گی جس کا یہ مذاق کرتے تھے۔ (ہود : ٨) ٤۔ یہ لوگ مذاق کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان سے مذاق کرے گا اور ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔ (التوبہ : ٧٩) الأحقاف
27 فہم القرآن ربط کلام : قوم عاد کا انجام بیان کرنے کے بعد اہل مکہ کو ایک دفعہ پھر انتباہ کیا گیا۔ رب ذوالجلال کا فرمان ہے۔ اے مکہ والو! ہم نے تمہارے آس پاس کی بستیوں کو تباہ کیا اور ان کے سامنے بار بار اپنی آیات پڑھیں تاکہ وہ اپنے رب کی طرف پلٹ آئیں۔ جب وہ اپنے رب کی طرف نہ پلٹے تو اس نے انہیں نیست و نابود کردیا۔ جب اللہ تعالیٰ نے انہیں نیست و نابود کیا تو جنہیں وہ ” اللہ“ کے سوا مشکل کشا سمجھتے تھے اور ان کو اللہ کے قرب کا ذریعہ بناتے تھے وہ ان کی مدد نہ کرسکے۔ قوم عادجب ” اللہ“ کے عذاب میں مبتلا ہوئی تو انہیں اپنے معبود یاد نہ رہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے معبودوں کو اپنے قرب کا ذریعہ نہیں بنایا تھا۔ مشرک اپنے معبودوں کے بارے میں جو کچھ سمجھتے اور کہتے ہیں وہ جھوٹ ہے اور ان کا خود ساختہ عقیدہ باطل ہے جو عذاب کے وقت قوم عاد کے لیے فائدہ مند ثابت نہ ہوا۔ اس فرمان میں اللہ تعالیٰ نے قوم عاد کا انجام اور ان کا اپنے معبودوں کے بارے میں روّیہ بیان کیا ہے۔ قوم ثمودہو یا اہل مکہ یا کوئی بھی ہو مشکل کے وقت ان کے کوئی کام نہیں آسکتا۔ اللہ تعالیٰ جب کسی قوم پر عذاب نازل کرتا ہے تو وہ اپنے معبودوں کو بھول جاتی ہے۔ یہی مشرک کی عادت اور فطرت ہے کہ وہ آسانی کے وقت اپنے رب کو بھول جاتا ہے اور انتہائی مشکل کے وقت اپنے معبودوں کو فراموش کردیتا ہے۔ قرآن مجید میں جن قوموں کی تباہی کا ذکر ہوا ہے وہ اہل مکہ سے دور نہیں تھیں۔ اس لیے ارشاد فرمایا کہ ہم نے ان کے آس پاس کی کئی اقوام کو ہلاک ہے۔ (عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَیْنٍ (رض) قَالَ قَال النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لأَبِی یَا حُصَیْنُ کَمْ تَعْبُدُ الْیَوْمَ إِلَہًاقَالَ أَبِی سَبْعَۃً سِتًّا فِی الأَرْضِ وَوَاحِدًا فِی السَّمَاءِ قَالَ فَأَیُّہُمْ تَعُدُّ لِرَغْبَتِکَ وَرَہْبَتِکَ قَالَ الَّذِی فِی السَّمَاءِ قَالَ یَا حُصَیْنُ أَمَا إِنَّکَ لَوْ أَسْلَمْتَ عَلَّمْتُکَ کَلِمَتَیْنِ تَنْفَعَانِکَ قَالَ فَلَمَّا أَسْلَمَ حُصَیْنٌ قَالَ یَا رَسُول اللَّہِ عَلِّمْنِی الْکَلِمَتَیْنِ اللَّتَیْنِ وَعَدْتَنِی فَقَالَ قُلِ اللّٰہُمَّ أَلْہِمْنِی رُشْدِی وَأَعِذْنِی مِنْ شَرِّ نَفْسِی) (رواہ الترمذی : باب جامِعِ الدَّعَوَاتِ عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ” حضرت عمران بن حصین (رض) بیان کرتے ہیں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے میرے باپ کو فرمایا : اے حصین آپ کتنے معبودوں کی عبادت کرتے ہیں میرے باپ نے کہا سات کی جس میں چھ زمین میں اور ایک آسمان میں ہے۔ آپ نے فرمایا : خوف اور امید کے وقت کس کو پکارتا تھا اس نے کہا جو آسمانوں میں ہے۔ آپ نے فرمایا : اے حصین اگر تو اسلام لے آئے تو میں تجھے دو کلمات ایسے سکھلاؤں گا جو تیرے لیے انتہائی مفید ہوں گے جب حصین اسلام لے آئے تو انہوں نے عرض کی اللہ کے رسول مجھے وہ کلمات سکھلادیں جن کا آپ نے وعدہ فرمایا تھا آپ نے کہا کہہ اے اللہ مجھے ہدایت عطا فرما اور مجھے میرے نفس کے شر سے محفوظ فرما۔“ مسائل ١۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت سے پہلے مکہ کے گرد و پیش کی کئی بستیوں کو تباہ کردیا گیا۔ ٢۔ مشرک جن معبودوں کو اللہ کے قرب کا ذریعہ سمجھتے ہیں مشکل کے وقت انہیں بھول جاتے ہیں۔ ٤۔ مشرکانہ عقیدہ سراسر جھوٹ اور اپنی طرف سے بنایا ہوا ہے۔ تفسیر بالقرآن انتہائی مشکل میں مشرک کا اپنے معبودوں کے بارے میں وطیرہ : ١۔ جب دریا میں تمہیں تکلیف پہنچتی ہے تو تم اللہ کے سواسب کو بھول جاتے ہو۔ (بنی اسرائیل : ٦٧) ٢۔ انہوں نے خیال کیا کہ وہ گھیرے میں آگئے ہیں تو خالصتًا اللہ کو پکارتے ہیں۔ (یونس : ٢٢) ٣۔ جب وہ کشتی میں سوار ہوتے ہیں تو خالصتًا اللہ کو پکارتے ہیں۔ (العنکبوت : ٦٥) ٤۔ جب انہیں موجیں سائبان کی طرح ڈھانپ لیتی ہیں تو خالص اللہ کو پکارتے ہیں۔ (لقمان : ٣٢) ٥۔ مشرک اپنے معبودوں کے دشمن بن جائیں گے۔ (الاحقاف : ٦) الأحقاف
28 الأحقاف
29 فہم القرآن ربط کلام : اہل مکہ اور اہل طائف کا قرآن مجید سے انحراف مگر جنوں کا قرآن مجید کی طرف متوجہ ہونا۔ اکثر مفسرین نے اس آیت کا شان نزول بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مکہ والوں سے مایوس ہو کر اہل طائف کی طرف گئے اور انہیں اپنی دعوت پیش کی مگر انہوں نے مکہ والوں سے بھی شدید ردِعمل کا اظہار کیا۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پتھرمار مار کر لہو لہان کردیا۔ اس کی تفصیل تاریخ اور سیرت کی کتابوں میں دیکھنی چاہیے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) طائف سے شکستہ دل اور زخمی جسم کے ساتھ واپس آہے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے مکہ اور طائف کے درمیان نخلہ وادی میں جنوں کو آپ کی طرف متوجہ فرمایا۔ جب جنوں کی جماعت نے آپ کی زبان اطہر سے قرآن مجید کی تلاوت سنی تو وہ ایک دوسرے کو کہنے لگے کہ یہ ” اللہ“ کا کلام ہے۔ لہٰذا نہایت ادب اور خاموشی کے ساتھ اس کی تلاوت سنو ! جن آپ کی زبان اطہر سے قرآن مجید سن کر اپنی قوم کی طرف گئے تو انہوں نے اپنی قوم کو کہا کہ بے شک ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد ایسی کتاب سنی ہے جو پہلی کتابوں کی تائید اور تصدیق کرتی ہے یہ کتاب حق ہے اور صرا طِ مستقیم کی راہنمائی کرتی ہے۔ اے ہماری قوم ! آپ سے ہماری اپیل ہے کہ اس داعی الیٰ اللہ کی دعوت قبول کرو اور اس پر ایمان لاؤ! اللہ تعالیٰ تمہارے گناہوں کو معاف کرے گا اور تمہیں جہنم کے اذّیت ناک عذاب سے محفوظ رکھے گا۔ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے کفار اور جنوں کے رد عمل کا موازنہ کیا ہے۔ 1۔ مکہ کے سردار! اپنی قوم سے کہتے تھے کہ قرآن سن کر شورو غوغا کیا کرو۔ جبکہ جنوں نے قرآن کی تلاوت سن کر اپنے ساتھیوں سے کہا کہ یہ اللہ کا کلام ہے اسے نہایت ادب اور توجہ سے سنو! 2۔ اہل مکہ لوگوں کو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے متنفر کرتے تھے ان کے مقابلے میں جنوں نے اپنے ساتھیوں کو قرآن اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف متوجہ کیا۔ 3۔ اہل مکہ قرآن مجیدکو پہلے لوگوں کی کہانیاں قرار دیتے تھے، جنوں نے قرآن مجید کو اللہ کی کتاب سمجھا اور پہلی کتابوں کی تصدیق کرنے والا تسلیم کیا۔ 4۔ اہل مکہ قرآن مجید کی دعوت کو گمراہی سمجھتے تھے۔ جنوں نے قرآن مجید کو حق اور صراط مستقیم کی راہنمائی کرنے والا قرار دیا۔ 5۔ اہل مکہ اور طائف والوں نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ بدسلوکی کی اور آپ کی دعوت کو ٹھکرایا۔ جنوں کے وفد نے واپس جا کراپنے ساتھیوں کے سامنے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو داعی الیٰ اللہ کے طور پر پیش کیا اور آپ پر ایمان لانے کی دعوت دی۔ 6۔ اہل مکہ قرآن اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لانے کی بجائے آپ سے عذاب لانے کا مطالبہ کرتے تھے۔ جنوں نے اپنے ساتھیوں کو ایمان لانے کی دعوت دی اور انہیں یقین دلایا کہ ایمان لانے سے ہمارے گناہ معاف ہوجائیں گے اور ہم اللہ کے عذاب سے محفوظ رہیں گے۔ ان آیات سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صرف انسانوں کے لیے نہیں بلکہ جنوں کے لیے بھی نبی مبعوث کیے گئے ہیں۔ اس لیے آپ پر جن ایمان لائے جو پہلے موسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لا چکے تھے۔ جنوں نے موسیٰ اور ان پر نازل ہونے والی تورات کا اس لیے حوالہ دیاتھاکیونکہ تورات کے بعد قرآن مجید ہی جامع اور مفصل کتاب ہے۔ جہاں تک انجیل کا معاملہ ہے اس کے بارے میں انجیل میں موجود ہے کہ عیسیٰ ( علیہ السلام) نے فرمایا کہ میں تورات کی تکمیل کرنے کے لیے آیا ہوں۔ (تدبر قرآن جلد ٧، ص : ٣٧٨) یہ بھی ممکن ہے کہ جنوں کو عیسیٰ ( علیہ السلام) کی دعوت کا علم نہ ہو اس لیے انہوں نے انجیل کی بجائے تورات کا حوالہ دیا۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ آپ کے پاس حاضر ہونے والے جن عیسیٰ (علیہ السلام) کو نہ مانتے ہوں۔ جہاں تک جن اور ہماری شریعت کا معاملہ ہے۔ اس کے بنیادی ارکان جن وانس کے لیے ایک ہیں مگر ان کے عملی تقاضوں میں فرق ہوسکتا ہے کیونکہ جنوں اور انسانوں کی ضروریات کے درمیان بڑا فرق ہے۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تائید اور حوصلہ افزائی کے لیے جنوں کو آپکی طرف متوجہ فرمایا۔ ٢۔ جنوں نے قرآن مجید کو نہایت ادب اور خاموشی کے ساتھ سنا اور اس پر ایمان لائے۔ ٣۔ جن ایمان لا کر اپنی قوم کے لیے داعی ثابت ہوئے۔ ٤۔ تورات کے بعد قرآن مجید ہی جامع اور مفصل کتاب ہے۔ ٥۔ قرآن مجید لوگوں کی حق اور صراط مستقیم کی طرف راہنمائی کرتا ہے۔ ٦۔ جو لوگ قرآن مجید پر ایمان لاتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کے گناہ معاف کرتا ہے اور انہیں عذاب سے بچالیتا ہے۔ ٧۔ جو لوگ جنوں کے وجود کا انکار کرتے ہیں انہیں اس واقعہ پر غور کرنا چاہیے اور درج ذیل تفسیر بالقرآن کے دلائل پر توجہ کرنی چاہیے تفسیر بالقرآن قرآن مجید میں جنوں کا تذکرہ : ١۔ جن اور انسان اللہ کی عبادت کے لیے پیدا کئے گئے ہیں۔ (الذاریات : ٥٦) ٢۔ جن غیب نہیں جانتے۔ (سبا : ١٤) ٣۔ جن اور انسان مل کر اس جیسا قرآن بنا لائیں۔ (بنی اسرائیل : ٨٨) ٤۔ جن و انس مل کر قیامت تک ایک سورۃ بھی اس جیسی نہیں بناسکتے۔ (البقرۃ : ٢٣) ٥۔ اے انسانوں اور جنوں اگر تم خدا کی خدائی سے نکل سکتے ہو نکل جاؤ۔ ( الرّحمن : ٣٣) ٦۔ اللہ تعالیٰ نے جنوں کو سلیمان (علیہ السلام) کے تابع کردیا۔ ( سبا : ١٢) ٧۔ جنوں نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے قرآن سن کر تعجب کا اظہار کیا۔ (الجن : ١) ٨۔ پہلے دور میں انسان جنوں سے پناہ لیا کرتے تھے۔ (الجن : گ ٦) ٩۔ جنوں کو یقین نہیں تھا کہ جن وانس میں سے کوئی اللہ کے ساتھ شرک کرسکتا ہے۔ (الجن : ٥) الأحقاف
30 الأحقاف
31 الأحقاف
32 فہم القرآن ربط کلام : گزشتہ سے پیوستہ۔ جنوں کے وفد کا اپنے ساتھیوں سے خطاب۔ جنوں کے وفد نے قرآن اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لانے کے فوائد کا ذکر کرتے ہوئے اپنے ساتھیوں کو یہ بھی بتلایا کہ جس نے داعی الیٰ اللہ کی دعوت قبول نہ کی وہ اللہ تعالیٰ کو زمین میں عاجز اور بے بس نہیں کرسکتا۔ اگر اللہ تعالیٰ اس کی گرفت کرنے پر آئے تو اس کی کوئی حمایت کرنے والا نہیں ہوگا۔ جنہوں نے داعی الیٰ اللہ کی دعوت قبول نہ کی وہ کھلی گمراہی میں مبتلا رہیں گے۔ جنوں کے وفدنے اپنے ساتھیوں کو دعوت دیتے ہوئے یہ بات بھی باور کروائی کہ بے شک اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے مقابلے میں ہمیں زیادہ قوت عطا فرمائی ہے۔ لیکن ہمیں یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ سب سے زیادہ قوت والا ہے۔ اگر وہ ہمیں پکڑنا چاہے تو اسے کوئی بے بس اور عاجز نہیں کرسکتا اور نہ ہی ہمارا کوئی حمایتی اور مددگار ہوگا۔ اس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ اگر تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان نہیں لاؤ گے تو اللہ تعالیٰ کی بادشاہی میں کمی اور نقص واقع نہیں ہوگا۔ جنوں نے اپنے ساتھیوں کو بین السطور یہ بات بھی سمجھادی کہ ہمارے ایمان لانے سے ہمیں ہی فائدہ ہوگا اور انکار کرنے پر ہمیں عذاب دیا جائے گا۔ لہٰذا ہمیں قرآن مجید پر ایمان لانا چاہیے یہی بات موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو سمجھائی تھی۔ (وَ قَالَ مُوْسٰٓی اِنْ تَکْفُرُوْٓا اَنْتُمْ وَ مَنْ فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا فَاِنَّ اللّٰہَ لَغَنِیٌّ حَمِیْدٌ) (ابراہیم : ٨) ” تم اور جو کوئی زمین میں ہے وہ اپنے کفر کا اعلان کردے تو اللہ تعالیٰ کو اس کی کوئی پرواہ نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ ہر اعتبار سے غنی اور لائقِ تعریف ہے۔“ (عَنْ أَبِی ذَرٍّ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فِیمَا رَوَی عَنِ اللَّہِ تَبَارَکَ وَتَعَالَی أَنَّہُ قَالَ یَا عِبَادِی إِنَّکُمْ لَنْ تَبْلُغُوا ضَرِّی فَتَضُرُّونِی وَلَنْ تَبْلُغُوا نَفْعِی فَتَنْفَعُونِی یَا عِبَادِی لَوْ أَنَّ أَوَّلَکُمْ وَآخِرَکُمْ وَإِنْسَکُمْ وَجِنَّکُمْ کَانُوا عَلَی أَتْقَی قَلْبِ رَجُلٍ وَاحِدٍ مِنْکُمْ مَا زَادَ ذَلِکَ فِی مُلْکِی شَیْءًا یَا عِبَادِی لَوْ أَنَّ أَوَّلَکُمْ وَآخِرَکُمْ وَإِنْسَکُمْ وَجِنَّکُمْ کَانُوا عَلَی أَفْجَرِ قَلْبِ رَجُلٍ وَاحِدٍ مَا نَقَصَ ذَلِکَ مِنْ مُلْکِی شَیْءًا یَا عِبَادِی لَوْ أَنَّ أَوَّلَکُمْ وَآخِرَکُمْ وَإِنْسَکُمْ وَجِنَّکُمْ قَامُوا فِی صَعِیدٍ وَاحِدٍ فَسَأَلُونِی فَأَعْطَیْتُ کُلَّ إِنْسَانٍ مَسْأَلَتَہُ مَا نَقَصَ ذَلِکَ مِمَّا عِنْدِی إِلاَّ کَمَا یَنْقُصُ الْمِخْیَطُ إِذَا أُدْخِلَ الْبَحْرَ) (رواہ مسلم : کتاب البر والصلۃ و الآداب، باب تحریم الظلم) ” حضرت ابوذر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اللہ تبارک وتعالیٰ فرماتا ہے میرے بندو! تم مجھے نقصان اور نفع پہنچانے کی طاقت نہیں رکھتے۔ میرے بندو! تمہارے تمام اگلے پچھلے جن وانس سب سے زیادہ متّقی انسان کے دل کی طرح ہوجائیں تو یہ میری سلطنت میں ذرّہ بھر اضافہ نہیں کرسکتے۔ میرے بندو! تمہارے اگلے پچھلے جن وانس سب بدترین فاسق وفاجر انسان کے دل کی طرح ہوجائیں تو یہ میری حکومت میں کچھ نقص واقع نہیں کرسکتا۔ میرے بندو! تمہارے اگلے پچھلے‘ جن وانس اگر سب کھلے میدان میں اکٹھے ہوجائیں اور مجھ سے مانگنے لگیں اور میں ہر کسی کو اس کی منہ مانگی مرادیں دے دوں تو میرے خزانوں میں اتنی کمی بھی واقع نہیں کرسکتے جتنی سوئی کو سمندر میں ڈبونے سے ہوتی ہے۔“ مسائل ١۔ جس نے اللہ اور اس کے رسول کی بات قبول نہ کی وہ اللہ تعالیٰ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں کسی کی کوئی مدد نہیں کرسکتا۔ ٣۔ جو لوگ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان نہیں لاتے وہ کھلی گمراہی میں مبتلاہوتے ہیں۔ تفسیربالقرآن کھلی گمراہی میں مبتلا ہونے والے لوگ : ١۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت سے پہلے لوگ کھلی گمراہی میں مبتلا تھے۔ (آل عمران : ١٦٤، الجمعۃ : ٢) ٢۔ جو شخص اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے گا وہ واضح گمراہی میں مبتلا ہوگا۔ (الاحزاب : ٣٦) ٣۔ وہ شخص بہت بڑا ظالم ہے جو اللہ پر جھوٹ باندھتا ہے۔ (الانعام : ٢١) ٤۔ کفار ” اللہ“ کے راستہ سے روکنے والے اور دور کی گمراہی میں ہیں۔ (النساء : ١٦٧) ٥۔ جس نے اللہ، رسول، ملائکہ، کتابوں اور دن آخرت کا انکار کیا وہ پرلے درجے کی گمراہی میں مبتلا ہوا۔ (النساء : ١٣٦) ٦۔ ” اللہ“ کے سوا غیروں کو پکارنے والے گمراہ ہیں۔ (الاحقاف : ٥) الأحقاف
33 فہم القران ربط کلام : جو لوگ اپنے رب کی دعوت قبول نہیں کرتے ان کو چیلنج اور ان کا انجام۔ جو لوگ ” اللہ“ کی ذات پر اس کے حکم کے مطابق ایمان نہیں لاتے کیا وہ غور نہیں کرتے کہ ” اللہ“ وہ ذات ہے جس نے زمین و آسمانوں کو پیدا کیا ہے اور ان کے پیدا کرنے میں اسے کوئی تھکان محسوس نہ ہوئی۔ وہ اس بات پر قادر ہے کہ مردوں کو دوبارہ زندہ کرے۔ کیوں نہیں ! بلاشبہ وہ کائنات کے ذرہ ذرہ پر مکمل اقتدار اور اختیار رکھنے والا ہے۔ اس حقیقت کے باوجود جو لوگ اللہ کی ذات، صفات، اس کے احکام اور اس بات پر یقین نہیں رکھتے کہ وہ مردوں کو دوبارہ زندہ کرے گا انہیں جان لینا چاہیے کہ ایک دن آنے والا ہے جس دن انکار کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ جہنم کی آگ کے سامنے کھڑا کرے گا اور ان سے پوچھے گا کہ کیا تمہارا دوبارہ زندہ ہونا اور یہ جہنم حقیقت نہیں ہے؟ مجرم پکار اٹھیں گے کیونکہ نہیں ! ہمارے رب ہم دوبارہ زندہ ہوئے اور جہنم بھی ہمارے سامنے موجود ہے۔ اس اقرار کے بعد اپنے رب سے بڑی عاجزی اور آہ وزاری کے ساتھ معذرت کریں گے کہ ہمیں معاف کردیا جائے لیکن حکم ہوگا کہ اب تم جہنم کے عذاب میں مبتلا رہو گے کیونکہ تم اپنے رب پر ایمان لانے، دوبارہ زندہ ہونے اور اس جہنم کا انکار کیا کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں زمین و آسمانوں کی پیدائش، مردوں کو دوبارہ زندرہ کرنے اور جہنم کا بار بار ذکر کیا ہے اس لیے یہاں ان تینوں باتوں کا مختصر ذکر کرنے کے بعد ان کا انکار کرنے والوں کا انجام بیان کیا ہے۔ جہاں تک اللہ تعالیٰ کے زمین و آسمان پیدا کرنے کے بعد تھکان نہ ہونے کا مسئلہ ہے اس بارے میں یہودیوں اور ان سے متاثرین کا عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمانوں اور ہر چیز پیدا کرنے کے بعد تھکان محسوس کی اس لیے ہفتہ کے دن آرام فرمایا جس وجہ سے ہم بھی ہفتہ کے دن کام کاج سے چھٹی کرتے ہیں۔ یہاں اللہ تعالیٰ نے اس بات کی واضح نفی فرمائی ہے کہ زمین و آسمانوں کو پیدا کرنے کے بعد اسے کوئی تھکان نہیں ہوئی تھی اس نے زمین و آسمانوں اور اپنی مخلوق کو پیدا ہی نہیں کیا بلکہ ہر وقت اپنی مخلوق کی نگرانی اور حفاظت فرما رہا ہے۔ کیونکہ وہ ہر چیز پر مکمل اقتدار اور اختیار رکھتا ہے۔ (وَ لَا یَؤُدُہٗ حِفْظُہُمَا وَ ہُوَ الْعَلِیُّ الْعَظِیْمُ) (البقرۃ: ٢٥٥) ” اور وہ ان کی حفاظت سے نہ تھکتا ہے اور نہ اکتاتا ہے وہ تو بہت بلند وبالا اور بڑی عظمت والا ہے۔“ زمین و آسمانوں کی تخلیق کا ذکر فرما کر اللہ تعالیٰ نے قیامت کا انکار کرنے والوں کو یہ بات سمجھائی ہے کہ زمین و آسمانوں کو تخلیق کرنا مشکل کام ہے یا انسان کو دوبارہ پیدا کرنا مشکل ہے؟ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمانوں کو پیدا فرمایا اور ان کے پیدا کرنے میں اسے کوئی کمزوری اور تھکاوٹ لاحق نہیں ہوئی۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ موت اور زندگی پر مکمل اختیار رکھتا ہے کیونکہ وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ ٣۔ قیامت کے دن جب کفار جہنم کی آگ کے سامنے لائے جائیں گے تو وہ اس کا اقرار کریں گے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ کفر کرنے والوں کو حکم دئے گا کہ جہنم کا عذاب پاؤ کیونکہ تم اس کا انکار کیا کرتے تھے۔ تفسیر بالقرآن کفار کا قیامت کے دن حقائق کو تسلیم کرنا : ١۔ جہنمی سے 3 کے سوالات اور جہنمی کا اپنے گناہوں کا اقرار کرنا۔ (المدثر : ٤٠ تا ٤٨) ٢۔ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ جہنمی سے فرمائے گا کیا آج کا عذاب برحق نہیں وہ کہیں گے کیوں نہیں۔ (الاحقاف : ٣٤) ٣۔ اے ہمارے پروردگار ہماری بدبختی نے ہمیں گھیر لیا تھا اور ہم کافر ہوئے۔ (المومنون : ١٠٦) ٤۔ ہم اپنے گناہوں کا اعتراف کرتے ہیں کیا یہاں سے نکلنے کا راستہ ہے۔ (المومن : ١١) الأحقاف
34 الأحقاف
35 فہم القرآن ربط کلام : کفار نے بالآخر اپنے کفر کی وجہ سے جہنم میں جانا ہے اور وہاں انہیں ٹھیک ٹھیک سزا دی جائے گی اس لیے اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنا کام اولوالعزم رسولوں کی طرح مستقل مزاجی کے ساتھ جاری رکھنا چاہیے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صبح وشام کوشش تھی کہ لوگ جہنم کی ہولناکیوں سے بچ جائیں لیکن مخالفینِاسلام کی حالت یہ تھی کہ وہ گمراہی میں آگے ہی بڑھتے جا رہے تھے اس صورتحال پر آپ کا رنجیدہ خاطر ہونا فطری امر تھا جس بناء پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پریشان ہوجاتے۔ اس پر آپ کو موقعہ بموقعہ مختلف الفاظ اور انداز میں یہ بات سمجھائی گئی کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ کا کام حق بات پہچانا اور سمجھانا ہے منوانا نہیں۔ (لَّسْتَ عَلَیْہِمْ بِمُسَیْطِرٍ) (الغاشیہ : ٢٢) ” آپ ان پر نگہبان نہیں۔“ (فَاِنَّمَا عَلَیْکَ الْبَلٰغُ وَعَلَیْنَا الْحِسَابُ) (الرعد : ٤٠) ” آپ کے ذمے پہنچادینا ہے اور ہمارے ذمے حساب لینا ہے۔“ جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کام حق بات پہنچانا ہے تو پھر آپ کو اولو العزم انبیاء کی طرح اپنا کام جاری رکھنا چاہیے اگر یہ لوگ آپ سے عذاب لانے کا مطالبہ کرتے ہیں تو آپ کو اس کے رد عمل میں عجلت سے پرہیز کرنا چاہیے۔ کیونکہ یہی صبر اور عزم کا تقاضا ہے۔ جہاں تک ان کے انجام کا معاملہ ہے ایک دن آئے گا جب یہ سب کچھ دیکھ لیں گے جس کا ان کے ساتھ وعدہ کیا جاتا ہے۔ اس کے خوف اور وحشت کی وجہ سے ان کے اوسان خطا ہوجائیں گے جس بناء پر یہ کہیں گے کہ دنیا میں دن کا کچھ حصہ ٹھہرے تھے۔ اس وقت ہلاکت ان کا مقدر ہوگی اور نافرمان لوگ ہلاک ہی ہوا کرتے ہیں۔ قرآن مجید نے نافرمانوں کے بارے میں یہ بھی بتلایا ہے کہ جب انہیں جہنم کے سامنے کھڑا کیا جائے گا تو ان کی حالت یہ ہوگی کہ خوف کے مارے ان کی آنکھیں نیلی پیلی ہوجائیں گی اور ڈرتے ہوئے ایک دوسرے سے کہیں گے کہ ہم تو دنیا میں صرف دس دن ٹھہرے تھے۔ ( یَّوْمَ یُنْفَخُ فِی الصُّوْرِ وَ نَحْشُرُ الْمُجْرِمِیْنَ یَوْمَءِذٍ زُرْقًا۔ یَّتَخَافَتُوْنَ بَیْنَہُمْ اِنْ لَّبِثْتُمْ اِلَّا عَشْرًا) (طٰہٰ: ١٠٢، ١٠٣) ” اس دن صور پھونکا جائے گا اور ہم مجرموں کو اس حال میں گھیر لائیں گے کہ ان کی آنکھیں پتھرائی ہوئی ہوں گی۔ آپس میں چپکے چپکے کہیں گے کہ دنیا میں تم نے کوئی دس دن گزارے ہوں گے۔“ (وَ یَوْمَ یَحْشُرُہُمْ کَاَنْ لَّمْ یَلْبَثُوْٓا اِلَّاَ اعَۃً مِّنَ النَّہَارِ یَتَعَارَفُوْنَ بَیْنَہُمْ قَدْ خَسِرَ الَّذِیْنَ کَذَّبُوْا بِلِقَآء اللّٰہِ وَ مَا کَانُوْا مُہْتَدِیْنَ) (یونس : ٤٥) ” اور جس دن وہ انھیں اکٹھا کرے گا گویا وہ نہیں ٹھہرے مگر دن کی ایک گھڑی، وہ ایک دوسرے کو پہچان لیں گے۔ بے شک وہ لوگ خسارے میں رہے جنھوں نے اللہ کی ملاقات کو جھٹلایا اور ہدایت پانے والے نہ ہوئے۔“ اس آیت مبارکہ میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ” اولوالعزم رسولوں“ کا حوالہ دیا گیا ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ تمام کے تمام رسول صبر وشکر کے پیکر، عزم واستقلال کے پہاڑ اور بے مثال مستقل مزاج تھے۔ لیکن ان میں بھی ایسے رسول ہیں جو عزم واستقلال کے حوالے سے انتہائی ارفع مقام پر فائز تھے۔ مفسرین نے جن انبیاء کرام کو سرفہرست شمار کیا ہے ان میں حضرت نوح (علیہ السلام) جنہوں نے ساڑھے نو سو سال لوگوں کو سمجھانے میں صرف فرمائے۔ ان کے بعد ابو الانبیاء حضرت ابراہیم خلیل اللہ (علیہ السلام) ہیں جن کی قربانیوں کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔ حضرت خلیل (علیہ السلام) کے بعد حضرت موسیٰ کلیم اللہ (علیہ السلام) ہیں جو ایک طرف فرعون اور اس کے لشکروں سے لڑتے رہے اور دوسری طرف اپنے ساتھیوں یعنی بنی اسرائیل کے ہاتھوں پریشان رہے لیکن کسی لمحہ ان کے پایہ استقلال میں تزلزل واقع نہ ہوا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد عیسیٰ ( علیہ السلام) کی باری آتی ہے جو یہودیوں کے ہاتھوں بے انتہا پریشان ہوئے اور آخری اور نازک ترین آزمائش کے وقت چند ساتھیوں کے علاوہ باقی لوگ ان کا ساتھ چھوڑ گئے اس صورتحال میں بھی حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) لوگوں تک اپنے رب کا پیغام پہنچاتے رہے۔ جہاں تک نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صبرو استقلال اور عزم وہمت کا معاملہ ہے۔ اس کی مثال نہ پہلے پائی جاتی ہے اور نہ ہی قیامت تک دیکھی جائے گی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان ہے : (عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ (رض) قَالَ قَالَ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لَقَدْ أُوذِیتُ فِی اللّٰہِ وَمَا یُؤْذَی أَحَدٌ وَلَقَدْ أُخِفْتُ فِی اللّٰہِ وَمَا یُخَافُ أَحَدٌ۔۔) (رواہ ابن ماجہ : باب فضائل بلال، قال الشیخ البانی صحیح) حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اللہ کے راستے میں مجھے سب سے زیادہ تکلیفیں دی گئیں اتنی تکلیفیں کسی اور کو نہیں دی گئیں۔ مجھے اللہ کے بارے میں سب سے زیادہ ڈرایا گا اتنا کسی اور کو نہیں ڈرایا گیا۔“ مسائل ١۔ دین کی دعوت اس قدر مشکل ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھی صبر اور حوصلہ رکھنے کی تلقین کی گئی ہے۔ ٢۔ انبیاء کرام (علیہ السلام) تمام کے تمام عزم وہمت کے پیکر تھے لیکن کچھ انبیاء کرام کو اللہ تعالیٰ نے بطور خاص عزم وہمت کا نمونہ بنایا تھا۔ ٣۔ کفار کے بارے میں عجلت سے کام نہیں لینا چاہیے ایک دن آئے گا کہ یہ اللہ کے عذاب کو اپنے سامنے پائیں گے۔ ٤۔ رب ذوالجلال کے جلال اور جہنم کے عذاب کو دیکھ کر مجرم دنیا میں رہنے کی مدت بھول جائیں گے۔ ٥۔ نافرمان قوم کا انجام ہلاکت ہی ہوا کرتا ہے۔ تفسیر بالقرآن نافرمان اقوام کا دنیا اور آخرت میں انجام : ١۔ قوم نوح کو غرق کردیا گیا۔ (نوح : ٢٥) ٢۔ آل فرعون کو غرق کردیا گیا۔ (البقرۃ : ٥٠) ٢۔ قوم ثمود کو چیخ نے آپکڑا۔ وہ اپنے گھروں میں اوندھے پڑے رہ گئے۔ (ھود : ٦٧) ٣۔ قوم عاد کو تیز و تند ہوا نے ہلاک کیا۔ (الحاقہ : ٦) ٤۔ بنی اسرائیل کو اللہ نے ذلیل بندر بنا دیا۔ (البقرۃ : ٦٥) ٥۔ قوم لوط کی بستی کو الٹاکر دیا اور ان پرکھنگر والے پتھر برسائے گئے۔ (الحجر : ٧٤) ٦۔ ان کے گناہ کی پاداش میں پکڑ لیا کسی پر تند ہوا بھیجی، کسی کو ہولناک آواز نے آلیا، کسی کو ہم نے زمین میں دھنسا دیا اور کچھ کو غرق کردیا۔ (العنکبوت : ٤٠) الأحقاف
0 سورۃ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا تعارف اس سورت کا نام نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اسم مبارک پر رکھا گیا ہے جو اس کی دوسری آیت میں موجود ہے۔ اسکے چار رکوع اور اڑتیس (٣٨) آیات ہیں، اور یہ مدنی سورت ہے۔ اس سورت میں پہلے کفارکے عقیدہ اور کردار کا مسلمانوں کے افکار اور کردار کے ساتھ تقابل کیا گیا ہے اس کے بعد منافقوں کا مسلمانوں کے ساتھ موازنہ کیا ہے۔ کفار کے بارے میں ارشاد ہے کہ یہ لوگ نہ صرف اپنے کفرپہ اڑے ہوئے ہیں بلکہ اپنے عقائد اور اعمال کے ذریعے لوگوں کو اللہ کے راستے سے روکتے ہیں اس وجہ سے انکے تمام اعمال ضائع کر دئیے جائیں گے کیونکہ یہ حق کی بجائے باطل کی پیروی کرتے ہیں۔ ان کے ساتھ تمہاری جنگ ہو تو ان کی اچھی طرح پٹائی کرو اور ان کی گردنیں اڑادو۔ ان میں جو باقی بچیں ان کو قیدی بنا لو پھر تمہیں اختیار ہے کہ انہیں فدیہ لے کر چھوڑ دو یا بغیر فدیے کے رہا کردیا جائے۔ کفار کے مقابلے میں مسلمانوں کا کردار بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ جو لوگ اللہ پر حقیقی ایمان لائیں، صالح اعمال اختیار کرتے رہیں اور جو کچھ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل ہوا اس پر یقین رکھیں کہ یہ سب کچھ ہمارے رب کی طرف سے نازل ہوا ہے ان کے صالح عقیدہ اور عمل کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نہ صرف ان کے گناہوں کو معاف کرے گا بلکہ ان کے حالات بھی درست کر دے گا۔ لہٰذا مسلمانوں کا فرض ہے کہ وہ اللہ کے دین کی مدد کریں اللہ تعالیٰ انکی مدد فرماے گا۔ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کی مدد کرتا ہے اور کفار کی مدد نہیں کرتا۔ وجہ یہ ہے کہ وہ مسلمانوں کا خیر خواہ ہے اور کفار کی خیر خواہی نہیں کرتا۔ کفار تو اس طرح زندگی گزار رہے ہیں جس طرح چوپائے زندگی گزارتے ہیں ان لوگوں کا ٹھکانہ جہنم ہوگا اس سورت کے آخر میں بنی (علیہ السلام) کو یہ حکم ہوا ہے کہ آپ کو لا الہ الا اللہ کا عقیدہ اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے اور اس پر قائم رہنا چاہیے۔ آپ اپنے لیے اور مومن مردوں اور عورتوں کے لیے استغفار کرتے رہیں۔ اللہ تعالیٰ تمہارے اٹھنے بیٹھنے اور چلنے پھرنے کو جانتا ہے اس کے بعد منافقوں کا مسلمانوں کے ساتھ موازنہ کیا گیا ہے منافقین کی حالت یہ ہے کہ قتال فی سبیل اللہ کی آیت نازل ہوتی ہے تو یہ مرنے کے خوف سے ایک دوسرے کی طرف یوں دیکھتے ہیں جیسے ان پر موت کی غشی طاری ہو ان کی سوچ اور کردار یہ ہے کہ اگر انہیں اختیار مل جائے تو یہ رشتہ داریوں کو توڑ ڈالیں گے اور زمین میں فساد کریں گے حقیت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر لعنت کی ہے جس وجہ سے یہ اندھے اور بہرے ہوچکے ہیں جب انہیں موت آئے گی تو فرشتے ان کے چہرے اور پیٹوں پر ماریں گے۔ اس کے بعد مسلمانوں کو حکم دیا ہے کہ وہ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے رہیں اور اپنے اعمال کو باطل ہونے سے بچائیں آخر میں فرمایا کہ حالت جنگ میں کفار کے مقابلے میں کمزوری دکھانے کی بجائے ان کے خلاف ڈٹ جانا چاہیے اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ تم ہی سر بلند رہو گے اگر تم ایسا نہیں کرو گے تو اللہ تعالیٰ تمھاری جگہ کوئی اور قوم لے آئے گا جو تمھارے جیسے نہیں ہوں گے۔ محمد
1 فہم القرآن ربط سورت : الاحقاف کے آخر میں ارشاد ہوا کہ اے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! پہلے رسولوں کی طرح صبر کریں، وقت آنے والا ہے کہ یہ لوگ اپنے رب کے حضور پیش ہوں گے تو اس قدر بد حواس ہوں گے کہ یہ کہیں گے کہ ہم دنیا میں چند گھڑیوں سے زیادہ نہیں ٹھہرے تھے سورۃ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ یہ دنیا میں بھی ہلاکت کے گھڑے میں گرنے والے ہیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں مسلمانوں کے ہاتھوں ذلیل کرے گا اور ان کی مدد کرنے والا کوئی نہیں ہوگا۔ اس سورت میں کفار، منافقین اور مسلمانوں کے اعمال اور ان کے ا نجام کاموازنہ پیش کیا گیا ہے۔ ہوا یہ کہ اعلان نبوت کے بعد کفار اور مشرکین نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات کو انتہائی اختلاف کا باعث سمجھتے تھے۔ اس کشمکش میں یہ سورت نازل ہوئی، اس کا نام آپ کے اسم مبارک پر رکھا گیا تاکہ کفار اور منافقین کو معلوم ہو کہ جس ذات اقدس کو وہ باعث اختلاف سمجھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس ہستی اور اس کے ساتھیوں کو دنیا اور آخرت میں کیا مقام بخشا ہے۔ سورت کی ابتدا کفار کے رویے سے کی گئی ہے۔ کفار نے نہ صرف خود نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات اور دعوت کا انکار کیا بلکہ انہوں نے لوگوں کو اللہ کے راستے سے روکنے کے لیے ایڑھی چوٹی کا زور لگادیا تھا۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو اس لیے مبعوث فرمایا کہ دنیا کے باطل ادیان اور غلط نظریات پر اللہ کا دین غالب رہے اس لیے اس نے کفار کی کوششوں اور سازشوں کو ناکام کردیا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مخالف نہ صرف دنیا میں ناکام ہوئے بلکہ آخرت میں بھی ذلیل ہوں گے۔ انہوں نے جو رفاہ عامہ اور اپنے دل کی تسکین کے لیے اچھے کام کیے ان کے کفر کی وجہ سے اللہ تعالیٰ انہیں بھی ضائع کر دے گا۔ یعنی ان کے کسی اچھے کام کا بھی انہیں اجر نہیں دیا جائے گا۔ کیونکہ جس ذات کبریا نے انہیں اجر عطا کرنا ہے یہ اس کی ذات اور صفات کا انکار کرتے ہیں۔ اس وجہ سے یہ اچھے اعمال کے اجر سے محر وم رہیں گے۔ ان کے مقابلے میں جو لوگ پہلی کتابوں پر ایمان لائے اور صالح اعمال کرتے رہے اور اس حق پر بھی ایمان لائے جو حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر آپ کے رب کی طرف سے نازل کیا گیا اور نیک عمل کرتے رہے اللہ تعالیٰ ان کے ایمان اور صالح اعمال کی وجہ سے ان کی بشری کمزوریوں کو دور کرے گا اور ان کے ا عمال کی اصلاح فرمائے گا۔ بشری کمزوریوں کو دور کرنا اور ان کی اصلاح فرمانے سے مراد دنیا میں ان کے اعمال کی درستگی اور ان کی کمزوریوں کی تلافی کرنا ہے۔ اسی بنا پر نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھی دنیا میں مثالی مسلمان بنے اور زندگی کے ہر محاذ پر کامیاب رہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی خطاؤں کو معاف کردیا ہے اور انہیں قیامت کے دن جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے گا۔ اس آیت میں ” اٰمَنُوْا“ کا لفظ دو دفعہ استعمال ہوا ہے۔ دوسری دفعہ ” اٰمَنُوْا“ استعمال کرنے کا مقصد یہ ہے کہ صرف قرآن مجید پر ایمان نہیں لانا بلکہ حدیث کی صورت میں جو کچھ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل ہوا ہے۔ اس پر بھی ایمان لانا ہے اس لیے ایمان لانے والے کا یہ بھی یقین ہونا چاہیے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قرآن مجید کے علاوہ جو کچھ فرمایا ہے وہ بھی آپ کے رب کی طرف سے آپ پر نازل ہوا ہے۔ اکثر اہل تفسیر نے اس کا مفہوم یہ لیا ہے کہ دوسری دفعہ ” اٰمَنُوْا“ کا لفظ اس لیے استعمال کیا ہے کہ یہود و نصاریٰ سمجھتے تھے کہ ہم اللہ اور انبیاء کرام (علیہ السلام) پر ایمان رکھتے ہیں اس لیے ہم صاحب ایمان ہیں۔ ان کے دعویٰ کی تردید کے لیے یہ وضاحت کردی گئی کہ جو شخص حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان نہیں لائے گا اس کا ایمان قابل قبول نہیں ہوگا۔ حضرت ابو موسیٰ اشعری (رض) روایت کرتے ہیں رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تین آدمیوں کے لیے دو گنا اجر ہوگا۔ (١) اہل کتاب میں وہ شخص جو پہلے اپنے نبی پر ایمان رکھتا تھا اب مجھ پر ایمان لے آیا۔ (٢) وہ غلام جو اللہ تعالیٰ کے حقوق ادا کرنے کے ساتھ اپنے مالک کے حقوق ادا کرتا ہے۔ (٣) جس شخص کے پاس لونڈی ہو اور وہ اس سے صحبت کرتا ہو۔ تو اس نے اس کی تعلیم وتربیت کا بہترین خیال رکھا اس کے بعد اسے آزاد کر کے اسے اپنے نکاح میں لے لیا۔ اس کے لیے بھی دو گنا ثواب ہے۔ (رواہ البخاری : باب تعلیم الرجل أمتہ وأہلہ) (عَنْ عَاءِشَۃ قَالَتْ قُلْتُ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ابْنُ جُدْعَانَ کَانَ فِی الْجَاہِلِیَّۃِ یَصِلُ الرَّحِمَ وَیُطْعِمُ الْمِسْکِیْنَ فَہَلْ ذَاکَ نَافِعُہٗ قَالَ لَا یَنْفَعُہٗ إِنَّہُ لَمْ یَقُلْ یَوْمًا رَبِ اغْفِرْلِیْ خَطِیْءَتِیْ یَوْمَ الدِّیْنِ) (رواہ مسلم : باب الدلیل علی من مات علی الکفر لاینفعہ عمل) ” حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں میں نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا کہ ابن جدعان جاہلیت میں صلہ رحمی اور مساکین کو کھانا کھلایا کرتا تھا کیا اسے یہ کام نفع دیں گے؟ آپ نے فرمایا نہیں کیونکہ اس نے ایک دن بھی یہ نہیں کہا کہ اے میرے رب ! قیامت کے دن میری خطاؤں کو معاف فرمادینا۔ (یعنی اس کا اللہ اور آخرت پر ایمان نہیں تھا۔“ ) (عَنْ اَبِیْ ہُرَےْرَۃ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وَالَّذِیْ نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِےَدِہٖ لَا ےَسْمَعُ بِیْ اَحَدٌمِّنْ ھٰذِہِ الْاُمَّۃِ ےَھُوْدِیٌّ وَلَا نَصْرَانِیٌّ ثُمَّ ےَمُوْتُ وَلَمْ ےُؤْمِنْ بالَّذِیْ اُرْسِلْتُ بِہٖ اِلَّا کَانَ مِنْ اَصْحٰبِ النَّارِ) (رواہ المسلم : باب وُجُوبِ الإِیمَانِ بِرِسَالَۃِ نَبِیِّنَا مُحَمَّدٍ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) إِلَی جَمِیع النَّاسِ وَنَسْخِ الْمِلَلِ بِمِلَّتِہِ) ” حضرت ابوہریرہ (رض) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان ذکر کرتے ہیں اس ذات کبریا کی قسم! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اس امت میں جس یہودی یا عیسائی کو میری نبوت کی اطلاع ہوجائے۔ پھر جو کچھ مجھ پر نازل ہوا ہے وہ اس پر ایمان لائے بغیر مر جائے وہ ضرور جہنم میں داخل ہوگا۔“ مسائل ١۔ قیامت کے دن کفر کرنے والوں کے اعمال ضائع کردیئے جائیں گے۔ ٢۔ جو لوگ دوسروں کو اللہ کی راہ سے روکتے ہیں ان کے اعمال برباد کردیے جائیں گے۔ ٣۔ جو لوگ ایمان لائے اور نیک اعمال کرتے رہے اللہ تعالیٰ ان کی غلطیوں کو دور فرمائیں گے اور ان کے احوال کی اصلاح کردیں گے۔ ٤۔ ایمان لانے والوں کے لیے ضروری ہے کہ جو کچھ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل کیا گیا ہے وہ اس پر بھی ایمان لائیں۔ تفسیر بالقرآن کفار کے اعمال ضائع کردیئے جائیں گے اور مومنوں کو ان کے ایمان اور اعمال کی جزا دی جائے گی : ١۔ آخرت کا انکار کرنے والوں کے اعمال ضائع ہوجا تے ہیں۔ (الاعراف : ١٤٧) ٢۔ مشرکین کے اعمال ضائع کردئیے جائیں گے۔ (التوبہ : ١٧) ٣۔ ایمان کے ساتھ کفر اختیار کرنے والوں کے اعمال ضائع کر دئیے جاتے ہیں۔ (المائدۃ: ٥) ٤۔ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت نہ کرنے والوں کے اعمال برباد کردئیے جاتے ہیں۔ (محمد : ٣٣) ٥۔ وہ لوگ جو اللہ کی آیات کا انکار کرتے ہیں ان کے اعمال غارت کر دئیے جائیں گے۔ (آل عمران : ٢١۔ ٢٢) ٦۔ بے شک اللہ محسنین کا اجر ضائع نہیں کرتا۔ (یوسف : ٩٠) ٧۔ صبر کرو ” اللہ“ محسنین کے اجر کو ضائع نہیں کرتا۔ ( ھود : ١١٥) ٨۔ ” اللہ“ کا ارشاد ہے کہ میں کسی عمل کرنے والے کے عمل کو ضائع نہیں کروں گا۔ (آل عمران : ١٩٥) ٩۔ ہم تمھارے گناہ مٹا دیں گے اور عنقریب ہم احسان کرنے والوں کو زیادہ دیں گے۔ (البقرۃ: ٥٨) محمد
2 محمد
3 فہم القران ربط کلام : کفارکے اعمال ضائع کرنے کا سبب اور ایمانداروں کو جزادینے کا باعث۔ کفارکے اعمال اس لیے ضائع کردیئے جائیں گے کہ وہ دین کے مقابلے میں کفر، توحید کے بدلے شرک اور حق کی بجائے باطل کے پیچھے لگا کرتے ہیں۔ ان کے مقابلے میں اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانے والے ہر حال میں اس حق کی پیروی کرتے ہیں جو ان کے رب کی طرف سے نازل ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ لوگوں کے حالات اس لیے بیان کرتا ہے تاکہ لوگ کفر اور اسلام، توحید اور شرک، حق اور باطل، جھوٹے اور سچے کے درمیان فرق کرسکیں۔ باطل کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہے کہ وہ حق کے مقابلے میں نہیں ٹھہر سکتا بشرطیکہ حق والے حق کے تقاضے پورے کرتے ہوئے منظم ہو کر کفار کا مقابلہ کریں۔ اس بات کو اللہ تعالیٰ نے بدر، اُحد، خندق، فتح مکہ اور تبوک کے موقع پرواضح طور پر ثابت کر دکھایا کہ اللہ تعالیٰ نیک اور منظم لوگوں کی کس طرح مدد کرتا ہے۔ مسائل ١۔ اللہ اور اس کے رسول کے منکر باطل کی پیروی کرتے ہیں۔ ٢۔ ایماندار لوگ ہمیشہ اپنے رب کی طرف سے نازل کردہ حق کے پیچھے لگتے ہیں۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ لوگوں کے واقعات اس لیے بیان کرتے ہیں تاکہ لوگ ان سے عبرت حاصل کریں۔ تفسیر بالقرآن حق اور باطل کا امتیاز اور ان کا انجام : ١۔ اللہ تعالیٰ حق و باطل کی مثالیں بیان کرتا ہے۔ (الرعد : ١٧) (بنی اسرائیل : ٨١) (الشوریٰ : ٢٤) (الانفال : ٨) محمد
4 فہم القرآن ربط کلام : کفار باطل کی پیروی کرتے ہیں اس لیے مومنوں کافرض ہے کہ جب ان کے ساتھ مقابلہ ہو تو وہ میدان جنگ جیتنے کی کوشش کریں۔ اس سورت کے نزول سے پہلے سورۃ حج میں مسلمانوں کو کفار کے مقابلے میں قتال کرنے کی اجازت مل چکی تھی اس لیے اس سورت میں مسلمانوں کو جنگ کے لیے تیار رہنے کا حکم دیا گیا۔ ارشاد ہوا کہ اے مسلمانو! جب کفار کے ساتھ تمہاری مڈھ بھیڑ ہو تو پوری ہمت اور طاقت کے ساتھ ان کی گردنیں کاٹو یہاں تک کہ جب ان کے سرغنوں کو قتل کرچکو اور لڑائی ختم ہوجائے تو ان کے قیدیوں کو مضبوطی کے ساتھ باندھ لو۔ اس کے بعد تمہیں اختیار ہے کہ احسان کرتے ہوئے چھوڑ دو یا ان سے فدیہ وصول کرو۔ اللہ تعالیٰ جس کی چاہتا ہے مدد فرماتا ہے اور لوگوں کو ایک دوسرے کے ساتھ آزماتا ہے۔ یادرکھو! جو اس کے راستے میں شہید ہوتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کے اعمال ضائع نہیں کرتا، جو ان میں باقی بچتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کی راہنمائی کرتا ہے اور ان کے معاملات کو درست فرماتا ہے۔ انہیں اس جنت میں داخل فرمائے گا جس کا تعارف اس نے مومنوں کو کروادیا ہے۔ ان آیات میں قتال فی سبیل اللہ کا ایک طریقہ بتلایا ہے کہ جب کفار کے ساتھ مسلمانوں کا آمنا سامنا ہو تو انہیں پوری قوت اور جوش و خروش کے ساتھ کفار پر حملہ آور ہونا چاہیے تاکہ کفار کو سنبھلنے کا موقع نہ مل سکے۔ مجاہدوں کو جنگ کے دوران اس جوش اور ولولے سے لڑنا چاہیے کہ کفار کی گردنیں اڑا دینی چاہئیں اور جو ان کے قیدی ہاتھ لگیں انہیں مضبوطی کے ساتھ باندھ لینا چاہیے۔ قیدیوں کے ساتھ سلوک : فتح کی صورت میں مسلمانوں کو اپنے حالات کے مطابق قیدیوں کے ساتھ چار باتوں میں کوئی ایک بات اختیار کرنے کا حق دیا گیا ہے۔ ١۔ احسان کرتے ہوئے قیدیوں کو چھوڑدیا جائے۔ ٢۔ قیدیوں سے فدیہ قبول کیا جائے۔ ٣۔ آپس میں تبادلہ کرلیا جائے۔ ٤۔ قیدیوں کو قتل کردیا جائے۔ نبی (علیہ السلام) نے حالات کے مطابق اپنے دور میں مختلف موقعوں پر چاروں طریقوں پر عمل کیا ہے۔1۔ غزوہ بدر کے اکثر قیدیوں کو فدیہ لے کر چھوڑ دیا۔ جن میں چند قیدیوں کو صحابہ کو تعلیم دینے کے بدلے میں رہا کردیا گیا۔ 2۔ غزوہ حنین کے موقع پر سینکڑوں قیدیوں کو بلامعاوضہ آزاد فرمادیا۔3۔ فتح مکہ کے موقع پر ” آءِمَّۃُ الْکُفْر“ کے چار آدمیوں کو قتل کیا اور باقی کے لیے آزادی کا اعلان فرمایا۔4۔ بنو ثقیف کے ساتھ قیدیوں کا تبادلہ کیا گیا۔ شہداء کا مقام : ” اللہ“ کا فرمان ہے کہ جو لوگ اس کے راستے میں قتل کیے گئے ” اللہ“ ان کے اعمال کو ضائع نہیں کرے گا۔ اعمال ضائع نہ کرنے سے پہلی مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی شہادت قبول کرتے ہوئے انہیں جنت میں داخل فرمائے گا جس جنت کا اللہ تعالیٰ نے قرآان مجید میں مومنوں کو تعارف کروایا ہے۔ شہیدوں کے اعمال ضائع نہ کرنے کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کے نام اور کام کو مدت مدید تک قائم رکھتا ہے۔ اس لیے مسلمانوں میں یہ نعرہ ایجاد ہوا۔ شہید کی جو موت ہے قوم کی حیات ہے (اَوَّلُ مَایُہْرَاقُ مِنْ دَمِ الشَّہِیْدِ یُغْفَرُ لَہٗ ذَنْبُہٗ کُلُّہٗ اِلَّا الدَّیْنَ.) (صحیح الجامع للالبانی، رقم حدیث : ٢٥٧٨) ” پہلے قطرہ خون سے شہید کے قرض کے سوا سب گناہ معاف کردیے جاتے ہیں۔“ ” حضرت ابو سعید خدری (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اللہ تعالیٰ اہل جنت کو مخاطب کرتے ہوئے استفسار فرمائیں گے اے جنت میں رہنے والو! جنتی کہیں گے ہمارے رب! ہم حاضر ہیں آپ کے حضور پیش ہیں۔ ہر قسم کی خیر آپ کے ہاتھ میں ہے۔ اللہ تعالیٰ پوچھے گا کیا تم خوش ہو؟ وہ عرض کریں گے : اے ہمارے رب! ہم کیوں نہ خوش ہوں ؟ تو نے تو ہمیں ایسی نعمتیں عطاکی ہیں جو آپ نے اپنی مخلوق میں کسی کو عطا نہیں کیں۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا : کیا میں تمہیں اس سے بھی بہتر نعمت عطانہ کروں؟ وہ عرض کریں گے اے ہمارے پروردگار! اس سے بڑھ کر اور نعمت کیا ہوسکتی ہے؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا : میں تم پر ہمیشہ کے لیے خوش ہوں اب کبھی تم پر ناراض نہیں ہوں گا۔“ (رواہ البخاری : کتاب الرقاق، باب صفۃ الجنۃ والنار) مسائل ١۔ میدان کارزار میں مجاہدین کو پوری قوت کے ساتھ کفار کی گردنیں کاٹنی چاہییں۔ ٢۔ جنگ ختم ہو تو قیدیوں کو اچھی طرح گرفتار کرلینا چاہیے۔ ٣۔ مسلمانوں کو قیدیوں کے ساتھ مذکورہ بالا صورتوں میں سے کوئی ایک صورت اختیار کرنے کا حق دیا گیا ہے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ ہی مسلمانوں کی مدد کرنے والا ہے۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو کفار کے ساتھ جنگ میں آزماتا ہے۔ ٦۔ جو لوگ اللہ کی راہ میں شہیدہوتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کے اعمال ضائع نہیں کرتا۔ ٧۔ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کی راہنمائی کرتا ہے اور ان کے معاملات درست فرماتا ہے۔ ٨۔ اللہ تعالیٰ مومنوں کو قیامت کے دن اس جنت میں داخل فرمائے گا جس کا انہیں قرآن مجید میں تعارف کروایا گیا ہے۔ تفسیر بالقرآن الجنّتکامختصر تعارف : ١۔ ہم ان کے دلوں سے کینہ نکال دیں گے اور سب ایک دوسرے کے سامنے تکیوں پر بیٹھے ہوں گے۔ اس میں انہیں کوئی تکلیف نہیں پہنچے گی اور نہ وہ اس سے نکالے جائیں گے۔ (الحجر : ٤٧۔ ٤٨) ٢۔ جس جنت کا مومنوں کے ساتھ وعدہ کیا گیا ہے۔ اس کے نیچے سے نہریں جاری ہیں اور اس کے پھل اور سائے ہمیشہ کے لیے ہوں گے۔ (الرعد : ٣٥) (الواقعہ : ٢٨ تا ٣٠) ٤۔ جنت کے میوے ٹپک رہے ہوں گے۔ (الحاقہ : ٢٣) (حٰم السجدۃ: ٣١) ٥۔ جنتی جنت میں جو چاہیں گے پائیں گے۔ ( الانبیاء : ١٠٢) محمد
5 محمد
6 محمد
7 فہم القرآن ربط کلام : مسلمانوں کو جنگ کے دوران کفار کے ساتھ پوری قوت کے ساتھ لڑنے کا حکم دینے کے بعد ان کی مدد کرنے کی یقین دہانی اور اس کی بنیاد۔ اے ایمان والو! اگر تم اللہ کی مدد کروگے تو وہ بھی تمہاری مدد فرمائے گا اور ہر میدان میں تمہیں ثابت قدم رکھے گا۔ یاد رکھو! کہ کفار کے لیے ہلاکت ہے اور ان کے اعمال ضائع کردئیے جائیں گے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ احکام کو قبول کرنا پسند نہیں کیا۔ اس لیے ان کے اعمال غارت کردیئے جائیں گے۔ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے ایک طرف مجاہدین کو اپنی مدد کی یقین دہانی کروائی ہے اور دوسری طرف کفار کے اعمال ضائع کرنے اور ان کی کوششوں کو ناکام کرنے کی خوشخبری دی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مجاہدین کو اپنی مدد کی یقین دہانی کرواتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے کہ اگر تم اللہ کی مدد کرو گے تو وہ تمہاری مدد کرے گا۔ غور فرمائیں! کہ ” اللہ“ وہ ہے جو کسی لحاظ سے کسی کی مدد اور تعاون کا محتاج نہیں اور جس شخص کا یہ عقیدہ ہو کہ اللہ تعالیٰ کسی کی معاونت اور مدد کا محتاج ہے وہ پرلے درجے کافر اور مشرک ہے۔ لیکن یہاں اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں کو فرمایا کہ اگر تم اللہ کی مدد کرو گے تو ” اللہ“ تمہاری مدد فرمائے گا۔ اس ارشاد میں یہ بات سمجھانا مقصود ہے کہ اے مسلمانو! جب تم دین کی حمایت میں لڑنے اور کمزوروں کی مدد کرتے ہو۔ سمجھو کہ تم اللہ کی مدد کرتے ہو۔ یہ الفاظ اس لیے استعمال کیے گئے ہیں کہ جس دین کی سربلندی کے لیے مجاہد لڑتے ہیں وہ دین ” اللہ“ نے ہی نازل فرمایا ہے، کمزوروں اور مظلوموں کی مدد کرنے کا حکم بھی اسی نے دیا ہے۔ اس لحاظ سے دین اور کمزوروں کی مدد کرنا اللہ تعالیٰ کی مدد کرنے کے مترادف ہے۔ (عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَا مِنْ اَیَّامِ الْعَمَلُ الصَّالِحُ فِےْھِنَّ اَحَبُّ اِلَی اللّٰہِ مِنْ ھٰذِہِ الْاَیَّامِ الْعَشْرِ فَقَالُوْا ےَارَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وَلاَ الْجِھَادُ فِیْ سَبِےْلِ اللّٰہِ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وَ لَا الْجِہَادُ فِی سَبِیْلِ اللّٰہِ الاَّرَجُلٌ خَرَجَ بِنَفْسِہٖ وَمَالِہٖ فَلَمْ ےَرْجِعْ مِنْ ذٰلِکَ بِشَیءٍ) (رواہ الترمذی : باب ماجَاءَ فِی الْعَمَلِ فِیْ اَیَّامِ الْعَشْرِ، قال البانی صحیح) حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : کوئی دن ایسا نہیں کہ اس میں نیک عمل اللہ کے نزدیک عشرۂ ذی الحجہ کے دنوں سے زیادہ پسند ہو، صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیا اللہ کی راہ میں لڑ نا بھی اس کے برابر نہیں، فرمایا نہیں اللہ کی راہ میں لڑنا بھی اس کے برابر نہیں، مگر وہ مجاہد جو اپنی جان اور مال کے ساتھ نکلا، پھر ان میں سے کسی چیز کے ساتھ واپس نہیں ہوا۔“ مسائل ١۔ اللہ کے دین کی مدد کرنا ” اللہ“ کی مدد کرنے کے مترادف ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ ہر میدان میں اپنے بندوں کو ثابت قدم رکھتا ہے۔ ٣۔ کفار کے لیے ہلاکت ہے اور ان کے اعمال ضائع کردیئے جائیں گے کیونکہ وہ ” اللہ“ کے نازل کردہ حق کو نہیں مانتے۔ تفسیربالقرآن اللہ تعالیٰ نے انبیائے کرام (علیہ السلام) اور اپنے بندوں کی مدد فرمائی ہے : ١۔ اللہ تعالیٰ نے نوح (علیہ السلام) کی مدد فرمائی اور ان کے مخالفوں کو غرق کردیا۔ (الشعراء : ١٢٠) ٢۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کی مدد فرمائی اور ان کے دشمن کو غرق کردیا۔ (الشعراء : ٦٦، ٦٧) ٣۔ ابرہہ کے مقابلے میں بیت اللہ کا تحفظ فرمایا۔ (الفیل : مکمل) ٤۔ بنی اسرائیل کے کمزوروں کی مدد فرمائی۔ (القصص : ٥) ٥۔ ” اللہ“ نے عیسیٰ ابن مریم کو معجزات سے نوازا اور روح القدس کے ساتھ اس کی مدد فرمائی۔ (البقرۃ: ٨٧) ٦۔ غار ثور میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ابوبکر (رض) کی مدد فرمائی۔ (التوبہ : ٤٠) ٧۔ بدر میں اللہ تعالیٰ نے کمزوروں کی مدد فرمائی۔ (آل عمران : ١٢٣) ٨۔ اللہ اپنی مدد کے ساتھ جس کی چاہتا ہے نصرت فرماتا ہے۔ (الروم : ٥) ٩۔ اللہ ہی تمہارا مولا ہے اور وہی بہتر مدد کرنے والا ہے۔ (آل عمران : ١٥٠) محمد
8 محمد
9 محمد
10 فہم القرآن ربط کلام : اس سے پہلی آیت میں مسلمانوں کی مدد کرنے کا وعدہ اور کفار کی ہلاکت کا ذکر ہے اس لیے ارشاد ہوا کہ کفار کی تباہی دیکھنا چاہو تو زمین پر چل پھر کر دیکھو۔ انسان جن چیزوں سے سبق حاصل کرتا ہے ان میں پہلی اقوام کے آثار اور نشانات بھی اس کی عبرت کا باعث بنتے ہیں اس لیے قرآن مجید میں کئی مرتبہ لوگوں کو اس بات کی دعوت دی گئی ہے کہ لوگو! زمین پر چل کر ان لوگوں کے آثار اور نشانات دیکھو جنہیں اللہ تعالیٰ نے تباہ و برباد کیا ہے۔ یہی حکم اہل مکہ کو دیا گیا کہ کیا وہ اپنے سے پہلے باغیوں کا انجام نہیں دیکھتے ؟ کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں کس طرح تباہ کیا اور اسی طرح ہی تمہارے ساتھ ہوگا۔ ایسا اس لیے کیا گیا اور ہوگا کیونکہ اللہ تعالیٰ ایمانداروں کی مدد کرتا ہے اور کفارکو تباہ کرتا ہے۔ قرآن مجید میں حضرت نوح (علیہ السلام) اور دوسرے انبیائے کرام (علیہ السلام) کے مخالفین کی ناکامی اور بربادی کا بڑی تفصیل کے ساتھ ذکر ہوا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں کس کس جرم میں تباہ کیا اور وہ کس طرح ذلیل اور تباہ کردیئے گئے۔ ایسا اس لیے کیا گیا ہے تاکہ مومنوں کو یقین ہوجائے کہ اللہ تعالیٰ بالآخر مومنوں کی مدد کرتا ہے اور کفار کو ذلیل اور ناکام بنا دیتا ہے کیونکہ وہ کفار کی بجائے مومنوں کا مددگار ہے بشرطیکہ مومن ایمان کے تقاضے پورے کریں۔ اللہ تعالیٰ مومنوں کا مولیٰ ہے اور کافروں کا مولیٰ نہیں ہے یہی بات غزوہ احد کے موقع پر ابوسفیان کے جواب میں کہی گئی۔ جب اس نے بلند آواز سے کہا تھا کہ آج ھبل بلند ہوگیا۔ یاد رہے کہ مکہ والوں نے ھبل کا بت بیت اللہ کی چھت پر رکھا ہوا تھا۔ ( اَللّٰہُ اَعْلٰی وَاَجَلُّ) ” اللہ بلند و بالا اور عظمت والا ہے۔“ حضرت عمر (رض) نے یہ بھی فرمایا کہ احد بدر کا بدلہ نہیں ہوسکتا کیونکہ تمہارے مرنے والے جہنم کا ایندھن بنے اور ہمارے شہید جنت کے مہمان قرار پائے ہیں۔ (رواہ البخاری : کتاب المغازی، باب غزوۃ أحد) (اَلْاِسْلَامُ یَعْلُوْوَلَا یُعْلیٰ) (ارواء الغلیل از الالبانی، حدیث نمبر : ١٢٦٨، ھٰذا حدیث حسن) ” اسلام غالب آئے گا اور اس پر کوئی غالب نہیں آئے گا۔“ 1۔ اہل مکہ نے نبی محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے ساتھیوں کو ختم کرنے کی کوشش کی لیکن اللہ تعالیٰ نے آپ اور آپ کے ساتھیوں کو ترقی نصیب فرمائی۔2۔ ہجرت کے موقع پر کفار نے نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو قتل کرنے کی کوشش کی لیکن اللہ تعالیٰ نے انہیں ناکام اور ذلیل کردیا۔ 3۔ بدر کے موقع پر کفار نے کہا کہ مسلمانوں کو ختم کردیا جائے گا لیکن اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی مدد فرمائی اور کفار مکہ کو ہمیشہ ہمیش کے لیے ذلیل کردیا۔4۔ اُحد کے موقع پر اہل مکہ نے مسلمانوں پر دوبارہ حملہ کرنا چاہا لیکن اللہ تعالیٰ نے انہیں بزدل بنا دیا اور وہ فتح کی حسرت لے کر مکہ کی طرف واپس گئے۔5۔ غزوہ خندق کے موقع پر اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی مدد فرمائی اور کفار کے دس ہزار لشکر کو ناکام کردیا۔ 6۔ فتح مکہ کے موقع پر اللہ تعالیٰ نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مسلمانوں کو سربلند فرمایا اور کفار سرنگوں ہوکرمعافی کے خواستگار ہوئے۔7۔ اللہ تعالیٰ نے منافقین کو پوری طرح رسوا کیا اور نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ان کی سازشوں سے محفوظ فرمایا۔ 8۔ اللہ تعالیٰ نے غزوہ تبوک کے موقع پر رومیوں کو پسپا کیا۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مسلمانوں کو رہتی دنیا تک سربلند فرمایا۔9۔ اللہ تعالیٰ نے اسلام کو سربلند فرمایا اور کفر کو سرنگوں کردیا۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ نے مجرم اقوام کو ذلیل اور نیست ونابود کردیا : ١۔ اللہ تعالیٰ نے بہت سی اقوام کو تباہ کیا۔ (الانعام : ٦) ٢۔ قوم نوح طوفان کے ذریعے ہلاک ہوئی۔ (الاعراف : ١٣٦) ٣۔ جب تم سے پہلے لوگوں نے ظلم کیا تو ہم نے ان کو تباہ کردیا۔ (یونس : ١٣) ٤۔ عاد زبر دست آندھی کے ذریعے ہلاک ہوئے۔ (الحاقہ : ٦) ٥۔ فاسق ہلاک کردیے گئے۔ (الاحقاف : ٣٥) ٦۔ ثمود زور دار دھماکے کے ساتھ ہلاک کیے گئے۔ (الحاقہ : ٥) ٧۔ آل فرعون کو سمند میں ڈبو دیا گیا۔ (ٍیونس : ٩٠) ٨۔ قوم لوط کو زمین سے اٹھا کر آسمان کے قریب لے جاکر الٹا دیا گیا۔ (ھود : ٨٢) ٩۔ ہم نے مکہ والوں سے پہلے کئی بستیوں کو ہلاک کیا جو ٹھاٹھ باٹھ میں ان سے بہت آگے تھے۔ (مریم : ٧٤) ١٠۔ ہم نے ان سے پہلے کئی امتیں ہلاک کر ڈالیں، جو قوت میں مکہ والوں سے بڑھ کر تھیں۔ (ق : ٣٦) محمد
11 محمد
12 فہم القرآن ربط کلام : مسلمان دین پر قائم رہتے ہوئے منظم طریقے کے ساتھ کفار کا مقابلہ کریں تو اللہ تعالیٰ ان کی مدد ضرور کرتا ہے اور آخرت میں انہیں جنت میں داخل کیا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ایمانداروں کے ساتھ بار بار وعدہ کیا ہے کہ اگر تم سچے دل کے ساتھ ایمان لاؤ اور اس کے بتلائے ہوئے صالح اعمال اختیار کرو تو تمہیں ایسی جنت میں داخل کیا جائے گا جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی۔ یہاں تک کفار کا معاملہ ہے وہ اپنے رب کی نعمتیں کھاتے ہیں اور دنیا سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ لیکن آخر کار ان کا انجام جہنم کی آگ ہوگا اور یہ ہمیشہ ہمیش جہنم میں جلتے رہیں گے۔ ہم نے اس سے پہلے کتنی ہی بستیاں تباہ کیں جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بستی مکہ سے طاقتور تھیں۔ جب ہم نے انہیں ہلاک کیا تو کوئی بھی ان کی مدد نہ کرسکا۔ اس فرمان میں کھلے الفاظ میں مکہ والوں کو انتباہ کیا گیا ہے کہ اگر تم اپنی روش سے باز نہ آئے تو پہلے لوگوں کی طرح ہلاک اور برباد کر دئیے جاؤ گے پہلے کفار کا انجام بتلانے سے پہلے فرمایا ہے کہ یہ چوپاؤں کی طرح اللہ کی نعمتیں کھاتے اور استعمال کرتے ہیں لیکن ان کا ٹھکانہ جہنم ہے۔ یہاں کفار کو چوپاؤں کے مشابہ قرار دیا گیا ہے کہ جس طرح چوپائے کھانے پینے اور رہنے سہنے سے آگے شعور نہیں رکھتے اسی طرح ہی کفار کی حالت ہے کہ وہ کھانے پینے اور رہنے سہنے سے بڑھ کر کچھ نہیں سوچتے کہ ان کو اللہ تعالیٰ نے کس لیے پیدا کیا ہے اور انہیں کون سے کام کرنے کا حکم دیا ہے اور کن کاموں سے منع کیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ لوگ چوپاؤں سے بدتر ہیں۔ (وَ لَقَدْ ذَرَاْنَا لِجَہَنَّمَ کَثِیْرًا مِّنَ الْجِنِّ وَ الْاِنْسِ لَہُمْ قُلُوْبٌ لَّا یَفْقَہُوْنَ بِہَا وَلَہُمْ اَعْیُنٌ لَّا یُبْصِرُوْنَ بِہَا وَلَہُمْ اٰذَانٌ لَّا یَسْمَعُوْنَ بِہَا اُولٰٓءِکَ کَالْاَنْعَامِ بَلْ ہُمْ اَضَلُّ اُولٰٓءِکَ ہُمُ الْغٰفِلُوْنَ) (الاعراف : ١٧٩) ” اور بلاشبہ ہم نے بہت سے جن اور انسان جہنم کے لیے پیدا کیے ہیں ان کے دل ہیں جن سے وہ سمجھتے نہیں اور ان کی آنکھیں ہیں جن سے وہ دیکھتے نہیں اور ان کے کان ہیں جن سے وہ سنتے نہیں یہ لوگ چوپاؤں جیسے ہیں بلکہ زیادہ بدتر اور غافل ہیں۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ ایماندار اور صالح کردار لوگوں کو جنت میں داخل فرمائے گا۔ ٢۔ جنت میں نہریں اور آبشاریں جاری ہوں گی۔ ٣۔ کفار چوپاؤں کی طرح کھانے پینے سے آگے نہیں سوچتے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ کفار کو جہنم کی آگ میں داخل کرے گا جو ان کے لیے بدترین ٹھکانہ ہوگا۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ نے کئی بستیوں کو تباہ و برباد کیا جو مکہ والوں سے زیادہ طاقت رکھنے والے تھے۔ ٦۔ اللہ تعالیٰ جب کسی بستی کو تباہ کرتا ہے تو پھر ان کی مدد کرنے والا کوئی نہیں ہوتا۔ تفسیر بالقرآن مومنوں کا مقام اور کفار کا انجام : ١۔ اللہ تعالیٰ نے متقین کے ساتھ جنت کا وعدہ فرمایا ہے اور کافروں کا انجام دوزخ کی آگ ہے۔ (الرعد : ٣٥) ٢۔ اللہ مومنوں کا دوست ہے۔ وہ انہیں تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لاتا ہے۔ (البقرۃ : ٢٥٧) ٣۔ صبر کرو متقین کا انجام بہتر ہے۔ (ہود : ٤٩) ٤۔ متقین کے لیے جنت ہے۔ (الحجر : ٤٥) ٥۔ مومنوں کے چہرے تروتازہ ہوں گے۔ (القیامہ : ٢٢) ٦۔ مجرموں کے لیے جہنم ہے۔ (طٰہٰ: ٧٤) ٧۔ کفار کے چہرے کالے ہوں گے اور جنتی کے چہرے پرنور ہوں گے۔ (آل عمران : ١٠٦۔ ١٠٧) ٨۔ کفار کے چہروں پر ذلت چھائی ہوگی اور متقین کے چہرے ہشاش بشاش ہوں گے۔ (یونس : ٢٦۔ ٢٧) ٩۔ جو لوگ ہماری آیات کی تکذیب کرتے ہیں وہ جہنمی ہیں اور اس میں ہمیشہ رہیں گے۔ (البقرۃ: ٣٩) ١٠۔ جو لوگ اللہ کی آیات کو جھٹلاتے ہیں اور تکبر کرتے ہیں وہ ہمیشہ جہنم میں رہیں گے۔ (الاعراف : ٣٦) محمد
13 محمد
14 محمد
15 فہم القرآن ربط کلام : جو لوگ دنیا میں ہلاک کیے گئے ان کی ہلاکت کا سبب یہ تھا کہ وہ ہدایت پر چلنے کی بجائے اپنی خواہشات کے بندے بن چکے تھے جس وجہ سے ان کا دنیا میں برا انجام ہوا اور آخرت میں جہنم کی آگ میں جھونکے جائیں گے۔ اس سورت میں مومنوں اور کفار کے درمیان موازنہ کیا جارہا ہے۔ ایک شخص ہے جو اپنے رب کی طرف سے ٹھوس اور واضح دلیل پر عمل پیرا ہے۔ اس کے مقابلے میں دوسرا وہ ہے جو اپنے جذبات اور خیالات کی پیروی کرتا ہے اور اس کے لیے شیطان نے اس کے برے اعمال کو فیشن بنا دیا۔ جو شخص اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ ہدایت اور دلیل پر عمل پیرا ہے اور اپنے رب کی نافرمانی سے بچنے والا ہے۔ اس کے لیے اس کے رب نے اس جنت کا وعدہ کیا ہے جس کی شان اور حال یہ ہے کہ اس میں چار قسم کی نہریں جاری ہوں گی۔ جنت میں داخل ہونے والوں کے لیے ہر قسم کے ثمرات ہوں گے اور ان کے رب کی طرف سے ان کے لیے بخشش کا اعلان ہوگا۔ ان کے مقابلے میں جس شخص نے اپنے جذبات اور خیالات کی پیروی کی اور برے اعمال کو اپنے لیے اچھا جانا اسے ہمیشہ کے لیے جہنم کی میں جھونکا جائے گا اور پینے کے لیے اسے کھولتا ہوا پانی دیا جائے گا۔ جو اس کی انتڑیوں کو کاٹ ڈالے گا۔ جنت میں چلنے والی نہریں : 1۔ جنت کی نہروں میں ایک نہر صاف اور شفاف پانی سے لبریز ہوگی اور اس کے پانی کی لہریں آپس میں اٹکلیاں کررہی ہوں گی۔ اس نہر کا پانی اس قدر صاف اور شفاف ہوگا جس میں نہ مٹی ہوگی اور نہ ہی ریت کے ذرات ہوں گے۔ اس پانی کا نہ رنگ بدلے گا، نہ ذائقہ تبدیل ہوگا اور نہ ہی اس میں بوپیدا ہوگی۔ 2۔ جنت میں ایک نہر ایسی ہوگی جو دودھ سے لبالب ہوگی۔ اس میں ایسا دودھ ہوگا کہ جس کا رنگ چاند کی روشنی سے زیادہ روشن ہوگا۔ اس کے دودھ کا ذائقہ کبھی تبدیل نہیں ہوگا۔ جنتی اس سے دودھ کے جام بھریں گے اور آپس میں خوش گپیاں کرتے ہوئے ان سے لطف اندوز ہوں گے۔ 3۔ جنت میں بہنے والی تیسری نہر شراب سے بھر پور ہوگی۔ دیکھنے میں یہ شراب ہوگی لیکن یہ کسی اعتبارسے بھی دنیا کی شراب کے ساتھ مشابہت نہیں رکھتی ہوگی۔ دنیا کی شراب میں کڑواہٹ، ترشی اور کچھ نہ کچھ نشہ ضرور ہوتا ہے جس سے انسان کی عقل میں فتور پیدا ہوتا ہے۔ اور اس کی صحت پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ جنت کی شراب اس قسم کی آلائشوں سے یکسر پاک ہوگی یہ ان لوگوں کو نصیب ہوگی جو دنیا میں شراب کو حرام سمجھتے تھے اور اس سے کلی طور پر اجتناب کیا کرتے تھے۔ ان کے مقابلے میں کفار اور مشرکین کو جہنم کی آگ میں داخل کیا جائے گا۔ جب وہ جہنم کی تلخی کی وجہ سے پانی طلب کریں گے تو انہیں پینے کے لیے انتہائی کھولتا ہوا پانی دیا جائے گا جس سے ان کی آنتڑیاں کٹ کر رہ جائیں گی۔ 4۔ جنت کی نہر ایسے شہد سے بھری ہوگی جس میں کسی قسم کی ملاوٹ نہیں ہوگی۔ یہ شہد اتنا صاف اور شفاف ہوگا جس میں پینے والے کو اپنا چہرہ نظر آئے گا۔ اس کی مٹھاس کے بارے میں کسی انسان کے پاس ایسے الفاظ نہیں کہ جس سے وہ اس کے ذائقے اور مٹھاس کی ترجمانی کرسکے۔ ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جو اللہ اور رسول پر ایمان لایا اس نے نماز قائم کی اور رمضان کے روزے رکھے۔ اسے جنت میں داخل کرنا اللہ پر حق ہے اس نے اللہ کی راہ میں جہاد کیا ہو یا اپنی جنم دھرتی میں بیٹھا رہا۔ صحابہ (رض) نے عرض کی اللہ کے رسول! کیا ہم لوگوں کو خوشخبری نہ دیں؟ آپ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے فی سبیل اللہ جہاد کرنے والوں کے لیے جنت میں سو درجات بنائے ہیں ہر دو درجے کادرمیانی فاصلہ زمین و آسمان کے درمیانی فاصلہ جتنا ہے جب تم اللہ سے جنت کا سوال کرو تو جنت الفردوس مانگا کرو کیونکہ یہ جنت کا وسط اور اعلیٰ مقام ہے راوی کہتے ہیں میرا خیال ہے کہ آپ نے یہ بھی فرمایا کہ اس کے اوپررحمان کا عرش ہے اور وہاں سے جنت کی نہریں نکلتی ہیں۔“ (رواہ البخاری : کتاب الجھاد والسیر) مسائل ١۔ اپنے رب کی ہدایت پر چلنے والا اور اپنی خواہشات کے پیچھے لگنے والا برابر نہیں ہوسکتے۔ ٢۔ جو اپنی خواہشات کے پیچھے لگے گا وہ برباد ہوجائے گا۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ نے جنت کے لیے پاک پانی، شفاف دودھ، مزیدار شراب اور خالص شہد کی نہریں جاری کر رکھی ہیں۔ ٤۔ جنت کے مقابلے میں کفار اور مشرکین کو جہنم کی آگ میں جھونکا جائے گا اور انہیں پینے کے لیے کھولتا ہوا پانی دیا جائے گا۔ ٥۔ جنتی کے لیے ہر قسم کے پھل ہوں گے اور اللہ تعالیٰ جنتی پر ہمیشہ ہمیش راضی رہے گا۔ تفسیر بالقرآن جنتی کا انعام اور جہنمی کا انجام : ١۔ جب فرشتے پاکباز لوگوں کی روحیں قبض کرتے ہیں توانھیں سلام کہتے ہیں اور جنت کی خوشخبری دیتے ہیں۔ (النحل : ٣٢) ٢۔ فرشتے کہتے ہیں تم پر سلامتی ہو تم نے صبر کیا آخرت کا گھر بہت ہی بہتر ہے۔ (الرعد : ٢٤) ٣۔ داخل ہوجاؤ جنت میں سلامتی کے ساتھ آج تمھارے لیے داخلے کا دن ہے۔ (ق : ٣٤) ٤۔ فرشتے جب جنتی کے پاس جائیں گے تو انہیں سلام کہیں گے۔ (الزمر : ٨٩) ٥۔ اے ہمارے رب ہمیں تھوڑی دیر کے لیے مہلت دے ہم تیری دعوت کو قبول اور تیرے رسول کی بات کو تسلیم کریں گے۔ (ابراہیم : ٤٤) ٦۔ جہنمی کہیں گے اے اللہ ہم نے دیکھ لیا اور سن لیا اب ہم کو واپس لوٹا دے۔ (السجدۃ: ١٢) ٧۔ ان کا ٹھکانہ جہنم ہے جب وہ ہلکی ہونے لگے گی تو ہم اسے مزید بھڑکا دیں گے۔ (بنی اسرائیل : ٩٧) ٨۔ اس میں وہ کھولتا ہوا پانی پئیں گے اور اس طرح پیئیں گے جس طرح پیا سا اونٹ پیتا ہے۔ (الواقعہ : ٥٤ تا ٥٥) محمد
16 فہم القرآن ربط کلام : جن لوگوں کی بد اعمالیوں کی وجہ سے ان کے برے اعمال خوشنما بنا دئیے جاتے ہیں ان میں منافقین بھی شامل ہیں اس لیے منافقین کی عادت اور ان کے انجام کا ذکر کیا گیا ہے۔ اس سورت کی ابتدائی آیات کی تفسیر میں عرض ہوچکا ہے کہ اس میں اللہ تعالیٰ نے کفار، مشرکین، اور منافقین کا مومنوں کے کردار اور انجام کے ساتھ موازنہ کیا ہے۔ پہلے کفار اور مشرکین کا مومنوں کے ساتھ موزانہ پیش کیا گیا اور اب منافقین اور مومنوں کا موزانہ کیا جاتا ہے۔ منافقوں کی بری عادات میں ایک عادت یہ تھی کہ جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مجلس میں بیٹھتے تو بظاہر اس طرح آپ کی طرف توجہ کرتے کہ دیکھنے والے یوں محسوس کرتے جیسے یہ پورے انہماک اور اخلاص کے ساتھ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی گفتگو کو سن رہے ہیں۔ لیکن جب آپ کی مجلس سے نکلتے تو منافق اہل علم صحابہ سے پوچھتے کہ اس نبی نے ابھی ابھی کیا کہا ہے؟ ان کے سوال کرنے کا مقصد بات سمجھنا نہیں تھا۔ ان کا مقصد ایک طرف اپنی لاپرواہی کا اظہار کرنا تھا اور دوسری طرف یہ تاثر دینا تھا کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صحیح معنوں میں بات سمجھانے کا ملکہ نہیں رکھتے۔ حالانکہ یہ اس وجہ سے تھا کہ منافق اپنی خواہشات اور مفاد کے بندے بن چکے تھے جس وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں پر نفاق کی مہر ثبت کردی تھی۔ ان کے مقابلے میں جو لوگ ایمان لائے اللہ تعالیٰ نے ان کے اخلاص اور کوشش کو دیکھ کر ان کے ایمان اور تقویٰ میں اصافہ فرمادیا۔ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ آیَۃُ الْمُنَافِقِ ثَلاَثٌ إِذَا حَدَّثَ کَذَبَ وَإِذَا وَعَدَ أَخْلَفَ وَإِذَا اؤْتُمِنَ خَانَ) (رواہ البخاری : باب علامۃ المنافق) ” حضرت ابوہریرہ (رض) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں۔ آپ نے فرمایا منافق کی تین نشانیاں ہیں، جب بات کرتا ہے تو جھوٹ بولتا ہے، جب وعدہ کرتا ہے تو وعدہ خلافی کرتا ہے اور جب اس کے پاس امانت رکھی جاتی ہے تو خیانت کرتا ہے۔“ (جس میں جو اور جتنی عادت ہوگی اتنا ہی وہ منافق ہوگا۔) (عَنِ ابْنِ عُمَرَ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ مَثَلُ الْمُنَافِقِ کَمَثَلِ الشَّاۃِ الْعَاءِرَۃِ بَیْنَ الْغَنَمَیْنِ تَعِیْرُ إِلٰی ھٰذِہٖ مَرَّۃً وَ إِلٰی ھٰذِہٖ مَرَّۃً) (رواہ مسلم : کتاب صفات المنافقین وأَحکامھم ) ” حضرت عبداللہ بن عمر (رض) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں آپ نے فرمایا منافق کی مثال اس بکری کی طرح ہے جو دو ریوڑوں کے درمیان پھرتی ہے کبھی ایک ریوڑکی طرف جاتی ہے کبھی دوسرے کی طرف۔“ منافقین کا انجام : (اِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ فِی الدَّرْکِ الْاَسْفَلِ مِنَ النَّارِوَ لَنْ تَجِدَلَھُمْ نَصِیْرًا) (النساء : ١٤٥ ) ” یقیناً منافق جہنم کے سب سے نچلے طبقہ میں ہوں گے۔ تم ان کا کوئی مددگار نہیں پاؤ گے۔“ مسائل ١۔ منافق اللہ اور اس کے رسول کے ارشادات کو لاپراواہی کے ساتھ سنتے تھے جس وجہ سے ان کے نفاق میں مزید اضافہ ہوجاتا تھا۔ ٢۔ صحابہ (رض) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشادات کو توجہ کے ساتھ سنتے تھے جس وجہ سے ان کے ایمان میں اضافہ کیا گیا۔ ٣۔ مومن کی شان یہ کہ وہ اللہ اور اس کے رسول کے ارشادات کو اخلاص اور اطاعت کے لیے سنتا ہے اس لیے اس کے ایمان اور تقویٰ میں اضافہ کردیا جاتا ہے۔ تفسیر بالقرآن منافق کی بری عادات : ١۔ منافق قرآن سن کر اس پر اعتراض کرتا ہے۔ (التوبہ : ١٢٤) ٢۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مجلس سے اٹھ کر منافق اپنے سرداروں کو یقین دلاتے تھے کہ ہم تمہارے ساتھ ہیں۔ (البقرۃ: ١٤) ٣۔ اللہ اور مومنوں کو منافق دھوکہ دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ ( البقرۃ: ٩) ٤۔ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو منافق دھوکہ دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ ( المنافقون : ١) ٥۔ منافق نماز بھی دھوکہ دینے کی خاطر پڑھتے ہیں۔ ( النساء : ١٤٢) ٦۔ منافق قرآن سنتا ہے تو اس کے نفاق میں اضافہ ہوتا ہے۔ (البقرۃ: ١٠) ٧۔ مومن قرآن سنتا ہے تو اس کے ایمان میں اضافہ ہوتا ہے۔ (الانفال : ٢) محمد
17 محمد
18 فہم القرآن ربط کلام : منافقین کو انتباہ۔ قرآن مجید نے منافقین کو ہر موقع اور ہر حوالے سے ہدایت کی طرف لانے کی کوشش فرمائی مگر منافقین بدفطرت ہونے کی وجہ سے نفاق میں آگے ہی بڑھتے گئے۔ حالانکہ وہ کئی بار کفار کا انجام دیکھ چکے تھے لیکن اس کے باوجود سچا ایمان لانے کے لیے تیار نہ ہوئے جس پر قرآن مجید نے انہیں انتباہ کے انداز میں ارشاد فرمایا کہ اب تو ان کے ہدایت پانے کی کوئی صورت باقی نہیں۔ سوائے اس کے ان پر اچانک قیامت ٹوٹ پڑے۔ انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ جب ان پر قیامت آ پڑے گی تو انہیں نصیحت پانے کا فائدہ نہیں ہوگا۔ اگر یہ غور کریں تو قیامت کی کئی نشانیاں آچکی ہیں۔ یاد رہے کہ قیامت کی نشانیاں تین اقسام پر مشتمل ہیں۔ 1۔ کچھ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دور میں پوری ہوچکی ہیں۔ 2۔ کچھ قیامت سے پہلے نمودار ہوں گی۔ 3۔ کچھ قیامت کے قریب برپا ہوں گی۔ (اِقْتَرَبَتِ السَّاعَۃُ وَانْشَقَّ الْقَمَرُ) (القمر : ١) ” قیامت کی گھڑی قریب آچکی اور چاند پھٹ گیا۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دور میں قیامت کی ایک نشانی : (عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ (رض) قَالَ انْشَقَّ الْقَمَرُ عَلَی عَہْدِ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فِرْقَتَیْنِ، فِرْقَۃً فَوْقَ الْجَبَلِ وَفِرْقَۃً دُونَہُ فَقَالَ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اشْہَدُوا) (رواہ البخاری : باب (وَانْشَقَّ الْقَمَرُ وَإِنْ یَرَوْا آیَۃً یُّعْرِضُوا) ” حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ میں شق قمر کا واقعہ پیش آیا۔ چاند کے دو ٹکڑوں میں سے ایک ٹکڑا پہاڑ پر گرا اور ایک ٹکڑا اس کے علاوہ تھا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا لوگو ! گواہ ہوجاؤ۔“ (عَنْ أَبِی أَیُّوبَ الأَنْصَارِیِّ قَالَ جَاءَ رَجُلٌ إِلَی النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَقَالَ عِظْنِی وَأَوْجِزْفَقَالَ إِذَا قُمْتَ فِی صَلاَتِکَ فَصَلِّ صَلاَۃَ مُوَدِّعٍ وَلاَ تَکَلَّمْ بِکَلاَمٍ تَعْتَذِرُ مِنْہُ غَداً وَاجْمَعِ الإِیَاسَ مِمَّا فِی یَدَیِ النَّاسِ) ( رواہ احمد : مسند ابو ایوب انصاری، ھٰذا حدیث صحیح) ” حضرت ابو ایوب انصاری (رض) بیان کرتے ہیں ایک آدمی نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا اور آکر عرض کی کہ مجھے نصیحت کیجیے آپ نے فرمایا جب نماز کے لیے کھڑا ہو تو اس طرح نماز ادا کیا کرو گویا کہ الوداعی نماز پڑھ رہے ہو اور ایسی گفتگو نہ کرو۔ جس کے لیے کل کو عذر پیش کرنا پڑے اور جو لوگوں کے ہاتھوں میں ہے اس کی امید نہ کرو۔“ (عَنْ أَبِیْ مُوْسٰی (رض) عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ إِنَّ اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ یَبْسُطُ یَدَہٗ باللَّیْلِ لِیَتُوْبَ مُسِیْءُ النَّھَارِ وَیَبْسُطُ یَدَہٗ بالنَّھَارِ لِیَتُوْبَ مُسِیْءُ اللَّیْلِ حَتّٰی تَطْلُعَ الشَّمْسُ مِنْ مَغْرِبِھَا) (رواہ مسلم : باب قبول التوبۃ من الذنوب وإن تکررت الذنوب والتوبۃ) ” حضرت ابوموسیٰ (رض) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : یقیناً اللہ عزوجل رات کو اپنا ہاتھ بڑھاتے ہیں تاکہ دن کو خطائیں کرنے والا توبہ کرلے اور دن کو ہاتھ پھیلاتے ہیں تاکہ رات کو گناہ کرنے والا توبہ کرلے یہ صورت حال سورج کے مغرب سے طلوع ہونے تک رہے گی۔“ (یعنی قیامت سے پہلے تک) مسائل ١۔ منافق سب کچھ جاننے اور دیکھنے کے باوجود اپنی منافقت سے توبہ نہیں کرتا۔ ٢۔ منافق بڑی سے بڑی مصیبت اور ذلت قبول کرلیتا ہے لیکن منافقت چھوڑنے پر تیار نہیں ہوتا۔ تفسیر بالقرآن منافق کا کردار : ١۔ منافق کو مسلمانوں کی بھلائی اچھی نہیں لگتی۔ (آل عمران : ١٢٠) ٢۔ منافق صرف زبان سے حق کی شہادت دیتا ہے۔ (المنافقون : ١) ٣۔ منافق کفارسے دوستی رکھتا ہے۔ (البقرۃ: ١٤) ٤۔ منافق جھوٹا ہوتا ہے۔ (البقرہ : ١٠) ٥۔ منافق اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ سنجیدہ نہیں ہوتا۔ (البقرہ : ١٤) ٦۔ منافق مسلمانوں کو حقیر سمجھتا ہے۔ (المنافقون : ٨) ٧۔ منافق اسلام کی بجائے کفر کے زیادہ قریب ہوتا ہے۔ (آل عمران : ١٦٧) ٨۔ منافق ریا کار ہوتا ہے۔ (النساء : ١٤٢) ٩۔ منافق دنیا کے فائدے کے لیے اسلام قبول کرتا ہے۔ ( البقرۃ: ٢٠) محمد
19 فہم القران ربط کلام : جو شخص نصیحت حاصل کرنا چاہتا ہے اسے ” لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ“ پر ایمان لانے کے ساتھ اس کے تقاضے پورے کرنا چاہئیں کیوں کہ یہ کلمہ تمام نصیحتوں کا ترجمان اور مجموعہ ہے لیکن کفار اور منافقین اس پر ایمان لانے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ اہل علم نے لکھا ہے کہ تمام انبیائے کرام (علیہ السلام) کے کلمہ طیبہ کا پہلا حصہ ” لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ“ ہوا کرتا تھا جس کی قرآن مجید کے الفاظ سے اس طرح تصدیق ہوتی ہے۔ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! جتنے رسول آپ سے پہلے مبعوث ہوئے انہیں حکم دیا گیا کہ وہ لوگوں کو بتلائیں کہ میرے سوا کوئی معبود نہیں اس لیے میری ہی عبادت کرو۔ (الانبیاء : ٢٥) ” اہل کتاب کو فرمائیں کہ آؤ اس کلمہ کی طرف جو ہمارے اور تمہارے درمیان برابر ہے۔“ (آل عمران : ٦٤) اے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ اپنے اور مومنوں کے گناہوں کے لیے استغفار کیا کریں۔ اللہ تعالیٰ تمہارے چلنے پھرنے اور ٹھہرنے کی جگہ کو جانتا ہے۔ دوسرے مقام پر قرآن مجید کا ارشاد ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے اگلے پچھلے گناہوں کو معاف کردیا ہے۔ (الفتح : ٢) لیکن یہاں آپ کو یہ حکم ہوا کہ آپ اپنے اور مومنوں کے گناہوں کے لیے اپنے رب سے معافی طلب کریں۔ مومنوں کے گناہوں کے بارے میں بات واضح ہے کہ ان سے غلطی ہوسکتی ہے لہٰذا آپ کو حکم ہوا کہ آپ اپنے ساتھیوں کے لیے معافی مانگتے رہیں۔ یہاں تک آپ کی ذات اقدس کا معاملہ ہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اگلے پچھلے گناہ معاف کردیئے گئے تھے۔ اس لیے اہل علم نے ان الفاظ کے تین مفہوم لیے ہیں۔ 1۔ بے شک آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) انبیاء کرام کے سردار ہیں لیکن جو ذمہ داری آپ کے سپرد کی گئی تھی اس کا تقاضا تھا کہ آپ سے ادنیٰ سے ادنیٰ غفلت بھی نہ ہو پائے۔ بے شک آپ ارفع مقام پر فائز تھے لیکن بحیثیت انسان سستی کا امکان ہوسکتا تھا جس کی آپ اپنے رب سے پناہ مانگا کرتے تھے اور یہی آپ کا استغفار تھا۔ جس پر جتنے ” اللہ“ کے احسانات ہیں اتنا ہی اس کے ذمہ شکر، عبادت اور عاجزی کرنا فرض ہوتا ہے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ کی عبادت اور اس کے احکام کی بجاآوری میں خواہ کتنی ہی کوشش کی جائے، انسان پر لازم ہے کہ اپنی کمزوری کا اعتراف کرتا رہے اور یہ سمجھے کہ مجھے جو کرنا چاہیے تھا وہ مجھ سے نہیں ہوسکا۔ منعم حقیقی نے جو بے پایاں احسانات مجھ پر فرمائے ہیں میں ان کا حق شکر ادا نہیں کرسکا۔ یہ تصور انسان کا کمال ہے نقص نہیں۔ 3۔ اس آیت کے ضمن میں امام فخرالدین رازی نے لکھا ہے کہ اس آیت کی دو توجیہیں کی گئی ہیں۔ ایک توجیہہ یہ ہے کہ خطاب اگرچہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ہے لیکن مراد امت ہے، یہ توجیہہ درست نہیں کیونکہ مومنین کے لیے استغفار کا علیحدہ حکم ہے۔ دوسری توجیہہ یہ ہے کہ یہاں ” ذَنْبٌ“ سے مراد گناہ یا نافرمانی نہیں بلکہ ترک افضل ہے، امام لکھتے ہیں۔ ” وحاشا من ذالک“ کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات والا صفات اس سے منزہ ہے کہ وہ افضل کو چھوڑ کر غیر افضل کریں۔ اس لیے امام رازی (رض) نے اپنی توجیہہ پیش کی ہے فرماتے ہیں ” اِنَّ الْمُرَادَ تَوْفِیْقُ الْعَمَلِ الْحَسَنِ وَ اِجْتِنَابِ الْعَمَلِ السَّیِّءِی“ اچھے کام کی توفیق اور برے کاموں سے اجتناب ہے کیونکہ استغفار کا معنٰی طلب غفران ہے اور غفران کا معنٰی کسی قبیح چیز کا ڈھانپ دینا ہے۔ اس کی دو صورتیں ہیں کہ اللہ تعالیٰ کسی چیز کے ارتکاب سے ہی محفوظ رکھے جس طرح نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شان ہے یا گناہ کے ارتکاب کے بعد اس کو ڈھانپ دے جس طرح کہ مومنین اور مومنات کا حال ہے۔ (ضیاء القرآن جلد چہارم) اس آیت مبارکہ کے آخری الفاظ یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ آپ کے چلنے پھرنے اور ٹھہرنے کی جگہ کو جانتا ہے۔ اس ارشاد کے بھی تین مفہوم لیے گئے ہیں۔ 1۔ آپ دشمنوں کی دشمنی سے بے فکر ہو کر ” لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ“ کی دعوت دیتے جائیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کی حفاظت فرمائے گا کیونکہ وہ آپ کے چلنے پھرنے اور قیام کرنے کی جگہوں کو جانتا ہے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ آپ کے دنیا میں چلنے پھر نے کے مقامات اور آخری آرام گاہ کو جانتا ہے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ نیک اور برے لوگوں کے جنت اور جہنم کے ٹھکانے کو جانتا ہے۔ (أَللّٰھُمَّ أَعُوْذُ بِرِضَاکَ مِنْ سَخَطِکَ وَبِمُعَافَاتِکَ مِنْ عُقُوْبَتِکَ وَأَعُوْذُ بِکَ مِنْکَ لَآأُحْصِیْ ثَنَاءً عَلَیْکَ أَنْتَ کَمَآ أَثْنَیْتَ عَلٰی نَفْسِکَ) (رواہ مسلم : باب مایقال فی الرکوع والسجود) ” اے اللہ! میں تیری رضا مندی کے ذریعے تیری ناراضی سے اور تیری معافی کے ذریعے تیری سزا سے پناہ مانگتاہوں اور میں تجھ سے تیری پناہ مانگتاہوں میں اس طرح تیری تعریف نہیں کرسکتا جس طرح تیری شایان شان ہے۔“ (عَنْ أَنَسٍ (رض) أَنَّ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کَانَ یَدْعُوْ یَقُوْلُ اللّٰھُمَّ اِنِّیْٓ اَعُوْذُبِکَ مِنَ الْکَسَلِ وَالْھَرَمِ وَالْجُبْنِ وَالْبُخْلِ وَفِتْنَۃِ الْمَسِیْحِ وَعَذَابِ الْقَبْرِ) (رواہ الترمذی : کتاب الدعوات، باب ماجاء فی جامع الدعوات، قال الترمذی ہذا حدیث حسن صحیح) ” حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ دعا کیا کرتے تھے۔ اے اللہ! میں تجھ سے سستی، بڑھاپے، بزدلی، بخیلی، مسیح الدجال کے فتنے اور عذاب قبر سے پناہ چاہتاہوں۔“ (عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یٰأَ یُّہَا النَّاسُ تُوْبُوْا إِلَی اللَّہِ فَإِنِّی أَتُوْبُ فِی الْیَوْمِ إِلَیْہِ ماءَۃَ مَرَّۃٍ) (رواہ مسلم : باب اسْتِحْبَاب الاِسْتِغْفَارِ وَالاِسْتِکْثَارِ مِنْہُ) ” حضرت ابن عمر (رض) سے ہی روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا لوگو! اللہ تعالیٰ کے حضور توبہ کرو۔ بلاشبہ میں ہر روز سو مرتبہ توبہ کرتا ہوں۔“ ” لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ“ کے بنیادی طور پر چار تقاضے ہیں۔ 1۔ اچھی طرح سمجھ کر پڑھنا کہ ” لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ“ کا معنٰی اور مفہوم کیا ہے؟ 2۔ آخر دم تک اس پر استقامت اختیار کرنا۔ 3۔ اس کے مطابق اپنے عقیدہ، اخلاق اور کردار کو بنانا۔ 4۔ پوری محنت اور اخلاص کے ساتھ اس کا ابلاغ کرنا۔ (عَنْ عُبَادَۃَ ابْنِ الصَّامِتِ (رض) قَالَ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ےَقُوْلُ مَنْ شَھِدَ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَاَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللّٰہِ حَرَّمَہُ اللّٰہُ عَلَےْہِ النَّارَ) ( رواہ مسلم : باب مَنْ لَقِیَ اللَّہَ بالإِیمَانِ وَہُوَ غَیْرُ شَاکٍّ فیہِ دَخَلَ الْجَنَّۃَ وَحَرُمَ عَلَی النَّارِ) ” حضرت عبادہ بن صامت (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے ہوئے سنا جس نے توحید ورسالت کی گواہی دی اس پر اللہ تعالیٰ نے جہنم کی آگ حرام کردی ہے۔“ مسائل ١۔ سب سے بڑا ذکر اور نصیحت ” لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ“ کو سمجھنا اور اس کے تقاضے پورے کرنا ہے۔ ٢۔ ہر ایماندار کو اپنے رب سے اپنے گناہوں کی معافی مانگتے رہنا چاہیے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ ہر شخص کے چلنے، پھرنے اور ٹھہرنے کی جگہوں کو جانتا ہے۔ تفسیر بالقرآن ” لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ“ کے تقاضے : ١۔ اللہ کے بندے اس کی توحید کا اقرار کرکے اس پر ڈٹ جاتے ہیں۔ (الاحقاف : ١٤، حم السجدۃ: ٣٠) ٢۔ اللہ کے بندے اس پر ایمان لاتے ہیں اور نیک اعمال کرتے ہیں۔ (البقرۃ: ٨٢) ٣۔ اپنے چہرے کو دین حنیف پر سیدھا کیے چلتے جاؤ۔ (الروم : ٣٠) ٤۔ اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے دین کو چن لیا ہے لہٰذا تمہیں اسلام پر ہی موت آنی چاہیے۔ (البقرۃ : ١٣٢) ٥۔ سب سے بہترین دعوت توحید کی دعوت دینا اور اس کے تقاضے پورا کرنا ہے۔ (حم ٓ السجدۃ: ٣٣) محمد
20 فہم القرآن ربط کلام : منافقین کے ذکر کے بعد ان لوگوں کا تذکرہ جو ابھی تک اپنے ایمان میں پختہ نہیں تھے۔ مکہ معظمہ میں کچھ مسلمانوں کا مطالبہ تھا کہ ہمیں کفار کے خلاف قتال کرنے کی اجازت دی جائے لیکن قتال کی اجازت کی بجائے انہیں یہ حکم ہوا کہ لڑائی سے اپنے ہاتھ بند رکھو، نماز قائم کرو اور زکوٰۃ دیتے رہو۔ (النساء : ٧٧) جب ہجرت کے بعد دو ٹوک انداز میں قتال فی سبیل اللہ کا حکم نازل ہوا تو جن لوگوں کے دلوں میں ایمان کمزور تھا اور بزدلی تھی وہ اس حکم سے اس طرح تھرا گئے جس طرح ان پر موت کی بے ہوشی طاری ہوچکی ہو۔ ان کے بارے میں یہ فرمان جاری ہوا کہ جو لوگ قتال فی سبیل اللہ کا حکم سن کر اس کیفیت میں مبتلا ہوتے ہیں ان کے لیے ہلاکت اور بربادی ہے۔ اس ہلاکت سے بچنے کا ایک ہی راستہ ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کی اتباع کی جائے اور لوگوں کو اچھی بات کی تبلیغ کرتے ہوئے قتال فی سبیل اللہ کے لیے تیار ہوا جائے۔ اگر یہ لوگ اپنے ایمان میں سچے اور مضبوط ہوتے تو یہ کام انہیں ضرور کرنے چاہیں تھے۔ ایسا کرنا ان کے لیے دنیا اور آخرت میں بہتر ہوتا۔ یہاں قتال فی سبیل اللہ سے کترانے والوں کے لیے ہلاکت کا لفظ استعمال ہوا ہے کیونکہ جو لوگ جنگ مسلط ہوجانے کے باوجود اپنا دفاع نہیں کرتے وہ دشمن کے ہاتھوں ذلیل اور تباہ ہوجاتے ہیں۔ ذلت اور تباہی سے بچنے کے لیے مسلمانوں کو یہ حکم دیا گیا ہے۔ ” اور ان کے مقابلے میں تیاری کرو پوری قوت اور اسے بندھے ہوئے گھوڑوں سے جس کے ساتھ تم اللہ کے دشمن اور اپنے دشمن کو اور ان کے علاوہ دوسروں کو ڈراتے رہو، جنہیں تم نہیں جانتے۔ انہیں اللہ جانتا ہے اور جو چیز بھی اللہ کے راستے میں خرچ کرو گے وہ تمہاری طرف لوٹائی جائے گی اور تم پر زیادتی نہیں کی جائے گی۔“ ( الانفال : ٦٠) (اِنْفِرُوْا خِفَافًا وَّ ثِقَالًا وَّ جَاہِدُوْا بِاَمْوَالِکُمْ وَ اَنْفُسِکُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ ذٰلِکُمْ خَیْرٌ لَّکُمْ اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ) (التوبہ : ٤١) ” نکلو ہلکے ہو یا بوجھل اور اپنے مالوں اور جانوں کے ساتھ اللہ کے راستے میں جہاد کرو یہ تمہارے لیے بہتر ہے اگر تم علم رکھنے والے ہو۔“ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ إجْتَنِبُوا السَّبْعَ الْمُْوْبِقَاتِ قَالُوْا یَارَسُوْلَ اللّٰہِ وَ مَاھُنَّ قَالَ اَلشِّرْکُ باللّٰہِ وَالسِّحْرُ وَقَتْلُ النَّفْسِ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّٰہُ إِلَّا بالْحَقِّ وَأَکْلُ الرِّبَا وَأَکْلُ مَالِ الْیَتِیْمِ وَالتَّوَلِّیْ یَوْمَ الزَّحْفِ وَقَذْفُ الْمُحْصَنَاتِ الْمُؤْمِنَاتِ الْغَافِلَاتِ) (رواہ البخاری : باب قول اللہ تعالیٰ :”إن الذین یأکلون أموال الیتامی ظلما“ ) ” حضرت ابوہریرہ (رض) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : سات ہلاک کرنے والے گناہوں سے بچو صحابہ (رض) نے عرض کی اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! یہ کون سے گناہ ہیں؟ آپ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرنا، جادو کرنا، ناحق کسی جان کو قتل کرنا، سود کھانا، یتیم کا مال کھانا، میدان جنگ سے پیٹھ پھیر کر بھاگنا اور پاکدامن، مومن، بے خبر عورتوں پر تہمت لگانا۔“ مسائل ١۔ بزدل اور منافق انسان قتال فی سبیل اللہ سے کتراتے ہیں۔ ٢۔ جو لوگ قتال فی سبیل اللہ سے کتراتے ہیں وہ دشمن کے ہاتھوں ذلیل اور ہلاک ہوجاتے ہیں۔ مسلمان کو اللہ اور اس کے رسول کی اتباع کرتے ہوئے قتال فی سبیل اللہ کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ ٣۔ اللہ اور رسول کی اتباع کا تقاضا ہے کہ مسلمان ایک دوسرے کو حق بات کی تلقین کرتے رہیں۔ تفسیر بالقرآن قتال فی سبیل اللہ اور حق بات کی تبلیغ کرنے کا حکم : (الانفال : ٦٥) (النساء : ٧٥) (الانفال : ٥٧) (التحریم : ٦) (آل عمران : ١٠٤) محمد
21 محمد
22 فہم القرآن ربط کلام : منافق قتال فی سبیل اللہ سے کَنّی کتراتے ہیں لیکن دنگا فساد کرنے میں تیز ہوتے ہیں۔ قرآن مجید نے منافق کی نشانیاں بتلاتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے کہ جب ان لوگوں کو سمجھایا جائے کہ زمین میں فساد نہ کرو تو باز آنے کی بجائے کہتے ہیں کہ ہم تو اصلاح کرنے والے ہیں۔ اے مسلمانو! آگاہ ہوجاؤ۔ یہ لوگ فساد کرنے والے ہیں لیکن حقیقت میں شعور نہیں رکھتے۔ (البقرۃ: ١١، ١٢) منافقین کی اسی روش کے باعث یہ ارشاد ہوا ہے کہ اگر ان لوگوں کو ملک میں کچھ اختیارات حاصل ہوجائیں تو یقیناً یہ لوگ ملک میں فساد کریں گے اور رشتہ داریوں کو توڑ ڈالیں گے۔ ان کے اس کردار کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان پر لعنت کی ہے جس بنا پر یہ کانوں سے بہرے اور آنکھوں سے اندھے ہوچکے ہیں۔ انہیں قرآن مجید کے ارشادات اور ہدایات پر غور کرنا چاہیے تھا۔ لیکن یہ قرآن مجید کی ہدایات سے اس طرح لاپرواہ ہوچکے ہیں جیسے ان کے دلوں پر تالے پڑے ہوئے ہوں۔ قرآن مجید نے کفار، مشرکین اور منافقین کے بارے میں یہ بھی بتلایا ہے کہ ان کے دل ہیں مگر ان سے سوچتے نہیں، ان کی آنکھیں ہیں لیکن ان سے دیکھتے نہیں، ان کے کان ہیں مگر ان سے سنتے نہیں یہ لوگ چوپاؤں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی گئے گزرے ہیں۔ (الاعراف : ١٧٩) دوسرے مقام پر اسی بات کو یوں بیان کیا ہے کہ یہ لوگ زمین پر چلتے پھرتے اور ان کے دل سوچنے سمجھنے کی صلاحیت پاتے اور ان کے کان حقیقت سننے کی کوشش کرتے لیکن حقیقت یہ ہے کہ آنکھیں اندھی نہیں ہوتی بلکہ سینوں میں دل اندھے ہوجاتے ہیں۔ (الحج : ٤٦) منافق کی دوسری بری عادت یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنے مفاد کی خاطر قطع تعلقی کرتے ہوئے آنکھیں ماتھے پر رکھ لیتا ہے اور اپنے مفاد کی خاطر کسی قسم کے تعلق اور رشتے کی پرواہ نہیں کرتا اس لیے فرمایا ہے کہ منافق زمین میں فساد کرتے ہیں اور رشتہ داریوں کو توڑ ڈالتے ہیں۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے بار بار اس بات کا حکم دیا ہے کہ رشتہ داریوں کا خیال رکھا جائے۔ جو لوگ رشتہ داریوں کا خیال نہیں رکھتے وہ دنیا وآخرت میں نقصان پائیں گے۔ ( البقرۃ: ٢٧) (عَنْ عَاءِشَۃَ (رض) قَالَتْ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) الرَّحِمُ مُعَلَّقَۃٌ بالْعَرْشِ تَقُوْلُ مَنْ وَصَلَنِیْ وَصَلَہُ اللّٰہُ وَمَنْ قَطَعَنِیْ قَطَعَہُ اللّٰہُ) (رواہ مسلم : باب صلۃ الرحم وتحریم قطیعتھا) ” حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں رحم عرش کے ساتھ لپٹ کر کہتا ہے جو مجھے ملائے اللہ اسے ملائے اور جو مجھے کاٹے اللہ اسے کاٹ ڈالے۔“ اسلام میں رشتہ داریوں کا اس قدر خیال رکھا گیا ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لونڈی اور اس کی اولاد کے درمیان جدائی کرنے کی اجازت نہیں دی۔ (عَنْ أَبِی مُوسَی قَالَ لَعَنَ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَنْ فَرَّقَ بَیْنَ الْوَالِدَۃِ وَوَلَدِہَا وَبَیْنَ الأَخِ وَأُختِہِ) (رواہ ابن ماجہ : بَاب النَّہْیِ عَنِ التَّفْرِیقِ بَیْنَ السَّبْیِ) ” ابو موسیٰ اشعری (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ماں اور اس کے بیٹے، بہن اور اس کے بھائی کے درمیان تفریق کرنے والے پر لعنت فرمائی۔“ مسائل ١۔ منافقین کو ملک میں اقتدار حاصل ہو تو وہ فساد برپا کرتے ہیں۔ ٢۔ منافقین اپنے مفاد اور عادت کے پیش نظر رشتہ داریوں کا خیال نہیں رکھتے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ نے منافقین پر لعنت کی ہے جس وجہ سے ان کے کان بہرے اور ان کی آنکھیں اندھی ہوتی ہیں۔ ٤۔ بہرے اور اندھے ہونے کی وجہ سے منافقین کے دلوں پر تالے پڑچکے ہیں۔ تفسیر بالقرآن کن لوگوں پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہوتی ہے : ١۔ بے گناہ مومن کو جان بوجھ کر قتل کرنے والے پر لعنت اور اسے اللہ کا عذاب ہوگا۔ (النساء : ٩٣) ٢۔ کافروں پر اللہ تعالیٰ کی لعنت اور ان کو جہنم کا عذاب ہوگا۔ (الاحزاب : ٦٤) ٣۔ یہودیوں پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہے۔ (المائدۃ: ٦٤) ٤۔ اللہ اور رسول کو ایذا پہنچانے والوں پرلعنت برستی ہے۔ (الاحزاب : ٥٧) ٥۔ منافقین پر اللہ تعالیٰ کی لعنت اور ان کے لیے جہنم کا عذاب ہے۔ (الفتح : ٦) محمد
23 محمد
24 محمد
25 فہم القرآن ربط کلام : منافق قرآن مجید سنتے ہیں مگر اس پر غور نہ کرنے کی وجہ سے ہدایت سے منہ پھیرلیتے ہیں جس وجہ سے گمراہی میں مبتلا رہتے ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ شیطان ان کو ان کے برے اعمال خوبصورت کرکے دکھلاتا ہے اور انہیں جھوٹی امیدیں دلائے رکھتا ہے۔ شیطان کی شیطینت کی وجہ سے منافقین، یہود ونصاریٰ کو یقین دلاتے ہیں کہ ہم کچھ کاموں میں تمہاری بات تسلیم کریں گے اور کچھ کاموں میں دوسروں کی بات مانیں گے۔ کیا انہیں معلوم نہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کے دلوں کے راز جانتا ہے۔ اس وقت ان کا کیا حال ہوگا جب ان کی موت کے وقت ملائکہ ان کے چہروں پر تھپڑ ماریں گے اور ان کی کمروں پر کوڑے برسائیں گے۔ اسی حالت میں انہیں دنیا سے عالم برزخ میں لے جائیں گے۔ یہ سزا اس لیے ہوگی کہ اللہ تعالیٰ نے جس چیز کی پیروی کرنے کا انہیں حکم دیا وہ اسے برا سمجھتے ہیں اور اپنے رب کی رضا مندی کو اچھا نہیں جانتے۔ جس وجہ سے ان کے اچھے کاموں کو بھی غارت کردیا جائے گا۔ (وَ لَوْ تَرٰٓی اِذْ یَتَوَفَّی الَّذِیْنَ کَفَرُوا الْمَلآءِکَۃُ یَضْرِبُوْنَ وُجُوْہَہُمْ وَ اَدْبَارَہُمْ وَ ذُوْقُوْا عَذَابَ الْحَرِیْقِ) (الانفال : ٥٠) ” کاش ! آپ دیکھیں جب فرشتے کفار کی جان قبض کرتے ہیں تو ان کے چہروں اور پیٹھوں پر مارتے ہوئے کہتے ہیں کہ جلا دینے والا عذاب چکھو۔“ (عَنِ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) إِنَّ الْعَبْدَ الْکَافِرَ إِذَا کَانَ فِی انْقِطَاعٍ مِنَ الدُّنْیَا وَإِقْبَالٍ مِنَ الآخِرَۃِ نَزَلَ إِلَیْہِ مِنَ السَّمَآءِ مَلَآءِکَۃٌ سُوْدُ الْوُجُوْہِ مَعَہُمُ الْمُسُوْحُ فَیَجْلِسُوْنَ مِنْہُ مَدَّ الْبَصَرِ ثُمَّ یَجِیْءُ مَلَکُ الْمَوْتِ حَتّٰی یَجْلِسَ عِنْدَ رَأْسِہٖ فَیَقُولُ أَیَّتُہَا النَّفْسُ الْخَبِیْثَۃُ اخْرُجِیْٓ إِلَی سَخَطٍ مِّنَ اللّٰہِ وَغَضَبٍ قَالَ فَتُفَرَّقُ فِی جَسَدِہِ فَیَنْتَزِعُہَا کَمَا یُنْتَزَعُ السَّفُّودُ مِنَ الصُّوفِ الْمَبْلُولِ فَیَأْخُذُہَا فَإِذَا أَخَذَہَا لَمْ یَدَعُوہَا فِی یَدِہِ طَرْفَۃَ عَیْنٍ حَتَّی یَجْعَلُوہَا فِی تِلْکَ الْمُسُوحِ وَیَخْرُجُ مِنْہَا کَأَنْتَنِ ریح جیفَۃٍ وُجِدَتْ عَلَی وَجْہِ الأَرْضِ فَیَصْعَدُونَ بِہَا فَلاَ یَمُرُّونَ بِہَا عَلَی مَلأٍ مِنَ الْمَلاَءِکَۃِ إِلاَّ قَالُوا مَا ہَذَا الرُّوحُ الْخَبِیثُ فَیَقُولُونَ فُلاَنُ بْنُ فُلاَنٍ بِأَقْبَحِ أَسْمَاءِہِ الَّتِی کَانَ یُسَمَّی بِہَا فِی الدُّنْیَا حَتَّی یُنْتَہَی بِہِ إِلَی السَّمَاء الدُّنْیَا فَیُسْتَفْتَحُ لَہُ فَلاَ یُفْتَحُ لَہُ ثُمَّ قَرَأَ رَسُول اللَّہِ (لاَ تُفَتَّحُ لَہُمْ أَبْوَاب السَّمَاءِ وَلاَ یَدْخُلُونَ الْجَنَّۃَ حَتَّی یَلِجَ الْجَمَلُ فِی سَمِّ الْخِیَاطِ) فَیَقُول اللَّہُ عَزَّ وَجَلَّ اکْتُبُوا کِتَابَہُ فِی سِجِّینٍ فِی الأَرْضِ السُّفْلَی فَتُطْرَحُ رُوحُہُ طَرْحاً ثُمَّ قَرَأَ (وَمَنْ یُشْرِکْ باللَّہِ فَکَأَنَّمَا خَرَّ مِنَ السَّمَاءِ فَتَخْطَفُہُ الطَّیْرُ أَوْ تَہْوِی بِہِ الرِّیحُ فِی مَکَانٍ سَحِیقٍ )۔۔) (رواہ أحمد : مسند براء بن عازب (رض)، ھذا حدیث صحیح ) ” حضرت براء بن عازب (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب کافر کا دنیا سے رخصت ہونے اور اس کی موت کا وقت آتا ہے تو آسمان سے کالے چہروں والے فرشتے اترتے ہیں۔ ان کے پاس کھردرا لباس ہوتا ہے۔ وہ فوت ہونے والے کافر سے حد نگاہ تک دور بیٹھ جاتے ہیں۔ ملک الموت اس کے سرہانے آکر کہتا ہے۔ اے خبیث جان! اللہ کی ناراضگی اور غضب کا سامنا کر پھر روح اس کے جسم سے الگ کی جاتی ہے، اور اس کو اس طرح کھینچا جاتا ہے جیسے گرم سلاخ کو روئی سے کھینچا جاتا ہے پھر اس روح کو فرشتے پکڑتے ہیں اور کوئی فرشتہ اسے اپنے ہاتھ میں آنکھ جھپکنے سے زیادہ دیر نہیں رکھتا۔ اسے بدبودار ٹاٹ میں لپیٹ لیتے ہیں اور اس سے مردار جیسی گندی بدبو نکلتی ہے جس طرح تم مردار کی بدبو زمین پر محسوس کرتے ہو۔ وہ اسے لیکر آسمانوں کی طرف جاتے ہیں ان کا گذر جس فرشتے کے ہاں ہوتا تو وہ کہتا ہے یہ کس کی گندی روح ہے تو وہ جواب دیتے ہیں وہ فلاں ابن فلاں ہے اس کے برے برے نام لیتے ہیں جن کے ساتھ اسے دنیا میں پکارا جاتا تھا حتیٰ کہ اسے آسمان دنیا کی طرف لے جایا جاتا ہے۔ اس کے لیے دروازہ کھولنے کے لیے کہا جاتا ہے تو دروازہ نہیں کھولا جاتا، پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ آیت پڑھی ( ان کے لیے آسمان کے دروازے نہیں کھولے جائیں گے اور نہ ہی وہ جنت میں داخل ہو سکیں گے حتی کہ اونٹ کو سوئی کے سوراخ میں داخل کردیں۔) اللہ تعالیٰ فرمائیں گے اس کے اعمال نامہ سجین میں لکھ دو جو زمین کی سب سے نچلی جگہ ہے اس کی روح کو پھینکا جائے گا پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ آیت تلاوت کی ( اور جو اللہ کے ساتھ شرک کرتا ہے گویا کہ وہ آسمان سے گرگیا پرندے اسے اچک رہے ہیں یا ہوا اس کو دور جگہ میں پھینک رہی ہے۔ ) “ مسائل ١۔ ہدایت واضح ہونے کے باوجود منافق اسے قبول نہیں کرتا۔ ٢۔ شیطان منافق کو اس کا برا کردار اچھا کرکے دکھلاتا ہے اور اسے جھوٹی امیدیں دلائے رکھتا ہے۔ ٣۔ منافق کفار اور مسلمانوں کو اپنی رفاقت کی یقین دہانی کرواتا ہے۔ ٤۔ ملائکہ منافق کی موت کے وقت اس کے چہرے اور کمر پر مارتے اور جھڑکیاں دیتے ہیں۔ ٥۔ منافق اپنے رب کی خوشنودی حاصل کرنے کی بجائے اللہ کی ناراضگی کے کاموں پر خوش ہوتا ہے۔ ٦۔ اللہ تعالیٰ منافق کے تمام اعمال غارت کردیتا ہے۔ تفسیر بالقرآن قیامت کے دن کن لوگوں کے اعمال غارت ہوجائیں گے : ١۔ آخرت کا انکار کرنے والوں کے اعمال ضائع ہوجا تے ہیں۔ (الاعراف : ١٤٧) ٢۔ مشرکین کے اعمال ضائع کردئیے جائیں گے۔ (التوبہ : ١٧) ٣۔ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی گستاخی کرنے والے کے اعمال ضائع کر دئیے جائیں گے۔ (الحجرات : ٢) ٤۔ ایمان کے ساتھ کفر اختیار کرنے والوں کے اعمال ضائع کر دئیے جاتے ہیں۔ (المائدۃ: ٥) ٥۔ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت نہ کرنے والوں کے اعمال برباد کردئیے جاتے ہیں۔ (محمد : ٣٣) ٦۔ وہ لوگ جو اللہ کی آیات کا انکار کرتے ہیں ان کے اعمال غارت کر دئیے جائیں گے۔ (آل عمران : ٢١۔ ٢٢) محمد
26 محمد
27 محمد
28 محمد
29 فہم القرآن ربط کلام : گزشتہ سے پیوستہ۔ منافقین کی بری عادات کا ذکر جاری ہے۔ ” اَضْغَانَ“ کا واحد ” ضغن“ ہے جس کا معنٰی حسد وبغض اور کینہ ہے۔ منافق یہ خیال کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کے حسد وبغض کو ظاہر نہیں کرے گا۔ اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو منافقوں کو اس طرح آشکارہ کردیتا کہ تمام مسلمان ان کو اچھی طرح پہچان لیتے لیکن اللہ تعالیٰ اپنے کرم اور شفقت کی بنا پر ان کی پردہ پوشی کیے ہوئے ہے۔ البتہ اس نے منافقین کے لیڈروں کو کافی حد تک ظاہر کردیا ہے۔ اس بنا پر آپ ان کے کردار اور انداز گفتگو سے انہیں اچھی طرح پہچان سکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ لوگوں کے اعمال کو اچھی طرح جانتا ہے اور تمہیں ایک دوسرے کے ساتھ اور اپنے ارشادات کے ذریعے آزماتا ہے تاکہ تم میں سے مجاہدین اور صبر کرنے والوں کو ممتاز کر دے اور جس سے تمہارے فکر و عمل کی پہچان ہوجائے۔ اللہ تعالیٰ کا کسی کے فکر وعمل اور مجاہدین اور صبر کرنے والوں کو پہچاننے کا معنٰی یہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ لوگوں کے فکر و عمل سے بے خبر ہے۔ ایسا ہرگز نہیں کیونکہ اسی نے انسان کو پیدا کیا ہے اور وہ جانتا ہے جو کچھ انسان سوچتا ہے اور جو عمل کرتا ہے۔ جب اللہ تعالیٰ اپنی ذات کے بارے میں یہ الفاظ استعمال کرتا ہے۔ تو اس کا یہ معنٰی ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کفار اور منافقین کو مخلص مسلمانوں کے سامنے آشکارہ کرنا چاہتا ہے تاکہ مسلمان اپنے اور بیگانوں کی اچھی طرح پہچان کرسکیں۔ (عَنْ صُھَیْبٍ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عَجَبًا لِاَمْرِ الْمُؤْمِنِ اِنَّ اَمْرَہٗ کُلَّہٗ لَہٗ خَیْرٌ وَلَیْسَ ذَالِکَ لِاَحَدٍ اِلَّا لِلْمُؤْمِنِ اِنْ اَصَابَتْہُ سَرَّاءُ شَکَرَفَکَانَ خَیْرًا لَہٗ وَاِنْ اَصَابَتْہُ ضَرَّاءُ صَبَرَ فَکَا نَ خَیْرًا لَّہُ) (رواہ مسلم : باب الْمُؤْمِنُ أَمْرُہُ کُلُّہُ خَیْرٌ) ” حضرت صہیب (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ایمان دار شخص کی حالت پر رشک آتا ہے۔ وہ اپنے معاملات میں، ہر صورت میں بہتر ہے اور یہ اعزاز صرف ایمان دار کو حاصل ہوتا ہے۔ اگر اسے خوشی حاصل ہو تو شکر کرتا ہے اس کا شکر اس کے لیے بہتر ہے۔ اگر اسے تکلیف پہنچے تو صبر کرتا ہے، یہ بھی اس کے لیے بہتر ہوتا ہے۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ چاہے تو لوگوں کے عیوب کو آشکارہ کردے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے بہت سے منافقوں کو آشکارہ کردیا۔ ٣۔ منافق اپنے کردار اور گفتار سے پہچانا جاتا ہے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ لوگوں کو آزماتا ہے تاکہ مومنوں کو مجاہدین اور صابرین کا علم ہوجائے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ لوگوں کی آزمائش کرتا ہے : ١۔ جنت میں داخلہ کے لیے آزمائش شرط ہے۔ (العنکبوت : ٢ ) ٢ پہلے لوگوں کو بھی آزمایا گیا۔ (العنکبوت : ٣) ٣۔ ڈر سے آزمائش۔ (البقرۃ: ١٥٥) ٤۔ فاقوں سے آزمائش۔ (البقرۃ: ١٥٥) ٥۔ مال و جان کی کمی کے ساتھ آزمائش۔ (البقرۃ: ١٥٥) ٦۔ ” اللہ“ نے موت وحیات کو انسان کے لیے آزمائش بنایا ہے۔ (الملک : ٢) ٧۔ ” اللہ“ نے آزمائش کے لیے بعض کو بعض پر فوقیت دی۔ ( الانعام : ١٦٦) ٨۔ مال اور اولاد انسان کے لیے آزمائش ہیں۔ (التغابن : ١٥) ٩۔ آزمائش میں ثابت قدمی کے بعد اللہ کی مدد یقینی اور قریب ہوا کرتی ہے۔ (البقرۃ: ٢١٤) ١٠۔ جنت میں داخلے کے لیے آزمائش ضروری ہے۔ (آل عمران : ١٤٢) محمد
30 محمد
31 محمد
32 فہم القرآن ربط کلام : منافقین کے بعد کفار کے کردار اور انجام کا ذکر۔ جو لوگ ہدایت واضح ہوجانے کے باوجود اپنے کفر پر قائم رہتے ہیں اور لوگوں کو اللہ کی راہ سے روکتے ہیں اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مخالفت کرتے ہیں انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ وہ ” اللہ“ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ اللہ تعالیٰ ان کا سب کچھ بگاڑ سکتا ہے اور بگاڑ دے گا۔ اے ایمان والو! تم اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور اپنے اعمال کو ضائع ہونے سے بچاؤ۔ ان آیات میں دواصول بیان کیے گئے ہیں۔ ١۔ جو لوگ ہدایت واضح ہونے کے بعد بھی کفر پر قائم رہتے ہیں اور رسول کی مخالفت کرتے ہیں اور لوگوں کو اللہ کے راستے سے روکتے ہیں وہ اللہ تعالیٰ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ ان کے برے عقیدہ اور کردار کی وجہ سے اللہ تعالیٰ ان کے بھلے کام بھی ضائع کردے گا۔ (عَنْ عَاءِشَۃ (رض) قَالَتْ قُلْتُ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ابْنُ جُدْعَانَ کَانَ فِی الْجَاہِلِیَّۃِ یَصِلُ الرَّحِمَ وَیُطْعِمُ الْمِسْکِیْنَ فَہَلْ ذَاکَ نَافِعُہٗ قَالَ لاَ یَنْفَعُہٗ إِنَّہُ لَمْ یَقُلْ یَوْمًا رَبِ اغْفِرْلِیْ خَطِیْءَتِیْ یَوْمَ الدِّیْنِ) (رواہ مسلم : باب الدلیل علی من مات علی الکفر لاینفعہ عمل) ” حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں میں نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا کہ ابن جدعان جاہلیت میں صلہ رحمی اور مساکین کو کھانا کھلایا کرتا تھا کیا اسے یہ کام نفع دیں گے؟ آپ نے فرمایا نہیں کیونکہ اس نے ایک دن بھی یہ نہیں کہا کہ : اے میرے رب ! قیامت کے دن میری خطاؤں کو معاف فرمادینا۔“ اللہ کے رسولوں کی مخالفت کا ایک معنٰی یہ بھی ہے کہ کوئی شخص نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سنت جانتے ہوئے اس کی مخالفت کرے۔ یا جان بوجھ کر اللہ اور اس کے رسول کے خلاف چلے بے شک وہ ایمان لانے کا دعوے دار ہو لیکن اگر وہ اللہ کے رسول کے طریقے کے خلاف چلتا ہے تو حقیقت میں وہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرتا ہے۔ اس اعتبار سے جو بھی اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت سے نکل کر اعمال کرے گا بے شک وہ اعمال بظاہر کتنے ہی اچھے اور بھلے کیوں نہ ہوں۔ مگر کتاب و سنت کے مطابق نہ ہونے کی وجہ سے سب کے سب ضائع ہوجائیں گے۔ اس لیے مومنوں کو حکم دیا گیا ہے کہ ہر حال میں اللہ کی اطاعت اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے رہو اور اپنے اعمال کو ضائع ہونے سے بچاؤ۔ (عَنْ عَاءِشَۃَ (رض) قَالَتْ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَنْ اَحْدَثَ فِیْ اَمْرِنَا ھٰذَا مَا لَےْسَ مِنْہُ فَھُوَ رَدٌّ) (رواہ مسلم : باب نَقْضِ الأَحْکَامِ الْبَاطِلَۃِ وَرَدِّ مُحْدَثَاتِ الأُمُورِ) ” حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس نے ہمارے دین میں نئی بات ایجاد کی جو اس میں نہیں ہے وہ ردّ ہوگی۔“ ” حضرت سہل بن سعد (رض) بیان کرتے ہیں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میں تمھارا حوض کوثر پر انتظار کروں گا جو بھی میرے پاس آئے گا وہ اس سے پیے گا اور جو شخص بھی اس سے ایک مرتبہ پیے گا وہ کبھی پیاس محسوس نہیں کرے گا۔ میرے پاس کچھ لوگ آئیں گے وہ مجھے پہچان لیں گے اور میں انھیں اپنے امتی کے طور پر سمجھوں گا پھر میرے اور ان کے درمیان پردہ حائل ہوجائے گا ابو حازم نے کہا نعمان بن ابی عیاش نے مجھ سے سنا اور کہا کیا تم نے اسی طرح سہل سے سنا ہے میں نے کہا ہاں، پس اس نے کہا میں ابو سعید خدری (رض) سے سنا وہ اس میں مزید اضافہ کرتے ہوئے کہا یہ تو میرے امتی ہیں کہا جائے گا آپ نہیں جانتے آپ کے بعد انھوں نے کیا کیا بدعتیں شروع کیں میں ان سے کہوں گا دور ہوجاؤ دور ہوجاؤ جس نے میرے بعد دین کو بدل ڈالا۔“ (رواہ البخاری : کتاب الرقاق باب الحوض) مسائل ١۔ کفار کے کفر کی وجہ سے ان کے تمام کے تمام اعمال ضائع کردیئے جائیں گے۔ ٢۔ جو شخص ہدایت واضح ہوجانے کے باوجود اللہ کے راستے سے روکتا ہے اس کے اعمال ضائع کردیئے جائیں گے۔ ٣۔ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مخالفت کرنے والے اللہ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے اللہ تعالیٰ ان کا سب کچھ ضائع کردے گا۔ تفسیر بالقرآن ایمانداروں کو ہر حال میں اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرنی چاہیے : ١۔ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔ (آل عمران : ١٣٢) (الانفال : ٤٦) (المائدۃ: ٩٢) (النساء : ٥٩) (محمد : ٣٣) (الاحزاب : ٧١) (آل عمران : ٣١) (النساء : ٦٩) محمد
33 محمد
34 فہم القرآن ربط کلام : کفار کو ان کا انجام بتلانے کے بعد مومنوں کو تسلی دی گئی ہے کہ دنیا میں تم ہی غالب رہو گے اور آخرت میں اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال سے کچھ کم نہیں کرے گا۔ جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کا انکار کرتے ہیں اور لوگوں کو اللہ کے راستے سے روکتے ہیں اور پھر اسی حالت میں مرجاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں ہرگز معاف نہیں کرے گا۔ نہ صرف اللہ تعالیٰ انہیں آخرت میں معاف نہیں کرے گا بلکہ وہ دنیا میں بھی ذلیل ہوں گے۔ اے مسلمانوں تمہارا ان کے ساتھ مقابلہ ہو تو میدان جنگ میں نہ ہمت ہارنا اور نہ ہی کمزور بن کر صلح کی دعوت دینا ہے۔ اللہ تمہارے ساتھ ہے اس لیے تم ہی غالب رہو گے۔ مسلمانوں کے حوصلے بڑھانے اور ان کو یقین دلانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے بار بار مخاطب کی ضمیر استعمال فرمائی ہے جس میں یہ یقین دہانی کروائی گئی ہے کہ مسلمانوں تمہیں ہمت نہیں ہارنا چاہیے اور نہ ہی تمہیں جھک کر کفار سے صلح کرنی چاہیے۔ اس لیے کہ تم کفار پر غالب آنے والے ہو۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ تمہارا ساتھی اور معاون ہے۔ اسی بات کو غزوہ احد کے موقع پر یوں بیان فرمایا کہ اے مسلمانو! نہ ہمت ہارو اور نہ غم کھاؤ! اگر مومن ہو تو تم ہی غالب رہو گے۔ (آل عمران : ١٣٩) مسلمانوں کو حالت جنگ میں کفار کے ساتھ جھک کر صلح کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ میدان جنگ میں دشمن کے ساتھ جھک کر صلح کرنا اپنے آپ کو ذلیل کرنے اور موت کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ جس قوم نے بھی حالت جنگ میں دشمن کے سامنے جھک کر صلح کی نہ صرف اسے ذلیل کیا گیا بلکہ ان کا قتل عام بھی ہوا۔ یہاں مشرقی پاکستان کی مثال پیش کی جاتی ہے۔1973 ء میں مشرقی پاکستان کے شیخ مجیب الرحمن نے انڈیا کے ساتھ مل کر مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش کا نام دیا اور وہ بنگلہ دیش کا پہلا وزیر اعظم بنا۔ جسے بعدازاں اس کی فوج کے چیف نے اس کے خاندان سمیت اسے قتل کردیا شیخ مجیب الرحمن کے کہنے پر جب انڈیا کی فوجیں مشرقی پاکستان میں داخل ہوئیں تو پاکستان کی حمایت اور دفاع کے لیے جنرل اے کے نیازی کی کمان میں مشرقی پاکستان جانے والی نوے ہزار (90,000) فوج نے پلٹن میدان ڈھاکہ میں ہتھیار ڈال دیئے اور دنیا کو باور کروایا کہ ہم نے انڈیا اور مجیب الرحمن کے ساتھ باعزت معاہدہ کیا ہے۔ لیکن جوں ہی جنرل اے کے نیازی نے انڈیا کے جرنیل جنرل اروڑہ کے سامنے اپنا پسٹل پیش کیا اور اسے سلوٹ مارا تو نہ صرف اے کے نیازی کو گرفتار کرلیا گیا بلکہ نوے ہزار (90,000) پاکستانی فوجیوں کو قیدی بنایا گیا اور فوج کی حمایت کرنے والے بنگلہ دیشیوں کو سرِعام قتل کردیا گیا اور پاکستانی فوج کے ہتھیار پھینکنے کی پوری دنیا میں بار بار فلم دکھائی گئی۔ قرآن مجید نے مسلمانوں کو ایسی ذلت سے بچانے کے لیے یہ ہدایت کی ہے کہ اے مسلمانوں دشمن کے مقابلے میں تم ہی کامران اور سربلند ہوگے بشرطیکہ تم ایمان کے تقاضے پورے کرو۔ اللہ تعالیٰ نے یہ وعدہ بدر، خندق، فتح مکہ، حنین اور تبوک کے میدان میں پورا کر دکھایا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی سے یہ وعدہ کیا ہے کہ آپ اور اسلام غالب ہو کر رہیں گے۔ ” وہی تو ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا ہے تاکہ اسے دوسرے ادیان پر غالب کر دے خواہ مشرکین کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو۔“ (الصف : ٩) ” اللہ نے لکھ دیا ہے کہ میں اور میرے رسول ہی غالب رہیں گے یقیناً اللہ زبردست اور غالب ہے۔“ (المجادلہ : ٢١) ” یقین جانو کہ ہم اپنے رسولوں اور ایمان لانے والوں کی دنیا میں بھی مدد کرتے ہیں اور آخرت میں بھی کریں گے۔“ (المومن : ٥١) مسائل ١۔ جو لوگ کفر کی حالت میں مریں گے اللہ تعالیٰ ان کے گناہ معاف نہیں کرے گا۔ ٢۔ مسلمانوں کو حالت جنگ میں کفار کے مقابلے میں نہ ہمت ہارنا چاہیے اور نہ جھک کر صلح کرنی چاہیے۔ ٣۔ رب کریم کی دستگیری سے مسلمان ہمیشہ سربلند رہیں گے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ نے انبیاء ( علیہ السلام) اور ان کے ساتھیوں کو دنیا میں سربلند فرمایا : ١۔ ہم ظالموں کو ہلاک کریں گے اور تمہیں ان کے بعد زمین میں بسائیں گے یہ وعدہ ہر اس شخص کے لیے ہے جو اللہ کے سامنے کھڑا ہونے سے ڈرجائے۔ (ابراہیم : ١٣۔ ١٤) ٢۔ کفارنے حضرت نوح کو جھٹلایا ہم نے نوح اور اس کے ماننے والوں کو نجات دی۔ (الاعراف : ٦٤) ٣۔ ہم نے موسیٰ اور ان کے ساتھیوں کو نجات دی۔ (الشعرا : ٦٥) ٤۔ ہم نے شعیب اور ایمان لانے والوں کو نجات دی۔ (ہود : ٩٤) ٥۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مدد فرمائی۔ ( الانفال : ٦٢) محمد
35 محمد
36 فہم القرآن ربط کلام : قتال فی سبیل اللہ اور انفاق فی سبیل اللہ کے لیے ضروری ہے کہ انسان دنیا کی حقیقت جاننے کی کوشش کرے اور پھر یقین کرے کہ آخرت کے مقابلے میں دنیا عارضی اور حقیر ہے۔ قرآن مجید بار بار انسان کو یہ حقیقت بتلاتا اور سمجھاتا ہے کہ دنیا کی حیثیت کھیل اور تماشا کے سوا کچھ نہیں ہے۔ جس طرح کھیل اور تماشا وقتی طور پر دل بہلانے کا سامان اور صحت کو برقرار رکھنے کے ذرائع میں سے ایک ذریعہ ہے یہی حقیقت آخرت کے مقابلے میں دنیا کی ہے، لازم ہے کہ انسان دنیا میں دل لگانے کی بجائے اسے آخرت سنوارنے کا ذریعہ سمجھے تاکہ انسان جنت کی دائمی نعمتوں کا مالک قرار پائے۔ اس کے لیے پہلی شرط یہ ہے کہ آدمی کا اللہ اور اس کے رسول کی ذات اور بات پر کامل اور اکمل ایمان لائے۔ اس لیے ارشادہوا ہے کہ اگر تم سچے دل کے ساتھ ایمان لاؤ اور حقیقی طور پر تقویٰ اختیار کرو۔ اللہ تعالیٰ تمہیں بے انتہا اجر عطا فرمائے گا اور یاد رکھو! وہ تم سے تمہارے پورے مال کا تقاضا نہیں کرتا۔ اگر وہ تم سے پورے مال کا مطالبہ کرتا تو تم بخل کا مظاہرہ کرتے اور تمہارا بخل ظاہر ہوجاتا۔ وہ تم سے نہ پورے مال کا تقاضا کرتا ہے اور نہ تمہیں تنگ کرنا چاہتا ہے۔ لہٰذا جو بخل کرے گا اس کے بخل کا اسے ہی نقصان ہوگا۔ یادرکھو ! اللہ تعالیٰ ہر اعتبار سے غنی ہے اور تم ہر حال میں اس کے محتاج ہو۔ اگر تم قتال اور انفاق فی سبیل اللہ نہیں کرو گے تو اللہ تعالیٰ تمہاری جگہ کسی اور قوم کو لے آئے گا وہ تم جیسے نہیں ہوں گے وہ تم سے بہتر ہوں گے۔ اس فرمان میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو صدقہ کرنے کی تلقین کی ہے اور یہ بات واضح فرمائی ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہیں تنگ کرنے کے کے لیے تم سے پورے مال کا مطالبہ نہیں کرتا۔ وہ تو جہاد اور غرباء کے لیے تم سے معمولی مال کا مطالبہ کرتا ہے جس میں تمہیں ہی فائدہ ہوگا۔ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) أَنَّ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ مَامِنْ یَوْمٍ یُّصْبِحُ الْعِبَادُ فِیْہِ إِلَّا مَلَکَانِ یَنْزِلَانِ فَیَقُوْلُ أَحَدُھُمَا اَللّٰھُمَّ أَعْطِ مُنْفِقًا خَلَفًا وَیَقُوْلُ الْآخَرُ اللّٰھُمَّ أَعْطِ مُمْسِکًا تَلَفًا) (رواہ البخاری : باب قول اللّٰہِ تعالیٰ (فَاَمَّا مَنْ اَعْطٰی وَاتَّقٰی۔ وَصَدَّقَ بالْحُسْنٰی ) ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ہر صبح دو فرشتے اتارے جاتے ہیں ان میں سے ایک یہ آواز لگاتا ہے۔ اے اللہ! خرچ کرنے والے کو اور عطا فرما دوسرا یہ کہتا ہے اے اللہ! خرچ نہ کرنے والے کا مال ختم کردے۔“ مسائل ١۔ آخرت کے مقابلے میں دنیا کی زندگی عارضی اور تھوڑی ہے۔ ٢۔ دنیا کی زندگی آخرت کے مقابلے میں کھیل تماشا سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی۔ ٣۔ اگر لوگ ایمان لائیں اور پرہیزگاری اختیار کریں تو اللہ تعالیٰ انہیں پورا پورا اجر عطا فرمائے گا۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ لوگوں سے بہت کم مال کا تقاضا کرتا ہے۔ ٥۔ بخل کرنے والا بالآخر اپنا ہی نقصان کرتا ہے۔ ٦۔ اللہ تعالیٰ ہر اعتبار سے غنی ہے اور لوگ ہر حوالے سے اس کے محتاج ہیں۔ تفسیر بالقرآن بخیل کی مذّمت اور اس کا انجام : ١۔ خزانے جمع کرنے والوں کو عذاب کی خوشخبری دیں۔ (التوبہ : ٣٤) ٢۔ بخیل اپنا مال ہمیشہ باقی نہیں رکھ سکتا۔ (الہمزہ : ٣) (آل عمران : ١٨٠) (التغابن : ١٦، الحشر : ٩) (التوبہ : ٣٥) محمد
37 محمد
38 محمد
0 سورۃ فتح کا تعارف اس سورت کا نام الفتح ہے جو اس کی چوبیس آیت میں موجود ہے یہ سورت چار رکوع اور انتیس (٢٩) آیات پر محیط ہے۔ یہ سورت مدینہ منورہ میں ٦ ؁ ہجری میں نازل ہوئی۔ اس کا پس منظر یہ ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خواب میں دیکھا کہ آپ بیت اللہ کی زیارت کر رہے ہیں اس پر آپ نے اعلان فرمایا کہ ہم عمرہ کرنے کے لیے جارہے ہیں اس لیے سب کو عمرہ کی تیاری کرنی چاہیے لیکن ہوا یہ کہ جب آپ چودہ سو اصحاب کے ساتھ مکہ کے قریب حدیبہ کے مقام پر پہنچے تو آپ کو حضرت عباس کے ذریعے معلوم ہوا کہ مکہ والے آپ کو کسی صورت بھی عمرہ کرنے نہیں دیں گے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اہل مکہ کو سمجھانے کے لیے حضرت عثمان (رض) کو بھیجا کہ انہیں سمجھائیں ہم لڑنے کے لیے نہیں آئے ہماری آمد کا مقصد بیت اللہ کی زیارت کرنا ہے لیکن مکہ والے کسی صورت بھی ماننے کے لیے تیار نہ ہوئے اس صورت حال میں دونوں طرف سے مذاکرات ہوئے جس کے نتیجہ میں معاہدہ طے پایا جس کی شرائط میں ایک شرط یہ تھی کہ اگر کوئی شخص مسلمان ہو کر مدینہ جائے گا تو مدینہ والوں کو اسے واپس کرنا ہوگا اگر کوئی مسلمان مکہ آئے گا تو اسے واپس نہیں کیا جائے گا۔ صحابہ کی غالب اکثریت کو یہ شرط پسند نہیں تھی لیکن نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس شرط کو قبول فرمایا بالآخر آپ عمرہ کیے بغیر مدینہ کی طرف واپس پلٹے ابھی آپ مدینہ واپس نہیں آئے تھے کہ یہ سورت نازل ہوئی جس کی ابتدا ان الفاظ سے کی گئی کہ اے رسول ہم نے آپ کے لیے فتح کے دروازے کھول دئیے ہیں اور آپ کے اگلے پچھلے گناہ بھی معاف کر دئیے ہیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کی زبردست مدد فرمائے گا کیونکہ وہ بڑی قوت والا ہے اس کے بعد منافقوں کے کردار کا ذکر کیا گیا ہے جو یہ سمجھ کر پیچھے رہ گئے تھے کہ مسلمان خالی ہاتھ مکہ کی طرف جا رہے ہیں وہ واپس نہیں پلٹیں گے کیونکہ مکہ والوں کے ساتھ گٹھ جوڑ ہونے کی وجہ سے منافق جانتے تھے کہ مکہ کے لوگ انہیں عمرہ نہیں کرنے دیں گے۔ اس صورت میں لڑائی ہوگئی تو مسلمانوں میں سے کوئی بچ کر واپس نہیں آئے گا۔ لڑائی کے خوف کی وجہ سے منافقوں نے مختلف بہانے بنائے اور بیٹھے رہنے کو اپنے لیے غنیمت جانا۔ اس موقعہ پر اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو فتح عظیم کی خوشخبری سنانے کے ساتھ یہ خوش خبری بھی دی کہ اللہ تعالیٰ ان مومنوں پر راضی ہوگیا جنہوں نے ایک درخت کے نیچے بیٹھ کر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہاتھ پر بیعت کی تھی صحابہ (رض) کا فرمان ہے کہ ہم نے یہ جان کر بیعت کی تھی کہ اگر مکہ والوں کے ساتھ جنگ ہوئی تو ہم میں سے کوئی بچ کر واپس نہیں جائے گا کیونکہ ہم خالی ہاتھ تھے۔ مسلمانوں نے اس لیے استقامت کا مظاہرہ کیا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان پر اپنی سکینت نازل فرمائی تھی اس سورت کے آخر میں بار بار تاکید کے ساتھ یہ الفاظ استعمال فرما کریقین دہانی کروائی گئی کہ تم ضرور بیت اللہ میں داخل ہو گے اور امن سکون کے ساتھ عمرہ کی سعادت حاصل کرو گے بے شک اس مرتبہ تم اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہو پائے لیکن یاد رکھو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو دین حق اور اپنی راہنمائی کے ساتھ اس لیے مبعوث فرمایا ہے کہ آپ تمام باطل ادیان پر پر دین اسلام کو غالب کردیں۔ یہ اس لیے بھی ہوگا کہ حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں اور آپ کے ساتھیوں میں یہ اوصاف بھی پائے جاتے ہیں کہ وہ اپنے رب کے حضور جھکنے والے، آپس میں مہربان اور حالت جنگ میں کفارکے لیے بڑے سخت ہیں۔ الفتح
1 فہم القرآن ربط سورت : سورت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اختتام اس فرمان پر ہوا ہے کہ اللہ تعالیٰ چاہے تو تمہاری جگہ دوسری قوم لاسکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں ایک قوم کی جگہ دوسری قوم لانے کے کئی طریقے ہیں جن میں ایک طریقہ یہ ہے کہ پہلی قوم کا سیاسی اقتدار اور سماجی اثر و رسوخ ختم کردیا جائے اور اس کی جگہ دوسری قوم کو موقع دیا جائے جس کی واضح مثال فتح مکہ میں پائی جاتی ہے۔ نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک رات خواب دیکھا کہ میں اپنے اصحاب کے ساتھ بیت اللہ کی زیارت اور اس کا طواف کررہا ہوں جس میں سال اور وقت کا تعین واضح نہیں تھا۔ بیت اللہ کی زیارت کا شوق اور حالات کے تقاضے کے پیش نظر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ میں اعلان فرمایا کہ تیاری کرو کہ ہم عمرہ کے لیے مکہ معظمہ کا سفر کرنے والے ہیں اور یہ بات مجھے خواب میں بتلائی گئی ہے۔ اس خواب کا اشارہ سورۃ بنی اسرائیل کی آیت ٦٠ میں موجود ہے۔ نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) چودہ سو صحابہ کے ساتھ مکہ معظمہ کی طرف روانہ ہوئے جب آپ مکہ کے قریب پہنچے تو حضرت عباس (رض) جو اس وقت تک مکہ میں ہی مقیم تھے انہوں نے خفیہ ذرائع کے ذریعے آپ کو اطلاع دی کہ مکہ والے آپ کو کسی صورت عمرہ کرنے کی اجازت دینے کے لیے تیار نہیں۔ نہ صرف اجازت دینے کے لیے تیار نہیں بلکہ آپ کے ساتھ پوری طرح جنگ کرنے کے لیے تیار ہیں۔ اس اطلاع پر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مکہ کی طرف جانے والا عام راستہ چھوڑ کر دوسرا راستہ اختیار کیا اور حالات کے پیش نظر مکہ جانے کی بجائے حدیبیہ کے مقام پر قیام فرمایا تاکہ اہل مکہ کو اپنے سفر کا مقصد بتلانے کے ساتھ سمجھایا جائے کہ ہم عمرہ کے لیے آئے ہیں اس کے سوا ہمارے آنے کا کوئی اور مقصد نہیں۔ لیکن اہل مکہ سمجھتے تھے کہ اگر ہم نے ان حالات میں آپ کو عمرہ کی اجازت دی تو لوگ سمجھیں گے کہ مکہ والے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور اس کے ساتھیوں سے ڈر گئے ہیں۔ اس لیے وہ کسی صورت میں آپ کو مکہ داخل ہونے کی اجازت دینے کے لیے تیار نہ تھے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں اپنی آمد کی حقیقت بتلانے کے لیے حضرت عثمان کو مکہ روانہ کیا۔ حضرت عثمان (رض) مذاکرات کرنے کے لیے مکہ پہنچے تو انہیں واپس آنے میں کچھ تاخیر ہوئی جس بنا پر صحابہ کرام (رض) میں بہ بات عام ہوگئی کہ اہل مکہ نے حضرت عثمان (رض) کو شہید کردیا ہے اس پر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت عثمان (رض) کے قتل کا بدلہ لینے کے لیے صحابہ کرام [ سے بیعت لی جس کا ذکر اسی سورت کی آیت ١٠ تا ١٨ میں موجود ہے۔ واقعہ کی تفصیلات جاننے کے لیے سیرت کی کتابوں کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ خلاصہ یہ ہے کہ دونوں طرف سے مذاکرات کے نتیجے میں بالآخر ایک معاہدہ قرار پایا جس کی درجہ ذیل شرائط طے پائیں۔ ١۔ اس سال مسلمان عمرہ نہیں کرسکتے البتہ اگلے سال انہیں عمرہ کرنے کی اجازت ہوگی۔ ٢۔ اگر مکہ والوں میں کوئی شخص مسلمان ہو کر مدینہ پہنچے تو اسے واپس کرنا ہوگا اور اگر مسلمانوں میں سے کوئی شخص مکہ آئے گا تو اسے واپس نہیں کیا جائے گا۔ ٣۔ مسلمان اگلے سال عمرہ کے لیے آئیں گے تو ان کے ساتھ کسی قسم کا اسلحہ نہیں ہونا چاہیے۔ مکہ والے تین دن کے لیے مکہ خالی کردیں گے۔ ٤۔ آپس میں دس سال تک جنگ نہیں کی جائے گی۔ ٥۔ اہل مکہ اور مسلمان جن قبائل کو چاہیں گے اپنا حلیف بنا سکیں گے۔ کچھ صحابہ نے ابتداً معمولی سا اختلاف کیا لیکن اس کے بعد فی الفور تمام صحابہ نے اس معاہدے کو تسلیم کیا جن کی تعداد چودہ سو تھی۔ اس کے بعد آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مدینہ کی طرف واپس ہوئے۔ راستے میں سورۃ الفتح کی ابتدائی آیات نازل ہوئیں جن میں اللہ تعالیٰ نے پورے جلال کے ساتھ ارشاد فرمایا کہ اے نبی! ہم نے واضح طور پر آپ کو فتح عطا فرمادی ہے تاکہ آپ کے اگلے پچھلے گناہ معاف کردیئے جائیں اور آپ پر اپنی نعمت کا اتمام فرمائے، آپ کو صراط مستقیم پر گامزن رکھے اور آپ کی زبردست مدد فرمائے۔ صلح حدیبیہ کو درج ذیل امور کی وجہ سے فتح مبین قرار دیا گیا ہے۔ ١۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مکہ کا سفر اختیار کرکے یہ ثابت کردیا ہے کہ اب وقت آگیا ہے کہ جب چاہیں ہم مکہ میں داخل ہوسکتے ہیں۔ ٢۔ نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ بھی ثابت کردیا کہ اسلام تلوار کے ذریعے نہیں بلکہ اخلاق اور تبلیغ کے ذریعے پھیلتا ہے ٣۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے نہتے ساتھیوں کو موت کے منہ سے بچا لیا کیونکہ صحابہ کرام (رض) کا فرمان ہے کہ اگر مکہ والوں کے ساتھ جنگ ہوجاتی تو اس میں بظاہر ہماری موت یقینی تھی۔ ٤۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مکہ والوں پر اخلاقی فتح حاصل کی کیونکہ اس معاہدہ کے ذریعے یہ ثابت ہوگیا کہ مسلمان برابر کی چوٹ رکھتے ہیں بظاہر مکہ والے کرّو فر دکھا رہے تھے لیکن حقیقت میں مسلمانوں کی طاقت تسلیم کرچکے تھے۔ ٥۔ صلح حدیبیہ سے تعصبات کی دیواریں ٹوٹ گئیں اور اسلام کی تبلیغ کا راستہ ہموار ہوا۔ ٦۔ ٹھیک دو سال سے پہلے مکہ فتح ہوا اور مکہ کے بڑے بڑے سردار معافی کے خواستگار ہوئے جنہیں آپ نے معاف فرمادیا اور انہوں نے خوشدلی کے ساتھ اسلام قبول کرلیا۔ ٧۔ اللہ تعالیٰ نے اسلام اور مسلمانوں کو غالب فرمایا۔ ٨۔ اللہ تعالیٰ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ہر میدان میں زبردست مدد فرمائی۔ ٩۔ اللہ تعالیٰ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس موقع پر بر وقت اور ٹھیک ٹھیک فیصلہ کرنے کی راہنمائی فرمائی۔ (لِّیَغْفِرَلَکَ اللّٰہُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِکَ وَمَا تَاَخَّرَ) (الفتح : ٢) ” تاکہ اللہ آپ کے اگلے پچھلے گناہ معاف فرمائے۔“ (تفصیل کے لیے سورۃ محمد کی آیت ١٩ کی تفسیر ملاحظہ فرمائیں۔) (عَنِ الْمُغِےْرَۃِ (رض) قَالَ قَام النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حَتّٰی تَوَرَّمَتْ قَدَمَاہُ فَقِےْلَ لَہُ لِمَ تَصْنَعُ ھٰذَا وَقَدْ غُفِرَ لَکَ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِکَ وَمَا تَاَخَّرَ قَالَ اَفَلَا اَکُوْنَ عَبْدًا شَکُوْرًا) (رواہ البخاری : باب قِیَام النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حَتَّی تَرِمَ قَدَمَاہُ) ” حضرت مغیرہ (رض) ذکر کرتے ہیں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رات کو اس قدر قیام کرتے کہ آپ کے قدم سوج جایا کرتے تھے۔ جب آپ سے عرض کیا گیا کہ آپ اس قدر کیوں قیام کرتے ہیں حالانکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے پہلے اور پچھلے گناہ معاف کردیے ہیں؟ فرمایا کیا مجھے اس کا شکرگزار بندہ نہیں بننا چاہیے۔“ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی مدد کرنے والا ہے : ١۔ اللہ کے سوا نہ تمہارا کوئی دوست ہے اور نہ کوئی مددگار۔ (البقرۃ: ١٠٧) ٢۔ اللہ نے یہ لکھ دیا کہ وہ اور اس کے رسول غالب آئیں گے۔ (المجادلہ : ٢١) ٣۔ ” اللہ“ نے حنین کے موقعہ پر اپنے بندوں کی مدد فرمائی۔ ( التوبہ : ٢٥) ٤۔ اللہ نے غار ثور میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مدد فرمائی۔ ( التوبہ : ٤٠) ٥۔ اللہ اپنے رسولوں اور مومنوں کی مدد فرماتا ہے۔ (الانفال : ٦٢) ٦۔ اللہ نے اپنا رسول اس لیے مبعوث فرمایا کہ اس کے دین کو تمام ادیان پر غالب کر دے۔ ( الفتح : ٢٨) ٧۔ نہیں ہے تمھارے لیے اللہ کے سوا کوئی دوست اور سفارشی پھر تم کیوں نصیحت نہیں حاصل کرتے۔ (السجدۃ: ٤) الفتح
2 الفتح
3 الفتح
4 فہم القرآن ربط کلام : صحابہ کرام (رض) کو فتح مکہ کی خوشخبری سنانے کے ساتھ جنت کی خوشخبری بھی دی گئی۔ اللہ تعالیٰ نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حدیبیہ کے مقام پر بر وقت اور ٹھیک ٹھیک فیصلہ کرنے کی راہنمائی فرمائی اور مومنوں پر اطمینان اور سکون نازل فرمایا تاکہ مومنوں کے ایمان میں مزید اضافہ ہوجائے۔ حقیقت یہ ہے کہ زمین و آسمانوں کے لشکر اور قوتیں اللہ ہی کے اختیار میں ہیں۔ وہ سب کچھ جاننے والا ہے اور اس کے ہر حکم میں حکمت پائی جاتی ہے۔ ” یَہْدِیَکَ صِرَاطًا مُّسْتَقِیْمًا“ کے الفاظ فرما کر صحابہ کرام (رض) کو بتلایا ہے کہ حدیبیہ کے مقام پر جو معاہدہ ہوا تھا اس میں اللہ تعالیٰ کی راہنمائی اور توفیق شامل حال تھی اس لیے یہ معاہدہ ہر اعتبار سے صحیح ثابت ہوا۔ اللہ تعالیٰ نے دنیا میں صحابہ کرام (رض) کو کامیابیاں عطا فرمائیں اور آخرت میں مومن اور مومنات کو جنت میں داخل فرمائے گا جس کے نیچے سے نہریں جاری ہوں گی اور جنتی اس میں ہمیشہ رہیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے اس سورت کی پہلی پانچ آیات میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ (رض) کو پانچ، پانچ خوشخبریاں سنائیں۔ (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ قَیْسٍ (رض) عَنْ أَبِیْہِ عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ إِنَّ لِلْمُؤْمِنِ فِی الْجَنَّۃِ لَخَیْمَۃً مِنْ لُؤْلُؤَۃٍ وَاحِدَۃٍ مُجَوَّفَۃٍ طُوْلُھَا سِتُّوْنَ مِیْلًا لِلْمُؤْمِنِ فِیْھَا أَھْلُوْنَ یَطُوْفُ عَلَیْھِمُ الْمُؤْمِنُ فَلَا یَرٰی بَعْضُھُمْ بَعْضًا) (رواہ مسلم : باب فی صفۃ خیام الجنۃ ....) ” حضرت عبداللہ بن قیس اپنے باپ سے اور وہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں آپ کا فرمان ہے کہ جنت میں مومن کے لیے موتی کا ایک ایسا خیمہ ہوگا جس کی لمبائی ساٹھ میل ہوگی وہاں مومن کے گھر والے ہوں گے جن کے ہاں وہی جائے گا دوسرا انہیں نہیں دیکھ سکے گا۔“ عربی لغت ” المنجد“ کے مطابق ” اَلسَّکِیْنَۃُ“ کا معنٰی سکون، اطمینان، سنجیدگی اور وقار ہے۔ مسائل اللہ تعالیٰ نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس موقعہ پر پانچ اور صحابہ (رض) کو چار خوشخبریاں دیں : ١۔ اللہ تعالیٰ نے فتح مکہ کی صورت میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو عظیم فتح عطا فرمائی اور اسلام کی کامیابی کے لیے راستہ کھول دیا۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اگلے پچھلے گنا ہوں کو معاف فرمادیا۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اپنی نعمت پوری کرنے کا وعدہ فرمایا۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ نے اہل مکہ کے مقابلے میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبردست مدد فرمائی۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو صراط مستقیم پر قائم رکھنے کی گارنٹی دی۔ ١۔ صحابہ اور صحابیات (رض) کو دنیا اور آخرت کی کامیابی سے سرفراز فرمایا۔ ٢۔ صحابہ اور صحابیات (رض) کے گناہ معاف کرنے کی خوشخبری سنائی۔ ٣۔ صحابہ (رض) کے ایمان میں مزید اضافہ فرمایا۔ ٤۔ صحابہ اور صحابیات (رض) کو ہمیشہ کے لیے جنت میں داخلے کی خوشخبری سنائی۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے ساتھیوں کو دنیا اور آخرت کی کامیابیوں سے سرفراز کیا : ١۔ بدر میں مشرکین پسپا ہوئے اور مسلمانوں کو فتح نصیب ہوئی۔ (آل عمران : ١٢٣ تا ١٢٧) ٢۔ احد میں پہلے مسلمان غالب رہے۔ (آل عمران : ١٥٢) ٣۔ ٨ ہجری کو اہل مکہ مغلوب ہوئے اور مسلمان کامیاب ہوئے۔ (الفتح : ١) ٤۔ غزوۂ حنین میں مشرک شکست کھا گئے اور مسلمان کامیاب رہے۔ (التوبہ : ٢٦) ٥۔ جنگ خندق میں اہل مکہ اور دیگر قبائل کو شکست ہوئی۔ (الاحزاب : ٢٥ تا ٢٧) ٦۔ صحابہ (رض) دنیا و آخرت میں کامیاب ہوئے۔ (المجادلہ : ٢٢) الفتح
5 الفتح
6 فہم القرآن ربط کلام : صحابہ (رض) کو دنیا اور آخرت میں کامیابی کی نوید سنانے کے بعد منافقین اور مشرکین کو دنیا اور آخرت کی ذلت سے آگاہ کردیا گیا۔ اللہ تعالیٰ نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دور میں منافق مردوں اور منافق عورتوں، مشرک مرد اور مشرک عورتوں کو دنیا میں ان کے کیے کی سزا دی کیونکہ منافق اور مشرک اپنے اپنے خیال کے مطابق اللہ تعالیٰ کے بارے میں غلط عقیدہ رکھتے تھے اور مسلمانوں کے بارے میں برا سوچتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان پر دنیا میں لعنت کی اور آخرت میں ان کے لیے جہنم تیار کر رکھی ہے جورہنے کے اعتبار سے بدترین جگہ ہے۔ مدینے کے منافق مرد اور منافق عورتوں کا خیال تھا کہ مسلمان خالی ہاتھ مکہ کی طرف جا رہے ہیں اس لیے بچ کر واپس نہیں آئیں گے۔ یہی سوچ مشرکین مکہ اور ان کی عورتوں کی تھی وہ بھی سمجھتے تھے کہ اس بار مسلمان ہمارے ہاتھوں بچ کر نہیں جا سکیں گے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کا مشرکین مکہ پر اس طرح رعب ڈال دیا کہ وہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ مذاکرات کرنے پر مجبور ہوئے۔ کیونکہ ان پر اللہ تعالیٰ نے لعنت کی اور آخرت میں ان کے لیے جہنم تیار کی ہے جورہنے کے اعتبار سے بدترین جگہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ زمین و آسمانوں کے لشکر اللہ کے اختیار میں ہیں اور وہ اپنے فیصلے نافذ کرنے پر غالب ہے اس کے فیصلوں کو زمین و آسمانوں کی کوئی طاقت ٹال نہیں سکتی اور اس کے ہر حکم میں حکمت پنہاں ہوتی ہے۔ (ثُمَّ اَنْزَلَ اللّٰہُ سَکِیْنَتَہٗ عَلٰی رَسُوْلِہٖ وَعَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ وَ اَنْزَلَ جُنُوْدًا لَّمْ تَرَوْھَا وَعَذَّبَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَذٰلِکَ جَزَآءُ الْکٰفِرِیْنَ) (التوبۃ: ٢٦) ” پھر اللہ نے اپنے رسول اور ایمان والوں پر اپنی سکینت نازل فرمائی، اور وہ لشکر اتارے جن کو تم نہیں دیکھ سکتے تھے اور ان لوگوں کو سزا دی جنہوں نے کفر کیا اور یہی کافروں کی سزا ہے۔“ ” اور اہل کتاب اور مومن کسی شک میں نہ رہیں، اور دل کے بیمار اور کفار یہ کہیں کہ بھلا اللہ کا اس عجیب بات سے کیا مطلب ہوسکتا ہے اس طرح اللہ جسے چاہتا ہے گمراہ کردیتا ہے اور جسے چاہتا ہے ہدایت بخش دیتا ہے اور تیرے رب کے لشکروں کو اس کے سوا کوئی نہیں جانتا اور جہنم کا ذکر اس کے سوا کسی غرض کے لیے نہیں کیا گیا ہے کہ لوگوں کو اس سے نصیحت ہو۔“ (المدثر : ٣١) مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ کے بارے میں منافق مرد اور منافق عورتیں، مشرک مرد اور مشرک عورتیں بداعتقادی اور بد ظنی رکھتے ہیں۔ ٢۔ منافق اور مشرک ہمیشہ مسلمانوں کے نقصان کے بارے میں سوچتے ہیں۔ ٣۔ منافق مرد اور منافق عورتوں، مشرک مرد اور مشرک عورتوں پر اللہ تعالیٰ کا غضب نازل ہوتا ہے اور ان پر لعنت برستی ہے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ نے منافقین اور مشرکین کے لیے جہنم تیار کی ہے جو رہنے کے اعتبار سے بدترین جگہ ہے۔ ٥۔ زمین و آسمانوں کے لشکر ” اللہ“ کے اختیار میں ہے۔ ٦۔ اللہ تعالیٰ ہر اعتبار سے غالب اور حکمت والا ہے۔ تفسیر بالقرآن مسلمانوں کے بارے میں منافقین اور مشرکین کی بری سوچ اور ان کی سزا : ١۔ منافق ” اللہ“ اور مومنوں کو دھوکہ دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ ( البقرۃ: ٩) ٢۔ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو منافق دھوکہ دینے کی کوشش کرتے تھے۔ ( المنافقون : ١) ٣۔ منافق نماز بھی دھوکہ دینے کی خاطر پڑھتے ہیں۔ ( النساء : ١٤٢) ٤۔ مشرکین مکہ مسلمانوں کو مسجد حرام سے روکا کرتے تھے۔ (الانفال : ٣٤) ٥۔ کفار اور مشرک اللہ کے نور کو بجھانا چاہتے ہیں۔ (التوبہ : ٣٢) ٦۔ منافق جہنم کے نچلے طبقہ میں ہوں گے۔ (النساء : ١٤٥) ٧۔ مشرکین کا ٹھکانہ جہنم ہے۔ (ابراہیم : ٣٠) الفتح
7 الفتح
8 فہم القرآن ربط کلام : کفار، مشرکین اور منافقین کی مخالفت کے باوجود اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو غالب فرمایا۔ کیونکہ اس نے نبی آخر الزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس لیے مبعوث فرمایا تاکہ دین اسلام کو باطل ادیان پر غالب کردے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ اے نبی! ہم نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حق کی گواہی دینے والا بنا کر مبعوث کیا ہے۔ آپ کی بعثت کا مرکزی مقصد یہ ہے کہ آپ ایمان لانے والوں کو خوشخبری سنائیں اور انکار کرنے والوں کو ان کے برے انجام سے ڈرائیں۔ لوگوں کا فرض ہے کہ وہ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائیں اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تعظیم اور معاونت کریں اور اللہ تعالیٰ کو صبح وشام یاد کرتے رہیں۔ قرآن مجید نے کئی مرتبہ بات بتلائی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نبی آخر الزماں (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حق کی شہادت دینے کے لیے مبعوث فرمایا ہے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خوشخبری دینے اور ڈرانے والے بنا کر بھیجے گئے ہیں۔ شہادت کا معنٰی ہے کہ لوگوں کے سامنے بلاخوف و خطر اللہ کی توحید اور دین حق کو پیش کیا جائے۔ جونہی آپ کے ذمے شہادتِ حق کا فریضہ لگایا گیا ہے۔ آپ نے اس کے لیے دن رات ایک کردیئے نہ کاروبار کی طرف توجہ فرمائی اور نہ ہی رات اور دن کے آرام کا خیال کیا۔ اللہ کے راستے میں کھڑے ہوئے تو تیئس سال تک یہ کھڑے رہے۔ یہاں تک کہ اپنے اور بیگانے مان گئے کہ آپ نے شہادتِ حق کا فرض ادا کردیا ہے۔ نبی آخر الزماں (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کا مقصد شہادتِ حق ہے اور لوگوں کافرض ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی ذات اور بات پر ایمان لائیں۔ یہ ایمان زبانی کلامی نہیں بلکہ عملاً ہونا چاہیے جس کا تقاضا ہے کہ اللہ کے رسول کی معاونت و تعظیم کی جائے۔ آپ کی معاونت کا معنٰی یہ ہے کہ آپ کی دعوت پر عمل کرتے ہوئے اسے لوگوں تک پہنچایا جائے اور اس کے عملی نفاذ کے لیے انفرادی اور اجتماعی طور پر کوشش کی جائے۔ آپ کی تعظیم کرنے کا مقصد یہ ہے کہ آپ کی ذات اور بات کا دل وجان سے احترام کیا جائے کیونکہ آپ کی تشریف آوری کا مقصد لوگوں کو اللہ کی ذات اور اس کا ارشاد پہچانا تھا۔ اس لیے لوگوں کا فرض ہے کہ وہ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاتے ہوئے صبح وشام اللہ تعالیٰ کی تسبیح کرتے رہیں۔ صبح وشام سے مراد ہر حال میں اللہ تعالیٰ کو یاد رکھنا چاہیے۔ جس طرح نبی آخرالزماں (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اللہ تعالیٰ کو یاد رکھنے کا طریقہ بتلایا اور کرکے دکھلایا ہے اس میں پانچ وقت کی نماز اور شہادتِ حق کا ابلاغ بھی شامل ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عالمگیر نبوت : (عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ (رض) أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ أُعْطِیْتُ خَمْسًا لَمْ یُعْطَھُنَّ نَبِیٌّ قَبْلِیْ وَلَا أَقُوْلُھُنَّ فَخْرًا بُعِثْتُ إِلَی النَّاسِ کَافَّۃً الْأَحْمَرِ وَالْأَسْوَدِ وَنُصِرْتُ بالرُّعْبِ مَسِیْرَۃَ شَھْرٍ وَأُحِلَّتْ لِیَ الْغَنَاءِمُ وَلَمْ تَحِلَّ لِأَحَدٍ قَبْلِیْ وَجُعِلَتْ لِیَ الْأَرْضُ مَسْجِدًا وَطَھُوْرًا وَّأُعْطِیْتُ الشَّفَاعَۃَ فَأَخَّرْتُھَا لِأُمَّتِیْ فَھِیَ لِمَنْ لَّایُشْرِکُ باللّٰہِ شَیْءًا) (مسند احمد : باب بدایۃ مسند عبداللہ بن العباس) ” حضرت عبداللہ بن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا مجھے پانچ چیزیں ایسی عطا کی گئی ہیں جو مجھ سے پہلے کسی نبی کو نہیں دی گئیں۔ میں اس میں فخر نہیں کرتا۔ میں تمام کالے اور گورے لوگوں کی طرف مبعوث کیا گیا ہوں، ایک مہینے کی مسافت تک رعب کے ساتھ میری مدد کی گئی ہے، میرے لیے غنیمت کا مال حلال قرار دیا گیا ہے جب کہ مجھ سے پہلے کسی نبی کے لیے حلال نہیں تھا، میرے لیے زمین مسجد اور طہارت کا ذریعہ بنادی گئی ہے، مجھے شفاعت عطا کی گئی میں نے اسے اپنی امت کے لیے سنبھال رکھا ہے اور وہ ہر اس شخص کی نجات کا ذریعہ بنے گی جو اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراتا۔“ (لَیَبْلُغَنَّ ھٰذَا الْأَمْرُ مَا بَلَغَ اللَّیْلُ وَالنَّھَارُوَلَایَتْرُکُ اللّٰہُ بَیْتَ مَدَرٍ وَّلَا وَبَرٍإِلَّا أَدْخَلَہُ اللّٰہُ ھٰذَا الدِّیْنَ) (مسند أحمد : باب حدیث تمیم الداری، ھٰذا حدیث صحیح علی شرط الشیخین) ” یہ دین ہر صورت وہاں تک پہنچے گا جہاں رات کی تاریکی اور دن کی روشنی پہنچتی ہے اور اللہ تعالیٰ ہر کچے پکے گھر میں اس دین کو داخل کردے گا۔“ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی محبت اور تعظیم : (لَا یُؤْمِنُ أَحَدُکُمْ حَتّٰی یَکُوْنَ ھَوَاہُ تَبَعًا لِّمَا جِءْتُ بِہٖ) (مشکٰوۃ : کتاب العلم، قال النووی ہذا حدیث صحیح) ” تم میں سے کوئی مؤمن نہیں ہوسکتا جب تک وہ اپنی خواہشات کو میرے لائے ہوئے دین کے تابع نہ کر دے۔“ ( عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ أَبِیْ قِرَادٍ (رض) أَنَّ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تَوَضَّأَ یَوْمًا فَجَعَلَ أَصْحَابُہٗ یَتَمَسَّحُوْنَ بِوَضُوْءِہٖ فَقَالَ لَھُمُ النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وَمَاحَمَلَکُمْ عَلٰی ھٰذَا قَالُوْا حُبُّ اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ فَقَال النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَنْ سَرَّہٗ أَنْ یُّحِبَّ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ أَوْ یُحِبُّہُ اللّٰہُ وَرَسُوْلُہٗ فَلْیَصْدُقْ حَدِیْثَہٗ إِذَا حَدَّثَ وَلْیُؤَدِّ أَمَانَتَہٗ إِذَا اءْتُمِنَ وَلْیُحْسِنْ جَوَارَ مَنْ جَاوَرَہٗ) (رواہ البہیقی فی شعب الإیمان) ” حضرت عبدالرحمن بن ابی قراد (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک دن وضو کیا۔ آپ کے اصحاب آپ کے وضو کے پانی کو اپنے جسموں پر ملنے لگے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے استفسار فرمایا تم ایسا کیوں کررہے ہو؟ انہوں نے عرض کی، اللہ اور اس کے رسول کی محبت کی وجہ سے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس شخص کو یہ بات اچھی لگتی ہو کہ وہ اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرے یا اللہ اور اس کا رسول اس سے محبت کریں تو اسے چاہیے کہ جب بات کرے تو سچ بولے اور جب اس کے پاس امانت رکھی جائے تو امانت کا حق ادا کرے اور اپنے ہمسائیوں سے اچھا برتاؤ کرے۔“ اللہ کا ہر حال میں ذکر کرنا چاہیے : (عَنْ عَاءِشَۃَ (رض) قَالَتْ کَان النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَذْکُرُ اللَّہَ عَلَی کُلِّ أَحْیَانِہِ) (رواہ مسلم : باب ذِکْرِ اللَّہِ تَعَالَی فِی حَالِ الْجَنَابَۃِ وَغَیْرِہَا) ” حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہر حال میں اللہ کا ذکر کرتے تھے۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے نبی آخر الزماں (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حق کی شہادت دینے والا، بشیر اور نذیر بنا کر مبعوث فرمایا۔ ٢۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تشریف آوری کا مقصد یہ تھا کہ لوگ اللہ اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لائیں۔ ٣۔ لوگوں کا فرض ہے کہ وہ نبی آخر الزماں کی مدد کریں۔ ٤۔ ایمانداروں کا فرض ہے کہ وہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تعظیم کرتے رہیں۔ ٥۔ ایمان داروں کا یہ بھی فرض ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی صبح وشام تسبیح کیا کریں۔ تفسیر بالقرآن نبی آخرالزماں (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عالمگیر نبوت اور اس کے تقاضے : ١۔ اے رسول اعلان فرمائیں کہ ” اللہ“ نے مجھے تمام لوگوں کے لیے رسول منتخب فرمایا ہے۔ (الاعراف : ١٥٨) ٢۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پوری دنیا کے رسول ہیں۔ (سباء : ٢٨) ٣۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مبشر اور نذیر ہیں۔ (الاحزاب : ٤٥) ٤۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پوری دنیا کے لیے رحمت عالم ہیں۔ (الانبیاء : ١٠٧) ٥۔ رسول اللہ خاتم النبیین ہیں۔ (الاحزاب : ٤٠) ٦۔ اللہ تعالیٰ نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نبوت اور حکمت عنایت فرمائی۔ ( الجمعہ : ٢) ٧۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت مومنوں پر اللہ تعالیٰ کا احسان عظیم ہے۔ (آل عمران : ١٦٤) الفتح
9 الفتح
10 فہم القرآن ربط کلام : نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تعظیم اور تکریم کا بنیادی تقاضا یہ ہے کہ آپ کی اطاعت کی جائے اس لیے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کی فضیلت اور اس کا اجر بیان کیا گیا ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے جو لوگ بیعت کرتے ہیں وہ یقیناً اللہ سے بیعت کرتے ہیں۔ اللہ کا ہاتھ ان کے ہاتھوں پر تھا۔ جو بیعت کرنے کے بعد اسے توڑ دے اس کا نقصان اسی کو ہوگا اور جو بیعت کرکے اس پر قائم رہے اللہ تعالیٰ اسے بہت جلد اجر عظیم عطا فرمائے گا۔ بعض مفسرین نے اس بیعت سے مراد دائرہ اسلام میں داخل ہونے والی بیعت لی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس بیعت کے تقاضے بھی وہی ہیں جو اس بیعت کے ہیں جس کی طرف یہاں اشارہ کیا گیا ہے۔ صلح حدیبیہ کے موقع پر چودہ سو (١٤٠٠) صحابہ کرام (رض) نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہاتھ پر بیعت کی اس کے بارے میں ارشاد ہواکہ جو لوگ آپ کی بیعت کررہے تھے درحقیقت وہ اپنے رب سے بیعت کرتے تھے کیونکہ اللہ کا ہاتھ ان کے ہاتھوں پر تھا۔ قرآن مجید میں اور بھی مقامات پر اس طرح کا اسلوب اختیار کیا گیا ہے۔ جس میں رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے کام کو اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف منسوب فرمایا ہے۔ ایک مقام پر ارشاد ہوا کہ جس نے رسول کی اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی۔ (النساء : ٨٠) دوسرے مقام پر ارشاد ہوا کہ آپ نے کفار کی طرف مٹی نہیں پھینکی حقیقت میں اللہ نے ان کی طرف مٹی پھینکی تھی۔ (الانفال : ١٧) اس بیعت کے بارے میں ایک مفسر نے کسی حوالے کے بغیر لکھا ہے کہ یہ بیعت عام طریقہ سے ہٹ کر کی گئی تھی۔ بیعت کرنے والے کا ہاتھ نیچے ہوتا تھا اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کے ہاتھ پر اپنا دست مبارک رکھتے تھے۔ جس وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے کہ اللہ کا ہاتھ ان کے ہاتھوں پر تھا۔ اگر اس طرح بیعت نہ بھی کی گئی ہو تو یہ ایک اسلوب بیان ہے جس کے مطابق ہر زبان میں یہ بات کہی جاتی ہے۔ کہ فلاں کے سر پر اللہ کا ہاتھ ہے جس وجہ سے اب تک وہ اپنے دشمنوں سے بچا ہوا ہے۔ بہرحال صلح حدیبیہ کے مقام پر صحابہ کرام (رض) نے جو بیعت کی انہوں نے اس کی وفا کا حق ادا کردیا۔ اس وفا کے صلہ میں اللہ تعالیٰ نے انہیں نہ صرف مکہ والوں پر برتری عطا فرمائی بلکہ ٹھیک تین مہینے بعد ان کے ہاتھوں خیبر فتح ہوا جس میں بے شمار مال غنیمت مسلمانوں کے ہاتھ آیا اور فتح مکہ کے بعد غزوہ حنین میں ہزاروں کی تعداد میں بھیڑ بکریاں اور سینکڑوں کی تعداد میں دشمن کے قیدی مسلمانوں کے غلام بنے جن کو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بہت جلد آزاد کردیا۔ تفصیل کے لیے کسی مستند سیرت کی کتاب کا مطالعہ فرمائیں ! مسائل ١۔ صلح حدیبیہ کے مقام پر ہونے والی بیعت کو اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف منسوب فرمایا ہے۔ ٢۔ بیعت اور عہد توڑنے والا اپنا ہی نقصان کرتا ہے۔ ٣۔ جس نے اللہ کے ساتھ کیے ہوئے عہد کی پاسداری کی اللہ تعالیٰ اسے اجر عظیم عطا فرمائے گا۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ کن لوگوں کو اجر عظیم عطا فرمائے گا : ١۔ ” اللہ“ نیک لوگوں کو ان کے اعمال کا بہترین صلہ دے گا۔ (التوبہ : ١٢١) ٢۔ ” اللہ“ صابر لوگوں کو ان کے صبر کی بہترین جزا دے گا۔ (النحل : ٩٦) ٣۔ ” اللہ“ نیکوں کو ان کے اعمال سے بہتر جزا دے گا۔ (العنکبوت : ٧) ٤۔ ” اللہ“ اپنے فضل سے مزیداجر عطا کرے گا۔ (النور : ٣٨) ٥۔ ہم ان کے اعمال کا انہیں بہتر صلہ عطاکریں گے۔ (النحل : ٩٧) ٦۔ ہم ایمان لانے والوں کو ان کا اجر دیں گے۔ (الحدید : ٢٧) ٧۔ صبر کرنے والوں کو بغیر حساب کے اجر دیا جائے گا۔ (الزمر : ١٠) ٨۔ ایمان لانے والوں، نماز قائم کرنے والوں اور زکوٰۃ دینے والوں کے لیے اللہ کے ہاں اجر ہے۔ (البقرۃ: ٢٧٧) الفتح
11 فہم القرآن ربط کلام : بیعت رضوان سے پہلے منافقین کی سوچ اور کردار۔ کئی مفسرین نے یہ بات تحریر کی ہے کہ نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عمرہ کی غرض سے جانے سے پہلے مکہ کے گرد و نواح کے قبائل کو پیغام بھیجا کہ ہم فلاں دن عمرہ کی غرض سے مکہ کا سفر کرنے والے ہیں۔ آپ لوگوں کو بھی ہمارا ہمسفر ہونا چاہیے۔ اس اطلاع عام کا مقصد یہ تھا کہ زیادہ سے زیادہ لوگ اس سفر میں شرکت کرسکیں تاکہ مکہ والے کسی منفی رد عمل کا اظہار نہ کرپائیں۔ لیکن اکثر قبائل نے یہ سوچ کر شرکت نہ کی کہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مسلمان جس سفر پر جا رہے ہیں اس سے کبھی واپس نہیں آئیں گے۔ جن قبائل نے اس سفر میں شمولیت سے انکار کیا وہ اپنے دل میں بہت خوش تھے کہ ہم نے اپنے آپ کو ہلاکت سے بچا لیا ہے۔ حالانکہ حقیقت میں ان کی بزدلی اور منافقت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے انہیں اس عظیم سعادت سے محروم رکھا ہے ان کے لیے ” مُخَلَّفِیْنَ“ کا لفظ استعمال فرمایا ہے جس کا معنٰی ہے پیچھے چھوڑ دیئے جانے والے۔ یہ لوگ اپنے دلوں میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے صحابہ کے بارے میں کئی قسم کے نقصانات کی توقع رکھتے تھے اس سوچ کا سبب یہ تھا کہ یہ لوگ بنیادی طور پر برے اور ہلاکت میں مبتلا ہونے والے تھے۔ ان کی بری سوچ کی بنیاد یہ تھی کہ اہل مکہ اس قدر طاقتور ہیں کہ انہوں نے بدر کا معرکہ مکہ سے تقریباً ساڑھے تین سو کلو میٹر کا سفر کرکے مدینہ کے قریب آکر لڑا۔ اُحد میں انہوں نے مدینہ پہنچ کر جنگ کی اور مسلمانوں کو بھاری جانی اور مالی نقصان پہنچایا۔ غزوہ خندق کے موقع پر مکہ والوں نے مسلمانوں کو مدینہ میں محصور کردیا اور مسلمانوں نے خندق کھود کر اپنی جانیں پجائیں۔ اس صورت حال کے پیش نظر منافقین اور کمزور ایمان والے دیہادتیوں کا خیال تھا کہ مسلمان خالی ہاتھ مکہ کے شیروں کے منہ میں ہاتھ ڈالنے جارہے ہیں۔ لہٰذا یہ اپنے اہل وعیال میں کبھی واپس نہیں آئیں گے۔ اس لیے دیہات کے منافقین اور کمزور ایمان والے لوگوں نے یہ کہہ کر معذرت کی کہ ہم اپنے مال مویشی اور اہل وعیال کے غیر محفوظ ہونے کی وجہ سے اس سفر میں شرکت نہیں کرسکتے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے درخواست ہے کہ ہماری عدم شرکت پر اللہ سے دعا کریں کہ ہماری اس کمزوری کو اللہ تعالیٰ معاف فرمادے۔ ان کے بہانوں اور منافقت کے بارے میں آپ (علیہ السلام) کو ان الفاظ میں آگاہ کیا گیا کہ یہ لوگ اپنی زبان سے آپ کے سامنے معذرت اور استغفار کی درخواست کرتے ہیں حالانکہ ان کے دلوں میں سفر میں عدم شرکت کے گناہ کا کوئی احساس نہیں ان کی معذرت اور استغفار کی درخواست جھوٹ کے سوا کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔ جہاں تک ان کے اس بہانے کا تعلق ہے کہ ہمارے مال اور اہل وعیال غیر محفوظ ہیں۔ ان کو بتلائیں کہ اگر اللہ تعالیٰ تمہیں نقصان پہنچانا چاہے تو کون ہے جو تمہارے مویشیوں کو موت کے منہ سے بچا سکے گا؟ اگر تمہارے اہل و عیال پر کوئی مصیبت نازل کرے تو پھر کون انہیں اس مصیبت سے محفوظ رکھ سکتا ہے ؟ اگر وہ تمہاری کھیتیوں اور باغات پر کوئی آفت نازل کر دے تو ان کو ویران ہونے سے کون بچاۓ گا؟ یارکھو! اگر اللہ تعالیٰ تمہیں نفع پہنچانا چاہے تو کوئی تمہیں نقصان نہیں دے سکتا۔ یہ بات بتلانے کے بعد کہ نفع ونقصان صرف اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔ یہ بھی بتلا دیا گیا کہ اگر تم اس سفر میں شریک ہوتے تو یقیناً دنیا و آخرت میں نفع پاتے۔ لیکن تم اپنی منافقت اور بزدلی کی وجہ سے عظیم ثواب اور مستقبل کے فائدے سے محروم ہوچکے ہو۔ ہمیشہ یاد رکھو کہ تم جو عمل کرتے ہو اللہ تعالیٰ اس سے پوری طرح واقف ہوتا ہے۔ جو لوگ سچے دل کے ساتھ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان نہیں رکھتے وہ کافر ہیں اور کفار کے لیے اللہ تعالیٰ نے جلادینے والا عذاب تیار کر رکھا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ زمینوں اور آسمانوں کی بادشاہت ” اللہ“ کے ہاتھ میں ہے۔ جسے چاہے معاف فرمائے اور جسے چاہے سزا سے دوچار کرے۔ حقیقت یہ ہے اللہ تعالیٰ معاف کرنے والا نہایت مہربان ہے۔ یہ فرما کر منافقین کو ایک دفعہ پھر موقع دیا گیا کہ اگر تم سچے دل کے ساتھ تائب ہوجاؤ اور اخلاص کے ساتھ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو تو اللہ تعالیٰ تمہیں معاف فرمادئے گا کیونکہ وہ معاف کرنے والا نہایت ہی مہربان ہے۔ اگر تم ایسا نہیں کرتے تو تمہیں اذّیت ناک عذاب کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ ( یُخٰدِعُوْنَ اللّٰہَ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ مَا یَخْدَعُوْنَ اِلَّآ اَنْفُسَہُمْ وَ مَا یَشْعُرُوْنَ فِیْ قُلُوْبِہِمْ مَّرَضٌ فَزادَہُمُ اللّٰہُ مَرَضًا وَ لَہُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ بِمَا کَانُوْا یَکْذِبُوْن) (البقرۃ: ٩، ١٠) ” وہ اللہ تعالیٰ اور ایمان والوں کو دھوکہ دیتے ہیں مگر حقیقت میں وہ اپنے آپ کو دھوکہ دے رہے ہیں اور وہ شعور نہیں رکھتے۔ ان کے دلوں میں بیماری ہے اللہ نے انہیں بیماری میں زیادہ کردیا ہے اور انہیں دردناک عذاب ہوگا کیونکہ وہ جھوٹ بولتے تھے۔“ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ أُوقِدَ عَلَی النَّارِ أَلْفَ سَنَۃٍ حَتَّی احْمَرَّتْ ثُمَّ أُوقِدَ عَلَیْہَا أَلْفَ سَنَۃٍ حَتَّی ابْیَضَّتْ ثُمَّ أُوقِدَ عَلَیْہَا أَلْفَ سَنَۃٍ حَتَّی اسْوَدَّتْ فَہِیَ سَوْدَاءُ مُظْلِمَۃٌ) ( رواہ الترمذی : کتاب صفۃ جہنم، قال البانی ضعیف) ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ایک ہزار سال تک دوزخ کی آگ کو بھڑکا یا گیا یہاں تک کہ وہ سرخ ہوگئی پھر اس کو ایک ہزار سال تک جلایا گیا تو وہ سفید ہوگئی پھر اس کو ایک ہزار سال جلایا گیا یہاں تک کہ وہ سیاہ ہوگئی اب اس کا رنگ سیاہ ہے۔“ مسائل ١۔ اسلام اور مسلمانوں پر مشکل کے وقت آئے تو منافق جھوٹے بہانوں کے ذریعے اپنے آپ کو بچانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ٢۔ منافق دنیاوی نفع و نقصان کی بنیاد پر اسلام اور مسلمانوں کا ساتھ دیتے ہیں۔ ٣۔ منافق ہمیشہ اسلام اور دین کی حمایت میں نقصان اٹھانے سے ڈرتے ہیں۔ ٤۔ منافق ہمیشہ اسلام اور مسلمانوں کے نقصان پر خوش ہوتے ہیں۔ ٥۔ منافق حقیقت میں ہلاکت میں پڑنے والے لوگ ہیں۔ ٦۔ اللہ اور اس کے رسول پر اخلاص کے ساتھ ایمان نہ لانے والے لوگ حقیقت میں کافر ہوتے ہیں اور کفار کے لیے اللہ تعالیٰ نے جلا دینے والا عذاب تیار کر رکھا ہے۔ ٧۔ زمینوں اور آسمانوں کی بادشاہی اللہ کے ہاتھ میں ہے جسے چاہے معاف فرمادے اور جسے چاہے عذاب دے۔ ٨۔ اللہ تعالیٰ سچی توبہ کرنے والے کو معاف کردیتا ہے کیونکہ وہ غفور رحیم ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ ہی نفع اور نقصان کا مالک ہے : ١۔ کیا تم اللہ کے سوا دوسروں کو خیر خواہ سمجھتے ہو۔ جو اپنے بھی نفع ونقصان کے مالک نہیں ہیں۔ (الرعد : ١٦) ٢۔ میں انپے نفع ونقصان کا بھی مالک نہیں مگر جو اللہ چاہے؟ (یونس : ٤٩) ٣۔ کیا تم اللہ کے سوا ان کی عبادت کرتے ہو جو نفع ونقصان کے مالک نہیں ہیں؟ (المائدۃ: ٧٦) ٤۔ اگر اللہ تمہیں نفع ونقصان میں مبتلا کرنا چاہے تو کون ہے جو اس سے بچاسکے۔ (الفتح : ١١) ٥۔ معبودان باطل اپنی جانوں کے نفع ونقصان کے مالک نہیں ہیں۔ (الفرقان : ٣) ٦۔ فرما دیجیے میں اپنے نفع و نقصان کا مالک نہیں مگر جو اللہ چاہے۔ (الاعراف : ١٨٨) ٧۔ (اے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ فرما دیں کہ مجھے تمھارے کسی نفع و نقصان کا اختیار نہیں ہے۔ (الجن : ٢١) الفتح
12 الفتح
13 الفتح
14 الفتح
15 فہم القرآن ربط کلام : منافق اور بہانہ ساز لوگ مشکل وقت میں پیچھے رہتے ہیں اور مفاد کے وقت آگے آگے ہوتے ہیں۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دور کے منافقین کا یہی کردار تھا جس کا یہاں ذکر کیا گیا ہے۔ اسی سورت کی آیت ١٠ کے آخر میں ارشاد ہوا کہ جو لوگ اللہ تعالیٰ سے کیے ہوئے عہد کو پورا کرتے ہیں اللہ تعالیٰ انہیں اجر عظیم عطا فرمائے گا۔ دنیا میں اجر عظیم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ مجاہدین کو فتح سے سرفراز فرمائے گا اور مال غنیمت سے ہمکنار کرے گا۔ اللہ تعالیٰ نے صلح حدیبیہ کے مقام پر بیعت کرنے و الوں کو مال غنیمت کی خوشخبری دینے کے ساتھ اس موقعہ پر پیچھے رہنے والوں کا کردار بتلاتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے کہ جب تم غنیمتیں حاصل کرنے کے لیے چلو گے تو جو لوگ اس سے پیچھے رہ گئے ہیں وہ کہیں گے کہ ہمیں بھی اپنے ساتھ چلنے کی اجازت عنایت فرمائیں۔ ان کا مقصد یہ ہے کہ وہ اللہ کے فرمان کو تبدیل کردیں جو ہرگز تبدیل نہیں ہوگا۔ لہٰذا ان سے فرما دیں کہ تم ہمارے ساتھ ہرگز نہیں جا سکتے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں پہلے ہی تمہیں اپنے ساتھ لے جانے سے منع کردیا ہے۔ اس پر یا وہ گوئی کریں گے کہ تم تو ہمارے ساتھ حسد کرتے ہو۔ اصل بات یہ ہے کہ یہ لوگ بہت کم حقیقت کو سمجھتے ہیں۔ حدیبیہ سے پیچھے رہنے والے دیہاتیوں کو یہ بھی فرما دیں کہ عنقریب تمہیں اپنی قوم سے جہاد کرنے کے لیے بلایا جائے گا جو بڑی جنگجو قوم ہے۔ تم ان کے ساتھ شدید جنگ کرو گے یا وہ اسلام لے آئیں گے۔ اگر تم اس جنگ میں شریک ہو کر اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو گے تو اللہ تعالیٰ تمہیں بہترین اجر دے گا۔ اگر تم پہلے کی طرح منہ پھیر جاؤ گے تو اللہ تعالیٰ تمہیں درد ناک عذاب دے گا۔ جن غنائم کی اس موقعہ پر مسلمانوں کو خوشخبری دی گئی ہے ان کے بارے میں تمام مفسرین کا خیال ہے کہ یہ خیبر کے غنائم ہیں۔ خیبر کا معرکہ صلح حدیبیہ کے ٹھیک تین ماہ بعد پیش آیا۔ یہاں یہودیوں کے بڑے بڑے نو قلعے تھے۔ یہاں وہ یہودی بھی آباد تھے جنہیں بار بار بدعہدی کرنے اور گھناؤنی سازشوں کی وجہ سے مدینہ سے نکال دیا گیا تھا یہ لوگ خیبر میں رہائش پذیر ہوکراسلامی ریاست کے خلاف سازشیں اور شرارتیں کرتے رہتے تھے۔ صلح حدیبیہ کے بعد اہل مکہ اور اس کے گردو پیش کے قبائل سے قدرے اطمینان حاصل ہوا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ضروری سمجھا کہ خیبر کے یہودیوں کی سرکوبی کی جائے۔ آپ نے چند مسلمانوں کو چھوڑ کر انہی لوگوں کو شریک سفر کیا جنہوں نے صلح حدیبیہ کے وقت آپ کے ہاتھ پر بیعت کی تھی۔ جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حدیبیہ میں بیعت کرنے والوں کے ساتھ خیبر کی طرف نکلے تو مدینہ اور اس کے ارد گرد رہنے والے منافق اور کچھ دوسرے لوگوں نے آپ سے درخواست کی کہ ہمیں بھی اس سفر میں شریک کیا جائے کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ جب اہل مکہ مسلمانوں کے ساتھ صلح کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں تو یہودی کس طرح مسلمانوں کا مقابلہ کرسکیں گے اس لیے خیبر کی فتح یقینی ہے۔ اس یقین کی بنا پر صلح حدیبیہ سے پیچھے رہنے والے لوگ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے باربار التجا کرتے رہے کہ ہمیں بھی اس جنگ میں شریک کیا جائے لیکن آپ نے انہیں اجازت نہ دی۔ آپ نے اس تیز رفتاری کے ساتھ خیبر کی طرف پیش قدمی کی اور اس کا محاصرہ کیا کہ خیبر والوں کو آپ کی آمد کی خبر نہ ہوسکی۔ خیبر کے لوگ صبح کے وقت کھیتی باڑی کے لیے نکلے تو آپ کا لشکر دیکھ کر ششدر رہ گئے۔ اس موقع پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس آیت کی تلاوت کی اور ارشاد فرمایا۔ (عَنْ أَنَسٍ (رض) أَنَّ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) أَتَی خَیْبَرَ لَیْلاً وَکَانَ إِذَا أَتَی قَوْمًا بِلَیْلٍ لَمْ یُغِرْ بِہِمْ حَتَّی یُصْبِحَ فَلَمَّا أَصْبَحَ خَرَجَتِ الْیَہُودُ بِمَسَاحِیہِمْ وَمَکَاتِلِہِمْ فَلَمَّا رَأَوْہُ قَالُوا مُحَمَّدٌ وَاللَّہِ مُحَمَّدٌ وَالْخَمِیسُ فَقَال النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خَرِبَتْ خَیْبَرُ إِنَّا إِذَا نَزَلْنَا بِسَاحَۃِ قَوْمٍ فَسَاءَ صَبَاحُ الْمُنْذَرِین) (رواہ البخاری : باب غزوۃ خیبر) ” حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رات کے وقت خیبر میں داخل ہوئے۔ آپ کا معمول تھا کہ جب بھی کسی قوم کی طرف رات کے وقت پیش قدمی کرتے تو صبح تک حملہ نہ کرتے۔ جب صبح ہوئی تو یہودی اپنے اپنے بیلچے اور کلہاڑے لے کر نکلے۔ انہوں نے آپ کو دیکھا تو کہنے لگے کہ اللہ کی قسم محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لشکر سمیت آچکے ہیں۔ نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ خیبر والے تباہ وبرباد ہوگئے۔ جب بھی ہم کسی قوم پر داخل ہوتے ہیں تو ڈرائے جانے والوں کی صبح بری ہوتی ہے۔“ یہودی خوف زدہ ہو کر اپنے قلعوں میں بند ہوگئے۔ اور ان کے پاس بیس ہزار جنگجو فوج کا لشکر تھا لیکن مسلمانوں کا مقابلہ نہ کرسکے۔ مسلمانوں نے قلعہ قموص کے سوا باقی قلعے یکے بعد دیگرے فتح کرلیے۔ قلعہ قموص کا نگران خیبرکا مشہور پہلوان اور جنگجو مرحب تھا جس کی کمان میں یہودیوں نے بیس دن تک اپنا دفاع کیا جس وجہ سے باربار مسلمانوں کو پسپا ہونا پڑا۔ قریب تھا کہ مسلمانوں میں مایوسی پیدا ہوجائے لیکن نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مسلمانوں کا حوصلہ بلند رکھنے کے لیے اعلان فرمایا کہ کل صبح ایسے شخص کو پرچم دیا جائے گا جسے اللہ اور اس کا رسول پسند کرتے ہیں اور وہ اللہ ا وراس کے رسول کو پسند کرتا ہے۔ (رواہ مسلم : باب مِنْ فَضَاءِلِ عَلِیِّ بْنِ أَبِی طَالِبٍ) بالآخر قلعہ قموص فتح ہوا اور یہودیوں کی زمین، باغات اور بہت سامال مسلمانوں کے ہاتھ آیا جسے مجاہدین اور حبشہ کے مہاجرین میں تقسیم کیا گیا۔ جنگجو قوم کے ساتھ مقابلہ : اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں ارشاد فرمایا ہے : (قُلْ لِلْمُخَلَّفِینَ مِنَ الْاَعْرَابِ سَتُدْعَوْنَ اِِلٰی قَوْمٍ اُوْلِی بَاْسٍ شَدِیْدٍ تُقَاتِلُوْنَہُمْ اَوْ یُسْلِمُوْنَ فَاِِنْ تُطِیعُوْا یُؤْتِکُمُ اللّٰہُ اَجْرًا حَسَنًا وَّاِِنْ تَتَوَلَّوْا کَمَا تَوَلَّیْتُمْ مِّنْ قَبْلُ یُعَذِّبْکُمْ عَذَابًا اَلِیْمًا) (الفتح : ١٦) ” ان پیچھے چھوڑے جانے والے بدوی عربوں سے کہنا کہ عنقریب تمہیں ایسے لوگوں سے لڑنے کے لیے بلایا جائے گا جو بڑے زور آور ہیں تم کو ان سے جنگ کرنا ہوگی یا وہ مطیع ہوجائیں گے اس وقت اگر تم نے حکم جہاد کی اطاعت کی تو اللہ تمہیں اچھا اجر دے گا، اور اگر تم پھر اسی طرح منہ موڑ گئے جس طرح پہلے موڑ چکے ہو تو اللہ تم کو دردناک سزا دے گا۔“ مفسرین نے جنگجو قوم سے مراد ہوازن قبیلہ کے لوگ لیے ہیں۔ ان کے ساتھ جو معرکہ ہوا وہ غزوہ حنین کے نام سے مشہور ہے۔ (عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَثَلُ الْمُجَاہِدِ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ کَمَثَلِ الصَّاءِمِ الْقَاءِمِ الْقَانِتِ بِاٰیٰتِ اللّٰہِ لَا یَفْتُرُ مِنْ صِیَامٍ وَّلَا صَلٰوۃٍ حَتّٰی یَرْجِعَ الْمُجَاہِدُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ) (رواہ مسلم : کتاب الامارۃ، باب فضل الشہادۃ فی سبیل اللّٰہ) ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا، اللہ کے راستے میں جہاد کرنے والا اس شخص کی طرح ہے، جو مسلسل روزے رکھتا ہے اور اللہ کی آیات کی تلاوت کرتا اور قیام کرتا ہے۔ نفلی روزے اور نماز میں کوتاہی نہیں کرتا۔ حتی کہ اللہ کے راستے میں جہاد کرنے والا مجاہد واپس لوٹ آئے۔“ مسائل ١۔ جو بھی اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے گا اللہ تعالیٰ اسے بہترین اجرعطا فرمائے گا۔ ٢۔ جس نے اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت سے منہ پھیر لیا اللہ تعالیٰ اسے اذّیت ناک سزا دے گا۔ ٣۔ منافق غنیمت حاصل کرنے کے لیے جہاد میں شریک ہوتے ہیں۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ کے فیصلے کو کوئی نہیں بدل سکتا۔ تفسیر بالقرآن جو لگ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کریں گے انہیں بہترین اجر دیا جائے گا : ١۔ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت ایمان کی نشانی ہے۔ (الانفال : ١) ٢۔ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت باعث رحمت ہے۔ (التوبہ : ٧١) ٣۔ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرنے والے ہی کامیاب ہوں گے۔ (النور : ٥٢) ٤۔ اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کرنے والے کو جنت میں داخل کیا جائے گا۔ (النساء : ١٣) ٥۔ اطاعت رسول سے گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔ ( آل عمران : ٣١) ٦۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت ہدایت کا منبع ہے۔ (النور : ٥٤) ٧۔ جنت میں داخلے کا معیار آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت ہے۔ ( الفتح : ١٧) ٨۔ اللہ تعالیٰ کی مہربانی رسول اللہ کی اطاعت میں ہے۔ (آل عمران : ١٣٢) ٩۔ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرنے والے انبیاء، صلحاء شہداء، اور سچے لوگوں کے ساتھ ہوں گے۔ (النساء : ٦٩) الفتح
16 الفتح
17 فہم القرآن ربط کلام : اس سے پہلی آیت میں جہاد میں شمولیت نہ کرنے والوں کو اذّیت ناک عذاب کی وعیدسنائی گئی ہے۔ اب ان لوگوں کو مستثنیٰ قراردیا جاتا ہے جو جہاد کرنے سے معذور ہیں۔ اندھے، لنگڑے اور مریض پر جہاد فرض نہیں۔ جو شخص اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے گا اللہ تعالیٰ اسے جنت میں داخل فرمائے گا جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی۔ جس نے اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت اور قتال فی سبیل اللہ سے جان بوجھ کر اعراض کیا اللہ تعالیٰ اسے اذّیت ناک عذاب میں مبتلا کرے گا۔ اس فرمان سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ قتال فی سبیل اللہ ہر مسلمان پر فرض نہیں۔ اسی اصول کے پیش نظر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کچھ لوگوں کو قتال فی سبیل اللہ میں شمولیت کی اجازت نہیں دی تھی۔ شرعی مجبوری کی وجہ سے قتال فی سبیل اللہ سے محروم رہنے والے کو یہ کہہ کر تسلی دی ہے کہ جو بھی اللہ اور اس رسول کی اطاعت کرے گا اللہ تعالیٰ اسے جنت میں داخل فرمائے گا۔ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَال النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) السَّاعِیْ عَلَی الْأَرْمَلَۃِ وَالْمِسْکِیْنِ کَالْمُجَاھِدِ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ أَوِ الْقَاءِمِ اللَّیْلَ الصَّاءِمِ النَّھَارَ) (رواہ البخاری : باب فضل النفقۃ علی الأھل) ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بیوہ اور مسکین کی مدد کرنے والا۔ اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے کی طرح ہے یا رات کو قیام اور دن کو روزہ رکھنے والے کی طرح ہے۔“ (عَنْ عَبْدِاللّٰہِ ابْنِ عَمْرٍو (رض) قَالَ جَاءَ رَجُلٌ اِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَاسْتَاْذَنَہٗ فِی الْجِھَادِ فَقَالَ اَحَیٌّ وَالِدَاکَ قَالَ نَعَمْ قَالَ فَفِےْھِمَا فَجَاھِدْ۔ (متفق علیہ) وَفِیْ رِوَاے َۃٍ فَارْجِعْ اِلٰی وَالِدَےْکَ فَاَحْسِنْ صُحْبَتَھُمَا۔) (رواہ البخاری : باب الجہاد بإذن الأبوین) ” حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضرہوکر جہاد کے لیے اجازت چاہی، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا کیا تیرے والدین زندہ ہیں ؟ اس نے کہا، جی ہاں! آپ نے فرمایا پھر ان کی خدمت کرو۔ ایک روایت میں ہے واپس جا کر ان کی اچھی طرح خدمت کرو۔“ ” حضرت عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ جنگ احد کے سال میں چودہ سال کا تھا، مجھے رسول مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے پیش کیا گیا، آپ نے مجھے واپس کردیا۔ جنگ خندق کے سال میں پندرہ سال کا ہوا۔ آپ کے سامنے پیش کیا گیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے اجازت عطا فرمائی۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا یہ مجاہد اور کم عمر والوں کے درمیان فرق ہے۔“ ( رواہ البخاری : باب إِذَا زَکَّی رَجُلٌ رَجُلاً کَفَاہُ) مسائل ١۔ نابینا، لنگڑا اور مریض قتال فی سبیل اللہ سے مستثنیٰ ہیں ٢۔ جو بھی اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے گا اللہ تعالیٰ اسے جنت میں داخل فرمائے گا۔ ٣۔ جس نے اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت نہ کی اور قتال فی سبیل اللہ کا انکار کیا اسے اذّیت ناک عذاب دیا جائے گا۔ تفسیربالقرآن قیامت کے دن کن لوگوں کو اذّیت ناک عذاب ہوگا : ١۔ منافقوں کے دلوں میں بیماری ہے ان کو دردناک عذاب ہوگا۔ (البقرۃ: ٧) ٢۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی گستاخی کرنے والے کو دردناک عذاب ہوگا۔ (البقرۃ: ١٠٤) ٣۔ اللہ کی آیات چھپانے اور فروخت کرنے والے کو دردناک عذاب ہوگا۔ (البقرۃ: ١٧٤) ٤۔ اللہ تعالیٰ جس کو چاہتا ہے اپنی رحمت میں داخل کرتا ہے اور ظالموں کے لیے درد ناک عذاب ہے۔ (الدہر : ٣١) ٥۔ اللہ کی آیات کے ساتھ کفر کرنے والے اور انبیاء کو قتل کرنے والوں کو دردناک عذاب ہوگا۔ (آل عمران : ٢١) ٦۔ اللہ کے عہد اور قسموں کو فروخت کرنے والوں کو دردناک عذاب ہوگا۔ (آل عمران : ٧٧) ٧۔ ایمان کے بدلے کفر کو کرنے والوں کو دردناک عذاب ہوگا۔ (آل عمران : ١٧٧) الفتح
18 فہم القرآن ربط کلام : معذور لوگوں کو جہاد سے مستثنیٰ قرار دینے کے بعد جہاد میں شریک ہونے والے مجاہدین کے لیے انعام کا اعلان۔ قرآن مجید کا یہ بھی اسلوب بیان ہے کہ کبھی واقعہ کی جزیات پہلے بیان کی جاتی ہیں اور اس کا مرکزی مضمون بعد میں ذکر کیا جاتا ہے تاکہ پڑھنے والے کے دل میں جستجو پیدا ہو اور وہ فکری طور پر لمحہ بہ لمحہ آگے بڑھتا ہوا واقعہ کے مرکزی مضمون اور اس کی اصل روح تک پہنچ جائے۔ اس لیے صلح حدیبیہ سے پہلے رونما ہونے والے واقعات کا ذکر کیا اور اب واضح الفاظ میں صلح حدیبیہ کا ذکر کیا جاتا ہے جسے بیعت رضوان بھی کہا جاتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس صلح پر اپنی تائید اور خوشنودی کا اظہار فرما کر بیعت میں شامل ہونے والے مومنوں کے بارے میں فرمایا ہے کہ اللہ مومنوں پر راضی ہوگیا جنہوں نے ایک درخت کے نیچے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہاتھ پر بیعت کی۔ اللہ تعالیٰ ان کے دلوں کے اخلاص کو جان چکا تھا اس لیے ان پر سکینت اور اطمینان نازل فرمایا اور بہت جلد انہیں فتح سے ہمکنار کیا جائے گا۔ بیعت رضوان کی قدرے تفصیل پچھلی آیت کی تفسیر میں گزر چکی ہے اس لیے اس مقام پر صرف اس کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے۔ نبی محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) چودہ سو صحابہ (رض) کے ساتھ مدینہ سے مکہ کی طرف نکلے تاکہ عمرہ ادا کیا جائے۔ لیکن کفار نے حرم کا احترام اور بین الاقوامی اخلاق کی پرواہ کیے بغیر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے ساتھیوں کو مکہ داخل ہونے کی اجازت نہ دی اس موقعہ پر دونوں طرف سے مذاکرات ہوئے بالآخر ایک معاہدہ طے پایا جس کی شرائط کا ذکر اسی سورت کی آیت ١٠ کی تفسیر میں ہوچکا ہے۔ جس میں چودہ سو صحابہ (رض) نے آپ کے ہاتھ پر اس بات پر بیعت کی کہ ہم کٹ جائیں گے لیکن پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ اس موقع پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت عثمان (رض) کی طرف سے بیعت کرتے اپنا ہاتھ دوسرے ہاتھ پر رکھ کر فرمایا کہ یہ عثمان کا ہاتھ ہے۔ گویا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے ہاتھ کو عثمان (رض) کا ہاتھ قرار دیا یہ ایسا اعزاز ہے جو حضرت عثمان (رض) کے سوا کسی صحابی کو نصیب نہیں ہوا۔ اللہ تعالیٰ نے اس موقع پر مسلمانوں پر درج ذیل انعامات فرمائے۔ (فَقَالَ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بِیَدِہِ الیُمْنَی ہَذِہِ یَدُ عُثْمَانَ فَضَرَبَ بِہَا عَلَی یَدِہِ، فَقَالَ ہَذِہِ لِعُثْمَانَ) (رواہ البخاری : بَابُ مَنَاقِبِ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ أَبِی عَمْرٍو القُرَشِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ” رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بیعت رضوان کے موقع پر اپنے دائیں ہاتھ کو دیکھ کر فرمایا یہ عثمان (رض) کا ہاتھ ہے آپ نے اس ہاتھ کو دوسرئے ہاتھ پر رکھا اور فرمایا کہ یہ عثمان کی طرف سے ہے۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے بیعت رضوان کرنے والوں کے دلوں کے خلوص کی گواہی دی ٢۔ اللہ تعالیٰ نے بیعت کرنے والے چودہ سو صحابہ کرام (رض) کو اپنی رضامندی کاسر ٹیفکیٹ دیا۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ نے ان پر سکینت نازل فرمائی جس بنا پر مسلمان تھوڑے اور نہتے ہونے کے باوجود مکہ والوں کے ساتھ مقابلہ کرنے کے لیے ڈٹ گئے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ نے بیعت رضوان کرنے والوں کو بہت جلد مکہ کی فتح کی خوشخبری دی چنانچہ دو سال سے قبل مکہ فتح ہوگیا۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ نے بہت سارا مال غنیمت عطا کرنے کی نوید سنائی جو صلح حدیبیہ کے بعد خیبر اور پھر مکہ کی فتح کے متصل بعد غزوہ حنین کے موقع پر صحابہ کو حاصل ہوئی۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ غالب حکمت والاہے : ١۔ ” اللہ“ اپنے ہر کام پر غالب ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔ (یوسف : ٢١) ٢۔ ” اللہ“ جب کسی کام کا ارادہ کرتا ہے تو اسے حکم دیتا ہے کہ ہوجا تو وہ کام ہوجاتا ہے۔ (البقرۃ: ١١٧) ٣۔ ” اللہ“ اپنے بندوں پر غالب ہے اس نے اپنے بندوں کی حفاظت کے لیے فرشتے مقرر کیے ہوئے ہیں۔ (الانعام : ٦١) ٤۔ زمین و آسمان کی ہر چیز اللہ تعالیٰ کی تسبیح بیان کرتی ہے وہ غالب، حکمت والا ہے۔ (الحشر : ١) ٥۔ جو شخص اللہ پر توکل کرتا ہے یقیناً اللہ غالب حکمت والا ہے۔ (الانفال : ٤٩) ٦۔ اللہ قوی اور غالب ہے۔ ( المجادلہ : ٢١) ٧۔ بے شک اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔ (البقرۃ : ٢٠) ٨۔ مدد تو صرف اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہو آتی ہے یقیناً اللہ غالب حکمت والا ہے۔ (الانفال : ١٠) الفتح
19 الفتح
20 فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام (رض) کو اپنی رضا مندی کی خوشخبری دیتے ہوئے یہ بھی بتلا دیا کہ عنقریب تمہیں بہت سی غنیمتیں عطا کی جائیں گی۔ بیعت رضوان جن حالات میں ہوئی۔ کوئی آدمی یہ سوچ نہیں سکتا تھا کہ اس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ اس قدر کامیابیاں عطا فرمائے گا۔ صحابہ کرام (رض) کو اس موقعہ پر چار انعامات سے سرفراز کیا گیا۔ اب ارشاد ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ تمہیں ہر صورت کثیر مال غنیمت عطا کرے گا۔ اسی نے اپنے فضل سے حدیبیہ کے مقام پر مکہ والوں کے ہاتھوں کو تمہاری طرف بڑھنے سے روک لیا تاکہ مومنوں کو اللہ کی قدرت کا نمونہ دکھایا جائے اور ان کی صحیح راستے کی طرف راہنمائی کی جائے۔ اللہ تعالیٰ تمہیں مزید نعمتیں عطا فرمائے گا جو اللہ تعالیٰ کے احاطہ اختیار میں ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے۔ یہ اس کی قدرت کا کرشمہ ہے کہ اہل مکہ تمہارے ساتھ لڑنے کی کوشش کرتے تو وہ پیٹھ پھیر کر بھاگ جاتے اور پھر وہ کسی کو اپنا مددگار اور خیرخواہ نہ پاتے۔ صحیح راستے سے مراد یہ بھی ہے کہ صلح حدیبیہ کی شرائط تمہیں نہ پسند ہونے کے باوجود اللہ تعالیٰ نے تمہاری راہنمائی فرمائی کہ تم بالآخر اس معاہدہ پر مطمئن ہوگئے۔ اس سے پہلی آیت میں کثیر غنیمت کی خو شخبری دیتے ہوئے فرمایا تھا کہ تم اس کو حاصل کرنے والے ہو لیکن یہاں ” قَدْ اَحَاط اللّٰہُ“ کے الفاظ میں اشارہ کیا ہے کہ اللہ نے تمہارے لیے ایسی غنیمتیں بھی سنبھال رکھی ہیں جن پر تمہاری دسترس نہیں ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا قانون اور طریقہ ہے جو پہلے لوگوں سے چلا آتا ہے۔ آپ اللہ کے قانون اور طریقے میں تبدیلی نہیں پائیں گے۔ صلح حدیبیہ کے موقع پر صحابہ کرام (رض) مدینہ سے تقریباً ساڑھے تین سو کلومیٹر دور ہونے کے ساتھ اسلحہ سے بھی خالی ہاتھ تھے سوائے چند تلواروں کے جو عرب کے لوگ روایتی طور پر سفر میں اپنے ساتھ رکھتے تھے۔ وطن سے دور اور اسلحہ سے خالی ہاتھ ہونے کے باوجود اللہ تعالیٰ نے کفار پر صحابہ کا اس قدر رعب ڈال دیا کہ کفار نہ صرف معاہدہ کرنے پر مجبور ہوئے بلکہ وہ اس قدر خوفزدہ تھے کہ انہوں نے اپنی طرف سے معاہدے کی پیشکش کی کہ آئندہ سال جب مسلمان عمرہ کے لیے مکہ آئیں گے تو ہم تین دن کے لیے مکہ خالی کردیں گے تاکہ کسی قسم کے تصادم کا خطرہ باقی نہ رہے۔ اس صورت حال کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کا ملہ سے تمہارا کفار پر رعب ڈال دیا۔ اگر وہ تمہارے ساتھ جنگ کرنے کی کوشش کرتے تو یقیناً پیٹھ پھیر کر بھاگ جاتے اور اس صورت میں ان کی کوئی مدد اور خیرخواہی کرنے والا نہ ہوتا کیونکہ عرب کے قبائل بدر، احد اور خندق کے معرکوں میں جان چکے تھے کہ تینوں غزوات میں مسلمانوں کا پلڑا بھاری رہا ہے۔ اس لیے فرمایا ہے کہ مکہ والے اپنے لیے کوئی مددگار اور خیرخواہ نہ پاتے۔ یہی اللہ تعالیٰ کا ضابطہ اور طریقہ ہے کہ جب وہ کسی قوم کو سزا دینے پر آتا ہے تو پھر کوئی زندہ یا مردہ اس کی مدد کرنے والا نہیں ہوتا اور یہی کچھ اہل مکہ کے ساتھ ہوا کہ جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دو سال بعد مکہ والوں کی عہد شکنی کی وجہ سے مکہ کا محاصرہ کیا تو کسی ایک قبیلہ نے بھی اہل مکہ کی حمایت نہ کی۔ مکہ فتح ہونے کے چند ہفتے بعد حنین فتح ہوا۔ غزوہ حنین میں مال غنیمت : چھ (٦٠٠٠) ہزار قیدی، چوبیس (٢٤٠٠٠) ہزار اونٹ، چالیس (٤٠٠٠٠) ہزار سے زائد بکریاں، چار (٤٠٠٠) ہزار اوقیہ چاندی ( یعنی ایک لاکھ ساٹھ ہزار درہم) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سب کو جمع کرنے کا حکم دیا پھر جعرانہ کے مقام پر مسعود بن عمرو غفاری (رض) کی نگرانی میں دے دیا۔ جب غزوۂ طائف سے فارغ ہوئے تو اسے تقسیم فرمایا۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے حدیبہ کے مقام پر بیعت کرنے والوں کے ساتھ کثیر مال غنیمت عطا کرنے کا وعدہ کیا اور اسے پورا فرمایا۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے مکہ والوں کے ہاتھ روک لیے تھے جس وجہ سے وہ صلح حدیبیہ کرنے پر مجبور ہوگئے۔ ٣۔ صلح حدیبیہ کے وقت اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو صحیح راستے پر قائم رکھا جس وجہ سے وہ حدیبیہ پر مطمئن ہوگئے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ کا ضابطہ اور طریقہ کبھی تبدیل نہیں ہوتا۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ کا طریقہ اور قانون یہ ہے کہ جب وہ کسی قوم کی پکڑ کرتا ہے تو پھر اس کی مدد کرنے والا کوئی نہیں ہوتا : ١۔ اللہ کا عذاب برحق ہے اور تم اللہ تعالیٰ کو عاجز نہیں کرسکتے۔ (یونس : ٥٣) ٢۔ اس دن وہ پیٹھ پھیر کر بھاگیں گے لیکن اللہ کی پکڑ سے انہیں کوئی بچانے والا نہیں ہوگا۔ (المومن : ٣٣) ٣۔ اگر اللہ کسی کو تکلیف دے تو کون ہے جو اسے اس سے بچا سکے۔ (الاحزاب : ١٧) ٤۔ جسے اللہ رسوا کرے اسے کوئی عزت نہیں دے سکتا۔ (الحج : ١٨) ٥۔ حضرت نوح نے اپنے بیٹے کو فرمایا کہ آج کے دن اللہ کے عذاب سے کوئی نہیں بچ سکتا۔ (ھود : ٤٣) ٦۔ جب اللہ کسی قوم پر مصیبت نازل کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو اس کے ہٹنے کی کوئی صورت نہیں ہوتی اور نہ کوئی بچانے والا ہوتا ہے۔ (الرعد : ١١) ٧۔ اللہ کا عذاب بڑا سخت ہے اور انہیں اللہ تعالیٰ کے عذاب سے کوئی بچانے والا نہیں۔ (الرعد : ٣٤) ٨۔ اللہ نے ان کو ان کے گناہوں کی وجہ سے پکڑلیا اور انہیں بچانے والا کوئی نہیں تھا۔ ( المومن : ٢١) ٩۔ اللہ کے عذاب سے کوئی نہیں بچ سکتا مگر جس پر اللہ رحم فرمائے۔ (ہود : ٤٣) الفتح
21 الفتح
22 الفتح
23 الفتح
24 فہم القرآن ربط کلام : فتح مکہ اور صلح حدیبیہ کے حالات پر تبصرہ جاری ہے۔ اللہ تعالیٰ نے صلح حدیبیہ کے مقام پر جو حرم مکہ کے کنارے پر واقع ہے نہ صرف اہل مکہ کے ہاتھوں کو روکے رکھا بلکہ مسلمانوں کے ہاتھوں کو بھی کفار کی طرف بڑھنے سے روک لیا۔ اللہ تعالیٰ سب کچھ دیکھنے والا ہے۔ اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ یہ وہی کافر ہیں جنہوں نے تمہیں مسجد حرام تک پہنچنے سے روک دیا اور جو قربانیاں تم اپنے ساتھ لائے تھے انہیں بھی حرم میں نہ جانے دیا۔ بے شک یہ دونوں جرائم اپنی جگہ پر بہت بڑے تھے لیکن اگر اہل مکہ کے ساتھ تمہاری مڈ بھیڑ ہوجاتی تو وہاں ایسے مومن اور مومنات بھی موجود تھیں جنہیں تم نہیں جانتے تھے۔ لڑائی ہونے کی صورت میں اگر تم انہیں زخمی یا شہید کردیتے تو اس میں نہ صرف تمہیں نقصان پہنچتا بلکہ تمہاری عزت پر بھی حرف آتا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے تمہیں اس نقصان سے بچا لیا وہ جسے چاہتا ہے اپنی رحمت کے دامن میں لے لیتا ہے۔ اگر کفار مسلمانوں سے الگ ہوتے تو ہم انہیں حرم سے روکنے کی وجہ سے تمہارے ہاتھوں سے شدید عذاب دیتے۔ اس آیت میں مرکزی طور پر دو مسائل بیان کیے گئے ہیں۔ 1۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مکہ والوں نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مسلمانوں کو حرم میں داخل ہونے سے روک کر نہ صرف اللہ کے قانوں کی خلاف ورزی کی بلکہ وہ بیت اللہ کی توہین کے مرتکب بھی ہوئے۔ کیونکہ بیت اللہ پر کسی قوم کی اجارہ داری نہیں۔ یہ اللہ کا گھر ہے جس سے کسی مسلمان کو روکا نہیں جاسکتااِلاَّ یہ کہ کوئی حرم کی توہین کرنے والا ہو یا اس سے تخریب کاری کا خطرہ ہو۔ اہل مکہ نے نہ صرف نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام (رض) کو حرم میں داخل ہونے سے روکا بلکہ قربانی کے جانوروں کو بھی حرم تک نہ جانے دیا۔ یاد رہے قربانی کے جانوروں سے مراد عید الاضحی کے موقع پر ذبح کیے جانے والے جانور نہیں بلکہ عرب کے لوگ عمرہ کے وقت بھی اپنے ساتھ جانور لایا کرتے تھے تاکہ انہیں حرم کے زائرین اور اس کے مکینوں کے لیے ذبح کیا جائے۔ (اِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَ یَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ الَّذِیْ جَعَلْنٰہُ للنَّاسِ سَوَآءَ نِ الْعَاکِفُ فِیْہِ وَ الْبَادِ وَ مَنْ یُّرِدْ فِیْہِ بِاِلْحَادٍ بِظُلْمٍ نُّذِقْہُ مِنْ عَذَابٍ اَلِیْمٍ) (الحج : ٢٥) ” جن لوگوں نے کفر کیا اور جو اللہ کے راستے سے روکتے ہیں اور مسجد حرام کی طرف آنے میں رکاوٹ بنتے ہیں۔ جسے ہم نے سب لوگوں کے لیے بنایا ہے جس میں مقامی اور باہر سے آنے والوں کے حقوق برابرہیں۔ مسجد حرام میں جو بھی گمراہی اور ظلم کا راستہ اختیار کرے گا اسے ہم دردناک عذاب دیں گے۔“ 2۔ ان آیات میں دوسری بات یہ ارشاد فرمائی ہے کہ اگر مکہ میں تمہاری اور کفار کی جنگ ہوجاتی تو اس سے ان مسلمان مردوں اور خواتین کو بھی نقصان پہنچتا جن کو تم نہیں جانتے تھے۔ ظاہر ہے کہ لاعلمی کی وجہ سے وہ بھی مارے جاتے جس میں مسلمانوں کا افرادی نقصان بھی ہوتا اور کفار پراپیگنڈہ کرتے کہ مسلمان انتقام لینے پر آئیں تو اپنوں کی بھی پرواہ نہیں کرتے۔ اس سے مسلمانوں کی نیک نامی میں فرق آتا۔ اس فرمان میں ایک اصول یہ واضح ہوا کہ مسلمانوں کو ہر ممکن ایسی لڑائی سے بچنا چاہیے جس میں وہاں کے رہنے والے مسلمانوں کو نقصان پہنچنے کا خطرہ پایا جائے۔ ان وجوہات کی وجہ سے فرمایا کہ اگر کفار مکہ میں رہنے والے مسلمانوں سے الگ تھلگ ہوتے تو حرم سے روکنے کی وجہ سے انہیں سخت سزا دی جاتی۔ ” رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے مکہ کو حرم قرار دیا ہے اس کو لوگوں نے حرام قرار نہیں دیا۔ کسی بھی شخص کے لیے یہ جائز نہیں جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو اس میں کسی کا خون بہائے اور نہ ہی اس کا درخت کاٹا جائے۔ اگر کوئی شخص یہ بات کہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مکہ میں قتال کیا تو تم کہو کہ بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو کچھ دیر کے لیے اجازت دی تھی۔ تم میں سے کسی کو بھی یہ اجازت نہیں اور مجھے بھی چند گھڑیوں کے لیے اجازت دی گئی اس کی حرمت پہلے کی طرح ہی لوٹ آئی ہے جو لوگ یہاں موجود ہیں وہ دوسرے لوگوں تک یہ بات پہنچا دیں۔“ (رواہ البخاری : کتاب العلم، باب یبلغ العلم الشاہد الغائب) مسائل ١۔ مسلمانوں کو مسجد حرام سے روکنا بڑے گناہ کا کام ہے۔ ٢۔ جنگ کے دوران وہاں کے مسلمانوں کا خیال رکھنا لازم ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ جسے چاہے اپنی رحمت میں شامل فرماتا ہے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ نے کفار کے لیے اذّیت ناک عذاب تیار کیا ہے۔ ٥۔ حدیبیہ کا موجودہ نام شمیسی ہے جو موجودہ مکہ کے ساتھ مل چکا ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ جسے چاہے اپنی رحمت کے دامن میں لے لیتا ہے : ١۔ اللہ تعالیٰ انبیاء کو اپنی رحمت کے ساتھ مخصوص کرتا ہے۔ (الانبیاء : ٨٦) ٢۔ ” اللہ“ نیک لوگوں کو اپنی رحمت سے ہمکنار کرتا ہے۔ (الانبیاء : ٧٥) ٣۔ ایمان میں پختہ رہنے والے کو اللہ اپنی رحمت سے نوازتا ہے۔ (النساء : ١٧٥) ٤۔ ” اللہ“ جسے چاہتا ہے اپنی رحمت سے نوازتا ہے۔ (الشورٰی : ٨) ٥۔ ” اللہ“ کی رحمت ہر چیز کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ ( الاعراف : ١٥٦) ٦۔ ” اللہ“ کی رحمت نیکی کرنے والوں کے قریب ہوتی ہے۔ (الاعراف : ٥٦) ٧۔ ” اللہ“ مومن مردوں اور مومن عورتوں کو اپنی رحمت میں داخل فرمائے گا۔ (التوبہ : ٩٩) الفتح
25 الفتح
26 فہم القرآن ربط کلام : مسلمانوں کو حرم مکہ میں داخل ہونے سے روکنے کی اصل وجہ اہل مکہ کی جہالت اور قومی عصبیّت تھی۔ اہل مکہ یہ حقیقت جان چکے تھے کہ مسلمان عمرہ کے سوا کوئی عزم نہیں رکھتے۔ انہیں یہ بھی معلوم تھا کہ کسی کو بیت اللہ کی زیارت سے روکنا بہت بڑا گناہ ہے لیکن اس کے باوجود انہوں نے اپنی جہالت اور عصبیت کی وجہ سے ضد کا مظاہرہ کیا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے اصحاب کو عمرہ نہ کرنے دیا۔ مکے والوں کا یہ اقدام نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ (رض) کے لیے ناقابل برداشت تھا۔ لیکن آپ نے انتہائی بردباری اور سمجھداری سے کام لیتے ہوئے اہل مکہ کو مذاکرات کرنے پر مجبور کردیا۔ اس صورت حال کا اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ میں ذکر فرمایا ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کردہ سکینت اور تقویٰ کا نتیجہ تھا۔ جس پر اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو قائم رکھا اور وہ اس کے مستحق اور اہل تھے۔ اللہ تعالیٰ ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے۔ اس فرمان میں صحابہ کرام (رض) کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے یہ ارشاد فرمایا ہے کہ میں نے انہیں ” کَلِمَۃَ التَّقْوٰی“ پر قا ئم رکھا اور وہ اس کے حق دار اور اہل بھی تھے۔ یہاں تقویٰ سے مراد نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت اور بردباری کا مظاہرہ کرتے ہوئے لڑائی سے بچنا ہے۔ اس سے پہلی آیت ١٥ میں ارشاد ہوا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان مومنوں پر راضی ہوگیا جنہوں نے درخت کے نیچے بیٹھ کر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہاتھ پر بیعت کی کیونکہ اللہ تعالیٰ ان کے دلوں کو جانتا ہے۔ ان پر سکینت نازل کی گئی اور وہ بہت جلد فتح یاب ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام (رض) کے دلوں کی گواہی دی اور فرمایا کہ جن لوگوں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہاتھ پر بیعت کی ہے اللہ تعالیٰ نے ان پر تقویٰ کو لازم کر دیاتھا اور وہ اس اس بات کے حق دار تھے۔ یہاں صحابہ کرام (رض) کے پاک دل ہونے کی گواہی دی گئی ہے۔ پہلے پارے میں ان کے ایمان کو ایمان کا معیار قرار دیا گیا ہے۔ (البقرۃ: ١٣٧) یہ گواہی اس لیے ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز کو جانتا ہے۔ اس فرمان سے ان لوگوں کی یا وہ گوئی کی نفی ہوتی ہے جو کہتے ہیں کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد چند صحابہ کرام اپنے ایمان پر پکے رہے باقی اپنے ایمان سے منحرف ہوگئے۔ ان کی ہرزہ سرائی سے صرف صحابہ کرام (رض) کی توہین نہیں ہوتی بلکہ اللہ تعالیٰ کے علم اور اس کی گواہی کی بھی توہین ہوتی ہے۔ اس قسم کی یا وہ گوئی کرنے والے لوگوں کو مسلمانوں میں شمار نہیں کرنا چاہیے۔ اہل علم نے ” کَلِمَۃَ التَّقْوٰی“ سے مراد کلمہ طیبہ اور اللہ کا خوف لیا ہے۔ جو شخص اپنے دل میں کلمہ طیبہ کا مفہوم اور اللہ کا خوف بٹھا لیتا ہے اللہ تعالیٰ اسے حق بات پر استقامت عطا فرمانے کے ساتھ اس کے ایمان میں اضافہ کرتا ہے۔ مسائل ١۔ اہل مکہ نے صرف جہالت اور ضد کی بنیاد پر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام کو بیت اللہ کی زیارت سے روکا ورنہ ان کے پاس کوئی اخلاقی جواز نہیں تھا۔ ٢۔ صلح حدیبیہ کے موقع پر اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول اور مومنوں پر سکون اور اطمینان نازل فرمایا۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ نے حدیبیہ کے موقع پر صحابہ کرام کو تقویٰ پر قائم فرمایا۔ ٤۔ صحابہ کرام ہر اعتبار سے تقویٰ کے مستحق اور اہل تھے۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ کو معلوم تھا اور ہے کہ صحابہ کرام آخر دم تک تقویٰ اور ایمان پر قائم رہیں گے، چنانچہ صحابہ کرام (رض) تادم آخر تقویٰ پر قائم رہے۔ تفسیربالقرآن صحابہ کرام (رض) کا ایمان اور مقام : ١۔ اللہ تعالیٰ نے صحابہ (رض) کے ایمان کو آزمالیا۔ (الحجرات : ٣) ٢۔ صحابہ (رض) ایمان کا معیار ہیں۔ (البقرۃ : ١٣٧) ٣۔ صحابہ (رض) اللہ کی جماعت ہیں۔ (المجادلہ : ٢٢) ٤۔ صحابہ (رض) کو براکہنے والے بیوقوف ہیں۔ (البقرۃ : ١٣) ٥۔ صحابہ (رض) دنیا و آخرت میں کامیاب ہوئے۔ (المجادلہ : ٢٢) ٦۔ صحابہ (رض) بھی اللہ پر راضی ہوگئے۔ (البینہ : ٨) ٧۔ صحابہ (رض) کو اللہ نے اپنی رضا کی ضمانت دی۔ (البینہ : ٨) الفتح
27 فہم القرآن ربط کلام : نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مکہ کا سفر اس لیے اختیار کیا تھا تاکہ عمرہ کیا جائے لیکن کفار نے آپ کو حدیبیہ سے آگے نہ جانے دیا جس پر بعض صحابہ کے دل میں یہ خیال پیدا ہوا کہ اللہ کے نبی نے فرمایا تھا کہ مجھے خواب آیا ہے کہ میں بیت اللہ کی زیارت کررہا ہوں لیکن ہم عمرہ کیے بغیر واپس جارہے ہیں آخر یہ معاملہ کیا ہے ؟ نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خواب کی تائید اور بعض صحابہ کرام (رض) کے خیالات کی تطہیر کے لیے اللہ تعالیٰ نے بڑے زوردار الفاظ میں اس بات کی وضاحت فرمائی کہ اللہ نے اپنے رسول کے خواب کو سچ کر دکھایا ہے۔ اس لیے تم ہر صورت امن کے ساتھ اپنے سرمنڈواتے یاکتراتے ہوئے مسجد حرام میں داخل ہوگے۔ تمہیں کسی قسم کا کوئی خوف نہیں ہوگا۔ تمہیں علم نہیں مگر اللہ سب کچھ جانتا ہے۔ اس نے تمہیں بہت جلد فتح عطا فرما دی ہے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے خواب کی بنیاد پر مکہ کا سفراختیار کیا تھا۔ جب آپ مکہ داخل ہونے کی بجائے مدینہ کی طرف جانے لگے تو حضرت عمر (رض) نے عرض کی کہ اللہ کے رسول ! آپ نے فرمایا تھا کہ ہم بیت اللہ کی زیارت کر رہے ہیں۔ کیا معاملہ ہے کہ ہم مکہ جانے کی بجائے مدینہ کی طرف واپس جارہے ہیں؟ اس پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ خواب تو سچا ہے لیکن خواب میں یہ نہیں بتلایا گیا تھا کہ ہم اسی سال عمرہ کریں گے۔ (رواہ البخاری : باب الشروط فی الجہاد والمصالحۃ مع أہل الحرب وکتابۃ الشروط) اس خواب کا ذکر سورۃ بنی اسرائیل آیت ٦٠ میں بھی ہے وہاں ارشاد ہوا کہ ہم نے اس خواب کو آپ کے لیے ایک آزمائش بنایا ہے۔ اس میں آزمائش یہ تھی کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خواب میں یہ نہیں بتایا گیا تھا کہ آپ اسی سال بیت اللہ کی زیارت کریں گے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دل میں بیت اللہ کی بے پناہ محبت تھی جس بنا پر آپ نے خواب کے فوراً بعد عمرہ کرنے کا فیصلہ فرمایا لیکن اللہ تعالیٰ کو یہ منظور تھا کہ آپ اگلے سال عمرہ کریں تاکہ آپ کے عمرہ کرنے سے پہلے مکہ والوں کے ساتھ ایک معاہدہ ہوجائے۔ جس بنیاد پر آپ کی مکہ میں تشریف آوری کے موقع پر امن وسکون ہو۔ آپ اور آپ کے ساتھی بلا خوف و خطر بیت اللہ کی زیارت کرسکیں۔ اس لیے بڑے زور دار الفاظ میں فرمایا کہ اللہ نے اپنے رسول کے خواب کو سچ کردکھایا ہے کہ آپ ہر صورت بیت اللہ میں داخل ہوں گے۔ اس کے لیے ماضی کا صیغہ استعمال کرنے کے ساتھ باربار ایسے الفاظ استعمال فرمائے ہیں جن میں تاکید در تاکید پائی جاتی ہے۔ 1۔ صَدَقَ ماضی کا صیغہ ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ کام ہوچکا ہے۔ 2۔ لَقَدْ کے لفظ میں ل اور قد دو نوں حروف تاکید کے لیے بولے جاتے ہیں۔ 3۔ لَتَدْخُلُنَّ اس میں لام اور نون ثقیلہ کے حروف آئے ہیں جو تاکید در تاکید کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ 4۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کے لیے انشاء اللہ کا لفظ استعمال کیا ہے جو تاکید اور امید کے معنٰی میں استعمال ہوتا ہے۔ اس کے بعد مزید چار الفاظ استعمال کیے گئے ہیں۔ ١۔ آمِّیْنَ ہر طرح کے خطرے سے امن میں رہنے والے۔ ٢۔ ” مُحَلِّقِیْنَ رُؤسَکُمْ“ اپنے سروں کو منڈوانے والے۔ اسی بنیاد پر حج اور عمرہ کے وقت سرمنڈوانے والے کے لیے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ دعا کی۔ (عَنِ ابْنِ عُمَرَ (رض) اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ فِیْ حَجَّۃِ الْوَدَاعِ اَللّٰھُمَّ ارْحَمِ الْمُحَلِّقِےْنَ قَالُوْا وَالْمُقَصِّرِےْنَ ےَارَسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ اَللّٰھُمَّ ارْحَمِ الْمُحَلِّقِےْنَ قَالُوْا وَالْمُقَصِّرِےْنَ ےَارَسُوْلَ اللّٰہِ قَالَ وَالْمُقَصِّرِےْنَ) (رواہ البخاری : باب الذبح قبل الحلق) ” حضرت عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حجۃ الوداع میں یہ دعا کی۔ ” یا الٰہی! سر مونڈنے والوں پر رحم فرما۔“ صحابہ (رض) نے عرض کیا۔ بال کترانے والوں کے لیے کیا حکم ہے؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دوبارہ وہی دعا کی صحابہ (رض) نے پھر عرض کی یا رسول اللہ! سر کترانے والوں کی لیے بھی دعا فرمائیں! تب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بال کتروانے والوں کے لیے بھی رحم کی دعا کی۔“ ٣۔” مُقَصِّرِیْنَ“ سرکے بال کتروانے والے۔ ٤۔ ” لَاتَخَافُوْنَ“ جب تم مکہ میں داخل ہو گے تو تمہیں کسی قسم کا کوئی خوف نہیں ہوگا۔ اللہ تعالیٰ کے فرمان کا نتیجہ تھا کہ مکہ والوں نے صلح حدیبیہ کے وقت ازخود یہ شرط پیش کی کہ جب تم اگلے سال عمرہ کے لیے آؤ گے تو ہم تین کے لیے شہر خالی دیں گے۔ بالفاظ دیگر انہوں نے تین دن کے لیے مکہ کو نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حوالے کردیا تھا۔ اس لیے آپ اور آپ کے اصحاب نے پورے اطمینان اور سکون کے ساتھ عمرہ ادا کیا۔ اللہ تعالیٰ نے حدیبیہ کے مقام پر صحابہ کرام کے اخلاص اور عزم بالجزم کو دیکھ کر یہ بھی خوشخبری دی کہ اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہے کہ وہ بہت جلد تمہیں مکہ کی فتح سے سرفراز کرے گا۔ چنانچہ ابھی دو سال پورے نہیں ہوئے تھے کہ قریش کے حلیف قبیلہ بنو بکر نے مسلمانوں کے حلیف قبیلے بنو خزاعہ پر حملہ کردیا۔ قریش نے معاہدہ کا احترام کرنے کی بجائے بنو بکر کی حمایت کی اس پر بنو خزاعہ کا بھاری بھر کم وفد چالیس اونٹوں پر سوار ہو کر نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا اور اپنی مظلومیت کی داستان پیش کی۔ ان کی داستان سن کر نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قریش کی طرف ایک وفد بھیجا کہ تین باتوں میں سے کوئی ایک بات اختیار کرلیں۔ 1۔ بنوخزاعہ کے مقتولوں کا خون بہا دیا جائے۔ 2۔ یا بنو بکر کی حمایت سے برأت کا اعلان کیا جائے۔ 3۔ مذکورہ بالا شرائط میں اگر کوئی شرط بھی منظور نہیں تو معاہدہ توڑنے کا اعلان کردیں۔ وفد نے تینوں شرائط قریش کے سامنے پیش کیں تو ان کے جذباتی لوگوں اور نوجوان طبقہ نے آخری شرط قبول کرلی اور ان کی طرف سے فرط بن عمر نے اعلان کیا کہ آج کے بعد حدیبیہ کا معاہدہ ختم کیا جاتا ہے۔ وفد نے واپس آکر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں رپورٹ پیش کی۔ نبی نے اس کے بعد فی الفور مکہ پر پیش قدمی کی تیاری شروع کردی۔ مکہ والوں کو اپنی بدعہدی اور حماقت کا احساس ہوا تو انہوں نے ابو سفیان کو بھیجا کہ وہ مدینہ جاکر تجدید عہد کی کوشش کرے۔ ابو سفیان نے مدینہ پہنچ کر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے درخواست کی کہ ہمیں اپنے کیے پر افسوس ہے۔ ہماری درخواست ہے کہ معاہدہ کو برقرار رکھاجائے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کی درخواست قبول نہ کی۔ اس کے بعد ابو سفیان یکے بعد دیگرے حضرت ابو بکر صدیق اور عمر بن خطاب (رض) کے پاس گیا لیکن انہوں نے یہ کہہ کر اس کی درخواست مسترد کی کہ جس بات کو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نامنظور کرچکے ہیں ہم اسے منظور کرنے والے کون ہوتے ہیں۔ بالآخر ابوسفیان مایوس ہو کر مکہ واپس ہوا۔ اس کے بعدنبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مکہ پر چڑھائی کی اور اپنے ساتھیوں کو ہدایت فرمائی کہ چار آدمیوں کے سوا جو شخص بیت اللہ میں داخل ہوجائے اس پر ہاتھ نہ اٹھایا جائے۔ جو شخص ابوسفیان کے گھر میں داخل ہو اسے بھی کچھ نہ کہا جائے۔ جو اپنے گھر کا دروازہ بند کرلے اسے بھی نہ چھیڑا جائے۔ جو مکہ سے بھاگ جائے اس کا بھی پیچھا نہ کیا جائے۔ ان ہدایات کے بعد نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دس ہزار صحابہ کے ساتھ مکہ میں داخل ہوئے۔ ایک دو مقامات پر معمولی مزاحمت کے سوا پورے مکہ اور اس کے گردونواح میں لڑائی کا کوئی واقعہ پیش نہ آیا۔ نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مسجد حرام میں داخل ہوئے اور عثمان بن طلحہ سے بیت اللہ کی چابی لی اور سیڑھی لگوا کر بیت اللہ کے اندار داخل ہوئے اور دو نفل نماز ادا کی۔ آپ کے ساتھ بیت اللہ میں داخل ہونے والے حضرت بلال اور حضرت عبداللہ بن عباس (رض) بھی تھے۔ جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نماز کی کیفیت اور جہاں آپ نے کھڑے ہو کر نماز پڑھی تھی اس کی تفصیل بیان کرتے ہیں۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دونفل پڑھنے کے بعد اسی سیڑھی کے ذریعے اتر کر مسجد حرام یعنی بیت اللہ کے صحن میں تشریف لائے۔ نظر اٹھائی اور دیکھا کہ بڑے بڑے سردار آنکھیں جھکائے سامنے کھڑے ہیں۔ آپ نے ان سے استفسار فرمایا کہ آج تمہارے ساتھ کیا سلوک کیا جائے ؟ انہوں نے عاجزانہ انداز میں دراخوست کی۔ (عَنْ أبِیْ ہُرَیْرَۃَ (رض) اَنَ النَبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لَمَّا دَخَلَ مَکَّۃَ فَقَالَ۔۔أَتَی الْکَعْبَۃَ فَأَخَذَ بِعِضَادَتِی الْبَابِ فَقَالَ مَا تَقُوْلُوْنَ وَمَا تَظُنُّوْنَ قَالُوْا نَقُوْلُ اِبْنَ اَخٍ وَابْنَ عَمٍّ حَلِیْمٌ رَحِیْمٌ قَالَ وَقَا لُوْا ذٰ لِکَ ثَلَا ثا فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اَقُوْلُ کَمَا قَالَ یُوْسُفُ (لَا تَثْرِیْبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْمَ یَغْفِرُ اللّٰہُ لَکُمْ وَہُوَ اَرْحَمُ الرّٰاحِمِیْنَ) (السنن الکبرٰی : جزء ٩، قال الشیخ البانی حسن) ” حضرت ابی ہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فتح مکہ کے دن جب مکہ میں داخل ہوئے۔۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کعبۃ اللہ کے پاس آئے اور اس کی دہلیز پکڑ کر فرمایا تم میرے متعلق کیا کہتے ہو اور کیا امید کرتے ہو؟ قریش کہنے لگے ہم کہتے ہیں آپ ہمارے بھائی کے بیٹے، چچا کے بیٹے ہیں۔ حلیم الطبع اور رحم کرنے والے ہیں۔ انہوں نے یہ الفاظ تین بار کہے۔ آپ نے فرمایا میں وہی بات کہتاہوں جو یوسف (علیہ السلام) نے کہی تھی۔ آج کے دن کوئی گرفت نہیں۔ اللہ تمہاری خطاؤں کو معاف فرمائے یقیناً وہ سب سے زیادہ رحم کرنے والا ہے۔“ (عَنْ أَبِیہِ، أَنَّہُ قَالَ دَخَلَ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) الْبَیْتَ ہُوَ وَأُسَامَۃُ بْنُ زَیْدٍ وَبِلاَلٌ وَعُثْمَانُ بْنُ طَلْحَۃَ (رض) فَأَغْلَقُوا عَلَیْہِمْ فَلَمَّا فَتَحُوا کُنْتُ أَوَّلَ مَنْ وَلَجَ فَلَقِیت بلاَلاً فَسَأَلْتُہُ ہَلْ صَلَّی فیہِ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ : نَعَمْ بَیْنَ الْعَمُودَیْنِ الْیَمَانِیَیْنِ) (رواہ البخاری : باب إِغْلاَقِ الْبَیْتِ وَیُصَلِّی فِی أَیِّ نَوَاحِی الْبَیْتِ شَاءَ) ” حضرت عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)، اسامہ بن زید، حضرت بلال اور عثمان بن طلحہ (رض) بیت اللہ کے اندر داخل ہوئے اور دروازہ بند کردیا جب دروازہ کھولا تو سب سے پہلے میں اندر داخل ہوا اور میں حضرت بلال (رض) سے پوچھا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بیت اللہ کے اندر کس جگہ نماز پڑھی ہے اور انہوں نے کہا دو ستونوں کے درمیان۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کے خواب کو سچ کر دیکھایا۔ ٢۔ اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام (رض) نے پورے سکون اور اطمینان کے ساتھ اگلے سال عمرہ کیا۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ نے ٹھیک دو سال بعد نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فتح مکہ سے سرفراز فرمایا۔ الفتح
28 فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ نے نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نبوت، مکہ کی فتح اور دیگر فتوحات اس لیے عطا فرمائیں تاکہ اللہ کا دین غالب آ جائے۔ قرآن مجید نے تین مقامات پر یہ بات ارشاد فرمائی ہے کہ ” اللہ“ نے اپنا رسول ہدایت اور دین کے ساتھ اس لیے مبعوث فرمایا ہے تاکہ دین اسلام تمام باطل ادیان پر غالب آجائے۔ اللہ تعالیٰ ہر اعتبار سے حق غالب کرنے پر قادر ہے اور اس کی گواہی اپنے رسول اور دین کے بارے میں کافی ہے۔ یہ بات پہلے بھی عرض ہوچکی ہے کہ دین کے غلبے کا حقیقی مفہوم یہ ہے کہ دین اسلام کا کوئی قانون اور مسئلہ ایسا نہیں جسے دلائل کی بنیاد پر جھوٹا یا ناقابل عمل ثابت کیا جاسکے۔ دین ہمیشہ دلائل اور حقائق کی بنیاد پر ہر دور کے باطل نظریات پر غالب رہا ہے اور رہے گا۔ البتہ مسلمانوں کے سماجی اور سیاسی غلبے کے لیے شرط یہ ہے کہ مسلمان اس وقت تک ہی غالب رہیں گے جب تک یہ دین کے تقاضے پورے کرتے رہیں گے۔ ” بِالْھُدیٰ وَدِیْنِ الْحَقِّ“ کے الفاظ مفہوم کے لحاظ سے آپس میں مترادف ہیں۔ جس ہدایت کے ساتھ ” اللہ“ نے اپنے رسول کو بھیجا ہے اس کی تشریح دین ہے اور اس کی اساس ” اللہ“ کی توحید ہے۔ دین کا مقصد ہدایت اور راہنمائی کرنا ہے۔ دوسرے مقام پر اسی کو صراط مستقیم کہا گیا ہے۔ (الفاتحہ : ٥) ” بِالْھُدیٰ“ سے مراد وہ راہنمائی اور بصیرت ہے جس کے ساتھ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لوگوں کو دین سمجھایا اور اس کا نفاذ فرمایا۔ جہاں تک نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور دین حق کے غلبہ کا معاملہ ہے اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی اور دین کو جزیرۃ العرب جو موجدہ جغرافیہ کے مطابق سعودی عرب، یمن، کو یت، بحرین، مسقط، سلطنت عمان اور متحدہ عرب امارات کا پورے رقبہ پر مشتمل تھا، اس پر غالب فرمایا۔ اس سیاسی، اخلاقی، جہادی اور دینی غلبہ کے اثرات تھے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تبوک کی طرف پیش قدمی فرمائی تو رومی جو اس دور کی واحد سیاسی قوت تھے وہ آپ کے سامنے آنے کی جرأت نہ کرسکے۔ (ہُوَ الَّذِیْ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بالْہُدَی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہُ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہِ وَلَوْ کَرِہَ الْمُشْرِکُوْنَ) (الصف : ٩) ” وہی تو ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا ہے تاکہ اسے دوسرے ادیان پر غالب کر دے خواہ مشرکین کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو۔“ (ہُوَ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بالْہُدٰی وَ دِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ وَ لَوْ کَرِہَ الْمُشْرِکُوْنَ) (التوبہ : ٣٣) ” وہی ہے جس نے اپنا رسول ہدایت اور دین حق دے کر بھیجا تاکہ اسے ہر دین پر غالب کردے، خواہ مشرک لوگ برا سمجھتے رہیں۔“ (ہُوَ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بالْہُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ وَکَفٰی باللّٰہِ شَہِیْدًا) (الفتح : ٢٨) ” وہ اللہ ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا ہے تاکہ اس کو تمام ادیان پر غالب کر دے اور اس پر اللہ کی گواہی کافی ہے۔“ (کَتَبَ اللّٰہُ لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِی اِِنَّ اللّٰہَ قَوِیٌّ عَزِیْزٌ) (المجادلہ : ٢١) ” اللہ نے لکھ دیا ہے کہ میں اور میرے رسول غالب رہیں گے یقیناً اللہ زبردست اور غالب ہے۔“ ” یہ تو محض تمہاری خوشی اور اطمینان قلب کے لیے ہے ورنہ مدد تو اللہ تعالیٰ ہی کی ہے جو غالب، حکمت والا ہے۔“ (آل عمران : ١٢٦) ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : دین آسان ہے کوئی شخص اسلام پر غالب نہیں آسکتا بلکہ دین ہی غالب ہوگا۔ اجروثواب کا راستہ اور میانہ روی اختیار کرو، لوگوں کو خوشخبریاں دو، صبح و شام اور رات کے کچھ حصے میں اللہ تعالیٰ کی رضا طلب کرتے رہو۔“ (رواہ البخاری : باب الدین یسر) (اَلْاِسْلَامُ یَعْلَمُوْ وَلَا یُعْلیٰ) (ارواء الغلیل حدیث نمبر : ١٢٦٨) ” اسلام غالب آئے گا اور اس پر کوئی غالب نہیں آئے گا۔“ اس غلبے کے نتیجے میں مسلمان دنیا میں تقریباً ایک ہزار سال تک سیاسی، اخلاقی اور علمی طور پر غالب رہے۔ مسائل ١۔ اللہ نے اپنے رسول کو دین اور ہدایت کے ساتھ اس لیے بھیجا تاکہ دین حق تمام ادیان باطلہ پر غالب آ جائے۔ ٢۔ رسول اور دین اسلام کے لیے اللہ تعالیٰ کی گواہی کافی ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولوں اور دین کو غالب فرمایا : ١۔ وہ ذات جس نے رسول کو مبعوث کیا تاکہ دین اسلام تمام ادیان پر غالب آجائے۔ (الفتح : ٢٨) ٢۔ ان سے لڑائی کرو یہاں تک کہ فتنہ ختم ہوجائے اور دین خالصتاً اللہ کے لیے ہوجائے۔ (البقرۃ: ١٩٣) ٣۔ اگر اللہ تعالیٰ تمہاری مدد کرے تو پھر تم پر کوئی غالب نہیں آسکتا۔ (آل عمران : ١٦٠) ٤۔ اللہ تعالیٰ اپنا حکم نافذ کرنے پر غالب ہے لیکن لوگ نہیں جانتے۔ (یوسف : ٢١) ٥۔ کتنی قلیل جماعتیں جو ” اللہ“ کے حکم سے کثیر جماعتوں پر غالب آئیں۔ ( البقرۃ: ٢٤٩) ٦۔ ” اللہ“ کا وعدہ ہے کہ میں اپنے رسولوں کو ضرور غالب کروں گا۔ (المجادلہ : ٢١) ( المومنوں : ٥٥) الفتح
29 فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ نے نہ صرف اپنے رسول اور دین کو غالب فرمایا بلکہ ایک طویل مدت تک مسلمانوں کو دنیا میں غلبہ عطا فرمایا۔ اس سے پہلی آیت کے آخر میں یہ الفاظ استعمال فرمائے کہ اللہ کی گواہی کافی ہے جس کا ایک مفہوم یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں اور جو لوگ آپ کے ساتھی ہیں کفار پر سخت ہیں اور آپس میں مہربان ہیں۔ آپ ان کو رکوع، سجود کی حالت میں دیکھیں گے کہ وہ اللہ کا فضل اور اس کی خوشنودی طلب کرتے ہیں اور سجدوں کے آثار ان کے چہروں پر نمایاں ہیں۔ ان کی صفات کا تذکرہ تورات اور انجیل میں بھی پایا جاتا ہے۔ ان کی مثال اس کھیتی کی مانند ہے جس نے پہلے زمین سے اپنی سوئی نکالی پھر مضبوط ہوئی پھر اپنی ٹہنی پر کھڑی ہوگی جو زمیندار کو بھلی لگتی ہے اور کفار کے دل اس سے جلتے ہیں۔ جو لوگ ایمان لائے اور صالح اعمال کرتے رہے۔ ان کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ وہ انہیں معاف فرمائے گا اور اجر عظیم عطا کرے گا۔ اس آیت مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت کی گواہی دینے کے ساتھ صحابہ کرام (رض) کے درج ذیل اوصاف بیان کیے ہیں۔ ١۔ صحابہ کرام (رض) کو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھی قراردیا گیا ہے۔ ٢۔ صحابہ کرام کفار پر سخت تھے اور آپس میں نرم تھے۔ کفار پر سخت ہونے کا یہ معنٰی نہیں کہ مسلمان غیرمسلم کے ساتھ ترشی اور بداخلاقی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ اس کا معنٰی یہ ہے کہ وہ اپنے دین میں پکے ہیں اور کفر کے بارے میں شدیدنفرت رکھنے کی وجہ سے حالت جنگ میں کفار کے ساتھ کسی قسم کی نرمی نہیں کرتے جس کی چند مثالیں پیش خدمت ہیں۔ جنگ بدر میں حضرت ابو بکر صدیق (رض) کے بیٹے کا ان کے ساتھ آمنا سامنا ہوا لیکن بیٹے نے اپنے باپ پر حملہ نہ کیا۔ جب بعد میں بیٹا مسلمان ہوا تو اس نے ابو بکر صدیق (رض) سے کہا کہ ابّا جان بدر کے میدان میں آپ میری تلوار کے نیچے کئی بار آئے لیکن میں نے آپ کے احترام میں آپ پر تلوار کا وار نہ کیا۔ حضرت ابو بکر صدیق (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ بیٹا تو میری تلوار کے نیچے آتا تو میں تیرا سر قلم کردیتا۔ بدرکی فتح کے بعد جب قیدیوں کو رسیوں میں جکڑا جارہا تھا تو حضرت عمیر (رض) نے دیکھا کہ ان کے بھائی کو بھی رسی سے باندھا جارہا ہے۔ حضرت عمیر (رض) نے باندھنے والے صحابی کو کہا کہ اس کے ہاتھ اچھی طرح باندھنا کیونکہ اس کی ماں کے پاس بڑا مال ہے۔ حضرت عبیدہ (رض) نے بدر کے معرکہ میں اپنے باپ جراح کو قتل کیا کیونکہ وہ باربار نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر حملہ آور ہو رہا تھا۔ حضرت ابو عبیدہ نے انہیں اشارے کنائے سے روکنے کی کوشش کی کہ وہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر حملہ نہ کریں جب نہ رکے تو حضرت ابو عبیدہ نے آگے بڑھ کر اپنے باپ کو قتل کردیا۔ حضرت عمر (رض) کا واقعہ بڑا مشہور ہے کہ انہوں نے بدر کے قیدیوں کے بارے میں یہ رائے دی تھی کہ ہر کوئی اپنے اپنے رشتہ دار کو قتل کرے اور سب سے پہلے میں اپنے رشتہ دار قیدیوں کو قتل کروں گا۔ صحابہ کرام (رض) کی آپس میں محبت اور شفقت : (وَعَنِ النُّعْمَانِ ابْنِ بَشِیْرِ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تَرَی الْمُوْمِنِیْنَ فِیْ تَرَاحُمِھِمْ وَتَوَادِّھِمْ وَتَعَاطُفِھِمْ کَمَثَلِ الْجَسَدِ إذَا اشْتَکیٰ عُضْوًا تَدَاعٰی لَہٗ سَاءِرُ الجَسَدِ بالسَّھَرِ وَالْحُمّٰی) (رواہ البخاری : باب رحمۃ الناس والبہائم) ” حضرت نعمان بن بشیر (رض) بیان کرتے ہیں رسولِ کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا‘ تم مسلمانوں کو باہم‘ رحم‘ محبت اور شفقت کرنے کے حوالے سے ایک جسم کی مانند پاؤ گے۔ جب جسم کا کوئی عضو تکلیف میں ہوتا ہے تو اس کی وجہ سے سارا جسم تکلیف اور بخار میں مبتلا ہوتا ہے۔“ (وَعَنْہُ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اَلْمُؤْمِنُوْنَ کَرَجُلٍ وَّاحِدٍ اِنِ اشْتَکیٰ عَیْنُہُ اشْتَکٰی کُلُّہٗ وَاِنِ اشْتَکٰی رَأْسُہُ اشْتَکٰی کُلُّہٗ) (رواہ مسلم : باب تَرَاحُمِ الْمُؤْمِنِینَ وَتَعَاطُفِہِمْ وَتَعَاضُدِہِمْ) ” حضرت نعمان بن بشیر (رض) ہی بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : مومن ایک شخص کی طرح ہیں کہ اگر اس کی آنکھ میں درد ہو تو اس کا سارا جسم تکلیف محسوس کرتا ہے اور اگر اس کے سر میں درد ہو تو بھی اس کا سارا جسم درد محسوس کرتا ہے۔“ (عَنْ أَبِی مُوسَی (رض) عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ إِنَّ الْمُؤْمِنَ لِلْمُؤْمِنِ کَالْبُنْیَانِ یَشُدُّ بَعْضُہُ بَعْضًا وَشَبَّکَ أَصَابِعَہُ) (صحیح بخاری، باب تشبیک الأصابع فی المسجد وغیرہ) ” حضرت ابو موسیٰ اشعری (رض) بیان فرماتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ایک مسلمان دوسرے مسلمان کے لیے دیوار کی طرح ہے یہ ایک دوسرے کو مضبوط کرتے ہیں پھر آپ نے اپنے دونوں ہاتھوں کو آپس میں ملا کر سمجھایا۔“ صحابہ کے رکوع و سجود : اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام (رض) کی نماز کا کئی مقامات پر تذکرہ کیا ہے۔ ” وہ لوگ اپنے رب کے حضور سجدے اور قیام میں راتیں گزارتے ہیں۔“ (الفرقان : ٦٤) صحابہ کرام کی نماز اور ان کے رکوع وسجود کا یہ کہہ کر ذکر کیا گیا ہے کہ ان کے چہروں پر ان کے سجدوں کے آثار دیکھے جاسکتے ہیں۔ سجدوں کے آثار کا یہ معنٰی نہیں کہ کسی کے ماتھے پر کالا نشان پڑا ہوا ہو۔ آثار کا یہ معنٰی ہے کہ ان کے چہروں سے روحانیت ٹپکتی ہے جس سے بالخصوص عبادت گزار آدمی پہچانا جاتا ہے کہ یہ اپنے رب کے حضور جھکنے والاہے۔ صحابہ کرام (رض) کی جماعت کا نظم اور مضبوطی : مسلمانوں کی جماعت اور اس کی مضبوطی کے لیے لازم ہے کہ ان کی رشتہ داریاں اور معاملات غیروں کی بجائے آپس میں ہونے چاہئیں اور ان کی محبت اور دوستی کفار کی بجائے مسلمانوں سے ہونی چاہیے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قرآن مجید کی روشنی میں صحابہ کرام کو انہی خطوط پر منظم فرمایا جس کا نقشہ قرآن مجید ان الفاظ میں پیش کرتا ہے آپ کے ساتھیوں کی مثال یوں ہے جس طرح بیج سے شگوفہ نکلتا ہے پھر وہ نرم و نازک کونپل کی شکل اختیار کرلیتا ہے اور پھر کونپل سے ٹہنی بنتی ہے جو سیدھی کھڑی ہو کر اپنے تنے پر مضبوط ہوجاتی ہے۔ اس کے بعد پھر اس سے گل و گلزار نکلتے ہیں۔ جن کی مہک باغ کے مالی اور کھیت کے مالک کو خوش کرتی ہے اور دوسری طرف حاسد کے حسد میں اضافہ کرتی ہے۔ اسی کیفیت کی بنا پر جوں جوں اسلام پھیل رہاتھا اور صحابہ کرام کی جماعت آگے بڑھ رہی تھی اسی قدر ہی کفار حسد و بغض کا شکار ہورہے تھے۔ یہ ایسی جماعت تھی جو دنیا میں ہر اعتبار سے کامیاب ہوئی اور آخرت میں اللہ تعالیٰ نے انہیں اجرِعظیم دینے کا وعدہ فرمایا۔ یہ اپنے رب پر راضی ہوئے اور ان کا رب ہمیشہ کے لیے ان پر راضی ہوگیا۔ ( وَیُدْخِلُہُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِہَا الْاَنْہٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْہَا رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ وَرَضُوْا عَنْہُ اُوْلٰٓءِکَ حِزْبُ اللّٰہِ اَلاَ اِِنَّ حِزْبَ اللّٰہِ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَ) (المجادلہ : ٢٢) ” وہ ان کو ایسی جنتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی ان میں وہ ہمیشہ رہیں گے، اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے، یہ اللہ کی فوج ہیں، خبردار رہو! اللہ کی فوج ہی کامیاب ہونے والی ہیں۔“ مسائل ١۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ آپس میں نہایت مہربان اور کفار کے بارے میں سخت تھے۔ ٢۔ صحابہ کرام (رض) کے چہروں پر رکوع اور سجود کے آثار نمایاں دکھائی دیتے تھے۔ ٣۔ تورات اور انجیل میں صحابہ کرام (رض) کی تعریف پائی جاتی ہے۔ ٤۔ صحابہ کرام (رض) کی جماعت باہمی محبت اور نظم وضبط کے لحاظ سے اپنی مثال آپ تھی۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ نے صالح اعمال مومنوں کے لیے بخشش اور عظیم اجر کا وعدہ کیا ہے۔ تفسیر بالقرآن صحابہ کرام (رض) کی عظمت وفضیلت : ١۔ اللہ تعالیٰ نے صحابہ کے ایمان کو آزمالیا۔ (الحجرات : ٣) ٢۔ صحابہ ایمان کا معیار ہیں۔ (البقرۃ : ١٣٧) ٣۔ صحابہ (رض) اللہ کی جماعت ہیں۔ (المجادلہ : ٢٢) ٤۔ صحابہ کو براکہنے والے بیوقوف ہیں۔ (البقرۃ : ١٣) ٥۔ صحابہ (رض) دنیا و آخرت میں کامیاب ہوئے۔ (المجادلہ : ٢٢) ٦۔ صحابہ (رض) بھی اللہ تعالیٰ پر راضی ہوگئے۔ (البینہ : ٨) ٧۔ صحابہ (رض) کو اللہ نے اپنی رضا کی ضمانت دی ہے۔ (البینہ : ٨) الفتح
0 سورۃ الحجرات کا تعارف الحجرات مدینہ میں نازل ہوئی ہے اس کا نام اس کی آیت ٤ میں مذکور ہے یہ سورت ٢ رکوع اور ١٨ آیات پر مشتمل ہے۔ اس سورت کا پس منظر یہ ہے کہ نبی مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دوپہر کے وقت اپنے گھر میں آرام فرما تھے کہ اس وقت بنی تمیم کا ایک وفد آپ کی ملاقات کے لیے حاضر ہوا۔ وفد نے انتظار کیے بغیر آپ کے گھر کے سامنے کھڑے ہو کر آواز پر آواز دینا شروع کی ” اخرج علینا یا محمد“ اے محمد باہر آؤ، باہر آؤ۔ اس پر یہ سورت مبارکہ نازل ہوئی جس میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس طرح آواز دینے سے منع کیا گیا اور حکم ہوا کہ جو لوگ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس طرح آواز دیں گے ان کے اعمال ضائع کر دئیے جائیں گے اور انہیں خبر بھی نہیں ہوگی ان کے مقابلے میں ان لوگوں کی تعریف کی گئی ہے جو نبی محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو آہستہ اور ادب کے ساتھ بلاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی غلطیاں معاف کرنے کے ساتھ انہیں اجر عظیم سے سرفراز فرمائے گا اللہ تعالیٰ نے نہ صرف ان کی اخلاق اور اعمال کو جانچ لیا ہے بلکہ ان کے دلوں کو بھی تقوی کے ساتھ پرکھ لیا ہے اس کے بعد اس صورت میں مسلمانوں کو آداب سکھلائیں ہیں۔ ١۔ اے مسلمانوں اللہ اور اس کے رسول سے آگے بڑھنے کی کوشش نہ کرنا۔ ٢۔ اے مسلمانوں اگر تمہارے پاس کوئی فاسق آدمی کوئی خبر لے کر آئے تو اس پر یقین کرنے سے پہلے اس کی تحقیق کرلیا کرو ایسا نہ ہو کہ تم سے غلطی ہوجائے جس پر تمہیں پریشان ہونا پڑئے۔ ٣۔ مسلمانوں کے درمیان اختلاف رونما ہوجائے تو دوسرے مسلمانوں کا فرض ہے کہ وہ ان کے درمیان عدل و انصاف کے ساتھ اصلاح کروانے کی کوشش کریں کیونکہ مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ ان کے درمیان ہر صورت صلح رہنی چاہیے۔ ٤۔ اے مسلمانوں کوئی قوم دوسری قوم کو اور عورتیں دوسری عورتوں کو مذاق نہ کریں۔ ہوسکتا ہے کہ وہ مذاق کرنے والوں سے بہتر ہوں۔ ٥۔ اے مسلمانوں ایک دوسرے کے برے القاب نہ رکھو۔ ایمان لانے کے بعد برے القاب رکھنا نافرمانی کا کام ہے جو اس سے تائب نہیں ہوں گے وہ ظالموں میں شمار ہوں گے۔ ٦۔ اے مسلمانوں ایک دوسرے کے بارے میں بدظنی سے بچو۔ بدظنی رکھنا گناہ ہے۔ اور نہ ہی ایک دوسرے کا تجسس اور غیبت کیا کروغیبت کرنا مردہ بھائی کا گوشت کھانے کے برابر ہے۔ ٧۔ اے مسلمانوں تم ایک ہی ماں باپ کی اولاد ہو۔ اللہ تعالیٰ نے تمہارے قبائل اور خاندان بنائے ہیں تاکہ تم ایک دوسرے کا تعارف حاصل کرو۔ لیکن یاد رکھو اللہ کے ہاں وہ بہتر ہے جو اس سب سے زیادہ ڈرنے والا ہے۔ ٨۔ حقیقی مومن وہ ہیں جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لا کر شک نہیں کرتے اور وہ اپنے مال و جان کے ساتھ اللہ کے راستے میں جہاد کرتے ہیں۔ ٩۔ کچھ لوگ اسلام لا کر آپ پر احسان جتلاتے ہیں انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ یہ اللہ کا تم پر احسان ہے کہ اس نے تم پر ایمان لانے میں تمہاری مدد فرمائی ہے۔ الحجرات
1 فہم القرآن ربط سورت : سورت فتح کا اختتام نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کی جماعت کے اوصاف کے بیان پر ہوا۔ سورت الحجرات میں صحابہ پاک اور عظیم جماعت کو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ادب واحترام کرنے اور آپس میں رہنے کے آداب سکھلائے گئے ہیں۔ اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول سے آگے بڑھنے کی کوشش نہ کرو۔ ہمیشہ اللہ سے ڈرتے رہو اور یقین رکھو کہ اللہ تعالیٰ سب کچھ سننے والا اور ہر چیز کو جاننے والا ہے۔ مفسرین نے ” لَا تُقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیِ اللّٰہِ وَ رَسُوْلِہٖ“ کے کئی معانی ذکر کیے ہیں جن کا خلاصہ درج ذیل ہے۔ ١۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مقام و احترام کا تقاضا ہے کہ اللہ اور اس کے رسول سے آگے نہ بڑھا جائے۔ اللہ اور اس کے رسول سے آگے نہ بڑھنے کا پہلا معنٰی یہ ہے کہ جو کچھ اللہ اور اس کے رسول نے فرمایا ہے اسے اپنے لیے کافی اور شافی سمجھاجائے۔ ٢۔ جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کے بتلائے ہوئے طریقے کو کافی نہیں سمجھتے اور ثواب کی غرض سے اپنی طرف سے اضافے کرتے ہیں وہ اللہ اور اس کے رسول سے آگے بڑھ جاتیہیں۔ ٣۔ اللہ اور اس کے رسول کے ارشادات اور طریقے میں نقص نکالنا اور اس کے مقابلے میں اپنی سوچ کو مقدم جاننا، یہ اللہ اور اس کے رسول سے آگے بڑھنا ہے۔ ٤۔ جان بوجھ کر اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرنا۔ ٥۔ قرآن و سنت سے مسئلہ ثابت ہوجانے کے باوجود اپنی فقہ کے مطابق عمل کرنا اور اسے مقدم سمجھنا۔ ٦۔ اللہ اور اس کے رسول کے بتلائے ہوئے قانوں اور ضابطوں کو نافذ کرنے کی بجائے اپنی مرضی یا پارلیمنٹ کے فیصلے کو ترجیح دینا۔ حقیقت میں یہی اللہ اور اس کے رسول سے آگے بڑھنا ہے جس کی کسی اعتبار سے بھی اجازت نہیں ہے۔ اس لیے آیت کے آخر میں اس حقیقت کو انتباہ کے طور پر فرمایا ہے کہ ” اللہ“ ہر بات سننے والا اور ہر کسی کی نیت و عمل کو جاننے والا ہے۔ ” حضرت انس (رض) بیان فرماتے ہیں تین آدمیوں کا وفد نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ازواج (رض) کی خدمت میں حاضر ہو کر آپ کی عبادت کے بارے میں سوال کرتا ہے۔ جب ان کو آپ کی عبادت کے بارے میں بتلایا گیا تو انہوں نے اس کو اپنے لئے معمولی سمجھا۔ وہ کہنے لگے ہم نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مرتبہ تک کیسے پہنچ سکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کے پہلے اور پچھلے گناہ معاف کردیے ہیں۔ ان میں سے ایک نے کہا میں ہمیشہ رات بھر نماز پڑھتا رہوں گا۔ دوسرا کہنے لگا کہ میں زندگی بھر روزہ رکھوں گا۔ تیسرا کہتا ہے کہ میں کبھی نکاح نہیں کروں گا۔ جب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کے ہاں تشریف لائے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کیا تم نے اس طرح کے خیالات کا اظہار کیا ہے۔ اللہ کی قسم! میں تم سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ کا خوف رکھنے والا اور اس سے ڈرنے والا ہوں میں روزہ رکھتاہوں اور چھوڑتابھی ہوں، نماز پڑھتاہوں اور آرام بھی کرتا ہوں، میں نے عورتوں سے نکاح بھی کر رکھا ہے۔ پس جس نے میرے طریقے سے انحراف کیا اس کا میرے ساتھ کوئی واسطہ نہیں۔ (رواہ البخاری : باب التَّرْغِیبُ فِی النِّکَاحِ ) (وَمَا آتَاکُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْہُ وَمَا نَہَاکُمْ عَنْہُ فَانْتَہُوْا) (الحشر : ٧) رسول جو تمہیں دیں اسے لے لو اور جس سے منع کریں اس سے رک جاؤ۔“ (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَمْرٍو (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لَایُؤْمِنُ أَحَدُکُمْ حَتّٰی یَکُوْنَ ھَوَاہُ تَبْعًا لِّمَا جِءْتُ بِہٖ) (مشکوٰۃ: باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ) ” حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : آدمی جب تک اپنی خواہشات میری لائی ہوئی شریعت کے تابع نہ کردے اس وقت تک وہ ایمان والا نہیں ہوسکتا۔“ مسائل ١۔ مسلمانوں کو کسی صورت اللہ اور اس کے رسول سے آگے نہیں بڑھنا چاہیے۔ ٢۔ مسلمانوں کو ہر حال میں اللہ سے ڈرتے ر ہنا چاہیے۔ ٣۔ ہر مسلمان کا یہ عقیدہ ہونا چاہیے کہ اللہ ہر بات کو سننے والا اور سب کچھ جاننے والا ہے۔ تفسیر بالقرآن ہر حال میں اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کرنے کا حکم : ١۔ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو۔ (الانفال : ٤٦) ٢۔ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔ (آل عمران : ١٣٢ ) ٣۔ اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور اپنے اعمال برباد نہ کرو۔ (محمد : ٣٣) ٤۔ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور نافرمانی سے بچو۔ (المائدۃ: ٩٢) ٥۔ اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول اور صاحب امر کی اطاعت کرو۔ (النساء : ٥٩ ) الحجرات
2 فہم القرآن ربط کلام : اللہ کے رسول سے آگے بڑھنے کا ایک مفہوم یہ بھی ہے کہ اپنی بات کو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بات سے بلند رکھا جائے۔ اس سے منع کیا گیا ہے۔ پہلی آیت میں یہ حکم ہوا کہ اللہ اور اس کے رسول سے آگے نہ بڑھو۔ آگے بڑھنے کا مفہوم پیچھے ذکر ہوچکا ہے اب صرف نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا نام لے کر مسلمانوں کو حکم دیا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آواز سے اپنی آواز کو اونچی نہ کرو۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنا نام نہیں لیا اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو دور یا نزدیک، بلند اور آہستہ آواز میں پکارا جاسکتا ہے اور ہر حال میں اسی کو پکارنا چاہیے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حیات مبارکہ میں آپ کو نہ دور سے پکارا جاسکتا ہے اور نہ ہی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بات کرنے والے کی آواز اونچی ہونی چاہیے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا نام لے کر دور سے آواز دینا اب بھی جائز نہیں کیونکہ اسی صورت کی چوتھی آیت میں اس بات سے منع کیا گیا ہے۔ جب تک آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حیات تھے اس وقت تک آپ کے سامنے آواز اونچی کرنا جائز نہیں تھا۔ اب اس کا یہ مفہوم ہوگا کہ کوئی شخص اپنی یا کسی کی ذات اور بات کو نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات اور بات سے اونچا نہ سمجھے۔ اونچا سمجھنے سے مراد آپ کے فرمان سے اپنی یا کسی بزرگ کی بات کو مقدم سمجھنا ہے۔ جس نے یہ کیا اس کے تمام اعمال ضائع ہوجائیں گے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی ذات اور بات کو وہ مقام بخشا ہے جس تک کوئی شخص نہیں پہنچ سکتا۔ اس لیے حکم ہے کہ اپنی آوازوں کو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آواز سے اونچا نہ کرو جس طرح آپس میں ایک دوسرے کو دور یا نزدیک سے اونچی آواز سے بلاتے ہو۔ اگر تم نے ایسا کیا تو تمہارے سارے کے سارے اعمال ضائع ہوجائیں گے اور تمہیں اس کی خبر بھی نہیں ہوگی۔ گویا کہ اسے توبہ کرنے کا موقعہ بھی حاصل نہیں ہوگا۔ غور فرمائیں کہ وہ مسلمان کتنا بدقسمت ہے جس کے سارے اعمال ضائع ہوجائیں اور اسے خبر تک نہ ہو سکے اور نہ وہ توبہ کرسکے۔ (وَعَنْ اَنَسٍ (رض) قَالَ کَانَ ثَابِتُ ابْنُ قَیْسِ ابْنِ شَمَّاسٍ خَطِیْبَ الْاَنْصَارِ فَلَمَّا نَزَلَتْ (یَااَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْالَاتَرْفَعُوْااَصْوَاتَکُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ۔۔ اِلٰی اٰخِرِالْاٰیَۃِ) جَلَسَ ثَابِتٌ فِیْ بَیْتِہٖ وَاحْتَبَسَ عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَسَأَلَ النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سَعْدَ ابْنَ مُعَاذٍ مَا شَاْنُ ثَابِتٍ اَیَشْتَکِیْ فَاَتَاہُ سَعْدٌ فَذَکَرَلَہٗ قَوْلَ رَسُوْلِ اللّٰہِ فَقَالَ ثَابِتٌ اُنْزِلَتْ ھٰذِہِ الْاٰیَۃُ وَلَقَدْ عَلِمْتُمْ اَنِّیْ مِنْ اَرْفَعِکُمْ صَوْتًا عَلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ فَاَنَا مِنْ اَھْلِ النَّارِ فَذَکَرَ ذَالِکَ سَعْدٌ للنَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بَلْ ھُوَمِنْ اَھْلِ الْجَنَّۃِ) (رواہ مسلم : باب مَخَافَۃِ الْمُؤْمِنِ أَنْ یَحْبَطَ عَمَلُہُ) ” حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ حضرت ثابت بن شماس (رض) انصار میں اونچی آواز والے تھے۔ جب یہ آیت نازل ہوئی ” اے ایمان والو! اپنی آواز کو نبی کی آواز سے بلند نہ کرو۔۔“ (الحجرات : ٢) تو ثابت (رض) اپنے گھر میں بیٹھ گئے اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہونا چھوڑ دیا۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ثابت کے متعلق سعد بن معاذ سے فرمایا کہ کیا وہ بیمار ہیں ؟ حضرت سعد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)، حضرت ثابت (رض) کے پاس تشریف لے گئے اور انہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پوچھنے کے بارے میں آگاہ کیا۔ حضرت ثابت (رض) نے وضاحت کی کہ یہ آیت نازل ہوئی ہے اور آپ جانتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مجلس میں میری آواز سب لوگوں کی آواز سے اونچی ہوتی ہے اس بنا پر میں جہنمی ہوں۔ سعد (رض) نے ان کی بات کو نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے ذکر کیا۔ آپ نے فرمایا : نہیں وہ جنتی ہے۔“ مسائل ١۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حیات میں آپ کے سامنے اونچی آواز سے بات کرنا منع تھا۔ ٢۔ جس طرح ایک دوسرے کو دور سے پکارا جاتا ہے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حیات مبارکہ میں اور اب بھی آپ کو دور سے پکارنا منع ہے۔ ٣۔ جو لوگ اپنی یا کسی کی ذات اور بات کو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات اور بات سے اونچا سمجھتے ہیں ان کے تمام اعمال ضائع ہوجائیں گے۔ ٤۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات اور بات سے اپنی یاکسی کی ذات اور بات کو اونچا سمجھنا اپنے اعمال کو ضائع کرنا ہے۔ تفسیر بالقرآن نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات اور بات کا مقام اور احترام : ١۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دور سے آواز نہ دی جائے۔ (الحجرات : ٤) ٢۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آواز سے اونچی آواز نہ کی جائے۔ (الحجرات : ٢) ٣۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے آگے قدم نہ اٹھایا جائے۔ (الحجرات : ١) ٤۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مکمل اتباع کی جائے۔ (محمد : ٣٣) ٥۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جو دیا اسے پکڑلیا جائے جس سے آپ نے منع کیا ہے اسے چھوڑ دیاجائے۔ ( الحشر : ٧) الحجرات
3 فہم القرآن ربط کلام : نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اونچی اور دور سے بلانے والوں کے اعمال ضائع ہوجائیں گے اور ان کے مقابلے میں جو لوگ اللہ کے رسول کے سامنے آہستہ اور قریب ہو کر بات کرتے ہیں ان کا مقام اور انعام۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آواز سے جو لوگ اپنی یاکسی کی آواز کو اونچا سمجھتے اور کرتے ہیں ان کے تمام اعمال ضائع ہوجائیں گے۔ ان کے مقابلے میں جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کے سامنے اپنی آواز آہستہ رکھتے ہیں حقیقت میں وہی آپ کا ادب اور احترام کرنے والے ہیں۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے اپنی آواز کو نیچا رکھنے اور آپ کا ادب کرنے والوں کے دلوں کو اللہ تعالیٰ نے تقویٰ کے ساتھ آزمایا لیا ہے۔ کیونکہ حقیقت میں انہی کے دلوں میں اللہ کا خوف اور اس کے حکم کا احترام پایا جاتا ہے جس وجہ سے وہ اللہ کے رسول کی ذات اور بات کا احترام کرتے ہیں۔ جن کے دلوں میں نبی کریم کا احترام، اللہ کی ذات کا خوف اور اس کے حکم کا احترام ہوگا ان کے گناہ معاف کردیئے جائیں گے اور انہیں اجر عظیم سے ہمکنار کیا جائے گا۔ اس خطاب میں سب سے پہلے صحابہ کرام (رض) کی جماعت مراد ہے جنہوں نے اللہ تعالیٰ کا خوف اور احترام اختیار کیا اور رسول محترم کے احترام کا حق ادا کیا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں میں تقویٰ پیدا کردیاتھا۔ (الفتح : ٢٦) اور ان کا امتحان بھی لے لیا تھا۔ اللہ تعالیٰ نہ صرف لوگوں کی آواز سنتا اور ان کے اعمال دیکھتا ہے بلکہ وہ دلوں کے حال بھی جاننے والا ہے۔ جو شخص اپنے دل میں اللہ کا خوف رکھتا ہے اس کی زبان اور اس کے ا عمال پر تقویٰ کے اثرات ظاہر ہوتے ہیں۔ تقویٰ ہی انسان کو صراط مستقیم اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات اور بات کا احترام سکھلاتا ہے۔ تقویٰ ہی تمام اعمال کا مقصود اور مطلوب ہے۔ جب تک نبی محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دنیا میں حیات اور موجود تھے اس وقت آپ کا احترام یہ تھا کہ آپ کی مجلس میں اونچی آواز سے نہ بولاجائے اب اس فرمان کا مطلب یہ ہے کہ آپ کی ذات اور ارشاد کو اپنی اور ہر بزرگ کی بات اور ذات سے اونچا سمجھا جائے۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام (رض) کے دلوں کو تقویٰ کے ساتھ آزمایا جس پر صحابہ پورے اترے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام کے تمام گناہ معاف فرمادیئے اور انہیں اجر عظیم سے سرفراز فرمایا۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ تقویٰ اختیار کرنے والوں کو معاف کرے گا اور انہیں اجر عظیم عنایت فرمائے گا۔ الحجرات
4 فہم القرآن ربط کلام : اس سے پہلی آیات میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ادب و احترام سکھلایا گیا ہے اور اب ان لوگوں کی سرزنش کی گئی ہے جنہوں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے احترام کے منافی حرکت کی تھی۔ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مقام اور احترام سے جو لوگ واقف نہیں تھے یا جن کے دلوں میں منافقت اور اپنے بڑے پن کا خنّاس تھا۔ وہ جب آپ کی خدمت میں آتے تو آپ سے اس طرح مخاطب ہوتے جس طرح اپنے جیسے یا اپنے سے چھوٹے آدمی کے ساتھ مخاطب ہوا جاتا ہے۔ ایسے لوگ اپنی رائے پر اصرار بھی کیا کرتے تھے۔ اسی قبیل کے لوگوں سے قبیلہ بنوتمیم کے کچھ لوگ تھے۔ جب وہ آپ کی ملاقات کے لیے مدینہ آئے تو آپ دوپہر کے وقت اپنے گھر میں آرام فرما تھے۔ اخلاق اور احترام کا تقاضا تھا کہ یہ لوگ انتظار کرتے کہ آپ کب اپنے گھرسے مسجد تشریف لاتے ہیں، اور یہ لوگ آپ سے ملاقات کرتے لیکن ان کے دلوں میں جہالت یا بڑے پن کا خناس تھا اس لیے انہوں نے انتظار کیے بغیر آپ کو ان الفاظ میں آوازیں دینا شروع کیں۔ ” یَا مُحَمَّدُ اُخْرُجْ اِلَیْنَا“ اے محمد ! ہمارے لیے باہر آؤ۔ رب ذوالجلال نے ان کے گستاخانہ انداز کی گرفت کرتے ہوئے فرمایا کہ جو لوگ آپ کے حجروں سے باہر آپ کو آوازیں دے رہے تھے ان میں اکثر بے سمجھ لوگ ہیں۔ اگر وہ صبر کرتے یہاں تک کہ آپ خود باہر تشریف لاتے تو یہ ان کے لیے بہتر ہوتا۔ اللہ تعالیٰ بخشنے والا نہایت مہربان ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے ” خَیْرًا لَّہُمْ“ کے الفاظ استعمال فرما کر تمام لوگوں کو یہ بات سمجھائی ہے کہ دانائی اور احترام کا تقاضا یہی تھا اور ہے کہ سرور دو عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خود تشریف لاتے اور یہ لوگ آپ سے ملاقات کرتے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی اکثریت کو بے سمجھ قرار دیا ہے۔ اشارہ فرمایا ہے کہ اگر تم آئندہ کے لیے باز آجاؤ تو اللہ تعالیٰ تمہاری اس حرکت کو معاف فرمانے والا ہے۔ (عَنْ اَبِیْ سَعِیْدِ نِ الْخُدْرِیِّ (رض) قَالَ اَتَانَا اَبُوْمُوْسٰی (رض) قَالَ اِنَّ عُمَرَ اَرْسَلَ اِلَیَّ اَنْ اٰتِیَہٗ فَاَتَیْتُ بَابَہٗ فَسَلَّمْتُ ثَلاَ ثا فَلَمْ یَرُدّ َ عَلَیَّ فَرَجَعْتُ فَقَالَ مَامَنَعَکَ اَنْ تَاْتِیَنَا فَقُلْتُ اِنِّیْ اٰتَیْتُ فَسَلَّمْتُ عَلٰی بَابِکَ ثَلَاثًا فَلَمْ تَرُدَّ عَلَیَّ فَرَجَعْتُ وَقَدْ قَالَ لِیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اِذَا اسْتَأْذَنَ اَحَدُکُمْ ثَلاَ ثا فَلَمْ یُؤْذَنْ لَہٗ فَلْیَرْجِعْ فَقَالَ عُمَرُ (رض) اَقِمْ عَلَیْہِ الْبَیِّنَۃَ قَالَ اَبُوْ سَعِیْدٍ (رض) فَقُمْتُ مَعَہٗ فَذَھَبْتُ اِلٰی عُمَرَ (رض) فَشَھِدْتُّ) (صحیح البخاری : باب الاستئذان) ” ابوسعید خدری (رض) بیان کرتے ہیں کہ ابوموسیٰ اشعری ہمارے پاس آئے انہوں نے بتایا کہ حضرت عمر (رض) نے میری طرف پیغام بھیجا کہ میں ان کے ہاں پہنچوں۔ جب میں امیرالمؤمنین کے دروازے پر گیا، تو میں نے تین مرتبہ السلام علیکم کہا۔ انہوں نے جواب نہ دیا، تو میں واپس آگیا۔ بعدازاں عمر (رض) نے مجھ سے نہ آنے کے بارے میں پوچھا۔ میں نے بتایا کہ میں حاضر ہوا اور آپ کے دروازے پر تین دفعہ سلام کہا لیکن آپ کا جواب نہ پاکر میں واپس آگیا۔ کیونکہ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تھا کہ جب کسی کو تین بار اجازت طلب کرنے کے باوجود اجازت نہ ملے تو وہ واپس چلا آئے۔ عمر (رض) نے فرمایا : اس حدیث پر گواہ پیش کرو۔ حضرت ابوسعید (رض) کہتے ہیں کہ میں ابوموسیٰ کے ساتھ کھڑا ہوا اور ہم حضرت عمر (رض) کے پاس گئے اور میں نے گواہی دی کہ ابو موسیٰ ٹھیک کہتے ہیں۔“ ” حضرت عبداللہ بن بسر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب کسی کے دروازے پر جاتے تو دروازے کے سامنے کھڑے ہونے کی بجائے دروازے کی دائیں یا بائیں جانب کھڑے ہوتے اور سلام کہتے اس دور میں گھروں کے دروازوں پر پردے نہیں ہوتے تھے۔“ (رواہ ابوداؤد : باب الاستیذان، البانی ہذا حدیث صحیح) (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ أَبُو الْقَاسِمِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لَوْ أَنَّ امْرَأً اطَّلَعَ عَلَیْکَ بِغَیْرِ إِذْنٍ، فَخَذَفْتَہُ بِعَصَاۃٍ، فَفَقَأْتَ عَیْنَہُ، لَمْ یَکُنْ عَلَیْکَ جُنَاحٌ) (رواہ البخاری : باب مَنْ أَخَذَ حَقَّہُ أَوِ اقْتَصَّ دُون السُّلْطَانِ ) حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ ابو القاسم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اگر کوئی بندہ اجازت طلب کیے بغیر کسی کے گھر میں جھانکے اور گھر والا کسی نوک دار چیز کے ساتھ اس کی آنکھ پھوڑ دے تو آنکھ پھوڑنے والے پر کوئی گناہ نہیں ہوگا۔“ مسائل ١۔ جن لوگوں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے گھر کے باہر آپ کو آوازیں دیں ان کی اکثریت بے عقل تھی۔ ٢۔ نبی محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دور سے آواز دینے والے لوگ بے وقوف ہوتے ہیں۔ الحجرات
5 الحجرات
6 فہم القرآن ربط کلام : نبی محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے احترام کا یہ بھی تقاضا ہے کہ جب مسلمانوں میں کوئی بدگمانی یا افواہ پھیل جائے تو اسے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے پیش کریں تاکہ اس کا بروقت تدارک ہوسکے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد مسلمانوں کا فرض ہے کہ وہ ہر چیز کی تصدیق کرلیا کریں۔ اس آیت کے شان نزول میں بعض مفسرین نے ولید بن عقبہ بن ابی معیط کا واقعہ نقل کیا ہے۔ یہ واقعہ ٹھیک نہیں، بہرحال بنیادی اصول یہ ہے کہ جب کوئی فاسق یا غیر ذمہ دار شخص کسی مسلمان کے بارے میں بدگمانی پیدا کرے یا کوئی ملک و ملت کے خلاف افواہ اڑائے تو ہر حال میں اس کی تحقیق کرلینی چاہیے تاکہ مسلمان اس کے نقصان اور پریشانی سے محفوظ رہیں۔ اس اصول کے پیش نظر ایک دفعہ پھر صحابہ کو مخاطب کرتے ہوئے حکم دیا گیا کہ جب تمہارے پاس کوئی فاسق خبر لے کر آئے تو اس کی تحقیق کرلیا کرو تاکہ تمہیں کسی قسم کا نقصان اور پریشانی نہ اٹھانی پڑے۔ تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ اللہ کا رسول تم میں موجود ہے اگر بہت سی باتوں میں تمہاری باتیں قبول کرلے تو تم ضرور مشکل میں پڑجاؤ گے لیکن اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے ایمان کو محبوب بنا دیا ہے اور اسے تمہارے دلوں کی زینت قراردیا ہے اور تمہیں کفر، نافرمانی اور گناہ سے بیزار کردیا ہے جو لوگ کفر اور فسق وفجور کے مقابلے میں ایمان کو محبوب سمجھتے ہیں یہی لوگ ہیں جو اپنے رب کی ہدایت پرہیں۔ جو شخص اپنے رب کی ہدایت پر ہے اس پر اللہ کا فضل اور احسان ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ سب کچھ جاننے والاہے اور اس کے ہر حکم اور کام میں حکمت پائی جاتی ہے۔ ہے۔ یہاں ایک دفعہ پھر صحابہ کرام (رض) کے ایمان کی تعریف کی ہے اور ان کے ایمان سے منور دلوں کی تصدیق فرمائی ہے۔ صحابہ کرام (رض) نہ صرف ایمان کو پسند کرنے والے تھے بلکہ ایمان کے مقابلے میں کفر، تابعداری کے مقابلے میں نافرمانی اور نیکی کے مقابلے میں گناہ کو برا سمجھتے تھے۔ یہ ان پر اللہ تعالیٰ کا فضل تھا جو ان کے بعد اس درجہ میں کسی کو نصیب نہیں ہوا اور نہ ہوگا۔ (عَنْ اَبِیْ سَعِیْدِ نِ الْخُدْرِیِّ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لَا تَسُبُّوْا اَصْحَابِیْ فَلَوْاَنَّ اَحَدَکُمْ اَنْفَقَ مِثْلَ اُحُدٍ ذَھَبًا مَّا بَلَغَ مُدَّ اَحَدِھِمْ وَلَا نَصِیْفَہٗ) (رواہ مسلم : باب، تحریم سب الصحابۃ) ” حضرت ابو سعید خدری (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میرے اصحاب (رض) کو برا مت کہو۔ کیونکہ اگر تم میں سے کوئی احد پہاڑ کے برابر بھی سونا خرچ کرے تو صحابہ کے مد (نصف کلو گرام تقریبا) کو بھی نہیں پہنچ سکتا۔“ (وَعَنْ اَبِیْ بُرْدَۃَ عَنْ اَبِیْہِ (رض) قَالَ رَفَعَ یَعْنِی النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رَاْسَہٗ اِلَی السَّمَاءِ وَکَانَ کَثِیْرًامِمَّا یَرْفَعُ رَاْسَہٗ اِلَی السَّمَاءِ فَقَال النُّجُوْمُ اَمَنَۃٌللِّسَّمَاءِ فَاِذَاذَھَبَتِ النُّجُوْمُ اَتَی السَّمَاءَ مَا تُوْعَدُ وَاََنَا اَمَنَۃٌ لِّاَصْحَابِیْ فَاِذَاذَھَبْتُ اَنَا اَتٰی اَصْحَابِیْ مَا یُوْعَدُوْنَ وَاَصْحَابِیْ اَمَنَۃٌ لاُِمَّتِیْ فَاِذَا ذَھَبَ اَ صْحَابِیْ اَتٰی اُمَّتِیْ مَا یُوْعَدُوْنَ) (رواہ مسلم : باب بَیَانِ أَنَّ بَقَاء النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) أَمَانٌ لأَصْحَابِہِ وَبَقَاءَ أَصْحَابِہِ أَمَانٌ لِلأُمَّۃِ) ” حضرت ابوبردہ (رح) پنے باپ سے بیان کرتے ہیں کہ نبی محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے آسمان کی طرف اپنا سر مبارک اٹھایا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اکثر اپنا سر مبارک آسمان کی طرف اٹھایا کرتے تھے۔ فرمایا : ستارے آسمان کے لیے امن کی ضمانت ہیں۔ جب آسمان کے ستارے ٹوٹ جائیں گے تو آسمان کے پھٹ جانے کا وقت آجائے گا اور میں اپنے اصحاب کے لیے باعث امن ہوں۔ جب میں چلا جاؤں گا تو میرے اصحاب ان آزمائشوں سے دوچار ہوں گے جن کا ان سے وعدہ کیا گیا ہے اور میرے صحابہ میری امت کے لیے امن کا سبب ہیں۔ جب میرے صحابہ اٹھا لیے جائیں گئے تو میری امت بتائے ہوئے فتنوں سے دو چار ہوگی۔“ (عَنِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خَیْرُ النَّاسِ قَرْنِیْ ثُمَّ الَّذِیْنَ یَلُوْنَھُمْ ثُمَّ الَّذِیْنَ یَلُوْنَھُمْ ثُمَّ یَجِئُ قَوْمٌ تَسْبِقُ شَہَادَۃُ اَحَدِھِمْ یَمِیْنَہٗ وَیَمِیْنُہٗ شَہَادَتَہٗ) (رواہ البخاری : باب لاَ یَشْہَدُ عَلَی شَہَادَۃِ جَوْرٍ إِذَا أُشْہِدَ ) ” حضرت ابن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ سول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میرے زمانہ کے لوگ سب سے بہتر ہیں پھر وہ لوگ جو ان کے بعد ہوں گے پھر وہ لوگ جو ان کے بعد ہوں گے۔ اس کے بعد کچھ لوگ آئیں گے، جن کی گواہی ان کی قسم سے اور ان کی قسم ان کی گواہی سے سبقت لے جائے گی۔“ صحافت اور میڈیا کے لیے بنیادی اصول : آج غیر مسلموں سے متاثر ہو کر صحافت اور میڈیا سے منسلک حضرات برملا کہتے ہیں کہ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر کسی قسم کی پابندی نہیں ہونا چاہیے۔ اسے آزادئ اظہار کا نام دیا جاتا ہے حالانکہ کسی بات کی تحقیق کیے بغیر اسے پھیلانا جھوٹ بولنے کے مترادف ہے۔ (کَفٰی بالْمَرْءِ کَذِبًا أَنْ یُّحَدِّثَ بِکُلِّ مَا سَمِعَ) (رواہ مسلم : کتاب المقدمۃ) ” آدمی کے جھوٹا ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ ہر سنی سنائی بات آگے بیان کردے۔“ مسائل ١۔ ایمانداروں کے لیے حکم ہے کہ اگر کوئی ان کے درمیان بدگمانی یا افواہ پیدا پھیلائے تو اس کی تحقیق کرلیا کریں۔ ٢۔ تحقیق کے بغیر افواہ پر یقین کرنے سے پریشانی لاحق ہوسکتی ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ نے صحابہ (رض) کے دلوں کو ایمان سے منور فرمایا اور ایمان کو ان کے لیے عزیز ترین نعمت بنا دیاتھا۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام کے دلوں کو کفر اور فسق وفجور سے متنفر کر دیاتھا۔ ٥۔ سب کے سب صحابہ (رض) ہدایت یافتہ تھے۔ ٦۔ اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام (رض) پر اپنا فضل اور عظیم احسان فرمایا۔ تفسیر بالقرآن صحابہ کرام (رض) کا ایمان اور مرتبہ ومقام : ١۔ اللہ نے صحابہ کے ایمان کو آزمالیا۔ (الحجرات : ٣) ٢۔ صحابہ ایمان کا معیار ہیں۔ (البقرۃ : ١٣٧) ٣۔ صحابہ اللہ کی جماعت ہیں۔ (المجادلہ : ٢٢) ٤۔ صحابہ کو براکہنے والے بیوقوف ہیں۔ (البقرۃ : ١٣) ٥۔ صحابہ دنیا و آخرت میں کامیاب ہوئے۔ (المجادلہ : ٢٢) ٦۔ صحابہ بھی اللہ پر راضی ہوگئے۔ (البینہ : ٨) ٧۔ صحابہ کو اللہ نے اپنی رضا کی ضمانت دی ہے۔ (البینہ : ٨) الحجرات
7 الحجرات
8 الحجرات
9 فہم القرآن ربط کلامِ: بد گمانی پیدا کرنے اور افواہ اٹھانے کا نتیجہ عام طورپراختلافات کی صورت میں رونما ہوتا ہے اور اختلافات کی وجہ سے مسلمانوں میں لڑائی جھگڑا پیدا ہوتا ہے اس لیے اس کا حل پیش کیا گیا ہے۔ اگر مومنوں کے درمیان لڑائی جھگڑا ہوجائے تو دوسرے مسلمانوں کا فرض ہے کہ ان کے درمیان صلح کروانے کی پرخلوص کوشش کریں۔ اگر متحارب گروپوں میں سے کوئی گروپ دوسرے پر زیادتی کرنے والا ہو اور وہ صلح کرنے پر آمادہ نہ ہو تو صلح کروانے والے مسلمان اس کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں یہاں تک کہ وہ مجبور ہو کر اللہ کا حکم ماننے یعنی صلح کرنے کے لیے تیار ہوجائے۔ اگر وہ صلح پر آمادہ ہوجائے تو پھر عدل و انصاف کے ساتھ ان کے درمیان صلح کروانی چاہیے۔ ہمیشہ یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ عدل کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔ اس لیے تمہیں پھر حکم دیا جاتا ہے کہ مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ اپنے بھائیوں کے درمیان صلح کروادیا کرو اور اللہ سے ڈرتے ہوئے ہر قسم کی نافرمانی اور طرفداری سے بچو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔ یہاں بنیادی طور پر دو مسئلے بیان کیے گئے ہیں۔ 1۔ صلح کروانے والے حضرات کسی کی طرف داری کیے بغیر عدل و انصاف کے اصول پر صلح کروائیں۔2۔ جو فریق صلح کرنے کے لیے تیار نہ ہو اس پر دباؤ ڈالنا چاہیے۔3۔ ” اِنَّمَا“ کا لفظ استعمال فرما کر واضح کیا ہے کہ مومنوں کے درمیان ہر صورت اخوت کا رشتہ قائم رہنا چاہیے۔ اگر کوشش کے باوجود فریقین کے درمیان صلح نہیں ہوتی اور دونوں طرف سے کچھ نہ کچھ دلائل اور حقائق موجود ہوں تو پھر ان سے کنارہ کش ہونا بھی جائز ہے جس کا ثبوت حضرت علی اور حضرت عائشہ (رض) کے درمیان ہونے والی جنگ جمل اور حضرت معاویہ اور حضرت علی (رض) کے درمیان ہونے والی جنگ میں پایا جاتا ہے۔ حضرت علی اور حضرت معاویہ (رض) کے درمیان جنگ صفّین برپا ہوئی۔ کچھ نوجوان حضرت سعدبن ابی وقاص (رض) کی خدمت میں حاضر ہو کر کہنے لگے کہ آپ اس جنگ میں کیوں شریک نہیں ہوتے ؟ حضرت سعد (رض) نے فرمایا کہ مجھے وہ تلوار دو جو کافر اور مومن کے درمیان فرق کرسکے۔ ان کے فرمان کا مقصد یہ تھا کہ مجھے اس تنازع میں غیر جانبدار رہنے دیا جائے۔ چنانچہ حضرت سعد، حضرت ابوہریرہ (رض) اور بے شمار صحابہ کرام (رض) اس تنازع میں غیر جانبدار رہے۔ مسائل ١۔ اگر مومنوں کی دو جماعتوں کے درمیان لڑائی ہوجائے تو ان کے درمیان صلح کروانی چاہیے۔ ٢۔ صلح کروانے والوں کا فرض بنتا ہے کہ جو گروہ صلح پر آمادہ نہیں ہوتا وہ اس کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں۔ ٣۔ صلح پورے خلوص اور عدل و انصاف کے ساتھ کروانی چاہیے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ عدل وانصاف کرنے والے کو پسند کرتا ہے۔ ٥۔ مومن آپس میں بھائی بھائی ہیں اس لیے ان کے درمیان صلح اور اصلاح کی کوشش کرنی چاہیے۔ ٦۔ جو لوگ ” اللہ“ سے ڈرتے ہیں اللہ تعالیٰ ان پر رحم فرماتا ہے۔ تفسیر بالقرآن مسلمانوں کے معاملات میں عدل وانصاف ہونا چاہیے : ١۔ عدل کرو یہ تقویٰ کے زیادہ قریب ہے، اللہ سے ڈر جاؤ اور جان لو ” اللہ“ سینوں کے رازوں سے واقف ہے۔ (المائدۃ: ٨) ٢۔ جب فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ فیصلہ کرو۔ (النساء : ٥٨) ٣۔ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں تمھارے درمیان عدل و انصاف کا فیصلہ کروں۔ (الشوریٰ: ١٥) ٤۔ اگر آپ ان کے درمیان فیصلہ کریں تو انصاف کے ساتھ فیصلہ کریں اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔ (المائدۃ: ٤٢) ٥۔ کہہ دیجیے مجھے میرے رب نے انصاف کرنے کا حکم دیا ہے۔ (الاعراف : ٢٩) ٦۔ جب مسلمانوں کے دو گروہ آپس میں لڑ پڑیں تو ان کے درمیان عدل سے فیصلہ کریں۔ اللہ عدل کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔ (الحجرات : ٩) ٧۔ جب بات کرو تو عدل وانصاف کی بات کرو۔ ( الانعام : ١٥٢) ٨۔ اللہ تعالیٰ تمہیں عدل وانصاف کرنے کا حکم دیتا ہے۔ (النحل : ٩٠) الحجرات
10 الحجرات
11 فہم القرآن ربط کلام : مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں اس لیے انہیں آپس کے اختلافات سے بچنا چاہیے یہ تبھی ممکن ہوگا جب مسلمان ایک دوسرے کی عزت کا خیال رکھیں گے اور ایسے الفاظ اور انداز سے بچیں جس سے دوسرے بھائی کی توہین کا پہلو نکلتاہو۔ مومنوں کو اللہ تعالیٰ نے اس بات سے منع کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سورۃ الحجرات میں مسلمانوں کو تیسری مرتبہ ” اٰمَنُوْا“ کے لفظ سے مخاطب کیا ہے کہ اے ایمان والو! کوئی قوم کسی دوسری قوم سے تمسخر نہ کرے۔ ہوسکتا ہے کہ وہ اس سے بہتر ہو اور نہ عورتیں دوسری عورتوں کو مذاق کا نشانہ بنائیں ممکن ہے کہ وہ ان سے بہترہوں اور نہ ایک دوسرے کے عیب نکالا کرو اور نہ ایک دوسرے کے برے نام رکھو۔ ایمان لانے کے بعد دوسروں کے برے نام رکھنا ” اللہ تعالیٰ“ کی نافرمانی کرنا ہے جو اس کام سے باز نہ آئیں وہ لوگ ظالم ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ نے اس خطاب میں مسلمانوں کو سطحی اور گھٹیا اخلاق اور کردار سے بچانے کے لیے تین حکم دیئے ہیں۔ ١۔ کوئی قوم دوسری قوم کو اور عورتیں دوسری عورتوں کو تمسخر کا نشانہ نہ بنائیں۔ کیونکہ ہوسکتا ہے کہ وہ تمسخر کرنے والوں سے بہتر ہوں۔ اس صورت میں مذاق کرنے والی کی نہ صرف اپنی بے عزتی ہوگی بلکہ معاشرے میں اختلاف بھی پیدا ہوگا جس سے بچنا چاہیے۔ ایک دوسرے کا تمسخراڑانا منع ہے : تمسخر کا معنٰی ہے کسی کو حقیر جانتے ہوئے اس کی بے عزتی کرنا، ذلیل کرنا، مذاق اڑانا، توہین کرنا۔ عربوں میں اس بات کا عام رواج تھا کہ ایک قبیلے کا شاعر دوسرے قبیلے کی تضحیک کرتا۔ نہ صرف ان کے سر کردہ لوگوں کی تضحیک کرتا بلکہ ان کی خواتین کو بھی تضحیک کانشانہ بناتا اور یہی عادت خواتین میں پائی جاتی تھی۔ جو قبیلہ دوسرے قبیلے کاسب سے زیادہ تمسخر اڑاتا اسے دوسروں سے برتر سمجھا جاتا تھا۔ تمسخر اڑانے والے شاعر کو خراج تحسین پیش کیا جاتا۔ دوسرے کی عزت و احترام کے ساتھ کھیلنا اور انہیں لوگوں کی نظروں میں حقیر بنانا ان کے نزدیک کوئی عیب نہیں تھا۔ اللہ تعالیٰ نے مومن مردوں اور عورتوں کو یہ کہہ کر منع کیا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ جن کو تم تمسخر کا نشانہ بناتے ہو وہ ایمان، اخلاق اور کردار کے لحاظ سے تم سے بہتر ہوں۔ ” اٰمَنُوْا“ کے لفظ میں مرد اور خواتین دونوں شامل ہیں لیکن اعلیٰ اخلاق کی ترویج اور اس کی اہمیت کے پیش نظر اللہ تعالیٰ نے مردوں اور خواتین کو الگ الگ مخاطب کیا اور انہیں اس بری عادت سے منع فرمایا ہے۔ یاد رہے کہ آدمی دوسرے کو اس وقت مذاق کانشانہ بناتا ہے جب اس کے دل سے اس کا احترام اٹھ جاتا ہے جب کسی کا احترام اٹھ جائے تو پھر باہمی اخوت باقی نہیں رہتی۔ جس معاشرے اور قوم میں اخوت اور بھائی چارے کا فقدان ہو اس میں اتحاد باقی نہیں رہ سکتا۔ یہاں یہ بات بھی ذہن میں رہنی چاہیے کہ تمسخر اور خوش طبعی میں بڑا فرق ہے۔ خوش طبعی میں دوسرے کو خوش کرنا مقصود ہوتا ہے لیکن تمسخر میں دوسرے کی تذلیل پائی جاتی ہے۔ بے شک یہ کام زبان سے کیا جائے یا اشارے کنائے سے اس سے ہر صورتبچنا چاہیے۔ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لَا تَحَاسَدُوا وَلَا تَنَاجَشُوا وَلَا تَبَاغَضُوا وَلَا تَدَابَرُوا وَلَا یَبِعْ بَعْضُکُمْ عَلٰی بَیْعِ بَعْضٍ وَکُونُوا عِبَاد اللّٰہِ إِخْوَانًا الْمُسْلِمُ أَخُو الْمُسْلِمِ لَا یَظْلِمُہٗ وَلَا یَخْذُلُہٗ وَلَا یَحْقِرُہٗ التَّقْوٰی ہَاہُنَا وَیُشِیرُ إِلَی صَدْرِہٖ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ۔۔) (رواہ مسلم : کتاب البر والصلۃ، باب تحریم ظلم المسلم) ” حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں رسول مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا با ہم حسد نہ کرو اور ایک دوسرے پر بو لی نہ بڑھاؤ اور بغض نہ رکھو اور قطع تعلقی نہ کرو اور تم میں سے کوئی دوسرے کے سودے پر تجارت نہ کرے اللہ کے بندو بھائی بھائی بن جاؤ۔ مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ وہ اپنے بھائی پر ظلم کرتا ہے نہ اسے ذلیل کرتا ہے اور نہ ہی اسے حقیر سمجھتا ہے تقویٰ اس جگہ ہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے سینے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے تین مرتبہ فرمایا۔۔“ (وَعَنْ عَبْدِاللّٰہِ ابْنِ عَمْرٍو (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اِنَّ مِنْ اَحَبِّکُمْ اِلَیَّ اَحْسَنَکُمْ اَخْلَاقًا) (رواہ البخاری : باب مَنَاقِبُ عَبْدِ اللہِ بْنِ مَسْعُودٍ) ” حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی گرامی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : مجھے وہ شخص زیادہ پسند ہے، جو تم میں بہترین اخلاق والاہے۔“ ” عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ تم میں سے وہ بہتر ہیں، جو اخلاق کے لحاظ سے بہتر ہیں۔“ (رواہ البخاری : باب صفۃ ا لنبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عیب جوئی سے بچنے کا حکم : دوسرا حکم یہ ہے کہ آپس میں ایک دوسرے کی عیب جوئی نہ کیا کرو۔ آپس کا لفظ استعمال فرما کر یہ سمجھایا کہ ہر ایماندار دوسرے کو اپنا بھائی جانے اور اس کی عزت کو اپنی عزت سمجھے۔ مقصود یہ ہے کہ جس طرح اپنی عزت کا خیال رکھتے ہو اسی طرح اپنے بھائی کی عزت کا خیال رکھو! عیب جوئی کرنے والے کا مقصد ہی دوسرے کے عیب اچھالنا اور اس کو ذلیل کرنا ہوتا ہے۔ چاہے یہ کام عادت کے طور پر کیا جائے یا حسد اور مخالفت کی بنیاد پر دوسرے کی عزت اچھالنے کے سوا اس کام کی کوئی اچھی تعبیر نہیں کی جاسکتی۔ ظاہر ہے جب ایک شخص دوسرے کی عزت اچھالنے کی کوشش کرے گا۔ یا تو وہ اس سے بدلہ لے گا یا پھر اس سے نفرت کا اظہار کرے گا۔ کیونکہ اخوت اور نفرت بیک وقت جمع نہیں ہو سکتے۔ نفرت پیدا کرنے سے اجتناب کرنے کا حکم : نبی (علیہ السلام) نے باہمی نفرت سے بچنے کا اس حد تک خیال فرمایا کہ آپ جہاں بھی اپنے نمائندے بھیجتے۔ انہیں حکم دیتے کہ وعظ و نصیحت میں بھی ایسے الفاظ اور ایسا انداز اختیار نہ کیا جس سے لوگ دین سے نفرت کریں یا ان میں بلاوجہ تفریق پیدا ہوجائے۔ (عَنْ أَبِیْ مُوْسٰی (رض) قَالَ کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) إِذَا بَعَثَ أَحَدًا مِّنْ أَصْحَابِہٖ فِیْ بَعْضِ أَمْرِہٖ قَالَ بَشِّرُوْا وَلَا تُنَفِّرُوْا وَ یَسِّرُوْا وَلَا تُعَسِّرُوْا) (رواہ البخاری : باب مَا کَان النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَتَخَوَّلُہُمْ بالْمَوْعِظَۃِ وَالْعِلْمِ کَیْ لاَ یَنْفِرُوا) ” حضرت ابو موسیٰ اشعری (رض) بیان کرتے ہیں نبی گرامی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب اپنے ساتھیوں میں سے کسی کو کسی کام کیلئے بھیجتے تو فرماتے، لوگوں کو خوش خبری دینا، انہیں تقسیم نہ کرنا۔ ان کے ساتھ نرمی کرنا، مشکل میں مبتلا نہ کرنا۔“ (عَنْ أَنَسٍ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَسِّرُوْا وَلَا تُعَسِّرُوْا وَسَکِّنُوْا وَلَا تُنَفِّرُوْا) (رواہ البخاری : باب قَوْلِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَسِّرُوا، وَلاَ تُعَسِّرُوا) ” حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : نرمی کرو، مشکل میں نہ ڈالو، دوسرے کو سکون پہنچاؤ، اور نفرت نہ دلاؤ۔“ غیبت سے بچنے کا حکم : ” وَلَا تَنَابَزُوْ ا“ کا دوسرا مفہوم یہ ہے کہ ایک دوسرے کی غیبت نہ کرو۔ (وَعَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ أَتَدْرُوْنَ مَاالْغِیْبَۃُ قَالُوا اللّٰہُ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَمُ قَالَ ذِکْرُکَ اَخَاکَ بِمَا یَکْرَہُ قِیْلَ أَفَرَأَیْتَ اِنْ کَانَ فِیْ أَخِیْ مَا أَقُوْلُ قَالَ اِنْ کَانَ فِیْہِ مَاتَقُوْلُ فَقَدِ اغْتَبْتَہٗ وَ اِنْ لَمْ یَکُنْ فِیْہِ مَا تَقُوْلُ فَقَدْ بَھَتَّہٗ. (رواہ مسلم : وَفِیْ رِوَایَۃٍ اِذَاقُلْتَ لِاَخِیْکَ مَا فِیْہِ فَقَدِ اغْتَبْتَہٗ وَاِذَاقُلْتَ مَا لَیْسَ فِیْہِ فَقَدْ بَھَتَّہٗ) (رواہ مسلم : باب تحریم الغیبۃ) ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کیا تم جانتے ہو کہ غیبت کیا ہے؟ صحابہ (رض) نے عرض کیا۔ اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہی زیادہ جانتے ہیں۔ آپ نے فرمایا : تم اپنے بھائی کو ان الفاظ کے ساتھ یاد کرو جنہیں وہ ناپسند کرتا ہے۔ عرض کیا گیا، اگر کسی بھائی میں وہ ناپسندیدہ بات موجود ہو جو میں کہہ رہاہوں تو۔ اس صورت میں آپ کا کیا ارشاد ہے؟ آپ نے فرمایا : اگر اس میں وہ بات موجود ہے جو تو کہہ رہا ہے تو پھر تو نے اس کی غیبت کی اور اگر اس میں وہ بات موجود نہیں، جو تو نے کہی ہے پھر تو نے اس پر بہتان لگایا۔ (مسلم) دوسری روایت میں ہے۔ اگر تو نے اپنے بھائی کی وہ بات کی، جو اس میں موجود ہے تو تو نے اس کی غیبت کی۔ اگر ایسی بات کہی جو اس میں موجود نہیں‘ تو پھر تو نے اس پر بہتان لگایا۔“ البتہ کسی کے مشورہ طلب کرنے پر دوسرے کی کمزوری بتلانا غیبت میں شامل نہیں ہوتا۔ بشرطیکہ ضرورت کے تحت دوسرے کی کمزوری بیان کرتے ہوئے نیت، الفاظ اور انداز اچھا ہو۔ حدیث کی مقدس کتب میں اس کی مثالیں موجود ہیں۔ برے القاب رکھنا گناہ کا کام ہے : مومنوں کو تیسرا حکم یہ ہے کہ وہ ایک دوسرے کے برے نام اور القاب نہ رکھاکریں۔ یہاں مطلقاً القاب رکھنے سے منع نہیں کیا گیا۔ ” بِءْسَ الِاسْمُ“ کے الفاظ استعمال کیے ہیں کہ برے نام رکھنے سے اجتناب کرو۔ کسی کے اچھے کام اور اخلاق کی وجہ سے اسے اچھا لقب دینا نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سنت ہے۔ بے شک یہ لقب کسی کے طبعی رجحان کی بنیاد پر دیا جائے یا اچھے کام پر۔ جس طرح ایک دن آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت علی کو زمین پر لیٹے ہوئے دیکھا تو محبت سے اسے ” ابو تراب“ کہہ کر بلایا۔ ابوہریرہ کو بلی کے ساتھ کھیلتے ہوئے دیکھا تو اسے ابوہریرہ کے لقب کے ساتھ یاد کیا۔ صدیق اکبر کی صداقت کی وجہ سے انہیں ” اَلصِّدِیْق“ کے اعزاز سے سرفراز فرمایا۔ اس طرح حدیث میں کئی مثالیں پائی جاتی ہیں۔ لہٰذا ” بِءْسَ الِاسْمُ الْفَسُوْقُ“ کا معنٰی ہے کہ کسی کو ایسے نام یا لقب سے پکارا جائے جس میں وہ اپنی ہتک محسوس کرتاہو۔ البتہ اگر وہ کسی لقب یا نام میں اپنی تحقیر نہیں سمجھتا تو اسے اس لقب کے ساتھ پکارنے میں کئی حرج نہیں۔ حدیث میں اس کی بھی مثالیں پائی جاتی ہیں۔ ١۔” ذوالیدین“ یعنی لمبے ہاتھوں والا : آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دور میں ایک صحابی کے ہاتھ دوسرے صحابہ کے ہاتھوں سے قدرے لمبے تھے۔ لوگ اسے ذوالیدین کہہ کر پکارا کرتے تھے اور وہ اسے محسوس نہیں کرتے تھے۔ ٢۔ حمار یعنی گدھا : ایک دیہاتی صحابی دوسروں سے زیادہ جفاکش اور محنتی تھا۔ زیادہ محنت کرنے کی وجہ سے لوگ اسے الحمار کہتے تھے۔ کیونکہ اس لقب سے اس کی توہین کرنا مقصود نہیں تھا بلکہ یہ لفظ اس کی جفاکشی اور محنت کاترجمان تھا۔ اس بنا پر لوگ اسے الحمار کہہ کر پکارتے تھے۔ اسی طرح اگر کسی شعبہ میں ایک ہی نام کے کئی مشہور لوگ ہوں اور ان کی شناخت کے لیے ان کو کسی ایسے لقب سے پکارا جائے جو بات ان میں موجود ہو تو ایسا لقب استعمال کرنے کی بھی ایک حد تک اجازت ہے بشرطیکہ اس کے پیچھے اس کی تحقیر مقصود نہ ہو۔ مسائل ١۔ ایمانداروں کا فرض ہے کہ وہ ایک دوسرے کو برا مذاق نہ کریں۔ ٢۔ ایمانداروں کا فرض ہے کہ وہ ایک دوسرے کے برے القاب نہ رکھیں۔ ٣۔ ایمان لانے کے بعد برے القاب رکھنا اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرنا ہے۔ ٤۔ جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کریں گے وہ ظالم ہوں گے۔ تفسیر بالقرآن کون لوگ ظالم ہیں : ١۔ اللہ کی مساجد کو ویران کرنے والا ظالم ہے۔ (البقرۃ: ١١٤) ٢۔ اللہ کی گواہی کو چھپانے والا ظالم ہے۔ (البقرۃ: ١٤٠) ٣۔ اللہ پر جھوٹ باندھنے والا۔ (الانعام : ١٢) ٤۔ نبوت کا دعویٰ کرنے والا۔ (الانعام : ٩٣) ٥۔ اللہ کی آیات کو جھٹلانے والا۔ (الاعراف : ٣٧) ٦۔ اللہ کی آیات سن کر اعراض کرنے والا۔ (الکہف : ٥٧) ٧۔ حق بات کو جھٹلانے والا۔ (العنکبوت : ٦٨) ٨۔ سب سے بڑا ظالم وہ ہے جو اللہ پر جھوٹ بولتا ہے۔ (الکہف : ١٥) ٩۔ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی سے مانگنے والا۔ (یونس : ١٠٦) ١٠۔ قرآن کی نصیحت سے منہ موڑنے والا۔ (الکہف : ٥٧) ١١۔ اللہ کی آیات کو سن کر اعراض کرنے والا بڑا ظالم ہے۔ (السجدۃ: ٢٢) ١٢۔ اللہ کی آیات کو جھٹلانے اور لوگوں کو گمراہ کرنے والا بڑا ظالم ہے۔ (الانعام : ١٤٤) ١٣۔ اس سے بڑا ظالم کون ہے ؟ جو اللہ پر جھوٹ باندھتا ہے اور اس کی آیات کو جھٹلاتا ہے۔ (الانعام : ٢١) الحجرات
12 فہم القرآن ربط کلام : عیب جوئی کا آغاز بد ظنی سے ہوتا ہے۔ اسے ختم کرنے کے لیے حکم دیا ہے کہ ہر قسم کی بدگمانی سے اجتناب کرو۔ ایمانداروں کو تیسرا خطاب اس میں تین کاموں سے منع کیا گیا ہے۔ اے ایماندارو! بدگمانیوں سے بچو کیونکہ اکثر بد گمانیاں بدظنی پر مبنی ہوتی ہیں اور کوئی مسلمان کسی مسلمان کی غیبت نہ کرے۔ کیا تم میں کوئی شخص یہ بات پسند کرتا ہے کہ وہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھائے۔ حالانکہ اس سے تم ہر صورت نفرت کرتے ہو۔ اللہ سے ڈرو! یقیناً اللہ تعالیٰ توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے۔ اکثر اوقات دیکھا گیا ہے کہ پہلے کسی کے بارے میں بدظنی پیدا ہوتی ہے اور پھر بدظنی کے بعد عیب جوئی کے لیے تجسس شروع ہوتا ہے جس کا نتیجہ غیبت کی صورت میں نکلتا ہے۔ بدظنی، تجسس اور غیبت آپس میں لازم و ملزوم ہیں اس لیے بیک وقت تینوں کاموں سے منع کیا گیا ہے۔ اس سے بچنے والے کو خوشخبری دی گئی ہے کہ جو غیبت سے بچے گا اللہ تعالیٰ اس پر رحم فرمائے گا کیونکہ وہ اپنے بندوں کی توبہ قبول کرنے والا بڑا مہربان ہے۔ ظن : قرآن مجید نے ظن کا لفظ یقین اور گمان کرنے کے معانی میں بھی استعمال کیا ہے۔ (اس کا تعین موقعہ کے مطابق کیا جاتا ہے۔) ظن کا معنٰی یقین کرنا (الحاقہ : ٢٠) ظن کا معنٰی کسی بات یا کام کے بارے میں تذبذب کا شکار ہونا۔ (یوسف : ٤٢) ظن کا معنٰی کسی کے بارے میں بدگمانی کرنا۔ (الحجرات : ١٢) یہاں ظن سے مراد بدگمانی ہے جس سے قرآن مجید اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مسلمانوں کو منع کیا ہے اور اس کے مقابلے میں آپس میں اچھا گمان یعنی حسن ظن رکھنے کی تلقین فرمائی ہے۔ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ إِیَّاکُمْ وَالظَّنَّ، فَإِنَّ الظَّنَّ أَکْذَبُ الْحَدِیثِ، وَلاَ تَحَسَّسُوا، وَلاَ تَجَسَّسُوا، وَلاَ تَحَاسَدُوا، وَلاَ تَدَابَرُوا، وَلاَ تَبَاغَضُوا، وَکُونُوا عِبَاد اللَّہِ إِخْوَانًا) (رواہ البخاری : باب مَا یُنْہَی عَنِ التَّحَاسُدِ وَالتَّدَابُرِ) حضرت ابوہریرہ (رض) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں آپ نے فرمایا تم بد گمانی سے بچو کیونکہ بدگمانی بہت بڑا جھوٹ ہے۔ کسی کی عیب جوئی، جاسوسی اور حسد نہ کرو، نہ پیٹھ پیچھے باتیں کرو، نہ آپس میں دشمنی رکھو۔ اللہ کے بندو! بھائی بھائی بن جاؤ۔“ تجسّس : تجسّس سے مراد ایک دوسرے کے نقائص اور عیب تلاش کرنا ہے۔ دوسرے کے عیب تلاش کرنے سے اس کے بارے میں دل میں نفرت پیدا ہوتی ہے۔ مسلمانوں کو باہمی نفرت سے بچانے کے لیے حکم دیا ہے کہ ایک دوسرے کا تجسس نہ کیا کرو لیکن تجسس کی بعض صورتیں ایسی ہیں جو جائز ہی نہیں بلکہ بعض حالات میں ذمہ دار لوگوں پر تجسس کرنا فرض ہوجاتا ہے کیونکہ اس کے بغیر معاشرے میں گناہوں پر کنٹرول کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ حکومت کا جرائم پیشہ لوگوں کی سرگرمیوں پر نظر رکھنا اور کسی ادارے کے سربراہ کا ادارے کے حالات سے آگاہ ہونا ضروری ہے تاکہ اصلاح احوال کے لیے بروقت قدم اٹھایا جاسکے۔ مسائل ١۔ مسلمانوں کو ایک دوسرے کے بارے میں بدگمانی سے بچنا چاہیے۔ ٢۔ اکثر بدگمانیاں انسان کو گناہ اور دوسرے کے ساتھ زیادتی کرنے پر آمادہ کرتی ہیں۔ ٣۔ مسلمانوں کو خوامخواہ ایک دوسرے کے معاملات کا تجسس نہیں کرنا چاہیے۔ ٤۔ مسلمانوں کو ایک دوسرے کی غیبت کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ ٥۔ مسلمان بھائی کی غیبت کرنا اپنے فوت شدہ بھائی کا گوشت کھانے کے مترادف ہے۔ ٦۔ مسلمان کو ہر حال میں اللہ تعالیٰ سے ڈرنا چاہیے اور یقین رکھنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ توبہ قبول کرنے والا نہایت مہربان ہے۔ الحجرات
13 فہم القرآن ربط کلام : اخلاقی اور لسانی عیوب سے بچنے کے لیے یہ حقیقت بتلائی اور اس کے ذریعے احساس دلایا ہے کہ تم بنیادی طور پر ایک ہی ماں، باپ کی اولاد ہو لہٰذا تمہیں بدگمانی، ایک دوسرے کا تجسس اور غیبت کرنے سے اجتناب کرنا چاہیے۔ اے لوگو! تمہارے رب کا فرمان ہے کہ ہم نے تمہیں ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا ہے اور تمہارے خاندان اور پھر قبیلے بنائے تاکہ تمہیں ایک دوسرے کو جاننے اور پہچاننے میں آسانی ہو۔ تمہارے خاندان اور قبائل بنانے کا یہ مقصد نہیں کہ تم خاندان اور قبائل کی بنیاد پر ایک دوسرے پر فخر کرو۔ یقیناً ” اللہ“ کے نزدیک تم میں سے وہی عزت والا ہے جو تم میں سے زیادہ پرہیزگار ہے یقیناً اللہ تعالیٰ سب کچھ جاننے والا اور ہر بات سے باخبر ہے۔ ” شُعُوْبً“ شعبٌ کی جمع ہے۔ شعوب کا لفظ وسیع تر معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ عمرانیات کے ماہرین نے اس کے کئی معانی بیان کیے ہیں جن کا خلاصہ یہ ہے۔1۔ لوگوں کا بڑا گروہ جو ایک باپ کی طرف منسوب ہو۔ 2۔ لوگوں کی ایک بڑی جماعت جو ایک سوشل نظام کے ماتحت ہو۔ 3۔ وہ جماعت جس کے افراد کی بودوباش اور زبان ایک ہو۔ 4۔ قبیلے کی جمع قبائل ہے جس کا معنٰی ایک باپ یا دادا کی طرف منسوب لوگ ہیں۔ خاندان اور قبائل بنانے کا مقصد یہ ہے کہ تمہیں ایک دوسرے کو پہچاننے میں آسانی ہو۔ قبیلہ سے مراد ایک برادری بھی ہوسکتی ہے جس طرح پاکستان میں مختلف ناموں پر برادریاں ہیں اور پھر بڑی برادریوں کے درمیان بھی برادریاں ہوتی ہے۔ پھر ان میں خاندان ہیں۔ عام طور پر ایک دادا کی اولاد کو ایک خاندان سمجھا جاتا ہے۔ (یَآ أَیُّھَا النَّاسُ !أَلَآ إِنَّ رَبَّکُمْ وَاحِدٌ وَإِنَّ أَبَاکُمْ وَاحِدٌ أَلَا لَا فَضْلَ لِعَرَبِیٍّ عَلٰی أَعْجَمِیٍّ وَلَا لِعَجَمِیٍّ عَلٰی عَرَبِیٍّ وَلَا لِأَحْمَرَ عَلآی أَسْوَدَ وَلَا لِاَسْوَدَ عَلٰی أَحْمَرَ إِلَّا بالتَّقْوٰی) (مسند أحمد : کتاب مسند الأنصار، باب حدیث رجل من أصحاب النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ” اے لوگو! خبردار یقیناً تمہارا رب ایک ہے اور تمہارا باپ بھی ایک ہے۔ خبردار! کسی عربی کو کسی عجمی پر اور کسی عجمی کو کسی عربی پر، کسی سرخ کو کالے پر اور کسی کالے کو سرخ پر تقویٰ کے سوا کوئی فضیلت حاصل نہیں۔“ (عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَقُوْلُ مَنْ خَرَجَ مِنَ الطَّاعَۃِ وَفَارَقَ الْجَمَاعَۃَ فَمَاتَ مَاتَ مِیْتَۃً جَاھِلِیَّۃً وَمَنْ قَاتَل تَحْتَ رَایَۃٍ عِمِّیَّۃٍ یَغْضَبُ لِعَصَبِیَّۃٍ اَوْیَدْعُوْ لِعَصَبِیَّۃٍ اَوْ یَنْصُرُ عَصَبِیَّۃً فَقُتِلَ فَقِتْلَۃٌ جَاھِلِیَّۃٌ وَمَنْ خَرَجَ عَلٰی اُمَّتِیْ بِسَیْفِہٖ یَضْرِبُ بَرَّھَا وَ فَاجِرَھَا وَلَا یَتَحَاشَ مِنْ مُؤْمِنِھَا وَلَا یَفِیْ لِذِیْ عَھْدٍ عَھْدَہٗ فَلَیْسَ مِنِّی وَلَسْتُ مِنْہُ) (رواہ مسلم : باب الأَمْرِ بِلُزُومِ الْجَمَاعَۃِ عِنْدَ ظُہُورِ الْفِتَنِ وَتَحْذِیر الدُّعَاۃِ إِلَی الْکُفْرِ ) حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے سنا، جو اطاعت اور جماعت سے علیحدہ ہوا اور وہ اسی حالت میں فوت ہوا، تو وہ جاہلیت کی موت مرا اور جو شخص نامعلوم جھنڈے کے نیچے لڑتا رہا، عصبیت کی خاطر غیرت میں آیا اور عصبیت کی دعوت دیتا رہا، یا عصبیت کی وجہ سے مدد کرتا ہوا قتل ہوا، اس کا قتل، جہالت پر ہوگا۔ جو شخص میری امت کے خلاف تلوار سونت کر نیک و بد سب کو تہ تیغ کرتا چلا گیا اور کسی مومن کی اس نے پروا نہ کی اور نہ ہی کسی عہد والے کے عہد کا پاس کیا، وہ مجھ سے نہیں اور نہ میرا اس سے کوئی تعلق ہے۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے آدم (علیہ السلام) کو پیدا کیا۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو ایک مرد اور عورت سے تخلیق فرمایا۔ ٣۔ کنبے اور قبیلے بنانے کا مقصد ایک دوسرے کی پہچان ہے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ کے نزدیک عزت کا معیار تقویٰ ہے۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ سب کچھ جاننے والا اور ہر چیز سے باخبر ہے۔ تفسیر بالقرآن تقویٰ کی اہمیت وفضیلت : ١۔ مصیبتوں میں صبر اختیار کرنا اور سچ بولنا تقویٰ ہے۔ (البقرۃ: ١٧٧) ٢۔ حلال روزی کھانا، اللہ پر ایمان لانا اور اس سے ڈرنا تقویٰ ہے۔ (المائدۃ: ٨٨) ٣۔ اپنے اہل و عیال کو نماز کا حکم دینا اور اس پر قائم رہنا تقویٰ ہے۔ (طٰہٰ: ١٣٢) ٤۔ شعائر اللہ کا احترام کرنا تقویٰ ہے۔ (الحج : ٣٢) ٥۔ حج کے سفر میں زاد راہ لینا تقویٰ ہے۔ (البقرۃ: ١٩٧) ٦۔ متقی کی خطائیں معاف اور ان کے لیے بڑا اجر ہوگا۔ (الطلاق : ٤ تا ٥) ٧۔ متقین کے لیے ان کے رب کے پاس نعمتوں والی جنت ہے۔ (القلم : ٣٤) ٨۔ متقین اولیاء اللہ ہیں جو قیامت کے دن بے خوف ہوں گے۔ ( یونس : ٦١ تا ٦٤) الحجرات
14 فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ علیم اور خبیر ہے پچھلی آیات کے حوالے سے وہ جانتا ہے کہ کچھ لوگ صرف زبان سے ایمان کا دعویٰ کرتے ہیں حالانکہ ایمان ان کے دلوں میں داخل نہیں ہوا۔ اس آیت میں یہ اشارہ موجود ہے کہ دوسروں کا مذاق اٹھانا اور عیب جوئی کرنا جہالت کا کام ہے ایسے لوگوں کو انتباہ کے طور پر بتلایا گیا ہے۔ نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دور میں مدینہ کے مضافات میں رہنے والے ایسے لوگ بھی تھے جو آپ کی خدمت میں آکر ایسا انداز اختیار کرتے جس سے صاف معلوم ہوتا کہ یہ لوگ اپنے ایمان لانے کو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مسلمانوں پر احسان سمجھتے ہیں۔ اس بنا پر وہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ایسے مطالبات کرتے ہیں جن کا انہیں حق نہیں تھا۔ اس صورتحال میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ارشاد ہوا کہ آپ انہیں فرمائیں کہ تم نے ابھی تک اسلام کا اقرار کیا ہے۔ حقیقت میں ایمان نہیں لائے کیونکہ تمہارے دلوں میں ایمان داخل نہیں ہوا۔ اگر تم رسمی کی بجائے حقیقی ایمان کے ساتھ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو گے تو اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال سے کچھ کم نہیں کرے گا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ معاف کرنے اور رحم فرمانے والا ہے۔ حقیقت میں مومن وہ ہیں جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائیں پھر انہیں اپنے ایمان کے بارے میں کوئی شک نہ رہے۔ اس ایمان کا تقاضا ہے کہ وہ اللہ کے راستے میں اپنے مال اور اپنی جان کے ساتھ جہاد کریں۔ یہی لوگ دعویٰ ایمان میں سچے ہیں۔ جہاد کا جامع مفہوم یہ ہے کہ مسلمان ہر محاذ پر اسلام اور مسلمانوں کی سربلندی کے لیے جدوجہد کرتے رہیں۔ اس فرمان میں اللہ تعالیٰ نے رسمی اور حقیقی ایمان کا فرق بیان کیا ہے۔ رسمی اور نسلی ایمان یہ ہے کہ آدمی فائدے کے وقت اسلام پر عمل کرے اور مشکل کے وقت اسلام پر عمل کرنا چھوڑ دے۔ اس طرح کا ایمان انسان میں کوئی تبدیلی واقع نہیں کرتا۔ سچے ایمان اور حقیقی اسلام کا فائدہ یہ ہے کہ انسان اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے ہوئے کسی پر احسان نہیں جتلاتا۔ وہ مسجد میں خرچ کرتا ہے تو اس کا کسی نمازی اور خطیب پر احسان نہیں ہوتا۔ وہ دینی مدرسہ کے ساتھ تعاون کرتا ہے تو طلبہ اور اس کی انتظامیہ پر احسان نہیں جتلاتا۔ کسی غریب کی مدد کرتا ہے تو اس سے کسی خدمت کی توقع نہیں رکھتا۔ قتال فی سبیل اللہ میں حصہ لیتا ہے تو اس میں اس کا کوئی دنیاوی مفاد نہیں ہوتا۔ اس کی نیت و عمل میں یہ اخلاص اور جذبہ اس لیے پیدا ہوتا ہے کہ اس کے دل میں ایمان راسخ ہوچکا ہوتا ہے۔ حقیقی ایمان کی یہی نشانی ہے کہ وہ مسلمان کے فکر و عمل میں انقلاب پیدا کرتا ہے جس بنا پر ایماندار شخص اپنے کسی عمل کا کسی پر احسان نہیں جتلاتا۔ اللہ تعالیٰ نہ صرف ایسے لوگوں کے اجر میں کوئی کمی نہیں کرے گا بلکہ اپنی مہربانی سے ان کی بشری کمزوریوں اور غلطیوں کو بھی معاف فرما دے گا۔ کیونکہ وہ معاف کرنے والا اور انتہائی رحیم و شفیق ہے۔ رسمی اور حقیقی ایمان کے درمیان فرق یہ ہے کہ رسمی طور پر ایمان لانے والے رسماً اسلام پر عمل کرتے ہیں اور حقیقی طور پر ایمان لانے والے صرف اپنے رب کی رضا کے لیے عمل کرتے ہیں یہی لوگ اپنے ایمان میں سچے ہیں۔ مومن اور مسلمان میں فرق : (عَنْ عَلِیٍّ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَأْتِیْ عَلَی النَّاسِ زَمَانٌلَایَبْقٰی مِنَ الْاِسْلَامِ اِلَّاإِسْمُہٗ وَلَا یَبْقٰی مِنَ الْقُرْاٰنِ إِلَّا رَسْمُہٗ مَسَاجِدُھُمْ عَامِرَۃٌ وَھِیَ خَرَابٌ مِنَ الْھُدٰی عُلَمَاءُ ھُمْ شَرُّ مَنْ تَحْتَ أَدِیْمِ السَّمَآءِ مِنْ عِنْدِ ھِمْ تَخْرُجُ الْفِتْنَۃُ وَفِیْھِمْ تَعُوْدُ) (مشکوٰۃ: کتاب العلم، قال یحییٰ بن معین لیس بشی ءٍ، حکمہ ضعیف) ” حضرت علی (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : لوگوں پر ایک ایسا دور آئے گا کہ اسلام کا صرف نام رہ جائے گا، قرآن کی تلاوت عادت کے طور پر کی جائے گی، ان کی مساجد آباد ہوں گی لیکن ہدایت سے خالی ہوں گی، ان کے علماء آسمان کی چھت تلے شریر ترین لوگ ہوں گے، انہی سے فتنہ ظہور پذیر ہوگا اور انہی کی طرف لوٹ جائے گا۔“ (عَنْ عَاءِشَۃَ (رض) قَالَتْ سَمِعْتُ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَقُولُ فِی بَعْضِ صَلاَتِہِ اللَّہُمَّ حَاسِبْنِی حِسَاباً یَسِیرًا فَلَمَّا انْصَرَفَ قُلْتُ یَا نَبِیَّ اللَّہِ مَا الْحِسَابُ الْیَسِیرُ قَالَ أَنْ یَنْظُرَ فِی کِتَابِہِ فَیَتَجَاوَزَ عَنْہُ إِنَّہُ مَنْ نُوقِشَ الْحِسَابَ یَوْمَءِذٍ یَا عَاءِشَۃُ ہَلَکَ وَکُلُّ مَا یُصِیبُ الْمُؤْمِنَ یُکَفِّرُ اللَّہُ عَزَّ وَجَلَّ بِہِ عَنْہُ حَتَّی الشَّوْکَۃُ تَشُوکُہُ) (روہ احمد : مسند عائشہ صدیقہ (رض) ” حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں میں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بعض نمازوں میں یہ دعا مانگتے سنا آپ دعا کرتے۔ اے بار الٰہا! میرا حساب آسان فرماناجب آپ نماز سے فارٖغ ہوئے تو میں نے عرض کی اللہ کے پیغمبر آسان حساب کیا ہے؟ آپ نے فرمایا کہ انسان کے نامہ اعمال کی طرف دیکھ کر اسے چھوڑ دیا جائے۔ اس دن جس سے حساب و کتاب میں پوچھ گچھ ہوگئی وہ ہلاک ہوگیا اور ہر تکلیف جو مومن کو پہنچتی ہے اللہ عزوجل اس کے عوض اس کے گناہ مٹا دیتا ہے حتٰی کہ کانٹا چبھنے سے بھی گناہ مٹ جاتے ہیں۔“ مسائل ١۔ کچھ لوگ بظاہر مسلمان ہوتے ہیں لیکن حقیقت میں ان کے دلوں میں ایمان نہیں ہوتا۔ ٢۔ جو شخص اخلاص کے ساتھ ایمان لائے، اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے اللہ تعالیٰ اس کے اجر میں کوئی کمی نہیں کرے گا۔ ٣۔ جو شخص اخلاص کے ساتھ ایمان کے تقاضے پورے کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کی بشری کمزوریوں کو معاف کردیتا ہے کیونکہ وہ معاف کرنے اور رحم فرمانے والا ہے۔ ٤۔ حقیقی ایمان کا یہ تقاضا ہے کہ ایمان لانے کے بعد آدمی کو اپنے ایمان کے بارے میں کسی قسم کا شک اور تردد نہیں ہونا چاہیے۔ ٥۔ حقیقی ایمان رکھنے والے لوگ ” اللہ“ کی راہ میں اپنے مال اور جان کے ساتھ جہاد کرتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن حقیقی ایمان کے تقاضے : ١۔ غیب پر ایمان لانا۔ (البقرۃ: ١) ٢۔ قرآن مجید اور پہلی آسمانی کتابوں پر ایمان لانا۔ (البقرۃ: ٤) ٣۔ اللہ اور کتب سماوی پر ایمان لانا۔ (البقرۃ: ١٣٦) ٤۔ آخرت پر یقین رکھنا۔ (البقرۃ: ٤) ٥۔ انبیاء پر ایمان لانا اور ان میں فرق نہ کرنا۔ (آل عمران : ٨٤) ٦۔ اللہ اور اس کے رسول کے احکامات کے درمیان فرق نہ کرنا۔ (النساء : ١٥١) ٧۔ ایمان کی تفصیل۔ (البقرۃ: ٢٨٥) الحجرات
15 الحجرات
16 فہم القرآن ربط کلام : رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر جو لوگ اپنے اسلام کا احسان جتلاتے تھے انہیں انتباہ کیا گیا ہے کہ وہ اپنی اصلاح کریں۔ جو لگ اپنے ایمان لانے کا نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مسلمانوں پر احسان سمجھتے تھے اللہ تعالیٰ نے ان پر اپنی ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے یہ فرمان جاری کیا کہ اے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ان لوگوں سے بتلا دیں کہ کیا تم اللہ تعالیٰ کو اپنا دین بتلاتے اور جتلاتے ہو۔ حالانکہ وہ تمہارے دلوں کا حال جانتا ہے کیونکہ زمین و آسمانوں میں جو چیز موجود ہے وہ اس کے علم میں ہے۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے۔ جو لوگ اپنے اسلام لانے کا آپ پر احسان جتلاتے ہیں انہیں کھلے الفاظ میں فرمائیں کہ مجھ پر اپنے ا سلام کا احسان نہ جتلاؤ۔ یہ تو اللہ کا تم پر احسان ہے کہ اس نے تمہیں ایمان کی طرف راہنمائی کی۔ ہمیشہ یاد رکھو! کہ اللہ تعالیٰ زمین و آسمانوں کے غیب کو جانتا ہے اور جو کچھ تم کرتے ہو انہیں دیکھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس دور کے کچھ دیہاتیوں کے ایمان کی نفی کی اور انہیں سمجھایا کہ یہ تم پر اللہ کا احسان ہے کہ اس نے تمہاری اسلام کی طرف راہنمائی کی ہے۔ اسلام اور ایمان کا بنیادی فرق یہ ہے کہ ایمان کا تعلق انسان کی زبان اور دل کے ساتھ ہے اور اسلام کا زیادہ تعلق نیک اعمال کے ساتھ ہے، ایمان اور اسلام آپس میں لازم ملزوم ہیں۔ ایمان اخلاص کا تقاضا کرتا ہے اور اسلام نیک عمل کرنے کا مطالبہ کرتا ہے۔ اخلاص کے لیے ضروری ہے کہ انسان کا یہ عقیدہ ہو کہ میرا کوئی عمل بھی اللہ تعالیٰ سے پوشیدہ نہیں ہے۔ (عَنْ عُمَرَابْنِ الْخَطَّاب (رض) قَالَ بَیْنَمَا نَحْنُ عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ذَاتَ یَوْمٍ اِذْ طَلَعَ عَلَیْنَا رَجُلٌ شَدِیْدُ بَیَاض الثِّیَابِ شَدِیْدُ سَوَاد الشَّعْرِ لاَ یُرٰی عَلَیْہِ أَثَرُالسَّفَرِ وَلَا یَعْرِفُہٗ مِنَّا أَحَدٌ حَتّٰی جَلَسَ إِلَی النَّبِیّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَأَسْنَدَ رُکْبَتَیْہِ إِلٰی رُکْبَتَیْہِ وَوَضَعَ کَفَّیْہِ عَلٰی فَخِذَیْہِ وَقَالَ یَا مُحَمَّدُ أَخْبِرْنِیْ عَنِ الْإِسْلَامِ قَالَ اَلْاِسْلَامُ أَنْ تَشْہَدَ أَنْ لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُول اللّٰہِ وَتُقِیْمَ الصَّلٰوۃَ و تُؤْتِیَ الزَّکوٰۃَ وَتَصُوْمَ رَمَضَانَ وَتَحُجَّ الْبَیْتَ إِنِ اسْتَطَعْتَ إِلَیْہِ سَبِیْلًا قَالَ صَدَقْتَ فَعَجِبْنَا لَہٗ یَسأَلُہٗ وَیُصَدِّقُہٗ قَالَ فَأَخْبِرْنِی عَنِ الْاِیْمَانِ قَالَ أَنْ تُؤْمِنَ باللّٰہِ وَمَلٰءِکَتِہٖ وَکُتُبِہٖ وَرُسُلِہٖ وَالْیَوْمِ الْأَخِرِ وَ تُؤْمِنَ بالْقَدْْرِخَیْرِہٖ وَشَرِّہٖ قَالَ صَدَقْتَ قَالَ فَأَخْبِرْنِیْ عَنِ الْإِحْسَانِ قَالَ أَنْ تَعْبُدَ اللّٰہَ کَأَنَّکَ تَرَاہُ فَإِنْ لَّمْ تَکُنْ تَرَاہُ فَاِنَّہُ یَرَاکَ قَالَ فَأَخْبِرْنِیْ عَنِ السَّاعَۃِ قَالَ مَاالْمَسْءُوْلُ عَنْھَا بِأَعْلَمَ مِنَ السَّاءِلِ قَالَ فَأَخْبِرْنِیْ عَنْ اَمَارَاتِھَا قَالَ أَنْ تَلِدَالْاَمَۃُ رَبَّتَھَا وَاَنْ تَرَی الْحُفَا ۃَ الْعُرَاۃَ الْعَالَۃَ رِعَاء الشَّاءِ یَتَطَاوَلُوْنَ فِی الْبُنْیَانِ قَالَ ثُمَّ انْطَلَقَ فَلَبِثْتُ مَلِیاًّ ثُمَّ قَالَ لِیْ یَا عُمَرُ اَتَدْرِیْ مَنِ السَّاءِلُ قُلْتُ اَللّٰہُ وَرَسُولُہُ أَعْلَمُ قَالَ فَإِنَّہُ جِبْرءِیْلُ اَتٰکُمْ یُعَلِّمُکُمْ دِیْنَکُمْ رَوَاہُ مُسْلِمٌ وَرَوَاہُ اَبُوھُرَیْرَۃَ مَعَ اخْتِلَافٍ وَفِیْہِ وَإِذَا رَأَیْتَ الْحُفَا ۃَ الْعُرَاۃَ الصُّمَّ الْبُکْمَ مُلُوکَ الْاَرْضِ فِی خَمْسٍ لَا یَعْلَمُھُنَّ اِلَّا اللّٰہُ ثُمَّ قَرَأَ اِنَّ اللّٰہَ عِنْدَہٗ عِلْمُ السَّاعَۃِ وَیُنَزِّلُ الْغَیْثَ وَیَعْلَمُ مَافِی الْاَرْحَامِ وَمَا تَدْرِیْ نَفْسٌ مَّاذَا تَکْسِبُ غَدًا وَمَاتَدْرِیْ نَفْسٌ بِاَیِّ اَرْضٍ تَمُوْتُ اِنَّ اللّٰہَ عَلِیْمٌ خَبِیْرٌ) (رواہ مسلم : باب معرفۃ الایمان والاسلام والقدر والاعلامۃ الساعۃ) ” حضرت عمر بن خطاب (رض) فرماتے ہیں کہ ایک دن ہم رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر تھے۔ ہمارے پاس ایک ایسا شخص آیا کہ جس کا لباس بالکل سفید تھا اور بال نہایت ہی سیاہ تھے۔ اس پر سفر کے اثرات دکھائی نہیں دیتے تھے اور ہم میں سے کوئی بھی اسے نہ پہچان سکا۔ وہ آتے ہی نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے گھٹنوں کے ساتھ گھٹنے ملاکر اور اپنے ہاتھوں کو اپنی رانوں پر رکھتے ہوئے آپ سے استفسار کرنے لگا۔ اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! مجھے اسلام کے بارے میں آگاہ فرمائیں۔ ارشاد ہوا اسلام یہ ہے کہ تو اس بات کی شہادت دے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کا رسول ہے، نماز قائم کرنا، زکوٰۃ ادا کرنا، رمضان کے روزے رکھنا اور بیت اللہ تک پہنچنے کی استطاعت ہو تو اس کا حج ادا کرنا۔ اس نے کہا آپ نے سچ فرمایا ہم نے اس بات پر تعجب کیا کہ یہ سوال بھی خود کرتا ہے اور اس کی تائید بھی۔ پھر اس نے کہا مجھے ایمان کے بارے میں بتائیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ تو اللہ، اس کے فرشتوں، اس کی کتابوں، اس کے رسولوں، قیامت کے دن، اچھی اور بری تقدیر پر ایمان لائے وہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تائید کرنے کے بعد احسان کے بارے میں سوال کرنے لگا۔ ارشاد ہوا تو اللہ کی عبادت اس طرح کرے جیسے تو اسے دیکھ رہا ہے۔ اگر تو اسے دیکھ نہیں پاتا تو وہ تجھے یقیناً دیکھ رہا ہے۔ آخری سوال کرتے ہوئے کہتا ہے کہ مجھے قیامت کے بارے میں بتلایا جائے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جس سے قیامت کے متعلق سوال کیا جارہا ہے وہ سوال کرنے والے سے زیادہ نہیں جانتا۔ پھر اس نے کہا مجھے اس کی نشانیوں سے ہی آگاہ فرمائیں۔ آپ نے فرمایا : جب لونڈی اپنے آقا کو جنم دے گی، تم دیکھو گے ننگے پاؤں برہنہ جسم نہایت غریب بکریوں کے چرواہے بڑے بڑے محلات بنانے پر فخر کریں گے۔ حضرت عمر (رض) فرماتے ہیں جب وہ چلے گئے تو میں کچھ دیر ٹھہرا رہا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے سے پوچھا اے عمر! کیا آپ جانتے ہیں یہ سوال کرنے والا کون تھا؟ میں نے عرض کیا اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں۔ فرمایا یہ جبریل امین تھے جو تمہیں تمہارا دین سکھلانے کے لیے آئے تھے۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ رسمی اسلام سے بے پرواہ ہے۔ ٢۔ حقیقی اسلام کا تقاضا ہے کہ آدمی اپنے ایمان اور عمل کا کسی پر احسان نہ جتلائے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ جس کی ایمان کی طرف راہنمائی کرے اس پر اس کا بڑا احسان ہوتا ہے۔ ٤۔ بلاشبہ ” اللہ“ زمین و آسمانوں کے غیب جانتا ہے اور لوگوں کے اعمال کو دیکھنے والا ہے۔ تفسیر بالقرآن ایمان اور عمل : ١۔ صالح عمل کرنے والے مومنوں کے لیے خوشخبری ہے اور ان کے لیے بہترین اجر ہے۔ (الکھف : ٢) ٢۔ جو بھی مومن صالح عمل کرے گا اس کی محنت کو رائیگاں نہیں کیا جائے گا۔ (الانبیاء : ٩٤) ٣۔ ایمان دار اور عمل صالح کرنے والوں کے لیے بخشش اور رزق کریم ہے۔ (الحج : ٥٠) ٤۔ عمل صالح کرنے والے مومنوں کے گناہوں کو ” اللہ“ ختم کردیں گے۔ (العنکبوت : ٧) ٥۔ بے شک وہ لوگ جو ایمان لائے اور نیک عمل کیے ان کے لیے نعمتوں والی جنت ہے۔ (لقمان : ٨) الحجرات
17 الحجرات
18 الحجرات
0 سورۃ قٓ کا تعارف اس سورت کا نام اس کے پہلے حرف پر رکھا گیا ہے اس کے تین رکوع اور پینتالیس (٤٥) آیات ہیں اور مکہ میں نازل ہوئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کی قسم اٹھا کر کفار کے اس نظریہ کی تردید کی ہے کہ یہ لوگ اس بات پر تعجب کا اظہار کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے انہی میں سے ایک شخص کو رسول منتخب فرمایا جو انہیں ان کے عقائد اور کردار کے برے انجام سے ڈراتا ہے، اور اس بات پر بھی قسم اٹھائی گئی ہے کہ یہ کہتے ہیں کہ جب ہم مٹی بن جائیں گئے تو پھر ہمیں کسی طرح دوبارہ زندہ کیا جائے گا۔ انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ جو کچھ زمین میں موجود ہے وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں لوح محفوظ پر لکھا ہوا ہے جو لوگ دوبارہ جی اٹھنے پر تعجب کا اظہار کرتے ہیں کیا وہ ان باتوں پر غور نہیں کرتے : ١۔ اللہ تعالیٰ نے آسمان و زمین کو کس طرح بے نقص پیدا فرمایا اور اسے ستاروں سے مزین کردیا ہے۔ ٢۔ اس نے کس طرح زمین کو بچھایا اور پھر اس پر پہاڑ گارڈ دئیے اور زمین کس طرح اپنے پیٹ سے ہر چیز کا جوڑا جوڑا پیدا کرتی ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ ہی آسمان سے بابرکت پانی نازل کرنے والا ہے اور وہی باغات کو اگانے والا ہے۔ جس طرح زمین سے اپنے بندوں کے لیے رزق پیدا کرتا ہے اسی طرح ہی وہ قیامت کے دن لوگوں کو زمین سے نکال لے گا اور انسان اپنے دل میں جو کچھ بھی سوچتا ہے اللہ تعالیٰ اسے جانتا ہے کیونکہ وہی انسان کو پیدا کرنے والا ہے اور وہ ہر وقت انسان کی شاہ رگ کے قریب رہتا ہے جو لوگ قیامت کا انکار کرتے ہیں انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ اسرافیل کے صور پھونکنے سے ہی لوگ کھڑے ہوجائیں گے اور ہر انسان اپنے اعمال کے ساتھ اللہ کے حضور پیش کیا جائے گا۔ اس دن مجرموں کی آنکھیں کھل جائیں گی اور وہ کھلی آنکھوں کے ساتھ جہنم کو دیکھ رہے ہوں گے، مجرموں کو جہنم میں پھینک دیا جائے گا جس کی اشتہا اور تپش کبھی کم نہیں ہوگی۔ ہاں ان کے مقابلے میں جو شخص قیامت کے دن پر ایمان لاکر اپنے رب سے ڈرتا رہا۔ اسے جنت میں داخل کیا جائے گا جنتی جو کچھ چاہیں گے وہی کچھ جنت میں پائیں گے یہ نصیحت بس اس شخص کے لیے ہے جو دل کی توجہ اور حقیقت کو کان کھول کر سننے والا ہے۔ لوگوں کو زندہ کرنا اور مارنا اللہ تعالیٰ کے لیے کوئی مشکل نہیں اور قیامت کے دن لوگوں کو اکٹھا کرنا اس نے اپنے ذمے کے رکھا ہے۔ جو شخص حقائق جاننے کے باوجود حق قبول نہیں کرتا اس سے جھگڑنے کی بجائے صبر اور حوصلے سے کام لینا چاہیے اور لوگوں کو قرآن مجید کے ساتھ نصیحت کرتے رہنا چاہیے کیونکہ قرآن مجید کی نصیحت لوگوں کے لیے مفید ثابت ہوتی ہے۔ ق
1 فہم القرآن ربط سورت :” ق“ حروف مقطعات میں شامل ہے۔ بعض اہل علم نے غیر مستند روایات کے حوالے سے اس کا مطلب بیان کرنے کی کوشش کی ہے لیکن نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام (علیہ السلام) سے اس کا کوئی معنٰی ثابت نہیں۔ لہٰذا اسے اس طرح ہی تلاوت کرنا چاہیے۔ القرآن سے پہلے واؤ کا حرف قسم کے لیے ہے۔ عربی زبان میں حرف واؤ کئی معنوں میں استعمال ہوتا ہے ان میں واؤ قسم کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔ قرآن کا معنٰی ہے یکجا کرنا، تلاوت کرنا، الفاظ پر غور کر کے زبان سے ان کی ادائیگی کرنا، الفاظ کا ” تتبُّع“ کرنا۔ (المنجد) المجید کا معنٰی بڑا اور عزت والا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کی قسم دے کر ارشاد فرمایا ہے کہ یہ لوگ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت پر تعجب کا اظہار کرتے ہوئے اس کا انکار کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کیا انہی سے ایک شخص اٹھ کھڑا ہوا ہے جو ان کو ڈراتا ہے۔ کفّار اس بات پر بھی تعجب کا اظہار کرتے اور کہتے ہیں کہ کیا ہم مٹی کے ساتھ مٹی ہوجائیں گے تو پھر ہمیں زندہ کیا جائے گا ؟ یہ بات عقل سے بعید نظر آتی ہے۔ کیونکہ زمین مرنے والوں کو کھا جاتی ہے اور مرنے والا مٹی کے ساتھ مٹی بن جاتا ہے۔ کفار کی تکذیب اور تعجب کی تردید کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ ہمیں نہ صرف اس بات کا پوری طرح علم ہے کہ انسان کے وجود سے زمین کیا کھاتی ہے اور کیا بچائے رکھتی ہے۔ ہم نے اپنے پاس ہر چیز کا انداج بھی کر رکھا ہے۔ مر کرجی اٹھنے پر تعجب کرنے کی بجائے تعجب انہیں اس بات پر ہونا چاہیے کہ ان کے پاس حق آچکا ہے لیکن اس کے باوجود یہ انکار کررہے ہیں۔ یہ بات فہم القرآن میں پہلے بھی عرض ہوچکی ہے کہ قرآن مجید کی دعوت کے بنیادی ارکان تین ہیں۔ اللہ کی توحید، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت اور آخرت پر ایمان لانا۔ کفار مختلف انداز اور الفاظ میں قرآن مجید کی دعوت کے تینوں اجزاء کا انکار کرتے تھے اور کرتے ہیں۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قرآن کی دعوت کفار کے سامنے پیش کی اور دعوت کا انکار کرنے والوں کو آخرت کے انجام سے ڈرایا۔ جس پر انہوں نے تعجب کا اظہار کیا اور آپ کی رسالت کا انکار کیا۔ اس سے پہلے ان کے آخرت کے بارے میں کفار کے تعجب اور انکار کا یہ کہہ کرجواب دیا ہے کہ جہاں تک کفار کی اس بات کا تعلق ہے کہ ہم مٹی کے ساتھ مٹی ہوجائیں گے تو پھر ہمیں کون اٹھائے گا انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ مٹی کے ایک ذرے ذرے سمیت ہر ایک چیز کو جانتا ہے اور اس کے پاس لوح محفوظ میں ہر چیز کا اندراج موجود ہے۔ یہ لوگ مر کرجی اٹھنے پر تعجب کرنے کی بجائے یہ نہیں سوچتے کہ جس خالق نے انہیں اس مٹی سے پہلی مرتبہ پیدا کیا وہ دوبارہ پیدا نہیں کرسکتا؟ کیوں نہیں وہ انسان کو دوبارہ پیدا کرے گا کیونکہ وہ زمین کے ذرے ذرے کو جانتا ہے اور ہر ذرّے پر اسے اختیار اور اقتدار حاصل ہے پھر اس کے پاس ہر چیز کا اندراج بھی موجود ہے۔ کفار کو تعجب اس بات پر کرنا چاہیے کہ ان کے پاس حق پہنچ چکا ہے لیکن پھر بھی الجھن میں پڑے ہوئے ہیں۔ حالانکہ ان کی الجھن کا اب کوئی جواز نہیں ہے۔ ” مَرِیْجٍ“ سے مراد ایسا شک جو انسان کو ہمیشہ ذہنی کشمکش میں مبتلا کیے رکھے۔ یاد رہے کہ انسان کا وجود دوچیزوں پر مشتمل ہے ایک روح جس کی بنیاد پر انسان چلتا پھرتا، اٹھتا، بیٹھتا کھاتاپیتا آرام اور کام کرتا ہے۔ روح نکل جانے کے بعد انسان مٹی کے ساتھ مٹی ہوجاتا ہے لیکن اس کے مرنے کے بعد اس کی روح باقی رہتی ہے جس کا ٹھکانہ ” عِلِّیِّیْنَ“ یا ” سِجِّیْنٌ“ میں ہوتا ہے۔ ” عِلِّیِّیْنَ“ وہ رجسٹر ہے جس میں جنتی رحوں کا اندراج ہوتا ہے۔ ” سِجِّیْنٌ“ سے مراد وہ رجسٹر یا مقام ہے جہاں جہنمیوں کی ارواح کو رکھا جاتا ہے۔ جہاں تک انسان کے جسم کا تعلق ہے یہ بھی مکمل طور پر ختم نہیں ہوتا۔ اس میں ایک ذرہ (SELL) باقی رہتا ہے جس سے قیامت کے دن اس کے وجود کی ابتدا ہوگی۔ (عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)۔۔ قَالَ وَلَیْسَ مِنَ الْاِنْسَانِ شَیْءٌ لَا یَبْلٰی اِلَّاعَظْمًا وَاحِدًا وَّھُوَ عَجْبُ الذَّنَبِ وَمِنْہُ یُرَکَّبُ الْخَلْقُ یَوْمَ الْقِیَا مَۃِ) (رواہ مسلم : باب مَا بَیْنَ النَّفْخَتَیْنِ) ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : انسان کی دمچی کے علاوہ ہر چیز ختم ہوجاتی ہے۔ قیامت کے دن دمچی سے تمام اعضاء کو جوڑا جائے گا۔ ” حضرت برا بن عازب (رض) بیان کرتے ہیں ہم نبی مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ انصار کے کسی آدمی کے جنازہ کے لیے نکلے۔ ہم قبرستان پہنچے تو قبر کھودی نہیں گئی تھی۔ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بیٹھ گئے اور ہم بھی آپ کے ارد گرد بیٹھ گئے جیسے ہمارے سروں پر پرندے بیٹھے ہوں، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہاتھ میں ایک چھڑی تھی آپ اس کے ساتھ زمین کرید رہے تھے آپ نے سر اٹھاتے ہوئے دو یا تین مرتبہ فرمایا قبر کے عذاب سے پناہ مانگو پھر فرمایا۔۔“ (رواہ احمد : مسند براء بن عازب (رض)، قال الشیخ البانی ہذا حدیث صحیح) مسائل ١۔ قرآن ہر حوالے سے عظیم کتاب ہے۔ ٢۔ کفار نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت اور آپ کی دعوت پر تعجب کا اظہار کرتے تھے۔ ٣۔ کفار مر کرزندہ ہونے کا انکار کرتے ہیں۔ ٤۔ اہل مکہ کی طرف حق پہنچ چکا تھا لیکن پھر بھی وہ الجھن میں پڑے رہے۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ ہر چیز کو جانتا ہے اور اس کے پاس ہر چیز کا اندراج موجود ہے۔ تفسیر بالقرآن مرنے کے بعد زندہ ہونے کے ثبوت : ١۔ تعجب کے قابل ان کی یہ بات ہے کہ جب ہم مٹی ہوجائیں گے تو ہمیں دوبارہ اٹھایا جائے گا۔ (الرعد : ٥) ٢۔ اللہ تعالیٰ مردوں کو اٹھائے گا پھر اس کی طرف ہی لوٹائیں جائیں گے۔ (الانعام : ٣٦ ) ٣۔ لوگوں لوہا بن جاؤ یا پتھر اللہ تعالیٰ تمہیں ضرور زندہ کرے گا۔ ( بنی اسرائیل : ٥٠، ٥١) ٤۔ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن تمام کو اٹھائے گا اور ہر کسی کو اس کے اعمال کے متعلق بتلائے گا۔ (المجادلۃ: ٦) ٥۔ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کے مقتول کو زندہ فرمایا۔ (البقرۃ: ٧٣) ٦۔ حضرت عزیر (علیہ السلام) کو زندہ فرمایا۔ (البقرۃ: ٢٥٩) ٧۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے ہاتھوں چار پرندوں کو زندہ فرمایا۔ (البقرۃ : ٢٦٠) ٨۔ اصحاب کہف کو تین سو سال کے بعد اٹھایا۔ (الکہف : ٢٥) ٩۔ مزید حوالوں کے لیے دیکھیں : (البقرۃ: ٢٤٣) (الاعراف : ١٥٥) (المائدۃ : ١١٠) ق
2 ق
3 ق
4 ق
5 ق
6 فہم القرآن ربط کلام : قیامت کے دن دوبارہ زندہ ہونے کا انکار کرنے والوں کو زمین و آسمان کی تخلیق پر غور کرنے کا حکم۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں کئی مقامات پر زمین و آسمان پر غور کرنے کی دعوت دی ہے۔ ہر مقام پر چند الفاظ کے تکرار کے سوا نئے الفاظ کے ساتھ نیا استدلال پیش کیا ہے۔ اسی اصول کے تحت قیامت کے دن جی اٹھنے کا انکار کرنے والوں کو توجہ دلائی ہے کہ چند الفاظ کے ذریعے لوگوں کی توجہ ان حقائق کی طرف مبذول کروائی گئی ہے۔ کیا لوگ اپنے اوپر تنے ہوئے آسمان کی طرف غور نہیں کرتے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے کس طرح بنایا اور سجایا ہے اور اس میں کسی قسم کا شگاف نہیں پایا جاتا۔ اسی نے زمین کو بچھایا اور اس پر پہاڑ گاڑ دیے پھر زمین سے نباتات کا سلسلہ شروع فرمایا اس میں اس بندے کے لیے اپنے رب کی طرف پلٹنے سے بہت دلائل ہیں جو اس کی طرف رجوع کرنا چاہتا ہے۔ ” جس نے اوپر نیچے سات آسمان بنائے، تم رحمٰن کی تخلیق میں کسی قسم کی بے ربطی نہیں پاؤ گے۔ پھر پلٹ کر دیکھو کیا تمہیں کوئی خلل نظر آتا ہے۔ بار بار نظر دوڑاؤ تمہاری نظر تھک کر پلٹ آئے گی۔ لیکن آسمان میں کوئی شگاف نہیں پاؤ گے۔“ (الملک : ٣، ٤) (وَ مَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِکَ عُدْوَانًا وَّ ظُلْمًا فَسَوْفَ نُصْلِیْہِ نَارًا وَ کَانَ ذٰلِکَ عَلَی اللّٰہِ یَسِیْرًا) (النساء : ٣٠) اور جو شخص یہ سرکشی اور ظلم کرے گا عنقریب ہم اسے آگ میں داخل کریں گے اور یہ اللہ کے لیے یہ آسان ہے۔“ زمین و آسمانوں کی ابتدا کس طرح ہوئی : سائنس کی تحقیقات نے ثابت کردیا ہے کہ کائنات اپنا ایک آغاز (Beginning) رکھتی ہے۔ اور ایسا کرتے ہوئے اس نے خدا کی صداقت کو ثابت کردیا ہے۔ کیونکہ جو چیز اپنا آغاز رکھتی ہو وہ اپنے آپ شروع نہیں ہو سکتی۔ یقیناً وہ ایک محرک اول، ایک خالق، ایک خدا کی محتاج ہے۔“ (The evidence of God ,p51) چنانچہ کائنات کے وجود میں آنے کا مسلمہ جدید ترین نظریہ یہ ہے کہ ابتداً مادہ مرکوز اور مجتمع (Concertrated and condensed) حالت میں تھا۔ ” کیا کافروں نے اس بات پر غور نہیں کیا کہ ارض و سماوات آپس میں گڈ مڈ تھے پھر ہم نے انھیں الگ الگ کیا اور ہر جاندار چیز کو پانی سے زندگی بخشی کیا پھر بھی یہ لوگ اللہ تعالیٰ کی خلّاقی پر ایمان نہیں لاتے؟“ (سورۃ الأنبیاء : ٣٠) یہ مادہ بالکل توازن کی حالت میں تھا اس میں کسی قسم کی کوئی حرکت نہ تھی پھر اچانک یہ ایک عظیم دھماکہ (Big Bang) (یہ عظیم دھماکہ ایک اندازہ کے مطابق 15 کھرب سال پہلے ہوا) سے پھٹ پڑا اور اس نے ایک عظیم گیسی بادل یا قرآن کے لفظ میں دخان (ثُمَّ اسْتَوَی إِلَی السَّمَاءِ وَہِیَ دُخَانٌ) کی صورت اختیار کرلی۔ سائنس کی یہ دریافت قرآنی بیان کی تفسیر معلوم ہوتی ہے۔ یہ گیسی بادل بہت عظیم الجثہ تھا اور آہستہ آہستہ گردش کر رہا تھا۔ یہ عظیم سدیم (Primery Nebula) انجام کار متعدد ٹکڑوں میں بٹ گیا جن کی لمبائی چوڑائی اور مقدار مادہ بہت ہی زیادہ تھا۔ نجمی طبیعات (Astrophysicist) کے ماہرین اس کی مقدار کا اندازہ سورج کے موجودہ مادہ کے ایک ارب سے لگا کر ایک کھرب گنا تک لگاتے ہیں۔ ان اعداد سے ابتدائی گیسی مقدار مادہ (Hydrogen and Helium) کے ان ٹکڑوں کے عظیم جثوں کا کچھ تصور ملتا ہے جن سے بعد میں عمل انجماد (Condensation) کے ذریعے کہکشائیں وجود میں آئیں۔ علمائے فلکیات کے ایک جدید اندازے کے مطابق ہر کہکشاں (Galaxy) میں دو کھرب ستارے ہیں اور اب تک معلوم کائنات میں تقریباً دو کھرب یہ کہکشائیں ہیں۔ جو کہکشاں ہم سے قریب ترین ہے وہاں سے روشنی کو ہم تک پہنچنے میں تقریباً نو لاکھ سال لگ جاتے ہیں۔ یہ کہکشاں مراۃ السلسلہ (Andromida) نامی مجمع النجوم میں واقع ہے۔ لہٰذا روشنی کو ان ستاروں سے جو معلوم سماوی جہاں کے اس سرے پر واقع ہیں ہم تک پہنچنے میں اربوں سال لگ جاتے ہیں۔ کائنات کی پہنائیاں اس قدر وسیع ہیں کہ ان کی پیمائش کے لیے خاص اکائیاں مثلاً نوری سال اور پارسک وغیرہ وضع کی گئیں ہیں۔ نوری سال یا سال نوای اس فاصلہ کو کہتے ہیں جو روشنی ایک سال میں طے کرتی ہے اور یہ تقریباً 58 کھرب ستر ارب میل کے برابر ہوتا ہے اور پارسک 3.26 نوری سال یا ایک نیل 92 کھرب میل کے لگ بھگ ہے۔ ( فَتَبَارَکَ اللّٰہُ اَحْسَنُ الْخَالِقِیْنَ) تفصیل کے لیے فہم القرآن جلد دوم سورۃ الاعراف آیت ٥٤ کی تفسیر ملاحظہ فرمائیں۔ آسمان کی طرف توجہ دلانے کے بعد اب ارشاد فرمایا کہ اے لوگو! اب اپنے پاؤں تلے زمین پر غور کرو کہ اللہ تعالیٰ نے زمین کو کس طرح بچھایا اور بنایا ہے۔ ” اور وہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا اور اس کا عرش پانی پر تھا تاکہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے کون اچھے عمل کرتا ہے۔“ (ہود : ٧) پہاڑوں پر غور کرنے کی دعوت : اللہ تعالیٰ کی بتائی ہوئی چیزوں میں سب سے بڑی چار چیزیں ہیں۔ آسمان، زمین، پہاڑ اور سمندرہیں۔ انسان کا اللہ تعالیٰ کی جس مخلوق کے ساتھ واسطہ پڑتا ہے ان میں یہ چار بڑی مخلوقات ہیں۔ پہاڑوں کے بارے بھی قرآن مجید میں کافی تفصیلات بیان ہوئی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے زمین پر نباتات کی صورت میں ایسی چیزیں پیدا فرمائی ہیں۔ جو انسان کی آنکھوں کی ٹھنڈک اور دل کا سرور ہیں۔ میخوں کی مانند پہاڑ : ارضیات میں ” بل پڑنے“ (Folding) کا مظہر حالیہ دریافت شدہ حقیقت ہے۔ قشر ارض (Crust) میں بل پڑنے کی وجہ سے پہاڑی سلسلے وجود میں آئے ہیں۔ قشر ارض جس پرہم رہتے ہیں، کسی ٹھوس چھلکے کی طرح ہے، جب کہ کرۂ ارض کی اندرونی پرتیں، (Layers) نہایت گرم اور مائع ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ زمین کا اندرون کسی بھی قسم کی زندگی کے لیے قطعًا غیر موزوں ہے۔ آج ہمیں یہ بھی معلوم ہوچکا ہے کہ پہاڑوں کی قیام پذیری (Stability) کا تعلق، قشر ارض میں بل پڑنے کے عمل سے بہت گہرا ہے۔ ماہرین ارضیات کا کہنا ہے کہ زمین کارداس (Radius) یعنی نصف قطر تقریباً ٠٣٥، ٦ کلومیٹر ہے اور قشر ارض، جس پر ہم رہتے ہیں، اس کے مقابلے میں بہت پتلی ہے، جس کی موٹائی ٢ کلومیٹر سے لے کر ٣٥ کلومیٹر تک ہے۔ چونکہ قشر ارض بہت پتلی ہے، لہٰذا اس کے تھرتھرانے یا ہلنے کا امکان بھی بہت قوی ہے، اس میں پہاڑ خیمے کی میخوں کا کام کرتے ہیں جو قشرِارض کو تھام لیتی ہیں اور اسے قیام پذیری عطا کرتے ہیں۔ قرآن پاک میں بھی عین یہی کہا گیا ہے : (اَلَمْ نَجْعَلِ الْاَرْضَ مِھٰدًا وَّالْجِبَالَ اَوْتَادًا۔) (النباء : ٦، ٧) ” کیا یہ واقعہ نہیں ہے کہ ہم نے زمین کو فرش بنایا اور پہاڑوں کو میخوں کی طرح گاڑ دیا۔“ یہاں عربی لفظ ” اوتاد“ کا مطلب بھی میخیں ہی نکلتا ہے، ویسی ہی میخیں جیسی کہ خیمے کو باندھے رکھنے کے لیے لگائی جاتی ہیں۔ ارضیاتی تہوں (Folds) یا سلوٹوں کی گہری پوشیدہ بنیادیں بھی یہی ہیں۔ Earth نام کی ایک کتاب ہے جو دنیا بھر کی کئی جامعات میں ارضیات کی بنیادی حوالہ جاتی نصابی کتاب کا درجہ رکھتی ہے۔ اس کتاب کے مصنفین میں ایک نام ڈاکٹر فرینک پریس کا بھی ہے، جو ١٢ سال تک امریکہ کی اکیڈمی آف سائنسز کے سربراہ رہے ہیں۔ اس کتاب میں وہ پہاڑوں کی وضاحت، کلہاڑی کے پھل جیسی شکل (Wedge Shape) سے کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ پہاڑ بذات خود ایک وسیع تر وجود کا ایک چھوٹا حصہ ہوتا ہے۔ جس کی جڑیں زمین میں بہت گہرائی تک اتری ہوتی ہیں۔ (ملاحظہ ہو :e arth از : پریس اور سلورڈاکٹر فرینک پریس کے مطابق، قشر ارض کی پائیداری اور قیام پذیری میں پہاڑ نہایت اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ پہاڑوں کے فائدے کی وضاحت کرتے ہوئے، قرآن پاک واضح طور پر یہ فرماتا ہے کہ انہیں اس لیے بنایا گیا ہے تاکہ یہ زمین کو لرز تے رہنے سے بچائیں : ” اور ہم نے زمین میں پہاڑ جما دیے تاکہ وہ انہیں لے کر ڈھلک نہ جائے۔“ (الانبیاء : ٣١) اسی طرح کے ارشادات سورۃ لقمان، آیت : ١٠ اور سورۃ النحل اور آیت ١٥ میں بھی وارد ہوئے ہیں۔ لہٰذا قرآن پاک کے فراہم کردہ بیانات جدید ارضیاتی معلومات سے مکمل طور پر ہم آہنگ ہیں۔ پہاڑوں کو مضبوطی سے جماد یا گیا ہے : سطح زمین متعدد ٹھوس ٹکڑوں، یعنی ” پلیٹوں“ میں بٹی ہوئی ہے جن کی اوسط موٹائی تقریباً ١٠٠ کلومیٹر ہے۔ یہ پلیٹیں، جزوی طور پر پگھلے ہوئے حصے کے اوپر گویا تیر رہی ہیں، اس حصے کو (Aesthenosphere) کہا جاتا ہے۔ پہاڑ عموماً پلیٹوں کی بیرونی حدود پر پائے جاتے ہیں۔ قشر ارض، سمندروں کے نیچے ٥ کلومیٹر موٹی ہوتی ہے، جب کہ خشکی پر اس کی اوسط موٹائی ٣٥ کلومیٹر تک ہوتی ہے البتہ پہاڑی سلسلوں میں قشر ارض کی موٹائی ٨٠ کلومیٹر تک جا پہنچتی ہے، یہی وہ مضبوط بنیادیں ہیں جن پر پہاڑ کھڑے ہیں۔ پہاڑوں میں برکات : اللہ تعالیٰ نے پہاڑوں کو صرف میخوں کے طور پر ہی نہیں بنایا بلکہ ان میں بے شمار فوائد رکھ دیے ہیں۔ پہاڑوں پر برف جمتی ہے جو اللہ کی طرف سے پانی ذخیرہ کرنے کا بہت بڑا ذریعہ ہیں۔ پہاڑوں میں چشمے جاری ہوتے ہیں۔ جو صاف، شفاف پانی کا وسیلہ ہیں۔ اکثر دریاؤں کا آغاز پہاڑوں سے ہوتا ہے۔ پہاڑوں میں بے شمار قسم کی معدنیات پائی جاتی ہیں جو زمین کی پیداوار سے ہزاروں گناقیمتی ہیں۔ پہاڑوں میں سونے کے ذخائر اور بے شمار قسم کے قیمتی پتھر بھی پائے جاتے ہیں۔ مسائل ١۔ انسان کو اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے آسمان کو کس طرح بنایا، سجایا اور اٹھایا ہے۔ ٢۔ انسان کو غور کرنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے زمین کو کس طرح پھیلایا اور اس پر پہاڑ گاڑ رکھے ہیں۔ ٣۔ انسان کو زمین اور پہاڑوں کی نباتات پر غور کرنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے کس طرح خوشنما بنا دیا ہے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ کی قدرتوں میں ہر انسان کے لیے نصیحت اور عبرت ہے بشرطیکہ وہ اس کی طرف رجوع کرنے والا اور نصیحت حاصل کرنے والا ہو۔ تفسیر بالقرآن کون لوگ نصیحت حاصل کرتے ہیں : ١۔ اللہ تعالیٰ نے آل فرعون کو مختلف عذابوں سے دو چار کیا تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں۔ (الاعراف : ١٣٠) ٢۔ صاحب عقل ودانش ہی نصیحت حاصل کرتے ہیں۔ (الزمر : ٩) (الزمر : ٢٧) (البقرۃ: ٢٢١) (آ : ٢٩) (الذاریات : ٤٩) ق
7 ق
8 ق
9 فہم القرآن ربط کلام : گل و گلزار زمین پرہوں یا پہاڑوں پر اس کی پیدائش اور افزائش کا دارومدار پانی پر ہے اور پانی کا دارومدار بارش پر ہے اس لیے بارش اور نباتات کا بیک وقت ذکر کیا گیا ہے۔ ” کیا وہ لوگ جنہوں نے انکار کیا وہ غور نہیں کرتے کہ زمین و آسمان باہم ملے ہوئے تھے ہم نے انہیں الگ الگ کیا اور ہرزندہ چیز پانی سے پیدا کی ؟ کیا پھر بھی وہ ایمان نہیں لاتے۔“ (الانبیاء : ٣٠) پانی کا دارومدار بارش پر ہے۔ اللہ نہ کرے اگر دس سال بارش نہ ہو تو زمین اور پہاڑوں کی شادابیاں ختم ہوجائیں۔ یہاں تک کہ انسان کو پینے کے لیے بھی پانی میسر نہیں آئے گا۔ کیونکہ بارش کے سوا پانی کا صرف ایک ہی ذریعہ باقی رہے جاتا ہے وہ پہاڑوں پر برف پڑنا ہے جو گرمیوں میں پگھل پگھل کرپانی کی صورت میں دریاؤں کارخ کرتی ہے۔ اگر طویل مدت تک بارش نہ ہو تو پہاڑوں کے چشمے اور زمین میں کنویں خشک ہوجاتے ہیں۔ اسی لیے آبپاشی کا قدرتی طور پر مرکزی نظام بارش ہے۔ اللہ تعالیٰ بارش کے ذریعے ہی مردہ زمین سے نباتات اگاتا ہے، جس سے لوگ اناج حاصل کرتے ہیں جو انسان، حیوانات، درندوں پرندوں اور کیڑوں مکوڑوں کی خوراک ہے۔ نباتات میں صرف کھجور کا ایک درخت ہے جو صحراء اور خشک زمین میں پانی کی قلت کے باوجود اپنی ہریالی قائم رکھتا ہے۔ کھجور کادرخت جب پھل دینے پر آتا ہے تو اس کے گابھے تہہ بہ تہہ اتنے خوبصورت لگتے ہیں کہ دل خوامخواہ ان کی طرف لپکتا ہے۔ کھجور ایک ایسا پھل ہے جس میں سب سے زیادہ غذائیت پائی جاتی ہے۔ (کھجور کے بارے میں تفصیل جاننے کے لیے فہم القرآن جلد ٢ سورۃ الانعام کی آیت ٩٩ کا مطالعہ کیجیے!) بارش اور نباتات کا حوالہ دے کر یہ ثابت کیا گیا ہے کہ جس طرح ایک مدّت کے بعد زمین سے نباتات نکلتی ہیں اسی طرح اللہ تعالیٰ قیامت کے دن لوگوں کو زمین سے نکال لے گا۔ (عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)۔۔ یُنْزِلُ اللّٰہُ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَیُنْبَتُوْ نَ کَمَآ یَنْبُتُ الْبَقْلُ قَالَ وَلَیْسَ مِنَ الْاِنْسَانِ شَیْءٌ لَا یَبْلٰی اِلَّاعَظْمًا وَاحِدًا وَّھُوَ عَجْبُ الذَّنَبِ وَمِنْہُ یُرَکَّبُ الْخَلْقُ یَوْمَ الْقِیَا مَۃِ) (متفق علیہ، رواہ مسلم : باب مَا بَیْنَ النَّفْخَتَیْنِ) ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ بارش نازل فرمائے گا۔ لوگ یوں اگیں گے جس طرح انگوری اگتی ہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا، انسان کی دمچی کے علاوہ ہر چیز بوسیدہ ہوجائے گی۔ قیامت کے دن اسی سے تمام اعضاء کو جوڑا جائے گا۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ آسمان سے بابرکت پانی نازل کرتا ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ پانی کے ذریعے باغات، کھیتیاں اور کھجوریں پیدا کرتا ہے۔ ٣۔ اللہ ہی اپنے بندوں کے رزق کا بندوبست کرتا ہے۔ ٤۔ جس طرح اللہ تعالیٰ بارش سے مردہ زمین کو زندہ کرتا ہے اسی طرح قیامت کے دن مردوں کو زمین سے زندہ کرے گا۔ تفسیر بالقرآن زمین سے مردے کس طرح نکلیں گے : ١۔ پہلے نفخہ سے لوگ بے ہوش ہوجائیں گے اور دوسرے نفخہ سے تمام لوگ اٹھ کھڑے ہوں گے۔ (الزّمر : ٦٨) ٢۔ دوسرے نفخہ کے ساتھ ہی تمام لوگ قبروں سے نکل کر اپنے رب کی طرف چل پڑیں گے۔ (یٰس : ٥١) ٣۔ ایک چیخ سے ہی تمام لوگ ہمارے سامنے حاضر ہوجائیں گے۔ (یٰس : ٥٣) ٤۔ جس دن صور پھونکا جائے گا تم گروہ در گروہ چلے آؤ گے۔ (النبا : ١٨) ٥۔ جب دوسری دفعہ صور پھونکا جائے گا تو ہم ان سب کو جمع کرلیں گے۔ (الکھف : ٩٩) ٦۔ جس دن صور پھونکا جائے گا اور ہم نیلی پیلی آنکھوں والے مجرموں کو گھیر لائیں گے۔ (طہٰ: ١٠٢) ٧۔ جس دن صورپھونکا جائے گا تو آسمان اور زمین والے سب کے سب گھبرا اٹھیں گے مگر جسے اللہ چاہے اور سارے کے سارے عاجز و پست ہو کر اس کے سامنے حاضر ہوں گے۔ (النمل : ٨٧) ق
10 ق
11 ق
12 فہم القرآن ربط کلام : اس سے پہلی آیت میں بارش کا ذکر کرنے کے بعد بتلایا ہے کہ جس طرح بارش کے بعد زمین سے بیج نکلتے ہیں۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ تمہیں قیامت کے دن زمین سے نکال لے گا اور تمہیں اپنی بارگاہ میں پیش کرے گا۔ یہ اتنی واضح حقیقت ہونے کے باوجود افراد ہی نہیں بلکہ بڑی بڑی اقوام نے قیامت کے دن کا انکار کیا جس وجہ سے ان کا دنیا میں بھی برا انجام ہوا۔ اللہ تعالیٰ نے قیامت کے دلائل دیتے ہوئے انسان کو باربار سمجھایا ہے کہ اے انسان! تو نے مرنے کے بعد ہر صورت زندہ ہو کر میری بارگاہ میں پیش ہونا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں پیش ہونا اور اپنے اعمال کا جواب دینے کا عقیدہ ہی انسان کو درست رکھتا ہے۔ جب آخرت کا عقیدہ کمزور ہوجائے تو افراد ہی نہیں بڑی بڑی اقوام بھی مجرم اور ظالم بن جاتی ہیں۔ جن اقوام نے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی اور ایک دوسرے کے لیے ظالمانہ رویہ اختیار کیا ان میں سرِفہرست قوم نوح، کنویں والے، قوم ثمود، قوم عاد، فرعون اور اس کے ساتھی، اخوان لوط اور قوم تبع ہے۔ جس وجہ سے ان پر عذاب نازل ہوا۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے انبیاء کے ذریعے کیا ہوا عذاب کا وعدہ پورا فرمایا۔ قیامت کا انکار کرنے والوں کو سوچنا چاہیے کہ کیا اللہ تعالیٰ پہلی مرتبہ پیدا کرکے تھک گیا ہے کہ وہ لوگوں کو دوبارہ پیدا نہیں کرسکتا؟ ظاہر بات ہے کہ جب انسان کوئی چیز پہلی مرتبہ بناتا ہے تو اس کے لیے اسے بنانا آسان ہوتا ہے غور کریں کہ خالقِ کائنات کے لیے لوگوں کو دوبارہ پیدا کرنا کس طرح مشکل ہوگا؟ جس بنا پر لوگ قیامت کے دن زندہ ہونے کا انکار کرتے ہیں۔ جو لوگ قیامت کے دن زندہ ہونے کا انکار کرتے ہیں وہ شک میں مبتلا ہیں ان کے پاس شک کے سوا کوئی دلیل نہیں۔ (قُلْ کُوْنُوْا حِجَارَۃً اَوْ حَدِیْدًا) (بنی اسرائیل : ٥٠) ” فرما دیں کہ تم پتھر بن جاؤ یا لوہا۔“ علامہ طبری (رض) فرماتے ہیں کہ کنویں والوں سے مراد اصحاب الاخدود ہیں جن کا ذکر سورۃ بروج میں ہوا ہے۔ (ابن کثیر، شوکانی) تبع سے مراد یمن کی قوم سبا ہے جن کی تباہی کا منظر سورۃ سبا میں گزر چکا ہے۔ اور اصحاب الایکہ سے مراد حضرت شعیب (علیہ السلام) کی قوم ہے جن کو مدین والے بھی کہا گیا ہے۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو پہلی مرتبہ پیدا کیا ہے اور وہی دوسری مرتبہ پیدا کرے گا۔ ٢۔ قیامت کا انکار کرنے والوں کے پاس کوئی ٹھوس دلیل نہیں ہے۔ ٣۔ قیامت کا انکار کرنے والے صرف شک کی بنیاد پر انکار کرتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن اقوام کی تباہی کا ایک منظر : ١۔ اللہ تعالیٰ نے بہت سی اقوام کو تباہ کیا۔ (الانعام : ٦) ٢۔ تم سے پہلے لوگوں نے ظلم کیا تو ہم نے ان کو تباہ کردیا۔ (یونس : ١٣) ٣۔ قوم نوح طوفان کے ذریعے ہلاک ہوئی۔ (الاعراف : ١٣٦) ٤۔ ثمود زوردار آواز کے ساتھ ہلاک کیے گئے۔ (الحاقہ : ٥) ٥۔ عاد زبر دست آندھی کے ذریعے ہلاک ہوئے۔ (الحاقہ : ٦) ٦۔ آل فرعون کو سمند میں ڈبو دیا گیا۔ (ٍیونس : ٩٠) ٧۔ قوم لوط کی بستی کو الٹ کر ان پر پتھروں کی بارش برسائی گئی۔ (الحجر : ٧٤) ٨۔ ہم نے اوپر والی سطح کو نیچے کردیا اور ہم نے ان پر پتھروں کی بارش برسا دی جو تہہ بہ تہہ تھے خاص نشان لگے ہوئے۔ (ھود : ٨٢) ٩۔ قوم لوط کو ایک سخت آواز نے پکڑ لیا۔ (الحجر : ٧٣) ١٠۔ ہم نے قوم لوط پر پتھروں کی بارش نازل کی دیکھیے مجرموں کا انجام کیسے ہوا۔ (الاعراف : ٨٤) ق
13 ق
14 ق
15 ق
16 فہم القرآن ربط کلام : قیامت کے انکار کے پیچھے منکرین قیامت کا ایک تصور یہ بھی ہے کہ اس طرح ہمارے گناہ چھپ جائیں گے انہیں یہ بات باور کروائی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں ہوتی۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیدا فرمایا ہے اور وہ جانتا ہے جو کچھ انسان کے دل میں خیالات ابھرتے اور جذبات پائے جاتے ہیں اور وہ انسان کی شہ رگ سے بھی اس کے زیادہ قریب ہے۔ انسان جو کام کرتا ہے اس کے دائیں بائیں ساتھ رہنے والے فرشتے اس کی ہر بات اور کام کو ضبط تحریر میں لائے جاتے ہیں۔ انسان کی زبان سے کوئی لفظ نہیں نکلتا مگر اسے لکھنے والا ہر وقت موجود ہوتا ہے جو اسے رات دن تحریر کرتارہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے خالق، نگران اور انسان کی شہ رگ سے قریب تر ہونے کا تذکرہ کرتے ہوئے اپنے لیے تین مرتبہ جمع کی ضمیر استعمال فرمائی ہے۔ جمع کی ضمیر میں ایک رعب اور دبدبہ پایا جاتا ہے جس میں انسان کو بار بار احساس دلایا گیا ہے کہ ہم نے تجھے پیدا کیا ہے، ہم تیرے دل کے احساسات اور جذبات کو جانتے ہیں اور ہم تیری شہ رگ سے بھی زیادہ تیرے قریب ہیں اور جو کچھ بھی تو کرتا ہے ہمارے ملائکہ اسے لکھتے جارہے ہیں۔ جسے قیامت کے دن مَن وعن تیرے سامنے رکھ دیا جائے گا۔ انسان کو اس بات کا جتنا احساس اور خیال رہے گا اتنا ہی انسان اپنے رب کے تابع فرمان رہے گا۔ یہ خیال اور عقیدہ جتنا کمزور ہوگا اتنا ہی انسان اپنے رب کا نافرمان اور باغی ہوتا جائے گا۔ جہاں تک اللہ تعالیٰ کے انسان کے قریب ہونے کا تعلق ہے وہ اپنے علم، اختیار اور اقتدار کے اعتبار سے انسان کی شہ رگ سے زیادہ اس کے قریب ہے لیکن اپنی ذات کے اعتبار سے وہ عرش معلی پر جلوہ افروز ہے جس طرح اس کی ذات کو لائق ہے۔ (البقرۃ: ٢٩، طہٰ: ٥) (عَنْ اَبِیْ ھُرَےْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ےَتَعَاقَبُوْنَ فِےْکُمْ مَلَآءِکَۃٌ باللَّےْلِ وَمَلَآءِکَۃٌ بالنَّھَارِ وَےَجْتَمِعُوْنَ فِیْ صَلٰوۃِ الْفَجْرِ وَصَلٰوۃِ الْعَصْرِ ثُمَّ ےَعْرُجُ الَّذِےْنَ بَاتُوْا فِےْکُمْ فَےَسْأَلُھُمْ رَبُّھُمْ وَھُوَ اَعْلَمُ بِھِمْ کَےْفَ تَرَکْتُمْ عِبَادِیْ فَےَقُوْلُوْنَ تَرَکْنٰھُمْ وَھُمْ ےُصَلُّوْنَ وَاٰتَےْنٰھُمْ وَھُمْ ےُصَلُّوْنَ) (رواہ البخاری : کتاب مواقیت الصلاۃ، باب فَضْلِ صَلاَۃِ الْعَصْر) ” حضرت ابو ہریرۃ (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تمہارے پاس رات اور دن کو آگے پیچھے فرشتے آتے ہیں۔ وہ فجر اور عصر کی نماز میں جمع ہوتے ہیں۔ رات والے فرشتے چلے جاتے ہیں تو ان سے پروردگار سوال کرتا ہے کہ تم نے میرے بندوں کو کس حال میں چھوڑا۔ فرشتے جواب دیتے ہیں کہ جب ہم ان کے پاس پہنچے تو وہ نماز ادا کررہے تھے اور جب ہم ان سے واپس آئے تو وہ نماز ہی کی حالت میں تھے۔“ ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ آدم نے موسیٰ (علیہ السلام) سے جھگڑا کیا تھا موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا کہ تو وہی آدم (علیہ السلام) ہے۔ جس نے اپنی اولاد کو جنت سے نکلوا دیا تھا۔ آدم (علیہ السلام) نے فرمایا : تو وہی موسیٰ (علیہ السلام) ہے جسے اللہ نے اپنی رسالت اور کلام کے لیے چن لیا۔ پھر مجھے اس معاملے میں ملامت کر رہا ہے جو میری پیدائش سے پہلے لکھا جا چکا تھا۔۔“ (صحیح بخاری : کتاب بدء الوحی) ” حَبْلِ الْوَرِیْدِ“ کا معنٰی ہے گردن کی رگ۔ مسائل ١۔ ” اللہ“ ہی نے انسان کو پیدا کیا ہے اور وہی اس کے دل کے خیالات کو جانتا ہے اور وہ اس کی شہ رگ سے زیادہ قریب ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کے دائیں بائیں دو فرشتے مقرر رکھے ہیں جن کا نام کراماً کاتبین ہے۔ ٣۔ کراماً کاتبین انسان کی ہر بات اور کام کو لکھتے جاتے ہیں۔ ٤۔ ملائکہ انسان کی ہر وقت نگرانی اور حفاظت کرتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ اپنے اقتدار اور اختیار کے اعتبار سے ہر وقت انسان کے ساتھ ہوتا ہے : ١۔ انسان جہاں کہیں بھی ہو اس کی ہر حرکت اللہ تعالیٰ کے علم میں ہوتی ہے۔ (الحدید : ٤۔ التوبہ : ٤٠) ٢۔ اللہ تعالیٰ انسان کی شاہ رگ سے زیادہ قریب ہے۔ (ق : ١٦، الواقعہ : ٨٥) ٣۔ انسان جدھر بھی رخ کرے اللہ تعالیٰ کی توجہ اس کی طرف ہوتی ہے۔ (البقرۃ: ١١٥) ٥۔ آدمی تین ہوں تو چوتھا ” اللہ“ ہوتا ہے پانچ ہوں تو چھٹا ” اللہ“ ہوتا ہے اس سے زیادہ ہوں یا کم وہ ہر وقت آدمی کے ساتھ ہوتا ہے۔ (المجادلہ : ٧) ق
17 ق
18 ق
19 فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ نے اپنی قربت اور قدرت کا ذکر فرما کر انسان کو نیک بنانے کی کوشش فرمائی ہے مگر اکثر انسان اپنے رب کے تابعدار بننے کے لیے تیار نہیں ہوتے یہاں تک کہ موت انہیں آلیتی ہے۔ موت برحق ہے جو نہ نیک کو چھوڑتی ہے اور نہ برے آدمی سے ٹلتی ہے۔ ہر انسان کو موت کے وقت اپنے کیے کا احساس ہوتا ہے۔ انسان جب اپنی موت کو اپنے سامنے دیکھتا ہے تو پھر اسے یقین ہوجاتا ہے کہ اب میرا بچنا محال ہے۔ اس وقت دل ہی دل میں آرزو کرتا ہے کہ کاش مجھے مہلت مل جائے اور میں اللہ کی راہ میں صدقہ دے کر اپنے آپ کو بچا سکوں۔ لیکن جب موت وارد ہوتی ہے تو وہ کسی کو ایک لمحہ بھی مہلت نہیں دیتی۔ اللہ تعالیٰ پوری طرح باخبر ہے جو کچھ لوگ کرتے ہیں۔ (المنافقون : ١٠، ١١) انسان موت سے کلیتاً ختم نہیں ہوجاتا بلکہ یہ عالم برزخ میں داخل ہوجاتا ہے۔ برزخ کو برزخ اس لیے کہا جاتا ہے کہ وہ دنیا اور آخرت کے درمیان ایک پردہ ہے۔ قیامت کے دن جب دوسری مرتبہ صور پھونکا جائے گا توانسان کی آنکھوں سے برزخ کا پردہ اٹھ جائے گا اور اسے یقین ہوجائے گا کہ آج کا دن وہ دن ہے جس کے بارے میں مجھے بار بار تنبیہ کی جاتی تھی۔ لوگوں کو محشر کے میدان میں اکٹھا کیا جائے گا اور ملائکہ ہر کسی کو اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کریں گے۔ ان میں سے ایک فرشتہ انسان کو پیچھے سے ہانک رہا ہوگا اور دوسرا اس کا اعمال نامہ لیے ہوئے اسے اللہ کے حضور پیش کرے گا۔ گویا کہ مجرم بھی حاضر ہوگا اور اس کاریکارڈ بھی پیش کیا جائے گا۔ ملائکہ مجرم اور اس کے اعمال پیش کرنے کے ساتھ ہی انسان کے اعمال نامے کی گواہی دیں گے کہ یہ اعمال نامہ اسی مجرم کا ہے اور جو کچھ ہم نے لکھا ہے اس کا ایک ایک لفظ حقیقت پر مبنی ہے۔ اس دن انسان کی آنکھوں سے غفلت کا پردہ اٹھادیا جائے گا تو رب ذوالجلال ارشاد فرمائیں گے کہ آج ہم نے تیرے سامنے سے پردہ اٹھا دیا ہے اور تیری نگاہ بھی پہلے سے زیادہ تیز ہوچکی ہے۔ جس صور کا یہاں ذکر کیا جا رہا ہے اس سے مراد وہ صور ہے جو دوسری دفعہ پھونکا جائے گا۔ پہلے صور سے ہر چیز فنا ہوجائے گی اور دوسری دفعہ صور پھونکنے سے قیامت برپا ہوجائے گی اور ہر کوئی اپنی قبر سے نکل کر محشر کے میدان میں جمع ہوگا جس کی تفصیل حدیث میں موجود ہے۔ اس وقت ہر انسان کو ایک فرشتہ ہانک رہا ہوگا اور دوسرا اس کے اعمال نامے کو لیے ہوئے اسے رب ذوالجلال کے حضور پیش کرے گا۔ نگاہ تیز ہونے سے مراد یہ ہے کہ دنیا میں انسان کی آنکھوں کے سامنے ایک پردہ حائل ہے جس سے نہ وہ قبر کا منظر دیکھ سکتا اور نہ اس کے سامنے حشر کا انجام ہوتا ہے۔ لیکن جونہی انسان کو موت آتی ہے تو اس کے سامنے عالم برزخ کا منظر آجاتا ہے۔ قیامت کے دن اس کے سامنے ہر چیز آشکارا ہوجائے گی اور وہ کھلی اور تیز آنکھوں کے ساتھ اسے دیکھے گا۔ (عَنْ عَدِیِّ بْنِ حَاتِمٍ (رض) قَالَ قَال النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَا مِنْکُمْ مِنْ أَحَدٍ إِلَّا وَسَیُکَلِّمُہُ اللّٰہُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ لَیْسَ بَیْنَ اللّٰہِ وَبَیْنَہٗ تُرْجُمَانٌ ثُمَّ یَنْظُرُ فَلَا یَرٰی شَیْءًا قُدَّامَہُ ثُمَّ یَنْظُرُ بَیْنَ یَدَیْہِ فَتَسْتَقْبِلُہُ النَّارُ فَمَنْ اسْتَطَاعَ مِنْکُمْ أَنْ یَتَّقِیَ النَّارَ وَلَوْ بِشِقِّ تَمْرَۃٍٍ۔۔ فَمَنْ لَّمْ یَجِدْ فَبِکَلِمَۃٍ طَیِّبَۃٍ) (رواہ البخاری : باب کلام الرب عزوجل یوم القیامۃ مع الأنبیاء وغیرھم) ” حضرت عدی بن حاتم (رض) بیان کرتے ہیں نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تم میں سے ہر کسی کے ساتھ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کلام کریں گے، اللہ اور بندے کے درمیان کوئی ترجمان نہیں ہوگا، پھر وہ دیکھے گا اس نے کیا عمل کیے ہیں، انسان دیکھے گا تو اس کے سامنے آگ ہوگی جو تم سے آگ سے بچنے کی استطاعت رکھتا ہے کوشش کرے۔ چاہے کھجور کے ایک ٹکڑے کے ساتھ۔۔ اگر وہ یہ نہ پائے تو اسے چاہیے کہ وہ اچھی بات کہے۔“ بعض لوگ اپنی بینائی کو تیز کرنے کے لیے آیت ٢٢ کو پڑھ کر اپنی آنکھوں پر دم کرتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ قرآن مجید میں شفاء ہے لیکن غور فرمائیں کہ یہ الفاظ کن لوگوں کو کہے جائیں گے اور ان میں کس قدر انتباہ پایا جاتا ہے۔ افسوس ! ہم نے عبرت حاصل کرنے کی بجائے اسے دم بنا لیا ہے۔ کیا بہتر نہیں کہ اپنے وجود کی سلامتی کے لیے وہ دم کریں جو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے لیے پسند فرمایا ہے۔ (عَنْ عَاءِشَۃَ (رض) قَالَتْ کَانَ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَقُول اللّٰہُمَّ عَافِنِی فِی جَسَدِی وَعَافِنِی فِی بَصَرِی وَاجْعَلْہُ الْوَارِثَ مِنِّی لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ الْحَلِیمُ الْکَرِیمُ سُبْحَان اللّٰہِ رَبِّ الْعَرْشِ الْعَظِیمِ وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِینَ) (رواہ الترمذی : کتاب الدعوات عن رسول اللہ، باب ماجاء فی جامع الدعوات عن النبی، قال البانی ہذا حدیث صحیح) ” حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دعا کیا کرتے تھے اے اللہ ! میرے جسم کو عافیت دے اور میری بصارت کو بھی عافیت دے اور میری طرف سے اس کو وارث بنا دے۔ اللہ کے علاوہ کوئی الٰہ نہیں جو حلیم اور عزت والا ہے، اللہ پاک ہے اور بہت بڑے عرش کا رب ہے۔ تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جو تمام جہانوں کا رب ہے۔“ ” وَعِیْدٌ“ کا معنٰی ہے دھمکی دینا کسی کو برے انجام سے ڈرانا۔ (المنجد) مسائل ١۔ اسرافیل کے دوسرا صور پھونکنے پر ہر انسان اٹھ کھڑا ہوگا اور اسے یقین ہوجائے گا کہ یہی قیامت کا دن ہے۔ ٢۔ قیامت کے دن انسان کو ایک فرشتہ پیچھے سے ہانک رہا ہوگا، دوسرا اس کا اعمال نامہ پیش کرے گا۔ ٣۔ قیامت کے دن انسان کی غفلت کا پردہ چاک ہوجائے گا اور ہر کوئی اپنا انجام کھلی آنکھوں کے ساتھ دیکھے گا۔ تفسیر بالقرآن پہلا اور دوسرا صورپھونکنے کے بعد کا منظر : ١۔ پہلے نفخہ سے لوگ بے ہوش ہوجائیں گے اور دوسرے نفخہ سے تمام لوگ اٹھ کھڑے ہوں گے۔ (الزّمر : ٦٢) ٢۔ دوسرے نفخہ کے ساتھ ہی تمام لوگ قبروں سے نکل کر اپنے رب کی طرف چل پڑیں گے۔ (یٰس : ٥١) ٣۔ ایک چیخ سے ہی تمام لوگ ہمارے سامنے حاضر ہوجائیں گے۔ (یٰس : ٥٣) ٤۔ جس دن صور پھونکا جائے گا تم گروہ در گروہ چلے آؤ گے۔ (النبا : ١٨) ٥۔ جب دوسری دفعہ صور پھونکا جائے گا تو ہم ان سب کو جمع کرلیں گے۔ (الکھف : ٩٩) ٦۔ جس دن صور پھونکا جائے گا تو ہم نیلی پیلی آنکھوں والے مجرموں کو گھیر لائیں گے۔ (طہٰ: ١٠٢) ٧۔ جس دن صورپھونکا جائے گا تو آسمانوں اور زمین والے سب کے سب گھبرا اٹھیں گے مگر جسے اللہ چاہے اور سارے کے سارے عاجز و پست ہو کر اس کے سامنے حاضر ہوں گے۔ (النمل : ٧٨) ق
20 ق
21 ق
22 ق
23 ق
24 فہم القرآن ربط کلام : جو شخص تابعدار نہ بنا اور اس نے اللہ تعالیٰ کے فرامین اور اس کی قدرت کی نشانیوں کو بصیرت کی آنکھ سے نہ دیکھا اور اپنے اعمال کی درستگی نہ کی اسے جہنم میں دھکیل دیا جائے گا۔ قیامت کے دن رب ذوالجلال کے حضور ہر شخص کو اس کے اعمال نامے کے ساتھ پیش کیا جائے گا۔ مجرم اپنے اعمال نامے کا انکار کریں گے اس پر گواہ پیش کیے جائیں گے۔ یہاں تک کہ انبیائے کرام (علیہ السلام) بھی اپنی امتوں کے بارے میں گواہی دیں گے لیکن مجرم نہ صرف اپنے اعمال نامے کا انکار کریں گے بلکہ انبیائے کرام (علیہ السلام) کی گواہی کو بھی مسترد کردیں گے۔ جس پر حکم ہوگا کہ ان کے مونہوں پر مہریں ثبت کردی جائیں۔ اس کے بعد ان کے اعضاء کو بولنے کا حکم ہوگا۔ (یٰس : ٦٥) مجرموں کے اعضاء اللہ کے حضور ان کے خلاف گو اہی دیں گے۔ (حمٓ السجدۃ: ٢٠ تا ٢٢) تب حکم ہوگا کہ ہر ناشکرے اور نافرمان کو جہنم میں پھینک دیاجائے۔ جو مال میں بخل کرنے والا، حد سے بڑھنے والا اور قیامت کے بارے میں شک میں پڑنے والا تھا۔ اس نے اللہ کے ساتھ اور بھی معبود بنا لیے تھے۔ ان جرائم کی وجہ سے انہیں شدید عذاب میں ڈال دیا جائے گا۔ اس مقام پر جہنمیوں کے چھ جرائم کا ذکر کیا گیا ہے۔ ١۔ کَفَّار : اس شخص کو کہتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی ناشکری کرے۔ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں سب سے بڑی نعمت دین کی سمجھ ہے۔ دین کی بنیاد توحید پر قائم ہے۔ جو شخص صحیح معنوں میں توحید کو تسلیم نہیں کرتا وہ پرلے درجے کا ناشکرا ہے، اس کی سزا جہنم ہوگی۔ ٢۔ عَنِیْد ” نافرمان“: اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کے احکام کا انکار کرنے والا شخص نافرمان ہوتا ہے۔ ہر نافرمان کو جہنم میں داخل کیا جائے گا۔ ٣۔ مَنَّاعٍ لِّلْخَیْرِ: خیر سے مراد مال ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مال داروں پر غریبوں کے کچھ حقوق رکھے ہیں، جو مال دار غریبوں کا حق بالخصوص زکوٰۃ ادا نہیں کرتا وہ بھی جہنم میں داخل کیا جائے گا۔ ٤۔ مُعْتَدٍ: ” مُعْتَدٍ“ کا معنٰی ہے ظلم کرنے والا، حق چھپانے والا اور حد سے بڑھ جانے والا۔ (المنجد) اللہ تعالیٰ نے انسان کو زندگی گزارنے کے لیے کچھ حدود و قیود کا پابند کیا ہے۔ جو شخص ان حدود و قیود کی پرواہ نہیں کرتا وہ اللہ تعالیٰ کی حدود توڑنے اور پھلانگنے والا ہے۔ جو بھی اللہ تعالیٰ کی حدود توڑے گا وہ جہنم میں داخل کیا جائے گا۔ ظلم سے مراد شرک بھی ہے اور عام زیادتی بھی۔ ٥۔ مُرِیْبٍ: ” مُرِیْبٍ“ کا معنٰی ہے شک کرنے والا، بدگمانی کرنے والا، تہمت لگانے والا، شک میں ڈالنے والا۔ ( المنجد) جو دین کے بارے میں شک کرنے والا ہوگا اسے بھی جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔ ٦۔ اللہ کے ساتھ شرک کرنا : جو شخص اللہ کی ذات، اس کی صفات اور اس کے حکم میں دوسروں کو شریک کرتا ہے وہ مشرک ہوتا ہے۔ اگر شرک کرنے والا توبہ کیے بغیر مرجائے تو وہ ہمیشہ ہمیش کے لیے شدید ترین عذاب میں ڈالا جائے گا۔ مسائل ١۔ جس شخص میں مندرجہ بالا جرائم ہوں گے وہ جہنم کے شدید ترین عذاب میں مبتلا کیا جائے گا۔ تفسیر بالقرآن جہنم میں داخل ہونے والوں کے بڑے بڑے جرائم : ١۔ وہ لوگ جو ہماری آیات کے ساتھ کفر کرتے ہیں اور ان کی تکذیب کرتے ہیں وہ ہمیشہ جہنم میں رہیں گے۔ (البقرۃ: ٣٩) ٢۔ تکبر کرنے والے جہنم میں جائیں گے۔ (المؤمن : ٧٦) ٣۔ منافق ہمیشہ جہنم میں رہیں گے اور ان پر اللہ تعالیٰ کی لعنت و پھٹکار پڑتی رہے گی۔ (التوبہ : ٦٨) ٤۔ جو شخص اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرتا ہے وہ دور کی گمراہی میں مبتلا ہوگیا۔ (النساء : ١١٦) ٥۔ اللہ کے ساتھ کوئی دوسرا لٰہ نہ بنانا وگرنہ دھتکار کر جہنم میں داخل کردیا جائے گا۔ (بنی اسرائیل : ٣٩) ق
25 ق
26 ق
27 فہم القرآن ربط کلام : جہنمی کو جہنم میں داخل ہونے کا حکم ہونے کے ساتھ ہی اس کا ساتھی اس سے برأت کا اعلان کردے گا۔ جونہی جہنمی کو جہنم میں داخل ہونے کا حکم ہوگا تو خوف کے مارے اس کا ساتھی پکار اٹھے گا کہ اے ہمارے رب! میں نے اسے گمراہ نہیں کیا بلکہ یہ خود ہی صراط مستقیم سے بھٹک گیا تھا۔ اس کے جواب میں رب ذوالجلال فرمائے گا کہ میرے حضور بحث نہ کرو کیونکہ میں نے پہلے ہی تمہیں جہنم کے بارے میں انتباہ کردیا تھا۔ اب جہنم میں داخل ہوجاؤ اور یاد رکھو! کہ میرا فرمان تبدیل نہیں ہوتا اور نہ ہی میں اپنے بندوں پرزیاتی کرنے والا ہوں۔ جہنمی کے ساتھی سے مراد اس کے برے ساتھی اور رشتہ دار ہیں جن میں سب سے برا ساتھی شیطان ہے جو انسان کو صراط مستقیم سے بھٹکا دینا ہے اور اسی کی وجہ سے انسان برے دوستوں اور رشتہ داروں کے ساتھ خوش رہتا ہے۔ قیامت کے دن شیطان ہر مجرم سے یہ بات کہہ کرمنہ پھیرلے گا کہ بے شک اللہ نے تم سے جو وعدہ کیا تھا وہ سچ ثابت ہوا اور میں نے جو تم سے وعدہ کیا اس کی میں نے خلاف ورزی کی اور میرا تم پر کوئی زور نہ تھا، سوائے اس کے کہ میں نے تم کو کسی چیز کی طرف بلایا اور تم نے میرا کہنا مان لیا، اب مجھے ملامت نہ کرو، بلکہ اپنے آپ کو ملامت کرو، نہ میں تمہاری مدد کرسکتا ہوں اور نہ تم میری فریاد رسی کرنے والے ہو، یقیناً میں اس کا انکار کرتا ہوں جو تم نے مجھے شریک بنایا۔ یقیناً جو لوگ ظالم ہیں ان کے لیے درد ناک عذاب ہے۔“ (ابراہیم : ٢٢) دوسری طرف جہنمی اپنے ہاتھوں کو کاٹتے اور روتے ہوئے کہے گا کہ ہائے کاش! کہ میں رسول کاراستہ چھوڑ کر فلاں کو اپنا دوست نہ بناتا۔ اس نے مجھے اللہ کی نصیحت بھلادی۔ (الفرقان : ٢٨، ٢٩) شیطان کی برأت اور مجرم کے اعتراف کے باوجود اسے جہنم میں جانے کا حکم ہوگا اور ساتھ ہی اللہ تعالیٰ ارشاد فرمائے گا کہ میں اپنے بندوں پر زیادتی نہیں کرتا۔ بندے اپنے آپ پر زیادتی کرتے ہیں۔ لوگوں کے برے اعمال کی وجہ سے اللہ تعالیٰ گروہ در گروہ مجرموں کو جہنم میں داخل کرے گا۔ اسی طرح کئی ارب کھرب انسان جہنم میں داخل ہوں گے۔ با لآخر جہنم سے اللہ تعالیٰ استفسار فرمائے گا کیا تو بھر گئی ہے اور تیری اشتہاپوری ہوچکی ہے ؟ جواب میں جہنم بلبلا کر کہے گی کہ میرے رب! ابھی میرا پیٹ نہیں بھرا اس لیے اور مجرموں کو مجھ میں داخل کیا جائے۔ اس پر جہنم میں اللہ تعالیٰ اپنا قدم مبارک رکھیں گے جس سے جہنم کی کی مزید چاہت ختم ہوجائے گی۔ (عَنْ اَنَسٍ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ لَا تَزَالُ جَھَنَّمُ یُلْقٰی فِیْھاَ وَتَقُوْلُ ھَلْ مِنْ مَّزِیْدٍ حَتّٰی یَضَعَ رَبُّ الْعِزَّۃِ فِیْھَا قَدَمَہٗ فَیَنْزَوِیْ بَعْضُھَا اِلٰی بَعْضٍ فَتَقُوْلُ قَطْ قَطْ بِعِزَّتِکَ وَکَرَمِکَ وَلَا یَزَالُ فِیْ الْجَنَّۃِ فَضْلٌ حَتّٰی یُنْشِئَ اللّٰہُ لَھَا خَلْقًا فَیُسْکِنُھُمْ فَضْلَ الْجَنَّۃِ) (رواہ مسلم : کتاب الجنۃ وصفۃ نعیمھا وأھلھا، باب النار لایدخلھا الا الجبارون) ” حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جہنم میں مسلسل لوگوں کو ڈالا جاتا رہے گا اور جہنم یہکہتی رہے گی کہ کیا کچھ اور بھی ہے؟ بالآخر اللہ تعالیٰ اپنا قدم جہنم میں رکھیں گے تو جہنم کا ایک حصہ دوسرے سے مل جائے گا۔ جہنم کہے گی تیری عزت اور تیرے کرم کی قسم! بس!۔ بس! اس کے مقابلے میں جنت میں ہمیشہ وسعت اور فراخی ہوتی رہے گی حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ جنت کے لیے نئی مخلوق پیدا فرمائیں گے جنہیں جنت کے وسیع علاقے میں آباد کیا جائے گا۔“ مسائل ١۔ جہنم کا حکم سنتے ہی شیطان اپنی برأت کا اظہار کرے گا۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو جہنم کے عذاب سے بار بار متنبہ کردیا ہے۔ ٣۔ رب ذوالجلال کے حضور کسی کو بحث وتکرار کرنے کی اجازت نہیں ہوگی۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ کسی پر ظلم نہیں کرتا : ١۔ ” اللہ“ اپنے بندوں پر ظلم نہیں کرتا لیکن لوگ خود اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں۔ (التوبہ : ٧٠) (العنکبوت : ٤٠) (الروم : ٩) ٢۔ قیامت کے دن لوگ اپنے اعمال کو اپنے روبرو پائیں گے اور تیرا رب کسی پر ظلم نہیں کرے گا۔ (الکھف : ٤٩) ٣۔ قیامت کے دن انصاف کا ترازو قائم کیا جائیگا اور کسی پر کچھ ظلم نہیں ہوگا۔ (الانبیاء : ٤٧) ٤۔ آج کے دن کسی پر ظلم نہیں کیا جائیگا اور ہر کسی کو اس کے اعمال کا بدلہ دیا جائیگا۔ (یٰس : ٥٤) (حٰم السجدۃ: ٤٦) ق
28 ق
29 ق
30 ق
31 فہم القرآن ربط کلام : جہنم کے ذکر اور جہنمیوں کے انجام کے بعد جنت اور اس کے مہمانوں کا ذکر۔ قرآن مجید اپنے بہترین اسلوب کے مطابق یہاں بھی جہنم کے بعد جنت کا تذکرہ کرتا ہے۔ ایک طرف جہنمی جہنم میں جھونکے جارہے ہوں گے اور دوسری طرف رب کریم جنت کو جنتیوں کے قریب تر کردے گا۔ جنتی جنت کو دیکھتے اور اس کی خوشبو پاتے ہی خوش ہوجائیں گے۔ جونہی ان کے چہروں پر مسکراہٹیں نمایاں ہوں گی تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اعلان ہوگا یہی وہ جنت ہے جس کا تم سے وعدہ کیا گیا تھا۔ جسے ” اللہ“ کی طرف رجوع کرنے والے اور گناہوں سے بچنے والے کے لیے تیار کیا گیا ہے۔ جنت ایسے شخص کے لیے ہے جو بِن دیکھے رب رحمٰن سے ڈرتا ہے اور خلوص دل کے ساتھ اپنے رب کی طرف رجوع کرنے والا ہے۔ اسے ارشاد ہوگا کہ سلامتی کے ساتھ ہمیشہ کے لیے جنت میں داخل ہوجاؤ۔ جنتی جنت میں جو چاہیں گے وہی پائیں گے اور ہماری طرف سے مزید بھی بہت کچھ دیا جائے گا۔ اس فرمان میں جنت میں جانے والے کے چار اوصاف کا ذکر کیا گیا ہے۔ ١۔ اَوَّابٌ: عُسریُسر، غم اور خوشی، صحت اور تندرستی میں اپنے رب کی طرف عملاً رجوع کرنے والا ہوتا ہے۔ ٢۔ حَفِیْظٌ: ہرحال میں اپنے رب کی حدود و قیود کی حفاظت کرتا ہے۔ ٣۔ بِن دیکھے اپنے رب سے ڈرنے والا ہوتا ہے : ایمان کی بنیاد غائب پر قائم ہے جس میں اللہ، ملائکہ اور آخرت پر ایمان لانا لازم ہے۔ ایمانیات کی بنیاد ” اللہ“ کی ذات اور اس کا حکم ہے۔ اس لیے ارشاد فرمایا ہے کہ وہ شخص جنت میں جائے گا جو بِن دیکھے الرحمن سے ڈرتا ہے۔ یہاں رب تعالیٰ نے اپنا ذاتی نام ” اللہ“ لینے کی بجائے صفاتی نام الرحمن لیا ہے۔ جس میں بالخصوص دوباتیں واضح کی گئی ہیں۔ پہلی بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر مہربان ہے اور اس کی مہربانی سے ہی نیک لوگ جنت میں جائیں گے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اللہ کا نیک بندہ وہ ہے جو اپنے رب کو الرحمن سمجھتا ہے۔ مگر اس کے با وجود اس سے ڈرتارہتا ہے۔ الرحمن کی مہربانی کا عقیدہ اسے بے عملی کی طرف نہیں لے جاتا۔ (عَنْ جَابِرٍ (رض) قَالَ سَمِعْتُ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَقُولُ لاَ یُدْخِلُ أَحَدًا مِنْکُمْ عَمَلُہُ الْجَنَّۃَ وَلاَ یُجِیرُہُ مِنَ النَّارِ وَلاَ أَنَا إِلاَّ بِرَحْمَۃٍ مِنَ اللَّہِ) ( رواہ مسلم : باب لَنْ یَدْخُلَ أَحَدٌ الْجَنَّۃَ بِعَمَلِہِ بَلْ بِرَحْمَۃِ اللَّہِ تَعَالَی) ” حضرت جابر (رض) کہتے ہیں میں نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سناکہ آپ فرما رہے تھے کہ میرے اور کسی آدمی کے عمل اس کو جنت میں نہیں لے جا سکتے اور نہ ہی جہنم سے بچا سکتے مگر اللہ کی رحمت کے ساتھ۔“ ٤۔ قَلْبِ سَلِیْم : ایسا دل جو ہر حال میں اپنے رب کی طرف رجوع کرنے والا ہے۔ جنتی کی پہلی صفت اَوَّاب بیان کی گئی ہے جس کا معنٰی عملاً اپنے رب کی طرف رجوع کرنے والا۔ ” قَلْبٍ مُّنِیْب“ کا معنٰی ہے دل کی اتھاہ گہرائیوں سے اپنے رب کی طرف متوجہ ہونے والا۔ جو شخص اوّاب بھی ہو اور ” قَلْبٍ مُّنِیْب“ بھی رکھتاہو وہ ہمیشہ کے لیے جنت میں سلامتی کے ساتھ داخل کیا جائے گا۔ ایک مفسر کے بقول وہ شخص جنت میں داخل ہوگا جو آنکھوں سے جمال غیر اور دل کو خیال غیر سے پاک رکھے گا۔ 1۔ اُدْخُلُوْہَا بِسَلٰمٍ: جنتی کو اس کی موت کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ کی طرف سے سلامتی حاصل ہوجاتی ہے اور موت کے وقت ہی ملائکہ اسے سلام کہتے ہیں۔ 2۔ جنتی جنت سے نکالے جانے کے خوف سے سلامت رہے گا۔ اس لیے قرآن مجید نے بار بار ” یَوْمُ الْخُلُوٖد“ اور خالِدِیْنَ فِیْھَا اَبَداً کے الفاظ استعمال فرمائے ہیں۔3۔ جنت کی نعمتیں نہ ختم ہوں گی اور نہ ہی کم کی جائیں گی۔4۔ اللہ تعالیٰ جنتیوں پر ناراض ہونے کی بجائے ہمیشہ ہمیش خوش ہوگا۔ جنتی جو چاہیں گے سو پائیں گے : ( عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ بُرَیْدَۃَ عَنْ أَبِیہِ أَنَّ رَجُلاً سَأَلَ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَقَالَ یَا رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہَلْ فِی الْجَنَّۃِ مِنْ خَیْلٍ قَالَ إِنِ اللَّہُ أَدْخَلَکَ الْجَنَّۃَ فَلاَ تَشَاءُ أَنْ تُحْمَلَ فیہَا عَلَی فَرَسٍ مِنْ یَاقُوتَۃٍ حَمْرَاءَ یَطِیرُ بِکَ فِی الْجَنَّۃِ حَیْثُ شِءْتَ إِلاَّ فَعَلْتَ قَالَ وَسَأَلَہُ رَجُلٌ فَقَالَ یَا رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہَلْ فِی الْجَنَّۃِ مِنْ إِبِلٍ قَالَ فَلَمْ یَقُلْ لَہُ مِثْلَ مَا قَالَ لِصَاحِبِہِ قَالَ إِنْ یُدْخِلْکَ اللَّہُ الْجَنَّۃَ یَکُنْ لَکَ فیہَا مَا اشْتَہَتْ نَفْسُکَ وَلَذَّتْ عَیْنُکَ) (رواہ الترمذی : باب مَا جَاءَ فِی صِفَۃِ خَیْلِ الْجَنَّۃِ) ” حضرت سلیمان بن بریدہ (رض) اپنے باپ سے بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیا جنت میں گھوڑے ہوں گے آپ نے فرمایا اللہ تجھے جنت میں داخل کرے۔ اگر تیری یہ چاہت ہوئی کہ تو سرخ یاقوت سے مزین گھوڑے پر سوارہو۔ تو تجھے جنت میں گھوڑے لیے پھریں گے تیری یہ خواہش بھی پوری ہوجائے گی۔ دوسرے آدمی نے پوچھا کیا جنت میں اونٹ ہوں گے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے بھی پہلے شخص جیسا جواب دیا اس کے ساتھ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ بھی فرمایا اگر اللہ تعالیٰ نے تجھے جنت میں داخل کردیاتو تجھے جنت میں وہ کچھ ملے گا جو تیرا جی چاہے گا اور جو تیری آنکھ کو بھائے گا۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے ساتھ جنت کا وعدہ کیا ہے جو ہر صورت پورا ہو کر رہے گا۔ ٢۔ جنتی جو چاہیں گے سو پائیں گے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ جنتیوں کو اپنی طرف سے بہت کچھ عطا فرمائے گا۔ تفسیر بالقرآن جنتیوں کا احترام اور جنت کی نعمتوں کی ایک جھلک : ١۔ فرشتے جب جنتیوں کے پاس جائیں گے تو انہیں سلام کہیں گے۔ (الزمر : ٨٩) ٢۔ ہم نے اس میں کھجوروں، انگوروں کے باغ بنائے ہیں اور ان میں چشمے جاری کیے ہیں۔ (یٰس : ٣٤) ٣۔ یقیناً متقی نعمتوں والی جنت میں ہوں گے۔ (الطور : ١٧) ٤۔ جنت کے میوے ٹپک رہے ہوں گے۔ (الحاقہ : ٢٣) ٥۔ یقیناً متقین باغات اور چشموں میں ہوں گے۔ (الذاریات : ١٥) ٦۔ جنتیوں کو سونے اور لولو کے زیور پہنائے جائیں گے۔ (فاطر : ٣٣) ٧۔ جنت میں تمام پھل دو، دو قسم کے ہوں گے۔ (الرحمن : ٥٢) ٨۔ جنتیوں کو شراب طہور دی جائے گی۔ (الدھر : ٢١) ٩۔ جنتی سبز قالینوں اور مسندوں پر تکیہ لگا کر بیٹھے ہوں گے۔ (الرحمٰن : ٧٦) ١٠۔ جنت میں بے خار بیریاں، تہہ بہ تہہ کیلے، لمبا سایہ، چلتا ہوا پانی، اور کثرت سے پھل ہوں گے۔ (الواقعہ : ٢٨ تا ٣٠) ١١۔ جنت میں وہ سب کچھ ہوگا جس کی جنتی خواہش کرے گا۔ (حٰم السجدۃ: ٣١) ق
32 ق
33 ق
34 ق
35 ق
36 فہم القرآن ربط کلام : جو لوگ جہنم کی وعید اور جنت کی نوید سننے کے باوجود اپنے رب کی طرف قلباً اور عملاً رجوع نہیں کرتے ان کا دنیا میں انجام۔ قرآن مجید کے پہلے مخاطب اہل مکہ تھے اس لیے انہیں بتلایا کہ تم سے پہلے کتنی جماعتیں گزچکی ہیں جو جسمانی قوت اور وسائل کے لحاظ سے تم سے زیادہ طاقت ور تھیں اور وہ بہت سے شہروں اور علاقوں میں پھرنے والے تھے۔ لیکن ان پر اللہ کا عذاب نازل ہوا تو انہیں پناہ لینے کے لیے کوئی جگہ میسر نہ آئی۔ ” فَنَقَّبُوْا فِی الْبِلَادِ“ کے اہل تفسیرنے دو معانی کیے ہیں۔ 1۔ وہ اس قدر طاقت ور تھے کہ انہوں نے کئی شہر اور علاقے فتح کیے اور ان میں پوری عیش وعشرت کے ساتھ رہتے اور گھوما کرتے تھے لیکن جب ان کی گرفت ہوئی تو وہ کہیں بھی پناہ حاصل نہ کرسکے۔ پناہ کی تلاش میں مارے مارے پھر رہے تھے تو اللہ تعالیٰ نے انہیں تہس نہس کردیا۔ 2۔” فَنَقَّبُوْا“ کادوسرا معنٰی یہ ہے کہ وہ بہت سے شہروں کو فتح کرنے والے اور ان میں فاتح انداز میں داخل ہونے والے تھے۔ پہلی اقوام کی تباہی اس شخص کے لیے عبرت کا باعث ہے جو اپنے سینے میں دل رکھتا ہے۔ سینے میں دل رکھنے سے مراد وہ دل ہے جس میں سچ بات سننے اور اسے قبول کرنے کا جذبہ ہو۔ جب دل سچے جذبے کے ساتھ کسی طرف متوجہ ہوتا ہے تو کان بھی سننے کے لیے طرح تیار ہوجاتے ہیں۔ دل اور کان کسی بات کی طرف متوجہ ہوں تو سننے والا اس بات کو جلد قبول کرلیتا ہے۔ یہی شخص ہی نصیحت سے مستفید ہوتا ہے۔ گویا کہ نصیحت حاصل کرنے کے لیے بیک وقت تین کام ضروری ہیں۔ ١۔ دل کی توجہ۔ ٢۔ ہمہ تن گوش ہونا۔ ٣۔ اور حق کی طرف پوری طرح متوجہ ہونا۔ ان میں سے کوئی ایک بات منقود ہو تو انسان بڑے سے بڑے واقعہ اور سانحہ سے عبرت حاصل نہیں کرتا۔ جن قوموں کو نیست و نابود کیا گیا ان میں یہی نقص پایا جاتا تھا کہ وہ حق بات کو اس طرح سننے کے لیے تیار نہیں تھے۔ جس طرح انہیں سننے کا حکم دیا گیا تھا ان کے دل تھے مگر بصیرت سے اندھے تھے، ان کے کان تھے لیکن سچ بات سننے کے لیے تیار نہ تھے۔ ان کی آنکھیں تھیں مگر عبرت کی نظر سے دیکھنے سے محروم ہوچکی تھیں۔ ” بلاشبہ ہم نے بہت سے جن اور انسان جہنم کے لیے ہی پیدا کیے ہیں ان کے دل ہیں جن سے وہ سمجھتے نہیں اور ان کی آنکھیں ہیں جن سے وہ دیکھتے نہیں اور ان کے کان ہیں جن سے وہ سنتے نہیں یہ لوگ چوپاؤں جیسے ہیں بلکہ یہ زیادہ بھٹکے ہوئے ہیں یہی ہیں جو غافل ہیں۔“ (الاعراف : ١٧٩) (اَفَلَمْ یَسِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ فَتَکُوْنَ لَہُمْ قُلُوْبٌ یَّعْقِلُوْنَ بِہَآ اَوْ اٰذَانٌ یَّسْمَعُوْنَ بِہَا فَاِنَّہَا لَا تَعْمَی الْاَبْصَارُ وَ لٰکِنْ تَعْمَی الْقُلُوْبُ الَّتِیْ فِی الصُّدُوْرِ) (الحج : ٤٦) ” کیا یہ لوگ زمین میں چلے پھرے نہیں ہیں کہ ان کے دل سمجھنے والے یا ان کے کان سننے والے ہوتے؟ حقیقت یہ ہے کہ آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں مگر دل اندھے ہوجاتے ہیں جو سینوں میں ہیں۔“ (الَّذِیْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَیَاۃَ لِیَبْلُوَکُمْ اَیُّکُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا وَّہُوَ الْعَزِیْزُ الْغَفُوْرُ) (الملک : ٢) ” جس نے موت اور زندگی کو پیدا کیا تاکہ تمہیں آزماۓ کہ تم میں سے کون اچھے عمل کرنے والا ہے اور وہ زبردست، اور درگزر فرمانے والا ہے۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے بڑی بڑی طاقتور اقوام کو ان کے جرائم کی وجہ سے تہس نہس کردیا۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ کا عذاب نازل ہوا تو انہیں دنیا میں کوئی پناہ دینے والا نہ تھا۔ تفسیر بالقرآن نصیحت حاصل کرنے کے لیے کن باتوں کی ضرورت ہوتی ہے؟ : ١۔ ہم نے قرآن مجید کو واضح کردیا تاکہ لوگ نصیحت حاصل کریں۔ (بنی اسرئیل : ٤١) ٢۔ اللہ تعالیٰ نے آل فرعون کو مختلف عذابوں سے دو چار کیا تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں۔ (الاعراف : ١٣٠) ٣۔ اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کے جوڑے (نرومادہ) بنادیے تاکہ لوگ نصیحت حاصل کریں۔ (الذاریات : ٤٩) ٤۔ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں مثالیں بیان کرتا ہے تاکہ لوگ نصیحت حاصل کریں۔ (الزمر : ٢٧) ٥۔ اللہ تعالیٰ لوگوں کے لیے اپنی آیات کھول کھول کر بیان کرتا ہے تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں۔ (البقرۃ: ٢٢١) ق
37 ق
38 فہم القرآن ربط کلام : اس سورت کی ابتدائی آیات میں انسان کے مرنے کے بعد اسے دوبارہ زندہ کرنے کا ثبوت دیا گیا ہے اب فرمایا کہ کیا لوگوں نے اس بات پر غور نہیں کیا؟ کہ اللہ تعالیٰ نے آسمان کو کس طرح بلندیوں پر کھڑا کر رکھا ہے اور زمین کو کس طرح پھیلایا اور بچھایا ہے۔ سورت کا اختتام بھی اسی بات سے کیا جارہا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمانوں اور جو کچھ ان کے درمیان ہے ان کو چھ دنوں میں پیدا کیا اور ان کے بنانے اور پیدا کرنے میں اللہ تعالیٰ کو کسی قسم کی کوئی تھکاوٹ اور اکتاہٹ محسوس نہیں ہوئی اگر یہ لوگ ٹھوس اور واضح دلائل کو نہیں مانتے اور قیامت کا مذاق اڑاتے اور اللہ تعالیٰ کی گستاخی کرتے ہیں تو اے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ کو صبر سے کام لینا چاہیے۔ صبر کرنے کے لیے ضروری ہے کہ آپ اپنے رب کی تسبیح پڑھا کریں۔ سورج طلوح اور غروب ہونے سے پہلے اور رات کے کچھ حصے میں بھی اپنے رب کو اس کی حمد کے ساتھ یاد کریں اور ہر نماز کے بعد بھی اس کا ذکر کیا کریں۔ اللہ کو اس کی حمد کے ساتھ یاد کرنے کا معنی یہ ہے کہ جس انداز اور الفاظ کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے اپنے ذکر کا حکم دیا ہے اسی طرح اس کا ذکر کیا جائے۔ یہاں منکرین قیامت کے نظریہ کی تردید کرنے کے بعد یہودیوں کے باطل عقیدہ کی بھی تردید کی گئی ہے۔ یہودیوں کا عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے چھ دن میں زمین و آسمان اور جو کچھ ان میں ہے بنانے اور پیدا کرنے کے بعد تھکاوٹ محسوس کی اور ہفتہ کے دن مکمل طور پر آرام فرمایا جس وجہ سے ہفتہ کا دن مقدس ہے اور ہم اسی وجہ سے اس دن چھٹی کرتے ہیں۔ یہودیوں کے نظریہ کی تردید کرنے کے ساتھ منکرین قیامت کو بتلایا ہے کہ جب زمین و آسمانوں اور ہر چیز بنانے میں اللہ تعالیٰ کو کوئی اکتاہٹ اور تھکاوٹ محسوس نہیں ہوئی۔ کیا قیامت کے دن تمہیں پیدا کرنا اس کے لیے مشکل ہوگا؟ ” وہی تخلیق کی ابتداء کرتا ہے، پھر وہی اس کا اعادہ کرے گا اور یہ اس کے لیے آسان ہے۔ اسی کی شان ہے کہ وہ آسمانوں اور زمین میں سب سے برتر ہے، غالب اور حکمت والا ہے۔“ (الروم : ٢٧) ” حضرت حسن بصری (رح) بیان کرتے ہیں کہ یہودیوں نے کہا : اللہ تعالیٰ نے آسمان و زمین کو چھ دن میں پیدا کیا اور ساتویں دن آرام فرمایا تو اللہ تعالیٰ نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر یہ آیت نازل فرمائی (وَلَقَدْ خَلَقْنَا السَّمَاوَاتِ وَالْاَرْضَ وَمَا بَیْنَہُمَا فِی سِتَّۃِ أَیَّامٍ وَمَا مَسَّنَا مِنْ لَغُوبٍ) “ ( المجالسۃ وجواھر العلم، ج : ٦، ص : ٢٢٣) (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَال اللّٰہُ تَعَالٰی أَنَا مَعَ عَبْدِیْ حَیْثُمَا ذَکَرَنِیْ وَتَحَرَّکَتْ بِیْ شَفَتَاہُ) (رواہ البخاری : کتاب التوحید، باب قول اللہ تعالیٰ لاتحرک بہ لسانک۔۔ الخ) ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں میں اپنے بندے کے ساتھ ہوتاہوں، وہ جہاں کہیں بھی میرا ذکر کرتا ہے اور جب بھی اس کے ہونٹ میرے ذکر میں حرکت کریں۔“ (عَنْ عَاءِشَۃَ (رض) قَالَتْ کَان النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَذْکُرُ اللَّہَ عَلَی کُلِّ أَحْیَانِہِ) (رواہ مسلم : باب ذِکْرِ اللَّہِ تَعَالَی فِی حَالِ الْجَنَابَۃِ وَغَیْرِہَا) ” حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہر حال میں اللہ کا ذکر کیا کرتے تھے۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان اور جو کچھ ان کے درمیان ہے اسے چھ دن میں پیدا کیا ہے۔ ٢۔ زمین و آسمان کی پیدائش اور جو کچھ ان کے درمیان ہے اسے پیدا کرنے سے اللہ تعالیٰ کو کوئی اکتاہٹ اور تھکاوٹ محسوس نہیں ہوئی۔ ٣۔ منکرین قیامت کی حجت بازیوں پر صبر سے کام لینا چاہیے۔ ٤۔ ہر نماز کے بعدبھی ذکر واذکار کرنے چاہئیں۔ تفسیر بالقرآن صبر اور اس کے فوائد : ١۔ اللہ کی رفاقت اور دستگیری صبر کرنے والوں کے لیے ہے۔ (البقرۃ: ١٥٢) ٢۔ صبر اور نماز کے ذریعے اللہ کی مدد طلب کرو۔ (البقرۃ: ١٥٢) ٣۔ صبر کرنے والوں کو بے حساب اجر دیا جائے گا۔ (الزمر : ١٠) ٤۔ بے شک جنہوں نے اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتے ہوئے صبر و استقامت کا مظاہرہ کیا انہیں کوئی خوف اور حزن و ملال نہیں ہوگا۔ (الاحقاف : ١٣) ٥۔ صبر کیجیے اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے اجر کو ضائع نہیں کرتا۔ (ھود : ١١٥) ق
39 ق
40 ق
41 فہم القرآن ربط کلام : نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو صبر اور ذکر کی تلقین کرنے کے بعد اب پھر قیامت قائم ہونے کے دلائل دیئے گئے ہیں۔ کوئی شخض قیامت کو تسلیم کرے یا اس کا انکار کرے قیامت بہرحال برپا ہوکررہے گی جس کا دوسرا مرحلہ اسرافیل کے دوسری مرتبہ صور پھونکنے پر ہوگا جونہی اسرافیل صورپھونکیں گے۔ تو زمین جگہ جگہ سے شق ہوجائے گی اور لوگ اپنی قبروں سے اٹھ کھڑے ہوں گے اور ہر کوئی یہ محسوس کرے گا کہ اس کے پاس کھڑا ہوا کوئی اسے محشر کے میدان میں حاضر ہونے کا حکم دے رہا ہے۔ یہ آواز سنتے ہی ہر کسی کو یقین ہوجائے گا کہ اب قیامت قائم ہوچکی ہے اور بلانے والا قیامت کی طرف بلارہا ہے جس میں شک کی کوئی گنجائش نہیں۔ لوگ اپنی اپنی قبروں سے نکل کر میدان محشر کی طرف اس طرح جارہے ہوں گے جس طرح تیر اپنے نشانے کی طرف جاتا ہے۔ ( یٰس : ٥١) اس صورت حال کو ان الفاظ میں بیان کیا جارہا ہے کہ ہم ہی زندہ کرنے والے ہیں اور ہم ہی مارنے والے ہیں اور ہماری طرف ہی لوگوں کو پلٹ کر آنا ہے۔ اسرافیل کو صور کا حکم دینا، قیامت کا برپا کرنا، لوگوں کو ان کی قبروں سے اٹھا نا اور محشر کے میدان میں جمع کرنا اللہ تعالیٰ کے لیے بالکل آسان ہے۔ گویا کہ جس طرح زمین و آسمانوں اور ہر چیز کو پیدا کرنا اس کے لیے مشکل نہیں اس طرح ہی لوگوں کو دوبارہ پیدا کرنا اس کے لیے مشکل نہیں بلکہ آسان تر ہے۔ ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا دو صور پھونکنے کے درمیان کا عرصہ چالیس ہوگا۔ حضرت ابوہریرہ (رض) سے ان کے شاگردوں نے پوچھا چالیس دن ؟ ابوہریرہ (رض) نے فرمایا کہ میں یہ نہیں کہتا۔ انہوں نے استفسار کیا چالیس مہینے ؟ حضرت ابوہریرہ (رض) نے جواباً فرمایا میں یہ نہیں کہتا۔ انہوں نے پھر پوچھا چالیس سال ہیں؟ ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں میں یہ بھی نہیں کہتا۔ یعنی ابوہریرہ (رض) بھول گئے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کتنی مدت بتلائی تھی اس کے بعد اللہ تعالیٰ بارش نازل فرمائے گا۔ لوگ یوں اگیں گے جس طرح انگوری اگتی ہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا، انسان کی دمچی کے علاوہ ہر چیز بو سیدہ ہوجائے گی۔ قیامت کے دن اسی سے تمام اعضاء کو جوڑا جائے گا۔“ (رواہ البخاری : باب (یَوْمَ یُنْفَخُ فِی الصُّورِ فَتَأْتُونَ أَفْوَاجًا) زُمَرًا) (دُمچی سے مراد اس کا کوئی خاص ذرّہ ہے جس کو انگلش میں (SMALL TAIL) کہتے ہیں محفوظ رہتا ہے۔) (وَعَنْ جَابِرٍ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یُبْعَثُ کُلُّ عَبْدٍ عَلٰی مَامَاتَ عَلَیْہِ) (رواہ مسلم : باب الأَمْرِ بِحُسْنِ الظَّنِّ باللَّہِ تَعَالَی عِنْدَ الْمَوْتِ) ” حضرت جابر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا‘ ہر شخص اسی حالت پر اٹھایا جائے گا جس پر وہ فوت ہوا۔“ مسائل ١۔ قیامت کے دن ہر کوئی صور کی آواز اس طرح سنے گا جیسے اس کے پاس کھڑا ہوا کوئی آواز دے رہا ہے۔ ٢۔ قبر سے نکلتے ہی ہر انسان کو یقین ہوجائے گا کہ قیامت برپا ہوچکی ہے۔ ٣۔ قیامت کے دن زمین پھٹنے کے ساتھ ہی لوگ اپنی اپنی قبروں سے نکل کھڑے ہوں گے۔ ٤۔ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ سب کو اکٹھا کرے گا۔ اللہ تعالیٰ کے لیے لوگوں کو اکٹھا کرنا مشکل نہیں۔ ٥۔ ” اللہ“ ہی زندہ کرنے اور مارنے والا ہے اور سب نے اسی کی طرف ہی پلٹ کرجانا ہے۔ تفسیر بالقرآن ” اللہ“ موت وحیات پر قادر ہے : ١۔ ” اللہ“ ہی زندہ کرتا اور مارتا ہے۔ (التوبہ : ١١٦) ٢۔” اللہ“ ہی معبود برحق ہے وہی مردوں کو زندہ کرتا ہے۔ (الحج : ٦) ٣۔ ” اللہ“ ہی زندہ کرتا ہے اور مارتا ہے اور وہی تمھارے اعمال کو دیکھنے والا ہے۔ (آل عمران : ١٥٦) ٤۔ ” اللہ“ کے علاوہ کوئی الٰہ نہیں وہی زندہ کرتا اور مارتا ہے۔ (الاعراف : ١٥٨) ٥۔ ” اللہ“ وہ ذات ہے جو زندہ کرتی اور مارتی ہے دن اور رات کا مختلف ہونا اسی کے حکم سے ہے (المومنون : ٨٠) ٦۔ ” اللہ“ کے سوا کوئی الٰہ نہیں وہی زندہ کرتا ہے اور مارتا ہے وہ تمہارا اور تمہارے آباء و اجداد کا رب ہے۔ (الدخان : ٨) ٧۔ زمین و آسمان کی بادشاہت اسی کی ہے وہ زندہ کرتا اور مارتا ہے۔ (الحدید : ٢) ق
42 ق
43 ق
44 ق
45 فہم القرآن ربط کلام : جس رب کے لیے لوگوں کو زندہ کرنا اور محشرکے دن اکٹھا کرنا مشکل نہیں اس کے لیے لوگوں کو ایمان لانے پر مجبور کرنا بھی مشکل نہیں لیکن وہ اپنی حکمت کے تحت لوگوں کو مہلت دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں سینکڑوں دلائل اور کئی انبیائے کرام (علیہ السلام) کو مشاہدے کروا کر ثابت کیا ہے کہ قیامت کے دن ہر صورت مردوں کو زندہ کیا جائے گا اور قیامت برپا ہو کر رہے گی۔ اس کے باوجود اہل مکہ نہ صرف قیامت کا انکار کرتے تھے بلکہ اس کا مذاق بھی اڑاتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اس پر ایک طرف نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دی ہے اور دوسری طرف کفار کو تنبیہ کی ہے کہ جو تم ہرزہ سرائی کرتے ہو اس کا ایک ایک لفظ ہمارے علم میں ہے۔ ہم چاہیں توسب کچھ تم سے منوا سکتے ہیں۔ لیکن ہمارا اصول یہ ہے کہ کسی کو جبر کے ذریعے ایمان لانے پر مجبور نہ کیا جائے نہ ہی اس نے اپنے نبی کو جبر کرنے والا نہیں بنایا۔ اس لیے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ارشاد ہوا کہ آپ قرآن مجید کے ذریعے لوگوں کو نصیحت کریں اور ہمارے عذاب سے ڈرائیں۔ یہاں قرآن مجید کو ذکر قرار دیا گیا ہے ذکر کا ایک معنٰی نصیحت بھی ہے۔ قرآن مجید سے بڑھ کر کوئی نصیحت بہتر اور مؤثر نہیں ہوسکتی۔ اس لیے ہر مبلغ کو اپنے وعظ اور خطاب میں قرآن مجید زیادہ سے زیادہ پڑھنا چاہیے، اور لوگوں کو قصے، کہانیاں، شعر سنانے کی بجائے قرآن کے ذریعے نصیحت کرنی چاہیے۔ (لَآ اِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ قَدْتَّبَیَّنَ الرُّشْدُمِنَ الْغَیِّ فَمَنْ یَّکْفُرْ بالطَّاغُوْتِ وَ یُؤْمِنْ باللّٰہِ فَقَدِ اسْتَمْسَکَ بالْعُرْوَۃِ الْوُثْقٰی لَا انْفِصَامَ لَہَا وَ اللّٰہُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ) (البقرۃ: ٢٥٦) ” دین میں کوئی زبردستی نہیں ہدایت گمراہی سے واضح ہوچکی ہے اس لیے جو شخص باطل معبودوں کا انکار کر کے اور اللہ تعالیٰ پر ایمان لائے اس نے مضبوط کڑے کو تھام لیا جو کبھی ٹوٹنے والا نہیں ہے اور اللہ تعالیٰ خوب سننے، جاننے والا ہے۔“ (عَنْ أَبِیْ مُوْسٰی (رض) قَالَ کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) إِذَا بَعَثَ أَحَدًا مِّنْ أَصْحَابِہٖ فِیْ بَعْضِ أَمْرِہٖ قَالَ بَشِّرُوْا وَلَا تُنَفِّرُوْا وَ یَسِّرُوْا وَلَا تُعَسِّرُوْا) (رواہ البخاری : باب مَا کَان النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَتَخَوَّلُہُمْ بالْمَوْعِظَۃِ وَالْعِلْمِ کَیْ لاَ یَنْفِرُوا) ” حضرت ابو موسیٰ اشعری (رض) بیان کرتے ہیں نبی گرامی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب اپنے ساتھیوں میں سے کسی کو اپنے کسی کام کیلئے بھیجتے تو فرماتے، لوگوں کو خوش خبری دینا، ان کو متنفر نہ کرنا۔ ان کے ساتھ نرمی کرنا، مشکل میں نہ ڈالنا۔“ (عَنْ عَاءِشَۃَ (رض) أَنَّھَا قَالَتْ مَاخُیِّرَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بَیْنَ أَمْرَیْنِ إِلَّا أَخَذَ أَیْسَرَھُمَا مَالَمْ یَکُنْ إِثْمًا فَإِنْ کَانَ إِثْمًا کَانَ أَبْعَدَ النَّاسِ مِنْہُ وَمَا انْتَقَمَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لِنَفْسِہٖٓ إِلَّا أَنْ تُنْتَھَکَ حُرْمَۃُ اللّٰہِ فَیَنْتَقِمُ لِلّٰہِ بِھَا) (رواہ البخاری : کتاب المناقب، باب صفۃ النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ” حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دو کاموں میں اختیار دیا جاتا تو آپ دونوں میں سے آسان کام کو اختیار کرتے بشرطیکہ وہ گناہ کا کام نہ ہوتا۔ اگر کام گناہ کا ہوتا تو آپ سب سے زیادہ اس سے دور رہتے۔ آپ نے اپنی ذات کے لیے کسی سے انتقام نہ لیا البتہ جب اللہ کی حرمتوں کو پامال کیا جاتا تو اللہ کے لیے انتقام لیتے۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ لوگوں کی ہر بات کو جانتا ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جبر کرنے والا بنا کر مبعوث نہیں کیا۔ ٣۔ لوگوں کو قرآن مجید کے ساتھ نصیحت کرنی چاہیے۔ ٤۔ لوگوں کو اللہ کے عذاب سے ڈرانا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن قرآن مجید جامع اور مؤثر ترین نصیحت ہے : ١۔ ہم نے قرآن مجید کو کھول کر بیان کیا ہے تاکہ لوگ نصیحت حاصل کریں۔ (بنی اسرئیل : ٤١) ٢۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کو نصیحت کے لیے نازل فرمایا ہے۔ (صٓ: ٢٩) ٣۔ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں مثالیں بیان کرتا ہے تاکہ لوگ نصیحت حاصل کریں۔ (الزمر : ٢٧) ٤۔ اللہ تعالیٰ لوگوں کے لیے اپنی آیات کھول کھول کر بیان کرتا ہے تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں۔ (البقرۃ: ٢٢١) اللہ تعالیٰ نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جبر کرنے والا بناکر نہیں بھیجا : ١۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مومنوں کے ساتھ شفیق و مہربان ہیں۔ (التوبہ : ١٢٨) ٢۔ ہم نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جہان والوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔ (الانبیاء : ١٠٧) ٣۔ ہم نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جہان والوں کے لیے بشیر اور نذیر بنا کر بھیجا ہے۔ (سبا : ٢٨) ٤۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کتاب وحکمت کی تعلیم دینے کے لیے بھیجا گیا۔ (الجمعہ : ٢) (الاحزاب : ٤٦) ٥۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لوگوں کے بوجھ اتارنے اور غلامی سے چھڑانے کیلئے تشریف لائے۔ (الاعراف : ١٥٧) ٦۔ بنی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا مبعوث کرنا اللہ تعالیٰ کا مومنوں پر احسان عظیم ہے۔ (آل عمران : ١٦٤) (الاحزاب : ٤٥) ق
0 سورۃ الذاریات کا تعارف یہ سورت اپنے نام سے ہی شروع ہوتی ہے اس کے تین رکوع اور ساٹھ (٦٠) آیات ہیں۔ یہ مکہ معظمہ میں نازل ہوئی۔ اللہ تعالیٰ نے اس سورت کی ابتدا میں ہواؤں کے متعلق چار قسمیں اٹھا کر ارشاد فرمایا ہے کہ لوگو تمہارے ساتھ جس قیامت کا وعدہ کیا جاتا ہے وہ ہر حال میں سچ ثابت ہوگا پھر آسمان کی قسم اٹھاکر ارشاد فرمایا کہ قیامت کا دن ہر صورت واقع ہو کر رہے گا اس کے باوجود تم اس کے بارے میں مختلف قسم کی باتیں کرتے ہو اس کا وہی انکار کرتا ہے جو حق بات سے پھر جاتا ہے۔ جو لوگ قیامت کے بارے میں غفلت میں پڑے ہوئے ہیں وہ مارے جائیں گے۔ غفلت میں مبتلا ہونے کے باوجود پوچھتے ہیں کہ قیامت کب آئے گی؟ انہیں بتلائیں قیامت اس دن آئے گی جس دن یہ لوگ آگ میں تپائے جائیں گے۔ اس وقت انہیں کہا جائے گا کہ اب ہمیشہ کے لیے اپنی گمراہی کا مزا چکھتے رہو۔ ان کے مقابلے میں جو لوگ قیامت پر یقین رکھتے ہوئے رات کے وقت اپنے رب کے حضور استغفار کرتے رہے اور اپنے مال سے سائل اور محروم کو ان کا حق دیتے رہے انہیں چشموں والی جنت میں داخل کیا جائے گا وہ اپنے رب سے ہر قسم کی نعمتیں حاصل کرنے والے ہوں گے۔ پھر ارشاد فرمایا کہ لوگو قیامت پر یقین اور رب پر ایمان لانا چاہتے ہو تو اس کے لیے تمہارے نفسوں اور جس زمین پر تم رہتے ہو اس میں بے شمار دلائل موجود ہیں۔ اس کے بعد ارشاد ہوا کہ اے نبی کیا آپ کو ابراہیم کے معزز مہانوں کی بات پہنچی ہے؟ جب وہ اس کے پاس آئے تو اسے سلام کہا ابراہیم (علیہ السلام) نے جواب میں کہا کہ آپ لوگوں کو بھی سلام ہو اور سوچا کہ ناآشنا لوگ ہیں۔ پھر چپکے سے اپنے گھر والوں کے پاس گئے، اور ایک موٹا تازہ بچھڑا بھون کر مہمانوں کے سامنے پیش کیا۔ فرمایا کہ تم کھاتے نہیں؟ ابراہیم (علیہ السلام) نے ان سے خوف محسوس کیا انہوں (فرشتوں) نے کہا۔ ڈریے نہیں اور انہوں نے اسے ایک صاحب علم بیٹے کی خوشخبری سنائی۔ یہ سن کر اس کی بیوی چیختی ہوئی آگے بڑھی اور اس نے اپنے منہ پر ہاتھ مارا اور کہنے لگی، بوڑھی، بانجھ کو بیٹا ہوگا۔ فرشتوں نے کہا تیرے رب کا یہی فرمان ہے یقیناً وہ بڑا حکمت والاہے اور سب کچھ جانتا ہے۔ اس کے بعد حضرت لوط (علیہ السلام) کی قوم اور فرعون کا انجام ذکر کیا گیا ہے لوط (علیہ السلام) کی قوم اور فرعون نے بھی اپنے انبیاء کو ٹھکرایا اور فرعون نے کہا کہ موسیٰ جادوگر ہے یا مجنوں۔ یہی حال قوم عاد، ثمود اور قوم نوح کا ہوا۔ الذاریات کے آخر میں جنوں اور انسانوں کو متوجہ کرتے ہوئے فرمایا کہ ہم نے تمہیں اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا اور ہم تم سے رزق نہیں مانگتے بلکہ روزی دینے والا تو اللہ ہے جو بڑی قوت والا اور زبردست ہے جو لوگ اللہ کی عبادت اور قیامت کے دن کا انکار کریں گے وہ ظالم ہوں گے اور ظالموں کے لیے بالاخر ہلاکت ہوگی۔ الذاريات
1 فہم القرآن ربط سورت : سورۃ ق کا اختتام قیامت کے ذکر پر ہوا۔ الذّاریات کی ابتدا بھی قیامت کے ذکر اور اس کے دلائل سے کی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا اپنی مخلوق میں سے کسی کی قسم اٹھانا بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ پہلے بھی عرض ہوچکا ہے کہ اس سے دیگر مقاصد کے ساتھ اس چیز کی اہمیت بتلانا بھی مقصود ہوتا ہے۔ جنس (gender) کے اعتبار سے ہوا ایک ہے لیکن کام اور اثرات کے لحاظ سے اس کی کئی اقسام ہیں یہاں چار قسم کی ہواؤں کا ذکر کیا گیا ہے۔ قسم ہے گردوغبار اڑانے والی، بادلوں کا بوجھ اٹھانے والی پھر سبک رفتار چلنے والی اور پانی کو بارش کی صورت میں برسانے والی ہواؤں کی۔ یاد رہے کہ قدرت کی بڑی بڑی نشانیوں میں ہوابھی اللہ کی قدرت کی زبردست نشانی ہے۔ ہوا قدرت کی نشانی ہونے کے ساتھ اتنی بڑی نعمت ہے کہ اس کے سوا ہر جاندارچند لمحوں کا مہمان ہوتا ہے۔ اللہ کی بے پایاں رحمت پر غور فرمائیں کہ جن چیزوں کے بغیر کوئی جاندار زیادہ دیر تک زندہ نہیں رہ سکتا۔ اللہ تعالیٰ نے ان نعمتوں کو عام کردیا ہے۔ ان میں پانی، روشنی، اندھیرا اور ہوا بھی شامل ہے جو محلات کی نسبت جھونپڑیوں میں رہنے والوں کو صاف اور شفاف صورت میں حاصل ہوتی ہیں۔ ہوا پر غور فرمائیں کہ اگر اللہ تعالیٰ اسے گرد آلود یارنگ دار کردے تو بینائی رکھنے کے باوجود انسان ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہوجائے۔ اگر پوری دنیا یا کسی علاقے کی ہوا کو گرد آلود کردیا جائے تو پیدل چلنے والے سے لے کر ہوائی جہاز کا پائلٹ بھی بے کار اور لاچار ہوجائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے ہوا میں ایسی قوت رکھ دی ہے کہ اگر وہ آندھی کی شکل اختیار کرلے توہر چیز کو اڑا کر رکھ دیتی ہے۔ ہوا ٹنوں کے حساب سے گردو غبار اٹھا کر اسے میلوں دور پھینک دیتی ہے بالخصوص صحراء میں ریت کے بڑے بڑے ٹیلوں کو ہوا ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کردیتی ہے۔ بسا اوقات آندھی کی وجہ سے صحراء میں راستے اس طرح اٹ جاتے ہیں کہ مسافر کے لیے راستہ تلاش کرنا محال ہوجاتا ہے۔ ہوا میں اللہ تعالیٰ نے یہ قوت اور کشش بھی رکھی ہے کہ جب سمندر کا پانی سورج کی گرمی سے بخارات کی شکل اختیار کرتا ہے تو ہوا اس کو اٹھا کر فضا میں ایک خاص بلندی تک لے جاتی ہے اور پھر اللہ تعالیٰ کے حکم سے بادلوں کو اٹھائے ہوئے خراما خراما چلتی ہوئی انہیں وہاں لے جاتی ہے جہاں انہیں برسنے کا حکم ہوتا ہے۔ بادلوں کو اٹھانے والی ہوا یک دم بادل کو نیچے نہیں پھینکتی بلکہ آبشار کی صورت میں پانی برساتی ہے۔ اگر ہوا بادل کو یک دم پھاڑ دے تو زمین پر پانی اس طرح گرے کہ کوئی چیز باقی نہ بچ سکے۔ اگر اللہ تعالیٰ سورج کی تپش سے پانی کو بخارات میں تبدیل نہ کرے اور بخارات کو ہوا اوپر نہ اٹھائے تو بارش کا برسنا ناممکن ہوجائے۔ ہوا بادلوں کو تقسیم کرتی ہے بسا اوقات اس قدر گہرے بادل ہوتے ہیں کہ لوگ خیال کرتے ہیں کہ یہ بادل ہر صورت برس کر رہیں گے لیکن یکدم ہوا بادلوں کو اس طرح بکھیر دیتی ہے کہ ان کا نشان تک دکھائی نہیں دیتا۔ بنیادی طور پر بارش ہی آبپاشی کاذریعہ ہے جس سے ہر ذی روح سیراب ہوتا ہے اور بارش کا مرکزی سبب ہوا ہے جس کے ذریعہ بادل ایک مقام سے دوسرے مقام تک پہنچتے اور برستے ہیں۔ بارش کے ذریعے ہی اللہ تعالیٰ مردہ زمین کو حیاتِ نو بخشا ہے جس وجہ سے زمین میں دبے ہوئے بیج اپنی اپنی مدت پوری کرنے کے بعد اگتے ہیں اور صحراء شاداب دکھائی دیتے ہیں۔ یہاں اشارے کی زبان میں اور دوسرے مقام پر کھلے الفاظ میں بتایا ہے کہ جس طرح بارش سے بیج اُ گتے ہیں اسی طرح قیامت کے دن لوگوں کو زندہ کیا جائے گا۔ ( الزخرف : ١١) بعض مفسرین نے ” مُقَسِّمَاتِ“ سے مراد فرشتے لیے ہیں لیکن کلام کے سیاق وسباق سے یہ مفہوم لینا دور کی بات نظر آتی ہے۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق میں سے کئی چیزوں کی قسم اٹھائی ہے۔ ٢۔ کسی چیز کی قسم اٹھانے کا مقصد اس کی اہمیت کو نمایاں کرنا ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ نے ہوا بھی کئی قسم کی بنائی ہیں جو اپنا اپنا کام سرانجام دیتی ہیں۔ تفسیر بالقرآن قرآن مجید میں ہوا کا ذکر : ١۔ کفار کے اعمال کی مثال تیز آندھی کی سی ہے جس طرح تیز آندھی سب کچھ اڑا کرلے جاتی ہے ایسے ہی کفار کے اعمال اڑ جائیں گے۔ (ابراہیم : ١٨) ٢۔ قوم عاد زبر دست آندھی کے ذریعے ہلاک کی گئی۔ (الحاق : ٦) ٣۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمان کے لیے ہوا کو مسخر کردیا جو اس کے حکم سے چلتی تھی۔ (الانبیاء : ٨١) ٤۔ ہواؤں کے چلنے اور بادلوں کے مسخر ہونے میں اللہ کی قدرت کی نشانیاں ہیں۔ (البقرۃ : ١٦٤) (بنی اسرائیل : ٦٨) الذاريات
2 الذاريات
3 الذاريات
4 الذاريات
5 فہم القرآن ربط کلام : پانی کا انحصار بارش پر ہے اور اس کے ذریعے زمین سے بیج اگتے ہیں۔ جس طرح زمین سے بیج اگتے ہیں اسی طرح لوگوں کو قیامت کے دن زندہ کرکے اٹھایاجائے گا۔ یہ ” اللہ“ کا وعدہ ہے جو ہر صورت پورا ہوگا۔ پہلی آیات میں بارش کے حوالے سے اشارتاً قیامت کا ذکر ہوا اور اب بار بار تاکید کے الفاظ لا کر فرمایا ہے کہ جس قیامت کا تمہارے ساتھ وعدہ کیا جاتا ہے وہ سچ ہے کہ قیامت ہر صورت برپا ہوکررہے گی۔ یہ بات سورۃ ق کی آیات ٩ تا ١٩ کی تفسیر میں ذکر ہوئی ہے کہ جس ذات نے زمین و آسمانوں اور ہر چیز کو پیدا کیا ہے اس کے لیے مخلوق کو دوبارہ پیدا کرنا مشکل نہیں بلکہ ایسا کرنا اس کے لیے آسان تر ہے اس حقیقت کے باوجود جو لوگ قیامت کا انکار کرتے ہیں انہیں مختلف انداز اور دلائل کے ساتھ سمجھایا ہے کہ قیامت ہر صورت قائم ہوگی۔ اس کے باوجود جو ماننے کے لیے تیار نہیں انہیں ان الفاظ میں چیلنج دیا ہے۔ ” فرما دیں کہ تم پتھر بن جاؤ یا لوہا یا کوئی ایسی مخلوق جو تمھارے خیالات میں بڑی ہے عنقریب وہ کہیں گے کون ہمیں لوٹائے گا ؟ فرما دیں وہی جس نے تمھیں پہلی بار پیدا کیا ہے۔“ ( بنی اسرائیل : ٥٠ ) (یَوْمَ نَطْوِی السَّمَآءَ کَطَیِّ السِّجِلِّ لِلْکُتُبِ کَمَا بَدَاْنَآ اَوَّلَ خَلْقٍ نُّعِیْدُہٗ وَعْدًا عَلَیْنَا اِنَّا کُنَّا فٰعِلِیْنَ) (الانبیاء : ١٠٤) ” وہ دن جب آسمان کو ہم یوں لپیٹ کر رکھ دیں گے جیسے لکھے ہوئے اوراق لپیٹ دیے جاتے ہیں۔ جس طرح پہلے ہم نے تخلیق کی ابتدا کی تھی اسی طرح ہم پھر اس کا اعادہ کریں گے۔ یہ وعدہ ہمارے ذمیّ ہے اور یہ کام ہمیں ہر حال میں کرنا ہے۔“ مسائل ١۔ قیامت کا وعدہ سچاہے جو ہر صورت پورا ہو کررہے گا۔ تفسیربالقرآن قیامت کے قائم ہونے کے دلائل : ١۔ قیامت قریب ہے۔ (الحج : ١) ٢۔ تمہارے لیے قیامت کا دن مقرر ہے۔ اس میں تقدیم وتاخیر نہیں ہوگی۔ ( سبا : ٣٠) ٣۔ قیامت اچانک آجائے گی۔ ( یوسف : ١٠٧) ٤۔ قیامت پل بھر میں واقع ہوجائے گی۔ ( النحل : ٧٧) ٥۔ اللہ کا وعدہ برحق ہے اور قیامت کے واقع ہونے میں کوئی شک نہیں۔ ( الکہف : ٢١) الذاريات
6 الذاريات
7 فہم القرآن ربط کلام : گزشتہ آیات میں قیامت برپا ہونے کے دلائل دئیے گئے اب قیامت کے بارے میں لوگوں کے مختلف اقوال کی تردید کی جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے راستوں والے آسمان کی قسم اٹھا کر اس بات کی تردید کی ہے کہ جو لوگ قیامت کے قائم ہونے کے بارے میں مختلف قسم باتیں کرتے ہیں۔ وہ حقیقت میں تضاد فکری اور بےیقینی کا شکار ہیں اور اسی وجہ حق سے پھرئے ہوئے اور گمراہ ہیں۔ اپنی تضاد فکری کی وجہ سے مختلف قسم کی باتیں کرتے ہیں جو ان کے بے خبر اور برگشتہ ہونے کی دلیل ہے۔ قیامت کے بارے میں وہی شخص گمراہ ہوتا ہے جسے اللہ تعالیٰ گمراہی کے لیے کھلا چھوڑ دیتا ہے۔ بے علم اور قیامت کے منکر ہونے کے باوجود سوال کرتے ہیں کہ یہ کب آئے گی۔ حالانکہ اس دن وہ آگ میں پھینکے جائیں گے۔ اس میں چیخ و پکار کریں گے تو ملائکہ جھڑکیاں دیتے ہوئے کہیں گے کہ اب اپنی یا وہ گوئی کی سزا پاؤ کیونکہ تم اس کے بارے میں بےیقینی اور جلد بازی کا مظاہرہ کیا کرتے تھے۔ آسمان کے بارے میں ” ذَاتِ الْحُبُکِ“ کے لفظ استعمال فرمائے ہیں۔” حِباک“ کی جمع ” حُبُک“ ہے جس کا معنٰی راستے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے آسمان میں راستے اور دروازے بنائے ہیں۔ جن راستوں سے چل کر ملائکہ آسمان پر چڑھتے اور اترتے ہیں۔ جو لوگ قیامت کا انکار کرتے ہیں ان کی تضاد فکری اور بےیقینی کا عالم یہ ہے کہ وہ کسی ایک بات پر قائم رہنے کی بجائے مختلف قسم کی باتیں اور حجت بازیاں کرتے ہیں۔ کچھ کا خیال ہے کہ قیامت ہرگز برپا نہیں ہوگی۔ کچھ کہتے ہیں کہ دنیاکا نظام اس طرح ہی چلتارہنا ہے۔ جو مرگیا وہ مٹی کے ساتھ جا ملا۔ اس نے نہ اٹھنا اور نہ اس نے حساب دینا ہے۔ انسان کو اس کے اچھے اور برے اعمال کی سزا دنیا میں ہی مل جاتی ہے کیونکہ دنیا میں مکافات عمل کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ بعض مذاہب میں آواگون کا عقیدہ ہے کہ مرنے کے بعد انسان کسی اور شکل میں دنیا میں پلٹ آتا ہے اگر اس کے اعمال اچھے ہوں تو وہ اچھے جانور یا پرندے کی شکل میں دنیا میں رہتا ہے۔ اگر اس کے اعمال برے ہوں تو وہ گدھے یا کسی درندے کی شکل میں زندگی گزارتا ہے۔ گویا کہ وہ کسی نہ کسی شکل میں دنیا میں رہتا ہے اس سے آگے کچھ نہیں ہے۔ مکہ میں ایسے لوگ بھی تھے جن کا دعوی تھا کہ بالفرض قیامت قائم ہوگئی تو ہم آخرت میں بھی مسلمانوں سے بہتر ہوں گے۔ قیامت کا انکار کرنے والے جنت اور جہنم کے بارے میں بھی مختلف قسم کی باتیں کرتے ہیں۔ عجب بات یہ ہے کہ قیامت کا انکار کرنے کے باوجود یہ لوگ اس کے بارے میں جلد بازی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ یہ بات بھی ان کی تضاد فکری پر دلالت کرتی ہے کیونکہ جو آدمی کسی چیز کے وجود کا انکار کرتا ہے اس کے متعلق اسے نہ جلد بازی کرنا چاہیے اور نہ ہی اسے اس کے بارے میں قیل قال کرنے کا حق پہنچتا ہے۔ ایسے لوگ اپنی بےیقینی اور تضاد فکری میں مارے جائیں گے۔ قیامت تو ہر صورت برپا ہو کر رہے گی اس کا انکار کرنے والے ہمیشہ کے لیے جہنم کے عذاب میں مبتلا رہیں گے۔ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ أَنَّ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ تُفْتَحُ أَبْوَاب السَّمَاءِ فِی کُلِّ اثْنَیْنِ وَخَمِیسٍ فَیُغْفَرُ لِکُلِّ عَبْدٍ لاَ یُشْرِکُ باللَّہِ شَیْءًا إِلاَّ امْرَأً بَیْنَہُ وَبَیْنَ أَخِیہِ شَحْنَاءُ قَالَ فَیُقَالُ انْتَظِرْ ہَذَیْنِ حَتَّی یَصْطَلِحَا) (رواہ مسلم : باب النَّہْیِ عَنِ الشَّحْنَاءِ وَالتَّہَاجُرِ) ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا آسمان کے دروازے ہر سوموار اور جمعرات کو کھولے جاتے ہیں اور ہر شخص کو معاف کردیا جاتا ہے جس نے اللہ کے ساتھ شرک نہ کیا ہو مگر اس شخص کو معاف نہیں کیا جاتا جو اپنے بھائی سے عداوت رکھتا ہو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ان کو چھوڑدو یہاں تک کہ یہ صلح نہ کرلیں۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے آسمان کی قسم اٹھا کر ارشاد فرمایا ہے کہ جو لوگ قیامت کے بارے میں مختلف قسم کی باتیں کرتے ہیں وہ تضادفکری اور گمراہی کا شکار ہیں۔ ٢۔ قیامت کا انکار کرنے والوں کو جہنم کی آگ میں پھینکا جائے گا۔ تفسیر بالقرآن قیامت کے منکرین کی سزا : ١۔ قیامت کو جھٹلانے اور لوگوں کو اللہ کے راستہ سے روکنے والے کے لیے جلا دینے والا عذاب ہوگا۔ (الحج : ٩) ٢۔ اللہ کی آیات کے ساتھ کفر کرنے والے اور قیامت کو جھٹلانے والے عذاب میں مبتلا کیے جائیں گے۔ (الروم : ١٦) ٣۔ قیامت کو جھٹلانے والوں کے لیے آگ کا عذاب ہے۔ (الفرقان : ١١) الذاريات
8 الذاريات
9 الذاريات
10 الذاريات
11 الذاريات
12 الذاريات
13 الذاريات
14 الذاريات
15 الذاريات
16 فہم القرآن ربط کلام : قیامت کا انکار کرنے والوں کی سزا کے ذکر کے بعد جنتیوں کا تذکرہ، قیامت پر ایمان لانے اور اس کی جوابدہی کا خوف رکھنے والوں میں یہ صفات پید اہوتی ہیں۔ قیامت پر یقین رکھنا انسان کو برائیوں سے بچاتا ہے اور نیکی کے کاموں پر آمادہ کرتا ہے، اس لیے قیامت پر یقین رکھنے والوں کی صفات کا ذکر کیا گیا ہے۔ یقیناً یہ لوگ جنتوں میں داخل کیے جائیں گے جن میں چشمے جاری ہوں گے اور اپنے رب سے جنت کی نعمتیں حاصل کریں گے۔ کیونکہ وہ دنیا میں نیکی کرنے والے تھے۔ وہ پوری رات سونے کی بجائے رات کا کچھ حصہ سویا کرتے تھے اور سحری کے وقت اپنے رب سے اپنے گناہوں کی معافی مانگتے تھے اور اپنے مال سے سائل اور اس شخص کو دیتے تھے جو مستحق ہونے کے باوجود کسی سے سوال نہیں کرتا تھا۔ یہاں اللہ تعالیٰ نے متقی لوگوں کی تین صفات ذکر فرمائی ہیں۔ 1۔ جنتی لوگ ہر حال میں اخلاص کے ساتھ نیکی کرنے والے ہوتے ہیں۔ 2۔ جنتی اس خیال اور نیت سے صدقہ کرتے ہیں کہ یہ ہمارا غریبوں پر احسان نہیں بلکہ ان کا حق ہی ان تک پہنچا رہے ہیں اسی لیے وہ ان غریبوں کا بھی خیال رکھتے ہیں جو اپنی حیا اور خوداری کی وجہ سے دوسروں سے نہیں مانگتے۔ 3۔ متقی لوگ رات بھر خراٹے لینے کی بجائے آدھی یا رات کا کچھ حصہ اپنے رب کے حضور کھڑے ہوتے ہیں۔ (عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ (رض) قَالَ کَان النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اِذَا قَامَ مِنَ اللَّےْلِ ےَتَھَجَّدُ قَالَ (اَللّٰھُمَّ لَکَ الْحَمْدُ اَنْتَ قَےِّمُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَمَنْ فِےْھِنَّ وَلَکَ الْحَمْدُ اَنْتَ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَمَنْ فِےْھِنَّ وَلَکَ الْحَمْدُ اَنْتَ مٰلِکُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَمَنْ فِےْھِنَّ وَلَکَ الْحَمْدُ اَنْتَ الْحَقُّ وَوَعْدُکَ الْحَقُّ وَ لِقَآءُکَ حَقٌّ وَقَوْلُکَ حَقٌّ وَالْجَنَّۃُ حَقٌّ وَّالنَّارُ حَقٌّ وَّالنَّبِیُّوْنَ حَقٌّ وَّمُحَمَّدٌ حَقٌّ وَّالسَّاعَۃُ حَقٌّ اَللّٰھُمَّ لَکَ اَسْلَمْتُ وَبِکَ اٰمَنْتُ وَعَلَےْکَ تَوَکَّلْتُ وَاِلَےْکَ اَنَبْتُ وَبِکَ خَاصَمْتُ وَاِلَےْکَ حَاکَمْتُ فَاغْفِرْلِیْ مَا قَدَّمْتُ وَمَآ اَخَّرْتُ وَمَآ اَسْرَرْتُ وَمَآ اَعْلَنْتُ وَمَآ اَنْتَ اَعْلَمُ بِہٖ مِنِّیْ اَنْتَ الْمُقَدِّمُ وَاَنْتَ الْمُؤَخِّرُ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اَنْتَ وَلَآاِلٰہَ غَےْرُکَ) (رواہ البخاری : باب التَّہَجُّدِ باللَّیْلِ) ” حضرت عبداللہ بن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رات کے وقت جب تہجد کے لیے اٹھتے تو یہ دعا پڑھتے۔ ” اے اللہ تیری ہی حمدوستائش‘ تو ہی زمین و آسمان اور جو کچھ ان میں ہے اس کو قائم رکھنے والاہے، تیرے لیے ہی حمد ہے اور تیری وجہ سے ہی زمین و آسمان اور ان کی ہر چیز روشن ہے، تیرے لیے ہی تعریف ہے۔ تو ہی زمین و آسمان اور ان میں ہر چیز کا مالک ہے، تیرے ہی لیے حمدوثنا ہے تو ہی حق ہے تیرے وعدے سچ ہیں۔ تجھ سے ملاقات یقینی ہے۔ تیرا فرمان سچا ہے۔ جنت، دوزخ، انبیاء، محمد، قیامت یہ سب سچ اور حق ہیں۔ الٰہی میں تیرا فرمانبردار اور تجھ پر ہی ایمان رکھتاہوں‘ تیری ذات پر میرا بھروسہ ہے۔ تیری طرف ہی رجوع کرتا ہوں، تیری مدد سے ہی کفار اور مشرکین سے لڑتاہوں۔ میں سب کچھ تیرے سپرد کرتاہوں۔ پس میرے اگلے پچھلے، پوشیدہ اور ظاہر گناہ معاف فرما۔ جن کو تو مجھ سے زیادہ جانتا ہے۔ تیری ذات ہی اول وآخر ہے۔ تو ہی الٰہ برحق ہے اور تیرے سوا کوئی معبود ومسجود نہیں۔“ مسائل ١۔ منقی لوگ سحری کے وقت اپنے گناہوں کی معافی مانگتے ہیں۔ بالفاظ دیگر صبح کے وقت اپنا احتساب کرتے ہیں۔ ٢۔ متقی لوگوں کی یہ بھی صفت ہوتی ہے کہ وہ اپنے مال سے ان لوگوں کو دیتے ہیں جو اپنی حاجت کے لیے ان سے سوال کرتے ہیں اور ان لوگوں کو بھی دیتے ہیں جو مستحق ہونے کے باوجود نہیں مانگتے۔ اپنی حیاء کی وجہ سے کسی کے سامنے دست دراز نہیں کرتے۔ ٣۔ جنت میں چشمے جاری ہوں گے۔ ٤۔ جنتی نیک اعمال کے بدلے اپنے رب سے انعامات پائیں گے۔ ٥۔ جت میں جانے والے لوگ پوری رات سونے کی بجائے رات کا کچھ حصہ تہجد پڑھنے میں گزارتے ہیں۔ ٦۔ جنت میں جانے والے حضرات اپنے رب کے حضور صبح کے وقت استغفار کرتے ہیں۔ الذاريات
17 الذاريات
18 الذاريات
19 الذاريات
20 فہم القرآن ربط کلام : جنت ایمان کے بدلے نصیب ہوگی اور ایمان یقین کے بغیر حاصل نہیں ہوتا۔ یقین کے ضروری ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کی قدرتوں پر غور وخوض کرے، اور ان پر ایمان لائے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات اور صفات کی معرفت کے لیے نہ صرف زمین میں بے شمار نشانیاں پیدا کی ہیں بلکہ اس نے لوگوں کے وجود میں بھی اپنی قدرت کی نشانیاں پیدا کی ہیں کہ لوگ ان پر غور کریں تو انہیں اپنے رب کی ذات اور صفات پر اس طرح یقین ہوجائے کہ وہ کسی اور کو الٰہ ماننے اور اس کا شریک بنانے اور اس کی نافرمانی کی جرأت نہ کرسکیں۔ لیکن بے شمار لوگ اپنے رب کی قدرتوں اور نعمتوں سے مستفید ہوتے ہیں مگر اس کی ذات اور صفات پر صحیح معنوں میں یقین نہیں رکھتے۔ ایسے لوگوں کو بالخصوص باربار دعوت دی جاتی ہے کہ وہ زمین و آسمان اور اپنے آپ پر غور کریں کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں کس طرح پیدا فرمایا ہے۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے یقین کرنے والوں کے لیے زمین میں اپنی قدرت کی بے شمار نشانیاں رکھی ہیں۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کے وجود میں اپنی قدرت کی نشانیاں رکھی ہیں مگر لوگ غور و فکر نہیں کرتے۔ تفسیر بالقرآن انسان کی تخلیق میں اللہ کی قدرت کی نشانیاں : ١۔ اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں اور زمین و آسمانوں کو پیدا فرمایا۔ (البقرۃ: ٢٢) ٢۔ ” اللہ“ نے انسان کو مٹی سے پیدا کیا۔ (الروم : ٢٠) ٣۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو ایک نطفے سے پیدا کیا۔ (الدھر : ٢) ٤۔ ” اللہ“ ہی نے انسان کو بڑی اچھی شکل و صورت میں پیدا فرمایا۔ (التین : ٤) الذاريات
21 الذاريات
22 فہم القرآن ربط کلام : متقین کی آیت ١٩ میں یہ صفت بیان ہے کہ وہ اپنے مال سے محتاج لوگوں پر خرچ کرتے ہیں۔ اب مال کی حقیقت بتلائی ہے کہ مال پر کسی کا حقیقی اور دائمی اختیار نہیں، اس کا کنٹرول آسمان میں ہے جسے دینے کا تمہارے ساتھ وعدہ کیا گیا ہے۔ ” اللہ“ نے زمین و آسمان کی قسم اٹھا کر یہ بات ارشاد فرمائی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے رزق کا کنٹرول آسمان میں رکھا ہے اور رزق دینے کا اس کا سچا وعدہ ہے۔ اس میں کسی قسم کے شک کی گنجائش نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کی ذات اور بات سچ پر مبنی ہے یہ اس طرح سچ ہے جس طرح تم بولتے ہو۔ رزق سے مراد صرف کھانے پینے کی چیزیں نہیں بلکہ اس سے مراد انسان کی وہ تمام ضروریات ہیں جس کی اسے اپنی پوری زندگی میں حاجت ہوتی ہے۔ اس کا کنٹرول آسمان میں رکھا گیا ہے اس ارشاد کے دو مفہوم ہیں۔ ١۔ رزق اور ہر چیز کا خالق اور مالک اللہ تعالیٰ ہے۔ جو آسمانوں کے اوپر عرش معلی پر اپنی شان کے مطابق جلوہ افروز ہے وہی لوگوں کا رزق تنگ اور کشادہ کرتا ہے۔ ٢۔ انسان کی بیشتر ضروریات کا تعلق پانی سے ہے اور پانی کا دارومدار بارش کے ساتھ ہے۔ بارش کے نزول کا حکم بھی آسمان سے ہوتا ہے۔ بارش بلندیوں سے زمین پر برستی ہے۔ اس لیے ہر دور میں انسان کی زبان پر یہی بات رہی ہے اور رہے گی کہ بارش آسمان سے نازل ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان کی قسم اٹھا کر لوگوں کو یقین دلایا ہے کہ تمہارا رزق آسمانوں میں ہے اور اس نے تمہیں رزق دینے کا وعدہ کر رکھا ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے وعدے میں سچا ہے۔ اسی سورۃ کی آیت ٥٨ میں ارشاد کہ یقیناً اللہ ہی رزق دینے والا ہے اور وہ بڑا طاقتور اور مضبوط ہے۔ ارشاد فرمایا کہ تمہیں رزق دینے والی بات اتنی ہی سچی اور واضح ہے جس طرح تمہارا ایک دوسرے کس ساتھ بات کرنا۔ ٣۔ گو سائنسدان ابھی اس نقطہ پر نہیں پہنچ سکے کہ بارش برسنے کا آسمان سے کیا تعلق ہے ممکن ہے مستقبل قریب یا بعید میں سائنس اس نقطہ پر پہنچ جائے کہ بارش کا تعلق آسمان کے ساتھ ہے جس وجہ سے اسے آسمان کے ساتھ منسوب کیا گیا ہے۔ ( اللہ اعلم) ” زمین میں کوئی چلنے والا جاندار نہیں مگر اس کا رزق اللہ ہی کے ذمّہ ہے اور وہ اس کی قرار گاہ اور اس کے دفن کیے جانے کی جگہ کو جانتا ہے سب کچھ ایک کھلی کتاب میں درج ہے۔“ (ہود : ٦) (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ قَالَ حَدَّثَنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وَھُوَ الصَّادِقُ الْمَصْدُوْقُ قَالَ إِنَّ أَحَدَکُمْ یُجْمَعُ خَلْقُہٗ فِیْ بَطْنِ أُمِّہٖ أَرْبَعِیْنَ یَوْمًانُطْفَۃً ثُمَّ یَکُوْنُ عَلَقَۃً مِثْلَ ذٰلِکَ ثُمَّ یَکُوْنُ مُضْغَۃً مِثْلَ ذٰلِکَ ثُمَّ یَبْعَثُ اللّٰہُ مَلَکًا فَیُؤْمَرُ بِأَرْبَعِ کَلِمَاتٍ وَیُقَالُ لَہٗ أُکْتُبْ عَمَلَہٗ وَرِزْقَہٗ وَأَجَلَہٗ وَشَقِیٌّ أَوْ سَعِیْدٌ ثُمَّ یُنْفَخُ فِیْہِ الرُّوْحُ۔۔) (رواہ البخاری : کتاب بدء الخلق، باب ذکر الملائکۃ) ” حضرت عبداللہ (رض) بیان کرتے ہیں صادق و مصدوق رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ تم میں سے ہر کوئی اپنی ماں کے پیٹ میں چالیس دن ٹھہرتا ہے جو خون کی صورت میں جم جاتا ہے پھر چالیس دن بعد گوشت کا لوتھڑا بن جاتا ہے اس کے بعد اللہ تعالیٰ فرشتہ بھیجتے ہیں اسے آدمی کا عمل، رزق، موت اور نیک وبد ہونا لکھنے کا حکم دیتے ہیں پھر اس میں روح پھونک دی جاتی ہے۔۔۔“ (عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لَوْ أَنَّکُمْ کُنْتُمْ تَوَکَّلُوْنَ عَلَی اللَّہِ حَقَّ تَوَکُّلِہٖ لَرُزِقْتُمْ کَمَا تُرْزَقُ الطَّیْرُ تَغْدُوْ خِمَاصًا وَتَرُوْحُ بِطَانًا) (رواہ الترمذی : کتاب الزہد، باب فِی التَّوَکُّلِ عَلَی اللَّہِ۔ قال البانی ہذا حدیث صحیح) ” حضرت عمر بن خطاب (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اگر تم اللہ تعالیٰ پر توکل کرو جس طرح توکل کرنے کا حق ہے۔ تو تمہیں اسی طرح رزق دیا جائے جس طرح پرندوں کو رزق دیا جاتا ہے۔ وہ صبح خالی پیٹوں کے ساتھ ہوتے ہیں اور شام کو بھرے پیٹوں کے ساتھ لوٹتے ہیں۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے رزق کا کنٹرول آسمان میں رکھا ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ رزاق ہے اور اس نے لوگوں کو رزق مہیا کرنے کا وعدہ کر رکھا ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان کی قسم اٹھا کر فرمایا ہے کہ اس کی ذات اور بات سچ ہے۔ تفسیر بالقرآن ” اللہ“ ہی رزق دینے والا ہے : ١۔ ” اللہ“ ہی رازق ہے۔ (الذاریات : ٥٨) ٢۔ اللہ ہی رزق فراخ کرتا اور کم کرتا ہے۔ (ا لسباء : ٣٩) ٣۔ ” اللہ“ لوگوں سے رزق طلب نہیں مانگتا بلکہ وہ لوگوں کو رزق دیتا ہے۔ (طٰہٰ : ١٣٢) ٤۔ ” اللہ“ جسے چاہتا ہے بغیر حساب کے رزق دیتا ہے۔ (البقرۃ: ٢١٢) ٥۔ بے شک اللہ بغیر حساب کے جس کو چاہتا ہے رزق عطا کرتا ہے۔ (آل عمران : ٣٧) ٦۔ ہم تم سے رزق نہیں مانگتے بلکہ ہم ہی تمہیں رزق دیتے ہیں۔ (طٰہٰ : ١٣٢) الذاريات
23 الذاريات
24 فہم القرآن ربط کلام : آیت ٢١ ارشاد میں ہوا کہ تمہارے وجود میں بھی اللہ نے اپنی قدرت کی نشانیاں رکھی ہیں۔ اللہ کی قدرت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی کے مظہر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور ان کی زوجہ مکرمہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے جہنیں بڑھاپے میں بیٹے عطا فرمائے جن کا مختصر واقعہ یہاں ذکر کیا گیا ہے۔ تمام مؤرخین نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ جب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو حضرت اسحاق اور حضرت یعقوب (علیہ السلام) کی ولادت کی خوشخبری دی گئی تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی عمر سو سال تھی۔ ملائکہ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی خدمت میں حاضر ہو کر انہیں سلام کیا اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے انہیں سلام کا جواب دیا اور سوچا کہ اجنبی لوگ ہیں۔ اس کے باوجود اٹھے اور ایک موٹا تازہ بھنا ہوابچھڑا کھانے کے لیے ان کے سامنے پیش کیا۔ انسانوں کی شکل میں آنے والے ملائکہ نے کھانے کی طرف ہاتھ نہ اٹھایا۔ تو ابراہیم (علیہ السلام) پریشان ہوئے لیکن فرشتوں نے کہا کہ آپ کو خوف زدہ نہیں ہونا چاہیے کیونکہ ہم بری خبر دینے کی بجائے آپ کو دانش مند بیٹے کی خوشخبری سنانے کے لیے حاضر ہوئے ہیں۔ (تفصیل کے لیے دیکھیں میری کتاب سیرت ابراہیم) ” جب دیکھا ان کے ہاتھ کھانے کی طرف نہیں بڑھتے تو انہیں اجنبی جانا اور ان سے خوف محسوس کیا انہوں نے کہا ڈرو نہیں ہم لوط کی قوم کی طرف بھیجے گئے ہیں۔“ (ہود : ٧٠) بشارت سن کر حضرت سارہ[ مسکرائیں : ” اور اس کی بیوی جو اس کے پاس کھڑی تھی یہ سن کر ہنس پڑی۔ ہم نے اس کو اسحاق اور اس کے بعد یعقوب کی خوشخبری سنائی۔ اس نے کہا اف! کیا اب میرے ہاں بچہ ہوگا۔ حالانکہ میں نہایت بوڑھی ہوچکی ہوں اور میرا خاوند بھی بوڑھا ہوچکا ہے یہ عجیب بات ہے۔ فرشتوں نے کہا۔ کیا اللہ کے حکم پر تعجب کرتی ہو۔ اے ابراہیم کے گھر والو! تم پر اللہ کی رحمتیں اور برکتیں ہوں۔ یقیناً اللہ نہایت تعریف والا اور بلند شان کا مالک ہے۔“ (ھود : ٧١، ٧٢، ٧٣) ” اے نبی! آپ ان کو ابراہیم کے معزز مہمانوں کا واقعہ سنائیں۔ جب وہ ابراہیم کے پاس آئے اور کہا تم پر سلام ہو۔ ابراہیم نے کہا ہمیں تو آپ سے ڈر لگتا ہے فرشتے کہنے لگے۔ آپ ڈریں نہیں! ہم آپ کو صاحب علم لڑکے کی خوشخبری دیتے ہیں۔ ابراہیم فرمانے لگے۔ کیا آپ اس بڑھاپے میں مجھے اولاد کی بشارت دے رہے ہیں۔ یہ کیسی بشارت ہے۔“ (الحجر : ٥١ تا ٥٤) ” فرشتے کہنے لگے ہم آپ کو ٹھیک خوشخبری دے رہے ہیں۔ آپ کو مایوس نہیں ہونا چاہیے۔ ابراہیم نے کہا۔ اپنے رب کی رحمت سے تو گمراہ لوگ ہی مایوس ہوا کرتے ہیں۔“ (الحجر : ٥٥، ٥٦) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے تو اظہار تفصیل کے لیے سوال کیا تھا ورنہ وہ تو اپنے رب کی رحمت سے مایوس نہیں تھے۔ کیونکہ رب کی رحمت سے مایوس تو صرف گمراہ لوگ ہی ہوا کرتے ہیں۔ نبی تو اسباب کی ناپیدگی کے باوجود اپنے رب کی رحمت پر بھرپور بھروسہ کرنے والا ہوتا ہے۔ اس واقعہ میں بتانا یہ مقصود ہے۔ اے اہل مکہ یہ حقیقت جان لو تم فرشتوں کے نزول کا مطالبہ کرتے ہو کہ فرشتے آکر اس نبی کی تائید کریں۔ تب ہم غور کرنے کے لیے تیار ہوں گے۔ یاد رکھو فرشتے یا تو کسی کے لیے رحمت لے کر آتے ہیں یا زحمت! تم سوچ لو تم کس چیز کے مستحق ہو؟ دوسری بات یہ ہے کہ اللہ بغیر اسباب کے سب کچھ کرسکتا ہے اور کرتا ہے۔ جس طرح ابراہیم (علیہ السلام) کے ہاں اولاد کے ظاہری اسباب نہیں تھے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کو بیٹے عطا فرمائے۔ اسی طرح حالات نامساعد ہی کیوں نہ ہوں اللہ اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور دین کو ضرور کامیاب فرمائے گا۔ کیونکہ ” اللہ“ اسباب کا پابند نہیں۔ اسباب اس کے حکم کے پابند ہیں۔ حضرت اسحاق (علیہ السلام) : مؤرخین نے لکھا ہے کہ جب ابراہیم (علیہ السلام) کو حضرت اسحاق (علیہ السلام) کی ولادت کی خوشخبری دی گئی تو آپ کی عمر سو سال اور آپ کی زوجہ حضرت سارہ کی عمر نوے سال تھی۔ اللہ تعالیٰ نے ابراہیم (علیہ السلام) حضرت اسحاق کی خوشخبری دینے کے ساتھ پوتے یعقوب کی خوشخبری بھی عطا فرمائی۔ (ھود : ٦٩، ٧٠) مسائل ١۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس معزز فرشتے انسانوں کی شکل میں حاضر ہوئے۔ ٢۔ ملائکہ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو سلام عرض کیا۔ جواب میں ابراہیم (علیہ السلام) نے بھی انہیں سلام کہا۔ ٣۔ ابراہیم (علیہ السلام) مہمانوں کو پہچان نہ سکے۔ ٤۔ ابراہیم (علیہ السلام) اپنے مہمانوں سے خوف زدہ ہوگئے۔ ٥۔ مہمانوں نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو اطمینان دلانے کے بعد صاحب علم بیٹے کی بشارت دی۔ ٦۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی بیوی حضرت سارہ خوشخبری سن کر تعجب کے مارے ہنس پڑی اور کہا ایک بانجھ بڑھیا کے ہاں کس طرح بچہ پیدا ہوگا۔ ٧۔ ملائکہ نے کہا آپ کا رب آپ کو ضرور بیٹاعطا فرمائے گا۔ کیونکہ وہ حکمت والا اور جاننے والا ہے۔ تفسیر بالقرآن انبیائے کرام (علیہ السلام) غیب نہیں جانتے تھے : ١۔ حضرت نوح نے فرمایا میرے پاس خزانے نہیں اور نہ ہی میں غیب جانتا ہوں۔ (ہود : ٣١) ٢۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ملائکہ کو نہ پہچان سکے۔ (ہود : ٧٠، ٦٩) ٣۔ حضرت لوط ملائکہ کو نہ پہچان سکے۔ (ہود : ٧٧، ٧٨) ٤۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرما دیں میں نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں اور نہ ہی میں غیب جانتاہوں۔ (الانعام : ٥٠) ٥۔ فرمادیجیے کہ زمین و آسمان کے غیب کو ” اللہ“ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ (النمل : ٦٥) ٦۔ اگر میں غیب جانتا ہوتا تو میں اپنے لیے بہت سی بھلائیاں جمع کرلیتا۔ (الاعراف : ١٨٨) ٧۔ ” اللہ“ کے پاس غیب کی چابیاں ہیں اس کے سوا کوئی غیب نہیں جانتا۔ (الانعام : ٥٩) الذاريات
25 الذاريات
26 الذاريات
27 الذاريات
28 الذاريات
29 الذاريات
30 الذاريات
31 فہم القرآن ربط کلام : ابراہیم (علیہ السلام) نے بیٹے کی خوشخبری سن کر ملائکہ سے استفسار فرمایا کہ اس کے علاوہ آپ کی تشریف آوری کا مقصد کیا ہے ؟ بیٹے کی خوشخبری سن کر ابراہیم (علیہ السلام) ملائکہ سے استفسار فرماتے ہیں کہ تمہاری تشریف آوری کا اور کیا مقصد ہے؟ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اللہ کے نبی تھے اور انہیں معلوم تھا کہ وحی لانے کے لیے اکثر اوقات ایک ہی فرشتہ آیا کرتا ہے لیکن آج بیک وقت تین ملائکہ تشریف لائے ہیں۔ اس کی کوئی خا ص وجہ معلوم ہوتی ہے۔ اس لیے انہوں نے پوچھا کہ مجھے خوشخبری دینے کے علاوہ اور کیا پروگرام ہے ؟ ملائکہ نے جواب دیا کہ ہم مجرم قوم کی طرف بھیجے گئے ہیں تاکہ ان پر آپ کے رب کی طرف سے پکی مٹی کے پتھر برسائیں جو نشان زدہ ہیں۔ پتھر ان لوگوں پر برسائیں جائیں گے جو اللہ کی حدود کو پھلانگ چکے ہیں۔ ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمایا کہ وہاں تو لوط (علیہ السلام) اور ان کے ایماندار ساتھی بھی موجود ہیں۔ ملائکہ نے جواب دیا کہ لوط (علیہ السلام) کی بیوی کے سوا انہیں اور ان کے ساتھیوں کو عذاب سے پہلے نکل جانے کا حکم ہوگا۔ یاد رہے کہ حضرت لوط (علیہ السلام) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے بھتیجے تھے۔ نامعلوم انہوں نے اپنی قوم کو کتنی مدت سمجھایا لیکن بدبخت اور بدکردار قوم سمجھنے کے لیے تیار نہ ہوئی، لوط (علیہ السلام) پر ان کے گھروالوں کے سوا کوئی شخص ایمان نہ لایا۔ اس لیے قرآن مجید نے اس بات کی وضاحت کی ہے کہ ایک گھر کے سوا اس شہر میں مسلمانوں کا کوئی اور گھر موجود نہیں تھا۔ رب ذوالجلال نے اس علاقے کو تباہ کرکے آنے والے لوگوں کے لیے عبرت کا نشان بنا دیا جو اللہ کے اذیت ناک عذاب سے ڈرتے ہیں۔ ” شہر کے لوگ خوشی کے مارے دوڑتے ہوئے، لوط (علیہ السلام) کے گھر پر چڑھ آئے لوط نے کہا یہ میرے مہمان ہیں اللہ سے ڈرو اور مجھے ذلیل نہ کرو۔ قوم اس قدر بے شرم بے حیا تھی کہ انہیں اس بات کا کوئی اثرنہ ہوا۔ وہ کہنے لگے کہ کیا ہم نے تمہیں منع نہیں کیا کہ دنیا کے ذمہ دار نہ بنا کرو۔ لوط (علیہ السلام) نے فرمایا اگر تم باز نہیں آتے تو میری بیٹیاں موجود ہیں۔ تیری جان کی قسم اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس وقت ان پر سرکشی کا نشہ چڑھا ہوا تھا جس میں وہ اندھے ہوچکے تھے۔“ (الحجر : ٦٧ تا ٧٢) حضرت لوط (علیہ السلام) مہمانوں کی آمد پر پریشان ہوگئے : (وَ لَمَّا جَآءَ تْ رُسُلُنَا لُوْطًا سِیْٓءَ بِہِمْ وَ ضَاقَ بِہِمْ ذَرْعًا وَّ قَالَ ہٰذَا یَوْمٌ عَصِیْبٌ) (ھود : ٧٧) ” جب ہمارے فرشتے لوط کے پاس پہنچے وہ فرشتوں کی آمد سے بہت گھبرا گئے اور دل میں تنگی محسوس کی۔ کہنے لگے کہ آج کا دن مصیبت کا دن ہے۔“ (قَالَ لَوْ اَنَّ لِیْ بِِکُمْ قُوَّۃً اَوْ اٰوِیْٓ اِلٰی رُکْنٍ شَدِیْدٍ) ( ہود : ٨٠) ” لوط (علیہ السلام) نے فرمایا کہ کاش میرے پاس طاقت ہوتی تو میں تمہارا مقابلہ کر تایا کسی مضبوط سہارے کی پناہ لے۔“ حافظ ابن کثیر نے ١٢ آیت ٨١ کے حوالے سے تحریر فرمایا کہ جب فرشتے حضرت لوط (علیہ السلام) کے پاس آئے تو وہ اپنے کھیتوں میں کام کر رہے تھے۔ انہوں نے کہا آج رات ہم آپ کے پاس مہمان ہیں۔ حضرت لوط (علیہ السلام) نے وضع داری کی بنا پر انکار نہ کیا تاہم گھر جاتے ہوئے انہوں نے راستے میں اپنی مجبوری اور قوم کی بدکرداری کا اس انداز سے ذکر کیا کہ آپ کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ فرمانے لگے ہائے افسوس میری قوم تمام مخلوق سے بد تر ہوچکی ہے۔ گھر پہنچے تو آپ کی بیوی نے آنکھیں بچاکر چھت پر کھڑے ہو کر کپڑا ہلایا جس سے اوباش لوگ دوڑتے ہوئے آئے اور لوط (علیہ السلام) کے گھر کا گھیراؤ کرلیا اور مہمانوں کی برآمدگی کا مطالبہ کرنے لگے بعض مؤرخین نے لکھا ہے کہ بدمعاش دروازہ توڑنے لگے۔ اس صورتحال میں لوط (علیہ السلام) پریشان ہو کر کہنے لگے۔ کاش آج میرے پاس قوت ہوتی یا کوئی سہارا ہوتا، جس کی پناہ حاصل کرتا۔ قرآن مجید کے سیاق وسباق سے یہ بات بالکل واضح ہوتی ہے کہ جب جناب لوط (علیہ السلام) کے پاس فرشتے آئے تو انہیں کچھ خبر نہیں تھی، کہ یہ فرشتے ہیں یا کہ عام مہمان ہیں جو لڑکوں کی شکل وصورت میں آئے ہیں ورنہ وہ کسی صورت میں یہ نہ کہتے کہ میرے مہمانوں میں مجھے ذلیل نہ کرو۔ میری بیٹیاں حاضرہیں، گو اس جملے کے دو مفہوم بیان کیے گئے ہیں۔ ایک یہ کہ نبی بحیثیت باپ کے ہوتا ہے۔ اس منصب کے حوالے سے جناب لوط (علیہ السلام) نے قوم کی بیٹیوں کا ذکر کیا کہ جو تمہارے گھروں میں پہلے سے موجود ہیں وہ بھی تو میری بیٹیاں ہیں آخر تم جائز انداز میں اپنے جذبات کی تسکین کیوں نہیں کرتے ؟ اگر یہ مطلب لیا جائے کہ انہوں نے اپنی حقیقی بچیوں کے بارے میں یہ الفاظ کہے تھے تو اس کا معنی صرف اتنا ہی لینا چاہئے کہ انہوں نے انہیں انتہائی شرم دلانے کے لیے ایسے الفاظ استعمال فرمائے۔ جیسا کہ آج بھی معزز آدمی دو فریقوں میں صلح کرواتے وقت کہہ دیتا ہے کہ چھوڑو بھائی اگر اس نے تجھے مارا یا گالی دی تو تم مجھے مار لو یا گالی دے لو۔ لیکن معاملہ رفع دفع ہونا چاہیے بہرحال یہ بات محاورۃً کہی یا حقیقتاً فرمائی مقصد انہیں شرم دلانا تھا ورنہ معمولی غیرت رکھنے والا شخص اپنی بٹیوں کے بارے میں یہ بات نہیں کہتا جناب لوط (علیہ السلام) تو اللہ کے نبی تھے نبی تو سب سے زیادہ غیرت والا ہوتا ہے۔ لیکن بے شرم لوگ کہنے لگے کہ ہمیں عورتوں کے ساتھ کوئی دلچسپی نہیں۔ ہم جو کرنا چاہتے ہیں۔ تجھے اچھی طرح معلوم ہے۔ اندازہ لگائیں جناب لوط (علیہ السلام) کو کس قدر بے شرم اور بے حیا قوم کے ساتھ واسطہ پڑا تھا۔ حضرت لوط (علیہ السلام) کے لیے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعا : (یَغْفِرُ اللّٰہُ لِلُوطٍ إِنْ کَانَ لَیَأْوِی إِلَی رُکْنٍ شَدِیدٍ) (رواہ البخاری : باب ولوطا اذ قال لقومہ) ” اللہ“ لوط (علیہ السلام) پر معاف فرمائے کہ وہ رکن شدید کی پناہ کے طالب ہوئے۔“ انہوں نے بے سہارا ہونے کی بات کہی حالانکہ ان کے پاس رب ذوالجلال کا زبردست سہارا تھا۔ فرشتوں نے حضرت لوط (علیہ السلام) کو تسلی دی : ” تب فرشتوں نے لوط (علیہ السلام) کو کہا آپ گھبرائیں نہیں ہم تو آپ کے رب کے بھیجے ہوئے فرشتے ہیں۔ یہ لوگ آپ کی طرف نہیں بڑھ سکتے۔ بس آپ رات کے آخری حصے میں اپنے گھر والوں کو لے کر یہاں سے نکل جائیں اور آپ میں سے کوئی فرد پیچھے پلٹ کر نہ دیکھے۔ ہاں اپنی بیوی کو ساتھ نہ لے جائیں کیونکہ آپ کی بیوی کے ساتھ وہی کچھ ہونے والا ہے، جو آپ کی قوم کے ساتھ ہوگا بس ان کی تباہی کے لئے صبح کا وقت مقرر ہوچکا ہے۔ کیا صبح قریب نہیں ہے؟“ (ہود : ٨١) (فَلَمَّا جَآءَ اَمْرُنَا جَعَلْنَا عَالِیَہَا سَافِلَہَا وَ اَمْطَرْنَا عَلَیْہَا حِجَارَۃً مِّنْ سِجِّیْلٍ مَّنْضُوْدٍ مُّسَوَّمَۃً عِنْدَ رَبِّکَ وَ مَا ہِیَ مِنَ الظّٰلِمِیْنَ بِبَعِیْدٍ) (ھود : ٨٢، ٨٣) ” پھر جب ہم نے حکم نافذ کیا تو ہم نے اس بستی کو اوپر نیچے کردیا اور اس پر تابڑ توڑ پکی مٹی کے پتھر برسائے۔ تیرے رب کی طرف سے ہر پتھر پر نشان لگا ہوا تھا۔ ظالموں سے یہ سزا دور نہیں ہے۔“ مزید تفصیل کے لیے سورۃ ہود کی آیت ٨٢، ٨٣ کی تفسیر ملاحظہ فرمائیں۔ الذاريات
32 الذاريات
33 الذاريات
34 الذاريات
35 الذاريات
36 الذاريات
37 الذاريات
38 فہم القرآن ربط کلام : حضرت لوط (علیہ السلام) کی قوم کے بعد فرعون اور اس کے ساتھیوں کا انجام۔ ” ہم نے اپنی نشانیاں دے کر موسیٰ کو فرعون اور اس کے سرداروں کی طرف بھیجا۔ موسیٰ نے کہا اے فرعون! بے شک میں جہانوں کے رب کی طرف سے رسول ہوں۔ اس بات پر پوری طرح قائم ہوں کہ اللہ کے ذمے حق کے سوا کچھ نہ کہوں بلاشبہ میں تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے ایک واضح دلیل لے کر آیاہوں۔ اس لیے میرے ساتھ بنی اسرائیل کو بھیج دے۔ اس نے کہا اگر تو کوئی نشانی لے کر آیا ہے تو وہ پیش کر۔ اگر تو سچ بولنے والوں میں سے ہے۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی لاٹھی پھینکی تو اچانک وہ ایک اژدہا تھا اور اپنا ہاتھ باہرنکالا تو وہ دیکھنے والوں کے لیے چمک رہا تھا۔“ (الاعراف : ١٠٣ تا ١٠٨) ” جب ہماری طرف سے ان کے پاس حق آیا تو کہنے لگے یقیناً یہ تو واضح طور پر جادو ہے۔ موسیٰ نے کہا کیا تم حق کے بارے میں یہ کہتے ہو، جب وہ تمھارے پاس آیا۔ کیا یہ جادو ہے ؟ جادوگر تو کامیاب نہیں ہوتے۔ انھوں نے کہا۔ کیا تو ہمارے پاس اس لیے آیا ہے کہ ہمیں اس راہ سے پھیر دے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے اور ملک میں تمہیں بڑائی حاصل ہوجائے۔ ہم تمہیں کسی صورت ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں، فرعون نے اپنے ساتھیوں سے کہا میرے پاس ہر ماہر جادوگر لے کر آؤ۔ جب جادوگر آگئے تو موسیٰ نے ان سے کہا ڈالو جو کچھ تم ڈالنا چاہتے ہو۔ جب انھوں نے ڈالا، موسیٰ نے فرمایا تم جو کچھ لائے ہو یہ تو جادو ہے، یقیناً اللہ اسے جلدہی جھوٹا ثابت کردے گا۔ بے شک اللہ مفسدوں کے کام کو کامیاب نہیں کرتا۔ اللہ حق کو اپنے فرمان کے ساتھ حق ثابت کردیتا ہے، خواہ مجرم اسے ناپسند کریں۔“ (یونس : ٧٦ تا ٨٢) ” فرعون نے اپنے درباریوں سے کہا مجھے چھوڑو کہ میں موسیٰ کو قتل کرنا چاہتا ہوں بے شک یہ میرے مقابلے میں اپنے رب کو لے آئے۔ مجھے خطرہ ہے کہ یہ تمہارا دین بدل ڈالے گا یا ملک میں فساد برپا کردے گا۔ موسیٰ نے کہا میں نے ہر متکبر کے مقابلے میں جو یوم الحساب پر ایمان نہیں رکھتا اپنے رب اور تمہارے رب کی پناہ لی ہے۔” اس موقع پر آل فرعون میں سے ایک مومن جو اپنا ایمان چھپائے ہوئے تھا بول اٹھا کیا تم ایک شخص کو اس بناء پر قتل کرو گے کہ وہ کہتا ہے میرا رب ” اللہ“ ہے، اور وہ تمہارے رب کی طرف سے تمہارے پاس واضح دلائل لے کر آیا ہے، اگر وہ جھوٹا ہے تو اس کا جھوٹ خود اسی پر پلٹ جائے گا۔ اگر وہ سچا ہے تو جن ہولناک نتائج سے تمہیں ڈراتا ہے۔ وہ تمہیں بھگتنے پڑیں گے، اللہ کسی ایسے شخص کو ہدایت نہیں دیتا جو حد سے گزر جانے والا اور جھوٹا ہو۔“ (المومن : ٢٦ تا ٢٨) ” ہم نے بنی اسرائیل کو سمندر سے پار کیا تو فرعون اور اس کے لشکروں نے سر کشی اور زیادتی کرتے ہوئے ان کا تعاقب کیا، یہاں تک کہ جب وہ غرق ہونے لگا تو کہا کہ میں ایمان لایا یقیناً حقیقت یہ ہے کہ جس پر بنی اسرائیل ایمان لائے ہیں اس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور میں فرمانبرداروں سے ہوں۔ کیا اب ؟ حالانکہ تو نافرمان تھا اور تو فساد کرنیوالوں میں سے تھا۔ پس آج ہم تیرے وجود کو بچا لیں گے، تاکہ تو ان کے لیے عبرت بنے جو تیرے بعد آنے والے ہیں اور یقیناً بہت سے لوگ ہماری نشانیوں سے غفلت برتنے والے ہیں۔“ (یونس : ٩٠ تا ٩٢) تفسیربالقرآن فرعون اور اس کے حواریوں کا انجام : ١۔ آل فرعون کو غرق کردیا۔ (الاعراف : ٦٤) ٢۔ ہم نے فرعونیوں سے انتقام لیا اور انہیں دریا برد کردیا۔ (الزخرف : ٥٥) ٣۔ ہم نے فرعون اور اس کے ساتھیوں کو غرق کردیا۔ (بنی اسرائیل : ١٠٣) ٤۔ ہم نے موسیٰ اور اس کے ساتھیوں کو نجات دی اور آل فرعون کو غرق کردیا۔ (الشعراء : ٦٦) ٥۔ ہم نے انہیں اور ان کے لشکروں کو پکڑ کر دریا میں پھینک دیا۔ (الذاریات : ٤٠) ٦۔ آج ہم تیرے جسم کو بچائیں گے تاکہ بعد میں آنے والوں کے لیے نشان عبرت بنائیں۔ (یونس : ٩٢) ٧۔ قیامت کے دن فرعون اپنی قوم کے آگے آگے چلے گا اور وہ انہیں دوزخ میں لے جائے گا۔ (ہود : ٩٨) الذاريات
39 الذاريات
40 الذاريات
41 فہم القرآن ربط کلام : فرعون کے انجام کے بعد قوم عاد کا حشر۔ حضرت ھود (علیہ السلام) کا تعلق عرب کے عاد قبیلے سے تھا جس کی رہائش موجودہ جغرافیے کے مطابق عمان اور یمن کے علاقے حضرموت کے درمیان تھی۔ یہ علاقہ سمندر کے کنارے پر واقع تھا۔ یہاں ریت کے بڑے بڑے ٹیلے اور بلندوبالاپہاڑ تھے۔ اس کے رہنے والے جسمانی اعتبار سے دراز قامت، کڑیل جوان اور قوی ہیکل لوگ تھے۔ دنیا میں ان کا کوئی ثانی نہیں ہوا۔ انھوں نے پہاڑوں کو تراش تراش کر خوبصورت محلات تعمیر کر رکھے تھے۔ ان کی سرزمین نہایت سر سبزتھی جس میں ہر قسم کے باغات آراستہ تھے انھیں قرآن مجید میں ” احقاف والے“ کہا گیا ہے۔ احقاف ریت کے بڑے بڑے ٹیلوں کو کہا جاتا ہے جو عرب کے جنوب مغربی حصہ میں واقع تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اسی علاقہ میں حضرت ہود (علیہ السلام) کو مبعوث فرمایا جو خوش اندام، کڑیل جوان اور بہترین صورت و سیرت کے حامل تھے۔ قوم عاد کی خصوصیات اور جرائم : ١۔ اللہ تعالیٰ نے عاد کو قوم نوح کے بعد زمین پر اقتدار اور اختیار بخشا۔ (الاعراف : ٦٩) ٢۔ قوم عاد اس قدر کڑیل اور قوی ہیکل جوان تھے کہ ان جیسا دنیا میں کوئی اور پیدا نہیں کیا گیا۔ (الفجر ٦ تا ٨ ) ٣۔ انھیں افرادی قوت اور مویشیوں سے نوازا گیا۔ (الشعراء : ١٣٣) ٤۔ یہ قوم بڑے بڑے محلات میں رہتی تھی۔ کھیتی باڑی اور باغات میں ان کا کوئی ثانی نہیں تھا۔ (الشعراء ١٢٩ تا ١٣٣) ٥۔ یہ لوگ آخرت کو جھٹلانے والے اور دنیا پر اترانے والے تھے۔ (المؤمنون : ٣٣) ٦۔ ان کا عقیدہ تھا کہ اس دنیا کے سوا اور کوئی جہاں برپا نہیں ہوگا۔ (المؤمنون : ٣٧) ٧۔ یہ اپنی قوت پر اترانے والے تھے۔ (حٰآالسجدۃ : ١٥) ٨۔ انھوں نے خود ساختہ معبود بنا رکھے تھے ان کے سامنے جھکتے، نذرو نیاز اور اپنی حاجات پیش کرتے تھے۔ (الاعراف : ٧٠) حضرت ھود (علیہ السلام) نے انہیں سمجھایا کہ صرف ایک ” اللہ“ کی عبادت کرو اور کمزوروں پر ظلم کرنے سے باز آجاؤ۔ اے میری قوم! میں اس کام کے بدلے تم سے کسی قسم کی ستائش اور صلہ نہیں چاہتا۔ میرا صلہ اس ذات کبریا کے پاس ہے۔ جس نے مجھے پیدا کیا ہے۔ میری مخالفت کرنے کی بجائے ٹھنڈے دل کے ساتھ سوچو! کہ اس دعوت میں میرا کیا مفاد اور تمہارا نقصان کیا ہے؟ میں تم کو لوگوں پر ظلم کرنے اور غیر اللہ کی عبادت کرنے سے روکتا ہوں۔ جن کو تم بلاتے اور پکارتے ہو۔ کیونکہ یہ اللہ کے سوا کچھ اختیار نہیں رکھتے۔ جو تم ان کے بارے میں دعوے کرتے ہو اس کی کوئی بنیاد نہیں یہ سراسر جھوٹ اور بناوٹی باتیں ہیں۔ کیا تم سوچنے کے لیے تیار ہو؟ ” قوم عاد ایک شدید آندھی سے تباہ کردی گئی۔ اللہ تعالیٰ نے اس کو مسلسل سات رات اور آٹھ دن ان پر مسلط کیے رکھا آپ وہاں ہوتے تو دیکھتے کہ وہ وہاں اس طرح بکھرے پڑے ہیں جیسے وہ کھجور کے بوسیدہ تنے ہوں۔“ (الحاقہ : ٦، ٧) قوم کا جواب : ١۔ قوم نے حضرت ھود کو بے وقوف قرار دیا۔ (الاعراف : ٦٦) ٢۔ قوم نے کہا کہ ھود (علیہ السلام) ہماری طرح ہی طرح کھانے، پینے والا انسان ہے۔ (المؤمنون : ٣٣) ٣۔ انھوں نے کہا اے ھود تو اللہ پر جھوٹ بناتا ہے۔ (المؤمنون : ٣٨) ٤۔ تیرے کہنے پر ہم اپنے معبودوں کو نہیں چھوڑ سکتے یہ محض پہلے لوگوں کی کہانیاں ہیں۔ (الشعراء : ١٣٧) ٥۔ تم ہمیں سمجھاؤ یا نہ سمجھاؤ ہم نہیں مانیں گے۔ (شعراء : ١٣٦) ٦۔ ہمارے معبودوں کی تجھے بد دعا لگ گئی ہے۔ (ھود : ٥٤) ٧۔ ہم پر کوئی عذاب آنے والا نہیں تو جھوٹ بولتا ہے۔ (الشعراء : ١٣٨ تا ١٣٩) ٨۔ اگر تو اپنے دعوے میں سچا ہے تو ہم پر عذاب لے آو۔ (الاحقاف : ٢٢) تفسیر بالقرآن قوم عاد کا انجام : ١۔ اللہ تعالیٰ نے عذاب سے حضرت ھود اور ایمانداروں کو محفوظ رکھا۔ (ھود : ٥٨) ٢۔ سات راتیں اور آٹھ دن زبردست آندھی اور ہوا کے بگولے چلے۔ (الحاقہ : ٧) ٣۔ گرج چمک اور بادو باراں کا طوفان آیا۔ (الاحقاف : ٢٤) ٤۔ انھیں ریزہ ریزہ کردیا گیا۔ (الذاریات : ٤١۔ ٤٢) ٥۔ آندھی نے انھیں کھجور کے تنوں کی طرح پٹخ پٹخ کر دے مارا۔ (الحاقہ : ٧) ٦۔ قوم ھود کو نیست و نابود کردیا گیا۔ (الاعراف : ٧٢) ٧۔ دنیا اور آخرت میں ان پر پھٹکار برستی رہے گی۔ (حٰم السجدۃ : ١٦) الذاريات
42 الذاريات
43 فہم القرآن ربط کلام : قوم عاد کے بعد قوم ثمود کا دور اور ان کا انجام۔ قرآن مجید نے قوم ثمود کو اصحاب الحجر بھی کہا ہے۔ (الحجر : ٨٠) اس کا علاقہ مدینہ سے تبوک جاتے ہوئے راستے میں پڑتا ہے۔ یہ علاقہ جغرافیائی اعتبار سے خلیج اربعہ کے مشرق میں اور شہر مدین کے جنوب مشرق میں واقع ہے۔ یہ قوم اس قدر ٹیکنالوجی اور تعمیرات کے معاملے میں ترقی یافتہ تھی کہ انہوں نے پہاڑوں کو تراش تراش کر مکانات اور کالونیاں تعمیر کرلی تھیں تاکہ زلزلہ اور طوفان انہیں نقصان نہ پہنچا سکے۔ یہ قوم بھی کفرو شرک کا عقیدہ رکھنے کے ساتھ بڑے بڑے جرائم میں ملوث تھی۔ اللہ تعالیٰ نے اس قوم میں صالح (علیہ السلام) کو مبعوث فرمایا۔ صالح (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو بہت سمجھایا مگر یہ لوگ کفر و شرک اور برے اعمال سے باز نہ آئے۔ بلکہ حضرت صالح (علیہ السلام) اور ان کے ایماندار ساتھیوں کے بارے میں یہ پروپیگنڈہ کرتے کہ تم ہمارے لیے نحوست کا سبب ہومزید کہتے کہ صالح (علیہ السلام) پر جادو کا اثر ہوچکا ہے۔ (الشعراء : ١٤٢ تا ١٥٣) انھوں نے حضرت صالح (علیہ السلام) سے کہا کہ ہم اس وقت تک ایمان نہیں لائیں گے جب تک ہمارے سامنے اس پہاڑ سے گابھن اونٹنی نمودار نہ ہو۔ حضرت صالح (علیہ السلام) نے انہیں بہت سمجھایا کہ اس طرح معجزہ طلب نہ کرو۔ اگر تمہارا منہ مانگا معجزہ دے دیا گیا اور پھر تم نے اس کا انکار کیا تو تمہارا بچنا مشکل ہوگا۔ لیکن قوم اپنے مطالبہ پر مصر رہی۔ چنانچہ انہیں اونٹنی کا معجزہ دیا گیا مگر انہوں نے اونٹنی کی ٹانگیں کاٹ دیں۔ جس کے سبب عذاب نا زل ہوا۔ جس کا یہاں اشارہ کیا گیا ہے۔ (تفصیل کے لیے دیکھیں فہم القرآن، جلد ٢: سورۃ الاعراف، آیت ٧٣ تا ٨٤ کی تفسیر ملاحظہ فرمائیں) حضرت صالح (علیہ السلام) نے اپنی دعوت کا آغاز وہاں سے کیا جہاں سے حضرت نوح اور حضرت ھود ( علیہ السلام) نے کیا تھا۔ انہوں نے اپنی قوم کو فرمایا کہ اے میری قوم! صرف ایک اللہ کی عبادت کرو۔ یہ بات پہلے بھی عرض کی جاچکی ہے کہ عبادت کا جامع مفہوم یہ ہے کہ دین کی مقرر کردہ عبادات کی ادائیگی کے ساتھ آدمی اپنے فکر و عمل کو پوری طرح اللہ کے حکم کے تابع کردے۔ حضرت صالح (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو اللہ کی عبادت کی تلقین کرتے ہوئے فرمایا کہ تمہیں اس اللہ کی عبادت کا حکم دیا جا رہا ہے، جس نے تمہیں زمین سے پیدا کیا اور پھر تمہیں اس میں آباد فرمایا۔ لیکن تم ” اللہ“ کا شکر اور اس کی عبادت کرنے کی بجائے بغاوت پر اتر آئے ہو۔ تمہیں اپنے گناہوں کی معافی مانگتے ہوئے آئندہ کے لیے سچی توبہ کرنی چاہیے۔ یقین کرو کہ میرا رب ہر انسان کے قریب ہے اور توبہ کرنے والے کی جلد توبہ قبول کرلیتا ہے۔ (البقرۃ: ١٨٦) قوم کا جواب : ١۔ اے صالح ہم تو تجھے بہت اچھا سمجھتے تھے مگر تو ہمارے آباؤ اجداد کو گمراہ قرار دیتا ہے۔ (ھود : ٦٢) ٢۔ کیا تو ہمیں ان کاموں سے روکتا ہے جو ہمارے بزرگ کرتے چلے آئے ہیں۔ (ھود : ٦٢) ٣۔ ہم تمھیں اور تمھارے ساتھیوں کو منحوس سمجھتے ہیں۔ (النمل : ٧٤) ٤۔ کیا ہم اپنے بزرگوں، آباؤ اجداد کے مذہب کو چھوڑ کر صرف تمھاری پیروی کریں۔ (القمر : ٢٤) ٥۔ اگر تم ہمارے دین پر نہ آئے تو ہم تمہیں اپنے علاقے سے نکال دیں گے۔ (ابراہیم : ١٣) ٦۔ صالح تو بہت بڑا جھوٹا اور بڑائی بکھیرنے والا ہے۔ (القمر : ٢٥) ٧۔ تم پر کسی نے جادو کردیا ہے۔ (الشعراء : ١٥٣) تفسیر بالقرآن قوم ثمود کا انجام : ١۔ قوم ثمود کے لیے دوری ہے۔ (ھود : ٦٨) ٢۔ ثمود زور دار آواز کے ساتھ ہلاک کیے گئے۔ (الحاقۃ: ٥) ٣۔ مدین والوں کا نام ونشان مٹ گیا۔ قوم ثمود کی طرح مدین والوں کے لیے دوری ہے۔ (ھود : ٩٥) ٤۔ انھوں نے اونٹنی کی کونچیں کاٹ ڈالیں اور وہ نادم ہونے والوں میں سے ہوگئے۔ (الشعراء : ١٥٧) ٥۔ شیطان نے قوم عاد و ثمود کے اعمال بد کو ان کے لیے فیشن بنا دیا تھا۔ (العنکبوت : ٣٨) ٦۔ قوم ثمود کو زلزلے نے آپکڑا اور وہ اپنے گھروں میں اوندھے پڑے رہ گئے۔ (الاعراف : ٧٨) ٧۔ قوم ثمود کو چیخ نے آپکڑا وہ اپنے گھروں میں اوندھے پڑے رہ گئے۔ (ھود : ٦٧) الذاريات
44 الذاريات
45 الذاريات
46 فہم القرآن ربط کلام : قوم ثمود کے بعد قوم نوح کا ذکر۔ تاریخی اعتبار سے قوم نوح قوم عاد، ثمود اور آل فرعون سے پہلے گزری ہے اس لیے ارشاد ہوا کہ ان اقوام سے پہلے قوم نوح کا واقعہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح (علیہ السلام) کو ان کی قوم میں اس وقت نبوت سے سرفراز فرمایا جب ان کی قوم نافرمان ہوچکی تھی قوم نوح کا سب سے بڑا گناہ شرک تھا یہ لوگ مجسموں کے پجاری بن چکے تھے ان کے بارے میں حضرت عبداللہ بن عباس (رض) نے فرمایا کہ جب نوح (علیہ السلام) کی قوم کے نیک لوگ فوت ہوگئے تو شیطان نے ان کی اولاد کے دل میں یہ خیال ڈالا کہ جہاں تمھارے بزرگ بیٹھا کرتے تھے وہاں ان کے مجسمے تراش کر رکھ دیے جائیں تاکہ ان کا نام اور عقیدت باقی رہے۔ اس طرح ” اللہ“ کی عبادت یکسوئی کے ساتھ ہو پائے گی، چنانچہ انھوں نے ایسا کیا جب یہ کام کرنے والے لوگ فوت ہوگئے تو ان کے بعد آنے والے لوگوں نے ان مجسموں کو اللہ تعالیٰ کی قربت کا وسیلہ بناناشروع کردیا اور پھر ان کے حضور سجدے، رکوع اور نذرانے پیش کیے جانے لگے۔ حضرت عبداللہ بن عباس (رض) یہ بھی فرمایا کرتے تھے کہ سورۃ نوح میں ودّ، سواع، یغوث اور یعوق کے نام پر جن بتوں کا تذکرہ پایا جاتا ہے وہ نوح (علیہ السلام) کی قوم کے صالح لوگوں کے نام ہیں۔ (رواہ البخاری : کتاب التفسیر، طبری تفسیر سورۃ نوح، آیت : ٢٣، ٢٤) سورۃ العنکبوت آیت ١٤ میں بیان ہوا ہے کہ جناب نوح (علیہ السلام) نے ساڑھے نو سو سال قوم کی اصلاح کرنے میں صرف فرمائے۔ قرآن مجید نے یہ وضاحت بھی فرمائی ہے کہ انھوں نے اللہ تعالیٰ سے یہ فریاد کی کہ میرے رب میں نے اپنی قوم کو رات اور دن، انفرادی اور اجتماعی طور پر سمجھانے کی کوشش کی لیکن میری شب و روز کی کوشش کے باوجود قوم شرک اور برائی میں بڑھتی ہی چلی گئی۔ (نوح : ٢٤) قوم نہ صرف جرائم میں آگے برھتی گئی بلکہ الٹا انھوں نے نوح (علیہ السلام) کے بارے میں کہا کہ یہ تو گمراہ ہوگیا ہے اور پھر بار بار مطالبہ کیا کہ اے نوح! اگر تو واقعی اللہ کا سچا نبی ہے تو ہمارے لیے عبرت ناک عذاب کی بددعا کرو۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے نہایت ہی مجبور ہو کر ان کے لیے بد دعا کی۔ ” اے میرے رب میں ان کے مقابلے میں بالکل بے بس اور مغلوب ہوچکا ہوں بس تو میری مدد فرما۔“ (القمر : ١٠) اللہ تعالیٰ نے نوح (علیہ السلام) کی بد دعا قبول کرتے ہوئے انھیں حکم دیا کہ آپ میرے سامنے ایک کشتی بنائیں جب نوح (علیہ السلام) کشتی بنا رہے تھے تو ان کی قوم نے ان کو بار بار تمسخر کا نشانہ بنایا۔ جس کے جواب میں نوح (علیہ السلام) انھیں فرماتے کہ آج تم مجھے استہزاء کانشانہ بنا رہے ہو کل تم ہمیشہ کے لیے مذاق اور عبرت کا نشان بن جاؤ گے۔ (ھود آیت ٣٧ تا ٣٩) حضرت نوح (علیہ السلام) کا خطاب : اے میری قوم مجھے اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت سے نوازا ہے اور میں اپنے رب کی طرف سے دلیل پر ہوں۔ تم ہدایت کو پسند نہیں کرتے تو میں تم پر ہدایت کس طرح مسلط کرسکتا ہوں۔ میں تم سے تبلیغ کا اجر نہیں مانگتا نہ میں ایمان والوں کو اپنے آپ سے دھتکارنے والا ہوں۔ ہوش کرو اگر میں انھیں دھتکاردوں تو اللہ کے ہاں میری کون مدد کرے گا ؟ میں غیب دان ہونے کا دعوی نہیں کرتا۔ نہ میں اپنے آپ کو فرشتہ کہتا ہوں نہ میں کہتا ہوں جنھیں تم حقیر سمجھتے ہو اللہ انھیں بھلائی سے نہیں نوازے گا۔ اگر ایسی باتیں کہوں تو میں ظالموں میں شمار ہوں گا۔ (ھود : ١٢٣) قوم کا جواب : تم ہماری طرح کے انسان ہو لیکن ہم پر برتری چاہتے ہو۔ ہم نے یہ باتیں باپ دادا سے کبھی نہیں سنیں۔ نوح دیوانہ ہوگیا ہے۔ بس انتظار کرو ختم ہوجائے گا۔ (المؤمنوں : ٢٤، ٢٥) ہم تجھ پر ایمان نہیں لائیں گے کیونکہ تجھے ماننے والے گھٹیا لوگ ہیں۔ (الشعراء : ١١٢) ہم اپنے معبودوں اور ودّ، سواع، یعوق اور نسر کو نہیں چھوڑ سکتے۔“ (نوح : ٢٤) ہم تجھے سنگسار کردیں گے۔ (الشعراء : ١١٦) قوم کا عذاب الٰہی کو چیلنج کرنا : ” اے نوح تم نے ہم سے بہت زیادہ بحث و تکرار اور جھگڑا کرلیا ہے۔ اب اس کی انتہا ہوگئی ہے بس ہمارے پاس اللہ کا عذاب لے آ اگر واقعی تو سچے لوگوں میں ہے۔“ ( ھود : ٣٢) حضرت نوح (علیہ السلام) کا جواب : ” اگر ” اللہ“ نے چاہا تو تم پر عذاب ضرور آئے گا اور تم اسے ہرگز نہیں ٹال سکو گے۔“ (ھود : ٣٣) نوح (علیہ السلام) کی فریاد اور بد دعا : ” میرے رب میں نے اپنی قوم کو دن اور رات خفیہ اور اعلانیہ، انفرادی اور اجتماعی طور پر سمجھایا میں نے جب بھی انھیں دعوت دی تو انھوں نے اپنے کانوں میں انگلیاں ٹھونس لی۔ اپنے چہرے چھپا لیے اور تکبر کرنے کی انتہا کردی۔ میرے رب انھوں نے میری ہر بات کو ٹھکرایا اور نافرمانی کی۔ ان کی اولاد اور مال نے انہیں تیری نافرمانی میں بہت زیادہ بڑھایا دیا ہے انھوں نے زبردست قسم کی سازشیں کیں۔“ (نوح : ٥ تا ٩) ” حضرت نوح نے اپنے رب سے فریاد کی اے میرے رب میں ان کے مقابلے میں انتہائی کمزور اور بے بس ہوچکا ہوں بس تو میری مدد فرما۔“ (القمر : ١٠) ” اے میرے رب اب زمین پر کفار کا ایک گھر بھی باقی نہیں رہنا چاہیے۔ اگر تو نے انھیں چھوڑ دیا تو وہ تیرے بندوں کو گمراہ کرتے رہیں گے۔ اب ان میں سے جو بھی پیدا ہوگا وہ نافرمان اور ناشکرگزار ہوگا۔“ (نوح : ٢٥، ١٠، ٢٧) عذاب کی کیفیت : قوم نوح پر چالیس دن مسلسل دن رات بے انتہا بارش برستی رہی یہاں تک کہ جگہ جگہ زمین سے چشمے پھوٹ پڑے۔ حتی کہ تنور پھٹ پڑا اللہ تعالیٰ نے طوفان کے آغاز میں حضرت نوح (علیہ السلام) کو حکم دیا کہ وہ اللہ کا نام لے کر کشتی میں سوار ہوجائیں اور اپنے ساتھ ہر جاندار کا جوڑا جوڑا یعنی نر اور مادہ دو دو کشتی میں اپنے ساتھ سوار کرلیں۔ البتہ کسی کافر اور مشرک کو کشتی میں سوار نہ کیا جائے۔ (ہود : ٤٠ تا ٤٢) عذاب کی ہو لناکیاں : (فَفَتَحْنَا اَبْوَاب السَّمَآءِ بِمَاءٍ مُّنْہَمِر وَفَجَّرْنَا الْاَرْضَ عُیُوْنًا فَالْتَقَی الْمَاءُ عَلٰی اَمْرٍ قَدْ قُدِرَ) (القمر : ١١، ١٢) ” ہم نے موسلا دھار بارش کے لیے آسمان کے دروازے کھول دیے۔ اور ہم نے زمین سے ابلتے چشمے جا ری کیے۔“ (فَاِِذَا جَآءَ اَمْرُنَا وَفَارَالتَّنُّوْرُ) (المومنون : ٢٧) ” جب ہمارا حکم صادر ہوا تو تنور جوش مارنے لگا۔“ قوم نوح پر اللہ تعالیٰ نے پانی کا ایسا عذاب نازل فرمایا کہ جس کے بارے میں سورۃ القمر آیت ١١، ١٢ اور سورۃ المؤمنون، آیت ٢٧ میں بیان ہوا ہے کہ آسمان کے دروازے کھول دئیے گئے زمین سے چشمے پھوٹ نکلے یہاں تک کہ تنور پھٹ پڑا۔ نوح (علیہ السلام) کے نافرمان بیٹے سمیت ان کی قوم کو پانی میں ڈبکیاں دے دے کر ختم کردیا گیا۔ مفسرین نے لکھا ہے جس کی تائید موجودہ دور کے آثار قدیمہ کے ماہرین بھی کرتے ہیں کہ طوفان نوح نے فلک بوس پہاڑوں کی چوٹیوں کو بھی ڈھانپ لیا تھا۔ بائبل میں لکھا ہے کہ سیلاب بلند ترین پہاڑوں کی چوٹیوں سے ١٥ فٹ اوپر بہہ رہا تھا۔ تفسیر بالقرآن حضرت نوح (علیہ السلام) کی قوم کا انجام : ١۔ قوم نوح طوفان کے ذریعے ہلاک ہوئی۔ (الفرقان : ٣٧) ٢۔ حضرت نوح نے اپنے بیٹے سے فرمایا آج کے دن اللہ کے عذاب سے کوئی بچانے والا نہیں۔ (ہود : ٤٣) ٣۔ نوح نے بدعا کی کہ الٰہی زمین پر ایک بھی کافر نہ چھوڑیے۔ (نوح : ٢٦) ٤۔ حضرت نوح کا بیٹا بھی غرق ہوا۔ (ہود : ٤٣) الذاريات
47 فہم القرآن ربط کلام : جس ” اللہ“ نے قوم نوح کو تباہ کیا اس کے جلال اور قدرت کا عالم یہ ہے کہ اس نے اپنے ہاتھوں سے آسمان کو بنایا اور زمین کو فرش کے طور پر بچھایا جس کی قدرت اور جلال کا تقاضا ہے کہ اس کی نافرمانی اور سرکشی کرنے کی بجائے اس کے سامنے جھکا جائے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد عالی ہے کہ ہم نے آسمانوں کو اپنے ہاتھوں سے بنایا اور ہم ہی اسے وسعت دینے والے ہیں اور ہم نے زمین کو فرش بنایا اور ہم بہت اچھا بچھانے والے ہیں۔” اَیْدِیَ“ ” ید“ کی جمع ہے جس کے بارے میں اہل علم کا خیال ہے کہ اللہ تعالیٰ جب اپنے بارے میں ید کا لفظ بولتا ہے تو اس کا مطلب اس کا ہاتھ ہوتا ہے جس کے بارے میں ہمیں قیاس آرائی اور کوئی تاویل کرنے کی اجازت نہیں۔ جب اللہ تعالیٰ اپنے لیے ” ایدی“ کا لفظ استعمال فرماتا ہے تو اس کا معنٰی قوت اور طاقت ہوتا ہے۔ یہاں ” ایدی“ کا معنٰی یہ ہوگا کہ ہم نے آسمانوں کو بنایا اور ہمیں اس پر پوری قوت حاصل تھی اور ہے اور ہم اسے وسعت دینے والے ہیں۔ لغت کے لحاظ سے ” لَمُوْسِعُوْنَ“ کا معنٰی وسعت دینا ہے اس لیے اکثر مفسرین کا خیال اور سائنسدانوں کا مشاہدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی کائنات کو وسعت دے رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فضا میں ستارے اور سیارے بڑھتے ہی جارہے ہیں۔ سائنسدانوں کا یہ بھی مشاہدہ ہے کہ مختلف سیاروں اور ستاروں کے درمیان دن بدن فاصلہ بڑھ رہا ہے۔ آسمان اور فضا کی کیفیت صحیح معنوں میں اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے۔ لیکن جہاں تک عام آدمی کی سمجھ میں آنے والی بات ہے وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ دن بدن نہ صرف انسانوں کی تعداد میں اضافہ کررہا ہے بلکہ ان کے وسائل میں بھی اضافہ کیا جارہا ہے۔ غور فرمائیں ! کہ آج سے سو سال پہلے کا انسان موجودہ وسائل بالخصوص ذرائع مواصلات کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ نہ معلوم آنے والے وقت میں انسان کو کیا کیا نعمتیں میسر ہوں گی۔ خوردونوش کی اشیاء کا تجزیہ فرمائیں کہ آج سے پچاس سال پہلے گندم کی فی ایکڑ پیداوار پندرہ بیس من سے زیادہ نہیں تھی اور آج درمیانے درجے کے کھیت سے پچاس ساٹھ مَن گندم حاصل کی جارہی ہے۔ اسی طرح دوسری اشیائے خوردنی کا حال ہے کہ ان کی پیدوار میں دن بدن اضافہ ہورہا ہے، گویا کہ جس طرح کھانے والے بڑھ رہے ہیں اسی قدر ان کے دسترخوان کو وسعت دی جا رہی ہے۔ قرآن مجید میں زمین و آسمانوں کی پیدائش کے بارے میں کئی مراحل کا تذ کرہ ہوا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے۔ ” پھر وہ آسمان کی طرف متوجہ ہوا جو اس وقت دھواں تھا، اس نے آسمان اور زمین سے فرمایا چاہو یا نہ چاہو ہر حال میں وجود میں آجاؤ، دونوں نے کہا ہم فرمانبردار ہو کر حاضر ہوگئے۔“ (حٰمٗ السجدۃ: ١١) ” جس نے اوپر نیچے سات آسمان بنائے، تم رحمٰن کی تخلیق میں کسی قسم کی بے ربطی نہیں پاؤ گے۔ پھر پلٹ کر دیکھو کیا تمہیں کہیں خلل نظر آتا ہے؟ (الملک : ٣) ” یقیناً ہم نے آسمان میں برج بنائے اور اسے دیکھنے والوں کے لیے خوبصورت بنایا ہے۔“ (الحجر : ١٦) ” جس نے تمہارے لیے زمین کو فرش اور آسمان کو چھت بنایا اور آسمان سے پانی اتار کر اس سے تمہارے لیے پھل پیدا کیے جو تمہارا رزق ہے۔ لہٰذا حقیقت جاننے کے باوجود اللہ کے ساتھ شریک نہ بناؤ۔“ (البقرۃ: ٢٢) ” حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب اللہ تعالیٰ نے زمین کو تخلیق فرمایا تو وہ ہلنا شروع ہوگئی تو اللہ نے پہاڑوں کو پیدا کر کے اس پر گاڑ دیا تو وہ ٹھہر گئی فرشتوں نے پہاڑ کی تخلیق پر تعجب کا اظہار کرتے ہوئے کہا اے پروردگار کیا تو نے پہاڑوں سے بڑھ کے کوئی سخت چیز پیدا کی ہے ؟ اللہ نے فرمایا ہاں ! لوہا، فرشتوں نے عرض کی کیا لوہے سے بڑھ کر کوئی سخت چیز تخلیق کی گئی ہے ؟ اللہ نے فرمایا آگ۔ فرشتوں نے دریافت کیا، کیا آگ سے بھی سخت چیز آپ نے تخلیق فرمائی ہے ؟ اللہ نے فرمایا پانی اس سے بھی سخت تر ہے۔ انہوں نے عرض کی کیا پانی سے بڑھ کر بھی اے اللہ تو نے کسی چیز کو تخلیق کیا ہے ؟ اللہ نے فرمایا ہوا، فرشتوں نے سوال کیا اے پروردگار کیا تو نے ہوا سے بھی بڑھ کر کوئی سخت چیز پیدا کی ہے ؟ اللہ نے فرمایا ابن آدم کا اپنے دائیں ہاتھ سے صدقہ کرنا ہے جس کا بائیں ہاتھ کو پتہ نہ چلے۔“ (رواہ احمد : مسند انس بن مالک، وقال الترمذی ھذا حدیث غریب) مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے آسمان کو اپنی قوت کے ساتھ بنایا اور فضا میں ٹھہرایا ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے زمین کو فرش بنایا اور اسے نہایت ہی اچھے انداز میں بچھایا ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ آفاق اور اپنی مخلوق میں اضافہ کررہا ہے۔ تفسیر بالقرآن زمین و آسمان کا تذکرہ : ١۔ اللہ نے آسمان و زمین کو برحق پیدا کیا ہے اللہ شرک سے بالا تر ہے۔ (النحل : ٣) (البقرۃ : ٢٢) (البقرۃ : ١١٦) ٢۔ زمین و آسمان پہلے باہم جڑے ہوئے تھے۔ پھر اللہ نے ان کو ایک دوسرے سے الگ کیا۔ (الانبیاء : ٣٠) ٣۔ اللہ نے دو دن میں آسمانوں کو پیدا کیا۔ (حٰم السجدۃ: ١٢) ٤۔ اللہ نے آسمان و زمین چھ دن میں بنائے۔ (الاعراف : ٥٤) الذاريات
48 الذاريات
49 فہم القرآن ربط کلام : مخلوق کے بارے میں ایک اور ارشاد۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ہم نے ہر چیز کے جوڑے جوڑے بنائے ہیں تاکہ تم غور کرو اور اس سے نصیحت حاصل کرو۔ جوڑے کے لیے زوجین کا لفظ استعمال کیا ہے جو زوج کا تثنیہ ہے۔ لغت کے اعتبار سے جوڑے کا معنٰی صرف نر اور مادہ ہی نہیں ہوتا بلکہ اس میں باہم متضاد چیزیں بھی شامل ہیں۔ انسان، حیوانات، درند، پرند آپس میں زوجین ہیں۔ جہاں تک متضاد جنس کے اعتبار سے زوجین کا تعلق ہے۔ اللہ تعالیٰ نے پوری کائنات کو جوڑے جوڑے کی صورت میں پیدا فرمایا ہے۔ آسمان کے مقابلے میں زمین، رات کے مقابلے میں دن، روشنی کے مقابل اندھیرا، دھوپ کے مدمقابل چھاؤں، گرمی کے مقابل میں سردی، پانی کے مقابلے میں آگ اور فرشتوں کے بالمقابل شیاطین، فرشتے کبھی غلطی نہیں کرتے شیطان کبھی نیکی نہیں کرتے اور مردوں کے مقابلے میں عورتوں کو پیدا کیا ہے یہاں تک درختوں میں بھی نر اور مادہ پائے جاتے ہیں اس طرح اللہ تعالیٰ کی ساری مخلوق میں زوجین یعنی جوڑے موجود ہیں۔ گویا کہ پوری مخلوق جوڑوں کی شکل میں ہے اور ان کے خالق کا کوئی جوڑا نہیں ہے وہ اپنی ذات اور صفات میں اکیلا ہے اس کا کوئی زوج نہیں ہے۔ شائد تم اس سے سبق حاصل کرو اور اس کی ذات اور صفات میں شرک کرنے سے باز آجاؤ۔ انسان کے لیے سب سے بڑی اور پہلی نصیحت یہ ہے کہ وہ ” اللہ“ کے ساتھ کسی کو شریک نہ بنائے اور ہر حال میں اس کی تابعداری کرے۔ (قُلْ ہُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ اَللّٰہُ الصَّمَدُ لَمْ یَلِدْ ٥ وَلَمْ یُوْلَدْ وَلَمْ یَکُنْ لَّہٗ کُفُوًا اَحَدٌ) (سورۃ الاخلاص) ” کہو وہ اللہ اکیلا ہے۔ اللہ بے نیاز ہے۔ نہ اس کی کوئی اولاد ہے اور نہ وہ کسی کی اولاد ہے۔ اور اس کا کوئی ہمسر نہیں ہے۔“ ” وہ آسمانوں اور زمین کا موجد ہے اس کی اولاد کیسے ہوگی جب کہ اس کی کوئی بیوی نہیں ؟ اور اس نے ہر چیز پیدا کی اور وہ ہر چیز کو خوب جاننے والاہے۔“ (الانعام : ١٠١) ” آسمانوں اور زمین کا بنانے والا ہے اس نے تمہیں سے تمہارے لیے جوڑے پیدا کیے اور اسی طرح جانوروں میں بھی جوڑے بنائے اور وہی تمہیں پھیلاتا ہے۔ کائنات کی کوئی چیز اس کے مشابہ نہیں وہ سب کچھ سننے اور دیکھنے والا ہے۔“ (الشوریٰ ١١) الذاريات
50 فہم القرآن ربط کلام : جس رب نے زمین و آسمان بنائے اور ہر چیز کو جوڑا، جوڑا پیدا کیا ہے اس کا کوئی جوڑا نہیں یعنی اس کا کوئی شریک نہیں۔ اس لیے انسان کا فرض ہے کہ وہ ادھر ادھر ٹکریں مارنے کی بجائے ہر حال میں اس کی طرف رجوع کرے۔ اللہ تعالیٰ نے جبر کی بجائے دلائل کے ذریعے واضح فرمایا ہے کہ اے انسان ! تجھے اور ہر چیز کو صرف میں نے پیدا کیا ہے۔ تیری تخلیق کا مقصد یہ ہے کہ تو اس کی بندگی اختیار کرے۔ اس نے اس سبق کی یاددہانی کے لیے انبیائے کرام (علیہ السلام) کو مبعوث فرمایا۔ جن میں آخری پیغمبر حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں۔ آپ کی دعوت تھی اور ہے کہ لوگو! معبودان باطل کو چھوڑ کر صرف ایک ” اللہ“ کی طرف آجاؤ اور اس کے ساتھ کسی اور کو معبود نہ بناؤ۔ بے شک میں تمہارے لیے کھلے الفاظ میں انتباہ کرنے والا بنا کر بھیجا گیا ہوں۔ لیکن اہل مکہ نے آپ کی دعوت قبول کرنے کی بجائے آپ کو ساحر اور مجنون کہا۔ اس پر آپ کو تسلّی دی جارہی ہے کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ کو حد سے زیادہ غم زدہ نہیں ہونا چاہیے کیونکہ آپ سے پہلے بھی انبیائے کرام (علیہ السلام) کو ساحر اور مجنون کہا گیا ہے۔ یہ لوگ اس طرح ہی الزام لگائے جارہے ہیں جیسے انہیں ان کے پہلوں نے وصیّت کی ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ باغی ہیں۔ نبی آخرالزماں (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی ” اللہ“ کی طرف سے ہی مبعوث کیے گئے تھے۔ اس لیے آپ نے لوگوں کو توحید کی دعوت دیتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ میں جس اللہ کی طرف تمہیں بلارہا ہوں اسی کی طرف سے مبعوث کیا گیا ہوں۔ اس کا فرمان ہے کہ لوگو! ایرے غیرے کو چھوڑ کر صرف اور صرف اپنے اللہ کی طرف رجوع کرو۔ اس کی طرف رجوع کرنے کا پہلا تقاضا یہ ہے کہ اس کی ذات اور صفات میں کسی اور کو شریک نہ بناؤ۔ میں اسی کی طرف سے تمہیں یہ دعوت دیتا ہوں۔ جو لوگ اس دعوت کو قبول نہیں کریں گے انہیں کھلے الفاظ میں ڈرانے والا ہوں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مخاطبین نے آپ کی دعوت قبول کرنے کی بجائے آپ کو جادوگر اور مجنون قرار دیا۔ یہ پہلے بھی بیان ہوچکا ہے کہ وہ آپ کو جادوگر اس لیے کہتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی زبان اور دعوت میں غضب کی تاثیر رکھی تھی۔ جو شخص آپ سے ہم کلام ہوتا اور آپ کی دعوت کو توجہ سے سنتا وہ متأثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا تھا۔ اہل مکہ کو یہ بات کسی صورت گورانہ نہ تھی جس وجہ سے وہ آپ کے بارے میں منفی پروپیگنڈا کرتے اور آپ کو جادوگر کہتے تھے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مجنون کہنے کی چند وجوہات۔ ١۔ ان کا کہنا تھا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی معاشرے میں بڑی عزت کی جاتی تھی۔ لیکن اس نے اپنی دعوت کی خاطر اپنی عزت کو پامال کرلیا ہے۔ ٢۔ انہوں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہر قسم کی پیشکش کی لیکن آپ نے انہیں ٹھکرادیا۔ اس بنا پر وہ آپ کو مجنون کہتے تھے۔ ٣۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) باربار توحید کی دعوت دیتے تھے اس بنا پر کفار سمجھتے تھے کہ یہ مجنون آدمی کی طرح ایک ہی بات باربار دوہرائے جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے کفار کے ردِعمل میں پہلے انبیائے کرام (علیہ السلام) کی طرف اشارہ فرما کر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دی ہے کہ یہ لوگ اپنے سے پہلے لوگوں کی باتوں کو اس طرح دوہرائے جا رہے ہیں۔ جیسے یہ ایک دوسرے کو اس کی وصیت کرتے جاتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ لوگ اپنے رب کے باغی اور نافرمان ہیں۔ بے شک پہلوں اور ان کے درمیان صدیوں کا فاصلہ ہے لیکن افکار اور کردار کے لحا ظ سے ایک ہیں۔ جس طرح ان سے پہلے مجرموں کا انجام ہوا اسی طرح ان کا انجام ہوگا۔ (عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ یَقُوْلُ اللَّہُ تَبَارَکَ وَتَعَالَی لأَہْوَنِ أَہْلِ النَّارِ عَذَابًا لَوْ کَانَتْ لَکَ الدُّنْیَا وَمَا فِیْہَا أَکُنْتَ مُفْتَدِیًا بِہَا فَیَقُوْلُ نَعَمْ فَیَقُوْلُ قَدْ أَرَدْتُ مِنْکَ أَہْوَنَ مِنْ ہَذَا وَأَنْتَ فِیْ صُلْبِ اٰدَمَ أَنْ لاَ تُشْرِکَ أَحْسَبُہُ قَالَ وَلاَ أُدْخِلَکَ النَّارَ فَأَبَیْتَ إِلاَّ الشِّرْکَ) (رواہ مسلم : باب طَلَبِ الْکَافِرِ الْفِدَاءَ بِمِلْءِ الأَرْضِ ذَہَبًا) ” حضرت انس بن مالک (رض) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں اللہ تبارک و تعالیٰ جہنمیوں میں سے کم ترین عذاب پانے والے سے فرمائے گا کہ اگر دنیا اور جو کچھ اس میں ہے تیرے پاس ہو۔ کیا تو اسے فدیہ کے طور پردینے کے لیے تیار ہے؟ وہ کہے گا جی ہاں ! اللہ تعالیٰ فرمائے گا میں نے تجھ سے اس سے بہت چھوٹی بات کا مطالبہ کیا تھا جب تو آدم کی پشت میں تھا وہ یہ کہ میرے ساتھ شرک نہ کرنا۔ راوی بیان کرتا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میں تجھے جہنم میں داخل نہ کرتا مگر تو شرک سے باز نہ آیا۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کوئی اور الٰہ نہیں اس لیے ہر حال میں اسی کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے برے لوگوں کو ان کے برے انجام سے ڈرانے کے لیے نبی آخرالزماں (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مبعوث فرمایا۔ ٣۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مخالفین نے آپ پر وہی الزام لگائے جو پہلے انبیائے کرام (علیہ السلام) پر لگائے گئے تھے۔ ٤۔ ہر دور کے مشرک کا ایک ہی عقیدہ اور کردار رہا ہے۔ ٥۔ مشرک اور کافر حقیقت میں اپنے رب کے باغی اور نافرمان ہوتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن پہلے انبیائے کرام (علیہ السلام) پر لگائے گئے الزامات کا خلاصہ : ١۔ حضرت نوح کو ان کی قوم نے کہا کہ ہم تمہیں جھوٹا تصور کرتے ہیں۔ (ہود : ٢٧) ٢۔ کفار نے تمام انبیاء کو جادوگر اور دیوانہ قرار دیا۔ (الذاریات : ٥٢) ٣۔ قوم فرعون نے موسیٰ کو جادوگر ہونے کا الزام لگایا۔ (القصص : ٣٦) ٤۔ یہودیوں کا حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور ان کی والدہ پر الزام۔ (النساء : ١٥٦) ٥۔ فرعون کے سرداروں نے کہا یہ تو جادو ہے۔ (الاعراف : ١٠٩) ٦۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اہل مکہ نے جادوگر کہا۔ (الصف : ٦) ٧۔ کفار نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو شاعر قرار دیتے تھے۔ (الطور : ٣٠) ٨۔ اگر ہم ان کے لیے آسمان سے کوئی دروازہ کھول دیں اور یہ اس میں سے چڑھ جائیں تو کہیں گے ہماری آنکھیں بند کردی گئی ہیں۔ بلکہ ہم پر جادو کردیا گیا ہے۔ (الحجر : ١٤۔ ١٥) ٩۔ کفار کے سامنے جب حق آیا تو انھوں نے کہا یہ تو جادو ہے۔ (سباء : ٤٣) ١٠۔ کفار نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سحر زدہ قرار دیا۔ (الفرقان : ٨) ١١۔ جب کفار کے پاس حق بات آئی تو انھوں نے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر جادو گر ہونے کا الزام لگایا۔ (یونس : ٧٦) ١٢۔ کفار نے کہا یہ نبی تو جادوگر ہے۔ (یونس : ٢) ١٣۔ کفار نے کہا یہ نبی جھوٹا اور جادوگر ہے۔ (ص : ٤) اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں بنانا چاہیے : ١۔ ” اللہ“ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بناؤ۔ (الرعد : ٣٦) ٢۔ ” اللہ“ کی عبادت کرو اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ۔ (النساء : ٣٦) الذاريات
51 الذاريات
52 الذاريات
53 الذاريات
54 فہم القرآن ربط کلام : نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کام کھلے الفاظ میں لوگوں کو سمجھانا اور ان کو برے انجام سے ڈرانا تھا۔ جس کا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حق ادا کر رہے ہیں۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ” اللہ“ کی توحید سمجھانے اور لوگوں کی خیر خواہی کرنے کے لیے دن رات ایک کیے ہوئے تھے۔ آپ لوگوں کو بار بار سمجھاتے کہ لوگو! اللہ کے ساتھ شرک کرنا چھوڑ دو اور صرف اسی کی عبادت کرو۔ آپ کے مخاطبین اس دعوت کو قبول کرنے کی بجائے آپ پر مختلف قسم کے الزامات لگاتے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے ساتھیوں کو اذّیتیں دیتے تھے۔ اس صورت حال میں آپ کی طرف سے جن لوگوں پر حق کا ابلا غ ہوچکا تھا۔ ان کے بارے میں آپ کو ارشاد ہوا کہ آپ ان پر مزید وقت صرف کرنے کی بجائے ان سے اعراض کا رویہ اختیار فرمائیں۔ اس اعراض پر آپ پر کوئی ملامت نہیں ہوگی۔ ان کی بجائے آپ ایمانداروں اور ان لوگوں کو نصیحت فرماتے رہیں جو سلیم الفطرت ہیں اور حق بات کی طرف متوجہ ہونے والے ہیں۔ بلاشبہ آپ کی نصیحت ایمان لانے والوں کے لیے نہایت ہی فائدہ مند ہوتی ہے۔ انہیں پہلی نصیحت یہ فرمائیں کہ تمہارے رب نے جنوں اور انسانوں کو اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے۔ لہٰذا اس کا فرمان ہے صرف میری ہی عبادت کرنی چاہیے۔ یہی جنوں اور انسانوں کی تخلیق کا مقصد ہے اور یہی انبیائے کرام (علیہ السلام) کی دعوت کا پہلا اور مرکزی مقصد ہے۔ (وَ مَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا نُوْحِیْٓ اِلَیْہِ اَنَّہٗ لَآاِلٰہَ اِلَّآ اَنَا فَاعْبُدُوْنِ) (الانبیاء : ٢٥) ” ہم نے آپ سے پہلے جو بھی رسول بھیجے ان کی طرف یہی وحی کی کہ میرے سوا کوئی معبود نہیں سو تم میری ہی بندگی کرو۔“ اکثر اہل علم نے عبادت کا معنی تذلّل یعنی نہایت عاجزی کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی پرستش کرنا بیان کیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ عبادت میں عاجزی اور انتہا درجے کی انکساری ضروری ہے کہ آدمی اللہ کے حضور قیام کرے تو نا صرف زبان سے اقرار کرے بلکہ اس کا پورا جسم خاموش گواہی دے کہ میرے جسم کا ایک ایک ریشہ تیرے حضور عاجز اور بے بس ہے۔ جبین نیاز جھکائے تو اپنے آپ کو عجز و انکساری کی انتہا تک لے جائے گویا کہ وہ پستیوں کے سمندر میں ڈوب چکا ہے۔ زبان جنبش کرے تو اس کی حمد و ثنا کے گیت گائے، دست سوال دراز کرے تو سراپا التجا بن جائے۔ مال خرچ کرے تو اس عاجزی کے ساتھ کہ میں تو مالک کی ملکیت ہی واپس لوٹا رہا ہوں نہ میرا مال ہے اور نہ اس میں میرا کمال ہے۔ اس عہد کو نمازی پانچ وقت تشہد کی زبان میں دہراتا ہے۔ ” تمام قسم کی قولی، فعلی اور مالی عبادات اللہ کے لیے ہیں۔“ (رواہ البخاری : باب التَّشَہُّدِ فِی الآخِرَۃِ ) (قُلْ اِنَّ صَلَاتِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَ بِذٰلِکَ اُمِرْتُ وَ اَنَا اَوَّلُ الْمُسْلِمِیْنَ) (الانعام : ١٦٢، ١٦٣) ” کہہ دیجیے! یقیناً میری نماز، میری قربانی، میری زندگی اور میری موت اللہ رب العالمین کے لیے ہے، اس کا کوئی شریک نہیں اسی بات کا مجھے حکم دیا گیا ہے اور میں پہلا اسلام لانے والا ہوں۔“ اس تصور کے ساتھ قرآن مجید نے عبادت کا وسیع تر تخیل پیش کیا ہے کہ آدمی منڈی اور بازار میں ہو تو امانت و دیانت کا نمونہ بن جائے، کسی کے ہاں مزدور اور خدمت گزار ہو تو وفاداری کا پیکر ہوجائے، حکمران ہو یا کوئی ذمہ داری اٹھائے تو قوم کا خادم اور مالک حقیقی کا غلام بن کر رہے۔ غرض یہ کہ زندگی کا ایک ایک لمحہ اور شعبہ رب کی غلامی اور سرافگندگی کے لیے وقف کرنے کا نام ہی عبادت ہے۔ یہی انسان کی تخلیق کا مقصد اور اسی کے لیے انسان کا ہر عمل وقف ہونا چاہیے۔ انبیائے عظام اپنی دعوت کا آغاز اسی سے کیا کرتے تھے۔ مسائل ١۔ ” اللہ“ کے سوا کوئی معبود نہیں اس لیے حکم ہے کہ صرف ایک ” اللہ“ کی عبادت کی جائے۔ ٢۔ تمام لوگوں کو ادھر ادھر جانے کی بجائے اللہ کی طرف ہی رجوع کرنا چاہیے۔ ٣۔ نبی آخرالزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کا مقصد لوگوں کو ان کے برے انجام سے ڈرانا ہے۔ ٤۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اسی طرح ہی جادوگر اور مجنون کہا گیا جس طرح پہلے انبیائے کرام کو کہا گیا تھا۔ ٥۔ ضدی لوگوں پر زیادہ وقت صرف نہیں کرنا چاہیے۔ ان کے مقابلے میں ایمان لانے والوں کو باربار نصیحت کرنی چاہیے۔ ٦۔ ایمان لانے والوں کو نصیحت کرنے کا فائدہ ہوتا ہے۔ ٧۔ اللہ تعالیٰ نے جنوں اور انسانوں کو اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے اس لیے سب کو اللہ کی خالص عبادت کرنی چاہیے۔ تفسیربالقرآن انسان کی تخلیق کا مقصد اور انبیائے کرام (علیہ السلام) کی دعوت کا مرکزی نقطہ : (الانبیاء : ٢٥) (ھود : ٢٦) (الاعراف : ٦٥) (الاعراف : ٧٣) (الاعراف : ٨٥) (یوسف : ٤٠) (المائدۃ: ٧٢) (آل عمران : ٦٤) الذاريات
55 الذاريات
56 الذاريات
57 فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے رزق کا مطالبہ نہیں کرتا نہ اسے کھانے پینے کی حاجت ہے۔ وہ صرف اپنی بندگی کا مطالبہ کرتا ہے جس میں اسے کوئی فائدہ نہیں اس میں لوگوں کا ہی فائدہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ میں لوگوں سے رزق نہیں مانگتا اور نہ ہی اس بات کا مطالبہ کرتاہوں کہ وہ مجھے کھلائیں۔ رزق تو سب کو اللہ ہی دینے والا ہے، وہ بڑا طاقتور اور مضبوط ہے۔ عربوں نے زرِخرید غلام رکھے ہوتے تھے جو ان کے لیے مزدوری اور مختلف قسم کے کام کرتے اور اس کی مزدوری اپنے آقا کی خدمت میں پیش کرتے تھے۔ یہاں پہلی بات یہ سمجھائی کہ یہ تمہارا طریقہ ہے کہ تم اپنے غلاموں کی کمائی کھاتے ہو۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے کھاتا نہیں بلکہ وہ انہیں کھلاتا ہے۔ اسی بات سے یہ بھی سمجھ لو کہ جنہیں تم مشکل کشا سمجھتے اور ان کی عبادت کرتے ہو وہ تمہیں کچھ نہیں دیتے۔ البتہ تم ضرور انہیں کچھ نہ کچھ دیتے ہو۔ اللہ تعالیٰ تمام حاجات سے پاک اور بے نیاز ہے۔ وہ اپنی مخلوق کو دیتا اور کھلاتا ہے۔ اس کے عطا کرنے اور دینے کا نظام اتنا مضبوط ہے کہ کوئی اس کے نظام میں دخل نہیں دے سکتا۔ (فاطر : ١٣) وہ جس کا چاہتا ہے رزق تنگ کرتا ہے اور جس کا چاہتا ہے کشادہ کرتا ہے۔ (العنکبوت : ٦٢) اللہ تعالیٰ ہی انسان کو پیدا کرنے والا ہے اور اس نے ہی اس کے رزق کا ذمہ لے رکھا ہے۔ رزق سے مراد صرف کھانے پینے کی چیزیں نہیں بلکہ اس سے مراد ہر وہ چیز ہے جو ایک ذی روح کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس میں ہوا، پانی، خوراک اور رہن سہن کی ضروریات بھی شامل ہیں۔ یہ سب چیزیں عطا کرنے والا صرف اللہ تعالیٰ ہے۔ اس نے اپنا دسترخوان اتنا وسیع اور (Mobile) بنایا ہے کہ ہر کھانے والے کو اس کی خوراک مل رہی ہے گوشت کھانے والے درندے کو گوشت مل رہا ہے اور دانہ دنکا لینے والے کو دانہ دنکا صبح وشام میسر ہے۔ مخلوق میں چند جمع کرنے والوں کے سوا باقی سب کے سب صبح وشام تازہ خوراک سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ جہاں تک انسان کا معاملہ ہے اس کا رزق بھی اللہ تعالیٰ نے اپنے ذمہ لیا ہے البتہ حکم ہے کہ اللہ کا رزق تلاش کیا کرو۔ اس کے لیے محنت ومشقت کرنا لازم ہے لیکن رزق کی کمی وبیشی کا انحصار انسان کی محنت پر نہیں۔ اگر رزق محنت کی بنیاد پر دیا جاتا تو معذور اور لاچار بھوکے مرجاتے۔ جہاں تک رزق کی کمی و بیشی کا تعلق ہے یہ اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ اصول کے عین مطابق ہے جس کے پیش نظر وہ لوگوں کا رزق بڑھاتا اور گھٹاتا رہتا ہے۔ اگر کہیں قحط سالی پیدا ہوجاتی ہے تو یہ اللہ تعالیٰ کے طے شدہ اصول کے مطابق ہوتی ہے جس کا سبب بنیادی طور پر انسان ہی ہوا کرتا ہے۔ بے شک وہ قحط سالی پانی کی قلت اور بارش کی کمی کی وجہ سے ہی کیوں نہ ہو۔ وہ بھی انسان کے اعمال کا نتیجہ ہوتی ہے۔ اس قانون کے مطابق اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کے رزق کا ذمہ لیا ہے۔ وہ لوگوں کی مستقل قیام گاہوں اور عارضی رہائش کو جانتا ہے۔ (ھود : ٦) کیونکہ لوگوں کو رزق پہنچانا اور ان کے اعمال اور ضروریات سے باخبر رہنا اس کی صفت کاملہ ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نہ صرف ہر لحاظ سے باخبر رہتا ہے بلکہ اس نے انسان اور دنیا کی ہر چیز کے بارے میں سب کچھ لوح محفوظ میں ثبت کر رکھا ہے۔ ” مغیرہ بن شعبہ کے غلام وراد بیان کرتے ہیں حضرت معاویہ (رض) نے مغیرہ کو خط لکھا کہ مجھے وہ دعا لکھ کر بھیجو۔ جو نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے آپ نماز کے بعد سنا کرتے تھے۔ حضرت مغیرہ (رض) نے مجھ سے لکھوایا کہ میں نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نماز کے بعد یہ الفاظ کہتے ہوئے سنا۔” لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہُ لَا شَرِیکَ لَہُ اللَّہُمَّ لَا مَانِعَ لِمَا أَعْطَیْتَ وَلَا مُعْطِیَ لِمَا مَنَعْتَ وَلَا یَنْفَعُ ذَا الْجَدِّ مِنْکَ الْجَدُّ“ (رواہ البخاری : کتاب القدر، باب لامانع لما اعطی اللّٰہ) ” اللہ کے علاوہ کوئی معبود بر حق نہیں۔ وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں اے اللہ جسے تو دینا چاہے اسے کوئی نہیں روک سکتا اور جس سے تو روک لے اسے کوئی دے نہیں سکتا۔ تیرے ہاں کسی بڑے کی بڑائی کوئی فائدہ نہیں دے سکتی۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ اپنی ذات کے لیے نہ کسی سے رزق مانگتا ہے اور نہ اپنے کھانے کے لیے کسی سے مطالبہ کرتا ہے، اور نہ اسے ضرورت ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ اپنی ذات اور نظام کے حوالے سے سب سے زیادہ طاقتور اور مضبوط ہے۔ ٣۔ ” اللہ“ ہی سب کو رزق دینے والا ہے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ بڑی قوت والا اور مضبوط ہے۔ تفسیربالقرآن اللہ تعالیٰ ہی رزق دینے والا ہے، وہ نہ چاہے تو کوئی کسی کو کچھ نہیں دے سکتا : ١۔ ہم نے اس زمین میں تمہارے لیے معاش کا سامان بنایا اور ان کے لیے بھی جنہیں تم خوراک نہیں دیتے۔ (الحجر : ٢٠) ٢۔ کیا وہ نہیں جانتے کہ اللہ ہی رزق کو فراخ اور تنگ کرتا ہے۔ (الزمر : ٥٢) ٣۔ زمین میں ہر قسم کے چوپاؤں کا رزق اللہ کے ذمہ ہے۔ (ھود : ٢) ٤۔ بے شک اللہ ہی رزق دینے والا ہے۔ (الذاریات : ٥٨) ٥۔ اللہ ہی رزق فراخ کرتا اور کم کرتا ہے۔ (السباء : ٣٩) ٦۔ اللہ تعالیٰ لوگوں سے رزق طلب نہیں کرتا بلکہ وہ لوگوں کو رزق دیتا ہے۔ (طٰہٰ : ١٣٢) ٧۔ اپنی اولاد کو مفلسی کے ڈر سے قتل نہ کرو کیونکہ اللہ ہی تمھیں اور انھیں رزق دینے والا ہے۔ (الانعام : ١٥٢) الذاريات
58 الذاريات
59 فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ کو جو لوگ رزاق نہیں مانتے اور آخرت پر یقین نہیں رکھتے وہ دنیا اور آخرت میں اس طرح ہی نقصان پائیں گے جس طرح ان سے پہلے مجرم نقصان پاچکے ہیں۔ اہل مکہ کے جرائم : یہاں ظلم سے مراد ہر قسم کے گناہ ہیں۔ جن میں سرفہرست شرک ہے۔ ان آیات میں ایک طرف نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دی گئی ہے اور دوسری طرف کفار کی عادت اور ان کا انجام بتلایا گیا ہے اہل مکہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر وہی الزام لگا رہے تھے جو ان سے پہلے ظالم لوگ انبیاء پر لگایا کرتے تھے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر الزام لگانے والوں کو انتباہ کیا گیا ہے کہ باز آجاؤ ورنہ تمہارا انجام بھی پہلے ظالموں جیسا ہوگا۔ دنیا کے برے انجام کے ساتھ جس دن کا تمہیں وعدہ دیا جاتا ہے اس دن تمہارا انجام نہایت بدترین ہوگا۔ ( عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عَمْرٍو (رض) قَالَ قَالَ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لَیَأْتِیَنَّ عَلٰی أُمَّتِی مَا أَتَی عَلٰی بَنِی إِسْرَاءِیلَ حَذْوَ النَّعْلِ بالنَّعْلِ حَتّٰی إِنْ کَانَ مِنْہُمْ مَنْ أَتٰی أُمَّہُ عَلَانِیَۃً لَکَانَ فِی أُمَّتِی مَنْ یَصْنَعُ ذَلِکَ وَإِنَّ بَنِی إِسْرَاءِیلَ تَفَرَّقَتْ عَلَی ثِنْتَیْنِ وَسَبْعِینَ مِلَّۃً وَتَفْتَرِقُ أُمَّتِی عَلٰی ثَلَاثٍ وَسَبْعِینَ مِلَّۃً کُلُّہُمْ فِی النَّارِ إِلَّا مِلَّۃً وَاحِدَۃً قَالُوْا وَمَنْ ہِیَ یَا رَسُول اللَّہِ قَالَ مَا أَنَا عَلَیْہِ وَأَصْحَابِی) (رواہ الترمذی : باب ماجاء فی افتراق ہذ ہ لامۃ) ” حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) بیان کرتے ہیں رسول مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : میری امت میں ایسا وقت ضرور آئے گا کہ وہ بنی اسرائیل کے ساتھ بالکل اس طرح مل جائے گی جس طرح ایک جو تا دوسرے جوتے کے ساتھ ملا ہوا ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ اگر ان میں سے کسی نے اپنی ماں سے اعلانیہ زنا کیا ہوگا تو میری امت میں بھی ایسا ضرور ہوگا۔ بنی اسرائیل بہتر فرقوں میں تقسیم ہوئی۔ میری امت تہتر فرقوں میں بٹ جائے گی۔ ایک گروہ کے علاوہ سارے کے سارے جہنم میں جائیں گے۔ صحابہ نے استفسار کیا اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! وہ کون سا گروہ ہے ؟ آپ نے فرمایا جو میرے اور میرے صحابہ کے طریقے پر عمل کرنے والا ہوگا۔ (عَنْ عَوْفِ بْنِ مَالِکٍ (رض) قَالَ قَالَ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) افْتَرَقَتِ الْیَہُودُ عَلَی إِحْدَی وَسَبْعِینَ فِرْقَۃً فَوَاحِدَۃٌ فِی الْجَنَّۃِ وَسَبْعُونَ فِی النَّارِ وَافْتَرَقَتِ النَّصَارَی عَلَی ثِنْتَیْنِ وَسَبْعِینَ فِرْقَۃً فَإِحْدَی وَسَبْعُونَ فِی النَّارِ وَوَاحِدَۃٌ فِی الْجَنَّۃِ وَالَّذِی نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِیَدِہِ لَتَفْتَرِقَنَّ أُمَّتِی عَلَی ثَلاَثٍ وَسَبْعِینَ فِرْقَۃً فَوَاحِدَۃٌ فِی الْجَنَّۃِ وَثِنْتَانِ وَسَبْعُونَ فِی النَّار قیلَ یَا رَسُول اللَّہِ مَنْ ہُمْ قَالَ الْجَمَاعَۃُ) (رواہ ابن ماجۃ: باب افْتِرَاقِ الأُمَم) ” حضرت عوف بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : یہودی اکہتر فرقوں میں بٹے تھے ان کے ستر فرقے جہنم میں جائیں گے اور ایک جنت میں اور عیسائی بہتر فرقوں میں بٹے تھے ان میں سے اکہتر جہنم میں جائیں گے اور ایک جنت میں اور قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جان ہے میری امت تہتر فرقوں میں بٹے گی ان میں سے بہتر جہنمی ہوں گے اور ایک جنتی، صحابہ نے عرض کی جنت میں جانے والے کون ہیں آپ نے فرمایا وہ جماعت (جو میرے اور میرے صحابہ کے طریقہ پر چلنے والے) ہے۔“ تفسیر بالقرآن ظالم لوگ : ١۔ اللہ پر جھوٹ بولنے والا بڑا ظالم ہے۔ (الانعام : ١٤٤) ٢۔ اللہ تعالیٰ پر جھوٹ بولنے والا اور اس کی آیات کو جھٹلانے والا بڑا ظالم ہے۔ (الانعام : ٢١) ٣۔ جو اللہ کی آیات سن کر اعراض کرتا ہے وہ ظالم ہے۔ (الکہف : ٥٧) ٤۔ اللہ پر جھوٹ بولنے والا اور سچائی کو جھٹلانے والا ظالم ہے۔ (العنکبوت : ٦٨) ٥۔ اسلام کی دعوت پہنچ جانے کے باوجودجو اللہ پر جھوٹ باندھے وہ ظالم ہے۔ (الصف : ٧) ٦۔ گواہی کو چھپانے والا بڑا ظالم ہے۔ (البقرۃ: ١٤٠) ٧۔ مسجدوں سے روکنے والا بڑا ظالم ہے۔ (البقرۃ: ١١٤) الذاريات
60 الذاريات
0 سورۃ الطورکا تعارف یہ سورت مکہ میں نازل ہوئی اس کے دو رکوع اور انچاس (٤٩) آیات ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس سورت کی ابتداء میں چھ قسمیں اٹھا کر اس بات کی وضاحت فرمائی ہے کہ جس دن کا تم انکار کرتے ہو اس دن کا عذاب مجرموں پر ضرور واقع ہوگا جسے کوئی بھی ٹال نہیں سکے گا۔ اس دن کی ابتداء یوں ہوگی کہ آسمان پوری طرح ڈگمگا جائے گا اور پہاڑ ریت بن کر اڑنا شروع کردیں گے۔ جو لوگ اللہ تعالیٰ کے عذاب اور قیامت کے دن کو جھٹلاتے ہیں اس دن انہیں دھکے مار مار کر جہنم میں پھینکا جائے گا اور پھر انہیں کہا جائے گا کہ اب بتلاؤ یہ عذاب حقیقت ہے یا جادو؟ حکم ہوگا کہ اب صبر کرو یا واویلا کرو تمہیں اسی کی سزا دی جائے گی جو تم کیا کرتے تھے۔ ان کے مقابلے میں متّقی لوگوں کو نعمتوں والی جنت میں داخل کیا جائے گا وہ تکیوں پر تشریف فرما ہوں گے اور انہیں کھانے کے لیے وہ کچھ ملے گا جس کی وہ چاہت کریں گے۔ بے انتہا خوبصورت حوریں ان کے نکاح میں دی جائیں گی یہ ان پر اللہ تعالیٰ کا انعام ہوگا۔ جن جنتیوں کی اولادیں درجات میں کم درجہ ہوں گی۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرما کر انہیں انکے والدین کے ساتھ اعلی مقام عنایت فرمائے گا۔ جنت میں کسی قسم کی لغویات اور گناہ نہیں ہوں گے۔ اس کے بعد نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ نصیحت فرمائی گئی کہ آپ لوگوں کو نصیحت کرتے جائیں اور یہ یقین رکھیں کہ آپ اپنے رب کے فضل سے کاہن اور مجنوں نہیں ہیں۔ ١۔ کیا کافر آپ کو شاعر کہتے ہیں اور آپ کے بارے میں برے حالات کا انتظار کرتے ہیں۔ انہیں فرمائیں تم میرے بارے میں انتظار کرو میں بھی تمہارے انجام کا انتظار کرتاہوں۔ ٢۔ کیا ان کی عقلیں انہیں یہی کچھ سکھاتی ہیں۔ ٣۔ یا یہ لوگ سرکشی میں حد سے بڑھ چکے ہیں۔ ٤۔ کیا کافر کہتے ہیں کہ آپ نے قرآن خود بنالیا ہے، حقیقت یہ ہے کہ یہ ایمان لانے کے لیے تیار نہیں اگر وہ اپنے الزام میں سچے ہیں تو انہیں قرآن کے چیلنج کا جواب قبول کرنا چاہیے۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ کو یہ لوگ معبود برحق ماننے کے لیے تیار نہیں کیا انہیں اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا ہے ؟ یا اپنے آپ پیدا ہوگئے ہیں؟ ٦۔ کیا انہوں نے زمین و آسمانوں کو پیدا کیا ہے ؟ حقیقت یہ ہے کہ یہ یقین کرنے کے لیے تیار نہیں۔ ٧۔ کیا یہ لوگ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے رب کے خزانوں کے مالک ہیں ؟ ٨۔ کیا وہ آپ کے رب کے خزانوں پر چوکیدار ہیں؟ ٩۔ کیا ان کے پاس سیڑھی ہے کہ یہ آسمان کی باتیں سن لیتے ہیں اگر سن لیتے ہیں تو انہیں اپنے حق میں کوئی واضح دلیل پیش کرنی چاہیے۔ ١٠۔ کافر کہتے ہیں کہ فرشتے اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں ہیں کیا ” اللہ“ کے لیے بیٹیاں ہیں اور ان کے لیے بیٹے ہیں؟ ١١۔ کیا آپ ان سے اجر مانگتے ہیں جس کے بوجھ تلے یہ دبے جارہے ہیں۔ ١٢۔ کیا ان کے پاس علم غیب ہے جسے یہ لکھ لیتے ہیں۔ ١٣۔ کیا یہ کوئی اور سازش کرنا چاہتے ہیں ؟ یاد رکھیں کہ یہ اپنی سازش میں خود ہی پھنس جائیں گے۔ ١٤۔ کیا اللہ تعالیٰ کے سوا ان کا کوئی اور معبودِبرحق ہے ؟ انہیں بتلا دیں کہ اللہ تعالیٰ ان کے بنائے ہوئے شریکوں سے مبرّاہے۔ الطور
1 فہم القرآن ربط سورت : سورۃ الذّاریات کا اختتام اس فرمان پر ہوا کہ جس دن کا کفار سے وعدہ کیا جاتا ہے اس دن ان کے لیے ہلاکت اور بربادی ہوگی۔ سورۃ الطور کا آغاز پانچ قسمیں اٹھانے کے بعد اس بات سے ہوا ہے کہ جو دن کفار کے لیے ہلاکت کا باعث ہوگا اس کی ہلاکت اور عذاب کو کفار بھی ٹال نہیں سکتے۔ قسم ہے طور کی اور قسم ہے کھلے اوراق میں لکھی ہوئی کتاب کی قسم ہے آباد گھر کی، قسم ہے بلندو بالا چھت کی، قسم ہے بھڑکائے جانے والے سمندر کی۔ ١۔ الطور سے مراد وہ پہاڑ ہے بالخصوص اس کا وہ حصہ جہاں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اپنے رب سے ہم کلام ہوئے تھے۔ طور کو طور سیناء اور طور سینین بھی کہا گیا ہے، طور سیناء اور سینین دونوں ایک ہی پہاڑ کے نام ہیں۔ اس کی سطح سمندر سے بلندی ٧٢٦٠ فٹ ہے اور مدین سے مصر یا مصر سے مدین جاتے ہوئے راستے میں پڑتا ہے۔ اسی مقام پر موسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ سے ہم کلامی کا شرف حاصل ہوا۔ اسی پہاڑ کی ایک چوٹی کا نام طور ہے اور اس پہاڑ کے دامن میں واقع وادی کا نام طویٰ ہے جسے قرآن میں وادی مقدس اور ” بکعۃ المبارکہ“ بھی کہا گیا ہے۔ جب موسیٰ (علیہ السلام) مدین سے واپس آئے اور جب بنی اسرائیل کو مصر سے نکال کر لائے تو اسی راستے سے گزرے تھے۔ ٢۔ کشادہ اوراق میں لکھی ہوئی کتاب سے مراد کچھ اہل علم نے تورات لی ہے کیونکہ تورات آسمان سے کھلی تختیوں کی صورت میں نازل ہوئی تھی اور اس میں اللہ تعالیٰ کے احکام موٹے، موٹے حروف میں لکھے ہوئے تھے۔ کیونکہ طور پہاڑ کی قسم کے بعد ” کِتَابٍ مَّسْطُوْرٍ“ کی قسم اٹھائی گئی ہے اس لیے بعض اہل علم کا خیال ہے کہ اس سے مراد تورات ہے۔ باقی اہل علم نے کشادہ اوراق میں لکھی ہوئی کتاب سے مراد لوح محفوظ لیا ہے۔ رق چمڑے کی ایسی جھلی کو بھی کہا جاتا ہے جسے ایک خاص تکنیک کے ساتھ رگڑ رگڑ کر ملائم اور باریک کرلیا گیا ہو۔ پہلے زمانے میں شاہی فرمان اور اہم ترین دستاویزات کو رق پر لکھا جاتا تھا تاکہ اس میں لکھے ہوئے فرمان کا کوئی لفظ مٹنے نہ پائے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جو مراسلات روم اور ایران کے فرمانراواؤں کو لکھے تھے وہ ورق پر ہی تحریر کیے گئے تھے۔ ٣۔ بیت المعمور : وہ گھر ہے جو ہمیشہ سے آباد چلاآرہا ہے۔ اس گھر کے بارے میں بھی اہل علم کے دو نقطہ نگاہ ہیں۔ ایک جماعت نے اس سے بیت اللہ مراد لیا ہے جس میں ہر وقت رکوع و سجود، قیام اور ذکر و اذکار کرنے والے موجود رہتے ہیں۔ جب سے یہ گھر تعمیر ہوا اس وقت سے لے کر اس کی رونق میں اضافہ ہی ہو رہا ہے اور قیامت تک ہوتا رہے گا۔ دوسری جماعت کا خیال ہے کہ اس گھر سے مراد اسی بیت اللہ کے اوپر ساتویں آسمان پر بیت المعمور ہے جس میں ہر روز ستر ہزار فرشتے نماز اد کرتے ہیں اور جس نے ایک مرتبہ وہاں نماز پڑھی اسے وہاں قیامت تک نماز پڑھنے کا موقع نہیں ملے گا۔ (رواہ مسلم : باب الإِسْرَاءِ بِرَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) إِلَی السَّمَوَاتِ وَفَرْضِ الصَّلَوَاتِ) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے معراج کی رات اسی گھر کی دیوار کے ساتھ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو تشریف فرما دیکھا اور ان سے ملاقات کا شرف پایا۔ جس کی تفصیل حدیث کی کتابوں میں موجود ہے۔ ٤۔ اونچی چھت سے مراد آسمان ہے جسے اللہ تعالیٰ نے بغیر ستونوں کے کھڑا کر رکھا ہے۔ اسے اس طرح بنایا اور ٹھہرایا ہے کہ اس میں نہ کوئی دراڑ واقع ہوئی ہے اور نہ ہی اپنی جگہ سے ہلا اور جھکا ہے۔ نامعلوم کتنی مدت سے ایک قبے کی شکل میں جوں کا توں فضا میں ٹھہرا ہوا ہے اللہ تعالیٰ نے اسے لوگوں کے لیے چھت بنایا ہے۔ ٥۔ سمندر : سمندر کے بارے میں ارضیات کے ماہرین کا اندازہ ہے کہ یہ زمین کے مقابلے میں تین گنا بڑا ہے اور پوری زمین کے دریا سمندر میں گرتے ہیں لیکن آج تک سمندر کا پانی اپنے مقام پر ٹھہرا ہوا ہے۔ اگر سمندر کا پانی اپنی حدود سے نکل کھڑا ہو تو دنیا میں کوئی چیز غرق ہونے سے نہ بچ سکے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے اسے مسجور کردیا ہے۔ مسجور کا معنٰی ہے لبا لب بھرا ہونے کے باوجود اپنے مقام پر ٹھہرا ہوا۔ مسجور کا دوسرا معنٰی بھٹکایا ہوا ہے کیونکہ قیامت کے قریب سمندر بھڑک اٹھے گا۔ اللہ تعالیٰ نے یہاں جن چیزوں کی قسمیں اٹھائی ہیں ان کی حقیقت کما حقُّہ اس کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ تاہم اہل تفسیر نے اپنے اپنے فہم کے مطابق ان قسموں کی کچھ نہ کچھ حکمت بیان کی ہے جس کے بارے میں قطعی رائے قائم نہیں کی جاسکتی۔ تفسیر بالقرآن قرآن کی چند قسموں کا تذکرہ : ١۔ آپ کی جان کی قسم! وہ اپنی مدہوشی میں مست ہیں۔ (الحجر : ٧٢) ٢۔ قسم ہے ان ہواؤں کی! جو بھیجی جاتی ہیں۔ (المرسلات : ١) ٣۔ قسم ہے جان سختی سے نکالنے والے فرشتوں کی۔ (النازعات : ١) ٤۔ قسم ہے برجوں والے آسمان کی۔ (البروج : ١) ٥۔ قسم ہے آسمان کی اور رات کو نمودار ہونے والی چیز کی۔ (الطارق : ١) ٦۔ قسم ہے فجر کی۔ (الفجر : ١) ٧۔ میں قسم کھاتا ہوں مکہ شہر کی۔ (البلد : ١) ٨۔ قسم ہے آفتاب اور اس کی روشنی کی۔ (الشمس : ١) الطور
2 الطور
3 الطور
4 الطور
5 الطور
6 الطور
7 فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ نے پانچ قسمیں اٹھا کر ثابت کیا ہے کہ قیامت کے منکرین کو قیامت کے دن ضرور عذاب دیا جائے گا اور اسے کوئی نہیں ٹال سکے گا۔ اللہ تعالیٰ نے جس طرح ہرقسم کے دلائل سے یہ ثابت کیا ہے کہ قیامت ہر صورت قائم ہوگی۔ اسی طرح اس نے یہ بات بھی واضح کردی ہے کہ قیامت کے دن کفار، مشرکین اور بھاری مجرموں کو ہر صورت عذاب دیا جائے گا اور اس عذاب کو کوئی ٹال نہیں سکے گا۔ جس دن مجرموں کو عذاب دیا جائے گا اس کا آغاز اس طرح ہوگا کہ آسمان کپکپانے لگے گا اور پہاڑ اپنی جگہ سے ہلنا شروع ہوجائیں گے۔ جو اس دن کو جھٹلاتا ہے اس کے لیے ہلاکت ہوگی۔ قیامت کے دن جونہی اسرافیل صور پھونکیں گے تو زمین میں زلزلے رونما ہوں گے اور پہاڑ اپنی جگہ سے ہلنا شروع ہوجائیں گے اور آسمان اس طرح تیزی کے ساتھ ہلنا اور جھولنا شروع ہوگا کہ بالآخر نیچے گر پڑے گا۔ سورۃ التکویر، الانفطار اور سورۃ الانشقاق کی ابتدائی آیات میں اس کی اہمیت بیان کی گئی ہے۔ قیامت کے دن پہاڑوں کی جو حالت ہوگی اس کا ایک منظر اسی آیت کی تفسیر بالقرآن کے حوالوں میں ملاحظہ فرمائیں۔ مسائل ١۔ قیامت کا عذاب ضرور واقع ہوگا اور اسے کوئی ٹال نہیں سکے گا۔ ٢۔ قیامت کے دن آسمان کپکپانا شروع ہوجائے گا۔ ٣۔ قیامت کے دن پہاڑ اپنی جگہ سے ہلنا شروع ہوجائیں گے۔ ٤۔ قیامت کو جھٹلانے والوں کے لیے اس دن ہلاکت ہوگی۔ تفسیر بالقرآن قیامت کے دن پہاڑوں کی کیا حالت ہوگی : (الکہف : ٤٧) (المزمل : ١٤) (القارعہ : ٥) (التکویر : ١ تا ٣) (القیامہ : ٦ تا ٨) الطور
8 الطور
9 الطور
10 الطور
11 الطور
12 فہم القرآن ربط کلام : قیامت کے دن کی ہولناکیوں کا ذکر کرنے کے بعد ان لوگوں کا انجام بیان کیا گیا ہے جو قیامت کے دن کی تکذیب کرتے ہیں اور اس کے بارے میں لایعنی گفتگو میں مصروف رہتے ہیں۔ ویل کا معنٰی جہنم بھی ہے کیونکہ اس میں داخل ہونے والوں کے لیے ہلاکت اور بربادی ہوگی۔ اس لیے جہنم کو ویل کہا گیا ہے۔ ویل ان لوگوں کے لیے ہوگی جو قیامت کی تکذیب اور اس سے لاپرواہی کرتے ہیں۔ جب ان کے سامنے قیامت اور اس کی ہولناکیوں کا تذکرہ ہوتا ہے تو اسے شغل کے طور پر لیتے ہیں اور اس کے بارے میں لایعنی گفتگو کرتے ہیں۔ جب انہیں قیامت کے دن جہنم کی آگ میں دھکیلا اور پھینکا جائے گا تو فرشتے انہیں جہنم میں دھکیلتے ہوئے کہیں گے کہ یہی وہ آگ اور جہنم ہے جس کو تم جھٹلایا کرتے تھے۔ آنکھیں کھول کر دیکھ لو جسے تم جادو کہا کرتے تھے کیا یہ جادو ہے یا حقیقت؟ جسے تم جھٹلاتے اور شغل کا نشانہ بنایا کرتے تھے اب اس میں داخل ہوجاؤ۔ یہاں صبر کرو یا واویلا کرو تمہارے لیے برابر ہے۔ یہ اس کی سزا ہے جو تم دنیا میں کیا کرتے تھے اس میں تم نے ہمیشہ ہمیش رہنا ہے۔ اس بات کو یوں بھی بیان کیا گیا ہے۔ (وَسِیقَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا اِِلٰی جَہَنَّمَ زُمَرًا حَتّٰی اِِذَا جَاءُوہَا فُتِحَتْ اَبْوَابُہَا وَقَالَ لَہُمْ خَزَنَتُہَا اَلَمْ یَاْتِکُمْ رُسُلٌ مِّنْکُمْ یَتْلُوْنَ عَلَیْکُمْ اٰیٰتِ رَبِّکُمْ وَیُنْذِرُوْنَکُمْ لِقَاءَ یَوْمِکُمْ ہٰذَا قَالُوْا بَلٰی وَلٰکِنْ حَقَّتْ کَلِمَۃُ الْعَذَابِ عَلَی الْکٰفِرِیْنَ قِیْلَ ادْخُلُوْا اَبْوَابَ جَہَنَّمَ خٰلِدِیْنَ فِیْہَا فَبِءْسَ مَثْوَی الْمُتَکَبِّرِیْنَ) (الزمر : ٧١، ٧٢) ” جن لوگوں نے کفر کیا وہ جہنم کی طرف گروہ در گروہ ہانکے جائیں گے جب وہ جہنم کے قریب پہنچیں گے تو اس کے دروازے کھول دئیے جائیں گے اور اس کے چوکیدارملائکہ جہنمی سے پوچھیں گے کہ کیا تمہارے پاس تمہی میں سے رسول نہیں آئے تھے، جنہوں نے تمہارے رب کی تمہیں آیات سنائی ہوں اور تمہیں اس بات سے ڈرایا ہو کہ تمہیں یہ دن دیکھنا ہوگا۔ جہنمی جواب دیں گے ہاں آئے تھے مگر عذاب کا فیصلہ ہم پر سچ ثابت ہوا۔ کہا جائے گا کہ جہنم کے دروازوں میں داخل ہوجاؤ یہاں تمہیں ہمیشہ رہنا ہے۔ یہ متکبروں کے لیے بڑا ہی برا ٹھکانہ ہے۔“ مسائل ١۔ جو لوگ قیامت کی تکذیب کرتے ہیں ان کے لیے ہلاکت اور جہنم ہوگی۔ ٢۔ قیامت کے دن انہیں جہنم کی آگ میں دھکیلا جائے گا۔ ٣۔ جب انہیں جہنم میں دھکیلا جائے گا تو ملائکہ انہیں کہیں گے کہ یہ وہی آگ ہے جسے تم دنیا میں جھٹلایا کرتے تھے۔ تفسیر بالقرآن جہنم کی آگ کی حالت : ١۔ جہنم کا ایندھن لوگ اور پتھر ہوں گے۔ (البقرۃ: ٢٤) ٢۔ جہنم کی آگ بہت زیادہ تیز ہوگی۔ (التوبۃ: ٨١) ٣۔ مجرم لوگ جہنم کے گرجنے برسنے کی آوازیں سنیں گے۔ (الفرقان : ١٢) ٤۔ جہنم بھرنے کا نام نہیں لے گی۔ (ق : ٣٠) ٥۔ جہنم کا ایندھن لوگ اور پتھر ہوں گے اور اس پر سخت گیر فرشتوں کی ڈیوٹی لگائی گئی ہے۔ (التحریم : ٦) ٦۔ مجرموں کو جب جہنم میں ڈالا جائے گا تو وہ اس کی چٹخارسنیں گے۔ (الملک : ٧) ٧۔ جہنم کی آگ کے شعلے بڑے بڑے مکانوں کے برابر ہوں گے۔ ( المرسلات : ٣٢) ٨۔ مجرموں کو جہنم میں آگ کے بڑے بڑے ستونوں سے باندھا جائے گا۔ ( ہمزہ : ٩٠) ٩۔ جہنمی کو آگ کا لباس پہناکر آگ میں پھینک دیا جائے گا۔ (الحج : ١٩) ١٠۔ اس دن مجرموں کو ایک دوسرے کے ساتھ جکڑا ہوا دیکھیں گے اور آگ ان کے چہروں پر چھائی ہوگی۔ (ابراہیم : ٤٩۔ ٥٠) ١١۔ ان کا ٹھکانہ جہنم ہے جب آگ ہلکی ہونے لگے گی تو ہم اسے مزید بھڑکا دیں گے۔ (بنی اسرائیل : ٩٧) الطور
13 الطور
14 الطور
15 الطور
16 الطور
17 فہم القرآن ربط کلام : جہنمی کا انجام بتلانے کے بعد جنتی کے انعامات کا تذکرہ۔ ایک طرف جہنمی اپنے کیے کی سزا پائیں گے اور دوسری طرف جنتی جنت میں انعامات سے سرفراز ہوتے رہیں گے۔ وہ اپنے رب کی عطاؤں پر خوش ہوں گے اور ان کا رب ان کو جہنم کے عذاب سے محفوظ فرمائے گا۔ جہنمی کو حکم ہوگا کہ اپنے کیے کی سزا پاؤ اور جنتی کو حکم ہوگا کہ اپنے نیک اعمال کے بدلے میں کھاؤ پیو اور مزے اڑاؤ۔ جنتی جنت کے نفیس اور شاندار صوفوں پر تکیہ لگا کر تشریف فرما ہوں گے۔ یہاں پہلے ذکر فرمایا ہے کہ جنتی کو ان کا رب جو کچھ عطا فرمائے گا وہ اس پر خو ش ہوں گے اور ان کا رب ان کو جہنم کے عذاب سے محفوظ فرمائے گا۔ جنتی کو جہنم سے بچانے کا الگ ذکر فرما کر یہ حقیقت واضح کی ہے کہ جہنم سے بچ کر جنت میں داخل ہونا بہت بڑی کامیابی ہے۔ ” ہر جان موت کا مزہ چکھنے والی ہے اور قیامت کے دن تم پورے پورے اجر دیے جاؤ گے۔ پھر جو شخص آگ سے بچا لیا گیا اور جنت میں داخل کردیا گیا یقیناً وہ کامیاب ہوگیا۔ دنیا کی زندگی تو صرف دھوکے کا سامان ہے۔“ (آل عمران : ١٨٥) (عَنْ اَبِیْ ھُرَےْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لَنْ یُّنْجِیَ اَحَدًا مِّنْکُمْ عَمَلُہُ قَالُوْا وَلَا اَنْتَ ےَا رَسُوْلَ اللّٰہِ قَالَ وَلَا اَنَا اِلَّا اَن یَّتَغَمَّدَنِیَ اللّٰہُ مِنْہُ بِرَحْمَتِہٖ فَسَدِّدُوْا وَقَارِبُوْا وَاغْدُوْا وَرُوْحُوْا وَشَیْءٌ مِّنَ الدُّلْجَۃِ وَالْقَصْدَ الْقَصْدَ تَبْلُغُوْا) (رواہ البخاری : باب تمنی المریض الموت) ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تم میں سے کسی شخص کو بھی اس کا عمل نجات نہیں دلا سکتا۔ صحابہ پوچھتے ہیں یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! کیا آپ کو بھی؟ فرمایا! مجھے بھی میرا عمل نہیں بچا سکے گا یہاں تک اللہ تعالیٰ مجھے اپنی رحمت کے دامن میں ڈھانپ لے۔ تم صحیح راستے پر چلو، اللہ تعالیٰ کی قربت اختیار کرو، صبح وشام اور رات کے کچھ حصہ میں نیک عمل کرولیکن میانہ روی اختیار کرواپنے مقصد کو پا جاؤ گے۔“ ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : پہلا گروہ جنت میں چودھویں رات کے چاند کی صورت میں داخل ہوگا ان کے بعد کے لوگ آسمان میں چمکدار اور حسین ستارے کی مانند ہوں گے ان کے دل ایک ہی آدمی کے دل کی طرح ہوں گے ان کے درمیان نہ کوئی بغض ہوگا اور نہ ہی حسد۔ جنتی کے لیے حور العین میں سے دو بیویاں ہوں گی جن کی ہڈیوں کا گودا، گوشت اور ہڈیوں کے درمیان سے نظر آئے گا۔“ (رواہ البخاری : باب ماجاء فی صفۃ الجنۃ وأنھامخلوقۃ) مسائل ١۔ کفر و شرک اور گناہوں سے بچنے والوں کو اللہ تعالیٰ نعمتوں والی جنت میں داخل فرمائے گا۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ جنتی کو جو کچھ عطا کرے گا وہ اس پر خوش ہوں گے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ جنتی کو جہنم کے عذاب سے مامون فرمائے گا۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ جنتی کو حکم دے گا کہ اپنے نیک اعمال کے بدلے کھاؤ پیو اور مزے اڑاؤ۔ ٥۔ جنتی جنت کے نفیس اور شاندار صوفوں پر تشریف فرما ہوں گے۔ تفسیر بالقرآن جنتی کے انعامات کی ایک جھلک : ١۔ ہم ان کے دلوں سے کینہ نکال دیں گے اور سب ایک دوسرے کے سامنے تکیوں پر بیٹھے ہوں گے۔ انہیں کوئی انہیں تکلیف نہیں پہنچے گی اور نہ وہ اس سے نکالے جائیں گے۔ (الحجر : ٤٧۔ ٤٨) ٢۔ جنت کے نیچے سے نہریں جاری ہوں گی اور اس کے پھل اور سائے ہمیشہ کے لیے ہوں گے۔ (الرعد : ٣٥) ٣۔ جنت میں بے خار بیریاں، تہہ بہ تہہ کیلے، لمبا سایہ، چلتا ہوا پانی، اور کثرت سے میوے ہوں گے۔ (الواقعہ : ٢٨ تا ٣٥) ٤۔ جنت کے میوے ٹپک رہے ہوں گے۔ (الحاقہ : ٢٣) ٥۔ جنتی کو ملائکہ سلام کریں گے۔ ( الزمر : ٧٣) ٦۔ جنت میں وہ سب کچھ ہوگا جس کی جنتی خواہش کرے گا۔ (حٰم السجدۃ: ٣١) الطور
18 الطور
19 الطور
20 الطور
21 فہم القرآن ربط کلام : جنتی والدین کے ساتھ ان کی نیک اولاد کا ملاپ اور مقام۔ جو لوگ ایمان لائے اور اس کے تقاضے پورے کرتے رہے، ان کی اولادنے بھی ایمان لانے اور نیک عمل کرنے میں اپنے والدین کی پیروی کی۔ جب دونوں جنت میں داخل کیے جائیں گے اور اپنے اپنے مقام پر قیام پذیر ہوں گے تو جنت کے نچلے درجے میں رہنے والی اولاد کو اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے ان کے ماں باپ کے ساتھ ملادے گا اور ان کے ماں باپ کے درجات میں کوئی کمی نہیں کرے گا۔ گویا کہ ان کی اولاد کے درجات میں اضافہ کردیا جائے گا۔ فطری طور پر ماں باپ کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ اپنی اولاد کے ساتھ رہیں کسی کے درجات میں کمی کرنا۔ اللہ تعالیٰ کے عدل اور رحمت کے خلاف ہے اس لیے وہ ان کی اولاد کے درجات میں اضافہ فرما کر انہیں ان کے ماں باپ کے ساتھ اکٹھا کردے گا۔ قرآن مجید نے یہاں اس بات کا تذکرہ نہیں کیا کہ اگر والدین کے درجات کم ہوئے اور ان کی اولاد کا مقام بلند ہوا تو پھر ان کے والدین کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے گا۔ رب کریم کی رحمت سے یہی امید ہے کہ وہ والدین کے ساتھ بھی وہی سلوک فرمائے گا جو کم درجہ رکھنے والی اولاد کے ساتھ کرے گا۔ چند سطور کے بعد درج ہونے والی حدیث سے اس کا اشارہ ملتا ہے۔ دوسرا فرمان یہ ہے کہ ہر شخص اپنے اعمال کے بدلے گروی ہے۔ اس کا مفہوم یہی سمجھ آتا ہے کہ خالق کا اپنی کائنات پر حق ہے جسے ادا کرنا مخلوق کی ذمہ داری ہے۔ اس قرض کا یوں ذکر کیا گیا ہے۔ ” ہر شخص اپنی کمائی کے بدلے رہن ہے۔“ (المدثر : ٣٨) جو شخص اس قرض کو ادا کرے گا وہ جنت میں داخل ہوگا اور جو اس قرض کو ادا نہیں کرے گا وہ گروی ہونے کی وجہ سے جہنم کی طرف دھکیل دیا جائے گا۔ ” معاذ جہنی (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جس نے قرآن پڑھا اور اس کے مطابق عمل کیا اس کے والدین کو قیامت کے دن تاج پہنایا جائے گا جس کی روشنی سورج کی روشنی سے زیادہ ہوگی اگر وہ تم میں ہو تو اس پر عمل کرنے والے کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے۔“ ( رواہ ابو داؤد : باب فِی ثَوَابِ قِرَاءَ ۃِ الْقُرْآنِ، حکمہ ضعیفٌ) (عَنْ أَبِیْ بُرِیْدَۃَ یَقُوْلُ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَقُوْلُ فِی الْإِنْسَانِ ثَلٰثُمِاءَۃٍ وَسِتُّوْنَ مَفْصِلًا فَعَلَیْہِ أَنْ یَّتَصَدْقَ عَنْ کُلِّ مَفْصِلٍ مِنْہُ بِصَدَقَۃٍ قَالُوْا وَمَنْ یُّطِیْقُ ذٰلِکَ یَا نَبِیَّ اللّٰہِ قَالَ اَلنُّخَاعَۃُ فِی الْمَسْجِدِ تَدْفِنُہَا وَالشَّیْءُ تُنَحِّیْہِ عَنِ الطَّرِیْقِ فَاِنْ لَّمْ تَجِدْ فَرَکَعَتَا الضُّحٰی تُجْزِءُکَ.) ( رواہ ابو داؤد : باب فی إماطۃ الأذی عن الطریق قال البانی صحیحٌ) ” حضرت ابو بریدہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرما رہے تھے کہ انسان کے تین سو ساٹھ جوڑ ہوتے ہیں اس پر لازم ہے کہ وہ ہر جوڑ کی طرف سے صدقہ کرے۔ صحابہ کرام (رض) نے عرض کی اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! اتنی طاقت کون رکھتا ہے؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : مسجد میں پڑھی ہوئی تھوک کو دفن کر دے اور راستے سے تکلیف دہ چیز کو ہٹا دے، اگر اتنی طاقت نہیں رکھتا تو چاشت کی دو رکعتیں تجھے کافی ہوجائیں گی۔“ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَا مِنْ أَمِیرِ عَشَرَۃٍ إِلاَّ یُؤْتَی بِہِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ وَیَدُہُ مَغْلُولَۃٌ إِلَی عُنُقِہِ.) ( رواہ البیہقی : باب کَرَاہِیَۃِ الإِمَارَۃِ، قال الشیخ البانی صحیح) ” حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : کوئی دس آدمیوں کا امیر ہو تو قیامت کے دن وہ اس حال میں آئے گا اس کا ہاتھ اس کی گردن کے ساتھ بندھا ہوگا۔“ ” حضرت معاذ (رض) فرماتے ہیں میں رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پیچھے گدھے پر سوار تھا۔ میرے اور آپ کے درمیان صرف پلان کی آخری لکڑی تھی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا اے معاذ ! تجھے معلوم ہے کہ اللہ تعالیٰ کا اپنے بندے پر کیا حق ہے اور بندوں کے اللہ تعالیٰ پر کیا حقوق ہیں؟ میں نے عرض کیا اللہ اور اس کا رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بہتر جانتے ہیں۔ ارشاد ہوا بندوں پر اللہ کا حق یہ ہے کہ وہ اس کی عبادت کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں اور اللہ تعالیٰ پر بندوں کا حق یہ ہے جب تک وہ شرک نہیں کرتے وہ انہیں عذاب سے دوچار نہ کرے۔ میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ خوشی کی بات میں لوگوں تک نہ پہنچاؤں؟ فرمایا کہ نہیں اس طرح وہ محنت کرنا چھوڑ دیں گے۔“ (رواہ البخاری : باب اسْمِ الْفَرَسِ وَالْحِمَارِ) مسائل ١۔ جنت میں کم درجہ مقام رکھنے والی اولاد کو ان کے ماں باپ کے ساتھ ملانے کے لیے ان کے درجات میں اضافہ کیا جائے گا۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ ماں باپ کے درجات میں کمی کرنے کی بجائے ان کی اولاد کو جنت میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے گا۔ ٣۔ ہر شخص اپنے اعمال کے لحاظ سے گروی رکھا گیا ہے۔ الطور
22 فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ جس طرح کم درجے رکھنے والی اولاد پر کرم فرما کر انہیں ان کے ماں باپ کے ساتھ ملانے کے لیے اعلیٰ مقام عطا فرمائے گا اسی طرح اللہ تعالیٰ جنتی کے اعمال سے زیادہ انہیں اپنی نعمتوں سے سرفراز فرمائے گا۔ اللہ تعالیٰ جنتی کو خوش رکھنے کے لیے وہ کچھ عطا فرمائے گا جو وہ چاہیں گے۔ جنت میں نعمتیں بے شمار ہوں گی لیکن پھل اور گوشت کا اس لیے ذکر کیا گیا ہے کہ پھل اور گوشت ہر انسان کی مرغوب اور پسندیدہ خوراک ہوتی ہے۔ دوسرے مقام پر پھلوں کے بارے میں یوں ارشاد فرمایا ہے : ” ایمان لانے اور صالح اعمال کرنے والوں کو خوش خبری دیجیے کہ ان کے لیے باغات ہیں جن کے نیچے نہریں چلتی ہیں۔ جب وہ پھلوں سے رزق دیے جائیں گے تو وہ کہیں گے یہ وہی ہیں جو ہم اس سے پہلے دیے گئے تھے، انہیں اس سے ملتے جلتے پھل دیے جائیں گے اور ان کے لیے پاک بیویاں ہوں گی اور وہ ان باغات میں ہمیشہ رہیں گے۔“ (البقرۃ: ٢٥) (وَلَحْمِ طَیْرٍ مِّمَّا یَشْتَہُوْنَ) (الواقعۃ: ٢١) ” اور پرندوں کا گوشت ہوگا جس کا وہ چاہیں گے۔“ پھل اور گوشت کھانے کے بعد جنتی کو شراب سے بھرے ساغر پیش کیے جائیں گے جس میں کسی قسم کا نشہ اور فتور نہیں ہوگا اور نہ ہی جنتی کسی قسم کی بے ہودہ گوئی اور بری حرکت کریں گے۔ البتہ پکنک (Picnic) کے موڈ اور بے تکلفی کے عالم میں ایک دوسرے سے شراب کے جام جھپٹ رہیں ہوں گے۔ گویا کہ ماں باپ، اولاد اور جنتی کا آپس میں بے حد پیار ہوگا۔ ان کی خدمت میں جام اور کھانے پیش کرنے کے لیے غلمان ہوں گے۔ دنیا میں دفتروں اور گھروں میں خدمت کرنے والے ملازم اپنی غربت اور کام کی وجہ سے صاف ستھرے نہیں ہوتے، نہ ہی ان کی اکثریت شکل و صورت میں بہتر ہوتی ہے اور نہ ہی گفتگو کرنے میں خوش گفتار ہوتے ہیں۔ جنت کے غلمان جو بارہ تیرہ سال کے بچے ہوں گے اتنے خوش لباس، خوش اخلاق اور خوبصورت ہوں گے گویا کہ ایسے موتی ہیں جو صدف سے ابھی ابھی نکالے گئے ہیں۔ بالفاظ دیگر شہزادے بادشاہوں کے خدمت گار ہوں گے۔ غلمان جنت کی انتہائی خوبصورت مخلوق ہوگی جن میں کفار کے مرنے والے معصوم بچے بھی شامل ہوں گے۔ جنہیں اللہ تعالیٰ غلمان کی شکل و صورت میں پیدا کرے گا۔ (عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ (رض) قَالَ سُءِلَ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عَنْ أَوْلاَدِ الْمُشْرِکِینَ فَقَال اللَّہُ إِذْ خَلَقَہُمْ أَعْلَمُ بِمَا کَانُوا عامِلِینَ.) (رواہ البخاری : باب مَا قیلَ فِی أَوْلاَدِ الْمُشْرِکِینَ) ” حضرت عبداللہ بن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مشرکین کے بچوں کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے انہیں پیدا کیا ہے اس لیے وہ خوب جانتا ہے کہ انہوں نے کیا اعمال کرنے تھے۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ جنتی کو ان کے مَن پسند کے پھل اور گوشت عطا فرمائے گا۔ ٢۔ جنتی کو نشے سے پاک شراب پیش کی جائے گی۔ ٣۔ جنتی تفریح کے ماحول میں ایک دوسرے سے جھپٹا جھپٹی کریں گے۔ ٤۔ جنتی کی خدمت میں انتہائی خوبصورت اور معصوم غلمان پیش کیے جائیں گے۔ تفسیر بالقرآن جنت کی نعمتوں کی ایک جھلک : ١۔ ہم ان کے دلوں سے کینہ نکال دیں گے اور سب ایک دوسرے کے سامنے تکیوں پر بیٹھے ہوں گے۔ انہیں کوئی تکلیف نہیں پہنچے گی اور نہ وہ اس سے نکالے جائیں گے۔ (الحجر : ٤٧۔ ٤٨) ٢۔ جس کا مومنوں کے ساتھ وعدہ کیا گیا ہے۔ اس جنت کے نیچے سے نہریں جاری ہیں اور اس کے پھل اور سائے ہمیشہ کے لیے ہوں گے۔ (الرعد : ٣٥) ٣۔ جنت میں بے خار بیریاں، تہہ بہ تہہ کیلے، لمبا اور گھناسایہ، چلتا ہوا پانی، اور کثرت سے میوے ہوں گے۔ (الواقعہ : ٢٨ تا ٣٠) ٤۔ جنت کے میوے ٹپک رہے ہوں گے۔ (الحاقہ : ٢٣) ٥۔ جنت میں وہ سب کچھ ہوگا جس کی جنتی خواہش کرے گا۔ (حٰم السجدۃ: ٣١) ٦۔ مومنوں کے ساتھ جس جنت کا وعدہ کیا گیا ہے اس میں صاف پانی، شہد، شراب اور دودھ کی نہریں ہونگی۔ (محمد : ١٥) الطور
23 الطور
24 الطور
25 فہم القرآن ربط کلام : جنتی کی آپس میں گفتگو اور اظہار تشکر۔ جنتی جنت کی نعمتوں سے لطف اندوز ہونے اور آپس میں خوش گپیاں کرنے کے باوجود ہر دم اس بات کا خیال رکھیں گے کہ اگر اللہ تعالیٰ ہمیں جنت میں داخل نہ کرتا تو ہم بھی دوسرے لوگوں کی طرح جہنم کے عذاب میں جل رہے ہوتے۔ رب کریم کا ہم پر احسان عظیم ہے کہ اس نے ہمیں جہنم کے جلادینے والے عذاب سے بچا کر جنت میں داخل فرمایا۔ ہم دنیا میں اپنے اہل خانہ میں بیٹھے ہوئے بھی اپنے رب سے ڈرا کرتے اور اس سے اس کی رحمت مانگا کرتے تھے۔ اس نے ہماری دعاؤں کو قبول کیا، ہم پر مہربانی فرمائی اور ہمیں جہنم سے بچا کر جنت میں داخل فرمایا کیونکہ وہ بہت ہی احسان فرمانے اور مہربانی کرنے والا ہے۔ جنتی دل کی گہرائی اور زبان کی سچائی سے اس حقیقت کا اعتراف کریں گے کہ جنت کا داخلہ ہماری نیکیوں کی بنیاد پر نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے احسان کا نتیجہ ہے۔ جنتی کی گفتگو کا حوالہ دے کریہ بتلایا گیا ہے کہ جنت میں جانے والے لوگ لوگوں کے سامنے صرف ظاہری طور پر نہیں بلکہ حقیقتاً نیک ہوتے ہیں۔ جس وجہ سے ان کے گھروں کا ماحول دینی اور پاکیزہ ہوتا ہے۔ وہ خود بھی اپنے رب سے ڈرتے ہیں اور اپنی اولاد کو بھی خدا خوفی کا سبق دیتے ہیں۔ جنت میں جانے کے لیے ضروری ہے کہ والدین اپنی اولاد کو خدا خوفی کا درس دیتے رہیں۔ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَامَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حِیْنَ أَنْزَلَ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ (وَأَنْذِرْ عَشِیْرَتَکَ الْأَقْرَبِیْنَ) قَالَ یَامَعْشَرَ قُرَیْشٍ أَوْ کَلِمَۃً نَحْوَھَا اشْتَرُوْٓا أَنْفُسَکُمْ لَآأُغْنِیْ عَنْکُمْ مِنَ اللّٰہِ شَیْءًا یَابَنِیْ عَبْدِ مَنَافٍ لَآأُغْنِیْ عَنْکُمْ مِنَ اللّٰہِ شَیْءًا یَاعَبَّاسَ بْنَ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ لَآأُغْنِیْ عَنْکَ مِنَ اللّٰہِ شَیْءًا وَیَاصَفِیَّۃُ عَمَّۃُ رَسُوْلِ اللّٰہِ لَآأُغْنِیْ عَنْکِ مِنَ اللّٰہِ شَیْءًا وَیَافَاطِمَۃُ بِنْتُ مُحَمَّدٍ سَلِیْنِیْ مَاشِءْتِ مِنْ مَالِیْ لَآأُغْنِیْ عَنْکِ مِنَ اللّٰہِ شَیْءًا) (رواہ البخاری : کتاب الوصایا، باب ھل یدخل النساء والولد فی الأقارب) ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں جب یہ آیت (اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈرائیے) نازل ہوئی تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کھڑے ہوئے اور فرمایا : اے قریش کے لوگو! اپنے لیے کچھ کر لومیں تمہیں اللہ کے عذاب سے کوئی فائدہ نہیں دے سکوں گا، اے بنی عبد منا ف میں تمہیں اللہ کے عذاب سے نہیں بچا سکتا۔ اے عباس بن عبدالمطلب ! میں تمہیں اللہ کے عذاب سے کچھ فائدہ نہیں دے سکوں گا، اے صفیہ ! رسول کی پھوپھی! میں تمہیں اللہ کے عذاب سے کچھ فائدہ نہیں دے سکتا۔ اے فاطمہ بنت محمد! میرے مال سے جو چاہتی ہے مانگ لے لیکن میں تجھے اللہ کے عذاب سے نہیں بچا سکوں گا۔“ (یٰٓاََیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْا اَنفُسَکُمْ وَاَہْلِیکُمْ نَارًا وَّقُوْدُہَا النَّاسُ وَالْحِجَارَۃُ عَلَیْہَا مَلَاءِکَۃٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ لَا یَعْصُون اللّٰہَ لَا یَعْصُون اللّٰہَ مَا اَمَرَہُمْ وَیَفْعَلُوْنَ مَا یُؤْمَرُوْنَ) (التحریم : ٦) ” اے ایمان والو اپنے آپ کو اور اپنے اہل وعیال کو اس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہوں گے، جس پر نہایت تند خو اور سخت گیر فرشتے مقرر ہیں جو کبھی اللہ کے حکم کی نافرمانی نہیں کرتے۔ انہیں جو حکم دیا جاتا ہے اسے بجا لاتے ہیں۔“ مسائل ١۔ نیک لوگ جلوت اور خلوت میں اپنے رب سے ڈرتے ہیں۔ ٢۔ نیک لوگوں کے گھر کا ماحول بھی دینی اور پاکیزہ ہوتا ہے۔ ٣۔ نیک لوگ اپنے رب سے جنت مانگنے کے ساتھ جہنم کے عذاب سے بھی پناہ مانگتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر رحم فرمانے والا ہے : ١۔ اللہ ہی رحم کرنے والا ہے۔ (الانعام : ١٣٣) ٢۔ مہربانی کرنا اللہ نے اپنے آپ پر لازم کرلیا ہے۔ (الانعام : ٥٤) ٣۔ میرے بندوں کو میری طرف سے خبر کردیں کہ میں بخشنے والا، رحم کرنے والا ہوں۔ (الحجر : ٤٩) ٤۔ اللہ مومنوں کو اندھیروں سے نکالتا ہے کیونکہ وہ رحم فرما نے والا ہے۔ (الاحزاب : ٤٣) الطور
26 الطور
27 الطور
28 الطور
29 فہم القرآن ربط کلام : جنت کے انعامات اور ان کے جذبات کا ذکر کرنے کے بعد خطاب کا رخ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف موڑ دیا گیا ہے۔ آپ کی دعوت کا مقصد لوگوں کو رب کریم اور اس کی جنت کی طرف بلانا تھا۔ اس لیے حکم ہوا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کفار کے الزامات کی پرواہ کیے بغیر دعوت کا کام جاری رکھیں۔ مکہ کی تیرہ سالہ نبوت کی زندگی میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کفار کو شب وروز سمجھا تے رہے کہ آؤ اس دعوت کو قبول کرو اور جنت کے وارث بن جاؤ گے۔ لیکن بدنصیبوں کا حال یہ تھا کہ وہ آپ کی دعوت قبول کرنے کی بجائے آپ کو کاہن اور دیوانہ کہتے تھے۔ کبھی آپ کو لوگوں کے سامنے شاعر کہتے اور اپنے ساتھیوں کو دلاسہ دیتے کہ گھبرانے کی ضرورت نہیں اپنے نظریات پر قائم رہیے ! یہ شخص عنقریب حوادث زمانہ کا شکار ہو کر ختم ہوجائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے اس صورت حال میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اطمینان دلاتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ آپ کو ان کی یا وہ گوئی کی طرف توجہ نہیں کرنی چاہیے کیونکہ آپ اپنے رب کے فضل سے کاہن اور دیوانے نہیں ہیں۔ پاگل تو وہ ہیں جو بیک وقت متضاد باتیں کررہے ہیں۔ ان کے پاگل پن کی دلیل یہ ہے کہ ایک طرف آپ کو کاہن کہتے ہیں اور دوسری طرف آپ کو مجنون کہتے ہیں۔ حالانکہ مجنون اور کاہن کے درمیان زمین و آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ مجنون شخص (UBNORMAL) حواس باختہ ہوتا ہے۔ اسے خبر نہیں ہوتی کہ وہ اپنے منہ سے کیا کہہ رہا ہے یہاں تک کہ وہ اپنے لباس کا بھی خیال نہیں رکھ سکتا۔ مجنون کے مقابلے میں کاہن شخص اپنے فن میں ماہر اور چالاک ہوتا ہے۔ وہ لوگوں کو پھنسانے کے لیے ایسے الفاظ اور اندازاختیار کرتا ہے کہ عقل مند اور جہاندیدہ لوگ بھی اس کے جال میں پھنس جاتے ہیں۔ مجنون کو اپنے تن کی ہوش نہیں ہوتی۔ کاہن باتوں باتوں میں زمین و آسمان کے قلابے ملا دیتا ہے۔ جہاں تک شاعر کا معاملہ ہے۔ شاعر کے کلام میں نہ صرف مبالغہ پایا جاتا ہے بلکہ اس کے کلام میں تضاد بیانی بھی ہوا کرتی ہے۔ شاعروں کی غالب ترین اکثریت بے عمل ہوتی ہے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پوری دنیا کے لیے اسوہ حسنہ بنائے گئے ہیں اور نبوت کے اعلیٰ مقام پر فائزہونے سے پہلے بھی آپ اعلیٰ کردار اور اخلاق کے پیکر تھے۔ اکثر شاعر عاشق مزاج ہوتے ہیں۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے زندگی بھر کسی غیرمحرم عورت کو نظر اٹھا کر نہیں دیکھا۔ شاعر کا کلام زیادہ عرصہ تک باقی نہیں رہتا۔ نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو کلام پیش کررہے تھے اس کی رہتی دنیا تک گارنٹی دی گئی ہے۔ شاعراپنا کلام پیش کرکے لوگوں سے مالی یا اخلاقی داد وصول کرتا ہے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان باتوں سے مبرّہ اور ارفع تھے۔ آپ نے زندگی بھر اپنے خطاب میں کبھی شعر نہیں پڑھا اور نہ ہی آپ کی شان اور مقام کے لائق تھا۔ (یٰسٓ: ٦٩) یہاں تک اہل مکہ کی اس بات کا تعلق ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا نام اور کام بہت جلد حوادث زمانہ کا شکار ہوجائے گا۔ اس بات کا انہیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان اطہر سے یوں چیلنج دیا گیا ہے کہ تم بھی انتظار کرو میں بھی انتظار کرتاہوں۔ زمانہ گواہ ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں ہرزہ سرائی کرنے والے مٹ گئے لیکن آپ کا نام اور کام ہر دور میں زندہ رہا اور رہے گا۔ اس لیے فرمایا کہ کیا ان کی عقلیں انہیں ایسی باتیں سکھاتی ہیں یا حقیقت میں یہ لوگ باغی اور شرارتی ہیں گویا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مخالف بے عقل بھی تھے، باغی اور شرارتی بھی۔ بے عقل اور شرارتی لوگ زیادہ مدت تک اپنے کام میں کامیاب نہیں ہوا کرتے۔ (وَرَفَعْنَا لَکَ ذِکْرَکَ) (الانشراح : ٤) ” ہم نے آپ کا ذکر بلند کردیا ہے۔“ مسائل ١۔ داعی کو مخالفوں کے الزامات کی پرواہ کیے بغیر دعوت کا کام جاری رکھنا چاہیے۔ ٢۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نہ شاعرتھے اور نہ مجنون تھے۔ ٣۔ نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کاہن اور مجنون کہنے والے خود پاگل تھے۔ ٤۔ بے عقل اور شریر لوگ ہی ناکام ہوا کرتے ہیں۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نام اور کام کو ہمیشہ زندرکھا ہے اور زندہ رکھے گا۔ تفسیر بالقرآن نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نہ شاعر تھے اور نہ آپ نے کبھی شعر گوئی کی تھی : ١۔ ہم نے آپ کو شعر نہیں سکھلائے اور نہ ہی یہ کام آپ کے لائق ہے۔ (یٰس : ٦٩) ٢۔ شاعروں کی پیروی گمراہ لوگ ہی کرتے ہیں وہ ہر وادی میں گھومتے ہیں اور جو کہتے ہیں اس پر عمل نہیں کرتے۔ (الشعراء : ٢٢٤ تا ٢٢٦) ٣۔ قرآن مجید کسی شاعر کا کلام نہیں۔ (الحاقہ : ٤١) ٤۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے رب کے فضل وکرم سے شاعر اور مجنون نہیں ہیں۔ ( القلم : ٢) الطور
30 الطور
31 الطور
32 الطور
33 فہم القرآن ربط کلام : اہل مکہ کا چوتھا الزام اور اس کا جواب۔ فہم القرآن میں یہ بات پہلے بھی عرض ہوچکی ہے کہ جب انسان ضد اور تکبر کا شکار ہوجاتا ہے تو اسے پتہ نہیں چلتا کہ وہ اپنے مخالف کے بارے میں کیا کیا ہرزہ سرائی کررہا ہے۔ یہی حالت اہل مکہ کی تھی۔ ایک طرف آپ کو مجنون کہتے اور دوسری طرف یہ الزام دیتے تھے کہ آپ اپنی طرف سے قرآن بنا کر پیش کرتے ہیں اور اسے اللہ کا کلام قرار دیتے ہیں۔ ان کا قرآن اور نبی کی ذات پر ایمان نہیں تھا اس لیے انہیں اور پوری دنیا کے جنوں اور انسانوں کو چیلنج دیا گیا ہے کہ تم بھی ایسا کلام بنا لاؤ اگر تم اپنے الزام میں سچے ہو۔ کیونکہ نبی بھی انسان ہے اور تم بھی انسان ہو۔ پھر تم اپنے آپ کو بڑا دانشور سمجھتے ہو اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیوانہ خیال کرتے ہو۔ اس صورت میں تمہارے لیے ضروری ہوگیا ہے کہ تم اس جیسا قرآن بنا لاؤ۔ قرآن مجید نے کفار کو یہ چیلنج کئی مرتبہ دیا۔ ( وَ اِن کُنْتُمْ فِیْ رَیْبٍ مِّمَّا نَزَّلْنَا عَلٰی عَبْدِنَا فَاتُوْا بِسُوْرَۃٍ مِّن مِّثْلِہٖ وَادْعُوْا شُہَدَآءَکُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ فَاِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا وَ لَنْ تَفْعَلُوْا فَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِیْ وَقُوْدُہَا النَّاسُ وَ الْحِجَارَۃُ اُعِدَّتْ لِلْکٰفِرِیْنَ) (البقرۃ: ٢٣، ٢٤) ” ہم نے جو اپنے بندے پر اتارا ہے اگر اس میں تمہیں شک ہے تو تم اس جیسی ایک سورت بنا لاؤ اگر تم سچے ہو تو ” اللہ“ کے سوا اپنے مدد گاروں کو بھی بلا لاؤ۔ اگر تم نے ایسا نہ کیا اور تم ہرگز نہیں کرسکو گے پس اس آگ سے بچو جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں جو کافروں کے لیے تیار کی گئی ہے۔“ مسائل ١۔ کفار کا الزام تھا کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی طرف سے قرآن بنا لیتے ہیں۔ ٢۔ کفار کو چیلنج دیا گیا ہے کہ اگر تم اپنے الزام میں سچے ہو تو تم بھی اس جیسا کلام بنا کرلے آؤ۔ ٣۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر کفار اس لیے الزامات لگاتے تھے کیونکہ ان کا قرآن اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان نہیں تھا۔ الطور
34 الطور
35 الطور
36 فہم القرآن ربط کلام : قرآن مجید کی بنیادی دعوت اللہ کی توحید پر سچے دل کے ساتھ ایمان لانا اور اس کے تقاضے پورے کرنا ہے۔ اہل مکہ کو اس دعوت کے ساتھ ترین اختلاف تھا جس بنا پر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو الزام دیتے کہ اس نے اپنی طرف سے قرآن بنالیا ہے۔ اس موقعہ پر اہل مکہ سے اس کے جواب میں پندرہ سوال کیے گئے جن کا جواب دینے میں وہ ناکام رہے لیکن پھر بھی اپنے کفر و شرک پر قائم رہے۔ اہل مکہ کو قرآن اور صاحب قرآن کے ساتھ بنیادی اختلاف یہ تھا کہ ہمیں اپنے معبودوں کی عبادت سے کیوں روکتا ہے۔ اس لیے ان کا یہ مطالبہ تھا کہ اس قرآن کو تبدیل کردیا جائے۔ جب ان کا مطالبہ پورا نہ ہوا تو انہوں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کاہن، جادوگر اور شاعر کہنا شروع کردیا۔ قرآن مجید نے ان الزامات کے اور بھی جواب دیئے ہیں لیکن اس موقع پر یہ جواب دئیے۔1۔ کیا یہ لوگ کسی کے پیدا کیے بغیر پیدا ہوگئے ہیں یا خود اپنے آپ کو پیدا کرنے والے ہیں ؟ حقیقت یہ ہے کہ یہ کسی سچائی پریقین نہیں رکھتے۔ 2۔ کیا ان کے پاس آپ کے رب کے خزانے ہیں یا یہ ان پر چوکید ار بنائے گئے ہیں ؟ 3۔ کیا ان کے پاس کوئی سیڑھی (LIFT) ہے جس کے ذریعے آسمان پر پہنچ کر قضا و قدر کے فیصلے سن لیتے ہیں ؟ اگر ان کے پاس اس بات کی کوئی واضح دلیل ہے تو اسے پیش کریں۔ اہل مکہ رسمی طور پر مانتے تھے کہ انہیں اور زمین و آسمانوں کو اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا ہے لیکن حقیقی ایمان نہ ہونے کی وجہ سے وہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اس قسم کے اعتراض کرتے تھے جس سے ثابت ہوتا تھا کہ اللہ کے خالق ہونے پر ان کا ایمان نہیں ہے۔ اگر ان کا حقیقی طور پر ایمان ہوتا کہ اللہ تعالیٰ ہمارا اور زمین و آسمانوں کا خالق ہے تو وہ قرآن اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اس قسم کے اعتراض نہ کرتے۔ خالق کا معنٰی ہے کہ بغیر کسی نمونے کے ہر چیز کو پیدا کرنے والا۔ جب اللہ تعالیٰ کو حقیقی طور پر خالق اور اپنے آپ کو مخلوق یعنی اس کا بندہ مان لیا تو اس قسم کے اعتراضات کی کوئی حیثیت باقی نہیں رہتی کہ اللہ تعالیٰ نے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر کیوں قرآن نازل کیا ہے اور قرآن غیر اللہ کی عبادت سے کیوں منع کرتا ہے کسی کو نبی منتخب کرنا اللہ تعالیٰ کا اپنا انتخاب اور اختیار ہے لوگوں کی راہنمائی کے لیے حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نبی بنانا اللہ تعالیٰ کی بے پناہ رحمت کا مظہر ہے۔ اس لیے کفار سے یہ سوال کیا گیا۔ کیا وہ اللہ کے خزانوں کے مالک ہیں یا انہیں ان کا چوکیدار بنایا گیا ہے یا وہ آسمانوں پر چڑھ کر قضا و قدر کے فیصلے جان چکے ہیں؟ کہ قرآن کس پر نازل ہونا چاہیے اور کس پر نازل نہیں ہونا چاہیے تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ لوگ ان سوالات کے جواب میں کوئی دلیل نہیں رکھتے۔ جب ان کے پاس ان کے الزامات کا جواب نہیں ہے تو انہیں ہرزہ سرائی سے باز آکر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت پر ایمان لانا اور قرآن مجید کی دعوت پر یقین کرنا چاہیے۔ ان کی بے انصافی اور ہرزہ سرائی کا عالم یہ ہے کہ یہ اپنے لیے بیٹے پسند کرتے ہیں اور ملائکہ کو اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں قرار دیتے ہیں۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق میں سے کسی کو بیٹا یا بیٹی نہیں بنایا کیونکہ وہ ان چیزوں سے پاک اور مبرّاہے۔ گویا کہ یہ اس قدر غیر ذمہ دار اور کذاب لوگ ہیں کہ ان کی کسی بات پر یقین کرنا تو درکنار ان کی بات پر کان بھی نہیں دھرنا چاہیے۔ مسائل ١۔ ” اللہ“ ہی نے انسان اور ہر چیزکو پیدا کیا ہے اس کے سوا کوئی کچھ پیدا نہیں کرسکتا۔ ٢۔ زمین و آسمانوں کو صرف ” اللہ“ ہی نے پیدا کیا ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ اپنے خزانوں کا خود مالک ہے کوئی اس کے خزانوں پر اختیار نہیں رکھتا۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ کا نہ کوئی بیٹا ہے اور نہ بیٹی وہ اولاد اور ہر قسم کی محتاجی اور ضرورت سے بے نیاز ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ مشرکوں کے شرک سے پاک ہے : ١۔ ” اللہ“ بہت بلند ہے اس چیز سے جو لوگ شرک کرتے ہیں۔ (النحل : ٣) (النحل : ١) (النمل : ٦٣) (القصص : ٦٨) ( الزمر : ٦٧) (الطور : ٤٣) ( البقرۃ: ١١٦) (یونس : ١٨) (مریم : ٣٥) الطور
37 الطور
38 الطور
39 الطور
40 فہم القرآن ربط کلام : کفار اور مشرکین سے مزید سوالات۔ کیا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان سے کوئی صلہ مانگتے ہیں کہ جس کے بوجھ تلے دبے جا رہے ہیں ؟ کیا ان کے پاس کوئی غیب کی خبر آتی ہے جس کو یہ لکھ لیتے ہیں ؟ کیا یہ مزید مکر و فریب کرنا چاہتے ہیں ؟ انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ یہ خود ہی اپنے مکر میں پھنس جائیں گے۔ کیا ان کا اللہ کے سوا کوئی اور معبود اور مشکل کشا ہے جس کے کھونٹے پر ناچتے ہیں۔ انہیں بتلائیں کہ جن کو تم شریک بناتے ہو اللہ تعالیٰ ان سے مبرّا اور بے نیاز ہے۔ یہاں اہل مکہ اور ہر مشرک اور کافر کو مختلف قسم کے سوال کیے گئے ہیں تاکہ قیامت تک کے لیے انہیں معلوم ہوجائے کہ ان کے پاس کفر و شرک کی کوئی علمی اور عقلی دلیل نہیں ہے۔ اس موقع پر مشرکین سے جو مزید سوالات کیے گئے وہ یہ تھے۔ کیا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے کام کا ان سے صلہ مانگتے ہیں جس کا یہ بوجھ محسوس کرتے ہیں۔ آدمی کی یہ طبعی کمزوری ہے کہ جب اس سے کوئی چیز مانگتا ہے تو بے شک وہ فیاض کیوں نہ ہو پھر بھی مانگنے والے کے سوال کو محسوس کرتا ہے۔ اگر سوال کرنے و الا باربار مانگتا ہے تو فیاض شخص بھی سوال کرنے والے کو دلی طور پر اچھا نہیں سمجھتا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مخاطب فرما کر اہل مکہ کو شرم دلائی گئی ہے کہ انہیں غور کرنا چاہیے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کسی اعتبار سے بھی تم پر بوجھ نہیں لیکن پھر بھی تم آپ کی شخصیت اور دعوت کو بوجھ محسوس کرتے ہو۔ اہل مکہ سے نواں سوال یہ کیا گیا کہ کیا ان کے پاس غیب کی خبریں آتی ہیں؟ جنہیں یہ اپنے پاس لکھ لیتے ہیں اور اس بنیاد پر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے جھگڑا کرتے ہیں۔ آخری سوال یہ ہے کہ یہ کوئی مکرو فریب کرنا چاہتے ہیں تو کرلیں لیکن انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ یہ اس میں خود ہی پھنس کر رہ جائیں گے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان کی ہر سازش اور شرارت کو ناکام کیا اور نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کامیاب فرمایا۔ اس بنا پر حکم ہوا کہ انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیں۔ مسائل سورہ الطور کے دوسرے رکوع میں پندرہ مرتبہ ” اَمْ“ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ یہ لفظ سوال کرنے اور ” یا“ کے معنٰی میں استعمال ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس لفظ کو کفار کے لیے بار بار استعمال کیا ہے تاکہ کافر سوچنے پر مجبور ہوں کہ سرور دوعالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو کچھ فرمارہے ہیں وہ اللہ تعالیٰ کا نازل کردہ ہے۔ ١۔ کیا کافر آپ کو شاعر کہتے ہیں اور آپ کے بارے میں برے حالات کا انتظار کرتے ہیں۔ انہیں فرمائیں تم میرے بارے میں انتظار کرو میں بھی تمہارے انجام کا انتظار کرتاہوں۔ ٢۔ کیا ان کی عقلیں انہیں یہی کچھ سکھاتی ہیں۔ ٣۔ یا یہ لوگ سرکشی میں حد سے بڑھ چکے ہیں۔ ٤۔ کیا کافر کہتے ہیں کہ آپ نے قرآن خود بنالیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ ایمان لانے کے لیے تیار نہیں۔ اگر وہ اس الزام میں سچے ہیں تو انہیں قرآن کے چیلنج کا جواب قبول کرنا چاہیے۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ کو یہ لوگ معبود برحق ماننے کے لیے تیار نہیں کیا انہیں اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا ہے ؟ یا اپنے آپ پیدا ہوگئے ہیں۔ ٦۔ کیا انہوں نے زمین و آسمانوں کو پیدا کیا ہے ؟ حقیقت یہ ہے کہ یہ یقین کرنے کے لیے تیار نہیں۔ ٧۔ کیا یہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے رب کے خزانوں کے مالک ہیں ؟ ٨۔ کیا وہ آپ کے رب کے خزانوں پر چوکیدار ہیں؟ ٩۔ کیا ان کے پاس سیڑھی ہے کہ یہ آسمان کی باتیں سن لیتے ہیں۔ اگر سن لیتے ہیں تو انہیں اپنے حق میں کوئی واضح دلیل پیش کرنی چاہیے۔ ١٠۔ کافر کہتے ہیں کہ فرشتے اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں ہیں۔ کیا ” اللہ“ کے لیے بیٹیاں ہیں اور ان کے لیے بیٹے ہیں؟ ١١۔ کیا آپ ان سے اجر مانگتے ہیں جس کے بوجھ تلے یہ دبے جارہے ہیں۔ ١٢۔ کیا ان کے پاس علم غیب ہے جسے یہ لکھ لیتے ہیں۔ ١٣۔ کیا یہ کوئی اور سازش کرنا چاہتے ہیں ؟ یہ اپنی سازش میں خود ہی پھنس جائیں گے۔ ١٤۔ کیا اللہ کے سوا ان کا کوئی معبودِبرحق ہے ؟ انہیں بتلا دیں کہ اللہ ان کے بنائے ہوئے شریکوں سے مبرّاہے۔ تفسیر بالقرآن نبی (علیہ السلام) کفار کے الزامات سے مبرّا ہیں اور اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی الٰہ نہیں : (یٰس : ٦٩، الحاقہ : ٤١، القلم : ٢، القصص : ٨٨، النمل : ٦٠، النمل : ٦٢، النمل : ٦٣، النمل : ٦٤، القصص : ٧١، الفرقان : ٣، الانبیاء : ٩٩) الطور
41 الطور
42 الطور
43 الطور
44 فہم القرآن ربط کلام : مشرکین کی ہٹ دھرمی کی انتہا۔ اللہ تعالیٰ نے واضح دلائل اور سخت ترین تنبیہات کے ذریعے اہل مکہ کو سمجھانے کی کوشش کی کہ وہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لائیں، آخرت پر یقین رکھیں اور صرف ایک اللہ کی عبادت کریں۔ لیکن مشرک اس قدر ہٹ دھرم ہوتا ہے کہ وہ ان باتوں کو کسی صورت بھی ماننے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ یہی حالت اہل مکہ کی تھی ان حالات میں یہ ارشاد ہوا کہ ان لوگوں پر اگر آسمان کا کوئی حصہ گرا دیا جائے تو اسے نیچے آتے دیکھ کر کہیں گے کہ یہ تو گھنے بادلوں کاٹکڑا ہے۔ لہٰذا ان کو انہی کے حال پر چھوڑ دیا جائے یہاں تک کہ کہ وہ دن آپہنچے جس دن یہ بے ہوش کردیئے جائیں گے۔ اس دن نہ ان کا مکرو فریب چلے گا اور نہ ہی ان کی کوئی مدد کرنے والا ہوگا۔ ظالموں کے لیے دنیا میں بھی عذاب ہے لیکن ان کی اکثریت اس حقیقت کو جاننے اور ماننے کے لیے تیار نہیں۔ اس خطاب میں کفار کو تنبیہ کرنے کے ساتھ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ان ساتھیوں کو بھی تسلی دی گئی ہے جن کا خیال تھا کہ اگر کفار کو ان کے منہ مانگے معجزات دکھادیئے جائیں تو شاید وہ ایمان لے آئیں۔ ان کی غلط فہمی دور کرنے کے لیے بتلایا گیا ہے کہ معجزات تو درکنار ان پر آسمان کا ٹکڑا بھی گرا دیا جائے تو پھر بھی یہ لوگ اس کی تاویلات کریں گے مگر ایمان نہیں لائیں گے۔ ہاں یہ قیامت کے دن ہر بات تسلیم کریں گے لیکن اس وقت تسلیم کرنے کا انہیں کچھ فائدہ نہیں ہوگا اور نہ ہی یہ ایک دوسرے کی مدد کرسکیں گے۔ ان آیات کی تاثیر : جبیر بن مطعم (رض) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں بدر کے قیدیوں کی سفارش کرنے کے لیے مدینہ گئے۔ ان کا بیان ہے کہ میں نے مسجد میں آپ کو مغرب کی نماز کے وقت سورۃ طور کی ان آیات کی تلاوت کرتے ہوئے سنا تو میرے دل کی حالت یہ ہوگئی۔ ” حضرت جبیر بن مطعم (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مغرب کی نماز میں سورۃ طور پڑھتے ہوئے سنا جب آپ ان آیات پر پہنچے ” کیا یہ کسی خالق کے بغیر پیدا ہوئے ہیں؟ یا یہ خود اپنے آپ کے خالق ہیں؟ یا زمین اور آسمانوں کو انہوں نے پیدا کیا ہے ؟ اصل بات یہ ہے کہ یہ یقین نہیں رکھتے۔ کیا تیرے رب کے خزانے ان کے قبضے میں ہیں؟ یا ان پر ان کا حکم چلتا ہے؟“” کَادَ قَلْبِی أَنْ یَطِیرَ“ قریب تھا کہ میرا دل پھٹ جاتا۔“ ( رواہ البخاری : باب وسبح بحمد ربک قبل طلوع الشمس وقبل الغروب) مسائل ١۔ ہٹ دھرم لوگ بڑی سے بڑی سزا پاکر بھی ایمان نہیں لایا کرتے۔ ٢۔ قیامت کے دن ظالموں کا کوئی مکرو فریب نہیں چلے گا اور نہ ہی ان کی کوئی مدد کرنے والا ہوگا۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ دنیا میں بھی ظالموں کو کئی قسم کی سزائیں دیتا ہے اس کے باوجود وہ سمجھنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ تفسیر بالقرآن ہٹ دھرم لوگوں کاروّیہ اور کردار : ١۔ کفار کہتے تھے کہ تم ہمارے جیسے بشر ہو تم چاہتے ہو کہ ہم اپنے آباء واجداد کے معبودوں کو چھوڑ دیں۔ (ابراہیم : ١٠) ٢۔ کفار نے انبیاء سے کہا کہ ہم تمہیں اپنی زمین سے نکال دیں گے۔ (ابراہیم : ١٣) ٣۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کو قوم کے سرداروں نے کہا تو ہمارے جیسا ہی ایک آدمی ہے اور تیری پیروی کرنے والے بھی ادنیٰ لوگ ہیں۔ (ھود : ٢٧) ٤۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو فرعون نے کہا کیا تم اپنے جادو سے ہمیں ہماری زمین سے نکالنا چاہتے ہو۔ (طٰہٰ: ٥٧ ) ٥۔ موسیٰ (علیہ السلام) پر آل فرعون نے منحوس ہونے کا الزام لگایا۔ (الاعراف : ١٣١) مزید ملاحظہ فرمائیں۔ (الحجر : ١٤۔ ١٥) (سباء : ٤٣) (الفرقان : ٨) (النساء : ١٥٦) (الاعراف : ١٠٩) (یونس : ٧٦) (یونس : ٢) (ص : ٤) الطور
45 الطور
46 الطور
47 الطور
48 فہم القرآن ربط کلام : مشرکین کو عذاب کی دھمکی دینے کے بعد نبی محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو صبر کرنے کی تلقین۔ توحید کے دلائل دینے اور کفار کو عذاب کا انتباہ کرنے کے بعد نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تلقین کی گئی کہ آپ حوصلہ اور مستقل مزاجی سے کام لیں اور ہر حال میں یقین رکھیں کہ آپ کا رب آپ کو دیکھ رہا ہے۔ جہاں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دینے کے لیے وہی انداز اور الفاظ استعمال فرمائے ہیں جو حضرت نوح (علیہ السلام) اور موسیٰ (علیہ السلام) کے لیے استعمال کیے گئے۔ قوم کے بارے میں حضرت نوح (علیہ السلام) کی بدعا قبول ہوئی تو انہیں حکم ہوا کہ آپ ہماری ہدایت کے مطابق ہمارے سامنے کشتی تیار کریں کیونکہ عنقریب آپ کی قوم کو تباہ کردیا جائے گا۔ (ھود : ٣٧) حضرت موسیٰ اور ہاورن کو فرعون کی طرف بھیجا تو فرمایا کہ تم فرعون کے پاس جاؤ ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں کیونکہ میں تمہیں دیکھ رہا ہوں البتہ میری یاد کو نہ بھولنا۔ (طٰہٰ: ٤٢ تا ٤٦) نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھی انہی الفاظ میں تسلی دی گئی ہے کہ آپ اپنے رب کے حکم کے مطابق حوصلہ رکھیں اور مستقل مزاجی کے ساتھ اپنا کام کرتے جائیں۔ آپ ہماری آنکھوں کے سامنے ہیں۔ قیام اور ذکر : اس سورت کے آخر میں حکم ہوا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب اٹھیں تو اپنے رب کو یاد کریں۔ اہل علم نے اٹھنے سے مراد پانچ قسم کا اٹھنا لیا ہے۔ ١۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب کسی مجلس میں تشریف فرما ہوں اور وہاں سے اٹھیں تو اپنے رب کی تسبیح کریں۔ اس فرمان کی روشنی میں آپ نے اس بات کو مجلس کے آداب میں شامل فرمایا ہے کہ جب کوئی شخص مجلس سے اٹھے تو اسے یہ کلمات پڑھنے چاہئیں جس سے مجلس میں کی گئی سطحی باتوں کا کفارہ ہوجائے گا۔ ( سُبْحَانَکَ اللّٰہُمَّ وَبِحَمْدِکَ اَشْہَدُ اَنْ لَّآ اِلٰہَ اِلَّآ أَنْتَ اَسْتَغْفِرُکَ وَاَتُوْبُ اِلَیْکَ) (رواہ الترمذی : باب مایقول اذا قام من المجلس، قال الشیخ البانی صحیح) ٢۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ” حِیْنَ تَقُوْم“ پر اس طرح بھی عمل کیا اور اپنی امت کو تعلیم دی کہ جب کوئی شخص نیند سے بیدار ہو تو اسے یہ دعا پڑھنی چاہیے۔ ( عَنْ حُذَیْفَۃَ قَالَ کَان النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) إِذَا أَوَی إِلَی فِرَاشِہِ قَال باسْمِکَ أَمُوتُ وَأَحْیَا وَإِذَا قَامَ قَالَ الْحَمْدُ لِلَّہِ الَّذِی أَحْیَانَا بَعْدَ مَا أَمَاتَنَا وَإِلَیْہِ النُّشُورُ.) (رواہ البخاری : باب مَا یَقُولُ إِذَا نَامَ) ” حضرت حذیفہ (رض) بیان فرماتے ہیں کہ جب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سونے کا ارادہ فرماتے ہیں تو یہ دعا پڑھتے۔ ” میں تیرے نام سے ہی مرتا ہوں اور تیرے نام ہی سے جیتا ہوں۔“ اور جب سو کر اٹھتے تو یہ دعا پڑھتے۔” میں اللہ کی تعریف کرتا ہوں جس نے مجھے مرنے کے بعد زندہ کیا اور اسی کی طرف لوٹنا ہے۔“ ٣۔ جب اللہ کی دعوت دینے کے لیے اٹھو توسب سے پہلے حمدو ثناء بیان کیا کرو۔ ” نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خطاب شروع کرنے سے پہلے اللہ کی حمدوثناء پڑھتے۔“ (رواہ البخاری : باب المکاتب) ٤۔ اٹھنے سے مراد نماز کے لیے اٹھنا ہے۔ اس لیے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نماز کے آغاز میں یہ کلمات پڑھتے تھے۔ (سُبْحَانَکَ اللّٰہُمَّ وَبِحَمْدِکَ وَتَبَارَکَ اْسمُکَ وَتَعَالیٰ جَدُّکَ وَلَا اِلٰہَ غَیْرُکَ.) ( رواہ مسلم : باب حُجَّۃِ مَنْ قَالَ لاَ یَجْہَرُ بالْبَسْمَلَۃِ) ٥۔ جب کسی کام کا آغاز کیا جائے تو اس کی ابتداء ” اللہ“ کے نام سے کی جائے۔ (عَنْ عَاءِشَۃَ (رض) أَنَّ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ إِذَا أَکَلَ أَحَدُکُمْ فَلْیَذْکُرْ اسْمَ اللّٰہِ تَعَالٰی فَإِنْ نَسِیَ أَنْ یَذْکُرَ اسْمَ اللّٰہِ تَعَالٰی فِی أَوَّلِہٖ فَلْیَقُلْ بِسْمِ اللّٰہِ أَوَّلَہٗ وَآخِرَہٗ) (رواہ ابوداؤد والترمذی : کتاب الأطعمۃ، باب التسمیۃ علی الطعام) ” حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ بلاشبہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جب تم میں سے کوئی کھانا کھانے لگے تو بسم اللہ پڑھے اگر اللہ کا نام لینا بھول جائے تو اسے چاہیے کہ کہے اللہ کے نام سے ہی ابتدا اور انتہا کرتا ہوں۔“ ٦۔ امام ابن جریر نے ” حِیْنَ تَقُوْم“ کا یہ مفہوم بھی لیا ہے کہ جب دوپہر کا قیلولہ کرکے اٹھو تو ظہر کی نماز ادا کرو۔ بعض اہل علم نے رات کی نماز سے مراد مغرب، عشاء اور رتہجد کی نماز لی ہے۔ (وَ مِنَ الَّیْلِ فَتَہَجَّدْ بِہٖ نَافِلَۃً لَّکَ عَسآی اَنْ یَّبْعَثَکَ رَبُّکَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًا) (بنی اسرائیل : ٧٩) ” اور رات کے کچھ حصے میں آپ تہجد پڑھیں اس حال میں کہ آپ کے لیے زائد ہے۔ قریب ہے کہ آپ کا رب آپ کو مقام محمود پر کھڑا کرے۔“ الطور
49 الطور
0 سورۃ النجم کا تعارف اس سورت کا نام اس کے پہلے لفظ پر رکھا گیا ہے یہ مکہ میں نازل ہوئی ہے۔ اس کے تین رکوع اور باسٹھ (٦٢) آیات ہیں۔ یہ سورت نبوت کے پانچویں سال مکہ معظمہ میں اس وقت نازل ہوئی جس وقت مسلمانوں کے لیے مکہ کے حالات اس قدر دگرگوں تھے کہ مکہ والوں کے مظالم کی وجہ سے کچھ مسلمان ہجرت کر کے حبشہ جاچکے تھے۔ اس دوران ایک موقع پر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سورۃ النجم ایک مجمع میں پڑھ کر سنائی جس میں کچھ مشرکین بھی بیٹھے ہوئے تھے، ان میں مطّلب بن ابی دَوَاعَہ بھی موجود تھے جو اس وقت تک مسلمان نہیں ہوئے تھے ان کا کہنا ہے کہ جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سورۃ النجم کی تلاوت کی تو وہ منظر اس قدر جاذبِ دل تھا کہ جس نے اس کی تلاوت سنی وہ سجدے میں گر پڑا صرف میں ایک ایسا آدمی تھا جس نے سجدہ نہیں کیا تھا۔ (نسائی : باب السجود فی النجم۔ مسند احمد) مشرکین کے سجدہ ریز ہونے کی خبر حبشہ پہنچی تو کچھ مسلمانوں نے یہ سمجھا کہ شاید مکہ والے اسلام قبول کرچکے ہیں اس بنا پر مسلمان مکہ واپس آئے مگر یہاں کے حالات پہلے سے بھی زیادہ خراب ہوچکے تھے۔ مکہ والوں کا پروپیگنڈہ تھا کہ یہ نبی ذہنی طور پر بہک چکا ہے اسی لیے اپنے آباؤ اجداد کے دین سے گمرہ ہوچکا ہے اسی الزام کی تردید میں اللہ تعالیٰ نے تارے کی قسم اٹھا کر وضاحت فرمائی کہ تمہارا ساتھی یعنی حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نا بہکا ہے اور نہ ہی گمراہ ہوا ہے۔ جس دعوت کو تم گمراہی سمجھتے ہو نبی یہ دعوت اپنی مرضی سے نہیں دے رہا ہے جو کچھ وہ ارشاد فرماتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی وحی کے مطابق ہوتا ہے اسے وحی پہنچانے والا کوئی عام فرشتہ نہیں بلکہ ملائکہ کے سردار جبریل امین ہے جو بڑا طاقتوار اور صاحب حکمت ہے اسے حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دو مرتبہ براہ راست دیکھا ہے۔ ایک مرتبہ جنت الماویٰ کے قریب سدرۃ المنتہی کے پاس دیکھا جب آپ نے جبریل امین کو دیکھا تو نا اس کی شخصیت سے مرعوب ہوئے اور نہ ہی آپ کی آنکھیں چندیائیں وہاں آپ نے نہ صرف جبریل امین کو دیکھا بلکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے رب کی قدرت کی بڑی بڑی نشانیاں بھی ملاحظہ فرمائیں۔ دعوت کی حقیقت اور وحی کا ایک منظر بیان کرنے کے بعد مشرکین مکہ سے سوال کیا گیا کہ جس لات، عزی اور منات کی پوجا کرتے ہو کیا تم نے کبھی غور کیا ہے کہ ان کی حقیقت کیا ہے؟ تم انہیں اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں قرار دیتے ہو جب کہ اپنے لیے بیٹے پسند کرتے ہو سوچو اور غور کرو کہ یہ کس قدر بری تقسیم ہے حقیقت یہ ہے اس عقیدے کی تمہارے پاس کوئی دلیل نہیں سوائے اس کے کہ تم نے اور تمہارے آباؤ اجداد نے اپنی طرف سے محض ان کے نام رکھ لیے ہیں اور انہیں مشکل کشا اور حاجت روا سمجھتے ہو۔ یاد رکھو کہ تمہارے باطل معبود اور مشکل کشا تمہارے کچھ کام نہیں آئیں گے کام آنا تو درکناروہ اجازت لیے بغیر اللہ تعالیٰ کی مرضی کے خلاف کسی کی سفارش بھی نہیں کر پائیں گے۔ آخر میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ ارشاد ہوا ہے کہ آپ اس شخص سے ایک حد تک اعراض کریں کہ جس تک ہماری نصیحت پہنچ چکی ہے مگر وہ دنیا کے مفاد کی خاطر اس سے منہ موڑے ہوئے ہے یاد رکھیں کہ اللہ تعالیٰ بروں کو ان کی برائی کی سزا دے گا اور نیک لوگوں کو ان کے نیک اعمال کی جزا دے گا۔ النجم
1 فہم القرآن ربط سورت : سورۃ الطور کا اختتام اس فرمان پر ہوا کہ جب ستارے غروب ہونے کے وقت ہو تو اپنے رب کو یاد کیا کرو۔ اس مناسبت سے سورۃ النجم کا آغاز ستارے کی قسم سے ہورہا ہے۔ عربی زبان میں حرف واؤ کئی معانی میں استعمال ہوتا ہے۔ یہاں اسے قسم کے معنٰی میں استعمال کیا گیا ہے۔ رب ذوالجلال کا ارشاد ہے کہ مجھے ڈوبتے ہوئے ستارے کی قسم۔ تمہارا ساتھی نہ بہکا ہے اور نہ ہی بھٹکا ہے۔ نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں اہل مکہ یہ پراپیگنڈہ کیا کرتے تھے کہ آپ صحیح راستے سے بہک گئے ہیں، کچھ لوگ کہتے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) گمراہ ہوچکے ہیں۔ خیال رہے کہ اہل لغت راستہ بھول جانے والے مسافر کے لیے ضلّ کا لفظ استعمال کرتے ہیں اور جو شخص اپنے نفس کی پیروی میں یعنی جان بوجھ کر صحیح راستے سے ہٹ جائے اس کے لیے ” غَوٰی“ کا لفظ استعمال کرتے ہیں۔ رب ذوالجلال نے ان الزمات کی تردید کرنے سے پہلے ڈوبتے ہوئے ستارے کی قسم کھا کر ارشاد فرمایا ہے کہ تمہارا ساتھی نہ بہکا ہے اور نہ ہی صراط مستقیم سے بھٹکا ہوا ہے۔ صاحب سے مراد نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں اور ” کُمْ“ کی ضمیر کے مخاطب اہل مکہ ہیں۔ عربی زبان میں عام طور پر صاحب کا لفظ پرانے ساتھی کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ صاحب کے لفظ میں اشارہ ہے کہ حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رشتے، ناطے اور رہن سہن کے حوالے سے تمہارے ساتھی ہیں۔ انہوں نے تم میں چالیس سال کا عرصہ گزارا ہے تم اس کے حسب ونسب، بچپن، جوانی اور اس کی جلوت اور خلوت سے پوری طرح واقف ہو۔ اعلان نبوت سے پہلے اور اب تک اس سے کوئی ایسی حرکت سرزد نہیں ہوئی اور نہ ہوگی کہ جس بنا پر انہیں بہکا ہوا یا بھٹکا ہوا کہا جائے۔ ڈوبتے ہوئے ستارے کی قسم کھا کر ان لوگوں کی بھی نفی کی گئی ہے جو سمجھتے تھے کہ انسان کی قسمت میں ستاروں کا عمل دخل بھی ہوا کرتا ہے۔ ستارے کے ڈوبنے کا ذکر فرما کر واضح کیا ہے کہ جو ڈوب جائے وہ کسی کی بگڑی نہیں بنا سکتا ہے۔ یہی بات حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو فرمائی تھی کہ ڈوبنے والے معبود یعنی مشکل کشا نہیں ہوتے۔ (الانعام : ٧٦ تا ٨٠) مسائل ١۔ اللہ کے رسول کو مشرکین بہکا ہوا کہتے تھے جس کی تردید اللہ تعالیٰ نے ستارے کی قسم اٹھا کر فرمائی ہے۔ النجم
2 النجم
3 فہم القرآن ربط کلام : کفار کے الزامات کی تردید کرنے کے بعد بتلایا ہے کہ وحی کے بغیر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نہیں بولتے۔ لہٰذا نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو کچھ فرما رہے ہیں وہ اللہ تعالیٰ کے ارشادات ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس بات پر بھی قسم اٹھائی ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اپنی خواہش کے پیچھے چلنا تو درکنار آپ اپنی مرضی سے دین کے معاملہ میں لب کشائی نہیں کرتے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو کچھ فرماتے اور کرتے ہیں وہ آپ پروحی کی جاتی ہے۔ جو فرشتہ آپ کو وحی پہنچاتا ہے وہ جبرائیل امین ہے جو بڑا طاقت والاہے۔ اس نے اپنی طرف سے نہیں بلکہ جو کچھ آپ تک پہنچایا ہے وہ اللہ کے حکم سے پہنچایا : (اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قلب اطہر پر اتارا ہے۔ البقرۃ: ٩٧) اہل علم نے ” ذُوْمِرَّۃٍ“ کے تین معانی کیے ہیں۔ بڑا طاقتور، خوبصورت اور صاحب حکمت۔ حضرت جبرائیل میں یہ خوبیاں بدرجہ اتم پائی جاتی ہیں۔ (عَنِ الْمِقْدَامِ بْنِ مَعْدِ یکَرِبَ الْکِنْدِیِّ قَالَ قَالَ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) أَلاَ إِنِّی أُوتِیتُ الْکِتَابَ وَمِثْلَہُ مَعَہُ أَلاَ إِنِّی أُوتِیتُ الْقُرْآنَ وَمِثْلَہُ مَعَہُ) (مسند احمد : باب حدیث المقدام بن معدیکرب، حکمہ صحیح) ” مقدام بن معدیکرب (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا خبردار بے شک مجھے کتاب اور اس جیسی اور چیز عطا کی گئی ہے۔ خبردار مجھے قرآن اور اس جیسی ایک اور چیز عطا کی گئی ہے۔“ ” عمرو بن شعیب اپنے باپ اور وہ اپنے باپ سے بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کی اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! جو کچھ میں آپ سے سنتا ہوں لکھ لیا کروں؟ آپ نے فرمایا ہاں ! میں نے کہا اے اللہ کے نبی ! آپ کبھی خوش ہوتے ہیں اور کبھی ناراضگی کی حالت میں۔ آپ نے فرمایا لکھ لیا کرو! کیونکہ میں حق کے علاوہ کوئی بات نہیں کرتا۔“ (رواہ ابوبکر فی مسند البزار : باب ہَذَا مَا حَدَّثَ بِہِ عَبْدُ اللہِ بْنُ عَمْرٍو، عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قال البانی اسنادہ حسنٌ) النجم
4 النجم
5 النجم
6 النجم
7 فہم القرآن ربط کلام : جبریل امین کی شخصیت اور وحی کا بیان جاری ہے۔ جبریل امین افق اعلیٰ پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے آکھڑئے ہوئے پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قریب ہوئے یہاں تک کہ دو کمانوں یا اس سے بھی زیادہ قریب آ گئے پھر اس نے اللہ کے بندے کو وحی پہنچائی جو بھی اس تک پہنچائی۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی آنکھوں سے جو دیکھا اس کی دل نے پوری طرح تصدیق کی۔ اہل تفسیر نے ” فَاَوْحٰی الیٰ عَبْدِہٖ مَا اَوْحیٰ“ کا یہ بھی ترجمہ کیا ہے کہ اللہ نے جبریل امین کے ذریعے اپنے بندے پر وحی فرمائی جو اسے وحی کرنا تھی۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس مقام پر جو کچھ دیکھا آپ کے دل نے اس کی تصدیق فرمائی۔ انسانی فطرت میں یہ کمزوری ہے کہ جب وہ ما فوق الفطرت یا خرق عادت واقعہ دیکھتا ہے تو اس کی نظر اور دل میں مطابقت نہیں رہتی۔ آنکھ منظر دیکھ رہی ہوتی ہے لیکن دل اس منظر پر پوری طرح یقین نہیں کرتا کیونکہ ایسا واقعہ یا منظر اس سے پہلے اس نے دیکھا نہیں ہوتا۔ اس لیے اس کے احاطہ خیال میں وہ چیز پوری طرح سما نہیں پاتی۔ جس بنا پر آنکھ اور دل میں یگانگت باقی نہیں رہتی۔ بعض دفعہ بے انتہا جمال یا ہیبت ناک جلال دیکھ کر آنکھیں چندھیا جاتی ہیں۔ یہاں اسی حالت کی نفی کی گئی ہے کہ نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جبریل امین کو اپنے پاس دو کمانوں سے بھی قریب دیکھا اور آپ کے دل نے اس کی پوری طرح تصدیق کی کہ واقعی ملائکہ کے سردار جبریل امین ہیں۔ اس حالت میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر وحی کی گئی جو اللہ نے وحی کرنا تھی۔ جس وحی کا امت کے ساتھ تعلق تھا نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے امت تک پہنچایا۔ اس موقع پر آپ پر جو وحی کی گئی اس میں سب سے نمایاں تین ارشادات تھے۔ ١۔ پچاس نمازیں فرض ہونا جنہیں بعد میں پانچ کردیا گیا۔ (رواہ البخاری : باب المعراج) ٢۔ جو شرک سے بچا رہا اللہ تعالیٰ اس کے باقی گناہ معاف کر دے گا۔ (النساء : ٤٨) ٣۔ سورۃ البقرہ کی آخری دو آیات۔ النجم
8 النجم
9 النجم
10 النجم
11 النجم
12 فہم القرآن ربط کلام : نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھا اور اسے بیان کیا لیکن کفار اسے ماننے کے لیے تیار نہ ہوئے۔ نبی (علیہ السلام) نے جبریل امین کو دوسری مرتبہ سدرۃ المنتہیٰ کے پاس دیکھا۔ سدرۃ المنتہیٰ کے قریب ہی جنت الماویٰ ہے۔ سدرۃ المنتہیٰ پر اللہ تعالیٰ کی انواروتجلیات کا مسلسل نزول ہوتا ہے۔ ” اَلْمُنْتَہٰی“ کا معنٰی انتہا ہے جس کا اہل علم نے یہ مفہوم لیا ہے کہ یہ وہ مقام ہے جہاں مخلوق کی پہنچ کی حد ختم ہوجاتی ہے۔ اس سے نیچے کی مخلوق کے لیے عالم سفلٰی کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔ اور اس سے اوپر کے لیے سدرۃ المنتہیٰ کا لفظ استعمال ہوتا ہے اس سے اوپر ” اللہ“ کی مخلوق میں سے کوئی نہیں جاسکتا گویا کہ یہاں سے حریم کبریا کا مقام شروح ہوجاتا ہے اور سدرۃ المنتہیٰ جنت الماویٰ کے قریب ہے۔ الماویٰ کے بارے میں اہل تفسیر نے تین باتیں لکھی ہیں۔ ١۔ جنت کا اعلیٰ ترین مقام۔ ٢۔ الماویٰ میں قیامت سے پہلے شہیدوں کی روحوں کو ٹھہرایا جاتا ہے۔ ٣۔ سدرۃ المنتہیٰ کا ایک منظر : ” حضرت ثابت بنانی (رح) حضرت انس (رض) سے بیان کرتے ہیں کہ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : میرے پاس ایک براق لایا گیا۔ وہ ایک سفید رنگ کا جانور تھا‘ جس کا قد لمبا اور وہ گدھے سے بڑا اور خچر سے چھوٹا تھا۔ اس کا قدم اس کی حد نگاہ پر پڑتا تھا۔ میں اس پر سوار ہوا اور بیت المقدس پہنچا۔ میں نے براق کو اس حلقہ سے باندھ دیا جس سے انبیاء (علیہ السلام) باندھا کرتے تھے۔ پھر میں مسجد اقصیٰ میں داخل ہوا اور دو رکعتیں ادا کیں۔ میں باہر نکلا تو حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نے مجھے ایک شراب اور ایک دودھ کا برتن پیش کیا تو میں نے دودھ کو پسند کیا۔ اس پر حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نے فرمایا : آپ نے فطرت کو پسند فرمایا ہے پھر آسمان کی طرف ہمارا عروج شروع ہوا۔ اس کے بعد حضرت انس (رض) نے سابق حدیث والا مضمون بیان کیا۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ تب حضرت آدم (علیہ السلام) میرے سامنے تھے۔ انہوں نے مجھے مرحبا کہا انہوں نے میرے لیے خیروبرکت کی دعا کی۔ اسی طرح آپ نے فرمایا : تیسرے آسمان پر حضرت یوسف (علیہ السلام) جنہیں حسن کا آدھا حصہ عطا کیا گیا تھا۔ انہوں نے مجھے خوش آمدید کہا اور میرے لیے خیر و برکت کی دعا کی۔ پھر ساتویں آسمان کے متعلق بتایا کہ میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے سامنے تھا۔ وہ بیت المعمور سے پیٹھ ٹکائے بیٹھے تھے۔ بیت المعمور میں ہر روز ستر ہزار فرشتے داخل ہوتے ہیں اور جن کی باری پھر کبھی نہیں آتی۔ پھر مجھے سدرۃ المنتہیٰ کے پاس لے جایا گیا۔ اس بیری کے پتے ہاتھیوں کے کانوں کی طرح تھے اور اس کے بیر مٹکوں کے برابر تھے۔ جب اللہ کے حکم سے اس درخت کو کسی ڈھانپنے والی چیز نے ڈھانپ لیا، تو اس کی حالت بدل گئی۔ اللہ تعالیٰ کی مخلوق سے کوئی بھی اس درخت کی خوب صورتی کو بیان کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے مجھ پر جو وحی بھیجنی تھی اس کا نزول فرمایا اور مجھ پر دن رات میں پچاس نمازیں فرض کی گئیں۔ پھر میری منزل حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس تھی۔ انہوں نے پوچھا : آپ کے رب نے آپ کی امت پر کیا فرض کیا؟ میں نے بتایا دن رات میں پچاس نمازیں۔ انہوں نے کہا اپنے رب کی طرف جائیں اور اس سے تخفیف کی درخواست کریں۔ بلا شبہ آپ کی امت اس کی طاقت نہیں رکھتی۔ کیونکہ میں نے بنی اسرائیل کو آزما کردیکھا ہے۔ آپ نے فرماتے کہ میں اپنے رب کی طرف واپس گیا اور درخواست پیش کی۔ یا رب ! میری امت کے لیے کمی کر دے۔ مجھ سے پانچ نمازیں کم کردی گئیں۔ پھر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی طرف پلٹا اور ان کو بتایا کہ پانچ گھٹا دی گئیں۔ انہوں نے فرمایا : آپ کی امت اس کی بھی متحمل نہیں ہو سکتی، اپنے رب کی طرف جائیں اور ان سے مزید تخفیف کی فریاد کریں۔ آپ نے فرمایا کہ اسی طرح میرا، اپنے پروردگار اور موسیٰ (علیہ السلام) کی طرف آنا جانا مسلسل جاری رہا، حتیٰ کہ مجھے حکم ہوا، یا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! اب ہر دن رات میں پانچ نمازیں ہیں۔ ہر نماز کا اجر دس کے برابر ہے۔ اس طرح یہ ثواب میں پچاس نمازیں ہیں۔ جس کسی نے کسی بھلائی کا ارادہ کیا اور اس پر عمل نہ کیا تو اس کے لیے ایک نیکی لکھی جائے گی اور اگر اس پر عمل کرلیا تو اس کے لیے دس گنا ثواب ہوگا۔ جس نے برائی کا ارادہ کیا اور اس پر عمل نہ کیا تو اس کا گناہ نہیں لکھا جائے گا اور اگر عمل کرلیا تو صرف ایک گناہ لکھا جائے گا۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : پھر واپسی کا سفر شروع ہوا۔ یہاں تک کہ میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس آیا۔ انہیں تمام احوال بتائے تو انہوں نے فرمایا : اپنے رب کے پاس جائیں اور ایک دفعہ پھر مزید کمی کی درخواست کریں۔ اس پر آپ نے فرمایا میں اتنی بار اپنے رب کے حضور حاضر ہوا ہوں کہ اب مجھے حیا آتی ہے۔“ (رواہ مسلم : باب فی المعراج) دنیا میں سدرۃ کا معنی بیری ہے : سترہویں صدی عیسوی میں لبنا سے لے کر نیویارک تک ایک درخت سدرہ کے نام پر پایا جاتا تھا۔ حوادث زمانہ کی وجہ سے ١٩٠٣٧ ء سے اس کی نسل تقریباً ختم ہوچکی ہے۔ ڈاکٹر محمد اقتدار حسین فاروقی نے اپنی کتاب نباتات قرآن میں اس درخت کی اونچائی ایک سو پچاس فٹ اور گولائی چالیس فٹ لکھی ہے اور کتاب میں اس کے پھل کی تصویر دی ہے جسے حدیث کے الفاظ میں ھجر کے مٹکوں کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے۔ اس درخت کے جلال اور جمال کو دیکھ کر انسان حیرت میں ڈوب جاتا ہے۔ اپنے دور میں یہ درخت پوری دنیا میں سب سے بڑا اور حسین ترین درخت سمجھا جاتا تھا۔ بائبل میں اس کا تذکرہ ( REZE) کے نام سے کیا جاتا ہے۔ (تفصیل جاننے کے لیے ڈاکٹر اقتدار فاروقی کی نبات القرآن ملاحظہ فرمائیں۔) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جبرائیل (علیہ السلام) کو دو مرتبہ دیکھا ہے : جبرائیل امین (علیہ السلام) تمام ملائکہ کے سردار ہیں اور ہر نبی کے پاس ” اللہ“ کا پیغام لاتے رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں سات سو پر عطا فرمائے ہیں۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی حیات مبارکہ میں جبرائیل امین (علیہ السلام) کو اس کی اصل حالت میں دو مرتبہ دیکھا ہے پہلی مرتبہ پہلی وحی کے وقت غار حرا کے پاس اور دوسری مرتبہ ” سدرۃ المنتہیٰ“ کے مقام پر دیکھا جس کا ان الفاظ میں ذکر کیا گیا ہے۔ ( وَلَقَدْ رَاٰہُ نَزْلَۃً اُخْرٰی عِنْدَ سِدْرَۃِ الْمُنْتَہٰی عِنْدَہَا جَنَّۃُ الْمَاْوٰی) (النجم : ١٣ تا ١٥) ” اور ایک مرتبہ پھر اس نے اس کو اترتے دیکھا ہے۔ سدرۃ المنتہیٰ کے پاس۔ جس کے قریب جنت الماویٰ ہے۔“ (حَدَّثَنَا الشَّیْبَانِیُّ، قَالَ: سَأَلْتُ زِرَّ بْنَ حُبَیْشٍ عَنْ قَوْلِ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ: (فَکَانَ قَابَ قَوْسَیْنِ أَوْ أَدْنَی) (النجم : ٩) قَالَ: أَخْبَرَنِی ابْنُ مَسْعُودٍ، أَنَّ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رَأَی جِبْرِیلَ لَہُ سِتُّمِاءَۃِ جَنَاحٍ) (رواہ مسلم : باب فی ذکر سدرۃ المنتہیٰ) حضرت شیبانی (رض) کہتے ہیں میں نے زر بن حبیش (رح) سے اللہ تعالیٰ کے اس قول کے بارے میں سوال کیا (فَکَانَ قَابَ قَوْسَیْنِ أَوْ أَدْنَی) انہوں نے مجھے بتلایا کہ مجھے حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حوالے سے بیان کیا ہے کہ انہوں نے جبریل (علیہ السلام) کو دیکھا اور ان کے سات سو پر تھے۔ مسائل ١۔ نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جبریل امین کو اس کی اصلی حالت میں دوسری مرتبہ سدرۃ المنتہیٰ کے پاس دیکھا۔ ٢۔ سدرہ بیری کے درخت کی مانند کوئی درخت ہے۔ النجم
13 النجم
14 النجم
15 النجم
16 النجم
17 فہم القرآن ربط کلام : گزشتہ سے پیوستہ جس میں معراج کے واقعہ کا ذکر جاری ہے۔ نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جبریل امین، سدرۃ المنتہیٰ اور اپنے رب کی قدرت کی عظیم ترین نشانیوں کو براہ راست دیکھا۔ لیکن آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آنکھ نہ جھپکی اور نہ ہی آپ کی نظر ادھر ادھر اٹھی بلکہ آپ پورے اعتماد اور وقار کے ساتھ اپنے رب کی قدرت کی عظیم نشانیوں کو دیکھتے رہے جن کے بارے میں آیت گیارہ میں ارشاد ہوا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جو کچھ دیکھا آپ کے دل نے اس کی تصدیق کی۔ اب ارشاد ہوا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آنکھ نہ کسی اور طرف مائل ہوئی اور نہ ادھرا دھر اٹھی۔ گویا کہ آپ نے پوری یکسوئی، کامل توجہ، بھرپور اعتماد اور پورے وقار کے ساتھ شہنشاہ عالم کی عظیم قدرت کو ملاحظہ فرمایا۔ اس موقعہ پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شخصیت اور روحانی قوت کا اندازہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جسمانی اور روحانی طور پر ایسی قوت اور صلاحیت عطا فرمائی تھی جو آپ کے سوا کسی کو عطا نہیں کی گئی۔ کیا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے رب کو دیکھاتھا؟: جن صحابہ کی توجہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شخصیت اور معراج کے واقعہ کی طرف مبذول رہی ان کا خیال ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے رب کی زیارت کی ہے، اور جن صحابہ کی توجہ رب کی کبریائی اور قدرتوں کی طرف گئی ہے ان کا اعتقاد ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے رب کبریا کو براہ راست نہیں دیکھا اور نہ اسے کوئی دیکھ سکتا ہے۔ ١۔ صحابہ کرام میں نہایت ہی قلیل تعداد ان لوگوں کی ہے جو یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے رب کا دیدار کیا ہے۔ ان میں سر فہرست حضرت عبداللہ بن عباس (رض) ہیں جن کا فرمان ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے رب کی دل کے ساتھ زیارت کی ہے، گویا کہ آنکھوں کے ساتھ دیکھنے کے وہ بھی قائل نہیں تھے۔ (وَعَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ (رض) مَا کَذَبَ الْفُؤَادُ مَارَاٰی وَلَقَدْ رَاٰہُ نَزْلَۃً اُخْرٰی قَالَ رَاٰہُ بِفُؤَادِہٖ مَرَّتَیْنِ.) (رواہ مشکوٰۃ: باب رؤیۃ اللّٰہ) ” حضرت ابن عباس (رض) (مَا کَذَبَ الْفُؤٰدُ مَارَاٰی وَلَقَدْ رَأٰہُ نَزْلَۃً اُخْرٰی) کی تفسیر بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے پروردگار کو اپنے دل کی آنکھوں سے دو مرتبہ دیکھا۔“ بعض مفسرین نے ابن عباس (رض) کے بیان کو نقل کرنے کے باوجود لکھا ہے کہ ان کا عقیدہ تھا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے رب کی زیارت کی ہے حالانکہ ان کا فرمان ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دل کے ساتھ اپنے رب کی زیارت کی ہے نہ کہ آنکھ کے ساتھ۔ حضرت ابوذر (رض) کا نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال، آپ کا جواب : (عَنْ أَبِیْ ذَرٍّ (رض) قَالَ سَأَلْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ھَلْ رَأَیْتَ رَبَّکَ قَالَ نُوْرٌ أَنّٰی أَرَاہُ) (رواہ مسلم : کتاب الإیمان، باب فی قولہ نور أنی أراہ وفی قولہ رأیت نورا) ” حضرت ابوذر (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے استفسار کیا کہ کیا آپ اللہ تعالیٰ کے دیدار سے مشرف ہوئے ہیں؟ آپ نے فرمایا وہ تو نور ہے میں اسے کیسے دیکھ سکتاہوں۔“ حضرت ابو امامہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک یہودی عالم نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا دنیا میں کون سی جگہ سب سے بہتر ہے؟ آپ جبریل (علیہ السلام) کے آنے تک خاموش رہے جب جبریل آ گئے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے سوال کیا انہوں نے کہا جس سے سوال کیا جا رہا ہے وہ سائل سے زیادہ نہیں جانتا یعنی مجھے بھی اتنا ہی علم ہے جتنا آپ کو ہے لیکن میں نے اس کے متعلق اللہ تعالیٰ سے سوال کیا ہے پھر جبریل (علیہ السلام) نے کہا کہ آج میں اللہ تعالیٰ کے اتنا قریب ہوا ہوں جتنا قریب میں کبھی نہیں ہوا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سوال کیا اے جبریل (علیہ السلام) کتنے قریب؟ تو انہوں نے کہا کہ میرئے اور اللہ تعالیٰ کے درمیاں صرف ستر ہزار نور کے پردوں کا فاصلہ تھے اس وقت اللہ تعالیٰ نے مجھے خبر دی کہ دنیا میں سب سے بری جگہ بازار اور سب سے اچھی جگہ مساجد ہیں۔“ (مشکوۃ المصابیح : بَاب الْمَسَاجِد ومواضع الصَّلَاۃ، قال الشیخ البانی ہذا حدیث حسن) حضرت عائشہ (رض) کا فرمان اور ان کی دلیل : ” حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ جو تمہیں یہ کہے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے رب کو دیکھا ہے تو بلاشبہ وہ جھوٹ بولتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ” اس کو آنکھیں نہیں دیکھ سکتیں“ اور جو کوئی تمہیں یہ کہے کہ آپ غیب جانتے ہیں تو وہ بھی جھوٹا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ” اللہ کے علاوہ کوئی غیب نہیں جانتا۔“ (رواہ البخاری : باب قول اللہ تعالیٰ عالم الغیب فلا یظہر علی غیبہ أحدا) ” حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جبرائیل (علیہ السلام) کو دیکھا اس کے چھ سو پر تھے۔“ (رواہ الترمذی : باب وَمِنْ سُورَۃِ وَالنَّجْمِ) مسائل ١۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مشکل سے مشکل حالات میں بھی گھبراتے نہیں تھے۔ بلکہ اپنے حواس قائم رکھتے تھے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے معراج کے موقع پر اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بڑی بڑی نشانیاں دیکھائیں۔ النجم
18 النجم
19 فہم القرآن ربط کلام : رب کبریا کو چھوڑ کرلات عزّٰی اور منات وغیرہ کی عبادت کرنے والوں کی مذمت۔ اللہ تعالیٰ نے ڈوبتے ہوئے ستارے کی قسم کھا کر ارشاد فرمایا کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نہ بہکے ہیں اور نہ ہی صحیح عقیدہ اور صراط مستقیم سے بھٹکے ہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو کچھ فرماتے ہیں اللہ کی وحی کے مطابق ارشاد فرماتے ہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر وحی لانے والا جبریل امین بڑا طاقتور، نہایت سمجھدار، باصلاحیت اور بہت ہی خوبصورت ہے۔ آپ نے اسے اس کی اصلی حالت میں دو مرتبہ دیکھا ہے۔ دوسری مرتبہ سدرۃ المنتہیٰ کے پاس دو کمانوں سے بھی قریب تردیکھا۔ نہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آنکھ چندھائی اور نہ ہی آپ نے ادھر ادھر دیکھا۔ وہاں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے رب کی نشانیوں کو براہ راست دیکھا اور واپس آکر مِن وعن بیان فرمایا جس کا مرکزی نقطہ یہ ہے کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کیا جائے لیکن اس کے باوجود اے اہل مکہ تم لات، عزّٰی اور منات کی عبادت کرتے ہو۔ ظلم کی حد یہ ہے کہ تم اپنے لیے بیٹے پسند کرتے ہو اور فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں قرار دیتے ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ تم نے اپنے معبودوں کے نام لات، منات اور عزیٰ رکھ لیے ہیں۔ جنہیں داتا، دستگیر، لجپال اور مشکل کشا سمجھتے ہو۔ اس کی تمہارے اور تمہارے آباء و اجداد کے پاس کوئی دلیل نہیں۔ محض اپنے خیالات اور جذبات کی پیروی کرتے ہو۔ حالانکہ تمہارے رب کی طرف سے اس کی توحید کے اثبات اور بتوں کی تردید کے لیے واضح دلائل آچکے ہیں۔ ١۔ لات : ” لات“ لفظ اللہ کی تانیث یعنی مؤنث ہے۔ یہ بت طائف میں رکھا گیا تھا۔ اہل طائف اور دوسرے مشرکین کو اس کے ساتھ اتنی عقیدت تھی جب ابرہہ نے بیت اللہ پر حملہ کیا تو طائف والوں نے لات کے دربار کو بچانے کے لیے ابرہہ کی مدد کی۔ لوگ اس بت کے سامنے رکوع وسجود اور نذرونیاز پیش کرتے تھے۔ اللہ کے رسول نے مکہ اور حنین فتح کرنے کے بعد طائف کا محاصرہ کیا تو طائف والوں نے ایک مہینہ تک اپنا دفاع کیا۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے محسوس کیا کہ طائف کے لوگ تھک چکے ہیں مگر اپنی ضد کی بنا پر ہتھیار پھنکنے اور مسلمان ہونے کے لیے تیار نہیں۔ آپ نے ان کے لیے دعا کی ” اَللّٰھُمَّ اھْدِوَأْتِ بِھِمْ“ الٰہی ! انہیں ہدایت دے تاکہ یہ خود ہی میرے پاس آ جائیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعا کا اثر تھا کہ تھوڑی ہی مدت بعد طائف کا وہ سردار جس نے آپ پر پتھراؤ کرایا تھا بھاری بھرکم وفد لے کر مدینہ میں حاضرہوا اس کا نام عبدیالیل تھا۔ اس نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ مذاکرات کیے اور اسلام لانے کے لیے دیگر شرائط کے ساتھ یہ شرط رکھی۔ ١۔ ہمیں نماز سے مستثنیٰ قراردیا جائے۔ ٢۔ لات کو یوں کا توں رہنے دیا جائے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ شرط قبول نہ کی۔ سردار عبد یا لیل نے کہا کہ کم از کم اسے چھ مہینے تک رہنے دیا جائے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس بات کو بھی قبول نہ کیا۔ بالآخر اس نے یہ درخواست کی کہ ہمارے واپس جانے کے بعد اس کو مسمار کرنے کے لیے آدمی بھیجیں، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ شرط قبول فرمالی۔ جب آپ نے کچھ صحابہ کو طائف بھیجا تو وہ لات کی عمارت کو گرانے لگے تو مجاوروں نے کہا خبردار! آگے نہ بڑھنا ہماری دیوتی تمہیں تباہ کردے گی۔ صحابہ (رض) نے اسے بنیادوں سے اکھاڑپھینکا تب جاکر لوگوں کو یقین ہواکہ بت نہ کچھ بگاڑ سکتے ہیں اور نہ سنوار سکتے ہیں۔ ٢۔ العزّٰی : العزّٰی کا معنٰی ہے عزت والی۔ مشرک بالخصوص اس سے عزت طلب کیا کرتے تھے۔ عزّٰی کا بت مکہ اور طائف کے درمیان نصب تھا۔ لوگ اس کے سامنے بھی رکوع وسجود کرتے اور اس کے سامنے نذرونیاز پیش کرتے تھے۔ ٣۔ منات : اس کا مجسّمہ مکہ اور مدینہ کے درمیان بحر احمر کے کنارے قدید کے مقام پر رکھا ہوا تھا۔ عرب کے بعض قبائل حج سے فارغ ہو کر سیدھے منات کے مندر پر جاتے اور عرفات سے ہی لبیک یامنات کہنا شروع کردیتے اور وہاں پہنچ کر منات کا طواف کرتے۔ قرآن مجیدنے منات کو تیسرے نمبر پر شمار کیا ہے اور اس کے لیے ” اَ لْاُخْریٰ“ کا لفظ استعمال کیا ہے جس سے واضح کیا گیا ہے کہ یہ مشرکین کا تیسرا بڑا بت تھا۔ اس کا احترام لات اور عزّٰی سے نسبتاً کم تھا۔ لیکن اس کے باوجود ان کے نزدیک اس کا دیدار حج کے بعد دوسرے حج کا درجہ رکھتا تھا۔ ٤۔ ہُبل : ہُبل کو بیت اللہ کی کی چھت پر رکھا گیا تھا۔ مشرک اسے رب الارباب کا درجہ دیتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ اُ حد کے میدان میں جب مکہ والوں کو جزوی طور پر فتح حاصل ہوئی تو ابو سفیان نے اُعْلو ہبل کانعرہ لگایا جس کا صحابہ (رض) نے ” اَللّٰہُ اَعْلیٰ وَ اَجَلْ“ کے نعرے سے جواب دیا۔ قرآن مجید نے تین بڑے بتوں کا نام لیا ہے۔ تینوں کے نام ہی مؤنث ہیں اور آج بھی چین، جاپان، برما اور ہندوستان کے اکثر بتوں کے نام عورتوں کے نام پر اور ان کی شکلیں بھی عورتوں جیسی بنائی گئی ہیں۔ جو نہایت خوبصورت اور پرکشش ہوتی ہیں۔ جس طرح مکہ والوں کا عقیدہ تھا کہ ملائکہ ” اللہ“ کی بیٹیاں ہیں اسی طرح جاپان، چین اور دیگر ممالک کے کروڑوں لوگوں کا عقیدہ ہے کہ ملائکہ اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں ہیں۔ مشرکین کی سوئی ہوئی فطرت کو بیدار کرنے کے لیے سوالیہ انداز میں سمجھایا ہے کہ اپنے لیے بیٹے پسند کرتے ہو اور ” اللہ“ کے لیے بیٹیاں ؟ حالانکہ نہ اس کے بیٹے ہیں اور نہ بیٹیاں۔” یہ کہتے ہیں کہ اللہ کی اولاد ہے وہ تو اس سے پاک ہے۔ زمین و آسمان کی تمام مخلوق اس کی ملکیت ہے، اور ہر کوئی اس کا تابعدار ہے۔ وہ زمین و آسمانوں کو ابتداً پیدا کرنے والا ہے۔ جو کام کرنا چاہتا ہے تو صرف حکم دیتا ہے کہ ہوجا وہ ہوجاتا ہے۔“ (البقرۃ: ١١٦، ١١٧) کتنی بری تقسیم ہے۔ سوچو اور غور کرو کہ کس طرح گناہ در گناہ کا ارتکاب کیے جاتے ہو۔ پہلاتمہارا گناہ یہ ہے کہ اللہ کی بیوی نہیں اور دوسرا گناہ یہ ہے کہ اس کی اولاد نہیں تم کہتے ہو کہ اس کی اولاد ہے۔ (مریم : ٩١، ٩٢) کسی کو اللہ کی اولاد کہنا بہت بڑا گناہ ہے : (وَ قَالُوا اتَّخَذَ الرَّحْمٰنُ وَلَدًا۔ لَقَدْ جِءْتُمْ شَیْءًا اِدًّا۔ تَکَاد السَّمٰوٰتُ یَتَفَطَّرْنَ مِنْہُ وَ تَنْشَقُّ الْاَرْضُ وَ تَخِرُّ الْجِبَالُ ہَدًّا۔ اَنْ دَعَوْا للرَّحْمٰنِ وَلَدًا۔ وَ مَا یَنْبَغِیْ للرَّحْمٰنِ اَنْ یَّتَّخِذَ وَلَدًا) (مریم : ٨٨ تا ٩٢) ” کہتے ہیں کہ رحمٰن کی اولاد ہے۔ بہت ہی بیہودہ بات ہے جو تم کہہ رہے ہو۔ قریب ہے کہ آسمان پھٹ جائیں اور زمین شق ہوجائے اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہوجائیں۔ اس بات پر کہ انہوں نے الرحمان کی اولاد ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔ الرحمان کی شان نہیں کہ وہ کسی کو اولاد بنائے۔“ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَال النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) أُرَاہُ یَقُول اللَّہُ شَتَمَنِی ابْنُ آدَمَ وَمَا یَنْبَغِی لَہُ أَنْ یَشْتِمَنِی، وَتَکَذَّبَنِی وَمَا یَنْبَغِی لَہُ، أَمَّا شَتْمُہُ فَقَوْلُہُ إِنَّ لِی وَلَدًا وَأَمَّا تَکْذِیبُہُ فَقَوْلُہُ لَیْسَ یُعِیدُنِی کَمَا بَدَأَنِی) (رواہ البخاری : باب مَا جَاءَ فِی قَوْلِ اللَّہِ تَعَالَی (وَہُوَ الَّذِی یَبْدَأُ الْخَلْقَ ثُمَّ یُعِیدُہُ) ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ میرا خیال ہے اللہ تعالیٰ نے فرمایا آدم کا بیٹا مجھے گالیاں دیتا ہے اور یہ اس کے لیے لائق نہیں اور وہ میری تکذیب کرتا ہے اور وہ بھی اس کے لیے لائق نہیں اس کا مجھے گالی دینا یہ ہے کہ میں نے اولاد پکڑی ہے اور مجھے جھٹلانا اس کا یہ ہے کہ وہ کہتا ہے کہ مجھے دوبارہ نہیں لوٹایا جائے گا جس طرح مجھے پہلی بار پیدا کیا گیا۔“ مسائل ١۔ مشرکین کے اکثر بتوں کے نام مونث ہوتے ہیں۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ کے نہ بیٹے ہیں اور نہ بیٹیاں۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ کے بارے میں مشرکین ہمیشہ غلط باتیں کرتے ہیں۔ النجم
20 النجم
21 النجم
22 النجم
23 فہم القرآن ربط کلام : مشرکین جس طرح یہ ظلم کرتے ہیں کہ ملائکہ کو اللہ کی بیٹیاں قراردیتے ہیں اسی طرح ہی ان کا یہ بھی ظلم ہے کہ وہ بلادلیل اپنے بتوں اور بزرگوں کے نام داتا، گنج بخش، دستگیر اور لجپال وغیرہ رکھتے ہیں۔ دنیا میں کیے جانے والے شرک کا جائزہ لیا جائے تو قرآن مجید کی بتلائی ہوئی حقیقت روز روشن کی طرح آشکارہ دکھائی دیتی ہے کہ مشرکین جنہیں خدائی القابات سے پکارتے ہیں وہ صرف نام برائے نام ہیں ان کی کوئی حقیقت نہیں۔ فوت شدگان میں جن کے نام پر پاکستان کی اکثریت شرک کرتی ہے وہ سیدنا حضرت علی (رض)، پیر عبدالقادر جیلانی اور لاہور میں علی ہجویری، سہون میں شہباز قلندر، پاکپتن میں بابا فرید اور دیگر بزرگ ہیں نہ معلوم مشرک حضرت علی (رض) کو کون کون سے خدائی القابات دیتے ہیں لیکن ان کی قبر نجف میں ہونے کے باوجود پڑوس میں حضرت حسین (رض) اپنے خاندان سمیت شہید کردیئے گئے۔ نہ حضرت حسین (رض) اپنے آپ کو اور اپنے عزیز و اقارب کو بچا سکے اور نہ ہی حضرت علی (رض) ان کی مدد کو پہنچ پائے یہاں تک 2003 ء امریکوں نے عراق کی جنگ میں حضرت علی (رض) کے مزار پربم باری کی وہاں چھپے ہوئے سینکڑوں لوگ جابحق ہوئے اور حضرت علی (رض) کے مزار کا ایک حصہ بھی منہدم ہوگیا۔ جنہیں لوگ مولیٰ علی مشکل کشا کہہ کر مدد کے لیے پکارتے ہیں وہ اپنے مزار کی بھی حفاظت نہ کرسکے۔ یہی حال پیر عبد القادر جیلانی کا ہے۔ عراق کی جنگ میں امریکیوں نے پیر عبدالقادر جیلانی کے مزار پر کثیر تعداد میں بم برسائے۔ ان کے مزار کو شدید نقصان پہنچا اور بغداد کا کافی حصہ تباہ ہوگیا۔ پیرصاحب نہ بغداد بچا سکے اور نہ ہی اپنے مزار کی حفاظت کرسکے۔ یہی حال پاکستان کے تمام مزارات کا ہے۔ علی ہجویری، پاکپتن اور دیگر مزارات پر بمبار لوگوں نے (2010 ء) میں خودکش حملے کیے۔ مزارات کو شدید نقصان پہنچا اور درجنوں لوگ موت کا لقمہ بن گئے۔ کسی فوت شدہ بزرگ نے نہ اپنی حفاظت کی اور نہ اپنے مزار پر آنے والوں کی حفاظت کرسکے۔ حکومت نے ہر مزار کی حفاظت کے لیے جگہ جگہ سیکورٹی اہلکار کھڑے کیے، واک تھرو گیٹ لگوائے اور لوگوں کی تلاشی لینے کا انتظام کیا لیکن اس کے باوجود مزارات پر کئی دھماکے ہوئے۔ جن کے پاس ہر دور کے حکمران اپنی حاجات پوری کروانے کے لیے جاتے ہیں وہ مزارحکومت کی حفاظت کے محتاج ہوئے۔ جس سے حقیقت کھل کر سامنے آگئی کہ واقعتا قبروں والے کسی کی کوئی مدد نہیں کرسکتے۔ اس کے باوجود باطل عقیدہ رکھنے والے کئی حکمران، علماء، ججز، وکلاء اور پڑھے لکھے لوگ کسی کو گنج بخش، کسی کو دستگیر، کسی کو لجپال کہتے ہیں گویا کہ جو ان کے منہ میں آتا ہے وہی نام دئیے جاتے ہیں۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے ان کی حمایت میں کوئی دلیل نازل نہیں کی کہ جس بنیاد پر شرک کیا جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ لوگ محض اپنے تصورات اور خواہشات کے مطابق ان کے نام رکھتے ہیں۔ حالانکہ ان کے پاس ان کے رب کی طرف سے راہنمائی آچکی ہے کہ شرک سب سے بڑا گناہ ہے اور اللہ تعالیٰ نے مشرک کو کبھی معاف نہیں کرنا۔ (النساء : ٤٨) اس کے باوجود بے شمار لوگ اپنے اعتقادات اور خیالات کے پیش نظر شرک کیے جارہے ہیں۔ کیا انسان اس بات پر غور نہیں کرتا کہ اللہ تعالیٰ انسان کی آرزو اور خواہشات کا پابند ہے؟ لہٰذا انسان کو وہ نہیں ملے گا جس کی انسان تمنا اور آرزو رکھتا ہے۔ بلکہ انسان کو اسی کام کا اجر ملے گا جس کے کرنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے۔ کیونکہ آخرت اور دنیا کے معاملات کا کلی اختیار ” اللہ“ کے پاس ہے۔ تفسیر بالقرآن شرک کی کوئی دلیل نہیں لیکن مشرک پھر بھی شرک کیے جاتے ہیں : ١۔ جو اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی غیر کو پکارتا ہے اس کے پاس کوئی دلیل نہیں ہے۔ (المؤمنون : ١١٧) ٢۔ انہوں نے اللہ کے علاوہ کئی معبود بنالیے ہیں آپ فرمائیں کوئی دلیل لاؤ۔ (الانبیاء : ٢٤) ٣۔ ” اللہ“ کے سوا کوئی اور الٰہ ہے اگر تم سچے ہو تو کوئی دلیل لاؤ۔ (النمل : ٦٤) ٤۔ وہ اللہ کے سوا ان کی عبادت کرتے ہیں جن کی عبادت کے لیے کوئی دلیل نازل نہیں کی گئی۔ (الحج : ٧١) ٥۔ اے لوگو! تمہارے پاس رب کی طرف سے دلیل آچکی ہے۔ (النساء : ١٧٤) النجم
24 النجم
25 النجم
26 فہم القرآن ربط کلام : دنیا اور آخرت کے معاملات اللہ کے اختیار میں ہیں۔ اس لیے کسی کے پاس اختیار نہیں کہ وہ قیامت کے دن بلا اجازت اپنے رب کے حضور کسی کی سفارش کرسکے۔ جس طرح مشرکین کا عقیدہ ہے کہ فوت شدگان قیامت کے دن ہماری سفارش کریں گے اسی طرح ملائکہ کو اللہ کی بیٹیاں قرار دینے والوں کا عقیدہ ہے کہ ملائکہ ہماری سفارش کریں گے۔ جس طرح فوت شدگان کی سفارش کی نفی کی گئی ہے اسی طرح ہی ملائکہ کی سفارش کی نفی کی گئی ہے اس لیے ارشاد ہوا کہ زمین و آسمانوں میں بے شمار ملائکہ ہیں جو سب مل کر بھی اللہ تعالیٰ کی اجازت کے بغیر اس کے حضور سفارش کرنے کی جرأت نہیں کرسکتے۔ ہاں وہ فرشتے اور نیک لوگ اپنے رب کے حضور سفارش کر پائیں گے جنہیں ان کا رب اجازت عطا فرمائے گا۔ فرشتے اور نیک لوگ اتنی ہی سفارش کریں گے جتنی انہیں سفارش کرنے کی اجازت ہوگی۔ جو لوگ فرشتوں کو اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں قرار دیتے ہیں ان کا قیامت پر کوئی ایمان نہیں۔ ان کا قیامت پر صحیح ایمان ہوتا تو وہ فرشتوں کو اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں کہنے کی جرأت نہ کرتے۔ کیونکہ ان کا قیامت پر ایمان نہیں اس لیے انہیں کسی قسم کی سفارش کی توقع نہیں رکھنی چاہیے۔ حقیقت یہ ہے کہ ان کے عقائد کی بنیاد اپنے گمان اور سنی سنائی باتوں کے سوا کسی آسمانی علم پر نہیں۔ یہ صرف من ساختہ تصورات اور گمان پر یقین رکھتے ہیں۔ من ساختہ تصورات اور گمان حق بات کے مقابلے میں کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔ لہٰذا اس شخص سے اعراض کریں جو اللہ تعالیٰ کے ذکر اور نصیحت سے منہ پھیر لیتا ہے۔ وہ صرف دنیا کا طلب گار ہے اور ایسے لوگوں کا مبلغ علم اور کوشش صرف دنیا کے لیے ہی ہوا کرتی ہے۔ جس کا علم و عمل صرف دنیا کی ترقی اور حصول کے لیے ہو اسے ہدایت کس طرح نصیب ہو سکتی ہے۔ کیونکہ وہ ہدایت کا طالب ہی نہیں۔ لہٰذا ان سے بحث و تکرار کرنے کی بجائے اپنا کام کرتے جائیں۔ آپ کا رب خوب جانتا ہے جو اس کے راستے سے بھٹک گیا اور جو اپنے رب کی ہدایت پر گامزن ہے۔ مسائل ١۔ زمین و آسمانوں میں بے شمار ملائکہ ہیں ان میں کوئی بھی اللہ تعالیٰ کی اجازت کے بغیر اس کے حضور سفارش نہیں کرسکتا۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ جسے چاہے گا سفارش کرنے کی اجازت عنایت فرمائے گا۔ ٣۔ جو لوگ قیامت پر حقیقی ایمان نہیں رکھتے وہ ملائکہ کو اللہ کی بیٹیاں قرار دیتے ہیں۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ کی اولاد قرار دینے والے آسمانی علم کی بنیاد پر نہیں بلکہ اپنے گمان کی بنیاد پر ایسی باتیں کرتے ہیں۔ ٥۔ وہم وخیال کسی حیثیت میں بھی حق کی جگہ نہیں لے سکتا۔ ٦۔ اللہ تعالیٰ گمراہ اور ہدایت یافتہ لوگوں کو اچھی طرح جانتا ہے۔ ٧۔ جو شخص اللہ تعالیٰ کی نصیحت چھوڑ کر دنیا کا طالب بن جائے اس پر زیادہ وقت صرف نہیں کرنا چاہیے۔ النجم
27 النجم
28 النجم
29 النجم
30 النجم
31 فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ ہر شخص کے بارے میں جانتا ہے کہ وہ ہدایت کے راستے میں گامزن ہے یا گمراہی کے راستے کو اختیار کیے ہوئے ہے اس لیے کہ زمین و آسمانوں کی ہر چیز اس کی ملک ہے۔ اللہ تعالیٰ برے لوگوں کو ان کے برے اعمال کی سزا دے گا اور جو نیکی کو اچھے طریقے سے کرتے ہیں انہیں جزا دے گا۔ جو لوگ کبیرہ گناہوں اور بے حیائی سے بچتے ہیں اگر وہ کسی چھوٹے گناہ میں مبتلا ہوجائیں تو اللہ تعالیٰ ان کے چھوٹے گناہوں کو معاف فرمادے گا۔ کیونکہ آپ کا رب بڑی بخشش والاہے اور وہ تمہیں اچھی طرح جانتا ہے۔ وہ تمہیں اس وقت سے جانتا ہے جب اس نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا اور جب تمہاری اپنی ماؤں کے پیٹ میں ابتدا ہوتی ہے۔ لہٰذا کوئی شخص اپنی پاکدامنی کا دعویٰ نہ کرے کیونکہ گناہوں سے بچنے والوں کو ” اللہ“ اچھی طرح جانتا ہے۔ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے اپنے علم اور بخشش کی وسعت کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ جو لوگ گناہوں اور بے حیائی سے بچیں گے اللہ تعالیٰ ان کے چھوٹے چھوٹے گناہوں کو معاف فرمادے گا۔ چھوٹے گناہوں کے لیے ” اَللَّمَمَ“ کا لفظ استعمال کیا ہے۔ مفسرین نے اس کے کئی معانی ذکر کیے ہیں جن کا خلاصہ چھوٹے گناہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے ان گناہوں کو یوں ہی معاف کردیتا ہے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا کہ جب آدمی وضو کرتا ہے تو وضو کے آخری قطرے کے ساتھ اس کے گناہ ختم کردیئے جاتے ہیں۔ جب وہ نماز پڑھتا ہے تو اس کے کبیرہ گناہوں کے سوا باقی گناہ بھی معاف کردیئے جاتے ہیں۔ گناہوں کی معافی کی خوشخبری دینے کے بعد حکم دیا ہے کہ اپنی پاک دامنی کا دعویٰ نہ کیا کرو۔ کیونکہ تمہارا رب تمہیں خوب جانتا ہے۔ کبیرہ گناہوں کی تفصیل درج ذیل احادیث میں موجود ہے تاہم علماء نے قرآن و سنت کی روشنی میں ان گناہوں کو بھی کبیرہ گناہ شمار کیا ہے۔ 1 جن کی حد مقرر کی گئی ہے۔ 2 جس گناہ پر اللہ اور اس کے رسول نے لعنت کی ہے۔ 3 وہ گناہ بھی کبیرہ گناہوں میں شامل ہوگا جس کے کرنے پر آدمی اصرار اور اس پر خوشی کا اظہار کرے۔ ” اگر تم بڑے گناہوں سے بچتے رہو گے جن سے تمہیں منع کیا گیا ہے تو ہم تمہارے چھوٹے گناہ معاف کردیں گے اور تمہیں عزت کی جگہ داخل کریں گے۔“ (النساء : ٣١) خود اپنی یا کسی کے سامنے کسی کی تعریف کرنا جائز نہیں : اپنی تعریف خود کرنا یا کسی کی تعریف اس کے سامنے کرنا کسی معاشرے میں بھی اسے مہذب نہیں سمجھا جاتا۔ بلکہ ایسی حرکت کرنے والا شخص سنجیدہ لوگوں کی نظروں میں گھٹیاتصور کیا جاتا ہے۔ اس لیے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے منع فرمایا ہے۔ ایک شخص نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے اپنے تقویٰ کا اظہار کیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یوں فرمایا : (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)۔۔ التَّقْوٰی ہَاہُنَا وَیُشِیرُ إِلَی صَدْرِہٖ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ۔۔) (رواہ مسلم : باب تحریم ظلم المسلم) ” حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں رسول مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :۔۔ تقویٰ اس جگہ ہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے سینے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے تین مرتبہ فرمایا۔۔“ (عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ اأَمَرَنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) أَنْ نَّحْثُوَ فِیْ أَفْوَاہِ الْمَدَّاحِیْنَ التُّرَابَ) (رواہ الترمذی : باب ماجاء فی کراھیۃ المدحۃ والمداحین قال ابو عیسیٰ ہذا حدیث غریب) ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ ہمیں اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حکم دیا کہ ہم کسی کے منہ پر تعریف کرنے والے کے منہ میں مٹی ڈالیں۔“ (عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ (رض) قَالَ ذَکَرَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) الْکَبَآءِرَ فَقَال الشِّرْکُ باللّٰہِ وَقَتْلُ النَّفْسِ وَعُقُوْقُ الْوَالِدَیْنِ فَقَالَ أَلَآ أُنَبِّءُکُمْ بِأَکْبَرِ الْکَبَاءِرِ قَالَ شَھَادَۃُ الزُّوْرِ) (رواہ البخاری : کتاب الأدب، باب عقوق الوالدین من الکبائر) ” حضرت انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کبیرہ گناہوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا : ” اللہ کے ساتھ شرک کرنا، ناحق خون کرنا، والدین کی نافرمانی کرنا۔“ پھر فرمایا : کیا میں تمہیں بڑے گناہ سے آگاہ نہ کروں؟ جھوٹی گواہی دینا۔“ (عَنْ عَآءِشَۃَ (رض) قَالَتْ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اِنَّ الْعَبْدَ اِذَا اعْتَرَفَ ثُمَّ تَابَ تَاب اللّٰہُ عَلَےْہِ) (رواہ البخاری : باب تعدیل النساء بعضھن بعضا) ” حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب کوئی بندہ گناہ کا اعتراف کر کے توبہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول فرما لیتا ہے۔“ مسائل ١۔ زمین و آسمان اور ہر چیز اللہ کی ملک ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ بروں کو سزا دے گا اور نیک لوگوں کو جزا دے گا۔ ٣۔ کبیرہ گناہوں سے بچنے والے کے چھوٹے گناہ معاف کردیئے جاتے ہیں۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ بڑی بخشش والا ہے۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ انسان کی ابتدا اور انتہا کو جانتا ہے۔ ٦۔ اپنی پاکدامنی کا دعویٰ نہیں کرنا چاہیے کیونکہ اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ کون پرہیزگاری اختیار کرنے والاہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ سب کچھ جانتا اور دیکھتا ہے : ١۔ ” اللہ“ دلوں کے راز جانتا ہے۔ (ہود : ٥) ٢۔ جوا للہ جانتا ہے تم نہیں جانتے۔ (البقرہ : ٢١٦) ٣۔ ” اللہ“ کا علم فرشتے بھی نہیں جانتے۔ (البقرہ : ٣٠) ٤۔ ہر گرنے والا پتہ اللہ کے علم میں ہوتا ہے۔ (الانعام : ٥٩) ٥۔ ” اللہ“ آنکھوں کی خیانت کو جانتا ہے۔ (المومن : ١٩) ٦۔ اللہ خشکی اور تری کی پوشیدہ چیزوں سے واقف ہے۔ (الانعام : ٥٩) ٧۔ کیا آپ نہیں جانتے اللہ آسمانوں و زمین کی ہر چیز کو جانتا ہے۔ (الحج : ٧٠) ٨۔ ” اللہ کے لیے مثالیں بیان نہ کرو اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔ (النحل : ٧٤) ٩۔ اس بات کو اچھی طرح جان لو کہ اللہ تمہارے دلوں میں پیدا ہونے والے خیالات سے بھی واقف ہے۔ ( البقرۃ : ٢٣٥) ١٠۔ ” اللہ“ سے ڈر جاؤ اور جان لو اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال کو دیکھنے والا ہے۔ (البقرۃ: ٢٣٣) النجم
32 النجم
33 فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ بخشش فرمانے والا ہے لیکن اس کے باوجود لوگ اس کی بخشش سے منہ موڑے ہوئے ہیں۔ جو شخص کبیرہ گناہوں سے بچتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کے چھوٹے گناہوں کو ازخود معاف کردیتا ہے۔ کبیرہ گناہوں میں سب سے بڑا گناہ شرک ہے جو توبہ کے بغیرجائے اللہ تعالیٰ اسے معاف نہیں کرے گا۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہی بات اہل مکہ کو سمجھاتے تھے لیکن وہ لوگ اسے سمجھنے اور ماننے کے لیے تیار نہ تھے۔ جس کے لیے وہ مختلف قسم کے بہانے پیش کرتے تھے۔ کبھی کہتے کہ ہمارے بزرگ ہمیں قیامت کے دن چھڑا لیں گے۔ کبھی کہتے کہ جو دنیا میں خوشحال ہے وہ آخرت میں بھی بہتر اور خوشحال ہوگا۔ اسی زعم کے پیش نظر ولید بن مغیرہ کے ساتھ ایک شخص کا اس بات پر سودا ہوگیا کہ اگر تو مجھے اتنا مال دے۔ تو میں تیری قیامت کی ذمہ داری اٹھاتا ہوں۔ بڑے بڑے مفسرین نے ان آیات کا یہی شان نزول بیان کیا ہے۔ لکھتے ہیں کہ ابوجہل سے پہلے ولید بن مغیرہ ہی اہل مکہ کا سردار سمجھا جاتا ہے یہ زیرک اور سمجھدار انسان تھا، قریب تھا کہ مسلمان ہوجاتا۔ اس کے مشرک دوست کو اس بات کا علم ہوا تو وہ ولید کے پاس آکر کہنے لگے کہ جس آخرت سے ڈر کر تو مسلمان ہونا چاہتا ہے اس کا فکر نہ کر۔ میں اس کی ذمہ داری لیتاہوں بشرطیکہ تو اتنا مال مجھے دے۔ ولید نے اس سے معاملہ طے کرلیا کہ میں تجھے اتنا مال دوں گا اور تو میری آخرت کا ذمہ دار ہوگا۔ معاملہ طے ہونے کے بعد ولیدنے اسے کچھ مال دیا۔ اس اثناء میں اسے اپنی غلطی کا احساس ہوگیا۔ جب ولید کے دوست نے باقی مال کا مطالبہ کیا تو ولید نے انکار کردیا۔ اس پر یہ فرمان جاری ہوا کہ کیا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس شخص کو دیکھا ہے جس نے قیامت کا انکار کیا اور تھوڑا سامال دیا پھر باقی دینے سے منحرف ہوگیا۔ کیا آخرت کی ذمہ داری لینے والے کے پاس غیب کا علم ہے؟ جس بنا پر اس نے یہ ذمہ داری لی۔ انہیں اور سب کو معلوم ہونا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ بات صرف قرآن میں نہیں بلکہ موسیٰ (علیہ السلام) کی تورات اور ابراہیم (علیہ السلام) کے صحائف میں کھول کر بیان کی ہے کہ قیامت کے دن کوئی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔ تورات اور ابراہیم (علیہ السلام) کے صحائف کا اس لیے نام لیا ہے کہ اہل مکہ کا ایمان تھا کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور ابراہیم (علیہ السلام) نبی تھے اور ان کی کتب کو تسلیم کرنا ضروری ہے۔ قرآن مجید میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے صحائف کا دو مقام پر ذکر ہوا ہے۔ ایک اس مقام پر اور دوسرا سورۃ الاعلیٰ کی آیت ١٩ میں بیان ہوا۔ دونوں مقامات پر آخرت کے ذکر کے بعد موسیٰ اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے صحائف کا نام آیا ہے۔ یاد رہے کہ قرآن مجید میں حضرت ابراہیم اور حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کی شخصیات اور ان کی جدوجہد کا تمام انبیائے کرام (علیہ السلام) سے زیادہ ذکر ہوا ہے۔ یہاں تک ابراہیم (علیہ السلام) کی تعلیمات کا ذکر ہے وہ قرآن میں موسیٰ (علیہ السلام) کی تعلیمات سے کہیں زیادہ بیان ہوئی ہیں۔ ” جو شخص ڈرتا ہے وہ نصیحت قبول کرلے گا۔ جو اس سے گریز کرے گا وہ انتہائی بدبخت ہوگا۔ وہ دھکتی آگ میں میں داخل کیا جائے گا۔ پھرنہ اس میں نہ موت آئے گی اور نہ زندگی ہوگی۔ فلاح پا گیا وہ شخص جس نے پاکیزگی اختیار کی اور اپنے رب کا نام لیا اور نماز پڑھی۔ مگر تم لوگ دنیا کی زندگی کو ترجیح دیتے ہو۔ حالانکہ آخرت بہتر ہے اور باقی رہنے والی ہے۔ یہی بات پہلے صحیفوں میں بھی کہی گئی تھی۔ ابراہیم اور موسیٰ کے صحیفوں میں۔“ (الاعلیٰ: ١٠ تا ١٩) مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی غیب کا علم نہیں جانتا۔ ٢۔ کسی کو معلوم نہیں کہ قیامت کے دن اس کے ساتھ کیا معاملہ ہوگا۔ ٣۔ قیامت کے دن کوئی کسی کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔ ٤۔ تورات اور صُحُف ابراہیم میں بھی قیامت پر ایمان لانا فرض قرار دیا گیا ہے، اور ان میں بتایا گیا ہے کہ کوئی کسی کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔ تفسیر بالقرآن قیامت کے دن کوئی کسی کا بوجھ نہیں اٹھائے گا : ١۔ ہر ایک کو اس کے اپنے اعمال کام آئیں گے۔ (البقرۃ: ١٣٤) ٢۔ کوئی کسی کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔ (الانعام : ١٦٤) ٣۔ کوئی کسی کے اعمال کا ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جائے گا۔ (فاطر : ١٨) ٤۔ روز محشر دوست کام نہیں آئیں گے۔ (البقرہ : ٢٥٤) ٥۔ کسی کے گناہ کے متعلق کسی دوسرے سے نہیں پوچھا جائے گا۔ ( الرحمن : ٣٩) ٦۔ کوئی نفس کسی کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔ (الانعام : ١٦٤) ٧۔ ہر ایک اپنے معاملے کا خود ذمہ دار ہے۔ (البقرہ : ١٤١) النجم
34 النجم
35 النجم
36 النجم
37 النجم
38 النجم
39 فہم القرآن ربط کلام : لوگ جس قیامت کا انکار کرتے ہیں اس دن کوئی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا ہر انسان اپنے کیے کا صلہ پائے گا۔ صُحُفِ ابراہیم، صُحُفِ موسیٰ اور قرآن مجید کی یہی تعلیم ہے کہ ہر انسان نے اپنا اپنا بوجھ خود اٹھانا ہے کوئی کسی کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔ اس لیے ہر انسان کے لیے وہی کچھ ہے جو اس نے دنیا میں کمایا ہوگا اور ہر کوئی عنقریب اپنا کیا ہوا دیکھ لے گا اور ہر کسی کو اس کے کیے کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا۔ سب کا انجام اس کے رب کے پاس ہے جس رب کے پاس انسان کا انجام ہے وہی انسان کو ہنساتا اور رولاتا ہے اور وہی انسان کو مارتا اور زندہ کرتا ہے۔ ان آیات میں تین مضامین کا اختصار پیش کیا گیا ہے۔ ١۔ ہر انسان وہی کچھ پائے گا جو دنیا میں کمائے گا اور اس کی کوشش کا پورا پورا جائزہ لیا جائے گا اور پھر اس کو برائی کی سزا اور نیکی کی جزا دی جائے گی۔ جسے قرآن مجید نے یوں بیان فرمایا ہے۔ ” جس نے ذرہ برابر نیکی کی وہ اس کو دیکھ لے گا۔ اور جس نے ذرہ برابر برائی کی ہوگی وہ بھی اس کو دیکھ لے گا۔“ (الزلزال : ٧، ٨) ٢۔ قرآن مجید نے انسان کو یہ حقیقت بار باربتلائی اور سمجھائی ہے کہ اے انسان ! بالآخر تو نے اپنے رب کے حضور پیش ہونا ہے کیونکہ وہی موت وحیات کا مالک ہے اور اسی کے اختیار میں انسان کو ہنسانا اور رلانا ہے۔ قیامت کا اشارہ فرما کر یہ بات واضح فرمائی ہے کہ کچھ لوگ قیامت کے دن اپنے اعمال پر خوش ہو کر مسکرائیں گے اور کچھ لوگ اپنا اعمال نامہ دیکھ کر زارو قطار روئیں گے۔ (الانشقاق : ٩، ١١) (دنیا میں بھی ” اللہ“ ہی انسان کو ہنستا اور رولاتا ہے۔) ” پھر جس کے پلڑے باری ہوں گے وہ عیش کی زندگی میں ہوگا۔ اور جس کے پلڑے ہلکے ہوں گے۔ اس کا ٹھکانہ جہنم ہوگی۔“ (القارعہ : ٦ تا ٩) ” اس دن کچھ چہرے دھمک رہے ہوں گے، ہشاش بشاش اور خوش ہوں گے اور کچھ چہروں پر اس دن خاک پڑی اور سیاہی چھائی ہوئی ہوگی۔ یہ کافر اور فاجر لوگ ہوں گے۔“ (عبس : ٣٨ تا ٤٢) ٣۔ موت اور زندگی اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے۔ انسان کی موت اور زندگی کا فیصلہ رِ حم مادر میں ہی کردیا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کی موت کا وقت اور مقام مقرر کردیا ہے۔ اس کے سوا کوئی ایسی ہستی نہیں جو انسان کی زندگی میں ایک لمحہ بھی تقدیم و تاخیر کرسکے۔ ” ہر امت کے لیے ایک وقت ہے، جب اس کا وقت آجاتا ہے تو وہ نہ ایک گھڑی پیچھے رہتے ہیں اور نہ آگے بڑھ سکتے ہیں۔“ (یونس : ٤٩) ” قیامت کا علم اللہ ہی کے پاس ہے، وہی بارش برساتا ہے وہی جانتا ہے کہ ماؤں کے پیٹوں میں کیا پرورش پا رہا ہے۔ کوئی نفس نہیں جانتا کہ کل کیا کرنے والا ہے۔ اور نہ کسی شخص کو یہ خبر ہے کہ اس کو موت کس سر زمین میں آئے گی۔ اللہ سب کچھ جاننے والا اور ہر چیز کی خبر رکھنے والا ہے۔“ (لقمان : ٣٤) مسائل ١۔ انسان وہی کچھ پائے گا جو دنیا میں کمائے گا۔ ٢۔ ہر انسان کے اعمال کا پوری طرح جائزہ لیا جائے گا۔ ٣۔ ہر انسان کو اس کے اعمال کا پورا پور ابدلہ دیا جائے گا۔ ٤۔” اللہ“ ہی انسان کو ہنسانے اور رلانے والا ہے۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ ہی موت و حیات کا اختیار رکھنے والا ہے۔ تفسیر بالقرآن تمام اختیارات کا مالک ” اللہ“ ہے : ١۔ اللہ تعالیٰ نے یوسف (علیہ السلام) کو ملک میں بااختیار بنایا۔ (یوسف : ٥٦) ٢۔ ” اللہ“ بادشاہوں کا بادشاہ ہے جسے چاہے حکومت عنایت کرتا ہے اور جس سے چاہتا ہے چھین لیتا ہے۔ (آل عمران : ٢٦) ٣۔ بابرکت ہے وہ ذات جس کے ہاتھ میں زمین و آسمان کی بادشاہت ہے۔ وہ ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے۔ (الملک : ١) ٤۔ زمین و آسمان کی بادشاہت اللہ کے لیے ہے۔ (الجاثیہ : ٢٧) ٥۔ ہر چیز اللہ سبحانہ کے ہاتھ میں ہے۔ ( یٰسٓ: ٨٣) ٦۔ ہر قسم کی خیر ” اللہ“ کے ہاتھ میں ہے۔ ( آل عمران : ٧٣) النجم
40 النجم
41 النجم
42 النجم
43 النجم
44 النجم
45 فہم القرآن ربط کلام : جو ” رب“ موت وحیات پر قادر ہے اسی نے انسان کو ایک نطفہ سے پیدا کیا اور وہی اسے دوبارہ پیدا کرنے والاہے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم، حضرت حوا ( علیہ السلام) اور حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کے سوا ہر انسان کو ایک نطفہ سے پیدا کیا ہے جسے عورت کے رحم میں ڈالا جاتا ہے اور پھر اللہ تعالیٰ اسے نَر یا مادہ کی شکل میں پیدا کرتا ہے۔ ” تُمْنٰی“ کا معنٰی ہے مقدر میں کیا جانا، آزمایا جانا، توفیق دیاجانا اور امتحان لیا جانا وغیرہ۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں انسان کی تخلیق کو بڑی تفصیل کے ساتھ ذکر فرمایا ہے جس کا خلاصہ یوں ہے۔ ” اے لوگو! اپنے پروردگار سے ڈرو جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اسی سے اس کی بیوی کو پیدا فرما کر ان دونوں سے بہت سے مرد اور عورتیں پھیلا دیے۔ اس اللہ سے ڈرو جس کے نام پر ایک دوسرے سے سوال کرتے ہو اور رشتے ناطے توڑنے سے بھی بچو۔ یقیناً اللہ تعالیٰ تم پر نگران ہے۔“ (النساء : ١) ( فَلْیَنظُرْ الْاِِنسَانُ مِمَّ خُلِقَ خُلِقَ مِنْ مَّآءٍ دَافِقٍ یَخْرُجُ مِنْ بَیْنِ الصُّلْبِ وَالتَّرَآءِبِ اِِنَّہٗ عَلٰی رَجْعِہٖ لَقَادِرٌ) (الطارق : ٥ تا ٨) ” پس انسان دیکھ لے کہ وہ کس چیز سے پیدا کیا گیا ہے۔ ایک اچھلنے والے پانی سے پیدا کیا گیا ہے۔ جو پیٹھ اور سینے کی ہڈیوں کے درمیان سے نکلتا ہے۔ یقیناً وہی خالق اسے دوبارہ پیدا کرنے پر قادر ہے۔“ ” یقیناً ہم نے انسان کو مٹی کے جوہر سے پیدا کیا۔ پھر ہم نے اسے ایک محفوظ جگہ ٹپکی ہوئی بوند میں تبدیل کیا۔ پھر اس بوند کو لوتھڑے کی شکل دی پھر لوتھڑے کو بوٹی بنایا۔ پھر بوٹی سے ہڈیاں بنائیں پھر ہڈیوں پر گوشت چڑھایا پھر اسے ایک دوسری شکل میں لاکھڑا کیا۔ بڑا ہی بابرکت ہے اللہ سب کاریگروں سے اچھا کاریگر۔“ (المومنون : ١٢ تا ١٤) ” لوگو اگر تمہیں زندگی کے بعد موت کے بارے میں شک ہے تو تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ ہم نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا ہے پھر نطفے سے پھر خون کے لوتھڑے سے پھر گوشت سے جو بوٹی کامل اور ناقص بھی تاکہ تم پر حقیقت واضح کریں کہ ہم جس نطفے کو چاہتے ہیں ٹھہرائے رکھتے ہیں۔ ایک خاص وقت تک رحموں میں پھر تمہیں ایک بچے کی صورت میں نکالتے ہیں تاکہ تم جوان ہوجاؤ اور تم میں سے کوئی پہلے ہی واپس بلالیا جاتا ہے اور کوئی ناکارہ عمر کی طرف پھیر دیا جاتا ہے تاکہ سب کچھ جاننے کے بعد پھر نہ جان سکے اور تم دیکھتے ہو کہ زمین خشک ہوتی ہے پھر ہم نے اس پر بارش برسائی کہ یکایک وہ ابھرتی اور پھول گئی اور اس نے ہرقسم کی خوش نما نباتات اگلنی شروع کردی۔“ (الحج : ٥) ” اللہ زمین و آسمانوں کی بادشاہی کا مالک ہے جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے جسے چاہتا ہے بیٹیاں دیتا ہے جسے چاہتا ہے بیٹے دیتا ہے۔ جسے چاہتا ہے بیٹے اور بیٹیاں ملا جلا کردیتا ہے، اور جسے چاہتا ہے بانجھ رکھتا ہے، وہ سب کچھ جانتا اور ہر چیز پر قادر ہے۔“ (الشوریٰ: ٤٩، ٥٠) اللہ ہی انسان کو دوبارہ پیدا کرے گا۔ انسان کو دوبارہ پیدا کرنا اس کا وعدہ ہے جس کی خلاف ورزی نہیں ہوپائے گی۔ اس لیے اس کا فرمان ہے کہ اے انسان! تجھے دنیا کی زندگی اپنے رب کے بارے میں کسی فریب میں مبتلا نہ کردے۔ (فاطر : ٥) مسائل ١۔ اللہ ہی نر اور مادہ پیدا کرتا ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو نطفہ سے پیدا کرتا ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن دوبارہ پیدا کرے گا۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ قیامت کے دن انسان کو دوبارہ پیدا کرے گا : ١۔ یقیناً قیامت کے دن اللہ تمھیں جمع کرے گا جس میں کوئی شک نہیں۔ (الانعام : ١٢) ٢۔ آپ فرما دیں تمھارے پہلے اور آخر والے سب کو ضرور اکٹھا کیا جائے گا۔ (الواقعۃ: ٤٧ تا ٥٠) ٣۔ پھر ہم تمھیں تمھاری موت کے بعد اٹھائیں گے۔ (البقرۃ: ٥٦) ٤۔ ” اللہ“ ہی نے مخلوق کو پیدا کیا، پھر وہ اسے دوبارہ پیدا کرے گا، پھر تم اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔ (الروم : ١١) ٥۔ قیامت کے دن ” اللہ“ ہی سب کو اٹھائے گا پھر ان کے اعمال کی انھیں خبر دے گا۔ (المجادلہ : ٦ تا ١٨) ٦۔ اللہ تعالیٰ لوگوں کو اٹھائے گا تاکہ ان کے درمیان فیصلہ صادر فرمائے۔ (الانعام : ٦٠) ٧۔ آپ فرما دیں کہ تم ضرور اٹھائے جاؤ گے۔ (التغابن : ٧) ٨۔ اللہ تعالیٰ تمام مردوں کو اٹھائے گا پھر اسی کی طرف لوٹائے جائیں گے۔ (الانعام : ٣٦) ٩۔ آپ فرما دیں اللہ ہی نے تخلیق کی ابتداء کی پھر دوبارہ پیدا کرے گا پھر تم کہاں بہک گئے ہو؟ (یونس : ٣٤) النجم
46 النجم
47 النجم
48 فہم القرآن ربط کلام : جو ” رب“ انسان کو نر اور مادہ کی صورت میں پیدا کرتا ہے وہی انسان کو تونگربناتا اور تنگ دست کرتا ہے۔ قرآن مجید کی تعلیمات میں یہ بات بھی بنیادی حیثیت رکھتی ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی انسان کا رزق فراخ کرتا ہے اور وہی رزق تنگ کرنے والاہے۔ بے شک انسان کو رزق کمانے کا حکم دیا گیا ہے مگر رزق کی کشادگی کا دارومدار انسان کی محنت پر نہیں رکھا گیا۔ یہ اللہ تعالیٰ کی اپنی حکمت اور مشیّت ہے کہ جس کا چاہے رزق فراخ کرے اور جس کا چاہے کم کردے۔ رزق کی فرادانی اور اسباب کی وسعت اللہ تعالیٰ کے قبضہ میں ہے، وہ جسے چاہتا ہے رزق کی کشادگی سے نوازتا ہے اور جس کا چاہتا ہے رزق تنگ کردیتا ہے۔ انسان کو تلاش رزق کا حکم ہے مگر رزق کا انحصارصرف انسان کی محنت پر نہیں۔ اگر رزق کا دار ومدار انسان کی محنت پر ہوتا تو دنیا میں کوئی ہنرمند غریب نہ ہوتا، کوئی لینڈلارڈ مقروض نہ ہوتا، اور نہ ہی کار خانے دار دیوالیہ ہوتے۔ حقیقت یہ ہے کہ رزق دینے والا صرف ایک ” اللہ“ ہے۔ اس نے لوگوں کے تعلقات کو مربوط رکھنے کے لیے رزق کی تقسیم اس طرح کی ہے کہ ایک شخص اپنی روزی کے لیے کئی انسانوں کے تعاون کا ضرورت مند ہوتا ہے۔ جس بنا پر لوگ ایک دوسرے کی روزی میں معاون بنتے ہیں۔ کار خانے دار کو دیکھیں کہ وہ کتنے لوگوں کے رزق کا وسیلہ بنتا ہے۔ یہی صورت حال زمیندار کی ہے کہ بظاہر وہ اپنی روزی کے لیے محنت کرتا ہے۔ لیکن اپنے ساتھ درجنوں گھرانوں، سینکڑوں جانوروں اور ہزاروں کیڑے مکوڑوں کی روزی کا وسیلہ بنتا ہے۔ ہر دور میں ایسے مشرک ضرور ہوتے ہیں جن کا یہ عقیدہ ہوتا ہے کہ انسان کی قسمت اور رزق کا تعلق ستاروں کی گردش کے ساتھ منسلک ہے۔ اس وجہ سے کچھ لوگ علم نجوم پر یقین رکھتے ہیں اور کچھ یہ سمجھتے ہیں کہ فلاں ستارہ اگر فلاں مدار میں پہنچ جائے تو بارش کا برسنا لازم ہوجاتا ہے۔ ستاروں میں سب سے بڑا ستارہ الشِّعْریٰ ہے۔ اگرچہ اللہ تعالیٰ تمام ستاروں کا رب ہے لیکن الشِّعریٰ کے ” رب“ ہونے کا اس لیے بطور خاص ذکر کیا ہے کہ عرب کے کچھ قبائل اس کی عبادت کرتے تھے جو اس کی عبادت نہیں کرتے تھے وہ بھی اس کی تکریم کے قائل تھے۔ شعریٰ ستارے کے انگریزی میں کئی نام ہیں۔ اسے SIRIUS ،STAR، DOG اور CANIS MAJORIS بھی کہا جاتا ہے۔ انسائیکلو پیڈیا یا بریٹانیکا میں (SIRIUS) کے عنوان کے ضمن میں جو معلومات فراہم کی گئی ہیں ان کا خلاصہ پیش خدمت ہے۔ ” یہ ستارہ مجموعۂ نجوم میں روشن ترین ستارہ ہے۔ سورج سے بھی اس کی روشنی اکیس گنا زیادہ ہے اور حجم میں بھی یہ سورج سے بڑا ہے۔ اس کی سطح کا درجہ حرارت بھی کافی زیادہ ہے۔ زمین سے اس کا فاصلہ آٹھ عشاریہ چھ (8.6) نوری سال ہے۔ قدیم مصری اس کو بہت مقدس مانتے تھے کیونکہ جس موسم میں یہ طلوع ہوتا اس وقت دریائے نیل میں سیلاب کی آمد آمد ہوتی۔ تمام علاقہ سیراب ہو کر سبزوشاداب ہوجاتا۔ مصریوں کا عرصۂ دراز تک یہی عقیدہ رہا کہ شعریٰ ستارہ کے طلوع کے نمودار ہونے پر مصر کی خوشحالی کا دور دورہ ہوتا ہے۔ اس لیے وہ اسے ہر قسم کی شادابیوں کا خالق یقین کرتے اور اس کی عبادت کیا کرتے تھے۔ (انسائیکلو پیڈیا، جلد : ٢٠) ” حضرت خالد جہنی (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم (رض) نے ہمیں صبح کی نماز حدیبیہ کے مقام پر پڑھائی۔ رات کو ہونے والی بارش کے اثرات فضا میں نمایاں تھے۔ نماز سے فارغ ہونے کے بعد آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اور صحابہ سے پوچھا کیا تم جانتے ہو کہ تمہارے رب نے کیا ارشاد فرمایا ہے؟ صحابہ (رض) نے جواب دیا اللہ اور اس کا رسول زیادہ جانتے ہیں۔ آپ نے فرمایا کچھ بندوں نے ایمان کی حالت میں صبح کی اور کچھ نے کفر کی حالت میں صبح کی۔ جس نے کہا اللہ کے فضل اور اس کی رحمت سے بارش ہوئی ہے وہ مجھ پر ایمان لایا اور اس نے ستاروں کا انکار کیا اور جس نے کہا کہ فلاں ستارے کی وجہ سے بارش ہوئی اس نے میرا انکار کیا اور وہ ستاروں پر ایمان لایا۔“ (رواہ البخاری : باب یَسْتَقْبِلُ الإِمَام النَّاسَ إِذَا سَلَّمَ) مسائل ١۔ اللہ ہی رزق فراخ کرنے والا اور وہی رزق تنگ کرنے والا ہے۔ تفسیربالقرآن رزق کی فراخی اور تنگی کا اختیار صرف ” اللہ“ ہی کے پاس ہے : ١۔ اللہ کے ہاتھ کھلے ہیں جسے چاہتا ہے عطا کرتا ہے۔ (المائدۃ: ٦٤) ٢۔ زمین و آسمان کے خزانوں کا مالک صرف ” اللہ“ ہے۔ (المنافقون : ٧) ٣۔ زمین و آسمان کی کنجیوں کا مالک ” اللہ“ ہے۔ (الزمر : ٦٣) ٤۔ ” اللہ“ نے ہر جاندار کے رزق کا ذمہ لیا ہوا ہے۔ (ہود : ٦٧) ٥۔ کیا وہ نہیں جانتے کہ اللہ ہی رزق کو فراخ اور تنگ کرتا ہے۔ (الزمر : ٥٢) ٦۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے فرمانبردار بندوں کے لیے دوہرا اجر اور رزق کریم تیار کر رکھا ہے۔ (الاحزاب : ٣١) ٧۔ ” اللہ“ ہی رازق ہے اور بڑی قوت والا ہے۔ (الذاریات : ٥٨) ٨۔ اللہ تعالیٰ رزق بڑھاتا اور کم کرتا ہے۔ (العنکبوت : ٦٢) النجم
49 النجم
50 فہم القرآن ربط کلام : ” اَلشِّعْریٰ“ اور علم نجوم پریقین رکھنے والوں کا یہ بھی عقیدہ ہے کہ ستاروں کی گردش کی وجہ سے کائنات میں تبدیلیاں ناگزیر ہوجاتی ہے اور اسی وجہ سے ہلاکتیں رونما ہوتی ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے سورج، چاند اور ستاروں کو ایک محدود حد تک موسم اور فضا میں تبدیلی لانے کا ذریعہ بنایا ہے لیکن اس کا یہ معنٰی نہیں کہ سورج، چاند اور ستارے ازخود اپنے وجود میں یہ طاقت رکھتے ہیں۔ مسلمان کا یہ عقیدہ ہے اور ہونا چاہیے کہ ہر چیز میں جو قوت اور تاثیر ہے وہ اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ ہے۔ اگر ” اللہ“ اس قوت کو ضبط کرلے تو اس چیز میں یہ طاقت نہیں کہ وہ اثر انداز ہو سکے۔ جس کی واضح مثال ابراہیم (علیہ السلام) کے حوالے سے قرآن مجید میں موجود ہے کہ جب ابراہیم (علیہ السلام) کو بھڑکتی ہوئی آگ میں پھینکا گیا تو اللہ تعالیٰ نے آگ کو حکم دیا کہ وہ ابراہیم (علیہ السلام) کے لیے ٹھنڈی ہوجائے۔ آگ بظاہر اسی طرح بھڑکتی رہی لیکن اس کی تاثیر ختم کردی گئی۔ ابراہیم (علیہ السلام) باسلامت باہر تشریف لے آئے۔ لہٰذا یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ اصل قوت ” اللہ“ کے اختیار میں ہے۔ ” اَلشِّعْریٰ“ کے ذکر کے بعد قوم نوح، قوم عاد، قوم ثمود اور قوم لوط کی ہلاکت کے ذکر کو اللہ تعالیٰ نے بطور نعمت بیان فرمایا ہے۔ مذکورہ بالا اقوام کی ہلاکت کو اس لیے نعمت کے طور پر ذکر کیا ہے کیونکہ لوگوں نے ظالموں سے نجات پائی اور مظلوموں کو پھلنے پھولنے کا موقع نصیب ہوا۔ ” تَتَمَاریٰ“ کا معنٰی ہے آپس میں جھگڑنا، آپس میں اختلاف کرنا شک کرنا وغیرہ۔ اس لیے فرمایا ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کی کس کس نعمت کے بارے میں تکرار یا شک کرو گے۔ قوم عاد کو آندھی نے گھیر لیا، قوم ثمود کو دھماکے نے آلیا، قوم نوح پر سیلاب عذاب آیا اور قوم لوط کو پتھروں کی بارش کے ساتھ ملیا میٹ کردیا گیا۔ قوم لوط کے بارے میں یہاں صرف اتناہی فرمایا ہے کہ الٹ جانے والی بستی پر چھایا جو چھایا۔ قوم نوح، عاد، ثمود اور لوط کی تفصیل جاننے کے لیے سورۃ الذاریات کی آیت ٤١ تا ٤٦ کی تفسیر ملاحظہ فرمائیں ! عاد اولیٰ سے مراد قدیم قوم عاد ہے جس طرف ہود علیہ السلامبھیجے گئے تھے۔ یہ قوم جب حضرت ہود (علیہ السلام) کو جھٹلانے کی پاداش میں عذاب میں مبتلا ہوئی تو صرف وہ لوگ باقی بچے جو ان پر ایمان لائے تھے۔ ان کی نسل کو تاریخ میں عادِ اُخریٰ یا عاد ثانیہ بھی کہتے ہیں۔ النجم
51 النجم
52 النجم
53 النجم
54 النجم
55 النجم
56 فہم القرآن ربط کلام : اقوام کی تباہی اور قیامت کی حولناکیوں کا ذکر کرنے کا مقصد لوگوں میں قیامت کی جواب دہی کا احساس پیدا کرنا ہے لیکن قیامت کے منکر اور اس سے لاپرواہی کرنے والے اسے مذاق سمجھتے ہیں۔ جس وجہ سے اس سورت کے آخر میں انہیں پھر حکم دیا کہ قیامت سے غفلت اختیار کرنے کی بجائے اللہ کے سامنے سربسجود ہوجاؤ اور اس کی بندگی اختیار کرو یہی تمہاری نجات کا راستہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ذریعے پہلی اقوام کے واقعات بیان فرما کر لوگوں کو دنیا کے انجام اور قیامت کی ہولناکیوں سے ڈرایا ہے۔ قیامت کے بارے میں فرمایا کہ قیامت قریب ہی آن پہنچی ہے اور قیامت کی ہولناکیوں کو اللہ کے سوا کوئی نہیں ٹال سکتا۔ کیا تم قیامت کی آمد اور اللہ کے فرمان پر تعجب کرتے ہو؟ اور اپنے کیے پر رونے کی بجائے ہنستے ہو اور دنیا کی وجہ سے تم قیامت کے بارے میں غفلت میں پڑے ہوئے ہو۔ چاہیے تو یہ کہ تم اللہ کے حضور جھک جاؤ اور اس کی بندگی اختیار کرو۔ اس سورت کی ابتدائی آیات میں ستارے کی قسم اٹھا کر اللہ تعالیٰ نے معراج کے موقع پر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جبرائیل (علیہ السلام) کے ساتھ قربت کا ذکر کرنے کے بعد فرمایا کہ مشرک محض اپنے گمان کی بنیاد پر لات، عزّیٰ اور منات کی عبادت کرتے ہیں۔ حالانکہ ان کو ہر قسم کے شرک سے منع کیا گیا ہے۔ انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ دنیا اور آخرت کے معاملات صرف ” اللہ“ کے ہاتھ میں ہیں۔ اسی مضمون کو سورۃ کے اختتام پر یوں بیان کیا جارہا ہے کہ قیامت قریب آن پہنچی ہے اور اس کی ہولناکیوں کو ” اللہ“ کے سوا کوئی نہیں ٹال سکتا۔ جو لوگ قیامت کا انکار کرتے ہیں وہ اپنے اعمال پر رونے کی بجائے قیامت کا ذکر سن کر ہنستے ہیں۔ حالانکہ انہیں اپنے کردار پر رونا چاہیے۔ قیامت کی ہولناکیوں سے بچنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ لوگ ادھر ادھر جھکنے کی بجائے صرف اور صرف اپنے رب کے سامنے جھکیں اور اس کی عبادت کریں۔ یادرہے کہ انسان کی تخلیق اور انبیائے کرام (علیہ السلام) کی بعثت کا مقصد ہی یہ ہے کہ انسان اپنے رب کی عبادت کرے۔ عبادت سے مراد وہ تمام عبادات ہیں جن کے کرنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے۔ عبادت سجدہ کی صورت میں ہو یا دوسری صورت میں وہ صرف اور صرف ایک ” اللہ“ کے لیے ہونی چاہیے۔ قرآن مجید کی تاثیرکا ایک عجب واقعہ : امام بخاری (رض) نے اپنی کتاب بخاری شریف کی کتاب التفسیر میں لکھا ہے کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک دن بیت اللہ میں کھڑے ہو کر سورۃ نجم کی تلاوت کی۔ اس وقت بیت اللہ میں مکہ کے بڑے بڑے سردار بھی موجود تھے۔ کفار بیت اللہ کے بابرکت ماحول میں بڑے انہماک سے سورۃ نجم کی تلاوت سن رہے تھے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جب سورۃ نجم کے آخری الفاظ تلاوت کیے اور اللہ کے حضور سجدہ کیا تو یہ منظر اس قدر مسحور کُن اور پرجلال تھا کہ مسلمانوں کے ساتھ کفار بھی سجدہ ریز ہوگئے۔ صرف ایک بوڑھا جس کا نام امیہ بن خلف تھا اس نے زمین پر سجدہ کرنے کی بجائے سے کنکریاں اٹھا کر اپنی پیشانی کے ساتھ لگائیں اور کہا کہ میرے لیے اتنا ہی کافی ہے۔ مسائل ١۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی پہلے انبیائے کرام (علیہ السلام) کی طرح اپنی امت کو اللہ کے عذاب سے ڈرانے کے لیے مبعوث کیے گئے۔ ٢۔ قیامت قریب آپہنچی ہے اور اس کی ہولناکیوں کو اللہ کے سوا کوئی نہیں ٹال سکتا۔ ٣۔ بےدین لوگ قیامت پر یقین کرنے کی بجائے اس پر تعجب کا اظہار کرتے ہیں۔ ٤۔ برے لوگوں کو قیامت کا مذاق اڑانے کی بجائے اپنے اعمال پر رونا چاہیے۔ ٥۔ لوگوں کو غفلت چھوڑ کر صرف ایک اللہ کی عبادت کرنی چاہیے۔ تفسیر بالقرآن صرف ایک اللہ کی عبادت کرنے کا حکم : ١۔ آپ کو حکم ہے کہ آپ فرما دیں کہ میں تو صرف ایک اللہ کی عبادت کرتا ہوں۔ (یونس : ١٠٤) ٢۔ اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بناؤ۔ (الرعد : ٣٦) ٣۔ اللہ کے علاوہ کسی کی عبادت نہ کرو۔ (ہود : ٢) ٤۔ اے لوگو اپنے پروردگار کی عبادت کرو۔ (البقرۃ: ٢١) ٥۔ اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو۔ (یوسف : ٤٠) ٦۔ اللہ کی عبادت کرو اور اس کے شریک نہ بناؤ (النساء : ٣٦) ٧۔ نوح، ہود، صالح اور شعیب نے اپنی قوم کو ایک اللہ کی عبادت کا حکم دیا۔ (ہود : ٥٠۔ ٦١۔ ٨٤) النجم
57 النجم
58 النجم
59 النجم
60 النجم
61 النجم
62 النجم
0 سورۃ القمرکا تعارف اس سورت کا نام اس کی پہلی آیت کے آخر میں موجود ہے یہ تین رکوع اور پچپن (٥٥) آیات پر مشتمل ہے۔ یہ مکہ معظمہ میں نازل ہوئی ہے۔ اہل مکہ قرآن مجید کی جس تیسری بڑی حقیقت کا انکار کرتے تھے وہ قیامت کا قائم ہونا ہے۔ اس کے انکار کے لیے ان کے پاس کوئی ٹھوس دلیل نہیں تھی۔ قرآن مجید نے انہیں درجنوں دلائل اور پہلے انبیاء کرام (علیہ السلام) کے دور میں مردوں کے زندہ ہونے کے واقعات سنائے لیکن اس کے باوجود وہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دلائل مانگتے تھے۔ ہجرت کے پانچویں سال کا واقعہ ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قریش کے چند سردار منٰی میں موجود تھے۔ گفتگو کے دوران یہ بات ہوئی کہ اگر آپ چاند کو دو ٹکڑے کر کے دیکھائیں تو ہم آپ کی نبوت کو تسلیم کرلیں گے۔ اللہ تعالیٰ کے حکم سے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے چاند کو اشارہ کیا تو چاند دو ٹکڑے ہوگیا تفصیل کے لیے اس آیت کی تفسیر ملاحظہ فرمائیں۔ اس واقعے میں ایک طرف نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت کی تائید ہوتی ہے اور دوسری طرف اس بات کا عملی ثبوت فراہم ہوتا ہے کہ جس طرح چاند شق ہوا ہے اسی طرح ہی اپنے وقت پر قیامت برپا ہوجائے گی۔ لیکن اس کے باوجود قیامت کے منکر اسے تسلیم کرنے کے کیے تیار نہیں حالانکہ اس دن لوگ اپنی اپنی قبروں سے اس طرح نکلیں گے جس طرح بکھرے ہوئے پروانے ہوتے ہیں۔ اس کے بعد مختصر طور پر قوم نوح، قوم ثمود اور قوم لوط کا واقعہ بیان کیا ہے۔ یہ لوگ قیامت کے منکر ہونے کی وجہ سے سرکش ہوئے اور ان کے سرکشی کرنے کی وجہ اللہ تعالیٰ نے انہیں ذلّت کی موت اتار دیا۔ اس سورت کے آخر میں ارشاد فرمایا کہ اے اہل مکہ کیا تمہیں معلوم نہیں کہ فرعون کو کس طرح بار بار انتبا کیا گیا تھا مگر وہ ہر دلیل کو ٹھکراتا رہا جس کے نتیجہ میں بالآخر تباہی کے گھاٹ اترا۔ بتاو کہ کیا تم فرعون اور مذکورہ بالا اقوام سے زیادہ طاقتوار ہو؟ یا وہ تم سے طاقت میں زیادہ تھیں۔ کوئی تسلیم کرے یا نہ کرے قیامت تو ہر صورت برپا ہو کر رہے گی اس دن مجرم منہ کے بل آگ میں گھسیٹے جائیں گے پھر انہیں کہا جائے گا کہ اب جہنم کا عذاب جھیلتے رہو۔ منکرین قیامت کو معلوم ہونا چاہیے کہ ہم نے ہر چیز کا ایک اندازہ مقرر کر رکھا ہے اسی طرح ہی قیامت کا بھی ایک وقت مقرر ہے۔ اللہ تعالیٰ جب کسی کام کرنے کا حکم دیتے ہیں تو وہ کام پلک جھپکنے سے پہلے ہوجاتا ہے۔ اس نے تمہارے جیسے بہت سے لوگوں کو ہلاک کیا ہے۔ کیا ہے کوئی نصیحت قبول کرنے والا تو اسے نصیحت قبول کرنی چاہیے؟ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے نصیحت حاصل کرنے کے لیے قرآن مجید کو آسان ترین بنا دیا ہے۔ القمر
1 فہم القرآن ربط سورت : سورۃ النجم کا اختتام اس مضمون پر ہوا کہ قیامت قریب آن پہنچی ہے اور اس کی ہولناکیوں کو اللہ کے سوا کوئی نہیں ٹال سکتا۔ سورۃ القمر کی بتدا میں قرب قیامت کی ایک بڑی نشانی کا ذکر کیا گیا ہے۔ دین کا تیسرا بڑا عنوان قیامت ہے جس کی نشانیوں اور ہولناکیوں کا قرآن مجید میں بڑی تفصیل کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے۔ اہل مکہ کی غالب اکثریت قیامت پر یقین نہیں رکھتی تھی۔ اس لیے وہ بات کو الجھانے کے لیے قیامت کے بارے میں کئی قسم کے سوالات کرتے تھے۔ نبی محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں ہر طرح سمجھانے اور یقین دلانے کی کوشش فرمائی کہ قیامت ہر صورت آکر رہے گی۔ مگر مکہ والے اس حقیقت کو ماننے کے لیے تیار نہیں تھے۔ نبوت کے پانچویں سال کا واقعہ ہے کہ ایک رات آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) منیٰ میں تشریف فرماتھے اور اہل مکہ کے کچھ سردار بھی موجود تھے۔ اہل تفسیر نے لکھا ہے کہ چاند کی چودھویں رات تھی۔ مکہ والوں نے آپ سے مطالبہ کیا کہ اگر آپ چاند کو دوٹکڑے کرکے دکھا دیں تو ہم آپ اور قیامت پر ایمان لے آئیں گے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اگر تمہارا مطالبہ پورا ہوجائے تو پھر ایمان لے آؤ گے ؟ انہوں نے کہا کیوں نہیں ! اس پر آپ نے اللہ کے حکم سے آسمان کی طرف نگاہ اٹھائی اور چاند کو اپنی انگلی کا اشارہ کیا۔ بس آپ کا اشارہ کرنا تھا کہ چاند دوٹکڑے ہوا اور ایک لمحہ کے بعد اپنی پہلی حالت میں ضوفشاں ہونے لگا۔ اس قدر عظیم معجزہ دیکھنے کے باوجود کفار نے شور مچایا کہ یہ تو بہت بڑا جادوگر ہے۔ اس کا جادو آسمان پر بھی اثر انداز ہوتا ہے۔ اس طرح انہوں نے اپنے باطل نظریات کو ترجیح دی اور شق قمر کے معجزے کو جھٹلا دیا۔ (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ (رض) قَالَ انْشَقَّ الْقَمَرُ وَنَحْنُ مَعَ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بِمِنًی فَقَالَ اشْہَدُوا وَذَہَبَتْ فِرْقَۃٌ نَحْوَ الْجَبَلِ.) ( رواہ البخاری : باب انشقاق القم) ” حضرت عبداللہ بن مسعود (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بیان کیا جس وقت چاند دو ٹکڑے ہوا تو ہم نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ منٰی کے میدان میں موجود تھے۔ چاند کا ایک ٹکڑا دوسرے سے الگ ہو کر پہاڑ کی طرف چلا گیا۔ آپ نے فرمایا لوگو! گواہ رہنا۔“ شق قمر پر اٹھنے والے اعتراضات اور ان کا جواب : شق قمر پر اعتراض کرنے والے لوگ کہتے ہیں کہ اگر واقعی ہی چاند دوٹکڑے ہوا تو اس وقت لوگوں کو اس عظیم واقعہ کا علم کیوں نہیں ہوا؟ ایسے دانشوروں سے سوال ہے کہ انہیں کس نے بتایا ہے کہ اس زمانے کے لوگوں کو اس کا علم نہیں ہوا تھا۔ اگر یہ واقعہ رونما نہ ہوا ہوتا تو قرآن مجید کو یہ کہنے کی کیا ضرورت تھی کہ چاند شق ہوگیا لیکن اس کے باوجود کفار کہتے ہیں کہ یہ جادو ہے۔ 1۔ کیا شق قمر پر اعتراض کرنے والوں کے پاس عرب کے چودہ سو سال کی تاریخ کا ریکارڈ موجود ہے جس بنا پر یہ لوگ شق قمر کا انکار کرتے ہیں۔ 2۔ کیا شق قمر کا عمل گھنٹوں پر محیط تھا جو لوگوں کے لیے حیرت کا باعث بنتا اور اس زمانے کے تمام لوگ اس کی طرف متوجہ ہوجاتے۔ بات تو اتنی ہے کہ ایک لمحہ کے لیے چاند دوٹکڑے ہوا اور پھر اپنی اصلی حالت میں ضوفشاں ہونے لگا۔ دنیا میں ہر سال اور ہر ملک میں کتنی بارایسا ہوتا ہے کہ آسمانی بجلی ایک لمحہ کے لیے زمین پر اترتی ہے اور دوسرے لمحے اوپر چلی جاتی ہے۔ اس وقت ہزاروں لوگ بارش کا نظارہ کررہے ہوتے ہیں۔ مگر انہیں بجلی کی آمد ورفت کی خبر نہیں ہوتی۔ 3۔ سائنسدان ہر دور میں یہ مشاہدہ کرتے آرہے ہیں کہ بے شمار سیارے ایک دوسرے سے الگ ہوتے ہیں اور پھر اپنے مدار میں واپس پہنچ جاتے ہیں۔ شق قمر کی تاریخی شہادت : پاکستان کے ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر نے تفصیل کے ساتھ ایک آرٹیکل لکھا ہے کہ ہندوستان کی ریاست مالا بار کے راجہ نے یہ منظر اپنی آنکھوں سے دیکھا اور اس نے ایک وفد مکہ روانہ کیا۔ وفد کی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ملاقات ہوئی اور وفد کے لوگ مسلمان ہوگئے لیکن وفد واپس ہندوستان پلٹا تو راستے میں ایک آدمی کے سوا باقی سفر کی صعوبتوں کی وجہ سے فوت ہوگئے اس نے واپس آکر راجہ کو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حالات بتلائے تو راجہ مسلمان ہوگیا اور اس نے مالا بار شہر میں ایک مسجد بنوائی۔ ڈاکٹر صاحب نے لکھا ہے کہ میں نے اس مسجد کی زیارت کی جس کا بیت اللہ کی بجائے مسجد اقصیٰ کی طرف تھا۔ یاد رہے کہ راجہ کے وفد کی ملاقات نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مدینہ میں ہوئی تھی۔ اس وقت نماز میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنا چہرہ بیت اللہ کی بجائے بیت المقدس کی طرف کرتے تھے۔ چاند اور سورج کا انجام : اللہ تعالیٰ نے اس شق قمر کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے کہ ہر کام کا ایک وقت مقرر ہے جس میں کھلے الفاظ میں یہ بتلایا گیا ہے کہ جس قیامت کا تم انکار کرتے ہو اس کا ایک وقت مقرر ہے جو کسی کے انکار یا اقرار کی وجہ سے آگے پیچھے نہیں ہوسکتا۔ لہٰذا جب اللہ تعالیٰ کا حکم صادر ہوگا تو اس کی ذات کے علاوہ ہر چیز فنا ہوجائے گی۔ قیامت کی نشانیاں : قیامت کی تین قسم کی نشانیاں ہیں جن میں کچھ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پہلے، کچھ آپ کے دور میں ظاہر ہوچکی ہیں اور کچھ قیامت سے پہلے نمودار ہوں گی اور باقی نشانیاں اس وقت ظاہر ہوں گی جب قیامت کی آمد آمد ہوگی جن کا اختصار درج ذیل ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ قیامت ہر صورت آنی ہے مگر میں نے اس کا وقت چھپا رکھا ہے۔ (الاعراف : ١٨٧) (عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لَتَقُوْمَنَّ السَّاعَۃُ وَثَوْبُہُمَا بَیْنَہُمَا لَا یَطْوِیَانِہٖ وَلَا یَتَبَایَعَانِہٖ وَلَتَقُوْمَنَّ السَّاعَۃُ وَقَدْ حَلَبَ لِقْحَتَہٗ لَا یَطْعَمُہٗ وَلَتَقُوْمَنَّ السَّاعَۃُ وَقَدْ رَفَعَ لُقْمَتَہٗ إِلٰی فِیْہٖ وَلَا یَطْعَمُہَا وَلَتَقُوْمَنَّ السَّاعَۃُ وَالرَّجُلُ یَلِیْطُ حَوْضَہٗ لَا یَسْقِیْ مِنْہٗ) (رواہ احمد : مسند ابی ہریرۃ (رض) ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کپڑا بیچنے اور خریدنے والا ابھی کپڑا سمیٹ نہیں سکیں گے کہ قیامت آجائے گی۔ ایک آدمی اپنی اونٹنی کا دودھ دوھ رہا ہوگا اور وہ اس کو پی نہیں سکے گا کہ قیامت قائم ہوجائے گی۔ کھانا کھانے والا لقمہ اپنے منہ کی طرف اٹھائے گا اور اپنے منہ میں نہیں ڈال سکے گا کہ قیامت قائم ہوجائے گی۔ ایک آدمی اپنا حوض ٹھیک کر رہا ہوگا وہ اس سے پانی پی نہیں سکے گا کہ قیامت قائم ہوجائے گی۔“ ” حضرت ابوہریرۃ (رض) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان بیان کرتے ہیں کہ ایام میں سب سے بہتر دن جمعہ کا دن ہے اس دن آدم (علیہ السلام) کو پیدا کیا گیا اسی دن ان کو جنت میں داخلہ ملا اور جمعہ کو ہی ان کا جنت سے اخراج ہوا، اور اسی دن ہی قیامت برپا ہوگی۔“ (رواہ مسلم : باب فَضْلِ یَوْمِ الْجُمُعَۃِ) مسائل ١۔ شق قمر قرب قیامت کی بہت بڑی نشانی ہے جو ظاہر ہوچکی ہے۔ ٢۔ شق قمر کا معجزہ دیکھنے کے باوجود اہل مکہ نے اسے جادو قرار دیا۔ ٣۔ اہل مکہ اپنی خواہشات کے پیش نظر حقائق کو جھٹلایا کرتے تھے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ نے قیامت اور ہر کام کا ایک وقت مقرر کر رکھا ہے۔ القمر
2 القمر
3 القمر
4 القمر
5 فہم القرآن ربط کلام : منکرین قیامت کے پاس شق قمر کا معجزہ اور دیگر دلائل آچکے ہیں لیکن اس کے باوجود عبرت حاصل کرنے کے لیے تیار نہیں۔ ایسے لوگ قیامت کے ظہور سے پہلے اس پر ایمان نہیں لائیں گے اور نہ ہی عبرت حاصل کریں گے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں نہ صرف قیامت قائم ہونے کے دلائل دیئے ہیں بلکہ کچھ انبیائے کرام (علیہ السلام) اور ان کے سا تھیوں کے سامنے مردوں کو زندہ کرکے بھی دکھلایا ہے اور جو لوگ دلائل اور تنبیہات کے باوجود قیامت پر یقین کرنے کے لیے تیار نہیں انہیں ان کے حال پر چھوڑ دینا چاہیے۔ یہ اس دن سے پہلے ماننے کے لیے تیار نہیں ہوں گے جس دن انہیں بلانے والا اس چیز کی طرف بلائے گا۔ جیسے یہ لوگ اچھا نہیں سمجھتے۔ یہ اپنی قبروں سے اٹھ کھڑے ہوں گے اور ان کی نگاہیں خوف کے مارے جھکی ہوئی ہوں گی اور یہ بکھری ہوئی ٹڈیوں کی طرح منتشر ہوں گے۔ قیامت کے منکر پکار پکار کرکہیں گے کہ آج کا دن بڑا بھاری اور سخت ہے۔ قرآن مجید نے کئی مقامات پر ذکر کیا ہے کہ جب اسرافیل دوسری مرتبہ صورپھونکے گا تو لوگ اپنے اپنے مقام پر اٹھ کھڑے ہوں گے۔ سورۃ یٰس میں یہ بھی ذکر ہے کہ جب لوگ اپنی قبروں سے اٹھائے جائیں گے تو وہ محشر کے میدان کی طرف اس طرح جائیں گے جس طرح تیر اپنے نشانے کی طرف جاتا ہے۔ (المعارج : ٤٣) (وَنُفِخَ فِی الصُّورِ فَاِِذَا ہُمْ مِنَ الْاَجْدَاثِ اِِلٰی رَبِّہِمْ یَنسِلُوْنَ قَالُوْا یٰوَیْلَنَا مَنْ بَعَثَنَا مِنْ مَّرْقَدِنَاہٰذَا مَا وَعَدَ الرَّحْمٰنُ وَصَدَقَ الْمُرْسَلُوْنَ اِِنْ کَانَتْ اِِلَّا صَیْحَۃً وَّاحِدَۃً فَاِِذَا ہُمْ جَمِیْعٌ لَدَیْنَا مُحْضَرُوْنَ فَالْیَوْمَ لاَ تُظْلَمُ نَفْسٌ شَیْءًا وَّلاَ تُجْزَوْنَ اِِلَّا مَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ) ( یٰسٓ: ٥١ تا ٥٤) ” پھر ایک صور پھونکا جائے گا اور یکایک لوگ تیزی سے دوڑتے ہوئے اپنے رب کے حضور پیش ہونے کے لیے اپنی اپنی قبروں سے نکل پڑیں گے۔ گھبرا کر کہیں گے کس نے ہماری خواب گاہ سے ہمیں اٹھا کھڑا کیا یہ وہ بات ہے جس کا رب رحمٰن نے وعدہ کیا تھا اور رسولوں کی بات سچ تھی۔ یہ صرف زور دار آواز ہوگی اور سب کے سب ہمارے سامنے پیش کردیے جائیں گے۔ آج کسی پر ذرّہ برابر ظلم نہیں کیا جائے گا اور تمہیں ویسا ہی بدلہ دیا جائے گا جیسے تم عمل کرتے رہے ہو۔“ (وَعَنْ جَابِرٍ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یُبْعَثُ کُلُّ عَبْدٍ عَلٰی مَامَاتَ عَلَیْہِ) (رواہ مسلم : باب الأَمْرِ بِحُسْنِ الظَّنِّ باللَّہِ تَعَالَی عِنْدَ الْمَوْتِ) ” حضرت جابر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ہر شخص اسی حالت پر اٹھایا جائے گا جس پر وہ فوت ہوگا۔“ ” حِکْمَۃٌ بَالِغَۃٌ“ سے مراد قرآن مجید ہے اور شق قمر کا معجزہ بھی قیامت کے ثبوت ہیں۔ اس کا یہ بھی معنی ہے کہ ایسی حکمت جس کے خلاف کوئی واضح دلائل نہ ہو۔ مسائل ١۔ جو لوگ قیامت پر یقین نہیں رکھتے وہ ہر قسم کے دلائل اور تنبیہات کو خاطر میں نہیں لاتے۔ ٢۔ ” اللہ“ کی طرف سے لوگوں پر حجت پوری کردی گئی ہے مگر لوگ پھر بھی اس کی پرواہ نہیں کرتے۔ ٣۔ قیامت کے دن جب لوگوں کو قبروں سے اٹھایا جائے گا تو خوف کے مارے مجرموں کی نگاہیں جھکی ہوئی ہوں گی۔ ٤۔ قیامت کے دن لوگ ٹڈیوں کی طرف منتشر ہوں گے اور انہیں محشر کے میدان میں جمع کیا جائے گا۔ تفسیر بالقرآن قیامت کے دن لوگوں کی حالت : ١۔ قیامت کے دن نیک لوگوں کے چہروں پر ذلت اور نحوست نہیں ہوگی وہ جنت میں رہیں گے۔ (یونس : ٢٦) ٢۔ برے لوگوں کے چہروں پر ذلت چھائی ہوگی اور انہیں اللہ سے کوئی نہیں بچا سکے گا۔ (یونس : ٢٧) ٣۔ مومنوں کے چہرے تروتازہ ہوں گے (القیامہ : ٢٢) ٤۔ کفار کے چہرے بگڑے ہوں ہو گے۔ (الحج : ٧٢) ٥۔ مومنوں کے چہرے خوش و خرم ہوں گے (عبس : ٣٨) ٦۔ کفار کے چہروں پر گردو غبار ہوگا۔ (عبس : ٤٠) ٧۔ مومنوں کا استقبال ہوگا۔ ( الزمر : ٧٣) ٨۔ خدا کے باغیوں پر پھٹکار ہوگی۔ (یونس : ٢٧ ) القمر
6 القمر
7 القمر
8 القمر
9 فہم القرآن ربط کلام : قیامت اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت کو جھٹلانے والوں میں سر فہرست نوح (علیہ السلام) کی قوم بھی تھی جن کا دنیا میں بھی بدترین انجام ہوا۔ قرآن مجید نے موقع کی مناسبت سے حضرت نوح (علیہ السلام) اور ان کی قوم کا کئی مقامات پر ذکر کیا ہے۔ یہاں منکرین کو سمجھانے کے لیے ایک مرتبہ پھر قوم نوح کا ذکر کیا ہے۔ قوم نوح بھی ان لوگوں میں شامل ہے جنہوں نے اپنے رسول کو یکسر طور پر مسترد کردیا، جس کے نتیجے میں دنیا میں بھی برے انجام سے دو چار ہوئے جس کا اس موقع پر یوں ذکر کیا جا رہا ہے کہ قوم نوح بھی ہمارے بندے نوح (علیہ السلام) کو جھٹلاچکی ہے۔ نوح (علیہ السلام) نے انہیں ساڑھے نوسوسال سجھایا مگر قوم نے انہیں ہر بار پاگل کہا اور اس پر زیادتی کی اور کہا کہ اے نوح! تو باز نہ آیا تو ہم تجھے پتھر مار مار کر مار دیں گے۔ اس صورتحال میں نوح (علیہ السلام) نے اپنے رب سے فریاد کی کہ میرے رب میں اپنی قوم کے سامنے مغلوب ہوگیا ہوں تو میری مدد فرما۔ ” نوح نے کہا اے میرے پروردگار! میں نے اپنی قوم کو تیری طرف رات دن بلایا ہے۔ مگر میرے بلانے سے یہ لوگ اور دور بھاگ گئے۔ میں نے جب بھی تیری بخشش کے لیے انہیں بلایاتو انہوں نے اپنی انگلیاں اپنے کانوں میں ڈال لیں اور اپنے کپڑوں کو اوڑھ لیا اور اڑ گئے اور بڑا تکبر کیا۔“ (نوح : ٥ تا ٨) (وَقَالُوْا لَا تَذَرُنَّ آلِہَتَکُمْ وَلَا تَذَرُنَّ وَدًّا وَّلَا سُوَاعًا وَلَا یَغُوثَ وَیَعُوقَ وَنَسْرًا) (نوح : ٢٣) ” اور کہا انہوں نے کہ اپنے معبودوں اور ودّ اور سواع اور یغوث اور یعوق اور نسر کو ہرگز نہ چھوڑنا۔“ ( وَقَالَ نُوحٌ رَّبِّ لَا تَذَرْ عَلَی الْاَرْضِ مِنَ الْکٰفِرِیْنَ دَیَّارًا اِِنَّکَ اِِنْ تَذَرْہُمْ یُضِلُّوْا عِبَادَکَ وَلَا یَلِدُوْا اِِلَّا فَاجِرًا کَفَّارًا) (نوح : ٢٦، ٢٧) ” اور حضرت نوح نے کہا کہ اے رب! تو روئے زمین پر کسی کافر کو نہ چھوڑ۔ اگر انہیں تو نے چھوڑ دے گا تو یقیناً یہ تیرے بندوں کو گمراہ کریں گے۔“ اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح (علیہ السلام) کی بدعا کو قبول فرما لیا۔ جس کے نتیجے میں ان پر زوردار بارشوں کا سلسلہ شروع ہوا یہاں تک کہ جگہ جگہ زمین سے چشمے پھوٹ پڑے اور زمین کا اوپر نیچے کا پانی مل گیا جس سے اس قوم کو غرق کردیا گیا۔ ” نوح کی طرف وحی کی گئی کہ بے شک تیری قوم میں سے کوئی شخص ایمان نہیں لائے گا مگر جو پہلے ایمان لا چکا جو کچھ وہ کرتے رہے ہیں اس پر غمگین نہیں ہونا۔ ہماری آنکھوں کے سامنے اور ہماری وحی کے مطابق کشتی بناؤ اور مجھ سے ظالموں کے بارے میں گفتگو نہ کرنا یقیناً وہ غرق کیے جائیں گے۔ وہ کشتی بناتا رہا اور جب اس کے پاس سے اس کی قوم کے سردار گزرتے تو اس سے مذاق کرتے۔ وہ کہتا اگر تم ہم سے مذاق کرتے ہو تو ہم بھی تم سے مذاق کریں گے جس طرح تم مذاق کرتے ہو۔ پس تمہیں جلد معلوم ہوجائے گا۔ کون ہے؟ جس پر ایسا عذاب آتا ہے جو اسے رسوا کر دے گا اور کس پر دائمی عذاب نازل ہونے والاہے ؟ یہاں تک کہ ہمارا حکم آپہنچا اور تنور ابل پڑا۔ ہم نے فرمایا بیڑے میں ہر جنس کے دو دو جوڑے سے نرومادہ اور اپنے گھر والوں کو سوار کرلو اور ان کو بھی جو ایمان لے آئے سوائے اس کے جس پر پہلے بات ہوچکی۔ تھوڑے لوگ تھے جو اس پر ایمان لائے۔ نوح نے کہا اس میں سوار ہوجاؤ۔ کشتی کا چلنا اور اس کا ٹھہرنا اللہ کے نام کے ساتھ ہے۔ یقیناً میرا رب بہت بخشنے اور نہایت رحم کرنے والاہے۔ کشتی ان کو لے کر پہاڑوں جیسی موجوں میں چلی جارہی تھی، نوح نے اپنے بیٹے کو آواز دی اور وہ ایک الگ جگہ میں تھا۔ اے میرے بیٹے ! ہمارے ساتھ سوار ہوجا اور کافروں کے ساتھ شامل نہ ہو۔“ (ہود : ٣٦ تا ٤٢) (قَالَ سَاٰوِیْٓ اِلٰی جَبَلٍ یَّعْصِمُنِیْ مِنَ الْمَآءِ قَالَ لَا عَاصِمَ الْیَوْمَ مِنْ اَمْرِ اللّٰہِ اِلَّا مَنْ رَّحِمَ وَ حَالَ بَیْنَہُمَا الْمَوْجُ فَکَانَ مِنَ الْمُغْرَقِیْنَ) (ہود : ٤٣) ” اس نے کہا میں جلد ہی کسی پہاڑ پر پناہ لے لوں گا جو مجھے پانی سے بچا لے گا۔ نوح (علیہ السلام) نے فرمایا آج اللہ کے حکم سے کوئی بچانے والانہیں۔ مگر جس پر وہ رحم کرے اور دونوں کے درمیان موج حائل ہوگئی تو وہ غرق ہونے والوں میں سے ہوگیا۔“ مسائل ١۔ اہل مکہ تم سے پہلے نوح (علیہ السلام) کی قوم بھی انہیں جھٹلا چکی ہے۔ ٢۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کو ان قوم نے پاگل کہا اور اس پر زیادتی کی۔ ٣۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے قوم کے مقابلے میں اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کی۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ نے نوح (علیہ السلام) کو اپنے سامنے کشتی بنانے کا حکم دیا۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ نے نوح (علیہ السلام) کی قوم سے انتقام لیا۔ ٦۔ اللہ تعالیٰ نے بارش کے لیے آسمان کے دروازے کھول دیئے اور جگہ جگہ زمین میں چشمے جاری کردیئے۔ ٧۔ اللہ تعالیٰ نے قوم نوح کے واقعہ کو ان کے بعد آنے والے لوگوں کے لیے عبرت بنا دیا ہے۔ تفسیربالقرآن قرآن مجید میں حضرت نوح (علیہ السلام) اور ان کی قوم کا تذکرہ : ١۔ نوح (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو ایک ” اللہ“ کی عبادت کرنے کی دعوت دی۔ (المومنون : ٢٣) ٢۔ نوح (علیہ السلام) پر اللہ تعالیٰ نے سلامتی نازل فرمائی۔ (الصٰفٰت : ٧٩) ٣۔ نوح (علیہ السلام) پر اللہ تعالیٰ نے وحی کا نازل فرمائی۔ (النساء : ١٦٣) ٤۔ نوح (علیہ السلام) پر اللہ تعالیٰ نے اپنا انعام فرمایا۔ (مریم : ٥٨) ٥۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے ہدایت سے نوازا۔ (الانعام : ٨٤) (الفرقان : ٣٧) ٦۔ ہم نے نوح (علیہ السلام) اور اس کے ساتھیوں کو نجات دی اور تکذیب کرنے والوں کو غرق کردیا۔ (الاعراف : ٦٤) القمر
10 القمر
11 القمر
12 القمر
13 القمر
14 القمر
15 القمر
16 القمر
17 القمر
18 فہم القرآن ربط کلام : نوح (علیہ السلام) کی قوم کا انجام ذکر کرنے کے بعد قوم عاد کے بارے میں ارشاد ہوا کہ سوچو اور غور کرو کہ اللہ تعالیٰ کا عذاب اور ڈرانا کس طرح خوف ناک تھا جسے قرآن میں تفصیل کے ساتھ بیان کیا گیا ہے اور ہم نے قرآن کو سمجھنے کے لیے آسان کردیا ہے۔ قوم عاد کی مختصر تاریخ جاننے کے لیے سورۃ الذاریات کی آیت ٤١ تا ٤٢ کی تفسیر ملاحظہ فرمائیں! اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں بڑے ہی آسان اور سادہ الفاظ میں لوگوں کی راہنمائی فرمائی ہے۔ اگر کوئی راہنمائی حاصل کرنا چاہے تو قرآن مجید سے بڑھ کر کوئی کتاب آسان اور پر تاثیر نہیں ہوسکتی۔ جو آدمی صراط مستقیم پر چلنا چاہے اسے اس کتاب کو سمجھنا اور صراط مستقیم کو پانے میں کوئی دشواری نہیں ہوگی۔ لیکن اس کا یہ معنٰی نہیں کہ قرآن مجید کے مطالب اور مفاہیم کو ہر شخص سمجھ سکتا ہے۔ ایسا ہرگز نہیں کہ کیونکہ ہر زبان کو پوری طرح سمجھنے کے لیے اس کے قواعد کو جاننے کے لیے ایک ماہر استاد کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کے بغیر کوئی شخص اس کتاب کے رموز و اسرار کو کما حقّہ نہیں سمجھ سکتا۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ہم نے آپ پر قرآن مجید نازل کیا ہے تاکہ آپ لوگوں کے سامنے اسے کھول کھول کر بیان کریں اور لوگ اس پر غور و فکر کریں۔ (وَ مَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ اِلَّا رِجَالًا نُّوْحِیْٓ اِلَیْہِمْ فَسْءَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ بِالْبَیِّنٰتِ وَ الزُّبُرِ وَ اَنْزَلْنَآ اِلَیْکَ الذِّکْرَ لِتُبَیِّنَ للنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَیْہِمْ وَ لَعَلَّہُمْ یَتَفَکَّرُوْنَ) (النحل : ٤٣، ٤٤) ” اور نہیں بھیجے ہم نے آپ سے پہلے رسول مگر وہ آدمی تھے جن کی طرف ہم نے وحی کی۔ اگر تم نہیں جانتے تواہل ذکرسے پوچھ لو۔ واضح دلائل اور کتابیں دے کر اور ہم نے آپ کی طرف نصیحت اتاری تاکہ آپ لوگوں کے سامنے کھول کر بیان کریں جو کچھ ان کی طرف اتارا گیا ہے اور تاکہ وہ غوروفکر کریں۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ قوم عاد کو سخت ترین عذاب دے کر ان کو آنے والے لوگوں کے لیے عبرت بنا دیا۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ قرآن مجید نصیحت حاصل کرنے والوں کے لیے آسان کردیتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن قوم عاد کے جرائم اور ان کا انجام : ١۔ قوم عاد نے جھٹلایا تو اللہ نے ان کو ہلاک کردیا۔ (الشعراء : ١٣٩) ٢۔ قوم عاد و ثمود کے اعمال بد کو شیطان نے مزین کردیا۔ (العنکبوت : ٣٨) ٣۔ قوم عاد نے زمین میں تکبر کیا اور کہا کہ ہم سے طاقت میں کون زیادہ ہوسکتا ہے؟ (حٰم السجدۃ: ١٥) ٤۔ رسولوں کی نافرمانی قوم عاد کی تباہی کا سبب ثابت ہوئی۔ (ھود : ٥٩) ٥۔ قوم عاد نے ھود (علیہ السلام) سے عذاب کا مطالبہ کیا۔ (الاحقاف : ٢٢) ٦۔ قوم عاد نے اپنے پروردگار کے ساتھ کفر کیا، قوم عاد کے لیے دوری ہے۔ (ھود : ٦٠) ٧۔ قوم عاد بڑے سفاک اور ظالم لوگ تھے۔ ( النجم : ٥٢) ٨۔ عاد زبر دست آندھی کے ذریعے ہلاک ہوئے۔ (الحاقہ : ٦) قوم عاد کی دنیاوی ترقی کی ایک جھلک : ١۔ قوم عاد اس قدر کڑیل اور قوی ہیکل جوان تھے کہ ان جیسا دنیا میں کوئی اور پیدا نہیں کیا گیا۔ (الفجر ٦ تا ٨ ) ٢۔ قوم عاد بڑے بڑے محلات میں رہتی تھی۔ کھیتی باڑی اور باغبانی میں ان کا کوئی ثانی نہیں تھا۔ (الشعراء ١٢٩ تا ١٣٣) القمر
19 القمر
20 القمر
21 القمر
22 القمر
23 فہم القرآن ربط کلام : قوم عاد کے بعد قوم ثمود کا تذکرہ۔ قوم ثمود کا علاقہ مدینہ سے تبوک جاتے ہوئے راستے میں پڑتا ہے۔ یہ علاقہ جغرافیائی اعتبار سے خلیج اربعہ کے مشرق میں اور شہر مدین کے جنوب مشرق میں واقع ہے۔ قوم ثمود ٹیکنالوجی اور تعمیرات کے شعبے میں اس قدر ترقی یافتہ تھی کہ انہوں نے پہاڑوں کو تراش تراش کر مکانات اور محلات تعمیر کرلیے تھے تاکہ کوئی زلزلہ اور طوفان انہیں نقصان نہ پہنچا سکے۔ اس قوم کی طرف حضرت صالح (علیہ السلام) مبعوث کیے گئے جنہوں نے طویل مدت تک اپنی قوم کو سمجھایا لیکن قوم نوح اور قوم عاد کی طرح انہوں نے بھی اپنے رسول یعنی حضرت صالح (علیہ السلام) کو یکسر طور پر جھٹلا دیا۔ قوم کے جواب اور الزامات : ١۔ اے صالح ہم تو تجھے بہت اچھا سمجھتے تھے مگر تو ہمارے آباؤ اجداد کو گمراہ قرار دیتا ہے۔ (ھود : ٦٢) ٢۔ کیا تو ہمیں ان کاموں سے روکتا ہے جو ہمارے بزرگ کرتے آ رہے ہیں۔ (ھود : ٦٢) ٣۔ ہم تمھیں اور تمھارے ساتھیوں کو منحوس سمجھتے ہیں۔ (النمل : ٧٤) ٤۔ صالح تو بہت بڑا جھوٹا اور بڑائی بکھیرنے والا ہے۔ (القمر : ٢٥) ٥۔ کیا ہم اپنے بزرگوں، آباؤ اجداد کے مذہب کو چھوڑ کر صرف تیری پیروی کریں۔ (القمر : ٢٤) ٦۔ تم پر کسی نے جادو کردیا ہے۔ (الشعراء : ١٥٣) ٧۔ ثمود انبیاء کو جھوٹا قرار دیتے تھے۔ (الشعراء : ١٤١) حضرت صالح (علیہ السلام) کا قوم کو باربار سمجھانا : ١۔ اے میری قوم! اللہ سے ڈر جاؤ اور میری باتوں پر غور کرو۔ (الشعراء : ١٤٤) ٢۔ میں تم سے اللہ کے احکام سنانے پر کوئی معاوضہ طلب نہیں کرتا۔ (الشعراء : ١٤٥) ٣۔ اے میری قوم! میں واقعی اپنے رب کی طرف سے بھیجا گیا ہوں۔ (ھود : ٦٣) ٤۔ اے قوم ! یہ اونٹنی اللہ کی طرف سے معجزہ ہے اس کے ساتھ زیادتی نہ کرنا۔ (ھود : ٦٤) ٥۔ میں تمھیں وعظ و نصیحت کرتا ہوں جب کہ تم خیر خواہوں کو پسند نہیں کرتے ہو۔ (الاعراف : ٧٩) ٦۔ اے میری قوم! ” اللہ“ کے علاوہ کوئی معبود نہیں اس لیے صرف اسی کی عبادت کرو۔ (الاعراف : ٧٣) ٧۔ اے میری قوم ! تمھیں عاد کے بعد اس دنیا میں بھیجا گیا ہے تاکہ تم نصیحت حاصل کرو۔ (الاعراف : ٧٤) ٨۔ اے میری قوم !” اللہ“ کی نعمتوں سے فائدہ اٹھاکر اس کا شکر ادا کرو۔ (الاعراف : ٧٤) القمر
24 القمر
25 القمر
26 القمر
27 القمر
28 القمر
29 القمر
30 القمر
31 القمر
32 القمر
33 فہم القرآن ربط کلام : قوم ثمود کے بعد قوم لوط کا کردار اور انجام۔ حضرت لوط، حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) کے بھتیجے تھے۔ جنھوں نے عراق کی سرزمین سے ہجرت کرکے سدوم شہر میں رہائش اختیار کی۔ یہ شہر علاقے کا مرکزی مقام تھا۔ جہاں کے رہنے والے پر لے درجے کے مشرک، کافر، ڈاکو، چور اور انتہائی بد کردارلوگ تھے۔ جنھوں نے دنیا میں بے حیائی کا ایسا عمل اختیار کیا جو اس سے پہلے کسی قوم نے اختیار نہیں کیا تھا۔ قوم لوط کا کردار : انھوں نے اپنی نفسانی خواہش اپنی بیویوں سے پوری کرنے کی بجائے لڑکوں سے شروع کر رکھی تھی۔ گویا کہ وہ ہم جنسی کے بدترین گناہ میں مبتلا تھے۔ حضرت لوط (علیہ السلام) کے بار بار سمجھانے کے باوجود باز آنے پر تیار نہ ہوئے۔ قوم نے حضرت لوط (علیہ السلام) کو ملک بدر کرنے کی دھمکی دی۔ (الشعراء : ١٦٧) اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے حضرت لوط (علیہ السلام) سے عذاب کا مطالبہ بھی کیا۔ (العنکبوت : ٢٩) حضرت لوط (علیہ السلام) کا وعظ ونصیحت کرنا : قوم لوط نے بھی پیغمبروں کو جھٹلایا جب ان سے ان کے بھائی لوط نے کہا کہ تم کیوں نہیں ڈرتے ؟ میں تمھارے لیے امانت دار رسول ہوں، اللہ سے ڈرو اور میرا کہا مانو اور میں تم سے اس کا اجر نہیں مانگتا، میرا اجر رب العالمین کے ذمے ہے۔ کیا تم لڑکوں پر مائل ہوتے ہو۔ تمھارے پروردگار نے تمھارے لیے جو بیویاں پیدا کی ہیں انہیں چھوڑ دیتے ہو؟ حقیقت یہ ہے کہ تم حد سے نکل جانے والے ہو۔ (الشعراء : ١٦٠ تا ١٦٦) قوم کا جواب : کہنے لگے کہ اے لوط اگر تم باز نہ آئے تو شہر بدر کردیے جاؤ گے۔ لوط (علیہ السلام) نے کہا میں تمھارے کام کا سخت مخالف ہوں۔ (الشعراء : ١٦٧ تا ١٦٨) لوط (علیہ السلام) نے اپنی قوم سے فرمایا کہ تم یہ بے حیائی کیوں کرتے ہو جو تم سے پہلے دنیا میں کسی نے نہیں کی۔ (الاعراف : ٨٠) ” ان کی قوم سے اس کے سوا کوئی جواب نہ بن پڑا کہ وہ کہنے لگے ان لوگوں کو اپنی بستی سے نکال دو یہ لوگ بڑے پاک بنتے ہیں۔“ (الاعراف : ٨٠ تا ٨٢) ” حضرت لوط (علیہ السلام) نے اپنی قوم سے فرمایا کہ تم ایسی بے حیائی کا ارتکاب کرتے ہو جو تم سے پہلے دنیا میں کسی نے نہیں کی، تم لڑکوں سے بدکاری کرتے ہو مسافروں پر ڈاکہ ڈالتے ہو اور ہر قسم کی برائی میں ملوث ہو۔“ (العنکبوت : ٢٩) قوم کا جواب : ” اے لوط اگر تم واقعی ہی سچے ہو تو ہم پر اللہ کا عذاب لے آؤ۔“ (العنکبوت : ٢٩) حضرت لوط (علیہ السلام) کی ” اللہ“ کے حضور فریاد : ” اے میرے رب اس مفسد قوم کے مقابلے میں میری مدد فرما۔“ (العنکبوت : ٣٠) قوم لوط کے ہاں عذاب کے فرشتوں کی آمد : قرآن مجید تفصیل سے ذکر کرتا ہے کہ قوم لوط پر عذاب نازل کرنے والے فرشتے پہلے ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس حاضر ہوئے۔ انھوں نے ابراہیم (علیہ السلام) کو بیٹے اور پوتے کی خوشخبری دی۔ جس پر ان کی بیوی نے تعجب کا اظہار کیا۔ لیکن ملائکہ نے ان کو تسلی دی کہ اللہ تعالیٰ نے تم پر یہ رحمت فرما دی ہے، اس لیے اس میں کسی قسم کا تعجب نہیں کرنا چاہیے۔ خوشخبری کے بعد حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ملائکہ سے پوچھا کہ تمہارا کیا پروگرام ہے ملائکہ نے ابراہیم (علیہ السلام) سے عرض کی کہ ہم قوم لوط پر عذاب نازل کرنے والے ہیں۔ ابراہیم (علیہ السلام) ملائکہ سے اصرار کرنے لگے کہ ایسا نہیں ہونا چاہیے کیونکہ ابراہیم (علیہ السلام) نہایت ہی حوصلہ مند اور نرم خو تھے۔ ملائکہ نے ان سے کہا کہ اب اس بات کو جانے دیں کیونکہ ” اللہ“ کا حکم آچکا ہے لہٰذا اس عذاب کو کوئی نہیں ٹال سکتا۔ (ہود : ٦٩ تا ٧٦) عذاب لانے والے فرشتے حضرت لوط (علیہ السلام) کی خدمت میں : جب یہ فرشتے لڑکوں کی شکل میں لوط (علیہ السلام) کے ہاں تشریف لائے تو بدمعاش قوم ان سے بے حیائی کرنے کی نیت سے ان کے ہاں دوڑتے ہوئے آئی۔ لوط (علیہ السلام) نے نہایت عاجزی کے ساتھ انھیں سمجھایا کہ اے میری قوم یہ میری بیٹیاں ہیں جو تمھارے لیے حلال ہیں۔ (یعنی تم ان کے ساتھ نکاح کرسکتے ہو) اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور مہمانوں میں مجھے بے آبرو نہ کرو۔ لیکن وہ ایک دوسرے سے آگے بڑھ رہے تھے۔ حضرت لوط (علیہ السلام) نے فرمایا کیا تم میں کوئی بھی شریف آدمی نہیں ہے ؟ (ہود : ٧٨) ” بے حیا کہنے لگے کہ ہمیں تمھاری بیٹیوں سے کیا سروکار، تو جانتا ہے کہ ہم کس ارادہ سے آئے ہیں لوط (علیہ السلام) کہنے لگے کہ آج کا دن میرے لیے بڑا بھاری دن ہے۔ کاش تمھارے مقابلے میں میرا کوئی حمایتی ہوتا یا کوئی پناہ گاہ جہاں میں تم سے بچ نکلتا۔“ (ہود : ٧٩، ٨٠) ملائکہ حضرت لوط (علیہ السلام) کو تسلی دیتے ہیں : عذاب کے فرشتوں نے لوط (علیہ السلام) کو تسلی دی کہ اے اللہ کے نبی دل چھوٹا نہ کریں۔ یہ بے حیا آپ کا کچھ نہیں بگاڑ سکیں گے۔ بس آپ اہل ایمان کو لے کر رات کے پچھلے پہر ہجرت کر جائیں۔ ہاں یاد رہے کہ آپ اپنی بیوی کو ساتھ نہیں لے جا سکیں گے کیونکہ اسے بھی وہی عذاب ہوگا۔ جس میں دوسرے لوگ مبتلا ہوں گے۔ یہ عذاب ٹھیک صبح کے وقت نازل ہوگا۔ حضرت لوط (علیہ السلام) گھبراہٹ کے عالم میں پوچھتے ہیں کہ صبح کب ہوگی ؟ ملائکہ نے مزید تسلی دیتے ہوئے کہا کہ اے اللہ کے رسول صبح تو ہونے ہی والی ہے چنانچہ صبح کے وقت رب ذوالجلال کا حکم صادر ہوا تو اس دھرتی کو اٹھا کر نیچے پٹخ دیا گیا۔ پھر ان پر مسلسل نامزد پتھروں کی بارش کی گئی۔ (ھود : ٦٩ تا ٨٣) (فَلَمَّا جَاءَ أَمْرُنَا جَعَلْنَا عَالِیَہَا سَافِلَہَا وَأَمْطَرْنَا عَلَیْہَا حِجَارَۃً مِنْ سِجِّیلٍ مَنْضُود مُسَوَّمَۃً عِنْدَ رَبِّکَ وَمَا ہِیَ مِنَ الظَّالِمِینَ بِبَعِیدٍ) (ھود : ٨٢، ٨٣) ” پھر جب ہم نے حکم نافذ کیا تو ہم نے اس بستی کو اوپر نیچے کردیا اور تابڑ توڑ پکی مٹی کے پتھر برسائے۔ تیرے رب کی طرف سے ہر پتھر نشان زدہ تھا اور ظالموں سے یہ سزا دور نہیں ہے۔“ بحرمردار (میت): دنیا کے موجو دہ جغرافیے میں یہ بحر مردار اردن کی سر زمین میں واقع ہے۔ پچاس میل لمبا، گیارہ میل چوڑا ہے اس کا کل رقبہ ٣٥١ مربع میل ہے۔ اسکی زیادہ سے زیادہ گہرائی تیرہ سو فٹ ہے یہ اسرائیل اور اردن کی سرحد پر واقع ہے۔ اس کا کسی بڑے سمندر کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ گویا کہ یہ ایک بہت بڑی جھیل ہے۔ اس کی نمکیات اور کیمیائی اجزاء عام سمندروں سے کہیں زیادہ ہے۔ اس کے قریب ترین سمندر بحر روم ہے۔ جدید محققین نے اسی جگہ پر لوط (علیہ السلام) کی قوم کی بستیوں کی نشاندہی کی ہے۔ جو کسی زمانے میں یہاں صدوم عمود کے نام سے بڑے شہر آباد تھے۔ مصرکے محقق عبدالوہاب البخار نے بھرپور دلائل کے ساتھ یہ ثابت کیا ہے کہ عذاب لوط (علیہ السلام) سے پہلے اس جگہ کوئی سمندر نہیں تھا۔ جب اللہ کے عذاب کی وجہ سے اس علاقے کو الٹ دیا گیا تو یہ ایک چھوٹے سے سمندر کی شکل اختیار کر گیا۔“ ١۔ اس کے پانی کی یہ خصوصیت ہے کہ اس میں نمکیات کا تناسب پچیس فیصد لگا یا گیا ہے۔ جب کہ دنیا کے تمام سمندروں میں نمکیات کا تناسب چار سے چھ فیصد ریکارڈ کیا گیا ہے۔ ٢۔ اسکے کنارے نہ کوئی درخت ہے اور نہ ہی اس میں کوئی جانور زندہ رہ سکتا ہے حتی کہ سیلاب کے موقع پر دریائے اردن سے آنیوالی مچھلیاں اس میں داخل ہوتے ہی تڑپ تڑپ کر مر جاتی ہیں۔ اہل عرب اسکو بحیرہ لوط بھی کہتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن لوط (علیہ السلام) کی قوم کا بد ترین کردار اور انجام : ١۔ دنیا میں ہم جنسی کی ابتدا قوم لوط نے کی۔ (الاعراف : ٨٠) ٢۔ قوم لوط کی تباہی کا سبب اغلام بازی کرنا تھا۔ (الاعراف : ٨١) ٣۔ حضرت لوط (علیہ السلام) کے پاس ان کی قوم کے لوگ دوڑتے ہوئے آئے اور وہ پہلے ہی بدکاریاں کیا کرتے تھے۔ (ھود : ٧٨) ٤۔ لوط (علیہ السلام) نے فرمایا کہ کاش میرے پاس طاقت ہوتی یا میں کوئی مضبوط پناہ گاہ پاتا۔ (ھود : ٨٠) ٥۔ ہم نے اس بستی کو الٹ کر اس پر پتھروں کی بارش برسائی۔ (الحجر : ٧٤) ٦۔ ہم نے اوپر والی سطح کو نیچے کردیا اور ہم نے ان پر پتھروں کی بارش برسا دی جو تہہ بہ تہہ تھے نشان لگے ہوئے۔ (ھود : ٨٢) القمر
34 القمر
35 القمر
36 القمر
37 القمر
38 القمر
39 القمر
40 القمر
41 فہم القرآن ربط کلام : قوم لوط کے بعد قوم فرعون کا ذکر۔ مصر کا بادشاہ سرکاری منصب کے حوالے سے فرعون کہلواتا تھا۔ موسیٰ (علیہ السلام) کا جس فرعون سے واسطہ پڑا اس کا نام قابوس یا رعمیس تھا۔ یہ فرعون اپنے آپ کو خدا کا اوتار سمجھتے ہوئے لوگوں کو یہ تاثر دینے میں کامیاب ہوا۔ کہ اگر میں خدا کا اوتار نہ ہوتا تو دنیا کی سب سے بڑی مملکت کا فرمانروا کیونکر ہوسکتا تھا۔ پھر اس نے لوگوں کے مزاج اور مشرکانہ عقائد سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے آپ کو اعلانیہ طور پر رب اعلیٰ قرار دیا۔ اپنی قوم اور موسیٰ (علیہ السلام) کے سامنے دعویٰ کیا کہ زمین و آسمان میں مجھ سے بڑھ کر کوئی رب نہیں ہے۔ میں ہی سب دیوتاؤں سے بڑا دیوتا اور سب سے اعلیٰ کائنات کا رب ہوں۔ اس کی جھوٹی خدائی کے پرخچے اڑانے اور اس کی کذب بیانی کا پول کھولنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے اسی کے گھر میں موسیٰ (علیہ السلام) کو پالا اور رسول منتخب فرمایا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا پہلا خطاب : آل فرعون انتہائی ظالم لوگ تھے۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے فرعون کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا مجھے رب العالمین کی طرف سے رسول بنایا گیا ہے اور میں وہی بات کہوں گا جس کے کہنے کا اللہ تعالیٰ نے مجھے حکم دیا ہے۔ میں تمھارے پاس اپنے رب کی ربوبیّت اور اس کی وحدت کے ٹھوس اور واضح دلائل لایا ہوں۔ تمھیں اپنی خدائی چھوڑ کر صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کو اپنا رب ماننا چاہیے اس کے ساتھ میرا یہ مطالبہ ہے کہ بنی اسرائیل کو آزاد کردیا جائے۔ فرعون نے موسیٰ (علیہ السلام) کی دعوت کا جواب دیتے ہوئے کہا اگر تو اپنے دعویٰ میں سچا ہے تو کوئی معجزہ پیش کرو۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے فی الفور اپنا عصا زمین پر پھینکا جو بہت بڑا اژدہا بن کر لہرانے لگا۔ جس کے بارے میں مفسرین نے لکھا ہے کہ وہ اتنا بڑا اژدھا بن کر سامنے آیا کہ یوں لگتا تھا جیسے وہ اپنے جبڑوں میں سب کو نگل لے گا۔ یہ دیکھتے ہی فرعون اور اس کے درباری اپنی جان بچانے کے لیے موسیٰ (علیہ السلام) سے فریادیں کرنے لگے کہ ہمیں اس سے بچائیں۔ تب موسیٰ (علیہ السلام) نے اس کو پکڑ لیا جو پہلے کی طرح عصا بن گیا۔ پھر اپنی بغل میں ہاتھ دبا کر باہر نکالا تو اس کے سامنے تمام روشنائیاں ماند پڑگئیں۔ ہاتھ دیکھنے والے حیران اور ششد ررہ گئے کہ یہ تو سورج اور چاند سے بھی زیادہ روشن دکھائی دیتا ہے۔ حضرت ابن عباس (رض) فرمایا کرتے تھے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے ہاتھ کے سامنے سورج کی روشنی ماند پڑتی دکھائی دیتی تھی۔ (روح المعانی و جامع البیان) فرعون نے اقتدار کے نشہ میں آکر موسیٰ (علیہ السلام) کی طرف سے پیش کیے ہوئے تمام دلائل اور بڑے بڑے معجزات ٹھکرا دئیے۔ اقتدار بچانے، عوام اور لیڈروں کو ساتھ رکھنے کے لیے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت ہارون (علیہ السلام) پر الزام لگایا کہ یہ رسول نہیں بلکہ جادوگر ہیں اور جادو کے زور پر ہمارے اقتدار پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں۔ ان کا مقصد ہے کہ ہمیں ملک سے باہر نکال کر بنی اسرائیل کو مصر میں برسراقتدار لائیں۔ فرعون نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور ہارون (علیہ السلام) کو چیلنج کیا ہم اس طرح اقتدار چھوڑنے والے نہیں بلکہ ہم تمہارے جادو کا مقابلہ جادو کے ساتھ کریں گے۔ بس ہمارے اور تمہارے درمیان ایک معاہدہ طے پانا چاہیے جس کی نہ ہم مخالفت کریں گے اور نہ تمھیں مخالفت کرنی چاہیے۔ گویا کہ دونوں فریقوں کو اس کی پوری پوری پاسداری کرنا ہوگی۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا کہ بالکل ایسا ہی ہونا چاہیے۔ لیکن قومی تہوار کا دن مقرر کیا جائے اور وقت بھی سورج نکلنے کے بعد کا ہو۔ تاکہ لوگ کثیر تعداد میں جمع ہو کر دن کی روشنی میں کھلی آنکھوں کے ساتھ دیکھ سکیں کہ حقیقت کیا ہے۔ یہ موسیٰ (علیہ السلام) کے دل کی مراد تھی کیونکہ موسیٰ (علیہ السلام) اتنا بڑا اجتماع کرنے کے وسائل اور اثر رسوخ کہاں رکھتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے فرعون کے ہاتھوں ہی یہ کام کر دکھایا تاکہ موسیٰ (علیہ السلام) کی نبوت کا چرچا اور ان کا پیغام پوری قوم تک پہنچ جائے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے معاہدہ طے پانے کے بعد فرعون نے لوگوں کو اکٹھا کرنے کے لیے اپنی حکومت کے تمام وسائل جھونک دیے۔ مؤرخین نے لکھا ہے کہ قومی دن کے موقع پر ملک کے دارالحکومت مصر میں بہت بڑا اجتماع ہوا کرتا تھا۔ جس میں مختلف قسم کے پروگرام پیش کیے جاتے اور پورے ملک میں جشن کا عالم ہوتا تھا۔ لیکن اس مرتبہ حکومت نے بہت بڑے اجتماع کو اپنے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ بنالیا اور ایسا اجتماع منعقد کیا جس کی مثال مصر کی تاریخ میں پہلے سے موجود نہ تھی جب کثیر تعداد میں لوگ جمع ہوگئے۔ تو فرعون پورے شان و شکوہ اور دبدبہ سے انتظامیہ اور ملک کے جادوگروں کے ساتھ اجتماع میں نمودار ہوا۔ لوگوں کے جذبات انتہا پر تھے۔ ایک طرف جادوگروں کے گروہ اور دوسری طرف صرف حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے بھائی ہارون (علیہ السلام) تھے۔ مگر تنہائی اور کسمپرسی کے باوجود حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت ہارون (علیہ السلام) بڑے اعتماد کے ساتھ تشریف فرما تھے۔ جونہی ماحول قدرے پر سکون ہوا تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے جادوگروں اور حکمرانوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ تم پر افسوس کہ تم اللہ تعالیٰ پر کذب بیانی کرتے ہو۔ اگر تم اپنی ضد پر قائم رہے تو وہ تمھیں تباہ و برباد کر دے گا۔ یاد رکھو جس نے اللہ تعالیٰ پر جھوٹ بولا وہ ناکام ہوا۔ ملک بھر کے جادوگر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے بھائی کے خلاف صف آراء ہوئے تو انھوں نے بڑے غرور میں آکر موسیٰ (علیہ السلام) سے کہا کہ تم لاٹھی پھینکتے ہو یا ہم اپنی چیزیں پھینکیں؟ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے بڑے اعتماد اور پُر وقار لہجے میں فرمایا کہ تمھیں ہی پہل کرنا چاہیے۔ جب انھوں نے اپنی رسیاں اور لاٹھیاں میدان میں پھینکیں تو موسیٰ (علیہ السلام) کو یوں لگا کہ جیسے رسیاں اور لاٹھیاں چھوٹے بڑے سانپ بن کرادھر ادھر دوڑ رہے ہیں۔ رسیاں اور لاٹھیاں میدان میں پھینکتے ہی جادوگروں نے چلّا چلّاکر فرعون زندہ باد کے نعرے لگاتے ہوئے کہا کہ آج ہم ہی کامیاب ٹھہرئیں گے۔ (الشعراء : ٤٤) جادوگروں کا مظاہرہ اس قدر زبردست تھا کہ موسیٰ (علیہ السلام) بھی خوف زدہ ہوگئے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے وحی فرمائی کہ اے موسیٰ (علیہ السلام) ڈرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ اللہ کے رسول ڈرا نہیں کرتے۔ ( القصص : ٣١) جادوگروں کے مقابلے میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنا عصا زمین پر پھینکا تو وہ رسیوں، بڑے بڑے بانسوں اور لاٹھیوں کو کھا گیا۔ جونہی رسیاں اور لاٹھیاں ختم ہوئیں تو جادوگر یہ کہتے ہوئے سجدہ میں گر گئے کہ ہم موسیٰ اور ہارون ( علیہ السلام) کے رب پر ایمان لاتے ہیں۔ اگر وہ اس موقعہ پر اپنے رب یا رب العالمین کا لفظ استعمال کرتے تو فرعون لوگوں کو یہ کہہ کر دھوکہ دے سکتا تھا کہ جادوگر مجھے ہی رب العالمین سمجھ کر سجدہ کر رہے ہیں۔ لیکن جادوگروں نے بڑی بصیرت سے کام لیتے ہوئے یہ کہہ کر اپنے ایمان کا اعلان کیا کہ ہم حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون ( علیہ السلام) کے رب پر ایمان لاتے ہیں تاکہ کسی قسم کا شبہ باقی نہ رہے۔ یہی سچے اور خالص ایمان کی نشانی ہے کہ اس میں کسی قسم کی کھوٹ اور شرک کی آمیزش نہیں ہوتی۔ جادوگر اس لیے بھی اللہ کے حضور سجدہ ریز ہوئے تاکہ دیکھنے والوں کو معلوم ہو کہ جادوگروں نے اپنی شکست تسلیم کرلی ہے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا معجزہ اور اپنی ناکامی دیکھ کر جادوگر سجدہ میں گِر گئے۔ جس کے لئے گرا دینے کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ گویا کہ جادوگر اس قدر مغلوب ہوئے کہ بے ساختہ سجدہ میں گِر پڑے۔ (الاعراف : ١٢٠) جونہی فرعون نے دیکھا کہ جادوگر حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون ( علیہ السلام) کے رب پر ایمان لا چکے ہیں تو اس نے اپنی خفت مٹانے اور عوام پر کنٹرول قائم رکھنے کے لیے یہ اعلان کیا کہ تم میری اجازت کے بغیر ایمان لائے ہو جو میرے خلاف بہت بڑی سازش ہے۔ یقیناً موسیٰ تمھارا بڑا استاد ہے جس نے تمھیں جادو سکھلایا ہے۔ میں اس جرم کے بدلے تمھارے مخالف سمت پر ہاتھ پاؤں کاٹ ڈالوں گا اور کھجور کے تنوں پر تمھیں پھانسی دی جائے گی۔ تمھیں پوری طرح معلوم ہوجائے گا کس کا عذاب سخت اور دیر پا ہے۔ (طٰہٰ: ٧١) تفسیر بالقرآن فرعون اور اس کے حواریوں کا انجام : ١۔ ہم نے ان کو ان کے گناہوں کی وجہ سے ہلاک کردیا اور آل فرعون کو غرق کردیا۔ (الاعراف : ٦٤) ٢۔ ہم نے فرعونیوں سے انتقام لیا اور انہیں دریا برد کردیا۔ (الزخرف : ٥٥) ٣۔ ہم نے فرعون اور اس کے ساتھیوں کو غرق کردیا۔ (بنی اسرائیل : ١٠٣) ٤۔ ہم نے موسیٰ اور اس کے ساتھیوں کو نجات دی اور آل فرعون کو غرق کردیا۔ (الشعراء : ٦٦) ٥۔ ہم نے انہیں اور ان کے لشکروں کو پکڑ کر دریا میں پھینک دیا۔ (الذاریات : ٤٠) القمر
42 القمر
43 فہم القرآن ربط کلام : قوم عاد، قوم ثمود، قوم لوط اور آل فرعون کا انجام ذکر کرنے کے بعد اہل مکہ کو زبردست انتباہ اور ایک سوال۔ آل فرعون کے بارے میں ارشاد فرمایا ہے کہ جب انہوں نے ہماری تمام نشانیوں اور ارشادات کو جھٹلادیا تو ہم نے انہیں اس طرح پکڑا جس طرح ایک طاقت ور اور غالب قوت والا پکڑا کرتا ہے۔ اے مسلمانو! کیا تمہارا مقابلہ کرنے والے کفار قوم عاد، قوم ثمود، قوم لوط اور آل فرعون سے بہتر اور زیادہ طاقت ور ہیں ؟ یا پھر پہلی کتابوں میں ان کے لیے کوئی معافی نامہ لکھ دیا گیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ہم بڑی مضبوط جماعت ہیں۔ انہیں کان کھول کر سن لینا چاہیے کہ وہ وقت دور نہیں کہ جب انہیں شکست فاش ہوگی اور یہ پیٹھ پھیر کر بھاگ جائیں گے۔ قرآن مجید نے اہل مکہ کو یہ وارننگ اس وقت دی جب کوئی شخص یہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ اہل مکہ کا اس قدر برا انجام ہوگا کیونکہ یہ سورت نبوت کے ابتدائی سالوں میں نازل ہوئی اور اس وقت مسلمانوں کی کسم پرسی کا حال یہ تھا کہ انہیں سر عام پیٹا جاتا تھا یہاں تک کہ کفار کے مظالم سے تنگ آکر کچھ لوگ حبشہ کی طرف ہجرت کرگئے تھے۔ حضرت عبداللہ بن عمر (رض) اور حضرت سعد (رض) اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں کہ جب یہ آیات نازل ہوئیں تو ہماری سجھ میں یہ بات نہ آئی کہ ان آیات میں کون سی جماعت مراد ہے کہ جس کا برا انجام ہوگا۔ لیکن ان آیات کے نزول کے سات سال بعد بدر کے میدان میں یہ حقیقت کھل گئی کہ ان آیات کے مخاطب یہی لوگ تھے جن کا انجام ہمارے سامنے آچکا ہے اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بدر کے میدان میں انہی آیات کی تلاوت کی تھی۔ (تفسیرقرطبی، سورۃ القمر : ٤٣ تا ٤٦) مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے کسی کافر کو اپنی پکڑ سے مستثنیٰ قرار نہیں دیا۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے بڑی بڑی اقوام اور اہل مکہ کو ذلیل کردیا۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ کے عذاب کے سامنے بڑی سے بڑی جماعت اور قوت کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔ القمر
44 القمر
45 القمر
46 فہم القرآن ربط کلام : کفار کو دنیا میں عذاب دینے کے ساتھ آخرت میں بھی عذاب دیا جائے گا۔ اہل مکہ کو جو انتباہ کیا گیا ہے وہ حرف بہ حرف پورا ہوا اور ان کی جمعیت اور قوت کو تہس نہس کردیا گیا۔ اس کے باوجود فرمایا کہ انہیں اصل سزا قیامت کے دن دی جائے گی جس کا ان کے ساتھ وعدہ کیا گیا ہے۔ وہ دن بذات خود بڑا سخت اور خوفناک ہوگا۔ یقیناً مجرم کھلی گمراہی اور پاگل پن میں مبتلا ہیں۔ اس دن ان کو ان کے چہروں کے بل جہنم کی آگ میں دھکیلا جائے گا اور حکم ہوگا کہ اب جہنم کی دہکتی ہوئی آگ کا مزہ چکھو۔ اللہ تعالیٰ نے قیامت کا دن اس لیے مقرر کیا ہے تاکہ نیک لوگوں کو ان کی نیکی کی پوری پوری جزا دے۔ مجرموں کے لیے اس لیے جہنم تیارکی گئی ہے تاکہ انہیں ٹھیک ٹھیک سزادی جائے۔ دنیا میں ایک قاتل اور ظالم کے لیے زیادہ سے زیادہ سزا پھانسی ہو سکتی ہے۔ پھانسی لگنے والا شخص ایک ہی مقتول کے بدلے میں پھانسی کی سزا پاتا ہے۔ اگر وہ کئی مقتولوں کا قاتل ہے تو اس کی سزا اسے نہیں ملتی۔ قیامت کے دن مجرم کوٹھیک ٹھیک سزادینے کے لیے دو کام کیے جائیں گے۔ ایک سزا یہ ہوگی کہ کافر اور مشرک کو جہنم میں موت نہیں آئے گی اور دوسرا کام یہ کیا جائے گا کہ اس کے جسم کی کھال باربار بدلی جائے گی۔ تاکہ وہ اپنے جرائم کی ٹھیک ٹھیک سزا پائے۔ اس سزا کے ساتھ فرشتے جھڑکیاں دیتے ہوئے کہیں گے کہ اب اپنی نافرمانیوں کا مزہ چکھو۔ (اِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا بِاٰیٰتِنَا سَوْفَ نُصْلِیْہِمْ نَارًا کُلَّمَا نَضِجَتْ جُلُوْدُہُمْ بَدَّلْنٰہُمْ جُلُوْدًاغَیْرَہَا لِیَذُوْقُوا الْعَذَابَ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَزِیْزًا حَکِیْمًا) (النساء : ٥٦) ” جن لوگوں نے ہماری آیات کا انکار کیا یقیناً ہم انہیں آگ میں ڈالیں گے۔ جب ان کی کھالیں جل جائیں گی تو ہم ان کی جگہ دوسری کھالیں بدل دیں گے تاکہ وہ عذاب چکھتے رہیں یقیناً اللہ تعالیٰ غالب، حکمت والا ہے۔“ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ أُوقِدَ عَلَی النَّارِ أَلْفَ سَنَۃٍ حَتَّی احْمَرَّتْ ثُمَّ أُوقِدَ عَلَیْہَا أَلْفَ سَنَۃٍ حَتَّی ابْیَضَّتْ ثُمَّ أُوقِدَ عَلَیْہَا أَلْفَ سَنَۃٍ حَتَّی اسْوَدَّتْ فَہِیَ سَوْدَاءُ مُظْلِمَۃٌ) (رواہ الترمذی : کتاب صفۃ جہنم) ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ایک ہزار سال تک دوزخ کی آگ کو بھڑکا یا گیا یہاں تک کہ وہ سرخ ہوگئی پھر اس کو ایک ہزار سال تک بھڑکا یا گیا یہاں تک کہ وہ سفید ہوگئی پھر اس کو ایک ہزار سال تک بھڑکایا گیا حتی کہ وہ سیاہ ہوگئی اب اس کا رنگ سیاہ ہے۔“ مسائل ١۔ قیامت کا دن بڑا سخت اور خوفناک ہوگا۔ ٢۔ مجرم اپنے جرائم میں اندھا ہوجاتا ہے۔ ٣۔ قیامت کے دن مجرموں کو پوری پوری سزا دی جائے گی۔ ٤۔ قیامت کے دن مجرموں کو ان کے چہروں کے بل جہنم کی دہکتی ہوئی آگ میں گھسیٹا جائے گا۔ ٥۔ جہنم کے فرشتے جہنمیوں کو جھڑکیاں دیتے ہوئے کہیں گے کہ اب ہمیشہ کے لیے جہنم کے عذاب کا مزہ چکھتے رہو۔ تفسیر بالقرآن جہنم میں مختلف قسم کی سزائیں : ١۔ اس دن ہم ان کا مال جہنم کی آگ میں گرم کریں گے اس کے ساتھ ان کی پیشانیوں، کروٹوں اور پیٹھوں کو داغاجائے گا۔ (التوبہ : ٣٥) ٢۔ ان کا ٹھکانہ جہنم ہے جب آگ ہلکی ہونے لگے گی تو ہم اسے مزید بھڑکا دیں گے۔ (بنی اسرائیل : ٩٧) ٣۔ جہنم میں جہنمی کھولتا ہوا پانی پئیں گے اور اس طرح پئیں گے جس طرح پیا سا اونٹ پیتا ہے۔ (الواقعہ : ٤ ٥ تا ٥٥) ٤۔ ان کے پینے کے لیے کھولتا ہوا پانی اور انہیں درد ناک عذاب ہوگا۔ (الانعام : ٧٠) ٥۔ کفار کے لئے اُبلتا ہوا پانی اور دردناک عذاب ہوگا۔ (یونس : ٤) ٦۔ ہم نے ظالموں کے لیے آگ تیار کی ہے جو انہیں گھیرے ہوئے ہوگی اور انہیں پانی کی جگہ پگھلا ہو اتانبا دیا جائے گا جو ان کے چہروں کو جلا دے گا۔ (الکہف : ٢٩) القمر
47 القمر
48 القمر
49 فہم القرآن ربط کلام : کفار کا دنیا اور آخرت میں انجام ذکر کرنے کے بعد اس بات کی وضاحت کی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کا ایک اندازہ اور وقت مقرر کر رکھا ہے۔ کوئی چیز اپنے اندازے اور وقت سے آگے پیچھے نہیں ہوسکتی۔ اگر ان لوگوں کی ابھی تک گرفت نہیں ہوئی تو اس کا بھی وقت مقرر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انبیائے کرام (علیہ السلام) کو ان کی امتوں کی طرف بھیجا اور ہر نبی نے اپنی امت کو نیکی کرنے کا حکم دیا اور قیامت کے دن اس کے صلہ کی خوشخبری سنائی۔ نیکی کا حکم دینے کے ساتھ انبیائے کرام (علیہ السلام) نے لوگوں کو برے اعمال سے منع کیا اور اس کے انجام سے ڈرایا۔ ہر نبی کے مخاطبین کی اکثریت نے قیامت اور اس کی ہولناکیوں کا مذاق اڑایا اور ان سے عذاب اور قیامت لانے کا مطالبہ کیا اور یہی روّیہ اور مطالبہ اہل مکہ کا تھا۔ جس پر یہ فرمان نازل ہوا کہ ہم نے ہر چیز کو اس کے اندازے کے مطابق بنایا ہے اور اس کا ایک وقت مقرر کر رکھا ہے۔ جو کسی کی نافرمانی اور اس کے اصرار پر تبدیل نہیں ہوتا۔ جب اس کا وقت آتا ہے تو پھر ہمارا حکم آنکھ جھپکنے سے پہلے پورا ہوجاتا ہے۔ ہم ان جیسے مجرموں کو پہلے بھی ہلاک کرچکے ہیں۔ تو کیا کوئی ہے جو اس سے نصیحت حاصل کرے ؟ جو کچھ یہ لوگ کرتے ہیں وہ سب کا سب ان کے اعمال ناموں میں درج ہے۔ کیونکہ ہر چھوٹا اور بڑا کام لکھ لیا جاتا ہے۔ گویا کہ جو کچھ یہ کررہے ہیں وہ سب کا سب درج کیا جارہا ہے۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ انسان نے جو کچھ کرنا ہے اللہ تعالیٰ نے وہ پہلے سے لکھ رکھا ہے۔ اس بات کو حدیث کی زبان میں تقدیر کہا گیا ہے جس کی تشریح نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس طرح فرمائی ہے۔ (وَاِِنَّ عَلَیْکُمْ لَحٰفِظِینَ کِرَامًا کَاتِبِیْنَ یَعْلَمُوْنَ مَا تَفْعَلُوْنَ اِِنَّ الْاَبْرَارَ لَفِیْ نَعِیْمٍ وَاِِنَّ الْفُجَّارَ لَفِیْ جَحِیْمٍ) (الانفطار : ١٠ تا ١٤) ” بے شک تم پر نگہبان فرشتے مقرر ہیں۔ ایسے معزز کا تب۔ جو تمہارے ہر کیے کو جانتے ہیں۔ یقیناً نیک لوگ نعمتوں میں ہوں گے اور بے شک بدکار لوگ جہنم میں جائیں گے۔ جزا کے دن اس میں داخل ہوں گے۔“ (عَنْ عَبْدِاللّٰہِ (رض) قَالَ حَدَّثَنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وَھُوَ الصَّادِقُ الْمَصْدُوْقُ قَالَ إِنَّ أَحَدَکُمْ یُجْمَعُ خَلْقُہٗ فِیْ بَطْنِ أُمِّہٖ أَرْبَعِیْنَ یَوْمًانُطْفَۃً ثُمَّ یَکُوْنُ عَلَقَۃً مِثْلَ ذٰلِکَ ثُمَّ یَکُوْنُ مُضْغَۃً مِثْلَ ذٰلِکَ ثُمَّ یَبْعَثُ اللّٰہُ مَلَکًا فَیُؤْمَرُ بِأَرْبَعِ کَلِمَاتٍ وَیُقَالُ لَہٗ أُکْتُبْ عَمَلَہٗ وَرِزْقَہٗ وَأَجَلَہٗ وَشَقِیٌّ أَوْ سَعِیْدٌ ثُمَّ یُنْفَخُ فِیْہِ الرُّوْحُ۔۔) (رواہ البخاری : کتاب بدء الخلق، باب ذکر الملائکۃ) ” حضرت عبداللہ (رض) بیان کرتے ہیں صادق و مصدوق رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ تم میں سے ہر کوئی اپنی ماں کے پیٹ میں چالیس دن ٹھہرتا ہے جو جما ہوا خون بن جاتا ہے پھر چالیس دن بعد گوشت کا لوتھڑا بنتا ہے اس کے بعد اللہ تعالیٰ فرشتہ بھیجتا ہے جو اس آدمی کا عمل، رزق، موت اور نیک وبد ہونا لکھ لیتا ہے پھر اس میں روح پھونک دی جاتی ہے۔۔۔“ ” حضرت عبداللہ (رض) بیان کرتے ہیں صادق و مصدوق رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ تم میں سے ہر کوئی اپنی ماں کے پیٹ میں چالیس دن ٹھہرتا ہے جو جما ہوا خون بن جاتا ہے پھر چالیس دن بعد گوشت کا لوتھڑا بن جاتا ہے اس کے بعد اللہ تعالیٰ فرشتہ بھیجتے ہیں اسے آدمی کا عمل، رزق، موت اور نیک وبد ہونا لکھنے کا حکم دیتے ہیں پھر اس میں روح پھونک دی جاتی ہے۔ تم میں ایک بندہ عمل کرتارہتا ہے حتی کہ اس کے اور جنت کے درمیان ایک ہاتھ کا فاصلہ رہ جاتا ہے تو اس کی تقدیر غالب آجاتی ہے وہ جہنمیوں والے کام شروع کردیتا ہے۔ ایسے ہی آدمی برے عمل کرتا رہتا ہے حتٰی کہ اس کے اور جہنم کے درمیان ایک ہاتھ کا فاصلہ رہ جاتا ہے تو وہ جنتیوں والے اعمال شروع کردیتا ہے۔“ (رواہ البخاری : باب ذکر الملائکۃ) مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ کا حکم آنکھ جھپکنے سے پہلے نافذ ہوجاتا ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ اہل مکہ جیسے مجرموں کو پہلے بھی ہلاک کرچکا ہے۔ ٣۔ اگر کوئی سبق حاصل کرنا چاہے تو پہلی قوموں کے انجام میں لوگوں میں عبرت موجود ہے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ اپنا حکم نافذ کرنے پر پوری طرح قادر ہے۔ القمر
50 القمر
51 القمر
52 القمر
53 القمر
54 فہم القرآن ربط کلام : مجرموں کا انجام ذکر کرنے کے بعد متقین کا انعام اور مقام ذکر کیا جاتا ہے۔ متقی کی جمع متقین ہے۔ متقی کا معنٰی ہے اللہ سے ڈرنے اور گناہوں سے بچنے والا۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کی ابتدا میں یہ ارشاد فرمایا ہے کہ اس کتاب میں کوئی شک نہیں۔ یہ ان لوگوں کے لیے ہدایت ہے جو تقویٰ اختیار کرتے ہیں اور تقویٰ اختیار کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ جہنم میں داخل فرمائے گا جس میں نہریں جاری ہوں گی۔ متقین زمین و آسمان کے مالک اور شہنشاہ مطلق کے پاس نہایت ہی باعزت مقام پر ٹھہرائے جائیں گے۔ ” حضرت عمر بن خطاب (رض) نے حضرت ابی بن کعب (رض) سے تقویٰ کے متعلق سوال کیا۔ کعب (رض) نے کہا کہ کیا آپ کبھی خار دار راستے پر نہیں گزرے؟ حضرت عمر (رض) نے جواب دیا کہ کیوں نہیں حضرت ابی (رض) کہنے لگے تو اس وقت آپ کیا کرتے ہیں ؟ حضرت عمر (رض) کہنے لگے میں کپڑے سمیٹ کر اس راستہ سے گزرتا ہوں۔ حضرت ابی (رض) نے فرمایا یہی تقویٰ ہے۔“ (تفسیر ابن کثیر : البقرہ، ٢) مسائل ١۔ متقین جنت میں داخل کیے جائیں گے جس میں نہریں جاری ہوں گی۔ ٢۔ متقین زمین و آسمانوں کے مالک اور شہنشاہ مطلق کے پاس باعزت مقام میں ٹھہرائے جائیں گے۔ تفسیر بالقرآن متقین کا انجام : ١۔ اللہ تعالیٰ متقین کے ساتھ ہے۔ (النحل : ١٢٨) ٢۔ متقین امن و سلامتی والے گھر میں ہوں گے۔ (الدخان : ٥١) ٣۔ متقین کے لیے دنیا میں بھی بھلائی ہے اور آخرت ان کے لیے زیادہ بہتر ہے۔ (النحل : ٣٠) ٤۔ اللہ سے ڈرنے والوں کے لیے جنت ہے جس کے نیچے نہریں جاری ہیں۔ (آل عمران : ١٩٨) ٥۔ اللہ تعالیٰ متقین کو قیامت کے دن جماعتوں کی صورت وہ جنت میں داخل کرے گا۔ (الزمر : ٧٣) ٦۔ ایمان لانے اور تقویٰ اختیار کرنے والوں کے لیے دنیا اور آخرت میں خوشخبری ہے۔ (یونس : ٦٣۔ ٦٤) القمر
55 القمر
0 سورۃ الرّحمان کا تعارف سورۃ الرّحمان کا نام اس کے پہلے لفظ کی بنا پر رکھا گیا ہے۔ اس کے تین رکوع اور اٹھہتر (٧٨) آیات ہیں۔ یہ سورت مکہ معظمہ میں نازل ہوئی۔ قرآن مجید کی یہ واحد سورت ہے جس میں بار بار جنوں اور انسانوں کو بیک وقت مخاطب کیا گیا ہے۔ اس کی ابتداء اللہ تعالیٰ کے محبوب نام الرحمان سے کی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ اس قدر الرّحمان ہے کہ اس نے لوگوں کی راہنمائی کے لیے قرآن مجید جیسی عظیم کتاب نازل فرمائی ہے۔ اسی نے انسان کو پیدا فرمایا اور وہی انسان کو بولنے کا طریقہ اور سلیقہ سکھلاتا ہے۔ وہ اس قدر بلندوبالا ہے کہ اس کے سامنے چاند اور سورج، ستارے اور درخت سجدہ ریز ہوتے ہیں۔ اس کی قدرت کا عالم یہ ہے کہ اس نے آسمان کو بغیر کسی سہارے کے فضاء میں کھڑا کر رکھا ہے۔ اس نے ایک میزان نازل کیا ہے اور جن وانس کو حکم فرمایا ہے کہ وہ اس میزان کے تقاضوں کا خیال رکھیں۔ اس سورت میں اکیس مرتبہ یہ آیت مبارکہ آئی ہے۔” کہ اے جن و انسانوں تم اپنے رب کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے۔“ اکثر مفسرین نے ” اٰلآءِ“ کا معنی نعمت کیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس سورت میں یہ لفظ کئی بار نعمت کے معنوں میں استعمال ہوا ہے لیکن امام رازی اور امام ابن جریر نے ” اٰلآءِ“ کا معنی قدرت بھی کیا ہے اور عرب شعرا نے ” اٰلآءِ“ کے لفظ کو صفت اور خوبی کے طور پر بھی استعمال کیا کرتے تھے۔ ہم الملوک وابناء الملوک لہم فضلٌ علی الناس فی الاٰکَاء والنِعَم وہ بادشاہ اور شاہزادے ہیں انہیں لوگوں پر اپنی خوبیوں اور نعمتوں کی وجہ سے برتریہے الحزم والعزم کانا من طبائعہٖ ما کل اٰلَاۂٖ یا قوم احصیہا حَزم اور عزم اس کے اوصاف میں سے تھے لوگو! میں اس کی تمام خوبیاں شمار نہیں کر تا اللہ تعالیٰ کی کس کس قدرت، نعمت اور خوبی کو جھٹلاؤ گے۔ آج تم اس کی نعمتوں کی ناشکری کرتے ہو اور اس کے اوصاف حمیدہ کا انکار کرتے ہو اور اس کی بے پناہ قدرتوں کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے لیکن تمہیں یاد رکھنا چاہیے کہ ایک وقت ضرور آئے گا کہ جب تم سے یہ نہیں پوچھا جائے گا کہ تم نے فلاں فلاں گناہ کیوں کیا تھا۔ کیونکہ اس سے پہلے حساب و کتاب کے بارے میں ہر قسم کی حجت پوری کردی جائے گی۔ مجرم اپنے چہروں سے پہچانے جائیں گے اور انہیں پیشانی کے بالوں اور پاؤں سے پکڑ کر جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔ جہنم میں پھینک کر کہا جائے گا کہ یہ وہی جہنم ہے جس کو تم جھٹلایا کرتے تھے۔ جن لوگوں نے اللہ تعالیٰ کی قدرتوں کا اعتراف کیا ہے اور اس سے ڈر کر زندگی بسر کی انہیں ایسی جنتوں میں داخل کیا جائے گا کہ جس میں انہیں بڑی بڑی نعمتوں کے ساتھ نہایت پاکباز اور خوبصورت حوریں دی جائیں گی اور وہ سبز قالینوں اور نادر قسم کے فرشوں پر جلوہ افروز ہوں گے۔ یہ انعامات انہیں اس لیے عطاء کیے جائیں گے کہ آپ کا رب بڑی برکت ولا اور بڑے جمال و کمال کا مالک ہے۔ الرحمن
1 فہم القرآن ربط سورت : جنتیوں کا جنت میں اعلیٰ مقام پانا رب رحمن کے رحم کا نتیجہ ہوگا کیونکہ اس کی مہربانی کے بغیر کوئی شخص جنت میں داخل نہیں ہوسکتا۔ سورۃ القمر کے بعد سورۃ الرّحمان کو اس لیے یہاں رکھا گیا کیونکہ اس کی ابتدا ہی الرّحمن کے عظیم اور شفیق نام سے ہوتی ہے۔ الرحمن کی مہربانی کے بغیر انسان کوئی اچھا کام سرانجام نہیں دے سکتا اور نہ ہی جنت میں داخل ہوسکتا ہے۔ ذات کبریا کے ذاتی نام ” اللہ“ کے بعد صفاتی اسمائے گرامی میں سب سے زیادہ استعمال ہونے والے نام الرحمن اور الرحیم ہیں۔ قرآن مجید میں یہی نام سب سے زیادہ پائے جاتے ہیں۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشاد کے مطابق ” اللہ“ کی رحمت اس قدر وسیع وعریض ہے جیسے بحر بیکراں۔ کائنات کے تمام جن وانس کی حاجات کو پورا کردیا جائے تو بھی ” اللہ“ کی رحمت کے سمندر میں سوئی ڈبو کر باہر نکالنے کے برابربھی کمی واقع نہیں ہوتی۔ (رواہ مسلم : کتاب البر والصلۃ و الآداب، باب تحریم الظلم) اہل مکہ کی غالب اکثریت الرّحمن کے لفظ سے ناواقف تھی۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جب اللہ تعالیٰ کو الرّحمن اور الرّحیم کے نام سے پکارنا شروع کیا اور لوگوں کو اس مشفق نام سے متعارف کروایا تو اہل مکہ نے کہا۔ ہمیں کہا جاتا ہے صرف ایک ” اللہ“ کو پکارو اور خود دو ” الٰہ“ بنا رکھے ہیں لہٰذا ہم کسی رحمن کو نہیں جانتے کہ وہ کون ہوتا ہے۔ کفار کی یا وہ گوئی کا پہلا جواب یہ دیا گیا۔ ” وہی ہے جس نے چھ دنوں میں زمین و آسمانوں اور تمام چیزوں کو پیدا کیا جو آسمان و زمین کے درمیان ہیں پھر خود عرش پر جلوہ افروز ہوا۔ الرحمن کی شان جاننے والے سے پوچھو۔ جب ان لوگوں سے کہا جاتا ہے کہ الرّحمان کو سجدہ کرو تو کہتے ہیں الرّحمان کون ہوتا ہے ؟ کہتے ہیں کہ کیا جسے تو کہہ اسی کو ہم سجدہ کریں؟ الرّحمان کی طرف بلایاجائے تو ان کی نفرت میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے۔“ (الفرقان : ٥٩، ٦٠) اللہ تعالیٰ نے اس سورۃ مبارکہ میں اپنی بڑی بڑی نعمتوں کا تذکرہ فرمایا ہے اور باربار انسان کو اس بات کا احساس دلایا ہے کہ اے انسان! تو میری کس کس نعمت کی تکذیب اور ناشکری کرے گا۔” اللہ“ کے الرحمن ہونے کا تقاضا ہے کہ اس نے انبیائے کرام (علیہ السلام) کو مبعوث فرمایا تاکہ لوگوں کی بروقت اور صحیح راہنمائی ہوسکے۔ لوگوں کی ہدایت کا آخری انتظام قرآن مجید کی صورت میں کیا گیا ہے، قرآن مجید ایسی جامع اور عظیم کتاب ہے جو افراد اور اقوام کی کامل اور اکمل راہنمائی کرتی ہے۔ قرآن مجید کے ذریعے ہی انسان اپنے رب کو پہنچاتا ہے اور زندگی گزارنے کا صحیح طریقہ سیکھ سکتا ہے۔ ” عَلَّمَہٗ القرآنَ“ کے الفاظ استعمال فرما کر بالواسطہ طور پر کفار کے اس الزام کی نفی کی گئی ہے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کسی اور سے سیکھ کر یا اپنی طرف سے قرآن نہیں بنالیتے یہ تو رب رحمن کی طرف سے نازل کیا گیا ہے۔ ” اللہ“ کی رحمت ہر چیز پر غالب ہے : (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ (رض) أَنَّ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ لَمَّا قَضَی اللَّہُ الْخَلْقَ کَتَبَ عِنْدَہُ فَوْقَ عَرْشِہِ، إِنَّ رَحْمَتِی سَبَقَتْ غَضَبِی) (رواہ البخاری : باب قَوْلِہِ تَعَالَی (وَلَقَدْ سَبَقَتْ کَلِمَتُنَا لِعِبَادِنَا الْمُرْسَلِینَ) ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب اللہ نے مخلوق کو پیدا کرنے کا فیصلہ فرمایا تو اس وقت اللہ کے عرش پر لکھا ہوا تھا بے شک میری رحمت میرے غضب سے سبقت لے جا چکی ہے۔“ قرآن کا لغوی معنٰی ہے بار بار پڑھی جانے والی کتاب کیونکہ قرآن مجید کو بار بار تلاوت کیا جاتا ہے اس لیے اس کو قرآن کہتے ہیں۔ ” حضرت عمربن خطاب (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اس کتاب کے ذریعہ اللہ تعالیٰ بہت سی قوموں کو جو اس پر عمل کریں گی بام عروج پر پہنچائے گا اور بہت سی قوموں کو جو اس کو چھوڑ دیں گی انہیں ذلیل کر دے گا۔“ (رواہ مسلم : کتاب الصلوٰۃ، باب فضل من یقوم بالقراٰن ) مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق پر نہایت ہی مہربان ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو قرآن کی تعلیم سے سرفراز فرمایا۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کے ذریعے لوگوں کی راہنمائی فرمائی۔ تفسیر بالقرآن قرآن مجید کی عظمت و فضیلت کی ایک جھلک : ١۔ قرآن ایسی کتاب ہے جس میں کسی قسم کا کوئی شک نہیں ہے۔ ( البقرۃ: ٢) ٢۔ قرآن مجید کو اللہ نے نازل فرمایا ہے اور وہی اس کا محافظ ہے۔ (الحجر : ٩) ٣۔ جن و انس مل کر بھی اس قرآن کی مثل نہیں لا سکتے۔ (بنی اسرائیل : ٨٨) ٤۔ قرآن مجید میں کوئی کجی نہیں ہے۔ (الکہف : ١) (بنی اسرائیل : ٨٢) ٥۔ قرآن مجید لوگوں کے لیے باعث نصیحت اور مومنوں کے لیے باعث ہدایت اور رحمت ہے۔ (یونس : ٥٧) الرحمن
2 الرحمن
3 فہم القرآن ربط کلام : الرّحمن نے ہی انسان کو پیدا کیا اور اسی نے اسے بولنا سکھایا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو صرف پیدا ہی نہیں کیا بلکہ پیدا کرنے سے پہلے اس کے لیے آسمان کو چھت بنایا اور زمین کو فرش بنا کر اس کی ضروریات کا بندوبست فرمایا اور پھر اسے بولنے کا سلیقہ سمجھایا۔ قرآن مجید نے انسان کی تخلیق کا بڑی تفصیل کے ساتھ ذکر کیا ہے۔ پہلے الانسان حضرت آدم (علیہ السلام) ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے مختلف مراحل سے گزار کر نہ صرف کامل اور اکمل انسان بنایا بلکہ مسجود ملائکہ کا اعزاز دے کر زمین پر خلافت کے منصب پر فائز کیا اور چار قسمیں اٹھا کر ارشاد فرمایا کہ ہم نے انسان کو بہترین شکل و صورت کے ساتھ پیدا فرمایا ہے۔ (التین : ١ تا ٥) جہاں تک انسان کی قوت گویائی کا تعلق ہے اللہ تعالیٰ نے نہ صرف اسے بولنا سکھلایا ہے بلکہ اس کے دماغ میں ایسی صلاحیتیں رکھ دی ہیں کہ جن کی بنیاد پر ہر قسم کی معلومات اخذ کرتا ہے اور پھر اس کی زبان اسے الفاظ کا جامہ پہناتی ہے۔ غور فرمائیں کہ زمین اور آب وہوا یہاں تک کہ خوراک ایک ہوتی ہے لیکن لوگوں کی قدوقامت، رنگت اور زبانوں میں اتنا فرق ہوتا ہے کہ ایک شخص دوسرے کی زبان نہیں سمجھ سکتا ہے۔ ایک ہی ملک میں رہنے والے لاکھوں، کروڑوں انسان ایک ہی جیسی زبان (Language) اور آب وہوا رکھتے ہیں مگر بولیاں الگ الگ ہیں۔ اب تک بین الاقوامی ریکارڈ کے مطابق دنیا میں تقریباً 6900 زبانیں بولی جاتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے جن لوگوں کو براہ راست علم سکھلایا۔ ان میں سرِفہرست حضرت آدم (علیہ السلام) ہیں اور اس کے بعد انبیائے کرام (علیہ السلام) کی مقدس جماعت ہے جنہیں اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعے علم سے سرفراز فرمایا۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو بہترین شکل و صورت میں پیدا فرمایا ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے ہی انسان کو تعلیم سے آراستہ کیا اور اسی نے انسان کو قوت گویائی عطا فرمائی۔ تفسیربالقرآن حضرت آدم (علیہ السلام) کی تخلیق کے مختلف مراحل : ١۔ حضرت آدم کی تخلیق کا اعلان۔ (البقرۃ: ٣٠) ٢۔ حضرت آدم (علیہ السلام) جس مٹی سے پیدا کیے گئے وہ کھڑ کھڑاتی تھی۔ (الحجر : ٢٦) (النساء : ١) ٣۔ آدم کو بجنے والی مٹی سے پیدا کیا۔ (الرحمن : ١٤) ٤۔ حضرت آدم کو مٹی سے پیدا کیا گیا۔ (نوح : ١٧) الرحمن
4 الرحمن
5 فہم القرآن ربط کلام : سورۃ الرحمن میں مرکزی مضمون ” اللہ“ کی قدرتوں اور بڑی بڑی نعمتوں کا بیان ہے، ان میں شمس وقمر بھی شامل ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے شمس و قمر کو اپنی قدرت کی عظیم نشانیوں میں شمار کیا ہے اور انہیں آپس میں اس طرح منضبط اور منسلک کیا ہے کہ سورج اپنی ڈیوٹی دے رہا ہے اور چاند اپنے کام پر لگا ہوا ہے، نہ سورج چاند کے مدار میں داخل ہوسکتا ہے اور نہ چاند سورج کی حدود میں داخل ہوتا ہے۔ (یٰس : ٣٨ تا ٤٠) یہ ایسا مضبوط نظام ہے جس میں کوئی دخل نہیں دے سکتا۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے اسے اپنی قدرت کی نشانیاں قرار دیا اور فرمایا ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ دن کو طویل کردے تو کون ہے جو رات کو لے آئے اور اگر وہ رات کو طول دے دے تو کون ہے جو سورج طلوع کرسکے ؟ (قُلْ اَرَءَ یْتُمْ اِنْ جَعَلَ اللّٰہُ عَلَیْکُمُ النَّہَارَ سَرْمَدًا اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ مَنْ اِلٰہٌ غَیْرُ اللّٰہِ یَاْتِیْکُمْ بِلَیْلٍ تَسْکُنُوْنَ فِیْہِ اَفَلَا تُبْصِرُوْنَ وَ مِنْ رَّحْمَتِہٖ جَعَلَ لَکُمُ الَّیْلَ وَ النَّہَارَ لِتَسْکُنُوْا فِیْہِ وَ لِتَبْتَغُوْا مِنْ فَضْلِہٖ وَ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ) (القصص : ٧١ تا ٧٣) ” ان سے پوچھوکہ کیا تم نے غور کیا کہ اگر اللہ تم پر قیامت تک دن چڑھائے رکھے۔ تو اللہ کے سوا کون معبود ہے جو تمہارے لیے رات لاۓ گا تاکہ تم اس میں سکون حاصل کرسکو کیا تم دیکھتے نہیں یہ اسی کی رحمت ہے کہ اس نے تمہارے لیے رات اور دن بنائے تاکہ تم رات میں سکون حاصل کرو اور دن کو اپنے رب کا فضل تلاش کرو اس لیے کہ تم شکر گزار بن جاؤ۔“ چاند کے بارے میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے ارشاد فرمایا : ” لوگ آپ سے چاند کے بارے میں سوال کرتے ہیں فرما دیجئے کہ اس سے اوقات (عبادت) اور حج کے ایام لوگوں کو معلوم ہوتے ہیں۔“ (البقرہ : ١٨٩) النجم کے مفسرین نے دو مفہوم بیان کیے ہیں۔ کچھ کا خیال ہے کہ النجم سے مراد ستارہ ہے لیکن اکثر کا خیال ہے کہ النجم کا یہاں معنٰی بیل دار پودا ہے۔ مقصد یہ ہے کہ شمس وقمر اور نجم وشجر سب اپنے رب کی تسبیح پڑھتے اور اس کی تابعداری کرتے ہیں۔ شمس و قمر نہ صرف اپنے مقررہ حساب کے مطابق چل رہے ہیں بلکہ شمس و قمر اور نجم و شجر اپنے رب کو سجدہ بھی کرتے ہیں جس طرح اللہ تعالیٰ نے ان کے سجدے کا طریقہ مقرر فرمایا ہے، نہ صرف اپنے رب کے حضور سجدہ کرتے ہیں بلکہ اپنے انداز میں اس کی حمد وثناء بھی بیان کرتے ہیں۔ (الحج : ١٨) (عَنْ اَبِیْ ذَرٍّ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حِیْنَ غَرَبَتِ الشَّمْسُ اَتَدْرِیْ اَیْنَ تَذْھَبُ ھٰذِہٖ قُلْتُ اَللّٰہُ وَرَسُوْلُہُ اَعْلَمُ قَالَ فَاِنَّھَا تَذْھََبُ حَتّٰی تَسْجُدَتَحْتَ الْعَرْشِ فَتَسْتَاْذِنُ فَیُؤْذَنُ لَھَا وَیُوْشِکُ اَنْ تَسْجُدَ وَلَاتُقْبَلُ مِنْھَا وَتَسْتَأْذِنُ فَلَا یُوؤذَنُ لَھَا وَیُقَالُ لَھَا اِرْجِعِیْ مِنْ حَیْثُ جِءْتِ فَتَطْلُعُ مِنْ مَّغْرِبِھَا فَذَالِکَ قَوْلُہُ وَالشَّمْسُ تَجْرِیْ لِمُسْتَقَرٍّلَّھَا قَالَ مُسْتَقَرُّھَا تَحْتَ الْعَرْش) (رواہ البخاری : باب وکان عرشہ علی الماء ) ” حضرت ابوذر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کیا تجھے معلوم ہے جب سورج غروب ہوتا ہے تو کہاں جاتا ہے؟ میں نے عرض کی، اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جانتے ہیں۔ آپ نے فرمایا : سورج عرش کے نیچے جاکر سجدہ کرتا اور اجازت طلب کرتا ہے۔ اسے اجازت مل جاتی ہے۔ قریب ہے کہ وہ سجدہ کرے اور اس کا سجدہ قبول نہ ہو وہ طلوع ہونے کی اجازت چاہے لیکن اس کو اجازت نہ ملے۔ اسے حکم ہو کہ جدھر سے آیا اسی طرف سے طلوع ہوجا۔ چنانچہ سورج مغرب کی طرف سے طلوع ہوگا۔ یہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے سورج اپنے مستقر کی طرف چلا جاتا ہے آپ نے فرمایا اس کا ٹھکانہ عرش کے نیچے ہے۔“ مسائل ١۔ سورج اور چاند ایک مقرر کردہ نظام کے مطابق چل رہے ہیں اور قیامت تک چلتے رہیں گے۔ ٢۔ شمس وقمر اور نجم و شجر اپنے رب کو سجدہ کرتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن ہر چیز اللہ تعالیٰ کو یاد کرتی ہے اور اس کے حضور سجدہ ریز ہوتی ہے : ١۔ یقیناً جو ملائکہ آپ کے رب کے پاس ہیں وہ ” اللہ“ کی عبادت سے تکبر نہیں کرتے، اس کی تسبیح بیان کرتے اور اس کو سجدہ کرتے ہیں۔ (الاعراف : ٢٠٦) ٢۔ ہر چیز اپنے رب کی تسبیح پڑھتی ہے۔ (الحدید : ١) ٣۔ ہر چیز اپنے رب کی تسبیح پڑھتی ہے لیکن تم ان کی تسبیح نہیں سمجھتے۔ (بنی اسرائیل : ٤٤) ٤۔ ہر چیز کا سایہ بھی اللہ کو سجدہ کرتا ہے۔ (النحل : ٤٨) ٥۔ اللہ کو زمین و آسمان کی ہر چیز سجدہ کرتی ہے۔ (النحل : ٤٩) ٦۔ ستارے اور درخت اللہ کو سجدہ کرتے ہیں۔ (الرحمن : ٦) ٧۔ اللہ کو سجدہ کرو اور اسی کی عبادت کرو۔ (النجم : ٦٢) ٨۔ اللہ کی تسبیح بیان کرو اور سجدہ کرنے والوں میں سے ہوجاؤ۔ (الحجر : ٩٨) ٩۔ اے ایمان والو ! رکوع کرو اور سجدہ کرو اور اپنے رب کی عبادت کرو۔ (الحج : ٧٧) الرحمن
6 الرحمن
7 فہم القرآن ربط کلام : آسمان بھی اللہ تعالیٰ کی عظیم قدرت کا مظہر ہے جسے اللہ تعالیٰ نے فضا میں چھت کے طور پر ٹھہرا رکھا ہے۔ ” اللہ“ کی قدرت کی نشانیوں میں آسمان بھی اس کی عظیم قدرت کا ترجمان ہے۔ یہاں اللہ تعالیٰ نے صرف ایک آسمان کا ذکر کیا ہے اس لیے کہ انسان کی نگاہیں صرف پہلے آسمان کو دیکھتی ہیں۔ قرآن مجید نے اکثر مقامات پر ایک آسمان کی بجائے سات آسمانوں کا ذکر کیا ہے اور حدیث میں ساتوں آسمانوں کی موٹائی اور ان کے درمیان فاصلے کی تفصیل موجود ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آسمان میں بے شمار ملائکہ کی ڈیوٹی لگا رکھی ہے جو اپنے اپنے کام میں مصروف رہتے ہیں۔ ملائکہ اور مخلوق کے بارے میں ارشاد ہے کہ آپ کے رب کے لشکروں کو اس کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ (المدثر : ٣١) آسمانوں کے بارے میں یہ بھی بتلایا ہے۔ ” اس نے اوپر نیچے سات آسمان بنائے، تم رحمٰن کی تخلیق میں کسی قسم کی بے ربطی نہیں پاؤ گے۔ پھر پلٹ کر دیکھو کہیں تمہیں کوئی خلل نظر آتا ہے؟ بار بار نظر دوڑاؤ تمہاری نظر تھک کر پلٹ آئے گی۔“ (الملک : ٣، ٤) آسمانوں میں سب سے زیادہ ذکر پہلے آسمان کا کیا گیا ہے۔ اس کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ ہم نے ستاروں سے اسے مزین کردیا ہے۔ (الحجر : ١٧، ١٨) ” ہم نے آسمان دنیا کو عظیم الشان چراغوں سے آراستہ کیا ہے اور انہیں شیاطین کو مار بھگانے کا ذریعہ بنایا ہے۔“ (الملک : ٥) اگلی آیات کی تفسیر میں ترازو کے بارے میں ملاحظہ فرمائیں۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے آسمان کو فضا میں بلند کر رکھا ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے ایک ترازو قائم فرمایا دیا ہے۔ تفسیر بالقرآن آسمانوں کے بارے میں قرآنی معلومات : ١۔ ” اللہ“ نے آسمانوں کو بغیر ستون کے قائم کیا ہے۔ (الرعد : ٢) ٢۔ اللہ نے آسمان کو محفوظ چھت بنایا ہے۔ (الانبیاء : ٣٢) ٣۔ آسمان اور زمین آپس میں ملے ہوئے تھے ” اللہ“ نے انہیں الگ الگ کیا۔ (الانبیاء : ٣٠) ٤۔ اللہ نے زمین کو بچھونا اور آسمان کو چھت بنایا ہے۔ (البقرۃ: ٢٢) الرحمن
8 فہم القرآن ربط کلام : آسمان کی رفعت کا ذکر کرنے کے بعد ترازو کا ذکر کیا گیا ہے کیونکہ ترازو بھی زمین سے بلند رکھا جاتا ہے۔ جس طرح آسمان زمین سے بلند ہے۔ (الحدید : ٢٥) میں فرمایا کہ میزان آسمان سے اتارا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے کائنات کا نظام اور لوگوں کے درمیان اخلاقی، سیاسی، معاشی اور ہر قسم کا عدل و انصاف قائم رکھنے کے لیے ایک میزان نازل فرمایا ہے۔ جس کے بارے میں اس کا حکم ہے کہ میزان میں تجاوز نہیں ہونا چاہیے حکم دیا کہ جب کسی چیز کا ماپ تول کرو تو اس میں عدل قائم رکھو اور ماپ، تول میں کسی صورت بھی کمی بیشی نہیں ہونی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ نے پوری کائنات کے اندر ایک نظام اور توازن قائم فرمایا ہے جس بنا پر ہر چیز اپنے اپنے دائرہ کار میں رہ کر اپنا، اپنا کام سرانجام دے رہی ہے۔ کوئی چیز اللہ تعالیٰ کے قائم کردہ توازن اور نظام سے آگے پیچھے نہیں ہوتی۔ سورج اور چاند ایک دوسرے کے مدار میں داخل نہیں ہوتے، رات اور دن اپنے نظام الاوقات سے تجاوز نہیں کرتے۔ یہاں تک اللہ تعالیٰ نے انسان کے و جود میں بھی ایک توازن قائم کردیا ہے۔ حکماء نے انسان کی جبلّت کو تین حصوں میں تقسیم کیا ہے۔ برودت، حرارت اور سوداء۔ ان میں سے کسی چیز میں کمی بیشی واقع ہوجائے تو انسان کا نظام صحت خراب ہوجاتا ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے انسان میں منفی اور مثبت قوتیں رکھی ہیں۔ انتقام اور بدلے کے درمیان، حوصلے اور بزدلی، غیرت اور حسد، مصلحت اور منافقت، حوصلہ اور بزدلی کے درمیان تھوڑا ہی فاصلہ پایا جاتا ہے اگر یہ فاصلہ ختم ہوجائے، تو میزان میں جھول واقع ہوجاتی ہے ان قوتوں میں توازن نہ رہے تو انسان اور کائنات کا پورا نظام عدم توازن کا شکار ہوجاتا ہے عدم توازن سے بچنے کے لیے حکم ہے کہ توازن قائم رکھو اسی طرح ہی بلکہ اس سے بڑھ کر ناپ تول میں بھی قسط یعنی عدل قائم رکھنا لازم ہے۔ کسی سے کوئی چیز خریدی جائے یا اس کے ہاتھ بیچی جائے تو اس میں بھی کسی قسم کی کمی بیشی نہیں ہونی چاہیے۔ قرآن مجید میں ” اَلْمِیْزَانُ“ کا لفظ ٩ دفعہ استعمال ہے۔ دو آیات میں ارشاد ہوا ہے کہ ہم نے ایک میزان نازل فرمایا ہے۔” اَلْمِیْزَانُ“ کے بارے میں اہل علم کے چار قسم کے خیالات ہیں۔ جو اپنی اپنی حیثیت کے مطابق حق پر مبنی ہیں۔1” اَلْمِیْزَانُ“ درحقیقت الکتاب کی تشریح ہے۔2 ” اَلْمِیْزَانُ“ سے مراد قرآن وسنت کی تعلیم ہے جس کے ذریعے انسان حق وباطل کے درمیان وزن اور فرق کرسکتا ہے۔3 ” اَلْمِیْزَانُ“ سے مراد عقل سلیم ہے جس کی روشنی میں آدمی حق اور ناحق کی پہچان کرتا ہے۔ 4 ” اَلْمِیْزَانُ“ سے مراد دنیا کی کسی چیز کی پیمائش یا وزن کرنے کا پیمانہ ہے جس کے ذریعے لوگ آپس میں لین دین کرتے ہیں۔ جن آیات میں ” اَلْمِیْزَانُ“ کا لفظ ہے وہ یہ ہیں۔ (الانعام : ١٥٢، الاعراف : ٨٥، ھود : ٨٤، ٨٥، الشوریٰ: ١٧، الرحمن : ٧، ٨، ٩، الحدید : ٢٥) قرآن مجید نے ہر معاملے میں عدل کرنے کا حکم دیا ہے۔ جس معاشرے میں عدل قائم نہیں ہوگا وہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجائے گا۔ ٹوٹ پھوٹ کا شکار اور عدل و انصاف سے محروم اقوام بالآخر تباہ ہوجاتی ہیں۔ ( عَنْ عَاءِشَۃَ (رض) أَنَّ قُرَیْشًا أَھَمَّھُمْ شَأْنُ الْمَرْأَۃِ الْمَخْزُوْمِیَّۃِ الَّتِیْ سَرَقَتْ فَقَالُوْا وَمَنْ یُکَلِّمُ فِیْھَا رَسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالُوْا وَمَنْ یَجْتَرِ ئُ عَلَیْہِ إِلَّا أُسَامَۃُ بْنُ زَیْدٍ حِبُّ رَسُوْلِ اللّٰہِ فَکَلَّمَہٗ أُسَامَۃُ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) أَتَشْفَعُ فِیْ حَدٍّ مِنْ حُدُوْدِ اللّٰہِ ثُمَّ قَامَ فَاخْتَطَبَ ثُمَّ قَالَ إِنَّمَا أَھْلَکَ الَّذِیْنَ قَبْلَکُمْ کَانُوْا إِذَا سَرَقَ فِیْھِمُ الشَّرِیْفُ تَرَکُوْہُ وَإِذَا سَرَقَ فِیْھِمُ الضَّعِیْفُ أَقَامُوْاعَلَیْہِ الْحَدَّ وََأَیْمُ اللّٰہِ لَوْ أَنَّ فَاطِمَۃَ بِنْتَ مُحَمَّدٍ سَرَقَتْ لَقَطَعْتُ یَدَھَا) (رواہ البخا ری : باب حدیث الغار) ” حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ قریش اس مخزومی عورت کے بارے میں بڑے فکر مند ہوئے جس نے چوری کی تھی انہوں نے سوچا کہ اس معاملے میں اللہ کے رسول سے کون بات کرے گا؟ کہنے لگے کہ یہ کام اسامہ بن زید (رض) کے سوا کوئی نہیں کرسکتاکیونکہ وہ اللہ کے رسول کا محبوب ہے۔ اسامہ نے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کی۔ آپ نے فرمایا : کیا تم اللہ کی حدود میں سے ایک حد کے متعلق سفارش کرتے ہو؟ پھر آپ کھڑے ہوئے اور ارشاد فرمایا : یقیناً تم سے پہلے لوگ اسی وجہ سے تباہ ہوئے کہ جب ان میں کوئی بڑاچوری کرتا تو اسے چھوڑ دیتے اگر کمزور چوری کرتا تو اس پر حد نافذ کرتے۔ اللہ کی قسم! اگر فاطمہ بنت محمد بھی چوری کرتی تو میں اس کا ہاتھ کاٹ دیتا۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے ایک میزان قائم فرمایا ہے۔ ٢۔ میزان میں کمی بیشی کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ تفسیر بالقرآن القِسط کی اہمیت وفرضیت : ١۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو عدل و انصاف کا حکم۔ (الاعراف : ٢٩) ٢۔ صلح بھی عدل و انصاف سے کروانا چاہیے۔ (الحجرات : ٩) ٣۔ رسولوں کی بعثت کا مقصد انصاف قائم کرنا تھا۔ (الحدید : ٢٥) ٤۔ انصاف کی بات کہنے کا حکم۔ (الانعام : ١٥٢) ٥۔ کسی کی دشمنی عدل و انصاف میں رکاوٹ نہیں بننی چاہیے۔ (المائدۃ: ٨) ٦۔ داؤد علیہ السلامکو عدل کرنے کا حکم۔ (آ : ٢٦) الرحمن
9 الرحمن
10 فہم القرآن ربط کلام : آسمان کے بعد زمین اور اس کے فوائد کا مختصر ذکر۔ جس الرحمن نے شمس و قمر اور نجم وشجر پیدا کیے ہیں اور القِسط قائم کرنے کا حکم دیا اسی نے اپنی مخلوق کے لیے زمین کو فرش کے طور پر بچھایا ہے۔ قرآن مجید نے جس طرح انسان کو آسمانوں کے بارے میں معلومات فراہم کی ہیں اسی طرح زمین کے بارے میں بھی بہت کچھ بتلایا ہے۔ ” کیا وہ لوگ جو کفر کرتے ہیں وہ غور نہیں کرتے کہ آسمان اور زمین آپس میں ملے ہوئے تھے ہم نے انہیں الگ الگ کیا اور ہرزندہ چیز پانی سے پیدا کی ؟ کیا پھر بھی وہ ایمان نہیں لاتے اور ہم نے زمین میں پہاڑ بنائے تاکہ زمین انہیں لے کر ڈھلک نہ پڑے اور زمین میں کشادہ راہیں بنایں تاکہ لوگ اپنے راستے معلوم کریں۔“ (الانبیاء : ٣٠، ٣١) (وَ ہُوَ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ فِیْ سِتَّۃِ اَیَّامٍ وَّ کَانَ عَرْشُہٗ عَلَی الْمَآءِ لِیَبْلُوَکُمْ اَیُّکُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا) (ہود : ٧) ” اور وہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا اور اس کا عرش پانی پر تھا تاکہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے کون اچھے عمل کرنے والا ہے۔“ (الَّذِیْ جَعَلَ لَکُمُ الْاَرْضَ فِرَاشًا وَّ السَّمَآءَ بِنَاءً وَّ اَنْزَلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءً فَاَخْرَجَ بِہٖ مِنَ الثَّمَرٰتِ رِزْقاً لَّکُمْ فَلَا تَجْعَلُوْا لِلّٰہِ اَنْدَادًا وَّ اَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ) (البقرہ : ٢٢) ” جس نے تمہارے لیے زمین کو فرش اور آسمان کو چھت بنایا اور آسمان سے پانی اتار کر اس سے تمہارے لیے پھل پیدا کیے جو تمہارا رزق ہے جاننے کے باوجود اللہ کے ساتھ شریک نہ بناؤ۔“ یہاں زمین پر بسنے والوں کے لیے ” الانام“ کا لفظ استعمال فرمایا ہے جس میں ہر وہ جاندار چیز شامل ہے جس کا رہنا سہنا، کھانا پینا اور مرنا جینا زمین کے ساتھ وابستہ ہے۔ اس میں سر فہرست جن اور انسان ہیں۔ جن کے لیے خاص طور پر اللہ تعالیٰ نے زمین کو فرش کے طور پر بچھایا ہے۔ زمین صرف رہائش کا کام نہیں دیتی بلکہ اسے اللہ تعالیٰ نے ہر جاندار کے لیے دستر خوان بھی بنایا ہے۔ کچھ نعمتیں زمین کے اندر دفن کی ہیں جسے ہر دور کے لوگ اپنی لیاقت اور طاقت کے مطابق نکالتے رہیں گے۔ زیادہ نعمتوں کا تعلق زمین کی پیداوار سے ہے تاکہ انسان ان نعمتوں سے بھر پور استفادہ کرسکے۔ ان نعمتوں میں ہر قسم کے پھل خوشوں سے لدی ہوئی کھجوریں ہیں جن کے خوشوں پر غلاف چڑھے ہوتے ہیں۔ ان میں انسانوں اور ہر قسم کے الانعام کے لیے اناج ہے کچھ پر بھس چڑھا ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اناج اور بے شمار پھل پیدا کیے ہیں۔ اس کی قدرتوں اور نعمتوں پر قربان جائیں کہ اس نے ہر اناج اور پھل کے اوپر چھلکے کی صورت میں غلاف چڑھا دیئے ہیں تاکہ اناج اور پھل ہر قسم کی کثافت اور غلاظت سے محفوظ رہیں یہاں تک کہ جو چیزیں زمین کے اندر تیار ہوتی ہیں، ان پر بھی ایک باریک سا چھلکا چڑھا دیا ہے تاکہ مٹی اس چیز کے اندر داخل نہ سکے ان کا تذکرہ فرماکر ارشاد فرمایا کہ اے جنوں اور انسانو! تم اپنے رب کی کس کس قدرت اور نعمت کو جھٹلاؤ گے۔ اس سورت کے تعارف میں وضاحت موجود ہے کہ ” اٰآا“ کا معنٰی قدرت، نعمت اور خوبی ہے یہاں یہ لفظ تینوں معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق کے لیے زمین کو فرش بنادیا ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے زمین میں ہر قسم کے پھل اور غلافوں میں لپٹی ہوئی کھجوریں پیدا کیں۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ نے خوشبودار پھول پیدا کیے اور ہر قسم کے اناج کو اس کے چھلکے اور خوشے میں محفوظ فرمایا ہے تفسیر بالقرآن قرآن مجید میں زمین سے پیدا ہونے والے چند پودوں کا ذکر : ١۔ ” اللہ“ پانی سے تمہارے لیے کھیتی، زیتون، کھجور اور انگور اگاتا ہے۔ (النحل : ١١) ٢۔ ” اللہ“ نے کھجوروں اور انگوروں کے باغات پیدا کیے۔ (المومنون : ١٩) ٣۔ ” اللہ“ نے زمین میں کھجوروں اور انگوروں کے باغات پیدا کیے۔ (یٰس : ٣٤) ٤۔ ” اللہ“ نے پانی سے ہر قسم کی نباتات کو پیدا کیا۔ (الانعام : ٩٩) (الانعام : ١٤١) مزید معلومات کے لیے ڈاکٹر اقتدار فاروقی کی کتاب ” نباتات قرآن کا مطالعہ فرمائیں۔ الرحمن
11 الرحمن
12 الرحمن
13 الرحمن
14 فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں سب سے افضل مخلوق انسان ہے اس لیے جن کی بجائے انسان کی تخلیق کا ذکر پہلے کیا ہے۔ جبکہ جنات کی پیدائش انسان سے پہلے ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق میں جس مخلوق کو حساب و کتاب کا مکلف ٹھہرایا ہے وہ انسان اور جن ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انسانِ اوّل یعنی حضرت آدم (علیہ السلام) کو کھنکھناتی ہوئی مٹی سے پیدا کیا اور جن کو آگ کے شعلے سے پیدا فرمایا۔ آدم (علیہ السلام) کے زمین پر نازل ہونے سے پہلے زمین پر جن رہتے تھے اور ان کا زمین پر راج تھا۔ اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کو پیدا کرنے کے بعد اسے زمین میں خلافت عطا فرمائی اور اس کو اپنے احکام کا مکلف بنایا اور جن کو اسی دین کا پابند کیا۔ اس لیے انسان اور جن کے بارے میں ارشاد ہے کہ ہم نے جنوں اور انسانوں کو اپنی عبادت کے لیے پیدا فرمایا ہے۔ ” میں نے جنات اور انسانوں کو صرف اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے۔“ (الذار یات : ٥٦) اللہ کی عبادت کرنے میں جن وانس کی عزت اور ان کی خودی کا تحفظ ہے اور دوسروں کی عبادت کرنے میں ذلت ہے اور اپنی خودی کی نفی پائی جاتی ہے لیکن بے شمار جن اور انسان اپنے خالق کو چھوڑ کر دوسروں کی عبادت کرتے ہیں گویا کہ اسے اپنا خالق نہیں مانتے۔ یہ اس کی ذات اور اس کے فرمان کو جھٹلانے کے مترادف ہے اسی لیے فرمایا ہے کہ اے جنو اور انسانو! تم اپنے رب کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو کھنکھناتی ہوئی مٹی سے پیدا کیا ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے جن کو آگ کے شعلے سے پیدا کیا۔ ٣۔ بے شمار جن اور انسان اپنے رب کی خالص عبادت نہیں کرتے وہ دوسروں کی عبادت کر کے اپنے رب کی ذات اور احکام کی تکذیب کرتے ہیں۔ تفسیربالقرآن انسان کی تخلیق کے مراحل : (النحل : ٤) (آل عمران : ٥٩) (المومنون : ١٢) (الدھر : ٢) (النساء : ١) الرحمن
15 الرحمن
16 الرحمن
17 فہم القرآن ربط کلام : جس رب نے انسان اور جن کو پیدا کیا ہے وہی مشرقین اور مغربین کا مالک ہے۔ سورہ الصّافات کی آیت ٥ میں مشرق کے لیے مشارق کے الفاظ استعمال کیے ہیں اور یہاں مشرقین اور مغربین کے الفاظ استعمال فرمائے ہیں۔ بے شک سورج مشرق سے نکل کر مغرب کی جانب غروب ہوتا ہے لیکن سورج ہمیشہ ایک ہی مقام سے نہ طلوع ہوتا ہے اور نہ غروب ہوتا ہے بلکہ ہر روز اپنی جگہ بدلتا ہے جسے موجودہ سائنسدان اور فلکیات کے ماہرین بھی تسلیم کرتے ہیں اس لیے یہاں مشرقین اور مغربین کے الفاظ استعمال فرمائے ہیں۔ عربی میں یہ الفاظ فاصلے کی طوالت کے لیے بھی استعمال ہوتے ہیں۔ مشرقین اور مغربین کے الفاظ استعمال فرما کر شمال اور جنوب کی جوانب کو بھی مشرقین اور مغربین میں شامل کیا گیا ہے۔ مشرقین اور مغربین کا ذکر فرماکریہ ثابت کیا ہے کہ ان کے درمیان جو کچھ ہے اسے پیدا کرنے والا صرف ایک رب ہے۔ جس سورج کی وجہ سے یہ سمتیں مشرق اور مغرب کہلاتی ہیں اس سورج کو بھی اسی رب نے پیدا کیا ہے۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ایک رب کے سوا کوئی اور پیدا کرنے والا نہیں اس لیے اس کا فرمان ہے کہ اے جنو اور انسانو! تم اپنے رب کی کون کون سی نعمت کو جھٹلاؤ گے۔ جس طرح اس نے دو مغرب اور دو مشرق بنائے ہیں اسی طرح اس نے سمندر کے پانی کو دو حصوں میں تقسیم کیا ہے۔ ایک پانی میٹھا ہے اور دوسرا کڑوا ہے لیکن اس کے باوجود ان کا پانی آپس میں نہیں ملتا کیونکہ ان کے درمیان ایک پردہ حائل کردیا گیا ہے۔ کڑوے پانی کے اپنے فوائد ہیں اور میٹھا پانی اپنے فوائد اور تاثیر رکھتا ہے۔ اللہ کی ذات کا انکار کرنے والے سائنسدان اس کی یہ توجیح کرتے ہیں کہ کڑوا پانی ہلکا ہوتا ہے اور میٹھا پانی بھاری ہوتا ہے۔ دونوں کے اجزاء الگ الگ ہیں جس وجہ سے وہ آپس میں تحلیل نہیں ہوتے۔ حالانکہ سمندر میں ایسے مقامات بھی ہیں جہاں میٹھا اور کڑوا پانی آپس میں خلط ملط ہوجاتا ہے۔ سمندر ایک ہونے کے باوجود ان کے پانی کا الگ الگ رہنا اللہ تعالیٰ کی قدرتوں میں سے ایک عظیم قدرت ہے۔ بےدین سائنسدان غور کریں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کون میٹھا اور کڑوا پانی پیدا کرنے والا ہے؟ یہ اس کی قدرت نہیں تو کیا ہے؟ لیکن اس کے باوجود جنوں اور انسانوں میں بے شمار افراد ایسے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی اس قد رت کو جاننے کے باوجود اس کی ذات اور فرمان کے قائل نہیں ہیں۔ اس لیے فرمایا ہے کہ اے جنو اور انسانو! تم اپنے رب کی کس کس نعمت کا انکار کروے گے۔ حدیث میں مشرق اور مغرب کا ذکر : ” حضرت ابوہریرہ (رض) تذکرہ کرتے ہیں کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پہلی تکبیر اور قراءت کے درمیان کچھ دیر خاموش رہتے تھے۔ میں نے عرض کیا میرے ماں باپ آپ کی ذات پر فدا ہوں آپ تکبیر اور قراءت کے درمیان خاموشی کے ساتھ کیا پڑھتے ہیں؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ میں یہ پڑھا کرتا ہوں۔ ” الٰہی میرے اور میری خطاؤں کے درمیان اتنی دوری فرما دے جیسا کہ تو نے مشرق اور مغرب کے درمیان دوری قائم کی ہے۔ الٰہی ! میرے گناہوں کو اس طرح صاف کر دے جیسا کہ سفید کپڑے کو میل کچیل سے صاف کیا جاتا ہے۔ الٰہی میری خطاؤں کو پانی، برف اور اولوں کے ساتھ دھوڈالیے۔ (رواہ البخاری : باب مَا یَقُولُ بَعْدَ التَّکْبِیرِ) مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے دو مشرق اور دو مغرب بنائے ہیں۔ ٢۔ دو مشرقوں اور دو مغربوں کے درمیان ایک رب کے سوا کسی کی دائمی اور عالمگیر بادشاہی نہیں ہے۔ ٣۔ بے شمارجن اور انسان اپنے رب کی ذات اور اس کی قدرتوں کی تکذیب کرتے ہیں۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ نے ہی دو سمندر بنائے۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ نے کڑوے اور میٹھے سمندروں کے درمیان ایک پردہ حائل کردیا ہے۔ ٦۔ کڑوے اور میٹھے پانی کے اپنے اپنے فوائد ہیں جن سے لوگ مستفید ہوتے ہیں اس کے باوجود بے شمار جن اور انسان اپنے رب کی نعمتوں کا انکار کرتے ہیں۔ تفسیربالقرآن اللہ تعالیٰ ہی دونوں مشرقوں اور دونوں مغربوں کا مالک ہے : ١۔ اللہ ہی دونوں مشرق اور دونوں مغرب کا رب ہے۔ (الرحمن : ١٧) ٢۔ مشرق ومغرب اللہ کے لیے ہے۔ (البقرۃ: ١٤٢) ٣۔ اللہ تعالیٰ مشرق اور مغرب کا رب ہے اس کے سوا کوئی الٰہ نہیں لہٰذا اسی کو کار سازمانو۔ (المزمل : ٩) ٤۔ بے شک تمہارا ایک الٰہ ہے جو آسمان و زمین، جو کچھ ان کے درمیان ہے اور مشارق کا رب ہے۔ (الصّافات : ٤، ٥) ٥۔ میں قسم اٹھاتا ہوں مشارق اور مغارب کے رب کی کہ وہ ہر چیز پر قاد رہے۔ (المعارج : ٤٠) الرحمن
18 الرحمن
19 الرحمن
20 الرحمن
21 الرحمن
22 فہم القرآن ربط کلام : دونوں سمندروں کے فوائد۔ اللہ تعالیٰ ہی سمندروں سے موتی اور مونگے پیدا کرتا ہے۔ کچھ سائنسدانوں کا خیال ہے کہ موتی اور مونگے صرف کڑوے اور کھارے پانی میں پیدا ہوتے ہیں جس کی بالواسطہ طور پر نفی کی گئی ہے۔ اس لیے واحد کی بجائے مِنْہُماَ کی ضمیر لاکر بتلایا ہے کہ ایک نہیں دونوں قسم کے سمندروں سے موتی اور مونگے نکلتے ہیں۔ موتی اور مونگے انتہائی قیمتی اور خوبصورت ہیرے ہیں جو زیبائش کے علاوہ کئی ادویات میں استعمال ہوتے ہیں جو مخصوص قسم کی بیماریوں کا علاج اور تریاق ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی قدرت کی انتہا دیکھئے کہ وہ پانی میں کس طرح موتی اور مونگے پیدا کرتا ہے۔ پانی مائع ہے اور اس میں پیدا ہونے والے سیپ اور اس میں بننے والے موتی پتھر کی طرح سخت ہوتے ہیں جو لوہے کی ضرب کے بغیر نہیں ٹوٹتے، جن اور انسان اس پر غور کریں تو انہیں یقین ہوجائے گا کہ واقعی اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی پانی سے موتی اور مونگے پیدا نہیں کرسکتا لیکن اس کی قدرتوں پر غور نہ کرنے کی وجہ سے بے شمار جن اور انسان اپنے رب کی ذات اور اس کی نعمتوں کا انکار کرتے ہیں۔ اس لیے فرمایا ہے کہ اے جنوں اور انسانو! تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے۔ یہ بھی اللہ تعالیٰ کی قدرت کی نشانیوں میں ایک نشانی ہے کہ اس نے سمندر میں پہاڑوں کی مانند بیڑے اور جہاز چلا دیئے ہیں۔ بحری بیڑے اور جہاز کے لیے ” لَہٗ“ کا لفظ استعمال کیا ہے جس کا معنٰی ہے اسی کے لیے ہے۔ مراد یہ ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ انسان کو بحری بیڑے اور جہاز بنانے اور انہیں چلانے کی صلاحیت نہ دیتا اور سمندر کی فضا اور ہوا موافق نہ کرتا تو انسان کسی صورت بھی سمندری سفر اختیار نہ کرتا اور نہ ہی سمندر سے موتی اور جواہرات نکال سکتا تھا۔ قرآن مجید میں یہ بھی موجود ہے کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) جنوں کے ذریعے سمندر سے موتی اور جواہرات نکالنے کا کام لیا کرتے تھے۔” اور ان کے لیے شیاطین کو مسخر کردیا جو معمار اور غوطہ خورتھے۔“ (صٓ: ٣٧) ١۔ نہروں کے ذریعے وہاں تک پانی پہنچا دیا جاتا ہے جہاں پہنچنے کا انسان تصور بھی نہیں کرسکتا تھا۔ دریاؤں کے پانی کو بڑے بڑے ڈیموں میں بند کرلیا جاتا ہے۔ ٢۔ سمندر کی سطح پر پلوں کی شکل میں بڑی بڑی سڑکیں بنا دی گئی ہیں یہاں تک کہ سمندر کے پانی کی گہرائیوں میں بحری اڈے قائم کردیے گئے ہیں۔ مختلف سمندروں سے ہر روز کروڑوں ٹن تروتازہ مچھلی نکالی جاتی ہے۔ جسے انسان اپنی خوراک بنانے کے ساتھ ادویات اور دیگر ضروریات کے لیے استعمال کرتا ہے۔ اسی طرح سمندر کی تہہ سے بڑے بڑے قیمتی ہیرے، جوہرات ہمیشہ سے نکالے جا رہے ہیں جو بالخصوص عورتوں اور امیر لوگوں کی حسن و زیبائش کے لیے گراں قدر قیمت کے حامل ہیں یہ خوبصورت چیزیں زمین کی سطح پر نہیں پائی جاتیں۔ اب تو سمندر کے پانی سے تیل اور گیس کے ذخائر تلاش کرلیے گئے ہیں نہ معلوم قیامت تک کون کون سی قیمتی اشیا سمندر سے حاصل کی جائیں گی ان کے ذخائر کا کوئی حقیقی اندازہ نہیں کرسکتا۔ اس کے بعد سطح سمندر کی طرف آئیں تو دنیا کی تجارت کا ستر فیصد سے زائد حصہ سمندری راستوں کے ساتھ وابستہ ہے جو پرانے زمانے میں کشتیوں کے ذریعے اور آج کل آبدوزوں اور بحری جہازوں کے ذریعے ایک ملک سے دوسرے ملک پہنچائی جا رہی ہیں۔ یاد رہے کہ آج کے بحری جہاز اور پہلے وقت کے بادبان بیڑے سمندر میں کھڑے ہوئے دور سے پہاڑ نظر آتے ہیں۔ جس وجہ سے ان کے لیے ” اَلْجَوَارِ الْمُنْشَءٰتُ“ کے الفاظ استعمال فرمائے ہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کے فضل کا نتیجہ ہے جس پر انسان کو اپنے رب کا شکر گزار ہونا چاہیے اگر آدمی تھوڑی سی توجہ کے ساتھ غور کرے تو اسے معلوم ہوگا کہ آخر وہ کونسی وجہ ہے کہ جو پانی سوئی کے معمولی وزن کو اپنی چھاتی پر برداشت نہیں کرتا وہ ہزاروں ٹن وزنی جہازوں کو نہ صرف اپنے آپ پر برداشت کرتا ہے بلکہ اسے اٹھائے ہوئے ہزاروں لوگوں اور ان کے سامان کو میلوں دور منتقل کرنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔ معلوم نہیں کہ جن بھی بحری سفر کے لیے بحری جہاز یا بحری بیڑے استعمال کرتے ہیں یا نہیں البتہ قرآن مجید نے یہاں بھی جنوں اور انسانوں کو مخاطب کیا ہے تم اپنے رب کی کون کون سی نعمت اور قدرت کو جھٹلاؤ گے۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ کا یہ احسان ہے کہ اس نے سمندر میں موتی اور جواہرات پیدا کیے ہیں۔ ٢۔ بحری بیڑوں اور جہازوں کا سمندر میں چلنا اللہ تعالیٰ کی قدرت کا مظہر ہے۔ ٣۔ انسان اور جن دلیل کی بنیاد پر اللہ تعالیٰ کی کسی قدرت اور نعمت کی تکذیب نہیں کرسکتے۔ تفسیربالقرآن بحری بیڑوں کا سمندر میں چلنا اللہ کی قدرت کی نشانی ہے : (ابراہیم : ٣٢) (یٰس : ٤٤) (العنکبوت : ٦٥) (الحج : ٦٥) (لقمان : ٣١) (الجاثیہ : ١٢) الرحمن
23 الرحمن
24 الرحمن
25 الرحمن
26 فہم القرآن ربط کلام : بڑی بڑی نعمتوں اور پوری کائنات کا انجام۔ اللہ تعالیٰ نے زمین کو وسیع ترین فرش کے طور پر بنایا اور بچھایا ہے۔ اس کے اوپر اور اندر بے شمار مخلوقات پیدا فرمائیں جنہیں اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ ان میں کچھ مخلوقات ایسی ہیں جن کے بارے میں انسان سوچ بھی نہیں سکتا کہ یہ بھی کبھی فنا ہوجائیں گی۔ ان میں ایک سمندر ہے جس کے بارے میں ارضیات کے ماہرین کا خیال ہے کہ آسمان تلے ایک حصہ خشکی ہے اور تین حصے سمندر ہے۔ انسان یہ سوچ بھی نہیں سکتا کہ اتنا بڑا سمندر کبھی خشک اور ختم ہوجائے گا لیکن اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ سمندر سمیت ہر چیز فنا اور ختم ہوجائے گی۔ صرف ایک ” اللہ“ کی ذات باقی رہے گی جو بڑا ذوالجلال اور عزت وعظمت والا ہے، اسی طرح پہاڑوں کے بارے میں کوئی سوچ نہیں سکتا کہ یہ مٹ جائیں گے۔ (وَاِِذَا الْبِحَارُ سُجِّرَتْ) (التکویر : ٦) اور جب سمندر بھڑکا دیے جائیں گے۔“ (وَتَکُوْنُ الْجِبَالُ کَالْعِہْنِ الْمَنْفُوْشِ) (القارعہ : ٥) ” اور پہاڑ دھنکی ہوئی روئی کی طرح ہوجائیں۔“ یہاں زمین کے بارے میں فرمایا ہے کہ جو کچھ اس کے اوپر ہے وہ سب کاسب فنا ہوجائے گا۔ دوسرے مقام پر یہ فرمایا : اللہ تعالیٰ کے سوا ہر چیز ہلاک ہوجائے گی اسی کا حکم چلتا ہے اور اس کی طرف تم پلٹ کر جاؤ گے گویا کہ زمین و آسمانوں میں جو کچھ ہے تباہ ہوجائے گا۔ ” اور اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کو نہ پکارو۔ اس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے اس کی ذات کے سوا ہر چیز ہلاک ہونے والی ہے حکمرانی اسی کی ہے اور اسی کی طرف تم سب لوٹائے جانے والے ہو۔“ (القصص : ٨٨) قرآن مجید نے یہ بات بڑی تفصیل کے ساتھ بتلائی اور سمجھائی ہے کہ ہر ذی روح کو موت آنی ہے اور ہر چیز نے ختم ہونا ہے۔ ایک وقت آئے گا کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کچھ بھی نہیں ہوگا پھر جنوں اور انسانوں حتیٰ کہ حیوانات کو بھی رب ذوالجلال کے حضور پیش کیا جائے گا اور سب کا حساب ہوگا۔ فرق صرف اتنا ہے کہ حیوانات کو پیدا فرما کر ان سے ایک دوسرے کا بدلہ چکایاجائے گا اور اس کے ساتھ ان کا وجود ختم کردیا جائے گا۔ جنوں اور انسانوں کو اپنے کیے کی پوری پوری جزا اور سزادینے کے لیے نیک جنوں اور انسانوں کو جنت میں اور بروں کو جہنم میں داخل کیا جائے گا اور موجودہ زمین و آسمانوں کو ختم کرکے نئے زمین و آسمان پیدا کیے جائیں گے۔ (یَوْمَ تُبَدَّلُ الْاَرْضُ غَیْرَ الْاَرْضِ وَ السَّمٰوٰتُ وَ بَرَزُوْا لِلّٰہِ الْوَاحِدِ الْقَھَّارِ) (ابراہیم : ٤٨) ” جس دن اس زمین کو دوسری زمین کے ساتھ بدل دیا جائے گا اور آسمان بھی تبدیل کر دئیے جائیں گے اور لوگ اللہ کے سامنے پیش ہوں گے، جو اکیلا اور بڑا زبر دست ہے۔“ حضرت عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ زمینوں اور آسمانوں کو یکجا کرکے اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے فرمائیں گے کہ میں ہی بادشاہ ہوں۔ ظالم وسفاک اور نخوت وغرور رکھنے والے آج کہاں ہیں ؟ یَقُوْلُ اَنَا الْمَلِکُ اَیْنَ الْجَبَّارُوْنَ أَیْنَ الْمُتَکَبِّرُوْنَ۔ (رواہ مسلم : کتاب صفۃ القیامۃ والجنۃ والنار ) (عَنْ اَبِی ھُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لَتُؤَدُّنَّ الْحُقُوْقَ إِلٰی أَھْلِھَا یَوْمَ الْقِیَامَۃِ حَتّٰی یُقَاد للشَّاۃِ الْجَلْحَاءِ مِنَ الشَّاۃِ الْقَرْنَاءِ) (رواہ مسلم : باب تحریم الظلم) ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تمہیں قیامت کے دن لوگوں کے حقوق ان کے مالکوں کو ادا کرنا پڑیں گے، یہاں تک کہ جس بکری کے سینگ نہیں ہیں اس کو سینگ والی بکری سے بدلہ دلایا جائے گا۔“ مسائل ١۔ ہر چیزفنا ہوجائے گی۔ ٢۔ رب ذوالجلال کے سوا کوئی چیز نہیں بچ پائے گی۔ تفسیربالقرآن ہر ذی روح کو موت آئے گی اور ہر چیز فنا ہوجائے گی : ١۔ ہر شے فنا ہوجائے گی۔ (الرحمن : ٢٦) ٢۔ قلعہ بند ہونے کے باوجود موت نہیں چھوڑتی۔ (النساء : ٧٨) ٣۔ موت کی جگہ اور وقت مقرر ہے۔ (الاعراف : ٣٤) ٤۔ پہلے انبیاء فوت ہوئے۔ (آل عمران : ١٤٤) ٥۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی موت سے ہمکنار ہوں گے اور ہوئے۔ (الزمر : ٣٠) ٦۔ جب اللہ کا حکم کسی چیز پر آجاتا ہے تو اس کا نام و نشان مٹ جاتا ہے۔ (یونس : ٢٤) ٧۔ ہر نفس نے موت کا ذائقہ چکھنا ہے۔ (الانبیاء : ٣٥) ٨۔ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں ہر چیز ہلاک ہونے والی ہے۔ (القصص : ٨٨) الرحمن
27 الرحمن
28 الرحمن
29 فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ کی ذات اس وقت بھی تھی جب کچھ نہیں تھا اور اس وقت بھی ہوگی جب کچھ نہیں ہوگا ہر چیز اسی کی محتاج ہے۔ اس لیے پوری مخلوق اسی سے مانگتی ہے اور سب کو اسی سے مانگنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ اے لوگو! تم سب کے سب اللہ کی بارگاہ کے محتاج ہو اور اللہ تعالیٰ ہر اعتبار سے غنی ہے، وہ چاہے تو تمہیں ختم کردے اور تمہاری جگہ نئی مخلوق لے آئے، ایسا کرنا اللہ تعالیٰ کے لیے مشکل نہیں ہے۔ (فاطر : ١٥ تا ١٧) اللہ ہی خالق، مالک، رازق اور بادشاہ ہے اس لیے جو کچھ زمین و آسمانوں میں ہے ہر کوئی اسی سے مانگتا ہے۔ ہر دن ہر آن رب ذوالجلال کی نئی شان ہوتی ہے۔ لیکن اس کے باوجود بے شمار جن اور انسان ایسے ہیں جو اس کے حکم کے مطابق اس سے مانگنے کے لیے تیار نہیں وہ ادھر ادھر کے واسطوں اور مختلف قسم کے وسیلوں کو درمیان میں لاتے ہیں حالانکہ اس کا حکم ہے کہ مجھ سے بلاواسطہ مانگا جائے۔ ” تمہارے رب کا فرمان ہے کہ مجھے ہی پکارو میں ہی تمہاری دعائیں قبول کروں گا، جو لوگ تکبر کرتے ہوئے اور میری عبادت سے منہ موڑتے ہیں وہ ضرور ذلیل وخوار ہو کر جہنم میں داخل کیے جائیں گے۔“ (المومن : ٦٠) اس کا فرمان ہے کہ صرف مجھے ہی پکارا جائے اور اطاعت بھی اسی کی ہونی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ کے انعامات میں سے یہ بہت بڑا انعام ہے کہ وہ انسان کو ہر کسی کے سامنے جھکنے اور ان سے مانگنے کا حکم دینے کی بجائے صرف اپنے سامنے جھکنے اور مانگنے کا حکم دیتا ہے جو جن اور انسان اس کے حکم کے مطابق اس سے نہیں مانگتے ان کے لیے اس کا ارشاد ہے کہ اے جنو اور انسانو! تم اپنے رب کی شان اور فرمان کو کس طرح جھٹلاؤ گے۔ اس کا فرمان ہے کہ ہر دن اس کی نئی شان ہے یعنی وہ ہر آن اپنی مخلوق بالخصوص جنوں اور انسانوں پر اپنی رحمت اور کرم نوازیوں میں اضافہ کیے جاتا ہے۔ اس کی رحمت کی شان کا تذکرہ کرتے ہوئے سرور دو عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : (یَا عِبَادِی لَوْ أَنَّ أَوَّلَکُمْ وَآخِرَکُمْ وَإِنْسَکُمْ وَجِنَّکُمْ قَامُوا فِی صَعِیدٍ وَاحِدٍ فَسَأَلُونِی فَأَعْطَیْتُ کُلَّ إِنْسَانٍ مَسْأَلَتَہُ مَا نَقَصَ ذَلِکَ مِمَّا عِنْدِی إِلاَّ کَمَا یَنْقُصُ الْمِخْیَطُ إِذَا أُدْخِلَ الْبَحْرَ یَا عِبَادِی إِنَّمَا ہِیَ أَعْمَالُکُمْ أُحْصِیہَا لَکُمْ ثُمَّ أُوَفِّیکُمْ إِیَّاہَا فَمَنْ وَجَدَ خَیْرًا فَلْیَحْمَدِ اللَّہَ وَمَنْ وَجَدَ غَیْرَ ذَلِکَ فَلاَ یَلُومَنَّ إِلاَّ نَفْسَہُ قَالَ سَعِیدٌ کَانَ أَبُو إِدْرِیسَ الْخَوْلاَنِیُّ إِذَا حَدَّثَ بِہَذَا الْحَدِیثِ جَثَا عَلَی رُکْبَتَیْہِ) (رواہ مسلم : کتاب البروالصلۃ والاداب، باب تحریم الظلم) ” میرے بندو! تمہارے اگلے پچھلے اگر جن وانس سب مل کر کھلے میدان میں اکٹھے ہوجائیں پھر وہ مجھ سے مانگنے لگیں اور میں ہر کسی کو اس کی منہ مانگی مرادیں دے دوں تو میرے خزانوں میں اتنی کمی بھی واقع نہیں کرسکتے جتنی سوئی کو سمندر میں ڈبونے سے ہوتی ہے۔“ مسائل ١۔ زمین و آسمانوں میں بسنے والا ہر جاندار اپنے رب سے مانگتا ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ مجھ سے ہی مانگا جائے۔ ٣۔ مشرک اور کافر کے سوا ہر کوئی ایک رب سے مانگتا ہے۔ ٤۔ بے شمار جن اور انسان اللہ کے حکم اور اس کی نعمتوں کی تکذیب کرتے ہیں۔ تفسیربالقرآن تمام انبیاء بغیر کسی واسطے اور کسی کے وسیلے کے بغیر ایک ” رب“ سے ہی مانگا کرتے تھے : ١۔ حضرت آدم (علیہ السلام) نے کہا ہمارے رب ! ہم نے اپنے آپ پر ظلم کیا اگر تو ہمیں معاف نہیں کرے گا اور رحم نہیں فرمائے گا تو یقیناً ہم نقصان اٹھائیں گے۔ (الاعراف : ٢٣) ٢۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے بدعا کی کہ الٰہی زمین پر ایک کافر نہیں بچنا چاہیے۔ (نوح : ٢٦) ٣۔ حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے کہا میں اپنی بے قراری اور غم کی شکایت صرف ” اللہ“ کے حضور پیش کرتا ہوں۔ (یوسف : ٨٦) ٤۔ حضرت ایوب (علیہ السلام) نے دعا کی اے میرے پروردگار ! میں بیمار ہوگیا ہوں اور تو سب سے بڑھ کر رحم کرنے والا ہے۔ (الانبیاء : ٨٣) ٥۔ حضرت یونس (علیہ السلام) نے اندھیروں میں اللہ تعالیٰ کو پکارا۔ تیرے سوا کوئی الٰہ نہیں تو پاک ہے اور میں ہی قصور وار ہوں۔ (الانبیاء : ٨٧) ٦۔ حضرت زکریا (علیہ السلام) نے کہا اے میرے پروردگار ! مجھے تنہا نہ چھوڑ اور تو ہی بہترین وارث ہے۔ (الانبیاء : ٨٩) ٧۔ حضرت ایوب (علیہ السلام) نے دعا کی اے میرے پروردگار ! میں بیمار ہوگیا ہوں تو سب سے بڑھ کر رحم کرنے والا ہے۔ (الانبیاء : ٨٣) ٨۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعا اے میرے رب! میرا علم زیادہ کر دے۔ (طٰہٰ: ١١٤) ٩۔ اے اللہ! فساد کرنے والی قوم کے مقابلہ میں میری مدد فرما۔ (حضرت لوط (علیہ السلام) کی دعا) (العنکبوت : ٣٠) ١٠۔ اے ہمارے رب! تو ہمارے درمیان اور ہماری قوم کے درمیان فیصلہ فرما دے (حضرت شعیب کی دعا) (الاعراف : ٨٩) ١١۔ اے ہمارے پروردگار! ان کے اموال کو ختم کردے۔ (حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی بددعا)۔ (یونس : ٨٨) الرحمن
30 الرحمن
31 الرحمن
32 الرحمن
33 فہم القرآن ربط کلام : جو جن اور انسان اللہ تعالیٰ سے اس کے حکم کے مطابق نہیں مانگتے انہیں چیلنج کیا گیا ہے۔ رب ذوالجلال کا فرمان ہے۔ اے جن اور انسانو! عنقریب ہم تمہارے لیے فارغ ہونے والے ہیں اور تم اپنے رب کی طاقت کا مقابلہ نہیں کرپاؤ گے اگر تمہیں اس کے مقابلے میں طاقت حاصل ہے تو کھلے الفاظ میں تمہیں چیلنج کیا جاتا ہے کہ تم زمین و آسمان کے کناروں سے باہر نکل سکتے ہو تو نکل جاؤ۔ لیکن تم اس کی بادشاہت سے نکل نہیں سکتے سوائے قوت کے وہ قوت صرف تمہارے رب کے پاس ہے لہٰذا تم اپنے رب کی قوت کو جھٹلا نہیں سکتے۔ ہر دور کے سائنسدان اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہیں کہ زمین و آسمان اپنی اپنی حیثیت اور مقام پر ایک کرّہ ہیں اور ہر کُرّہ اپنی فضا میں گردش کر رہا ہے۔ سائنسی اعتبار سے یہ بات بھی ثابت ہے کہ ایک کرہّ دوسرے کرّے کے ساتھ نہیں مل سکتا، ہر کرّہ اپنے مدار میں گھوم رہا ہے۔ اس لیے انسان اور جن زمین و آسمان کے ایک کرّے کے اندر مقید ہیں۔ بے شک انسان اور جن جس قدر ترقی کرجائیں لیکن وہ زمین و آسمان کے کرّے سے باہر نہیں نکل سکتے۔ ” اِلاَّ بِسُلْطَانٍ“ کا یہ معنٰی نہیں کہ انسان یہ طاقت حاصل کرسکتا ہے کہ وہ زمین و آسمان کے کناروں سے باہر نکل سکتا ہے ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا لہٰذا اے جن اور انسانو! تم اپنے رب کی کون کون سی قدرت کو جھٹلاؤگے۔ اس خطاب کے آغاز میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے کہ عنقریب ہم تمہارے لیے فارغ ہوتے ہیں۔ اس کا یہ معنٰی نہیں کہ اللہ تعالیٰ بہت مصروف ہے اور اب اس کے پاس وقت نہیں کہ وہ باغی جن اور انسانوں سے نبٹ لے یہ تو چیلنج اور انتباہ کا ایک انداز ہے جس سے کسی باغی کو وارننگ دی جاتی ہے کہ موقعہ ہے سمجھ جاؤ ورنہ عنقریب پکڑے جاؤ گے اور مارے جاؤگے، گویا کہ باغی جن اور انسانوں کو ایک مہلت دی گئی ہے جو اللہ تعالیٰ کی بڑی نعمت ہے۔ اس لیے ارشاد ہوا کہ اے جن اور انسانو! تم اپنے رب کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے باغی جن اور انسانوں کو ایک چیلنج دیا ہے کہ اگر تم میں طاقت ہے تو زمین و آسمانوں کے کناروں سے باہر نکل جاؤ۔ ٢۔ جن اور انسان زمین و آسمانوں سے کبھی باہر نہیں نکل سکتے۔ تفسیر بالقرآن قرآن مجید میں جن کا تذکرہ : ١۔ جن اور انسان اللہ کی عبادت کے لیے پیدا کئے گئے ہیں۔ (الذاریات : ٥٦) ٢۔ جن غیب نہیں جانتے۔ (سبا : ١٤) ٣۔ جن اور انسان مل کر اس جیسا قرآن بنا لاؤ۔ (بنی اسرائیل : ٨٨) ٤۔ جن و انس مل کر قیامت تک ایک سورۃ بھی اس جیسی نہیں بناسکتے۔ (البقرۃ : ٢٣۔ ٢٤) ٥۔ اے انسانوں اور جن اگر تم خدا کی خدائی سے نکل سکتے ہو نکل جاؤ۔ ( الرحمن : ٣٣) ٦۔ اللہ تعالیٰ نے جنات کو سلیمان (علیہ السلام) کے تابع کردیا۔ ( سبا : ١٢) الرحمن
34 الرحمن
35 الرحمن
36 الرحمن
37 فہم القرآن ربط کلام : جس طرح جن اور انسانوں کے پاس زمین و آسمانوں کے کناروں سے نکلنے کی طاقت نہیں اسی طرح باغی جن اور انسانوں کے پاس اللہ کے عذاب سے بچ نکلنے کی طاقت نہیں۔ قیامت کے اسرافیل جونہی دن صورپھونکیں گے تو آسمان کارنگ سرخ ہوجائے گا اور وہ اس قدر ہلنا شروع ہوجائے گا کہ بالآخر ٹکڑوں کی صورت میں زمین پر گرپڑے گا۔ زمین و آسمانوں کو بدل دیا جائے گا اور محشر کے میدان میں لوگوں کو جمع کرلیا جائے گا۔ اس دن لوگوں کا حساب و کتاب پیش کرنے اور ان پر شہادتیں قائم کرنے کے بعد ایک ایسا مرحلہ آئے گا کہ مجرم جن اور انسانوں سے یہ نہیں پوچھا جائے گا کہ تم نے فلاں فلاں جرم کیوں کیا تھا۔ کیونکہ اس سے پہلے ہرقسم کی حجت قائم ہوچکی ہوگی جس کے بعد مجرموں کے چہروں پر ذلّت چھائی ہوئی ہوگی جس سے وہ پہنچانے جائیں گے۔ اس کے بعد ان کی پیشانی کے بالوں اور پاؤں سے پکڑ کر انہیں جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔ فرشتے انہیں کہیں گے کہ یہی وہ جہنم ہے جسے تم جھٹلایا کرتے تھے۔ جہنمی جہنم میں کھولتا ہوا پانی پئیں گے اور مدہوشی کے عالم میں چکر کاٹیں گے اور ان پر سیاہ دھواں چھوڑ کر اوپر سے آگ کے انگارے برسائے جائیں گے۔ جہنمی کبھی ملائکہ سے فریادکریں گے اور کبھی اللہ تعالیٰ سے معافیاں مانگیں گے لیکن ان کی مدد کرنے والا کوئی نہیں ہوگا۔ اے جنوں اور انسانو! تم اپنے رب کی کس کس قدرت کو جھٹلاؤگے۔ مسائل ١۔ قیامت کے دن حساب و کتاب کے بعد مجرموں سے ان کے گناہوں کے بارے میں دوبارہ سوال نہیں کیا جائے گا۔ ٢۔ مجرم اپنے چہروں سے پہنچانے جائیں گے اور انہیں پیشانی اور پاؤں کے بالوں سے پکڑ کر جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔ ٣۔ ملائکہ مجرموں سے کہیں گے کہ یہی وہ جہنم ہے جسے تم جھٹلایا کرتے تھے۔ ٤۔ جہنمی جہنم کا کھولتا ہوا پانی پیئیں گے اور اس میں انہیں ڈبکیاں دی جائیں گی۔ تفسیر بالقرآن مجرموں کو جہنم میں مختلف قسم کی سزائیں دی جائیں گی : ١۔ اس دن ہم ان کا مال جہنم کی آگ میں گرم کریں گے اس کے ساتھ ان کی پیشانیوں، کروٹوں اور پیٹھوں کو داغاجائے گا۔ (التوبہ : ٣٥) ٢۔ ان کا ٹھکانہ جہنم ہے جب آگ ہلکی ہونے لگے گی تو ہم اسے مزید بھڑکا دیں گے۔ (بنی اسرائیل : ٩٧) ٣۔ اس میں وہ کھولتا ہوا پانی پئیں گے اور اس طرح پئیں گے جس طرح پیا سا اونٹ پیتا ہے۔ (الواقعہ : ٥٤ تا ٥٥) ٤۔ ہم نے ظالموں کے لیے آگ تیار کی ہے جو انہیں گھیرے ہوئے ہوگی اور انہیں پانی کی جگہ پگھلا ہو اتانبا دیا جائے گا جو ان کے چہروں کو جلا دے گا۔ (الکھف : ٢٩) ٥۔ ان کے لیے کھانے کی کوئی چیز نہیں ہوگی مگر ضریع ہے۔ جو انہیں موٹا نہیں کرے گا اور نہ بھوک میں کچھ فائدہ دے گا۔ (الغاشیہ : ٦، ٧) ٦۔ جہنمیوں کو پینے کے لیے پیپ دی جائے گی۔ (النبا : ٢٥) ٧۔ کفار کے لئے اُبلتا ہوا پانی اور دردناک عذاب ہوگا۔ (یونس : ٤) ٨۔ مجرموں کی چمڑیاں بار بار بدلی جائیں گی۔ (الحج : ٢٠) الرحمن
38 الرحمن
39 الرحمن
40 الرحمن
41 الرحمن
42 الرحمن
43 الرحمن
44 الرحمن
45 الرحمن
46 فہم القرآن ربط کلام : جہنمیوں کے مقابلے میں جنتیوں کا مقام اور انعام۔ جو شخص قیامت کے دن سے پہلے اپنے رب کے حضور کھڑا ہونے سے ڈر گیا اس کے لیے جنت میں دو باغ ہوں گے۔ اللہ کا خوف اور قیامت کا ڈر ایسا عمل ہے جو انسان کو صراط مستقیم پر گامزن رکھتا ہے، انسان حرام و حلال کی تمیز کرتا ہے، ظلم سے بچتا ہے اور ہر حال میں عدل پر قائم رہتا ہے۔ وہ نیکی کرنے کے باوجود اس پر اتراتا نہیں بلکہ ہر وقت اپنے رب سے لرزاں رہتا ہے۔ یہی وہ عقیدہ ہے جس بنا پر سیدنا ابو بکر صدیق (رض) نے ایک تنکا پکڑ کر کہا تھا کہ کاش! میں انسان کی بجائے ایک تنکا ہوتا تاکہ قیامت کے دن کے حساب و کتاب سے بچ جاتا۔ (سیرت ابوبکر (رض) جس نے اپنے لیے آخرت کی فکر پیدا کرلی اس پر اللہ تعالیٰ کا بڑا فضل ہوا کیونکہ آخرت کی فکر اور اللہ کے فضل کے بغیر کوئی شخص جنت میں نہیں جاسکتا۔ آخرت کی فکر کی بنا پر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : (عَنِ ابْنِ عَبَّاس (رض) قَالَ قَالَ أَبُو بَکْرٍ (رض) یَا رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَدْ شِبْتَ قَالَ شَیَّبَتْنِی ہُودٌ وَالْوَاقِعَۃُ وَالْمُرْسَلاَتُ وَ (عَمَّ یَتَسَاءَ لُونَ) وَ (إِذَا الشَّمْسُ کُوِّرَتْ) قَالَ أَبُو عیسَی ہَذَا حَدِیثٌ حَسَنٌ غَرِیبٌ لاَ نَعْرِفُہُ مِنْ حَدِیثِ ابْنِ عَبَّاسٍ (رض) إِلاَّ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ وَرَوَی عَلِیُّ بْنُ صَالِحٍ ہَذَا الْحَدِیثَ عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ عَنْ أَبِی جُحَیْفَۃَ نَحْوَ ہَذَا وَرُوِیَ عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ عَنْ أَبِی مَیْسَرَۃَ شَیْءٌ مِنْ ہَذَا مُرْسَلاً) (رواہ الترمذی : باب ومن سورۃ الواقعۃ) ” حضرت عبداللہ بن عباس (رض) بیان کرتے ہیں ابوبکر (رض) نے کہا اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ بوڑھے ہوگئے ہیں آپ نے فرمایا سورۃ ہود، واقعہ، مرسلات، عم یتسالون اور سورۃ تکویر نے مجھے بوڑھا کردیا ہے۔“ (عَنْ أَبِیْ الدَّرْدَاءِ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تَفْرَغُوْا مِنْ ہَمُوْمِ الدُّنِیَا مَا اسْتَطَعْتُمْ فَاِنَّہٗ مَنْ کَانَتِ الدُّنِیَا اَکْبَرُ ہَمَّہٗ اَفْشَی اللّٰہُ ضَیِّعَتَہٗ وَجَعْلَ فَقْرَہٗ بَیْنَ عَیْنَیْہِ وَمَنْ کَانَتِ الْاٰخِرَۃِ اَکْبَرُ ہَمَّہٗ جَمَعَ اللّٰہُ لَہٗ اَمُوْرَہٗ وَجَعَلَ غِنَاہُ فِیْ قَلْبِہٖ وَمَا اَقْبَلَ عَبْدٌ بِقَلْبِہٖ إِلَی اللّٰہِ إِلاَّ جَعَلَ اللّٰہُ قُلُوْبَ الْمُؤْمِنِیْنَ تَفِدُّ إِلَیْہِ بالْوَدِّ وَالرَّحْمَۃِ وَکَان اللّٰہُ إِلَیْہِ بِکُلِّ خَیْرٍ اَسْرَعُ) (معجم الاوسط : باب من اسمہ محمد قال البزار لیس بہ باس) ” حضرت ابو درداء (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جہاں تک ہو سکے تم دنیا کے غموں سے چھٹکارا حاصل کرلو جس نے دنیا کی فکر کو بڑ اجان لیا اللہ تعالیٰ اس پر دنیا تنگ کردیں گے، محتاجی اس کی آنکھوں سے ٹپک رہی ہوگی۔ جس نے اپنے لیے آخرت کو بڑی فکر بنا لیا۔ اللہ تعالیٰ اس کے معاملات کو سنوار دے گا۔ اس کے دل میں غنا پیدا کردے گا۔ جو انسان اللہ تعالیٰ کی طرف سچے دل سے متوجہ ہوجائے اللہ تعالیٰ اس کے لیے مومنوں کے دلوں میں محبت اور رحمت پیدا فرما دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کے لیے ہر بھلائی میں جلدی فرماتا ہے۔“ (اِنَّمَا تُنْذِرُ مَنِ اتَّبَعَ الذِّکْرَ وَ خَشِیَ الرَّحْمٰنَ بالْغَیْبِ فَبَشِّرْہُ بِمَغْفِرَۃٍ وَّ اَجْرٍ کَرِیْمٍ) (یٰس : ١١) ” آپ اسی شخص کو خبردار کرسکتے ہیں جو نصیحت کی پیروی کرتا اور بغیر دیکھے رحمٰن سے ڈرتا ہے، اسے مغفرت اور اجر کریم کی بشارت دے دیں۔“ مسائل ١۔ آخرت کی فکر کرنے والے کو جنت میں دو باغ دیئے جائیں گے۔ ٢۔ جن اور انسان اپنے رب کی کس کس نعمت کو جھٹلائیں گے۔ تفسیر بالقرآن اللہ سے ڈرنے کے فوائد : ١۔ صبر کرو متقین کا انجام بہتر ہے۔ (ہود : ٤٩) ٢۔ متقین کے لیے کامیابی ہے۔ (النبا : ٣١ تا ٣٣ ) ٣۔ متقی کے کام آسان اور اس کی سب خطائیں معاف اور ان کے لیے بڑا اجر ہوگا۔ (الطلاق : ٤ تا ٥) ٤۔ قیامت کے دن متقین کے چہرے ہشاش بشاش ہوں گے۔ (یونس : ٢٦) ٥۔ متقین اولیاء اللہ ہیں جو بے خوف ہوں گے۔ ( یونس : ٦٢) ٦۔ متقین کے لیے ان کے رب کے پاس نعمتوں والی جنت ہے۔ (القلم : ٣٤) ٧۔ اللہ تعالیٰ نے متقین کے ساتھ جنت کا وعدہ فرمایا ہے اور کافروں کا انجام دوزخ کی آگ ہے۔ (الرعد : ٣٥) ٨۔ یقیناً متقین باغات اور چشموں میں ہوں گے۔ (الذاریات : ١٥) ٩۔ یقیناً متقی نعمتوں والی جنت میں ہوں گے۔ (الطور : ١٧) الرحمن
47 الرحمن
48 فہم القرآن ربط کلام : جنت کے باغات کی بہاریں اور ان کے پھل۔ ” اللہ“ کا خوف رکھنے والے جنتی کو جنت میں دوباغ دیئے جائیں گے جن کے درخت طرح طرح کے پھلوں سے لدے ہوئے ہوں گے۔ ان باغات میں دو دوچشمے ہوں گے اور ان کے پھل بھی دو قسم کے ہوں گے۔ جنتی حضرات ایسے قالینوں پر تکیے لگائے تشریف فرما ہوں گے جن کے استر اطلس کے بنے ہوئے ہوں گے اور جنت کے پھل ان کے سامنے ٹپک رہے ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ نے جنت کی بڑی بڑی نعمتوں کا ذکر کرنے کے بعد بار بار ارشاد فرمایا ہے کہ اے جن اور انسانو! تم اپنے رب کی کون کون سی نعمت کو جھٹلاؤ گے۔ اس ارشاد سے یہ ثابت کیا ہے کہ اگر جن اور انسان آخرت کی فکر پیدا کرلیں اور اپنے رب سے ڈر کرزندگی بسر کریں تو انہیں ہر صورت جنت کی نعمتوں سے سرفراز کیا جائے گا۔ اللہ کے خوف کا پہلا تقاضا ہے کہ انسان اپنے رب کے ساتھ شرک نہ کرے اور ہر قسم کی نافرمانی سے بچتا رہے۔ جس نے اپنے رب کی نافرمانی سے بچنے کی کوشش نہ کی حقیقت میں اس نے جنت اور اس کی نعمتوں کی تکذیب کی۔ اس لیے فرمایا کہ اے جن اور انسانو! تم اپنے رب کی کس کس نعمت کا انکار کروگے۔ (وَعَنْ اَبِیْ ہُرَےْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کُلُّ اُمَّتِیْ ےَدْخُلُوْنَ الْجَنَّۃَ اِلَّا مَنْ اَبٰی قِےْلَ وَمَنْ اَبٰی قَالَ مَنْ اَطَاعَنِیْ دَخَلَ الْجَنَّۃَ وَمَنْ عَصَانِیْ فَقَد اَبٰی) (رواہ البخاری : باب الاِقْتِدَاءِ بِسُنَنِ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت ابوہر یرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : میری تمام کی تمام امت جنت میں داخل ہوگی سوائے اس کے جس نے جنت میں جانے سے انکار کیا صحابہ (رض) نے پوچھا انکار کرنے والا کون ہوگا؟ فرمایا جس نے میری اطاعت کی وہ جنت میں داخل ہوگا جس نے میری نافرمانی کی اس نے جنت میں جانے سے انکار کیا۔“ مسائل ١۔ جنت کے باغ پھلوں سے لدے ہوئے ہوں گے۔ ٢۔ جنت کے باغات میں چشمے بہہ رہے ہوں گے۔ ٣۔ جنت کے باغوں میں تمام پھل دو دوقسم پر مشتمل ہوں گے۔ ٤۔ انسانوں اور جنت کو اللہ کی نعمتوں کی قدر کرنی چاہیے۔ ٥۔ جنتی جنت کے قالینوں پرتشریف فرما اور تکیوں پر ٹیک لگائے ہوں گے۔ ٦۔ جنت کے باغات کے پھل جنتی کے سامنے ٹپک رہے ہوں گے۔ تفسیر بالقرآن جنت میں جنتی کا مقام اور جنت کی ایک جھلک : ١۔ ہم ان کے دلوں سے کینہ نکال دیں گے اور سب ایک دوسرے کے سامنے تکیوں پر بیٹھے ہوں گے۔ انہیں کوئی تکلیف نہیں پہنچے گی اور نہ وہ اس سے نکالے جائیں گے۔ (الحجر : ٤٧۔ ٤٨) ٢۔ جس جنت کا مومنوں کے ساتھ وعدہ کیا گیا ہے۔ اس کے نیچے سے نہریں جاری ہیں اور اس کے پھل اور سائے ہمیشہ کے لیے ہوں گے۔ (الرعد : ٣٥) ٣۔ جنت میں بے خار بیریاں، تہہ بہ تہہ کیلے، لمبا سایہ، چلتا ہوا پانی، اور کثرت سے میوے ہوں گے۔ (الواقعہ : ٢٨ تا ٣٠) ٤۔ جنت میں وہ سب کچھ ہوگا جس کی جنتی خواہش کرے گا۔ (حٰم السجدۃ: ٣١) ٥۔ ہم نے اس میں کھجوروں، انگوروں کے باغ بنائے ہیں اور ان میں چشمے جاری کیے ہیں۔ (یٰس : ٣٤) ٦۔ یقیناً متقین باغات اور چشموں میں ہوں گے۔ (الذاریات : ١٥) ٧۔ یقیناً متقی نعمتوں والی جنت میں ہوں گے۔ (الطور : ١٧) ٨۔ جنت کے میوے ٹپک رہے ہوں گے۔ (الحاقہ : ٢٣) ٩۔ جنت میں جنتی کو سونے اور لولو کے زیور پہنائے جائیں گے۔ (فاطر : ٣٣) ١٠۔ جنت میں تمام پھل دو، دو قسم کے ہوں گے۔ (الرحمن : ٥٢) ١١۔ جنتی کو شراب طہور دی جائے گی۔ (الدھر : ٢١) ١٢۔ جنتی سبز قالینوں اور مسندوں پر تکیہ لگا کر بیٹھے ہوں گے۔ (الرحمن : ٧٦) الرحمن
49 الرحمن
50 الرحمن
51 الرحمن
52 الرحمن
53 الرحمن
54 الرحمن
55 الرحمن
56 فہم القرآن ربط کلام : جنت کی نعمتوں کا ذکر جاری ہے۔ جنت کی عورتوں کا حسن و جمال اور حیاء۔ جنت میں شرمیلی اور نیچی نگاہ رکھنے والی حوریں ہوں گی جنہیں جنتی سے پہلے کسی انسان اور جن نے نہیں چھوا ہوگا۔ جنت کی حوریں اتنی خوبصورت ہوں گی جسے یاقوت اور مرجان خوبصورت اور پرکشش ہوتے ہیں یادرہے کہ یاقوت اپنی سرخی میں بے مثال ہوتا ہے اور مرجان اپنی سفیدی میں بے مثل سمجھا جاتا ہے۔ جنتی کو اس لیے خوبصورت عورتیں دی جائیں گی کیونکہ یہ دنیا میں اللہ کے حکم کے مطابق نیکیاں کرتے رہے اور ہر نیکی کا بدلہ احسان ہی ہونا چاہیے۔ جنت کی عورتوں کے بارے میں ارشاد ہوا ہے کہ انہیں انسانوں اور جنوں میں سے کسی نے چھوا نہیں ہوگا۔ اس سے مراد اگر دنیا کی نیک عورتیں ہیں تو اس کا معنٰی ہوگا کہ جب انہیں دوبارہ پیدا فرما کر جنت جانے کا حکم ہوگا تواس وقت سے لے کر جنت میں داخلے تک انہیں کسی نے ہاتھ نہیں لگا یا ہوگا۔ اگر اس سے مراد صرف حوریں ہیں تو ظاہر ہے کہ وہ جنت کی مخلوق ہیں اور جنتی سے پہلے انہیں نہ کسی نے دیکھا ہوگا اور نہ ہی کسی نے چھوا ہوگا۔ جہاں تک دنیا کی عورتوں کا تعلق ہے اللہ تعالیٰ جنت میں داخل کرنے سے پہلے انہیں اتنا حسن وجمال دے گا کہ جنت کی حوریں بھی ان کے حسن وجمال پر رشک کریں گی اور وہ جنت میں حوروں کی سردار ہوں گی۔ جنت میں مردوں کو نیک بیویاں دی جائیں گی اور جنوں کو ان کی ہم جنس بیویاں ملیں گی۔ اس سے ثابت ہوا کہ نیک جنوں اور جننیوں کو بھی جنت میں داخلہ ملے گا اور برے جنوں اور جننیوں کو جہنم میں جھونکا جائے گا۔ یہاں جنت کی ہر نعمت کا ذکر کرنے کے بعد ارشاد ہوا کہ اے جنوں اور انسانو! تم اپنے رب کی کون کونسی نعمت کو جھٹلاؤ گے ؟ جنت کے صلہ کا ذکر کرتے ہوئے دونوں مرتبہ احسان کا لفظ استعمال کیا ہے۔ پہلے احسان کا معنٰی پُرخلوص نیکی ہے اور دوسری مرتبہ احسان کا لفظ استعمال کرنے کا مفہوم اللہ تعالیٰ کی کرم نوازی ہے گویا کہ جنت میں داخل کرنا اللہ کا اپنے بندوں پر سراسر احسان ہوگا۔ ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک دن نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لوگوں میں تشریف فرماتھے۔ آپ کے پاس جبریل (علیہ السلام) آئے۔ انہوں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا احسان کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا کہ تو اللہ کی عبادت اس طرح کرے گویا کہ اسے دیکھ رہا ہے، اگر یہ نہیں ہوسکتا تو یہ خیال کرے کہ اللہ تعالیٰ تجھے دیکھ رہا ہے۔“ (رواہ البخاری : کتاب الایمان) حضرت حذیفہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تم ایسے نہ ہوجاؤ کہ جس طرح کسی کو دیکھو ویسے ہوجاؤ۔ تم کہتے ہو اگر لوگ ہمارے ساتھ اچھا سلوک کریں گے تو ہم بھی ان کے ساتھ اچھا سلوک کریں گے۔ اگر وہ ظلم کریں گے تو ہم بھی ان پر ظلم کریں گے۔ لیکن اپنے آپ کو اس بات کا عادی بنا لو کہ اگر لوگ تمہارے ساتھ اچھا سلوک کریں تو تم بھی ان کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔ اگر وہ تمہارے ساتھ برا سلوک کریں تو تم ان پر ظلم نہ کرو۔“ (رواہ الترمذی : باب ما جاء فی الاحسان والعفو، قال الترمذی ہذا حدیث حسن غریب ) مسائل ١۔ جنت کی عورتوں اور حوروں کو جنت میں جانے سے پہلے کسی مرد اور جن نے نہیں چھوا ہوگا۔ ٢۔ جنت کی عورتیں یاقوت اور مرجان سے زیادہ خوبصورت ہوں گی۔ ٣۔ احسان کا بدلہ احسان ہی ہونا چاہیے۔ ٤۔ جنتی کو جنت میں داخل کرنا ان پر اللہ تعالیٰ کا احسان ہوگا۔ تفسیر بالقرآن جنت کی بیویوں کا حسن و جمال : ا۔ حوریں نوجوان، کنواریاں اور ہم عمرہوں گی۔ (الواقعہ : ٢٥ تا ٣٨) ٢۔ یا قوت و مرجان کی مانند ہوں گی۔ (الرحمن : ٥٨) ٣۔ خوبصورت اور خوب سیرت ہوں گی۔ (الرحمن : ٧٠) ٤۔ خیموں میں چھپی ہوئی ہوں گی۔ (الرحمن : ٧٢) ٥۔ شرم و حیا کی پیکر ہونگی اور انہیں کسی نے چھوا نہیں ہوگا۔ (الرحمن : ٥٦) الرحمن
57 الرحمن
58 الرحمن
59 الرحمن
60 الرحمن
61 الرحمن
62 الرحمن
63 الرحمن
64 فہم القرآن ربط کلام : جنت کی بیویوں کا ذکر کرنے کے بعد جنت کی بہاروں اور اس کے باغات کا ذکر۔ اسی سورت کی آیت ٤٦ میں دو جنتوں کا ذکر کیا گیا۔ اب دو اور جنتوں کا ذکر کیا جاتا ہے جن کے لیے ” دُوْنَ“ کا لفظ استعمال فرمایا ہے۔ عربی زبان میں ” دُوْنَ“ کا لفظ کئی معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ ١۔ اعلیٰ کے مقابلے میں حقیر۔ ٢۔ ایک کے علاوہ سب کی نفی ہو جس طرح قرآن مجید میں ” من دون اللّٰہ“ یا ” من دونہٖ“ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ ٣۔ یہاں ذکر ہونے والی دو جنتوں کے لیے ” دُوْنَ“ کا لفظ استعمال فرمایا ہے جس کا اہل تفسیر نے یہی معنٰی لیا ہے کہ یہ پہلی دو جنتوں سے نسبتاً کم درجے کی جنتیں ہوں گی۔ گویا کہ جس طرح جنتوں کے درمیان درجہ بندی ہوگی اسی طرح جنت کے باغوں اور نعمتوں کے درمیان بھی فرق ہوگا۔ تاہم یہ جنت بھی اپنی خوبصورتی اور شادابی کے اعتبار سے دیکھنے میں کسی صورت بھی پہلی جنت سے کم نہیں ہوں گی۔ جس طرح اعلیٰ جنتوں میں چشمے جاری ہوں گے اسی طرح ہی ان جنتوں میں بھی چشمے جاری ہوں گے۔ جس طرح اعلیٰ جنت میں قسماں قسم کے پھل ہوں گے اسی طرح اس میں بھی کھجوروں، اناروں اور ہر قسم کے پھل ہوں گے۔ جس طرح دوسری جنت میں نیک سیرت اور خوبصورت عورتیں ہوں گی اسی طرح ان میں بھی خوبصورت عورتیں اور حوریں ہوں۔ پہلی جنت کی عورتوں کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ وہ شرمیلی اور نیچی نگاہ رکھنے والی ہوں گی۔ یہاں بھی باحیا اور ایسی عورتیں ہوں گی جو خیموں میں قیام پذیر ہوں گی۔ انہیں نہ کسی مرد نے دیکھا ہوگا اور نہ وہ اپنے خاوندوں کے سوا کسی کو دیکھنے والی ہوں گی۔ جس طرح پہلی جنت کی عورتوں کو کسی نے نہیں چھوا ہوگا اسی طرح ان جنتوں کی عورتوں اور حوروں کو بھی اس سے پہلے کسی جن اور انسان نے نہیں چھوا ہوگا۔ جس طرح پہلی جنت کی ایک ایک نعمت کا ذکر کرنے کے بعد ارشاد فرمایا ہے کہ اے جنوں اور انسانوں! تم اپنے رب کی کون کون سی نعمت کو جھٹلاؤگے ؟ اسی طرح ہی ان جنتوں کی بڑی بڑی نعمتوں کا ذکر کرنے کے بعد ارشاد ہوا کہ اے جنوں اور انسانو ! تم اپنے رب کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے؟ (وَلَوْ اَنَّ اِمْرَاَۃً مِّنْ نِّسَآءِ أَھْلِ الْجَنَّۃِ اطَّلَعَتْ اِلَی الْاَرْضِ لَاَضَآءَ تْ مَا بَیْنَھُمَا وَلَمَلَاَتْ مَا بَیْنَھُمَا رِیْحًا وَلَنَصِیْفُھَا یَعْنِی الْخِمَارَ خَیْرٌ مِّنَ الدُّنْیَا وَمَا فِیْھَا) (رواہ البخاری : کتاب الرقاق، باب صفۃ الجنۃ والنار ) ” اگر اہل جنت کی عورتوں سے کوئی زمین کی طرف جھانک لے تو مشرق و مغرب اور جو کچھ اس میں ہے روشن اور معطر ہوجائے۔ نیز اس کے سر کا دوپٹہ دنیا اور جو کچھ دنیا میں ہے اس سے قیمتی ہے۔“ (لَوْ أَنَّ امْرَأَۃً مِنْ أَہْلِ الْجَنَّۃِ اطَّلَعَتْ إِلَی أَہْلِ الأَرْضِ لأَضَاءَ تْ مَا بَیْنَہُمَا) (رواہ البخاری : کتاب الجہاد، باب الحور العین) ” اگر وہ آسمان سے نیچے جھانکے تو ہر چیز منور ہوجائے۔“ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَنْ اٰمَنَ باللّٰہِ وَبِرَسُوْلِہٖ وَأَقَام الصَّلٰوۃَ وَصَامَ رَمَضَانَ کَانَ حَقًّا عَلَی اللّٰہِ أَنْ یُّدْخِلَہُ الْجَنَّۃَ جَاھَدَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ أَوْجَلَسَ فِیْ أَرْضِہِ الَّتِیْ وُلِدَ فِیْھَا فَقَالُوْا یَارَسُوْلَ اللّٰہِ ! أَفَلَا نُبَشِّرُ النَّاسَ قَالَ : إِنَّ فِی الْجَنَّۃِ ماءَۃَ دَرَجَۃٍ أَعَدَّھَا اللّٰہُ لِلْمُجَاھِدِیْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ مَابَیْنَ الدَّرَجَتَیْنِ کَمَا بَیْنَ السَّمَآءِ وَالْأَرْضِ فَإِذَا سَأَلْتُمُ اللّٰہَ فَاسْأَلُوْہُ الْفِرْدَوْسَ فَإِنَّہٗ أَوْسَطُ الْجَنَّۃِ وَأَعْلَی الْجَنَّۃِ أُرَاہُ قَالَ وَ فَوْقَہٗ عَرْشُ الرَّحْمٰنِ وَمِنْہُ تَفَجَّرُ أَنْھَارُ الْجَنَّۃِ) (رواہ البخاری : کتاب الجھاد والسیر) ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جو اللہ و رسول پر ایمان لایا اور اس نے نماز قائم کی اور رمضان کے روزے رکھے۔ اسے جنت میں داخل کرنا اللہ پر حق ہے اس نے اللہ کی راہ میں جہاد کیا ہو یا اپنی جائے پیدائش میں ٹھہرا رہا۔ صحابہ نے کہا اللہ کے رسول! تو کیا ہم لوگوں کو خوشخبری نہ دیں؟ آپ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے فی سبیل اللہ جہاد کرنے والوں کے لیے جنت میں سو درجات بنائے ہیں ہر درجے کادرمیانی فاصلہ زمین و آسمان کے درمیانی فاصلہ جتنا ہے جب تم اللہ سے جنت کا سوال کرو تو جنت الفردوس مانگا کرو کیونکہ یہ جنت کا وسط اور اعلیٰ جگہ ہے راوی کہتے ہیں میرا خیال ہے آپ نے یہ بھی فرمایا کہ اس کے اوپررحمان کا عرش ہے اور وہاں سے جنت کی نہریں نکلتی ہیں۔“ مسائل ١۔ دوسری جنتیں بھی خوبصورت اور سرسبز وشاداب ہوں گی۔ ٢۔ ان جنتوں میں بھی چشمے ابل رہے ہوں گے۔ ٣۔ ان جنتوں میں بھی کھجوروں اور اناروں اور ہر قسم کے پھل ہوں گے۔ ٤۔ اس جنت کی عورتیں بھی نہایت خوبصورت اور نیک سیرت ہوں گی۔ ٥۔ اس جنت میں رہنے والی حوریں بھی خیموں میں مستور ہوں گی۔ ٦۔ ان عورتوں کو بھی کسی مرد اور جن نے نہیں چھوا ہوگا۔ ٧۔ اے جنوں اور انسانو! تم اپنے رب کی کس کس نعمت کا انکار کر وگے؟ الرحمن
65 الرحمن
66 الرحمن
67 الرحمن
68 الرحمن
69 الرحمن
70 الرحمن
71 الرحمن
72 الرحمن
73 الرحمن
74 الرحمن
75 الرحمن
76 الرحمن
77 الرحمن
78 فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت اور نشانیوں کا ذکر کرنے کے بعد اس سورت کا اختتام اپنے مبارک نام اور جلال واکرام کے ذکر پر کیا ہے تاکہ لوگ اپنے رب کی قدرتوں، نعمتوں اور اس کے جلال کو یاد رکھیں۔ یہی وہ عقیدہ ہے جو انسان کو صحیح فکر اور راستے کی نشان دہی کرتا ہے۔ (وَ لِلّٰہِ الْاَسْمَآءُ الْحُسْنٰی فَادْعُوْہُ بِھَا) (الاعراف : ١٨٠) ” اور سب سے اچھے نام اللہ ہی کے، ہیں سو اسے انہی ناموں کے ساتھ پکاراکرو۔“ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ رِوَایَۃً قَالَ لِلّٰہِ تِسْعَۃٌ وَتِسْعُونَ اسْمًا ماءَۃٌ إِلَّا وَاحِدًا لَا یَحْفَظُہَا أَحَدٌ إِلَّا دَخَلَ الْجَنَّۃَ وَہُوَ وِتْرٌ یُحِبُّ الْوِتْرَ) ( رواہ البخاری : باب للہ ماءۃ اسم غیر واحد) ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ تعالیٰ کے ننانوے نام ہیں جو کوئی انہیں یاد کرلے گا وہ جنت میں داخل ہوگا اللہ ایک ہے اور ایک کو پسند کرتا ہے۔“ (بشرطیکہ اس کا عقیدہ اور عمل بھی اللہ تعالیٰ کے اسمائے گرامی کے مطابق ہو۔) باری تعالیٰ کا اسم اعظم ” اللہ“ ہے۔ یہ ایسا عظیم المرتبت اور عظیم الرّعب اسم عالی ہے جو صرف اور صرف خالق کائنات کی ذات کو زیبا اور اسی کے لیے مختص ہے۔ یہ ذات باری تعالیٰ کا ذاتی نام ہے اس اسم مبارک کے اوصاف اور خواص میں سے ایک خاصہ یہ بھی ہے کہ کائنات میں انتہا درجے کے کافر، مشرک اور بدترین باغی انسان گزرے ہیں اور ہوں گے۔ جن میں اپنے آپ کو داتا، مشکل کشا، موت و حیات کا مالک کہنے والے حتی کہ ” اَنَا رَبُّکُمُ الْاَعَلٰی“ کہلوانے والے بھی ہوئے ہیں۔ مگر ” اللہ“ کے نام کی جلالت و ہیبت کی وجہ سے اپنے آپ کو ” اللہ“ کہلوانے کی کوئی جرأت نہیں کرسکا اور نہ کرسکے گا۔ مکے کے مشرک اپنے بتوں کو سب کچھ مانتے اور کہتے تھے لیکن بتوں کو ” اللہ“ کہنے کی جرأت نہیں کرسکے تھے۔ ” اللہ“ ہی انسان کا ازلی اقرار اور اس کی فطری آواز ہے جس بنا پر ہر کام ” بِسْمِ اللّٰہِ“ سے شروع کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ یہ اسم مبارک اپنے آپ میں خا لقیت، مالکیت، جلالت و صمدیت، رحمن و رحیمیت کا ابدی اور سرمدی تصور لیے ہوئے ہے۔ قرآن مجید میں اللہ کا نام ٢٦٩٧ مرتبہ وارد ہوا ہے۔ (عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ عُمَیْسٍ (رض) قَالَتْ قَالَ لِی رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) أَلاَ أُعَلِّمُکِ کَلِمَاتٍ تَقُولِینَہُنَّ عِنْدَ الْکَرْبِ أَوْ فِی الْکَرْبِ اللَّہُ ” اللَّہُ رَبِّی لاَ أُشْرِکُ بِہِ شَیْءًا“ ) (رواہ ابوداؤد : باب فِی الاِسْتِغْفَارِ) ” حضرت اسماء بن عمیس (رض) بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے فرمایا کیا میں تجھے ایسے کلمات نہ سکھاؤں جنہیں تو مصیبت کے وقت پڑھا کر! میں اللہ جو کہ میرا رب ہے اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھراؤں گا۔“ الرحمن
0 سورۃ الواقعہ کا تعارف یہ سورت مکہ معظمہ میں نازل ہوئی۔ اس کے تین رکوع اور چھیانوے (٩٦) آیات ہیں۔ قرآن مجید نے قیامت کے مختلف مراحل کا ذکر کیا ہے اور ان مراحل کی جلالت و ہیبت کا منظر پیش کرتے ہوئے انہیں مختلف نام دئیے ہیں۔ قیامت کا دن زمین و آسمان پر بھاری ہوگا اور یہ اسرافیل کے صور سے یک دم واقع ہوجائے گا۔ قیامت اپنی ہیبت اور شدت کے اعتبار سے انتہائی خوفناک ہوگی اس لیے اسے الواقعہ کا نام دیا گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی کے انکار کرنے سے قیامت ٹل نہیں سکتی۔ اس نے ہر صورت برپا ہو کر رہنا ہے اس لیے اسے الواقعہ کہا گیا ہے یعنی جس کے واقعہ ہونے میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں۔ اہل مکہ کی غالب اکثریت قیامت کی منکر تھی اس لیے وہ مختلف قسم کی باتیں اور بہانے پیش کرتے تھے۔ ایک موقع پر انہوں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ سوال کیا کہ آپ کہتے ہیں کہ قیامت ہر چیز تہس نہس کر دے گی۔ کیا پہاڑ بھی اپنی جگہ سے ہل سکتا ہے؟ قرآن مجید نے اس کا جواب دیا کہ آپ سے پہاڑوں کے بارے میں استفسار کرتے ہیں انہیں بتلائیں کہ ہاں پہاڑوں کو اس طرح ریزہ ریزہ کردیا جائے گا کہ یہ مٹی کے ساتھ مٹی بن جائیں گے اور پوری زمین چٹیل میدان بنا دی جائے گی۔ دیکھنے والا اس میں کوئی نشیب و فراز نہیں دیکھے گا۔ (وَّکُنْتُمْ اَزْوَاجًا ثَلٰثَۃً فَاَصْحٰبُ الْمَیْمَنَۃِ مَا اَصْحٰبُ الْمَیْمَنَۃِ وَاَصْحٰبُ الْمَشْءَمَۃِ مَا اَصْحٰبُ الْمَشْءَمَۃ) (الواقعہ ٧ تا ٩) اور تم اس دن تین گروہوں میں تقسیم ہو گے۔ دائیں جانب والے ان کا کیا کہنا یہ نعمتوں والی جنت میں رہیں گے۔ اس میں ہر نبی کی امت کے آخری حصہ کے لوگ کم ہوں گے۔ دائیں جانب والے مرصّعتکیوں پر ٹیک لگا کر ایک دوسرے کے سامنے جلوہ فروز ہوں گے۔ ان کی خدمت کرنے کے لیے نو عمر بچے ہوں گے جو ان کے سامنے شراب کے جام پیش کریں گے اس شراب میں کسی قسم کا نشہ نہیں ہوگا۔ انہیں ہر قسم کا پھل اور پرندوں کا گوشت پیش کیا جائے گا اور چھپائے ہوئے موتیوں کی مانند حوریں پیش کی جائیں گی اور جنتیوں کو ہر طرف سے سلامتی کی صدائیں آئیں گی۔ مقربوں اور السّابقون کے بعد دوسرے درجے کے جنتیوں کو بھی السّابقون جیسی نعمتیں دی جائیں گی ان کے مقابلے میں بائیں جانب والے ہوں گے وہ جلتی ہوئی آگ، کھولتے ہوئے پانی اور کالے دھویں سے دوچار ہوں گے، نہ ان کے لیے ٹھنڈا پانی ہوگا اور نہ ہی انہیں آرام میسر ہوگا۔ ان کا سب سے بڑا قصور یہ ہوگا کہ وہ قیامت کو جھٹلایا کرتے تھے انہیں کھانے کے لیے زقوم کا درخت دیا جائے گا۔ جس سے ان کی بھوک ختم نہیں ہوگی اور یہ کھولتا ہوا پانی پیاسے ہونٹ کی طرح پینے کی کوشش کریں گے۔ الواقعہ کے آخر میں یہ بیان ہوا ہے کہ جو لوگ قیامت کا انکار کرتے ہیں انہیں اپنی موت یاد کرنی چاہیے۔ الواقعة
1 فہم القرآن ربط سورت : سورۃ الرّحمن کا اختتام ان الفاظ پرہوا کہ آپ کا رب بڑی برکت والا اور ذوالجلال والاکرام ہے۔ الواقعہ کی ابتدارب ذوالجلال کی جلالت کے اظہار سے ہورہی ہے کہ قیامت کے دن اس کی جلالت کے سامنے کسی کی کوئی حیثیت نہیں ہوگی یہاں تک کہ پہاڑ بھی اس کے حکم کے سامنے نہیں ٹھہر سکیں گے۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جوں ہی اپنی نبوت کا اعلان فرمایا تواہل مکہ کی کوئی مجلس ایسی نہ تھی جس میں تین موضوعات میں سے کسی ایک موضوع پر بحث نہ ہوتی ہو۔ لوگ یہاں بیٹھتے اللہ کی توحید، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت اور قیامت کے عنوانات میں سے کسی ایک عنوان پر ضرور گفتگو کرتے۔ اس میں بالخصوص نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت اور قیامت کے قائم ہونے کو استہزاء کانشانہ بنایا جاتا۔ وہ کسی صورت ماننے کے لیے تیار نہ تھے کہ قیامت قائم ہوگی اور ہمیں رب ذوالجلال کے حضور پیش ہونا ہے۔ قرآن مجید نے انہیں ہر قسم کے دلائل سے سمجھایا ہے کہ قیامت ضرورقائم ہوگی۔ لیکن وہ کہتے تھے کہ اس زمین کا وسیع و عریض نظام کس طرح ختم کیا جاسکتا ہے اور بلندوبالا پہاڑوں کو کون ہلاسکتا ہے۔ قرآن مجید نے اس سوال کا یوں جواب دیا۔ (وَیَسْءَلُوْنَکَ عَنِ الْجِبَالِ فَقُلْ یَنْسِفُہَا رَبِّیْ نَسْفًا۔ فَیَذَرُہَا قَاعًا صَفْصَفًا۔ لَّا تَرٰی فِیْہَاعِوَجًا وَّ لَآ اَمْتًا) (طٰہٰ: ١٠٥، ١٠٧) ” یہ لوگ آپ سے پوچھتے ہیں کہ یہ پہاڑکہاں چلے جائیں گے ؟ فرمادیں کہ میرا رب ان کو دھول بناکر اڑا دے گا اور زمین کو چٹیل میدان کر دے گا۔ اس میں تم کوئی اونچ نیچ نہ دیکھ پاؤ گے۔“ سورۃ الواقعہ کی ابتدا پرجلال الفاظ سے فرمائی کہ جب قیامت کا واقعہ پیش آئے گا تو وہ اس قدرخوفناک اور ہر چیز ہلادینے والا ہوگا کہ کوئی جھٹلانے والا جھٹلا نہیں سکے گا۔ قیامت کو جھٹلانے والے اس دن زمین کو پکار پکار کہیں گے۔ ہائے ! تجھے کیا ہوگیا ہے کہ ٹھہرتی کیوں نہیں؟ سورۃ الزلزال کی پہلی اور دوسری آیت میں فرمایا ہے کہ زمین کو پوری طرح ہلایا جائے گا۔ یہاں تک کہ پہاڑ ریت کے ذرّات بن کر اڑنا شروع ہوجائیں گے۔ یہاں زمین کے بارے میں فرمایا کہ ” خَافِضَۃُ رَافِعَۃٌ“ قیامت اسے اوپر نیچے کر دے گی جس سے ہر چیز تہہ بالا ہوجائے گی۔ یہاں تک کہ زمین چٹیل میدان بنادی جائے گی اور زمین و آسمانوں کو یکسر طور پر بدل دیا جائے گا۔ (یَوْمَ تُبَدَّلُ الْاَرْضُ غَیْرَ الْاَرْضِ وَ السَّمٰوٰتُ وَ بَرَزُوْا لِلّٰہِ الْوَاحِدِ الْقَہَّارِ) (ابراہیم : ٤٨) ” جس دن اس زمین کو دوسری زمین کے ساتھ بدل دیا جائے گا اور آسمان بھی بدل دیا جائے گا اور لوگ اللہ کے سامنے پیش ہوں گے، جو اکیلا اور بڑا زبر دست ہے۔“ (یَوْمَ یَکُوْنُ النَّاسُ کَالْفَرَاشِ الْمَبْثُوْثِ وَتَکُوْنُ الْجِبَالُ کَالْعِہْنِ الْمَنْفُوْشِ) (القارعۃ: ٤، ٥) ” اس دن لوگ بکھرے ہوئے پروانوں کی طرح ہوں گے۔ اور پہاڑ دھنکی ہوئی روئی کی طرح ہوں گے۔“ مسائل ١۔ قیامت ہر صورت واقع ہوجائے گی۔ ٢۔ قیامت واقع ہوگی تو جھٹلانے والے اسے جھٹلا نہیں سکیں گے۔ ٣۔ زمین کی ہر چیز الٹ پلٹ کر رکھ دی جائے گی۔ ٤۔ پہاڑ ریزہ ریزہ ہوجائیں گے۔ تفسیر بالقرآن قیامت کے دن زمین اور پہاڑوں کی حالت۔ ١۔ اس دن ہم پہاڑوں کو چلائیں گے اور زمین چٹیل میدان ہوگی اور ہم تمام لوگوں کو جمع کریں گے اور کسی کو نہیں چھوڑیں گے۔ (الکھف : ٤٧) ٢۔ اس دن زمین اور پہاڑ کانپنے لگیں گے اور پہاڑ ریت کے ٹیلوں کی طرح ہوجائیں گے۔ (المزمّل : ١٤) ٣۔ اس دن آنکھیں چندھیا جائیں گی اور چاند گہنا دیا جائے گا اور سورج چاند کو جمع کردیا جائے گا۔ (القیامہ : ٦ تا ٨) ٤۔ جب سورج لپیٹ لیا جائے گا۔ تارے بے نور ہوجائیں گے۔ پہاڑچلائے جائیں گے۔ (التکویر : ١ تا ٣) الواقعة
2 الواقعة
3 الواقعة
4 الواقعة
5 الواقعة
6 الواقعة
7 فہم القرآن ربط کلام : قیامت برپا ہونے کے بعد محشر کے میدان میں لوگوں کی حالت۔ اس سورت کی پہلی آیت سے لے کر چھٹی آیت تک اسرافیل کے پہلی مرتبہ صورپھونکنے کا منظر بیان ہوا ہے۔ اس کے بعد جوں ہی دوسرا صورپھونکا جائے گا تو لوگ قبروں سے اٹھ کر محشر کے میدان میں یوں اکٹھے ہوں جیسے تیر اپنے نشانے پر پہنچ جاتا ہے۔ (المعارج : ٤٣) لوگوں کو حساب و کتاب کے فوراً بعد تین حصوں میں تقسیم کردیا جائے گا۔ جس کی ابتدا حساب و کتاب کے وقت ہی کردی جائے گی۔ آغاز میں مجموعی طور پر لوگ دواقسام پر مشتمل ہوں گے نیک اور بد۔ نیک لوگوں کو ان کے اعمال نامے دائیں ہاتھ میں دئیے جائیں گے اور برے لوگوں کو ان کے اعمال نامے بائیں ہاتھ میں تھمائے جائیں گے۔ دونوں کے اپنے اپنے اعمال ناموں کے بارے میں ابتدائی تاثرات یوں ہوں گے۔ (فَاَمَّا مَنْ اُوْتِیَ کِتَابَہٗ بِیَمِیْنِہِ فَیَقُوْلُ ہَاؤُمْ اقْرَءُ وا کِتَابِی اِِنِّی ظَنَنتُ اَنِّی مُلَاقٍ حِسَابِی۔ فَہُوَ فِیْ عِیْشَۃٍ رَّاضِیَۃٍ) (الحاقۃ: ١٩ تا ٢١) ” سو جس کا نامۂ اعمال اس کے سیدھے ہاتھ میں دیا جائے گا وہ کہے گا ” دیکھو، پڑھو میرا نامۂ اعمال۔ میں سمجھتا تھا کہ مجھے ضرور اپنا حساب ملنے والا ہے۔ وہ خوش وخرم ہوگا۔“ (وَاَمَّا مَنْ اُوْتِیَ کِتَابَہٗ بِشِمَالِہٖ فَیَقُوْلُ یَالَیْتَنِی لَمْ اُوْتَ کِتَابِی۔ وَلَمْ اَدْرِ مَا حِسَابِی یَالَیْتَہَا کَانَتِ الْقَاضِیَۃَ مَا اَغْنٰی عَنِّی مَالِی ہَلَکَ عَنِّی سُلْطَانِی) (الحاقۃ: ٢٥ تا ٢٩) ” اور جس کا نامۂ اعمال اس کے بائیں ہاتھ میں دیا جائے گا وہ کہے گا۔” کاش! میرا اعمال نامہ مجھے نہ دیا جاتا، اور میں نہ جانتا کہ میرا حساب کیا ہے۔ کاش ! جو موت دنیا میں مجھے آئی تھی وہ آخری ہوتی آج میرا مال میرے کچھ کام نہ آیا۔ میرا سارا اثر ورسوخ ختم ہوگیا۔“ حساب و کتاب کے بعد لوگوں کو مجموعی طورپرتین حصوں میں تقسیم کیا جائے گا۔1۔ دائیں جانب والے۔ دائیں جانب والوں کا کیا کہنا ہے ؟ 2۔ سبقت لے جانے والے تو سب سے آگے ہوں گے اور اپنے رب کے مقرب ترین ہوں گے۔ 3۔ بائیں ہاتھ والے سخت عذاب میں مبتلا ہوں گے۔ دنیا کے ہر معاشرے میں دائیں اور بائیں کی اصطلاح پائی جاتی ہے۔ دائیں ہاتھ کو بائیں پر نیکی اور فیزیکلی (PHSYCALLY) طور پر برتری حاصل ہوتی ہے۔ دائیں بائیں کی اصطلاح درجہ بندی کے اعتبار سے بھی استعمال کی جاتی ہے۔ عربوں میں بھی یہ اصطلاح معروف تھی جس وجہ سے جنتی کو دائیں ہاتھ والے اور جہنمی کو بائیں ہاتھ والے کہا گیا ہے۔ عرب آنے والے مہمانوں میں معزز ترین آدمی کو مجلس میں دائیں ہاتھ بٹھایا کرتے تھے۔ دین اسلام میں بھی دائیں اور بائیں میں فرق رکھا گیا ہے۔ کھانے پینے کے لیے دایاں ہاتھ استعمال کرنے کا حکم ہے اور استنجا کرنے کے لیے بایاں ہاتھ استعمال کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ یہاں دائیں ہاتھ والوں سے مراد جنتی لوگ ہیں جن کو دو حصوں میں تقسیم کیا جائے گا۔ جو لوگ دنیا میں نیکی کے کاموں میں پیش پیش رہے وہ جنت میں جانے اور اس کا اعلیٰ مقام پانے کے لیے بھی دوسرے جنتیوں سے آگے ہوں گے اور وہی جنت الفردوس میں داخل کیے جائیں گے جو رب رحمن کے عرش کے قریب تر جنت ہوگی، انہیں جنت نعیم میں داخل کیا جائے گا۔ سبقت لینے جانے والوں میں پہلے لوگ زیادہ ہوں گے اور پیچھے آنے والوں میں کم ہوں گے۔ مفسرین نے پہلے لوگوں کے بارے میں تین قسم کے خیالات کا اظہار فرمایا ہے جن میں بہترین خیال یہ ہے کہ جو لوگ اپنی زندگی میں نیکی کے معاملات میں دوسروں سے سبقت لے جانے کی کوشش کرتے رہے وہ جنت میں سابقین اور مقربین میں ہوں۔ ان میں وہ لوگ زیادہ ہوں گے جنہیں اپنے دور کے نبی کا صحابی ہونے کا شرف حاصل ہوا اور وہ اپنے ساتھیوں سے نیک کاموں میں آگے بڑھنے والے تھے۔ اسی بنا پر نبی محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ اور امت میں درجہ بندی فرمائی ہے۔ یہاں مقربین کے بعد جنت نعیم کا ذکر کیا ہے تاکہ لوگ نیکیوں میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کریں۔ صحابہ کرام (رض) میں پہلا درجہ خلفائے راشدین کا ہے پھر عشرہ مبشرہ اور پھر بدری صحابہ کا اور اس کے بعد فتح مکہ سے پہلے ایمان لانے والے صحابہ ہیں۔ امت کے بارے میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے : (عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ (رض) قَال قال النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عَشْرَۃٌ فِی الْجَنَّۃ أَبُو بَکْرٍ فِی الْجَنَّۃِوَعُمَرُ فِی الْجَنَّۃِ وَعُثْمَانُ فِی الْجَنَّۃِ وَعَلِیٌّ فِی الْجَنَّۃِ وَالزُّبَیْرُ فِی الْجَنَّۃِ وَطَلْحَۃُ فِی الْجَنَّۃِ وَابْنُ عَوْفٍ فِی الْجَنَّۃِ وَسَعْدٌ فِی الْجَنَّۃِ وَسَعِیدُ بْنُ زَیْدٍ فِی الْجَنَّۃِوَأَبُو عُبَیْدَۃَ بْنُ الْجَرَّاحِ فِی الْجَنَّۃِ) (صحیح ابن حبان، باب ذِکْرُ إِثْبَاتِ الْجَنَّۃِ لِأَبِی عُبَیْدَۃَ بْنِ الْجَرَّاحِ) ” حضرت عبدالرحمان بن عوف (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : دس لوگ جنت میں جائیں گے حضرت ابوبکر، حضرت عمر، حضرت عثمان، حضرت علی، حضرت زبیر، حضرت طلحہ، حضرت عبدالرحمان بن عوف، حضرت سعد، حضرت سعید بن زید اور حضرت ابوعبیدہ بن جراح (رض) ان کے لیے دنیا میں جنت کی بشارت ہے۔“ (عَنِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خَیْرُ النَّاسِ قَرْنِیْ ثُمَّ الَّذِیْنَ یَلُوْنَھُمْ ثُمَّ الَّذِیْنَ یَلُوْنَھُمْ ثُمَّ یَجِئُ قَوْمٌ تَسْبِقُ شَہَادَۃُ اَحَدِھِمْ یَمِیْنَہٗ وَیَمِیْنُہٗ شَہَادَتَہٗ) (رواہ البخاری : باب لاَ یَشْہَدُ عَلَی شَہَادَۃِ جَوْرٍ إِذَا أُشْہِدَ ) ” حضرت ابن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ سول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میرے زمانہ کے لوگ سب سے بہتر ہیں۔ پھر وہ لوگ جو ان کے بعد ہوں گے۔ پھر وہ لوگ جو ان کے بعد ہوں گے۔ اس کے بعد کچھ لوگ آئیں گے، جن کی گواہی ان کی قسم سے اور ان کی قسم ان کی گواہی سے سبقت لے جائے گی۔“ (عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ (رض) قَالَ خَرَجَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَوْمًا فَقَالَ عُرِضَتْ عَلَیَّ الْاُمَمُ فَجَعَلَ یَمُرُّ النَّبِیُّ وَمَعَہٗ الرَّجُلُ وَالنَّبِیُّ وَمَعَہٗ الرَّجُلَانِ وَالنَّبِیُّ وَمَعَہٗ الرَّھْطُ وَالنَّبِیُّ وَلَیْسَ مَعَہٗ اَحَدٌ فَرَأَیْتُ سَوَادًا کَثِیْرًا سَدَّ الْاُفُقِ فَرَجَوْتُ اَن یَّکُوْنَ اُمَّتِیْ فَقِیْلَ ھٰذٰا مُوْسٰی فِیْ قَوْمِہٖ ثُمَّ قِیْلَ لِیَ أنْظُرْ فَرَأَیْتُ سَوَادًا کَثِیْرًا سَدَّ الْاُفُقِ فَقِیْلَ لِیَ انْظُرْ ھٰکَذَاوَھٰکَذَا فَرَأَیْتُ سَوَادًا کَثِیْرًا سَدَّ الْاُفُقُ فَقَالَ ھٰؤُلٰآءِ اُمَّتُکَ وَمَعَ ھٰؤُلَاءِ سَبْعُوْنَ اَلْفًا قُدَّامَھُمْ یَدْخُلُوْنَ الْجَنَّۃَ بِغَیْرِ حِسَابٍ ھُمُ الَّذِیْنَ لَا یَتَطَیَّرُوْنَ وَلَا یَسْتَرْقُوْنَ وَلَا یَکْتَوُوْنَ وَعَلٰی رَبِّھِمْ یَتَوَکَّلُوْنَ) (رواہ البخاری : باب من لم یرق) ” حضرت عبداللہ بن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک دن نبی محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) گھر سے باہر تشریف لائے اور ارشاد فرمایا : مجھ پر امتیں پیش کی گئیں۔ ایک پیغمبر گزرا، اس کے ساتھ اس کا ایک پیروکار تھا۔ کسی کے ساتھ دو آدمی تھے۔ کسی کے ساتھ ایک جماعت تھی۔ اور بعض ایسے پیغمبر بھی ہوئے، جن کا کوئی پیروکار نہیں تھا۔ میں نے اپنے سامنے ایک بہت بڑا اجتماع دیکھا، جو آسمان کے کناروں تک پھیلا ہوا تھا۔ میں نے خیال کیا، شاید میری امت ہے لیکن بتایا گیا کہ یہ تو موسیٰ (علیہ السلام) کی امت ہے۔ پھر مجھے کہا گیا، آپ پھر دیکھیں میں نے بہت بڑا اجتماع دیکھا۔ جس نے آسمان کے کناروں کو بھرا ہوا ہے۔ مجھ سے دائیں اور بائیں جانب بھی دیکھنے کے لیے کہا گیا۔ میں نے ہر طرف دیکھا بہت سے لوگ آسمان کے کناروں تک پھیلے ہوئے ہیں مجھے کہا گیا یہ سب آپ کے امتی ہیں۔ ان کے ساتھ ستر ہزار وہ بھی ہیں۔ جو بغیر حساب کے جنت میں داخل ہوں گے۔ وہ ایسے لوگ ہیں، جو نہ بدفالی اور نہ دم کراتے ہیں اور نہ گرم لوہے سے داغتے ہیں۔ بلکہ صرف اپنے اللہ پر توکل کرتے ہیں۔“ خیال رہے کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو صرف نیکی کرنے کا حکم نہیں دیا بلکہ نیکیوں میں آگے بڑھنے اور جنت کی طرف سبقت لے جانے کا حکم دیا ہے۔ جس معاشرے میں نیکی اور اہم مقصد کے لیے ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کا جذبہ ختم ہوجائے وہ معاشرہ بالآخر مردگی کا شکار ہوجاتا ہے۔ زندہ اور بیدار قومیں اپنی منزل کے حصول کے لیے نئے جذبوں اور تازہ ولولوں کے ساتھ آگے بڑھنے کے لیے مسلسل منصوبہ بندی کرتی ہیں۔ مسلمانوں کی زندگی کا مقصد اللہ کی رضا اور اس کی جنت کا حصول ہے اس لیے قرآن مجید نے مختلف مقامات پر ترغیب دی ہے کہ اس کے لیے آگے بڑھو اور بڑھتے ہی چلے جاؤ۔ (سَابِقُوْا اِِلٰی مَغْفِرَۃٍ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَجَنَّۃٍ عَرْضُہَا کَعَرْضِ السَّمَآءِ وَالْاَرْضِ اُعِدَّتْ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا باللّٰہِ وَرُسُلِہٖ ذٰلِکَ فَضْلُ اللّٰہِ یُؤْتِیْہِ مَنْ یَّشَآءُ وَاللّٰہُ ذو الْفَضْلِ الْعَظِیْمِ) (الحدید : ٢١) ” اپنے رب کی مغفرت اور اس جنت کی طرف ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرو جس کی وسعت آسمان و زمین جیسی ہے، جو ان لوگوں کے لیے تیار کی گئی ہے جو اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لاتے ہیں، یہ اللہ کا فضل ہے، جسے چاہتا ہے عطا فرماتا ہے اور اللہ بڑے فضل والا ہے۔“ (وَ سَارِعُوْٓا اِلٰی مَغْفِرَۃٍ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَ جَنَّۃٍ عَرْضُھَا السَّمٰوٰتُ وَ الْاَرْضُ اُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِیْنَ) (آل عمران : ١٣٣) ” اور اپنے رب کی بخشش اور اس جنت کی طرف جلدی کرو جس کی چوڑائی آسمانوں اور زمین کے برابر ہے۔ جو پرہیزگاروں کے لیے تیار کی گئی ہے۔“ مسائل ١۔ قیامت کے دن لوگوں کی تین اقسام ہوں گی۔ ٢۔ دائیں ہاتھ والے ان کا کیا کہنا ؟ ٣۔ بائیں ہاتھ والے سخت مصیبت میں مبتلا ہوں گے۔ ٤۔ نیکیوں میں سبقت لے جانے والے مقربین میں شامل ہوں گے۔ ٥۔ ہر امت کے پہلے طبقہ کے لوگ تعداد کے لحاظ سے مقربین میں زیادہ ہوں گے۔ تفسیربالقرآن نیکی میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کا حکم : ١۔ اللہ کی مغفرت اور جنت کے حصول کے لیے ایک دوسرے سے سبقت کرو۔ (الحدید : ٢١) ٢۔ نیکی کے حصول میں جلدی کرو۔ (البقرۃ: ١٤٨) ٣۔ نیکیوں میں سبقت کرنے والے سب سے ارفع ہوں گے۔ (فا طر : ٣٢) ٤۔ سبقت کرنے والے اللہ کے مقرب ہوں گے۔ (الواقعہ : ١٠، ١١) ٥۔ اللہ کی جنت اور بخشش کے لیے سبقت کرو۔ ( آل عمران : ١٣٣) الواقعة
8 الواقعة
9 الواقعة
10 الواقعة
11 الواقعة
12 الواقعة
13 الواقعة
14 الواقعة
15 فہم القرآن ربط کلام : نیکیوں میں سبقت کرنے والوں کا صلہ۔ نیکیوں میں سبقت کرنے والے جنتی ہیرے جواہرات سے مزین تختوں پر ٹیک لگائے ایک دوسرے کے سامنے تشریف فرما ہوں گے۔ ان کی خدمت کرنے کے لیے چھوٹی عمر کے خدام ہوں گے جو ہمیشہ ایک ہی عمر میں رہیں گے جو جنتی کے آگے پیچھے پھریں گے، معصوم اور پیارے پیارے خدام جنتی کے سامنے شراب کے جام پیش کریں گے۔ جس شراب سے نہ سرچکرائے گا نہ ہی دماغ میں کوئی فتور پیدا ہوگا۔ جنتی کو کھانے کے لیے ان پرندوں کا گوشت پیش کیا جائے گا جس کا وہ پسند فرمائیں گے اور پھلوں میں جس پھل کی چاہت کریں گے وہ ان کے حضور پیش کیے جائیں گے۔ شرمیلی اور موٹی موٹی آنکھوں والی حوریں ہوں گی جن کے چہرے اور وجود اس طرح روشن ہوں گے جس طرح چمکدار موتی ہوتے ہیں۔ یہ جنتی کے اعمال کی جزا ہوگی۔ سورۃ الرحمن کی آیت باسٹھ میں ہر جنتی کے لیے دو جنتوں کا ذکر کیا گیا ہے جن کے بارے میں مفسرین کا خیال ہے کہ ایک جنت میں جنتی کے اہل وعیال رہیں گے اور دوسری جنت میں جنتی اپنے دوست واحباب کے ساتھ ایک دوسرے کے سامنے بیٹھ کر خوش گپیاں کیا کریں گے۔ سورۃ الرحمن میں دونوں جنتوں کی نعمتوں کا الگ الگ ذکر کیا گیا ہے اور حوروں کو یاقوت اور مرجان کے ساتھ تشبیہ دیتے ہوئے فرمایا ہے کہ نیکی کا بدلہ نیکی ہی ہوسکتا ہے۔ (الرحمن : ٦٠) جنتی میں جنت کسی قسم کی بے ہودہ بات اور گالی گلوچ نہیں سنیں گے۔ ان کا آپس میں کلام سلام دعا ہوگا۔ دنیا میں کئی مرتبہ نیک آدمی کو ایسے ماحول سے واسطہ پڑتا ہے کہ جہاں لغویات کا ماحول ہوتا ہے، صالح اور پاکیزہ طبیعت کے مومن کے لیے یہ ماحول بڑا ہی اذّیت ناک ہوتا ہے مگر کسی مجبوری کی وجہ سے اسے یہ ماحول برداشت کرنا پڑتا ہے۔ جنت کی خوبیوں میں ایک خوبی یہ بھی ہوگی کہ وہاں اس قسم کی بے ہودگی کا تصور نہیں پایا جائے گا۔ جنتی جہاں رہیں اور جہاں جائیں گے ہر جگہ ان کے لیے سلامتی ہی سلامتی ہوگی ان کے گھروں اور دوست و احباب کا ماحول اتنا پاک اور بابرکت ہوگا جس میں ایک دوسرے کے لیے خیرخواہی، محبت اور پیار کے سوا کوئی اور بات نہیں ہوگی۔ جنتی ایک دوسرے کو سلامتی کی دعائیں اور مبارک دیں گے۔ (وَعَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) اَنَّ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کَانَ یَتَحَدَّثُ‘ وَعِنْدَہٗ رَجُلٌ مِّنْ اَھْلِ الْبَادِیَۃِ‘ اِنَّ رَجُلًا مِّنْ اَھْلِالْجَنَّۃِ اسْتَأذَنَ رَبَّہٗ فِیْ الزَّرْعِ فَقَالَ لَہٗ اَلَسْتَ فِیْمَا شِءْتَ قَالَ بَلٰی وَلٰکِنِّیْ اُحِبُّ اَنْ اَزْرَعَ فَبَذَرَ فَبَادَ رَالطَّرْفَ نَبَاتُہٗ وَاسْتِوَاءُ ہٗ وَاسْتِحْصَادُہٗ فَکَانَ اَمْثَالَ الْجِبَالِ فَیَقُوْلُ اللّٰہُ تَعَالٰی دُوْنَکَ یَابْنَ اٰدَمَ فَاِنَّہٗ لَایُشْبِعُکَ شَیْءٌ فَقَالَ الْاَعْرَابِیُّ وَاللّٰہِ لَاتَجِدُہُ اِلَّا قُرَشِیًا اَوْ اَنْصَارِیًّافَاِنَّھُمْ اَصْحاَبُ زَرْعٍ وَاَمَّا نَحْنُ فَلَسْنَا بِاَصْحَابِ زَرْعٍٍٍ فَضَحِکَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (رواہ البخاری : باب کلاَمِ الرَّبِّ مَعَ أَہْلِ الْجَنَّۃِ) حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی گرامی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس ایک دیہاتی بیٹھا ہوا تھا اور آپ فرمارہے تھے کہ جنتیوں میں سے ایک بندے نے اپنے رب سے کھیتی باڑی کی اجازت مانگی اللہ رب العزت نے فرمایا۔ کیا تیرے پاس تیری پسند کی ہر چیز نہیں ہے؟ اس دیہاتی نے کہا کیوں نہیں؟ لیکن مجھے یہ پسند ہے کہ میں کھیتی باڑی کروں چنانچہ وہ بیج ڈالے گا۔ پلک جھپکتے ہی فصل اگ آئے گی کھیتی بڑی ہوجائے گی، اور کٹ جائے گی، پہاڑ کے برابر انبار لگ جائے گا اللہ تعالیٰ فرمائیں گے کہ اے ابن آدم! لے تیری خواہش پو ری ہوگئی۔ حقیقتاً تیرا پیٹ کوئی چیز نہیں بھر سکتی۔ دیہاتی کہنے لگا، اللہ کی قسم! وہ شخص قریشی یا انصاری ہوگا کیونکہ وہی لوگ کھیتی باڑی کرتے ہیں۔ جہاں تک ہمارا تعلق ہے ہم تو کھیتی باڑی کرنے والے نہیں۔ اس پر نبی مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مسکرادیے۔ مسائل ١۔ جنتی ہیرے جواہرات سے مزین تختوں پر بیٹھے ہوئے ایک دوسرے کے سامنے تشریف فرما ہوں گے۔ ٢۔ جنتی کی خدمت کرنے کے لیے معصوم اور پیارے پیارے چھوٹی عمر کے نوجوان ہوں گے جو ہمیشہ ان کی خدمت میں رہیں گے۔ ٣۔ جنتی کو پینے کے لیے ایسی شراب دی جائے گی جس میں کسی قسم کا نشہ اور کڑواہٹ نہیں ہوگی۔ ٤۔ جنتی کو ان کے مَن پسند پھل اور پرندوں کا گوشت دیا جائے گا۔ ٥۔ جنتی کو شرم و حیا والی اور موتیوں جیسی حوریں پیش کی جائیں گی۔ ٦۔ جنتی کو ان کے نیک اعمال کی پوری پوری جزادی جائے گی۔ تفسیر بالقرآن جنت کی نعمتوں کی ایک جھلک : ١۔ ایمان والوں اور عمل صالح کرنے والوں کے لیے جنت الفردوس ہے۔ (الکہف : ١٠٧) ٢۔ جنتی کے لیے جنت میں وہ کچھ ہوگا جو تم چاہو گے۔ (حٰم السجدۃ: ٣١) ٣۔ یقیناً متقین سایوں اور چشموں اور پسندیدہ میوہ جات میں رہیں گے۔ (المرسلات : ٤١۔ ٤٢) ٤۔ اللہ کے مخلص بندے نعمتوں والی 3 میں ہوں گے ایک دوسرے کے سامنے تختوں پربیٹھے ہونگے۔ (الصّٰفّٰت : ٤٣، ٤٤) ٥۔ پرہیزگاروں کے لیے عمدہ مقام ہے۔ ہمیشہ رہنے کے باغ ہیں جن کے دروازے ان کے لیے کھلے ہوں گے اور وہ ان میں تکیے لگا کر بیٹھے ہوں گے۔ (ص : ٤٩ تا ٥٠) ٦۔ جنت میں سونے اور لولو کے زیور پہنائے جائیں گے۔ (فاطر : ٣٣) ٧۔ جنت میں بے خار بیریاں، تہہ بہ تہہ کیلے، لمبا سایہ، چلتا ہوا پانی، اور کثرت سے میوے ہوں گے۔ (الواقعہ : ٢٨ تا ٣٠) الواقعة
16 الواقعة
17 الواقعة
18 الواقعة
19 الواقعة
20 الواقعة
21 الواقعة
22 الواقعة
23 الواقعة
24 الواقعة
25 الواقعة
26 الواقعة
27 فہم القرآن ربط کلام : ” اَلسَّابِقُوْنَ الْمُقَرَّبُوْنَ“ کے انعامات کا ذکر کرنے کے بعد ” اَصْحَابُ الْیَمِیْنِ“ کے انعامات کا تذکر ہ۔ ” اَصْحَابُ الْیَمِیْنِ“ کا ذکر کرتے ہوئے ایک مرتبہ پھر ارشاد فرمایا ہے کہ ” اَصْحَابُ الْیَمِیْنِ“ یعنی دائیں ہاتھ والوں کی عیش و عشرت کا کیا کہنا؟ ” اَلسَّابِقُوْنَ الْمُقَرَّبُوْنَ“ کے انعامات کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد ہوا کہ انہیں مَن پسند پھل دیئے جائیں گے۔ لیکن ” اَصْحَابُ الْیَمِیْنِ“ کے انعام کا ذکر کرتے ہوئے اتنا پیارا انداز اختیار فرمایا ہے کہ جس میں بظاہر ” اَلسَّابِقُوْنَ الْمُقَرَّبُوْنَ“ اور ” اَصْحَابُ الْیَمِیْنِ“ کے انعامات کے درمیان کوئی فرق دکھائی نہیں دیتا۔ ارشاد ہوا کہ ” اَصْحَابُ الْیَمِیْنِ“ کی جنت میں بغیر کانٹوں کے بیریاں، تہہ بہ تہہ کیلے، گھنے اور لمبے لمبے سائیوں والے درخت، پانی کی آبشاریں اور کثیر پھلوں والے باغات ہوں گے جن پر نہ کبھی خزاں آئے گی اور نہ ہی جنتی کو کبھی ان سے روکا جائے گا۔ وہ اونچے اونچے تختوں پر جلوہ افروز ہوں گے اور اللہ تعالیٰ انہیں کنواریاں بیویاں عطا فرمائے گا جو اپنے خاوندوں کے ہم عمر ہوں گی اور ان کے ساتھ دل و جان سے محبت کریں گی۔ ” اَصْحَابُ الْیَمِیْنِ“ پہلے لوگوں میں زیادہ ہوں گے اور پچھلے لوگوں میں سے کم ہوں گے یعنی ہر امت کے پہلے لوگوں میں زیادہ ہوں گے اور پچھلے لوگوں سے تھوڑے ہوں گے۔ دوسرے الفاظ میں جوں جوں قیامت قریب آئے گی توں توں نیک لوگ کم ہوتے چلے جائیں گے یہاں تک کہ قیامت کے نزدیک بدترین لوگ رہ جائیں گے۔ جنت میں بیری کے درخت بھی ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں بے شمار خوبصورت سے خوبصورت درخت پیدا فرمائے ہیں لیکن بیری کے درخت کی اپنی ہی ایک شان اور اس کے سایے میں خاص ٹھنڈک ہوتی ہے جس کا دوسرے درخت مقابلہ نہیں کرسکتے۔ بیری کا شہد تمام قسم کے شہد سے زیادہ مفید اور لذیذ ہوتا ہے اس درخت کی کئی اقسام ہیں۔ پاکستان میں عام طور پر بیری کے درخت دو قسم کے ہوتے ہیں اس کی ایک قسم عام درختوں کی طرح اونچے اور بکھری ہوئی ٹہنیوں والی ہوتی ہے۔ دوسری قسم چھتری نما ہوتی ہے جس کی ٹہنیوں کا رخ زمین کی طرف ہوتا ہے یہ درخت عام طور پر سندھ کے علاقے میں پایا جاتا ہے۔ میں نے سندھ میں بیری کے ایسے درخت دیکھے ہیں جن کا حسن اور کشش دیکھ کر واقعتا حیرت گم ہوجاتی ہے اور یوں دکھائی دیتا ہے جیسے اس درخت کی ٹہنیاں اپنے رب کے حضور سجدہ کررہی ہیں۔ یہ اس قدر پھلوں سے لدھا ہوا درخت ہوتا ہے کہ اس کے بیراس کے پتوں سے زیادہ دکھائی دیتے ہیں۔ مسائل ١۔ دائیں ہاتھ والوں کا کیا کہنا! وہ بغیر کانٹے کے بیریوں، تہہ بہ تہہ کیلوں اور لمبے اور گھنے سایوں میں قیام پذیر ہوں گے۔ ٢۔ اصحاب الیمین آبشاروں، گھنے پھلوں اور ناختم ہونے والی نعمتوں سے سرفراز کیے جائیں گے۔ ٣۔ اصحاب الیمین کے اونچے فرشوں پر جلوہ افروز ہوں گے۔ ٤۔ اصحاب الیمین کے لیے ان کی ہم عمر کنواریاں اور اپنے خاوندوں سے پیار کرنے والی بیویاں ہوں گی۔ ٥۔ اصحاب الیمین ہر امت کے پہلے لوگوں میں زیادہ اور پچھلوں میں کم ہوں گے۔ تفسیر بالقرآن جنت کی نعمتوں کی ایک جھلک : ١۔ ہم ان کے دلوں سے کینہ نکال دیں گے اور سب ایک دوسرے کے سامنے تکیوں پر بیٹھے ہوں گے۔ انہیں کوئی تکلیف نہیں پہنچے گی اور نہ وہ اس سے نکالے جائیں گے۔ (الحجر : ٤٧، ٤٨) ٢۔ جنت کی مثال جس کا مومنوں کے ساتھ وعدہ کیا گیا ہے۔ اس کے نیچے سے نہریں جاری ہیں اور اس کے پھل اور سائے ہمیشہ کے لیے ہوں گے۔ (الرعد : ٣٥) ٣۔ جنت کے میوے ٹپک رہے ہوں گے۔ (الحاقہ : ٢٣) الواقعة
28 الواقعة
29 الواقعة
30 الواقعة
31 الواقعة
32 الواقعة
33 الواقعة
34 الواقعة
35 الواقعة
36 الواقعة
37 الواقعة
38 الواقعة
39 الواقعة
40 الواقعة
41 فہم القرآن ربط کلام :” اَصْحَابُ الْیَمِیْنِ“ کے بعد ” اَصْحَاب الشِّمَالِ“ کا ذکر۔ یہاں بھی قرآن مجید نے اپنے اسلوب کے مطابق دو فریقوں کا مقابلتاً ذکر کیا ہے۔ پہلے ” اَصْحَابُ الْیَمِیْنِ“ کے بارے میں فرمایا کہ ” اَصْحَابُ الْیَمِیْنِ“ کی خوش بختی کا کیا کہنا ؟ انہیں اللہ تعالیٰ قسما قسم کے انعامات سے نوازے گا اور کھانے کے لیے ہر قسم کے پھل اور پرندوں کا گوشت دیا جائے گا۔ پینے کے لیے ایسے مشروبات دیئے جائیں گے جن میں کسی قسم کی غنودگی اور نشہ نہیں ہوگا۔ ان کے مقابلے میں اصحاب الشمال کے بارے میں فرمایا ہے کہ ” اَصْحَاب الشِّمَالٍ“ کی بد نصیبی کا کیا کہنا؟ وہ شدید ترین آگ کی لو، کھولتے ہوئے پانی اور اور کالے دھوئیں میں پھنسے ہوئے ہوں گے، انہیں نہ ٹھنڈا پانی دیا جائے گا اور نہ ہی پرسکون جگہ میسر ہوگی۔ دوسرے مقام پر فرمایا ہے کہ جب انہیں پیاس لگے گی تونہ صرف انہیں کھولتا ہوا پانی پلایا جائے گا بلکہ جہنم کی پیپ بھی پلائی جائے گی۔ (ابراہیم : ١٦) پیاس کی شدت کی وجہ سے جہنمی پیپ اور کھولتا ہوا پانی پیئیں گے اسی سورت میں ذکر کیا ہے کہ پیاس کی شدت کی وجہ سے جہنمی اس طرح کھولتا ہوا پانی پئیں گے جس طرح پیاسا اونٹ پانی پیتا ہے۔ (الواقعہ : ٥٤، ٥٥) مسائل ١۔ بائیں طرف والوں کابراحال ہوگا۔ ٢۔ بائیں جانب والوں کو نہ ٹھنڈا پانی ملے گا اور نہ ہی وہ آرام پائیں گے۔ ٣۔ بائیں طرف والے آگ کی لپیٹ، کھولتے ہوئے پانی اور کالے دھوئیں سے دوچار ہوں گے۔ تفسیر بالقرآن بائیں طرف والوں کی مختلف سزائیں : ١۔ آنتوں اور کھالوں کا بار بار جلنا۔ (النساء : ٥٦) ٢۔ ان کی کی کھال کا بار بار بدلہ جانا۔ (الحج : ٢٠) ٣۔ کانٹے دار جھاڑیوں کا کھانادیا جانا۔ (الغاشیہ : ٦) ٤۔ کھانے کا گلے میں اٹک جانا۔ (المزمل : ١٣) (الانعام : ٧٠) (النبا : ٢٥) (الحج : ١٩) (الحج : ٢١، ٢٢) (بنی اسرائیل : ٩٧) (الواقعہ : ٤٢) الواقعة
42 الواقعة
43 الواقعة
44 الواقعة
45 فہم القرآن ربط کلام : بائیں ہاتھ والوں کے جرائم اور انجام۔ ہائیں ہاتھ والوں کی اکثریت ان لوگوں پر مشتمل ہوگی جو دنیا میں خوش حال اور مال دار تھے، یہی لوگ معاشرے میں اکثر برائیوں کے موجد تھے، مالدار ہونے کے باوجود لوگوں کے حقوق غصب کرتے تھے اور غریبوں کا خیال نہیں رکھتے تھے حالانکہ اللہ تعالیٰ نے ہر آسمانی کتاب میں لوگوں کے حقوق غصب کرنے سے منع کیا ہے اور غریبوں، مسکینوں، بیواؤں، یتیموں اور زیر دست لوگوں کا خیال رکھنے کا حکم صادر فرمایا ہے، خوش حال اور مال دار لوگوں کے مال میں کمزور لوگوں کا حق رکھا گیا ہے (الذاریات : ١٩) لیکن جہنم میں جانے والے مجرم کمزور لوگوں کے حقوق کا خیال نہیں رکھتے تھے جس کا وہ جہنم میں اقرار کریں گے۔ (المدثر : ٤٤) بائیں ہاتھ والوں کا جہنم میں جانے کا سب سے بڑا سبب یہ ہوگا کہ جہنمی بڑے بڑے گناہوں پر قولاً یا عملاً اصرار کیا کرتے تھے۔ بڑے گناہوں میں سب سے بڑا گناہ ” اللہ“ کی ذات اور اس کی صفات میں دوسروں کو شریک بنانا ہے جسے شرک کہا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا قطعی فیصلہ ہے کہ مشرک کو کبھی معاف نہیں کیا جائے گا۔ (النساء : ١١٦) مشرک کی عادت ہے کہ جب بھی اسے شرک سے منع کیا جائے تو وہ اس پر اصرار کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ اگر لوگ بڑے گناہوں سے بچتے رہیں تو میں ان کے چھوٹے چھوٹے گناہ ازخود معاف کردوں گا۔ (النساء : ٣١) جہنم میں جانے والوں کا تیسرا بڑا گناہ یہ ہوگا کہ دنیا میں جب بھی انہیں قیامت سے ڈرایا جاتاتو وہ کہتے تھے کہ کیا ہم مرجائیں گے اور ہماری ہڈیاں مٹی کے ساتھ مٹی ہوجائیں گی تو پھر ہمیں اٹھایا جائے گا؟ کیا ہمارے باپ دادا بھی اٹھاے جائیں گے؟ قرآن مجید نے اس باطل عقیدہ کی تردید کے لیے درجنوں دلائل دیئے ہیں لیکن قیامت کے منکر انہیں ماننے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) انہیں فرمائیں کہ یقیناً تمہارے پہلے اور پچھلے لوگوں کو ایک دن ضرور جمع کیا جائے گا۔ جس کا ایک وقت مقرر ہے۔ جس میں آگا پیچھا نہیں ہوگا۔ ( یونس : ٤٩) (عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عَمْرٍو (رض) عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ الْکَبَاءِرُ الإِشْرَاک باللَّہِ، وَعُقُوقُ الْوَالِدَیْنِ، وَقَتْلُ النَّفْسِ، وَالْیَمِینُ الْغَمُوسُ) (رواہ البخاری : باب الْیَمِینِ الْغَمُوسِ) ” حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں آپ نے فرمایا اللہ کے ساتھ شرک کرنا، والدین کی نافرمانی کرنا، کسی کو ناحق قتل کرنا اور جھوٹی قسم اٹھانا کبیرہ گناہوں میں سے ہیں۔“ مسائل ١۔ اپنے مال سے کمزوروں کا حق ادا نہ کرنے والے مال دار جہنم میں جائیں گے۔ ٢۔ شرک اور بڑے بڑے گناہوں پر اصرار کرنے والے جہنم میں داخل کیے جائیں گے۔ ٣۔ کوئی مانے یا انکار کرے قیامت ضرور برپا ہوگی کیونکہ اس کا ایک دن اور وقت مقرر کردیا گیا ہے۔ تفسیر بالقرآن مال میں بخل، گناہوں پر اصرار اور قیامت کا انکار کرنے والوں کی سزا : ١۔ خزانے جمع کرنے والوں کو عذاب کی خوشخبری دیں۔ (التوبہ : ٣٤) ٢۔ بخیل اپنا مال ہمیشہ نہیں رکھ سکتا۔ (ہمزہ : ٣) ٣۔ قیامت کو جھٹلانے اور لوگوں کو اللہ کے راستہ سے روکنے والے کے لیے جلا دینے والا عذاب ہوگا۔ (الحج : ٩) ٤۔ ” اللہ“ کی آیات کے ساتھ کفر کرنے اور قیامت کو جھٹلانے والے عذاب میں مبتلا کیے جائیں گے۔ (الروم : ١٦) ٥۔ قیامت کو جھٹلانے والوں کے لیے آگ کا عذاب ہے۔ (الفرقان : ١١) ٦۔ زمین میں چل، پھر کر دیکھو جھٹلانے والوں کا کیا انجام ہوا۔ (النحل : ٣٦) ٧۔ ہم نے ان سے انتقام لیا دیکھئے جھٹلانے والوں کا انجام کیسا ہوا۔ (الزخرف : ٢٥) ٨۔ قیامت کے دن منکرین کے لیے ہلاکت ہے۔ (الطور : ١١) ٩۔ منکرین کے لیے جہنم کا کھولتا ہوا پانی ہے۔ (الواقعہ : ٩٢) الواقعة
46 الواقعة
47 الواقعة
48 الواقعة
49 الواقعة
50 الواقعة
51 الواقعة
52 فہم القرآن ربط کلام : لوگوں کے حقوق غصب کرنے، بڑے بڑے گناہوں پر اصرار کرنے اور قیامت کا انکار کرنے والوں کی مزید سزا۔ جو لگ حق داروں کو ان کے حق سے محروم رکھتے ہیں اور اپنے گناہوں پر اصرار کرتے ہیں انہیں جہنم میں جھونکا جائے گا۔ ان کے لیے تھور کا کھانا ہوگا اور پینے کے لیے کھولتا ہوا پانی دیا جائے گا۔ وہ اس طرح گھونٹ بھریں گے جس طرح پیاسا اونٹ گھونٹ بھرتا ہے۔ ملائکہ انہیں جھڑکتے ہوئے کہیں گے آج کے دن تمہاری یہی مہمان نوازی ہے۔ زقوم کا درخت جہنم کی تہہ سے پیدا ہوگا۔ (الصّٰفٰت : ٦٤) ” شدید آگ میں جھلس رہے ہوں گے۔ انہیں پینے کو کھولتے ہوئے چشمے کا پانی دیا جائے گا۔ خاردار سوکھی گھاس کے سوا کوئی کھانا نہیں ہوگا۔ جو نہ موٹا کرے نہ ان کی بھوک مٹائے گا۔“ (الغاشیہ : ٤ تا ٧) مسائل ١۔ جہنمی کو کھانے کے لیے زقوم دیا جائے گا۔ ٢۔ جہنمی کو پینے کے لیے انتہائی ابلتا ہوا پانی دیا جائے گا جسے وہ پیاسے اونٹ کی طرح پینے کی کوشش کریں گے۔ ٣۔ ملائکہ جہنمی کو جھڑکیاں دیتے ہوئے کہیں گے کہ آج تمہاری یہی مہمان نوازی ہے۔ تفسیر بالقرآن جہنمی کی جہنم میں خوراک : (الغاشیہ : ٦) (الحج : ٢١، ٢٢) (المزمل : ١٣) (الانعام : ٧٠) (النبا : ٢٥) (الحج : ١٩) (الواقعہ : ٥٤ تا ٥٥) (الواقعہ : ٤٢) الواقعة
53 الواقعة
54 الواقعة
55 الواقعة
56 الواقعة
57 فہم القرآن ربط کلام : اللہ کی توحید اور آخرت کا انکار کرنے والوں سے ایک سوال جس میں اللہ تعالیٰ کے خالق ہونے کا ثبوت بھی ہے اور آخرت میں زندہ کرنے کی دلیل بھی۔ ہر انسان بالخصوص کافر اور مشرک کو یہ سوال کیا گیا ہے کیا ہم بچہ پیدا کرتے ہیں یا تم اسے پیدا کرتے ہو۔ لیکن اس کے باوجود تم اپنے خالق کو نہیں مانتے اور نہ ہی قیامت کے دن زندہ ہونے کی تصدیق کرتے ہو۔ کیا تم نے غور نہیں کیا کہ جو نطفہ تم ڈالتے ہو اس سے تم بچہ پیدا کرتے ہو یا ہم پیدا کرتے ہیں ؟ ظاہر ہے کہ بچہ پیدا کرنے والا صرف ایک ” اللہ“ ہے۔ قرآن مجید نے بڑی تفصیل کے ساتھ انسان کی تخلیق کا ذکر کیا ہے کہ پہلے انسان یعنی آدم (علیہ السلام) کو کس طرح پیدا کیا گیا۔ پھر آدم (علیہ السلام) سے اس کی بیوی کو کس طرح پیدا کیا۔ (النساء : ١) آدم (علیہ السلام) اور حوا سے کس طرح نسل انسانی کی افزائش کا سلسلہ جاری فرمایا۔ جس میں یہ بتلایا گیا کہ جس نطفہ سے انسان پیدا ہوتا ہے وہ عورت کی چھاتی اور مرد کی کمر سے کس طرح نکلتا ہے۔ (الطّارق : ٧) اس کے بعد نطفہ کن کن مراحل سے گزر کر بچے کی شکل اختیار کرتا ہے۔ (المومنون : ١٤) بچہ اپنی ماں کے رحم میں کتنے مہینے ٹھہرتا ہے پھر ماں اسے کس تکلیف کے ساتھ جنم دیتی ہے۔ (لقمان : ١٤) میاں بیوی کے ملاپ کے سوا بچہ پیدا کرنے میں ماں اور باپ کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا۔ یہ صرف احسن الخالقین کا کمال ہے کہ وہ ایک جرثومے سے انسان کی تخلیق کا آغاز کرتا ہے اور پھر شکم مادر میں اس کی شکل و صورت بناتا ہے اور ماں کے پیٹ میں ہی کالے، گورے، نیک اور بد کا فیصلہ کرتا ہے۔ اس سارے عمل میں ماں باپ اور کسی دوسرے کا کوئی اختیار نہیں ہوتا کہ وہ کسی ایک مرحلہ پر دخل انداز ہوسکے۔ اس لیے سوالیہ انداز میں ارشاد فرمایا کہ بتاؤ ! اس سے تم بچہ پیدا کرتے ہو یا ہم اسے پیدا کرتے ہیں؟ ” کیا یہ کسی خالق کے بغیر پیدا ہوئے ہیں؟ یا یہ خود اپنے آپ کے خالق ہیں؟“ (الطور : ٣٥) ” اللہ زمین و آسمانوں کی بادشاہی کا مالک ہے جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے جسے چاہتا ہے بیٹیاں دیتا ہے جسے چاہتا ہے بیٹے دیتا ہے۔ (الشوریٰ: ٤٩) مسائل ١۔ اللہ ہی نے لوگوں کو پیدا کیا ہے لیکن لوگ اللہ کی ذات اور اس کے فرمان کی تائید نہیں کرتے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی بچہ بنانے اور پیدا کرنے والا نہیں۔ الواقعة
58 الواقعة
59 الواقعة
60 فہم القرآن ربط کلام : ” اللہ“ ہی انسان کو پیدا کرنے والاہے اور وہی اسے موت دیتا ہے۔ سورۃ الملک کی دوسری آیت میں ارشاد فرمایا ہے کہ اسی ذات نے زندگی اور موت پیدا کی ہے تاکہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے کون بہتر عمل کرتا ہے۔ آل عمران کی آیت ١٨٥ میں ارشاد ہوا کہ ہر نفس نے موت کا ذائقہ چکھنا ہے اور قیامت کے دن تمہیں پورا پورا بدلہ دیا جائے گا۔ جسے جہنم کی آگ سے بچا لیا گیا اور جنت میں داخل کردیا گیا وہ کامیاب ہوا۔ سورۃ یونس کی آیت ٤٩ میں ارشاد فرمایا کہ ہر نفس کا ایک وقت مقرر ہے جب وقت آتا ہے۔ تو ایک لمحہ بھی اس میں آگا پیچھا نہیں کیا ج۔ اس بات کو یہاں ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے کہ ہم نے تمہارے درمیان موت مقرر کی ہے لہٰذا موت ہر انسان کا مقدر ہے۔ کسی کو معلوم نہیں کہ اس کی موت کب اور کس مقام پر آئے گی۔ موت کا فیصلہ صادر کرنے میں ” اللہ“ کو کوئی بے بس نہیں کرسکتا۔ ہم پوری قدرت رکھتے ہیں کہ تمہاری شکلیں بدل دیں اور تمہیں ایسی شکل میں پیدا کردیں جسے تم نہیں جانتے اگر تم واقعی اپنی پہلی پیدائش کے بارے میں سوجھ بوجھ رکھتے ہو تو پھر نصیحت حاصل کیوں نہیں کرتے یعنی قیامت پر ایمان کیوں نہیں لاتے ؟ اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں تین ارشاد فرمائے ہیں۔ ١۔ ہم نے تمہارے درمیان موت مقرر کردی ہے جس سے کوئی شخص بھی چھٹکارا نہیں پاسکتا جب کسی کی موت کا وقت آتا ہے تو امیر ہو یا غریب، بڑا ہو یا چھوٹا، بادشاہ ہویا فقیر، نیک ہویا بد یہاں تک کہ نبی بھی موت کو ایک لمحہ کے لیے آگے پیچھے نہیں کرسکے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا اٹل فیصلہ ہے کہ موت کے وقت میں تقدیم و تاخیر نہیں ہوگی۔ ٢۔ اگر ” اللہ“ یہ فیصلہ کرلے کہ لوگوں کی شکل و صورت اور قدوقامت تبدیل کردیئے جائیں اور انہیں کسی دوسری شکل میں پیدا کیا جائے تو زمین و آسمانوں میں کوئی ایسی ہستی نہیں جو اس کے فیصلے کو تبدیل کرسکے۔ صرف اللہ کی ذات ہے جو انسان کو شکل و صورت اور قدوقامت عطا فرماتی ہے اگر وہ کسی کو کالے رنگ کا پیدا کر دے تو کوئی ایسی ذات نہیں جو اس کی رنگت کو سفید کرسکے، اگر وہ کسی کو ٹھگناپیدا کردے تو کوئی حکیم اور ڈاکٹر اس کے قد کو پورا نہیں کرسکتا، اگر کسی کو کسی عضو سے محروم کردے تو کوئی ایسا ہسپتال نہیں جو حقیقی عضور تیار کرسکے۔ ٣۔ اگر انسان اپنے رب کو پہچاننا اور قیامت پر یقین کرنا چاہے تو اسے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ اپنی پیدائش پر غور کرے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے کس طرح پانی کی ایک بوند سے پیدا کیا ہے، وہ انسان کو بچپن سے جوان کرتا ہے اور وہی انسان کی جوانی کو بڑھاپے میں ڈھالتا ہے۔ کیا کوئی ایسی ذات ہے جو انسان کو بڑھاپے اور موت سے بچا سکے۔ جب زندگی کا کوئی لمحہ بھی انسان کے اپنے یا کسی کے بس میں نہیں تو پھر انسان کو اس بات پر کلی طور پر ایمان لانا چاہیے کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور وہی بلاشرکت غیرے ہر چیز کا خالق اور مالک ہے۔ حقیقت آشکارا ہونے کے باوجود لوگوں کی اکثریت اپنے رب پر اس کے حکم کے مطابق ایمان لانے کے لیے تیار نہیں ہوتی۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کے درمیان موت کا سلسلہ مقرر کر رکھا ہے۔ ٢۔ کوئی بھی اللہ تعالیٰ کو بے بس نہیں کرسکتا۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ چاہے تو لوگوں کی ایسی شکلیں بنادے جس کا انسان تصور بھی نہیں کرسکتے۔ ٤۔ انسان اپنی پیدائش پر توجہ کرے تو ہر صورت اپنے رب کو پہچان لے گا اور قیامت پر ایمان لے آئے گا۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ کی قدرتیں دیکھنے کے باوجود انسان نصیحت حاصل کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ تفسیربالقرآن اللہ تعالیٰ جو چاہے کرتا ہے : ١۔ بے شک میرا ” اللہ“ جو چاہتا ہے تدبیر کرتا ہے۔ (یوسف : ١٠٠) ٢۔ ” اللہ“ جس کی چاہتا ہے مدد فرماتا ہے۔ (آل عمران : ١٣) ٣۔ جو تم چاہتے ہو وہ نہیں ہوتا وہی ہوتا ہے جو ” اللہ“ چاہتا ہے۔ (الدھر : ٣٠) ٤۔ جو تم چاہتے ہو وہ نہیں ہوتا مگر وہی ہوتا ہے جو جہانوں کا رب چاہتا ہے۔ (التکویر : ٢٩) ٥۔ ” اللہ“ جسے چاہتا ہے بغیر حساب کے رزق دیتا ہے۔ (آل عمران : ٣٧) ٦۔ ” اللہ“ جسے چاہے معاف فرمائے جسے چاہے عذاب دے۔ ( آل عمران : ١٢٩) ٧۔ بے شک اللہ جو چاہتا ہے فیصلہ فرماتا ہے۔ (المائدۃ: ١) ٨۔ اللہ جس کی چاہتا ہے توبہ قبول کرتا ہے۔ (التوبہ : ٢٧) ٩۔ اللہ جس کی چاہتا ہے اپنے نور (قرآن) کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔ (النور : ٣٥) الواقعة
61 الواقعة
62 الواقعة
63 فہم القرآن ربط کلام : اللہ ہی انسان کو پیدا کرتا اور موت دیتا ہے اور وہی بیج سے کھیتی پیدا کرتا ہے۔ بیج اور کھیتی کا حوالہ دے کر انسان کو دوبارہ زندہ ہونے کا ثبوت دیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس سے پہلے انسان کو اس کی تخلیق اور موت کا حوالہ دے کر سمجھایا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی انسان کو پیدا کرنے والا ہے اور وہی اسے موت دینے کے بعد دوبارہ زندہ کرے گا۔ اب بیج اور کھیتی کی مثال دے کر انسان کو اپنے خالق ہونے اور قیامت کے دن زندہ کرنے کا ثبوت دیا ہے۔ ارشاد ہوا جو بھی تم بوتے ہو اس پر غور کرو کہ کیا اس سے فصل تم اگاتے ہو یا ہم اسے اگانے والے ہیں؟ اگر ہم چاہیں تو بیج کو زمین میں ہی ناکارہ کردیں، اگر ہم چاہیں تو لہلہاتے ہوئے باغوں اور ہر بھری کھیتیوں کو خاکستر کردیں اور تم مختلف قسم کے تبصرے کرتے رہ جاؤ اور یہ کہنے پر مجبور ہوجاؤ کہ ہم پر تاوان پڑگیا ہے، بلکہ کہو کہ ہمارے نصیب ہی پھوٹ گئے ہیں۔ بیج اور کھیتی کی مثال دے کر اللہ تعالیٰ نے بیک وقت اپنے خالق اور رازق ہونے کا ثبوت دیا ہے۔ ایک زمیندار کو اپنی فصل پر صرف اتنا ہی اختیار ہے کہ وہ زمین بنانے اور ہموار کرنے کے بعد اس میں بیج ڈالے یا اس میں پودے لگائے۔ اس کے بعد بیج کواُگانا اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کے اختیار میں نہیں۔ وہی بیج کو اس کی فطرت کے مطابق زمین میں نَم، حرارت اور ہوا پہنچاتا ہے۔ ان تین عناصر کے علاوہ بھی ایسے اسباب ہیں جن تک کسی زرعی سائنسدان کی اب تک رسائی نہیں اور نہ ہی بیج اگانے میں کسی کا کوئی عمل دخل ہے۔ صرف ایک ” رب“ کی ذات ہے جو بیج کو اگاتی ہے جس سے انسان اور ہر جاندار فائدہ اٹھاتا ہے۔ وہ چاہے تو بیج کو زمین میں بے کار کردے اور یہ بھی اسے اختیارہے کہ وہ سرسبز کھیتی اور اور لہلہاتے ہوئے پودوں کو بھس بنا کر رکھ دے۔ ایس صورت میں کھیتی کا مالک مختلف قسم کی توجیہات اور باتیں بنانے کے سوا کچھ نہیں کرسکتا۔ بالآخر یہ کہنے پر مجبور ہوگا کہ میں نے محنت کی اور بیج کے اخراجات برداشت کیے مگر یہ تو میرے لیے بوجھ اور چٹی ثابت ہوئے ہیں۔ بالآخر انسان یہ کہنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ میرے نصیب ہی سڑ گئے ہیں اور میں محروم ہوگیا ہوں۔ اس فرمان میں اللہ تعالیٰ نے اپنے آپ کو خالق، رازق اور مالک ثابت کرنے کے بعد یہ بھی ثابت کیا ہے کہ زمین میں کروڑوں نہیں بلکہ لاتعداد بیج اگتے ہیں اور کچھ اگنے کے بعد گل سڑ جاتے ہیں اور کچھ فصل کے طور پر تیار ہوتے ہیں جو تمہاری اور تمہارے جانوروں کی خوراک بنتے ہیں۔ یہی انسان کا حال ہے کچھ ایسے ہیں جو ماں کے پیٹ میں مر جاتے ہیں کچھ بچپن میں فوت ہوجاتے ہیں کچھ جوانی میں چل بستے ہیں اور کچھ ایسے ہیں جو اس قدر بوڑھے اور کمزور ہوجاتے ہیں جنہیں اپنے آپ کا ہوش نہیں ہوتا۔ مسائل ١۔ انسان زمین میں بیج بوتا ہے مگر اسے اگانے والا صرف ” اللہ ہے۔ ٢۔ ” اللہ“ چاہے تو بیج کو زمین میں ختم کردے اور چاہے تو لہلہاتے ہوئے کھیتیوں کو بھس بنادے۔ ٣۔ کھیتی تباہ ہونے کی صورت میں اس کا مالک پریشان ہونے سوا کچھ نہیں کرسکتا۔ تفسیربالقرآن اللہ تعالیٰ ہی کھیتی اور باغات پیدا کرنے والا ہے : ١۔ ” اللہ“ پانی سے تمہارے لیے کھیتی، زیتون، کھجور اور انگور اگاتا ہے۔ (النحل : ١١) ٢۔ ” اللہ“ نے کھجوروں اور انگوروں کے باغات پیدا کیے ہیں۔ (المومنون : ١٩) ٣۔ ” اللہ“ نے زمین میں کھجوروں اور انگوروں کے باغات پیدا کیے۔ (یٰس : ٣٤) ٤۔ ” اللہ“ نے پانی سے ہر قسم کی نباتات کو پیدا کیا۔ (الانعام : ٩٩) ٥۔ اللہ تعالیٰ نے نباتات پیدا فرمائی۔ ( الانعام : ١٠٠) ٦۔ ” اللہ“ ہی نے باغات، کھجور کے درخت اور کھیتی پیدا کی جوذائقہ کے لحاظ سے مختلف ہیں۔ (الانعام : ١٤١) ٧۔ دانے اور گٹھلی کو پھاڑنا، زندہ سے مردہ اور مردہ سے زندہ کرنا اللہ ہی کا کام ہے تم کہاں بہک گئے ہو؟ ( الانعام : ٩٥) ٨۔ تمہارا رب ہر چیز کو پیدا کرنے والاہے اس کے علاوہ کوئی معبود نہیں تم کہاں بہک گئے ہو ؟ (المومن : ٦٢) ٩۔ اپنے پروردگار سے دعا کیجئے کہ وہ ہمارے لیے زمین میں سے نباتات پیدا فرمائے۔ (البقرۃ: ٦١) ١٠۔ تمہارے لیے مسخر کیا نباتات کو زمین پر پھیلاکر، ان کی اقسام مختلف ہیں۔ (النحل : ١٣) ١١۔ اللہ ہر چیز کو پیدا کرنے والا ہے اسی کی عبادت کرو اور وہ ہر چیز پر کارساز ہے۔ (آل عمران : ١٠٢) ١٢۔ اللہ ہر چیز کو پیدا کرنے والا ہے، سو تم اس کی عبادت کرو اور وہ ہر چیز پر کارساز ہے۔ (الانعام : ١٠٢) الواقعة
64 الواقعة
65 الواقعة
66 الواقعة
67 الواقعة
68 فہم القرآن ربط کلام : کھیتی کا ذکر کرنے کے بعد پانی کا تذکرہ۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کی توجہ اپنی ذات کی طرف مرکوز کروانے کے لیے ایک دفعہ پھر ار شاد فرمایا ہے کہ غور تو کرو! کہ جو پانی تم پیتے ہو کیا تم نے اسے بادل سے اتارا ہے یا ہم نے اسے نازل کیا ہے ؟ اگر ہم چاہیں تو اس پانی کو کھارا بنادیں تو پھر تم اسے کس طرح میٹھا بنا سکتے ہو ؟ لیکن اس کے باوجود تم شکر نہیں کرتے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں کئی مرتبہ ارشاد فرمایا ہے کہ ہم آسمان سے بارش نازل کرتے ہیں اور بارش کے ذریعے باغات، نباتات اور کھیتیاں اگاتے ہیں۔ یہ بات عرض ہوچکی ہے کہ سورج کی تپش سے سمندر کا پانی بخارات کی صورت میں اوپر اٹھتا ہے۔ جسے ہوا فضا میں ایک خاص مقام تک اوپر لے جاتی ہے، پھر بخارات بادلوں کی شکل اختیار کرتے ہیں اور بادلوں کا فرشتہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے جہاں اسے حکم دیتا ہے بادلوں کو ہانک کر وہاں لے جاتا ہے اور پھر وہاں بارش برستی ہے۔ یہاں اس بات کو اختصار کے ساتھ یوں بیان فرمایا ہے کہ اے لوگو! جو تم پانی پیتے ہو اس پر غور کرو کہ کیا تم اسے بادل سے نازل کرتے ہویا ہم نازل کرتے ہیں ؟ اگر اللہ تعالیٰ اس پانی کو کھارا بنادے تونہ صرف پینے کے قابل نہ رہے بلکہ اس سے فصلیں بھی تباہ ہوجائیں گی۔ یہ اس کی مہربانی ہے کہ وہ سمندر کے کھارے پانی کو ہوا کے ذریعے صاف (FILTERIZE) فرما کرنازل کرتا ہے تاکہ لوگ اسے پئیں، فائدہ اٹھائیں اور اپنے رب کا شکر ادا کریں۔ لیکن لوگوں کی اکثریت اس کا شکر ادا نہیں کرتی۔ شکر کا پہلا تقاضا یہ ہے کہ انسان صرف اللہ کو اپنا خالق، مالک، رازق اور حاکم سمجھے اور بلاشرکت غیرے اس کی عبادت کرے، یہی اس کا سب سے بڑا شکر ہے اور شکر گزار بندے ہی عبادت گزار اور اس کے حقیقی فرمانبردار ہوا کرتے ہیں۔ شکر وہ جذبہ ہے جس سے انسان اپنے محسن کو پہچانتا ہے اور اس کی اطاعت میں لذت محسوس کرتا ہے جس نے اپنے محسن حقیقی کو فراموش کردیا وہ پرلے درجے کا ناشکرا اور ناقدردان ٹھہرے گا۔ جب شیطان کو بارگاہ ایزدی سے دھتکارا گیا تو اس نے سب سے پہلے یہی بات کہی تھی کہ جس کی وجہ سے مجھے دھتکارا گیا ہے آپ ان کی اکثریت کو اپنا شکر گزار نہیں پائیں گے۔ (قَالَ فَبِمَآ اَغْوَیْتَنِیْ لَاَقْعُدَنَّ لَہُمْ صِرَاطَکَ الْمُسْتَقِیْمَ ثُمَّ لَاٰتِیَنَّہُمْ مِّنْ بَیْنِ اَیْدِیْہِمْ وَ مِنْ خَلْفِہِمْ وَ عَنْ اَیْمَانِہِمْ وَ عَنْ شَمَآءِلِہِمْ وَ لَا تَجِدُ اَکْثَرَہُمْ شٰکِرِیْنَ) (الاعراف : ١٦، ١٧) ” اس نے کہا پھر جس وجہ سے تو نے مجھے دھتکارہ ہے۔ میں ضرور ان کے لیے تیرے سیدھے راستے پر بیٹھوں گا۔ پھر میں ہر صورت ان کے آگے سے اور ان کے پیچھے سے اور ان کی دائیں طرف سے اور ان کی بائیں طرف سے آؤں گا اور تو ان میں سے اکثر کو شکر کرنے والے نہیں پائے گا۔“ اللہ تعالیٰ کی ناشکری سے بچنے کے لیے انسان بالخصوص مسلمان کو اپنے رب کے حضور یہ دعا کرتے رہنا چاہئے۔ (أَللّٰھُمَّ أَعِنِّیْ عَلٰی ذِکْرِکَ وَشُکْرِکَ وَحُسْنِ عِبَادَتِکَ) (رواہ أبوداوٗد : باب فی الإستغفار قال البانی صحیح) ” الٰہی ! اپنے ذکر، شکر اور بہترین طریقے سے عبادت کرنے پر میری مدد فرما۔“ مسائل ١۔ انسان کو پانی کی نعمت پر غور کرنا چاہیے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی بارش نازل نہیں کرسکتا۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ پانی کو کھارا کردے تو کوئی اسے میٹھا نہیں بنا سکتا۔ تفسیربالقرآن لوگوں کو اللہ تعالیٰ کا شکرگزار ہونا چاہیے : ١۔ اللہ تعالیٰ نے اپنا شکر ادا کرنے کا حکم دیا ہے۔ (لقمان : ١٢) ٢۔ اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کرنا چاہیے۔ (البقرۃ: ١٧٢) ٣۔ اللہ تعالیٰ شکر کرنے والے لوگوں کو اپنی نشانیاں دکھاتا ہے۔ (الاعراف : ٥٨) ٤۔ اللہ تعالیٰ شکر کرنے والے کو زیادہ عطا کرتا ہے۔ (ابراہیم : ٧) ٥۔ شکر کرنے والوں سے اللہ تعالیٰ راضی ہوتا ہے۔ (الزمر : ٧) ٦۔ اللہ تعالیٰ شکر کرنے والوں کو بہتر جزا دیتا ہے۔ (القمر : ٣٥) ٧۔ شکر گزار تھوڑے ہی ہوا کرتے ہیں۔ (سباء ١٣) ٨۔ اللہ تعالیٰ شکر گزار بندوں کا قدر دان ہے۔ (النساء : ١٤٧) ٩۔ شیطان کا مقصد انسان کو ناشکر ا بنانا ہے۔ (الاعراف : ١٧) الواقعة
69 الواقعة
70 الواقعة
71 فہم القرآن ربط کلام : پانی کے بعد آگ کا تذکرہ۔ جس طرح پانی عظیم نعمت ہے اور اس پر انسان کی زندگی کا انحصار اسی پر ہے اس کے بغیر انسان زندہ نہیں رہ سکتا بلکہ دنیا میں پھلنے پھولنے والی کوئی چیز بھی نمو نہیں پاسکتی۔ ارشاد فرمایا کہ ہم نے ہر چیز کا انحصار پانی پر رکھا ہے لیکن پھر تم ایمان لانے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ (الانبیاء : ٣٠) جس طرح پانی کے بغیر زندگی باقی نہیں رہ سکتی اسی طرح انسان کی زندگی اور ترقی کے لیے آگ بھی ناگزیر ہے اگر آگ پیدا نہ کی جاتی توانسان اور حیوان کی زندگی کے درمیان معمولی فرق ہوتا اور انسان کسی صورت بھی ترقی نہ کرسکتا۔ آپ زندگی کے کسی شعبے پر غور فرمائیں اس کی ترقی میں بنیادی کردار آگ کا دکھائی دے گا۔ سائیکل سے لے کر ہوائی جہاز اور تیر سے لے کر ایٹم بم بنانے کے لیے آگ کی ضرورت ہے، یہاں تک انسان کی خوردونوش کا تعلق ہے آگ کے بغیر انسان روٹی بھی نہیں پکا سکتا۔ پہلے زمانے کے لوگ پتھر رگڑ کر آگ پیدا کرتے تھے اور قدیم عرب دو درختوں کی ہری بھری ٹہنیوں کو ایک دوسرے پر مار کر آگ حاصل کرتے تھے۔ جس سے اللہ تعالیٰ کی قدرت کا اظہار ہوتا ہے مرخ اور عفار درختوں کی ٹہنیاں سبز ہیں اور ان میں آگ نہیں پانی ہوتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ ان سے آگ پیدا کرتا ہے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے انسان کو یہ صلاحیت بخشی کہ اس نے بے شمار چیزوں سے آگ حاصل کرنا شروع کردی لیکن انسان کی بے عقلی کا اندازہ کریں کہ بے شمار لوگ آگ کی پرستش کرتے ہیں۔ صرف اَن پڑھ نہیں بڑے بڑے ترقی یافتہ اور علم وفنون کی ڈگریاں رکھنے والے حضرات آگ کے سامنے جھکتے ہیں اور اسے حاجت روا، مشکل کشا سمجھتے ہیں حالانکہ آگ پیدا کرنے والا صرف ” اللہ“ ہے۔ اس لیے ارشاد ہوا کہ بس اپنے رب عظیم کی تسبیح پڑھاکریں جوہر کمزوری سے پاک اور ہرقسم کے شرک سے مبرا ہے۔ (عَنْ عُقْبَۃَ بْنِ عَامِرٍقَالَ فَکَانَ رَسُول اللَّہ إِذَا رَکَعَ قَال سُبْحَانَ رَبِّیَ الْعَظِیمِ وَبِحَمْدِہِ ثَلاَثًا وَإِذَا سَجَدَ قَال سُبْحَانَ رَبِّیَ الأَعْلَیوَبِحَمْدِہِ ثَلاَثًا) (رواہ البیہقی : باب الْقَوْلِ فِی الرُّکُوعِ) ” عقبہ بن عامر (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب رکوع کرتے تو تین مرتبہ یہ کلمات (سُبْحَانَ رَبِّیَ الْعَظِیمِ وَبِحَمْدِہ) پڑھتے اور جب سجدہ کرتے تو تین دفعہ یہ کلمات (سُبْحَانَ رَبِّیَ الأَعْلَی وَبِحَمْدِہِ) پڑھتے۔ ” حضرت عائشہ (رض) بیان کرتیں ہیں کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رکوع وسجود میں یہ دعا پڑھا کرتے تھے۔ (ُ سبُّوحٌ قُدُّوسٌ رَبُّ الْمَلاَءِکَۃِ وَالرُّوح) “ (رواہ ابوداؤد : بَابُ مَا یَقُول الرَّجُلُ فِی رُکُوعِہِ وَسُجُودِہِ، قال البانی صحیحہٌ) (عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَال النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کَلِمَتَانِ حَبِیْبَتَانِ إِلَی الرَّحْمَنِ، خَفِیْفَتَانِ عَلَیْ اللِّسَانِِ، ثَقِیْلَتَانِ فِیْ الْمِیْزَانِ سُبْحَان اللَّہِ وَبِحَمْدِہِ، سُبْحَان اللَّہِ الْعَظِیمِ) ( رواہ البخاری : کتاب التوحید) ” حضرت ابوہریرہ (رض) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا دو کلمے رحمٰن کو بڑے پسند ہیں زبان سے ادا کرنے میں آسان اور وزن کے لحاظ سے بھاری ہیں۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے ہی سرخ اور عفار درخت پیدا کیے جن سے پرانے زمانے کے لوگ آگ حاصل کرتے تھے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے ہی آگ بنائی ہے۔ ٣۔ آگ سے انسان قوت حاصل کرتا ہے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ کی قدرتوں میں آگ بھی اس کی قدرت کی نشانی ہے۔ ٥۔ انسان کو آگ سے سبق حاصل کرنا چاہیے۔ تفسیربالقرآن اللہ تعالیٰ کی قدرتوں کی ایک جھلک : ١۔ رات اور دن کو اللہ نے نشانیاں بنایا ہے۔ (بنی اسرائیل : ١٢) ٢۔ دن، رات، سورج اور چاند اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں۔ ( حٰم السجدۃ: ٣٧) ٣۔ آسمان اور زمین کی پیدائش، دن اور رات کے آنے جانے میں عقلمندوں کے لیے نشانیاں ہیں۔ (آل عمران : ١٩٠) ٤۔ بے شک دن اور رات کے مختلف ہونے میں اور جو کچھ اللہ نے زمین و آسمان میں پیدا کیا ہے، اس میں لوگوں کے لیے نشانیاں ہیں۔ (یونس : ٦) ٥۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کے وجود میں اپنی قدرت کی نشانیاں رکھی ہیں۔ (الذاریات : ٢١) الواقعة
72 الواقعة
73 الواقعة
74 الواقعة
75 فہم القرآن ربط کلام : عظیم نشانیوں اور نعمتوں کے تذکرے کے بعد عظیم خالق کی تسبیح کرنے کا حکم اس کی عظمت کا عالم یہ ہے کہ اس نے لوگوں کی ہدایت کے لیے آسمان سے قرآن مجید جیسی عطیم کتاب نازل کی ہے۔ اہل مکہ اپنے باطل عقیدہ پر اصرار کرنے کی وجہ سے قرآن کی مخالفت کرتے تھے حالانکہ اس بات کے ان کے سامنے درجنوں دلائل دیئے گئے کہ قرآن مجید اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کیا جارہا لیکن وہ اس قدر ہٹ دھرم تھے کہ کسی صورت قرآن مجید کو مِن جانب اللہ تسلیم کرنے کے لیے تیار نہ تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ستاروں کی قسم اٹھا کر یقین دلایا کہ یہ قرآن کسی غیر کی طرف سے نازل نہیں کیا گیا اسے تو اس رب نے نازل کیا ہے جو ستارے بنانے اور انہیں فضا میں ٹھہرانے والا ہے۔ ارشاد فرمایا کہ ہمیں گرتے ہوئے ستاروں کی قسم ہے اگر تم سمجھنے کی کوشش کرو تو یہ بہت بڑی قسم ہے، بڑی قسم سے مراد ایک تو قسم اٹھانے والی ذات سب سے اعلیٰ اور بڑی ہے پھر جن ستاروں کی قسم اٹھائی جارہی ہے وہ کس قدر بڑے ہیں۔ ان کے نظام پر غور کرو کہ اس ذات نے کس طرح کھرب ہا ستارے پیدا کیے ہیں۔ ان میں چھوٹے بھی ہیں اور بڑے بھی جو اس کے حکم سے جھڑتے اور پیدا ہوتے رہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے یہاں تاروں کی منازل کی قسم کھائی ہے۔ منازل سے مراد تاروں کے مدار یا فضاکاوہ حصہ ہے جہاں کروڑوں کی تعداد میں تارے گرتے ہیں اور زمین پر آنے کی بجائے فضا میں ہی ختم ہوجاتے ہیں۔ اس قسم میں ایک طرف ستاروں کے وسیع ترین نظام کی طرف توجہ دلائی گئی ہے اور دوسری طرف قرآن مجید کی عظمت بیان فرمائی ہے۔ اس بنا پر ارشاد فرمایا ہے کہ قرآن مجید عظمت کا حامل ہے اور یہ لوح محفوظ میں درج ہے، اسے وہی ہاتھ لگاتے ہیں جو پاک باز ہیں۔ یعنی وہ فرشتے جنہیں اللہ تعالیٰ نے قرآن کی حفاظت اور تنزیل پر مقرر کیا ہے اس سے کفار کے الزام کی تردید کی گئی ہے جو کہتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قرآن خود بنا لیتے ہیں یا اس پر شیطان نازل کرتا ہے۔ بتانا مقصود یہ ہے کہ قرآن مجید میں کسی کی کسی اعتبار سے دخل اندازی نہیں ہے۔ کیا تم اس عظیم کتاب کا انکار کرتے ہو جسے رب العالمین نے نازل فرمایا ہے لیکن تم دنیا کی خاطر اسے جھٹلائے جارہے ہو۔ ” تَجْعَلُوْنَ رِزْقَکُمْ“ کے مفسرین نے تین مفہوم بیان کیے ہیں۔ ١۔ کفار کا خیال تھا کہ اگر ہم نے قرآن کی دعوت کو مان لیا تو لوگ ہمارے مخالف ہوجائیں گے جس سے ہمیں کاروباری طور پر نقصان پہنچے گا۔ ٢۔ جس طرح زندگی کے لیے کھانا پینا لازم ہے اس طرح انہوں نے قرآن کی مخالفت کو اپنے لیے لازم سمجھ رکھا ہے۔ ٣۔ جس طرح دوسری نعمتوں کا شکرادا نہ کرکے اللہ تعالیٰ کو جھٹلاتے ہو اسی طرح قرآن مجید جیسی عظیم نعمت کو جھٹلاتے ہو۔ (عَنْ عَلِیٍّ (رض) قَالَ قَالَ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (وَتَجْعَلُونَ رِزْقَکُمْ أَنَّکُمْ تُکَذِّبُونَ) قَالَ شُکْرُکُمْ تَقُولُونَ مُطِرْنَا بِنَوْءِ کَذَا وَکَذَا وَبِنَجْمِ کَذَا وَکَذَا) (رواہ الترمذی : باب ومن سورۃ الواقعۃ قَالَ أَبُو عیسَی ہَذَا حَدِیثٌ حَسَنٌ غَرِیبٌ صَحِیحٌ لاَ نَعْرِفُہُ مَرْفُوعًا إِلاَّ مِنْ حَدِیثِ إِسْرَاءِیلَ) حضرت علی (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے (وَتَجْعَلُونَ رِزْقَکُمْ أَنَّکُمْ تُکَذِّبُونَ) کا مفہوم بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ تمہاری ناشکری تو یہاں تک ہے کہ تم کہتے ہو فلاں فلاں ستارے کی وجہ سے بارش ہوئی ہے۔“ مسا ئل ١۔ اللہ تعالیٰ نے ستاروں کی قسم اٹھا کر فرمایا ہے کہ یہ قرآن عظیم مرتبہ کتاب ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ کی قسم کو معمولی قسم نہیں سمجھنا چاہیے۔ ٣۔ قرآن مجیدبڑی بلند پایا کتاب ہے۔ ٤۔ قرآن مجید لوح محفوظ میں درج ہے۔ ٥۔ قرآن مجید کو جو پاک باز فرشتے ہی ہاتھ لگاتے ہیں۔ ٦۔ قرآن مجید کو رب العالمین نے نازل فرمایا ہے۔ ٧۔ قرآن مجید کے کسی مسئلے کا انکار نہیں کرنا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن قرآن مجید کی عظمت : ١۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں جو کچھ نازل کیا ہے وہ مومنوں کے لیے شفاء اور رحمت ہے۔ (بنی اسرائیل : ٨٢) ٢۔ قرآن مجید کو اللہ نے ہی نازل فرمایا ہے اور وہی اس کا محافظ ہے۔ (الحجر : ٩) ٣۔ جن و انس مل کر بھی اس قرآن کی مثل نہیں لا سکتے۔ (بنی اسرائیل : ٨٨) ٤۔ یہ کتاب مبین ہے اس میں کسی قسم کا شک نہیں ہے۔ (البقرۃ: ٢) ٥۔ قرآن مجید میں کوئی کجی نہیں ہے۔ (الکہف : ١) ٦۔ قرآن مجید لوگوں کے لیے نصیحت اور مومنوں کے لیے باعث ہدایت اور رحمت ہے۔ (یونس : ٥٧) الواقعة
76 الواقعة
77 الواقعة
78 الواقعة
79 الواقعة
80 الواقعة
81 الواقعة
82 الواقعة
83 فہم القرآن ربط کلام : قرآن مجید کو جھٹلانے والوں کو ان کی موت یاد کروائی گئی ہے تاکہ وہ ہوش کے ناخن لیں اور اپنے آپ کو سیدھی راہ پر ڈال کر اصحاب الیمین میں شامل ہوجائیں۔ اس سورت کا آغاز قیامت کی ہولناکیوں کے بیان سے ہوا۔ جس میں بتلایا گیا کہ قیامت کے دن لوگ ” اَصْحَابَ الْیَمِیْنِ، اَصَحَاب الشِّمَالِ“ اور ” سَابِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ“ کی تقسیم کے مطابق ہوں گے لیکن بنیادی طور پر لوگ دو ہی گروہوں میں منقسم ہوں گے۔ ایک جنتی اور دوسرے جہنمی ہوں گے الواقعہ کا اختتام بھی اسی مضمون پر کیا جارہا ہے کیونکہ قیامت کے انعام اور اس کی سزاؤں کا آغاز انسان کی موت کے ساتھ ہی شروع ہوجاتا ہے۔ اس لیے پہلے موت کی واردات کا ذکر فرمایا کہ جب موت آتی ہے تو جان حلق میں اٹک جاتی ہے اور تم اس وقت فوت ہونے والے کی بے بسی دیکھ رہے ہوتے ہوں، بظاہر تم اس کے قریب ہوتے ہو لیکن حقیقت یہ ہے کہ تم سے ہم اس کے زیادہ قریب ہوتے ہیں لیکن تمہیں نظر نہیں آتے، اگر تم میں طاقت ہے تو اس کی نکلنے والی روح کو واپس کیوں نہیں لاتے ؟ اس بات کو دوسرے مقام پر یوں بھی بیان کیا گیا ہے۔ (قُلْ فَادْرَءُ وْا عَنْ اَنْفُسِکُمُ الْمَوْتَ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ) (آل عمران : ١٦٨) ” اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ان سے فرمائیں کہ اگر تم سچے ہو اور کسی قسم کا اختیار رکھتے ہو تو پھر اپنی موت کو ٹال کر دکھاؤ۔“ پھر ارشاد فرمایا : (یُدْرِکْکُّمُ الْمَوْتُ وَ لَوْ کُنْتُمْ فِیْ بُرُوْجٍ مُّشَیَّدَۃٍ) ( النساء : ٧٨) ” تم مضبوط قلعوں میں بند ہوجاؤ تو بھی موت تمہیں دبوچ لے گی۔“ موت کا ہاتھ لخت جگر کو مامتا کی چھاتی سے، جوان بیٹے کو بوڑھے باپ سے اور ماں کو بلکتے ہوئے بچوں سے چھین لیتا ہے۔ موت کے مقابلے میں کوئی کچھ بھی نہیں کرسکتا۔ یہاں اشارۃً بتلایا جارہا ہے کہ جب تم اپنے آپ اور کسی عزیز کو اس کی موت سے نہیں چھڑا سکتے تو اس قیامت سے کس طرح بچ سکتے ہو جو ہر چیز کو تہس نہس کرکے رکھ دے گی، یہاں تک کہ ساتوں آسمان اور ساتوں زمینوں کو ہلا کر الٹ پلٹ کردے گی۔ پہاڑ ریزہ ریز ہوجائیں گے، آسمان ٹکڑے ٹکڑے ہو کر گر پڑیں گے اور زمین چٹیل میدان بنا دی جائے گی۔ اگر تم ذات کبریا کے مطیع نہیں ہو تو پھر مرنے والے کی روح کو کیوں نہیں لٹاتے ؟ حقیقت یہ ہے کہ تم اللہ ذوالجلال کے سامنے محض عضو معطل ہو مگر اپنی حقیقت بھول چکے ہو۔ جس نے اپنے آپ اور اپنے رب کو پہچان لیا وہ اس کے مقرب بندوں میں شامل ہوگا۔ جس نے اپنے رب اور موت کو بھلا دیا وہ کلی طور پر گمراہ ہوا۔ موت کی آسانی کے لیے دعا : (اللَّہُمَّ أَعِنِّی عَلَی سَکَرَاتِ الْمَوْتِ) (رواہ احمد : مسند عائشہ (رض) ” اے اللہ مجھے موت کی سختیویوں پر فتح عطا فرما۔“ مسائل ١۔ انسان کی موت کے وقت اللہ تعالیٰ اس کے سب سے زیادہ قریب ہوتا ہے۔ ٢۔ موت کے وقت انسان کے عزیز واقرباء اس کی کوئی مدد نہیں کرسکتے۔ تفسیر بالقرآن موت کا وقت مقرر ہے جو آگے پیچھے نہیں ہوسکتا : ١۔ موت کا وقت مقرر ہے۔ (آل عمران : ١٤٥) ٢۔ موت کی جگہ متعین ہے۔ (آل عمران : ١٥٤) ٣۔ موت کو کوئی ٹال نہیں سکتا۔ (آل عمران : ١٦٨) ٤۔ موت سے کوئی بچ نہیں سکتا۔ (النساء : ٧٨) ٥۔ سب کو موت آنی ہے۔ (الانبیاء : ٣٥) ٦۔ اللہ تعالیٰ کے سوا ہر کسی نے مرنا ہے۔ (الرحمن : ٢٦، القصص : ٨٨) ٧۔ جب کسی کی اجل آجائے تو اس میں تقدیم و تاخیر نہیں ہوتی۔ ( یونس : ٤٩) ٨۔ تمہارے لیے قیامت کا دن مقرر ہے، اس میں تقدیم وتاخیر نہیں ہوگی۔ ( سبا : ٣٠) ٩۔ قیامت آچکی ہے لیکن تم غفلت میں پڑے ہوئے ہو۔ ( الانبیاء : ١) الواقعة
84 الواقعة
85 الواقعة
86 الواقعة
87 الواقعة
88 فہم القرآن ربط کلام : قیامت پر ایمان لانے اور اس کے تقاضے پورے کرنے والے مقربین میں شامل ہوں گے۔ مرنے والا قیامت پر یقین رکھنے اور اس کے تقاضے پورے کرنے والا ہوگا تو وہ اپنے رب کے مقرب بندوں میں شامل ہوگا، اس کے لیے ہرقسم کی راحت، ذائقہ دار خوراک اور نعمتوں والی جنت ہوگی اور یہ اصحاب الیمین میں ہوگا اور اس پر اس کے رب کی طرف سے ہمیشہ ہمیش کے لیے سلامتی ہوگی۔ اگر وہ قیامت کو جھٹلانے والوں اور گمراہ لوگوں میں ہوا تو اس کی کھولتے ہوئے پانی سے مہمان نوازی کی جائے گی اور اسے جہنم میں جھونکا جائے گا۔ ” اَصْحَابَ الْیَمِیْنِ“ کا انعامات پانا اور ” اَصَحَاب الشِّمَالِ“ کا جہنم میں جھونکا جانا برحق ہے یعنی اس میں کسی شک کی گنجائش نہیں۔ لہٰذا اپنے رب کی تسبیح بیان کریں۔ جو نیکوں کو پوری پوری جزادے گا اور بڑے لوگوں کو ٹھیک ٹھیک سزا دینے والا ہے۔ ( عَنْ عَاءِشَۃَ (رض) قَالَتْ کَان النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یُکْثِرُ اَنْ یَّقُوْلَ فِیْ رُکُوْعِہٖ وَسُجُودِہٖ سُبْحَانَکَ اللّٰھُمَّ رَبَّنَا وَبِحَمْدِکَ اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلِیْ ےَتَاَوَّلُ الْقُرْآن) (رواہ البخاری : باب التسبیح والدعاء فی السجود) ” حضرت عائشہ (رض) بیان فرماتی ہیں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے رکوع اور سجدوں میں یہ دعا پڑھا کرتے تھے ” اے اللہ تو پاک ہے اور تیرے لیے حمد و ستائش ہے الٰہی مجھے معاف فرما۔ آپ اس آیت سے یہی مفہوم لیتے۔“ الواقعة
89 الواقعة
90 الواقعة
91 الواقعة
92 الواقعة
93 الواقعة
94 الواقعة
95 الواقعة
96 الواقعة
0 سورۃ الحدید کا تعارف یہ سورت مدینہ منورہ میں نازل ہوئی اس کے چار رکوع اور انتیس (٢٩) آیات ہیں۔ یہ سورت مسبّحات میں پہلی سورت ہے جن سورتوں کی ابتداء سَبَّحَ یُسَبِّحُ کے الفاظ سے ہوتی ہے مفسرین ان سورتوں کو مسبّحات کا نام دیتے ہیں۔ اس کی ابتداء میں اللہ تعالیٰ نے ارشادفرمایا ہے کہ زمینوں و آسمان کی ہر چیز اللہ تعالیٰ کی تسبیح کرتی ہے کیونکہ وہ ہر چیز پر غالب ہے اور اس کے ہر کام اور فرمان میں حکمت کارفرما ہوتی ہے اور وہ غلبہ رکھنے والا ہے اس کی زمین و آسمان میں بادشاہی ہے اور وہی موت و حیات کا مالک ہے جب کوئی چیز موجود نہیں تھی وہ اس وقت بھی موجود تھا جب کوئی نہیں ہوگا تو اس وقت وہ بھی موجود ہوگا وہ اپنی قدرتوں سے ظاہر ہے اور ذات کے حوالے سے پوشیدہ ہے اس نے زمینوں و آسمانوں کو سات دنوں میں پیدا کیا اور پھر اپنے عرش پر استوار ہوا وہ سب کچھ جانتا ہے جو زمین میں داخل ہوتا ہے اور جو نکلتا ہے، جو آسمان کی طرف چڑھتا ہے اور جو اس سے اترتا ہے۔ وہ اپنے اقتدار و اختیار اور علم کے لحاظ سے ہر وقت انسان کے ساتھ ہوتا ہے۔ اس کی زمین و آسمان میں بادشاہی ہے اور ہر کسی نے اسی کے حضور حاضر ہونا ہے۔ جب ہر چیز اسی کی ملکیت ہے تو اس کے دئیے ہوئے مال سے اس کی راہ میں خرچ کر، جو خرچ کرو گے اس کا بڑا اجر پاؤ گے۔ جو لوگ ” اللہ“ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں انہیں سمجھ لینا چاہیے کہ بالاخر ہر چیز کا مالک اللہ تعالیٰ ہے۔ اس کا وعدہ ہے کہ جو کوئی اس کی راہ میں خرچ کرے گا وہ اسے قرض دے گا۔ اللہ تعالیٰ اسے دوگنا تگنا کر کے واپس لوٹائے گا۔ ایسے مومنوں کو قیامت کے دن ایسا نور عطاء کیا جائے گا جو ان کے سامنے اور دائیں جانب پھیل رہا ہوگا ملائکہ ان کا استقبال کریں گے اور انہیں جنت کی مبارک دیں گے، جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی۔ جن میں جانے والوں کے لیے یہ بڑی کامیابی ہوگی۔ ان کے مقابلے میں جو لوگ حقیقی ایمان نہیں رکھتے اور اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد اور خرچ نہیں کرتے ان کے لیے اندھیرے ہوں گے اور وہ جنتیوں سے بار بار درخواست کریں گے کہ ٹھہر جاؤ ہم بھی تمھارے نور کی روشنی میں جنت میں داخل ہوجائیں جنتی انہیں کہیں گے کہ تم پیچھے پلٹ کر جاؤ اور وہاں سے اپنا نور تلاش کرو وہ پلٹ کر دیکھیں گے تو ان کے اور جنتی کے درمیان ایک دیوار حائل کردی جائے گی۔ جس کے آگے جنت ہوگی اور اس کے پیچھے جہنم ہوگی اس طرح انہیں جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے اس سورت میں یہ بھی ارشاد فرمایا ہے کہ اس نے لوہا اور میزان نازل کیا ہے ہر حال میں میزان کا خیال رکھو اور یاد رکھو کے لوہے میں بڑی طاقت ہے اور اس میں لوگوں کے لیے بہت سے فوائد رکھ دئیے گئے ہیں۔ لوہے کے ذریعے طاقت حاصل کرو اور اس طاقت کو اللہ تعالیٰ کے دین کے لیے استعمال کرو۔ الحديد
1 فہم القرآن ربط سورت : سورۃ الواقعہ کے آخر میں حکم ہوا کہ اپنے عظیم رب کی تسبیح پڑھا کریں۔ الحدید کی ابتدا میں یہ ارشادہوا ہے کہ زمین و آسمانوں میں جو کچھ ہے وہ ” اللہ“ کی تسبیح پڑھتے ہیں کیونکہ ” اللہ“ ہر اعتبار سے غالب اور اس کے ہر کام میں حکمت پائی جاتی ہے۔ سورۃ الحدید ان تین سورتوں میں سے ہے جن کی ابتدا ” سَبَّحَ لِلّٰہِ“ کے پیارے الفاظ سے ہورہی ہے۔ ان پانچ سورتوں کو اہل علم مسبِّحات کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ جن میں سورۃ الحدید، الحشر اور الصّف ” سَبَّحَ“ کے لفظ سے، سورۃ الجمعہ اور التغابن ” یُسَبِّحُ“ کے لفظ سے شروع ہوتی ہیں ان الفاظ میں یہ بات بتلائی اور سمجھائی گئی ہے کہ اے انسان جب تیرا وجود نہیں تھا تو اس وقت بھی زمین و آسمان کی ہر چیز اپنے رب کی حمد و ستائش بیان کرتی تھی اور اب بھی کر رہی ہے اور مستقبل میں بھی بیان کرتی رہے گی۔ یاد رہے کہ ” سَبَّحَ“ ماضی کے لیے آتا ہے اور ” یُسَبِّحُ“ حال اور مستقبل کا احاطہ کرتا ہے۔ زمین و آسمان کی ہر چیز اس بات کا اقرار اور اظہار کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ ذرّے ذرّے پر اقتدار اور اختیار رکھتا ہے بے مثال اور لازوال اقتدار اور اختیار رکھنے کے با وجود اس کے ہر کام اور حکم میں حکمت پائی جاتی ہے۔ اس فرمان میں پہلا سبق یہ ہے کہ اے انسان! جس دھرتی کے ا وپر تیرا بسیرا اور جس آسمان کے نیچے تیرا ڈیرا ہے اور جن فضاؤں میں تو سانس لیتا ہے وہ ماضی، حال اور مستقبل میں اپنے رب کے ثناء خواں ہیں اور رہیں گے۔ تجھے چاہیے کہ تو بھی اپنے رب کی حمد وثناء کرے اور ہر حال میں اپنے آپ پر ” اللہ“ غالب سمجھے۔ اس یقین کے ساتھ اس کے حکم کی تعمیل کر کہ جس بات کا اس نے حکم دیا اور جس کام سے اس نے منع کیا ہے۔ اس میں میری خیرخواہی پائی جاتی ہے۔ (یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اذْکُرُوا اللّٰہَ ذِکْرًا کَثِیْرًا۔ وَّ سَبِّحُوْہُ بُکْرَۃً وَّ اَصِیْلًا) (الاحزاب : ٤١، ٤٢) ” اے لوگو! جو ایمان لائے ہو۔ اللہ کو کثرت سے یاد کرو اور صبح وشام اس کی تسبیح کرتے رہو۔“ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَال اللّٰہُ تَعَالٰی أَنَا مَعَ عَبْدِیْ حَیْثُمَا ذَکَرَنِیْ وَتَحَرَّکَتْ بِیْ شَفَتَاہُ) (رواہ البخاری : کتاب التوحید، باب قول اللہ تعالیٰ لاتحرک بہ لسانک الخ) ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں میں اپنے بندے کے ساتھ ہوتاہوں، وہ جہاں بھی میرا ذکر کرے اور جب بھی اس کے ہونٹ میرے ذکر میں حرکت کریں۔“ رسول گرامی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے معاذ بن جبل (رض) کو یہ دعا سکھلائی کہ اسے ہر نماز کے بعد پڑھا کرو۔ (أَللّٰھُمَّ أَعِنِّیْ عَلٰی ذِکْرِکَ وَشُکْرِکَ وَحُسْنِ عِبَادَتِکَ) (رواہ أبوداوٗد : باب فی الإستغفار) ” الٰہی ! اپنے ذکر، شکر اور بہترین طریقے سے عبادت کرنے پر میری مدد فرما۔ (عَنْ اَبِیْ مَالِکِ الْاَشْعَرِیِّ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اَلطُّھُوْرُ شَطْرُ الْاِےْمَانِ وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ تَمْلَاُ الْمِےْزَانَ وَسُبْحَان اللّٰہِ وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ تَمْلَاٰنِ اَوْ تَمْلَأُ مَا بَےْنَ السَّمٰوٰتِ وَالاْرَضِ) (رواہ مسلم : باب فَضْلِ الْوُضُوءِ) حضرت ابومالک اشعری (رض) رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان ذکر کرتے ہیں کہ پاکیزگی ایمان کا حصہ ہے، ” اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ“ میزان کو بھر دیتے ہیں۔ ” سُبْحَان اللّٰہِ“ اور ” اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ“ دونوں کلمے زمین و آسمان کو بھر دیتے ہیں۔ (اَلْإِیْمَانُ بِضْعٌ وَسَبْعُوْنَ شُعْبَۃً فَأَفْضَلُھَا قَوْلُ لَاإِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَأَدْنَاھَا إِمَاطَۃُ الْأَذٰی عَنِ الطَّرِیْقِ وَالْحَیَاءُ شُعْبَۃٌ مِّنَ الْإِیْمَانِ) (رواہ مسلم : کتاب الإیمان) ” ایمان کے ستر سے کچھ اوپر اجزاء ہیں۔ ان میں افضل ترین لا الہ الا اللہ کا اقرار ہے اور سب سے ادنیٰ تکلیف دہ چیز کو راستے سے ہٹانا ہے اور حیا بھی ایمان میں شامل ہے۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ کی تعریف ماضی میں بھی ہوتی رہی ہے اور حال اور مستقبل میں بھی ہوتی رہے گی۔ ٢۔ زمین و آسمان کی ہر چیز اللہ کی ثناء خواں ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ ہر اعتبار سے غالب ہے اور اس کے ہر کام اور حکم میں حکمت پائی جاتی ہے۔ تفسیر بالقرآن ہر چیز اللہ تعالیٰ کی تسبیح کرتی ہے : ١۔ رعد اس کی تسبیح بیان کرتی ہے۔ (الرعد : ١٢) ٢۔ زمین و آسمان کی ہر چیز اللہ تعالیٰ کی تسبیح بیان کرتی ہے۔ (الحدید : ١) ٣۔ ساتوں آسمان اور زمین اور جو کچھ ان میں ہے اللہ تعالیٰ کی حمد بیان کرتے ہیں۔ (نبی اسرائیل : ٤٤) ٤۔ فرشتے اللہ تعالیٰ کی تسبیح اور حمد بیان کرتے ہیں اور مومنوں کے لیے مغفرت طلب کرتے ہیں۔ (الشوریٰ : ٥) ٥۔ مومن ” اللہ“ کی حمد اور تسبیح بیان کرتے ہیں اور وہ تکبر نہیں کرتے۔ (السجدۃ: ١٥) الحديد
2 فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ نہ صرف ہر چیز پر غالب ہے بلکہ زمین و آسمان کی ہر چیز اس کی ملک ہے اور وہ ذرّے ذرّے پر دائمی اور کلّی اختیار اور اقتدار رکھنے والا ہے۔ زمین و آسمان کی ہر چیز زبان حال اور قال کے ساتھ اس بات کا اعتراف کرتی ہے کہ ہر چیز کا حقیقی اور دائمی مالک صرف ” اللہ“ ہے۔ ” اللہ“ ہی ہر چیز کی بقاء اور فنا پر اختیار رکھنے والا ہے۔ جب تک چاہتا ہے ہر چیز کو زندگی عطا کرتا ہے اور جب چاہتا ہے اسے فنا کے گھاٹ اتار دیتا ہے کیونکہ وہ موت و حیات پر اختیار رکھتا ہے۔ وہ اس وقت موجود تھا جب کچھ نہیں تھا اور اس وقت بھی موجود ہوگا جب کچھ نہیں ہوگا، وہ اپنی قدرتوں اور نعمتوں کے حوالے سے ہر جگہ ظاہر بھی ہے اور پوشیدہ بھی۔ وہ ظاہر اور باطن کو جانتا ہے کیونکہ وہ ہر چیز کے ماضی، حال اور مستقبل کے بارے میں کلّی علم رکھتا ہے۔ ” اللہ جانتا ہے جو ہر مادہ اٹھائے ہوئے ہے اور رحم جو کچھ کم کرتے ہیں اور جو زیادہ کرتے ہیں اور اس کے ہاں ہر چیز کا اندازہ مقرر ہے۔ وہ غیب اور ظاہر کو جاننے والا، بہت بڑا اور نہایت بلندو بالا ہے۔ برابر ہے تم میں سے جو بات چھپا کر کرے یا اسے اونچی آواز سے کرے اور جو رات کو چھپا ہوا ہے اور جو دن کو ظاہر پھرنے والاہے۔“ (الرعد : ٨ تا ١٠) (وَاَسِرُّوْا قَوْلَکُمْ اَوِاجْہَرُوْا بِہٖ اِِنَّہٗ عَلِیْمٌ بِذَات الصُّدُوْرِ) (الملک : ١٣) ” تم چپکے سے بات کرو یا اونچی آواز سے کرو۔ اللہ کے لیے برابر ہے وہ دلوں کا حال جانتا ہے۔“ الحديد
3 الحديد
4 فہم القرآن ربط کلام : جو ذات اوّل اور آخر، ظاہر اور باطن اور ہر چیز کا علم رکھتی ہے اسی نے زمین و آسمانوں کو چھ دن میں پیدا کیا ہے۔ ” اللہ“ ہی وہ ذات ہے جس نے زمین و آسمانوں کو چھ دن میں پیدا کیا اور پھر عرش پر متمکن ہوا جس طرح اس کی شان کے لائق ہے۔ عرش پر متمکن ہونے کا یہ معنٰی نہیں کہ وہ کائنات کے نظام سے لاتعلق ہوچکا ہے ایسا ہرگز نہیں بلکہ وہ جانتا ہے جو کچھ زمین میں داخل ہوتا ہے اور جو اس سے نکلتا ہے، وہ جانتا ہے جو آسمان سے اترتا ہے اور جو کچھ اوپر چڑھتا ہے، وہ سمندر سے اٹھنے والے بخارات، بارش کے قطرات، زمین سے اگنے والی نباتات، آسمان سے اترنے والے ملائکہ اور آسمان کی طرف چڑھنے والے ملائکہ، ارواح اور اعمال کو جانتا ہے۔ اے لوگو! تم جہاں کہیں بھی ہوتے ہو اللہ تمہارے ساتھ ہوتا ہے اور وہ تمہارے ہر کام کو دیکھ رہا ہے، زمین و آسمانوں کی بادشاہی اسی کے لیے ہے اور ہر کام کا فیصلہ اور اس کا انجام اسی کے حضور پیش کیا جاتا ہے، وہی رات کو دن میں داخل کرتا ہے اور دن کو رات میں داخل کرتا ہے اور وہ دلوں کے راز جاننے والا ہے۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ لوگو! میں ہر آن تمہارے ساتھ ہوتاہوں اور اس آیت میں یہ بھی ارشاد ہے کہ اس نے زمین و آسمانوں کو چھ دنوں میں پیدا فرمایا اور پھر عرش پر مستوی ہوا۔ اسی بات کو سورۃ طٰہٰ کی آیت ٥ میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ عرش پر مستوی ہے۔ دونوں آیات کو سامنے رکھ کر اس بات کی حقیقی تفسیر یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی ذات کے اعتبار سے عرش معلی پر ہے اور وہ اپنے اقتدار، اختیار، علم و آگہی کے اعتبار سے ہر جگہ موجود ہے اور کائنات کے تمام امور کی ابتدا اور انتہا اسی کے حکم پر ہوتی ہے۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمانوں کو چھ دن میں پیدا فرمایا۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ اپنی شان اور آن کے مطابق عرش پر مستوی ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ جانتا ہے جو زمین و آسمانوں میں داخل ہوتا اور جو زمین سے نکلتا ہے اور جو کچھ آسمان کی طرف چڑھتا ہے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ اپنے اقتدار، اختیار اور علم وآگہی کے اعتبار سے ہر جگہ موجود ہے۔ ٥۔ کائنات کی تمام حر کات و سکنات اس کے حکم کے تابع ہیں۔ ٦۔ ” اللہ“ ہی رات کودن میں اور دن کو رات میں داخل کرتا ہے۔ ٧۔ اللہ تعالیٰ دلوں کے بھید جاننے والاہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ اقتدار، اختیار اور علم وآگہی کے اعتبار سے لوگوں کے ساتھ ہوتا ہے : ١۔ اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ (البقرۃ: ١٥٣) ٢۔ اللہ تعالیٰ متقین کے ساتھ ہے۔ (التوبہ : ٣٦) ٣۔ اللہ تعالیٰ مومنوں کے ساتھ ہے۔ (النساء : ١٤٦) ٤۔ اللہ تعالیٰ تقویٰ اختیار کرنیوالوں کے ساتھ ہے۔ (النحل : ١٢٨) ٥۔ اللہ تعالیٰ تقویٰ اختیار کرنیوالوں اور نیکو کاروں کے ساتھ ہے۔ (النحل : ١٢٨) ٦۔ اللہ آسمانوں و زمین کی ہر چیز کو جانتا ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ (آل عمراٰن : ٢٩) ٧۔ اللہ تعالیٰ ہر اس چیز کو جانتا ہے جو زمین میں داخل ہوتی اور نکلتی ہے۔ ( الحدید : ٤) ٨۔ تم جہاں کہیں بھی ہوگے اللہ تمہیں قیامت کے دن جمع فرمائے گا وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ (البقرۃ: ١٤٨) ٩۔ اللہ تعالیٰ اپنے اقتدار اور اختیار کے اعتبار سے لوگوں کے ساتھ ہوتا ہے۔ ( المجادلہ : ٧) الحديد
5 الحديد
6 الحديد
7 فہم القرآن ربط کلام : کائنات کو پیدا کرنے والا اور اس کے نظام کو چلانے والا صرف ” اللہ“ ہے اس لیے انسان کا فرض ہے کہ وہ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائے اور ان کے حکم کے مطابق زندگی بسر کرے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات اور بات سمجھانے اور منوانے کے لیے رسول مبعوث فرمائے۔ سب سے آخر میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مبعوث فرمایا اور حکم دیا کہ لوگو! اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور اس کی راہ میں خرچ کرو۔ اسی نے تم کو زمین کا وارث اور مال کا مالک بنایا ہے، تم میں جو لوگ ایمان لائے اور اللہ کی ر اہ میں خرچ کرتے ہیں ان کے لیے بہت بڑا اجر ہے۔ اس آیت مبارکہ میں سب لوگوں کو حکم دیا ہے کہ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور اس کے ر استے میں خرچ کرتے رہو کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ہی تمہیں ایک دوسرے کا وارث اور مال کا مالک بنایا ہے۔ اس میں یہ حقیقت سمجھائی گئی ہے کہ مال ہمیشہ ایک ہاتھ میں نہیں رہتا۔ غور فرمائیں کہ ایک غریب سے لے کر امیر تک اس کی زندگی میں کتنا مال اس کے ہاتھ لگتا ہے اور کتنا اس کے ہاتھوں سے دوسروں تک منتقل ہوتا ہے۔ یہی حقیقت انسان کی ذات کی ہے۔ جس زمین کے کچھ حصے کا آج وہ وارث ہے اور جس سرزمین پر چلتا پھرتا ہے ماضی میں اس کا کوئی اور وارث تھا اور مستقبل میں کوئی دوسرا وارث ہوگا۔ اس لیے بہتر ہے کہ انسان اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائے اور حسب استعداد اللہ کی راہ میں خرچ کرتا رہے۔ جو لوگ اللہ اور اس کے رسول پر سچا اور پکا ایمان لائیں گے اور اللہ کی راہ میں خرچ کریں گے اللہ تعالیٰ نہیں اجرعظیم سے ہمکنار کرے گا۔ (عَنْ مُطَرِّفٍ عَنْ أَبِیہِ قَالَ أَتَیْتُ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وَہُوَ یَقْرَأُ (أَلْہَاکُمُ التَّکَاثُرُ) قَالَ یَقُولُ ابْنُ آدَمَ مَالِی مَالِی قَالَ وَہَلْ لَکَ یَا ابْنَ آدَمَ مِنْ مَالِکَ إِلاَّ مَا أَکَلْتَ فَأَفْنَیْتَ أَوْلَبِسْتَ فَأَبْلَیْتَ أَوْ تَصَدَّقْتَ فَأَمْضَیْتَ) (رواہ مسلم : باب الزہد والرقائق) ” حضرت مطرّف اپنے باپ سے بیان کریں ہیں کہ میں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا۔ آپ نے سورۃ التکاثر کی تلاوت کرتے ہوئے فرمایا کہ ابن ادم کہتا ہے میرا مال، میرا مال، پھر فرمایا اے انسان! تیرا کوئی مال نہیں مگر جو تو نے کھالیا وہ ختم ہو، جو تو نے پہن لیا اس کو بوسیدہ کرلیا اور جو تو نے صدقہ کیا اس کا اجر تیرے لیے جاری ہوگیا۔“ (عَنْ اَبِیْ ھُرَےْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَنْ تَصَدَّقَ بِعَدْلِ تَمْرَۃٍ مِنْ کَسْبٍ طَےِّبٍ وَّلَا ےَقْبَلُ اللّٰہُ اِلَّا الطَّےِّبَ فَاِنَّ اللّٰہَ ےَتَقَبَّلُھَا بِےَمِےْنِہٖ ثُمَّ ےُرَبِّےْھَا لِصَاحِبِھَا کَمَا ےُرَبِّیْ اَحَدُکُمْ فَلُوَّہُ حَتّٰی تَکُوْنَ مِثْلَ الْجَبَلِ) (رواہ البخاری : کتاب الزکاۃ باب الصدقۃ من کسب طیب) ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس شخص نے حلال کمائی سے ایک کھجور کے برابر صدقہ کیا۔ بلاشبہ اللہ تعالیٰ صرف حلال چیزوں سے صدقہ قبول فرماتا ہے تو اللہ اسے اپنے دائیں ہاتھ میں لیتے ہوئے شرف قبولیت بخشتا ہے۔ پھر اس کو اس طرح بڑھاتا ہے جس طرح تم اپنے بچھڑے کی پرورش کرکے اسے بڑا کرتے ہو۔ یہاں تک کہ ایک کھجور کا ثواب پہاڑ کے برابر ہوجاتا ہے۔“ مسائل ١۔ اللہ کا حکم ہے کہ لوگو! اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ! ٢۔ ازل تا ابد انسان ایک دوسرے کے وارث بنتے رہیں گے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ کا ایمانداروں کو حکم ہے کہ وہ اس کی راہ میں خرچ کرتے رہیں۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ اپنی راہ میں خرچ کرنے والوں کو بڑا اجر عطا فرمائے گا۔ تفسیر بالقرآن انفاق فی سبیل اللہ کا حکم اور اس کا اجر : ١۔ وہ آپ سے سوال کرتے ہیں کہ کس طرح مال خرچ کریں؟ فرمائیں کہجو مال خرچ کرنا چاہووہ والدین، قریبی رشتہ داروں، یتیم، مساکین اور مسافروں پر خرچ کرو۔ (البقرۃ: ٢١٥) ٢۔ اللہ کے لیے خرچ کرنے والے کو کوئی خوف نہیں۔ (البقرۃ : ٢٦٢) ٣۔ اللہ کی رضا کے لیے خرچ کرنے والوں کی مثال سدا بہار باغ جیسی ہے۔ (البقرۃ: ٢٦٥) ٤۔ اللہ کی رضا کے لیے خرچ کرنے والے کو پورا پورا اجر ملے گا۔ (البقرۃ: ٢٧٢) ٥۔ اللہ کی رضا کے لیے کیے گئے کام کابڑا اجر ہے۔ (النساء : ١١٤) ٦۔ مخلص، مخیرحضرات لوگوں کے شکریہ اور جزا سے بے نیاز ہوتے ہیں۔ (الدھر : ٩) ٧۔ صدقہ کرنا اللہ تعالیٰ کو قرض دینا ہے۔ (الحدید : ١١) ٨۔ اللہ تعالیٰ اسے دگنا تگنا کرکے واپس کرے گا۔ (التغابن : ١٧) ٩۔ اللہ سات سو گنا تک بڑھا دیتا ہے۔ (البقرۃ: ٢٦١) ١٠۔ اللہ کے ہاں اضافے کی کوئی حد نہیں ہے۔ (البقرۃ: ٢٦١) الحديد
8 فہم القرآن ربط کلام : گزشتہ سے پیوستہ۔ اللہ تعالیٰ کا تمام لوگوں کو حکم ہے کہ وہ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائیں لیکن لوگوں کی غالب اکثریت کی یہ حالت رہی ہے کہ وہ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانے کی بجائے انکار اور تکذیب کا راستہ اختیار کرتے ہیں۔ ان لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ آخر کیا وجہ ہے کہ تم اللہ پر ایمان نہیں لاتے ؟ حالانکہ رسول تمہیں بار بار اللہ پر ایمان لانے کی دعوت دیتا ہے، تمہارے لیے ایمان لانا اس لیے بھی لازم ہے کہ تم ” اللہ“ سے عہد کرچکے ہو۔ اس سے پہلی آیت میں اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانے کا حکم دیا گیا ہے لیکن اس آیت میں یوں ارشاد ہوا کہ آخر تم اللہ پر ایمان کیوں نہیں لاتے ؟ حالانکہ رسول تمہیں اس پر ایمان لانے کے دعوت دے رہا ہے۔ پہلی آیت میں اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانے کا حکم تھا۔ اس آیت میں صرف اللہ پر ایمان لانے کا ارشاد ہوا ہے جو تمہارا رب ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ ایمان اور اسلام میں پہلی اور مرکزی بات اللہ پر ایمان لانا اور اس کے تقاضے پورے کرنا ہے۔ جن میں سب سے پہلا تقاضا یہ ہے کہ ” اللہ“ پر اس طرح ایمان لایا جائے جس طرح اس کے رسول نے بتلایا اور عمل کرکے دکھلایا ہے۔ اس لیے قرآن مجید کے کئی مقامات پر صرف اللہ پر ایمان لانے کی دعوت دی گئی ہے جس میں ایمان کے تمام اجزاشامل ہیں۔ اللہ تعالیٰ پر اس لیے ایمان لانا ہے کیونکہ اس نے انبیائے کرام (علیہ السلام) اور عوام الناس سے عہد لے رکھا ہے جس کی یاددہانی یہ کہہ کر کروائی گئی کہ اگر تم اس عہد کو مانتے ہو تو پھر اپنے رب پر ایمان لاؤ۔ آیت کے پہلے حصہ میں اللہ پر ایمان لانے کا حکم ہے اور اس کے بعد رب پر ایمان لانے کا ارشاد ہوا ہے۔ لفظ اللہ کی بجائے رب کا لفظ اس لیے استعمال کیا گیا ہے کہ اگر انسان کو حقیقی علم اور یقین حاصل ہوجائے کہ اللہ کا دوسرا عظیم نام ” رب“ ہے اور وہی میرا خالق، مالک، رازق اور بادشاہ ہے اس کے بعد انسان اپنے ” اللہ“ کے ساتھ کبھی کفر و شرک نہیں کرسکتا۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں وہی ایمان قابل قبول ہے جو اس کے رسول نے بتلایا۔ (وَ اِذْ اَخَذَ رَبُّکَ مِنْ بَنِیْٓ اٰدَمَ مِنْ ظُہُوْرِہِمْ ذُرِّیَّتَہُمْ وَ اَشْہَدَہُمْ عَلٰٓی اَنْفُسِہِمْ اَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ قَالُوْا بَلٰی شَہِدْنَا اَنْ تَقُوْلُوْا یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ اِنَّا کُنَّا عَنْ ہٰذَا غٰفِلِیْنَ) (الاعراف : ١٧٢) ” اور جب آپ کے رب نے آدم کے بیٹوں سے ان کی پشتوں میں سے ان کی اولاد کو نکالا اور انہیں خود ان کی جانوں پر گواہ بنایا۔ کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟ انہوں نے کہا کیوں نہیں ہم گواہی دیتے ہیں ایسا نہ ہو کہ قیامت کے دن کہو بے شک ہم اس سے غافل تھے۔“ (عَنْ أَنَسٍ (رض) قَالَ قَلَّمَا خَطَبَنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) إِلَّا قَالَ لَاإِیْمَانَ لِمَنْ لَّآ أَمَانَۃَ لَہٗ وَلَادِیْنَ لِمَنْ لَّا عَھْدَ لَہٗ) (مسند احمد، ٣١: مسند انس بن مالک، ھذا حدیث حسن صحیح) ” حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں جب کبھی بھی خطبہ ارشاد فرمایا تو یہ الفاظ ضرور ادا فرمائے کہ اس کا ایمان نہیں جو امانت دار نہیں اور اس کا دین نہیں جو وعدے کا پاسدار نہیں۔“ (عَنْ اَبِیْ سَعِیْدٍ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ لِکُلِّ غَادِرٍ لِوَاءٌ عِنْدَ اِسْتِہٖ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ وَفِیْ رَوَایَۃٍ لِکُلِّ غَادِرٍ لِوَاءٌ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ یُرْفَعُ لَہٗ بِقَدَرِ غَدْرِہٖ اَ لَاوَلَا غَادِرَ اَعْظَمُ غَدْرًا مِنْ اَمِیْرِ عَامَّۃٍ) (رواہ مسلم : باب تحریم الغدر) ” حضرت ابو سعید (رض) بیان کرتے ہیں نبی مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا قیامت کے دن ہر عہد شکن انسان کی مقعد کے نزدیک جھنڈا ہوگا۔ ایک روایت میں ہے ہر عہد شکن کے لیے قیامت کے دن جھنڈا ہوگا، جو اس کی عہد شکنی کے بقدر بلند کیا جائے گا۔ خبردار! سربراہ مملکت سے بڑھ کر کسی کی عہد شکنی نہیں ہوتی۔“ مسائل ١۔ لوگوں کو ہر صورت اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانا چاہیے۔ ٢۔ وعدے کا پورہ کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے۔ تفسیر بالقرآن ایمان کی مبادیات : ١۔ غیب پر ایمان لانا، نماز قائم کرنا اور زکوٰۃ ادا کرنا۔ (البقرۃ: ٣) ٢۔ پہلی کتابوں پر مجموعی طور پر اور قرآن مجید پر کلی طور پر ایمان لانا۔ (البقرۃ: ٤) ٣۔ اللہ، ملائکہ، اللہ کی کتابوں، اور اس کے رسولوں پر ایمان لانا۔ (البقرۃ: ٢٨٥) ٤۔ صحابہ کرام جیسا ایمان لانا فرض ہے۔ ( البقرۃ: ١٣٧) الحديد
9 فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات اور رسول پر ایمان لانے کی دعوت قرآن مجید کے ذریعے دی ہے اس لیے مختصر طور پر قرآن مجید کا تعارف اور اس کے فوائد کا ذکر کیا گیا ہے۔ جس اللہ نے اپنی ذات پر ایمان لانے کا حکم دیا ہے اسی نے اپنے بندے حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر قرآن مجید نازل کیا ہے جس کے فرمان بڑے واضح اور اس کے احکام ٹھوس دلائل پر مبنی ہیں۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر قرآن اس لیے نازل کیا گیا تاکہ آپ لوگوں کو ہر قسم کی تاریکیوں سے نکال کر ایمان اور قرآن کی روشنی میں لے آئے اے لوگو! یقین جا نو کہ اللہ تعالیٰ تمہارے ساتھ نہایت شفقت کرنے اور بڑی مہربانی فرمانے والا ہے۔ اللہ تعالیٰ لوگوں کے ماضی، حال اور مستقبل کو جانتا ہے لہٰذا یہ بات اس کے علم میں ہے کہ لوگ بہانہ بنائیں گے کہ بندہ رسول نہیں ہوسکتا۔ اس لیے قرآن مجید میں کئی بار واضح کیا ہے کہ اس نے اپنے بندے پر قرآن نازل کیا ہے۔ قرآن مجید کے نازل کرنے کا مقصد یہ ہے کہ لوگوں کو ہر قسم کی ظلمات سے نکال کر کتاب اللہ کی روشنی میں چلنے کی تلقین کی جائے۔ (اَللّٰہُ وَلِیُّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا یُخْرِجُہُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِ وَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْٓا اَوْلِیٰٓءُہُمُ الطَّاغُوْتُ یُخْرِجُوْنَہُمْ مِّنَ النُّوْرِ اِلَی الظُّلُمٰتِ اُولٰٓءِکَ اَصْحٰبُ النَّارِ ہُمْ فِیْہَا خٰلِدُوْنَ) ( البقرۃ: ٢٥٧) ” اللہ تعالیٰ ایمان والوں کا دوست ہے وہ انہیں اندھیروں سے نکال کر روشنی کی طرف لاتا ہے اور کفار کے ساتھی شیاطین ہیں وہ انہیں روشنی سے نکال کر اندھیروں کی طرف لے جاتے ہیں۔ یہ لوگ جہنمی ہیں جو اس میں ہمیشہ رہیں گے۔“ (اآرٰ کِتٰبٌ اَنْزَلْنٰہُ اِلَیْکَ لِتُخْرِجَ النَّاسَ مِنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِ بِاِذْنِ رَبِّہِمْ اِلٰی صِرَاطِ الْعَزِیْزِ الْحَمِیْدِ) (ابراہیم : ١) ” الر۔ ایک کتاب ہے جسے ہم نے آپ کی طرف نازل کیا ہے، تاکہ آپ لوگوں کو اندھیروں سے روشنی کی طرف نکال لائیں، ان کے رب کے حکم سے اور اس کے راستے کی طرف جو سب پر غالب، بہت تعریف والا ہے۔“ رستم کے سامنے حضرت ربعی (رض) کا ارشاد : یہی وہ دعوت ہے جس کی وضاحت ایران کی سر زمین پر ایرانی کمانڈر رستم کے سامنے مسلمانوں کے نمائندے حضرت ربعی (رض) نے کی تھی رستم نے اپنا نمائندہ بھیجا اور کہا کہ تم ہماری سرزمین پر کس لیے وارد ہوئے ہو، اگر تمہیں مال چاہیے تو میں سپاہی سے لے کر تمہارے جرنیل تک سب کو تمہاری حسب منشاء مال دے کر راضی کرتا ہوں لیکن مسلمانوں کے نمائندے حضرت ربیع (رض) نے جس شان بے نیازی سے اس کا جواب دیا وہ تاریخ کا ایک تحفہ ہے۔ جناب ربیع (رض) نہایت ہی سادہ لباس میں ملبوس ہاتھ میں تلوار لئے ہوئے ایرانی قالینوں پر چلتے ہوئے رستم کے برابر بیٹھ جاتے ہیں۔ ایرانیوں کے لیے یہ پہلا موقع تھا کہ کسی عام آدمی کو اپنے سردار کے برابر بیٹھا ہوا دیکھیں وہ دانت پیس کر رہ گئے۔ مذاکرات کے دوران رستم کے ایک سوال کے جواب میں حضرت ربیع (رض) نے اپنی آمد اور جماعت کا مقصد بیان کیا۔ (إِنَّا قَدْ اُرْسِلْنَا لِنُخْرِجَ النَّاسَ مِنْ ظُلُمَتِ الْجِھَالَۃِ إِلٰی نُوْرِ الْاے مانِ وَمِنْ جَوْرِ الْمُلُوکِ إِلٰی عَدْلِ الْاِسْلَامِ) (البدایہ والنہایۃ) ” ہمیں اس لیے بھیجا گیا ہے کہ لوگوں کو جہالت کی تاریکیوں سے نکال کر ایمان کی روشنی میں لا کھڑا کریں۔ ہمارے آنے کا مقصد یہ بھی ہے کہ عوام کو بادشاہوں کے جورو ستم سے نکال کر اسلام کے عادلانہ نظام میں زندگی بسر کرنے کا موقع فراہم کریں۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندے حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر قرآن مجید نازل کیا جس کے احکام اور فرمان بالکل واضح ہیں۔ ٢۔ قرآن مجید نازل کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اس کے ذریعے لوگوں کو ہر قسم کی ظلمات سے نکال کر ایمان اور قرآن مجید کی روشنی میں لاکھڑا کیا جائے۔ ٣۔ بلاشبہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے ساتھ شفقت کرنے والا اور مہربان ہے۔ تفسیر بالقرآن حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے بندے اور انسان تھے : ١۔ نبی آخر الزماں (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اعتراف کہ میں تمہاری طرح بشر ہوں۔ (الکہف : ١١٠، حم السجدۃ: ٦) ٢۔ ہم نے آپ سے پہلے جتنے نبی بھیجے وہ بشر تھے۔ (النحل : ٤٣) ٣۔ ہم نے آدمیوں کی طرف وحی کی۔ (یوسف : ١٠٩) ٤۔ کسی بشر کو ہمیشگی نہیں ہے۔ (الانبیاء : ٣٤) الحديد
10 فہم القرآن ربط کلام : قرآن مجید کی بنیادی تعلیمات کا یہ اہم اصول ہے کہ لوگوں کو عسر، یُسر میں اللہ کی راہ میں خرچ کرتے رہنا چاہیے۔ جو لوگ تنگی کے وقت خرچ کرتے ہیں وہ خوشحالی میں خرچ کرنے والوں سے بہتر ہوتے ہیں۔ قرآن مجید کی ابتدا میں ارشاد ہوا کہ ” اآمّ“ یہ وہ کتاب ہے جس میں کوئی شک نہیں یہ برائی سے بچنے والوں کے لیے ہدایت کا سرچشمہ ہے اس سے ہدایت پانے والے لوگ غیب پر ایمان لاتے ہیں، نماز قائم کرتے ہیں اور جو کچھ اللہ تعالیٰ نے انہیں عطا فرمایا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں گویا کہ یہ ایمانیات کا بنیادی جز ہے کہ انسان زکوٰۃ کے علاوہ بھی حسب استعداد اللہ کے راستے میں خرچ کرتا رہے۔ یہاں خرچ کرنے سے مراد جہاد فی سبیل اللہ کے لیے خرچ کرنا ہے۔ قرآن مجید اکثر مقامات پر جہاد بالنفس کی بجائے جہاد بالمال کا پہلے ذکر کرتا ہے جس کے دو سبب ہیں۔ پہلا سبب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ مسلمانوں میں بخل ختم کرنا چاہتا ہے کیونکہ بخیل آدمی ہر چیز سے زیادہ مال سے محبت کرتا ہے، جو لوگ مال سے زیادہ محبت کرتے ہیں وہ لڑنے سے کترایا کرتے ہیں دوسرا سبب واضح ہے کہ ہر مجاہد اپنے پاس مال نہیں رکھتا اور مال کے بغیر جہاد جاری نہیں رہ سکتا۔ کیونکہ مجاہد کو کھانے پینے کے ساتھ سواری اور اسلحہ کی ضرورت ہوتی ہے جن کا حصول مال کے بغیر ممکن نہیں مسلمانوں کو بخل سے بچانے کے لیے حکم ہوا ہے کہ تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ تم اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے؟ سوچو اور غور کرو کہ زمین و آسمانوں کی میراث حقیقی اور دائمی صرف اللہ تعالیٰ کے لیے ہے، تمہیں تو ایک محدود حد کے اندر وارث بنایا گیا ہے۔ یادرکھو کہ جس نے الفتح سے پہلے انفاق اور قتال فی سبیل اللہ میں حصہ لیا وہ اس کے بعد انفاق اور قتال فی سبیل اللہ کرنے والوں سے کردار اور درجے میں اعلیٰ ہیں، بے شک اللہ تعالیٰ نے ہر مسلمان کے ساتھ اجر وثواب کا وعدہ کیا ہے، اللہ تعالیٰ تمہارے ہر عمل سے باخبر ہوتا ہے۔ الفتح کے بارے میں اہل علم نے تین مؤقف اختیار کیے ہیں۔ (١)۔ الفتح سے مراد مکہ کی فتح ہے۔ (٢)۔ الفتح سے مراد صلح حدیبیہ سے پہلے کے غزوات ہیں۔ ٣۔ الفتح سے مراد غزوہ تبوک ہے۔ انفاق اور قتال فی سبیل اللہ کے ادوار کی تقسیم کے باوجود تمام صحابہ بعد میں آنے والے مسلمانوں سے انفاق اور کردار کے اعتبار سے افضل ہیں اور حضرت صدیق اکبر (رض) پوری امت سے افضل اور اعلیٰ ہیں۔ (عن عِمْرَانَ بن حُصَیْنٍ (رض) قَالَ قَال النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خَیْرُکُمْ قَرْنِیْ، ثُمَّ الَّذِینَ یَلُوْنَہُمْ، ثُمَّ الَّذِیْنَ یَلُوْنَہُمْ) ( رواہ البخاری : باب لاَ یَشْہَدُ عَلَی شَہَادَۃِ جَوْرٍ إِذَا أُشْہِدَ) ” حضرت عمران بن حصین (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تم سے بہتر میرا زمانہ ہے، پھر ان کے بعد والوں کا اور پھر ان کے بعد کے لوگوں کا۔“ (عَنْ اَبِیْ سَعِیْدِ نِ الْخُدْرِیِّ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لَا تَسُبُّوْا اَصْحَابِیْ فَلَوْاَنَّ اَحَدَکُمْ اَنْفَقَ مِثْلَ اُحُدٍ ذَھَبًا مَّا بَلَغَ مُدَّ اَحَدِھِمْ وَلَا نَصِیْفَہٗ۔) (رواہ البخاری : باب مناقب ابی بکر) ” حضرت ابو سعید خدری (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : میرے اصحاب (رض) کو برا نہ کہو۔ کیونکہ اگر تم میں سے کوئی احد پہاڑ کے برابر بھی سونا خرچ کرے تو صحابہ کرام (رض) کے مد (نصف کلو گرام تقریبا) اور آدھے مد (چوتھائی کلو گرام) کو بھی نہیں پہنچ سکتا۔“ (عَنْ اَبِیْ ھُرَےْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَنْ تَصَدَّقَ بِعَدْلِ تَمْرَۃٍ مِنْ کَسْبٍ طَےِّبٍ وَّلَا ےَقْبَلُ اللّٰہُ اِلَّا الطَّےِّبَ فَاِنَّ اللّٰہَ ےَتَقَبَّلُھَا بِےَمِےْنِہٖ ثُمَّ ےُرَبِّےْھَا لِصَاحِبِھَا کَمَا ےُرَبِّیْ اَحَدُکُمْ فَلُوَّہُ حَتّٰی تَکُوْنَ مِثْلَ الْجَبَلِ) (رواہ البخاری : کتاب الزکاۃ باب الصدقۃ من کسب طیب) ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس شخص نے حلال کمائی سے ایک کھجور کے برابر صدقہ کیا۔ بلاشبہ اللہ تعالیٰ صرف حلال چیزوں سے صدقہ قبول فرماتا ہے۔ اللہ اسے اپنے دائیں ہاتھ میں لیتے ہوئے شرف قبولیت بخشتے ہیں۔ پھر اس کو اس طرح بڑھاتے ہیں جیسا کہ تم اپنے بچھڑے کی پرورش کرکے اسے بڑا کرتے ہو۔ یہاں تک کہ ایک کھجور کا ثواب پہاڑ کے برابر ہوجاتا ہے۔“ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان ہے : (اتَّقُوا النَّارَ وَلَوْ بِشِقِّ تَمْرَۃٍ) (رواہ البخاری : باب إتقوا النار ولوبشق تمرۃ ) ” لوگوآگ سے بچو ! اگرچہ تمہیں کھجور کا ایک ٹکڑا ہی صدقہ کرنا پڑے۔“ (عَنْ أَبَا ہُرَیْرَۃَ عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ خَیْرُ الصَّدَقَۃِ مَا کَانَ عَنْ ظَہْرِ غِنًی وَابْدَأْ بِمَنْ تَعُولُ) (رواہ البخاری : باب لاَ صَدَقَۃَ إِلاَّ عَنْ ظَہْرِ غِنًی) حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : بہترین صدقہ وہ ہے جو اپنی ضروریات پوری کر کے دیا جائے اور خرچ کرنے میں اپنے اہل وعیال سے آغاز کرنا چاہیے۔“ مسائل ١۔ مسلمانوں کو ہر حال میں انفاق فی سبیل اللہ کرتے رہنا چاہیے۔ ٢۔ قتال فی سبیل اللہ کے لیے خرچ کرنا فرض ہے۔ ٣۔ زمین و آسمان کی میراث کا حقیقی اور دائمی مالک اللہ تعالیٰ ہے۔ ٤۔ مشکل حالات میں صدقہ کرنا زیادہ ثواب رکھتا ہے۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ سب کے اعمال سے باخبر رہتا ہے۔ ٦۔ مشکل حالات میں انفاق اور قتال فی سبیل اللہ کرنے والے صحابہ بعد کے صحابہ سے افضل ہیں۔ ٧۔ اللہ تعالیٰ نے تمام مسلمانوں سے اجرو ثواب کا وعدہ کیا ہے۔ تفسیر بالقرآن انفاق فی سبیل اللہ کا حکم اور اس کا اجر : ١۔ اللہ کی رضا کے لیے خرچ کرنے والوں کی مثال سدا بہار باغ جیسی ہے۔ (البقرۃ: ٢٦٥) ٢۔ اللہ کی رضا کے لیے خرچ کرنے والے کو پورا پورا اجر ملے گا۔ (البقرۃ: ٢٧٢) ٣۔ اللہ کی رضا کے لیے کیے گئے کام کابڑا اجر ہے۔ (النساء : ١١٤) ٤۔ اللہ کی رضا کے چاہنے والوں کا انجام بہترین ہوگا۔ (الرعد : ٢٢) ٥۔ مخلص، مخیرحضرات لوگوں کے شکریہ اور جزا سے بے نیاز ہوتے ہیں۔ (الدھر : ٩) ٦۔ جو کچھ تم خرچ کرو گے اللہ تعالیٰ تمھیں اس سے زیادہ دے گا۔ (سبا : ٣٩) ٧۔ مسلمان تنگدستی اور خوشحالی میں خرچ کرتے ہیں۔ (آل عمران : ١٣٤) ٨۔ مسلمان کو اس کے دئیے ہوئے صدقہ پر سات سو گنا ثواب دیا جائے گا۔ ( البقرۃ: ٢٦١) الحديد
11 فہم القرآن ربط کلام : مال کی حیثیت بتلانے کے بعد اسے ” اللہ“ کی راہ میں خرچ کرنے کا حکم۔ پہلے حکم فرمایا کہ اللہ کی راہ میں خرچ کرو کیونکہ تم اس کے دائمی مالک نہیں ہو بلکہ اپنے سے پہلے لوگوں کے وارث ہو۔ جس طرح تم پہلے لوگوں کے وارث بنے ہو اسی طرح تمہارے بعد آنے والے تمہارے وارث ہوں گے۔ پھر ارشادفرمایا کہ تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ تم اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے حالانکہ تم اس کے حقیقی وارث نہیں ہو۔ حقیقی اور دائمی وارث تو صرف اللہ تعالیٰ ہے۔ اس کے بعد فرمایا کہ جن لوگوں نے الفتح سے پہلے خرچ کیا وہ بعد میں خرچ کرنے والوں سے بہتر ہیں۔ اب چوتھا ارشاد ہوا کہ کون ہے جو اللہ کو قرض حسنہ دے ؟ جو ” اللہ“ کو قرض حسنہ دے گا ” اللہ“ اسے کئی گنا اضافے کے ساتھ واپس کرے گا اور اسے بہترین اجر عطا فرماۓ گا۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو بخل سے بچانے کے لیے قرآن مجید میں کئی مقامات پر صدقہ کرنے کو اپنے لیے قرض حسنہ قرار دیا ہے۔ انسان کی فطری کمزوری ہے کہ وہ مال وہاں خرچ کرتا ہے جہاں اسے فائدہ نظر آتا ہے۔ انسانی کمزوری کو سامنے رکھتے ہوئے اور اپنی فیاضی کا اظہار کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ کون ہے جو اپنے رب کو قرض حسنہ دے۔ غور فرمائیں ! کہ ” اللہ“ ہی انسان کو سب کچھ عطا کرنے والا ہے اور پھر وہی انسان سے قرض مانگتا ہے اپنے لیے نہیں بلکہ غریبوں، یتیموں، بیوگان اور جہاد کرنے والوں کے لیے۔ اس کی کرم نوازی کی انتہا دیکھیں کہ وہ محتاجوں کے ساتھ تعاون کی ترغیب دیتا ہے تو اسے اپنی ذات کے لیے قرض قرار دیتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود محتاج لوگوں کی حالت یہ ہے کہ وہ نہ کفر و شرک چھوڑتے ہیں اور نہ ہی اس کے حضور جھکنے کے لیے تیار ہوتے ہیں۔ صدقہ کرنے والے کے لیے ارشاد فرمایا کہ اس کے لیے اجر کریم ہے۔ اجر کریم سے مراد دنیا میں مال کی برکت اور آخرت میں جنت کی نعمتیں ہیں۔ ( مَثَلُ الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَہُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ کَمَثَلِ حَبَّۃٍ اَنْبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِیْ کُلِّ سُنْبُلَۃٍ مِّاءَۃُ حَبَّۃٍ وَ اللّٰہُ یُضٰعِفُ لِمَنْ یَّشَآءُ وَ اللّٰہُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ) (البقرۃ: ٢٦١) ” جو لوگ اپنا مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں ان کی مثال اس دانے جیسی ہے جس میں سے سات بالیاں نکلیں اور ہر بالی میں سو دانے ہوں اور اللہ جسے چاہے بڑھا چڑھاکر دیتا ہے اور اللہ بڑی وسعت والا، خوب جاننے والا ہے۔“ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ مَانَقَصَتْ صَدَقَۃٌ مِّنْ مَّالٍ وَّمَازَاد اللّٰہُ عَبْدًابِعَفْوٍ إِلَّا عِزًّا وَّمَا تَوَاضَعَ أَحَدٌ لِلّٰہِ إِلَّا رَفَعَہُ اللّٰہُ) (رواہ مسلم : کتاب البر والصلۃ والآداب) ” حضرت ابوہریرہ (رض) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا صدقہ مال میں کمی نہیں کرتا اور کسی بھائی کو معاف کرنے سے اللہ معاف کرنے والے کو مزید عزت بخشتا ہے۔ جو کوئی اللہ کے لیے تواضع اختیار کرتا ہے اللہ تعالیٰ اسے سر بلندفرماتا ہے۔“ ” حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ جب آیت (مَنْ ذَا الَّذِی یُقْرِضُ اللَّہَ قَرْضًا حَسَنًا) نازل ہوئی تو ابودحداح نے کہا اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! اللہ تعالیٰ ہم سے قرض کا مطالبہ کرتا ہے؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہاں ! اے ابوالدحداح۔ ابودحداح نے کہا کہ میں نے اپنے رب کو وہ باغ قرض دیا جس میں کھجوروں کے چھ سو درخت ہیں۔ پھر وہ اپنے باغ میں آئے اور اس میں ام دحداح اپنے بچوں سمیت بیٹھی ہوئی تھی۔ ابودحداح نے اسے آواز دی تو اس نے ہاں میں جواب دیا۔ ابودحداح نے کہا یہاں سے نکل جاؤ ! بے شک میں نے یہ باغ اپنے رب کو قرض دے دیا ہے۔“ (مسند البزار : جلد ١، ص، ٣٢١، قال البانی صحیح) مسائل ١۔ جہاد فی سبیل اللہ اور محتاجوں پر خرچ کرنا اللہ تعالیٰ کو قرض دینے کے مترادف ہے۔ ٢۔ قرض دینے والے کو اللہ تعالیٰ کئی گنا اضافے کے ساتھ واپس کرے گا۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں صدقہ کرنے والے کے لیے اجر کریم ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے قرض مانگتا ہے : ١۔ اللہ کو قرض حسنہ دینے کا حکم۔ (المزمل : ٢٠) ٢۔ صدقہ صرف اللہ کی رضا کے لیے دینا چاہیے۔ (البقرۃ: ٢٦٥) ٣۔ صدقہ کرنا اللہ تعالیٰ کو قرض دینا ہے۔ (الحدید : ١١) ٤۔ اللہ اسے بڑھا کر واپس کرے گا۔ (الحدید : ١١) ٥۔ اللہ تعالیٰ اسے دگنا تگنا کرکے واپس کرے گا۔ (التغابن : ١٧) ٦۔ اللہ اسے سات سو گناہ سے بھی زیادہ بڑھائے گا۔ (البقرہ : ٢٦١) الحديد
12 فہم القرآن ربط کلام : اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانے، انفاق فی سبیل اللہ کرنے اور قتال فی سبیل اللہ میں شامل ہونے والوں کے لیے روشن مستقبل کی نوید۔ قیامت کے دن جب جنتیوں اور جہنمیوں کے درمیان فیصلہ ہوجائے گا تو اللہ تعالیٰ جنتیوں کو جنت میں داخل ہونے کی اجازت عطا فرمائیں گے۔ جب مومن اور مومنات جنت میں جانے لگیں گے تو اس سے پہلے ایک ایسامرحلہ آئے گا جس وقت کوئی چیز دکھائی اور سجھائی نہیں دے گی۔ جنتی جونہی جنت کی طرف رواں دواں ہوں گے تو اللہ تعالیٰ ان کے سامنے اور دائیں طرف ہر چیز روشن فرمادیں گے ہر جنتی اپنے اعمال کے مطابق جنت کے راستہ کو منور پائے گا، جونہی جنتی جنت کے دروازوں کے قریب جائیں گے تو ملائکہ انہیں سلام کرتے ہوئے خوش آمدید کہیں گے۔ اس کے ساتھ ہی ان کے لیے جنت کے دروازے کھول دیئے جائیں گے اور ہر جنتی اپنے مقام اور اعمال کے مطابق جنت کے مخصوص دروازے سے داخل ہو کر اپنے مقام پر پہنچ جائے گا، جنت میں نہریں اور آبشاریں جاری ہوں گی اس جنت میں جنتی ہمیشہ رہیں گے اور یہ سب سے بڑی کامیابی ہوگی۔ ” اے ایمان والو! اللہ سے توبہ کرو، خالص توبہ، ہوسکتا ہے کہ اللہ تمہاری برائیاں دور کر دے اور تمہیں ایسی جنت میں داخل فرما دے جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی یہ وہ دن ہوگا جب اللہ اپنے نبی کو اور ان لوگوں کو جو اس پر ایمان لائے ہیں ذلیل نہیں کرے گا۔ ان کا نور ان کے آگے آگے اور ان کے دائیں جانب دوڑ رہا ہوگا اور وہ کہیں گے کہ اے ہمارے رب ہمارا نور ہمارے لیے مکمل کر دے اور ہماری بخشش فرما تو ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔“ (التحریم : ٨) (عَنْ نُعَیْمٍ الْمُجْمِرِ قَالَ رَقِیتُ مَعَ أَبِی ہُرَیْرَۃَ عَلَی ظَہْرِ الْمَسْجِدِ، فَتَوَضَّأَ فَقَالَ إِنِّی سَمِعْتُ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَقُولُ إِنَّ أُمَّتِی یُدْعَوْنَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ غُرًّا مُحَجَّلِینَ مِنْ آثَارِ الْوُضُوءِ، فَمَنِ اسْتَطَاعَ مِنْکُمْ أَنْ یُطِیلَ غُرَّتَہُ فَلْیَفْعَلْ) (رواہ البخاری : باب فَضْلِ الْوُضُوءِ) ” حضرت نعیم مجمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں ابوہریرہ (رض) کے ساتھ مسجدکی چھت پر چڑھا۔ حضرت ابوہریرہ (رض) نے وضو کیا پھر فرمایا کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے ہوئے سنا کہ میری امت کو قیامت کے دن جب بلایا جائے گا تو وضو کرنے کی وجہ سے ان کے پانچ کلیان یعنی ہاتھ پاؤں اور چہرے چمکتے ہوں گے۔ پھر حضرت ابوہریرہ (رض) نے فرمایا کہ تم سے جو اپنی چمک کو زیادہ کرنے کی طاقت رکھتا اسے ایسا کرنا چاہیے۔“ (اللّٰہُمَّ اجْعَلْ فِی قَلْبِی نُورًا وَفِی بَصَرِی نُورًا وَفِی سَمْعِی نُورًا وَعَنْ یَمِینِی نُورًا وَعَنْ یَسَارِی نُورًا وَفَوْقِی نُورًا وَتَحْتِی نُورًا وَأَمَامِی نُورًا وَخَلْفِی نُورًا وَاجْعَلْ لِیّ نُورًا) (رواہ البخاری، کتاب الدعوات، باب الدعا اذا انتبدہ بالیل) ” اے اللہ میرے دل میں نور پیدا فرمادے میری نگاہ میں بھی نور، میرے کا نوں میں بھی نور، میرے دائیں بھی نور، میرے بائیں بھی نور، میرے اوپر بھی نور، میرے نیچے بھی نور، میرے آگے بھی نور، میرے پیچھے بھی نور، اور میرے لیے نور ہی نور فرما دے۔“ مسائل ١۔ قیامت کے دن ہر ایماندار مومن اور مومنہ اپنے ایمان کے مطابق روشنی پائیں گے۔ ٢۔ جس کو جنت میں داخلہ نصیب ہوا وہ کامیاب ٹھہرے گا۔ تفسیر بالقرآن بڑی کامیابی پانے والے لوگ : ١۔ اللہ تعالیٰ نے مومنوں، مومنات سے ہمیشہ کی جنت اور اپنی رضا مندی کا وعدہ فرمایا ہے یہ بڑی کامیابی ہے۔ (التوبہ : ٧٢، ٨٩، ١٠٠) ٢۔ اللہ تعالیٰ نے مومنین سے جنت کے بدلے ان کے مال و جان خرید لیے ہیں، یہ بڑی کامیابی ہے۔ (التوبہ : ١١١) ٣۔ اے اللہ نیک لوگوں کو برائی سے بچا جو برائی سے بچ گیا اس پر تیرا رحم ہوا یہ بڑی کامیابی ہے۔ (المومن : ٩) ٤۔ مومنوں کا جہنم کے عذاب سے بچنا اللہ کے فضل سے ہوگا اور یہی کامیابی ہے۔ (الدخان : ٥٧) ٥۔ اللہ تعالیٰ نیک لوگوں کو اپنی رحمت میں داخل کرے گا، یہ کھلی کامیابی ہے۔ (الجاثیہ : ٣٠) ٦۔ مومنوں کے لیے ہمیشہ کی جنت ہے جس میں پاک صاف مکان ہوں گے، یہ بڑی کامیابی ہے۔ (الصف : ١٢) الحديد
13 فہم القرآن ربط کلام : منافقین کا مومنوں سے الگ کیا جانا اور ان کا انجام۔ اس سے پہلی آیت کی تفسیر میں یہ حدیث مبارکہ نقل کی ہے کہ جو لوگ نماز کا اہتمام کرتے ہیں قیامت کے دن ان کے ہاتھ پاؤں اور چہرے چمک رہے ہوں گے۔ حدیث رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے معلوم ہوتا ہے کہ قیامت کے دن ایک مرحلہ تک منافقین کے چہرے بھی روشن ہوں گے اور جس طرح منافقین دنیا میں مومنوں کے ساتھ ملے جلے رہتے تھے اسی طرح ہی کچھ مراحل میں قیامت کے دن بھی منافق مومنوں کے ساتھ جڑے رہیں گے جب مومنوں کو جنت میں داخل ہونے کا حکم ہوگا اور جنتی قافلوں کی صورت میں جنت کی طرف جارہے ہوں گے۔ تو منافق بھی ان کے پیچھے چل پڑیں گے۔ جب پل صراط سے پہلے تاریک وادی سے گزریں گے تو مومن اپنے اعمال کے مطابق ہر جانب روشنی پائیں گے لیکن منافقوں کوہر طرف سے اندھیرا ہی اندھیرا دکھائی دے گا۔ اس موقع پر منافق مرد اور عورتیں، مومن مرد اور عورتوں سے فریاد کریں گے کہ ہمیں بھی ساتھ لے کر چلو کیونکہ ہمیں کوئی چیز دکھائی نہیں دیتی لیکن مومن مرد اور عورتیں منافقوں کی پرواہ کیے بغیر جنت کی طرف رواں دواں رہیں گے۔ منافق ٹھوکریں کھاتے ہوئے فریاد پر فریاد کریں گے کہ براہ کرم ہماری طرف اپنے چہرے فرمائیں تاکہ آپ کے منور چہروں کی روشنی سے ہم مستفید ہو سکیں۔ اس پر مومن منافقوں سے کہیں گے کہ ہمارے نور کا تمہیں کچھ فائدہ نہیں ہوگا۔ اگر روشنی چاہتے ہو تو واپس پلٹ کر روشنی تلاش کرو ! جونہی منافق پیچھے مڑ کر دیکھیں گے تو جنتیوں اور ان کے درمیان ایک بہت بڑی دیوار حائل کردی جائے گی جس میں بہت بڑا دروازہ ہوگا۔ اس کے اندر کی طرف اللہ کی رحمت یعنی جنت ہوگی اور اس کے باہر جہنم ہوگی۔ جنتی دروازے سے گزر کر جنت میں داخل ہوجائیں گے اور منافق مرد اور عورتیں جہنم کے عذاب میں مبتلا کر دئیے جائیں گے۔ منافق مرد اور عورتوں کو جنت کے دروازے تک جنتیوں کے ساتھ اس لیے جانے دیا جائے گا تاکہ انہیں اپنی منافقت کے انجام کا پوری طرح احساس ہو کیونکہ یہ دنیا میں فائدے کے وقت مومنوں کے ساتھ ہوا کرتے تھے اور مشکل کے وقت مومنوں کو چھوڑ کر کفار کا ساتھ دیتے تھے۔ قیامت کے دن ان کی منافقت کے مطابق ان کے ساتھ سلوک کیا جائے گا تاکہ ان کی حسرتوں میں اضافہ ہوتا رہے اور یہ ہمیشہ جہنم کے نچلے درجے میں جلتے اور ذلیل ہوتے رہیں۔ (عَنْ سَہْلِ بْنِ سَعْدٍ (رض) قَالَ قَال النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) إِنِّی فَرَطُکُمْ عَلٰی الْحَوْضِ مَنْ مَرَّ عَلَیَّ شَرِبَ وَمَنْ شَرِبَ لَمْ یَظْمَأْ أَبَدًا لَیَرِدَنَّ عَلَیَّ أَقْوَامٌ أَعْرِفُہُمْ وَیَعْرِفُونِی ثُمَّ یُحَالُ بَیْنِی۔۔ وَبَیْنَہُمْ فَأَقُولُ إِنَّہُمْ مِنِّی فَیُقَالُ إِنَّکَ لَا تَدْرِی مَا أَحْدَثُوا بَعْدَکَ فَأَقُولُ سُحْقًا سُحْقًا لِمَنْ غَیِّرَ بَعْدِی) (رواہ البخاری : کتاب الرقاق باب الحوض) ” حضرت سہل بن سعد (رض) بیان کرتے ہیں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میں تمھارا حوض کوثر پر انتظار کروں گا جو بھی میرے پاس آئے گا وہ اس سے پیے گا اور جو شخص بھی اس سے ایک مرتبہ پیے گا وہ کبھی پیاس محسوس نہیں کرے گا۔ میرے پاس کچھ لوگ آئیں گے وہ مجھے پہچان لیں گے اور میں انھیں اپنے امتی کے طور پر سمجھوں گا پھر میرے اور ان کے درمیان پردہ حائل ہوجائے گا۔۔ میں کہوں گا یہ تو میرے امتی ہیں کہا جائے گا آپ نہیں جانتے آپ کے بعد انھوں نے کیا کیا بدعتیں شروع کیں میں ان سے کہوں گا دور ہوجاؤ دور ہوجاؤ جس نے میرے بعد دین کو بدل ڈالا۔“ مسائل ١۔ قیامت کے دن منافق مرد اور عورتیں ایمانداروں سے روشنی حاصل کرنے کے لیے فریاد کریں گے۔ ٢۔ قیامت کے دن مومنوں اور منافقوں کے درمیان ایک دیوار حائل کردی جائے گی۔ دیوار کی ایک طرف جنت ہوگی اور دوسری طرف جہنم ہوگی۔ تفسیر بالقرآن قیامت کے دن جنتیوں کا انعام اور منافقوں کا انجام : ١۔ ہم نے جنت میں کھجوروں، انگوروں کے باغ بنائے ہیں اور ان میں چشمے جاری کیے ہیں۔ (یٰس : ٣٤) ٢۔ یقیناً متقین باغات اور چشموں میں ہوں گے۔ (الذاریات : ١٥) ٣۔ یقیناً متقی نعمتوں والی جنت میں ہوں گے۔ (الطور : ١٧) ٤۔ جنتی جنت میں سونے اور لولو کے زیور پہنائے جائیں گے۔ (فاطر : ٣٣) (التوبہ : ٦٨) ٥۔ منافق جہنم کے سب سے نچلے درجے میں ہوں گے۔ (النساء : ١٤٢) (التوبہ : ٧٣) الحديد
14 فہم القرآن ربط کلام : منافقین کی جنتیوں سے آخری فریاد۔ جب جنتی منافقین سے یہ کہیں گے کہ اپنے پیچھے جاکر روشنی تلاش کرو تو منافق کہیں گے کیا دنیا میں ہم تمہارے ساتھ نہیں رہتے تھے؟ جنتی جواب دیں گے کیوں نہیں! تم ہمارے ساتھ رہتے تھے لیکن تم نے اپنے آپ کو دھوکے میں رکھا، اسلام کے بارے میں شک میں مبتلا رہے، ہمیشہ اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں منتظر رہے کہ کب اسلام اور مسلمانوں کو نقصان پہنچے گا۔ ان آرزؤں اور شیاطین نے تمہیں ہمیشہ دھوکے میں رکھا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کا حکم آپہنچا۔ تم یہ کام دنیا کے فائدے کی خاطر منافقت کرتے تھے لہٰذا آج اپنے کیے کی سزا پاؤ۔ آج کفار اور تم سے نہ کسی قسم کا فدیہ قبول کیا جائے گا اور نہ تم عذاب سے نجات پاسکو گے۔ لہٰذا تمہارا ٹھکانہ آگ ہے جس کے تم سزاوار ہو۔ رہنے کے اعتبار سے یہ بدترین اور اذّیت ناک جگہ ہے۔ اس موقع پر جنتی لوگ منافق عورتوں اور مردوں کو پانچ باتیں ارشاد فرمائیں گے۔ 1۔ دنیا میں تم نے منافقت کر کے اپنے آپ کو لامتناہی مصیبت میں ڈال لیا ہے۔2۔ دنیا میں تم ہمارے نقصان کے منتظررہتے تھے لہٰذا آج تم ناقابل برداشت اور لامحدود نقصان میں مبتلا رہو گے۔3۔ دنیا میں تم دین اسلام کے بارے میں شک کا شکار رہے اور اب اس شک کی ہمیشہ سزا پاؤ گے۔4۔ دنیا میں شیطان نے تمہیں اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کے فرمان کے فرامین میں دھوکہ میں رکھا اس لیے آج اس دھوکے کی سزا پاتے رہو۔ 5۔ دنیا میں تم اپنے مفاد کی خاطر دین اور مسلمانوں کا نقصان چاہتے اور کرتے تھے لہٰذا تم جہنم کے لائق ہو، جو تمہارے رہنے کے لیے بدترین جگہ ہے، تم دنیا کے مفاد کی خاطر اللہ اور اس کے رسول کے فرمان پر حقیقی ایمان نہ لائے اس لیے آج تم سے کسی قسم کا فدیہ قبول نہیں کیا جائے گا۔ (اِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَ مَاتُوْا وَ ہُمْ کُفَّارٌ فَلَنْ یُّقْبَلَ مِنْ اَحَدِہِمْ مِّلْ ءُ الْاَرْضِ ذَہَبً وَّلَوِ افْتَدٰی بِہٖ اُولٰٓءِکَ لَہُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ وَّ مَا لَہُمْ مِّنْ نّٰصِرِیْن) (آل عمران : ٩١) ” بے شک جن لوگوں نے کفر کیا اور وہ کفر کی حالت میں مر گئے ان میں سے کسی ایک سے بھی فدیہ قبول نہیں کیا جائے گا اگرچہ وہ زمین بھر کر سونا پیش کرئے ان کے لیے درد ناک عذاب ہوگا اور کوئی ان کی مدد نہیں کرسکے گا۔“ مسائل ١۔ کفار اور منافقین کو ہمیشہ جہنم میں رہنا ہوگا۔ ٢۔ رہنے کے اعتبار سے جہنم بدترین جگہ ہے۔ تفسیر بالقرآن منافقین کا اللہ اور اس کے رسول اور دین کے بارے میں روّیہ : ١۔ منافق دوغلی زبان اور دوغلے کردار کا مالک ہوتا ہے۔ (البقرۃ: ١٣، ١٤) ٢۔ منافق اسلام کا دعویٰ کرتا ہے لیکن طاغوت کے فیصلہ پر خوش ہوتا ہے۔ (النساء : ٦٠) ٣۔ مسلمانوں کوتکلیف پہنچا کر صفائی کی قسمیں اٹھاتا ہے۔ (النساء : ٦٢) ٤۔ منافق کی زبان اور دل میں تضاد ہونا۔ (آل عمران : ١٦٧) ٥۔ منافق بغیر تحقیق کے افواہیں اڑاتا ہے۔ (النساء : ٨٢) ٦۔ منافق صرف دنیا کی کامیابی چاہتا ہے۔ (النساء : ١٤١) ٧۔ جب قرآن مجید کی تلاوت کی جائے تو منافقین ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگتیہیں۔ (التوبہ : ١٢٧) ٨۔ منافقین قرآن مجید کے نزول کا مذاق اڑاتے اور کہتے ہیں اس سے کس کے ایمان میں اضافہ ہوا؟ (التوبہ : ١٢٤) ٩۔ منافق اللہ اور اس کے رسول کے مقابلے میں بہانے تراشنے لگتے ہیں۔ (التوبہ : ٨٦) الحديد
15 الحديد
16 فہم القرآن ربط کلام : منافقین کا انجام بتلانے کے بعد دین اسلام میں نئے داخل ہونے والے مسلمانوں سے خطاب۔ اسی سورت کی آیت ١٠ میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دور میں ایمان لانے والوں کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ جنہوں نے مکہ فتح ہونے سے پہلے اللہ کی راہ میں قتال اور خرچ کیا وہ الفتح کے بعد ایمان لانے، قتال کرنے اور صدقہ کرنے والوں سے اعلیٰ ہیں۔ الفتح کا معنٰی آیت ١٠ کی تفسیر میں بیان ہوچکا ہے۔ فتح مکہ کے بعد ایسے مسلمان بھی تھے جو اپنے ایمان لانے کے ابتدائی دور میں اس معیار تک نہیں پہنچے تھے جو قرآن مجید کا مطلوب ہے اس لیے ان ایمانداروں کو بالخصوص ارشادہوا کہ کیا ان ایمانداروں کے لیے وہ وقت نہیں آیا جب ان کے دل اللہ کی یاد سے لرز جائیں اور جو حق ان کی طرف نازل کیا گیا ہے اس کے سامنے پوری طرح مطیع ہوجائیں۔ انہیں حکم ہوا کہ اے ایماندارو! ان لوگوں کی طرح نہ ہوجانا جنہیں تم سے پہلے کتاب دی گئی ہے جب ان پر طویل مدت گزری تو ان کے دل اللہ اور اس کی کتاب کے بارے میں سخت ہوگئے اور ان کی اکثریت نافرمان تھی اور یادرکھو! اللہ ہی وہ ذات ہے جو زمین کے مردہ ہونے کے بعد اسے زندہ کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ تمہارے لیے اپنے ارشادات کھول کھول کر بیان کرتا ہے تاکہ تم عقل سے کام لو۔” اُوْتُوا الْکِتٰبَ“ سے مراد عیسائی اور یہودی ہیں۔ ایک مدت گزرنے کے بعد ان کی بد عملی اور بے حسی کا عالم یہ تھا اور ہے نہ انہیں اللہ کا خوف ہے اور نہ ہی تورات اور انجیل کی نصیحتیں ان پر اثرانداز ہوتی ہیں۔ عیسائی اور یہودی اپنی کتابوں کے حوالے سے یہ جانتے ہیں کہ آخری نبی محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہوں گے اور وہ عربی النسل ہونے کے ساتھ مکہ معظمہ میں معبوث کیے جائیں گے اور لوگوں کو وہی دعوت دیں گے جو حضرت موسیٰ اور عیسیٰ (علیہ السلام) دیا کرتے تھے یہ حقیقت جاننے کے باوجود عیسائیوں اور یہودیوں کی غالب اکثریت اس حقیقت کا اعتراف کرنے کے لیے تیار نہیں۔ جس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ یہ حق کے ساتھ تعصب اور دنیاوی مفادات مقدم رکھتے ہیں۔ ایمانداروں کو اس بات سے منع کیا گیا ہے کہ اے ایمان کا دعویٰ کرنے والو! ان لوگوں کی طرح نہ ہوجانا جو ایک مدت گزرنے کے بعد اپنے رب سے غافل ہوئے اور تورات اور انجیل کو فراموش کربیٹھے۔ یہودیوں اور عیسائیوں کے حالات سے آگاہ ہونے کے باوجود آج مسلمانوں کی غالب اکثریت کا وہی حال ہے جو عیسائیوں اور یہودیوں کا حال دکھائی دیتا ہے۔ عیسائی اور یہودی بھی دنیا کی خاطر شقی القلب ہوئے اور مسلمان بھی دنیا کے مفاد کے لیے اللہ اور اس کے رسول سے بے اعتنائی کا شکار ہورہے ہیں۔ اے مسلمانو! یادرکھو! کہ اللہ ہی مردہ زمین کو زندہ کرنے والاہے۔ اس فرمان میں اللہ تعالیٰ نے زمین کے حوالے سے اپنی قدرت کی عظیم نشانی کا ذکر کرتے ہوئے دو خوشخبریوں کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔ 1۔ جس طرح ویران اور سنسان زمین بارش کے بعد تروتازہ اور زندہ ہوجاتی ہے اسی طرح اللہ کی یاد اور اس کی کتاب کی پیروی سے مردہ دل زندہ ہوجاتے ہیں۔ جس طرح بارش کے بعد زمین سے نباتات اگتی ہیں اور اس سے زمین پر ہریالی چھا جاتی ہے اسی طرح اللہ کی آیات اور قرآن مجید کی تلاوت سے ایمان زندہ ہوتا ہے اور مسلمان کے نیک اعمال میں اضافہ ہوتا ہے اور اس کی طبیعت پر نیکیوں کی ایک بہار آتی ہے۔2۔ جس طرح بارش کے بعد مردہ زمین زندہ ہوتی ہے اسی طرح ہی اللہ تعالیٰ مسلمانوں کے ضعف کو قوت میں تبدیل کرے گا جس سے دنیا میں امن و سکون پیدا ہوگا اور نیکی کی فضا قائم ہوگی۔ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ إِنَّ الْعَبْدَ إِذَا أَخْطَأَ خَطِیْءَۃً نُکِتَتْ فِیْ قَلْبِہٖ نُکْتَۃٌ سَوْدَآءُ فَإِذَا ھُوَ نَزَعَ وَاسْتَغْفَرَ وَتَابَ سُقِلَ قَلْبُہٗ وَإِنْ عَادَ زِیْدَ فِیْھَا حَتّٰی تَعْلُوَ قَلْبَہٗ وَھُوَ الرَّانُ الَّذِیْ ذَکَرَ اللّٰہُ (کَلَّا بَلْ رَانَ عَلٰی قُلُوْبِھِمْ مَّاکَانُوْا یَکْسِبُوْنَ )) (رواہ الترمذی : کتاب تفسیر القرآن ) ” حضرت ابوہریرہ (رض) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : جب بندہ کوئی غلطی کرتا ہے تو اس کے دل پرسیاہ نکتہ پڑجاتا ہے جب وہ گناہ چھوڑ دے اور توبہ و استغفار کرے تو اس کا دل پالش ہوجاتا ہے۔ اگر وہ دوبارہ گناہ کی طرف پلٹے تو گناہ کی سیاہی اس کے دل پر چڑھ جاتی ہے یہی وہ زنگ ہے جس کا تذکرہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں کیا ہے کہ ” ہرگز نہیں بلکہ ان کے دلوں پر ان کے گناہوں کی وجہ سے زنگ چڑھ چکا ہے۔“ ” حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) بیان کرتے ہیں رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میری امت میں ایسا وقت ضرور آئے گا کہ وہ بنی اسرائیل کے ساتھ بالکل اس طرح مل جائے گی جس طرح جو تا ایک دوسرے کے ساتھ ملا ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ اگر ان میں سے کسی نے اپنی ماں سے اعلانیہ زنا کیا ہوگا تو میری امت میں بھی ایسا ضرور ہوگا۔ بنی اسرائیل بہتر فرقوں میں تقسیم ہوئے میری امت تہتر فرقوں میں بٹ جائے گی۔ ایک گروہ کے علاوہ سارے کے سارے جہنم میں جائیں گئے۔ صحابہ نے استفسار کیا اے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! وہ کون سا گروہ ہے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو میرے اور میرے صحابہ کرام (رض) کے طریقے پر عمل کرنے والا ہوگا۔“ (رواہ الترمذی : باب ماجاء فی افتراق ہذہ الامۃ، قال البانی ھذا حدیث حسن صحیح) مسائل ١۔ ایمانداروں کو اللہ کے ذکر اور کتاب اللہ کی پیروی کرنی چاہیے ٢۔ مسلمانوں کو یہود ونصارٰی کا انداز اور کردار اختیار نہیں کرنا چاہیے۔ ٣۔ اللہ کی یاد اور قرآن مجید کی تلاوت سے غفلت کرنے پر انسان کا دل سخت ہوجاتا ہے۔ ٤۔ یہود ونصارٰی کی غالب اکثریت نافرمان لوگوں پر مشتمل ہے۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ مردہ زمین کو زندہ کرتا ہے۔ ٦۔ اللہ تعالیٰ اس لیے اپنے ارشاد ات کھول کھول کر بیان کرتا ہے تاکہ لوگ عقل سے کام لیں۔ تفسیر بالقرآن دل کی سختی اور برے شخص کا انجام : ١۔ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرنے سے دل سخت ہوتا ہے۔ (البقرۃ: ٧٤) ٢۔ عہد شکنی کی وجہ سے دل سخت ہوتا ہے۔ (المائدۃ: ١٣) ٣۔ اللہ کی یاد سے غافل ہونے والوں کے لیے جہنم ہے۔ ( الزمر : ٢٢) الحديد
17 الحديد
18 فہم القرآن ربط کلام : عقل مندی کا تقاضا ہے کہ اللہ کی راہ میں مال خرچ کیا جائے۔ سورۃ الحدید کی آیت ٧ سے لے کر ١٨ تک سات مرتبہ انفاق اور قرض کے نام پر صدقہ کرنے کی تلقین کی گئی ہے۔ اب ارشاد ہوتا ہے کہ جو لوگ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے والے ہیں وہ مرد ہوں یا عورتیں جو بھی ایمان اور اخلاص کے ساتھ اللہ تعالیٰ کو قرض حسنہ دیتے ہیں انہیں دوگنا واپس کرنے کے ساتھ اجر کریم سے نوازا جائے گا۔ قرض حسنہ سے مرادایسا قرض ہے جس میں درج ذیل باتوں کا خیال رکھا جائے۔ 1۔ صدقہ صرف اللہ کی رضا کے لیے کیا جائے۔2۔ رزق حلال سے صدقہ کیا جائے کیونکہ اللہ تعالیٰ حرام مال سے کیے ہوئے صدقہ کو قبول نہیں کرتا۔3۔ صدقہ کرنے والا کا اللہ اور اس کے رسول پرخالص ایمان ہونا چاہیے۔ 4۔ جسے صدقہ دیا جائے نہ اس پر احسان جتلایا جائے اور نہ اسے تکلیف دی جائے۔ (عَنْ اَبِی ہُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اِنَّ اللّٰہَ طَیِّبٌ لَا یَقْبَلُ اِلَّا طَیِّبًا وَاِنَّ اللّٰہَ اَمَرَ الْمُؤْمِنِیْنَ بِمَا اَمَرَبِہِ الْمُرْسَلِیْنَ فَقَالَ (یَا اَیُّہَا الرُّسُلُ کُلُوْا مِنَ الطَّیِّبَاتِ وَاعْمَلُوا صالِحًا) (پ ١٨۔ رکوع ٣) وَقَالَ یَا اَیُّھَاالَّذِیْنَ آمَنُوْا کُلُوْا مِنْ طَیِّبَاتِ مَا رَزَقْنٰکُمْ۔۔) (رواہ مسلم : باب کسب الحلال والطیب وتربیتہا) ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : بے شک اللہ پاک ہے اور پاک کے علاوہ کسی چیز کو قبول نہیں کرتا۔ اللہ تعالیٰ نے مومنین کو ان باتوں کا حکم دیا ہے جن باتوں کا اس نے اپنے رسولوں کو حکم دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے۔ ” میرے رسولو! پاکیزہ چیزیں کھاؤ اور عمل صالح کرو۔“ اے ایمان والو! جو رزق ہم نے تمہیں عطا کیا ہے اس میں سے پاکیزہ چیزیں کھاؤاور نیک عمل کرو۔“ (مَثَلُ الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَہُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ کَمَثَلِ حَبَّۃٍ اَنْبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِیْ کُلِّ سُنْبُلَۃٍ مِّاءَۃُ حَبَّۃٍ وَ اللّٰہُ یُضٰعِفُ لِمَنْ یَّشَآءُ وَ اللّٰہُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ) (البقرۃ: ٢٦١) ” جو لوگ اپنا مال اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں ان کی مثال اس دانے جیسی ہے جس میں سے سات بالیاں نکلیں اور ہر بالی میں سو دانے ہوں اور اللہ تعالیٰ جسے چاہے بڑھا چڑھاکر دیتا ہے اور اللہ تعالیٰ بڑی وسعت والا، خوب جاننے والا ہے۔“ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَنْ تَصَدَّقَ بِعَدْلِ تَمْرَۃٍ مِّنْ کَسْبٍ طَیِّبٍ وَّلَا یَقْبَلُ اللّٰہُ إِلَّا الطَّیِّبَ فَإِنَّ اللّٰہَ یَتَقَبَّلُھَا بِیَمِیْنِہٖ ثُمَّ یُرَبِّیْھَا لِصَاحِبِہٖ کَمَا یُرَبِّیْ أَحَدُکُمْ فُلُوَّہٗ حَتّٰی تَکُوْنَ مِثْلَ الْجَبَلِ) (رواہ البخاری : کتاب الزکوۃ، باب الصدقۃ من کسب طیب) ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو آدمی کھجور کے برابر اپنی پاک کمائی سے صدقہ کرتا ہے اور اللہ کے ہاں صرف پاک چیز ہی قبول ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ اسے قبول کرتے ہوئے اپنے دائیں ہاتھ میں لے کر اس کو اس طرح پالتا اور بڑھاتا ہے جیسے تم میں سے کوئی بچھڑے کو پالتا ہے حتیٰ کہ صدقہ پہاڑکی مانند ہوجاتا ہے۔“ مسائل ١۔ صدقہ کرنے والے مرد ہوں یا عورتیں ” اللہ“ انہیں دوگنا عنایت کرے گا۔ ٢۔ صدقہ کرنے والا ” اللہ“ کو قرض دیتا ہے اللہ تعالیٰ اسے اجر کریم سے ہمکنار فرمائے گا۔ ٣۔ قرض حسنہ وہ ہے جس میں احسان جتلانا اور تکلیف دینا شامل نہ ہو۔ تفسیر بالقرآن صدقہ کرنے والوں کا مقام اور انجام : ١۔ مسلمان کو اس کے دئیے ہوئے صدقہ پر سات سو گنا ثواب دیا جائے گا۔ ( البقرۃ: ٢٦١) ٢۔ اللہ تعالیٰ اسے دگنا تگنا کرکے واپس کرے گا۔ (التغابن : ١٧) ٣۔ اللہ تعالیٰ صدقہ کرنے والوں کو جزا دیتا ہے۔ (یوسف : ٨٨) ٤۔ مومن اللہ کی رضا کے لیے خرچ کرتا ہے۔ ( التوبہ : ٩٩) ٥۔ جو کچھ تم خرچ کرو گے اللہ تعالیٰ تمھیں اس سے زیادہ دے گا۔ (سبا : ٣٩) ٦۔ مومنین اللہ کے راستے میں خفیہ اور اعلانیہ خرچ کرتے ہیں۔ (الرعد : ٢٢) ٧۔ مسلمان تنگدستی اور خوشحالی میں خرچ کرتے ہیں۔ (آل عمران : ١٣٤) الحديد
19 فہم القرآن ربط کلام : جو لوگ اللہ تعالیٰ کو قرض حسنہ دیتے ہیں ان پر فرض ہے کہ وہ سچے دل کے ساتھ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائیں۔ اللہ تعالیٰ سے اجرِکریم پانے کی بنیادی شرط یہ ہے کہ لوگ اللہ اور اس کے رسول پر حقیقی طور پر ایمان لائیں جو لوگ اللہ اور اس کے رسول پر سچے دل کے ساتھ ایمان لاتے ہیں وہ اپنے رب کے ہاں سچے اور سچ کی گواہی دینے والے شمار ہوں گے۔ ان کو اجرِکریم ملنے کے ساتھ ایک روشنی نصیب ہوگی اور جو لوگ کفر کریں اور اپنے رب کے ارشادات کی تکذیب کریں گے وہ جہنم میں داخل کیے جائیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے اس فرمان میں ایمان لانے والوں کو صدیق اور شہید کا لقب عطا کرنے کے ساتھ اجر اور نور کی خوشخبری عطا فرمائی ہے۔ صدیق کا معنٰی : صدیق سے مراد ایسا شخص جو ہر حال میں سچ بولنے والا، سچ پر قائم رہنے والا اور سچ کے لیے ہر چیز قربان کردینے والا ہو، امت میں اس مقام پر سب سے پہلے حضرت ابو بکر صدیق (رض) فائز ہوئے باقی لوگ درجہ بدرجہ اس مقام کے حامل ہوں گے۔ شہید کا معنٰی اور مقام : شہید ایسی شخصیت کو کہتے ہیں جو دل کی سچائی کے ساتھ اسلام میں داخل ہو اور دین کی سربلندی کے لیے سب کچھ قربان کرنے کے لیے آمادہ اور تیار رہے۔ میدان کارزار میں کٹ مرنے والے کو بھی شہید کہتے ہیں کیونکہ وہ اپنے خون جگر سے حق کی گواہی دیتا ہے۔ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے شہادت کے کئی درجے ذکر فرمائے اور کئی قسم کے لوگوں کو شہداء میں شامل فرمایا ہے۔ امام رازی نے سورۃ آل عمران آیت ١٨ سے استدلال کیا ہے کہ عدل و انصاف کی گواہی دینے والے بھی شہداء میں شمار ہوں گے۔ ” حضرت سعید بن زید (رض) فرماتے ہیں میں نے رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے ہوئے سنا۔ آپ نے فرمایا کہ جو اپنے مال کی حفاظت کرتے ہوئے مارا گیا وہ شہید ہے، جو اپنے دین کی حفا ظت کرتے ہوئے مارا گیا وہ شہید ہے، جو اپنی جان کی حفاظت کرتے ہوئے مارا گیا وہ شہید ہے اور جو اپنے گھروالوں کی حفاظت کرتے ہوئے مارا جائے وہ بھی شہید ہے۔“ (رواہ الترمذی : بَاب مَا جَاء فیمَنْ قُتِلَ دُونَ مَالِہِ فَہُوَ شَہِیدٌ، حدیث صحیح) (أَوَّلُ مَا یُہْرَاقُ مِنْ دَمٍ اَلشَّہِیْدُ یُغْفَرُ لَہٗ ذَنْبُہٗ کُلُّہٗ إِلَّا الدّیْنَ) (صحیح الجامع : باب اول مایقضیٰ بین الناس یوم القیامۃ فی الدماء) ” شہید کے خون کے پہلے قطرہ سے قرض کے سوا سب گناہ معاف کردیے جاتے ہیں۔“ (عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ (رض) قَالَ قَالَ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اِنَّ الصَّدَ قَۃَ لَتُطْفِئُ غَضَبَ الرَّ بِّ وَ تَدْفَعُ مِےْتَۃَ السَّوْءِ) (رواہ الترمذی : باب مَا جَاءَ فِی فَضْلِ الصَّدَقَۃِ، قال ابو عیسیٰ حدیث حسن غریب) ” حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا صدقہ اللہ تعالیٰ کے غضب کو ٹھنڈا کرتا ہے اور بری موت سے بچا تا ہے۔“ اللہ تعالیٰ اپنی راہ میں خرچ کرنے والے کو دنیا اور آخرت میں اپنی طرف سے اجر دینے کی ضمانت دیتا ہے۔ صدقہ کرنے سے مال میں برکت پیدا ہوتی ہے اور دنیا کی مشکلات سے نجات ملتی ہے۔ آخرت میں اسے اجرِعظیم کے ساتھ ایک نور عطا کیا جائے گا جس کی روشنی میں چل کر وہ جنت میں داخل ہوگا۔ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ مَانَقَصَتْ صَدَقَۃٌ مِّنْ مَّالٍ وَّمَازَاد اللّٰہُ عَبْدًابِعَفْوٍ إِلَّا عِزًّا وَّمَا تَوَاضَعَ أَحَدٌ لِلّٰہِ إِلَّا رَفَعَہُ اللّٰہُ) (رواہ مسلم : کتاب البر والصلۃ والآداب) ” حضرت ابوہریرہ (رض) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا صدقہ مال میں کمی نہیں کرتا اور کسی بھائی کو معاف کرنے سے اللہ تعالیٰ معاف کرنے والے کو مزید عزت بخشتا ہے۔ جو ” اللہ“ کے لیے تواضع اختیار کرتا ہے اللہ تعالیٰ اسے سر بلندفرماتا ہے۔“ مسائل ١۔ جو لوگ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائے اور اس کے تقاضے پورے کیے وہ ” اللہ“ کے نزدیک صدیق اور شہید ہیں۔ ٢۔ صدیقین اور شہداء کے لیے بہترین اجر ہوگا۔ ٣۔ صدیقین اور شہداء کے لیے محشر کے میدان میں ہر جانب روشنی ہوگی۔ ٤۔ ” اللہ“ کی آیات کا انکار اور ان کی تکذیب کرنے والے جہنم میں داخل ہوں گے۔ تفسیربالقرآن صدیقین اور شہداء کا انجام اور مقام : ١۔ جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے گا وہ نبیوں، صدیقین، شہداء اور صالحین کے ساتھ ہوگا۔ (النساء : ٦٩) (الحشر : ٨) (الاحزاب : ٢٤) (المائدۃ: ١١٩) (الحجرات : ١٥) (البقرۃ: ١٥٤) (آل عمران : ١٦٩) (آل عمران : ١٧٠) الحديد
20 فہم القرآن ربط کلام : لوگ جس دنیا کی خاطر اپنے رب کے ارشادات کا انکار اور ان کی تکذیب کرتے ہیں اس دنیا کی حیثیت اور حقیقت۔ اے لوگو! یہ حقیقت اچھی طرح جان لو کہ دنیا کی زندگی کھیل، تماشا، زیب و زینت، فخر وغرور، مال اور اولاد میں تقابل اور تفاخر کے سوا کچھ نہیں ہے۔ اس دنیا کی مثال بارش کی طرح ہے جب بارش ہوتی ہے تو اس سے فصلیں اگتی اور لہلہا اٹھتی ہیں جس سے زمیندار خوش ہوتا ہے۔ اس کے سامنے کھیتی پروان چڑھتی ہے، رنگ پکڑتی ہے پھر اس کا رنگ زرد ہوجاتا ہے پھر وہ ریزہ ریزہ ہوجاتی ہے یہی مثال دنیا دار شخص کی ہے کہ وہ زندگی بھر کماتا رہتا ہے لیکن موت کے وقت اس کے پاس حسرت کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ وہ بڑی حسرتوں کے ساتھ خالی ہاتھ دنیا سے رخصت ہوتا ہے اور جونہی اس کی آنکھ بند ہوتی ہے وہ آخرت کے شدید عذاب میں مبتلا کیا جاتا ہے۔ اس کے مقابلے میں جس نے دنیا اور اس کی لذّات پر فریفتہ ہونے کی بجائے اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت میں زندگی بسر کی اس کے لیے اللہ کی طرف سے بخشش اور اس کی رضا مندی ہے۔ لوگو! غور کرو کہ دنیا کی زندگی کے مال و اسباب دھوکہ اور فریب کے سوا کچھ نہیں۔ اس آیت مبارکہ میں دنیا اور اس کے اسباب کے بارے میں چار الفاظ استعمال کیے گئے ہیں اور یہی دنیا کی حقیقت ہے۔ ١۔ دنیا کی زندگی کھیل اور تماشا ہے : کھیل، تماشے کی اچھی اور بری کئی اقسام ہیں کھیل اور تماشا آپس میں مترادف الفاظ ہیں جو ہر زبان میں اسی طرح استعمال ہوتے ہیں کھیل اور تماشے کے الفاظ ایسے کام پر بولے جاتے ہیں جو وقت گزارنے اور دل بہلانے کے لیے ہوتا ہے ان میں بہتر سے بہتر جو کھیل تماشا ہوتا ہے اس کے بھی دائمی اور مستقل نتائج نہیں ہوتے، ہر زبان میں کھیل اور تماشے کے الفاظ کسی بامقصد اور مستقل کام کے لیے استعمال نہیں ہوتے ان الفاظ کو عارضی اور محض وقت گزارنے والے کام کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ کھیل، تماشا بظاہر کتنا ہی اچھا کیوں نہ ہو پوری زندگی کھیل میں نہیں گزاری جاسکتی ہے، یہی دنیا اور اس کے اسباب کی حقیقت ہے کہ اگر انسان کی زندگی اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت میں نہ ہو تو پوری کی پوری زندگی بے مقصد ہوجاتی ہے۔ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مِنْ حُسْنِ إِسْلَامِ الْمَرْءِ تَرْکُہُ مَا لَا یَعْنِیہٖ) (رواہ الترمذی : کتاب الزہد) ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بلاشبہ آدمی کے اسلام کی خوبی یہ ہے کہ وہ فضول یعنی بے فائدہ باتوں کو چھوڑ دے۔“ ٢۔ دنیا کا مال اور اسباب زیب وزینت کا باعث ہیں : اللہ تعالیٰ نے انسان کو طبعی طور پر جمالیاتی حس عطا فرمائی ہے جس بنا پر اپنے چہرے اور وجود کو سنوارنا، بہتر سے بہترین لباس زیب تن کرنا، اچھی سے اچھی سواری رکھنا اور رہائش اور بودوباش کے اعتبار سے خوبصورت سے خوبصورت ہونے کی خواہش رکھنا اور کوشش کرنا اس کی فطرت میں سمودیا گیا ہے۔ بے شک شریعت کے دائرہ میں رہ کر زیب و زینت اختیار کرنا جائز ہے۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک موقع پر ایک پراگندہ بال اور گندے لباس والے شخص کو دیکھا تو فرمایا کہ اللہ تعالیٰ خوبصورت ہے اور خوبصورتی کو پسند کرتا ہے۔ لیکن اس کا یہ معنٰی نہیں کہ مرد ہو یا عورت وہ دنیا کی زیب و زینت پر ہی فریفتہ ہو کر رہ جائے اور شریعت کی حدود اور اخلاقی قیود کو پامال کرتا چلا جائے ایسا شخص قیامت کے دن شدید عذاب میں مبتلا کیا جائے گا۔ (عَنِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لَا یَدْخُلُ الجَنَّۃَ مَنْ کَانَ فِیْ قَلْبِہٖ مِثْقَالُ ذَرَّۃٍ مِنْ کِبْرٍ فَقَالَ رَجُلٌ اِنَّ الرَّجُلَ یُحِبُّ اَنْ یَّکُوْنَ ثَوْبُہٗ حَسَنًا وَ نَعْلُہٗ حَسَنًا قَالَ اِنَّ اللّٰہَ تَعَالٰی جَمِیْلٌ یُّحِبُّ الجَمَالَ اَلْکِبْرُ بَطَرُ الْحَقِّ وَ غَمْطُ النَّاسِ) (رواہ مسلم : باب تَحْرِیمِ الْکِبْرِ وَبَیَانِہِ) ” حضرت ابن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جس شخص کے دل میں ذرہ برابر تکبر ہوگا، وہ جنت میں نہیں جائے گا۔ ایک شخص نے کہا کہ بے شک ہر شخص پسند کرتا ہے کہ اس کا لباس اور جوتے اچھے ہوں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : بلاشبہ اللہ تعالیٰ خوب صورت ہے اور خوبصورتی کو پسند کرتا ہے۔ تکبر حق بات کا انکار کرنا اور لوگوں کو حقیر جاننا ہے۔“ ٣۔ دنیا کا مال واسباب تفاخر کا باعث ہیں : شریعت نے دنیا کی ترقی میں ایک دوسرے سے سبقت کرنے سے منع نہیں کیا البتہ اس بات کو ہرگز پسند نہیں کیا کہ مالدار، غریب پر، حاکم محکوم پر، طاقت ور کمزور پر، اکثریت رکھنے والا اقلیت پر فخرو غرور کا مظاہرہ کرے۔ شریعت کی تعلیم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی شخص کو کوئی نعمت عطافر مائے تو وہ دوسروں پر فخر کرنے کی بجائے تواضع اور انکساری اختیار کرے۔ فخر وغرور کرنے سے انسان دو سروں کی نگاہوں میں حقیر بنتا ہے اور تواضع اختیار کرنے سے آدمی کا احترام بڑھتا ہے۔ ٤۔ تکاثر : تکاثر کا معنٰی ہے مال و اسباب میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنا۔ دین اسلام نے اخلاقی قیود کے اندر رہ کر مال و اسباب میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے سے نہیں روکا۔ قرآن مجید نے اس تکاثر کی نفی کی ہے جس میں اللہ اور اس کے رسول کی ہدایات کو پس پشت ڈال کر انسان مال، افرادی قوت، اقتدار، اختیار اور دیگر اسباب میں آگے بڑھنے کی کوشش کرے یہ تکاثر انسان کو دنیا میں اخلاقی طور پر اور آخرت میں انجام کے حوالے سے تباہ کردیتا ہے جس کی قرآن مجید نے ان الفاظ میں مذمت کی ہے۔ (اَلْہٰکُمُ التَّکَاثُرُ) (التکاثر : ١) ” تمہیں مال کی ہوس نے ہلاکت میں ڈال رکھا ہے۔“ (عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ (رض) أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ لَوْ أَنَّ لِإِبْنِ آدَمَ وَادِیًا مِّنْ ذَھَبٍ أَحَبَّ أَنْ یَکُوْنَ لَہٗ وَادِیَانِ وَلَنْ یَمْلَأَ فَاہُ إِلَّا التُّرَابُ وَیَتُوْبُ اللّٰہُ عَلٰی مَنْ تَابَ) (رواہ البخاری : کتاب الرقاق، باب مایتقی من فتنۃ المال) ” حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ بے شک رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اگر آدم کے بیٹے کے پاس سونے کی ایک وادی ہو تو وہ پسند کرے گا کہ اس کے پاس سونے کی دو وادیاں ہوں۔ اس کے منہ کو مٹی کے علاوہ کوئی چیز نہیں بھر سکتی۔ اللہ جس پر چاہتا ہے کرم فرماتا ہے۔“ دنیا کے مال و اسباب کو اس کھیتی اور نباتات کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے جو بارش کے بعد زمین سے نکلتی اور لہلہاتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔ جسے دیکھ کر زمیندار خوش ہوتا ہے لیکن کچھ مدت کے بعد ہری بھری کھیتی زردی کا لباس پہن لیتی ہے اور بالآخر ریزہ ریزہ ہوجاتی ہے۔ موسم خزاں میں باغ خالی ٹہنیوں کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ گندم کی فصل پر غور فرمائیں کہ پکنے کے وقت جڑ سے لے کر سٹے تک زرد ہوجاتی ہے۔ صحرا کے رہنے والے اس مثال کو اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ ویرانی کے وقت زمین پرنظر نہیں ٹکتی۔ مگر بارش کے بعد وہ زمین یوں دکھائی دیتی ہے جیسے اس نے سبز چادر اوڑھ لی ہو۔ لیکن تھوڑے دنوں کے بعد اس پر اگنے والی جڑی بوٹیاں اور گھاس خود بخود گل سڑ جاتے ہیں، یہی حال اس شخص کا ہوگا جس نے دنیا کی عیش و عشرت سے فائدہ اٹھایا لیکن اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت نہ کی۔ موت کے بعد اس کا کمایا ہوا مال اس کے لیے بے کار ثابت ہوگا اور آخرت میں اسے شدید عذاب کا سامنا کرنا پڑے گا۔ (عَنْ عَبْدِ اللَّہِ قَالَ نَامَ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عَلَی حَصِیرٍ فَقَامَ وَقَدْ أَثَّرَ فِی جَنْبِہِ فَقُلْنَا یَا رَسُول اللَّہِ لَوِ اتَّخَذْنَا لَکَ وِطَاءً فَقَالَ مَا لِی وَمَا للدُّنْیَا مَا أَنَا فِی الدُّنْیَا إِلاَّ کَرَاکِبٍ اِسْتَظَلَّ تَحْتَ شَجَرَۃٍ ثُمَّ رَاحَ وَتَرَکَہَا) (رواہ الترمذی : باب مَا جَاءَ فِی أَخْذِ الْمَال، قال الشیخ البانی صحیح) ” حضرت عبد اللہ (رض) فرماتے ہیں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک چٹائی پر سوئے تو آپ کے پہلو پر چٹائی کے نشان پڑگئے۔ ہم نے عرض کی اللہ کے رسول! ہم آپ کے لیے اچھا سا بستر تیار کردیتے ہیں؟ آپ نے فرمایا : میرا دنیا کے ساتھ تعلق ایک مسافر جیسا ہے جو کسی درخت کے نیچے تھوڑا سا آرام کرتا ہے پھر اسے چھوڑ کر آگے چل دیتا ہے۔“ مسائل ١۔ دنیا کی زندگی کھیل تماشا، زیب وزینت، فخر و غرور اور مال و اولاد میں تفاخر کے سوا کچھ نہیں۔ ٢۔ دنیا کی زندگی ایسی نباتات کی طرح ہے جو بارش کے بعد اگتی ہے لیکن ایک وقت کے بعد ریزہ ریزہ ہوجاتی ہے۔ ٣۔ دنیا کے مال واسباب پر فخر کرنے والے شدید عذاب میں مبتلا کیے جائیں گے۔ ٤۔ دنیا کی زندگی دھوکے کا سامان ہے جس نے اپنے آپ کو اس دھوکے سے بچا لیا اللہ تعالیٰ اس کے گناہ معاف کرے گا اور اس پر راضی ہوگا۔ تفسیر بالقرآن دنیا اور آخرت کا تقابل : ١۔ دنیا کھیل اور تماشا ہے۔ (الانعام : ٣٢) ٢۔ آخرت کے مقابلے میں دنیا کی زندگی عارضی ہے۔ (الرعد : ٢٦) ٣۔ دنیا عارضی اور آخرت پائیدار ہے۔ (المؤمن : ٣٩) ٤۔ مال اور اولاد دنیا کی زندگی کی زینت ہیں۔ (الکہف : ٤٦) ٥۔ آخرت کے مقابلہ میں دنیا بہت کمتر ہے۔ (التوبہ : ٣٨) ٦۔ جو چیز تم دیے گئے ہو یہ تو دنیا کا سامان اور زینت ہے۔ (القصص : ٦٠) ٧۔ نہیں ہے دنیا کی زندگی مگر دھوکے کا سامان۔ (آل عمران : ١٨٥) ٨۔ دنیا کی زندگی محض دھوکے کا سامان ہے۔ (الحدید : ٢٠) ٩۔ مال اور اولاد تمہارے لیے آزمائش ہیں۔ (التغابن : ١٥) الحديد
21 فہم القرآن ربط کلام : دنیا کے مال پر فخر کرنے اور اس کی طلب میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی بجائے اپنے رب کی بخشش اور جنت میں آگے بڑھنے کی کوشش کیجیے۔ یہ بات سورۃ آل عمران کی آیت ١٣٣ میں بیان ہوچکی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو صرف نیکی کرنے کا حکم نہیں دیا بلکہ نیکیوں میں آگے بڑھنے اور جنت کی طرف سبقت لے جانے کا حکم دیا ہے۔ جس قوم اور معاشرے میں نیکی اور اپنے مقصد کے لیے آگے بڑھنے کا جذبہ ختم ہوجائے بالآخر وہ قوم مردگی کا شکار ہوجاتی ہے۔ زندہ اور بیدار قومیں اپنی منزل کے حصول کے لیے نئے جذبوں اور تازہ ولولوں کے ساتھ آگے بڑھنے کے لیے مسلسل منصوبہ بندی کرتی ہیں۔ مسلمانوں کی زندگی کا مقصد اللہ کی رضا اور اس کی جنت کا حصول ہے اس لیے قرآن مجید نے ایک سے زائد مقامات پر ترغیب دی ہے کہ اس کے لیے آگے بڑھو اور بڑھتے ہی چلے جاؤ۔ اس فرمان کی روشنی میں صحابہ کرام (رض) ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرتے تھے۔ غزوہ تبوک کے موقع پر جہاد فی سبیل اللہ میں مال خرچ کرنے کے لیے حضرت عمر فاروق (رض) یہ سوچ کر مسجد نبوی سے اٹھے کہ اس مرتبہ ابوبکر صدیق (رض) سے صدقہ کرنے میں آگے بڑھ جاؤں گا۔ جب عمر فاروق اور ابوبکر صدیق (رض) اپنا اپنا حصہ لے کر حاضر ہوئے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عمرفاروق (رض) سے پوچھا کہ کتنا مال جہاد فی سبیل اللہ میں خرچ کررہے ہو؟ انہوں نے جواب دیا کل مال کا آدھا حصہ پیش کررہا ہوں۔ ابوبکر صدیق (رض) سے استفسار کیا تو انہوں نے جواب دیا کہ پورے کا پورا مال آپ کی خدمت میں پیش کردیا گیا ہے۔ اس پر حضرت عمر (رض) نے فرمایا کہ میں ابوبکر صدیق (رض) سے سبقت نہیں لے جاسکتا۔ (رواہ الترمذی : باب مناقب ابی بکر وعمر (رض)، قال البانی حسن) (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ إِنَّ فِی الْجَنَّۃِ لَشَجَرَۃً یَسِیْرُ الرَّاکِبُ فِیْ ظِلِّھَا ماءَۃَ سَنَۃٍ وَاقْرَأُوْا إِنْ شِءْتُمْ (وَظِلٍّ مَّمْدُوْدٍ) (رواہ البخاری : باب ماجاء فی صفۃ الجنۃ وأنھا مخلوقۃ) ” حضرت ابوہریرہ (رض) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں آپ نے فرمایا : جنت میں ایک ایسا درخت ہے کہ گھوڑے پر سوار شخص اس کے سائے میں سو سال تک چل سکتا ہے۔ اگر تم چاہو تو یہ آیت پڑھو ( اور سائے ہیں لمبے لمبے)۔“ (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ قَیْسٍ (رض) عَنْ أَبِیْہِ عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ إِنَّ لِلْمُؤْمِنِ فِی الْجَنَّۃِ لَخَیْمَۃً مِنْ لُؤْلُؤَۃٍ وَاحِدَۃٍ مُجَوَّفَۃٍ طُوْلُھَا سِتُّوْنَ مِیْلًا لِلْمُؤْمِنِ فِیْھَا أَھْلُوْنَ یَطُوْفُ عَلَیْھِمُ الْمُؤْمِنُ فَلَا یَرٰی بَعْضُھُمْ بَعْضًا) (رواہ مسلم : باب فی صفۃ خیام الجنۃ .....) ” حضرت عبداللہ بن قیس اپنے باپ سے اور وہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جنت میں مومن کے لیے موتی کا ایک ایسا خیمہ ہوگا جس کی لمبائی ساٹھ میل ہوگی وہاں مومن کے گھر والے ہوں گے جن کے پاس وہی جائے گا۔ کوئی اور انہیں نہیں دیکھ سکے گا۔“ قرآن مجید کا مقصد جنت کا طول و عرض بتانا نہیں بلکہ اس کی وسعت و کشادگی کا تصور دینا ہے۔ (عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ (رض) قَالَ قَالَ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَنْ تَوَضَّأَ فَأَحْسَنَ الْوُضُوءَ ثُمَّ قَالَ أَشْہَدُ أَنْ لَا إِلَہَ إِلَّا اللَّہُ وَحْدَہُ لَا شَرِیکَ لَہُ وَأَشْہَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہُ وَرَسُولُہُ اللَّہُمَّ اجْعَلْنِی مِنْ التَّوَّابِینَ وَاجْعَلْنِی مِنَ الْمُتَطَہِّرِینَ فُتِحَتْ لَہُ ثَمَانِیَۃُ أَبْوَابِ الْجَنَّۃِ یَدْخُلُ مِنْ أَیِّہَا شَاءَ) (رواہ الترمذی : باب فیما یقال بعد الوضوء، قال الالبانی ھذاحدیث صحیح) ” حضرت عمر بن خطاب (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو شخص اچھی طرح وضو کرتا ہے پھر کہتا ہے میں گواہی دیتا ہوں اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کے بندے اور رسول ہیں۔ اے اللہ ! مجھے توبہ کرنے والوں میں اور پاک صاف رہنے والوں میں شامل فرما۔ اس کے لیے جنت کے آٹھوں دروازے کھول دیے جاتے ہیں جہاں سے چاہے داخل ہوجائے۔“ مسائل ١۔ لوگو! اپنے رب کی بخشش اور جنت کے لیے آگے بڑھو! ٢۔ جنت کی چوڑائی زمین و آسمانوں سے کشادہ ہے۔ ٣۔ جنت ان لوگوں کے لیے تیار کی گئی ہے جو اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لاتے ہیں۔ ٤۔ جنت کا حصول اللہ تعالیٰ کے فضل کے بغیر ممکن نہیں۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ جس پر چاہتا ہے فضل فرماتا ہے وہ بڑے فضل والاہے۔ تفسیر بالقرآن جنت اور بخشش کے لیے ایک دوسرے سے آگے بڑھنا چاہیے : ١۔ اللہ کی مغفرت اور جنت کی کوشش کرو۔ (الحدید : ٢١) ٢۔ نیکی کے حصول میں جلدی کرو۔ (البقرۃ: ١٤٨) ٣۔ نیکیوں میں سبقت کرنے والے سب سے اعلیٰ ہوں گے۔ (فاطر : ٣٢) (الواقعہ : ١٠، ١١) الحديد
22 فہم القرآن ربط کلام : جنت کا حصول مشکلات کا سامنا کیے بغیر ممکن نہیں اس لیے مشکلات کی حقیقت کا ذکر کیا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو حقیقت حال بتانے اور اسے تسلی دینے کے لیے ارشاد فرمایا ہے کہ تم پر اور زمین پر کوئی مصیبت نازل نہیں ہوتی مگر ” اللہ“ ہی اسے بھیجنے والا ہے۔ جسے اس نے اپنے ہاں لوح محفوظ پر ثبت کر رکھا ہے۔ مصیبت نازل کرنا اور اسے ٹالنا صرف اور صرف ” اللہ“ کے اختیار میں ہے اور اس نے انسان کی تخلیق سے پہلے اس کے مقدر میں لکھ رکھا ہے۔ مصیبت نازل کرنا اور اس کو ٹالنا اللہ تعالیٰ کے لیے مشکل نہیں اس کے لیے کسی کام کو مشکل خیال کرنا ہی بہت بڑا کفر ہے۔ کسی کو مصیبت میں مبتلا کرنے میں ایک حکمت یہ ہے کہ جو تم سے کھو جائے اس پر حد سے زیادہ غم نہ کرو اور جو تمہیں عطا کیا جائے اس پر فخر وغرور نہ کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ فخرو غرور کرنے والے کو پسند نہیں کرتا۔ (وَ لَنَبْلُوَنَّکُمْ بِشَیْءٍ مِّنَ الْخَوْفَِ والْجُوْعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَ الْاَنْفُسِ وَ الثَّمَرٰتِ وَ بَشِّرِ الصّٰبِرِیْنَ الَّذِیْنَ اِذَآ اَصَابَتْہُمْ مُّصِیْبَۃٌ قَالُوْ ٓا اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّآ اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ) (البقرۃ: ١٥٥، ١٥٦) ” اور ہم ضرور تمہاری آزمائش کریں گے دشمن کے ڈر، بھوک، مال و جان اور پھلوں کی کمی سے، ان صبر کرنے والوں کو خوش خبری دیجئے۔ انہیں کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو کہتے ہیں کہ یقیناً ہم تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہیں اور بلاسبہ ہم اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں۔“ (وَعَنْھَا قَالَتْ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَا مِنْ مُّسْلِمٍ تُصِےْبُہُ مُصِےْبَۃٌ فَےَقُوْلُ مَا اَمَرَہُ اللّٰہُ بِہٖ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَےْہِ رَاجِعُوْنَ ” اَللّٰھُمَّ اْجُرْنِیْ فِیْ مُصِےْبَتِیْ وَاَخْلِفْ لِیْ خَےْرًا مِّنْھَا“ اِلَّا اَخْلِفَ اللّٰہُ لَہُ خَےْرًا مِّنْھَا فَلَمَّا مَاتَ اَبُوْ سَلَمَۃَ قُلْتُ اَیُّ الْمُسْلِمِےْنَ خَےْرٌ مِّنْ اَبِیْ سَلَمَۃَ اَوَّلُ بَےْتٍ ھَاجَرَ اِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ثُمَّ اِنِّیْ قُلْتُھَا فَاَخْلَفَ اللّٰہُ لِیْ رَسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (رواہ مسلم : باب ما یقال عند المصیبۃ) حضرت ام سلمہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جو مسلمان کسی مصیبت میں مبتلا ہو تو وہ وہی کلمے کہے جن کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے ” بلاشبہ ہم اللہ تعالیٰ کے لیے ہیں آخراسی کی طرف جانے والے ہیں، بارِالہا! میری اس مصیبت میں مجھے اجر سے نواز اور مجھے نعم البدل عطا فرما اللہ تعالیٰ اسے اس سے بہتر بدلہ عطا کرے گا۔ آپ (رض) فرماتی ہیں جب میرے خاوند ابوسلمہ (رض) فوت ہوگئے تو میں نے سوچا کہ ابوسلمہ سے اچھا خاوند مسلمانوں میں کون ہوگا؟ یہ پہلا گھرانہ ہے جس نے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ ہجرت کی۔ اس سوچ کے باوجود میں یہ دعا پڑھتی رہی۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے ان کے بدلے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عطا فرما دئیے۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ کے اِ ذن کے بغیر کوئی مصیبت نازل نہیں ہوتی۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے ہر بات لوح محفوظ پر لکھ رکھی ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ کے لیے ہر کام آسان ہے۔ ٤۔ مصیبت آنے پرواویلا اور بے صبری کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے۔ ٥۔ نعمت ملنے پر فخروغرور نہیں کرنا چاہیے۔ ٦۔ اللہ تعالیٰ فخروغرور کرنے والے کو پسند نہیں کرتا۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ فخر وغرور کرنے والے کو پسند نہیں کرتا : ١۔ اللہ تکبر کرنے اور فخر کرنے والے کو پسند نہیں کرتا۔ (لقمان : ١٨) ٢۔ جو ” اللہ“ نے تمہیں عطا کیا ہے، اس پر اتراؤ نہیں کیونکہ اللہ فخر کرنے والے کو پسند نہیں کرتا۔ (الحدید : ٢٣) ٣۔ یقیناً اللہ تکبر کرنے والے اور فخر کرنے والے کو پسند نہیں کرتا۔ (النساء : ٣٦) ٤۔ زمین میں اکڑ کر نہ چل! نہ تو زمین کو پھاڑ سکتا ہے اور نہ پہاڑوں کی بلندیوں کو پہنچ سکتا ہے۔ (بنی اسرائیل : ٣٧) ٥۔ آخرت کا گھر ان لوگوں کے لیے تیار کیا گیا ہے جودنیا میں تکبر وفساد نہیں کرتے۔ (القصص : ٨٣) الحديد
23 الحديد
24 فہم القرآن ربط کلام : جو لوگ کوئی چیز کھو بیٹھنے پر حد سے زیادہ افسوس کرتے ہیں اور جب انہیں کچھ میسر آتا ہے تو اس پر اتراتے ہیں ایسے لوگوں کی اکثریت بخل میں مبتلا ہوا کرتی ہے۔ اس لیے یہاں بخل کی مذمت کی گئی ہے۔ مال کے چھن جانے پر حد سے زیادہ دل گرفتہ ہونا اور اس کے حاصل ہونے پر اپنے آپ سے باہر ہوجانا اخلاقی کمزوریاں ہیں، ان کمزوریوں میں ایک کمزوری بخل ہے جس کا پہلا تعلق دل کے ساتھ ہوتا ہے دل میں استغنٰی اور اللہ پر توکل ختم ہوجائے تو آدمی نہ صرف خود بخل کا شکار ہوتا ہے بلکہ دوسروں کو بھی اچھے کاموں پر خرچ کرتے ہوئے دیکھ نہیں سکتا۔ یہاں تک اس کا بس چلتا ہے وہ عزیز واقارب اور اپنے احباب کو صدقہ کرنے سے روکتا ہے کیونکہ وہ اسے مال ضائع کرنے کے مترادف سمجھتا ہے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دور میں منافقوں کی یہی حالت تھی۔ منافق نہ صرف خود صدقہ نہیں کرتے تھے بلکہ اپنے گردوپیش کے لوگوں کو صدقہ کرنے سے روکتے تھے۔ اس کے کچھ منفی اثرات نئے مسلمانوں پر پڑ رہے تھے جس پر یہ فرمان نازل ہوا کہ جو لوگ بخل کرتے ہیں اور دوسروں کو صدقہ کرنے سے روکتے ہیں یا ان کے لیے بخل کا ماحول پیدا کرتے ہیں انہیں صدقہ کرنے کا حکم دیا جاتا ہے تو استطاعت رکھنے کے باوجود خرچ نہیں کرتے ان کا انجام برا ہوگا۔ (وَ لَا یَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ یَبْخَلُوْنَ بِمَآ اٰتٰہُمُ اللّٰہُ مِنْ فَضْلِہٖ ہُوَ خَیْرًا لَّہُمْ بَلْ ہُوَ شَرٌّ لَّہُمْ سَیُطَوَّقُوْنَ مَا بَخِلُوْا بِہٖ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ وَ لِلّٰہِ مِیْرَاث السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ اللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرٌ) (آل عمران : ١٨٠) ” جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے کچھ دے رکھا ہے وہ اپنے لیے بخل کو بہتر نہ سمجھیں بلکہ بخل کرنا ان کے لیے برا ہے عنقریب قیامت کے دن بخل والی چیز ان کے گلے میں ڈال دی جائے گی۔ اللہ ہی کے لیے آسمانوں اور زمین کی ملکیت ہے اور جو کچھ تم کر رہے ہو اس سے اللہ تعالیٰ باخبر ہے۔“ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ ضَرَبَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَثَلَ الْبَخِیْلِ وَالْمُتَصَدِّقِ کَمَثَلِ رَجُلَیْنِ عَلَیْھِمَا جُبَّتَانِ مِنْ حَدِیْدٍ قَدِ اضْطُرَّتْ أَیْدِیْھِمَا إِلٰی ثَدِیِّھِمَا وَتَرَاقِیْھِمَا فَجَعَلَ الْمُتَصَدِّقُ کُلَّمَا تَصَدَّقَ بِصَدَقَۃٍ انْبَسَطَتْ عَنْہُ حَتّٰی تَغْشٰی أَنَامِلَہٗ وََتَعْفُوَ أَثَرَہٗ وَجَعَلَ الْبَخِِیْلُ کُلَّمَا ھَمَّ بِصَدَقَۃٍ قَلَصَتْ وَأَخَذَتْ کُلُّ حَلْقَۃٍ بِمَکَانِھَا قَالَ أَبُوْ ھُرَیْرَۃَ (رض) فَأَنَا رَأَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَقُوْلُ بِإِصْبَعِہٖ ھٰکَذَا فِیْ جَیْبِہٖ فَلَوْ رَأَیْتَہٗ یُوَسِّعُھَا وَلَا تَتَوَسَّعُ) (رواہ البخاری : کتاب اللباس، باب جیب القمیص من عند الصدر وغیرہ) ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بخیل اور صدقہ دینے والے کی مثال بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ اس کی مثال دو آدمیوں کی طرح ہے جو ہاتھ، سینے اور گلے تک لوہے کی قمیض پہنے ہوئے ہوں۔ صدقہ دینے والا صدقہ کرتا ہے تو اس کی قمیض کشادہ ہوجاتی ہے اور وہ اس کی انگلیوں تک بڑھ جاتی ہے اور اس کے قدموں کو ڈھانپ لیتی ہے۔ جب بخیل صدقہ کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو اس کی قمیض اس سے چمٹ جاتی ہے یہاں تک ہر حلقہ اپنی جگہ پر کس جاتا ہے۔ حضرت ابوہریرہ (رض) نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیکھا آپ اپنی انگلیوں سے اپنے گریبان کی طرف اشارہ کر رہے تھے کہ تم دیکھو گے کہ وہ اس کو کھولنا چاہے گا لیکن وہ نہیں کھلے گی۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ غنی اور صاحب تعریف ہے۔ ٢۔ کچھ لوگ خود بخیل ہونے کے ساتھ دوسروں کو بھی بخل پر آمادہ کرتے ہیں۔ ٣۔ جو شخص استطاعت رکھنے کے باوجود اللہ کی راہ ہیں مال خرچ نہیں کرتا اللہ تعالیٰ کو اس کی کوئی پرواہ نہیں ہوتی۔ تفسیر بالقرآن بخل کی سزا : ١۔ خزانے جمع کرنے والوں کو عذاب کی خوشخبری دیجئے۔ (التوبہ : ٣٤) ٢۔ بخیل اپنا مال ہمیشہ باقی نہیں رکھ سکتا۔ (لہمزہ : ٣) ٣۔ بخیل کے مال کے ذریعے ہی اسے سزادی جائے گی۔ (التوبہ : ٣٥) ٤۔ مالدار اپنے لیے بخل کو اچھا خیال کرتے ہیں حالانکہ بخل کرنا ان کے لیے برا ہے۔ (آل عمران : ١٨٠) الحديد
25 فہم القرآن ربط کلام : ” اللہ“ غنی ہے، وہی لوگوں کو سب کچھ عطا کرنے والا ہے یہ اس کی سب سے بڑی عطا ہے کہ اس نے لوگوں کی ہدایت کے لیے انبیاء مبعوث فرمائے۔ ان آیات کا پس منظر یہ ہے کہ غزوہ تبوک تمام غزوات سے مشکل ترین غزوہ تھا۔ سفر کے مسائل اور دشمن کے ساتھ مقابلے کرنے مزید یہ کہ عرب کی گرمی اپنی انتہا پر تھی اور لوگوں کی فصلیں پکی ہوئی تھیں ان حالات میں نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ کو تبوک کے لیے تیاری کا حکم دیا۔ اس موقعہ پر منافقین نے اپنے رشتہ دار مخلص مسلمانوں کو ناصرف تبوک کی طرف جانے سے روکا بلکہ انہیں مال خرچ کرنے سے بھی منع کیا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ فرمان نازل فرمایا کہ یقیناً ہم نے رسولوں کو ٹھوس اور واضح دلائل کے ساتھ بھیجا اور ان پر کتابیں نازل کیں اور ایک میزان اتاری تاکہ وہ لوگوں کے درمیان عدل کے ساتھ فیصلہ کریں اور ہم نے لوہا بھی اتارا جو سخت ترین چیز ہے اس میں لوگوں کے لیے فائدے رکھ دیئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے البینات، الکتاب، المیزان اور لوہا اس لیے نازل کیا تاکہ وہ لوگوں کو آزمائے اور دیکھے کہ کون بن دیکھے اپنے رب پر ایمان لاتا ہے اور اس کے رسولوں کی مدد کرتا ہے، لوگوں کو اس بات پر ایمان ہونا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ پوری قوت رکھنے والا اور ہر اعتبار سے اپنا حکم نافذ کرنے پر غالب ہے۔ اس فرمان میں اللہ تعالیٰ نے چار چیزوں کا ذکر فرمایا ہے۔ اَلْبَیِّنَاتِ : اَلْبَیِّنَاتِ سے مراد معجزات ہیں جو اہم اور نازک ترین موقعہ پر انبیائے کرام (علیہ السلام) کو عطا کیے گئے تھے۔ معجزات سے ایک طرف نبی کو سکون اور ڈھارس حاصل ہوتی تھی اور دوسری طرف آپ کے مخالفین لاجواب ہوجایا کرتے تھے۔ جس طرح ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے وقت کے حکمران کو فرمایا کہ اگر تو واقعی ہی رب ہے تو سورج کو مشرق کی بجائے مغرب سے طلوع کر دے اس پر وہ حکمران حیران اور ششدر رہ گیا۔ (البقرۃ: ٢٥٨) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے مقابلے میں فرعون اور جادوگر ناکام ہوئے۔ حضرت مریم ( علیہ السلام) پر الزام لگا تو عیسیٰ ( علیہ السلام) کی گفتگو سے مخالفوں کی زبانیں گنگ ہوگئیں۔ نبی آخر الزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہر موقعہ پر دلائل اور معجزات کی بنیاد پر کفار اور یہود ونصارٰی کو لاجواب کردیا۔ اَلْکِتَابَ: اللہ تعالیٰ نے انبیائے کرام (علیہ السلام) پر اس لیے کتابیں نازل فرمائیں تاکہ ان کی تعلیمات کی روشنی میں حق کو حق اور باطل کو باطل ثابت کردیں اور لوگوں کو ہر قسم کی تاریکیوں سے نکال کر ایمان اور علم کی روشنی میں لاکھڑا کریں۔ اسی لیے قرآن مجید کو الفرقان کہا گیا ہے اس کے ذریعے دنیا میں شرک اور توحید، عدل اور ظلم کے درمیان امتیاز قائم ہوا۔ اَلْمِیْزَانَ: سورہ الشوریٰ کی آیت ١٧ کی تفسیر کرتے ہوئے اَلْمِیْزَانَ کے بارے میں سورۃ الرحمن میں عرض ہوچکا ہے۔ اَلْمِیْزَانَکا لفظ قرآن مجید میں ٩ مرتبہ استعمال ہوا ہے۔ ارشاد ہوا کہ ہم نے ایک میزان نازل فرمایا ہے۔ ” اَلْمِیْزَانُ“ کے بارے میں اہل علم کے چار قسم کے خیالات ہیں جو اپنی اپنی تشریح کے مطابق حق پر مبنی ہیں۔1” اَلْمِیْزَانُ“ درحقیقت الکتاب کے لفظ کی تشریح ہے۔ 2 ” اَلْمِیْزَانُ“ سے مراد قرآن وسنت کی تعلیم ہے جس کے ذریعے انسان حق وباطل کے درمیان فرق کرتا ہے۔ 3” اَلْمِیْزَانُ“ سے مراد عقل سلیم ہے جس کی روشنی میں آدمی حق اور ناحق کی پہچان کرتا ہے۔ 4 ” اَلْمِیْزَانُ“ سے مراد دنیا کی کسی چیز کی پیمائش یا وزن کرنے کا وہ پیمانہ ہے جس کے ذریعے لوگ اپنا لین دین کرتے ہیں۔ جن آیات میں ” اَلْمِیْزَانُ“ کا لفظ ہے وہ درج ذیل ہیں۔ (الانعام : ١٥٢، الاعراف : ٨٥، ھود : ٨٤، ٨٥، الشوریٰ: ١٧، الرحمن : ٧، ٨، ٩، الحدید : ٢٥) ١۔” اَلْمِیْزَانُ“ اللہ تعالیٰ نے اس لیے نازل فرمایا تاکہ لوگوں کے درمیان ہر قسم کا عدل قائم کیا جائے اور لوگ ایک دوسرے پر زیادتی کرنے سے بچ جائیں اور ان کے درمیان عدل وانصاف کا اجتماعی نظام قائم ہوپائے۔ اَلْحَدِیْدَ: الحدید کا ذکر کرتے ہوئے انزلنا کے الفاظ استعمال کیے ہیں۔ اس لفظ کی وضاحت کرتے ہوئے بیان ہوچکا ہے کہ انزل کے دو معانی ہیں۔ ١۔ انزل کا معنٰی پیدا کرنا۔ ٢۔ انزل بمعنٰی اتارنا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے الحدید کے بارے میں فرمایا ہے کہ یہ جنگ کے دوران قوت کا باعث ہے۔ لوگوں کے لیے اس میں اور بھی فائدے رکھ دیئے گئے ہیں۔ اَلْبَیَّنَاتِ، اَلْکِتَابَ، اَلْمِیْزَان اور اَلْحَدِیْدَ لوگوں کو اس لیے عطا کیے گئے ہیں تاکہ لوگوں کو اللہ تعالیٰ آزمائے اور دیکھے کہ کون اپنے رب کو دیکھے بغیر اس پر ایمان لاتا ہے اس کی اور رسولوں کی مدد کرتا ہے۔ اللہ کی مدد کرنے سے مراد اس کے دین کی مدد کرنا ہے۔ اس کا فرمان ہے اے ایمان والو! اگر تم اللہ کی مدد کرو گے تو وہ تمہاری مدد کرے گا اور کفار کے مقابلے میں تمہیں ثابت قدم فرمائے گا۔ کفار کے لیے ہلاکت اور ان کے اعمال کی بربادی ہے۔ (محمد : ٧، ٨) یہاں تک لوہے کی حیثیت اور اس کے فوائد کا تعلق ہے اس کے اَن گنت اور لاتعداد فوائد ہیں۔ تیر سے لے کر ایٹم بم اور سائیکل سے لے کر ہوائی جہاز لوہے کے بغیر تیار نہیں ہو سکتے۔ ارشاد ہوا کہ ” اللہ“ جاننا چاہتا ہے یعنی واضح کرنا چاہتا ہے کہ کون اللہ اور اس کے رسول کی مدد کرتا اور غیب پر ایمان لاتا ہے۔ غیب پر ایمان لانے کا ذکر فرما کر اشارہ دیا ہے کہ وہ دیکھنا چاہتا ہے کہ اسلحہ کے لحاظ سے جس فرد یا قوم کو دوسرے پر برتری حاصل ہو۔ وہ دوسرے کے ساتھ عدل کرتی ہے یا ظلم کر کرتی ہے لوہے کا ذکر فرما کر مسلمانوں کو اشارۃً سمجھایا کہ اگر اللہ اور اس کے رسول اور اپنے دشمن پر برتری چاہتے ہو تو حالات کے مطابق لوہے کے استعمال کا طریقہ سیکھو۔ (عُقْبَۃَ بْنَ عَامِرٍ یَقُولُ سَمِعْتُ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وَہُوَ عَلَی الْمِنْبَرِ یَقُولُ وَأَعِدُّوا لَہُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ مِنْ قُوَّۃٍ أَلاَ إِنَّ الْقُوَّۃَ الرَّمْیُ أَلاَ إِنَّ الْقُوَّۃَ الرَّمْیُ أَلاَ إِنَّ الْقُوَّۃَ الرَّمْیُ) (رواہ مسلم : باب فضل الرمی) ” حضرت عقبہ بن عامر (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا آپ منبر پر فرمارہے تھے کہ اپنے استطاعت کے مطابق جہاد کے لیے تیار رہو۔ جان لو ! کہ قوت تیراندازی میں ہے، خبردار! تیر میں ہے۔ جان رکھو! قوت تیراندازی میں ہے۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے انبیائے کرام (علیہ السلام) کوٹھوس دلائل، الکتاب، المیزان اور لوہا عطا فرمایا۔ ٢۔ جنگ میں لوہے کی بڑی اہمیت ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ نے لوہے میں بے شمار فوائد رکھے ہیں۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ جاننا چاہتا ہے کہ کون غیب پر ایمان لاتے ہوئے اس کے دین اور رسول کی مدد کرتا ہے۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ بڑا طاقت ور اور ہر اعتبار سے غالب ہے۔ تفسیربالقرآن اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولوں کی کس طرح مدد فرمائی : ١۔ اللہ تعالیٰ نے غار ثور میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مدد فرمائی۔ (التوبہ : ٤٠) ٢۔ ابرہہ کے مقابلے میں بیت اللہ کا تحفظ فرمایا۔ (الفیل) ٣۔ غزوہ خندق میں اللہ تعالیٰ نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ (رض) کی مدد فرمائی۔ ( الاحزاب : ٩) (آل عمران : ١٢٣) (القصص : ٥) (التوبہ : ٢٥) (آل عمران : ١٢٦) ( النصر : ١) (الروم : ٥) الحديد
26 فہم القرآن ر بط کلام : اللہ تعالیٰ نے جتنے رسول مبعوث فرمائے ان کی بعثت کا مقصد لوگوں کے القسط قائم کرنا تھا۔ القسط سے پہلی مراد ” اللہ“ کی توحید کا اقرار اور اس کے تقاضے پورے کرنا، رسولوں میں نمایاں ترین رسول حضرت نوح اور ابراہیم (علیہ السلام) ہیں۔ حضرت نوح (علیہ السلام) آدم ثانی ہیں اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ابوالانبیاء کے نام سے یاد کیے جاتے ہیں۔ حضرت آدم (علیہ السلام) کے بعد نبی آخر الزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پہلے جو رسول مبعوث کیے گئے ان میں ہمہ جہت صفات کے اعتبار سے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور تبلیغ کے دورانیہ کے حوالے سے حضرت نوح (علیہ السلام) سب سے ممتاز ہیں۔ حضرت نوح (علیہ السلام) ساڑھے نو سو سال اپنی قوم کو سمجھاتے رہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ہم نے نوح (علیہ السلام) کو اس کی قوم کے لیے مبعوث کیا۔ حضرت نوح (علیہ السلام) انھیں ساڑھے نو سو سال سمجھاتے رہے، قوم نے سمجھنے کی بجائے نوح (علیہ السلام) کو بار بار یہ کہا کہ ہم تیرے کہنے پر ود، سواع، یغوث، یعوق اور نسر کو نہیں چھوڑ سکتے۔ (نوح : ٢٤) یاد رہے یہ اس قوم کے سب سے بڑے بت تھے۔ یہ قوم کے فوت شدہ بزرگوں کے تخیلاتی مجسمے تھے جو انہوں نے اپنے فوت شدہ بزرگوں کی یاد میں بنائے ہوئے تھے۔ قوم نے نوح (علیہ السلام) کو یہ بھی دھمکی دی کہ اگر تو باز نہ آیا تو ہم تجھے پتھر مار مار کر مار ڈالیں گے۔ (الشعراء : ١١٦) اس کے ساتھ ہی یہ کہنے لگے کہ اے نوح ! تیرے اور ہمارے درمیان جھگڑا طول پکڑ گیا ہے اس لیے جس عذاب کا تو ہم سے وعدہ کرتا ہے اسے لے آؤ اگر تو وا قعی ہی سچاہے۔ (ہود : ٣٢) تب جا کر اللہ تعالیٰ نے ظالموں پر گرفت فرمائی اور انھیں ڈبکیاں دے دے کر غرق کیا۔ البتہ حضرت نوح (علیہ السلام) اور ان کے ساتھیوں کو ایک کشتی کے ذریعے بچا لیا اور ڈوبنے والوں کو آنے ولوں کے لیے عبرت کا نشان بنا دیا گیا۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کے بعد حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سب سے نمایاں ہیں خاندان نبوت میں انہیں ابوالانبیاء کا اعزاز اور مقام حاصل ہے کیونکہ ابراہیم (علیہ السلام) کے بعد جتنے بھی انبیاء مبعوث کیے گئے ان کی غالب اکثریت ابراہیم کی نسل کے ساتھ تعلق رکھتی ہے۔ ابراہیم (علیہ السلام) کے دوبیٹے تھے جن میں اسماعیل بڑے اور اسحاق ( علیہ السلام) چھوٹے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کی نسل سے صرف اور صرف نبی آخر الزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مبعوث فرمایا۔ بنی اسرائیل کے باقی انبیائے کرام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت اسحاق (علیہ السلام) کی نسل سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس حوالے سے ابراہیم ابوالانبیاء کے شرف سے مشرف ہوئے۔ ان کی اولاد میں اللہ تعالیٰ نے انبیائے کرام (علیہ السلام) کا سلسلہ جاری فرمایا جن میں کچھ انبیائے کرام (علیہ السلام) کو آسمانی کتب سے سرفراز کیا گیا، باقی اپنے سے پہلے نبی کی تائید کرتے رہے ان انبیاء کی اولاد یعنی نسل میں کچھ لوگ ہدایت یافتہ تھے لیکن ان کی اکثریت نافرمانوں پر مشتمل تھی۔ نبی سے پہلے عیسیٰ (علیہ السلام) مبعوث کیے گئے جو بنی اسرائیل کے لیے مبعوث کیے گئے تھے۔ ان کے عظیم معجزات دیکھنے کے باوجود بنی اسرائیل کی غالب اکثریت نافرمان رہی اور آج بھی ان کی غالب اکثریت اپنے رب کی نافرمان اور نبی آخر الزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات اور رسالت کے منکر ہیں۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو نبوت عطا فرمائی۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی اولاد میں سے کچھ شخصیات کو نبوت اور کتاب سے سرفراز فرمایا۔ ٣۔ حضرت نوح اور ابراہیم (علیہ السلام) کی نسل میں نیک لوگ بھی تھے اور نافرمان بھی۔ تفسیر بالقرآن حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی اولاد میں چند شخصیات کے اسماء گرام جن کو نبوت اور کتاب عطا کی گئی : ١۔ ہم نے ابراہیم کو اسحق و یعقوب عطا کیے اور ہم نے ان کو نبوت عطا کی۔ (العنکبوت : ٢٧) ٢۔ حضرت اسحاق و یعقوب (علیہ السلام) اللہ کے منتخب کردہ نبی ہیں۔ (ص : ٤٥ تا ٤٧) ٣۔ ہم نے اسحاق اور یعقوب (علیہ السلام) کو ہدایت سے نوازا۔ ( الانعام : ٨٤) ٤۔ ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو آیات دے کر بھیجا تاکہ وہ اپنی قوم کے لوگوں کو اندھیروں سے روشنی کی طرف لائیں۔ (ابراہیم : ٥) ٥۔ اللہ تعالیٰ نے اسماعیل، یسع، یونس اور لوط ( علیہ السلام) کو جہاں والوں پر فضیلت دی۔ (الانعام : ٨٦) ٦۔ حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے بعد ان کے بیٹے حضرت یوسف کو نبی بنایا گیا۔ ( یوسف : ٢٢) ٧۔ حضرت داؤد کے بعد ان کے بیٹے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو نبی بنایا۔ ( النمل : ١٦) ٨۔ فرشتوں نے زکریا (علیہ السلام) سے کہا اللہ تجھے یحییٰ کی بشارت دیتا ہے جو نیکو کار اور پیغمبروں میں سے ہوں گے۔ (آل عمران : ٣٩) ٩۔ حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں۔ ( الفتح : ٢٩) الحديد
27 فہم القرآن ربط کلام : حضرت نوح اور حضرت ابراہیم کے بعد عیسیٰ (علیہ السلام) کی تشریف آوری اور ان کی بعثت کا مقصد۔ اللہ تعالیٰ نے نوح اور ابراہیم (علیہ السلام) کے بعد وقفے وقفے کے بعد بے شمار انبیائے کرام (علیہ السلام) مبعوث فرمائے۔ ان کے آخر اور حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پہلے حضرت عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) کو مبعوث فرمایا اور انہیں انجیل کے ساتھ بڑے بڑے معجزات عطا فرمائے جن لوگوں نے عیسیٰ ( علیہ السلام) کی اتباع کی اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں میں نرمی اور شفقت پیدا فرمادی۔ عیسائیوں نے از خود اپنے لیے رہبانیت ایجاد کرلی حالانکہ اللہ تعالیٰ نے اسے ان پر لازم قرار نہیں دیا تھا۔ انہوں نے اسے اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لیے اپنے آپ پر فرض کرلیا جس کا وہ حق ادا نہ کرسکے۔ جس طرح انہیں حق ادا کرنا چاہیے تھا۔ ان میں جو لوگ ایمان لائے اللہ تعالیٰ نے انہیں اجر سے سرفراز فرمایا لیکن ان کی اکثریت نافرمان تھی۔ رہبانیت کا مادہ رہب ہے جس کا معنٰی خوف ہے۔ ” رَہبانیّت“ کا مطلب ہے مسلک خوفزدگی اور ” رُہبانیّت“ کا معنٰی مسلک خوفزدگان ہے۔ اصطلاحاً اس سے مراد کسی شخص کا خوف کی بنا پر تارک الدنیا بن جانا اور دنیوی زندگی سے الگ تھلگ ہونا ہے۔ رَأْفَۃً کا معنٰی : عربی ڈکشنری کے لحاظ سے ” رَأْفَۃً“ کا معنٰی دوسرے کی تکلیف دیکھ کر تڑپ جانا اور رحمت کا معنٰی شفقت اور کسی دوسرے کی مدد کرنا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کو نہایت ہی مشفق اور نرم دل پیدا فرمایا۔ اس وقت کا تقاضا تھا کہ لوگوں کے ساتھ شفقت اور مہربانی کی جائے کیونکہ یہودیوں نے اللہ تعالیٰ کی بار بار نافرمانی کرکے اپنے لیے سختیاں پیدا کرلی تھیں، اس سختی کے خاتمے کے لیے شریعت عیسوی میں نرمی اور شفقت کا پہلو غالب رکھا گیا۔ اسی وجہ سے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے امتی کو یہ تعلیم اور تلقین کی کہ اگر تیرے چہرے پر کوئی تھپڑ مارے تو تجھے بدلہ لینے کی بجائے اپنے چہرے کا دوسرا رخ اس کے سامنے کردینا چاہیے تاکہ وہ شرمندہ ہوجائے۔ اسی تعلیم کا اثر تھا اور ہے کہ عیسائیوں میں اپنے آپ کو نصاریٰ کہلوانے والے مسلمانوں کے بارے میں نسبتاً نرم گوشہ رکھتے ہیں جس کا ذکر یوں کیا گیا ہے۔ (لَتَجِدَنَّ اَشَدَّ النَّاسِ عَدَاوَۃً لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوا الْیَہُوْدَ وَ الَّذِیْنَ اَشْرَکُوْا وَ لَتَجِدَنَّ اَقْرَبَہُمْ مَّوَدَّۃً لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوا الَّذِیْنَ قَالُوْٓا اِنَّا نَصٰرٰی ذٰلِکَ بِاَنَّ مِنْہُمْ قِسِّیْسِیْنَ وَ رُہْبَانًا وَّ اَنَّہُمْ لَا یَسْتَکْبِرُوْنَ) (المائدۃ: ٨٢) ” یقیناً آپ ایمان داروں کے ساتھ سب لوگوں سے زیادہ عداوت رکھنے والے یہود کو اور ان لوگوں کو پائیں گے جو شرک کرتے ہیں اور یقیناً آپ ایمانداروں کے ساتھ دوستی میں ان کو قریب پائیں گے جو اپنے آپ کو نصاریٰ کہتے ہیں کیونکہ ان میں عالم اور راہب ہیں جو تکبر نہیں کرتے۔“ رہبانیت : حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کے بعد عیسائیوں نے اللہ تعالیٰ کی قربت چاہنے کے لیے رہبانیت اختیار کرلی حالانکہ ان پر فرض نہیں کی گئی تھی۔ رہبانیت کو اپنے آپ پر فرض قرار دینے کے باوجود اس کے تقاضے پورے نہ کرسکے۔ رہبانیت اختیار کرنے والوں کی غالب اکثریت نے اپنے آپ پر کچھ حلال چیزوں کو حرام کرلیا اور کچھ حرام چیزوں کو جائز قرار دیا۔ جس طرح ہمارے ہاں صوفیائے کرام نے تصوف اختیار کرنے کے بعد طریقت کے نام پر اپنے طور پر کچھ باتوں کو حلال سمجھا اور کچھ کو اپنے لیے حرام قرار دیا۔ شادی سے اجتناب کرنا : رہبانیت اختیار کرنے کی وجہ سے جو لوگ پاد ری اور پوپ بنے انہوں نے اپنے آپ پر یہ پابندی لگا لی کہ وہ زندگی بھر کسی عورت سے نکاح نہیں کریں گے۔ اسی اصول کے پیش نظر آج بھی شادی کرنے والا شخص پادری، پوپ اور بشپ نہیں بن سکتا۔ اس پابندی کے باوجود شروع سے لے کر آج تک اس منصب پر فائز ہونے والے پادری اور پوپ اخلاقی جرائم کے مرتکب ہوئے یہاں تک کہ ان کے بارے میں لواطت زدگی کے سکینڈل بھی زبانِ زد عام ہوتے رہے ہیں۔ دین اسلام اور حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کی شریعت میں رہبانیت کی کوئی گنجائش نہیں۔ نبی آخرالزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کھلے الفاظ میں اس سے منع کیا ہے۔ (عَنْ أَنَسٍ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ إِنَّ لِکُلِّ أَمَۃٍ رَہْبَانِیَّۃًوَرَہْبَانِیَّۃُ ہَذِہِ الْأُمَّۃِ الْجِہَادُ فِی سَبِیل اللہِ) (رواہ البیہقی فی شعب الایمان : باب الجھاد) ” حضرت انس (رض) نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہر امت کے لیے رہبانیت کا ایک انداز تھا میری امت کی رہبانیت اللہ کے راستے میں جہاد کرنا ہے۔“ بدعت کی مذّمت : جو کام قرآن وسنت سے ثابت نہیں اسے دین اور ثواب سمجھ کر کرنا بدعت ہے بے شک وہ کام کتنا ہی اچھا دکھائی کیوں دیتاہو۔ ہر بدعت گمراہی اور ہر گمراہی جہنم میں داخل کرنے والی ہے کیونکہ بدعتی شخص عملاً اور اعتقاداً دین کو نامکمل سمجھتا ہے اس لیے نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خطبہ جمعہ کی ابتدا میں یہ الفاظ ارشاد فرمایا کرتے تھے۔ (عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ (رض) قَالَ کَانَ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) إِذَا خَطَبَ۔۔ یقول أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّ خَیْرَ الْحَدِیثِ کِتَاب اللّٰہِ وَخَیْرُ الْہُدَی ہُدَی مُحَمَّدٍ وَشَرُّ الْأُمُورِ مُحْدَثَاتُہَا وَکُلُّ بِدْعَۃٍ ضَلَالَۃٍ) ( رواہ مسلم : کتاب الجمعۃ، باب تخفیف الصلاۃ) ” حضرت جابر بن عبداللہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب بھی خطبہ دیتے تو ارشاد فرماتے۔۔۔ بلاشبہ سب سے بہترین کلام اللہ کی کتاب ہے اور ہدایت کا بہترین راستہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ہے اور برے کاموں میں سے بدترین کام بدعت ایجاد کرنا ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے۔“ (عَنْ عَاءِشَۃَ (رض) قَالَتْ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَنْ اَحْدَثَ فِیْ اَمْرِنَا ھٰذَا مَا لَےْسَ مِنْہُ فَھُوَ رَدٌّ) (رواہ مسلم : باب نَقْضِ الأَحْکَامِ الْبَاطِلَۃِ وَرَدِّ مُحْدَثَاتِ الأُمُورِ) ” حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس نے ہمارے دین میں نئی بات ایجاد کی جو دین میں نہیں ہے وہ ٹھکرا دی جائے گی۔“ (عَنْ حُذَیْفَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لاَ یَقْبَلُ اللَّہُ لِصَاحِبِ بِدْعَۃٍ صَوْمًا وَلاَ صَلاَۃً وَلاَ صَدَقَۃً وَلاَ حَجًّا وَلاَ عُمْرَۃً وَلاَ جِہَادًا وَلاَ صَرْفًا وَلاَ عَدْلاً یَخْرُجُ مِنَ الإِسْلاَمِ کَمَا تَخْرُجُ الشَّعَرَۃُ مِنَ الْعَجِینِ) (رواہ ابن ماجہ : باب اجْتِنَابِ الْبِدَعِ وَالْجَدَلِ، قال الالبانی صحیح) ” حضرت حذیفہ (رض) سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ تعالیٰ بدعتی آدمی کا روزہ، نماز، حج، عمرہ، جہاد، اور کوئی چھوٹی بڑی نیکی قبول نہیں کرتا۔ ایسا شخص اسلام سے اس طرح نکل جاتا ہے جیسے گوندھے ہوئے آٹے سے بال نکل جاتا ہے۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح (علیہ السلام) اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے بعد انبیائے کرام (علیہ السلام) کی بعثت کا سلسلہ جاری رکھا۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) کو انجیل عطا فرمائی۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ نے عیسیٰ ( علیہ السلام) کے سچے پیروکاروں میں مسلمانوں کے بارے میں نرمی رکھ دی ہے۔ ٤۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے بعد ان کے پیروکاروں نے رہبانیت کی بدعت ایجاد کی۔ ٥۔ نبی آخر الزماں (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت سے پہلے جو لوگ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لائے اور اس کے تقاضے پورے کرتے رہے اللہ تعالیٰ انہیں دوہرا اجر عطا فرمائے گا۔ ٦۔ عیسائیوں کی غالب اکثریت ہمیشہ سے ” اللہ“ اور عیسیٰ (علیہ السلام) کی نافرمان رہی ہے۔ تفسیربالقرآن اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کو انجیل اور معجزات عطا فرمائے : ١۔ مٹی سے پرندہ بنا کر اڑانا، مادر زاد اندھے اور کوڑھی کو باذن اللہ اچھا کرنا۔ ( آل عمران : ٤٩) ٢۔ عیسیٰ (علیہ السلام) کلمۃ اللہ ہیں اور دنیا و آخرت میں عزت پانے والے ہیں۔ (آل عمران : ٤٥) ٣۔ ” اللہ“ نے عیسیٰ ابن مریم کو معجزات سے نوازا اور روح القدس کے ساتھ اس کی مدد فرمائی۔ (البقرۃ: ٨٧) ٤۔ عیسیٰ (علیہ السلام) کا بن باپ کے پیدا ہونا۔ (آل عمران : ٤٧) ٥۔ روح القدس کی تائید حاصل ہونا۔ (البقرۃ: ٢٥٣) ٦۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا زندہ آسمانوں پر اٹھایا جانا۔ (النساء : ١٥٨) ٧۔ پیدائش کے چند دن بعد اپنی نبوت کا اعلان کرنا۔ (مریم : ٣٠) ٨۔ گود میں اپنی والدہ کی براءت کا اعلان کرنا۔ (آل عمران : ٤٧) ٩۔ حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کالوگوں کو انکی کھانے پینے اور ذخیرہ کی ہوئی چیزوں کے بارے مطلع کرنا۔ (آل عمران : ٤٩) الحديد
28 فہم القرآن ربط کلام : بنی اسرائیل کی غالب اکثریت نافرمان ٹھہری۔ اے ایمان والو! تمہیں ” اللہ“ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نافرمانی سے بچنا چاہیے۔ اے ایمان والو! ہر حال میں ” اللہ“ سے ڈرو اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ! ” اللہ“ تمہیں دوگنا اجر عطا فرمائے گا اور تمہارے لیے روشنی پیدا کرے گا جس میں تم زندگی بسر کر وگے اور بتقاضا بشریت جو تم سے غلطیاں ہوں گی انہیں معاف فرمائے گا کیونکہ اللہ تعالیٰ معاف کرنے والا اور مہربان ہے۔ یہاں ایمان داروں کو مخاطب کرتے ہوئے انہیں رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لانے کا حکم دیا گیا ہے۔ اس خطاب کے مفسرین نے دو مفہوم اخذ کیے ہیں۔ ایک جماعت کا خیال ہے کہ ” اٰمِنُوْا“ سے مراد وہ لوگ ہیں جو عیسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لائے تھے اس لیے انہیں اے ایمان والو کہہ کر خطاب کیا معنٰی یہ ہے کہ جس طرح عیسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لائے ہو اسی طرح نبی آخر الزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لاؤ! جس کا اللہ تعالیٰ تمہیں اپنی رحمت سے دوگنا اجر عطا فرمائے گا۔ دوسری جماعت کا خیال ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہاں ان مسلمانوں کو خطاب کیا ہے جو ایمان لانے کے باوجود اس کے تقاضے پورے نہیں کرتے انہیں ارشاد فرمایا ہے کہ اللہ کے رسول پر ایمان لاؤ اور اس کے تقاضے پورے کرو! اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے تمہیں دوگنا اجر عطا فرمائے گا اور تمہاری غلطیاں معاف کرتے ہوئے تمہارے لیے روشنی کا بندوبست کرے گا جس میں تم چلو گے۔ روشنی سے مراد قرآن وسنت کی تعلیم اور خداداد بصیرت ہے جو شخص ایمان کے تقاضے پورے کرتا اور ” اللہ“ سے ڈر کر زندگی بسر کرتا ہے اللہ تعالیٰ اسے خاص بصیرت اور توفیق عطا کرتا ہے جس بنا پر وہ نیکی اور برائی حلال اور حرام، ظلم اور عدل میں تمیز کرتا ہے اسی طرح روشنی میں چل کر وہ اپنی منزل پر پہنچ جاتا ہے۔ (یٰٓا أَ یُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِنْ تَتَّقُوا اللّٰہَ یَجْعَلْ لَّکُمْ فُرْقَانًا وَّ یُکَفِّرْ عَنْکُمْ سَیِّاٰتِکُمْ وَ یَغْفِرْلَکُمْ وَ اللّٰہُ ذُوالْفَضْلِ الْعَظِیْمِ) (الانفال : ٢٩) ” اے لوگوجو ایمان لائے ہو! اگر تم اللہ سے ڈرو گے تو وہ تمہیں حق وباطل میں فرق کرنے کی قوت دے گا اور تم سے تمہاری برائیاں دور کردے گا۔ تمہیں بخش دے گا اور اللہ بہت بڑے فضل والاہے۔“ (عن أَبی بُرْدَۃَ (رض) أَنَّہُ سَمِعَ أَبَاہُ عَنْ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ ثَلَاثَۃٌ یُؤْتَوْنَ أَجْرَہُمْ مَرَّتَیْنِ الرَّجُلُ تَکُونُ لَہُ الْأَمَۃُ فَیُعَلِّمُہَا فَیُحْسِنُ تَعْلِیمَہَا وَیُؤَدِّبُہَا فَیُحْسِنُ أَدَبَہَا ثُمَّ یُعْتِقُہَا فَیَتَزَوَّجُہَا فَلَہُ أَجْرَانِ وَمُؤْمِنُ أَہْلِ الْکِتَابِ الَّذِی کَانَ مُؤْمِنًا ثُمَّ اٰمَنَ بالنَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَلَہُ أَجْرَانِ وَالْعَبْدُ الَّذِی یُؤَدِّی حَقَّ اللّٰہِ وَیَنْصَحُ لِسَیِّدِہِ) (رواہ البخاری : کتاب الجھاد و السیر، بَاب فَضْلِ مَنْ أَسْلَمَ مِنْ أَہْلِ الْکِتَابَیْنِ ) ” حضرت ابوبردہ (رض) نے اپنے والد گرامی سے نبی مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان بیان کرتے ہوئے سنا۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تین طرح کے افراد کو دوہرا اجر عنایت کیا جائے گا، ان میں ایک وہ ہوگا جس کے پاس لونڈی ہو اس نے اسے اچھی تعلیم دی اور اس کو ادب سکھایا پھر وہ اس کو آزاد کرتے ہوئے اس سے نکاح کرلیا۔ دوسرایہود و نصاریٰ میں وہ شخص جو اپنے دین میں پکا تھا اور بعد ازاں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لے آیا اس کے لیے بھی دوہرا اجر ہے تیسرا وہ شخص جو غلام ہے اللہ تعالیٰ کے حقوق ادا کرتے ہوئے اپنے مالک کے کام اور خدمت میں اس کی خیرخواہی کرتا ہے۔“ ( عَنْ أَبِی مَسْعُودٍ الْأَنْصَارِیِّ (رض) قَالَ جَآءَ رَجُلٌ إِلَی النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَقَالَ إِنِّی أُبْدِعَ بِیْ فَاحْمِلْنِی فَقَالَ مَا عِنْدِیْ فَقَالَ رَجُلٌ یَا رَسُول اللّٰہِ أَنَا أَدُلُّہُ عَلٰی مَنْ یَحْمِلُہُ فَقَالَ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَنْ دَلَّ عَلٰی خَیْرٍ فَلَہٗ مِثْلُ أَجْرِ فَاعِلِہٖ) (رواہ مسلم : کتاب الامارۃ، باب فضل اعانۃ الغازی) ” حضرت ابو مسعود (رض) فرماتے ہیں ایک شخص نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا اور کہا میرے پاس سواری نہیں ہے مجھے سواری عنایت کیجیے۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : میرے پاس بھی سواری نہیں ہے دوسرے آدمی نے کہا اے اللہ کے رسول! میں اس کو اس شخص کی طرف رہنمائی کرتا ہوں جواسے سواری دے گا۔ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جس نے کسی کی بھلائی کی طرف رہنمائی کی تو اسے بھی نیکی کرنے والے کی طرح ہی اجر دیا جائے گا۔“ ( یَوْمَ لَا یُخْزِی اللّٰہُ النَّبِیَّ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَہٗ نُوْرُہُمْ یَسْعٰی بَیْنَ اَیْدِیْہِمْ وَبِاَیْمَانِہِمْ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَآ اَتْمِمْ لَنَا نُوْرَنَا وَاغْفِرْ لَنَا اِِنَّکَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ) (التحریم : ٨) ” جس دن اللہ اپنے نبی کو اور ان لوگون کو جو اس پر ایمان لائے ہیں رسوا نہیں کرے گا۔ ان کا نور ان کے آگے آگے اور ان کے دائیں جانب دوڑ رہا ہوگا اور وہ دعا کر رہے ہوں گے کہ اے ہمارے رب ہمارا نور ہمارے لیے مکمل کر دے اور ہم سے درگزر فرما تو ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔“ (” اَللّٰھُمَّ اجْعَلْ فِیْ قَلْبِیْ نُوْرًا وَّفِیْ بَصَرِیْ نُوْرًا وَّفِیْ سَمْعِیْ نُوْرًا وَّعَنْ یَّمِےْنِیْ نُوْرًا وَّعَنْ یَّسَارِیْ نُوْرًا وَّفَوْقِیْ نُوْرًا وَّتَحْتِیْ نُوْرًا وَّاَمَامِیْ نُوْرًا وَّخَلْفِیْ نُوْرًا وَّاجْعَلْ لِّیْ نُوْرًا وَّزَادَ بَعْضُھُمْ وَفِیْ لِسَانِیْ نُوْرًا وَّذَکَرَ وَعَصَبِیْ وَلَحْمِیْ وَدَمِیْ وَشَعْرِیْ وَبَشَرِیْ“ مُتَّفَقٌ عَلَےْہِ وَفِیْ رِوَاے َۃٍ لَّھُمَا ” وَاجْعَلْ فِیْ نَفْسِیْ نُوْرًا وَّاَعْظِمْ لِیْ نُوْرًا وَّفِیْ اُخْریٰ لِمُسْلِمٍ اَللّٰھُمَّ اَعْطِنِیْ نُوْرًا“ ) (رواہ البخاری : باب الدُّعَاءِ إِذَا انْتَبَہَ باللَّیْلِ) الٰہی! میرے دل، میری آنکھوں، میرے کانوں، میرے دائیں، میرے بائیں، میرے اوپر، میرے نیچے، میرے سامنے، میرے پیچھے اور مجھے ہر طرف سے روشنی عطا فرما اور دوسری روایات میں ان الفاظ کا اضافہ ہے۔ میری زبان، میرے اعصاب، میرا گوشت پوست، میرے خون اور بال حتیٰ کہ میرے سارے جسم کو منور فرمادے۔ (بخاری و مسلم) دوسری روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ میرے دل میں بھی نور پیدا کر دے اور نور کو میرے لیے اور زیادہ کر دے۔ مسلم کی دوسری حدیث میں ہے ” اے اللہ مجھے نور عطا فرما۔“ مسائل ١۔ ایمانداروں کو ہر حال میں ” اللہ“ سے ڈر کر زندگی بسر کرنی چاہیے۔ ٢۔ ایمانداروں کو ایمان کے تقاضے پورے کرنے چاہیے۔ ٣۔ اہل کتاب میں جو شخص نبی آخر الزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لائے گا اسے دوگنا اجر عطا کیا جائے گا۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ ایمانداروں کے لیے ایک روشنی پیدا کرتا ہے جس میں وہ چل کر زندگی بسر کرتے ہیں۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ ایمانداروں اور متقین کی غلطیاں معاف کردیتا ہے ٦۔ اللہ تعالیٰ معاف کرنے والا نہایت مہربان ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ سے ڈرنے کے فوائد : ١۔ اللہ سے ڈرنے والوں کے لیے جنت ہے جس کے نیچے نہریں جاری ہیں۔ (آل عمران : ١٩٨) ٢۔ اللہ سے خلوت میں ڈرنے والے کے لیے جنت کی خوشخبری ہے۔ (یٰس : ١١) ٣۔ ایمان لانے اور تقویٰ اختیار کرنے والوں کے لیے دنیا اور آخرت میں خوشخبری ہے۔ (یونس : ٦٣۔ ٦٤) ٤۔ اللہ سے ڈرنے والے ہی کامیاب ہوا کرتے ہیں۔ (النور : ٥٢) الحديد
29 فہم القرآن ربط کلام : اہل کتاب میں سے جو لوگ ایمان نہیں لائیں گے انہیں انتباہ کیا گیا ہے۔ اہل کتاب سے مراد یہودی اور عیسائی ہیں۔ قرآن مجید میں اہل کتاب کے الفاظ صرف یہودیوں اور عیسائیوں کے لیے استعمال کیے گئے ہیں۔ یہاں بھی اہل کتاب سے مراد دونوں فریق ہیں جن کی اکثریت حسد اور بغض کی بنا پر نبی آخر الزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان نہیں لاتی بالخصوص یہودیوں کی کیفیت یہ تھی اور ہے کہ وہ کسی صورت بھی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لانے کو تیار نہیں ہوتے۔ اہل کتاب کی کثیر تعداد چاہتی ہے کہ مسلمانوں کو ان کے ایمان سے پھیر دیا جائے حالانکہ ان کے سامنے حق واضح کردیا گیا ہے لیکن پھر بھی وہ اپنے حسد کی وجہ سے مسلمانوں کو گمراہ کرنا چاہتے ہیں۔ ( البقرۃ: ١٠٩) اہل کتاب میں بالخصوص یہودیوں کا یہ دعویٰ ہے کہ حضرت اسحاق (علیہ السلام) کی اولاد کے علاوہ کوئی شخص نبوت کا حقدار نہیں ہوسکتا، انہیں اس کا جواب دیا گیا کہ کسی کو نبوت عطا کرنا صرف اللہ تعالیٰ کا اختیار ہے وہ جسے چاہتا ہے اپنے فضل سے نوازتا ہے اس فضل سے پہلی مراد نبوت ہے۔ جو اللہ تعالیٰ کا اپنا انتخاب ہے اس میں کسی کا عمل دخل نہیں ہوتا۔ اللہ تعالیٰ عظیم فضل کا مالک ہے۔ یہ حقیقت بتلانے کا ایک مقصد یہ ہے کہ خاص طور پر اہل کتاب کے کان کھل جائیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کے اختیارات میں ذرہ بھر بھی اختیار نہیں رکھتے اور کوئی شخص بھی اللہ کی ذات، صفات اور اختیارات میں رائی کے دانے کے برابر اختیار نہیں رکھتا۔ جب کوئی شخص اپنے یا کسی کے بارے میں کچھ بھی اختیار نہیں رکھتا تو اسے دوسرے شخص پر حسد نہیں کرنا چاہیے۔ جو شخص حسد و بغض سے بچ کر حقیقت پر غور کرتا ہے اس کے لیے اللہ تعالیٰ ہدایت کا راستہ کھول دیتا ہے۔ (وَ اِذَا جَآءَ تْہُمْ اٰیَۃٌ قَالُوْا لَنْ نُّؤْمِنَ حَتّٰی نُؤْتٰی مِثْلَ مَآ اُوْتِیَ رُسُلُ اللّٰہِ م اَللّٰہُ اَعْلَمُ حَیْثُ یَجْعَلُ رِسَالَتَہٗ سَیُصِیْبُ الَّذِیْنَ اَجْرَمُوْا صَغَارٌ عِنْدَ اللّٰہِ وَ عَذَابٌ شَدِیْدٌ بِمَا کَانُوْا یَمْکُرُوْنَ) (الانعام : ١٢٤) اور جب ان کے پاس کوئی نشانی آتی ہے تو کہتے ہیں ہم ہرگز ایمان نہیں لائیں گے یہاں تک کہ ہمیں اس جیسا دیا جائے جو اللہ کے رسولوں کو دیا گیا اللہ زیادہ جانتا ہے کہ وہ کس کو اپنے پیغام کا حامل بنائے، عنقریب ان لوگوں کو جنہوں نے جرم کیے اللہ کے ہاں ذلّت پہنچے گی اور سخت عذاب، اس وجہ سے کہ وہ مکرو فریب کرتے تھے۔“ (یَّخْتَصُّ بِرَحْمَتِہٖ مَنْ یَّشَآءُ وَ اللّٰہُ ذو الْفَضْلِ الْعَظِیْمِ) (آل عمران : ٧٤) ” وہ اپنی رحمت کے ساتھ جسے چاہے مخصوص کرلے اور اللہ تعالیٰ بڑے فضل والا ہے۔“ (عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ (رض) قَالَ کَانَ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ” اللَّہُمَّ لاَ مَانِعَ لِمَا أَعْطَیْتَ وَلاَ مُعْطِیَ لِمَا مَنَعْتَ وَلاَ یَنْفَعُ ذَا الْجَدِّ مِنْکَ الْجَدّ“ ) (رواہ مسلم : باب مَا یَقُولُ إِذَا رَفَعَ رَأْسَہُ مِنَ الرُّکُوعِ) ” حضرت ابو سعید (رض) سے روایت ہے انہوں نے کہا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دعا کرتے اے اللہ! جو چیز تو عطاء فرمائے اسے کوئی روکنے والا نہیں اور جو چیز تو روک لے اس کو کوئی عطا کرنے والا نہیں۔ تجھ سے بڑھ کر کوئی عظمت والا اور نفع نہیں دے سکتا۔“ مسائل ١۔ ” اللہ“ کے اختیارات میں اہل کتاب یا کسی اور کو کوئی اختیار حاصل نہیں۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ جس پر چاہے اپنا فضل فرمائے۔ ہر قسم کا فضل صرف اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ بڑے فضل کا مالک ہے۔ تفسیر بالقرآن ہر چیز اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے : ١۔ جو کچھ آسمان و زمین میں ہے وہ اللہ کی ملکیت ہے اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔ (آل عمران : ١٨٩) ٢۔ بے شک زمین و آسمان کی بادشاہت اللہ کے لیے ہے وہ زندہ کرتا اور مارتا ہے۔ (التوبہ : ١١٦) ٣۔ کیا آپ نہیں جانتے ؟ کہ زمین و آسمان کی بادشاہت اللہ کے لیے ہے۔ (البقرۃ: ١٠٧) ٤۔ ہر قسم کی خیر اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ ( آل عمران : ٧٣) ٥۔ اللہ ہر نقص سے پاک ہے اور ہر چیز اس کے ہاتھ میں ہے سب نے اسی کی طرف پلٹ کر جانا ہے۔ ( یٰس : ٨٣) الحديد
0 سورۃ المجادلہ کا تعارف یہ سورۃ تین رکوع اور بائیس (٢٢) آیات پر مشتمل ہے۔ اس کا نام اس کی پہلی آیت میں تُجَادِلُکَ کے لفظ سے لیا گیا ہے۔ یہ مدینہ منورہ میں اس وقت نازل ہوئی جب خولہ بنت ثعلبہ (رض) کو اس کے خاوند نے ماں کہہ دیا تھا۔ اس سورت میں سب سے پہلے زمانہ جاہلیت کی ایک رسم کا خاتمہ کیا گیا ہے جس میں پہلا سبق یہ ہے کہ دین میں جہالت اور رسم و رواج کی کوئی گنجائش نہیں۔ ہوایہ کہ خولہ بنت ثعلبہ (رض) کو اس کے خاوند نے ماں کہہ دیا۔ دور جہالت میں جو شخص اپنی بیوی کو ماں کہہ دیتا تھا تو وہ اس پر ہمیشہ کے لیے حرام قرار پاتی تھی اسلامی تاریخ میں یہ پہلا واقع تھا جس لیے حضرت خولہ (رض) بنی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئی اور آپ سے بار بار عرض کرتی ہیں کہ اس مسئلے کا کوئی حل نکالا جائے۔ اس کی تفصیل اس کی پہلی آیت میں دی گئی ہے۔ اس کے بعد مسلمانوں کی انفرادی اور اجتماعی اصلاح کے لیے بتلایا گیا کہ تم خلوت میں ہو یا جلوت میں ہر حال میں یہ عقیدہ اور یقین رکھو کہ تم میں کوئی شخص اکیلا ہو یا کسی مجلس میں اللہ تعالیٰ اپنے اقتدار، اختیار اور علم کے حوالے سے تمھارے ساتھ ہوتا ہے اس لیے تنہائی میں بھی اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی سے بچتے رہو کسی کو تکلیف پہنچانے کے لیے مجلس میں ایسا انداز اختیار نہ کرو جس سے اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی ہونے کا اندیشہ ہو اور نہ ہی کسی مسلمان کو اذیت پہنچاو۔ منافقین کے ساتھ قلبی محبت رکھنے سے اجتناب کرو کیونکہ یہ لوگ اپنے ایمان سے جھوٹے ہیں اور اللہ کا نام لے کر جھوٹ بولتے ہیں اور اس کے راستے سے روکنے والے ہیں۔ حقیقت میں یہ شیطان کی جماعت ہے اور بالآخر نقصان پائیں گے ان کے مقابلے میں جو لوگ حقیقی ایمان رکھتے ہیں ان کے بارے میں تم کبھی نہیں پاؤ گے کہ وہ اپنے عزیز و اقربا کو اللہ اور اس کے رسول سے مقدم رکھنے والے ہوں یہ لوگ اپنے ایمان میں سچے ہیں اور یہ اللہ کی جماعت ہیں اور یہی دنیا میں غالب آئیں گے اور ان کو جنت میں داخل کیا جائے گا۔ المجادلة
1 فہم القرآن ربط سورت : سورۃ الحدید کے آخر میں یہ ارشاد ہوا ہے کہ فضل و کرم صرف ” اللہ“ کے ہاتھ اور اس کے اختیار میں ہے۔ سورۃ المجاد لہ کی ابتدا ایسے واقعہ سے ہورہی ہے جس میں ثابت کیا گیا ہے کہ واقعتا فضل وکرم اور اختیارات کا مالک صرف ایک اللہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب ایک بی بی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنا دکھڑا سنا رہی تھی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس اس وقت اس مسئلے کا کوئی حل نہیں تھا تاآنکہ اللہ تعالیٰ نے اس بی بی پر اپنا فضل کیا اور اس کا مسئلہ حل فرما دیا۔ مدینہ طیبہ میں اوس قبیلے کے سردار عبادہ بن صامت (رض) کی بھاوج جو اوس بن صامت (رض) کی بیوی تھی اس کے خاوند اوس بن صامت (رض) نے طیش میں آکر اپنی بیوی خولہ بنت ثعلبہ (رض) کو یہ الفاظ کہے۔ ” اَنْتِ عَلَیَّ کَظَھْرِ اُمِّیْ“ ” تو مجھ پر ایسے ہی حرام ہے جس طرح میری ماں مجھ پر حرام ہے۔“ اوس بن صامت (رض) کے یہ الفاظ کہنے تھے کہ خولہ (رض) پر قیامت ٹوٹ پڑی کیونکہ اسلام سے قبل جو شخص اپنی بیوی کو یہ الفاظ کہتا اس کی بیوی ہمیشہ کے لیے اس پر حرام ہوجاتی اور رجوع کی کوئی شکل باقی نہیں رہتی تھی۔ خولہ بنت ثعلبہ (رض) روتی ہوئی نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئی اور اپنا دکھڑا سناتے ہوئے باربار کہتی کہ اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! میں جاؤں تو کدھر جاؤں۔ آپ ضرور اس مسئلے کا حل فرمائیں۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بی بی! میرے پاس اس مسئلے کا ابھی تک کوئی حل موجود نہیں ہے۔ خولہ فریاد کرتی ہے کہ اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! میرے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں میں ان کی جدائی برداشت نہیں کرسکتی۔ آپ نے پھر ارشاد فرمایا کہ بی بی ! ابھی تک آسمان سے میرے پاس اس مسئلے کا کوئی حل نازل نہیں ہوا۔ یہ سنتے ہی حضرت خولہ کی ہچکی بندھ گئی۔ حضرت خولہ (رض) کانپتے ہوئے وجود اور لڑ کھڑاتے ہوئے قدموں کے ساتھ واپس پلٹتی ہے۔ کچھ مفسرین نے لکھا ہے جونہی خولہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مجلس سے اٹھی تو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول پر وحی نازل فرمائی کہ ” اللہ“ نے اس عورت کی فریاد سن لی ہے جو اپنے خاوند کے بارے میں آپ سے تکرار کر رہی تھی اور بار بار اللہ کے حضور فریاد کرتی تھی۔ اللہ تعالیٰ آپ کی اور اس کی گفتگو کو پوری طرح سن رہاتھا، یقین جانو! کہ اللہ تعالیٰ ہر بات سننے والا اور سب کو دیکھنے والا ہے۔ حضرت خولہ بنت ثعلبہ (رض) کا مقام : اس واقعہ کے بعد مسلمانوں کی نگاہوں میں حضرت خولہ کا مقام اتنا بلند ہوا کہ امیر المومنین حضرت عمر (رض) اپنے دور حکومت میں قریش کے چند سرداروں کے ساتھ کہیں جارہے تھے کہ راستے میں خولہ بنت ثعلبہ (رض) نے کسی مسئلے کے لیے انہیں روکا۔ حضرت عمر (رض) نگاہیں جھکاکر کھڑے ہوگئے، حضرت خولہ (رض) نے کہا کہ اے عمر (رض) ! ایک وقت وہ تھا جب لوگ تجھے عمیر کہتے تھے۔ اب تم امیر المومنین بن چکے ہو۔ حضرت عمر (رض) فرماتے ہیں کہ بی بی آپ نے سچ فرمایا حضرت خولہ (رض) نے فرمایا کہ اے امیر المومنین ! ہمیشہ اللہ سے ڈرتے رہنا۔ خولہ اور امیرالمومنین کی گفتگو قدرے طویل ہوئی تو آپ کے ساتھیوں میں سے کسی ایک نے کہا کہ عجب عورت ہے، امیر المومنین کوسر بازار کھڑے کیے ہوئے ہے۔ حضرت عمر (رض) نے یہ الفاظ سنے تو فرمایا خاموش ہوجائیں ! یہ وہ عورت ہے جس کی بات کو اللہ نے سات آسمانوں کے اوپر سنا تھا۔ اس لیے میں کون ہوتا ہوں کہ اس کی بات نہ سنوں۔ حضرت عمر (رض) نے خولہ کا مسئلہ حل فرمایا اور اجازت لے کر آگے چل دئیے۔ (رواہ احمد : مسند عبداللہ) مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ ہر کسی کی بات کو سنتا ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت خولہ کی فریاد کو سنا اور ہمیشہ کے لیے ظہار کے مسئلہ کا حل فرمادیا۔ تفسیربالقرآن اللہ تعالیٰ لوگوں کی فریاد سننے والا اور انہیں ہر حال میں دیکھنے والا ہے : ١۔ اللہ تعالیٰ آسمان و زمین کی ہر چیز کو جاننے والا ہے۔ ( المائدۃ: ٩٨) ٢۔ جو کچھ تم ظاہر کرتے ہو اور جو چھپاتے ہو سب کچھ اللہ کو معلوم ہے۔ ( المائدۃ: ٩٩) ٣۔ اللہ تعالیٰ آنکھوں کی خیانت کو بھی جانتا ہے۔ ( المؤمن : ١٩) ٤۔ جو کچھ ہوچکا اور جو ہونے والا ہے سب ” اللہ“ کو معلوم ہے اس کے علم کا کوئی احاطہ نہیں کرسکتا۔ ( طٰہٰ: ١١٠) ٥۔ اللہ سے ڈر جاؤ اللہ سننے والا، جاننے والا ہے۔ (الحجرات : ١) ٦۔ اللہ تعالیٰ کی مثل کوئی چیز نہیں وہ ہر بات سننے والا اور سب کچھ جاننے والا ہے۔ (الشوریٰ: ١١) المجادلة
2 فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ نے حضرت خولہ بنت ثعلبہ (رض) کی فریاد قبول کرتے ہوئے ہمیشہ کے لیے ظہار کے مسئلے کا حل نازل فرمادیا۔ ارشاد ہوتا ہے کہ تم میں سے جو لوگ اپنی بیویوں کو ماں کہہ دیتے ہیں ان کے کہنے سے ان کی بیویاں ان کی مائیں نہیں بن جاتیں ان کی مائیں تو وہی ہیں جنہوں نے ان کو جنم دیا ہے۔ اپنی بیوی کو ماں کہنا بڑی بیہودہ اور جھوٹی بات ہے۔ اس فرمان میں اللہ تعالیٰ نے تین باتیں ارشاد فرمائی ہیں۔ ١۔ کسی کے ماں کہنے پر اس کی بیوی اس کی ماں نہیں بن جاتی۔ اللہ تعالیٰ نے ہی لوگوں کے درمیان رشتہ داری قائم فرمائی ہے ان میں کچھ رشتے ہمیشہ کے لیے محرم قرار دیئے ہیں۔ کسی کو محرم یا غیرمحرم قرار دینا یہ صرف اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے جس کی تفصیل قرآن مجید میں بیان کردی گئی ہے۔ اب کسی شخص کو یہ اختیار حاصل نہیں کہ وہ محرم کو غیر محرم یا غیر محرم کو محرم، حلال کو حرام یا حرام کو حلال کرسکے۔ جو شخص محرم کو غیر محرم قرار دیتا ہے تو یہ اس کی یا وہ گوئی ہے جسے اللہ تعالیٰ پسند نہیں کرتا، تاہم معافی مانگنے والوں کو اللہ تعالیٰ معاف فرما دیتا ہے۔ ٢۔ بیوی کو ماں کہنا جھوٹ ہے کیونکہ ماں ماں ہی ہوتی ہے اور بیوی بیوی ہوتی ہے۔ ماں اور بیوی کے رشتہ اور تعلقات میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ ماں کبھی بیوی نہیں ہوسکتی اور بیوی کبھی ماں نہیں بن سکتی۔ اس لیے فرمایا کہ بیوی کو ماں کہنا جھوٹ ہے اور مومن کو یہ بات زیب نہیں دیتی کہ وہ اپنی زبان سے اس قسم کی بات کرے کہ جس کے کہنے کی شریعت نے اسے اجازت نہیں دی۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ درگزر کرنے والا اور معاف فرمانے والا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی درگزر پر غور فرمائیں کہ ایک شخص اپنی زبان سے وہ بات کہتا ہے جس کے کہنے کی اسے اجازت نہیں۔ اللہ تعالیٰ چاہے تو اس کی زبان گونگی کردے مگر وہ بڑے حوصلے والا ہے وہ ہر بات پر گر فت کرنے کی بجائے درگزر سے کام لیتا ہے اگر کوئی اس سے معافی طلب کرے تو وہ معاف کردیتا ہے کیونکہ وہ رحیم ہے، یہ بھی اس کی بخشش کا نتیجہ ہے کہ اس نے لوگوں کی یا وہ گوئی کو صرف نظر کرتے ہوئے ظہار کے مسئلے میں نرمی فرمائی اور اس کا آسان حل نازل فرمایا ہے۔ ظہار کس صورت میں ہوگا : صحابہ کرام (رض) کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ظہار اس خاوند کا معتبر ہوگا جس نے ہوش و حواس کی حالت میں اپنی بیوی سے ظہار کیا ہو بصورت دیگر اس کا اظہار تسلیم نہیں کیا جائے گا۔ جس نے ظہار کیا اس کی سزا اگلی آیات میں بیان کی گئی ہے۔ (وَالَّذِیْنَ ہُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَ) (المومنون : ٣) ” اور مومن فضولیات سے دور رہتے ہیں۔“ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مِنْ حُسْنِ إِسْلَامِ الْمَرْءِ تَرْکُہٗ مَا لَا یَعْنِیْہِ) (رواہ الترمذی : کتاب الزہد، قال البانی صحیح) ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا حقیقت یہ ہے کہ آدمی کے اسلام کی اچھائی یہ ہے کہ وہ فضول باتوں کو چھوڑ دے۔“ مسائل ١۔ کسی آدمی کے کہنے پر اس کی بیوی اس کی ماں نہیں بن جاتی۔ ٢۔ آدمی کی ماں وہی ہوتی ہے جس نے اسے جنم دیا ہوتا ہے۔ ٣۔ بیوی کو ماں کہنا جھوٹ اور بے ہودہ بات ہے۔ ٤۔ مسلمان بے ہودہ گوئی سے بچتا ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ درگزر کرنے اور معاف فرمانے والا ہے : ١۔ ” اللہ“ جسے چاہے عذاب دے جسے چاہے معاف کردے وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ (البقرۃ: ٢٨٤) ٢۔ ” اللہ“ توبہ کرنے والوں کو اپنی رحمت میں داخل کرتا ہے بے شک ” اللہ“ معاف کرنے اور رحم فرمانے والا ہے۔ (التوبہ : ٩٩) ٣۔ ” اللہ“ توبہ کرنے والوں کو معاف کرنے اور رحم فرمانے والا ہے۔ (التوبہ : ٢٧) ٤۔ جو سچے دل سے تائب ہوجائے اور ایمان کے ساتھ اعمال صالح کرتا رہے۔ اللہ تعالیٰ اس کی برائیوں کو نیکیوں میں بدل دے گا کیونکہ ” اللہ“ معاف کرنے والا، رحم فرمانے والا ہے۔ (الفرقان : ٧٠) ٥۔ گناہ گار کو اللہ کی رحمت سے مایوس نہیں ہونا چاہیے کیونکہ اللہ معاف کرنے والا ہے۔ (الزمر : ٥٣) المجادلة
3 فہم القرآن ربط کلام : ظہار کا کفارہ۔ جو شخص اپنی بیوی کو محرم رشتوں میں سے کسی ایک رشتہ کے برابرکہہ دے تو اس کی بیوی اس پر حرام ہوجائے گی گویا کہ وہ اب اس کی بیوی نہیں رہی، البتہ جو شخص اپنی بیوی کے ساتھ ظہار کرے اور پھر اس بات پر شرمندہ ہو کر اپنی بات سے رجوع کرنا چاہے تو بیوی کو چھونے سے پہلے اسے درج ذیل کاموں میں سے کوئی ایک کام کرنا ہوگا۔ 1۔ ایک غلام آزاد کرنا۔ اگر غلام آزاد کرنے کی طاقت نہ ہو یا غلامی کارواج ختم ہوچکا ہو تو۔ 2۔ دومہینوں کے مسلسل روزے رکھے اگر شرعی عذر کے بغیر ناغہ کیا تو اسے ازسرِ نو دو مہینوں کے روزے پورے کرنے ہوں گے۔ 3۔ روزے رکھنے کی طاقت نہیں رکھتا۔ تو ساٹھ مسکینوں کو صبح شام کا کھانا کھلائے۔ یاد رہے کہ کسی ایک آدمی کو ساٹھ دن کھانا کھلانے سے کفارہ ادا نہیں ہوگا۔ صحابہ کی غالب اکثریت کا یہی خیال ہے کہ ظہار کرنے والے کو ساٹھ مسکینوں کو بیک وقت کھانا کھلانا چاہیے۔ جس سے لامحالہ یہ معلوم ہوجائے گا کہ یہ کھانا ظہار کے کفارہ میں کھلایا جارہا ہے۔ اس سے ظہار کرنے والے کو قدرے شرمندگی ہوگی جس بنا پر آئندہ ایسی بات کہنے سے پرہیز کرے گا۔ اللہ تعالیٰ لوگوں کو حکم دیتا ہے تاکہ لوگ اللہ اور اس کے رسول پر حقیقی ایمان لائیں اور حدود اللہ کا خیال رکھیں۔ انکار کرنے والوں کو قیامت کے دن اذّیت ناک سزادی جائے گی۔ اس فرمان میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو ظہار کے کفارے کی تین صورتیں بتلانے کے بعد تین ار شاد ات فرمائے ہیں۔ ١۔ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو نصیحت فرماتا ہے تاکہ مسلمان اس کی نصیحت کے مطابق عمل کریں اور ہمیشہ اس بات کا خیال رکھیں کہ اللہ تعالیٰ لوگوں کے کردار اور اعمال سے اچھی طرح باخبر ہے۔ ٢۔” اللہ“ کا فرمان ہے کہ تمہارے لیے ظہار کی سزا اس لیے مقرر کی گئی ہے تاکہ تم اللہ اور اس کے رسول پر پوری طرح ایمان لاؤ اور اس کے احکام کی پیروی کرو۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ کی مقرر کردہ سزائیں اس کی حدود ہیں جن کا ہر صورت خیال رکھنا چاہیے جو مسلمان حدود اللہ کا خیال نہیں رکھیں گے وہ عملاً کفر کا ارتکاب کریں گے اور ایسے لوگوں کو اذّیت ناک عذاب ہوگا۔ مسائل ١۔ ظہار کرنے والا اپنی بیوی کے ساتھ رجوع کرنا چاہے تو اسے ایک غلام آزاد کرنا چاہیے۔ ٢۔ غلام آزاد نہ کرنے کی صورت میں دومہینے بلاناغہ روزے رکھنے ہوں گے۔ ٣۔ روزے رکھنے کی ہمت نہ ہو تو اسے بیک وقت صبح وشام ساٹھ مسکینوں کو کھاناکھلانا چاہیے۔ ٤۔ مسلمانوں کو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانے کے تقاضے پورے کرنے چاہیے۔ ٥۔ حدود اللہ کا احترام کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے۔ ٦۔ جو شخص حدود اللہ کا خیال نہیں رکھتا اسے اذیت ناک عذاب ہوگا۔ تفسیربالقرآن قرآن مجید کی مقرر کردہ حدود : ١۔ چوری کرنے والا مرد ہویا عورت اس کے ہاتھ کاٹ دیئے جائیں۔ (المائدۃ: ٣٨) ٢۔ شادی شدہ زانی مرد اور عورت کو رجم کرنے کا حکم۔ (النور : ٢) ٣۔ بہتان لگانے والے کو اسّی کوڑے لگائیں جائیں اور اس کے بعد اس کی گواہی قبول نہ کی جائے۔ (النور : ٤) ٤۔ اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کرنے والے کو قتل کردینا چاہیے۔ (المائدہ : ٣٣) المجادلة
4 المجادلة
5 فہم القرآن ربط کلام : حدود اللہ کا خیال نہ رکھنے والوں کی دنیا میں سزا۔ جو لگ اللہ کی مقرر کردہ حدود کا خیال اور احترام نہیں کرتے حقیقت یہ ہے کہ وہ ” اللہ“ اور اس کے رسول کی مخالفت کرتے ہیں یہ لوگ اسی طرح ہی ذلیل کیے جائیں گے جس طرح ان سے پہلے لوگ ذلیل کیے گئے۔ اللہ تعالیٰ نے واضح طور پر اپنے احکام نازل کردیئے ہیں جو ان کو نہیں مانتے انہیں ذلّت ناک عذاب ہوگا۔ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن سب لوگوں کو زندہ کرے گا اور پھر انہیں بتلائے گا کہ وہ کیا عمل کیا کرتے تھے۔ لوگ اپنے اعمال کو بھول جاتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ نے سب کو شمار کر رکھا ہے اور اللہ تعالیٰ ہر چیز پر گواہ ہے۔ حدود اللہ کا خیال نہ رکھنے والے لوگوں کو نہ صرف آخرت میں اذّیت ناک عذاب ہوگا بلکہ اللہ تعالیٰ انہیں دنیا میں بھی اسی طرح ذلیل کرے گا جس طرح ان سے پہلے مجرموں کو ذلیل کیا اور قیامت کے دن انہیں ان کے برے اعمال کی ٹھیک ٹھیک سزا دی جائے گی۔ برے اعمال کرنے والے لوگ عام طور پر اپنے کردار کو بھول جاتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کسی معاملے میں نہیں بھولتا۔ کیونکہ وہ ہر چیز اس کے احاطہ علم میں رہتی ہے اور ہر وقت اپنی مخلوق کی نگرانی کرتا ہے۔ وہ قیامت کے دن لوگوں کو ان کے اعمال سے آگاہ کرے گا اور برے لوگوں کو ان کی برائی کی پوری پوری سزادے گا۔ پہلے ذلیل ہونے والوں میں سر فہرست یہودی ہیں جن میں حدود اللہ توڑنے کی وجہ سے کچھ کو دنیا میں بندر بنادیا گیا اور باقی پر دوسرے لوگوں کو مسلط کرکے ذلیل کیا گیا۔ (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَال بَیْنَ یَدَیِ السَّاعَۃِ مَسْخٌ، وَخَسْفٌ، وَقَذْفٌ) (رواہ ابن ماجہ : کتاب الفتن، باب الاٰیاتِ، ھٰذا حدیث صحیح) ” عبد اللہ (رض) نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : قیامت کے قریب لوگوں کی شکلیں تبدیل ہونا، دھنسایا جانا اور تہمت لگانا عام ہوگا۔“ مسائل ١۔ جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کرتے ہیں اللہ تعالیٰ انہیں اسی طرح ہی ذلیل کرے گا جس طرح اس نے پہلے لوگوں کو ذلیل کیا گیا۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے فرامین کھول کھول کر بیان کیے ہیں جو لوگ ان کا انکار کرتے ہیں وہ انہیں آخرت میں ذلیل کردینے والا عذاب ہوگا۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن لوگوں کو اٹھائے گا اور ان سے پورا پورا حساب لے گا۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر نگران ہے۔ تفسیربالقرآن دنیا اور آخرت میں ذلیل ہونے والے لوگ : ١۔ یہودی دنیا میں ذلیل ہوئے اور آخرت میں سخت عذاب کے مستحق ٹھہریں گے۔ (البقرۃ: ٨٥) ٢۔ اللہ کی مسجدوں سے روکنے والے دنیا وآخرت میں ذلیل ہوں گے۔ (البقرۃ: ١١٤) ٣۔ کفار کو دنیا وآخرت میں شدید عذاب ہوگا۔ (الرعد : ٣٤، آل عمران : ٥٦) ٤۔ اللہ اور اس کے رسول کے دشمن اور فسادی دنیا وآخرت میں عذاب کے مستحق قرار پائیں گے۔ (المائدۃ: ٣٣) ٥۔ بچھڑے کے پجاری دنیا وآخرت میں ذلیل ہوئے۔ (الاعراف : ١٥٢) ٦۔ منافقین کو دنیا وآخرت میں سزا ہوگی۔ (التوبہ : ٧٤) ٧۔ فحاشی پھیلانے والوں کو دنیا وآخرت میں ذلت اٹھانی پڑے گی۔ (النور : ١٩) ٨۔ دین حق جھٹلانے والوں کو دنیا میں ذلت اور آخرت میں عذاب عظیم ہوگا۔ (الزمر : ٢٦) المجادلة
6 المجادلة
7 فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ ہر چیز پرنگران ہی نہیں بلکہ وہ اپنے اقتدار، اختیار اور علم کے اعتبار سے ہر وقت انسان کے ساتھ ہوتا ہے۔ انسان کو اس حقیقت پر ایمان لانا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ زمین و آسمان کی ہر چیز کو جاننے والا ہے۔ جب تین شخص آپس میں بیٹھ کر سرگوشیاں کرتے ہیں تو ان کے ساتھ چوتھا ” اللہ“ ہوتا ہے۔ جب پانچ ہوتے ہیں تو چھٹا ” اللہ“ ہوتا ہے۔ لوگ اس سے کم ہوں یا زیادہ ” اللہ“ ان کے ساتھ ہوتا ہے وہ قیامت کے دن لوگوں کو بتلائے گا جو وہ عمل کیا کرتے تھے یقیناً اللہ تعالیٰ ہر چیز کو جاننے والا ہے۔ اس فرمان میں اللہ تعالیٰ نے انسان کو یہ حقیقت بتلائی ہے کہ اے انسان! میں اپنے علم، اقتدار اور اختیار کے اعتبار سے ہر وقت تیرے ساتھ ہوتا ہوں۔ جس شخص کا یہ عقیدہ پختہ ہوجائے اس کے لیے برائی سے بچنا آسان ہوجاتا ہے کیونکہ اس سے انسان سمجھتا ہے کہ نہ صرف میں اپنے رب کی نگرانی میں ہوں بلکہ قیامت کے دن مجھے اپنے اعمال کا جواب بھی دینا پڑے گا۔ اللہ تعالیٰ نے یہاں ایک کی بجائے تین کی گنتی سے بات کا آغاز کیا اور فرمایا ہے کہ لوگ اس سے تھوڑے ہوں یا زیادہ ” اللہ“ اپنے اقتدار اور اختیار کے لحاظ سے ہر وقت ان کے ساتھ ہوتا ہے۔ گنتی کا آغاز تین سے کرنے میں بات کے حسن میں بے پناہ اضافہ پایا جاتا ہے جو اللہ کی کلام کا خاصہ ہے۔ کچھ لوگ ان آیات سے یہ عقیدہ رکھتے ہیں اور اپنے مریدوں سے کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنی ذات کے ساتھ ہر وقت انسان کے ساتھ ہوتا ہے یہاں تک کہ ایسے صوفیائے کرام بھی گزرے اور موجود ہیں جو یہ بھی عقیدہ رکھتے اور پھیلاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز میں موجود ہوتا ہے۔ تفصیل کے لیے سورۃ الحدید کی آیت ٣ کی تفسیر ملاحظہ فرمائیں۔ حالانکہ ” اللہ“ کا فرمان ہے کہ میں عرش پر متمکن ہوں۔ (اَلرَّحْمٰنُ عَلَی الْعَرْشِ اسْتَوٰی۔ لَہٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الْاَرْضِ وَ مَا بَیْنَہُمَا وَ مَا تَحْتَ الثَّرٰی) (طٰہٰ: ٥، ٦) ” وہ رحمٰن عرش پر مستویٰ ہے۔ مالک ہے ان سب چیزوں کا جو آسمانوں اور زمین میں ہیں اور جو زمین و آسمان کے درمیان ہیں اور جو زمین کے نیچے ہیں۔“ ” بے شک تمہارا رب اللہ ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دن میں پیدا کیا، پھر عرش پر قائم ہوا، وہ رات کو دن پر اوڑھا دیتا ہے جو تیز چلتا ہوا اس کے پیچھے چلاآتا ہے اور سورج اور چاند اور ستارے پیدا کیے، اس حال میں کہ اس کے حکم کے تابع ہیں سن لو پیدا کرنا اور حکم دینا اللہ ہی کا کام ہے، بہت برکت والا ہے اللہ جو سارے جہانوں کا رب ہے۔“ (الاعراف : ٥٤) مسائل ١۔ لوگ تھوڑے ہوں یا زیادہ اللہ تعالیٰ ہر وقت ان کے ساتھ ہوتا ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ لوگوں کی سرگوشیوں کو جانتا ہے۔ ٣۔ لوگ جہاں بھی ہوں اللہ تعالیٰ اپنے علم، اقتدار اور اختیار کے حوالے سے ان کے ساتھ ہوتا ہے۔ ٤۔ لوگ جو بھی عمل کرتے ہیں اللہ تعالیٰ اسے جانتا ہے اور قیامت کے دن وہ لوگوں کو ان کے اعمال سے آگاہ فرمائے گا۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ اپنے علم، اقتدار اور اختیارات کے حوالے سے ہر جگہ موجود ہے : ١۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندے کے قریب ہوتا ہے۔ ( البقرۃ: ١٨٦) ٢۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے غار ثور میں ابوبکر کو فرمایا کہ ” اللہ“ ہمارے ساتھ ہے۔ ( التوبہ : ٤٠) ٣۔ اللہ تعالیٰ انسان کی شاہ رگ سے زیادہ قریب ہے۔ (ق : ١٦، الواقعہ : ٨٥) ٤۔ اللہ تعالیٰ اپنے اقتدار اور اختیار کے اعتبار سے لوگوں کے ساتھ ہوتا ہے۔ ( المجادلہ : ٧) (الحدید : ٣) المجادلة
8 فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ اپنے علم، اقتدار اور اختیار کے اعتبار سے ہر وقت انسان کے ساتھ ہوتا ہے اس لیے لوگوں کی سرگوشیوں کو جانتا ہے۔ وہ قیامت کے دن لوگوں کو بتلائے گا کہ جو وہ کیا کرتے تھے لیکن اس کے باروجود لوگ اپنی روش سے باز نہیں آتے۔ لوگوں کو یہ بات بتلانے اور سمجھانے کا مقصد یہ ہے کہ کفار، منافق اور برے لوگ اپنی روش سے بازآجائیں۔ لیکن برے لوگ اپنی روش سے باز آنے کی بجائے اس میں آگے ہی بڑھے جاتے ہیں۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دور میں منافقین اور کفار کی حالت یہ تھی کہ وہ گناہ، ظلم اور آپ کی مخالفت کرنے کے لیے خفیہ مجالس میں منصوبہ بندی کرتے تھے کہ اسلام کی ترقی اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مقام کو لوگوں کی نظروں میں کس طرح ختم کیا جائے۔ اس کے لیے اہل مکہ دارالندویٰ میں اجلاس کرتے، منافق مسجد ضرار میں منصوبے بناتے اور یہودی راعنا کے لفظ کو مخصوص انداز میں ادا کرتے اور آپ سے ملاقات کرتے وقت آپ کو اس طرح سلام کہتے جس کی اللہ تعالیٰ نے اجازت نہیں دی یعنی اللہ تعالیٰ کے بتلائے ہوئے طریقہ کے خلاف دعا، سلام کرتے تھے۔ برے لوگ اپنے کردار اور انداز پرنظر ثانی کرنے کی بجائے کہتے ہیں کہ اگر اللہ تعالیٰ کو ہمارے الفاظ اور انداز پسند نہ ہوتے تو وہ ہمیں ضرور عذاب دیتا۔ انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ اسلام کی مخالفت اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی گستاخی کرنے والوں کے لیے جہنم کافی ہے جو بدترین جگہ ہے۔ اس میں کفار، منافقین اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی گستاخیاں کرنے والوں کو پوری پوری سزادی جائے گی۔ ” حضرت عائشہ (رض) بیان فرماتی ہیں کہ کچھ یہودی نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے انہوں نے آپ سے مخاطب ہو کر کہا السام علیکم یعنی تم پر موت واقع ہو۔ حضرت عائشہ نے جواباً کہا تم پر بھی موت واقع ہو، ” اللہ“ تم پر لعنت کرے اور اپنا غضب نازل کرے۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اے عائشہ ! نرمی اختیار کرو سختی اور ترش کلامی نہ کرو عائشہ (رض) نے عرض کی اے اللہ کے نبی! آپ نے ان کی بات نہیں سنی؟ آپ نے فرمایا جو میں نے انہیں جواب دیا ہے تو نے اسے نہیں سنا؟ میری بات ان کے بارے میں قبول ہوگئی ہے اور ان کی بات میرے حق میں قبول نہیں ہوئی۔“ (رواہ البخاری : باب الرفق فی الامر کلہ) (عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ إِذَا کَانَ ثَلاَثَۃٌ فَلاَ یَتَنَاجَی اثْنَانِ دُونَ وَاحِدٍ) (صحیح مسلم : باب تحریم مناجاۃ الاثنین) ” حضرت عبداللہ بن عمر (رض) فرماتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں حکم دیا کہ جب تین آدمی بیٹھے ہوں تو ان میں سے دو آدمی آپس میں سر گوشی نہ کیا کریں۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے بری سرگوشیاں کرنے سے منع کیا ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر سلام بھیجتا ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو گناہ، ظلم اور نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نافرمانی کرنے سے منع کیا ہے۔ ٤۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی گستاخی کرنے والے جہنم میں جائیں گے۔ ٥۔ جہنم ہر اعتبار سے بدترین جگہ ہے۔ تفسیربالقرآن اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو ہرقسم کے گناہ اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نافرمانی سے منع کیا ہے : ١۔ اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور اپنے اعمال کو برباد نہ کرو۔ (محمد : ٣٣) ٢۔ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور نافرمانی سے بچو۔ (المائدۃ: ٩٢) ٣۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرما دیں کہ میرے رب نے ظاہری اور پوشیدہ بے حیائی اور گناہ کے کاموں سے منع کیا ہے۔ (الاعراف : ٣٣) ٤۔ مجھے منع کیا گیا ہے کہ میں ان کی عبادت کروں جن کی تم اللہ کے سوا عبادت کرتے ہو۔ (الانعام : ٥٦) ٥۔ اللہ تمھیں منع کرتا ہے کہ تم ان سے دوستی کرو جنھوں نے تمھارے دین میں جھگڑا کیا اور تمھیں تمہارے گھروں سے نکالا۔ (الممتحنہ : ٩) ٦۔ جو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دیں اسے لیا جائے جس سے آپ نے منع کیا ہے اسے چھوڑ دیاجائے۔ (الحشر : ٧) المجادلة
9 فہم القرآن ربط کلام : بری سرگوشی سے منع کرنے کے بعد نیکی اور اچھے کاموں پر مشاورت اور سرگوشی کرنے کا حکم۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو ہرقسم کی سرگوشی کرنے سے منع نہیں کیا بلکہ اس نے گناہ، ظلم اور رسول کی مخالفت کرنے پر سرگوشی سے منع کرنے کے ساتھ اور نیکی اور تقویٰ کے کام پر مشاورت اور سرگوشی کرنے کا حکم دیا ہے۔ اس کا فرمان ہے کہ لوگو! اللہ سے ڈرتے رہو ! بالآخر تم نے اسی کے حضور پیش ہونا ہے۔ جو بری سرگوشی کرتے ہیں حقیقت میں وہ شیطان کی سرگوشی ہوتی ہے۔ شیطان اپنے کارندوں سے یہ کام اس لیے کرواتا ہے تاکہ اس سے ایمان دار لوگ پریشان ہوں، لیکن ایمان داروں کو برے لوگوں کی سازشوں اور شرارتوں سے غم زدہ نہیں ہونا چاہیے کیونکہ اللہ کے اذن کے بغیر کوئی کسی کوتکلیف نہیں دے سکتا کیونکہ دکھ اور سکھ اللہ کے حکم کے تابع ہیں لہٰذا ایمانداروں کو اللہ کی ذات پر اعتماد اور بھروسہ رکھنا چاہیے۔ اس فرمان میں اللہ تعالیٰ نے گناہ، زیادتی اور رسول کی نافرمانی سے منع کرنے کے بعدا یمان داروں کو ہر حال میں نیکی اور تقویٰ اختیار کرنے کا حکم دیا ہے اور مومنوں کوتسلی دی ہے کہ نفع اور نقصان، دُکھ اور سکھ ” اللہ“ کے سوا کسی کے اختیار میں نہیں اگر مومن کو تکلیف پہنچتی ہے تو وہ اللہ کے اذن سے پہنچتی ہے جس میں اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی آزمائش کرتا ہے لہٰذا نیک بندوں کو ہر حال میں اللہ تعالیٰ پر اعتماد اور بھروسہ رکھنا چاہیے، یہاں نیکی اور تقویٰ کا بیک وقت حکم دیا گیا ہے اس لیے کہ نیکی اور تقویٰ کا آپس میں بڑا گہرا تعلق ہے۔ تقویٰ کے بغیر انسان نہ کوئی نیکی کرسکتا اور نہ نیکی کی حفاظت کرسکتا ہے تقویٰ ہی انسان کو نیکی پر آمادہ کرتا ہے اور اسے نیکی پر اترانے سے بچاتا ہے۔ نجویٰ کا معنٰی ہے بھید، ہم راز اور سرگوشی وغیرہ۔ اصطلاح میں دو آدمیوں کے رازداری سے بات کرنے کو نجویٰ کہتے ہیں۔ توکل کا معنٰی ہے کسی پر اعتماد اور بھروسہ کرنا۔ توکل علی اللہ کا مفہوم یہ ہے کہ بندہ ہر حال میں اپنے خالق و مالک پر کامل اعتماد و یقین رکھے جو اپنے رب پر اعتماد اور یقین کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے لیے کافی ہوجاتا ہے اور اس کی مشکلات آسان کردیتا ہے۔ مسائل ١۔ برائی کی کانا پھوسی سے منع کیا گیا ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں کو گناہ، زیادتی اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نافرمانی سے منع کیا ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں کو نیکی اور تقویٰ اختیار کرنے کا حکم دیا ہے۔ ٤۔ ایمان والوں کو ہمیشہ اللہ سے ڈرنا اور یقین رکھنا چاہیے کہ سب نے اس کے حضور جمع ہونا ہے۔ ٥۔ شیطان اپنے کارندوں کی شرارتوں سے مومنوں کو پریشان کرتا ہے۔ ٦۔ مومنوں کو پریشان نہیں ہونا چاہیے کیونکہ کوئی بھی تکلیف اللہ تعالیٰ کے اذن کے بغیر نہیں آتی۔ تفسیر بالقرآن مومنوں کوہر حال میں اللہ تعالیٰ پر اعتماد اور بھروسہ رکھنا چاہیے : ١۔ جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کسی کام کا عز م کرلیں تو اللہ پر بھروسہ کریں۔ (آل عمران : ١٥٩) ٢۔ اللہ پر بھروسہ کرنے والوں کو اسی پر بھروسا کرنا چاہیے۔ (یوسف : ٦٧) ٣۔ مومن اللہ پر ہی بھروسہ کرتے ہیں۔ (المائدۃ: ١١) ٤۔ مومنوں کو اللہ پر ہی بھروسہ کرنا چاہیے۔ (التوبہ : ٥١) ٥۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان سے اعراض کریں اور اللہ پربھروسہ کریں کیوں کہ اللہ ہی نگہبان ہے۔ (النساء : ٨١) ٦۔ سب کاموں کا انجام اللہ کی جانب ہے آپ اسی کی عبادت کریں اور اسی پربھروسہ کریں۔ (ھود : ١٢٣) ٧۔ اگر تم مومن ہو تو اللہ پر بھروسہ کرو۔ (المائدۃ: ٢٣) ٨۔ صابر لوگ اللہ پربھروسہ کرنے والے ہیں۔ (العنکبوت : ٥٩) ٩۔ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اللہ پر توکل کرنے کی ہدایت۔ (النمل : ٧٩) (التوبہ : ١٢٩) ١٠۔ مومنوں کو اللہ تعالیٰ پر توکل کرنے کا حکم۔ (المجادلہ : ١٠) ١١۔ جو اللہ پر توکل کرتا ہے اللہ اسے کافی ہوجاتا ہے۔ (الطلاق : ٣) المجادلة
10 المجادلة
11 فہم القرآن ربط کلام : مشاورت اور سرگوشی عمومی طور پر مجالس میں کی جاتی ہے اس لیے مجالس کے آداب بتلائے گئے ہیں۔ اے ایمان والوں جب تمہیں کہا جائے کہ مجلس میں کھل کر بیٹھو تو آپس میں کھل جایا کرو ! اس طرح کرنے سے اللہ تعالیٰ تمہارے درمیان فراخی اور کشادگی پیدا کرے گا اور جب تمہیں مجلس سے اٹھ جانے کا حکم دیا جائے تو اٹھ جایا کرو! جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کا حکم مانتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرماتا ہے۔ یاد رکھو! تم جو عمل کرتے ہو اللہ تعالیٰ ان سے باخبر ہوتا ہے۔ درجات بلند کرنے کی خوشخبری سنا کر بتلایا ہے کہ جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مجلس برخواست کریں تو اٹھ جانا چاہیے اور اس میں اپنی توہین نہیں سمجھنی چاہیے جو لوگ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حکم پر اٹھ جائیں گے اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے گا۔ ایمانداروں کے ساتھ اہل علم کا الگ ذکر فرما کر دواشارے فرمائے ہیں۔ پہلا اشارہ یہ ہے کہ علم کا تقاضا ہے کہ اپنی مجالس میں آنے والوں کو جگہ دی جائے، کیونکہ ایسا کرنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے، حقیقی علم والے ہی اللہ کے حکم کو سمجھتے اور مانتے ہیں۔ دوسرا اشارہ یہ ہے کہ علم والوں کا مقام دوسروں سے زیادہ ہوتا ہے اس لیے انہیں عام لوگوں سے زیادہ ” اللہ“ کے احکام کی اتباع کرنی چاہیے۔ (وَعَنِ ابْنِ عُمَرَ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ لَا یُقِیْمُ الرَّجُلُ الرَّجُلَ مِنْ مَّجْلِسِہٖ ثُمَّ یَجْلِسْ فِیْہِ وَلٰکِنْ تَفَسَّحُوْا وَ تَوَسَّعُوْا) (رواہ البخاری : باب لاَ یُقِیم الرَّجُلُ الرَّجُلَ مِنْ مَجْلِسِہ)ِ ” حضرت عبداللہ بن عمر (رض) نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ کوئی شخص خود بیٹھنے کے لیے کسی دوسرے شخص کو اس کی جگہ سے نہ اٹھائے۔ اس کی بجائے مجلس میں فراخی اور کشادگی اختیار کیا کرو۔“ (وَعَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ مَنْ قَامَ مِنْ مَّجْلِسِہٖ ثُمَّ رَجَعَ اِلَیْہِ فَھُوَ اَحَقُّ بِہٖ) (رواہ مسلم : باب إِذَا قَامَ مِنْ مَجْلِسِہِ ثُمَّ عَادَ فَہُوَ أَحَقُّ بِہِ) ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے جو شخص اپنی جگہ سے اٹھ کر جائے اور پھر واپس آئے تو اسے اپنی جگہ پر بیٹھنے کا زیادہ حق ہے۔“ ( وَعَنْ اَنسٍ (رض) اَنَّ رَسُوْ لَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کَانَ اِذَا صَافَحَ الرَّجُلُ لَمْ یَنْزِعْ یَدَہٗ مِنْ یَدِہٖ حَتّٰی یَکُوْنَ ہَوُ الَّذِیْ یَنْزِعْ یَدَہٗ وَلَا یَصْرِفُ وَجَہَہٗ عَنْ وَجْہِہٖ حَتّٰی یَکْوْنَ ہُوَالَّذِیْ یَصْرِفُ وَجْہَہٗ عَنْ وَجْہِہٖ وَلَمْ یُرَ مُقَدِّماً رُکْبَتَیْہِ بَیْنَ یَدَیْ جَلِیْسٍ لَہٗ) (رواہ الترمذی : باب المصافحۃ) ” حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ بے شک رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب کسی آدمی سے ہاتھ ملاتے تو اپنے ہاتھ کو اس کے ہاتھ سے الگ نہ کرتے یہاں تک کہ وہ اپنے ہاتھ کو کھینچ لیتا اور نہ ہی آپ اپنی توجہ اس کے چہرے سے ہٹاتے جب تلک وہ اپنے چہرے کو خود نہ ہٹا لیتا اور نہ مجلس میں بیٹھے ہوئے اپنے گھٹنوں کو دراز کرتے۔“ ( اَلْمَجَالِسُ بالْأَمَانَۃِ) (رواہ أبو داؤد : کتاب الأدب) ” مجالس امانت ہوا کرتی ہیں۔“ مسائل ١۔ ایمانداروں کو اپنی مجالس میں آنے والے بھائی کے لیے فراخی پیدا کرنی چاہیے۔ ٢۔ جو شخص دوسرے کے لیے فراخی کرے گا اللہ تعالیٰ اس کے لیے فراخی پیدا کرے گا۔ ٣۔ صاحب مجلس مجلس برخاست کرنے کا اعلان کرے تو مجلس سے اٹھ جانا چاہیے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ ایمانداروں اور اہل علم کے درجات بلند فرمائے گا۔ ٥۔ لوگ جو بھی عمل کرتے ہیں اللہ تعالیٰ اس سے باخبر ہے۔ تفسیربالقرآن علم اور اہل علم کا مقام : ١۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو لکھنا سکھایا۔ (العلق : ٤) ٢۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو بولنا اور بیان کرنا سکھلایا۔ (الرحمن : ٤) ٣۔ انسان کو الرّحمان نے قرآن سکھایا۔ (الرحمن : ٢) ٤۔ آدم (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے علم دیا۔ (البقرۃ: ٣١) ٥۔ فرشتوں نے بھی سب کچھ اللہ تعالیٰ سے سیکھا۔ (البقرۃ: ٣٢) ٦۔ ” اللہ“ نے اہل علم کے درجات کو بلند فرمایا ہے۔ (المجادلہ : ١١) ٨۔ کیا علم والے اور بے علم برابر ہو سکتے ہیں۔ ( الزمر : ٩) المجادلة
12 فہم القرآن ربط کلام : نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو منافقین کی گستاخیوں سے بچانے کے لیے خصوصی حکم۔ اسی سورت کی آیت ٨ میں ا رشاد ہوا ہے کہ کچھ لوگ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس طرح سلام نہیں کہتے جس طرح اللہ تعالیٰ نے انہیں سلام کہنے کی تعلیم دی ہے اس طرح سلام نہ کہنے والے عام طور پر منافق تھے۔ منافقین کو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دور رکھنے اور ان کی گستاخیوں سے بچانے کے لیے حکم ہوا کہ اے مومنو! جب تم نے اللہ کے رسول سے علیحدگی میں بات کرنا ہو تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ملاقات کرنے سے پہلے صدقہ کیا کرو یہ تمہارے لیے بہتر اور پاکیزگی کا عمل ہے، اگر کوئی مومن صدقہ کرنے کے لیے کوئی چیزنہ پائے اور وہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے علیحدگی میں ملاقات کرنا چاہے تو اسے ملاقات کرنے کی اجازت ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ معاف کرنے والا مہربان ہے۔ اگر تم صدقہ کرنے میں تنگی محسوس کرتے ہو تو اللہ تعالیٰ نے اس شرط کو معاف کردیا ہے۔ اب اخلاص کے ساتھ نماز پڑھو، زکوٰۃ دو، اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے رہو۔ ہمیشہ یادر کھو کہ جو تم عمل کرتے ہو اللہ تعالیٰ اس سے پوری طرح باخبر ہوتا ہے۔ یہاں صدقہ کرنے کو خیر اور پاکیزگی قرار دیا گیا ہے صدقہ اس لیے خیر ہے کہ یہ نیکی کا کام ہے۔ اس سے مال میں برکت ہوتی ہے اور مسلمان کے گناہ معاف ہونے کے ساتھ اس کا مال میل کچیل سے اور دل بخیلی سے پاک ہوتا ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ملاقات سے پہلے صدقہ کرنے کی پابندی اس لیے لگائی گئی تاکہ منافق اور دوسرے لوگ خوامخواہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا قیمتی وقت ضائع نہ کریں اور لوگ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ملنے کے آداب سیکھ جائیں لیکن اس حکم میں ایک مشقت پائی جاتی تھی۔ اس لیے چند دنوں کے بعد صدقہ کرنے کی پابندی اٹھالی گئی تاکہ مسلمانوں کو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ ملاقات کرنے میں کوئی دِ قت اور رکاوٹ نہ رہے، اس لیے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے تم پر توجہ فرمائی یعنی اس نے اپنا کرم فرماتے ہوئے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ملاقات کرنے سے پہلے صدقہ کرنے کی پابندی ختم کردی ہے۔ اب تم اخلاص کے ساتھ نماز پڑھتے رہو، زکوٰۃ ادا کرو اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت میں زندگی بسر کرو۔ مسائل ١۔ صدقہ کرنا انسان کے لیے بہتر اور پاکیزگی کا باعث ہوتا ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر کرم فرمانے والاہے۔ ٣۔ ایمانداروں کے لیے حکم ہے کہ وہ نماز قائم کریں اور زکوٰۃ دیتے رہیں اور ہر حال میں اللہ اور اس کے رسول کی تابعداری کرتے رہیں۔ ٤۔ لوگ جو بھی عمل کرتے ہیں اللہ تعالیٰ اس سے باخبر ہے۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ معاف کرنے والا نہایت مہربان ہے۔ تفسیربالقرآن اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کا حکم اور اس کے فائدے : ١۔ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت ایمان کی نشانی ہے۔ (الانفال : ١) ٢۔ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت باعث رحمت ہے۔ (التوبہ : ٧١) ٣۔ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرنے والے ہی کامیاب ہوں گے۔ (النور : ٥٢) ٤۔ اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کرنے والے کو جنت میں داخل کیا جائے گا۔ (النساء : ١٣) ٥۔ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرنے والے انبیاء، صلحاء شہداء، اور سچے لوگوں کے ساتھ ہوں گے۔ (النساء : ٦٩) المجادلة
13 المجادلة
14 فہم القرآن ربط کلام : اللہ اور اس رسول کی اطاعت اور محبت کا تقاضا ہے کہ مسلمان ان لوگوں کے ساتھ دلی دوستی نہ رکھیں جن پر اللہ تعالیٰ نے اپنی ناراضگی کا اظہار کیا ہے۔ نبی (علیہ السلام) کے دور میں منافقوں کی حالت یہ تھی کہ اگر انہیں مسلمانوں کی طرف سے فائدہ پہنچتا تو وہ سر عام مسلمانوں کی حمایت کرتے اگر انہیں کسی آزمائش کا سامنا کرنا پڑتا اور دوسروں کی طرف سے فائدہ پہنچتا دکھائی دیتا تو وہ کفار اور یہودیوں کے ساتھ مل کر مسلمانوں کے خلاف سازشیں کرتے۔ اس پرنبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے صحابہ (رض) کو ارشاد ہوا کہ کیا تم نے ان لوگوں کے بارے میں غور نہیں کیا جو ایسے لوگوں کے ساتھ دوستی رکھتے ہیں جن پر اللہ تعالیٰ کا غضب ہوچکا ہے۔ یہ منافق نہ تمہارے ساتھ ہیں اور نہ ہی یہود و کفارہ کے ساتھ ہیں۔ جب انہیں منافقت سے منع کیا جاتا تو وہ جھوٹی قسمیں اٹھاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کے لیے شدید عذاب تیار کر رکھا ہے اور وہ جو کرتے ہیں برا ہی کرتے ہیں۔ مسلسل منافقت کرنے کی وجہ سے منافق پر ایسا وقت آتا ہے کہ وہ سمجھنے لگتا ہے کہ اب تک میری گرفت نہیں ہوئی لہٰذا میں اپنے کردار اور مؤقف میں سچا ہوں کچھ لوگوں کو سمجھایا جائے تو وہ کھلے الفاظ میں کہتے ہیں جو ہم کرتے ہیں ” اللہ“ کو ایسے ہی منظور ہے۔ یہ کہنا بھی اللہ پر جھوٹ بولنے کے مترادف ہے۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ جھوٹ، فریب اور منافقت کو پسند نہیں کرتا۔ (عَنِ ابْنِ عُمَرَ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ مَثَلُ الْمُنَافِقِ کَمَثَلِ الشَّاۃِ الْعَاءِرَۃِ بَیْنَ الْغَنَمَیْنِ تَعِیْرُإِ لٰی ھٰذِہٖ مَرَّۃً وَ إِلٰی ھٰذِہٖ مَرَّۃً) (رواہ مسلم : کتاب صفات المنافقین وأَحکامھم) ” حضرت عبداللہ بن عمر (رض) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں آپ نے فرمایا منافق کی مثال اس بکری کی طرح ہے جو دو ریوڑوں کے درمیان پھرتی ہے کبھی ایک ریوڑکی طرف جاتی ہے کبھی دوسرے کی طرف۔“ (عَنْ اَبِیْ سَعِیْدٍ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ لِکُلِّ غَادِرٍ لِوَاءٌ عِنْدَ اِسْتِہٖ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِوَفِیْ رَوَایَۃٍ لِکُلِّ غَادِرٍ لِوَاءٌ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ یُرْفَعُ لَہٗ بِقَدَرِ غَدْرِہٖ اَ لَاوَلَا غَادِرَ اَعْظَمُ غَدْرًا مِنْ اَمِیْرِ عَامَّۃٍ) (رواہ مسلم : کتاب الجہاد والسیر، باب تحریم الغدر) ” حضرت ابو سعید (رض) بیان کرتے ہیں نبی مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا قیامت کے دن ہر عہد شکن انسان کی دبر کے نزدیک جھنڈا ہوگا۔ ایک روایت میں ہے ہر عہد شکن کے لیے قیامت کے دن جھنڈا ہوگا‘ جو اس کی عہد شکنی کے مطابق بلند کیا جائے گا۔ خبردار! سربراہ مملکت کی عہد شکنی سب سے بڑی ہوتی ہے۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے یہودیوں پر غضب نازل کیا۔ ٢۔ منافق پر بھی ” اللہ“ کا غضب ہوتا ہے۔ ٣۔ منافق نہ مسلمانوں کا ساتھی ہوتا ہے اور نہ دوسروں کا۔ ٤۔ منافق جھوٹ بولتے ہیں۔ ٥۔ منافقت بدترین عمل ہے۔ ٦۔ اللہ تعالیٰ نے منافقوں کے لیے شدید ترین عذاب تیار کر رکھا ہے۔ تفسیربالقرآن منافق کا کردار اور اس کی سزا : ١۔ منافق دغا باز اور ریا کار ہونے کے ساتھ بے توجہگی کے ساتھ نماز پڑھتا ہے۔ (النساء : ١٤٢) ٢۔ منافق کے کلمہ پر اعتبار نہیں کیونکہ وہ جھوٹا ہوتا ہے۔ (المنافقون : ١) ٣۔ منافق کی قسم پر اعتبار نہیں کیونکہ وہ اسے ڈھال کے طور پر استعمال کرتا ہے۔ (المنافقون : ٢) ٤۔ منافق کفار سے دوستی رکھتا ہے۔ (البقرۃ: ١٤) ٥۔ منافقین کو دنیا وآخرت میں سزا ہوگی۔ (التوبہ : ٧٤) ٦۔ منافقین پر اللہ تعالیٰ کی لعنت اور جہنم کا عذاب ہوگا۔ (الفتح : ٦) ٧۔ اللہ تعالیٰ منافقین کو معاف نہیں کرے گا۔ (المنافقون : ٦) ٨۔ منافقوں کے دلوں میں بیماری ہے۔ ان کو دردناک عذاب ہوگا۔ (البقرۃ: ١٠) ٩۔ اللہ تعالیٰ منافقوں کو دردناک عذاب میں مبتلا کریں گے۔ (التوبہ : ٧٩) ١٠۔ اگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) منافق کے لیے ستر بار بھی بخشش طلب کریں اللہ انہیں معاف نہیں کرے گا۔ (التوبہ : ٨٠) ١١۔ منافق ہمیشہ جہنم میں رہیں گے۔ (التوبہ : ٦٨) ١٢۔ منافق جہنم کے نچلے طبقہ میں ہوں گے۔ (النساء : ١٤٥) المجادلة
15 المجادلة
16 فہم القرآن ربط کلام : منافق صرف جھوٹ ہی نہیں بولتا بلکہ اکثر طور پر جھوٹی قسمیں بھی اٹھاتا ہے۔ قرآن مجید نے منافقین کے بارے میں کئی مقامات پر بتلایا ہے کہ منافقین نے اپنی قسموں کو ڈھال بنا رکھا ہے اور لوگوں کو اللہ کے راستے سے روکتے ہیں انہیں ذلّت ناک عذاب ہوگا اور قیامت کے دن ان کے مال اور اولاد ” اللہ“ کے ہاں کوئی فائدہ نہیں دے سکیں گے، یہ جہنم میں جائیں گے اور اس میں ہمیشہ رہیں گے۔ جب اللہ تعالیٰ ان سب کو قیامت کے دن اپنے حضور پیش کرے گا تو وہ اس کے سامنے اسی طرح جھوٹی قسمیں اٹھائیں گے جس طرح لوگوں کے سامنے جھوٹی قسمیں اٹھایا کرتے تھے۔ وہ خیال کریں گے کہ جس طرح دنیا میں جھوٹی قسمیں اٹھانے سے ہم اپنا کام نکال لیا کرتے تھے یہاں بھی جھوٹی قسموں کے ذریعے نجات پا جائیں گے حالانکہ انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ ہر بات سے واقف ہے اس لیے وہاں ان کی قسمیں ان کے کام نہیں آئیں گی۔ جھوٹا انسان عام طور پر مالی فائدے اور اپنی اولاد کی خاطر جھوٹ بولتا ہے۔ اس لیے یہاں بالخصوص مال اور اولاد کا ذکر فرماکر یہ بات واضح فرمائی ہے کہ جس مال اور اولاد کی خاطر عام لوگ اور منافق جھوٹی قسمیں اٹھاتے ہیں قیامت کے دن مال اور اولاد انہیں کچھ فائدہ نہیں دیں گے۔ منافق شعوری یا غیر شعوری طور پر اپنی گفتار اور کردار سے لوگوں کو اللہ کے راستے سے روکتے ہیں اس لیے انہیں ذلّت ناک عذاب میں مبتلا کیا جائے گا۔ یہاں تک کہ منافقین کو جہنم کے سب سے نچلے حصہ میں پھینکا جائے گا، وہاں ان کی کوئی مدد نہیں کرپائے گا۔ ( النساء : ١٤٥) (عَنْ أَبِیْ ذَرٍّ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ ثَلَاثَۃٌ لَا یُکَلِّمُھُمُ اللّٰہُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ وَلَا یَنْظُرُ إلَیْھِمْ وَلَا یُزَکِّیْھِمْ وَلَھُمْ عَذَابٌ أَلِیْمٌ قَالَ فَقَرَأَھَا رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ثَلَاثَ مِرَارٍ قَالَ أَبُوْ ذَرّے (رض) خَابُوْا وَخَسِرُوْامَنْ ھُمْ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ الْمُسْبِلُ وَالْمَنَّانُ وَالْمُنْفِقُ سِلْعَتَہٗ بالْحَلْفِ الْکَاذِبِ) (رواہ مسلم : کتاب الإیمان، باب بیان غلظ تحریم إسبال الإزار والمن بالعطیۃ) ” حضرت ابوذر (رض) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں۔ آپ نے فرمایا قیامت کے دن تین قسم کے لوگوں سے اللہ کلام نہیں کرے گا، نہ ان کی طرف نظر رحمت سے دیکھے گا اور نہ ہی ان کو گناہوں سے پاک کرے گا۔ ان کے لیے درد ناک عذاب ہوگا۔ ابوذر (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ بات تین مرتبہ ارشاد فرمائی۔ ابوذر (رض) نے عرض کی یارسول اللہ! وہ کون لوگ ہیں ؟ وہ ناکام اور نامراد ہوگئے۔ آپ نے فرمایا : 1 اپنا تہہ بندٹخنوں سے نیچے لٹکانے والا 2 احسان جتلانے والا 3 جھوٹی قسمیں اٹھا کر اپنا مال فروخت کرنے والا۔“ مسائل ١۔ منافق لوگ اپنی قسموں کو ڈھال کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ ٢۔ منافق لوگوں کو اللہ کے راستے سے روکتے ہیں۔ ٣۔ منافقین کو قیامت کے دن ان کا مال اور اولاد کچھ فائدہ نہیں دیں گے۔ ٤۔ منافق اپنی عادت کے مطابق قیامت کے دن بھی جھوٹی قسمیں اٹھائیں گے۔ ٥۔ منافق جہنم میں ہمیشہ رہیں گے کیونکہ وہ اپنے ایمان اور گفتار میں جھوٹے ہیں۔ المجادلة
17 المجادلة
18 المجادلة
19 فہم القرآن ربط کلام : جھوٹ بولنے اور جھوٹی قسمیں اٹھانے کی وجہ سے منافق اور برے شخص پر شیطان مسلّط ہوجاتا ہے جس وجہ سے یہ لوگ اللہ کی ذات اور بات کو بھول جاتے ہیں۔ استحوذ کا معنٰی اثر کرنا، زیر کرنا، قابو پانا، قبضہ کرنا اور غصب کرنا ہے۔ منافق کی منافقت اور برے کی مسلسل برائی کی وجہ سے شیطان اس پر اس طرح مسلّط ہوجاتا ہے کہ وہ اس کو اللہ کی یاد کی طرف آنے ہی نہیں دیتا حقیقت یہ ہے کہ ایسے لوگ شیطان کا لشکر ہوتے ہیں، یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ شیطان کا لشکر بالآخر نقصان پائے گا۔ بلاشبہ جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کرتے ہیں وہ ہر صورت ذلیل ہوں گے۔ قرآن مجید میں لفظ ذکر کئی معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ یہاں ذکر سے مراد اللہ تعالیٰ کی یاد اور اس کا فرمان ہے۔ انسان پر جب شیطان پوری طرح مسلّط ہوجاتا ہے تو انسان اپنے رب کے حکم اور نصیحت کو کلی طور پر فراموش کردیتا ہے۔ شیطان کی سب سے بڑی کوشش ہوتی ہے کہ وہ انسان کو پوری طرح اس کے رب سے غافل اور دور کردے۔ جو لوگ اپنے رب سے دور ہوتے ہیں وہ شیطان کے چنگل میں پھنس جاتے ہیں۔ بے شک ظاہری طور پر وہ کتنے ہی شریف نظر آئیں لیکن حقیقت میں وہ شیطان کی فوج کے سپاہی اور اس کے کارندے ہوتے ہیں۔ شیطان کے ساتھی ہمیشہ اللہ اور اس کے رسول کے نافرمان ہوتے ہیں، اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو آخرت میں ضرورذلیل کرے گا۔ (عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اَلشَّےْطٰنُ جَاثِمٌ عَلٰی قَلْبِ ابْنِ اٰدَمَ فَاِذَا ذَکَرَ اللّہَ خَنَسَ وَاِذَا غَفَلَ وَسْوَسَ) ( مصنف ابن ابی شیبہ : باب کلام ابن عباس (رض) ” حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے، شیطان ابن آدم کے دل سے چمٹا رہتا ہے۔ جب وہ اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتا ہے تو دور ہٹ جاتا جب وہ ذکر سے غافل ہوتا ہے تو شیطان واپس آکر وسوسے ڈالنا شروع کردیتا ہے۔“ (وَمَنْ یَّعْشُ عَنْ ذِکْرِ الرَّحْمٰنِ نُقَیِّضْ لَہٗ شَیْطٰنًا فَہُوَ لَہٗ قَرِیْنٌ) (الزخرف : ٣٦) ” جو شخص الرّحمان کے ذکر سے غفلت برتتا ہے ہم اس پر شیطان مسلط کردیتے ہیں پھر شیطان اس کا ساتھی بن جاتا ہے۔“ (عَنْ عَلِیِّ بْنِ حُسَیْنٍ۔أَنَ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ۔۔إِنَّ الشَّیْطَانَ یَجْرِیْ مِنَ الْإِنْسَانِ مَجْرَی الدَّمِ۔۔) (رواہ البخاری : کتاب الإعتکاف، باب زیارۃ المرأۃ زوجھا فی اعتکافہ ) ” حضرت علی بن حسین (رض) بیان کرتے ہیں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : یقیناً شیطان انسان کے جسم میں خون کی طرح گردش کرتا ہے۔“ قرآن مجید نے ارشاد فرمایا : (اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا یُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَالَّذِیْنَ کَفَرُوْا یُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ الطَّاغُوْتِ فَقَاتِلُوْٓا اَوْلِیَآء الشَّیْطٰنِ اِنَّ کَیْدَ الشَّیْطٰنِ کَانَ ضَعِیْفًا) (النساء : ٧٦) ” جو لوگ ایمان لائے ہیں وہ تو اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرتے ہیں اور جن لوگوں نے کفر کیا ہے وہ اللہ تعالیٰ کے سوا دوسروں کی راہ میں لڑتے ہیں۔ پس تم شیطان کے دوستوں سے جنگ کرو۔ بلاشبہ شیطان کا حربہ نہایت کمزور ہے۔“ مسائل ١۔ جن لوگوں پرشیطان مسلط ہوجائے وہ اللہ کے ذکر کو بھول جاتے ہیں۔ ٢۔ شیطان کے ساتھی آخرت میں ضرور ذلیل ہوں گے۔ ٣۔ سن لو! شیطان کے ساتھی بالآخر نقصان پائیں گے۔ ٤۔ اللہ کی ذات اور فرمان کو بھول جانے والے لوگ شیطان کے ساتھی ہوتے ہیں۔ ٥۔ جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کا مقابلہ کرتے ہیں وہ ذلیل ترین مخلوق ہیں۔ تفسیر بالقرآن شیطان اور اس کے ساتھی ہمیشہ ہمیش نقصان پائیں گے : ١۔ شیطان کی تابعداری کرنے والے نقصان پائیں گے۔ (المجادلہ : ١٩) ٢۔ جس نے اللہ کے سوا شیطان کو دوست بنالیا اس نے بہت نقصان پایا۔ (النساء : ١١٩) ٣۔ شیطان کی دوستی اختیار کرنے والوں پر گمراہی مسلط کردی جاتی ہے۔ (الاعراف : ٣٠) ٤۔ تم شیطان کے دوستوں سے لڑائی کرو یقیناً شیطان کی تدبیر کمزور ہے۔ (النساء : ٧٦) ٥۔ جس نے شیطان کو اپنا دوست بنایا وہ خائب و خاسر ہوا۔ (النساء : ١١٩) ٦۔ شیطان کی رفاقت کا بدترین انجام ہوگا۔ (الفرقان : ٢٧، ٢٩) ٧۔ شیطان انسان کا بدترین ساتھی ہے۔ (النساء : ٣٨) ٨۔ ” اللہ“ کے بندوں پر شیطان کی کوئی دلیل کار گر نہ ہوگی۔ (بنی اسرائیل : ٦٥) المجادلة
20 المجادلة
21 فہم القرآن ربط کلام : حزب الشیطان کے بعد حزب اللہ کا بیان۔ کردار کے حوالے سے دنیا میں بنیادی طور پر دو قسم کے انسان ہوتے ہیں۔ ایک اللہ اور اس کے رسول کے نافرمانوں کی جماعت اور دوسری اللہ اور اس کے رسول کے تابعداروں کی جماعت ہے۔ یہاں نافرمانوں کو حزب الشیطان کہا گیا ہے اور تابعدار لوگوں کو حزب اللہ قرار دیا گیا ہے۔ (المجادلہ : ٢٢) دوسرے مقام پر پہلے گروہ کو اولیاء الشیطان اور دوسرے کو اولیاء اللہ کا اعزاز بخشا گیا ہے۔ (البقرۃ: ٢٥٧) دونوں گروہوں کے درمیان روز اوّل سے کشمکش جاری ہے کبھی حزب الشیطان کا شورو غوغا غالب آتا ہے اور کبھی حزب اللہ غالب آتے ہیں۔ یہاں تک حقائق اور دلائل کے اعتبار سے غلبہ پانے کی صورت ہے وہ ہمیشہ اللہ کا فرمان اور اس کے رسول غالب رہے ہیں کیونکہ کسی دور میں بھی کتاب اللہ اور انبیائے کرام کو شیطان کا گروہ دلائل کی بنیاد پر انہیں جھوٹا ثابت نہیں کرسکا۔ یہاں تک سیاسی غلبے کی بات ہے وہ اسی صورت میں حزب اللہ کو حاصل ہوگا جب وہ ایمان کے تقاضے پورے کریں گے کیونکہ فرمان باری تعالیٰ ہے۔ ( وَ لَا تَہِنُوْا وَ لَا تَحْزَنُوْا وَ اَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ) (آل عمران : ١٣٩) ” تم سستی نہ کرو اور نہ غم کرو تم ہی غالب رہو گے اگر تم ایماندار ہو۔ ” حضرت ثوبان (رض) سے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ میری امت سے ایک جماعت حق پر غالب رہے گی۔ ان کو رسوا کرنے والا ان کا کچھ بگاڑ نہیں سکے گا یہاں تک کہ قیامت تک وہ اسی پر قائم رہیں گے۔“ (رواہ مسلم : باب قَوْلِہِ لَا تَزَالُ طَاءِفَۃٌ مِنْ أُمَّتِی ظَاہِرِینَ عَلَی الْحَقِّ لاَ یَضُرُّہُمْ مَنْ خَالَفَہُمْ) (اَلْاِسْلَامُ یَعْلُوْ وَ لَا یُعْلٰیٰ) (ارواء الغلیل حدیث نمبر : ١٢٦٨) ” اسلام غالب آئے گا اور اس پر کوئی غالب نہیں آئے گا۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ کا قطعی فیصلہ ہے کہ وہ اور اس کے رسول غالب رہیں گے۔ ٢۔ بلاشبہ اللہ تعالیٰ بڑاطاقتور اور ہر اعتبار سے غالب رہنے والاہے۔ المجادلة
22 فہم القرآن ربط کلام : اللہ کا لشکر اس لیے غالب آتا ہے کیونکہ وہ لوگ سب سے کٹ کر ” اللہ“ کے ہوجاتے ہیں۔ حقیقی ایمان کا تقاضا ہے کہ مسلمان کسی خوف اور لالچ کی پرواہ کیے بغیر صرف ” اللہ“ کے ہوجائیں یعنی وہ ہر حال میں دین اسلام پر قائم رہیں کیونکہ جرأت اور استقامت کے بغیر مسلمان حزب الشیطان پر غالب نہیں آسکتے۔ اس لیے لازم ہے کہ وہ ایمان کے رشتے کو دنیا کے تمام تعلقات اور رشتوں پر ترجیح دیں، جو لوگ اللہ اور اس کے رسول پر سچا ایمان لاتے ہیں ان میں یہ وصف بدرجہ اتم پایا جاتا ہے کہ وہ ایمان اور مسلمانوں کے مقابلے میں کسی رشتہ کو خاطر میں نہیں لاتے۔ اس کے لیے سب سے پہلے کامل اور اکمل نمونہ صحابہ (رض) تھے۔ جنہیں خراج تحسین سے نوازتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے یوں ارشاد فرمایا ہے کہ دیکھنے والا یہ کبھی نہیں دیکھ پائے گا کہ جو اللہ اور آخرت پر ایمان لانے والے ہیں وہ ان لوگوں سے محبت کرتے ہوں جو اللہ اور اس کے رسول کے مخالف ہیں، بے شک وہ ان کے باپ ہوں یا ان کے بیٹے یا ان کے بھائی یا ان کے عزیز واقرباء۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ وہ لوگ ہیں جن کے دلوں میں اللہ نے ایمان کو پختہ کردیا ہے اور اپنی طرف سے ایک روح عطا فرما کر ان کو طاقتور بنا دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کو اپنی جنتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی اور وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے۔ اللہ تعالیٰ ان پر راضی ہوگیا اور وہ ” اللہ“ پر راضی ہوگئے پھر اچھی طرح سن لو! کہ یہ اللہ کا لشکر ہے اور اللہ کا لشکر ہی کامیاب ہوا کرتا ہے۔ اس آیت مبارکہ میں صحابہ کرام (رض) کے بارے میں چار باتیں ارشاد فرمائی ہیں۔ ١۔ اللہ تعالیٰ نے صحابہ کے ایمان کی تحسین فرمائی ہے اور ان کے ایمان کو حقیقی ایمان کا پیمانہ قرار دیا ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے انہیں پوری طرح پرکھ لیا ہے۔ (الحجرات : ٣) (فَاِنْ اٰمَنُوْا بِمِثْلِ مَآ اٰمَنْتُمْ بِہٖ فَقَدِ اہْتَدَوْا وَ اِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّمَا ہُمْ فِیْ شِقَاقٍ فَسَیَکْفِیْکَہُمُ اللّٰہُ وَ ہُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ) (البقرۃ: ١٣٧) ” اگر وہ تمہاری طرح ایمان لائیں تو ہدایت پائیں گے۔ اگر منہ موڑلیں تو وہ واضح طور پر ضد کر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ عنقریب ان کے مقابلہ میں آپ کو کافی ہوگا اور وہ خوب سننے اور جاننے والا ہے۔“ ٢۔ ایمان کے بنیادی تقاضوں میں ایک تقاضا یہ بھی ہے کہ ایماندار شخص دوسرے کے ساتھ اللہ کے لیے محبت کرے اور اللہ ہی کی خاطر دشمنی رکھے۔ اس کا نتیجہ نکلے گا کہ مسلمان دوسروں کی نسبت مسلمان بھائی سے محبت رکھے گا اور وہ کسی صورت بھی کافر اور مشرک کو مسلمان بھائی پر ترجیح نہیں دے گا۔ ایمان کے اسی تقاضے کے پیش نظر صحابہ کرام (رض) میں کسی نے اپنے والدین کو چھوڑا، کسی نے اپنی اولاد سے ناطہ توڑا، کسی نے اپنے بھائیوں سے تعلقات منقطع کیے، کسی نے اپنے خاندان سے لاتعلقی کا اظہار کیا اور کسی نے اپنی بیوی سے علیحدگی اختیار کی کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ اسلام اور مسلمان پرکسی کو ترجیح نہیں دینی چاہیے۔ اسی کا نتیجہ تھا کہ غزوہ بدر کے موقع پر حضرت ابو عبیدہ (رض) نے اپنے باپ کو قتل کیا، جو بار بار نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر حملہ آور ہو رہا تھا حضرت مصعب بن عمیر (رض) نے اپنے بھائی عبید کا لاشہ تڑپایا، حضرت عمر نے اپنے ماموں عاص بن ہشام کو تہہ تیغ کیا اسی طرح دوسرے صحابہ نے رشتہ داری کو پس پشت ڈال کرکفار کے ساتھ معرکہ لڑا اور فتح یاب ہوئے۔ جس کی اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ میں تعریف فرمائی ہے کہ تم ایمانداروں کو کبھی ایسا نہیں پاؤ گے کہ وہ ایمان والوں پر اپنے رشتہ داروں کو ترجیح دیں، بے شک وہ ان کے باپ، ان کے بیٹے، ان کے بھائی یا ان کے خاندان کے افراد ہوں۔ یہ اس لیے ہے کہ اللہ نے ان کے دلوں میں ایمان کو مستحکم کردیا ہے۔ ٣۔ جب کسی شخص کے دل میں صحیح معنوں میں ایمان راسخ ہوجائے تو اسے اللہ تعالیٰ ایسا جذبہ اور شوق نصیب کرتا ہے جس بنا پر وہ ہر چیز کو اپنے رب کے حکم کے مقابلے میں ہیچ سمجھتا ہے۔ جس قوم میں یہ جذبہ پیدا ہوجائے اللہ تعالیٰ اپنی طرف سے اس قوم کو مزید جذبہ اور قوت عطا کرتا ہے جس بنا پر وہ اپنے نیک مقاصد میں کامیاب ہوتی ہے۔ بعض مفسرین نے روح کا معنی جبرائیل امین (علیہ السلام) لیا ہے۔ ٤۔ صحابہ کرام (رض) اپنے رب پرخالص ایمان لائے اور انہوں نے اس کے تقاضے پورے کیے۔ جس وجہ سے اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنا لشکر قرار دیا اور فرمایا کہ یہ لوگ اللہ کا لشکر ہیں اللہ تعالیٰ نے نہ صرف انہیں کامیاب فرمایا بلکہ ان کے بارے میں کھلے الفاظ میں ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ان پر راضی ہوا اور وہ اللہ پر راضی ہوگئے۔ اللہ تعالیٰ انہیں ایسی جنتوں میں داخل فرمائے گا جن کے نیچے نہریں جاری ہیں اور یہ ان میں ہمیشہ ہمیش رہیں گے۔ صحابہ پر ” اللہ“ کا راضی ہونا اور صحابہ کا ” اللہ“ پر راضی ہونا ایسا اعزاز ہے جو اس درجے میں قیامت تک کسی کو حاصل نہیں ہوگا۔ مسائل ١۔ اللہ اور آخرت پر حقیقی ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کے مخالفوں کے ساتھ رشتہ داری اور قلبی محبت نہ کی جائے۔ ٢۔ صحابہ کرام (رض) نے اللہ اور اس کے رسول کی خاطر اپنے عزیز واقرباء کو چھوڑ دیا تھا۔ ٣۔ صحابہ کرام (رض) کے سچے ایمان اور اخلاص کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے انہیں ایمان میں ثابت قدمی عطا فرمائی۔ ٤۔ صحابہ کرام (رض) اللہ کی جماعت تھے، اللہ کی جماعت ہی کامیاب ہوا کرتی ہے۔ اس لیے صحابہ کرام ہر میدان میں کامیاب رہے۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ صحابہ کرام (رض) پر راضی ہوا اور صحابہ اپنے رب پر راضی ہوگئے۔ ٦۔ اللہ تعالیٰ مومنوں کی خصوصی مدد فرماتا ہے۔ تفسیر القرآن کامیاب ہونے والے لوگ : ١۔ اللہ تعالیٰ نے مومنوں، مومنات سے ہمیشہ کی جنت اور اپنی رضا مندی کا وعدہ فرمایا ہے یہ بڑی کامیابی ہے۔ (التوبہ : ٧٢، ٨٩، ١٠٠) ٢۔ اللہ تعالیٰ نیک لوگوں کو اپنی رحمت میں داخل کرے گا یہ کھلی کامیابی ہے۔ (الجاثیہ : ٣٠) ٣۔ اللہ تعالیٰ نے مومنین سے جنت کے بدلے ان کے مال و جان خرید لیے ہیں یہ بڑی کامیابی ہے۔ (التوبہ : ١١١) ٤۔ اے اللہ نیک لوگوں کو برائی سے بچا جو برائی سے بچ گیا اس پر تیرا رحم ہوا یہ بڑی کامیابی ہے۔ (المومن : ٩) ٥۔ مومنوں کا جہنم کے عذاب سے بچنا اللہ کے فضل سے ہوگا اور یہی کامیابی ہے۔ (الدخان : ٥٧) ٦۔ مومنوں کے لیے ہمیشہ کی جنت ہے جس میں پاک صاف مکان ہیں یہ بڑی کامیابی ہے۔ (الصف : ١٢) المجادلة
0 سورۃ الحشرکا تعارف اس سورت کا نزول مدینہ طیبہ میں ہوا۔ یہ سورت تین رکوعات اور چوبیس (٢٤) آیات پر محیط ہے۔ مسبّحات میں یہ دوسری سورت ہے اس کا پہلا فرمان یہ ہے کہ زمینوں اور آسمانوں کی ہر چیز ” اللہ“ کی تعریف کر رہی ہے وہ اللہ ہر اعتبار سے غالب حکمت والا ہے۔ اسی غالب آنے والے نے مدینہ سے ان کافروں کو نکلنے پر مجبور کیا جو اپنی افرادی قوت اور مضبوط قلعوں کی بنیاد پر مدینہ سے نکلنے کا تصور بھی نہیں کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں کمزور مسلمانوں کے ہاتھوں اپنے گھروں سے نکلنے پر مجبور کردیا۔ واقعہ کی تفصیل اس طرح ہے کہ یہودی کئی صدیوں سے حجاز بلخصوص مدینہ کے علاقے میں اپنا تسلّطجمائے ہوئے تھے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مکہ سے مدینہ تشریف لائے تو بقائے باہمی کے اصول پر یہودیوں کے ساتھ معاہدہ کیا کہ خارجی خطرات کی صورت میں ہم ایک دوسرے کے ساتھ مل کر مدینہ کا دفاع کریں گے لیکن انہوں نے غزوہ بدر سے لے کر مکہ فتح ہونے تک ہر بار مشرکین مکہ کا پورا پورا ساتھ دیا۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) غزوہ خندق سے فارغ ہوئے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہودیوں کو مدینہ سے نکل جانے کا حکم دیا اور انہیں مہلت دی کہ اتنے دنوں میں اپنے معاملات سمیٹ لو اور جس قدر سامان اٹھا سکتے ہو اسے لے کر نکل جاؤ لیکن منافقوں کی حوصلہ افزائی پر یہودیوں کے قبیلہ بنوقریظہ نے نکل جانے سے انکار کردیا۔ اس پر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے علاقے کی طرف پیش قدمی فرمائی اور ان کے کچھ باغ کاٹنے کا حکم دیا جس پر انہوں نے پروپگنڈہ کیا کہ یہ جہاد کے نام پر فساد پھیلا رہے ہیں۔ اس پر یہ حکم نازل ہوا کہ جہادی ضرورت کے لیے اگر فصل کاٹنا پڑے تو یہ فساد نہیں بلکہ جہاد کے لیے ضروری ہے اس کے بعد جہاد میں حاصل ہونے والے مال فے کی تقسیم کا اصول بیان فرمایا اس اصول میں یہ اصول بھی بتلا دیا گیا کہ مسلمانوں کا نظام معیشت ایسا ہونا چاہیے جس میں دولت کا بھاؤ غریب اور مسکین کی طرف رہے۔ سورت کے دوسرے رکوع میں یہ بتلایا گیا ہے کہ اے مسلمانوں تم کفار کو متحد سمجھتے ہو یہ بظاہر ایک ہیں لیکن ان کے خیالات اور مفادات الگ الگ ہیں اس لیے ان کے ظاہری اکٹھ سے خوف زدہ نہیں ہونا۔ سورت کے آخری رکوع میں قرآن مجید کی عظمت اور تاثیر کا ذکر کیا گیا ہے کہ یہ قرآن کس قدر تاثیر اور عظمت والا ہے اگر یہ پہاڑ پر اتارا جاتا تو پہاڑ بھی ریزہ ریزہ ہوجاتا۔ الحشر
1 فہم القرآن ربط سورت : دنیا اور آخرت میں کامیابی کے اسباب میں ایک بڑا سبب ” اللہ“ کی یاد ہے۔ زمین و آسمانوں کی ہر چیز اللہ تعالیٰ کو یاد کرتی ہے۔ اس میں یہ واضح اشارہ موجود ہے کہ اے انسان! تجھے بھی ” اللہ“ کو یاد کرنا چاہیے۔ یہ بات سورۃ الحدید کی ابتدا میں عرض ہوچکی ہے کہ ” سَبَّحَ یُسَبِّحُ“ سے شروع ہونے والی چھ سورتیں ہیں جنہیں مسبِّحات کہتے ہیں۔ چنانچہ سورۃ حشر کی ابتدا ” سَبَّحَ“ کے پرجلال اور با رعب لفظ سے ہو رہی ہے کہ ہر چیز اللہ تعالیٰ کی تسبیح پڑھتی ہے جو اپنی ذات، صفات اور حکم کے حوالے سے پوری مخلوق پر غالب ہے لیکن اس کے غلبہ میں ظلم کی بجائے شفقت پائی جاتی ہے۔ ” حضرت ابوہریرہ (رض) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : دو کلمے رحمٰن کو بڑے پسند ہیں زبان سے ادا کرنے میں آسان اور وزن میں بڑے بھاری ہیں۔“ (رواہ البخاری : کتاب التوحید) ” حضرت ابومالک اشعری (رض) رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان ذکر کرتے ہیں کہ پاکیزگی ایمان کا حصہ ہے۔ ” الحمدللہ“ کے الفاظ میزان کو بھر دیتے ہیں۔ ” سبحان اللہ“ اور ” الحمدللہ“ دونوں کلمے زمین و آسمان کو بھر دیتے ہیں۔“ (رواہ مسلم : باب فَضْلِ الْوُضُوءِ) مسائل ١۔ زمین و آسمانوں کی ہر چیز اللہ تعالیٰ کی تسبیح کرتی ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ ہر اعتبار سے اپنی مخلوق پر غالب ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ کے ہر حکم اور کام میں حکمت پائی جاتی ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ کی ہر چیز تسبیح کرتی اور اس کے حضور سربسجود ہوتی ہے : (حٰم السجدۃ: ٣٧) (الحجر : ٩٨) (الحج : ٧٧) (النجم : ٦٢) (النحل : ٤٨) (النحل : ٤٩) (الرحمن : ٦) (الاعراف : ٢٠٦) الحشر
2 فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ ہر چیز پر ہر اعتبار سے غالب ہے اس کے غالب ہونے کا ایک ثبوت۔ نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مکہ سے ہجرت فرما کر مدینہ تشریف لے گئے۔ آپ کی تشریف آوری سے پہلے اس کا نام یثرب تھا۔ یثرب میں رہنے والوں کی غالب اکثریت یہود پر مشتمل تھی۔ یہودیوں کا ہر لحاظ سے مدینہ اور اس کے گرد پیش کے علاقے پر تسلط تھا۔ نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مدینہ تشریف لائے تو آپ نے بقائے باہمی کے اصول پر یہودیوں سے ایک معاہدہ کیا جو میثاق مدینہ کے نام سے مشہور ہے۔ اس میں ایک شرط یہ تھی کہ آپس میں مل جل کر رہیں گے اور خطرہ کی صورت میں اکٹھے ہو کر مدینہ کا دفاع کریں گے۔ لیکن یہودیوں نے غزوہ بدر، اُحد، خندق اور دیگر مواقعوں پر مدینے کے منافقین اور مکہ کے کفار کی درپردہ حمایت جاری رکھی۔ یہاں تک کہ ایک موقع پر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو شہید کرنے کی کوشش کی جس کی تفصیل یہ ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک جھگڑے کے حل کے لیے یہودیوں کے قبیلہ بنو نضیر کے ایک محلے میں تشریف لے گئے۔ یہودیوں کو آپ کی آمد کا علم ہوا تو انہوں نے یہ سازش تیار کی کہ جب آپ مجلس میں بیٹھے ہوں تو مکان کی چھت سے بھاری پتھر پھینک کر آپ کو ختم کردیا جائے۔ آپ پروگرام کے مطابق وہاں تشریف لے گئے اور ابھی دیوار کے سایہ میں تشریف فرما ہوئے ہی تھے کہ آپ کو وحی کے ذریعے یہودیوں کی سازش کا علم ہوا تو آپ وہاں سے اٹھ کھڑے ہوئے۔ ان حالات میں آپ نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے یہ فیصلہ فرمایا کہ بنونضیر کو مدینہ سے نکال باہر کیا جائے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں پیغام بھیجا کہ اپنا سامان لے کر مدینہ سے نکل جاؤ اور پورے علاقے کو خالی کر دو۔ قریب تھا کہ یہودی اپنا سازوسامان لے کر نکل جاتے لیکن رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی نے انہیں پیغام بھیجا کہ تمہیں اپنے گھر بار اور علاقہ نہیں چھوڑنا چاہیے کیونکہ میں دوہزار آدمیوں کے ساتھ تمہاری حفاظت کے لیے پہنچ جاؤں گا، بنوقریظہ اور بنو غطفان بھی تمہاری مدد کریں گے۔ اس پر بنو نضیر کے سردار حی بن اخطب کا حوصلہ بڑھا اور اس نے علاقہ چھوڑنے کی بجائے مسلمانوں سے مقابلہ کرنے کا عزم کرلیا۔ نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس صورت حال میں بنو نضیر کا محاصرہ کیا بنو نضیر کی بستی کے چاروں طرف گنجان باغات تھے جس وجہ سے ان کی طرف پیش قدمی کرنے میں دقت پیش آئی اس لیے آپ نے چند درخت کاٹنے کا حکم دیا، اس پر منافقین اور یہودیوں نے شور مچایا کہ یہ جہاد نہیں فساد فی الارض ہے۔ اس صورت حال پر تبصرہ کرتے ہوئے رب ذوالجلال نے فرمایا کہ وہی ذات ہے جس نے پہلے ہی حملے میں اہل کتاب کے کفار کو ان کے گھروں سے نکال باہر کیا حالانکہ تم سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ وہ لڑائی کے بغیر اپنے گھروں سے نکل کھڑے ہوں گے کیونکہ انہیں یقین تھا کہ ان کے قلعے انہیں اللہ کی گرفت سے بچالیں گے لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کی گرفت اس طرح کی جس کا وہ خواب و خیال بھی نہیں کرسکتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کا ان کے دلوں پر اس طرح رعب ڈال دیا کہ ایک طرف مسلمان ان کا سازوسامان اٹھا رہے تھے اور دوسری طرف وہ خود اپنے گھروں کو مسمار کررہے تھے۔ یادرہے کہ اللہ کے رسول نے انہیں یہ اختیار دیاتھا کہ جس قدر اپنا سازوسامان لے جاسکتے ہو اسے اٹھانے کی تمہیں اجازت دی جاتی ہے اس لیے یہودی اپنے مکانوں کے دروازے اور سامان اکھاڑ اکھاڑ کرلے جارہے تھے باقی ماندہ سامان مسلمانوں نے اکٹھا کرلیا۔ یہودیوں کے لیے یہ ایسا اندوہ ناک لمحہ تھا کہ جس کا اس سے پہلے وہ تصور بھی نہیں کرسکتے تھے۔ اس لیے ارشاد فرمایا ہے کہ اے آنکھیں رکھنے والو! اسے کھلی آنکھوں کے ساتھ دیکھو اور پوری بصیرت کے ساتھ غورو فکر کرو اور اس سے عبرت حاصل کرنے کی کوشش کرو۔ اس کسم پرسی کے عالم میں کچھ یہودی شام کی طرف چلے گئے اور باقی نے خیبر میں جاکر پناہ لی جنہیں حضرت عمر (رض) کے دور میں خیبر سے نکال دیا گیا۔ اگر اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاں یہ بات نہ لکھی ہوتی کہ یہودیوں کو جلاوطن کیا جائے گا تو وہ دنیا میں انہیں سخت ترین عذاب دیتا اور آخرت میں ان کے لیے آگ کا عذاب ہوگا۔ ” لِاَوَّلِ الْحَشْرِ“ کے اہل علم نے دو مفہوم اخذ کیے ہیں۔ ایک جماعت کا خیال ہے کہ پہلے حشر سے مراد نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دور میں یہودیوں کا مدینہ سے اخراج ہے، دوسرا حشر وہ ہے جب یہودیوں کو حضرت عمر (رض) کے زمانے میں جزیرۃ العرب سے نکال دیا گیا۔ دوسری جماعت کا نظر یہ ہے کہ ” لِاَوَّلِ الْحَشْرِ“ سے مراد مسلمانوں کا پہلے مرحلے میں یہودیوں کے خلاف اکٹھا ہونا ہے۔ ابھی مسلمان یہودیوں کے خلاف اکٹھے ہوئے ہی تھے کہ یہودی مرعوب ہو کر خود بخود مدینہ چھوڑ کر خیبر کی طرف روانہ ہوگئے۔ ” حضرت عبداللہ بن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہودیوں اور عیسائیوں کو حجاز کے علاقے سے جلاوطن کردیا۔ جب رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خیبر پر غلبہ پایا تو آپ نے ارادہ کیا کہ وہاں سے یہودیوں کو جلا وطن کیا جائے کیونکہ اس علاقے پر جب غلبہ حاصل ہوا تو یہ زمین اللہ، اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مومنین کی ہوگئی تھی۔ یہودیوں نے رسول مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں درخواست کی وہ زمینوں اور باغات میں کام کریں گے اور انہیں پھلوں سے نصف حصہ دیا جائے۔ اس پر رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب تک ہم پسند کریں گے تمہیں یہاں رہنے دیں گے یہاں تک کہ حضرت عمر (رض) نے ان کو اپنے دور خلافت میں شام کے ملک میں تیما اور اریحا بستی کی جانب جلا وطن کردیا۔“ (رواہ البخاری : باب مَا کَان النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یُعْطِی الْمُؤَلَّفَۃَ قُلُوبُہُمْ وَغَیْرَہُمْ مِنَ الْخُمُسِ وَنَحْوِہِ) (کیونکہ یہودی شرارتوں اور سازشوں سے باز نہیں آتے تھے۔) مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے اہل کتاب کو مدینہ سے نکلنے پر مجبور کیا حالانکہ وہ سمجھتے تھے کہ ہم قلعہ بند ہو کر اپنی حفاظت کرسکیں گے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے مدینہ کے اہل کتاب کے دلوں میں مسلمانوں کا رعب ڈال دیا۔ ٣۔ یہودی اپنے آپ کو مدینہ میں بڑا طاقتور سمجھتے تھے مگر اللہ تعالیٰ نے ایسے حالات پیدا کردیئے جس سے یہودی مدینہ سے نکلنے پر مجبور ہوئے۔ ٤۔ دشمن کی ذلّت اور بربادی سے عبرت حاصل کرنی چاہیے۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ نے مدینہ کے اہل کتاب کو دنیا میں ذلیل کیا اور آخرت میں ان کے لیے جہنم کی آگ ہوگی۔ الحشر
3 الحشر
4 فہم القرآن ربط کلام : بنو نضیر دنیا میں ذلیل ہوئے اور آخرت میں انہیں شدید عذاب دیا جائے گا کیونکہ یہ اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کرنے والیتھے، جو بھی اللہ اور اس کے رسول کے خلاف چلے گا وہ آخرت میں سزا پائے گا۔ اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہے کہ صرف یہودی نہیں بلکہ جو بھی اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کرے گا اللہ تعالیٰ اسے شدید عذاب میں مبتلا کرے گا۔ آیت کے پہلے حصے میں یہ ارشاد ہے کہ یہودیوں کودنیا میں اس لیے عذاب دیا گیا کہ وہ اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کرتے ہیں لیکن آیت کے آخری حصہ میں اللہ تعالیٰ نے صرف اپنا نام لیا گیا ہے۔ اکیلا اپنا نام اس لیے لیا ہے کیونکہ رسول کی مخالفت آپ کی ذات کی وجہ سے نہیں بلکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت کی وجہ سے تھی۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سیرت پر غور فرمائیں تو یہ حقیقت کھل کرسامنے آئے گی کہ دعوت پیش کرنے سے پہلے اہل مکہ آپ کو صادق اور امین کے معزز لقب سے یاد کیا کرتے تھے لیکن جونہی آپ نے توحید کی دعوت دی تو انہوں نے آپ کے برے نام رکھے اور آپ کو مختلف قسم کی اذّیتیں دیں اور آپ کی ذات کے دشمن ہوئے۔ یہی رویہ یہود ونصاریٰ کا تھا اور ہے اس لیے ارشاد ہوا کہ جو بھی اللہ کی مخالفت کرے گا ” اللہ“ اسے شدید عذاب میں مبتلا کرے گا۔ اللہ تعالیٰ کی مخالفت کی مختلف صورتیں۔ ١۔ ” اللہ“ کی ذات اور صفات میں کسی اور کو شریک کیا جائے۔ ٢۔ جو شخص ” اللہ“ کی عبادت نہیں کرتا یا اس کی عبادت میں دوسرے کو شریک کرتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کے فرمان کی مخالفت کرتا ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خاتم المرسلین بنایا ہے جو شخص آپ کو خاتم المرسلین رسول نہیں مانتا اور آپ کی اطاعت نہیں کرتا وہ اللہ تعالیٰ کی مخالفت کرتا ہے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی اور اپنے رسول کی اطاعت کا حکم دیا ہے جو شخص اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت نہیں کرتا وہ عملاً اللہ تعالیٰ کی مخالفت کرتا ہے۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ نے قیامت پر ایمان لانے کا حکم دیا ہے جو شخص قیامت کا انکار کرتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی مخالفت کرتا ہے اور جو ” اللہ“ کی مخالفت کرتا ہے۔ ” اللہ تعالیٰ“ اسے شدید عذاب میں مبتلا کرے گا۔ (مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاع اللّٰہَ وَمَنْ تَوَلّٰی فَمَآ اَرْسَلْنٰکَ عَلَیْہِمْ حَفِیْظًا) (النساء : ٨٠) ” جس نے رسول کی اطاعت کرے اس نے اللہ کی اطاعت کی اور جو منہ پھیر لے ہم نے تمہیں ان پر نگہبان بنا کر نہیں بھیجا۔“ (وَعَنْ اَبِیْ ہُرَےْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کُلُّ اُمَّتِیْ ےَدْخُلُوْنَ الْجَنَّۃَ اِلَّا مَنْ اَبٰی قِےْلَ وَمَنْ اَبٰی قَالَ مَنْ اَطَاعَنِیْ دَخَلَ الْجَنَّۃَ وَمَنْ عَصَانِیْ فَقَد اَبٰی) (رواہ البخاری : باب الاِقْتِدَاءِ بِسُنَنِ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت ابوہر یرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : میری پوری امت جنت میں داخل ہوگی سوائے اس کے جس نے جنت میں جانے سے انکار کیا۔ صحابہ (رض) نے پوچھا جنت میں جانے سے کون انکار کرتا ہے ؟ فرمایا جس نے میری اطاعت کی وہ جنت میں داخل ہوگا جس نے میری نافرمانی کی اس نے جنت میں جانے سے انکار کیا۔“ مسائل ١۔ مسلمان کو ہر حال میں اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرنی چاہیے۔ ٢۔ انسان کو ہر حال میں اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت سے بچنا چاہیے۔ ٣۔ جو شخص اللہ کے رسول کی مخالفت کرتا ہے وہ درحقیقت اللہ تعالیٰ کی مخالفت کرتا ہے۔ ٤۔ جو شخص اللہ تعالیٰ کی مخالفت کرے گا اللہ تعالیٰ اسے شدید ترین عذاب میں مبتلا کرے گا۔ تفسیربالقرآن اللہ تعالیٰ نافرمانوں کو سخت عذاب دے گا : ١۔ اچھی طرح ذہن نشین کرلو کہ اللہ کی پکڑ بڑی سخت ہے۔ (المائدۃ: ٩٨) ٢۔ ” اللہ“ کفر کرنے والوں کو سخت ترین عذاب سے دو چار کرے گا۔ (آل عمران : ٥٦) ٣۔ اللہ کی آیات کے ساتھ کفر کرنے والوں کے لیے سخت ترین عذاب ہے۔ (آل عمران : ٤) ٤۔ اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کرنے والوں کے لیے شدید عذاب ہوگا۔ (الانفال : ١٣) ٥۔ اللہ کی گرفت بہت سخت ہوا کرتی ہے۔ (البروج : ١٢) الحشر
5 فہم القرآن ربط کلام : مدینہ سے یہودیوں کے اخراج کا ذکرجاری ہے۔ نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بنونضیر کا محاصرہ کرنے کے لیے کھجوروں کے کچھ درخت کاٹنے کا حکم دیا جس پر منافقین اور یہودیوں نے پراپیگنڈہ کیا کہ ” محمد“ نے جہاد کے نام پر فساد فی الارض شروع کردیا ہے اس پر اللہ تعالیٰ نے درخت کاٹنے کے عمل کو اپنی طرف منسوب کرتے ہوئے فرمایا کہ اے مومنو! تم نے جو کھجور کے درخت کاٹے یا جنہیں اپنی حالت پر کھڑے رہنے دیا یہ اللہ کا حکم تھا اور یہ حکم اس لیے دیا گیا تاکہ اللہ تعالیٰ نافرمانوں کو ذلیل کرے۔ اس سے یہ بات ثابت ہوئی کہ ناگزیر حالات میں دشمن کی جائیداد اور فصل کوتباہ کیا جاسکتا ہے البتہ اہم مجبوری کی صورت کے بغیر دشمن کی جائیداد اور فصل کو نقصان پہچانا جائز نہیں۔ (کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اَمَرَاُمَرَاؤَہٗ اَن لَّا ےَقْتُلُوْا اِلَّامَنْ قَاتَلَھُمْ) (فتح الباری : باب این رکز النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) الرایۃ یوم الفتح) ” رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فوجی افسروں کو حکم دیا تھا کہ ان لوگوں سے جنگ نہیں کرنا جو تم سے لڑنا نہیں چاہتے۔“ (لَا تَقْتُلُوا شَےْخًا فَانِےًا وَّلَا طِفْلاً وَّلَا صَغِےْرًا وَّلَا اِمْرَاَۃً) (مشکوٰۃ: باب القتال فی الجہاد) ” بوڑھوں، نو عمر لڑکوں، بچوں اور عورتوں کو قتل نہ کرو۔“ (عَنْ أُسَامَۃَ بْنِ زَیْدٍ وَہَذَا حَدِیثُ ابْنِ أَبِی شَیْبَۃَ قَالَ بَعَثَنَا رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فِی سَرِیَّۃٍ فَصَبَّحْنَا الْحُرَقَاتِ مِنْ جُہَیْنَۃَ فَأَدْرَکْتُ رَجُلاً فَقَالَ لاَ إِلَہَ إِلاَّ اللَّہُ فَطَعَنْتُہُ فَوَقَعَ فِی نَفْسِی مِنْ ذَلِکَ فَذَکَرْتُہُ للنَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَقَالَ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) أَقَالَ لاَ إِلَہَ إِلاَّ اللَّہُ وَقَتَلْتَہُ قَالَ قُلْتُ یَا رَسُول اللَّہِ إِنَّمَا قَالَہَا خَوْفًا مِنَ السِّلاَحِ قَالَ أَفَلاَ شَقَقْتَ عَنْ قَلْبِہِ حَتَّی تَعْلَمَ أَقَالَہَا أَمْ لاَ فَمَازَالَ یُکَرِّرُہَا عَلَیَّ حَتَّی تَمَنَّیْتُ أَنِّی أَسْلَمْتُ یَوْمَءِذٍ قَالَ فَقَالَ سَعْدٌ وَأَنَا وَاللَّہِ لاَ أَقْتُلُ مُسْلِمًا حَتَّی یَقْتُلَہُ ذو الْبُطَیْنِ یَعْنِی أُسَامَۃَ قَالَ قَالَ رَجُلٌ أَلَمْ یَقُلِ اللَّہُ (وَقَاتِلُوہُمْ حَتَّی لاَ تَکُونَ فِتْنَۃٌ وَیَکُون الدِّینُ کُلُّہُ لِلَّہِ) فَقَالَ سَعْدٌ قَدْ قَاتَلْنَا حَتَّی لاَ تَکُونَ فِتْنَۃٌ وَأَنْتَ وَأَصْحَابُکَ تُرِیدُونَ أَنْ تُقَاتِلُوا حَتَّی تَکُونَ فِتْنَۃٌ) (رواہ مسلم : کتاب الإیمان، باب تحریم قتل الکافر بعد أن قال لاإلہ إلا اللّٰہ) ” حضرت اسامہ بن زید (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک سریہ (جنگ) میں بھیجا ہم صبح صبح جہینہ کے علاقہ میں پہنچ گئے میں نے وہاں ایک دشمنوں کے آدمی کو پایا اس نے مجھے دیکھ کر لَا اِلٰہ اِلَّا اللّٰہ، کہا لیکن میں نے اسے قتل کردیا پھر میرے دل میں کچھ خلجان سا پیدا ہوا کہ میں نے مسلمان کو قتل کیا یا کافر کو؟ میں نے اس کی خبر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دی تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کیا اس نے لَا اِلٰہ اِلَّا اللّٰہ پڑھا اور پھر بھی تم نے اسے قتل کردیا میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس نے کلمہ تلوار کے ڈر سے پڑھا تھا، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : کیا تو نے اس کا دل چیر کر دیکھ لیا تھا کہ اس نے دل سے کہا تھا یا نہیں، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) باربار یہی کلمات دہراتے رہے یہاں تک کہ میں یہ خواہش کرنے لگا کہ کاش میں آج سے پہلے مسلمان نہ ہوا ہوتا حضرت سعد (رض) نے کہا اللہ کی قسم میں مسلمان کو قتل نہیں کروں گا جب تک کہ اس کو اسامہ قتل کردیں ایک آدمی نے کہا کہ کیا اللہ عز وجل نے نہیں فرمایا کافروں سے اس وقت تک قتال کرو جب تک کہ فتنہ نہ رہے اور اللہ کا دین عام ہوجائے حضرت سعد (رض) نے کہا کہ ہم فتنہ مٹانے کے لئے جہاد کر رہے ہیں اور تمہارے ساتھی فتنہ پھیلانے کے لئے جنگ کر رہے ہیں۔“ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے بھی اس بات کا خیال رکھا کہ نہ صرف آبادی پر کسی قسم کی زیادتی نہ ہونے پائے بلکہ جانوروں اور کھیتوں کو بھی کوئی نقصان نہ پہنچنے۔ شام پر فوج کشی کا ارادہ کیا تو فوج کو رخصت کرتے وقت سپہ سالارکو ہدایات فرمائیں : ” تم ایسے لوگوں کو پاؤ گے جنہوں نے اپنے آپ کو اللہ کی عبادت کے لیے وقف کر رکھا ہے ان کو چھوڑ دینا۔ میں تم کو دس وصیتیں کرتا ہوں کسی عورت، بچے اور بوڑھے کو قتل نہ کرنا، پھل دار درخت نہ کاٹنا، آبادیوں کو ویران نہ کرنا، بکری اور اونٹ کو ذبح کرنے کے سوا بے وجہ نہ مارنا، باغات کو نہ جلانا، مال غنیمت میں خیانت نہ کرنا اور بزدلی نہ دکھانا۔“ (تاریخ الخلفاء : سیوطی) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ میں تقریبا پوراجزیرۃ العرب زیر نگیں ہوچکا تھا۔ غیر مسلم رعایا کی حیثیت سے سب سے پہلے نجران کے عیسائیوں کے ساتھ معاہدہ کیا ان کو آپ نے جو حقوق دیے وہ اب تک تاریخ میں محفوظ ہیں جن کو من وعن نقل کیا جاتا ہے۔ اہل نجران کے ساتھمحمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا معاہدہ : (وَلِنَجْرَانَ وَحَاشِےَتِھَا جَوَار اللّٰہِ وَذِمَّۃُ مُحَمَّدِ النَّبِیِّ رَسُوْلِ اللّٰہِ عَلٰی اَنْفُسِھِمْ وَمِلَّتِھِمْ وَاَرْضِھِمْ وَاَمْوَالِھِمْ وَغَاءِبِھِمْ وَشَاھِدِھِمْ وَعِےْرِھِمْ وَبَعْثِھِمْ وَاَمْثِلَتِھِمْ لَا ےُغَیَّرُ مَا کَانُوْا عَلَےْہِ وَلَا ےُغَیَّرُ حَقٌ مِنْ حُقُوْقِھِمْ وَاَمْثِلَتِھِمْ وَلَا ےُفَتَّنَّ اُُسُقُّفٌ مِنْ اَسْقِفِیَّتِہٖ وَلَا رَاھِبٌ مِنْ رَھْبَانِیَّتِہَٖ ولاَ وَاقِہٌ مِنْ وَقَاھِےْنَتِۃٖ عَلٰی مَا تَحْتَ اَےْدِےْھِمْ مِنْ قَلِےْلٍ اَوْ کَثِےْرٍ وَّلَےْسَ عَلَےْھِمْ رَھْقٌ وَلَا دَمُّ جَاھِلِیَّۃٍ وَلَا ےُحْشَرُوْنَ وَلَا ےُعْشَرُوْنَ وَلَا ےَطَاءُ اَرْضَھُمْ جَےْشٌ مَنْ سَاَلَ مِنْھُمْ حَقًّافَبَےْنَھُمُ النِّصْفُ غَےْرَ ظَالِمِےْنَ وَلَا مَظْلُوْمِےْنَ بِنَجْرَانَ وَمَنْ اَکَلَ مِنْھُمْ رِبًا مِنْ ذِی قِبَلٍ فَذِمَّتِی مِنْہُ بَرِےْءَۃٌ وَلَا ےُؤْخَذُ مِنْھُمْ رَجُلٌ بِظُلْمِ اَخَرَ وَلَھمُْ عَلٰی مَا فِی ھَذٰہِ الصَّحِےْفَۃِ جَوَار اللّٰہِ وَذِمَّۃُ مُحَمَّدِالنّٰبِی اَبَدًا حَتَّی ےَاْتِی اَمَرُ اللّٰہِ مَا نَصَحُوا واصْلَحُوا فِےْمَا عَلَےْھِمْ غَےْرَ مُکَلِّفِےْنَ شَےْءًا بِظُلْمٍ) (فتوح البلدان : کتاب الخراج، امام ابو یوسف) ” نجران اور اس کے رہنے والوں کی جانیں، ان کا مذہب، ان کی زمینیں، ان کا مال، ان کے حاضرو غائب، ان کی مورتیاں، ان کے قافلے اور قاصد، اللہ کی امان اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ضمانت میں ہوں گے۔ ان کی موجودہ حالت میں کوئی تبدیلی نہیں کی جائے گی ان کے حقوق میں سے کسی حق میں مداخلت نہیں کی جائے گی، کوئی اسقف اپنی اسقفیت سے، کوئی راہب اپنی رہبانیت سے، کنیسہ کا کوئی منتظم اپنے عہدہ سے ہٹایانہ جائے گا، اور جو کچھ بھی ان کے قبضے میں ہے اسی طرح رہے گا۔ ان کے زمانۂ جاہلیت کے کسی جرم یا خون کا بدلہ نہ لیا جائے گا، نہ ان سے فوجی خدمت لی جائے گی اور نہ ان پر عشر لگایا جائے گا اور نہ اسلامی فوج ان کے علا قے کو پامال کرے گی۔ ان میں سے جو شخص اپنے کسی حق کا مطالبہ کرے گا تو اس کے ساتھ انصاف کیا جائے گا۔ نہ انہیں ظلم کرنے دیا جائے گا اور نہ ان پر ظلم ہوگا۔ ان میں سے جو شخص سود کھائے گا وہ میری ضمانت سے بری ہے۔ اس صحیفہ میں جو لکھا گیا ہے اس کے ایفا کے بارے میں اللہ کی امان اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذمہ داری ہے یہاں تک کہ اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا کوئی دوسرا حکم نازل ہو۔ جب تک یہ لوگ مسلمانوں کے خیر خواہ رہیں گے ان کے ساتھ کیے ہوئے معاہدہ کی پابندی کریں گے ان کو جبراً کسی بات پر مجبور نہ کیا جائے گا۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے بنو نضیر کے محاصرے میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیا کہ ان کے درخت کاٹ دیئے جائیں۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ کافروں کو دنیا میں بھی ذلیل کرتا ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ نے نافرمان قوموں کودنیا میں ذلیل کیا : ١۔ یہودی دنیا میں ذلیل اور آخرت میں سخت عذاب کے مستحق ٹھہریں گے۔ (البقرۃ: ٨٥) ٢۔ اللہ کی مسجدوں سے روکنے والے دنیا وآخرت میں ذلیل ہوں گے۔ (البقرۃ: ١١٤) ٣۔ کفار کو دنیا وآخرت میں شدید عذاب ہوگا۔ (الرعد : ٣٤، آل عمران : ٥٦) ٤۔ اللہ اور اس کے رسول کے دشمن اور فسادی دنیا وآخرت میں عذاب کے مستحق قرار پائیں گے۔ (المائدۃ: ٣٣) ٥۔ بچھڑے کے پجاری دنیا میں ذلیل ہوئے اور آخرت میں عذاب میں مبتلا ہوں گے۔ (الاعراف : ١٥٢) ٦۔ منافقین کو دنیا وآخرت میں سزا ہوگی۔ (التوبہ : ٧٤) (النور : ١٩) (الزمر : ٢٦) الحشر
6 فہم القرآن ربط کلام : بنو نضیر کے چھوڑے ہوئے مال کے بارے میں حکم۔ اللہ تعالیٰ نے بنو نضیر پر مسلمانوں کا اس طرح دبدبہ اور رعب طاری کیا کہ انہوں نے مسلمانوں کے حملہ کیے بغیر ہی اپنے گھر بار اور پورا علاقہ خالی کردیا۔ اس طرح مسلمان ان کے گھروں اور زمینوں پر قابض ہوگئے۔ جب بنو نضیر اپنی جائیدادیں چھوڑ کر نکل گئے تو مسئلہ پیدا ہواکہ اس مال کی کس طرح تقسیم کی جائے بالخصوص جب منافقین نے مطالبہ کیا کہ ہمیں بھی مال غنیمت سے حصہ دیا جائے۔ اس پر یہ فرمان نازل ہواکہ یہ مال غنیمت نہیں بلکہ اسکی حیثیت مال فئی کی ہے کیونکہ اس پر مسلمانوں نے گھوڑے اور اونٹ نہیں دوڑائے۔ یعنی مسلمانوں کے حملہ کی وجہ سے یہودیوں نے اپنا گھربار نہیں چھوڑا بلکہ اللہ تعالیٰ نے ان پر اپنے رسول کا دبدبہ طاری کیا جس کے نتیجہ میں مسلمانوں کے حملہ آور ہونے سے پہلے ہی وہ بھاگ کھڑے ہوئے۔ اللہ تعالیٰ جن پر چاہتا ہے اپنے رسول کو غالب کردیتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جو مال بستی والوں سے اپنے رسول کو عطا کیا ہے وہ اللہ، اس کے رسول، اور اس کے رشتہ دار، یتامیٰ، مساکین اور مسافروں کے لیے ہے۔ تقسیم کا مقصد یہ ہے کہ دولت دولت مندوں کے ہاتھوں میں محدود ہو کر نہ رہ جائے۔ جو چیز رسول تمہیں عطا فرمائے اسے لے لوجس سے تمہیں منع کرے اس سے رک جاؤ اور ہمیشہ اللہ سے ڈرتے رہو، یقین جانو کہ اللہ تعالیٰ نافرمانی کرنے والوں کو سخت عذاب دینے والا ہے۔ اس فرمان میں یہودیوں کے چھوڑے ہوئے مال کو مال فئی قرار دیا گیا ہے۔ اس سے مراد دشمن کا وہ مال ہے جو بغیر جنگ کے حاصل ہو۔ (فئی کا معنٰی لوٹنا، واپس آنا، ہٹ جانا، رجوع کرنا ہے۔) اس ارشاد میں تین بنیادی مسائل کا ذکر کیا گیا ہے۔ 1۔ جنگ کیے بغیر جو مال حاصل ہو اس کی تقسیم درج ذیل اصول کی بنیاد پر ہوگی۔ اللہ تعالیٰ کا حصہ : اس کے بارے میں اہل علم کا خیال ہے کہ یہ مال بیت اللہ پر خرچ ہونا چاہیے۔ اللہ کے رسول کا حصہ : اللہ کے رسول کے زمانے میں اس مال سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی گھریلو ضروریات پوری کرتے تھے۔ اسی بنا پر خیبر کے موقع پر آپ کے حصہ میں جو باغ آیا اس کی آمدنی آپ کے بعد امہات المومنین پر خرچ کی جاتی تھی اس کی تفصیل حدیث کی کتب میں موجود ہے۔ ” حضرت مالک بن اوس بن حدثان (رح) بیان کرتے ہیں کہ یہ ان دنوں کی بات ہے جس سال حضرت عمر (رض) نے حج کیا تھا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس خیبر، فدک اور بنو نضیرتین باغ تھے جو بنو نضیر کا باغ تھا وہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان لوگوں کو لیے رکھا ہوا تھا جن کو اسلام میں مشکلات اور تکالیف آتیں تھیں اور جو فدک کا باغ تھا اس کی آمدنی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مسافروں پر خرچ کرتے تھے جبکہ خیبر کے باغ کی آمدنی کو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تین حصوں میں بانٹ رکھا تھا دو حصے مسلمانوں کے لیے اور ایک حصہ اپنے گھر والوں پر خرچ کرتے تھے اس ایک حصے میں سے جو رقم بچ جاتی وہ بھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فقراء اور مہاجرین میں تقسیم کردیتے تھے۔“ (رواہ ابوداؤد : بَابٌ فِی صَفَایَا رَسُول اللَّہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مِنَ الْأَمْوَالِ، قال البانی ھذا حدیث حسن) مستحق قریبی رشتہ داروں کا حصہ : رسول کے مستحق قریبی رشتہ داروں پر خرچ کیا جائے۔ مالِ فئی سے یتیموں، مسکینوں اور مسافروں پر بھی خرچ کرنا چاہیے۔ 2۔ دولت کا معاشرے میں گردش کرناضروری ہے، دولت کا لفظی معنٰی گھوم گھوم کر آنا ہے۔ عام طور پر دولت کا لفظ جن چیزوں پر بولا جاتا ہے وہ کسی نہ کسی صورت میں ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ میں منتقل ہوتی رہتی ہیں۔ دولت کے بارے میں اسلام کا تصور یہ ہے کہ اسے سود کی بجائے تجارت میں استعمال کرنا چاہیے، سودی نظام میں دولت کا بہاؤ سرمایہ دار کی طرف رہتا ہے اور تجارت میں مال مختلف ہاتھوں میں گھومتا ہے جس سے بیک وقت سرمایہ دار اور دوسرے لوگ اپنی اپنی استعداد کے مطابق فائدہ اٹھاتے ہیں۔ 3۔ تیسرا اصول یہ بیان کیا گیا ہے کہ جو رسول تمہیں دے اسے پکڑلو اور جس سے منع کرے اس سے رک جاؤ۔ اسی اصول پر سارے دین کا انحصار ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو جو حکم اور ہدایت دی ہے وہ رسول کے ذریعے دی ہے، اس لیے حکم ہے کہ جو رسول دے اسے پکڑ لو اور جس سے منع کرے اس سے رک جاؤ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ جس نے رسول کی اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی۔ (النساء : ٨٠) رسول کی اطاعت ہی اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق اور اس کی محبت کا واحد ذریعہ ہے۔ (آل عمران : ٣١) اس کے بغیر نہ امت متحد رہ سکتی ہے اور نہ ہی اللہ کے ہاں کسی کی نیکی قبول ہوگی، اس لیے اس اصول میں کسی قسم کے ترمیم و اضافہ کی کوئی گنجائش نہیں۔ جو اس کے خلاف کرے گا اسے شدید عذاب دیا جائے گا۔ (لَا یُؤْمِنُ أَحَدُکُمْ حَتّٰی یَکُوْنَ ھَوَاہُ تَبَعًا لِّمَا جِءْتُ بِہٖ) (شرح السنۃ: باب رد البدع والاہواہ) ” تم میں سے کوئی شخص مؤمن نہیں ہوسکتا جب تک وہ اپنی خواہشات کو میرے لائے ہوئے دین کے تابع نہ کر دے۔“ مسائل ١۔ جنگ کے دوران بلامقابلہ ہاتھ آنے والے مال کو مال فئی کہتے ہیں۔ ٢۔ فئی کا مال غنیمت کے اصول پر تقسیم نہیں کیا جاتا بلکہ وہ مملکت کی ملکیت ہوتا ہے۔ ٣۔ فئی کا مال اہل بیت، غرباء، یتامیٰ اور مساکین پر خرچ ہونا چاہیے۔ ٤۔ اسلامی حکومت میں ایسا نظام ہونا چاہیے جس سے دولت لوگوں کے درمیان گردش کرتی رہے۔ ٥۔ اللہ کے رسول نے جو کچھ فرمایا ہے اس پر سختی کے ساتھ عمل کرنا چاہیے۔ تفسیربالقرآن انسان کو ہر حال میں اللہ سے ڈرتے رہنا چاہیے : ١۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ خاص مجھ ہی سے ڈر و۔ (البقرۃ: ٤١) ٢۔ اے عقل مندو ” اللہ“ سے ڈر جاؤ۔ (الطلاق : ١٠) ٣۔ اے عقل مند و ! اللہ سے ڈر جاؤ تاکہ تم فلاح پاؤ۔ (المائدۃ: ١٠٠) (الاحزاب : ٧٠) (النساء : ١) (الاحزاب : ٧٠) الحشر
7 الحشر
8 فہم القرآن ربط کلام : مال فئی میں غریب مہاجرین اور مستحق انصار کا حصہ بھی شامل ہوگا۔ مالِ فئی میں ان مسلمانوں کو بھی حصہ ملنا چاہیے جنہیں ان کے مالوں اور گھروں سے نکال دیا گیا ہے کیونکہ وہ اللہ کی رضا کی خاطر اپنے گھروں سے نکالے گئے ہیں۔ یہی لوگ اپنے ایمان میں سچے ہیں۔ مال فئی میں وہ ایماندار بھی حصہ دار ہیں جو پہلے سے مدینہ میں مقیم ہیں اور اپنے ہاں آنے والے مہاجرین کے ساتھ محبت رکھنے والے ہیں وہ مہاجرین کے لیے ایثار کرتے ہیں حالانکہ وہ خود بھی ضرورت مند ہیں۔ اپنی ضرورت کے باوجود اپنے آپ پر مہاجرین کو ترجیح دیتے ہیں جو شخص شح سے بچا لیا گیا وہ کامیاب ہوگا۔ یاد رہے کہ انسان بخل، گناہ اور ہر قسم کی کمزوری سے اللہ کی توفیق سے بچتا ہے۔ یہاں انصارِمدینہ کی یہ کہہ کر تعریف کی گئی ہے کہ وہ اس قدر مخلص اور ایثار پیشہ لوگ ہیں کہ خود ضرورت مند ہونے کے باوجود مہاجرین کی ضرورت کا خیال رکھتے ہیں۔ انصار مدینہ نے اسی وصف کی بنا پر مہاجرین کے ساتھ دلی محبت کا اظہار کیا اور ایثار کی ایسی مثالیں قائم کیں جس کی نظیردنیا میں ملنا مشکل ہے۔ ایمان کی تازگی کے لیے چند مثالیں پیش کی جاتی ہیں۔ ” شُحَّ“ کا لغوی معنی ہے کنجوسی، بخل مگر جب اصطلاح میں اس لفظ کو نفس کی طرف منسوب کیا جائے۔ ” شُحَّ نَفْسِ“ کہا جائے تو یہ دل کی تنگی، کم حوصلگی اور دل کے چھوٹے پن کا معنی دیتا ہے۔ انصار کا مہاجرین کے لیے ایثار : مکہ سے ہجرت کرنے والے مسلمان سب کچھ چھوڑ چھاڑ کرمدینہ آئے تھے جن کے لیے انصار نے اس قدر محبت اور کشادہ دلی کا مظاہرہ کیا کہ انہوں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے درخواست کی کہ ہمارے اور مہاجرین کے درمیان ہماری جائیدادیں اور باغات تقسیم کردئیے جائیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ایسا نہیں کیا جائے گا بلکہ تمہادی جائیدادیں تمہارے پاس ہی رہیں گی۔ انصار نے مہاجرین سے کہا کہ اگر آپ ہمارے ساتھ کھیتی باڑی میں ہاتھ بٹائیں تو پیداوار میں آپ برابر کے شریک ہوں گے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ مہاجرین کھیتی باڑی نہیں جانتے۔ انصار نے عرض کی تو پھر بھی ہم پیداوار میں انہیں آدھا حصہ دیں گے۔ ایثار کی انتہا : (عَنْ أَنَسٍ (رض) قَالَ قَدِمَ عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ الْمَدِینَۃَ فَآخَی النَّبِیُّ َ بَیْنَہُ وَبَیْنَ سَعْدِ بْنِ الرَّبِیعِ الْأَنْصَارِیِّ (رض) وَکَانَ سَعْدٌ ذَا غِنًی فَقَالَ لِعَبْدِ الرَّحْمَنِ أُقَاسِمُکَ مَالِی نِصْفَیْنِ وَأُزَوِّجُکَ قَالَ بَارَکَ اللّٰہُ لَکَ فِی أَہْلِکَ وَمَالِکَ دُلُّونِی عَلٰی السُّوقِ فَمَا رَجَعَ حَتَّی اسْتَفْضَلَ أَقِطًا وَسَمْنًا فَأَتَی بِہٖ أَہْلَ مَنْزِلِہِ فَمَکَثْنَا یَسِیرًا أَوْ مَا شَاء اللّٰہُ فَجَاءَ وَعَلَیْہِ وَضَرٌ مِنْ صُفْرَۃٍ فَقَالَ لَہٗ النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَہْیَمْ قَالَ یَا رَسُول اللّٰہِ تَزَوَّجْتُ امْرَأَۃً مِنْ الْأَنْصَارِ قَالَ مَا سُقْتَ إِلَیْہَا قَالَ نَوَاۃً مِّنْ ذَہَبٍ أَوْ وَزْنَ نَوَاۃٍ مِنْ ذَہَبٍ قَالَ أَوْلِمْ وَلَوْ بِشَاۃٍ) (رواہ البخاری : کتاب البیوع، باب قول اللہ تعالیٰ فإذا قضیت الصلاۃ) ” حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں عبدالرحمن بن عوف (رض) مدینہ آئے تو نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سعد بن ربیع انصاری اور ابن عوف (رض) کے درمیان مواخات قائم کی سعد مال دار آدمی تھے انھوں نے عبدالرحمن بن عوف (رض) سے کہا میں اپنے مال کو دو حصوں میں تقسیم کرتا ہوں اور آپ کی شادی کا انتظام کرتا ہوں عبدالرحمن بن عوف (رض) نے کہا۔ اللہ تعالیٰ تمھارے مال اور اہل میں برکت کرے مجھے بازار کے بارے میں معلومات دیں اس کے بعد عبدالرحمن بن عوف (رض) بازار گئے اور وہاں سے گھی اور پنیر لے کر واپس آئے۔ ہمیں مدینہ میں ٹھہرے کچھ دیر ہی گزری تھی کہ عبدالرحمن بن عوف (رض) آئے تو ان کے کپڑوں پر زرد رنگ کے نشانات تھے۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا یہ کیا ہے ؟ انہوں نے جواب دیا اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں نے انصاری عورت سے شادی کی ہے۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کتنا مہر ادا کیا ہے؟ عبدالرحمن نے کہا گٹھلی کے برابر سونا یا اس سے کچھ کم دیا ہے۔ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ولیمہ کریں خواہ ایک بکری ہی ذبح کرو۔“ ” حضرت عمرو بن میمون بیان کرتے ہیں کہ عمر (رض) نے فرمایا : میں آنے والے خلیفہ کو وصیت کرتاہوں کہ ہجرت میں پہل کرنے والے مہاجرین کے حق کا خیال رکھے اور جن انصار نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ہجرت سے پہلے اس گھر اور ایمان میں جگہ بنالی ان کے بارے میں خلیفہ کو نصیحت کرتاہوں کہ ان کی اچھائی قبول کرئے اور ان کی کمزوری سے درگذر کرے۔“ (رواہ البخاری : باب ” وَالَّذِینَ تَبَوَّؤُوا الدَّارَ وَالإِیمَانَ“ ) مسائل ١۔ جو لوگ اللہ کی رضا کے لیے اپنا گھر بار چھوڑتے ہیں وہ اپنے ایمان میں سچے ہوتے ہیں۔ ٢۔ جو لوگ مہاجرین سے محبت کرتے ہیں اور اپنی ضرورت کے باوجود ان کی ضرورت کے لیے ایثار کرتے ہیں وہ فلاح پائیں گے۔ ٣۔ جو دل کی بخیلی سے بچالیا گیا وہ کامیاب ہوگا۔ تفسیربالقرآن کامیاب ہونے والے لوگوں کے اوصاف : ١۔ جو اللہ کی توحید کا اقرار کرکے اس پر ڈٹ جاتے ہیں وہ کامیاب ہیں۔ (الاحقاف : ١٣، ١٤، حم السجدۃ: ٣٠) ٢۔ جو اللہ تعالیٰ پر ایمان لاتے ہیں اور نیک اعمال کرتے ہیں وہ کامیاب ہوں گے۔ (البقرۃ: ٨٢) ٣۔ جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے ہیں وہ کامیاب ہوتے ہیں۔ (النساء : ١٣) ٤۔ اللہ سے ڈرنے والے کامیاب ہوتے ہیں۔ (الرحمن : ٤٦) ٥۔ جو برائی سے بچ گیا اس پر اللہ کا رحم ہوا، یہ بڑی کامیابی ہے۔ (المومن : ٩) الحشر
9 الحشر
10 فہم القرآن ربط کلام : مال فئی میں بعد میں آنے والے لوگوں کا بھی حصہ رکھنا چاہیے اور پہلے فوت شدگان کے لیے دعا کرنی چاہئے۔ مالِ فئی میں ان لوگوں کا حصہ بھی شامل ہے جو ہجرت میں پہل کرنے والوں کے بعد ایمان لانے والے ہیں کیونکہ ان کا تعلق اور محبت ان مومنوں کے ساتھ ہے جو ان سے پہلے دنیا سے رخصت ہوچکے ہیں۔ بعد میں مسلمان ہونے والے نہ صرف فوت ہونے والے مومنوں کے ساتھ محبت اور عقیدت رکھتے ہیں بلکہ ان کے لیے ان الفاظ میں دعا گو ہیں۔ اے ہمارے رب! ہمارے ان بھائیوں کی بشری کمزوریوں کو معاف فرمادے جو ہم سے پہلے ایمان لائے ہیں اور ہمارے دلوں کو ایمانداروں کے بارے میں حسد و کینہ سے محفوظ فرما۔ اے ہمارے رب! تو بڑا ہی شفقت کرنے والا اور مہربان ہے۔ دین اسلام کی یہی تعلیم نہیں کہ مال فئی میں بعد میں آنے والوں کا حصہ ہونا چاہیے، دین کی یہ بھی تعلیم ہے کہ اللہ کے حضور اپنے گناہوں کی معافی مانگتے ہوئے ان ایمانداروں کے لیے بھی بخشش کی دعا کرنی چاہئے جو پہلے فوت ہوچکے ہیں۔ کیونکہ ان کی خدمات سے ان کے بعد آنے والے مسلمان مستفید ہوتے ہیں اس کے ساتھ ہی موجود مسلمانوں کے لیے بھی دعا ہونی چاہیے۔ کہ اے ہمارے رب! ہمارے دلوں کو ایمانداروں کے بارے میں حسدوکینہ سے محفوظ فرما بے شک تو بڑا شفقت کرنے والا اور مہربان ہے۔ (عَنْ اَبِیْ ھُرَےْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْ لُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اِنَّ عَبْدًا اَذْنَبَ ذَنْبًا فَقَالَ رَبِّ اَذْنَبْتُ فَاغْفِرْہُ فَقَالَ رَبُّہُ اَعَلِمَ عَبْدِیْ اَنَّ لَہٗ رَبًّا یَّغْفِرُ الذَّنْبَ وَےَاْخُذُبِہٖ غَفَرْتُ لِعَبْدِیْ ثُمَّ مَکَثَ مَا شَآء اللّٰہُ ثُمَّ اَذْنَبَ ذَنْبًا فَقَالَ رَبِّ اَذْنَبْتُ ذَنْبًا فَاغْفِرْہُ فَقَالَ اَعَلِمَ عَبْدِیْ اَنَّ لَہٗ رَبًّا یَّغْفِرُ الذَّنْبَ وَ ےَاْخُذُ بِہٖ غَفَرْتُ لِعَبْدِیْ ثُمَّ مَکَثَ مَاشَآء اللّٰہُ ثُمَّ اَذْنَبَ ذَنْبًا قَالَ رَبِّ اَذْنَبْتُ ذَنْبًا اٰخَرَ فَاغْفِرْہُ لِیْ فَقَالَ اَعَلِمَ عَبْدِیْ اَنَّ لَہٗ رَبًّا یَّغْفِرُ الذَّنْبَ وَےَاْخُذُ بِہٖ غَفَرْتُ لِعَبْدِیْ فَلْےَفْعَلْ مَا شَآءَ) (رواہ البخاری : باب قول اللہ تعالیٰ یریدون ان یبدلوا کلام اللہ ) ” حضرت ابوہریرہ (رض) کا بیان ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : کوئی شخص گناہ کرتا ہے پھر اپنے رب سے عرض کرتا ہے کہ میں گناہ کر بیٹھا ہوں تو اے رب مجھے معاف فرما۔ اس کا رب فرشتوں سے کہتا ہے‘ کیا میرے بندے کو معلوم ہے کہ اس کا کوئی رب ہے جو گناہوں کو معاف کرتا ہے اور ان پر مؤاخذہ بھی کرتا ہے؟ لہٰذا میں نے اپنے بندے کو بخش دیا۔ پھر جب تک اللہ کی توفیق ہوتی ہے وہ گناہ سے باز رہتا ہے، پھر اس سے گناہ ہوجاتا ہے اور پھر اپنے رب کو پکارتا ہے۔ میرے پروردگار مجھ سے گناہ ہوگیا ہے۔ میرے اللہ! مجھے معاف فرما۔ اللہ تعالیٰ فرشتوں سے استفسار کرتا ہے کہ میرا بندہ جانتا ہے کہ کوئی اس کا مالک ہے جو گناہوں کو معاف بھی کرتا ہے اور انہیں پر پکڑتا بھی ہے؟ میں نے اپنے بندے کو معاف کردیا! اب وہ جو چاہے کرے۔“ (یعنی سابقہ گناہ پر کوئی مؤاخذہ نہیں ہوگا۔) “ فوت شدگان کے بارے میں حضرت نوح اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعائیں : (رَبِّ اغْفِرْ لِی وَلِوَالِدَیَّ وَلِمَنْ دَخَلَ بَیْتِیَ مُؤْمِنًا وَّلِلْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنَاتِ) (نوح : ٢٨) ” میرے رب مجھے اور میرے والدین کو اور ہر اس شخص کو جو میرے گھر میں مومن کی حیثیت سے داخل ہوا ہے اور سب مومن مردوں اور عورتوں کو معاف فرما دے۔“ (اَللّٰہُمّ اغْفِرْ لِحَیِّنَا وَمَیِّتِنَا وَصَغِیرِنَا وَکَبِیرِنَا وَذَکَرِنَا وَأُنْثَانَا وَشَاہِدِنَا وَغَاءِبِنَا اللَّہُمَّ مَنْ أَحْیَیْتَہُ مِنَّا فَأَحْیِہِ عَلَی الإِیمَانِ وَمَنْ تَوَفَّیْتَہُ مِنَّا فَتَوَفَّہُ عَلَی الإِسْلاَمِ اللَّہُمَّ لاَ تَحْرِمْنَا أَجْرَہُ وَلاَ تُضِلَّنَا بَعْدَہُ) (رواہ ابوداؤد : باب الدُّعَاءِ لِلْمَیِّتِ قال البانی ہذا حدیث صحیحٌ) ” اے اللہ ہمارے زندہ اور فوت شدگان اور چھوٹے، مذکر اور مؤنث جو حاضر ہیں اور جو غائب ہیں سب کو معاف فرما۔ اے اللہ ! ہم میں جو بھی زندہ رہے تو اسے ایمان پر قائم و دائم رکھنا اور ہم میں سے جس کو بھی موت آئے اسے اسلام پر موت آئے۔ اے اللہ! ہمارے اجر کو ضائع مت کرنا اور نہ ہی ہمیں بعد میں کوئی ذلت اٹھانی پڑھے۔“ مسائل ١۔ اللہ کے نیک بندے اپنے رب سے اپنے اور اپنے سے پہلے فوت شدگان کے لیے بخشش مانگتے ہیں۔ ٢۔ ایماندار لوگ دوسرے ایمانداروں کے بارے میں حسد وبغض سے پناہ مانگتے ہیں۔ ٣۔ ایمانداروں کا عقیدہ ہے کہ ان کا رب بہت شفقت کرنے والا اور مہربان ہے۔ الحشر
11 فہم القرآن ربط کلام : مخلص مسلمانوں کی خدمات کے ذکر کے بعد منافقین کا ذکر۔ بنونضیر کی بدعہدی اور مسلسل سازشوں کی وجہ سے اللہ کے رسول نے انہیں ان کے علاقے سے دس دن کے اندر نکل جانے کا حکم دیا۔ بنو نضیر اپنا علاقہ چھوڑنے کے بارے میں سوچ ہی رہے تھے کہ منافقوں کے سردار عبداللہ بن ابی نے پیغام بھیجا کہ تمہیں اپنا وطن ہرگز نہیں چھوڑنا چاہیے۔ اگر محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے آپ کی طرف پیش قدمی کی تو میں دوہزار ساتھیوں اور فلاں فلاں قبائل کے ساتھ مل کر تمہاری مدد کروں گا۔ اللہ تعالیٰ نے منافقین اور بنو نضیر کی سازش کو بے نقاب کرتے ہوئے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ارشاد فرمایا کہ کیا آپ نے منافقوں کی اس بات اور چال پر غور نہیں کیا کہ انہوں نے اپنے کافر بھائیوں جو اہل کتاب میں سے ہیں کہا کہ اگر انہیں جلاوطن کرنے پر مجبور کیا گیا تو ہم تمہارا ساتھ دیں گے اور تمہارے بارے میں کسی کی کوئی بات نہیں مانیں گے۔ یعنی جنگ ہوئی تو ہم ہر صورت تمہاری مدد کریں گے۔ اللہ تعالیٰ کو اچھی طرح معلوم ہے کہ منافق اپنی بات میں جھوٹے ہیں۔ جب بنونضیر کو ان کے علاقہ سے نکال دیا جائے گا تو منافق نہ مدینہ چھوڑ کر ان کے ساتھ جائیں گے۔ اگر بنو نضیر کی مسلمانوں کے ساتھ مڈھ بھیڑ ہوگئی تو منافق ان کا ساتھ نہیں دیں گے۔ بالفرض کچھ منافق بنونضیر کی مدد کے لیے نکل پڑے تو پیٹھ پھیر کر بھاگ جائیں گے۔ اس صورت میں ان کی کوئی مدد کرنے والا نہیں ہوگا۔ اے مسلمانو! منافق اور یہودی اس لیے مقابلہ نہیں کر پائیں گے کیونکہ وہ اللہ سے زیادہ تم سے ڈرتے ہیں۔ یہ اس لیے ہے کہ یہ لوگ حقیقی سمجھ سے عاری ہوچکے ہیں، حقیقی سمجھ یہ ہے کہ انسان اللہ سے ڈرتے ہوئے اس کی نافرمانی اور منافقت چھوڑ دے۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو منافقین کی سازش اور بزدلی سے پہلے ہی آگاہ کردیا۔ ٢۔ منافق مسلمانوں کی کھل کر مخالفت کرنے کی بجائے عام طور پر چھپ کر مخالفت کرتا ہے۔ ٣۔ منافق اور کفار اللہ تعالیٰ سے ڈرنے کی بجائے لوگوں سے زیادہ ڈرتے ہیں۔ ٤۔ حقیقی سمجھ کا تقاضا ہے کہ انسان صرف ” اللہ“ سے ڈرتا رہے۔ ٥۔ منافق اپنے وعدے میں جھوٹا ہوتا ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ سے ڈرنا چاہیے : ١۔ مومنوں کو اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرنا چاہیے۔ (البقرۃ: ١٥٠) ٢۔ اللہ کے بندے صرف اللہ سے ہی ڈرتے ہیں۔ (المائدۃ: ٢٨) ٣۔” نبی“ صرف اللہ سے ڈرتا ہے۔ (یونس : ١٥، الزمر : ٣) ٤۔ اللہ سے ڈرنے والے ہی کامیاب ہوا کرتے ہیں۔ (النور : ٥٢) الحشر
12 الحشر
13 الحشر
14 فہم القرآن ربط کلام : منافقین کی بزدلی کا ذکرجاری ہے۔ نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو منافقین کی سازش بتلانے کے بعد یہ بھی بتلادیا گیا ہے کہ منافق اور یہودی کبھی بھی اکٹھے ہو کر تمہارے سامنے نہیں آسکتے، سوائے اس کے کہ وہ اپنے قلعوں میں رہ کر یا دیواروں کی اوٹ میں تمہارے خلاف لڑنے کی کوشش کریں کیونکہ ان کے آپس میں شدید اختلافات ہیں۔ آپ انہیں متحد سمجھتے ہیں حالانکہ ان کے دل آپس میں ایک دوسرے سے دور ہیں۔ ایسا اس لیے کہ یہ لوگ حقیقی سمجھ نہیں رکھتے۔ ان کا حال ان لوگوں کی طرح ہے جو ان سے تھوڑی مدت پہلے اپنے کیے کی سزا پا چکے ہیں۔ قیامت کے دن ان کے لیے اذّیت ناک عذاب ہے۔ پہلے لوگوں سے مراد اہل مکہ ہیں جو بدر میں ذلیل ہوئے۔ منافقوں کی چال اور مثال شیطان جیسی ہے کہ وہ انسان کو کفر پر اکستا ہے جب انسان کفرکا کام کربیٹھتا ہے تو شیطان اس سے یہ کہہ کر بری الذّمہ ہوجاتا ہے کہ میں تو اللہ رب العالمین سے ڈرتاہوں۔ شیطان اور اس کے ساتھیوں کا انجام جہنم کی آگ ہے جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے، ظالموں کی یہی سزا ہوگی۔ اس فرمان میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اطلاع دی گئی کہ منافق اور یہودی اکٹھے ہو کر آپ کے خلاف نہیں لڑیں گے کیونکہ ان کے دل ایک دوسرے سے نفرت کرتے ہیں۔ اس سے مراد بنو نضیر کے آپس میں اختلافات بھی ہو سکتے ہیں جو بظاہر اکٹھے تھے مگر ان کے دل ایک دوسرے سے دورتھے لیکن اسلام دشمنی میں اکٹھے تھے۔ مکہ کے لوگ اپنی جگہ ذلیل ہوکرواپس پلٹے اور منافق اور یہودی اپنے اپنے مقام پر ذلیل ہوئے۔ یہاں منافقین کے کردار کو شیطان کے کردار کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے۔ جس طرح شیطان چھپ کر بار، بار انسان کو گمراہ کرتا ہے اسی طرح ہی منافق بار، بار اور چھپ چھپ کر مسلمانوں کا نقصان کرتے ہیں۔ منافق مشکل میں اسی طرح ہی ساتھ چھوڑ جاتا ہے۔ جس طرح شیطان انسان سے برے کام کرواکر اپنے آپ میں کہتا ہے کہ میں تو رب العالمین ڈرتاہوں اس لیے تم سے الگ ہوتاہوں۔ جیسا کہ اس نے غزوہ بدر کے موقع پر کیا تھا۔ تفصیل کے لیے سورۃ الانفال کی آیت ٤٨ کی تفسیر ملاحظہ فرمائیں۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ سے ڈرنے کی بجائے لوگوں سے ڈرنے والے لوگ حقیقت میں سمجھ دار نہیں ہوتے۔ ٢۔ حقیقی سمجھ یہ ہے کہ انسان صرف اللہ سے ڈرتارہے۔ ٣۔ منافق کی چال اور انداز شیطان کی مانند ہوتا ہے۔ ٤۔ شیطان کی طرح منافق بھی مشکل وقت میں ساتھ چھوڑ جاتا ہے۔ ٥۔ شیطان اور اس کے ساتھی جہنم میں جھونکیں جائیں گے۔ ٦۔ کفارمخلص ہو کر آپس میں اکٹھے نہیں ہوسکتے۔ تفسیر بالقرآن مسلمان کو صرف اللہ سے ڈرنا چاہیے : (البقرۃ: ١٥٠) (المائدۃ: ٢٨) (یونس : ١٥، الزمر : ٣) (النور : ٥٢) (الانفال : ٤٨) (النساء : ٧٧) الحشر
15 الحشر
16 الحشر
17 الحشر
18 فہم القرآن ربط کلام : جہنم کی آگ سے بچنے کے لیے ہر انسان کو اللہ سے ڈرنا اور قیامت کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ اس سے پہلی آیات میں یہ بیان ہوا کہ کفار اور منافق اللہ سے ڈرنے کی بجائے لوگوں سے ڈرتے ہیں۔ حالانکہ انسان کو صرف اللہ تعالیٰ سے ڈرنا چاہیے۔ اسی اصول کے پیش نظر ایمانداروں کو حکم دیا ہے کہ اے ایمان والو! اللہ سے ڈرتے رہو اور ہر شخص کو دیکھنا چاہیے کہ اس نے آنے والے کل یعنی قیامت کے لیے کیا بھیجا ہے۔ اللہ سے ڈرتے رہو جو تم عمل کرتے ہو یقیناً اللہ تعالیٰ اسے پوری طرح جاننے والاہے۔ اے ایمان والو! ان لوگوں کی طرح نہ ہوجاؤ جنہوں نے ” اللہ“ کو فراموش کردیا۔ جب انہوں نے ” اللہ“ کو فراموش کیا تو ” اللہ تعالیٰ“ نے بھی انہیں اس طرح کردیا کہ وہ خود اپنے آپ کو بھول گئے یہی لوگ نافرمان ہیں۔ یہاں قیامت کے لیے ” غَدٍ“ کا لفظ استعمال کیا ہے جس میں یہ اشارہ دیا گیا ہے کہ دنیا اور قیامت کا معاملہ آج اور کل کی طرح ہے گویا کہ جس طرح آج کے بعد کل کا آنا یقینی ہے اسی طرح ہی اس دنیا کے بعد قیامت کا برپا ہونا یقینی ہے۔ اس میں یہ بھی اشارہ موجود ہے کہ ہر انسان کی زندگی آج اور کل پر مشتمل ہے آج سے مراد دنیا کی زندگی ہے اور کل سے مراد قیامت، فرق یہ ہے کہ یہ زندگی مختصر ہے اور آنے والا کل طویل ہی نہیں بلکہ لامتناہی ہوگا۔ آج کے دکھ مرنے کے ساتھ ختم ہوجائیں گے لیکن کل کے دکھ ختم نہیں ہوپائیں گے لہٰذا انسان کو اپنے آنے والے کل کی تیاری کرنا چاہیے اور اس کا پختہ ایمان ہونا چاہیے کہ جو کچھ میں کرتاہوں اللہ تعالیٰ اس سے پوری طرح باخبر ہے۔ مسلمان کو ان لوگوں کی طرح نہیں ہونا چاہیے جنہوں نے دنیا کی چند روزہ زندگی کی خاطر اللہ تعالیٰ کو فراموش کردیا۔ اللہ تعالیٰ کوفراموش کرنے کا نتیجہ ہوتا ہے کہ ایک وقت آتا ہے کہ انسان خود فراموشی کا شکار ہوجاتا ہے۔ انسان جب خود فراموشی کا شکار ہوجائے تو اسے حقیقی نفع ونقصان کا شعور نہیں رہتا جس وجہ سے وہ اللہ کی ذات اور اس کے احکام کوفراموش کردیتا ہے، ایسا شخص ہر وہ کام کرتا ہے جس پر اس کا دل آتا ہے۔ سورۃ الجاثیہ کی آیت ٢٣ میں اس بارے میں بتلایا ہے کہ کیا آپ نے اس شخص کو نہیں دیکھا جس نے اپنے نفس کو الٰہ بنالیا ہے اور وہ سب کچھ جاننے کے باوجود گمراہ ہوچکا ہے۔ جو لوگ اس طرح زندگی گزارتے ہیں حقیقت میں وہ اپنے رب کے نافرمان ہوتے ہیں۔ نافرمان لوگ قیامت کے دن بے انتہا نقصان پائیں گے۔ (وَعَنِ ابْنِ عُمَرَ (رض) قَالَ اَخَذَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بِبَعْضِ جَسَدِی فَقَالَ کُنْ فِی الدُّنْیَا کَأَنَّکَ غَرِیْبٌ أَوْ عَابِرُ سَبِیْلٍ وَعُدَّ نَفْسَکَ مِنْ أَھْلِ القُبُوْرِ) (رواہ البخاری : باب قول النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کُنْ فِی الدُّنْیَا کَأَنَّکَ غَرِیْبٌ أَوْ عَابِرُ سَبِیْل) ” حضرت ابن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے میرے کندھے کو پکڑکر فرمایا۔ دنیا میں اجنبی یا مسافر کی طرح رہو اور اپنے آپ کو اہل قبور میں شمار کرو۔“ ” حضرت عبد اللہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک چٹائی پر سوئے تو آپ کے پہلو پر نشان پڑگئے۔ ہم نے عرض کی اللہ کے رسول! آپ اجازت دیں تو ہم آپ کے لیے اچھا سا بستر تیار کردیں ؟ آپ نے فرمایا : میرا دنیا کے ساتھ ایک مسافر جیسا تعلق ہے جو کسی درخت کے نیچے تھوڑا سا آرام کرتا ہے پھر اسے چھوڑ کر آگے چل دیتا ہے۔“ (رواہ الترمذی : باب مَا جَاءَ فِی أَخْذِ الْمَالِ، قال الترمذی ھذا حدیث حسن صحیح) مسائل ١۔ مسلمان کو ہر حال میں اللہ تعالیٰ سے ڈرنا چاہیے۔ ٢۔ ہر انسان کو آنے والے کل کے لیے سوچنا چاہیے کہ اس نے اس کے لیے کیا بھیجا ہے۔ ٣۔ مسلمانوں کو ان لوگوں کی طرح نہیں ہونا چاہیے جنہوں نے اللہ تعالیٰ کوفراموش کردیا اور بالآخر خود فراموشی کا شکار ہوئے۔ ٤۔ خودفراموشی کا شکار ہونے والے لوگ اپنے رب کے نافرمان ہوتے ہیں۔ ٥۔ لوگوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ ان کے ہر عمل سے باخبر ہے۔ تفسیربالقرآن ایمانداروں کو اللہ سے ڈرنا چاہیے : ١۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ خاص مجھ ہی سے ڈر و۔ (البقرۃ: ٤١) ٢۔ اے عقل مندو! اللہ سے ڈر جاؤ۔ (الطلاق : ١٠) ٣۔ اے عقل مند و ! اللہ سے ڈر جاؤ تاکہ تم فلاح پاؤ۔ (المائدۃ: ١٠٠) (الاحزاب : ٧٠) ٤۔ تم ” اللہ“ سے ڈرو گے تو ” اللہ“ اسے تمہارے لیے روشنی بنا دے گا۔ (الانفال : ٢٩) الحشر
19 الحشر
20 فہم القرآن ربط کلام : خود فراموشی کا شکار ہونے والے لوگوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ وہ جہنم میں جائیں گے، جہنمی اور جنتی برابر نہیں ہوسکتے۔ قرآن مجید نے یہ وضاحت فرمائی ہے کہ مومن اور فاسق برابر نہیں ہوسکتے۔ (السجدۃ: ١٨) سورۃ ص کی آیت ٢٨ میں فرمایا کہ کیا ہم ایماندار اور صالح اعمال کرنے والوں کو ان کے برابر کردیں جو زمین میں فساد کرنے والے ہیں کیا ہم متقین کو برے لوگوں کے برابر کردیں گے ؟ ظاہر بات ہے کہ مومن اور فاسق، متقی اور بدکردار اچھے اور برے برابر نہیں ہوسکتے۔ جب عقائد اور کردار کے اعتبار سے برابر نہیں ہیں تو پھر انجام کے لحاظ سے کس طرح برابر ہوں گے۔ ؟ اس لیے ارشاد فرمایا کہ جہنمی اور جنتی برابر نہیں ہوسکتے، جہنمی ہمیشہ ہمیش کا نقصان پائیں گے اور جنتی ہمیشہ رہنے والے انعام پائیں گے۔ جس نے اللہ تعالیٰ کو یاد رکھا اور اپنے آپ کو خود فراموشی سے بچالیا۔ وہ نہ صرف اپنی زندگی کے مقصد کو پالے گا بلکہ آخرت کی دائمی زندگی میں بھی کامیابی سے ہمکنار ہوگا۔ (عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَال اللّٰہُ تَعَالٰی اَعْدَدْتُّ لِعِبَادِیَ الصَّالِحِیْنَ مَالَاعَیْنٌ رَأَتْ وَلَا اُذُنٌ سَمِعَتْ وَلَاخَطَرَ عَلٰی قَلْبِ بَشَرٍ وَّاقْرَءُ وْا اِنْ شِءْتُمْ فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّا اُخْفِیَ لَھُمْ مِنْ قُرَّۃِ اَعْیُنٍ) (رواہ البخاری : باب مَا جَاءَ فِی صِفَۃِ الْجَنَّۃِ وَأَنَّہَا مَخْلُوقَۃٌ) ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں، میں نے اپنے نیک بندوں کے لیے ایسی نعمتیں تیار کی ہیں، جن کو نہ کسی آنکھ نے دیکھا نہ کسی کان نے سنا اور نہ ہی کسی انسان کے دل میں ان کا تصور پیدا ہوا۔ اگر پسند ہو تو اس آیت کی تلاوت کرو ” کوئی نہیں جانتا کہ ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک کے لیے کیا چیز چھپا کے رکھی گئی ہے۔“ (عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَیْبٍ عَنْ أَبِیْہِ عَنْ جَدِّہٖ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ یُحْشَرُ الْمُتَکَبِّرُوْنَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ أَمْثَال الذَّرِّ فِیْ صُوَرِ الرِّجَالِ یَغْشَاھُمُ الذُّلُّ مِنْ کُلِّ مَکَانٍ فَیُسَاقُوْنَ إِلٰی سِجْنٍ فِیْ جَھَنَّمَ یُسَمّٰی بُوْلَسَ تَعْلُوْھُمْ نَارُ الْأَنْیَارِ یُسْقَوْنَ مِنْ عُصَارَۃِ أَھْلِ النَّارِ طِیْنَۃَ الْخَبَالِ) (رواہ الترمذی : کتاب صفۃ القیامۃ والرقائق والورع، باب منہ ) ” حضرت عمرو بن شعیب اپنے باپ سے وہ اپنے دادا (رض) سے وہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : قیامت کے دن متکبر لوگ چیونٹیوں کی صورت میں لائے جائیں گے انہیں ہر طرف سے ذلت ڈھانپے ہوئے ہوگی اور انہیں بولس نامی جہنم میں ڈالا جایا جائے گا ان پر آگ کے شعلے بلند ہورہے ہوں گے اور انہیں جہنمیوں کی زخموں کی پیپ پلائی جائے گی۔“ ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جنت میں ایک ایسا درخت ہے کہ اگر کوئی سوار اس کے سایہ میں سو سال چلتا رہے، تب بھی اس سایہ ختم نہیں ہوگا اور یقیناً تم میں سے کسی ایک شخص کی جنت میں کمان کے برابر جگہ ان تمام چیزوں سے بہتر ہے، جن پر سورج طلوع یا غروب ہوتا ہے۔“ (رواہ البخاری : باب مَا جَاءَ فِی صِفَۃِ الْجَنَّۃِ وَأَنَّہَا مَخْلُوقَۃٌ) (عَنْ سَمُرَۃَ ابْنِ جُنْدُبٍ (رض) اَنَّ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ مِنْھُمْ مَنْ تَاْخُذُہُ النَّارُاِلٰی کَعْبَیْہِ وَ مِنْھُمْ مَنْ تَاْخُذُُہُ النَّارُاِلٰی رُکْبَتَیْہِ وَمِنْھُمْ مَنْ تَاْخُذُہُ النَّارُ اِلٰیحُجْزَتِہٖ وَمِنْھُمْ مَنْ تَاْخُذُہُ النَّارُ اِلٰی تَرْقُوَتِہٖ) (رواہ مسلم : باب فی شدۃ حر النار) ” حضرت سمرہ بن جندب (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی گرامی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جہنم کی آگ نے بعض لوگوں کو ٹخنوں تک، بعض کو گھٹنوں تک اور بعض کو کمر تک گھیرا ہوگا اور بعض کی گردنوں تک پہنچی ہوگی۔“ مسائل ١۔ جہنمی اور جنتی برابر نہیں ہوسکتے۔ ٢۔ جنتی کامیاب ہوں گے اور جہنمی ہمیشہ کے لیے ذلیل ہوں گے۔ تفسیربالقرآن جنتیوں اور جہنمیوں میں فرق : ١۔ قیامت کے دن جنتیوں کے چہروں پر ذلّت اور نحوست نہیں ہوگی اور وہ جنت میں رہیں گے۔ (یونس : ٢٦) ٢۔ جنتیوں کے چہرے تروتازہ ہوں گے (القیامہ : ٢٢) ٣۔ جنتیوں کو ملائکہ سلام کہیں گے۔ (الزمر : ٧٣) ٤۔ جنتیوں کا استقبال ہوگا۔ ( الزمر : ٧٣) ٥۔ جنتیوں کو ملائکہ سلام کریں گے۔ (الفرقان : ٧٥) ٦۔ جہنمیوں کے چہروں پر ذلت چھائی ہوگی انہیں اللہ سے کوئی نہیں بچا سکے گا۔ (یونس : ٢٧) ٧۔ جہنمیوں کے چہرے بگڑے ہوئے ہوں گے۔ (الحج : ٧٢) ٨۔ جہنمیوں کے چہروں پر گردو غبار ہوگا۔ (عبس : ٤٠) ٩۔ خدا کے باغیوں پر پھٹکار ہوگی۔ (یونس : ٢٧) ١٠۔ مجرموں کے چہرے ڈرے اوراُوندھے ہوں گے۔ (الغاشیہ : ٢) ١١۔ کفارکے چہرے مرجھائے اور اڑے ہوئے ہوں گے۔ (القیامہ : ٢٤) ١٢۔ مشرک، کافر اور منافق جہنم میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔ (البقرۃ: ٣٩، الزخرف : ٧٤، التوبہ : ٦٨) الحشر
21 فہم القرآن ربط کلام : جہنم کی آگ سے بچنے اور جنت میں داخل ہونے کے لیے ضروری ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ سے ڈرے اور اس کے قرآن پر غور کرکے اپنے آپ کو سنوار لے۔ اللہ تعالیٰ نے جہنم سے بچنے اور جنت میں داخل ہونے کے لیے قرآن مجید جیسی عظیم اور مؤثر کتاب نازل فرمائی ہے۔ اس کی عظمت اور تاثیر کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ اگر ہم اس قرآن کو پہاڑ پر نازل کردیتے تو آپ دیکھتے کہ پہاڑ بھی اللہ کے خوف سے دب اور پھٹ جاتا۔ اللہ تعالیٰ اپنے ارشادات لوگوں کے سامنے اس لیے بیان فرماتا ہے تاکہ لوگ ان پر غور کریں اور اپنے کردار اور انجام کے بارے میں فکر کریں۔ قرآن مجید کی عظمت اور تاثیر کا ذکر کرتے ہوئے ” لَوْ“ کا لفظ استعمال فرمایا ہے اگر ہم قرآن مجید پہاڑ پر نازل کردیتے تو پہاڑ بھی اس کی عظمت اور تاثیر سے پھٹ جاتا۔ کچھ اہل علم نے اس کی یہ تفسیر کی ہے کہ پہاڑ بھی خلافت کے بار گراں سے پھٹ جاتا جس کا تذکرہ قرآن مجید میں یوں کیا گیا ہے۔ ہم نے بار امانت کو آسمانوں اور زمین پر پیش کیا تو انہوں نے اسے اٹھانے سے معذرت کی وہ اس سے ڈر گئے اور انسان نے اس کو اٹھالیا، بے شک انسان ظالم اور جاہل ہے۔ (الاحزاب : ٧٢) (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) إِنَّ اللَّہَ تَبَارَکَ وَتَعَالَی قَرَأَ طٰہٰ وَیٰس قَبْلَ أَنْ یَخْلُقَ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضَ بِأَلْفِ عَامٍ، فَلَمَّا سَمِعْتِ الْمَلاَءِکَۃُ الْقُرْآنَ قَالَتْ طُوبَی لأُمَّۃٍ یَنْزِلُ ہَذَا عَلَیْہَا، وَطُوبَی لأَجْوَافٍ تَحْمِلُ ہَذَا، وَطُوبَی لأَلْسِنَۃٍ تَتَکَلَّمُ بِہَذَا) (رواہ الدارمی : باب فِی فَضْلِ سُورَۃِ طہ ویس (لم تتم دراستہ) قال النسائی ضعیف) ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمانوں کی تخلیق سے ہزار سال پہلے سورۃ طٰہ اور یٰس کی تلاوت فرمائی۔ فرشتوں نے قرآن کی تلاوت سنی تو کہنے لگے اس امت کے لیے خوشخبری ہو جس پر قرآن نازل ہوگا، ان سینوں کے لیے مبارک ہو جو اس قرآن کو اٹھائیں گے اور ان زبانوں کو خوش آمدید ہو جو قرآن کی تلاوت کریں گی۔“ قرآن مجید کی بے انتہا تاثیر : (عَنْ عُمَرَبْنِ الخَطَّابِ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اِنَّ اللّٰہَ یَرْفَعُ بِھٰذَالْکِتَابِ اَقْوَامًاوَیَضَعُ بِہٖ اٰخَرِیْنَ) (رواہ مسلم : کتاب الصلوٰۃ، باب فضل من یقوم بالقراٰن) ” حضرت عمربن خطاب (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اس کتاب کے ذریعہ اللہ تعالیٰ بہت سی قوموں کو جو اس پر عمل کریں گی بام عروج پر پہنچائے گا اور بہت سی قوموں کو جو اس کو چھوڑ دیں گی انہیں ذلیل کر دے گا۔“ جس طرح ” اللہ“ کی ذات وصفات اور اس کے جمال وکمال کی انتہا نہیں اسی طرح اس کے کلام کی عظمت اور تاثیر کی بھی انتہا نہیں ہے۔ قرآن مجید کو جو بھی اخلاص اور توجہ سے پڑھتا اور سنتا ہے وہ اس پر ایمان لائے بغیر نہیں رہ سکتا۔ حضرت عمر (رض) نے اپنی بہن سے سورۃ طٰہٰ کی ابتدائی آیات سنیں تو ایمان لانے پر مجبور ہوئے۔ ثمامہ بن اثال نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کعبہ میں قرآن پڑھتے ہوئے دیکھا تو اس قدر متاثر ہوا کہ اپنے کانوں سے روئی نکال دی اور قرآن مجید سنتے ہی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لے آیا۔ ” حضرت ابی اسحاق کہتے ہیں کہ میں نے براء بن عازب (رض) سے سنا کہ ایک آدمی اپنے گھر میں سورۃ الکہف کی تلاوت کر رہا تھا تو اس کے گھوڑے نے بدکنا شروع کردیا۔ اس نے سلام پھیر کر آسمان کی طرف نظر اٹھائی تو اسے بادلوں کا ایک ٹکڑا نظر آیا جو اسے ڈھانپے ہوئے تھا اس نے اس کا تذکرہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے کیا آپ نے فرمایا اے فلاں پڑھتے رہو یہ سکینت تھی جو قرآن کے لیے نازل ہوئی تھی یا قرآن کی وجہ سے نازل ہو رہی تھی۔“ (رواہ البخاری : باب علاَمَات النُّبُوَّۃِ فِی الإِسْلاَمِ) مسائل ١۔ اگر اللہ تعالیٰ قرآن مجید پہاڑ پر نازل کردیتا تو قرآن کی عظمت اور تاثیر سے پہاڑ دب اور پھٹ جاتا۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ لوگوں کے لیے اپنے احکام اس لیے بیان کرتا ہے تاکہ لوگ ان پر غور کریں۔ تفسیربالقرآن قرآن کی عظمت اور فضیلت : ١۔ قرآن مجید لاریب کتاب ہے۔ ( البقرہ : ٢) ٢۔ قرآن مجید سرا پارحمت اور کتاب ہدایت ہے۔ (لقمان : ٣) ٣۔ قرآن مجید بابرکت اور پہلی کتابوں کی تصدیق کرنے والا ہے۔ (الانعام : ٩٣) ٤۔ قرآن مجید میں ہدایت کے متعلقہ ہر چیز واضح کی گئی ہے۔ (النحل : ٨٩) (المائدۃ: ١٥) (المائدۃ: ٤٨) الحشر
22 فہم القرآن ربط کلام : جس ” اللہ نے قرآن مجید جیسی عظیم کتاب نازل فرمائی ہے اس کی عظیم اور بے مثال صفات۔ ” اللہ“ وہ ذات ہے جس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں، وہی ہر قسم کی پوشیدہ اور ظاہر چیز کو جانتا ہے، سب کچھ جاننے کے باوجود اپنے بندوں پر نہایت مہربان اور رحم کرنے والا ہے۔ ” الٰہ“ اللہ تعالیٰ کا متبادل نام بھی ہے اور عظیم صفت بھی۔ اللہ تعالیٰ نے جتنے انبیائے کرام (علیہ السلام) مبعوث فرمائے سب نے اپنی دعوت کا آغاز اسی بات سے کیا کہ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں اس لیے صرف اسی کی بندگی کرو۔ وہی اپنی مخلوق کی حاجت روائی اور مشکل کشائی کرنے والا ہے۔ وہ ان چیزوں کو جانتا ہے جو اس کی مخلوق کے لیے غیب ہیں اور ان چیزوں کو بھی جانتا ہے جو کسی نہ کسی صورت میں اس کی مخلوق کے سامنے ہیں۔ غیب سے مراد مخلوق کے حوالے سے کسی چیز کا پوشیدہ ہونا ہے۔ ورنہ اللہ تعالیٰ کے لیے غائب اور ظاہر، پوشیدہ اور اعلانیہ دونوں برابر ہیں کیونکہ اس کا فرمان ہے۔ (عٰلِمُ الْغَیْبِ وَ الشَّہَادَۃِ الْکَبِیْرُ الْمُتَعَالِ سَوَآءٌ مِّنْکُمْ مَّنْ اَسَرَّ الْقَوْلَ وَ مَنْ جَہَرَ بِہٖ وَ مَنْ ہُوَ مُسْتَخْفٍ بالَّیْلِ وَ سَارِبٌ بالنَّہَارِ) (الرعد : ٩، ١٠) ” وہ غیب اور ظاہر کو جاننے والا، بہت بڑا اور نہایت بلندو بالا ہے۔ تم میں سے جو بات چھپا کر کرے یا اسے بلند آواز سے کرے رات کی روشنی میں چھپ جائے یا دن کی روشنی میں چلے پھرئے اس کے نزدیک سب برار ہیں۔“ رحمن فعلان کے وزن پر مبالغے یعنی سپر ڈگری (Super degree) اور رحیم فعیل کے وزن پر اسم صفت مشبہ کے صیغے ہیں۔ اہل علم کے نزدیک رحمن کی صفت سب کے لیے ہے اور اس کا رحیم ہونا صرف مومنوں کے لیے خاص ہے۔ الرحمن : لامتناہی اور رحمت مجسم کا ترجمان ہے اور لفظ ” الرحیم“ کائنات پر نازل ہونے والی مسلسل اور دائمی رحمت کی ترجمانی کرتا ہے۔ معنٰی یہ ہوا کہ وہ ” اللہ“ بے انتہا مہربان، ہمہ وقت اور ہر حال میں رحم فرمانے والا ہے۔ فرق یہ ہے کہ رحیم کا لفظ کسی مشفق شخصیت کے لیے استعمال جاسکتا ہے مگر کسی کو اللہ تعالیٰ کے علاوہ ” الرحمن“ کہنا بہت بڑا گناہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کی ربوبیت اور رحیمیّت کسی اضطرار اور مجبوری کی وجہ سے نہیں بلکہ یہ اس کی رحمانیت کا عین تقاضا ہے۔ اس صفت کا تذکرہ قرآن مجید میں مختلف الفاظ اور انداز میں پایا جاتا ہے۔ انسان جس قدر سرکشی اور بغاوت پر اتر آئے لیکن جب اللہ کے حضور یہ کہتے ہوئے آب دیدہ ہوجائے کہ الٰہی! میرے جرائم اور خطاؤں کی آندھیوں نے میرے گلشن حیات کو برباد کردیا ہے۔ جس طرح تو ویران وادیوں، تپتے ہوئے صحراؤں اور اجڑے ہوئے باغوں کو اپنے کرم کی بارش سے سبز وشاداب بنا دیتا ہے اسی طرح مجھے بھی حیاتِ نو سے ہمکنار کر دے۔ بندۂ مومن کی عاجزی اور سرافگندگی کی وجہ سے رحمن و رحیم کی رحمت کے سمندر میں تلاطم برپا ہوجاتا ہے اور وہ اپنے بندے کو معاف کردیتا ہے۔ الرحمن کی رحمت کی وسعتوں کا تذکرہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : (عَنْ أَبِی ذَرٍّ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فِیمَا رَوَی عَنِ اللَّہِ تَبَارَکَ وَتَعَالَی أَنَّہُ قَالَ یَا عِبَادِی إِنِّی حَرَّمْتُ الظُّلْمَ عَلَی نَفْسِی وَجَعَلْتُہُ بَیْنَکُمْ مُحَرَّمًا فَلاَ تَظَالَمُوا یَا عِبَادِی کُلُّکُمْ ضَالٌّ إِلاَّ مَنْ ہَدَیْتُہُ فَاسْتَہْدُونِی أَہْدِکُمْ یَا عِبَادِی کُلُّکُمْ جَاءِعٌ إِلاَّ مَنْ أَطْعَمْتُہُ فَاسْتَطْعِمُونِی أُطْعِمْکُمْ یَا عِبَادِی کُلُّکُمْ عَارٍ إِلاَّ مَنْ کَسَوْتُہُ فَاسْتَکْسُونِی أَکْسُکُمْ یَا عِبَادِی إِنَّکُمْ تُخْطِءُون باللَّیْلِ وَالنَّہَارِ وَأَنَا أَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِیعًا فَاسْتَغْفِرُونِی أَغْفِرْ لَکُمْ یَا عِبَادِی إِنَّکُمْ لَنْ تَبْلُغُوا ضَرِّی فَتَضُرُّونِی وَلَنْ تَبْلُغُوا نَفْعِی فَتَنْفَعُونِی یَا عِبَادِی لَوْ أَنَّ أَوَّلَکُمْ وَآخِرَکُمْ وَإِنْسَکُمْ وَجِنَّکُمْ کَانُوا عَلَی أَتْقَی قَلْبِ رَجُلٍ وَاحِدٍ مِنْکُمْ مَا زَادَ ذَلِکَ فِی مُلْکِی شَیْءًا یَا عِبَادِی لَوْ أَنَّ أَوَّلَکُمْ وَآخِرَکُمْ وَإِنْسَکُمْ وَجِنَّکُمْ کَانُوا عَلَی أَفْجَرِ قَلْبِ رَجُلٍ وَاحِدٍ مَا نَقَصَ ذَلِکَ مِنْ مُلْکِی شَیْءًا یَا عِبَادِی لَوْ أَنَّ أَوَّلَکُمْ وَآخِرَکُمْ وَإِنْسَکُمْ وَجِنَّکُمْ قَامُوا فِی صَعِیدٍ وَاحِدٍ فَسَأَلُونِی فَأَعْطَیْتُ کُلَّ إِنْسَانٍ مَسْأَلَتَہُ مَا نَقَصَ ذَلِکَ مِمَّا عِنْدِی إِلاَّ کَمَا یَنْقُصُ الْمِخْیَطُ إِذَا أُدْخِلَ الْبَحْرَ یَا عِبَادِی إِنَّمَا ہِیَ أَعْمَالُکُمْ أُحْصِیہَا لَکُمْ ثُمَّ أُوَفِّیکُمْ إِیَّاہَا فَمَنْ وَجَدَ خَیْرًا فَلْیَحْمَدِ اللَّہَ وَمَنْ وَجَدَ غَیْرَ ذَلِکَ فَلاَ یَلُومَنَّ إِلاَّ نَفْسَہُ قَالَ سَعِیدٌ کَانَ أَبُو إِدْرِیسَ الْخَوْلاَنِیُّ إِذَا حَدَّثَ بِہَذَا الْحَدِیثِ جَثَا عَلَی رُکْبَتَیْہِ) (رواہ مسلم : کتاب البر والصلۃ و الآداب، باب تحریم الظلم) ” حضرت ابوذر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اللہ تبارک وتعالیٰ فرماتا ہے : میرے بندو! تم میں سے ہر ایک گمراہ ہے ماسوا اس کے جس کو میں ہدایت سے سرفراز کروں۔ پس تم مجھ سے ہدایت مانگو میں تمہیں ہدایت دوں گا، تم میں سے ہر ایک بھوکا ہے سوائے اس کے جس کو میں کھلاؤں۔ پس تم مجھ سے مانگومیں تمہیں کھلاؤں گا۔ میرے بندو! تم سب ننگے ہو سوائے اس کے جس کو میں پہناؤں۔ پس تم مجھ سے پہناوا طلب کرو میں تمہیں پہناؤں گا۔ میرے بندو! تم رات دن گناہ کرتے ہو، میں تمام گناہوں کو بخش دینے والا ہوں۔ مجھ سے بخشش طلب کرو‘ میں تمہیں بخش دوں گا۔ میرے بندو! تم مجھے نقصان اور نفع پہنچانے کی طاقت نہیں رکھتے۔ میرے بندو! تمہارے تمام اگلے پچھلے‘ جن و انس سب سے زیادہ متّقی انسان کے دل کی طرح ہوجائیں تو یہ میری سلطنت میں ذرّہ بھر اضافہ نہیں کرسکتے۔ میرے بندو! تمہارے اگلے پچھلے جن وانس سب بدترین فاسق وفاجر انسان کی طرح ہوجائیں تو یہ میری حکومت میں کچھ نقص واقع نہیں کرسکتا۔ میرے بندو! تمہارے اگلے پچھلے‘ جن وانس اگر سب کھلے میدان میں اکٹھے ہوجائیں پھر وہ مجھ سے مانگنے لگیں اور میں ہر آدمی کو اس کی منہ مانگی مرادیں دے دوں تو میرے خزانوں میں اتنی کمی بھی واقع نہیں کرسکتے جتنی سوئی کو سمندر میں ڈبونے سے ہوتی ہے۔“ مسائل ١۔ اللہ کے سوا کوئی الٰہ، حاجت روا اور مشکل کشا نہیں۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی غیب نہیں جانتا۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی بھی اس کی پوری مخلوق کو نہیں جانتا۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں اور مخلوق پر بڑا مہربان اور رحم کرنے والا ہے۔ تفسیربالقرآن اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں : ١۔ الٰہ ایک ہی ہے۔ (البقرۃ: ١٦٣) ٢۔ اللہ کے ساتھ کسی اور کو پکارنے کی کوئی دلیل نہیں۔ (المومنون : ١١٧) ٣۔ اللہ کے ساتھ کسی اور الٰہ کو نا پکارو اس کے سوا کوئی الٰہ نہیں صرف وہی الٰہ ہے۔ (القصص : ٨٨) ٤۔ اللہ نے زمین و آسمان کو پیدا کیا اور پھر آسمان سے پانی اتار کر باغات اگائے۔ کیا اس کے ساتھ کوئی اور بھی الٰہ ہے؟ (النمل : ٦٠) ٥۔ کون ہے جو لاچار کی فریادسنتا اور اس کی تکلیف کو دور کرتا ہے، کیا اللہ کیساتھ کوئی اور بھی الٰہ ہے؟ ( ا لنمل : ٦٢) ٦۔ خشکی اور سمندر کی تاریکیوں میں اللہ کے سوا رہنمائی کون کرتا ہے؟ کیا اللہ کیساتھ کوئی اور بھی الٰہ ہے؟ (النمل : ٦٣) ٧۔ پہلے اور دوبارہ پیدا کرنے اور زمین و آسمان سے تمہارے لیے روزی کا بندوبست کرنے والا کون ہے؟ کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور الٰہ ہے؟ (النمل : ٦٤) ٨۔ اللہ کے ساتھ کسی اور کو نا پکا رو وگرنہ عذاب میں مبتلا کیے جاؤگے۔ (الشعرآء : ٢١٣) الحشر
23 فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ کی عظیم صفات کا بیان جاری ہے۔ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی الٰہ نہیں کیونکہ وہی ان عظیم صفات کا مالک ہے کوئی نہیں جو اس جیسی صفات کا حامل ہو لہٰذا وہ لوگوں کے بنائے ہوئے ہر قسم کے شریکوں سے مبرا اور پاک ہے۔ وہ اَلْمَلِکُ، اَلْقُدُّوْسُ، اَلسَّلاَمُ، اَلْمْؤْمِنُ، اَلْمُہَیْمِنُ، الْعَزِیْزُ، اَلرَّحِیْمُ، اَلْجَبَّار اور اَلْمُتَکَبِّرُ ہے۔ اَلْمَلِکُ : اللہ ہی حقیقی اور دائمی بادشاہ اور مالک ہے اس کے سوا کوئی حقیقی اور دائمی بادشاہ اور مالک نہیں، وہ جسے چاہے بادشاہی عطا فرمائے اور جس سے چاہے اس کی بادشاہی چھین لے اس کے اذن کے بغیر کوئی بادشاہ نہیں بن سکتا ہے۔ ” کہیں اے اللہ! ساری کائنات کے مالک! تو جسے چاہے بادشاہی دے اور جس سے چاہے چھین لے، جسے چاہے عزت عطا فرمائے اور جسے چاہے ذلت دے تیرے ہی ہاتھ میں ہر قسم کی خیر ہے یقیناً تو ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے۔“ (آل عمران : ٢٦) اَلْقُدُّوْسُ : اس نام میں مبالغہ پایا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ایسی ہستی ہے جو ہر عیب، نقص، برائی اور ظلم سے پاک ہے۔ اس سے زیادہ کوئی ہستی پاک نہیں۔ وہی لوگوں کو گناہوں سے پاک کرنے والا ہے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تہجد کی نماز میں سجدے کی حالت میں یہ تسبیح پڑھا کرتے تھے۔ (عَنْ مُطَرِّفِ بْنِ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ الشِّخِّیرِ أَنَّ عَاءِشَۃَ نَبَّأَتْہُ أَنَّ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کَانَ یَقُولُ فِی رُکُوعِہِ وَسُجُودِہِ سُبُّوحٌ قُدُّوسٌ رَبُّ الْمَلاَءِکَۃِ وَالرُّوحِ) (صحیح مسلم : باب مَا یُقَالُ فِی الرُّکُوعِ وَالسُّجُودِ) ” حضرت مطرف بن عبداللہ بن شخیر کہتے ہیں کہ مجھے حضرت عائشہ (رض) نے بتایا کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رکوع اور سجدے میں یہ دعاپڑھا کرتے تھے۔ ملائکہ اور جبرائیل امین کے رب ہر قسم کی تسبیح وتقدیس تیرے لیے ہے۔“ اَلسَّلاَمُ : اللہ تعالیٰ ہر نقصان اور کمزوری سے محفوظ ہے نہ اس کی ذات کو کسی قسم کی کمزوری لاحق ہوتی ہے اور نہ اس کی صفات میں ضعف واقع ہوتا ہے۔ وہ ہر حال میں السلام ہے اور سلامتی عطا کرنے والا ہے۔ اس کے سوا کوئی سلامتی عطا نہیں کرسکتا ہے اس لیے ہر حال میں اسی سے سلامتی طلب کرنی چاہیے۔ (عَنْ ثَوْبَانَ قَالَ کَانَ رَسُول اللَّہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) إِذَا انْصَرَفَ مِنْ صَلاَتِہِ اسْتَغْفَرَ ثَلاَثًا وَقَال اللَّہُمَّ أَنْتَ السَّلاَمُ وَمِنْکَ السَّلاَمُ تَبَارَکْتَ ذَا الْجَلاَلِ وَالإِکْرَامِ) (روا مسلم : باب اسْتِحْبَاب الذِّکْرِ بَعْدَ الصَّلاَۃِ وَبَیَانِ صِفَتِہِ) ” حضرت ثوبان (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب نماز سے فارغ ہوتے تو تین مرتبہ استغفار کرتے اور یہ دعا پڑھتے۔ ” اللَّہُمَّ أَنْتَ السَّلاَمُ وَمِنْکَ السَّلاَمُ تَبَارَکْتَ ذَا الْجَلاَلِ وَالإِکْرَام“ ” اے اللہ تو سلامتی والاہے اور سلامتی تجھی سے حاصل ہوتی ہے بے شک تو بابرکت اور جلال واکرام والا ہے۔“ اَلْمْؤْمِنُ: ہرقسم کے خوف و خطر سے محفوظ ہستی صرف ” اللہ“ کی ذات ہے اسے برے کی برائی اور بڑے کی بڑائی سے کوئی خطرہ نہیں، نہ صرف خود ہر اعتبار سے المؤمن ہے بلکہ ہر کسی کو امن دینے والا ہے۔ اَلْمُہَیْمِنُ : ہر کسی کی نگرانی اور نگہداشت کرنے والا۔ ایسا نگران کہ نہ اس سے سے کوئی چیز پوشیدہ ہے اور نہ اپنی مخلوق کی نگرانی کرنے سے تھکتا ہے اور اس کی نگرانی اور نگہبانی سے کوئی چیز باہر نہیں ہے۔ ” اللہ تعالیٰ ہی معبود برحق ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں جو ہمیشہ زندہ اور قائم رہنے والا ہے۔ اسے اونگھ آتی ہے نہ نیند۔ اس کی ملکیت میں زمین و آسمان کی تمام چیزیں ہیں۔ کون ہے جو اس کی اجازت کے بغیر اس کے سامنے شفاعت کرسکے؟ وہ جانتا ہے جو لوگوں کے سامنے ہے اور جو ان کے پیچھے ہے اور لوگ اس کے علم سے کچھ نہیں لے سکتے مگر جتنا وہ چاہے۔ اس کی کرسی نے آسمانوں اور زمین کو گھیر رکھا ہے وہ ان کی حفاظت سے نہ تھکتا ہے اور نہ اکتاتا ہے وہ بہت بلند وبالا اور بڑی عظمت والا ہے۔“ (البقرۃ: ٢٥٥) الْعَزِیْزُ: ایسی ذات جس کے سامنے کوئی دم نہیں مار سکتا وہ اپنے فیصلے صادر اور نافذ کرنے پر پوری طرح قادر ہے اور کسی کے تعاون کا محتاج نہیں۔ وہ کسی کو پکڑنا چاہے تو کوئی اسے چھڑا نہیں سکتا، کسی کو بچانا چاہے تو کوئی اسے گزند نہیں پہنچا سکتا وہ کسی کو دینے کا فیصلہ کرلے تو کوئی روک نہیں سکتا اگر کسی سے کوئی چیز لینا چاہے تو کوئی اسے ٹوک نہیں سکتا۔ ” اے اللہ! جو چیز تو عطاء فرمائے اسے کوئی روکنے والا نہیں اور جو چیز تو روک لے اس کو کوئی عطا کرنے والا نہیں۔ تجھ سے بڑھ کر کوئی عظمت والا اور نفع نہیں دے سکتا۔“ (رواہ مسلم : باب مَا یَقُولُ إِذَا رَفَعَ رَأْسَہُ مِنَ الرُّکُوعِ) اَلْجَبَّارُ : الجبار کا معنٰی جبر کرنے والا۔ یاد رہے کہ وہ ظالموں اور باغیوں کے لیے جبار ہے لیکن مومنوں کے لیے الرّحمن اور الرحیم ہے۔ جس طرح اس سے بڑھ کر کوئی جبار نہیں اسی طرح اس سے بڑھ کر کوئی مہربان نہیں ہے۔ جب اپنے جبر کا استعمال کرتا ہے تو وقت کا فرعون بھی اس کے سامنے دم نہیں مار سکتا۔ اس کی جباری سے ہر دم پناہ مانگنا چاہیے۔ اَلْمُتَکَبِّرُ : متکبر کا لفظ کبر سے نکلا ہے جس کا معنٰی ہے بڑا ہونا یا بڑا بننا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا بڑا ہونا اس کی ایک عظیم صفت ہے وہ اپنی ذات، صفات اور مقام کے اعتبار سے سب سے بڑا ہے۔ کوئی اس کی ذات، صفات، اقتدار، اختیارات اور مقام میں اس سے بڑا نہیں۔ مخلوق کا اپنی حد سے بڑھ کر بڑا بننا گناہ ہی نہیں پرلے درجے کا جرم ہے۔ (وَعَنْ مَعْقِلِ بْنِ یَسَارٍ (رض) عَنِ النَّبِی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَال مَنْ قَال حینَ یُصْبِحُ ثَلَاثَ مَرَّات أَعُوذ باللَّہِ السَّمِیعِ الْعَلِیمِ مِنَ الشَّیْطَان الرَّجِیمِ فَقَرَأَ ثَلَاثَ آیَاتٍ مِنْ آخِرِ سُورَۃِ الْحَشْرِوَکَّلَ اللَّہُ بِہِ سَبْعِینَ أَلْفَ مَلَکٍ یُصَلُّونَ عَلَیْہِ حَتَّی یُمْسِیَ وَإِنْ مَاتَ فِی ذَلِکَ الْیَوْمِ مَاتَ شَہِیدًاوَمَنْ قَالَہَا حینَ یُمْسِی کَانَ بِتِلْکَ الْمَنْزِلَۃ) (رَوَاہ التِّرْمِذِیُّ وَقَال التِّرْمِذِی ہَذَا حَدِیثٌ غَرِیبٌ) حضرت معقل بن یسار (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جس شخص نے صبح کے وقت تین مرتبہ ان کلمات کا ورد کیا ” میں سننے والے اور جاننے والے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں شیطان مردود سے اور اس کے بعد سورۃ الحشر کی آخری تین آیات پڑھیں، اللہ تعالیٰ ستر ہزار (٧٠٠٠٠) فرشتے مقرر کردیتے ہیں جو اس کے لیے دعا کرتے ہیں حتی کے شام ہوجاتی ہے اگر وہ اس دوران مر جائے تو اسے ” اللہ“ کی راہ میں شہید ہونے کا ثواب ملے گا اور جس نے یہ کلمات شام کے وقت بھی پڑھ لیے اسے بھی یہی اجر حاصل ہوگا۔“ اللہ ہی ظاہر اور باطن کو جاننے و الا، وہی سب سے بڑا مہربان اور رحم فرمانے والا، وہی اَلْمَلِکُ، اَلْقُدُّوْسُ، اَلْمُؤْمِنُ، اَلْمُہَیْمِنُ، اَلْعَزِیْزُ، اَلْجَبَّارُاور اَلْمُتَکَبِّرُ ہے۔ بتاؤ ! ان میں کون سی صفت ہے جو اس کی مخلوق میں اس درجے میں پائی جاتی ہے۔ جب کسی کی ایک صفت بھی اس کی کسی صفت کا مقابلہ نہیں کرسکتی تو پھر اس کی ذات اور صفات میں دوسروں کو شریک کرنا کتنی بڑی ناانصافی ہے۔ بس اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔ وہی حاجت روا اور مشکل کشا ہے تو پھر کیوں نہیں مانتے؟ مسائل ١۔ اللہ کے علاوہ کوئی عبادت کے لائق نہیں۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ ہر اچھی صفت کے مالک ہیں۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ شرک کرنے والوں سے بری ہے۔ الحشر
24 فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ کی صفات کا تذکرہ جاری ہے۔ اَلْخَالِقُ: یہ نام خلق سے بنا ہے۔ خلق کا معنی تقدیر اور اندازہ ہے۔ الخالق صرف اللہ ہے وہی جن وانس، حیوانات، نباتات، جمادات اور ہر چیز کو اس کی فطرت کے مطابق پیدا کرنے کے ساتھ اس کی نشوونما کرنے والا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کے لیے خالق کا لفظ نہیں بولا جا سکتا۔ کوئی کسی چیز کا بانی اور موجد تو ہوسکتا ہے لیکن خالق نہیں ہو سکتا۔ لہٰذا کسی کو خالق کہتا ہے پرلے درجے کی جہالت اور گناہ ہے۔ (ذٰلِکُمُ اللّٰہُ رَبُّکُمْ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ خَالِقُ کُلِّ شَیْءٍ فَاعْبُدُوْہُ وَ ہُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ وَّکِیْلٌ) (الانعام : ١٠٢) ” یہی اللہ تمہارا رب ہے اس کے سوا کوئی سچا معبود نہیں، ہر چیز کو پیدا کرنے والا ہے سو تم اسی کی عبادت کرو اور وہ ہر چیز پرنگہبان ہے۔“ اَلْبَارِئُ: اللہ تعالیٰ ہی الباری ہے اس کے بغیر کوئی الباری نہیں ہوسکتا کیونکہ الباری کا معنی ہے ایسی چیز پیدا کرنے والا جس کا پہلے سے کلی طور پر وجود نہ ہو یہاں تک کہ اس کا مواد (Material) اور تصور بھی نہ پایا جائے۔ قرآن مجید میں اس لفظ کو یوں بھی استعمال کیا گیا ہے۔ (فَتُوْبُوْ اِلٰی بَارِءِکُمْ) (البقرۃ: ٥٤) اَلْمُصَوِّرُ: شکل وصورت بنانے والا۔ دنیا میں جو لوگ مصوری کے پیشے سے منسلک ہیں اور مختلف چیزوں کی تصویریں بناتے ہیں چاہے وہ (Painting) کے ذریعے ہی تصویر کشی کرتے ہیں ان کے ذہن میں کسی نہ کسی چیز کا تصور ہوتا ہے۔ جس میں آگا پیچھا کر کے کوئی تصویر پیش کرتے ہیں لیکن انہیں المصّور نہیں کہا جا سکتا کیونکہ المصور صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے اسی نے بغیر کسی پہلے سے موجود نقشے کے عربوں اور کھربوں صورتیں بنائیں اور قیامت اور قیامت کے بعد بھی بناتا رہے گا جو آپس میں مختلف ہیں اور ہوں گی انسان خود اپنے آپ پر غور کرے کہ دنیا میں کوئی انسان ایسا نہیں جو دوسرے کے ساتھ سو فیصد مماثلت رکھتا ہو اس لیے صرف ایک ہی ذات ہے جو حقیقی الخالق، الباری، المصور ہے۔ کیونکہ وہی عدم کو وجود دیتا ہے وہی جسم میں روح ڈالتا ہے اور وہی شکل وصورت میں امتیاز اور انفرادیت پیدا کرتا ہے۔ اس کے تمام نام اچھے ہیں اس کو اسی کے اچھے ناموں کے ساتھ پکارنا چاہیے کیونکہ زمین و آسمانوں کی کوئی چیز ایسی نہیں بے شک وہ بے جان ہو یا جاندار۔ سب اپنی اپنی زبان میں اس کی تسبیح پڑھتے ہیں اور اس کے حضور اپنی فریاد رکھتے ہیں۔ اسی کے لیے زمین و آسمان کی بادشاہی ہے اور وہ ہر اعتبار سے اپنی مخلوق پر غالب ہونے کے باوجود اس کے ہر حکم اور کام میں حکمت پائی جاتی ہے۔ (ہُوَ الَّذِیْ یُصَوِّرُکُمْ فِی الْاَرْحَامِ کَیْفَ یَشَآءُ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ) (آل عمران : ٦) ” وہی ماں کے پیٹ میں تمہاری صورتیں جس طرح چاہتا ہے بناتا ہے۔ اس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں وہ نہایت غالب خوب حکمت والا ہے۔“ (وَالتِّیْنِ وَالزَّیْتُوْنِ وَطُوْرِ سِیْنِیْنَ وَہٰذَا الْبَلَدِ الْاَمِیْنِ لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِِنسَانَ فِیْ اَحْسَنِ تَقْوِیْمٍ) (التین : ١ تا ٤) ” قسم ہے انجیر اور زیتون کی۔ اور طور سیناکی۔ اور اس پُر امن شہر کی۔ ہم نے انسان کو بہترین شکل و صورت میں پیدا کیا ہے۔“ (وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْاِِنسَانَ مِنْ سُلَالَۃٍ مِّنْ طینٍ ثُمَّ جَعَلْنَاہُ نُطْفَۃً فِیْ قَرَارٍ مَّکِیْنٍ ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَۃَ عَلَقَۃً فَخَلَقْنَا الْعَلَقَۃَ مُضْغَۃً فَخَلَقْنَا الْمُضْغَۃَ عِظَامًا فَکَسَوْنَا الْعِظَامَ لَحْمًا ثُمَّ اَنشَءْنٰہُ خَلْقًا آخَرَ فَتَبَارَکَ اللّٰہُ اَحْسَنُ الْخَالِقِیْنَ) (المومنون : ١٢ تا ١٤) ” اور اس میں ہمیشہ رہیں گے۔ اور یقیناً ہم نے انسان کو مٹی کے جوہر سے پیدا کیا۔ پھر ہم نے اسے ایک محفوظ جگہ ٹپکی ہوئی بوند میں تبدیل کیا۔” پھر اس بوند کو لوتھڑے کی شکل دی پھر لوتھڑے کو بوٹی بنایا۔ پھر بوٹی سے ہڈیاں بنائیں پھر ہڈیوں پر گوشت چڑھایا پھر اسے ایک دوسری شکل میں بناکھڑا کیا۔ بڑا ہی بابرکت ہے اللہ سب کاریگروں سے اچھا کاریگر ہے۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ کو اس کے جس نام سے بھی پکارا جائے وہ سننے والا اور جاننے والا ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے کائنات کی ہر چیز کو اس پیدا فرمایا جب اس کا وجود بھی نہیں تھا۔ ٣۔ زمین و آسمان میں ہر چیز اللہ کی تسبیح بیان کرتی ہے الحشر
0 سورت الممتحنہ کا تعارف یہ سورت مدینہ منورہ میں نازل ہوئی، تیرہ آیات پر مشتمل ہے، اس کے دو رکوع ہیں۔ اس کا نام اس کی دسویں آیت سے ماخوذ ہے اس میں مسلمانوں کو پہلا حکم یہ دیا گیا ہے کہ اے مسلمانوں اگر تم حقیقتاً ” اللہ“ اور اس کے رسول پر ایمان رکھتے ہو تو پھر تمھیں کفار کے ساتھ قلبی محبت نہیں رکھنی چاہیے کیونکہ انہوں نے تمھیں اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مکہ سے نکلنے پر اس لیے مجبور کیا ہے کہ تم اپنے رب پر ایمان لائے ہو، یاد رکھو جس نے حکم آ جانے کے باوجود کفار کے ساتھ دلی محبت رکھی وہ سیدھے راستے سے بھٹک جائے گا تمھیں ہر حال میں ابراہیم (علیہ السلام) اور ان کے متبعین کا طریقہ اپنانا چاہیے۔ ان کا کردار یہ تھا کہ انہوں نے اپنی قوم کو دو ٹوک انداز میں کہہ دیا تھا۔ (قَدْ کَانَتْ لَکُمْ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ فِیْ اِِبْرٰہِیْمَ وَالَّذِیْنَ مَعَہٗ اِِذْ قَالُوْا لِقَوْمِہِمْ اِِنَّا بُرَءآ ؤُا مِنْکُمْ وَمِمَّا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ کَفَرْنَا بِکُمْ وَبَدَا بَیْنَنَا وَبَیْنَکُمُ الْعَدَاوۃُ وَالْبَغْضَآءُ اَبَدًا حَتّٰی تُؤْمِنُوْا باللّٰہِ وَحْدَہٗ) (الممتحنہ ٤) ” تمہارے لیے ابراہیم اور اس کے ساتھیوں میں بہترین نمونہ ہے۔ انہوں نے اپنی قوم سے صاف کہہ دیا کہ ہم تم سے اور تمہارے معبودوں سے جن کو تم اللہ کو چھوڑ کر پوجتے ہو قطعی طور پر بیزار ہیں، ہم اس وقت تک تمہارا انکار کرتے رہیں گے۔ جب تک تم اللہ واحدہ پر ایمان نہیں لاتے ہمارے اور تمہارے درمیان ہمیشہ کے لیے عداوت اور دشمنی ہوچکی ہے۔“ ابراہیم (علیہ السلام) اور ان کے ساتھیوں کا طریقہ وہی شخص اختیار کرے گا جو شخص ” اللہ“ کی ملاقات اور آخرت پر ایمان رکھتا ہے اس حکم کے بعدیہ ارشادہوا کہ اے ایمانداروں جب ایمان کا دعوہ کرنے والی عورتیں تمہارے پاس آئیں تو ان کے ایمان کے بارے میں ان کا امتحان لیا کرو اگر ان کا ایمان ثابت ہوجائے تو انہیں کفار کی طرف واپس نہیں کرنا۔ ایمانداروں کے بعد نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ارشاد ہوا کہ جب آپ کے پاس بیعت لینے کے لیے عورتیں آئیں تو آپ ان سے اس بات پر بیعت لیا کریں : 1 اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرنا 2 چوری نہیں کرنا 3 بدکاری نہیں کرنا 4 اپنی اولاد کو قتل نہیں کرنا 5 کسی پر تہمت اور الزام نہیں لگانا 6 نیکی کے کاموں میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نافرنی نہیں کرنا جب بیعت کرلیں تو آپ ان کے لیے اپنے رب کے حضور استغفار کریں یقیناً اللہ تعالیٰ معاف کرنے والا رحم فرمانے والا ہے۔ الممتحنة
1 فہم القرآن ربط سورت : سورۃ الحشر کے آخری الفاظ یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہر اعتبار سے اپنی مخلوق پر غالب ہے اور اس کے ہر حکم میں حکمت پائی جاتی ہے۔ جب اللہ تعالیٰ ہر لحاظ سے اپنی مخلوق پر غالب ہے تو مسلمانوں کو اسی کی ذات پر بھروسہ کرتے ہوئے کسی اور سے بالخصوص اپنے اور اللہ کے دشمنوں سے خیر کی توقع نہیں رکھنی چاہیے۔ اسی لیے سورۃ الممتحنہ کی ابتدا اس حکم کے ساتھ کی جارہی ہے کہ مسلمانو! اپنے اور ” اللہ“ کے دشمن کو خیر خواہ نہ سمجھو! الممتحنہ کا لفظ امتحان سے مشتق ہے جس کا معنٰی ہے آزمانا ورآزمائش کرنا ہے۔ مفسرین کی غالب اکثریت نے سورۃ الممتحنہ کا شان نزول بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ جب مکہ والوں نے حدیبیہ میں ہونے والے عہد کو توڑ دیا تو نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نہایت رازداری کے ساتھ مکہ کی طرف پیش قدمی کرنے کی تیاری کا آغاز فرمایا۔ اسی دوران مکہ سے ایک عورت مدینہ آئی جسے حاطب (رض) بن ابی بلتعہ نے ایک خط لکھ کردیا کہ یہ خط مکہ کے فلاں سردار تک پہنچا دیا جائے۔ خط میں نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جنگی تیاریوں کا ذکر کیا گیا، ادھر عورت خط لے کر مکہ جارہی تھی۔ دوسری طرف یہ بات وحی کے ذریعے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے علم میں لائی گئی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت علی کے ساتھ مقدار اور حضرت زبیر (رض)۔ دوسری روایت میں ہے کہ ابو مرثد غنوی (رض) بھی وفد میں شامل تھے۔ فرمایا کہ تیزی سے مکہ کی طرف جاؤ۔ وہ عورت تمہیں مکہ سے پہلے روضہ خاخ مقام پر ملے گی تمہیں ہر صورت اس سے حاطب کا دیا ہوا خط واپس لانا ہوگا۔ تینوں حضرات دن رات سفر کرتے ہوئے روضۂ خاخ مقام کے قریب پہنچے تو انہوں نے دیکھا کہ ایک عورت اونٹ پر سوار بڑی تیزی کے ساتھ مکہ کی طرف جارہی ہے۔ وفد نے تیز قدمی کے ساتھ اسے روک لیا اور خط کے بارے میں اس سے پوچھا لیکن وہ کسی صورت بھی اقرار کرنے کے لیے تیارنہ ہوئی۔ قریب تھا کہ وفد واپس آجاتا لیکن حضرت علی (رض) نے فرمایا کہ اللہ کے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان جھوٹا نہیں ہو سکتا۔ لہٰذا خط اس عورت کے پاس ہے۔ حضرت علی (رض) آگے بڑھے اور تلوار لہراتے ہوئے کہا کہ اگر تو نے خط ہمارے حوالے نہ کیا تو ہم تجھے برہنہ کرکے تلاشی لیں گے۔ یہ کہتے ہوئے صحابہ (رض) اس کی طرف بڑھے ہی تھے کہ اس نے اپنے سر کے بالوں سے خط نکال کر حضرت علی (رض) کے حوالے کردیا۔ خط لے کر صحابہ واپس آئے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حاطب بن ابی بلتعہ کو طلب فرمایا اور اس سے استفسار کیا کہ یہ کیا معاملہ ہے ؟ حاطب (رض) نے بڑی عاجزی سے درخواست کی کہ اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! نہ میں مرتد ہوا ہوں اور نہ ہی میں نے مسلمانوں سے غداری کی ہے۔ سچ یہ ہے کہ مدینہ آنے والے اصحاب کا کوئی نہ کوئی رشتہ دار مکہ میں موجود ہے میں نے سوچا کہ جب ہم مکہ پر یلغار کریں گے تو مہاجرین کے رشتہ دار ان کے مکی رشتہ داروں کی کسی نہ کسی صورت میں حفاظت کریں گے۔ لیکن میری مکہ میں کوئی رشتہ داری نہیں کیونکہ میں باہر سے آکر مکہ میں مقیم ہوا تھا اس لیے میرے بیوی بچوں کی حفاظت کرنے والا کوئی نہیں ہوگا۔ میں نے مکہ والوں کی ہمدردی حاصل کرنے کے لیے یہ خط لکھا تاکہ وہ اس احسان کے بدلے میرے بیوی بچوں کی حفاظت کریں اس کے سوا میرا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس معاملہ کی انکوائری کررہے تھے تو حضرت عمر (رض) نے کہا کہ اللہ کے نبی! مجھے اجازت دیں کہ میں حاطب کا سرکاٹ دوں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا عمر! حوصلہ کرو تجھے معلوم نہیں؟ کہ حاطب بدری صحابی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بدر میں شرکت کرنے والے صحابہ کو معاف کردیا ہے۔ (رواہ البخاری : باب غزوۃ الفتح) حاطب بن ابی بلتعہ (رض) کی بات سن کر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یقین ہوگیا کہ حاطب نے یہ غلطی سازش کے تحت نہیں کی بلکہ اپنے بیوی بچوں کی حفاظت کے لیے کی ہے جس پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے معاف فرمادیا۔ اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے سورۃ الممتحنہ کی ابتدائی آیات نازل فرمائیں جس میں دوٹوک انداز میں حکم دیا ہے کہ مسلمانو! اگر تم میرے راستے میں لڑنے اور میری خوشنودی کے لیے مکہ سے نکلے ہو تو پھر میرے اور اپنے دشمنوں کو دوست اور خیر خواہ نہ سمجھو! تم ان کو دوستی کا پیغام بھیجتے ہو اور وہ حق آجانے کے باوجود اس کا انکار کرتے ہیں۔ انہوں نے تمہیں اور ال رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مکہ سے اس لیے نکال باہر کیا کہ تم اللہ پر ایمان رکھتے ہو جو تمہارا رب ہے۔ یاد رکھو! جو تم خفیہ یا اعلانیہ طور پر کرتے ہومیں اس کو اچھی طرح جانتا ہوں۔ تم میں جوایسا کرے گا وہ سیدھے راستے سے بھٹک جائے گا۔ اس فرمان میں اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ کے لیے مسلمانوں کو یہ حکم دیا ہے کہ وہ اپنے اور دین کے دشمنوں کو دوست نہ سمجھیں اور نہ ان کے سامنے اپنے راز فاش کریں۔ مسلمانوں کا راز فاش کرنے سے ایک طرف مسلمان کمزور ہوں گے، دوسری طرف دشمن کو تقویت ملے گی، جس سے تمہیں دنیا میں ذلت اٹھانا پڑے گی اور آخرت میں عذاب ہوگا۔ (عَنْ أَبِی ذَرٍّ (رض) قَالَ قَالَ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) أَفْضَلُ الأَعْمَالِ الْحُبُّ فِی اللَّہِ وَالْبُغْضُ فِی اللَّہِ) (رواہ ابوداؤد : باب مُجَانَبَۃِ أَہْلِ الأَہْوَاءِ وَبُغْضِہِمْ) ” حضرت ابوذر (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا افضل اعمال اللہ کی رضا کی خاطر محبت کرنا اور اس کی خاطر کسی سے بغض رکھنا ہے۔“ مسائل ١۔ مسلمانوں کو اپنے اور اللہ کے دشمنوں کو دوست نہیں بنانا چاہیے ٢۔ اللہ تعالیٰ ہر کسی کے خفیہ اور ظاہری عمل کو جانتا ہے۔ ٣۔ جس نے مسلمانوں کا راز فاش کیا وہ گمراہ ہوگیا۔ تفسیربالقرآن کفار کے ساتھ دوستی نہیں کرنی چاہیے : ١۔ اے ایمان والو ! میرے اور اپنے دشمن کو دوست نہ بناؤ۔ (الممتحنہ : ١ تا ٢) ٢۔ اے ایمان والو! جن پر اللہ کا غضب ہوا انھیں اپنا دوست نہ بناؤ۔ (الممتحنہ : ١٣) ٣۔ اے ایمان والو! ان لوگوں کو دوست نہ بناؤ جنھوں نے تمہارے دین کو کھیل تماشا بنا لیا ہے۔ (المائدۃ: ٥٦ تا ٥٧) ٤۔ اے ایمان والو! یہود و نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ۔ (المائدۃ: ٥١) ٥۔ اے ایمان والو! مسلمانوں کو چھوڑ کر کفار کو اپنا دوست نہ بناؤ۔ (النساء : ١٤٤) الممتحنة
2 فہم القرآن ربط کلام : کفار کے ساتھ دوستی نہ کرنے کی ایک اور وجہ۔ کفار کے ساتھ دلی دوستی اور اپنا راز ظاہر کرنے سے اس لیے بھی روکا گیا ہے کہ اگر کافر مسلمانوں پر غلبہ پا لیں تو وہ اپنی دشمنی کا اظہار کرتے ہوئے مسلمانوں کو اپنے ہاتھوں اور زبان سے تکلیف دینے سے باز نہیں آئیں گے ان کی خواہش ہے کہ مسلمان کسی نہ کسی طرح کافر بن جائیں۔ اے مسلمانو! جس اولاد اور رشتہ داروں کی خاطر کفارکے ساتھ دلی دوستی رکھتے ہو اور انہیں اپنا راز بتلاتے ہو وہ قیامت کے دن تمہارے کسی کام نہیں آئیں گے۔ اللہ ہی تمہارے درمیان فیصلہ کرے گا اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ تعالیٰ پوری طرح دیکھتا ہے۔ حضرت حاطب بن ابی بلتعہ (رض) نے اپنی اولاد اور اقرباء کی خاطر مسلمانوں کارازفاش کیا اس لیے مسلمانوں کو بتلایا اور سمجھایا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ قیامت کے دن تمہارے معاملات کا فیصلہ کرے گا توکسی کی اولاد اور رشتہ دار اس کے کام نہیں آئیں گے لہٰذا کفار کو اپنا دوست نہ بناؤ! دنیا میں اس کا نقصان یہ ہوگا کہ اگر کافر تم پر قابو پالیں تو وہ اپنی زبانوں اور ہاتھوں سے تمہیں ہر قسم کا نقصان پہنچائیں گے۔ کتنا ہی ناعاقبت اندیش ہے وہ مسلمان جو کفارکی خاطر اپنی دنیا اور آخرت تباہ کرتا ہے۔ دنیا اور آخرت کا نقصان بتلا کر مسلمانوں کو ہمیشہ ہمیش کے لیے اپنے راز فاش کرنے اور کفار سے دلی دوستی کرنے سے روک دیا گیا ہے۔ جہاں تک راز فاش کرنے والے کی سزا کا تعلق ہے اس کے بارے میں علمائے امت کا فیصلہ ہے کہ مسلمانوں کاراز فاش کرنے والا کافر ہوجاتا ہے اور اس کی سزا قتل ہے۔ البتہ راز کی نوعیت کے پیش نظر عدالت کو سزا میں تخفیف کرنے کا حق ہوتا ہے۔ اس کے لیے کہ حاطب بن ابی بلتعہ کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ ایک دفعہ امیر المومنین حضرت عمر (رض) کے پاس کسی صحابی نے اہل کتاب کے ایک شخص کی سفارش کی کہ یہ فن کتابت اور حساب کا ماہر ہے آپ اسے اپنا منشی اور کاتب رکھ لیں۔ امیر المومنین (رض) نے فرمایا کہ میں اسے مسلمانوں کا رازدان نہیں بنا سکتا۔ پھر اس آیت کا حوالہ دیا کہ کیا تجھے معلوم نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس بات سے منع کیا ہے۔ حضرت عمر (رض) کے فرمان کا مقصد یہ تھا کہ غیر مسلموں کو اہم عہدے نہیں دینے چاہئیں۔ اسی وجہ سے وہ فوج کے کمانڈروں کو حکم دیتے کہ جب کفار کے ساتھ تمہارے مذاکرات ہوں یا کہیں مشترکہ اجلاس ہوں تو ان کے ساتھ اس طرح خلط ملط نہ ہونا کہ وہ تمہاری فوجی اور اخلاقی کمزوریوں سے واقف ہوجائیں۔ (سیرت الفاروق) مسائل ١۔ کفار مسلمانوں پر غلبہ پالیں تو وہ مسلمانوں کو اپنے ہاتھوں اور زبانوں سے ضرور تکلیف پہنچائیں گے۔ ٢۔ کفار کی یہ خواہش اور کوشش ہوتی ہے کہ وہ مسلمانوں کو کافر بنا دیں۔ ٣۔ قیامت کے دن کسی کو اس کی اولاد اور رشتہ دار کوئی فائدہ نہیں پہنچاسکتے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن لوگوں کے درمیان ٹھیک ٹھیک فیصلہ فرمائے گا کیونکہ وہ لوگوں کے ہر عمل کو دیکھنے والا ہے۔ تفسیر بالقرآن قیامت کے دن مجرم کے کوئی کام نہیں آئے گا : ١۔ قیامت کے دن کوئی دوست کسی کے کام نہیں آئے گا۔ ( البقرۃ: ٢٥٤) ٢۔ قیامت کے دن کوئی رشتہ دار کسی کو فائدہ نہیں دے گا۔ ( عبس : ٣٤ تا ٣٦) ٣۔ قیامت کے دن کوئی دوست کسی دوست کے کام نہیں آئے گا۔ (الدخان : ٤١، ٤٢) ٤۔ قیامت کے دن کوئی کسی کو فائدہ نہیں دے سکے گا۔ (الانفطار : ١٩) ٥۔ قیامت کے دن دوستی اور سفارش کام نہ آئے گی۔ (ابراہیم : ٣١) ٦۔ معبودان باطل اپنے پیروکاروں کے کام نہیں آئیں گے۔ ( البقرۃ: ١٦٦) ٧۔ ” اللہ“ کے مقابلہ مجرموں کا کوئی مددگار نہیں ہوگا۔ (ہود : ٢٠) ٨۔ ” اللہ“ کے سوا تمہارا کوئی ولی اور مددگار نہیں۔ (العنکبوت : ٢٢) الممتحنة
3 الممتحنة
4 فہم القرآن ربط کلام : حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا اسوہ حسنہ ہر حال میں اپنے سامنے ر کھنے کا حکم۔ بالخصوص ان مسلمانوں کو جو کفار سے دوستی رکھنے کا ذہن رکھتے ہیں۔ حضرت حاطب بن ابی بلتعہ (رض) نے اپنی اولاد کی خاطر مسلمانوں کاراز اہل مکہ تک پہنچانے کی کوشش کی جو دنیا اور آخرت کے حوالے سے انتہائی نقصان دہ اقدام تھا۔ مسلمانوں کو ایسے اقدام اور نقصان سے بچنے کے لیے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے اسوہ حسنہ کو سامنے رکھنے کا حکم دیا گیا ہے۔ ارشاد ہوا کہ تمہیں ابراہیم (علیہ السلام) اور ان کے ساتھیوں کا فرمان اور اسوہ حسنہ اپنے لیے نمونہ بنانا چاہیے۔ جب ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنی قوم سے فرمایا کہ ہم تم سے اور تمہارے معبودوں سے لاتعلقی کا اعلان کرتے ہیں۔ ہم انہیں کبھی تسلیم نہیں کریں گے، ہمارے اور تمہارے درمیان ہمیشہ عداوت اور دشمنی رہے گی۔ یہاں تک کہ تم اللہ وحدہ ٗ لاشریک پر سچا اور خالص ایمان لے آؤ۔ ابراہیم (علیہ السلام) کی حیات طیبہ مسلمانوں کے لیے اسوہ حسنہ ہے۔ سوائے اس بات کے جو انہوں نے اپنے باپ کے لیے کہی تھی کہ اے میرے باپ! میں تیرے لیے مغفرت کی دعا کروں گا۔ البتہ اللہ کے حضور اسے منوانے کا میں اختیار نہیں رکھتا۔ ابراہیم (علیہ السلام) اور ان کے ساتھیوں نے یہ بات بھی کہی کہ اے ہمارے رب! ہم تیری ذات پربھروسہ کرتے ہیں اور تیری طرف ہی رجوع کرتے ہیں اور ہم نے تیرے حضور ہی لوٹ کرجانا ہے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے باپ سے ان کے لیے بخشش کی دعا کا وعدہ کرتے ہوئے اس بات کی وضاحت فرما دی کہ میں آپ کی مغفرت کی دعا ضرور کروں گا لیکن دعا کی منظوری اور آپ کی بخشش کروانا میرے اختیار میں نہیں۔ یہی عقیدہ توحید کی بنیاد ہے۔ خدا کی خدائی میں نہ کوئی شریک ہے اور نہ ہی اس نے کسی کو اپنی خدائی کے اختیارات دئیے ہیں وہ جسے چاہے معاف کرے اور جسے چاہے پکڑ لے۔ اس کی پکڑ سے بزرگ تو درکنار اللہ کے رسول بھی کسی کو چھڑا نہیں سکتے۔ اس آیت میں ایک بنیادی مسئلہ بیان کیا گیا ہے جس کے لیے اہل علم الولاء والوراع کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں۔ اَلْوَلَاءُ وَالْوَرَ اءُ: الولاء کا معنٰی دوستی رکھنا اور الوراء کا معنٰی ہے دوستی توڑتا۔ مراد یہ ہے کہ کفار کے ساتھ دوستی رکھنے کی بجائے ان سے تعلقات منقطع کرنا چاہیے اس اصطلاح کا استعمال اور اس پر عمل بڑا ہی نازک اور حساس مسئلہ ہے۔ آج کے دور میں نوجوان طبقہ اس کا صحیح مفہوم نہ سمجھنے کی وجہ سے قتال میں عملاً حصہ نہ لینے والے مسلمانوں پر اسے چسپاں کرتا دکھائی دیتا ہے۔ جبکہ اس کا حقیقی مفہوم اور اطلاق راسخ العلم علماء کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ اس لیے نوجوانوں کو اس مسئلہ میں احتیاط سے کام لینا چاہیے کیونکہ وہ غیر شعوری طور پر کفار کے معاون بن جاتے ہیں اور ملک وملت کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ یَلْقٰی إِبْرَاہِیْمُ أَبَاہُ آزَرَیَوْمَ الْقِیَامَۃِ وَعَلٰی وَجْہِ آزَرَ قَتَرَۃٌوَغَبَرَۃٌ فَیَقُوْلُ لَہٗ إِبْرَاہِیْمُ أَلَمْ أَقُلْ لَّکَ لَا تَعْصِنِیْ فَیَقُوْلُ أَبُوْہُ فَالْیَوْمَ لَآأَعْصِیْکَ فَیَقُوْلُ إِبْرَاہِیْمُ یَارَبِّ إِنَّکَ وَعَدْتَّنِیْ أَنْ لَّا تُخْزِیَنِیْ یَوْمَ یُبْعَثُوْنَ فَأَیُّ خِزْیٍ أَخْزٰی مِنْ أَبِی الْأَبْعَدِفَیَقُوْلُ اللّٰہُ تَعَالٰی إِنِّیْ حَرَّمْتُ الْجَنَّۃَ عَلٰی الْکَافِرِیْنَ ثُمَّ یُقَالُ یَآ إِبْرَاہِیْمُ مَا تَحْتَ رِجْلَیْکَ فَیَنْظُرُ فَإِذَا ھُوَ بِذِیْخٍ مُتَلَطِّخٍ فَیُؤْخَذُ بِقَوَآءِمِہٖ فَیُلْقٰی فِی النَّارِ) (رواہ البخاری : باب قول اللّٰہ تعالیٰ ” واتخذ اللّٰہ ابراھیم خلیلا“ ) ” حضرت ابوہریرہ (رض) نبی گرامی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں آپ نے فرمایا : ابراہیم (علیہ السلام) قیامت کے دن اپنے باپ آزر سے ملیں گے اس کے چہرے پر سیاہی اور گردو غبار ہوگا۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اپنے باپ سے کہیں گے اے میرے باپ کیا میں نے آپ سے نہیں کہا تھا کہ میری نافرمانی نہ کرو۔ ان کا باپ کہے گا کہ آج میں تیری نافرمانی نہیں کروں گا۔ ابراہیم (علیہ السلام) فریاد کریں گے کہ اے میرے رب آپ نے مجھ سے قیامت کے دن مجھے ذلیل نا کرنے کا وعدہ کیا تھا میرے باپ سے زیادہ بڑھ کر اور کونسی ذلت ہوگی؟ اللہ تعالیٰ فرمائیں گے میں نے کافروں پر جنت حرام کردی ہے۔ پھر کہا جائے گا ابراہیم اپنے پاؤں کی طرف دیکھو۔ وہ دیکھیں گے تو ان کا باپ کیچڑ میں لتھڑا ہوا بجو بن چکا ہوگا جسے پاؤں سے پکڑ کر جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔“ مسائل ١۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور ان کے ایماندار ساتھیوں کا اسوہ مسلمانوں کے لیے بہترین نمونہ ہے۔ ٢۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور ان کے ساتھیوں نے دوٹوک الفاظ میں غیر اللہ کی عبادت کا انکار کیا۔ ٣۔ حضرت ابراہیم اور ان کے ساتھیوں نے واضح الفاظ میں اپنی قوم کے سامنے اعلان کیا کہ جب تک تم ایک اللہ پر ایمان نہیں لاؤ گے ہماری اور تمہاری دشمنی رہے گی۔ ٤۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور ان کے ساتھیوں نے یہ بھی اعلان کیا کہ ہم اپنے رب پر بھروسہ رکھتے ہیں اس کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اور اس کی طرف ہمیں لوٹ کرجانا ہے۔ ٥۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا مشرک باپ کے لیے دعا کرنا امت کے لیے نمونہ نہیں ہے۔ تفسیربالقرآن کفّار اور مشرکین سے دینی اعتبار سے لاتعلق ہونا فرض ہے : ١۔ آپ فرما دیں اللہ تعالیٰ پاک ہے اور میں مشرکوں میں سے نہیں ہوں۔ (یوسف : ١٠٨ ) ٢۔ کہہ دیجیے اللہ ایک ہے بے شک میں تمہارے شرک سے بری ہوں۔ (الانعام : ١٩ ) ٣۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا اے میری قوم! میں تمہارے شرک سے برأت کا اظہار کرتا ہوں۔ (الانعام : ٧٨ ) ٤۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنی قوم سے فرمایا ہم تم سے اور تمھارے معبودوں سے بری الذمہ ہیں۔ (الممتحنہ : ٤) ٥۔ حضرت ھود علیہ السلامنے کہا میں اللہ کو گواہ بناتا ہوں اور تم بھی گواہ رہو کہ میں تمہارے شرک سے بیزار ہوں۔ (ہود : ٥٤) ٦۔ بے شک اللہ اور اس کا رسول مشرکوں سے بری ہے۔ (التوبہ : ٣ ) الممتحنة
5 فہم القرآن ربط کلام : حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور ان کے ساتھیوں کی مزید دعائیں۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ان انبیائے میں سر فہرست ہیں جنہوں نے بیک وقت اپنے اہل خانہ اور قوم سے تکلیفیں اٹھانے کے ساتھ ساتھ وقت کے حکمران کے ساتھ مقابلہ کیا اور ان سے اذّیت اٹھائی۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی اپنی قوم اور حکمرانوں کے ساتھ کشمکش اتنی شدید ہوئی کہ وہ اور ان کے ساتھی پکار اٹھے کہ اے ہمارے رب ! ہمیں معاف فرمابے شک تو ہر اعتبار سے غالب اور حکمت رکھنے والا ہے۔ قرآن مجید نے فتنہ کا لفظ کئی معانی میں استعمال کیا ہے۔ یہاں فتنہ کا لفظ چار معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ اکثر اہل علم نے یہاں فتنہ کا مفہوم آزمائش لیا ہے۔ مومنوں کا کفار کے لیے فتنہ بننا اہل علم نے درج ذیل صورتوں میں بیان کیا ہے۔ 1۔ اے ہمارے رب! جب تو مشرکین کودنیا میں عذاب دے تو ہمیں اس عذاب سے محفوظ فرما۔ 2۔ ایمانداروں پرکسی اعتبار سے کفار کا غلبہ پانا اور انہیں یہ کہنے کا موقع ملنا اگر ایماندار حق پر ہوتے تو ہمیں ان پر غلبہ حاصل نہ ہوتا یہ مومنوں کے لیے تکلیف دہ آزمائش ہے۔ 3۔ کفار کا اہل ایمان پر ظلم اس قدربڑھ جائے کہ ایماندار لوگ ان کے سامنے جھک جائیں اور باقی مسلمانوں کے لیے سبکی کا باعث بن جائیں یہ بہت بڑی آزمائش ہے۔ 4۔ مسلمانوں کا اخلاق اس قدر گر جائے کہ وہ جگ ہنسائی کا باعث بن جائیں۔ ان کے کردار کو کفاراسلام کی توہین کا ذریعہ بنالیں۔ موسیٰ (علیہ السلام) کی دعا : (فَقَالُوْا عَلَی اللّٰہِ تَوَکَّلْنَا رَبَّنَا لَا تَجْعَلْنَا فِتْنَۃً لِّلْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ) (یونس : ٨٥) ” تو انہوں نے کہا ہم نے اللہ پر ہی توکل کیا، اے ہمارے رب ہمیں ظالم لوگوں کے سے بچا۔“ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعا : (عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ (رض) عَنْ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) أَنَّہُ کَانَ یَدْعُواللَّہُمَّ احْفَظْنِی بالْإِسْلَامِ قَاءِمًا وَاحْفَظْنِی بالْإِسْلَامِ قَاعِدًا وَاحْفَظْنِی بالْإِسْلَامِ رَاقِدًا وَلَا تُشْمِتْ بِی عَدُوًّا حَاسِدًا ” اللَّہُمَّ إِنِّی أَسْأَلُکَ مِنْ کُلِّ خَیْرٍ خَزَاءِنُہُ بِیَدِکَ وَأَعُوذُ بِکَ مِنْ کُلِّ شَرٍّ خَزَاءِنُہُ بِیَدِکَ.“ ) (رواہ البیہقی فی الدعوات الکبیر : بَابُ جَامِعُ مَا کَانَ یَدْعُو بِہِ النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وَیَأْمُرُ أَنْ یُدْعَی بِہِ) ” حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دعا کیا کرتے تھے کہ اے اللہ! کھڑے، بیٹھے اور نیند کی حالت میں اسلام کے ساتھ میری حفاظت فرما! اور میرے مصائب سے میرے حاسد دشمن کو خوش نہ کر۔ اے اللہ ! جو خزانے تیرے پاس ہیں۔ میں آپ سے ان کی بھلائی کا سوال کرتاہوں اور ان کے شر سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔“ (عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عَبَّاسٍ (رض) قَالَ قَالَ رَسُول اللَّہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَنْ لَزِمَ الاِسْتِغْفَارَ جَعَلَ اللَّہُ لَہُ مِنْ کُلِّ ہَمٍّ فَرَجًا وَمِنْ کُلِّ ضیقٍ مَخْرَجًا وَرَزَقَہُ مِنْ حَیْثُ لاَ یَحْتَسِبُ) (رواہ ابوداؤد : باب الاستغفار، قال البانی ضعیف) ” حضرت عبداللہ بن عباس (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس نے استغفار کو لازم پکڑ ا، اللہ تعالیٰ اسے ہر غم سے نجات عطا فرما دیتا ہے اور ہر تنگی سے نکلنے کی جگہ بنا دیتا ہے اور اسے وہاں سے رزق عطا فرماتا ہے جہاں سے اسے خیال بھی نہ ہو۔“ ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں بلاشبہ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے سجدوں میں پڑھا کرتے تھے :” اللّٰہُمَّ اغْفِرْ لِی ذَنْبِی کُلَّہٗ دِقَّہٗ وَجِلَّہٗ وَأَوَّلَہٗ وَآخِرَہٗ وَعَلَانِیَتَہٗ وَسِرَّہٗ“ اے اللہ میرے چھوٹے اور بڑے پہلے اور بعد والے، علانیہ اور پوشیدہ کیے تمام کے تمام گناہ معاف فرما دے۔“ (رواہ مسلم : کتاب الصلاۃ) مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ سے ہر قسم کی آزمائش سے بچنے کے لیے ایمانداروں کو دعا کرنی چاہیے۔ ٢۔ آدمی کو ہر حال میں اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگنا چاہیے۔ ٣۔ مسلمان کا عقیدہ ہونا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ ہر اعتبار سے غالب ہے اور اس کے ہر حکم میں حکمت پائی جاتی ہے۔ تفسیر بالقرآن توبہ و استغفار کی اہمیت : ١۔ توبہ کرنا مومن کا شیوہ ہے۔ (التوبہ : ١١٢) ٢۔ توبہ کرنے والوں سے اللہ تعالیٰ محبت کرتا ہے۔ (البقرۃ: ٢٢٢) ٣۔ توبہ قبول کرنا اللہ تعالیٰ کی صفت ہے۔ (البقرۃ: ١٦٠) ٤۔ توبہ کرنے والے کا میاب ہوں گے۔ (القصص : ٦٧) ٥۔ توبہ کرنے والوں کے لیے فرشتے مغفرت کی دعا کرتے ہیں۔ (المومن : ٧ تا ٩) (الفرقان : ٧٠) الممتحنة
6 فہم القرآن ربط کلام : حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی دعوت اور استقامت ہراس شخص کے لیے نمونہ ہے جو اللہ اور آخرت پر یقین رکھتا ہے۔ انبیائے کرام میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) واحد پیغمبر ہیں جن کی سیرت طیبہ کو نبی آخرالزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کی امت کے لیے نمونہ قرار دیا گیا ہے۔ جس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ ابو الانبیاء حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نبی آخر الزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے جد امجد اور ملت حنیف کے داعی ہیں ابراہیم (علیہ السلام) کا راستہ مشکل ترین راستہ ہے۔ اسے وہی شخص اختیار کرے گا جو اللہ کی ملاقات پر ایمان اور قیامت کے قائم ہونے کا یقین رکھتا ہے۔ جو اس راستے سے پھر گیا اسے معلوم ہونا چاہیے کہ بے شک اللہ تعالیٰ ہر اعتبار سے بے نیاز اور تعریف کے لائق ہے۔ ارشاد ہوا ہے کہ ابراہیم (علیہ السلام) کے اسوہ حسنہ کو وہی شخص اپنائے گا جو اللہ کی ملاقات اور آخرت پر ایمان رکھتا ہے۔ ایسے مؤمن کو بڑی سے بڑی مشکل بھی آسان دکھائی دیتی ہے، کیونکہ اسے یقین ہوتا ہے کہ قیامت ہر صورت قائم ہونی ہے اور مجھے اپنے رب کے حضور پیش ہو کر اپنے نیک اعمال کا اجر پانا ہے۔ جو شخص اس راستے کو اختیار نہ کرے تو اسے معلوم ہونا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ ہر لحاظ سے غنی اور تعریف کے لائق ہے۔ دوسرے مقام پر ابراہیم (علیہ السلام) کے طریقے کو چھوڑنا حماقت قرار دیا ہے۔ ” دین ابرہیمی سے وہی بے رغبتی کرے گا جس نے اپنے آپ کو حماقت میں ڈال لیا ہے، بلا شک ہم نے ابراہیم (علیہ السلام) کو دنیا میں چن لیا اور آخرت میں وہ صالحین میں سے ہوگا۔ (البقرۃ: ١٣٠) الْغَنِیُّ: غنی کا معنی ہے ہر لحاظ سے بے نیاز اور مستغنی وہ صرف ” اللہ“ کی ذات ہے۔ کسی کے عبادت کرنے سے اس کی بادشاہی اور عظمت میں اضافہ نہیں ہوتا ہے اور کسی کے کفر و شرک سے اس کی بادشاہی اور عظمت میں کوئی کمی نہیں آتی۔ ( عَنْ أَبِی ذَرٍّ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فِیمَا رَوَی عَنِ اللَّہِ تَبَارَکَ وَتَعَالَی أَنَّہُ قَالَ یَا عِبَادِی إِنَّکُمْ لَنْ تَبْلُغُوا ضَرِّی فَتَضُرُّونِی وَلَنْ تَبْلُغُوا نَفْعِی فَتَنْفَعُونِی یَا عِبَادِی لَوْ أَنَّ أَوَّلَکُمْ وَآخِرَکُمْ وَإِنْسَکُمْ وَجِنَّکُمْ کَانُوا عَلَی أَتْقَی قَلْبِ رَجُلٍ وَاحِدٍ مِنْکُمْ مَا زَادَ ذَلِکَ فِی مُلْکِی شَیْءًا یَا عِبَادِی لَوْ أَنَّ أَوَّلَکُمْ وَآخِرَکُمْ وَإِنْسَکُمْ وَجِنَّکُمْ کَانُوا عَلَی أَفْجَرِ قَلْبِ رَجُلٍ وَاحِدٍ مَا نَقَصَ ذَلِکَ مِنْ مُلْکِی شَیْءًا یَا عِبَادِی لَوْ أَنَّ أَوَّلَکُمْ وَآخِرَکُمْ وَإِنْسَکُمْ وَجِنَّکُمْ قَامُوا فِی صَعِیدٍ وَاحِدٍ فَسَأَلُونِی فَأَعْطَیْتُ کُلَّ إِنْسَانٍ مَسْأَلَتَہُ مَا نَقَصَ ذَلِکَ مِمَّا عِنْدِی إِلاَّ کَمَا یَنْقُصُ الْمِخْیَطُ إِذَا أُدْخِلَ الْبَحْرَ یَا عِبَادِی إِنَّمَا ہِیَ أَعْمَالُکُمْ أُحْصِیہَا لَکُمْ ثُمَّ أُوَفِّیکُمْ إِیَّاہَا فَمَنْ وَجَدَ خَیْرًا فَلْیَحْمَدِ اللَّہَ وَمَنْ وَجَدَ غَیْرَ ذَلِکَ فَلاَ یَلُومَنَّ إِلاَّ نَفْسَہُ قَالَ سَعِیدٌ کَانَ أَبُو إِدْرِیسَ الْخَوْلاَنِیُّ إِذَا حَدَّثَ بِہَذَا الْحَدِیثِ جَثَا عَلَی رُکْبَتَیْہِ) (رواہ مسلم : کتاب البر والصلۃ و الآداب، باب تحریم الظلم) ” حضرت ابوذر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اللہ تبارک وتعالیٰ فرماتا ہے میرے بندو! تم مجھے نقصان اور نفع پہنچانے کی طاقت نہیں رکھتے۔ میرے بندو! تمہارے تمام اگلے پچھلے، جن و انس سب سے زیادہ متّقی انسان کے دل کی طرح ہوجائیں تو میری سلطنت میں ذرّہ بھر اضافہ نہیں کرسکتے۔ میرے بندو! تمہارے اگلے پچھلے جن وانس سب بدترین انسان کی طرح ہوجائیں تو میری حکومت میں کوئی نقص واقع نہیں کرسکتے۔ میرے بندو! تمہارے اگلے پچھلے‘ جن وانس اگر سب کھلے میدان میں اکٹھے ہوجائیں اور مجھ سے مانگنے لگیں اور میں ہر ایک کی اس کی منہ مانگی مرادیں دے دوں تو میرے خزانوں میں اتنی کمی بھی واقع نہیں ہو سکتی جتنی سوئی کو سمندر میں ڈبونے سے واقع ہوتی ہے۔“ مسائل ١۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا اسوہ حسنہ ہر ایماندار کے لیے بہترین نمونہ ہے۔ ٢۔ جو شخص ابراہیم (علیہ السلام) کے اسوہ اور آخرت کا انکار کرے گا اللہ تعالیٰ کو اس کی کوئی پر وہ نہیں ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ ہر اعتبار سے بے نیاز اور تعریف کے لائق ہے۔ تفسیر بالقرآن حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے امتحانات اور ان کا مقام و مرتبہ : ١۔ ابراہیم (علیہ السلام) امت محمدیہ کے لیے نمونہ ہیں۔ (الممتحنہ : ٤) ٢۔ ابراہیم (علیہ السلام) کے طریقہ سے انحراف کرنے والابیوقوف ہے۔ (البقرۃ: ١٣) ٣۔ ابراہیم (علیہ السلام) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پیشویٰہیں۔ (النحل : ١٢٣) ٤۔ ابراہیم (علیہ السلام) بردبار اور نرم خو تھے۔ ( التوبہ : ١١٤) ٥۔ ابراہیم (علیہ السلام) تمام امتوں کے پیشواہیں۔ (البقرۃ: ١٢٤) ٦۔ ابراہیم (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے دوست بنایا۔ (النساء : ١٢٥) ٧۔ ابراہیم (علیہ السلام) کا اپنی بیوی اور نو مولود بچے کو بے آب وگیاہ وادی میں چھوڑ کر آنا بہت بڑی آزمائش تھا۔ (ابرہیم : ٣٧) الممتحنة
7 فہم القرآن ربط کلام : اس سورت کی پہلی آیت میں مسلمانوں کو کفار کے ساتھ قلبی تعلقات رکھنے سے منع کیا گیا ہے جس میں ایمانداروں کے لیے ایک بہت بڑی آزمائش تھی اور ہے اس لیے انہیں تسلی دی گئی ہے کہ دل چھوٹا نہیں کرنا۔ عنقریب اللہ تعالیٰ وقت لانے والا ہے جب تمہارے دشمن ایمان لے آئیں گے اور تم آپس میں شیرو شکر ہوجاؤ گے۔ رب ذوالجلال کا حکم پاتے ہی صحابہ کرام (رض) نے کفار کے ساتھ اپنی رشتہ داریوں اور تعلقات کو ختم کرلیا کسی نے اپنی کافر بیوی کو طلاق دی اور کسی نے اپنی اولاد سے رشتہ توڑا۔ یہ بات لکھنا اور بیان کرنا آسان ہے لیکن رشتہ داروں سے لاتعلق ہونا معاشرتی اعتبار سے بہت بڑا چیلنج اور آزمائش ہوتی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ہر انسان میں انس اور رشتہ داری کی محبت رکھی ہے۔ جس وجہ سے کسی سے لاتعلق ہونا شریف اور ہمدرد شخص کے لیے تکلیف دہ عمل ہوتا ہے، بے شک صحابہ کرام (رض) ایمان کے بلند درجہ پر فائز تھے مگر تھے توانسان ہی جس وجہ سے ان کے لیے رشتہ داروں سے قطع تعلق ہونا پریشانی کا باعث بنا۔ دوسری طرف کفار نے پراپیگنڈہ کیا کہ مسلمان ایک طرف ہمدردی کرنے اور رشتے جوڑنے کی بات کرتے ہیں اور دوسری طرف رشتے ناطے توڑ رہے ہیں۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو تسلی دی کہ عنقریب وہ وقت آنے والا ہے جب اللہ تعالیٰ تمہارے دشمنوں کے درمیان مودَّت پیدا کرے گا، ان کی غالب اکثریت حلقہ اسلام میں داخل ہوگی اور تم ایمان کے رشتے کی بنیاد پر ایک دوسرے کے ساتھ شیر و شکر ہوجاؤگے، ایسا ضرور ہوگا کیونکہ اللہ تعالیٰ دلوں کو جوڑنے اور ہر کام کرنے پر قدرت رکھتا ہے، قدرت رکھنے کے باوجود لوگوں کے گناہوں کو معاف کرنے والا نہایت مہربان ہے۔ اس ارشاد میں مسلمانوں کو اشارے کی زبان میں مکہ فتح ہونے کی خوشخبری دی گئی ہے جو بہت جلد پوری ہوگئی۔ مسائل ١۔ ” اللہ“ ہی لوگوں کے درمیان محبت پیدا کرنے والا ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ ہر ایک پر قدرت رکھنے کے باوجود معاف کرنے والا اور مہربان ہے۔ الممتحنة
8 فہم القرآن ربط کلام : کفار کے ساتھ تعلقات میں استثناء۔ پچھلی آیت کے اختتام پر ارشاد ہوا کہ اللہ تعالیٰ غفور الرحیم ہے یہ اس کی مہربانی کا نتیجہ ہے کہ اس نے ہر کافر کے ساتھ ہر قسم کے تعلقات منقطع کرنے کا حکم نہیں دیا قطع تعلق اور لڑنے کا حکم ان کفار کے ساتھ ہے جو مسلمانوں پر زیادتی کرتے ہیں اور اسلام کے راستے میں رکاوٹ بنتے ہیں۔ اس نے صرف کفار کے ساتھ قلبی محبت، ازواجی تعلقات اور ان کو رازداں بنانے سے منع کی گیا ہے لہٰذا اللہ تعالیٰ تمہیں ان لوگوں کے ساتھ، کاروبار اور سماجی تعلقات رکھنے سے منع نہیں کرتا جنہوں نہ دین کی وجہ سے تمہارے ساتھ جنگ کی اور نہ تمہیں تمہارے گھروں سے نکلنے پر مجبور کیا۔ اس لیے تم ان کے ساتھ انصاف کا سلوک کرو اور یقین جانو کہ اللہ تعالیٰ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کے ساتھ تمہیں قلبی دوستی کرنے سے منع کرتا ہے جنہوں نے تمہاردے دین کی وجہ سے تمہارے ساتھ جنگ کی اور تمہارے گھروں سے تمہیں نکال دیا اور تمہارے نکالنے میں ایک دوسرے کی مدد کی جو لوگ ان کے ساتھ دوستی کریں گے وہ ظالم ہوں گے۔ اس وضاحت اور اجازت سے ان لوگوں کی غلط فہمی دور ہوجانی چاہیے جو یہ سمجھتے ہیں کہ اسلام جنگجو دین ہے ایسا ہرگز نہیں کیونکہ اسلام امن و آشتی کا دین ہے۔ دین صرف ان لوگوں سے تعلقات میں رکاوٹ ڈالتا ہے اور ان سے لڑنے کا حکم دیتا ہے جو اس کے راستے میں رکاوٹ ڈالتے ہیں اور لوگوں پر ظلم کرتے ہیں۔ اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ جو اس کی تبلیغ میں رکاوٹ ڈالتے ہیں اور لوگوں پر ظلم کرتے ہیں ان کے خلاف اٹھ کھڑا ہونا چاہئے یہ لوگ یا اسلام قبول کریں یا پھر سرنگوں ہو کر رہیں تاکہ دنیا امن وامان کا گہوارہ بن جائے۔ (عَنِ ابْنِ عُمَرَ (رض) قَالَ وُجِدَتِ امْرَأَۃٌ مَقْتُوْلَۃً فِی بَعْضِ مَغَازِیْ رَسُوْلِ اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَنَہَی رَسُوْلُ اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عَنْ قَتْلِ النِّسَاءِ وَالصِّبْیَا نِ) (رواہ البخاری : باب قتل النساء فی الحرب) ” حضرت ابن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے غزوات میں سے کسی ایک غزوہ میں ایک مقتول عورت پائی گئی تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عورتوں اور بچوں کو قتل کرنے سے منع فرما دیا۔“ مسائل ١۔ پُرامن رہنے والے کفار کے ساتھ بھلائی اور انصاف کرنے کا حکم ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔ ٣۔ جو کفار اسلام کے راستے میں رکاوٹ اور مسلمانوں پر زیادتی کرتے ہیں ان کے ساتھ دوستی نہیں رکھنی چاہیے۔ ٤۔ جو ان کے ساتھ دوستی رکھیں گے وہ ظالم ہوں گے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ ان لوگوں سے محبت کرتا ہے : ١۔ اللہ تعالیٰ پر ہیز گاروں سے محبت کرتا ہے۔ (آل عمران : ٧٦) ٢۔ بے شک اللہ تعالیٰ انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔ (الممتحنہ : ٨) ٣۔ غصہ پینے والے اور لوگوں کو معاف کرنے والوں سے اللہ محبت کرتا ہے۔ (آل عمران : ١٣٤) ٤۔ اللہ صبر کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔ (آل عمران : ١٤٦) ٥۔ اللہ تعالیٰ احسان کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔ (آل عمران : ١٤٨) ٦۔ اللہ تعالیٰ پاک صاف رہنے والوں سے محبت کرتا ہے۔ (التوبہ : ١٠٨) ٧۔ اللہ تعالیٰ ان لوگوں سے محبت کرتا ہے جو اللہ کی راہ میں منظم ہو کر لڑتے ہیں۔ (الصف : ٤) ٨۔ اللہ پاک باز لوگوں کو پسند کرتا ہے۔ (التوبہ : ١٠٨) ٩۔ اللہ تعالیٰ توبہ کرنے والوں اور پاک صاف رہنے والوں کو سے محبت کرتا ہے۔ (البقرۃ : ٢٢٢) الممتحنة
9 الممتحنة
10 فہم القرآن ربط کلام : اس سے پہلے قتال کے مسائل بیان ہوئے ہیں، قتال کے دوران ہجرت کا معاملہ پیش آنا فطری بات ہے اس لیے مہاجر عورتوں کے بارے میں بالخصوص ہدایات دی گئی ہیں۔ صلح حدیبیہ کے موقعہ پر جو معاہدہ ہوا تھا اس میں ا ہل مکہ کی طرف سے یہ شرط تھی کہ مسلمانوں میں سے کوئی شخص مکہ آنا چاہے تو ہم اسے واپس نہیں کریں گے۔ اگر ہم میں سے کوئی آدمی مسلمان ہو کر مدینہ جائے گا تو اسے آپ کو واپس کرناپڑے گا۔ معاہدے کے تھوڑے عرصہ بعد ایک مسلمان ابوبصیر (رض) بھاگ کر مدینہ آیا تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے واپس کردیا۔ اسی دوران کچھ مسلمان خواتین مکہ سے ہجرت کرکے مدینہ پہنچیں جن میں امِّ کلثوم بن عتبہ (رض) بھی تھیں ام کلثوم کا بھائی اسے واپس لینے کے لیے مدینہ آیا۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے واپس کرنے سے انکار کردیا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس موقع پر یہ حکم نازل فرما دیاتھاکہ جو مسلمان عورتیں ہجرت کرکے مدینہ پہنچ جائیں انہیں واپس نہ کیا جائے اس لیے کہ یہ کفار کے لیے حلال نہیں اور کفار ان کے لیے حلال نہیں ہیں البتہ مومن مہاجر عورتوں کا امتحان لینا ضروری ہے۔ اگر تم امتحان کے ذریعے معلوم کرلو کہ یہ واقعی ہی مومن ہیں تو انہیں کفار کی طرف واپس نہ کرو۔ حکم میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بجائے مومنوں کو مخاطب کیا گیا ہے کہ مہاجر عورتوں کا امتحان لیں اس لیے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ ذمہ داری حضرت عمر (رض) کے حوالے کی کہ وہ مہاجر عورتوں سے چند سوال پوچھ کر ان کے ایمان کا امتحان لیں اور اطمینان حاصل کریں کہ واقعی وہ مسلمان ہیں، اطمینان حاصل ہونے پر انہیں کفار کے حوالے نہ کیا جائے۔ مگر ان عورتوں کے خاوندوں کو ان کے دئیے ہوئے حق واپس کرو اور تم نیا حق مہر ادا کرنے کے بعد ان سے نکاح کرسکتے ہو اور جو تم نے اپنی کافر بیویوں پر خرچ کیا ہے وہ ان سے واپس مانگ لو یہ تمہارے لیے اللہ کا حکم ہے۔ اللہ تعالیٰ تمہارے معاملات کو اچھی طرح جانتا ہے اور اس کے ہر حکم میں حکمت پائی جاتی ہے۔ اگر تمہاری کافر بیویوں کے حق مہر تمہیں واپس نہ ملیں تو پھر مال غنیمت سے ان مسلمانوں کو ان کے ادا کیے ہوئے حق مہر دئیے جائیں۔ ہمیشہ اللہ سے ڈرتے رہو جس پرتم ایمان لائے ہو۔ کافر بیویوں سے مراد وہ بیویاں ہیں جو اپنے کفر کی بنا پر مکہ میں رہ گئی تھیں۔ مسائل ١۔ جن مہاجر عورتوں کے ایمان کے بارے میں علم نہ ہو ان کے ایمان کے بارے میں امتحان لینا چاہیے۔ ٢۔ مومن مہاجرات کو کفار کے حوالے کرنا جائز نہیں۔ ٣۔ کافر عورتوں کے حق مہر واپس کردینے چاہیے۔ ٤۔ مسلمان عورتیں کفار کے لیے حلال نہیں اور کافر مسلمان عورتوں کے لیے حلال نہیں۔ ٥۔ مسلمان عورت کا حق مہر اس کے کافر خاوند سے واپس لینا چاہیے۔ ٦۔ جس مسلمان کو کفار کی طرف سے حق مہر واپس نہ ملے اسے اپنے حق مہر کی رقم بیت المال سے لینے کا حق ہے۔ ٧۔ اللہ تعالیٰ کے ہر حکم میں حکمت پائی جاتی ہے۔ ٨۔ ایمانداروں کو ہر حال میں اللہ تعالیٰ سے ڈرنا چاہیے۔ تفسیربالقرآن اللہ تعالیٰ سے ڈرنے کے فائدے : ١۔ لوگ اللہ سے ڈرنے کے بجائے ایک دوسرے سے زیادہ ڈرتے ہیں۔ (النساء : ٧٧) ٢۔ اللہ سے خلوت میں ڈرنے والوں کے لیے جنت کی خوشخبری ہے۔ (یٰسین : ١١) ٣۔ لوگوں سے ڈرنے کے بجائے اللہ سے ہی ڈرنا چاہیے۔ (آل عمران : ١٧٥) ٤۔ متقین کے لیے کامیابی ہے۔ (الانبیاء : ٣١ تا ٣٣) ٥۔ متقین کا انجام بہتر ہے۔ (ہود : ٤٩) ٦۔ متقین کے لیے جنت ہے۔ (الحجر : ٤٥) ٧۔ اللہ تعالیٰ نے متقین کے ساتھ جنت کا وعدہ فرمایا ہے اور کافروں کا انجام دوزخ کی آگ ہے۔ (الرعد : ٣٥) ٨۔ قیامت کے دن متقین کے چہرے ہشاش بشاش ہوں گے۔ (یونس : ٢٦۔ ٢٧) ٩۔ متقین کے لیے ان کے رب کے پاس نعمتوں والی جنت ہے۔ (القلم : ٣٤) ١٠۔ متقی کا کام آسان اور اس کی سب خطائیں معاف اور ان کے لیے بڑا اجر ہوگا۔ (الطلاق : ٤ تا ٥) ١١۔ متقین اولیاء اللہ ہیں جو قیامت کے دن بے خوف ہوں گے۔ ( یونس : ٦١ تا ٦٤) الممتحنة
11 الممتحنة
12 فہم القرآن ربط کلام : پچھلی آیات میں ایمان لانے والی مہاجر عورتوں سے امتحان لینے کا حکم تھا اور اب امتحان کے لیے چند اصول بتلائے جا رہے ہیں۔ پہلی آیت میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بجائے صحابہ کو خطاب کیا گیا ہے کہ جب مدینہ کی طرف ہجرت کر کے آنے والی عورتیں اپنے ایمان کا دعویٰ کریں تو ان کے ایمان کی جانچ پڑتال کرلیا کرو۔ اب بیعت لینے کے لیے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیا گیا ہے کہ جب آپ کے پاس ایمان لانے والی عورتیں حاضر ہوں تو آپ ان سے ان امور پر بیعت لیا کریں۔ ١۔ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہ بنائیں۔ ٢۔ کسی کا مال چوری نہ کریں۔ ٣۔ بدکاری نہ کریں۔ ٤۔ اپنی اولاد کو قتل نہ کریں۔ ٥۔ اپنے ہاتھوں اور پاؤں سے کسی پر تہمت نہ لگائیں۔ ٦۔ کسی نیک کام میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نافرمانی نہ کریں۔ جن باتوں کے بارے میں عورتوں سے بیعت لینے کا حکم ہے ان سے بچنا ہر مومن عورت اور مومن مرد پر فرض ہے۔ عورتوں سے بیعت لینے کا اس لیے ذکر کیا گیا ہے کیونکہ اس سے پچھلی آیات میں ہجرت کرنے والی مومن عورتوں کا ذکر ہوا ہے۔ پھر یہ بات بھی حقیقت ہے کہ مردوں کے مقابلے میں عورتوں میں یہ گناہ زیادہ پائے جاتے ہیں۔ اس لیے یہاں عورتوں کی بیعت اور اس کی شرائط کا ذکر کیا گیا ہے۔ جو مسلمان عورتیں ان باتوں پر پختہ عہد کریں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ان کے حق میں اللہ سے بخشش کی دعا کرنے کی تلقین کی گئی ہے۔ ان عورتوں کو ان کے گناہوں کی بخشش کا یقین دلاتے ہوئے فرمایا ہے کہ یقیناً اللہ تعالیٰ گناہوں کو معاف کرنے والامہربان ہے۔ جن پانچ گناہوں پر بیعت لینے کا حکم ہے ان میں شرک کے علاوہ باقی گناہ ایسے ہیں جن پر شریعت نے حد مقرر کی ہے۔ اگر ان میں سے کوئی گناہ کسی مرد یا عورت پر ثابت ہوجائے تو شریعت کے مطابق اس پر حد نافذ کرنا اسلامی حکومت کا فرض ہے۔ (عَنْ عُبَادَۃَ بْنِ الصَّامِتِ (رض) قَالَ بَایَعْنَا رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عَلَی السَّمْعِ وَالطَّاعَۃِ فِی الْعُسْرِ وَالْیُسْرِ وَالْمَنْشَطِ وَالْمَکْرَہِ، وَأَنْ لاَ نُنَازِعَ الأَمْرَ أَہْلَہُ، وَأَنْ نَقُوم بالْحَقِّ حَیْثُمَا کُنَّا لاَ نَخَافُ لَوْمَۃَ لاَءِمٍ) (رواہ النسائی : باب البیعۃ علی السمع والطاعۃ) ” حضرت عبادۃ بن صامت (رض) بیان کرتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ان باتوں پر بیعت کی : آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سمع واطاعت کریں گے چاہے تنگی ہو یا فراخی، چاہے ہمارے لیے پسندیدہ بات ہو یا نا پسندہو، چاہے ہم پر کسی کو ترجیح کیوں نہ دی جائے، اس شرط کے ساتھ کہ ہم صاحب امر کے ساتھ جھگڑا نہیں کریں گے، اور یہ کہ ہم جہاں کہیں ہوں حق بات کہیں گے اور اللہ تعالیٰ کے بارے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پرواہ نہیں کریں گے۔“ پیر ومرشد کی بیعت : بیعت کا لفظ بیع سے نکلا ہے اس کا معنی ہے کسی سے سودا کرنا یا کوئی ذمہ داری قبول کرنا۔ قرآن مجید میں یہ لفظ دونوں معنوں میں استعمال کیا ہے حوالے کے لیے اس آیت کی تفسیر بالقرآن ملاحظہ فرمائیں۔ اصطلاحاً بیعت اس معاہدے کو کہا جاتا ہے جو امیر کی اطاعت کے لیے کیا جاتا ہے۔ صوفیائے کرام نے اپنے حلقے میں اصلاح کے نام پر ایک نئی روایت ڈالی گئی ہے جس کا خیر القرون میں وجود نہیں ملتا اگر اس فعل کا مقصود لوگوں کی اصلاح ہے تو یہ مقصد مبلغ کی تبلیغ، معلم کی تعلیم اور علماء کی تربیت سے حاصل ہوسکتا ہے۔ تفسیر بالقرآن قرآن مجید میں بیعت کا تذکرہ : ١۔ اس سودے پر خوب خوش ہوجاؤ جو تم نے اللہ سے کیا ہے اور یہ بہت بڑی کامیابی ہے۔ (التوبہ : ١١١) ٢۔ ان سے بیعت لے لو اور ان کے حق میں اللہ سے دعائے مغفرت کرو، یقیناً اللہ درگزر فرمانے والا اور رحم کرنے والا ہے۔ (الممتحنہ : ١٢) ٣۔ اللہ مومنوں سے خوش ہوگیا جب وہ درخت کے نیچے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیعت کر رہے تھے۔ (الفتح : ١٣) الممتحنة
13 فہم القرآن ربط کلام : الممتحنہ کی ابتدا جس حکم کے ساتھ کی گئی ہے اسی پر اس کا اختتام کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بڑی تفصیل کے ساتھ مسلمانوں کو حکم دیا ہے کہ وہ کسی صورت بھی اللہ اور اپنے دشمنوں کو دوست نہ بنائیں۔ اس کے دلائل دیتے ہوئے مشرکین کے خلاف ابراہیم (علیہ السلام) اور ان کے ساتھیوں کا اعلانِ برأت پیش کیا گیا جس کے لیے ارشاد ہوا کہ ابراہیم (علیہ السلام) اور ان کے ایماندار ساتھیوں کا طریقہ وہی شخص اختیار کرے گا جو اللہ کے حضور حاضر ہونے اور آخرت کی جوابدہی کا عقیدہ رکھتا ہے بالفاظ دیگر دوسرے شخص سے ایسے مضبوط ایمان اور جرأت مندانہ کردار کی توقع نہیں کی جاسکتی۔ اس کے بعد اس بات کی وضاحت فرمائی کہ اللہ تعالیٰ تمہیں ہر کافر سے ہر قسم کی لاتعلقی کا حکم نہیں دیتا وہ ان کفار کے ساتھ تعلقات توڑنے اور لڑنے کا حکم دیتا ہے جو تمہارے اور تمہار دین کے دشمن ہیں۔ انہی کلمات پر سورۃ کا اختتام کیا جا رہا ہے اے ایمان والو! اللہ اور اپنے دشمنوں کو دوست نہ بناؤ کیونکہ ان پر اللہ تعالیٰ کا غضب نازل ہوچکا ہے لہٰذا ایماندار شخص کو کسی مغضوب علیہ کے ساتھ رشتہ داری اور قلبی لگاؤ نہیں رکھنا چاہیے۔ جن پر اللہ کا غضب ہوا ہے وہ آخرت سے اس طرح ہی مایوس ہوچکے ہیں جس طرح کفار قبروں والوں سے مایوس ہوچکے ہیں۔ ” اَصْحَابِ الْقُبُوْرِ“ صحابہ کرام (رض) نے کفار کی مایوسی کے دو مفہوم اخذ کیے ہیں۔ ١۔ حضرت عبداللہ بن عباس (رض) اور دیگر صحابہ نے یہ مفہوم لیا ہے کہ جو لوگ موت کے بعد جی اٹھنے کا انکار کرتے ہیں وہ اس بات سے مایوس ہیں کہ ان کے جو عزیز و اقرباء فوت ہوچکے ہیں وہ دوبارہ کبھی زندہ ہوں گے۔ ٢۔ حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) اور حضرت مجاہد (رح) اور ان کے ہم فکر اصحاب اس آیت کا یہ مطلب لیتے ہیں کہ جو کافر فوت ہوچکے ہیں انہوں نے اپنی قبروں میں اس حقیقت کو پالیا ہے کہ آخرت میں انہیں عذاب کے سوا کچھ نہیں ملے گا گویا کہ وہ اللہ کی رحمت سے کلی طور پر مایوس ہوچکے ہیں۔ ہمارے دور میں کچھ نادان لوگوں نے اپنے باطل عقیدہ کی تائید کے لیے اس آیت کا بالکل ہی مخالف مفہوم لیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ا ہل قبور کے اختیارات سے وہی لوگ انکار کرتے ہیں جو کافر ہیں۔ (عَاءِشَۃَ (رض) أَنَّ یَہُودِیَّۃً دَخَلَتْ عَلَیْہَا، فَذَکَرَتْ عَذَابَ الْقَبْرِ، فَقَالَتْ لَہَا أَعَاذَکِ اللَّہُ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِفَسَأَلَتْ عَاءِشَۃُ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عَنْ عَذَابِ الْقَبْرِ فَقَالَ نَعَمْ عَذَابُ الْقَبْرِ قَالَتْ عَاءِشَۃُ (رض) فَمَا رَأَیْتُ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بَعْدُ صَلَّی صَلاَۃً إِلاَّ تَعَوَّذَ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ زَادَ غُنْدَرٌ عَذَابُ الْقَبْرِ حَقٌّ) (رواہ البخاری : باب مَا جَاءَ فِی عَذَابِ الْقَبْرِ) ” سیدہ عائشہ (رض) کے پاس ایک یہودی عورت آئی وہ قبر کے عذاب کا تذکرہ کرتے ہوئے کہنے لگی تجھے اللہ عذاب کے قبر سے محفوظ فرمائے۔ سیدہ عائشہ (رض) نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عذاب قبر کے متعلق پوچھا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہاں عذاب قبر برحق ہے سیدہ عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ اس کے بعد میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کوئی ایسی نماز پڑھتے نہیں دیکھا جس میں آپ نے عذاب قبر سے پناہ نہ مانگی ہو۔ (غندر کی روایت میں یہ اضافہ ہے کہ عذاب قبر برحق ہے۔) “ مسائل ١۔ کسی ایماندار کو کسی کافر اور مشرک کے ساتھ قلبی تعلق نہیں رکھنا چاہیے۔ ٢۔ کفار اور مشرکین پر اللہ تعالیٰ کا غضب نازل ہوتا ہے۔ ٣۔ کسی ایماندار کے لیے جائز نہیں کہ وہ مغضوب علیہ کے ساتھ رشتہ داری یا دلی محبت کرے۔ ٤۔ کافر اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس ہوتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ کا غضب کن لوگوں پرنازل ہوتا ہے : ١۔ مشرکوں پر اللہ کا غضب ہوتا ہے۔ (الاعراف : ١٥٢) ٢۔ بنی اسرائیل مغضوب لوگ ہیں۔ (البقرۃ: ٦١) ٣۔ اللہ تعالیٰ کے غضب کا نتیجہ ہے کہ یہودیوں اور عیسائیوں کے درمیان قیامت تک کے لیے باہم اختلافات رہیں گے۔ ( المائدۃ: ٦٤) ٤۔ انبیاء کی تکذیب کی وجہ سے وہ اللہ کے غضب کے مستحق قرار پائے۔ (آل عمران : ١١٢) ٥۔ یہودی اللہ کے غضب کے ساتھ لوٹے۔ (البقرۃ : ٩٠) ٦۔ گمراہ اور مغضوب کو دلی دوست نہیں بنانا چاہیے۔ (الممتحنہ : ١٣) الممتحنة
0 سورۃ الصف کا تعارف یہ سورت بھی مدینہ طیبہ میں نازل ہوئی اس کا نام اس کی چوتھی آیت سے لیا گیا ہے اس کی چودہ آیات ہیں جو دو رکوع پر مشتمل ہیں۔ اس سورت میں سب سے پہلے یہ بات بتلائی اور سمجھائی گئی ہے کہ زمینوں اور آسمانوں کی ہر چیز اللہ تعالیٰ کی تسبیح بیان کرتی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ ہر اعتبار سے اپنی مخلوق پر غالب ہے اور اس کے ہر حکم اور کام میں حکمت پائی جاتی ہے۔ اس کے فرمان کی حکمت کا تقاضا ہے کہ اے ایمان والوں ایسا دعوہ نہ کرو جس پر تم عمل نہیں کرتے ایسا کرنا اللہ تعالیٰ کے نزدیک بڑا گناہ ہے، یقیناً اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو پسند کرتا ہے جو سیسہ پلائی دیوار کی طرح کفار کے خلاف صف آرا ہوتے ہیں۔ تمھیں موسیٰ (علیہ السلام) کی قوم کی طرح نہیں ہونا چاہیے جنہوں نے موسیٰ (علیہ السلام) کو تکلیف دی جب انہوں نے موسیٰ (علیہ السلام) کی نافرمانی کی تو اللہ تعالیٰ نے ان کی نافرمانی کی وجہ سے ان کے دلوں کو ٹیڑھا کردیا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نافرمانوں کی رہنمائی نہیں کرتا۔ نہ ہی تمھیں بنی اسرائیل کی طرح ہونا چاہیے جنھیں حضرت عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) نے فرمایا کہ میں اللہ کا رسول ہوں اور تورات کی تصدیق کرنے والا ہوں اور اس رسول کی خوشخبری دیتا ہوں جو میرے بعد آئے گا اور اس کا نام احمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہوگا۔ ان حقائق اور دلائل کے باوجود بنی اسرائیل کی غالب اکثریت نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا انکار کیا اور کہا یہ تو کھلا جادو ہے۔ یہودیوں اور عیسائیوں کا کردار بتانے کے بعد نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات اور دعوت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ اس شخص سے بڑا ظالم کوئی نہیں ہوسکتا جو ” اللہ“ پر جھوٹ بولتا ہے۔ حالانکہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لوگوں کو اسلام کی دعوت دیتے ہیں۔ یہود و نصاریٰ اور ظالم لوگ چاہتے ہیں کہ اللہ کے نور جو الاسلام کی صورت میں نازل ہوا ہے اسے اپنی پھونکوں سے بجھا دیں ایسے لوگوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ یہ نور بجھنے والا نہیں اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو اپنی رہنمائی اور دین حق کے ساتھ اس لیے بھیجا ہے تاکہ دین حق تمام ادیان پر غالب آ جائے بے شک مشرکین کو یہ بات کتنی ہی ناگوار لگتی ہو۔ یہود و نصاریٰ کا منفی کردار اور دین حق کا روشن مستقبل بتلانے کے بعد مسلمانوں کو حکم دیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے راستے میں اپنے مالوں اور جانوں کے ساتھ جہاد کرو اگر تم اس کی حقیقت جانتے ہو تو تمھارے لیے بہت ہی بہتر ہے۔ ایمان اور جہاد کے بدلے تمھارے گناہوں کو اللہ تعالیٰ معاف فرمائے گا اور تمھیں ایسی جنتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں چلتی ہیں اور تمھیں اعلیٰ جنت میں بہترین محلّات میں بسایا جائے گا یہی بڑی کامیابی ہے۔ اس کے ساتھ جو چیز تم چاہتے ہو وہ دشمن کے مقابلے میں کامیابی ہے۔ اللہ تعالیٰ تمھیں بہت جلد فتح عطاء فرمائے گا یہ اس کی طرف سے مومنوں کے لیے خوشخبری ہے۔ اے مسلمانوں! تمھیں عیسیٰ (علیہ السلام) کے ان حواریوں کی طرح ہونا چاہیے جنہیں مشکل وقت میں عیسیٰ (علیہ السلام) نے مدد کے لیے پکارا تو انہوں نے کہا کہ ہم ” اللہ“ کے لیے آپ کی مدد کرنے والے ہیں۔ الصف
1 فہم القرآن ربط سورت : سورۃ الممتحنہ میں مسلمانوں کو کفار اور مشرکین کے ساتھ رشتہ داری کرنے اور قلبی محبت رکھنے سے منع کیا گیا۔ سورۃ الصف کی ابتدا میں یہ اشارہ پایا جاتا ہے کہ اگر کفار اور مشرکین کی طرح ایماندار لوگ بھی اللہ کی ذات اور اس کے فرمان کا انکار کردیں تو اللہ تعالیٰ کو اس بات کی کوئی پرواہ نہیں کیونکہ زمین و آسمانوں کی ہر چیز اس کے تابع اور اس کی حمد وثناء بیان کرتی ہے۔ یہ سورت مسبّحات میں سے تیسری سورت ہے۔ اس کا آغاز بھی اسی پرجلال لفظ سے کیا گیا ہے جس سے سورۃ الحدید اور سورۃ الحشر کا آغاز ہوا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے کہ جو چیز آسمانوں اور زمین میں ہے وہ اللہ ذوالجلال کی تسبیح کرتی ہے اور زبان حال اور قال سے اس کا اعتراف کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر اعتبار سے ہر چیز پر غلبہ رکھنے والا ہے۔ اس کی تخلیق، حکم اور کام میں حکمت پائی جاتی ہے۔ وہ ” اَلْعَزِیْرُ“ بھی اور ” اَلْحَکِیْمُ“ بھی۔ (عَنْ اَبِیْ مَالِکِ الْاَشْعَرِیِّ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اَلطُّھُوْرُ شَطْرُ الْاِےْمَانِ وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ تَمْلَاُ الْمِےْزَانَ وَسُبْحَان اللّٰہِ وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ تَمْلَاٰنِ اَوْ تَمْلَأُ مَا بَےْنَ السَّمٰوٰتِ وَالاْرَضِ) (رواہ مسلم : باب فَضْلِ الْوُضُوءِ) حضرت ابومالک اشعری (رض) رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان ذکر کرتے ہیں کہ پاکیزگی ایمان کا حصہ ہے، ” اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ“ کے الفاظ میزان کو بھر دیتے ہیں۔ ”َسُبْحَان اللّٰہِ“ اور ” اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ“ دونوں کلمے زمین و آسمان کو بھر دیتے ہیں۔ ” اللہ کی پاکی اس کی تعریف کے ساتھ اس کی مخلوق کی تعداد، اس کے نفس کی رضامندی، اس کے عرش کے وزن اور اس کے کلمات کی مقدار کے برابر۔“ (رواہ مسلم : باب التسبیح أول النھار وعند النوم) الصف
2 فہم القرآن ربط کلام : اللہ کی تسبیح کے بیان اور سورت کے تمہیدی کلمات کے بعد پہلا حکم۔ اس سورت کا مرکزی مضمون قتال فی سبیل اللہ ہے اسی لیے پہلا حکم یہ ہے کہ اے ایمان والو! جس بات پر تمہارا عمل نہیں وہ بات تمہیں نہیں کہنی چاہیے۔ اللہ کے نزدیک یہ بڑا جرم ہے کہ تم وہ بات کہو جس پر تمہارا عمل نہیں۔ مفسرین نے اس آیت کے دو مفہوم بیان فرمائے ہیں۔ ١۔ جب قتال فی سبیل اللہ کا حکم نازل نہیں ہوا تھا تو کچھ ایماندار لوگ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے قتال فی سبیل اللہ کی اجازت مانگتے تھے اور دعویٰ کرتے تھے کہ اگر ہمیں کفار کے خلاف قتال کی اجازت دی جائے تو ہم جان توڑ کرلڑیں گے۔ لیکن جونہی قتال فی سبیل اللہ کا حکم آیا تو دعویٰ کرنے والے قتال فی سبیل اللہ سے جی چرانے اور جان بچانے لگے۔ اس پر یہ حکم نازل ہوا کہ وہ دعویٰ اور بات نہ کیا کرو جس پر تم عمل نہیں کرتے۔ ٢۔ اس آیت کا دوسرا مفہوم یہ بھی لیا گیا ہے کہ جس بات پر آدمی کا اپنا عمل نہ ہو اسے اس بات کی دعوت دوسروں کو نہیں دینی چاہیے۔ کیونکہ اس سے ایک طرف دعوت دینے والے کا دوغلا پن ظاہر ہوتا ہے اور دوسری طرف اس کے دوغلے پن کی وجہ سے اسلام کی سبکی کا پہلو نکلتا ہے اللہ تعالیٰ کے نزدیک یہ بڑا جرم ہے۔ یہ بات عرض ہوچکی ہے کہ جب قتال فی سبیل اللہ کا حکم نازل نہیں ہوا تھا تو اس وقت بعض مسلمان قتال فی سبیل اللہ کا مطالبہ کرتے تھے۔ جب قتال فی سبیل اللہ فرض ہوا تو پھر اس سے جی چرانے لگے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو پسند کرتا ہے جو اس کی راہ میں منظم اور سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر لڑتے ہیں۔ اس مختصر فرمان میں تین باتیں بیان ہوئی ہیں۔ ١۔ قتال کے بارے میں ” فِیْ سَبِیْلِہٖ“ کے الفاظ استعمال فرمائے ہیں گویا کہ سب سے پہلا حکم یہ ہے کہ قتال کرنے میں مسلمانوں کی ذاتی اغراض کی بجائے اعلائے کلمۃ اللہ کا مقصد ہونا چاہیے۔ (عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَقُوْلُ مَنْ خَرَجَ مِنَ الطَّاعَۃِ وَفَارَقَ الْجَمَاعَۃَ فَمَاتَ مَاتَ مِیْتَۃً جَاھِلِیَّۃً وَمَنْ قَاتَل تَحْتَ رَایَۃٍ عِمِّیَّۃٍ یَغْضَبُ لِعَصَبِیَّۃٍ اَوْیَدْعُوْ لِعَصَبِیَّۃٍ اَوْ یَنْصُرُ عَصَبِیَّۃً فَقُتِلَ فَقِتْلَۃٌ جَاھِلِیَّۃٌ وَمَنْ خَرَجَ عَلٰی اُمَّتِیْ بِسَیْفِہٖ یَضْرِبُ بَرَّھَا وَ فَاجِرَھَا وَلَا یَتَحَاشَ مِنْ مُؤْمِنِھَا وَلَا یَفِیْ لِذِیْ عَھْدٍ عَھْدَہٗ فَلَیْسَ مِنِّی وَلَسْتُ مِنْہُ) (رواہ مسلم : باب الأَمْرِ بِلُزُومِ الْجَمَاعَۃِ عِنْدَ ظُہُورِ الْفِتَنِ وَتَحْذِیر الدُّعَاۃِ إِلَی الْکُفْرِ) ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے سنا جو اطاعت اور جماعت سے علیحدہ ہوا۔ اور اسی حالت میں فوت ہوا تو وہ جاہلیت کی موت مرا اور جو شخص نامعلوم جھنڈے کے نیچے لڑتا رہا عصبیت کی خاطر غیرت میں آیا اور عصبیت کی بنیاد پر دعوت دیتا رہا یا عصبیت کی وجہ سے مدد کرتا ہوا قتل ہوا اس کی موت جہالت پر ہوگی۔ جو شخص میری امت کے خلاف تلوار سونت کر نیک و بد سب کو تہ تیغ کرتا چلا گیا اور کسی مومن کی اس نے پروانہ کی اور نہ ہی کسی عہد والے کے عہد کا پاس کیا وہ مجھ سے نہیں اور نہ ہی میرا کوئی اس سے تعلق ہے۔“ مسلمانوں کی صف بندی کا ایک منظر اور اتحاد کی اہمیت : (کَانَ رُسْتَمُ اِذَا رَایَ الْمُسْلِمِےْنَ ےَجْتَمِعُوْنَ إِلٰی الصَّلٰوۃِ قَالَ اَکَلَ کَبِدِی عُمَرُ ےُعَلِّمُ الْکِلَابَ الْادَاْبَ) (ابن خلدون) ” جب رستم نے مسلمانوں کو نماز کے لیے صف آرا ہوتے ہوئے دیکھا تو چلا کر کہنے لگا ہائے افسوس عمر (رض) نے میرا کلیجہ چبا لیا ہے کیونکہ وہ وحشی درندوں کو منظم ہونے کے آداب سکھلا رہا ہے۔“ اگر مجاہدین میں جہاد کے بارے میں فکری انتشار یا لڑنے میں عملی اختلاف ہو تو وہ جان توڑ کرجہاد نہیں کرسکتے۔ اس لیے مجاہد جس قدر فکری طور پر یکسو اور عملی طور پر یکجا ہوں گے کامیابی ان کا مقدر بن جائے گی۔ مسلمانوں کو کفار کے مقابلے میں آج تک جتنا نقصان ہوا وہ آپس کے اختلاف کی وجہ سے ہوا۔ اس سے بچنے کے لیے ” بُنْیَانٌ مَّرْصُوْصٌ“ کے الفاظ استعمال کیے۔ (عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ قَالَ سَمِعْتُ الْبَرَاءَ (رض) یَقُولُ أَتَی النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رَجُلٌ مُقَنَّعٌ بالْحَدِیدِ فَقَالَ یَا رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) أُقَاتِلُ وَأُسْلِمُ قَالَ أَسْلِمْ ثُمَّ قَاتِلْ فَأَسْلَمَ ثُمَّ قَاتَلَ فَقُتِل فَقَالَ رَسُول اللّٰہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عَمِلَ قَلِیلاً وَأُجِرَ کَثِیرًا) (رواہ البخاری : باب عَمَلٌ صَالِحٌ قَبْلَ الْقِتَالِ وَقَالَ أَبُو الدَّرْدَاءِ إِنَّمَا تُقَاتِلُونَ بِأَعْمَالِکُمْ وَقَوْلُہ (یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا لِمَ تَقُولُونَ مَا لاَ تَفْعَلُونَ کَبُرَ مَقْتًا عِنْدَاللہِ أَنْ تَقُولُوا مَا لاَ تَفْعَلُونَ إِنَّ اللَّہَ یُحِبُّ الَّذِینَ یُقَاتِلُونَ فِی سَبِیلِہِ صَفًّا کَأَنَّہُمْ بُنْیَانٌ مَرْصُوصٌ) ” حضرت اسحاق کہتے ہیں کہ میں نے حضرت براء بن عازب (رض) کو فرماتے ہوئے سنا کہ ایک آدمی زرہ پہنے ہوئے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا اور کہنے لگا اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! میں قتال کروں یا اسلام لاؤں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا پہلے اسلام قبول کرو پھر قتال کرو۔ وہ دائرہ اسلام میں داخل ہوا پھر اللہ کے راستے میں قتال کرتا ہوا شہید ہوگیا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اس نے عمل کم کیے لیکن اجر زیادہ پالیا۔“ ” بُنْیَانٌ“ کا معنٰی ہے تعمیر کرنا، بنانا یا آباد کرنا اور مرصوص کا معنٰی ایک حصے کو دوسرے کے ساتھ ملاناکسی چیز پر تانبے کی قلعی کرنا ہے۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ قتال فی سبیل اللہ کرنے والوں کے ساتھ محبت کرتا ہے۔ ٢۔ کامیابی کے لیے لازم ہے کہ مجاہدین منظم اور سیسہ پلائی دیوار بن کر قتال کریں۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ کن لوگوں کو پسند کرتا ہے : ١۔ اللہ تعالیٰ پاکبازلوگوں کو پسند کرتا ہے۔ (البقرۃ : ٢٢٢) ٢۔” اللہ“ نیک لوگ پاک صاف رہتے ہیں۔ (التوبہ : ١٠٨) ٣۔ اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔ (المائدۃ: ٤٢) ٤۔ اللہ توکل کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔ (آل عمران : ١٥٩) ٥۔ اللہ متقین سے محبت کرتا ہے۔ (التوبہ : ٤۔ ٧) ٦۔ اللہ توبہ کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔ (البقرۃ: ٢٢٢) ٧۔ بے شک اللہ متقین کو پسند کرتا ہے۔ (آل عمران : ٧٦) ٨۔ احسان کرو یقیناً اللہ احسان کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے۔ (البقرۃ: ١٩٥) ٩۔ انھیں معاف کیجیے اور در گزر کیجیے یقیناً اللہ معاف کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے۔ (المائدۃ: ١٣) ١٠۔ جب مسلمانوں کے دو گروہ آپس میں لڑ پڑیں تو ان کے درمیان عدل سے فیصلہ کریں۔ اللہ عدل کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔ (الحجرات : ٩) الصف
3 الصف
4 الصف
5 فہم القرآن ربط کلام : مسلمانوں کو اختلاف اور خلفشار سے بچنے کے لیے موسیٰ (علیہ السلام) کے فرمان اور ان کی قوم کا کردار اپنے سامنے رکھنا چاہیے۔ سورت مزّمل کی آیت ١٥ میں اللہ تعالیٰ نے نبی آخرالزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت کو موسیٰ (علیہ السلام) کی رسالت کے ساتھ تشبیہ دی ہے۔ اس لیے یہاں موسیٰ (علیہ السلام) کے فرمان اور ان کی قوم کا کردار پیش کیا گیا ہے تاکہ مسلمان اپنے رسول کی گستاخی اور نافرمانی سے بچتے رہیں۔ ” جب موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی قوم سے کہا اے میری قوم ! تم پر اللہ تعالیٰ نے جو نعمتیں تمہیں عطا فرمائی ہیں انہیں یاد کرو۔ اس نے تم میں انبیاء اور بادشاہ بنائے اور تمہیں وہ کچھ عطا کیا جودنیا میں کسی کو نہیں دیا۔ اے میری قوم! اس مقدس زمین میں داخل ہوجاؤ جو اللہ نے تمہارے لیے لکھ دی ہے اور اپنی پیٹھوں کے بل نہ پھرجاؤ، ورنہ نقصان پانے والے ہو کر لوٹوگے۔“ (المائدۃ: ٢٠، ٢١) ” انہوں نے کہا اے موسیٰ ! بے شک اس میں ایک بہت زبردست قوم ہے اور ہم تو کسی صورت اس میں داخل نہیں ہوں گے جب تک کہ وہ اس سے نکل جائیں، ہاں اگر وہ اس سے نکل جائیں تو ہم ضرور داخل ہوں گے۔ دو آدمی جو انہیں میں سے تھے جن پر اللہ نے انعام کیا تھا اور وہ اللہ سے ڈرنے والے تھے کہنے لگے تم ان پر دروازوں سے داخل ہوجاؤ جب تم دروازے میں داخل ہوگئے تو یقیناً تم غالب ہوگے اور اللہ پر بھروسہ کرو اگر تم ایمان دار ہو۔ انہوں نے کہا اے موسیٰ ! ہم تو اس میں ہرگز داخل نہیں ہوں گے جب تک وہ اس میں موجود ہیں پس تو اور تیرا رب جاؤ اور لڑوہم تو یہیں بیٹھے ہوئے ہیں۔“ (المائدۃ: ٢٢ تا ٢٤) موسیٰ (علیہ السلام) کے سمجھانے کے باوجود ان کی قوم نے قتال فی سبیل اللہ سے انکار کردیا۔ جس کے نتیجے میں اس قوم کو چالیس سال تک صحرا میں رہنا پڑا۔ حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون (علیہ السلام) بھی ان کے ساتھ رہے۔ حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون نے اپنی قوم سے بہت تکالیف اٹھائیں یہاں تک کہ حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون صحرائے سینا میں فوت ہوگئے۔ ایسی حالت سے بچنے کے لیے مسلمانوں کو حکم دیا گیا ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) کا وہ فرمان یاد کرو کہ جب انہوں نے اپنی قوم سے فرمایا کہ اے میری قوم کے لوگو! تم مجھے کیوں اذّیت دیتے ہو حالانکہ تم جانتے ہو کہ میں اللہ کا رسول ہوں موسیٰ (علیہ السلام) کے بار بار سمجھانے کے باوجود انہوں نے ٹیڑھا پن اختیار کیا۔ جس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے ان کے دل ٹیڑھے کردیئے۔ یاد رکھو ! اللہ تعالیٰ نافرمان لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔ ہدایت کے لیے ضروری ہے کہ انسان اپنے دل میں اس کی چاہت پیدا کرے اور اس کے لیے عملی کوشش کرے۔ ایسے شخص کے لیے ہدایت کا دروازہ کھول دیا جاتا ہے جوہدایت سے اعراض کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اسے اس کی مرضی کے حوالے کردیتا ہے۔ ” اَزَاغ اللّٰہُ قُلُوْبَھُمْ“ کا یہی معنٰی ہے۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان اور دعا : (عَنْ عَبْدِاللّٰہِ بْنِ عَمْرٍو (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) إِنَّ قُلُوبَ بَنِی آدَمَ کُلَّہَا بَیْنَ إِصْبَعَیْنِ مِنْ أَصَابِعِ الرَّحْمَنِ کَقَلْبٍ وَاحِدٍ یُصَّرِفُہُ حَیْثُ یَشَاءُ ثُمَّ قَالَ رَسُول اللَّہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ” اَللَّہُمَّ مُصَرِّفَ الْقُلُوبِ صَرِّفْ قُلُوبَنَا عَلَی طَاعَتِکَ“ ) (رواہ مسلم : باب تصریف اللہ القلوب حیث یشاء) ” حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) بیان کرتے ہیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بے شک بنی آدم کے دل الرحمن کی انگلیوں میں سے دو انگلیوں کے درمیان ایک دل کی طرح ہیں۔ وہ ان کو جیسے چاہتا ہے پھیرتا ہے۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ دعا کی۔ اے دلوں کو پھیرنے والے ” اللہ“ ہمارے دلوں کو اپنی فرمانبرداری کی طرف پھیرے رکھنا“ (عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ (رض) قَالَ کَانَ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یُکْثِرُ أَنْ یَّقُولَ ” اللّٰہُمَّ ثَبِّتْ قَلْبِی عَلٰی دینِکَ“ ) (رواہ ابن ماجہ : باب دعاء رسول اللّٰہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)، قال الشیخ البانی صحیح) ” حضرت انس بن مالک (رض) فرماتے ہیں رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اکثر دعا کیا کرتے تھے اے اللہ میرے دل کو اپنے دین پر ثابت قدم رکھنا۔“ بنی اسرائیل کا موسیٰ (علیہ السلام) کو ایک اور انداز میں اذّیت دینا : (یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَکُوْنُوْا کَالَّذِیْنَ اٰذَوْا مُوْسٰی فَبَرَّاَہُ اللّٰہُ مِمَّا قَالُوْا وَ کَانَ عِنْدَ اللّٰہِ وَجِیْھًا) (الاحزاب : ٦٩) ” اے لوگو جو ایمان لائے ہو ان لوگوں کی طرح نہ ہوجاؤ جنہوں نے موسیٰ کو اذّیت دی تھی۔ اللہ نے ان کی کہی ہوئی باتوں سے موسیٰ کی برأت فرمائی اور موسیٰ اللہ کے مقرب اور بڑے باعزت تھے۔“ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ کَانَتْ بَنُوْ إِسْرَاءِیْلَ یَغْتَسِلُوْنَ عُرَاۃً یَنْظُرُ بَعْضُھُمْ إِلٰی بَعْضٍ وَکَانَ مُوْسٰی (علیہ السلام) یَغْتَسِلُ وَحْدَہٗ فَقَالُوْا وَاللّٰہِ مَایَمْنَعُ مُوْسٰی أَنْ یَّغْتَسِلَ مَعَنَا إِلَّا أَنَّہٗ آدَرُ فَذَھَبَ مَرَّۃً یَغْتَسِلُ فَوَضَعَ ثَوْبَہٗ عَلٰی حَجَرٍ فَفَرَّ الْحَجَرُ بِثَوْبِہٖ فَخَرَجَ مُوْسٰی فِیْ إِثْرِہٖ یَقُوْلُ ثَوْبِیْ یَاحَجَرُ حَتّٰی نَظَرَتْ بَنُوْ إِسْرَاءِیْلَ إِلٰی مُوْسٰی فَقَالُوْا وَاللّٰہِ مَابِمُوْسٰی مِنْ بَأْسٍ وَأَخَذَ ثَوْبَہٗ فَطَفِقَ بالْحَجَرِ ضَرْبًا) (رواہ البخاری : کتاب الغسل، باب من اغتسل عریاناوحدہ ) ” حضرت ابوہریرہ (رض) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا بنی اسرائیل کے لوگ ننگے نہاتے اور ایک دوسرے کو دیکھا کرتے تھے۔ موسیٰ (علیہ السلام) اکیلے ہی غسل کرتے تھے۔ یہودیوں نے کہا اللہ کی قسم موسیٰ ہمارے ساتھ اس وجہ سے نہیں نہاتے کہ ان کے خصیتین میں خرابی ہے۔ ایک دفعہ موسیٰ (علیہ السلام) اپنے کپڑے پتھر پر رکھ کر غسل کررہے تھے تو پتھر کپڑے لے کر چل پڑا۔ موسیٰ (علیہ السلام) پتھر کے پیچھے بھاگے اور کہا اے پتھر ! میرے کپڑے واپس کردے۔ یہاں تک کہ بنی اسرائیل کے لوگوں نے موسیٰ (علیہ السلام) کو برہنہ حالت میں دیکھ کر کہا : اللہ کی قسم ! موسیٰ (علیہ السلام) کو کوئی تکلیف نہیں اور موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے کپڑے پکڑ کر پتھر کو مارنا شروع کردیا۔“ ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جس نے میرے دوست سے دشمنی کی میں اس سے اعلان جنگ کرتا ہوں۔ میں نے جو چیزبندے پر فرض کی اس سے زیادہ مجھے کوئی چیز محبوب نہیں جس سے وہ میرا قرب حاصل کرے۔ بندہ نوافل کے ذریعے میرا قرب حاصل کرتا رہتا ہے حتیٰ کہ میں اس سے محبت کرتا ہوں۔ جب میں اس کے ساتھ محبت کرتا ہوں تو میں اس کے کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے، اس کی آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے، اس کے ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے اور اس کے پاؤں بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے۔ اگر سوال کرے تو میں اسے ضرور عطا کرتاہوں، اگر مجھ سے پناہ طلب کرے تو میں اسے پناہ دیتاہوں۔ میں اپنے کسی کام میں اتنا تردُّد نہیں کرتاجتنا ایک مومن کی جان قبض کرنے میں کرتا ہوں کیونکہ بندہ موت کو ناپسند کرتا ہے اور مجھے اس کی تکلیف اچھی نہیں لگتی جس نے میرنے ولی کو تکلیف دی اس نے مجھے تکلیف دی۔“ (رواہ البخاری : کتاب الرقاق، باب التواضع ) نبی آخر الزمان کو تکلیف دینے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی گستاخی کرنے والوں کی سزا : (اِنَّ الَّذِیْنَ یُؤْذُوْنَ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ لَعَنَہُمُ اللّٰہُ فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃِ وَاَعدَّلَہُمْ عَذَابًا مُہِیْنًا) (الأحزاب : ٥٧) ” بے شک جو لوگ اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تکلیف دیتے ہیں ان پر اللہ کی طرف سے دنیا و آخرت میں لعنت ہے اور ان کے لیے ذلیل کرنے والا عذاب تیار کر رکھا ہے۔“ گستاخ رسول کا قتل : ( اِنَّ أعْمٰی کَانَتْ لَہٗ اُمُّ وَلَدٍ تَشْتُمُ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وَ تَقَعُ فِیْہِ فَیَنْہَا ہَا فَلَا تَنْتَہِیْ وَیَزْجُرُہَا فَلَا تَنْزَجِرُ فَلَمَّا کَانَتْ ذَاتَ لَیْلَۃٍ جَعَلَتْ تَقَعُ فِی النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وَتَشْتُمُہٗ فَاخَذَا لْمِغْوَلَ فَوَ ضَعَہٗ فِیْ بَطْنِہَا وَتَّکَأَ عَلَیْہَا فَقَتَلَہَا فَلَمَّا أَصْبَحَ ذُکِرَ ذَلِکَ للنَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَجَمَعَ النَّاسَ فَقَالَ اُنْشِدُ رَجُلًا فَعَل مَا فَعَلَ لِیْ عَلَیْہِ حَقُّ اِلَّا قَامَ قَالَ فَقَامَ الْاَعْمٰی یَتَخَطَّی النَّاسَ وَہُوَ یَتَدَلْدَلُ حَتّٰی قَعَدَبَیْنَ یَدَیِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَقَالَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ اَنَا صَاحِبُہَا کَانَتْ تَشْتُمُکَ وَتَقَعُ فِیْکَ فَاَنْہَاہَا فَلَا تَنْتَہِیْ وَأَزْجُرُہَا فَلاَ تَنْزَجِرُ وَلِیَ مِنْہَا اِبْنَانِ مِثْلُ الْلُؤلُؤَتَیْنِ وَکَانَتْ بِیْ رَفِیْقَۃً فَلَمَّا کَانَ الْبَارِحَۃُ جَعَلَتْ تَشْتُمُکَ وَتَقَعُ فِیْکَ فَاخَذْتُ الْمِغْوَلَ فَوَضَعْتُہُ فِیْ بَطْنِہَا وَاتَّکَأْتُ عَلَیْہِ حَتّٰی قَتَلْتُہَا فَقَال النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) أَ لَا أَشْہِدُوْا أَنَّ دَمَہَا ہَدَرٌ) (رواہ ابوداؤد : کتاب الحدود باب الحکم فیمن سب النبی) ” ایک اندھے شخص کی ایک ام ولد لونڈی تھی جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو گالیاں دیا کرتی تھی وہ اسے منع کرتا۔ وہ گالیاں دینے سے باز نہیں آتی تھی وہ اسے جھڑکتا تھا۔ مگر وہ نہ رکتی تھی۔ ایک رات اس نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو گالیاں دینا شروع کیں تو نابینا صحابی نے ایک چھرا لے کر اس کے پیٹ پر رکھ کر زور سے دبایا جس سے وہ مر گئی۔ صبح اس کا ذکر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس ہوا تو آپ نے لوگوں کو جمع کر کے فرمایا۔ میں اس آدمی کو قسم دیتا ہوں جس نے کیا، یہ کیا ہے۔ میرا اس پر حق ہے کہ وہ کھڑا ہوجائے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بات سن کر ایک نابینا صحابی کھڑا ہوا۔ پریشانی کی حالت میں لوگوں کی گردنیں پھلانگتا ہوا نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے آکر بیٹھ گیا۔ اس نے عرض کی کہ اے اللہ کے رسول ! میں اسے منع کرتا تھا مگر وہ اس کی پروا نہیں کرتی تھی۔ اس کے بطن سے میرے دو ہیروں جیسے بیٹے ہیں اور وہ میری بیوی تھی۔ گزشتہ رات جب وہ آپ کو گالیاں دینے لگی تو میں نے چھرا لے کر اس کے پیٹ پر رکھ کر زور سے دبایا یہاں تک کہ وہ مر گئی۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کی بات سننے کے بعد صحابہ کو فرمایا تم گواہ رہنا کہ اس عورت کا خون رائیگاں ہوا۔“ حضرت علی (رض) فرماتے ہیں : (قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَنْ سَبَّ نَبِّیًا قُتِلَ وَمَنْ سَبَّ اَصْحَابَہٗ جُلِدَ) (رواہ الطبرانی فی الصغیر صفحہ ٢٣٦ جلد ١) ” رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو گالی دی اسے قتل کیا جائے اور جس نے اس آپ کے صحابہ کو گالی دی اسے کوڑے مارے جائیں۔“ گستاخ رسول کا قتل : (اِنَّ رَجُلًا مِّنَ الْمُشْرِکِیْنَ شَتَمَ رَسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَنْ یَّکْفِیْنِیْ عَدُوِّی فَقَام الزُّبَیْرُ بْنُ الْعَوَّامِ فَقَالَ اَنَا فَبَارَزَہٗ فَاَعْطَاہٗ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سَلَبَہٗ) (الصارم المسلول ١٧٧) ” مشرکین میں سے ایک آدمی نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو گالی دی تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میرے دشمن کی کون خبر لے گا؟ حضرت زبیر بن عوام کھڑے ہو کر عرض کرنے لگے یا رسول اللہ ! میں حاضر ہوں۔ حضرت زبیر (رض) نے اسے قتل کردیا۔ تو رسول اللہْ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کا سامان زبیر کو دے دیا۔“ ابو لہب کا عبرت ناک انجام : سورۃ لہب کے نزول پر ابھی آٹھ سال ہی گزرے تھے کہ جنگ بدر میں بڑے بڑے سرداران قریش مارے گئے۔ مکہ میں بدر کی شکست کی اطلاع پہنچی تو سب سے زیادہ دکھ ابولہب کو ہوا۔ یہ اسی صدمے اور رنج میں بیمار پڑگیا۔ ساتویں روز بیماری کوڑھ کی شکل اختیار کرگئی۔ جس وجہ سے اس کے گھر والوں نے اسے چھوڑ دیا اور اس کے بیٹوں نے اس کے ساتھ کھانا پینا ترک کردیا۔ بالآخر ذلّت کی موت مرا۔ مرنے کے بعد بھی اس کے بیٹے اس کے قریب نہ گئے یہاں تک کہ اس کی لاش سے بو پھیلنے لگی۔ لوگوں نے اس کے بیٹوں کو طعنے دیے تو انہوں نے ایک حبشی کو مزدوری دی۔ جس نے گڑھا کھودا اور لکڑی سے لاش کو دھکیل کر گڑھے میں پھینکا اور اس پر مٹی ڈال دی۔ گستاخ رسول کو قبر نے باہر پھینک دیا : حضرت انس (رض) فرماتے ہیں : (کَانَ رَجُلٌ نَصْرانِیًّا فَأسْلَمَ وَقَرَأَ الْبَقَرَۃَ وَآلَ عِمْرَانَ فَکَانَ یَکْتُبُ للنَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَعَادَ نَصْرَانِیًّا فَکَانَ یَقُوْلُ مَایَدْرِی مُحَمَّدٌ الاَّ مَا کَتَبْتُ لَہٗ فَأَمَاتَہُ اللّٰہُ فَدَ فَنُوْہُ فَأَصْبَحَ وَقَدْ لَفَظَتْہُ الْاَرْضُ فَقَالُوْ ہَذَا فِعْلُ مُحَمَّدٍ وَ اَصْحَابِہٖ لَمَّا ہَرَبَ مِنْہُمْ نَبَشُوْا عَنْ صَاحِبِنَا فَأَلْقَوْہُ فَحَفَرُوْا لَہٗ فَأَعْمَقُوْا فَأَصْبَحَ وَقَدْ لَفَظَتْہُ الْاَرْضُ فَقَالُوْا ہَذَا فِعْلُ مُحَمَّدٍ وَاَصْحَابِہٖ نَبَشُوْا عَنْ صَاحِبِنَا لَمَّا ہَرَبَ مِنْہُمْ فَأَلْقَوْہُ فَحَفَرُوْا لَہٗ وَأَعْمَقُوْا لَہٗ فِی الْاَرْضِ مَاسْتَطَاعُوْا فَأَصْبَحَ وَقَدْ لَفَظَتْہُ الْاَرْضُ فَعَلِمُوْا اَنَّہُ لَیْسَ مِنَ النَّاسِ فَالْقَوْہُ) (رواہ البخاری : کتاب المناقب، باب علامات النبوۃ فی الاسلام) ” ایک عیسائی مسلمان ہوگیا وہ سورۃ البقرۃ اور آل عمران پڑھ چکا تھا وہ کاتب وحی تھا۔ وہ مرتد ہو کر عیسائی ہوگیا اور کہنے لگا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے جو کچھ میں نے لکھ دیا ہے اس کے سوا اسے کچھ معلوم نہیں۔ اس کی موت واقع ہوگئی تو اس کے ساتھیوں نے اسے دفن کیا۔ جب صبح ہوئی تو انہوں نے دیکھا کہ اس کی لاش قبر کی بجائے زمین کے اوپر پڑی ہے۔ عیسائیوں نے کہا کہ یہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ان کے ساتھیوں کا کام ہے چونکہ ان کا دین اس نے چھوڑ دیا تھا۔ اس لیے انہوں نے قبر کھود کر لاش کو باہر پھینک دیا ہے۔ چنانچہ دوسری قبر کھودی جو بہت گہری تھی لیکن جب صبح ہوئی تو پھر لاش باہر تھی۔ اس دفعہ بھی انہوں نے یہی کہا کہ یہ محمد اور ان کے ساتھیوں کا کام ہے چونکہ ان کا دین اس نے چھوڑ دیا تھا اس لیے اس کی قبر کھود کر انہوں نے لاش باہر پھینک دی ہے۔ پھر انہوں نے قبر کھودی جتنی گہری ان کے بس میں تھی اور اس میں ڈال دیا لیکن جب صبح ہوئی تو پھر لاش باہر پڑی تھی۔ اب انہیں یقین ہوگیا کہ یہ کسی انسان کا کام نہیں بلکہ یہ آدمی ” اللہ“ کے عذاب میں گرفتار ہے۔ چنانچہ انہوں نے اسے زمین پر پڑا رہنے دیا۔“ امام احمد بن حنبل a: (کُلُّ مَنْ شَتَمَ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اَوْ تَنَقَّصَہٗ مُسْلِمًا کَانَ اَوْ کَافِرًا فَعَلَیْہِ الْقَتْلُ وَأَرٰی اَنْ یُقْتَلَ وَلَا یُسْتَتَابَ) (الصارم المسلول : ٣٣) ” جو آدمی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو گالی دیتا ہے یا آپ کی شان میں گستاخی کرتا ہے وہ مسلمان ہو یا کافر اس کا قتل کرنا واجب ہے اور میری رائے یہ ہے کہ اسے توبہ کرنے کی مہلت نہ دی جائے بلکہ فوراً قتل کردیا جائے۔“ امام مالک (رح) : خلیفہ ہارون الرشید نے امام مالک (رض) سے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شان اقدس میں گستاخی کرنے والے کے بارے میں پوچھا۔ امام مالک (رح) نے فرمایا : (مَابَقَاءَ الْاُمَّۃِ بَعْدَ شَتْمِ نَبِیِّہَا) (الشفاء للقاضی عیاض : ٢/٢٣٣) ” اس امت کو زندہ رہنے کا کوئی حق نہیں جس کے نبی کو گالیاں دی جائیں۔“ امام ابن تیمیہ (رح) : (اِنَّ مَنْ سَبَّ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مِنْ مُسْلِمٍ اَوْ کَافِرٍ فَاِنَّہ یَجِبُ قَتْلُہُ ہَذَا مَذْہَبُ عَامَۃِ اَہْلِ الْعِلْمِ) (الصارم المسلول : ٣١) ” جو آدمی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو گالی دے خواہ مسلمان ہو یا کافر اس کو قتل کرنا واجب ہے۔“ ستمبر ٢٠٠٥ ء میں ڈنمارک کے بدنام زمانہ صحافی نے رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خاکے شائع کیے جس سے پورے عالم اسلام میں ایسا اضطراب پیدا ہوا کہ مسلمان تڑپ اٹھے اور پوری دنیا میں جلوس، ہڑتالیں اور بے مثال مظاہرے ہوئے اس میں سعودی عرب نے ہر اول دستے کا کردار ادا کیا۔ ڈنمارک کے گستاخانہ عمل کی وجہ سے سعودی عرب نے عالم اسلام کی ترجمانی کرتے ہوئے ٢٦ جنوری کو ڈنمارک سے اپنا سفیر واپس بلا لیا اور سعودی عرب سے ڈنمارک کی اشیاء کے بائیکاٹ کا آغاز ہوگیا جو تمام عرب ریاستوں‘ مصر‘ لیبیا‘ ایران اور دوسرے مسلمان ممالک تک پھیل گیا۔ ٤ فروری کو حکومت پاکستان نے ڈنمارک، ناروے، فرانس، جرمنی، اٹلی، سپین، سوئٹزر لینڈ، ہینگری، ہالینڈ اور جمہوریہ چیک ری پبلک کے سفیروں کو طلب کر کے گستاخانہ خاکوں کے خلاف شدید احتجاج کیا۔ پاکستان نے خاکوں کے شائع کرنے والے ممالک سے ادویات درآمد کرنے پر پابندی لگا دی، فرانس اور ڈنمارک کی چار میڈیسن کمپنیوں کی تقریباً ایک سو گیارہ ادویات پاکستانی میڈیکل سٹورز پر فروخت کی جاتی تھیں۔ ڈاکٹرز صاحبان نے ان ادویات کے بجائے متبادل ادویات تجویز کردیں۔ شام، لبنان اور لیبیا میں ڈنمارک کے سفارت خانوں کو آگ لگا دی گئی۔ مسلم ممالک نے ڈنمارک کی مصنوعات کا بائیکاٹ کردیا۔ بس جس ملک سے جو بن پڑا اور جس دینی‘ سیاسی اور رفاہی تنظیم سے جو ہوسکا اس نے اپنی اسلامی غیرت کا ثبوت فراہم کرکے اپنے اپنے جذبات کا اظہار کیا۔ جسے دیکھ کر عالم کفر کے اکثر حکمرانوں اور اخبارات کے ایڈیٹرز اور مالکان نے معذرت کی۔ ناروے کے اخبار کے ایڈیٹر انچیف ” ویجیو ان سیلبک“ نے معافی مانگی جیسے ناروے کی اسلامی کونسل نے قبول کرلیا۔ فرانس کے اخبار کے مالک نے ایڈیٹر کو نوکری سے برطرف کردیا۔ ٣١ جنوری کو ڈنمارک کے اخبار نے معافی نامہ جاری کیا اور دنیا بھر کے مسلمانوں سے معافی مانگی۔ مسائل ١۔ یہودی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے گستاخ ہیں، مسلمانوں کو ہر گستاخی سے اجتناب کرنا چاہیے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ گمراہ لوگوں کو ان کی گمراہی میں کھلا چھوڑ دیتا ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ گمراہ لوگوں کے دلوں کو ہدایت سے پھیر دیتا ہے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ اپنے نافرمانوں کی راہنمائی نہیں کرتا۔ تفسیر بالقرآن نبی آخر الزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی گستاخی کرنے والا کافر ہے : ١۔ اے ایماندارو! نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی گستاخی سے بچو۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی گستاخی کرنے والے کافر ہیں۔ (البقرۃ: ١٠٤) ٢۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ ہم نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی گستاخی کرنے والوں سے نمٹ لیں گے۔ (الحجر : ٩٥) ٣۔ جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کو اذا دیتے ہیں ان پر دنیا اور آخرت میں لعنت برستی ہے۔ (الاحزاب : ٥٧) الصف
6 فہم القرآن ربط کلام : یہودیوں کا کردار ذکر کرنے کے بعد عیسائیوں کے کردار کا تذکرہ۔ جس طرح یہودی موسیٰ (علیہ السلام) کوتکالیف دینے اور ان کی نافرمانی کرنے کی وجہ سے ہدایت کے راستے سے بھٹک گئے اسی طرح ہی عیسائیوں کی غالب اکثریت نے عیسیٰ (علیہ السلام) کی گستاخیاں اور نافرمانی کی اور یہ بھی صراط مستقیم سے گمراہ ہوگئے۔ حالانکہ عیسیٰ ( علیہ السلام) نے بنی اسرائیل کو بار بار بتلایا اور سمجھایا کہ بلاشک میں اللہ کا رسول ہوں اور اپنے سے پہلے نازل ہونے والی کتاب تورات کی تصدیق کرتاہوں اور اپنے بعد آنے والے رسول جن کا نام نامی اسم گرامی احمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہوگا۔ اس کی تشریف آوری کی تمہیں خوشخبری دیتا ہوں۔ یادرہے کہ بنی اسرائیل کا لفظ قرآن مجید میں کبھی صرف یہودیوں کے لیے استعمال ہوا ہے اور کبھی صرف عیسائیوں کے لیے اور کبھی عیسائیوں اور یہویوں دونوں کے لیے استعمال کیا گیا ہے کیونکہ عیسیٰ (علیہ السلام) صرف بنی اسرائیل کے لیے رسول بنائے گئے تھے۔ اس لیے انہوں نے یہود و نصاریٰ کو خوشخبری سنائی کہ میرے بعد ایک رسول آنے والا ہے جس کا نام نامی احمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہوگا مگر جب نبی آخر الزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہودیوں اور عیسائیوں کے پاس واضح دلائل کے ساتھ تشریف لائے تو انہوں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لانے کی بجائے یہ کہا کہ یہ تو کھلا جادو ہے۔ (عَنْ جُبَیْرِ ابْنِ مُطْعِمٍ (رض) قَالَ سَمِعْتُ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَقُوْلُ اِنَّ لِیْ اَسْمَاءً اَنَا مُحَمَّدٌوَاَنَا اَحْمَدُ وَاَنَا الْمَاحِیَ الَّذِیْ یَمْحُوْ اللّٰہُ بِیَ الْکُفْرَ وَاَََنَا الْحَاشِرُ الَّذِیْ یُحْشَرُ النَّاسُ عَلٰی قَدَمَیَّ وَاَنَا الْعَاقِبُ وَالْعَاقِبُ الَّذِیْ لَیْسَ بَعْدَہٗ نَبِیٌّ) (رواہ البخاری : باب قولہٖ من بعد اسمہ احمد) ” حضرت جبیر بن مطعم (رض) نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا آپ نے فرمایا میرے کئی نام ہیں۔ میں محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہوں۔ میں ” احمد“ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہوں، میں ” ماحی“ (مٹانے والا) ہوں، میرے ذریعے اللہ تعالیٰ کفر کو مٹائے گا۔ میں ” حاشر“ (اکٹھا کرنیوالا) ہوں کہ لوگ میری پیروی کرتے ہوئے اکٹھے کیے جائیں گے اور میں عاقب ہوں اور عاقب سے مراد وہ نبی ہے جس کے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا۔“ احمد کے دو معنٰی ہیں اپنے پروردگار کی بہت زیادہ حمد بیان کرنے والا، اور جس کی لوگوں میں سب سے زیادہ تعریف کی جائے۔ سیدنا عیسیٰ ( علیہ السلام) کے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں ارشادات : ” اور میں باپ سے درخواست کروں گا تو وہ تمہیں دوسرا مددگار بخشے گا کہ ابد تک تمہارے ساتھ رہے، یعنی سچائی کا روح۔“ (یوحنا : باب ١٤: ١٦، ١٧) ” لیکن مددگار یعنی روح القدس جسے باپ میرے نام سے بھیجے گا وہی تمہیں سب باتیں سکھائے گا اور جو کچھ میں نے تم سے کہا ہے وہ سب تمہیں یاد دلائے گا۔“ (یوحنا : باب ١٤: ٢٦) ” اس کے بعد میں تم سے بہت سی باتیں نہ کروں گا کیونکہ دنیا کا سردار آتا ہے اور مجھ میں اس کا کچھ نہیں۔“ (یوحنا : باب ١٤: ٣٠) ” لیکن جب وہ مددگار آئے گا جس کو میں تمہارے پاس باپ کی طرف سے بھیجوں گا یعنی سچائی کاروح جو باپ سے صادر ہوتا ہے تو وہ میری گواہی دے گا۔“ (یوحنا : باب ١٥: ٢٦) ” لیکن میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ میرا جانا تمہارے لیے فائدہ مند ہے کیونکہ اگر میں نہ جاؤں گا تو وہ مددگار تمہارے پاس نہ آئے گا۔“ (یوحنا : باب ١٦: ٧) ” مجھے تم سے اور بھی بہت سی باتیں کہنا ہیں مگر اب تم ان کی برداشت نہیں کرسکتے۔ لیکن جب وہ یعنی سچائی کا روح آئے گا تو تم کو تمام سچائی کی راہ دکھائے گا۔ اس لیے کہ وہ اپنی طرف سے نہ کہے گا لیکن جو کچھ سنے گا وہی کہے گا اور تمہیں آئندہ کی خبریں دے گا۔“ (یوحنا : باب ١٦: ١٢، ١٣) مسائل ١۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) بنی اسرائیل کے رسول تھے۔ ٢۔ حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) نے تورات کی تصدیق فرمائی۔ ٣۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا نام لے کر یہودیوں اور عیسائیوں کو آپ کی آمد کی خوشخبری سنائی۔ ٤۔ یہودی اور عیسائی نبی آخر الزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جادو گر ہونے کا الزام دیتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن اہل مکہ اور یہود ونصاریٰ نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر جھوٹے الزامات لگائے : ١۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کفار جادوگر کہا کرتے تھے۔ (یونس : ٢) ٢۔ کفار آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کاہن اور مجنون کہتے تھے اللہ تعالیٰ نے جواب دیا کہ آپ کاہن اور مجنون نہیں ہیں۔ (الطور : ٢٩) ٣۔ کفار آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو شاعر کہتے تھے۔ (الطور : ٣٠) ٤۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) شاعر نہیں ہیں۔ (القلم : ٢) ٥۔ کفار نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جادوگر اور کذاب کہتے تھے۔ (ص : ٤) ٦۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جادوگر اور جھوٹے نہیں۔ (الطور : ٢٩) ٧۔ کفار آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر الزام لگاتے تھے کہ آپ قرآن مجید خود بنا لیتے ہیں۔ (النحل : ١٠١) الصف
7 فہم القرآن ربط کلام : جو لوگ نبی آخرالزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کا انکار کرتے ہیں اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر الزامات لگاتے ہیں درحقیقت اللہ تعالیٰ پر جھوٹ بولتے ہیں۔ ان کی کوشش ہے کہ ” اللہ“ کے نور کو اپنی پھونکوں سے بجھا دیں حالانکہ یہ لوگ اس نور کو کبھی بجھا نہیں سکیں گے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس کے پھیلانے کا فیصلہ کر رکھا ہے۔ یہ حقیقت سب کو معلوم ہے کہ نبوت کا اعلان کرنے سے پہلے ہر کوئی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو الصادق اور الامین کہتا تھا۔ تورات اور انجیل میں بھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اوصاف حمیدہ کا ذکر موجود ہے۔ اس لیے یہودی اور عیسائی اس انتظار میں تھے کہ جب نبی آخر الزّمان تشریف لائیں گے تو ہم ان کے ساتھ مل کر کافروں کو شکست دیں گے۔ (البقرۃ: ٨٩) لیکن جونہی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی نبوت کا اعلان فرمایا تو یہود و نصاریٰ اور اہل مکہ نے آپ کو جھوٹا اور جادو گر قرار دیا۔ جب کہ یہود و نصاریٰ اپنی کتابوں کے حوالے سے اور اہل مکہ اپنے دور کے دانشوروں سے جان چکے تھے کہ مکہ میں ایک رسول پیدا ہونے والا ہے لیکن پھر بھی انہوں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تکذیب کی۔ حالانکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لوگوں کو اللہ کی طرف بلانے والے تھے اس کے باوجود لوگ آپ کو کذّاب اور جادو گر کہتے۔ اس موقع پر لوگوں کے الزامات کا صرف یہ جواب دیا گیا ہے کہ اس شخص سے بڑھ کر کوئی ظالم نہیں ہوسکتا جو اللہ تعالیٰ پر جھوٹ بولتا ہے۔ یعنی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ پر جھوٹ نہیں بول رہے۔ ہاں الزام لگانے والے یادرکھیں! کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جھوٹا کہنا اور آپ پر الزامات لگانا درحقیقت اللہ تعالیٰ پر جھوٹ بولنا اور الزام لگانا ہے کیونکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نبوت کا اعلان اپنی طرف سے نہیں بلکہ اللہ کے حکم سے کیا ہے لہٰذا اللہ تعالیٰ پر جھوٹ بولنے والے سے بڑھ کر کوئی ظلم نہیں ہو سکتا۔ اللہ تعالیٰ ظالموں کو ہدایت نہیں دیتا ظالم لوگ چاہتے ہیں کہ اللہ کے نور کو اپنے منہ کی پھونکوں سے بجھادیں۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہے کہ وہ اپنا نور پورا کرکے رہے گا اگرچہ کافر اسے ناپسند کرتے ہیں۔ نور سے مراد اللہ کی توحید اور دین حق ہے جسے اللہ تعالیٰ نے پہلے تورات اور انجیل کی صورت میں نازل فرمایا اور اب قرآن مجید کی شکل میں لوگوں کے سامنے ہے جو لوگ توحید اور دین کو جھٹلاتے ہیں وہ حقیقت میں اللہ تعالیٰ کو جھٹلانے کی کوشش کرتے ہیں، اور یہ لوگ ظالم ہیں اور ظالموں کو اللہ تعالیٰ ہدایت سے سرفراز نہیں کرتا۔ یہاں دین کی قوت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ اس کے خلاف کفار اور مشرکین کی کوششیں اس قدر حقیر اور بے حیثیت ہیں جس طرح کوئی نادان سورج کی طرف منہ کر کے تھوکتا ہے یا آنکھیں بند کر کے سمجھتا ہے کہ سورج کی روشنی ختم ہوگئی اس سے بڑھ کر کون احمق ہوگا؟ یہ لوگ دین کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ یہاں واضح طور پر اعلان کیا ہے کہ دین ہر صورت پھیل کر رہے گا۔ (یٰٓاَہْلَ الْکِتٰبِ قَدْ جَآءَکُمْ رَسُوْلُنَا یُبَیِّنُ لَکُمْ کَثِیْرًا مِّمَّا کُنْتُمْ تُخْفُوْنَ مِنَ الْکِتٰبِ وَ یَعْفُوْا عَنْ کَثِیْرٍ قَدْ جَآءَ کُمْ مِّنَ اللّٰہِ نُوْرٌ وَّ کِتٰبٌ مُّبِیْنٌ) (المائدۃ: ١٥) ” اے اہل کتاب ! بے شک تمہارے پاس ہمارا رسول آچکا ہے جو تمہارے لیے ان میں سے بہت سی باتیں کھول کر بیان کرتا ہے جو تم کتاب سے چھپاتے تھے اور بہت سی باتوں سے درگزر کرتا ہے۔ یقیناً تمہارے پاس اللہ کی طرف سے ایک روشنی اور واضح کتاب آئی ہے۔“ (اَلْاِسْلَامُ یَعْلُوْ وَلَا یُعْلٰیٰ) (ارواء الغلیل حدیث نمبر : ١٢٦٨) ” اسلام غالب آئے گا اور اس پر کوئی غالب نہیں آئے گا۔“ (اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَ رَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا فَمَنِ اضْطُرَّ فِیْ مَخْصَۃٍ غَیْرَ مُتَجَانِفٍ لِّاِثْمٍ فَاِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ) (المائدۃ: ٥) ” آج میں نے تمہارے لیے دین کو مکمل کردیا ہے اور میں نے پوری کردی تم پر اپنی نعمت اور اسلام کو دین کے طور پر پسند کرلیا، جو بھوک کی صورت میں مجبور ہوجائے اس حالت میں کہ وہ گناہ کی طرف مائل ہونے والا نہ ہو تو بے شک اللہ بے حد بخشنے والا نہایت مہربان ہے۔“ مسائل ١۔ جو شخص اللہ پر جھوٹ بولتا ہے وہ سب سے بڑا ظالم ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ ظالم شخص کی راہنمائی نہیں کرتا۔ ٣۔ کافر اور مشرک چاہتے ہیں کہ اللہ کے نور یعنی دین اسلام کو ختم کردیں۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ نے فیصلہ کر رکھا ہے کہ اس کا دین ضرور غالب اور مکمل ہوگا۔ الصف
8 الصف
9 فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہونے والا دین ” الاسلام“ نور اور روشنی ہے۔ کفار اور مشرکین، یہودی اور عیسائی اس نور کو مٹانا چاہتے ہیں حالانکہ اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہے کہ یہ نور مکمل ہو کر رہے گا۔ اس نور اور روشنی کو پھیلانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے نبی آخر الزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مبعوث فرمایا تاکہ دین حق کا نور دنیا میں ہر سو پھیل جائے۔ بے شک یہ بات کفار اور مشرکین کے لیے کتنی ہی ناقابل برداشت ہو۔ مفسرین کے دلائل کے مطابق یہ آیات غزوہ احد کے بعد نازل ہوئیں۔ جب حضرت حمزہ (رض) اور ستر صحابہ کرام شہید ہوچکے تھے۔ منافقین نے بغلیں بجائیں اور کافر امید لگا بیٹھے کہ اب اسلام کا چراغ بجھنے والا ہے۔ بس ایک اور حملے کی ضرورت ہے اسلام اور مسلمانوں کا قصہ ہمیشہ ہمیش کے لیے پاک ہوجائے گا۔ ان ناہموار حالات میں یکدم اعلان ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو اپنی راہنمائی اور دین حق کے ساتھ اس لیے مبعوث فرمایا ہے کہ اس کا رسول تمام ادیان پر اللہ کے دین کو غالب کردے۔ بے شک مشرکوں کے لیے یہ بات کتنی ہی ناگوار کیوں نہ ہو مشرک چاہتے ہیں کہ اللہ کی بندگی کے ساتھ دوسروں کی بندگی جاری رہے کفار کا خیال ہے کہ نظام اسلام کی بجائے کفر کا نظام قائم رہے۔ ہدایت سے مراد وہ راہنمائی، بصیرت اور توفیق ہے جس کے ساتھ نبی آخرالزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تمام ادیان باطل پر دین اسلام کو غالب کردکھایا۔ مشرک توحید کا نوربجھانا اور قرآن کی روشنی کو مٹانا چاہتے ہیں جبکہ اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہے۔ اسے مکمل فرماکر اسے دلائل کی بنیاد پر قیامت تک غالب رکھے۔ کفار، مشرکین اور اہل کتاب پہلے دن سے ہی اس کو شش میں ہیں کہ اللہ کے نور کو اپنی پھونکوں سے بجھا دیں جبکہ اللہ تعالیٰ کا قطعی فیصلہ ہے کہ وہ اپنے نور کو غالب کرکے رہے گا اس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ اس لیے بھیجا ہے تاکہ دین اسلام تمام باطل ادیان پر غالب آجائے خواہ مشرکوں اور کفارکے لیے یہ بات کتنی ہی ناپسند کیوں نہ ہو، نور سے مراد قرآن مجید کی تعلیم جس کی مرکزی دعوت التوحید ہے دونوں کو اللہ تعالیٰ نے نور قرار دیا ہے۔ (البقرہ : ٢٥٧) میں ارشاد ہوا ہے کہ ” اللہ“ ایمانداروں کا خیر خواہ ہے وہ انھیں ہر قسم کے اندھیروں سے نکال کر نور کی طرف لاتا ہے اور کفار کے دوست شیطان ہیں وہ ان کو نور سے اندھیروں کی طرف لے جاتے ہیں۔ کافر چاہتے ہیں کہ اللہ کی توحید کے چراغ اور قرآن مجید کی تعلیمات کو اپنی پھونکوں سے بجھا دیں پھونکوں کا لفظ لا کر یہ ثابت کیا گیا ہے کہ جس طرح سورج کی روشنی اور چاند کی ضیاء پاشیوں کو پھونکوں سے نہیں بجھایا جا سکتا اور جس طرح سورج اور چاند کی طرف منہ کرکے تھوکنے اور پھونکنے والا پاگل پن کا مظاہرہ کرتا ہے، اسی طرح دین کے خلاف کوششیں کرنے والے بھی اخلاقی دیوالیہ پن کا شکار ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کی بعثت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ ہم نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ اس لیے بھیجا ہے تاکہ تمام باطل ادیان پر دین اسلام کو غالب کردے ہدایت سے مراد وہ رہنمائی اور طریقہ ہے جس کی روشنی میں اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دین کا ابلاغ اور نفاذ فرمایا۔ یاد رہے کہ دین اور قانون کتنا ہی مفصل کیوں نہ ہو اس کے سمجھنے اور نفاذ کے لیے رہنمائی کی ضرورت ہوتی ہے اس لیے یہاں بالہدیٰ کا لفظ استعمال فرما کر واضح کیا ہے کہ جس رب نے یہ دین نازل فرمایا ہے اسی نے اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رہنمائی کا بندوبست کیا تاکہ ” اللہ“ کی منشا کے مطابق دین کی تشریح اور اس کا نفاذ کرے۔ جو حدیث شریف اور سیرت طیبہ کی صورت میں ہمارے پاس موجود ہے۔ ” لِیُظْہِرَہٗ“ کا معنی ہے زبردست کشمکش جس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ دین آسانی کے ساتھ نافذ نہیں ہوگا جب تک کفار، مشرکین اور اہل کتاب کے ساتھ زبردست کشمکش اور معرکہ آرائی نہ ہوجائے چنانچہ یہی کچھ ہوا کہ دین کے ابلاغ اور نفاذ کے لیے کئی معرکے برپا ہوئے اور نہ معلوم قیامت تک کتنے معرکے پیش آئیں گے۔ دین کے غلبہ سے پہلی مراد اس کادلائل اور براہین کے ساتھ باطل نظریات اور ادیان پر غالب رہنا ہے یہی وجہ ہے کہ آج تک یہ دین اپنی سچائی اور دلائل کی بنیاد پر باطل ادیان پر غالب رہا اور رہے گا۔ جہاں تک اس کے سیاسی غلبے اور نفاذکا تعلق ہے اس کا دارومدار مسلمانوں کے اخلاص اور کردار پر ہے۔ جب مسلمان جان ومال کی قربانی دے کر دین کو غالب کرنا چاہیں گے تو یقیناً دین سیاسی طور پر بھی غالب آئے گا جس طرح نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دور اور آپ کے بعد تقریباً ایک ہزار سال تک اس کا غلبہ رہا ہے اور قرب قیامت ایک دفعہ پھر اس کے غلبے کا دور آئے گا۔ (عَنْ أبی ہُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِہِ لَیُوشِکَنَّ أَنْ یَنْزِلَ فیکُمْ ابْنُ مَرْیَمَ حَکَمًا عَدْلًا فَیَکْسِرَ الصَّلِیبَ وَیَقْتُلَ الْخِنْزِیرَ وَیَضَعَ الْجِزْیَۃَ وَیَفِیضَ الْمَالُ حَتّٰی لَا یَقْبَلَہٗ أَحَدٌ حَتّٰی تَکُون السَّجْدَۃُ الْوَاحِدَۃُ خَیْرًا مِنْ الدُّنْیَا وَمَا فیہَا) (رواہ البخاری : کتاب احادیث الانبیاء) ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! عنقریب تم میں عیسیٰ ابن مریم عادل حکمران کی حیثیت میں آئیں گے وہ صلیب کو توڑ دیں گے اور خنزیر کو قتل کر ڈالیں گے اور جزیہ ختم کریں گے۔ مال ودولت کی اس قدر بہتات ہوگی کوئی اس کو لینے والا نہ ہوگا یہاں تک کہ ایک سجدہ کرنا دنیا ومافیہا سے بہتر ہوگا۔“ (عَنْ تَمِیمٍ الدَّارِیِّ (رض) قَالَ سَمِعْتُ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَقُولُ لَیَبْلُغَنَّ ہَذَا الأَمْرُ مَا بَلَغَ اللَّیْلُ وَالنَّہَارُ وَلاَ یَتْرُکُ اللَّہُ بَیْتَ مَدَرٍ وَلاَ وَبَرٍ إِلاَّ أَدْخَلَہُ اللَّہُ ہَذَا الدِّینَ بِعِزِّ عَزِیزٍ أَوْ بِذُلِّ ذَلِیلٍ عِزًّا یُعِزُّ اللَّہُ بِہِ الإِسْلاَمَ وَذُلاًّ یُذِلُّ اللَّہُ بِہِ الْکُفْرَوَکَانَ تَمِیمٌ الدَّارِیُّ یَقُولُ قَدْ عَرَفْتُ ذَلِکَ فِی أَہْلِ بَیْتِی لَقَدْ أَصَابَ مَنْ أَسْلَمَ مِنْہُمُ الْخَیْرُ وَالشَّرَفُ وَالْعِزُّ وَلَقَدْ أَصَابَ مَنْ کَانَ مِنْہُمْ کَافِراً الذُّلُّ وَالصَّغَارُ وَالْجِزْیَۃُ) (رواہ احمد : مسند تمیم دارمی) ” حضرت تمیم داری (رض) بیان کرتے ہیں میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے ہوئے سنا آپ نے فرمایا دین اسلام وہاں تک پہنچے گا جہاں تک رات کا اندھیرا اور دن کا اجالاپہنچتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کسی کچے پکے مکان کو نہیں چھوڑے گا مگر دین کو وہاں داخل فرمائے گا۔ عزت والے کو عزت دے گا اور ذلیل کو مزید ذلیل کرے گا۔ اللہ تعالیٰ معزز کو دین اسلام کے ساتھ عزت دے گا اور ذلیل کو کفر کی وجہ سے مزید ذلت ملے گی۔ تمیم داری (رض) کہا کرتے تھے کہ میں اپنے خاندان میں ان لوگوں کو پہچانتا ہوں جو دین کی وجہ سے معزز ہوئے اور بھلائی حاصل کی۔ جو کافر تھے ان پر ذلت، حقارت مسلط کردی گئی اور وہ جزیہ دینے پر مجبور ہوئے۔“ مسائل ١۔ ” اللہ“ نے ہی حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دین حق اور اپنی راہنمائی کے ساتھ مبعوث فرمایا۔ ٢۔ دین اسلام کے سوا باقی تمام نظریات اور ادیان باطل ہیں۔ ٣۔ اللہ کے رسول اس لیے مبعوث کیے گئے تاکہ آپ دین اسلام کو تمام باطل نظریات اور ادیان پر غالب کردیں۔ ٤۔ دین کے ابلاغ اور نفاذ میں مشرکین کی مخالفت کی پرواہ نہیں کرنا چاہیے۔ ٥۔ مشرکین اور کفار دین حق کی بالا دستی کو کبھی پسند نہیں کرتے۔ تفسیر بالقرآن دینِ حق سے انکار کے لیے کفار اور مشرکین کے بہانے : ١۔ مشرکین نے کہا اگر اللہ چاہتا تو ہم اس کے علاوہ کسی کی عبادت نہ کرتے۔ (النحل : ٣٥) ٢۔ مشرکین کہیں گے اگر اللہ چاہتا تو ہم شرک نہ کرتے۔ (الانعام : ١٤٨) ٣۔ کفار نے کہا ہم اس وقت تک ایمان نہیں لائیں گے جب تک تو زمین سے ہمارے لیے کوئی چشمہ جاری نہ کر دے۔ (بنی اسرائیل : ٩٠) ٤۔ مشرکین نے آپ پر اعتراض کیا کہ آپ پر خزانہ کیوں نہیں نازل ہوتا۔ (ھود : ١٢) ٥۔ کفار نے کہا ہمارے لیے اپنے آباؤ اجداد کا طریقہ ہی کافی ہے۔ (المائدۃ: ١٠٤) ٦۔ بنی اسرائیل نے کہا اے موسیٰ جب تک ہم اللہ کو اپنے سامنے نہیں دیکھ لیتے ہم ایمان نہیں لائیں گے۔ (البقرۃ: ٥٥) ٦۔ کہتے ہیں یہ پہلے لوگوں کی کہانیاں ہیں جس کو اس نے لکھ رکھا ہے اور وہ صبح وشام اس کو پڑھ پڑھ کر سنائی جاتی ہیں۔ (الفرقان : ٥) الصف
10 فہم القرآن ربط کلام : مشرکین کی مخالفت کی پرواہ کیے بغیر دین حق کو قبول اور اس کی اشاعت کرنا یہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ تجارت کرنے کے مترادف ہے۔ جس کے نتیجہ میں دنیا کی کامیابی حاصل ہوگی اور آخرت میں عذاب سے نجات پانے کے ساتھ جنت میں داخل ہونا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو نفع اور نقصان کا شعور بخشا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک ریڑھی بان کو معلوم ہوجائے کہ میرا سودا فلاں چوک اور بازار میں زیادہ بک سکتا ہے تو اس کی کوشش ہوتی ہے کہ میں اس چوک اور بازار میں ریڑھی لگاؤں۔ مزدور کو معلوم ہو کہ مجھے فلاں شہر میں زیادہ مزدوری ملے گی، تو وہ زیادہ مزدوری پانے کے لیے اپنے بال بچے چھوڑ کر اس شہر کارخ کرتا ہے۔ منافع اور فائدے کے لالچ میں ہی لوگ اپنا وطن چھوڑ کر دوردراز کے ملکوں میں جاکر نوکری اور تجارت کرتے ہیں۔ گویا کہ بنیادی طور پر ہر انسان کو اپنے نفع اور نقصان کا شعور دیا گیا ہے اس شعور کو دین اور آخرت کی خاطر استعمال کرنے کا حکم ہے۔ اے ایمان والو! میں تمہیں ایسی تجارت بتاتا ہوں کہ جس میں کبھی نقصان نہیں ہوگا۔ اس کا بنیادی اور دائمی فائدہ یہ ہے کہ تمہارے گناہ معاف ہوں گے اور تمہیں عذاب الیم سے نجات حاصل ہوگی اور تمہیں اس جنت میں داخل کیا جائے گا جس کے نیچے نہریں جاری ہیں اور وہاں صاف ستھرے، اعلیٰ اور پاکیزہ مکانات ہیں، اس کی نعمتیں ہمیشہ رہنے والی ہیں، جسے اس میں داخلہ نصیب ہوا اس کے لیے یہ بہت بڑی کامیابی ہے۔ ہاں تم پسند کرتے ہو کہ تمہیں دشمن پر فتح حاصل ہو وہ بھی تمہیں حاصل ہوگی۔ جس تجارت کے بدلے تمہیں ہمیشہ کی جنت اور دشمن پرکامیابی حاصل ہوگی وہ تجارت یہ ہے کہ تم اللہ اور اس کے رسول پر سچا ایمان لاؤ اور اللہ کے راستے میں اپنے مالوں اور جانوں کے ساتھ جہاد کرو یہ تمہارے لیے بہت ہی بہتر ہے بشرطیکہ تم اس کی حقیقت سمجھ جاؤ۔ اس سورت کی ابتدا میں ارشاد فرمایا کہ یقیناً اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو پسند کرتا ہے جو اس کی راہ میں کفار اور مشرکین کے ساتھ سیسہ پلائی دیوار بن کر قتال کرتے ہیں۔ یہاں قتال کی بجائے جہاد کا لفظ استعمال فرمایا ہے کیونکہ میدان کارزار میں اترنے سے پہلے مال و جان کے ساتھ کوشش کرنا پڑتی ہے، جہاد کا معنٰی اللہ کے راستے میں کوشش کرنا اور قتال فی سبیل اللہ اس مقصد کے لیے انتہائی اقدام ہے۔ اس لیے یہاں قتال کی بجائے جہاد کا لفظ استعمال فرمایا ہے جس میں ہر وہ کوشش شامل ہوگی جودین کے بتلائے ہوئے طریقہ کے مطابق اس کی سربلندی کے لیے کی جائے گی۔ قرآن مجید نے کئی مقامات پر لفظ قتال جہاد کے معنٰی میں استعمال کیا ہے یہ ایسی تجارت اور سودا ہے جس کا خریدار اللہ تعالیٰ خود ہے جس کے بارے میں اس کا ارشاد ہے۔ ” یقیناً اللہ نے ایمان والوں سے ان کی جانیں اور ان کے اموال خرید لیے ہیں۔ اس کے بدلے کہ یقیناً ان کے لیے جنت ہے، وہ اللہ کے راستے میں لڑتے ہیں، قتل کرتے ہیں اور قتل کیے جاتے ہیں، تورات اور انجیل اور قرآن میں اللہ کے ذمے یہ پکا وعدہ ہے اور اللہ سے زیادہ اپنا وعدہ پورا کرنے والا کون ہوسکتا ہے ؟ اس سودے پر خوب خوش ہوجاؤ جو تم نے اللہ سے کیا ہے اور یہ بہت بڑی کامیابی ہے۔“ (التوبہ : ١١١) (عَنْ أَنَسٍ أَنَّ النَّبِیّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ جَاہِدُوا الْمُشْرِکِینَ بِأَمْوَالِکُمْ وَأَنْفُسِکُمْ وَأَلْسِنَتِکُمْ) (رواہ ابوداؤد : باب کَرَاہِیَۃِ تَرْکِ الْغَزْوِ، حکمہ صحیح) ” حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اپنے مالوں، جانوں اور زبانوں کے ساتھ مشرکین سے جہاد کرو۔“ (عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ (رض) قالَ قَالَ رَجُلٌ للنَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَوْمَ أُحُدٍ أَرَأَیْتَ إِنْ قُتِلْتُ فَأَیْنَ أَنَا قَالَ فِی الْجَنَّۃِ فَأَلقٰی تَمَرَاتٍ فِیْ یَدِہٖ ثُمَّ قَاتَلَ حَتّٰی قُتِلَ) (رواہ البخاری : باب غزوۃ أحد) ” حضرت جابر بن عبداللہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے غزوۂ احد کے دن نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا اگر میں شہید ہوجاؤں تو میں کہاں ہوں گا؟ آپ نے فرمایا : جنت میں۔ اس کے ہاتھ میں کھجوریں تھیں اس نے پھینک دیں پھر لڑا یہاں تک کہ شہید ہوگیا۔“ ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جنت اس طرح بنائی گئی ہے کہ اس کی ایک اینٹ چاندی کی اور دوسری سونے کی ہے اور اس کا گارا خوشبودار کستوری کا ہے۔ اس کے کنکر لؤلؤ اور یاقوت کے ہیں اور اس کی مٹی زعفران کی ہے جو اس میں داخل ہوگا وہ خوش و خرم رہے گا۔ اسے کوئی تکلیف نہیں ہوگی وہ اس میں ہمیشہ رہے گا اسے موت نہیں آئے گی نہ اس کے کپڑے بوسیدہ ہوں گے اور نہ ہی وہ بوڑھا ہوگا۔“ (رواہ الترمذی : کتاب صفۃ الجنۃ) مسائل ١۔ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانا، کفار اور مشرکین کے ساتھ مال وجان کے ساتھ جہاد کرنا نہایت ہی فائدہ مند تجارت ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ ایمان اور جہاد کے بدلے مسلمانوں کے گناہ معاف کرتا ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ ایمان اور جہاد کے بدلے مومنوں کو ہمیشہ کی جنت میں داخل فرمائے گا جس کے نیچے نہریں جاری ہوں گی اور اس کے محلات بڑے اعلیٰ اور پاکیزہ ہوں گے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ ایمان اور جہاد کے بدلے مسلمانوں کو بہت جلد فتح عطا فرمائے گا۔ ٥۔ کفار اور مشرکین کے مقابلے میں دنیا کی کامیابی اور آخرت میں جنت ملنا بہت بڑی خوشخبری اور کامیابی ہے۔ تفسیر بالقرآن جہاد فی سبیل اللہ کی فرضیت اور فضیلت کے چند دلائل : ١۔ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! مومنوں کو جہاد کی ترغیب دیں۔ (الانفال : ٦٥) ٢۔ مظلوم مسلمانوں کے لیے جہاد کریں۔ (النساء : ٧٥) ٣۔ کفارکو ایسی مار مارو کہ ان کے پچھلے بھی بھاگ کھڑے ہوں۔ (الانفال : ٥٧) (النساء : ٩٥) (التوبہ : ٨٨) ٤۔ ان سے لڑائی کرو یہاں تک کہ فتنہ ختم ہوجائے اور خالصتادین اللہ کے لیے ہوجائے۔ (البقرۃ: ١٩٣) ٥۔ تم شیطان کے دوستوں سے لڑائی کرو یقیناً شیطان کی تدبیر کمزور ہے۔ (النساء : ٧٦) (البقرۃ: ٢١٨) ٦۔ مجاہدین کے ساتھ اللہ نے جنت کا وعدہ فرمایا ہے۔ (التوبۃ: ١١١) ٧۔ مجاہد اور غیر مجاہد برابر نہیں ہوسکتے۔ (النساء : ٩٥) الصف
11 الصف
12 الصف
13 الصف
14 فہم القرآن ربط کلام : اس حکم سے پہلے مسلمانوں کو یہ خوشخبری سنائی گئی ہے کہ اگر تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لا کر جہاد کرو گے تو اللہ تعالیٰ تمہیں دنیا کی کامیابی کے ساتھ جنت میں داخل کرے گا، دنیا کی کامیابی اور جنت کا حصول تب ممکن ہے جب مسلمان صرف ” اللہ“ کی خاطر جہاد کریں گے۔ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے ہوئے اللہ کے راستے میں جہاد کرنا اللہ تعالیٰ کی مدد کرنے کے مترادف ہے اسی کا اس آیت میں حکم دیا گیا ہے۔ اے ایمان والو! اللہ کے مددگار بن جاؤ جس طرح حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) نے اپنے حواریوں سے فرمایا کہ کون اللہ کے لیے میری مدد کرنے کے لیے تیار ہے۔ حواریوں نے کہا ہم اللہ تعالیٰ کے مددگار ہیں۔ بنی اسرائیل میں سے ایک گروہ ایمان لے آیا اور دوسرے گروہ نے کفر اختیار کیا۔” اللہ“ نے ایمان والوں کی ان کے دشمنوں کے مقابلے میں مدد فرمائی جس سے ایماندار غالب ہوئے۔ یہودیوں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو پھانسی دینا چاہا تو اللہ تعالیٰ نے انہیں ناکام کیا اور حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کو آسمانوں پر اٹھا لیا۔ یہودیوں نے انجیل کی تعلیم کو ختم کرنا چاہا لیکن اللہ نے انجیل کی تعلیمات کو عام کیا اور ہمیشہ کے لیے یہودیوں کو عیسائیوں کا دست نگر بنا دیا۔ اگر مسلمان ” اللہ“ کے دین کی مدد کریں گے تو اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو یہودیوں، عیسائیوں، مشرکین اور کفار پر غالب فرمائے گا کیونکہ اس کا فرمان ہے کہ مسلمانو! اگر تم اللہ کی مدد کرو گے تو وہ تمہاری مدد کرے گا۔ اللہ کی مدد کرنا اس کے دین کی مدد کرنا ہے۔ ( ٰٓیاََیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اِِنْ تَنْصُرُوا اللّٰہَ یَنْصُرْکُمْ وَیُثَبِّتْ اَقْدَامَکُمْ) (محمد : ٧) ” اے ایمان والو! اگر تم اللہ کی مدد کرو گے تو وہ تمہاری مدد کرے گا اور تمہارے قدم مضبوط کر دے گا۔“ (قَالَ الَّذیْنَ یَظُنُّوْنَ اَنَّہُمْ مُّلٰقُوا اللّٰہِ کَمْ مِّنْ فِءَۃٍ قَلِیْلَۃٍ غَلَبَتْ فِءَۃً کَثِیْرَۃً بِاِذْنِ اللّٰہِ وَاللّٰہُ مَعَ الصّٰبِرِیْنَ) (البقرۃ: ٢٤٩) ” اللہ تعالیٰ کی ملاقات پر یقین رکھنے والوں نے کہا بسا اوقات چھوٹی سی جماعت بڑی جماعت پر اللہ کے حکم سے غالب آجاتی ہے اور اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔“ مسائل ١۔ ؁ٍایمانداروں کو اللہ کے دین کی اس طرح ہی مدد کرنی چاہیے جس طرح حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کے حواریوں نے ان کی مدد کی تھی۔ ٢۔ بنی اسرائیل سے ایک جماعت حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) پر ایمان لائی اور دوسرے لوگوں نے کفر اختیار کیے رکھا۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ ایمانداروں کی مدد کرتا ہے جس وجہ سے وہ اپنے دشمن پر غالب آتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ ایمانداروں کی مدد فرمائی : ١۔ غار ثور میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ابوبکر (رض) کی مدد فرمائی۔ (التوبہ : ٤٠) ٢۔ بدر میں اللہ تعالیٰ نے کمزوروں کی مدد فرمائی۔ (آل عمران : ١٢٣) ٤۔ غزوہ خندق میں اللہ تعالیٰ نے مدد فرمائی۔ ( الاحزاب : ٩) ٥۔ حنین کے موقعہ پر اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی مدد فرمائی۔ (التوبہ : ٢٥) ٦۔ فتح مکہ کے موقعہ پر اللہ تعالیٰ نے مدد فرمائی۔ ( النصر : ١) ٧۔ اللہ کی طرف سے ہی مدد حاصل ہوتی ہے۔ (آل عمران : ١٢٦) ٨۔ اللہ تعالیٰ نے عیسیٰ (علیہ السلام) کی روح القدس ( جبرائیل (علیہ السلام) سے مدد فرمائی۔ (البقرۃ: ٨٧) ٩۔ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کے کمزوروں کی مدد فرمائی۔ (القصص : ٥) ١٠۔ اللہ تعالیٰ نے تھوڑی اور کمزور جماعتوں کو بڑی جماعتوں پر غالب فرمایا۔ (البقرۃ: ٢٤٩) الصف
0 سورۃ الجمعہ کا تعارف سورت الجمعہ ہجرت مدینہ کے ساتویں سال نازل ہوئی گیارہ آیات اور دو رکوع پر مشتمل ہے۔ یہ سورۃ اس بات کی اطلاع دیتی ہے کہ زمین و آسمانوں کی ہر چیز اللہ تعالیٰ کی تسبیح بیان کرتی ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ پوری کائنات کا بادشاہ، بڑا پاک اور ہر اعتبار سے غالب ہے، اس کے ہر حکم اور کام میں حکمت پائی جاتی ہے یہ اس کی حکمت کا تقاضا ہے کہ اس نے ان پڑھ قوم میں ایسا رسول بھیجا جو ان کے سامنے اس کی آیات کی تلاوت کرتا ہے، ان کے فکرو عمل کو پاکیزہ بناتا ہے، انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے۔ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تشریف آوری سے پہلے لوگ کھلی گمراہی میں مبتلا تھے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان لوگوں کے لیے بھی رسول ہیں جو ابھی تک مسلمان نہیں ہوئے یا جو بعد میں آنے والے ہیں۔ اللہ تعالیٰ جس پر چاہتا ہے اپنا فضل نازل فرماتا ہے اور وہ بڑا ہی فضل فرمانے والا ہے۔ یہاں فضل کا پہلا معنٰی نبوت ہے یہودیوں کا یہ عقیدہ ہے کہ ہماری نسل سے باہر کوئی رسول نہیں ہوسکتا اس لیے وہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور نبی آخرالزماں (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کا انکار کرتے ہیں اور اس کے لیے تورات سے من گھڑت دلائل پیش کرتے ہیں حالانکہ تورات میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تشریف آوری کی شہادت موجود ہے۔ لیکن یہودیوں نے تعصب میں آ کر اصل تورات کو فراموش کر رکھا ہے اس لیے ان کے بارے میں ارشاد ہوا کہ جن لوگوں کو تورات دی گئی ہے ان کی مثال گدھے جیسی ہے جس پر کتابیں رکھ دی گئی ہوں۔ گدھے کو کیا خبر کہ مجھ پر کتنی مفید اور مقدس چیز رکھی گئی ہے۔ یہودیوں کا یہ دعوٰی بھی جھوٹا ہے کہ وہ اللہ کے چہیتے اور مقرب ہیں جس وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے جنت واجب کردی ہے۔ انہیں چیلنج دیا گیا ہے کہ اگر تم واقعی ہی اللہ کے محب اور محبوب ہو تو پھر تمھیں موت کی تمنا کرنی چاہیے لیکن یہودی ایسی قوم ہے جو سب سے زیادہ موت سے ڈرنے والی ہے یہی وجہ ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دور اور اس کے بعد شاید ہی کوئی موقعہ ہو کہ یہودی کسی جنگ میں ہر اول دستے کے طور پر لڑے ہوں۔ یہودی ہر قسم کی ذلّت قبول کرلیتے ہیں مگر براہ راست جنگ کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے کہ یہ لوگ کبھی بھی موت کی تمنا نہیں کرسکتے حالانکہ موت ایسی حقیقت ہے کہ اس سے کوئی شخص چھٹکارا نہیں پا سکتا۔ اس لیے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ بات کہلوائی گئی کہ یہودیوں سے فرمائیں کہ جس موت سے تم بھاگتے ہو وہ ہر صورت میں تمہیں اور کسی کو آلے گی پھر تم اس ذات کے سامنے کھڑے کیے جاؤ گے جو ہر قسم کے غائب اور ظاہر کو جانتا ہے وہ تمہیں بتلائے گا کہ تم دنیا میں رہ کر کیا کرتے تھے۔ سورت کے آخر میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ یہودیوں کو عبادت کے لیے ہفتہ کا دن دیا گیا تھا مگر انہوں نے اس کی پروا نہیں کی اے مسلمانوں تمہیں جمعہ کے دن کے بارے میں کسی قسم کی غفلت کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے۔ رزق دینے والا ” اللہ“ ہے اور وہ بہترین رزق دینے والا ہے اس کی تفصیل آیت نمبر ٩ میں بیان کردی گئی ہے۔ الجمعة
1 فہم القرآن ربط سورت : حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی دعوت کے رد عمل میں بنی اسرائیل دوگروہوں میں تقسیم ہوگئے۔ ایک جماعت عیسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لے آئی اور دوسرے گروہ نے ان کا انکار کردیا۔ سورۃ الجمعہ کی ابتدا ” سَبَّحَ“ کے پرجلال لفظ سے کی گئی ہے جس کا معنٰی اور مفہوم یہ ہے کہ کوئی اللہ کی ذات کو مانے یا نہ مانے اسے یاد کرے یا اس کا انکار کرے وہ تو وہ ہستی ہے جسے زمین و آسمانوں کی ہر چیز ان الفاظ میں یاد کرتی ہے کہ ” اللہ“ کلی اختیارات کا مالک اور ہرقسم کی حاجت اور نقص سے پاک ہے۔ ہر نقص اور حاجت سے مبرّا ہونے کے ساتھ ہر اعتبار سے پوری کائنات پر غالب ہے۔ اس کے غالب ہونے میں صرف قوت ہی نہیں بلکہ حکمت بھی پائی جاتی ہے۔ یہ اس کی قوت اور حکمت کا کرشمہ ہے کہ اس نے اَن پڑھ لوگوں میں سے ایک شخص کو رسول بنایا ہے جو ان کے سامنے اس کے فرمان پڑھتا ہے اور ان کے عقائد، اخلاق اور کردار کو پاکیزہ بناتا ہے۔ افکار و نظریات، اخلاق اور کردار کو پاکیزہ بنانے کے ساتھ انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے جبکہ لوگ اس سے پہلے کھلی گمراہی میں مبتلا تھے۔ یہ رسول ان لوگوں کے لیے بھی بھیجا گیا ہے جو ابھی تک مسلمانوں سے نہیں ملے۔ رسول کا پیغام آنے والے لوگوں تک پہنچانے اور انہیں مسلمانوں کے ساتھ شامل کرنے پر اللہ تعالیٰ ہر اعتبار سے غالب اور حکمت والا ہے۔ اس سے ثابت ہوا کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آئندہ نسلوں کے لیے بھی رسول ہیں جو ابھی تک مسلمانوں کے ساتھ نہیں ملے۔ مسلمانوں کے ساتھ نہ ملنے والے لوگوں میں ایک تو وہ لوگ ہیں جو اس زمانے میں ابھی مسلمان نہیں ہوئے تھے، دوسرے وہ لوگ ہیں جو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد پیدا ہوں گے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ان سب کے لیے رسول بنایا گیا ہے گویا کہ آپ ہر دور کے لوگوں کے لیے رسول بنائے گئے ہیں۔ آپ کے بعد نہ کوئی رسول آیا ہے اور نہ ہی آئے گا کیونکہ آپ کے بعد کسی رسول کی ضرورت نہیں۔ اس مقام پر یہ ارشاد ہوا کہ جن لوگوں میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مبعوث کیے گئے وہ لوگ اَن پڑھ تھے۔ دوسرے مقام پر ارشاد ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ” اَلنَّبِیَ الْاُمِیُّ“ ہیں۔ اُمی کے مفسرین نے چار معانی بیان کیے ہیں۔ ١۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اللہ تعالیٰ کے سوا کسی شخص سے نہ سیکھا نہ پڑھا اس لیے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اُمی ہیں۔ ٢۔ آپ مکہ کے شہر میں پیدا ہوئے جسے قرآن مجید نے امّ القرایٰ قرار دیا ہے اس نسبت سے آپ امی ہیں۔ ٣۔ آپ بنی اسماعیل میں سے ہیں کیونکہ نبوت ہمیشہ بنی اسرائیل میں رہی ہے اس لیے اہل کتاب بنی اسماعیل کو امی کہتے ہیں گویا کہ امی سے مراد بنی اسماعیل میں نبی۔ ٤۔ آپ قیامت کے روز سب سے بڑی امت کے نبی ہوں گے اس لیے کچھ اہل علم کا خیال ہے کہ اس بنا پر آپ کو ” اَلنَّبِیَ الْاُمِیُّ“ کے لقب سے ملقب فرمایا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان پر اس قدر احسانات فرمائے ہیں کہ وہ ان کا شمار کرنا چاہے تو جدید مشینری کے ذریعے بھی انہیں شمار نہیں کرسکتا۔ تمام احسانات و انعامات میں سب سے بڑا احسان اللہ تعالیٰ کی ہدایت اور رہنمائی ہے۔ ہدایت کا مؤثر، مدلّل، قابل اعتماد ذریعہ اور نمونہ انبیاء کی شخصیات ہیں۔ ان شخصیات میں سب سے ممتاز شخصیت رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات گرامی ہے آپ آخری نبی ہیں آپ نے انسانیت کی اصلاح اور فلاح کے لیے سب سے بڑھ کر کوششیں اور تکلیفیں اٹھائیں۔ اس لیے مومنوں کو یہ احساس دلایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا یہ خاص احسان ہے کہ اس نے تم ہی سے یعنی انسانوں میں سے ایک ایسا رسول مبعوث فرمایا ہے جو تمہارے اپنے آپ سے بھی تم پر زیادہ مہربان ہے اور درگزر کرنے والا ہے۔ (التوبہ : ١٢٨) اس کی شب و روز کی محنتیں، صبح و شام کی دعائیں اور ہر وقت یہ تمنا اور خواہش ہے کہ وہ تمہیں اللہ تعالیٰ کی آیات پڑھ کر سنائے، گناہوں اور جرائم سے پاک کرے اور تمہیں کتاب و حکمت کے ذریعے دنیا و آخرت کی ترقیوں سے سرفراز کرے۔ نبی آخرالزماں (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تشریف آوری اور آپ کی تعلیمات سے پہلے تم سراسر گمراہی اور جہالت کی تاریکیوں میں بھٹک رہے تھے۔ آپ کی کوششوں اور محبت و اخلاص کا نتیجہ ہے کہ آج انسانیت نے اپنا مقام پایا، غلاموں کو آزادی نصیب ہوئی‘ عورتوں کو حقوق ملے اور انسان کو اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے کا طریقہ اور دنیا میں رہنے سہنے کا سلیقہ آیا۔ یہ رب کریم کا لوگوں پر عظیم ترین احسان ہے اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو لوگوں کو ان کی عقل پر چھوڑ دیتا لیکن اس نے ایسا نہیں کیا بلکہ اس نے لوگوں کی راہنمائی کے لیے حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جیسا عظیم اور بے مثال رسول مبعوث فرمایا۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت سے پہلے انسانیت ہر قسم کی جہالت اور تاریکی کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں بھٹک رہی تھی۔ خصوصاً عرب اور اہل مکہ کی حالت یہ تھی کہ یہاں کے دانشور اس سوچ میں غلطاں رہتے تھے کہ ہم تاریکیوں سے کس طرح نجات پائیں۔ اسی کے نتیجے میں حلف الفضول کا معاہدہ طے پایا جس میں اہل دانش نے بیٹھ کر یہ فیصلہ کیا کہ معاشرے میں پیدا ہونے والی بیماریوں کا تدارک کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ (ابن ہشام) اسی سلسلہ کی دوسری کڑی یہ تھی کہ ایک موقع پر ورقہ بن نوفل‘ زید بن عمرو مزید نام لکھنے اور چند دوسرے لوگ حرم میں بیٹھ کر فیصلہ کرتے ہیں کہ تمام مروجہ مذاہب کا جائزہ لے کر طے کیا جائے کہ کونسا مذہب سچا ہے؟ اس کے لیے یہ لوگ اٹھ کھڑے ہوئے جس کے نتیجے میں ورقہ بن نوفل عیسائیت کے قریب ہوئے اور کچھ نے یہودیت کو مناسب سمجھا۔ حضرت سعید (رض) کے والد اور حضرت عمر (رض) کے ماموں جناب زید بن عمرو نے سب سے براءت کا اعلان کیا۔ وہ بیت اللہ میں سجدہ ریز ہو کر زاروقطار روتے ہوئے دعا کرتے کہ اے کعبہ کے رب! اگر مجھے معلوم ہوجائے کہ تیری عبادت اس طرح کرنی ہے تو میں اسی طرح کرنے کو تیار ہوں لیکن آسمانی ہدایت مفقود ہوجانے کی وجہ سے وہ دین کی روشنی سے محروم رہے اس کے متعلق ایک سوال کے جواب میں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : (نَعَمْ إِنَّہٗ یُبْعَثُ أُمَّۃً وَّاحِدَۃً) کیوں نہیں! وہ ایک امت کی حیثیت سے اٹھایا جائے گا۔ (ابن ہشام) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آمد سے قبل کی جہالت اور تاریکی کی نشاندہی کرتے ہوئے حضرت علی (رض) کے برادر مکرم حضرت جعفر (رض) بن ابی طالب نے حبشہ کے حکمران کے سامنے اس کا یوں اعتراف کیا تھا : (فَکَانَ الَّذِی کَلَّمَہُ جَعْفَرُ بْنُ أَبِی طَالِبٍ (رض) فَقَالَ لَہ أَیُّہَا الْمَلِکُ کُنَّا قَوْمًا أَہْلَ جَاہِلِیَّۃٍ نَعْبُدُ الْأَصْنَامَ وَنَأْکُلُ الْمَیْتَۃَ وَنَأْتِی الْفَوَاحِشَ وَنَقْطَعُ الْأَرْحَامَ وَنُسِیءُ الْجِوَارَ وَیَأْکُلُ الْقَوِیُّ مِنَّا الضَّعِیفَ فَکُنَّا عَلَی ذَلِکَ حَتَّی بَعَثَ اللَّہُ إلَیْنَا رَسُولًا مِنَّا نَعْرِفُ نَسَبَہُ وَصِدْقَہُ وَأَمَانَتَہُ وَعَفَافَہُ فَدَعَانَا إلَی اللَّہِ لِنُوَحِّدَہُ وَنَعْبُدَہُ وَنَخْلَعَ مَا کُنَّا نَعْبُدُ نَحْنُ وَآبَاؤُنَا مِنْ دُونِہِ مِنْ الْحِجَارَۃِ وَالْأَوْثَانِ وَأَمَرَنَا بِصِدْقِ الْحَدِیثِ وَأَدَاءِ الْأَمَانَۃِ وَصِلَۃِ الرَّحِمِ وَحُسْنِ الْجِوَارِ وَالْکَفِّ عَنْ الْمَحَارِمِ وَالدِّمَاءِ وَنَہَانَا عَنْ الْفَوَاحِشِ وَقَوْلِ الزُّورِ وَأَکْلِ مَالِ الْیَتِیمِ وَقَذْفِ الْمُحْصَنَاتِ وَأَمَرَنَا أَنْ نَعْبُدَ اللَّہَ وَحْدَہُ لَا نُشْرِکُ بِہِ شَیْءًا وَأَمَرَنَا بالصَّلَاۃِ وَالزَّکَاۃِ وَالصِّیَامِ) (سیرت ابن ہشام) ” وہ کلمے جو حضرت جعفر (رض) نے نجاشی کو کہے تھے وہ یہ تھے اے نجاشی ہماری قوم جاہل تھی ہم میں بتوں کی عبادت، مردار کھانا، فحاشی کرنا، رشتے داریوں کو توڑنا، پڑوسیوں کو تنگ کرنا اور طاقت وار لوگوں کا کمزوروں پر ظلم کرناجیسی بیماریاں پائی جاتی تھیں ہم یہ کام کر رہے تھے یہاں تک کہ اللہ نے ہم میں سے ہی ایک رسول بھیجا ہم اس کا نسب، صداقت، امانت داری اور معاف کرنا جیسی صفات جانتے تھے اس نے ہمیں ایک اللہ کی دعوت کی عبادت کی طرف بلایا اور ہمیں بتوں اور پتھروں کی عبادت سے روکا اور اس کی عبادت سے جس کی عبادت ہمارے آباؤ اجداد کرتے تھے اس نے ہمیں سچ بولنے، امانت کو اس کی مالک کی طرف لوٹانے، صلہ رحمی کرنے اور پڑوسیوں کے ساتھ حسن سلوک کرنے کا حکم دیا اور ہمیں حرام کھانے، کسی کا ناحق خون بہانے، فحاشی کرنے، بری باتیں کرنے، یتیموں کا مال کھانے اور پاک دامنہ عورتوں پر تہمت لگانے سے منع کیا اور ہمیں حکم دیا کہ ہم ایک اللہ کی عبادت کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھرائیں اور اس نے ہمیں نماز پڑھنے، زکوٰۃ ادا کرنے اور روزے رکھنے کا حکم دیا۔“ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ کُنَّا جُلُوسًا عِنْدَ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَأُنْزِلَتْ عَلَیْہِ سُورَۃُ الْجُمُعَۃِ (وَاٰخَرِیْنَ مِنْہُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِہِمْ) قَالَ قُلْتُ مَنْ ہُمْ یَا رَسُول اللّٰہِ فَلَمْ یُرَاجِعْہُ حَتَّی سَأَلَ ثَلاَثًا وَفِینَا سَلْمَانُ الْفَارِسِیُّ وَضَعَ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَدَہُ عَلَی سَلْمَانَ ثُمَّ قَالَ لَوْ کَانَ الإِیمَانُ عِنْدَ الثُّرَیَّا لَنَالَہُ رِجَالٌ، أَوْ رَجُلٌ مِنْ ہَؤُلاَءِ) (رواہ البخاری : باب قَوْلُہُ (وَآخَرِینَ مِنْہُمْ لَمَّا یَلْحَقُوا بِہِمْ) ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ جب سورۃ جمعہ نازل ہوئی تو ہم آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس بیٹھے تھے۔ میں نے آپ سے پوچھا کہ ” وَاٰخَرِیْنَ مِنْھُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْابِھِمْ“ سے کون لوگ مراد ہیں ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کوئی جواب نہ دیا۔ میں نے تین بار یہی سوال کیا۔ اس وقت ہم لوگوں میں حضرت سلمان فارسی (رض) بھی موجود تھے۔ آپ نے ان پر اپنا ہاتھ رکھ کر فرمایا کہ اگر ایمان ثریا پر بھی ہوتا تو اس کے قبیلے کے لوگ وہاں بھی پہنچ جاتے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اہل مکہ اور صرف اس دور کے لیے نبی نہیں بلکہ قیامت تک کے لیے نبی مبعوث کیے گئے ہیں؟ (عَنْ أَبِی ذَرٍّ (رض) قَالَ قَالَ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) أُعْطِیْتُ خَمْسًا لَمْ یُعْطَہُنَّ أَحَدٌ قَبْلِی بُعِثْتُ إِلَی الْأَحْمَرِ وَالْأَسْوَدِ وَجُعِلَتْ لِیَ الْأَرْضُ طَہُورًا وَمَسْجِدًا وَأُحِلَّتْ لِیَ الْغَنَاءِمُ وَلَمْ تَحِلَّ لِأَحَدٍ قَبْلِی وَنُصِرْتُ بالرُّعْبِ فَیُرْعَبُ الْعَدُوُّ وَہُوَ مِنِّی مَسِیْرَۃَ شَہْرٍ وَقِیلَ لِیْ سَلْ تُعْطَہْ وَاخْتَبَأْتُ دَعْوَتِیْ شَفَاعَۃً لِأُمَّتِی فَہِیَ نَاءِلَۃٌ مِنْکُمْ إِنْ شَاء اللّٰہُ تَعَالَی مَنْ لَّمْ یُشْرِکْ باللّٰہِ شَیْءًا قَالَ الْأَعْمَشُ فَکَانَ مُجَاہِدٌ یَرٰی أَنَّ الْأَحْمَرَ الْإِنْسُ وَالْأَسْوَدَ الْجِنُّ) (رواہ احمد : مسند ابی ذر) ” حضرت ابوذر (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ مجھے پانچ ایسی چیزیں عنایت کی گئی ہیں جو مجھ سے پہلے کسی نبی کو عطا نہیں ہوئیں۔ ١۔ مجھے اللہ تعالیٰ نے ہر کالے اور گورے کے لیے رسول بنایا ہے۔ ٢۔ میرے لیے ساری زمین پاک اور مسجد بنادی گئی ہے۔ ٣۔ میرے لیے مال غنیمت حلال کیا گیا ہے جبکہ مجھ سے پہلے کسی رسول کے لیے حلال نہیں تھا۔ ٤۔ میری رعب سے مدد فرمائی گئی ہے کیونکہ ایک مہینہ کی مسافت پر ہونے کے باوجود دشمن مجھ سے لرزاں رہتا ہے۔ ٥۔ مجھے ( قیامت کے دن) کہا جائے گا مانگ عطا کیا جائے گا اور تیری امت کے حق میں تیری شفاعت قبول کی جائے گی اور جس نے اللہ کے ساتھ شرک نہ کیا ہوگا اس کو میری شفاعت پہنچے گی۔“ مسائل ١۔ زمین و آسمانوں کی ہر چیز اللہ تعالیٰ کی تسبیح کرتی ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ ہر قسم کی حاجت اور نقص سے مبرّا ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ اپنے فیصلے نافذ کرنے پر پوری طرح اختیار رکھتا ہے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ کے ہر فیصلے میں حکمت پائی جاتی ہے۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ نے نبی آخر الزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اَ ن پڑھ لوگوں میں مبعوث فرمایا۔ ٦۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی ایک انسان تھے۔ ٧۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کی آیات کے ذریعے لوگوں کا تزکیہ کرتے، انہیں قرآن مجید کی تعلیم سے آراستہ کرتے اور انہیں دانائی کی باتیں بتلایا کرتے تھے۔ ٨۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تشریف آوری سے پہلے لوگ کھلی گمراہی میں مبتلا تھے۔ ٩۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان لوگوں کے لیے بھی رسول منتخب کیے گئے جو آپ کے بعد پیدا ہوئے اور ہوں گے۔ تفسیربالقرآن نبی (علیہ السلام) کی نبوت کے مرکزی مقاصد : ١۔ نبوت کے منصبی فرائض۔ (البقرۃ: ١٥١) ٢۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کتاب وحکمت کی تعلیم دینے کے لیے بھیجا گیا۔ (الجمعۃ: ٢) ٣۔ ابراہیم (علیہ السلام) کی دعاؤں میں نبوت کے فرائض کا تذکرہ۔ (البقرۃ: ١٢٩) ٤۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لوگوں کے بوجھ اتارنے اور انہیں غلامی سے نجات دلانے کیلئے تشریف لائے۔ (الاعراف : ١٥٧) ٥۔ نبوت اللہ تعالیٰ کا مومنوں پر احسان عظیم ہے۔ (آل عمران : ١٦٤) ٦۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لوگوں کو خوشخبری دینے والے اور ڈرانے والے تھے (الاحزاب : ٤٥) ٧۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہدایت کا سورج بنایا گیا۔ (الاحزاب : ٤٦) ٨۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رؤف الرحیم تھے۔ (التوبۃ : ١٢٨) ٩۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پوری دنیا کے رسول ہیں۔ (الاعراف : ١٥٨) ١٠۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سب کے رسول ہیں۔ (سباء : ٢٨) ١١۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رحمت عالم تھے۔ (الانبیاء : ١٠٧) ١٢۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آخری نبی ہیں۔ (الاحزاب : ٤٠) الجمعة
2 الجمعة
3 الجمعة
4 فہم القرآن ربط کلام : اَ ن پڑھ اور گمراہ ترین لوگوں میں ایک پاکباز اور اُمّی شخص کو اپنا رسول منتخب کرنا اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا فضل ہے۔ اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں پر عظیم ترین فضل ہے کہ اس نے ایک اَن پڑھ اور بدعمل قوم میں ایک ایسی شخصیت کو اپنا رسول منتخب کیا جس کا نبوت سے پہلے بھی اخلاق اور کردار اس قدر شاندار تھا کہ جس کی ہر شخص تعریف کرتا تھا۔ اللہ تعالیٰ کا دوسرا فضل یہ ہے کہ اس نے انسانوں میں ایک ہمہ صفت موصوف انسان کو اپنا رسول منتخب کیا اس لیے کہ وہ لوگوں کو آسان زبان میں اس کا پیغام پہنچائے اور اس پر عمل کرکے دکھلائے تاکہ لوگوں کو اللہ کا حکم سمجھنے اور اس پر عمل کرنے میں کوئی مشکل پیش نہ آئے۔ اللہ تعالیٰ کا اہل مکہ پر تیسرا خاص فضل یہ ہوا کہ اس نے مکہ میں ایک ایسا رسول مبعوث فرمایا جسے اور اس کے خاندان کو مکہ والے اچھی طرح جانتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے چوتھا فضل یہ فرمایا کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وجہ سے اہل مکہ بالخصوص قریش کی عزت اور وقار میں بے پناہ اضافہ ہوا لیکن اس کے باوجود ان کے بہت سے لوگ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان نہ لائے۔ خاص طور پر یہودیوں کے لیے یہ بات بڑی ناگوار ہوئی اور ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کی بجائے بنی اسماعیل میں نبی کیوں مبعوث کیا ہے۔ کفار اور یہودیوں کے حسد و بغض کی وجہ سے ارشاد ہوا کہ اللہ تعالیٰ کسی شخص یا گروہ کا پابند نہیں کہ وہ ان کی مرضی کے مطابق اپنا فضل نازل کرے یہ اس کا اپنا اختیار اور انتخاب ہے کہ جس پر چاہے اپنا فضل فرمائے کیونکہ وہ بڑا ہی صاحب فضل ہے، یہاں فضل سے پہلی مراد نبوت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو منتخب فرمایا اور آپ سب سے آخری نبی اور رسول ہیں، اب نبوت کی صورت میں قیامت تک اللہ تعالیٰ کسی پر اپنا فضل نہیں فرمائے گا۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ جس پر چاہتا ہے اپنا فضل فرماتا ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ عظیم فضل کا مالک ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ کے فضل کی مختلف صورتیں : ١۔ اللہ تعالیٰ جہان والوں پر فضل کرنے والا ہے۔ (البقرۃ: ٢٤٣) ٢۔ اللہ تعالیٰ مومنوں پر اپنا فضل فرماتا ہے۔ (آل عمران : ١٥٢) ٣۔ اللہ کا فضل نہ ہو تو آدمی شیطان کے تابع ہوجاتا ہے۔ (النساء : ٧٣) ٤۔ اللہ کے فضل کے بغیر انسان خسارہ پاتا ہے۔ (البقرۃ: ٦٤) ٥۔ اللہ کے فضل کے بغیر انسان تکلیف سے نہیں بچ جاسکتا۔ (النور : ١٤) (آل عمران : ٧٣) الجمعة
5 فہم القرآن ربط کلام : اس سے پہلی آیت میں یہودیوں کی طرف صرف اشارہ تھا اب کھل کر یہودیوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنے پیغام کے لیے منتخب فرما کر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور لوگوں پر عظیم فضل فرمایا ہے۔ چاہیے تو یہ تھا کہ لوگ بالخصوص یہودی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کو تسلیم کرتے اور نبوت کے کام میں آپ کے دست و بازو بنتے۔ لیکن انہوں نے حسد و بغض کا مظاہرہ کرتے ہوئے سب سے زیادہ آپ کی مخالفت کی اور کرتے ہیں۔ حالانکہ ان کے پاس تورات موجود تھی اور ہے۔ یہودیوں کے تحریف کرنے کے باوجود اس میں بے شمار ایسے دلائل ہیں کہ جن سے نبی آخرالزماں (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کا واضح ثبوت ملتا ہے۔ لیکن یہودیوں نے ان دلائل کو جان بوجھ کر اس طرح فراموش کردیا جیسے انہیں علم ہی نہیں۔ ان کی مجرمانہ غفلت پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ جن لوگوں کو تورات کا حامل بنایا گیا تھا انہوں نے اس کی ذمہ اری کا احساس نہ کیا۔ ان کی مثال اس گدھے کی ہے جس نے بھاری کتابیں اٹھارکھی ہوں، اسے کیا معلوم کہ اس پر کیا چیز رکھی ہوئی ہے۔ ان کی مثال تو اس سے بھی بری ہے کیونکہ گدھے کے پاس نہ علم ہے اور نہ عقل۔ گویا کہ وہ معذور ہے لیکن ان کے پاس علم اور عقل ہے اور انہیں تورات کے حوالوں سے معلوم ہے کہ ایک آخری نبی آنے والا ہے جس کی یہ یہ نشانیاں ہوں گی۔ وہ نبی پہلی کتابوں اور انبیاء کی تصدیق کرے گا۔ جن لوگوں نے سب کچھ جاننے کے باوجود آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت اور تورات کی بیان کردہ نشانیوں کی تکذیب کی یہ لوگ ظالم ہیں اور اللہ تعالیٰ ظالموں کو ہدایت نہیں دیا کرتا۔ تورات کا اصل نسخہ عبرانی زبان میں تھا جسے عام طور پر ہیکل میں رکھا جاتا تھا۔ ہیکل کی تباہی کے بعد اس کے اصل نسخے کا آج تک پتہ نہیں لگ سکا ہے۔ یہودیوں کو توراۃ کا حامل بنایا گیا مگر انہوں نے اس کا بوجھ نہ اٹھایا۔ یہ گدھے سے بدتر لوگ ہیں۔ آج کل کی تورات کسی ایک کتاب کا نام نہیں ہے بلکہ اس میں مجموعی طور پر ٣٩ کتابیں شامل ہیں جنہیں تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے پہلے حصے میں پانچ کتابیں ( یعنی اصل تورات) دوسرے حصے میں انبیاء کے صحیفے اور تیسرے حصے میں مختلف کتابیں اور اشعار شامل ہیں۔ تورات کی معروف کتابیں پانچ ہیں : 1۔ پیدائش (GENESIS) 2۔ خروج ( EXODUS) 3۔ احبار (LEVITICUS) 4 گنتی (NUMBERS) 5۔ استثناء (DEUTERONOMY) (مآخوذ از یہودی مذہب مہد سے لحد تک : مصنف رضی الدین سید) مسائل ١۔ جو لوگ کتاب اللہ کا علم رکھنے کے باوجود اس پر عمل نہیں کرتے وہ گدھوں کی مانند ہیں۔ ٢۔ جو لوگ اللہ کی آیات کی تکذیب کرتے ہیں وہ گدھوں سے بھی بدتر ہیں۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ کی آیات کی تکذیب کرنے والے ظالم ہیں۔ اللہ تعالیٰ ظالموں کو ہدایت نہیں دیتا۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ کن لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا : ١۔ جسے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) چا ہیں ہدایت نہیں دے سکتے۔ ہدایت اسی کو ملتی ہے جسے اللہ ہدایت دیتا ہے۔ (القصص : ٥٦) ٢۔ جسے اللہ ہدایت دے وہ ہدایت یافتہ ہے اور جس کو وہ گمراہ کر دے اس کا کوئی دوست اور راہ بتانے والا نہیں پاؤ گے۔ (الکہف : ٧ ١) ٣۔ جس کو اللہ ہدایت دے وہی ہدایت پر ہے۔ جس کو وہ گمراہ کردے وہ نقصان اٹھائیں گے۔ (الاعراف : ١٧٨) ٤۔ اللہ تعالیٰ جس کو چاہتا ہے گمراہ کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے۔ (ابراہیم : ٤) ٥۔ اللہ تعالیٰ ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔ (البقرۃ: ٢٥٨) ٦۔ اللہ تعالیٰ کافروں کو ہدایت نہیں دیتا۔ (البقرۃ: ٢٦٤) ٧۔ اللہ تعالیٰ فاسق لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔ (المائدۃ: ١٠٨) ٨۔ اللہ تعالیٰ جھوٹے لوگوں کو ہدایت نصیب نہیں فرماتا۔ (الزمر : ٣) ٩۔ آخرت پر دنیا کو ترجیح دینے والوں کو ہدایت نہیں ملتی۔ (النحل : ١٠٧) ١٠۔ گمراہی کا راستہ اختیار کرنے والوں کو ہدایت نہیں ملتی۔ (النحل : ٣٧) الجمعة
6 فہم القرآن ربط کلام : جن لوگوں نے اللہ کی آیات کی تکذیب کی اور ظالم ہوئے ان میں سر فہرست یہودی ہیں۔ اس لیے انہیں ایک بار پھر براہ راست مخاطب کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہودیوں کو یہودی کہہ کر مخاطب نہیں کیا بلکہ انہیں ” ھَادُوْ“ کے الفاظ سے مخاطب کیا ہے جس کا معنٰی ہے کہ اے لوگو! جو یہودی بن چکے ہو اگر تمہیں اس بات کا خیال ہے کہ تم اللہ کے چہیتے ہو تو پھر موت کی تمنا کرو بشرطیکہ تم اپنے دعوے میں سچے ہو۔ لیکن یہ لوگ موت کی تمنا ہرگز نہیں کریں گے کیونکہ یہ اپنی کرتوتوں کی وجہ سے اپنے مستقبل کے بارے میں خوفزدہ ہیں، یہ اپنے مظالم کو بھول سکتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ ظالموں کے ایک ایک ظلم کو اچھی طرح جانتا ہے۔ اے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان سے فرمائیں کہ جس موت سے تم بھاگتے ہو وہ تمہیں آکر رہے گی پھر تم اس ذات کے سامنے پیش کیے جاؤ گے جو پوشیدہ اور ظاہر کو جاننے والا ہے۔ وہ تمہیں بتائے گا کہ تم دنیا میں کیا کچھ کرتے رہے ہو۔ یہودیوں کا دعویٰ ہے کہ ہم اللہ کے بیٹے اور اس کے چہیتے ہیں۔ (المائدۃ: ١٨) اسی بنا پر یہودی یہ کہتے ہیں کہ ہم چند دن کے لیے جہنم میں داخل کیے جائیں گے۔ (البقرۃ: ٨٠) یہاں تک موت کی تمنا کرنے کا مسئلہ ہے نہ کوئی موت کی تمنا کرتا ہے اور نہ کسی کو کرنی چاہیے لیکن یہودیوں کو یہ بات اس لیے کہی گئی ہے کہ وہ اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کے چہیتے اور جنت کے مالک سمجھتے ہیں۔ جس شخص کو یہ یقین ہے کہ وہ اپنے رب کا چہیتا اور جنت اس کی اپنی ہے تو اسے موت سے گھبرانے کی بجائے اپنے مشن کے لیے تن من دھن کی بازی لگا دینی چاہیے۔ لیکن یہودی دنیا کی خاطر نہ صرف اپنے دین کو فروخت کرتے ہیں بلکہ اپنی عزت کا سودا کرنے سے بھی باز نہیں آتے، دنیا کی حرص کی وجہ سے ان کا اللہ اور آخرت پر حقیقی ایمان نہیں جس وجہ سے وہ سب سے زیادہ موت سے ڈرتے ہیں حالانکہ موت سے بھاگنے والا اس سے بچ نہیں سکتا اور نہ ہی وہ اپنے اعمال کو اللہ تعالیٰ سے چھپا سکتا ہے۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ ہر قسم کے غائب اور ظاہر کو جانتا ہے، وہ قیامت کے دن لوگوں کو بتلائے گا کہ جو وہ دنیا میں عمل کرتے رہے۔ (اَلَّذِیْنَ قَالُوْا لِاِخْوَانِہِمْ وَ قَعَدُوْا لَوْ اَطَاعُوْنَا مَا قُتِلُوْا قُلْ فَادْرَءُ وْا عَنْ اَنْفُسِکُمُ الْمَوْتَ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ) (آل عمران : ١٦٨) ” یہ وہ لوگ ہیں جو خود بھی بیٹھے رہے اور اپنے بھائیوں کے بارے میں کہا کہ اگر وہ ہماری بات مان لیتے تو قتل نہ کئے جاتے۔ فرما دیجئے اگر تم سچے ہو تو اپنے آپ سے موت ہٹا کر دکھاؤ۔“ (اَیْنَ مَا تَکُوْنُوْا یُدْرِکْکُّمُ الْمَوْتُ وَ لَوْ کُنْتُمْ فِیْ بُرُوْجٍ مُّشَیَّدَۃٍ۔۔) (النساء : ٧٨) ” تم جہاں کہیں بھی ہو موت تمہیں پالے گی۔ چاہے تم مضبوط قلعوں میں بند ہوجاؤ۔“ (عَنْ عَاءِشَۃَ أُمِّ الْمُؤْمِنِینَ أَنَّہَا قَالَتْ لَمَّا قَدِمَ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) الْمَدِینَۃَ وُعِکَ أَبُو بَکْرٍ وَ بلاَل (رض) قَالَت فَدَخَلْتُ عَلَیْہِمَا فَقُلْتُ یَا أَبَتِ کَیْفَ تَجِدُکَ وَیَا بلاَلُ کَیْفَ تَجِدُکَ قَالَتْ فَکَانَ أَبُو بَکْرٍ إِذَا أَخَذَتْہُ الْحُمَّی یَقُولُ کُلُّ امْرِءٍ مُصَبَّحٌ فِی أَہْلِہِ وَالْمَوْتُ أَدْنَی مِنْ شِرَاکِ نَعْلِہِ) (رواہ البخاری : باب مَا جَاءَ فِی وَبَاءِ الْمَدِینَۃِ) ” ام المؤمنین حضرت عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ وہ فرماتی ہیں کہ جب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مدینہ آئے تو حضرت ابوبکر اور بلال (رض) کو شدید بخار ہوگیا حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ میں ان کے ہاں گئی اور ان کی تیماداری کی۔ ابوبکر (رض) نے فرمایا کہ ہر انسان اپنے گھر میں صبح کرتا ہے اور موت جوتے کے تسمے سے بھی زیادہ قریب ہے۔“ (عَنْ عُبَادَۃَ بْنِ الصَّامِتِ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ مَنْ أَحَبَّ لِقَاء اللّٰہِ أَحَبَّ اللّٰہُ لِقَاءَ ہٗ وَمَنْ کَرِہَ لِقَاء اللّٰہِ کَرِہَ اللّٰہُ لِقَاءَ ہٗ قَالَتْ عَاءِشَۃُ أَوْ بَعْضُ أَزْوَاجِہٖ إِنَّا لَنَکْرَہُ الْمَوْتَ قَالَ لَیْسَ ذَاکِ وَلٰکِنَّ الْمُؤْمِنَ إِذَا حَضَرَہُ الْمَوْتُ بُشِّرَ بِرِضْوَان اللّٰہِ وَکَرَامَتِہِ فَلَیْسَ شَیْءٌ أَحَبَّ إِلَیْہِ مِمَّا أَمَامَہٗ فَأَحَبَّ لِقَاء اللّٰہِ وَأَحَبَّ اللّٰہُ لِقَاءَ ہٗ وَإِنَّ الْکَافِرَ إِذَا حُضِرَ بُشِّرَ بِعَذَاب اللّٰہِ وَعُقُوبَتِہٖ فَلَیْسَ شَیْءٌ أَکْرَہَ إِلَیْہِ مِمَّا أَمَامَہٗ کَرِہَ لِقَاء اللّٰہِ وَکَرِہَ اللّٰہُ لِقَاءَ ہٗ) (رواہ البخاری : کتاب الرقاق، باب، من أحب لقاء اللّٰہ أحَب اللّٰہ لقاء ہ) ” حضرت عبادہ بن صامت (رض) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : جو اللہ کی ملاقات کو پسند کرتا ہے اللہ اس کی ملاقات کو پسند کرتا ہے اور جو اللہ کی ملاقات کو ناپسند کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی ملاقات کو ناپسند کرتا ہے۔ حضرت عائشہ (رض) یا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بیویوں میں سے کسی ایک نے کہا کہ ہم تو موت کو ناپسند کرتے ہیں۔ آپ نے فرمایا بات یہ نہیں بلکہ بات یہ ہے کہ جب مومن کی موت کا وقت آتا ہے تو اس کو اللہ کی رضامندی اور انعام و اکرام کی بشارت دی جاتی ہے۔ اس بشارت کی وجہ سے موت اسے تمام چیزوں سے زیادہ عزیز ہوتی ہے اس وجہ سے وہ اللہ کی ملاقات کو پسند کرتا ہے اور اللہ اس کی ملاقات کو پسند کرتا ہے۔ جب کافر کی موت کا وقت آتا ہے تو اسے اللہ کے عذاب کی وعید سنائی جاتی ہے۔ یہ وعید اسے اپنے گردو پیش کی تمام چیزوں سے ناپسند ہوتی ہے اسی وجہ سے وہ اللہ کی ملاقات کو ناپسند کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ اس کی ملاقات کو ناپسند کرتا ہے۔“ مسائل ١۔ یہودیوں کا دعویٰ جھوٹا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے چہیتے ہیں۔ اپنے دعوے میں جھوٹے ہونے کی وجہ سے یہودی تمام لوگوں کی نسبت موت سے زیادہ ڈرتے ہیں۔ ٢۔ کوئی موت سے بھاگے یا نہ بھا گے موت ہر صورت اسے آلے گی۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ ہرقسم کے غائب اور ظاہر کو جانتا ہے وہ قیامت کے دن لوگوں کو بتلائے گا جو وہ دنیا میں عمل کیا کرتے تھے۔ تفسیربالقرآن موت ایک حقیقت ہے جس سے کوئی بچ نہیں سکتا : ١۔ ہر شے فنا ہوجائے گی۔ (الرحمن : ٢٦، القصص : ٨٨) ٢۔ قلعہ بند ہونے کے باوجود موت نہیں چھوڑتی۔ (النساء : ٧٨) ٣۔ موت کی جگہ اور وقت مقرر ہے۔ (الاعراف : ٣٤) ٤۔ پہلے انبیاء فوت ہوئے۔ (آل عمران : ١٤٤) ٥۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی موت سے ہمکنار ہوں گے (اور ہوئے)۔ (الزمر : ٣٠) ٦۔ موت کا وقت مقرر ہے۔ (آل عمران : ١٤٥) ٧۔ موت کی جگہ متعین ہے۔ (آل عمران : ١٥٤) ٨۔ موت کو کوئی ٹال نہیں سکتا۔ (آل عمران : ١٦٨) ٩۔ سب کو موت آنی ہے۔ (الانبیاء : ٣٥) ١٠۔ ” اللہ“ نے کسی بشر کو ہمیشہ رہنے کے لیے پیدا نہیں کیا۔ ( الانبیاء : ٣٤) الجمعة
7 الجمعة
8 الجمعة
9 فہم القرآن ربط کلام : موت کی سختیوں اور آخرت کے عذاب سے بچنے کے لیے ایمانداروں کو پانجگانہ نماز اور جمعہ کا خیال رکھنے کی تاکید کی گئی ہے۔ اے ایمان والو! جب تمہیں جمعہ کے دن نماز کے لیے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف دوڑتے ہوئے آؤ اور خریدو فروخت بند کر دو۔ اگر تم اس کی حقیقت سمجھتے ہو، تو ایسا کرنا تمہارے لیے بہت ہی بہتر ہے۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے تین ارشاد فرمائے ہیں۔ ١۔ نماز کے لیے اذان دینا : یہ فرمان بظاہر جمعہ کی نماز کے لیے ہے لیکن اس میں یہ تخصیص موجود نہیں کہ اذان صرف جمعہ کی نماز کے لیے ہی ہونی چاہیے کیونکہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہر نماز کے لیے اذان اور اقامت کہنے کا حکم دیا ہے۔ جہاں تک اذان کے الفاظ کا تعلق ہے اس کا ثبوت صرف احادیث سے ملتا ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ حدیث رسول کے بغیر قرآن مجید کو کما حقہ سمجھنا مشکل ہے۔ اس لیے جو لوگ حدیث کا انکار کرتے ہیں وہ بھی نماز کے لیے اذان دینے پر مجبور ہیں۔ ٢۔ اس آیت میں نماز جمعہ کا حکم دیا گیا ہے جس کے لیے ہر قسم کا کاروبار چھوڑ کر حاضر ہونا فرض ہے۔ نماز جمعہ کی رکعات کے بارے میں بھی احادیث ہی سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کی رکعات کتنی ہونی چاہیے اور خطبہ جمعہ کا وقت اور انداز کیا ہونا چاہیے۔ ٣۔ یہاں نماز جمعہ کو اللہ کے ذکر کے ساتھ تعبیر کیا گیا ہے۔ العنکبوت آیت ٤٥ میں نماز کے فائدے ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ یقینانماز بے حیائی اور برے کاموں سے روکتی ہے اور یہ اللہ کا بہت بڑا ذکر ہے۔ ذکر کی جامع تعریف یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے احکام کی بجا آوری کے ساتھ اس کی ذات اور صفات پر کامل یقین رکھتے ہوئے اسے دل، زبان اور عمل کے ساتھ یاد رکھا جائے۔ تمام عبادات ذکر ہی کی مختلف شکلیں ہیں۔ لیکن ان کی ادائیگی کے بعد بھی حکم دیا گیا ہے کہ اپنے رب کو کثرت کے ساتھ یاد رکھاکرو۔ (عَنْ سَلْمَانَ الْفَارِسِیِّ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَنِ اغْتَسَلَ یَوْمَ الْجُمُعَۃِ وَتَطَھَّرَ بِمَا اسْتَطَاعَ مِنْ طُھْرٍ ثُمَّ ادَّھَنَ أَوْ مَسَّ مِنْ طِیْبٍ ثُمَّ رَاحَ فَلَمْ یُفَرِّقْ بَیْنَ اثْنَیْنِ فَصَلّٰی مَاکُتِبَ لَہٗ ثُمَّ إِذَاخَرَجَ الْإِمَامُ أَنْصَتَ غُفِرَ لَہٗ مَابَیْنَہٗ وَبَیْنَ الْجُمُعَۃِ الْأُخْرٰی) (رواہ البخاری : کتاب الجمعۃ، باب لایفرق بین اثنین یوم الجمعۃ) ” حضرت سلمان فارسی (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس نے جمعہ کے دن غسل کیا اور حسب توفیق صفائی کی پھر اس نے تیل یا خوشبو لگائی پھر وہ مسجد آیا اس نے دو آدمیوں کے درمیان جدائی نہ ڈالی اور جو اس کے مقدر میں نماز ہے اسے ادا کیا پھر امام کے خطبہ کے دوران خاموش رہا۔ اس کے ایک جمعہ سے لے کر دوسرے جمعہ تک کے گناہ معاف کردیے جائیں گے۔“ (عَنْ أَبِی الْجَعْدِ الضَّمْرِیِّوَکَانَتْ لَہٗ صُحْبَۃٌ عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ مَنْ تَرَکَ ثَلَاثَ جُمَعٍ تَھَاوُنًا بِھَا طَبَعَ اللّٰہُ عَلٰی قَلْبِہٖ) (رواہ النسائی : باب التشدید فی التخلف عن الجمعۃ) ” حضرت ابو الجعد الضمری کو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رفاقت حاصل رہی وہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : جو آدمی تین جمعے سستی کی وجہ سے چھوڑ دیتا ہے اللہ رب العزت اس کے دل پر مہر لگا دیتا ہے۔“ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ أَنَّہٗ سَمِعَ رَسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَقُوْلُ نَحْنُ الْآخِرُوْنَ السَّابِقُوْنَ یَوْمَ القِیَامَۃِ بَیْدَ أَنَّھُمْ أُوْتُوا الْکِتَابَ مِنْ قَبْلِنَا ثُمَّ ھٰذَا یَوْمُھُمُ الَّذِیْ فُرِضَ عَلَیْھِمْ فَاخْتَلَفُوْا فِیْہِ فَھَدَانَا اللّٰہُ فَالنَّاسُ لَنَا فِیْہِ تَبَعٌ الْیَھُوْدُ غَدًا وَالنَّصَارٰی بَعْدَ غَدٍ) (رواہ البخاری : باب فرض الجمعۃ) ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے ہوئے سنا کہ ہم آخر میں آنے کے باوجود قیامت کے دن سب سے پہلے ہوں گے بے شک یہود ونصاریٰ ہم سے پہلے کتاب دیئے گئے ہیں ان پر ہفتہ اور اتوار کے دن کی عبادت فرض کی گئی انہوں نے اس میں اختلاف کیا۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں ہدایت سے نوازا یہودی اور عیسائی ایام کے معاملہ میں ہمارے تابع ہیں یعنی شمار کرنے میں جمعہ کا دن پہلے ہفتہ اور اتوارکے دن بعد میں آتے ہیں۔ یہود ہفتہ اور عیسائی اتوار کے دن عبادت کرتے ہیں اور ہمارے لیے جمعہ افضل قرار دیا گیا ہے۔“ (عَنْ عَاءِشَۃَ (رض) عَنِ النَّبِیِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ إِنَّمَا جُعِلَ رَمْیُ الْجِمَارِ وَالسَّعْیُ بَیْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَۃِ لإِقَامَۃِ ذِکْرِ اللَّہِ) (رواہ الترمذی : باب مَا جَاءَ کَیْفَ تُرْمَی الْجِمَارُ) ” حضرت عائشہ (رض) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتی ہیں آپ نے فرمایا رمی جمار اور صفامروہ کی سعی کو اللہ تعالیٰ کے ذکر کے لیے مقرر کیا گیا۔“ (عَنْ اَبِیْ ھُرَےْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خَےْرُ ےَوْمٍ طَلَعَتْ عَلَےْہِ الشَّمْسُ ےَوْمُ الْجُمُعَۃِ فِےْہِ خُلِقَ اٰدَمُ وَفِےْہِ اُدْخِلَ الْجَنَّۃَ وَفِےْہِ اُخْرِجَ مِنْھَا وَلَا تَقُوْمُ السَّاعَۃُ اِلَّا فِیْ ےَوْمِ الْجُمُعَۃِ) (رواہ مسلم : باب فَضْلِ یَوْمِ الْجُمُعَۃِ) ” حضرت ابوہریرۃ (رض) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان بیان کرتے ہیں کہ ایام میں سب سے بہتر دن جمعہ کا دن ہے اس دن آدم (علیہ السلام) کو پیدا کیا گیا اسی دن ان کو جنت میں داخلہ ملا اور جمعہ کو ہی ان کا جنت سے اخراج ہوا، اور اسی دن قیامت برپا ہوگی۔“ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَال الصَّلَوَاۃُ الْخَمْسُ وَالْجُمْعَۃُ إِلَی الْجُمْعَۃِ کَفَّارَۃٌ لِّمَا بَیْنَھُنَّ مَالَمْ تُغْشَ الْکَبَاءِرُ) (رواہ مسلم : باب الصلواۃ الخمس والجمعۃ إلی الجمعۃ) ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب کبیرہ گناہ کا ارتکاب نہ کیا جائے تو پانچ نمازیں اور پہلا جمعہ دوسرے جمعہ تک گناہوں کا کفارہ بن جاتا ہے۔“ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَنْ تَوَضَّأَ فَأَحْسَنَ الْوُضُوءَ، ثُمَّ أَتَی الْجُمُعَۃَ، فَاسْتَمَعَ وَأَنْصَتَ، غُفِرَ لَہُ مَا بَیْنَہُ وَبَیْنَ الْجُمُعَۃِ، وَزِیَادَۃُ ثَلَاثَۃِ أَیَّامٍ، وَمَنْ مَسَّ الْحَصَی فَقَدْ لَغَا) (صحیح مسلم، بَابُ فَضْلِ مَنِ اسْتَمَعَ وَأَنْصَتَ فِی الْخُطْبَۃِ) حضرت ابوہریرہ (رض) روایت کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا جس آدمی نے اچھے طریقہ سے وضو کیا پھر جمعہ پڑھنے آیا غور سے جمعہ سنا اور خاموش رہا اس کے اس جمعہ اور گزرے ہوئے جمعہ کے درمیان جو بھی گناہ ہوتے ہیں وہ معاف کردیے جاتے ہیں اور تین دن زیادہ کے بھی، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مزید فرمایا کہ جس شخص نے کنکری کو چھوا اس نے فضول کام کیا۔ مسائل ١۔ جمعہ اور باقی نمازوں کے لیے اذان دینا لازم ہے۔ ٢۔ جمعہ کی اذان ہو تو سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر جمعہ کے لیے حاضر ہونا چاہیے۔ ٣۔ نماز اور جمعہ اللہ کا ذکر ہے۔ تفسیر بالقرآن نماز کی فرضیت اور فضیلت : ١۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نماز کا حکم۔ (العنکبوت : ٤٥) ٢۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور نماز۔ (ابراہیم : ٣٧) ٣۔ حضرت موسیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نماز کا حکم۔ (یونس : ٨٧) ٤۔ حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کو نماز کا حکم۔ (مریم : ٣١) ٥۔ بنی اسرائیل کو نماز کا حکم۔ (البقرۃ: ٨٣) ٦۔ تمام امتوں کو اقامت صلوٰۃ کا حکم۔ (البینہ : ٥) (الحج : ٤١) الجمعة
10 فہم القرآن ربط کلام : اس سے پہلی آیت میں نماز جمعہ کے لیے کاروبار چھوڑنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اب جمعہ کے بعد کاروبار کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔ حکم ہوا کہ جب تم نماز مکمل کرلو تو اللہ کا فضل تلاش کرنے کے لیے زمین میں پھیل جاؤ اور اللہ کو کثرت سے یاد کرو تاکہ تم کامیاب ہوجاؤ۔ جب انہوں نے تجارت اور کھیل تماشا دیکھا تو اس کی طرف دوڑ پڑے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کھڑا چھوڑ دیا۔ ان سے فرمائیں کہ جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہ تمہارے کھیل، تماشے اور تجارت سے بہت بہتر ہے۔ یاد رکھو ! اللہ تعالیٰ بہتررزق دینے والا ہے۔ اس آیت میں ایک خاص واقعہ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جو اس طرح ہے کہ مدینہ کی منڈی میں دحیہ کلبی کا تجارتی قافلہ عین اس وقت پہنچا جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مسجد نبوی میں خطبہ ارشاد فرمارہے تھے۔ اس زمانے میں کوئی قافلہ مال لے کر منڈی میں آتا تو اطلاع کے لیے ڈھول یادف بجایا جاتا تھا۔ مدینہ میں اناج کی کمی پیدا ہوچکی تھی اس صورت حال میں تجارتی قافلے کے آنے پر جب ڈھول بجایا گیا تو جمعہ میں حاضر ہونے والے چند صحابہ کے سوا باقی سب ایک ایک کرکے مسجد سے نکلے اور منڈی میں پہنچ گئے۔ اللہ تعالیٰ نے اس حرکت پر گرفت کرتے ہوئے یہ فرمان نازل فرمایا کہ جب انہوں نے تجارت اور کھیل تماشا ہوتے ہوئے دیکھا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو چھوڑ کر اس کی طرف چلے گئے۔ انہیں فرمائیں کہ ان کے لیے ایسا کرنا جائز نہیں تھا کیونکہ رزق اللہ کے اختیار میں ہے اور وہ بہترین رزق دینے والاہے۔ لہٰذا جمعہ اور نماز کا وقت ہو تو لوگوں کو ہرقسم کی خرید و فروخت چھوڑ کر جمعہ اور نماز کی طرف آنا چاہیے۔ جمعہ اور نماز سے فارغ ہونے کے بعد ” اللہ“ کا فضل تلاش کرنے کے لیے زمین پر پھیل جاؤ اور اس بات پر ایمان رکھو کہ رزق دینے والا صرف ” اللہ“ ہے جو بہترین رزق دینے والا ہے، یاد رکھو کہ اس نے رزق کا ایسا بندوبست کیا ہے کہ رزق کھانے والا جہاں بھی ہو اس کا رزق وہاں پہنچا دیتا ہے، کوئی اس کے نظام میں دخل اندازی نہیں کرسکتا۔ (وَ مَا مِنْ دَآبَّۃٍ فِی الْاَرْضِ اِلَّا عَلَی اللّٰہِ رِزْقُہَا وَ یَعْلَمُ مُسْتَقَرَّہَا وَ مَسْتَوْدَعَہَا کُلٌّ فِیْ کِتٰبٍ مُّبِیْنٍ) (ہود : ٦) ” زمین میں چلنے والا کوئی جاندار نہیں مگر اس کا رزق اللہ ہی کے ذمہ ہے اور وہ اس کی قرار گاہ اور اس کے دفن کیے جانے کی جگہ کو جانتا ہے سب کچھ ایک کھلی کتاب میں درج ہے۔“ (اِِنَّ اللّٰہَ ہُوَ الرَّزَّاقُ ذو الْقُوَّۃِ الْمَتِیْنُ) (الذّاریات : ٥٨) ” یقیناً اللہ ہی رزق دینے والا، بڑی قوت والا اور زبردست ہے۔“ مسائل ١۔ جمعہ اور نماز مکمل ہونے کے بعد مسلمانوں کو اللہ کا فضل تلاش کرنا چاہیے۔ ٢۔ مسلمانوں کو کثرت کے ساتھ اللہ کا ذکر کرنا چاہیے۔ ٣۔ اللہ کا ذکر کرنے والے ہی کامیاب ہوں گے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ بہترین رزق دینے والا ہے۔ تفسیر بالقرآن رزق صرف ” اللہ“ کے اختیار میں ہے : ١۔ اللہ تعالیٰ ہی رازق ہے۔ (الذاریات : ٥٨) ٢۔ اللہ ہی رزق فراخ کرتا اور کم کرتا ہے۔ (سبا : ٣٩) ٣۔ اللہ تعالیٰ لوگوں سے رزق نہیں مانگتا بلکہ وہ لوگوں کو رزق دیتا ہے۔ (طٰہٰ : ١٣٢) ٤۔ اللہ جسے چاہتا ہے بغیر حساب کے رزق دیتا ہے۔ (البقرۃ: ٢١٢) ٥۔ اللہ تعالیٰ مہاجروں کو ضرور بہتر رزق دے گا۔ (الحج : ٥٨) ٦۔ اللہ تعالیٰ چوپاؤں اور تمام انسانوں کو رزق دیتا ہے۔ (العنکبوت : ٦٠) ٧۔ اپنی اولاد کو مفلسی کے ڈر سے قتل نہ کرو کیونکہ اللہ تمہیں اور انھیں رزق دینے والا ہے۔ (الانعام : ١٥١) الجمعة
11 الجمعة
0 سورۃ المنافقون کا تعارف المنافقون کا لفظ اس کی پہلی آیت میں موجود ہے اس کی گیارہ آیات اور دو رکوع ہیں۔ یہ سورت مدینہ طیبہ میں نازل ہوئی۔ مدینہ میں اوس اور خزرج کے نام پر انصار کے دو بڑے قبیلے تھے باقی لوگ انہیں قبیلوں کی شاخیں اور حلیف تھے۔ اوس اور خزرج کے درمیان طویل مدت تک قتل و غارت کا بازار گرم تھا جس میں سیکڑوں جانیں تلف ہوچکی تھیں۔ جب ان کی لڑائی سے لوگ تنگ آ گئے اور اوس اور خزرج بھی تھک گئے تو بالآخر ان میں صلح ہوگئی۔ اس کے بعد دونوں قبیلوں کے سربرآورہ لوگوں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ خزرج قبیلے کے عبداللہ بن ابی کو مدینے کا سربراہ بنا لیا جائے اس کے لیے اس کی تاج پوشی کی تیاریاں شروع ہو کردی گئیں، اسی مدت کے دوران حج کے موقع پر نبوت کے گیا رویں سال مدینہ طیبہ کے لوگ حج کے لیے مکہ آئے انہوں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت کے بارے میں معلومات حاصل کیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات اور دعوت کے متعلق اطمینان پانے پر وہ لوگ مسلمان ہوگئے۔ انہوں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے درخواست کی کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمارے ہاں ایک ایسا مبلغ بھیجیں جو مدینہ طیبہ میں دین اور توحید کی دعوت دے ہم اس کے ساتھ بھر پور تعاون کریں گے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے معصب بن عمیر (رض) کو ان کے ساتھ بھیجا دعوت کی کشش اور حضرت مصعب بن عمیر (رض) کی محنت سے اگلے سال حج کے موقع پر ٧٥ مسلمان نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ملے جس سے مدینہ طیبہ کے حالات یکسر تبدیل ہوگئے اور جو لوگ عبداللہ بن ابی کو اپنا سربراہ منتخب کرنے والے تھے انہوں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مدینہ آنے کی دعوت دی۔ نبوت کے تیرہویں سال آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مدینہ طیبہ تشریف لے گئے۔ مدینہ کا پہلا نام یثرب تھا آپ کی تشریف آوری اور اسلام کی بڑھتی اشاعت کی وجہ سے لوگوں نے یثرب کا نام مدینہ الرّسول رکھ دیا۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آمد سے عبداللہ بن ابی کی سر براہی ختم ہوگئی اس نے حالات کا جائزہ لیا تو مجبور ہو کر بظاہر مسلمان ہوا لیکن زندگی بھر حسد و بغض کا شکار ہوگیا۔ اس نے کوئی ایسا موقع نہیں چھوڑا کہ جب اعلانیہ یا خفیہ طور پر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مخالفت نہ کی ہو۔ حضرت عائشہ (رض) پر الزام لگانے میں یہ شخص پیش پیش تھا، اس نے منافقوں کو منظم کرنے کے لیے مدینہ میں مسجد ضرار کی بنیاد رکھی جسے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے مسمار کردیا۔ تبوک کے محاظ سے واپسی پر اس کے ساتھیوں نے رات کے اندھیرے میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر حملہ کرنے کی کوشش کی جس سے آپ محفوظ رہے۔ اسی سفر میں واپسی پر ایک صحابی اور منافق کے درمیان کسی معاملے پر تکرار ہوئی جسے دوسرے ساتھیوں نے موقعہ پر رفع دفع کردیا۔ لیکن عبداللہ بن ابی نے اسے اچھالتے ہوئے کہا کہ فکر نہ کرو ہم مدینہ جا کر ذلیل لوگوں کو نکال دیں گے جس کی تفصیل اس سورت کی آٹھویں آیت میں ذکر کی گئی ہے عبداللہ بن ابی اور اس کے ساتھیوں کو جب بھی احساس دلایا جاتا کہ تمہیں ان حرکتوں سے باز آنا چاہیے اور اپنے کیے پر معذرت کرنی چاہیے تو وہ جھوٹی قسمیں اٹھا کر اپنی صفائی پیش کرتا اور ایک موقعہ پر اس نے یہاں تک ہرزہ سہرائی کی کہ مجھے سب کچھ منظور ہے لیکن میں نبی سے معذرت نہیں کروں گا۔ المنافقون
1 فہم القرآن ربط سورت : اللہ اور اس کے رسول کے مقابلے میں دنیا کے معاملات اور فائدے کو مقدم سمجھنا عملی طور پر منافقت کرنے کے برابر ہے۔ اس لیے سورۃ جمعہ کے بعد سورۃ منافقون رکھی گئی ہے تاکہ مسلمانوں کو ہر قسم کی منافقت سے بچنے کی تعلیم دی جائے۔ اللہ تعالیٰ کے نزدیک منافق اس قدر برا ہے کہ اس کے کلمہ پڑھنے پر بھی اعتبار نہیں کیا جا سکتا۔ فہم القرآن کے دو مقامات پر یہ بات بیان ہوچکی ہے کہ منافق کا لفظ نفق سے نکلا ہے۔ نَفق چوہے یا لومڑ کی ایسی بل کو کہتے ہیں جس کے دوراستے ہوں۔ منافق اپنے گفتار اور کر دار کے لحاظ سے دوغلا ہوتا ہے جس وجہ سے اسے منافق کہا جاتا ہے منافق اپنی زبان سے وہ دعویٰ کرتا ہے جس پر اس کا اعتقاد اور ایمان نہیں ہوتا۔ اسی لیے قرآن مجید نے منافق کے ایمان اور اس کی گواہی کی تردید کی ہے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دور میں منافقوں کی یہ حالت تھی کہ جب مسلمانوں کے پاس آتے تو اپنے ایمان کا اظہار کرتے اور جب اپنے بڑوں کے پاس جاتے تو ان کے ساتھی بن جاتے تھے۔ (وَ اِذَا لَقُوا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قَالُوْٓا اٰمَنَّا وَ اِذَا خَلَوْا اِلٰی شَیٰطِیْنِہِمْ قَالُوْٓا اِنَّا مَعَکُمْ اِنَّمَا نَحْنُ مُسْتَہْزِءُ وْنَ) (البقرۃ: ١٤) ” جب منافق ایمان والوں سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم ایمان دار ہیں اور جب اپنے بڑوں کے پاس جاتے ہیں تو کہتے ہیں کہ بلا شک ہم تمہارے ساتھ ہیں ہم تو مسلمانوں کے ساتھ مذاق کرتے ہیں۔“ منافقین کے جھوٹا ہونے کی وجہ سے ان کے ایمان کی تردید کی جارہی ہے کہ اے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! جب منافق آپ کے پاس آتے ہیں تو اس بات کی شہادت دیتے ہیں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ جانتا ہے کہ ہاں آپ اس کے رسول ہیں لیکن اللہ تعالیٰ اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ منافق اپنی بات میں جھوٹے ہیں۔ منافقین کے جھوٹے ہونے کی دلیل یہ ہے کہ وہ سمع و اطاعت میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو رسول نہیں مانتے۔ البتہ محض دنیا کے فائدے کی خاطر آپ کی نبوت کی شہادت دیتے ہیں۔ یادرہے! کہ ایمان میں تین باتوں کا ہونا ضروری ہے ان میں کوئی ایک بات نہ ہو تو انسان منافق ہوگا یا پھر کافر۔ کافر اور منافق میں فرق یہ ہے کہ کافر کھلے بندو اپنے کفر کا اظہار کرتا ہے اور منافق اپنے کفر کو چھپاتا ہے۔ (عَنِ ابْنِ عُمَرَ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ مَثَلُ الْمُنَافِقِ کَمَثَلِ الشَّاۃِ الْعَاءِرَۃِ بَیْنَ الْغَنَمَیْنِ تَعِیْرُإِ لٰی ھٰذِہٖ مَرَّۃً وَ إِلٰی ھٰذِہٖ مَرَّۃً) (رواہ مسلم : کتاب صفات المنافقین وأَحکامھم ) ” حضرت عبداللہ بن عمر (رض) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں آپ نے فرمایا : منافق کی مثال اس بکری کی طرح ہے جو دو ریوڑوں کے درمیان پھرتی ہے کبھی ایک ریوڑکی طرف جاتی ہے کبھی دوسرے کی طرف۔“ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ آیَۃُ الْمُنَافِقِ ثَلاَثٌ إِذَا حَدَّثَ کَذَبَ، وَإِذَا وَعَدَ أَخْلَفَ، وَإِذَا اؤْتُمِنَ خَانَ) (رواہ البخاری : باب علامۃ المنافق) ” حضرت ابوہریرہ (رض) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں۔ آپ نے فرمایا منافق کی تین نشانیاں ہیں، جب بات کرتا ہے تو جھوٹ بولتا ہے، وعدہ کرتا ہے تو وعدہ خلافی کرتا ہے اور جب اس کے پاس امانت رکھی جاتی ہے تو خیانت کرتا ہے۔“ مسائل ١۔ منافق اپنی زبان سے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت کی شہادت دیتے تھے لیکن دل میں آپ کی رسالت کے منکر تھے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے نہ صرف آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نبی اور رسول بنایا بلکہ آپ کی رسالت کی شہادت بھی دی ہے۔ ٣۔ منافق اپنے ایمان کے دعوے میں جھوٹا ہوتا ہے۔ تفسیر بالقرآن منافق کی عادات کا مختصر بیان : ١۔ منافق دعویٰ ایمان کے باوجود ایمان دار نہیں ہوتا۔ ( البقرۃ: ٨) ٢۔ منافق نماز بھی دھوکہ دینے کے لیے پڑھتے ہیں۔ ( النساء : ١٤٢) ٣۔ اللہ گواہی دیتا ہے کہ منافق ایمان کے دعویٰ میں جھوٹے ہیں۔ ( المنافقون : ١) ٤۔ منافقین نے ایمان کا اظہار کرنے کے باوجود کفر اختیار کیے رکھتے ہیں۔ ( المنافقون : ٣) ٥۔ منافق اپنے ایمان کے بارے میں جھوٹی قسمیں اٹھاتے ہیں۔ ( التوبہ : ٥٦) ٦۔ منافق اللہ اور مومنوں کو دھوکہ دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ ( البقرۃ: ٩) ( المنافقون : ١) المنافقون
2 فہم القرآن ربط کلام : منافق صرف جھوٹ نہیں بولتا بلکہ جھوٹی قسمیں بھی اٹھاتا ہے۔ منافق دنیا کے فائدے کی خاطر منافقت اختیار کرتا ہے۔ جب اسے کسی نقصان یا اپنی بے عزتی کا خطرہ محسوس ہو تو اس سے بچنے کے لیے جھوٹی قسم اٹھانے سے بھی دریغ نہیں کرتا۔ اس طرح وہ اللہ کے نام کو ڈھال کے طور پر استعمال کرتا ہے۔ منافق نہ صرف خود صراط مستقیم سے ہٹ جاتا ہے بلکہ دوسروں کو بھی سیدھے راستے سے روکتا ہے۔ منافق کا جھوٹی قسمیں کھانا اور لوگوں کو ” اللہ“ کی راہ سے روکنا بدترین عمل ہے کیونکہ منافق دنیا کے فائدے کی خاطر ایسا کرتا ہے اس لیے اسے فائدہ نظر آئے تو وہ اپنے ایمان کا اظہار کرتا اور بظاہر مسلمانوں جیسا کردار اختیار کرتا ہے، جب اسے اللہ کی راہ میں نقصان اٹھانا پڑے تو کفار جیسا کردار پیش کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے برے کردار کی وجہ سے ان کے دلوں پر مہریں ثبت کردی ہیں جس وجہ سے وہ حقیقت کو سمجھ نہیں سکتے۔ (صُمٌّ بُکْمٌ عُمْیٌ فَہُمْ لَا یَرْجِعُوْنَ) (البقرۃ: ١٨) ” بہرے، گونگے، اندھے ہیں پس وہ نہیں پلٹتے۔“ مسائل ١۔ منافق اپنی قسموں کو ڈھال کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ ٢۔ منافق خود اللہ کے راستے سے ہٹے ہوتے ہیں ا ورلوگوں کو بھی اللہ کے راستے سے روکتے ہیں۔ ٣۔ منافق کے برے کردار اور اخلاق کی وجہ سے اللہ تعالیٰ اس کے دل پر مہر لگا دیتا ہے۔ ٤۔ منافق دنیا کے فائدے کی خاطر ایمان اور اسلام کی حقیقت کو سمجھنے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ المنافقون
3 المنافقون
4 فہم القرآن ربط کلام : منافقوں کی گفتگو کا انداز۔ منافق کی نیّت میں فطور اور اس کے کردار میں جھول ہوتی ہے۔ اس لیے اسے اپنی گفتگو میں تصنّع اور تکلّف اختیار کرنا پڑتا ہے تاکہ اس کی بات سننے والے کو اس کے کردار کا جھول اور نیت کے فطور کا علم نہ ہوسکے۔ اسی وجہ سے مدینہ کے منافق جب نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوتے تو اس طرح تکلّف اور لجاجت کے ساتھ گفتگو کرتے کہ سننے والے کو خواہ مخواہ ان کی طرف متوجہ ہونا پڑتا۔ مدینہ کے منافقین میں سے عبداللہ بن ابی اور کچھ منافق ظاہری تشخص ( PERSONALITY) کے اعتبار سے بھی ایک معقول آدمی نظر آتے تھے۔ اس لیے کچھ مسلمان ان کے ظاہری تشخص اور گفتگو سے متاثر ہوجایا کرتے تھے۔ منافقین کی منافقت واضح کرنے اور ان سے مسلمانوں کو بچانے کے لیے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مخاطب کیا گیا ہے۔ تاکہ مسلمانوں کو معلوم ہو کہ منافقین اپنی پُر تکلف گفتگو اور شخصیت سے نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو متاثر کرنے کی بھی کوشش کرتے ہیں۔ ارشاد ہوا کہ جب آپ ان کے وجود کو دیکھتے ہیں تو ان کا رہن سہن اور شان بان سے آپ کو تعجب ہوتا ہے اور جب وہ آپ کے سامنے اپنا مؤقف پیش کرتے ہیں تو آپ اس کو توجہ سے سنتے ہیں حالانکہ یہ آپ کی مجلس میں بیٹھتے ہیں تو ان کی حالت اس لکڑی کی مانند ہوتی ہے جسے دیوارکے ساتھ کھڑا کیا گیا ہو۔ یعنی یہ جان بوجھ کر آپ کے سامنے اس طرح بیٹھتے جس سے ان کی بے نیازی اور لاپرواہی ظاہر ہوتی تھی۔ ان کے دل کی کیفیت یہ ہے کہ ہر وقت اس خوف میں مبتلا رہتے ہیں کہ کہیں سے ایسی آواز سنائی نہ دے جس سے ان کی گفتار اور کردار کا پول کھل جائے اور ان پر عتاب نازل ہو، یہ دین کے دشمن اور مسلمانوں کی آستینوں کے سانپ ہیں۔ اللہ انہیں ہلاک کرے یہ کہاں بہکے پھرتے ہیں۔ اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو براہ راست مخاطب کرتے ہوئے منافقین کی مزید عادات سے آگاہ فرمایا۔ ١۔ دیکھنے میں عبداللہ بن اُ بی اور اس کے کچھ ساتھی بڑے سنجیدہ اور معزز نظر آتے تھے لیکن نیت، اخلاق اور کردار کے لحاظ سے بڑے گھٹیا تھے۔ اس لیے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہر حال میں ان سے بچنے کی تلقین کی گئی کیونکہ یہ دین اور مسلمانوں کے دشمن تھے جب آپ کے سامنے بیٹھتے تو یہ تاثر دینے کی کوشش کرتے کہ وہ آپ کی گفتگو کو نہ صرف توجہ سے سنتے ہیں بلکہ اس کا اثر بھی قبول کرتے ہیں حالانکہ ان کی حقیقت یہ تھی کہ جس طرح ایک لکڑی دیوار کے ساتھ لگی ہوئی ہو یہی کیفیت منافقین کی تھی۔ وہ دیوار کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھتے اور آپ کی گفتگو سے متاثر ہونے کا جعلی تاثر دیتے تھے۔ ٢۔ منافقین کی حالت یہ ہے کہ مدینہ میں کوئی چھوٹا بڑا واقعہ ہوجائے تو وہ اپنی جگہ پر خوف زدہ ہوجاتے ہیں۔ اس وجہ سے کہ کہیں ان کی سازش اور شرارت بے نقاب نہ ہوجائے۔ گویا کہ یہ دل کے قرار اور طبیعت کے سکون سے محروم ہوچکے ہیں جس وجہ سے ہر وقت اپنے کیے پر خوف میں مبتلا رہتے ہیں۔ جسے قرآن مجید نے دوسرے الفاظ میں یوں بیان کیا ہے۔ (وَ یَمُدُّ ہُمْ فِیْ طُغْیَانِہِمْ یَعْمَہُوْن) (البقرۃ: ١٥) ” یہ اپنی نافرمانیوں میں پریشان رہتے ہیں۔“ ٣۔ اللہ تعالیٰ نے ان منافقین کے لیے ” قَاتَلَہُمُ اللّٰہُ“ کے الفاظ استعمال کیے ہیں کہ ” اللہ“ انہیں ہلاک کرے۔ عربی زبان میں یہ الفاظ بددعا اور کسی سے نفرت دلانے کے لیے بھی استعمال ہوتے ہیں۔ یہ الفاظ یہاں انہی معنوں میں استعمال ہوئے ہیں۔ مسائل ١۔ بعض منافق اور کافر دیکھنے میں بڑے سنجیدہ اور سیدھے سادھے اور بھولے بھالے نظر آتے ہیں۔ ٢۔ منافق اپنی نیت کے فطور اور برے کردار کو اپنی گفتگو سے چھپایا کرتا ہے۔ ٣۔ منافق دین اور مسلمانوں کا دشمن ہوتا ہے اس لیے اس سے بچ کر رہنا چاہیے۔ ٤۔ منافق اپنے کردار کی وجہ سے ہر وقت خوف میں مبتلا رہتا ہے۔ منافق کی نشانیاں جاننے کے لیے صفحہ ١٢١ دیکھیں! المنافقون
5 فہم القرآن ربط کلام : منافقین کی ہٹ دھرمی کی انتہا۔ منافقت ایسا نقص اور عیب ہے کہ جو زیادہ دیرتک چھپ نہیں سکتا۔ جب مدینہ کے منافقین کی منافقت ظاہر ہوگی تو ان کے عزیز و اقرباء میں مخلص مسلمانوں نے انہیں سمجھایا کہ آئندہ اس حرکت سے توبہ کرو اور اپنی غلطیوں کی نبی محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے معذرت کرلو۔ منافقین نے کھلے الفاظ میں کہا کہ ہمیں کسی سے معافی مانگنے کی ضرورت نہیں۔ ایسے ہی موقع پر عبداللہ بن ابی کو مسلمانوں نے سمجھایا کہ آؤ اللہ کے رسول سے درخواست کرتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تیرے لیے اللہ سے استغفار کریں۔ عبداللہ بن ابی نے بڑی نخوت کے ساتھ جواب دیا کہ تم لوگوں نے مجھے اس پر ایمان لانے کی دعوت دی، میں اس پر ایمان لے آیا۔ تم نے نماز کے لیے کہا تو میں نے نماز پڑھنا شروع کردی، تم نے زکوٰہ اور صدقہ و خیرات کے لیے کہا تو میں نے صدقہ کیا اور زکوٰۃ دی۔ اب کہتے ہو کہ میں اس سے معافی مانگوں یہ مجھ سے نہیں ہو سکتا۔ یہی حالت دوسرے منافقین کی تھی جب انہیں یہ بات کہی جاتی کہ اگر تم توبہ کرو اور اللہ کے رسول سے اپنے لیے استغفار کی درخواست کرو تو وہ پوری رعونت سے سر ہلاتے ہوئے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آنے سے انکار کرتے اور لوگوں کو اللہ کے راستے سے روکتے تھے۔ ان کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے اللہ کے رسول کو بتلایا گیا کہ آپ ان کے لیے معافی مانگیں یا نہ مانگیں اللہ تعالیٰ انہیں ہرگز معاف نہیں کرے گا۔ کیونکہ ” اللہ“ اس قسم کے نافرمانوں کو ہدایت نہیں دیا کرتا۔ (اِسْتَغْفِرْلَہُمْ اَوْ لَا تَسْتَغْفِرْلَہُمْ اِنْ تَسْتَغْفِرْلَہُمْ سَبْعِیْنَ مَرَّۃً فَلَنْ یَّغْفِرَ اللّٰہُ لَہُمْ ذٰلِکَ بِاَنَّہُمْ کَفَرُوْا باللّٰہِ وَ رَسُوْلِہٖ وَ اللّٰہُ لَا یَہْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَ) (التوبۃ: ٨٠) ” ان کے لیے بخشش مانگیں یا نہ مانگیں اگر آپ ان کے لیے ستر بار بخشش کی دعا کریں گے تب بھی اللہ انہیں معاف نہیں کرے گا، کیونکہ انہوں نے اللہ اور اس کے رسول کا انکار کیا اور اللہ نافرمان لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔“ ” حضرت عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں جب عبداللہ بن ابی فوت ہوا اس کا بیٹا عبداللہ بن عبداللہ بن ابی رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اس نے آپ سے قمیض کا مطالبہ کیا کہ اس میں اس کے والد کو کفن دیا جائے۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے قمیض عنایت کردی۔ پھر اس نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نماز جنازہ پڑھانے کی درخواست کی۔ جب رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نماز جنازہ کے لیے کھڑے ہوئے تو حضرت عمر (رض) نے رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے کپڑے کو پکڑکرعرض کی اے اللہ کے رسول! کیا آپ اس کی نماز جنازہ پڑھائیں گے جبکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو منع کیا ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے مجھے اختیار دیا ہے کہ آپ ان کے لیے استغفار کریں یا نہ کریں اگر آپ ان کے لیے ستر مرتبہ استغفار کریں میں ستر مرتبہ سے بھی زیادہ استغفار کروں گا۔ حضرت عمر (رض) نے کہا یہ تو منافق ہے۔ پھر رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کی نماز پڑھائی۔ تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت مبارکہ نازل فرمائی ” آپ منافقوں میں سے کسی پر بھی نماز نہ پڑھائیں اور نہ ہی اس کی قبر پر کھڑے ہوں۔“ ( رواہ البخاری : کتاب تفسیر القران ) مسائل ١۔ منافقین اپنی منافقت اور تکبر کی بنا پر استغفار کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو منافقین کے حق میں استغفار کرنے سے روک دیا تھا۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ ہٹ دھرم شخص کو ہدایت نہیں دیتا۔ تفسیر بالقرآن منافقین کا انجام : ١۔ اللہ تعالیٰ نے منافقین کے ساتھ جہاد کرنے اور ان پر سختی کرنے کا حکم دیا ہے۔ (التوبہ : ٧٣) ٢۔ منافق کے لیے دردناک عذاب ہوگا۔ (البقرۃ: ١٠) ٣۔” اللہ“ کے نزدیک منافق لعنتی ہیں۔ (الاحزاب : ٦١) ٤۔ منافق جہنم کے نچلے گڑھے میں ہوں گے اور ان کا کوئی مددگار نہیں ہوگا۔ (النساء : ١٤٥) ٥۔ منافق جہنم میں ہمیشہ رہیں گے اور ان پر اللہ تعالیٰ کی لعنت برستی رہے گی۔ (التوبہ : ٦٨) ٦۔ منافق جہنم کے سب سے نچلے درجے میں ہوں گے۔ (النساء : ١٤٥) ٧۔ اے نبی منافقین اور کفار کے ساتھ سختی کے ساتھ سے جہاد کرو۔ ( التحریم : ٩) المنافقون
6 المنافقون
7 فہم القرآن ربط کلام : منافقین کی ہرزہ سرائی۔ غزوہ تبوک سے واپسی پر راستے میں ایک مقام پر صحابہ کرام (رض) نے پڑاؤ ڈالا تو کنویں سے پانی لیتے ہوئے ایک مہاجر اور انصار کے درمیان تکرار ہوگی۔ مہاجر نے انصار کو لات ماری اس بات کا عبداللہ بن ابی کو علم ہوا تو اس نے انصار کو طعنہ دیتے ہوئے کہا کہ یہ تمہارا ہی کیا دھرا ہے، جنہیں ان کی قوم نے اپنے شہر سے نکال دیا تم نے ان کو مدینہ میں ہر چیز مہیا کی اور آج وہ ہم پر سرداری کر رہے ہیں اگر ان سے نجات پانا چاہتے ہو تو ان کے ساتھ کسی قسم کا تعاون نہ کرو یہ لوگ بھوک سے تنگ آکر خود بھاگ جائیں گے۔ اس کے ساتھ اس نے یہ بھی کہا کہ جونہی ہم مدینہ واپس جائیں گے توعزت والا ذلیل شخص کو نکال دے گا۔ اللہ تعالیٰ نے منافقین کی ہرزہ سرائی پر اتنباہ کرتے ہوئے انہیں دوباتیں ارشاد فرمائیں کہ زمین و آسمانوں کے خزانے صرف اللہ کے ہاتھ میں ہیں لیکن منافق لوگ اس حقیقت کو سمجھنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ انہیں یہ بھی معلوم نہیں کہ عزت اللہ اور اس کے رسول اور مومنوں کے لیے ہے۔ لیکن منافق اس حقیقت کو نہیں جانتے کہ اللہ ہی عزت کا مالک ہے اور اسی نے اپنے رسول کو عزت سے سرفراز فرمایا ہے اور وہی مومنوں کو عزت دینے والا ہے۔ خاکم بدھن عبداللہ بن ابی نے مسلمانوں اور اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ذلیل کہا تھا۔ اس کے بیٹے جس کا نام بھی عبداللہ تھا اور وہ مخلص مسلمان تھا اس بات کا علم ہوا تو مدینہ پہنچنے پر وہ اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کرتا ہے کہ اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! میرے علم میں یہ بات آئی ہے کہ آپ نے میرے والد کو ان کی سازشوں اور شرارتوں کی وجہ سے قتل کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے کسی اور کو حکم دینے کی بجائے آپ مجھے حکم دیں کہ میں اسے اپنے ہاتھوں قتل کروں۔ تاکہ کسی کے قتل کرنے پر میرے دل میں کوئی رنجش پیدا نہ ہو۔ اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ہم نے اسے قتل کرنے کا فیصلہ نہیں کیا۔ عبداللہ بن ابی کی ہرزہ سرائی کا حضرت عمر کو علم ہوا تو انہوں نے بھی اسے قتل کرنے کی اجازت چاہی لیکن نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ کہہ کر روک دیا کہ لوگ کہیں گے کہ (أَنَّ مُحَمَّدًا یَقْتُلُ أَصْحَابَہُ) (رواہ البخاری : باب قَوْلِہِ (سَوَاءٌ عَلَیْہِمْ أَسْتَغْفَرْتَ لَہُمْ أَمْ لَمْ تَسْتَغْفِرْ لَہُمْ) ” محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اللہ نے قوت عطا فرمائی ہے تو اس نے اپنے ساتھیوں کو قتل کرنا شروع کردیا ہے۔“ مسائل ١۔ کسی کی ہرزہ سرائی یا مذموم کوشش سے دوسرے کا رزق کم نہیں ہوتا۔ ٢۔ زمین و آسمانوں کے خزانے ” اللہ“ ہی کے پاس ہیں۔ ٣۔ اللہ ہی عزت دینے والا ہے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول اور صحابہ کو عزت سے سرفراز فرمایا تھا۔ ٥۔ منافق حقیقی سمجھ سے عاری ہوتا ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ ہی عزت اور ذلت دینے والا ہے : ١۔ عزت اللہ کے پاس ہے۔ (فاطر : ١٠) ٢۔ عزت اللہ، اس کے رسول اور مومنوں کے لیے ہے۔ (المنافقون : ٨) ٣۔ اللہ جسے چاہتا ہے عزت دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے ذلیل کرتا ہے۔ (آل عمران : ٢٦) ٤۔ جسے اللہ رسوا کرے اسے کوئی عزت نہیں دے سکتا۔ (الحج : ١٨) ٥۔ ہر قسم کی عزت اللہ کے لیے ہے وہ ہر بات سننے اور جاننے والا ہے۔ (یونس : ٦٥) ٦۔ کیا اللہ کے علاوہ عزت تلاش کرتے ہوحالانکہ ہر قسم کی عزت اللہ ہی کے پاس ہے۔ (النساء : ١٣٩) ٧۔ اللہ نے بنی اسرائیل کو نبوت، کتاب، حکومت، رزق اور دنیا بھر میں عزت دی۔ (الجاثیہ : ١٦) ٨۔ اللہ ہی لوگوں کو ایک دوسرے پر فضیلت دینے والا ہے۔ (آل عمران : ٢٦) المنافقون
8 المنافقون
9 فہم القرآن ربط کلام : منافق اولاد اور مال کی خاطر منافقت اختیار کرتا ہے جس سے ایماندار لوگوں کو منع گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کے لیے جن چیزوں کو آزمائش قرار دیا ہے ان میں سر فہرست اولاد اور مال ہے۔ ان چیزوں کا ذکر کرتے ہوئے اکثر مقامات پر مال کا پہلے ذکر کیا ہے۔ بے شمار لوگ مال کی خاطر اپنا ایمان اور عزت برباد کرلیتے ہیں اور اولادکی محبت میں ماں باپ وہ کچھ کرجاتے ہیں جس کے کرنے کی شریعت نے انہیں اجازت نہیں دی۔ مال اور اولاد کی آزمائش سے بچ کر زندگی بسر کرنا مومن کے لیے لازم ہے۔ اس لیے مومنوں کو حکم دیا جارہا ہے کہ اے ایمان کا دعویٰ کرنے والو! تمہیں تمہارے مال اور اولاد اللہ کے ذکر سے غافل نہ کردیں، جنہوں نے اللہ کے ذکر سے غفلت اختیار کی وہ لوگ خسارہ پانے والے ہیں۔ اللہ کے ذکر سے غفلت کی کئی صورتیں ہیں۔ ” اللہ“ کی ذات کو اس طرح وحدہٗ لاشریک نہ ماننا جس طرح اس نے ماننے کا حکم دیا ہے۔ اس کے احکام کا انکار کرنا، اس کی مقرر کردہ عبادات سے تغافل کرنا اور اس کے ذکرسے غفلت اختیار کرنا ہے، جو لوگ ان صورتوں میں سے کسی ایک صورت میں غفلت کریں گے وہ دنیا اور آخرت میں نقصان پائیں گے۔ ذکر کا جامع مفہوم یہ ہے کہ مسلمان ہر حال میں ” اللہ“ کی ذات اور فرمان کا خیال رکھے۔ ” اور جو میرے ذکر سے منہ موڑے گا اس کے لیے دنیا میں تنگ زندگی ہوگی اور قیامت کے دن ہم اسے اندھا کرکے اٹھائیں گے۔“ (طٰہٰ: ١٢٤) (عَنْ أَبِی مُوسٰی (رض) قَالَ قَال النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَثَلُ الَّذِی یَذْکُرُ رَبَّہٗ وَالَّذِی لَا یَذْکُرُ رَبَّہٗ مَثَلُ الْحَیِّ وَالْمَیِّتِ) ( رواہ البخاری : کتاب الدعوات، باب فضل ذکر اللہ عزوجل) ” حضرت ابو موسیٰ (رض) بیان کرتے ہیں نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ کا ذکر کرنے اور نہ کرنے والے کی مثال زندہ اور مردہ کی طرح ہے۔“ یعنی جو ذکر کرتا ہے وہ زندہ ہے جو ذکر نہیں کرتا وہ مردہ ہے۔ ( رواہ البخاری : کتاب الدعوات) مسائل ١۔ ایمانداروں کو اپنی اولاد اور مال کی وجہ سے اللہ کے ذکر سے غافل نہیں ہونا چاہیے۔ ٢۔ جو لوگ اللہ کے ذکر سے غافل ہوں گے وہ دنیا اور آخرت میں نقصان پائیں گے۔ المنافقون
10 فہم القرآن ربط کلام : مال کی محبت سے بچنے کا بہترین طریقہ۔ انسان کی کمزوریوں میں ایک کمزوری یہ ہے کہ انسان زندگی بھر مال کی محبت میں سرگرداں رہتا ہے۔ حد سے زیادہ مال کی حرص سے بچنے کا طریقہ یہ ہے کہ انسان اسے اللہ کے راستے میں خرچ کرتارہے قبل اس کے کہ اسے موت آجائے اور یہ اپنے رب سے آرزو کرے کہ میرے رب! تو نے مجھے تھوڑی سی اور مہلت کیوں نہ دی تاکہ میں تیرے راستے میں مال خرچ کرتا اور نیک لوگوں میں شمار ہوتا، لیکن اس وقت کسی انسان کو نہ مہلت دی گئی ہے اور نہ دی جائے گی کیونکہ جب کسی شخض کی موت کا وقت آجاتا ہے تو اس میں ایک لمحہ بھی تقدیم و تاخیر نہیں کی جاتی۔ لوگ جو بھی عمل کرتے ہیں اللہ تعالیٰ اس سے پوری طرح باخبر ہے۔ ” خَبِیْرٌ“ کے لفظ میں یہ مفہوم بھی شامل ہے کہ اللہ تعالیٰ جانتا ہے اگر ان لوگوں کو مہلت دے دی جائے تو پھر بھی اسی طرح بخل کا مظاہرہ کریں گے جس طرح زندگی بھر کرتے رہے ہیں۔ (بَلْ بَدَالَہُمْ مَّا کَانُوْا یُخْفُوْنَ مِنْ قَبْلُ وَ لَوْ رُدُّوْا لَعَادُوْا لِمَانُہُوْا عَنْہُ وَ اِنَّہُمْ لَکٰذِبُوْنَ) (الانعام : ٢٨) ” بلکہ ان کے لیے ظاہر ہوگیا جو وہ اس سے پہلے چھپاتے تھے اور اگر انہیں واپس بھیج دیا جائے تو ضرور پھر وہی کریں گے جس سے انہیں منع کیا گیا تھا اور بلاشبہ وہ یقیناً جھوٹے ہیں۔“ (عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ (رض) قَالَ کَانَ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَتَعَوَّذُ یَقُولُ ” اللّٰہُمَّ إِنِّی أَعُوذُ بِکَ مِنَ الْکَسَلِ وَأَعُوذُ بِکَ مِنَ الْجُبْنِ وَأَعُوذُ بِکَ مِنَ الْہَرَمِ وَأَعُوذُ بِکَ مِنَ الْبُخْلِ“ ) (رواہ البخاری : کتاب الدعوات، باب التعوذ من أرذل العمر) ” حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ تعالیٰ سے پناہ مانگتے ہوئے یہ دعا کیا کرتے تھے اے اللہ میں سستی، بزدلی، ناکارہ پن بڑھاپے اور بخل سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔“ ” حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ مدینہ میں ابو طلحہ (رض) انصار میں سب سے زیادہ کھجوروں کے مالک تھے۔ باغات میں بیرحاء نامی باغ ان کا سب سے بہترین باغ تھا۔ جو مسجد کے سامنے تھا نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس میں جاتے اور وہاں سے پانی پیا کرتے تھے جب آیت (لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰی تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ) نازل ہوئی۔ حضرت ابو طلحہ (رض) رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کرتے ہیں : اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ جب تک تم اپنی محبوب ترین چیز خرچ نہ کرو کبھی نیکی تک نہ پہنچ سکو گے۔ یقینامیرے پاس ” بیرحاء“ کا باغ ہے جو پوری جائیداد میں میرے نزدیک قیمتی اور عزیز ہے میں اس کے بدلے اللہ کے ہاں نیکی اور آخرت کے خزانے کا خواہشمند ہوں لہٰذا آپ اسے جہاں چاہیں استعمال کریں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس جذبہ کی تحسین کرتے ہوئے فرمایا : یہ مال بڑا نفع بخش ہے یہ مال بڑا فائدہ مند ہے جو تم نے کہا میں نے سن لیا۔ تم اسے اپنے قریبی رشتہ داروں میں تقسیم کردو۔ چنانچہ حضرت ابو طلحہ (رض) نے باغ اپنے چچا زاد بھائیوں اور عزیزوں میں تقسیم کردیا۔“ (رواہ البخاری : کتاب تفسیر القرآن، باب لن تنالوا البرحتی تنفقوا مما تحبون) مسائل ١۔ ہر مسلمان کو اپنی موت سے پہلے دل کھول کر اللہ کے راستے میں خرچ کرنا چاہیے۔ ٢۔ موت کے وقت کسی شخص کو ایک لمحہ بھی مہلت نہیں دی جاتی۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ ہر کسی کے عمل سے باخبر ہوتا ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کا حکم اور اس کے فوائد : ١۔ ” اللہ“ کی رضا کے لیے خرچ کرنے والوں کی مثال سدا بہار باغ جیسی ہے۔ (البقرۃ: ٢٦٥) ٢۔ ” اللہ“ کی رضا کے لیے خرچ کرنے والے کو پورا پورا اجر ملے گا۔ (البقرۃ: ٢٧٢) ٣۔ ” اللہ“ کی رضا کے لیے کیے گئے کام کابڑا اجر ہے۔ (النساء : ١١٤) ٤۔ ” اللہ“ کی رضا چاہنے والوں کا انجام بہترین ہوگا۔ (الرعد : ٢٢) ٥۔ مخلص حضرات لوگوں کی خدمت کرتے ہوئے ان کے شکریہ اور جزا سے بے نیاز ہوتے ہیں۔ (الدھر : ٩ المنافقون
11 المنافقون
0 سورۃ التغابن کا تعارف سورت التغابن کا نام اس کی نویں (٩) آیت میں موجود ہے یہ مدینہ منورہ میں نازل ہوئی اس کی اٹھارہ آیات اور دو رکوع ہیں۔ یہ سورت بھی ان سورتوں میں شامل ہے جنہیں مسبّحات کہا جاتا ہے اس کی ابتدا میں بتلایا گیا ہے کہ زمین و آسمانوں کی ہر چیز اللہ تعالیٰ کی تسبیح کرتی ہے اور اس بات کا اقرار کرتی ہے کہ زمین و آسمانوں کی بادشاہی اللہ ہی کے لیے ہے وہ بڑا قابل تعریف اور ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے۔ یہ اس کی قدرت کا نمونہ ہے کہ اس نے کھرب ہا انسان پیدا کیے جن میں کوئی کافر ہے اور کوئی ایمان لانے والا ہے۔ اس نے زمین و آسمانوں کو خاص مقصد کے لیے پیدا فرمایا اور وہی لوگوں کی بہترین شکل وصورت بناتا ہے، بالآخر سب نے اسی کی طرف پلٹ کر جانا ہے۔ وہ زمین و آسمانوں کی ہر چیز سے واقف ہے۔ وہ جانتا ہے جس بات کو لوگ چھپاتے ہیں اور جس کو ظاہر کرتے ہیں یہاں تک کہ وہ دلوں کے راز جاننے والا ہے۔ کیا لوگوں کے پاس اپنے سے پہلے کفار کی خبر نہیں پہنچی کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی کس طرح گرفت کی اور فرمایا اپنے کیے کا سامنا کرو، اب تمہیں اذّیت ناک عذاب دیا جائے گا۔ عذاب پانے والوں کا ایک جرم یہ بھی تھا کہ جب بھی ان کے پاس رسول آئے تو انہوں نے یہ کہہ کر انہیں مسترد کردیا کہ تم ہماری طرح کے انسان ہو اس لیے ہماری کس طرح رہنمائی کرو گے۔ ان کا خیال تھا کہ ہمارے مرنے کے بعد اللہ تعالیٰ ہمیں دوبارہ زندہ نہیں کرے گا اور اہل مکہ بھی یہی کہتے ہیں کہ ہمیں دوبارہ زندہ نہیں کیا جائے گا۔ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) انہیں قسم دے کر بتلائیں کہ اللہ تعالیٰ ضرور زندہ فرما کر تمہیں بتلائے گا جو کچھ تم کرتے رہے ہو۔ دوبارہ پیدا کرنا اور تم سے حساب لینا اللہ تعالیٰ کے لیے کوئی مشکل نہیں۔ تمہارے لیے یہی بہتر ہے کہ تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور اس روشنی کے پیچھے چلو جو اللہ تعالیٰ نے قرآن کی صورت میں تمہاری طرف نازل کی ہے اور اس دن کی پکڑ سے بچ جاؤ جس دن اللہ تعالیٰ سب کو جمع کرے گا اور وہ ہار جیت کا دن ہوگا۔ جو اللہ تعالیٰ پر ایمان لائے گا وہ جیت جائے گا اور اسے اس جیت کے بدلے نعمتوں والا گھر عطا کیا جائے گا، جن لوگوں نے اللہ اور اس کے رسول کا انکار کیا اور قیامت کے دن کو جھٹلایا، انہیں جہنم میں پھینکا جائے گا یہ ان کے لیے سب سے بڑی شکست ہوگی۔ اس سورت کے آخر میں مسلمانوں کو یہ نصیحت کی گئی ہے کہ تمہیں اپنی بیویوں اور اپنی اولادوں سے بچنا چاہیے کیونکہ بعض اوقات تمہاری بیویاں، تمہاری اولادیں تمہاری دشمن ثابت ہوتی ہیں۔ اس صورت میں تمہیں ان کے پیچھے لگ کر اپنے آپ کو مصیبت میں نہیں ڈالنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ نے تمہیں جتنی صلاحیت اور استطاعت بخشی ہے اس کے مطابق اس سے ڈرتے رہو اس کا فرمان سنو اس کی اطاعت کرو اور اس کی راہ میں خرچ کرو یہ تمہارے لیے بہت بہتر ہے۔ جو لوگ بخل سے بچا لیے گئے اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے رہے وہ کامیاب ہوں گے۔ التغابن
1 فہم القرآن ربط سورت : مسبِّحات میں سے یہ پانچویں سورت ہے۔ ارشاد ہوا کہ زمین و آسمانوں کی ہر چیز اللہ کی تسبیح بیان کررہی ہے۔ ہر کسی کی تسبیح میں یہ اقرار شامل ہے کہ زمین و آسمان کی بادشاہی ” اللہ“ کے لیے ہے اور وہی ہر قسم کی تعریف کے لائق ہے، نہ صرف زمین و آسمانوں کی ہر چیز کا بادشاہ ہے بلکہ وہ ہر چیز پر پوری طرح اقتدار اور اختیار بھی رکھتا ہے۔ اس فرمان میں یہ بات بالکل واضح کردی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمانوں اور جو کچھ ان کے درمیان ہے اسے پیدا فرما کر یونہی نہیں چھوڑ دیا بلکہ ساری کائنات اور اس کا نظام اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے وہ جو چاہے جب چاہے اور جس طرح چاہے اپنا حکم نافذ کرتا ہے۔ اس کے حکم کے سامنے کوئی چیزدم نہیں مار سکتی وہی لوگوں کو پیدا کرنے والا ہے پھر ان میں کوئی کافر ہوا اور کوئی مومن بنا۔ اللہ تعالیٰ سب کچھ دیکھتا ہے جو لوگ کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے یہاں جمع مخاطب کی ضمیر استعمال فرما کر خطاب کیا ہے کہ اے لوگو! میں نے تمہیں پیدا کیا ہے لیکن تم میں کچھ لوگ میری ذات اور فرمان کا انکار کرتے ہیں اور کچھ میری ذات کا اقرار اور میرے حکم کو ماننے والے ہیں، یاد رکھو ! جو بھی تم عمل کرتے ہو میں اسے دیکھنے والا ہوں۔ یہ فرمان ایک لحاظ سے ہر انسان کو انتباہ ہے کہ اے انسان! تجھے وہی کرنا چاہے جس کا تجھے حکم دیا گیا ہے، مگر لوگوں کی حالت یہ ہے کہ ان کی غالب اکثریت اپنے رب کے ساتھ کفر کرنے والی ہے۔ انسان کے کفر کرنے کی درج ذیل صورتیں ہیں۔ 1۔ اللہ کی ذات یا اس کی صفات کا انکار کرنا۔ 2۔ اللہ کے احکام کا انکار کرنا۔ 3۔ اللہ تعالیٰ پر اس طرح ایمان نہ لانا جس طرح ایمان لانے کا اس نے حکم دیا ہے۔ 4۔ اللہ تعالیٰ کی صفات کو اس کے حکم کے مطابق ماننے کی بجائے ان میں تاویلات کرتا۔ 5۔ اللہ تعالیٰ کی ذات یا صفات میں کسی کو شریک بنا نا۔6۔ اس کے احکام میں کسی ایک کا انکار کرنا۔ مسائل ١۔ ہر چیز اللہ تعالیٰ کی تسبیح کرتی ہے۔ ٢۔ زمین و آسمانوں اور ہر چیز کا بادشاہ اور مختار کل ” اللہ“ ہے۔ ٣۔ تمام تعریفات اللہ کے لیے ہیں۔ ٤۔ اللہ ہی وہ ذات ہے جس نے انسانوں کو پیدا فرمایا۔ ٥۔ لوگوں میں کافر اور مومن دو قسم کے انسان ہوتے ہیں۔ ٦۔ اللہ تعالیٰ لوگوں کو ہر حال میں دیکھنے والا ہے۔ تفسیربالقرآن اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قدرت رکھنے والاہے : ١۔ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے (البقرۃ: ٢٠) ٢۔ ” اللہ“ آسمانوں و زمین کی ہر چیز کو جانتا ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ (آل عمراٰن : ٢٩) ٣۔ ” اللہ“ ہر اس چیز کو جانتا ہے جو زمین میں داخل ہوتی اور نکلتی ہے۔ ( الحدید : ٤) ٤۔ ” اللہ“ آسمانوں و زمین کی ہر چیز کو جانتا ہے۔ ( المجادلہ : ٧) ٥۔” اللہ“ حاضر اور غیب کو جاننے والا ہے۔ ( الرعد : ٩) ٦۔ تم جہاں کہیں بھی ہوگے اللہ تمہیں قیامت کے دن جمع فرمائے گا وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ (البقرۃ: ١٤٨) ٧۔ اللہ جسے چاہے عذاب دے جسے چاہے معاف کردے وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ (البقرۃ: ٢٨٤) ٨۔ ہر چیز اللہ تعالیٰ کے احاطہ علم میں ہے۔ (الطلاق : ١٢) ٩۔ بے شک میرا پروردگار جو تم عمل کرتے ہو اس کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ (ھود : ٩٢) ١٠۔ یقیناً اللہ ہر چیز کو گھیرنے والا ہے۔ (حٰم السجدۃ: ٥٤) ١١۔ اللہ ہر چیزکا احاطہ کرنے والا ہے۔ (النساء : ١٢٦) التغابن
2 التغابن
3 فہم القرآن ربط کلام : اے لوگو! جس ” اللہ“ کی ہر چیز تعریف کرتی ہے اسی نے تمہیں بہترین شکل وصورت میں پیدا کیا ہے اور وہ تمہارے ہر عمل کو دیکھنے والا ہے اس لیے کہ اس سے تمہاری کوئی خفیہ اور ظاہر بات پوشیدہ نہیں جب اس سے کوئی بات پوشیدہ نہیں ہے تو تمہیں ایسی ذات کے ساتھ کفر و شرک نہیں کرنا چاہیے۔ (ہُوَ الَّذِیْ خَلَقَ لَکُمْ مَّا فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا ثُمَّ اسْتَوٰٓی اِلَی السَّمَآءِ فَسَوّٰہُنَّ سَبْعَ سَمَوٰتٍ وَ ہُوَ بِکُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمٌ) (البقرۃ: ٢٩) ” اللہ وہ ذات ہے جس نے تمہارے لیے زمین کی تمام چیزوں کو پیدا کیا پھر آسمان کا ارادہ فرمایا تو ان کو ٹھیک ٹھیک سات آسمان بنایا اور وہ ہر چیز کو جاننے والا ہے۔“ (ہُوَ الَّذِیْ یُصَوِّرُکُمْ فِی الْاَرْحَامِ کَیْفَ یَشَآءُ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ) (آل عمران : ٦) ” جس طرح چاہتا ہے وہ ماں کے پیٹ میں تمہاری صورتیں بناتا ہے۔ اس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں وہ نہایت غالب خوب حکمت والا ہے۔“ (عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ (رض) وَرَفَعَ الْحَدِیْثَ أَنَّہُ قَالَ إِنَّ اللَّہَ عَزَّ وَجَلَّ قَدْ وَکَّلَ بالرَّحِمِ مَلَکًا فَیَقُوْلُ أَیْ رَبِّ نُطْفَۃٌ أَیْ رَبِّ عَلَقَۃٌ أَیْ رَبِّ مُضْغَۃٌ فَإِذَا أَرَاد اللَّہُ أَنْ یَقْضِیَ خَلْقًا قَالَ قَالَ الْمَلَکُ أَیْ رَبِّ ذَکَرٌ أَوْ أُنْثٰی شَقِیٌّ أَوْ سَعِیْدٌ فَمَا الرِّزْقُ فَمَا الأَجَلُ فَیُکْتَبُ کَذَلِکَ فِی بَطْنِ أُمِّہٖ) (رواہ مسلم : باب کَیْفِیَّۃِ الْخَلْقِ الآدَمِیِّ فِی بَطْنِ أُمِّہِ وَکِتَابَۃِ۔۔) ” حضرت انس بن مالک (رض) سے روایت ہے وہ حدیث کو مرفوع بیان کرتے ہیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے رحم میں ایک فرشتہ مقرر کیا ہے وہ پوچھتا ہے اے میرے رب ! یہ نطفہ ہے اے میرے رب! یہ گوشت کا لوتھڑا ہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب اللہ تعالیٰ کسی کی تخلیق کا فیصلہ فرماتا ہے تو فرشتہ کہتا ہے اے میرے رب مذکر یا مؤنث بدبخت یا خوش بخت اس کا رزق کتنا ہے اس کی عمر کتنی ہے اسی طرح اس کا نیک اور بد ہونا اس کی ماں کے پیٹ میں ہی لکھ دیا جاتا ہے۔“ (وَ عِنْدَہٗ مَفَاتِحُ الْغَیْبِ لَا یَعْلَمُہَآ اِلَّا ہُوَ وَ یَعْلَمُ مَا فِی الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ وَ مَا تَسْقُطُ مِنْ وَّ رَقَۃٍ اِلَّا یَعْلَمُہَا وَ لَا حَبَّۃٍ فِیْ ظُلُمٰتِ الْاَرْضِ وَ لَا رَطْبٍ وَّ لَا یَابِسٍ اِلَّا فِیْ کِتٰبٍ مُّبِیْنٍ) (الانعام : ٥٩) ” اور اسی کے پاس غیب کی چابیاں ہیں انہیں اس کے سوا کوئی نہیں جانتا اور وہ جانتا ہے جو کچھ خشکی اور سمندر میں ہے اور کوئی پتا نہیں گرتا مگر وہ اسے جانتا ہے اور زمین کے اندھیروں میں کوئی تر اور خشک دانہ نہیں مگر وہ ایک واضح کتاب میں لکھا ہوا ہے۔“ ” تم چپکے سے بات کرو یا اونچی آواز سے کرو۔ اللہ کے لیے برابر ہے وہ تو دلوں کا حال جانتا ہے۔ کیا جس نے پیدا کیا وہ نہیں جانتا ہے ؟ حالانکہ وہ نہایت باریک بین اور پوری طرح خبردار ہے۔“ (الملک : ١٣، ١٤) مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمانوں کو برحق اور بامقصدپیدا کیا ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ دلوں کے راز جاننے والا ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ نے ہی لوگوں کی صورتیں بنائیں اور وہ بہترین شکل وصورت بنانے والاہے۔ ٤۔ سب نے اسی کی طرف لوٹ کرجانا ہے۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ زمین و آسمانوں کی ہر چیز کو جانتا ہے۔ ٦۔ اللہ تعالیٰ وہ بھی جانتا ہے جو لوگ چھپاتے ہیں اور وہ بھی جانتا ہے جو لوگ ظاہر کرتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ انسان کو پیدا کرنے والا اور وہی اس کی شکل وصورت بناتا ہے : ١۔ اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں اور زمین و آسمانوں کو پیدا فرمایا۔ (البقرۃ: ٢٢) ٢۔ اللہ نے انسان کو مٹی سے پیدا کیا۔ (الروم : ٢٠) ٣۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو ایک نطفے سے پیدا کیا۔ (الدھر : ٢) ٤۔ اللہ نے ایک ہی جان سے سب انسانوں کو پیدا کیا۔ (الاعراف : ١٨٩) ٥۔ اللہ ہی نے انسان کو بڑی اچھی شکل و صورت میں پیدا فرمایا۔ (التین : ٤) ٦۔ اللہ ہی پیدا کرنے والاہے اور اس کا ہی حکم چلنا چاہیے۔ (الاعراف : ٥٤) ٧۔ لوگو اس رب سے ڈر جاؤ جس نے تمہیں پیدا کیا ہے۔ (النساء : ١) التغابن
4 التغابن
5 فہم القرآن ربط کلام : اس سے پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے خالق اور بہترین مصّور ہونے کا ذکر کرتے ہوئے بتلایا ہے کہ وہ جانتا ہے جو لوگ ظاہر اور خفیہ طور پر کرتے ہیں اور وہ دلوں کے راز بھی جانتا ہے۔ جو ذات دلوں کی راز اور سب کچھ جانتی ہے اس کی بغاوت کر کے انسان کہاں جا سکتا ہے۔ اس لیے اس نے پہلے نافرمانوں کا انجام بتلا کر دوسروں کو انتباہ کیا ہے کہ اے نافرمان لوگوں کیا تمہیں پہلے لوگوں کے انجام کا علم نہیں؟ کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں کس طرح اذیت ناک عذاب میں مبتلا کیا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو راہ راست پر لانے کے لیے کئی انداز اختیار فرمائے ہیں۔ ان میں ایک انداز یہ اختیار فرمایا کہ لوگوں کو بار بار دعوت دی کہ وہ اپنے سے پہلی قوموں کے کردار اور انجام پر غور کریں تاکہ وہ برے اعمال کے برے انجام سے بچ جائیں، کبھی ارشاد فرمایا کہ کیا ان لوگوں نے زمین پر چل پھر کر نہیں دیکھا کہ ان سے پہلے مجرموں کا کیا انجام ہوا۔ (آل عمران : ١٣٧) پھر ارشاد ہوا کیا ان کے پاس ان لوگوں کی خبر نہیں پہنچی جن لوگوں نے اللہ کی ذات اور اس کے احکام کا انکار کیا۔ جب وہ ایک حد سے آگے بڑھ گئے تو اللہ تعالیٰ نے ان پراپنا غضب نازل کیا۔ (طٰہٰ: ١٢٨) غضب کا مزید اظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ اب اپنے کیے کا مزہ چکھو اور قیامت کے دن تمہارے لیے اذیّت ناک عذاب ہوگا۔ تباہ ہونے والی اقوام کا ایک جرم یہ بھی تھا کہ جب ان کے پاس اللہ کے رسول واضح دلائل لے کر آئے تو انہوں نے یہ کہہ کر ان کی بات کا انکار کیا۔ کیا ہمارے جیسا انسان ہماری راہنمائی کرے گا اور ہم اس کی تابعداری کریں ؟ اس وجہ سے انہوں نے انبیاء ( علیہ السلام) کی نبوت کو ماننے سے انکار کیا اور حق بات کو تسلیم کرنے سے انکاری ہوئے، ان کے انکار کے پیچھے تکبر اور ان کی لاپرواہی شامل تھی اس لیے اللہ تعالیٰ نے بھی ان سے لاپرواہی کا اظہار فرمایا۔ اللہ تعالیٰ ہر اعتبار سے بے نیاز اور لائقِ تعریف ہے یہاں جن قوموں کے انجام کا اشارہ کیا گیا ہے ان سے مراد وہی اقوام ہیں جن کے انجام کا قرآن مجید نے تفصیل کے ساتھ ذکر کیا ہے۔ ان میں سرفہرست قوم نوح، قوم عاد، قوم ثمود، قوم مدین، قوم لوط اور آل فرعون ہیں ان میں ہر قوم نے اپنے نبی کی ذات اور بات کا یہ کہہ کرانکار کیا کہ یہ تو ہمارے جیسا انسان ہے۔ لہٰذا ہم تیری پیروی نہیں کریں گے۔ یہاں تک ان کے اس بہانے کا تعلق ہے کہ نبی کو بشر نہیں ہونا چاہیے تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اس اعتراض کے کئی جواب دیئے ہیں۔ ان میں سے تین جواب یہ ہیں : ” ان کے رسولوں نے کہا ہم نہیں ہیں مگر تمہارے جیسے بشر ہیں۔ لیکن اللہ احسان فرماتا ہے اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے اور ہمارے لیے ممکن نہیں کہ تمہارے پاس کوئی دلیل اللہ کے اذ ن کے بغیر لے آئیں۔ پس لازم ہے کہ ایمان والے اللہ پربھروسہ کریں۔“ (ابراہیم : ١١) مسائل ١۔ لوگوں کو مجرم اقوام کے انجام سے سبق حاصل کرنا چاہیے۔ ٢۔ مجرم لوگ دنیا میں بھی عذاب میں مبتلا ہوئے اور آخرت میں بھی ان کو اذّیت ناک عذاب دیا جائے گا۔ ٣۔ حقائق کا انکار کرنے والے لوگ انبیاء کے بشر ہونے پر اعتراض کرتے ہیں۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ کو لوگوں کے کفرو شرک کوئی پرواہ نہیں وہ ہر لحاظ سے بے پرواہ اور لائقِ تعریف ہے۔ تفسیر بالقرآن تمام انبیاء ( علیہ السلام) بشر تھے : ١۔ انبیاء ( علیہ السلام) نے فرمایا کہ ہم تمہاری طرح بشر ہیں لیکن اللہ جس پر چاہتا ہے احسان فرماتا ہے۔ (ابراہیم : ١١) ٢۔ نوح (علیہ السلام) کی قوم نے کہا نہیں ہے یہ مگر تمہارے جیسا بشر اور یہ تم پر فضیلت حاصل کرنا چاہتا ہے۔ (المومنون : ٢٤) ٣۔ نہیں ہے تو مگر ہمارے جیسا بشر کوئی نشانی لے کر آ اگر تو سچا ہے۔ (الشعراء : ١٥٤) ٤۔ نہیں ہے یہ مگر تمہارے جیسا بشر جس طرح تم کھاتے ہو، ویسے وہ کھاتا ہے۔ (المومنون : ٣٣) ٥۔ ہم نے آپ سے پہلے جتنے بھی نبی بھیجے وہ بشر تھے۔ (النحل : ٤٣) ٦۔ کسی بشر کو ہمیشگی نہیں ہے۔ (الانبیاء : ٣٤) ٧۔ نبی آخر الزماں (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اعتراف کہ میں تمہاری طرح بشر ہوں۔ (الکہف : ١١٠، حم السجدۃ: ٦) ٨۔ ہم نے آپ سے پہلے جتنے نبی بھیجے وہ بشر ہی تھے۔ (النحل : ٤٣) (الشعراء : ١٨٦) ٩۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اعلان فرمائیں کہ میں تمھارے جیسا انسان ہوں۔ (الکہف : ١١٠) التغابن
6 التغابن
7 فہم القرآن ربط کلام : ہلاک ہونے والی اقوام کا ایک اور سنگین جرم۔ انسان جب آخرت کی جوابدہی کے عقیدے کا انکار کرتا ہے تو پھر وہ شتر بے مہار بن جاتا ہے جس بنا پر وہ بڑے بڑے حقائق کو ٹھکرا دیتا ہے جن حقائق کو انسان ٹھکرتا ہے ان میں آخرت کا عقیدہ بھی شامل ہے۔ قیامت کا انکار کرنے والے سب سے بڑی دلیل یہ دیتے ہیں کہ جب انسان کی ہڈیاں بوسیدہ ہوجاتی ہیں اور وہ مٹی کے ساتھ مٹی بن جاتی ہیں تو پھر اس کو کیسے زندہ کیا جاسکتا ہے۔ قرآن مجید نے دوبارہ زندہ ہونے کے درجنوں دلائل دیئے ہیں حتی کہ یہاں تک فرمایا کہ اے نبی ! انہیں فرمادیں! ” کہ تم پتھر بن جاؤ یا لوہا یا کوئی ایسی مخلوق جو تمھارے دلوں میں بڑی ہے عنقریب وہ کہیں گے کون ہمیں لوٹائے گا ؟ فرما دیں جس نے تمھیں پہلی بار پیدا کیا۔ پھر وہ آپ کے سامنے اپنے سر ہلائیں گے اور کہیں گے یہ کب ہوگا ؟ فرمادیں امید ہے عنقریب ہوگا۔ جس دن وہ تمھیں بلائے گا تم اس کی تعریفیں کرتے ہوئے چلے آؤ گے اور سمجھو گے کہ تم تھوڑا عرصہ ہی دنیا میں ٹھہرے تھے۔“ (بنی اسرائیل : ٥٠ تا ٥٢) یہاں ارشاد ہوا کہ اے رسول! انہیں فرمائیں! کیوں نہیں ! مجھے اپنے رب کی قسم! نہ صرف تمہیں دوبارہ زندہ کیا جائے گا بلکہ تمہیں وہ سب کچھ بتلایاجائے گا جو کچھ تم نے دنیا میں کیا ہوگا۔ تمہیں دوبارہ زندہ کرنا اور تمہارے اعمال سے تمہیں آگاہ کرنا اللہ تعالیٰ کے لیے بالکل آسان ہے، بہتر یہی ہے کہ تم اللہ اور اس کے رسول اور جو کچھ اللہ اس نے اپنے رسول پر نازل کیا ہے اس پر ایمان لاؤ اور ہر دم خیال رکھو کہ جو تم عمل کرتے ہو اللہ تعالیٰ اس سے ہر حال میں باخبر ہوتا ہے۔ ” حضرت ابوہریرہ (رض) سے مروی ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ایک آدمی نے بہت زیادہ گناہ کیے تھے جب اس کی موت کا وقت قریب آیا تو اس نے اپنے بیٹوں کو وصیت کی کہ جب وہ مر جائے تو اس کو جلا دینا پھر اس کے جسم کا نصف حصہ خشکی میں پھینک دینا اور نصف حصہ سمندر میں بہا دینا۔ اگر اللہ تعالیٰ نے اس کو پکڑ لیا تو اسے ایسا عذاب دے گا اس طرح کا عذاب جہاں والوں میں سے کسی کو نہیں ہوگا جب وہ مر گیا تو اس کے بیٹوں نے اس کے حکم کی تعمیل کی۔ اللہ تعالیٰ نے سمندر کو حکم دیا۔ اس نے اس کا نصف حصہ جمع کردیا اللہ تعالیٰ نے خشکی کو حکم دیا اس نے بھی اس کا نصف حصہ اکٹھا کردیا پھر اسے فرمایا کہ تو نے ایسا کیوں کیا اس نے کہا اے میرے رب! تو جانتا ہے کہ میں نے تیرے خوف سے یہ وصیت کی تھی اللہ تعالیٰ نے اس کو معاف فرما دیا۔“ (رواہ مسلم : باب فِی سَعَۃِ رَحْمَۃِ اللَّہِ تَعَالَی وَأَنَّہَا سَبَقَتْ غَضَبَہُ) مسائل ١۔ قیامت کے منکرین کا کہنا ہے کہ ہمیں دوبارہ زندہ نہیں کیا جائے گا۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی سے حلفاً کہلوایا ہے کہ وہ ہر صورت لوگوں کو دوبارہ زندہ کرے گا۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ کے لیے لوگوں کو دوبارہ زندہ کرنا اور انہیں ان کے اعمال بتلانا بالکل آسان ہے۔ ٤۔ لوگوں کو اوٹ پٹانگ باتیں کرنے کی بجائے اللہ نے جو کچھ اپنے رسول پر نازل کیا ہے اس پر ایمان لانا چاہیے۔ ٥۔ لوگ جو بھی عمل کرتے ہیں اللہ تعالیٰ ہر حال میں ان سے باخبر رہتا ہے۔ تفسیر بالقرآن قیامت کے دن زندہ ہونے کے دلائل : ١۔ وہ کہتے ہیں ہمیں کون دوبارہ زندہ کرے گا ؟ فرما دیجیے جس نے پہلی بار پیدا کیا ہے۔ (بنی اسرائیل : ٥١) ٢۔ ہم نے زمین سے تمہیں پیدا کیا اسی میں لوٹائیں گے اور اسی سے دوبارہ اٹھائیں گے۔ (طٰہٰ: ٥٥) ٣۔ اللہ ہی مخلوق کو پیدا کرنے والا ہے، پھر وہی اسے دوبارہ لوٹائے گا۔ (یونس : ٤) ٤۔ اللہ وہ ذات ہے جس نے مخلوق کو پہلی بار پیدا کیا، پھر وہ اسے لوٹائے گا اور یہ کام اس کے لیے آسان ہے۔ (الروم : ٢٧) ٥۔ اللہ ہی نے مخلوق کو پیدا کیا، پھر وہ اسے دوبارہ پیدا کرے گا، پھر تم اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔ (الروم : ١١) ٦۔ کیا ” اللہ“ کو اس بات پر قدرت نہیں ؟ کہ وہ مردوں کو زندہ فرمائے۔ (القیامہ : ٤٠) التغابن
8 التغابن
9 فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ لوگوں کے اعمال سے پوری طرح باخبر ہے اور وہی لوگوں کو ان کے اعمال کی جزا و سزا دینے کے لیے قیامت برپا کرے گا۔ قیامت کا دن پچاس ہزار سال پر مشتمل ہوگا اور اس میں کئی مراحل آئیں گے، نامعلوم! ایک مرحلہ دنیا کے کتنے سالوں پر محیط ہوگا۔ قیامت کے مختلف مراحل کی وجہ سے اس کے مختلف نام ہیں، قرآن مجید ہر مرحلہ کا نام لے کر اس کا تذکرہ کرتا ہے۔ یہاں قیامت کے ابتدائی اور آخری مرحلے کے لیے دو الفاظ استعمال کیے ہیں۔ پہلے مرحلے میں لوگوں کو قبروں سے اٹھا کر ان کے اعمال کے مطابق انہیں محشر کے میدان میں اکٹھا کیا جائے گا اس وجہ سے قیامت کے دن کو ” یَوْمَ الْجَمْعِ“ کا نام دیا ہے، قیامت کے آخری مرحلہ میں لوگوں کے درمیان فیصلہ کردیا جائے گا۔ کچھ لوگ اپنے اعمال کے نتیجے میں جہنم میں جائیں گے اور کچھ جنت میں داخل کیے جائیں گے۔ اس مرحلہ کو ” یَوْمُ التَّغَابُنِ“ یعنی وہ دن جس میں لوگوں کے درمیان ہارجیت کا فیصلہ ہوگا۔ ہارنے والے جہنم میں جائیں گے اور جیتنے والے جنت میں داخل ہوں گے، جو لوگ جہنم میں داخل کیے جائیں گے یہ وہ لوگ ہوں گے جو آخرت کے مقابلے میں دنیا کے مفاد اور جیت کو ترجیح دیا کرتے تھے۔ دنیا میں تو یہ لوگ نیک لوگوں کے مقابلے میں ترقی کرگئے اور بعض دفعہ حق کے مقابلے میں جیت گئے۔ لیکن قیامت کے دن وہ ایسی شکست سے دوچار ہوں گے جو کبھی کامیابی میں تبدیل نہیں ہوگی۔ ان کے مقابلے میں جو لوگ دین کی خاطر نقصان برداشت کرتے ہوئے دنیا کی بازی ہار گئے قیامت کے دن انہیں وہ جیت اور کامیابی حاصل ہوگی جو کبھی ناکامی میں تبدیل نہیں ہوگی۔ اللہ تعالیٰ ان کے سچے ایمان اور صالح کردار کی وجہ سے ان کی غلطیوں کو معاف فرمائے گا اور انہیں ایسی جنت میں داخل کرے گا جس کے نیچے سے نہریں بہتی ہوں گی وہ اس میں ہمیشہ ہمیش رہیں گے یہ ان کے لیے بڑی کامیابی ہوگی، ان کے مقابلے میں جو لوگ دنیا میں حق بات کا انکار اور اس کی تکذیب کرتے رہے وہ ہمیشہ کے لیے آگ میں جھونکے جائیں گے جو رہنے کے اعتبار سے بدترین جگہ ہوگی۔ ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میری امت کا جنت میں داخل ہونے والا گروہ چودھویں رات کے چاند کی طرح چمکتے چہروں والا ہوگا پھر ان کے بعد آسمان پر روشن ستاروں کی طرح پھر درجہ بدرجہ ہوں گے۔ جنتی نہ پیشاب کریں گے نہ قضائے حاجت کی ضرورت ہوگی وہ تھوکیں گے۔ ان کی کنگھیاں سونے کی ہوں گی، ان کی انگیٹھیاں عود کی اور ان کے پسینے مشک عنبر کی طرح ہوں گے۔ ان سب کا ایک جیسا اخلاق ہوگا اور قدو قامت آدم (علیہ السلام) کے برابر ساٹھ ہاتھ ہوگی۔“ (رواہ مسلم : باب أَوَّلُ زُمْرَۃٍ تَدْخُلُ الْجَنَّۃَ عَلَی صُورَۃِ الْقَمَرِ لَیْلَۃَ الْبَدْرِ) ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں ایک دفعہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا دنیاکی آگ جہنم کی آگ کے سترویں درجے پر ہے۔ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا گیا کیا جلانے کے لیے یہ آگ کافی تھی؟ آپ نے فرمایا وہ اس سے انہتر درجے زیادہ تیز ہوگی اس کا ہر درجہ ایک دوسرے کے برابر ہوگا۔“ ( رواہ البخاری : کتاب بدء الخلق، باب صفۃ النار) مسائل ١۔ قیامت کے دن تمام لوگوں کی جمع کرلیا جائے گا۔ ٢۔ قیامت کا دن ہار جیت کا دن ہوگا۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن سچے ایمان اور صالح کردار لوگوں کی غلطیوں کو معاف فرمادے گا اور انہیں ہمیشہ کے لیے جنت میں داخل کرے گا۔ ٤۔ مسلمان کے لیے قیامت کے دن کی جیت سب سے بڑی جیت ہوگی۔ ٥۔ اللہ اور اس کے رسول اور قیامت کو جھٹلانے والے بدترین ناکامی سے دوچار ہوں گے اور انہیں ہمیشہ کے لیے جہنم کی آگ میں پھینک دیا جائے گا۔ التغابن
10 التغابن
11 فہم القرآن ربط کلام : دنیا میں ایمانداروں کو پہنچنے والی تکالیف کی حقیقت اور اس میں راہنمائی۔ پچھلی آیت میں قیامت کے دن کو ہار جیت کا دن قرار دیا گیا ہے۔ ہارنے والے کفار، مشرکین اور منافقین ہوں گے جو دنیا میں اللہ اور اس کے رسول کی خاطر کسی نقصان کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہ تھے۔ ان کے مقابلے میں جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کی خاطر ہرقسم کے نقصان کو سے برداشت کرتے ہیں۔ ان کے بارے میں ارشاد ہوا کہ انہیں جو مصیبت آتی ہے وہ اللہ کے اذن سے ہی آتی ہے۔ جو شخص سچے دل کے ساتھ اللہ پر ایمان لائے اور اس کی رضا کی خاطر مصائب برداشت کرے ایک وقت آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے دل کی راہنمائی کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے۔ اس مختصر فرمان میں مومن کو تین انداز میں تسلی دی گئی ہے۔ ١۔ اے مومنوں گھبرانے کی ضرورت نہیں جو مصیبت تمہیں آتی ہے وہ اللہ تعالیٰ کے اذن کے مطابق آتی ہے۔ یعنی کوئی مصیبت اپنے آپ نازل نہیں ہوتی بلکہ وہ اللہ کے حکم سے نازل ہوتی ہے۔ جو ایماندار کے لیے اجر کا باعث اور نافرمان کے لیے عذاب ثابت ہوتی ہے۔ ٢۔ اللہ کے حکم سے نازل ہونے والی مصیبت جب کسی ایماندار پر آتی ہے تو اس کے گناہوں کا کفارہ بنتی ہے جس سے ایماندار کے ا یمان میں نہ صرف اضافہ ہوتا ہے بلکہ وہ اپنے رب کا پہلے سے زیادہ قرب محسوس کرتا ہے اور اسے اپنے گناہوں کی معافی کی توفیق ملتی ہے، یہی وہ ہدایت ہے جو مصیبت کے وقت ایماندار شخص کو نصیب ہوتی ہے۔ اس کے مقابلے میں نافرمان شخص مصیبت کے وقت اپنے رب کا مزید نافرمان بن جاتا ہے۔ یاد رہے کہ ایماندار پر آنے والی مصیبت کی دواقسام ہوتی ہے ایک مصیبت آزما ئش کے طور پر آتی ہے۔ (البقرۃ: ١٥٥) دوسری ایماندار کی اپنی کسی کوتاہی کا نتیجہ ہوتی ہے۔ ( الشوریٰ: ٣٠) ٣۔ ” وَاللّٰہُ بِکُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمٌ“ کے الفاظ استعمال فرما کر ایماندار کو تسلی دی گئی ہے کہ یہ کبھی نہ سوچنا کہ جو کفار کی طرف سے یا کسی اور صورت میں تمہیں تکلیف پہنچتی ہے اللہ تعالیٰ اس سے بے خبر ہے۔ ایسا ہرگز نہیں کیونکہ وہ ایمانداروں کے صبر واستقلال اور کفار کے مظالم کو اچھی طرح جانتا ہے، اسے یہ بھی معلوم ہے کہ ایماندار لوگ صرف اپنے رب کے لیے تکلیفیں برداشت کرتے ہیں۔ (عَنْ اَبِیْ ھُرَےْرَۃَ (رض) وَعَنْ اَبِیْ سَعِےْدٍ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ مَا ےُصِےْبُ الْمُسْلِمَ مِنْ نَّصَبٍ وَّلَا وَصَبٍ وَلَا ھَمِّ وَّلَا حُزْنٍ وَّلَا اَذًی وَّلَا غَمٍّ حَتَّی الشَّوْکۃِی ےُشَاکُھَا اِلَّا کَفَّرَ اللّٰہُ بِھَامِنْ خَطَاے اہُ) (رواہ البخاری : باب ماجاء فی کفارۃ المرض) ” حضرت ابوہریرہ اور حضرت ابوسعید (رض) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ فرمان بیان کرتے ہیں کوئی بھی مسلمان کسی طرح کی تھکاوٹ، درد، فکر، غم، تکلیف اور پریشانی میں مبتلا ہو یہاں تک کہ اس کو کانٹا بھی چبھے تو اللہ تعالیٰ اسے گناہوں کا کفارہ بنا دیتا ہے۔“ (عن أُمَّ سَلَمَۃَ زَوْجَ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تَقُولُ سَمِعْتُ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَقُولُ مَا مِنْ عَبْدٍ تُصِیبُہُ مُصِیبَۃٌ فَیَقُولُ إِنَّا لِلَّہِ وَإِنَّا إِلَیْہِ رَاجِعُونَ ” اللَّہُمَّ أْجُرْنِی فِی مُصِیبَتِی وَأَخْلِفْ لِی خَیْرًا مِنْہَا إِلاَّ أَجَرَہُ اللَّہُ فِی مُصِیبَتِہِ وَأَخْلَفَ لَہُ خَیْرًا مِنْہَا“ ) (رواہ مسلم : باب مَا یُقَالُ عِنْدَ الْمُصِیبَۃِ) ” آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زوجہ ام سلمہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ کہتے ہوئے سنا آپ نے فرمایا کہ جب کسی بندے کو کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو وہ یہ دعا پڑھتے ہم اللہ کے لیے ہیں اور اسی کی طرف لوٹائے جانے والے ہیں۔ اے اللہ! میری مصیبت دور فرما اور اس کے مقابلے میں بہتر اجر عطا فرما۔“ اللہ تعالیٰ اس مصیبت کو دور کردیتے ہیں اور اس کے مقابلے میں اسے بہتری عطا فرماتے ہیں۔“ مسائل ١۔ ہر مصیبت اللہ کے اِ ذن سے نازل ہوتی ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ ہر مصیبت اور چیز کو جانتا ہے۔ ٣۔ جو شخص سچے دل کے ساتھ اللہ پر ایمان لائے اور اس پر استقامت اختیار کرے اللہ تعالیٰ اس کی رہنمائی کرتا ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ کن لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا ہے : ١۔ ظالموں کو ہدایت نہیں ملتی۔ (البقرۃ: ٢٥٨) ٢۔ کافروں کو ہدایت نہیں دی جاتی۔ (النساء : ١٦٨) ٣۔ فاسقوں کو ہدایت سے نہیں دی جاتی۔ (المائدۃ: ١٠٨) ٤۔ جھوٹوں کو ہدایت نہیں ملتی۔ (الزمر : ٣) ٥۔ اللہ تعالیٰ کی توفیق کے بغیر کوئی ہدایت نہیں پا سکتا۔ (الاعراف : ٤٣) ٦۔ ہدایت وہی ہے جسے اللہ تعالیٰ ہدایت قرار دے۔ (البقرۃ: ١٢٠) ٧۔” اللہ“ جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے۔ (البقرۃ : ٢١٣) ٨۔ ہدایت اللہ کے اختیار میں ہے۔ (القصص : ٥٦) ٩۔ مشرک اللہ کی ہدایت سے محروم ہوتا ہے۔ (النساء : ٤٨) التغابن
12 فہم القرآن ربط کلام : ایمانداروں کا فرض ہے کہ وہ عسر اور یسر میں اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے رہیں اور اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کریں۔ مومن ہو یا نافرمان، کافر ہو یا مسلمان، امیر ہو یا غریب ہر کسی کی زندگی نشیب وفراز، سُکھ اور دکھ پر مشتمل ہوتی ہے۔ فرق یہ ہے کہ نافرمانوں کے مقابلے میں ایمانداروں کی زندگی قدرے مشکل ہوتی ہے۔ کیونکہ ایماندار شخص اللہ اور اس کے رسول کا پابند ہوتا ہے جس وجہ سے دنیا میں وہ فوائد اور آسائشیں حاصل نہیں کرسکتا جو نافرمان حاصل کرلیتے ہیں۔ مصیبت ہویاراحت، مشکل ہو یا آسانی، نفع ہو یا نقصان ایمانداروں کو حکم ہے کہ وہ ہر حال میں اللہ پر توکل کرتے ہوئے اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے رہیں۔ ایماندار کو اس بات پر یقین رکھنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی ہستی ایسی نہیں جو اسے مصیبت سے نجات دے۔ لہٰذا ایماندار کو ” اللہ“ پر ہی توکل اور اعتماد کرنا چاہیے۔ اس میں اسی کا فائدہ ہے اگر ایمان کا دعویٰ رکھنے والے لوگ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت سے منہ پھیر لیں تو ہمارے رسول پر حق بات پہنچانا ہے منوانا نہیں۔ قرآن و سنت کی روشنی میں توکل کا معنٰی ہے کہ وسائل اور اسباب کو استعمال کرتے ہوئے کام کا نتیجہ اور انجام اللہ کے سپرد کیا جائے، توکل پریشانیوں سے نجات پانے کا پہلا ذریعہ ہے اگر کسی کا اللہ تعالیٰ پر اعتماد اور توکل نہیں تو وہ حوصلہ ہار بیٹھے گا اور مسائل کا مقابلہ نہیں کر پائے گا۔ بلا شبہ اسباب کا استعمال لازم اور ضروری ہے اور اللہ تعالیٰ نے مسائل کے حل کے لیے مادی وسائل میں ایک قوت رکھی ہے۔ سردی اور گرمی سے بچنے کے لیے موسم کے مطابق لباس اور رہائش اختیار نہ کی جائے تو انسان کی صحت پر مہلک اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ سفر کے لیے سواری درکار ہے، دشمن سے بچاؤ کے لیے اسلحہ کی ضرورت ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ آدمی کے پاس و سائل ہوں تو وہ کسی حد مطمئن اور اپنی کامیابی کے بارے میں پر اعتماد ہوتا ہے لیکن فرق یہ ہے کہ عقیدے میں کمزور اور مادہ پرست انسان کی نگاہ صرف اسباب پر رک جاتی ہے اس کا ذہن مسبب الاسباب کی طرف بہت کم متوجہ ہوتا ہے۔ اکثر اوقات دنیا دار انسان کامیابی کو اپنی محنت اور صلاحیت کا نتیجہ سمجھتا ہے وہ اس حقیقت کو فراموش کردیتا ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کی عطا نہ ہوتی تو جس طرح میری جان پہچان کے لوگ وسائل سے محروم ہیں۔ میں بھی اسی طرح تہی دامن ہوتا تو پھر میرا کیا حال ہوتا اسے یہ خیال بھی رہنا چاہیے کہ مالک حقیقی کی مشیّت اور حکم شامل حال نہ ہو تو وسائل اور اسباب دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں۔ اس دنیا و جہاں میں ہر روز رونما ہونے والے واقعات اس فکر اور عقیدے کی تائید کرتے ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے اسباب کی قوت کو سلب کرلیا جاتا ہے تو پھر سب کچھ موجود ہونے کے باوجود انسان ناکامی اور نامرادی کا سامنا کرتا ہے۔ اگر اسباب بذات خود انسان کی مشکلات کا مداوا ہوتے تو ڈاکٹر اور حکیم موت کی وادیوں میں بسیرا نہ کرتے۔ محض وسائل ہی مسائل کا حل ہوتے تو بڑے بڑے فرمانروا اقتدار کے ایوانوں سے نکل کر جیل کی کال کوٹھڑیوں میں ایڑیاں نہ رگڑتے اس لیے انبیاء کرام (علیہ السلام) کی تعلیم یہ ہے کہ وسائل کو ہر حال میں استعمال کیا جائے مگر اس کی قوت کار کے بارے میں یہ عقیدہ رکھا جائے کہ اسباب اسی وقت کارآمد اور مفید ثابت ہوں گے جب مالک حقیقی کا حکم جاری ہوگا۔ اس حقیقت کے پیش نظر مسلمان کا فرض ہے۔ وہ اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ ذرائع اور وسائل کو اختیار کرتے ہوئے ان کے اثرات اور نتائج کو اللہ کا انعام تصور کرے۔ توکّل علی اللہ کی تکمیل تب ہوتی ہے کہ جب آدمی یہ عقیدہ بنا لے کہ کچھ نہ ہونے کے باوجود بھی ” اللہ“ میری مدد کرنے پر قادر ہے اور وہ میری مدد ضرور فرمائے گا۔ مسائل ١۔ ایمانداروں کو ہر حال میں اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرنی چاہیے۔ ٢۔ اللہ کے سوا کوئی معبود اور حاجت روا، مشکل کشا نہیں۔ ٣۔ ایمانداروں کو ہر حال میں اللہ تعالیٰ پر بھروسہ اور اعتماد رکھنا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ پر توکل کے فوائد : ١۔ جو شخص اللہ پر توکل کرتا ہے اللہ اسے کافی ہوجاتا ہے۔ (الطلاق : ٣) ٢۔ اللہ پر ایمان لانے والوں اور توکل کرنے والوں کے لیے خیر ہی خیر ہے۔ (الشوریٰ : ٣٦) ٣۔ اللہ صبر کرنے والوں اور توکل کرنے والوں کو بہترین اجر عطا فرمائے گا۔ (العنکبوت : ٥٩) التغابن
13 التغابن
14 فہم القرآن ربط کلام : اس فرمان سے پہلے اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کا حکم ہوا اور پھر فرمایا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اسی کی عبادت کرو اور اسی پر بھروسہ رکھو۔ اللہ کی عبادت اور اس پر بھروسہ کرنے کے معاملے میں جو چیز آدمی کے راستے میں سب سے پہلے رکاوٹ بنتی ہے وہ بیوی، اولاد اور مال کی محبت ہے بسا اوقات یہ محبت اپنے آپ کے ساتھ دشمنی کرنے کے مترادف ثابت ہوتی ہے ایسی محبت سے احتیاط برتنے کا حکم ہے۔ جس کے لیے ارشاد ہوا کہ اے ایمان والو! تمہاری بیویوں اور اولاد بھی تمہارے دشمن ہوتے ہیں اور تمہارے مال تمہارے لیے آزمائش ہیں جن سے تمہیں احتیاط برتنی چاہیے تاکہ اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت میں کمی واقع نہ ہو۔ اسی سورت کی آیت ١١ میں مومنوں کو یہ بتلایا ہے کہ جو بھی مصیبت آتی ہے اس کے پیچھے اللہ کا حکم کار فرما ہوتا ہے لہٰذا مومن کا فرض ہے کہ وہ ہر حال میں اللہ پر بھروسہ کرے۔ مصیبت کا معنٰی دکھ اور آزمائش ہے جو مومن کو اس کی بیوی اور اولاد سے بھی پہنچ سکتی ہے۔ گویا کہ مصیبت خارجی ذرائع سے بھی آتی ہے اور داخلی اسباب بھی اس کا سبب بنتے ہیں۔ خارجی اسباب میں بیوی، اولاد اور مال بھی اس کا سبب بنتے ہیں بالخصوص دینی زندگی اپنانے میں اکثر اوقات بعض بیویاں اور اولاد دانستہ یا غیر دانستہ طور پر مومن کے راستے میں رکاوٹ بن جاتے ہیں جو شخص اس آزمائش میں پورا اترے گا اللہ تعالیٰ اسے اجرعظیم سے سرفراز کرے گا۔ اگر بیوی اور اولاد آزمائش بن جائیں تو مومن کو بیوی اور اولاد کی خاطر اپنے دین کا سودا نہیں کرنا چاہیے۔ اس لیے حکم دیا گیا ہے کہ اپنی بیویوں اور اولاد سے بچتے رہو یعنی ان کی خاطر اپنا دین خراب اور آخرت برباد نہ کرو۔ البتہ گھریلو زندگی اور اپنی عزت بچانے کے لیے ان کے ساتھ معافی اور درگزر کا رویہ اختیار کرو اور یاد رکھو کہ یقیناً اللہ تعالیٰ معاف کرنے اور رحم فرمانے والا ہے۔ معاف اور رحم کرنے کے الفاظ استعمال فرما کر مومن کو تسلی دی گئی ہے کہ اگر اپنے رب کے بتلائے ہوئے اصولوں کے مطابق چلو گے تو وقت آئے گا کہ اللہ تعالیٰ تمہیں اس آزمائش میں سرخرو فرمائے گا، جو شخص ان اصولوں پر عمل نہیں کرتا وہ نہ صرف پریشانیوں کا شکار ہوتا ہے بلکہ اس کی برادری اور معاشرے میں عزت بھی ضائع ہوجاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مومن کو اس کی اولاد اور بیوی کی آزمائش سے بچانے کے لیے تین الفاظ استعمال فرمائے ہیں۔ (تَعْفُوْا) ” تم معاف کرو۔“ (وَتَصْفَحُوْا) ” اور ایک دوسرے کی اصلاح کرو۔“ (وَتَغْفِرُوْا) ” اور بخش دو۔“ یہاں تک مال کا معاملہ ہے یہ تو سراسر آزمائش ہے اکثر دیکھا گیا ہے کہ جس کے پاس مال آتا ہے وہ اللہ اور اس کے رسول کے راستے کو چھوڑ کر نافرمانی کے راستے پر چل نکلتا ہے اس بات کی اللہ تعالیٰ نے یوں نشاندہی فرمائی ہے : (کَلَّآاِِنَّ الْاِِنسَانَ لَیَطْغٰی اَنْ رَّاٰہُ اسْتَغْنٰی) (العلق : ٦، ٧) ” ہرگز نہیں یقیناً انسان سرکشی کرتا ہے۔ جب وہ اپنے آپ کو غنی دیکھتا ہے۔“ ” حقیقت یہ ہے کہ انسان اپنے رب کا بڑا ناشکرا ہے۔ اور وہ خود اس پر گواہ ہے اور وہ مال کی محبت میں بڑا سخت ہے۔“ (العدیات : ٦ تا ٨) مسائل ١۔ بعض بیویاں اور اولاد بھی آدمی کے دشمن بن جاتے ہیں۔ ٢۔ نافرمان اولاد اور بیوی کے بارے میں حتیٰ الوسع معافی اور درگزر سے کام لینا چاہیے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ نے مال اور اولاد کو مومن کے لیے آزمائش قرار دیا ہے۔ ٤۔ دوسروں کو معاف کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ بھی معاف کرتا ہے۔ ٥۔ آزمائش میں پورا اترنے والے کو اللہ تعالیٰ اجر عظیم سے سرفراز فرمائے گا۔ تفسیر بالقرآن مومن کے لیے آزمائش : ١۔ ایمان کے لیے آزمائش شرط ہے۔ (العنکبوت : ٢) ٢۔ اللہ نے پہلے لوگوں کو بھی آزمایا۔ (البقرۃ : ٢١٤) ٣۔ آزمائش میں ثابت قدمی کے بعد اللہ کی مدد یقینی اور قریب ہوا کرتی ہے۔ (البقرۃ: ٢١٤) ٤۔ جنت میں داخلے کے لیے آزمائش ضروری ہے۔ (آل عمران : ١٤٢) ٥۔ اللہ نے انسان کی آزمائش کے لیے موت وحیات کا سلسلہ بنایا ہے۔ (الملک : ٢) ٦۔ اللہ نے انسانوں کی آزمائش کے لیے بعض کو بعض پر فوقیت دی۔ ( الانعام : ١٦٥) ٧۔ مال واولاد انسان کے لیے آزمائش ہے اللہ کے ہاں بہت بڑا اجر ہے۔ (التغابن : ١٥) التغابن
15 التغابن
16 فہم القرآن ربط کلام : بیوی، اولاد اور مال کی آزمائش سے سو فیصد بچنا آسان کام نہیں اس لیے ارشاد ہوا کہ اپنی طاقت کے مطابق اللہ سے ڈرتے رہو اور اس کے حکم کی پیروی کرو۔ ” اللہ“ کے بے شمار احسانات میں سے یہ بھی اس کا عظیم ترین احسان ہے کہ اس نے اپنے بندے پر اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالا۔ اس کا ارشاد ہے کہ لوگو! اللہ نے جو تمہیں صلاحیت اور استعداد عطا فرمائی ہے۔ اس کے مطابق اس کا حکم مانو اور اس کی اطاعت کرتے ہوئے اس سے ڈرتے رہو اور اس کی راہ میں مال خرچ کرو یہ تمہارے حق میں بہتر ہے جو لوگ بخل سے بچا لیے گئے وہی کامیاب ہوں گے۔ (عَنْ عُبَادَۃَ بْنَ الصَّامِتِ (رض) یَقُولُ قَالَ لَنَا رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وَنَحْنُ فِی مَجْلِسٍ تُبَایِعُونِی عَلٰی أَنْ لَا تُشْرِکُوا باللّٰہِ شَیْءًا وَلَا تَسْرِقُوا وَلَا تَزْنُوا وَلَا تَقْتُلُوا أَوْلَادَکُمْ وَلَا تَأْتُوا بِبُہْتَانٍ تَفْتَرُونَہُ بَیْنَ أَیْدِیکُمْ وَأَرْجُلِکُمْ وَلَا تَعْصُوا فِی مَعْرُوفٍ فَمَنْ وَفٰی مِنْکُمْ فَأَجْرُہُ عَلَی اللّٰہِ وَمَنْ أَصَابَ مِنْ ذٰلِکَ شَیْءًا فَعُوقِبَ فِی الدُّنْیَا فَہُوَ کَفَّارَۃٌ لَہُ وَمَنْ أَصَابَ مِنْ ذٰلِکَ شَیْءًا فَسَتَرَہُ اللّٰہُ فَأَمْرُہُ إِلَی اللّٰہِ إِنْ شَاءَ عَاقَبَہُ وَإِنْ شَاءَ عَفَا عَنْہُ فَبَایَعْنَاہُ عَلٰی ذٰلِکَ) (رواہ البخاری : باب بَیْعَۃِ النِّسَاءِ) ” حضرت عبادہ بن صامت (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں ایک مجلس کے دوران فرمایا کہ تم ان باتوں پر میری بیعت کرو کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ گے، چوری نہیں کرو گے، زنا سے بچ کر رہو گے، اپنی اولاد کو قتل نہیں کرو گے، کسی پر من گھڑت بہتان نہیں باندھوگے، نہ ہی نیکی کے کاموں میں نافرمانی کرو۔ جس نے اس بیعت کی پاسداری کی اس کا اجر اللہ کے ذمّہ ہے جس نے ان باتوں کا ارتکاب کیا اللہ تعالیٰ اس کو دنیا میں سزا دے گا جو اس کے لیے کفارہ ہوگا۔ جس نے ان گناہوں کا ارتکاب کیا اور اللہ تعالیٰ نے اس کے گناہوں پر پردہ ڈال دیا تو اس کا معاملہ اللہ کے حوالے ہے۔ چاہے سزا دے اور چاہے تو اس سے درگزر فرمائے۔ حضرت عبادہ (رض) فرماتے ہیں کہ ہم سب نے ان باتوں پر بیعت کی۔“ (عن عُبَادَۃَ بْنِ الصَّامِتِ (رض) قَالَ بَایَعْنَا رَسُول اللّٰہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عَلَی السَّمْعِ وَالطَّاعَۃِ فِی الْعُسْرِ وَالْیُسْرِ) (مسند احمد، حدیث عبادۃ بن صامت، وقال ھذا حدیث صحیح) ” حضرت عبادہ بن صامت (رض) بیان کرتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اس بات پر بیعت کی کہ ہم آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا حکم تنگی اور خوش حالی دونوں صورتوں میں مانے گے۔“ مسائل ١۔ ہر انسان کو اپنی طاقت کے مطابق اللہ سے ڈرنا اور اس کا حکم ماننا چاہیے۔ ٢۔ ہر شخص کو اپنی مالی استعداد کے مطابق اللہ کی راہ میں خرچ کرنا چاہیے۔ اللہ کی راہ میں خرچ کرناانسان کے اپنے لیے بہتر ہے۔ ٣۔ جس شخص کو بخل سے بچا لیا گیا حقیقت میں وہی کامیاب ہوگا۔ تفسیر بالقرآن اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کے فوائد : ١۔ جو کچھ تم خرچ کرو گے اللہ تعالیٰ تمھیں اس سے زیادہ دے گا۔ (سبا : ٣٩) ٢۔ مومنین اللہ کے راستے میں خفیہ اور اعلانیہ خرچ کرتے ہیں۔ (الرعد : ٢٢) ٣۔ مسلمان تنگدستی اور خوشحالی میں خرچ کرتے ہیں۔ (آل عمران : ١٣٤) ٤۔ منافق صدقہ کرنے کو جرمانہ سمجھتا ہے۔ (التوبہ : ٩٨) ٥۔ مومن اللہ کی رضا کے لیے خرچ کرتا ہے۔ ( التوبہ : ٩٩) ٦۔ ” اللہ“ کی رضا کے لیے خرچ کرنے والوں کی مثال سدا بہار باغ جیسی ہے۔ (البقرۃ: ٢٦٥) ٧۔ ” اللہ“ کی رضا کے لیے خرچ کرنے والے کو پورا پورا اجر ملے گا۔ (البقرۃ: ٢٧٢) ٨۔ ” اللہ“ کی رضا کے لیے کیے گئے کام کابڑا اجر ہے۔ (النساء : ١١٤) التغابن
17 فہم القرآن ربط کلام : مال کی آزمائش میں سرخرو ہونے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ انسان اللہ کی راہ میں صدقہ کرتا رہے صدقہ کرنا ” اللہ“ کو قرض دینے کے مترادف ہے۔ اوپر کی دوآیات میں ایمان والوں کو صدقہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اس آیت میں صدقہ کرنے والوں کو یہ فرما کر تسلی اور ترغیب دی ہے کہ اگر تم اخلاص کے ساتھ صدقہ کرو گے تو اللہ تعالیٰ کو قرض حسنہ دو گے۔ وہ تمہارے صدقہ کو دوگنا تگنا کرے گا اور اس کے بدلے تمہارے گناہوں کو معاف فرمائے گا کیونکہ اللہ تعالیٰ نیکی اور نیکی کرنے والوں کا بڑا ہی قدر دان اور بردبار ہے۔ وہ تمہارے ظاہری اور باطنی حالات کو جانتا ہے اور ہر چیز پر غالب ہونے کے ساتھ بڑاحکیم ہے۔ یہاں صدقہ کے لیے قرض حسنہ کے الفاظ استعمال فرمائے ہیں۔ حسنہ کا معنٰی ایسا صدقہ ہے جس میں کسی قسم کی نمود و نمائش اور ایذا رسانی نہ پائی جائے۔ اللہ تعالیٰ ایسے صدقہ کی قدر کرتا ہے۔ اس کی قدر شناسی کی انتہا دیکھیے کہ وہی سب کچھ عطا کرنے والاہے۔ لیکن جب غریب، یتیم اور دین کے کاموں پر خرچ کرنے کا حکم دیتا ہے تو اسے اپنے لیے صدقہ شمار کرتا ہے۔ حالانکہ ان مصارف پر خرچ کرنے سے انسان کو ہی فائدہ پہنچتا ہے۔ حلیم کی صفت بتلا کر اشارہ دیا ہے کہ اللہ کی راہ میں خرچ کرنا بڑے حوصلے کی بات ہے۔ اس میں یہ بھی ارشاد ہے کہ اگر تمہارے بخل کرنے پر وہ تمہیں نہیں پکڑتا تو ایسا اس لیے ہے کہ وہ بڑا حلیم ہے۔ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَنْ تَصَدَّقَ بِعَدْلِ تَمْرَۃٍمِنْ کَسْبٍ طَیِّبٍ وَ لَا یَقْبَلُ اللّٰہُ إِلَّا الطَّیِّبَ وَإِنَّ اللّٰہَ یَتَقَبَّلُھَا بَیَمِیْنِہٖ ثُمَّ یُرَبِّیْھَا لِصَاحِبِہٖ کَمَا یُرَبِّیْ أَحَدُکُمْ فَلُوَّہٗ حَتّٰی تَکُوْنَ مِثْلَ الْجَبَلِ) (رواہ البخاری : کتاب الزکاۃ، باب الصدقۃ من کسب طیب) ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جس نے پاکیزہ کمائی سے ایک کھجور کے برابر صدقہ کیا اور اللہ تعالیٰ صرف پاکیزہ چیز ہی قبول فرماتے ہیں۔ بے شک اللہ تعالیٰ اسے اپنے دائیں ہاتھ میں لیتے ہیں پھر اس کو صدقہ کرنے والے کے لیے بڑھاتے رہتے ہیں جس طرح تم میں سے کوئی اپنے بچھڑے کی پرورش کرتا ہے یہاں تک کہ آدمی کا کیا ہوا صدقہ پہاڑ کی مانند ہوجاتا ہے۔“ ( عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَ (رض) عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ مَا نَقَصَ صَدَقَۃٌ مِنْ مَالٍ وَمَا زَاد اللّٰہُ عَبْدًا بِعَفْوٍا اِلَّا عِزًّا وَمَا تَوَاضَعَ اَحَدٌ لِلّٰہِ اِلَّا رَفَعَہُ اللّٰہُ) (رواہ مسلم : باب استحباب العفو والتواضع) ” حضرت ابوہریرہ (رض) نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں آپ نے فرمایا : کہ صدقہ سے مال کم نہیں ہوتا جو بندہ درگزر کرتا ہے اللہ تعالیٰ اسے عزت دیتا ہے۔ جو اللہ کی رضا کے لیے عاجزی اور انکساری اختیار کرتا ہے اللہ تعالیٰ اسے بلند کرتا ہے۔“ (مَثَلُ الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَہُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ کَمَثَلِ حَبَّۃٍ اَنْبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِیْ کُلِّ سُنْبُلَۃٍ مِّاءَۃُ حَبَّۃٍ وَ اللّٰہُ یُضٰعِفُ لِمَنْ یَّشَآءُ وَ اللّٰہُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ) (البقرۃ: ٢٦١) ” جو لوگ اپنا مال اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں ان کی مثال اس دانے جیسی ہے جس میں سے سات بالیاں نکلیں اور ہر بالی میں سو دانے ہوں اور اللہ تعالیٰ جسے چاہے بڑھا چڑھاکر دیتا ہے اور اللہ تعالیٰ بڑی وسعت والا، خوب جاننے والا ہے۔“ مسائل ١۔ اللہ کی راہ میں خرچ کرنا اللہ تعالیٰ کو قرض حسنہ دینے کے مترادف ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ صدقہ کرنے والے کے مال میں برکت پیدا کرنے کے ساتھ اس کے گناہوں کو معاف کرتا ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ نیکی اور نیکی کرنے والے کا قدردان ہے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ غیب اور پوشیدہ باتوں کا علم رکھنے کے باوجود بڑا بردبار اور حکمت والا ہے۔ تفسیر بالقرآن صدقہ کرنے کے دنیا اور آخرت میں فوائد : ١۔ صدقہ کرنا اللہ تعالیٰ کو قرض دینا ہے۔ (الحدید : ١١) ٢۔ صدقہ کرنے والے کو تسکین حاصل ہوتی ہے۔ (البقرۃ: ٢٦٥) ٣۔ صدقہ کرنے سے مال میں برکت ہوتی ہے۔ ( البقرۃ: ٢٦٥) ٤۔ اللہ تعالیٰ اسے دگنا تگنا کرکے واپس کرے گا۔ (التغابن : ١٧) ٥۔ اللہ سات سو گنا تک بڑھا دیتا ہے۔ (البقرۃ: ٢٦١) ٦۔ اللہ کے ہاں اضافے کی کوئی حد نہیں ہے۔ (البقرۃ: ٢٦١) ٧۔ اللہ تعالیٰ صدقہ کرنے والوں کو جزا دیتا ہے۔ (یوسف : ٨٨) ٨۔ مومن اللہ کی رضا کے لیے خرچ کرتا ہے۔ (التوبہ : ٩٩) ٩۔ مسلمان تنگدستی اور خوشحالی میں خرچ کرتے ہیں۔ (آل عمران : ١٣٤) ١٠۔ جو کچھ تم خرچ کرو گے اللہ تعالیٰ تمھیں اس سے زیادہ دے گا۔ (سبا : ٣٩) التغابن
18 التغابن
0 سورۃ الطّلاق کا تعارف اس سورت کا نام اس کی پہلی آیت سے ماخوذ ہے یہ سورت مدینہ طیبہ میں نازل ہوئی، اس کے دو رکوع ہیں جو بارہ آیات پر مشتمل ہیں۔ اس سورت کا مرکزی مضمون طلاق ہے۔ یہ معاشرتی اعتبار اور خاندانی لحاظ سے اتنا اہم مسئلہ ہے کہ اس کی اہمیت کے پیش نظر اللہ تعالیٰ نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مخاطب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ جب تم عورتوں کو طلاق دو تو ان کی عدّت ملحوظ رکھو اور عدّت کے دن اچھی طرح شمار کرنے چاہئے۔ اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو اور انہیں عدّت کے دوران ان کے گھروں سے نہ نکالا جائے یہ اللہ تعالیٰ کی حدود ہیں جو اللہ کی حدود سے تجاوز کرے گا وہ اپنے آپ پر ظلم کرے گا۔ طلاق رجعی کی صورت میں رجوع کے بعد انہیں عزت کے ساتھ اپنے گھروں میں رکھو یا اچھے انداز میں انہیں الگ کر دو۔ اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہے وہی مشکلات سے نکلنے کا راستہ پیدا کرے گا جو اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرتے ہے اللہ تعالیٰ ان کے لیے کافی ہوجاتا ہے اور ان کے لیے آسانی کا راستہ پیدا کرتا ہے اس نے اپنا رسول اس لیے مبعوث کیا ہے تاکہ لوگوں کو ہر قسم کی تاریکیوں سے نکال کر قرآن مجید کی روشنی میں لے آئے۔ جو اللہ پر ایمان لائے اور نیک عمل کرے اللہ تعالیٰ اسے جنتوں میں داخل فرمائے گا جن کے نیچے نہریں جاری ہیں جنتی ان میں ہمیشہ ہمیش رہیں گے۔ یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ نے ہی سات آسمان اور ان کی مثل سات زمینیں پیدا کی ہیں۔ وہی ان کے درمیان اپنے فیصلے جاری کرتا ہے تاکہ تمہیں معلوم ہو کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قدرت رکھنے والا اور اپنے علم کے ساتھ ہر چیز کا احاطہ کرنے والا ہے۔ (عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لَوْ أَنَّکُمْ کُنْتُمْ تَوَکَّلُوْنَ عَلَی اللَّہِ حَقَّ تَوَکُّلِہٖ لَرُزِقْتُمْ کَمَا تُرْزَقُ الطَّیْرُ تَغْدُوْ خِمَاصًا وَتَرُوْحُ بِطَانًا) (رواہ الترمذی : باب فِی التَّوَکُّلِ عَلَی اللَّہِ) ” حضرت عمر بن خطاب (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اگر تم اللہ تعالیٰ پر توکل کرو جس طرح توکل کرنے کا حق ہے۔ تو تمہیں اسی طرح رزق دیا جائے جس طرح پرندوں کو رزق دیا جاتا ہے۔ وہ خالی پیٹوں کے ساتھ صبح کرتے ہیں اور شام کو بھرے پیٹوں کے ساتھ لوٹتے ہیں۔“ الطلاق
1 فہم القرآن ربط سورت : سورۃ التغابن کے اختتام میں مسلمانوں کو یہ سمجھایا ہے کہ تم میں سے کچھ لوگوں کی بیویاں اور اولاد ان کے دشمن ہوجاتے ہیں۔ اگر کسی مرد کو ایسی بیوی کے ساتھ واسطہ پڑے اور وہ اس سے جان چھڑانا چاہئے تو وہ اسے طلاق دے کر جان چھڑا سکتا ہے۔ اسی لیے اس سورت کے آغاز میں طلاق کا طریقہ بتلایا گیا ہے۔ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! جب تم عورتوں کو طلاق دو تو ان کی عدت کے شروع میں طلاق دو اور ان کی عدت شمار کرو۔ اللہ سے ڈرتے رہو جو تمہار رب ہے۔ مطلقہ عورتوں کو ان کی عدت کے دور ان ان کے گھروں سے نہ نکالو مگر اس صورت میں کہ وہ واضح بے حیائی کا ارتکاب کریں، یہ اللہ کی حدیں ہیں ان کا خیال رکھو۔ جس نے اللہ کی حدوں سے تجاوز کیا اس نے اپنے آپ پر ظلم کیا۔ تم نہیں جانتے کہ ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ طلاق کے دوران صلح کی راہ پیدا کردے۔ یہ بات پہلے بھی عرض ہوچکی ہے کہ بعض مسائل کی اہمیت اور افادیت اجاگر کرنے کے لیے نبی کو مخاطب کیا گیا ہے تاکہ مسلمان مسئلے کی اہمیت اور رفرضیت کو پوری طرح سمجھ جائیں۔ طلاق سے نہ صرف میاں بیوی کے درمیان جدائی واقع ہوتی ہے بلکہ اکثر اوقات انکی اولاد اور دو خاندانوں کے درمیان بھی منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ میاں بیوی اور ان کے متعلقین کو منفی اثرات سے بچانے کے لیے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مخاطب کیا گیا ہے جس سے مراد آپ کی امت کو سمجھانا ہے۔ خطاب کے آغاز میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مخاطب فرمایا لیکن پھر ” طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ“ کے الفاظ استعمال فرماکر خطاب کا رخ امت کی طرف پھیر دیا۔ چنانچہ ارشاد ہوا کہ اے لوگو! جب تم اپنی بیویوں کو ان کی عدت کے شروع میں طلاق دو تو طلاق کے دن شمار کیا کرو۔ طلاق کے دوران تمہیں حق نہیں پہنچتا کہ تم بلاوجہ اپنی بیویوں کو ان کے گھروں سے نکال باہر کرو۔ ایسا کرنا اللہ کی حدود کو توڑنے کے ساتھ اپنے آپ پر زیادتی کرنا ہے۔ طلاق کے لیے ” لِعِدَّتِھِنَّ“ کا لفظ استعمال کیا ہے جس کا مطلب ہے کہ طلاق حیض کے دوران یا مجامعت کے بعد نہیں دینی چاہیے۔ عدت کی ابتدا میں طلاق دینے سے عورت کی عدت تین مہینے سے زیادہ نہیں ہوگی اور عدت شمار کرنے میں غلطی کا امکان ختم ہوجائے گا۔ یہ حدود اس لیے مقرر کی گئی ہیں کہ اگر میاں، بیوی ان کا خیال کریں گے تو ہوسکتا ہے کہ طلاق رجعی کی صورت میں ان کے درمیان اللہ تعالیٰ صُلح اور آشتی کے حالات پیدا کر دے۔ اس بنا پر مرد کو سمجھایا ہے کہ وہ اپنی بیوی کو اس کی عدت کے دوران گھر میں رہنے دے اس گھر میں رہنا اس کا حق ہے۔ عورت کو یہ سمجھایا گیا ہے کہ وہ کسی قسم کی گستاخی، زیادتی اور بے حیائی کی حرکت نہ کرے۔ میاں بیوی میں سے جو بھی ان باتوں کا خیال نہیں رکھے گا۔ نہ صرف وہ اپنے آپ پر ظلم کرے گا بلکہ وہ اللہ کی حدود کو توڑنے والا ہوگا۔ اللہ کی حدود توڑنے والے ظالموں میں شمار ہوں گے۔ مسائل ١۔ بیوی کو طلاق اس کے طہر میں دینی چاہیے۔ ٢۔ عدت کے دوران عورت کا اپنے گھر میں رہنا اس کا حق ہے۔ ٣۔ عدت کے دوران عورت کو شرعی عذر کے بغیر گھر سے نکالنا اللہ کی حد سے تجاوز کرنا ہے۔ ٤۔ عورت اپنے خاوند کے گھر میں عدت گزارے تو اللہ تعالیٰ صُلح کا کوئی نہ کوئی راستہ نکال دے گا۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہوئے اس کی معین کردہ حدود کا احترام کرنا چاہیے۔ تفسیربالقرآن عدّت کے مسائل : ١۔ مطلقہ کی عدّت تین حیض ہے۔ (البقرۃ : ٢٢٨) ٢۔ بیوہ کی عدت چار ماہ دس دن ہے۔ (البقرۃ : ٢٣٤) ٣۔ حیض نہ آنے کی صورت میں عدّت تین ماہ ہے۔ (الطلاق : ٤، ٥) ٤۔ حاملہ کی عدّت وضع حمل ہے۔ (الطلاق : ٤) ٥۔ عدّت کے دن شمار کرنے چاہئیں۔ (الطلاق : ١) الطلاق
2 فہم القرآن ربط کلام : عدّت کے دوران میاں بیوی کی آپس میں صلح نہ ہو تو انہیں اچھے طریقے سے ایک دوسرے سے الگ ہوجانا چاہیے۔ بیوی کو کسی اہم وجہ کے بغیر طلاق دینا اللہ تعالیٰ کے نزدیک نہایت ہی ناپسندیدہ فعل ہے۔ اس لیے قرآن مجید میں طلاق دینے سے پہلے میاں بیوی اور ان کے لواحقین کو کچھ اقدامات اٹھانے کا حکم دیا گیا ہے۔ اگر طلاق دینا ناگزیر ہوجائے تو اس کا طویل طریقہ کار متعین کیا ہے تاکہ جہاں تک ہوسکے صورت حال کو طلاق تک پہنچنے سے روکاجائے۔ اگر بالفرض نباہ کی کوئی صورت باقی نہ رہے تو حکم ہے کہ جب عورتیں اپنی عدت پوری کرنے کو پہنچ جائیں تو طلاق رجعی کی صورت میں انہیں اچھے طریقے سے رکھنا ہے یا پھر بہترین انداز میں رخصت کرنا ہے۔ دونوں صورتوں میں دو منصف مزاج اور حق گو گواہوں کا ہونا لازم ہے تاکہ وہ بوقت ضرورت اللہ کے حکم کے مطابق ٹھیک، ٹھیک گواہی دیں۔ ان باتوں کی ان لوگوں کو نصیحت کی جاتی ہے جو اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتے ہیں۔ جو اللہ سے ڈرے گا اللہ تعالیٰ اس کے لیے مشکل سے نکلنے کا راستہ پیدا کردے گا اور اسے ایسی جگہ سے رزق عطا فرمائے گا جہاں سے اسے وہم و گمان بھی نہیں ہوگا، جو اللہ پر بھروسہ کرتا ہے اللہ اس کے لیے کافی ہوجاتا ہے۔ یقیناً اللہ تعالیٰ جو کام کرنا چاہتا ہے وہ ہو کر رہتا ہے۔ اس نے ہر چیز کا وقت مقرر کر رکھا ہے۔ یہاں تک رجوع اور فارغ کرنے کے وقت دو گواہ مقرر کرنے کا تعلق ہے، یہ قطعی حکم نہیں کیونکہ اس کے لیے نصیحت کا لفظ استعمال فرمایا ہے۔ اس لیے تمام مفسرین نے لکھا ہے کہ اس موقعہ پر گواہ بنانا بہتر ہے فرض نہیں۔ اس لیے سب کا اتفاق ہے کہ گواہوں کے بغیر رجوع اور طلاق واقع ہوجاتی ہے۔ طلاق کے وقت بالخصوص عورت کے دل میں اپنے مستقبل کے بارے میں فکر پیدا ہوتی ہے کہ آئندہ زندگی گزارنا اس کے لیے کس طرح ممکن ہوگا۔ اس خوف سے نکالنے کے لیے ارشادہوا کہ جو اللہ پر بھروسہ کرے گا اللہ تعالیٰ اسے ایسے مقام سے رزق عطا کرے گا جس کا وہ تصور بھی نہیں کرسکتا۔ رزق سے مراد ہر قسم کی نعمت اور زندگی کا سامان ہے۔ آدمی کے لیے اس میں یہ ہدایت ہے کہ اگر وہ اللہ کا حکم مان کر عورت کو رخصت کرتے وقت کچھ دیتا ہے تو اسے یقین کرنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ اسے ایسی جگہ سے رزق عطا فرمائے گا جہاں سے وہ توقع بھی نہیں کرتا تھا۔ اس آیت کی تفسیر میں اکثر مفسرین نے علامہ قرطبی کے حوالے سے یہ واقعہ لکھا ہے۔ عوف بن مالک اشجعی نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں آکر عرض کرتے ہیں کہ میرا بیٹا دشمن کی قید میں ہے۔ اس کی ماں اس کی جدائی میں بے چین اور نڈھال ہوچکی ہے۔ آپ اس کا کوئی حل ارشاد فرمائیں۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اپنے بیٹے اور بیوی کو کہو کہ وہ کثرت سے ” لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ إِلَّا باللّٰہِ“ کا ورد کریں۔ انہوں نے ورد کیا تو ان کا بیٹا تھوڑے ہی دن بعد دشمن کی قید سے رہا ہوگیا۔ (الرغیب و الترہیب : باب الذکر والدعاء) مسائل ١۔ مطلقہ عورت اپنی عدت پوری کرلے تو اسے اچھے انداز میں رکھنا ہے یا اچھے طریقے سے فارغ کرنا چاہیے۔ ٢۔ مطلقہ عورت کو فارغ کرتے ہوئے دو منصف مزاج گواہوں کی گواہی ڈالنی چاہیے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ اپنا فیصلہ نافذ کرنے والا ہے۔ ٤۔ جو اللہ سے ڈر کر معاملات طے کرے گا اللہ تعالیٰ اس کے لیے آسانی کا راستہ کھول دے گا۔ ٥۔ جو اللہ سے ڈر کر زندگی بسر کرے گا اللہ تعالیٰ اسے نامعلوم جگہ سے رزق عطا فرمائے گا۔ ٦۔ جو اللہ پر بھروسہ کرتا ہے اللہ اس کے لیے کافی ہوجاتا ہے۔ ٧۔ اللہ کے لیے سچی گواہی پر قائم رہنا چاہیے۔ ٨۔ اللہ تعالیٰ نے ہر کام کے لیے ایک وقت اور طریقہ مقرر کر رکھا ہے۔ الطلاق
3 الطلاق
4 فہم القرآن ربط کلام : عورتوں کے مسائل کا بیان جاری ہے۔ حیض سے نا امید اعورتوں کی عدت کا ذکر۔ ١۔ آسیہ یعنی وہ عورت جو عمررسیدہ ہونے کی و جہ سے حیض آنے سے ناامید ہوچکی ہو۔ طلاق ہونے کی صورت میں اس کی عدت تین قمری مہینے ہوگی۔ اس کے بارے میں ” اِنِ ا رْتَبْتُمْفَعِدَّتُہُنَّ ثَلَاثَۃُ اَشْہُرٍ“ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں جن کا معنٰی ہے کہ اگر تمہیں شک ہو تو اس کی عدت تین مہینے ہوگی۔ ان الفاظ سے کچھ لوگوں کو یہ شبہ پیدا ہوا ہے کہ شاید جس عورت کا حیض بند ہوچکا ہو اسے طلاق کے بعد تین مہینے کی عدت گزارنے کی ضرورت نہیں، یہ استدلال ٹھیک نہیں ہے بلکہ اسے بھی عدت گزارنی چاہیے۔ ٢۔ جو عورت بلوغت کی عمر کو نہیں پہنچی اور اس کے خاوند نے اسے طلاق دے دی تو اس کی عدت بھی تین مہینے ہوگی۔ اس سے ثابت ہوا کہ بلوغت سے پہلے عورت سے نکاح ہوسکتا ہے۔ ٣۔ حاملہ عورت کو طلاق ہوجائے تو اس کی عدت بچہ پیدا ہونے تک ہے۔ اسکی عدت میں صحابہ کرام [ کے درمیان دو نقطہ نظر پائے جاتے تھے۔ (أَخْبَرَنِی أَبُو سَلَمَۃَ (رض) قَالَ جَاءَ رَجُلٌ إِلَی ابْنِ عَبَّاسٍ وَأَبُو ہُرَیْرَۃَ (رض) جَالِسٌ عِنْدَہُ فَقَالَ أَفْتِنِی فِی امْرَأَۃٍ وَلَدَتْ بَعْدَ زَوْجِہَا بِأَرْبَعِینَ لَیْلَۃً فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ (رض) آخِرُ الأَجَلَیْنِ قُلْتُ أَنَا (وَأُولاَتُ الأَحْمَالِ أَجَلُہُنَّ أَنْ یَضَعْنَ حَمْلَہُنَّ) قَالَ أَبُو ہُرَیْرَۃَ (رض) أَنَا مَعَ ابْنِ أَخِی یَعْنِی أَبَا سَلَمَۃَ فَأَرْسَلَ ابْنُ عَبَّاسٍ (رض) غُلاَمَہُ کُرَیْبًا إِلَی أُمِّ سَلَمَۃَ (رض) یَسْأَلُہَا فَقَالَتْ قُتِلَ زَوْجُ سُبَیْعَۃَ الأَسْلَمِیَّۃِ وَہْیَ حُبْلَی فَوَضَعَتْ بَعْدَ مَوْتِہِ بِأَرْبَعِینَ لَیْلَۃً فَخُطِبَتْ فَأَنْکَحَہَا رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وَکَانَ أَبُو السَّنَابِلِ فیمَنْ خَطَبَہَا) ( رواہ البخاری : کتاب التفسیر : باب (وَأُولاَتُ الأَحْمَالِ أَجَلُہُنَّ أَنْ یَضَعْنَ حَمْلَہُنَّ، وَمَنْ یَتَّقِ اللَّہَ یَجْعَلْ لَہُ مِنْ أَمْرِہِ یُسْرًا) ” ابو سلمہ (رض) کہتے ہیں کہ ابن عباس (رض) کے پاس ایک شخص آیا۔ اس وقت حضرت ابوہریرہ (رض) بھی ان کے پاس بیٹھے تھے وہ شخص کہنے لگا کہ ایک عورت کے ہاں اس کا خاوند فوت ہونے کے چالیس دن بعد بچہ پیدا ہوا؟ اس کی عدت کے بارے میں آپ کا کیا فتویٰ ہے۔ ابن عباس (رض) نے کہا کہ وہ لمبی عدت (چار ماہ دس دن) پوری کرے۔ ابوسلمہ (رض) کہنے لگے پھر اس آیت کا کیا مطلب ہوا کہ ” حاملہ کی عدت ان کے وضع حمل تک ہے۔“ سیدنا ابوہریرہ (رض) کہنے لگے میں تو اپنے بھتیجے ابوسلمہ (رض) کی رائے سے اتفاق کرتا ہوں۔ ابن عباس (رض) نے یہی مسئلہ پوچھنے کے لیے اپنے غلام کریب کو ام المومنین ام سلمہ (رض) کے پاس بھیجا۔ ام سلمہ (رض) نے فرمایا سبیعہ اسلمیہ کا خاوند (سعد بن خولہ) اس وقت فوت ہوا جب وہ حاملہ تھی۔ خاوند کی وفات کے چالیس دن بعد اس کے ہاں بچہ پیدا ہوا تو اسے نکاح کے پیغام آنے لگے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے نکاح کی اجازت دے دی پیغام دینے والوں میں سے ابوسنابل بھی شامل تھا۔“ یہ ” اللہ“ کے احکام ہیں جن پر ہر صورت عمل ہونا چاہیے۔ جو شخص اللہ سے ڈرے گا اللہ تعالیٰ اس کے لیے آسانی پیدا فرمائے گا اور اس کے گناہ معاف فرما کر اسے اجر عظیم سے سرفراز فرمائے گا۔ یادرہے کہ کچھ معاملات ایسے ہوتے ہیں جن پر قانون کے ذریعے پوری طرح گرفت کرنا ممکن نہیں ہوتا ان معاملات میں میاں بیوی کے آپس کے تعلقات بھی شامل ہیں اگر ان میں بگاڑ پیدا ہوجائے تو صرف ایک ہی طریقہ ہے جس کے ذریعے معاملات کو آسانی کے ساتھ سدھارا جاسکتا ہے وہ طریقہ اللہ کا خوف اختیار کرنا ہے۔ اگر فریقین میں اللہ کا خوف پیدا ہوجائے تو معاملات کو سدھارنے میں آسانی پیدا ہوجائے گی۔ اس وجہ سے عائلی قوانین کا ذکر کرتے ہوئے بار بار میاں بیوی کو ” اِتَّقُوْا اللّٰہ“ کا حکم دیا گیا ہے۔ تقویٰ اختیار کرنے سے اللہ تعالیٰ میاں بیوی کے لیے آسانی پیدا فرمائے گا اس کا دوسرا مفہوم یہ ہے کہ اگر تم اللہ کے احکام پر عمل کروگے تو علیحدگی کی صورت میں اللہ تعالیٰ دونوں کے لیے آسانی پیدا فرمائے گا۔ مسائل ١۔ حیض سے مایوس عورتیں بھی طلاق کے بعد تین مہینے عدت پوری کریں گی۔ ٢۔ نابالغ عورت کو بھی طلاق کے بعد تین مہینے عدت پوری کرنا ہوگی۔ ٣۔ حاملہ عورت کی عدت بچہ جنم دینے کے ساتھ ہی پوری ہوجائے گی۔ تفسیر بالقرآن مطلقہ اور بیوہ عور توں کی عدت کے احکام : ١۔ مطلقہ کی عدّت تین حیض ہے۔ (البقرۃ : ٢٢٨) ٢۔ بیوہ کی عدت چار ماہ دس دن ہے۔ (البقرۃ : ٢٣٤) ٣۔ حیض نہ آنے کی صورت میں مطلقہ کی عدّت تین ماہ ہے۔ (الطلاق : ٤، ٥) ٤۔ عورت شوہر کے گھر عدّت گزارسکتی ہے۔ (الطلاق : ١) ٥۔ دورانِ عدّت نکاح جائز نہیں۔ (البقرۃ: ٢٣٥) ٦۔ مباشرت سے قبل طلاق ہونے کی صورت میں عدّت نہیں ہوگی۔ (الاحزا ب : ٤٩) ٧۔ طلاق والی حاملہ بچہ جنم دینے تک مکان اور نفقہ کی حق دار ہے۔ (الطلاق : ٦) ٨۔ عدّت والی حمل نہ چھپائے۔ (البقرۃ: ٢٢٨) ٩۔ عدّت میں منگنی کا اشارہ کرنے میں گناہ نہیں۔ (البقرۃ : ٢٣٥) تقویٰ کے فوائد : ١۔ متقین کے لیے کامیابی ہے۔ (الانبیاء : ٣١ تا ٣٣) ٢۔ متقین کا بہتر انجام ہے۔ (ہود : ٤٩) ٣۔ متقین کے لیے جنت ہے۔ (الحجر : ٤٥) ٤۔ اللہ تعالیٰ نے متقین کے ساتھ جنت کا وعدہ فرمایا ہے اور کافروں کا انجام دوزخ کی آگ ہے۔ (الرعد : ٣٥) ٥۔ قیامت کے دن متقین کے چہرے ہشاش بشاش ہوں گے۔ (یونس : ٢٦۔ ٢٧) ٦۔ متقین کے لیے ان کے رب کے پاس نعمتوں والی جنت ہے۔ (القلم : ٣٤) ٧۔ متقی کا کام آسان اور اس کی سب خطائیں معاف اور ان کے لیے بڑا اجر ہوگا۔ (الطلاق : ٤ تا ٥) ٨۔ متقین اولیاء اللہ ہیں جو قیامت کے دن بے خوف ہوں گے۔ ( یونس : ٦١ تا ٦٤) الطلاق
5 الطلاق
6 فہم القرآن ربط کلام : مطلقہ اور بیوہ عورت کی عدت کے دوران نان نفقہ کی ذمہ داری کا ذکر۔ اسی سورت کی پہلی آیت میں یہ حکم دیا گیا ہے کہ مطلقہ عورتوں کو عدّت کے دوران ان کے گھروں سے نکالنا جائز نہیں جو شخص بلاوجہ انہیں ان کے گھروں سے نکالے گا وہ اللہ کی حدود کو توڑنے کی وجہ سے ظالم ٹھہرے گا۔ اس آیت میں یہ ہدایت کی گئی ہے کہ مطلقہ عورتوں کو ان کی عدت کے دوران ان کے خاوند اپنے پاس رکھیں اور انہیں پریشان کرنے کے لیے کسی قسم کی تکلیف نہ دیں۔ اگر وہ حمل سے ہوں تو بچہ پیدا ہونے تک ان کے اخراجات اٹھانا ان کے خاوندوں کی ذمہ داری ہوگی اگر وہ تمہارے کہنے سے اپنے بچے کو دودھ پلائیں تو پھر انہیں نان ونفقہ دینا ہوگا۔ اگر میاں بیوی کے درمیان بچے کے دودھ پلانے میں موافقت نہ ہوسکے تو پھر کوئی دوسری عورت بچے کو دودھ پلائے گی۔ مال دار آدمی اپنی وسعت کے مطابق اور تنگدست اپنی بساط کے مطابق خرچ کرے گا اگر تم اپنی اپنی بساط کے مطابق خرچ کرو گے تو اللہ تعالیٰ تمہارے لیے وسعت پیدا فرمائے گا۔ ” اور مائیں اپنی اولاد کو پورے دو سال دودھ پلائیں جن کا ارادہ دودھ پلانے کی مدت پوری کرنے کا ہو اور باپ کے ذمہ دستور کے مطابق ان کا نان ونفقہ ہے ہر شخص کو اتنی ہی تکلیف دی جاتی ہے جتنی اس کی طاقت ہو۔ ماں کو اس کے بچہ کی وجہ سے، باپ کو اس کی اولاد کی وجہ سے کوئی تکلیف نہ دی جائے۔ وارثوں پر بھی اس جیسی ذمہ داری ہے، پھر اگر ماں باپ اپنی رضا مندی اور باہمی مشورے سے دودھ چھڑانا چاہیں تو ان دونوں پر کچھ گناہ نہیں اور اگر تمہارا ارادہ اپنی اولاد کو دودھ پلوانے کا ہو تو بھی تم پر کوئی گناہ نہیں جب کہ تم دستور کے مطابق جو طے کیا ہے وہ ان کے حوالے کر دو۔ اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو اور جان لو کہ اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال کو دیکھ رہا ہے۔“ (البقرۃ: ٢٣٣) مسائل ١۔ طلاق دینے والا شخص اپنی بیوی کوتین مہینے اپنے گھر رہنے کی اجازت دے۔ ٢۔ تین مہینے کی عدت کے دوران عورت کو اس کے خاوند کی طرف سے کسی قسم کی تکلیف نہیں ہونی چاہیے۔ ٣۔ باہمی رضامندی سے بچے کو دودھ پلایا جائے تو بچے کے باپ کے ذمہ عورت کو نان ونفقہ دینا چاہیے۔ ٤۔ اگر بچے کو کوئی اور دایہ دودھ پلائے تو اسے بھی اجرت دینی چاہیے۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ ہی ہر کسی کے لئے آسانی اور کشادگی پیدا کرنے والا ہے۔ تفسیر بالقرآن طلاق دینے کے بعد عورت اور مرد کی ذمہ داریاں : ١۔ عورت شوہر کے گھر عدّت گزارسکتی ہے۔ (الطلاق : ١) ٢۔ عدّت والی عورت حمل نہ چھپائے۔ (البقرۃ: ٢٢٨) ٣۔ خاوند اپنی بیوی سے ہاتھ لگائے بغیر طلاق دے تو عورت کے لیے عدّت نہیں۔ (الاحزا ب : ٤٩) ٤۔ عدّت والی حاملہ ہو تو بچہ جنم دینے تک مکان اور نفقہ کی حق دار ہے۔ (الطلاق : ٦) ٥۔ عدّت میں منگنی کا اشارہ کرنے میں گناہ نہیں۔ (البقرۃ : ٢٣٥) ٦۔ دورانِ عدّت نکاح جائز نہیں۔ (البقرۃ: ٢٣٥ الطلاق
7 الطلاق
8 فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ کے ا حکام کی جو لوگ پرواہ نہیں کرتے انہیں اپنے سے پہلے نافرمان لوگوں کے انجام کو سامنے رکھنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ نے عائلی قوانین بیان کرتے ہوئے انہیں کئی مرتبہ حدود اللہ قرار دیا ہے اور بار بار حکم دیا ہے کہ میاں، بیوی کو حدود کے بارے اللہ تعالیٰ سے ڈرنا چاہیے۔ اگر دونوں کے درمیان نباہ کی کوئی صورت باقی نہ رہے تو علیحدگی بھی اچھے انداز میں ہونی چاہیے۔ انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرتے ہیں اللہ تعالیٰ انہیں سخت عذاب دینے والا ہے۔ اگر لوگوں کو اس بات پر یقین نہیں آتا تو انہیں اپنے سے پہلے نافرمان لوگوں کا انجام اپنے سامنے رکھنا چاہیے۔ جب انہوں نے اللہ اور اس کے رسول کی مسلسل نافرمانی کی تو اللہ تعالیٰ نے انہیں ایسے عذاب میں مبتلا کیا جس کی مثال اس سے پہلے موجود نہ تھی ان لوگوں نے اپنے گناہوں کا انجام پایا اور ایسے لوگوں کا انجام برا ہی ہوا کرتا ہے۔ یہ ان کی دنیا میں سزاتھی آخرت میں انہیں شدید ترین عذاب دیا جائے گا۔ جو شخص اللہ کے عذاب سے بچنا چاہتا ہے اسے ہر حال میں اس سے ڈرتے رہنا چاہیے کیونکہ اس کا فرمان ہے کہ اے عقل والو! ہر حال میں اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو اور اس پر ٹھیک طریقے سے ایمان لاؤ کیونکہ اس نے تمہارے لیے اپنی نصیحت یعنی کتاب نازل فرمائی ہے جس میں تمہارے لیے مکمل راہنمائی کا بندوبست کیا ہے۔ (یٰٓا أَ یُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِنْ تَتَّقُوا اللّٰہَ یَجْعَلْ لَّکُمْ فُرْقَانًا وَّ یُکَفِّرْ عَنْکُمْ سَیِّاٰتِکُمْ وَ یَغْفِرْلَکُمْ وَ اللّٰہُ ذُوالْفَضْلِ الْعَظِیْمِ) (الانفال : ٢٩) ” اے لوگوجو ایمان لائے ہو! اگر تم اللہ سے ڈرو گے تو وہ تمہیں حق وباطل میں فرق کرنے کی صلاحیت دے گا اور تم سے تمہاری برائیاں دور کرے گا اور تمہیں بخش دے گا اور اللہ بڑے فضل والاہے۔“ مسائل ١۔ جن لوگوں نے اللہ اور اس کے رسولوں کی نافرمانی کی اللہ تعالیٰ نے ان کا سخت محاسبہ کیا اور انہیں ہولناک عذاب میں مبتلا کیا۔ ٢۔ اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرنے والے بالآخر اپنپے کیے کی سزا پاتے ہیں۔ نافرمانوں کا انجام کبھی اچھا نہیں ہوا کرتا۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ نے نافرمان لوگوں کے لیے آخرت میں شدید ترین عذاب تیار رکھا ہے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کے لیے اپنی کتاب نازل فرمائی ہے تاکہ عقل مند لوگ اس سے نصیحت حاصل کریں۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ کی نصیحت کی مختلف صورتیں۔ ١۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کو نصیحت کے لیے نازل فرمایا۔ (آ : ٢٩) ٢۔ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں مثالیں بیان کرتا ہے تاکہ لوگ نصیحت حاصل کریں۔ (الزمر : ٢٧) ٣۔ اللہ تعالیٰ لوگوں کے لیے اپنی آیات کھول کھول کر بیان کرتا ہے تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں۔ (البقرۃ: ٢٢١) ٤۔ صاحب عقل ہی نصیحت حاصل کرتے ہیں۔ (الزمر : ٩) ٥۔ ہم نے جو کتاب نازل کی ہے اس میں تمہارے لیے نصیحت ہے تم عقل کیوں نہیں کرتے۔ (الانبیاء : ١٠) ٦۔ ہم نے قرآن مجید کو واضح کردیا تاکہ لوگ نصیحت حاصل کریں۔ (بنی اسرئیل : ٤١) ٧۔ اللہ تعالیٰ نے آل فرعون کو مختلف عذابوں سے دو چار کیا تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں۔ (الاعراف : ١٣٠) ٨۔ نہیں ہے تمھارے لیے اللہ کے سوا کوئی دوست اور سفارشی پھر تم نصیحت کیوں نہیں حاصل کرتے۔ (السجدۃ: ٤) الطلاق
9 الطلاق
10 الطلاق
11 فہم القرآن ربط کلام : جس ذکر کا اس سے پہلے بیان ہوا ہے وہ ذکر ” اللہ“ نے اپنے رسولوں پر نازل فرمایا جن میں آخری رسول حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں۔ الرّسول کی ذمہ داری ہے کہ وہ اللہ کے احکام لوگوں کے سامنے کھول کھول کر بیان فرمائے۔ اللہ تعالیٰ نے نبی آخر الزماں (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اپنا ذکر یعنی آخری کتاب نازل فرمائی۔ جس کے بارے میں سورۃ الجمعہ کی ابتدا میں ارشادہوا کہ اسی نے اَن پڑھ قوم میں انہی میں سے ایک رسول منتخب کیا جو ان کے سامنے اس کی آیات پڑھتا ہے اور ان کا تزکیہ کرتے ہوئے انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے الرّسول کی بعثت سے پہلے لوگ کھلی گمراہی میں مبتلا تھے۔ سورت ابراہیم کی پہلی آیت میں فرمایا کہ اس کتاب کو ہم نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل فرمایا اس لیے کہ آپ اپنے رب کے حکم سے لوگوں کو ہر قسم کے اندھیروں سے نکال کر نور کی طرف لائیں۔ اللہ تعالیٰ ہر اعتبار سے غالب اور لائقِ تعریف ہے۔ یہاں ارشاد فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ذکر نازل کرنے کے ساتھ اپنا رسول بھیجا تاکہ تمہارے سامنے اللہ کے احکام کھول کھول کر بیان کرے اور ان لوگوں کو اندھیروں سے روشنی کی طرف لے آئے۔ جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاتے ہیں اور ایمان لاکر صالح اعمال کرتے ہیں۔ جو بھی اللہ پر ایمان لاکر صالح اعمال کرے گا اللہ تعالیٰ اسے جنت میں داخل فرماے گا جس کے نیچے سے نہریں جاری ہیں اور وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔ اللہ تعالیٰ انہیں بہترین رزق عطا فرمائے گا۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صبح کی نماز سے پہلے دعا : (اللّٰہُمَّ اجْعَلْ فِی قَلْبِی نُورًا وَفِی بَصَرِی نُورًا وَفِی سَمْعِی نُورًا وَعَنْ یَمِینِی نُورًا وَعَنْ یَسَارِی نُورًا وَفَوْقِی نُورًا وَتَحْتِی نُورًا وَأَمَامِی نُورًا وَخَلْفِی نُورًا وَاجْعَلْ لِیّ نُورًا) (رواہ البخاری، کتاب الدعوات، باب الدعا اذا انتبدہ بالیل) ” اے اللہ میرے دل میں نور پیدا فرمادے میری نگاہ میں بھی نور، میرے کا نوں میں بھی نور، میرے دائیں بھی نور، میرے بائیں بھی نور، میرے اوپر بھی نور، میرے نیچے بھی نور، میرے آگے بھی نور، میرے پیچھے بھی نور، اور میرے لیے نور پیدا فرما۔“ مسائل ١۔ الرسول لوگوں کے سامنے اللہ کے احکام کھول کھول کر بیان کرتے تھے۔ تاکہ لوگوں کو اندھیروں سے روشنی کی طرف لایا جائے۔ ٢۔ جو لوگ اللہ پر ایمان لائیں اور صالح اعمال کریں گے اللہ تعالیٰ انہیں ہمیشہ ہمیش کے لیے جنت میں داخل فرمائے گا۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ جنتیوں کو بہترین رزق عطا فرمائے گا۔ تفسیر بالقرآن انبیائے کرام (علیہ السلام) کی بعثت کا مقصد : ١۔ انبیاء کرام (علیہ السلام) کا پہلا مقصد ” اللہ“ کی توحید کی دعوت دینا تھا۔ (الانبیاء : ٢٥) ٢۔ ” اللہ تعالیٰ“ نے ہر امت میں رسول مبعوث فرمائے ان کی بعثت کا مقصد لوگوں کو ” اللہ“ کی بندگی کی طرف بلانا اور شیطان کی بندگی سے روکنا تھا۔ (النمل : ٣٦) ٣۔ اللہ تعالیٰ نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اس لیے قرآن مجید نازل کیا تاکہ آپ لوگوں کو ہر قسم کی جہالت سے نکال کر دین کی روشنی کی طرف لانے کی کوشش کریں۔ (ابراہیم : ١) ٤۔ ” اللہ تعالیٰ“ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو ان کی قوم کی طرف اس لیے مبعوث فرمایا کہ وہ انہیں ظلمات سے نکال کر دین کی روشنی کی طرف لائیں۔ (ابراہیم : ٥) ٥۔ ” اللہ تعالیٰ“ نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس لیے مبعوث فرمایا کہ آپ لوگوں کے سامنے اللہ کی کتاب پڑھیں انہیں گناہوں سے پاک کریں، اور انہیں کتاب وحکمت کی تعلیم دیں۔ (الجمعہ : ٢) ٦۔” اللہ تعالیٰ“ نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس لیے مبعوث فرمایا کہ آپ انہیں نیکی کا حکم کریں اور برائی سے منع کریں، طیب چیزوں کو ان کے لیے حلال کریں اور گندی چیزوں کو ان کے لیے حرام قرار دیں اور ان سے ناروا بوجھ اتار دیں اور ان کی گردنوں کو ناجائز پابندیوں سے آزاد کریں۔ (اعراف : ١٥٧) الطلاق
12 فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ پر اس لیے ایمان لانا اور اس کے حکم کے مطابق نیک اعمال کرنے ہیں کیونکہ رب نے زمین و آسمانوں کو پیدا فرمایا اور وہی پورے نظام کو چلا رہا ہے۔ سورۃ البقرہ کی آیات ٢١ اور ٢٢ میں اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ اے لوگو! اپنے رب کی عبادت کرو جس نے تمہیں اور تم سے پہلے لوگوں کو پیدا کیا تاکہ تم پرہیزگار ہوجاؤ۔ اسی نے تمہارے لیے زمین کو فرش اور آسمان کو چھت بنایا وہی آسمان سے پانی نازل کرتا ہے اور اس کے ذریعے تمہیں پھلوں سے رزق عطا کرتا ہے، اس کے سوا نہ کوئی پیدا کرنے والا اور نہ تمہیں رزق دینے والا ہے، حقیقت جاننے کے باوجود اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بناؤ۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں بڑی تفصیل کے ساتھ سات آسمانوں کا ذکر کیا ہے۔ الارض عربی زبان میں واحد اور جمع دونوں کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اسی لیے اس مقام پر یہ الفاظ کی وضاحت فرما دی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سات آسمان پیدا کیے اور ان کی مثل یعنی سات زمینیں پیدا فرمائیں۔ وہ ان کے درمیان اپنے احکام نازل کرتا ہے تاکہ تم انہیں جاننے اور سمجھنے کی کوشش کرو کہ یقیناً اللہ ہر چیز پر قادر ہے اور وہی اپنے علم، اقتدار اور اختیارات کے حوالے سے ہر چیز کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ (عَنِ الْحَسَنِ قَالَ قَالَتِ الْیَہُودُ خَلَقَ اللّٰہ تَبَارَکَ وَتَعَالَی السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ فِی سِتَّۃِ أَیَّامٍ وَاسْتَرَاحَ فِی الْیَوْمِ السَّابِعِ فَأَنْزَلَ اللہُ تَبَارَکَ وَتَعَالَی عَلَی نَبِیِّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (وَلَقَدْ خَلَقْنَا السَّمَاوَاتِ وَمَا بَیْنَہُمَا فِی سِتَّۃِ أَیَّامٍ وَمَا مَسَّنَا مِنْ لُّغُوبٍ) ( المجالسۃ وجواھرالعلم : ج : ٦، ص : ٢٢٣) ” حضرت حسن (رح) بیان کرتے ہیں کہ یہودیوں نے کہا : اللہ تعالیٰ نے آسمان و زمین کو چھ دن میں پیدا کیا اور ساتویں دن آرام فرمایا تو اللہ تعالیٰ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر یہ آیت نازل فرمائی۔” ہم نے زمین اور آسمانوں کو اور جو کچھ ان کے درمیان ہے اسے چھ دنوں میں پیدا کیا اور ہمیں تھکان نہیں ہوئی۔“ الطلاق
0 سورۃ التحریم کا تعارف اس سورت کا نام اس کی پہلی آیت سے لیا گیا ہے اس کی بارہ آیات اور دو رکوع ہیں یہ سورت مدینہ منورہ میں نازل ہوئی اس میں ٩ مختلف اصول بیان کیے گئے ہیں : ١۔ اللہ تعالیٰ کی حلال کردہ چیز کو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی حرام نہیں کرسکتے۔ ٢۔ اگر کسی مسئلہ میں غلط قسم اٹھا لی جائے تو اس قسم کو توڑ کر اس کا کفّارہ ادا کرنا چاہیے۔ ٣۔ اگر کوئی شخص دوسرے کے سامنے اپنے راز بیان کرے تو اس پر لازم ہے کہ وہ اس کے راز کی حفاظت کرے۔ ٤۔ مسلمان خواتین کو حتی المقدور کوشش کرنی چاہیے کہ وہ ہر حال میں اپنے آپ کو ” اللہ“ اور اس کے رسول کا پابند رکھیں اور اپنی شرم و حیا کی حفاظت کریں۔ ٥۔ مسلمان کا گھر اسلامی معاشرے کا پہلا اور بنیادی یونٹ ہے اس لیے مومنوں پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے اہل و عیال کی اصلاح کرتے رہیں تاکہ وہ جہنم کی ہولناکیوں سے بچا لیے جائیں ٦۔ ہر مسلمان کا فرض ہے کہ غلطی ہوجانے کے بعد اللہ تعالیٰ کے حضور سچی توبہ کرے ناصرف اس کی غلطی کو معاف کیا جائے گا بلکہ اللہ تعالیٰ اسے جنت میں داخل فرمائے گا کیونکہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے۔ ٧۔ مسلمانوں کو کفار اور منافقین کے ساتھ قلبی محبت رکھنے کی بجائے ان کی ساتھ جہاد فی سبیل اللہ میں سختی کرنی چاہیے۔ ٨۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح (علیہ السلام) اور حضرت لوط (علیہ السلام) کی بیویوں کا کردار اور انجام بیان فرمایا ہے جس میں یہ ثابت کیا گیا ہے کہ بے شک کسی کافر، مشرک اور منافق کا کسی مومن یا نبی کے ساتھ کتنا قریبی رشتہ کیوں نہ ہو تو یہ رشتہ اسے اللہ تعالیٰ کی پکڑ سے نہیں بچا سکتا۔ ٩۔ حضرت نوح اور حضرت لوط (علیہ السلام) کی بیویوں کے مقابلے میں دو عورتوں کا ذکر کیا گیا ہے جن میں پہلی عورت دنیا کے بدترین انسان فرعون کی بیوی تھی جو موسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لائی۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے ایمان کو قبول فرمایا اور نہ صرف اسے فرعون کے مظالم سے نجات دی بلکہ اسے دنیا میں بھی جنت کا گھر دکھا دیا گیا۔ دوسری عورت جس کا ذکر کیا گیا ہے وہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی والدہ ماجدہ ہیں جن کی پاک دامنی کی گواہی دی گئی ہے کیونکہ وہ ہر حال میں اپنے رب کی اعاعت کرنے والی تھی۔ التحريم
1 فہم القرآن ربط سورت : التغابن کا اختتام اس بات پر ہوا کہ اللہ تعالیٰ اپنے علم سے ہر چیز کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ سورۃ التحریم کی ابتدا میں اس کا ثبوت نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے اہل خانہ کے حوالے سے دیا گیا ہے۔ التحریم کا لفظ حرمت سے نکلا ہے جو عام طور پر کھانے پینے کے بارے میں استعمال ہوتا ہے اس کا معنٰی ہے کہ کسی چیز کو حرام کرنا یاسمجھنا۔ اس سورت کا نام التحریم رکھا گیا اس لیے کہ اس کی پہلی آیت میں اس واقعہ کی نشاندہی کی گئی ہے جو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ آپ کی ازواج مطہرات کی طرف سے پیش آیا۔ واقعہ اس طرح ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عصر کی نماز کے بعد اپنی ازواج مطہرات کے ہاں باری باری کچھ وقت گزارتے تاکہ گھریلو حالات سے آگہی اور گھر والوں کی ضروریات کو پورا کیا جائے۔ آپ حضرت زینب (رض) کے ہاں تشریف لے جاتے تو وہ آپ کی خدمت میں شہد پیش کرتیں، بسا اوقات آپ ان کے ہاں زیادہ دیر ٹھہر جاتے۔ حضرت عائشہ اور حضرت حفصہ (رض) نے اس بات کو محسوس کیا اور انہوں نے آپس میں مشورہ کرنے کے بعد حضرت سودہ (رض) کو ساتھ ملایا اور کہا کہ جب اللہ کے رسول ہمارے گھروں میں آئیں تو ہم آپ سے یہ بات کہیں کہ کیا آپ نے مغافیر کا رس پیا ہے، یہ ایسا پھول ہے کہ جس سے تھوڑی سی بوساند آتی ہے۔ ازواج مطہرات کو معلوم تھا کہ آپ خوشبو سے رغبت رکھتے ہیں اور بدبوسے انتہائی نفرت کرتے ہیں۔ اللہ کے نبی حسب معمول اپنی بیوی زینب (رض) کے ہاں چند گھڑیاں بیٹھنے کے بعد یکے بعد دیگرے حضرت عائشہ، حضرت سودہ اور حضرت حفصہ (رض) کے گھر تشریف لے گئے تو طے شدہ پروگرام کے مطابق تینوں نے آپ سے یہ بات کہی کہ کیا آپ نے مغافیر کھایا ہے جس وجہ سے آپ کے منہ سے ہلکی سی بو محسوس ہو رہی ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میں نے مغافیر نہیں بلکہ شہد کھایا ہے۔ ازواج مطہرات کی گفتگو سے متاثر ہو کر آپ نے قسم اٹھا لی میں آئندہ شہد نہیں کھاؤں گا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! اللہ آپ کو معاف فرمائے کہ آپ نے اپنی بیویوں کی خاطر اس چیز کو حرام کرلیا ہے جسے اللہ تعالیٰ نے آپ کے لیے حلال قرار دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ایسی قسموں کو حلال کرنے کے لیے تمہارے لیے کفارہ مقرر کردیا ہے، اللہ ہی تمہارا کارساز ہے اور وہ سب کو جاننے والا ہے۔ اس کے ہر کام اور حکم میں حکمت پائی جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا مؤاخذہ کرنے کی بجائے نہایت ہی کریمانہ انداز میں ارشاد فرمایا ہے کہ اللہ غفور الرحیم ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ نے آپ کو معاف فرما دیا ہے۔ البتہ آپ کی یہ شان نہیں کہ اپنی بیویوں یا کسی دوسرے کی خاطر اللہ کی حلال کردہ چیز کو حرام قرار دیں۔ ان آیات کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے اپنے بارے میں غفور الرحیم، علیم اور حکیم ہونے کے ساتھ فرمایا ہے کہ وہ تمہارا مولیٰ ہے جس میں یہ کھلا اشارہ ہے کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ خود مختار نہیں کہ جو دل میں آئے کرلیں بلکہ اللہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا مولیٰ ہے یعنی تمام اختیارات اس کے پاس ہیں۔ وہ آپ کا خیر خواہ ہے اس لیے ہر موقعہ پر آپ کی راہنمائی کرتا ہے۔ مسائل ١۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اختیار میں میں نہیں تھا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے متعین کردہ حلال و حرام میں تبدیلی کرسکیں۔ ٢۔ کسی شخص کو بھی یہ اختیار نہیں کہ وہ اپنے یا کسی کی خاطر حلال و حرام میں تبدیلی کرے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی مہربانی سے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے تمام گناہوں کو معاف کردیا۔ ٤۔ اللہ ہی سب کا خیرخواہ اور مولیٰ ہے۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ سب کچھ جاننے والا اور حکیم ہے۔ تفسیر بالقرآن قسم کا کفارہ اور اس کے مسائل : ١۔ لغو قسم پر کسی قسم کا مؤاخذہ نہیں۔ (البقرۃ: ٢٢٥) ٢۔ پختہ قسم کھانے کے کفارے کی تین صورتیں ہیں۔ دس مسکینوں کو کھانا کھلانایا کپڑے پہنانا یا ایک غلام آزاد کرنایہ کام نہ ہو سکیں تو تین دن کے روزے رکھنا ہے۔ (المائدۃ: ٨٩) ٣۔ قسموں کو پورا کرنے کا حکم ہے۔ (النحل : ٩١ تا ٩٤) ٤۔ صدقہ نہ کرنے پر قسم کھانا منع ہے۔ (النور : ٢٢) ٥۔ بلا اراداہ ٹھائی جانے والی قسموں پر مؤاخذہ نہیں ہوگا۔ (البقرۃ: ٢٢٥) ٦۔ بہانے کے طور پر اللہ کی قسم نہیں کھانا چاہیے۔ (البقرۃ: ٢٢٤) (آل عمران : ٧٧) التحريم
2 التحريم
3 فہم القرآن ربط کلام : نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی بیویوں کے کہنے پر قسم اٹھائی کہ میں آئندہ شہد نہیں کھاؤں گا اس لیے اس سورۃ کا آغاز اس فرمان سے ہوا کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ اللہ کی حلال کردہ چیز کو حرام نہیں کرسکتے۔ اللہ تعالیٰ نے تمہیں قسموں کو توڑنے کا طریقہ بتلا دیا ہے اور یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ سب کچھ جاننے والا اور اس کے ہر حکم اور کام میں حکمت ہوا کرتی ہے یہ اس کی پُر حکمت تعلیم ہے تاکہ تمہیں معلوم ہو کہ کسی سے راز کی بات کرنے سے پہلے اس کی راز داری کی صلاحیت کو جاننا ضروری ہے۔ نبی (علیہ السلام) نے آئندہ شہد نہ کھانے کی قسم کھائی اور یہ بات صرف حضرت سودہ (رض) سے بیان فرمائی اور اسے ارشاد فرمایا کہ یہ بات کسی اور تک نہیں پہنچنی چاہیے، لیکن انہوں نے آپ کے فرمان کو راز میں رکھنے کی بجائے آگے ذکر کردیا اس پر اللہ تعالیٰ نے آپ کو آگاہ فرمایا۔ آپ نے اس کے متعلق سودہ (رض) سے پوچھا تو اس نے کہا کہ اللہ کے رسول ! آپ کو اس بات کا کس طرح علم ہوا ہے کہ میں نے آپ کا راز ظاہر کردیا ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ مجھے اس رب نے خبر دی ہے جو سب کچھ جانتا ہے اور ہر بات سے باخبر رہتا ہے۔ جن بیویوں نے یہ پالان بنایا تھا انہیں مخاطب کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ تم اللہ کے حضور توبہ کرو کیونکہ تمہارے دل ٹیڑھے ہوچکے ہیں، اگر تم نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تکلیف پہنچانے کے لیے آپس میں ایک دوسرے کی مدد کی تو یاد رکھو! اللہ تعالیٰ اپنے نبی کا مددگار ہے اور جبر یل امین، صالح کردار مؤمن اور ملائکہ بھی اس کے مددگار ہیں۔ شہد کے بارے میں آپ کے راز کو افشاں کرنا بظاہر چھوٹا سا واقعہ ہے لیکن اگر اس کی حقیقت اور اس کے نتائج پر غور کیا جائے تو یہ بہت بڑا واقعہ تھا۔ جس وجہ سے اس کا مؤاخذہ کرتے ہوئے رب والجلال نے یہ عتاب نازل فرمایا ایک اے نبی آپ کی جن بیویوں نے آپس میں یہ پروگرام بنایا اور پھر آپ کے منع کرنے کے باوجود آپ کے راز کو ظاہر کردیا۔ یہ کوئی معمولی واقعہ نہیں تھا۔ کیونکہ اللہ کے نبی اپنی بیویوں کے خاوند ہی نہیں تھے بلکہ پوری امت کے نبی اور مملکت کے سربراہ تھے، اگر نبی کی بیویاں بھی آپ کے بتلائے ہوئے ذاتی اور مملکت کے راز کی حفاظت نہیں کرسکتیں تو دوسروں پر کتنا بھروسہ کیا سکتا ہے ؟ اس لیے انہیں توبہ کرنے کا حکم دینے کے ساتھ یہ بھی انتباہ کیا گیا کہ اگر تم نے آئندہ کے لیے کوئی ایسی لغزش کی تو یاد رکھنا اللہ تعالیٰ اپنے نبی کا خیر خواہ اور مولیٰ ہے۔ جبریل امین سمیت تمام ملائکہ اور سب مومن بھی آپ کے مددگار ہیں۔ ایسی صورت میں تمہاری کون حمایت اور حفاظت کرے گا؟ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو آپ کا راز افشاں ہونے کی خبر دی۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ علیم اور خبیر ہے۔ ٣۔ انسان سے غلطی سرزد ہو تو اسے اللہ سے معافی مانگنی چاہیے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ نے ہر مشکل وقت پر اپنے نبی کی مدد فرمائی : (التوبہ : ٤٠) (آل عمران : ١٢٣) ( الاحزاب : ٩) ( النصر : ١) (التوبہ : ٢٥) (الروم : ٥) (آل عمران : ١٢٦) (آل عمران : ١٥٠) التحريم
4 التحريم
5 فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ کی طرف سے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ازواج مطہرات کو ایک اور تنبیہ۔ ازواج مطہرات کو توبہ کرنے کا حکم دینے کے بعد دوسری تنبیہ یہ کی گئی کہ اگر تم نے دوبارہ ایسی غلطی کی تو یاد رکھناکہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تمہیں طلاق دے دی تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا رب اپنے نبی کو تم سے بہتر بیویاں عطا فرمائے گا جو پکی مسلمان، مومن، نہایت فرمانبردار، توبہ کرنے والیاں، اخلاص کے ساتھ اللہ کی عبادت کرنے والیاں، روزہ رکھنے والیاں، جوان اور کنواریاں ہوں گی، یادرہے کہ اس فرمان کا یہ مفہوم لینے کی ہرگز گنجائش نہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ازواج مطہرات میں یہ اوصاف نہیں پائے جاتے تھے، حقیقت یہ ہے کہ اس فرمان میں ازوج مطہرات اور ان کے حوالے سے دختر اسلام کو سمجھایا گیا ہے کہ وہ دنیاکی سہولیات کو مقدم رکھنے کی بجائے اپنے آپ کو ان اوصاف حمیدہ میں آگے بڑھانے کی کوشش کرتی رہیں جن کا یہاں ذکر کیا گیا ہے۔ کیونکہ مسلم خواتین کا حقیقی جمال و کمال دنیا کی ترقی اور آسائش میں نہیں ان کا جمال اور کمال مذکورہ بالا اوصاف میں مضمر ہے۔ مفسرین نے اس آیت کا پس منظر بیان کرتے ہوئے ایک واقعہ نقل کیا ہے جس کا تعلق آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تمام ازواج مطہرات کے ساتھ ہے۔ خیبر کی فتح کے بعد مسلمانوں کو بہت سی زمینیں اور مال غنیمت ہاتھ آیا جس سے غریب مسلمانوں کی حالت بھی کافی بہتر ہوگئی۔ مسلمانوں کی خوشحالی دیکھ کر ازواج مطہرات نے آپس میں مشورہ کرنے کے بعد رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے تکرار کے ساتھ مطالبہ کیا کہ اب مسلمانوں کی معاشی حالت پہلے سے بہتر ہوگئی ہے۔ اس لیے ہمیں بھی ان جیسی سہولیات ملنی چاہئیں۔ بے شک اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مال غنیمت کا پانچواں حصہ اپنی ذات اور گھر والوں پر خرچ کرنے کی اجازت دی تھی۔ لیکن آپ نے اپنے اور اپنے گھروالوں کے لیے سہولتوں کو پسند نہ فرمایا۔ جس بنا پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی ازواج مطہرات کو بار بار سمجھایا کہ ہمیں پہلی حالت پر ہی گزارہ کرنا چاہیے لیکن ازواج مطہرات کا اصرار جاری رہا۔ حضرت عمر (رض) کو اس بات کا علم ہوا تو انہوں نے اپنی بیٹی حضرت حفصہ (رض) جو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ازواج میں شامل تھیں اسے سمجھایا کہ بیٹی اپنے آپ کو کسی دوسری پر قیاس نہ کرو اور اس معاملے میں دوسری عورتوں کا ساتھ نہ دو۔ اس کے بعد حضرت عمر (رض) آپ کی ان بیویوں کے پاس گئے جو حضرت عمر کی (رض) رشتہ دار تھیں، انہیں بھی یہ بات سمجھائی لیکن انہوں نے حضرت عمر (رض) سے کہا کہ آپ کو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے گھریلو معاملات میں دخل نہیں دینا چاہیے، اس پر حضرت عمر (رض) نے انہیں سمجھاتے ہوئے فرمایا : ( عَسَی رَبُّہُ إِنْ طَلَّقَکُنَّ أَنْ یُبَدِّلَہُ أَزْوَاجًا خَیْرًا مِنْکُنّ) (رواہ البخاری : باب قولہ (وَاتَّخِذُوا مِنْ مَقَامِ إِبْرَاہِیمَ مُصَلًّی) کہ ہوسکتا ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی بیویوں کو طلاق دے دیں اور اللہ تعالیٰ آپ کو تم سے بہتر بیویاں عطاکردے۔ حضرت عمر (رض) کے سمجھانے کے باوجود ازواج مطہرات اپنے مطالبہ سے پیچھے نہ ہٹیں تب نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک ماہ کے لیے اپنی ازواج سے ایلاء یعنی ایک ماہ تک بائیکاٹ کر کیا اور بالاخانے میں قیام فرما ہوئے، جس کی تفصیل سورۃ الاحزاب کی آیت ٥١، ٥٢ میں بیان ہوچکی ہے۔ مسائل مومن عورتوں کو اپنے آپ میں یہ خوبیاں پیدا کرنی چاہئیں : ١۔ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے رہنا چاہیے۔ ٢۔ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لا کر اس پر استقامت اختیار کرنی چاہیے۔ ٣۔ اپنے خاوندوں کی تابعداری کرنی چاہیے۔ ٤۔ اللہ کے حضور توبہ کرتے رہنا چاہیے۔ ٥۔ اللہ کی عبادت کرنی چاہیے۔ ٦۔ فرضی اور نفلی روزوں کا اہتمام کرنا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن ْمسلمان خواتین کے بڑے بڑے اوصاف : ١۔ پاک دامن، حیا دار اور با پردہ ہوتی ہیں۔ (المائدۃ: ٥، القصص : ٢٥) ٢۔ سچی مسلمان مطیع، توبہ کرنے والی، عبادت گزار اور روزے رکھنے والی ہوتی ہیں۔ (التحریم : ٥) ٣۔ صدقہ کرنے والی، صابرہ، ڈرنے والی، سچی، پاکدامنہ اور اللہ کا کثرت سے ذکر کرنے والی ہوتی ہیں۔ (الاحزاب : ٣٥) التحريم
6 فہم القرآن ربط کلام : ازواج مطہرات کو انتباہ کرنے کے بعد تمام مسلمانوں کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ اپنے رب کی نافرمانی سے بچیں اور اپنے آپ اور اپنے اہل وعیال کو جہنم کی ہولناکیوں سے بچائیں۔ خاندان اور قوم کی اصلاح کا بنیادی اور بہترین طریقہ یہی ہے کہ ہر مسلمان اپنی اصلاح کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے اہل وعیال کی اصلاح کرتا رہے یہ کام بڑا اہم ہے جس کے لیے انتباہ کے انداز میں فرمایا کہ اے ایمان والو! اپنے آپ اور اپنے اہل وعیال کو جہنم کی آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن لوگ اور پتھر ہوں گے۔ جہنم پر ایسے ملائکہ کی ڈیوٹی لگائی گئی ہے جو بڑے تند مزاج اور سخت ہیں، وہ اللہ کے حکم کی ایک لمحہ بھی نافرمانی نہیں کرتے۔ وہ اسی طرح ہی کرتے ہیں جس طرح انہیں حکم دیا جاتا ہے یادر کھو! ٖ جو لوگ اللہ کے حکم کا انکار کرتے ہیں قیامت کے دن انہیں سے کہا جائے گا کہ اے کافرو! آج کے دن کوئی بہانہ اور معذرت پیش نہ کرو! کیونکہ آج تمہیں تمہارے کیے کی پوری پوری سزا دی جائے گی۔ یاد رہے کہ گناہ کرنے والا ہر شخص اپنے یا اپنے عزیز و اقرباء کی وجہ سے گناہ کرتا ہے۔ عزیز و اقرباء میں سب سے پہلے آدمی کی اپنی اولاد ہوتی ہے، جن کی محبت اور خیرخواہی میں آکر عام انسان ہی نہیں بلکہ بے شمار اچھے بھلے مسلمان بھی اللہ کے احکام کی نافرمانی کرتے ہیں، کیونکہ انسان اپنے یا اپنے عزیز واقرباء کے فائدے اور خیرخواہی کے لیے گناہ کرتا ہے، اس لیے مسلمانوں کو انتباہ کیا ہے کہ آج اپنے اور اپنے عزیز واقرباء کے فائدے اور خیر خواہی کے لیے اپنے رب کی نافرمانی کیے جارہے ہو۔ وہ وقت یاد کرو! جب نافرمانوں کو جہنم کی آگ میں جھونکا جائے گا جس کا ایندھن لوگ اور پتھر ہوگے، وہاں عزیر واقربا کام نہیں آئیں گے۔ آہ وزاریاں اور معذرت پہ معذرت کریں گے لیکن ان کی کوئی معذرت قبول نہیں کی جائے گی۔ کہا جائے گا کہ آج اپنے کیے کی سزا پاؤ۔ دانا اور بہترین شخص وہ ہے جو اپنے آپ اور اپنے اہل وعیال کو جہنم کی آگ سے بچانے کی کوشش کرتا ہے۔ (عَن ابْنِ عُمَرَ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ کُلُّکُمْ رَاعٍ وَکُلُّکُمْ مَسْءُولٌ عَنْ رَّعِیَّتِہٖ وَالْأَمِیرُ رَاعٍ وَالرَّجُلُ رَاعٍ عَلٰی أَہْلِ بَیْتِہٖ وَالْمَرْأَۃُ رَاعِیَۃٌ عَلٰی بَیْتِ زَوْجِہَا وَوَلَدِہٖ فَکُلُّکُمْ رَاعٍ وَکُلُّکُمْ مَسْءُولٌ عَنْ رَعِیَّتِہٖ) (رواہ البخاری : باب المرأۃ راعیۃ فی بیت زوجہا) ” حضرت عبداللہ بن عمر (رض) نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان نقل کرتے ہیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تم میں سے ہر ایک نگران ہے اور ہر کسی کو اپنی ذمہ داری کے بارے میں جواب دینا ہے، امیر اپنی رعایا پر نگران ہے۔ آدمی اپنے گھر کا نگران ہے، عورت اپنے خاوند کے گھر اور اپنے بچوں کی نگران ہے۔ تم میں سے ہر کوئی ذمہ دار ہے اور ہر کسی سے اس کی ذمہ داری کے متعلق پوچھا جائے گا۔“ مسائل ١۔ ہر ایماندار کو اپنے آپ اور اپنے اہل وعیال کو جہنم کی آگ سے بچانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے جہنم پر ایسے ملائکہ کی ڈیوٹی لگائی ہے جو بڑے تند مزاج اور سخت ہیں۔ وہ جہنمی کو اس طرح سزا دیں گے جس طرح انہیں حکم دیا جائے گا۔ ٣۔ جہنم کی آگ کا ایندھن مجرم اور پتھر ہوں گے۔ ٤۔ جہنم میں کفار کی کوئی معذرت قبول نہیں ہوگی۔ ٥۔ جہنمی کو کہا جائے گا کہ آج اپنے کیے کی سزا پاؤ۔ تفسیر بالقرآن والدین کی اپنی اولاد کے بارے میں ذمہ داریاں : ١۔ اولاد کو شرک سے بچنے کا حکم دینا چاہیے۔ (لقمان : ١٣) ٢۔ اولاد کو ایک الٰہ کی عبادت کا حکم دینا چاہیے۔ (البقرۃ: ١٣٢) ٣۔ اولاد کو مسلمان رہنے کی نصیحت کرنی چاہیے۔ (البقرۃ: ١٣٢) ٤۔ اولاد کو نماز پڑھنے کی تلقین کرنی چاہیے۔ (طٰہٰ: ١٣٢) ٥۔ اولاد کو نیکی کی تبلیغ اور برائی سے منع کرنے کی تبلیغ کرنی چاہیے۔ (لقمان : ١٧) ٦۔ اولادکی بول چال اور چال ڈھال پر نظر رکھنی چاہیے۔ (لقمان : ١٨) ٧۔ اولاد کو آخرت کی جوابدہی کا احساس دلانا چاہیے۔ (لقمان : ١٦) ٨۔ نہ اسراف کرو، نہ زنا کرو اور نہ اپنی اولاد کو قتل کرو۔ (الممتحنہ : ١٢) ٩۔ اے ایمان والو! اپنے آپ اور اپنی اولاد کو جہنم کی آگ سے بچا لو۔ (التحریم : ٦) التحريم
7 التحريم
8 فہم القرآن ربط کلام : نافرمانوں کو جہنم سے بچنے کے لیے توبہ کرنے کا حکم۔ اس سے پہلے کفار کے بارے میں بتلایا گیا ہے کہ قیامت کے دن وہ اپنے جرائم پر معذرت پیش کریں گے لیکن انہیں کہا جائے گا کہ آج تم اپنے کیے کی سزا پاؤ گے۔ اب ایمان والوں کو حکم ہوا کہ اے ایمان والو! اللہ کے حضور ” تَوْبَۃً نَّصُوْحا“ کرو۔ ہوسکتا ہے کہ تمہارے گناہ مٹا دیئے جائیں اور تمہیں ایسی جنت میں داخل کیا جائے جس کے نیچے نہریں جاری ہوں گی، اللہ تعالیٰ اس دن اپنے نبی اور اس کے ایماندار ساتھیوں کو رسوا نہیں کرے گا۔ بلکہ ان کے ا یمان کی روشنی ان کے آگے آگے اور دائیں جانب ہوگی اور وہ اپنے رب سے التجاء کریں گے کہ اے ہمارے رب! ہمارے نور کو مزید بڑھا اور ہمارے گناہوں کو معاف فرما یقیناً تو ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے۔ اس فرمان میں ایمانداروں کو ” تَوْبَۃً نَّصُوْحا“ کا حکم دینے کے بعد یہ کہہ کر خوشخبری دی گئی ہے کہ ہوسکتا ہے کہ ” اللہ“ ” تَوْبَۃً نَّصُوْحا“ کی وجہ سے تمہارے گناہوں کو معاف فرما کر تمہیں جنت میں داخل کردے۔ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ وہ سچی توبہ کرنے والوں کے گناہوں کو معاف کردے گا لیکن پھر بھی ” عَسیٰ“ کا لفظ استعمال کیا ہے جس کا معنٰی ہے کہ ہوسکتا ہے یہ لفظ استعمال فرما کر مومنوں کو سمجھایا کہ اپنے گناہوں سے بے فکر ہونے کی بجائے بار بار توبہ کرتے رہو۔ ” تَوْبَۃً نَّصُوْحا“ کا معنٰی ہے کہ توبہ محض کسی کے خوف کی وجہ سے نہیں بلکہ صرف اللہ کے خوف اور اس کی رضا کے لیے کی جائے۔ جو ایماندار سچی توبہ کریں گے، اللہ تعالیٰ نہ صرف ان کے گناہ معاف فرما کر انہیں جنت میں داخل کرے گا بلکہ محشر کے میدان سے لے کر جنت میں داخل ہونے تک ان کے ایمان اور ” تَوْبَۃً نَّصُوْحا“ کی وجہ سے ان کے لیے روشنی کا بندوبست بھی فرمائے گا، یہ روشنی ان کے آگے آگے اور دائیں جانب بھی پھیل رہی ہوگی۔ دائیں جانب کا ذکر فرما کر اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کیونکہ محشر کے میدان میں بائیں جانب والے جہنمی ہوں گے اور دائیں جانب والے جنتی ہوں گے۔ (الواقعہ : ٨، ٩) جہنمی لوگ جہنم کی طرف جاتے ہوئے اپنے گناہوں کی معافی مانگیں گے اور اپنے لیے نور کی دعائیں کرتے جائیں گے۔ یہاں مفسرین نے گناہوں سے مراد نور کے ختم ہونے کا خوف لیا ہے کیونکہ گناہ معاف کرنے کے بعد ہی تو جہنمی کو جہنم میں داخلہ دیا جائے گا۔ (عَنْ نُعَیْمٍ الْمُجْمِرِ قَالَ رَقِیتُ مَعَ أَبِی ہُرَیْرَۃَ (رض) عَلَی ظَہْرِ الْمَسْجِدِ فَتَوَضَّأَ فَقَالَ إِنِّی سَمِعْتُ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَقُولُ :إِنَّ أُمَّتِی یُدْعَوْنَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ غُرًّا مُحَجَّلِینَ مِنْ آثَارِ الْوُضُوءِ فَمَنِ اسْتَطَاعَ مِنْکُمْ أَنْ یُطِیلَ غُرَّتَہُ فَلْیَفْعَلْ) (رواہ البخاری : باب فَضْلِ الْوُضُوءِ) ” حضرت نعیم مجمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں ابوہریرہ (رض) کے ساتھ مسجدکی چھت پر چڑھا۔ حضرت ابوہریرہ (رض) نے وضو کیا اور فرمایا کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ میری امت کو قیامت کے دن جب بلایا جائے گا تو وضو کرنے کی وجہ سے ان کے پانچ کلیان چمکتے ہوئے ہوں گے۔ پھر حضرت ابوہریرہ (رض) نے فرمایا کہ تم سے جو اپنی چمک کو زیادہ کرنے کی طاقت رکھتا اسے ایسا کرنا چاہیے۔“ (اللّٰہُمَّ اجْعَلْ فِی قَلْبِی نُورًا وَفِی بَصَرِی نُورًا وَفِی سَمْعِی نُورًا وَعَنْ یَمِینِی نُورًا وَعَنْ یَسَارِی نُورًا وَفَوْقِی نُورًا وَتَحْتِی نُورًا وَأَمَامِی نُورًا وَخَلْفِی نُورًا وَاجْعَلْ لِیّ نُورًا) (رواہ البخاری، کتاب الدعوات، باب الدعا اذا انتبدہ بالیل) ” اے اللہ میرے دل میں نور پیدا فرمادے میری نگاہ میں بھی نور، میرے کا نوں میں بھی نور، میرے دائیں بھی نور، میرے بائیں بھی نور، میرے اوپر بھی نور، میرے نیچے بھی نور، میرے آگے بھی نور، میرے پیچھے بھی نور، اور میرے لیے نور ہی نور پیدا فرما۔“ یہاں توبہ کے لیے ” نَّصُوْحا“ کی شرط عائد کی گئی ہے۔ جس کا معنٰی ہے صرف اللہ کی رضا کے لیے توبہ کرنی چاہیے۔ صحابہ کرام (رض) نے ” تَوْبَۃً نَّصُوْحا“ کی کئی شرائط بیان کی ہیں جن میں بنیادی شرائط تین ہیں۔ ١۔ اپنے گناہ پر نادم ہو کر اللہ سے معافی مانگنا۔ ٢۔ آئندہ گناہ نہ کرنے کا عزم بالجزم کرنا۔ ٣۔ گنا کے اثرات کی تلافی کرنا۔ (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) التَّاءِبُ مِنَ الذَّنْبِ کَمَنْ لَا ذَنْبَ لَہٗ) (رواہ ابن ماجۃ: کتاب الزھد، باب ذکرا لتوبۃ) ” حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا گناہ سے توبہ کرنے والا ایسے ہی پاک ہوجاتا ہے جیسے اس نے کوئی گناہ نہیں کیا۔“ مسائل ١۔ اللہ کے حضور ایمانداروں کو ” تَوْبَۃً نَّصُوْحا“ کرنی چاہیے۔ ٢۔ ” تَوْبَۃً نَّصُوْحا“ کے بدلے ایمانداروں کے گناہوں کو معاف کردیا جائے گا۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ ایمانداروں کو ایسی جنت میں داخل کرے گا جس کے نیچے نہریں جاری ہوں گی۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اپنے نبی اور آپ کے ساتھیوں کو رسوا نہیں کرے گا۔ ٥۔ جنتی کا ایمان ان کے لیے نور ثابت ہوگا۔ ٦۔ جنت کی طرف جاتے ہوئے اپنے رب سے نور کی تکمیل اور اپنے گناہوں کی معافی مانگیں گے۔ ٧۔ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے۔ تفسیر بالقرآن جنتی کی جنت میں جانے کی شان : ١۔ جب فرشتے پاکباز لوگوں کی روحیں قبض کرتے ہیں تو فرشتے انھیں سلام کہتے ہیں اور جنت کی خوشخبری دیتے ہیں۔ (النحل : ٣٢) ٢۔ فرشتے کہتے ہیں تم پر سلامتی ہو تم نے صبر کیا آخرت کا گھر بہت ہی بہتر ہے۔ (الرعد : ٢٤) ٣۔ داخل ہوجاؤ جنت میں سلامتی کے ساتھ آج تمھارے لیے داخلے کا دن ہے۔ (ق : ٣٤) ٤۔ فرشتے جب جنتی کے پاس جائیں گے تو انہیں سلام کہیں گے۔ (الزمر : ٧٣) ٥۔ اللہ کی توحید پر استقامت اختیار کرنے والوں پر فرشتوں کا نزول ہوتا ہے اور وہ انہیں خوشخبری دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ تمہیں غم اور حزن نہیں ہونا چاہیے کیونکہ تمہارے لیے جنت ہے جس کا تمہارے ساتھ وعدہ کیا گیا ہے۔ ( حٰم السجدۃ: ٣٠) التحريم
9 فہم القرآن ربط کلام : کفار اور منافقین کی ہر دم کوشش تھی کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے ساتھیوں کو ناکام اور رسوا کیا جائے، جس وجہ سے کفار اور منافقین پر سختی کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور ان کی سزا جہنم بیان کی گئی ہے۔ اس سے پہلی آیت میں ارشاد ہوا کہ اللہ تعالیٰ اپنے نبی اور اس کے ایماندار ساتھیوں کو رسوا نہیں کرے گا، وہ ایمانداروں کو جنت میں داخل فرمائے گا اور ان کا ایمان جنت کے راستے میں ان کے لیے روشنی ثابت ہوگا۔ ان کے مقابلے میں کفار اور منافقین کی سزا جہنم ہوگی جو نہایت ہی برا ٹھکانہ ہے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قتال فی سبیل اللہ کا حکم آنے سے پہلے بے حد صبر اور اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ کرتے ہوئے دن رات کوشش فرمائی کہ کافر اور منافق صراط مستقیم پر گامزن ہوجائیں لیکن وہ لوگ کسی صورت بھی صراط مستقیم پر آنے کے لیے تیار نہ ہوئے۔ ایسے لوگوں کی سزا یہ ہے کہ ان کے جرائم کے مطابق ان پر سختی کی جائے تاکہ وہ اپنے عقیدہ اور کردار پر نظر ثانی کرنے پر غور کریں۔ سختی یہ بھی ہے کہ ان کے مقابلے میں مسلمانوں کو ترجیح دی جائے، اور حالت جنگ میں انہیں قتل کیا جائے۔ (عَنْ أَنَسٍ (رض) أَنَّ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ جَاہِدُوا الْمُشْرِکِینَ بِأَمْوَالِکُمْ وَأَنْفُسِکُمْ وَأَلْسِنَتِکُمْ) (رواہ ابوداؤد : باب کَرَاہِیَۃِ تَرْکِ الْغَزْوِ) ” حضرت انس (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اپنے مالوں، جانوں اور زبانوں کے ساتھ مشرکین سے جہاد کرو۔“ مسائل ١۔ نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کفار اور منافقین پر سختی کرنے کی تلقین کی گئی۔ ٢۔ کفار اور منافقین کا ٹھکانہ جہنم ہے جو رہنے کے اعتبار سے بدترین جگہ ہے۔ تفسیر بالقرآن کفار اور منافقین کا انجام : ١۔ منافق اللہ کو دھوکہ دینے والے ہوتے ہیں۔ (النساء : ١٤٢) ٢۔ منافق جہنم کے سب سے نچلے درجے میں ہوں گے۔ (النساء : ١٤٥) (التوبہ : ٧٣، التحریم : ٩) (التوبہ : ٦٨) التحريم
10 فہم القرآن ربط کلام : کفار، مشرکین اور منافقین کو ان کے انجام سے ڈرانے کے لیے دو عظیم انبیاء کی بیویوں کی مثال دی گئی ہے۔ مشرک اپنے شرک، کفار، اپنے کفر اور منافق اپنی منافقت کی بنیاد پر سمجھتے ہیں کہ قیامت کے دن ہمیں کوئی گرفت نہیں ہوگی۔ اللہ تعالیٰ نے ان کا زعم ختم کرنے کے لیے دوعظیم انبیاء کی بیویوں کی مثال بیان فرمائی ہے۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کی بیوی نے برادری کو مقدم جانا اور اپنے کفر پر قائم رہی۔ حضرت لوط (علیہ السلام) کی بیوی نے رشتہ داری کو عزیز سمجھا اور اپنے خاوند حضرت لوط (علیہ السلام) کے بارے میں منافقت اپنائے رکھی۔ رب ذوالجلال نے نوح اور لوط (علیہ السلام) کی قوم پر عذاب نازل کیا تو نہ صرف ان عورتوں کو ان کی برادری نہ بچا سکی بلکہ عظیم پیغمبر بھی اپنی بیویوں کو عذاب الٰہی سے نہ بچا سکے۔ اس مثال میں اللہ تعالیٰ نے مشرکین، کفار اور منافقین پر یہ بات کھول دی ہے کہ قیامت کے دن کوئی اپنے رشتے داروں اور بزرگوں کی وجہ سے جہنم کے عذاب سے نجات نہیں پاسکے گا، اس بات کی مزید وضاحت کے لیے قرآن مجید نے نبی آخرالزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حقیقی چچا ابولہب کا نام لے کر یہ اصول بیان فرمایا ہے کہ دوسرے انبیائے کرام تو اپنے مقام پر سرور دوعالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی اپنے رشتہ داروں کو جہنم سے نہیں بچاسکیں گے۔ (تَبَّتْ یَدَا اَبِیْ لَہَبٍ وَّتَبَّ مَآ اَغْنٰی عَنْہُ مَالُہٗ وَمَا کَسَبَ سَیَصْلٰی نَارًا ذَاتَ لَہَبٍ وَامْرَأَتُہٗ حَمَّالَۃَ الْحَطَبِ فِیْ جِیْدِہَا حَبْلٌ مِّنْ مَّسَدٍ) (سورۃ اللہب) ” ابو لہب کے ہاتھ ٹوٹ گئے اور وہ تباہ ہوگیا۔ جو اس نے مال کمایا وہ اس کے کسی کام نہ آیا۔ ضرور وہ بھٹکنے والی آگ میں ڈالا جائے گا اور اس کی بیوی کو بھی جو لکڑیاں اٹھانے والی ہے۔ اس کی گردن میں مونجھ کی رسی ہوگی۔ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَامَ رَسُوْلُ اللّٰہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حِیْنَ أَنْزَلَ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ (وَأَنْذِرْ عَشِیْرَتَکَ الْأَقْرَبِیْنَ) قَالَ یَامَعْشَرَ قُرَیْشٍ أَوْ کَلِمَۃً نَحْوَھَا اشْتَرُوْٓا أَنْفُسَکُمْ لَآأُغْنِیْ عَنْکُمْ مِنَ اللّٰہِ شَیْءًا یَابَنِیْ عَبْدِ مَنَافٍ لَآأُغْنِیْ عَنْکُمْ مِنَ اللّٰہِ شَیْءًا یَاعَبَّاسَ بْنَ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ لَآأُغْنِیْ عَنْکَ مِنَ اللّٰہِ شَیْءًا وَیَاصَفِیَّۃُ عَمَّۃُ رَسُوْلِ اللّٰہِ لَآأُغْنِیْ عَنْکِ مِنَ اللّٰہِ شَیْءًا وَیَافَاطِمَۃُ بِنْتُ مُحَمَّدٍ سَلِیْنِیْ مَاشِءْتِ مِنْ مَالِیْ لَآأُغْنِیْ عَنْکِ مِنَ اللّٰہِ شَیْءًا) (رواہ البخاری : کتاب الوصایا، باب ھل یدخل النساء والولد فی الأقارب) ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں جب یہ آیت (اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈرائیے) نازل ہوئی تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کھڑے ہوئے اور فرمایا : اے قریش کے لوگو! اپنے لیے کچھ کر لومیں تمہیں اللہ کے عذاب سے کوئی فائدہ نہیں دے سکوں گا۔ اے بنی عبد منا ف میں تمہیں اللہ کے عذاب سے بچا نہیں سکوں گا۔ اے عباس بن عبدالمطلب ! میں تمہیں اللہ کے عذاب سے کچھ فائدہ نہیں دے سکوں گا۔ اے صفیہ! رسول کی پھوپھی! میں تمہیں اللہ کے عذاب سے کچھ فائدہ نہیں دے سکوں گا۔ اے فاطمہ بنت محمد! میرے مال سے جو چاہتی ہے مانگ لے میں مگر تجھے اللہ کے عذاب سے نہیں بچا سکوں گا۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے ایمان اور ایثار کی خاطر فرعون جیسے ظالم اور نافرمان کی بیوی کو جنت میں داخل فرمایا۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ مظلوم کی دعا قبول کرتا ہے اس لیے اس نے فرعون کے مظالم سے اس کی بیوی کو نجات عطا فرمائی۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ ہی ظالموں سے نجات دینے والا ہے : ١۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح (علیہ السلام) اور آپ کے ساتھیوں کو ظالموں سے نجات دی۔ ( الشعراء : ١١٩) ٢۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور آپ کے ساتھیوں کو فرعون کے مظالم سے نجات عطا فرمائی۔ (الشعراء : ٦٥) ٣۔ اللہ تعالیٰ نے لوط (علیہ السلام) کو بے حیا قوم سے نجات عطا فرمائی۔ (الشعراء : ١٧٠) ٤۔ حضرت شعیب (علیہ السلام) اور ان کے ساتھیوں کو اللہ تعالیٰ نے ظالموں سے نجات عطا فرمائی۔ (ہود : ٩٧) ٥۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت ہود اور ان کے ساتھیوں کو ظالموں سے نجات دی۔ (ہود : ٥٨) ٦۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت صالح (علیہ السلام) اور ان کے ساتھیوں کو ظالموں سے نجات دی۔ (ہود : ٦٦) التحريم
11 فہم القرآن ربط کلام : بد قسمت عورتوں کا انجام ذکر کرنے کے بعد دو عظیم عورتوں کے کردار اور انعام کا ذکر۔ اس سے پہلے دو بدقسمت عورتوں کے انجام کا ذکر کیا ہے جو دو عظیم انبیاء (علیہ السلام) کی بیویاں تھیں لیکن ایمان اور صالح کردار نہ ہونے کی وجہ سے ان کو ان کی قوم کے ساتھ ہی تباہ کردیا گیا اور آخرت میں انہی کے ساتھ جہنم کا ایندھن بنیں گی۔ اب ان دو معزز خواتین کا ذکر کیا جاتا ہے۔ جن میں ایک دنیا کے بدترین انسان فرعون کی بیوی تھیجو ہر قسم کا آرام اور مقام چھوڑ کر اللہ تعالیٰ اور موسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لے آئی۔ جونہی وہ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائی تو فرعون نے اس پر جو رو استبداد کے پہاڑ ڈھادیئے۔ اس کربناک اور نازک ترین آزمائش میں اس نے اللہ کی بارگاہ میں فریاد کی کہ اے میرے مالک ! میں اس گھر سے تنگ آچکی ہوں، فرعون اور اس کے عملے کے ظلم کے سامنے بے بس ہوچکی ہوں۔ تیرے حضور میری فریاد ہے کہ مجھے جنت میں اپنے پاس گھر عطا فرما، فرعون اور اس کے ظالم عملے سے نجات نصیب فرما۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی مومن بندی کی فریاد قبول فرمائی اور اس کی موت سے پہلے اسے اس کے جنت کے گھر کا دیدار نصیب کیا۔ نبی محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس عظیم عورت کا نام آسیہ بتلایا ہے۔ ” حضرت ابو موسیٰ اشعری (رض) بیان کرتے ہیں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : عورتوں میں عائشہ کی فضیلت ایسے ہے جیسے تمام کھانوں پر ثرید کی ہے، مردوں میں بہت سے کامل لوگ ہیں لیکن عورتوں میں مریم بنت عمران اور آسیہ زوجۂ فرعون کے علاوہ کوئی کامل نہیں۔“ (رواہ البخاری : باب قول اللہ تعالیٰ إذ قالت الملائکۃ یامریم إن اللہ یبشرک) حضرت مریم بنت عمران جو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی والدہ ماجہ ہیں۔ قرآن مجید نے ان کی حیات طیبہ اور پاکدامنی کا ذکر بڑی تفصیل کے ساتھ کیا ہے۔ یہاں تک کہ قرآن مجید کی ایک سورت کا نام ہی مریم ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس میں اپنی روح پھونک دی۔ اس نے اپنے رب کے فرمان اور اس کی کتابوں کی تصدیق کی اور بڑی فرمانبردار تھی۔ ارشاد ہوا کہ ہم نے اس میں اپنی روح پھونک دی۔ جبرئیل امین کی پھونک کے ساتھ وہ حاملہ ہوگئیں تو اس حالت میں مسجد اقصیٰ سے دور ایک مکان میں جا ٹھہریں جب اسے زچگی کی تکلیف محسوس ہوئی تو وہ ایک کھجور کے تنے کے قریب آئیں۔ بدنامی اور ولادت کی تکلیف کی وجہ سے بے ساختہ کہنے لگی کاش! میں اس سے پہلے مرجاتی اور لوگوں کے ذہن میں بھولی بسری ہوچکی ہوتی۔ اس مشکل وقت میں فرشتے نے کھجور کے نیچے سے آواز دی اے مریم [! پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ آپ کے رب نے تیرے پاؤں تلے ایک چشمہ جاری کردیا ہے اور کھجور کے تنے کو ہلاؤ تیرے سامنے ترو تازہ کھجوریں آگریں گی۔ کھجوریں کھاؤ، پانی پیو اور بیٹے سے اپنی آنکھیں ٹھنڈی کرو۔ اگر کسی آدمی کو اپنی طرف آتے ہوئے دیکھو تو اسے کہو کہ میں نے رب رحمن کے لیے چُپ رہنے کی منت مانی ہے اس لیے میں آج کسی مرد و زن سے بات نہیں کروں گی۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت مریم [ کو بڑی عزت اور تکریم سے سرفراز فرمایا جن کا یہاں مختصر ذکر کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح (علیہ السلام) اور حضرت لوط (علیہ السلام) کی ازواج اور ان کے مقابلے میں فرعون کی بیوی آسیہ اور مریم بنت عمران کا ذکر فرما کر یہ واضح کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں کسی کا حسب نسب اور رشتہ کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ اس کے حضور جو چیز قابل قبول ہے وہ انسان کا ایمان اور صالح کردار ہے۔ اس اصول کی بنا پر دو انبیاء کی بیویاں جہنم کا ایندھن بنیں اور فرعون کی بیوی اور عمران کی بیٹی مریم دنیا اور آخرت میں اعلیٰ مقام سے سرفراز کی گئیں۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے فرعون کی بیوی کی دعا قبول کی اور اسے فرعون اور اس کے ظالم عملے سے نجات عطا فرمائی۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے فرعون کی بیوی کو اس کی موت سے پہلے جنت کی خوشخبری عطا فرمائی۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت مریم میں اپنی روح پھونکی۔ ٤۔ حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کی والدہ مریم بنت عمران بڑی ہی پاکباز اور معزز خاتون تھی۔ ٥۔ حضرت مریم بڑی صالح کردار اور اللہ کے فرمان اور اس کی کتابوں کی تصدیق کرنے والی تھی۔ تفسیر بالقرآن حضرت مریم [ کا تذکرہ : (البقرۃ: ٨٧) (آل عمران : ٤٥) (البقرۃ: ٢٥٣) (المائدۃ: ٧٥) (آل عمران : ٥٩) (النساء : ١٧١) (المائدۃ: ٧٥) التحريم
12 التحريم
0 سورت الملک کا تعارف اس سورت کا نام اس کی پہلی آیت میں موجود ہے یہ سورت مکہ معظمہ میں نازل ہوئی اس کی تیس آیات ہیں جو دو رکوعات پر مشتمل ہیں۔ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ (رض) عَنِ النَّبِیّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَال إِنَّ سُورَۃً مِنَ القُرْآنِ ثَلاَثُونَ آیَۃً شَفَعَتْ لِرَجُلٍ حَتَّی غُفِرَ لَہُ وَہِیَ سُورَۃُ تَبَارَکَ الَّذِی بِیَدِہِ الْمُلْکُ) (رواہ الترمذی بابُ مَا جَاءَ فِی فَضْلِ سُورَۃِ الْمُلْکِ ) ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : قرآن مجید میں ایک سورت ایسی ہے جس کی تیس آیات ہیں وہ آدمی کی سفارش کرے گی یہاں تک کہ اسے معاف کردیا جائے گا، وہ سورۃ الملک ہے۔“ الملک کی ابتداء میں ارشاد ہوا کہ اللہ کی ذات ہر اعتبار سے بابرکت ہے اور اسی کے ہاتھ میں زمینوں آسمانوں کی بادشاہی ہے اور وہ ہر چیز پر ہر اعتبار سے اختیار رکھنے والا ہے۔ اسی نے موت و حیات کا سلسلہ قائم کیا ہے تاکہ لوگوں کو آزمائے کہ کون اس کے حکم کے مطابق فکر و عمل اختیار کرتا ہے۔ اس کی قدرت کا عالم یہ ہے کہ اس نے اوپر نیچے سات آسمان بنائے ہیں اس کی تخلیق میں کسی قسم کی بے ربطی نہیں پائی جاتی۔ اگر کسی کو یقین نہیں آتا تو وہ اپنے اوپر آسمان پر غور کرے اور اس میں کسی قسم کا نقص اور خلل تلاش کرے اس کی نظر تھک کر پلٹ آئے گی لیکن وہ ” اللہ“ کی تخلیق میں کوئی عیب اور خلل نہیں دیکھ پائے گا۔ اس نے نہ صرف پہلے آسمان کو ستاروں سے مزّین کیا ہے بلکہ ان ستاروں میں کچھ ستارے ایسے ہیں جو بھڑکتے ہوئے شعلوں کی صورت میں شیاطین کا تعاقب کرتے ہیں، قیامت کے دن اسی طرح کفار کو جہنم میں جلایا جائے گا جب وہ جہنم میں داخل کیے جائیں گے تو اس کے دھاڑنے کی آوازیں سنیں گے جہنم کی آگ کی شدت اس قدر تیز ہوگی کہ دیکھنے والا یوں محسوس کرے گا جیسے جہنم اپنے جوش میں پھٹ جائیگی۔ جہنم میں جہنمی اپنے آپ پر افسوس کرتے ہوئے کہیں گے کاش ہم دنیا میں اپنی عقل استعمال کرتے اور آج جہنم سے بچ جاتے۔ جب وہ اپنے آپ پر ماتم کر رہے ہوں گے تو جہنم کے فرشتے کہیں گے کیا تمہارے پاس تمہیں سمجھانے اور ڈرانے والا نہیں آیا تھا؟ وہ کہیں گے کیوں نہیں۔ لیکن ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہم نے اس کی بات ماننے کی بجائے اس کی تکذیب کی۔ اس تفصیل کے بعد اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو یہ انتباہ کیا ہے کہ اے نافرمان لوگو! کیا تم اس بات سے بے خوف ہوگئے ہو کہ اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو تم پر آسمان گرا دے یا تمہیں زمین میں دھنسا دیا جائے یا پھر آسمان سے پتھر برسا کر تمہیں تباہ و برباد کر دے۔ کیا تم اس بات پر غور نہیں کرتے کہ اگر اللہ تعالیٰ تمہارے رزق کو روک لے تو پھر تمھیں روزی دینے والا کون ہوگا؟ اگر وہ زمین کے پانی کو بہت نیچے کر دے تو کون تم سے اس پانی کو حاصل کرسکتا ہے؟ اللہ کے فرمان سننے اور اس کی قدر تیں دیکھنے کے باوجود لوگوں کی حالت یہ ہے کہ وہ سیدھے راستے کی بجائے الٹے راستے پر چلتے ہیں۔ ان کی مثال اس شخص کی طرح ہے جو اپنے پاؤں پہ چلنے کی بجائے اپنے چہرے کے بل چلتا ہے غور کرو کہ ان میں سے کون شخص ٹھیک اور سیدھے رستے پر چلنے والا ہے۔ الملك
1 فہم القرآن ربط سورت : سورۃ التحریم کا اختتام اچھے اور برے کردار کے بیان پر ہوا یہی انسان کی تخلیق کا مقصد ہے کہ اسے آزمایا جائے کہ یہ اچھے عمل کرتا ہے یا برے۔ ” اللہ“ ہی کے ہاتھ میں زمین و آسمان کی بادشاہی ہے اور وہ بڑا ہی برکت والا اور ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے۔ تبارک کا دوسرا معنٰی کثرت خیر اور دوام خیر بھی کیا گیا ہے۔ ملک سے مراد ساری کائنات اور اس کی بادشاہی ہے۔ اس فرمان میں بیک وقت مادہ پرست سائنسدانوں اور مشرکانہ عقائد رکھنے والوں کی تردیدکی گئی ہے۔ جو سائنسدان سمجھتے ہیں کہ یہ کائنات بگ بینگ (BIG BANG) کے ذریعے خود بخود معرض وجود میں آئی اور اسے کوئی بنانے اور چلانے والا نہیں ہے۔ مشرک یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے کائنات کا نظام چلانے کے لیے کچھ اختیارات دوسری ہستیوں کو بھی سونپ رکھے ہیں۔ ان کی تردید کے لیے فرمایا کہ بابرکت ہے وہ ذات جس کے ہاتھ میں پوری کائنات اور اس کی بادشاہی ہے۔ کائنات کا نظام چلانے کے لیے نہ اس کا کوئی معاون ہے اور نہ مدد گار، اسے کسی کی معاونت کی ضرورت نہیں کیونکہ وہ ہر چیز پر اقتدار اور اختیار رکھتا ہے۔ اسی نے موت اور زندگی پیدا فرمائی ہے تاکہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے کون اچھے عمل کرتا ہے۔ وہ ظالموں پر غلبہ پانے والا اور نیک بندوں کو معاف کرنے والا ہے۔ یہاں موت کا تذکرہ حیات سے پہلے کیا گیا ہے کیونکہ انسان اور پوری کائنات عدم سے وجود میں آئی ہے۔ گویا کہ پہلے موت پھر زندگی پھر موت اور پھر زندگی ہے۔ ( البقرۃ: ٢٨) وہی موت و حیات پر اختیار رکھنے والاہے۔ کوئی چیزنہ اپنی مرضی سے پیدا ہوتی ہے اور نہ ” اللہ“ کے حکم کے بغیر کسی کو موت آتی ہے۔ اس نے عدم کے بعد زندگی اور زندگی کے بعد موت کا سلسلہ اس لیے جاری کیا ہے تاکہ وہ آزمائے کہ کون بہتر عمل کرتا ہے۔ دین کے اعتبار سے بہتر عمل وہ ہے جس کا اللہ اور اس کے رسول نے حکم دیا ہے جو شخص اس کے مطابق عمل نہیں کرتا وہ چھوٹا ہو یا بڑا، امیرہو یا غریب، راعی ہو یا رعایا اس سے ضرور پوچھا جائے گا۔ جس نے اللہ اور اس کے رسول کا حکم مانا لیکن بتقاضا بشریت اس سے گناہ ہوگئے اللہ تعالیٰ اسے معاف کرے گا کیونکہ وہ معاف کرنے والا ہے۔ (وَعَنِ ابْنِ عُمَرَ (رض) قَالَ اَخَذَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بِبَعْضِ جَسَدِی فَقَالَ کُنْ فِی الدُّنْیَا کَأَنَّکَ غَرِیْبٌ أَوْ عَابِرُ سَبِیْلٍ وَعُدَّ نَفْسَکَ مِنْ أَھْلِ القُبُوْرِ.) (رواہ الترمذی : بَابُ مَا جَاءَ فِی قِصَرِ الأَمَلِ، قال الالبانی ھٰذا حدیث صحیح) حضرت ابن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے میرا کندھا پکڑکر اور فرمایا دنیا میں اجنبی یا مسافر کی طرح رہو اور اپنے آپ کو اہل قبور میں شمار کرو۔ (عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لِرَجُلٍ وَہُوَ یَعِظُہٗ اِغْتَنِمْ خَمْسًا قَبْلَ خَمْسٍ شَبَابَکَ قَبْلَ ہَرَمِکَ وَصِحَّتِکَ قَبْلَ سَقْمِکَ وَغِنَاکَ قَبْلَ فَقْرِکَ وَفِرَاغَکَ قَبْلَ شُغُلِکَ وَحَیَاتَکَ قَبْلَ مَوْتِکَ) (رواہ الحاکم : کتاب الرقاق، قال الحاکم ہذا حدیث صحیح علی شرط الشیخین) ” حضرت عبداللہ بن عباس (رض) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک آدمی کو نصیحت فرما رہے تھے پانچ چیزوں کو پانچ چیزوں سے پہلے غنیمت جانو، جوانی کو بڑھاپے سے پہلے، تندرستی کو بیماری سے پہلے، خوشحالی کو تنگدستی سے پہلے فراغت کو مصروفیت سے پہلے اور زندگی کو موت سے پہلے۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ بڑا ہی بابرکت ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ ساری کائنات کا مالک اور اس کا بادشاہ ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو آزمانے کے لیے موت اور زندگی کا سلسلہ بنایا ہے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ دیکھنا چاہتا ہے کہ کون شخص بہتر عمل کرتا ہے۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ قادر مطلق اور ہر چیز پر غالب ہونے کے باوجود معاف کرنے والاہے۔ تفسیر بالقرآن انسان سب سے بہتر ہے اور اسے بہترین عمل کرنے کا حکم دیا گیا ہے : ١۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو احسن التقویم بنایا ہے۔ ( التین : ٤) ٢۔ اللہ تعالیٰ نے احسن حدیث اتاری ہے۔ (الزمر : ٣٣) ٣۔ اللہ تعالیٰ کی توحید کی دعوت دینا احسن بات ہے۔ (حم ٓ السجدۃ: ٣٣) ٤۔ برائی کا جواب اچھائی سے دینا احسن طریقہ ہے۔ (حم ٓ السجدۃ: ٣٤) (النحل : ١٢٥) ( الملک : ٢) الملك
2 الملك
3 فہم القرآن ربط کلام : جس بابرکت ذات کے ہاتھ میں کائنات کی بادشاہی ہے اور جس نے موت و حیات کو پیدا کیا ہے اسی نے اوپر تلے سات آسمان بنائے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں زمین و آسمانوں کی تخلیق کا کئی مرتبہ ذکر فرمایا ہے۔ ان کے لیے کبھی ” جَعَلَ“ کا لفظ استعمال کیا اور کبھی ” خَلَقَ“ کا لفظ استعمال فرمایا ہے۔ مفہوم کے اعتبار سے دونوں الفاظ کا ایک ہی معنٰی بنتا ہے۔ لیکن موقع محل کے مطابق ان کے استعمال میں بڑی لطافت پائی جاتی ہے۔ کبھی زمین و آسمانوں کی تخلیق اور بناوٹ کا بیک وقت ذکر کیا اور کبھی دونوں کا الگ الگ بیان کیا ہے۔ یہاں صرف آسمانوں کی تخلیق کا ذکر فرمایا اور ان کے بارے میں ” طَبَقًا“ کا لفظ استعمال کیا ہے جس کا معنٰی تہہ بہ تہہ اور اوپر نیچے کیا گیا ہے۔ ارشاد ہوا کہ اے دیکھنے والے ! تو الرّحمن کی تخلیق میں کسی قسم کا نقص نہیں دیکھے گا، پھر آنکھ اٹھا کردیکھ ! کیا آسمان میں کسی قسم کا شگاف، جھکاؤ اور خلل نظر آتا ہے ؟ اگر تجھے یقین نہیں آتا تو بار بار دیکھ! تو آسمان میں کوئی نقص نہیں دیکھ پائے گا البتہ تیری نظر تھک کر ضرور پلٹ آئے گی۔ (عَنِ الْحَسَنِ قَالَ قَالَتِ الْیَہُودُ خَلَقَ اللّٰہ تبارک وتعالی السماوات والأَرْضَ فِی سِتَّۃِ أَیَّامٍ وَاسْتَرَاحَ فِی الْیَوْمِ السَّابِعِ فَأَنْزَلَ اللّٰہُ تَبَارَکَ وَتَعَالَی عَلَی نَبِیِّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (وَلَقَدْ خَلَقْنَا السَّمَاوَاتِ وَمَا بَیْنَہُمَا فِی سِتَّۃِ أَیَّامٍ وَمَا مَسَّنَا مِنْ لُّغُوْبٍ) ( المجالسۃ وجواھرالعلم، ج : ٦) ” حضرت حسن (رح) بیان کرتے ہیں کہ یہودیوں نے کہا : اللہ تعالیٰ نے آسمان و زمین کو چھ دن میں پیدا کیا اور ساتویں دن آرام فرمایا تو اللہ تعالیٰ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر یہ آیت نازل فرمائی۔ (وَلَقَدْ خَلَقْنَا السَّمَاوَاتِ وَلْاَرْضَ وَمَا بَیْنَہُمَا فِی سِتَّۃِ أَیَّامٍ وَمَا مَسَّنَا مِنْ لُّغُوْبٍ) ” ہم نے زمین اور آسمانوں کو اور جو ان کے درمیان چیزیں ہیں انہیں چھ دنوں میں پیدا کیا اور ہمیں کوئی تھکان نہیں ہوئی۔“ (قٓ: ٣٨) ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے صحابہ (رض) بیٹھے ہوئے تھے کہ اچانک موسم ابرآلود ہوگیا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ سے پوچھا کیا تم اس کے بارے میں جانتے ہو؟ صحابہ نے جواب دیا اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں۔ آپ نے فرمایا یہ بادل زمین کو سیراب کرنے والے ہیں، اللہ تعالیٰ ان بادلوں کو ان لوگوں سے لے جاتا ہے جو اس کا شکر ادا نہیں کرتے اور نہ ہی اس سے دعا کرتے ہیں۔ پھر آپ نے پوچھا تمہارے اوپر کیا چیز ہے؟ صحابہ نے عرض کی اللہ اور اس کا رسول زیادہ علم رکھتے ہیں۔ آپ نے فرمایا ہے یہ محفوظ اور مضبوط چھت اور بند موج ہے۔ پھر آپ نے پوچھا تمہارے اور آسمان کے درمیان کتنا فاصلہ ہے۔ صحابہ نے کہا اللہ اور اس کا رسول زیادہ جانتے ہیں۔ آپ نے فرمایا تمہارے اور آسمان کے درمیان پانچ سو سال کی مسافت ہے۔ پھر آپ نے ارشاد فرمایا کیا تم جانتے ہو کہ اس کے اوپر کیا ہے ؟ صحابہ نے پھر کہا کہ اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں۔ آپ نے فرمایا اس کے اوپر ایک اور آسمان ہے اور ہر دو آسمانوں کے درمیان پانچ سو سال کی مسافت ہے۔ یہاں تک کہ آپ نے سات آسمان شمار کیے اور ہر دو آسمانوں کے درمیان اتنی ہی مسافت بیان کی۔“ (رواہ الترمذی : بَابٌ وَمِنْ سُورَۃِ الحَدِیدِ، قال الترمذی ہذا حدیث غریب من ہذا وجہ) مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے اوپر نیچے سات آسمان پیدا کیے ہیں۔ ٢۔ باربار دیکھنے کے باوجود آسمان میں کوئی شگاف نظر نہیں آتا۔ تفسیر بالقرآن زمین و آسمانوں کی تخلیق : ١۔ اللہ تعالیٰ نے بغیر نمونے کے زمین و آسمان بنائے۔ (البقرۃ : ١١٧) ٣۔ اس نے آسمان و زمین کو برابر کیا۔ (البقرۃ: ٢٩) ٤۔ آسمان کو چھت اور زمین کو فرش بنایا۔ (البقرۃ : ٢٢) ٥۔ زمین اور آسمانوں کو چھ دنوں میں بنایا۔ (الاعراف : ٥٤) ٦۔ اللہ تعالیٰ نے آسمانوں و زمین کو برحق پیدا کیا ہے اللہ شرک سے بالا تر ہے۔ (النحل : ٣) ٧۔ اللہ تعالیٰ نے پہلے سے موجود بغیر نمونے اور میٹریل کے زمین و آسمانوں کو پیدا کیا۔ (البقرۃ : ١١٧) ٨۔ زمین و آسمان پہلے آپس میں جڑے ہوئے تھے۔ پھر اللہ نے انہیں ایک دوسرے سے الگ کیا۔ (الانبیاء : ٣٠) ٩۔ اللہ تعالیٰ نے دو دن میں آسمانوں کو پیدا کیا۔ (حٰم السجدۃ: ١٢) (الاعراف : ٥٤) الملك
4 الملك
5 فہم القرآن ربط کلام : پہلے آسمان کی خصوصیت اور خوبصورتی۔ قرآن مجید میں یہ بات کئی مقامات پر بیان ہوئی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے پہلے آسمان کو ستاروں سے مزّین فرمایا ہے۔ ستاروں کے کئی فائدے ہیں، ان میں سے ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ لوگ ستاروں کے ذریعے راستوں کی راہنمائی حاصل کرتے ہیں اور انہی ستاروں سے آسمان دنیا کی حفاظت کا بندو بست کیا گیا ہے۔ کیونکہ شیاطین آسمان دنیا کے دروازوں کے قریب جا کر ملائکہ کی گفتگو سننا چاہتے ہیں تو ستارے شیاطین پر انگارے بن کر برستے ہیں اس طرح شاتطین پر مستقل طور پر عذاب مسلّط کردیا گیا ہے۔ اس بندوبست سے پہلے شیاطین آسمان کے قریب جا کر ملائکہ کی کچھ نہ کچھ باتیں سن کر کاہنوں، نجومیوں اور اس قسم کے لوگوں کے دلوں میں جھوٹ، سچ ملا کر کوئی بات ڈال دیتے تھے۔ اسے آٹھویں پارے میں یوں بیان کیا گیا ہے۔ ” تاکہ جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے ان کے دل اس جھوٹ کی طرف مائل ہوں اور وہ اسے پسند کریں اور تاکہ وہ، وہ برائیاں کریں۔“ (الانعام : ١١٣) اہل مکہ اسی بات کو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر چسپاں کرتے اور کہتے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس فرشتہ نہیں بلکہ شیطان آتے ہیں جو پہلے لوگوں کے واقعات سنانے کے ساتھ اسے مزید باتیں بتاتے ہیں۔ اس الزام کی یہاں مجمل الفاظ میں تردید کی گئی ہے۔ انیسویں پارے میں کھلے الفاظ میں وضاحت فرمائی۔ ” کیا میں تمہیں بتلاؤں کہ شیاطین کن لوگوں پر نازل ہوتے ہیں وہ ہر ایک جھوٹے اور گنہگار پر اترتے ہیں اور انہیں سنی سنائی باتیں پہاچ تے ہیں۔“ (الشعراء : ٢٢١ تا ٢٢٣) خالقِ کائنات کا ارشاد ہے کہ ہم نے آسمان میں برج بنائے اور دیکھنے والوں کے لیے اسے خوبصورت بنایا اور شیاطین سے انہیں محفوظ کردیا۔ اگر کوئی شیطان چوری چھپے سننا چاہے تو ایک روشن اور بھڑکتا ہوا شعلہ اس کا تعاقب کرتا ہے۔ پہلے زمانے میں فلکیات کا علم رکھنے والے ماہرین نے آسمان دنیا کے بارہ برج متعین کر رکھے ہیں مگر قرآن مجید کے بروج سے مراد وہ برج نہیں ہیں۔ بروج سے مراد کچھ اہل علم نے پہلے آسمان کے دروازے لیے ہیں، جن دروازوں کے ذریعے ملائکہ زمین پر اترتے اور پھر آسمان میں داخل ہوتے ہیں۔ قرآن مجید کے الفاظ سے یہ نتیجہ اخذ کرنے کی گنجائش موجود ہے۔ ہوسکتا ہے کہ بروج سے مراد آسمان کے دروازوں میں ڈیوٹی دینے والے چوکیدار ملائکہ ہوں جن کو اللہ تعالیٰ نے شہاب ثاقب کی صورت میں اسلحہ دے رکھا ہوجن سے وہ شیاطین کو بھگاتے ہیں۔ اکثر علماء نے بروج سے مراد ستارے اور سیارے لیے ہیں جن سے آسمان کو خوبصورت اور محفوظ بنایا گیا ہے۔ حدیث رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے برج کے بارے میں ہمیں کوئی وضاحت نہیں ملتی، البتہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے آسمان کی حفاظت اور شیاطین کے تعاقب کے بارے میں یہ ارشاد فرمایا ہے : ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ انہیں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی یہ حدیث پہنچی جب اللہ تعالیٰ آسمان میں کسی کام کا فیصلہ فرماتا ہے تو فرشتے عاجزی کے ساتھ اپنے پر ہلاتے ہیں جس طرح کہ چٹان پر پھوار پڑتی ہے حضرت علی (رض) فرماتے ہیں کہ ملائکہ اس حکم کا نفاذ کرتے ہیں جب ان کے دلوں سے گھبراہٹ دور ہوجاتی ہے تو کہتے ہیں تمھارے رب نے کیا فرمایا وہ کہتے ہیں حق فرمایا۔ وہی سب سے بلند و بالا ہے پس شیاطین اسے چوری چھپے سنتے ہیں اور ان کے سننے کا طریقہ یہ ہے کہ ایک دوسرے کے کندھوں پر سوار ہوتے ہوئے آسمان تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ سفیان نے اپنے ہاتھوں کو ایک دوسرے کے اوپر رکھتے ہوئے اسے بیان کیا۔ بسا اوقات سننے والے شیطان پر شہاب ثاقب لپکتا ہے پہلے اس کے کہ وہ اس بات کو اپنے ساتھی تک پہنچائے وہ اس کو جلا دیتا ہے اور بسا اوقات شہاب ثاقب اسے نہیں پہنچتا یہاں تک کہ شیطان وہ بات نیچے والوں تک پہنچا دیتا ہے۔ یہ بات چلتے چلتے زمین والوں تک پہنچ جاتی ہے ابو سفیان کہتے ہیں یہاں تک کہ وہ اس بات کو زمین والوں تک پہنچا دیتا اور اسے جادو گر کے کان میں ڈالتے ہیں۔ وہ اس کے ساتھ سو جھوٹ ملاتا ہے اس کی ایک بات کی وجہ سے اس کی تصدیق ہوجاتی ہے وہ کہتا ہے میں نے فلاں فلاں موقع پر تمھیں فلاں فلاں بات نہیں بتلائی تھی جو حق ثابت ہوئی تھی اس وجہ سے کہ وہ بات انھوں نے آسمان سے سنی ہوتی ہے۔“ (رواہ البخاری : باب قَوْلِہِ (إِلَّا مَنِ اسْتَرَقَ السَّمْعَ فَأَتْبَعَہُ شِہَابٌ مُّبِیْنٌ) مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے آسمان دنیا یعنی پہلے آسمان کو ستاروں سے مزین فرمایا ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے ستاروں کو شیطان کے لیے شباب ثاقب بنادیا ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ نے شیاطین کے لیے جلادینے والاعذاب تیار کیا ہے۔ تفسیر بالقرآن ستاروں کے فوائد : ١۔ ہم نے آسمان میں برج بنائے اور دیکھنے والوں کے لیے انھیں آراستہ کیا۔ (الحجر : ١٦) ٢۔ بابرکت ہے وہ ذات جس نے آسمان میں برج بنائے۔ (الفرقان : ٦١) ٣۔ اللہ تعالیٰ نے آسمان کو ستاروں سے سجایا۔ (البروج : ١) ٤۔ ہم نے آسمان دنیا کو ستاروں سے آراستہ کردیا ہے۔ (الصافات : ٦) ٥۔ ہم نے آسمان دنیا کو ستاروں سے مزین کیا اور شیطانوں سے محفوظ کردیا۔ (حٰم السجدۃ: ١٢) (ق : ٦) الملك
6 فہم القرآن ربط کلام : شیاطین جن میں سے ہوں یا انسانوں سے ان کے لیے اللہ تعالیٰ نے جہنم تیار کر رکھی ہے۔ جو لوگ شیاطین کا کردار اختیار کرتے ہیں، حقیقت میں وہ اپنے رب کے ساتھ کفر کرتے ہیں۔ ان کے لیے جہنم تیار کی گئی ہے جو نہایت ہی برا ٹھکانہ ہے۔ جہنم کی آگ اس قدر جوش مار رہی ہوگی کہ اس سے مختلف قسم کی خوفناک آوازیں نکلیں گی۔ دیکھنے اور سننے والوں کو یوں لگے گا جیسے جہنم اپنے جوش اور زور سے پھٹ جائے گی۔ جب جہنمی کو گروہ در گروہ جہنم میں ڈالا جائے گا تو جہنم کے داروغے ان سے پوچھیں گے کہ کیا تمہارے پاس جہنم سے ڈرانے والے نہیں آئے تھے ؟ جہنمی اقرار کریں گے کیوں نہیں ! ہمارے پاس ڈرانے والے آئے تھے لیکن ہم نے انہیں جھٹلایا اور کہا کہ تم سب کچھ اپنی طرف سے کہتے ہو۔ اللہ تعالیٰ نے کوئی ایسی بات نازل نہیں کی، یہاں تک کہ ہم نے انہیں یہ بھی کہا کہ تم خود کھلی گمراہی میں پڑے ہوئے ہو، جہنم کے عذاب میں مبتلا ہوں گے تو آہ و بکا کرتے ہوئے کہیں گے کہ کاش! ہم ڈرانے والوں کی بات توجہ سے سنتے اور اس پر غور کرتے اور آج جہنمیوں میں شامل نہ ہوتے۔ باربار اپنے گناہوں کا اعتراف کرنے کے با وجود وہ اللہ کی رحمت سے دور رہیں گے ان کے لیے جہنم سے نجات کی کوئی صورت نہیں ہوگی، کیونکہ وہ اپنے رب کے ساتھ کفر و شرک کیا کرتے تھے۔ یاد رہے کہ ہدایت پانے کے لیے ضروری ہے کہ انسان اللہ اور اس کے رسول کی بات کو توجہ سے سنے اور اس پر غوروفکر کرے تاکہ وہ صراط مستقیم پر گامزن ہوجائے، ہدایت پانے کے لیے یہ شرط ہے۔ (اِِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَذِکْرٰی لِمَنْ کَانَ لَہٗ قَلْبٌ اَوْ اَلْقَی السَّمْعَ وَہُوَ شَہِیْدٌ) (قٓ: ٣٧) ” اس میں عبرت کا سبق ہے ہر اس شخص کے لیے جو دل رکھتا ہو، یا جو بات کو توجہ سے سننے والا ہو۔“ جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کے فرمان پر توجہ نہیں دیتے، قرآن مجید نے انہیں چوپاؤں سے بدتر قرار دیا ہے اور ان کا ٹھکانہ جہنم ہے۔ (وَ لَقَدْ ذَرَاْنَا لِجَہَنَّمَ کَثِیْرًا مِّنَ الْجِنِّ وَ الْاِنْسِ لَہُمْ قُلُوْبٌ لَّا یَفْقَہُوْنَ بِہَا وَلَہُمْ اَعْیُنٌ لَّا یُبْصِرُوْنَ بِہَا وَلَہُمْ اٰذَانٌ لَّا یَسْمَعُوْنَ بِہَا اُولٰٓءِکَ کَالْاَنْعَامِ بَلْ ہُمْ اَضَلُّ اُولٰٓءِکَ ہُمُ الْغٰفِلُوْنَ) (الاعراف : ١٧٩) ” اور بلاشبہ ہم نے بہت سے جن اور انسان جہنم کے لیے پیدا کیے ہیں ان کے دل ہیں جن سے وہ سمجھتے نہیں اور ان کی آنکھیں ہیں جن سے وہ دیکھتے نہیں اور ان کے کان ہیں جن سے وہ سنتے نہیں یہ لوگ چوپاؤں جیسے ہیں بلکہ زیادہ بھٹکے ہوئے ہیں یہی ہیں جو بالکل غافل ہیں۔“ (الاعراف : ١٧٩) (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ أُوقِدَ عَلَی النَّارِ أَلْفَ سَنَۃٍ حَتَّی احْمَرَّتْ ثُمَّ أُوقِدَ عَلَیْہَا أَلْفَ سَنَۃٍ حَتَّی ابْیَضَّتْ ثُمَّ أُوقِدَ عَلَیْہَا أَلْفَ سَنَۃٍ حَتَّی اسْوَدَّتْ فَہِیَ سَوْدَاءُ مُظْلِمَۃٌ) ( رواہ الترمذی : کتاب صفۃ جہنم) ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ایک ہزار سال تک دوزخ کی آگ کو بھڑکا یا گیا یہاں تک کہ وہ سرخ ہوگئی پھر اس کو ایک ہزار سال تک جلایا گیا تو وہ سفید ہوگئی پھر اس کو ایک ہزار سال تک جلایا گیا یہاں تک کہ وہ سیاہ ہوگئی اب اس کا رنگ سیاہ ہے۔“ (اِِنَّہَا تَرْمِی بِشَرَرٍ کَالْقَصْرِ) (المرسلات : ٣٢) ” اس آگ کے محلات جیسی بڑی بڑی چنگاریاں پھینکے گی۔“ مسائل ١۔ جوش کی وجہ سے جہنم کی آگ سے مختلف قسم کی آوازیں نکلیں گی۔ ٢۔ جہنم کی آگ میں اس قدر تیزی اور جوش ہوگا کہ دیکھنے والے کو یوں لگے گا جیسے جہنم ابھی پھٹ جائے گی۔ ٣۔ جہنم کے داروغوں کے سوال کے جواب میں جہنمی اعتراف کریں گے کہ ہمارے پاس جہنم سے ڈرانے والے آئے تھے۔ ٤۔ جہنمی لوگ دنیا میں انبیاء اور علماء کو گمراہ قرار دیتے تھے۔ ٥۔ جہنمی اپنے گناہوں کا اقرار کرتے ہوئے کہیں گے کہ کاش! ہم جہنم سے ڈرانے والوں کی بات کو توجہ سے سنتے اور اس پر غور کرتے۔ ٦۔ کفار اور مشرکین اپنے رب کی رحمت سے ہمیشہ ہمیش کے لیے دور ہوں گے۔ تفسیر بالقرآن عقل وفکر کی حیثیت اور جہنمی کا اپنے گناہوں کا اعتراف کرنا : ١۔ حق پہچاننے کے لیے آفاق پر غور کرنے کی دعوت۔ (حٰمٓ السجدۃ: ٥٣) ٢۔ اپنی ذات پر غور وفکر کی دعوت۔ (الذاریات : ٢١) ٣۔ رات کے سکون پر غور کرنے کی دعوت۔ (القصص : ٧٢) ٤۔ دن رات کے بدلنے میں غور و خوض کی دعوت۔ (المومنون : ٨٠) ٥۔ شہد کی بناوٹ پر غور کرنے کی دعوت۔ (النحل : ٦٩) ٦۔ ہم نے بابرکت کتاب نازل کی تاکہ لوگ اس کی آیات میں غور و فکر کریں اور نصیحت حاصل کریں۔ (ص : ٢٩) ٧۔ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ جہنمیوں سے فرمائے گا کیا آج کا عذاب برحق نہیں ہے ؟ وہ کہیں گے کیوں نہیں۔ (الاحقاف : ٣٤) ٨۔ ہر جہنمی کی خواہش ہوگی کہ دنیا میں واپس بھیج دیا جائے۔ (الانعام : ٢٧ تا ٢٨) ٩۔ اے رب ہمارے! ہمیں یہاں سے نکال ہم پہلے سے نیک عمل کریں گے۔ (الفاطر : ٣٧) ١٠۔ اے رب ہمارے! ہم کو یہاں سے نکال اگر دوبارہ ایسا کریں تو بڑے ظالم ہوں گے۔ (المؤمنون : ١٠٧) الملك
7 الملك
8 الملك
9 الملك
10 الملك
11 الملك
12 فہم القرآن ربط کلام : جو لوگ اپنے رب سے ڈرگئے اور اس کی نافرمانی سے بچتے رہے ان کا اجر۔ دنیا میں بے شمار ایسے لوگ ہوتے ہیں جو برائی سے اس لیے نہیں بچتے کہ اللہ تعالیٰ نے اس سے بچنے کا حکم دیا ہے۔ وہ ملکی قانون، خاندانی روایات یا پھر معاشرے کے خوف کی وجہ سے برائی سے اجتناب کرتے ہیں۔ ایسا کرنا اچھی بات ہے اور اس کا دینا میں فائدہ ہوتا ہے لیکن قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے ہاں وہی لوگ اجر پائیں گے جو اللہ کے خوف کی وجہ سے برائی سے بچتے ہیں۔ ان سے جو گناہ بتقاضا بشریت ہوگا اللہ تعالیٰ نہ صرف اسے معاف فرمائے گا بلکہ انہیں اجر کبیر سے بھی ہمکنار کرے گا۔ اللہ تعالیٰ سے غائب میں ڈرنے کا یہ معنٰی نہیں کہ کوئی چیز اللہ تعالیٰ سے پوشیدہ ہے۔ غائب سے مرادوہ کام اور چیز ہے جو انسان ایک دوسرے سے چھپا سکتا ہے یا انسان کی آنکھوں سے اوجھل ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے لیے ظاہر اور پوشیدہ برابر ہے۔ ” اللہ جانتا ہے جو ہر مادہ اٹھائے ہوئے ہے اور رحم جو کچھ کم کرتے ہیں اور جو زیادہ کرتے ہیں اور اس کے ہاں ہر چیز کا اندازہ مقرر ہے۔ وہ غیب اور ظاہر کو جاننے والا، بہت بڑا اور نہایت بلندو بالا ہے۔ برابر ہے اس کے لیے تم میں سے جو بات چھپا کر کرے یا اسے بلند آواز سے کرے۔ جو رات کو چھپا ہوا ہے اور جو دن کو ظاہر پھرنے والا ہے۔ اس کے لیے اس کے آگے اور اس کے پیچھے یکے بعد دیگرے مقرر کیے ہوئے نگران لگے ہوئے ہیں، جو اللہ کے حکم سے اس کی حفاظت کرتے ہیں۔ بے شک اللہ نہیں بدلتا کسی قوم کو، یہاں تک کہ وہ اپنے آپ کو خود بدل لے۔“ (الرعد : ٨ تا ١١) اس لیے اس کا فرمان ہے کہ تم اپنی بات ظاہر کرو یا خفیہ رکھو۔ اسے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ وہ دلوں کے بھید جانتا ہے۔ سوچو اور غور کرو ! کیا جس نے انسان اور ہر چیز کو پیدا کیا ہے وہ کسی بات سے بے خبر ہوسکتا ہے ؟ ایسا ہرگز نہیں کیونکہ وہ باریک سے باریک تر چیز کی خبر رکھتا ہے۔ (عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَ (رض) عَنْ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ لَمَّا تَجَلّٰی اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ لِمُوْسیٰ ( علیہ السلام) کَانَ یَبْصُرُالنَّمْلَۃَ عَلیٰ الصَّفَا فِیْ الَّلیْۃِ الظُّلْمَاءِ مَسِیْرَۃَ عَشْرَۃِ فَرْسَخٍ) ( تفسیر ابن کثیر، سورۃ الاعراف : ١٤٣) ” حضرت ابوہریرہ (رض) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں آپ نے فرمایا جب اللہ نے موسیٰ (علیہ السلام) کے لیے تجلی فرمائی اس وقت وہ اندھیری رات میں دس فرسخ کے فاصلے سے پتھر پر چلنے والی چیونٹی کو دیکھ رہا تھا۔“ (اِِلَّا مَنْ تَابَ وَاٰمَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا فَاُوْلٰٓءِکَ یُبَدِّلُ اللّٰہُ سَیِّاٰتِہِمْ حَسَنَاتٍ وَّکَان اللّٰہُ غَفُوْرًا رَحِیْمًا) (الفرقان : ٧٠) ” ہاں جو توبہ کرے اور ایمان لاکرصالح عمل کرے ایسے لوگوں کی برائیوں کو اللہ تعالیٰ نیکیوں سے بدل دے گا کیونکہ اللہ غفورّرحیم ہے۔“ مسائل ١۔ جو لوگ اپنے رب سے غائب کی حالت میں ڈرتے ہیں ان کے لیے بخشش اور اجر کبیر ہے۔ ٢۔ کوئی اپنی بات کو ظاہر کرے یا اسے چھپائے اللہ تعالیٰ اسے جانتا ہے۔ کیونکہ وہ دلوں کے بھید جاننے والا ہے۔ ٣۔ ہر انسان کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ باریک سے باریک تر چیز سے باخبر ہوتا ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ سے غائب کی حالت میں ڈرنے والے لوگوں کا صلہ اور مقام : ١۔ جو لوگ اللہ سے غیب میں ڈرتے ہیں ان کے لیے بخشش اور بڑا اجر ہے۔ (الملک : ١٢) ٢۔ جو الرحمن سے غیب میں ڈرتے ہیں ان کے لیے بخشش کی خوشخبری ہے۔ (یٰس : ١١) ٣۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان لوگوں کو ڈرانے والے ہیں جو اپنے رب سے غیب میں ڈرتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں۔ (الفاطر : ١٨) ٤۔ غیب پر ایمان لانا، نماز قائم کرنا، اللہ کے دیئے ہوئے مال سے خرچ کرنا، قرآن مجید اور سابقہ کتب آسمانی پر ایمان لانا اور آخرت پر یقین رکھنے والوں کے لیے کامیابی ہے۔ (البقرۃ: ٣، ٤) الملك
13 الملك
14 الملك
15 فہم القرآن ربط کلام : جس رب نے انسان کو پیدا کیا ہے اسی نے انسان کے لیے زمین کو بنایا اور بچھایا ہے۔ اس سورت کی آیت ٣ تا ٥ میں آسمانوں کی تخلیق، تزئین اور حفاظت کا ذکر فرماکر انسان کو یہ حقیقت یاد کرائی گئی ہے کہ جس خالق نے سب کچھ پیدا کیا ہے وہ لوگوں کے سینوں کے رازوں سے واقف ہے اور جو رب لوگوں کے دلوں کے جذبات کو جانتا ہے اس نے ہی زمین کو اس قابل بنایا ہے تاکہ تم اس کے راستوں پر چلو اور اپنے رازق کارزق کھاؤ اور یاد رکھو! کہ تم نے اسی کے حضور پیش ہونا ہے۔ یہاں زمین کے لیے ” ذَلُوْلًا“ کا لفظ استعمال کیا ہے جس کا معنٰی نر م ہے۔ بے شک زمین میں پہاڑ اور چٹانیں بھی پائی جاتی ہیں مگر اللہ تعالیٰ نے ہر دور کے انسان کو فہم اور وسائل عطا فرمائے ہیں کہ وہ اپنی ضرورت کے مطابق زمین میں راستے بنائے اور انہیں ہموار کرے تاکہ وہ ایک مقام سے دوسرے مقام تک جاسکے۔ اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ صلاحیت کے سبب انسان نے زمین پر شاہرائیں بنائیں اور پہاڑوں کے سینے چیر کر راستے ہموار کیے یہاں تک کہ سمندر پر بھی راستے بنا لیے ہیں۔ جس سے ایک ملک کے وسائل اور اناج باآسانی دوسرے ملک میں پہنچ رہے ہیں۔ اس سے لوگوں کے رزق میں کشادگی پیدا ہوئی اور ایک دوسرے کے ساتھ تعلقات قائم کرنے میں آسانی میسر آئی۔ اگر اللہ تعالیٰ زمین پر راستے نہ بناتا اور انسان کو مواصلات کے ذرائع بنانے کی صلاحیت نہ دیتا تو لوگ اپنے اپنے علاقے میں قیدی بن کررہ جاتے اور نہ ایک دوسرے کے وسائل سے فائدہ اٹھا سکتے تھے اور نہ ہی دنیا اس قدر ترقی کرسکتی تھی۔ مسائل ١۔ اللہ ہی نے زمین کو نرم بنایا اور اس پر راستے بنائے۔ ٢۔ اللہ ہی لوگوں کو رزق دینے اور کھلانے والاہے۔ ٣۔ ہر شخص نے اپنی اپنی قبر سے نکل کر اللہ کے حضور پیش ہونا ہے۔ تفسیر بالقرآن ہرکسی نے ” اللہ“ کے حضور پیش ہونا ہے : ١۔ میں اسی کی طرف بلاتا ہوں اور اسی کی طرف مجھے واپس جانا ہے۔ (الرعد : ٣٦) ٢۔ اللہ کو ہی قیامت کا علم ہے اور اسی کی طرف تم نے لوٹنا ہے۔ (الزخرف : ٨٥، مریم : ٤٠، الزمر : ٤٤، یونس : ٥٦) الملك
16 فہم القرآن ربط کلام : جس ذات نے تمہیں پیدا کیا اور زمین کو تمہارے لیے فرش کے طور پر بچھایا ہے کیا اس سے بے خوف ہو کر اس کی نافرمانیاں کرتے ہو۔ یاد رکھو اگر وہ چاہے تو نافرمانوں کو زمین میں دھنسا دے یا آسمان سے پتھروں کی بارش برسا کر انہیں نیست ونابود کر دے۔ جس رب کے حضور تم نے قبروں سے نکل کر پیش ہونا ہے وہ آسمانوں میں ہے۔ کیا تم اس سے بے خوف ہوگئے ہو کہ وہ زمین کو اس طرح ہلا دے کہ تمہیں زمین میں دھنسا کر رکھ دے۔ کیا تم اس ہستی سے بے پرواہ ہوگئے ہو جو آسمان میں ہے وہ چاہے تو تمہاری نافرمانیوں کی وجہ سے تم پر پتھروں کی بارش برسائے پھر تمہیں معلوم ہو کہ اس کا ڈرانا کیسا ہوتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ ان سے پہلے تھے وہ بھی ” اللہ“ کے ڈر سے بے خوف ہوگئے تھے۔ جب وہ ” اللہ“ کے ڈر سے بے خوف ہوئے تو ” اللہ“ نے کسی کو زمین میں دھنسا دیا اور کسی پر پتھروں کی بارش برسائی۔ غور کرو ! کہ میرا عذاب کیسا ہوگا؟ اللہ تعالیٰ نے یہاں اپنے بارے میں دو مرتبہ اشارہ کیا ہے کہ وہ آسمان میں ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ آسمان کا اپنا وجود ہے لیکن یہاں آسمان سے مراد رفعت اور بلندی ہے۔ یہ مفہوم لینے کی اس لیے ضرورت ہے کہ اس کا ارشاد ہے کہ اللہ ہی تو ہے جس نے آسمانوں، زمین اور جو کچھ ان کے درمیان ہے اسے چھ دن میں پیدا فرمایا۔ پھر وہ عرش پر مستوی ہوا۔ ( السجدۃ : ٣) دوسرے مقام پر فرمایا کہ یہ قرآن اس ذات کی طرف سے اتارا گیا ہے، جس نے زمین اور بلندو بالا آسمانوں کو پیدا کیا، وہ بڑا مہربان اور عرش پر متمکن ہے۔ ( طٰہٰ: ٤، ٥) ان دلائل کی روشنی میں ہمارا عقیدہ یہ ہونا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ اپنی ذات کے اعتبار سے عرش معلی پر جلوہ نما ہے اور اپنے علم، اقتدار اور اختیار کے اعتبار سے ہر جگہ موجود ہے۔ ” معاویہ بن حکم (رض) بیان کرتے ہیں کہ میری ایک لونڈی تھی جو احد پہاڑ اور جوانیہ کے علاقہ میں میری بکریاں چرایا کرتی تھی۔ ایک دن میں نے دیکھا کہ میری بکریوں میں سے ایک بکری کو بھیڑیا اٹھا کرلے گیا ہے میں انسان تھا جس طرح دوسروں کو غصہ آتا ہے، مجھے بھی غصہ آگیا۔ میں نے اس لڑکی کے منہ پر طمانچہ دے مارا۔ اس حرکت کے بعد میں رسول مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ نے اسے میرا بڑا جرم قرار دیا۔ میں نے عرض کیا : اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیا میں اسے آزاد کردوں؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حکم دیا : اسے میرے پاس لاؤ میں لڑکی کو آپ کی خدمت میں لے گیا۔ آپ نے اس سے پوچھا کہ اللہ کہاں ہے؟ اس نے جواب دیا آسمانوں میں ہے۔ پھر آپ نے پوچھا کہ میں کون ہوں؟ اس نے جواب دیا : آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں۔ آپ نے فرمایا اسے آزاد کردو یہ ایمان دارہے۔“ (رواہ مسلم : باب تَحْرِیمِ الْکَلاَمِ فِی الصَّلاَۃِ وَنَسْخِ مَا کَانَ مِنْ إِبَاحَتِہِ) ” حضرت حذیفہ بن اسید غفاری (رض) بیان کرتے ہیں ہم نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حجرہ مبارک کے سائے میں بیٹھے باتیں کر رہے تھے دوران گفتگو ہم نے قیامت کا ذکر کیا۔ باتیں کرتے ہوئے ہماری آوازیں بلند ہوگئیں۔ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی جب تک اس سے پہلے دس نشانیاں نہ پوری ہوجائیں۔ سورج کا مغرب سے طلوع ہونا، دابہ جانور کا نکلنا، یاجوج و ماجوج کا ظاہر ہونا، دجال کا آنا، عیسیٰ ابن مریم [ کا زمین پر نازل ہونا، دھواں کا ظاہرہونا اور زمین کا تین مرتبہ دھنسنا ایک مرتبہ مغرب میں، ایک مرتبہ مشرق میں اور ایک مرتبہ جزیرۃ العرب میں اور آخر میں آگ یمن سے عدن کی طرف رونما ہوگی جو لوگوں کو محشر کے میدان میں اکٹھا کرے گی۔“ (رواہ ابوداؤد : باب أمارات الساعۃ، قال البانی صحیح) مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ چاہے تو مجرموں کو زمین میں دھنسا دے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ چاہے تو آسمان سے ظالموں پر پتھروں کی بارش برسائے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ نے مکہ والوں سے پہلے کئی ظالموں کی گرفت کی۔ غور کرو! اللہ کی پکڑ کس قدر سخت ہوگی۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ کا ظالم اقوام کی گرفت کرنا : ١۔ قوم نوح طوفان کے ذریعے ہلاک ہوئی۔ (الاعراف : ١٣٦) ٢۔ عاد زبر دست آندھی کے ذریعے ہلاک ہوئے۔ (الحاقہ : ٦) ٣۔ ثمود زور دار دھماکے کے ساتھ ہلاک کیے گئے۔ (الحاقہ : ٥) (الحجر : ٧٤) (ھود : ٨٢) الملك
17 الملك
18 الملك
19 فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ کی ایک اور قدرت جس پر لوگوں کو غور کرنا چاہیے۔ ” اللہ“ ہی وہ ذات ہے جس نے زمین کو فرش کے طور پر بچھایا اور پھیلایا اور اس میں کشش اتصال پیدا فرمائی۔ اسی وجہ سے فضا میں ایک حد تک پھرنے والی چیز کو زمین اپنی طرف کھینچتی ہے۔ بے شک بندوق کی گولی ہو یا یا سکڈ میزائل بالآخر وہ زمین پر آتا ہے۔ مگر اللہ تعالیٰ نے پرندوں میں ایسی قوت اور شعور پیدا کیا ہے جس بنا پر وہ فضا میں اپنی مرضی کے مطابق اڑتے اور پھرتے ہیں۔ کبھی دونوں پَر کبھی ایک پر ہلاتے ہیں، کبھی دونوں پَر پھیلا کر فضا میں تیر رہے ہوتے ہیں اور کبھی دونوں پروں کو بند کرلیتے ہیں انہیں یہ قوت اور شعور دینے والی صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے، اس لیے ارشاد فرمایا ہے کہ اپنے سروں پر اڑنے والے پرندوں پر غور کرو کہ جو کبھی پروں کو پھیلاتے ہیں اور کبھی انہیں سکیڑلیتے ہیں۔ الرّحمن کے سوا کوئی ایسی ذات اور طاقت نہیں جو انہیں تھام سکتی ہو۔ صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے جو انہیں تھامتی ہے اور ہر چیز کو دیکھنے والی ہے۔ آج جس قدر فضاء میں ہوائی جہاز پرواز کررہے ہیں ان کی تکنیک کسی نہ کسی پرندے کی اڑان سے سیکھی گئی ہے۔ کچھ جہاز ایسے ہیں جنہیں لمبے رن وے (Run way) کی ضرورت ہوتی ہے اور کچھ ایسے ہیں جو ایک ہی جگہ پر کھڑے اوپراٹھتے ہیں۔ یہی پرندوں کی کیفیت ہے کہ کچھ پرندے آگے دوڑ کر اڑتے ہیں اور کچھ اپنے قدموں پر ہی اٹھ کر فضاء میں اڑنا شروع کردیتے ہیں۔ مسائل ١۔ اللہ ہی پرندوں کو فضا میں اڑانے اور تھامنے والا ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ بڑا رحمن اور ہر چیز کو دیکھنے والا ہے۔ تفسیر بالقرآن ہر چیز اللہ تعالیٰ کے احاطہ قدرت میں ہے : (النساء : ١٢٦) (النساء : ١٠٨) (ھود : ٩٢) (آل عمران : ١٢٠) (الطلاق : ١٢) (البقرۃ: ٢٥٥) (البقرۃ: ١١٦) الملك
20 فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ کی مزید قدرتوں کا تذکرہ۔ اللہ تعالیٰ اپنی بڑی بڑی قدرتوں کا تذکرہ فرما کر منکرین حق کو دعوت فکر دیتے ہوئے سوال کرتا ہے کہ بتاؤ ! اگر ” اللہ“ تمہاری گرفت کرنے پر آئے تو کون ہے جو اللہ کے سوا تمہاری مدد کرسکے۔ ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کے اذن کے سوا کوئی بھی تمہاری مدد نہیں کرسکتا لیکن اس کے باوجود کافر دھوکے میں مبتلا ہیں۔ اگر ” اللہ“ تمہارا رزق بند کرلے تو پھر کون تمہیں رزق دینے والاہے، حقیقت یہ ہے کہ اس کے سوا کوئی نہیں۔ لیکن پھر بھی کافر اپنے رب کی نافرمانی کرتے ہوئے اس کی توحید سے نفرت کرتے ہیں۔ ان کے مقابلے میں اپنے رب پر حقیقی ایمان لانے والا شخص یقین رکھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی رزق دینے اور کم کرنے والاہے، اگر وہ کسی کی گرفت کا فیصلہ کرلے تو زمین و آسمانوں میں کوئی نہیں جو کسی کی مدد کرسکے۔ یہاں مومن اور کافر کے عقیدہ اور کردار کے فرق کو واضح کرنے کے لیے یہ مثال دی ہے کہ ایک وہ شخص ہے جو منہ کے بل چلتا ہے اور دوسرا وہ ہے جو اپنے پاؤں پر سیدھا ہو کر سیدھے راستے پر چلتا ہے۔ کیا یہ دونوں برابر ہوسکتے ہیں؟ بتاؤ کہ ان میں سے کس کی سوچ اور انداز بہتر ہے اور کون ان میں منزل مقصود پر پہنچنے والا ہے ؟ کھلی حقیقت ہے کہ جو سر کے بل چلنے والا ہے وہ ذلّت و رُسوائی اٹھانے کے باوجود اپنی منزل پر نہیں پہنچ سکتا اور جو صحیح فکر اور سیدھا ہو کر چلتا ہے وہ بالآخر منزل مقصود پانے والا ہے۔ اس مثال سے یہ ثابت کیا ہے کہ کافر، مشرک اور اللہ کے باغی کی سوچ بھی ہے الٹی ہے اور اس کا کردار بھی الٹا ہے۔ اللہ کا حکم ہے کہ مجھے ہر اعتبار سے ایک مانو! کافر اس بات کا انکار کرتا ہے اور مشرک اس کے ساتھ دوسروں کو شریک بناتا ہے۔ باغی انسان اللہ تعالیٰ کا حکم ماننے کی بجائے اس کی نافرمانی کرتا ہے۔ جس طرح دونوں کے عقیدہ اور کردار میں فرق ہے اسی طرح ان کے انجام میں فرق ہوگا اسی لیے اس کا ارشاد ہے : ” بھلا یہ ہوسکتا ہے کہ جو شخص مومن ہے وہ اس شخص کی طرح کردیا جائے جو فاسق ہے دونوں برابر نہیں ہو سکتے۔ جو لوگ ایمان لائے ہیں اور انہوں نے نیک عمل کیے ہیں ان کے اعمال کے بدلے ان کی ضیافت کے لیے جنتوں کی قیام گاہیں ہیں اور جنہوں نے نافرمانی اختیار کی ہے ان کا ٹھکاناآگ ہے، جب اس سے نکلنا چاہیں گے تو اسی میں دھکیل دیے جائیں گے، اور ان سے کہا جائے گا کہ اب آگ کے عذاب کا مزا چکھو جسے تم جھٹلایا کرتے تھے۔“ (السجدۃ: ١٨ تا ٢٠) مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی کسی کی مدد نہیں کرسکتا۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ کسی کا رزق بند یا تنگ کردے تو کوئی اسے رزق دینے والا نہیں۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ کی قدرتیں جاننے کے باوجود کافر اور مشرک ” اللہ“ کو بلا شرکت غیرے حقیقی داتا اور مددگارماننے کے لیے تیار نہیں۔ ٤۔ کفار اور مشرکین کی مثال منہ کے بل چلنے والے کی طرح اور موحِّد کی مثال پاؤں کے بل سیدھا ہو کر راستے پر چلنے والے کی طرح ہے۔ تفسیربالقرآن کافر، مشرک، منافق اور مومن کے درمیان فرق : ١۔ مومن اور فاسق برابر نہیں ہو سکتے۔ (السجدۃ: ١٨) ٢۔ جنتی اور جہنمی برابر نہیں ہو سکتے۔ (الحشر : ٢٠) ٣۔ سیدھا اور الٹا چلنے والا برابر نہیں ہوتا۔ (الملک : ٢٢) ٤۔ اندھا اور بینا برابر نہیں ہوتا۔ (الانعام : ٥٠) ٥۔ روشنی اور اندھیرے برابر نہیں ہوتے۔ (فاطر : ٢٠) ٦۔ مجاہد اور غیر مجاہد برابر نہیں (النساء : ٩٥) ٧۔ مومن اور کافر برابر نہیں ہیں۔ (الانعام : ١٢٢) ٨۔ مومن کافروں سے سربلند ہیں۔ (آل عمران : ٥٥) ٩۔ متقین قیامت کو سربلند ہوں گے۔ (البقرۃ: ٢١٢) الملك
21 الملك
22 الملك
23 فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ نے اس سورت کی آیت ١٦ سے لے کر ٢٢ تک چھ مرتبہ سوالیہ انداز میں اپنی قدرتیں سمجھائی ہیں اور اب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو چھ مرتبہ ” قُلْ“ کے لفظ سے حکم دیا ہے کہ آپ اپنے رب کی ذات اور اس کی قدرتوں سے لوگوں کو آگاہ فرمائیں کہ اللہ کی قدرت کی عظیم نشانیوں میں سے یہ بھی ایک بڑی نشانیاں ہیں کہ اس نے تمہیں پیدا فرمایا، تمہارے کان، آنکھیں اور دل بنائے ہیں مگر تھوڑے لوگ ہیں جو اس کا شکر ادا کرتے ہیں، یہ بھی انہیں بتلائیں کہ اس نے تمہیں پیدا کرنے کے بعد زمین پر پھیلایا ہے اور اسی کی طرف تم اکٹھے کیے جاؤ گئے۔ ان آیات میں بڑے اختصار کے ساتھ انسان کی تخلیق، اس کی صلاحیتوں اور لوگوں کے کردار کی نشاندہی کرتے ہوئے بتلایا ہے کہ بالآخر تم سب نے اسی کی طرف اکٹھا ہونا ہے۔ اگر انسان اپنی تخلیق پر غور کرے تو اسے یقین ہوجائے گا کہ انسانِ اوّل کو مٹی سے اور ہر انسان پانی کی ایک بوند سے پیدا کرنا اللہ تعالیٰ کی قدرت کا عظیم شاہکار ہے پھر اس نے انسان کو کان، آنکھیں اور دل دیا تاکہ وہ کانوں کے ساتھ حقیقت سنے، آنکھوں کے ساتھ اس کی قدرتوں کا مشاہدہ کرے اور دل میں غور کرے اور اس نتیجے پر پہنچے کہ جس ذات نے اسے ان صلاحیتوں سے سرفراز فرمایا اسے اس کی ذات اور بات کا انکار کرنے کی بجائے اس کا شکر ادا کرنا چاہیے۔ شکرگزار بننے کے لیے ضروری ہے کہ انسان کے ذہن میں یہ بات سما جائے کہ اگر میں نے اپنے خالق اور مالک کا شکر ادا نہ کیا تو مجھے قیامت کے دن اس کا حساب دینا ہوگا۔ لیکن ناشکرے لوگوں کی حالت اور عادت یہ ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ اگر تم سچے ہو تو بتاؤ کہ قیامت کب آئے گی۔ قرآن مجید میں کفار کے سوال کا متعدد مرتبہ جواب دیا گیا ہے۔ لیکن اس کے باوجود وہ یہی کہتے تھے اور کہتے رہیں گے کہ قیامت کب آئے گی۔ ان کے کہنے کا یہ مقصد نہیں کہ وہ قیامت کی آمد پر یقین رکھتے ہیں بلکہ ان کے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ہر دور میں انبیاء اور ان کے ماننے والے کہتے رہے ہیں کہ قیامت آنے والی ہے لیکن آج تک قیامت نہیں آئی۔ بقول ان کے یہ بات لوگوں کو ڈرانے دھمکانے کے سوا کوئی حقیقت نہیں رکھتی ان کا کہنا ہے کہ انسان اسی طرح ہی پیدا ہوتے اور مرتے رہے ہیں اور پیدا ہوتے اور مرتے رہیں گے اور دنیا کا نظام جس طرح چل رہا ہے اسی طرح چلتا رہے گا۔ موت و حیات کا سلسلہ بھی اس نظام کا ایک حصہ ہے لہٰذا جو شخص مَر چکا وہ کبھی نہیں اٹھایا جائے گا۔ (وَقَالُوْا مَا ہِیَ اِِلَّا حَیَاتُنَا الدُّنْیَا نَمُوتُ وَنَحْیَا وَمَا یُہْلِکُنَا اِِلَّا الدَّہْرُ وَمَا لَہُمْ بِذٰلِکَ مِنْ عِلْمٍ اِِنْ ہُمْ اِِلَّا یَظُنُّونَ) (الجاثیہ : ٢٤) ” یہ لوگ کہتے ہیں کہ زندگی بس یہی ہماری دنیا کی زندگی ہے یہیں ہمارا مرنا اور جینا ہے اور گردش ایام کے سوا کوئی چیزجو ہمیں ہلاک نہیں کرتی۔ حقیقت یہ ہے کہ ان کے پاس علم نہیں ہے محض گمان کی بنا پر یہ باتیں کرتے ہیں۔“ مسائل ١۔ ” اللہ“ ہی نے انسانوں کو پیدا کیا اور انہیں کان، آنکھیں اور دل عطا فرمائے۔ ٢۔ ” اللہ“ ہی نے لوگوں کو زمین میں پھیلا یا اور وہی انہیں اپنے حضور اکٹھا کرے گا۔ ٣۔ قیامت کا علم صرف اللہ تعالیٰ کو معلوم ہے۔ ٤۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کام لوگوں کو ان کے برے انجام سے ڈرانا تھا۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا کہ قیامت کب برپا ہوگی : ١۔ اللہ کے پاس قیامت کا علم ہے اس میں شک نہیں کرنا چاہیے۔ (الزخرف : ٦٨) ٢۔ قیامت کا علم اللہ تعالیٰ کے پاس ہے۔ (الاعراف : ١٨٧) ٣۔ اللہ کو ہی قیامت کا علم ہے اور اسی کی طرف تم نے لوٹنا ہے۔ (الزخرف : ٨٥) ٤۔ قیامت قریب آگئی اور اس کے آنے کو اللہ کے سوا کوئی نہیں روک سکتا۔ (النجم : ٥٧۔ ٥٨) ٥۔ قیامت کے بارے میں اللہ کے علاوہ کسی کو علم نہیں کہ قیامت کب واقع ہوگی۔ (الانعام : ٥٩) ٦۔ قیامت قریب آگئی ہے لیکن لوگ اسے اعراض کرتے ہیں۔ ( الانبیاء : ١) الملك
24 الملك
25 الملك
26 الملك
27 فہم القرآن ربط کلام : ان آیات میں کفار کو بتلائی جانے والی چوتھی اور پانچویں حقیقت۔ اس سے پہلے ” قُلْ“ کا لفظ استعمال فرما کر نبی کو حکم ہوا کہ کفار کو یہ بتلا یا جائے کہ تمہیں ” اللہ“ ہی نے پیدا کیا اور اسی نے تمہیں کان، آنکھیں اور دل عطا فرمائے ہیں، اسی نے تمہیں زمین میں پھیلایا اور وہی تمہیں اپنے حضور دوبارہ اکٹھا کرے گا اور وہی جانتا ہے کہ قیامت کب برپا ہوگی۔ اب حکم ہوا کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! انہیں بتلائیں کہ اگر اللہ تعالیٰ مجھے اور میرے ساتھیوں کو ہلاک کرے یا ہم پر مہربانی فرمائے تو کافرو! تم بتلاؤ کہ تمہیں عذاب الیم سے کون بچائے گا؟ انہیں یہ بھی بتلائیں کہ جو ہلاک کرنے اور بچانے والا ہے اسی الرحمن پر ہمارا بھروسہ اور ایمان ہے، وقت آئے گا کہ تمہیں پتا چل جائے گا کہ کون کھلی گمراہی میں مبتلا ہے اور کون ہدایت کے راستے پر ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ہلاک کرنے اور مہربانی فرمانے کا ذکر فرما کر کفار کو یہ حقیقت بتلائی گئی ہے کہ موت اور زندگی، نفع اور نقصان صرف ” اللہ“ کے ہاتھ میں ہے لہٰذا تمہاری مخالفت ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتی، البتہ تم یاد رکھو کہ تمہیں اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بچانے والا کوئی نہیں ہوگا کیونکہ تم کھلی گمراہی میں مبتلا ہو۔ (یَّوْمَ تَبْیَضُّ وُجُوْہٌ وَّ تَسْوَدُّ وُجُوْہٌ فَاَمَّا الَّذِیْنَ اسْوَدَّتْ وُجُوْہُہُمْ اَکَفَرْتُمْ بَعْدَ اِیْمَانِکُمْ فَذُوْقُوا الْعَذَابَ بِمَا کُنْتُمْ تَکْفُرُوْنَ) (آل عمران : ١٠٦) ” جس دن بعض چہرے سفید ہوں گے اور بعض سیاہ، کالے چہروں والوں سے کہا جائے گا کیا تم نے ایمان لانے کے بعد کفر کیا؟ اب عذاب چکھو کیونکہ تم انکار کرتے تھے۔“ ” نہایت مہربان رب کی طرف سے جو زمینوں اور آسمان اور ان کے درمیان کی ہر چیز کا مالک ہے جس کے سامنے کسی کو بولنے کی ہمت نہیں ہوگی۔ جس دن جبریل اور ملائکہ صف بستہ کھڑے ہوں گے کوئی بات نہیں کر پائے گا سوائے اس کے جسے الرّحمن اجازت دے اور وہ ٹھیک بات کہے وہ دن برحق ہے جس کا جی چاہے اپنے رب کی طرف پلٹنے کا راستہ اختیار کرلے۔ ہم نے تمہیں اس عذاب سے ڈرادیا ہے جو قریب آچکا ہے جس دن آدمی سب کچھ دیکھ لے گا جو اس کے ہاتھوں نے آگے بھیجا ہے اور کافر پکار اٹھے گا کہ کاش میں مٹی بنا رہتا۔“ (عبس : ٣٧ تا ٤٢) مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ کسی پر رحم فرمائے یا اسے ہلاک کرے اس کے کام میں کوئی دخل نہیں دے سکتا۔ ٢۔ کفار جس قدر چاہیں مسلمانوں کی مخالفت کرلیں بالآخر انہیں عذاب الیم میں مبتلا ہونا ہے۔ ٣۔ مسلمان کو ہر حال میں ” اللہ“ پر بھروسہ کرنا چاہیے جو سب سے بڑا مہربان ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ جس پر گرفت فرمائے اسے دنیا اور آخرت میں کوئی بچانے والا نہیں : ١۔ ” اللہ“ کا عذاب برحق ہے اور تم اس کو عاجز نہیں کرسکتے۔ (یونس : ٥٣) ٢۔ کفار کے چہروں پر ذلت چھا جائے گی انہیں اللہ کے عذاب سے کوئی بچانے والا نہیں ہوگا۔ (یونس : ٢٧) ٣۔ آج کے دن اللہ کے عذاب سے کوئی نہیں بچ سکتا مگر جس پر اللہ تعالیٰ رحم فرمائے۔ (ہود : ٤٣) ٤۔ اس دن وہ پیٹھ پھیر کر بھاگیں گے ” اللہ“ کی پکڑ سے انہیں کوئی بچانے والا نہیں ہوگا۔ (المومن : ٣٣) ٥۔ اگر اللہ کسی کو تکلیف دے تو کون ہے جو اسے اس تکلیف سے بچا سکے۔ (الاحزاب : ١٧) ٦۔ جسے اللہ رسوا کرے اسے کوئی عزت نہیں دے سکتا۔ (الحج : ١٨) الملك
28 الملك
29 الملك
30 فہم القرآن ربط کلام : دنیا اور آخرت کے عذاب کو ٹالنا تو درکنار انسان ” اللہ تعالیٰ“ کے سامنے اس قدر عاجز اور بے بس ہے کہ وہ اپنی زندگی کی اہم ترین ضرورت پانی پر بھی اختیار نہیں رکھتا۔ انسان کی بنیادی ضروریات میں پانی اس کی زندگی کا اہم ترین جز ہے، پانی کے بغیر انسان زیادہ دیر تک زندہ نہیں رہ سکتا۔ قدیم زمانے میں عرب میں پانی کی بہت زیادہ قلت ہوا کرتی تھی۔ پانی کی قلت کی وجہ سے عرب کے اکثر لوگ خانہ بدوشی کی زندگی گزارتے تھے بیشتر علاقوں میں پانی کا دارومدار صرف بارش پر تھا اگر ایک مدت تک بارش نہ ہوتی تو چشمے خشک ہوجاتے اور کنوؤں کا پانی اتنا گہرا ہوجاتا کہ اسے حاصل کرنا کسی کے بس میں نہیں تھا۔ پانی کی قلت کی وجہ سے جانور مرجاتے اور لوگوں کو اپنی جان کے لالے پڑجاتے تھے، بارش برستی تو لوگوں کو اس قدر خوشی ہوتی کہ جس طرح کسی کو دوبارہ زندگی حاصل جائے۔ قرآن مجید نے کئی بار اس بات کی طرف توجہ دلائی ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ بارش نازل نہ کرے تو کون بارش برسانے والا ہے۔ ؟ علاقہ زرخیز ہو یا بنجر، پہاڑی ہویا ہموار پانی کا انحصار بارش پر ہے اگر ایک مدّت تک بارش نہ ہو تو زمین کا پانی اتنا گہرا ہوجائے کہ عام آدمی تو درکنار بہت زیادہ وسائل رکھنے والی حکومت بھی زمین سے پانی حاصل نہ کرسکے۔ اس لیے اس حقیقت کی طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ جس پانی کو تم پیتے اور استعمال کرتے ہو اگر اسے زمین میں گہرا کردیا جائے توکون ہے جو اسے حاصل کرسکے گا؟ مسائل ١۔ اگر اللہ تعالیٰ زمین کے پانی کو خشک کردے تو زمین و آسمانوں میں کوئی ایسی طاقت نہیں جو پانی حاصل کرسکے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ ہی لوگوں کو پانی دینے والا ہے۔ تفسیربالقرآن پانی کی اہمیت اور بارش کانظام : ( الطارق : ٦) ( طٰہٰ: ٥٣) ( النساء : ٦٣) ( النحل : ٦٥) (البقرۃ: ٢٢) ( ق : ٩) الملك
0 سورۃ القلم کا تعارف اس سورت کے دو نام بیان کیے جاتے ہیں ن اور قلم۔ دونوں نام اس کی ابتداء میں موجود ہیں یہ سورت مکہ معظمہ میں نازل ہوئی یہ باون آیات پر مشتمل ہے جنہیں دو رکوع میں تقسیم کیا گیا ہے۔ یہ سورت مکہ معظمہ کے اس دور میں نازل ہوئی جس دور میں مشرکین مکہ آپ کی مخالفت میں اندھے ہوچکے تھے۔ ان کے اندھے پن کا عالم یہ تھا کہ وہ آپ کے شاندار ماضی اور اعلیٰ اخلاق کو جاننے کے باوجود آپ کو دیوانہ مشہور کرتے تھے۔ ان کے پروپیگنڈے کے توڑ اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اخلاق اور عزت کو اجاگر فرمانے کے لیے نون اور قلم کی قسم اٹھا کر واضح فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے آپ مجنون نہیں ہیں۔ نون اور قلم کی قسم اٹھا کر یہ ثابت کیا ہے کہ جس قرآن کی وجہ سے تم نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مجنون کہتے ہو وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہی نازل کیا جارہا ہے، عنقریب وقت آنے والا ہے جب تمہیں پتہ چل جائے گا مجنون کون ہے اور سیدھے راستے سے کون بھٹک چکا ہے۔ کفار کے پروپیگنڈہ کا مقصد یہ تھا کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس قدر بدنام اور خوف زدہ کردیا جائے کہ آپ خوف اور بے عزتی سے ڈر کر اپنی دعوت کو چھوڑ دیں یا کچھ نرمی کے لیے تیار ہوجائیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس خوف سے بے نیاز کرنے اور کفار کی سازش سے بچانے کے لیے حکم ہوا کہ کسی حال میں جھوٹے لوگوں کے ساتھ نرمی نہیں کرنی اور نہ ہی کسی جھوٹے اور کمینے کی بات کو تسلیم کرنا ہے۔ اس کے بعد مشرکین کے ایک نمائندے کا کردار ذکر کیا گیا ہے یہ اس قدر کمینہ ہے کہ جھوٹی قسمیں کھانے والا اور چغلیایاں کرتا پھرتا ہے۔ بھلائی کے کاموں سے روکتا ہے، ظلم کرنے والا ہے اور پرلے درجے کا گھٹیا انسان ہے۔ یہ اس لیے اخلاقی حدود سے گزر چکا ہے کیونکہ اس کے پاس بہت مال اور جوان بیٹے ہیں اس لیے قرآن مجید کے ارشادات کو پہلے لوگوں کی کہانیاں قرار دیتا ہے۔ عنقریب اس کی سونڈ پر داغ لگائے جائیں گے۔ کیا ایسے لوگوں کو علم نہیں کہ ان سے پہلے کچھ لوگ ایسے گزر چکے ہیں جن کے پاس مال اور بہت بڑا باغ تھا۔ انہوں نے کمزوروں کے حقوق سلف کرنے کا فیصلہ کیا ان کے اپنے آدمی نے انہیں سمجھایا لیکن وہ باز نہ آئے جس کا نتیجہ نکلا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے باغ کو خاکستر کردیا اور وہ اپنے آپ پر افسوس کرنے کے علاوہ اور کچھ نہ کر پائے۔ اس بات کی طرف اشارہ کر کے اہل مکہ کو سمجھایا گیا ہے کہ اگر اپنی ہلاکت اور بربادی سے بچنا چاہتے ہو تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت قبول کرلو۔ جو تمھارا ہی ایک فرد ہے اگر تم برائی کے راستے سے بچ جاؤ اور نیکی کا راستہ اختیار کرلو، تو اللہ تعالیٰ تمہیں جنت نعیم میں داخل کرے گا۔ اس کے بعد مشرکین کو چند سوال کیے گئے ہیں اور پھریہ سوال کیا کہ فرمابردار اور نافرمان برابر ہو سکتے ہیں ؟ کیونکہ اہل مکہ تعصب میں آ کر نیکی اور برائی کا امتیاز ختم کرچکے تھے اس لیے فرمایا کہ تم کس طرح کے فیصلے کرتے ہو؟ کیا تمھارے پاس کوئی آسمانی کتاب ہے جس سے پڑھ کر تم ایسی باتیں کرتے ہو؟ جو لوگ اس طرح کی باتیں کرتے ہیں انہیں سمجھانے کے لیے ارشاد فرمایا کہ اس دن تمھارا کیا حال ہوگا جب رب ذوالجلال اپنی پنڈلی سے پردہ اٹھائیں گے تو نیک بندئے اس کے حضور سر بسجود ہوجائیں گے اور نافرمان کھڑے کے کھڑے رہ جائیں گے وہ سجدہ کرنے کی کوشش کریں گے لیکن کر نہیں پائیں گے۔ القلم
1 فہم القرآن ربط سورت : اللہ تعالیٰ نے سورۃ الملک کے آخر میں اپنی قدرت کی کئی نشانیوں کا ذکر فرمایا ہے۔ ان نشانیوں میں اس کی قدرت کی عظیم ترین نشانی یہ بھی ہے کہ اس نے زمین و آسمانوں کو پیدا کرنے سے پہلے قلم پیدا فرمایا اور اللہ تعالیٰ نے جو کچھ کرنا تھا قلم کو لکھنے کا حکم دیا۔ حرفِ ” ن“ حروف مقطّعات میں شامل ہے اس کا معنٰی اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ بعض مفسرین نے قلم کے ذکر کی وجہ سے ” ن“ کا معنٰی دوات لکھا ہے لیکن نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ معنٰی ثابت نہیں۔ حرف ” ن“ کے بعد واؤ کا حرف لایا گیا ہے جو ” قسم“ کے لیے ہے۔ قرآن مجید کی قسم اٹھانا : حضرت امام بخاری (رح) نے اپنی کتاب صحیح بخاری میں ایک باب باندھا ہے۔ (باب الْحَلِفِ بِعِزَّۃِ اللَّہِ وَصِفَاتِہِ وَکَلِمَاتِہٖ) جس میں انہوں نے دواحادیث ذکر کی ہیں، جن سے ثابت ہوتا ہے کہ قرآن مجید کی قسم اٹھائی جاسکتی ہے کیونکہ قرآن مجید ” اللہ“ کا کلام اور اس کی صفت ہے اس لیے قرآن مجید کی قسم اٹھانا جائز ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قلم کی قسم اٹھا کر قلم کی اہمیت اور اس سے لکھنے والوں کی فضیلت بیان کی ہے۔ اللہ تعالیٰ اگر انسان کو قلم ایجاد کرنے اور لکھنے کی صلاحیت نہ بخشتا تو دنیا میں کسی علم کی اس طرح ترویج نہ ہوپاتی، قلم ایک ایسا ذریعہ ہے جس کے ساتھ ہر بات کو طویل مدت تک محفوظ رکھاجاسکتا ہے، جس کے ذریعے دنیا کی تاریخ، حساب و کتاب، ہر قسم کا علم اور دینی مسائل اگلی نسل تک پہنچائے جاتے ہیں۔ قلم سے مراد وہ ذرائع ہیں جن سے کوئی بات لکھی جاتی ہے بے شک ان کی کوئی بھی صورت ایجاد ہوجائے۔ لیکن یہاں ” القلم“ سے مرادوہ قلم ہے جسے اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے پیدا کیا اور اسے لکھنے کا حکم صادر فرمایا۔ اس نے اپنے خالق کے حکم سے لوح محفوظ پر سب کچھ لکھ دیا جوقیامت تک ہونے والا ہے۔ مفسرین کی دوسری جماعت کا نقطہ نظر یہ ہے کہ ” القلم“ سے مراد وہ قلم ہے جس کے ذریعے اللہ تعالیٰ کے حکم سے ملائکہ لوح محفوظ سے اپنے رب کے فیصلے نقل کرتے ہیں اور دوسرے ملائکہ تک پہنچاتے ہیں۔ تیسری جماعت کا خیال ہے کہ اس سے مراد وہ قلم ہے جس سے قرآن مجید لکھا گیا ہے۔ (عَنْ عُبَادَۃَ بْنِ الصَّامِتِ قَالَ سَمِعْتُ رَسُول اللَّہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَقُولُ إِنَّ أَوَّلَ مَا خَلَقَ اللَّہُ الْقَلَمَ فَقَالَ لَہُ اکْتُبْ فَجَرَی بِمَا ہُوَ کَاءِنٌ إِلَی الأَبَد وَفِی الْحَدِیثِ قِصَّۃٌ قَالَ ہَذَا حَدِیثٌ حَسَنٌ صَحِیحٌ غَرِیبٌ) (رواہ الترمذی : باب وَمِنْ سُورَۃِ ن) حضرت عبادہ بن صامت (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے ہوئے سنا کہ اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے قلم کو پیدا کیا پھر اسے فرمایا لکھ! پھر ابد تک ہونے والا سلسلہ جاری فرمایا۔“ (لَا یُؤَاخِذُکُمُ اللّٰہُ باللَّغْوِ فِیْٓ اَیْمَانِکُمْ وَ لٰکِنْ یُّؤَاخِذُکُمْ بِمَا عَقَّدْتُّمُ الْاَیْمَانَ فَکَفَّارَتُہٗٓ اِطْعَامُ عَشَرَۃِ مَسٰکِیْنَ مِنْ اَوْسَطِ مَا تُطْعِمُوْنَ اَہْلِیْکُمْ اَوْکِسْوَتُہُمْ اَوْ تَحْرِیْرُ رَقَبَۃٍ فَمَنْ لَّمْ یَجِدْ فَصِیَامُ ثَلٰثَۃِ اَیَّامٍ ذٰلِکَ کَفَّارَۃُ اَیْمَانِکُمْ اِذَا حَلَفْتُمْ وَ احْفَظُوْٓا اَیْمَانَکُمْ کَذٰلِکَ یُبَیِّنُ اللّٰہُ لَکُمْ اٰیٰتِہٖ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ) (المائدۃ: ٨٩) ” اللہ تمہاری لغو قسموں پر مؤاخذہ نہیں کرتا۔ لیکن تمھارا اس پر مؤاخذہ کرتا ہے جو تم نے پختہ ارادے سے قسمیں کھائیں۔ اس کا کفارہ درمیانے درجے کا دس مسکینوں کو کھانا کھلانا ہے جو تم اپنے گھروالوں کو کھلاتے ہو یا انہیں کپڑے پہنانا، یا ایک گردن آزاد کرنا ہے، جو یہ نہ پائے تو تین دن روزے رکھنا ہے یہ تمہاری قسموں کا کفارہ ہے جب تم قسم کھالو اور اپنی قسموں کی حفاظت کرو، اسی طرح اللہ تمہارے لیے اپنی آیات کھول کر بیان کرتا ہے تاکہ تم شکرادا کرو۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے قلم پیدا فرما کر اسے کائنات کی ہر چیز لکھنے کا حکم دیا۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے قلم کو جو حکم دیا اس نے مِن و عن لکھ دیا۔ ٣۔ قلم کے ذریعے ہر بات کو طویل مدت تک محفوظ رکھا جاسکتا ہے۔ ٤۔ قلم نظام تعلیم میں موثر ترین ذریعہ ہے۔ تفسیر القرآن قسم کے مسائل : ١۔ قسموں کو پورا کرنے کا حکم ہے۔ (النحل : ٩١ تا ٩٤) ٢۔ صدقہ نہ کرنے پر قسم کھانا منع ہے۔ (النور : ٢٢ تا ٢٤) ٣۔ بلا اراداہ ٹھائی جانے والی قسموں پر مؤاخذہ نہیں ہوگا۔ (البقرۃ: ٢٢٥) ٤۔ ڈھال کے طور پر اللہ کی قسم نہیں کھانا چاہیے۔ (البقرۃ: ٢٢٤) ٥۔ اللہ کے عہد اور قسموں کے ذریعے مال کمانے والوں کو عذاب الیم ہے۔ (آل عمران : ٧٧) ٦۔ قسم کو ڈھال نہ بنائیں۔ (البقرۃ: ٢٢٤) ٧۔ ناجائز قسموں پر عمل نہ کیا جائے۔ (التحریم : ١، ٢) ٨۔ جھوٹی قسمیں کھانے والوں کا انجام۔ (التوبۃ: ٩٥) ٩۔ بلا قصد قسموں پر مؤاخذہ نہیں۔ (المائدۃ: ٨٩) القلم
2 فہم القرآن ربط کلام : قلم اور اس کے لکھنے والوں کی عظمت کا ذکر فرما کر کفار کے بدترین الزام کی تردید کی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو صورت اور سیرت کے اعتبار سے سب سے ممتاز پیدا فرمایا تھا۔ اسی سورت کی آیت ٤ میں آپ کے عظیم اخلاق کی تعریف فرمائی ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صورت و سیرت اور حسن اخلاق کو آپ کے بدترین دشمن بھی جانتے اور مانتے تھے مگر قرآن بالخصوص دعوت توحید کی وجہ سے لوگ نہ صرف آپ کے مخالف ہوئے بلکہ ہرقسم کی سچائی کا انکار کرتے ہوئے آپ کو مجنون کہتے تھے، حالانکہ وہ جانتے تھے کہ دیوانہ اس قسم کی حرکات اور باتیں نہیں کرتا لیکن پھر بھی آپ کو مجنون قراردیتے تھے۔ یہ آپ کی ذات پر بہت بڑا اور بدترین الزام تھا۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے قلم کی قسم کھا کر فرمایا کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ اپنے رب کے فضل وکرم سے مجنون نہیں ہیں۔ آپ کے لیے بیش بہا اجر ہے جو کبھی کم نہیں ہوگا۔ جسے آپ بھی دیکھیں گے اور آپ کے مخالف بھی دیکھ لیں گے اور انہیں یہ بھی معلوم ہوجائے گا کہ دیوانہ کون ہے ؟ اللہ تعالیٰ آپ کو ایسا اجر دے گا جو اعلیٰ اور سب سے زیادہ ہوگا۔ کفار لوگوں کے سامنے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کبھی مجنون کہتے اور کبھی شاعر کہتے اور اپنے ساتھیوں کو دلاسہ دیتے کہ گھبرانے کی ضرورت نہیں اپنے نظریات پر قائم رہیے ! یہ عنقریب حوادث زمانہ کا شکار ہو کر ختم ہوجائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے اس صورت حال میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اطمینان دلاتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ آپ کو ان کی یا وہ گوئی کی طرف توجہ نہیں کرنی چاہیے کیونکہ آپ اپنے رب کے فضل سے کاہن اور دیوانہ نہیں ہیں۔ پاگل تو وہ ہیں جو بیک وقت متضاد باتیں کررہے ہیں۔ ان کے پاگل پن کی دلیل یہ ہے کہ ایک طرف آپ کو کاہن کہتے ہیں اور دوسری طرف آپ کو مجنون کہتے ہیں۔ حالانکہ مجنون اور کاہن کے درمیان زمین اور آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ مجنون شخص اَب نارمل (UBNORMAL) اور حواس باختہ ہوتا ہے۔ اسے کچھ خبر نہیں ہوتی کہ وہ اپنے منہ سے کیا کہہ رہا ہے یہاں تک کہ وہ اپنے لباس کا بھی خیال نہیں رکھ سکتا۔ مجنون کے مقابلے میں کاہن شخص اپنے فن میں ماہر اور چالاک ہوتا ہے وہ لوگوں کو پھنسانے اور بھلانے کے لیے ایسے الفاظ اور اندازاختیار کرتا ہے کہ عقل مند اور جہاندیدہ لوگ بھی اس کے جال میں پھنس جاتے ہیں۔ مجنون کو اپنے تن کی ہوش نہیں ہوتی، کاہن باتوں باتوں میں زمین و آسمان کے قلابے ملا دیتا ہے۔ جہاں تک شاعر کا معاملہ ہے شاعر کے کلام میں نہ صرف مبالغہ پایا جاتا ہے بلکہ اس کے کلام میں تضاد بیانی بھی ہوا کرتی ہے۔ شاعروں کی غالب ترین اکثریت بے عمل ہوتی ہے وہ جو کہتے ہیں اس پر عمل پیرا نہیں ہوتے، ان کے مقابلے میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پوری دنیا کے لیے اسوہ حسنہ بنائے گئے ہیں، نبوت کے اعلیٰ مقام پر فائزہونے سے پہلے بھی آپ اعلیٰ کردار اور عظیم اخلاق کے پیکر تھے اور اہل مکہ آپ کو عظیم دانشور سمجھتے تھے اکثر شاعر عاشق مزاج ہوتے ہیں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے زندگی بھر کسی غیرمحرم عورت کو نظر اٹھا کر نہیں دیکھا۔ شاعر کا کلام زیادہ عرصہ تک باقی نہیں رہتانبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو کلام پیش کررہے تھے اس کی رہتی دنیا تک گارنٹی دی گئی ہے۔ شاعراپنا کلام پیش کرکے لوگوں سے مالی یا اخلاقی داد وصول کرتے ہیں۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان باتوں سے مبرّہ اور ارفع تھے۔ آپ نے زندگی بھر اپنے خطاب میں کبھی شعر نہیں پڑھا اور نہ ہی آپ کی شان اور مقام کے لائق تھا۔ (یٰسٓ: ٦٩) یہاں تک اہل مکہ کی اس بات کا تعلق ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا نام اور کام بہت جلد حوادث زمانہ کا شکار ہوجائے گا۔ اس بات کا انہیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان اطہر سے یوں چیلنج دیا گیا ہے کہ تم بھی انتظار کرو میں بھی انتظار کرتاہوں۔ زمانہ گواہ ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں ہرزہ سرائی کرنے والے مٹ گئے لیکن آپ کا نام اور کام ہر دور میں زندہ رہا اور رہے گا۔ اس لیے فرمایا کہ کیا ان کی عقلیں انہیں ایسی باتیں سکھاتی ہیں یا حقیقت میں یہ لوگ باغی اور شرارتی ہیں گویا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مخالف بے عقل بھی تھے، باغی اور شرارتی بھی۔ بے عقل اور شرارتی لوگ اپنے کام میں حقیقی کامیابی نہیں پایا کرتے۔ (عَنْ اَنَسٍ (رض) قَالَ خَدَمْتُ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عَشْرَ سِنِیْنَ فَمَا قَالَ لِیْ اُفٍّ وَّلَا لِمَ صَنَعْتَ وَلَا اَلَّا صَنَعْتَ) (رواہ البخاری : بَابٌ حُسْنِ الْخُلُقِ وَالسَّخَاءِ وَمَا یُکْرَہُ مِنَ الْبُخْلِض) حضرت انس (رض) نے بتایا کہ میں نے نبی رحمت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دس سال خدمت کی۔ آپ نے مجھے کبھی اف تک نہ کہا اور نہ کبھی یہ کہا کہ تم نے یہ کام کیوں کیا ؟ یا وہ نہیں کیا؟“ (عَنْ اَنَسٍ (رض) قَالَ کُنْتُ اَمْشِیْ مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وَعَلَیْہِ بُرْدٌ نَجْرَانِیٌّ غَلِیْظُ الْحَاشِیَۃِ فَاَدْرَکَہٗ اَعْرَابِیٌّ فَجَبَذَہٗ بِرِدَاءِہٖ جَبْذَۃً شَدِیْدَۃً وَرَجَعَ نَبِیُّ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فِیْ نَحْرِ الْاَعْرَابِیِّ حَتّٰی نَظَرْتُ اِلٰی صَفْحَۃِ عَاتِقِ رَسُوْلِ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَدْ اَثَّرَتْ بِھَا حَاشِیَۃُ الْبُرْدِ مِنْ شِدَّۃِ جَبْذَتِہٖ ثُمَّ قَالَ یَامُحَمَّدُ ! مُرْلِیْ مِنْ مَّال اللّٰہِ الَّذِیْ عِنْدَکَ فَالْتَفَتَ اِلَیْہِ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ثُمَّ ضَحِکَ ثُمَّ اَمَرَ لَہٗ بِعَطَاءٍ) (رواہ البخاری : باب مَا کَان النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یُعْطِی الْمُؤَلَّفَۃَ قُلُوبُہُمْ وَغَیْرَہُمْ مِنَ الْخُمُسِ وَنَحْوِہِ) ” حضرت انس (رض) ہی سے روایت ہے کہ میں رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ چل رہا تھا اور آپ پر گہری حاشیہ دار نجرانی چادر تھی۔ ایک دیہاتی سامنے آیا اور اس نے بڑے زور سے آپ کی چادر کھینچی۔ نبی رحمت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کے سینے کی طرف جھک گئے۔ یہاں تک کہ میں نے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی گردن مبارک کے ایک طرف، چادر کے کنارے کو زور سے کھینچنے کی رگڑ کا نشان دیکھا، دیہاتی نے کہا، اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ اللہ کے عطا کردہ مال میں سے مجھے بھی کچھ دیں۔ آپ نے اس کی طرف دیکھا مسکرائے اور اس کو کچھ دینے کا حکم دیا۔“ ” حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دو کاموں میں اختیار دیا جاتا تو آپ دونوں میں سے آسان کام کو اختیار کرتے بشرطیکہ وہ گناہ کا کام نہ ہوتا۔ اگر کام گناہ کا ہوتا تو آپ سب سے زیادہ اس سے دور رہتے۔ آپ نے اپنی ذات کے لیے کسی سے انتقام نہ لیا البتہ جب اللہ کی حرمتوں کو پامال کیا جاتا تو اللہ کے لیے انتقام لیتے۔“ (رواہ البخاری : کتاب المناقب، باب صفۃ النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (وَ عَنْہُ قَالَ قَالَ رسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اِنَّ مِنْ خِیَارِکُمْ اَحْسَنَکُمْ اَخْلَاقًا) (رواہ البخاری : باب صفۃ ا لنبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ” عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ تم میں سے وہ بہتر ہیں‘ جو اخلاق کے لحاظ سے بہتر ہیں۔“ مسائل ١۔ نبی محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مجنون نہیں تھے بلکہ آدم (علیہ السلام) کی ساری اولاد میں سب سے اعلیٰ اخلاق کے مالک اور سب سے بڑھ کر دانشور تھے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو صورت وسیرت اور اخلاق کے حوالے سے بے مثال بنایا تھا۔ ٣۔ کفار نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مخالفت اور گستاخیاں کرنے کی وجہ سے دنیا میں برا انجام دیکھا اور قیامت کے دن بھی برے اور بڑے عذاب کا سامنا کرنا کریں گے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہر حوالے سے افضل اور عظیم تر بنایا : ١۔ آدم (علیہ السلام) کو اللہ نے خلیفہ بنایا۔ (البقرۃ: ٣٠) ٢۔ ابراہیم (علیہ السلام) کو اللہ نے اپنا خلیل بنایا۔ (النساء : ١٢٥) ٣۔ سلیمان (علیہ السلام) کو اللہ نے سب سے بڑا حکمران بنایا۔ (ص : ٣٥) ٤۔ داؤد (علیہ السلام) کو اللہ نے دانائی عطا فرمائی۔ (ص : ٢٠) ٥۔ یعقوب (علیہ السلام) کو اللہ نے صبر جمیل عطا فرمایا۔ (یوسف : ٨٣) ٦۔ یوسف (علیہ السلام) کو اللہ نے حکمرانی اور پاک دامنی عطا فرمائی۔ (یوسف : ٣١) ٧۔ نبی مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو رحمۃ للعالمین وخاتم النبیّین اور خلق عظیم کا مالک بنایا۔ (الانبیاء : ١٠٧، الاحزاب : ٤٠) القلم
3 القلم
4 القلم
5 فہم القرآن ربط کلام : آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یوانہ کہنے والوں کا انجام کفار قرآن مجید اور دعوت توحید کی مخالفت کی وجہ سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مجنون کہنے کے ساتھ یہ الزام بھی دیتے تھے کہ آپ راہ راست سے بھٹک گئے ہیں کیونکہ آپ جو انہیں دعوت دیتے تھے وہ انہوں نے پہلے نہیں سنی تھی۔ وہ اس دعوت کو اپنی مذہبی اور معاشرتی روایات کے خلاف سمجھتے تھے اس لیے پراپیگنڈہ کرتے کہ آپ صراط مستقیم سے بھٹک گئے ہیں۔ سورۃ یٰس کی ابتدائی آیات میں اللہ تعالیٰ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات اور قرآن کی قسم اٹھا کر فرمایا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صراط مستقیم پر گامزن ہیں۔ یہاں یہ ارشاد فرمایا کہ آپ کا رب اچھی طرح جانتا ہے کہ کون اس کے راستے سے بھٹک چکا ہے اور کون سیدھے راستے پر گامزن ہے۔ کفار کی مخالفت اور الزام بازی کے باوجود نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوری جرأت کے ساتھ دعوت کے کام کو جاری رکھا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے مکی زندگی کے ابتدائی سالوں میں ہی وہ حالات پیدا فرمادیئے کہ اہل مکہ سوچنے اور یقین کرنے پر مجبور ہوگئے کہ نبی کی دعوت جلد غلبہ پاجائے گی۔ اس لیے انہوں نے اپنے رویے کو تبدیل کرتے ہوئے مفاہمت کا راستہ اختیار کرنے کی کوشش کی، جس کے لیے آپ کے چچا ابوطالب کے پاس حاضر ہو کر درخواست کرتے ہیں کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ ہماری مفاہمت کروائیں۔ جس کے لیے کچھ ہم نرم ہوتے ہیں اور کچھ اسے اپنے مؤقف سے پیچھے ہٹنا چاہیے۔ اس کی تفصیل سورۃ الکافرون میں دیکھنی چاہیے۔ کفار کے مطالبے کو مسترد کرتے ہوئے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم ہوا کہ یہ لوگ چاہتے ہیں کہ کچھ آپ نرم ہوجائیں اور کچھ وہ نرم ہوجاتے ہیں۔ آپ کو حکم دیا جاتا ہے کہ جھوٹے لوگوں کی بات کو ہرگز نہیں ماننا اور نہ ہی ان کی قسموں پر یقین کرنا چاہیے۔ (أَنّ قُرَیْشًا حینَ قَالُوا لِأَبِی طَالِبٍ ہَذِہِ الْمَقَالَۃَ بَعَثَ إلَی رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَقَالَ لَہُ یَا ابْنَ أَخِی إنّ قَوْمَک قَدْ جَاءُ ونِی فَقَالُوا لِی کَذَا وَکَذَا لِلّذِی کَانُوا قالُوا لَہُ فَأَبْقِ عَلَیّ وَعَلَی نَفْسِک وَلَا تُحَمّلْنِی مِنْ الْأَمْرِ مَا لَا أُطِیقُ فَظَنّ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) أَنّہُ قَدْ بَدَا لِعَمّہِ فیہِ أَنّہُ خَاذِلُہُ وَمُسْلِمُہُ وَأَنّہُ قَدْ ضَعُفَ عَنْ نُصْرَتِہِ وَالْقِیَامِ مَعَہُ قَالَ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَا عَمّ وَاللّٰہِ لَوْ وَضَعُوا الشّمْسَ فِی یَمِینِی وَالْقَمَرَ فِی یَسَارِی عَلَی أَنْ أَتْرُکَ ہَذَا الْأَمْرَ حَتّی یُظْہِرَہُ اللہُ أَوْ أَہْلِکَ فیہِ مَا تَرَکْتہ قالَ ثُمّ اسْتَعْبَرَ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَبَکَی ثُمّ قَامَ فَلَمّا وَلّی نَادَاہُ أَبُو طَالِبٍ فَقَالَ أَقْبِلْ یَا ابْنَ أَخِی، قَالَ فَأَقْبَلَ عَلَیْہِ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَقَالَ اذْہَبْ یَا ابْنَ أَخِی، فَقُلْ مَا أَحْبَبْت، فَوَاَللہِ لَا أُسْلِمْک لِشَیْءِ أَبَدًا) (سیرت ابن ہشام : باب مشی قریش الی ابی طالب ) ” جب قریش آپ کے چچا ابو طالب کے پاس آئے انہوں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں برا بھلا کہا تو آپ کے چچا ابو طالب نے آپ سے کہا کہ اے بھتیجے تیری قوم میرے پاس آئی تھی اور انہوں نے مجھے تیرے بارے بہت برا ہے کہ میں تمھیں اس بات سے روکتاہوں جو مکہ والوں کو کہتا ہے۔ تو اپنے آپ پر رحم کر اور مجھ پر بھی رحم کر اور مجھ پر ایسا بوجھ نہ ڈال جس کی میں طاقت نہیں رکھتا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خیال کیا کہ آپ کا چچا آپ کو چھوڑ کر الگ ہونا چاہتا ہے اور وہ اس بات سے عاجز آ گیا ہے کہ وہ آپ کی مدد کرئے یا آپ کے ساتھ کھڑا ہو۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے چچا کو فرمایا اے چچا اگر میرے دائیں ہاتھ پر سورج اور بائیں پر چاند لا کر رکھ دیں کہ میں اس دین کو چھوڑ دوں پھر بھی میں اس دین کو نہیں چھوڑسکتا۔ حتی کہ اللہ تعالیٰ اس کو غالب کردیں یا میں قتل کردیا جاؤں۔ یہ کہتے ہی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کھڑے ہوئے اور واپس جانے لگے تو ابوطالب نے کہا کہ اے بھتیجے قریب آؤ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قریب ہوے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے چچا نے کہا جاؤ جو بات تمھیں پسند ہے اس کا اعلان کرو اللہ کی قسم میں تمھیں کسی بات سے منع نہیں کروں گا۔“ مسائل ١۔ اہل مکہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مجنون کہتے تھے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ ہدایت یافتہ اور گمراہ لوگوں کو اچھی طرح جانتا ہے۔ ٣۔ کفرو شرک کے ساتھ دین اور ایمان میں مفاہمت نہیں ہوسکتی۔ ٤۔ جھوٹے لوگوں کے پیچھے نہیں لگنا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن حق اور باطل، نیک اور بد برابر نہیں ہوسکتے : ١۔ حق آگیا اور باطل بھاگ گیا، باطل کا کام ہی بھاگ جانا ہے۔ (بنی اسرائیل : ٨١) (الحشر : ٢٠) ٢۔ اللہ تعالیٰ باطل کو مٹاتا اور حق کو واضح کرتا ہے۔ (الشوریٰ : ٢٤) ٣۔ روشنی اور اندھیرا برابر نہیں ہو سکتے۔ (فاطر : ٢٠) ٤۔ اللہ تعالیٰ حق کو حق اور باطل کو باطل کردیتا ہے اگرچہ مجرم اسے ناپسند سمجھیں۔ (الانفال : ٨) (السجدۃ: ١٨) القلم
6 القلم
7 القلم
8 القلم
9 القلم
10 فہم القرآن ربط کلام : اہل مکہ قرآن مجید کے دلائل کا جواب نہ پا کر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مجنون کہتے تھے اس موقع پر ان کے اس الزام کا صرف یہ جواب دیا گیا کہ عنقریب وقت آئے گا کہ جب یہ دیکھ لیں گے کہ مجنون کون ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حقیقت بتلانے اور تسلی دینے کے لیے ارشاد ہوا کہ آپ کا رب خوب جانتا ہے کہ کون اس کے راستے سے بھٹک گیا اور کون ہدایت یافتہ ہے۔ لہٰذا آپ کو جھوٹے لوگوں کے پیچھے لگنے کی بجائے اپنا کام پوری مستعدی کے ساتھ جاری رکھنا چاہیے اور اس میں کسی قسم کی مداہنت اختیار نہیں کرنی چاہیے۔ مفسرین کا خیال ہے کہ یہ آیات ولید بن مغیرہ، اسود بن یغوث اور اخنس بن شریک میں سے کسی ایک کے بارے میں نازل ہوئیں کیونکہ قرآن مجید نے کسی شخص کا نام نہیں لیا گیا اس لیے کسی کا نام متعین کرنا مشکل ہے، البتہ یہ بات مسلّمہ ہے کہ مکہ کے جو سردار نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مخالفت میں پیش پیش تھے ان میں اکثر کا کردار یہی تھا جس کی ان آیات میں نشاندہی کی گئی ہے، جس شخص میں یہ عاداتیں اور خصائل پائے جائیں اس سے خیر کی توقع رکھنا عبث ہے۔ جو لوگ بھی ایسے شخص کے پیچھے لگیں گے وہ ذلیل ہوں گے۔ مسلمانوں کو اس ذلّت سے بچانے کے لیے واحد مخاطب کا صیغہ استعمال کرتے ہوئے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے خطاب کیا گیا ہے کہ آپ کو ایسے شخص کے پیچھے نہیں لگنا چاہیے جس کا کردار یہ ہے کہ وہ جھوٹی قسمیں اٹھانے والا اور ذلیل آدمی ہے، غیبت کرنے کا عادی ہے اور لوگوں کو بھلائی کے کاموں سے روکتا ہے ان نقائص کے ساتھ بد اصل بھی ہے یہ شخص ان خرابیوں کا اس لیے عادی ہوچکا ہے کہ یہ مال دار، صاحب اولاد اور افرادی قوت رکھنے والا ہے، اس کے سامنے قرآن مجید کی آیات تلاوت کی جاتی ہیں تو کہتا ہے کہ یہ تو پہلے دور کی کہانیاں ہیں، عنقریب ہم اس کی ناک ذلیل کریں گے اور یہ ذلیل ہو کررہے گا۔ جس شخص میں یہ عادتیں ہوں اور مال اور افرادی قوت رکھنے والا ہو تو اس کی اصلاح کی کوئی صورت باقی نہیں رہتی۔ ایک تو اسے سمجھانا مشکل ہوتا ہے اور دوسرا یہ کہ وہ سمجھتا ہے کہ کہ اگر میں برا ہوتا تو مجھے وسائل اور افرادی قوت کیونکر نصیب ہوتی، اب ان عادتوں کا ایک ایک کر کے جائزہ لیا جاتا ہے تاکہ ان کی کراہت اور قباحت سے بچا جائے۔ ١۔ جھوٹی قسمیں اٹھانا فی نفسہٖ بہت بڑا گناہ ہے بڑا گناہ کرنے کے ساتھ جھوٹی قسمیں اٹھانے والے کو معلوم ہوتا ہے کہ اس کی بات پر لوگ اعتماد نہیں کرتے جس وجہ سے اسے بار بار قسمیں اٹھانی پڑتی ہیں یہ شخص اس لیے بھی ذلیل ہوتا ہے کہ یہ اپنی ذات اور مفاد کی خاطر رب عظیم کا نام غلط استعمال کرتا ہے۔ ٢۔ لوگوں کی غلطیاں تلاش کرنا اور چغل خوری کرنا بھی ذلیل آدمی کا کام ہوتا ہے۔ دوسروں کی عیب جوئی کرنے والے میں سب سے بڑا عیب یہ ہوتا ہے کہ وہ شعوری یا غیرشعوری طور پر اپنے آپ کو دوسروں سے نیک اور بہتر سمجھتا ہے۔ عیب جو انسان میں عام طور پر یہ غلطی ضرور پائی جاتی ہے کہ وہ چغل خور بھی ہوتا ہے کیونکہ عیب جوئی کی عادت اسے دوسروں کی چغل خوری پر مجبور کرتی ہے اس وجہ سے وہ لوگوں کی نظروں میں حقیر بن جاتا ہے۔ ٣۔ آدمی کا سخت خو اور ترش رو ہونا بھی ایک بہت بڑا نقص ہے جس شخص میں بے جا سختی اور ترش روئی پائی جائے، عام لوگ تو درکنار اس کے عزیز و اقرباء بھی اس سے نفرت کرتے ہیں اس سے ہر صورت بچنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ ٤۔ ” زَنِیْمٌ“ کے مفسرین نے دو معانی بیان کیے ہیں۔ ” وَلْدُ الزَّنَا“ یعنی حرامی اور بدذات۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اسلام میں ذات پات کوئی حیثیت نہیں رکھتی لیکن بسا اوقات کسی ذات اور برادری میں مجموعی طور پر ایسی کمزوریاں پائی جاتی ہیں جس سے اس برادری کا ہر شخص اس سے متأثر ہوجاتا ہے۔ ٥۔ گھٹیا شخص کے پاس مال کے ساتھ ساتھ افرادی قوت بھی موجود ہو تو اس سے کسی اچھے کام کی توقع رکھنا عبث ہوتا ہے۔ ایسے شخص کے سامنے اچھے سے اچھے انداز میں بہترین بات کی جائے تب بھی اسے درخور اعتناء نہیں سمجھتا۔ کیونکہ اچھی بات کو قبول کرنا وہ اپنی انا کے خلاف سمجھتا ہے۔ یہی وہ بری عادات تھیں جس کا ان آیات میں ذکر فرما کر ہر مسلمان کو منع کیا گیا ہے کہ ایسے شخص کے پیچھے نہیں لگنا چاہیے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ ایسے شخص کو دنیا میں رسوا کرتا ہے اور وہ آخرت میں بھی ذلیل ہوگا۔ مسائل ١۔ جھوٹی قسمیں اٹھانے والے کے پیچھے نہیں لگنا چاہیے۔ ٢۔ عیب جوئی اور چغل خوری کرنا بدترین عمل ہیں۔ ٣۔ برائی اور بخل انسان کو ذلیل کردیتا ہے۔ ٤۔ سخت خو اور کمینہ پن ذلت کا باعث بنتا ہے۔ ٥۔ کمینے آدمی کے پاس وسائل اور افرادی قوت ہو تو وہ مزید کمینہ ہوجاتا ہے۔ اس لیے وہ قرآن مجید کی نصیحت کو قصے کہانیاں سمجھتا ہے۔ ٦۔ مذکورہ بالا عادات رکھنے والا شخص دنیا میں رسوا ہوتا ہے اور آخرت میں بھی ذلیل ہوگا۔ القلم
11 القلم
12 القلم
13 القلم
14 القلم
15 القلم
16 القلم
17 فہم القرآن ربط کلام : اہل مکہ کی آزمائش۔ نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جدوجہد کے سامنے بے بس ہو کر اہل مکہ نے یہ مطالبہ کیا تھا کہ کچھ آپ نرم ہوجائیں اور کچھ ہم نرم ہوجاتے ہیں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے مکمل طور پر مسترد کردیا۔ اس کے ردِّ عمل میں انہوں نے مزدور صحابہ کرام (رض) کی مزدوریاں روک لیں اور اپنے غریب رشتہ دار صحابہ کے ساتھ تعاون کرنے سے ہاتھ کھینچ لیا، ان کے سرداروں نے مہم چلائی کہ مسلمانوں کے ساتھ کسی قسم کا تعاون نہ کیا جائے۔ اس پر یہ آیات نازل ہوئیں جس میں انتباہ کرتے ہوئے فرمایا کہ ہم مکہ والوں کو اس طرح آزمائیں گے جس طرح ان سے پہلے باغ والوں کو آزما چکے ہیں۔ واقعہ یوں ہے کہ ایک شخص کا باغ تھا وہ اپنے باغ کی آمدنی کو تین حصوں میں تقسیم کیا کرتا تھا۔ ایک حصہ اپنے گھر والوں کے لیے اور دوسرا باغ کی نشوونما پر لگاتا اور تیسرا حصہ غریبوں پر تقسیم کیا کرتا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے باغ اور مال میں بڑی برکت عطا فرمائی۔ جب وہ فوت ہوگیا تو اس کے بیٹوں نے سوچا اور فیصلہ کیا کہ ہمارا باپ اپنی آمدنی کو خوامخواہ ضائع کرتا تھا انہوں نے قسمیں اٹھائیں کہ ہم ایسا نہیں کریں گے۔ جب غریب لوگ سوئے ہوئے ہوں گے، تو ہم صبح سویرے اٹھ کر باغ کا پھل توڑلیں گے۔ پھل توڑنے کا فیصلہ کرنے کے وقت انہوں نے انشاء اللہ پڑھنے کی ضرورت محسوس نہ کی، وہ اپنے گھر میں سوئے ہوئے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے ایسی آندھی جاری کی کہ جس میں آگ کے بگولے تھے آندھی نے پل جھپکنے میں ان کے باغ کو جلاکرخاکستر کردیا، ادھر یہ اپنے فیصلے کے مطابق علیٰ الصبح اٹھے اور ایک دوسرے کو یہ کہہ کر جگا رہے تھے کہ اگر پھل توڑنا اور اسے غریبوں سے بچانا ہے تو اپنی کھیتی کی طرف جلد پہنچ جاؤ، وہ صبح سویرے اٹھ کر چپکے چپکے اپنے باغ کی طرف چل پڑے تاکہ کوئی مسکین وہاں نہ پہنچ پائے، جب اپنے باغ کی جگہ پر پہنچے تو انہوں نے اس جگہ کو چٹیل میدان پایا وہ کہنے لگے اندھیرے کی وجہ سے ہم اپنے باغ کا راستہ بھول گئے ہیں، کچھ نے کہا نہیں ہم بدنصیب ہوچکے ہیں یوں لگتا ہے کہ ہمارا باغ جلا دیا گیا ہے۔ ان کے درمیانے بھائی نے کہا کہ کیا میں نے تمہیں نہیں کہا تھا کہ تم اللہ کی تسبیح کرو یعنی اس کا شکرادا کرو کہ اس نے تمہیں اپنے باپ کی وراثت میں بہترین باغ عطا فرمایا ہے لیکن تم نے اپنے رب کی ناشکری کی اور یہ فیصلہ کیا کہ ہم غریبوں پر خرچ نہیں کریں گے جس کا نتیجہ ہے کہ ہمارا باغ جلاکر راکھ کردیا گیا ہے۔ قرآن مجید نے زیادہ تفصیل بیان نہیں کی تاہم معلوم ہوتا ہے کہ ان کی بحث وتکرار کے دو ران صبح کی روشنی نمودار ہوئی ہوگی اور اس روشنی میں ان کے منجھلے بھائی نے باغ کی جگہ پر پڑی ہوئی راکھ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہوگا کہ ہمارا باغ یہاں ہی واقع تھا۔ لیکن بگولہ دارآندھی سے اسے جلاکر راکھ بنا دیا گیا ہے۔ اس پر وہ سخت نادم اور پشیمان ہو کر کہنے لگے کہ ہمارا رب پاک ہے اس نے ہم پر ظلم نہیں کیا، ہم خود ہی اپنے آپ پر ظلم کرنے والے ہیں۔ اس کے بعدایک بھائی دوسرے کو کہتا ہے کہ تم نے یہ مشورہ دیا تھا۔ دوسرا پہلے کو کہتا ہے کہ یہ تمہاری تجویز تھی اور تم ہی ایسا کرنے پر اصرار کرتے تھے۔ اس طرح وہ ایک دوسرے کو الزام دیتے اور ملامت کرتے رہے بالآخر سب نے مل کر اعتراف کیا کہ یہ مصیبت ہماری وجہ سے آئی ہے کیونکہ ہم اپنے رب کے نافرمان ہوچکے تھے۔ اس کے بعد اپنے رب کے حضور دعائیں کرنے لگے کہ امید ہے کہ ہمارا رب ہمیں اس سے بہتر باغ عطا فرمائے گا یقیناً ہم اپنے رب کی طرف ہی رجوع کرتے ہیں۔ یہ واقعہ بیان کرنے کے بعد اہل مکہ اور ان کے حوالے سے ہر دورکے مجرموں کو یہ سمجھایا ہے کہ دیکھو اور غور کرو کہ جس مال پر تم اتراتے اور تکبر کرتے ہو۔ اللہ تعالیٰ اسے دنیا میں کس طرح تباہ کرتا ہے اور آخرت میں اس کا عذاب اس سے بھی بڑا ہوگا۔ کاش! مجرم اسے سمجھنے کی کوشش کریں۔ اس عذاب کے بارے میں ” عَلَیْھَا طَاءِفَۃٌ“ کے الفاظ استعمال کیے ہیں کہ اس باغ پر ایک آفت پھر گئی۔ مفسرین نے آفت سے مراد آندھی لی ہے جس میں آگ کے بگولے تھے آندھی میں آگ کے بگولے ہونا عجب بات نہیں کیونکہ دنیا میں آندھی کے ذریعے آگ لگنے کے کئی واقعات مشہور ہیں۔ دور جانے کی ضرورت نہیں میں نے پاکستان میں ضلع سرگودھا کی تحصیل بھلوال کے قریب وہ علاقہ دیکھا ہے کہ جہاں ٢٠٠١ ء میں ایسی آندھی آئی جس میں آگ کے بڑے بڑے بگولے تھے جس نے نہ صرف کھیتی اور باغوں کو جلایادیا تھا بلکہ مکانوں کی چھتیں بھی جل کر گر پڑی تھیں۔ یہ خوفناک منظر ٹی وی چینلز پر دکھایا گیا اور اخبارات میں اس کی تفصیلات شائع ہوئی۔ آیت ١٧ میں ارشاد ہوا کہ ہم نے مکہ والوں کو اسی طرح ہی آزمایا ہے جس طرح باغ والوں کو آزمایا تھا، باغ والوں نے اپنے رب کا شکر ادا کرنے اور اس کا حکم ماننے سے انکار کیا جس کے نتیجے میں ذلیل ہوئے اللہ تعالیٰ نے مکہ والوں میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مبعوث فرمائے جن کی ذات اور دعوت کائنات کی سب سے بڑی نعمت تھی اور ہے بالخصوص مکہ والوں کے لیے یہ بڑے اعزاز کی بات تھی کہ اللہ تعالیٰ نے انہی میں سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نبی بنایا لیکن انہوں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات اور دعوت کی قدر نہ کی اور اس آزمائش میں ناکام ہوئے جس کی پاداش میں ذلیل کر دئیے گئے۔ اللہ تعالیٰ کو یاد کرنے کا دنیا میں فائدہ : (عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عَبَّاسٍ (رض) قَالَ قَالَ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَنْ لَزِمَ الاِسْتِغْفَارَ جَعَلَ اللَّہُ لَہُ مِنْ کُلِّ ہَمٍّ فَرَجًا وَمِنْ کُلِّ ضیقٍ مَخْرَجًا وَرَزَقَہُ مِنْ حَیْثُ لاَ یَحْتَسِبُ) (رواہ ابوداؤد : باب الاستغفار) ” حضرت عبداللہ بن عباس (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس نے استغفار کو لازم پکڑ ا، اللہ تعالیٰ اسے ہر غم سے نجات عطا فرما دیتا ہے اور ہر تنگی سے نکلنے کی جگہ بنا دیتا ہے اور اسے وہاں سے رزق عطا فرماتا ہے جہاں سے اسے خیال بھی نہ ہو۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ ہر دور کے ظالموں کو کسی نہ کسی عذاب میں مبتلا کرتا ہے۔ ٢۔ بعض دفعہ بخل کی دنیا میں بھی سزا ملتی ہے۔ ٣۔ جب اللہ کا عذاب نازل ہوتا ہے تو پھر ظالم اس کا اقرار کرتے ہیں۔ ٤۔ عذاب کے وقت ظالم لوگ ایک دوسرے کو عذاب آ نے کا موجب قرار دیتے ہیں۔ ٥۔ انسان کو مصیبت میں اپنے رب کی طرف متوجہ ہونا چاہیے۔ ٦۔ دنیا کے عذاب سے آخرت کا عذاب بڑا سخت ہوگا۔ تفسیربالقرآن دنیا میں عذاب نازل ہونے کی حکمت : ١۔ اللہ تعالیٰ نے آل فرعون کو مختلف عذابوں سے دو چار کیا تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں۔ (الاعراف : ١٣٠) ٢۔ ” اللہ تعالیٰ“ بڑھے عذاب سے پہلے چھوٹے عذاب میں اس لیے مبتلا کرتا ہے تاکہ وہ اپنے رب کی طرف پلٹ آئیں۔ (السجدہ : ٢١) ٣۔ صالح (علیہ السلام) نے اپنی قوم سے کہا اے قوم! یہ اونٹنی تمہارے لیے ایک نشانی ہے، اسکو چھوڑ دو تاکہ اللہ کی زمین میں چرے اور اس کو کسی طرح تکلیف نہ دینا ورنہ تمہیں جلد عذاب آپکڑے گا۔ مگر انہوں نے اس کی کونچیں کاٹ دیں تو صالح نے کہا تین دن فائدہ اٹھا لو، یہ وعدہ ہے جو جھوٹا نہ ہوگا۔ (ھود : ٦٤، ٦٥) ٤۔ پہلے لوگوں کو بڑی بڑی آزمائشوں سے دو چار کیا گیا تاکہ پتہ چل جائے کہ سچا کون ہے اور جھوٹا کون۔ (العنکبوت : ٣) ٥۔ آج ہم تیرے جسم کو بچائیں گے تاکہ بعد میں آنے والوں کے لیے نشان عبرت بنائیں۔ (یونس : ٩٢) ٦۔ ہم نے قرآن میں طرح طرح کے دلائل دیے ہیں تاکہ لوگ نصیحت حاصل کریں۔ (بنی اسرائیل : ٤١) القلم
18 القلم
19 القلم
20 القلم
21 القلم
22 القلم
23 القلم
24 القلم
25 القلم
26 القلم
27 القلم
28 القلم
29 القلم
30 القلم
31 القلم
32 القلم
33 القلم
34 فہم القرآن ربط کلام : مجرموں کے لیے آخرت میں بڑا عذاب ہوگا اور متقین کے لیے انعامات ہوں گے۔ فہم القرآن کا مطالعہ کرنے والے حضرات جانتے ہیں کہ قرآن مجید کا اسلوب بیان ہے کہ وہ نیکی اور برائی، متقین اور مجرمین جنت اور جہنم کا مقابلۃً ذکر کرتا ہے۔ اسی اسلوب کے پیش نظر یہاں بھی مجرموں کا انجام ذکر کرنے کے بعد متقین کے انعامات کا ذکر کیا ہے۔ ارشاد ہوا کہ کیا ہم تابعدار اور نافرمان لوگوں کو برابر کردیں؟ ایساہرگز نہیں ہوگا یقیناً متقی لوگ اپنے رب کے ہاں انعام وکر ام والی جنت میں ہوں گے۔ جب جنتیوں کے انعام کا ذکر کیا جاتا ہے تو کفار اور مشرکین کہتے ہیں کہ ہم ایمانداروں سے دنیا میں بھی بہتر ہیں اور آخرت میں بھی بہتر ہوں گے۔ ان کے دعویٰ کی تردید کرتے ہوئے فرمایا کہ تم اپنے بارے میں کس طرح کے فیصلہ کرتے ہو۔ یعنی تمہیں فیصلے کرنے کا کہاں سے اختیار حاصل ہوا ہے۔ کیا تمہارے پاس فیصلہ کرنے کے لیے کوئی آسمانی کتاب ہے جسے پڑھ کر یہ فیصلہ دیتے ہو کہ اس کتاب میں لکھا ہے کہ جو تم پسند کرتے ہو وہی تمہیں ملے گا ؟ یا تم نے ہم سے حلف لے رکھا ہے جو قیامت کو ہم پر لاگو ہوگا کہ جو چیز تم چاہو گے وہ تمہارے سامنے پیش کردی جائے گی۔ اے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ان سے سوال کریں کہ یہ جو دعویٰ کرتے ہیں ان میں اس کی ذمہ داری کون لیتا ہے۔ کیا اس دعویٰ میں ان کے بنائے ہوئے شریک شامل اور وہ اس کے ضامن ہیں ؟ اگر ان کے شریک ضامن ہیں تو اپنے دعوے کی سچائی کے لیے اپنے شریکوں کو پیش کریں۔ ان آیات میں کفار کے اس دعویٰ کی تردید کی گئی ہے جو مسلمانوں کے سامنے کیا کرتے تھے، کفار کا دعویٰ تھا کہ جس طرح ہم دنیا میں وسائل کے اعتبار سے مسلمانوں سے آگے ہیں اسی طرح ہی قیامت کے دن بھی ہم ان سے بہتر ہوں گے۔ جس کے جواب میں یہ آیات نازل ہوئیں۔ ان آیات میں ان سے مختلف الفاظ اور انداز میں ان کے دعویٰ کی دلیل طلب کی گئی ہے کیونکہ وہ اپنے دعویٰ میں جھوٹے تھے اس لیے وہ اس میں لاجواب ہوگئے مگر پھر بھی یہ کہتے رہے اور کہتے رہیں گے کہ ہم آخرت میں مسلمانوں سے بہترہوں گے حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ اللہ کے ہاں نہ دنیا میں مسلمانوں سے کفار اور مشرکین بہتر ہیں اور نہ آخرت میں بہتر ہوں گے۔ ایماندارقیامت کے دن اپنے رب کے ہاں احترام اور مقام پائیں گے اور مجرم ذلیل ہوں گے اور بدترین سزا سے دوچار کیے جائیں گے۔ (عَنْ سَہْلِ بْنِ سَعْدٍ قَالَ قَالَ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لَوْ کَانَتِ الدُّنْیَا تَعْدِلُ عِنْدَ اللَّہِ جَنَاحَ بَعُوضَۃٍ مَا سَقٰی کَافِرًا مِنْہَا شَرْبَۃَ مَاءٍ) (رواہ الترمذی : کتاب الزہد وہو حدیث صحیح) ” حضرت سہل بن سعد (رض) کہتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اگر دنیا کی وقعت اللہ کے نزدیک مچھر کے پر کے برابر بھی ہوتی تو وہ کافر کو ایک گھونٹ پانی کا نہ دیتا۔“ (یعنی آخرت کے مقابلے میں دنیا کی کچھ حیثیت نہیں ہے۔) مسائل ١۔ متقی لوگ اپنے رب کے ہاں نعمتوں والی جنت میں ہوں گے۔ ٢۔ کفار اور مشرکین بلادلیل اپنے آپ کو بہتر سمجھتے ہیں۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن تابعداروں اور مجرموں کو برابر نہیں کرے گا۔ تفسیر بالقرآن دنیا اور آخرت میں کفار اور مشرکین مسلمانوں کے برابر نہیں ہوسکتے : ( التوبہ : ٢٨) (السجدۃ : ١٨) (القلم : ٣٥۔ ٣٦) (المومن : ٥٨) (الحشر : ٢٠) (حٰم السجدۃ: ٣٤) (التوبہ : ١٩) القلم
35 القلم
36 القلم
37 القلم
38 القلم
39 القلم
40 القلم
41 القلم
42 فہم القرآن ربط کلام : جو لوگ بدعقیدہ اور برا کردار رکھنے کے باوجود اپنے آپ کو جنت کا مالک اور مسلمانوں سے بہتر ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں انہیں قیامت کے دن معلوم ہوجائے گا کہ حقیقت کیا ہے۔ محشر کے میدان میں ایک مرحلہ ایسا بھی آئے گا جب لوگوں کے سامنے کافر اور مومن، مشرک اور موحِّد، بد اور نیک کے درمیان فرق ظاہر کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ اپنی پنڈلی سے نور کے پردے ہٹائیں گے۔ اللہ تعالیٰ جونہی اپنی پنڈلی کو جلوہ گر کریں گے تو موحّد نمازی اللہ کے حضور سربسجود ہوجائیں گے۔ موحّد نماز یوں کو سربسجود ہوتے دیکھ کر کافر، مشرک، منافق اور بے نماز بھی سجدہ کرنے کی کوشش کریں گے لیکن ان کی کمریں پتھر کی طرح سخت ہوجائیں گی اور وہ رب ذوالجلال کے سامنے سجدہ ریز نہیں ہوسکیں گے۔ گویا کہ تابعداروں اور نافرمانوں کے درمیان یہ پہلا اقدام ہوگا جس سے واضح کیا جائے گا کہ تابع دار اور مجرم برابر نہیں ہوسکتے، اس دن مجرموں کی آنکھیں شرم کے مارے جھکی ہوئی ہوں گی اور ان کے چہروں پر ذلّت چھاجائے گی یہ اس لیے ہوگا کہ جب دنیا میں انہیں سجدے کے لیے بلایا جاتا تھا تو وہ استطاعت رکھنے کے باوجود اپنے رب کو سجدہ کرنے کے لیے تیار نہ تھے۔ سجدہ کرنے سے مراد نماز پڑھنا اور اللہ تعالیٰ کی تابعداری کرنا ہے۔ جو لوگ حقیقت واضح ہوجانے کے باوجود اسے قولاً یا عملاً جھٹلاتے ہیں ہم انہیں تدریجاً ایسے انداز میں پکڑیں گے کہ انہیں خبر تک نہ ہوگی۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں مہلت دیئے جاتا ہے لیکن انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ میری گرفت بڑی مضبوط ہوتی ہے۔ حقیقت جھٹلانے والوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے ” فَذَرْنِیْ“ کا لفظ استعمال فرمایا ہے جس کا معنٰی ہے کہ مجھے چھوڑ دیجیے ! یہ انتہا درجے کی دھمکی ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ دھمکی دینے والی شخصیت کسی کی پابند یا کسی وجہ سے مجبور ہے اس لیے وہ کہتا ہے کہ مجھے چھوڑ دیجیے ایسا ہرگز نہیں بلکہ اس کا مفہوم یہ ہے کہ میں اس مجرم کو مہلت دے رہا ہوں اگر یہ اپنی حرکات سے باز نہ آیا تو عنقریب اسے اس طرح پکڑا جائے گا کہ اسے چھڑانے والا کوئی نہیں ہوگا۔ اس دھمکی کی وضاحت ان الفاظ میں کی گئی ہے کہ میری تدبیر یعنی گرفت بڑی مضبوط ہوتی ہے۔ ان آیات میں ” یَوْمَ یُکْشَفُ عَنْ سَاقٍ“ (جس دن اللہ تعالیٰ اپنی پنڈلی کھول دیں گے۔) کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں ان الفاظ کا مفہوم بیان کرتے ہوئے بعض مفسرین نے تاویل کی ہے۔ یہ تاویل کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ اللہ کے نبی نے اس کی یوں وضاحت فرمائی ہے۔ (عَنْ اَبِیْ سَعِیْدِنِ الْخُدْرِیِّ (رض) اِذَا کَانَ فَیَکْشِفُ عَنْ سَاقٍ فَلاَ یَبْقٰی مَنْ کَانَ یَسْجُدُ لِلّٰہِ تَعَالٰی مِنْ تِلْقَاءِ نَفْسِہٖ اِلَّا اَذِنَ اللّٰہٗ لَہُ بالسُّجُوْدِ وَلَا یَبْقٰی مَنْ کَانَ یَسْجُدُ اتِّقَاءً وَرِیَاءً اِلَّا جَعَلَ اللّٰہُ ظَھْرَہٗ طَبْقَۃً وَّاحِدَۃً کُلَّمَا اَرَادَاَنْ یَّسْجُدَ خَرَّ عَلٰی قَفَاہٗ) (رواہ مسلم : باب مَعْرِفَۃِ طَرِیق الرُّؤْیَۃِ) ” حضرت ابو سعید خدری (رض) بیان کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ پنڈلی کھولیں گے تو اس موقع پر ہر اس شخص کو سجدہ کرنے کی توفیق مل جائے گی جو اخلاص کے ساتھ سجدہ کرتا تھا جوکسی کے ڈر سے یا دکھاوے کی خاطر سجدہ کرتا تھا اللہ تعالیٰ اس کی کمر کو تختہ بنا دیں گے، جب وہ سجدہ کرنے کا ارادہ کرے گا تو اپنی گدی کے بل گر پڑے گا۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اپنی پنڈلی جلوہ نما کریں گے تو مواحد نمازی سجدہ ریز ہوجائیں گے۔ ٢۔ کافر، مشرک، منافق اور بے نماز سجدہ نہیں کرسکیں گے۔ کیونکہ وہ دنیا میں طاقت رکھنے کے باوجود ” اللہ“ کے سامنے نہیں جھکتے تھے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ مجرموں کو تدریجاً بھی پکڑا کرتا ہے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ کی تدبیر اور گرفت بڑی مضبوط ہوتی ہے۔ تفسیر بالقرآن نماز پڑھنے اور سجدہ کرنے کا حکم : ١۔ نماز قائم کرانا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ (الحج : ٤١) ٢۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور نماز۔ (ابراہیم : ٣٧) (العنکبوت : ٤٥) ٣۔ حضرت موسیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نماز کا حکم۔ (یونس : ٨٧) ٤۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور نماز۔ (مریم : ٣١) (البقرۃ: ٨٣) (البینۃ: ٥) القلم
43 القلم
44 القلم
45 القلم
46 فہم القرآن ربط کلام : کفار اور مشرکین کو انتباہ کرنے کے بعد نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی رکھنے کی تلقین کی گئی ہے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) شب وروز اس فکر اور کوشش میں تھے کہ کفار اور مشرکین اللہ تعالیٰ پر ایمان لے آئیں اور اپنے آپ کو سیدھے راستے پر گامزن کرلیں لیکن وہ لوگ دن بدن مخالفت اور گمراہی میں آگے ہی بڑھتے جارہے تھے۔ انہیں سمجھانے اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دینے کے لیے ارشاد ہوا کہ کیا آپ ان سے کوئی صلہ مانگتے ہیں جس وجہ سے وہ آپ کی ذات اور دعوت کو اپنے لیے بوجھ سمجھتے ہیں یا پھر ان کے پاس غیب کا علم ہے جس سے یہ اپنے مستقبل کے بارے میں آگاہ ہیں؟ ان سے الجھنے کی بجائے آپ اپنے رب کے حکم کا انتظار کریں اور مچھلی والے کی طرح نہ ہوجائیں۔ جب اس نے اپنے رب کو آواز دی تو وہ بہت غمگین تھا اگر اس کے رب کی مہربانی اس کے شامل حال نہ ہوتی تو وہ مذموم ہو کر چٹیل میدان میں پڑا رہتا۔ اس کے رب نے اسے پسند فرمایا اور اسے صالح بندوں میں شامل کرلیا۔ تفصیل کے لیے سورۃ الانبیاء آیت ٨٧ تا ٨٨ کی تفسیر ملاحظہ فرمائیں! خلاصہ یہ ہے کہ حضرت یونس (علیہ السلام) عرصہ دراز تک اپنی قوم کو سمجھاتے رہے لیکن ناہنجارقوم نے ان کی دعوت تسلیم کرنے کی بجائے ان کی مخالفت میں ایڑھی چوٹی کا زور لگا دیا۔ جس پریونس (علیہ السلام) نے انہیں انتباہ کیا کہ اگر تم اپنے رب کی نافرمانی سے باز نہ آئے تو فلاں دن تم پر عذاب نازل ہوگا۔ جب اس دن عذاب نازل نہ ہوا تو قوم نے یونس (علیہ السلام) کو استہزاء کا نشانہ بنایا جس سے پریشان ہو کر یونس (علیہ السلام) اللہ تعالیٰ کا اِ ذن آنے سے پہلے ہی قوم کو چھوڑ کر ہجرت کے لیے نکل کھڑے ہوئے دریا عبور کرنے کے لیے بیڑے پر سوار ہوئے اس دوران بیڑا ڈگمگانے لگا۔ ملّاح کے کہنے پر یونس (علیہ السلام) دریا میں اتر گئے جونہی دریا میں اترے تو مچھلی نے انہیں نگل لیا۔ اس المناک صورتحال میں یونس (علیہ السلام) نے اپنے رب سے ان الفاظ میں معافی مانگی اور اس کی مدد طلب کی۔ ” اور مچھلی والے کو ہم نے نوازا۔ یاد کرو جب وہ ناراض ہو کر چلا گیا تھا اور سمجھا کہ ہم اس پر گرفت نہیں کریں گے آخرکار اس نے تاریکیوں میں پکارا کہ تو پاک ہے اور تیرے سوا کوئی معبود نہیں بے شک میں نے ظلم کیا ہے۔ ہم نے اس کی دعا قبول کی اور اس کو غم سے نجات دی اور ہم مومنوں کو اسی طرح نجات دیا کرتے ہیں۔“ (الانبیاء : ٧٨، ٨٨) اللہ تعالیٰ نے یونس (علیہ السلام) کو مچھلی کے پیٹ سے باہر نکالا اور ان کی فریاد قبول کرتے ہوئے انہیں برگزیدہ فرمایا اور اپنے بندوں میں شامل رکھا۔ بندوں سے مراد انبیائے کرام (علیہ السلام) کی جماعت ہے۔ یونس (علیہ السلام) کا واقعہ بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! حالات جس قدر بھی غمناک اور خطرناک ہوجائیں۔ آپ اور آپ کے ساتھیوں کو عقیدہ توحید اور دعوت حق پر قائم رہنا چاہیے۔ یادرکھیں! کہ اللہ تعالیٰ بالآخر اپنے بندوں کی دعاؤں کو مستجاب کرتا ہے۔ ” مَکْظُوْمٌ“ کا معنٰی ہے غم سے بھرا ہوا، مصیبت زدہ اور غصے سے بھرپور۔ مذموم کا معنٰی ہے ملامت کیا ہوا۔ مسائل ١۔ نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے بیگانوں پر کسی قسم کی بوجھ نہ تھے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے یونس (علیہ السلام) کی فریاد کو قبول فرمایا اور انہیں انبیائے کرام (علیہ السلام) کی جماعت شامل رکھا۔ ٣۔ مومن کو ہر حال میں صبر اور حوصلے سے کام لینا چاہیے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی دعائیں قبول کرنے والا ہے۔ تفسیربالقرآن صبر کی فضیلت اور اس کا صلہ : ا۔ صبر اہم کاموں میں اہم ترین کام ہے۔ (الاحقاف : ٣٥) ٢۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو صبر کا حکم دیا گیا۔ (المعارج : ٥) ٣۔ اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ (البقرۃ : ١٥٣) ٤۔ صبر کا انجام بہتر ہوتا ہے۔ (الحجرات : ٥) ٥۔ صبر کرنے والے کامیاب ہوں گے۔ (المومنون : ١١١) ٦۔ مسلمان صابر کی آخرت اچھی ہوگی۔ (الرعد : ٢٤) ٧۔ صبر کرنے والوں کو جنت میں سلامتی کی دعائیں دی جائیں گی۔ (الفرقان : ٧٥) القلم
47 القلم
48 القلم
49 القلم
50 القلم
51 فہم القرآن ربط کلام : اس آیت سے چند آیات پہلے یہ ارشاد ہوا کہ اے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ان لوگوں کو ان کی حالت پر چھوڑ دیں جو ہمارے ارشادات کی تکذیب کرتے ہیں ان کی حالت یہ ہے جب آپ ان کو نصیحت کرتے ہیں تو آپ کو ڈراؤنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں اور آپ کو مجنون کہتے ہیں حالانکہ آپ انہیں قرآن مجید کے ساتھ نصیحت کرتے ہیں جو ان کے لیے نازل کیا گیا ہے۔ نبی (علیہ السلام) کسی پر کسی اعتبار سے بھی بوجھ نہ تھے لیکن اس کے باوجود کفار اور مشرکین آپ کی مخالفت کرتے اور آپ پر الزامات لگاتے تھے۔ حالانکہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نبوت سے پہلے بھی کفار میں انتہائی سمجھدار اور محترم جانے جاتے تھے۔ کفار مشکل وقت میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے فیصلے کرواتے اور اپنی امانتیں آپ کے پاس رکھا کرتے تھے، لیکن جونہی آپ نے اپنی دعوت کا آغاز کیا تو مشرک آپ کو استہزاء کا نشانہ بناتے اور آپ پر کئی قسم کے الزامات لگاتے تھے۔ ان کے الزامات میں ایک الزام یہ تھا کہ اس کا دماغ چل چکا ہے حالانکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کوئی فرمان اور عمل ایسا نہ تھا جس میں رتی برابر بھی شائبہ پایا جائے کہ آپ کی عقل میں فتور آچکا ہے آپ فطری طور پر بڑے مدبّر انسان تھے۔ نبوت کے بعد آپ کے تدبر میں اتنا اضافہ ہوا کہ جس تک پہنچنا کسی انسان کے بس کی بات نہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہر اعتبار سے کامل اور اکمل انسان، خاتم المرسلین اور امام الانبیاء تھے۔ لیکن اس کے باوجود آپ کے مخالف آپ کو دیوانہ کہتے تھے، جب آپ انہیں سمجھاتے اور خطاب فرماتے تو وہ آپ کو اس طرح ڈراؤنی اور نفرت انگیز نظروں سے دیکھتے جیسے آنکھوں آنکھوں میں آپ کو کھا جائیں گے حالانکہ آپ جو کچھ انہیں بتلاتے اور سمجھاتے تھے وہ قرآن تھا جو رب العالمین کی طرف سے نصیحت کے طور پر نازل کیا گیا ہے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مکہ کی تیرہ سالہ نبوت کی زندگی میں شب وروز کفار کو سمجھا تے رہے کہ آؤ اس دعوت کو قبول کرو اور جنت کے وارث بن جاؤ گے لیکن بدنصیبوں کا حال یہ تھا کہ وہ آپ کی دعوت قبول کرنے کی بجائے آپ کو دیوانہ کہتے تھے، اس صورت حال میں اللہ تعالیٰ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اطمینان دلاتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ آپ کو ان کی یا وہ گوئی کی طرف توجہ نہیں کرنی چاہیے کیونکہ آپ اپنے رب کے فضل سے دیوانہ نہیں ہیں۔ پاگل تو وہ ہیں جو بیک وقت متضاد باتیں کر رہے ہیں ان کے پاگل پن کی دلیل یہ ہے کہ ایک طرف آپ کو کاہن کہتے ہیں اور دوسری طرف آپ کو مجنون کہتے ہیں حالانکہ مجنون اور کاہن کے درمیان زمین و آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ کاہن اور دیوانے کا فرق صفحہ ٦٧٦ پر ملاحظہ فرمائیں۔ مسائل ١۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) توحید کی دعوت دیتے تو کفار آپ کو اس طرح گھور گھور کر دیکھتے جیسے وہ آنکھوں آنکھوں میں آپ کو کھا جائیں گے۔ ٢۔ مشرکین لوگوں کو آپ کی دعوت سے دور کرنے کے لیے آپ کو دیوانہ کہتے تھے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کو لوگوں کی نصیحت کے لیے نازل فرمایا ہے۔ تفسیر بالقرآن انبیاء کرام (علیہ السلام) پر کفار کے الزامات : ١۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کو ان کی قوم نے کہا کہ ہم تمہیں جھوٹا تصور کرتے ہیں۔ (ہود : ٢٧) ٢۔ کفار نے تمام انبیاء ( علیہ السلام) کو جادوگر اور دیوانہ قرار دیا۔ (الذاریات : ٥٢) ٣۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اہل مکہ نے جادوگر کہا۔ (الصف : ٦) ٤۔ کفار آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو شاعر قرار دیتے تھے۔ (الطور : ٣٠) ٥۔ قوم فرعون نے موسیٰ (علیہ السلام) کو جادوگر ہونے کا الزام لگایا۔ (القصص : ٣٦) ٦۔ کفار نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جادوگر کہا کرتے تھے۔ (یونس : ٣) ٧۔ کفار آپ کو کاہن اور مجنون کہتے تھے اللہ تعالیٰ نے جواباً فرمایا کہ آپ کاہن اور مجنون نہیں ہیں۔ (الطور : ٢٩) ٨۔ کفار آپ پر الزام لگاتے تھے کہ آپ قرآن مجید خود بنا لیتے ہیں۔ (النحل : ١٠١) ٩۔ کفار نبی اکرم کو جادوگر اور کذاب کہتے تھے۔ (ص : ٤) ١٠۔ ظالموں نے کہا تم جادو کیے گئے شخص کی پیروی کرتے ہو۔ (الفرقان : ٨) ١١۔ کفار نے کہا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قرآن کو خودبنالیا ہے۔ (ہود : ٣٥) ١٢۔ کفار کے سامنے جب حق آیا تو انہوں نے کہا یہ تو جادو ہے۔ (سبا : ٤٣) ١٣۔ کفارکہتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مجنوں ہیں۔ (القلم : ٥١) ١٤۔ کفار نے کہا کیا ہم اپنے معبودوں کو شاعر ومجنوں کی خاطر چھوڑ دیں؟ (الصافات : ٣٦) القلم
52 القلم
0 سورۃ الحاقہ کا تعارف یہ سورت اپنے نام ہی سے شروع ہوتی ہے مکہ میں نازل ہوئی دو رکوع اور باون آیات پر مشتمل ہے، یہ مکہ معظمہ کے ابتدائی دور میں نازل ہوئی۔ اس میں مجموعی طور پر دو مضمون بیان کیے گئے ہیں۔ پہلے رکوع میں قیامت کی ہولناکیوں کا ذکر کرنے سے بتلایا کہ قوم ثمود کو سخت آندھی سے ہلاک کیا گیا جو سات راتیں اور آٹھ دن چلتی رہی اس نے قوم ثمود کو اس طرح پھٹک پھٹک کر زمین پر دے مارا کہ ان کا کچومبر نکل گیا یہ زمین پر اس طرح پڑے ہوئے تھے جیسے کھجور کے گنے گرے پڑے ہوئے ہوں۔ قوم ثمود کے بعد فرعون اور اس کے لشکر کی ہلاکت کا ذکر کیا ہے جنہیں آنے والے لوگوں کے لیے عبرت کا نشان بنا دیا گیا بشرطیکہ کوئی نصیحت کے طور پر سننے والا ہو یہ وہ لوگ تھے جو اللہ اور اس کے رسول اور قیامت پر یقین نہیں رکھتے تھے حالانکہ قیامت ہر صورت برپا ہونے والی ہے۔ اس دن پہاڑ ایک ہی دھماکے سے ریزہ ریزہ ہوجائیں گے اور آسمان پھٹ جائے گا اور آٹھ ملائکہ اپنے رب کا عرش اٹھائے ہوئے ہوں گے۔ جس شخص کو اس کے دائیں ہاتھ میں اس کا اعمال نامہ دیا گیا وہ آواز پر آواز دے گا کہ آؤ میرا اعمال نامہ پڑھو۔ میرا ایمان تھا کہ ایک دن مجھے میر احساب ملنے والا ہے وہ جنت عالی میں بڑی عیش کی زندگی بسر کرے گا اس کے لیے ہر قسم کے پھل ہوں گے اسے کہا جائے گا کھاؤ اور پیو کیونکہ تم دنیا میں اچھے کام کیا کرتے تھے۔ جس شخص کو اس کا اعمال نامہ اس کے بائیں ہاتھ میں دیا گیا وہ اپنے آپ پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہے گا کہ کاش! مجھے یہ اعمال نامہ نہ دیا جاتا اور نہ ہی مجھے اپنے حساب کتاب سے واسطہ پڑتا۔ وہ اپنے گزرے ہوئے وقت پر افسوس کرتے ہوئے کہے گا کہ نہ میرے مال نے مجھے فائدہ دیا اور نہ میرا اقتدار میرے کام آیا۔ وہ اس افسوس میں مبتلا ہوگا کہ اسے پکڑ لیا جائے گا اور ستر فٹ لمبی زنجیر میں جکڑ کر جہنم میں پھینک دیا جائے کیونکہ یہ اپنے عظیم رب پر حقیقی ایمان نہیں رکھتا اور نہ ہی مسکینوں کا خیال کرتا تھا۔ آج اس کا کوئی خیر خواہ نہیں ہوگا اور اسے کھانے کے لیے جہنمیوں کے زخموں کی پیپ دی جائے گی جسے صرف مجرم ہی کھائیں گے۔ اس سورت کا دوسرا بنیادی مضمون یہ ہے کہ اس میں اللہ تعالیٰ نے قسم اٹھا کر کفار کے الزامات کی تردید کی ہے کہ یہ قرآن جبرائیل امین کے ذریعے نازل ہوا ہے نہ کسی شاعر کا کلام ہے اور نہ کسی کاہن کی گفتگو ہے۔ اسے صرف رب العالمین نے نازل کیا ہے یہ ادھر ادھر کی مداخلت سے اس حد تک پاک ہے کہ اگر حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی طرف سے اس میں کوئی بات ڈالنے کی کوشش کرتے تو ان کا بھی دایاں ہاتھ کاٹ دیا جاتا اور کوئی انہیں بچانے والا نہ ہوتا۔ یہ نصیحت ہے پرہیزگاروں کے لیے جو لوگ اس نصیحت سے فائدہ حاصل نہیں کرتے وہ کافر ہیں اور کفار کے لیے ہلاکت اور افسوس کے سوا کچھ نہیں ہوگا۔ الحاقة
1 فہم القرآن ربط سورت : سورۃ القلم کے آخر میں قیامت کے بارے میں ارشاد فرمایا ہے کہ اس دن منکرین کے لیے ذلّت اور رسوائی ہوگی۔ سورۃ الحاقہ کی ابتدا میں قوم ثمود، قوم عاد اور آل فرعون کی ذلّت کا ذکر کرنے کے بعد قیامت کی ہولناکیوں کا قدرے تفصیل کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے۔ اس میں یہ بتلایا گیا ہے کہ جس طرح یہ لوگ دنیا میں ذلیل ہوئے اس سے بڑھ کر آخرت میں ذلیل ہوں گے۔ ” اَلْحَاقَّۃُ“ ہر صورت واقع ہونے والی ہے، واقع ہونے والی کیا ہے ؟ آپ نہیں جانتے کہ واقعہ ہونے والی کیا ہے ؟ ” اَلْحَاقَّۃُ“ کا لفظ حق سے نکلا ہے۔ اس سے مراد قیامت ہے جس کا معنٰی ہے کہ اس کا واقع ہونا ہر قسم کے شک و شبہ سے بالا ہے۔ اس لیے وہ یقین بالیقین اپنے وقت پر واقع ہوکررہے گی مفسرین نے ” اَلْحَاقَّۃُ“ کا یہ بھی مفہوم لیا ہے کہ اس دن حساب و کتاب کا ہونا برحق ہے جس میں سچ اور جھوٹ، حق اور باطل نیک اور بد کی جزا و سزا کا فیصلہ ہونا شک وشبہ سے بالا تر ہے اس لیے اسے ” اَلْحَاقَّۃُ“ کہا گیا ہے کیونکہ اس کا واقع ہونا یقینی ہے۔ وہ کب واقع ہوگی ؟ اس کا علم عام لوگوں کو تو درکنار انبیاء اور نبی آخر الزّمان (علیہ السلام) کو بھی نہیں تھا کہ وہ کب اور کس سال واقع ہوگی۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے جب یہ سوال کیا گیا کہ قیامت کب قائم ہوگی تو آپ نے یہی فرمایا کہ میں نہیں جانتا کہ قیامت کب واقع ہوگی یعنی کون سے سال، کس مہینے اور اس کے کون سے جمعہ کو واقع ہوگی انسان کا کام اس کی تیاری کرنا ہے۔ اس لیے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک سائل کے جواب میں اسے توجہ دلائی کہ قیامت کی تاریخ جاننے کی بجائے اس کے حساب و کتاب کی فکر کرو۔ ” حضرت عمر بن خطاب (رض) فرماتے ہیں کہ ایک دن ہم رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر تھے۔ ہمارے پاس ایک ایسا شخص آیا کہ جس کا لباس بالکل سفید اور بال نہایت ہی سیاہ تھے۔ اس پر سفر کے اثرات دکھائی نہیں دیتے تھے اور ہم میں سے کوئی بھی اسے پہچان نہ سکا وہ آتے ہی نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے گھٹنوں کے ساتھ گھٹنے ملاکر اور اپنے ہاتھوں کو اپنی رانوں پر رکھتے ہوئے آپ سے استفسار کرنے لگا۔ اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مجھے قیامت کے بارے میں بتلایا جائے۔ آپ نے فرمایا جس سے قیامت کے متعلق پوچھا جا رہا ہے وہ سوال کرنے والے سے زیادہ نہیں جانتا پھر اس نے کہا مجھے اس کی نشانیوں سے ہی آگاہ فرمائیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب لونڈی اپنے آقا کو جنم دے گی، تم دیکھو گے ننگے پاؤں ننگے جسم نہایت غریب بکریوں کے چرواہے بڑے بڑے محلات بنانے پر فخر کریں گے۔ حضرت عمر (رض) فرماتے ہیں جب وہ چلے گئے تو میں کچھ دیر آپ کے پاس ٹھہرا رہا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے سے پوچھا اے عمر! آپ جانتے ہیں کہ یہ سوال کرنے والا کون تھا؟ میں نے عرض کیا اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں۔ فرمایا یہ جبریل امین تھے جو تمہیں تمہارا دین سکھلانے کے لیے آئے تھے۔ (رواہ البخاری : باب سُؤَالِ جِبْرِیل النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عَنِ الإِیمَانِ وَالإِسْلاَمِ وَالإِحْسَانِ وَعِلْمِ السَّاعَۃِ ) (وَعَنْ اَنَسٍ (رض) اَنَّ رَجُلاً قَالَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ مَتَی السَّاعَۃُ قَالَ وَیْلَکَ وَمَا اَعْدَدْتَ لَھَا قَالَ مَا اَعْدَدْتُّ لَھَا اِلَّا اَنِّیْ اُحِبُّ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ قَالَ اَنْتَ مَعَ مَنْ اَحْبَبْتَ قَالَ اَنَسٌ فَمَا رَاَیْتُ الْمُسْلِمِیْنَ فَرِحُوْا بِشَیءٍ بَعْدَ الْاِسْلَامِ فَرَحَھُمْ بِھَا.) (رواہ البخاری : باب مَنَاقِبُ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ أَبِی حَفْصٍ الْقُرَشِیِّ الْعَدَوِیِّ، رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ) ” حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دریافت کیا کہ قیامت کب آئے گی؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تجھ پرا فسوس تو نے قیامت کے لیے کیا تیاری کی ہے ؟ اس نے جواب دیا : میں تو صرف اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے محبت کرتا ہوں۔ آپ نے فرمایا : تو اسی کے ساتھ ہوگا، جس سے محبت کرے گا۔ حضرت انس (رض) فرماتے ہیں میں نے مسلمانوں کو دیکھا، وہ اسلام لانے کے بعد کسی بات پر اتنے خوش نہیں ہوئے جتنے اس بات پر خوش ہوئے تھے۔“ ” حضرت ابوہریرۃ (رض) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان بیان کرتے ہیں کہ دنوں میں سب سے بہتر دن جمعہ کا دن ہے اس دن آدم (علیہ السلام) کو پیدا کیا گیا اسی دن ان کو جنت میں داخلہ ملا اور جمعہ کو ہی دن ان کا جنت سے اخراج ہوا۔ اور اسی دن قیامت برپا ہوگی۔“ (رواہ مسلم : باب فَضْلِ یَوْمِ الْجُمُعَۃِ) مسائل ١۔ قیامت اپنے وقت پر ہر صورت واقع ہوگی۔ ٢۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی نہیں جانتے تھے کہ قیامت کون سے سال اور اس کے کون سے مہینے میں اور کونسے جمعہ کو واقع ہوگی۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ کے سوا قیامت کے وقت کو کوئی نہیں جانتا : ١۔ اللہ کے پاس قیامت کا علم ہے اس میں شک نہیں کرنا چاہیے۔ (الزخرف : ٦٨) (الاعراف : ١٨٧) (الزخرف : ٨٥) الحاقة
2 الحاقة
3 الحاقة
4 فہم القرآن ربط کلام : قیامت کو جھٹلانے والی اقوام میں سر فہرست قوم ثمود اور قوم عاد تھیں دونوں قوموں کا دنیا میں بدترین انجام ہوا۔ قرآن مجید نے قیامت کا تذکرہ کرتے ہوئے اس کے مختلف مراحل کے حوالے سے اس کا ذکر کیا ہے۔ قیامت کے مراحل میں ایک مرحلہ اتنا شدید ہوگا کہ ہر چیز آپس میں ٹکرا جائے گی یہاں تک کہ پہاڑ ریزہ ریزہ ہوجائیں گے۔ یہی بات صالح (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو اور حضرت ھود (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو بار بار بتلائی اور سمجھائی۔ مگر دونوں اقوام نے اپنے اپنے انبیاء (علیہ السلام) کی تکذیب کی اور قیامت کے برپا ہونے کو جھٹلایا جس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے قوم ثمود اور قوم عاد کو نیست و نابود کردیا۔ قوم عاد کی خصوصیات اور جرائم : ١۔ اللہ تعالیٰ نے عاد کو قوم نوح کے بعد زمین پر اقتدار اور اختیار بخشا۔ (الاعراف : ٦٩) ٢۔ قوم عاد اس قدر کڑیل اور قوی ہیکل جوان تھے کہ ان جیسا دنیا میں کوئی اور پیدا نہیں کیا گیا۔ (الفجر ٦ تا ٨ ) حضرت ھود (علیہ السلام) پر قوم کے الزامات : ١۔ قوم نے حضرت ھود (علیہ السلام) کو بے وقوف قرار دیا۔ (الاعراف : ٦٦) ٢۔ ھود (علیہ السلام) ہماری طرح ہی طرح کھانے، پینے والا انسان ہے۔ (المؤمنون : ٣٣) ٣۔ انھوں نے کہا اے ھود تو اللہ پر جھوٹ باندھتا ہے۔ (المؤمنون : ٣٨) ٤۔ تیرے کہنے پر ہم اپنے معبودوں کو نہیں چھوڑ سکتے یہ محض پہلے لوگوں کی کہانیاں ہیں۔ (الشعراء : ١٣٧) ٥۔ تم ہمیں سمجھاؤ یا نہ سمجھاؤ ہم نہیں مانیں گے۔ (شعراء : ١٣٦) ٦۔ ہمارے معبودوں کی تجھے مار پڑے گئی ہے۔ (ھود : ٥٤) ٧۔ ہم پر کوئی عذاب آنے والا نہیں تو جھوٹ بولتا ہے۔ (الشعراء : ١٣٨ تا ١٣٩) ٨۔ اگر تو اپنے دعوے میں سچا ہے تو ہم پر عذاب لے آ۔ (الاحقاف : ٢٢) حضرت ھود (علیہ السلام) کی بددعا اور اللہ تعالیٰ کا عذاب : ١۔ میرے رب میری مدد فرما مجھے انھوں نے کلی طور پر جھٹلا دیا ہے۔ (المؤمنوں : ٣٩) ٢۔ سات راتیں اور آٹھ دن زبردست آندھی اور ہوا کے بگولے چلے۔ (الحاقہ : ٧) قوم صالح کے جرائم : ١۔ قوم صالح اللہ کے ساتھ شرک کیا کرتی تھی۔ (ھود : ٦٢۔ ٦١) ٢۔ ثمود انبیاء کو جھوٹا قرار دیتے تھے۔ (الشعراء : ١٤١) ٣۔ وہ لوگ بہت زیادہ اسراف، تکبر اور زمین میں فساد کرنے والے تھے۔ (الشعراء : ١٥٢، ١٥١) ٤۔ قوم ثمود ہدایت کی بجائے گمراہی کو پسند کرتی تھی۔ (حٰم السجدۃ: ١٧) ٥۔ انہوں نے اللہ کی نشانی کو جھٹلایا۔ (ھود : ٦٦) قوم کی ہٹ دھرمی اور عذاب کا مطالبہ : ١۔ انھوں نے قسمیں اٹھائیں کہ حضرت صالح کو اہل وعیال سمیت ختم کردیں گے۔ (النمل : ٤٩) ٢۔ اے صالح ! ہم تمھارے عقیدے کا انکار کرتے رہیں گے۔ (الاعراف : ٧٦) ٣۔ قوم نے اونٹنی کی کونچیں کاٹ ڈالیں۔ (القمر : ٢٩) ٤۔ اے صالح! تو جس چیز سے ہمیں ڈراتا ہے وہ لے آ۔ (الاعراف : ٧٧) عذاب کا وقت اور اس کی تباہ کاری : ١۔ قوم ثمود کو تین دن کی مہلت دی گئی۔ (ھود : ٤٥) ٢۔ قوم ثمود کو صبح کے وقت ہولناک دھماکے نے آلیا اور ان کی کمائی ان کے کچھ کام نہ آئی۔ (الحجر ٨٣۔ ٨٤) ٣۔ ہم نے ان پر ہولناک چیخ نازل کی وہ ایسے ہوگئے جیسے بوسیدہ اور سوکھی ہوئی باڑ ہوتی ہے۔ (القمر : ٣١) الحاقة
5 الحاقة
6 الحاقة
7 الحاقة
8 الحاقة
9 فہم القرآن ربط کلام : قوم عاد اور قوم ثمود کے انجام کے بعد فرعون اور اس کے ساتھیوں کا بدترین انجام۔ قوم عاد اور قوم ثمود کے بعد کئی اقوام ایسی گزریں ہیں جنہوں نے اپنے رسولوں کی تکذیب کی اور قیامت کے دن کو جھٹلا یا اس جرم کی پاداش میں انہیں تہہ وبالا کردیا گیا۔ اللہ تعالیٰ نے اس طرح ان کی پکڑ کی کہ کوئی بھی انہیں بچانے اور چھڑانے والا نہ تھا۔ ان کے بعد فرعون نے سرکشی اور بغاوت کی انتہا کی۔ اللہ تعالیٰ نے اسے اور اس کے ساتھیوں کو دریا میں ڈبکیاں دے دے کر ہلاک کیا فرعون بھی اپنے سے پہلے ہلاک ہونے والوں کی طرح دہائی دیتا رہا مگر اسے آنے والی نسلوں کے لیے عبرت کا نشان بنادیا گیا۔ فرعون نے دعویٰ کیا کہ مجھ سے بڑھ کر کوئی رب نہیں ہے میں ہی سب دیوتاؤں سے بڑا دیوتا اور سب سے بڑا رب ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی جھوٹی خدائی کے پرخچے اڑانے اور اس کی کذب بیانی کا پول کھولنے کے لیے اس کے گھر میں پرورش پانے والے موسیٰ (علیہ السلام) کو رسول منتخب فرمایا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا پہلا خطاب : موسیٰ (علیہ السلام) نے فرعون کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا مجھے رب العالمین کی طرف سے رسول بنایا گیا ہے اور میں وہی بات کہوں گا جس کے کہنے کا اللہ تعالیٰ نے مجھے حکم دیا ہے۔ میں تمھارے پاس اپنے رب کی ربوبیت اور وحدت کے ٹھوس اور واضح دلائل لایا ہوں۔ اس لیے تجھے اپنی خدائی چھوڑ کر صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کو اپنا رب ماننا چاہیے اس کے ساتھ میرا یہ مطالبہ ہے کہ بنی اسرائیل کو آزاد کردیا جائے۔ فرعون نے موسیٰ (علیہ السلام) کی دعوت کا جواب دیتے ہوئے کہا اگر تو اپنے دعویٰ میں سچا ہے تو کوئی معجزہ پیش کرو۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے فی الفور اپنا عصا زمین پر پھینکا جو بہت بڑا اژدھا بن کر لہرانے لگا۔ جس کے بارے میں مفسرین نے لکھا ہے کہ وہ اتنا بڑا اژدہا بن کر سامنے آیا کہ یوں لگتا تھا جیسے وہ اپنے جبڑوں میں سب کو نگل لے گا۔ یہ دیکھتے ہی فرعون اور اس کے درباری اپنی جان بچانے کے لیے دوڑتے ہوئے موسیٰ (علیہ السلام) سے فریادیں کرنے لگے کہ ہمیں اس اژدھا سے بچائیں، تب موسیٰ (علیہ السلام) نے اس کو پکڑ لیا جو پہلے کی طرح عصا بن گیا۔ اس کے بعد موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی بغل میں ہاتھ دبا کر باہر نکالا تو ان کے ہاتھ کے سامنے تمام روشنیاں ماند پڑگئیں۔ ہاتھ دیکھنے والے حیران اور ششد ررہ گئے کہ یہ تو سورج اور چاند سے زیادہ روشن ہے۔ حضرت ابن عباس (رض) فرمایا کرتے تھے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے ہاتھ کے سامنے سورج کی روشنی ماند پڑتی دکھائی دیتی تھی۔ (روح المعانی و جامع البیان) فرعون اور اس کے ساتھیوں نے موسیٰ (علیہ السلام) کو جادو گر قرار دیا اور ان کے مقابلے میں ملک بھر کے جادوگر لا کھڑے کیے جادوگر نہ صرف موسیٰ (علیہ السلام) کے مقابلے میں شکست کھا گئے بلکہ وہ حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون (علیہ السلام) کے رب پر ایمان لے آئے جو زمین و آسمانوں اور پوری کائنات کا رب ہے۔ اس کے با وجود فرعون اور اس کے ساتھی ایمان نہ لائے۔ اللہ تعالیٰ نے فرعون اور اس کے لشکروں کو سمندر میں ڈبکیاں دے دے کر مارا جس کا خلاصہ یوں بیان کیا گیا ہے کہ اے اہل مکہ ہم نے تم سے پہلے قوم فرعون کو آزمایا اور ان کے پاس معزز رسول پیغام لے کر آیا اور اس نے کہا کہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ذمہ دار اور امانت دار رسول بنا کر بھیجا گیا ہوں۔ لہٰذا اللہ کے بندوں کو میرے حوالے کردے یعنی انہیں آزاد کردیا جائے اللہ تعالیٰ کے ساتھ سرکشی نہ کرو میں تمہارے سامنے واضح دلائل پیش کر رہا ہوں۔ فرعون نے موسیٰ (علیہ السلام) کو سنگسار کرنے کی دہمکی دی تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے بچانے کی ضمانت دی ہے اگر تم میری بات نہیں مانتے تو میرا راستہ چھوڑ دو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور فرعون کے درمیان ایک مدت تک کشمکش جاری رہی بالآخر موسیٰ (علیہ السلام) نے ان کے لیے بددعا کی جس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے موسیٰ میرے بندوں کو لے کر راتوں رات نکل جاؤ۔ ہاں یہ بات یاد رکھنا کہ فرعون اور اس کا لشکر تمہارا پیچھا کریں گے۔ لیکن سمندر کے پانی کو کھڑا چھوڑ کر پار ہوجانا کیونکہ ہم انہیں غرق کردیں گے۔ (الدخان : ١٧۔ ٢٤) اس کے بعد فرعون اور اس کے ساتھی غرق کر دئیے گئے۔ مسائل ١۔ فرعون اور کئی اقوام نے اپنے رسولوں اور قیامت کی تکذیب کی جس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے ان کی شدید گرفت کی اور انہیں ہلاک کردیا۔ تفسیر بالقرآن فرعون کے انجام کا ایک منظر : ١۔ فرعون اور اس کے لاؤلشکر کو اللہ تعالیٰ نے قحط سالی میں مبتلا کیا۔ (الاعراف : ١٣٠) ٢۔ اللہ تعالیٰ نے فرعون اور اس کے لاؤلشکر کو غر ق کردیا۔ ( البقرۃ: ٥٠) ( الانفال : ٥٤) (الدخان : ٢٩) (القصص : ٧٩) (المومن : ٤٥) (المومن : ٤٦) (آل عمران : ١١) الحاقة
10 الحاقة
11 فہم القرآن ربط کلام : قوم ثمود، عاد اور فرعون سے پہلے ہلاک ہونے والی بستیوں اور اقوام میں سرِفہرست نوح (علیہ السلام) کی قوم ہے جسے اللہ تعالیٰ نے شدید طوفان کے ذریعے ہلاک کیا جس کا یہاں مختصر ذکر کیا گیا ہے۔ قرآن مجید نے حضرت نوح (علیہ السلام) کی قوم کے جرائم میں جس جرم کا تفصیل کے ساتھ ذکر کیا ہے وہ شرک ہے جس کی ابتدا اس قوم سے ہوئی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے شرک کی وجہ سے اس قوم کو سیلاب کے ذریعے ہلاک کیا۔ حضرت نوح (علیہ السلام) اور ان کے ساتھیوں کو ایک کشتی کے ذریعے سیلاب سے محفوظ فرما لیا۔ جس کا تذکرہ ان الفاظ میں کیا جارہا ہے کہ جب پانی کا طوفان حد سے بڑھا تو ہم نے تمہیں کشتی میں سوار کیا تاکہ ہم اسے تمہارے لیے عبرت کا نشان بنائیں اور یاد رکھنے والے کان اسے ہمیشہ یاد رکھیں۔ سب کو معلوم ہے کہ جس واقعہ کی طرف اشارہ کیا جارہا ہے کہ یہ قوم نوح کا واقعہ ہے لیکن اسے بیان کرتے ہوئے۔ ” حَمَلْنٰٰکُمْ فِی الْجَارِیَۃِ“ کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں کہ ہم نے تمہیں چلنے والی کشتی پر سوار کیا۔ مخاطب کی ضمیر لاکر اہل مکہ اور دنیا والوں کو توجہ دلائی گئی ہے کہ فی الحقیقت تم نیک لوگوں کی اولاد ہو۔ جو حضرت نوح (علیہ السلام) کے ساتھی تھے جن کے ایمان اور صالح اعمال کی وجہ سے انہیں کشتی کے ذریعے بچا لیا گیا یہ ایسا واقعہ ہے کہ جسے غور کے ساتھ سنا جائے اور اس پر توجہ دی جائے تو انسان اپنے رب کے ساتھ شرک اور اس کی نافرمانی سے بچ سکتا ہے۔ اے قرآن سننے والو! تمہیں اس واقعہ کو نصیحت حاصل کرنے کے لیے سننا چاہیے اگر تم نصیحت حاصل نہیں کرو گے تو تمہیں بھی قوم نوح کی طرح تباہ کردیا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے قوم نوح پر پانی کا ایسا عذاب نازل کیا کہ جس کے بارے میں سورۃ القمر آیت ١١، ١٢ اور سورۃ المؤمنون، آیت ٢٧ میں بیان ہوا ہے کہ آسمان کے دروازے کھل گئے، زمین سے چشمے پھوٹ نکلے یہاں تک کہ تنور پھٹ پڑا۔ اس طرح نوح (علیہ السلام) کے نافرمان بیٹے سمیت ان کی قوم کو پانی میں ڈبکیاں دے دے کر ختم کردیا گیا۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کی قوم کا سب سے بڑا جرم شرک تھا : حضرت عبداللہ بن عباس (رض) نے فرمایا کہ جب نوح (علیہ السلام) کی قوم کے نیک لوگ فوت ہوگئے تو شیطان نے ان کی اولاد کے دل میں یہ خیال ڈالا کہ جہاں تمھارے بزرگ بیٹھا کرتے تھے وہاں ان کے مجسمے تراش کر رکھ دیے جائیں تاکہ ان کا نام اور عقیدت باقی رہے۔ انھوں نے ایسا کیا جب یہ کام کرنے والے لوگ فوت ہوگئے تو ان کے بعد آنے والے لوگوں نے ان مجسموں کو اللہ تعالیٰ کی قربت کا وسیلہ بناناشروع کردیا اور پھر ان کی بالواسطہ عبادت کرنے کے ساتھ ان کے حضور نذرانے پیش کیے جانے لگے۔ عبداللہ بن عباس (رض) یہ بھی فرمایا کرتے تھے کہ سورۃ نوح میں ودّ، سواع، یغوث اور یعوق کے نام پر جن بتوں کا تذکرہ پایا جاتا ہے وہ نوح (علیہ السلام) کی قوم کے صالح لوگوں کے نام ہیں۔ (رواہ البخاری : کتاب التفسیر ٤٩٢٠) مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے قوم نوح کے نافرمانوں کو سیلاب کے ذریعے تباہ کیا اور نوح (علیہ السلام) اور ان کے ساتھیوں کو کشتی کے ذریعے بچا لیا۔ ٢۔ نصیحت حاصل کرنے والوں کے لیے نوح (علیہ السلام) اور ان کے ساتھیوں کا واقعہ بڑی عبرت کی حیثیت رکھتا ہے۔ تفسیر بالقرآن قوم نوح (علیہ السلام) کے جرائم اور ان کی تباہی کا ایک منظر : ١۔ نوح (علیہ السلام) کی قوم ظالم تھی۔ (النجم : ٥٢) ٢۔ قوم نوح کی ہلاکت کا سبب بتوں کی پرستش تھی۔ (نوح : ٢٣) ٣۔ قوم نوح طوفان کے ذریعے ہلاک ہوئی۔ (الاعراف : ١٣٦) ٤۔ قوم نوح کو تباہ کرنے کے لیے آسمان سے موسلاد ھار بارش کے دھانے کھول دئیے گئے۔ ( القمر : ١١) ٥۔ قوم نوح پر عذاب کے وقت تندور نے ابلنا شروع کردیا۔ ( ہود : ٤٠) ٦۔ قوم نوح پر عذاب کی صورت میں آسمان سے پانی برسا اور زمین سے جگہ جگہ چشمے ابل پڑے۔ (ہود : ٤٤) ٧۔ اللہ نے نوح (علیہ السلام) کی تکذیب کرنے والوں کو تباہ وبرباد کردیا۔ (الشعراء : ١٢٠) ٨۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے اپنے بیٹے کو فرمایا آج کے دن اللہ کے عذاب سے کوئی بچانے والا نہیں۔ (ہود : ٤٣) ٩۔ قوم نوح نے جب رسولوں کی تکذیب کی تو ہم نے انھیں غرق کردیا اور لوگوں کے لیے باعث عبرت بنا دیا۔ (الفرقان : ٣٧) ١٠۔ ہم نے نوح (علیہ السلام) اور اس کے ساتھیوں کو نجات دی اور تکذیب کرنے والوں کو غرق کردیا۔ (الاعراف : ٦٤) الحاقة
12 الحاقة
13 فہم القرآن ربط کلام : قوم ثمود، قوم عاد اور آل فرعون کی ذلّت اور انجام ذکر کرنے کے بعد ارشاد فرمایا کہ جو لوگ قرآن مجید کے بیان کردہ واقعات اور نصائح توجہ کے ساتھ سنتے ہیں انہیں اس دن سے پہلے نصیحت حاصل کرنی چاہیے جس دن ایک ہی دفعہ صور پھونکنے سے ہر چیز الٹ پلٹ ہوجائے گی اور اس دن مجرموں کو زنجیروں کے ساتھ جکڑ دیا جائے گا۔ اس سورت کی ابتدا اس فرمان سے ہوئی ہے کہ قیامت ہر صورت واقع ہو کر رہے گی اور اس کے لیے ” اَلْحَاقَّۃُ“ کا لفظ استعمال کیا ہے جس کا ایک معنٰی یہ بھی ہے کہ ایک دوسرے کو ٹکرا کر ریزہ ریزہ کردینے والی۔ اب اسی کی تھوڑی سی تفصیل بیان کی جاری ہے۔ اسرافیل کے صورپھونکنے کی وجہ سے قیامت واقع ہوگی۔ جب اسرافیل پہلی مرتبہ صورپھونکے گا تو زمین میں اس قدر زلزلے واقع ہوں گے کہ پہاڑ آپس میں ٹکرا کر ریزہ ریزہ ہوجائیں گے۔ یہاں قیامت کو ” اَلْحَاقَّۃُ“ کہا گیا ہے اور یہ ہر صورت واقع ہو کررہے گی۔ آسمان کے بندھن ٹوٹ جائیں گے اور وہ ٹکڑے ٹکڑے ہو کر نیچے گرپڑے گا۔ دوسرے مقام پر قیامت کے پہلے مرحلے کے بارے میں یوں بیان کیا ہے۔ ” آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے قیامت کے بارے میں پوچھتے ہیں کہ یہ کب واقع ہوگی؟ فرمادیں اس کا علم میرے رب کے پاس ہے اسے اس کے وقت پر ” اللہ“ کے سوا کوئی ظاہر نہیں کرے گا قیامت آسمانوں اور زمین پربھاری واقع ہوگی اور تم پر اچانک ہی آئے گی۔“ (الاعراف : ١٨٧) ” لوگو ! اپنے رب سے ڈرو حقیقت یہ ہے کہ قیامت کا زلزلہ بڑا ہولناک ہے۔ اس دن تم دیکھو گے کہ ہر دودھ پلانے والی اپنے دودھ پیتے بچے کو پھینک دے گی ہر حاملہ کا حمل گرجائے گا اور دیکھنے والے دیکھیں کہ لوگ مدہوش نظر آئیں گے حالانکہ وہ نشے میں نہیں ہوں گے بلکہ اس دن اللہ کا عذاب بہت سخت ہوگا۔“ (الحج : ١، ٢) (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ (رض) أَنَّ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ لاَ تَقُوم السَّاعَۃُ حَتَّی تَطْلُعَ الشَّمْسُ مِنْ مَغْرِبِہَا فَإِذَا طَلَعَتْ فَرَآہَا النَّاسُ آمَنُوا أَجْمَعُونَ، فَذَلِکَ حینَ لاَ یَنْفَعُ نَفْسًا إِیمَانُہَا، لَمْ تَکُنْ آمَنَتْ مِنْ قَبْلُ، أَوْ کَسَبَتْ فِی إِیمَانِہَا خَیْرًا، وَلَتَقُومَنَّ السَّاعَۃُ وَقَدْ نَشَرَ الرَّجُلاَنِ ثَوْبَہُمَا بَیْنَہُمَا فَلاَ یَتَبَایَعَانِہِ وَلاَ یَطْوِیَانِہِ، وَلَتَقُومَنَّ السَّاعَۃُ وَقَدِ انْصَرَفَ الرَّجُلُ بِلَبَنِ لِقْحَتِہِ فَلاَ یَطْعَمُہُ، وَلَتَقُومَنَّ السَّاعَۃُ وَہْوَ یَلِیطُ حَوْضَہُ فَلاَ یَسْقِی فیہِ، وَلَتَقُومَنَّ السَّاعَۃُ وَقَدْ رَفَعَ أُکْلَتَہُ إِلَی فیہِ فَلاَ یَطْعَمُہَا) (رواہ البخاری : باب قَوْلِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بُعِثْتُ أَنَا وَالسَّاعَۃَ کَہَاتَیْنِ ) ” حضرت ابوہریرہ (رض) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں آپ نے فرمایا قیامت نہیں قائم ہوگی یہاں تک کہ سورج مغرب سے طلوع ہوجائے۔ جب سورج مغرب سے طلوع ہوگا تو اسے دیکھ کرسب کے سب لوگ ایمان لے آئیں گے لیکن اس وقت ان کے ایمان لانے کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا جو اس سے قبل نہ ایمان لایا اور نہ اس نے نیک اعمال کیے۔ دو آدمیوں نے کپڑا پھیلایا ہوگا دکاندار کپڑے کو بیچ اور سمیٹ نہیں پائے گا کہ قیامت قائم ہوجائے گی، دودھ دوہنے والادودھ پی نہیں سکے گا کہ قیامت قائم ہوجائے گی، حوض پر پہنچنے والا پانی نہیں پی سکے گا کہ قیامت قائم ہوجائے گی، انسان اپنے منہ میں ڈالا ہوا لقمہ کھا نہیں پائے گا کہ قیامت قائم ہوجائے گی۔“ مسائل ١۔ اسرافیل جب پہلا صورپھونکے گا تو زمین میں زلزلے ہوں گے اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہوجائیں گے۔ ٢۔ آسمان کے بندھن ڈھیلے ہوجائیں گے اور وہ ٹکڑے ٹکڑے ہو کر گر پڑے گا۔ ٣۔ قیامت ہر صورت واقع ہوگی اور پہاڑریزہ ریزہ ہوجائیں گے اور آسمان پھٹ جائیں گے۔ تفسیر بالقرآن اسرافیل کے پہلے صور کے بعد ہونے والے واقعات کی ایک جھلک : ١۔ پہلے نفخہ سے لوگ بے ہوش ہوجائیں گے، اور دوسرے نفخہ سے تمام لوگ اٹھ کھڑے ہوں گے۔ (الزّمر : ٦٨) ٢۔ ایک چیخ سے ہی تمام لوگ ہمارے سامنے حاضر ہوجائیں گے۔ (یٰس : ٥٣) ٣۔ جس دن صور پھونکا جائے گا تم گروہ در گروہ چلے آؤ گے۔ (النبا : ١٨) ٤۔ جس دن صور پھونکا جائے گا اور ہم مجرموں کو نیلی پیلی آنکھوں کے ساتھ گھیر لائیں گے۔ (طہٰ: ١٠٢) (النّمل : ٨٧) الحاقة
14 الحاقة
15 الحاقة
16 الحاقة
17 فہم القرآن ربط کلام : قیامت کے دن آسمان پھٹ جائے گا اور رب ذوالجلال کے عرش کو آٹھ ملائکہ اٹھائے ہوئے ہوں گے۔ اسرافیل کے پہلی مرتبہ صور پھونکنے کے بعد زمین و آسمانوں کی موجودہ حالت ختم ہوجائے گی۔ اللہ تعالیٰ زمین و آسمانوں کو نئی صورت میں بنائیں گے جن کے بارے میں ارشاد فرمایا : ” اس دن اس زمین کو دوسری زمین کے ساتھ بدل دیا جائے گا اور آسمان بھی بدل دیا جائے گا اور لوگ اللہ کے سامنے پیش ہوں گے، جو اکیلا اور بڑا زبر دست ہے۔“ (ابراہیم : ٤٨) اللہ تعالیٰ کے عرش کو اس دن آٹھ فرشتے اٹھائے ہوئے ہوں گے۔ اس حالت میں رب ذوالجلال زمین پر جلوہ افروز ہوں گے جس طرح اس کی ذات کے لائق ہے۔ ہمیں یہ بات سوچنے سے اللہ کی پناہ مانگنی چاہیے کہ اللہ کا عرش کتنا بڑا ہوگا، ذات کبریاء کس طرح اس پر جلوہ افروز ہوگی، ملائکہ عرش کو کس طرح اٹھائیں گے اور اللہ تعالیٰ کس طرح نزول فرمائے گا۔ یہ انسان کے سوچنے کی باتیں نہیں ہمارا کام اپنے رب کے فرمان پر یقین کرنا اور قیامت کے دن کی تیاری کرنا ہے۔ اس بارے میں جس شخص کی سوچ آگے بڑھنے کی کوشش کرے اسے ” اعوذ باللہ“ اور ” لاحول ولاقوۃ الاباللہ“ پڑھنا چاہیے۔ رب ذوالجلال کے نزول سے پہلے سب لوگ محشر کے میدان میں جمع ہوچکے ہوں گے اور تمام ملائکہ جن میں جبرائیل امین بھی شامل ہوں گے صف بستہ حاضر ہوں اجازت کے بغیر کوئی بات نہیں کرسکے گا۔ ( النبا : ٣٨) اس موقع پر کچھ اور امور بھی طے کیے جائیں گے جن کا تذکرہ قرآن مجید میں تفصیل کے ساتھ موجود ہے۔ بالآخر وہ مرحلہ آجائے گا جب لوگوں کو ان کے اعمال نامے ان کے ہاتھوں میں تھمادیئے جائیں گے اس وقت کوئی شخص کوئی بات چھپا نہیں سکے گا۔ جس کو اس کا اعمال نامہ اس کے دائیں ہاتھ میں دیا جائے گا اعمال نامہ ملنے کے ساتھ ہی اس کا چہرہ چمک اٹھے گا وہ ہشاش بشاش اور مسکراتے چہرے کے ساتھ اپنے دائیں بائیں والوں کو کہے گا کہ یہ میرا اعمال نامہ ہے۔ آؤ ! اسے پڑھو! مجھے پہلے سے یقین تھا کہ میرا حساب مجھے ملنے والا ہے اس کے ساتھ ہی اسے معلوم ہوجائے گا کہ مجھے جنت میں داخلہ ملنے والا ہے چنانچہ اسے عالی مقام جنت میں داخلہ دیا جائے گا جس کے پھلوں کے گچھے جھکے ہوئے ہوں گے۔ گویا کہ وہ زبان حال سے جنتیوں کو اپنی طرف بلارہے ہوں گے، اعلان کرنے والا اعلان کرے گا کہ یہ تمہارے گزرے ہوئے ایام میں تمہارے صالح اعمال کا صلہ ہے اب تم جنت میں ہمیشہ ہمیش عیش کے ساتھ رہو اور مزے سے کھاتے پیتے رہو۔ مسائل ١۔ قیامت کے دن کوئی شخص کوئی بات بھی اپنے رب سے چھپا نہیں سکے گا۔ ٢۔ جس شخص کو اس کا اعمال نامہ دائیں ہاتھ میں دیا گیا وہ اپنے دائیں بائیں والوں سے کہے گا کہ آؤ میرا اعمال نامہ پڑھو! ٣۔ جسے اس کا اعمال نامہ دائیں ہاتھ میں دے دیا گیا وہ عالی شان جنت میں بڑی عیش کے ساتھ رہے گا۔ ٤۔ جنت کے پھل جھکے ہوئے ہوں گے جنتی انہیں مزے لے لے کر کھائیں گے۔ تفسیر بالقرآن جنت کے پھلوں کی ایک جھلک : ١۔ ہم نے اس میں کھجوروں، انگوروں کے باغ بنائے ہیں اور ان میں چشمے جاری کیے ہیں۔ (یٰس : ٣٤) ٢۔ یقیناً متقین باغات اور چشموں میں ہوں گے۔ (الذاریات : ١٥) ٣۔ یقیناً متقی نعمتوں والی جنت میں ہوں گے۔ (الطور : ١٧) ٤۔ جنتیوں کو شراب طہور دی جائے گی۔ (الدھر : ٢١) ٥۔ جنت میں تمام پھل دو، دو قسم کے ہوں گے۔ (الرحمن : ٥٢) الحاقة
18 الحاقة
19 الحاقة
20 الحاقة
21 الحاقة
22 الحاقة
23 الحاقة
24 الحاقة
25 فہم القرآن ربط کلام : جنتی کے مقابلے میں جہنمی کا حال اور ان کی بدنصیبی۔ رب ذوالجلال کے حکم سے نیک لوگوں کے اعمال نامے ان کے دائیں ہاتھ میں پہنچ چکے ہوں گے اور انہیں جنت میں داخلہ دیا جائے گا۔ ان کے مقابلے میں برے لوگوں کے اعمال نامے ان کے بائیں ہاتھ میں دئیے جائیں گے، جونہی برے شخص کا اعمال نامہ اس کے بائیں ہاتھ میں دیا جائے گا تو وہ چیخ اٹھے گا اور کہے گا ہائے افسوس! کاش کہ مجھے میرا اعمال نامہ نہ دیا جاتا اور مجھے یہ علم ہی نہ ہوتا کہ میرا حساب کیا ہے، کاش ! دنیا کی موت ہی آخری موت ثابت ہوتی۔ آج نہ میرا مال میرے کام آیا اور نہ ہی میرے اقتدار اور اختیار نے مجھے فائدہ دیا یہاں اختصار سے کام لیا گیا ہے۔ جبکہ دوسرے مقامات پر یہ تفصیل موجود ہے کہ لوگوں کو ان کے اعمال نامے دیئے جانے کے بعد کیا کیا معاملات پیش آئیں گئے۔ جب برے لوگوں کو ان کے اعمال دیئے جائیں گے تو وہ فریاد کریں گے کہ کاش! ہم مٹی کے ساتھ مٹی ہوجائیں بالآخر مجرم ہر طرف سے مایوس ہوجائے گا۔ حکم ہوگا کہ اسے پکڑ لو اور اسے ستر گز لمبی زنجیر میں جھکڑ کر جہنم میں پھینک دو، یہ نہ اللہ پر ایمان لایا اور نہ ہی مسکین کو کھلانے کی ترغیب دیتا تھا، آج اس کا کوئی خیر خواہ نہیں ہوگا اور اسے جہنم کے پیپ کے سوا کوئی چیز کھانے کو نہیں دی جائے گی یہی مجرموں کا کھانا ہوگا۔ یہاں جہنمی کے دو گناہوں کا ذکر کیا گیا ہے جبکہ دوسرے مقامات پر ان کے دیگر گناہوں کا ذکر بھی موجود ہے ان میں پہلا گناہ یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ پر اس طرح ایمان نہ لائے جس طرح اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات پر ایمان لانے کا حکم دیا ہے یہ کافر، مشرک منافق لوگ ہوں گے۔ ان کا دوسرا گناہ یہ ہوگا کہ وہ غریبوں اور محتاجوں کا خیال نہیں کرتے تھے گویا کہ حقوق اللہ اور حقوق العباد سے غافل تھے۔ اس لیے ان کے گلے میں طوق ڈال کر اور ستر گز لمبی زنجیر میں جکڑ کر جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔ ان کے کھانے میں جہنم کی پیپ بھی شامل ہوگی جو صرف ان کے لیے ہوگی۔ ” سلطان“ کا لفظ دلیل و حجت کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے اور اقتدار کے لیے بھی۔ اگر اسے دلیل وحجت کے معنٰی میں لیا جائے تو مطلب ہوگا کہ مجرم دنیا میں جو حجت بازیاں کیا کرتا تھا وہ قیامت کے دن نہیں چل سکیں گی، اگر سلطان کا لفظ اقتدار کے معنٰی میں لیا جائے تو مراد ہوگی کہ دنیا میں جس طاقت کے بل بوتے پر وہ اکڑتا تھا وہ قیامت کے دن ختم ہوجائے گی۔ وہ اقرار کرے گا کہ اب یہاں کوئی میرا لشکر نہیں، کوئی میرا حکم ماننے والا نہیں، میں بے بس اور لاچار مجرم کی حیثیت سے کھڑا ہوں جو اپنے دفاع کے لیے کچھ نہیں کرسکتا۔ مسائل ١۔ جسے دائیں ہاتھ میں اس کا اعمال نامہ دیا گیا وہ پچھتائے گا اور اپنی موت کی تمنا کرے گا۔ ٢۔ جہنمی اقرار کرے گا کہ آج میرا مال اور میرا اقتدار میرے کچھ کام نہیں آیا۔ ٣۔ جہنمی کے جرائم میں سر فہرست یہ جرم ہوں گے کہ وہ اللہ پر ایمان نہ لائے اور مسکینوں کا خیال نہیں رکھتے تھے۔ ٤۔ جہنمی کے گلے میں طوق پہناکر انہیں زنجیروں میں جکڑ دیا جائے گا۔ الحاقة
26 الحاقة
27 الحاقة
28 الحاقة
29 الحاقة
30 الحاقة
31 الحاقة
32 الحاقة
33 الحاقة
34 الحاقة
35 الحاقة
36 الحاقة
37 الحاقة
38 فہم القرآن ربط کلام : قرآن مجید کی تعلیمات میں اس کی سر فہرست تعلیم یہ ہے کہ اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لایا جائے اور یہ یقین رکھا جائے کہ قیامت ہر صورت آنے والی ہے۔ نافرمان لوگ اللہ اور اس کے رسول اور قیامت پر ایمان لانے کی بجائے قرآن مجید کا ہی انکار کرتے ہیں اور الزام لگاتے ہیں کہ یہ شاعرانہ کلام ہے جس کی تردید کی جا رہی ہے۔ قسم ہے ان چیزوں کی جو تم دیکھتے ہو اور ان کی بھی جنہیں تم نہیں دیکھتے بلاشک یہ قرآن رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان سے پڑھا جاتا ہے یہ کسی شاعر کا کلام نہیں اگرچہ تم بہت کم لوگ ایمان لاتے ہو اور نہ قرآن کسی کاہن کا کلام ہے یہ تو رب العالمین کی طرف سے نازل ہوا ہے لیکن تم بہت ہی کم اس پر توجہ کرتے ہو۔ اگر رسول کوئی بات اپنی طرف سے ہمارے ذمہ لگا دیتا تو ہم اس کا دایاں ہاتھ پکڑ لیتے اور پھر اس کی شاہ رگ کاٹ ڈالتے۔ اس مقام پر اللہ تعالیٰ نے سب لوگوں کو فرمایا بالخصوص کفار کو مخاطب کیا ہے کہ ان چیزوں کی قسم جو تم کھلی آنکھوں کے ساتھ دیکھتے ہو اور ان کی بھی قسم جو تمہاری آنکھیں نہیں دیکھتیں۔ نظرآنے والی اور نظروں سے اوجھل چیزوں سے مراد مفسرین نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اوصاف حمیدہ، آپ کی جدوجہد کے دور رس اثرات اور مستقبل میں حاصل ہونے والی کامیابیاں لی ہیں۔ اس سورت کی ابتدائی آیات کو سامنے رکھاجائے تو نظر نہ آنے والی چیزوں میں سب سے بڑی بات اور حقیقت قیامت اور اس کی ہولناکیاں ہیں۔ جس کا وہ لوگ انکار کرتے اور مذاق اڑاتے تھے۔ قرآن مجید کے بنیادی مضامین میں تیسرا بڑا مضمون قیامت پر ایمان لانا ہے۔ جس وجہ سے کفار قرآن مجید کے کلام الٰہی ہونے کا انکار کرتے اور یہ الزام دیتے تھے کہ یہ رسول کا اپنا کلام ہے۔ کبھی کہتے کہ یہ شاعر کی شاعری ہے اور کبھی ہرزا سرائی کرتے کہ یہ ایک جوگی اور کاہن کی پیش گوئیاں ہیں۔ اس پر انہیں بار بار سمجھایا گیا کہ یہ نہ رسول کا اپنا کلام ہے نہ شاعر کی شاعری اور نہ کسی کاہن کی کہانت ہے۔ یہ تو جہانوں کے رب کا کلام اور فرمان ہے۔ کفار کے تمام الزامات کا مقصد یہ ثابت کرنا تھا کہ یہ کلام الٰہی نہیں بلکہ کلام محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہے۔ رب ذوالجلال نے اس الزام کی تردید کرتے ہوئے پُرجلال انداز میں فرمایا کہ یہ قرآن محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کلام ہونا تو دور کی بات ہے اگر محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کوئی بات اپنی طرف سے ہمارے ذمے لگاتے تو ہم اس کی شاہ رگ کاٹ دیتے۔ اگر ہم ایسا کرتے تو کوئی بھی تم میں سے ہمیں ایسا کرنے سے نہ روک سکتا۔ شاہ رگ گردن کی وہ رگ ہے اگر کٹ جائے تو انسان کی موت فوری طور پر واقع ہوجاتی ہے۔ دائیں ہاتھ پکڑنے کا اس لیے ذکر کیا ہے کہ انسان کو اس کے سامنے سے کوئی حادثہ پیش آئے تو اس کا دایاں ہاتھ ہی پہلے حرکت میں آتا ہے اور قوت کے لحاظ سے یہ بائیں ہاتھ سے طاقت والا ہے اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کے بارے میں ہر طرح کے الزام کی تردید کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ قرآن رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا قول ہے۔ اس سے مراد یہ نہیں کہ قرآن مجید نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کلام ہے۔ اس بات کی تو یہاں تردید کی جا رہی ہے کہ اگر رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کوئی بھی بات قرآن میں شامل کرتا تو اس کی شہ رگ کاٹ دی جاتی۔ اس وضاحت کے بعد ” قول رسول کریم“ کا معنٰی صرف یہی کیا جاسکتا ہے اور ہے کہ قرآن مجید اللہ تعالیٰ کا کلام ہے۔ اسے اللہ کے حکم سے جبریل امین (علیہ السلام) لاتے رہے اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی زبان سے کئی سال تک لوگوں کے سامنے پڑھتے رہے۔ لہٰذا اس لیے قرآن مجید کو ” قول رسول کریم“ کہا گیا ہے۔ یہ پرہیزگاروں کے لیے بہت بڑی راہنمائی اور نصیحت ہے۔ کفار کا یہ بھی الزام تھا کہ اس پر شیطان وحی کرتے ہیں۔ اس کی تردید کے لیے وضاحت کی گئی ہے کہ شیطان نہیں اسے آپ کو جبریل (علیہ السلام) پڑھ کر سناتے ہیں۔ تفسیربالقرآن آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر لگائے گئے الزامات اور ان کا جواب : (یونس : ٣) (ص : ٤) (الطور : ٢٩) (یٰس : ٦٩) (النحل : ١٠١) (الطور : ٣٣) الحاقة
39 الحاقة
40 الحاقة
41 الحاقة
42 الحاقة
43 الحاقة
44 الحاقة
45 الحاقة
46 الحاقة
47 الحاقة
48 الحاقة
49 فہم القرآن ربط کلام : کفار کے ایک اور الزام کی تردید۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید اور رسول کریم کے بارے میں کفار کے ہر الزام کا مدلّل جواب دیا لیکن اس کے باوجود کفار قرآن مجید کو کلام الٰہی اور حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اللہ کا رسول ماننے کو تیار نہ تھے۔ اس پر ارشاد ہوا کہ قرآن اور آپ پر الزامات لگانے والے جھوٹے ہیں۔ انہیں اس بات پر یقین ہونا چاہیے کہ ایک وقت آئے گا کہ جب جھٹلانے اور انکار کرنے والوں کو بڑی حسرتوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس فرمان سے یہ بھی ثابت ہوا کہ قرآن اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر الزامات لگانے والے کافر ہیں، کیونکہ قرآن مجید ہر اعتبار سے حق اور سچ ہے اس پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے متبعین کو اپنے عظیم رب کی تسبیح پڑھنی چاہیے، کیونکہ وہی ہے جو کفار کو حسرتوں میں مبتلا کرے گا اور حق کو حق ثابت کردکھائے گا۔ (عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَال النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کَلِمَتَانِ حَبِیْبَتَانِ إِلَی الرَّحْمَنِ، خَفِیْفَتَانِ عَلَیْ اللِّسَانِِ، ثَقِیْلَتَانِ فِیْ الْمِیْزَانِ ” سُبْحَان اللَّہِ وَبِحَمْدِہِ، سُبْحَان اللَّہِ الْعَظِیمِ“ ) ( رواہ البخاری : کتاب التوحید، باب قول اللہ تعالیٰ ونضع الموازین القسط) ” حضرت ابوہریرہ (رض) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا دو کلمے رحمٰن کو بڑے پسند ہیں، زبان سے ادا کرنے میں آسان اور وزن کے لحاظ سے بہت بھاری ہیں۔“ مسائل ١۔ قرآن اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر الزامات لگانے والے کافر ہیں۔ ٢۔ بلاشبہ قرآن مجید ہر اعتبار سے حق اور سچ ہے۔ ٣۔ ایمانداروں کو ہر حال میں رب عظیم کو یاد رکھنا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن قرآن مجید پرلگائے گئے الزامات : ١۔ ہم جانتے ہیں کہ یہ کہتے ہیں آپ کو ایک آدمی سکھا جاتا ہے۔ (النحل : ١٠٣) ٢۔ انہوں نے کہا قرآن تو پہلے لوگوں کے قصے کہانیاں ہیں۔ (الفرقان : ٥، المدثر : ٢٤، بنی اسرائیل : ٨٨، ہود : ١٣، یونس : ٣٨) الحاقة
50 الحاقة
51 الحاقة
52 الحاقة
0 سورۃ المعارج کا تعارف المعارج کا نام اس کی تیسری آیت سے لیا گیا ہے یہ مکی سورت ہے اس کی چوالیس آیات ہیں جنہیں دو رکوع میں تقسیم کیا گیا ہے۔ اس سورت کی ابتداء اس بات سے کی جا رہی ہے کہ کفار مکہ عذاب کا مطالبہ کرتے ہیں لہٰذا ان پر عذاب ہر صورت نازل ہو کر رہے گا اور اس کا انکار کرنے والے اسے روک نہیں سکیں گے۔ اے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اگر یہ لوگ اس کا انکار کرتے ہیں تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کے مقابلے میں پورے تحمل کے ساتھ صبر کا مظاہرہ کریں۔ یہ لوگ عذاب کو دور سمجھتے ہیں اور ہم اسے قریب جانتے ہیں۔ کفار عذاب کے ساتھ اس بات کا بھی مطالبہ کرتے تھے کہ جس قیامت سے ہمیں ڈرایا اور دھمکایا جاتا ہے وہ کیوں برپا نہیں ہوتی؟ اس کا یہ جواب دیا گیا ہے کہ یہ قیامت کو دور سمجھتے ہیں اور ہم اسے قریب سمجھتے ہیں۔ جب یہ دن آئے گا تو آسمان پگلی ہوئی چاندی کی طرح ہوجائے گا اور پہاڑ رنگ دار ڈھنکی ہوئی روئی کی طرح اڑنے لگیں گے۔ اس دن مجرموں کی یہ حالت ہوگی کہ کوئی اپنے جگری دوست کی مدد نہیں کرسکے گا حالانکہ وہ ایک دوسرے کو دیکھ اور پہچان رہے ہوں گے۔ مجرم اس دن کے عذاب سے بچنے کے لیے اپنی اولاد کو، اپنی بیوی کو، اپنے بھائی کو، اپنے خاندان کو جو دنیا میں اس کی حمایت کیا کرتے تھے اور جو کچھ بھی زمین میں ہے وہ سب کچھ دینے کے لیے تیار ہوگا۔ تاکہ عذاب سے نجات پا جائے لیکن وہ بھڑکتی ہوئی آگ سے نہیں بچ سکے گا۔ جو مجرم کے گوشت پوست کو چاٹ جائے گی جہنم کی آگ ہر اس شخص کا پیچھا کرے گی جس نے حق بات سے منہ موڑا اور ناجائز طریقے سے مال جمع کیا۔ اس سے وہ لوگ بچا لیے جائیں گے جو اپنی نمازوں پر ہمیشگی کرتے تھے، قیامت کے برپا ہونے کی تصدیق کرتے تھے اور اپنے رب کے عذاب سے ڈرتے تھے۔ یہ ایسے لوگ تھے جو اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرتے تھے اور امانتوں کا خیال رکھتے تھے اور شہادت حق پر قائم رہتے تھے انہیں بڑی عزت و تکریم کے ساتھ جنت میں رکھا جائے گا۔ ان کے مقابلے میں جو لوگ قیامت کو جھٹلاتے ہیں مگر پھر بھی چاہتے ہیں کہ انہیں جنت میں داخل کیا جائے انہیں بتائیں کہ ایسا ہرگز نہیں ہوگا جس قیامت کا مطالبہ کرتے ہیں اس دن ان کی حالت یہ ہوگی کہ ان آنکھیں پھٹی ہوئی ہوں گی اور ان کے چہروں پر ذلّت چھائی ہوئی ہوگی اس وقت انہیں کہا جائے گا کہ یہ وہ دن جس کا تمہیں وعدہ دیا جاتا تھا۔ المعارج
1 فہم القرآن ربط سورت : کفار بار بار نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عذاب کا مطالبہ کرتے تھے جس پر انہیں انتباہ کیا گیا ہے کہ جس عذاب کا تم مطالبہ کرتے ہو، وہ نازل ہوگا تو اسے ٹالنے والا کوئی نہیں ہوگا۔ المعارج کی ابتدا اس بات سے ہورہی ہے کہ ایک سوال کرنے والے نے سوال ہے کہ جس عذاب سے ہمیں ڈرایا جاتا ہے وہ اب تک وارد کیوں نہیں ہوا ؟ ” سَاَلَ سَآءِلٌ“ کے بارے میں مفسرین کا خیال ہے کہ بظاہر تو یہ الفاظ سوال کے لیے استعمال ہوتے ہیں لیکن اہل عرب ان الفاظ کو کسی چیز کا مطالبہ کرنے کے لیے بھی استعمال کرتے ہیں۔ اس معنٰی میں اس لیے گنجائش ہے کہ اکثر اوقات سائل اپنے سوال میں کسی نہ کسی بات کا مطالبہ ہی کیا کرتا ہے۔ حقیقت میں دونوں مفاہیم کا مقصد ایک ہے کہ کفار نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بار بار مطالبہ کرتے تھے کہ جس عذاب کے بارے میں ہمیں ڈرایا اور دھمکایا جاتا ہے وہ اب تک نازل کیوں نہیں ہوا۔ اہل مکہ اس معاملے میں اس قدر بے باک اور دلیر ہوچکے تھے کہ ایک دن انہوں نے کعبۃ اللہ کاغلاف پکڑ کر مطالبہ کیا کہ الٰہی اگر یہ رسول اور قرآن برحق ہے تو پھر ہم پر پتھروں کی بارش برسا یا ہمیں عذاب الیم میں مبتلا کردے۔ اس مطالبے کے جواب میں یہ ارشاد ہواکہ اس میں کوئی شک نہیں کہ تم اس لائق ہو کہ تمہیں تہس نہس کردیا جائے لیکن ہم اس لیے تم پر عذاب نازل نہیں کررہے کیونکہ تم میں رسول کی ذات اور استغفار کرنے والے مسلمان موجود ہیں۔ ( الانفال : ٣٢، ٣٣) لہٰذا اہل مکہ کو بتلایا گیا ہے کہ جب عذاب کا فیصلہ صادر ہوگا تو اس کا انکار اور مطالبہ کرنے والے کسی صورت بھی اسے ٹال نہیں سکیں گے۔ انکار کرنے والے ہر صورت اس میں مبتلا اور گرفتار ہو کر رہیں گے۔ یہ ایسی حقیقت ہے کہ جب بھی کسی قوم پر عذاب نازل ہوا تو پھر اسے بچانے والا کوئی نہیں تھا۔ قوم نوح، ثمود، عاد، آل فرعون اور دیگر اقوام کا انجام عذاب کا مطالبہ کرنے والوں کے لیے کھلی دلیل ہے جس پر انہیں غور کرنا چاہیے۔ اگلی آیات کے حوالے سے یہاں عذاب کا دوسرا معنٰی قیامت ہے۔ اس لیے کہ عذاب کے ذکر کے بعد متصل قیامت کی ہولناکیوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ ( اللہ اعلم!) المعارج
2 المعارج
3 فہم القرآن ربط کلام : کفار کو جس عذاب یا قیامت کے بارے میں انتباہ کیا جاتا ہے وہ ” اللہ“ کی طرف سے آئے گی جو ” اللہ“ بڑا ہی بلندو بالا ہے۔ مَعَارِ جْ ” مَعْرِجٌ“ کی جمع ہے جس کا معنٰی سیڑھی یا بلندی ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنی ذات، صفات اور مقام و مرتبہ کے لحاظ سے سب سے بلند وبالا ہے۔ اس لیے اس نے اپنی ذات کے بارے میں المعارج کا لفظ استعمال فرمایا ہے۔ کچھ مفسرین نے المعارج سے مراد وہ بلندیاں لی ہیں جس کو طے کرتے ہوئے ملائکہ اپنے رب کے حضور پیش ہوتے ہیں بظاہر یہ مفہوم لینے کی گنجائش بھی موجود ہے۔ تاہم اس سے پہلی مراد رب کبریاء کی ذات ہے۔ اسی کے حضور ملائکہ اور جبریل امین پیش ہوتے ہیں۔ جبریل امین کا اس لیے الگ ذکر کیا گیا ہے کیونکہ وہ ملائکہ کا سردار اور سب سے مقرب فرشتہ ہے، وہی اپنے رب کا پیغام انبیائے کرام (علیہ السلام) تک لاتا رہا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے بارے میں ” ذِی الْمَعَارِجِ“ کا لفظ استعمال فرما کر کفار کی جلد بازی کا جواب دیا ہے کہ بے شک کفار اور نافرمان لوگ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بار بار عذاب کا مطالبہ کرتے ہیں لیکن انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ مقام ومرتبہ کے اعتبار سے بلند وبالا ہے اسی طرح ہی بڑے حوصلے والا اور اعلیٰ ظرف ہے وہ کسی کی نافرمانی اور جلدبازی کی وجہ سے اپنے فیصلے تبدیل نہیں کرتا۔ وہ لوگوں کے درمیان اس دن عدل وانصاف پر مبنی فیصلے فرمائے گا جس دن کی طوالت پچاس ہزار سال پر مشتمل ہوگی۔ اس دن کفار اور نافرمانوں کی مدد کرنے والا کوئی نہیں ہوگا دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا۔ ” یہ لوگ عذاب کے لیے جلدی کر رہے ہیں اللہ اپنے وعدے کیخلاف ہرگز نہیں کرے گا مگر آپ کے رب کے ہاں ایک دن تمہارے شمار کے مطابق ایک ہزار برس کے برابر ہوا کرتا ہے۔“ (الحج : ٤٧) حدیث شریف میں بھی اس دن کی طوالت پچاس ہزار سال بتلائی گئی ہے۔ ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : چاندی سونے کا جو مالک ان کی زکوٰۃ نہیں دیتا اس چاندی، سونے کی تختیاں بنائی جائیں گی۔ انھیں جہنم کی آگ میں گرم کیا جائے گا، پھر مال دار کی پیشانی اور کروٹیں اس سے داغی جائیں گی جب اس کی پیٹھ پر تختیاں ٹھنڈی ہوجائیں گی تو پھر گرم کی جائیں گی پچاس ہزار سال کے دن میں اس کو یہی عذاب ہوگا یہاں تک کہ لوگوں کے بارے میں جنت اور جہنم کا فیصلہ ہوجائے۔۔“ (رواہ مسلم : باب اثم مانع الزکاۃ) المعارج
4 المعارج
5 فہم القرآن ربط کلام : نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شب وروز کوشش تھی کہ کفار کو جہنم کے عذاب سے بچایا جائے اس کے باوجود کفار عذاب کا مطالبہ کرتے تھے جس پر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پریشانی ہوتی تھی اس لیے آپ کو صبر جمیل کی تلقین کی گئی۔ کفار کا بار بار عذاب کا مطالبہ کرنا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے دو وجہ سے پریشان کُن تھا پہلی وجہ یہ تھی کہ آپ اپنے آرام اور کام کی پرواہ کیے بغیر انتہائی خیرخواہی اور درد مندی کے ساتھ کوشش فرمارہے تھے کہ یہ لوگ کفر و شرک چھوڑ کر اپنے رب کے حضور تائب ہوجائیں مگر وہ لوگ تائب ہونے کی بجائے آپ کی مخالفت اور اللہ کی نافرمانی میں آگے ہی بڑھے جارہے تھے۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ وہ آپ کو اس بات پر طعنہ دیتے اور جھوٹا قرار دیتے تھے کہ جس عذاب سے ہمیں ڈرایا جاتا ہے وہ اب تک نازل کیوں نہیں ہوا۔ اس پر بھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پریشانی لاحق ہوتی تھی۔ اس صورتحال میں آپ کو حکم ہوا کہ آپ کو پریشان اور غمگین ہونے کی بجائے صبر جمیل سے کام لینا چاہیے۔ جمیل کا معنٰی خوبصورت اور نہایت اچھا ہے یعنی ایسا صبر جس میں کسی قسم کی جلد بازی اور شکوہ، شکایت نہ ہو۔ آپ کو تسلی دینے اور حقیقت بتلانے کے لیے ارشاد ہوا کہ نادان اس عذاب کو دورسمجھتے ہیں مگر اللہ تعالیٰ کے نزدیک وہ بہت قریب ہے۔ جس دن انہیں عذاب دیا جائے گا وہ دن اپنی حدّت کے لحاظ اس قدر سخت ہوگا کہ آسمان پگھلے ہوئے تانبے کی مانند ہوجائے گا اور پہاڑ دھنی ہوئی روئی کی طرح ہوجائیں گے۔ ” اَلْمُہْلِ“ جلے ہوئے تیل کو بھی کہتے ہیں کیونکہ تیل آگ پر زیادہ دیرپڑے رہنے کی وجہ سے گہرا سرخ ہوجاتا ہے۔ قیامت کی حِدّت کی وجہ سے آسمان کا رنگ سرخ ہوجائے گا۔ اس لیے فرمایا کہ اس دن آسمان ” اَلْمُہْلِ“ کی مانند ہوگا۔ مسائل ١۔ کفار اور مشرکین کے طعنوں سے دل برداشتہ ہونے کی بجائے صبر جمیل سے کام لینا چاہیے۔ ٢۔ کفار اور نافرمان لوگ قیامت کو دور سمجھتے ہیں حالانکہ قیامت بہت قریب ہے۔ ٣۔ قیامت کے دن آسمان تانبے کی مانند اور پہاڑ دھنی ہوئی اون کی طرح ہوجائیں گے۔ المعارج
6 المعارج
7 المعارج
8 المعارج
9 المعارج
10 فہم القرآن ربط کلام : قیامت کے دن آسمان تابنے کی مانند ہوجائے گا اور پہاڑ دھنی اوئی روئی کی طرح ہوں گے اس دن باہمی محبتیں ختم اور رشتے ناطے ٹوٹ جائیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے جب انسان کو پیدا فرمایا تو اس کے وجود میں ایک دوسرے کے ساتھ محبت اور مہربانی کرنے کا جذبہ بھی پیدا فرمایا اور ایک دوسرے کے ساتھ لوگوں کے رشتے ناطے جوڑ دیئے، اسی ہمدردی اور رشتے ناطوں کی بنیاد پر دنیا کا نظام قائم اور چل رہا ہے۔ لیکن قیامت کے دن مجرموں کی ایک دوسرے کے ساتھ محبت اور رشتے ناطے ختم ہوجائیں گے، کیونکہ رب ذوالجلال کا فرمان ہے کہ قیامت کے دن کوئی جگری دوست اپنے جگری دوست کی خبر نہیں لے گا۔ حالانکہ وہ ایک دوسرے کو دیکھتے اور جانتے ہوں گے۔ مجرموں کی حالت یہ ہوگی کہ ہر مجرم خواہش کرے گا کہ کاش آج کے عذاب سے بچنے کے لیے اپنے بیٹوں کو اپنے بدلے میں دے کر اپنی جان بچا لے، وہ اپنے بدلے میں اپنی اولاد، اپنی بیوی، اپنے بھائیوں اور پورے خاندان کو پکڑوانے کے لیے تیار ہوگا۔ یہاں تک کہ اگر اس کا بس چلے تو جو کچھ زمین میں ہے وہ دے کر اپنی جان بچانے کی فکر کرے گا لیکن وہ کسی صورت بھی آگ سے چھٹکارا نہیں پا سکے گا۔ جہنم کی آگ مجرموں کی چمڑیاں ادھیڑ دینے والی ہوگی، آگ مجرموں کو آواز دے دے کر اپنی طرف بلائے اور کھینچے گی۔ وہ ہر اس شخص کو اپنی طرف بلائے گی اور کھینچے گی جس نے حق بات سے پیٹھ پھیری اور لوگوں کے حقوق مار مار کر اور ناجائز طریقے سے مال جمع کیا، مجرم کی یہ حالت دیکھ کر اس کے بھائی، اس کی والدہ، اس کا باپ، اس کی بیوی اور اس کے بیٹے بھی بھاگ جائیں گے وہ ایسا دن ہوگا کہ کوئی بھی مجرم کی مدد نہ کرپائے گا۔ (عبس : ٣٤ تا ٣٧) ” سیدہ عائشہ (رض) ایک دن قیامت کو یاد کر کے رورہی تھیں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا اے عائشہ! تجھے کس چیز نے رولایا ہے۔ سیدہ عائشہ نے کہا جہنم کی آگ یاد آئی تو میں رو پڑی کیا قیامت کے دن آپ اپنے اہل وعیال کو یاد رکھ پائیں گے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تین مواقع ایسے ہیں جن میں کوئی کسی کو یاد نہیں کرے گا۔ 1 اعمال تولے جانے کے وقت جب تک یہ نہ پتہ چل جائے کہ اس کا نیکیوں والا پلڑا بھاری ہوا یا ہلکا۔ 2۔ نامہ اعمال دئیے جانے کے وقت جب کہنے والا کہے آؤ میرے نامہ اعمال کو پڑھ کر دیکھو حتٰی کہ اسے علم ہوجائے کہ اس کو نامہ اعمال دائیں ہاتھ میں دیا جا رہا ہے یا پیٹھ کے پیچھے سے بائیں ہاتھ میں 3۔ جب جہنم پر پل صراط کو رکھی جائے گا۔“ (المستدرک للحاکم : کتاب الاہول قال اللّٰہ تبارک وتعالیٰ (ویوم ینفخ فی الصور) قال الذہبی ہذا حدیث صحیح ) مسائل ١۔ قیامت کے دن کوئی جگری دوست اپنے جگری دوست کی مدد نہیں کرسکے گا۔ حالانکہ وہ ایک دوسرے کو دیکھتے اور جانتے ہوں گے۔ ٢۔ ہر مجرم کی خواہش ہوگی کہ میں اپنی اولاد، اپنی بیوی، اپنے بھائی، اپنا خاندان اور جو کچھ زمین میں ہے اپنے بدلے میں دے کر چھوٹ جاؤں۔ لیکن وہ جہنم کی آگ سے نہیں بچ سکے گا تفسیر بالقرآن قیامت کے دن کوئی بھی کسی مجرم کی مدد نہیں کرسکے گا : ١۔ قیامت کے دن کوئی دوست کسی کے کام نہیں آئے گا۔ ( البقرۃ: ٢٥٤) ٢۔ قیامت کے دن کوئی رشتہ دار کسی کو فائدہ نہیں دے گا۔ ( عبس : ٣٤ تا ٣٦) ٣۔ قیامت کے دن کوئی دوست کسی دوست کے کام نہیں آئے گا۔ (الدخان : ٤١، ٤٢) ٤۔ قیامت کے دن دوستی اور سفارش کام نہ آئے گی۔ (ابراہیم : ٣١) ٥۔ قیامت کے دن سفارشی کسی کو فائدہ یا نقصان نہیں دیں گے۔ (یونس : ١٨) ٦۔ معبودان باطل اپنے پیروکاروں کے کام نہیں آئیں گے۔ ( البقرۃ: ١٦٦) (العنکبوت : ٢٢) المعارج
11 المعارج
12 المعارج
13 المعارج
14 المعارج
15 المعارج
16 المعارج
17 المعارج
18 المعارج
19 فہم القرآن ربط کلام : چمڑیاں ادھیڑدینے والی آگ سے بچنے والے لوگوں کے اوصاف۔ انسان کی طبعی کمزوریوں میں ایک کمزوری یہ ہے کہ وہ جلد باز ہے۔ اسی جلد بازی کی وجہ سے انسان دنیا کے فائدے کی خاطر حق بات سے منہ موڑ تا، ناجائز طریقے سے مال بناتا اور اسے جمع رکھتا ہے۔ اگر انسان اپنی جلدبازی پر قابو پالے تو وہ اللہ اور اس کے رسول کے فرمان سے منہ موڑ کرنہ کسی کا مال بٹورے اور ہی ناجائز طریقے سے مال جمع کرے۔ یہ جلد بازی کا نتیجہ ہے کہ جب اسے مال کی تنگی اور کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو وہ گھبرا اٹھتا ہے اور جزع فزع کرنے لگتا ہے جب اسے مال حاصل ہوتا ہے توبخیل بن جاتا ہے۔ یہاں گھبراہٹ اور بخل کا حوالہ دے کر دو حقیقتوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ اے انسان ! آج معمولی تکلیف پرتو چونک اٹھتا ہے۔ غور کر! کہ تو جہنم کی آگ اور اس کی سختیوں کو کس طرح برداشت کرے گا؟ پچھلی آیت میں مال جمع کرنے کا نقصان بتلایا گیا ہے، یہاں فرمایا ہے کہ جب انسان کو مال ملتا ہے تو اسے خرچ کرنے کی بجائے بخل کرتا ہے۔ یادرہے! جہاں مال کے فائدے ہیں وہاں اس کا یہ نقصان ہے کہ جوں جوں مال جمع ہوتا ہے توں توں انسان طبعی طور پر اتنا ہی حریص اور بخیل ہوتا جاتا ہے بالخصوص جو شخص حرام ذرائع سے مال جمع کرتا ہے اس میں دوسروں کی نسبت بخل زیادہ پایا جاتا ہے۔ جلد بازی اور بخل سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ نماز کو اس کے تقاضوں کا خیال رکھتے ہوئے ادا کیا جائے۔ جو شخص اطمینان کے ساتھ نماز ادا کرتا اور اس پر ہمیشگی اختیار کرتا ہے۔ اسے طبیعت کی جلد بازی پر قابو پانا آسان ہوجاتا ہے۔ جو حلال ذرائع سے مال کماتا ہے اس میں فی سبیل اللہ خرچ کرنے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے کیونکہ اسے پتا ہوتا ہے کہ میرے رب نے میرے مال میں سائل اور غریب کا ایک حصہ مقرر کر رکھا ہے جو ہر صورت مجھے ادا کرنا چاہیے کیونکہ اس کا ایمان ہے کہ اگر میں نے یہ کام نہ کیے تو قیامت کے دن مجھے سزا ہوگی۔ اس لیے وہ جہنم کے عذاب سے ڈرتا ہے، اس کا ایمان ہوتا ہے کہ جہنم کے عذاب سے بے خوف نہیں ہونا چاہیے۔ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَال الصَّلَوَاۃُ الْخَمْسُ وَالْجُمْعَۃُ إِلَی الْجُمْعَۃِ کَفَّارَۃٌ لِّمَا بَیْنَھُنَّ مَالَمْ تُغْشَ الْکَبَاءِرُ) (رواہ مسلم : کتاب الطھارۃ، باب الصلواۃ الخمس والجمعۃ إلی الجمعۃ۔۔) ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب کبیرہ گناہ کا ارتکاب نہ کیا جائے تو پانچ نمازیں اور جمعہ سے جمعہ تک کے گناہوں کا کفارہ بن جاتی ہے۔“ (عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ (رض) قَالَ کَانَ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَتَعَوَّذُ یَقُولُ ” اللّٰہُمَّ إِنِّی أَعُوذُ بِکَ مِنَ الْکَسَلِ وَأَعُوذُ بِکَ مِنَ الْجُبْنِ وَأَعُوذُ بِکَ مِنَ الْہَرَمِ وَأَعُوذُ بِکَ مِنَ الْبُخْلِ“ ) (رواہ البخاری : کتاب الدعوات، باب التعوذ من أرذل العمر) ” حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتے اور یہ دعا کرتے کہ اے اللہ میں سستی، بزدلی، ناکارہ پن بڑھاپے اور بخل سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔“ مسائل ١۔ انسان طبعی طور پر جلد باز واقع ہوا ہے جس وجہ سے معمولی تکلیف پر گھبرا اٹھتا ہے۔ ٢۔ انسان کو مال حاصل ہو تو اس میں بخل پیدا ہوجاتا ہے۔ ٣۔ نماز کو ہمیشہ اس کے حقوق کے ساتھ ادا کرنے والا اپنی جلد بازی پر قابو پا لیتا ہے۔ ٤۔ جس کا قیامت پر حقیقی ایمان ہے وہ اپنے مال میں سائل اور غریب کا حق سمجھتا ہے۔ ٥۔ اللہ کے بندے اپنے رب کے عذاب سے ہمیشہ خوف زدہ رہتے ہیں۔ ٦۔ رب کے عذاب سے کسی صورت بھی بے خوف نہیں ہونا چاہیے۔ المعارج
20 المعارج
21 المعارج
22 المعارج
23 المعارج
24 المعارج
25 المعارج
26 المعارج
27 المعارج
28 المعارج
29 فہم القرآن ربط کلام : بے شک اللہ کے عذاب سے بے خوف نہیں ہونا چاہیے لیکن جن لوگوں نے قرآن کے بیان کردہ اوصاف اپنائے وہ جہنم کے عذاب سے بے خوف ہوں گے، جہنم کے عذاب سے مامون رہنے والوں کے اوصاف میں یہ صفت بھی ہوتی ہے۔ جہنم کے عذاب سے محفوظ رہنے والوں میں یہ وصف بھی ہوتا ہے کہ وہ اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں ہاں انہیں اپنی بیویوں اور لونڈیوں کے پاس جانے کا حق ہے۔ اس سے ان پر کوئی ملامت نہیں جو لوگ اپنی بیویوں اور لونڈیوں کے سوا کسی اور کے ساتھ ازدواجی تعلقات اور اس جیسی حرکات کریں گے وہ حد سے نکل جانے والے ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ نے ہر مرد اور عورت میں ایک دوسرے کے ساتھ ملاپ کرنے کا جذبہ اور قوت رکھی ہے، اس کے لیے میاں بیوی کا رشتہ قائم فرمایا ہے۔ اگر کسی شخص میں جنسی قوت زیادہ ہو یا اس کی معاشرتی ضرورت ہو تو اسے چار بیویوں کے ساتھ لونڈیاں رکھنے کا حق دیا گیا ہے بشرطیکہ وہ شریعت کے مقرر کردہ اصولوں کی پابندی کرے۔ سورۃ النساء کی آیت ٢٥ کی تشریح میں یہ تفصیل موجود ہے کہ اسلام نے لونڈیاں رکھنے کی کن حالات میں اجازت دی ہے اس کا خلاصہ یہاں عرض کیا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آزاد عورتوں کو چھوڑ کر لونڈیوں سے شادی کرنے کی دو وجوہ بیان کی ہیں انہیں ذہن نشین رکھنا چاہیے۔ ١۔ آزاد عورت سے شادی کے اخراجات برداشت نہ کرسکتاہو۔ ٢۔ بدکاری میں ملوث ہونے کے خوف سے لونڈی رکھنا جائز ہے۔ ان دو وجوہات کے علاوہ اسے لونڈی سے شادی کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔ جو لوگ مذکورہ بالا اجازت سے ہٹ کر ازواجی تعلقات یا اس کے متعلقات اختیار کریں گے تو وہ حدود اللہ سے نکل جانے والے ہوں گے جنہیں جہنم میں داخل کیا جائے گا۔ (عَنْ سَہْلِ بْنِ سَعْدٍ عَنْ رَسُول اللَّہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ مَنْ یَضْمَنْ لِی مَا بَیْنَ لَحْیَیْہِ وَمَا بَیْنَ رِجْلَیْہِ أَضْمَنْ لَہُ الْجَنَّۃَ) (رواہ البخاری : باب حفظ اللسان) ” سہل بن سعد (رض) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا جو شخص مجھے اپنی زبان اور شرمگاہ کی ضمانت دے میں اسے جنت کی ضمانت دیتا ہوں۔“ (عن أبی ہُرَیْرَۃَ عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) إِنَّ اللّٰہَ کَتَبَ عَلٰی ابْنِ آدَمَ حَظَّہٗ مِنَ الزِّنَا أَدْرَکَ ذٰلِکَ لَا مَحَالَۃَ فَزِنَا الْعَیْنِ النَّظَرُ وَزِنَا اللِّسَانِ الْمَنْطِقُ وَالنَّفْسُ تَمَنّٰی وَتَشْتَہِی وَالْفَرْجُ یُصَدِّقُ ذٰلِکَ کُلَّہٗ وَیُکَذِّبُہُ) (رواہ البخاری : کتاب الاستئذان، باب زنا الجوارح دون الفرج) ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے آدم کی اولاد پر اس کا حصہ زنا کا مقرر کردیا ہے وہ اس سے بچ نہیں سکتا وہ اس کو پالے گا، آنکھوں کا زنا دیکھنا ہے اور زبان کا زنا فحش باتیں کرنا ہے، انسان کا نفس اس کی خواہش کرتا ہے اور شرمگاہ اس کی تصدیق یا تکذیب کرتی ہے۔“ (تصدیق کرنے سے مراد عملاً بدکاری کرنا اور تکذیب سے مراد اس سے بچے رہنا ہے۔) (عَنْ اَبِیْ ھُرَےْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لَا ےَزْنِی الزَّانِیْ حِےْنَ ےَزْنِیْ وَھُوَ مُؤْمِنٌ وَلَا ےَسْرِقُ السَّارِقُ حِےْنَ ےَسْرِقُ وَھُوَ مُؤْمِنٌ وَّلَا ےَشْرَبُ الْخَمْرَ حِےْنَ ےَشْرَبُھَا وَھُوَ مُؤْمِنٌ وَلَا ےَنْتَھِبُ نَھْبَۃً یَّرْفَعُ النَّاسُ اِلَےْہِ فِےْھَا اَبْصَارَھُمْ حِےْنَ ےَنْتَھِبُھَا وَھُوَ مُؤْمِنٌ وَلَا ےَغُلُّ اَحَدُکُمْ حِےْنَ ےَغُلُّ وَھُوَ مُؤْمِنٌ فَاِیَّاکُمْ اِیَّاکُمْ۔) (رواہ البخاری : کتاب الأشربۃ) حضرت ابوہریرہ (رض) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان بیان کرتے ہیں کہ زانی زنا کرتے وقت مومن نہیں ہوتا، چور چوری کرتے ہوئے ایمان سے خارج ہوتا ہے، شرابی شراب پیتے وقت ایماندار نہیں ہوتا۔ جب ڈاکو کسی ایسی چیز پر ڈاکہ ڈالتا ہے کہ لوگ اس کی طرف نظریں اٹھا کر دیکھتے ہیں۔ وہ ایمان سے تہی دامن ہوتا ہے۔ خائن خیانت کرتے ہوئے مومن نہیں رہ سکتا۔ تمہیں اپنے آپ کو ان گناہوں سے دور رکھنا چاہیے۔“ (عَنْ عَبْدِاللّٰہِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ (رض) قَالَ قَالَ رَجُلٌ ےَا رَسُوْلَ اللّٰہِ اَیُّ الذَّنْبِ اَکْبَرُ عِنْدَاللّٰہِ قَالَ اَنْ تَدْعُوَلِلّٰہِ نِدًّا وَّھُوَ خَلَقَکَ قَالَ ثُمَّ اَیٌّ قَالَ اَنْ تَقْتُلَ وَلَدَکَ خَشْےَۃَ اَنْ یَّطْعَمَ مَعَکَ قَالَ ثُمَّ اَیٌّ قَالَ اَنْ تُزَانِیَ حَلِےْلَۃَ جَارِکَ فَاَنْزَلَ اللّٰہُ تَعَالٰی تَصْدِےْقَھَا (وَالَّذِےْنَ لَا ےَدْعُوْنَ مَعَ اللّٰہِ اِلٰھًا اٰخَرَ وَلَا ےَقْتُلُوْنَ النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّٰہُ اِلَّا بِاْلحَقِّ وَلَا ےَزْنُوْنَ۔۔ الایۃ) (پ ١٩: ع ٤) (رواہ البخاری : کتاب الدیات) حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) فرماتے ہیں ایک شخص رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کرتا ہے کہ اللہ کے نزدیک سب سے بڑا گناہ کون سا ہے؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تو اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرائے حالانکہ اس نے تجھے پیدا کیا ہے۔ اس نے پوچھا اسکے بعد کونسا بڑا گناہ ہے؟ فرمایا تو اپنی اولاد کو اس لئے قتل کرے کہ وہ تیرے ساتھ کھائے پیے گی وہ پھر پوچھتا ہے۔ اسکے بعد کونسا؟ فرمایا ؛ تو اپنے پڑوسی کی بیوی کے ساتھ بدکاری کرے۔ اللہ تعالیٰ نے اسکی تصدیق میں فرمایا ” مومن وہ ہیں جو اللہ کے ساتھ کسی کو نہیں پکارتے نہ وہ ناجائز کسی کو قتل کرتے ہیں اور نہ ہی وہ بدکاری کرتے ہیں۔“ (عَنْ عُبَادَۃَ بْنِ الصَّامِتِ (رض) قَالَ قَالَ رَسُول اللّٰہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خُذُوا عَنِّی خُذُوا عَنِّی قَدْ جَعَلَ اللہُ لَہُنَّ سَبِیلًا الْبِکْرُ بالْبِکْرِ جَلْدُ ماءَۃٍ وَنَفْیُ سَنَۃٍ وَالثَّیِّبُ بالثَّیِّبِ جَلْدُ ماءَۃٍ، وَالرَّجْم) (صحیح مسلم : بَابُ حَدِّ الزِّنَی) ” حضرت عبادہ بن صامت (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : مجھ سے سیکھ لو اللہ تعالیٰ نے عورتوں اور مردوں کے لیے اصول بنائے ہے اگر کنوار مرد کنواری عورت سے زنا کرے تو اسے سو کوڑے مارو اور ایک سال کے لیے جلا وطن کر دو اور اگر شادی شدہ مرد شادی شدہ عورت سے زنا کرے تو اسے سو کوڑے مارو اور رجم کر دو۔“ مسائل ١۔ اللہ کے عذاب سے بے خوف نہیں ہونا چاہیے۔ ٢۔ لونڈیوں کے ساتھ ازواجی تعلقات قائم کرنا جائز ہے۔ ٣۔ ہر مسلمان مرد اور عورت کو اپنی شرمگاہ کی حفاظت کرنی چاہیے۔ ٤۔ اللہ کی مقرر کردہ حدود سے آ گے بڑھنا ان سے تجاوز کرنا ہے۔ تفسیربالقرآن بدکاری کا گناہ اور اس کی سزا : ١۔ تہمت لگانے والے کی سزا۔ (النور : ٤) ٢۔ کنوارے زانی مرد وزن کو سو کوڑے مارنے کا حکم۔ (النور : ٢) المعارج
30 المعارج
31 المعارج
32 فہم القرآن ربط کلام : جہنم سے بچنے والوں کے مزید اوصاف کا تذکرہ۔ اللہ تعالیٰ جن لوگوں کو جہنم کی بھڑکتی ہوئی آگ سے بچائے گا اور انہیں جنت میں داخل فرمائے گا ان میں مذکورہ بالا اوصاف کے ساتھ یہ وصف بھی پائیں جائیں گے کہ وہ اپنی امانتوں اور وعدوں کی پاسداری کرنے والے ہوں گے، وہ شہادتِ حق پر قائم رہتے ہیں اور اپنی نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں، انہیں جنت میں عزت واحترام کے ساتھ رکھا جائے گا۔ اس مقام پر اللہ تعالیٰ نے مفصل مضامین کو چند الفاظ میں بیان فرمایا ہے۔ جنتی لوگ دنیا میں اپنی امانتوں کی حفاظت کرنے والے ہوتے ہیں : مومنوں کے اوصاف میں یہ صفت بھی شامل ہوتی ہے کہ وہ امانت کی حفاظت اور عہد کی پاسداری کرتے ہیں۔ امانت سے مراد صرف سونا چاندی اور کرنسی کی حفاظت نہیں بلکہ اس سے مراد ہر قسم کی امانت ہے۔ بے شک وہ کسی منصب کے حوالے سے عائد ہونے والی ذمہ داری ہو۔ سرور دو عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے امانت کے تصور کو وسعت دیتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ باضابطہ مجالس میں ہونے والی گفتگو بھی امانت ہوتی ہے۔ جس طرح ہر قسم کی امانت کا خیال رکھنا فرض اور مومن کی صفت ہے اسی طرح جائز کاموں پر کیے گئے عہد کی ذمہ داری بھی پوری کرنی چاہیے۔ عہد سے پہلی مراد عقیدہ توحید کے حوالے سے کیا ہوا وہ عہد ہے جو ہر انسان نے عالم ارواح میں اپنے رب کے ساتھ کیا تھا (الاعراف : ١٧٢) اس کے ساتھ وہ عہد وقیود بھی شامل ہیں جو ایک انسان دوسرے کے ساتھ اور ایک قوم دوسری قوم کے ساتھ کرتی ہے۔ لوگوں کے ساتھ کیے ہوئے عہد کی پاسداری کرنے سے مسلمان کو نہ صرف آخرت میں اجر ملے گا بلکہ دنیا میں بھی اچھی شہرت اور لوگوں کا اعتماد حاصل ہوتا ہے جس سے سیاست، تجارت اور معاملات میں فائدہ پہنچتا ہے۔ (عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّہِ (رض) قَالَ قَالَ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) الْمَجَالِسُ بالأَمَانَۃِ إِلاَّ ثَلاَثَۃَ مَجَالِسَ سَفْکُ دَمٍ حَرَامٍ أَوْ فَرْجٌ حَرَامٌ أَوِ اقْتِطَاعُ مَالٍ بِغَیْرِ حَقٍّ) (رواہ ابو داؤد : باب فِی نَقْلِ الْحَدِیثِ، قال الالبانی ھٰذا حدیث صحیح) ” حضرت جابر بن عبداللہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : مجالس امانت ہوا کرتی ہیں۔ مگر تین قسم کی مجالس امانت نہیں ہوا کرتیں ایک وہ جس میں کسی کا ناحق خون بہایا جائے، جس میں زنا کیا جائے اور وہ جس میں کسی کا مال ناحق کھایا جائے۔“ جنتی شہادتِ حق پر قائم رہنے والے ہوں گے : (عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ (رض) قَالَ ذَکَرَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) الْکَبَآءِرَ فَقَال الشِّرْکُ باللّٰہِ وَقَتْلُ النَّفْسِ وَعُقُوْقُ الْوَالِدَیْنِ فَقَالَ أَلَآ أُنَبِّءُکُمْ بِأَکْبَرِ الْکَبَاءِرِ قَالَ شَھَادَۃُ الزُّوْرِ) (رواہ البخاری : کتاب الأدب، باب عقوق الوالدین من الکبائر) ” حضرت انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کبیرہ گناہوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا : ” بڑے گناہ یہ ہیں : اللہ کے ساتھ شرک کرنا، ناحق خون کرنا، والدین کی نافرمانی کرنا۔“ پھر فرمایا : کیا میں تمہیں بڑے گناہ سے آگاہ نہ کروں؟ وہ جھوٹی گواہی دینا ہے۔“ مسائل ١۔ ایماندار لوگ امانتوں کی حفاظت کیا کرتے ہیں۔ ٢۔ نیک لوگ اپنے عہد کی پاسداری کرتے ہیں۔ ٣۔ نیک لوگ شہادتِ حق پر قائم رہتے ہیں۔ ٤۔ ایماندار لوگ ہر طرح اپنی نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں۔ ٥۔ جنتی جنت میں بڑے احترام و اکرام کے ساتھ رہیں گے۔ تفسیر بالقرآن جنتی کے انعام واکرام : ١۔ ہم نے اس میں کھجوروں، انگوروں کے باغ بنائے ہیں اور ان میں چشمے جاری کیے ہیں۔ (یٰس : ٣٤) ٣۔ یقیناً متقین باغات اور چشموں میں ہوں گے۔ (الذاریات : ١٥) ٤۔ یقیناً متقی نعمتوں والی جنت میں ہوں گے۔ (الطور : ١٧) ٥۔ جنت میں سونے اور لولو کے زیور پہنائے جائیں گے۔ (فاطر : ٣٣) ٦۔ جنت میں تمام پھل دو، دو قسم کے ہوں گے۔ (الرحمن : ٥٢) ٧۔ جنتی سبز قالینوں اور مسندوں پر تکیہ لگا کر بیٹھے ہوں گے۔ (الرحمن : ٧٦) ٨۔ جنتی کو شراب طہور دی جائے گی۔ (الدھر : ٢١) ٩۔ جنتی کو ملائکہ ہر مقام پر سلام عرض کریں گے۔ (الزمر : ٧٣) المعارج
33 المعارج
34 المعارج
35 المعارج
36 فہم القرآن ربط کلام : ایمانداروں کو جنت کی خوشخبری سنانے پرکفار کا رد عمل۔ مکی دور میں اسلام کے مخالفوں کا یہ خیال بلکہ یقین تھا کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت قبولیت عامہ نہیں پاسکے گی۔ اسی بنا پر اسلام اور مسلمانوں کو اپنے سے حقیر جانتے اور ان الفاظ کے ساتھ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مسلمانوں کو مذاق کیا کرتے تھے۔ ” جب یہ لوگ آپ کو دیکھتے ہیں تو آپ کا مذاق اڑاتے ہیں ہاں یہ شخص ہے جسے ” اللہ“ نے رسول بنا کربھیجا ہے ؟“ (الفرقان : ٤١) (وَ کَذٰلِکَ فَتَنَّا بَعْضَہُمْ بِبَعْضٍ لِّیَقُوْلُوْٓا اَہٰٓؤُلَآءِ مَنَّ اللّٰہُ عَلَیْہِمْ مِّنْ بَیْنِنَا اَلَیْسَ اللّٰہُ بِاَعْلَمَ بالشّٰکِرِیْنَ) (الانعام : ٥٣) ” اور اسی طرح ہم نے ان کے بعض کو دوسرے کے ساتھ آزمائش میں ڈالا تاکہ وہ کہیں کیا یہی لوگ ہیں جن پر اللہ نے ہم میں سے احسان فرمایا ہے ؟ کیا اللہ شکر کرنے والوں کو زیادہ جاننے والا نہیں؟“ اس کسم پرسی کے دور میں مسلمانوں کو یہ بشارت دی گئی کہ جن میں یہ اوصاف پائے جائیں گے وہ جنت میں عزت و اکرام کے ساتھ رکھے جائیں گے۔ جونہی یہ خوشخبری نازل ہوئی تو کفار کی حالت یہ تھی کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف دوڑتے ہوئے آئے اور آپ کے دائیں بائیں جمع ہو کر اس بات کا دعویٰ کرنے لگے کہ ہم مسلمانوں سے دنیا میں بہتر ہیں اور آخرت میں بھی بہتر ہوں گے اور جنت میں ضرور داخل ہوں گے۔ کفار کے دعوے کی تردید کرتے ہوئے فرمایا کہ ایسا ہرگز نہیں ہوگا کہ وہ جنت میں داخل ہوں، بے شک ان میں سے ہر شخص یہ چاہتا اور دعویٰ کرتا ہے کہ وہ جنت میں داخل ہوگا۔ مشرقوں اور مغربوں کے رب کی قسم! ہم اس بات پر طاقت رکھتے ہیں کہ انہیں تہس نہس کرکے ان کی جگہ دوسرے لوگ لے آئیں اور یہ کسی صورت بھی ہمیں عاجز نہیں کرسکتے۔ اللہ تعالیٰ نے اس مقام پر مشرقوں اور مغربوں کا نام لے کر اپنے رب ہونے کی قسم کھائی ہے۔ سورۃ المزمل میں ایک مشرق اور ایک مغرب کا ذکر ہے۔ ( المزمل : ٩) سورۃ الرّحمن میں میں دو مشرقوں اور دو مغربوں کابیان ہے اور یہاں کئی مشرقوں اور کئی مغربوں کی قسم اٹھائی گئی ہے۔ سورۃ الرّحمن میں یہ وضاحت کی گئی ہے کہ سورج نہ ہر روز ایک مقام سے طلوع ہوتا اور نہ ایک مقام پر غروب ہوتا ہے بلکہ ہر روز سورج کے طلوع اور غروب ہونے کے مقام تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ (الرحمن : ١٧) اس حساب سے دو مشرق اور دو مغرب نہیں بنتے بلکہ کئی مشرق اور کئی مغرب بنتے ہیں اس لیے یہاں کئی مشرقوں اور کئی مغربوں کی قسم اٹھائی گئی ہے۔ مسائل ١۔ کفار دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ جنت میں داخل ہوں گے حالانکہ ایسا ہرگز نہیں ہوگا۔ ٢۔ مشرقوں اور مغربوں کا رب اس بات پر قادر ہے کہ کفار کو ختم کرکے ان کی جگہ اور لوگ لے آئے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ ہر کام کرنے پر قادر ہے اسے کوئی بے بس اور عاجز نہیں کرسکتا۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے : ١۔ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے (البقرۃ: ٢٠) ٢۔ اللہ آسمانوں وزمین کی ہر چیز کو جانتا ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ (آل عمراٰن : ٢٩) ٣۔ تم جہاں کہیں بھی ہوگے اللہ تمہیں قیامت کے دن جمع فرمائے گا وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ (البقرۃ: ١٤٨) ٤۔ اللہ تعالیٰ جسے چاہے عذاب دے جسے چاہے معاف کردے وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ (البقرۃ: ٢٨٤) المعارج
37 المعارج
38 المعارج
39 المعارج
40 المعارج
41 المعارج
42 المعارج
43 فہم القرآن ربط کلام : کفار اور نافرمان لوگ حقیقت تسلیم نہیں کرتے تو انہیں ان کے حال پر چھوڑ دینا چاہیے۔ نبی مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) انتہائی ہمدردی درد مندی کے ساتھ کفار کو اللہ کی توحید اور اس کے دین کی طرف دعوت دیتے لیکن وہ آپ کے قریب آنے اور آپ کی دعوت قبول کرنے کی بجائے آپ پر مختلف قسم کے الزامات لگاتے اور آپ سے نفرت کا اظہار کرتے تھے۔ جس پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ارشاد ہوا کہ آپ ان کو ان کے حال پر چھوڑ دیں تاکہ یہ دنیاوی مشاغل میں لگے رہیں۔ یہاں تک کہ انہیں موت آلے یہ اس دن اپنے رب کے حضور پیش ہوں جس دن کا ان کے ساتھ وعدہ کیا جاتا ہے۔ یہ لوگ آج آپ کی دعوت سن کر دور بھاگتے ہیں لیکن جس دن صور پھونکا جائے گا تو یہ اس کی آواز پر اپنی اپنی قبروں سے نکل کر دوڑتے ہوئے اس طرح پہنچیں گے جس طرح وہ اپنے بتوں کی طرف دوڑ رہے ہوں۔ آج یہ نفرت اور حقارت کی بنا پر آپ کو آنکھیں پھاڑ پھا ڑکردیکھتے ہیں لیکن اس دن ذلّت اور خوف کی وجہ سے ان کی آنکھیں جھکی ہوں گی اور کہنے والا کہے گا یہ وہی دن ہے جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا اور تم اس کو جھٹلایا کرتے تھے۔ دوسرے نفخہ کے بعد لوگ قبروں سے نکل کر محشر کے میدان کی طرف اس طرح جائیں گے جیسے شکاری شکار کی طرف دوڑتا ہے یا مشرک اپنے بتوں اور درباروں کی طرف جاتے ہیں۔ اللہ کے باغی قبروں سے نکلتے ہی واویلا کریں گے، ہائے افسوس ! ہمیں کس نے قبروں سے نکال باہر کیا ہے۔ قیامت کی ہولناکیوں اور محشر کے میدان میں اکٹھے کیے جانے کا حال دیکھ کر انہیں یقین ہوجائے گا کہ یہی قیامت کا دن ہے جس کا ہمارے ساتھ ربِّ رحمن نے وعدہ کیا تھا اور جس کی پیغمبریاد دہانی کروایا کرتے تھے۔ جس قیامت کے بارے میں یہ لوگ جھگڑتے اور کہتے ہیں کہ یہ کبھی نہیں آئے گی وہ تو اسرافیل کی ایک پھونک کا نتیجہ ہوگی۔ اللہ تعالیٰ کے حکم سے جوں ہی اسرافیل صور میں پھونک ماریں گے تو زمین میں شدید ترین زلزلے ہوں گے یہاں تک کہ زمین جگہ جگہ سے پھٹ جائے گی اور ہر کوئی اپنے اپنے مدفن سے نکل کھڑا ہوگا اور سب کے سب ربِّ ذوالجلال کے حضور حاضر ہوجائیں گے، لوگ پسینے سے شرابور ہوں گے اور اس طرح حواس باختہ ہوں گے جیسے انہوں نے نشہ کیا ہوا ہو۔ یہ حالت ان کی نشہ کی وجہ سے نہیں بلکہ محشر کی سختی اور ربِّ ذوالجلال کے جلال کی وجہ سے ہوگی۔ (الحج : ٢) اس موقع پر اعلان ہوگا کہ آج کسی پر رائی کے دانے کے برابر ظلم نہیں ہوپائے گا۔ (یٰس : ٥٤) (عَنْ عَاءِشَۃَ (رض) قَالَتْ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَقُوْلُ یُحْشَرُالنَّا سُ یَوْمَ الْقِیاَمَۃِ حُفَاۃً عُرَاۃً غُرْلًا قُلْتُ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ اَلرِّجَالُ وَالنِّسَاءُ جَمِیْعًا یَنْظُرُ بَعْضُھُمْ اِلٰی بَعْضٍ فَقَالَ یَا عَاءِشَۃُ اَلْاَمْرُ اَشَدُّ مِنْ اَنْ یَّنْظُرَ بَعْضُھُمْ اِلٰی بَعْضٍ) (رواہ البخاری : باب کَیْفَ الْحَشْر) ” حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ میں نے رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ لوگ قیامت کے دن ننگے پاؤں، ننگے بدن اور بلا ختنہ اٹھائے جائیں گے۔ میں نے کہا اے اللہ کے رسول کیا مرد اور عورتیں اکٹھے ہوں گے وہ ایک دوسرے کی طرف نہیں دیکھیں گے؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اس دن معاملہ اس کے برعکس ہوگا یعنی کوئی ایک دوسرے کی طرف نہیں دیکھ سکے۔“ مسائل ١۔ اللہ کی توحید کا انکار اور حق سے انحراف کرنے والے کو بالآخر انہی کی حالت پر چھوڑ دینا چاہیے۔ ٢۔ جو لوگ اللہ کی توحید اور اس کے دین کا انکار کرتے ہیں قیامت کے دن وہ صور کی آواز پر دوڑتے ہوئے جمع ہوجائیں گے۔ ٣۔ اللہ کی توحید اور اس کے دین کا انکار کرنے والوں کی آنکھیں ذلت اور خوف کی وجہ سے جھکی ہوں گی۔ ٤۔ قیامت کا وعدہ سچا ہے جو ہر صورت پورا ہو کر رہے گا۔ تفسیر بالقرآن قیامت کے دن لوگوں کا محشر میں اکٹھا ہونا : ١۔ یقیناً قیامت کے دن اللہ تمھیں جمع کرے گا جس میں کوئی شک نہیں۔ (الانعام : ١٢) ٢۔ آپ فرما دیں تمھارے پہلے اور آخر والے کو ضرور اکٹھا کیا جائے گا۔ (الواقعہ : ٤٧ تا ٥٠) ٣۔ پھر ہم تمھیں تمھاری موت کے بعد اٹھائیں گے۔ (البقرۃ: ٥٦) ٤۔ جس دن اللہ رسولوں کو جمع کرے گا۔ (المائدۃ: ١٠٩) ٥۔ جس دن تم سب کو جمع ہونے والے دن اللہ جمع کرے گا۔ (التغابن : ٩) ٦۔ یہ فیصلہ کا دن ہے ہم نے تمھیں بھی جمع کردیا ہے اور پہلوں کو بھی۔ (المرسلات : ٣٨) المعارج
44 المعارج
0 سورۃ نوح کا تعارف یہ سورت اسم بامسمّہ ہے کیونکہ اس میں حضرت نوح (علیہ السلام) کی دعوت اور اس کے ردّ عمل کا خلاصہ بیان کیا گیا ہے حضرت نوح (علیہ السلام) کا نام اس سورت میں دو مرتبہ آیا ہے۔ یہ سورت مکہ معظمہ میں نازل ہوئی اس کی اٹھائیس آیات ہیں جو دو رکوع پر مشتمل ہیں۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کی دعوت کا دورانیہ ان کے بعد آنے والے تمام انبیاء کرام سے طویل ہے۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے ساڑھے نو سو سال اپنی قوم کو ” اللہ“ کی توحید اور اس کی عبادت کرنے کی دعوت دی اور سمجھایا کہ اے میری قوم اپنے رب کے حضور اپنے گناہوں کی معافی مانگو بے شک وہ توبہ قبول کرنے اور گناہوں کو معاف فرمانے والا ہے۔ توبہ استغفار کے بدلے وہ تمھیں بیٹے دے گا بروقت بارش نازل فرمائے گا اور تمہارے علاقے کو گلشن و گلزار بنا دے گا۔ لیکن قوم نے ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے نہ صرف اپنے کانوں میں انگلیاں ڈال لیں اور اپنے چہروں کو چھپا لیا بلکہ انہوں نے کھلے لفظوں میں کہا کہ اے نوح ہم اپنے معبودوں بالخصوص ودّ، یغوث، یعوق، سواعا اور نسر کو ہرگز نہیں چھوڑئیں گے۔ اگر تو اپنی دعوت میں سچا ہے تو ہم پر عذاب نازل کر دے۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے انہیں بار بار سمجھایا کہ عذاب کا مطالبہ کرنے کی بجائے شرک سے توبہ کرو اور اپنے گناہوں کی معافی مانگو، اللہ تعالیٰ تمہارے گناہوں کو معاف فرما کر اپنی نعمتوں سے تمہیں نوازے گا۔ لیکن قوم نے حضرت نوح (علیہ السلام) کو کہا کہ اگر آپ اپنی دعوت سے باز نہ آئے تو ہم تجھے سنگسار کردیں گے۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے اس صورت حال میں بے حد مجبور ہو کر فریاد کی کہ اے میرے رب میری قوم نے یکسر طور پر مجھے مسترد کردیا ہے اور جو بھی ان کی نسل سے پیدا ہوگا وہ فاسق اور فاجر ہی پیدا ہوگا۔ اس لیے میری تیرے حضور فریاد ہے کہ اب اس قوم کو تباہ و برباد کر دے اے بار الٰہا جب تیرا عذاب نازل ہو تو مجھے اور میرے والدین اور جو بھی مومن مرد اور عورت میرے گھر میں داخل ہو اسے محفوظ فرما۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کی بدعا کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے اس قوم پر بارشوں کا ایسا سلسلہ شروع کیا کہ پانی پہاڑوں کی چوٹیوں سے اوپر بہنے لگا سورۃ القمر میں ارشاد ہوا کہ ہم نے آسمان کے دروازے کھول دئیے اور جگہ جگہ زمین میں چشمے جاری ہوگئے۔ جس کے نتیجے میں قوم نوح غرق ہوئی اور اسے عبرت کا نشان بنا دیا گیا۔ نوح
1 فہم القرآن ربط سورت : سورۃ المعارج کے آخر میں یہ ارشاد ہوا ہے کہ اللہ تعالیٰ چاہے تو برے لوگوں کو ختم کر کے نیک لوگ لے آئے۔ سورۃ نوح میں اس کا عملی ثبوت دیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قوم نوح کو کس طرح ہلاک کیا اور نیک لوگوں کو آباد فرمایا اور انہیں ترقی دی۔ اس لیے المعارج کے بعد سورۃ نوح کو رکھا گیا ہے۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کا نسب نامہ اس طرح ہے نوح (علیہ السلام) بن لامک بن متوشلخ بن خنوخ ( ادریس (علیہ السلام) بن یرد بن مھلا ییل بن قینن بن انوش بن شیث بن آدم (علیہ السلام)۔ حضرت ابو امامہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کی کہ آدم (علیہ السلام) نبی تھے؟ آپ نے فرمایا ہاں ! ان سے اللہ تعالیٰ نے کلام کیا۔ پھر اس نے سوال کیا کہ آدم (علیہ السلام) اور نوح (علیہ السلام) کے درمیان کتنی مدت ہے آپ نے فرمایا دس قرن (صحیح ابن حبان) قرن سے مراد اہل علم نے ایک نسل یا ایک صدی لی ہے ایک صدی یعنی سو سال نہیں ہو سکتے کیونکہ حضرت آدم اور نوح (علیہ السلام) کے درمیانئی نسلیں گزری ہیں لہٰذا نسل مراد لی جائے تو آدم (علیہ السلام) کی وفات اور نوح (علیہ السلام) کی پیدائش کے درمیان ہزاروں سال کی مدت بنتی ہے۔ کیونکہ پہلے لوگوں کی عمر صدیوں پر محیط ہوا کرتی تھی جس بنا پر حضرت آدم اور حضرت نوح (علیہ السلام) کے درمیان ہزاروں سال کا وقفہ ثابت ہوتا ہے، بہر حال اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح (علیہ السلام) کو اس وقت نبوت سے سرفراز فرمایا جب ان کی قوم کے لوگ مجسموں کے پجاری بن چکے تھے۔ نوح
2 نوح
3 فہم القرآن ربط کلام : نوح (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو بار بار سمجھایا کہ اے میری قوم شرک اور اللہ کی نافرمانی سے تائب ہو کر اللہ کی بندگی کرو اور میری اطاعت کرتے رہو اللہ تعالیٰ اس کے بدلے تمہارے گناہ معاف فرمائے گا اور تمہیں عافیت کی زندگی عطا کرے گا۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو اللہ کی عبادت کی دعوت دیتے ہوئے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہوئے اور ہر قسم کے شرک سے باز آؤ اور میری اطاعت قبول کرو۔ اس کے بدلے اللہ تعالیٰ تمہارے گناہ معاف کردے گا اور تمہیں وقت مقررہ تک مہلت دے گا۔ وقت مقرر سے مراد ہر انسان کی موت ہے اگر اس سے مراد کسی قوم یا برادری اور جماعت کا مقرر وقت سمجھا جائے تو اس سے مراد اس کا وہ دور ہے جس میں وہ دوسری برادری یا قوم پر حکومت کرتی ہے وہ دور خیر وعافیت اور عزت واقبال کے ساتھ گزرتا ہے۔ عبادت کا مفہوم جاننے کے لیے سورۃ الذاریات آیت ٥٦ کی تفسیر ملاحظہ فرمائیں! یاد رکھو! کہ جب اللہ تعالیٰ کا مقرر کیا ہوا وقت یعنی اس کا عذاب آتا ہے تو پھر اس میں تاخیر نہیں کی جاتی۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے ساڑھے نو سو سال اپنی قوم کو رات اور دن، صبح اور شام، انفرادی اور اجتماعی، خفیہ اور اعلانیہ سمجھایا مگر وہ لوگ آپ کی دعوت پر غور کرنے کی بجائے اپنے کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیتے اور اپنے چہروں کو کپڑوں سے چھپا لیا کرتے تھے، وہ کفر و شرک پر اڑ گئے اور انہوں نے تکبر کرنے کی انتہاکردی۔ (عَنْ أَبِی عُبَیْدَۃَ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ عَنْ أَبِیہِ قَالَ قَالَ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) التَّاءِبُ مِنْ الذَّنْبِ کَمَنْ لَا ذَنْبَ لَہُ) (رواہ ابن ماجۃ : باب ذکر التوبۃ) ” حضرت ابو عبیدہ بن عبداللہ اپنے والد سے بیان کرتے ہیں کہ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا گناہوں سے توبہ کرنے والا اسی طرح ہے جیسے اس نے گناہ کیا ہی نہ ہو۔“ مسائل ١۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو اللہ کی عبادت کرنے کی تلقین کی اور فرمایا کہ اللہ سے ڈر کر کفر و شرک چھوڑ دو۔ ٢۔ حضرت نوح (علیہ السلام) اللہ کے پیغمبر تھے اس لیے انہوں نے اپنی قوم سے فرمایا کہ میری اطاعت کرو۔ ٣۔ نوح (علیہ السلام) نے قوم کو سمجھایا کہ اللہ کی عبادت کرنے اور میری اطاعت کرنے پر اللہ تعالیٰ اپنے عذاب کو ٹال دے گا۔ ٤۔ نوح (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو دن اور رات انفرادی اور اجتماعی اعلانیہ اور خفیہ طور پر دعوت دی مگر انہوں نے اپنے چہروں کو چھپا لیا اور اپنے کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیں۔ ٥۔ قوم نے نوح (علیہ السلام) کے خلاف بڑی سازشیں اور تکبر کا مظاہرہ کیا۔ تفسیر بالقرآن حضرت نوح (علیہ السلام) کی عظیم اور طویل جدوجہد کی ایک جھلک : ١۔ حضرت نوح نے اپنی قوم کو ایک اللہ کی عبادت کی دعوت دی اور فرمایا کہ شیاطین کی عبادت نہ کرو۔ (المومنون : ٢٣) ٢۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے فرمایا کہ میں تم سے کچھ نہیں مانگتا میرا اجر اللہ رب العالمین کے ذمہ ہے۔ (الشعراء : ١٠٩) ٣۔ حضرت نوح نے فرمایا میں تم سے اس تبلیغ پر کوئی معاوضہ نہیں مانگتا۔ (ہود : ٢٩) (ھود : ٣٥) (ہود : ٣١) (یونس : ٧١) نوح
4 نوح
5 نوح
6 نوح
7 نوح
8 نوح
9 نوح
10 فہم القرآن ربط کلام : حضرت نوح (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈراتے ہوئے اس کے حضور توبہ استغفار کرنے کا حکم دیا، اور اس کے دنیا اور آخرت کے فائدے بتلائے۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے توحید و رسالت کی دعوت دیتے ہوئے فرمایا کہ اے میری قوم کے لوگو! اللہ سے ڈر جاؤ! اس سے ڈرنے کا حقیقی تقاضا یہ ہے کہ انسان اپنے گناہوں سے توبہ کرے یعنی آئندہ گناہ کرنے سے رک جائے۔ قوم نوح کا سب سے بڑا گناہ ” اللہ“ کے ساتھ شرک کرنا تھا، جس سے حضرت نوح (علیہ السلام) نے انہیں بار بار منع کیا۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو استغفار کا فائدہ بتلاتے ہوئے فرمایا کہ تمہارے استغفار کرنے پر تمہارا رب تمہارے سابقہ گناہوں کو معاف فرمادے گا، دنیا میں اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ تمہاری ضرورت کے مطابق بارش برسائے گا، تمہیں مال دے گا، بیٹے عطا فرمائے گا اور تمہیں باغ باغیچے دے گا، ان میں نہریں جاری ہوں گی ان باغات سے مراد جنت کے باغات بھی ہیں اور دنیا کے باغات بھی۔ امیر المومنین سیدنا حضرت عمر فاروق (رض) کے زمانے میں بارش ہوئے ایک عرصہ گزر چکا تھا۔ لوگوں نے آپ سے درخواست کی کہ بارش کے لیے دعا کریں۔ امیر المومنین ہاتھ اٹھا کر بارش مانگنے کی بجائے بار بار توبہ استغفار کرتے رہے کسی نے عرض کی کہ آپ نے بارش کی دعا کی ہی نہیں۔ فرمایا آپ نے قرآن نہیں پڑھا سورۃ نوح (علیہ السلام) میں اللہ تعالیٰ نے توبہ استغفار کے بدلے بارش کا وعدہ فرمایا ہے۔ (إِسْتَغفِرُوْا رَبَّکُمْ إِنَّہٗ کَانَ غَفَّارًا۔ ےُرْسِلِ السَّمَاءَ عَلَےْکُمْ مِدْرَارًا۔) (نوح : ١٠، ١١) ” اپنے رب سے معافی مانگو بے شک وہ بڑا معاف کرنے والاہے۔ وہ تم پر آسمان سے خوب بارش بر سائے گا۔“ تاریخ کی نامور شخصیت مشہور ترین تابعی حضرت حسن بصری (رح) جن کی والدہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زوجہ مکرمہ حضرت ام سلمہ (رض) کی خادمہ تھیں۔ اس لیے حسن بصری (رض) کو بچپن میں حضرت ام سلمہ (رض) کی رضاعت کی سعادت حاصل ہے حسن بصری (رض) بلوغت تک نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے گھر میں حضرت اُمّ سلمہ (رض) کی تربیت میں رہے۔ ان کے پاس یکے بعد دیگرے تین آدمی حاضر ہوئے ایک نے نرینہ اولاد، دوسرے نے غربت وافلاس کی شکایت کی اور تیسرا بارش کی دعا کروانے کے لیے حاضر ہوا۔ آپ نے تینوں حضرات کو کثرت کے ساتھ توبہ استغفار کرنے کا حکم فرمایا۔ بعد ازاں ان کے ایک عزیز نے پوچھا کہ آپ نے مختلف حاجات اور مشکلات کے حل کے لیے صرف ایک ہی وظیفہ بتایا ہے حضرت بصری (رض) نے مندرجہ بالا آیات تلاوت کی۔ ” حضرت ابو سعید خدری (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بنی اسرائیل میں ایک شخص نے ننانوے قتل کیے پھر وہ توبہ کے لیے کسی راہب کے پاس گیا، اس نے کہا کہ تیری توبہ کسی صورت قبول نہیں ہو سکتی، اس نے طیش میں آکر راہب کو بھی قتل کردیا، اس کے بعد وہ کسی دوسرے عالم دین کے پاس گیا۔ اس نے کہا کہ آپ کی توبہ قبول ہو سکتی ہے (لیکن آپ کو توبہ پر قائم رہنے کے لیے) اپنا علاقہ چھوڑدینا چاہیے وہ اپنے گھر سے نکل کھڑا ہوا، راستے میں اس کو موت نے آلیا، وہ منہ کے بل نیچے گرا، اس صورت حال میں رحمت اور عذاب کے فرشتوں میں سے ہر کوئی اس کی روح کو اپنی طرف لے جانے کے لیے تکرار کررہا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے منزل مقصود والے حصے کو حکم دیا کہ وہ سکڑجائے، جب ملائکہ نے دونوں طرف سے زمین کی پیمائش کی تو وہ اپنی منزل کی جانب صرف ایک بالشت قریب تھا، اس طرح دوزخ کے فرشتے ناکام ہوئے اور وہ اللہ کی جنت میں داخل ہوگیا۔“ (رواہ البخاری : باب التوبۃ والإستعفار) مسائل ١۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو استغفار کرنے کا حکم دیا۔ ٢۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو بتلایا کہ استغفار کے بدلے اللہ تعالیٰ بروقت بارشیں نازل فرمائے گا۔ ٣۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے یہ بھی فرمایا کہ استغفار کی برکت سے اللہ تعالیٰ تمہیں مال، اولاد اور بیٹے عطا فرمائے گا۔ تفسیر بالقرآن توبہ و استغفا کا حکم اور اس کے فائدے : ١۔ توبہ کرنا مومن کا شیوہ ہے۔ (التوبہ : ١١٢) ٢۔ توبہ کرنے والوں سے اللہ تعالیٰ محبت کرتا ہے۔ (البقرۃ: ٢٢٢) ٣۔ توبہ قبول کرنا اللہ تعالیٰ کی صفت ہے۔ (البقرۃ: ١٦٠) ٤۔ توبہ کرنے والے کا میاب ہوں گے۔ (القصص : ٦٧) ٥۔ توبہ کرنے والوں کے لیے فرشتے مغفرت کی دعا کرتے ہیں۔ (المؤمن : ٧ تا ٩) ٦۔ توبہ کرنے والے کے گناہ نیکیوں میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔ (الفرقان : ٧٠) نوح
11 نوح
12 نوح
13 فہم القرآن ربط کلام : حضرت نوح (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو اللہ تعالیٰ کا تعارف ان الفاظ میں کروایا۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے ساڑھے نو سو سال اپنی قوم کو جو تبلیغ فرمائی اس کا خلاصہ اس سورت میں ذکر کیا گیا ہے۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کی تبلیغ کا مرکزی نقطہ اللہ کی توحید کی دعوت دینا اور لوگوں کو شرک سے منع کرنا تھا۔ توحید کی دعوت دیتے ہوئے انہوں نے ایسے دلائل دیئے کہ جن سے انکار کرنا کسی مشرک اور کافر کے بس کی بات نہیں لیکن اس کے با وجود کفار اور مشرکین نے ان کی دعوت کو مسترد کردیا۔ جس پر حضرت نوح (علیہ السلام) نے انہیں تنبیہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اے میری قوم کے لوگو! تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کے وقار اور جلال کا احترام نہیں کرتے۔ اللہ تعالیٰ کے وقار کا تقاضا ہے کہ تم بتوں اور دیگر چیزوں کی عبادت چھوڑ کر صرف ایک اللہ کی عبادت کرو۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کی ساڑھے نو سو سال کی محنت کے باوجود وہ لوگ شرک سے باز نہ آئے۔ یہی ہر دور کے مشرک کا وطیرہ رہا ہے کہ جو احترام اور آداب صرف اللہ تعالیٰ کے لیے ہونے چاہئیں مشرک دوسروں کو دیتے ہیں اور ان کے سامنے جھکتے ہیں۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو مختلف حالتوں سے گزار کر اشرف المخلوق بنایا ہے۔ اے لوگو! اللہ تعالیٰ کا وقار اور جلال جاننا چاہتے ہو تو غور کرو! کہ اس نے کس طرح تہہ بہ تہہ سات آسمان پیدا کیے، اسی نے چاند کو منور کیا اور سورج کو چمکتا ہوا بنایا۔ اسی نے تمہیں زمین سے پیدا کیا، پھر اسی میں تمہیں لوٹائے گا اور پھر اسی سے تمہیں دوبارہ پیدا کرے گا۔ اسی ذات نے زمین کو فرش بنایا اور پھر زمین میں کشادہ راستے بنائے تاکہ تم ایک جگہ سے دوسری جگہ جاسکو۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے بڑے سادہ اور ٹھوس دلائل کے ساتھ اپنی قوم کو ” اللہ“ کی توحید اور اس کی بندگی کرنے کی دعوت دی، مگر قوم نے اپنے کانوں میں انگلیاں ڈل لیں اور اپنے چہروں کو ان سے چھپا لیا۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے اللہ کی توحید کے وہ دلائل دیئے جن کی تفصیل کے لیے ہر نبی کی شریعت اور قرآن مجید میں درجنوں دلائل موجود ہیں مگر ہر دور کا مشرک ان دلائل کو ماننے کے باوجود اللہ کی ذات اور اس کی صفات کو اس طرح ماننے کے لیے تیار نہیں ہوتا جس طرح اس نے ماننے کا مطالبہ کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی ذات، صفات اور بات کو اس کے تقاضوں کے ساتھ نہ ماننے والا اللہ تعالیٰ کے وقار اور احترام کا انکار کرتا ہے۔ حالانکہ اس کے وقار اور جلال کا تقاضا ہے کہ اس کی ذات اور صفات کو ہر اعتبار سے وحدہٗ لاشریک سمجھا جائے، اس کی بندگی کا تقاضا ہے کہ صرف اسی کے سامنے جھکا جائے اور اسی کے قانون کی تابع داری کی جائے اور اس کی ذات، صفات میں کسی کو شریک نہ بنایا جائے۔ حضرت آدم (علیہ السلام) مٹی سے پیدا کیے گئے باقی انسان آدم (علیہ السلام) کی اولاد ہیں اس لیے حضرت نوح (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا ہے۔ (عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جُبَیْرِ بْنِ مُطْعِمٍ عَنْ أَبِیہِ (رض) قَالَ : سَمِعْتُ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَقْرَأُ فِی الْمَغْرِبِ بالطُّورِ فَلَمَّا بَلَغَ ہَذِہِ الآیَۃَ (أَمْ خُلِقُوا مِنْ غَیْرِ شَیْءٍ أَمْ ہُمُ الْخَالِقُونَ أَمْ خَلَقُوا السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضَ بَلْ لاَ یُوقِنُونَ أَمْ عِنْدَہُمْ خَزَاءِنُ رَبِّکَ أَمْ ہُمُ الْمُسَیْطِرُونَ) کَادَ قَلْبِی أَنْ یَطِیرَ) (رواہ البخاری : باب وسبح بحمد ربک قبل طلوع الشمس وقبل الغروب) ” حضرت محمد بن جبیر بن مطعم اپنے والد سے بیان کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مغرب کی نماز میں سورۃ طور سنی جب آپ اس آیت پر پہنچے۔ ” کیا یہ کسی خالق کے بغیر پیدا ہوگئے ہیں؟ یا یہ خود اپنے آپ کے خالق ہیں؟ یا زمین اور آسمانوں کو انہوں نے پیدا کیا ہے ؟ اصل بات یہ ہے کہ یہ یقین نہیں رکھتے، کیا تیرے رب کے خزانے ان کے قبضے میں ہیں؟ یا ان پر ان کا کنٹرول ہے؟“ قریب تھا کہ میرا دل پھٹ جاتا۔“ مسائل ١۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو اللہ کی ذات، اس کی صفات اور اس کے ارشادات کا احترام کرنے کا حکم فرمایا۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے اوپر نیچے سات آسمان پیدا کیے ہیں۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ نے چاند کو منور کیا اور سورج کو چمکنے والا بنایا ہے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو زمین سے پیدا فرمایا ہے۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو مختلف مراحل سے گزار کرکامل اور اکمل انسان بنایا ہے۔ ٦۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اس زمین میں پیدا کیا پھر اس میں لوٹائے گا اور پھر لوگوں کو اسی سے دوبارہ نکال کھڑا کرے گا۔ ٧۔ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کے لیے زمین کو فرش بنایا اور اس میں کھلے راستے بنائے۔ نوح
14 نوح
15 نوح
16 نوح
17 نوح
18 نوح
19 نوح
20 نوح
21 فہم القرآن ربط کلام : حضرت نوح (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو مدت مدید تک دن اور رات سمجھایا مگر قوم نے کھلے لفظوں میں ان کی دعوت ماننے سے انکار کردیا۔ جس کے نتیجے میں حضرت نوح (علیہ السلام) نے ان الفاظ میں اپنے رب کے حضور فریاد کی۔ حضرت نوح (علیہ السلام) ساڑھے نو سو سال تک اپنی قوم کو دن اور رات، جلوت اور خلوت میں اللہ کی طرف بلاتے رہے مگر قوم نے کہا کہ تیرے کہنے پر وَدّ، سواع، یغوث، یعوق اور نسر کو نہیں چھوڑ سکتے۔ یاد رہے یہ اس قوم کے سب سے بڑے بت تھے اور اس قوم کے فوت شدہ بزرگوں کے تخیلاتی مجسمے تھے جو انہوں نے ان کی یاد میں بنائے ہوئے تھے۔ قوم نے نوح (علیہ السلام) کو یہ بھی دھمکی دی کہ اگر تو باز نہ آیا تو ہم پتھر مار مار کر تجھے مار ڈالیں گے۔ (الشعراء : ١١٦) اس کے ساتھ یہ کہنے لگے کہ اے نوح (علیہ السلام) ! تیرے اور ہمارے درمیان جھگڑا طول پکڑ گیا اس لیے جس عذاب کا ہم سے وعدہ کرتا ہے اسے لے آؤ اگر تو سچاہے۔ (ہود : ٣٢) بالآخر حضرت نوح (علیہ السلام) قوم کے رویے اور کردار سے مجبور ہو کر فریاد کرتے ہیں کہ اے میرے رب میری قوم نے مجھے یکسر طور پر جھٹلادیا ہے اور یہ اپنے بڑے لوگوں کے پیچھے لگ چکے ہیں جن کے مال اور اولاد یعنی ان کے اسباب اور افرادی قوت نے انہیں آخرت کے نقصان میں ہی آگے بڑھا یا ہے۔ انہوں نے دعوت توحید اور میرے خلاف بڑی سازشیں اور مجھ پر زیادتیاں کی ہیں۔ انہوں نے ایک دوسرے کو ہمیشہ یہی کہا کہ اپنے معبودوں بالخصوص وُد، سواع، یغوث، یعوق اور نسر کو نہ چھوڑاجائے، الٰہی ! انہوں نے بے شمار لوگوں کو گمراہ کیا ہے۔ اے میرے رب ! اب ان کافروں میں کوئی بھی زمین پر بسنے والا باقی نہیں رہنا چاہیے اگر تو نے انہیں چھوڑ دیا تو وہ تیرے بندوں کو گمراہ کرتے رہیں گے اور ان سے جو بھی پیدا ہوگا وہ بدکردار اور پرلے درجے کا کافرپیدا ہوگا۔ میرے رب! جب تو ان کی گرفت کرنے پر آئے تو مجھے، میرے والدین اور جو مرد و عورت مجھ پر ایمان لائے ہیں انہیں معاف فرما دے۔ نوح (علیہ السلام) کی قوم نے دیگر معبودوں کے ساتھ اپنے لیے پانچ بڑے معبود بنا رکھے تھے جن کے سامنے رکوع و سجود کرتے، نذرو نیاز پیش کرتے اور انہیں حاجت روا اور مشکل کشا سمجھتے تھے جن کے بارے میں حضرت عبداللہ بن عباس (رض) فرماتے ہیں۔ ” حضرت عبداللہ بن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ نوح (علیہ السلام) کی قوم جن بتوں کی پوجا کرتی تھی یہی بت لوگ عرب میں لے آئے۔ ودّ کو دومۃ الجندل والوں نے اپنا معبود بنا لیا اور سواع کو ھذیل والوں نے، یغوث کو مراد قبیلے والوں نے اور ان کے بعد بنی غطیف نے سبا بستی میں جرف مقام پر اور یعوق کو ہمدان والوں نے اور نسر کو قبیلہ حمیر والوں نے، جوذی الکلاع کی اولاد تھے اپنا معبود بنا لیا۔ یہ تمام نام نوح (علیہ السلام) کی قوم کے برگزیدہ لوگوں کے تھے، جب وہ فوت ہوگئے تو شیطان نے ان کی قوم کو القاء کیا۔ انہوں نے ان کے مجسموں کو اس جگہ پر نصب کیا، جہاں بزرگ بیٹھا کرتے تھے اور بتوں کے نام ان کے ناموں پر رکھ دیئے گئے، پہلے لوگ ان کی عبادت نہیں کیا کرتے تھے جب پہلے لوگ مر گئے تو ان کے بعدوالوں نے ان مورتیوں کی عبادت شروع کردی۔“ (رواہ البخاری : باب (وَدًّا وَلاَ سُوَاعًا وَلاَ یَغُوثَ وَیَعُوقَ) اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح (علیہ السلام) کی بدعا کو قبول کیا اور ان پر ایسا سیلاب بھیجا کہ انہیں ڈبکیاں دے دے کر موت کے گھاٹ اتار دیا۔ (تفصیل کے لیے القمر کی تفسیر ملاحظہ فرمائیں۔) مسائل ١۔ قوم نے حضرت نوح (علیہ السلام) کی تابعداری کرنے کی بجائے اپنے لیڈروں اور سرمایہ داروں کی پیروی کی۔ ٢۔ قوم نے نوح (علیہ السلام) کے بارے میں بڑی بڑی سازشیں اور ان پر بہت زیادتی کی۔ ٣۔ نوح (علیہ السلام) کی قوم کے سرداروں اور راہنماؤں نے اپنی عوام سے کہا کہ وُد، سواع، یغوث، یعوق اور نسر یعنی خداؤں ہرگز نہ چھوڑنا۔ ٤۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے قوم کے ہاتھوں مجبورہو کر بالآخر ان کے لیے بدعا کی۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ نے نوح (علیہ السلام) کی بدعا کے بدلے ان کی قوم کو بدترین سیلاب کے ذریعے ڈبکیاں دے دے کر موت کے گھاٹ اتار دیا۔ ٦۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے اپنے اور اپنے والدین، مومن مردوں اور عورتوں کے لیے بخشش کی دعا کی۔ تفسیر بالقرآن حضرت نوح (علیہ السلام) کی قوم پر آنے والے سیلاب کا ایک منظر : ١۔ نوح (علیہ السلام) کی قوم ظالم تھی۔ (النجم : ٥٢) ٢۔ قوم نوح طوفان کے ذریعے ہلاک ہوئی۔ (الاعراف : ١٣٦) ٣۔ یہاں تک کہ جب ہمارا حکم آپہنچا اور تنور ابل پڑا۔ ہم نے فرمایا بیڑے میں ہر جنس دو دو جوڑے سے نرومادہ اور اپنے گھر والوں کو سوار کرلو۔ (ھود : ٤٠) ٤۔ حکم دیا گیا اے زمین ! اپنا پانی نگل لے اور اے آسمان تھم جاؤ۔ پانی خشک کردیا گیا اور کام تمام ہوا اور کشتی جودی پہاڑ پر جاٹھہری اور کہا گیا ظالم لوگوں کے لیے دوری ہو۔“ (ھود : ٤٤) ٥۔ قوم نوح کو تباہ کرنے کے لیے آسمان سے موسلاد ھار بارش کے دھانے کھول دئیے گئے۔ ( القمر : ١١) نوح
22 نوح
23 نوح
24 نوح
25 نوح
26 نوح
27 نوح
28 نوح
0 سورۃ الجنّ کا تعارف یہ سورت بھی اسم بامسمّہ ہے اس لیے کہ اس میں جن کا تذکرہ ہوا ہے، الجنّ کا لفظ اس سورت میں تین مرتبہ آیا ہے۔ اس کی اٹھائیس آیات ہیں جو دو رکوع پر مشتمل ہیں اور یہ سورت مکہ معظمہ میں نازل ہوئی۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عکاز کی منڈی، بعض مفسرین نے طائف کے سفر سے بعد کا واقعہ لکھا ہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہجرت کے دسویں سال اہل مکہ سے مایوس ہو کر طائف کی طرف گئے تاکہ طائف والوں کو دین کی دعوت دی جائے، لیکن طائف والوں نے آپ کے ساتھ بدترین سلوک کیا۔ آپ زخمی حالت میں مکہ واپس آرہے تھے کہ راستے میں جنوں کے ایک وفد نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے قرآن مجید کی تلاوت سنی جونہی انہوں نے قرآن پاک سنا تو وہ اپنے ساتھیوں سے کہنے لگے کہ ہم نے قرآن کی صورت میں عجب کلام سنا ہے جو ہدایت کی طرف رہنمائی کرتا ہے اس لیے ہم اس پر ایمان لے آئے اور ہم نے عہد کرلیا ہے کہ ہم اپنے رب کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے۔ اس لیے کہ ہمارا رب بڑی شان والا ہے نہ اس کی اولاد ہے اور نہ ہی اس کا کوئی شریک ہے۔ اس کے باوجود ہم میں سے بے وقوف اللہ تعالیٰ کے بارے میں مختلف عقائد رکھتے ہیں۔ قرآن مجید سننے سے پہلے ہمارا خیال تھا کہ جن اور انسان اللہ تعالیٰ پر جھوٹ نہیں بول سکتے مگر قرآن مجید کی تلاوت سننے سے یہ ثابت ہوگیا ہے کہ بے شمار جن اور انسان اللہ تعالیٰ کے بارے میں جھوٹ بولتے ہیں۔ ہم نے ایک اور بات محسوس کی ہے کہ اب ہم میں کوئی بات سننے کے لیے آسمان کی طرف چڑھتا ہے تو ایک بڑھکتا ہوا شعلہ اس کا تعاقب کرتا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ دنیا میں کوئی انقلاب آنے والا ہے اللہ تعالیٰ نے جنات کے خیالات ذکر کرنے کے بعد نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ” قل“ کا لفظ بول کر درجہ ذیل ہدایات سے سرفراز فرمایا : ١۔ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حالات جیسے بھی ہوجائیں آپ یہی کہیں اور دعوت دیتے رہیں کہ میں صرف اپنے رب کی عبادت کروں گا اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں بناؤں گا۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو نفع نقصان اور ہدایت دینے کا اختیار نہیں ہے۔ ٣۔ اے لوگو! اگر اللہ تعالیٰ میری گرفت کرنے پر آئے تو مجھے بھی کوئی نہیں بچا سکتا، یاد رکھو جو بھی اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نافرمانی کرے گا وہ ہمیشہ ہمیش کے لیے جہنم میں داخل کیا جائے گا۔ ٤۔ اے لوگو! میں نہیں جانتا کہ جس چیز کا تمھارے ساتھ وعدہ کیا گیا ہے وہ قریب ہے یا میرے رب نے اس کی لمبی مدت مقررکی رکھی ہے حقیقت یہ ہے کہ وہی غائب کو جاننے والا ہے اس کے سوا کوئی بھی غائب نہیں جانتا الّا یہ کہ جتنا چاہے وہ اپنے رسول کو بتا دیتا ہے۔ الجن
1 فہم القرآن ربط سورت : حضرت نوح (علیہ السلام) کی بعثت کا مقصد لوگوں کو شرک سے روکنا اور توحید کی دعوت دینا تھا اسی دعوت کے ساتھ نبی آخر الزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مبعوث کیے گئے جس کا تذکرہ اس سورت میں جنوں کی زبان سے کیا گیا ہے۔ اہل مکہ جب کسی سفر کے دوران صحراء یا جنگل میں پڑاؤ ڈالتے تو قافلے کا ایک فرد کسی اونچی جگہ پر کھڑے ہو کر آواز دیتا کہ اے جنوں کے سردار ہم نے یہاں پڑاؤڈالاہے، ہماری تجھ سے درخواست ہے کہ اس صحراء میں ہماری حفاظت فرمانا۔ اس عقیدے کی تردید کے لیے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ” قُلْ“ کے لفظ کے ساتھ حکم دیا گیا ہے کہ جو واقعہ آپ کے ساتھ پیش آیا ہے آپ یہ واقعہ اور جنوں کا عقیدہ اہل مکہ کے سامنے بیان فرمائیں۔ واقعہ اس طرح ہے کہ مکہ سے کچھ دور عکاظ کی منڈی لگتی تھی جو عکاظ بازار کے نام سے مشہور تھی۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وہاں تبلیغ کی غرض سے جارہے تھے کہ راستے میں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ باجماعت نماز ادا کی آپ کی تلاوت جنوں کی ایک جماعت نے سنی۔ جنوں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان اطہر سے قرآن مجید کی تلاوت سنی تو ان کے کلیجے ہل گئے اور وہ فوری طور پر شرک سے تائب ہو کر مسلمان ہوگئے۔ مفسرین کی دوسری جماعت کا خیال ہے کہ جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) طائف سے مکہ واپس آرہے تھے تو یہ واقعہ اس وقت پیش آیا تھا۔ غالب بات یہی ہے کہ یہ واقعہ طائف سے واپسی کے وقت پیش آیا کیونکہ طائف والوں نے آپ کی دعوت کو مسترد کیا اور آپ پر بہت زیادتی کی تھی اس لیے آپ کو تسلی دی گئی کہ اگر طائف والوں نے آپ کی دعوت کو نہیں سنا تو آپ غم زدہ نہ ہوں یہ دعوت ایسی دعوت ہے کہ جس کو جن بھی قبول کرتے ہیں۔ لہٰذا اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے یہ سورت نازل فرمائی جس میں جنوں کے تاثرات اور عقائد کا ذکر کیا گیا ہے ” اَسْتَمَعَ“ کا معنٰی ہے کہ توجہ سے کان لگا کر سنناجونہی جنوں کی جماعت نے توجہ کے ساتھ قرآن مجید سنا تو انہوں نے اپنے ساتھیوں میں جا کر کہا کہ اے ہمارے ساتھیو! ہم نے ایک عجب قرآن سنا ہے جو بھلائی اور خیرخواہی کی راہنمائی کرتا ہے اس لیے ہم اس پر ایمان لاچکے ہیں۔ ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ ہم اپنے رب کے ساتھ کسی کو شریک نہیں بنائیں گے ہمیں یقین ہوگیا ہے کہ ہمارا رب بڑی عظمت والا، اعلیٰ اور ارفع ہے۔ وہ ہر قسم کے شرک سے پاک ہے اس لیے نہ اس کی بیوی ہے اور نہ اولاد۔ ہم میں سے جو جن ” اللہ“ کے ساتھ کسی کو شریک بناتے اور کہتے ہیں کہ اس کی بیوی اور اولاد ہے وہ بیوقوف ہیں وہ اللہ پرجھوٹ بولتے ہیں۔ ہمارا خیال تھا کہ کوئی انسان اور جن اللہ تعالیٰ پر جھوٹ بولنے کی جرأت نہیں کرسکتا اس لیے ہم اس باطل عقیدے میں مبتلا ہوگئے۔ بالخصوص جب انسانوں میں کچھ لوگوں نے جنوں سے پناہ حاصل کرنے کا عقیدہ اپنایا تو جن سرکشی اور شرک کرنے میں اور زیادہ آگے بڑھ گئے انہوں نے یہ گمان کرلیا کہ اللہ تعالیٰ اب کوئی نبی نہیں بھیجے گا۔ ان آیات میں جنوں کے حوالے سے سب سے پہلے قرآن مجید کی تاثیر، اس کی عظمت اور دعوت کا ذکر کیا گیا ہے۔ قرآن مجید اپنے الفاظ، انداز تکلم اور تاثیر کے لحاظ سے عجب کتاب ہے عجب کے لفظ میں مبالغہ پایا جاتا ہے۔ جس کا مطلب ہے کہ ایسی کتاب جس کا کسی اعتبار سے بھی مقابلہ نہ کیا جاسکے۔ اس کتاب کی پہلی دعوت یہ ہے کہ ” اللہ“ کے ساتھ کسی کو کسی اعتبار سے شریک نہ کیا جائے کیونکہ شرک پرلے درجے کی بیوقوفی اور زیادتی ہے اس لیے جنوں نے شرک کو حماقت اور اسے اللہ تعالیٰ پر جھوٹ بولنے کے مترادف قرار دیا ہے۔ قرآن مجید کی دعوت قبول کرنے سے پہلے جنوں کا عقیدہ تھا کہ جن اور انسان اللہ تعالیٰ پر جھوٹ نہیں بول سکتے، ایمان لانے کے بعد ان کا یہ عقیدہ غلط ثابت ہوا کیونکہ ہدایت پانے کے بعد انہیں معلوم ہوا کہ ہم جہالت میں تھے ورنہ جن اور انسان اللہ تعالیٰ پر بھی جھوٹ بولتے ہیں۔ گویا کہ جس طرح جن اللہ تعالیٰ پر جھوٹ بولنے والے ہیں اسی طرح انسانوں میں غیب کی خبریں دینے اور مشکل کشائی کا دعویٰ کرنے والے، کاہن، سادھو، جوگی، دنیاپرست پیر، فقیر اللہ تعالیٰ پر جھوٹ بولتے ہیں اور ثواب کا جھانسہ دے کر اللہ تعالیٰ پر جھوٹ بولتے ہیں۔ ان کے ساتھ وہ علماء بھی اللہ تعالیٰ پر جھوٹ بولتے اور حماقت کی باتیں کرتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو داتا اور دستگیر کہتے ہیں اور شرک کی دعوت دیتے ہیں جنوں نے اپنے ساتھیوں کو یہ بھی بتلایا کہ جس طرح انسان سمجھتے ہیں کہ اب اللہ تعالیٰ نے کوئی نبی نہیں بھیجنا اسی طرح ہمارا بھی خیال تھا کہ اب کوئی نبی نہیں آئے گا۔ انسانوں کا اور ہمارا یہ عقیدہ بھی غلط ثابت ہوا، ہمیں یقین ہوگیا کہ آسمان کی حفاظت کے لیے جس طرح غیر معمولی اقدامات کرلیے گئے ہیں یہ اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ کوئی اہم ترین واقعہ رونما ہونے والا ہے یعنی نبی مبعوث ہوچکا ہے۔ مسائل ١۔ قرآن مجید بڑی ہی عظیم کتاب ہے۔ ٢۔ قرآن مجید صراط مستقیم کی طرف راہنمائی کرتا ہے۔ اس کی سب سے بڑی دعوت ” اللہ“ کی توحیدکو ماننا اور شرک سے رکنا ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ کی شان بڑی بلندوبالا ہے لہٰذا وہ بیوی اور اولاد سے مبرّا ہے۔ ٤۔ جو لوگ اللہ تعالیٰ کے شریک ثابت کرتے ہیں وہ حماقت کی بات کرتے ہیں اور اپنے رب پرجھوٹ بولتے ہیں۔ ٥۔ جو لوگ کسی نہ کسی انداز میں جنوں سے مدد مانگتے ہیں وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرنے کے کے ساتھ جنوں کی بغاوت میں اضافہ کرتے ہیں۔ ٦۔ جنوں میں بہت سے جن اللہ کے ساتھ شرک کرنے کے ساتھ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت کا انکار کرتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن اللہ پر جھوٹ بولنے والے لوگ : ١۔ اللہ کے ذمے جھوٹ لگانے والے فلاح نہیں پائیں گے ان کے لیے درد ناک عذاب ہے۔ (النحل : ١١٦۔ ١١٧) ٢۔ اس شخص سے زیادہ ظالم کون ہے جو اللہ پر جھوٹ باندھتا ہے۔ (الاعراف : ٣٧) ٣۔ اس شخص نے نقصان اٹھایا جس نے اللہ پر جھوٹ بولا۔ (طٰہٰ: ٦١) (آل عمران ؛ ٩٤) الجن
2 الجن
3 الجن
4 الجن
5 الجن
6 الجن
7 الجن
8 فہم القرآن ربط کلام : جنوں کے واقعہ اور بیان کا ذکر جاری ہے۔ جنوں نے اپنے ساتھیوں کو کہا کہ نبی کے آنے کے بارے میں ہمارا اور انسانوں کا گمان اس لیے غلط ثابت ہوا کہ پہلے ہم آسمان کے قریب جاکر ملائکہ کی کوئی نہ کوئی بات سن لیا کرتے تھے لیکن اب ہم آسمان کے قریب جاتے ہیں تو اسے سخت پہرے داروں اور بھڑکتے ہوئے شعلوں سے بھرا ہوا پاتے ہیں، ہم میں جو بھی سننے کے لیے آسمان کے قریب جاتا ہے تو وہ اپنے تعاقب میں بھڑکتا ہوا شعلہ پاتا ہے۔ ہمیں معلوم نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے زمین پر رہنے والوں کے ساتھ سختی کرنے کا ارادہ کیا ہے یا ان کی راہنمائی کرنے کا فیصلہ فرمایا ہے۔ ہم میں سے کچھ صالح ہیں اور باقی برے ہیں اور ہم نے کئی طرح کے مذہب اختیار کر رکھے ہیں۔ قرآن مجید کی تلاوت سننے کے بعد ہمیں یقین ہوگیا ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کو نہ تو کسی معاملے میں زمین میں عاجز کرسکتے ہیں اور نہ ہی اس سے بھاگ کر بچ سکتے ہیں اس لیے جونہی ہم نے ہدایت کی بات سنی تو ہم فوری طور پر اس پر ایمان لے آئے، جو بھی اپنے رب پر ایمان لائے گا اسے نہ کسی نقصان کا خوف ہوگا اور نہ ہی اس پر زیادتی ہوگی۔ ہم میں کچھ مسلمان ہیں اور باقی نافرمان ہیں۔ جنہوں نے اپنے رب کا فرمان تسلیم کرلیا وہ ہدایت کے راستے پر چل پڑے اور جنہوں نے نافرمانی اختیارکی وہ جہنم کا ایندھن بنیں گے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت سے پہلے جن آسمان کے دروازوں کے قریب جاکر کوئی نہ کوئی بات سن لیا کرتے تھے اور وہ باتیں کاہن قسم کے لوگوں کے دلوں میں ڈالتے تھے۔ اس بنا پر کاہن لوگ غیب دانی کا دعویٰ کرتے تھے اور کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خاتم المرسلین بنایا تو آسمان کی حفاظت کا خصوصی بندوبست فرمادیا تاکہ جن کسی طرح بھی آسمان کی باتیں نہ سن سکیں۔ اس لیے مسلمان ہونے والے جنوں نے اپنے ساتھیوں کو بتلایا کہ اب آسمان کی حفاظت کے لیے پہرے دار بٹھادیئے گئے ہیں اور شہاب ثاقب ہمارا تعاقب کرتے ہیں۔ انہوں نے اپنے ساتھیوں کو یہ بات بھی سمجھائی کہ ہمیں اپنے رب کی نافرمانی کرنے کی بجائے اس کی تابعداری اختیار کرنی چاہیے۔ کیونکہ جو اپنے رب کی تابعداری اختیار کرے گا اسے نہ کسی نقصان کا اندیشہ ہوگا اور نہ ہی اسے خوف ہوگا اور جس نے اس کی تابعداری نہ کی اسے جہنم کا ایندھن بننا ہوگا۔ جنوں نے اپنے ساتھیوں کو یہ کہہ کر ایمان لانے کی ترغیب دی کہ ایمان لانے میں تمہارا کوئی نقصان نہیں ہوگا بلکہ تم اپنے رب پر ایمان لا کر اس کی نعمتوں کے حقدار بن جاؤ گے اور اس کی جہنم سے محفوظ ہوجاؤ گے۔ بے شک جن آگ سے پیدا کیے گئے ہیں لیکن جنوں کی آگ کے مقابلے میں ان کی آگ کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ اس لیے مسلمان جنوں نے اپنے ساتھیوں کو جہنم کی آگ سے ڈرایا تاکہ وہ اپنے رب پر ایمان لے آئیں۔ (عَنْ عَاءِشَۃَ (رض) قَالَتْ قَالَ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خُلِقَتِ الْمَلاَ ءِکَۃُ مِنْ نُورٍ وَخُلِقَ الْجَانُّ مِنْ مَارِجٍ مِنْ نَارٍ وَخُلِقَ آدَمُ مِمَّا وُصِفَ لَکُمْ) (رواہ مسلم : باب فِی أَحَادِیثَ مُتَفَرِّقَۃٍ) ” حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ملائکہ کو نور سے پیدا کیا گیا ہے اور جنوں کو بھڑکتی ہوئی آگ سے اور آدم کو مٹی سے پیدا کیا گیا ہے۔“ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ (رض) یَبْلُغُ بِہِ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ۔۔ فَیَسْمَعُہَا مُسْتَرِقُو السَّمْعِ وَمُسْتَرِقُو السَّمْعِ ہَکَذَا وَاحِدٌ فَوْقَ آخَرَ وَوَصَفَ سُفْیَانُ بِیَدِہِ وَفَرَّجَ بَیْنَ أَصَابِعِ یَدِہٖ الْیُمْنَی نَصَبَہَا بَعْضَہَا فَوْقَ بَعْضٍ فَرُبَّمَا أَدْرَکَ الشِّہَابُ الْمُسْتَمِعَ قَبْلَ أَنْ یَرْمِیَ بِہَا إِلَی صَاحِبِہِ فَیُحْرِقَہُ) (رواہ البخاری : باب قَوْلِہِ (إِلاَّ مَنِ اسْتَرَقَ السَّمْعَ فَأَتْبَعَہُ شِہَابٌ مُبِینٌ) ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ مجھے اس بات کی خبر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دی شیاطین آسمان سے چوری چھپے باتیں سنتے ہیں اور ان کے سننے کا طریقہ یہ ہے کہ ایک دوسرے کے کندھوں پر سوار ہوتے ہوئے آسمان تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ سفیان نے اپنے ہاتھوں کو ایک دوسرے کے اوپر رکھتے ہوئے سے اس کو بیان کرتے کیا بسا اوقات سننے والے شیطان پر شہاب ثاقب لپکتا ہے پہلے اس کے کہ وہ اس بات کو اپنے ساتھی تک پہنچائے وہ اس کو جلا دیتا ہے۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے آسمان دنیاکی حفاظت کے لیے چوکیدار اور شہاب ثاقب مقرر کر رکھے ہیں۔ ٢۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کے بعد جن آسمان کی کوئی بات نہیں سن سکتے۔ ٣۔ جنوں میں نیک بھی ہوتے ہیں اور گمراہ بھی۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ کو کوئی طاقت کسی معاملے میں بے بس نہیں کرسکتی اور نہ ہی کوئی اللہ کی گرفت سے بھاگ سکتا ہے۔ ٥۔ جو شخص اپنے رب پر ایمان لائے گا اسے نہ نقصان ہوگا اور نہ اس پر زیادتی ہوگی۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے : ١۔ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے (البقرۃ: ٢٠) ٢۔ ” اللہ“ آسمانوں و زمین کی ہر چیز کو جانتا ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ (آل عمراٰن : ٢٩) ٣۔ اللہ تعالیٰ ہر اس چیز کو جانتا ہے جو زمین میں داخل ہوتی اور اس سے نکلتی ہے۔ ( الحدید : ٤) ٤۔ اللہ تعالیٰ آسمانون و زمین کی ہر چیز کو جانتا ہے۔ ( المجادلہ : ٧) (البقرۃ: ٢٨٤) ٥۔ تم جہاں کہیں بھی ہوگے اللہ تمہیں قیامت کے دن جمع فرمائے گا وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ (البقرۃ: ١٤٨) الجن
9 الجن
10 الجن
11 الجن
12 الجن
13 الجن
14 الجن
15 الجن
16 فہم القرآن ربط کلام : جنوں کے خیالات کی تائید قرآن مجید کے الفاظ میں۔ اس سے پہلے ایماندار جنوں کے خیالات کو قرآن کے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے اور اب اللہ تعالیٰ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ذریعے براہ راست اپنے بندوں کو سمجھاتا ہے۔ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! بتلائیں کہ مجھ پر وحی کی گئی ہے کہ اگر لوگ صحیح راستے پر چلیں تو اللہ تعالیٰ انہیں کثیر پانی سے سیراب فرمائے گا۔ یاد رہے کہ دنیا کی زندگی اور انسانی وسائل کا تعلق پانی سے ہے اس لیے فرمایا کہ ہم انہیں پانی سے سیراب کریں گے یعنی ان کی روزی اور وسائل میں اضافہ فرمائیں گے۔ انہیں پھر بتلائیں کہ جو اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرے گا وہ اسے سخت ترین عذاب میں مبتلا کرے گا۔ اے نبی! انہیں یہ بھی بتلائیں کہ مساجد ” اللہ“ کی ہیں ان میں اللہ کے ساتھ کسی اور کی عبادت نہ کی جائے۔ ان کا حال یہ ہے کہ جب اللہ کا بندہ یعنی محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کی عبادت کرنے اور اس کی دعوت دینے کے لیے بیت اللہ میں کھڑے ہوتے ہیں تو یہ لوگ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ٹوٹ پڑتے ہیں تاکہ آپ ڈر کر اللہ کی عبادت اور اس کی توحید کی دعوت چھوڑ دیں۔ اے نبی! ان سے ڈرنے کی بجائے کھلے دل سے اعلان فرماتے جائیں کہ میں صرف اپنے رب کی عبادت کرتا ہوں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں بناتا۔ اے نبی ! انہیں یہ بھی فرمائیں کہ اگر میں اللہ کی عبادت اور اس کی دعوت میں کوتاہی کروں تو مجھے اللہ کے عذاب سے بچانے والا کوئی نہیں ہوگا اور نہ ہی مجھے اس کے سوا کوئی اور پناہ دکھائی دیتی ہے۔ میرا کام اللہ تعالیٰ کے پیغام کو لوگوں تک پہچانا ہے لہٰذا یارکھو! جو بھی اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے گا اس کے لیے جہنم کی آگ ہے اور وہ اس میں ہمیشہ ہمیش رہے گا، جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی پر تلے ہوئے ہیں ان سے وعدہ کیا جاتا ہے وہ اس وعدے کو ضرور پا لیں گے، پھر انہیں معلوم ہوگا کہ مدد کرنے میں اور افرادی قوت کے اعتبار سے کون کمزور ہے۔ کفار مالی وسائل اور افرادی قوت کی بنیاد پر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ڈراتے اور دھمکاتے تھے تاکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) توحیدکی دعوت لوگوں تک نہ پہنچائیں۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے بار بار آپ کو ” قل“ کے لفظ سے مخاطب کیا اور حکم فرمایا کہ اے نبی! کہتے جائیں کہ میں اپنے رب کی دعوت اور عبادت میں کسی کو شریک نہیں کرتا اور نہ ہی میں اس کی خدائی میں اختیارات رکھنے کا دعویٰ کرتاہوں۔ میری دعوت تو یہ ہے کہ میں نہ تمہارے نفع اور نقصان کا مالک ہوں اور نہ اپنے بارے میں کوئی اختیارات رکھتاہوں۔ اگر اللہ تعالیٰ مجھے پکڑنے پر آئے تو مجھے کوئی پناہ نہیں دے سکتا اور نہ اس کی پکڑ سے مجھے کوئی چھڑسکتا ہے۔ جہاں تک تمہاری طاقت اور مخالفت کا معاملہ ہے۔ جس دن کی تم تکذیب کرتے ہو اس دن تمہیں معلوم ہوجائے گا کہ تمہارے مددگار کتنے کمزور ہیں اور اللہ تعالیٰ کی طاقت اور لشکروں کے مقابلے میں تم کتنے حقیر اور تھوڑے ہو۔ یہاں فرمایا ہے کہ مساجد اللہ کے لیے ہیں ان میں اللہ کے سوا کسی اور کی عبادت نہیں ہونی چاہیے۔ مشہورتابعی حضرت حسن بصری (رض) فرمایا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے اس امت کے لیے پوری زمین کو مسجدبنایا ہے یعنی جہاں نماز کا وقت ہوجائے وہاں مسلمان نماز پڑھ سکتے ہیں۔ اس لیے اللہ کے ساتھ کسی دوسرے کی عبادت کرنا یا کسی سے مددمانگنا کسی جگہ بھی جائز نہیں۔ ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا مجھے تمام انبیاء (علیہ السلام) پر چھ فضیلتیں عطا کی گئی ہیں : ١۔” مجھے جوامع الکلم کی صلاحیت عطا کی گئی ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے خصوصی رعب اور دبدبہ سے میری مدد فرمائی ہے۔ ٣۔ مال غنیمت میرے لیے حلال کردیا گیا ہے۔ ٤۔ میرے لیے ساری زمین کو پاک اور مسجد بنا دیا گیا۔ ٥۔ مجھے تمام انسانوں کے لیے رسول بنایا گیا ہے۔ ٦۔ مجھ پر سلسلۂ نبوت ختم کردیا گیا ہے۔“ (رواہ مسلم : کتاب المساجد ومواضع الصلاۃ ) مسائل ١۔ اللہ کے نبی اپنے رب کی عبادت اور دعوت میں کسی کو شریک نہیں سمجھتے تھے۔ ٢۔ اللہ کے نبی لوگوں کے نفع اور نقصان پر اختیار نہیں رکھتے تھے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو کوئی بھی بچا اور پناہ نہیں دے سکتا۔ ٤۔ جو کوئی اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے گا وہ جہنم میں داخل ہوگا۔ ٥۔ اللہ اور اس کے رسول کے نافرمانوں کو جلد معلوم ہوجائے گا کہ وسائل اور افرادی قوت کے اعتبار سے کتنے کمزور ہیں۔ تفسیر بالقرآن نفع اور نقصان کا مالک صرف ” اللہ“ ہے : ١۔ کیا تم اللہ کے سوا دوسروں کو خیر خواہ سمجھتے ہو جو اپنے بھی نفع ونقصان کے مالک نہیں ہیں۔ (الرعد : ١٦) ٢۔ میں انپے نفع ونقصان کا بھی مالک نہیں۔ (یونس : ٤٩) ٣۔ کیا تم اللہ کے سوا ان کی عبادت کرتے ہو جو نفع ونقصان کے مالک نہیں ہیں؟ (المائدۃ: ٧٦) ٤۔ اگر اللہ تمہیں نقصان میں مبتلا کرنا چاہے تو کون تمہیں اس سے بچائے گا۔ (الفتح : ١١) ٥۔ (اے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ فرما دیں کہ میں تمھارے کسی نفع و نقصان کا اختیار نہیں رکھتا۔ (الجن : ٢١) الجن
17 الجن
18 الجن
19 الجن
20 الجن
21 الجن
22 الجن
23 الجن
24 الجن
25 فہم القرآن ربط کلام : نبی آخر الزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تشریف آوری کا مقصد لوگوں کو اللہ کی توحید اور اس کے دین سے آگاہ کرنا تھا آپ نے اہل مکہ کو توحید کی دعوت دی تو انہوں نے اسے قبول کرنے کی بجائے بغاوت اور اپنی طاقت کا مظاہرہ کیا اور گھمنڈ میں آکر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عذاب لانے کا مطالبہ کرنے لگے جس کے جواب میں آپ کو حکم ہوا کہ آپ انہیں فرمائیں عذاب لانا میرے بس کی بات نہیں اور نہ میں یہ جانتا ہوں کہ عذاب کب آئے گا البتہ میرا رب چاہے تو اس عذاب کو جلد یا بدیر نازل کرسکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خوشخبری دینے و الا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے۔ جب آپ برے لوگوں کو ان کے برے انجام سے ڈرتے تو وہ لوگ کفر و شرک چھوڑنے کی بجائے آپ سے مطالبہ کرتے کہ جس عذاب یا قیامت کا ہمیں وعدہ دیا جاتا ہے وہ عذاب اور قیامت کب برپا ہوگی۔ کفار کے اس مطالبے کے جواب میں قرآن مجید نے کئی دلائل دئیے۔ ان میں سے ایک دلیل اور جواب یہ دیا کہ اے نبی ! انہیں بتلائیں کہ میں نہیں جانتا جس دن کا تم سے وعدہ کیا جاتا ہے وہ قریب ہے یا میرے رب نے اس کی مدت دراز کر رکھی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ وہی غیب کے معاملات جاننے والا ہے وہ اپنے غیب کے معاملات کو کسی پر ظاہر نہیں کرتا۔ البتہ جس بات کو وہ اپنے رسول کے لیے پسند فرمائے صرف اس بات سے رسول کو آگاہ کرتا ہے۔ جب وہ اپنے غیب کے بارے میں اپنے رسول کو وحی کرتا ہے تو اس وحی کی حفاظت کے لیے اس کے آگے پیچھے نگران مقرر کردیتا ہے تاکہ اس کے سامنے یہ بات واضح ہوجائے کہ ملائکہ نے اپنے رب کے احکام ٹھیک ٹھیک انداز میں اس کے رسول تک پہنچادیئے ہیں۔ یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کا احاطہ کیا ہوا ہے اور ہر چیز کا شمار اس کے پاس موجود ہے۔ اس آیت میں یہ الفاظ آئے ہیں کہ ” اللہ تعالیٰ کو معلوم ہوجائے۔“ اس کے مفسرین نے تین مفہوم بیان کیے ہیں۔ ١۔ واضح ہوجائے کہ فرشتے نے اللہ کی وحی اس کے نبی تک پہنچادی ہے۔ ٢۔ ثابت ہوجائے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اللہ کا پیغام لوگوں تک پہنچا دیا ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ نے وحی کی حفاظت کا بندوبست اس لیے فرمایا تاکہ ٹھیک ٹھیک طریقے سے نبی تک اس کا پیغام پہنچ جائے۔ کیا انبیائے کرام (علیہ السلام) غیب جانتے تھے : اس آیت میں فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ غیب کی باتیں رسول کے سوا کسی پر ظاہر نہیں کرتا اس سے کچھ لوگوں کو مغالطہ ہوا یا انہوں نے جان بوجھ کر یہ مطلب لیا کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) غیب جانتے ہیں۔ جن لوگوں کو مغالطہ ہوا ان میں تفسیر ضیاء القرآن کے مفسر بھی شامل ہیں۔ چنانچہ فرماتے ہیں : ” عَالِمُ الْغَیْبِ“ خبر ہے اور اس کی مبتدا ” ھُوَ“ محذوف ہے یعنی ” ھُوَعَالِمُ الْغَیْبِ“ یہاں مبتدا اور خبر دونوں معرفہ ہیں اس لیے حصر کا معنٰی پایا جائے گا۔ یعنی وہی غیب کو جاننے والا ہے۔ اس سے پتہ چل گیا کہ کوئی انسان خواہ وہ کتنا ذہین و فطین ہو، اس کے علم و عرفان کا قیاس کتنا بلند پایا ہو اس کے درجات کتنے ہی رفیع ہوں وہ غیب نہیں جان سکتا۔ نہ اپنے حواس سے، نہ قوت سے، نہ فراست سے، نہ علم قیاس سے اور نہ عقل سے سوائے اس کے کہ خداوند عالم جو عالم الغیب ہے وہ خود اس کو اس نعمت سے سرفر از فرمادے۔ یہ بھی بتادیا کہ علم غیب کے دروازے ہر ایرے غیرے کے لیے کھلے نہیں بلکہ وہ صرف ان رسولوں کو اس نعمت سے نوازتا ہے جن کو وہ چن لیا کرتا ہے یہ ہے وہ صاف اور سیدھا مطلب جو اس آیت سے بغیر کسی تکلف کے سمجھ میں آتا ہے۔ (ضیاء القرآن جلد ٥، آیت ہذا) بعض حضرات نے رائے ظاہر کی ہے کہ جن علوم غیبیہ سے اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو آگاہ کیا ہے وہ فقط علوم شرعیہ ہیں وہ اس طرح رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے علوم تکوینیہ کی نفی کرنا چاہتے ہیں۔ میری گزارش ہے کہ ان حضرات نے کیا ” وَعَلَّمَ اٰدَمَ الْاَسْمَاءَ کُلَّھَا“ ارشاد الٰہی نہیں پڑھا کہ اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کو سب کے سب اسماء سکھا دئیے جب آدم (علیہ السلام) کی یہ شان ہے جو زمین میں اللہ تعالیٰ کے خلیفہ ہیں تو سیدِعالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو رحمۃ للعالمین ہیں اور سارے جہانوں میں اللہ تعالیٰ کے خلیفۂ اعظم ہیں ان کے علوم و معارف کا کوئی کیسے اندازہ لگا سکتا ہے۔ اس لیے سلامتی اسی میں ہے کہ ہم آیات کو وہ معانی نہ پہنائیں جن کو ان کے کلمات قبول نہیں کرتے اور سیدھی اور صاف بات جو قرآن نے فرمائی ہے اس کو صدق دل سے تسلیم کرلیں کہ اللہ تعالیٰ ہی تمام غیبوں کو جاننے والا ہے اور اپنے علوم غیبیہ پر کسی کو آگاہ نہیں کرتابجز اپنے رسولوں کے ان کو جنتا چاہتا ہے علوم غیبیہ عطا فرماتا ہے۔ یہ جنتا کتنا ہے، اس کو اللہ تعالیٰ جس نے دیا ہے اور اس کا رسول، جس نے لیا ہے وہی بہتر جانتے ہیں یہ حدبندیاں اختراع بندہ ہیں۔ (ضیاء القرآن : جلد ٥، ص : ٣٩٧) اگر اس آیت کا یہی معنٰی لیا جائے جو موصوف نے لیا ہے تو پھر درج ذیل آیات کا کیا معنٰی ہے۔ جس میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان سے بار بار اعلان کروایا گیا ہے کہ میں غیب نہیں جانتا، حقیقت یہ ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) غیب نہیں جانتے تھے۔ انبیائے کرام (علیہ السلام) اتنا ہی جانتے تھے جس قدر ان کی طرف وحی کی جاتی تھی۔ اس لیے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس بات کی وضاحت کروائی گئی کہ میں غیب نہیں جانتا اس کے باوجود کوئی شخص الفاظ کے ہیر پھیر سے ثابت کرنا چاہتا ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) غیب جانتے تھے تو وہ بتلائے کہ قرآن مجید نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پھر کس غیب کی نفی کروائی ہے۔ اس طرح کی تاویل کرنے والا کھلے الفاظ میں رب ذوالجلال کے ارشادات کو جھٹلاتا ہے۔ تفسیر بالقرآن کے حوالے ملاحظہ فرمائیں۔ مسائل ١۔ اللہ ہی غیب جانتا ہے اس کے سوا کوئی غیب نہیں جانتا۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے غیب کی کچھ باتیں انبیائے کرام (علیہ السلام) پر وحی فرمائیں۔ ٣۔ نزول وحی کے دوران ملائکہ کا ایک دستہ وحی کی حفاظت کیا کرتا تھا۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے علم اور قدرت کے ساتھ ہر چیز کا احاطہ کر رکھا ہے اور اس نے ہر چیز کو شمار کر رکھا ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی غیب نہیں جانتا : ١۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو فرشتوں کے متعلق علم نہ ہوسکا۔ (ھود : ٦٩) ٢۔ حضرت لوط (علیہ السلام) فرشتوں کو نہ پہچان سکے۔ (ھود : ٧٧) ٣۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اگر مجھے غیب کا علم ہوتا تو میں بہت سی بھلائیاں جمع کرلیتا۔ (الاعراف : ١٨٨) ٤۔ حضرت نوح نے فرمایا کہ میں غیب نہیں جانتا۔ (ھود : ٣١) ٥۔ نبی کریم غیب نہیں جانتے تھے۔ (الانعام : ٥٠) ٦۔ جنات غیب نہیں جانتے۔ (سبا : ١٤) ٧۔ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی بھی غیب نہیں جانتا۔ (الانعام : ٥٩) ٨۔ آپ فرما دیں کہ زمین اور آسمانوں کے غیب اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ (النمل : ٦٥) الجن
26 الجن
27 الجن
28 الجن
0 سورۃ المزّمل کا تعارف المزّمل کا لفظ اس سورت کی پہلی آیت کا دوسرا لفظ ہے یہ سورت مکہ معظمہ میں نازل ہوئی اس کے دو رکوع ہیں جو بیس آیات کا احاطہ کرتے ہیں۔ المزّمل نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا توصیفی نام ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ ایک رات آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کپڑا اوڑھ کر آرام فرما رہے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ المزّمل کی ابتدائی آیات نازل فرمائیں ” اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ساری رات سونے کی بجائے رات کے کچھ حصے میں تہجد کی نماز پڑھا کرو اور اس میں ٹھہر ٹھہر کر قرآن مجید کی تلاوت کرو۔ رات کے وقت اٹھنا اور قرآن مجید کی تلاوت کرنا بے شک بھاری کام ہے لیکن یہ اپنے آپ پر ضبط پیدا کرنے اور قرآن مجید پڑھنے کے لیے نہایت موضوع وقت ہے۔“ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! بے شک نبوت کا کام مشکل ترین کام ہے اس راستے میں مشکلات کا آنا فطری بات ہے۔ مگر آپ کو صبر کرنا ہوگا اس لیے ہر حال میں اپنے رب کو اپنا کفیل سمجھو جو مشرق اور مغرب کا مالک ہے۔ اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ہے۔ مشکلات پر صبر کرنے کے لیے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور فرعون کے درمیان ہونے والی کشمکش کا ذکر کیا ہے اور پھر اہل مکہ کو مخاطب فرمایا کہ ہم نے تمھاری طرف اس طرح کا رسول بھیجا تھا جس طرح کا رسول فرعون کی طرف بھیجا تھا۔ فرعون نے اپنے رسول کی نافرمانی کی تو ہم نے اسے پوری سختی کے ساتھ پکڑ لیا لہذا فرعون کا انجام اپنے سامنے رکھو اور یاد رکھو کہ تم فرعون اور اس کے ساتھیوں سے طاقتور نہیں ہو۔ جب فرعون اور اس کے ساتھی پکڑے گئے تو انہیں بچانے والا کوئی نہیں تھا جب تمہاری پکڑ کا وقت آئے گا تو تمہیں بھی بچانے والا کوئی نہیں ہوگا اس لیے اپنے آپ کو سیدھے راستے پر ڈال لو ورنہ قیامت کے دن پکڑے جاؤ گے جو حساب و کتاب کا ایسا دن آنے والا ہے جس دن کی شدت اور سختی کی وجہ سے بچے بھی بوڑھے ہوجائیں گے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے جو ہر صورت پورا ہو کر رہے گا۔ قرآن مجید بہترین نصیحت ہے مگر اس شخص کے لیے جو اپنے رب کی طرف جانے کا راستہ اختیار کرنا چاہتا ہے۔ اس کے بعد ایک مرتبہ پھر تہجد کا ذکر کیا گیا اور حکم فرمایا کہ نماز قائم کرو اور زکوٰۃ دیتے رہو جو کچھ تم اپنے لیے آگے بھیجو گے جو آگے بھیجو گے وہ پورے کا پورا اپنے رب کے پاس پاؤ گے اور اپنے کیے پر اللہ تعالیٰ سے معافی مانگو یقیناً وہ معاف کرنے والا اور رحم فرنے والا ہے۔ (عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَنْزِلُ رَبُّنَا تَبَارَکَ وَتَعَالٰی کُلَّ لَیْلَۃٍ اِلَی السَّمَآء الدُّنْیَا حِیْنَ یَبْقَی ثُلُثُ اللَّیْلِ الْاٰخِرِ یَقُوْلُ مَنْ یَدْعُوْنِیْ فَأسْتَجِیْبَ لَہُ مَنْ یَسْاَلنِیْ فأُعْطِیَہٗ مَنْ یَسْتَغْفِرُنِیْ فَأَغْفِرَلَہُ) (رواہ البخاری : باب التحریض علی قیام الیل) ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ رب تعالیٰ رات کے آخری حصے میں آسمان دنیا پر تشر یف لاکر فرماتے ہیں : کون ہے مجھ سے طلب کرنے والا میں اسکو عطاکروں اور کون ہے جو مجھ سے بخشش اور مغفرت چاہے میں اسکوبخش دوں۔“ المزمل
1 فہم القرآن ربط سورت : سورۃ الجن کے آخر میں یہ ارشاد ہوا کہ اللہ تعالیٰ جو وحی اپنے رسول پر بھیجتا ہے اس کی حفاظت کے لیے اس کے آگے پیچھے پہرے دار مقرر کرتا ہے تاکہ اس کی وحی من و عن اس کے رسول تک پہنچ جائے۔ الرّسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے منصب کا پہلا تقاضا ہے کہ رسول اس وحی کو یاد رکھے اور اسے لوگوں تک پہنچائے۔ یاد رکھنے کے لیے آپ کو تہجد پڑھنے کا حکم ہوا تاکہ ایک طرف آپ کو قرآن پر غور کرنے کا موقع ملے اور دوسری طرف آپ لوگوں تک پہنچانے کے لیے اپنے آپ پر ضبط کرنے کے عادی ہوجائیں کیونکہ تہجد اس کے آداب کے ساتھ ادا کی جائے تو آدمی کو اپنی طبیعت پر قابو پانا آسان ہوجاتا ہے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) چادر اوڑھ کر آرام فرماتھے کہ جبریل امین تشریف لائے اور انہوں نے سورۃ المزّمل کے پہلے رکوع پر مشتمل چند آیات تلاوت کیں۔ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے بڑے ہی پیارے انداز میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مخاطب فرمایا کہ اے کپڑا اوڑھنے والے رسول! پوری رات سونے اور آرام کرنے کی بجائے آدھی رات یا اس سے کم قیام کیا کرو بلکہ اس سے کچھ زیادہ کرو اور قیام میں ٹھہر ٹھہر کر قرآن مجید کی تلاوت کرو۔ قیام الیل کے دورانیہ کے لیے تین الفاظ استعمال فرمائے ہیں۔ آدھی رات یا اس سے کم یا اس سے کچھ زیادہ قیام کریں۔ آدھی رات یا اس سے کم کی اجازت اس لیے دی گئی تاکہ موسم اور طبیعت کالحاظ رکھتے ہوئے پوری توجہ اور یکسوئی کے ساتھ رات کا قیام ہو سکے۔ تلاوت قرآن کا بنیادی اصول یہی ہے کہ اسے ٹھہر ٹھہر کر پوری توجہ کے ساتھ پڑھا جائے۔ تہجد میں یہ حکم اس لیے دیا گیا ہے کہ یہ وقت بڑا ہی سہانا اور بابرکت ہوتا ہے۔ اس میں ٹھہر ٹھہر کر قرآن مجید پڑھا جائے تو انسان کی طبیعت پر بڑے ہی اچھے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اہل علم نے ترتیل کا معنٰی یہ لیا ہے کہ جن آیات میں عذاب کا تذکرہ ہو تو ان میں انسان کو اپنے رب سے ڈرنا چاہیے اور اس سے پناہ مانگنا چاہیے۔ جن آیات میں اللہ تعالیٰ کی نعمتوں اور اس کی جنت کا تذکرہ ہو تو ان آیات کی تلاوت کرتے وقت اللہ تعالیٰ سے التجا کرنی چاہیے، اس کے ساتھ ساتھ قرآن مجید کے احکام اور ارشادات پر بھی غور وفکر کرنا فرض ہے۔ فرض نماز کے بعد سب سے افضل نماز تہجد کی نماز ہے جسے نفل قرار دیا گیا ہے۔ نفل کا معنی ہے۔ ” زائد چیز“ رسول محترم نے نوافل کا فائدہ ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے کہ قیامت کے دن فرض نماز کی کمی، بیشی نفل نماز سے پوری کی جائے گی۔ بعض اہل علم کے نزدیک آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر پہلے تہجد فرض تھی بعد ازاں اسے نفل قرار دے دیا گیا۔ (بنی اسرائیل : ٧٩) تہجد کا لفظ ” جہد“ سے نکلاہے۔ جس کا مطلب ہے کوشش کرنا۔ مطلب یہ ہے کہ ” نیند کے بعد بیدار ہونا“ ظاہر ہے یہ کام ہمت اور کوشش کے بغیر نہیں ہوتا اس لیے کچھ اہل علم ضروری سمجھتے ہیں کہ تہجد کچھ دیر سونے کے بعد پڑھنی جائے۔ ان کے بقول سونے سے پہلے پڑھے جانے والے نوافل تہجد شمار نہیں ہوتے لیکن احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ آدمی اپنی صحت اور فرصت کے مطابق رات کے کسی حصے میں تہجد پڑھ سکتا ہے۔ البتہ اس کا افضل ترین وقت آدھی رات کے بعد شروع ہوتا ہے۔ سحری کا وقت حاجات و مناجات اور سکون و اطمینان کے لیے ایسا وقت ہے کہ لیل و نہار کا کوئی لمحہ ان لمحات کا مقابلہ نہیں کرسکتا زمین و آسمان کی وسعتیں نورانی کیفیت سے لبریز ہوتی ہیں۔ (عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَنْزِلُ رَبُّنَا تَبَارَکَ وَتَعَالٰی کُلَّ لَیْلَۃٍ اِلَی السَّمَآء الدُّنْیَا حِیْنَ یَبْقَی ثُلُثُ اللَّیْلِ الْاٰخِرِ یَقُوْلُ مَنْ یَدْعُوْنِیْ فَأسْتَجِیْبَ لَہُ مَنْ یَسْاَلنِیْ فأُعْطِیَہٗ مَنْ یَسْتَغْفِرُنِیْ فَأَغْفِرَلَہُ) (رواہ البخاری : باب التحریض علی قیام الیل) ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ رب تعالیٰ رات کے آخری حصے میں آسمان دنیا پر تشر یف لاکر فرماتے ہیں : کون ہے مجھ سے طلب کرنے والا میں اسکو عطاکروں اور کون ہے جو مجھ سے بخشش اور مغفرت چاہے میں اسکوبخش دوں۔“ (عَنْ یَعْلَی بْنِ مَمْلَکٍ أَنَّہُ سَأَلَ أُمَّ سَلَمَۃَ زَوْجَ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عَنْ قِرَاءَ ۃِ رَسُول اللہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وَصَلاَتِہِ، قَالَتْ مَا لَکُمْ وَصَلاَتِہِ کَانَ یُصَلِّی ثُمَّ یَنَامُ قَدْرَ مَا صَلَّی ثُمَّ یُصَلِّی قَدْرَ مَا نَامَ ثُمَّ یَنَامُ بِقَدْرِ مَا صَلَّی حَتَّی یُصْبِحَ ثُمَّ نَعَتَتْ لَہُ قِرَاءَ تَہُ فَإِذَا ہِیَ تَنْعَتُ قِرَاءَ ۃً مُفَسَّرَۃً حَرْفًا حَرْفًا.) (رواہ النسائی : باب التَّرْتِیلِ فِی الْقِرَاءَ ۃِ) ” یعلی بن مملک نے حضرت ام سلمہ (رض) سے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی قراءت اور نماز کے بارے میں پوچھا تو ام سلمہ (رض) نے فرمایا کہ تمہیں آپ کی نماز سے کیا واسطہ۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نماز پڑھتے پھر اتنی دیر سوتے جتنی دیر آپ نے نماز پڑھی ہوتی، پھر اتنی دیر ہی نماز پڑھتے جتنی دیر آپ نے آرام کیا ہوتا اس طرح پھر اتنی دیر ہی آرام کرتے جتنی دیر آپ نے نماز پڑھی ہوتی یہاں تک کہ صبح ہوجاتی۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی قراءت کے بارے میں فرماتی ہیں کہ آپ بہترین انداز میں، واضح اور حرف حرف کرکے قراءت کیا کرتے تھے۔“ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ (رض) یَرْفَعُہُ قَالَ سُءِلَ أَیُّ الصَّلاَۃِ أَفْضَلُ بَعْدَ الْمَکْتُوبَۃِ وَأَیُّ الصِّیَامِ أَفْضَلُ بَعْدَ شَہْرِ رَمَضَانَ فَقَالَ أَفْضَلُ الصَّلاَۃِ بَعْدَ الصَّلاَۃِ الْمَکْتُوبَۃِ الصَّلاَۃُ فِی جَوْفِ اللَّیْلِ وَأَفْضَلُ الصِّیَامِ بَعْدَ شَہْرِ رَمَضَانَ صِیَامُ شَہْرِ اللَّہِ الْمُحَرَّمِ) (رواہ مسلم :، باب فَضْلِ صَوْمِ الْمُحَرَّمِ) ” حضرت ابوہریرہ (رض) سے مروی ہے اور وہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مرفوعاً بیان کرتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا گیا کہ فرض نماز کے بعد کونسی نماز افضل ہے اور رمضان کے روزوں کے بعد کون سے روزے افضل ہیں۔ آپ نے فرمایا فرض نمازوں کے بعد افضل نماز آدھی رات کے وقت پڑھی جانے والی نماز ہے اور رمضان کے روزوں کے بعد افضل روزہ ماہ محرم کا روزہ ہے۔“ آ پ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تہجد کی کیفیت : ” حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عشاء کی نماز کے بعد اور فجر سے پہلے گیارہ رکعت ادا کیا کرتے تھے ہر دو رکعت کے بعد سلام پھیرتے اور ایک وتر ادا کرتے۔ اس قدر لمباسجدہ کرتے کہ اس دورانیہ میں اگر تم میں سے کوئی پچاس آیات کی تلاوت کرنا چاہے تو کرسکتا۔ جب مؤذن فجر کی اذان کہتا اور صبح نمایاں ہوجاتی تو آپ مختصر دورکعتیں ادا کرتے اور پھر دائیں جانب چند لمحے لیٹ جاتے پھر مؤذن نماز کی اطلاع کرتا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) گھر سے تشریف لے جاتے۔“ (رواہ البخاری : باب ایذان المؤذنین الائمۃ الصلٰوۃ) مسائل ١۔ اللہ کے نبی کو تہجد پڑھنے کا حکم تھا۔ ٢۔ تہجد کا افضل وقت آدھی رات کے بعد شروع ہوتا ہے۔ ٣۔ تہجد میں ٹھہر ٹھہر کر قرآن مجید کی تلاوت کرنی چاہیے۔ تفسیربالقرآن قرآن مجید میں تہجد کا تذکرہ : ١۔ نماز قائم کرو سورج کے ڈھلنے سے لیکر رات تک اور فجر کے وقت قرآن پڑھا کرو۔ (بنی اسرائیل : ٧٨) ٢۔ دن کے دونوں کناروں یعنی صبح شام اور رات کی گھڑیوں میں نماز پڑھا کرو۔ (ہود : ١١٤) ٣۔ سورج طلوع ہونے سے پہلے اور غروب ہونے سے پہلے اللہ کی تسبیح بیان کرو۔ رات کے کچھ اوقات میں اور نماز کے بعد بھی۔ (ق : ٣٩۔ ٤٠) ٤۔ سورج نکلنے اور غروب ہونے سے پہلے اور رات کے اوقات میں اور دن کے اطراف میں تسبیح و تحمید بیان کیا کریں۔ (طٰہٰ: ١٣٠) المزمل
2 المزمل
3 المزمل
4 المزمل
5 فہم القرآن ربط کلام : نماز تہجد اور اس میں تلاوت قرآن کا فائدہ۔ نبوت کا فریضہ تمام کاموں سے مشکل ترین کام ہے کسب معاش اور گھریلو ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ کسی لالچ کے بغیر دن، رات لوگوں کی خدمت کرنا بالخصوص انہیں توحید کی دعوت دینا اور شرک سے منع کرنا انتہائی مشکل اور صبر آزما کام ہے۔ اس کے لیے انتہادرجے کی جفاکشی اور بڑے صبر وحوصلہ کی ضرورت ہے، صبر و حوصلہ اور جفاکش بننے کے لیے آدھی رات کو اٹھ کر مصلّے پر کھڑا ہونا اور غور وفکر کرتے ہوئے ٹھہر ٹھہر کر قرآن مجید کی تلاوت کرنا اپنے نفس پر قابو پانے کا بہترین طریقہ ہے۔ بشرطیکہ اسے صرف عادت اور عبادت کے طور پر نہیں بلکہ اپنے احتساب اور تربیت کے لیے بھی پڑھا جائے، پھر کوئی وجہ نہیں کہ تہجد گزار شخص میں حوصلہ اور ضبط نفس نہ پایا جائے اسی لیے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرمایا گیا کہ آپ رات کو اٹھا کریں کیونکہ رات کا قیام اور قرآن کی تلاوت نفس پر قابو پانے اور قرآن کو توجہ کے ساتھ پڑھنے کا بہترین وقت ہے۔ دن میں اور بھی مشاغل ہوتے ہیں اس لیے طبیعت میں وہ یکسوئی پیدا نہیں ہوتی جو آدھی رات یا رات کے پچھلے پہر میں پیدا ہوتی ہے۔ بس سب سے کٹ کر اسی کا ذکر کرو! وہی مشرق و مغرب کا رب ہے۔ اس کے سوا کوئی عبادت اور اطاعت کے لائق نہیں وہی حاجت روا اور مشکل کشا ہے۔ بس اسی کو اپنے تمام کاموں اور پوری زندگی کے لیے وکیل سمجھو اور بناؤ! وکیل کا معنٰی ہے کہ جسے اپنا کام سونپ دیا جائے۔ ظاہر ہے کہ آدمی اسی کو اپنا کام سونپا ہے جس پر اس کا پورا اعتماد ہوتا ہے کہ وہ میرا کام اچھی طرح کرے گا اسی لیے ارشاد فرمایا کہ جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے رب کو وکیل بنا لیا تو اب مخالفوں کی مخالفت پر گھبرانے کی بجائے صبر و حوصلہ سے کام لینا اور ان سے بہترین طریقے سے الگ ہوجانا چاہیے۔ الگ ہونے کا یہ مقصد نہیں کہ انہیں سمجھانا نہیں، اس کا مطلب یہ ہے کہ ان سے الجھنے کی بجائے حکمت کے ساتھ سمجھانا اور ان کی بدکلامی اور ایذا پر صبر جمیل کرنا چاہے۔ صبر جمیل سے مراد ایسا صبر ہے جس میں کسی قسم کا شکوہ و شکایت نہ پایاجائے۔ (عَنِ ابْنِ عُمَرَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) الْمُؤْمِنُ الَّذِیْ یُخَالِطُ النَّاسَ وَیَصْبِرُ عَلٰی أَذَاھُمْ أَعْظَمُ أَجْرًا مِّنَ الْمُؤْمِنِ الَّذِیْ لَایُخَالِطُ النَّاسَ وَلَا یَصْبِرُ عَلٰی أَذَاھُمْ ) (رواہ ابن ماجۃ: کتاب الفتن، باب الصبر علی البلاء، ھٰذا حدیث صحیح) ” حضرت عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جو مومن لوگوں کے ساتھ مل جل کر رہتا ہے اور ان کی طرف سے پہنچنے والی تکلیفوں پر صبر کرتا ہے وہ اس مومن سے زیادہ اجر والا ہے جو نہ لوگوں میں گھل مل کررہتا ہے اور نہ ان کی دی ہوئی تکلیفوں پر صبر کرتا ہے۔“ مسائل ١۔ نفس پر قابو پانے کے لیے تہجد کی نماز بہترین عمل ہے۔ ٢۔ تہجد کی نماز میں قرآن پڑھنے کا زیادہ لطف آتا ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ کا ذکر ہر تعلق سے بے تعلق ہوکر کرنا چاہیے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ کے سوا مشرق ومغرب میں کوئی الٰہ نہیں لہٰذا اسی کو اپنا کارساز سمجھنا چاہیے۔ ٥۔ حق کے خلاف لوگوں کی باتوں پر صبر کرنا چاہیے اور ان سے اچھے انداز میں الگ رہنا چاہیے۔ تفسیربالقرآن اللہ تعالیٰ ہی کارساز ہے اور ہر حال میں اسی پر توکل کرنا چاہیے : ١۔ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اللہ پر توکل کرنے کی ہدایت۔ (النمل : ٧٩) ٢۔ مومنوں کو اللہ تعالیٰ پر توکل کرنے کا حکم۔ (المجادلہ : ١٠) ٣۔ انبیاء اور نیک لوگ اللہ ہی پر توکل کرتے اور کرتے ہیں۔ (یوسف : ٦٧) ٤۔ اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرنا چاہیے کیونکہ وہ عرش عظیم کا مالک ہے۔ (التوبہ : ١٢٩) ٥۔ جو اللہ پر توکل کرتا ہے اللہ اسے کافی ہوجاتا ہے۔ (الطلاق : ٣) المزمل
6 المزمل
7 المزمل
8 المزمل
9 المزمل
10 المزمل
11 فہم القرآن ربط کلام : نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو صبر کرنے اور جھگڑا کرنے والوں سے کنارہ کش ہونے کی تلقین کرنے کے بعد آپ کے مخالفین کو زبردست انتباہ۔ قرآن مجید نے توحید، رسالت اور آخرت کے بارے میں سینکڑوں دلائل دیئے مگر پھر بھی اہل مکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جھوٹا قرار دیتے تھے۔ اس پر ایک طرف آپ کو صبر کی تلقین کی گئی ہے اور دوسری طرف یہ فرمایا کہ اے نبی! مجھے جھٹلانے والوں سے نبٹ لینے دیں یہ اپنی دولت کے نشے میں مست ہیں انہیں تھوڑی سی مزید مہلت دیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس موقع پر اپنے لیے ” ذَرْنِیْ“ کا لفظ استعمال کیا ہے۔ اس کا معنٰی ہے کہ مجھے چھوڑ دیں تاکہ جو لوگ بالخصوص سرمایہ دار آپ کو جھٹلاتے ہیں ان کے ساتھ نبٹ لوں۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ کفار سے نبٹنے کے لیے اللہ تعالیٰ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یا کسی دوسرے کے ہاتھیوں مجبور تھا اور ہے، یہ تنبیہ کا ایک انداز ہے جو ہر زبان میں مخالف کو ڈرانے اور دھمکانے کے لیے اختیار کیا جاتا ہے۔ مقصد دوسرے کو زبردست انداز میں انتباہ کرنا ہوتا ہے دولت مند سے مراد کوئی خاص شخص نہیں بلکہ اس سے مراد مکہ کے وہ سردار ہیں جو وسائل اور افرادی قوت کی بنا پر اپنے آپ کو بڑا سمجھتے تھے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھیوں کو حقیر جانتے تھے۔ انہیں بتلایا گیا کہ آخرت میں تمہارا انجام یہ ہوگا کہ ہمارے پاس تمہارے لیے بھاری بھر کم بیڑیاں ہیں اور بھڑکتی ہوئی آگ اور گلے میں پھنس جانے والا کھانا اور اذّیت ناک عذاب ہوگا۔ اس دن زمین اور پہاڑ لرزا اٹھیں گے۔ جب بلند وبالا اور مضبوط ترین پہاڑ لرز اٹھیں گے تو ان کی کیا مجال کے یہ اپنے رب کے سامنے دم مار سکیں، اس مقام پر فرمایا کہ پہاڑ ریت کے ٹیلے بن جائیں گے دوسرے مقام پر ارشاد ہوا : (وَیَسْءَلُوْنَکَ عَنِ الْجِبَالِ فَقُلْ یَنْسِفُہَا رَبِّیْ نَسْفًا۔ فَیَذَرُہَا قَاعًا صَفْصَفًا۔ لَّا تَرٰی فِیْہَاعِوَجًا وَّ لَآ اَمْتًا) (طٰہٰ: ١٠٥ تا ١٠٧) ” یہ لوگ آپ سے پوچھتے ہیں کہ یہ پہاڑکہاں چلے جائیں گے فرمادیں کہ میرا رب ان کو دھول بناکر اڑا دے گا اور زمین کو چٹیل میدان بنا دے گا۔ تم زمین میں کوئی اونچ نیچ نہیں دیکھ پاؤ گے۔“ (عَنْ صُہَیْبٍ (رض) قَالَ قَالَ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عَجَبًا لِأَمْرِ الْمُؤْمِنِ إِنَّ أَمْرَہٗ کُلَّہٗ خَیْرٌ وَلَیْسَ ذَاکَ لِأَحَدٍ إِلَّا لِلْمُؤْمِنِ إِنْ أَصَابَتْہُ سَرَّاءُ شَکَرَ فَکَانَ خَیْرًا لَہٗ وَإِنْ أَصَابَتْہُ ضَرَّاءُ صَبَرَ فَکَانَ خَیْرًا لَہٗ) (رواہ مسلم : کتاب الزہد والرقائق، باب المؤمن أمرہ کلہ خیر) ” حضرت صہیب (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا مومن کے معاملات عجیب ہیں اس کے تمام معاملات میں خیر ہے اور یہ صرف مومن کے لیے ہے اگر اسے آسانی ملتی ہے تو وہ اللہ کا شکر ادا کرتا ہے یہ اسکے لیے بہتر ہے اگر اسے تکلیف پہنچتی ہے تو صبر کرتا ہے یہ بھی اس کے لیے بہتر ہے۔“ مسائل ١۔ جھگڑالو لوگوں کے مقابلے میں صبر کرنا چاہیے اور ان سے بہترین انداز میں اپنا دامن بچانا چاہیے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے مکذبین کے لیے بیڑیاں اور بھڑکتی ہوئی آگ تیار کی ہے۔ ٣۔ مکذبین کے لیے بدترین کھانا اور اذیت ناک عذاب تیار کیا گیا ہے۔ ٤۔ قیامت کے دن زمین اور پہاڑ اس طرح ہلا دئیے جائیں گے جس سے پہاڑ ریت کے ذرات بن جائیں گے۔ تفسیر بالقرآن اللہ کے نافرمانوں کا انجام : ١۔ قیامت کے دن مجرموں کو با ہم زنجیروں میں جکڑدیا جائے گا۔ (ابراہیم : ٤٩) ٢۔ قیامت کے دن کفار کو طوق پہنا کر جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔ (الحاقہ : ٣٠۔ ٣١) ٣۔ قیامت کے دن مجرموں کی آنکھیں جھکی ہوئی ہوں گی اور ان پر ذلت چھا رہی ہوگی۔ (المعارج : ٤٤) ٤۔ قیامت کے دن مجرموں کے ابرو پاؤں کے انگوٹھے کے بال سے باندھ دیے جائیں گے۔ (الرحمن : ٤١) ٥۔ اس دن آپ دیکھیں گے کہ مجرم اپنے سروں کو جھکائے پروردگار کے سامنے پیش ہوں گے۔ (السجدۃ: ١٢) ٦۔ مجرم تھور کے درخت سے اپنے پیٹ بھریں گے اور کھولتا ہوا پانی پئیں گے۔ (الصٰفٰت : ٦٦۔ ٦٧) ٧۔ بے شک مجرم ہمیشہ جہنم میں رہیں گے۔ (الزخرف : ٧٤) المزمل
12 المزمل
13 المزمل
14 المزمل
15 فہم القرآن ربط کلام : جن مکذبین کو بیڑیوں سے جکڑا جائے گا اور ان کو اذّیت ناک عذاب میں مبتلا کیا جائے گا ان میں سرِفہرست فرعون اور اس کے پیروکار ہوں گے۔ سورہ مزمل کی چوتھی آیت میں ارشاد ہوا ہے کہ ہم آپ پر بھاری فرمان نازل کرنے والے ہیں اس کی تفسیر کرتے ہوئے یہ عرض کی ہے کہ کفار اور مشرکین کے سامنے قرآن مجید کی دعوت پیش کرنا فی نفسہٖ بڑا مشکل اور بھاری کام ہے۔ اس بھاری کام کو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صبح وشام مکہ اور اس کے گرد ونواح میں سرانجام دے رہے تھے۔ اس کا رد عمل وہی تھا جس کا مظاہرہ فرعون اور اس کے ساتھیوں نے موسیٰ (علیہ السلام) کے سامنے کیا تھا۔ فرعون اور اس کے ساتھیوں کا انجام بتلانے کے لیے اہل مکہ کو براہ راست مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ ہم نے تمہاری طرف ایسا رسول مبعوث کیا ہے جیسا رسول فرعون کی طرف مبعوث کیا تھا، فرعون نے موسیٰ (علیہ السلام) کی نافرمانی کی جس کے نتیجے میں ہم نے فرعون اور اس کے ساتھیوں کی سخت ترین گرفت کی۔ (النَّارُ یُعْرَضُوْنَ عَلَیْہَا غُدُوًّا وَعَشِیًّا وَیَوْمَ تَقُوْمُ السَّاعَۃُ اَدْخِلُوْا آلَ فِرْعَوْنَ اَشَدَّ الْعَذَابِ) (المومن : ٤٦) ” آل فرعون صبح وشام جہنم کی آگ کے سامنے پیش کیے جاتے ہیں، اور قیامت کے دن حکم ہوگا کہ آل فرعون کو شدید ترین عذاب میں داخل کردو۔“ (عَنْ أَبِی عُبَیْدَۃَ عَنْ أَبِیہِ قَالَ أَتَیْتُ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَقُلْتُ قَدْ قُتِلَ أَبُو جَہْلٍ اَوْ قَدْ قَتَلْتُ أَبَا جَہْلٍ قَالَ أَنْتَ رَأَیْتَہُ ؟ قُلْتُ نَعَم قَال آللَّہِ مَرَّتَیْنِ ؟ قُلْتُ نَعَمْ قَالَ فَاذْہَبْ حَتَّی أَنْظُرَ إِلَیْہِ فَذَہَبَ فَأَتَاہُ وَقَدْ غَیَّرَتِ الشَّمْسُ مِنْہُ شَیْءًافَأَمَرَ بِہِ وَبِأَصْحَابِہِ فَسُحِبُوا حَتَّی أُلْقُوا فِی الْقَلِیبِ قَالَ وَأُتْبِعَ أَہْلُ الْقَلِیبِ لَعْنَۃً وَقَالَ کَانَ ہَذَا فِرْعَوْنَ ہَذِہِ الأُمَّۃِ) (رواہ احمد : باب حدیث العباس، اسنادہ ضعیف) ” حضرت ابو عبیدہ بیان کرتے ہیں کہ ان کے باپ نے کہا کہ میں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا میں نے کہا اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ابوجہل قتل ہوگیا ہے یا میں نے ابو جہل کو قتل کردیا ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تو نے اس کو دیکھا ہے؟ میں نے کہا کیوں نہیں! آپ نے دو مرتبہ اللہ کی قسم کھائی میں نے کہا جی ہاں! آپ نے فرمایا میرے ساتھ چلو یہاں تک کہ میں بھی اسے دیکھ لوں۔ آپ چلے، جب اس کی لاش کے پاس پہنچے تو دیکھا کہ دھوپ کی وجہ سے اس کا رنگ تبدیل ہوچکا ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو اور اس کے ساتھیوں کو کنویں میں ڈالنے کا حکم دیا تو انہیں گندے پانی کے کنویں میں پھینک دیا گیا۔ پھر کنویں والوں پر لعنت کی گئی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ابوجہل اس امت کا فرعون ہے۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کو موسیٰ (علیہ السلام) کی نبوت کے ساتھ مشابہ قرار دیا۔ ٢۔ جس طرح فرعون نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی مخالفت اور نافرمانی کی اسی طرح اہل مکہ نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مخالفت اور نافرمانی کی۔ ٣۔ جس طرح فرعون اور اس کے ساتھیوں کا انجام ہوا بالکل ایسے ہی ابو جہل اور اس کے ساتھیوں کا بدترین انجام نکلا۔ تفسیربالقرآن فرعون اور اس کے ساتھیوں کا انجام : ١۔ ہم آج تیرے جسم کو بچائیں گے تاکہ بعد میں آنے والوں کے لیے نشان عبرت بنائیں۔ (یونس : ٩٢) ٢۔ ہم نے ان کو ان کے گناہوں کی وجہ سے ہلاک کردیا اور آل فرعون کو غرق کیا۔ (الاعراف : ٦٤) ٣۔ ہم نے فرعونیوں سے انتقام لیا اور انہیں دریا برد کردیا۔ (الزخرف : ٥٥) ٤۔ ہم نے فرعون اور اس کے ساتھیوں کو غرق کردیا۔ (بنی اسرائیل : ١٠٣) ٥۔ ہم نے موسیٰ اور اس کے ساتھیوں کو نجات دی اور آل فرعون کو غرق کردیا۔ (الشعراء : ٦٦) ٦۔ ہم نے انہیں اور ان کے لشکروں کو پکڑ کر دریا میں پھینک دیا۔ (الذاریات : ٤٠) ٧۔ قیامت کے دن (فرعون) اپنی قوم کے آگے آگے چلے گا اور وہ انہیں دوزخ میں لے جائے گا۔ (ہود : ٩٨) المزمل
16 المزمل
17 فہم القرآن ربط کلام : فرعون کا انجام بتلا کر اہل مکہ کو ان کا آخرت کا انجام بتلایا گیا ہے۔ انبیائے کرام (علیہ السلام) کی دعوت کا انکار کرنے والی اقوام کا دنیا میں بدترین انجام ہوا جن میں سر فہرست فرعون اور اس کے ساتھی ہیں۔ ان کا انجام بتلاتے ہوئے اہل مکہ کو ایک دفعہ پھر براہ راست خطاب کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ اگر تم نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مخالفت اور آپ کی دعوت کا انکار کروگے تو بتاؤ اس دن کی سختیوں سے کس طرح بچ سکو گے جو دن بچوں کو بوڑھا کردے گا؟ اور آسمان پھٹ جائے گا۔ یاد رکھو کہ یہ سب کچھ ہو کر رہے گا کیونکہ یہ رب ذوالجلال کا وعدہ ہے جو ہر صورت پورا ہوگا۔ جس قرآن کے ذریعے تمہیں ڈرایا جاتا ہے اس میں تمہارے لیے نصیحت ہے۔ انسان کو چاہیے کہ وہ قرآن کی نصیحت کو قبول کرے اور اپنے رب کی طرف جانے والے راستے پر گامزن ہوجائے، اسی میں اس کی دنیا اور آخرت کی کامیابی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہدایت اور گمراہی کا راستہ واضح فرما کر انسان کو اختیار دیا ہے کہ وہ ان میں سے جس کا چاہے انتخاب کرے۔ مسائل ١۔ قیامت کے دن آسمان پھٹ جائے گا اور یہ ہو کر رہے گا کیونکہ یہ ” اللہ“ کا وعدہ ہے۔ ٢۔ قرآن مجید لوگوں کے لیے نصیحت ہے اب جس کا دل چاہے نصیحت حاصل کرے اور اپنے رب کی طرف جانے والے راستے پر گامزن ہوجائے۔ ٣۔ قیامت کے دن بچے بھی بوڑھے ہوجائیں گے۔ المزمل
18 المزمل
19 المزمل
20 فہم القرآن ربط کلام : لوگوں کو واضح الفاظ میں نصیحت کرنے کے بعد ایک دفعہ پھر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تہجد اور اسلام کے بنیادی ارکان کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔ اس سورت کی ابتدائی چار آیات میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تہجد پڑھنے کا حکم دیا گیا، حکم ہوا کہ آپ آدھی رات یا رات کا تہائی حصہ اپنے رب کے حضور قیام کریں اور اس میں قرآن مجید کو ٹھہر ٹھہر کر پڑھا کریں۔ اب حکم ہوا کہ آپ کا رب جانتا ہے کہ آپ اور آپ کے ساتھی کبھی دوتہائی رات، کبھی آدھی رات اور کبھی ایک تہائی رات قیام کرتے ہیں اسے معلوم ہے کہ تم اتنا طویل قیام مسلسل نہیں کرسکوگے اس لیے اس نے تم پر اپنی مہربانی فرمائی ہے لہٰذا تم رات کے قیام میں اپنی آسانی کے مطابق قرآن پڑھ لیا کرو۔ اسے معلوم ہے کہ تم میں بعض لوگ بیمار ہوجاتے ہیں، کچھ اللہ کا فضل تلاش کرنے کے لیے دن کے وقت کام کاج کرنے کے لیے زمین میں ادھر ادھر پھرتے ہیں اور کچھ اس کی راہ میں قتال کرتے ہیں۔ اس لیے تمہارے لیے آسانی کی جاتی ہے اب رات کو اتنا ہی قرآن پڑھو جتنا تم اپنے لیے آسان سمجھو۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کی تلاوت میں تخفیف کی اجازت دے کر تہجد کے طویل قیام کو مختصر کردیا ہے۔ تہجد کی نماز زیادہ سے زیادہ تیرہ رکعت ہے ان کی طوالت کا انحصار قرآن مجید کی تلاوت پر ہے۔ تہجد میں جتنا قرآن زیادہ پڑھا جائے گا اتنی رکعات طویل ہوں گی اگر قرآن تھوڑا پڑھا جائے گا تو رکعات کی طوالت تھوڑی ہوجائے گی۔ اس لیے اجازت دی گئی ہے کہ جتنا آسانی کے ساتھ قرآن پڑھ سکتے ہو اتنا ہی پڑھ لیا کرو۔ اس سے یہ بات ثابت ہوئی کہ حتی المقدور تہجد کا قیام لمبا کیا جائے تاکہ اس میں زیادہ سے زیادہ قرآن مجید کی تلاوت ہوسکے۔ دوسرا حکم فرض نماز کا دیا گیا ہے کہ اسے ہر حال میں قائم رکھو قائم رکھنے سے مراد اسے بر وقت پڑھنا اور اس کے تقاضے پورے کرنا ہے۔ تیسرا حکم زکوٰۃ کا دیا ہے جو اللہ تعالیٰ کو قرض دینے کے مترادف ہے زکوٰۃ ادا کرنے کے علاوہ یہاں عام صدقہ کرنے کا بھی اشارہ موجود ہے۔ نماز اور زکوٰۃ کا حکم دینے کے بعد ارشاد فرمایا ہے کہ جو کچھ تم اپنے لیے آگے بھیجو گے اسے اللہ تعالیٰ کے ہاں بہت بہتر اور بہت زیادہ پاؤ گے۔ نماز اور زکوٰۃ ادا کرنے کے ساتھ ساتھ اللہ کے حضور استغفار کرتے رہو اور یقین رکھو کہ اللہ تعالیٰ معاف کرنے والا اور نہایت مہربان ہے۔ المزمل
0 سورۃ المدثر کا تعارف المدّثر کا لفظ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا توصیفی نام قرار پایا ہے اس سورت کی چھپن آیات اور دو رکوع ہیں یہ مکہ معظمہ میں نازل ہوئی۔ مفسرین نے دلائل کے ساتھ ثابت کیا ہے کہ اقراء کے بعد یہ دوسری وحی ہے جس میں اس سورت کی ابتدائی آیات نازل ہوئیں جن میں آپ کو ابتدائی اور بنیادی ہدایات دی گئیں۔ حکم ہوا کہ اے کپڑا اوڑھ کر لیٹنے والے، اٹھو اور لوگوں کو خبردار کرو، اپنی رب کی کبریائی کا اعلان کرو، اپنے کپڑے پاک صاف رکھو، گندگی سے دور رہو اور کسی پر اس لیے احسان نہ کرو کہ اس سے کوئی معاوضہ طلب کیا جائے اور ہمیشہ اپنی رب کی خاطر صبر کرتے رہو۔ جو آپ کی دعوت کا انکار کریں انہیں قیامت کے دن سے ڈراؤ اور فرماؤ کہ اس دعوت اور قیامت کا انکار کرنے والوں کے لیے وہ دن بڑا بھاری ہوگا جو شخص قرآن مجید کا نکار کرے اور اسے جادو قرار دے گا یا یہ کہے کہ یہ کسی انسان کا کلام ہے اسے جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔ اس میں مجرم کی کھال جلا دینے والی آگ ہوگی اس پر انیس ملائکہ کی ڈیوٹی لگائی گئی ہے قرآن مجید نے بتلایا کہ جہنم پر انیس فرشتے ہوں گے۔ جہنم سے ڈرنے اور بچنے کی بجائے کفار نے اس بات کو مذاق کا نشانہ بنایا اس پرچاند، رات اور صبح کی قسم کھا کر انتباہ کیا ہے کہ جہنم بڑی چیزوں میں ایک بہت بڑی چیز ہے۔ جس میں نافرمانوں کو پھینکا جائے گا جہنمی جہنم میں ڈالے جائیں گے تو ان سے پوچھا جائے گا کہ تمھیں جہنم میں کیوں داخل کیا گیا ہے جہنمی اقرار کریں گے کہ ہم نماز نہیں پڑھتے تھے، مسکینوں کو کھانا نہیں کھلاتے تھے، حق کے خلاف باتیں بنایا کرتے تھے اور قیامت کے دن کو جھٹلایا کرتے تھے۔ اب ہمیں یقین آ گیا ہے کہ ساری باتیں حق پر مبنی تھیں۔ اس وقت وہ خواہش کریں گے کہ ہماری کوئی سفارش کرے تاکہ ہم جہنم سے نجات پا جائیں۔ لیکن انہیں کسی کی سفارش کوئی فائدہ نہیں دے گی یہ باتیں لوگوں کو نصیحت کی جاتی ہیں۔ اس نصیحت سے وہی لوگ فائدہ اٹھائیں گے جو نصیحت حاصل کرنا چاہتے ہیں نصیحت وہی حاصل کرتا ہے جسے اللہ تعالیٰ توفیق عطاء فرماتا ہے توفیق انہیں ملتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اس سے ڈر کر زندگی بسر کرتے ہیں اللہ تعالیٰ ہی لوگوں کی بشری کمزوریوں کو معاف فرمانے والا ہے کیونکہ وہ غفور الرّحیم ہے۔ المدثر
1 فہم القرآن ربط سورت : سورۃ المزمل کی ابتداء اور اس کے آخر میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تہجد کا ایک فائدہ یہ بتلایا گیا کہ تہجد کی نماز انسان میں ضبط نفس اور مستعدی پیدا کرتی ہے۔ المدثر کے آغاز میں حکم ہوا کہ اب آرام کا وقت ختم ہوا اس لیے ” اللہ“ کے راستے میں اٹھ کھڑے ہوں اور اپنا لباس پاک صاف رکھیں، شرک کی نجاست سے دور رہیں، تبلیغ کا کام کسی معاوضہ کی غرض سے نہ کریں اور اس راستے میں آنے والے مصائب پر صبر کرتے رہیں۔ سورۃ العلق کی ابتدائی آیات نازل ہونے کے بعد ایک مدت تک آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر وحی نازل نہ ہوئی۔ اس مدت کے بارے میں محدثین اور مفسرین میں اختلاف ہے۔ کچھ کا خیال ہے کہ ایک سال تک وحی نازل نہیں ہوئی لیکن ثقہ روایات سے ثابت ہوتا ہے کہ سورۃ العلق کے نزول کے کچھ دن بعد سورۃ المدثر کی ابتدائی آیات نازل ہوئیں۔ جن کے بارے میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے۔ (وَعَنْ جَابِرٍ (رض) اَنَّہُ سَمِعَ رَسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یُحَدِّثُ عَنْ فَتْرَۃِ الْوَحْیِ قَالَ فَبَیْنَا اَنَا اَمْشِیْ سَمِعْتُ صَوْتًا عَنِِ السَّمَاءِ فَرَفَعْتُ بَصَرِیْ فَاِذَاالْمَلَکُ الَّذِیْ جَآءَ نِیْ بِحِرَاءَ قَاعِدٌ عَلٰی کُرْسِیٍّ بَیْنَ السَّمَاءِ وَالْاَرْضِ فَجُءِثْتُ مِنْہُ رُعْبًاحَتّٰی ھَوَیْتُ اِلَی الْاَرْضِ فَجِءْتُ اِلٰی اَھْلِیْ فَقُلْتُ زَمِّلُوْنِیْ زَمِّلُوْنِیْ فَزَمَّلُوْنِْی فَاَنْزَلَ اللّٰہُ تَعَالٰی (یَا اَیُّھَاالْمُدَّثِّرُ قُمْ فَاَنْذِرْ وَرَبَّکَ فَکَبِّرْ وَثِیَابَکَ فَطَھِّرْ وَالرُّجْزَفَاھْجُرْ) ثُمَّ حَمِیَ الْوَحْیُ وَتَتَابَعَ) (رواہ مسلم : باب بَدْءِ الْوَحْیِ إِلَی رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ” حضرت جابر (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا، آپ وحی کے منقطع ہونے کے بارے فرما رہے تھے فرمایا کہ ایک مرتبہ میں چل رہا تھا کہ میں نے آسمان سے آواز سنی۔ نظر اٹھائی تو وہی فرشتہ جو میرے پاس حراء میں آیا تھا، وہ آسمان اور زمین کے درمیان ایک کرسی پر بیٹھا ہوا تھا۔ اس سے مجھے اتنا خوف لاحق ہوا کہ میں زمین کے ساتھ لگا جا رہا تھا۔ میں واپس اپنے گھروالوں کے پاس آیا اور انہیں کہا کہ مجھے کپڑا اوڑھا دو، مجھے کپڑادو۔ انہوں نے مجھے چادر اوڑھا دی۔ پھر اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائیں۔ ” اے کپڑا اوڑھنے والے! کھڑے ہو جاؤاور مخلوق کو اپنے رب کی کبریائی سے ڈراؤ اور اپنے کپڑوں کو پاک صاف رکھو، اور شرک سے کنارہ کش رہو اس کے بعد پے در پے اور مسلسل وحی آنے لگی۔“ المدّثرکا آغاز بھی بڑے دلرُبا انداز میں ہوا۔ ارشاد ہوا کہ اے کپڑا اوڑھنے والے ! اللہ کے راستے میں کھڑے ہوجاؤ اور لوگوں کو ان کے برے اعمال کے برے انجام سے ڈراؤ اور لوگوں کو اپنے رب کی کبریائی سے آگاہ فرماؤ۔ یہ حکم سننے کے بعد اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے راستے میں کھڑے ہوئے اور تیئس سال تک اس دعوت کے لیے کھڑے رہے نہ کاروبار کی طرف توجہ فرمائی اور نہ ہی اپنے آرام کا خیال رکھا۔ تہجد کی نماز میں بھی یہی فکر دامن گیر رہی اور دن بھی اسی کام میں گزرے۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے کئی بار آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ارشاد فرمایا کہ میرے نبی! اگر یہ لوگ ایمان نہیں لاتے تو کیا آپ ان کے لیے اپنے آپ کو ہلاک کرلیں گے ؟ (الشعراء : ٣، الکھف : ٦) المدّثر کی ابتدائی آیات میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بنیادی ہدایات دی گئیں جو ہر مبلغ اور راہنما کے لیے ضروری ہیں۔ ١۔ راہنما اور مبلغ کا فرض ہے کہ وہ اپنی قوم کو خطرات سے آ گاہ کرے، بالخصوص آخرت کے بارے میں لوگوں کو متنبہ کرتا رہے کیونکہ فکر آخرت کی بنیاد پر ہی انسان اپنے افکار اور کردار کو ٹھیک کرسکتا ہے، جو شخص آخرت کی جواب دہی سے لاپرواہ ہوجائے اس کا درست ہونا ناممکن ہوتا ہے۔ اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے رشتہ داروں اور ساتھیوں کو آخرت کے بارے میں ان الفاظ میں ڈرایا کرتے تھے۔ (عَنْ عَدِیِّ بْنِ حَاتِمٍ (رض) قَالَ قَال النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَا مِنْکُمْ مِنْ أَحَدٍ إِلَّا وَسَیُکَلِّمُہُ اللّٰہُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ لَیْسَ بَیْنَ اللّٰہِ وَبَیْنَہٗ تُرْجُمَانٌ ثُمَّ یَنْظُرُ فَلَا یَرٰی شَیْءًا قُدَّامَہُ ثُمَّ یَنْظُرُ بَیْنَ یَدَیْہِ فَتَسْتَقْبِلُہُ النَّارُ فَمَنْ اسْتَطَاعَ مِنْکُمْ أَنْ یَتَّقِیَ النَّارَ وَلَوْ بِشِقِّ تَمْرَۃٍٍ۔۔ فَمَنْ لَّمْ یَجِدْ فَبِکَلِمَۃٍ طَیِّبَۃٍ) (رواہ البخاری : باب کلام الرب عزوجل یوم القیامۃ مع الأنبیاء وغیرھم) ” حضرت عدی بن حاتم (رض) بیان کرتے ہیں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تم میں سے ہر کسی کے ساتھ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کلام کریں گے، اللہ اور اس شخص کے درمیان کوئی ترجمان نہیں ہوگا، وہ دیکھے گا اس نے کیا عمل کیے ہیں، آدمی دیکھے گا تو سامنے آگ ہوگی تم میں جو استطاعت رکھتا ہے وہ آگ سے بچے چاہے اسے کھجور کا ایک ٹکڑا صدقہ کرنا پڑے۔۔ جو یہ نہ پائے تو وہ اچھی بات کہے۔“ (یَافَاطِمَۃَ بِنْتَ مُحَمَّدٍ یَاصَفِیَّۃَ بِنْتَ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ یَابَنِیْ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ لَاأَمْلِکُ لَکُمْ مِنَ اللّٰہِ شَیْءًا سَلُوْنِیْ مِنْ مَّالِیْ مَا شِءْتُمْ) (رواہ مسلم : باب فی قولہ وأنذر عشیرتک الأقربین) ” اے محمد کی بیٹی فاطمہ اور عبدالمطلب کی بیٹی صفیہ اور اے عبدلمطلب کی اولاد۔ میں تمہارے لیے اللہ کے ہاں کسی چیز کا مالک نہیں ہوں گا البتہ میرے مال میں سے جتنا چاہو مطالبہ کرسکتے ہو۔“ ٢۔ رَبَّکَ فَکَبِّرْ: جس بات سے لوگوں کو آگاہ کرنا اور ڈرانا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی کبریائی ہے اگر انسان کو اپنے رب کی بڑائی اور کبریائی کا احساس ہوجائے تو وہ کبھی جان بوجھ کر اس کی نافرمانی نہ کرے۔ ہر انسان کو یہ احساس ہونا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کے سامنے کوئی دم نہیں مار سکتا۔ وہ جب چاہے اور جس طرح چاہے انسان کو پکڑ سکتا ہے۔ اس کی پکڑ سے کوئی کسی کو چھڑا نہیں سکتا۔ اللہ تعالیٰ کی کبریائی کے تصور سے انسان میں بیک وقت کئی تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی کبریائی کا تصور رکھنے والے شخص کے دل میں تکبر کی بجائے عاجزی پیدا ہوتی ہے، وہ اپنوں کے سامنے عاجز اور متواضع ہوتا ہے اور اسلام کے دشمنوں کے سامنے شیر کی طرح دلیر اور پہاڑ کی مانند مضبوط ہوتا ہے۔ وہ رب ذوالجلال کے سوا کسی کو سپر پاور تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ اللہ تعالیٰ کی کبریائی کا احساس رکھنے کی وجہ سے وہ اپنے رب کے حکم کے سامنے سرفکندہ رہتا ہے۔ جس مبلغ کا ایمان ہو کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی کبریاء نہیں تو وہ دین بالخصوص اس کی توحید کا پرچار کرتے ہوئے کسی سے خوفزدہ نہیں ہوتا۔ اسی لیے المدثر یعنی دوسری وحی میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ارشاد ہوا کہ اپنے رب کی کبریائی بیان کرو۔ اللہ تعالیٰ کی کبریائی بیان کرنے کا اوّلین مقصد یہ ہے کہ مبلغ دلائل کے ثابت کرے کہ ” اللہ“ کے سوا کوئی خالق، مالک، رازق اور معبود برحق نہیں ہے وہی مشکل کشا اور حاجت روا ہے یہی وہ دعوت ہے جس کے لیے تمام انبیاء کرام مبعوث کیے گئے اور اسی کے لیے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم ہوا کہ لوگوں کو اپنے رب کی کبریائی سے ڈرائیں۔ اللہ تعالیٰ کے کبریا ہونے کے عقیدے کی تقویت کے لیے اذان، اقامت، نماز اور اس کے بعد، عیدین کی نماز، عیدگاہ کی طرف آنے، جانے کے وقت، چڑھائی چڑھتے ہوئے، جانور ذبح کرتے ہوئے، یہاں تک کہ جمرات کو کنکریاں مارتے ہوئے اور حجر اسود کا بوسہ لیتے ہوئے بھی اللہ اکبر کہنے کا حکم ہے تاکہ مسلمان اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو سپر پاور نہ سمجھے مسلمانوں نے جب سے اللہ تعالیٰ کو اپنا کبریا ماننا چھوڑ دیا اسی وقت سے ذلیل ہونا شروع ہوئے ہیں۔ حالانکہ اس کا حکم ہے۔ (وَلَہُ الْکِبْرِیَآءُ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَہُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ) (الجاثیہ : ٣٧) ” زمین اور آسمانوں میں بڑائی اسی کے لیے ہے اور وہی زبردست اور حکیم ہے۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے نبی آخر الزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مدثر کے لقب سے پکارا ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو لوگوں کو برے انجام سے ڈرانے کے لیے مبعوث فرمایا۔ ٣۔ نبی آخر الزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے عزیز واقرباء اور لوگوں کو اللہ کی پکڑ سے ڈرایا۔ ٤۔ ” اللہ“ بہت بڑا ہے اس کی کبریائی پر ایمان لاتے ہوئے اس کی بڑائی کرنا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن ہر قسم کی قوت اور کبریائی ” اللہ“ کے لیے ہے : ١۔ ” اللہ“ ہی رب ہے۔ ( لانعام : ١٠٢) ٢۔ ” اللہ“ ہی ہر چیز کا خالق ہے۔ (الرعد : ١٦) ٣۔ ” اللہ“ ہی ازلی اور ابدی ذات ہے۔ (الحدید : ٣) ٤۔ مشرق ومغرب ” اللہ“ کے لیے ہے۔ (البقرۃ: ١٤٢) ٥۔ ” اللہ“ غنی اور تعریف کیا گیا۔ ( فاطر : ٣٥) ٦۔ زمین و آسمان پر ” اللہ“ کی بادشاہی ہے۔ (آل عمران : ١٨٩) ٧۔ زمین و آسمانوں میں صرف ” اللہ“ ہی کبریا ہے اور وہ ہر چیز پر غالب اور بڑی حکمت والا ہے۔ (الجاثیہ : ٢٧) ٨۔ جو کچھ آسمان و زمین میں ہے وہ ” اللہ“ کی ملکیت ہے اور ا ” اللہ“ ہر چیز پر قادر ہے۔ (آل عمران : ١٨٩) المدثر
2 المدثر
3 المدثر
4 فہم القرآن ربط کلام : نبوت کے آغاز میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مزید ہدایات۔ دعوت دینے والے کی دعوت کتنی ہی اچھی کیوں نہ ہو اگر وہ ان باتوں کا خیال نہیں رکھتا تو لوگ اس کی شخصیت اور دعوت سے متاثر ہونے کی بجائے اس سے دور بھاگ جائیں گے اس لیے نبوت کے ابتدائی دور میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو درج ذیل ہدایات دی گئیں۔ 1۔ اپنے لباس کو صاف اوراُجلا رکھیں، یادرہے کہ اس زمانے میں لوگ اس شخص کو پارسا سمجھتے تھے جو دنیا کے امور سے الگ تھلگ رہتا اور صاف ستھرا لباس پہننے سے پرہیز کرتا تھا۔ اسلام ترک دنیا اور گندہ رہنے کو انتہائی نا پسند سمجھتا ہے، بے شک دین میں سادگی کو بڑی اہمیت حاصل ہے لیکن انسان کا پاک اور صاف ستھرا رہنا نہایت ضروری ہے۔ پاک صاف رہنے سے آدمی نا صرف دیکھنے میں معزز اور شائستہ نظر آتا ہے بلکہ اس کی طبیعت میں بھی خوشی اور چستی پیدا ہوتی ہے۔ 2۔ جس طرح لباس پاک صاف رکھنے کا حکم ہے اسی طرح حکم ہے کہ انسان کو ہر قسم کی جسمانی اور اخلاقی غلاظت سے بھی پاک ہونا چاہیے۔ ایک آدمی لباس کے اعتبار سے کتنا ہی صاف ستھر ا رہتاہو اگر وہ جسمانی اور اخلاقی لحاظ سے گندہ ہے تو وہ کسی اچھے مقصد میں کامیاب نہیں ہوسکتا، سب سے بڑی گندگی اخلاق اور اعتقادکی گندگی شرک ہے۔ اس لیے کچھ اہل علم نے ” اَلرُّجْزَ“ سے مراد شرک لیا ہے کیونکہ قرآن مجید نے ایک مقام پر مشرک کو کھلے لفظوں میں گندہ قرار دیا ہے۔ (الحج : ٣٠) 3۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جس معاشرے اور قوم میں مبعوث کیا گیا وہ معاشرہ اور قوم ہر اعتبار سے گمراہی کی انتہا کو پہنچی ہوئی تھی۔ لوگ شرک کو اللہ تعالیٰ کی قربت کاذریعہ سمجھتے اور گمراہی کو دین ابراہیم کا نام دیتے تھے۔ اس معاشرے میں توحید کی دعوت دینا اور لوگوں کو گمراہی سے نکالنا اس طرح تھا جیسے کوئی شخص خود مشکلات کو دعوت دے رہا ہو اس لیے آپ کو صبر کی تلقین کی گئی۔ 4۔ ایک مسلمان کی دوسرے کے ساتھ سب سے بڑی خیرخواہی یہ ہے کہ وہ اس کو اللہ کی توحید سمجھائے اور صراط مستقیم کی دعوت دے۔ صراط مستقیم کی طرف لانے والا شخص حقیقت میں دوسرے کا سب سے بڑا محسن ہوتا ہے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رحمت عالم اور خاتم المرسلین بنا کر مبعوث کیے گئے ہیں۔ آپ نے مکہ والوں کی اصلاح کے لیے دن رات ایک کیا ہوا تھا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) انسانیت کے عظیم محسن تھے مگر مکہ والوں نے آپ کے احسان کا برا بدلا دیا جس پر آپ کا رنجیدہ خاطر ہونا اور آپ کے دل میں اس سوچ کا آنا فطری بات تھی کہ میں ان کی خیرخواہی کرتا ہوں اور یہ میرے ساتھ برا سلوک کرتے ہیں۔ اس سوچ سے بچنے کے لیے ابتدا میں ہی آپ کو یہ بات سمجھا دی گئی کہ آپ نے تبلیغ یاکسی کے ساتھ نیکی اس لیے نہیں کرنی کہ وہ آپ کو اس کے بدلے میں کچھ دے اور نہ ہی اپنے کام کا کسی کو احسان جتلانا ہے بلکہ آپ کو کھلے الفاظ میں یہ کہنا ہے۔ (قُلْ مَا اَسْاَلُکُمْ عَلَیْہِ مِنْ اَجْرٍ وَّمَا اَنَا مِنَ الْمُتَکَلِّفِینَ) (ص : ٨٦) ” میں اپنے کام پر تم سے کوئی اجر نہیں مانگتا اور نہ میں تکلف کرنے والوں میں سے ہوں۔“ 5۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ بات بھی سمجھا دی گئی کہ جس راستے پر آپ کو گامزن کیا گیا ہے یہ مصائب کا راستہ ہے آپ کو مصائب برداشت کرنے کے لیے ہر وقت تیار رہنا ہوگا۔ ” پس اے نبی صبر کرو جس طرح اولو العزم رسولوں نے صبر کیا ہے اور لوگوں کے معاملہ میں جلدی نہ کرو، جس دن یہ لوگ اس چیز کو دیکھ لیں گے جس کا انہیں خوف دلایا جا رہا ہے، انہیں یوں معلوم ہوگا کہ دنیا میں دن کی ایک گھڑی سے زیادہ نہیں ٹھہرے۔“ (الاحقاف : ٣٥) مسائل ١۔ ہر آدمی بالخصوص ایک مبلّغ کو لباس پاک صاف رکھنے کے ساتھ ہر قسم کی ناپاکی سے بچے رہنا چاہیے۔ ٢۔ زیادہ طلب کرنے کے لیے کسی پر احسان نہیں کرنا چاہیے۔ ٣۔ اپنے رب کے لیے ہر حال میں صبر کرنا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن صبر کی اہمیت اور اس کے فوائد : ا۔ صبر اہم کاموں میں اہم ترین کام ہے۔ (الاحقاف : ٣٥) ٢۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو صبر کا حکم دیا گیا۔ (المعارج : ٥) ٣۔ اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ (البقرۃ : ١٥٣) ٤۔ صبر کا انجام اچھا ہوتا ہے۔ (الحجرات : ٥) ٥۔ صبر کرنے والے کامیاب ہوں گے۔ (المومنون : ١١١) ٦۔ مسلمان صابر کی آخرت اچھی ہوگی۔ (الرعد : ٢٤) ٧۔ صبر کرنے والوں کو جنت میں سلامتی کی دعائیں دی جائیں گی۔ (الفرقان : ٧٥) ٨۔ صابر بغیر حساب کے جنت میں جائیں گے۔ (الزمر : ١٠) المدثر
5 المدثر
6 المدثر
7 المدثر
8 فہم القرآن ربط کلام : اللہ کے رسول نے جونہی لوگوں کو اللہ کی توحید کی دعوت دی تو وہ لوگ آپ کی جان کے دشمن ہوگئے اور انہوں نے آپ کی مخالفت میں ایڈی چوٹی کا زور لگا دیا۔ ایسے لوگوں کو ان کا انجام بتلایا گیا ہے کہ آج تم اپنی طاقت پر گھمنڈ کرتے ہو۔ وہ وقت یاد کرو جس دن صور پھونکا جائے گا۔ انکار کرنے والوں کے لیے یہ دن بڑا سخت ہوگا اور اس کی سختی کا کوئی مقابلہ نہیں کرسکے گا۔ سرداران مکہ نے بڑی کوشش کی کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت کی طرف لوگ متوجہ نہ ہوسکیں لیکن دعوت کی کشش، آپ کے اخلاق اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عظیم جدوجہد کے نتیجہ میں لوگ آپ کی ذات کے گرویدہ اور توحید کی دعوت قبول کیے جا رہے تھے یہ بات سرداران مکہ کے لیے انتہائی تکلیف دہ تھی۔ اس کے لیے وہ سرجوڑ کر بیٹھتے اور غور کرتے کہ اس دعوت کو کس طرح روکا جائے بالخصوص حج کے موقع پر ان کی نیندیں حرام ہوجاتیں، وہ بار بار اس بات پر غور کرتے کہ زائرین حرم کو آپ کی ذات اور دعوت سے کس طرح روکا جائے۔ اسی ایجنڈے کے پیش نظر سرداران مکہ نے ایک نمائندہ اجلاس بلایا اور لوگوں کے سامنے یہ مسئلہ پیش کیا کہ حج کی آمد آمد ہے۔ اس لیے ہمیں پہلے سے ہی اس بات کی منصوبہ بندی کرلینی چاہیے تاکہ ہمارے مؤقف میں کوئی تضاد نہ پایا جائے اس طرح ہم لوگوں کو (محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روک سکتے ہیں۔ ایک شخص نے یہ تجویز پیش کی کہ ہم لوگوں کو یہ بات کہیں گے کہ یہ شاعر ہے اور شاعرانہ کلام سے لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرلیتا ہے۔ صدر مجلس ولید نے اس بات کی تردید کی کہ ہم شاعرانہ کلام کو اچھی طرح سمجھتے ہیں یہ بات آپ پر لاگو نہیں ہوتی۔ دوسرے نے کہا کہ ہم اسے کاہن کے طور پر پیش کریں گے لیکن ولید نے اس کی بھی تردید کرتے ہوئے کہا کہ کاہن تو اوٹ پٹانگ باتیں کرتے ہیں یہ الزام بھی اس پر صادق نہیں آتا بالآخر اس نے خود تجوید دی کہ ہم اسے جادو گر کہیں گے کیونکہ اس کے کلام میں جادو کا اثر پایا جاتا ہے جو بھی اس کی بات توجہ سے سنتا ہے وہ اس کا ہو کر رہ جاتا ہے۔ اس پر مجمع نے اسے بڑی داد دی جس پر اس نے فاخرانہ انداز میں ناک چڑھائی اور منہ بسوڑا اور متکبرانہ انداز میں مجلس برخواست کرتا ہوا اٹھ کھڑا ہوا، پھر پوری رعونت کے ساتھ اپنے گھر کی طرف چلا گیا۔ بظاہر تو یہ ایک شخص کا واقعہ ہے لیکن حق سے روگردانی کرنے والا ہر بڑا شخص ایسا ہی کردار رکھتا ہے۔ اس لیے اس کے کردار کی نشاندہی کرتے ہوئے اسے یوں انتباہ کیا گیا۔ مجھے اور اس شخص کو چھوڑ دیں جسے میں نے اکیلا پیدا کیا اور اسے بہت سا مال دیا اور اس کو بیٹے دیئے جو ہر وقت اس کے سامنے حاضر رہتے ہیں اور اسے ہر طرح کی کشادگی دی اس کے باوجود یہ امید رکھتا ہے کہ اسے مزید دیا جائے یہ ہرگز نہیں ہوگا کیونکہ وہ ہماری آیات کے ساتھ عناد رکھتا ہے عنقریب کٹھن منزل کی طرف چڑھایا جائے گا۔ اس نے سوچا اور اپنی طرف سے بات بنانے کی کوشش کی، اس پر اللہ کی مار ہو کیونکہ اس نے ہماری آیات کو جھٹلایا اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر جادوگر ہونے کا الزام لگایا پھر لوگوں کی طرف فاخرانہ انداز میں دیکھا اور اپنی پیشانی پر تیور چڑھائے، منہ بسوڑا اور متکبرانہ انداز میں اٹھ کھڑا ہوا اور کہا کہ یہ تو پہلے دورکا جادو ہے جو اسی طرح چلا آرہا ہے اور انسان کا بنایا ہوا کلام ہے۔ اسے معلوم ہونا چاہیے کہ عنقریب میں اسے دوزخ میں جھونک دوں گا۔ ان آیات میں ولید بن مغیرہ کا کردار اور اس کے گھریلو حالات کا ذکر کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس شخص کو بہت سامال دیا اور بارہ بیٹے عطا فرمائے جو ہر وقت اس کے حکم کے منتظر رہتے تھے۔ چاہیے تو یہ تھا وہ اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت پر غور کرتا اور حلقہ اسلام میں داخل ہوجاتا لیکن اس نے اپنی مالی حیثیت اور افرادی قوت کو اللہ اور اس کے رسول کے خلاف استعمال کیا اور اس کے نتیجے میں دنیا اور آخرت میں ذلیل ہوا۔ ذلیل اور نافرمان ہونے کے باوجود اس کی خواہش اور کوشش تھی کہ مجھے اور زیادہ مال و اسباب دیئے جائیں تاکہ میں عرب کا بادشاہ بن جاؤں۔ فرمایا کہ اب اسے کچھ نہیں دیا جائے گا اب تو اس کا مقدر بربادی ہے کیونکہ وہ ہماری آیات کے ساتھ عناد رکھتا ہے عنقریب اسے مشکل ترین گھاٹی پر چڑھایا جائے گا اس نے برا سوچا اور بری بات بنانے کی کوشش کی اس پر اللہ کی مار ہے۔ گھاٹی سے مراد مشکل اور زلت ہے چنانچہ یہ شخص بدر کے میدان میں ذلّت کی موت مرا۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ جسے مال اور اولاد دے اسے چاہیے کہ وہ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے۔ ٢۔ جو شخص اللہ کی آیات کی پرواہ نہیں کرتا اور دین کے بارے میں بری باتیں بناتا ہے۔ ٣۔ ” اللہ“ کی آیات سے منہ پھیرنا اور تکبر کرنا انتہا درجے کا جرم ہے۔ ٤۔ قرآن مجید اللہ کا کلام ہے اسے جادو یا کسی انسان کا کلام کہنا اس کے ساتھ کفر کرنا ہے۔ ٥۔ جو شخص قرآن مجید کو کسی انسان کا کلام قرار دیتا اسے جہنم میں دھکیلاجائے گا۔ ٦۔ جہنم کی آگ مجرموں کی چمڑیاں ادھیڑ دے گی۔ تفسیر بالقرآن جہنم کی آگ کی تفصیل۔ ١۔ جہنم سے نکلنے کی کوئی صورت نہیں ہوگی۔ (البقرۃ: ١٦٧) ٢۔ جہنم سے چھٹکارا پانا مشکل ہے۔ (الزخرف : ٧٧) ٣۔ جہنم میں موت و حیات نہیں ہوگی۔ (طٰہٰ: ٧٤) ٤۔ جہنم کی سزا میں وقفہ نہیں ہوگا۔ (فاطر : ٣٦) ٥۔ جہنم کا عذاب چمٹ جانے والا ہے۔ (الفرقان : ٦٥) ٦۔ جہنم بدترین ٹھکانا ہے۔ (آل عمران : ١٩٧) ٧۔ جہنمی کو آگ کے ستونوں سے باندھ دیا جائے گا۔ (ہمزہ : ٩) المدثر
9 المدثر
10 المدثر
11 المدثر
12 المدثر
13 المدثر
14 المدثر
15 المدثر
16 المدثر
17 المدثر
18 المدثر
19 المدثر
20 المدثر
21 المدثر
22 المدثر
23 المدثر
24 المدثر
25 المدثر
26 فہم القرآن ربط کلام : مجرم شخص کو جس کٹھن گھاٹی پر چڑھائے جانے کی دھمکی دی گئی ہے وہ جہنم ہے۔ جو لوگ اللہ تعالیٰ کے فرامین کا انکار کرتے ہیں انہیں بہت جلد جہنم میں جھونکا جائے گا۔ اے قرآن پڑھنے والے ! تو نہیں جانتا ہے کہ جہنم کیا ہے ؟ وہ اللہ کا تیار کیا ہوا عقوبت خانہ ہے جس میں مجرم کو موت نہیں آئے گی اور نہ اس کی زندگی ہوگی گویا کہ وہ موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا رہے گا۔ وہ چمڑی ادھیڑ دینے والی آگ ہے اس پر انیس فرشتے مقرر کیے گئے ہیں اور یہ تعداد کفار کے لیے آ زمائش بنا دی گئی ہے ہاں یہ ان لوگوں کے لیے آزمائش نہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے ایمان لانے کی توفیق بخشی ہے۔ جنت کے فرشتوں کی تعداد اس لیے بتائی گئی ہے تاکہ اہل کتاب کو یقین ہو اور اہل ایمان کے ایمان میں اضافہ ہو اور انہیں کسی قسم کا شک باقی نہ رہے۔ جن کے دل میں شک کی بیماری ہے اور جنہوں نے کفر اختیار کر رکھا ہے وہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اس مثال سے کیا سمجھایا ہے ؟ سنو ! اس مثال کا مقصد یہ ہے کہ اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ لوگوں کی آزمائش کرے کہ کون اس کے فرمان کو مِن و عن مانتا ہے اور کون اس میں باتیں بناتا ہے۔ اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے گمراہ کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے۔ یقین کرو! کہ ” اللہ“ کے لشکروں کو اس کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جب کفار کے سامنے ان آیات کی تلاوت کی تو انہوں نے اپنے انجام پر غور کرنے کی بجائے اس بات کا مذاق اڑایا کہ ایک طرف یہ نبی کہتا ہے کہ جو لوگ مجرم ہوں گے انہیں جہنم میں پھینکا جائے گا ظاہر ہے کہ اس کے بقول لاتعداد لوگ جہنم میں جائیں گے کیا کروڑوں کھربوں انسانوں کو صرف انیس فرشتے قابو کریں گے اور سزا دیں گے یہ کیسے ممکن ہوسکتا ہے۔ اس بات پر مزید ہرزہ سرائی کرتے ہوئے ایک دوسرے کو کہنے لگے کہ کیا ہم اتنے گئے گزرے ہیں کہ انیس فرشتوں کو قابو نہیں کرسکیں گے مکے کا ایک پہلوان کہنے لگا کہ فکر نہ کرو کہ سترہ ملائکہ کو میں اکیلا ہی سنبھال لوں گا باقی کو سنبھالنے کے لیے تم کافی ہوگے۔ یاد رہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں کچھ مسائل مثال کے ذریعے سمجھائے ہیں جن لوگوں کے دلوں میں نفاق کی کھوٹ ہے وہ اس مثال کو سمجھنے کی بجائے اس کا مذاق اڑاتے ہیں حالانکہ جس بات کو مثال کے ذریعے سمجھایا جائے اس میں کوئی ابہام باقی نہیں رہتا۔ لیکن جن کے دلوں میں کفر و نفاق کا مرض ہوتا ہے وہ حق کو تسلیم کرنے کی بجائے اس سے مزید دور ہوجاتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے لیے اصول یہ ہے کہ انہیں گمراہی کے لیے کھلا چھوڑ دیا جاتا ہے۔ ہدایت اور گمراہی اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے جو اللہ تعالیٰ سے ہدایت کا طالب ہوتا ہے وہ اسے ہدایت سے نوازتا ہے اور جو ہدایت سے بے اعتنائی کرتا ہے اسے گمراہی میں کھلا چھوڑ دیا جاتا ہے۔ جہاں تک اہل کتاب کے یقین کرنے کا تعلق ہے ان کی اصل کتابوں میں جہنم کے ملائکہ کی تعداد انیس موجود ہے وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ کوئی نبی ” اللہ“ پر جھوٹ نہیں بولتا اس لیے قرآن مجید نے جہنم کے فرشتوں کی جو تعداد بتلائی ہے وہ حق پر مبنی ہے۔ جہنم کی آگ کی کیفیت : (اِِنَّہَا عَلَیْہِمْ مُوْصَدَۃٌ فِیْ عَمَدٍ مُّمَدَّدَۃٍ) (ہمزہ : ٨، ٩) ” وہ ان پر ڈھانک دی جائے گی۔ لمبے لمبے ستونوں کی طرح ہوگی۔“ (اِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا بِاٰیٰتِنَا سَوْفَ نُصْلِیْھِمْ نَارًاکُلَّمَا نَضِجَتْ جُلُوْدُھُمْ بَدَّلْنٰھُمْ جُلُوْدًاغَیْرَھَا لِیَذُوْقُوا الْعَذَابَ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَزِیْزًا حَکِیْمًا) (النساء : ٥٦) ” جن لوگوں نے ہماری آیتوں سے کفر کیا انہیں ہم یقیناً آگ میں ڈال دیں گے جب ان کی کھالیں جل جائیں گی تو ان کی جگہ ہم دوسری کھالیں بدل دیں گے تاکہ وہ عذاب چکھتے رہیں یقیناً اللہ تعالیٰ غالب، حکمت والا ہے۔“ (وَالَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَآ اصْرِفْ عَنَّا عَذَابَ جَہَنَّمَ اِِنَّ عَذَابَہَا کَانَ غَرَامًا) (الفرقان : ٦٥) ” اللہ کے بندے دعائیں کرتے ہیں کہ اے ہمارے رب ہمیں جہنم کے عذاب سے بچالے جہنم کا عذاب چمٹ جانے والاہے۔“ (ثُمَّ لَا یَمُوتُ فِیْہَا وَلَا یَحْیٰی) (الاعلیٰ: ١٣) ” پھر اس میں موت نہیں آئے گی اور نہ ہی زندگی ہوگی۔“ مسائل ١۔ جہنم کی سختیوں کا کوئی شخص اندازہ نہیں کرسکتا۔ ٢۔ جہنمی جہنم میں ہمیشہ ہمیش موت وحیات کی کشمکش میں رہیں گے۔ ٣۔ جہنم کی آگ جہنمیوں کی چمڑیاں ادھیڑ دے گی۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ نے جہنم پراُنیس ملائکہ مقرر کیے ہیں۔ کفار اس تعداد کا مذاق اڑاتے ہیں مومن اور اہل کتاب اس پر یقین رکھتے ہیں۔ ٥۔ ہدایت اور گمراہی اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے۔ تفسیر بالقرآن جہنم کی ہولناکیوں کا ایک منظر : ١۔ جہنم کا ایندھن لوگ اور پتھر ہوں گے۔ (البقرۃ: ٢٤) ٢۔ جہنم پر سخت گیر فرشتوں کی ڈیوٹی لگائی گئی ہے۔ (التحریم : ٦) ٣۔ مجرم جہنم کے گرجنے برسنے کی آوازیں سنیں گے۔ (الفرقان : ١٢) ٤۔ جہنم کی آگ بہت زیادہ تیز ہوگی۔ (التوبۃ: ٨١) ٥۔ جہنم بھرنے کا نام نہیں لے گی۔ (ق : ٣٠) ٦۔ جہنم کے شعلے بڑے بڑے مکانوں کی طرح بلند ہوں گے۔ (المرسلٰت : ٣٢) المدثر
27 المدثر
28 المدثر
29 المدثر
30 المدثر
31 المدثر
32 فہم القرآن ربط کلام : جہنم کی ہولناکیوں کا مزید ذکر۔ سابقہ آیات میں جہنم کی ہولناکیوں اور اس پر مقرر کردہ ملائکہ کی تعداد کا ذکرہوا جسے اہل مکہ نے مذاق کا نشانہ بنایا اس پر ارشاد ہوا کہ یہ لوگ جہنم کے ملائکہ کی تعدا پر اعتراض کررہے ہیں انہیں کیا خبر! کہ آپ کے رب کے لشکر کتنی تعداد میں ہیں اور کس قدر طاقتور ہیں ان کی تعداد اور طاقت کو صرف اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے لہٰذا تمہیں جہنم سے ڈرنا چاہیے۔ قسم ہے چاند کی اور رات کی جب وہ پلٹتی ہے اور صبح کی قسم جب وہ روشن ہوجاتی ہے جس جہنم کا یہ مذاق اڑاتے ہیں وہ اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی خوفناک چیزوں میں بڑی ہی خوفناک جگہ ہے، چاند، رات اور دن کا حوالہ دے کر یہ حقیقت واضح کی گئی ہے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ نے چاند، رات اور دن پیدا کیے ہیں اسی طرح ہی اس نے جہنم بنائی ہے اور اس پر انیس فرشتے مقرر کیے ہیں، جس طرح چاند، رات اور دن کو مانتے ہو اسی طرح مانو کہ جہنم بھی موجود ہے جو بڑی خوف ناک جگہ ہے اور اس پر انیس فرشتے کنٹرولر ہیں۔ اب یہ انسان کی مرضی پر منحصر ہے کہ وہ اس سے ڈرتا ہے اور ایمان لانے میں آگے بڑھتا ہے یا پیچھے رہتا ہے البتہ انسان کو یاد رکھنا چاہیے کہ ہر کوئی اپنے کیے کے بدلے رہن ہے یعنی اسے اپنے اعمال کا بدلہ پانا ہے۔ مسائل ١۔ چاند، رات اور صبح روشن کی قسم ! جہنم بہت بڑی آفت گاہ ہے۔ ٢۔ جہنم سے بچنا یا اس میں گرنا انسان کے اپنے اعمال کا نتیجہ ہوگا۔ ٣۔ ہر انسان اپنے اعمال کے بدلے اپنے آپ کو گروی رکھے ہوئے ہے۔ المدثر
33 المدثر
34 المدثر
35 المدثر
36 المدثر
37 المدثر
38 المدثر
39 فہم القرآن ربط کلام : ہر انسان اپنے اعمال کے بدلے میں گروی ہے اسی بنیاد پر ہی نجات پائے گا یا پکڑا جائے گا۔ اپنے اعمال کی وجہ سے پکڑے جانے والے لوگوں سے جنتی مستثنیٰ ہوں گے انہیں نیک اعمال کے بدلے جنت میں داخلہ دیا جائے گا وہ جنت میں تشریف فرما ہونے کے باوجود گاہے گاہے جہنمیوں سے بات چیت کرسکیں گے تاکہ جہنمیوں کو یہ احساس ہو کہ دنیا میں ہمارے ساتھ رہنے والے لوگ جنہیں ہم حقیر سمجھتے تھے وہ آج جنت میں عیش وعشرت کے ساتھ رہ رہے ہیں اور ہم ان کے مقابلے میں اذّیت ناک سزائیں پا رہے ہیں۔ جب جنتی ان سے سوال کریں گے کہ تمہیں کون سی چیز جہنم میں لے آئی ہے تو وہ اقرار کریں گے کہ ہم نماز پڑھنے والوں میں نہ تھے او ہم مسکینوں کو کھانا نہیں کھلایا کرتے تھے اور ہم حق کے خلاف باتیں کرنے والوں میں شامل تھے اور قیامت کے دن کو جھوٹ قرار دیتے تھے۔ اسی حالت میں ہمیں موت آئے گی یہاں تک کہ ہمیں جہنم کے ساتھ واسطہ پڑا ہے جس پر ہم یقین نہیں کرتے تھے اب ہمیں یقین ہوگیا ہے۔ یہاں کلام کے سیاق وسباق سے معلوم ہوتا ہے کہ جہنمی جنتیوں سے درخواست کریں گے کہ اللہ تعالیٰ کے حضور ہماری نجات کی سفارش کی جائے۔ لیکن ان کی سفارش کرنے والا کوئی نہیں ہوگا۔ جن کی کوئی سفارش نہیں کرسکے گا وہ کافر، مشرک اور منافق ہوں گے یہ لوگ ہمیشہ ہمیش جہنم میں رہیں گے جہنمی جن گناہوں کا سب سے پہلے اعتراف کریں گے وہ تین ہیں۔ تارک نماز ہونا : حقوق اللہ میں سب سے پہلے اللہ کا بندے پر حق یہ ہے کہ بندہ صرف ایک اللہ کی عبادت کرے اور عبادات میں سب سے پہلا فرض نماز ہے۔ (بَیْنَ الرَّجُلِ وَبَیْنَ الشِّرْکِ وَالْکُفْرِ تَرْکُ الصَّلٰوۃِ) (رواہ مسلم : کتاب الایمان) ” مسلمان اور کفر و شرک کے درمیان ترک نماز کا فرق ہے۔“ جہنمی کا اقرارکہ ہم کھانا نہیں کھلاتے تھے : حقوق اللہ کے بعد حقوق العباد ہیں حقوق العباد میں سر فہرست وہ لوگ ہیں جو زندگی کی بنیادی ضروریات پوری کرنے سے قاصر ہیں۔ انسان کی بنیادی ضروریات میں اس کی پہلی ضرورت یہ ہے کہ اسے روح اور جسم کا رشتہ قائم رکھنے کے لیے خوراک میسر ہونی چاہئے اگر کوئی غریب دو وقت کی روٹی سے محروم ہے تو اس کے پڑوسی اور حکومت کا فرض ہے کہ وہ اس کی خوراک کابندوبست کرے دین اسلام نے اس فرض کو اس حد تک لازم قرار دیتا ہے۔ (عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ (رض) یَقُولُ سَمِعْتُ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَقُولُ لَیْسَ الْمُؤْمِنُ الَّذِی یَشْبَعُ وَجَارُہُ جَاءِعٌ إِلَی جَنْبِہِ) (مَا جَاءَ فِی کَرَاہِیَۃِ إِمْسَاکِ الْفَضْلِ، وَغَیْرُہُ مُحْتَاجٌ إِلَیْہِ) ” حضرت عبداللہ بن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا آپ فرمارہے تھے کہ وہ شخص مومن نہیں جو خود سیر ہو کر کھائے اور اس کا پڑوسی اس کے پڑوس میں بھوکا رہے۔“ قیامت کا انکار کرنا : قرآن مجید کا مطالعہ کرنے والا ہر شخص جانتا ہے کہ قرآن مجید کا تیسرا بڑا مضمون فکر آخرت ہے جو شخص آخرت پر یقین نہیں رکھتا اور اس کیلئے تیاری نہیں کرتا وہ قیامت کے دن پکڑا جائے گا اور وہاں اس کی کوئی سفارش کرنے والا نہیں ہوگا۔ مسائل ١۔ جنتیوں کے سوال کے جواب میں جہنمی اقرار کریں گے کہ ہم بے نماز تھے اور مسکینوں کو کھانا نہیں کھلایا کرتے تھے۔ ٢۔ جہنمی اقرار کریں گے کہ ہم حق کے مقابلے میں باتیں بنایا کرتے اور جہنم کو جھٹلایا کرتے تھے۔ ٣۔ جہنمیوں کے اقرار کرنے کے باوجود ان کی سفارش کرنے والا کوئی نہیں ہوگا۔ المدثر
40 المدثر
41 المدثر
42 المدثر
43 المدثر
44 المدثر
45 المدثر
46 المدثر
47 المدثر
48 المدثر
49 فہم القرآن ربط کلام : مجرموں کو ان کا اقرار اور انجام بتلانے کے بعد ایک دفعہ پھر نصیحت کی گئی ہے مجرموں کو کیا ہوگیا ہے کہ جب انہیں نصیحت کی جاتی ہے تو اس پر توجہ کرنے کی بجائے اس سے اس طرح منہ موڑتے ہیں گویا کہ جنگلی گدھے ہیں جو شیر کو دیکھ کر بھاگ کھڑے ہوں۔ ان لوگوں کی حالت یہ ہے کہ ان میں سے ہر ایک چاہتا ہے کہ اس کے نام کھلے خط بھیجے جائیں جن میں ان سے ایمان لانے کی درخواست کی جائے ایسا ہرگز نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ ان کے پاس جب بھی کوئی نشانی آتی ہے تو کہتے ہیں ہم ہرگز ایمان نہیں لائیں گے یہاں تک کہ ہمیں وہی کچھ دیا جائے جو اللہ کے رسولوں کو دیا گیا ہے۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ زیادہ جانتا ہے کہ اپنی رسالت کہاں رکھے عنقریب وہ لوگ جنہوں نے جرم کیے اللہ کے ہاں انہیں ذلت پہنچے گی اور سخت عذاب ہوگا اس وجہ سے کہ وہ مکرو فریب کرتے تھے۔“ (الانعام : ١٢٤) (اَوْ یَکُوْنَ لَکَ بَیْتٌ مِّنْ زُخْرُفٍ اَوْ تَرْقٰی فِی السَّمَآءِ وَلَنْ نُّوْمِنَ لِرُقِیِّکَ حَتّٰی تُنَزِّلَ عَلَیْنَا کِتٰبًا نَّقْرَؤُہٗ قُلْ سُبْحَانَ رَبِّیْ ہَلْ کُنْتُ اِلَّا بَشَرًا رَّسُوْلًا) (بنی اسرائیل : ٩٣) ” تیرے لیے سونے کا ایک گھر ہو یا تو آسمان میں چڑھ جائے اور ہم تیرے چڑھنے پر بھی یقین نہیں کریں گے یہاں تک کہ تو ہم پر کتاب لے آئے جسے ہم پڑھیں آپ فرما دیں کہ میرا رب پاک ہے میں تو ایک پیغام پہنچانے والا انسان ہوں۔“ گویا کہ ان میں ہر ایک اپنے نام ہدایت کا پروانہ آنے کی خواہش رکھتا ہے وجہ یہ ہے کہ ان کے دل فکر آخرت سے عاری ہوچکے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ قرآن تو ایک نصیحت ہے جس کا دل چاہے اس سے نصیحت حاصل کرے مگر نصیحت اسے نصیب ہوتی ہے جس کے لیے اللہ تعالیٰ پسند کرتا ہے۔ ” اللہ“ ہی اس بات کا حق رکھتا ہے کہ اس سے ڈرا جائے کیونکہ وہی لوگوں کے گناہوں کو معاف کرنے والاہے۔ ان آیات میں منکرین حق کی حق سے دوری اور نفرت کا ذکر کرنے کے بعد یہ حقیقت بیان کی ہے کہ جو لوگ آخرت کی جوابدہی کا فکر نہیں رکھتے وہ ہدایت نہیں پا سکتے۔ آخرت کی فکر اور ہدایت اسے نصیب ہوتی ہے جس کے لیے اللہ تعالیٰ پسند کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے لیے ہدایت پسند کرتا ہے جو اس سے ڈرتا اور ہدایت طلب کرتا ہے۔ کیونکہ اللہ کے ڈر کے بغیر فکر آخرت نصیب نہیں ہوتی اور جسے فکر آخرت نصیب نہیں وہ اللہ تعالیٰ سے نہیں ڈرتا۔ فہم القرآن کے کئی مقامات پر اس بات کی وضاحت کی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہدایت اور گمراہی کو کھول کر بیان کردیا ہے جو شخص ہدایت کی خواہش اور اس کے لیے کوشش کرے گا اسے ہدایت مل جائے گی جو اس سے لاپرواہی کرے گا اسے گمراہی کے لیے کھلا چھوڑ دیا جائے گا اس لیے ارشاد فرمایا ہے کہ جس کے لیے اللہ پسند کرتا ہے ہدایت اسے نصیب ہوتی ہے۔ مسائل ١۔ جو لوگ اللہ تعالیٰ کی نصیحت سے ا عراض کرتے ہیں ان میں کچھ ایسے ہوتے ہیں جو نصیحت سن کر جنگلی گدھوں کی طرح بھاگ جاتے ہیں۔ ٢۔ اہل مکہ میں کچھ لوگوں کا مطالبہ تھا کہ ان کے پاس براہ راست قرآن آنا چاہیے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ کا یہ اصول نہیں کہ وہ ہر شخص کے پاس براہ راست اپنا پیغام بھیجے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے قرآن مجید نصیحت ہے۔ جس کا دل چاہے اسے قبول کرے اور جس کا دل چاہے اسے چھوڑ دے اللہ تعالیٰ کی طرف سے کسی پر کوئی جبر نہیں۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے ہدایت کی توفیق دیتا ہے۔ ٦۔ اللہ تعالیٰ سے ڈرنا چاہیے۔ وہی ڈرنے کے لائق اور لوگوں کے گناہ بخشنے والاہے۔ المدثر
50 المدثر
51 المدثر
52 المدثر
53 المدثر
54 المدثر
55 المدثر
56 المدثر
0 سورۃ القیامہ کا تعارف اللہ تعالیٰ نے اس سورت کی ابتداء میں القیامۃ اور لفظ لوامۃ کی قسم کھا کر فرمایا ہے کہ قیامت کا منکر سمجھتا ہے کہ اس کے مرنے کے بعد ہم قیامت کے دن اس کی ہڈیوں کو جمع نہیں کرسکیں گے؟ کیوں نہیں! ہم تو اس کی انگلیوں کا یک ایک پور ٹھیک ٹھیک طریقے سے جمع کریں گے۔ جو لوگ قیامت کا انکار کرتے ہیں دراصل وہ چاہتے ہیں کہ ہم اس طرح ہی نافرمانیاں کرتے رہیں اور ہمیں پوچھنے والا کوئی نہیں ہونا چاہیے۔ اس لیے مذاق کے طور پر پوچھتے ہیں کہ قیامت کب آئے گی انہیں بتائیں کہ قیامت اس دن آئے گی جس دن آنکھیں پتھرا جائیں گی، چاند بے نور ہوجائے گا۔ اس دن انسان بھاگ جانے کی خواہش کرے گا لیکن وہ نہیں بھاگ سکے گا اور نہ ہی اس کے لیے کوئی پناہ کی جگہ ہوگی۔ اسے ہر صورت اپنے رب کے سامنے کھڑا ہونا ہوگا اور اپنے اعمال کا جواب دینا ہوگا۔ اس کے بعد نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دیتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے کہ آپ وحی کو جلدی جلدی نہ پڑھا کریں ہم آپ کو قرآن مجید پڑھائیں گے اور یاد بھی کروائیں گے اور اسے بیان کروانا بھی ہماری ذمّہ داری ہوگی۔ اس کے بعد ایک مرتبہ پھر قیامت کے منکروں کو بتایا ہے کہ اس دن کچھ چہرے ترو تازہ ہوں گے اور وہ اپنے رب کو دیکھ رہے ہوں گے۔ کچھ چہرے اداس ہوں گے اور وہ سمجھ جائیں گے کہ ان کے ساتھ کمر توڑ دینے والا سلوک ہونے والا ہے۔ ان کے ساتھ اس سختی کا آغاز اس وقت ہوجائے گا جب ان پر موت کا وقت آئے گا۔ ایسے شخص کی موت اس لیے زیادہ سخت ہوگی کہ نہ وہ نماز پڑھتا تھا بلکہ دین اور قیامت کو جھٹلایا کرتا تھا۔ اس کے بعد قیامت کا انکار کرنے والے کو ان کی تخلیق کا حوالہ دے کر سمجھایا ہے کہ جس رب نے انسان کو ایک حقیر پانی کے قطرے سے پیدا کیا پھر اسے لوتھڑے میں تبدیل فرمایا پھر اس کا جسم بنایا اور اس کے اعضاء درست کیے پھر مرد اور عورت کی صورت میں اس کی دو قسمیں بنائیں جس رب نے یہ سب کچھ کیا ہے۔ کیا وہ اور ہر انسان کو اپنے کیے کا حساب دینا ہوگا۔ انسان کو اس کی موت کے بعد زندہ نہیں کرسکتا ؟ کیوں نہیں وہ قیامت کے دن ہر صورت ہر انسان کو زندہ کرے گا۔ القيامة
1 فہم القرآن ربط سورت : انسان کی گمراہی کے اسباب میں سب سے بڑا سبب آخرت کی جوابدہی سے لاپرواہ ہونا اور اس کا انکار کرنا ہے اس لیے سورۃ القیامہ کی ابتدا لفظ ” لا“ سے کی گئی ہے۔ اس میں قیامت کا انکار کرنے والوں کے عقیدہ اور ان کے دلائل کی تردید کی گئی ہے۔ قیامت کا انکار کرنے والوں کے عقیدہ اور دلائل کی نفی کرنے کے لیے اس سورت کی ابتدا لفظ ” لا“ سے کی گئی ہے۔ ارشاد ہوا کہ قیامت کے دن کی قسم ! جو لوگ قیامت قائم ہونے کا انکار کرتے ہیں وہ اپنے عقیدہ اور دلائل میں جھوٹے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس مقام پر قیامت کی قسم اٹھائی ہے ظاہر ہے کہ اگر قیامت کا کوئی وجود نہیں تو اللہ تعالیٰ کو اس کی قسم اٹھانے کی کیا ضرورت تھی؟ اس کے ساتھ ہی اس نے نفس لوّامہ کی قسم کھائی ہے جس میں لطیف اشارہ ہے کہ جس طرح تم اپنے نفسِ لوّامہ کا انکار نہیں کرسکتے اسی طرح قیامت کا انکار کرنے کی بھی کوئی گنجائش نہیں باالفاظ دیگر انکار قیامت پر نفس لوامہ بھی تمہیں ملامت کرتا ہے۔ قسم کے بارے میں پہلے بھی عرض ہوچکا ہے کہ یہ کسی بات کو پکا کرنے کے لیے اٹھائی جاتی ہے عربوں کے ہاں رواج تھا اور ہے کہ وہ دوسری اقوام کی نسبت قسمیں زیادہ اٹھاتے ہیں۔ قرآن مجید انہی کی زبان میں نازل ہوا ہے اور عرب ہی قرآن مجید کے اولین مخاطب تھے۔ ان کے طرز تکلم کا خیال رکھتے ہوئے اہم باتوں کی اہمیت اور فرضیت اجاگر کرنے کے لیے قسمیں اٹھائی گئی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں نفس انسانی کی تین حالتیں بیان کی ہیں : ١۔ نفس مطمئنّہ : ہر حال میں مطمئن یعنی نیکی پر قائم رہنے والا۔ (الفجر : ٢٧) ٢۔ نفسِ لوّامہ : گناہ پر ملامت کرنے والا۔ (القیامہ : ٢) ٣۔ نفسِِ امّارہ : گناہ پر ابھارنے والا۔ (یوسف : ٥٣) یہ انسان کے دل کی تین حالتیں ہیں نفس مطمئنّہ صرف انبیاء کو نصیب ہوتا ہے باقی انسانوں کے نفس کی دو ہی کیفیتیں ہوتی ہیں۔ (١) نفس امّارہ اور نفس لوّامہ۔ ان دونوں کے درمیان مقابلہ رہتا ہے اگر نفس لوّامہ جیت جائے تو انسان کو نیک اعمال کی توفیق ملتی ہے۔ اگر نفسِ امّارہ غالب آجائے تو آدمی برائی کا مرتکب ہوتا ہے لیکن برائی کا خمار اتر جانے کے بعد مجرم کو پریشانی ضرور لاحق ہوتی ہے اس لیے قرآن مجید نے ہابیل اور قابیل کا واقعہ بیان کرتے ہوئے قابیل کی کیفیت بیان کی ہے کہ اپنے بھائی کو قتل کرنے کے بعد قابیل کے دل کا سکون جاتا رہا۔ (المائدۃ: ٣١) رہتی دنیا تک بدنامی اس کے مقدر میں آئی اور اس نے ظلم و زیادتی کی بری روایت قائم کی، آخرت میں جہنم کا ایندھن بنا اور ظالموں کا ساتھی قرار پایا۔ اس سے زیادہ اور نقصان کیا ہوسکتا ہے کہ جب بھی کوئی شخص ظلم کرتا ہے تو اسے ایسی ہی کیفیت کا سامنا کرنا پڑتا ہے کیونکہ نیکی میں اطمینان ہے اور برائی میں پریشانی اور پشیمانی ہوتی ہے۔ (عَنِ النَّوَّاسِ بْنِ سِمْعَانَ الْأَنْصَارِیِّ (رض) قَالَ سَأَلْتُ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عَنِ الْبِرِّ وَالْإِثْمِ فَقَالَ الْبِرُّ حُسْنُ الْخُلُقِ وَالْإِثْمُ مَا حَاکَ فِی صَدْرِکَ وَکَرِہْتَ أَنْ یَطَّلِعَ عَلَیْہِ النَّاسُ) (رواہ مسلم : کتاب البر والصلۃ، باب تفسیر البر والاثم) ” حضرت نواس بن سمعان انصاری (رض) کہتے ہیں میں نے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نیکی اور گناہ کے بارے میں پوچھا آپ نے فرمایا نیکی حسن اخلاق ہے اور برائی جو تمہارے دل میں کھٹکے اور تو ناپسند کرے کہ اس کے متعلق لوگوں کو پتا چل جائے۔“ ( فِیْ طُغْیَانِھِمْ یَعْمَھُوْن) (البقرۃ: ١٥) ” وہ اپنی نافرمانیوں میں بھٹک رہے ہیں۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ کا قیامت کی قسم اٹھانا اس بات کا دوٹوک ثبوت ہے کہ قیامت کا واقع ہونا برحق ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ کا نفس لوّامہ کی قسم اٹھانا اس بات کا ثبوت ہے کہ انسان کا نفس بھی اسے برائی سے روکتا ہے۔ تفسیر بالقرآن نفس انسانی کی تین حالتیں : ١۔ نفس مطمئنہ۔ ہر حال میں مطمئن یعنی نیکی پر قائم رہنے والا نفس۔ (الفجر : ٢٧) ٢۔ نفس لوّامہ۔ گناہ پر ملامت کرنے والا۔ (القیامہ : ٢) ٣۔ نفس امّارہ۔ گناہ پر ابھارنے والا۔ (یوسف : ٥٣) (تفصیل کے لیے دیکھیے فہم القرآن ج ٢، ص ١٣٠) القيامة
2 القيامة
3 فہم القرآن ربط کلام : قیامت کا انکار کرنے والوں کی سب سے بڑی دلیل کا جواب۔ قیامت کا انکار کرنے والے جس بات کو اپنے لیے بڑی دلیل سمجھتے ہیں وہ یہ ہے کہ جب ہم مر کر بے نام ونشان ہوجائیں گے تو پھر ہمیں کس طرح زندہ کیا جائے گا انہیں فرمایا ہے۔ ” کیا انسان دیکھتا نہیں ہے کہ ہم نے اسے نطفہ سے پیدا کیا اور پھر وہ واضح طور پر جھگڑالو بن جاتا ہے۔ اب وہ اپنی پیدائش کو بھول کر ہم پر باتیں بناتا ہے کہ ان ہڈیوں کو کون زندہ کرے گا جب یہ بوسیدہ ہوچکی ہوں۔ ان سے کہیں کہ انہیں وہی زندہ کرے گا جس نے پہلی مرتبہ انہیں پیدا کیا ہے۔ وہ سب کچھ پیدا کرنا جانتا ہے اسی نے تمہارے لیے ہرے بھرے درخت سے آگ پیدا کی ہے اور تم اس سے آگ جلاتے ہو کیا جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے وہ انسان کو دوبارہ پیدا کرنے پر قادر نہیں کہ ان جیسوں کو پیدا کرے ؟ کیوں نہیں وہ تو سب کچھ جاننے والا اور سب کچھ پیدا کرنے والا ہے۔ جب کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے تو اسے حکم دیتا ہے کہ ہوجا اور وہ چیز ہوجاتی ہے۔ پاک ہے وہ ذات جس کے ہاتھ میں ہر چیز کا مکمل اختیار ہے اور اسی کی طرف تم پلٹ کر جانے والے ہو۔“ (یٰس : ٧٧ تا ٨٣) اللہ تعالیٰ نے منکرین قیامت کے سامنے عملی اور عقلی دلائل کے ساتھ یہ ثابت کیا ہے کہ قیامت ہر صورت برپا ہوگی اور ہر انسان کو زندہ کرکے اٹھا لیا جائے گا۔ جو لوگ یہ دلیل دیتے ہیں کہ بکھری ہوئی بوسیدہ ہڈیوں کو کس طرح اکٹھا کیا جائے گا انہوں نے کس طرح یہ گمان کرلیا ہے کہ ہم بوسیدہ ہڈیوں سے انہیں دوبارہ پیدا نہیں کرسکتے، انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ ہم نہ صرف انہیں دوبارہ پیدا کریں گے بلکہ ہم اس بات پر بھی قادر ہیں کہ ان کا جوڑ جوڑ سیدھا اور پور پور درست کرکے بنائیں گے۔ لیکن انسان دوبارہ اٹھنے کا اس لیے انکار کرتا ہے کیونکہ وہ چاہتا ہے کہ میں ہمیشہ زندہ رہوں اور اپنی مرضی کے کام کرتارہوں یعنی اسے نہ دوبارہ زندہ کیا جائے اور نہ ہی اس سے بازپُرس کی جائے۔ اس لیے وہ قیامت کے بارے میں پوچھتے ہیں، ان کے پوچھنے کا مقصد قیامت کے بارے میں یقین اور اطمینان حاصل کرنا نہیں بلکہ اس کا مذاق اڑانا ہے۔ انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ جب قیامت بر پا ہوگی تو اس دن آنکھیں چندھیا جائیں گی، چاند بے نورہوجائے گا اور سورج اور چاند جمع کردیئے جائیں گے۔ کیونکہ یہ بے نور ہو کر نیچے گر پڑیں گے۔ ” حضرت ابو سعید خدری (رض) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں کہ تم سے پہلے ایک آدمی تھا اللہ تعالیٰ نے اس کو مال کی فراوانی دی تھی۔ اس نے اپنے بیٹوں کو بلاکر کہا کہ میں تمہارا کیسا باپ تھا ؟ انہوں نے کہا بہترین! اس نے کہا یقیناً میں نے کبھی نیک عمل نہیں کیا، جب میں مر جاؤں تو تم مجھے جلا دینا پھر میری راکھ کو ہواؤں میں اڑا دینا اس کے بیٹوں نے اس کے مرنے کے بعد اس طرح کیا۔ اللہ تعالیٰ نے اس کو جمع کیا اور فرمایا تجھے کس چیزنے اس کام پر ابھارا تھا؟ اس نے کہا تیرے خوف نے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کو اپنی رحمت میں لے لیا۔“ (رواہ البخاری : کتاب احادیث الأنبیاء) ” حضرت ابو سلمہ (رض) فرماتے ہیں کہ ہمیں ابوہریرہ (رض) نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کیا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا قیامت کے دن سورج اور چاند کو اکٹھاکر کے پھینک دیا جائے گا۔ حسن (رح) نے پوچھا ان کا جرم کیا ہے ؟ ابو سلمہ (رض) نے جواب دیا کہ میں تجھے نبی (رض) کی حدیث سنا رہا ہوں۔ ابو سلمہ کی بات سن کر حسن خاموش ہوگئے۔“ (الابانۃ الکبریٰ لابن بطۃ : باب ذکر ما جاءت بہ السنۃ من طاعۃ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مسائل ١۔ قیامت کا منکر سمجھتا ہے کہ اس کی بوسیدہ ہڈیوں کو اکٹھا نہیں کیا جائے گا۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن ہر انسان کا جوڑ جوڑ بنائے گا اور اسے زندہ کرے گا۔ ٣۔ قیامت کا انکار کرنے والے چاہتے ہیں کہ ہم اسی طرح اپنی مرضی کرتے رہیں اور ہم سے کوئی بات پرس نہ کی جائے۔ ٤۔ قیامت کے دن آنکھیں چندھیا جائیں گی، چاند بے نور ہوجائے گا اور چاند اور سورج کو اکٹھا کردیا جائے گا۔ القيامة
4 القيامة
5 القيامة
6 القيامة
7 القيامة
8 القيامة
9 القيامة
10 فہم القرآن ربط کلام : جس قیامت کی ہولناکیوں کا ذکر ہو رہا ہے اس دن لوگوں کی کیا حالت ہوگی۔ پہلی مرتبہ اسرافیل کے صور پھونکنے پر چاند اور سورج بے نور ہوجائیں گے اور کائنات کا نظام درہم برہم ہوجائے گا اللہ تعالیٰ اس دن زمین و آسمانوں کو بدل دے گا۔ ( ابراہیم : ٤٨) اسرافیل کے دوسری مرتبہ صورپھونکنے پر لوگ اپنے اپنے مدفن سے اٹھ کھڑے ہوں گے اور ہر فرد محشر کے میدان کی طرف اس طرح جائے گا جس طرح تیر اپنے نشانے پر جاتا ہے۔ (یٰس : ٥١) رب ذوالجلال کی تشریف آوری سے پہلے جنتیوں اور جہنمیوں کو لوگوں کے سامنے لایا جائے گا، ملائکہ جہنمیوں کو بڑی بڑی زنجیروں کے ساتھ کھینچ کر محشر کے میدان میں لاکھڑا کریں گے۔ یہ منظر دیکھ کر قیامت کا انکار کرنے والا اور ہر مجرم کہے گا کہ میں کہیں بھاگ جاؤں لیکن وہ کوئی پناہ گاہ نہیں پائے گا۔ اس دن سب کو اپنے رب کے حضور ہی کھڑا ہونا ہوگا اور انسان نے جو کچھ اپنے آگے بھیجا اور جو پیچھے چھوڑا اسے انسان کے سامنے کردیا جائے گا، یقیناً انسان اپنے آپ پر گواہ ہوگا اور وہ معذرت پر معذرت پیش کرے گا لیکن اس کی کوئی معذرت قبول نہیں کی جائے گی۔ ہر مجرم کی بھاگ جانے کی خواہش ہوگی لیکن کوئی بھی اپنا قدم نہیں اٹھا سکے گا۔ اس حالت میں سب کچھ اسے بتایا جائے گا اور اس کا نفس اس کے خلاف گواہی دے گا۔ دنیا میں بے شمار گناہ ایسے ہیں جنہیں انسان بھول جاتا ہے لیکن قیامت کے دن ہر انسان اپنے کیے کو اپنے سامنے پائے گا اور اس کا دل اور اعضاء گواہی دیں گے کہ واقعی ہی اس نے یہ کام کیے ہیں۔ (الملک : ١١) وہ اس پر بار بار معذرت پیش کرے گا لیکن اس کی کوئی معذرت قبول نہیں کی جائے گی۔ یہاں ارشاد فرمایا ہے کہ جو انسان اپنے آگے بھیجتا اور جو اپنے پیچھے چھوڑتا وہ اسے اپنے سامنے پائے گا۔ پیچھے چھوڑنے سے مراد وہ نیکی یا برائی ہے جس کے اچھے یا برے اثرات انسان اپنی موت کے بعد چھوڑجاتا ہے۔ ہم یقیناً ایک دن مردوں کو زندہ کرنے والے ہیں جو اعمال انہوں نے کیے ہیں وہ ہم لکھتے جا رہے ہیں اور جو آثار انہوں نے پیچھے چھوڑے ہیں وہ بھی ہم لکھ رہے ہیں ہر بات کو ہم نے ایک کھلی کتاب میں درج کر رکھا ہے۔“ (یٰس : ١٢) (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ (رض) أَنَّ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ إِذَا مَاتَ الْإِنْسَانُ انْقَطَعَ عَنْہُ عَمَلُہُ إِلَّا مِنْ ثَلَاثَۃٍ إِلَّا مِنْ صَدَقَۃٍ جَارِیَۃٍ أَوْ عِلْمٍ یُنْتَفَعُ بِہٖ أَوْ وَلَدٍ صَالِحٍ یَدْعُو لَہُ) (رواہ مسلم : بَاب مَا یَلْحَقُ الْإِنْسَانَ مِنْ الثَّوَابِ بَعْدَ وَفَاتِہِ) ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں بلاشبہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جب انسان فوت ہوجاتا ہے تو اس کے اعمال منقطع کردیے جاتے ہیں مگر تین عمل باقی رہتے ہیں۔ (١) صدقہ جاریہ۔ (٢) ایسا علم جس سے لوگ فائدہ اٹھائیں۔ (٣) نیک اولاد جو اس کے لیے دعائیں کرے۔“ مسائل ١۔ قیامت کے دن ہر مجرم کی خواہش ہوگی کہ وہ بھاگ جائے لیکن اس کے لیے کوئی بھی پناہ گاہ نہیں ہوگی۔ ٢۔ قیامت کے دن ہر انسان اپنے رب کے حضور کھڑا ہوگا اور جو کچھ اس نے اپنے آگے بھیجا اور جو کچھ اپنے پیچھے چھوڑا اسے اپنے سامنے پائے گا۔ ٣۔ قیامت کے دن ہر انسان اپنے کیے کا اعتراف کرے گا۔ ٤۔ قیامت کے دن مجرم معذرت پر معذرت کرے گا لیکن اس کی کوئی معذرت قبول نہیں کی جائے گی۔ تفسیر بالقرآن قیامت کے دن مجرمین کی خواہش : ١۔ مٹی کے ساتھ مٹی ہوجانے کی خواہش۔ (النساء : ٤٢، النباء : ٤٠) ٢۔ دنیا میں لوٹ کر نیک عمل کرنے کی تمنا۔ (السجدۃ: ١٢) ٣۔ ظالم اپنے ہاتھ کاٹتے ہوئے کہے گا، کاش! میں رسول کی اتباع کرتا۔ (الفرقان : ٢٧) ٤۔ کاش میں فلاں کو دوست نہ بناتا۔ (الفرقان : ٢٨) ٥۔ جہنم کے داروغہ سے درخواست کرنا۔ (الزخرف : ٧٧) ٦۔ اپنے مرشدوں اور لیڈروں کو دگنی سزا دینے کا مطالبہ کرنا۔ (الاحزاب : ٦٨) ٧۔ اللہ تعالیٰ سے مریدوں کا اپنے مرشدوں کو اپنے پاؤں تلے روندنے کا تقاضا کرنا۔ (السجدۃ: ٢٩) القيامة
11 القيامة
12 القيامة
13 القيامة
14 القيامة
15 القيامة
16 فہم القرآن ربط کلام : نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت کا تیسرا بڑا جز لوگوں کو قیامت کے احتساب سے آگاہ کرنا ہے۔ جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لوگوں کے سامنے قیامت کا ذکر کرتے تو لوگ اس پر غور کرنے کی بجائے جلد بازی میں آکر کہتے کہ قیامت کب آئے گی۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وحی کے نزول کے وقت اس لیے جلدی فرماتے تاکہ وحی کا کوئی لفظ بھول نہ جائے۔ اس پر آپ کو جلد بازی سے روکا گیا اور تسلی دی گئی کہ جس وجہ سے آپ جلدی کرتے ہیں اس کا فکر نہ کریں آپ کو قرآن مجید ضبط کروانا اور اس کا ابلاغ کروانا ہمارے ذمہ ہے لہٰذا آپ اطمینان کے ساتھ وحی سنا کریں۔ وحی کے ابتدائی ایام میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے جبریل امین قرآن مجید کی تلاوت شروع کرتے تو آپ جلدی جلدی اسے پڑھنے کی کوشش فرماتے تاکہ کوئی لفظ محو نہ ہوجائے۔ اس پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ یقین دلایا گیا کہ آپ اپنی زبان کو جلدی جلدی حرکت نہ دیا کریں۔ قرآن مجید کو آپ کے دل پر ثبت کرنا اور آپ کی زبان سے اس کی تلاوت کروانا ہماری ذمہ داری ہے، جب ہم وحی مکمل کرچکیں تو پھر آپ اسے پڑھا کریں، ہماری ذمہ داری یہی نہیں کہ ہم آپ کے دل پر قرآن نازل کریں، ہم اسے یاد بھی کروائیں گے اور پھر وحی کے مطابق اسے من وعن بیان کروانا بھی ہمارے ذمہ ہے۔ بیان کروانے کا محض یہ معنٰی نہیں کہ آپ وحی کے مطابق لوگوں کے سامنے صرف قرآن کی تلاوت کردیتے تھے، بیان سے مراد اس کی تفسیر بھی ہے جسے حدیث رسول کہا جاتا ہے۔ اس میں یہ بات خوبخود شامل ہے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ نے قرآن کی تلاوت اور بیان اور اس کا جمع کرنا اپنے ذمہ لیا ہے اسی طرح حدیث کی حفاظت کروانا بھی اللہ تعالیٰ نے اپنے ذمہ لیا ہے جسے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے متبعین کے ذریعے محفوظ فرما دیا گیا ہے۔ (کَان النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مِمَّا تَنَزَّلُ عَلَیْہِ الْآیَاتُ فَیَدْعُوْ بَعْضُ مَنْ کَانَ لَہٗ یَکْتُبُ لَہٗ وَیَقُوْلُ لَہٗ ضَعْ ہٰذِہِ الْاٰیَۃَ فِی السُّوْرَۃِ الَّتِیْ یُذْکَرُ فِیْہَا کَذَا وَکذَا) (رواہ ابوداؤد : کتاب الصلٰوۃ) ” جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر آیات اترتیں تو کاتب وحی کو بلا کر فرماتے اس آیت کو فلاں سورت میں فلاں جگہ لکھو۔“ (عَنِ الْمِقْدَامِ بْنِ مَعْدِ یکَرِبَ الْکِنْدِیِّ قَالَ قَالَ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) أَلاَ إِنِّی أُوتِیتُ الْکِتَابَ وَمِثْلَہُ مَعَہُ أَلاَ إِنِّی أُوتِیتُ الْقُرْآنَ وَمِثْلَہُ مَعَہُ) (مسند احمد : باب حدیث المقدام بن معدیکرب، قال الالبانی ھٰدا حدیث صحیح) ” مقدام بن معدیکرب (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا خبردار بے شک مجھے کتاب اور اس جیسی اور چیز بھی عطا کی گئی ہے خبردار مجھے قرآن اور اس جیسی ایک اور چیز بھی عطا کی گئی ہے۔“ (عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَیْبٍ عَنْ أَبِیہِ عَنْ جَدِّہِ أَنَّہُ قَالَ یَا رَسُول اللہِ أَکْتُبُ مِنْکَ مَا أَسْمَعُ ؟ قَالَ نَعَمْ قَالَ قُلْتُ مَا قُلْتَ فِی الرِّضَا وَالْغَضَبِ ؟ قَالَ نَعَمْ فَإِنِّی لاَ أَقُولُ فِی ذَلِکَ کَلِمَۃً إِلاَّ الْحَقَّ) (رواہ ابوبکر فی مسند البزار : باب ہَذَا مَا حَدَّثَ بِہِ عَبْدُ اللہِ بْنُ عَمْرٍو، عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ھٰذا حدیث صحیح) ” عمر بن شعیب اپنے باپ اور وہ اپنے دادا سے بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کی اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! جو کچھ میں آپ سے سنتا ہوں لکھ لیا کروں؟ آپ نے فرمایا ہاں ! پھر میں نے کہا اے اللہ کے نبی ! آپ کبھی خوشی میں بات کرتے ہیں اور کبھی ناراضگی کی حالت میں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا لکھ لیا کرو! کیونکہ میں حق کے علاوہ کوئی بات نہیں کرتا۔“ (وَ اَنْزَلْنَآ اِلَیْکَ الذِّکْرَ لِتُبَیِّنَ للنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَیْہِمْ وَ لَعَلَّہُمْ یَتَفَکَّرُوْنَ) (النحل : ٤٤) ” اور ہم نے آپ کی طرف نصیحت اتاری تاکہ آپ لوگوں کے سامنے کھول کر بیان کریں جو کچھ ان کی طرف اتارا گیا ہے اور تاکہ وہ غوروفکر کریں۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو قرآن مجید ضبط کروانا اور اسے بیان کروانا اپنے ذمہ لیا۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ذریعے قرآن اور اس کی تفسیر کروانے کا ذمہ لیا۔ تفسیربالقرآن قرآن مجید کی حفاظت : ١۔ ہم ہی قرآن مجید کو نازل کرنے والے ہیں اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔ (الحجر : ٩) القيامة
17 القيامة
18 القيامة
19 القيامة
20 فہم القرآن ربط کلام : اس سورت کا مرکزی مضمون قیامت کا قائم ہوناثابت کرنا ہے، اس بات کے لیے اللہ تعالیٰ نے دو قسمیں اٹھائیں اور دلائل کے ساتھ ثابت فرمایا ہے کہ قیامت ہر صورت واقع ہوگی۔ قیامت کے انکار کے پیچھے دیگر اسباب کے ساتھ ایک سبب یہ بھی ہے کہ انسان جلد باز واقع ہوا ہے۔ جلد بازی کی وجہ سے انسان چاہتا ہے کہ جواسے ملنا ہے وہ دنیا میں ہی مل جائے اور اس سے کوئی پوچھ گچھ نہ کی جائے۔ اس سوچ کی بنا پر وہ آخرت کو فراموش کردیتا ہے۔ جلدی کرنے والوں کے مقابلے میں وہ لوگ بہتر ہیں جو دنیا میں بھرپور کردار ادا کرنے کے باوجود آخرت کو نہیں بھولتے وہ دنیا کی خاطر جان بوجھ کر کوئی ایسا قدم نہیں اٹھاتے جس سے ان کی آخرت کھوٹی ہوجائے۔ قیامت کے دن ان لوگوں کو دائیں ہاتھ میں اعمالنامے دیے جائیں گے تو ان کے چہرے روشن اور ہشاش بشاش ہوجائیں گے اور وہ اپنے رب کے انوار و تجلیات کو دیکھ رہے ہوں گے۔ قرآن مجید نے اس منظر کو ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے کہ اس دن کچھ چہرے ہشاش بشاش ہوں گے اور وہ اپنے رب کو دیکھ رہے ہوں گے۔ (عَنْ اَبِیْ سَعِیْدِنِ الْخُدْرِیِّ (رض) اَنَّ نَا سا قالُوْا یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ھَلْ نَرٰی رَبَّنَا یَوْمَ الْقِیَا مَۃِ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نَعَمْ ھَلْ تُضَارُّوْنَ فِیْ رُؤیَۃِ الشَّمْسِ بالظَّھِیْرَۃِ صَحْوًا لَیْسَ مَعَھَا سَحَابٌ وَھَلْ تُضَارُّوْنَ فِیْ رُؤْیَۃِ الْقَمَرِ لَیْلَۃَ الْبَدْرِ صَحْوًا لَیْسَ فِیْھَا سَحَابٌ قَالُوْا لاَ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ قَالَ مَا تُضَارُّوْنَ فِیْ رُؤْیَۃِ اللّٰہِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ اِلَّا کَمَا تُضَارُّوْنَ فِیْ رُؤْیَۃِ اَحَدِھِمَا۔۔) (رواہ البخاری : باب (إِنَّ اللَّہَ لاَ یَظْلِمُ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ) ” حضرت ابو سعید خدری (رض) بیان کرتے ہیں کہ کچھ لوگوں نے دریافت کیا اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! قیامت کے دن کیا ہم اپنے پروردگار کا دیدار کریں گے ؟ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہاں! کیا تم دوپہر کے وقت جب بادل نہ ہوں سورج کو دیکھنے میں دقّت محسوس کرتے ہو ؟ کیا بادل نہ ہوں تو چودھویں رات میں چاند کے دیکھنے میں تنگی محسوس کرتے ہو ؟ صحابہ نے جواب دیا، نہیں! اے اللہ کے رسول! آپ نے فرمایا : قیامت کے دن تم اللہ تعالیٰ کے دیدار میں ہرگز مشکل نہیں پاؤ گے جس قدر تم ان دونوں میں سے کسی ایک کے دیکھنے میں تنگی پاتے ہو۔۔“ القيامة
21 القيامة
22 القيامة
23 القيامة
24 فہم القرآن ربط کلام : نیک لوگوں کے مقابلے میں آخرت کا انکار کرنے والوں کا حال۔ جوں ہی قیامت کے منکرین کو ان کے اعمال نامے ان کے بائیں ہاتھوں میں دئیے جائیں گے تو ان کے رنگ پیلے اور چہرے بجھ جائیں گے وہ فوراً سمجھ جائیں گے کہ ہمارے ساتھ کمرتوڑ سلوک ہونے والاہے، کمرتوڑ سلوک سے مراد انتہادرجے کی ذلّت اور سزا ہے۔ اس مشکل گھڑی کی ابتدا اسی وقت سے ہوجائے گی جب ان پر موت وارد ہوگی۔ ایسے آدمی کی موت کے وقت یہ حالت ہوتی ہے جیسے اس کی جان ہنسلی میں آکراٹک گئی سو یہ ایسا وقت ہے جب کوئی دوا اثر نہیں کرتی اور اس کے لواحقین اس وقت کہتے ہیں کہ اب کسی سے دعا کروانی چاہیے۔ جن کا عقیدہ کمزور ہوتا ہے وہ تعویذ، گنڈھے اور جھاڑ پھونک کے پیچھے بھاگتے ہیں حالانکہ مرنے والا سمجھ جاتا ہے کہ میرا آخری وقت آن پہنچا ہے۔ اس کی ایک پنڈلی دوسری پنڈلی کے ساتھ لگ جاتی ہے یعنی اسے انتہا درجے کی کمزوری لاحق ہوجاتی ہے کیونکہ انسان کی روح اس کے پاؤں کی طرف سے نکل کر اس کے سر کی طرف سے پرواز کرتی ہے۔ اس لیے پنڈلیوں کی کمزوری کا پہلے ذکر کیا ہے یہاں تک اس کے عزیز و اقرباء بھی اس کے ہاتھ پاؤں سیدھے کرنے شروع کردیتے ہیں تاکہ موت کے بعد اس کا وجود ٹیڑا نہ ہوجائے۔ (وَ لَوْ تَرٰٓی اِذْ یَتَوَفَّی الَّذِیْنَ کَفَرُوا الْمَلآءِکَۃُ یَضْرِبُوْنَ وُجُوْہَہُمْ وَ اَدْبَارَہُمْ وَ ذُوْقُوْا عَذَابَ الْحَرِیْقِ) (الانفال : ٥٠) ” اور کاش ! آپ دیکھیں جب فرشتے کافر لوگوں کی جان قبض کرتے ہیں تو ان کے چہروں اور پشتوں پر مارتے ہوئے کہتے ہیں کہ جلا دینے والا عذاب چکھو۔ (عَنِ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) إِنَّ الْعَبْدَ الْکَافِرَ إِذَا کَانَ فِی انْقِطَاعٍ مِنَ الدُّنْیَا وَإِقْبَالٍ مِنَ الآخِرَۃِ نَزَلَ إِلَیْہِ مِنَ السَّمَآءِ مَلَآءِکَۃٌ سُوْدُ الْوُجُوْہِ مَعَہُمُ الْمُسُوْحُ فَیَجْلِسُوْنَ مِنْہُ مَدَّ الْبَصَرِ ثُمَّ یَجِیْءُ مَلَکُ الْمَوْتِ حَتّٰی یَجْلِسَ عِنْدَ رَأْسِہٖ فَیَقُولُ أَیَّتُہَا النَّفْسُ الْخَبِیْثَۃُ اخْرُجِیْٓ إِلَی سَخَطٍ مِّنَ اللّٰہِ وَغَضَبٍ قَالَ فَتُفَرَّقُ فِیْ جَسَدِہٖ فَیَنْتَزِعُہَا کَمَا یُنْتَزَعُ السَّفُّوْدُ مِنَ الصُّوْفِ الْمَبْلُوْلِ) (رواہ أحمد : مسند براء بن عازب) ” حضرت براء بن عازب (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب دنیا سے کافر کا رخصت ہونے اور موت کا وقت آ تا ہے تو آسمان سے کالے چہروں والے فرشتے اترتے ہیں، ان کے پاس ٹاٹ کا لباس ہوتا ہے، فرشتے فوت ہونے والے کافر سے حد نگاہ تک دور بیٹھ جاتے ہیں۔ ملک الموت اس کے سرہانے آکر کہتا ہے۔ اے خبیث جان۔ اللہ کی ناراضگی اور غضب کا سامنا کر پھر روح اس کے جسم سے الگ ہوتی، فرشتے اسے اس طرح کھینچتے ہیں جیسے گرم سلاخ کو روئی سے کھینچا جاتا ہے۔“ مسائل ١۔ آخرت کے دن بہت سے چہرے مایوس ہوں گے اور وہ اس خیال میں ہوں گے کہ ہم پر بھاری مصیبت ٹوٹنے والی ہے۔ ٢۔ برے انسان کو موت کے وقت ہی اپنے انجام کا پتہ چل جاتا ہے۔ ٣۔ فوت ہونے والے اکثر لوگوں کو یقین ہوجاتا ہے کہ اب میرا آخری وقت آن پہنچا ہے۔ ٤۔ موت کے وقت آدمی کی پنڈلی سے پنڈلی جڑ جاتی ہے۔ ٥۔ موت کے وقت اس کے لواحقین دوا کی بجائے دعا پر زیادہ متوجہ ہوتے ہیں۔ تفسیربالقرآن قیامت کے دن برے لوگوں کے چہرے مایوس اور ذلیل ہوں گے : ١۔ کفار کے چہرے بگڑے ہوئے ہوں گے۔ (الحج : ٧٣) ٢۔ کفار کے چہرے مرجھائے اور اڑے ہوئے ہوں گے۔ (القیامہ : ٢٤) ٣۔ کفارکے چہروں پر گردوغبار ہوگا۔ (عبس : ٤٠) ٤۔ مجرموں کے چہرے ڈرے اوراُوندھے ہوں گے۔ (الغاشیہ : ٢) ٥۔ اللہ تعالیٰ کفار کو ان کے چہروں کے بل اوندھا کرکے اٹھائے گا یہ ان کی سزا ہے۔ (الاسراء : ٩٧ تا ٩٨) ٦۔ برے لوگوں کے چہروں پر ذلت چھائی ہوگی اور انہیں اللہ تعالیٰ سے کوئی نہ بچا سکے گا۔ (یونس : ٢٧) القيامة
25 القيامة
26 القيامة
27 القيامة
28 القيامة
29 القيامة
30 القيامة
31 فہم القرآن ربط کلام : قیامت کے منکر کو موت کے وقت اس لیے زیادہ تکلیف ہوتی ہے کیونکہ وہ نہ قیامت پر یقین رکھتا ہے اور نہ نمازی ہوتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ موت کے لمحات بڑے سخت ہوتے ہیں، ان لمحات سے مراد وہ لمحات ہیں جو روح نکلنے سے پہلے شروع ہوتے ہیں۔ جب مومن کی روح نکلنا شروع ہوتی ہے تو اس کے لیے وہ لمحات بہت آسان کر دئیے جاتے ہیں، جس کا حوالہ پچھلی آیت کی تفسیر میں دیا گیا ہے۔ جو شخص اللہ اور اس کے رسول پر ایمان نہ لایا اور نہ اس نے قیامت کی تصدیق کی اور نہ نماز پڑھی، نزع کے وقت اس کی بری حالت ہوتی ہے۔ اس کی حالت کا درج ذیل حدیث میں ذکر کیا گیا ہے۔ ایسا اس لیے ہوتا ہے کہ وہ اعتقاداً یا عملاً اس شخص کی طرح ہوتا ہے جس کا تذکرہ ان آیات میں کیا گیا ہے۔ بعض مفسرین نے اس سے مراد ابوجہل لیا ہے۔ جس نے ایک موقعہ پر نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ یہ انداز اختیار کیا تھا۔ اس نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قیامت کو جھٹلایا اور پھر متکبرانہ چال کے ساتھ پلٹا اور اپنے گھر کی طرف چل دیا۔ اس کے بارے میں کہا گیا کہ اس کے لیے بربادی ہی بربادی ہے یہ سمجھتا ہے کہ اسے یوں ہی چھوڑ دیا جائے گا حالانکہ ایسا ہرگز نہیں ہوگا بلکہ اسے جہنم کی آگ میں جھونکا جائے گا جس میں وہ اپنے کیے کی پوری پوری سزا پائے گا۔ (عَنْ عُبَادَۃَ بْنِ الصَّامِتِ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ مَنْ أَحَبَّ لِقَاء اللّٰہِ أَحَبَّ اللّٰہُ لِقَاءَ ہٗ وَمَنْ کَرِہَ لِقَاء اللّٰہِ کَرِہَ اللّٰہُ لِقَاءَ ہٗ قَالَتْ عَاءِشَۃُ أَوْ بَعْضُ أَزْوَاجِہٖ إِنَّا لَنَکْرَہُ الْمَوْتَ قَالَ لَیْسَ ذَاکِ وَلٰکِنَّ الْمُؤْمِنَ إِذَا حَضَرَہُ الْمَوْتُ بُشِّرَ بِرِضْوَان اللّٰہِ وَکَرَامَتِہِ فَلَیْسَ شَیْءٌ أَحَبَّ إِلَیْہِ مِمَّا أَمَامَہٗ فَأَحَبَّ لِقَاء اللّٰہِ وَأَحَبَّ اللّٰہُ لِقَاءَ ہٗ وَإِنَّ الْکَافِرَ إِذَا حُضِرَ بُشِّرَ بِعَذَاب اللّٰہِ وَعُقُوبَتِہٖ فَلَیْسَ شَیْءٌ کْرَہَ إِلَیْہِ مِمَّا أَمَامَہٗ کَرِہَ لِقَاء اللّٰہِ وَکَرِہَ اللّٰہُ لِقَاءَ ہٗ) (رواہ البخاری : کتاب الرقاق، باب، من أحب لقاء اللّٰہ أحَب اللّٰہ لقاء ہ) ” حضرت عبادہ بن صامت (رض) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : جو اللہ کی ملاقات کو پسند کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی ملاقات کو پسند کرتا ہے اور جو اللہ کی ملاقات کو ناپسند کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی ملاقات کو ناپسند کرتا ہے۔ حضرت عائشہ (رض) یا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بیویوں میں سے کسی ایک نے عرض کی کہ ہم تو موت کو ناپسند کرتے ہیں۔ آپ نے فرمایا بات یہ نہیں بلکہ بات یہ ہے کہ جب مومن کی موت کا وقت آتا ہے تو اس کو اللہ کی رضامندی اور انعام واکرام کی بشارت دی جاتی ہے، اس بشارت کی وجہ سے موت اسے تمام چیزوں سے زیادہ محبوب ہوجاتی ہے اس وجہ سے وہ اللہ کی ملاقات کو پسند کرتا ہے اور اللہ اس کی ملاقات کو پسند کرتا ہے۔ جب کافر کی موت کا وقت آتا ہے تو اسے اللہ کے عذاب کی وعید سنائی جاتی ہے۔ یہ وعید اسے اپنے سامنے چیزوں سے سب سے زیادہ ناپسند ہوتی ہے اسی وجہ سے وہ اللہ کی ملاقات کو ناپسند کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ اس کی ملاقات کو ناپسند کرتا ہے۔ (مومن موت سے پہلے گھبراتا اور تکلیف محسوس کرتا ہے جب اسے موت آتی ہے تو اپنے مالک کی ملاقات پر خوش ہوجاتا ہے۔) مسائل ١۔ موت کے وقت بےدین شخص کو احساس ہوتا ہے کہ نہ اس نے اللہ اور اس کے رسول کی تصدیق کی اور نہ ہی نماز پڑھی۔ ٢۔ قیامت کو جھٹلانے والے اور بے نماز کی موت کے وقت بری حالت ہوتی ہے۔ تفسیر بالقرآ ن قیامت کے منکر اور بے نماز کا انجام : ١۔ قیامت کو جھٹلانے اور لوگوں کو اللہ کے راستہ سے روکنے والے کے لیے جلا دینے والا عذاب ہوگا۔ (الحج : ٩) ٢۔ اللہ کی آیات کے ساتھ کفر کرنے والے اور قیامت کو جھٹلانے والے عذاب میں مبتلا کیے جائیں گے۔ (الروم : ١٦) ٣۔ قیامت کو جھٹلانے والوں کے لیے آگ کا عذاب ہوگا۔ (الفرقان : ١١) ٤۔ بے نماز لوگ جہنم کا ایندھن بنیں گے۔ (المدثر : ٤٣) القيامة
32 القيامة
33 القيامة
34 القيامة
35 القيامة
36 القيامة
37 فہم القرآن ربط کلام : قیامت کا انکار کرنے والے کے لیے اس کے وجود سے قیامت کی دلیل۔ قرآن مجید نے موت کے بعد زندہ ہونے کو جن دلائل کے ساتھ ثابت کیا ہے ان دلائل میں ایک بڑی دلیل انسان کے اپنے وجود میں پائی جاتی ہے۔ جو شخص قیامت کے دن زندہ ہونے کا انکار کرتا ہے کیا وہ یہ نہیں سوچتاکہ وہ منی کے ایک قطرہ تھا۔ جو رحم مادر میں ٹپکایا گیا اللہ تعالیٰ نے پھر اسے لوتھڑا بنایا پھر اسے انسانی شکل میں ڈھالا پھر اسے مرد یا عورت کی قسم میں تبدیل فرمایا۔ کیا اب اللہ تعالیٰ اس بات پر قادر نہیں کہ مردوں کو زندہ کرے ؟ کیوں نہیں ! وہ اس بات پر پوری طرح قادر ہے کہ وہ مردوں کو زندہ فرما کر اپنی بارگاہ میں پیش کرے اور یہ کام ہر صورت ہو کر رہے گا۔ انسان حضرت آدم (علیہ السلام) کی تخلیق پر غور کرے کہ اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کو مٹی سے پیدا کیا جو بے حرکت تھی اس بے حرکت مٹی سے اللہ تعالیٰ نے حسین وجمیل اور چلتا پھرتا انسان پیدا فرما دیا۔ ہر انسان اپنی تخلیق پر غور کرے کہ جس جرثومے سے پیدا کیا گیا ہے وہ ایک بے جان سی چیز ہوتا ہے، اور یہ جرثومہ اس قدر چھوٹا ہوتا ہے کہ سوائے خاص قسم کی دوربین اسے دیکھا نہیں جا سکتا۔ اللہ تعالیٰ ہی اس جرثومے میں روح پیدا کرتا ہے، اگر اللہ تعالیٰ اس میں روح نہ ڈالے تو وہ مردہ ہی ہوتا ہے۔ جو اللہ اس مردہ جرثومے سے زندہ بچہ یا بچی پیدا کرتا ہے کیا وہ مردہ ہڈیوں سے قیامت کے دن انسان کو پیدا نہیں کرسکتا؟ اس کا ارشاد ہے کہ میرے لیے دوسری مرتبہ پیدا کرناپہلی مرتبہ پیدا کرنے سے زیادہ آسان ہے۔ (الروم : ٢٧) ” لوگو ! اگر تمہیں زندگی کے بعد موت کے بارے میں شک ہے تو تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ ہم نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا ہے پھر نطفے سے پھر خون کے لوتھڑے سے پھر گوشت سے جس کی بناوٹ کامل بھی ہوتی ہے اور ناقص بھی۔ تاکہ تم پر حقیقت واضح کریں کہ ہم جس نطفے کو چاہتے ہیں ایک خاص وقت تک رحموں میں ٹھہرائے رکھتے ہیں پھر تم کو ایک بچے کی صورت میں نکالتے ہیں تاکہ انسان جوان ہوجا اور تم میں سے کوئی پہلے ہی واپس بلالیا جاتا ہے اور کوئی ناکارہ عمر کی طرف پھیر دیا جاتا ہے تاکہ سب کچھ جاننے کے بعد سب کچھ بھول جائے تم دیکھتے ہو کہ زمین خشک ہوتی ہے پھر ہم نے اس پر بارش برسائی کہ یکایک وہ ابھری اور پھول گئی اور اس نے ہرقسم کی خوش نما نباتات اگلنی شروع کردی۔“ (الحج : ٥) (عَنْ عَبْدِاللّٰہِ (رض) قَالَ حَدَّثَنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وَھُوَ الصَّادِقُ الْمَصْدُوْقُ قَالَ إِنَّ أَحَدَکُمْ یُجْمَعُ خَلْقُہٗ فِیْ بَطْنِ أُمِّہٖ أَرْبَعِیْنَ یَوْمًانُطْفَۃً ثُمَّ یَکُوْنُ عَلَقَۃً مِثْلَ ذٰلِکَ ثُمَّ یَکُوْنُ مُضْغَۃً مِثْلَ ذٰلِکَ ثُمَّ یَبْعَثُ اللّٰہُ مَلَکًا فَیُؤْمَرُ بِأَرْبَعِ کَلِمَاتٍ وَیُقَالُ لَہٗ أُکْتُبْ عَمَلَہٗ وَرِزْقَہٗ وَأَجَلَہٗ وَشَقِیٌّ أَوْ سَعِیْدٌ ثُمَّ یُنْفَخُ فِیْہِ الرُّوْحُ۔۔) (رواہ البخاری : باب ذکر الملائکۃ) ” حضرت عبداللہ (رض) بیان کرتے ہیں صادق و مصدوق رسول مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بیان فرمایا کہ تم میں سے ہر کوئی اپنی ماں کے پیٹ میں چالیس دن ٹھہرتا ہے پھر جما ہوا خون بن جاتا ہے پھر چالیس دن بعد گوشت کا لوتھڑا بن جاتا ہے اس کے بعد اللہ تعالیٰ فرشتہ بھیجتے ہیں اسے آدمی کا عمل، رزق، موت اور نیک وبد ہونا لکھنے کا حکم ہوتا ہے پھر اس میں روح پھونک دی جاتی ہے۔۔“ ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا دوسرا صور پھونکنے کا عرصہ چالیس ہوگا۔ حضرت ابوہریرہ (رض) سے ان کے شاگردوں نے پوچھا چالیس دن ؟ حضرت ابوہریرہ (رض) نے فرمایا کہ میں یہ نہیں جانتا۔ انہوں نے استفسار کیا چالیس ماہ ؟ حضرت ابوہریرہ (رض) نے جواباً فرمایا میرا کوئی جواب نہیں۔ انہوں نے پھر پوچھا چالیس سال ہیں؟ ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں میں یہ بھی نہیں کہتا اس کے بعد اللہ تعالیٰ بارش نازل فرمائے گا لوگ یوں اگیں گے جس طرح انگوری اگتی ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا، انسان کی دمچی کے علاوہ ہر چیز مٹی ہوجائے گی اور قیامت کے دن دمچی سے تمام اعضاء کو جوڑا جائے گا۔“ (رواہ البخاری : باب (یوم ینفخ فی الصور فتأتون أفواجا) زمرا) مسائل ١۔ انسان منی کے ایک قطرے سے پیدا ہوتا ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ منی کے قطرے سے انسان کا وجود اور جوڑ بناتا ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ ہی رحم مادر میں بچہ یا بچی پیدا کرنے کا فیصلہ کرتا ہے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ مردوں کو دوبارہ زندہ کرنے کی طاقت رکھتا ہے۔ تفسیر بالقرآن تخلیق انسانی کے مختلف مراحل : ١۔ ہم نے انسان کو مٹی کے جوہر سے پیدا کیا۔ (المومنون : ١٢) ٢۔ ” اللہ“ نے آدم کو مٹی سے پیدا کیا۔ (آل عمران : ٥٩) ٣۔ حواکو آدم سے پیدا کیا۔ (النساء : ١) ٤۔” اللہ“ نے انسان کو نطفہ سے پیدا کیا۔ (النحل : ٤) ٥۔ ہم نے انسان کو مخلوط نطفہ سے پیدا کیا۔ (الدھر : ٢) القيامة
38 القيامة
39 القيامة
40 القيامة
0 سورۃ الدّھر کا تعارف اس سورت کا نام اس کی پہلی آیت میں موجود ہے یہ مدنی سورت ہے اس کی اکتیس آیات ہیں، جنہیں دو رکوع میں تقسیم کیا گیا ہے۔ الدّھر کا معنٰی زمانہ ہے اس کا یہ نام اس لیے رکھا گیا کہ اللہ تعالیٰ نے اس سورت کی ابتداء میں ہر انسان کو اس کا وہ دور یعنی زمانہ یاد کروایا ہے جب انسان کا اس کائنات میں ذکر اور وجود نہیں تھا۔ یہ کیفیت ہر انسان پر اس لیے چسپاں ہوتی ہے کہ انسان کی پیدائش سے پہلے اس کے ماں باپ کو بھی علم نہیں ہوتا کہ ہمارے ہاں بچہ پیدا ہوگا یا بچی، خوبصورت ہوگا عام صورت یا غریب ہوگا یا خوشحال لہٰذا ہر اعتبار سے ہر انسان اپنی پیدائش سے پہلے غیر متعارف ہوتا ہے۔ انسان کو اس کا ماضی یاد کروانے کے بعد اس کی تخلیق یاد کروائی ہے کہ ہم نے انسان کو ایک مخلوط لوتھڑے سے پیدا کیا ہے تاکہ اس کا امتحان لیں یہ اچھے عمل کرتا ہے یا برے۔ اس غرض کے لیے ہم نے اسے سننے اور دیکھنے والا بنایا ہے۔ ہم نے اسے راستے کی راہنمائی کی ہے۔ اب اس کی مرضی ہے کہ شکر کرنے والا بنتا ہے یا کفر پسند کرتا ہے۔ کفر کرنے والوں کے لیے ہم نے طوق اور زنجیریں اور جہنم تیار کیا ہے۔ شکر کرنے والے جنت میں ہونگے اور وہ شراب کے ایسے جام پئیں گے جن میں کافور ملا ہوا ہوگا وہاں اس کا ایک چشمہ ہوگا۔ جس سے جنتی اپنی مرضی کے ساتھ اس سے نہریں نکالیں گے۔ جنتیوں کے اوصاف میں یہ وصف بھی ہوں گے کہ وہ دنیا میں اپنی نذریں پوری کرتے تھے۔ اللہ کی محبت میں مساکین، یتامیٰ اور قیدیوں کو کھانا کھلایا کرتے تھے اور قیامت کے دن سے ڈرا کرتے تھے۔ ان کے نیک اعمال کی وجہ سے اللہ تعالیٰ انہیں قیامت کے دن کی سختیوں سے بچائے گا اور انہیں خوش کرے گا۔ انہیں جنت میں ریشمی لباس پہنایا جائے گا، وہ اونچی مسندوں پر تکیے لگائے تشریف فرما ہوں گے، انہیں نہ سردی چھوئے گی اور نہ گرمی لگے گی۔ ان کے سامنے جنت کے خدام شیشے اور چاندی سے بنے ہوئے شراب کے ایسے جام پیش کریں گے جن میں سونٹھ کی آمیزش ہوگی۔ ان کی خدمت کرنے والے خدام ایسے لڑکے ہوں گے جو ہمیشہ ایک ہی عمر میں رہیں گے۔ دیکھنے والا انہیں چلتے پھرنے موتی محسوس کرے گا۔ جنتی جدھر نظر اٹھائیں گے ایک سے ایک بڑھ کر جنت کی نعمتیں پائیں گے، اور انہیں بہت بڑی جنت عطاء کی جائے گی۔ اس سورت کے آخر میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو براہ راست ارشاد ہوا کہ ہم نے آپ پر قرآن مجید نازل کیا ہے جس کا مقصد یہ ہے کہ آپ اس کے ذریعے لوگوں کے عقائد اور کردار کی اصلاح کریں۔ اس راستے میں جو مشکلات پیش آئیں ان پر صبر کریں اور کسی حال میں بدکردار اور حق کا انکار کرنے والے کے پیچھے نہیں چلنا۔ آپ کو چاہیے کہ صبح و شام اپنے رب کی تسبیح کرتے رہیں اور رات کے طویل اوقات میں اپنے رب کو سجدے کریں گے اور اسے یاد کریں جو لوگ آپ کی دعوت کا انکار کرتے ہیں حقیقت میں وہ دنیا سے محبت کی وجہ سے قیامت کے دن کو بھول چکے ہیں انہیں یاد نہیں کہ ہم نے انہیں پیدا کیا، ہم نے ان کے جوڑ بناے اور ہم جب چاہیں ان کی شکل و صورت کو بدل سکتے ہیں ہم نے انہیں ایک مدّت کے لیے ڈھیل دی ہے اب جو چاہے اپنے رب کا راستہ اختیار کرے یا اس کی نافرمانی میں لگا رہے البتہ انہیں معلوم ہونا چاہیے جو اپنے رب کا راستہ اختیار کرے گا اسے اللہ تعالیٰ اپنی رحمت میں داخل فرمائے گا اور جو اس کی نافرمانی کا راستہ اختیار کرے گا ان کے لیے اذّیت ناک عذاب ہوگا۔ الإنسان
1 فہم القرآن ربط سورت : القیامہ کے آخر میں یہ بتلایا گیا ہے کہ انسان کو ایک نطفہ سے پیدا کیا گیا اور پھر نر اور مادہ کی صورت میں جوڑے بنا دئیے، دنیا میں انسان کا وجود نطفہ سے پہلے نہیں ہوتا جس کا ذکر اس سورت کی ابتداء میں یوں کیا گیا ہے کہ کیا انسان کو معلوم نہیں کہ زمانے میں اس کا ذکر تک موجود نہیں تھا پھر ” اللہ تعالیٰ“ نے اسے انسان کی شکل میں پیدا فرمایا۔ سورۃ الدھر کی ابتدا میں ” ھَلْ“ کا لفظ استعمال فرما کر سوال کیا ہے کہ انسان کو معلوم نہیں کہ اس پر ایک ایسا دور گزرا ہے کہ جب اس کا ذکر تک نہیں تھا اس دور سے مراد تین ادوار ہوسکتے ہیں۔ ١۔ تخلیق آدم سے پہلے کا دور۔ ٢۔ انسان کی تخلیق کا دورانیہ جب وہ رحم مادر میں ہوتا ہے۔ ٣۔ انسان کے بچپن کادور جب وہ کسی چیز پر اختیار نہیں رکھتا۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو ایک مخلوط نطفے سے پیدا فرمایا۔ ” مَشِیْجٍ“ کی جمع ” اَمْشَاجٍ“ ہے اس سے مراد میاں بیوی کے نطفے کے وہ اجزاء ہیں جو رحم مادر میں آپس میں ملتے ہیں۔ اسی سے انسان کا وجود بنتا ہے اور انہی اجزاء کی بنیاد پر انسان کی رنگت، لیاقت اور قدوقامت وجود میں آتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیدا فرما کر کھلا نہیں چھوڑ دیا بلکہ اس کی راہنمائی کا بندوبست فرمایا اور اسے سننے اور دیکھنے کی صلاحیتیں عطا فرمائیں جس کے لیے ” سمیع“ اور ” بصیر“ کے الفاظ استعمال فرمائے ہیں۔ بظاہر تو ہر جاندار کان اور آنکھیں رکھتا ہے مگر ” سمیع“ اور ” بصیر“ کے اعتبار سے جو صلاحیتیں انسان کو عطا کی گئی ہیں وہ کسی اور جاندار میں موجود نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے نہ صرف اسے ” سمیع“ اور ” بصیر“ بنایا ہے بلکہ اسے یہ صلاحیت بھی بخشی ہے کہ انسان جو کچھ سنتا اور دیکھتا ہے اس میں امتیاز کرنے کی دوسری مخلوق سے زیادہ صلاحیت رکھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کی دیکھنے اور سننے کی صلاحیتوں کو صحیح سمت پر چلانے کے لیے اس کی راہنمائی کا بندوبست فرمادیا ہے کیونکہ انسان کو ” سمیع“ اور ” بصیر“ بنایا ہے اس لیے اسے یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی راہنمائی سے فائدہ اٹھائے یا انحراف کرے۔ یہ بات اس کے دل میں ڈال دی گئی ہے۔ ” بُرائی اور پرہیزگاری بتلائی دی گئی ہے۔“ (الشمس : ٨) اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کو زمین پر اترجانے کا حکم دیا، اس حکم کے ساتھ ہی یہ بھی حکم ہوا کہ اے آدم! جب میری ہدایت تم تک پہنچے تو اس کی اتباع کرنا۔ جس نے میری راہنمائی کو قبول کیا اور اس کی اتباع کی تو اسے کوئی خوف وخطر نہیں ہوگا۔ اس ہدایت کو واضح کرنے اور لوگوں کے سامنے عملی نمونہ پیش کرنے لیے ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر مبعوث کیے گئے جنہوں نے لوگوں کی راہنمائی کرنے کا حق ادا کردیا۔ انبیائے کرام (علیہ السلام) کی تشریف آوری اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل شدہ ہدایت کا پہلا مقصد یہ ہے کہ انسان اپنے رب کی پہچان حاصل کرے اور اس کی نعمتوں کا اعتراف کرے جس نے اس کی ذات کی معرفت پا لی اور اس کی نعمتوں کا ادراک کرلیا وہ ضرور اس کی بندگی بجالائے گا۔ ہدایت کے بنیادی اجزاء تین ہیں۔ ١۔ اللہ تعالیٰ پر بلاشرکت غیرے ایمان لاکر خالص اس کی بندگی کرنا یعنی پوری زندگی کو اس کے حکم کے تابع کردینا۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ کی بندگی کا تقاضا ہے کہ نبی آخرالزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پوری طرح اتباع کی جائے اس کے بغیر کوئی عبادت قبول نہیں ہوگی۔ ٣۔ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے ہوئے یقین رکھنا کہ ایک دن آنے والا ہے جب مجھے نیکی کی جزا اور برائی کی سزا دی جائے گی۔ مسائل ١۔ ہر انسان پر ایسا دور گزرا ہے کہ اس کے بارے میں کوئی نہیں جانتا تھا۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو مخلوط نطفہ سے پیدا کیا ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو آزمانے کے لیے اسے ” سمیع“ اور ” بصیر“ بنایا ہے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو شکر اور کفر کے راستے میں فرق بتلا دیا ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ نے انسان کو ہدایت اور گمراہی سمجھا کر کھلا چھوڑ دیا ہے : (البقرۃ: ١٢٠) (القصص : ٥٦) (البقرۃ : ٢١٣) (الاعراف : ٤٣) (الاعراف : ١٨٦) (النساء : ٨٨) الإنسان
2 الإنسان
3 الإنسان
4 فہم القرآن ربط کلام : کفر اختیار کرنے والوں کی سزا۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو دیکھنے، سننے اور سوچنے کی اس قدر صلاحیتیں عطا فرمائی ہیں کہ اگر انسان اللہ تعالیٰ کی قدرتوں، اپنے وجود اور قرآن مجید پر معمولی سا غور کرلے تو انسان کبھی کفر کاراستہ اختیار نہ کرے، انسان اسی وقت ہی کفر کا راستہ اختیار کرتا ہے جب وہ اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ راہنمائی اور اس کی قدر توں اور نعمتوں پر غور نہیں کرتا، یہی غفلت اس کے جہنم جانے کا سبب بنے۔ اس لیے جب جہنمیوں سے پوچھا جائے گا کہ تم کس وجہ سے جہنم میں داخل کیے گئے تو وہ اس بات کا اقرار اور اظہار کریں گے کہ کاش! ہم سننے اور عقل کرنے والے ہوتے تو جہنم میں داخل نہ کیے جاتے۔ ( الملک : ١٠، ١١) جہنمیوں کو صرف جہنم میں داخل ہی نہیں کیا جائے گا بلکہ ان کے گلے میں طوق اور ان کے پاؤں میں بڑی بڑی بیڑیاں ڈالی جائیں گی اور انہیں زنجیروں میں جکڑ دیا جائے گا۔ ” اسے پکڑو اور اس کی گردن میں طوق ڈال دو پھر اس کو جہنم میں جھونک دو اور پھر اس کو ستر ہاتھ لمبی زنجیر میں جکڑ دو۔“ (الحاقہ : ٣٠ تا ٣٢) ” آپ کیا جانیں کہ وہ چکنا چور کرنے والی کیا ہے؟ اللہ کی آگ خوب بھڑکائی ہوئی ہے، جو دلوں تک پہنچے گی اور ان پر ڈھانک کر بند کردی جائے گی، جو اونچے اونچے ستونوں کی شکل میں ہوگی۔ (ہمزہ : ٥ تا ٩) (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ أُوقِدَ عَلَی النَّارِ أَلْفَ سَنَۃٍ حَتَّی احْمَرَّتْ ثُمَّ أُوقِدَ عَلَیْہَا أَلْفَ سَنَۃٍ حَتَّی ابْیَضَّتْ ثُمَّ أُوقِدَ عَلَیْہَا أَلْفَ سَنَۃٍ حَتَّی اسْوَدَّتْ فَہِیَ سَوْدَاءُ مُظْلِمَۃٌ) ( رواہ الترمذی : کتاب صفۃ جہنم) ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ دوزخ کی آگ کو ایک ہزار سال تک بھڑکایا گیا یہاں تک کہ وہ سرخ ہوگئی پھر اس کو ایک ہزار سال تک بھڑکا یا گیا تو وہ سفید ہوگئی پھر اس کو ایک ہزار سال تک بھڑکایا گیا یہاں تک وہ سیاہ ہوگئی اب وہ سیاہ ہے۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے جہنم میں کفار کے لیے بڑی بڑی زنجیریں اور طوق تیار کر رکھے ہیں۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے کفار کے لیے جہنم کی آگ کو دہکا رکھا ہے۔ الإنسان
5 فہم القرآن ربط کلام : کفر کرنے والوں کے مقابلے میں شکر کرنے والوں کا انعام۔ جن لوگوں نے سمع وبصر اور عقل و فکر سے کام لیا اور اپنے خالق کی پہچان کی اور اس کے حکم کی پیروی کرتے رہے وہ اپنے خالق کے ہاں نیکوکار تصور ہوں گے، انہیں جنت میں داخل کیا جائے گا جس میں انہیں پینے کے لیے صاف، پاکیزہ پانی، دودھ، شہد اور شراب دی جائے گی جس میں کافور کی آمیزش ہوگی اور اس میں کسی قسم کا نشہ اور فطور نہیں ہوگا۔ جنت میں شراب کا ایک چشمہ ہوگا جس سے جنتی اپنی مرضی سے چھوٹی چھوٹی نہریں نکال کرلے جائیں گے، ان سے جنتی شراب حاصل کریں گے اور نوش جاں کریں گے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ جنتی کدالوں کے ذریعے نالیاں کھود کا شراب کو جدھر چاہیں گے لے جائیں گے۔ اس کا مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ شراب پر ان کو اختیار دے گا وہ جس طرح چاہیں گے پئیں گے اور جہاں چاہیں گے لے جائیں گے۔ (اللہ اعلم!) مسائل ١۔ نیک لوگ جنت میں کافور ملی ہوئی شراب نوش فرمائیں گے۔ ٢۔ جنت میں شراب کا چشمہ ہوگا جس سے بہت سی چھوٹی چھوٹی آبشاریں نکلیں گی۔ ٣۔ اللہ کے بندے جنت کی شراب سے لطف اندوز ہوں گے۔ تفسیر بالقرآن جنت کی شراب کی کیفیت : ١۔ جنتیوں کو شراب طہور دی جائے گی۔ (الدھر : ٢١) (الصّافات : ٤٦، ٤٧، الواقعہ : ١٩) الإنسان
6 الإنسان
7 فہم القرآن ربط کلام : جنتی کے مزید اوصاف۔ جنتی میں یہ اوصاف بھی بدرجہ اتم پائے جائیں گے کہ دنیا میں رہتے ہوئے وہ لوگ نذر مانتے تھے تو اس کو کماحقہٗ پورا کرتے تھے، نذر سے مراد وہ عمل یا صدقہ ہے جو مسلمان اپنے طور پر اپنے آپ پر واجب کرلیتا ہے، نذر وہی ماننی چاہیے جسے اللہ اور اس کے رسول نے جائز قرار دیا ہے، اس نذر کو پورا کرنا اس بات کا ثبوت ہے کہ نذر ماننے والا شخص دوسرے فرائض بھی بدرجہ اتم پورے کرنے والا ہے جو شخص نذر پوری کرتا ہے لیکن فرائض سے غافل رہتا ہے وہ اس اجر کا مستحق نہیں ہوگا جس کا یہاں ذکر کیا گیا ہے۔ اس لیے نذر پوری کرنے والوں کی یہ صفت بیان کی گئی ہے کہ وہ اس دن کے احتساب سے ڈرنے والے ہیں جس دن کی سختی پوری مخلوق کو گھیرے ہوئے ہوگی۔ جن و انس تو درکناراس دن ملائکہ بھی اپنے رب کے جلال سے خوف زدہ ہوں گے، جو مسلمان اس تصور کے ساتھ اپنی نذریں پوری کرتے اور اپنے رب کی رضا کی خاطر مسکینوں، یتیموں اور قیدیوں کو کھانا کھلاتے ہیں اور اس عمل کے پیچھے ان کا مقصد بدلہ لینا یا شکریہ طلب کرنا نہیں ہوتا ان کا مقصد صرف یہ ہوتا ہے کہ ان کا رب ان پر راضی ہوجائے کیونکہ وہ اپنے رب سے اس دن کے بارے میں ڈرتے ہیں جس دن چہرے خوفزدہ ہوں گے اور دل کانپ رہے ہوں گے۔ نذر پوری کرنے، یتیموں، مسکینوں اور فقیروں کو کھانا کھلانے کی وجہ سے انہیں اللہ تعالیٰ نہ صرف اس دن کی سختیوں سے محفوظ فرمائے گا بلکہ ان کے چہروں کو تازگی اور ان کے دلوں کو سرور بخشے گا۔ قرآن مجید کے دوسرے مقام پر بیان ہوا ہے کہ قیامت کے دن کچھ چہرے سیاہ ہوجائیں گے اور کچھ چہرے روشن ہوں گے (آل عمران : ١٠٦، ١٠٧) جو چہرے کالے ہوں گے ان پر ذلّت اور نحوست چھائی ہوگی اور جو چہرے سفید ہوں گے وہ تروتازہ اور ہشاش بشاش ہوں گے۔ ( القیامہ : ٢٢، ٢٤) (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) أَنَّ رَجُلًا شَکَا إِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَسْوَۃَ قَلْبِہٖ فَقَالَ لَہٗ إِنْ أَرَدْتَّ تَلْیِیْنَ قَلْبِکَ فَأَطْعِمِ الْمِسْکِیْنَ وَامْسَحْ رَأْسَ الْیَتِیْمِ) (رواہ احمد : باب مسند أبی ھریرۃ ھٰذا حدیث صحیح) ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اپنے دل کی سختی کے متعلق شکایت کی تو آپ نے فرمایا : اگر تو اپنے دل کو نرم کرنا چاہتا ہے تو مسکین کو کھانا کھلا اور یتیم کے سر پر ہاتھ پھیرا۔“ (وَعَنْ عِمْرَانَ ابْنِ حُصَیْنٍ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لَا وَفَاءَ لِنَذْرٍ فِیْ مَعْصِیَۃٍ وَلَا فِیْمَا لَا یَمْلِکُ الْعَبْدُ) (رواہ مسلم : باب لا وفاء لنذر فی معصیۃ) ” حضرت عمران بن حصین (رض) بیان کرتے ہیں رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا نافرمانی کی نذر کو پورا نہ کیا جائے اور جو چیز انسان کے قبضہ میں نہیں اسکی نذر نہ مانی جائے۔“ مسائل ١۔ جو لوگ اپنی نذریں پوری کرتے ہیں اور قیامت کی سختیوں سے ڈرتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کے چہرے تروتازہ فرمائے گا۔ ٢۔ جو لوگ صرف اپنے رب کی رضا کی خاطر مسکینوں، یتیموں اور قیدیوں کو کھانا کھلاتے ہیں اللہ تعالیٰ انہیں قیامت کی سختیوں سے بچائے گا اور ان کے چہروں کو ہشاش بشاش کردے گا۔ ٣۔ اللہ کے بندے مسکینوں، یتیموں اور قیدیوں کو کھانا کھلاکر بدلے اور شکریے کے طلبگار نہیں بنتے۔ تفسیر بالقرآن قیامت کے دن جنتی کے چہرے ہشاش بشاش اور روشن ہوں گے : ١۔ متقین کے چہرے ہشاش بشاش ہوں گے۔ (یونس : ٢٦) ٢۔ جنتی کے چہرے پرنور ہوں گے۔ (آل عمران : ١٠٧) ٣۔ مومنوں کے چہرے تروتازہ ہوں گے۔ (الغاشیہ : ٨) ٤۔ مومنوں کے چہرے خوش وخرم ہوں گے۔ (العبس : ٣٨) ٥۔ مومنوں کے چہرے تروتازہ ہوں گے۔ (القیامۃ: ٢٢) الإنسان
8 الإنسان
9 الإنسان
10 الإنسان
11 الإنسان
12 فہم القرآن ربط کلام : نیک لوگوں کی جزا اور انعام کا ذکر جاری ہے۔ نیک لوگوں کو جزا اور انعام اس لیے دیا جائے گا کیونکہ وہ اللہ کی توحید پر ایمان رکھتے تھے اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کیا کرتے رہے اور دیگر نیک اعمال کے ساتھ اپنی نذروں کو پورا کرتے تھے، صرف اللہ کی رضا کی خاطر مسکینوں، یتیموں اور قیدیوں کو کھانا کھلاتے تھے۔ کیونکہ یہ کام بڑے حوصلے کے ہیں اس لیے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ صبر کرنے والوں کو بغیر حساب کے جنت میں داخل کیا جائے گا۔ صابر حضرات کو دیگر انعامات کے ساتھ ریشم کے لباس پہنائے جائیں گے، وہ تکیوں پر ایسے مقامات پر جلوہ افروز ہوں گے جنہیں نہ دھوپ لگے گی اور نہ ہی سردی چھوئے گی، ان پر اس طرح کے سایہ دار درخت ہوں گے جن کی شاخوں پر پھل ٹپک رہے ہوں گے۔ جنت کے خدّام شیشے اور چاندی سے بنے ہوئے صاف اور شفاف جام لیے ہوئے جنتی کے آگے پیچھے پھریں گے۔ جنتی کو ایسی شراب پیش کی جائے گی جس میں زنجبیل کی آمیزش ہوگی یہ جنت میں اس چشمے سے نکلے گی جس کا نام سلسبیل ہے۔ جنتی کو شراب پلانے اور ان کی خدمت کرنے والے غلمان ہمیشہ ایک جیسے رہیں گے، ان کے حسن وجمال کا عالم یہ ہوگا کہ دیکھنے والا انہیں چمکتے ہوئے موتی تصور کرے گا۔ جنتی جنت میں جدھر بھی آنکھ اٹھائے گا وہ ہر قسم کی نعمتیں پانے کے ساتھ اپنے لیے بہت بڑی سلطنت پائے گا۔ گویا کہ اسے وسیع ترین جنت دی جائے گی۔ انہیں دیباج اور اطلس کے زرق برق لباس پہنائے جائیں گے اور چاندی کے کنگن ان کی کلائیوں میں ہوں گے۔ ان کے رب کے حکم سے انہیں شراب طہور پلائی جائے گی۔ ارشاد ہوگا کہ یہ تمہاری کوشش کا صلہ ہے جو ہمارے ہاں قبول ہوچکی ہے۔ (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ قَیْسٍ (رض) عَنْ أَبِیْہِ عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ إِنَّ لِلْمُؤْمِنِ فِی الْجَنَّۃِ لَخَیْمَۃً مِنْ لُؤْلُؤَۃٍ وَاحِدَۃٍ مُجَوَّفَۃٍ طُوْلُھَا سِتُّوْنَ مِیْلًا لِلْمُؤْمِنِ فِیْھَا أَھْلُوْنَ یَطُوْفُ عَلَیْھِمُ الْمُؤْمِنُ فَلَا یَرٰی بَعْضُھُمْ بَعْضًا) (رواہ مسلم : باب فی صفۃ خیام الجنۃ ....) ” حضرت عبداللہ بن قیس اپنے باپ سے اور وہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں آپ کا فرمان ہے کہ جنت میں مومن کے لیے موتی کا ایک ایسا خیمہ ہوگا جس کی لمبائی ساٹھ میل ہوگی وہاں مومن کے گھر والے ہوں گے جن کے ہاں وہی جائے گا دوسرا انہیں دیکھ نہیں پائے گا۔“ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَال اللّٰہُ تَعَالٰی اَعْدَدْتُّ لِعِبَادِیَ الصَّالِحِیْنَ مَالَا عَیْنٌ رَأَتْ وَ لَآ اُذُنٌ سَمِعَتْ وَلَا خَطَرَ عَلٰی قَلْبِ بَشَرٍ وَّاقْرَءُ وْا إِنْ شِءْتُمْ (فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّآاُخْفِیَ لَھُمْ مِّنْ قُرَّۃِ اَعْیُنٍ) (رواہ البخاری : باب ماجاء فی صفۃ الجنۃ وأنھا مخلوقۃ) ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں میں نے اپنے نیک بندوں کے لیے وہ نعمتیں تیار کی ہیں، جن کو نہ کسی آنکھ نے دیکھا اور نہ ہی ان کے متعلق کسی کان نے سنا اور نہ ہی کسی انسان کے دل میں ان کا خیال پیدا ہوا۔ اگر چاہو تو اس آیت کی تلاوت کرو۔ (کوئی نہیں جانتا کہ ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک کے لیے کیا چیز چھپا کے رکھی گئی ہے۔“ ) ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جو شخص اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لایا، نماز قائم کی، رمضان کے روزے رکھے‘ اللہ تعالیٰ نے ذمّہ لے لیا ہے کہ وہ اسے جنت میں داخل فرمائے گا۔ خواہ اس نے اللہ کے راستے میں جہاد کیا یا اپنی پیدائش کے علاقے میں رہا صحابہ (رض) نے عرض کیا، اے اللہ کے رسول! اجازت ہو تو ہم لوگوں کو یہ خوش خبری سنائیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : بلاشبہ جنت کی سومنزلیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں ان لوگوں کے لیے تیار کیا ہے، جو اللہ کے راستے میں جہاد کرتے ہیں۔ ان میں سے ہر دو منزلوں کے درمیان زمین و آسمان کے برابر فاصلہ ہے۔ جب تم اللہ سے جنت کا سوال کرو تو اس سے جنت الفردوس کا سوال کروکیونکہ وہ اعلیٰ وافضل جنت ہے اس کے اوپر اللہ تعالیٰ کا عرش ہے اور وہیں سے جنت کی نہریں نکلتی ہیں۔“ (رواہ البخاری : کتاب الجہاد) (عن عَبْداللّٰہِ بْنَ عُکَیْمٍ قَالَ کُنَّا مَعَ حُذَیْفَۃَ (رض) بِالْمَدَآءِنِ فَاسْتَسْقٰی حُذَیْفَۃُ فَجَآ ءَ ہٗ دِہْقَانٌ بِشَرَابٍ فِیْ إِنَاءٍ مِّنْ فِضَّۃٍ فَرَمَاہُ بِہٖ وَقَالَ إِنِّیْٓ أُخْبِرُکُمْ أَنِّیْ قَدْ أَمَرْتُہٗ أَنْ لاَّ یَسْقِیَنِیْ فِیْہِ فَإِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ لاَ تَشْرَبُوْا فِیْ إِنَآء الذَّہَبِ وَالْفِضَّۃِ وَلاَ تَلْبَسُوا الدِّیْبَاجَ وَالْحَرِیْرَ فَإِنَّہٗ لَہُمْ فِی الدُّنْیَا وَہُوَ لَکُمْ فِی الآخِرَۃِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ) (رواہ مسلم : کتاب اللباس والزینۃ، باب تَحْرِیمِ اسْتِعْمَالِ إِنَاء الذَّہَبِ وَالْفِضَّۃِ عَلَی الرِّجَالِ وَالنِّسَاءِ) ” حضرت عبداللہ بن عکیم (رض) بیان کرتے ہیں کہ ہم حذیفہ (رض) کے ساتھ مدائن میں تھے۔ حذیفہ (رض) نے پانی طلب کیا تو ایک کاشتکار چاندی کے برتن میں پانی لے کر حاضر ہوا۔ حضرت حذیفہ (رض) نے اسے پھینک دیا اور فرمایا کہ میں تمہیں یہ بات بتلاتے ہوئے حکم دیتاہوں کہ کوئی مجھے ایسے برتن میں پلائے کیونکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے کہ سونے اور چاندی کے برتنوں میں نہ پیو۔ زیور اور ریشمی لباس نہ پہنو (مرد) یہ دنیا میں کافروں کے لیے ہیں اور تمہارے لیے آخرت میں ہیں۔“ مسائل ١۔ جنت میں جنتی ایسی جگہوں پر تکیہ لگائے تشریف فرما ہوں گے جہاں اللہ تعالیٰ انہیں دھوپ اور سردی سے بچائے گا۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ انہیں ہمیشہ خوش وخرم رکھے گا۔ ٣۔ جنتی کو جنت کے باغات اور ریشمی لباس دیئے جائیں گے۔ ٤۔ جنتی کے سامنے جنت کے پھل لٹک رہے ہوں گے۔ ٥۔ جنتی کے غلمان چاندی اور شیشے سے بنے ہوئے جاموں میں جنتی کو شراب پیش کریں گے۔ ٦۔ جنت میں شراب کا ایک چشمہ ہوگا جس کا نام سلسبیل ہے اس شراب میں زنجبیل کی آمیزش ہوگی۔ تفسیر بالقرآن جنت کے چشمے اور نہریں : ١۔ ہم نے اس میں کھجوروں، انگوروں کے باغ بنائے ہیں اور ان میں چشمے جاری کیے ہیں۔ (یٰس : ٣٤) ٢۔ یقیناً متقین باغات اور چشموں میں ہوں گے۔ (الذاریات : ١٥) ٣۔ اللہ نے مومن مرد اور عورتوں سے جنت کا وعدہ کیا ہے جس کے نیچے نہریں جاری ہیں۔ اللہ کی رضابڑی بات ہے۔ (التوبہ : ٧٢) ٤۔ ایمان والوں کو جنت میں داخل کیا جائے گا جس میں نہریں بہتی ہیں اور وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔ (النساء : ٥٧) ٥۔ جس جنت کا مومنوں کے ساتھ وعدہ کیا گیا ہے۔ اس کے نیچے سے نہریں جاری ہیں اور اس کے پھل اور سائے ہمیشہ کے لیے ہوں گے۔ (الرعد : ٣٥) ٦۔ اللہ سے ڈرنے والوں کے لیے جنت ہے جس کے نیچے نہریں جاری ہیں۔ (آل عمران : ١٩٨) ٧۔ مومنوں کے ساتھ جس جنت کا وعدہ کیا گیا ہے اس میں چار قسم کی نہریں ہوں گی۔ پانی کی نہر، دودھ کی نہر، شراب کی نہر اور شہد کی نہر۔ ( سورۃ محمد : ١٥) ٨۔ متقین گھنے سایوں اور چشموں والی جنت میں ہوں گے۔ (المرسلات : ٤١) الإنسان
13 الإنسان
14 الإنسان
15 الإنسان
16 الإنسان
17 الإنسان
18 الإنسان
19 الإنسان
20 الإنسان
21 الإنسان
22 الإنسان
23 فہم القرآن ربط کلام : اس سورت کی ابتداء میں ارشاد ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیدا فرما کر اسے یہ بات بتلا دی ہے کہ اے انسان تو شکر اور کفر میں جس کا چاہے انتخاب کرلے جو لوگ کفر کریں گے انہیں جہنم میں رنجیروں سے جھکڑا جائے گا اور ان کے لیے جہنم کی آگ تیار کی گئی ہے، جو لوگ شکر کا راستہ اختیار کریں گے ان کے اعمال کی قدر دانی کی جائے گی۔ ان کے لیے جنت کی نعمتیں ہوں گی۔ قرآن مجید میں ” اللہ تعالیٰ“ نے ہدایت کے راستے کو واضح کردیا ہے اس کے باوجود لوگ ہدایت کے راستہ پر نہیں آتے تو داعی کو صبر کے ساتھ اپنا کام جاری رکھنا چاہے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اسی بات کی تلقین کی گئی ہے۔ قرآن مجید کا مطالعہ کرنے والا ہر شخص جانتا ہے کہ قرآن مجید کے بڑے بڑے مضامین تین میں اور یہ مضمون بنیادی حیثیت رکھتے ہیں۔ 1۔ توحید 2۔ رسالت 3۔ آخرت۔ اہل مکہ اور ہر دورکے لوگوں کی اکثریت ان تینوں باتوں کا انکار کرتی رہی ہے۔ ان مضامین کو قرآن مجید بار بار مختلف الفاظ اور انداز میں پیش کرتا ہے تاکہ لوگ ان پر ایمان لائیں اور اپنی دنیا و آخرت کو بہتر بنا لیں کیونکہ ان مضامین پر قرآن مجید بار بار زوردیتا ہے اس لیے اہل مکہ قرآن مجید کا انکار کرنے کے لیے مختلف بہانے کیا کرتے تھے۔ ان بہانوں میں ان کا ایک بہانہ یہ بھی تھا کہ قرآن مجید یکبارگی کیوں نازل نہیں کیا جاتا۔ قرآن مجید نے کفار کے ان اعتراضات کے جواب درج ذیل تفسیر بالقرآن میں پیش کیے گئے ہیں۔ لیکن ٹھوس دلائل پانے کے باوجود اہل مکہ یا وہ گوئی کرتے رہے۔ جس پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم ہوا کہ آپ اپنے رب کے حکم کے مطابق صبر وحوصلہ سے کام لیں اور حالات جیسے بھی ہوں آپ کو کسی بدعمل اور ناشکرے کی بات نہیں ماننی چاہیے، صبر کرنے کے لیے ضروری ہے کہ آپ اپنے رب کو صبح و شام یاد کریں اور رات کے کچھ حصوں میں اپنے رب کے حضور سجدے کیا کریں اور اس کی تسبیحات پڑھیں۔ یاد رہے کہ ” اللہ“ کا ذکر انسان کو ایک طرف اس کے رب کے قریب کرتا ہے اور دوسری طرف اسے مشکلات پر قابو پانے کے لیے حوصلہ دیتا ہے۔ ” بکرۃ“ سے مراد صبح کی نماز اور ” اصیل“ کا لفظ زوال کے وقت سے لے کر مغرب کے وقت تک ہوتا ہے اس میں ظہر اور عصر کی نمازیں شامل ہیں۔ ” وَمِنَ الَّیْلِ فَاسْجُدْ لَہٗ“ سے مراد غروب آفتاب سے آدھی رات ہے۔ ان اوقات میں مغرب اور عشاء کی نماز ادا کی جاتی ہے۔” لَیْلاً طَوِیْلًا“ سے مراد تہجد کا وقت ہے جو صبح صادق تک جاری رہتا ہے۔ قرآن مجید کی تلاوت کرنے والا ہر شخص یہ بات جانتا ہے کہ جہاں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مشکلات کا ذکر ہوتا ہے وہاں آپ کو نماز پڑھنے اور ذکر کرنے کی یاد دہانی کروائی جاتی ہے کیونکہ نماز اور اللہ کے ذکر کے بغیر مشکلات پر قابو نہیں پایا جا سکتا جو شخص مشکلات کے وقت اپنے آپ پر قابو نہیں پاتا وہ اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہوتا۔ ” حضرت عمر (رض) فرمایا کرتے تھے وہ شخض زندگی کے حقائق سے لطف اندوز نہیں ہوسکتا جو صبر و استقامت کا مظاہرہ نہیں کرتا۔“ (سیرت عمر فاروق (رض) مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کو وقفے وقفے سے نازل فرمایا ہے۔ ٢۔ مسلمان کو مشکلات کے وقت اپنے رب کے حکم کے مطابق صبر کرنا چاہیے اور کسی حال میں بھی برے لوگوں کے پیچھے نہیں لگنا چاہیے۔ ٣۔ مسلمان کو ہر حال میں اپنے رب کو یاد کرنا چاہیے۔ ٤۔ اللہ کے ذکر اور نماز پڑھنے سے مسلمان کو حوصلہ نصیب ہوتا ہے۔ تفسیر بالقرآن قرآن مجید یک بار کیوں نازل نہیں کیا گیا : ١۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کو یک بار اس لیے نازل نہیں کیا تاکہ قرآن کو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دل پر اچھی طرح ثبت کردیا جائے اور آپ اس کو ٹھہر ٹھہر کر پڑھیں۔ (الفرقان : ٣٢) ٢۔ قرآن مجید کو اس لیے آہستہ آہستہ نازل کیا گیا تاکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تھوڑا تھوڑا کرکے لوگوں تک پہنچائیں۔ (بنی اسرائیل : ١٠٦) الإنسان
24 الإنسان
25 الإنسان
26 الإنسان
27 فہم القرآن ربط کلام : جو لوگ صبر سے کام نہیں لیتے حقیقت یہ ہے کہ وہ اعتقاداً یا عملاً آخرت کے مقابلے میں دنیا کو مقدم سمجھتے ہیں۔ صبر کا معنٰی یہ ہے کہ آدمی مصیبت کے وقت اپنے آپ پر قابو پائے اور ہر حال میں اپنے آپ کو شریعت کا پابند رکھے۔ صبر نہ کرنے والا شخص شعوری یا غیر شعوری طور پر آخرت کے مقابلے میں دنیا کے مفاد اور ترقی کو مقدم سمجھتا ہے وہ اس لیے عجلت کرتا ہے کہ اس کے سامنے قیامت کے دن کی مشکلات نہیں ہوتیں اگر وہ قیامت کی مشکلات کو اپنے سامنے رکھے تو اسے معلوم ہوجائے گا کہ دنیا کی مشکلات آخرت کی مصیبتوں کے مقابلے میں کوئی حیثیت نہیں رکھتیں۔ جس کے ذہن میں یہ عقیدہ پختہ ہوجائے۔ اسے صبر کرنا آسان ہوجاتا ہے۔ صبر کرنے سے ہی انسان قرآن کی تعلیمات پر عمل کرسکتا ہے۔ صبر کا دوسرا مفہوم مستقل مزاجی ہے جو مستقل مزاجی کے ساتھ صراط مستقیم پر چلتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے لیے اپنا راستہ آسان کردیتا ہے کیونکہ اسی نے انسان کو پیدا کیا ہے اور اسی نے اس کے وجود کو مضبوط بنایا ہے۔ اس کا فرمان ہے کہ ہم جب چاہیں تو لوگوں کی شکلیں بدل کر رکھ دیں ان الفاظ کے مفسرین نے تین مفہوم بتلائے ہیں۔ ١۔ ہم چاہیں تو انہیں ہلاک کرکے ان کی جگہ دوسرے لوگ لے آئیں جو فکرو عمل کے اعتبار سے ان سے بہتر ہوں گے۔ ٢۔ ہم چاہیں تو ان کی شکلیں بدل دیں کیونکہ ہم نے ہی انہیں کمزور سے مضبوط بنایا ہے۔ ٣۔ ہم چاہیں تو انہیں موت کے بعد کسی اور شکل و صورت میں پیدا کریں۔ انسان جب پیدا ہوتا ہے تو اس کا وجود نازک اور ناتواں ہوتا ہے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ اس کے وجود کو درجہ بدرجہ مضبوط کرتا ہے انسان کو توانا بنانے اور صبر وشکر کا راستہ بتلانے کے بعد کھلا چھوڑ دیا گیا ہے چاہے۔ تو اپنے رب کا راستہ اختیار کرے نہ چاہے تو وہ کفر اور ناشکری کا راستہ اختیار کرلے تاہم انسان کو یاد رکھنا چاہیے کہ وہ اپنی طاقت کے بل بوتے پر کچھ نہیں کرسکتا، یہ اللہ تعالیٰ کی مرضی پر منحصر ہے البتہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو آزمانے کے لیے مہلت دی ہے۔ انسان کو آزمانے کا یہ معنٰی نہیں کہ اللہ تعالیٰ اس کے ماضی، حال اور مستقبل کو نہیں جانتا اسے توسب کچھ معلوم ہے لیکن اس کی حکمت کا تقاضا ہے کہ وہ انسان کو کھلا چھوڑ کر آزمائے کہ وہ اس کی رحمت کا حقدار بنتا ہے یا اس کے عذاب کا مستحق ٹھہرتا ہے۔ جو اس کی رحمت کے لیے کوشش کرے گا اللہ تعالیٰ اسے ہمت اور توفیق عطا فرمائے گا اور اسے اپنی رحمت میں داخل کرے گا، جو اس کی رحمت سے بے پرواہی اختیار کرے گا۔ اسے مہلت دی جائے گی اور وہ ظالموں میں شامل ہوگا اور ظالموں کے لیے اذیت ناک عذاب تیار کیا گیا ہے۔ یہاں ایک مخصوص انداز میں ایک داعی کو تسلی دی گئی ہے کہ اس کا کام لوگوں کو بتلانا اور سمجھانا ہے۔ بے شک اس کی خواہش اور کوشش ہونی چاہیے کہ لوگ ہدایت یافتہ ہوجائیں مگر اسے یہ سمجھ لینا چا ہے کہ وہی ہوتا ہے جو اللہ رب العزت چاہتا ہے۔ (عَنْ أَبِیْ الدَّرْدَاءِ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تَفْرَغُوْا مِنْ ہَمُوْمِ الدُّنِیَا مَا اسْتَطَعْتُمْ فَاِنَّہٗ مَنْ کَانَتِ الدُّنِیَا اَکْبَرُ ہَمَّہٗ اَفْشَی اللّٰہُ ضَیِّعَتَہٗ وَجَعْلَ فَقْرَہٗ بَیْنَ عَیْنَیْہِ وَمَنْ کَانَتِ الْاٰخِرَۃِ اَکْبَرُ ہَمَّہٗ جَمَعَ اللّٰہُ لَہٗ اَمُوْرَہٗ وَجَعَلَ غِنَاہُ فِیْ قَلْبِہٖ وَمَا اَقْبَلَ عَبْدٌ بِقَلْبِہٖ إِلَی اللّٰہِ إِلاَّ جَعَلَ اللّٰہُ قُلُوْبَ الْمُؤْمِنِیْنَ تَفِدُّ إِلَیْہِ بالْوَدِّ وَالرَّحْمَۃِ وَکَان اللّٰہُ إِلَیْہِ بِکُلِّ خَیْرٍ اَسْرَعُ) (معجم الاوسط : باب من اسمہ محمد، قال الالبانی ھٰذا حدیث ضعیف) ” حضرت ابو درداء (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جہاں تک ہو سکے تم دنیا کے غموں سے چھٹکارا حاصل کرلو جس نے دنیا کی فکر کو بڑ اجان لیا اللہ تعالیٰ اس پر دنیا تنگ کردے گا، محتاجی اس کی آنکھوں سے ٹپک رہی ہوگی۔ جس نے آخرت کو اپنے لیے بڑی فکر سمجھ لیا۔ اللہ تعالیٰ اس کے معاملات کو سنوار دے گا۔ اس کے دل میں غنا پیدا کردے گا۔ جو انسان اللہ تعالیٰ کی طرف سچے دل سے متوجہ ہوجائے اللہ تعالیٰ اس کے لیے مومنوں کے دلوں میں محبت اور رحمت پیدا کردیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کے لیے ہر بھلائی میں جلدی کرتا ہے۔“ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعا : (اَللّٰہُمَّ رَحْمَتَکَ أَرْجُوْ فَلاَ تَکِلْنِیْ إِلٰی نَفْسِیْ طَرْفَۃَ عَیْنٍ وَّأَصْلِحْ لِی شَأْنِیْ کُلَّہُ لاَ إِلٰہَ إِلاَّ أَنْتَ) (رواہ ابو داؤد : باب مایقول اذا اصبح) ” اے اللہ میں تیری رحمت کی امید رکھتاہوں مجھے ایک لمحے کے لیے بھی میرے نفس کے حوالے نہ کرنا اور میرے تمام معاملات درست فرما دے تیرے علاوہ کوئی الٰہ نہیں۔“ مسائل ١۔ بے شمار لوگ آخرت کے مقابلے میں دنیا کو ترجیح دیتے ہیں حالانکہ آخرت کا دن بڑا بھاری ہوگا۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیدا کیا اور اس کے وجود کو مضبوط بنایا۔ جب چاہے وہ اس میں تبدیلی لاسکتا ہے۔ ٣۔ اللہ کی نصیحت پر عمل کرنا اس کی طرف جانے کاراستہ ہے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے اپنی رحمت میں داخل فرماتا ہے اور جسے چاہتا ہے اس کے نفس کے حوالے کردیتا ہے۔ البتہ ظالموں کے لیے اذیت ناک ہوگا۔ تفسیر بالقرآن آخرت پر دنیا کو ترجیح دینے والے لوگوں کا انجام : ١۔ جو لوگ دنیا کو آخرت پر ترجیح دیتے ہیں اور اللہ کی راہ سے روکتے ہیں اور اس میں کجی تلاش کرتے ہیں یہی دور کی گمراہی میں ہیں۔ (ابراہیم : ٣) ٢۔ یہی ہیں وہ لوگ جنہوں نے دنیا کو آخرت پر ترجیح دی بے شک اللہ کافروں کو ہدایت نہیں دیتا۔ (النحل : ١٠٧) ٣۔ وہ لوگ جو دین کو کھیل تماشا بناتے ہیں اور دنیا کی زندگی نے انہیں دھوکے میں ڈال رکھا، قیامت کے دن ہم ان کو بھلا دیں گے۔ (الاعراف : ٥١) ٤۔ جس نے سرکشی اختیار کی اور دنیا کو ترجیح دی اس کا ٹھکانہ جہنم ہے۔ (الناز عات : ٩ ٣) الإنسان
28 الإنسان
29 الإنسان
30 الإنسان
31 الإنسان
0 سورۃ المرسلات کا تعارف اس سورت کا پہلا لفظ ہی اس کا نام قرار پایا ہے اس کی پچاس آیات ہیں جو دو رکوع پر مشتمل ہیں، یہ سورت مکہ معظمہ میں نازل ہوئی اللہ تعالیٰ نے اس کی ابتداء میں ہوا کے متعلق پانچ قسمیں اٹھا کر فرمایا ہے کہ جس قیامت کا تمہیں وعدہ دیا جاتا ہے وہ ہر صورت برپا ہو کر رہے گی۔ اس کی ابتداء اس طرح ہوگی کہ ستارے بے نور ہوجائیں گے، آسمان پھاڑ دیا جائے گا، پہاڑ دھنی ہوئی روئی کی طرح اڑنے لگیں گے۔ انبیاء کو حاضری کا وقت دیا جائے گا اور اس دن فیصلے کیے جائیں گے۔ جھٹلانے والوں کے لیے یہ دن بڑا سخت ہوگا جو لوگ قیامت کو اس لیے جھٹلاتے ہیں کہ ان کے خیال میں انسان کو دوبارہ پیدا کرنا مشکل ہے کیا یہ غور نہیں کرتے کہ ہم نے انسان کو ایک حقیر پانی سے پیدا کیا ہے اور اسے ایک مقررہ مدّت تک ایک محفوظ مقام پر ٹھرائے رکھا۔ ہم نے زمین کو پیدا کیا اور پھر اس پر بلند و بالا پہاڑ گاڑ دئیے اور تمہارے لیے میٹھے پانی کا بندوبست کیا لیکن پھر بھی لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ ہم انہیں پیدا نہیں کرسکتے اور نہ ہی قیامت برپا ہوگی۔ جو لوگ قیامت کا انکار کرتے ہیں انہیں یاد ہونا چاہیے کہ ایک وقت ایسا آئے گا کہ جب انہیں حکم ہوگا کہ چلو اس کی طرف جیسے تم جھٹلایا کرتے تھے اور چلو اس سائے کی طرف جو تین شاخوں والا ہے اس میں ذرہ برابر ٹھنڈک ہے اور نہ یہ آگ کی شدت سے بچانے والا ہے۔ اس دن مجرم اپنے رب کے حضور معذرت کریں گے لیکن انہیں حکم ہوگا کہ آج کوئی معذرت قبول نہیں ہوگی۔ اس دن کو جھٹلانے والوں کے لیے بڑی ہلاکت ہوگی۔ انہیں بتلایا جائے گا کہ یہ وہی دن ہے جس دن جمع ہونے کا تم انکار کرتے تھے۔ ان کے مقابلے میں جو لوگ قیامت پر یقین رکھتے ہیں اور ” اللہ“ اور اس کے رسول کی نافرمانی سے بچ کر زندگی بسر کرتے ہیں یہ گھنے سائے اور جنت کے چشموں میں ہوں گے جو چاہیں گے وہی پھل پائیں گے اور انہیں حکم ہوگا کھاؤ اور مزے کرو کیونکہ ہم نیکی کرنے والوں کو اس طرح جزا دیتے ہیں۔ المرسلات
1 فہم القرآن ربط سورت : الدّہر کے آخر میں یہ ذکر ہوا ہے کہ انسان اپنی عجلت کی وجہ سے آخرت کے مقابلے میں دنیا کو ترجیح دیتا ہے اور آخرت کو فراموش کرتا ہے حالانکہ آخرت کی زندگی ہمیشہ ہمیش رہنے والی ہے۔ سورۃ المرسَلٰت کی ابتداء میں آخرت کے ابتدائی مراحل کا ذکر گیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی قدرت کی نشانیوں اور نعمتوں میں ہوا بھی اس کی عظیم نعمت اور اس کی قدرت کی زبردست نشانی ہے جو انسان اور ہر جاندار کے لیے اس قدر ناگزیر ہے کہ اس کے بغیر انسان اور ہر جاندار چند لمحوں کا مہمان ہوتا ہے۔ عام لوگ ہوا کو ایک جیسی جانتے اور دیکھتے ہیں۔ بے شک اپنی جنس میں ہوا ایک ہے لیکن اپنی کیفیت اور اثرات کے اعتبار سے ہوا کی کئی اقسام ہیں یہاں اس کی پانچ اقسام ذکر کی گئی ہیں یہ اپنے اپنے اثرات اور حیثیت کے اعتبار سے اتنی مؤثر ہیں کہ سینکڑوں میلوں پر محیط فضا اور موسم کو یکدم بدل کر رکھ دیتی ہیں۔ کیونکہ فضا کو بدلنے میں ہوا بہت اہم کردار ادا کرتی ہے۔ اس لیے ہوا کے اثرات اور کیفیت کو اجاگر کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے اس کی الگ الگ کیفیت کا نام لے کر قسمیں اٹھائی ہیں تاکہ انسان کو اس بات کا احساس ہوجائے کہ جس ہوا اور فضا میں رہتا ہے وہ رب کی عظیم نعمت اور اس کی قدرت کی نشانیوں میں سے ایک بہت بڑی نشانی ہے اس لیے اس کی یوں قسمیں اٹھائی ہیں۔ قسم ہے ان ہواؤں کی جو مسلسل چلی جارہی ہیں، قسم ہے ان ہواؤں کی جو طوفان کی شکل اختیار کرتی ہیں، قسم ہے ان ہواؤں کی جو بادلوں کو فضا میں پھیلاتی ہیں، قسم ہے ان ہواؤں کی جو بھاری بھرکم بادلوں کو پھاڑ کر ٹکڑیوں میں تبدیل کردیتی ہیں، قسم ہے ان ہواؤں کی جو اپنی طوفانی کیفیت سے لوگوں کے دلوں میں اللہ کا خوف اور اس کی یاد پیدا کرتی ہیں۔ جیسا کہ گرمیوں میں ٹھنڈی ہوا لوگوں کے دلوں میں بارش کی طلب پیدا کرتی ہے اور آندھی کے منفی اثرات سے بچنے کے لیے لوگ اپنے رب کی پناہ مانگتے ہیں۔ موجودہ سائنس نے ہوا کے فوائد کو بہت حد تک اجاگر کردیا ہے، اس کے لیے سائنسدان بڑی محنت اور طویل تحقیق کا سفر طے کر کے اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ ہوا کے ذریعے نر پودے کے اثرات مادہ پودوں تک پہنچتے ہیں اور ہوا کے سبب ہی ایک آدمی کی آواز ٹی وی اور ریڈیوکے ذریعے سینکڑوں میلوں تک سنائی دیتی ہے۔ تجربات کے ذریعے یہ حقیقت بھی واضح ہوگئی ہے کہ مختلف ہو ائیں اپنے اندر مختلف اثرات رکھتی ہیں، یہ بات بھی روز روشن کی طرح واضح ہے کہ مختلف علاقوں کی ہواؤں میں مدّت اور نمی کا تناسب بھی مختلف ہوتا ہے یہاں تک ہوا کی طاقت کا معاملہ ہے۔ اگر ہوا آندھی کی شکل اختیار کرجائے تو بڑے بڑے درخت اور مکانوں کو اڑا کر رکھ دیتی ہے، اگر ہوا ایک حد سے زیادہ تیز اور مسلسل چلے تو انسان کو سانس لینا بھی مشکل ہوجاتا ہے۔ بعض اہل تفسیر نے اس سورت کی ابتدائی پانچ آیات کی یہ تفسیر بھی کی ہے۔ ان الفاظ میں صرف صفات بیان کی گئی ہیں، یہ صراحت نہیں کی گئی کہ یہ کس چیز یا کن چیزوں کی صفات ہیں اس لیے مفسرین کے درمیان اس بات میں اختلاف ہے کہ آیا یہ پانچوں صفات ایک ہی چیز کی ہیں یا الگ الگ چیزوں کی ہیں اور یہ چیزیں کیا ہیں، ایک گروہ کہتا ہے کہ پانچوں سے مراد ہوائیں ہیں، دوسرا فریق کہتا ہے کہ پانچوں سے مراد فرشتے ہیں، تیسرا کہتا ہے کہ پہلے تین سے مراد ہوائیں ہیں اور باقی دو سے مراد فرشتے ہیں، چوتھی جماعت کہتی ہے کہ پہلی دو سے مراد ہوائیں اور باقی تین سے مراد فرشتے ہیں اور ایک گروہ کی رائے یہ بھی ہے کہ پہلے سے مراد عام ملائکہ اور دوسرے سے مراد عذاب کے ملائکہ اور باقی تین سے مراد قرآن مجید کی آیات ہیں۔ (تفہیم القرآن جلد ٦) (عَنْ عَآءِشَۃَ (رض) قَالَتْ مَا رَاَےْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ضَاحِکًا حَتّٰی اَرٰی مِنْہُ لَھَوَاتِہٖ اِنَّمَا کَانَ ےَتَبَسَّمُ فَکَانَ اِذَا رَاٰی غَےْمًا اَوْ رِےْحًا عُرِفَ فِیْ وَجْھِہٖ۔) (رواہ البخاری : باب (فَلَمَّا رَأَوْہُ عَارِضًا مُسْتَقْبِلَ أَوْدِیَتِہِمْ قَالُوا ہَذَا عَارِضٌ مُمْطِرُنَا بَلْ ہُوَ مَا اسْتَعْجَلْتُمْ بِہِ ریحٌ فیہَا عَذَابٌ أَلِیمٌ) ” حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ میں نے رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کبھی کھل کھلا کر ہنستے نہیں دیکھا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اکثر مسکرایا کرتے تھے۔ آندھی یا بارش کے وقت خوف کے اثرات آپ کے چہرے پر نمایاں ہوتے تھے۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے ہوا کی کئی اقسام بنائی ہیں۔ ٢۔ دنیا کے مختلف خطوں میں ہوا کے مختلف اثرات اور کیفیت ہوتی ہے۔ المرسلات
2 المرسلات
3 المرسلات
4 المرسلات
5 المرسلات
6 المرسلات
7 فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ نے جس دن کی اہمیت اجاگر کرنے کے لیے پانچ قسمیں اٹھائی ہیں اس دن کی حالت یہ ہوگی۔ ہوا کی طاقت بیان کرنے کے بعد قیامت کا اس لیے ذکر کیا ہے کہ جس آندھی سے تم خوف زدہ ہوتے ہو وہ قیامت کے مقابلے میں کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔ جو ہر صورت واقع ہو کر رہے گی۔ اس کا آغاز اس طرح خوفناک ہوگا کہ اس دن ستاروں کی روشنی ختم کردی جائے گی، آسمان پھاڑ دیا جائے گا، پہاڑ اڑا دیئے جائیں گے اور انبیائے کرام (علیہ السلام) کے لیے وقت مقرر کیا جائے گا۔ آپ کو کیا خبر! کہ فیصلے کا دن کیسا ہوگا؟ اس دن جھٹلانے والوں کے لیے تباہی اور بربادی ہوگی۔ قرآن مجید نے کئی مقامات پر بتلایا ہے کہ قیامت کا دن اپنی ہولناکیوں کے اعتبار سے اس قدر سخت ہوگا کہ جس کا کوئی شخص تصور بھی نہیں کرسکتا۔ اس دن کی ابتدا اس طرح ہوگی کہ ستارے بے نور اور بے ثقل ہو کر گرپڑیں گے، آسمان کے بندھن ڈھیلے ہوجائیں گے اور اس میں جگہ جگہ دراڑھیں پیدا ہوجائیں اور بالآخر نیچے گر پڑے گا اسی طرح پہاڑ ٹکڑے ٹکڑے کر دئیے جائیں گے اور یہ ریت بن کر اڑنے لگیں گے۔ پھر ایک طویل مدت کے بعد جسے اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا، محشرکا میدان قائم ہوگا جس میں لوگوں کے درمیان فیصلے کیے جائیں گے، ہر نبی کو ایک وقت دیا جائے گا جس میں وہ اپنی امت کے ساتھ رب ذوالجلال کے سامنے پیش ہوگا۔ جن لوگوں نے اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی اور قیامت کے دن کو جھٹلایاان کے لیے اس دن کا ایک ایک لمحہ بھاری ہوگا۔ اس کے باوجود لوگ قیامت کو جھٹلاتے ہیں کیا انہیں معلوم نہیں کہ ہم نے ان سے پہلے لوگوں کو ہلاک کیا ؟ پھر ان لوگوں کو ہلاک کیا جو ان کے بعد آنے والے تھے جو ان کے فکرو عمل کی پیروی کرتے تھے۔ ظالموں کو معلوم ہونا چاہیے کہ ہم مجرموں کے ساتھ اس طرح ہی سلوک کیا کرتے ہیں یہ تو دنیا میں سزا تھی اور آخرت میں انہیں ان کے کیے کی پوری پو ری سزا دی جائے گی۔ (عَنِ الْمِقْدَادِ (رض) قَالَ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَقُوْلُ تُدْ نَیْ الشَّمْسُ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ مِنَ الْخَلْقِ حَتّٰی تَکُوْنَ مِنْھُمْ کَمِقْدَارِ مِیْلٍ فَیَکُوْنُ النَّا سُ عَلٰی قَدْرِ اَعْمَالِھِمْ فِیْ الْعََرَ قِ فَمِنْھُمْ مَنْ یَّکُوْنُ اِلٰی کَعْبَیْہِ وَمِنْھُمْ مَنْ یَّکُوْنُ اِلٰی رُکْبَتَیْہِ وَمِنْھُمْ مَنْ یَّکُوْنُ اِلٰی حَقْوَیْہِ وَمِنْھُمْ مَنْ یُّلْجِمُھُمُ الْعَرَقُ اِلْجَامًا وَاَشَارَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بِیَدِہٖ اِلٰی فِیْہِ) (رواہ مسلم : باب فِی صِفَۃِ یَوْمِ الْقِیَامَۃِ أَعَانَنَا اللَّہُ عَلَی أَہْوَالِہَا) ” حضرت مقداد (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے سرورِدو عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے سنا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرمارہے تھے کہ قیامت کے دن سورج لوگوں سے ایک میل کی مسافت پر ہوگا لوگوں کا پسینہ ان کے اعمال کے مطابق ہوگا بعض لوگوں کے ٹخنوں تک‘ بعض کے گھٹنوں تک بعض کی کمر تک اور بعض کے منہ تک پسینہ ہوگا یہ بیان کرتے ہوئے رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے منہ کی طرف اشارہ کیا۔“ مسائل ١۔ قیامت کے دن ستارے گِر پڑیں گے، آسمان پھاڑ دئیے جائیں گے، اور پہاڑ اڑا دئیے جائیں گے۔ ٢۔ محشر کے میدان میں ہر نبی مقررہ وقت پر اپنی امت کے ساتھ اپنے رب کے حضور پیش ہوگا۔ ٣۔ قیامت کا دن تکذیب کرنے والوں کے لیے بڑا بھاری ہوگا۔ تفسیر بالقرآن قیامت کا دن نہایت ہی بھاری ہوگا : ١۔ قیامت زمین و آسمانوں پر بھاری ہوگی۔ (الاعراف : ١٨٧) ٢۔ جب زمین کو پوری طرح ہلا دیا جائے گا۔ (الزلزال : ١) ٣۔ لوگو! اپنے رب سے ڈر جاؤ قیامت کا زلزلہ بہت سخت ہے۔ (الحج : ١) (القارعہ : ٤) المرسلات
8 المرسلات
9 المرسلات
10 المرسلات
11 المرسلات
12 المرسلات
13 المرسلات
14 المرسلات
15 المرسلات
16 المرسلات
17 المرسلات
18 المرسلات
19 المرسلات
20 فہم القرآن ربط کلام : قیامت کا انکار کرنے والوں کو اپنی تخلیق پر غور کرنے کی دعوت۔ سور ۃ الدّھر کی ابتدائی آیات میں یہ بیان ہواکہ کیا انسان کو معلوم نہیں کہ اس پر ایک ایسا زمانہ گزرا ہے کہ اس کا کائنات میں ذکر تک نہیں تھا۔ اب ارشاد فرمایا ہے کہ کیا لوگ اس بات پر غور نہیں کرتے کہ ہم نے انہیں ایک حقیر پانی سے پیدا کیا اور اپنی قدرت سے اسے ایک محفوظ مقام پر ٹھہرایا اور ہم پوری قدرت رکھنے والے ہیں یعنی انسان کی پوری زندگی اور اسے دوبارہ زندہ کرنے پھر اپنے حضور پیش کرنے پر قادر ہیں۔ گویا کہ انسان اپنے رب کے سامنے بے بس ہے نہ اپنی مرضی سے پیدا ہوتا ہے اور نہ اپنی مرضی سے جیتا اور مرتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود انسان قیامت کے دن کا انکار کرتا ہے۔ تباہی ہے ان لوگوں کے لیے جو قیامت کے دن کو جھٹلاتے اور اس کا انکار کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے قیامت قائم کرنے کے بارے میں بہت سے دلائل دیئے ہیں ان میں ایک دلیل یہ ہے کہ انسان اپنی تخلیق پر غور کرے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے پانی کی ایک حقیر بوند سے پیدا کیا ہے۔ بظاہر اس پانی کی بوند میں نہ زندگی کی رمق دکھائی دیتی ہے اور نہ ہی انسانی ڈھانچے کا وجود پایا جاتا ہے اس کے باوجود اس کی قدرت کا کرشمہ ہے کہ اس نے معمولی جرثومے کے اندر انسان کے وجود اور کردار کو چھپا رکھا ہے۔ غور کرو کہ جو ذات انسان کو عدم سے وجود میں لاتی ہے کیا وہ اس کے مرنے کے بعد اسے دوبارہ پیدا نہیں کرسکتی؟ ظاہر ہے کہ وہ پیدا کرسکتا ہے اور کرے گا۔ اسی نے زمین کو اس قابل بنایا کہ وہ زندہ اور مردہ اور ہر چیز کو اپنے اندر سمیٹ لیتی ہے۔ اسی نے زمین میں بلندوبالا پہاڑ جمائے اور تمہارے لیے میٹھے پانی کا انتظام فرمایا۔ زمین کی خصوصیت بیان فرماکر یہ ثابت کیا ہے کہ جس زمین میں مدتوں پڑے ہوئے بیج اللہ کے حکم سے اگ آتے ہیں کیا اس خالق کے حکم سے قیامت کے دن مردے دوبارہ پیدا نہیں ہوسکتے ؟ پھر سوچو! جس نے زمین پر بلندو بالا پہاڑ گاڑ دیئے ہیں اور وہی زمین اور پہاڑوں سے میٹھے چشمے جاری کرتا ہے کیا وہ انسان کو دوبارہ پیدا کرنے پر قادر نہیں؟ زمین سے ہزارہا چیزیں نکلتی ہیں اور ہزاروں چیزیں اس میں دفن ہوتی ہیں، معلوم نہیں یہ عمل کب سے جاری ہے اور کب تک جاری رہے گا۔ جس ذات کے حکم سے یہ عمل جاری ہے اسی کے حکم سے قیامت قائم ہوگی اور زمین ہر چیز اگل دے گی بلکہ وہ سب کچھ بتائے گی جو انسان اس کے سینے پر کیا کرتا تھا لہٰذا جو لوگ قیامت کو جھٹلاتے ہیں ان کے لیے بڑی مصیبت اور بربادی ہے۔ ” جب زمین پوری شدت کے ساتھ ہلادی جائے گی اور زمین اپنے اندر کے بوجھ نکال کر باہر پھینک دے گی اور انسان کہے گا کہ اس کو کیا ہوگیا ہے؟ اس دن وہ اپنے حالات بیان کرے گی کیونکہ آپ کے رب نے اسے ایسا کرنے کا حکم دیا ہوگا۔“ (الزلزال : ١ تا ٥) ” حضرت انس بن مالک (رض) سے روایت ہے وہ حدیث کو مرفوع بیان کرتے ہیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے رحم میں ایک فرشتہ مقرر کیا ہے وہ پوچھتا ہے اے میرے رب ! یہ نطفہ ہے اے میرے رب! یہ گوشت کا لوتھڑا ہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب اللہ تعالیٰ کسی کی تخلیق کا فیصلہ فرماتا ہے تو فرشتہ کہتا ہے اے میرے رب مذکر یا مؤنث بدبخت یا خوش بخت اس کا رزق کتنا ہے اس کی عمر کتنی ہے اسی طرح اس کا نیک اور بد ہونا اس کی ماں کے پیٹ میں لکھ دیا جاتا ہے۔“ (رواہ مسلم : باب کَیْفِیَّۃِ الْخَلْقِ الآدَمِیِّ فِی بَطْنِ أُمِّہِ وَکِتَابَۃِ رِزْقِہِ وَأَجَلِہِ وَعَمَلِہِ وَشَقَاوَتِہِ وَسَعَادَتِہِ) مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو حقیر پانی سے پیدا کیا ہے۔ ٢۔ اللہ ہی جرثومے رحم مادر میں ایک جگہ ایک مقررہ مدت تک ٹھہراتا ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ ہر قسم کی قدرت رکھنے والا ہے۔ ٤۔ قیامت کو جھٹلانے والوں کے لیے تباہی اور ہلاکت ہوگی۔ تفسیر بالقرآن تخلیق انسانی کے مختلف مراحل : (النحل : ٤) (آل عمران : ٥٩) (النساء : ١) (المومنون : ١٢) (الدھر : ٢) (النساء : ١) المرسلات
21 المرسلات
22 المرسلات
23 المرسلات
24 المرسلات
25 المرسلات
26 المرسلات
27 المرسلات
28 المرسلات
29 فہم القرآن ربط کلام : جب لوگوں کو قبروں سے اٹھایا جائے گا اور حساب و کتاب ہوجائے گا تو مجرموں کو حکم ہوگا کہ اب اس کی طرف چلو جسے تم جھٹلایا کرتے تھے۔ چلو! اس سائے کی طرف جو تین شاخوں والا ہے نہ ٹھنڈک دینے والا ہے اور نہ آگ سے بچانے والا ہے اس آگ سے محلات کی مانند بڑے بڑے انگارے اچھل رہے ہوں گے۔ دیکھنے میں یوں لگیں گے جیسے زرد رنگ کے اونٹ اچھل کود رہے ہوں۔ اس دن مجرم نہ بول سکیں گے اور نہ ہی انہیں اپنا عذر پیش کرنے کا موقع دیا جائے گا۔ اس دن تمام مجرموں کو جمع کرلیا جائے گا اور انہیں کہا جائے گا کہ اگر تم میرے مقابلے میں چال چل سکتے ہو تو چل کر دکھاؤ ! لیکن یہ جھٹلانے والوں کے لیے تباہی کا دن ہوگا۔ قرآن مجید نے کئی مقامات پر یہ حقیقت واضح کی ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کے حکم سے قیامت کے دوسرے مرحلے کے لیے دوسرا صور پھونکا جائے گا تو ہر انسان اپنی اپنی قبر سے اٹھ کر محشر کے میدان کی طرف چلنے لگے گا اور لوگوں کا حساب ہوگا۔ اس وقت آواز دینے والا مجرموں کو آواز دے گا کہ تم اس کی طرف چلو! جس کو تم جھٹلایا کرتے تھے چلو! اس سائے کی طرف جو تین شاخوں والا ہے نہ اس میں ٹھنڈک ہے اور نہ آگ سے بچانے والا ہے۔ اس مقام پر جہنم کی آگ کی یہ کیفیت بیان کی گئی ہے کہ اس آگ سے دھوئیں کے بڑے بڑے غول اٹھیں گے۔ جیسے کہ سرخ رنگ کے اونٹ اچھل کود رہے ہوں۔ محشر کی گرمی کے ستائے ہوئے مجرم دور سے سمجھیں گے کہ یہ ایسا سایہ ہے جس میں ہمیں سکون مل جائے گا مگر جب اس کے قریب جائیں گے تو دیکھیں گے کہ اس میں آگ کے شعلے محلات کی مانند بھڑک رہے ہیں اور اس سے نکلنے والا دھواں آگ کی شدت کی وجہ سے سیاہ ہونے کی بجائے زرد رنگ کا ہوگا اور اس میں اس قدر تیزی اور شدت ہوگی کہ بل کھاتا ہوا دھواں ایسے لگے گا جیسے زرد رنگ کے اونٹ اچھل کود رہے ہیں۔ یاد رہے کہ قیامت کے دن لوگوں کو پوری طرح صفائی پیش کرنے کے بعد ایک مرحلہ ایسا آئے گا کہ جب انہیں بولنے اور معذرت کرنے کی اجازت نہیں ہوگی۔ اس دن اگلے پچھلے مجرمین کو جمع کرلیا جائے گا اور انہیں کہا جائے گا کہ اگر تم میں کوئی چال چلنے کی طاقت ہے تو چل سکتے ہو۔ دنیا میں بڑی بڑی چالیں چلنے والے بڑے مکار اور فریب کار لوگ بے بس ہوں گے انہیں یقین ہوجائے گا کہ آج کا دن ہمارے لیے تباہی اور بربادی کا دن ہے اس لیے وہ کسی قسم کی چال نہیں چل سکیں گے۔ مسائل ١۔ قیامت کے دن حکم ہوگا کہ جسے تم جھٹلایا کرتے تھے اس کے لیے اکٹھے ہوجاؤ۔ ٢۔ قیامت کے دن مجرموں کے لیے بڑا بھاری ہوگا۔ ٣۔ قیامت کے دن مجرم کوئی چال نہیں چل سکیں گے۔ المرسلات
30 المرسلات
31 المرسلات
32 المرسلات
33 المرسلات
34 المرسلات
35 المرسلات
36 المرسلات
37 المرسلات
38 المرسلات
39 المرسلات
40 المرسلات
41 فہم القرآن ربط کلام : جس دن اگلے پچھلے تمام لوگوں کو جمع کیا جائے گا اور کوئی چھوٹا اور بڑا مجرم رب ذوالجلال کے مقابلے میں کسی قسم کی چال نہیں چل سکے گا اس دن نتیجے کے اعتبار سے لوگ دو حصوں میں تقسیم ہوں گے۔ جو لگ ایمان لائے اور اپنے رب کے حکم کے مطابق زندگی بسر کرتے رہے انہیں گھنے سایوں اور بہتے چشموں کی جنت میں ٹھہرایا جائے گا وہ جو چاہیں گے وہ پھل انہیں مہیا کیے جائیں گے۔ حکم ہوگا کہ اپنے نیک اعمال کے صلے میں مزے سے کھاؤ اور پیو ! ارشاد ہوگا کہ ہم نیک لوگوں کو اس طرح ہی جزا دیتے ہیں اور جن لوگوں نے قیامت کو جھٹلایا ان کے لیے تباہی ہوگی۔ ان آیات میں جنت کی تین نعمتوں سائے، بہتے چشمے اور پھلوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ اس کا یہ معنٰی نہیں کہ جنت میں صرف یہی تین چیزیں ہوں گی۔ اس سے مراد جنت کی نعمتوں کی طرف اشارہ کرنا ہے ورنہ جنت میں وہ کچھ ہوگا جس کا دنیا میں کوئی شخص تصور بھی نہیں کرسکتا۔ اس میں وہی لوگ جائیں گے جو اللہ، اس کے رسول اور آخرت پر ایمان لائے اور ” اللہ“ سے ڈر کر زندگی بسر کرتے رہے۔ مسائل ١۔ متقی لوگ سایوں اور چشموں والی جنت میں داخل کیے جائیں گے۔ ٢۔ جنتی لوگ جنت میں جو چاہیں گے وہ پائیں گے۔ ٣۔ جنتیوں کو حکم ہوگ کہ مزے سے کھاؤ اور پیو! یہ ہماری طرف سے تمہارے نیک اعمال کا صلہ ہے۔ ٤۔ قیامت کو جھٹلانے والے بڑی تباہی میں مبتلا ہوں گے۔ المرسلات
42 المرسلات
43 المرسلات
44 المرسلات
45 المرسلات
46 فہم القرآن ربط کلام : جنتی کے لیے جنت میں حکم ہوگا کہ مزے سے کھاؤ اور پیو ! یہ تمہاری نیکیوں کا صلہ ہے۔ جہنمیوں کے لیے دنیا میں حکم ہے کہ کھا، پی لو مگر یاد رکھو کہ تم حقیقت میں اپنے رب کے مجرم ہو اور تمہارا انجام جہنم ہوگا۔ جنت کی زندگی اور اس کی نعمتوں کے مقابلے میں دنیا کی نعمتیں اور زندگی نہایت قلیل اور حقیر ہے۔ جو لوگ قیامت کا انکار کرتے ہیں اور اپنی مرضی سے زندگی گزارتے ہیں ان پر اللہ تعالیٰ ناراض ہوتا ہے جس وجہ سے انہیں یوں مخاطب کیا گیا ہے کہ کھاؤ اور مزے اڑاؤ ! لیکن یاد رکھو ! دنیا کا فائدہ اور کھانا پینا قلیل اور تھوڑی مدت کے لیے ہے بالفاظ دیگر انہیں یہ وارننگ دی گئی ہے کہ کھاؤ اور مزے اڑاؤ ! تمہارے دن تھوڑے ہیں بالآخر تم مجرم کی حیثیت سے پیش کیے جاؤ گے اس لیے کہ تم قولاً اور عملاً قیامت کو جھٹلانے والے ہو۔ ایسے لوگوں کو جب اللہ تعالیٰ کے سامنے جھکنے کے لیے کہا جاتا ہے تو نہیں جھکتے کیونکہ حقیقت میں ان کا قیامت پر یقین نہیں ہوتا ایسے لوگوں کے لیے قیامت کے دن ویل ہوگا۔ ” وَیْلٌ“ کا دوسرا معنٰی جہنم ہے۔ (الھمزہ : ١) اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کو نصیحت کے لیے نازل فرمایا ہے اور بار بار لوگوں کو یاد کروایا ہے کہ اگر تم اپنے رب کی نافرمانی کرو گے تو قیامت کے دن سزا پاؤ گے اس انتباہ کے باوجود دنیا دار لوگ دنیا کو ہی ترجیح دیتے ہیں۔ انہیں بالخصوص فرمایا ہے کہ قرآن مجید کے بعد پھر کس چیز پر ایمان لاؤ گے۔ المرسلات
47 المرسلات
48 المرسلات
49 المرسلات
50 المرسلات
0 سورۃ النبا کا تعارف یہ سورت مکہ معظمہ میں نازل ہوئی اس کی چالیس آیات ہیں جو دو رکوعات پر مشتمل ہیں۔ اس کا نام اس کی دوسری آیت میں مذکور ہے۔ اس سورت میں کائنات کی بڑی بڑی چیزوں کا ذکر فرما کر یہ ثابت کیا ہے کہ جس رب نے ان چیزوں کو پیدا کیا ہے وہی اس کائنات کو ختم کر کے قیامت قائم کرے گا۔ جو لوگ قیامت کا انکار کرتے ہیں جہنم ان کا انتظار کر رہی ہے انہیں اس جہنم میں پھینکا جائے گا جس میں وہ مدت بعید تک پڑھے رہیں گے۔ ان کے لیے نہ کسی قسم کا سکون ہوگا اور نہ ہی انہیں پینے کے لیے ٹھنڈا پانی نصیب ہوگا۔ جب وہ پانی طلب کریں گے تو انہیں ابلتا ہوا پانی اور ان کے زخموں کی پیپ پلائی جائے گی یہ سزا اس لیے ہوگی کہ وہ اللہ تعالیٰ کے فرامین کو جھٹلایا کرتے تھے اور قیامت کا انکار کرتے تھے ان کے مقابلے میں جنہوں نے ” اللہ“ اور اس کے رسول کی اطاعت کی اور قیامت پر یقین رکھا وہ کامیاب ٹھہریں گے۔ ان کے لیے ہر قسم کے باغات اور انگور ہوں گے، انہیں خوبصورت اور ان کی ہم عمر بیویاں دی جائیں گی۔ انہیں پینے کے لیے جھلکتے ہوئے جام پیش کیے جائیں گے وہ جنت میں ہمیشہ رہیں گے، اس میں کسی قسم کی بے ہودگی اور آلودگی نہیں پائیں گے۔ ان پر ان کے رب کی طرف سے بے حساب مہربانی ہوگی۔ اس رب کی طرف سے جو زمینوں آسمانوں کا مالک ہے قیامت کے دن اس کے سامنے اس کی اجازت کے بغیر کوئی بات نہیں کرسکے گا۔ اس دن جبریل امین (علیہ السلام) سمیت تمام ملائکہ قطار اندر قطار کھڑے ہوں گے اور جسے بولنے کی اجازت ہوگی وہ صحیح بات کرئے گا، یہ دن ہر صورت قائم ہو کر رہے گا۔ اب ہر انسان کو اختیار ہے کہ وہ اپنے رب کی طرف جانے کا راستہ اختیار کرے یا اس کی نافرمانی میں پڑ کر اپنی آخرت تباہ کرلے۔ جس نے اپنی آخرت کو تباہ کرلیا وہ قیامت کے دن پشیمان ہوگا اور مٹی کے ساتھ مٹی بن جانے کی خواہش کرے گا۔ لیکن اس کی یہ خواہش کبھی پوری نہیں ہوگی۔ (ذٰلِکَ الْیَوْمُ الْحَقُّ فَمَنْ شَآءَ اتَّخَذَ اِِلٰی رَبِّہٖ مَآبًا اِِنَّا اَنذَرْنٰکُمْ عَذَابًا قَرِیْبًا یَّوْمَ یَنْظُرُ الْمَرْءُ مَا قَدَّمَتْ یَدٰہُ وَیَقُوْلُ الْکٰفِرُ یٰلَیْتَنِیْ کُنْتُ تُرَابًا) (النبا : ٣٩، ٤٠) ” اپنے رب کی طرف پلٹنے کا راستہ اختیار کرلے۔ ہم نے تمہیں اس عذاب سے ڈرادیا ہے جو قریب آچکا ہے جس دن آدمی سب کچھ دیکھ لے گا جو اس کے ہاتھوں نے آگے بھیجا ہے اور کافر پکار اٹھے گا کہ کاش میں مٹی بنا رہتا۔“ النبأ
1 فہم القرآن ربط سورت : المرسلات میں ان لوگوں کی تردید کی گئی ہے جو قیامت کی تکذیب کرتے ہیں۔ سورت النّباء میں بتایا گیا ہے کہ قیامت بڑی ہولناک چیز ہے اور اس کا برپا ہونا ہر صورت یقینی ہے لیکن قیامت کا انکار کرنے والے اس کے باوجود اس کے بارے میں قیل وقال کرتے ہیں عنقریب ان لوگوں کو اس کی حقیقت کا علم ہوجائے گا۔ قرآن مجید کے مرکزی مضامین میں تیسرا بڑا مضمون قیام قیامت ہے جو اس دنیا کا آخری دن ہوگا۔ جس نے قرآن مجید کی ہدایت کے مطابق زندگی بسر کی وہ کامیاب ہوگا اور جس نے قرآن مجید کی ہدایت سے انحراف کیا وہ اپنے کیے کی سزا پائے گا۔ اس دنیا کا انجام آخرت ہے اس لیے چند سورتوں کے سوا المرسلات سے لے کر تیسویں پارے کی تمام سورتوں میں آخرت کے مختلف مراحل کا ذکر کیا گیا ہے تاکہ قرآن مجید کی تلاوت کرنے والا اپنے انجام کے بارے میں غوروفکر کرسکے۔ مکہ کے لوگ قیامت کے بارے میں مختلف قسم کی باتیں کرتے تھے۔ کچھ لوگوں کا کہنا تھا کہ انسان جب مر کر مٹی کے ساتھ مٹی ہوجاتا ہے تو اسے زندہ نہیں کیا جاسکتا ہے، کچھ لوگ قیامت کی تردید کرتے ہوئے یہ دلیل پیش کرتے تھے کہ اب تک جتنے لوگ مر چکے ہیں ان میں کوئی بھی پلٹ کر واپس نہیں آیا، یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ دوبارہ پیدا نہیں ہونا اور نہ ہی قیامت برپا ہوگی۔ مکہ میں یہ بات کہنے والے بھی موجود تھے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک شغل کے طور پر انسان اور اس کائنات کو پیدا کیا ہے، اس لیے جب انسان مرجاتا ہے تو پھر اس سے کوئی پوچھ گچھ نہیں ہوتی۔ بس ایک سلسلہ ہے جو صدیوں سے جاری ہے اور اسی طرح جاری رہے گا، کچھ لوگ قیامت کے مسئلہ کو صرف اختلافی بات اور جھگڑا سمجھتے تھے اور یہی جھگڑا نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ کرتے تھے۔ اس پس منظر میں یہ سورت نازل ہوئی جس کا آغاز اس بات سے ہوا کہ لوگ آپس میں کس چیز کے بارے میں سوال کرتے ہیں ؟ کیا ایک بڑی خبر کے بارے میں یہ ایک دوسرے کے ساتھ اختلاف کرتے ہیں ؟ ان کا کہنا ہے کہ قیامت برپا نہیں ہوگی، حالانکہ ان کی بات ہر اعتبار سے غلط ہے قیامت ہر صورت برپا ہوگی اور لوگوں کو دوبارہ پیدا کیا جائے گا اور پھر انہیں پتہ چل جائے گا کہ قیامت کیا ہے ؟ جب انہیں معلوم ہوگا تو اس پر ایمان لائیں گے مگر اس وقت ایمان لانے کا انہیں کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ (النزعات : ٤٢، ٤٣) یہ لوگ قیامت کا اس لیے انکار کرتے ہیں کیونکہ ان کے نزدیک یہ ناممکن بات ہے، حالانکہ یہ نہیں سوچتے کہ ہم نے زمین کو مخلوق کے لیے گہوارہ بنایا اور اس پر پہاڑوں کو میخوں کے طور پر گاڑ دیا اور تمہیں جوڑے جوڑے پیدا کیا اور نیند کو تمہارے لیے باعث سکون بنایا اور دن کو معاش کے لیے بنایا۔ انسان اگر ان باتوں پر غور کرے تو ان میں ہر کام ایسا ہے جس میں قیامت کا ثبوت ملتا ہے زمین پر غور فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ نے اسے پانی پر ٹھہرایا ہے لیکن آج تک نہ کہیں سے ڈھلکی ہے اور نہ پانی میں غرق ہوئی ہے، زمین کا توازن قائم رکھنے کے لیے اس پر فلک بوس پہاڑگاڑ دیئے ہیں جو اپنی چوڑائی، لمبائی اور اونچائی کے لحاظ سے اپنے خالق کی قدرت کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ انسان اپنی تخلیق پر غور کرے تو اپنے رب کی قدرت کا اعتراف کیے بغیر نہیں رہ سکتا کہ حضرت آدم (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے مٹی سے پیدا کیا، پھر اس سے اس کی بیوی کو پیدا کیا اور پھر قیامت تک تخلیق انسانی کا سلسلہ شروع فرمایا اور میاں بیوی کے درمیان ایسا رشتہ قائم کیا کہ اس سے پہلے وہ اس تعلق اور محبت کا تصور بھی نہیں کرسکتے تھے۔ انسان اپنی سرگرمیوں پر غور کرے کہ سارا دن اپنی معاش کی فکر میں لگا رہتا ہے جس سے اس کا وجود اور دماغ تھک جاتا ہے لیکن جونہی رات کے تاریک لباس میں سوتا ہے تو سارے دن کی تھکن دور ہوجاتی ہے۔ کیا انسان غور نہیں کرتا کہ یہ کس کا کمال ہے جو اسے ہر صبح تازہ دم کرکے اٹھاتا ہے اور اس کی قوت کار کو بحال کرتا ہے۔ جس خالق نے یہ چیزیں پیدا کی ہیں کیا وہ قیامت کے دن انسان کو پیدا نہیں کرسکتا ؟ کوئی شک نہیں کہ وہ انسان کو نہ صرف دوبارہ پیدا کرے گا بلکہ اسے اپنی بارگاہ میں حاضر کر کے اس سے پورا پورا حساب لے گا۔ انسان غور کرے کہ قیامت کے انکار کرنے کا اس پاس کیا جواز رہ جاتا ہے ؟ اسی لیے فرمایا کہ لوگ بہت بڑی خبر کے بارے میں ایک دوسرے سے تکرار کرتے ہیں جس نے ہر صورت آکر رہنا ہے حقیقت یہ ہے کہ انسان کا یہ کام نہیں کہ وہ قیامت کے بارے میں بحث مباحثہ کرے اس کا کام یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو قیامت کے لیے تیار کرے۔ (وَعَنْ اَنَسٍ (رض) اَنَّ رَجُلاً قَالَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ مَتَی السَّاعَۃُ قَالَ وَیْلَکَ وَمَا اَعْدَدْتَ لَھَا قَالَ مَا اَعْدَدْتُّ لَھَا اِلَّا اَنِّیْ اُحِبُّ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ قَالَ اَنْتَ مَعَ مَنْ اَحْبَبْتَ قَالَ اَنَسٌ فَمَا رَاَیْتُ الْمُسْلِمِیْنَ فَرِحُوْا بِشَیءٍ بَعْدَ الْاِسْلَامِ فَرَحَھُمْ بِھَا۔) (رواہ البخاری : باب مَنَاقِبُ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ أَبِی حَفْصٍ الْقُرَشِیِّ الْعَدَوِیِّ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ) ” حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دریافت کیا کہ قیامت کب آئے گی؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تجھ پرا فسوس تو نے قیامت کے لیے کیا تیاری کی ہے ؟ اس نے جواب دیا : کہ میں تو صرف اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے محبت کرتا ہوں۔ آپ نے فرمایا : تو اسی کے ساتھ ہوگا، جس کے ساتھ محبت کرتا ہے۔ حضرت انس (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے مسلمانوں کو دیکھا، وہ اسلام لانے کے بعد کسی بات پر اتنے خوش نہیں ہوئے جتنے اس بات پر خوش ہوئے تھے۔“ مسائل ١۔ اللہ ہی نے زمین کو لوگوں کے لیے گہوارہ بنایا ہے۔ ٢۔ اللہ ہی نے زمین پر پہاڑوں کو میخوں کی طرح گاڑ دیا ہے۔ ٣۔ اللہ ہی نے لوگوں کو جوڑا جوڑا پیدا کیا ہے۔ ٤۔ اللہ ہی نے نیند کو لوگوں کے لیے باعث سکون بنایا ہے۔ ٥۔ اللہ ہی نے رات کو سونے کے لیے لباس بنایا ہے۔ ٦۔ اللہ ہی نے دن کو معاش کا ذریعہ بنایا ہے۔ تفسیر بالقرآن قیامت کے دلائل : ١۔ یقیناً قیامت آنے والی ہے۔ (الحجر : ٨٥) ٢۔ یقیناً قیامت آنے والی ہے اور اللہ قبروالوں کو اٹھائے گا۔ (الحج : ٧) ٣۔ اللہ کا وعدہ سچا ہے اور قیامت برپا ہونے میں کوئی شک نہیں۔ (الکہف : ٢١) ٤۔ بے شک قیامت آنے والی ہے۔ میں اس کو پوشیدہ رکھنا چاہتا ہوں تاکہ ہر کسی کو جزا یا سزا دی جائے۔ (طہٰ: ١٥) ٥۔ اے لوگو! اللہ سے ڈر جاؤ بے شک قیامت کا زلزلہ بہت بڑی چیز ہے۔ (الحج : ١) ٦۔ کافر ہمیشہ شک میں رہیں گے، یہاں تک کہ قیامت اچانک آجائے۔ (الحج : ٥٥) ٧۔ ہم نے قیامت کے دن جھٹلانے والوں کے لیے آگ کا عذاب تیار کیا ہے۔ (الفرقان : ١١) النبأ
2 النبأ
3 النبأ
4 النبأ
5 النبأ
6 النبأ
7 النبأ
8 النبأ
9 النبأ
10 النبأ
11 النبأ
12 فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ کی عظیم تخلیقات کے مزید دلائل۔ اللہ تعالیٰ کی بے مثال تخلیقات میں آسمان بھی اس کی تخلیق کا عظیم شاہکار ہے جسے بغیر ستونوں کے کھڑا کیا گیا ہے اس کے حسن و کمال کے بارے میں ارشاد ہے : ” جس نے اوپر نیچے سات آسمان بنائے، تم رحمٰن کی تخلیق میں کسی قسم کا خلل نہیں پاؤ گے پھر پلٹ کر دیکھو کہیں تمہیں خلل نظر آتا ہے؟ بار بار نظر دوڑاؤ تمہاری نظر تھک کر واپس پلٹ آئے گی۔ ہم نے آسمان دنیا کو عظیم الشان چراغوں سے آراستہ کیا ہے اور انہیں شیاطین کو مار بھگانے کا ذریعہ بنایا ہے شیطانوں کے لیے ہم نے بھڑکتی ہوئی آگ تیار کر رکھی ہے۔“ (الملک : ٣ تا ٥) آسمان کے نیچے اور زمین کے اوپر کے حصے کو روشن رکھنے کے لیے چمکتا ہوا سورج بنایا۔ اس کے متعلق ارشاد ہوا ہے کہ یہ چمکنے اور بھڑکنے والاہے۔ اللہ تعالیٰ نے سورج کو زمین سے ایک خاص فاصلے پر رکھا ہے۔ سورج میں اس قدر حرارت اور حِدّت ہے کہ اگر یہ اپنے مدار سے چند میل نیچے آجائے تو ہر چیز تباہ ہو کر رہ جائے۔ یہ اللہ کی قدرت کا عظیم مظہر ہے کہ سورج کو ایک مقررہ فاصلے پر رکھا اور اس میں اتنی روشنی اور تپش پیدا کی ہے کہ جس سے نہ فضا میں رہنے والی مخلوق جلتی ہے اور نہ ہی نباتات کو کوئی نقصان پہنچتا ہے اگر سورج زمین کو خاص مقدار میں روشنی اور حرارت نہ دے تو نہ فصلیں پک سکتی ہیں اور نہ ہی پھلوں میں مٹھاس پیدا ہوگی۔ یہ سورج کی تپش کا نتیجہ ہے سمندر سے بخارات اٹھتے ہیں اور پھر بادل بن کر زمین پر برستے ہیں۔ ” اَلْمُعْصِرَاتِ“ کا معنٰی پانی، نچوڑنے والے بادل اور ” ثَجَّاجاً“ کا معنٰی بہت برسنے والی بارش۔ اگر ایک مدت تک بارش کا سلسلہ بند ہوجائے تو ہر جاندار کی خوراک ختم ہوجائے یہ اللہ تعالیٰ کی قدرت اور رحمت کا ثمرہ ہے کہ وہ بارش برسا کر اناج، سبزیاں اور باغات سے پھل پیدا کرتا ہے۔ آسمان اور سورج ایسی چیزیں ہیں جن کے بارے میں انسان گمان کرتا ہے کہ یہ ہمیشہ رہیں گے حالانکہ جب قیامت برپا ہوگی تو ہر چیز فنا کے گھاٹ اتر جائے گی ان کے فنا ہونے کا وقت مقرر ہے۔ اس دن صور پھونکا جائے گا تو لوگ فوج در فوج زمین سے نکل کھڑے ہوں گے، قیامت کے دن آسمان کے بندھن کھول دیئے جائیں گے۔ پہلے مرحلے میں آسمان دروازوں کی شکل اختیار کر جائے گا اور پھر ٹکڑے ٹکڑے ہو کر گر پڑے گا۔ پہاڑ بھی ٹکڑے ٹکڑے ہو کر ریت کی صورت اختیار کرجائیں گے۔ ان آیات میں پہلی اور دوسری مرتبہ صور پھونکنے کے نتیجے میں پیدا ہونے والی صورت حال کا مختصر ذکر فرما کر قیامت کے دو مناظر پیش کیے ہیں۔ جس کا اختصار یہ ہے کہ اسرافیل کے پہلی مرتبہ صور پھونکنے سے ہر چیز تباہ ہوجائے گی اور دوسری مرتبہ صور پھونکنے سے انسان اپنے اپنے مرقد سے نکل کر گروہ درگروہ محشر کے میدان میں حاضر ہوجائیں گے۔ اس وقت حساب و کتاب ہوگا اور جو لوگ قیامت کو جھٹلاتے ہیں انہیں کہا جائے گا کہ کیا تم وہی لوگ ہو جو ہمارے فرمودات کو جھٹلایا کرتے تھے، تم سمجھتے تھے کہ تمہارا حساب و کتاب رکھنے والا کوئی نہیں ہے حالانکہ ہم نے ہر چیز کا ایک کتاب میں ا ندراج کر رکھا ہے۔ ایسے لوگوں کے لیے جہنم گھات لگائے ہوئے ہے جو نافرمانوں کا ٹھکانہ ہے وہ اس میں مدت مدید تک پڑے رہیں گے اس میں نہ سکون پائیں گے اور نہ ہی پینے کے لیے کوئی ٹھنڈا مشروب ہوگا۔ سوائے اس کے کہ انہیں پینے کے لیے کھولتا ہوا پانی اور جہنم کی پیپ دی جائے گی یہ سزا ان کے اعمال کا نتیجہ ہوگی اس لیے انہیں کہا جائے گا کہ اب تم ہمیشہ کے لیے صرف عذاب ہی عذاب پاؤ گے۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کے اوپر سات آسمان بنائے ہیں۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان کے درمیان چمکتا اور بھڑکتا ہوا سورج بنایا ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ ہی بادلوں سے بارش نازل کرتا ہے اور بارش سے دانے، سبزیاں اور پھل پیدا کرتا ہے۔ ٤۔ قیامت کا ایک دن اور وقت مقر رہے۔ ٥۔ قیامت کے دن پہلی دفعہ صورپھونکنے سے آسمان دروازوں کی شکل اختیار کرجائے گا اور پہاڑ بالآخر بکھری ہوئی ریت کی طرح ہوجائیں گے۔ ٦۔ قیامت کے دن دوسری مرتبہ صورپھونکنے سے لوگ اپنی اپنی جگہوں سے اٹھ کر فوج درفوج محشر کے میدان میں جمع ہوجائیں گے۔ ٧۔ اللہ کے نافرمانوں کے لیے جہنم گھات لگائے ہوئے ہے جو ان کے رہنے کی بدترین جگہ ہے۔ ٨۔ جہنم میں نہ سایہ ہوگا اور نہ ہی پینے کے لیے ٹھنڈا پانی۔ ٩۔ جہنم کو کھولتا ہوا پانی اور ان کے زخموں کی پیپ پلائی جائے گی۔ ١٠۔ جہنمی کو اس یے جہنم میں جھونکا جائے گا کیونکہ وہ قیامت اور حساب و کتاب کا انکار کیا کرتے تھے۔ ١١۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے پاس لوح محفوظ میں ہر چیز کا اندراج کر رکھا ہے۔ النبأ
13 النبأ
14 النبأ
15 النبأ
16 النبأ
17 النبأ
18 النبأ
19 النبأ
20 النبأ
21 النبأ
22 النبأ
23 النبأ
24 النبأ
25 النبأ
26 النبأ
27 النبأ
28 النبأ
29 النبأ
30 النبأ
31 فہم القرآن ربط کلام : جہنم کی سزاؤں کے مقابلے میں جنت کے انعامات۔ جب محشر کے میدان میں لوگوں کے درمیان فیصلہ ہوجائے گا تو جہنمی کو جہنم کی طرف جانے کا حکم ہوگا اور جنتی کو جنت میں داخلے کی اجازت عطا فرمائی جائے گی۔ جونہی جنتی جنت کی طرف قدم اٹھائیں گے تو یہ اعلان ہوگا کہ اے خوش نصیبو! تم اس جنت میں داخل ہوجاؤ جس میں تمہیں نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ ہی پریشانی، یہ ہے وہ کامیابی جس کے حصول کے لیے تم دنیا میں کوشش کیا کرتے تھے۔ جس جنت میں تمہیں داخلہ دیا جارہا ہے اس میں بڑے بڑے باغات ہیں جن میں انگور اور ہر قسم کے پھل موجود ہیں۔ وہاں جنتی مردوں کے لیے ان کی ہم عمر اور نہایت جوان خوبصورت حوریں ہوں گی۔ جنتی میں جنت نہ کوئی بے ہودہ بات سنیں گے اور نہ ہی کوئی جھوٹ۔ یہاں جنت کے لیے ” مَفَازاً“ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ جس کا معنٰی کامیابی حاصل کرنا اور ہر قسم کی پریشانی سے نجات پانا ہے۔ جنتی نہ صرف دنیا کے غموں اور پریشانیوں سے نجات پائیں گے بلکہ جہنم کی ہولناکیوں سے بھی بچالیے جائیں گے یہ آپ کے رب کی طرف سے بدلہ ہے جو نیک لوگوں کو ان کے اعمال کے مطابق ملے گا۔ جنت میں ہر قسم کی نعمت اور آزادی ہوگی لیکن اس میں کسی قسم کی بے ہودگی نہیں پائی جائے گی۔ (کُلُّ نَفْسٍ ذَآءِقَۃُ الْمَوْتِ وَ اِنَّمَا تُوَفَّوْنَ اُجُوْرَکُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ فَمَنْ زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ وَ اُدْخِلَ الْجَنَّۃَ فَقَدْ فَازَ وَ مَا الْحَیٰوۃُ الدُّنْیَآ اِلَّا مَتَاعُ الْغُرُوْرِ) (آل عمران : ١٨٥) ” ہر جان موت کا مزہ چکھنے والی ہے اور قیامت کے دن تم پوری پوری جزا دیے جاؤ گے۔ جو شخص آگ سے بچا لیا گیا اور جنت میں داخل کردیا گیا یقیناً وہ کامیاب ہوگیا اور دنیا کی زندگی تو صرف دھوکے کا سامان ہے۔“ (وَلَوْ اَنَّ اِمْرَاَۃً مِّنْ نِّسَآءِ أَھْلِ الْجَنَّۃِ اطَّلَعَتْ اِلَی الْاَرْضِ لَاَضَآءَ تْ مَا بَیْنَھُمَا وَلَمَلَاَتْ مَا بَیْنَھُمَا رِیْحًا وَلَنَصِیْفُھَا یَعْنِی الْخِمَارَ خَیْرٌ مِّنَ الدُّنْیَا وَمَا فِیْھَا) (رواہ البخاری : کتاب الرقاق، باب صفۃ الجنۃ والنار ) ” اگر اہلکی عورتوں سے کوئی عورت زمین کی طرف جھانک لے تو مشرق و مغرب اور جو کچھ اس میں ہے روشن اور معطر ہوجائے، نیز حور کے سر کا دوپٹہ دنیا اور جو کچھ دنیا میں ہے اس سے قیمتی ہے۔“ (لَوْ أَنَّ امْرَأَۃً مِنْ أَہْلِ الْجَنَّۃِ اطَّلَعَتْ إِلَی أَہْلِ الأَرْضِ لأَضَاءَ تْ مَا بَیْنَہُمَا) (رواہ البخاری : کتاب الجہاد، باب الحور العین) ” اگر جنت کی حور آسمان سے نیچے جھانکے تو ہر چیز منور ہوجائے۔“ مسائل ١۔ جنت میں جانے والے ہر لحاظ سے کامیاب ہوں گے۔ ٢۔ جنت میں دوسرے باغات کے ساتھ انگوروں کے باغ بھی ہوں گے۔ ٣۔ جنت میں جنتی کسی قسم کی جھوٹی اور بے ہودہ بات نہیں سنیں گے۔ ٤۔ جنتی کو ان کے رب کی طرف سے پورا پورا صلہ دیا جائے گا۔ تفسیر بالقرآن جنت کی نعمتوں کی ایک جھلک : ١۔ ہم نے اس میں کھجوروں، انگوروں کے باغ بنائے ہیں اور ان میں چشمے جاری کیے ہیں۔ (یٰس : ٣٤) ٢۔ یقیناً متقین باغات اور چشموں میں ہوں گے۔ (الذاریات : ١٥) ٣۔ یقیناً متقی نعمتوں والی جنت میں ہوں گے۔ (الطور : ١٧) ٤۔ جنتی کو شراب طہور دی جائے گی۔ (الدھر : ٢١) ٥۔ جنتی میں جنت کو سونے اور لولو کے زیور پہنائے جائیں گے۔ (فاطر : ٣٣) ٦۔ جنت میں تمام پھل دو، دو قسم کے ہوں گے۔ (الرحمن : ٥٢) (الرحمن : ٥٦) ٧۔ جنتی سبز قالینوں اور مسندوں پر تکیہ لگا کر بیٹھے ہوں گے۔ (الرحمن : ٧٦) ٨۔ ہم ان کے دلوں سے کینہ نکال دیں گے اور سب ایک دوسرے کے سامنے تکیوں پر بیٹھے ہوں گے۔ انہیں کوئی تکلیف نہیں پہنچے گی اور نہ وہ اس سے نکالے جائیں گے۔ (الحجر : ٤٧۔ ٤٨) ٩۔ حوریں نوجوان، کنواریاں اور ہم عمرہوں گی۔ (الواقعہ : ٢٥ تا ٣٨) ١٠۔ یا قوت و مرجان کی مانند ہوں گی۔ (الرحمن : ٥٨) ١١۔ خوبصورت اور خوب سیرت ہوں گی۔ (الرحمن : ٧٠) ١٢۔ خیموں میں چھپی ہوئی ہوں گی۔ (الرحمن : ٧٢) النبأ
32 النبأ
33 النبأ
34 النبأ
35 النبأ
36 النبأ
37 فہم القرآن ربط کلام : جہنمی کے عقیدے کی تمیز۔ جہنم میں جانے والوں کے جرائم میں ایک جرم یہ ہوگا کہ وہ دنیا میں یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ قیامت کے دن ان کے پیر، فقیر اور معبود انہیں اللہ تعالیٰ کی گرفت سے بچالیں گے لیکن وہاں صورت حال یہ ہوگی کہ کسی کو رب ذوالجلال کی گرفت سے بچانا تو درکنار کوئی اس کے سامنے بات کرنے کی جرأت نہیں کرسکے گا کیونکہ وہی زمین و آسمانوں اور جو کچھ ان کے درمیان ہے ان کا پیدا کرنے والا اور مالک ہے۔ دنیا میں اس نے ہر انسان کو ایک حد تک اپنی مرضی کرنے کی اجازت دے رکھی ہے لیکن قیامت کے دن اس کے سا منے کوئی دم نہیں مار سکے گا۔ اس دن حالت یہ ہوگی کہ جبریل امین اور تمام ملائکہ اپنے رب کے حضور قطار اندر قطار کھڑے ہوں گے، کوئی فرشتہ ہویا انسان گنہگار ہو یا پاکباز، ولی ہو یا نبی کوئی بھی رب ذوالجلال کی اجازت کے بغیر بات کرنے کی جرأت نہیں پائے گا۔ اس کے حضور وہی بات کرسکے گا جسے وہ اجازت عطا فرمائے گا اور جسے اجازت دی جائے گی وہ وہی بات اور الفاظ استعمال کرے گا جو صحیح ہوں گے، اس دن کا آنا اور قیامت کا قائم ہونا برحق ہے۔ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو بتلا دیا ہے کہ وہ دن اور اس کا عذاب دور نہیں بلکہ بالکل قریب ہے اب جس کا دل چاہے وہ اپنے رب کی طرف واپس جانے کا صحیح راستہ اختیار کرلے اور جو چاہے اپنی مرضی کرتا رہے۔ جس نے اپنی مرضی کا راستہ اختیار کیا وہ کہے گا کہ کاش! میں مٹی کے ساتھ مٹی ہوجاؤں۔ ” ہم نے تمہیں اس عذاب سے ڈرادیا ہے جو قریب آچکا ہے جس دن آدمی سب کچھ دیکھ لے گا جو اس کے ہاتھوں نے آگے بھیجا ہے اور کافر پکار اٹھے گا کہ کاش میں مٹی بنا رہتا۔“ (النبا : ٤٠) (عَنْ اَبِی ھُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لَتُؤَدُّنَّ الْحُقُوْقَ إِلٰی أَھْلِھَا یَوْمَ الْقِیَامَۃِ حَتّٰی یُقَاد للشَّاۃِ الْجَلْحَاءِ مِنَ الشَّاۃِ الْقَرْنَاءِ) (رواہ مسلم : کتاب البروالصلۃ، باب تحریم الظلم) ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تمہیں قیامت کے دن لوگوں کے حقوق ان کے مالکوں کو ادا کرنا پڑیں گے، یہاں تک کہ جس بکری کے سینگ نہیں ہیں اس کو سینگ والی بکری سے بدلہ دلایا جائے گا۔“ مسائل ١۔ قیامت کے دن جبریل امین اور تمام ملائکہ قطار اندر قطار کھڑے ہوں گے۔ ٢۔ قیامت کے دن الرحمن کی اجازت کے بغیر کوئی بات نہیں کرسکے گا۔ ٣۔ قیامت کے دن جسے بات کرنے کی اجازت ہوگی وہ صحیح بات کرئے گا۔ ٤۔ قیامت کا دن ہر صورت برپا ہو کر رہے گا اس کے برپا ہونے میں کوئی شک نہیں۔ ٥۔ قیامت کے دن ہر شخص اپنے اعمال کو اپنے سامنے پائے گا۔ ٦۔ قیامت کے دن کافر اس بات کی تمنا کرے گا کہ کاش! میں مٹی کے ساتھ مٹی بنا رہتا۔ ٧۔ اللہ تعالیٰ نے قیامت کے قائم ہونے کے ٹھوس دلائل دیئے ہیں۔ تفسیر بالقرآن قیامت کے دن کوئی شخص رب رحمن کی اجازت کے بغیر بات نہیں کرسکے گا : ١۔ کون ہے جو اس کے حکم کے بغیر سفارش کرے۔ (البقرۃ: ٢٥٥) ٢۔ قیامت کے دن سفارشی کسی کو فائدہ یا نقصان نہیں دیں گے۔ (یونس : ١٨) ٣۔ سفارش بھی اللہ تعالیٰ کی مرضی کے مطابق ہوگی۔ (الانبیاء : ٣٨) (المدثر : ٣٨) النبأ
38 النبأ
39 النبأ
40 النبأ
0 سورۃ النّازعات کا تعارف یہ سورت اپنے نام سے شروع ہوتی ہے۔ سورت النبا کے بعد مکہ میں نازل ہوئی یہ دو رکوع اور چھیالیس آیات پر مشتمل ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس سورت کی ابتداء میں انسان کی جان نکالنے والے ملائکہ کی پانچ قسمیں اٹھا کر انسان کی موت کا ذکر فرما کر یہ بات ثابت کی ہے کہ قیامت ہر صورت برپا ہوگی اور اس کا آغاز مسلسل زلزلوں سے ہوگا۔ اس سورت میں یہ بات بھی واضح کردی گئی ہے کہ جو ملائکہ اپنے رب کے حکم سے انسان کی جان قبض کرتے ہیں اور کائنات کا نظام چلا رہے ہیں۔ وہی اپنے رب کے حکم سے قیامت برپا کریں گے۔ اس دن لوگوں کے دل کانپ رہے ہوں گے اور ان کی آنکھیں سہمی ہوئی ہوں گی، جو لوگ یہ باتیں کرتے ہیں کہ ہماری بوسیدہ ہڈیوں کو کون زندہ کرے گا انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ جس دن انہیں اٹھایا جائے گا وہ دن صرف ایک ڈانٹ سے رونما ہوگا اور یہ لوگ کھلے میدان میں موجود ہوں گے۔ اس سورت کے دوسرے رکوع میں فرعون کا انجام ذکر کرتے ہوئے واضح کیا گیا ہے کہ جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرتے ہیں ان کا انجام کیا ہوا کرتا ہے۔ اس کے بعد آسمان کی بناوٹ اور بلندی کا حوالہ دیا پھر پہاڑوں کا ذکر ہوا اور اس کے بعد جانوروں اور ان کے چارے کا ذکر فرما کر ثابت کیا ہے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ نے یہ چیزیں بنائیں اور پیدا کی ہیں اسی طرح ہی وہ اس دنیا کے بعد قیامت برپا کریگا اس دن مجرموں کے لیے جہنم ہوگی اور نیک لوگوں کے لیے جنت مقام ہوگا۔ النازعات
1 فہم القرآن ربط سورت : سورۃ النّبا کے آخر میں ارشاد ہوا کہ قیامت کا قائم ہونا برحق ہے۔ النّازعات کی ابتدا میں پانچ قسمیں اٹھا کر یہ ثابت کیا گیا ہے کہ جس طرح انسان کا مرنا برحق ہے اسی طرح اس کا دوبارہ اٹھایا جانا بھی برحق ہے۔ صحابہ کرام (رض) اور ان کے شاگردان عظام کے حوالے سے مفسرین نے ان آیات کی یہ تفسیر کی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہاں ان ملائکہ کی قسمیں اٹھائی ہیں جو انسان کی روح قبض کرکے آسمان کی طرف لے جاتے ہیں اور جو انہیں حکم ملتا ہے وہ اسے کر گزرتے ہیں۔ 1۔ قسم ہے ان فرشتوں کی جو مرنے والے کے جسم میں پوری طرح داخل ہو کر سختی کے ساتھ جان نکالتے ہیں۔2۔ قسم ہے ان کی جو مرنے والے کے جسم سے نرمی کے ساتھ روح نکالتے ہیں۔ 3۔ قسم ہے ان کی جو فضا میں بڑی تیزی سے تیرتے ہوئے جاتے ہیں۔ 4۔ قسم ہے ان کی جو ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ 5۔ قسم ہے ان کی جو اللہ تعالیٰ کے حکم کے نفاذ کی تدابیر کرتے ہیں۔ ان قسموں سے دوباتیں ثابت کی گئی ہیں۔ ہر شخص کے لیے موت برحق ہے اور موت کا وقت بڑا کٹھن اور مشکل ہوتا ہے البتہ نزع کے وقت مومن کی روح آسانی کے ساتھ نکل جاتی ہے اور برے شخص کی موت کا ہر لمحہ اس کے پہلے لمحے سے سخت ترین ہوتا ہے، جوں ہی عزرائیل مرنے والے کی روح جنت یا جہنم کے فرشتوں کے حوالے کرتا ہے تو وہ روح کو لے کر آسمان کی طرف اس تیزی کے ساتھ چڑھتے ہیں جیسے فضا میں کوئی چیز تیر رہی ہو، فرشتوں کو اوپر چڑھنے میں ذرہ بھر مشکل پیش نہیں آتی وہ ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے ہر حکم پر اس طرح عمل کرتے ہیں جس طرح اس پر عمل کرنے کا حق ہے۔ ان ملائکہ سے مراد اگر صرف موت کے ملائکہ لیے جائیں تو اس کا معنٰی ہوگا کہ وہ موت کے وقت مرنے والے کی روخ قبض کرتے ہیں اگر مدبّرات سے تمام فرشتے لیے جائیں تو اس کا معنٰی یہ ہے کہ جس فرشتے کی جو ڈیوٹی لگائی گئی ہے وہ اس پر اسی طرح ہی عمل کرتا ہے جس طرح اس پر عمل کرنے کا اسے حکم دیا جاتا ہے۔ ” حضرت براء بن عازب (رض) بیان کرتے ہیں ہم نبی مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ انصار کے کسی آدمی کے جنازہ کے لیے نکلے قبرستان پہنچے تو ابھی قبر کھودی نہیں گئی تھی۔ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بیٹھ گئے ہم بھی آپ کے ارد گرد بیٹھ گئے جیسے ہمارے سروں پر پرندے بیٹھے ہوں، رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہاتھ میں ایک چھڑی تھی آپ اس کے ساتھ زمین کرید رہے تھے آپ نے سر اٹھاتے ہوئے دو یا تین مرتبہ فرمایا قبر کے عذاب سے پناہ مانگو پھر فرمایا۔۔ جب کافر دنیا کو چھوڑ کر آخرت کی طرف جاتا ہے تو اس کی طرف آسمان سے کالے چہروں والے فرشتے آتے ہیں ان کے ہاتھ میں بدبودار کفن ہوتا ہے فرشتے حد نگاہ تک مرنے والے سے دور بیٹھ جاتے ہیں، پھر اس کے پاس ملک الموت آتا ہے یہاں تک کہ اس کے سر کے پاس بیٹھ جاتا ہے۔ وہ کہتا ہے اے خبیث نفس! اللہ تعالیٰ کی ناراضگی اور اس کے غضب کا سامنا کر۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا وہ اس کی روح کو اس طرح نکالتے ہیں جس طرح گرم سلائی کو روئی سے نکالا جاتا ہے وہ اس کو نکال کر جس تھیلے میں ڈالتے ہیں اس سے اتنی بدبو آتی ہے جس طرح زمین سے گندی لاش کی بدبو نکلتی ہے وہ اس کو لے کر آسمانوں کی طرف بڑھتے ہیں، وہ فرشتوں کے جس گروہ کے قریب سے گزرتے ہیں تو وہ کہتے ہیں یہ خبیث روح کس کی ہے وہ کہتے ہیں یہ فلاں بن فلاں ہے۔ اس کا برے ناموں کے ساتھ ذکر کرتے ہیں یہاں تک کہ وہ آسمان دنیا تک پہنچتے ہیں۔ آسمان کو کھلوانا چاہتے ہیں مگر اسے کھولا نہیں جاتا، پھر نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس آیت مبارکہ کی تلاوت کی :” ان کے لیے آسمان کے دروازے نہیں کھولے جائیں گے نہ وہ جنت میں داخل ہوں گے یہاں تک کہ سوئی کے ناکے میں اونٹ داخل ہوجائے“ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اس کے لیے سجین یعنی زمین کی تہہ میں ٹھکانا بناؤ اس کی روح کو نیچے پھینک دیا جاتا ہے پھر نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس آیت مبارکہ کی تلاوت فرمائی ” جو اللہ کے ساتھ شرک کرے گا گویا کہ وہ آسمان سے گرا اور اسے پرندے اچک لیں یا اس کو ہوائیں کسی دور دراز مقام پر پھینک دیں“ پھر اس روح کو اس کے بدن میں لوٹا دیا جاتا ہے اور اس کے پاس دو فرشتے آتے ہیں جو اس کو بٹھاتے ہیں وہ اس سے پوچھتے ہیں کہ تیرا رب کون ہے؟ وہ کہتا ہے ہائے ہائے میں نہیں جانتا، فرشتے پوچھتے ہیں تیرا دین کیا ہے وہ کہتا ہے ہائے ہائے میں نہیں جانتا، پھر فرشتے پوچھتے ہیں کہ یہ شخص کون ہے جو تم میں نبی مبعوث کیا گیا ؟ وہ کہتا ہے ہائے ہائے میں نہیں جانتا۔ آسمانوں سے آواز دینے والا آواز دیتا ہے کہ یہ جھوٹ بول رہا ہے اس کا بچھونا آگ کا بنا دو اور آگ کا دروازہ اس کی طرف کھول دو۔ اس کو اس آگ کی گرمی اور بدبو آتی ہے اس پر اس کی قبر تنگ کردی جاتی ہے یہاں تک کہ اس کی پسلیاں ایک دوسرے میں گھس جاتی ہیں پھر اس کے پاس بدصورت گندے کپڑے اور بدبو دار جسم کے ساتھ آدمی آتا ہے تو وہ کہتا ہے آج خوش ہوجا تجھے حسب وعدہ ذلیل کیا جائے وہ پوچھتا ہے تو اتنی بری شکل والا کون ہے؟ جو اتنی بری بات سنا رہا ہے وہ کہے گا میں تیرا برا عمل ہوں وہ کہے گا اے میرے رب کبھی قیامت نہ قائم کرنا۔“ (مسند احمد : مسند البراء بن عازب، قال بیہقی ہذا حدیث کبیر صحیح الاسناد) مسائل ١۔ موت کے فرشتے انسان کی رگ رگ سے جان نکالتے ہیں۔ ٢۔ ملائکہ کو آسمان کی طرف جانے میں کوئی مشکل پیش نہیں آتی۔ ٣۔ ملائکہ انسان کی روح قبض کرکے ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ٤۔ نیک کی روح آسانی کے ساتھ اور برے کی روح بڑی تکلیف کے ساتھ نکالی جاتی ہے۔ تفسیر بالقرآن قرآن مجید میں ملائکہ کی ذمہ داریوں کا تذکرہ : ١۔ فرشتے اللہ تعالیٰ کی ذات اور صفات کی گواہی دیتے ہیں۔ ( النساء : ١٦٦) ٢۔ قرآن مجید میں ٤ فرشتوں کا نام آیا ہے۔ جبرائیل، میکائیل، ملک الموت اور مالک۔ (البقرۃ، ٩٨، السجدۃ: ١١ الزخرف : ٧٧) ٣۔ حضرت جبریل امین (علیہ السلام) ملائکہ کے سردار ہیں۔ (نبا : ٣٨) ٤۔ جبریل (علیہ السلام) مقرب ترین فرشتہ ہے۔ (النجم : ٨) ٥۔ جبریل (علیہ السلام) طاقتور فرشتہ ہے۔ (النّجم : ٥) ٦۔ جبریل (علیہ السلام) دیانت دار فرشتہ ہے۔ (الشعراء : ١٩٣) ٧۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قلب اطہر پر جبرائیل (علیہ السلام) نے قرآن اتارا ہے۔ (البقرۃ : ٩٧) ٨۔ جبرئیل کی تمام ملائکہ تابعداری کرتے ہیں اور جبرئیل امین فرشتہ ہے۔ (التکویر : ٢١) ٩۔ (اسرافیل) قیامت کے دن صور پھونکے گا۔ (الزمر : ٦٨) ١٠۔ جہنم کے کنٹرولر فرشتے کا نام مالک ہے۔ (الزخرف : ٧٧) ١١۔ قیامت کے دن آٹھ فرشتے اللہ تعالیٰ کے عرش کو اٹھائے ہوئے ہوں گے۔ (الحاقہ : ١٧) ١٢ فرشتے جنت پر معمور ہیں۔ (الزمر : ٧٣) ١٣۔ فرشتے جہنم پر ڈیوٹی کر رہے ہیں۔ ( الزمر ٧١) ١٤۔ فرشتے اللہ تعالیٰ کی حمد بیان کرتے ہیں۔ (البقرۃ: ٣٠) ١٥۔ ملائکہ لوگوں کے اعمال درج کرتے ہیں۔ ( انفطار : ١١) ١٦۔ اللہ تعالیٰ کے حکم سے فرشتے نافرمانوں کو عذاب دیتے ہیں۔ (ہود : ٧٧) ١٧۔ اللہ تعالیٰ کے حکم سے فرشتے مسلمانوں کی مدد کرتے ہیں۔ ( آل عمران : ١٢٤، ١٢٥) النازعات
2 النازعات
3 النازعات
4 النازعات
5 النازعات
6 فہم القرآن ربط کلام : موت کے بعد پہلا مرحلہ۔ پانچ قسمیں اٹھا کر ہر شخص کو یہ حقیقت یاد کروائی گئی ہے کہ نیک ہو یا بد اس نے موت کے مشکل ترین لمحات سے گزرنا ہے اور موت کے بعد ایک وقت ایسا آنے والا ہے جب زمین کا چپہ چپہ کانپنے لگے گا کیونکہ اسے پے در پے جھٹکے لگیں گے اس طرح پوری زمین ہلا کر رکھ دی جائے گی یہاں تک کہ زمین چٹیل میدان میں تبدیل ہوجائے گی۔ اس دن لوگوں کے دل دہل جائیں گے اور ہر شخص یوں محسوس کرے گا جیسے اس کا کلیجہ منہ میں آکر پھنس گیا ہے۔ آنکھیں ڈری ڈری اور جھکی ہوں گی، چاہیے تو یہ کہ کافر قیامت پر ایمان لاتے لیکن وہ کہتے ہیں کہ کیا ہم قبروں سے نکل کر پہلی حالت پر لوٹ جائیں گے ؟ حالانکہ ہماری ہڈیاں بوسیدہ ہو کر مٹی کے ساتھ مٹی بن چکی ہوں گی یہ تو بڑے گھاٹے کا معاملہ ہوگا۔ قرآن مجید نے کئی بار بتلایا ہے کہ جو لوگ قیامت کے دن کا انکار کرتے ہیں وہ نقصان میں ہوں گے۔ کفار اس بات کو بھی مذاق کا نشانہ بناتے اور کہتے تھے کہ ہاں ہاں پھر ہم بڑے گھاٹے میں ہوں گے ! حالت یہ ہے کہ یہ لوگ قیامت پر ایمان رکھنے کے باوجود ہمارے مقابلے میں کنگال ہیں یہ اس دن فائدے میں ہوں گے اور ہم گھاٹے میں ہوں گے یہ کیسے ہوگا؟ اہل ایمان کو مذاق اس طرح کفار کرتے تھے۔ انہیں کہا جا رہا ہے کہ آج قیامت کو مذاق سمجھتے ہو لیکن وہ دن ہر حال میں آنے والا ہے جس دن ایک زور دار آواز ہوگی قرآن مجید نے اسے ایک زلزلہ اور دھماکہ بھی کہا ہے۔ جوں ہی اسرافیل دوسری مرتبہ صور پھونکے گا تو اس کی آواز میں اتنی گرج اور کشش ہوگی کہ ہر کوئی میدان محشر کی طرف کھینچا آئے گا اور سب کے سب انسان حاضر ہوجائیں گے۔ منکرین قیامت کا جواب : (کَیْفَ تَکْفُرُوْنَ باللّٰہِ وَ کُنْتُمْ اَمْوَاتًا فَاَحْیَاکُمْ ثُمَّ یُمِیْتُکُمْ ثُمَّ یُحْیِیْکُمْ ثُمَّ اِلَیْہِ تُرْجَعُوْنَ) (البقرۃ: ٢٨) ” تم اللہ کے ساتھ کیسے کفر کرتے ہو حالانکہ تم مردہ تھے اس نے تمہیں پیدا کیا پھر تمہیں مارے گا پھر زندہ کرے گا پھر اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے۔“ (اَلَیْسَ ذٰلِکَ بِقٰدِرٍ عَلٰی اَنْ یُّحْیِ ےَ الْمَوْتٰی) (القیامہ : ٤٠) کیا ” اللہ“ اس پر قادر نہیں ہے کہ مرنے والوں کو پھر زندہ کرے؟“ (فَسُبْحٰنَ الَّذِیْ بِیَدِہِ مَلَکُوتُ کُلِّ شَیْءٍ وَّاِِلَیْہِ تُرْجَعُوْنَ) (یٰس : ٨٣) ” پاک ہے وہ ذات جس کے ہاتھ میں ہر چیز کا مکمل اقتدار ہے اور اسی کی طرف تم پلٹ کر جانے والے ہو۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے پانچ قسمیں اٹھا کر ثابت کیا ہے کہ قیامت ضرور برپا ہوگی۔ ٢۔ قیامت کے زلزلے پے درپے واقع ہوں گے۔ ٣۔ قیامت کے دن دل دھڑک رہے ہوں گے اور آنکھیں خوفزدہ ہوں گی۔ ٤۔ قیامت کے دن ایک جھٹکے سے سب لوگ میدان محشر کی طرف جارہے ہوں گے۔ تفسیر بالقرآن منکرین قیامت کے بوسیدہ دلائل : ١۔ وہ کہتے ہیں ہمیں کون دوبارہ زندہ کرے گا ؟ فرما دیجیے جس نے پہلی بار پیدا کیا ہے وہی تمہیں پیدا کرے گا۔ (بنی اسرائیل : ٥١) ٢۔ ہم نے زمین سے تمہیں پیدا کیا اسی میں لوٹائیں گے اور اسی سے دوبارہ اٹھائیں گے۔ (طٰہٰ: ٥٥) ٣۔ انہیں بتلائیں کہ پتھر بن جاؤ یا لوہا یا تمہارے دل میں جو آتا ہے اس کے مطابق ہوجاؤ وہ تمہیں ضرور اٹھائے گا۔ (التغابن : ٧) ٤۔” اللہ“ ہی مخلوق کو پیدا کرنے والا ہے، پھر وہی اسے دوبارہ لوٹائے گا۔ (یونس : ٤) ٥۔ ” اللہ“ وہ ذات ہے جس نے مخلوق کو پہلی بار پیدا کیا، پھر وہ اسے لوٹائے گا اور یہ کام اس کے لیے آسان ہے۔ (الروم : ٢٧) ٦۔ موت کے بعد تمھیں ضرور اٹھایا جائے گا۔ (ھود : ٧) ٧۔ ” اللہ“ ہی نے مخلوق کو پیدا کیا، پھر وہ اسے دوبارہ پیدا کرے گا، پھر تم اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔ (الروم : ١١) النازعات
7 النازعات
8 النازعات
9 النازعات
10 النازعات
11 النازعات
12 النازعات
13 النازعات
14 النازعات
15 فہم القرآن ربط کلام : قیامت کو جھٹلانے والوں میں فرعون بھی شامل تھا اس لیے اس کا دنیا میں برا انجام ہے۔ اہل مکہ قیامت کا بار بار مذاق اڑا رہے تھے اس پر انہیں انتباہ کرنے کے لیے موسیٰ (علیہ السلام) اور فرعون کے درمیان ہونے والی کشمکش اور اس کے نتیجہ میں فرعون کے ساتھ پیش آنے والے واقعہ کا حوالہ دے کر سمجھایا کہ کیا آپ کو موسیٰ (علیہ السلام) کے واقعہ کا علم ہے کہ جب طویٰ وادی میں اسے اس کے رب نے فرمایا کہ فرعون کے پاس جاؤ ! کیونکہ وہ بڑا باغی بن چکا ہے جس کا بڑا سبب یہ ہے کہ وہ قیامت کا منکر ہے۔ اسے سمجھاؤ کہ کیا تو تیار ہے کہ شرک اور ظلم وستم سے بچنے کی کوشش کرے ؟ میں تیرے رب کی طرف سے تیری راہنمائی کروں تاکہ تجھ میں خوف خدا پیدا ہوجائے۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے فرعون کے پاس جا کر اسے سمجھایا اور بڑا معجزہ دکھایا مگر اس نے اسے جھٹلادیا اور نہ مانا پھر مخالفت اور مکرو فریب کرنے کے لیے پلٹا اور لوگوں کو جمع کیا، ان سے کہا کہ میں تمہارا بڑا رب ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے اسے دنیا اور آخرت میں پکڑ لیا۔ اس میں عبرت کا سبق ہے ہر اس شخص کے لیے جو اپنے رب سے ڈرنے کے لیے تیار ہے۔ یہ بات پہلے بھی عرض ہوچکی ہے کہ قرآن مجید کا یہ طرز بیان ہے کہ موقع کی مناسبت سے ہر واقعہ کا اتنا ہی حصہ بیان کرتا ہے جتنا اس سے استدلال کرنا مقصود ہوتا ہے۔ اسی اصول کے تحت یہاں بھی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور فرعون کا واقعہ اتنا ہی بیان کیا گیا ہے جس قدر اس سے استدلال کرتا تھا۔ ” جب موسیٰ (علیہ السلام) نے مدین میں رہنے کی مدت پوری کرلی اور وہ اپنے اہل وعیال کو لے کر مصر کی طرف واپس چلے تو راستے میں طور کے قریب آگ دیکھی۔ انہوں نے اپنے گھروالوں سے فرمایا ٹھہرو میں نے آگ دیکھی ہے شاید وہاں سے کوئی خبر لاؤں یا اس سے کوئی انگارہ اٹھا لاؤں جسے آپ تاپیں۔ موسیٰ (علیہ السلام) وہاں پہنچے تو وادی کے دائیں کنارے مبارک مقام پر ایک درخت سے آواز آئی اے موسیٰ میں ہی ” اللہ“ ہوں سارے جہانوں کا مالک۔ اپنی لاٹھی پھینک دے جونہی موسیٰ نے لاٹھی پھینکی دیکھا تو لاٹھی سانپ کی طرح بل کھا رہی ہے موسیٰ (علیہ السلام) پیٹھ پھیر کر بھاگے اور مڑکر نہ دیکھا اللہ تعالیٰ نے فرمایا : اے موسیٰ پلٹ آؤ خوف نہ کرو تو بالکل محفوظ ہے۔ (القصص : ٢٩ تا ٣١) ” اے موسیٰ تو اور تیرا بھائی میری نشانیاں لے کر فرعون کے پاس جاؤ۔ کیونکہ وہ سرکش ہوچکا ہے اور میری یاد سے غافل نہ ہونا۔ اس سے نرمی کے ساتھ بات کرنا ہوسکتا ہے کہ وہ نصیحت قبول کرے یا ڈر جائے۔ موسیٰ اور ہارون نے عرض کی پروردگار ہمیں ڈر ہے کہ وہ ہم پر زیادتی کرے گا یا ہم پر حملہ آور ہوگا فرمایا ڈرو نہیں میں تمہارے ساتھ ہوں سب کچھ سن رہا ہوں اور سب کچھ دیکھ رہا ہوں۔ جاؤ اس کے پاس اور کہو کہ ہم تیرے رب کے رسول ہیں۔ بنی اسرائیل کو ہمارے ساتھ جانے کے لیے آزاد کر دے اور ان کو تکلیف نہ دے۔ ہم تیرے پاس تیرے رب کی نشانی لے کر آئے ہیں جو ہدایت کی راہ اختیار کرے گا اس کے لیے سلامتی ہے ہم کو وحی کے ذریعے بتایا گیا ہے کہ جو اسے جھٹلائے اور منہ موڑے گا اسے عذاب ہوگا۔ فرعون نے کہا اے موسیٰ تم دونوں کا رب کون ہے ؟ موسیٰ نے جواب دیا ہمارا رب وہ ہے جس نے ہر چیز کو اس کی ساخت بخشی پھر اس کی راہنمائی فرمائی۔ فرعون نے کہا جو لوگ پہلے گزر چکے ہیں ان کا کیا ہوگا ؟ موسیٰ نے کہا اس کا علم میرے رب کے پاس ہے جو ایک کتاب میں محفوظ ہے میرا رب نہ چوکتا ہے اور نہ بھولتا ہے۔ (طٰہٰ: ٤٢ تا ٥٢) ” موسیٰ نے کہا مشرق ومغرب اور جو کچھ ان کے درمیان ہے سب کا رب ایک ہے اگر تم لوگ کچھ عقل رکھتے ہو۔ فرعون نے کہا اگر تو نے میرے سوا کسی اور کو معبود مانا تو تجھے بھی ان لوگوں کے ساتھ قیدی بنا دوں گا جوقید خانوں میں پڑے ہوئے ہیں۔ موسیٰ نے کہا اگرچہ میں تیرے سامنے واضح دلیل پیش کروں فرعون نے کہا اچھا اگر سچا ہے تو دلیل لاؤ موسیٰ نے اپنا عصا پھینکا وہ یکایک بڑا اژدہا بن گیا پھر اپنا ہاتھ نکالا اور وہ دیکھنے والوں کے سامنے چمک رہاتھا۔ فرعون نے اپنے اردوگرد پیش بیٹھے ہوئے وزیروں، مشیروں سے کہا یقیناً یہ شخص ایک ماہر جادوگر ہے۔ چاہتا ہے کہ اپنے جادو کے زورسے تمہیں تمہارے ملک سے نکال دے اب بتاؤ تمہارا کیا فیصلہ ہے؟ انہوں نے کہا اسے اور اس کے بھائی کو روک لیں اور شہروں میں ہر کارے بھجیں جو ہر ماہر جادوگر کو آپ کے پاس لے آئیں چنانچہ ایک دن مقرر وقت پر جادوگر اکٹھے کرلیے گئے اور لوگوں سے کہا گیا کہ تم اس اجتماع میں شرکت کرو؟ تاکہ ہم ان جادوگروں کی پیروی کریں اگر جادوگر غالب رہے۔ جب جادوگر میدان میں آئے تو انہوں نے فرعون سے کہا کہ اگر ہم غالب آگئے تو ہمیں کیا انعام ملے گا۔ ؟ اس نے کہا ہاں تم مقربین میں شامل ہوجاؤ گے۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے جادوں گروں کو فرمایا پھینکو جو تم پھینکنا چاہتے ہو جادوگروں نے فوراً اپنی رسیّاں اور لاٹھیاں پھینکیں اور نعرہ لگایا کہ فرعون کی عزت کی قسم ہم ہی غالب رہیں گے پھر موسیٰ نے اپنا عصا پھینکا وہ یکایک ان کی رسیوں اور لاٹھیوں کو ہڑپ کرگیا اس پر تمام جادوگر بے اختیار سجدے میں گرپڑے اور بول اٹھے کہ ہم رب العالمین پر ایمان لے آئے ہاں موسیٰ اور ہارون کے رب پر ایمان لاتے ہیں، فرعون نے کہا تم میری اجازت سے پہلے ہی موسیٰ پر ایمان لے آئے ہو ؟ یہ ضرور تمہارا بڑا ہے جس نے تمہیں جادوسکھایا ہے اچھا، ابھی تمہیں معلوم ہوجائے گا کہ جب تمہارے ہاتھ پاؤں مخالف سمتوں سے کٹواؤں گا اور سب کو سولی چڑھادوں گا۔ انہوں نے جواب دیا کچھ پرواہ نہیں ہم اپنے رب کے حضور پہنچ جائیں گے۔ اور ہمیں امید ہے کہ ہمارا رب ہمارے گناہ معاف کردے گا ہم سب سے پہلے ایمان لانے والے ہیں۔“ (الشعراء : ٢٨ تا ٥١) ” اور ہم نے بنی اسرائیل کو سمندر سے پار کیا تو فرعون اور اسکے لشکروں نے سر کشی اور زیادتی کرتے ہوئے ان کا تعاقب کیا، یہاں تک کہ فرعون غرق ہونے لگا تو کہا کہ میں ایمان لایا یقیناً سچ یہ ہے کہ اس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں جس پر بنی اسرائیل ایمان لائے ہیں اور میں فرمانبرداروں سے ہوں، کہا گیا کیا اب ؟ حالانکہ تو نافرمان تھا اور تو فساد کرنیوالوں میں سے تھا۔“ (یونس : ٩٠ تا ٩١) المقدس طویٰ سے مراد وہ وادی ہے کہ مدین سے مصر آتے ہوئے جہاں اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو نبوت اور دو معجزے عطا کیے گئے۔ مسائل ١۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرعون کے سامنے بڑے بڑے معجزات پیش کیے مگر اس نے انہیں جھٹلادیا جس کے نتیجے میں دنیا میں ذلیل ہوا اور آخرت میں شدید عذاب میں مبتلا ہوگا۔ ٢۔ فرعون اس قدر سرکش تھا کہ اس نے دعویٰ کیا کہ میں سب سے بڑا رب ہوں۔ النازعات
16 النازعات
17 النازعات
18 النازعات
19 النازعات
20 النازعات
21 النازعات
22 النازعات
23 النازعات
24 النازعات
25 النازعات
26 النازعات
27 فہم القرآن ربط کلام : قیامت کے منکرینکی سب سے بڑی دلیل کا جواب۔ قیامت کا انکار کرنے والوں کی سب سے بڑی دلیل یہ رہی ہے کہ جب انسان مٹی کے ساتھ مٹی بن جاتا ہے تو پھر اسے کس طرح زندہ کیا جاسکتا ہے ان کے نزدیک یہ بات ناممکنات میں سے ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ایسی سوچ رکھنے والے اللہ تعالیٰ کی عظیم قدرتوں پر توجہ نہیں دیتے؟ ان کی سوچ صرف اپنی حد تک رہتی ہے اور وہ دنیا کے اسباب پر ہی نظر رکھتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ساری دنیا کے انسان مل کر بھی چھوٹی سے چھوٹی جاندار چیز پیدا نہیں کرسکتے اگر یہ لوگ اللہ تعالیٰ کی عظیم قدرتوں پر توجہ دیں تو انہیں یقین آجائے گا کہ واقعی اللہ تعالیٰ کا فرمان برحق ہے کہ وہ قیامت کے دن لوگوں کو اٹھائے گا اور اپنی بارگاہ میں پیش کرے گا۔ ایسے لوگوں کی سوچ کے دریچے کھولنے کے لیے ارشاد فرمایا کہ کیا تمہیں پیدا کرنا مشکل ہے یا آسمان کو بنانا مشکل ہے ؟ اللہ تعالیٰ نے نہ صرف آسمان کو بنایا بلکہ اسے بنا کر بغیر ستونوں کے فضا میں کھڑا کردیا ہے، دیکھنے والا نہ اس میں کوئی دراڑ دیکھتا ہے اور نہ ہی آج تک کہیں سے وہ جھکا ہے یہ اسی طرح فضا میں معلق اور قائم ہے جس طرح اسے پہلے دن بنایا اور ٹھہرایا گیا تھا۔ پھر ” اللہ تعالیٰ“ ہی زمین و آسمان کے درمیان رات اور دن کو پیدا کرتا ہے، رات اپنی تاریکی اور سکون میں لوگوں کو سلا دیتی ہے اور دن کی روشنی لوگوں کو جگا دیتی ہے۔ اسی ذات کبریا نے زمین کو پانی پر پھیلایا اور بچھایا ہے، وہی زمین سے پانی نکالتا ہے اور اس پانی کے ذریعے لوگوں اور جانوروں کے لیے چارہ نکالتا ہے، اسی نے زمین پر پہاڑ گاڑ دیئے ہیں اور اس میں انسانوں اور ان کے چوپاؤں کے لیے ہر قسم کے فوائد رکھ دئیے ہیں، اگر انسان ان باتوں پر غور کرے تو یہ حقیقت اس پر واضح ہوجائے گی کہ جس خالق نے یہ چیزیں پیدا کی ہیں وہی انسانوں کو دوبارہ پیدا کرے گا۔ غور کریں کہ آسمان اور زمین آپس میں ملے ہوئے تھے اللہ تعالیٰ نے ان کو الگ الگ کیا۔ ( الانبیاء : ٣٠) اور دھوئیں سے ٹھوس آسمان پیدا کیے۔ (حمٓ السجدۃ: ١١) اس طرح زمین پر غور کریں کہ اللہ تعالیٰ نے اس سے پانی نکالا اور پھر زمین کو فرش کے طور پر بچھادیا۔ ( ھود : ٧، البقرۃ: ٢٢) زمین پر پہاڑ اس لیے گاڑ دیئے تاکہ اس میں ایک طرف جھکاؤ پیدا نہ ہوسکے۔ یہ ایسے دلائل ہیں جس پر معمولی سا غور کرنے سے ایک طرف اللہ تعالیٰ کی خالقیت پر ایمان مضبوط ہوتا ہے اور دوسری طرف قیامت کے دن جی اٹھنے کا ثبوت ملتا ہے۔ زمین جس دانے کو اپنے پیٹ میں ایک مدت تک چھپائے رکھتی ہے جب اس کے اگنے کا وقت آتا ہے تو اپنے خالق کے حکم سے اس کے نکلنے کے لیے زمین اپنا سینہ کھول دیتی ہے کیا قیامت کے دن زمین ایسا کرنے سے انکار کردے گی؟ ایسا ہرگز نہیں ہوگا جونہی اللہ تعالیٰ اسے حکم دے گا تو زمین پھٹ جائے گی اور لوگ اپنے اپنے مقام سے اٹھ کھڑے ہوں گے۔ ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا دوسرا صور پھونکنے کا عرصہ چالیس کا ہوگا۔ حضرت ابوہریرہ (رض) سے ان کے شاگردوں نے پوچھا چالیس دن ؟ حضرت ابوہریرہ (رض) نے فرمایا کہ میں یہ نہیں جانتا۔ انہوں نے استفسار کیا چالیس ماہ ؟ حضرت ابوہریرہ (رض) نے جواباً فرمایا میرا کوئی جواب نہیں۔ انہوں نے پھر پوچھا چالیس سال ہیں؟ ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں میں یہ بھی نہیں کہتا۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ بارش نازل فرمائے گا۔ لوگ یوں اگیں گے جس طرح انگوری اگتی ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا، انسان کی دمچی کے علاوہ ہر چیز مٹی ہوجائے گی۔ قیامت کے دن اسی سے تمام اعضاء کو جوڑا جائے گا۔ (رواہ مسلم : باب مَا بَیْنَ النَّفْخَتَیْنِ) (قُلْ کُوْنُوْا حِجَارَۃً اَوْ حَدِیْدًا) (بنی اسرائیل : ٥٠) ” فرما دیں کہ تم پتھر بن جاؤ یا لوہا۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے آسمان کو بنایا اور اسے بلند فرمایا۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ ہی رات کو تاریک کرتا ہے اور دن کو روشن فرماتا ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ نے زمین کو فرش بنایا اور وہی اس سے پانی اور چارہ نکالتا ہے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ نے پہاڑوں کو زمین پر بوجھ کے طور پر ڈال رکھا ہے۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ نے لوگوں اور ان کے چوپاؤں کے لیے ان کی زندگی کا سامان پیدا کیا ہے۔ النازعات
28 النازعات
29 النازعات
30 النازعات
31 النازعات
32 النازعات
33 النازعات
34 فہم القرآن ربط کلام : قیامت کا انکار کرنے والے قیامت کی ہولناکیوں اور ان کی کیفیت کو نہیں جانتے اس لیے قیامت کا انکار اور اس سے لاپرواہی کرتے ہیں۔ ان کی لاپرواہی کو دور کرنے کے لیے قیامت کی ہولناکیوں اور اس کی ہیبت کا ذکر کیا گیا ہے۔ جس قیامت کا لوگ انکار کرتے ہیں اس کی ابتدا ہی ایسے زور دار دھماکے سے ہوگی کہ جو ہر چیز کو ہلا کے رکھ دے گا۔ اللہ تعالیٰ کے سوا زمین آسما نوں میں کوئی چیز باقی نہیں رہے گی اس کے لیے یہاں دو الفاظ استعمال کیے گئے ہیں ” اَلطَّآمَّۃُ الْکُبْرٰی“ کا معنٰی کسی چیز کا لبالب بھرا ہونا ہے۔ ” الکبریٰ“ یعنی قیامت سب سے بڑی آفت ہوگی اور وہ اپنی حولناکیوں کے اعتبار سے ہمہ گیر ہوگی جس کی ابتدا اسرافیل کے صور سے ہوگی جونہی اسرافیل صور میں پھونک مارے گا تو ہر چیز ہل جائے گی۔ اس دن انسان اپنے کیے کے بارے میں فکر مند ہوگا اور ہر انسان اپنے ماضی کے بارے میں سوچ ہی رہا ہوگا کہ اس کے سامنے جہنم کھڑی کردی جائے گی۔ جس نے اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نافرمانی کا راستہ اختیار کیا اور آخرت کے مقابلے میں دنیا کو مقدم جانا اس کا ٹھکانہ جہنم ہوگا اور جو اپنے رب کی بارگاہ میں کھڑے ہونے سے ڈر گیا اور اپنے نفس کو بری خواہشات سے بچائے رکھا اس کا مقام جنت ہوگا۔ قرآن مجید نے اس مقام پر جہنم سے بچنے اور جنت میں داخلے کے لیے دو بنیادی باتوں کا ذکر کیا گیا ہے، پہلی بات یہ ہے کہ جس شخص نے اپنے نفس کو سرکشی سے بچایا اور دنیا پر آخرت کو مقدم جانا اور ہر حال میں اپنے رب سے ڈرتارہا وہ جنت میں داخل ہوگا اور جس نے اس کے الٹ زندگی اختیار کی وہ جہنم میں جھونک دیا جائے گا۔ ” حضرت عدی بن حاتم (رض) بیان کرتے ہیں نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تم میں سے ہر کسی کے ساتھ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کلام کریں گے، اللہ تعالیٰ اور اس شخص کے درمیان کوئی ترجمان نہیں ہوگا، ہر انسان دیکھ لے گا کہ اس نے کیا عمل کیے ہیں، آدمی دیکھے گا تو اس کے سامنے آگ ہوگی جو بھی تم میں سے استطاعت رکھتا ہے وہ آگ سے بچنے کی کوشش کرے چاہے بے شک کھجور کے ایک ٹکڑے کے ساتھ۔۔ جو یہ بھی نہ پائے تو وہ اچھی بات کہے۔“ (رواہ البخاری : باب کلام الرب عزوجل یوم القیامۃ مع الأنبیاء وغیرھم) مسائل ١۔ قیامت بہت بڑی آفت ہے۔ ٢۔ قیامت کے دن ہر انسان اپنے کیے کو یاد کرے گا۔ ٣۔ قیامت کے دن جہنم لوگوں کے سامنے لائی جائے گی۔ ٤۔ جس نے اپنے رب کی نافرمانی کی اور دنیا کو آخرت سے مقدم جانا اس کا ٹھکانہ جہنم ہوگا۔ ٥۔ جو اپنے رب سے ڈرا اور اس نے اپنے نفس کو بری خواہشات سے روکے رکھا اس کا مقام جنت ہوگا۔ تفسیربالقرآن جس نے اپنی خواہشات کی پیروی کی اور آخرت پر دنیا کو مقدم جانا وہ تباہ ہوجائے گا : ١۔ علم ہونے کے باوجود دو سروں کے خیالات کی پیروی کرنیوالا اللہ کی نصرت سے محروم ہوتا ہے۔ (البقرۃ: ١٢٠) ٢۔ علم ہونے کے باوجود کفار کے خیالات کو اپنانا ظالموں میں شامل ہونا ہے۔ (البقرۃ: ١٤٥) ٣۔ کتاب اللہ کے مقابلے میں لوگوں کی خواہشات پر عمل نہیں کرنا چاہیے۔ (المائدۃ: ٤٨) ٤۔ خواہشات کی اتباع کرنے کی بجائے کتاب اللہ کے مطابق فیصلے ہونے چاہئیں۔ (المائدۃ: ٤٩) ٥۔ لوگوں کی خواہشات کے پیچھے لگنے والا گمراہ ہوجاتا ہے۔ (صٓ: ٢٦) ٦۔ اپنی خواہشات کی پیروی کرنے والا تباہ ہوجاتا ہے۔ (طٰہٰ: ١٦) (القصص : ٥٠) ٧۔ خواہشات کی پیروی کرنے والا اپنی خواہشات کو الٰہ بنا لیتا ہے۔ (الفرقان : ٤٣) ٨۔ حق کو چھوڑ کر خواہشات کی پیروی کرنے سے زمین و آسمان میں فساد پیدا ہوتا ہے۔ (المؤمنون : ٧١) النازعات
35 النازعات
36 النازعات
37 النازعات
38 النازعات
39 النازعات
40 النازعات
41 النازعات
42 فہم القرآن ربط کلام : سورت کی ابتدائی آیات میں قیامت کے ثبوت دئیے گئے ہیں اس کا اختتام بھی انہیں دلائل پر کیا گیا ہے۔ نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اہل مکہ مختلف موقعوں پر مختلف الفاظ اور انداز میں سوال کرتے کہ قیامت کب آئے گی۔ اس سوال کے انہیں کئی جواب دیئے گئے جن کے بنیادی طور پر دو مفہوم ہیں۔ ١۔ کوئی اقرار کرے یا انکار کرے قیامت ہر صورت واقع ہوگی۔ ٢۔ قیامت کے بارے میں سوال کرنے والوں کو اس کا وقت جاننے کی بجائے اس کے احتساب کا فکر کرنا چاہیے۔ کفار کے سوال کا جہاں یہ جواب دیا گیا ہے کہ اے رسول! لوگ آپ سے قیامت کے واقع ہونے کے کا وقت پوچھتے ہیں کہ وہ کب اور کس وقت واقع ہوگی ان سے فرمائیں ! کہ قیامت کا وقت نہ بتلانے میں بھی تمہارے لیے نصیحت ہے۔ اس لیے تمہیں اس کے وقت کے پیچھے پڑنے کی بجائے اپنے ایمان اور عمل کی فکر کرنی چاہیے۔ جہاں تک اس کے واقع ہونے کے وقت کا تعلق ہے وہ صرف آپ کا رب جانتا ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کام صرف قیامت کی جوابدہی اور اس کی ہولناکیوں سے ڈرانا ہے البتہ قیامت اس قدر خوفناک ہوگی کہ مجرموں کو یہ بھی یاد نہیں رہے گا کہ وہ کتنی مدت دنیا میں قیام پذیر رہے ہیں۔ قیامت کی سختی کی وجہ سے یہ لوگ حواس باختہ ہوں گے جس بنا پر خیال کریں گے کہ ہم دنیا میں صبح کی چند گھڑیاں رہے ہیں یا پھر مغرب کا مختصر وقت۔ النازعات
43 النازعات
44 النازعات
45 النازعات
46 النازعات
0 سورۃ عبس کا تعارف یہ سورت بھی اپنے نام سے شروع ہوتی ہے مکہ میں نازل ہوئی ایک رکوع پر محیط ہے جس کی بتالیس آیات ہیں۔ اس کی ابتدا ایک مخصوص واقعہ سے کی گئی جس کا ذکر اس کی تفسیر میں کردیا گیا ہے اس میں یہ بات واضح کی گئی ہے کہ جو شخص جان بوجھ کر نصیحت سے منہ پھیرلے اس پر زیادہ وقت صرف نہیں کرنا چاہیے۔ اس کے مقابلے میں اس شخص پر محنت کرنی چاہیے جو نصیحت حاصل کرنے کا خواہش مند ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی بتلایا ہے کہ قرآن مجید ایسے صحیفوں میں درج ہے جو بڑے ہی محترم اور پاکیزہ ہیں ان تک دیانت دار ملائکہ کی رسائی ہوتی ہے۔ قرآن مجید کی تعلیمات میں ایک مرکزی عنوان یہ ہے کہ انسان نے بالآخر مرنا ہے اور مر کر اپنے رب کے حضور پیش ہونا ہے جو لوگ اس بات کا انکار کرتے ہیں انہیں اپنی پیدائش اور خوراک پر غور کرنا چاہیے کہ جس طرح انسان عدم سے وجود میں آتا ہے اور بارش سے زمین نرم ہوتی ہے پھر اس سے مختلف قسم کے پھل اور اناج پیدا ہوتے ہیں اسی طرح ہی انسان کو قیامت کے دن زمین سے نکال لیا جائے گا۔ اس دن کی ابتداء ایسے دھماکے سے ہوگی جس کی آواز لوگوں کے کانوں کو بہرہ کر دے گی۔ لوگوں کی حالت یہ ہوگی آدمی اپنے بھائی، اپنی والدہ، اپنے باپ، اپنی بیوی اور اپنی اولاد سے بھاگ جائے گا ہر کوئی اپنی فکر میں ہوگا کوئی دوسرے کا خیال نہیں کرے گا اس دن نیک لوگوں کے چہرے ہشاش بشاش اور خوش وخرم ہوں گے اور مجرموں کے چہروں پر نحوست اور ذلت چھائی ہوگی۔ عبس
1 فہم القرآن ربط سورت : النّازعات کے آخر میں بتلایا ہے کہ قیامت کے دن مجرم محسوس کریں گے کہ ہم دنیا میں چند گھڑیاں ٹھہرے تھے۔ آخرت کے انکار کے پیچھے دنیا کا مفاد اور عجلت پسندی کا عنصر شامل ہوتا ہے اس لیے سورۃ عبس میں ایک مخصوص واقعہ کی طرف اشارہ فرما کر عجلت پسندی سے منع کیا گیا ہے۔ تمام مفسرین نے اس سورت کے نازل ہونے کا پس منظر بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ایک دن سرور دو عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مجلس میں چند قریشی سردار حاضر ہو کر آپ سے اسلام کے بارے میں گفتگو کررہے تھے اسی دوران حضرت عبداللہ بن ام مکتوم (رض) آئے اور انہوں نے آپ کی گفتگو میں مداخلت شروع کردی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ناصرف بے توجہگی اختیار کی بلکہ اس مداخلت کو ناپسند بھی فرمایا۔ آپ کی بے توجہگی کے دواسباب تھے۔ ١۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قریش کے سرداروں کے ساتھ محو گفتگو تھے حضرت ابن مکتوم نے انتظار کیے بغیر آپ کی خدمت میں سوال کر ڈالا جس وجہ سے آپ کے چہرے پر کچھ ناگواری کے اثرات ظاہر ہوئے۔ ٢۔ آپ کی ناگواری کی دوسری وجہ یہ تھی کہ قریشی سردار بہانہ بنائے ہوئے تھے کہ ہم آپ کی مجلس میں اپنے سے کم درجہ لوگوں کے برابر نہیں بیٹھ سکتے لہٰذا ہم آئیں تو کوئی دوسرا نہیں ہونا چاہیے۔ ان دو وجوہات کی وجہ سے آپ نے ابن ام مکتوم (رض) کی آمد کو ناگوار سمجھا جس پر اللہ تعالیٰ نے آپ کو توجہ دلانے کے لیے یہ انداز اختیار فرمایا۔ ” ماتھے پر شکن ڈالی اور چہرہ پھیر لیا کہ ایک اندھا اس کے پاس آیا۔ آپ کو کیا معلوم! شاید وہ سدھر جائے یا نصیحت پر توجہ دے اور نصیحت اس کے لیے فائدہ مند ثابت ہو۔ جو شخص بے پروائی کرتا ہے۔ اس کی طرف آپ توجہ کرتے ہیں وہ نہیں سدھرتا تو آپ پر اس کی کوئی ذمہ داری نہیں جو خود آپ کے پاس دوڑتا ہوا آتا ہے اور ڈرنے والا ہے اس سے آپ بے رخی کرتے ہیں۔“ (عبس : ١ تا ١٠) اس ارشاد سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور دین کے داعی کو ایک بنیادی اصول بتلایا ہے جسے اپنانے سے نہ صرف دین کی عظمت دوچند ہوتی ہے بلکہ اس سے داعی کے وقار میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ جس اصول کی یہاں نشاندہی کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ بے شک دین کے داعی کو ہر وقت اس کوشش میں لگے رہنا چاہیے کہ لوگ دین کی طرف آئیں لیکن اس کے ذہن میں یہ بات بھی رہنی چاہیے کہ دین ایک گراں قدر نعمت ہے لہٰذا اسے باوقار انداز میں لوگوں کے سامنے پیش کرنا چاہیے جو اس نعمت کو حقیر سمجھتے ہوں ان پر ابلاغ کی حجّت پوری کرنے کے بعد داعی کو ایسے لوگوں سے بے نیاز ہوجانا چاہیے۔ ان کے مقابلے میں ان لوگوں کا زیادہ خیال رکھنا چاہیے جو دین کی باتوں پر غور و فکر کرتے ہیں اور اپنے آپ کو کفر و شرک اور ہرقسم کی گندگی سے بچانا چاہتے ہیں اور اپنے رب کی نصیحت حاصل کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ قرآن تو نصیحت ہے اس لیے جس کا دل چاہے اس سے نصیحت حاصل کرے اور جو نہیں چاہتا وہ اپنے آپ کو گمراہی کے حوالے کیے رکھے۔ اس سورت کی پہلی دو آیات میں یہ الفاظ استعمال ہوئے ہیں کہ اس کے پاس ایک نابینا آیا اور اس نے تیوری چڑھائی اور چہرہ پھیر لیا۔ بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ابن مکتوم (رض) کے نابینا ہونے کی وجہ سے اس سے اعراض کیا تھا۔ یہ بات ناقابل اعتماد ہے کیونکہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نہایت ہی کریمانہ اخلاق کے مالک تھے اور آپ سے زیادہ کون معذوروں اور غریبوں کا ہمدرد تھا؟ آپ نے حضرت عبداللہ بن ام مکتوم (رض) کے نابینا ہونے کی وجہ سے اعراض نہیں کیا بلکہ ابن مکتوم (رض) نے انتظار کیے بغیر آپ سے سوال کرڈالا جو مجلس کے آداب کے خلاف تھا اسی وجہ سے یہاں آپ کو توجہ دلانے کے لیے مخاطب کی ضمیر استعمال نہیں کی گئی تاکہ آپ کے اعلیٰ اخلاق کے بارے میں کوئی شخص حرف گیر نہ ہوسکے۔ عبس
2 عبس
3 عبس
4 عبس
5 عبس
6 عبس
7 عبس
8 عبس
9 عبس
10 عبس
11 فہم القرآن ربط کلام :” اللہ تعالیٰ“ سے ڈرنے اور ہدایت پانے کے لیے ضروری ہے کہ قرآن مجید کی نصیحت پر عمل کیا جائے۔ قرآن مجید سے بڑھ کر کوئی نصیحت بہتر نہیں ہو سکتی۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کو نصیحت کے طور پر نازل فرمایا ہے۔ اس میں ہدایت اور گمراہی کو پوری طرح واضح کردیا ہے۔ ہدایت پانے کے لیے ضروری ہے کہ انسان اپنے دل میں ہدایت کی طلب پیدا کرے اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتا رہے جو شخص ہدایت کا طالب نہیں ہوتا اللہ تعالیٰ اسے ہدایت نہیں دیتا کیونکہ اس کا فرمان ہے جو چاہے ہدایت حاصل کرے اور جو چاہے اپنے آپ کو گمراہی کے حوالے کیے رکھے۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کے لیے ہدایت اور کفر کا راستہ واضح کردیا ہے۔ (الدھر : ٣) قرآن مجید نصیحت کے لیے اتارا گیا ہے، قابل تکریم اوراق پر لکھا ہوا ہے جو اعلیٰ مقام پر رکھے ہوئے ہیں اور ہر قسم کی مداخلت سے پاک ہیں۔ ان تک ان ملائکہ کی رسائی ہے جو بڑے ہی معزز اور دیانت دار ہیں وہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے لوح محفوظ سے قرآن مجید کا وہی حصہ نقل فرما کر جبریل امین کے حوالے کرتے ہیں جس کا انہیں حکم دیا جاتا ہے۔ وہ نہایت امین اور ذمہ دار ہیں لہٰذا حضرت جبریل امین (علیہ السلام) سمیت کوئی فرشتہ بھی قرآن مجید کی زیر زبر میں فرق نہیں ڈال سکتا اس بات کو یوں بھی بیان کیا گیا ہے۔ ” اللہ“ عالم الغیب ہے وہ غیب پر کسی کو مطلع نہیں کرتا سوائے اس فرشتے کے جسے اس نے غیب کا علم دینے کے لیے پسند کرلیا ہو۔ اس کے آگے اور پیچھے محافظ لگا دیتا ہے تاکہ ” اللہ“ جان لے کہ ملائکہ نے اپنے رب کے پیغامات پہنچا دیے اور وہ ان کے پورے ماحول کا حاطہ کیے ہوئے ہے اور ” اللہ“ نے ایک ایک چیز کو شمار کر رکھا ہے۔ (الجن : ٢٦ تا ٢٨) مسائل ١۔ قرآن مجید نصیحت کے لیے اتارا گیا ہے جو نصیحت کا خواہش مند ہے اسے اس کی نصیحت پر عمل کرنا چاہیے۔ ٢۔ قرآن آسمان میں اعلیٰ مقام پر ررکھا ہوا ہے اللہ کے حکم سے اس تک ان ملائکہ کی رسائی ہے جودیانت دار اور معزز ہیں۔ عبس
12 عبس
13 عبس
14 عبس
15 عبس
16 عبس
17 فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ نے انسان کی ہدایت کے لیے قرآن مجید نازل فرمایا ہیجس شخص نے قرآن کی نصیحت سے انکار کیا وہ تباہ ہوجائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید اس لیے نازل کیا ہے کہ انسان اس پر اخلاص کے ساتھ عمل پیرا ہو کر قیامت کی جوابدہی کی تیاری کرے اور دنیا میں رہ کر اپنے فکر وعمل کو سنوار لے۔ جس نے اس کا انکار کیا وہ قیامت کے دن پکڑا جائے گا اور جو قیامت کے دن پکڑا گیا وہ تباہ ہوجائے گا۔ جو لوگ قیامت کا انکار کرتے ہیں اور یہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ جب انسان مٹی کے ساتھ مٹی ہوجائے گا تو پھر اسے کون پیدا کرے گا ؟ کیا انکار کرنے والے کو یہ معلوم نہیں کہ اسے کس چیز سے پیدا کیا گیا ہے ؟ اللہ تعالیٰ نے اسے ایک نطفے سے پیدا کیا پھر اس کی پیدائش کا وقت مقرر فرمایا اور پھر اس کے لیے رحم مادر سے نکلنے کا راستہ بنایا، پھر اسے موت دی اور قبر تک پہنچا دیا جب چاہے گا اسے اٹھا کھڑا کرے گا۔ انسان اپنی پیدائش سے لے کر قیامت کے دن اٹھنے تک اللہ تعالیٰ کے حکم کے سامنے مجبور ہے ہر انسان نہ اپنی مرضی سے پیدا ہوتا ہے اور نہ اپنی مرضی سے مرتا ہے اور نہ ہی اپنی مرضی سے دوبارہ زندہ ہوگا۔ اللہ کی نافرمانی کرنے والے اور قیامت کے منکر اپنی زندگی کے ایک ایک مرحلے پر غور کریں تو انہیں یقین ہوجائے گا کہ واقعی قیامت کے دن زندہ ہونا اور اپنے رب کے سامنے پیش ہونا برحق ہے کیونکہ جو خالق انسان کو ایک جرثومے سے پیدا فرما کر اس کی پیدائش کا وقت اور اس کی قدوقامت، شکل وصورت اور رحم مادر میں اس کی تقدیر مقرر کرتا ہے اور پھر اس کی پیدائش کے لیے رحم مادر کا راستہ آسان کرتا ہے کیا وہ اسے قیامت کے دن نہیں اٹھا سکتا؟ کیوں نہیں ! وہ ہر انسان کو ہر صورت قیامت کے دن اٹھائے گا جس نے اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق زندگی بسر نہ کی اس کا کڑا حساب لیا جائے گا۔ ” حضرت عبداللہ (رض) بیان کرتے ہیں صادق و مصدوق رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ تم میں سے ہر کوئی اپنی ماں کے پیٹ میں چالیس دن ٹھہرتا ہے جو جما ہوا خون بن جاتا ہے پھر چالیس دن بعد گوشت کا لوتھڑا بن جاتا ہے اس کے بعد اللہ تعالیٰ فرشتہ بھیجتے ہیں اسے آدمی کا عمل، رزق، موت اور نیک وبد ہونا لکھنے کا حکم دیتے ہیں پھر اس میں روح پھونک دی جاتی ہے۔ تم میں ایک بندہ عمل کرتارہتا ہے حتی کہ اس کے اور جنت کے درمیان ایک ہاتھ کا فاصلہ رہ جاتا ہے تو اس کی تقدیر غالب آجاتی ہے وہ جہنمیوں والے کام شروع کردیتا ہے۔ ایسے ہی آدمی برے عمل کرتا رہتا ہے حتٰی کہ اس کے اور جہنم کے درمیان ایک ہاتھ کا فاصلہ رہ جاتا ہے تو وہ جنتیوں والے اعمال شروع کردیتا ہے۔“ (رواہ البخاری : کتاب بدء الخلق، باب ذکر الملائکۃ) مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ ہی انسان کو ایک نطفے سے پیدا کرتا ہے اور اسے خاص مدت تک رِ حم مادر میں ٹھہرا کر مختلف مراحل سے گزارتا ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ ہی انسان کے لیے رِ حم مادر سے نکلنے کا راستہ آسان کرتا ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ ہی انسان کو موت دیتا ہے اور پھر مٹی کے ساتھ مٹی بنا دیتا ہے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ جب چاہے گا قیامت کے دن انسان کو اٹھا کھڑا کرے گا۔ ٥۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بے شمار انسان اپنے رب کے حکم کی سرتابی کرتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن پیدائش سے لے کر دوبارہ پیدا ہونے تک انسان کی زندگی کا مختصر خاکہ : ١۔ کیا تو اس ذات کا انکار کرتا ہے جس نے انسان کو مٹی سے پیدا کیا پھر نطفہ سے تجھے آدمی بنایا۔ (الکہف : ٣٧) ٢۔ اللہ نے انسان کو مٹی سے پیدا کیا۔ (آل عمران : ٥٩) ٣۔ اللہ نے انسان کو مٹی کے جوہر سے پیدا کیا۔ (المومنون : ١٢) ٤۔ حواکو آدم سے پیدا فرمایا۔ (النساء : ١) ٥۔ اللہ نے انسان کو مخلوط نطفہ سے پیدا کیا۔ (الدھر : ٢) ٦۔ اللہ نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا، پھر نطفہ، پھر لوتھڑا بنا کر تمہیں پیدا کرتا ہے کہ تم بچے ہوتے ہو۔ پھر تمہیں بوڑھا کرتا اور کچھ تم میں بڑھاپے سے پہلے فوت ہوجاتے ہیں اور کچھ اپنی عمر کو پہنچ جاتے ہیں کیا پھر بھی تم عقل نہیں کرتے۔ (المومن : ٦٧) عبس
18 عبس
19 عبس
20 عبس
21 عبس
22 عبس
23 عبس
24 فہم القرآن ربط کلام : انسان کی خوراک سے قیامت کا ثبوت۔ اس سے پہلے انسان کو اس کی تخلیق کے مختلف مراحل کا ذکر فرما کر قیامت کے دن اٹھائے جانے کا ثبوت مہیا فرمایا۔ اب انسان کو اس کی خوراک کے حوالے سے سمجھایا جارہا ہے کہ اے انسان! تجھے اپنے کھانے پینے پر غور کرنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ تیری خوراک کا کس طرح بندوبست کرتا ہے ؟ ارشاد ہوا کہ یقیناً ہم نے آسمان سے پانی برسایا اور ہم نے زمین کو پھاڑا، پھر ہم نے اس میں اناج اگایا، اناج میں انگور، سبزیاں، زیتون، کھجوریں، گنجان اور لہلاتے ہوئے باغ، ہر قسم کے پھل اور چارہ پیدا کیا، انہیں تمہارے اور تمہارے جانوروں کے فائدے کے لیے پیدا فرمایا ہے۔ انسان کو اس کی اور چوپاؤں کی خور اک کا حوالہ دے کر یہ بات سمجھائی ہے کہ اے قیامت کا انکار کرنے والو! دیکھو اور غور کرو! کہ زمین میں پڑے ہوئے دانے کو اس سے کون نکالتا ہے ؟ اللہ تعالیٰ کے سوا اس دانے کو کوئی نکالنے اور اگانے والا نہیں ہے۔ وہی آسمان سے بارش نازل کرتا ہے، اس کے سوا کوئی بارش نازل نہیں کرسکتا۔ بارش کی وجہ سے زمین میں نم پیدا ہوا اور اس نَم کی وجہ سے زمین میں پڑا ہوا بیج پھول پڑا اور ہر دانہ اپنی اصلیت کی بنیاد پر زمین سے شگوفے یا تنے کی شکل میں نکل پڑتا ہے ان میں انگور، سبزیاں، زیتون، کھجوریں اور مختلف قسم کے باغات ہیں، ان میں کچھ درخت اور پودے پھل دار ہوتے ہیں اور کچھ چارے کے کام آتے ہیں۔ دانے کے زمین سے نکلنے اوراُگنے کے اصول کی بنیاد پر ہی انسان کی زندگی کو قیاس کرنا چاہیے۔ فرق صرف یہ ہے کہ دانہ زمین میں پرورش پاتا اور نکلتا ہے اور انسان رحم مادر میں پرورش پاتا اور اپنی ماں کے پیٹ سے نکلتا ہے تخلیق کا عمل تو ایک جیسا ہے۔ فرق یہ ہے کہ جاندار چیزوں کے علاوہ ہر چیز مٹی کے ساتھ بالآخر مٹی ہوجاتی ہے لیکن ہر جاندار کو قیامت کے دن اٹھایا جانا ہے پھر جانداروں کے درمیان فرق یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جنوں اور انسانوں کو قیامت کے دن اٹھاکر اپنی بارگاہ میں پیش کرے گا اور حساب و کتاب کے بعد نیک لوگوں کو جنت میں داخل کرے گا اور مجرموں کو جہنم میں جھونک دیا جائے گا اور باقی جاندار چیزوں کا معاملہ محشر کے میدان میں نپٹا کر انہیں ختم کردیا جائے گا۔ (عَنْ اَبِی ھُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لَتُؤَدُّنَّ الْحُقُوْقَ إِلٰی أَھْلِھَا یَوْمَ الْقِیَامَۃِ‘ حَتّٰی یُقَاد للشَّاۃِ الْجَلْحَاءِ مِنَ الشَّاۃِ الْقَرْنَاءِ) (رواہ مسلم : کتاب البروالصلۃ، باب تحریم الظلم) ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تمہیں قیامت کے دن لوگوں کے حقوق ان کے مالکوں کو ادا کرنا پڑیں گے، یہاں تک کہ جس بکری کے سینگ نہیں ہیں اس کو سینگ والی بکری سے بدلہ دلایا جائے گا۔“ مسائل ١۔ انسان اپنے کھانے پر غور کرے تو اپنے رب کو پہچان جائے گا اور قیامت پر یقین کر جائے گا۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ ہی زمین سے پانی کے ذریعے بیج نکالتا ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ ہی چوپاؤں کے لیے چارہ پیدا کرنے والاہے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کے لیے مختلف قسم کے پھل، سبزیاں اور اناج پیدا کیا ہے۔ تفسیربالقرآن قرآن مجید میں پھلوں اور سبزیوں کا ذکر : ١۔ اے ہمارے پروردگار میں نے اپنی اولاد کو بے آب و گیاہ وادی میں تیرے حرمت والے گھر کے قریب ٹھہرایا ہے تاکہ وہ نماز قائم کریں لوگوں کے دل ان کی طرف مائل فرما دے اور انھیں پھلوں کا رزق عطا فرما۔ (ابراہیم : ٣٧) ٢۔ ” اللہ“ نے پانی کے ذریعے پھلوں سے رزق عطا فرمایا : (البقرۃ: ٢٢) ٣۔ اللہ تعالیٰ نے آسمان سے برکت والا پانی نازل فرما کر اس کے ذریعے بہت سے باغات سرسبز وشاداب کر دئیے۔ ( ق : ٩) ٤۔ ” اللہ“ نے آسمان سے پانی اتارا اور اس سے مختلف انواع کے پھل پیدا فرمائے۔ (فاطر : ٢٧) ٥۔ ” اللہ“ پانی سے تمہارے لیے کھیتی، زیتون، کھجور اور انگور اگاتا ہے۔ (النحل : ١١) ٦۔ ” اللہ“ نے کھجوروں اور انگوروں کے باغات پیدا کیے۔ (المومنون : ١٩، یٰس : ٣٤) ٧۔ ” اللہ“ نے پانی سے ہر قسم کی نباتات کو پیدا کیا۔ (الانعام : ٩٩) ٨۔ ” اللہ“ نے باغات، کھجور کے درخت اور کھیتی پیدا کی جوذائقہ کے لحاظ سے مختلف ہیں۔ (الانعام : ١٤١) عبس
25 عبس
26 عبس
27 عبس
28 عبس
29 عبس
30 عبس
31 عبس
32 عبس
33 فہم القرآن ربط کلام : اس سے پہلے انسان کو اس کی تخلیق اور اس کی خوراک کا حوالہ دے کر اس کا قیامت کے دن زندہ ہونا ثابت کیا اور اب محشر کے دن دوسرے نفخہ کے بعد لوگوں کی حالت بیان کی جاتی ہے۔ سورت النّازعات کی آیت ٣٤ میں قیامت کو ایک بڑی آفت قرار دیا گیا ہے قیامت کے بنیادی طور پر دو مرحلے ہوں گے۔ پہلے مرحلے میں ہر چیز تباہ کردی جائے گی اور اس کے بعد نامعلوم کتنے عرصے کے بعد قیامت کا دوسرا مرحلہ شروع ہوگا۔ دوسرے مرحلہ کی ابتدابھی اسرافیل کے صور پھونکنے پر ہوگی جس سے ایک مرتبہ پھر پوری زمین ہل جائے گی اور لوگ اپنے اپنے مدفن سے نکل کر محشر کے میدان میں اکٹھے ہوجائیں گے جس کی تفصیل قرآن مجید اور حدیث کی کتب میں موجود ہے۔ جب لوگ محشر کے میدان میں جمع ہوں گے تو انہیں ان کے اعمال نامے دیئے جائیں گے۔ جن کے اعمال نامے دائیں ہاتھ میں دیئے جائیں گے ان کے چہرے مسکرائیں گے اور تابناک ہوں گے، جن کو ان کے اعمال نامے بائیں ہاتھ میں دیئے جائیں گے ان کے چہرے گرد آلود ہوں گے اور ان پر سیاہی اور ذلّت پھیل جائے گی یہ کافر اور برے لوگ ہوں گے جونہی برے لوگوں کو ان کے اعمال نامے دیئے جائیں گے تو وہ اپنے اعمال ناموں پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے اپنے ہاتھ کاٹیں گے اور اس خواہش کا اظہار کریں گے کہ کاش! آج ہمارے بدلے کسی دوسرے کو پکڑ لیا جائے اس دن بھائی اپنے بھائی، اپنی ماں اپنے باپ، اپنی بیوی اور اپنی اولاد سے بھاگ جائے گا۔ اس دن ہر شخص اپنی ہی فکر میں پریشان ہوگا، کوئی بھی کافر، مشرک اور مجرم ایک دوسرے کی مدد کرنے کے لیے تیار نہیں ہوگا کیونکہ اس دن کوئی کسی کابوجھ نہیں اٹھائے گا۔ (الاعراف : ١٦٥) ” سیدہ عائشہ (رض) ایک دن جہنم کو یاد کر کے رورہی تھی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا اے عائشہ! تجھے کس چیز نے رلایا ہے سیدہ عائشہ نے کہا جہنم کی آگ یاد آئی تو میں رو پڑی کیا قیامت کے دن آپ اپنے اہل وعیال کو یاد رکھ پائیں گے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تین مواقع ایسے ہیں جن میں کوئی کسی کو یاد نہیں کرے گا۔1 اعمال تولے جانے کے وقت جب تلک یہ نہ پتہ چل جائے کہ اس کا نیکیوں والا پلڑا بھاری ہوا یا ہلکا۔2 نامہ اعمال دئیے جانے کے وقت جب کہنے والا کہے گا آؤ میرے نامہ اعمال کو پڑھ کر دیکھو حتٰی کہ اسے علم ہوجائے کہ اس کو نامہ اعمال دائیں ہاتھ میں دیا جا رہا ہے یا پیٹھ کے پیچھے سے بائیں ہاتھ میں 3۔ جب جہنم کے اوپر پل صراط کو رکھا جائے گا۔ (رواہ ابوداؤد : باب فی ذکر المیزان) مسائل ١۔ قیامت کے دوسرے مرحلے پر بھی ہر چیز ہل کررہ جائے گی۔ ٢۔ قیامت کے دن ہر شخص اپنے بارے میں ہی فکر مند ہوگا۔ ٣۔ قیامت کے دن کچھ لوگوں کے چہرے روشن اور مسکراتے ہوئے ہوں گے۔ ٤۔ قیامت کے دن جہنمیوں کے چہرے غبار آلود اور سیاہ ترین ہوں گے۔ ٥۔ قیامت کے دن آدمی اپنے بھائی، اپنی ماں، اپنے باپ، اپنی بیوی اور اپنی اولاد سے بھاگ جائے گا۔ تفسیر بالقرآن قیامت کے دن کوئی بھی کافر، مشرک اور مجرم کا ساتھ نہیں دے گا : ١۔ قیامت کے دن کوئی دوست کسی کے کام نہیں آئے گا۔ ( البقرۃ: ٢٥٤) ٢۔ قیامت کے دن کوئی رشتہ دار کسی کو فائدہ نہیں دے گا۔ ( عبس : ٣٤ تا ٣٦) ٣۔ قیامت کے دن کوئی دوست کسی دوست کے کام نہیں آئے گا۔ (الدخان : ٤١) ٤۔ قیامت کے دن کوئی کسی کو فائدہ نہیں دے سکے گا۔ (الانفطار : ١٩) ٥۔ قیامت کے دن دوستی اور سفارش کام نہ آئے گی۔ (ابراہیم : ٣١) ٦۔ قیامت کے دن سفارشی کسی کو فائدہ یا نقصان نہیں دیں گے۔ (یونس : ١٨) عبس
34 عبس
35 عبس
36 عبس
37 عبس
38 عبس
39 عبس
40 عبس
41 عبس
42 عبس
0 سورۃ التکورکا تعارف یہ سورت مکہ میں نازل ہوئی اس کی انتیس آیات ہیں۔ جو ایک رکوع کا احاطہ کیے ہوئے ہیں اس کا نام اس کی پہلی آیت میں موجود ہے اس میں قیامت کے ابتدائی اور آخری مراحل کا ذکر کیا گیا ہے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے رات اور ستاروں کی قسم کھا کر یہ بات واضح فرمائی ہے کہ قرآن مجید کسی جن اور شیطان کا کلام نہیں یہ تو اللہ تعالیٰ کا کلام ہے جسے ملائکہ کے سردار اور نہایت ہی معزز فرشتہ جبرئیل امین نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے پڑھتا ہے جسے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے روشن افق پر دیکھا ہے اس کے کلام اللہ ہونے میں کوئی شک نہیں یہ ہر اس شخص کے لیے نصیحت ہے جو صراط مستقیم پر چلنا چاہتا ہے اس پر چلنے کی اسے توفیق ملتی ہے جسے اللہ تعالیٰ پسند فرماتا ہے کیونکہ وہی کچھ ہوتا ہے جو اللہ تعالیٰ کرنا چاہتا ہے۔ التكوير
1 فہم القرآن ربط سورت : سورت عبس کا اختتام اس بات پر کیا گیا کہ جو لوگ قیامت کا انکار کرتے ہیں ان کے چہروں پر ذلّت اور سیاہی چھائی ہوگی۔ التکویر میں قیامت کے ابتدائی مراحل ذکر فرما کر بتلایا ہے کہ انسان نے دنیا میں رہ کر جو کچھ کیا ہوگا وہ قیامت کے دن اس کے سامنے پیش کردیا جائے گا۔ اس حالت میں کہ اس کے ایک طرف جہنم دھک رہی ہوگی اور دوسری طرف جنت مہک رہی ہوگی۔ اس سورۃ کی ابتدا میں قیامت کے پہلے ہولناک مرحلہ کا منظر پیش کیا گیا ہے اسرافیل جونہی پہلی صور پھونکے گا تو زمین و آسمانوں میں ہلچل مچ جائے گی۔ ہر جاندار موت کے گھاٹ اتر جائے گا یہاں تک کہ سورج اپنی روشنی اور حرارت کھو بیٹھے گا۔ جس کے لیے ” کُوِّ رَتْ“ کا لفظ استعمال فرمایا ہے۔ ” کُوِّ رَتْ“ کا لفظ تکویر سے نکلا ہے۔ عربی زبان میں یہ لفظ کسی چیز کے لپیٹنے کے معنٰی میں استعمال ہوتا ہے۔ اس لیے عرب ” تکویر العمامہ“ کا لفظ استعمال کرتے ہیں یعنی دستار کو سر پر لپیٹنا۔ سورج کے لیے یہ لفظ اس لیے استعمال کیا گیا ہے کہ سورج کی روشنی اس کے چار سو پھیلی ہوتی ہے یہ روشنی قیامت کے دن سمٹ کر بالآخر ختم ہوجائے گی۔ اس مناسبت سے فرمایا ہے کہ جب سورج لپیٹ دیا جائے گا۔ آج سورج ایک کُرّہ کی شکل میں موجود ہے اسے بے نور کرنے کے ساتھ سکیڑ دیا جائے گا۔ شمسی نظام میں چاند، ستارے اور سورج آپس میں کسی نہ کسی لحاظ سے منسلک ہیں، جب سورج، چاند اور ستاروں کا آپس میں اتصال ختم ہوجائے گا تو چاند، ستارے اور سورج بھی بے نور ہو کر گر پڑیں گے۔ صور پھونکنے کی وجہ سے زمین میں انتہادرجے کے زلزلے ہوں گے جن سے پہاڑوں کی جڑیں کھوکھلی ہوجائیں گی اور یہ ٹکڑے ٹکڑے ہو کر گر پڑیں گے اور بالآخر ریت کے ذرّات بن کر اڑنے لگیں گے، چوپاؤں اور وحشی جانوروں کی کیفیت یہ ہوگی کہ جس شیر اور بھیڑیے کا کام پھاڑ ڈالنا ہے وہ قیامت کی وحشت کی وجہ سے اس قدر گھبرائے ہوئے ہوں گے کہ کسی پر پنجہ اٹھانے کی سکت نہیں پائیں گے، یہاں تک کہ سانپ اور بچھو بھی کسی کو کاٹ نہیں سکیں گے۔ اس حالت میں جنگل کے جانور ایک دوسرے کے ساتھ سمٹے اور سہمے ہوئے ہوں گے۔ دس ماہ کی حاملہ اونٹنی بھی اپنا حمل گر ادے گی اور مدہوش پھرے گی کوئی اس کا والی وارث نہیں ہوگا۔ حاملہ اونٹنی کا ذکر فرما کر بات ثابت کی ہے کہ لوگ اپنی عزیز سے عزیز تر چیزکو بھی بھول جائیں گے۔ یاد رہے کہ نزول قرآن کے وقت عربوں کے ہاں دس ماہ کی حاملہ اونٹنی کی بڑی قدروقیمت تھی۔ اس سے ان کے مال میں اضافہ ہوتا تھا، وہ اس اونٹنی کا دودھ پیتے اور اسے سواری کے لیے استعمال کرتے تھے، اس بنا پر عرب اس اونٹنی کا دوسرے جانوروں سے زیادہ خیال رکھتے تھے۔ قیامت کی وحشت کی وجہ سے اونٹوں کے چرواہے حاملہ اونٹنی سے بھی بے پرواہ ہوں گے۔ قیامت کی وحشت سے صرف زمین و آسمانوں میں ہلچل نہیں مچے گی بلکہ سمندر کا پانی بھی آگ بن کر بھڑکنے لگے گا۔ سائنس نے یہ بات ثابت کردی ہے کہ پانی دو گیسوں پر مشتمل ہوتا ہے آکسیجن اور ہائیڈروجن۔ آکسیجن کا کام آگ کو بجھانا اور ہائیڈروجن آگ کو تیز کرتی ہے، اس دن سمندر کا پنی ہائیڈروجن بن کر آگ کی شکل اختیار کرجائے گا۔ (عَنْ اَبِیْ سَلْمَۃَ (رض) حَدَّثَنَا أَبُوْ ہُرَیْرَۃَ (رض) عَنْ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ إِنَّ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ یُکَوِّرَانِ فِیْ النَّارِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ قَالَ فَقَالَ الْحَسَنُ مَا ذَنْبَہُمَا ؟ فَقَالَ إِنِّیْ أُحَدِّثُکَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ فَسَکَتَ الْحَسَنُ) (الابانۃ الکبریٰ لابن بطۃ : باب ذکر ما جاءت بہ السنۃ من طاعۃ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ” حضرت ابو سلمہ (رض) فرماتے ہیں کہ ہمیں ابوہریرہ (رض) نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کیا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا قیامت کے دن سورج اور چاند کو اکٹھا جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔ حضرت حسن (رض) نے پوچھا ان کا جرم کیا ہے ؟ انہوں نے جواب دیا میں تمہیں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حدیث سنا رہا ہوں ان کی یہ بات سن کر حضرت حسن (رض) خاموش ہوگئے۔“ مسائل ١۔ قیامت کے دن اللہ کے حکم سے ہر چیز تباہ کردی جائے گی۔ ٢۔ قیامت کے دن پہاڑوں کو روئی کی شکل میں اڑا دیا جائے گا۔ التكوير
2 التكوير
3 التكوير
4 التكوير
5 التكوير
6 التكوير
7 فہم القرآن ربط کلام : قیامت کے دوسرے مرحلے کی ابتدا۔ ہر شخص اس حقیقت کو جانتا ہے کہ جب انسان کی روح اس کے قفس عنصری سے نکل جاتی ہے تو انسان کا جسم کسی قسم کی تکلیف محسوس نہیں کرتا، جب جسم میں روح ہوتی ہے تو انسان کا نٹا چبھنے سے بھی تڑپ اٹھتا ہے۔ روح نکل جانے کے بعد انبیاء کرام (علیہ السلام) کے اجسام کے سوا ہر انسان کے جسم کو مٹی کھا جاتی ہے اِلّا یہ کہ جس کے جسم کو اللہ تعالیٰ سلامت رکھے۔ عالم برزخ میں صرف روح کو ہی اذّیت یا راحت پہنچتی ہے۔ جونہی اسرافیل دوسری مرتبہ صور پھونکے گا تو اللہ کے حکم سے ہر انسان کا جسم اپنی حالت میں آجائے گا اور اس میں روح ڈال دی جائے گی۔ جسے یوں بیان کیا ہے کہ جب جسموں کے ساتھ ان کی روحیں جوڑ دی جائیں گی۔ بعض مفسرین نے اس کا مفہوم یہ بھی لیا ہے کہ لوگوں کو ان کے اعمال کی مناسبت سے اکٹھا کردیا جائے گا یعنی چور اور ڈاکو الگ الگ کردیئے جائیں گے، بدکار اور شرابیوں کو الگ الگ کردیا جائے گا، مشرک آپس میں اکٹھے ہوں گے اور کفار کو الگ جمع کردیا جائے گا۔ لیکن قرآن مجید کے الفاظ سے پہلا مفہوم زیادہ مناسبت رکھتا ہے۔ جونہی لوگوں کا محشر کے میدان میں حساب و کتاب شروع ہوگا تو رب ذوالجلال کی بارگاہ میں ان معصوم بچیوں کو پیش کیا جائے گا جنہیں لڑکی ہونے کی وجہ سے قتل کردیا گیا تھا۔ جن ماں باپ اور لوگوں نے بچیوں کو قتل کیا ہوگا، رب ذوالجلال انہیں مخاطب کرنے کی بجائے ان لڑکیوں اور ننھی منھی بچیوں کو مخاطب فرمائیں گے کہ تمہیں کیوں قتل کیا گیا تھا؟ وہ عرض کرے گی کہ اے ” رب“ میرے ماں باپ نے مجھے بیٹی ہونے کی بنا پر قتل کیا تھا۔ عربوں میں کچھ قبائل قبل از اسلام اپنی بیٹیوں کو درج ذیل وجوہات کی بنا پر قتل کرتے تھے۔ ١۔ جنگ کے دوران انہیں لڑکیوں کی حفاظت کرنا پڑتی تھی۔ ٢۔ کچھ قبائل دوسرے کو اپنا داماد بنانے میں عار سمجھتے تھے۔ ٣۔ خوردونوش اور دیگر اخراجات کے حوالے سے بیٹوں کے مقابلے میں بیٹیوں کو بوجھ تصور کرتے تھے۔ مندرجہ بالا وجوہات کی بنا پر عرب کے کچھ قبائل اپنی بیٹیوں کو زندہ درگور کردیتے تھے۔ (أَخْبَرَنَا الْوَلِیدُ بْنُ النَّضْرِ الرَّمْلِیُّ عَنْ مَسَرَّۃَ بْنِ مَعْبَدٍ مِنْ بَنِی الْحَارِثِ ابْنِ أَبِی الْحَرَامِ مِنْ لَخْمٍ، عَنِ الْوَضِینِ أَنَّ رَجُلاً أَتَی النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَقَالَ یَا رَسُول اللّٰہِ إِنَّا کُنَّا أَہْلَ جَاہِلِیَّۃٍ وَعِبَادَۃِ أَوْثَانٍ فَکُنَّا نَقْتُلُ الأَوْلاَدَ وَکَانَتْ عِنْدِی بِنْتٌ لِی فَلَمَّا أَجَابَتْ وَکَانَتْ مَسْرُورَۃً بِدُعَاءِی إِذَا دَعَوْتُہَا فَدَعَوْتُہَا یَوْمًا فَاتَّبَعَتْنِی فَمَرَرْتُ حَتَّی أَتَیْتُ بِءْرًا مِنْ أَہْلِی غَیْرَ بَعِیدٍ فَأَخَذْتُ بِیَدِہَا فَرَدَّیْتُ بِہَا فِی الْبِءْرِ وَکَانَ آخِرَ عَہْدِی بِہَا أَنْ تَقُولَ یَا أَبَتَاہُ یَا أَبَتَاہُ فَبَکَی رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حَتَّی وَکَفَ دَمْعُ عَیْنَیْہِ فَقَالَ لَہُ رَجُلٌ مِنْ جُلَسَاءِ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) أَحْزَنْتَ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَقَالَ لَہُ کُفَّ فَإِنَّہُ یَسْأَلُ عَمَّا أَہَمَّہُ، ثُمَّ قَالَ لَہُ أَعِدْ عَلَیَّ حَدِیثَکَ فَأَعَادَہُ فَبَکَی حَتَّی وَکَفَ الدَّمْعُ مِنْ عَیْنَیْہِ عَلَی لِحْیَتِہِ، ثُمَّ قَالَ لَہُ إِنَّ اللَّہَ قَدْ وَضَعَ عَنِ الْجَاہِلِیَّۃِ مَا عَمِلُوا فاسْتَأْنِفْ عَمَلَکَ) (رواہ الدارمی : باب ما کان علیہ الناس قبل مبعث النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) من الجہل والضلالۃ) ” ولید بن نضر رملی کہتے ہیں کہ ہمیں سبرہ بن معبد یہ واقعہ وضین سے بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آکر جاہلیت کے دور کا اپنا واقعہ بیان کیا۔ کہا اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ہم دور جاہلیت میں بتوں کی پوجا کرتے اور اپنی اولادوں کو قتل کرتے تھے۔ میری ایک بیٹی تھی جو مجھ سے بہت پیار کرتی تھی، جب بھی میں اسے بلاتا تو وہ میرے پاس دوڑتی ہوئی آتی۔ ایک دن میں نے اس کو بلایا اور اپنے ساتھ لے کر چل پڑا میں اپنے گھر سے تھوڑے فاصلے پر ایک کنواں کے قریب ہوا، میں نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے کنویں میں دھکا دے دیا۔ اس کی آخری آواز میرے کانوں میں پڑی وہ یہ تھی ہائے ابّا ! ہائے ابّا! یہ سن کر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اتنا روئے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آنسو بہنے لگے۔ آپ کے پاس بیٹھے ہوئے میں سے ایک نے کہا تو نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو غمگین کردیا۔ آپ نے فرمایا اسے منع نہ کرو! جس بات نے اسے بے قرار کر رکھا ہے اس کے بارے میں اسے پوچھنے دو۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اپنا واقعہ دوبارہ بیان کرو! اس نے دوبارہ بیان کیا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سن کر اس قدر روئے کہ آپ کی داڑھی آنسوؤں سے تر ہوگئی۔ اس کے بعد آپ نے فرمایا کہ جاہلیت میں جو کچھ ہوگیا اللہ تعالیٰ نے اسے معاف کردیا لہٰذا اب نئے سرے سے اپنی زندگی کا آغاز کرو۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ایک فرمان سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ قیامت کے دن حقوق العباد کے مقدامات میں سب سے پہلے قتل کے فیصلے کیے جائیں گے۔ اس آیت کی روشنی میں یہ بات اخذ کرنے کی گنجائش موجود ہے کہ قتل کے مقدمات میں سب سے پہلے فیصلے ان بچیوں کے ہوں گے جنہیں لڑکی ہونے کی وجہ سے قتل کیا گیا تھا۔ (عَنْ عَبْدِاللّٰہِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) أَوَّلُ مَا ےُقْضٰی بَےْنَ النَّاسِ ےَوْمَ الْقِےٰمَۃِ فِی الدِّمَاءِ) (رواہ البخاری : کتاب الدیات) ” حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : قیامت کے دن سب سے پہلے لوگوں کے درمیان قتل کا فیصلہ ہوگا۔“ ” اور اپنی اولاد کو مفلسی کے ڈر سے قتل نہ کرو، ہم ہی انھیں اور تمھیں رزق دیتے ہیں بے شک ان کو قتل کرنا بہت بڑا گناہ ہے۔“ (بنی اسرائیل : ٣١) (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ (رض) قَالَ سَأَلْتُ أَوْ سُءِلَ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) أَیُّ الذَّنْبِ عِنْدَ اللّٰہِ أَکْبَرُ قَالَ أَنْ تَجْعَلَ لِلّٰہِ نِدًّا وَہْوَ خَلَقَکَ قُلْتُ ثُمَّ أَیٌّ قَالَ ثُمَّ أَنْ تَقْتُلَ وَلَدَکَ خَشْیَۃَ أَنْ یَطْعَمَ مَعَکَ قُلْتُ ثُمَّ أَیٌّ قَالَ أَنْ تُزَانِیَ بِحَلِیلَۃِ جَارِکَ) (رواہ البخاری : باب قولہ الذین لایدعون مع اللہ۔۔) ” حضرت عبداللہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا گیا کہ کونسا گناہ اللہ کے نزدیک سب سے بڑا ہے ؟ آپ نے فرمایا کہ تو اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرائے حالانکہ اس نے تجھے پیدا کیا ہے۔ میں نے پھر سوال کیا اس کے بعد ؟ آپ نے فرمایا کہ اپنی اولاد کو اس ڈر سے قتل کرے کہ وہ تیرے ساتھ کھائے گی۔ میں نے پھر عرض کی اس کے بعد کونسا گناہ بڑا ہے ؟ آپ نے فرمایا کہ تو اپنے پڑوسی کی بیوی کے ساتھ زنا کرے۔“ ” حضرت ابوہریرہ (رض) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : سات ہلاک کرنے والے گناہوں سے بچو صحابہ کرام (رض) نے عرض کی اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! وہ کون سے گناہ ہیں؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرنا، جادو کرنا، ناحق کسی جان کو قتل کرنا، سود کھانا، یتیم کا مال کھانا، میدان جنگ سے پیٹھ پھیر کر بھاگنا اور پاکدامن، مومن، بے خبر عورتوں پر تہمت لگانا۔“ (رواہ البخاری : باب قول اللہ تعالیٰ إن الذین یأکلون أموال الیتامی ظلما) مسائل ١۔ قیامت کے دن ہر روح کو اس کے جسم میں داخل کردیا جائے گا۔ ٢۔ بیٹیوں کو قتل کرنا نہایت ہی سنگین جرم ہے۔ ٣۔ قیامت کے دن زندہ درگور کی گئی بچی سے اس کے قاتل کو پوچھا جائے گا۔ تفسیربالقرآن قتل کرنے کا گناہ : ١۔ جس جان کو اللہ نے تحفظ دیا ہے اسے ناحق قتل نہیں کرنا چاہیے۔ (بنی اسرائیل : ٣٣) ٢۔ جس نے کسی کو بغیر حق کے قتل کردیا گویا کہ اس نے تمام لوگوں کو قتل کردیا۔ (المائدۃ: ٣٢) ٣۔ قابیل نے اپنے بھائی کو قتل کیا اور وہ خسارہ پانے والا ہوا۔ (المائدۃ: ٣٠) ٤۔ جو کسی مومن کو جان بوجھ کر قتل کرتا ہے اس کا ٹھکانہ جہنم ہے۔ (النساء : ٩٣) ٥۔ کسی کو ناحق قتل نہ کرو۔ (الانعام : ١٥١) التكوير
8 التكوير
9 التكوير
10 فہم القرآن ربط کلام : قیامت کا بیان جاری ہے بتلایا ہے کہ اس دن لوگوں کے حساب و کتاب کا آغازکس طرح ہوگا۔ قیامت کے دن زمین و آسمان بدل دئیے جائیں گے۔ (ابراہیم : ٤٨) اور لوگ محشر کے میدان میں جمع کردیئے جائیں گے۔ ملائکہ قطار اندر قطار کھڑے ہوں گے جن میں جبریل امین سب سے نمایاں ہوں گے۔ عدالت کبریٰ کے انتظامات مکمل ہونے کے ساتھ ہی ایک طرف لوگوں کے سامنے بھڑکتی ہوئی جہنم لائی جائے گی اور دوسری طرف جنت کو لایا جائے گا۔ اس کے بعد رب ذوالجلال جلوہ گر ہوں گے اور کچھ مدت کے بعد لوگوں کے اعمال نامے ان کے سامنے رکھ دیئے جائیں گے، ہر شخص اپنا اعمال نامہ کھول کر پڑھے گا جس سے اسے معلوم ہوجائے گا کہ وہ اپنے لیے آج کے دن کے لیے کیا لایا ہے۔ جن کے اعمال بہتر ہوں گے وہ دوسروں کو اپنا اعمال نامہ پڑھنے کی دعوت دیں گے اور جن کے اعمال برے ہوں گے وہ کہیں گے کہ ہائے افسوس! اس اعمال نامے میں ہماری چھوٹی بڑی بات کو درج کردیا گیا ہے۔ (الکہف : ٤٩) ان کی خواہش ہوگی کہ وہ مر کر مٹی ہوجائیں گے لیکن ایسا ہرگز نہیں ہوگا۔ (النبا : ٤٠) مسائل ١۔ قیامت کے دن آسمان کا پردہ ہٹا دیا جائے گا۔ ٢۔ بھڑکتی ہوئی جہنم کو لوگوں کے سامنے لاکھڑا کیا جائے گا اور جنت بھی لائی جائے گی۔ ٣۔ لوگوں کے اعمال نامے ان کے سامنے رکھ دئیے جائیں گے، ہر شخص کو اپنے کیے کا پتہ چل جائے گا۔ التكوير
11 التكوير
12 التكوير
13 التكوير
14 التكوير
15 فہم القرآن ربط کلام : قرآن مجید کی دعوت کا تیسرا مضمون قیامت ہے جو ہر صورت قائم ہو کر رہے گی۔ اہل مکہ نہ صرف قیامت کا انکار کرتے تھے بلکہ اس وجہ سے قرآن مجید کو ماننے کے لیے تیار نہیں تھے کہ یہ ” اللہ“ کی کتاب ہے۔ اس لیے یہاں ایک مرتبہ پھر وضاحت کی جا رہی ہے کہ قرآن مجید اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کیا گیا ہے۔ یہ بات کئی مرتبہ عرض ہوچکی ہے کہ قرآن مجید کے بنیادی مضامین تین ہیں۔ توحید، رسالت اور آخرت۔ باقی مسائل انہیں کی تفصیل اور تقاضے ہیں۔ قرآن مجید ان عقائد پر بار بار زور دیتا ہے کیونکہ مکہ کے لوگ کسی نہ کسی انداز میں ان تینوں باتوں کا انکار کرتے تھے جس بنا پر ان کی کوشش تھی کہ لوگوں کی نظروں میں قرآن مجید کو ہی مشکوک بنا دیا جائے۔ اس لیے کبھی نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کاہن اور دیوانہ کہتے اور کبھی قرآن مجید کے بارے میں ہرزہ سرائی کرتے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نہیں بلکہ شیطانی اور شاعرانہ خیالات کا مجموعہ ہے۔ قرآن مجید نے ان کے الزامات کا ہر موقع پر مدلل اور مؤثر جواب دیا لیکن پھر بھی وہ پراپیگنڈہ کرنے میں مصروف رہتے تھے۔ اس موقع پر ان کی ہرزہ سرائی کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے چار قسمیں اٹھائی ہیں۔ میں قسم کھاتا ہوں پلٹنے اور چھپ جانے والے ستاروں کی، میں قسم کھاتاہوں رات کی جب وہ رخصت ہوتی ہے اور میں قسم کھاتا ہوں صبح کی جب وہ نمودار ہوتی ہے۔ قسمیں کھانے کا مقصد یہ ہے کہ جس طرح یہ باتیں حقیقت ہیں اسی طرح قرآن بھی ایک حقیقت ہے یہ ایک معززفرشتے کا کلام ہے جو بڑی ہی طاقت والاہے جو عرش والے یعنی اللہ تعالیٰ کے ہاں بلند مرتبہ ہے۔ اس کا فرشتوں میں حکم مانا جاتا ہے اور وہ بڑا امانت دار ہے۔ اس کے رب کی طرف سے جو اسے حکم صادر ہوتا ہے وہ جوں کا توں آگے پہنچا دیتا ہے۔ اے مکہ والو! تمہارا ساتھی حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دیوانہ نہیں ہے۔ اس نے پیغام پہنچانے والے ملائکہ کے سردار جبرائیل (علیہ السلام) کو روشن افق پر دیکھا ہے۔ رسول پرجو غائب کی باتیں نازل کی جاتی ہیں انہیں پہنچانے میں بخل اور کمزوری سے کام نہیں لیتا بعض مفسرین نے رسول سے مراد جبریل امین لیے ہیں۔ قرآن مجید کے الفاظ میں دونوں معنوں کی گنجائش موجود ہے۔ قرآن مجید رب العالمین کی طرف سے اتارا گیا ہے۔ اس میں شیطان کا کسی لحاظ سے رائی برابر عمل دخل نہیں یہ ہر اس شخص کے لیے نصیحت ہے جو صراط مستقیم پر چلنا چاہتا ہے۔ یادرکھو! تمہاری چاہت اور مخالفت کی بنا پر کچھ نہیں ہوسکتا، وہی ہوتا ہے جو رب العالمین چاہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں قرآن مجید کو جبریل امین کا قول قرار دیا ہے اور سورۃ الحاقہ کی آیت ٤٠ میں اسے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا قول فرمایا ہے جس کا یہ معنٰی نہیں کہ قرآن نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یا جبریل امین کا کلام ہے۔ اس کا حقیقی معنٰی یہ ہے کہ قرآن مجید کسی شاعر یا شیطان کا کلام نہیں اور نہ ہی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اپنا کلام ہے بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے جسے جبریل امین اپنی زبان سے حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے تلاوت کرتے ہیں، گویا کہ قرآن مجید صرف اور صرف رب العالمین کا کلام ہے جو نصیحت کے طور پر اتارا گیا ہے۔ اس میں کسی فرشتے، انسان اور شیطان کا کوئی عمل دخل نہیں یہ ہر اس شخص کے لیے نصیحت ہے جو صراط مستقیم پر چلنا چاہتا ہے۔ جہاں تک کفار کی مخالفت کا معاملہ ہے انہیں کان کھول کر سن لینا چاہیے کہ ان کے چاہنے اور مخالفت سے کچھ نہیں ہوگا، وہی ہوگا جو رب العالمین چاہتا ہے اس کا فیصلہ ہے۔ ” وہی اللہ ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا ہے تاکہ اس کو تمام ادیان پر غالب کر دے۔ اور اس پر اللہ کی گواہی کافی ہے۔“ (الفتح : ٢٨) ان آیات میں یہ بھی ارشاد ہوا ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جبریل امین کو روشن افق پر دیکھا ہے اور آپ غیب کے معاملہ میں بخیل نہیں ہیں اگر اس سے مراد نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں تو غیب سے مراد وہ غیب ہے جو قرآن مجید اور حدیث کی صورت میں آپ پر نازل ہوا ہے اس میں کوئی بات چھپانے کے آپ مجاز نہیں اور نہ ہی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کوئی بات چھپائی ہے۔ یقینی طور پر آپ نے ہر بات من وعن بلا خوف وخطر لوگوں تک پہنچا دی ہے اس لیے فرمایا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) غیب پر بخل کرنے والے نہیں ہیں اگر اس سے مراد جبریل ہیں تو معنی ہوگا کہ جبریل نے کسی بات میں بخل نہیں کیا اس نے ہر بات نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تک پہنچا دی جو اللہ تعالیٰ نے اسے پہچانے کا حکم دیا۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے چار قسمیں اٹھا کر ثابت کیا ہے کہ قرآن مجید صرف اور صرف اللہ کا کلام ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں جبریل امین بڑے مرتبے کے حامل فرشتے ہیں۔ ٣۔ جبریل امین امانت دار اور ملائکہ کے سردار ہیں۔ ٤۔ وہی کچھ ہوتا ہے جو اللہ رب العالمین چاہتا ہے۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ نے چار قسمیں اٹھا کر اس بات کی وضاحت فرمائی ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دیوانے نہیں ہیں۔ ٦۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید جبریل امین کے ذریعے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل فرمایا جبریل (علیہ السلام) کو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کھلی آنکھوں کے ساتھ روشن افق پر دیکھاتھا۔ ٧۔ قرآن مجید جبریل امین کے ذریعے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تک پہنچا ہے۔ ٨۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اللہ کی وحی لوگوں تک پہنچانے میں کسی قسم کا بخل اور کمزوری نہیں کی۔ ٩۔ قرآن مجید اللہ کا کلام ہے۔ اس میں کسی فرشتے انسان اور شیطان کا ذرہ بھر عمل دخل نہیں ہے۔ ١٠۔ قرآن مجید لوگوں کے لیے نصیحت ہے۔ ١١۔ کسی کے چاہنے سے کچھ نہیں ہوتاوہی ہوتا ہے جو ” اللہ“ چاہتا ہے۔ تفسیربالقرآن قرآن مجید صرف اور صرف ” اللہ“ کا کلام ہے اس میں کسی کا عمل دخل نہیں ہے : ١۔ قرآن رب العالمین کی طرف سے نازل شدہ ہے۔ (الشعراء : ١٩٢) ٢۔ قرآن مجید کسی کاہن و شاعر کا کلام نہیں ہے۔ (الحاقہ : ٤١، ٤٢) (الحجر : ٩) ٣۔ قرآن مجید شیطان کی شیطینت سے پاک ہے۔ (التکویر : ٢٥) (القدر : ١) ٤۔ اللہ قرآن مجید نازل کرنے والا حکمت والا اور تعریف کے لائق ہے۔ (حم السجدۃ: ٤٢) التكوير
16 التكوير
17 التكوير
18 التكوير
19 التكوير
20 التكوير
21 التكوير
22 التكوير
23 التكوير
24 التكوير
25 التكوير
26 التكوير
27 التكوير
28 التكوير
29 التكوير
0 سورۃ الانفطار کا تعارف اس سورت کا نام اس کی پہلی آیت کا آخری لفظ قرار پایا ہے۔ یہ مکہ معظمہ میں نازل ہوئی ایک رکوع پر مشتمل ہے جس کی انیس آیات ہیں۔ سورت التکویر کا تتمہ ہے اس میں یہ بتلایا ہے کہ جب قیامت برپا ہوگی تو ہر انسان اپنے اگلے پچھلے اعمال کو جان لے گا۔ انسان کی غفلت دور کرنے کے لیے اسے ان الفاظ میں مخاطب کیا گیا ہے کہ ” اے انسان تجھے تیرے رب کریم کے بارے میں کس چیز نے دھوکے میں ڈال دیا ہے حالانکہ اس نے تجھے پیدا کیا تیری شکل و صورت بنائی اور تجھ پر دو نگران مقرر کیے ہیں۔ وہ تیرا کیا کرایا سب کچھ تحریر کر رہے ہیں۔ جو قیامت کے دن ہر کسی کے سامنے رکھ دیا جائے گا اس دن نیک لوگ نعمتوں والی جنت میں ہوں گے اور برے لوگ جہنم میں داخل کیے جائیں گے اس دن کوئی کسی کے لیے کچھ بھی نہیں کرسکے گا اس دن سارے کے سارے اختیار اللہ تعالیٰ کے پاس ہوں گے۔ الإنفطار
1 فہم القرآن ربط سورت : سورۃ التکویر میں قیامت سے پہلے دوسرے مرحلہ کی تفصیل بیان کرتے ہوئے ارشاد ہوا کہ قیامت کے دن جنت اور جہنم لوگوں کے سامنے لائی جائیں گی اور ہر انسان جان لے گا کہ اس نے اپنے آگے کیا بھیجا ہے۔ اس کے بعد یہ بیان ہوا کہ قرآن مجید اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کیا گیا ہے جو لوگوں کے لیے نصیحت ہے۔ الانفطار کی ابتدا بھی قیامت کے پہلے اور دوسرے مرحلے کی نشاندہی سے کی گئی ہے۔ ارشاد ہوا کہ جب آسمان پھٹ جائے گا اور تارے بکھر جائیں گے اور سمندر پھاڑ دیئے جائیں گے اور قبریں کھول دی جائیں گی اس وقت ہر انسان کو اپنا اگلا پچھلا کیا ہوا سب کچھ معلوم ہوجائے گا۔ اس وقت انسان کو یاد آئے گا کہ اس نے اپنی زندگی میں کیا کیا کام کیے اور اپنے پیچھے کون سے اچھے یا برے کاموں کا تسلسل اور اثرات چھوڑ آیا تھا۔ یہاں قیامت کی ابتدا اور اس کی انتہا کے مراحل کا ذکر کیا گیا ہے۔ قیامت کا پہلا مرحلہ یہ ہوگا کہ آسمان ٹکڑے ٹکڑے ہو کر نیچے گر پڑے گا اس سے پہلے سورج لپیٹ لیا جائے گا۔ ( التکویر : ١) نظام شمسی کا آپس میں اتصال ختم ہوجائے گا جس سے ستارے تسبیح کے دانوں کی طرح نیچے گرنا شروع ہوجائیں گے، دوسری طرف زمین میں مسلسل زلزلے برپا ہوں گے جس سے سمندروں کا پانی زمین پر پھیل جائے گا جو بالآخر بھاپ بن کر ختم ہوجائے گا۔ نامعلوم کتنی مدّت تک یہ عمل جاری رہے گا اور اس کی تکمیل کے بعد کتنا عرصہ یہی حالت رہے گی۔ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا کہ دوسرا مرحلہ کب شروع ہوگا۔ اسرافیل کے دوسرا صور پھونکنے پر زمین جگہ جگہ پھٹ جائے گی، لوگ اپنی اپنی جگہ سے اٹھ کھڑے ہوں گے اور ہر کوئی میدان محشر کی طرف بھاگ رہا ہوگا، آخر کار اللہ تعالیٰ کی عدالت قائم ہوگی۔ جس میں لوگوں کے اعمال نامے ان کے دائیں یا بائیں ہاتھ میں تھما دیئے جائیں گے، ہر کوئی اپنا اعمال نامہ دیکھ کر جان جائے گا کہ اس نے اپنی زندگی میں آخرت کے لیے کیا کام کیے اور کون سے اچھے اور برے کام اپنے بعد چھوڑ آیا تھا، گویا کہ اس کے تمام اعمال کا احاطہ کرلیا جائے گا۔ جواعمال نامہ کی شکل میں اس کے سامنے ہوگا۔ (اِنَّا نَحْنُ نُحْیِ الْمَوْتٰی وَ نَکْتُبُ مَا قَدَّمُوْا وَ اٰثَارَھُمْ وَ کُلَّ شَیْءٍ اَحْصَیْنٰہُ فِیْٓ اِمَامٍ مُّبِیْنٍ) (یٰس : ١٢) ” یقیناً ہم ایک دن مردوں کو زندہ کرنے والے ہیں جو اعمال انہوں نے کیے ہیں وہ ہم لکھتے جا رہے ہیں اور انہوں نے جو کام پیچھے چھوڑے ہیں وہ بھی ہم لکھ رہے ہیں ہر بات کو ہم نے ایک کھلی کتاب میں درج کر رکھا ہے۔“ (وَ وُضِعَ الْکِتٰبُ فَتَرَی الْمُجْرِمِیْنَ مُشْفِقِیْنَ مِمَّا فِیْہِ وَ یَقُوْلُوْنَ یٰوَیْلَتَنَا مَالِ ہٰذَا الْکِتٰبِ لَا یُغَادِرُ صَغِیْرَۃً وَّ لَا کَبِیْرَۃً اِلَّآ اَحْصٰہَا وَ وَجَدُوْا مَا عَمِلُوْا حَاضِرًا وَ لَا یَظْلِمُ رَبُّکَ اَحَدًا) (الکہف : ٤٩) ” اور کتاب رکھی جائے گی آپ مجرموں کو دیکھیں گے کہ جو کچھ اس میں ہوگا اس سے ڈر رہے ہوں گے اور کہیں گے ہائے ہماری کم بختی ! کیسی کتاب ہے، اس نے نہ چھوٹی بات چھوڑی ہے اور نہ بڑی چھوڑی ہے اس نے سب کچھ شمار کر رکھا ہے انھوں نے جو کچھ کیا تھا اسے حاضر پائیں گے اور آپ کا رب کسی پر ظلم نہیں کرتا۔“ مسائل ١۔ قیامت کے دن آسمان پھٹ جائے گا۔ ٢۔ تارے مکمل طور پر بکھر جائیں گے۔ ٣۔ سمندر پھاڑ دئیے جائیں گے۔ ٤۔ قبریں کھول دی جائیں گی۔ ٥۔ انسان کے اگلے پچھلے اعمال اس کے سامنے رکھ دئیے جائیں گے۔ تفسیر بالقرآن قیامت کے دن ہر انسان اپنا اعمال نامہ دیکھ لے گا : ١۔ قیامت کے دن ہر کسی کا نامہ اعمال کھول کر اس کے سامنے رکھ دیا جائے گا۔ (بنی اسرائیل : ١٣) ٢۔ جب اعمال نامہ دیا جائے گا، تو مجرم لوگ اس میں سب کچھ لکھا ہوا پائے گا۔ (الکہف : ٤٩) ٣۔ جس کو نامہ اعمال اس کے دائیں ہاتھ میں دیا گیا، وہ اس کو پڑھے گا۔ (بنی اسرائیل : ٧١) ٤۔ جس کو نامہ اعمال دائیں ہاتھ میں دیا گیا، وہ کہے گا آؤ میرا نامہ اعمال پڑھو۔ (الحاقہ : ١٩) ٥۔ جس کو اعمال نامہ بائیں ہاتھ میں دیا جائے گا وہ کہے گا کاش کہ مجھے یہ نامہ اعمال نہ دیا جاتا۔ (الحاقہ : ٢٠) ٦۔ جس کو اعمال نامہ دائیں ہاتھ میں دیا گیا اس کا حساب آسان ہوگا۔ (الانشقاق : ٨۔ ٧) ٧۔ جس کا اعمال نامہ پیٹھ کے پیچھے سے دیا گیا وہ موت کو پکارے گا اور دوزخ میں داخل کیا جائے گا۔ (الانشقاق : ١٠ تا ١٢) الإنفطار
2 الإنفطار
3 الإنفطار
4 الإنفطار
5 الإنفطار
6 فہم القرآن ربط کلام : لوگوں تک ان کے اعمال نامے پہنچنے کے بعد ہر شخص کو رب کریم کا خطاب۔ جب تمام لوگوں کو اپنے اپنے اعمال کے مطابق ان کے دائیں یا بائیں ہاتھ میں اعمال نامے تھما دیئے جائیں گے تو پھر ایک مرحلہ ایسا آئے گا۔ جب رب کر یم پورے جلال کے ساتھ ان لوگوں کو مخاطب فرمائیں گے۔ جنہوں نے دنیا میں رہتے ہوئے اس کے فرامین سے روگردانی کی ہوگی۔ ہر مجرم یہی سمجھے گا کہ رب ذوالجلال صرف مجھے ہی مخاطب کر رہا ہے اس لیے خطاب ہوگا کہ اے مجرم انسان! تجھے اپنے کریم رب کے بارے میں کس چیز نے دھوکے میں ڈال دیا تھا۔ نہ تو نے اپنے رب کی کرم نوازیوں کا شکر ادا کیا اور نہ ہی اس کی ناراضگی سے بچنے کی کوشش کی حالانکہ اس نے تجھے پیدا کیا اور جس طرح چاہا تیری شکل و صورت بنائی اور تیرے اعضاء میں توازن پیدا کیا۔ اس کے باوجود تمہارا حال یہ ہے کہ تم قیامت کی تکذیب کرتے ہو اور یہ سمجھ بیٹھے ہو کہ تمہارا حساب و کتاب لینے والا کوئی نہیں ہوگا حالانکہ تم پر نگران مقرر کیے گئے ہیں جو بڑے معزز اور دیانتدار ہیں، وہ تمہاری تمام حرکات و سکنات کو ضبط تحریر میں لارہے ہیں جنہیں قیامت کے دن تمہارے سامنے رکھ دیا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کے جسم میں توازن پیدا فرمایا ہے۔ انسان کے جسم کا توازن بگڑ جائے تو اس کے لیے اٹھنا اور چلنا محال ہوجاتا ہے۔ جسمانی توازن کا ذکر فرما کر انسان کو سمجھایا ہے کہ تجھے بھی دنیا اور آخرت کے معاملات میں توازن قائم رکھنا چاہئے۔ (عَنْ اَبِیْ ھُرَےْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ےَتَعَاقَبُوْنَ فِےْکُمْ مَلَآءِکَۃٌ باللَّےْلِ وَمَلَآءِکَۃٌ بالنَّھَارِ وَےَجْتَمِعُوْنَ فِیْ صَلٰوۃِ الْفَجْرِ وَصَلٰوۃِ الْعَصْرِ ثُمَّ ےَعْرُجُ الَّذِےْنَ بَاتُوْا فِےْکُمْ فَےَسْأَلُھُمْ رَبُّھُمْ وَھُوَ اَعْلَمُ بِھِمْ کَےْفَ تَرَکْتُمْ عِبَادِیْ فَےَقُوْلُوْنَ تَرَکْنٰھُمْ وَھُمْ ےُصَلُّوْنَ وَاٰتَےْنٰھُمْ وَھُمْ ےُصَلُّوْنَ) (رواہ البخاری : کتاب مواقیت الصلاۃ، باب فَضْلِ صَلاَۃِ الْعَصْر) ” حضرت ابو ہریرۃ (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تمہارے پاس رات اور دن باری باری فرشتے آتے ہیں، اور وہ فجر اور عصر کی نماز میں جمع ہوتے ہیں، رات والے فرشتے چلے جاتے ہیں تو ان سے پروردگار سوال کرتا ہے کہ تم نے میرے بندوں کو کس حال میں چھوڑ اوہ جواب دیتے ہیں کہ جب ہم ان کے پاس پہنچے تو وہ نماز ادا کررہے تھے اور جب ہم ان سے واپس آئے تو وہ نماز ہی کی حالت میں تھے۔ (عَنْ عَدِیِّ بْنِ حَاتِمٍ (رض) قَالَ قَال النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَا مِنْکُمْ مِنْ أَحَدٍ إِلَّا وَسَیُکَلِّمُہُ اللّٰہُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ لَیْسَ بَیْنَ اللّٰہِ وَبَیْنَہٗ تُرْجُمَانٌ ثُمَّ یَنْظُرُ فَلَا یَرٰی شَیْءًا قُدَّامَہُ ثُمَّ یَنْظُرُ بَیْنَ یَدَیْہِ فَتَسْتَقْبِلُہُ النَّارُ فَمَنْ اسْتَطَاعَ مِنْکُمْ أَنْ یَتَّقِیَ النَّارَ وَلَوْ بِشِقِّ تَمْرَۃٍٍ۔۔ فَمَنْ لَّمْ یَجِدْ فَبِکَلِمَۃٍ طَیِّبَۃٍ) (رواہ البخاری : باب کلام الرب عزوجل یوم القیامۃ مع الأنبیاء وغیرھم) ” حضرت عدی بن حاتم (رض) بیان کرتے ہیں نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تم میں سے ہر کسی کے ساتھ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن کلام کرے گا، اللہ اور اس شخص کے درمیان کوئی ترجمان نہیں ہوگا، پھر وہ دیکھے گا اس نے کیا عمل کیے ہیں، آدمی دیکھے گا تو اسکے سامنے آگ ہوگی جو بھی تم میں سے استطاعت رکھتا ہے آگ سے بچنے کی کوشش کرے چاہے کھجور کے ایک ٹکڑے کے ساتھ۔۔ یہ نہ پائے تو وہ اچھی بات کہے۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن ہر مجرم کو براہ راست مخاطب فرمائے گا۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے ہی انسان کی شکل وصورت بنائی اور اس کے وجود کو مناسب انداز میں جوڑا۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ نے لوگوں پر نگران اور کراماً کاتبین مقرر کر رکھے ہیں۔ ٤۔ کراماً کاتبین انسان کی تمام حرکات وسکنات کو ضبط تحریر میں لاتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ نے انسان کو بہترین شکل وصورت میں پیدا فرمایا ہے : ١۔ اللہ ہی نے انسان کو بہترین شکل و صورت میں پیدا فرمایا۔ (التین : ٤) ٢۔ ” اللہ“ نے انسان کو مٹی سے پیدا کیا۔ (الروم : ٢٠) ٣۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو ایک نطفے سے پیدا کیا۔ (الدھر : ٢) ٤۔ اللہ نے ایک ہی جان سے سب انسانوں کو پیدا کیا۔ (الاعراف : ١٨٩) ٥۔ اللہ ہی پیدا کرنے والاہے اور اس کا ہی حکم چلنا چاہیے۔ (الاعراف : ٥٤) الإنفطار
7 الإنفطار
8 الإنفطار
9 الإنفطار
10 الإنفطار
11 الإنفطار
12 الإنفطار
13 فہم القرآن ربط کلام : انسان جو کچھ کرتا ہے فرشتے اسے اس کے اعمال نامے میں درج کرتے ہیں۔ خوش قسمت انسان اپنے اعمال کی بنیاد پر جنت کی نعمتوں سے لطف اندوز ہوں گے اور بدقسمت لوگ اپنے برے اعمال کرنے کی وجہ سے جہنم میں سزا پائیں گے۔ پچھلی آیات میں ذکر ہوا کہ انسان جو کچھ کرتا ہے کراماً کاتبین اسے لکھتے جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے کراماً کاتبین کو یہ صلاحیت عطا فرمائی کہ وہ نہ صرف انسان کا دن رات میں کیا ہوا ہر عمل ضبط تحریر میں لاتے ہیں بلکہ انسان جو عمل جس نیت کے ساتھ کرتا ہے اسے بھی اس کے عمل کے ساتھ درج کرلیتے ہیں۔ جس کا عقیدہ اور عمل ٹھیک ہوگا اسے جنت نعیم میں داخل کیا جائے گا اور جن کا عقیدہ اور عمل برے ہونگے انہیں جہنم میں جھونک دیا جائے گا۔ قیامت کے دن سب نے اپنے رب کے حضور اکٹھا ہونا ہے اور کوئی بھی اس سے اپنا کوئی عمل چھپا نہیں سکے گا، یہ جزا کا دن ہوگا۔ جس دن نیکیوں کا کئی گنا اضافہ کے ساتھ بدلہ دیا جائے گا اور برے لوگوں کو ان کی برائی کے برابر ہی سزا ہوگی۔ آپ کو کیا معلوم کہ یہ دن کیسا ہوگا؟ اس دن کوئی شخص کسی دوسرے کا بوجھ اٹھانے کے لیے تیار نہیں ہوگا اور صرف اللہ تعالیٰ کا حکم ہی نافذ العمل ہوگا۔ آیت ١٦ کا دوسرا مفہوم یہ ہے کہ کوئی مجرم جہنم سے بھاگ کر غائب نہیں ہو سکے گا۔ (عَنْ عَبْدُ اللَّہِ بْنُ عُمَرَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَطْوِی اللَّہُ عَزَّ وَجَلَّ السَّمَوَاتِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ ثُمَّ یَأْخُذُہُنَّ بِیَدِہِ الْیُمْنَی ثُمَّ یَقُولُ أَنَا الْمَلِکُ أَیْنَ الْجَبَّارُونَ أَیْنَ الْمُتَکَبِّرُونَ ثُمَّ یَطْوِی الأَرَضِینَ بِشِمَالِہِ ثُمَّ یَقُولُ أَنَا الْمَلِکُ أَیْنَ الْجَبَّارُونَ أَیْنَ الْمُتَکَبِّرُونَ) (رواہ مسلم : کتاب صفۃ القیامۃ والجنۃ والنار ) حضرت عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ زمینوں اور آسمانوں کو یکجا کرکے اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے فرمائیں گے کہ میں ہی بادشاہ ہوں۔ ظالم وسفاک اور نخوت وغرور رکھنے والے آج کہاں ہیں ؟ یَقُوْلُ اَنَا الْمَلِکُ اَیْنَ الْجَبَّارُوْنَ أَیْنَ الْمُتَکَبِّرُوْنَ۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے ہر انسان پر کراماً کاتبین مقرر کردیئے ہیں۔ ٢۔ انسان جو بھی عمل کرتا ہے کراماً کاتبین اسے من وعن لکھ لیتے ہیں۔ ٣۔ قیامت کا دن بڑا بھاری ہوگا۔ ٤۔ قیامت کے دن کوئی شخص بھی اپنا کوئی عمل چھپا نہیں سکے گا۔ ٥۔ قیامت کے دن کوئی کسی کا بوجھ نہیں اٹھائے گا اور اللہ کا حکم ہی نافذ العمل ہوگا۔ ٦۔ نیک لوگ نعمتوں والی جنت میں داخل ہوں گے اور برے لوگوں کو جہنم میں جھونک دیا جائے گا۔ تفسیر بالقرآن جنت کی نعمتوں کی ایک جھلک اور جہنم کی ہولناکیوں کا ایک منظر : ١۔ ہم ان کے دلوں سے کینہ نکال دیں گے اور سب ایک دوسرے کے سامنے تکیوں پر بیٹھے ہوں گے۔ انہیں کوئی تکلیف نہیں پہنچے گی اور نہ وہ اس سے نکالے جائیں گے۔ (الحجر : ٤٧۔ ٤٨) ٢۔ جس جنت کا مومنوں کے ساتھ وعدہ کیا گیا ہے۔ اس کے نیچے سے نہریں جاری ہیں اور اس کے پھل اور سائے ہمیشہ کے لیے ہوں گے۔ (الرعد : ٣٥) ٣۔ مجرم جہنم کے گرجنے برسنے کی آوازیں سنیں گے۔ (الفرقان : ١٢) ٤۔ جنت میں بے خار بیریاں، تہہ بہ تہہ کیلے، لمبا سایہ، چلتا ہوا پانی، اور کثرت سے میوے ہوں گے۔ (الواقعہ : ٢٨ تا ٣٠) ٥۔ جنت کے میوے ٹپک رہے ہوں گے۔ (الحاقہ : ٢٣) ٦۔ جہنم کا ایندھن لوگ اور پتھر ہوں گے۔ (البقرۃ: ٢٤) ٧۔ جنت میں وہ سب کچھ ہوگا جس کی جنتی خواہش کرے گا۔ (حٰم السجدۃ: ٣١) ٨۔ جہنم کی آگ بہت زیادہ تیز ہوگی۔ (التوبہ : ٨١) ٩۔ جہنم بھرنے کا نام نہیں لے گی۔ (ق : ٣٠) الإنفطار
14 الإنفطار
15 الإنفطار
16 الإنفطار
17 الإنفطار
18 الإنفطار
19 الإنفطار
0 سورۃ المطفّفین کا تعارف یہ نام اس کی پہلی آیت کا دوسرا لفظ ہے۔ مکہ معظمہ میں نازل ہوئی ایک رکوع پر مشتمل ہے جس کی چھتیس آیات ہیں۔ اس میں خائن لوگوں کی مالیاتی خیانت کا ذکر فرما کر انہیں قیامت کا خوف دلایا گیا ہے تاکہ وہ مالی خیانت اور اخلاقی گراوت سے باز آجائیں۔ ایسے لوگوں کو بتلایا ہے کہ ان کا اندراج سجّین میں کیا جاتا ہے یہ ایسی کتاب ہے اس کے ذکر سے پہلے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی اسے نہیں جانتے تھے۔ اس میں خائن، جھوٹے اور گنہگار لوگوں کا اندراج کیا جاتا ہے جنہیں جہنم میں پھینکا جائے گا۔ ان کے مقابلے میں نیک لوگوں کا اندراج کتاب علیّین میں کیا جاتا ہے اس کے بارے میں بھی اس کے نزول سے پہلے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کچھ علم نہیں تھا، یہ وہ کتاب ہے جس میں نیک لوگوں کا اندراج ہوتا ہے جنہیں جنت میں داخل کیا جائے گا وہ جنت میں تکیہ لگائے ہوئے تشریف فرما ہوں گے ان کے چہروں پر جنت کی نعمتوں کے اثرات دکھائی دیں گے اور انہیں ایسی شراب پیش کی جائے گی جس میں تسنیم کی آمیزش ہوگی، وہ ان کفار پر ہنسیں گے جو دنیا میں انہیں مذاق کیا کرتے تھے۔ المطففين
1 فہم القرآن ربط سورت : سورۃ الانفطار اس بات پر ختم ہوئی کہ قیامت کے دن نیکوں اور بروں کے درمیان فیصلہ کیا جائے گا اور اس دن پورے کا پورا اختیار صرف اللہ تعالیٰ کے پاس ہوگا۔ قیامت کو جھٹلانے والا شخص نہ صرف اپنے رب سے منہ موڑتا ہے بلکہ وہ لوگوں کے ساتھ بے مروتی بھی اختیار کرتا ہے اور اسی بے مروتی کی وجہ سے لوگوں کے حقوق مارتا ہے۔ اس لیے ” اَلْمُطَفِّفِیْنَ“ کے آغاز میں ماپ تول کے ذریعے لوگوں کے حقوق مارنے سے منع کیا گیا ہے۔ ” تطفیف“ کا معنٰی ہے ناپ تول میں کمی بیشی کرنا۔ جب انسان اخلاقی گراوٹ کا شکار ہوجائے اور اس کی حرص حد سے بڑھ جائے تو وہ کمینگی پر اتر آتا ہے۔ کسی انسان کی کمینگی اور حرص کی انتہا یہ ہے کہ وہ لیتے ہوئے ماپ تول میں زیادہ لے اور دیتے ہوئے اس میں کمی کرے یہ بدترین قسم کا معاشی استحاصل ہے اس سے نہ صرف معیشت عدم توازن کا شکار ہوتی ہے بلکہ اس سے آپس میں شدید نفرتیں پیدا ہوتی ہیں اور نفرت باہمی جنگ و جدال کا سبب بنتی ہے اس لیے حضرت شعیب (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو فرمایا تھا۔ ” اور مدین کی طرف ان کے بھائی شعیب کو بھیجا۔ اس نے کہا اے میری قوم ! اللہ کی عبادت کرو، اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں اور ماپ، تول میں کمی نہ کرو۔ بے شک میں تمہیں خوشحال دیکھتا ہوں اور بے شک میں تمہارے بارے میں ایک ہمہ گیر عذاب سے ڈرتا ہوں۔ اے میری قوم ! انصاف کے ساتھ ماپ تول پورا رکھو۔ لوگوں کو ان کی چیزیں کم نہ دو اور زمین میں دنگا و فساد نہ مچاؤ۔“ (ھود : ٨٤، ٨٥) ماپ تول میں کمی یا بیشی کرنے والا شخص عملاً قیامت کے دن کا انکاری ہوتا ہے، ایسا شخص نہ صرف آخرت میں سزا پائے گا بلکہ بالآخر دنیا میں بھی ذلیل ہوگا۔ اس لیے ارشاد ہوا کہ کیا لوگ نہیں جانتے کہ انہیں ایک بڑے دن سے واسطہ پڑے گا۔ جس دن ہر شخص کو رب العالمین کے سامنے کھڑے ہونا ہے وہاں یہ شخص اپنے رب اور لوگوں کو کیا منہ دکھائے گا۔ قیامت کے دن کو اس لیے عظیم کہا گیا ہے کیونکہ یہ دن اپنی طوالت کے لحاظ سے پچاس ہزار سال کا ہوگا، اس میں تمام جن وانس کے درمیان فیصلے کیے جائیں گے اور اس دن سب بڑی عدالت قائم ہوگی، اور یہ اپنی ہیبت کے اعتبار سے بڑا بھاری ہوگا۔ (یٰٓاَیُّہَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّکُمْ اِنَّ زَلْزَلَۃَ السَّاعَۃِ شَیْءٌ عَظِیْمٌ یَوْمَ تَرَوْنَہَا تَذْہَلُ کُلُّ مُرْضِعَۃٍ عَمَّآ اَرْضَعَتْ وَ تَضَعُ کُلُّ ذَاتِ حَمْلٍ حَمْلَہَا وَ تَرَی النَّاسَ سُکٰرٰی وَ مَا ہُمْ بِسُکٰرٰی وَ لٰکِنَّ عَذَاب اللّٰہِ شَدِیْدٌ) (الحج : ١، ٢) ” لوگو ! اپنے رب سے ڈرو حقیقت یہ ہے کہ قیامت کا زلزلہ بڑا ہولناک ہے، اس دن تم دیکھو گے کہ ہر دودھ پلانے والی اپنے دودھ پیتے بچے کو پھینک دے گی ہر حاملہ کا حمل گرجائے گا اور لوگ تمہیں مدہوش نظر آئیں گے حالانکہ وہ نشے میں نہیں ہوں گے بلکہ اللہ کا عذاب بہت سخت ہوگا۔“ (مَا طَفِفَ قَوْمُ الْمِیْزَانَ إلَّا أخَذَہُمُ اللّٰہُ بالسِّنِیْنَ) (السلسلۃ الصحیحۃ البانی : ١٠٧) ” جو بھی قوم تولنے میں کمی کرتی ہے اللہ تعالیٰ ان پر قحط سالی مسلط فرما دیتا ہے۔“ مسائل ١۔ ماپ، تول میں کمی، بیشی کرنے والے کے لیے دنیا میں تباہی اور آخرت میں جہنم ہے۔ ٢۔ ماپ، تول میں کمی بیشی کرنے والے کا قیامت پر یقین نہیں ہوتا۔ ٣۔ قیامت کا دن اپنی طوالت اور سختی کے لحاظ سے بہت بڑا ہوگا۔ ٤۔ قیامت کے دن ہر شخص کو رب العالمین کے حضور کھڑا کیا جائے گا۔ تفسیربالقرآن ماپ، تول میں کمی، بیشی کرنے کا گناہ اور اس کی سزا : ١۔ ماپ کو پورا کرو اور سیدھے ترازو سے تولو۔ (بنی اسرائیل : ٣٥) ٢۔ ماپ تول انصاف کے ساتھ کیا کرو۔ (الانعام : ١٥٢) ٣۔ ماپ تول پورا کرو اور لوگوں کو ان کی چیزیں کم نہ دو۔ (الاعراف : ٨٥) (الشعراء : ١٨٢) (ھود : ٨٥) المطففين
2 المطففين
3 المطففين
4 المطففين
5 المطففين
6 المطففين
7 فہم القرآن ربط کلام : جس دن لوگوں کو رب العالمین کے حضور پیش کیا جائے گا اس دن کے لیے مجرموں کے اعمال ناموں کا اندراج سجّین میں محفوظ ہے۔ دنیا میں بے شمار انسان بالخصوص پیشہ ور مجرم اس طریقے سے جرم کرتے ہیں کہ وہ اپنے جرم کا کوئی نشان باقی نہیں چھوڑتے جس وجہ سے وہ سزا سے بچ جاتے ہیں ایسے لوگوں کو بالخصوص خبر دار کیا گیا ہے۔ کسی مجرم کا کوئی جرم ایسا نہیں جسے سجّین میں درج نہیں کیا جاتا۔ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ نہیں جانتے کہ وہ سجّین کیا ہے ؟ وہ مجرمین کے جرائم کا لکھا ہوا ریکارڈ ہے جو قولاً یا فعلاً قیامت کے دن کو جھٹلاتے ہیں۔ قیامت کو وہی شخص جھٹلاتا ہے جو حدوداللہ سے نکل جانے والا اور گنہگار ہے۔ جب اس کے سامنے ہمارے فرامین پڑھے جاتے ہیں بالخصوص جن میں قیامت کے حساب و کتاب اور احتساب کا ذکر ہوتا ہے تو وہ اس کا انکار کرتے ہوئے کہتا ہے کہ قیامت قائم نہیں ہوگی۔ یہ بیان ہونے والی کہانیاں بڑی مدت سے سن رہے ہیں، ان کے ذریعے محض لوگوں کو ڈرایا جاتا ہے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ قیامت کو جھٹلانے والوں کے پاس قیامت کے انکار کی کوئی دلیل نہیں مگر اس کے باوجود یہ انکار کرتے ہیں۔ اس کا سبب یہ ہے کہ ان کے گناہوں کا زنگ ان کے دلوں پر جم چکا ہے جس وجہ سے قیامت کی تکذیب کرتے ہیں۔ ان کے انکار کی ایک سزا یہ ہوگی کہ اپنے رب کے دیدار سے محروم رکھے جائیں گے۔ حالانکہ رب کریم کا دیدار جنت کی نعمتوں سے بھی زیادہ باکمال، بابرکت اور بے انتہا خوشی کا باعث ہوگا۔ مجرموں کو جہنم میں پھینک کر کہا جائے گا کہ یہ وہ جہنم اور قیامت کا دن ہے جسے تم جھٹلایا کرتے تھے۔ (عَنْ صُہَیْبٍ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ اِذَا دَخَلَ اَہْلُ الْجَنَّۃِ الْجَنَّۃَ یَقُوْلُ اللّٰہُ تَعَالٰی تُرِیْدُوْنَ شَیْءًا اَزِیْدُکُمْ فَیَقُوْلُوْنَ اَلَمْ تُبَیِّضْ وُجُوْہَنَا اَلَمْ تُدْخِلْنَا الْجَنَّۃَ وَ تُنَجِّنَا مِنَ النَّارِ قَالَ فَیَکْشِفُ الْحِجَابَ فَمَا اُعْطُوْا شَیْءًا اَحَبَّ اِلَیْہِمْ مِنَ النَّظَرِ اِلٰی رَبِّہِمْ عَزَّوَجَلَّ ثُمَّ تَلَا ھٰذِہِ الْآیَۃَ (لِلَّذِیْنَ اَحْسَنُوا الْحُسْنٰی وَزِیَادَۃٌ) (رواہ مسلم : کتاب الإیمان، باب إثبات رؤیۃ المؤمنین فی الآخرۃ ربھم سبحانہ) ” حضرت صہیب (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جب جنتی جنت میں داخل ہوجائیں گے۔ تب اللہ تعالیٰ فرمائیں گے کیا تم مزید کوئی نعمت چاہتے ہو جو تمہیں عطا کروں؟ وہ عرض کریں گے اے اللہ! کیا آپ نے ہمارے چہروں کو روشن نہیں فرمایا؟ آپ نے ہمیں جنت میں داخل نہیں کیا؟ اور آپ نے ہمیں دوزخ سے نہیں بچایا؟ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تب اللہ تعالیٰ اپنے نور کا پردہ اٹھائیں گے۔ جنتی کو ایسی کوئی نعمت عطا نہیں ہوئی ہوگی جو پروردگار کے دیدار سے انہیں زیادہ محبوب ہو، اس کے بعد آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ آیت تلاوت فرمائی ” جن لوگوں نے اچھے عمل کیے ان کے لیے جنت ہے اور مزید بھی۔“ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ إِنَّ الْعَبْدَ إِذَا أَخْطَأَ خَطِیْءَۃً نُکِتَتْ فِیْ قَلْبِہٖ نُکْتَۃٌ سَوْدَآءُ فَإِذَا ھُوَ نَزَعَ وَاسْتَغْفَرَ وَتَابَ سُقِلَ قَلْبُہٗ وَإِنْ عَادَ زِیْدَ فِیْھَا حَتّٰی تَعْلُوَ قَلْبَہٗ وَھُوَ الرَّانُ الَّذِیْ ذَکَرَ اللّٰہُ ( کَلَّا بَلْ رَانَ عَلٰی قُلُوْبِھِمْ مَّاکَانُوْا یَکْسِبُوْنَ) (رواہ الترمذی : کتاب تفسیر القرآن ) ” ابوہریرہ (رض) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : بندہ کوئی غلطی کرتا ہے تو اس کے دل پرسیاہ نکتہ پڑجاتا ہے جب وہ گناہ چھوڑ دے اور توبہ و استغفار کرے تو اس کا دل پالش ہوجاتا ہے۔ اگر وہ دوبارہ گناہ کی طرف پلٹے تو اس گناہ کی سیاہی اس کے دل پر چڑھ جاتی ہے یہی وہ زنگ ہے جس کا تذکرہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں کیا ہے کہ (ہرگز نہیں بلکہ ان کے دلوں پر ان کے گناہوں کی وجہ سے زنگ چڑھ چکا ہے۔) “ مسائل ١۔ جہنمی کے نام اور کام سجین میں لکھے جاتے ہیں جو ایک کھلی کتاب ہے۔ ٢۔ قیامت کو جھٹلانے والوں کے لیے اس دن ہلاکت اور بربادی ہوگی۔ ٣۔ قیامت کو جھٹلانے والا حد سے زیادہ گنہگار اور مجرم ہوتا ہے۔ ٤۔ قیامت کو جھٹلانے والے قیامت کے دلائل کو پہلے لوگوں کی کہانیاں قرار دیتے ہیں۔ ٥۔ لوگوں کے دلوں پر ان کے گناہوں کا زنگ چڑھ جاتا ہے۔ ٦۔ قیامت کی تکذیب کرنے والے رب کریم کے دیدار سے محروم ہوں گے۔ ٧۔ قیامت کو جھٹلانے والوں کو جہنم میں پھینک کر کہا جائے گا کہ یہی قیامت کا دن اور جہنم ہے جن کو تم جھٹلایا کرتے تھے۔ تفسیربالقرآن جہنمی کا انجام : ١۔ اس دن ہم ان کا مال جہنم کی آگ میں گرم کریں گے اس کے ساتھ ان کی پیشانیوں، کروٹوں اور پیٹھوں کو داغا جاۓ گا۔ (التوبہ : ٣٥) ٢۔ ان کا ٹھکانہ جہنم ہے جب وہ ہلکی ہونے لگے گی تو ہم اسے مزید بھڑکائیں گے۔ (بنی اسرائیل : ٩٧) ٣۔ تھور کا درخت گنہگاروں کا کھانا ہوگا۔ (الدخان : ٤٣) ٤۔ اس میں وہ کھولتا ہوا پانی پئیں گے اور اس طرح پئیں گے جس طرح پیا سا اونٹ پیتا ہے۔ (الواقعہ : ٥٤ تا ٥٥) ٥۔ ہم نے ظالموں کے لیے آگ تیار کی ہے جو انہیں گھیرے ہوئے ہوگی اور انہیں پانی کی جگہ پگھلا ہو اتانبا دیا جائے گا جو ان کے چہروں کو جلا دے گا۔ (الکہف : ٢٩) ٦۔ جہنمی کو پیپ اور لہو پلایا جائے گا۔ (ابراہیم : ١٦) ٧۔ جہنمی کے جسم بار بار بدلے جائیں گے تاکہ انہیں پوری پوری سزادی جائے۔ (النساء : ٥٦) المطففين
8 المطففين
9 المطففين
10 المطففين
11 المطففين
12 المطففين
13 المطففين
14 المطففين
15 المطففين
16 المطففين
17 المطففين
18 فہم القرآن ربط کلام : جہنمی کا انجام ذکر کرنے کے بعد نیک لوگوں کے انجام اور انعام کا ذکر۔ سجیّن کے مقابلے میں جنت میں جانے والے خوش نصیبوں کا نام علییّن میں درج کیا جاتا ہے۔ اے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ نہیں جانتے کہ علییّن کیا ہے ؟ یہ بھی ایک دفتر ہے جس میں جنتی کے نام اور ان کے ا عمال کا اندراج کیا جاتا ہے، جس کی نگر انی اللہ کے مقرب ترین فرشتے کرتے ہیں جو اس میں کسی قسم کی کمی بیشی نہ خود کرتے ہیں اور نہ ہونے دیتے ہیں۔ جن لوگوں کا علییّن میں نام لکھا جائے گا وہ نیکوکار لوگ ہیں جنہیں جنت میں داخل کیا جائے گا وہ شاندار تختوں پر بیٹھے جنت کا نظارہ کریں گے۔ آپ ان کے چہروں پر جنت کی نعمتوں کے اثرات دیکھیں گے انہیں پیک شدہ (Sealed) شراب پلائی جائے گی جس پر بے مثال قسم کی خوشبو کی مہر ثبت ہوگی اس میں تسنیم کی آمیزش ہوگی۔ یہ جنت میں پانی کا ایسا چشمہ ہے جس کے پانی کو شراب کے ساتھ ملا کر اللہ کے مقرب بندے پئیں گے، جو لوگ اپنے رب کی نعمتوں کا شوق اور ذوق رکھتے ہیں انہیں جنت اور اس کی نعمتوں کے حصول کے لیے کوشش تیز کردینی چاہیے۔ ان آیات میں یہ حقیقت واضح کی گئی ہے کہ جس طرح مجرموں کی ہر حرکت سجیّن میں اندراج کی جاتی ہے اسی طرح ہی نیک لوگوں کا چھوٹا بڑا عمل علییّن میں درج کیا جاتا ہے اور یہ جنتیوں کے ناموں کا دفتر ہے جس کا نام علییّن ہے جو ساتویں آسمان کے اوپر ہے اور اس کی حفاظت اللہ کے مقرب ترین فرشتے کرتے ہیں۔ مسائل ١۔ ” اللہ“ کے نیک بندوں کے نام اور کام علیین میں لکھے جاتے ہیں۔ ٢۔ علیین ایک دفتر ہے جس کی حفاظت اللہ تعالیٰ کے مقرب ترین فرشتے کرتے ہیں۔ ٣۔ جنتی لوگ جنت کے تختوں اور تکیوں پر بیٹھ کر جنت کے نظارے کریں گے۔ ٤۔ جنتی کے چہروں پر جنت کی نعمتوں کے اثرات نمایاں طور پر دکھائی دیں گے۔ ٥۔ جنتی کو مہر بند شراب دی جائے گی جس میں تسنیم کی آمیزش ہوگی۔ ٦۔ تسنیم جنت کے چشموں میں سے ایک چشمے کا نام ہے جس سے اللہ کے مقرب بندے سیر یاب ہوں گے۔ ٧۔ جنت کی نعمتوں کا شوق رکھنے والوں کو اس کے لیے رغبت اور محنت کرنا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن جہنمیوں اور جنتیوں کے چہرے میں فرق : ١۔ متقین کے چہرے ہشاش بشاش ہوں گے۔ (یونس : ٢٦۔ ٢٧) ٢۔ قیامت کے دن نیک لوگوں کے چہروں پر ذلّت اور نحوست نہیں ہوگی اور وہ جنت میں قیام کریں گے۔ (یونس : ٢٦) ٣۔ مومنوں کے چہرے تروتازہ ہوں گے۔ (الغاشیہ : ٨) ٤۔ مومنوں کے چہرے خوش وخرم ہوں گے۔ (عبس : ٣٨) ٥۔ مومنوں کے چہرے تروتازہ ہوں گے۔ (القیامہ : ٢٢) ٦۔ مومنوں کا استقبال ہوگا۔ ( الزمر : ٧٣) ٧۔ برے لوگوں کے چہروں پر ذلّت چھائی ہوگی انہیں اللہ سے کوئی نہیں بچا سکے گا۔ (یونس : ٢٧) ٨۔ کفار کے چہرے بگڑے ہوں ہو گے۔ (الحج : ٧٣) ٩۔ کفّار کے چہروں پر گردو غبار ہوگا۔ (عبس : ٤٠) ١٠۔ کفار کے چہرے مرجھائے اور اڑے ہوئے ہوں گے۔ (القیامہ : ٢٤) المطففين
19 المطففين
20 المطففين
21 المطففين
22 المطففين
23 المطففين
24 المطففين
25 المطففين
26 المطففين
27 المطففين
28 المطففين
29 فہم القرآن ربط کلام : جہنمی کی جہنم میں جانے کی ایک وجہ اور ان کی حالت زار پر جنتی کا خوش ہونا۔ جہنمی کے جرائم میں یہ جرم بھی شامل ہوگا کہ دنیا میں انہیں اللہ کے عذاب اور قیامت سے ڈرایا جاتا تو وہ انبیائے کرام (علیہ السلام) اور ایمانداروں کو مذاق کیا کرتے تھے۔ جب نیک لوگوں کے پاس سے گزرتے تو اپنی آنکھوں اور ہاتھوں سے ان کی طرف اشارے کرتے تھے۔ انبیاء اور ان کے ساتھی اپنی کمزوری یا شرافت کی وجہ سے ان کے بیہودہ اشاروں کا جواب نہ دیتے تو مذاق اڑانے والے مزید تکبر کا شکار ہوجاتے اور اپنے دوست واحباب اور اہل خانہ کے پاس جا کر اس بات پر اتراتے کہ ہم نے آج ایمان کے دعویداروں کو بہت زچ کیا ہے۔ گمراہ لوگ اپنے دوست واحباب میں بیٹھ کر کہتے کہ یہ لوگ باپ داداکا دین اور اپنی قومی روایات کو چھوڑ کر گمراہ ہوگئے ہیں۔ مجرم یہ دعویٰ اور باتیں اس انداز میں اور تکرار کے ساتھ کرتے جیسا کہ یہ مومنوں پر نگران مقرر کیے گئے تھے۔ ان کی یا وہ گوئی اور بے ہودہ حرکات کا نتیجہ ہوگا کہ قیامت کے دن جنتی کفارکو مذاق کریں گے اور جنت کے تختوں پر بیٹھ کر ان کی سزاؤں کا منظر دیکھیں گے اور آپس میں کہیں گے کہ آج کفار کو ان کے برے اعمال کی پوری پوری سزا مل رہی ہے۔ ان آیات میں یہ بات واضح کی گئی ہے کہ گناہگار اور جرائم پیشہ لوگ خود گمراہ ہونے کے باوجود نیک لوگوں کو گمراہ اور حقیر سمجھتے ہیں۔ ” منکرین حق جب آپ کو دیکھتے ہیں تو آپ کا مذاق اڑاتے ہیں، کہتے ہیں کیا یہ شخص ہے جو تمہارے خداؤں کا تذکرہ کرتا ہے؟ اور ان کا اپنا حال یہ ہے کہ الرحمان کے ذکر کے منکرہیں۔“ (الانبیاء : ٣٦) ” جب کافر لوگ نصیحت سنتے ہیں تو تمہیں ڈراؤنی نظروں سے دیکھتے ہیں کہ گویا تمہارے قدم اکھاڑ دیں گے اور کہتے ہیں کہ یہ تو دیوانہ ہے۔“ (القلم : ٥١) (وَ کَذٰلِکَ فَتَنَّا بَعْضَہُمْ بِبَعْضٍ لِّیَقُوْلُوْٓا اَہٰٓؤُلَآءِ مَنَّ اللّٰہُ عَلَیْہِمْ مِّنْ بَیْنِنَا اَلَیْسَ اللّٰہُ بِاَعْلَمَ بالشّٰکِرِیْنَ) (الانعام : ٥٣) ” اور اسی طرح ہم نے ان کے بعض کو بعض کے ساتھ آزمائش میں مبتلا کیا تاکہ وہ کہیں کیا یہی لوگ ہیں جن پر اللہ نے ہم میں سے احسان کیا ہے ؟ کیا اللہ شکر کرنے والوں کو پوری طرح نہیں جانتا؟“ مسائل ١۔ جہنم میں جانے والے لوگ انبیائے کرام اور ایمانداروں کو استہزاء کا نشانہ بناتے تھے۔ ٢۔ جہنم میں جانے والے لوگ نیک لوگوں کو گمراہ خیال کرتے تھے۔ ٣۔ تکبر کرنے والے لوگ جہنمی ہوتے ہیں۔ ٤۔ جنتی حضرات جنت میں بیٹھ کر جہنم میں جلنے والوں کو مذاق کریں گے۔ ٥۔ جہنمی کو جہنم میں ان کے اعمال کی پوری پوری سزادی جائے گی۔ تفسیر بالقرآن برے لوگوں کا انبیاء ( علیہ السلام) اور نیک لوگوں کو استہزا کرنا : ١۔ جب حضرت نوح کی قوم کے لوگ ان کے پاس سے گذرتے تھے تو ان سے مذاق کرتے تھے۔ (ہود : ٣٨) ٢۔ یہ مذاق کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان سے مذاق کرے گا اور ان کے لیے دردناک عذاب ہوگا۔ (التوبہ : ٧٩) ٣۔ جب وہ ہماری نشانی دیکھتے ہیں تو مذاق کرتے ہیں۔ (الصٰفٰت : ١٤) ٤۔ جب بھی ان کے پاس رسول آیا تو وہ اس کا مذاق اڑاتے ہیں۔ (الحجر : ١١) ٥۔ ان کے پاس کوئی نبی نہیں آیا مگر وہ اس کے ساتھ استہزاء کرتے تھے۔ (الزخرف : ٧) ٦۔ لوگوں پر افسوس ہے کہ ان کے پاس جب کبھی رسول آیا تو انہوں نے ان کے ساتھ استہزاء کیا۔ (یٰس : ٣٠) المطففين
30 المطففين
31 المطففين
32 المطففين
33 المطففين
34 المطففين
35 المطففين
36 المطففين
0 سورۃ الانشقاق کا تعارف الانشقاق کا لفظ اس کی پہلی آیت سے لیا گیا ہے یہ سورت بھی مکہ میں نازل ہوئی اس کی پچیس آیات ہیں جنہیں ایک رکوع شمار کیا گیا ہے۔ اس میں قیامت کے ابتدائی مراحل کا ذکر کرتے ہوئے بتلایا ہے کہ اس دن آسمان کو پھٹ جانے کا حکم ہوگا اور آسمان پھٹ جائے گا کیونکہ اس کے یہی لائق ہے کہ وہ اپنے رب کا حکم تسلیم کرے اسی طرح زمین کو حکم ہوگا کہ وہ چٹیل میدان بن جائے زمین چٹیل میدان بن جائے گی اس لیے کہ اس پر واجب ہے کہ وہ اپنے رب کے حکم کی تعمیل کرے۔ اس کے بعد محشر کا میدان لگے گا جس میں بہت سے لوگوں کو ان کے دائیں ہاتھ میں ان کے اعمال نامے دئیے جائیں گے جس کو اس کا اعمال نامہ اس کے دائیں ہاتھ میں دیا گیا وہ خوش ہو کر اپنے عزیز واقرباء کے پاس جائے گا اور سمجھ جائے گا کہ میرا حساب آسان ہوگا۔ ان کے مقابلے میں جن لوگوں کو ان کی پیٹھ کی طرف سے اعمال نامہ دیا گیا وہ اپنی موت کو پکارے گا لیکن اسے موت نہیں آئے گی، اسے جہنم میں پھینکا جائے گا کیونکہ یہ سمجھتا تھا کہ اسے دوبارہ زندہ نہیں کیا جائے گا اور نہ ہی اسے حساب و کتاب دینا پڑے گا اس کے بعد تین قسمیں اٹھا کر بتلایا ہے کہ ہر انسان ایک مرحلہ سے دوسرے مرحلے میں داخل ہوتا ہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ بالآخر انسان پر وہ مرحلہ بھی آئے گا جب اسے حساب و کتاب کے لیے اپنے رب کے حضور پیش کیا جائے گا۔ جس کی تفسیر قرآن مجید نے بتلا دی ہے مگر قیامت کا انکار کرنے والوں کی حالت یہ ہے کہ وہ قرآن پر ایمان لانے اور اپنے رب کے حضور جھکنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ ایسے لوگوں کے لیے عذاب کی خوشخبری کے سوا کچھ نہیں ہو سکتا۔ ان کے مقابلے میں وہ لوگ جو قیامت پر ایمان لاتے ہیں اور اس دن کے لیے اپنے آپ کو تیار کرتے ہیں ان کے لیے ایسا اجر ہوگا جو کبھی ختم نہیں ہوگا۔ الانشقاق
1 فہم القرآن ربط سورت : سورت ” اَلْمُطَفِّفِیْنَ“ کا اختتام اس بات پر ہوا کہ جو لوگ قیامت پر ایمان لانے اور حق بات قبول کرنے کی وجہ سے ایمانداروں کو مذاق کرتے ہیں وہ کافر ہیں۔ قیامت کے دن انہیں ان کے اعمال کی پوری پوری سزا دی جائے گی۔ کفار جس قیامت کا انکار کرتے ہیں اس کی ابتدا اس طرح ہوگی۔ جونہی اسرافیل صورپھونکے گا تو آسمان پھٹ جائے گا اور اسے اس کے رب کا یہی حکم ہوگا جس پر عمل پیرا ہونا آسمان پر رب تعالیٰ کا حق ہے۔ زمین مسلسل زلزلوں کی وجہ سے ہر چیز باہر پھینک دے گی اور اس کا پیٹ خالی ہوجائے گا اور اسے بالکل برابر کردیا جائے گا، اسے بھی اس کے رب کا یہی حکم ہوگا اور ایسا کرنا اس پر اس کے رب کا حق ہے کیونکہ زمین و آسمانوں کو صرف اسی نے ہی پیدا کیا ہے مخلوق ہونے کا تقاضا ہے کہ دونوں اپنے رب کے حکم کی تعمیل کریں۔ یہاں رب ذوالجلال نے اپنے لیے ” اللہ“ کا لفظ استعمال کرنے کی بجائے دونوں مرتبہ رب کا لفظ استعمال فرمایا ہے۔ رب کا معنٰی خالق، مالک، رازق اور بادشاہ ہے اس میں یہ اشارہ پایا جاتا ہے کہ زمین و آسمانوں کو یہ معلوم ہے کہ ہمیں پیدا کرنے والا صرف ” اللہ“ ہے جو ہمارا خالق اور مالک ہے اس لیے ہمیں ہر حال میں اس کا حکم ماننا چاہے اس کا حکم ماننا ہم پر فرض ہے کیونکہ ہمارے پیدا کرنے والے کا ہم پر حق ہے۔ یہ الفاظ لا کر ہر انسان کو سمجھایا گیا ہے کہ اے انسان! تجھے بھی اپنے رب کا حکم ماننا چاہیے کیونکہ وہی تیرا خالق، رازق اور حقیقی مالک ہے تجھے یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ تو اپنے رب کے حضور پہنچنے کے لیے کوشش کرتا ہے جس کے نتیجے میں تو اس سے ضرور ملاقات کرے گا۔ اس کوشش میں انسان کی شعوری اور غیر شعوری ہر قسم کی کوشش شامل ہے۔ اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے والے اور قیامت پر یقین کرنے والے لوگ شعوری طور پر کوشش کرتے ہیں کہ ہم اپنے رب کے احکام کی تعمیل کریں کیونکہ ہم نے اس کے حضور پیش ہونا ہے اس لیے وہ اس کیلئے کوشش کرتے ہیں تاکہ اپنے رب کے حضور حاضر ہوں تو ان کا اعمال نامہ ان کے دائیں ہاتھ میں دیا جائے اور ان کا رب ان پر راضی ہوجائے ان کے مقابلے میں وہ لوگ ہیں جو زندگی بھر دنیا کے پیچھے لگے رہتے ہیں اور انہیں اپنے رب کی ملاقات کی کوئی فکر نہیں ہوتی حالانکہ غیر شعوری طور پر وہ بھی اسی راہ کے راہی ہیں اور بالآخر وہ بھی اپنے رب کے حضور پیش ہونے والے ہیں۔ قیامت کے دن زمین ان کیلئے اپنے پیٹ سے ہر چیز باہر نکال دے گی اور جو کچھ اس کے سینے میں راز ہیں وہ اگل دے گی، اسے دوسرے مقام پر یوں بیان کیا گیا ہے۔ ” جب زمین پوری شدت کے ساتھ ہلادی جائے گی اور زمین اپنے اندر کے بوجھ نکال کر باہر پھینک دے گی اور انسان کہے گا کہ اس کو کیا ہوگیا ہے؟ اس دن زمین اپنے حالات بیان کرے گی کیونکہ آپ کے رب نے اسے ایسا کرنے کا حکم دیا ہوگا۔“ (الزلزال : ٥) مسائل ١۔ آسمان پھٹ جائے گا اور زمین ہموار ہوجائے گی کیونکہ ایسا کرنا ان کے لیے لازم ہے۔ ٢۔ زمین سب کچھ نکال باہر کرے گی کیونکہ اسے اس کے رب کی طرف سے یہی حکم ہوگا۔ ٣۔ ہر انسان شعوری یا غیر شعوری طور پر اپنے رب کے حضور پیش ہونے کے لیے آگے بڑھا جارہا ہے۔ تفسیربالقرآن قیامت کے دن زمین و آسمانوں کا ایک منظر : ١۔ اس دن ہم پہاڑوں کو چلائیں گے اور زمین چٹیل میدان ہوگی۔ (الکھف : ٤٧) ٢۔ اس دن زمین اور پہاڑ کانپنے لگیں گے اور پہاڑ ریت کے ٹیلوں کی طرح ہوجائیں گے۔ (المزل : ١٤) ٣۔ زمین و آسمانوں پر قیامت بھاری ہوگی۔ (الاعراف : ١٨٧) ٤۔ زمین کو ہلا کر تہہ و بالا کردیا جائے گا۔ (واقعہ : ٣، ٤) ٥۔ جب زمین کو ہلا دیا جائے گا پوری طرح ہلا دیا جانا۔ (الزلزال : ١) ٦۔ جب واقعہ ہوگی واقعہ ہونے والی۔ (الواقعہ : ١) ٧۔ لوگو! اپنے رب سے ڈر جاؤ قیامت کا زلزلہ بہت سخت ہے۔ (الحج : ١) الانشقاق
2 الانشقاق
3 الانشقاق
4 الانشقاق
5 الانشقاق
6 الانشقاق
7 فہم القرآن ربط کلام : انسان جب اپنے رب کے حضور پیش کیا جائے گا تو اس وقت اس کا اعمال نامہ اس کے دائیں یا بائیں ہاتھ میں دیا جائے گا ہر انسان اپنے اعمال نامے کے مطابق اپنے رد عمل کا اظہار کرے گا۔ جس شخص کو اس کا اعمال نامہ اس کے دائیں ہاتھ میں دیا گیا اس سے آسان حساب لیا جائے گا اور وہ اپنے اہل خانہ کے پاس خوش وخرم جا کر کہے گا کہ یہ میرا اعمال نامہ ہے اس کے بارے میں مجھے پہلے سے یقین تھا کہ مجھے میرا حساب ملنے والاہے وہ بڑی عیش کی زندگی میں ہوگا اور اسے جنت عالیہ میں داخل کیا جائے گا۔ (الحاقہ : ١٩ تا ٢٢) اور جس کو اس کے پیچھے سے اعمال نامہ دیا گیا وہ اپنی موت کو آواز دے گا لیکن اسے موت نہیں آئے گی اور اسے جہنم میں داخل کیا جائے گا۔ ان آیات میں ثابت کیا گیا ہے کہ اعمال نامے ملنے پر دونوں فریق اپنا اپنا رد عمل ظاہر کریں جنہیں دائیں ہاتھ میں اعمال نامہ دیا جائے گا ان کے بارے میں ارشاد ہے کہ وہ سمجھ جائیں گے کہ ہمارا حساب نہایت آسان ہوگا اور جنہیں ان کی پشت کی طرف سے اعمال نامہ دیا جائے گا وہ سمجھے گا کہ میں تباہی کے گھاٹ اترنے والا ہوں۔ جن کا آسان حساب ہوگا ان کے بارے میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان ہے کہ انہیں ہلکی پھلکی پوچھ گچھ کے بعد جنت میں داخل کیا جائے گا اور جس سے اس کے اعمال نامے کے بارے میں پوچھ گچھ شروع ہوگئی وہ مارا جائے گا۔ (عَنْ عَاءِشَۃَ (رض) اَنَّ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ لَیْسَ اَحَدٌ یُّحَا سَبُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ اِلَّاھَلَکَ قُلْتُ اَوَلَیْسَ یَقُوْلُ اللّٰہُ فَسَوْفَ یُّحَاسَبُ حِسَابًا یَّسِیْرًا فَقَالَ اِنَّمَا ذٰلِکَ الْعَرْضُ وَلٰکِنْ مَّنْ نُوْقِشَ فِیْ الْحِسَابِ یَھْلِکُ) (رواہ البخاری : باب مَنْ سَمِعَ شَیْءًا فَرَاجَعَ حَتَّی یَعْرِفَہُ) ” حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : قیامت کے دن جس سے حساب لے لیا گیا وہ ہلاک ہوا۔ میں نے پوچھا اے اللہ کے رسول ! کیا اللہ تعالیٰ کا ارشاد نہیں؟ کہ ” عنقریب اس کا آسان حساب ہوگا۔“ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا یہ تو معمولی پیشی ہے جس شخص سے باز پرس ہوئی وہ ہلاک ہوگیا۔“ مسائل ١۔ جسے اس کا اعمال نامہ دائیں ہاتھ میں دیا گیا اس کا حساب آسان ہوگا اور وہ اپنے اہل وعیال کے پاس خوش وخرم آئے گا۔ ٢۔ جس کا اعمال نامہ اس کی پیٹھ کی طرف سے دیا گیا وہ اپنی موت کو پکارے گا اور اسے جہنم میں داخل کیا جائے گا۔ تفسیر بالقرآن جنتی اور جہنمی کے درمیان فرق : ١۔ جب فرشتے نیک لوگوں کی روحیں قبض کرتے ہیں تو کہتے ہیں تم پر سلامتی ہو۔ (النحل : ٣٢) ٢۔ حکم ہوگا کہ جنت میں سلامتی کے ساتھ داخل ہوجاؤ۔ (ق : ٣٤) ٣۔ کاش آپ دیکھیں جب فرشتے ان کی روحیں قبض کرتے وقت ان کے منہ اور پیٹھوں پر ماریں گے۔ (الانفال : ٥٠) ٤۔ اس وقت دیکھیں جب ظالم موت کی سختیوں میں ہوں گے اور فرشتے ہاتھ بڑھا کر کہیں گے اپنی جان نکالو۔ آج تمہیں رسوا کن عذاب سے دوچار کیا جائے گا۔ ( الانعام : ٩٤) ٥۔ کفار کے چہرے بگڑے ہوئے ہوں گے۔ (الحج : ٧٣) ٦۔ مومنوں کے چہرے تروتازہ ہوں گے۔ (القیامہ : ٢٢) ٧۔ جہنمی کو آگ کے ستونوں سے باندھ دیا جائے گا۔ (ہمزہ : ٩٠) ٨۔ جہنمی کو پیپ اور لہو پلایا جائے گا۔ (ابراہیم : ١٦) ٩۔ کھولتے ہوئے چشمے سے انھیں پانی پلایا جائے گا۔ (الغاشیہ : ٥) ١٠۔ جنتی جنت میں جو چاہیں گے وہ پائیں گے۔ ( الانبیاء : ١٠٢) ١١۔ ملائکہ جنتی کو سلام کہتے ہوئے کہیں گے کہ جنت کے دروازوں سے جنت میں داخل ہوجاؤ۔ (الرعد : ٢٣، ٢٤) الانشقاق
8 الانشقاق
9 الانشقاق
10 الانشقاق
11 الانشقاق
12 الانشقاق
13 فہم القرآن ربط کلام : جن لوگوں کو ان کی پیٹھ کی طرف سے ان کا اعمال نامہ دیا جائے گا ان کی دنیا میں حالت یہ تھی کہ وہ اپنے اہل وعیال میں خوش باش تھے اور یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ انہیں اپنے رب کے ہاں واپس نہیں پلٹنا۔ ان کے اس عقیدہ کی تردید کرنے کے ساتھ یہ حقیقت بتلائی ہے کہ تم نے ہر صورت اپنے رب کی بارگاہ میں پیش ہونا ہے۔ اس سورت کی آیت ٩ میں ارشاد ہوا کہ جس شخص کو دائیں ہاتھ میں اس کا اعمال نامہ دیا گیا وہ اپنے اہل خانہ کے پاس خوش و خرم جائے گا۔ اس کے بعد اس شخص کا ذکرہوا جسے اس کا اعمال نامہ اس کی پیٹھ کی طرف سے دیا جائے گا وہ جہنم میں داخل ہوگا۔ اس کے جہنم جانے کا بنیادی سبب یہ ہوگا کہ وہ اس بات پر یقین نہیں رکھتا تھا کہ اس نے بالآخر اپنے رب کے حضور پیش ہو کر اپنے اعمال کا جواب دینا ہے۔ وہ آخرت کے بارے میں لاپرواہ تھا اور اپنے اہل وعیال میں بڑا مست رہتا تھا اور دنیا میں اس قدر محو اور مصروف تھا کہ دانستہ یا غیر دانستہ طور پر آخرت کو بھول چکا تھا ایسے شخص کو جونہی اس کا اعمال نامہ دیا جائے گا تو وہ خواہش کرے گا۔ ” مجرم چاہے گا کہ اس دن کے عذاب سے بچنے کے لیے اپنی اولاد کو، اپنی بیوی کو، اپنے بھائی کو، اپنے قریب ترین خاندان کو جو اسے پناہ دینے والا تھا اور روئے زمین پر ہر چیز کو فدیہ میں دے دے اور اس طرح نجات پا جائے۔ ہرگز نہیں وہ تو بھڑکتی ہوئی آگ کی لپٹ ہوگی جو گوشت پوست کو چاٹ جائے گی وہ مجرم کو آواز پر آواز دے گی، ہر اس شخص کو جس نے حق سے منہ موڑا اور پیٹھ پھیری اور مال کمایا اور جمع کر کے رکھا۔“ (المعارج : ١١ تا ١٨) (وَالَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَآ اصْرِفْ عَنَّا عَذَابَ جَہَنَّمَ اِِنَّ عَذَابَہَا کَانَ غَرَامًا) (الفرقان : ٦٥) ” اللہ کے بندے دعائیں کرتے ہیں کہ اے ہمارے رب ہمیں جہنم کے عذاب سے بچالے جہنم کا عذاب تو چمٹ جانے والاہے۔“ مسائل ١۔ جس نے آخرت کو فراموش کردیا وہ قیامت کے دن پچھتائے گا۔ ٢۔ آخرت کو فراموش کردینے والا شخص اپنے حال اور مال میں مست رہتا ہے۔ الانشقاق
14 الانشقاق
15 الانشقاق
16 فہم القرآن ربط کلام : کوئی آخرت کا اقرار کرے یا انکار کرے اسے ہر صورت رب ذوالجلال کے حضور پیش ہونا ہے ہر انسان ایک مرحلہ سے دوسرے مرحلے میں داخل ہو کر بالآخر اپنے رب کی عدالت میں پیش ہوگا۔ خالقِ کائنات نے اس مقام پر تین قسمیں اٹھا کر ارشاد فرمایا ہے کہ مجھے مغرب کی سرخی کی قسم، رات کی اور اس چیز کی جو وہ سمیٹ لیتی ہے اور چاند کی قسم! جب وہ ماہ کامل بن جاتا ہے۔ اے لوگو! تم ایک مرحلے سے دوسرے مرحلے میں داخل ہوئے جارہے ہو، اور تمہارا رب تمہیں ہر حال میں دیکھ رہا ہے اس کے باوجود تم ایمان لانے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ جب ان کے سامنے قرآن مجید پڑھا جاتا ہے تو سجدہ کرنے کی بجائے اس کی تکذیب کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کو خوب معلوم ہے جو کچھ وہ اپنے دلوں میں چھپائے ہوئے ہیں، ان کے انکار اور تکذیب کرنے کی وجہ سے انہیں درد ناک عذاب کی خوشخبری دینی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ نے تین قسمیں اٹھا کر یہ بات سمجھائی ہے کہ جس طرح دن کی روشنی پر رات کی تاریکی چھا جاتی ہے اور رات کا اندھیرا ہر چیز کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے اور رات کے اندھیرے پر ماہ کامل کی روشنی غالب آجاتی ہے اسی طرح ہی دنیا کی زندگی کے بعد موت کا اندھیرا ہے اور موت کے اندھیرے کے بعد قیامت کا دن طلوع ہوگا۔ یہی انسان کی زندگی کا حال ہے کہ ہر انسان کی ابتدا ایک نطفے سے ہوتی ہے پھر مختلف مراحل سے گزرتے ہوئے وہ ایک بچے کی شکل میں جنم لیتا ہے۔ اس طرح اس کی زندگی کا آغاز ہوتا ہے اس کے بعد اس کا بچپن پھر جوانی، پھر بڑھاپا، پھر اس کو موت آجاتی ہے۔ ان مراحل میں کوئی ایک مرحلہ ایسا نہیں جس کا کوئی شخص انکار کرتاہو یعنی انسان کا عدم سے وجود میں آنا پچپن سے جوانی، جوانی کا بڑھاپے میں تبدیل ہونا ہے اور اس کے بعد موت اور موت کے بعد قیامت میں زندہ ہونا اور اپنے رب کے حضور پیش ہونا ہے، یقینی امر ہے لیکن جب منکرین کے سامنے قیامت کا ذکر ہوتا ہے تو اس پر ایمان لانے کی بجائے اس کی تکذیب کرتے ہیں حالانکہ انہیں قرآن مجید کے فرمان کے سامنے جھک جانا چاہیے لیکن پھر بھی قیامت کا انکار کرتے ہیں۔ کیا یہ سمجھتے ہیں کہ اس طرح یہ اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ سے چھپا لیں گے ایسا ہرگز نہیں ہوگا کیونکہ اللہ تعالیٰ ہر ظاہر اور باطن کو جانتا ہے نہ صرف اسے جانتا ہے بلکہ اسے دیکھ بھی رہا ہوتا ہے۔ جو لوگ حقائق کو جھٹلاتے ہیں انہیں اذّیت ناک عذاب کی خوشخبری دینی چاہیے۔ اس اذّیت ناک عذاب سے صرف وہی لوگ بچ پائیں گے جو اپنے رب کے حکم کے مطابق ایمان لائے اور اس کے بتلائے ہوئے صالح اعمال کرتے رہے ان کے لیے ایسا اجر ہے جس کی کوئی انتہا نہیں۔ مسائل ١۔ انسان چاہے یا نہ چاہے وہ ہر صورت ایک حالت سے دوسری حالت میں داخل ہوتا ہے۔ ٢۔ قرآن مجید پر ایمان نہ لانے والے لوگ قیامت کو جھٹلاتے ہیں۔ ٣۔ لوگ جو کچھ اپنے دلوں میں چھپاتے ہیں اللہ تعالیٰ اسے اچھی طرح جانتا ہے۔ ٤۔ قرآن مجید اور قیامت کا انکار کرنے والوں کے لیے اذّیت ناک عذاب کی خوشخبری ہے۔ ٥۔ حقیقی ایمان رکھنے والے اور صالح اعمال کرنے والوں کے لیے نہ ختم ہونے والا اجر ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ سب کچھ جانتا ہے : (الحجرات : ١٦) (الحدید : ٤) (المجادلہ : ٧) (التغابن : ٤) (الانعام : ٥٩) الانشقاق
17 الانشقاق
18 الانشقاق
19 الانشقاق
20 الانشقاق
21 الانشقاق
22 الانشقاق
23 الانشقاق
24 الانشقاق
25 الانشقاق
0 سورۃ البروج کا تعارف یہ سورت مکہ معظمہ میں نازل ہوئی اس کا ایک رکوع ہے جو بائیس آیات کا احاطہ کرتا ہے اس کا نام اس کی پہلی آیت میں موجود ہے۔ اس میں اصحاب الاخدود کا واقعہ ذکر کیا گیا ہے جن پر اس لیے ظلم کیا گیا کہ وہ اپنے ” اللہ“ پر ایمان لائے تھے جو بڑا غالب اور لائق تعریف ہے۔ جن لوگوں نے مومن مردوں اور مومن عورتوں پر ظلم کیا اگر انہوں نے توبہ نہ کی تو ان کے لئے جلا دینے والا عذاب ہوگا۔ جنہوں نے ایمان کی خاطر ظلم برداشت کیا ان کے لیے جنت ہوگی جو ان کے لیے بڑی کامیابی ہوگی۔ لوگوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ ہی پہلی اور دوسری بار پیدا کرنے والا ہے جو معاف فرمانے والا اور نیک لوگوں سے محبت کرنے والا ہے۔ البتہ وہ ظالموں کے لیے بڑا سخت ہے جو اس کی سختی کا اندازہ لگانا چاہیں انہیں فرعون، ثمود اور اس قسم کے لوگوں کے انجام پر غور کرنا چاہیے۔ البروج
1 فہم القرآن ربط سورت : سورۃ الانشقاق کے آخر میں دو کردار اور ان کا الگ الگ انجام بیان ہوا۔ اسی بات کو البروج میں تھوڑی سی تفصیل کے ساتھ ذکر فرما کر یہ واضح کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نیک لوگوں پر بڑا مہربان ہے، فرعون اور ثمود جیسا کردار رکھنے والوں کے لیے بڑا سخت ہے۔ فلکیات کے ماہرین نے آسمان دنیا کے بارہ برج متعین کر رکھے ہیں مگر قرآن مجید کے بروج سے مراد یہ برج نہیں ہیں۔ کچھ اہل علم نے قرآنی بروج سے مراد پہلے آسمان کے دروازے لیے ہیں جن دروازوں کے ذریعے ملائکہ زمین پر اترتے اور پھر آسمان میں داخل ہوتے ہیں۔ قرآن مجید کے الفاظ سے یہ نتیجہ اخذ کرنے کی گنجائش ہے کہ بروج سے مراد آسمان کے دروازوں میں ڈیوٹی دینے والے ملائکہ ہو، جن کو اللہ تعالیٰ نے شہاب ثاقب کی صورت میں اسلحہ دے رکھا ہے جن سے وہ شیاطین کو مارتے اور بھگاتے ہیں۔ اکثر علماء نے بروج سے مراد ستارے اور سیارے لیے ہیں۔ جن سے آسمان کو خوبصورت اور محفوظ بنایا گیا ہے۔ تاہم سرور دوعالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ہمیں بروج کے بارے میں کوئی وضاحت نہیں ملتی البتہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے آسمان کی حفاظت اور شیاطین کے تعاقب کے بارے میں ارشاد فرمایا ہے۔ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ (رض) یَبْلُغُ بِہِ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ إِذَا قَضَی اللَّہُ الأَمْرَ فِی السَّمَاءِ ضَرَبَتِ الْمَلاَءِکَۃُ بِأَجْنِحَتِہَا خُضْعَانًا لِقَوْلِہِ کَالسِّلْسِلَۃِ عَلَی صَفْوَانٍ قَالَ عَلِیٌّ وَقَالَ غَیْرُہُ صَفْوَانٍ یَنْفُذُہُمْ ذَلِکَ فَإِذَا فُزِّعَ عَنْ قُلُوبِہِمْ قَالُوا ماذَا قَالَ رَبُّکُمْ، قَالُوا لِلَّذِی قَالَ الْحَقَّ وَہْوَ الْعَلِیُّ الْکَبِیرُ) (رواہ البخاری : باب قَوْلِہِ (إِلاَّ مَنِ اسْتَرَقَ السَّمْعَ فَأَتْبَعَہُ شِہَابٌ مُبِینٌ) ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اللہ تعالیٰ آسمان پر کوئی فیصلہ صادر فرماتا ہے تو اللہ کے فرمان کے جلال کی وجہ سے فرشتوں کے پروں سے آواز پیدا ہوتی ہے جیسے صاف پتھر پر لوہے کی زنجیر کھنچنے سے آواز پیدا ہوتی ہے۔ جب ملائکہ کے دلوں سے گھبراہٹ دورہوجاتی ہے تو وہ ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں‘ آپ کے پروردگار نے کیا ارشاد فرمایا؟ اوپر والے ملائکہ اللہ کا ارشاد کا ذکر کرتے اور اس کی تصدیق کرتے ہوئے کہتے ہیں یہ ہے اللہ کا ارشاد جو بلند اور بڑا ہے۔“ اَلْیَوْمِ الْمَوْعُوْدِ: قیامت کا دن پچاس ہزار سال پر مشتمل ہوگا اور اس میں لوگوں کو کئی مراحل سے گزرنا پڑے گا، قرآن مجید نے انہیں مراحل کے حوالے سے قیامت کا ذکر کیا ہے۔ یہاں قیامت کے دن کو الیوم الموعود کہا گیا ہے جس کا معنٰی ہے وعدے کا دن۔ یعنی وہ دن جس کے قائم کرنے کا اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا ہے۔ شَاھِدٍ وَّ مَشْھُوْدٍ: حاضر ہونے والے اور حاضر کیے جانے والے۔ مفسرین نے ان الفاظ کے دو مفہوم بیان فرمائے ہیں۔ ١۔ قیامت کے دن انبیائے کرام (علیہ السلام) اور ان کی امتوں کا حاضر کیا جانا۔ ٢۔ حاضر ہونے والوں سے مرادوہ ظالم ہیں جنہوں نے مومنوں کو آگ کی خندقوں میں ڈالا، حاضر کیے جانے والوں سے مراد وہ مظلوم ایماندار ہیں جنہیں آگ میں جلایا گیا جن کا ذکر اگلی آیات میں آرہا ہے۔ ان کا اس کے سوا کوئی قصور نہیں تھا کہ وہ ” اللہ“ پر ایمان لائے جو ہر اعتبار سے غالب اور قابل تعریف ہے۔ اسی کے لیے زمین و آسمانوں کی بادشاہت ہے اور وہ ہر چیز سے واقف ہے۔ اس مقام پر اللہ تعالیٰ نے اپنی تین صفات کا ذکر کیا ہے۔ غالب کی صفت لاکر یہ ثابت کیا ہے کہ مومنوں پر ظلم ہونے کا یہ معنٰی نہیں کہ یہ ظلم کرنے والے اللہ تعالیٰ سے زیادہ طاقتور تھے۔ ایسا ہرگز نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ ہر اعتبار سے غالب ہے اور غالب رہنے والاہے لیکن اس نے ایک طرف موحّدوں کا امتحان لیا اور دوسری طرف ظالموں کو ظلم کے لیے کھلا چھوڑ دیا تاکہ ایمانداروں کی استقامت ہمیشہ کے لیے مومنوں کے لیے مثال بن جائے اور ظالموں کو اذّیت ناک سزادی جائے۔ شہید کا لفظ بول کر یہ بتلایا ہے کہ اللہ تعالیٰ مظلوموں کے حال کو پوری طرح دیکھ رہا تھا کیونکہ وہ ہر بات کو جانتا ہے اور ہر چیز پر نگران ہے۔ الحمید کی صفت لاکر یہ اشارہ کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی ذات اور صفات کے لحاظ سے اس قدر قابل تعریف ہے کہ اس کے لیے ہر چیز قربان کر دینی چاہیے اور جو اس کے لیے قربانی دے گا اللہ تعالیٰ اسے بھی تعریف کے قابل بنادے گا کیونکہ زمین و آسمانوں کے تمام اختیارات اسی کے پاس ہیں وہی اپنے بندوں کو جزا دینے والا اور مجرموں کو سزا دینے والاہے۔ اصحاب الاخدود کا علاقہ سعودی مملکت میں نجران سے تقریباً آٹھ دس کلو میٹر کے فاصلے پر ہے۔ نجران سعودی عرب کے جنوبی صوبہ کا ہیڈ کو ارٹر ہے اور یمن کی سرحد پر واقع ہے۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس کی توحید پر مرنے والوں کا مقام ہے کہ اس نے تین قسمیں کھا کر اصحاب الاخدود کی تاریخ بیان کی ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ ہر چیز کو جانتا ہے اور ہر چیز پر نگران ہے : ١۔ تم جو بھی عمل کرتے ہو وہ اللہ کے علم میں ہوتا ہے۔ (یونس : ٦١) ٢۔ اللہ تعالیٰ تمام مخلوقات کو جاننے والا ہے۔ (یٰس : ٧٩) ٣۔ جو لوگ جہالت کی وجہ سے برائی کرتے ہیں، پھر جلدی سے توبہ کرلیتے ہیں اللہ ان کی توبہ قبول کرتا ہے اور اللہ ہر چیز کو جاننے اور حکمت والا ہے۔ (النساء : ١٧) ٤۔ اللہ سے اس کے فضل کا سوال کرو یقیناً اللہ ہر چیز کو جاننے والا ہے۔ (النساء : ٣٢) ٥۔ جو کچھ تم اللہ کے دیے ہوئے میں سے خرچ کرتے ہو اللہ اس کو جاننے والا ہے۔ (النساء : ٣٩) ٦۔ قیامت کا، بارش کے نازل ہونے کا، اور جو کچھ رحموں میں ہے اور انسان کل کیا کمائے گا اور اسے کہاں موت آئے گی اللہ تعالیٰ کے علم میں ہے۔ (لقمان : ٣٤) ٧۔ فرشتوں نے کہا تو پاک ہے ہمیں تو اتنا ہی علم ہے جتنا تو نے ہمیں سکھلایا ہے اور تو جاننے والا، حکمت والا ہے۔ (البقرۃ: ٣٢) ٨۔ اللہ جانتا ہے جو تم ظاہر کرتے ہو اور چھپاتے ہو وہ تو سینے کے رازوں کو بھی جاننے والا ہے۔ (ہود : ٥) البروج
2 البروج
3 البروج
4 البروج
5 البروج
6 البروج
7 البروج
8 البروج
9 البروج
10 فہم القرآن ربط کلام : جن ظالموں نے مومنوں اور مومنات کو آگ کی خندقوں میں ڈالا ان کی سزا اور انجام۔ مفسرین نے اس واقعہ کے بارے میں کئی قسم کے خیالات کا اظہار فرمایا ہے لیکن ان میں مستند واقعہ وہ ہے جس کا ذکر حدیث کی معتبر کتاب جامع ترمذی میں پایا جاتا ہے۔ حضرت صہیب (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک دن اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ واقعہ بیان فرمایا کہ ایک بادشاہ کے پاس ایک جادوگر تھا اس نے اپنے بڑھاپے میں بادشاہ سے کہا کہ مجھے کوئی ایسا لڑکا دیں جو مجھ سے جادو سیکھ لے بادشاہ نے ایک لڑکے کو مقرر کردیا مگر وہ لڑکا جادوگر کے پاس آتے جاتے ایک راہب سے بھی ملنے لگا اور اس کی باتوں سے متاثر ہو کر ایمان لے آیا حتی کہ اس کی تربیت سے اس کا ایمان اس قدر پختہ ہوگیا کہ وہ اللہ سے اندھوں کو بینا اور کوڑیوں کو تندرست کرنے کی دعا کرتا اور اللہ تعالیٰ اس کی دعا کو قبول فرماتے۔ بادشاہ کو جب یہ معلوم ہوا کہ یہ لڑکا توحید پر ایمان لے آیا ہے تو اس نے پہلے راہب کو قتل کیا پھر اس لڑکے کو قتل کرنا چاہا مگر کوئی حربہ کارگر ثابت نہ ہوا۔ آخر کار لڑکے نے کہا کہ کہ اگر تو مجھے ہر صورت قتل کرنا چاہتا ہے تو مجمع عام میں ” بِاسْمِ رَبِّ الْغُلَامِ“ (اس لڑکے کے رب کے نام پر) کہہ کر تیر مار تو میں مرجاؤں گا۔ بادشاہ نے ایسا ہی کیا اور وہ لڑکا مرگیا اس پر لوگ اس لڑکے کے رب پر ایمان لے آئے۔ بادشاہ کے مصاحبوں نے اس سے کہا کہ یہ تو وہی کچھ ہوا جس سے آپ بچنا چاہتے تھے۔ لوگ آپ کے دین کو چھوڑ کر اس لڑکے دین ایمان لا رہے ہیں۔ بادشاہ اس صورتحال پر غضب ناک ہوا۔ اس نے سڑکوں کے کنارے گڑھے کھدوائے اور ان میں آگ جلوائی۔ جس شخص نے ایمان سے پھرنا قبول نہ کیا اس کو آگ میں پھینکوا دیا۔“ (رواہ الترمذی : باب ومن سورۃ البروج، قال الالبانی ھٰذا حدیث صحیح) (عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) إنَّّ اللّٰہَ قَالَ مَنْ عَادٰی لِیْ وَلِیًّا فَقَدْ آذَنْتُہٗ بالْحَرْب) (رواہ البخاری : باب التواضع ) ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جس نے میرے دوست سے دشمنی کی، میں اس سے اعلان جنگ کرتا ہوں۔“ (اِِنَّا لَنَنصُرُ رُسُلَنَا وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا فِی الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا وَیَوْمَ یَقُوْمُ الْاَشْہَادُ) (المومن : ٥١) ” یقین جانو کہ ہم اپنے رسولوں اور ایمان لانے والوں کی مدد ان کی زندگی میں بھی کرتے ہیں اور آخرت میں بھی کریں گے جب گواہ کھڑے کیے جائیں گے۔“ مسائل ١۔ جو لوگ مومن اور مومنات کو تنگ کریں گے ان کے لیے جہنم کا جلا دینے والا عذاب ہوگا۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے نیک اعمال کرنے والے مومنوں کے لیے باغات تیار کر رکھے ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی۔ ٣۔ جو جنت میں داخل کردیا گیا اسے بڑی کامیابی حاصل ہوئی۔ تفسیر بالقرآن ظالموں کی سزا اور نیک لوگوں کی جزا : ١۔ جس نے ذرہ برابر نیکی کی ہوگی وہ اس کو دیکھ لے گا۔ جس نے ذرہ برابر برائی کی ہوگی وہ بھی اس کو دیکھ لے گا۔ (الزلزال : ٧، ٨) ٢۔ برائیوں میں مرنے والے کے لیے جہنم ہے۔ (البقرۃ: ٧١) ٣۔ جو ایک نیکی کرے گا اس کو دس نیکیوں کا بدلہ ملے گا جو برائی کرے گا اس کی سزا صرف اتنی ہی ہوگی۔ (الانعام : ١٦٠) ٤۔ برائی کا بدلہ اس کی مثل ہی ہوگا۔ (القصص : ٨٤) ٥۔ جس نے سرکشی کی اور دنیا کی زندگی کو ترجیح دی اس کی سزا جہنم ہے۔ (النازعات : ٣٧) ٦۔ نافرمانوں کو ہمیشہ کے عذاب کی سزادی جائے گی۔ (یونس : ٥٢) ٧۔ تکبر کرنے والوں کو ذلّت آمیز سزا دی جائے گی۔ (احقاف : ٢٠) ٨۔ شیطان اور اس کے پیروکاروں کو جہنم کی سزا دی جائے گی۔ (بنی اسرائیل : ٦٣) ٩۔ صبر کرنے والوں کے لیے جنت جزا ہوگی۔ (الدھر : ١٢) البروج
11 البروج
12 فہم القرآن ربط کلام : اس سے پہلی آیات میں کفار کے ظلم اور مومنوں کے اجر کا ذکر کیا گیا ہے۔ اس لیے دونوں صفات ذکر فرما کر واضح فرمایا ہے کہ آپ کے رب کی پکڑ بڑی سخت ہے اور وہ بڑا بخشنے والا ہے۔ اللہ تعالیٰ ظالموں سے انتقام لینا چاہے تو اس سے بڑھ کر کسی کی پکڑ نہیں ہوسکتی کیونکہ وہ سخت ترین پکڑ کرنے والا ہے، اسی نے انسان کو پہلی مرتبہ پیدا کیا ہے اور وہی اسے دوبارہ زندہ کرے گا۔ وہ اپنے بندوں کے ساتھ محبت کرنے والا اور ان کے گناہوں کو معاف فرمانے والاہے، بڑے عرش کا مالک اور بڑی شان والا ہے، جو چاہتا ہے وہی کرتا ہے، اس کے فیصلوں کے سامنے کوئی چیز حائل نہیں ہوتی۔ وہ کسی کو پکڑنے پر آئے تو اس کی پکڑ سے کوئی چھوٹ نہیں سکتا، کسی کو معاف کرنا چاہے تو اسے کوئی روک نہیں سکتا۔ (لَا یُسْءَلُ عَمَّا یَفْعَلُ وَ ہُمْ یُسْءَلُوْنَ) (الانبیاء : ٢٣) ” وہ اپنے کاموں میں کسی کو جوابدہ نہیں باقی سب سے پوچھ گچھ کی جاتی ہے۔“ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ جبّار، قہّار اور انتقام لینے والا ہے لیکن اس کے باوجود لوگوں کو بار بار اصلاح کا موقع دیتا ہے کیونکہ اس کی رحمت اس کے غضب پر ہمیشہ غالب رہتی ہے۔ (عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اِنَّ اللّٰہَ تَعَالٰی کَتَبَ کِتَابًا قَبْلَ اَنْ یَخْلُقَ الْخَلْقَ اِنَّ رَحْمَتِیْ سَبَقَتْ غَضَبِیْ فَھُوَ مَکْتُوْبٌ عِنْدَہٗ فَوْقَ الْعَرْشِ) (رواہ مسلم : باب فِی سَعَۃِ رَحْمَۃِ اللّٰہِ تَعَالَی وَأَنَّہَا سَبَقَتْ غَضَبَہُ) ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے ہوئے سنا کہ اللہ تعالیٰ نے کائنات کی تخلیق سے پہلے لوح محفوظ میں تحریر فرمایا ” میری رحمت میرے غضب پر سبقت لے گئی ہے۔“ فرمایا کہ یہ اللہ کے عرش پر لکھا ہوا ہے۔“ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ أَنَّ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ لَمَّا قَضَی اللَّہُ الْخَلْقَ کَتَبَ عِنْدَہُ فَوْقَ عَرْشِہِ، إِنَّ رَحْمَتِی سَبَقَتْ غَضَبِی) (رواہ البخاری : باب قَوْلِہِ تَعَالَی (وَلَقَدْ سَبَقَتْ کَلِمَتُنَا لِعِبَادِنَا الْمُرْسَلِینَ)] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جب اللہ نے مخلوقات کو پیدا کرنے کا فیصلہ فرمایا تو اس وقت اللہ کے عرش پر لکھا ہوا تھا بے شک میری رحمت میرے غضب سے سبقت لے چکی ہے۔“ (قُلْ لِّمَنْ مَّا فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ قُلْ لِّلّٰہِ کَتَبَ عَلٰی نَفْسِہِ الرَّحْمَۃَ لَیَجْمَعَنَّکُمْ اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ لَا رَیْبَ فِیْہِ اَلَّذِیْنَ خَسِرُوْٓا اَنْفُسَہُمْ فَہُمْ لَا یُؤْمِنُوْنَ) (الانعام : ١٢) ” فرما دیجیے کس کا ہے جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے ؟ فرما دیجیے اللہ کا ہے اس نے اپنے اوپر رحم کرنا لکھ دیا ہے وہ تمہیں قیامت کے دن کی طرف لے جا کر ضرور جمع کرے گا جس میں کوئی شک نہیں۔ جن لوگوں نے اپنے آپ کو خسارے میں ڈالا سو وہی ایمان نہیں لاتے۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ ظالموں کی سخت پکڑ کرنے والا اور اپنے بندوں کے ساتھ محبت کرنے اور معاف فرمانے والا ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ عظیم عرش کا مالک اور بڑی شان والا ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ وہی کرتا ہے جو چاہتا ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ ظالموں سے بدلہ لینے اور اپنے بندوں کو معاف فرمانے والا ہے ١۔ اے نبی! میرے بندوں کو بتاؤ کہ میں بخشنے، رحم کرنے والا ہوں اور میرا عذاب بھی دردناک ہے۔ (الحجر : ٤٩) ٢۔ جو توبہ کرے اور اصلاح کرے تیرا رب بڑا غفور الرّحیم ہے۔ (النحل : ١١٩) ٣۔ کیا تم پسند کرتے ہو کہ اللہ تمھیں معاف کر دے کیونکہ وہ غفور الرّحیم ہے۔ (النور : ٢٢) ٤۔ اللہ جلد پکڑنے والا اور غفور الرّحیم ہے۔ (الانعام : ١٦٦) ٥۔ اللہ اپنے بندوں کو اپنی رحمت میں داخل فرمائے گا کیونکہ وہ غفور الرّحیم ہے۔ (التوبہ : ٩٩) ٦۔ اللہ سب گناہوں کو معاف کردینے والا اور غفور الرّحیم ہے۔ (الزمر : ٥٣) ٧۔ ظالموں کے لیے صرف تباہی ہے۔ (نوح : ٢٨) ٨۔ ظالموں کے لیے ہمیشہ کا عذاب ہے۔ (الحشر : ١٧) البروج
13 البروج
14 البروج
15 البروج
16 البروج
17 فہم القرآن ربط کلام : اس سے پہلے اللہ تعالیٰ کی پکڑ کا ذکر ہوا اب اس کی پکڑکی دو مثالیں بیان کی جاتی ہیں۔ اس سورت کی آٹھویں اور نویں آیات میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ میں سخت پکڑ کرنے والا ہوں، لوگوں کو معاف کرنے والا اور ان کے ساتھ محبت کرنے والا ہوں اور جو چاہتا ہوں وہ کرتاہوں۔ میرے سامنے کوئی پَر نہیں مار سکتا کیونکہ میں بڑے عرش کا مالک اور بڑی عظمت والا ہوں۔ اس کی عظمت کی نظیر دیکھنا چاہو تو ان لشکروں کا حال جانو جن کے سامنے کوئی دم نہیں مارسکتا تھا۔ فرعون اپنی طاقت اور لشکر وسپاہ پر اس قدر مغرور ہوا کہ اس نے ” اَنَا رَبُّکُمُ الْاَعْلیٰ“ کا دعویٰ کیا اور موسیٰ (علیہ السلام) کے دلائل سننے اور ان کے معجزات دیکھنے کے باوجود انہیں ٹھکراتا چلا گیا۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے اس کی گرفت کی، اسے اور اس کے لشکر کو ڈبکیاں دے دے کر موت کے گھاٹ اتار دیا۔ یہی حال قوم ثمود کا ہوا، انہوں نے حضرت صالح (علیہ السلام) کی دعوت کو ٹھکرایا اور ان سے عذاب لانے کا بھی مطالبہ کیا جس کے نتیجے میں انہیں ہلاک کردیا اس واقعہ کا اختصار یہ ہے۔ ١۔ ثمود نے اونٹنی کی کونچیں کاٹ دیں تو صالح (علیہ السلام) نے قوم کو فرمایا تین دن فائدہ اٹھا لو، یہ وعدہ ہے جو جھوٹا نہیں ہو سکتا۔ (ھود : ٦٤، ٦٥) ٢۔ انھوں نے اونٹنی کی کونچیں کاٹ ڈالیں اور وہ نادم ہونے والوں میں سے ہوگئے۔ (الشعراء : ١٥٧) ٣۔ قوم ثمود کے بدبختوں نے اونٹنی کی ٹانگیں کاٹ دیں۔ الشمس : ١٤) ٤۔ قوم ثمود نے حضرت صالح (علیہ السلام) سے عذاب کا مطالبہ کیا۔ (الاعراف : ٧٧) ٦۔ ثمود زور دار آواز کے ساتھ ہلاک کیے گئے۔ (الحاقہ : ٥) ٧۔ قوم عاد و ثمود کے اعمال بد کو شیطان نے ان کے لیے فیشن بنا دیا تھا۔ (العنکبوت : ٣٨) ٨۔ قوم ثمود کو زلزلے نے لیا اور وہ اپنے گھروں میں اوندھے پڑے رہ گئے۔ (الاعراف : ٧٨) (ھود : ٦٧) ٩۔ قوم ثمود کی راہنمائی کی گئی لیکن انہوں نے گمراہی کو ترجیح دی اس پر انہیں ہولناک آواز نے آ لیا۔ ( حٰم السجدۃ: ١٧) یہ جاننے کے باوجود کفار تکذیب کررہے ہیں انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ انہیں ہر طرف سے گھیرے ہوئے ہے جب اس کی گرفت کا وقت آئے گا تو نہ یہ بھاگ سکیں گے اور نہ ہی انہیں بچانے والا ہوگا۔ جس قرآن کی یہ تکذیب کرتے ہیں وہ لوح محفوظ میں لکھا ہوا ہے۔ یاد رہے کہ اہل مکہ کی یہ کوشش تھی کہ کسی نہ کسی طریقے سے قرآن کی دعوت کو ختم کردیا جائے اس پر انہیں متنبہ کیا گیا ہے کہ جس قرآن کی تم تکذیب کرتے ہو اور اس کی دعوت کو مٹانے کے درپے ہو اسے کسی صورت بھی مٹایا نہیں جاسکتا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اسے لوح محفوظ میں درج کر رکھا ہے۔ قرآن مجید کے محفوظ ہونے کا اشارہ فرماکر کفار کو بتلایا گیا ہے کہ قرآن مجید اور اس کی دعوت مٹنے والی نہیں یہ ہر صورت دنیا میں پھیل کر رہے گی۔ (ہُوَ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بالْہُدٰی وَ دِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ وَ لَوْ کَرِہَ الْمُشْرِکُوْنَ) (التوبہ : ٣٣) ” وہی ہے جس نے اپنا رسول ہدایت اور دین حق دے کر بھیجا تاکہ اسے ہر دین پر غالب کردے، خواہ مشرک لوگ برا سمجھتے رہیں۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے فرعون اور ثمود کو ملیا میٹ کردیا۔ ٢۔ حقائق جاننے کے باوجود کفار قرآن مجید کی تکذیب کرتے ہیں۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے اختیار کے ذریعے کفار کو گھیر رکھا ہے۔ ٤۔ قرآن مجید کی کفار تکذیب کرتے ہیں حالانکہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوا ہے اور اس کے ہاں لوح محفوظ میں درج ہے۔ تفسیر بالقرآن قرآن مجید کی عظمت اور حفاظت : ١۔ اللہ نے اپنے رسول کو قرآن مجید اور سات آیات دیں جو باربار پڑھی جاتی ہیں۔ (الحجر : ٨٧) ٢۔ قرآن مجید ایسی کتاب ہے جس میں کوئی شک نہیں۔ (البقرۃ : ٢) ٣۔ قرآن مجید برھان اور نور مبین ہے۔ (النساء : ١٧٤) ٤۔ قرآن مجید لوگوں کے لیے ہدایت ہے۔ (البقرۃ: ١٨٥) ٥۔ قرآن مجید اللہ کی طرف سے کھلی کتاب ہے۔ (ھود : ١) ٦۔ قرآن مجید لوگوں کے لیے ہدایت اور نصیحت ہے۔ (آل عمران : ١٣٨) ٧۔ قرآن مجید کی حفاظت کا ذمہ اللہ تعالیٰ نے لے رکھا ہے۔ (الحجر : ٩) البروج
18 البروج
19 البروج
20 البروج
21 البروج
22 البروج
0 سورۃ الطّارق کا تعارف اس سورت کا نام اس کی پہلی آیت کے دوسرے لفظ پر رکھا گیا ہے۔ اس کی سترہ آیات ہیں جنہیں ایک رکوع شمار کیا گیا ہے یہ مکہ میں نازل ہوئی اللہ تعالیٰ نے اس میں آسمان اور صبح صادق کے وقت طلوع ہونے والے ایک ستارے کی قسم کھا کر فرمایا ہے کہ اے انسان اللہ تعالیٰ نے ہر جان پر ایک محافظ مقرر کر رکھا ہے۔ جو لوگ مرنے کے بعد جی اٹھنے کا انکار کرتے ہیں انہیں اپنی پیدائش پر غور کرنا چاہیے۔ جس سے ثابت ہوگا جو خالق انسان کی تخلیق کی ابتداء اس کے باپ کی پیٹھ اور اس کی ماں کی سینے کی ہڈیوں سے کرتا ہے، وہی اسے دوبارہ پیدا کرے گا، پھر بارش برسانے والے آسمان کی قسم اٹھا کر واضح فرمایا ہے کہ جس طرح نباتات اگنے کے وقت زمین پھٹ جاتی ہے اسی طرح ہی قیامت کے دن زمین پھٹ جائے گی اور لوگ اپنی اپنی جگہ سے نکل کھڑے ہوں گے یہ اللہ تعالیٰ کا اٹل فیصلہ ہے جس میں کوئی ردو بدل نہیں ہوسکتا جو لوگ اتنے واضح دلائل اور حقیقت کو نہیں مانتے انہیں ان کے حال پر چھوڑ دینا چاہیے۔ الطارق
1 فہم القرآن ربط سورت : البروج کے آخر میں یہ ارشاد ہوا کہ جو لوگ ” اللہ“ کے ارشادات اور قیامت کو جھٹلاتے ہیں وہ انہیں ہر جانب سے گھیرے ہوئے ہے۔ الطّارق میں نجم ثاقب کی قسم اٹھا کر بتلایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر نفس پر نگران مقرر کر رکھے ہیں اور جو شخص قیامت کا انکار کرتا ہے اسے اپنی تخلیق پر غور کرنا چاہیے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ جس رب نے انسان کو عدم سے وجود بخشا ہے وہی رب قیامت کے دن انسان کو دوبارہ عدم سے وجود میں لائے گا۔ آسمان اور رات کے وقت نمودار ہونے والے ستارے کی قسم! آپ کیا جانیں کہ رات کے وقت طلوع ہونے والا کیا ہے ؟ وہ ایک چمکنے والا ستارہ ہے۔ اہل علم نے وضاحت فرمائی ہے کہ اس سے مراد وہ ستارہ ہے جو صبح صادق کے وقت طلوع ہوتا ہے اور دیکھنے والے کو یوں معلوم ہوتا ہے جیسے کوئی شخص ہاتھ میں لیمپ لیے ہوئے مشرق سے مغرب کی طرف جارہا ہو۔ جوں جوں اس ستارے کے غروب ہونے کا وقت آتا ہے اسی رفتار سے صبح روشن ہوتی چلی جاتی ہے۔ اس ستارے کی قسم کھا کر ثابت کیا ہے کہ جس طرح یہ ستارہ نمودار اور غروب ہوتا ہے اسی طرح انسان کی زندگی اور موت کا معاملہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بلند وبالا آسمان اور اس ستارے کی قسم کھا کر انسان کو یہ بات سمجھائی ہے کہ اے انسان! تجھے کھلا نہیں چھوڑ دیا گیا بلکہ تو آسمان کے نیچے مقید ہے اور تجھ پر نگران مقرر کیے گئے ہیں، ان میں کچھ ملائکہ ہیں جو تیری حرکات و سکنات کو ضبط تحریر میں لارہے ہیں اور کچھ ایسے ہیں جو تیری حفاظت پر مامور ہیں۔ جب تک انہیں حفاظت کرنے کا حکم ہوتا ہے اس وقت تک تو انسان کی حفاظت کرتے ہیں۔ جب اللہ کا لکھا ہوا غالب آتا ہے تو وہ پیچھے ہٹ جاتے ہیں، جونہی وہ پیچھے ہٹتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کی تقدیر انسان پر نافذ ہوجاتی ہے اور اس کے نفاذ کے وقت کوئی طاقت انسان کو بچا نہیں سکتی پھر وہی کچھ ہوتا ہے جو ” اللہ“ چاہتا ہے۔ (لَہٗ مُعَقِّبٰتٌ مِّنْ بَیْنِ یَدَیْہِ وَ مِنْ خَلْفِہٖ یَحْفَظُوْنَہٗ مِنْ اَمْرِ اللّٰہِ) (الرعد : ١١) ” اس کے لیے اس کے آگے اور اس کے پیچھے یکے بعد دیگرے مقرر کیے ہوئے نگران ہیں، جو اللہ کے حکم سے اس کی حفاظت کرتے ہیں۔ (عَنْ اَبِیْ ھُرَےْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ےَتَعَاقَبُوْنَ فِےْکُمْ مَلَآءِکَۃٌ باللَّےْلِ وَمَلَآءِکَۃٌ بالنَّھَارِ وَےَجْتَمِعُوْنَ فِیْ صَلٰوۃِ الْفَجْرِ وَصَلٰوۃِ الْعَصْرِ ثُمَّ ےَعْرُجُ الَّذِےْنَ بَاتُوْا فِےْکُمْ فَےَسْأَلُھُمْ رَبُّھُمْ وَھُوَ اَعْلَمُ بِھِمْ کَےْفَ تَرَکْتُمْ عِبَادِیْ فَےَقُوْلُوْنَ تَرَکْنٰھُمْ وَھُمْ ےُصَلُّوْنَ وَ اٰتَےْنٰھُمْ وَھُمْ ےُصَلُّوْنَ) (رواہ البخاری : کتاب مواقیت الصلاۃ، باب فَضْلِ صَلاَۃِ الْعَصْر) ” حضرت ابو ہریرۃ (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تمہارے پاس رات اور دن کو ایک دوسرے کے پیچھے فرشتے آتے ہیں اور وہ فجر اور عصر کی نماز میں جمع ہوتے ہیں۔ رات والے فرشتے جاتے ہیں تو ان سے ان کا رب سوال کرتا ہے حالانکہ اللہ تعالیٰ سب کچھ جانتا ہے کہ تم نے میرے بندوں کو کس حال میں چھوڑا فرشتے جواب دیتے ہیں کہ جب ہم ان کے ہاں پہنچے تو وہ نماز ادا کررہے تھے اور جب ہم ان سے واپس ہوئے تو پھر بھی وہ نماز کی حالت میں تھے۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے آسمان اور ستارے کی قسم اٹھا کر بتلایا ہے کہ اس نے ہر انسان پر نگران مقرر کر رکھے ہیں۔ ٢۔ کچھ ملائکہ انسان کی حفاظت کرتے ہیں اور کچھ اس کے اعمال لکھتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ نے ہر انسان پر نگر ان مقرر کر رکھے ہیں : ١۔ بے شک میرا رب ہر چیز پر نگہبان ہے۔ (ھود : ٥٧) ٢۔ اللہ ہی سب کی حفاظت کرنے والاہے۔ (الانبیاء : ٨٢) ٣۔ ہر ایک کی حفاظت کے لیے فرشتے مقرر ہیں۔ (الرعد : ١١) ٤۔ وہ اپنے بندوں پر غالب ہے ” اللہ“ نے بندوں کی حفاظت کے لیے فرشتے مقرر کیے ہیں۔ (الانعام : ٦١) الطارق
2 الطارق
3 الطارق
4 الطارق
5 فہم القرآن ربط کلام : جس خالق نے انسان پر نگران مقرر کیے ہیں وہی انسان کو ٹپکتے ہوئے پانی سے پیدا کرنے والا ہے اور اسی نے اسے قیامت کے دن زندہ کرنا اور اپنے حضور کھڑا کرنا ہے۔ قرآن مجید نے کئی مقامات پر انسان کو اس کی تخلیق کے بارے میں متوجہ کیا اور فرمایا ہے کہ اے انسان! تجھے اپنی پیدائش پر غور کرنا چاہیے کہ تیرے رب نے تجھے کن مراحل سے گزار کر پیدا کیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ تیری ابتدا اچھلتے ہوئے پانی کے ایک قطرے سے ہوئی ہے جو مرد کی پیٹھ اور عورت کے سینے کی ہڈیوں سے نکلتا ہے۔ یقین جان! کہ تیرا رب تجھے دوبارہ پیدا کرنے پر قادر ہے نہ صرف تجھے دوبارہ پیدا کرے گا بلکہ اس دن دلوں کے تمام راز آشکارا ہوجائیں گے۔ جس کی اس کے برے اعمال کی وجہ سے گرفت کی گئی اسے کوئی بچانے والا نہیں ہوگا۔ یہاں صلب اور ترائب کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ صُلب ریڑھ کی ہڈی کو کہتے ہیں اور ترائب کے معنٰی ہیں سینے کی ہڈیاں یعنی پسلیاں۔ چونکہ عورت اور مرد دونوں کے مادۂ تولید انسان کے جسم کے اس حصہ سے خارج ہوتے ہیں جو صلب اور سینے کے درمیان واقع ہے۔ اس لیے فرمایا ہے کہ انسان اس پانی سے پیدا کیا گیا ہے جو پیٹھ اور سینے کے درمیان سے نکلتا ہے یہ مادہ اس صورت میں بھی پیدا ہوتا ہے جبکہ ہاتھ اور پاؤں کٹ جائیں۔ اس لیے یہ کہنا صحیح نہیں کہ یہ انسان کے پورے جسم سے خارج ہوتا ہے۔ درحقیقت جسم کے اعضاءِ رئیسہ اس کے ماخذ ہیں اور وہ سب آدمی کے دھڑ میں واقع ہیں۔ دماغ کا الگ ذکر اس لیے نہیں کیا گیا کہ صلب دماغ کا وہ حصہ ہے جس کی بدولت ہی جسم کے ساتھ دماغ کا تعلق قائم ہوتا ہے۔ علم الجنین (embryology) رو سے یہ ثابت شدہ حقیقت کہ جنین (Foetus) کے اندر انثیین (testes) یعنی وہ غدود جن سے مادۂ منویہ پیدا ہوتا ہے، ریڑھ کی ہڈی اور پسلیوں کے درمیان گردوں کے قریب ہوتے ہیں جہاں سے بعد میں یہ آہستہ آہستہ فوطوں میں اتر جاتے ہیں۔ یہ عمل ولادت سے پہلے اور بعض اوقات اس کے کچھ بعد ہوتا ہے۔ بلکہ ان کی شریان (Artery) پیٹھ کے قریب شہ رگ (Aorta) سے نکلتی ہے اور پورے پیٹ کا سفر طے کرتی ہوئی ان کو خون مہیا کرتی ہے۔ اسی طرح حقیقت میں انثیین میں پیٹھ ہی کا جز ہیں جو منویہ اگرچہ انثیین پیدا کرتے ہیں اور کیسۂ منویہ (Seminal Vesicles) میں جمع ہوجاتا ہے مگر اس کے اخراج کا مرکز تحریک ” بَیْنِ الصُّلْبِ وَالتَّرَآءِبِ“ ہی ہوتا ہے اور دماغ سے اعصابی رو جب اس مرکز کو پہنچتی ہے تب اس مرکز کی تحریک (Triger action) سے کیسۂ منویہ سکڑتا ہے اور اس سے ماء دافق پچکاری کی طرح نکلتا ہے۔ اس لیے قرآن کا بیان ٹھیک ٹھیک علم طب کی جدید تحقیقات کے مطابق ہے۔ (تفہیم القرآن تفسیر سورت ہذا) مسائل ١۔ انسان کو اچھلتے ہوئے پانی سے پیدا کیا گیا ہے جو مرد کی پیٹھ اور عورت کے سینے سے نکلتا ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ ہی انسان کو پیدا کرنے والا ہے اور وہی قیامت کے دن اسے پیدا کرے گا۔ ٣۔ قیامت کے دن تمام راز آشکارا ہوجائیں گے اور اس دن مجرم کی کوئی مدد نہیں کرسکے گا۔ تفسیربالقرآن انسان کی تخلیق کے مختلف مراحل : ١۔ یقیناً ہم نے انسان کو کھنکھناتی ہوئی مٹی سے پیدا کیا ہے۔ (الحجر : ٢٦) ٢۔ حواکو آدم سے پیدا فرمایا۔ (النساء : ١) ٣۔ انسان کو اللہ نے مٹی سے پیدا کیا ہے۔ (آل عمران : ٥٩) ٤۔ اللہ نے انسان کو مخلوط نطفہ سے پیدا کیا۔ (الدھر : ٢) ٥۔ اللہ نے انسان کو مٹی کے جوہر سے پیدا کیا۔ (المومنون : ١٢) ٦۔ اللہ نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا، پھر اسے نطفہ بنایا، پھر اس سے خون کا لوتھڑا، پھر اس سے بوٹی بنا کر پیدا کیا۔ (الحج : ٥) ٧۔ اللہ نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا، پھر نطفہ، پھر لوتھڑا بنا کر تمہیں پیدا کرتا ہے کہ تم بچے ہوتے ہو۔ (المومن : ٦٧) ٨۔ کیا تو اس ذات کا کفر کرتا ہے جس نے تجھے مٹی سے پیدا فرمایا۔ (الکہف : ٣٧) ٩۔ اللہ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی یہ بھی ہے کہ اس نے تمہیں مٹی سے پیدا فرمایا۔ (الروم : ٢٠) ١٠۔ اللہ تعالیٰ نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا، پھر نطفہ سے، پھر تمہارے جوڑے جوڑے بنائے۔ (فاطر : ١١) الطارق
6 الطارق
7 الطارق
8 الطارق
9 الطارق
10 الطارق
11 فہم القرآن ربط کلام : جس خالق نے انسان کو پیدا کیا ہے وہ ہر صورت اسے قیامت کے دن اٹھا کر اپنی بارگاہ میں پیش کرے گا۔ اللہ تعالیٰ نے اس مقام پر یہ بات فرما کر زمین و آسمان کی قسم اٹھائی ہے کہ قسم ہے اس آسمان کی جو بارش برساتا ہے اور قسم ہے اس زمین کی جو پھٹ جاتی ہے کہ ” اللہ“ کا فرمان فیصلہ کن ہے یہ کوئی بے مقصد بات نہیں ہے۔ یہاں تک جو لوگ تدبیریں اور سازشیں کررہے ہیں انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ ہم بھی تدبیر کرنے والے ہیں اور ہماری تدبیر کے مقابلے میں کسی کی تدبیر اور سازش اسے فائدہ نہیں دے سکتی لہٰذا کفار کو تھوڑی سی مزید مہلت دیں۔ اس مقام پر آسمان کے لیے ” ذات الرجع“ اور زمین کے لیے ” ذَات الصَّدْعِ“ کے الفاظ استعمال کیے ہیں جس کا مفسرین نے یہ معنی لیا ہے کہ آسمان سے بارش کی صورت میں جو پانی برستا ہے اس کا کافی حصہ بخارات کی صورت میں اڑ کر فضا میں بادلوں کی شکل اختیار کرتا ہے اور پھر وہی بارش کی صورت میں برستا ہے گویا کہ ایک سرکل (CIRCLE) چل رہا ہے۔ زمین کے لیے ” ذَات الصَّدْعِ“ کا لفظ اس لیے استعمال کیا ہے کہ جب اس سے بیج نکلتا ہے تو زمین اپنا سینہ کھول دیتی ہے یعنی پھٹ جاتی ہے۔ اسی طرح ہی قیامت کے دن پھٹ جائے گی اور لوگ اس سے نکل کھڑے ہوں گے۔ زمین اور آسمان کی قسم اٹھا کر واضح کیا ہے کہ انسان کا اللہ کی طرف لوٹنا فیصلہ کن بات ہے۔ ہر انسان کو بارش کے برسنے اور زمین کے پھٹنے پر غور کرنا چاہیے کہ جس طرح بارش برسنے سے زمین سے بیج اگتے ہیں، اسی طرح ہی اللہ تعالیٰ انسان کو قیامت کے دن پیدا کرے گا۔ یہ مذاق یا فضول بات نہیں ہے۔ اگر قیامت کا انکار کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ فی الفور نہیں پکڑتا تو اس میں اس کی حکمت یہ ہے کہ کفار کو اپنی سازشیں اور شرارتیں کرنے کا موقع دیا جائے۔ اسی بات کو آل عمران میں یوں بیان کیا ہے۔ (وَ لَا یَحْزُنْکَ الَّذِیْنَ یُسَارِعُوْنَ فِی الْکُفْرِ اِنَّہُمْ لَنْ یَّضُرُّوا اللّٰہَ شَیْءًا یُرِیْدُ اللّٰہُ اَلَّا یَجْعَلَ لَہُمْ حَظًّا فِی الْاٰخِرَۃِ وَ لَہُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ۔ اِنَّ الَّذِیْنَ اشْتَرَوُا الْکُفْرَ بالْاِیْمَانِ لَنْ یَّضُرُّوا اللّٰہَ شَیْءًا وَ لَہُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ۔ وَ لَا یَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْٓا اَنَّمَا نُمْلِیْ لَہُمْ خَیْرٌ لِّاَنْفُسِہِمْ اِنَّمَا نُمْلِیْ لَہُمْ لِیَزْدَادُوْٓا اِثْمًا وَ لَہُمْ عَذَابٌ مُّہِیْنٌ) (آل عمران : ١٧٦ تا ١٧٨) ” آپ کو کفر میں آگے بڑھنے والے لوگ پریشان نہ کریں یہ اللہ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ اللہ چاہتا ہے کہ ان کے لیے آخرت میں کوئی حصہ نہ رہے اور ان کے لیے بڑا عذاب ہے۔ کفر کو ایمان کے بدلے خریدنے والے۔ اللہ کو ہرگز نقصان نہیں پہنچا سکتے اور ان کے لیے درد ناک عذاب ہے۔ کافر ہماری دی ہوئی مہلت کو اپنے حق میں بہتر نہ سمجھیں ہم نے یہ مہلت اس لیے دی ہے کہ وہ گناہوں میں اور بڑھ جائیں اور ان کے لیے ذلیل کردینے والا عذاب ہے۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ کا فیصلہ کن ارشاد ہے کہ وہ ہر انسان کو قیامت کے دن اٹھائے گا اور اس کے تمام راز آشکارہ کرے گا۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان فیصلہ کن ہے یہ مذاق اور بے مقصد بات نہیں ہے۔ ٣۔ کفار اور مشرکین اسلام کے بارے میں سازشیں کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ بھی ان کے خلاف تدبیر کرنے والا ہے۔ تفسیربالقرآن قیامت کے دن ہر صورت انسان کو اٹھنا اور اپنے رب کے حضور پیش ہونا ہے : ١۔ میں اسی کی طرف بلاتا ہوں اور اسی کی طرف مجھے واپس جانا ہے۔ (الرعد : ٣٦) ٢۔ ” اللہ“ کو ہی قیامت کا علم ہے اور اسی کی طرف تم نے لوٹنا ہے۔ (الزخرف : ٨٥) ٣۔ زمین اور جو کچھ اس میں ہے ہم اس کے وارث ہیں اور لوگ ہماری طرف لوٹیں گے (مریم : ٤٠) ٤۔ اللہ کے لیے زمین و آسمان کی بادشاہت ہے اور اسی کے سامنے ہر کسی کو لوٹ کر جانا ہے۔ (الزمر : ٤٤) ٥۔ وہی زندہ کرتا اور مارتا ہے اور اسی کے حضور تم نے پیش ہونا ہے (یونس : ٥٦) الطارق
12 الطارق
13 الطارق
14 الطارق
15 الطارق
16 الطارق
17 الطارق
0 سورۃ الاعلیٰ کا تعارف یہ سورت مکہ معظمہ میں نازل ہوئی اس کی انیس آیات ہیں جو ایک رکوع پر مشتمل ہیں۔ اس کا نام اس کی پہلی آیت میں موجود ہے اس صورت میں تین مضمون بیان کیے گئے ہیں۔ ١۔ اللہ تعالیٰ سب سے اعلیٰ اور تعریف کے لائق ہے اس لیے کہ اسی نے انسان کو پیدا کیا اور اس کے وجود کو متوازن بنایا اور پھر اس کی رہنمائی کا بندوبست کیا۔ وہی نباتات اگا کر پھر اسے کوڑا کرکٹ بنا دیتا ہے یہ کام صرف اللہ تعالیٰ ہی کرسکتا ہے اس لیے اسی کی تعریف اور عبادت کرنی چاہیے یہی اس کی توحید کا سب سے پہلا تقاضہ ہے اس لیے انسان کی انسانیت کا تقاضا ہے کہ وہ کسی اعلیٰ کو چھوڑ کر کسی ادنی کی عبادت نہ کرئے۔ ٢۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وحی کے ابتدائی دور میں فکر مند تھے کہ وحی کا کوئی حصہ بھول نہ جائے آپ کی تشویش کو دور کرنے کے لیے ارشاد ہوا کہ ہم آپ کو اس طرح پڑھائیں گے کہ آپ بھول نہیں سکیں گے الَّا یہ کہ اللہ تعالیٰ آپ کو کوئی بات، بھولانا چاہیے اللہ تعالیٰ نے آپ کے لیے نبوت کا کام بہت حد تک آسان کردیا ہے لہٰذا آپ لوگوں کو نصیحت کرتے رہیں۔ ٣۔ وہ شخص کامیاب ہوگا جس نے عقیدہ اور عمل میں پاکیزگی اختیار کرلی اور اپنے رب کو یاد کیا اور نماز پڑھی لیکن لوگوں کی حالت یہ ہے کہ دنیا کو آخرت پر ترجیح دیتے ہیں حالانکہ آخرت ہمیشہ ہمیش رہنے والی ہے۔ الأعلى
1 فہم القرآن ربط سورت : الطارق میں انسان کو اس کی تخلیق کے حوالے سے قیامت کا ثبوت دیا ہے اور سورۃ الاعلیٰ میں ہر جاندار کی تخلیق کے حوالے سے قیامت کا ثبوت دیا گیا ہے کہ وہی ذات انسان کو دوبارہ زندہ کرے گی جس نے ہر چیز کو پیدا کیا اور پھر اسی نے اس کی رہنمائی کا بندوبست فرمایا ہے۔ لہٰذا ہر دم اسے یاد رکھنا چاہیے۔ یہ سورت مسبّحات میں سے چھٹی سورت ہے جس کی ابتدا باب ” سَبَّحَ یُسَبِّحُ“ کے صیغہ امر ” سَبِّحْ“ سے ہورہی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی تسبیح پڑھنے میں یہ بات لازم ہے کہ اس کی ذات کے لیے وہی الفاظ استعمال کیے جائیں اور ایسا طریقہ اور انداز اختیار کیا جائے جس کا ثبوت قرآن اور حدیث میں پایا جاتا ہے۔ اگر کوئی شخص اپنی مادری زبان میں ” اللہ“ کی تسبیح اور پاکی بیان کرتا ہے تو اس کے لیے یہ شرط ہے کہ اس کے الفاظ، انداز اور مفہوم قرآن و سنت کے مطابق ہونے ہیں۔ البتہ نماز میں وہی الفاظ بولنے چاہیں جن کی قرآن اور حدیث میں پائے جاتے ہیں کیونکہ نماز اللہ تعالیٰ کی تسبیح اور پاکی بیان کرنے کا افضل اور مقبول ترین ذریعہ ہے۔ اس لیے لازم ہے کہ نماز قرآن وسنت کے مطابق ہونی چاہیے۔” سَبِّحِ اسْمَ رَبِّکَ الْاَعْلَی“ کے جواب میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے رکوع اور سجدے میں یہ الفاظ پڑھنے کا حکم دیا ہے۔ ” عقبہ بن عامر (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب رکوع کرتے تو تین مرتبہ یہ کلمات (سُبْحَانَ رَبِّیَ الْعَظِیْمِ) پڑھتے اور جب سجدہ کرتے تو تین مرتبہ یہ کلمات (سُبْحَانَ رَبِّیَ الأَعْلَی) پڑھتے۔ (رواہ مسلم : باب استحباب تطویل القراء ۃ) ” حضرت عائشہ (رض) بیان کرتیں ہیں کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رکوع وسجود میں یہ دعا پڑھا کرتے تھے۔ (ُ سبُّوحٌ قُدُّوسٌ رَبُّ الْمَلاَءِکَۃِ وَالرُّوح) “ (رواہ مسلم : باب ما یقال فی الرکوع والسجود) مسائل ١۔ ہر انسان کو اپنے رب کی تسبیح کرنی چاہیے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ سب سے اعلیٰ اور عظیم الشان ہے۔ الأعلى
2 فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ کی تسبیح اس لیے بھی کرنا ہے کیونکہ وہ پوری کائنات کی بقا اور فنا کا مالک ہے۔ ” اللہ“ ہی وہ ذات ہے جس نے اس کائنات کو بنایا اور انسان کو پیدا فرمایا ہے، نہ صرف انسان کو پیدا کیا بلکہ اس کے اعضاء اور جوارح کو اس طرح بنایا اور درست فرمایا ہے کہ پوری مخلوق میں انسان ” اللہ“ کی قدرت کا عظیم شاہکار قرار پایا ہے، انسان کو پیدا فرما کر اسے زمین و آسمانوں میں ایسی تکریم دی جو تکریم کسی اور مخلوق کو نہیں دی گئی۔ یہاں تک انسان کے اعضاء اور جوارح کا تعلق ہے اس میں اس طرح توازن قائم کیا ہے کہ ہر عضو اور جوڑ اپنی انتہا پر پہنچ کر ٹھہر جاتا ہے، یہی توازن اس نے ہر چیز میں پیدا کیا ہے اور اس کی راہنمائی کا بندوبست فرمایا ہے۔ اسی نے انسان اور ہر چیز کی تقدیر بنائی ہے جس میں آگا پیچھا نہیں ہو سکتا۔ اسی ذات نے چارہ نکالا اور پھر وہی اس کو سیاہ رنگ کا کوڑا کرکٹ بنا دیتا ہے۔ چارے سے مراد تمام قسم کی نباتات ہے جو اپنے خالق کے حکم سے زمین سے نکلتی ہے، اس کے بعد پروان چڑھتی ہے اور پھر کوڑا کرکٹ بن کر ختم ہوجاتی ہیں۔ یہی انسان کی موت وحیات اور قیامت کے دن اٹھائے جانے کا معاملہ ہے۔ اہل علم نے ہدایت کے مدارج کی بہت سی قسمیں بیان فرمائی ہیں لیکن بنیادی طور پر اس کی چار قسمیں ہیں : 1 طبعی اور فطری ہدایت 2 الہامی ہدایت 3 توفیقی ہدایت 4 وحی کی ہدایت۔ طبعی اور فطری ہدایت : چاند، سورج اور سیارے طبعی رہنمائی کے مطابق اپنے مدار میں رواں دواں ہیں، ہوائیں اسی اصول کے تحت رخ بدلتی اور چلتی ہیں، بادل فطری رہنمائی سے ہی راستے تبدیل کرتے اور برستے ہیں حتیٰ کہ اسی اصول کے تحت درخت روشنی کی تلاش میں ایک دوسرے سے اوپر نکلتے ہیں، فطری ہدایت کے مطابق ہی مرغی کا بچہ انڈے سے نکلتے ہی ماں کے قدموں میں جا پڑتا ہے، بطخ کا بچہ خود بخود پانی کی طرف چلتا ہے اور انسان کا نومولود اپنے ماں کی چھاتی کے ساتھ چمٹتا ہے۔ قرآن نے اس طبعی اور فطری ہدایت کی اس طرح نشاندہی فرمائی ہے : (وَھَدَیْنَاہ النَّجْدَیْنِ) (البلد : ١٠) ” ہم نے اسے دو واضح راستے دکھا دیئے۔“ الہامی ہدایت : الہام، وحی کی ایک قسم ہے مگر وحی اور الہام میں فرق یہ ہے کہ وحی صرف انبیاء کے ساتھ خاص ہے جب کہ الہام انبیاء کے علاوہ نیک اور عام آدمی حتی کہ مکھی کو بھی الہام ہوتا ہے۔ اسی لیے قرآن مجید نے شہد کی مکھیوں کے لیے وحی یعنی الہام کا لفظ استعمال فرمایا ہے جس کا معنٰی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی کے دل میں کوئی بات القا فرما دیتا ہے، اسے ہدایت وہبی بھی کہا جاتا ہے۔ ہدایت بمعنٰی توفیق اور استقامت : ہدایت کی تیسری قسم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی عنایت اور توفیق سے اپنے بندے کی رہنمائی کرتے ہوئے اسے صراط مستقیم پر گامزن رہنے کی توفیق عطا فرما دیتا ہے۔ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اکثر یہ دعا کرتے تھے۔ (یَا مُقَلِّبَ الْقُلُوْبِ ثَبِّتْ قَلْبِیْ عَلٰی دِیْنِکَ) (رواہ الترمذی : کتاب الدعوات) ” اے دلوں کو پھیرنے والے! میرے دل کو اپنے دین پر ثابت رکھنا۔“ (اَللّٰھُمَّ اَلْھِمْنِیْ رُشْدِیْ وَأَعِذْنِیْ مِنْ شَرِّ نَفْسِیْ) (رواہ الترمذی : باب ماء فی جامع الدعوات) ” اے اللہ! میری راہنمائی فرما اور مجھے میرے نفس کے شر سے محفوظ فرما۔“ وحی اور حقیقی ہدایت : یہ بات اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ اس ہدایت کی دوشکلیں ہیں اور دونوں آپس میں لازم وملزوم اور ضروری ہیں۔ ایک ہدایت ہے ہر نیکی کی توفیق اور اس کی ادائیگی کا طریقہ جو ہر حال میں سنت نبوی کے مطابق ہونا چاہیے، دوسری اس کی روح اور اصل ہے اسے قرآن مجید نے اخلاص سے تعبیر فرمایا ہے یعنی جو نیکی کی جائے وہ ” اللہ“ کی رضا کے لیے کی جائے اور اس کے اثرات انسان کے روح اور اعمال پر مرتب ہونے چاہئیں۔ (عَنْ عَبْدِاللَّہِ عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) أَنَّہُ کَانَ یَقُول اللَّہُمَّ إِنِّی أَسْأَلُکَ الْہُدَی وَالتُّقَی وَالْعَفَافَ وَالْغِنَی) (رواہ البخاری : باب التَّعَوُّذِ مِنْ شَرِّ مَا عَمِلَ وَمِنْ شَرِّ مَا لَمْ یَعْمَلْ) ” حضرت عبداللہ (رض) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ دعا کیا کرتے تھے۔ اے اللہ! میں تجھ سے ہدایت، پرہیزگاری، تندرستی اور استغناکا سوال کرتا ہوں۔“ مسائل ١۔ نبی مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو قرآن یاد کروانا اللہ تعالیٰ نے اپنے ذمہ لیا تھا۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ ظاہر اور باطن کو جانتا ہے اس سے کوئی بات پوشیدہ نہیں رہتی ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کے لیے دین پر عمل کرنا اور لوگوں تک پہنچانا آسان کردیا۔ الأعلى
3 الأعلى
4 الأعلى
5 الأعلى
6 فہم القرآن ربط کلام : رب تعالیٰ کی قدرتوں کا ذکر جاری ہے۔ جو ” رب“ اپنی قدرت سے نباتات کو اگاتا اور اسے کوڑا کرکٹ بناتا ہے اسی نے اپنی قدرت سے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو قرآن پڑھایا اور یاد کروایا۔ ان آیات کا یہاں لانے کا ایک مقصد یہ ہے کہ جس طرح انسان اور نباتات کا پہلے وجود نہیں تھا اسی طرح وحی سے پہلے آپ کی نبوت کا وجود نہ تھا۔ انسان اور دیگر چیزوں کے لیے فنا ہے لیکن اللہ تعالیٰ کی وحی کو فنا نہیں ہے۔ نبوت کے ابتدائی دور میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وحی کو یاد رکھنے کے لیے عجلت فرمایا کرتے تھے تاکہ وحی کا کوئی حصہ بھول نہ جائے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے آپ کو اطمینان دلایا کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ کو پڑھنے اور یاد کرنے میں عجلت سے کام نہیں لینا چاہیے، ہم ہی آپ کو پڑھانے والے ہیں لہٰذا آپ وحی کا کوئی حصہ بھول نہیں پائیں گے سوائے اس کے جسے اللہ تعالیٰ آپ کو بھلانا چاہے، وہ کھلی اور چھپی باتوں کو جاننے والا ہے یعنی وہ جانتا ہے کہ آپ کیوں عجلت کرتے ہیں اس لیے کہ کوئی بات فراموش نہ ہوجائے۔ بے شک وحی کو یاد رکھنا اور اس کے تقاضے پورے کرنا مشکل کام ہے لیکن ہم نے آپ کے لیے اسے آسان کردیں گے، آپ کا کام نصیحت کرنا ہے۔ لہٰذا آپ اس شخص کو نصیحت فرمائیں جو نصیحت حاصل کرنا چاہتا اور اپنے رب سے ڈرنے والا ہے نصیحت سے وہی شخص اجتناب کرے گا جو بدبخت اور نافرمان ہے یہ بھڑکتی ہوئی آگ میں جھونکا جائے گا، اسے وہاں نہ موت آئے گی اور نہ ہی اس کے لیے زندگی ہوگی، گویا کہ یہ موت وحیات کی کشمکش میں رہے گا۔ وحی کو من وعن یاد رکھنا، اس کے مطابق عمل کرنا اور پھر اسے جوں کا توں لوگوں تک پہنچانا بڑا مشکل کام ہے۔ جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ یہ کام اس قدر بھاری تھا کہ قریب تھا کہ آپ کی کمر ٹوٹ جائے لیکن اللہ تعالیٰ نے آپ کے لیے اسے آسان فرما دیا۔ (سورۃ: الم نشرح) یہی وجہ ہے کہ جتنے قلیل عرصہ میں نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمہ گیر انقلاب برپا کیا۔ آپ سے پہلے اور آپ کے بعد اس کی کوئی مثال نہیں ملتی، جہاں تک آپ کا کسی بات کو بھول جانے کا معاملہ ہے اس کا یہ معنٰی نہیں کہ آپ دین کا کوئی حصہ کلی طور پر بھول گئے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حیات طیبہ میں اس کی کوئی مثال موجود نہیں البتہ دو تین مرتبہ نماز کی رکعات میں آپ کو سہو ہوا اور ایک، دو دفعہ نماز کے دوران تلاوت کرتے ہوئے سہو کا شکار ہوئے۔ اس کے علاوہ کوئی اور مثال موجود نہیں۔ (عَنْ اَبِیْ ھُرَےْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَنْ دَعَا اِلٰی ھُدًی کَانَ لَہُ مِنَ الْاَجْرِ مِثْلُ اُجُوْرِ مَنْ تَبِعَہُ لَا ےَنْقُصُ ذَلِکَ مِنْ اُجُوْرِھِمْ شَےْءًا وَّمَنْ دَعَا اِلٰی ضَلَالَۃٍ کَانَ عَلَےْہِ مِنَ الْاِثْمِ مِثْلَ اٰثَامِ مَنْ تَبِعَہُ لَا ےَنْقُصُ ذَلِکَ مِنْ اٰثَامِھِمْ شَےْءًا) (رواہ مسلم : کتاب العلم) ” حضرت ابوہریرہ (رض) رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان نقل کرتے ہیں کہ خیر کی دعوت دینے والے کو اس پر عمل کرنے والے کے برابر ثواب ملے گا جبکہ ان لوگوں کے اجر میں کوئی کمی واقع نہیں ہوگی۔ جس نے برائی کا پرچار کیا وہ اس پر عمل کرنے والے کے برابر گنہگار ہوگا۔ اس سے ان کے گناہوں میں کوئی کمی نہیں ہوگی۔“ مسائل ١۔ لوگوں کو نصیحت کرتے رہنا چاہیے۔ نصیحت کرنے میں ہی ایک مبلغ اور دوسروں کا فائدہ ہے۔ ٢۔ نصیحت وہی شخص حاصل کرتا ہے جو اپنے رب سے ڈرتا اور گناہوں سے بچتا ہے۔ ٣۔ جو ” اللہ“ کے خوف سے بے خوف ہوا اور سرکشی کرتارہا وہ بھڑکتی ہوئی آگ میں پھینکا جائے گا۔ ٤۔ جہنم میں نہ موت آئے گی اور نہ اس میں زندگی ہوگی۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو قرآن پڑھانا، اسے یاد کروانا اور اس کا ابلاغ کروانا اپنے ذمہ لیا تھا : ١۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے قرآن پاک کی تلاوت کروانا ” اللہ“ کے ذمہ ہے۔ ( القیامہ : ١٧) ٢۔ قرآن کی حفاظت کا کرنا اللہ تعالیٰ نے اپنے ذمہ لے رکھا ہے۔ ( الحجر : ٩) ٣۔ قرآن کی وضاحت بھی ” اللہ“ کے ذمہ ہے۔ (القیامہ : ١٩) الأعلى
7 الأعلى
8 الأعلى
9 الأعلى
10 الأعلى
11 الأعلى
12 الأعلى
13 الأعلى
14 فہم القرآن ربط کلام : جہنمیوں کے مقابلے میں جنتی لوگوں کا کردار۔ وہ شخص جہنم سے بچ جائے گا جس نے اپنے آپ کو پاک رکھا، اور اپنے رب کو یاد رکھا اور اس کے حضور پنجگانہ نماز ادا کرتارہا۔ ” تَزَکیّٰ“ سے پہلی مراد کفر اور شرک سے بچنا ہے۔ گناہوں سے بچنے کے لیے لازم ہے کہ آدمی فرض نماز ادا کرتارہے اور ہر حال میں اپنے رب کو یاد رکھے۔ رب کو یاد کرنے سے مراد صرف یہ نہیں کہ زبان سے ” لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ“ پڑھے اور توبہ کا ورد کرتا رہے مگر عملی طور پر کفر و شرک اور نافرمانی کے کاموں میں مبتلا رہے۔ ذکر کا پہلا مقصد یہ ہے کہ ہر حال میں اپنے رب کے احکام کو یاد رکھے اور ان پر عمل پیرا ہونے کی کوشش کرتا رہے۔ بصورت دیگر اسے دنیا میں ذکر کرنے اور نماز پڑھنے کا فائدہ ہوگا لیکن آخرت میں کوئی فائدہ نہیں ہوگا، یہ کام تب ہی ہوسکتا ہے جب مسلمان دنیا کے مفاد پر آخرت کو مقدم جانے۔ لیکن لوگوں کی اکثریت کا حال یہ ہے کہ وہ دنیا کی خاطر اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کے احکام کی پرواہ نہیں کرتے حالانکہ آخرت دنیا سے ہر اعتبار سے بہتر اور ہمیشہ ہمیش رہنے والی ہے۔ یہی احکام اور نصائح آسمانی صحائف میں پائے جاتے ہیں بالخصوص صحف ابراہیم (علیہ السلام) اور صحف موسیٰ (علیہ السلام) میں ان کابڑی تفصیل سے ذکر موجود ہے۔ صحف ابراہیم کا تذکرہ اس لیے کیا ہے کہ وہ جد الانبیاء ہیں اور دنیا میں کوئی ایسا مذہب نہیں جو ابراہیم (علیہ السلام) کی نصیحت اور ان کے ا فکار و کردار سے متاثر نہ ہو۔ موسیٰ (علیہ السلام) پر نازل ہونے والے صحف تورات کی صورت میں نازل ہوئے ان کے بعد حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) پر انجیل نازل کی گئی جو تورات کے احکام کا خلاصہ اور ان کی تشریح پر مبنی ہے، لہٰذا تورات ہی حقیقت میں قرآن مجید سے پہلے جامع کتاب تھی اور ہے۔ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَال اللّٰہُ تَعَالٰی أَنَا مَعَ عَبْدِیْ حَیْثُمَا ذَکَرَنِیْ وَتَحَرَّکَتْ بِیْ شَفَتَاہُ) (رواہ البخاری : باب قول اللہ تعالیٰ (لاتحرک بہ لسانک الخ) ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں میں اپنے بندے کے ساتھ ہوتاہوں، وہ جہاں کہیں بھی میرا ذکر کرے اور جب اس کے ہونٹ میرے ذکر میں حرکت کریں۔“ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَال الصَّلَوَاۃُ الْخَمْسُ وَالْجُمْعَۃُ إِلَی الْجُمْعَۃِ کَفَّارَۃٌ لِّمَا بَیْنَھُنَّ مَالَمْ تُغْشَ الْکَبَاءِرُ) (رواہ مسلم : باب الصلواۃ الخمس والجمعۃ إلی الجمعۃ۔۔) ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب کبیرہ گناہ کا ارتکاب نہ کیا جائے تو پانچ نمازیں اور جمعہ سے جمعہ تک کے گناہوں کا کفارہ ہوتا ہے۔“ مسائل ١۔ جس نے اپنے آپ کو شرک سے پاک رکھا وہ کامیاب ہوگا۔ ٢۔ جس نے نماز کا التزام کیا اور اپنے رب کو یاد رکھا وہ کامیاب ہوگا۔ ٣۔ لوگوں کی اکثریت کا عالم یہ ہے کہ لوگ آخرت کے مقابلے میں دنیا کو مقدم جانتے ہیں حالانکہ آخرت دنیا سے بدرجہا بہتر اور ہمیشہ رہنے والی ہے۔ ٤۔ یہ نصیحتیں پہلے صحیفوں بالخصوص حضرت ابراہیم اور حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کے صحف میں موجود ہیں۔ تفسیربالقرآن کامیاب ہونے والے لوگوں کے اوصاف : ١۔ اللہ کے بندے اس کی توحید کا اقرار کرنے کے بعد اس پر ڈٹ جاتے ہیں۔ (الاحقاف : ١٤، حم السجدۃ: ٣٠) ٢۔ اللہ کے بندے آپ ” رب“ پر ایمان لاتے ہیں اور نیک اعمال کرتے ہیں۔ (البقرۃ: ٨٢) ٣۔ اللہ کے بندے اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے ہیں۔ (النساء : ١٣) ٤۔ محسنین تنگی اور کشادگی میں اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں، غصہ کو پی جاتے ہیں اور لوگوں کو معاف کردیتے ہیں۔ (آل عمران : ١٣٤) ٥۔ اللہ کے بندے اس سے ڈرنے والے ہوتے ہیں۔ (الرحمن : ٤٦) ٦۔ اللہ تعالیٰ صبر کرنے والے محسنین کے اجر کو ضائع نہیں کرتا۔ ( ھود : ١١٥) ٧۔ احسان کرو یقیناً اللہ احسان کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے۔ (البقرۃ: ١٩٥) ٨۔ انھیں معاف کیجیے اور در گزر کیجیے یقیناً اللہ محسنین کو پسند فرماتا ہے۔ (المائدۃ: ١٣) الأعلى
15 الأعلى
16 الأعلى
17 الأعلى
18 الأعلى
19 الأعلى
0 سورۃ الغاشیہ کا تعارف یہ مکی سورت ہے اس کا نام اس کی پہلی آیت کا آخری حصہ ہے یہ ایک رکوع اور چھبیس آیات پر مشتمل ہے اس سورت میں بنیادی طور پر دو مضمون بیان کیے گئے ہیں پہلا یہ ہے کہ جو لوگ آخرت کے بارے میں غافل یا اس کا انکار کرتے ہیں انہیں انتباہ کیا گیا ہے جس میں مخاطب کی ضمیر استعمال کی گئی ہے۔ اس میں بظاہر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مخاطب کیا گیا ہے لیکن حقیقت میں یہاں ہر اس شخص کو مخاطب کیا گیا ہے جو قیامت کو جھٹلانے والا ہے چنانچہ ارشاد ہوا : کیا تمھارے پاس ہر چیز پر چھا جانے والی آفت کی خبر نہیں پہنچی اس دن کئی چہرئے خوف زدہ ہوں گے جو شدید کرب میں مبتلا ہوں گے اور انہیں دہکتی ہوئی آگ میں پھینک دیا جائے گا وہاں انہیں پینے کے لیے کھولتا ہوا پانی اور کھانے کے لیے کانٹے دار جھاڑیاں دی جائیں گی ان کے مقابلے میں وہ خوش نصیب ہوں گے جنہیں جنت عالیہ میں رکھا جائے گا وہ اس میں کسی قسم کی بے ہودگی اور آلودگی نہیں پائیں گے اس میں چشمے جاری ہوں گے جنتی جنت میں ٹیک لگا کر قطار اندر قطار تشریف فرما ہوں گے۔ جہنمیوں کے لیے عذاب اور جنتیوں کے لیے انعام کا ذکر کرنے کے بعد اونٹ کی خلقت اور پہاڑوں کی تنصیب اور زمین کی وسعت کا ذکر فرما کر حکم ہوا کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ لوگوں کو نصیحت کرتے رہیں اللہ تعالیٰ نے آپ کو کسی پر جبر کرنے والا نہیں بنایا البتہ جو شخص اس سے منہ موڑے گا وہ بڑے عذاب میں مبتلا ہوگا حقیقت یہ ہے کہ ہماری طرف ہی لوگوں کا پلٹنا ہے اور ان کا حساب لینا بھی ہمارے ذمہ ہے۔ الغاشية
1 فہم القرآن ربط سورت : الاعلیٰ کے آخر میں اچھے اور برے انجام کا ذکر کرنے کے بعد فرمایا ہے کہ آخرت ہر اعتبار سے بہتر اور ہمیشہ رہنے والی ہے اس کا ذکر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے صحائف میں بھی موجود ہے۔ الغاشیہ میں برے لوگوں کی سزا اور نیک لوگوں کی جزا کا ذکر کیا گیا ہے۔ الغاشیہ کا معنٰی ہے ہر طرف سے لوگوں کو ڈھانپ لینے والی۔ قیامت کی ہولناکیاں اور اس کے اثرات اس قدرہمہ گیر ہوں گے کہ جاندار تو درکنار زمین و آسمانوں کی کوئی چیز بھی اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکے گی۔ قیامت کی ہمہ گیر شدّت اور ہولناکیوں کو واضح کرنے کے لیے فرمایا ہے کہ کیا آپ کے پاس ہر چیز پر چھا جانے والی کی خبر پہنچی ہے ؟ اس دن مجرموں کے چہرے ذلیل ہوں گے اور وہ اپنی محنت کی وجہ سے انتہائی تھکے ماندے دکھائی دیں گے۔ انہیں جہنم کی دہکتی ہوئی آگ میں جھونک دیا جائے گا اور ان کو انتہا درجے کا کھولتا ہوا پانی پلایا جائے گا، ان کے لیے کانٹے دار جھاڑیوں کے سوا کوئی کھانا نہیں ہوگا۔ جس سے نہ وہ موٹے ہوں گے اور نا ہی ان کی بھوک میں کچھ کمی آئے گی۔ ” عَامِلَۃٌ نَّاصِبَۃٌ“ کے مفسرین نے کئی مفہوم بیان کیے ہیں۔ 1۔ یہ لوگ دنیا میں بہت زیادہ محنت کے ساتھ نیک اعمال کرتے رہے مگر شرک وبدعت میں مبتلا ہونے کی وجہ سے ان کے تمام اعمال غارت ہوجائیں گے۔2۔ یہ لوگ اپنے اعمال کا انجام دیکھیں گے تو ان کی مایوسی اور تھکاوٹ اس قدر بڑھ جائے گی کہ دیکھنے والا انہیں یوں محسوس کرے گا جسے ان کی ابھی جان نکل جائے گی۔3۔ جہنم کی بلاؤں اور سزاؤں کی وجہ سے ان کے جسم چکنا چور دکھائی دیں گے۔ (عَنْ حُذَیْفَۃَ قَالَ قَالَ رَسُول اللَّہِ لاَ یَقْبَلُ اللَّہُ لِصَاحِبِ بِدْعَۃٍ صَوْمًا وَلاَ صَلاَۃً وَلاَ صَدَقَۃً وَلاَ حَجًّا وَلاَ عُمْرَۃً وَلاَ جِہَادًا وَلاَ صَرْفًا وَلاَ عَدْلاً یَخْرُجُ مِنَ الإِسْلاَمِ کَمَا تَخْرُجُ الشَّعَرَۃُ مِنَ الْعَجِینِ) (رواہ ابن ماجہ : باب اجْتِنَابِ الْبِدَعِ وَالْجَدَلِ) ” حضرت حذیفہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اللہ تعالیٰ بدعتی کا روزہ، نماز، حج، عمرہ، جہاد، اور کوئی چھوٹی بڑی نیکی قبول نہیں کرتا، ایسا شخص اسلام سے اس طرح نکل جاتا ہے جیسے گوندھے ہوئے آٹے سے بال نکل جاتا ہے۔“ (وَقَدِمْنَآ اِِلٰی مَا عَمِلُوْا مِنْ عَمَلٍ فَجَعَلْنٰہُ ہَبَآءً مَّنْثُورًا) (الفرقان : ٢٣) ” اور جو کچھ بھی ان کا کیا دھرا ہے اسے ہم ذرّات کی طرح اڑادیں گے۔“ مسائل ١۔ قیامت کی ہولناکیاں ہر چیز کو گھیرے ہوئے ہوں گی۔ ٢۔ قیامت کے دن مجرموں کے چہرے تھکے ہوئے اور انتہائی ذلیل ہوں گے۔ ٣۔ مجرم انتہائی تھکے ماندے ہوں گے۔ ٤۔ جہنمی کو پینے کے لیے جہنم کا کھولتا ہوا پانی اور کھانے کے لیے خاردار جھاڑیاں دی جائیں گی۔ ٥۔ جہنم کی خوراک نہ ان کی بھوک ختم کرے گی اور نہ وہ موٹے تازے ہوں گے۔ تفسیر بالقرآن جہنمی کا خوردو نوش : ١۔ کانٹے دار جھاڑیوں کا کھانادیا جائے گا۔ (الغاشیہ : ٦) ٢۔ کھانا گلے میں اٹک جائے گا۔ (المزمل : ١٣) ٣۔ دوزخیوں کو کھولتا ہوا پانی دیا جائے گا۔ (الانعام : ٧٠) ٤۔ دوزخیوں کو پیپ پلائی جائے گی۔ (عم : ٢٥) ٥۔ آنتوں اور کھالوں کو بار بار بدلہ جائے گا۔ (النساء : ٥٦) ٦۔ جہنمی کی کھال بار بار بدلی جائے گی۔ (الحج : ٢٠) ٧۔ انہیں آگ کا لباس پہنایا جائے گا۔ (الحج : ١٩) ٨۔ لوہے کے ہتھوڑوں سے سزا دی جائے گی۔ (الحج : ٢١، ٢٢) ١٠۔ دوزخیوں کو کھولتا ہوا پانی دیا جائے گا۔ (الانعام : ٧٠) الغاشية
2 الغاشية
3 الغاشية
4 الغاشية
5 الغاشية
6 الغاشية
7 الغاشية
8 فہم القرآن ربط کلام : جہنمی کے مقابلے میں جنتی کا اکرام، مقام اور انعام۔ جہنمی اپنی ذلّت اور ناکامی کی وجہ سے تھکے تھکے دکھائی دیں گے اور ان پر انتہا درجے کی ذلّت چھائی ہوگی، ان کے مقابلے میں جنتی اپنے اعمال اور انعام دیکھ کر بے انتہا خوش ہوں گے اور ان کے چہروں پر شادمانی اور کامیابی کی مسکراہٹیں بکھر رہی ہوں گی انہیں اعلیٰ قسم کی جنت میں داخل کیا جائے گا۔ جنتی جنت میں کسی قسم کی آلودگی اور بے ہودگی نہیں پائیں گے، جنت میں چشمے اور آبشاریں جاری ہوں گی، جنت میں اعلیٰ قسم کے تخت اونچی جگہ پر رکھے جائیں گے، جنتی ان پر تشریف فرما ہوں گے، ان کے سامنے آبخورے ہوں گے، جنت کے تختوں پر قطار اندر قطار تکیے رکھے ہوں گے اور ان پر نفیس قسم کے قالین بچھے ہوئے ہوں گے۔ اس مقام پر جنت کی جن نعمتوں اور خوبیوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ ان میں سے ایک خوبی یہ ہوگی کہ جنت کا ماحول اتنا پاک صاف ہوگا کہ اس میں کسی قسم کی بے ہودگی نہیں پائی جائے گی۔ جنت کی اس خوبی کا ذکر اس لیے کیا گیا ہے کہ جنت میں داخل ہونے والے دنیا میں رہتے ہوئے کسی قسم کی بے حیائی اور لغویات پسند نہیں کرتے تھے، جب کبھی انہیں ایسے ماحول سے واسطہ پڑتا تو وہ اس سے دامن بچا کر گزر جاتے تھے۔ (وَالَّذِیْنَ لَا یَشْہَدُوْنَ الزُّورَ وَاِِذَا مَرُّوا باللَّغْوِ مَرُّوا کِرَامًا) (الفرقان : ٧٢) ” الرحمن کے بندے وہ ہیں جو جھوٹی گواہی نہیں دیتے اور کسی بے ہودہ کام سے گزرہو تو شرافت کے ساتھ گزر جاتے ہیں۔“ (وَالَّذِیْنَ ہُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَ) (المومنون : ٣) ” مومن لغو سے بچتے ہیں۔“ جنت کی اس صفت کا ذکر کرنے کا دوسرا مقصد یہ ہے کہ قرآن مجید نے جنت کی نعمتوں کا ذکر کرتے ہوئے کئی بار شراب اور شباب کا ذکر کیا ہے۔ اس سے یہ خیال پیدا ہوسکتا تھا کہ جنت میں ہر قسم کی آزادی، شراب اور شباب ہوگا تو پھر اس میں لغو اور بے ہودگی کا امکان بھی ہوسکتا ہے۔ اس لیے وضاحت کردی گئی کہ شراب، شباب ہر قسم کی نعمتیں اور آزادی ہونے کے باوجود جنت میں کسی قسم کی آلودگی اور بے ہودگی نہیں پائی جائے گی۔ جنت اور اس کا ماحول اس قدر پاک اور شفاف ہوگا کہ جس کا تصور ہی ہمارے ذہن میں پیدا نہیں ہوسکتا۔ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَال اللّٰہُُ أَعْدَدْتُّ لِعِبَادِیَ الصَّالِحِیْنَ مَالَا عَیْنٌ رَأَتْ وَلَا أُذُنٌ سَمِعَتْ وَلَا خَطَرَ عَلٰی قَلْبِ بَشَرٍ فَاقْرَءُ وْا إِنْ شِءْتُمْ (فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّآ أُخْفِیَ لَھُمْ مِنْ قُرَّۃِ أَعْیُنٍ) (رواہ البخاری : باب ماجاء فی صفۃ الجنۃ وأنھا مخلوقۃ) ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے میں نے اپنے نیک بندوں کے لیے جو کچھ تیار کیا ہے نہ کسی آنکھ نے دیکھا نہ کسی کان نے سنا اور نہ کسی بشر کے دل میں خیال پیدا ہوسکتا ہے چاہو تو اللہ کا فرمان پڑھو۔ ” کوئی نہیں جانتا کہ جنتی کی آنکھوں کی ٹھنڈک کے لیے کیا پوشیدہ رکھا گیا ہے۔“ مسائل ١۔ قیامت کے دن جنتی کے چہرے خوش ہوں گے اور وہ اپنی کوشش پر راضی ہوں گے۔ ٢۔ جنتی میں جنت کسی قسم کی بے ہودہ بات نہیں سنیں گے۔ ٣۔ جنت میں چشمے جاری ہوں گے اور قرینے کے ساتھ آبخورے ر کھے ہوں گے اور جنت میں جنتی اونچے مقامات پر جلوہ افروز ہوں گے۔ تفسیر بالقرآن جنت کے قالین، تکیے اور آبخورے : ١۔ اللہ کے مخلص بندے نعمتوں والی جنت میں ہوں گے ایک دوسرے کے سامنے تختوں پربیٹھے ہونگے۔ (الصٰفٰت : ٤٣۔ ٤٤) ٢۔ پرہیزگاروں کے لیے عمدہ مقام ہے۔ ہمیشہ رہنے کے باغ ہیں جن کے دروازے ان کے لیے کھلے ہوں گے اور ان میں تکیے لگا کر بیٹھے ہوں گے۔ (ص : ٤٩ تا ٥٠) ٣۔ جنتی سبز قالینوں اور مسندوں پر تکیہ لگا کر بیٹھے ہوں گے۔ (الرحمن : ٧٦) ٤۔ ہم ان کے دلوں سے کینہ نکال دیں گے اور سب ایک دوسرے کے سامنے تکیوں پر بیٹھے ہوں گے۔ انہیں کوئی تکلیف نہیں پہنچے گی اور نہ وہ اس سے نکالے جائیں گے۔ (الحجر : ٤٧۔ ٤٨) الغاشية
9 الغاشية
10 الغاشية
11 الغاشية
12 الغاشية
13 الغاشية
14 الغاشية
15 الغاشية
16 الغاشية
17 فہم القرآن ربط کلام : جو ذات نیک لوگوں کو اعلیٰ مقام پر فائز کرے گی اسی نے اونٹ کو عجیب الخلقت پیدا کیا اور آسمان کو بلندی پر ٹھہرایا اور پہاڑوں کو زمین پر نصب فرمایا۔ کیا لوگ اونٹ کی خلقت پر غور نہیں کرتے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے کس طرح پیدا فرمایا ہے ؟ اور پہاڑوں کی طرف نہیں دیکھتے کہ یہ کس طرح زمین پر نصب کیے گئے ہیں ؟ اور زمین پر غور نہیں کرتے کہ اسے کس طرح بنایا اور بچھایا گیا ہے ؟ قرآن مجید نے زمین و آسمانوں کے بارے میں کئی مقامات پر واضح فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی قدرتوں میں سے زمین و آسمان اور پہاڑ اس کی قدرت کی عظیم نشانیاں ہیں۔ آسمان کے بارے میں ارشاد ہے کہ اسے بغیر ستونوں کے کھڑا کیا گیا ہے جس میں نہ کوئی شگاف ہے اور نہ ہی کسی طرف سے جھکا ہوا ہے، نہ معلوم! آسمان کتنی مدت سے اس طرح کھڑا ہے اور یہ اس وقت تک کھڑا رہے گا جب تک اسے اللہ تعالیٰ کا حکم ہے۔ سورۃ النبا میں ذکر ہوچکا ہے کہ قیامت کے دن آسمان دروازوں کی شکل اختیار کر جائے گا اور بالآخر زمین پر گر پڑے گا۔ زمین کے بارے میں بتلایا ہے کہ اسے پانی پر بچھایا گیا ہے جو آج تک نہ کسی طرف سے جھکی ہے اور نہ ہی پانی میں غرق ہوئی ہے۔ (ہود : ٧) قیامت کے نزدیک زمین مختلف مقامات سے دھنس جائے گی اور پھر اس پر ایک وقت ایسا آئے گا کہ اسے چٹیل میدان بنا دیا جائے گا۔ زمین و آسمان کا حوالہ دینے سے پہلے اونٹ کی خلقت پر غور کرنے کا ارشاد ہوا ہے۔ اونٹ کی تخلیق : اس کے جسم کی فعالیت، اعضاء کے تفصیلی مطالعہ سے تلاش کرنے والوں کو بہت سے مسائل کا حل معلوم ہوسکتا ہے، جسم انسانی کا درجۂ حرارت گرمی کی شدت کے دوران اعتدال پر رکھنے کے لیے پسینہ آتا ہے لیکن اونٹ صحرا کی جھلسا دینے والی گرمی میں کسی چھتری کے بغیر مزے سے چلتا ہے۔ جبکہ اس کے جسم میں پسینہ پیدا کرنے والے غدود نہیں ہوتے۔ شدید گرمی میں اس کا درجۂ حرارت کیونکر اعتدال پر رہتا ہے۔ اگر ہم اس کا جواب تلاش کرلیں تو ہم موسمی تغیرات کا مقابلہ کرنے کی آسانیاں حاصل کرسکتے ہیں۔ صحرا میں جب پانی نہیں ملتا تو اونٹ کئی کئی دن پیاسا رہنے کے باوجود چاق و چوبند رہ سکتا ہے جبکہ اس کا سوار موت وحیات کی کش مکش میں مبتلا ہوتا ہے۔ پہلے خیال تھا کہ وہ پیٹ میں پانی کو ذخیرہ کرلیتا ہے مگر پوسٹ مارٹم پر اس کے معدہ میں پانی کا ذخیرہ رکھنے والی کوئی جگہ نہ مل سکی۔ پھر قیاس کیا گیا کہ یہ کوہان میں موجود اضافی چربی کو جلا کر پانی بنا لیتا ہے۔ کیلی فورنیا یونیورسٹی میں کیے گئے تجربات میں جن اونٹوں کو موت کی حد تک پیاسا رکھا گیا تھا ان کے جسموں میں چربی کی مقدار تقریباً اتنی ہی تھی جتنی کہ ان کے ہم وزن دوسرے تندرست اونٹوں میں تھی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کا جسم ہوا کی ہائیڈروجن اور آکسیجن کو ملا کر پانی بنانے کی اہلیت رکھتا ہے جیسے کہ ایک ہی زمین پر ایک ہی کھاد اور پانی سے پرورش پانے والے درختوں میں سیب اور شہتوت جیسے میٹھے درختوں کے ساتھ نیم کا پودا تلخی حاصل کرتا ہے۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے اونٹ کو عجیب الخِلقت پیدا فرمایا ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے آسمان کو بغیر ستونوں کے کھڑا کیا اور زمین کو پانی پر بچھایا ہے۔ ٣۔ اونٹ کی خلقت، آسمان کی بلندی اور زمین کی وسعت اللہ تعالیٰ کی قدرت کی نشانیاں ہیں۔ تفسیر بالقرآن زمین و آسمان کی تخلیق کے بارے میں چند معلومات : ١۔ اللہ تعالیٰ نے بغیر نمونے کے زمین و آسمان بنائے۔ (البقرۃ : ١١٧) ٢۔ اس نے آسمان و زمین کو برابر کیا۔ (البقرۃ: ٢٩) ٣۔ آسمان کو چھت اور زمین کو فرش بنایا۔ (البقرۃ : ٢٢) ٤۔ زمین اور آسمانوں کو چھ دنوں میں بنایا۔ (الاعراف : ٥٤) ٥۔ کیا زمین و آسمان کی تخلیق مشکل ہے یا انسان کی پیدائش مگر اکثر لوگ جاہل ہیں۔ (الفاطر : ٥٧) ٦۔ دن اور ات کے مختلف ہونے اور زمین و آسمان کی پیدائش میں نشانیاں ہیں۔ (یونس : ٦) ٧۔ آسمانوں و زمین کی پیدائش، دن اور رات کی گردش، سمندر میں کشتیوں کے چلنے، آسمان سے بارش نازل ہونے، بارش سے زمین کو زندہ کرنے، چوپایوں کے پھیلنے، ہواؤں کے چلنے اور بادلوں کے مسخر ہونے میں نشانیاں ہیں۔ (البقرۃ : ١٦٤) ٨۔ زمین و آسمان کے لیے بھی ایک وقت مقرر ہے۔ (الروم : ٨) الغاشية
18 الغاشية
19 الغاشية
20 الغاشية
21 فہم القرآن ربط کلام : اونٹ کی خلقت، پہاڑوں کی جسامت اور زمین کی وسعت کا ذکر فرما کر دین کے داعی کو یہ سبق دیا گیا ہے کہ اسے بھی اپنے آپ میں یہ اوصاف پیدا کرنے چاہیے۔ اونٹ کی خلقت، آسمان کی بلندی اور زمین کی وسعت کا تذکرہ فرما کر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم ہوا کہ آپ ان لوگوں کو نصیحت کرتے جائیں، آپ کا فرض نصیحت کرنا ہے کیونکہ آپ کو ان پر چوکیدار اور کو توال نہیں بنایا گیا۔ آپ کی پرخلوص کوشش کے باوجود جو شخص اس نصیحت سے منہ پھیرے اور اس کا انکار کرے گا اللہ تعالیٰ اسے بڑا عذاب دے گا کیونکہ بالآخر انہیں ہمارے پاس حاضر ہونا ہے اور ان کا حساب ہمارے ذمہ ہے۔ اونٹ کی خلقت، آسمان کی بلندی اور زمین کی وسعت کا ذکر فرما کر یہ اشارہ دیا ہے کہ ایک داعی کا حوصلہ اونٹ کی طرح ہونا چاہیے جو بھوک، پیاس اور مشقت برداشت کرتے ہوئے اپنا سفر جاری رکھتا ہے اور اپنے مالک کی تابعداری کرتا ہے۔ آسمان کی بلندی کا ذکر فرما کر اشارہ کیا ہے کہ داعی کی سوچ اور عزم آسمان کی طرح بلند ہونی چاہیے اور اسے دنیا کے نفع و نقصان سے بالاتر ہو کر دین حنیف کی خدمت اور لوگوں کی اصلاح اور فلاح کے لیے لگے رہنا چاہیے۔ زمین کا ذکر فرماکر بتلایا ہے کہ داعی میں زمین کی مانند حوصلہ اور وسعت ہونی چاہیے۔ جس داعی میں اونٹ کا حوصلہ، سوچ اور عزم میں آسمان کی بلندی اور زمین جیسی وسعت اور ظرف پایا جائے گا یقیناً وہ اپنے مقصد میں کامیاب ٹھہرے گا۔ اگر بظاہر اپنی دعوت میں کامیاب نہ ہوپائے تو تب بھی وہ زمین و آسمان کی وسعتوں سے زیادہ اجر پائے گا۔ جہاں تک مخالفت کرنے والوں کا تعلق ہے ان کا معاملہ ” اللہ“ کے حوالے کرنا چاہیے، وہی ان سے حساب لینا والا اور ان کو سزا دینے والاہے کیونکہ اس کا فرمان ہے کہ سب نے اس کے حضور پیش ہونا ہے اور اس نے ان سے حساب لینے کا ذمہ اٹھا رکھا ہے، لہٰذا داعی کا فرض نصیحت کرنا ہے اور اللہ تعالیٰ کے ذمہ ان سے حساب لینا ہے۔ مسائل ١۔ ایک داعی کو پورے اخلاص کے ساتھ لوگوں کو نصیحت کرتے رہنا چاہیے۔ ٢۔ الدّاعی کو لوگوں پر کو توال بننے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔ ٣۔ تمام لوگوں نے بالآخر اللہ تعالیٰ کے حضور پیش ہونا ہے۔ ٤۔ جو شخص نصیحت سے منہ پھیرے اور انکار کرے گا اس کا حساب اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہے۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ نیک لوگوں کو جزا دے گا اور برے لوگوں کو بڑے عذاب سے دوچار کرے گا۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ ہی لوگوں کا حساب لینے والا ہے : ١۔ یا اللہ میرے حق میں فیصلہ فرمادے تو بہترین فیصلہ کرنے والا ہے۔ (یوسف : ٨٠) ٢۔ بے شک تیرا وعدہ سچا ہے اور تو سب سے بہتر فیصلہ کرنے والا ہے۔ (ھود : ٤٥) ٣۔ وحی کی فرمانبرداری کرو اور صبر کرو یہاں تک کہ اللہ فیصلہ فرمادے اللہ بہترین فیصلہ کرنے والا ہے۔ (یونس : ١٠٩) ٤۔ آپ کا کام تبلیغ کرنا ہے اور حساب لیناہمارا کام ہے۔ (الرعد : ٤٠) ٥۔ سن لو ! اللہ ہی کا حکم چلتا ہے اور وہ جلد حساب لینے والا ہے۔ (الانعام : ٦٢) ٦۔ خبردار اسی کے لیے حکم ہے اور وہ جلد حساب لینے والا ہے۔ (الانعام : ٦٢) ٧۔ صبر کرو یہاں تک کہ اللہ ہمارے اور تمہارے درمیان فیصلہ فرما دے اور وہ بہتر فیصلہ کرنے والا ہے۔ (الاعراف : ٨٧) الغاشية
22 الغاشية
23 الغاشية
24 الغاشية
25 الغاشية
26 الغاشية
0 سورۃ الفجرکا تعارف یہ سورت اپنے نام سے شروع ہوتی ہے مکہ معظمہ میں نازل ہوئی اس کی تیس آیات ہیں جو ایک رکوع پر مشتمل ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس میں فجر اور دس راتوں جفت اور طاق اور رات کے رخصت ہونے کی قسم کھا کر ارشاد فرمایا ہے کہ غور کرنے والے کے لیے اس قسم میں بڑی ہی عقل کی بات پائی جاتی ہے۔ اس سورت میں قوم عاد، قوم ثمود اور فرعون کے بارے میں بتلایا ہے کہ یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے شہروں میں دنگا فساد شروع کر رکھا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے ان پر اپنے عذاب کا کوڑا برسایا اور انہیں تہس نہس کر کے رکھ دیا۔ لوگوں کی اکثریت کا عالم یہ ہے کہ جب انہیں کوئی نعمت ملتی ہے تو وہ اپنے آپ کو عزت دار سمجھتے ہیں اور جب انہیں مال کی تنگی کے ساتھ آزمایا جاتا ہے تو وہ اپنے رب کا شکوہ کرتے ہیں حالانکہ ان کی اپنی حالت یہ ہوتی ہے کہ وہ یتیموں اور مسکینوں کا خیال نہیں رکھتے اور پورے کا پورا مال ہڑپ کر جاتے ہیں۔ انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ ایک وقت ایسا آئے گا کہ جب جہنم ان کے سامنے لا کھڑی کی جائے گی۔ اس وقت ہر مجرم نصیحت حاصل کرے گا لیکن نصیحت پانے کا وقت گزر چکا ہوگا۔ انہیں ایسا عذاب دیا جائے گا کہ اس طرح کا عذاب کوئی اور نہیں دے سکتا۔ ان کے مقابلے میں ہر نیک شخص کو آواز دی جائے گی کہ اپنے رب کی طرف آ جاؤ اور اس کے نیک بندوں کے ساتھ جنت میں داخل ہوجاؤ۔ الفجر
1 فہم القرآن ربط سورت : سورۃ الغاشیہ کے آخر میں ارشاد ہوا کہ سب کو ہمارے پاس آنا ہے اور ہمارے ذمہ ان کا حساب لینا ہے۔ الفجر کے آغاز میں چار قسمیں اٹھا کر بتلایا ہے کہ جس رب نے عاد، ثمود اور فرعون جیسے ظالموں کو دنیا میں عبرت ناک سزا دی۔ کیا وہ آخرت میں ظالموں کی پکڑ نہیں کرے گا؟ کیوں نہیں وہ ظالموں کی ضرور پکڑ کرے گا کیونکہ وہ بڑا طاقتور ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس سورت کی ابتدا بھی پانچ قسموں سے فرمائی ہے۔ ارشاد ہوا ہے کہ قسم ہے صبح صادق کی ! قسم ہے دس راتوں کی! قسم ہے جفت اور طاق کی اور قسم ہے رات کی جب وہ ختم ہونے پر آتی ہے۔ بلاشبہ عقل مندوں کے نزدیک ان چیزوں کی قسم اہمیت رکھتی ہے کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کی قدرتوں کی نشانیاں ہیں اور ہر نشانی میں عقل مند کے لیے اپنے رب کو پہچاننے کا سبق اور ثبوت موجود ہے۔ رات پر غور کریں کہ زمین و آسمانوں میں کوئی ایسی ہستی نہیں جو بڑی سے بڑی ایمرجنسی میں رات کو چھوٹا یا بڑا کرسکے۔ سورج غروب ہوتے ہی رات اپنی سیاہ فام چادر میں پوری دنیا کو لپیٹ میں لے لیتی ہے لیکن جونہی سورج طلوع ہونا شروع ہوتا ہے، تو رات کا اندھیرا اس طرح پیچھے ہٹتا چلا جاتا ہے جس طرح کسی چیز سے آہستہ آہستہ پردہ اٹھایا جائے، راتیں بظاہر ایک جیسی ہوتی ہیں لیکن ان میں کچھ راتیں ایسی ہیں جن میں اللہ تعالیٰ کی خصوصی رحمتیں نازل ہوتی ہیں اور ان میں خاص فیصلے صادر کیے ہیں، ان راتوں میں لیلۃ القدر افضل ترین رات ہے جس میں بڑے بڑے فیصلے صادر ہوتے ہیں۔ لیلۃ القدر کے بعد ذوالحجہ کی پہلی دس راتیں ہیں جن میں یوم عرفہ کی رات بھی شامل ہے۔ ٩ ذوالحجہ کو عرفات کے مقام پر حجاج کرام حج کا رکن اعظم ادا کرتے ہوتے اپنے رب سے اپنے گناہوں کی معافی طلب کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اس دن ہر حاجی کے گناہ معاف کردیتا ہے بشرطیکہ وہ شرک و بدعت سے توبہ کرنے والا ہو۔ یوم عرفہ کے سورج غروب ہونے کے بعد حجاج کرام مزدلفہ میں قیام کرتے ہیں اور صبح حج کے چار ارکان ادا کرنے کے لیے منٰی کی طرف نکل پڑتے ہیں جن میں قربانی کرنا، سرمنڈوانا، کنکریاں مارنا اور طواف افاضہ کرنا شامل ہے۔ ان ایام کی دس راتیں بڑی فضیلت والی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان راتوں کی فضیلت اجاگر کرنے کے لیے ان کی قسم اٹھائی ہے تاکہ ان راتوں میں اس کے بندے اس کی رحمت کے طلبگار بن جائیں اور اس کے لیے بھرپور کوشش کریں، رات کے جانے، فجر کے آنے اور جفت اور طاق دس راتوں کی قسم کھائی ہے۔ جفت اور طاق کے بارے میں مفسرین کی مختلف آراء ہیں جن میں دو اہم آراء یہ ہیں۔ طاق سے مراد اللہ تعالیٰ کی اپنی ذات ہے اور جفت سے مراد پوری مخلوق ہے۔ جسے اللہ تعالیٰ نے جفت یعنی جوڑا جوڑا پیدا کیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ان الفاظ کا مفہوم کما حقہ ہم نہیں سمجھ سکتے تاہم تفہیم کی آسانی کے لیے یہ کہہ سکتے ہیں کہ دن اور رات، روشنی اور اندھیرا، سورج اور چاند، زمین اور آسمان، چھاؤں اور دھوپ، حرارت اور برودت، مذکر اور مؤنث نیکی اور برائی یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے پھلوں کے بھی جوڑے جوڑے پیدا کیے ہیں۔ جن میں اللہ تعالیٰ کی قدرت پائی جاتی ہے، اس لیے جفت اور طاق کی قسم کھانے میں عقل مندوں کے لیے عبرت کا سبق موجود ہے۔ (عَنْ جَابِرٍ (رض) أَنَّ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ (وَالْفَجْرِ وَلَیَالٍ عَشْرٍ) قَال عَشْرُ اَ لْاُضْحِیَّۃِ، وَالْوَتْرُ یَوْمُ عَرَفَۃَ، وَالشَّفْعُ یَوْمُ النَّحْر) (مستدرک حاکم : قال الذہبی ہذا حدیث صحیح علی شرط مسلم ولم یخرجاہ) ” حضرت جابر (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سورۃ فجر کی ابتدائی آیات کی تفسیر بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ عشر سے مراد دس ذوالحجہ، وتر سے مرادیوم عرفہ اور شفع سے مراد قربانی کا دن ہے۔“ (عَنْ عَاءِشَۃُ إِنَّ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ مَا مِنْ یَوْمٍ أَکْثَرَ مِنْ أَنْ یُعْتِقَ اللَّہُ فیہِ عَبْدًا مِنَ النَّارِ مِنْ یَوْمِ عَرَفَۃَ وَإِنَّہُ لَیَدْنُو ثُمَّ یُبَاہِی بِہِمُ الْمَلاَءِکَۃَ فَیَقُولُ مَا أَرَادَ ہَؤُلاَءِ) (رواہ مسلم : باب فِی فَضْلِ الْحَجِّ وَالْعُمْرَۃِ وَیَوْمِ عَرَفَۃَ) ” حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ عرفہ کے علاوہ کوئی اور دن ایسا نہیں ہے جس میں اللہ تعالیٰ کثرت کے ساتھ بندوں کو جہنم سے آزاد کرتا ہو۔ اس دن اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے بہت قریب ہوتا ہے اور فرشتوں کے سامنے ان ( حجاج) کی وجہ سے فخر کرتا ہے اور کہتا ہے کہ یہ لوگ کیا چاہتے ہیں؟“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے فجر، دس راتوں، جفت اور طاق اور رات کی قسم اٹھا کر فرمایا ہے کہ یہ چیزیں سوچنے والے کے لیے بڑی اہمیت کی حامل ہیں۔ الفجر
2 الفجر
3 الفجر
4 الفجر
5 الفجر
6 فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ کی تخلیق میں جس طرح اس کی قدرت کی نشانیاں پائی جاتی ہیں اسی طرح یہ بات بھی اس کی قدرت اور قوت کا مظہر ہے کہ اس نے عاد اور ثمود جیسی قوموں کو نیست و نابود کیا جن کی تباہی سے لوگوں نے سکون پایا۔ موجودہ جغرافیے کے مطابق قوم عاد کی رہائش عمان اور یمن کے علاقے حضرموت کے درمیان تھی یہ علاقہ سمندر کے کنارے پر واقع تھا یہاں ریت کے بڑے بڑے ٹیلے اور بلندوبالا پہاڑ تھے۔ اس کے باسی جسمانی اعتبار سے دراز قامت، کڑیل جوان اور قوی ہیکل تھے دنیا میں ان کا ثانی کوئی نہیں پیدا کیا گیا۔ انھوں نے پہاڑتراش، تراش کر خوبصورت محلات تعمیر کر رکھے تھے ان کی سرزمین نہایت سر سبزتھی جس میں ہر قسم کے باغات لہلہاتے تھے انھیں قرآن مجید میں ” احقاف والے“ بھی کہا گیا ہے۔ احقاف ریت کے بڑے بڑے ٹیلوں کو کہا جاتا ہے جو عرب کے جنوب مغربی حصہ میں واقع تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اسی علاقہ میں حضرت ھود (علیہ السلام) کو مبعوث فرمایا جو خوش اندام کڑیل جوان اور بہترین صورت و سیرت کے حامل تھے۔ حضرت ہود علیہ السلامنے لمبی مدت تک اپنی قوم کو سمجھایا مگر قوم سمجھنے کے لیے تیار نہ ہوئی۔ قوم عاد کے جرائم : ١۔ قوم عاد نے خود ساختہ معبود بنا رکھے تھے ان کے سامنے اپنی حاجات و مشکلات پیش کرتے تھے۔ (الاعراف : ٧٠) ٢۔ یہ لوگ آخرت کو جھٹلانے اور دنیا پر اترانے والے تھے۔ (المؤمنون : ٣٣) ٣۔ ان کا عقیدہ تھا کہ اس دنیا کے سوا اور کوئی جہاں برپا نہیں ہوگا۔ (المؤمنون : ٣٧) ٤۔ یہ اپنی قوت پر اترانے والے تھے۔ (حٰآالسجدۃ : ١٥) اس قوم کی تباہی کا ایک منظر : ١۔ ان پر سات راتیں اور آٹھ دن زبردست آندھی اور ہوا کے بگولے چلے۔ (الحاقۃ : ٧) (الشعراء : ٢٠) ٢۔ گرج چمک اور بادو باراں کا طوفان آیا۔ (الاحقاف : ٢٤) ٣۔ آندھیوں نے انھیں کھجور کے تنوں کی طرح پٹخ پٹخ کر دے مارا۔ (الحاقۃ: ٧) ٤۔ انھیں ریزہ ریزہ کردیا گیا۔ (الذاریات : ٤١، ٤٢) ٥۔ دنیا میں ذلیل و خوار ہوئے اور آخرت میں سخت عذاب میں مبتلا ہوں گے۔ (السجدۃ : ١٦، ھود : ٥٩) ٦۔ قوم ھود کو نیست و نابود کردیا گیا۔ (الاعراف : ٧٢) قوم صالح کے جرائم : ١۔ قوم صالح اللہ کے ساتھ شرک کیا کرتی تھیں۔ (ھود : ٦٢۔ ٦١) ٢۔ ثمود انبیاء کو جھوٹا قرار دیتے تھے۔ (الشعراء : ١٤١) ٣۔ وہ لوگ بہت زیادہ اسراف، تکبر اور زمین میں فساد کرنے والے تھے۔ (الشعراء : ١٥٢، ١٥١) ٤۔ قوم ثمود ہدایت کے بجائے گمراہی کو پسند کرتی تھی۔ (حٰم السجدۃ: ١٧) ٥۔ انھوں نے اللہ کی نشانی کو جھٹلایا۔ (ھود : ٦٦) قوم ثمود کی ہلاکت کا منظر : ١۔ قوم ثمود کو تین دن کی مہلت دی گئی۔ (ھود : ٤٥) ٢۔ قوم ثمود کو صبح کے وقت ہولناک دھماکے نے آلیا اور ان کا مال واسباب ان کے کچھ کام نہ آئے۔ (الحجر ٨٣۔ ٨٤) ٣۔ ہم نے ان پر ہولناک چیخ نازل کی وہ ایسے ہوگئے جیسے بوسیدہ اور سوکھی ہوئی باڑ ہوتی ہے۔ (القمر : ٣١) فرعون اور اس کے ساتھیوں کا انجام : فرعون مصر کے حکمران کا اصلی نام نہیں بلکہ اس کا سرکاری لقب تھا۔ قدیم تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ یمن کا حکمران تبع، حبشہ کا بادشاہ نجاشی، روم کا حکمران قیصر، ایران کا فرمانروا کسریٰ کہلواتا اور ہندوستان کے حکمران اپنے آپ کو راجا کہلوانا پسند کرتے تھے۔ جس طرح آج کل صدارتی نظام میں حکمران پریذیڈنٹ اور پارلیمانی نظام رکھنے والے ممالک میں وزیر اعظم اور جرمن کا حکمران چانسلر کہلواتا ہے اسی طرح ہی مصر کا بادشاہ سرکاری منصب کے حوالے سے فرعون کہلواتا تھا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا جس فرعون سے واسطہ پڑا اس کا نام قابوس یا رعمیس تھا۔ یہ اپنے آپ کو خدا کا اوتار سمجھتے ہوئے لوگوں کو یہ تاثر دینے میں کامیاب ہوا کہ اگر میں خدا کا اوتار نہ ہوتا تو دنیا کی سب سے بڑی مملکت کا فرمانروا کیسے ہوسکتا تھا۔ پھر اس نے لوگوں کے مزاج اور مشرکانہ عقائد سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے آپ کو رب اعلیٰ قرار دیا۔ قوم اور موسیٰ (علیہ السلام) کے سامنے دعویٰ کیا کہ زمین و آسمان میں مجھ سے بڑھ کر کوئی رب نہیں ہے میں ہی سب دیوتاؤں سے بڑا دیوتا اور سب سے اعلیٰ اور اولیٰ کائنات کا رب ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی جھوٹی خدائی کے پرخچے اڑانے اور اس کی کذب بیانی کا پول کھولنے کے لیے اسی کے گھر میں پرورش پانے والے موسیٰ (علیہ السلام) کو رسول منتخب فرمایا۔ فرعون کو میخوں والا اس لیے کہا گیا ہے۔1۔ وہ اسلحہ کے لحاظ سے بڑا طاقتور تھا۔ 2۔ فرعون اپنے مخالفوں پر اس قدر ظلم کرتا کہ ان کے جسم پر کیل ڈھونک دیتا تھا بعض مفسرین کے مطابق اس نے اپنی بیوی حضرت آسیہ (رض) جو موسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لائی تھی اسے بھی یہی سزا دی تھی۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے عاد اولیٰ اور عاد ثانیہ کو ہلاک کیا۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے ثمود جیسی قوم دوبارہ پیدا نہیں کی۔ ٣۔ قوم ثمود نے پہاڑوں میں مکانات تعمیر کیے۔ ٤۔ قوم ثمود نے ملک میں بہت زیادہ فساد برپا کر رکھا تھا۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ نے قوم ثمود پر عذاب نازل کیا اور انہیں نیست ونابود کردیا۔ ٦۔ اللہ تعالیٰ نے قوم عاد اور آل فرعون تباہ کردیا۔ تفسیر بالقرآن قوم ثمود کی ہلاکت کا ایک منظر : ١۔ قوم ثمود نے حضرت صالح (علیہ السلام) سے عذاب کا مطالبہ کیا۔ (الاعراف : ٧٧) ٢۔ انھوں نے اونٹنی کی کونچیں کاٹ ڈالیں اور وہ نادم ہونے والوں میں سے ہوگئے۔ (الشعراء : ١٥٧) ٣۔ قوم ثمود کے بدبختوں نے اونٹنی کی ٹانگیں کاٹ دیں۔ الشمس : ١٤) ٤۔ ثمود زور دار آواز کے ساتھ ہلاک کیے گئے۔ (الحاقہ : ٥) ٥۔ قوم عاد و ثمود کے اعمال بد کو شیطان نے ان کے لیے فیشن بنا دیا تھا۔ (العنکبوت : ٣٨) ٦۔ قوم ثمود کو زلزلے نے آپکڑا اور وہ اپنے گھروں میں اوندھے پڑے رہ گئے۔ (الاعراف : ٧٨) ٧۔ قوم ثمود کو چیخ نے آپکڑا۔ وہ اپنے گھروں میں اوندھے پڑے ہوئے تھے۔ (ھود : ٦٧) قوم عاد کے بارے میں تفصیلاً الاعراف کے رکوع ١٦ جبکہ آل فرعون کے بارے میں سورۃ یونس رکوع ١٢، ١٣ کا مطالعہ کریں۔ الفجر
7 الفجر
8 الفجر
9 الفجر
10 الفجر
11 الفجر
12 الفجر
13 الفجر
14 الفجر
15 فہم القرآن ربط کلام : عاد، ثمود اور فرعون ہی نہیں ” رب ذوالجلال“ جب چاہے کسی باغی انسان کو پکڑ لے اور اسے آزمائش میں مبتلا کردے کیونکہ ہر وقت انسان اپنے رب کی نگرانی میں ہے۔ انسان کی عادت ہے کہ جب اسے اس کا رب مال اور تکریم عطا کرتا ہے تو وہ سوچتا اور کہتا ہے کہ مجھے میرے رب نے عزت عطا فرمائی ہے ا ورجب اس کا رب اسے رزق کی تنگی کے ساتھ آزماتا ہے تو کہتا ہے کہ میرے رب نے مجھے ذلیل کردیا ہے حالانکہ اکثر مال داروں کی حالت یہ ہے کہ وہ یتیم کے حقوق کا خیال نہیں رکھتے اور مسکینوں کو نہ کھانا کھلاتے ہیں اور نہ دوسروں کو ترغیب دیتے ہیں بلکہ یتیموں اور مسکینوں کا مال ہڑپ کرجاتے ہیں اور مال کے ساتھ بے حد محبت رکھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کی فطرت میں یہ بات رکھی ہے کہ اگر وہ یتیموں، مسکینوں اور فی سبیل اللہ کے کاموں پر خرچ کرتا ہے تو اس کی طبیعت میں کشادگی اور راحت پیدا ہوتی ہے اگر وہ غریبوں کے حقوق ادا نہیں کرتا تو اس کے دل میں بخل بڑھتا چلا جاتا ہے۔ اس بنا پر مال کے بارے میں اس کی حرص بڑھتی چلی جاتی ہے۔ ایسے شخص کا ضمیر بن جاتا ہے کہ اگر اسے مال اور تکریم حاصل ہو تو وہ اپنے رب پر خوش ہوتا ہے اور اگر اسے مال کی آزمائش میں مبتلا کردیا جائے تو کہتا ہے کہ میرے رب نے مجھے ذلیل کردیا ہے حالانکہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک مال اور جاہ وحشمت نیکی اور حقیقی عزت کا معیار نہیں۔ اس کے نزدیک یہ انسان کی آزمائش کا ذریعہ اور طریقہ ہے کہ وہ کسی کو مال اور منصب دے کر آزماتا ہے اور کسی سے چھین کر آزمائش کرتا ہے۔ لیکن دنیا دار شخص ان چیزوں کو اپنے رب کی رضا کا سر ٹیفکیٹ سمجھتا ہے حالانکہ یہ چیزیں نیک لوگوں کے مقابلے میں دنیا داروں کو زیادہ میسر ہوتی ہیں۔ مومن کی عظمت : (عَنِ ابْنِ عُمَرَ (رض) کُنَّا عِنْدَ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَأُتِیَ بِجُمَّارٍ فَقَالَ إِنَّ مِنَ الشَّجَرِ شَجَرَۃً مَثَلُہَا کَمَثَلِ الْمُسْلِمِ فَأَرَدْتُ أَنْ أَقُولَ ہِیَ النَّخْلَۃُ فَإِذَا أَنَا أَصْغَرُ الْقَوْمِ فَسَکَتُّ قَال النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہِیَ النَّخْلَۃُ) (رواہ البخاری : باب الفہم فی العلم) ” حضرت عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ ہم نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس بیٹھے ہوئے تھے آپ کے پاس کھجوریں لائیں گئیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سوال کیا کہ بتلاؤ درختوں میں سے ایک ایسا درخت ہے جو مومن کی مانند ہے؟ میں نے ارادہ کیا کہ بتلاؤں کہ وہ کھجور کا درخت ہے لیکن میں قوم میں سے سب سے چھوٹا تھا اس لیے میں خاموش رہا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خود جواب دے دیا کہ وہ کھجور کا درخت ہے۔“ سخی اور بخیل میں فرق : (عَنْ اَبِیْ ھُرَےْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَثَلُ الْبَخِےْلِ وَالْمُتَصَدِّقِ کَمَثَلِ رَجُلَےْنِ عَلَےْھِمَا جُنَّتَانِ مِنْ حَدِےْدٍ قَدِ اضْطُرَّتْ اَےْدِےْھِمَا اِلٰی ثُدِیِّھِمَا وَتَرَاقِےْھِمَا فَجَعَلَ الْمُتَصَدِّقُ کُلَّمَا تَصَدَّقَ بِصَدَقَۃٍ انْبَسَطَتْ عَنْہُ وَجَعَلَ الْبَخِیْلُ کُلَّمَا ھَمَّ بِصَدَقَۃٍ قَلَصَتْ وَاَخَذَتْ کُلُّ حَلْقَۃٍ بِمَکَانِھَا) (رواہ البخاری : باب مَثَلِ الْمُتَصَدِّقِ وَالْبَخِیلِ) ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : بخیل اور صدقہ کرنے والے کی مثال ان دو آدمیوں کی طرح ہے جنہوں نے زرہ پہن رکھی ہو اس کے ہاتھوں کو اس کی چھاتیوں اور سینے کے ساتھ جکڑ دیا گیا ہو۔ صدقہ دینے والا صدقہ کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو زرہ کشادہ ہوجاتی ہے، بخیل صدقہ کرنے کا خیال کرتا ہے تو زرہ سمٹ جاتی اور ہر کڑی اپنی اپنی جگہ پر سخت ہوجاتی ہے۔“ (عَنْ اَبِیْ ھُرَےْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اِنَّ اللّٰہَ تَعَالٰی ےَقُوْلُ ےَوْمَ الْقِےٰمَۃِ ےَا ابْنَ اٰدَمَ مَرِضْتُ فَلَمْ تَعُدْنِیْ قَالَ ےَا رَبِّ کَےْفَ اَعُوْدُکَ وَاَنْتَ رَبُّ الْعٰلَمِےْنَ قَالَ اَمَا عَلِمْتَ اَنَّ عَبْدِی فُلَانًا مَّرِضَ فَلَمْ تَعُدْہُ اَمَا عَلِمْتَ اَنَّکَ لَوْعُدْتَّہُ لَوَجَدْتَّنِیْ عِنْدَہُ ےَا ابْنَ اٰدَمَ اسْتَطْعَمْتُکَ فَلَمْ تُطْعِمْنِیْ قَالَ ےَا رَبِّ کَےْفَ اُطْعِمُکَ وَاَنْتَ رَبُّ الْعٰلَمِےْنَ قَالَ اَمَا عَلِمْتَ اَنَّہُ اسْتَطْعَمَکَ عَبْدِیْ فُلَانٌ فَلَمْ تُطْعِمْہُ اَمَاعَلِمْتَ اَنَّکَ لَوْ اَطْعَمْتَہُ لَوَجَدْتَّ ذَالِکَ عِنْدِیْ ےَا ابْنَ اٰدَمَ اسْتَسْقَےْتُکَ فَلَمْ تَسْقِنِیْ قَالَ ےَا رَبِّ کَےْفَ اَسْقِےْکَ وَاَنْتَ رَبُّ الْعٰلَمِےْنَ قَالَ اسْتَسْقَاکَ عَبْدِیْ فُلَانٌ فَلَمْ تَسْقِہٖ اَمَا عَلِمْتَ اَنَّکَ لَوْ سَقَےْتَہُ وَجَدْتَّ ذَالِکَ عِنْدِی) (رواہ مسلم : باب فضل عیادۃ المریض) ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن فرمائے گا اے آدم کے بیٹے! میں بیمار پڑا تو تو نے میری بیمارپرسی نہ کی۔ بندہ عرض کرے گا میرے پروردگار میں آپ کی بیمار پرسی کیسے کرتا؟ کیونکہ آپ ہی تو رب العالمین ہے اس پر اللہ فرمائے گا۔ تو نہیں جانتا کہ میرا فلاں بندہ بیمار ہوا تو نے اس کی بیمار پرسی نہ کی اگر تو اس کی بیمار پرسی کے لیے آتا تو مجھے اس کے پاس پاتا۔ اے ابن آدم! میں نے تجھ سے کھا نامانگا لیکن تو نے مجھے نہ کھلایا؟ بندہ جواب دے گا، اے میرے رب! میں تجھے کھانا کیسے کھلاتا تو تو جہانوں کو رزق دینے والا ہے اللہ تعالیٰ فرمائے گا تجھے معلوم نہیں میرے فلاں بندے نے تجھ سے کھانا مانگا مگر تو نے اس کو کھلانے سے انکار کردیا۔ کیا تجھے معلوم نہیں کہ اگر تو اسے کھانا کھلاتا تو اس کا بدلہ میرے پاس پاتا۔ آدم کے بیٹے ! میں نے تجھ سے پانی طلب کیا لیکن تو نے مجھے پانی نہ پلایاوہ عرض کرے گا، اے میرے رب! میں تجھے کیسے پانی پلاتا جب کہ تو تو جہانوں کا پالنے والا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ میرے فلاں بندے نے تجھ سے پانی مانگا تھا لیکن تو نے اسے پانی نہیں پلایا کیا تو نہیں جانتا کہ اگر تو نے اس کو پانی پلایا ہوتا تو آج میرے پاس تو اپنے لیے مشروبات پاتا۔“ (عَنِ ابْنِ الزُّبَیْرِ یَقُولُ سَمِعْتُ رَسُول اللَّہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَقُولُ لَیْسَ الْمُؤْمِنُ الَّذِی یَشْبَعُ وَجَارُہُ جَاءِعٌ إِلَی جَنْبِہِ) (رواہ البیھقی : باب صاحِبِ الْمَالِ لاَ یَمْنَعُ الْمُضْطَرَّ فَضْلاً إِنْ کَانَ عِنْدَہُ) ” حضرت عبداللہ بن زبیر (رض) کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے ہوئے سنا وہ شخص مومن نہیں ہوسکتا جو خود سیر ہو کر کھائے اور اس کا ہمسایہ اس کے پہلو میں بھوکا رہے۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ انسان کو اپنی نعمت دے کر آزماتا ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ غربت کے ذریعے بھی انسان کی آزمائش کرتا ہے۔ ٣۔ دنیادارکو نعمت ملتی ہے تورب کی تعریف کرتا ہے اور جب نعمت چھن جاتی ہے تو اپنے رب کا شکوہ کرتا ہے۔ ٤۔ مال سے محبت کرنے والے لوگ یتیموں اور مسکینوں کا خیال نہیں رکھتے۔ ٥۔ مال سے محبت رکھنے والے لوگ یتیموں اور مسکینوں کا مال ہڑپ کر جاتے ہیں۔ ٦۔ دنیادارلوگوں کی نشانی یہ ہے کہ وہ حد سے زیادہ مال سے محبت رکھتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن یتیموں اور مسکینوں کے حقوق : ١۔ یتیم تمہارے بھائی ہیں۔ (البقرۃ : ٢٢٠) ٢۔ یتیموں کی اصلاح میں بہتری ہے۔ (البقرۃ : ٢٢٠) ٣۔ یتیم کو جھڑکنے کی ممانعت ہے۔ (الضحیٰ : ٩) ٤۔ یتیم کا مال کھانا بہت بڑا گناہ ہے۔ (النساء : ٢) ٥۔ والدین، یتیموں، اور مسکینوں کے ساتھ حسن سلوک کرنا چاہیے۔ (النساء : ٣٦) الفجر
16 الفجر
17 الفجر
18 الفجر
19 الفجر
20 الفجر
21 فہم القرآن ربط کلام : جس مال پر انسان اترتا اور اسے جمع کر کے رکھتا ہے اس مال اور پوری دنیا کا انجام۔ دنیا دار انسان شعوری یا غیر شعوری طور پر سمجھتا ہے کہ اس کا مال اس کے پاس ہمیشہ رہے گا حالانکہ دنیا اور اس کی ہر چیز عارضی ہے، ایک وقت آنے والا ہے جب اس زمین پر زلزلے واقع ہوں گے اور ہر چیز تہس نہس کردی جائے گی زمین و آسمان بدل دیئے جائیں گے اور لوگوں کو محشر کے میدان میں جمع کرلیا جائے گا۔ جب لوگ محشر کے میدان میں جمع ہوجائیں گے تو جبریل امین اور تمام ملائکہ قطار اندر قطار کھڑے ہوں گے۔ (النبا : ٣٨) ملائکہ، انسان اور جنات رب ذوالجلال کی تشریف آوری کا انتظار کررہے ہوں گے تو اچانک زمین و آسمان کی ہر چیز روشن ہوجائے گی۔ (الزمر : ٦٩) جب ہر چیز جگمگا اٹھے گی تو رب ذوالجلال مخصوص ملائکہ کے ساتھ زمین پر جلوہ نما ہوں گے۔ اس دن جہنم کو حاضر کرلیا جائے جب مجرم جہنم کو دیکھے گا تو آہ وزاریاں کرتے ہوئے کہے گا کہ کاش! میں کوئی نیکی کرلیتا جس کا آج مجھے فائدہ پہنچتا لیکن اس دن نصیحت حاصل کرنے کا اسے کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ اللہ تعالیٰ ہر مجرم کی اس طرح گرفت کرے گا کہ کوئی بڑے سے بڑا طاقتور بھی اس طرح نہیں پکڑ سکتا پھر اسے اس کے جرائم کے مطابق ایسی سزادی جائے گی کہ اس جیسی سزا کوئی اور نہیں دے سکتا۔ دنیا میں بے شمار ایسے مجرم ہوتے ہیں جو اپنے اثرورسوخ کی و جہ سے سزا سے بچ جاتے ہیں لیکن قیامت کا دن ایسا ہوگا کہ کوئی مجرم رب ذوالجلال کی پکڑ اور سزا سے نہیں بچ سکے گا۔ ہر مجرم کو اس کے جرائم کے مطابق ٹھیک ٹھیک سزادی جائے گی ایسی سزا جس میں کسی پر ظلم نہیں ہوگا۔ اللہ تعالیٰ نے اس مقام پر اپنے لیے ” جاء ربک“ کے الفاظ استعمال فرمائے ہیں کہ آپ کا رب ملائکہ کے ساتھ آئے گا۔ اس فرمان کے بارے میں بعض مفسرین نے بہت قیل و قال کی ہے ان کی منہ شگافیوں کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کس طرح تشریف لائے گا اور کیا اس وقت اس کا عرش خالی ہوجائے گا۔ اس قیل و قال کے دو ہی جواب ہوسکتے ہیں۔ ١۔ اس دن زمین و آسمان اور پوری کائنات کو بدل دیا جائے گا ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا عرش آسمانوں کی بجائے زمین پر ہو۔ ٢۔ دوسرا جواب یہ ہے کہ یہ سوچ انسان کے محدود تصور کا نتیجہ ہے کیونکہ انسان اس سے آگے سوچ ہی نہیں سکتا اس لیے قیامت کے معاملات کو اپنی سوچ پر قیاس کرنا جائز نہیں۔ اللہ تعالیٰ کے بارے میں ایسا سوچنے کی اس لیے اجازت نہیں کیونکہ اس کا فرمان ہے۔ (لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَیْءٌ) (الشوریٰ : ١١) اللہ تعالیٰ کسی چیز کی مثل نہیں لہٰذا اس کی ذات اور صفات کو کسی کی ذات اور صفات پر قیاس نہیں کیا جا سکتا۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم اس نظام کو موجودہ نظام پر قیاس نہیں کرسکتے۔ مسائل ١۔ قیامت کے دن زمین پوری طرح ہلا کر رکھ دی جائے گی، ججس سے زمین چٹیل میدان بن جائے گی۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن محشرکے میدان میں جلوہ نما ہوگا۔ جبرئیل امین (علیہ السلام) اور فرشتے قطار اندر قطار کھڑے ہوں گے۔ ٣۔ قیامت کے دن مجرم اپنے آپ پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہیں گے۔ کاش! ہم آج کے دن کے لیے اچھے اعمال کرتے۔ ٤۔ قیامت کے دن جہنم کو لوگوں کے سامنے لایا جائے گا۔ ٥۔ اس دن اللہ تعالیٰ سے بڑھ کر نہ کسی کی پکڑ ہوگی اور نہ اس سے زیادہ کوئی سزا دینے والا ہوگا۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ کی عدالت کا ایک منظر : ١۔ اللہ تعالیٰ انصاف کے ساتھ فیصلہ فرمائیں گے اور لوگوں پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔ (یونس : ٥٤) ٢۔ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن حق کے ساتھ فیصلہ فرمائیں گے اور کسی پر ظلم نہیں ہوگا۔ (الزمر : ٦٩) ٣۔ اللہ تعالیٰ کی عدالت میں مجرم کی سفارش قبول نہ ہوگی۔ (البقرۃ : ٤٨) ٤۔ اللہ تعالیٰ کی عدالت میں خریدو فروخت، دوستی اور کسی کی سفارش کام نہ آئے گی۔ (البقرۃ : ٢٥٤) الفجر
22 الفجر
23 الفجر
24 الفجر
25 الفجر
26 الفجر
27 فہم القرآن ربط کلام : مجرموں کے مقابلے میں نیک لوگوں کا اجر اور مقام۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں نفس انسانی کی تین حالتیں بیان کی ہیں۔ ١۔ نفس مطمئنہّ: ہر حال میں مطمئن یعنی نیکی پر قائم رہنے والا۔ (الفجر : ٢٧) ٢۔ نفس لوّامہ : گناہ پر ملامت کرنے والا (القیامہ : ٢) ٣۔ نفس امّارہ : گناہ پر ابھارنے والا (یوسف : ٥٣) یہ انسان کے دل کی تین حالتیں ہیں نفس مطمئنہ صرف انبیاء کو نصیب ہوتا ہے باقی انسانوں کے نفس کی دو کیفیتیں ہوتی ہیں۔ (١) نفسِ امّارہ اور نفس لوّامہ۔ ان کے درمیان مقابلہ رہتا ہے اگر نفس لوّامہ جیت جائے تو انسان کو نیک اعمال کی توفیق ملتی ہے اور اگر نفس امّارہ غالب آجائے تو آدمی برائی کا مرتکب ہوتا ہے۔ قیامت کے دن ایک طرف مجرموں کو جکڑا جارہا ہوگا اور دوسری طرف ہر نیک کے لیے یہ اعلان ہوگا کہ اے میرے نیک بندے ! اپنے رب کے حضور راضی خوشی حاضرہوجا اور میرے بندوں میں شامل ہو کر میری جنت میں داخل ہوجا۔ ” جن لوگوں نے کہا کہ ہمارا رب ” اللہ“ ہے اور اس پر ثابت قدم رہے یقیناً ان پر ملائکہ نازل ہوتے ہیں اور ان سے کہتے ہیں کہ نہ ڈرو، اور نہ غم کرو، بلکہ اس جنت کے بارے میں خوش ہوجاؤ جس کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے، ہم اس دنیا کی زندگی میں بھی تمہارے ساتھی ہیں اور آخرت میں بھی ساتھی ہوں گے، وہاں جو چاہو گے تمہیں ملے گا اور جس چیز کی تمنا کرو گے اسے پاؤ گے اس ” رب“ کی طرف سے یہ مہمان نوازی ہے جو غفور ورحیم ہے۔“ (حمٓ السجدۃ: ٣٠ تا ٣٢) ” حضرت برا بن عازب (رض) بیان کرتے ہیں نبی مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ ہم انصار کے کسی آدمی کے جنازہ کے لیے نکلے قبرستان پہنچے تو ابھی قبر کھودی نہیں گئی تھی۔ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بیٹھ گئے ہم بھی آپ کے ارد گرد بیٹھ گئے جیسے ہمارے سروں پر پرندے بیٹھے ہوں، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہاتھ میں ایک چھڑی تھی آپ اس کے ساتھ زمین کرید رہے تھے آپ نے سر اٹھاتے ہوئے دو یا تین مرتبہ فرمایا قبر کے عذاب سے پناہ مانگو پھر فرمایا جب کافر دنیا کو چھوڑ کر آخرت کی طرف جا رہا ہوتا ہے تو اس کی طرف آسمان سے سیاہ چہروں والے فرشتے آتے ہیں ان کے ہاتھ میں بدبودار بوری ہوتی ہے وہ حد نگاہ تک اس کے پاس بیٹھ جاتے ہیں، پھر اس کے پاس ملک الموت آتا ہے یہاں تک کہ اس کے سر کے پاس بیٹھ جاتا ہے اور کہتا ہے اے خبیث نفس! اللہ تعالیٰ کی ناراضگی اور غضب کا سامنا کر۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا وہ اس کی روح کو اس طرح نکالتے ہیں جس طرح گرم سلائی کو روئی سے نکالا جاتا ہے وہ اس کو نکال کر تھیلے میں ڈالتے ہیں اس سے اتنی بدبو نکلتی ہے جس طرح زمین سے کسی لاش کی بدبو پھوٹتی ہے۔ فرشتے اس کو لے کر آسمانوں کی طرف چڑھتے ہیں وہ فرشتوں کے جس گروہ کے پاس سے گزرتے ہیں وہ کہتے ہیں یہ خبیث روح کون ہے۔ ملائکہ کہتے ہیں یہ فلاں بن فلاں ہے۔ اس کے برے نام لیتے ہیں یہاں تک کہ وہ آسمان دنیا تک پہنچتے ہیں وہ اس کو کھلوانا چاہتے ہیں مگر اسے کھولا نہیں جاتا، پھر نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس آیت مبارکہ کی تلاوت فرمائی :” ان کے لیے آسمان کے دروازے نہیں کھولے جائیں گے نہ وہ جنت میں داخل ہوں گے یہاں تک کہ سوئی کے ناکے میں اونٹ داخل ہوجائے۔ (الاعراف : ٤٠) “ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اس کے لیے سجین یعنی زمین کی تہہ میں ٹھکانا لکھو۔ اس کی روح کو نیچے پھینک دیا جاتا ہے پھر نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس آیت مبارکہ کی تلاوت فرمائی ” جو اللہ کے ساتھ شرک کرے گا گویا کہ وہ آسمان سے گرا اور اسے پرنداچک لیں یا اس کو ہوائیں کسی دور دراز مقام پر پھینک دیں گی۔“ (الحج : ٣١) اس کے بعد اس کی روح کو اس کے بدن میں لوٹا دیا جاتا ہے اور اس کے پاس دو فرشتے آتے ہیں جو اس کو بٹھاتے ہیں وہ اس سے پوچھتے ہیں تیرا رب کون ہے؟ وہ کہتا ہے ہائے ہائے میں نہیں جانتا۔ فرشتے کہتے ہیں تیرا دین کیا ہے وہ کہتا ہے ہائے ہائے میں نہیں جانتا۔ فرشتے پوچھتے ہیں کہ یہ شخص کون ہے جو تم میں نبی مبعوث کیا گیا ؟ وہ کہتا ہے ہائے ہائے میں نہیں جانتا۔ آسمانوں سے آواز دینے والا آواز دیتا ہے کہ یہ جھوٹ بول رہا ہے اس کا بچھونا آگ کا بنا دو اور آگ کا دروازہ اس کی طرف کھول دو۔ اس کے پاس اس آگ کی گرمی اور بدبو آتی ہے اس پر اس کی قبر تنگ کردی جاتی ہے یہاں تک کہ اس کی پسلیاں ایک دوسرے میں گھس جاتی ہیں اور اس کے پاس بدصورت گندے کپڑے اور بدبو دار جسم کے ساتھ آدمی آتا ہے تو وہ کہتا ہے آج خوش ہوجا تجھے حسب وعدہ ذلیل کیا جائے وہ پوچھتا ہے تو اتنی ڈراؤنی شکل والا کون ہے جو اتنی بری بات کہہ رہا ہے وہ کہے گا میں تیرا برا عمل ہوں مردہ کہے گا اے میرے رب قیامت کبھی قائم نہ کرنا۔“ (مسند احمد : مسند البراء بن عازب، قال الالبانی ھٰذا حدیث صحیح) مسائل ١۔ رب کریم قیامت کے دن نیک لوگوں کو اپنے حضور بلائے گا اور وہ اپنے رب کے پاس راضی خوشی ہوں گے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نیک لوگوں کو فرمائے گا کہ میرے بندوں میں شامل ہوجاؤ اور میرے جنت میں داخل ہوجاؤ۔ الفجر
28 الفجر
29 الفجر
30 الفجر
0 سورۃ البلد کا تعارف یہ مکی سورت ہے اس کا نام اس کی پہلی آیت کے آخر میں موجود ہے یہ بیس آیات پر مشتمل ہے جنہیں ایک رکوع شمار کیا گیا ہے یہ سورت مکہ معظمہ کے اس دور میں نازل ہوئی جب کفار مکہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مخالفت میں ایڑی چوٹی کا زور لگائے ہوئے تھے اس میں انسان کو یہ احساس دلایا گیا ہے کہ وہ سمجھتا ہے کہ اس پر کوئی قابو پانے والا نہیں بالخصوص مال دار آدمی اپنی دولت کے خمار میں مبتلا ہو کر یہ خیال کرتا ہے کہ اسے کوئی دیکھنے والا نہیں حالانکہ اللہ تعالیٰ نے اسے دو آنکھیں ایک زبان اور دو ہونٹ دیے ہیں اور اس کی رہنمائی کا انتظام فرمایا۔ لیکن بالخصوص بخیل آدمی ایسا نیکی کا کام کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتا جس میں اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر مال خرچ کرنا پڑے حالانکہ کامیابی کا راستہ یہ ہے کہ انسان بالخصوص غریبوں پر ترس کھائے اور ایک دوسرے کو صبر کرنے کی تلقین کرے جو لوگ یہ کردار اختیار کریں گے وہ قیامت کے دن دائیں بازو والے ہوں گے اور جو یہ کردار اختیار نہیں کریں گے وہ بائیں بازو والے ہوں گے اور ان پر جہنم کی آگ مسلط کردی جائے گی۔ البلد
1 فہم القرآن ربط سورت : سورۃ الفجر کے آخر میں ارشاد فرمایا کہ ” اللہ تعالیٰ“ ظالموں کو ایسی سزا دے گا کہ اس طرح کی سزا کوئی اور نہیں دے سکتا۔ ان کے مقابلے میں نیک لوگوں کو اپنی رضا سے سرفراز فرمائے گا اور انہیں جنت میں داخل کرے گا۔ سورۃ البلد کے آغاز میں دو قسمیں اٹھانے کے بعد ارشاد فرمایا کہ باغی انسان سمجھتا ہے کہ اسے کوئی دیکھنے والا اور اس پر کوئی قابو پانے والا نہیں حالانکہ ” اللہ تعالیٰ“ ہر وقت انسان کی نگرانی کر رہا ہے اور اسی نے اس کو دیکھنے کے لیے آنکھیں دیں، بولنے کے لیے زبان اور کھانے پینے کے لیے دو ہونٹ دئیے ہیں۔ یہ سورت بھی سورۃ القیامہ کی طرح ” لَآ اُقْسِمُ“ کے الفاظ سے شروع ہوئی ہے اس کا معنٰی یہ ہے کہ میں قسم کھاتا ہوں۔ ” لا“ کا لفظ اس لیے لایا گیا ہے کہ اہل مکہ دعوت توحید کی مخالفت میں ایڑی چوٹی کا زور لگائے ہوئے تھے۔ اس پر انہیں وارننگ دی گئی ہے کہ تم جتنا زور لگانا چاہتے ہو لگا لو مگر یاد رکھو کہ تم اپنے عزائم میں کبھی کامیاب نہیں ہوسکتے۔ ہمیں اس شہر کی قسم کہ وقت آنے والا ہے جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس قدر کامیاب ہوں گے کہ آپ کے سامنے کوئی چیز بھی حائل نہیں سکے گی۔ آپ اس شہر میں اس حال میں داخل ہوں گے کہ آپ کے لیے اس شہر کی حرمت حلال کردی جائے گی۔ یاد رہے کہ جب سے ابراہیم (علیہ السلام) نے بیت اللہ تعمیر فرمایا ہے اس وقت سے لے کر مکہ معظمہ میں ہر قسم کا جنگ و جدال حرام ہے اور یہ حرمت قیامت تک قائم رہے گی۔ تاہم نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے فتح مکہ کے موقع پر مکہ کی حرمت کو چند گھڑیاں موقوف کیا گیا تاکہ اسے کفرو شرک سے پاک کردیا جائے۔ اللہ تعالیٰ نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فتح مکہ کے موقع پر ایسا رعب اور کامیابی عطا فرمائی کہ کوئی شخص آپ کے سامنے دم نہیں مار سکا تھا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے چار آدمیوں کے قتل کا حکم دینے کے سوا باقی سب کو معاف کردیا۔ (عَنْ اَبِیْ شُرَیْحِ نِ الْعَدَوِیِّ اَنَّہُ قَالَ لِعَمْرٍو ابْنِ سَعِیْدٍ (رض) وَھُوَ یَبْعَثُ الْبُعْوثَ اِلٰی مَکَّۃَ اِءْذَنْ لِیْ اَیُّھَا الْاَمِیْرُ اُحَدِّ ثُکَ قَوْلاً قَامَ بِہٖ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) الْغَدَ مِنْ یَوْمِ الْفَتْحِ سَمِعَتْہُ اُذُنَایَ وَ وَعَاہُ قَلْبِیْ وَاَبْصَرَتْہُ عَیْنَایَ حِیْنَ تَکَلَّمَ بِہٖ حَمِدَ اللّٰہَ وَاَثْنٰی عَلَیْہِ ثُمَّ قَالَ اِنَّ مَکَّۃَ حَرَّمَہَا اللّٰہُ وَلَمْ یُحَرِّمْھَا النَّاسُ فَلَا یَحِلُّ لِا مْرِ ءٍ یُؤْمِنُ باللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِاَنْ یَّسْفِکَ بِھَا دَمًا وَلَا یَعْضُدَ بِھَا شَجَرَۃً فَاِنْ اَحَدٌ تَرَخَّصَ بِقِتَالِ رَسُوْلِ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فِیْھَا فَقُوْلُوْا لَہٗ اِنَّ اللّٰہَ قَدْ اَذِنَ لِرَسُوْلِہٖ وَلَمْ یَأْذَنْ لَکُمْ وَاِنَّمَا اَذِنَ لِیْ فِیْھَا سَاعَۃً مِنْ نَّہَارٍ وَقَدْعَادَتْ حُرْمَتُھَا الْیَوْمَ کَحُرْمَتِھَا بالْاَمْسِ وَلْیُبَلِّغِ الشَّاہِدُ الْغَاءِبَ فَقِیْلَ لِاَبِیْ شُرَیْحٍ مَا قَالَ لَکَ عَمْرٌو قَالَ اَنَا اَعْلَمُ بِذَالِکَ مِنْکَ یَا اَبَا شُرَیْحٍ اِنَّ الْحَرَمَ لَا یُعِیْذُعَاصِیاً وَلَا فَآراًّ بِدَمٍ وَلَا فَآرًّا بِخَرْبَۃٍ۔) (رواہ البخاری : باب لِیُبَلِّغِ الْعِلْمَ الشَّاہِدُ الْغَاءِبَ) ” حضرت ابوشریح عدوی (رض) بیان کرتے ہیں انہوں نے عمرو بن سعید (رض) کو فرمایا : جو مکہ مکرمہ کی طرف لشکر بھیج رہے تھے، اے امیر! مجھے اجازت دیجیے کہ میں آپ کو رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ایک حدیث سناؤں۔ یہ بات نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فتح مکہ کے دوسرے دن ارشاد فرمائی تھی جسے میرے دونوں کانوں نے سنا اور میرے دل نے اسے یادرکھا۔ جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خطاب فرمارہے تھے تو میری دونوں آنکھیں آپ پر جمی ہوئی تھیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اللہ کی حمدوثنا کے بعد فرمایا بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے مکہ کو حرمت بخشی ہے کسی شخص نے اسے حرمت نہیں دی جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے اس کے لیے جائز نہیں کہ وہ اس میں خون ریزی کرے اور حرم میں کسی درخت کو کاٹے اگر کوئی شخص مکہ میں اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قتال کو مثال بنا کراس میں لڑائی جائز سمجھے تو اسے بتاؤ۔ اس میں شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے صرف اپنے رسول کو اجازت عطا فرمائی لیکن تجھے اجازت نہیں دی گئی۔ مجھے بھی بس دن کے بالکل تھوڑے وقت کے لیے اجازت دی گئی اور اب اس کی حرمت ہمیشہ کی طرح ہے، یہ بات غیر موجود لوگوں تک پہنچا دو۔ اس پر ابوشریح سے پوچھا گیا کہ پھر آپ کو عمرو نے کیا جواب دیا ؟ ابوشریح نے بتایا، اس نے جواب دیا‘ ابوشریح مجھے تم سے زیادہ اس بات کا علم ہے کہ حرم نہ کسی گنہگار کو اور نہ ہی مفرور قاتل کو اور نہ خیانت کر کے بھاگنے والے کو پناہ دیتا ہے۔“ تفسیر بالقرآن بیت اللہ اور مکہ معظمہ کی فضیلت اور حرمت : ١۔ دنیا میں پہلا گھر بیت اللہ تعمیر ہوا۔ (آل عمران : ٩٦) ٢۔ قسم ہے اس شہر کی۔ (البلد : ١) ٣۔ اے میرے رب اس گھر کو امن والا بنا۔ (ابراہیم : ٣٥) ٤۔ قسم ہے اس امن والے شہر کی۔ (التین : ٣) ٥۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے دعا کی اے اللہ اس شہر کو امن والا بنادے۔ (البقرۃ : ١٢٦) البلد
2 البلد
3 فہم القرآن ربط کلام : مکہ شہر کی قسم اٹھانے کے بعد باپ اور اس کی اولاد کی قسم اٹھا کر ہر انسان کو ایک حقیقت بتلائی گئی ہے۔ مکہ کی قسم اٹھا کر بین السطور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو آپ کی دعوت کی کامیابی کی خبر دی گئی ہے، اس کے بعد فرمایا کہ مجھے باپ اور اس کی اولاد کی قسم! ہم نے انسان کو مشقت جھیلنے کے لیے پیدا کیا ہے لیکن انسان سمجھتا ہے کہ کوئی اس پر قابو نہیں پاسکے گا۔ باپ اور اولاد سے مراد حضرت آدم (علیہ السلام) اور ان کی پوری اولاد ہے۔ کچھ اہل علم نے باپ سے مراد ابراہیم (علیہ السلام) اور اولاد سے مراد بنی اسماعیل (علیہ السلام) لیے ہیں۔ لیکن مناسب یہ ہے کہ باپ سے مراد آدم (علیہ السلام) لیے جائیں اور اولاد سے مراد ان کی پوری اولادسمجھی جائے اس میں ابراہیم (علیہ السلام) اور بنی اسماعیل بھی آجاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے باپ اور اس کی اولاد کی قسم اٹھا کر انسان کو اس کے ماں، باپ کے مرتبہ سے آگاہ فرمایا ہے، اس کے ساتھ ہی انسان کو بتلایا ہے کہ تجھے سختی جھیلنے کے لیے پیدا کیا ہے۔ اس سختی سے مراد انسان کی پیدائش کے مختلف مراحل ہیں۔ اس میں وہ سختیاں بھی شامل ہیں جن کے ساتھ انسان کو زندگی میں واسطہ پڑتا ہے۔ انسان کو ان سختیوں کے ساتھ دوچار کرنے میں ایک حکمت یہ ہے کہ انسان قدم قدم پر اس ہستی کی طرف متوجہ رہے جو ذات سختیوں کو آسانیوں میں تبدیل کرنے والی ہے، ان سختیوں میں دوسری حکمت یہ ہے کہ انسان ہر دم یہ خیال رکھے کہ میں خودمختار نہیں بلکہ مختار قوت اللہ تعالیٰ کی ذات ہے جو ہر وقت میری نگرانی کررہی ہے، اور جب چاہے مجھے مشکل میں ڈال سکتی ہے لہٰذا مجھے سرکش اور باغی بننے کی بجائے مختار کل ہستی کے تابع رہ کر زندگی بسر کرنی چاہیے۔ اس کے لیے تیسرا سبق یہ ہے کہ اسے اپنا مال اور صلاحیتیں ایسے کاموں پر صرف کرنی چاہیے جہاں خرچ کرنے سے اس کا خالق راضی ہوتا ہے یہ تبھی ہوسکتا ہے جب انسان اپنے خالق کے بارے میں یہ عقیدہ رکھے کہ میرا خالق میری زندگی کے ایک ایک لمحہ کی نگرانی کررہا ہے اور وہی مجھے رزق دینے والا ہے، جس نے اپنے خالق کو پہچان اور نگران سمجھ لیا وہ زیادہ دیر تک فطرت کی بغاوت اور اپنے خالق کی سرکشی نہیں کرسکتا اور نہ ہی خالق کے دئیے ہوئے مال کو بے جا لٹاسکتا ہے۔ یہاں مال لوٹانے سے مراد نیکی کے کاموں پر خرچ کرنا نہیں بلکہ نمود ونمائش پر خرچ کرنا ہے جس کا ہر صورت حساب لیا جائے گا اور ایسے شخص کو دنیا میں بھی پچھتاوا ہوگا۔ (عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لِرَجُلٍ وَہُوَ یَعِظُہٗ اِغْتَنِمْ خَمْسًا قَبْلَ خَمْسٍ شَبَابَکَ قَبْلَ ہَرَمِکَ وَصِحَّتِکَ قَبْلَ سَقْمِکَ وَغِنَاکَ قَبْلَ فَقْرِکَ وَفِرَاغَکَ قَبْلَ شُغُلِکَ وَحَیَاتَکَ قَبْلَ مَوْتِکَ) (رواہ الحاکم) ” حضرت عبداللہ بن عباس (رض) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک آدمی کو وعظ و نصیحت فرما رہے تھے۔ آپ نے فرمایا پانچ چیزوں کو پانچ چیزوں سے پہلے غنیمت جانو، جوانی کو بڑھاپے سے پہلے، تندرستی کو بیماری سے پہلے، خوشحالی کو تنگدستی سے پہلے فارغ وقت کو مصروف ہونے سے پہلے اور زندگی کو موت سے پہلے۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) اور اس کی اولاد کی قسم اٹھا کر فرمایا ہے کہ ہم نے انسان کو مشکلیں جھیلنے کے لیے پیدا کیا ہے۔ ٢۔ باغی انسان سمجھ بیٹھتا ہے کہ اسے کوئی قابو کرنے والا نہیں اور نہ ہی اس کی کوئی نگرانی کرنے والاہے۔ ٣۔ انسان بہت سامال فضول کاموں پر لوٹا دیتا ہے اور بعد میں اسے حسرت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ ہر وقت انسان کی نگرانی کرنے والاہے : ١۔ تم جو بھی عمل کرتے ہو وہ اللہ کے علم میں ہوتا ہے۔ (یونس : ٦١) ٢۔ اللہ تعالیٰ تمام مخلوقات کو جاننے والا ہے۔ (یٰس : ٧٩) ٣۔ جو لوگ جہالت کی وجہ سے برائی کرتے ہیں، پھر جلدی سے توبہ کرلیتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کی توبہ قبول کرتا ہے اور اللہ ہر چیز کو جاننے اور حکمت والا ہے۔ (النساء : ١٧) ٤۔ اللہ سے اس کے فضل کا سوال کرو یقیناً اللہ تعالیٰ ہر چیز کو جاننے والا ہے۔ (النساء : ٣٢) ٥۔ جو کچھ تم اللہ کے دیے ہوئے میں سے خرچ کرتے ہو اللہ اس کو جاننے والا ہے۔ (النساء : ٣٩) ٦۔ قیامت کا، بارش کے نازل ہونے کا، اور جو کچھ رحموں میں ہے اور انسان کل کیا کمائے گا اور اسے کہاں موت آئے گی اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ (لقمان : ٣٤) ٨۔ اللہ تعالیٰ جانتا ہے جو تم ظاہر کرتے ہو اور چھپاتے ہو۔ وہ تو سینے کے رازوں کو بھی جاننے والا ہے۔ (ہود : ٥) البلد
4 البلد
5 البلد
6 البلد
7 البلد
8 فہم القرآن ربط کلام : جس شخص کا یہ خیال ہے کہ ” اللہ تعالیٰ“ اسے نہیں دیکھتا اسے اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ ” اللہ تعالیٰ“ اسے اس وقت سے دیکھ رہا ہے کہ جب اس کے رحم مادر میں نقش ونگار بنائے جا رہے تھے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ کیا انسان اس پر پر غور نہیں کرتاکہ ہم نے اسے دو آنکھیں، ایک زبان اور دوہونٹ عطا کیے ہیں اور ہم نے اسے دوراستے دکھائے ہیں مگر اس نے مشکل گھاٹی سے گزرنے کی کوشش نہیں کی۔ آپ کیا سمجھیں کہ مشکل گھاٹی کیا ہے؟ مشکل گھاٹی یہ ہے کہ کسی کی گردن کو غلامی سے چھڑایا جائے، کسی قرابت دار فاقہ مست اور خاک نشین، یتیم یا مسکین کو بھوک کے دن کھانا کھلانا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہاں مشکل کاموں کا ذکر کرنے سے پہلے ارشاد فرمایا ہے کہ کیا انسان اس بات پر غور نہیں کرتا کہ ہم نے اس کو دو آنکھیں، ایک زبان اور دو ہونٹ عطا فرمائے ہیں۔ آنکھوں، ہونٹوں اور زبان کا ذکر فرماکر اشارہ کیا ہے کہ انسان بالخصوص مال دار آدمی کا فرض بنتا ہے کہ وہ اپنی آنکھوں سے غریبوں کے حالات دیکھے پھر ان کے ساتھ تعاون کرے اور دوسرے کو بھی تلقین کرے کہ وہ یتیموں اور مسکینوں کے حقوق کا خیال رکھے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اسے نیکی اور بدی کے راستوں کی نشاندہی کردی ہے۔ اس مقام پر مشکل گھاٹی سے مراد یتیموں اور مسکینوں کے حقوق کا خیال رکھنا ہے اور بدی سے مراد یتیموں اور مسکینوں کے حقوق سے نظریں بچانا اور ان کے حقوق غصب کرنا ہے، ہدایت سے مراد نیکی اور برائی کی نشاندہی ہے۔ یہاں نیکی کے پانچ کاموں کو مشکل گھاٹی پر چڑھنے کے مترادف قرار دیا ہے یہ پانچوں کام ایسے ہیں جن کی قرآن و سنت میں بڑی ترغیب اور فضیلت بیان کی گئی ہے یہ کام وہی انسان کرسکتا ہے جو ایمان میں سچا ہو اور اسے اپنے رب پر کامل یقین ہو کہ وہ اسے ان کاموں کا اجر عطا فرمائے گا۔ غلام کی گردن چھڑانے میں اس لیے اجر رکھا گیا ہے کہ وہ بے چارہ دوسرے کے ہاتھوں میں بے بس ہوتا ہے اور اپنی بے بسی کی وجہ سے نہ اپنی مرضی سے کوئی کام کرسکتا ہے اور نہ اپنے محسن کا بدلہ چکا سکتا ہے۔ یتیم کو کھانا کھلانے اور اس کی خدمت کرنے پر اس لیے اجر رکھا گیا ہے کہ وہ بے سہارا ہوتا ہے اور یہی حالت مسکین کی ہوتی ہے۔ ” حضرت ابوبردہ (رض) نے اپنے والد سے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان بیان کرتے ہوئے سنا نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تین طرح کے افراد کو دوہرا اجر عطا کیا جائے گا ان میں سے ایک وہ ہوگا جس کے پاس لونڈی ہو اس نے اسے اچھی طرح تعلیم دی، اسے ادب سکھایا اور اچھے انداز سے اس کی تربیت کی پھر وہ اسے آزاد کردیا اور اس کے ساتھ نکاح کرلیا۔ دوسرایہود و نصاریٰ کا وہ شخص جو اپنے دین میں پکا تھا اور بعد ازاں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لے آیا اس کے لیے بھی دوہرا اجر ہے تیسرا وہ شخص جو غلام ہے اللہ تعالیٰ کے حقوق ادا کرتے ہوئے اپنے مالک کے کام اور خدمت میں اس کی خیرخواہی کرتا ہے۔“ (رواہ البخاری : کتاب الجھاد و السیر، بَاب فَضْلِ مَنْ أَسْلَمَ مِنْ أَہْلِ الْکِتَابَیْنِ ) ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بیوہ اور مسکین کے ساتھ تعاون کرنے والا۔ اللہ کی راہ میں مجاہد کی طرح ہے یا رات کو قیام اور دن کو روزہ رکھنے والے کی طرح ہے۔“ (رواہ البخاری : باب فضل النفقۃ علی الأھل) ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اپنے دل کی سختی کے بارے میں شکایت کی آپ نے فرمایا : اگر تو اپنے دل کو نرم کرنا چاہتا ہے تو مسکین کو کھانا کھلا اور یتیم کے سر پر ہاتھ پھیر۔“ (مسند احمد : کتاب باقی مسند المکثرین، باب مسند أبی ھریرۃ) مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو دو آنکھیں، دوہونٹ اور زبان عطا فرمائی ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو دو راستوں کی نشاندہی کی ہے۔ ٣۔ نیکی کے کاموں میں مشکل ترین کام غلام کو آزاد کروانا، مسکین کو بھوک کے دن کھانا کھلانا اور قریبی یتیم کی کفالت کرنا ہے۔ تفسیر بالقرآن نیکی اور برائی کے راستے : ١۔ جس نے ذرہ برابر نیکی کی ہوگی وہ اس کو دیکھ لے گا۔ جس نے ذرہ برابر برائی کی ہوگی وہ بھی اس کو دیکھ لے گا۔ (الزلزال : ٧ تا ٨) (الانعام : ١٦٠) (القصص : ٨٤) (یونس : ٥٢) (النازعات : ٣٧) (الدھر : ١٢) (احقاف : ٢٠) البلد
9 البلد
10 البلد
11 البلد
12 البلد
13 البلد
14 البلد
15 البلد
16 البلد
17 فہم القرآن ربط کلام : مشکل ترین کاموں میں مزید مشکل ترین کام۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مسکین کو کھانا کھلانا، رشتہ دار یتیم کی پرورش کرنا، اخلاقی لحاظ اور مالی اعتبار سے مشکل ترین کام ہیں لیکن ان کاموں سے مشکل ترین کام یہ ہے کہ انسان اپنے باطل نظریات بالخصوص کفر و شرک کو چھوڑ کر توحید و رسالت کا عقیدہ اپنائے اور اس راستے میں جو بھی مشکلات آئیں ان کا پورے حوصلے کے ساتھ مقابلہ کرتے ہوئے اپنے ساتھیوں کے حوصلوں کو بھی بلند رکھنے کی کوشش کرے اور ایک دوسرے کے ساتھ نرمی اور مہربانی کا رویہ اختیار کرے۔ دین اختیار کرنے پر مشکلات کا آنا یقینی امر ہے مشکلات پر قابو پانے کے لیے یہی دو طریقے ہیں جن پر چل کر مسلمان اپنے ایمان کو سلامت رکھ سکتا ہے۔ ایماندار شخص کو خود صبر کرنے اور دوسروں کو صبر کرنے کی تلقین کرنے کے ساتھ ایک دوسرے سے نرمی اور مہربانی بھی کرنی چاہیے۔ اس کے بغیر حق کا قافلہ اپنی منزل تک نہیں پہنچ سکتا۔ مشکلات باطل پرستوں کی طرف سے ہوں یا بیماری اور غربت کی صورت میں ہوں ایماندار کا شیوہ ہے کہ وہ خود بھی صبر کرے اور ایسے حالات میں اپنے ساتھیوں کو بھی صبر کرنے کی تلقین کرتا رہے۔ (عَنْ عَبْدِاللَّہِ بْنِ عَمْرٍو یَبْلُغُ بِہِ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) الرَّاحِمُونَ یَرْحَمُہُمُ الرَّحْمَنُ ارْحَمُوا أَہْلَ الأَرْضِ یَرْحَمْکُمْ مَنْ فِی السَّمَاءِ) (رواہ ابو داؤد : باب فِی الرَّحْمَۃِ قال الالبانی ھٰذا حدیث صحیح) ” حضرت عبداللہ بن عمرو نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ رحم کرنے و الوں پر رحم کرتا ہے تم زمین والوں پر رحم کرو ! آسمان والا تم پر رحم فرمائے گا۔ (عَنْ جَرِیرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ قَالَ قَالَ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لاَ یَرْحَمُ اللَّہُ مَنْ لاَ یَرْحَمُ النَّاسَ) (باب قَوْلِ اللّٰہِ تَبَارَکَ وَتَعَالَی (قُلِ ادْعُوا اللَّہَ) ” حضرت جریر بن عبداللہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اللہ اس بندے پر رحم نہیں کرتا جو لوگوں پر رحم نہیں کرتا۔“ (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَمْرٍو (رض) عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ لَیْسَ الْوَاصِلُ بالْمُکَافِءِ وَلٰکِنَّ الْوَاصِلَ الَّذِیْ إِذَا انْقَطَعَتْ رَحِمُہٗ وَصَلَہَا) (رواہ الترمذی : باب مَا جَآءَ فِیْ صِلَۃِ الرَّحِم) ” حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں۔ آپ نے فرمایا برابری کرنے والا صلہ رحم نہیں ہے، صلہ رحمی کرنے والا تو وہ ہے جس سے تعلق توڑا جائے تو وہ اسے جوڑنے کی کوشش کرے۔“ (عَنِ ابْنِ عُمَرَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) الْمُؤْمِنُ الَّذِیْ یُخَالِطُ النَّاسَ وَیَصْبِرُ عَلٰی أَذَاھُمْ أَعْظَمُ أَجْرًا مِّنَ الْمُؤْمِنِ الَّذِیْ لَایُخَالِطُ النَّاسَ وَلَا یَصْبِرُ عَلٰی أَذَاھُمْ) (رواہ ابن ماجۃ: کتاب الفتن، باب الصبر علی البلاء) ” حضرت عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جو مومن لوگوں کے ساتھ مل جل کر رہتا ہے اور ان کی طرف سے پہنچنے والی تکلیفوں پر صبر کرتا ہے وہ اس مومن سے زیادہ اجر والا ہے جو نہ لوگوں میں گھل مل کررہتا ہے اور نہ ان کی دی ہوئی تکلیفوں پر صبر کرتا ہے۔“ مسائل ١۔ باطل نظریات کو چھوڑنا اور حق بات کو قبول کرنا مشکل ترین کاموں میں سے اہم ترین کام ہے۔ ٢۔ ایمانداروں کو ایک دوسرے کو صبر اور مہر بانی کرنے کی تلقین کرنا چاہیے۔ تفسیربالقرآن نرمی اور مہربانی کرنے کی فضیلت : ا۔ صبر اہم کاموں میں اہم ترین کام ہے۔ (الاحقاف : ٣٥) ٢۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو صبر کرنے کا حکم دیا گیا۔ (المعارج : ٥) ٣۔ اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ (البقرۃ : ١٥٣) ٤۔ صبر کا انجام اچھا ہوتا ہے۔ (الحجرات : ٥) ٥۔ صبر کرنے والے کامیاب ہوں گے۔ (المومنون : ١١١) ٦۔ صابر مسلمان کی آخرت اچھی ہوگی۔ (الرعد : ٢٤) ٧۔ صبر کرنے والوں کو جنت میں سلامتی کی دعائیں دی جائیں گی۔ (الفرقان : ٧٥) ٨۔ صابر بغیر حساب کے جنت میں جائیں گے۔ (الزمر : ١٠) ٩۔ ایک دوسرے کو صبر کی تلقین کرنے کا حکم ہے۔ (آل عمران : ٢٠٠) ١٠۔ بنی اسرائیل سے والدین کے ساتھ احسان کرنے کا عہدلیا گیا۔ (البقرۃ: ٨٣) (مریم : ٣٢) ١١۔ لوگوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنے کا حکم۔ ( البقرۃ: ٨٣) ١٢۔ غیر مسلم والدین کے ساتھ بھی اچھا سلوک کرنا چاہیے۔ (لقمان : ١٥) البلد
18 البلد
19 البلد
20 البلد
0 سورۃ الشمس کا تعارف یہ سورت اپنے نام سے شروع ہوتی ہے اس کا ایک رکوع ہے جو پندرہ آیات پر مشتمل ہے یہ سورت بھی مکہ معظمہ میں نازل ہوئی۔ اللہ تعالیٰ نے اس میں سات قسمیں کھا کر بتلایا ہے کہ اس نے انسان کے ضمیر میں نیکی اور بدی کا امتیاز اور شعور رکھا ہے جس نے اپنے آپ کو فسق و فجور سے پاک رکھا وہ کامیاب ہوگا اور جو اپنے رب کی نافرمانی کرتا رہا اس نے اپنے آپ کو ناکام کرلیا اس کا انجام قوم ثمود کی طرح ہوگا۔ الشمس
1 فہم القرآن ربط سورت : سورۃ البلد کے آخر میں یہ بتلایا کہ کفار کو دھکتی ہوئی آگ میں پھینکا جائے گا۔ الشمس میں گیارہ قسمیں اٹھانے کے بعد یہ ارشاد فرمایا ہے کہ ہم نے انسان کے دل میں نیکی اور بدی کا شعور پیدا کیا ہے۔ اب اس کی مرضی ہے کہ یہ اپنے لیے کون سا کردار اور انجام پسند کرتا ہے۔ سورۃ الشمس کا آغاز بھی بڑی بڑی چیزوں کی قسموں سے کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس سورت کے آغاز میں گیارہ قسمیں اٹھائی ہیں۔ قرآن مجید میں یہی وہ مقام اور سورت ہے کہ جہاں ایک ہی مقام پر گیارہ قسمیں اٹھائیں گئی ہیں۔ جس بات کے لیے قسمیں اٹھائی گئی ہیں وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو ٹھیک ٹھاک بنا کر اس کے دل میں نیکی اور بدی کا القا کردیا ہے۔ نفس میں برائی اور نیکی کا القا فرما کر یہ احساس بخشا کہ اے انسان! تجھے نیک کام کرنے اور برائی سے بچنے کی کوشش کرنا ہے اور یہ عقیدہ رکھنا ہے کہ اگر نیکی کرے گا تو اس کا اجر پائے گا اور اگر برائی کرے گا تو اس کی سزا پائے گا۔ یقیناً وہ شخص کامیاب ہوگا جس نے اپنے آپ کو فسق وفجور اور کفر و شرک سے پاک کرلیا اور وہ شخص ہر صورت ناکام ہوگا جس نے اپنے نفس کو خاک آلود کرلیا، خاک آلود کرنا ہر زبان میں ایک محاورہ ہے جس کا معنٰی گھٹیا کاموں میں ملوث ہونا اور اپنے آپ کو اخلاقی اعتبار سے گرانا ہے۔ جو شخص گھٹیا کاموں میں ملوث ہوتا ہے وہ اپنے آپ کو ذلیل کرلیتا ہے اور جو شخص اپنے آپ کو برے کاموں سے بچاتا ہے وہ معزز بن جاتا ہے اور وہی کامیاب ہوگا۔ آیت پانچ، چھ اور سات میں ” مَا“ کا لفظ استعمال ہوا ہے جس سے کچھ اہل علم کو یہ مغالطہ پیش آیا کہ ” مَا“ کا لفظ ذوالعقول کے لیے استعمال نہیں ہوتا۔ ان آیات میں ” مَا“ مصدریہ بھی ہوسکتا ہے اور ” مَا“ بمعنی ” مَنْ“ بھی ہوسکتا ہے۔ امام حسن بصری اور مجاہد (رح) کا فرمان ہے کہ ” مَا“ بمعنی ” مَنْ“ ہے۔ رہا یہ شبہ کہ ” مَا“ کا استعمال بے جان مخلوق اور غیر عاقل اشیاء کے لیے ہوتا ہے۔ یہاں ” مَا“ سے اللہ تعالیٰ کی ذات کیسے مراد لی جا سکتی ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ قرآن مجید میں ” مَا“ بکثرت ” مَنْ“ کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ مثلاً (وَلاَ اَنْتُمْ عٰبِدُوْنَ مَا اَعْبُدُ) (الکافرون : ٣) ” اور نہ تم اس کی عبادت کرنے والے ہو جس کی میں عبادت کرتاہوں۔“ (فَانْکِحُوْا مَا طَابَ لَکُمْ مِّنَ النِّسَآءِ) (النساء : ٣) ” پس عورتوں میں سے جو تمہیں پسند آئیں ان سے نکاح کرلو۔“ (وَ لَا تَنْکِحُوْا مَا نَکَحَ اٰبَآؤُکُمْ مِّنَ النِّسَآءِ) (النساء : ٢٢) ” اور جن عورتوں سے تمہارے باپوں نے نکاح کیا ہو ان سے نکاح نہ کرو۔“ اللہ تعالیٰ نے یہاں اپنی قدرت کی گیارہ نشانیاں بیان کرتے ہوئے ان کی قسم کھا کر ارشاد فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کے دل میں برائی اور نیکی کا القاء فرمایا ہے۔ دل میں برائی اور نیکی کے القاء کا معنٰی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر دل میں نیکی اور برائی کے درمیان تمیز کرنے کی صلاحیت پیدا کی ہے بشرطیکہ اس کا دل روحانی طور پر زندہ ہو اگر دل گناہوں کی وجہ سے مردہ ہوجائے تو اس میں نیکی اور برائی کے درمیان فرق کرنے والی قوت بھی دب جاتی ہے جس بنا پر مجرمانہ دل رکھنے والا انسان گناہ اور برائی میں تمیز کرنے سے محروم ہوجاتا ہے تاہم پھر بھی کبھی نہ کبھی اس کا دل اس برائی سے نفرت کا اظہار ضرور کرتا ہے۔ (اَلْإِثْمُ مَا حَاکَ فِیْ صَدْرِکَ وَکَرِھْتَ أَنْ یَّطَّلِعَ عَلَیْہِ النَّاسُ) (رواہ مسلم : باب تفسیر البر والإثم) ” گناہ وہ ہے جو تیرے دل میں کھٹکے اور لوگوں کو اس کا علم ہونا پر تجھے ناگوار گزرے۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے گیارہ قسمیں اٹھا کر ارشاد فرمایا کہ اس نے انسان کے دل میں برائی اور نیکی کے درمیان تمیز کرنے کی صلاحیت القاء فرمائی ہے۔ ٢۔ جس نے اپنے نفس کو گناہوں سے پاک کرلیا وہ کامیاب ہوگا اور جس نے اپنے نفس کو گناہوں سے آلودہ کرلیا وہ تباہ ہوجائے گا۔ الشمس
2 الشمس
3 الشمس
4 الشمس
5 الشمس
6 الشمس
7 الشمس
8 الشمس
9 الشمس
10 الشمس
11 فہم القرآن ربط کلام : نفس کو خاک آلود کردینے والے لوگوں کا انجام۔ قوم ثمود کی طرف حضرت صالح (علیہ السلام) مبعوث فرمائے گئے۔ صالح (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو وہی فرمایا جو ان سے پہلے انبیاء کرام فرمایا کرتے تھے۔ حضرت صالح (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے ڈرایا اور بار بار سمجھایا کہ میں تمھاری طرف اللہ کا رسول ہوں، اللہ تعالیٰ نے جو امانت میرے ذمہ لگائی ہے اسے نہایت ذمّہ داری اور دیانتداری کے ساتھ تم تک پہنچا رہا ہوں اور تم میری امانت ودیانت سے واقف ہو۔ اس لیے اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور رسول ہونے کی حیثیت سے میری تابعداری کرو، میں اپنی تابعداری اور نبوت کے کام پر تم سے کسی اجر کا طلب گار نہیں ہوں، میرا صلہ میرے رب کے ذمہ ہے۔ میں تمھیں اس بات سے متنبہ کرتا ہوں کہ جس فکر وعمل کو تم اختیار کیے ہوئے ہو اس کا انجام اچھا نہیں ہوگا یہ امن اور سلامتی کا راستہ نہیں اگر تم تائب نہ ہوئے تو یاد رکھو۔ لہلہاتے ہوئے باغ، بہتے ہوئے چشمے، سبز و شاداب کھیتیاں، کھجوروں سے لدے ہوئے باغ، پہاڑوں کو تراش تراش کر بنائے ہوئے محلات تمہیں رب ذوالجلال کے عذاب سے نہیں بچا سکیں گے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ سے ڈر کر میری اطاعت کرو۔ قوم ثمود کو اصحاب الحجر بھی کہا گیا ہے۔ اصحاب الحجر سے مراد وہ قوم اور علاقہ ہے جو مدینہ سے تبوک جاتے ہوئے راستے میں پڑتا ہے یہ علاقہ جغرافیائی اعتبار سے خلیج اربعہ کے مشرق میں اور شہر مدین کے جنوب مشرق میں واقع ہے۔ قوم ثمود ٹیکنالوجی اور تعمیرات کے معاملے میں اس قدر ترقی یافتہ تھی کہ انہوں نے پہاڑوں کو تراش تراش کرمکانات اور محلات تعمیر کر رکھے تھے تاکہ کوئی زلزلہ اور طوفان انہیں نقصان نہ پہنچا سکے۔ حضرت صالح (علیہ السلام) نے قوم کو بار بار سمجھانے کی کوشش کی کہ اے میری قوم ! اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو اور اخلاقی حدود سے تجاوز نہ کرو، تم اصلاح کرنے کی بجائے زمین پر فساد کرنے والے ہو، قوم نے مثبت جواب دینے کی بجائے کہا کہ اے صالح ! تم اس طرح کی باتیں کرتے ہو جس طرح سحر زدہ لوگ کرتے ہیں۔ جس طرح ہم انسان ہیں تو بھی ہمارے جیسا انسان ہے اگر تو دعویٰ نبوت میں سچا ہے تو کوئی معجزہ ہمارے سامنے پیش کر۔ یاد رہے کہ ہمیشہ سے نافرمان لوگوں کا یہی وطیرہ رہا ہے کہ جب بھی کسی پیغمبر اور مصلح نے انھیں سمجھایا تو انھوں نے مصلح پر یہی الزام لگایا اور اعتراض کیا کہ تجھے تو جادو ہوگیا ہے اس لیے دیوانوں جیسی بات کرتا ہے۔ اس کے ساتھ منکرین کا یہ بھی اعتراض ہوتا تھا کہ نبی مافوق الفطرت ہستی کو ہونا چاہیے یہ تو ہماری طرح انسان ہیں۔ قوم ثمود نے حضرت صالح پر یہی الزام لگایا اور ان سے معجزہ کا مطالبہ کیا۔ اہل تفسیر نے لکھا ہے کہ قوم نے حضرت صالح (علیہ السلام) سے یہ معجزہ طلب کیا کہ ہمارے سامنے اس پہاڑ سے ایک اونٹنی نمودار ہو اور اس کے پیچھے اس کا دودھ پیتا بچہ بھی ہونا چاہیے۔ حضرت صالح (علیہ السلام) کی تائید میں اور قوم کے مطالبہ کے عین مطابق اللہ تعالیٰ نے ان کے سامنے ایک پہاڑ سے اونٹنی اور اس کا بچہ نمودار کیا جب اونٹنی اپنے بچہ کے ساتھ قوم کے سامنے آئی تو حضرت صالح (علیہ السلام) نے قوم کو سمجھایا کہ یہ اللہ تعالیٰ کی اونٹنی ہے ایک دن یہ پانی پیا کرے گی اور دوسرے دن تم اور تمہارے جانور پئیں گے، خبردار! اسے تکلیف دینے کی نیت سے ہاتھ نہ لگانا اگر تم نے اس کو تکلیف پہنچائی تو اللہ تعالیٰ کا عذاب تمھیں دبوچ لے گا۔ اس انتباہ کے باوجود انھوں نے اونٹنی کی ٹانگیں کاٹ ڈالیں جس کے نتیجہ میں ان کو عذاب نے پکڑلیا اور وہ ذلیل و خوار کر دئیے گئے۔ مسائل ١۔ قوم ثمود نے اپنی سرکشی کی بنیاد پر حضرت صالح (علیہ السلام) کو جھٹلایا۔ ٢۔ قوم ثمود نے معجزہ کے طور پر نمودار ہونے والی اونٹنی کی کونچیں کاٹ دیں۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ نے قوم ثمود پر ان کے گناہوں کی وجہ سے عذاب نازل کیا۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ مجرم قوم کو تباہ کرتے ہوئے کسی سے خوف نہیں کھاتا۔ تفسیر بالقرآن قوم ثمود کا انجام : ١۔ قوم ثمود کے بدبختوں نے اونٹنی کی ٹانگیں کاٹ دیں۔ الشمس : ١٤) ٢۔ قوم ثمود نے حضرت صالح (علیہ السلام) سے عذاب کا مطالبہ کیا۔ (الاعراف : ٧٧) ٣۔ انھوں نے اونٹنی کی کونچیں کاٹ ڈالیں اور وہ پریشان ہونے والوں میں ہوگئے۔ (الشعراء : ١٥٧) الشمس
12 الشمس
13 الشمس
14 الشمس
15 الشمس
0 سورۃ الیل کا تعارف یہ سورت اپنے نام سے شروع ہوتی ہے ایک رکوع پر مشتمل ہے اس میں تیس آیات ہیں جو مکہ معظمہ میں نازل ہوئیں اس میں اللہ تعالیٰ نے رات کی تاریکی، دن کی روشنی اور اپنے خالق ہونے کی قسم اٹھا کر ارشاد فرمایا ہے کہ جس طرح تم جنس کے اعتبار سے مختلف ہو، اسی طرح تمھاری سوچ اور کوشش بھی مختلف ہوتی ہے۔ جس نے اللہ کی راہ میں خرچ کیا اور سچائی کی تصدیق کی، اس کے لیے اللہ تعالیٰ آسانی پیدا کرئے گا اور جس نے ” اللہ“ کی راہ میں خرچ کرنے کی بجائے بخل کیا اور سچائی کی تصدیق کرنے کی بجائے اسے جھٹلایا اس کے لیے اس کی زندگی مشکل بنا دی جائے گی اور اس کا مال اس کے کسی کام نہیں آئے گا۔ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کی راہنمائی کا بندوبست کردیا ہے اور اس نے برائی کا انجام بھی بتلا دیا ہے جس نے برائی کا راستہ اختیار کیا وہ ناکام ہوگا اور جس نے پرہیزگاری کا راستہ اپنایا اور نیکی کے کاموں پر خرچ کیا اسے اللہ تعالیٰ خوش کر دے گا۔ الليل
1 فہم القرآن ربط سورت : الشمس کا اختتام اس بات پر ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے فسق وفجور کرنے والوں کو کس طرح پکڑا۔ سورۃ الّیل کی ابتداء میں تین قسمیں کھانے کے بعد بتلایا کہ ہم نے انسان کو مذکر اور مؤنث کی صورت میں پیدا کیا ہے، جس طرح جنس کے اعتبار سے انسان مختلف ہیں اسی طرح ان کی کوششیں بھی مختلف اور انجام بھی مختلف ہوں گے۔ اس سورت کا آغاز بھی تین قسموں کے ساتھ کیا گیا ہے۔ ارشاد ہوا کہ رات کی قسم ! جب دن کی روشنی کو اپنی تاریکی میں چھپا لیتی ہے، دن کی قسم ! جب وہ رات کی تاریکی کو ختم کرنے کے بعد پوری طرح روشن ہوجاتا ہے اور اس ذات کی قسم ! جس نے نر اور مادہ یعنی مذّکر اور مؤنث پیدا کیے ہیں۔ جس طرح آپس میں رات اور دن متضاد ہیں، اس طرح جنس کے اعتبار سے مذکر اور مؤنث ایک دوسرے سے مختلف ہیں، اسی طرح ہی تمہاری سوچ اور عمل ایک دوسرے سے جداجدا ہیں۔ انسان اور اس کا عمل اللہ تعالیٰ کے ہاں اس قدر اہمیت رکھتا ہے کہ اس کے ذکر سے پہلے اللہ تعالیٰ نے تین قسمیں اٹھائیں اور پھر انسان کو یہ حقیقت باور کروائی ہے کہ اے انسان! جس طرح رات اور دن میں فرق ہے، مذّکر اور مؤنث کے درمیان نہ ختم ہونے والی تقسیم ہے اسی طرح ہی تمہارے فکر وعمل میں فرق ہے۔ جس طرح رات اور دن اکٹھے نہیں ہو سکتے، مرد اور عورت ایک جنس نہیں بن سکتے اسی طرح ہی بری سوچ اور برا عمل، صحیح سوچ اور صالح عمل ایک نہیں ہو سکتے گویا کہ نیک اور بد برابر نہیں ہوسکتے اس بات کو یوں بھی بیان کیا گیا ہے۔ (اَمْ نَجْعَلُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ کَالْمُفْسِدِیْنَ فِی الْاَرْضِ اَمْ نَجْعَلُ الْمُتَّقِیْنَ کَالْفُجَّارِ) (آ : ٢٨) ” کیا ہم ان لوگوں کو جو ایمان لائے اور نیک اعمال کرتے رہے اور ان کو زمین میں فساد کرنے والوں کے برابر کردیں گے کیا متقین کے ساتھ ہم فاجروں جیسا سلوک کریں گے؟“ الليل
2 الليل
3 الليل
4 الليل
5 فہم القرآن ربط کلام : فکروعمل میں فرق اور نیک فکر وعمل کا دنیا میں فائدہ۔ فکرو عمل میں فرق سمجھانے کے لیے مختصر طور پر یہاں دو قسم کی سوچ اور اعمال بیان کیے گئے ہیں ایک وہ خوش قسمت ہے جس نے ” اللہ“ کے دیئے ہوئے مال کو اس کی رضا کے لیے خرچ کیا اور ہمیشہ بخل اور اپنے رب کی نافرمانی سے ڈرتا رہا اور اللہ تعالیٰ کے ارشادات اور احکام کی دل کی گہرائی، زبان کی سچائی اور صالح عمل کے ساتھ اس کی تصدیق کرتا رہا اللہ تعالیٰ اس کے لیے نیکی کرنا مزید آسان کردیتا ہے جس بنا پر اس کے لیے صدقہ اور نیکی کرنا آسان ہوجاتے ہیں اس بات کو یوں بھی بیان کیا گیا ہے۔ ( الَّذِیْنَ جَاہَدُوْا فِیْنَا لَنَہْدِیَنَّہُمْ سُبُلَنَا وَ اِنَّ اللّٰہَ لَمَعَ الْمُحْسِنِیْنَ) (العنکبوت : ٦٩) ” جو لوگ ہمارے لیے محنت کریں گے ہم انہیں اپنے راستے دکھائیں گے، اور یقیناً اللہ نیک لوگوں کے ساتھ ہے۔“ ” جو کوئی آخرت کی کھیتی چاہتا ہے ہم اس کی کھیتی کو بڑھاتے ہیں اور جو دنیا کی کھیتی چاہتا ہے اسے دنیا میں ہی دے دیتے ہیں مگر آخرت میں اس کا کوئی حصہ نہیں ہوگا۔“ (الشوریٰ: ٢٠) (عَنْ اَبِیْ ھُرَےْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَثَلُ الْبَخِےْلِ وَالْمُتَصَدِّقِ کَمَثَلِ رَجُلَےْنِ عَلَےْھِمَا جُنَّتَانِ مِنْ حَدِےْدٍ قَدِ اضْطُرَّتْ اَےْدِےْھِمَا اِلٰی ثُدِیِّھِمَا وَتَرَاقِےْھِمَا فَجَعَلَ الْمُتَصَدِّقُ کُلَّمَا تَصَدَّقَ بِصَدَقَۃٍ انْبَسَطَتْ عَنْہُ وَجَعَلَ الْبَخِیْلُ کُلَّمَا ھَمَّ بِصَدَقَۃٍ قَلَصَتْ وَاَخَذَتْ کُلُّ حَلْقَۃٍ بِمَکَانِھَا) (رواہ البخاری : باب مَثَلِ الْمُتَصَدِّقِ وَالْبَخِیلِ) ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : بخیل اور صدقہ کرنے والے کی مثال ان دو آدمیوں کی طرح ہے جنہوں نے زرہ پہن رکھی ہو۔ اس کے ہاتھوں کو اس کی چھاتیوں اور سینے کے ساتھ جکڑ دیا گیا ہو۔ صدقہ دینے والا جب صدقہ کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو زرہ کشادہ ہوجاتی ہے۔ بخیل جب صدقہ کرنے کا خیال کرتا ہے تو زرہ سمٹ جاتی اور ہر کڑی اپنی اپنی جگہ پر سخت ہوجاتی ہے۔“ الليل
6 الليل
7 الليل
8 فہم القرآن ربط کلام : اچھے فکر وعمل کا ذکر کرنے کے بعد منفی سوچ اور برے عمل کا بیان اور انجام۔ فہم القرآن کا مطالعہ کرنے والے اصحاب یہ حقیقت بالیقین جانتے ہیں کہ قرآن مجید میں اکثر مقامات پر نیکی اور برائی کے درمیان فرق اور ان کے انجام کا بیک مقام پر ذکر کیا جاتا ہے۔ مقصد یہ ہے کہ قرآن مجید کی تلاوت کرنے والا موقع پر فیصلہ کرپائے کہ اس نے کون سے کام اختیار کرنے ہیں اور کس راستے پر چلنا ہے۔ اسی اصول کے پیش نظر یہاں بھی قرآن مجید نے ایک ہی مقام پر مثبت فکرو عمل اور اس کے مقابلے میں منفی فکر وعمل کا ذکر اور ان کا انجام بیان کیا ہے۔ چنانچہ بتلایا ہے کہ جس نے بخل اختیار کیا اور اپنے رب کے خوف سے بے خوف ہوا اور اچھی بات کو جھٹلا یا اس کے لیے اس کا رب مشکل پیدا کرے گا، ایسا شخص تباہی کے گھاٹ اترے گا تو اس کا مال اسے کوئی فائدہ نہیں دے گا، یہاں دو ایسے گناہوں کا ذکر کیا گیا ہے جس کا مرتکب انسان سچائی کو جھٹلانے میں شرم محسوس نہیں کرتا، جب کسی انسان کے دل میں بخل بھر جائے تو بالیقین اس کا دل سخت ہوجاتا ہے۔ اسے کسی پر ترس نہیں آتا جسے کسی پر ترس نہ آئے اور اس کا دل سخت ہوجائے وہ اپنے رب کی ذات اور بات کی پرواہ نہیں کرتا اس کے سامنے سچ بات پیش کی جائے تو وہ زبان سے اقرار بھی کرتا ہے لیکن اس کا دل سچائی کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہوتا جس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ اس کے لیے نیکی کے کام کرنا مشکل بنا دیتا ہے۔ جس وجہ سے وہ صدقہ کرنے کو بوجھ سمجھتا ہے اور نماز پڑھنا اس کی طبیعت پر گراں گزرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ جب ایسے شخص کی گرفت کرتا ہے تو اس کا مال اس کے کچھ کام نہیں آتا، نہ صرف دنیا میں اس کا مال اس کے کام نہیں آتا بلکہ قیامت کے دن یہ مال اس کے لیے جہنم کا ایندھن بنا دیا جائے گا۔ الحسنٰی کا معنٰی مفسرین نے اللہ کی توحید اور دین کیا ہے جس نے اس سے منہ موڑ لیا وہ دنیا میں خوشحالی پانے کے باوجود دل کی تنگی اور پریشانیوں سے بے قرار رہے گا۔ ” اور جو میرے ذکر سے منہ موڑے گا اس کے لیے دنیا کی گزران تنگ ہوگی اور قیامت کے دن ہم اسے اندھا اٹھائیں گے۔ وہ کہے گا پروردگار میں دنیا میں دیکھتا تھا اب مجھے اندھا کیوں اٹھایا گیا ہے؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا اس لیے کہ جب ہماری آیات تیرے پاس آئیں تو نے انہیں بھلا دیا تھا۔ (طٰہٰ: ١٢٤ تا ١٢٦) (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) أَنَّ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ مَامِنْ یَوْمٍ یُّصْبِحُ الْعِبَادُ فِیْہِ إِلَّا مَلَکَانِ یَنْزِلَانِ فَیَقُوْلُ أَحَدُھُمَا اَللّٰھُمَّ أَعْطِ مُنْفِقًا خَلَفًا وَیَقُوْلُ الْآخَرُ اللّٰھُمَّ أَعْطِ مُمْسِکًا تَلَفًا) (رواہ البخاری : باب قول اللّٰہِ تعالیٰ فأما من أعطی واتقی وصدق بالحسنیٰ) ” حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ہر صبح دو فرشتے اترتے ہیں ان میں سے ایک آواز دیتا ہے اے اللہ! خرچ کرنے والے کو اور عطا فرما، دوسرا آواز لگاتا ہے اے اللہ! نہ خرچ کرنے والے کا مال ختم کردے۔“ ” ابوذر (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں ایک رات نکلا اور دیکھا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اکیلے جا رہے تھے آپ کے ساتھ کوئی نہیں تھا، میں نے سمجھا کہ آپ نے کسی کو اپنے ساتھ لے جانا پسند نہیں فرمایا۔ میں نے چاندنی رات میں آپ کے پیچھے پیچھے چلنا شروع کردیا۔ آپ نے موڑ کر دیکھا تو فرمایا : کون ہے؟ میں نے کہا ابو ذر! آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : آؤ میرے ساتھ چلو! میں تھوڑی دیر آپ کے ساتھ چلتا رہا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ دنیا میں زیادہ مال رکھنے والے قیامت کے دن کم مرتبے والے ہوں گے سوائے اس کے جس پر اللہ تعالیٰ نے اپنا فضل فرمایا۔ اس نے اپنے دائیں بائیں اور آگے پیچھے خرچ کیا۔“ ( رواہ البخاری : باب الْمُکْثِرُونَ ہُمُ الْمُقِلُّونَ) مسائل ١۔ جس نے بخل کیا اور نیکی سے لاپرواہی کی وہ مارا جائے گا۔ ٢۔ جس نے الحسنیٰ کی تکذیب کی اللہ تعالیٰ اس کے لیے تنگی پیدا کردے گا ایسے شخص کو اس کا مال کوئی فائدہ نہیں دے گا۔ تفسیربالقرآن بخل کرنے اور نیکی کی تکذیب کرنے والے کا انجام : ١۔ خزانے جمع کرنے والوں کو عذاب کی خوشخبری دیں۔ (التوبہ : ٣٤) ٢۔ بخیل اپنا مال ہمیشہ باقی نہیں رکھ سکتا۔ (ھمزہ : ٣) ٣۔ تباہی اس کے لیے جس نے مال جمع کیا اور گن گن کر رکھا۔ (الہمزہ : ١) ٤۔ بخیل کے مال کے ذریعے ہی اسے سزادی جائے گی۔ (التوبہ : ٣٥) ٥۔ بخیل لوگ مال کو اپنے لیے خیر خیال کرتے ہیں حالانکہ وہ ان کے لیے برا ہے۔ (آل عمران : ١٨٠) الليل
9 الليل
10 الليل
11 الليل
12 فہم القرآن ربط کلام : بخل سے بچانا اور الحسنٰی کی راہنمائی کرنا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے تاہم اس نے نیکی اور برائی کی راہ دکھلا کر لوگوں کو اختیار دیا ہے کہ وہ نیکی کرتے ہیں یا برائی کی طرف جاتے ہیں۔ قرآن مجید میں کئی مقامات پر ہدایت اور گمراہی، نیکی اور برائی کی نشاندہی کرنے کے بعد ارشاد ہوا ہے کہ ہمارا کام نیکی اور ربرائی کی نشاندہی کرنا ہے۔ اب انسان کا اپنا اختیار ہے کہ وہ ان میں سے کس کو اختیار کرتا ہے اگر وہ نیکی اختیار کرے گا تو ہم اس کے لیے نیکی کرنا آسان کردیں گے اگر وہ برائی پسند کرتا ہے تو ہم اسے کھلا چھوڑ دیں گے، ہمارا کام ہدایت اور گمراہی کو واضح کرنا ہے۔ ہدایت اور گمراہی واضح ہونے کے بعد لوگوں پر فرض ہے کہ وہ اپنے ” رب“ کے حکم کو مانیں اور یقین رکھیں کہ ہم ہی آخرت اور دنیا کے مالک ہیں۔ بُرائی کا انجام بھڑکتی ہوئی آگ ہے، ہم نے تمہیں بھڑکتی ہوئی آگ سے آگاہ کردیا ہے۔ اس میں وہی جائے گا جو انتہائی بدبخت ہوگا جو سچائی کو جھٹلانے والا اور اس سے منہ پھیرنے والا ہے۔ جہنم میں ہر وہ شخص جائے گا جس نے کفر و شرک کیا اور وہ شخص بھی جہنم میں پھینکا جائے گا جو ایمان لانے کے باوجود بڑے گناہوں کا مرتکب ہوا ان گناہوں کی نشاندہی قرآن مجید اور حدیث پاک میں کردی گئی ہے۔ فرق یہ ہے کہ جس نے کفر و شرک کیا وہ ہمیشہ ہمیش جہنم میں جلتا رہے گا اور جس نے توحید و سنت کا اقرار کرنے کے باوجود کبیرہ گناہوں کا ارتکاب کیا اور توبہ کے بغیر چل بسا وہ اپنے گناہوں کی سزا پانے کے بعد جنت میں داخل کیا جائے گا۔ (اِِنَّہَا تَرْمِی بِشَرَرٍ کَالْقَصْرِ) (المرسلات : ٣٢) ” وہ آگ کے بڑے بڑے محلات کی مانند انگارے پھینکے گی۔“ (بَلٰی مَنْ کَسَبَ سَیِّءَۃً وَّ اَحَاطَتْ بِہٖ خَطِیْءَتُہٗ فَاُولٰٓءِکَ اَصْحٰبُ النَّارِہُمْ فِیْہَا خٰلِدُوْنَ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوْا الصّٰلِحٰتِ اُولٰٓءِکَ اَصْحٰبُ الْجَنَّۃِ ہُمْ فِیْہَا خٰلِدُوْن) (البقرۃ: ٨١، ٨٢) ” کیوں نہیں جس نے برے کام کیے اور اس کے برے کاموں نے اسے گھیر لیا پس یہی لوگ آگ والے ہیں وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے، جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے نیک عمل کیے وہ جنتی ہیں اور وہ جنت میں ہمیشہ رہیں گے۔“ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ عَنْ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) أَنَّہُ قَالَ وَالَّذِی نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِیَدِہِ لاَ یَسْمَعُ بِی أَحَدٌ مِنْ ہَذِہِ الأُمَّۃِ یَہُودِیٌّ وَلاَ نَصْرَانِیٌّ ثُمَّ یَمُوتُ وَلَمْ یُؤْمِنْ بالَّذِی أُرْسِلْتُ بِہِ إِلاَّ کَانَ مِنْ أَصْحَاب النَّارِ) (رواہ مسلم : باب وُجُوبِ الإِیمَانِ بِرِسَالَۃِ نَبِیِّنَا مُحَمَّدٍ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ” حضرت ابوہریرہ (رض) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا قسم ہے مجھے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے یہودیوں اور عیسائیوں میں سے جس شخص تک میرا پیغام پہنچ جائے اور پھر وہ اسی حالت میں مرجائے اور مجھ پر ایمان نہ لائے وہ جنت میں داخل ہوگا۔“ (عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عَمْرٍو (رض) عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ الْکَبَاءِرُ الإِشْرَاک باللَّہِ، وَعُقُوقُ الْوَالِدَیْنِ، وَقَتْلُ النَّفْسِ، وَالْیَمِینُ الْغَمُوسُ) (رواہ البخاری : باب الْیَمِینِ الْغَمُوسِ) ” حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں آپ نے فرمایا : اللہ کے ساتھ شرک کرنا، والدین کی نافرمانی کرنا، کسی کو ناحق قتل کرنا اور جھوٹی قسم اٹھانا کبیرہ گناہوں میں سے ہیں۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو نیکی اور برائی سے آگاہ کرنا اپنے ذمہ لیا ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ ہی دنیا اور آخرت کا حقیقی مالک ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو جہنم کی آگ سے آگاہ فرمادیا ہے۔ ٤۔ جہنم میں وہی شخص جائے گا جو حقیقت کو جھٹلانے والا اور پرلے درجے کا بدبخت ہے۔ تفسیر بالقرآن جہنم کی آگ کا ایک منظر : ١۔ جہنم کے شعلے بڑے بڑے محلات کے برابر ہوں گے۔ ( المرسلٰت : ٣٢) ٢۔ جہنم کا ایندھن لوگ اور پتھر ہوں گے۔ (البقرۃ: ٢٤) ٣۔ جہنم کی آگ بہت زیادہ تیز ہوگی۔ (التوبہ : ٨١) ٤۔ مجرم لوگ جہنم کے گرجنے برسنے کی آوازیں سنیں گے۔ (الفرقان : ١٢) ٥۔ جہنم بھرنے کا نام نہیں لے گی۔ (ق : ٣٠) ٦۔ جہنم کا ایندھن لوگ اور پتھر ہوں گے اور اس پر سخت گیر فرشتوں کی ڈیوٹی لگائی گئی ہے۔ (التحریم : ٦) ٧۔ مجرموں کو جب جہنم میں ڈالا جائے گا تو وہ اس کی گرج دار آواز سنیں گے۔ (الملک : ٧) الليل
13 الليل
14 الليل
15 الليل
16 الليل
17 فہم القرآن ربط کلام : بدبخت شخص کے مقابلے میں نیک بخت کا کردار اور اس کا انعام۔ جہنم سے ہر وہ شخص دور رکھا جائے گا جس نے کفر و شرک سے توبہ کی اور اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی سے بچتا رہا اور اس نے اپنے مال کو پاک کرنے اور اپنے آپ کو بخل سے بچانے کے لیے صدقہ کیا۔ وہ کسی پر صدقہ اس لیے نہیں کرتا کہ اس نے اس کے احسان کا بدلہ چکانا ہے۔ کسی کے احسان کا بدلہ احسان کے ساتھ دینا نہایت ہی بہتر عمل ہے لیکن بہترین صدقہ یہ ہے کہ جس پر وہ خرچ کررہا ہے اس میں اللہ تعالیٰ کی رضا کے سوا کسی قسم کا مفاد نہ پایا جائے۔ اسی بات کو سورۃ الدّھر میں یوں بیان کیا گیا ہے۔ ” اور اللہ کی محبت میں مسکین اور یتیم اور قیدی کو کھانا کھلاتے ہیں اور دل میں کہتے ہیں کہ ہم تمہیں صرف اللہ کی خاطر کھلا رہے ہیں ہم تم سے نہ کوئی بدلہ چاہتے ہیں نہ شکریہ۔“ (الدھر : ٨، ٩) ایسے شخص کو اللہ تعالیٰ بہت جلد راضی کردے گا، راضی کرنے کی کئی صورتیں ہیں۔ 1۔ اس کا دل اپنے کام پر خوش ہوگا۔2۔ لوگوں میں اس کا احترام بڑھے گا۔3۔ اس کے مال میں برکت ہوگی۔ 4۔ آخرت میں اسے عظیم اجر دیا جائے گا۔ مفسرین نے ان آیات کا سب سے پہلا مصداق حضرت ابوبکر صدیق (رض) کو قرار دیا ہے جن کے متعلق مشہور مؤرخ ابن عساکر اور ابن جریر نے لکھا ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق (رض) کا مکہ میں یہ کام تھا کہ اسلام قبول کرنے کی وجہ سے جس غلام یا لونڈی پر ظلم کیا جاتا۔ حضرت ابوبکر صدیق (رض) کسی نہ کسی قیمت میں اسے خرید لیتے اور پھر اللہ کی رضا کی خاطر آزاد کردیتے۔ ان کے والد ابوقحافہ نے ایک دن کہا کہ بیٹا تم ایسے لوگوں کو خرید کر آزاد کرتے ہو جو مشکل وقت میں تیرے کام آنے والے نہیں ان کی بجائے ان لوگوں پر مال خرچ کیا کرو جو مشکل وقت میں آپ کے کام آئیں۔ حضرت ابوبکر صدیق (رض) اپنے باپ سے عرض کرتے ہیں کہ ” اَیْ اَبِ اِنَّمَا اُرِیْدُ مَا عِنْدَاللّٰہِ“ ” اے باپ میں تو ” اللہ“ کے لیے ایسا کرتا ہوں۔ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ جَاءَ رَجُلٌ إِلَی النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَقَالَ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ أَیُّ الصَّدَقَۃِ أَعْظَمُ أَجْرًا قَالَ أَنْ تَصَدَّقَ وَأَنْتَ صَحِیْحٌ شَحِیْحٌ تَخْشَی الْفَقْرَ وَتَأْمَلُ الْغِنٰی وَلَاتُمْھِلُ حَتّٰی إِذَابَلَغَتِ الْحُلْقُوْمَ قُلْتَ لِفُلَانٍ کَذَا وَلِفُلَانٍ کَذَا وَقَدْ کَانَ لِفُلَانٍ) (رواہ البخاری : کتاب الزکاۃ، باب فضل صدقۃ الشیخ الصحیح) ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں ایک آدمی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آکر پوچھتا ہے کہ کونسا صدقہ زیادہ اجر کا باعث ہے؟ فرمایا جب تو تندرست اور مال کی خواہش رکھتا ہو محتاجی کے خوف اور مالدار بننے کی خواہش کے باوجود صدقہ کرے۔ اتنی دیر نہ کر کہ جان حلق تک آ پہنچے اس وقت تو کہے کہ اتنا فلاں کو دو اور اتنا فلاں کو دو۔ حالانکہ اب تو سارا مال ہی فلاں فلاں کا ہوچکا۔“ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَنْ تَصَدَّقَ بِعَدْلِ تَمْرَۃٍمِنْ کَسْبٍ طَیِّبٍ وَلَا یَقْبَلُ اللّٰہُ إِلَّا الطَّیِّبَ وَإِنَّ اللّٰہَ یَتَقَبَّلُھَا بَیَمِیْنِہٖ ثُمَّ یُرَبِّیْھَا لِصَاحِبِہٖ کَمَا یُرَبِّیْ أَحَدُکُمْ فَلُوَّہٗ حَتّٰی تَکُوْنَ مِثْلَ الْجَبَلِ) (رواہ البخاری : کتاب الزکاۃ، باب الصدقۃ من کسب طیب) ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جس نے پاکیزہ کمائی سے ایک کھجور کے برابر صدقہ کیا۔ اللہ تعالیٰ صرف پاکیزہ چیز ہی قبول فرماتا ہے۔ اللہ تعالیٰ یقیناً اسے اپنے دائیں ہاتھ میں لیتے ہیں پھر اس کو صدقہ کرنے والے کے لیے بڑھاتے رہتے ہیں جس طرح تم میں سے کوئی اپنے بچھڑے کی پرورش کرتا ہے یہاں تک کہ آدمی کا کیا ہوا صدقہ پہاڑ کی مانند ہوجاتا ہے۔“ مسائل ١۔ انسان کو صرف اللہ کی رضا کے لیے صدقہ کرنا چاہیے۔ ٢۔ جو مسلمان ” اللہ“ کی رضا کے لیے صدقہ کرے گا اللہ تعالیٰ اسے خوش وخرم فرما دیں گے۔ تفسیر بالقرآن ” اللہ“ کی رضا کے لیے صدقہ کرنے کے فوائد : ١۔ صدقہ کرنا ” اللہ“ کو قرض دینا ہے۔ (الحدید : ١١) ٢۔ اللہ تعالیٰ صدقہ کو دگنا تگنا کرکے واپس کرے گا۔ (التغابن : ١٧) ٣۔ اللہ تعالیٰ صدقہ کرنے والوں کو جزا دیتا ہے۔ (یوسف : ٨٨) ٤۔ مومن اللہ کی رضا کے لیے خرچ کرتا ہے۔ ( التوبہ : ٩٩) ٥۔ ” اللہ“ سات سو گنا تک بڑھا دیتا ہے۔ (البقرۃ: ٢٦١) ٦۔” اللہ“ کے ہاں اضافے کی کوئی حد نہیں ہے۔ (البقرۃ: ٢٦١) الليل
18 الليل
19 الليل
20 الليل
21 الليل
0 سورۃ الضّحٰی کا تعارف اس سورت کا نام اس کے پہلے لفظ پر رکھا گیا ہے یہ ایک رکوع اور گیارہ آیات پر مشتمل ہے یہ سورت مکہ میں اس وقت نازل ہوئی جب نبوت کے ابتدائی دور میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تربیت کی خاطر کچھ دیر کے لیے سلسلہ وحی موقوف کیا گیا۔ اس پر اہل مکہ نے پراپیگنڈا کیا کہ اس کا نبوت کا دعویٰ جھوٹا تھا اس لیے اس کے رب نے اسے چھوڑ دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس پراپیگنڈے کی تردید کے لیے تین قسمیں اٹھا کر آپ کو تسلی دی کہ آپ کی زندگی کا ہر آنے والا دور پہلے دور سے بہتر ہوگا اور اللہ تعالیٰ آپ کو اس قدر عنایت فرمائے گا کہ آپ اپنے رب پر راضی ہوجائیں گے۔ اس خوشخبری کی تائید میں آپ کے ماضی کے تین ادوار کا حوالہ دے کر تلقین فرمائی کہ آپ کو اپنے رب کی نعمت کا اعتراف اور شکر ادا کرتے رہنا چاہیے۔ الضحى
1 فہم القرآن ربط سورت : سورۃ الّیل کے آخر میں نیک لوگوں کے بہتر انجام کا ذکر فرمایا اور سورۃ الضّحٰی میں تین قسمیں کھانے کے بعد نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات کے حوالے سے بتلایا ہے کہ آپ کی زندگی کا آنے والا دور پہلے دور سے بہتر ہوگا مقصد یہ ہے جو شخص نیک کام کرے گا اللہ تعالیٰ اس کی دنیا اور آخرت بہتر کردیں گے۔ الضّحٰی کا معنٰی ہے روشن دن اور سجٰی رات کے اس وقت کو کہتے ہیں جب رات اپنی تاریکی اور سکون کے ساتھ ہر چیز پر چھا جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان اوقات کی قسمیں اٹھا کر اس بات کی وضاحت فرمائی ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے رب نے آپ کو نہ چھوڑا ہے اور نہ آپ پر ناراض ہوا ہے، چھوڑنا اور ناراض ہونا تو درکنار اس نے آپ کی زندگی کا ہر آنے و الا دور پہلے دور سے بہتر بنا دیا ہے۔ اس آیت کا شان نزول یہ ہے کہ نبوت کے ابتدائی ایام میں وحی کا سلسلہ کچھ دیر کے لیے موقوف کردیا گیا۔ اس مدّت کے بارے میں مفسرین اور محدثین کی مختلف آراء ہیں۔ اکثریت کی رائے کے مطابق زیادہ سے زیادہ مدت چالیس دن کی بتائی گئی ہے۔ اس دوران ایک طرف نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ تعالیٰ کی محبت اور وحی کی لذّت کے بارے میں فکر مند تھے اور دوسری طرف آپ کے مخالفوں نے یہ کہہ کر آپ کی پریشانی میں اضافہ کیا کہ اس کا رب اس پر ناراض ہوگیا ہے۔ ابولہب کی بیوی نے آپ کے پاس جاکر اس حد تک زبان درازی کی کہ اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! تجھ پر جو شیطان آتا تھا اس نے تجھے چھوڑ دیا ہے۔ جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا غم حد سے بڑھنے لگا تو اللہ تعالیٰ نے الضحی نازل فرمائی جس میں روشن دن اور رات کی پُر سکون گھڑیوں کی قسمیں اٹھا کر تسلی دی گئی ہے کہ آپ کا رب نہ آپ پر ناراض ہوا ہے اور نہ ہی اس نے آپ سے قطع تعلق کیا ہے۔ ” وَالضُّحیٰ“ اور ” سَجٰی“ کی قسمیں اٹھا کر یہ اشارہ کیا ہے کہ جس طرح رات اور دن کا آنا جانا معمول کی بات ہے اسی طرح وحی کا آنا اور اس کے درمیان وقفہ ہونا معمول کی کارروائی ہے۔ ان قسموں میں یہ سبق بھی موجود ہے کہ جس طرح رات اور دن ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں اسی طرح خوشی اور غم، آسانی اور مشکل ایک دوسرے کے ساتھ لگے ہوئے ہیں۔ جس طرح رات اور دن تبدیل ہوتے رہتے ہیں اسی طرح خوشیاں اور پریشانیاں بھی آتی جاتی ہیں لہٰذا آپ کو پریشان نہیں ہونا چاہیے بلکہ آپ کو یقین ہونا چاہیے کہ پہلے دورسے آنے والا دور آپ کے لیے بہتر ہوگا اور دنیا سے آخرت بہت ہی بہتر ہوگی۔ رب کریم کی دی ہوئی تسلی اور گارنٹی کا نتیجہ ہے کہ آپ کو یتیمی کے دور میں بہتر سے بہترکفیل عطا ہوئے، جوان ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو ایسی رفیقہ حیات نصیب فرمائی کہ جس نے تن، من، دھن آپ کے لیے وقف کردیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ نبوت کے ابتدائی دور اور بعد میں آپ کو بڑی سے بڑی آزمائشوں اور پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا لیکن اللہ تعالیٰ نے ہر غم اور مشکل کے بعد آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایسی آسانی اور خوشی عطا فرمائی جو کسی انسان کے نصیب میں نہیں آئی۔ مکہ میں دشمنوں کے مقابلے میں جانثار ساتھی ملے، رات کے وقت ہجرت کے لیے نکلے تو صرف ابوبکر (رض) آپ کے ساتھ تھے مگر جب آٹھ سال کے بعد مکہ میں داخل ہوئے تو دس ہزار جانثار مجاہد آپ کے ہم رقاب تھے۔ جونہی بیت اللہ میں قدم رکھا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے ساتھیوں کی جان کے دشمن آپ کے سامنے سرجھکا کر معذرت پر معذرت کررہے تھے۔ جب دنیا سے رخصت ہوئے تو دس لاکھ مربع میل کی مملکت پر توحید کا پرچم لہرا رہا تھا، روم اور فارس کی حکومتیں آپ سے لرزا براندم تھیں۔ یاد رہے کہ تفسیر عزیز کے مصنف نے الضحیٰ سے مراد نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زلفیں لی ہیں اور اسی کو واعظ بیان کرتے ہیں حالانکہ یہ من گھڑت بات ہے۔ جس کا کسی ضعیف روایت سے بھی ثبوت نہیں ملتا۔ (أَنَا سَیِّدُ وُلْدِ آدَمَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ وَلَا فَخْرَ وَبِیَدِیْ لِوَاءُ الْحَمْدِ وَلَا فَخْرَ وَمَا مِنْ نَبِیٍّ یَوْمَءِذٍ آدَمُ فَمَنْ سِوَاہُ إِلَّا تَحْتَ لِوَاءِیْ وَأَنَا أَوَّلُ مَنْ تَنْشَقُّ عَنْہُ الْأَرْضُ وَلَا فَخْرَ) (رواہ الترمذی : کتاب المناقب ) ” میں قیامت کے دن آدم کی ساری اولاد کا سردار ہوں گا مگر اس اعزاز پر فخر نہیں کرتا اور میرے ہاتھ میں حمد کا جھنڈا ہوگا اس پر میں اتراتا نہیں اور قیامت کے دن آدم (علیہ السلام) سمیت تمام نبی میرے جھنڈے کے نیچے ہوں گے اور میں قیامت کے دن سب سے پہلے اپنی قبر سے اٹھوں گا اور مجھے اس پر کوئی فخر نہیں۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے ہر وقت نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دستگیری فرمائی۔ ٢۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زندگی کا ہر دور پہلے دور سے بہتر تھا۔ ٣۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آخرت تمام انسانوں کی آخرت سے بہتر ہوگی۔ الضحى
2 الضحى
3 الضحى
4 الضحى
5 الضحى
6 فہم القرآن ربط کلام : چوتھی اور پانچویں آیت میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ خوشخبری دی گئی کہ آپ کا مستقبل آپ کے ماضی اور حال سے بہت ہی اعلیٰ اور بہترین ہوگا۔ اس کے لیے آپ کے ماضی کے تین حوالے دیئے گئے ہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یتیم تھے ” اللہ“ نے آپ کو بہترین ٹھکانہ دیا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہدایت کے بارے میں بے خبر تھے اس نے آپ کی راہنمائی فرمائی اور آپ کو پوری دنیا کا راہنما بنا دیا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) غریب تھے اس نے آپ کو غنی فرما دیا۔ اس انسان کی بے بسی اور لاچارگی کی انتہا ہوتی ہے جو پیدائش کے وقت یتیم ہونے کے ساتھ انتہائی غریب ہو اور اس کی راہنمائی کرنے والا بھی کوئی نہ ہو، ایسے بچے کا معاشرے میں اعلیٰ مقام پانا تو درکنار وہ در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہوتا ہے۔ حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی ابتدائی زندگی میں انہی مسائل اور مصائب سے دوچار ہوئے لیکن خالقِ کائنات نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنے پیغام اور لوگوں کی راہنمائی کے لیے منتخب فرما لیاتھا۔ اس لیے آپ کے رب نے کسی مرحلے پر آپ کو غیروں کے سہارے پر نہیں چھوڑا۔ پیدا ہوئے تو آپ کا دادا سردار عبدالمطلب موجود تھا جس نے آپ کی اس طرح پرورش کی جس طرح کوئی دوسرا نہیں کرسکتا، سردارعبد المطلب دنیا سے رخصت ہوئے تو آپ کے چچا جناب ابوطالب نے زندگی بھر آپ کا ساتھ دیا کہ آپ کو یتیمی کا احساس نہیں ہونے دیا، جوانی میں قدم رکھا تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو ایسی رفیقہ حیات عطا فرمائی جس نے سب کچھ آپ کے قدموں پر نچھاور کردیا، چالیس سال کے ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو ختم نبوت کے تاج سے سرفراز فرمایا اور پوری دنیا کا رہبر و راہنما بنایا اور آپ کو پہلے دن سے ایسے جانثار ساتھی عطا کیے کہ جنہوں نے اپنی جان سے آپ کو عزیز جانا۔ میدان جہاد میں قدم رکھا تو قدم پر قدم دشمن پر غالب آئے۔ انہی انعامات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ کیا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نہیں جانتے کہ آپ یتیم تھے، ہم نے آپ کی سرپرستی کا بہترین انتظام کیا، آپ وسائل کے اعتبار سے کمزور تھے، ہم نے آپ کو وسائل سے مستغنی کردیا۔ آپ اپنے رب کی ہدایت سیبے خبر تھے، ہم نے آپ کو اقوام عالم کا راہنما بنا دیا۔ قرآن مجید نے اس موقع پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے ” ضَآلًّا“ کا لفظ استعمال کیا ہے جس کا یہ معنٰی نہیں کہ آپ نبوت سے پہلے کسی برائی اور گمراہی میں مبتلا تھے۔ اس کا حقیقی معنٰی ہے کہ نبوت سے پہلے آپ کو علم نہیں تھا کہ آپ کیسے زندگی بسر کریں اور کس طرح لوگوں کی راہنمائی فرمائیں۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنی رحمت کے ساتھ مختص کرلیا جس بنا پر آپ کا ہر فرمان اور آپ کی زندگی کا ہر پہلو لوگوں کے لیے راہنما اصول ٹھہرا۔ یہاں تک کہ کسی موقع پر بتقاضا بشریت آپ سے بھول ہوگئی تو اللہ تعالیٰ نے اسے بھی آپ کی امت کے لیے نمونہ اور اصول قرار دیا۔ (وَکَذٰلِکَ اَوْحَیْنَا اِِلَیْکَ رُوحًا مِنْ اَمْرِنَا مَا کُنْتَ تَدْرِی مَا الْکِتٰبُ وَلاَ الْاِِیْمَانُ وَلٰکِنْ جَعَلْنَاہُ نُوْرًا نَہْدِیْ بِہٖ مَنْ نَّشَاءُ مِنْ عِبَادِنَا وَاِِنَّکَ لَتَہْدِیْ اِِلٰی صِرَاطٍ مُسْتَقِیْمٍ) (الشوریٰ: ٥٢) ” اے نبی اسی طرح ہم نے اپنے حکم سے ایک روح آپ کی طرف وحی کی ہے آپ نہیں جانتے تھے کہ کتاب کیا ہے اور ایمان کیا ہوتا ہے۔ ہم نے اس روح کو ایک روشنی بنا دیا ہم اپنے بندوں میں سے جسے چاہتے ہیں راہ دکھاتے ہیں۔ یقیناً آپ سیدھے راستے کی طرف رہنمائی کرنے والے ہیں۔“ ” اور اگر اللہ تعالیٰ کا فضل اور اس کی رحمت تمہارے شامل حال نہ ہوتی تو ان کی ایک جماعت نے تمہیں بہکانے کا ارادہ کر ہی لیا تھا۔ اور وہ نہیں گمراہ کرتے مگر اپنے آپ ہی کو اور یہ تمہارا کچھ بھی بگاڑ نہیں سکتے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ پر کتاب و حکمت اتاری اور تمہیں وہ سکھایا ہے جسے تم نہیں جانتے تھے۔ اور اللہ تعالیٰ کا تم پر بڑا فضل ہے۔“ (النساء : ١١٣) مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یتیمی میں بہترین سرپرست عطا فرمائے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے نہ صرف آپ کی راہنمائی فرمائی بلکہ آپ کو رہتی دنیا تک اقوام عالم کا رسول اور راہنما بنا دیا۔ ٣۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بچپن میں غریب تھے اللہ تعالیٰ نے آپ کو مستغنی کردیا۔ تفسیر بالقرآن نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ” اللہ“ کے انعامات کی ایک جھلک : ١۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پوری دنیا کے لیے نبی بنا کر بھیجا گیا۔ (الاعراف : ١٥٨) ٢۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو رحمۃ للعالمین بنا کر بھیجا گیا۔ (الانبیاء : ١٠٧) ٣۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خاتم النبیین بنایا گیا ہے۔ (الاحزاب : ٤٠) ٤۔ آپ کو پوری دنیا کے لیے داعی، بشیر اور نذیر بنا کر مبعوث کیا گیا ہے۔ (الاحزاب : ٤٥۔ ٤٦) ٥۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تمام انسانوں کے لیے ر ؤف، رحیم بنایا گیا۔ (التوبہ : ١٢٨) ٦۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت مومنوں پر اللہ تعالیٰ کا احسان عظیم ہے۔ (آل عمران : ١٦٤) الضحى
7 الضحى
8 الضحى
9 فہم القرآن ربط کلام : نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یتیموں اور غریبوں کے حقوق کا خیال رکھنے کی خصوصی تلقین۔ یتیموں اور مسکینوں کے حقوق کا خیال رکھنا ہر صاحب حیثیت کا فرض ہے لیکن یہ فرض اس شخص کے لیے زیادہ اہم ہوجاتا ہے جس نے یتیمی میں آنکھ کھولی اور غریبی میں پرورش پائی ہو۔ اللہ تعالیٰ اسے مقام عطا فرمائے اور وسائل سے ہمکنار کرے تو اس کافرض ہے کہ وہ دوسروں سے بڑھ کر یتیموں اور مسکینوں کا خیال رکھے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو امت کا سربراہ بنایا اور فتح مکہ کے بعد وسائل کے دروازے کھول دئیے۔ اس لیے آپ کو حکم دیا گیا کہ یتیم کو نہیں جھڑکنا اور سائل سے روگردانی اختیار نہیں کرنی اور اپنے رب کی نعمتوں کا اعتراف کرتے ہوئے اس کا شکر ادا کرتے رہنا۔ (عَنْ سَہْلٍ (رض) قَالَ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) أَنَا وَکَافِلُ الْیَتِیمِ فِی الْجَنَّۃِ ہَکَذَا وَأَشَار بالسَّبَّابَۃِ وَالْوُسْطٰی، وَفَرَّجَ بَیْنَہُمَا شَیْءًا) (رواہ البخاری : باب فضل من یعول یتیما) ” حضرت سہل (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : میں اور یتیم کی کفالت کرنے والا جنت میں اس طرح ہوں گے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سبابہ اور درمیانی انگلی سے اشارہ فرمایا اور ان کے درمیان تھوڑا سا فاصلہ رکھا۔“ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَال النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) السَّاعِیْ عَلَی الْأَرْمَلَۃِ وَالْمِسْکِیْنِ کَالْمُجَاھِدِ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ أَوِ الْقَاءِمِ اللَّیْلَ الصَّاءِمِ النَّھَارَ) (رواہ البخاری : باب فضل النفقۃ علی الأھل) ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بیوہ اور مسکین پر نگران اللہ کی راہ میں مجاہد کی طرح ہے یا رات کو قیام اور دن کو روزہ رکھنے والے کی طرح ہے۔“ حقیقی سائل کو جھڑکنے کی اجازت نہیں : (عنَ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ (رض) قَالَ قَسَمَ رَسُول اللّٰہِ َ قَسْمًا فَقُلْتُ وَاللّٰہِ یَا رَسُول اللّٰہِ لَغَیْرُ ہَؤُلَاءِ کَانَ أَحَقَّ بِہِ مِنْہُمْ قَالَ إِنَّہُمْ خَیَّرُونِی أَنْ یَسْأَلُونِی بالْفُحْشِ أَوْ یُبَخِّلُونِی فَلَسْتُ بِبَاخِل) (صحیح مسلم، بَابُ إِعْطَاءِ مَنْ سَأَلَ بِفُحْشٍ وَغِلْظَۃٍ) ” حضرت عمر (رض) فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صدقہ کا کچھ مال تقسیم فرمایا۔ میں نے عرض کی یارسول اللہ! اللہ کی قسم! اس کے مستحق تو دوسرے لوگ ہیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ان لوگوں نے مجھے مجبور کردیا ہے یا تو وہ مجھ سے بے حیائی اور ڈھٹائی سے مانگیں یا وہ مجھے بخیل کہیں اور میں بخل کرنے والا نہیں ہوں۔“ (عَنْ أَبِی الْأَحْوَصِ عَنْ أَبِیہِ أَنَّہُ أَتَی النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فِی ثَوْبٍ دُونٍ فَقَالَ لَہٗ النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) أَلَکَ مَالٌ قَالَ نَعَمْ مِنْ کُلِّ الْمَالِ قَالَ مِنْ أَیِّ الْمَالِ قَالَ قَدْ آتَانِی اللّٰہُ مِنْ الْإِبِلِ وَالْغَنَمِ وَالْخَیْلِ وَالرَّقِیقِ قَالَ فَإِذَا آتَاک اللّٰہُ مَالًا فَلْیُرَ عَلَیْکَ أَثَرُ نِعْمَۃِ اللّٰہِ وَکَرَامَتِہٖ) (رواہ النسائی : کتاب الزینۃ، باب الجلاجل ) ” حضرت ابو الاحوص اپنے والد سے بیان کرتے ہیں کہ وہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس بالکل معمولی کپڑوں میں آئے تو اللہ کے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : کیا تمھارے پاس مال ہے انھوں نے کہا ہاں ہر طرح کا مال ہے نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا کون کون سا ؟ میرے والد نے کہا اللہ نے اونٹ، بکریاں، گھوڑے، غلام اور لونڈیاں بھی دی ہیں۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے مال دیا ہے تو اس کی نعمت اور فضل کے آثار بھی تم پر دکھائی دینے چاہئیں۔“ مسائل ١۔ یتیم پر سختی نہیں کرنی چاہیے۔ ٢۔ حقیقی سائل کو جھڑکنے کی اجازت نہیں۔ ٣۔ اپنے رب کی نعمتوں کا شکریہ اور اظہار کرنا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن یتیموں اور مسکینوں کے حقوق : ١۔ یتیم تمہارے بھائی ہیں۔ (البقرۃ: ٢٢٠) ٢۔ یتیموں سے اچھا سلوک کرنے کا حکم۔ (البقرۃ: ٨٣) ٣۔ یتیموں کا مال واپس کیا جائے۔ (النساء : ٢) ٤۔ یتیموں کا مال بلوغت کی عمر کو پہنچنے پر واپس کرو۔ (النساء : ٦) ٥۔ یتیموں کو مال دو تو اس پر گواہ کرلو۔ (النساء : ٦) ٦۔ یتیموں کا مال کھانا بڑا گناہ ہے۔ (النساء : ٢) ٧۔ یتیم کو جھڑکنے کی ممانعت۔ (الضحیٰ: ٩) ٨۔ والدین، یتیموں، اور مسکینوں کے ساتھ حسن سلوک کرنا چاہیے۔ (النساء : ٣٦) ٩۔ یتیم کا مال کھانے والا اپنے پیٹ میں جہنم کی آگ بھر رہا ہے۔ (النساء : ١٠) الضحى
10 الضحى
11 الضحى
0 سورۃ الانشراح کا تعارف یہ سورت مکہ کے ابتدائی دور میں نازل ہوئی۔ ایک رکوع پر مشتمل ہے جس کی آٹھ آیات ہیں، اس سورت میں آپ کے مشن کے حوالے سے چار خوشخبریاں دی گئی ہیں۔ 1۔ نبوت کا کام انتہائی مشکل تھا مگر اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے آپ کا سینہ کھول دیا اور آپ کے لیے اسے آسان کردیا ہے۔ 2۔ نبوت کا بوجھ اس قدر بھاری تھا کہ آپ کی قمر ٹوٹ جائے اور آپ کے عصاب شل ہوجائیں مگر اللہ تعالیٰ نے آپ کا بوجھ ہلکا کردیا ہے۔ 3۔ آپ کے دشمن آپ کا نام اور کام مٹانا چاہتے ہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے آپ کے نام اور کام کو ہمیشہ ہمیش کے لیے سر بلند فرما دیا ہے۔4۔ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یقین جانو کہ ہر تنگی کے بعد فراخی ہوا کرتی ہے۔ 5۔ اللہ تعالیٰ کے انعامات اور اس کی عطا کردہ فرصت کا تقاضا ہے کہ آپ اپنے رب کی طرف متوجہ رہا کریں۔ الشرح
1 فہم القرآن ربط سورت : والضحیٰ کا اختتام اس ارشاد پر ہوا کہ اپنے رب کی نعمت کو یاد کریں۔ اللہ تعالیٰ نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات پر بے انتہا نعمتوں کا نزول فرمایا جن میں سر فہرست تین نعمتیں ہیں، جن کا ذکر اس سورت میں کیا گیا ہے۔ ١۔ وحی حفظ کرنے، اسے سمجھنے، پھر اسے بیان کرنے کے لیے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا سینہ کھول دیا گیا۔ ٢۔ پیغام نبوت کو من وعن لوگوں تک پہچانے کا عظیم بوجھ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے بہت حد تک آسان کردیا۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کے کام اور نام کو ہمیشہ کے لیے سربلند فرما دیا۔ انسان کے لیے ضروری ہے کہ ہر نیک کام کرنے سے پہلے اس کے لیے اسے انشراح صدر حاصل ہو، ایک داعی پر اللہ تعالیٰ کا بڑا احسان ہوتا ہے کہ دعوت دینے اور نیک کام کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ اس کا سینہ کھول دے۔ داعی کا سینہ دعوت کے لیے کھول دیا جائے تو اس میں کچھ کر گزرنے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ جب پورے جذبہ کے ساتھ نیک کام کے لیے محنت کی جائے تو اس کے لیے مشکل آسان کردی جاتی ہے۔ انشرح صدر ایسی نعمت ہے جس کے لیے موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے رب سے دعا کی تھی۔ (قَالَ رَبِّ اشْرَحْ لِیْ صَدْرِیْ وَ یَسِّرْلِیْٓ اَمْرِیْ۔ وَاحْلُلْ عُقْدَۃً مِّنْ لِّسَانِیْ یَفْقَہُوْا قَوْلِیْ) (طٰہٰ: ٢٥ تا ٢٨) ” موسیٰ نے اپنے رب سے دعا کی کہ میرا سینہ کھول دے اور میرے کام کو میرے لیے آسان فرمادے۔ اور میری زبان کی گرہ کھول دے تاکہ لوگ میری بات سمجھ سکیں۔“ اللہ تعالیٰ نے نبی آخر الزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر انتہائی مہربانی فرماتے ہوئے آپ کے لیے آپ کا سینہ کھول دیا۔ اس سے پہلے آپ کی حالت یہ تھی کہ نبوت سے پہلے آپ اپنی قوم کے حالات دیکھ کر رنجیدہ خاطر رہتے تھے، جونہی آپ کی عمر چالیس سال کے قریب پہنچی تو قوم کے بارے میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی فکر مندی میں اس قدر اضافہ ہوا کہ آپ کئی کئی دن تک غار حرا میں خلوت نشین ہو کر اس بات پر غور وفکر کرتے کہ لوگوں کو کس طرح راہ راست پر لایا جائے۔ اسی سوچ میں متفکر تھے کہ ایک دن غار حرا میں جبریل امین آئے اور اس نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر سورۃ العلق کی ابتدائی پانچ آیات نازل فرمائیں۔ اس کی تفصیل سورۃ العلق میں بیان کی گئی ہے۔ عقیدہ توحید کی بنیاد پر قوم کی اصلاح کرنا اتنا مشکل کام ہے کہ جس سے بڑھ کر کوئی کام مشکل نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے توحید کی دعوت دینے کے لیے جتنے رسول مبعوث فرمائے وہ ظاہری اور جوہری صلاحیتوں کے حوالے سے اپنے اپنے دور کے عظیم اور منفرد انسان تھے۔ ان خوبیوں میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمام انبیاء کرام (علیہ السلام) اور سب لوگوں سے زیادہ باصلاحیت اور ارفع تھے مگر قوم کی اصلاح اور توحید کی دعوت اس قدر مشکل کام تھا اور ہے کہ نبی آخر الزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی اس کام کو بڑا بھاری محسوس کرتے تھے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر جونہی نبوت کی ذمّہ داری عائد ہوئی تو آپ نے اس قدر جانفشانی کے ساتھ محنت فرمائی کہ بسا اوقات آپ اس قدر نڈھال ہوجاتے کہ قریب تھا کہ آپ کو کوئی تکلیف لاحق ہوجائے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فکر و غم کو ہلکا کرنے کے لیے کئی بار ارشاد فرمایا کہ آپ ایک حد سے زیادہ فکر مند نہ ہوں کیونکہ ہم نے آپ کو لوگوں کے لیے مبلغ بنایا ہے نگران اور کو توال نہیں بنایا۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت اور آپ کی محنت کے نتیجہ میں یہ وقت آیا کہ آپ کو اس قدر جانثار ساتھی ملے کہ جس سے آپ کا کام آسان ہوگیا جس کے بارے میں ارشاد ہوا کہ ہم نے آپ کا بوجھ ہلکا کردیا جو بوجھ آپ کی کمر توڑے جارہا تھا۔ ” حضرت معاویہ (رض) رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں کہ رسول مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اللہ تعالیٰ جس شخص کے ساتھ خیر خواہی کرنا چاہتے ہیں اسے دین کی سمجھ عطا فرماتا ہے۔“ (رواہ البخاری : کتاب العلم) (عَنْ عَبْدِاللّٰہِ بْنِ شَقِیقٍ (رض) قَالَ قُلْتُ لِعَاءِشَۃَ (رض) ہَلْ کَان النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یُصَلِّی وَہُوَ قَاعِدٌ قَالَتْ نَعَمْ بَعْدَ مَا حَطَمَہُ النّاسُ) (رواہ مسلم : باب جواز النافلۃ قائما وقاعدا) ” حضرت عبداللہ بن شقیق بیان کرتے ہیں میں نے حضرت عائشہ (رض) سے پو چھا کیا نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بیٹھ کر بھی نماز پڑھا کرتے تھے ؟ ام المومنین (رض) نے فرمایا : ہاں لوگوں نے آپ کو بوڑھا کردیا تھا۔“ ” شاید آپ اپنے آپ کو ہلاک کرلیں گے کہ وہ اس بات پر ایمان نہ لائے۔“ (الکہف : ٦) (لَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَّفْسَکَ اَلَّا یَکُوْنُوْا مُؤْمِنِیْنَ) (الشعراء : ٣) ” اے نبی شاید آپ اس غم میں اپنی جان کھودیں گے اس لیے کہ یہ لوگ ایمان نہیں لاتے۔“ ” اور اگر اللہ چاہتا تو وہ شرک نہ کرتے اور ہم نے آپ کو ان پر نگران نہیں بنایا اور نہ آپ ان کے وکیل ہیں۔“ (الانعام : ١٠٧) ” اے نبی نصیحت کیے جاؤ آپ نصیحت ہی کرنے والے ہیں۔ ان پر جبر کرنے والے نہیں۔“ (الغاشیہ : ٢١، ٢٢) مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے نبوت کے کام کے لیے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا سینہ کھول دیا۔ الشرح
2 الشرح
3 الشرح
4 فہم القرآن ربط کلام : نبوت کا بوجھ ہلکا کرنے کے ساتھ رب کریم نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نام اور کام کو بھی بلند و بالا فرمادیا۔ نبوت کی ذمہ داریوں میں سب سے مشکل کام لوگوں تک توحید کی دعوت پہنچانا ہے۔ جو لوگ نبوت سے پہلے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو صادق اور امین کہتے تھے، دعوت توحید کی وجہ سے وہ اس قدر مخالف ہوگئے کہ انہوں نے اس بات پر تن من دھن کی بازی لگادی کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت کو کسی صورت آگے نہ بڑھنے دیا جائے۔ اس کے لیے انہوں نے ہر حربہ استعمال کیا، یہاں تک کہ انہوں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر مختلف قسم کے الزامات لگائے اور آپ کو محمد کہنے کی بجائے مذمّم کہنے لگے۔ خاکم بدھن جس کا معنٰی ہے ملامت کیا ہوا۔ اس صورت حال میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا پریشان ہونا ایک فطری امر تھا۔ اللہ تعالیٰ نے نہ صرف کفار کے ایک ایک الزام کی تردید فرمائی بلکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہر موقع پر عظیم تسلی اور اطمینان سے سرفراز فرمایا۔ اس پس منظر میں یہ سورت نازل ہوئی جس میں آپ کا بوجھ ہلکا کرنے کے ساتھ یہ خوشخبری دی گئی ہے کہ یہ لوگ آپ کے نام اور کام کو مٹانا چاہتے ہیں لیکن ہمارا فیصلہ ہے کہ ہم نے آپ کے نام اور کام کو ہمیشہ ہمیش کے لیے سربلند فرمادیا ہے۔ یقیناً ہر تنگی کے ساتھ آسانی ہے، بالیقین ہر تنگی کے ساتھ آسانی ہوا کرتی ہے۔ ان الفاظ میں یہ حقیقت بیان کی گئی ہے کہ جو شخص بھی حق کے لیے کوشش کرے گا اللہ تعالیٰ اس کے لیے آسانی پیدا فرمائے گا۔ پہلی آسانی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ داعی کے لیے دعوت کے کام میں انشراح صدر پیدا فرما دیتا ہے۔ دوسری آسانی یہ ہے کہ دعوت کی راہ میں آنے والی مشکلات کو الدّاعی خندہ پیشانی کے ساتھ برداشت کرتا ہے اور اس راہ میں پہنچنے والی اذّیت کو اپنے لیے باعث اجر سمجھتا ہے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ نعمتیں بدرجہ اتم عطا کردی گئیں جس وجہ سے آپ نے مشکل ترین حالات میں انتہائی مستقل مزاجی اور ثابت قدمی کے ساتھ اپنے کام کو جاری رکھا۔ جس کا نتیجہ نکلا کہ آپ کی جان کے دشمن آپ کے جانثار بن گئے اور آپ کی حیات مبارکہ میں آپ کی دعوت کا پرچم دس لاکھ مربع میل پر لہرانے لگا اور آپ کی زندگی میں اس انقلاب کے اثرات دور دور تک محسوس ہونے لگے۔ یہاں تک کہ اس وقت کے سب سے بڑی مملکت کے فرماروا کو آپ کی کامیابی کا اعتراف کرنا پڑا۔ مکی وفد کی قیادت ابو سفیان کر رہے تھے ان کے سامنے ایک سوال کے جواب میں ہرقل نے کہا۔ (فَإِنْ کَانَ مَا تَقُولُ حَقًّا فَسَیَمْلِکُ مَوْضِعَ قَدَمَیَّ ہَاتَیْنِ وَقَدْ کُنْتُ أَعْلَمُ أَنَّہُ خَارِجٌ لَمْ أَکُنْ أَظُنُّ أَنَّہُ مِنْکُمْ فَلَوْ أَنِّی أَعْلَمُ أَنِّی أَخْلُصُ إِلَیْہِ لَتَجَشَّمْتُ لِقَاءَ ہُ وَلَوْ کُنْتُ عِنْدَہُ لَغَسَلْتُ عَنْ قَدَمِہِ) (رواہ البخاری : کتاب بدء الوحی) ” جو تو کہہ رہا ہے اگر سچ ہے تو عنقریب وہ میرے قدموں کی جگہ پر قابض ہوجائے گا۔ مجھے معلوم تھا کہ وہ نبی مبعوث ہونے والا ہے لیکن مجھے یہ علم نہیں تھا کہ وہ تم میں سے ہوگا اگر میں اس کے پاس پہنچنے کی طاقت رکھتا تو میں اس کی ملاقات کو پسند کرتا اور اگر میں اس کے پاس ہوتا تو اس کے پاؤں دھوتا۔“ گویا کہ رب کریم نے مشکل ترین کام اور انقلاب آپ کے لیے آسان کردیا۔ آپ کو دعوت کے حوالے سے وہ کامیابی حاصل ہوئی جو آج تک کسی کے مقدر میں نہیں آئی اور نہ ہی قیامت تک کوئی شخص ایسی کامیابی حاصل کرپائے گا۔ افرادی قوت کے اعتبار سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس طرح کامیاب ہوئے کہ لوگ جوق در جوق اور فوج در فوج حلقہ اسلام میں داخل ہوگئے۔ (سورۃ نصر) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ذکر گرامی : جہاں تک آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ذکر مبارک کا معاملہ ہے۔ آدمی کے کلمہ پڑھنے سے لے کر قبر تک کوئی ایسا اہم مرحلہ نہیں جہاں اللہ تعالیٰ نے ” لا الٰہ الا اللہ“ کے ساتھ محمد رسول اللہ کو شامل نہیں کیا۔ اس لیے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عقیدت مندوں نے ان اوقات اور مقامات کا تفصیلی ذکر کیا ہے۔ علامہ آلوسی فرماتے ہیں کہ اس سے بڑھ کر رفع ذکر کیا ہوسکتا ہے کہ کلمۂ شہادت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے نام کے ساتھ اپنے محبوب کا نام ملادیا۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کو اپنی اطاعت قرار دیا، ملائکہ کیساتھ آپ پر درودبھیجا اور مومنوں کو درود پڑھنے کا حکم دیا اور جب بھی خطاب کیا تو معزز القاب سے مخاطب فرمایا جیسے ” یٰاَیُّھَا الْمُدَثِّرْ، یٰاَیُّھَا الْمُزَمِّلْ۔“ پہلے آسمانی صحیفوں میں بھی آپ کا ذکرِخیر فرمایا۔ تمام انبیاء (علیہ السلام) اور ان کی امتوں سے وعدہ لیا کہ وہ آپ پر ایمان لائیں۔ آج دنیا کا کوئی آباد ملک ایسا نہیں جہاں روز وشب میں پانچ بار نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت کا اعلان نہ ہو رہا ہو۔ (ضیاء القرآن ) مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نام، مرتبہ اور مقام کو بلند فرمادیا۔ ٢۔ بلاشبہ تنگی کے ساتھ آسانی بھی ہوتی ہے۔ تفسیر بالقرآن نبی (علیہ السلام) کا مقام ومرتبہ : ١۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پوری دنیا کے لیے نبی بنا کر بھیجا گیا۔ (الاعراف : ١٥٨) ٢۔ آپ کو رحمۃ للعالمین بنا کر بھیجا گیا۔ (الانبیاء : ١٠٧) ٣۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خاتم النبیین ہیں۔ (الاحزاب : ٤٠) ٤۔ آپ کو پوری دنیا کے لیے داعی، بشیر اور نذیر بنا کر مبعوث کیا گیا ہے۔ (الاحزاب : ٤٥۔ ٤٦) ٥۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تمام انسانوں کے لیے ر ؤف، رحیم بنایا گیا ہے۔ (التوبہ : ١٢٨) ٦۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت مومنوں پر اللہ تعالیٰ کا احسان عظیم ہے۔ (آل عمران : ١٦٤) الشرح
5 الشرح
6 الشرح
7 فہم القرآن ربط کلام : انسان کا فرض بنتا ہے کہ اسے جب آسانی اور کامیابی حاصل ہو تو اپنے رب کو یاد رکھے اور اس کا شکریہ ادا کرے۔ اللہ تعالیٰ نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات پر جو خصوصی انعامات فرمائے۔ اس لیے حکم ہوا کہ کامیابی، آسانی اور فراغت کے وقت اپنے رب کو رغبت یعنی پوری توجہ کے ساتھ یاد کیا کریں۔ فراغت کے وقت یاد کرنے کا یہ معنٰی نہیں کہ فراغت میسر نہ ہو تو اپنے رب کو بھول جایا جائے۔ اس سورت میں نبوت کی ذمہ داریوں اور اس کی مشکلات کا ذکر کیا گیا ہے۔ اس لیے ارشاد ہوا کہ جب بھی دعوت کے کام سے فرصت میسر ہو تو نفلی نماز اور ذکر وفکر میں مصروف ہوجایا کریں۔ اس میں ایک مبلغ اور مدرس کو یہ بات سمجھائی گئی ہے کہ بے شک دعوت اور تعلیم وتعلّم کا کام نیکی ہے لیکن اس میں بھی وقت نکال کر داعی کو پوری یکسوئی کے ساتھ اپنے رب کا ذکر کرنا چاہیے، گویا کہ دعوت کے کام کے لیے ایمان کی بیٹری چارج کرنا اور اس کام پر اپنے رب کا شکر گزار ہونا لازم ہے بصورت دیگر ایک سچا داعی اپنے دل میں ایک خلا اور تشنگی محسوس کرتا ہے جس داعی کے دل میں ” اللہ“ کی یاد اور اس کے شکریہ کا احساس نہ ہو۔ اس کا کام ایک فن کی حیثیت اختیار کرجاتا ہے جس سے ہر صورت بچنا چاہیے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو حکم : (اِذْہَبْ اَنْتَ وَ اَخُوْکَ بِاٰیٰتِیْ وَ لَا تَنِیَا فِیْ ذِکْرِیْ اِذْہَبَآ اِلٰی فِرْعَوْنَ اِنَّہٗ طَغٰی۔ فَقُوْلَا لَہٗ قَوْلًا لَّیِّنًا لَّعَلَّہٗ یَتَذَکَّرُ اَوْ یَخْشٰی۔) (طٰہٰ: ٤٢ تا ٤٥) ” موسیٰ تو اور تیرا بھائی میری نشانیوں کے ساتھ جاؤ اور میری یاد سے غافل نہ ہونا۔ دونوں فرعون کے پاس جاؤ کیونکہ وہ سرکش ہے۔ اس سے نرمی کے ساتھ بات کرنا ہوسکتا ہے کہ وہ نصیحت قبول کرے یا ڈر جائے۔“ (فَاصْبِرْ اِِنَّ وَعْدَ اللّٰہِ حَقٌّ وَاسْتَغْفِرْ لِذَنْبِکَ وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ بالْعَشِیِّ وَالْاِِبْکَارِ) (المومن : ٥٥) ” پس اے نبی صبر کر۔ اللہ کا وعدہ برحق ہے، اپنی کوتاہی کی معافی مانگ، اور صبح وشام اپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کرتا رہ۔“ (عَنِ الْمُغِےْرَۃِ (رض) قَالَ قَام النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حَتّٰی تَوَرَّمَتْ قَدَمَاہُ فَقِےْلَ لَہُ لِمَ تَصْنَعُ ھٰذَا وَقَدْ غُفِرَ لَکَ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِکَ وَمَا تَاَخَّرَ قَالَ اَفَلَا اَکُوْنَ عَبْدًا شَکُوْر) (مشکوٰۃ : باب التحریض علی قیام الیل) ” حضرت مغیرہ (رض) ذکر کرتے ہیں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رات کو اس قدر قیام کرتے کہ آپ کے قدم سوج جایا کرتے تھے۔ آپ سے عرض کی گئی کہ آپ اس قدر کیوں قیام فرماتے ہیں جب کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے پہلے اور پچھلے گناہ معاف کردیے ہیں؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : کیا مجھے اس کا شکرگزار بندہ نہیں بننا چاہیے۔“ (عَنْ عَاءِشَۃَ (رض) قَالَتْ کَان النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَذْکُرُ اللَّہَ عَلَی کُلِّ أَحْیَانِہِ) (رواہ مسلم : باب ذِکْرِ اللَّہِ تَعَالَی فِی حَالِ الْجَنَابَۃِ وَغَیْرِہَا) ” حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ نبی کائنات (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہر حال میں اللہ کا ذکر فرماتے تھے۔“ مسائل ١۔ آدمی کو فرصت کے وقت اپنے رب کو ضرور یاد کرنا چاہیے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ کو توجہ اور پوری رغبت کے ساتھ یاد کرنا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن اللہ کو یاد کرنے کے فوائد : ١۔ اپنے رب کی حمد و تسبیح بیان کرو اور سجدہ کرنے والوں میں سے ہوجاؤ۔ (الحجر : ٩٨) ٢۔ ” اللہ“ کے ذکر سے غافل لوگ گھاٹے میں رہتے ہیں۔ (المنافقون : ٩) ٣۔ ” اللہ“ کے ذکر سے اعراض کرنا اس کی ناراضگی کو دعوت دینا ہے۔ (الجن : ١٧) ٤۔ ” اللہ“ کو کثرت سے یاد کرنے والوں کے لیے مغفرت اور بڑا اجر ہے۔ (الاحزاب : ٣٥) ٥۔ ” اللہ“ کا ذکر دلوں کے لیے سکون و اطمینان کا باعث ہے۔ (الرعد : ٢٨) ٦۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ تم مجھے یاد کرو میں تمہیں یاد کروں گا۔ (البقرۃ : ١٥٢) ٧۔ ” اللہ“ کو کثرت کے ساتھ یاد کرو تاکہ تم کامیاب ہوجاؤ۔ (الجمعہ : ١٠ ) الشرح
8 الشرح
0 سورۃ التّین کا تعارف یہ سورت اپنے نام سے شروع ہوتی ہے، اس کا ایک رکوع ہے جو آٹھ آیات پر مشتمل ہے۔ یہ سورت مکہ معظمہ میں نازل ہوئی۔ اللہ تعالیٰ نے اس میں چار قسمیں اٹھا کر انسان کا مرتبہ اور مقام بیان کیا ہے اس کے بعد بتلایا ہے کہ بے شک انسان پوری مخلوق میں اعلیٰ اور بہترین ہے مگر یہ اپنے مقام اور مرتبہ پر اسی وقت تک فائز رہ سکتا ہے جب تک حقیقی ایمان کے ساتھ صالح اعمال کرتا رہے گا جب آخرت کو فراموش کر کے اللہ تعالیٰ کی دائمی اور حقیقی حاکمیت کا انکار کرتا ہے تو پھر مخلوق میں سب سے بدتر ہوجاتا ہے۔ التين
1 فہم القرآن ربط سورت : الم نشرح کے آخر میں ارشاد ہوا کہ جونہی فراغت میسر ہو تو آپ اپنے رب کو یاد کیا کریں۔ التّین کی ابتداء میں چار قسمیں اٹھانے کے بعد ہر انسان کو یہ بات باور کروائی ہے کہ جس طرح اسے بہترین شکل وصورت اور صلاحیتوں کے ساتھ پیدا کیا گیا ہے، اسی طرح انسان کو بہتر سے بہتر اعمال کی کوشش کرنی چاہیے۔ بہترین اعمال کا خلاصیہ یہ ہے کہ ہر حال میں اپنے رب کے حکم کو یاد رکھا جائے۔ رب کریم نے اس سورۃ مبارکہ میں انسان کو اس کے مقام اور مرتبے کا احساس دلانے کے لیے چار چیزوں کی قسمیں اٹھائی ہیں۔ انجیر اور زیتون کی قسمیں اٹھائیں جس میں انجیر اور زیتون کے فوائد کی طرف اشارہ کرنے کے ساتھ بیت المقدس اور اس کے گرد و پیش کے علاقے اور اس کی تاریخی حیثیت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ یہ وہی سرزمین ہے جہاں اللہ تعالیٰ نے عیسیٰ ( علیہ السلام) اور بے شمار انبیائے کرام (علیہ السلام) مبعوث فرمائے اور اس علاقہ میں حق وباطل کے کئی معرکے ہوئے۔ تمام انبیاء (علیہ السلام) نے اپنی اقوام کو وہی دعوت دی جس کے لیے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو تورات عطا کی گئی۔ جس میں اشارہ ہے کہ تورات کی جو دعوت ہے وہی قرآن مجید کی دعوت ہے اور اس پر عمل کرنا ہی انسان کی تخلیق کا اوّلین مقصد ہے۔ طور سیناء ایسا پہاڑ ہے جہاں موسیٰ (علیہ السلام) اپنے رب سے ہم کلام ہوئے۔ اس کے ساتھ یہودیوں کی ایک تاریخ وابستہ ہے۔ اس لیے طور سیناء کی قسم اٹھا کر یہودیوں کی پوری تاریخ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ اس کے بعد مکہ معظمہ کی قسم اٹھائی گئی جسے امن کا شہر قرار دیا گیا ہے۔ کیونکہ اس میں بیت اللہ موجود ہے جو ہدایت کا مرکز ہونے کے ساتھ امن کا باعث ہے۔ اسی شہر میں نبی آخر الزّمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مبعوث کیا گیا جن پر ایمان لانا اور اطاعت کرنا ہر شخص پر لازم ہے۔ اس طرح ان چار چیزوں کی قسمیں اٹھا کر حضرت موسیٰ، حضرت عیسیٰ اور نبی۔ کی تاریخ، دعوت اور جدوجہد کی نشاندہی کی گئی ہے۔ گویا کہ تین بڑے انبیاء ( علیہ السلام) اور ان کی تاریخ کا حوالہ دے کر انسان کو یہ بات باور کروائی ہے کہ اے انسان! تجھے تیرے رب نے بہت ہی اچھی شکل وصورت کے ساتھ پیدا فرمایا اور تجھے بہترین صلاحیتوں کے ساتھ ہمکنار کیا ہے لہٰذا تجھے اپنا مقام و مرتبہ پہچاننا اور اپنی ذمہ داری کا احساس کرنا چاہیے۔ قرآن مجید نے انسان کو کئی بار یہ بات یاد کروائی ہے کہ اے انسان تجھے اللہ تعالیٰ نے مسجود ملائکہ کا شرف عطا کرتے ہوئے زمین میں خلیفہ بنایا اور ہر چیز کو تیری خدمت پر لگا دیا ہے۔ زمین و آسمانوں کی ہر چیز تیرے لیے ہے اور تو ” اللہ“ کے لیے ہے۔ لیکن انسانوں کی اکثریت کا عالم یہ ہے کہ وہ اپنے مرتبہ ومقام کو نہ پہچاننے کی وجہ سے اپنے مقام سے اس قدر نیچے گر پڑتے ہیں کہ پوری مخلوق سے پست ہوجاتے ہیں، غور فرمائیں! کہ انسان ظلم کرنے پر اترتا ہے تو درندوں سے بڑا درندہ ثابت ہوتا ہے۔ بے حیائی کرنے پر آتا ہے تو ماں، بہن کے ساتھ منہ کالا کرلیتا ہے، غلاظت اختیار کرتا ہے تو تمام مخلوق سے زیادہ گندہ دکھائی دیتا ہے، بدعقیدہ بنتا ہے تو بچھو اور سانپ کی پوجا کرنے لگتا ہے گویا اس قدر اپنا مقام کھو بیٹھتا ہے کہ گھٹیا ترین مخلوق میں سب سے گھٹیا بن جاتا ہے۔ حالانکہ رب ذوالجلال کا حکم ہے کہ اے انسان! تجھے صرف میرے سامنے جھکنا اور میرا ہی حکم ماننا چاہیے۔ لیکن انسانوں کی اکثریت اللہ تعالیٰ کے سامنے جھکنے اور اس کا حکم ماننے پر تیار نہیں جس کے نتیجے میں عام انسان تو درکنار کلمہ پڑھنے والے مسلمان بھی عقیدہ اور کردار کے اعتبار سے حقیر سے حقیر تر دکھائی دیتے ہیں۔ (لَہُمْ قُلُوْبٌ لَّا یَفْقَہُوْنَ بِہَا وَلَہُمْ اَعْیُنٌ لَّا یُبْصِرُوْنَ بِہَا وَلَہُمْ اٰذَانٌ لَّا یَسْمَعُوْنَ بِہَا اُولٰٓءِکَ کَالْاَنْعَامِ بَلْ ہُمْ اَضَلُّ اُولٰٓءِکَ ہُمُ الْغٰفِلُوْنَ) (الاعراف : ١٧٩) ” ان کے دل ہیں جن سے وہ سمجھتے نہیں اور ان کی آنکھیں ہیں جن سے وہ دیکھتے نہیں اور ان کے کان ہیں جن سے وہ سنتے نہیں یہ لوگ چوپاؤں جیسے ہیں بلکہ ان سے بدتر ہیں اور یہی لوگ غافل ہیں۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے التین، زیتون، طور سیناء اور مکہ معظمہ کی قسم اٹھا کر ارشاد فرمایا کہ ہم نے انسان کو بہت اچھی شکل وصورت میں پیدا فرمایا ہے۔ ٢۔ بے شمار انسان اپنے عقیدہ اور کردار کی وجہ سے پوری مخلوق میں گھٹیا ترین بن جاتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیدا کرنے کے بعد عظیم ترین اعزازات سے سرفراز فرمایا : ١۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنے ہاتھ سے پیدا فرمایا ہے۔ (ص : ٧٥) ٢۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو خلیفہ بنایا۔ (البقرۃ: ٣٠) ٣۔ آدم (علیہ السلام) سجدہ نہ کرنے کی وجہ سے ابلیس کو ہمیشہ کے لیے اپنی بارگاہ سے راندہ درگاہ اور لعنتی قرار دیا۔ (الحجر : ٣٤۔ ٣٥) ٤۔ اللہ تعالیٰ نے پوری کائنات کو انسان کے لیے مسخر فرمایا۔ (الجا ثیہ : ١٣) (الرحمن : ٤) (العلق : ٥) التين
2 التين
3 التين
4 التين
5 التين
6 فہم القرآن ربط کلام : ذلّت اور پستی سے بچنے والے لوگوں کا کردار اور انعام۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو بہترین شکل وصورت میں پیدا فرما کر اسے بہترین عمل کرنے کا حکم دیا ہے۔ ذات باری تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ وہی ذات ہے جس نے موت اور زندگی بنائی تاکہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے کون بہترین عمل کرتا ہے۔ (الملک : ٢) اللہ تعالیٰ نے انسان کو نہ صرف بہترین عمل کرنے کا حکم دیا ہے بلکہ اس کی سہولت کے لیے ہر دور میں انسانوں میں بہترین انسانوں کو اپنا رسول منتخب کیا اور انہیں لوگوں کے لیے نمونہ بنایا تاکہ وہ لوگوں کو بہترین تعلیم وتربیت سے آراستہ کریں ان میں آخری رسول حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں جن کے بارے میں ارشاد ہے : (لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ لِّمَنْ کَانَ یَرْجُوا اللّٰہَ وَ الْیَوْمَ الْاٰخِرَ وَ ذَکَرَ اللّٰہَ کَثِیْرًا) (الاحزاب : ٢١) ” حقیقت یہ ہے کہ تمہارے لیے اللہ کے رسول کی زندگی بہترین نمونہ ہے بشرطیکہ جو شخص اللہ اور یوم آخرت کے بارے میں امید رکھتا ہو، اور اللہ کو کثرت سے یاد کرنے والا ہو۔“ بہترین عمل کرنے کے لیے بہترین نظریے یعنی عقیدے کی ضرورت ہوتی ہے۔ قرآن مجید نے اس کی بھی وضاحت کردی ہے تاکہ انسان کو بہترین عقیدہ اور عمل اختیار کرنے میں کسی قسم کی دقّت پیش نہ آئے جو لوگ اللہ اور اس کے رسول پر حقیقی ایمان لائیں گے اور اس کے حکم کے مطابق عمل کریں گے انہی کا ایمان اور عمل بہتر ہوگا، بہتر عمل کرنے والوں کو قیامت کے دن ایسا اجر عطا کیا جائے گا جس میں کمی ہونے کی بجائے اضافہ ہی ہوتا رہے گا۔ بہترین عقیدہ اور عمل۔ (وَمَنْ اَحْسَنُ قَوْلًا مِّمَّنْ دَعَا اِِلَی اللّٰہِ وَعَمِلَ صَالِحًا وَّقَالَ اِِنَّنِی مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ) (حمٓ السجدۃ: ٣٣) ” اور اس شخص کی بات سے اچھی بات کس کی ہوسکتی ہے جس نے لوگوں کو اللہ کی طرف بلایا اور نیک عمل کیے اور اقرار کیا کہ میں مسلمان ہوں۔“ ” اللہ“ سے احسن عمل کی توفیق مانگتے رہنا چاہیے : (عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ أَنَّ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) أَخَذَ بِیَدِہِ وَقَالَ یَا مُعَاذُ وَاللَّہِ إِنِّیْ لَاُحِبُّکَ وَاللَّہِ إِنِّیْ لأُحِبُّکَ فَقَالَ أُوصِیْکَ یَا مُعَاذُ لاَ تَدَعَنَّ فِی دُبُرِکُلِّ صَلاَۃٍ تَقُوْلُ ” اللَّہُمَّ أَعِنِّیْ عَلٰی ذِکْرِکَ وَشُکْرِکَ وَحُسْنِ عِبَادَتِکَ“ ) (رواہ أبوداوٗد : باب فی الإستغفار، قال البانی صحیح) ” حضرت معاذ بن جبل (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے میرا ہاتھ پکڑا اور دو مرتبہ فرمایا اے معاذ! اللہ کی قسم میں تجھ سے محبت کرتا ہوں پھر فرمایا اے معاذ! میں تجھے وصیت کرتا ہوں کہ ہر فرض نماز کے بعد یہ کلمات پڑھتے رہنا اور انہیں کبھی نہ چھوڑنا۔ الٰہی ! اپنے ذکر، شکر اور بہترین طریقے سے عبادت کرنے پر میری مدد فرما۔“ (عَنْ بُسْرِ بْنِ أَرْطَاۃَ الْقُرَشِیِّ (رض) یَقُولُ سَمِعْتُ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَدْعُواللَّہُمَّ أَحْسِنْ عَاقِبَتَنَا فِی الأُمُورِ کُلِّہَا وَأَجِرْنَا مِنْ خِزْیِ الدُّنْیَا وَعَذَاب الآخِرَۃِ) (رواہ احمد : مسند بسر بن ارطاۃ) ” حضرت بسر بن ارطاۃ قرشی (رض) کہتے ہیں میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ دعا کرتے ہوئے سنا۔ اے اللہ ! ہمارے تمام معاملات کا انجام اچھا فرما اور ہمیں دنیا اور آخرت کی رسوائی سے محفوظ فرما۔“ (عَنْ أَنَسٍ قَالَ کَان النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَقُولُ ” اللَّہُمَّ رَبَّنَا آتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَفِی الآخِرَۃِ حَسَنَۃً وَقِنَا عَذَاب النَّارِ“ ) (رواہ البخاری : باب (ومنہم من یقول ربنا آتنا۔۔) ” حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دعا کیا کرتے تھے۔” اے ہمارے رب ہمیں دنیا میں بھی بھلائی عطا کر اور آخرت میں بھی بھلائی عطا کرنا اور ہمیں دوزخ کے عذاب سے محفوظ فرما۔“ مسائل ١۔ پختہ ایمان اور نیک اعمال کے ساتھ ہی قیامت کے دن نجات ممکن ہوگی۔ ٢۔ آخرت کی کامیابی اتنی زیادہ ہوگی کہ کبھی ختم نہیں ہوگی۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ نیک اعمال کا صلہ دیتا ہے : ١۔ جو نیک اعمال کرتے رہے ہیں اللہ ان کا بدلہ دے گا۔ (الزمر : ٣٥) (الحج : ٥٠) ٢۔ اللہ تعالیٰ ایمان لانے والوں اور نیک اعمال کرنے والوں کو جزا دے گا۔ (سبا : ٤) (الانفال : ٤) التين
7 فہم القرآن ربط کلام : ایمان کے بنیادی اجزا میں تیسرا بڑا جز یہ ہے کہ انسان اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لا کر یہ یقین رکھے کہ مرنے کے بعد اسے زندہ ہونا اور اپنے رب کی بارگاہ میں پیش کیا جانا ہے۔ آخرت کے عقیدے میں جس قدر تازگی اور پختگی ہوگی اسی قدر ہی انسان ایمان کے تقاضے پورے کرے گا۔ اس لیے ایمان اور صالح اعمال کا ذکر کرنے کے بعد ارشاد ہوا کہ اے انسان! تو کس طرح قیامت کو جھٹلاتا ہے؟ کیا تو نہیں سمجھتا کہ اللہ تعالیٰ تمام حاکموں سے بڑا حاکم ہے۔ اس کے حاکم اور عادل ہونے کا تقاضا ہے کہ وہ قیامت قائم کرے تاکہ ایماندار اور صالح اعمال کرنے والوں کو بہترین جزا دے جس میں کبھی کمی نہیں ہوگی اور ان لوگوں کو پوری پوری سزا دے جنہوں نے اس کی ذات اور اس کا حکم ماننے سے انکار کیا۔ اللہ تعالیٰ کے حاکم ہونے کا صرف یہ تقاضا نہیں کہ ایک مسلمان یہ عقیدہ رکھے کے قیامت قائم ہونی ہے اور مجھے اپنے رب کے حضور پیش ہونا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے حاکم ہونے کا یہ بھی تقاضا ہے کہ انسان انفرادی اور اجتماعی زندگی میں اس کے حکم کو اپنے لیے آخری اور قطعی حکم تصور کرے۔ اس کے بغیر انفرادی زندگی کی اصلاح اور اجتماعی زندگی کا نظام درست نہیں ہو سکتا۔ ” حضرت عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن زمینوں اور آسمانوں کو یکجا کرکے اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے فرمائیں گے کہ میں ہی بادشاہ ہوں، ظالم اور غرور کرنے والے آج کہاں ہیں ؟ یَقُوْلُ اَنَا الْمَلِکُ اَیْنَ الْجَبَّارُوْنَ أَیْنَ الْمُتَکَبِّرُوْنَ“ (رواہ مسلم : کتاب صفۃ القیامۃ والجنۃ والنار ) (عَنْ أَبِیْ الدَّرْدَاءِ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تَفْرَغُوْا مِنْ ہَمُوْمِ الدُّنِیَا مَا اسْتَطَعْتُمْ فَاِنَّہٗ مَنْ کَانَتِ الدُّنِیَا اَکْبَرُ ہَمَّہٗ اَفْشَی اللّٰہُ ضَیِّعَتَہٗ وَجَعْلَ فَقْرَہٗ بَیْنَ عَیْنَیْہِ وَمَنْ کَانَتِ الْاٰخِرَۃِ اَکْبَرُ ہَمَّہٗ جَمَعَ اللّٰہُ لَہٗ اَمُوْرَہٗ وَجَعَلَ غِنَاہُ فِیْ قَلْبِہٖ وَمَا اَقْبَلَ عَبْدٌ بِقَلْبِہٖ إِلَی اللّٰہِ إِلاَّ جَعَلَ اللّٰہُ قُلُوْبَ الْمُؤْمِنِیْنَ تَفِدُّ إِلَیْہِ بالْوَدِّ وَالرَّحْمَۃِ وَکَان اللّٰہُ إِلَیْہِ بِکُلِّ خَیْرٍ اَسْرَعُ) (معجم الاوسط، قال البزار لیس بہ باس) ” حضرت ابو درداء (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جہاں تک ہو سکے تم دنیا کے غموں سے چھٹکارا حاصل کرلو جس نے دنیا کی فکر کو بڑ اجان لیا اللہ تعالیٰ اس پر دنیا تنگ کردے گا اور محتاجی اس کی آنکھوں سے ٹپک رہی ہوگی۔ جس نے آخرت کو بڑی فکر سمجھ لیا اللہ تعالیٰ اس کے معاملات کو سنوار دے گا اور اس کے دل میں غنا پیدا کردے گا جو انسان اللہ کی طرف سچے دل سے متوجہ ہوجائے اللہ تعالیٰ اس کے لیے مومنوں کے دلوں میں محبت اور رحمت پید افرما دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کے لیے ہر بھلائی میں جلدی کرتا ہے۔“ (عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ یَقُولُ قَالَ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَنْ قَرَأَ مِنْکُمْ (وَالتِّینِ وَالزَّیْتُونِ) فَانْتَہَی إِلَی آخِرِہَا (أَلَیْسَ اللَّہُ بِأَحْکَمِ الْحَاکِمِینَ) فَلْیَقُلْ بَلَی وَأَنَا عَلَی ذَلِکَ مِنَ الشَّاہِدِینَ) (رواہ ابوداؤد : باب مِقْدَار الرُّکُوعِ وَالسُّجُودِ، قال شعبۃ صدق رَجُلٌ من حَدَّثَ، قال البانی حدیث ضعیف) ” حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو سورۃ التین آخر تک پڑھے اسے چاہیے کہ وہ کے (أَلَیْسَ اللَّہُ بِأَحْکَمِ الْحَاکِمِینَ) جواب میں ” بَلَی وَأَنَا عَلَی ذَلِکَ مِنَ الشَّاہِدِین“ کہے۔“ مسائل ١۔ آخرت کا انکار کرنے کے لیے انسان کے پاس کوئی جواز نہیں ہے اور سچ کے سوا کچھ نہ کہہ سکے گا۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ تمام حاکموں سے بڑا حاکم ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ ہی حاکمِ کل ہے اور اسی کا حکم ماننا چاہیے : ١۔ اللہ تعالیٰ اپنے حکم میں کسی کو شریک نہیں کرتا۔ (الکھف : ٢٦) ٢۔ خبردار اسی کا حکم چلتا ہے اور وہ جلد حساب لینے والا ہے۔ (الانعام : ٦٢) ٣۔ اللہ کا حکم ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو۔ (یوسف : ٤٠) ٤۔ اچھی طرح سنو ! کہ ساری کائنات کا خالق اللہ ہی ہے اور وہی حاکم مطلق ہے۔ (الاعراف : ٥٤) ٥۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کے درمیان کتاب اللہ کے مطابق فیصلہ کریں۔ (المائدۃ: ٤٩) ٦۔ جو کتاب اللہ کے مطابق فیصلے نہیں کرتے وہ ظالم، فاسق اور کافر ہیں۔ (المائدۃ: ٤٤، ٤٥، ٤٧) التين
8 التين
0 سورۃ العلق کا تعارف اس سورت کا نام العلق اس کی دوسری آیت میں موجود ہے اس کی انیس آیات ہیں جو ایک رکوع پر مشتمل ہیں۔ اس سورت کی خصوصیت یہ ہے کہ اس سے آپ کی نبوت کا آغاز ہوا اور اسی سے قرآن مجید کی ابتدا ہوئی ہے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس کی ابتدائی آیات پڑھنے کا حکم ہوا۔ اس میں انسان کو اس کی ابتداء بتلا کر آگاہ کیا ہے کہ انسان اس وقت اپنے رب کو فراموش کردیتا ہے جب یہ اپنے آپ کو بے نیاز اور بڑا سمجھتا ہے۔ جو شخص اپنے آپ کو بڑا سمجھتا ہے بالآخر وہ ذلت اور رسوائی کے گھاٹ اتر جاتا ہے۔ ذلّت اور رسوائی سے وہی شخص بچ پائے گا جو اپنے رب کی نعمتوں کا اعتراف کرتے ہوئے اس کے سامنے جھکے گا اور اس کی قربت کا متلاشی رہے گا۔ العلق
1 فہم القرآن ربط سورت : اللہ تعالیٰ نے انسان کو بہترین شکل وصورت میں پیدا کیا ہے اور اسی نے انسان کو قلم کے ذریعے لکھنا پڑھنا سکھلایا ہے۔ سورہ التّین کے آخر میں ارشاد ہوا کہ اللہ تعالیٰ سب حاکموں سے بڑا حاکم ہے، اس نے اپنا حکم قرآن مجید کی صورت میں نازل فرمایا ہے جس کی ابتدا اس طرح ہوئی کہ نبوت سے پہلے حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مکہ کے قریب غار حرا میں تشریف فرماتھے کہ اچانک جبریل امین آئے اور اس نے آپ کے سامنے اس سورت کی ابتدائی پانچ تلاوت کیں۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس واقعہ کی تفصیل سے یوں بیان فرمائی ہے۔ (وَعَنْ عَاءِشَۃَ (رض) قَالَتْ اَوَّلُ مَا بُدِئَ بِہٖ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مِنَ الْوَحْیِ۔۔ فَرَجَعَ بِھَا رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَرْجُفُ فُوَادُہٗ فَدَخَلَ عَلٰی خَدِیْجَۃَ فَقَالَ زَمِّلُوْنِیْ زَمِّلُوْنِیْ فَزَمَّلُوْہُ حَتّٰی ذَھَبَ عَنْہُ الرَّوْعُ فَقَالَ لِخَدِیْجَۃَ وَاخْبَرَھَا الْخَبَرَ لَقَدْ خَشِیْتُ عَلٰی نَفْسِیْ فَقَالَتْ خَدِیْجَۃُ کَلَّا وَاللّٰہِ لَا یُخْزِیْکَ اللّٰہُ اَبَدًا اِنَّکَ لَتَصِلُ الرَّحِمَ وَتَصْدُقُ الْحَدِیْثَ وَتَحْمِلُ الْکَلَّ وَتَکْسِبُ الْمَعْدُوْمَ وَتَقْرِی الضَّیْفَ وَتُعِیْنُ عَلٰی نَوَاءِبِ الْحَقِّ ثُمَّ انْطَلَقَتْ بِہٖ خَدِیْجَۃُ اِلٰی وَرَقَۃَ بْنِِ نَوْفَلِ ابْنِ عَمِّ خَدِیْجَۃَ فَقَالَتْ لَہٗ یَاابْنَ عَمِّ اِسْمَعْ مِنِ ابْنِ اَخِیْکَ فَقَالَ لَہٗ وَرَقَۃُ یَاابْنَ اَخِیْ مَاذَا تَرٰی فَاَخْبَرَہٗ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خَبَرَ مَا رَاٰی فَقَالَ لَہٗ وَرْقَۃُ ھٰذَا النَّامُوْسُ الَّذِیْ اَنْزَلَ اللّٰہُ عَلٰی مُوْسٰی یَالَیْتَنِیْ فِیْھَا جَذَعًا لَیْتَنِیْ اَکُوْنُ حَیًّا اِذْ یُخْرِجُکَ قَوْمُکَ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اَوَمُخْرِجِیَّ ھُمْ قَالَ نَعَمْ لَمْ یَاْتِ رَجُلٌ قَطُّ بِمِثْلِ مَا جِءْتَ بِہٖ اِلَّا عُوْدِیَ وَاِنْ یُّدْرِکْنِیْ یَوْمُکَ اَنْصُرْکَ نَصْرًا مُؤَزَّرًا ثُمَّ لَمْ یَنْشَبْ وَرَقَۃُ اَنْ تُوُفِّیَ وَفَتَرَ الْوَحْیُ) (رواہ البخاری : باب کیف کان بدء الوحی الی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ” حضرت عائشہ (رض) وحی کے بارے اس طرح بیان کرتی ہیں کہ۔۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس وحی کے ساتھ واپس لوٹے تو آپ کا دل گھبرا رہا تھا۔ آپ خدیجہ (رض) کے پاس آئے اور ان سے فرمایا مجھے ! کمبل اوڑھا دو۔ انہوں نے آپ کو کپڑا اوڑھا دیا یہاں تک آپ سے خوف کی کیفیت دور ہوگئی۔ آپ نے حضرت خدیجہ (رض) کو سارا ماجرا بیان کیا اور فرمایا : مجھے اپنی جان کا خطرہ ہے، انہوں نے آپ کو تسلی دی کہ ایسا ہرگز نہیں ہوگا۔ اللہ کی قسم ! اللہ تعالیٰ آپ کو کبھی ضائع نہیں ہونے دے گا۔ آپ صلۂ رحمی کرتے ہیں، سچی بات کہتے ہیں، دوسروں کے بوجھ اٹھاتے ہیں، محتاج کی خبر گیری کرتے ہیں‘ مہمان کو کھاناکھلاتے ہیں اور مصیبت زدہ اور ضرورت مند کی مدد کرتے ہیں۔ اس کے بعد خدیجہ (رض) آپ کو ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں، جو حضرت خدیجہ (رض) کے چچا زاد بھائی تھے۔ انہوں نے ورقہ سے کہا، اے میرے چچا کے بیٹے! اپنے بھتیجے کی بات سنیں۔ ورقہ نے آپ سے پوچھا اے میرے بھتیجے! آپ کیا دیکھتے ہیں؟ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے پورا واقعہ بیان کیا۔ ورقہ نے کہا، یہ تو وہی فرشتہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کی طرف وحی دے کر بھیجاتھا۔ کاش! میں تمہارے عہد نبوت میں جوان ہوتا اور کاش! میں اس وقت زندہ ہوتا جب آپ کی قوم آپ کو مکہ سے نکال دے گی۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا۔ کیا وہ مجھے نکال دیں گے؟ ورقہ نے کہا، ہاں ! کیوں نہیں جب بھی کسی کو رسالت سے نوازا گیا تو اس کے ساتھ دشمنی کی گئی۔ جب لوگ تمہیں نکالیں گے اگر میں اس وقت تک زندہ رہا، تو تمہاری بھر پور مدد کروں گا۔ اس کے بعد ورقہ بن نوفل زیادہ دن زندہ نہیں رہے اور آپ پر وحی کا سلسلہ چند روز کے لیے منقطع رہا۔“ مفسرین نے لکھا ہے کہ پہلی وحی میں اس سورت کی پہلی پانچ آیات نازل کی گئیں جن کی ابتدا ان الفاظ سے ہوئی ہے کہ اپنے رب کے نام سے پڑھو جس نے پورے عالم کو پیدا کیا ہے، اسی نے انسان کو جمے ہوئے خون سے پیدا کیا۔ پڑھو! آپ کا رب بڑا ہی معزز اور کریم ہے۔ اس نے انسان کو قلم کے ذریعے علم عطا فرمایا، ایسا علم جو انسان اس سے پہلے نہیں جانتا تھا۔ اس وحی میں یہ حکم ہوا ہے کہ اپنے رب کے نام سے پڑھو! جس کا صاف معنٰی ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس سے پہلے اپنے رب کو پہچانتے تھے، جس رب کے نام سے آپ کو پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے اسی نے انسان کو ایسے خون سے پیدا کیا جو جم کرابتدا میں رحم کی جھلی کے ساتھ چمٹ جاتا ہے اور پھر اس سے انسان کی تخلیق کا آغاز ہوتا ہے۔ جس کی تفصیل چند سطور کے بعد آپ ملاحظہ فرمائیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو قلم کے ذریعے لکھنا پڑھنا سکھایا اور انسان کو وہ علم دیا جس کے بارے میں وہ نہیں جانتا تھا۔ الانسان سے مراد حضرت آدم (علیہ السلام) ہیں اور ان کے بعد ابنیائے کرام (علیہ السلام) اور پھر تمام انسان ہیں۔ دنیا میں جس قدر علم عام ہوا ہے اس کی ابتدا اور بنیاد انبیائے کرام (علیہ السلام) کا علم ہے۔ اس کے بعد وہ علوم ہیں جو اللہ تعالیٰ انسانوں کے ذہنوں میں القاء کرتا ہے۔ اسی بنیاد پر کوئی موجد اپنی ایجاد لوگوں کے سامنے پیش کرتا ہے اور یہ سلسلہ قیامت تک جاری رہے گا۔ قلم کی فضیلت اور اس کی تفصیل پارہ ٢٩ سورۃ القلم کی ابتدائی آیات میں بیان ہوچکی ہے۔ (عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ (رض) وَرَفَعَ الْحَدِیثَ أَنَّہُ قَالَ إِنَّ اللَّہَ عَزَّ وَجَلَّ قَدْ وَکَّلَ بالرَّحِمِ مَلَکًا فَیَقُولُ أَیْ رَبِّ نُطْفَۃٌ أَیْ رَبِّ عَلَقَۃٌ أَیْ رَبِّ مُضْغَۃٌ فَإِذَا أَرَاد اللَّہُ أَنْ یَقْضِیَ خَلْقًا قَالَ قَالَ الْمَلَکُ أَیْ رَبِّ ذَکَرٌ أَوْ أُنْثَی شَقِیٌّ أَوْ سَعِیدٌ فَمَا الرِّزْقُ فَمَا الأَجَلُ فَیُکْتَبُ کَذَلِکَ فِی بَطْنِ أُمِّہِ) (رواہ مسلم : باب کَیْفِیَّۃِ الْخَلْقِ الآدَمِیِّ فِی بَطْنِ أُمِّہِ۔۔ ) ” حضرت انس بن مالک (رض) سے روایت ہے وہ حدیث کو مرفوع بیان کرتے ہیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے رحم میں ایک فرشتہ مقرر کیا ہے وہ پوچھتا ہے اے میرے رب ! یہ نطفہ ہے اے میرے رب! یہ گوشت کا لوتھڑا جب اللہ تعالیٰ کسی کی تخلیق کا فیصلہ فرماتا ہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ فرشتہ کہتا ہے اے میرے رب مذکر یا مؤنث بدبخت یا خوش بخت اس کا رزق کتنا ہے اس کی عمر کتنی ہے، اسی طرح یہ سب کچھ انسان کی ماں کے پیٹ میں لکھ دیا جاتا ہے۔“ (وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْاِِنسَانَ مِنْ سُلَالَۃٍ مِّنْ طینٍ ثُمَّ جَعَلْنَاہُ نُطْفَۃً فِیْ قَرَارٍ مَّکِیْنٍ ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَۃَ عَلَقَۃً فَخَلَقْنَا الْعَلَقَۃَ مُضْغَۃً فَخَلَقْنَا الْمُضْغَۃَ عِظَامًا فَکَسَوْنَا الْعِظَامَ لَحْمًا ثُمَّ اَنشَءْنٰہُ خَلْقًا آخَرَ فَتَبَارَکَ اللّٰہُ اَحْسَنُ الْخَالِقِیْنَ ثُمَّ اِِنَّکُمْ بَعْدَ ذٰلِکَ لَمَیِّتُوْنَ) (المومنون : ١٢ تا ١٥) ” اور یقیناً ہم نے انسان کو مٹی کے جوہر سے پیدا کیا۔ پھر ہم نے اسے ایک محفوظ جگہ ٹپکی ہوئی بوند میں تبدیل کیا۔ پھر اس بوند کو لوتھڑے کی شکل دی پھر لوتھڑے کو بوٹی بنایا۔ پھر بوٹی سے ہڈیاں بنائیں پھر ہڈیوں پر گوشت چڑھایا پھر اسے ایک دوسری شکل میں بناکھڑا کیا۔ بڑا ہی بابرکت ہے اللہ سب کاریگروں سے اچھا کاریگر۔ پھر اس کے بعد یقیناً تم نے مرنا ہے۔“ مسائل ١۔ قرآن مجید کی ابتدا رب کے نام کے ساتھ کی گئی جو پورے عالم کو پیدا کرنے والا ہے۔ ٢۔ رب العزت نے انسان کو جمے ہوئے خون سے پیدا کیا ہے۔ ٣۔ ہمار رب بڑا ہی معزز اور کریم ہے۔ ٤۔ ہمارے رب نے انسان کو قلم کے ذریعے علم عطا فرمایا جو انسان پہلے نہیں جانتا تھا۔ قلم کی عظمت جاننے کے لیے سورۃ ” ن“ کی پہلی آیت کی تفسیر ملاحظہ فرمائیں۔ العلق
2 العلق
3 العلق
4 العلق
5 العلق
6 فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ نے انسان کو حقیر نطفہ سے پیدا کیا اور پھر اسے علم اور فہم کے ذریعے دوسری مخلوق سے معزز بنایا لیکن انسان اپنے رب کا تابعدار ہونے کی بجائے اس کا باغی بن جاتا ہے۔ آپ پڑھ چکے ہیں کہ سورۃ التّین میں چار قسمیں اٹھاکر اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے کہ ہم نے انسان کو بہترین شکل و صورت میں پیدا کیا ہے نہ صرف اسے بہترین شکل و صورت میں پیدا کیا ہے بلکہ انسان کو قلم کے ذریعے علم کی دولت سے مالا مال فرمایا۔ اس بنا پر انسان دوسری مخلوق کو اپنے تابع بنا لیتا ہے، چاہیے تو یہ کہ انسان اپنے رب کا تابع فرمان اور شکرگزار ہوتا لیکن اکثر انسانوں کی حالت یہ ہے کہ جونہی انہیں کچھ اختیارات اور وسائل حاصل ہوتے ہیں تو وہ نہ صرف اپنے رب کے باغی بن جاتے ہیں بلکہ دوسروں کی گمراہی کا سبب بھی بنتے ہیں۔ ایسے لوگ اپنے آپ کو بڑا سمجھتے ہیں اور اپنے خالق کی ذات اور اس کے احکام کی پرواہ نہیں کرتے۔ انسان کو مال مل جائے تو بخیل ہوجاتا ہے، اختیارات حاصل ہوں تو سرکش بنتا ہے، قوت حاصل ہو تو دھنگا فساد کرتا ہے، وسائل مل جائیں تو دوسروں پر ظلم کرتا ہے۔ وہ یہ حقیقت بھول جاتا ہے کہ میں نے بالآخر اپنے رب کے حضور پیش ہونا ہے۔ اس سے اگلی آیات میں ایسے شخص کا کردار پیش کیا گیا ہے۔ (وَ اِذَا مَسَّ الْاِنْسَان الضُّرُّ دَعَانَا لِجَنْبِہٖٓ اَوْ قَاعِدًا اَوْ قَآءِمًا فَلَمَّا کَشَفْنَا عَنْہُ ضُرَّہٗ مَرَّکَاَنْ لَّمْ یَدْعُنَآ اِلٰی ضُرٍّمَّسَّہٗ کَذٰلِکَ زُیِّنَ لِلْمُسْرِفِیْنَ مَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ) (یونس : ١٢) ” اور جب انسان کو تکلیف پہنچتی ہے تو اپنے پہلو پر بیٹھا یا کھڑا ہوا ہمیں پکارتا ہے پھر جب ہم اس کی تکلیف دور کردیتے ہیں تو اس طرح چل دیتا ہے جیسے اس نے ہمیں کسی تکلیف کے وقت جو اسے پہنچی ہو پکارا ہی نہیں۔ اسی طرح حد سے بڑھ جانے والوں کے لیے عمل مزین کردیے گئے جو وہ کیا کرتے تھے۔“ (وَاِِذَا اَنْعَمْنَا عَلَی الْاِِنْسَانِ اَعْرَضَ وَنَاَی بِجَانِبِہِ وَاِِذَا مَسَّہُ الشَّرُّ فَذُو دُعَاءٍ عَرِیضٍ) (حم السجدۃ: ٥١) ” انسان کو جب ہم نعمت دیتے ہیں تو وہ منہ پھیرتا ہے اور اکڑ جاتا ہے، اور جب اسے کوئی آفت آتی ہے تو لمبی چوڑی دعائیں کرنے لگتا ہے۔“ (عَنْ عُقْبَۃَ بْنِ عَامِرٍ (رض) عَنِ النَّبِی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ إِذَا رَأَیْتَ اللَّہَ یُعْطِی الْعَبْدَ مِنَ الدُّنْیَا عَلَی مَعَاصِیہِ مَا یُحِبُّ فَإِنَّمَا ہُوَ اسْتِدْرَاجٌ ثُمَّ تَلاَ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (فَلَمَّا نَسُوا مَا ذُکِّرُوا بِہِ فَتَحْنَا عَلَیْہِمْ أَبْوَابَ کُلِّ شَیْءٍ حَتَّی إِذَا فَرِحُوا بِمَا أُوتُوا أَخَذْنَاہُمْ بَغْتَۃً فَإِذَا ہُمْ مُبْلِسُونَ) (رواہ احمد : مسند عقبۃ بن عامر قال البانی صحیح) حضرت عقبہ بن عامر (رض) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں جب اللہ بندے کو اس کی نافرمانیوں کے باوجود عطا کرتا جائے جس کا بندہ خواہش مند ہوتا ہے تو وہ اپنے رب کو بھول جاتا ہے، یہی وہ مہلت ہے جس کا یہاں ذکر کیا گیا ہے پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس آیت کی تلاوت کی (جب اس بات کو بھول گئے جس کی ہم نے انہیں نصیحت کی تھی تو ہم نے ان کے لیے ہر چیز کے دروازے کھول دیے یہاں تک کہ وہ اس پر خوش ہوگئے تو ہم نے انہیں اچانک پکڑ لیا اور وہ اس وقت مایوس ہو کے رہ گئے۔“ مسائل ١۔ انسان کو وسائل حاصل ہوں تو وہ اپنے رب کا تابع فرمان ہونے کی بجائے اس کا نافرمان بن جاتا ہے۔ ٢۔ کوئی تابعدار ہو یا باغی بالآخر اس نے اپنے رب کے حضور پیش ہونا ہے۔ تفسیر بالقرآن ہرشخص نے مر کر اپنے رب کی بارگاہ میں پیش ہونا ہے : ١۔ میں اسی کی طرف بلاتا ہوں اور اسی کی طرف مجھے لوٹ کر جانا ہے۔ (الرعد : ٣٦) ٢۔ ” اللہ“ کو ہی قیامت کا علم ہے اور اسی کی طرف تم نے لوٹنا ہے۔ (الزخرف : ٨٥) ٣۔ زمین اور جو کچھ اس میں ہے ہم ہی اس کے وارث ہیں اور وہ ہماری طرف لوٹیں گے (مریم : ٤٠) ٤۔ اللہ کے لیے زمین و آسمان کی بادشاہت ہے اور اسی کے سامنے پیش کیے جاؤ گے۔ (الزمر : ٤٤) ٥۔ وہی زندہ کرتا اور مارتا ہے اور اسی کے حضور تم نے پیش ہونا ہے (یونس : ٥٦) ٦۔ میرا اور اپنے والدین کا شکریہ ادا کرتے رہیے بالآخر تم نے میری طرف ہی لوٹ کر آنا ہے۔ (لقمان : ١٤) ٧۔ ہماری طرف ان کا لوٹنا ہے، پھر اللہ اس پر گواہ ہے جو وہ کرتے ہیں۔ (یونس : ٤٦) العلق
7 العلق
8 العلق
9 فہم القرآن ربط کلام : باغی انسانوں میں ایک باغی کی مثال اور گھناؤنا کردار۔ مفسرین کی اکثریت نے اس آیت کا پہلا مصداق ابوجہل قرار دیا ہے۔ واقعہ یوں ہے کہ ایک دن ابوجہل قریشی سرداروں کے پاس بیٹھا ہوا تھا۔ اچانک اپنے ساتھیوں سے کہنے لگا کہ جونہی محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھوں گا تو اس کا سر کچل دوں گا۔ وہ یہ بات کررہاتھا کہ اچانک اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بیت اللہ میں داخل ہو کر نماز پڑھنے لگے۔ اس کے ساتھیوں نے ابوجہل سے کہا کہ اٹھو اور اپنا وعدہ پورا کرو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے رب کے حضور سجدہ ریز ہوئے تو ابوجہل پتھر لے کر آگے بڑھا ابھی آپ سے چند قدم دور تھا کہ گھبرا کر اپنے ساتھیوں کی طرف مڑا۔ اس کے ساتھیوں نے دیکھا کہ اس کا رنگ اڑا ہوا ہے اور یوں دکھائی دیتا ہے جس طرح اس پر کوئی چیز حملہ آور ہوئی ہے ابھی وہ سنبھل نہیں پایا تھا کہ اس کے ساتھیوں نے پوچھا کہ تمہارے ساتھ کیا معاملہ پیش آیا ہے۔ ابوجہل لڑکھڑاتی ہوئی زبان کے ساتھ کہنے لگا کہ جب میں پتھر لے کر اس کے قریب پہنچا اور پتھر پھینکنے کا کا ارادہ ہی کر رہا تھا کہ مجھے یوں لگا جیسے میرے اور ” محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) “ کے درمیان آگ کی خندق حائل ہوگئی ہے، مجھے یقین ہوگیا کہ اگر میں ایک قدم آگے بڑھتا تو آگ کے بڑے بڑے شعلے مجھے اپنی لپیٹ میں لے لیتے۔ اس حالت میں بڑی مشکل سے چلتا ہوا آپ تک پہنچا ہوں۔ اس کا یوں ذکر کیا گیا ہے کہ آپ نے اس شخص کو نہیں دیکھا جس نے دین حق کو جھٹلایا اور منہ موڑ لیا۔ کیا اسے معلوم نہیں کہ اللہ تعالیٰ اسے دیکھ رہا ہے۔ اگر وہ اپنی حرکات سے باز نہ آیا تو ہم اس کی پیشانی کے بالوں سے پکڑ کر گھسیٹیں گے، یہ پیشانی وہی ہے جو کذاب اور بڑے نافرمان کی پیشانی ہے اسے چاہیے کہ وہ اپنے ساتھیوں کو بلا لے اور ہم بھی جہنم کے فرشتوں کو بلاتے ہیں۔ (العلق : ٩ تا ١٨) غور فرمائیں کہ اگر یہ ہدایت پر ہوتا اور تقویٰ اختیار تو اسے کتنا فائدہ پہنچتا لیکن اس نے ہدایت پانے اور تقویٰ اختیار کرنے کی بجائے سچ کو جھٹلایا اور آپ سے منہ موڑ لیا۔ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! کسی صورت بھی اس کے پیچھے نہیں لگنا اور نہ ہی اس سے ڈرنا ہے۔ آپ اپنے رب کو سجدہ کریں اور اس کا قرب حاصل کریں۔ آپ کو اس موقع پر سجدہ کرنے اور قرب حاصل کرنے کا اس لیے حکم دیا گیا کہ ایسے موقعہ پر داعی کو مخالف سے الجھنے کی بجائے اپنے ” رب“ کی طرف متوجہ ہونا چاہیے یہی سبق ہر مسلمان کے لیے ہے کہ اسے کسی مشکل سے واسطہ پڑے تو وہ ادھر ادھر بھاگنے کی بجائے اپنے رب کی طرف رجوع کرے اور نماز کی حالت میں ” اللہ“ سے مدد طلب کرے۔ کیونکہ حکم ہے کہ اے ایمان والو! نماز اور صبر کے ذریعے اپنے رب سے مدد طلب کرو یقیناً ” اللہ“ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ ( البقرۃ: ١٥٣) (یَابِلَالُ ! اَرِحْنَا بالصَّلَاۃِ) (مسند أحمد : کتاب باقی مسند الانصار) ” اے بلال ! نماز کے ذریعے ہمیں سکون پہنچاؤ۔“ ” اَلزَّبَانِیَۃَ” سے مراد ہے دوزخ کے وہ فرشتے ہیں جو جہنمیوں کو دوزخ کی طرف دھکیلیں گے۔ مسائل ١۔ انسان کو دین کے راستے میں رکاوٹ بننے کی بجائے ہدایت کے راستے کا معاون بننا چاہیے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ انسان کو قوت عطا فرمائے تو اسے اپنے آپ اور لوگوں کو تقویٰ کی راہ پر لگانا چاہیے۔ ٣۔ ہر انسان کو ہر دم خیال رکھنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ اسے ہر وقت دیکھ رہا ہے۔ ٤۔ جو آدمی دوسروں پر ظلم اور اپنے رب کی نافرمانی کرے گا اللہ تعالیٰ اسے جہنم میں ذلیل کرے گا۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ جب کسی کو پکڑتا ہے تو پھر اس کی مدد کرنے والا کوئی نہیں ہوتا۔ ٦۔ ایک داعی کو کسی سے ڈرنے کی بجائے اپنا کام کیے جانا چاہیے۔ ٧۔ ایک مسلمان بالخصوص داعی کو نماز کے ذریعے اپنے رب کا قرب حاصل کرنا چاہیے کیونکہ ” رب“ کا قرب ہی مشکل حالات میں انسان کے لیے ڈھارس اور تسکین کا باعث اور اس کے رب کی مدد کا ذریعہ بنتا ہے۔ العلق
10 العلق
11 العلق
12 العلق
13 العلق
14 العلق
15 العلق
16 العلق
17 العلق
18 العلق
19 العلق
0 سورۃ القدر کا تعارف القدر کا نام اس کی پہلی آیت کا آخری لفظ ہے یہ سورت مکی ہونے کے ساتھ ایک رکوع پر محیط ہے جس کی پانچ آیات ہیں۔ یہ سورت ایک طرح اقراء کا تتمہ ہے اقراء میں وحی کی عظمت وفضیلت بیان کی گئی ہے جو قرآن مجید کی شکل میں نازل کیا گیا القدر میں بتلایا ہے کہ جس رات میں قرآن مجید نازل کیا گیا ہے اس کی عظمت کا حال یہ ہے کہ یہ رات ہزار مہینوں سے بہتر ہے اس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ جو رات نزول قرآن کی وجہ سے اس قدر خیر وبرکت کی حامل ہوئی ہے قرآن اور اس پر عمل کرنے والے کس قدر افضل اور بہتر ہوں گے۔ القدر
1 فہم القرآن ربط سورت : سورۃ اقراء میں جس چیز کو پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے وہ قرآن مجید کی وحی ہے اور قرآن مجید کا نزول لیلۃ القدر میں ہوا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ہم نے قرآن مجید کو ” لَیْلَۃُ الْقَدْرِ“ میں نازل کیا ہے یہاں اس رات کو لیلۃ القدر کہا گیا ہے اور سورۃ الدُّخان کی ابتدائی آیات میں اسے مبارک رات قراردیا گیا ہے۔ القدر کے دو معانی ہیں۔ 1۔ عزت والی رات 2۔ القدر سے مراد تقدیر بھی ہے کیونکہ اس رات میں لوگوں کی سال بھر کی تقدیر کا فیصلہ کیا جاتا ہے اس لیے اس کا نام ” لَیْلَۃُ الْقَدْرِ“ ہے۔ امام قرطبی (رح) نے اس سے مراد لی ہے کہ یہ عزّت والی کتاب عزّتِ مآب رسول پر، عزّت والی رات میں نازل کی گئی اس لیے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی امت بھی دوسری امتوں میں عزّت والی ہے۔ اس رات کی عزت وعظمت کو اجاگر کرنے کے لیے ارشاد ہوا کہ اے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! اس سے پہلے آپ نہیں جانتے تھے کہ یہ رات کیوں اور کس قدر عزت والی ہے ؟ یہ اس لیے عزت والی ہے کہ اس میں قرآن مجید نازل کیا گیا ہے اس لیے یہ رات ایک ہزار مہینے سے بہتر ہے۔ مفسرین ان الفاظ کے بھی دو مفہوم لیتے ہیں۔ 1۔ عربوں کے ہاں ہزار مہینے سے مراد لامحدود مدت سمجھی جاتی تھی، اس لیے یہ رات لامحدود مدّت کی خیر سے زیادہ اپنے دامن میں خیر لیے ہوئے ہے۔ یہ رات ایک ہزار مہینے سے بہتر ہے ایک ہزار مہینہ سوا تراسی سال کے برابر بنتا ہے۔ اس لیے یہ رات اپنے اندر سوا تراسی سال کی خیر وبرکت سے بھی زیادہ خیر لیے ہوئے ہے کیونکہ اس رات میں قرآن مجید نازل کیا گیا ہے، قرآن مجید کے بارے میں البقرۃ آیت ١٨٥ میں واضح کیا گیا ہے کہ یہ رمضان المبارک میں نازل ہوا۔ یہاں یہ واضح فرمایا ہے کہ اسے لیلۃ القدر کی رات میں نازل کیا گیا ہے۔ لیلۃ القدر کے بارے میں نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے کہ رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں سے کوئی ایک رات ہے۔ اس سے ان لوگوں کے خیال کو تقویت ملتی ہے جو سمجھتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر پہلی وحی رمضان کے آخری عشرے کی طاق رات میں نازل ہوئی۔ جہاں تک قرآن مجید کے لیلۃ القدر میں نازل ہونے کا تعلق ہے اس کے بارے میں مفسر قرآن حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کا ارشاد ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے قرآن مجید لیلۃ القدر کی رات میں آسمان دنیا پر نازل کیا گیا اور پھر جبریل امین کے ذریعے آسمان دنیا سے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر تیئس سال کے عرصے میں نازل ہوتا رہا۔ اہل علم نے اس رات کی خیر سے مراد یہ مفہوم بھی لیا ہے کہ اس رات میں کی گئی عبادت ہزار مہینے کی عبادت سے افضل ہوتی ہے، کچھ حضرات نے یہ کہا ہے کہ اس رات میں جو خیر کثیر نازل کی جاتی ہے وہ ہزار مہینے میں اترنے والی خیر سے زیادہ ہوتی ہے۔ یاد رہے کہ لیلۃ القدر کے بارے میں بہت سی روایات ہیں سب کا خلاصہ یہ ہے کہ یہ پانچ طاق راتوں میں سے کوئی ایک رات ہے اس لیے کسی ایک رات کو متعین کرنے کی بجائے پانچ طاق راتوں میں جاگنا اور عبادت کرنی چاہیے۔ (عَنْ اَبِیْ سَعِےْدنِ الْخُدْرِیِّ (رض) اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اعْتَکَفَ الْعَشْرَ الْاَوَّلَ مِنْ رَّمَضَانَ ثُمَّ اعْتَکَفَ الْعَشْرَ الْاَوْسَطَ فِیْ قُبَّۃٍ تُرْکِیَّۃٍ ثُمَّ اطَْلَعَ رَاْسَہٗ فَقَالَ اِنِّیْ اَعْتَکِفُ الْعَشْرَ الْاَوَّلَ اَلْتَمِسُ ھٰذِہِ اللَّےْلَۃَ ثُمَّ اَعْتَکِفُ الْعَشْرَ الْاَوْسَطَ ثُمَّ اُتِےْتُ فَقِےْلَ لِیْ اِنَّھَا فِی الْعَشْرِ الْاَوَاخِرِ فَمَنْ کَانَ اعْتَکَفَ مَعِیَ فَلْےَعْتَکِفِ الْعَشْرَ الْاَوَاخِرَ فَقَدْ اُرِےْتُ ھٰذِہِ اللَّےْلَۃَ ثُمَّ اُنْسِےْتُھَا وَقَدْ رَاَےْتُنِیْ اَسْجُدُ فِیْ مَآءٍ وَّطِےْنٍ مِّنْ صَبِےْحَتِھَا فَالْتَمِسُوْھَا فِی الْعَشْرِ الْاَوَاخِرِ وَالْتَمِسُوْھَا فِیْ کُلِّ وِتْرٍ قَالَ فَمَطَرَتِ السَّمَاءُ تِلْکَ اللَّےْلَۃَ وَکَانَ الْمَسْجِدُ عَلٰی عَرِےْشٍ فَوَکَفَ الْمَسْجِدُ فَبَصُرَتْ عَےْنَایَ رَسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وَعَلٰی جَبْھَتِہٖ اَثَرُ الْمَآءِ وَالطِّےْنِ مِنْ صَبِےْحَۃِ اِحْدٰی وَعِشْرِےْنَ) (رواہ مسلم : باب فَضْلِ لَیْلَۃِ الْقَدْرِ وَالْحَثِّ عَلَی طَلَبِہَا) ” حضرت ابو سعیدخدری (رض) بیان کرتے ہیں رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رمضان کے پہلے عشرے میں اعتکاف بیٹھے بعد ازاں درمیانے عشرہ میں ترکی خیمہ میں اعتکاف بیٹھے، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنا سر مبارک خیمے سے باہر نکالا اور فرمایا میں پہلے عشرہ میں اعتکاف بیٹھا اور شب قدر کا متلاشی رہا، پھر میں نے دوسرے عشرے میں اعتکاف کیا میرے پاس فرشتہ آیا اور اس نے مجھے بتایا کہ شب قدر آخری دس راتوں میں ہے جو شخص میرے ساتھ اعتکاف بیٹھنا چاہتا ہے وہ آخری دس دن اعتکاف بیٹھے۔ مجھے یہ رات دکھائی گئی لیکن مجھے بھلادی گئی میں نے دیکھا کہ اس رات کی صبح کو میں پانی اور مٹی میں سجدہ کررہا ہوں، تم شب قدر کو آخری دس راتوں میں سے طاق رات میں تلاش کرو۔ راوی کہتا ہے جس رات بارش ہوئی اور مسجد کی چھت ٹپکی جو چھپر کی تھی میری آنکھوں نے دیکھا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پیشانی پر اکیسویں رات کی صبح کو کیچڑ کا اثر تھا۔“ القدر
2 القدر
3 القدر
4 فہم القرآن ربط کلام : لیلۃ القدر ایک ہزار مہینے سے افضل ہے اس میں حضرت جبرئیل امین (علیہ السلام) دوسرے ملائکہ کے ساتھ بنفس نفیس نزول فرماتے ہیں۔ القدر کا معنی تقدیر بھی ہے اس لیے یہ سورت اسم بامسمّیٰ ہے کیونکہ اس میں لوگوں کی تقدیر کا فیصلہ ہوتا ہے اور یہ رات اللہ تعالیٰ کی رحمت سے بھر پورہوتی ہے۔ اس رات میں اپنے رب کے حکم کے مطابق مختلف امور کے لیے جبریل امین اور کثیر تعداد میں فرشتے نازل ہوتے ہیں اور یہ رات صبح طلوع ہونے تک سلامتی سے بھر پور ہوتی ہے۔ کچھ بزرگوں نے ضعیف روایات کی بنیاد پر شعبان کی پندرہویں رات کی یہ فضیلت بیان کی ہے۔ جس بنا پر بے شمار لوگ اس رات کو شب برأت کہتے ہیں حالانکہ شب برأت کا نام کسی حدیث میں نہیں پایا جاتا کیونکہ شب فارسی زبان کا لفظ ہے اور برأت کا عربی زبان کا لفظ ہے۔ لیلۃ القدر سے مراد وہی رات ہے جس میں قرآن مجید نازل کیا گیا ہے اور قرآن مجید رمضان میں نازل ہوا۔ لہٰذا یہ رات پندرہویں شعبان کی بجائے رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں سے کوئی ایک رات ہے جو لوگ شب برأت کو شب قدر کا درجہ دیتے ہیں۔ وہ امت کو ہر سال خیر کثیر سے محروم رکھتے ہیں۔ ان دلائل کی روشنی میں شب برأت کی بجائے شب قدر کوہی فیصلوں کی رات ماننا چاہیے۔ کچھ صوفیائے کرام پوری رات کو خیر کی رات قرار دینے کی بجائے کہتے ہیں کہ اس رات میں قبولیت کا ایک لمحہ آتا ہے جس میں کی گئی ہر دعا قبول ہوتی ہے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ اس رات کی نشانی یہ ہے کہ اس میں تھوڑی یا زیادہ بارش ضرور ہوتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جب اس رات کی نشاندہی کی گئی تو اس رات بارش ہوئی تھی یہ اتفاق کی بات تھی لیلۃ القدر کی مستقل نشانی نہیں ہے۔ کیونکہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دور میں اور نہ ہی آپ کے بعد ہر سال اس رات بارش ہوئی اور نہ ہوتی ہے لہٰذا بارش ہونا اس رات کی نشانی نہیں اس کی نشانی یہ ہے کہ اس رات کی صبح کی روشنی اتنی تیز نہیں ہوتی جس قدر دوسرے دنوں کی روشنی تیز ہوتی ہے یہ نشانی بھی وہی شخص پہچان سکتا ہے جو پہلے سے اس بات کا تجربہ اور مشاہدہ رکھتاہو۔ اس رات کے بارے میں عام طور پر دوسوال کیے جاتے ہیں۔ ١۔ جب مکہ میں رات ہوتی ہے تو پوری دنیا میں رات نہیں ہوتی کہیں رات کا کچھ حصہ ہوتا ہے اور کہیں رات کی بجائے دن ہوتا ہے، ایسی صورت میں ان علاقوں میں لیلۃ القدر کو کس طرح تلاش کیا جائے۔ یہ سوال کرنے والوں کو سوچنا چاہیے کہ یہ صورت حال نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دور میں بھی موجود تھی، لیکن نہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کی وضاحت فرمائی اور نہ صحابہ کرام (رض) نے یہ سوال کرنے کی ضرورت سمجھی۔ جس رب نے لیل ونہار کا نظام بنایا اور یہ سورت بنائی ہے۔ اسے سب معلوم تھا اور ہے لہٰذا ایسی باتیں بنانے کی بجائے رب رحیم کی رحمت پر یقین رکھنا چاہیے اور لیلۃ القدر اپنے اپنے ملک کی طاق راتوں میں تلاش کرنی چاہیے۔ تلاش کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ ضرور اجر دیتا ہے کیونکہ اس کا فرمان ہے کہ وہ نیکی کرنے والوں کے اجر کو ضائع نہیں کرتا۔ ٢۔ بعض علماء یہ بیان کرتے ہیں کہ یہ رات ہر رمضان میں بدل بدل کر آتی ہے یہ بات بھی صحیح معلوم نہیں ہوتی کیونکہ قرآن مجید لوح محفوظ سے آسمان دنیا پر ایک ہی رات اور یکبارگی نازل کیا گیا ہے لہٰذا اللہ تعالیٰ کے ہاں وہ ایک متعین رات ہے جس میں تبدیلی نہیں ہوتی۔ اس لیے اس کے بدل بدل کر آنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اور نہ ہی یہ بات حدیث اور کسی صحابی کے قول سے ثابت ہوتی ہے۔ خلاصۂ کلام یہ ہے کہ یہ رات رمضان کے آخری عشرے کی پانچ طاق راتوں میں سے کوئی ایک رات ہے۔ اس رات کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کے بارے میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پوری طرح نہیں جانتے کہ اس میں کیا کیا فیصلے کیے جاتے ہیں ؟ جب نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ بات فرما دی گئی ہے کہ آپ پوری طرح نہیں جانتے تو ہم کون ہوتے ہیں کہ لیلۃ القدر اور اس کی نشانیوں کو دو اور دو چار کی طرح بیان کریں، ہمارا کام اس رات میں عبادت کرنا ہے لہٰذا ہمیں اپنا کام کرنا چاہیے۔ (عَنْ عَآءِشَۃَ قَالَتْ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تَحَرَّوْا لَےْلَۃَ الْقَدْرِ فِی الْوِتْرِ مِنَ الْعَشْرِ الْاَوَاخِرِ مِنْ رَمَضَانَ) (رواہ البخاری : باب تحری لیلۃ القدر فی الوتر من العشر الأواخر) ” حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا شب قدر کو رمضان المبارک کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں تلاش کرو۔“ اس رات کا افضل ترین ذکر : (اَللّٰھُمَّ إِنَّکَ عَفُوٌّ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّیْ) (مشکوٰۃ : کتاب الصوم) ” اے اللہ تو معاف کرنے والا اور معافی کو پسند کرتا ہے اس لیے مجھے معاف فرما۔“ اعتکاف : انسان کی جبلّت میں یہ بات موجود ہے کہ جب بھی اسے کوئی پریشانی یا مشکل مسئلہ در پیش ہو تو وہ تنہائی پسند کرتا ہے تاکہ پیش آمدہ مسئلے کا حل سکون کے ساتھ سوچ سکے۔ دنیا کا کوئی مذہب ایسا نہیں جس میں یکسوئی اور خلوت کو خصوصی مقام حاصل نہ ہو۔ ہر زمانے میں تزکیہ نفس اور روحانی بلندیوں کے حصول کے لیے لوگ غاروں اور جنگلوں میں جا کر چلہ کشی کرتے رہے ہیں کچھ لوگ تو ہمیشہ کے لیے وہاں کے ہو کر رہ گئے۔ اسلام نے تارک الدنیا ہو کر رہبانیت اختیار کرنے کی حوصلہ افزائی نہیں کی البتہ اس فطری ضرورت کا لحاظ اور روحانی بلندیوں کے حصول کے لیے اعتکاف کی ترغیب دی ہے۔ جس میں تنہائی بھی ہے اور لوگوں کے ساتھ باجماعت نماز اور جمعہ ادا کرنے کی صورت اجتماعیت بھی پائی جاتی ہے گویا کہ اعتکاف کرنے والا اپنی انفرادی عبادت کے ساتھ اجتماعی عبادت میں بھی شریک ہوتا ہے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تنہا بیٹھ کر ذکر کرنا بہت پسند تھا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) غار حرا میں تنہائی میں ذکر ہی کر رہے تھے کہ ” اقرا“ کا پیغام آیا۔ امام بخاری (رض) نے ان الفاظ میں اس کا تذکرہ کیا ہے : (ثُمَّ حُبِّبَ إِلَیْہِ الْخَلَاءُ وَکَانَ ےَخْلُوْ بِغَارِ حِرَاءَ فَےَتَحَنَّثُ فِےْہِ وَھُوَ التَّعَبُّدُ الَّلے الِی ذَوَاتِ الْعَدَدِ قَبْلَ اَنْ ےَنْزِعَ إِلٰی اَھْلِہٖ وَےَتَزَوَّدُ لِذٰلِکَ ثُمَّ ےَرْجِعُ إِلٰی خَدِےْجَۃَ فَےَتَزَوَّدُ لِمِثْلِھَا حَتّٰی جَاءَ ہُ الْحَقُّ وَھُوَ فِیْ غَارِ حِرَاءَ فَجَاءَ ہُ الْمَلَکُ فَقَالَ اِقْرَأ) (رواہ البخاری : کتاب کیف کان بدء الوجی) ” پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خلوت پسند ہوگئے اور آپ غار حرا میں کئی شب وروز سوچ بچار کرتے رہتے اور اس وقت آپ کی یہی عبادت ہوا کرتی تھی جب کھانے پینے کا سامان ختم ہوجاتا تو گھر سے دوبارہ لے جاتے یہاں تک کہ غار حرا میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس جبریل امین (علیہ السلام) حق لے کر آئے۔“ (عَنْ عَاءِشَۃَ قَالَتْ کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) إِذَا اَرَادَ اَنْْ یَّعْتَکِفَ صَلَّی الْفَجْرَ ثُمَّ دَخَلَ فِیْ مُعْتَکَفِہٖ) (رواہ ابوداؤد، ابن ماجۃ، مشکوۃ: باب الاعتکاف) ” حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب اعتکاف بیٹھنے کا ارادہ فرماتے تو فجر کی نماز پڑھ کر جائے اعتکاف میں داخل ہوتے۔“ ( آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اکیسویں رات مسجد میں جاگتے اور اگلی صبح اعتکاف کے خیمے میں تشریف لے جاتے۔) (عَنْ عَاءِشَۃَ (رض) قَالَتْ اَلسُّنَّۃُ عَلَی الْمُعْتَکِفِ اَنْ لَّا ےَعُوْدَ مَرِےْضًا وَلَا ےَشْھَدَ جَنَازَۃً وَلَا ےَمَسَّ اِمْرَاۃً وَلَا ےُبَاشِرُھَا وَلَا ےَخْرُجُ لِحَاجَۃٍ إِلَّا لِمَا لَا بُدَّمِنْہُ وَلَا اِعْتِکَافَ إِلَّا بِصَوْمٍ وَلَا اِعْتِکَافَ إِلََّا فِیْ مَسْجِدِ جَامِعٍ) (مشکوٰۃ: باب الاعتکاف قال البانی حسن صحیح) ” حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں اعتکاف کرنے والے کے لیے سنت یہ ہے کہ وہ بیمارپرسی‘ جنازے میں شرکت، بیوی سے مباشرت سے اجتناب کرے اور اعتکاف سے ضروری کام (یعنی قضائے حاجت، فرض غسل وغیرہ) کے بغیر نہ نکلے۔ اعتکاف روزے کے ساتھ اور جامع مسجد میں ہوتا ہے۔“ (عَنْ عَاءِشَۃَ اَنَّ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کَانَ ےَعْتَکِفُ الْعَشْرَ الْاَوَاخِرَ مِنْ رَمَضَانَ حَتّٰی تَوَفَّاہ اللّٰہُ ثُمَّ اعْتَکَفَ اَزْوَاجُہُ مِنْ بَعْدِہٖ) (رواہ مسلم : کتاب الاعتکاف، باب اعتکاف العشر الاواخر) ” حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رمضان المبارک کا آخری عشرہ اعتکاف فرمایا کرتے تھے یہاں تک کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے وفات پائی آپ کے بعد آپ کی ازواج مطہرات (رض) اعتکاف کیا کرتی تھیں۔“ (عَنِ ابْنِ عُمَرَ (رض) اَنَّ عُمَرَ (رض) سَاَلَ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ کُنْتُ نَذَرْتُ فِی الْجَاھِلِیَّۃِ اَنْ اَعْتَکِفَ لَےْلَۃً فِی الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ قَالَ اَوْفِ لِنَذْرِکَ) (رواہ البخاری، مشکوٰۃ: باب الاعتکاف) ” حضرت عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا کہ میں نے زمانہ جاہلیت میں مسجد حرام میں ایک رات اعتکاف کرنے کی نذر مانی تھی اب مجھے کیا کرنا چاہیے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تجھے اپنی نذر پوری کرنی چاہیے۔“ (عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ (رض) اَنَّ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ فِی الْمُعْتَکِفِ ھُوَ لَےَعْکِفُّ الذُّنُوْبَ وَےُجْزِئُ لَہُ مِنَ الْحَسَنَاتِ کَعَامِلِ الْحَسَنَاتِ کُلِّھَا) (رواہ ابن ماجۃ، مشکوۃ: باب الاعتکاف، قال الالبانی ھٰذا حدیث ضعیف) ” حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اعتکاف کرنے والا گناہوں سے رکا رہتا ہے، اعتکاف کی وجہ سے جو نیکی وہ نہیں کرسکتا اللہ تعالیٰ اسے دوسروں کی نیکیوں کے برابر ثواب دے گا۔“ مسائل ١۔ شب قدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ ٢۔ شب قدر میں ہر کام کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔ ٣۔ شب قدر میں اپنے رب کے حکم پر جبریل امین اور ان کی معیت میں ہزاروں فرشتے نازل ہوتے ہیں۔ ٤۔ شب قدر غروب آفتاب سے طلوع فجر تک خیر وبرکت سے بھرپور ہوتی ہے۔ تفسیر بالقرآن قرآن مجید کا نزول اور سلامتی کی اہمیت : ١۔ رمضان وہ بابرکت مہینہ ہے جس میں قرآن مجید نازل ہوا۔ (البقرۃ: ١٨٥) ٢۔ ہم نے اس قرآن کو لیلۃ القدر میں نازل کیا۔ (القدر : ١) ٣۔ ہم نے قرآن کو نازل کیا جو مومنوں کے لیے شفاء اور رحمت ہے۔ (بنی اسرائیل : ٨٢) ٤۔ ہم ہی قرآن مجید کو نازل کرنے والے ہیں اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔ (الحجر : ٩) ٥۔ جن و انس مل کراس قرآن جیسا قرآن نہیں لاسکتے۔ (بنی اسرائیل : ٨٨) ٦۔ مومنوں کے لیے سلامتی والا گھر ہے اور اللہ ان کا دوست ہوگا۔ (الانعام : ١٢٧ ) ٧۔ فرشتے کہیں گے کہ تم پر سلامتی ہو اپنے اعمال کے بدلے جنت میں داخل ہوجاؤ۔ (النحل : ٣٢) القدر
5 القدر
0 سورۃ البیّنہ کا تعارف اس سورت کا نام اس کی پہلی آیت کے آخر میں بیان ہوا ہے۔ یہ ایک رکوع پر مشتمل ہے جس کی آٹھ آیات ہیں اس کے مکی اور مدنی ہونے میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ تاہم اکثر مفسرین کا خیال ہے کہ یہ سورت مدینہ طیبہ میں نازل ہوئی کیونکہ اس میں مشرکین کے ساتھ اہل کتاب کو بھی خطاب کیا گیا ہے۔ ظاہر بات ہے کہ مکہ میں عیسائی اور یہودی نا ہونے کے برابر تھے اس لیے غالب گمان ہے کہ یہ سورت مدنی ہے اس سے پہلی سورت میں قرآن مجید کے نزول اور اس کی عظمت کا ذکر کیا گیا۔ اس میں صاحب قرآن کی عظمت اور ضرورت کا تذکرہ ہوا ہے جس میں یہ وضاحت ہے کہ جس طرح قرآن مجید کی اہمیت اور ضرورت تھی اسی طرح ہی ایک رسول کا آنا بھی ضروری تھا۔ القرآن اور الرّسول کی آمد کا مقصد یہ ہے کہ نبی آخر الزمان مشرکین بالخصوص اہل کتاب کو قرآن کا یہ پیغام دیں کہ وہ صرف ایک رب کی عبادت کرنے کے ساتھ نماز قائم کریں اور زکوٰۃ کی ادائیگی کا اہتمام کریں۔ یہی وہ الدّین ہے جو ہمیشہ سے چلا آرہا ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ البينة
1 فہم القرآن ربط سورت : لیلۃ القدر میں نازل ہونے والا قرآن مجید کسی ایک فرقہ اور قوم کے لیے نازل نہیں ہوا، یہ بلا تخصیص ہر دور کے لوگوں کے لیے نازل ہوا جس میں اہل کتاب اور مشرکین بھی شامل ہیں۔ اس سورۃ مبارکہ میں اہل کتاب اور مشرکین کو الگ، الگ مخاطب کیا گیا ہے اس کا یہ مطلب نہیں کہ اہل کتاب مشرک نہیں تھے۔ یہ قرآن مجید کا مخصوص انداز ہے کہ وہ اہل کتاب کو بنی اسرائیل اور ان کے معروف نام اہل کتاب سے مخاطب کرتا ہے، جہاں تک ان کے شرک کا تعلق ہے یہ اسی طرح ہی شرک میں ملوّث تھے جس طرح عرب کے مشرکین شرک میں مبتلا تھے۔ فرق صرف اتنا تھا اور ہے کہ عرب کے مشرکین بتوں کے واسطے سے عبادت اور دعا کرتے تھے۔ یہودی حضرت عزیر (علیہ السلام) کو اللہ کا بیٹا قرار دیتے اور دعا میں ان کا واسطہ اختیار کرتے تھے اور کرتے ہیں نصاریٰ یہودیوں سے ایک قدم آگے بڑھ کر حضرت عیسیٰ اور مریم (علیہ السلام) کو اللہ کا جز قرار دیتے ہیں اور یہ عیسیٰ اور حضرت مریم ( علیہ السلام) کے نام پر شرک کرتے تھے اور کرتے ہیں۔ ارشاد ہوا کہ اہل کتاب اور مشرکین میں سے جنہوں نے کفر کیا وہ اس وقت تک اپنے شرک سے باز نہیں آئیں گے جب تک کھلا معجزہ نہ دیکھ لیں، کھلے معجزے سے مراد وہ معجزات اور مطالبات ہیں جن کا یہ لوگ تقاضا کرتے تھے۔ حالانکہ ان کے مطالبات پہلے انبیائے کرام (علیہ السلام) کے ذریعے پورے ہوچکے تھے۔ جن کی قرآن مجید میں تفصیل موجود ہے اس کے باوجود وہ ایمان نہ لائے۔ ” اور بے علم لوگوں نے مطالبہ کیا کہ اللہ تعالیٰ ہم سے کلام کیوں نہیں کرتا یا ہمارے پاس کوئی نشانی کیوں نہیں آتی؟ اسی طرح ان سے پہلے لوگوں نے مطالبہ کیا تھا۔ ان کے اور ان کے دل یکساں ہوگئے ہیں بلا شبہ ہم نے یقین کرنے والوں کے لیے نشانیاں بیان کردی ہیں۔ ہم نے آپ کو حق کے ساتھ خوشخبری دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے اور آپ سے جہنمیوں کے بارے میں پوچھ گچھ نہیں کی جائے گی۔“ (البقرۃ: ١١٨، ١١٩) ” ان میں سے ہر ایک چاہتا ہے کہ اس کے نام کھلے خط بھیجے جائیں ایسا ہرگز نہیں ہوگا اصل بات یہ ہے کہ یہ آخرت کا خوف نہیں رکھتے۔ قرآن تو ایک نصیحت ہے جس کا جی چاہے اس سے سبق حاصل کرے۔“ (المدثر : ٥٢ تا ٥٥) ان کے پاس حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لاچکے ہیں جن کی ذات، اخلاق اور کردار بہت بڑا اور کھلا معجزہ ہے۔ آپ ان کے سامنے قرآن مجید کی تلاوت کرتے ہیں جس کی ایک ایک آیت بول کربتاتی ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کا پاکیزہ کلام ہے اور اس میں اس کے محکم فرمان موجود ہیں۔ ” صُحُفًا مُّطَہَّرَۃً“ کی وضاحت فرما کر یہ اشارہ کیا ہے کہ جس طرح تورات اور انجیل میں تحریف کرکے یہود ونصاریٰ نے اللہ کی ذات اور انبیائے کرام (علیہ السلام) کے کردار کے متعلق اخلاق باختہ باتیں منسوب کی ہیں۔ قرآن مجید اس قسم کی بے ہودگی اور بے مقصد باتوں سے پاک ہے، اس میں یہ بھی اشارہ ہے جس طرح موجودہ تورات اور انجیل کی عبارات میں الجھاؤ اور تضاد پایا جاتا ہے۔ قرآن مجید کا کوئی ایسا مسئلہ اور ضابطہ نہیں جس میں الجھاؤ اور ٹکراؤ پایا جاتا ہو، اس کے احکام واضح اور ٹھوس ہیں۔ اس میں یہ بات بھی پائی جاتی ہے کہ پہلی کتابیں مشکوک ہوچکی ہیں لیکن قرآن مجید شکوک وشبہات سے پاک ہے۔ اہل علم نے ” صُحُفًا“ کا معنٰی اوراق اور مضامین لیے ہیں جو پاکیزہ ہونے کے ساتھ واضح اور ٹھوس ہیں، پاکیزہ کا یہ بھی مطلب ہے کہ قرآن مجید کے احکام فرد اور معاشرے میں پاکیزگی پیدا کرتے ہیں۔” قَیِّمَۃٌ“ سے مراد ہے کہ قرآن مجید کے ا حکام اور الفاظ میں کوئی تبدیلی نہیں آسکے گی کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس کی حفاظت کا ذمہ لیا ہے۔ ( الحجر : ٩) ” حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ابی بن کعب (رض) سے فرمایا مجھے اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ میں تجھ سے قرآن مجیدکی تلاوت سنوں ابی (رض) نے عرض کی کہ ” اللہ“ نے آپ کو میرا نام لے کر فرمایا ہے؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہاں میں۔ حضرت ابی بن کعب (رض) نے حیران ہو کر پوچھا کیا میرا رب العالمین کے ہاں ذکر ہوا ہے؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بالکل ذکر ہوا ہے۔ اس خوشی سے حضرت ابی بن کعب (رض) کی آنکھوں سے آنسو بہہ پڑے دوسری روایت میں ہے اللہ تعالیٰ نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں آپ سے (لَمْ یَکُنِ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا) کی تلاوت سنوں۔ ابی بن کعب (رض) نے پوچھا کہ اللہ تعالیٰ نے میرا نام لیا ہے؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہاں تیرا نام لیا ہے۔ یہ سن کر حضرت ابی بن کعب (رض) خوشی سے رو پڑے۔“ (رواہ البخاری : باب مناقب ابی بن کعب) مسائل ١۔ اہل کتاب اور مشرکین کی غالب اکثریت اپنے کفر سے باز آنے والی نہیں ٢۔ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات لوگوں کے لیے کھلے معجزے کی حیثیت رکھتی ہے۔ ٣۔ قرآن مجید میں کسی قسم کا الجھاؤ اور ٹکراؤ نہیں پایا جاتا۔ ٤۔ قرآن مجید ہر قسم کی غلطی سے مبرّا اور پاک ہے۔ البينة
2 البينة
3 البينة
4 فہم القرآن ربط کلام : واضح ہدایات آجانے کے باوجود اہل کتاب کا منفی کردار۔ اس فرمان میں بظاہر صرف اہل کتاب کو مخاطب کیا گیا ہے لیکن اس خطاب میں مشرکین بھی برابر کے شریک ہیں۔ اہل کتاب کا الگ اس لیے ذکر کیا ہے کہ مشرکین عرب بظاہر کسی آسمانی کتاب کے قائل نہیں تھے لیکن اہل کتاب آسمانی کتابوں پر ایمان لانے کا دعویٰ کرتے تھے۔ یہاں ان کی مذہبی حالت بیان کرکے اشارہ کیا ہے کہ جب اہل کتاب کے کفر و شرک کی حالت یہ تھی اور ہے تو مشرکین کے شرک کی حالت کیا ہوگی ؟ اس کے ساتھ ہی اس بات کی وضاحت کی گئی ہے کہ اہل کتاب کے فکری انتشار اور ان کے کفرو شرک کی وجہ یہ نہیں کہ ان کے پاس رسول، آسمانی کتابیں اور کھلے معجزات نہیں آئے۔ حقیقت یہ ہے کہ ان کے پاس رسول اور کتابیں آئیں اور انبیاء کرام (علیہ السلام) نے انہیں معجزات دکھائے لیکن اس کے باوجود یہ لوگ آپس میں تقسیم ہوگئے حالانکہ انہیں حکم دیا گیا تھا کہ وہ کسی اور کی عبادت کرنے کی بجائے دین حق کی ہدایت کے مطابق یکسو ہو کر صرف ایک ” اللہ“ کی عبادت کریں، نماز قائم کریں اور زکوٰۃ ادا کریں یہی سچا اور مستحکم دین ہے۔ لیکن انہوں نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے لاپرواہی کی جس وجہ سے نہ اللہ کی خالص بندگی پر قائم رہے اور نہ ہی نماز اور زکوٰۃ کی پابندی کرسکے جس کے نتیجے میں نہ صرف دین خالص سے دور ہوئے بلکہ آپس میں بھی فرقوں میں تقسیم ہوگئے۔ دین قیم کے الفاظ لاکر یہ ثابت کیا گیا ہے کہ دین میں فرقہ واریت کی کوئی گنجائش نہیں۔ یاد رہے کہ دین واضح ہونے کے ساتھ اس کے بنیادی اصول ہمیشہ سے ایک رہے ہیں۔ ان کا بنیادی تقاضا ہے کہ دین کے ماننے والے بھی آپس میں متحد اور ایک رہیں۔ ” حضرت عوف بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : یہودی اکہتر فرقوں میں تقسیم ہوئے، ان کے ستر فرقے جہنم میں جائیں گے اور ایک جنت میں جائے گا۔ عیسائی بہتر فرقوں میں بٹ گئے، ان کے اکہترفرقے جہنم میں جائیں گے اور ایک جنت میں داخل ہوگا۔ قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جان ہے میری امت تہتر فرقوں میں بٹ جائے گی، ان میں سے بہتر جہنمی ہوں گے اور ایک جنتی ہوگا۔ صحابہ نے عرض کی جنت میں جانے والے کون ہیں ؟ آپ نے فرمایا جو میرے اور میرے صحابہ کے طریقہ پر چلنے والے ہیں۔“ (رواہ ابن ماجۃ: باب افْتِرَاقِ الأُمَم، قال الالبانی ھٰذا حدیث حسن) دین کے معانی اطاعت : (تَنْزِےْلُ الْکِتٰبِ مِنَ اللّٰہِ الْعَزِےْزِ الْحَکِےْمِ اِنَّا اَنْزَلْنَا اِلَےْکَ الْکِتٰبَ بالْحَقِّ فَاعْبُدِ اللّٰہَ مُخْلِصًا لَّہُ الدِّےْنَ اَ لَا لِلّٰہِ الدِّےْنُ الْخَالِصُ) (الزمر : ١ تا ٣) ” یہ کتاب اللہ زبردست اور دانا کی طرف سے نازل ہوئی ہے۔ (اے محمد) یہ کتاب ہم نے آپ کی طرف برحق نازل کی ہے۔ لہٰذا اسی کے لیے خالص کرتے ہوئے اللہ کی بندگی کرو خبردار، دین خالص اللہ کا حق ہے۔“ قانون اور ضابطہ : (فَبَدَاَ بِاَوْعِےَتِھِمْ قَبْلَ وِعَآءِ اَخِےْہِ ثُّمَّ اسْتَخْرَجَھَا مِنْ وِّعَاءِ اَخِےْہِ کَذٰلِکَ کِدْنَا لِےُوْسُفَ مَا کَانَ لِےَاْخُذَ اَخَاہُ فِی دِےْنِ الْمَلِکِ۔۔) (یوسف : ٧٦) ” یوسف نے اپنے بھائی سے پہلے دوسروں کی تھیلوں کی تلاشی لینی شروع کی، پھر اپنے بھائی کے تھیلے سے گم شدہ چیز برآمد کرلی۔ اس طرح ہم نے یوسف کی تائید اپنی تدبیر سے کی۔ اسے یہ اختیار نہ تھا کہ بادشاہ کے دین یعنی مصر کے شاہی قانون کے مطابق اپنے بھائی کو پکڑلیتا۔“ نظام حکومت : (وَقَالَ فِرْعَوْنُ ذَرُوْنِیْ اَقْتُلْ مُوْسٰی وَلْےَدْعُ رَبَّہٗ اِنِّیْٓ اَخَافُ اَنْ یُّبَدِّلَ دِےْنَکُمْ اَوْ اَنْ یُّظْھِرَ فِی الْاَرْضِ الْفَسَادَ) (غا فر : ٢٦) ” ایک دن فرعون نے اپنے درباریوں سے کہا، چھوڑو مجھے میں موسیٰ کو قتل کیے دیتا ہوں اور یہ پکار دیکھے اپنے رب کو۔ مجھے اندیشہ ہے کہ یہ تمہارا دین بدل ڈالے گا یا ملک میں فساد برپا کرے گا۔“ دین بمعنٰی دین (مذہب): (قَا تِلُوْا الَّذِےْنَ لَا ےُؤْمِنُوْنَ باللّٰہِ وَلَا بالْےَوْمِ الْاٰخِرِ وَلَا ےُحَرّمُوْنَ مَا حَرَّمَ اللّٰہُ وَرَسُوْلُہٗ وَلَا ےَدِےْنُوْنَ دِےْنَ الْحَقِّ مِنَ الَّذِےْنَ اُوْتُوْا الْکِتٰبَ حَتّٰی یُعْطُوْا الْجِزْیَۃَ عَنْ یَّدٍ وَّھُمْ صٰغِرُوْنَ) (التوبۃ: ٢٩) ” جنگ کرو اہل کتاب میں سے ان لوگوں کے خلاف جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان نہیں لاتے اور جو کچھ اللہ اور اس کے رسول نے حرام قرار دیا ہے اسے حرام نہیں جانتے اور دین حق کو اپنا دین نہیں سمجھتے ان سے لڑو یہاں تک کہ وہ اپنے ہاتھ سے جزیہ دیں اور ماتحت بن کر رہیں۔“ دین سے مراد قیامت : (یَّصْلَوْنَھَا ےَوْمَ الدِّےْنِ وَمَا ھُمْ عَنْھَا بِغَآءِبِےْنَ وَمَآ اَدْرٰکَ مَا ےَوْمُ الدِّےْنِ ثُمَّ مَآ اَدْرٰکَ مَا ےَوْمُ الدِّےْنِ ےَوْمَ لَا تَمْلِکُ نَفْسٌ لِّنَفْسٍ شَےْءًا وَاْلَامْرُ ےَوْمَءِذٍ لِّلّٰہِ) (الانفطار : ٥ ١ تا ١٩) ” جزا کے دن وہ اس میں داخل ہوں گے اور اس سے ہرگز غائب نہ ہو سکیں گے۔ اور تم کیا جانتے ہو کہ وہ جزا کا دن کیا ہے ؟ ہاں تمہیں کیا خبر کہ وہ جزا کا دن کیا ہے؟ یہ وہ دن ہے جب کسی شخص کے لیے کچھ کرنا کسی کے بس میں نہ ہوگا، فیصلہ اس دن صرف اللہ کے اختیار میں ہوگا۔“ دین بمعنٰی جزأ و سزا : (مٰلِکِ ےَوْمِ الدِّےْنِ) (فاتحہ : ٣) ” روز جزا کا مالک ہے۔“ مسائل ١۔ اہل کتاب واضح دلائل پانے کے باوجود فرقوں میں تقسیم ہوگئے۔ ٢۔ اہل کتاب کو حکم تھا کہ وہ آسمانی دین کے مطابق صرف ایک اللہ کی عبادت کریں۔ ٣۔ اہل کتاب کو حکم تھا کہ نماز قائم کریں اور زکوٰۃ دیتے رہیں۔ ٤۔ صرف ایک اللہ کی یکسو ہو کر عبادت کرنا، نماز قائم کرنا اور زکوٰۃ ادا کرنا دین خالص کے بنیادی اصول ہیں۔ تفسیر بالقرآن دین قیم کے بنیادی اصول : ١۔ غیب پر ایمان لانا۔ (البقرۃ: ١) ٢۔ قرآن مجید اور پہلی آسمانی کتابوں پر ایمان لانا۔ (البقرۃ: ٤) ٣۔ اللہ اور کتب سماوی پر ایمان لانا۔ (البقرۃ: ١٣٦) ٤۔ آخرت پر یقین رکھنا۔ (البقرۃ: ٤) ٥۔ انبیاء پر ایمان لانا اور ان میں فرق نہ کرنا۔ (آل عمران : ٨٤) ٦۔ ایمان کی تفصیل۔ (البقرۃ: ٢٨٥) البينة
5 البينة
6 فہم القرآن ربط کلام : کفار اور مشرکین کا انجام۔ اس سورت کی پہلی آیت میں جس طرح اہل کتاب اور مشرکین کو بیک وقت مخاطب کیا گیا اسی طرح اس آیت میں اہل کتاب اور مشرکین کا انجام بھی ایک بتلایا ہے۔ فرمان یہ ہے کہ اہل کتاب اور مشرکین میں سے جنہوں نے کفر کیا وہ جہنم میں داخل کیے جائیں گے۔ اہل کتاب اور مشرکین میں دو قسم کے لوگ کفار میں شامل ہوں گے ایک وہ گروہ جو حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے دور میں کفر و شرک پر قائم رہا۔ دوسرا گروہ وہ ہے جو نبی آخرالزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کا انکار کرتے ہیں یہ جہنم میں داخل کیے جائیں گے۔ کردار اور انجام کے لحاظ سے یہ لوگ ایک جیسے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں سب سے بدترین ہیں جس بنا پر ان کا ٹھکانہ جہنم ہوگا۔ دوسرے مقام پر انہیں چوپاؤں سے بھی بدتر مخلوق قرار دیا گیا ہے۔ ” بلاشبہ ہم نے بہت سے جن اور انسان جہنم کے لیے پیدا کیے ہیں ان کے دل ہیں جن سے وہ سمجھتے نہیں اور ان کی آنکھیں ہیں جن سے وہ دیکھتے نہیں اور ان کے کان ہیں جن سے وہ سنتے نہیں یہ لوگ چوپاؤں جیسے ہیں بلکہ ان سے بدتر ہیں اور غافل ہیں۔“ (الاعراف : ١٧٩) (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ عَنْ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) أَنَّہُ قَالَ وَالَّذِی نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِیَدِہِ لاَ یَسْمَعُ بِی أَحَدٌ مِنْ ہَذِہِ الأُمَّۃِ یَہُودِیٌّ وَلاَ نَصْرَانِیٌّ ثُمَّ یَمُوتُ وَلَمْ یُؤْمِنْ بالَّذِی أُرْسِلْتُ بِہِ إِلاَّ کَانَ مِنْ أَصْحَاب النَّارِ) (رواہ مسلم : باب وُجُوبِ الإِیمَانِ بِرِسَالَۃِ نَبِیِّنَا مُحَمَّدٍ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ” حضرت ابوہریرہ (رض) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں آپ نے فرمایا : قسم ہے مجھے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جان ہے یہودیوں اور عیسائیوں میں سے جس شخص تک میرا پیغام پہنچ جائے۔ پھر وہ اسی حالت میں مرجائے اور مجھ پر ایمان نہ لائے وہ جہنم میں داخل ہوگا۔“ (عَنْ عَبْدِاللّٰہِ (رض) قَالَ قَالَ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَنْ مَّاتَ یُشْرِکُ باللّٰہِ شَیْءًا دَخَلَ النَّارَ وَقُلْتُ أَنَا مَنْ مَّاتَ لَا یُشْرِکُ باللّٰہِ شَیْءًا دَخَلَ الْجَنَّۃَ) (رواہ البخاری : باب ماجاء فی الجنائز) ” حضرت عبداللہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جو اس حال میں مرا کہ اس نے اللہ کے ساتھ شرک کیا وہ جہنم میں جائے گا اور میں کہتا ہوں جس شخص نے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرایا اور وہ توحید پر فوت ہوا وہ جنت میں جائے گا۔“ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ إجْتَنِبُوا السَّبْعَ الْمُْوْبِقَاتِ قَالُوْا یَارَسُوْلَ اللّٰہِ وَمَاھُنَّ قَالَ اَلشِّرْکُ باللّٰہِ وَالسِّحْرُ وَقَتْلُ النَّفْسِ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّٰہُ إِلَّا بالْحَقِّ وَأَکْلُ الرِّبَاوَأَکْلُ مَالِ الْیَتِیْمِ وَالتَّوَلِّیْ یَوْمَ الزَّحْفِ وَقَذْفُ الْمُحْصَنَاتِ الْمُؤْمِنَاتِ الْغَافِلَاتِ) (رواہ البخاری : باب قول اللہ تعالیٰ (إن الذین یأکلون أموال الیتامی ظلما) ” حضرت ابوہریرہ (رض) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : سات ہلاک کرنے والے گناہوں سے بچ جاؤ صحابہ کرام (رض) نے کہا اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! وہ گناہ کون سے ہیں؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرنا، جادو کرنا، ناحق کسی جان کو قتل کرنا، سود کھانا، یتیم کا مال کھانا، میدان جنگ سے پیٹھ پھیر کر بھاگنا اور پاکدامن، مومن، بے خبر عورتوں پر تہمت لگانا۔“ مسائل ١۔ مشرکین اور اہل کتاب کے کافر ہمیشہ ہمیش کے لیے جہنم میں داخل کیے جائیں گے۔ ٢۔ مشرکین اور اہل کتاب کے کفار بدترین مخلوق ہیں۔ یہ جہنم میں داخل ہوں گے۔ تفسیر بالقرآن کفار اور مشرکین کی سزا : ١۔ بے شک وہ لوگ جنہوں نے ہماری آیات کی تکفیر کی ان کے لیے شدید عذاب ہے۔ ( آل عمران : ٤) ٢۔ کفار کے لیے دردناک عذاب ہے اور ان کا کوئی مددگار نہیں ہوگا۔ (آل عمران : ٩١) ٣۔ ان کے لیے دنیا میں رسوائی ہے اور آخرت میں بہت بڑا عذاب ہوگا۔ (البقرۃ: ١١٤) ٤۔ وہ لوگ جو ہماری آیات کی تکذیب کرتے ہیں وہ عذاب میں مبتلا ہونگے۔ (المائدۃ : ٧٣) ٥۔ مشرکوں کے اعمال برباد ہوجائیں گے۔ (الانعام : ٨٨) ٦۔ مشرکوں پر اللہ کی لعنت ہوتی ہے۔ (الفتح : ٦) ٧۔ مشرک پر جنت حرام ہے۔ (المائدۃ: ٧٢) ٨۔ مشرک جہنم میں ہمیشہ رہیں گے۔ (البقرۃ: ٣٩) ٩۔ کافر اور حق کی تکذیب کرنے والے جہنم میں ہمیشہ رہیں گے۔ (الزخرف : ٧٤) ١٠۔ ” اللہ“ کے دشمن جہنم میں ہمیشہ جلتے رہیں گے۔ (فصلت : ٢٨) البينة
7 فہم القرآن ربط کلام : مشرکین اور کفار کے مقابلے میں صالح کردار ایمان والوں کا مقام اور انعام۔ دین اسلام کے اوصاف حمیدہ میں جو اوصاف سب سے نمایاں اور مرکزی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان میں پہلا وصف یہ ہے کہ دین اسلام کسی مخصوص قوم اور علاقے کے لوگوں کو دعوت نہیں دیتا، اس کی دعوت رنگ و نسل، جغرافیائی حدود اور زمانے کی قیود سے بالاتر ہے۔ اس لیے قرآن مجید کھلے الفاظ میں دعوت دیتا ہے کہ جو لوگ بھی اللہ اور نبی آخرالزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لائیں اور صالح اعمال اختیار کریں وہ مخلوق میں سب سے بہتر ہیں۔ دوسرے مقام پر اس بات کی یوں وضاحت کی گئی ہے۔ ” بے شک مسلمانوں، یہودیوں، عیسائیوں اور بےدین لوگوں میں سے جو بھی اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان لائے اور نیک عمل کرے ان کا اجر ان کے رب کے پاس ہے، انہیں نہ خوف ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔“ (البقرۃ: ٦٢) انبیائے کرام (علیہ السلام) کے بعد نہ صرف تمام لوگوں میں بلکہ اللہ کی مخلوق میں صحابہ کرام (رض) کی جماعت سب سے افضل ہے جن کے ایمان اور اعمال کو ان کے بعد آنے والے لوگوں کے لیے معیار قرار دیا گیا ہے۔ (فَاِنْ اٰمَنُوْا بِمِثْلِ مَآ اٰمَنْتُمْ بِہٖ فَقَدِ اہْتَدَوْا وَ اِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّمَا ہُمْ فِیْ شِقَاقٍ فَسَیَکْفِیْکَہُمُ اللّٰہُ وَ ہُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ) (البقرۃ: ١٣٧) ” اگر وہ تمہاری طرح ایمان لائیں تو ہدایت پائیں گے اور اگر منہ موڑیں تو وہ واضح ضد کر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ عنقریب ان کے مقابلہ میں آپ کو کافی ہوگا اور وہ خوب سننے اور جاننے والا ہے۔“ ان کی جزا ان کے رب کے ہاں یہ ہے کہ ان کو ہمیشہ رہنے والی جنت میں ہمیشہ کے لیے داخل کیا جائے گا، ایسی جنتیں جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی۔ اللہ تعالیٰ صحابہ پر راضی ہوگیا اور صحابہ (رض) اپنے رب پر راضی ہوئے، یہ صلہ ہر وہ شخص پائے گا جو اپنے رب پر خالص ایمان لایا اور نبی آخر الزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے طریقے کے مطابق صالح اعمال کرنے کے ساتھ اپنے رب سے ڈرتا رہا۔ رب تعالیٰ سے ڈرنے کی شرط اس لیے رکھی گئی ہے کہ اس کے بغیر ایمان اور اعمال میں اخلاص پیدا نہیں ہوتا اور نہ ہی انسان گناہوں سے بچ سکتا ہے۔ صحابہ (رض) کا مقام اور احترام : ” حضرت ابن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ سول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : میرے زمانہ کے لوگ سب سے بہتر ہیں۔ پھر وہ لوگ جو ان کے بعد ہوں گے۔ پھر وہ لوگ جو ان کے بعد ہوں گے۔ اس کے بعد کچھ لوگ آئیں گے‘ جن کی گواہی ان کی قسم سے، اور ان کی قسم ان کی گواہی سے سبقت لے جائے گی۔“ (رواہ البخاری : باب لاَ یَشْہَدُ عَلَی شَہَادَۃِ جَوْرٍ إِذَا أُشْہِدَ ) (عَنْ اَبِیْ سَعِیْدِ نِ الْخُدْرِیِّ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لَا تَسُبُّوْا اَصْحَابِیْ فَلَوْاَنَّ اَحَدَکُمْ اَنْفَقَ مِثْلَ اُحُدٍ ذَھَبًا مَّا بَلَغَ مُدَّ اَحَدِھِمْ وَلَا نَصِیْفَہٗ) (رواہ البخاری : باب مناقب ابی بکر) ” حضرت ابو سعید خدری (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تم میرے اصحاب (رض) کو برا مت کہو۔ کیونکہ اگر تم میں سے کوئی احد پہاڑ کے برابر بھی سونا خرچ کرے تو وہ صحابہ (رض) کے آدھے مد (چوتھائی کلو گرام) کو بھی نہیں پہنچ سکتا۔“ (قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَنْ سَبَّ نَبِّیًا قُتِلَ وَمَنْ سَبَّ اَصْحَابَہٗ جُلِدَ) (رواہ الطبرانی فی الصغیر) ” رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو نبی کو گالی دے اسے قتل کیا جائے اور جو صحابہ کو گالی دے اسے کوڑے مارے جائیں۔“ مسائل ١۔ جو لوگ سچے دل کے ساتھ ایمان لائے اور صالح اعمال کرتے رہے ہیں وہ اللہ کی پوری مخلوق میں بہتر ہیں۔ ٢۔ بہترین لوگوں کے لیے ان کے رب نے جنتیں تیار کر رکھی ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی۔ ٣۔ بہترین لوگ ہمیشہ کی جنت میں ہمیشہ ہمیش رہیں گے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ صحابہ پر راضی ہوا اور صحابہ اپنے رب پر راضی ہوگئے۔ تفسیربالقرآن جنت اور اس کی نعمتوں کی ایک جھلک : (الحجر : ٤٧۔ ٤٨) (الرعد : ٣٥) (الواقعہ : ٢٨ تا ٣٠) (الحاقہ : ٢٣) (حم السجدہ : ٣١) البينة
8 البينة
0 سورۃ الزلزال کا تعارف اس سورت کا نام اس کی پہلی آیت سے لیا گیا ہے یہ ایک رکوع پر محیط ہے جس کی آٹھ آیات ہیں۔ صحابہ کرام (رض) کی غالب اکثریت کا خیال ہے کہ یہ سورت مدینہ طیبہ میں نازل ہوئی اس میں قیامت کی ابتدا اور اس میں ہونے والے حساب و کتاب کا نتیجہ بتلایا گیا ہے اس میں اس بات سے آگاہ کیا گیا ہے کہ جس نے ذرہ برابر نیکی کی ہوگی وہ اسے دیکھ لے گا اور جس نے ذرّہ برابر برائی کی ہوگی وہ بھی اسے اپنے سامنے پائے گا۔ الزلزلة
1 فہم القرآن ربط سورت : البیّنہ کا اختتام ان الفاظ پر ہوا کہ ” اللہ تعالیٰ“ ہر اس شخص پر راضی ہوگا جس نے اس سے ڈر کر زندگی بسر کی اللہ تعالیٰ کے ڈر کا حقیقی تقاضا ہے کہ انسان ہر دم قیامت کا عقیدہ تازہ رکھے جس دن کی ابتداء بڑے بڑے زلزلوں سے ہوگی۔ قرآن مجید نے یہ حقیقت بڑی تفصیل کے ساتھ بتلائی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے جب پہلی دفعہ اسرافیل صور میں پھونک مارے گا تو زمین و آسمانوں میں ایسا بھونچال آئے گا کہ بالآخر ہر چیز ختم ہوجائے گی۔ ایک مدّت کے بعد جس کا علم اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو نہیں اس مدّت میں صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہی باقی رہے گی۔ اسرافیل دوسری پھونک مارے گا تو ایک دفعہ پھر زمین پر زبردست زلزلے رونما ہوں گے جن سے زمین کو پوری طرح ہلا کر رکھ دیا جائے گا، پہلا صور پھونکنے پر زمین چٹیل میدان بن جائے گی اور دوسری دفعہ صور پھونکنے پرزمین اپنے اندر کے بوجھ باہر پھینک دے گی کیونکہ اسے رب تعالیٰ نے اس طرح کرنے کا حکم دیا ہوگا۔ ” اور جو کچھ زمین میں ہے اسے باہر پھینک کر خالی ہوجائے گی اور اپنے رب کے حکم کی تعمیل کرے گی اور اس کے لیے یہی لازم ہے۔“ (الانشقاق : ٥) اکثر مفسرین کے نزدیک ” اَثْقَالَھَا“ سے مراد انسان اور اس کے اعمال ہیں، چنانچہ اگر کوئی انسان ڈوب کرمرا یا آگ میں جل کر راکھ ہوا، رب ذوالجلال کے حکم سے نہ صرف زمین انسان کے ذرّات کو باہر نکال دے گی بلکہ لوگ اس طرح زمین سے صحیح سالم نکلیں گے جس طرح مرنے سے پہلے تھے، نہ صرف انسان اپنے وجود کے ساتھ زمین سے نکلیں گے بلکہ جو کچھ اس دھرتی پر کرتے رہے۔ زمین اس کے پورے کے پورے ثبوت پیش کرے گی۔ ماضی میں سائنسی ترقی نہ ہونے کی وجو سے بے شمار لوگ اس بات پر گمراہ ہوئے کہ انسان کے اعمال کا کس طرح وزن کیا جاسکے گا کیونکہ اعمال کاٹھوس وجود نہیں ہوتا۔ لیکن سائنسی ترقی نے ایک حد تک یہ ثابت کردیا ہے کہ ہر چیز کا ایک وجود ہوتا ہے۔ قیامت کے دن انسان جونہی اپنا کیا کرایا دیکھے گا تو پکار اٹھے گا کہ زمین کو کیا ہوگیا ہے کہ یہ ہر بات بیان کیے جا رہی ہے، ایسا اس لیے ہوگا کہ اسے اس کے رب کا حکم ہوگا۔ قیامت کے دن زمین ہر قسم کا ثبوت پیش کرنے کے ساتھ شہادت دے گی جس کا انکار کرنا انسان کے بس میں نہیں ہوگا۔ (اِِنَّا اَنذَرْنٰکُمْ عَذَابًا قَرِیْبًا یَّوْمَ یَنْظُرُ الْمَرْءُ مَا قَدَّمَتْ یَدٰہُ وَیَقُوْلُ الْکٰفِرُ یٰلَیْتَنِیْ کُنْتُ تُرَابًا) (النبا : ٤٠) ” ہم نے تمہیں اس عذاب سے ڈرادیا ہے جو قریب آچکا ہے جس دن آدمی سب کچھ دیکھ لے گا جو اس کے ہاتھوں نے آگے بھیجا ہے اور کافر پکار اٹھے گا کہ کاش میں مٹی بنا رہتا۔“ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَرَأَ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہَذِہِ الآیَۃَ (یَوْمَءِذٍ تُحَدِّثُ أَخْبَارَہَا) قَالَ أَتَدْرُونَ مَا أَخْبَارُہَا ؟ قَالُوا اللَّہُ وَرَسُولُہُ أَعْلَمُ قَالَ فَإِنَّ أَخْبَارَہَا أَنْ تَشْہَدَ عَلَی کُلِّ عَبْدٍ أَوْ أَمَۃٍ بِمَا عَمِلَ عَلَی ظَہْرِہَا تَقُولُ عَمِلَ یَوْمَ کَذَا کَذَا وَکَذَا فَہَذِہِ أَخْبَارُہَا) (رواہ الترمذی : باب ما جاء فی العرض، قال الترمذی ھٰذاحدیث حسن صحیح ) ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ آیت تلاوت فرمائی : (یَوْمَءِذٍ تُحَدِّثُ أَخْبَارَہَا) پھر آپ نے پوچھا کیا تم جانتے ہو کہ زمین کی خبریں کیا ہوں گی؟ صحابہ نے عرض کی کہ اللہ اور اس کے رسول زیادہ جانتے ہیں۔ آپ نے فرمایا زمین کا خبر دینا یہ ہے کہ وہ ہر مرد اور عورت کے عمل کے متعلق گواہی دے گی جو اس نے زمین پر رہتے ہوئے کیا ہوگا۔ زمین کہے گی کہ اس نے فلاں دن فلاں عمل کیا، یہی اس کی خبریں ہوں گی۔“ مسائل ١۔ قیامت کے دوسرے مرحلے میں زمین کو پوری طرح ہلاکر رکھ دیا جائے گا۔ ٢۔ زمین اپنے سینے سے ہر قسم کا بوجھ نکال باہر کرے گی۔ ٣۔ زمین اس دن انسان کے حق یا اس کے خلاف ہرقسم کی شہادت دے گی مجرم کہے گا کہ زمین کو کیا ہوگیا ہے ؟ ٤۔ زمین ہر چیز اس لیے بیان کرے گی کیونکہ اسے اس کے رب کا حکم ہوگا۔ تفسیر بالقرآن قیامت کے دن انسان کے حق یا اس کے خلاف پیش ہونے والی شہادتیں : ١۔ قیامت کے دن ” اللہ“ پر جھوٹ باندھنے والوں کے خلاف گواہ پیش کیے جائیں گے۔ (ہود : ١٨) (النور : ٢٤) (البقرۃ: ١٤٣) (یٰس : ٦٥) (حٰم السجدۃ: ٢٠) ( البقرۃ: ١٤٢) (الحج : ٧٨) الزلزلة
2 الزلزلة
3 الزلزلة
4 الزلزلة
5 الزلزلة
6 فہم القرآن ربط کلام : محشر کے میدان میں لوگوں کے اکٹھا ہونے کیا ہمیت اور ہر کسی کا اپنے اعمال کا سامنا کرنا۔ قرآن مجید اور حدیث رسول میں یہ بات بڑی تفصیل کے ساتھ بیان ہوئی ہے کہ لوگ اپنی قبروں سے نکل کر محشر کے میدان کی طرف جائیں گے۔ لوگوں کے جمع کرنے کے بارے میں قرآن مجید میں دو طرح کی آیات وارد ہوئی ہیں۔ ” جس دن صور میں پھونک ماری جائے گی تم گروہ در گروہ نکل آؤ گے۔“ (النبا : ١٨) ” قیامت کے دن سب اکیلے اکیلے اس کے سامنے حاضر ہوں گے۔“ (مریم : ٩٥) بظاہر ان آیات کے مفہوم میں تعارض اور تقابل نظر آتا ہے لیکن معمولی توجہ کے ساتھ سمجھنے کی کوشش کی جائے تو بات یوں سمجھ میں آتی ہے کہ قبروں سے لوگ اکیلے اکیلے اٹھائے جائیں گے اور اللہ تعالیٰ کے حضور بھی ہر شخص اکیلا اکیلا ہی پیش کیا جائے گا۔ لیکن محشر کے میدان میں اکٹھا ہونے کے لیے کھربہا انسان گروہوں کی صورت میں جمع ہوں گے اور ہر شخص کے سامنے اس کا اعمالنامہ کھول کر رکھ دیا جائے گا۔ ” کتاب رکھی جائے گی آپ مجرموں کو دیکھیں گے کہ جو کچھ اس کتاب میں ہوگا وہ اس سے ڈر رہے ہوں گے اور کہیں گے ہائے افسوس ! یہ کیسی کتاب ہے کہ اس نے نہ چھوٹی بات چھوڑی ہے اور نہ بڑی بات چھوڑی ہے اس نے سب کچھ شمار کر رکھا ہے انھوں نے جو کچھ کیا تھا اسے حاضر پائیں گے اور آپ کا رب کسی پر ظلم نہیں کرتا۔“ (الکہف : ٤٩) ” عبداللہ (رض) بن عیاش بن ابی ربیعہ کے غلام زیاد نے عبد اللہ (رض) بن عیاش کے سامنے حدیث بیان کی اس آدمی سے جس نے اسے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا تھا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ میں سے ایک آدمی آپ کے سامنے عرض کرنے لگا اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میرے دو غلام ہیں جو میرے ساتھ جھوٹ بولتے ہیں، خیانت کرتے اور میری نافرمانی کرتے ہیں۔ میں انہیں پیٹتا ہوں اور گالیاں دیتا ہوں میرا معاملہ کیسا ہے؟ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس قدر تیری خیانت، تیری نافرمانی اور تیرے ساتھ جھوٹ بولتے ہیں اگر تیری ڈانٹ ڈپٹ ان کی غلطیوں سے کم ہوئی تو تجھے اجر عطا کیا جائے گا اور اگر برابرہوئی تو معاملہ یکساں ہے اور اگر ڈانٹ ان کی خطاؤں سے زیادہ ہوئی تو تیری نیکیوں میں کمی کی جائے گی یہ سن کر وہ شخص آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے زاروقطار رونے لگا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کیا تو اللہ کی کتاب نہیں پڑھتا؟ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ قیامت کے دن ہم عدل و انصاف کا ترازو قائم کریں گے اور کسی پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔ نیکی اور برائی ایک رائی کے دانے کے برابر ہوئی ہم اسے بھی لے آئیں گے۔ ہم کافی ہیں حساب لینے والے۔ وہ آدمی کہنے لگا اے اللہ کے رسول میں اس سے بہتر سمجھتا ہوں کہ غلاموں کو آزاد کر دوں اور میں آپ کو گواہ بنا کر کہتا ہوں میں نے انہیں آزاد کردیا۔“ (رواہ احمد : مسند السیدۃ عائشۃ، قال الترمذی ہذا حدیث غریب) (وَعَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اِنَّ الْعَبْدَ لَیَتَکَلَّمُ بالْکَلِمَۃِ مِنْ رِضْوَان اللّٰہِ لاَ یُلْقِیْ لَھَا بَالًا یَرْفَعُ اللّٰہُ بِھَا دَرَجَاتٍ وَاِنَّ الْعَبْدَ لَیَتَکَلَّمُ بالْکَلِمَۃِ مِنْ سَخَطِ اللَّہِ لَا یُلْقِی لَھَا بَالًا یَھْوِیْ بِھَا فِیْ جَھَنَّمَ) (بخاری : باب حفظ اللسان) ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : بلاشبہ جب آدمی اللہ کی رضا کے لیے کوئی کلمہ زبان سے نکالتا ہے حالانکہ وہ اس کو معمولی سمجھتا ہے، تو اللہ تعالیٰ اس کلمہ کی وجہ سے اس کے درجات بلند فرماتا ہے۔ اگر کوئی شخص اللہ کی ناراضگی کی بات کرتا ہے اور وہ اسے معمولی سمجھتا ہے تو اس معمولی بات کی وجہ سے وہ جہنم میں داخل ہوگا۔“ مسائل ١۔ قیامت کے دن لوگ گروہوں کی شکل میں میں محشر کے میدان میں جمع کیے جائیں گے۔ ٢۔ لوگوں کو اس لیے محشر کے میدان میں جمع کیا جائے گا تاکہ وہ اپنے اعمال اور ان کا انجام دیکھ لیں گے۔ ٣۔ جس نے ذرّہ برابر نیکی کی ہوگی وہ اپنی نیکی دیکھ لے گا اور جس نے ذرّہ برابر برائی کی ہوگی وہ بھی اپنی برائی کو اپنے سامنے پائے گا۔ تفسیر بالقرآن محشر کے میدان میں لوگوں کی حالت۔ ١۔ جب واقعہ ہوگی واقعہ ہونے والی۔ (الواقعہ : ١) ٢۔ جب زمین کو ہلا دیا جائے گا پوری طرح ہلا دینا۔ (الزلزال : ١) ٣۔ قیامت زمین و آسمانوں پر بھاری ہوگی۔ (الاعراف : ١٨٧) (الحج : ١) ٤۔ قیامت کے دن لوگ اڑتے ہوئے پروانوں کی طرح ہوں گے۔ (القارعہ : ٤) الزلزلة
7 الزلزلة
8 الزلزلة
0 سورۃ العادیات کا تعارف یہ سورت اپنے نام سے شروع ہوتی ہے اس کا ایک رکوع ہے جو گیارہ آیات پر مشتمل ہے اس کے نزول کے بارے میں صحابہ کرام (رض) میں اختلاف پایا جاتا تھا تاہم حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) اور دیگر صحابہ (رض) کا خیال ہے کہ یہ سورت مکہ میں نازل ہوئی۔ اللہ تعالیٰ نے اس میں مجاہدین کے گھوڑوں کی قسم اٹھا کر جہاد کی فضیلت کی طرف اشارہ کیا ہے اور واضح فرمایا ہے کہ انسان مال کی محبت میں بڑا سخت ہے حالانکہ مال نے ہمیشہ نہیں رہنا اور بالآخر انسان نے قبر میں جانا ہے اور پھر اپنے رب کے حضور پیش ہونا ہے۔ العاديات
1 فہم القرآن ربط سورت : سورۃ زلزال کا اختتام اس بات پر ہوا ہے کہ جس نے نیکی کی وہ اپنی نیکی کو دیکھ لے گا اور جس نے برائی کی وہ بھی اپنی برائی کو اپنے سامنے پائے گا۔ العادیات کا مرکزی مضمون یہ ہے کہ قیامت کے دن ہر انسان کو قبر سے اٹھایا جائے گا اور جو کچھ اس نے کیا ہے اس کے سامنے رکھ دیا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے اس سورۃ مبارکہ کی ابتدا میں پانچ قسمیں اٹھائی ہیں جو جنگ کے دوران گھوڑوں کی مختلف حالتوں سے متعلق ہیں۔ ارشاد ہوا کہ قسم ہے ان گھوڑوں کی جو تیز دوڑتے ہوئے ہانپتے ہیں پھر اپنی ٹاپوں سے چنگاریاں نکالتے ہیں پھر صبح کے وقت دشمن پر دھاوابولتے ہیں اور گردوغبار اڑاتے ہوئے دشمن کے لشکر میں گھس جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کی خدمت کے لیے اور بھی جانور پیدا کیے ہیں مگر جو اوصاف اور قوت گھوڑے میں رکھی ہے وہ کسی اور جانور میں دکھائی نہیں دیتی۔ بے شک انسان نے اپنی سواری کے لیے بڑی تیز رفتار اور آرام دہ گاڑیاں ایجاد کرلی ہیں لیکن گاڑی پر بیٹھے ہوئے آدمی کا وہ رعب نہیں ہوتا جو گھوڑے کے شاہسوار کا رعب ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی دنیا میں مال دار لوگ، بڑے بڑے جرنیل اور سیاستدان گھوڑ سواری کرنا اپنے لیے فخر سمجھتے ہیں۔ اس لیے نسلی اور قیمتی گھوڑے رکھنا ان کا شوق ہوتا ہے۔ میدان جنگ بالخصوص پہاڑی علاقے میں جہاں گاڑیاں اور ٹینک نہیں جا سکتے وہاں گھوڑا ہی واحد سواری ہے جودشمن کے خلاف کار آمد ثابت ہوتا ہے۔ قدیم دور میں جس قبیلے یا فوج کے پاس جنگی گھوڑے زیادہ ہوتے تھے وہ فوج زیادہ طاقتور سمجھی جاتی تھی۔ پہلے زمانے میں عام طور پر دشمن پر حملہ آور ہونے کے لیے صبح کا وقت بڑا مناسب سمجھا جاتا تھا تاکہ دشمن کو سنبھلنے کا موقع نہ دیا جائے۔ اس وقت گھوڑوں کو سرپٹ دوڑایا جاتا جس سے گھوڑوں کے سینے سے ہاپنے کی آواز نکلتی جو گھوڑے اور شاہسوار کی بہادری اور قوت کی دلیل سمجھی جاتی۔ شاہسوار خاص طور پر جب دشمن کی صفوں میں گھسنے کے لیے گھوڑے کو ایڑ لگاتا تو جنگجو گھوڑا زمین پر پاؤں مار کر ہنہناتا ہوا اپنی جرأت اور آمادگی کا اظہار کرتا گھوڑا پتھریلی زمین پر سم مارتا تو رات کے وقت اس کے پاؤں کے نیچے سے چنگاریاں نکلتی تھیں جو مجاہد کے حوصلے کو دوبالا کرتی تھیں۔ قرآن مجید نے اس منظر کو اس لیے بیان کیا ہے تاکہ مسلمانوں میں قتال فی سبیل اللہ کا جذبہ زندہ اور بیدار رہے۔ گھوڑا بہادر ہونے کے ساتھ اپنے مالک کا وفادار اور اپنے کام میں نہایت ہی سمجھ دار جانور ہے، اسے سینکڑوں میل دور جاکر گھر کی طرف موڑ دیا جائے تو اکیلا ہی اپنے کھونٹے پر پہنچ جاتا ہے۔ ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :۔۔ گھوڑے تین طرح کے ہیں ایک اپنے مالک پر بوجھ ہے دوسرا اپنے مالک کی کمزوری چھپانے والا ہے اور تیسرا اپنے مالک کے لیے ثواب کا باعث ہے۔ وہ گھوڑا جو لوگوں کو دکھلاوے کے لیے رکھا جائے اور گھوڑے کے ذریعے مالک لوگوں میں فخر کرے اور مسلمانوں سے عداوت رکھے یہ اپنے مالک کے حق میں وبال ہے۔ جو کمزوری چھپانے والا گھوڑا وہ ہے جس کو اللہ کی راہ میں باندھا گیا ہو، اس کا مالک اس کی سواری میں اللہ کا حق نہیں بھولتا اور نہ اس کے گھاس اور چارہ میں کمی آنے دیتا ہے یہ مالک کی کمزوری چھپانے والا ہے۔ یعنی مالک کی طاقت کا سبب ہے۔ تیسرا گھوڑا ثواب کا باعث ہے یہ وہ گھوڑا ہے جو اللہ کی رضا اور اہل اسلام کی مدد کے لیے رکھا گیا ہے۔ یہ گھوڑا جو چراگاہ یا باغ سے کھائے گا اتنی نیکیاں اس کے مالک کے نامۂ اعمال میں لکھ دی جائیں گی اور اس کی لید اور پیشاب کو بھی نیکیوں میں شامل کیا جائے گا۔ جب یہ گھوڑا اپنی لمبی رسی توڑ کر کسی ٹیلے پر چڑھ جاتا ہے تو اس کے قدموں کے مطابق نیکیاں لکھ دی جاتی ہیں اور جب اس کا مالک اس کو کسی ندی پر لے جاتا ہے اور وہ گھوڑا اس سے پانی پیتا ہے بے شک مالک کا پانی پلانے کا ارادہ ہو یا نہ ہو تب بھی پانی کے قطروں کے موافق مالک کے حق میں نیکیاں لکھ دی جاتی ہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے گدھے کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا گدھوں کے بارے میں مجھ پر کوئی حکم نازل نہیں کیا گیا۔ (فَمَن یَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ خَیْرًا یَّرَہُ وَمَن یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ شَرًّا یَّرَہُ) جس نے ذرہ کے برابر نیکی کی وہ اسے قیامت کے دن دیکھے گا اور جس نے ذرہ برابر بدی کی وہ بھی اسے دیکھ لے گا۔“ (رواہ مسلم : کتاب الزکاۃ، باب اثم مانع الزکاۃ) مسائل ١۔ انسان ہر صورت قبروں سے اٹھائے جائیں گے اور جو کچھ ان کے سینوں میں ہے ظاہر کردیا جائے گا۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن ہر انسان کے عمل سے باخبر ہوگا۔ العاديات
2 العاديات
3 العاديات
4 العاديات
5 العاديات
6 فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ نے گھوڑے اور بڑے بڑے جانوروں کو انسان کے تابع بنادیا ہے مگر انسان اپنے رب کا تابع فرمان ہونے کے لیے تیار نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو زمین میں خلیفہ بنا کر ہر چیز کو اس کی خدمت پر لگا دیا ہے جن میں گھوڑا بھی اس کے خدام میں شامل ہے۔ گھوڑے پر غور فرمائیں کہ وہ اپنی جسامت اور طاقت کے اعتبار سے انسان سے کتنا طاقتور ہے اگر گھوڑا اپنے مالک سے سرکش ہو کر بھاگ نکلے تو مالک دوڑ کر اسے پکڑ نہیں سکتا، مالک سے جسامت اور طاقت میں بڑا ہونے کے باوجود نہ صرف گھوڑا سواری کے کام آتا ہے بلکہ جنگ کے موقع پر دشمن کی صفوں میں اس طرح آگے بڑھتا ہے جس طرح یہ اپنے دشمن کے خلاف کھڑا ہو۔ جنگی گھوڑا اپنی جان کی پرواہ کیے بغیر اپنے مالک کو لے کر دشمن کی صفوں کو چیرتے ہوئے آگے ہی بڑھتا چلا جاتا ہے، یہ اس لیے ہے کہ گھوڑا اپنے مالک کا نمک حلال اور وفادار ہوتا ہے لیکن انسان کی حالت یہ ہے کہ جب اسے کشادگی حاصل ہوتی ہے تو یہ اپنے رب کا نمک حرام اور نافرمان بن جاتا ہے۔ بالخصوص انسان مال کی محبت میں بڑا سخت واقع ہوا ہے یہی وجہ ہے کہ وہ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے کتراتا ہے حالانکہ اسے معلوم ہے کہ یہ مال اللہ نے ہی مجھے عطا فرمایا ہے مگر اس کے باوجود وہ بخل اور ناشکری کرنے سے باز نہیں آتا۔ جب کہ اس کا دل گواہی دیتا ہے کہ مجھے اپنے رب کی ناشکری اور اس کی راہ میں بخل نہیں کرنا چاہیے۔ (کَلَّآاِِنَّ الْاِِنسَانَ لَیَطْغٰی۔ اَنْ رَّاٰہُ اسْتَغْنٰی اِِنَّ اِِلٰی رَبِّکَ الرُّجْعٰی) (العلق : ٦ تا ٨) ” ہرگز نہیں یقیناً انسان سرکشی کرتا ہے، جب وہ اپنے آپ کو مستغنی دیکھتا ہے حالانکہ اس کا پلٹنا آپ کے رب کی طرف ہے۔“ مسائل ١۔ انسان یقیناً مال کی محبت میں بڑا حریص اور سخت ہے۔ ٢۔ یقیناً انسان اپنے رب کا ناشکرا ہونے کا اقرار کرتا ہے۔ العاديات
7 العاديات
8 العاديات
9 فہم القرآن ربط کلام : ناشکری اور بخل سے بچنے کے لیے انسان کو ہمیشہ اپنا انجام ذہن میں رکھنا چاہیے۔ بے شک انسان ہفت اقلیم کا بادشاہ اور پوری دنیا کے خزانوں کا مالک بن جائے، مگر موت کے وقت اس نے خالی ہاتھ جانا ہے، قبر میں کفن کے سوا کوئی چیز اس کے ساتھ نہیں جاتی۔ قیامت کے دن اسے اٹھایا جائے گا تو اس کے وجود پر کوئی لباس نہیں ہوگا، نیکی اور برائی کے سوا کوئی چیز اس کے ساتھ نہیں ہوگی۔ قیامت کے دن اسے قبر سے اٹھاکر محشر کے میدان میں کھڑا کیا جائے گا تو صرف اس کا اعمال نامہ اس کے سامنے پیش نہیں کیا جائے گا بلکہ اس کے ہر عمل کے ساتھ اس کی نیت اور خیالات بھی لف (Attache) ہوں گے۔ انسان اپنے رب سے کوئی چیز نہیں چھپا سکے گا۔ گو اللہ تعالیٰ ہر حال اور ہر وقت اپنے بندوں سے باخبر رہتا ہے لیکن قیامت کے دن کا ذکر فرما کرہر انسان کو انتباہ کیا ہے کہ اے انسان! دنیا میں تو لوگوں کی نگاہوں سے بچ سکتا ہے لیکن اپنے رب کی نگاہ سے نہیں بچ سکتا، اس لیے تجھے اس دن کا فکر کرنا چاہیے جس دن ہر چیز تیرے سامنے رکھ دی جائے گی۔ قرآن مجید نے اس مقام پر قیامت کے دن لوگوں کے اٹھنے کی جگہ کو قبور کہا ہے۔ قبور کا لفظ اس لیے استعمال کیا ہے کہ ہر آسمانی دین میں مردوں کو قبر میں دفنانے کا حکم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہودی، عیسائی اور مسلمان اپنے فوت شدگان کو قبروں میں دفناتے ہیں۔ یہاں تک جو لوگ دفنانے کی بجائے مردوں کو جلا دیتے ہیں وہ بھی مردوں کی راکھ کو مٹی میں ہی دفن کرتے ہیں۔ مسائل ١۔ قیامت کے دن زمین میں جو کچھ ہوگا وہ اسے اللہ کے حکم سے باہر پھینک دے گی۔ ٢۔ قیامت کے دن انسان کے ہر خیال کو ظاہر کردیا جائے گا۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ ہر چیز کو ابد سے جاننے والا ہے۔ العاديات
10 العاديات
11 العاديات
0 سورۃ القارعہ کا تعارف یہ سورت اپنے نام سے شروع ہوتی ہے اس کی گیارہ آیات ہیں جو ایک رکوع پر مشتمل ہیں یہ سورت مکہ معظمہ میں نازل ہوئی اس میں قیامت کا ایک منظر پیش کرتے ہوئے بتلایا ہے کہ اس دن پہاڑ دھنی ہوئی روئی کی طرح اڑ رہے ہوں گے اور لوگ بکھرے ہوئے پتنگوں کی طرح منتشر ہوں گے۔ اس دن جس کے اعمال بھاری ہوئے وہ عیش کی زندگی میں ہوگا اور جس کے وزن ہلکے ہوئے وہ دھکتی ہوئی آگ میں جھونکا جائے گا۔ القارعة
1 فہم القرآن ربط سورت : العادیات اس فرمان پر ختم ہوئی کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن بھی ہر کسی کے اعمال سے باخبر ہوگا۔ القارعہ میں قیامت کی حولناکیوں کا ذکر کرنے کے بعد واضح فرمایا ہے کہ نیک لوگ عیش کی زندگی میں ہوں گے اور برے لوگ بھڑکتی ہوئی آگ میں جھونک دئیے جائیں گے۔ عربوں کے ہاں جب زور کے ساتھ دروازہ کھٹکھٹایا جائے تو وہ اس کے لیے ” قرع الباب“ کے الفاظ بولتے ہیں کہ اس نے زور کے ساتھ دروازہ کھٹکھٹایا۔ اسرافیل کے پہلی دفعہ صورپھونکنے کے بعد جو آواز پیدا ہوگی وہ اس قدر تیز اور دھماکہ خیز ہوگی کہ اس کی وجہ سے ہر چیز آپس میں ٹکر اکر ختم ہوجائے گی۔ سیارے آپس میں ٹکرا جائیں گے اور پہاڑ ٹکرا کر ریزہ ریزہ ہوجائیں گے۔ پہاڑوں کے ٹکرانے سے یوں آوازیں نکلیں گی جس طرح توپ کا گولہ چلنے سے آوازنکلتی ہے، پہاڑ اس طرح ریت بن کر اڑ رہے ہوں گے جس طرح فضا میں دھنی ہوئی رنگ دار روئی اڑتی ہے، پہاڑوں سے اڑنے والے ذرات کو اس لیے دھنی ہوئی رنگ دار روئی سے تشبیہ دی ہے کہ شدید گرمی میں اڑنے والا گرد وغبار دور سے سرخ دکھائی دیتا ہے دوسری وجہ یہ ہے کہ قرآن مجید نے بتلا یا ہے : (وَ مِنَ الْجِبَالِ جُدَدٌ بِیْضٌ وَّ حَمْرٌ مُّخْتَلِفٌ اَلْوَانُہَا وَ غَرَابِیْبُ سُوْدٌ) (فاطر : ٢٧) ” اور پہاڑوں میں بھی سفید، سرخ اور گہری سیاہ دھاریاں پائی جاتی ہیں۔ جن کے رنگ مختلف ہوتے ہیں۔“ قیامت کی سختی اور گرمی کی وجہ سے لوگ اس طرح حواس باختہ اور پراگندہ ہوں گے جس طرح پتنگے روشنی پر بکھرے ہوتے ہیں، اس کے بعد لوگوں کو محشر کے میدان میں جمع کرکے ان کے اعمال کا وزن کیا جائے گا۔ جس کی نیکیوں کا پلڑا بھاری ہوا وہ عیش کی زندگی میں ہوگا اور جس کے گناہوں کا پلڑا بھاری ہوا اس کا ٹھکانہ ہاویہ ہے۔ آپ کیا جانیں کہ ہاویہ کیا ہے ؟ عربی زبان میں ہاویہ آگ کی گہری خندق کو کہا جاتا ہے۔ جہنم میں آگ کی بڑی بڑی گہری خندقیں ہوں گی، ان میں ان لوگوں کو پھینکا جائے گا جن کی نیکیوں کا پلڑا ہلکا ہوگا۔ رب ذوالجلال نے قیامت کی ہولناکیوں اور جہنم کی آگ سے ڈرانے کے لیے یہ الفاظ دو بار استعمال کیے ہیں کہ اے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ کیا جانیں کہ ” اَلْقَارِعَۃُ“ اور ” ہَاوِیَۃٌ“ کیا ہیں ؟ یہ اسلوب اس لیے اختیار کیا گیا ہے کہ قرآن مجید کی تلاوت کرنے والا شخص اس بات کا احساس کرے کہ جب اللہ کا رسول قیامت کی کھٹکھٹاہٹ اور جہنم کی آگ کی شدت کو نہیں جانتے تو میں کون ہوتاہوں جو اس سے لاپرواہ ہوجاؤں۔ یہاں جہنم کی آگ کے لیے ” اُمُّہٗ ہَاوِیَۃٌ“ کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں۔ جس طرح ماں اپنے بچے کو گود میں لیتی ہے کہ وہ گر نہ پائے۔ جہنم کی آگ بھی اس طرح مجرموں کو اپنی لپیٹ میں لے گی کہ مجرم کی جان چھوٹنے نہیں پائے گی۔ (وَالَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَآ اصْرِفْ عَنَّا عَذَابَ جَہَنَّمَ اِِنَّ عَذَابَہَا کَانَ غَرَامًا۔ اِِنَّہَا سَاءَتْ مُسْتَقَرًّا وَمُقَامًا) (الفرقان : ٦٥، ٦٦) ” اور نیک لوگ دعائیں کرتے ہیں کہ اے ہمارے رب ہمیں جہنم کے عذاب سے بچالے جہنم کا عذاب چمٹ جانے والاہے۔ وہ رہنے اور ٹھرنے کی بدترین جگہ ہے۔“ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ أُوقِدَ عَلَی النَّارِ أَلْفَ سَنَۃٍ حَتَّی احْمَرَّتْ ثُمَّ أُوقِدَ عَلَیْہَا أَلْفَ سَنَۃٍ حَتَّی ابْیَضَّتْ ثُمَّ أُوقِدَ عَلَیْہَا أَلْفَ سَنَۃٍ حَتَّی اسْوَدَّتْ فَہِیَ سَوْدَاءُ مُظْلِمَۃٌ) ( رواہ الترمذی : کتاب صفۃ جہنم) ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جہنم کی آگ کو ایک ہزار سال تک بھڑکا یا گیا یہاں تک کہ وہ سرخ ہوگئی پھر اس کو ایک ہزار سال تک جلایا گیا تو وہ سفید ہوگئی پھر اس کو ایک ہزار سال تک جلایا گیا یہاں تک کہ وہ سیاہ ہوگئی اب اس کا رنگ سیاہ ہے۔“ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ نَارُکُمْ جُزْءٌ مِّنْ سَبْعِیْنَ جُزْءً ا مِّنَ نَّارِ جَھَنَّمَ قِیْلَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ إِنْ کَانَتْ لَکَافِیَۃً قَالَ فُضِّلَتْ عَلَیْھِنَّ بِتِسْعَۃٍ وَّتِسْعِیْنَ جُزْءً ا کُلُّھُنَّ مِثْلُ حَرِّھَا) (رواہ البخاری : کتاب بدء الخلق، باب صفۃ النار وأنھا مخلوقۃ) ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں یقیناً اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تمہاری یہ آگ جہنم کی آگ کا سترواں حصہ ہے۔ عرض کیا گیا کہ اللہ کے رسول! جلانے کے لیے یہی آگ کافی تھی۔ آپ نے فرمایا اس آگ سے وہ انہتر حصے زیادہ گرم ہے ان میں سے ہر حصے کی گرمی دنیا کی آگ کے برابر ہے۔“ مسائل ١۔ قیامت کی کھٹکھٹاہٹ کا کوئی شخص اندازہ نہیں کرسکتا۔ ٢۔ جس کی نیکیوں کا پلڑا ہلکا ہوگا اس کے لیے ہاویہ ہے۔ ٣۔ قیامت کے دن لوگ بکھرے ہوئے پتنگوں کی طرح ہوں گے۔ ٤۔ قیامت کے دن پہاڑ دھنی ہوئی رنگین اون کی طرح اڑیں گے۔ ٥۔ قیامت کے دن جس کی نیکیوں کا پلڑا بھاری ہوا وہ عیش کی زندگی بسر کرے گا۔ تفسیر بالقرآن قیامت کے دن اعمال کا وزن کیا جائے گا : ١۔ قیامت کے دن ہر کسی کو اپنے اعمال کا بوجھ اٹھانا ہوگا۔ (النحل : ٢٥) ٢۔ قیامت کے دن اعمال کا وزن ضرور ہوگا۔ (الاعراف : ٨) ٤۔ قیامت کے دن ہم عدل کا میزان قائم کریں گے۔ (الانبیاء : ٤٧) ٥۔ جس کی نیکیوں کا وزن زیادہ ہوا وہ عیش و عشرت میں ہوگا۔ (المومنون : ١٠٢) ٦۔ جس کی نیکیوں کا وزن کم ہوا اس کا ٹھکانہ ہاویہ ہے۔ (القارعہ : ٨، ٩) ٧۔ قیامت کے دن چھوٹی سے چھوٹی نیکی بھی سامنے آجائے گی اور چھوٹی سے چھوٹی برائی بھی مجرم کے سامنے ہوگی۔ (الزلزال : ٧، ٨) القارعة
2 القارعة
3 القارعة
4 القارعة
5 القارعة
6 القارعة
7 القارعة
8 القارعة
9 القارعة
10 القارعة
11 القارعة
0 سورۃ التّکاثر تعارف یہ سورت بھی اپنے نام سے شروع ہوئی ہے اس کا ایک رکوع ہے جس میں آٹھ آیات ہیں یہ مکہ معظمہ میں نازل ہوئی۔ اس میں لوگوں کی حرص وہوس کا ذکر کرتے ہوئے بتلایا ہے کہ لوگوں کی غالب ترین اکثریت مال کی محبت میں سرگرداں رہتی ہے۔ یہاں تک کہ وہ قبر میں پہنچ جاتے ہیں، ایسے لوگوں کو دنیا کی حقیقت کا اس وقت علم ہوگا جب وہ جہنم کو اپنے سامنے پائیں گے اس وقت یہ دنیا کو بھول جائیں گے لیکن ان سے ہر نعمت کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ التکاثر
1 فہم القرآن ربط سورت : القارعہ میں بتلایا گیا ہے کہ مجرموں کو جہنم کی بھڑکتی ہوئی آگ میں داخل کی جائے گا التّکاثر میں اس کی بنیادی وجہ یہ بیان کی گئی ہے کہ جہنمی آخرت کے مقابلے میں دنیا کو ترجیح دیا کرتے تھے۔ اس سورت کی ابتدا ” اَلْہٰی“ کے لفظ سے ہورہی ہے۔ عربی زبان میں ” اَلْہٰی یَلْہٰی“ کا معنٰی ہے کسی چیز کے ساتھ ایسا لگاؤ جس کی وجہ سے انسان اپنے اہم معاملات سے لاپرواہ اور غافل ہوجائے۔” التَّکَاثُرُ“ کے تین مفہوم لیے گئے ہیں۔ ١۔ زیادہ سے زیادہ مال واسباب جمع کرنا۔ ٢۔ مال کی کثرت میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرنا۔ ٣۔ مال و اسباب کی کثرت پر فخر وغرور کرنا۔ یادرہے کہ دین اسلام دنیا کے اسباب اور اس کی ترقی میں رکاوٹ پیدا نہیں کرتا، اسلام صرف یہ چاہتا ہے کہ لوگ دین اور دنیا کے درمیان توازن قائم کریں اگر دین اور دنیا میں مقابلہ ہو تو دین کو ترجیح دی جائے، لیکن ہر دور میں انسانوں کی اکثریت کا یہ حال رہا ہے کہ وہ مال واسباب کی محبت میں دین اور آخرت کوفراموش کردیتے ہیں۔ جس کا قرآن مجید نے اس طرح شکوہ کیا ہے۔ ” تم لوگ دنیا کی زندگی کو ترجیح دیتے ہو حالانکہ آخرت بہتر ہے اور باقی رہنے والی ہے یہ بات پہلے صحیفوں میں بھی کہی گئی تھی۔ ابراہیم اور موسیٰ کے صحیفوں میں۔“ (الاعلیٰ: ١٦ تا ١٩) ” اے لوگو جو ایمان لائے ہو تمہارے مال اور تمہاری اولادیں تم کو اللہ کی یاد سے غافل نہ کردیں، جو لوگ ایسا کریں وہ خسارے میں رہنے والے ہیں، جو رزق ہم نے تمہیں دیا ہے اس میں سے خرچ کرو، قبل اس کے کہ تم میں سے کسی کی موت کا وقت آجائے اور وہ اس وقت کہہ کہ اے میرے رب تو نے کیوں نہ مجھے تھوڑی سی مہلت اور دی کہ میں صدقہ کرتا اور صالح لوگوں میں شامل ہوجاتا۔“ (المنافقون : ٩ تا ١١) یہی ہلاکت اور پچھتاوا ہے جس کا اس سورت میں ذکر کیا گیا ہے کہ اے لوگو! تمہیں دنیا کے مال واسباب کے تکاثر نے ہلاک کردیا ہے، تم مرتے دم تک دنیا کے پیچھے پڑے رہتے ہو، یہاں تک کہ قبروں تک پہنچ جاتے ہو۔ انسان کی زندگی اور موت کے بعد چار مرحلے ایسے آتے ہیں جب انسان کو یقین ہوجاتا ہے کہ اس نے دنیا کی خاطر اپنے آپ کو ہلاک کرلیا ہے۔ پہلا مرحلہ انتہائی مجبوری اور بیماری کے وقت آتا ہے جب انسان لاعلاج بیماری یا کسی انتہائی مجبوری میں مبتلا ہوتا ہے تو اسے پتا چلتا ہے کہ دنیا کے مال واسباب اس کے کسی کام نہیں آسکے، دوسرا مرحلہ جو اس سے زیادہ یقینی ہوتا ہے وہ موت کا وقت ہے گنہگار کو پچھتاوا ہوتا ہے کہ کاش! میں دنیا کے مقابلے میں آخرت کو ترجیح دیتا، تیسرا مرحلہ قبر میں شروع ہوتا ہے جب انسان کو یقینی علم ہوجاتا ہے کہ مال کی حرص نے اسے ہلاکت میں ڈال دیا ہے، چوتھا اور آخری مرحلہ وہ ہوگا جب وہ اپنی آنکھوں کے سامنے جہنم دیکھے گا تو اس کے یقین میں ذرا برابر بھی شک نہیں رہے گا۔ اس لیے اس حالت کے بارے میں ” عین الیقین“ کے الفاظ استعمال کیے ہیں۔ یہ مرحلہ اس وقت آئے گا جب اس سے ہر نعمت کے بارے میں جواب طلبی ہوگی اگر ناشکرا اور مجرم ثابت ہوا تو اسے جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔ یہی وہ ہلاکت ہے جس کے بارے میں ہر انسان کو متنبہ کیا گیا ہے۔ (عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ (رض) أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ لَوْ أَنَّ لِإِبْنِ آدَمَ وَادِیًا مِّنْ ذَھَبٍ أَحَبَّ أَنْ یَکُوْنَ لَہٗ وَادِیَانِ وَلَنْ یَمْلَأَ فَاہُ إِلَّا التُّرَابُ وَیَتُوْبُ اللّٰہُ عَلٰی مَنْ تَابَ) (رواہ البخاری : باب مایتقی من فتنۃ المال) ” حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ بے شک رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اگر آدم کے بیٹے کے پاس سونے کی ایک وادی ہو تو وہ پسند کرے گا کہ اس کے پاس سونے کی دو وادیاں ہوں۔ اس کے منہ کو مٹی کے علاوہ کوئی چیز نہیں بھر سکتی۔ ” اللہ“ جس پر چاہتا ہے کرم فرماتا ہے۔“ (یعنی اسے قناعت دیتا ہے۔) (عَنْ مُطَرِّفَ بْنَ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ الشِّخِّیرِ یُحَدِّثُ عَنْ رَجُلٍ مِنْ أَصْحَاب النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ کَان بالْکُوفَۃِ أَمِیرٌ قَالَ فَخَطَبَ یَوْماً فَقَالَ إِنَّ فِی إِعْطَاءِ ہَذَا الْمَالِ فِتْنَۃً وَفِی إِمْسَاکِہِ فِتْنَۃً وَبِذَلِکَ قَامَ بِہِ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فِی خُطْبَتِہِ حَتَّی فَرَغَ ثُمَّ نَزَلَ) (رواہ احمد : مسند عبداللہ بن الشخیر) ” مطرف بن عبداللہ بن شخیر سے روایت ہے وہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ایک صحابی کے بارے میں بیان کرتے ہیں جو کوفہ میں امیر تھے انہوں نے ایک دن اپنے خطبے میں کہا کہ مال کے عطا کیے جانے میں بھی آزمائش ہے اور اس کے روک لیے جانے میں بھی آزمائش ہے اسی بات کو بیان کرنے کے لیے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) منبر پر چڑھے اور اسے بیان کرنے کے بعد نیچے اتر آئے۔“ (عَنْ مُطَرَّفٍ عَنْ أَبِیْہِ قَالَ: أَتَیْتُ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وَھُوَ یَقْرَأُ اَلْھٰکُمُ التَّکَاثُرُ قَالَ یَقُوْلُ ابْنُ اٰدَمَ‘ مَالِیْ مَالِیْ قَالَ وَھَلْ لَکَ یَا ابْنَ اٰدَمَ إِلَّا مَا أَکَلْتَ فَأَفْنَیْتَ‘ أَوْلَبِسْتَ فَأَبْلَیْتَ‘ أَوْ تَصَدَّقْتَ فَأَمْضَیْتَ۔) (رواہ مسلم : باب الزھد والرقائق) ” مطرف اپنے والد (رض) سے بیان کرتے ہیں کہ میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا۔ اس وقت آپ سورۃ ” اَلْہٰکُمُ التَّکَاثُرْ“ تلاوت فرمارہے تھے۔ آپ نے فرمایا : ابن آدم کہتا ہے، میر امال، میرا مال آپ نے فرمایا : اے ابن آدم ! تیرا مال وہ ہے جسے تو نے کھا کر ہضم کرلیا، پہن کر بوسیدہ کردیا، جو تو نے صدقہ کیا اور اسے آخرت کے لیے آگے بھیجا۔“ (عَنْ کَعْبِ بْنِ عِیَاضٍ قَالَ سَمِعْتُ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَقُولُ إِنَّ لِکُلِّ أُمَّۃٍ فِتْنَۃً وَفِتْنَۃُ أُمَّتِی الْمَالُ) (رواہ الترمذی : باب مَا جَاءَ أَنَّ فِتْنَۃَ ہَذِہِ الْأُ مَّۃِ فِی الْمَالِ، قال الالبانی ھٰذاحدیث صحیح) ” حضرت کعب بن عیاض (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے ہوئے سنا کہ ہر امت کے لیے ایک اجتماعی آزمائش ہوتی ہے اور میری امت کی اجتماعی آزمائش مال ہے۔“ ” حضرت ابوہریرہ (رض) ذکر کرتے ہیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اور آپ کے دونوں ساتھیوں نے بکری کا گو شت کھایا، کھجوریں تناول کیں اور پانی پیا۔ جب اچھی طرح کھا پی کر سیر ہوگئے تو رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ابوبکر و عمر (رض) سے فرمایا اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، تم سے قیامت کے دن ان نعمتوں کے بارے میں سوال ہوگا۔“ (رواہ مسلم : باب جَوَازِ اسْتِتْبَاعِہِ غَیْرَہُ إِلَی دَارِ مَنْ یَثِقُ بِرِضَاہُ بِذَلِکَ) مسائل ١۔ لوگوں کو مال کی حرص نے تباہ کردیا ہے۔ ٢۔ اکثر لوگ قبر تک پہنچنے سے پہلے مال کی حرص نہیں چھوڑتے۔ ٣۔ عنقریب دنیادارلوگوں کو مال اور اپنے انجام کا پتہ چل جائے گا۔ ٤۔ عنقریب انہیں یقین ہوجائے گا کہ انہوں نے اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈال لیا ہے۔ ٥۔ دین کے مقابلے میں دنیا کو ترجیح دینے والے ہر صورت جہنم کو دیکھ لیں گے۔ ٦۔ اللہ تعالیٰ ہر صورت اپنی نعمتوں کے بارے جواب طلبی کرے گا۔ التکاثر
2 التکاثر
3 التکاثر
4 التکاثر
5 التکاثر
6 التکاثر
7 التکاثر
8 التکاثر
0 سورۃ العصرکا تعارف یہ سورت بھی اپنے نام سے شروع ہوتی ہے اس کی صرف تین آیات ہیں جو ایک چھوٹے سے رکوع پر مشتمل ہیں یہ سورت مختصر ہونے کے باوجود اسلام کی تعلیمات کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ جو شخص ان پر عمل کرے گا وہ دائمی نقصان سے بچ جائے گا۔ جس نے ان باتوں کا خیال نہ رکھا وہ دنیا اور آخرت میں نقصان پائے گا۔ العصر
1 فہم القرآن ربط سورت : اللہ تعالیٰ نے التکاثر کے آخر میں بتلایا ہے کہ ہر وہ شخص آخرت میں نقصان اٹھائے گا جو آخرت پر دنیا کو ترجیح دے گا اس سے ہر نعمت کے بارے میں سوال ہوگا مگر اس کے باوجود انسان نقصان کا سودا کیے ہوئے ہے۔ فہم القرآن میں یہ بات پہلے بھی عرض ہوچکی ہے کہ عربی زبان میں واؤ کا حرف قسم کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق میں جس چیز کی قسم اٹھاتا ہے لازم نہیں کہ وہ چیز دوسری چیزوں سے زیادہ اہمیت کی حامل ہو۔ قسم اٹھانے کا بنیادی مقصد اس بات کی اہمیت کو اجاگر کرنا ہوتا ہے جس چیز کے لیے قسم اٹھائی جاتی ہے تاکہ سننے والا اس بات کی اہمیت اور فرضیت کو سمجھ سکے۔ یہاں زمانے کی اہمیت اجاگر کرنے کے لیے قسم اٹھائی گئی ہے۔ ” والعصر“ زمانے کی قسم ! زمانہ کا لفظ تین اوقات کا احاطہ کرتا ہے۔ جو وقت گزر گیا، جو گزرہا ہے اور جو آنے والا ہے اسے ماضی، حال اور مستقبل کہا جاتا ہے۔ اگر زمانے سے مراد جزوی طور پر ماضی لیا جائے تو معنٰی ہوگا کہ اے انسانو! جو وقت گزر گیا ہے وہ واپس نہیں آئے گا اس لیے اپنے حال کا خیال رکھو۔ کیونکہ حال کو پکڑے بغیر کوئی فرد اور قوم ترقی نہیں کرسکتی۔ زمانے کا معنی مستقبل لیا جائے تو یہ مفہوم لینے کی گنجائش ہے کہ اے انسان! تجھے کیا خبر! کہ مستقبل تجھے حاصل ہوگا یا تو اس سے پہلے ہی اٹھا لیا جائے گا۔ زمانے کی یہ تفسیر سامنے رکھی جائے تو اس کا ایک ایک لمحہ لمحہ قیمتی اور یہ انسان کاسب سے بڑا سرمایہ ہے اس لیے صحابہ کرام (رض) وقت کو سونے اور چاندی سے زیادہ گراں قدر سمجھتے تھے۔ (رواہ الترمذی : باب وَمِنْ سُورَۃِ التَّوْبَۃِ) ” العصر“ کا دوسرامعنٰی نماز عصر بھی لیا گیا ہے۔ نماز عصر دن کی آخری نماز ہوتی ہے اس لیے نماز عصر کی خاص فضیلت اور فرضیت بیان کی گئی ہے۔ (حٰفِظُوْا عَلَی الصَّلَوٰتِ وَ الصَّلٰوۃِ الْوُسْطٰی وَ قُوْمُوْا لِلّٰہِ قٰنِتِیْنَ) (البقرۃ: ٢٣٨) ” نمازوں کی حفاظت کرو بالخصوص درمیانی نماز کی اور اللہ تعالیٰ کے سامنے عاجزہو کر کھڑے ہوا کرو۔“ (عَنِ ابْنِ عُمَرَ (رض) أَنَّ رَسُولَ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ الَّذِی تَفُوتُہُ صَلاَۃُ الْعَصْرِ کَأَنَّمَا وُتِرَ أَہْلَہُ وَمَالَہُ) (رواہ البخاری : کتاب مواقیت الصلاۃ، باب إثم من فاتتہ العصر) ” حضرت عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرمایا کرتے تھے کہ جس کی نماز عصر ضائع ہوگئی گویا اس کی تمام دن کی کمائی غارت ہوگئی۔“ العصر کی قسم اٹھا کر یہ بات بھی واضح کی گئی ہے کہ جس طرح دن کا آخری حصہ عصر کے وقت پر مشتمل ہے اسی طرح ہی دنیا کی زندگی آخری دور میں داخل ہوچکی ہے۔ جس طرح عصر کے بعد سورج کا غروب ہونا یقینی ہے اسی طرح دنیا کا خاتمہ اور قیامت کا آنا یقینی ہے۔ (عَنِ ابْنِ عُمَرَ (رض) عَنْ رَّسُوْلِ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ اِنَّما اَجَلُکُمْ فِیْ اَجَلِ مَنْ خَلَا مِنَ الْاُمَمِ مَابَیْنَ صَلٰوۃِ الْعَصْرِ اِلٰی مَغْرِبِ الشَّمْسِ وَاِنَّمَا مَثَلُکُمْ وَمَثَلُ الْیَھُوْدِ وَالنَّصٰرٰی کَرَجُلِنِ اِسْتَعْمَلَ عُمَّالًا فَقَالَ مَنْ یَّعْمَلُ لِیْ اِلٰی نِصْفِ النَّھَارِ عَلٰی قِیْرَاطٍ قِیْرَاطٍ فَعَمِلَتِ الْیَھُوْدُ اِلٰی نِصْفِ النَّھَارِ عَلٰی قِیْرَاطٍ قِیْرَاطٍ ثُمَّ قَالَ مَنْ یَّعْمَلُ لِیْ مِنْ نِصْفِ النَّھَارِ اِلٰی صَلٰوۃِ الْعَصْرِ عَلٰی قِیْرَاطٍ قِیْرَاطٍ فَعَمِلَتِ النَّصَارٰی مِنْ نِصْفِ النَّھَارِاِلٰی صَلٰوۃِ الْعَصْرِعَلٰی قِیْرَاطٍ قِیْرَاطٍ ثُمَّ قَالَ مَنْ یَّعْمَلُ لِیْ مِنْ صَلٰوۃِ الْعَصْرِ اِلٰی مَغْرِبِ الشَّمْسِ عَلٰی قِیْرَاطَیْنِ قِیْرَاطَیْنِ اَ لَا فَاَنْتُمُ الَّذِیْنَ یَعْمَلُوْنَ مِنْ صَلٰوۃِ الْعَصْرِ اِلٰی مَغْرِبِ الشَّمْسِ اَ لَا لَکُمُ الْاَجْرُ مَرَّتَیْنِ فَغَضِبَتِ الْیَھُوْدُ وَالنَّصَارٰی فَقَالُوْا نَحْنُ اَکْثَرُ عَمَلًا وَاَقَلُّ عَطَاءً قَال اللّٰہُ تَعَالٰی فَھَلْ ظَلَمْتُکُمْ مِّنْ حَقِّکُمْ شَیْءًا قَالُوْا لَا قَال اللّٰہُ تَعَالٰی فَاِنَّہٗ فَضْلِیْ اُعْطِیْہِ مَنْ شِءْتُ) (رواہ البخاری : باب الاجارۃ الیٰ نصف النہار) ” حضرت ابن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تمہاری مدت عمر، تم سے پہلے لوگوں کی مدت عمر کے مقابلے میں اتنی ہے جس طرح عصر کی نماز سے سورج غروب ہونے کا وقت ہے۔ تمہاری اور یہود و نصاریٰ کی مثال اس شخص کی طرح ہے جس نے کچھ مزدوروں کو کام پر لگایا۔ اس نے مزدوروں سے کہا ایک ایک قیراط پر میرے ہاں کون دوپہر تک مزدوری کرے گا؟ یہود نے دوپہر تک ایک قیراط پر کام کیا پھر اس نے کہا کون دوپہر سے عصر تک ایک قیراط پر کام کرے گا؟ نصاریٰ نے دوپہر سے عصر تک ایک قیراط پر کام کیا پھر اس نے کہا کون شخص عصر کی نماز سے لے کر سورج غروب ہونے تک دو قیراط پر کام کرے گا۔ جان لو وہ تم ہو جو عصر کی نماز سے لے کر سورج غروب ہونے تک کام کر رہے ہو، اور تمہارا ثواب دو گنا ہے۔ اس پر یہود و نصاریٰ ناراض ہوئے اور انہوں نے کہا کہ ہمارا کام زیادہ ہے اور ہمیں مزدوری کم ملی ہے؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔ کیا میں نے تمہاری مزدوری سے کم دیا ہے ؟ انہوں نے کہا نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : یہ میرا انعام ہے، میں جسے چاہتا ہوں عطا کرتا ہوں۔“ ( عَنْ شُعْبَۃَعَنْ قَتَادَۃَ عَنْ اَنَسٍ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بُعِثْتُ اَنَاو السَّاعَۃُ کَھَاتَیْنِ قَالَ شُعْبَۃُ وَسَمِعْتُ قَتَادَۃَیَقُوْلُ فِیْ قَصَصِہٖ کَفَضْلِ اِحْدٰھُمَا عَلَی الْاُخْرٰی فَلَا اَدْرِیْ اَذَکَرَہُ عَنْ اَنَسٍٍٍ اَوْ قَالَہُ قَتَادَۃُ.) (رواہ البخاری : کتاب الرقاق) ” حضرت شعبہ، قتادہ سے وہ حضرت انس (رض) سے بیان کرتے ہیں رسول مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا مجھے اور قیامت کو ان دو انگلیوں کی طرح بھیجا گیا ہے شعبہ کہتے ہیں میں نے قتادہ کو بیان کرتے ہوئے سنا جیسا کہ ان دونوں میں سے ایک انگلی کو دوسری پر بر تری حاصل ہے شعبہ کہتے ہیں کہ مجھے معلوم نہیں یہ بات انہوں نے حضرت انس (رض) سے بیان کی ہے یا قتادہ کی اپنی بات ہے۔“ (عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لِرَجُلٍ وَہُوَ یَعِظُہٗ اِغْتَنِمْ خَمْسًا قَبْلَ خَمْسٍ شَبَابَکَ قَبْلَ ہَرَمِکَ وَصِحَّتِکَ قَبْلَ سَقْمِکَ وَغِنَاکَ قَبْلَ فَقْرِکَ وَفِرَاغَکَ قَبْلَ شُغُلِکَ وَحَیَاتَکَ قَبْلَ مَوْتِکَ) (رواہ الحاکم) ” حضرت عبداللہ بن عباس (رض) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک آدمی کو نصیحت فرما رہے تھے۔ فرمایا پانچ چیزوں کو پانچ چیزوں سے پہلے غنیمت جانو، جوانی کو بڑھاپے سے پہلے، تندرستی کو بیماری سے پہلے، خوشحالی کو تنگدستی سے پہلے فارغ وقت کو مصروف ہونے سے پہلے اور زندگی کو موت سے پہلے۔“ جس بات کی قسم اٹھائی گئی ہے وہ یہ ہے کہ اے انسان تو نقصان میں جارہا ہے۔ نفع کے مقابلے میں نقصان کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ چاہیے تو یہ تھا کہ انسان وقت کی اہمیت سمجھ کر اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے نفع حاصل کرتا لیکن اس نے اس وقت سے فائدہ اٹھانے کی بجائے اپنے آپ کو خسارے میں ڈال لیا ہے۔ اگر انسان خسر کے لفظ پر غور کرے تو اسے یقین ہوجائے گا کہ واقعی وہ نقصان میں جارہا ہے، سب سے پہلے ہر انسان اپنی عمر پر غور کرے۔ کہنے کو تو آدمی یہی کہتا اور سمجھتا ہے کہ میں اتنے سال کا ہوگیا ہوں لیکن غور کرے تو اسے احساس ہوگا کہ اس نے زندگی کے جتنے سال شمار کیے ہیں وہ حقیقت میں اس کی زندگی سے منہا ہوچکے ہیں۔ کردار کے حوالے سے دیکھا جائے تو جب انسان جنم لیتا ہے تو گناہوں سے پاک ہوتا ہے۔ جوں جوں بڑھا ہوتا ہے تو اس کے گناہوں میں اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ اس طرح کتنے انسان ہیں جواعمال کے اعتبار سے خسارے میں ہوتے ہیں اور اسی حالت میں فوت کرلیے جاتے ہیں۔ ہمارے رب نے زمانے کی قسم کھا کر ہمیں توجہ دلائی ہے کہ اے انسان! تو ہر لمحہ خسارے میں پڑا جارہا ہے، تجھے اس سے بچنے اور نکلنے کی کوشش کرنی چاہیے، بالفاظ دیگر اللہ تعالیٰ انسان کو نقصان کی بجائے فائدے میں دیکھنا چاہتا ہے۔ فائدہ حاصل کرنے اور نقصان سے بچنے کے لیے چار صفات کا ہونا ضروری ہے۔ یہی چار صفات پورے دین کا خلاصہ ہیں۔ یہ وہ صفات ہیں کہ اگر ان پر عمل کرنے کا حق ادا کیا جائے توانسان میں ہرقسم کے اوصاف حمیدہ پیدا ہو سکتے ہیں ان کو اپنانے سے انسان نقصان کی بجائے دنیا اور آخرت میں فائدے میں رہے گا وہ چار صفات یہ ہیں۔ ١ یمان : تمام اہل علم اور صاحب ایمان لوگوں نے ایمان کی یہ تعریف کی ہے۔” اقرار باللّسان، تصدیق بالقلب اور عمل صالح“ گویا کہ ایمان تین باتوں پر مشتمل ہے۔ کوئی شخص ان میں سے ایک بات چھوڑ دے تو وہ ایماندار نہیں رہے گا، اس لیے قرآن مجید نے رسمی ایمان کی بجائے حقیقی اور کامل ایمان پرزوردیا ہے۔ (یٰٓأَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اٰمِنُوْا باللّٰہِ وَ رَسُوْلِہٖ وَ الْکِتٰبِ الَّذِیْ نَزَّلَ عَلٰی رَسُوْلِہٖ وَ الْکِتٰبِ الَّذِیْٓ اَنْزَلَ مِنْ قَبْلُ وَ مَنْ یَّکْفُرْ باللّٰہِ وَ مَلٰٓءِکَتِہٖ وَ کُتُبِہٖ وَ رُسُلِہٖ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلًا بَعِیْدًا) (النساء : ١٣٦) ” اے ایمان والو! اللہ، اس کے رسول اور اس کتاب پر ایمان لاؤ جو اس نے اپنے رسول پر اتاری ہے اور ان کتابوں پر جو اس سے پہلے اس نے نازل فرمائی ہیں، جو اللہ اور اس کے فرشتوں اور اس کی کتابوں اور اس کے رسولوں اور قیامت کے دن کا انکار کرے وہ دور کی گمراہی میں جا پڑے گا۔“ (قَالَتِ الْاَعْرَابُ اٰمَنَّا قُلْ لَمْ تُؤْمِنُوْا وَلٰکِنْ قُوْلُوْا اَسْلَمْنَا وَلَمَّا یَدْخُلِ الْاِِیْمَانُ فِیْ قُلُوْبِکُمْ وَاِِنْ تُطِیعُوا اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ لَا یَلِتْکُمْ مِّنْ اَعْمَالِکُمْ شَیْءًا اِِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَحِیْمٌ۔ اِِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا باللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ ثُمَّ لَمْ یَرْتَابُوْا وَجَاہَدُوْا بِاَمْوَالِہِمْ وَاَنفُسِہِمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اُوْلٰٓءِکَ ہُمُ الصَّادِقُوْنَ) (الحجرات : ١٤، ١٥) ” بدوی کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے ان سے کہو تم ایمان نہیں لائے بلکہ یوں کہو کہ ہم مطیع ہوگئے ایمان ابھی تمہارے دلوں میں داخل نہیں ہوا، اگر تم اللہ اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرو تو اللہ تمہارے اعمال کے اجر میں کوئی کمی نہیں کرے گا، یقیناً اللہ درگزر کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔ حقیقت میں مومن وہ ہیں جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائیں، پھر انہوں نے کوئی شک نہ کیا اور جو اپنی جانوں اور مالوں سے اللہ کی راہ میں جہاد کریں گے، وہی ایمان میں سچے ہیں۔“ (یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا ادْخُلُوْا فِی السِّلْمِ کَآفَّۃً وَ لَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِ اِنَّہٗ لَکُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ) (البقرۃ: ٢٠٨) ” اے ایمان والو! اسلام میں پورے کے پورے داخل ہوجاؤ اور شیطان کے قدموں کی پیروی نہ کرو کیونکہ شیطان تمہارا کھلا دشمن ہے۔“ (عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ (رض) قَالَ بَیْنَمَا نَحْنُ عِنْدَ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ذَاتَ یَوْمٍ إِذْ طَلَعَ عَلَیْنَا رَجُلٌ شَدِیدُ بَیَاض الثِّیَابِ شَدِیدُ سَوَاد الشَّعْرِ لاَ یُرٰی عَلَیْہِ أَثَرُ السَّفَرِ وَلاَ یَعْرِفُہُ مِنَّا أَحَدٌ حَتَّی جَلَسَ إِلَی النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَأَسْنَدَ رُکْبَتَیْہِ إِلَی رُکْبَتَیْہِ وَوَضَعَ کَفَّیْہِ عَلَی فَخِذَیْہِ قَالَ فَأَخْبِرْنِی عَنِ الإِیمَانِ قَالَ أَنْ تُؤْمِنَ باللَّہِ وَمَلاَءِکَتِہٖ وَکُتُبِہٖ وَرُسُلِہٖ وَالْیَوْمِ الآخِرِ وَتُؤْمِنَ بالْقَدَرِ خَیْرِہٖ وَشَرِّہٖ) (رواہ مسلم : باب مَعْرِفَۃِ الإِیمَانِ وَالإِسْلاَمِ ) ” حضرت عمر بن خطاب (رض) بیان کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس بیٹھے ہوئے تھے۔ اچانک ایک سیاہ بالوں والا آدمی سفید کپڑوں میں ملبوس جس پر سفر کے کوئی آثار نہیں تھے اور ہم سے کوئی اسے پہچانتا نہیں تھا وہ آکر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے دو زانوں ہو کر بیٹھ گیا اور اپنی ہتھیلیوں کو اپنی رانوں پر رکھتے ہوئے عرض کی مجھے ایمان کے متعلق بتائیے آپ نے فرمایا کہ تو اللہ پر، اس کے فرشتوں پر، اس کے رسولوں پر، آخرت کے دن پر اور اچھی بری تقدیر پر ایمان لائے۔“ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ: ایمان اور صالح اعمال کا آپس میں اس قدر گہرا اور مضبوط تعلق ہے کہ جس قدر ایمان مضبوط ہوگا اسی قدر صالح اعمال کرنے کا جذبہ اور اخلاص پیدا ہوگا۔ اس لیے قرآن مجید نے ایمان کو ایک شجر کے ساتھ تشبیہ دی ہے۔ درخت کا بیج جتنا صحت مند ہوگا اتنا ہی اس سے صحت مند اور مضبوط پودانکلے گا۔ اس لیے رئیس المحدثین حضرت امام بخاری (رض) نے اس پر بڑی تفصیلی بحث کی اور درجنوں دلائل کے ساتھ ثابت کیا ہے کہ ایمان کے بغیر عمل صالح اور صالح عمل کے بغیر ایمان کی کوئی حیثیت نہیں رہتی۔ (اَلَمْ تَرَکَیْفَ ضَرَبَ اللّٰہُ مَثَلًا کَلِمَۃً طَیِّبَۃً کَشَجَرَۃٍ طَیِّبَۃٍ اَصْلُہَا ثَابِتٌ وَّ فَرْعُہَا فِی السَّمَآءِ تُؤْتِیْٓ اُکُلَہَا کُلَّ حِیْنٍ بِاِذْنِ رَبِّہَا وَ یَضْرِبُ اللّٰہُ الْاَمْثَال للنَّاسِ لَعَلَّہُمْ یَتَذَکَّرُوْنَ) (ابراہیم : ٢٤، ٢٥) ” کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ اللہ نے ایک پاکیزہ کلمہ کی مثال بیان فرمائی ہے، جو ایک پاکیزہ درخت کی طرح ہے جس کی جڑ مضبوط ہے اور جس کی شاخیں آسمان میں پھیلی ہوئی ہیں، وہ اپنے رب کے حکم سے ہر وقت اپنا پھل دیتا ہے اور ” اللہ“ لوگوں کے لیے مثالیں بیان کرتا ہے، تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں۔“ عمل صالح سے مراد سب سے پہلے اسلام کے پانچ بنیادی ارکان ہیں۔ عمل صالح کو قرآن مجید نے ” اَلْبِرُّ“ کے نام سے بھی بیان کیا ہے۔ ” نیکی صرف مشرق و مغرب کی طرف منہ کرنے میں نہیں۔ حقیقتاً نیکی یہ ہے جو اللہ، قیامت کے دن، فرشتوں، کتاب اور نبیوں پر ایمان رکھنے والے۔ جو لگ ” اللہ“ کی محبت کے لیے مال رشتہ داروں، یتیموں، مسکینوں، مسافروں اور سوال کرنے والوں کو دیں، غلاموں کو آزاد کریں نماز کی پابندی اور زکوٰۃ کی ادائیگی کریں، اپنے وعدے پورے کریں، تنگدستی اور لڑائی کے وقت صبر کریں، یہی لوگ سچے اور یہی پرہیزگار ہیں۔“ (البقرۃ: ١٧٧) وَتَوَاصَوْ ا بالْحَقِّ: ” الحق“ سے مراد وہ سچائی ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کی راہنمائی کے لیے انبیاء ( علیہ السلام) کے ذریعے نازل فرمائی ہے۔ اب اس سے مراد قرآن مجید اور حدیث رسول ہے جو لوگ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائیں ان پر فرض ہے کہ وہ اپنی استعداد کے مطابق اس حق پر عمل کرتے ہوئے اور اس کی ایک دوسرے کو تبلیغ کرتے رہیں۔ کیونکہ اس کا بنیادی تقاضا ہے کہ جو آدمی حق کو حق سمجھ کرقبول کرچکا ہے اس کے لیے یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ اسے اپنی ذات تک محدود رکھے اسی لیے حکم ہے : ” تم میں سے ایک جماعت ایسی ہونی چاہیے جو خیر کی طرف بلائے‘ نیک کاموں کا حکم کرے اور برے کاموں سے روکے اور یہی لوگ نجات پانے والے ہیں۔“ (آل عمران : ١٠٤) (عَنْ تَمِیمٍ الدَّارِیِّ أَنَّ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَال الدِّین النَّصِیحَۃُ قُلْنَا لِمَنْ قَالَ لِلَّہِ وَلِکِتَابِہِ وَلِرَسُولِہِ وَلأَءِمَّۃِ الْمُسْلِمِینَ وَعَامَّتِہِمْ) (رواہ مسلم : باب بَیَانِ أَنَّ الدِّین النَّصِیحَۃُ) ” حضرت تمیم داری (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا دین نصیحت ہے تمیم داری (رض) کہتے ہیں ہم نے عرض کی اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! کس کے لیے؟ آپ نے فرمایا اللہ، اس کی کتاب، اس کے رسول کی، مسلمانوں کے ائمہ اور عام لوگوں کی۔“ ” حضرت ابو سعید خدری (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا آپ نے فرمایا جس شخص نے برائی کو دیکھا اور اس نے اسے اپنے ہاتھ سے ختم کیا تو وہ بری ہوگیا اگر اس میں برائی کو ہاتھ سے روکنے کی طاقت نہیں اور اس نے اسے اپنی زبان سے منع کیا وہ بھی بری ہوا۔ اس نے زبان سے روکنے کی طاقت نہ پائی مگر اس نے اسے اپنے دل سے برا سمجھا تو وہ بھی بری ہوگیا مگر یہ سب سے کمتر ایمان ہے۔“ (رواہ النسائی : باب تَفَاضُلِ أَہْلِ الإِیمَانِ، قال البانی صحیح) ” پہلی خرابی بنی اسرائیل میں یہ آئی تھی کہ ایک شخص دوسرے شخص سے ملتا اور اس سے کہتا اللہ سے ڈر اور اپنی حرکات سے باز آجا۔ کیونکہ یہ کام تیرے لیے درست نہیں۔ جب دوسرے دن اس سے ملتا تو برا کام اسے اس کے ساتھ کھانے پینے اور بیٹھنے سے نہ روکتا۔ جب انہوں نے ایسا کیا تو اللہ تعالیٰ نے ان کے ایک دوسرے کے ساتھ دل ملا دیے۔ مزید فرمایا : بنی اسرائیل میں سے جن لوگوں نے کفر کیا تو اللہ تعالیٰ نے ان پر داؤد اور عیسیٰ (علیہ السلام) کی زبان سے لعنت کی۔۔ پھر فرمایا : ہرگز نہیں، اللہ کی قسم! تم ضرور نیکی کا حکم دو اور برے کاموں سے منع کرو اور ظالم کے ہاتھ پکڑ کر اس کو حق کی طرف اس طرح جھکاؤ گے جیسا اسے جھکانے کا حق ہے اور اس کو حق پر ٹھہراؤ جیساکہ حق پر ٹھہرانے کا حق ہے۔“ (رواہ أبوداوٗد : کتاب الملاحم، باب الأمر والنھی) وَتَوَاصَوْا بالصَّبْرِ: اہل لغت نے صبر کا معنٰی باندھنا اور روکنا لکھا ہے۔ شرعی اصطلاح میں صبر قوت برداشت‘ قوت مدافعت کو بحال رکھنے اور طبیعت کو شریعت کا پابند بنانے کا نام ہے۔ جو لوگ عسر یُسر میں اس بات پر قائم رہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں آخرت میں بغیرحساب کے جنت میں داخلہ فرمائے گا اور دنیا میں ان کی دستگیری کرے گا۔ (اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الصَّابِرِیْنَ) (البقرۃ: ١٥٢) ” اللہ کی رفاقت اور دستگیری صبر کرنیوالوں کے لیے ہے۔“ (وَاسْتَعِیْنُوْا باالصَّبْرِ وَالصَّلٰوۃِ) (البقرۃ: ١٥٢) ” صبر اور نماز کے ذریعے اللہ کی مدد طلب کیجیے۔“ (اِنَّمَا یُوَفَّی الصَّابِرُوْنَ اَجْرَھُمْ بِغَیْرِحِسَابِ) ( الزمر : ١٠) ” صبر کرنیوالوں کی جزاء حساب و کتاب کے بغیر جنت کا داخلہ ہے۔“ (یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اصْبِرُوْا وَ صَابِرُوْا وَ رَابِطُوْا وَ اتَّقُوا اللّٰہَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ) (آل عمران : ٢٠٠) ” اے ایمان والو! تم ثابت قدم رہو اور ایک دوسرے کوتھامے رکھو اور جہاد کی تیاری کرتے رہو اور اللہ سے ڈرتے رہو تاکہ تم کامیاب ہوجاؤ۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے قسم اٹھا کر فرمایا ہے کہ انسان نقصان میں جارہا ہے۔ ٢۔ نقصان سے بچنے کی پہلی شرط یہ ہے کہ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لایاجائے۔ ٣۔ جو لوگ ایمان لانے کے ساتھ صالح اعمال، ایک دوسرے کو حق اور صبر کی تلقین کریں گے وہ نقصان سے بچ جائیں گے۔ تفسیربالقرآن ایمان اور اس کے بنیادی تقاضے : ١۔ غیب پر ایمان لانا۔ (البقرۃ: ١) ٢۔ قرآن مجید اور پہلی آسمانی کتابوں پر ایمان لانا۔ (البقرۃ: ٤) ٣۔ اللہ اور کتب سماوی پر ایمان لانا۔ (البقرۃ: ١٣٦) ٤۔ آخرت پر یقین رکھنا۔ (البقرۃ: ٤) ٥۔ پہلے انبیاء پر ایمان لانا اور ان میں فرق نہ کرنا۔ (آل عمران : ٨٤) ٧۔ اللہ اور اس کے رسول کے احکامات کے درمیان فرق نہ کرنا۔ (النساء : ١٥١) ٨۔ اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حکم کی اتباع کرنا۔ (آل عمران : ٣٢) ایمان کی تفصیل۔ (البقرۃ: ٢٨٥) العصر
2 العصر
3 العصر
0 سورۃ الہمزہ کا تعارف اس کا نام اس کے تیسرے لفظ میں موجود ہے۔ اس کا ایک رکوع ہے جو نو آیات پر محیط ہے یہ سورت مکہ کے ابتدائی دور میں نازل ہوئی اس میں انسان کو تین بری عادتوں سے بچنے کی تلقین کی گئی ہے۔ جس میں ایک عادت مال کے بارے میں حد سے زیادہ حریص ہونا ہے۔ حریص انسان سمجھتا ہے کہ اس کا مال ہمیشہ رہے گا حالانکہ نہ اس کا مال ہمیشہ رہے گا نہ وہ خود باقی رہے گا۔ ایسے شخص کو اللہ تعالیٰ کی بھڑکائی ہوئی آگ میں پھینکا جائے گا جس میں جہنمیوں کو ڈھانپ دیا جائے گا۔ الهمزة
1 فہم القرآن ربط سورت : العصر میں انسان کے نقصان اٹھانے کی بات ہوئی یہاں بتلایا ہے کہ جو لوگ آخرت میں نقصان اٹھائیں گے وہ یہ ہوں گے جو آخرت کی فکر کرنے کی بجائے دنیا کا مال گن گن کر رکھتے تھے اور اس کا حق ادا نہیں کرتے تھے۔ ہلاکت ہے اس شخص کے لیے جو لوگوں کی عیب جوئی کرتا اور ان کی پیٹھ پیچھے ان کی غیبت کرتا ہے۔ ” ھُمَزَۃٍ“ اور ” لُمَزَۃِ“ الگ الگ معنٰی رکھنے کے باوجود ایک دوسرے کے مترادف کے طور پر بھی استعمال ہوتے ہیں۔ اس لیے کچھ مفسرین نے دونوں کا ایک ہی مفہوم بیان کیا ہے۔ بنیادی طور پر ” ھُمَزَۃٍ“ اور ” لُمَزَۃِ“ میں ایک لطیف فرق ہے۔” ھُمَزَۃٍ“ کا معنٰی عیب جوئی اور طعن زنی کرنا ہے۔” لُمَزَۃِ“ کا معنٰی چغل خوری کرنا ہے۔ جس میں یہ عیب پائے جائیں اس کے لیے ہلاکت ہوگی۔ دنیا میں ایسے شخص کے لیے ہلاکت یہ ہے کہ بالآخر وہ لوگوں کی نظروں میں حقیر اور ذلیل ہوجاتا ہے کیونکہ اس کی چغل خوری کی وجہ سے لوگوں میں نفرتیں پیدا ہوتیں ہیں اور اس کی عیب جوئی اور طعنہ زنی کی وجہ سے لوگ اس کے ساتھ میل جول رکھنے سے اجتناب کرتے ہیں،” وَیْلٌ“ کا دوسرا معنٰی جہنم ہے، جو شخص یہ عادتیں رکھتا ہے وہ جہنم میں پھینکا جائے گا۔ ایسے شخص کے پاس مال ہو تو وہ اسے خرچ کرنے کی بجائے گِن گِن کر رکھتا ہے اور سمجھتا ہے کہ اس کا مال اس کے پاس ہمیشہ رہے گا۔ ایسا شخص وہ پَر لے درجے کا بخیل ہوتا ہے، بخیل آدمی خیال کرتا ہے کہ خرچ کرنے سے اس کا مال ختم ہوجائے گا، جب مال ختم ہوجائے گا تو پھر میں کس طرح زندگی بسر کروں گا۔ گویا کہ اس کا اپنے رب کی رزّاقی پر یقین نہیں ہوتا حالانکہ مال کسی کا ساتھ نہیں دیتا، کتنے مالدار مریض ہیں کہ سب کچھ ہونے کے باوجود نہ میٹھی چیز کھا سکتے ہیں اور نہ نمکین کھا سکتے ہیں۔ کمزوری لاحق ہونے کے باوجود کوئی طاقتورچیز نہیں کھاسکتے۔ کیونکہ اس طرح ان کی بیماریوں میں اضافہ ہوجاتا ہے، یہاں تک کہ ڈاکٹر بھی انہیں لا علاج قرار دے دیتے ہیں۔ جس دولت کو یہ سنبھال سنبھال کر رکھتارہا اور حق داروں کا حق ادا نہ کیا اس کے مال نے دنیا میں ہی اس کا ساتھ چھوڑ دیا ہے حالانکہ یہ سمجھتا تھا کہ مشکل کے وقت میرا مال مجھے کام دے گا۔ ایسے بخیل کو ضرور ” حُطَمَۃُ“ میں پھینکا جائے گا۔ اے نبی آپ نہیں جانتے کہ ” حُطَمَۃُ“ کیا ہے۔ وہ اللہ کی بھڑکائی ہوئی آگ ہے جو لوگوں کے دلوں تک پہنچ جائے گی اور انہیں پوری طرح ڈھانپ لے گی، اس آگ کے شعلے اس قدر بلند ہوں گے کہ لمبے لمبے ستونوں کی شکل میں ہوں گے، جہنمیوں کو ان ستونوں کے ساتھ باندھ کر اوپر سے ڈھانپ دیا جائے گا، یہ اللہ تعالیٰ کی آگ ہوگی جسے مجرموں کے لیے بھڑکایا گیا ہے جو لوگوں کے دلوں پر چڑھ جائے گی۔ دلوں کا ذکراس لیے کیا گیا ہے کہ طعنہ زنی کرنا، لوگوں کی چغل خوری کرنا اور بخل کرنے والے کے دل میں یہ جرائم رچ بس جاتے ہیں۔ ” اَلَّتِیْ تَطَّلِعُ عَلَی الْاَفْءِدَۃِ“ کے الفاظ استعمال فرما کر ایسے لوگوں کو انتباہ کیا گیا ہے کہ اگر اپنے دلوں اور جسموں کو آگ سے بچانا چاہتے ہو تو دل کے بخل اور کمینی حرکات سے باز آجاؤ ! ورنہ تمہیں بھڑکتی ہوئی آگ میں پھینک دیا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے اسے اپنی آگ قرار دے کر مزید ناراضگی اور غضب کا اظہار کیا ہے جس سے بچنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ ” حضرت عمرو بن شعیب اپنے باپ سے وہ اپنے دادا (رض) سے وہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : قیامت کے دن متکبر لوگ چیونٹیوں کی صورت میں لائے جائیں گے انہیں ہر طرف سے ذلت ڈھانپے ہوئے ہوگی اور انہیں بولس نامی جہنم کی جیل میں لے جایا جائے گا ان پر آگ کے شعلے بلند ہورہے ہوں گے اور انہیں جہنمیوں کی زخموں کی پیپ پلائی جائے گی۔“ (رواہ الترمذی : کتاب صفۃ القیامۃ والرقائق والورع، باب منہ ) مسائل ١۔ عیب جوئی اور طعنہ دینے والے اور چغل خوری کرنے والے کے لیے ہلاکت ہے۔ ٢۔ مال کو گِن گِن کر رکھنے والے بخیل کے لیے ہلاکت ہے۔ ٣۔ طعنہ دینے والے، چغل خور اور بخیل کو بھڑکتی ہوئی آگ میں پھینکا جائے گا۔ ٤۔ جہنم کی آگ اللہ کے حکم سے بھڑکائی گئی ہے جو مجرموں کے دلوں پر چڑھ جائے گی۔ ٥۔ جہنم میں مجرموں کو آگ کے ستونوں سے باندھ کر اوپر سے ڈھانپ دیا جائے گا۔ الهمزة
2 الهمزة
3 الهمزة
4 الهمزة
5 الهمزة
6 الهمزة
7 الهمزة
8 الهمزة
9 الهمزة
0 سورۃ الفیل کا تعارف اس کا نام اس کی پہلی آیت کے آخر میں ذکر ہوا ہے اس کی پانچ آیات ہیں جو ایک چھوٹے سے رکوع پر مشتمل ہیں یہ سورت مکہ معظمہ کے ابتدائی دور میں نازل ہوئی۔ اس میں ابرہہ اور اس کی فوج کی ہلاکت کا ذکر کیا گیا ہے جس میں ہر باغی شخص کے لیے ایک انتباہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہلاک کرنا چاہے تو وہ چھوٹے چھوٹے پرندوں سے بڑی سے بڑی فوج کو ہلاک کرسکتا ہے۔ الفیل
1 فہم القرآن ربط سورت : سورۃ الہمزہ میں آخرت میں ظالموں کی سزا بیان کی گئی ہے الفیل میں یہ بتلایا ہے کہ اللہ تعالیٰ ظالموں کو آخرت میں ہی نہیں بلکہ کچھ لوگوں کو دنیا میں بھی سزا دیتا ہے جس کی مثال سورۃ الفیل میں بیان کی گئی ہے۔ نبی آخر الزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ولادت باسعادت سے پچاس دن پہلے کا واقعہ ہے کہ حبشہ کے حکمران ابرہہ نے ساٹھ ہزار کے لشکر کے ساتھ مکہ معظمہ کی طرف پیش قدمی کی اس کے لشکر میں دس بارہ ہاتھی بھی تھے۔ ابرہہ خود محمود نامی دیوہیکل ہاتھی پر سوار تھا۔ عربوں نے اس سے پہلے ہاتھی نہیں دیکھے تھے اس لیے عرب اس واقعہ کو اصحاب الفیل کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ اہل تاریخ نے مکہ پر ابرہہ کی جارحیت کا سبب یہ بیان کیا ہے کہ اس نے یمن کے دارالحکومت صنعاء میں ایک عالیشان کلیسا تیار کروایا اور لوگوں میں اعلان کیا کہ وہ بیت اللہ کی بجائے کلیسا کی زیارت اور حج کیا کریں لیکن لوگ کلیسا کی طرف متوجہ نہ ہوئے۔ ابرہہ کی مہم جاری تھی کہ کسی آدمی نے کلیسا میں غلاظت پھینک دی، بعض کا خیال ہے کہ غلاظت کی بجائے کسی نے کلیسا کو آگ لگا دی۔ ابرہہ اس حرکت پر طیش میں آیا جس وجہ سے اس نے بیت اللہ کو شہید کرنے کا فیصلہ کیا، اور ساٹھ ہزار کا لشکر لے کر مکہ معظمہ کی طرف بڑھا۔ راستے میں کچھ قبائل نے اسے روکنے کی کوشش کی لیکن ابرہہ کے لشکر کا مقابلہ نہ کرسکے، کچھ قبائل نے اپنے بتوں کی حفاظت کی خاطر ابرہہ کی حمایت کی۔ ابرہہ کا لشکر منٰی اور مزدلفہ کے درمیان پہنچ گیا جسے و ادی محسّر کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ حکم ہے کہ جب حجاج کرام اس وادی سے گزریں تو انہیں تیزروی سے گزر جانا چاہیے۔ (رواہ الترمذی : بَابُ مَا جَاءَ أَنَّ عَرَفَۃَ کُلَّہَا مَوْقِفٌ) ابرہہ کی فوج کو دیکھ کر قریش کے لوگوں نے مکہ خالی کردیا اور پہاڑوں میں رو پوش ہوگئے۔ مکہ سے نکلتے وقت قریش کے لوگوں نے بتوں کی بجائے اللہ تعالیٰ سے اخلاص کے ساتھ بیت اللہ کی حفاظت کے لیے دعا کی۔ دعا کرنے والوں میں سردار عبدالمطلب بھی شامل تھے اسی دوران ابرہہ کی فوج نے سردار عبد المطلب کے دوسواونٹ پکڑلیے سردار عبد المطلب کو اپنے اونٹوں کا پتہ چلا تو وہ ابرہہ کے پاس گئے ابرہہ ان کی شخصیت سے بہت متاثر ہوا، اس نے آگے بڑھ کر پوچھا کہ آپ کس لیے تشریف لائے ہیں۔ سردار عبدالمطلب نے اپنے اونٹوں کی واپسی کا مطالبہ کیا جس پر اس نے تعجب کا اظہار کرتے ہوئے کہا میرا خیال تھا کہ آپ بیت اللہ کے تحفظ کی درخواست کریں گے لیکن آپ اپنے اونٹوں کا مطالبہ کررہے ہیں۔ اس پر سردار عبدالمطلب نے فرمایا اونٹ میرے ہیں اس لیے میں ان کی واپسی کا مطالبہ کرتاہوں۔ کعبہ اللہ کا گھر ہے وہ اس کی خود حفاظت کرے گا۔ ابرہہ نے متکبرانہ انداز میں مسکراتے ہوئے کہا۔ آپ اپنے اونٹ واپس لے جائیں ! کل دیکھوں گا کہ میرے مقابلے میں کون آتا ہے اگلے دن اس نے فوج کو بیت اللہ کی طرف پیش قدمی کا حکم دیا ابھی فوج حرکت میں آئی تھی کہ اللہ تعالیٰ نے چھوٹے چھوٹے پرندوں کے جھنڈ کے جھنڈ بھیجے جنہوں نے اپنی چونچوں اور پروں میں چھوٹی چھوٹی کنکریاں تھامی ہوئی تھیں، دیکھتے ہی دیکھتے انہوں نے ابرہہ اور اس کے لشکر پر کنکریاں پھینکنا شروع کیں، جس فوجی پر کنکری پڑتی وہ کھجلی کرتا اور اس کے جسم سے خون بہنے لگتایہاں تک کہ اس کے جسم کے لوتھڑے گرنے شروع ہوجاتے۔ اس حالت میں لشکر کے لوگ ایک دوسرے کو روندتے ہوئے بھاگ کھڑے ہوئے اور ابرہہ بھی یمن کی سرحد کے قریب جا کر ذلت کی موت مرا۔ یاد رہے کہ قرآن مجید کے کئی مقامات پر ” اَلَمْ تَرَ“ کے الفاظ ” اَلَمْ تَعْلَمْ“ کے معنٰی میں استعمال ہوئے ہیں جس کی واضح دلیل یہ ہے کہ قرآن مجید نے ایک مقام پر انسان کو مخاطب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے۔ ” کیا انسان دیکھتا نہیں ہے کہ ہم نے اسے نطفہ سے پیدا کیا اور پھر وہ واضح طور پر جھگڑالو بن جاتا ہے۔“ (یٰس : ٧٧) غور فرمائیں کہ کون ایسا انسان ہے جو نطفہ سے پیدا ہوتے ہوئے خود کو دیکھتا ہے۔ لہٰذا یہاں ” اَلَمْ تَرَ“ کا معنٰی ” اَلَمْ تَعْلَمْ“ ہے۔ یہاں تمام عربوں بالخصوص اہل مکہ کو مخاطب کیا گیا ہے کہ کیا یہ نہیں جانتے کہ آپ کے رب نے اصحاب الفیل کے ساتھ کیا سلوک کیا؟ بتلانا یہ مقصود ہے کہ ابھی تھوڑے عرصے کی بات ہے کہ تمہارے سامنے ابرہہ اور اس کے لشکر کو اس لیے تہس نہس کیا گیا کہ وہ اللہ کے گھر کو مٹانے کے لیے آیا تھا لہٰذا تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ جو رب اپنے گھر کے تحفظ کے لیے ابرہہ اور اس کے ساتھیوں کو تہس نہس کرسکتا ہے کیا وہ اپنے رسول اور دین کی مدد نہیں کرے گا؟ گویا کہ ایک طرف اہل مکہ کو متنبہ کیا اور دوسری طرف نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے اصحاب کو تسلی دی گئی ہے کہ فکر نہ کریں عنقریب یہ لوگ ہلاک ہوجائیں گے۔ یادرہے کہ اس زمانے میں ابھی سینکڑوں لوگ زندہ تھے جن کے سامنے ابرہہ اور اس کا لشکر تباہ ہوا تھا کیونکہ اس سورت کے نزول کے وقت اس واقعہ کو زیادہ سے زیادہ پچاس سال گزرے تھے۔ اس لیے ہر کسی کو معلوم تھا کہ ابرہہ اور اس کا لشکر کس طرح تباہ ہوا تھا۔ اس بنا پر ” اَلَمْ تَرَ کَیْفَ فَعَلَ رَبُّک بِاَصْحٰبِ الْفِیْلِ“ کے الفاظ استعمال فرما کر اہل مکہ کو انتباہ کیا گیا کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مخالفت سے باز آجاؤ ورنہ تمہارا حشر بھی ابرہہ اور اس کے ساتھیوں جیسا ہوگا۔ چنانچہ ٹھیک کچھ عرصہ بعد بدر میں کمزور مسلمانوں کے ہاتھوں قریش مکہ کا وہی حشر ہوا جو ابرہہ اور اس کے ساتھیوں کا ہوا تھا۔ قرآن مجید نے اسی واقعہ کو مختصر الفاظ میں یوں بیان کیا ہے۔ کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ آپ کے رب نے ہاتھی والوں کے ساتھ کیا سلوک کیا۔ کیا اس نے ان کی تدبیر کو بے کار نہیں بنایا اور ان پر پرندوں کے جھنڈ کے جھنڈ بھیجے جو ان پر سنگ باری کرتے تھے اور انہیں کھائے ہوئے بھوسے کی طرح کردیا۔ بھوسے کا لفظ اس لیے استعمال کیا کہ ایک طرف چھوٹے چھوٹے پرندوں نے سنگ باری کرکے ان کا کچومبر نکال دیا اور دوسری طرف گھوڑ سوار اور ہاتھیوں نے ایک دوسرے کو اس طرح کچلا جس طرح چوپائے سیر ہونے کے بعد بھوسے کو اپنے پاؤں تلے روند ڈالتے ہیں۔ قرآن مجید نے ابرہہ کی جارحیت کے لیے ” کَیْدَ“ کا لفظ استعمال فرمایا ہے۔ حالانکہ ” کَیْدَ“ کا لفظ عام طور پر خفیہ تدبیر یا سازش کے لیے استعمال ہوتا ہے، اس کے مفسرین نے درج ذیل مفہوم ذکر کیے ہیں۔ ١۔ ابرہہ نے عربوں کے تجارتی راستوں پر قبضہ کرنے کے لیے کلیسا کی توہین کا بہانہ بنایاتھا۔ ٢۔ مکہ کے لوگ حرمت والے مہینوں میں لڑائی سے بچتے تھے اس لیے ابرہہ نے مکہ پر حرمت والے مہینے میں حملہ کیا تاکہ مکہ والے مقابلہ نہیں کریں گے اس طرح کسی مزاحمت کے بغیر ہم مکہ پر قابض ہوجائیں گیلیکن اللہ تعالیٰ نے اسے ذلّت کی موت سے دوچار کیا۔ ٣۔ بعض مفسرین کے نزدیک ابرہہ نے قربانی کے دن مکہ پر پیش قدمی کی تاکہ قربانی کی مصروفیت کی وجہ سے مکہ والے اپنا دفاع نہ کرسکیں۔ عربی کی مشہور لغت المنجد کے مطابق ” ابابیل“ کا معنٰی غول، گروہ اور جھنڈ ہے۔ یہ کسی پرندے کا نام نہیں ہے۔ حضرت زبیر بن العوام (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ قریش نے اس واقعہ کے بعد دس سال تک ” اللہ“ کے سوا کسی کی عبادت نہ کی۔ (الفتح الکبیر فی ضم الزیادہ : باب الفاء) مسائل ١۔ ہر شخص کو اصحاب الفیل کے واقعہ پر غور کرنا چاہیے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے اصحاب الفیل کے اقدام کو بری طرح ناکام کردیا۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ نے اصحاب الفیل کو چھوٹے چھوٹے پرندوں کے ذریعے ذلت کی موت مارا۔ ٤۔ چھوٹے پرندوں نے اصحاب الفیل کو کھائے ہوئے بھوسے کی طرح کردیا۔ الفیل
2 الفیل
3 الفیل
4 الفیل
5 الفیل
0 سورۃ قریش کا تعارف اس سورت کی چار آیات میں جو ایک رکوع قرار دی گئی ہیں اس کا نام اس کی پہلی آیت سے لیا گیا ہے۔ یہ سورت بھی مکہ معظمہ میں نازل ہوئی اس میں قریش کو تین احسان بتلا کر حکم دیا گیا ہے کہ انہیں دوسروں کی عبادت سے ہٹ کر صرف کعبہ کے رب کی عبادت کرنی چاہیے یہی کعبہ کی تعمیر اور انسان کی تخلیق کا مقصد ہے۔ قریش
1 فہم القرآن ربط سورت : اللہ تعالیٰ نے ابابیل کے ذریعے بیت اللہ اور قریش کی حفاظت فرمائی، لیکن اس کے باوجود قریش ” اللہ“ کی عبادت کرنے کے لیے تیار نہیں تھے، اس لیے انہیں پھر احساس دلایا گیا ہے۔ عرب کے قبائل میں قریش سب سے معزز اور باثر قبیلہ تھا اور اسی کی ایک شاخ بنی ہاشم تھے جو سب سے ممتاز اور محترم سمجھتے جاتے تھے، اسی قبیلے کے سردار عبدالمطلب تھے ان کے چھوٹے بیٹے جناب عبداللہ کے گھر نبی آخر الزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پیدا ہوئے آپ کے خاندان کو بیت اللہ کی تولیّت اور حجاج کرام کی خدمت کا اعزاز حاصل تھا۔ جس بنا پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا خاندان اہل مکہ کا نمائندہ سمجھا جاتا تھا۔ اس لیے اس سورت میں قریش کو مخاطب کیا گیا ہے جس میں تمام عرب بھی شامل ہیں۔ ارشاد ہوا کہ قریش کو گرمی اور سردیوں کے سفر سے مانوس کردیا گیا لہٰذا ان کا اولین فرض ہے کہ وہ صرف کعبہ کے رب کی عبادت کریں، جس نے انہیں گرمیوں اور سردیوں کے سفر سے مانوس کیا اور انہیں ہر قسم کے رزق کی فراوانی اور امن و امان سے سرفراز فرمایا۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنی بیوی ہاجرہ (رض) اور اپنے بیٹے اسماعیل (علیہ السلام) کو بیت اللہ کے قریب ٹھہرایا تو ان الفاظ میں اپنے رب کے حضور دعا کی۔ ” اے ہمارے رب ! بے شک میں نے اپنی اولاد کو اس وادی میں لا بسایا ہے، یہاں کھیتی باڑی نہیں ہے، تیرے حرمت والے گھر کے پاس، اے ہمارے رب ! تاکہ یہ نماز قائم کریں، لوگوں کے دلوں کو ان کی طرف مائل کر دے اور انہیں پھلوں سے رزق عطا فرما، تاکہ وہ شکر ادا کریں۔“ (ابراہیم : ٣٧) اس دعا کا نتیجہ تھا اور ہے کہ ہر دور میں مکہ میں رزق اور پھلوں کی فراوانی رہی ہے اور قیامت تک رہے گی اور ہمیشہ سے یہ شہر امن وامان کا گہوارہ چلا آرہا ہے اور رہے گا، کسی علاقے میں رہنے اور ترقی کرنے کے لیے دوچیزیں بڑی اہمیت کی حامل ہوتی ہیں ایک رزق کی فراوانی اور دوسرا امن وامان کی ضمانت۔ ان میں سے کسی ایک چیز کا فقدان ہو تو وہاں رہنا انتہائی مشکل ہوجاتا ہے قریش کو یہ نعمتیں وافر مقدار میں میسر تھیں۔ جس دور میں نقل و حمل اور مواصلات کے ذرائع اس قدر عام اور تیز نہیں تھے اس دور میں بھی مکے کے بازاروں میں خوردونوش کی ہر چیز کھلے عام ملتی تھیں۔ امن وامان کا عالم یہ تھا کہ عرب میں تنہا سفر کرنا تو درکنار قافلے بھی حفاظتی دستوں کے بغیر سفر نہیں کرسکتے تھے۔ افراتفری کے اس عالم میں قریش سردیوں میں یمن کے راستے ہندوستان تک تجارت کرتے اور گرمیوں میں شام، فلسطین اور مشرق وسطیٰ کی منڈیوں میں خرید وفروخت کرتے تھے۔ جونہی لوگوں کو معلوم ہوتا کہ اس قافلے میں قریش کے لوگ بھی موجود ہیں تو بڑے بڑے ڈاکو اس قافلے کا راستہ چھوڑ دیتے تھے۔ یہاں تک کہ قریش کے راہ داری پروانوں پر بھی قافلے امن وامان پاتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے مکہ کے لوگوں کو ان سفروں کے ساتھ اس طرح مانوس کردیا تھا کہ انہیں یہ سفرکسی قسم کا بوجھ محسوس نہیں ہوتے تھے۔ ا سی لیے اس سورت کی ابتدا ” اٖلٰفِ“ کے لفظ سے کی گئی ہے جس کے مفسرین نے تین مفہوم بیان کیے ہیں۔ ١۔ قریش کا گرمی اور سردی کے موسم میں سفر کے ساتھ مانوس کیا جانا۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے گھر کی وجہ سے قریش کو دوسرے عربوں کے مقابلے میں متحد کرنا۔ ٣۔ گرمی اور سردی کے سفروں سے مراد یہ ہے کہ گرمی کے موسم میں قریش کے تجارتی قافلے سفر شام اور فلسطین کی طرف جاتے جو ٹھنڈے علاقے تھے، اور سردی کے موسم میں وہ عرب کے جنوب کی طرف سفر کرتے تھے جو گرم علاقے تھے۔ ان احسانات کا یہ نتیجہ ہونا چاہیے تھا کہ عرب صرف ایک رب کی عبادت کرتے اور نبی آخرالزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت کا ساتھ دیتے لیکن انہوں نے کعبے کے رب کی عبادت اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت قبول کرنے کی بجائے بیت اللہ کے اندر تین سو ساٹھ بت رکھ لیے اور کعبہ کے رب کی خالص عبادت کرنے کی بجائے بتوں کو اس کی عبادت میں شریک کرلیا تھا وہ کسی بت کے ذریعے رزق طلب کرتے، کسی کے واسطے سے، اولاد مانگتے، کسی سے عزت کی درخواست کرتے، کسی کی طفیل بارش کے طلبگار ہوتے، کسی کی حرمت سے دشمن پر غلبہ چاہتے اور کسی کو حاجت روائی اور مشکل کشائی کا ذریعہ سمجھتے تھے، حالانکہ حکم یہ تھا کہ خالصتاً کعبہ کے رب کی عبادت کی جائے۔ تفسیر بالقرآن تمام انبیائے کرام (علیہ السلام) کی دعوت اور اس کا جامع مفہوم : ١۔ نوح (علیہ السلام) کا فرمان کہ اللہ کی عبادت کرو۔ (ھود : ٢٦) ٢۔ ھود (علیہ السلام) نے اللہ کی عبادت کرنے کی دعوت دی۔ (الاعراف : ٦٥) ٣۔ صالح (علیہ السلام) نے اللہ کی عبادت کرنے کی دعوت دی۔ (الاعراف : ٧٣) ٤۔ شعیب (علیہ السلام) نے اللہ کی عبادت کرنے کی طرف بلایا۔ (الاعراف : ٨٥) (یوسف : ٤٠) (المائدۃ: ٧٢) ٥۔ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ” اللہ“ نے آپ سے پہلے جتنے رسول بھیجے ہیں انہیں یہی حکم دیا کہ وہ لوگوں کو سمجھائیں کہ وہ صرف ایک ” الٰہ“ کی عبادت کریں۔ (الانبیاء : ٢٥) (الانعام : ١٦٣، ١٦٤) (آل عمران : ٦٤) قریش
2 قریش
3 قریش
4 قریش
0 سورۃ الماعون کا تعارف یہ سورت سات آیات اور ایک رکوع پر مشتمل ہے۔ اس کا نام اس کے آخری لفظ پر رکھا گیا ہے۔ صحابہ کا اتفاق ہے کہ یہ مکہ میں نازل ہوئی تھی اس میں جو شخص عملی طور پر قیامت کو جھٹلاتا ہے اس کی دینی اور اخلاقی کمزوریوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ الماعون
1 فہم القرآن ربط سورت : قریش کی ناشکری اور کفر و شرک کا سب سے بڑا سبب یہ تھا کہ وہ قیامت کی جواب دہی کے عقیدہ پر یقین نہیں رکھتے تھے۔ ” اَلدِّیْنِ“ کا لفظ قرآن مجید نے کئی معنوں میں استعمال کیا ہے۔ سیاق وسباق کے حوالے سے دیکھا جائے تو یہاں ” اَلدِّیْنِ“ کا لفظ قیامت کے لیے استعمال ہوا ہے۔ ارشاد ہوا کہ کیا آپ نے اس شخص کو نہیں دیکھا جو قیامت کو جھٹلاتا ہے یہ ایسا شخص ہے جو یتیم کو دھکے دیتا ہے اور مسکین کو کھانا کھلانے کی ترغیب نہیں دیتا۔ یاد رہے کہ جس شخص کا قیامت پر ایمان نہیں ہوتا وہ نیکی اس جذبے کے ساتھ نہیں کرتا کہ مرنے کے بعد اسے اس کا اجر دیا جائے گا۔ ایسا شخص مال کی محبت میں دوسرے لوگوں سے سخت اور حریص ہوتا ہے وہ ایسی جگہ پر مال خرچ نہیں کرتا جہاں اسے کسی مفاد کے حصول کی توقع نہیں ہوتی، یہی وجہ ہے کہ اس شخص کے بارے میں کہا گیا ہے کہ آپ ایسے شخص کے کردار کو نہیں جانتے جو یتیم کو دھکے دیتا ہے اور دوسرے کو مسکین کو کھانا کھلانے کی تلقین نہیں کرتا۔ یہاں مسکین کو خود کھانانہ کھلانے کی بجائے دوسرے کو ترغیب نہ دینے کی بات کی گئی ہے جس کا واضح مطلب یہ ہے کہ آدمی کو نہ صرف خود یتیم اور مسکین کے حقوق کا خیال رکھنا چاہیے بلکہ دوسروں کو بھی ان کے حقوق ادا کرنے کی تلقین کرنی چاہیے۔ جس معاشرے میں یتیم کو دھکے دیئے جائیں اور مسکین بھوکے پھریں وہ معاشرہ اعتقاداً یا عملاً قیامت کا منکر ہوتا ہے اور باہمی محبت سے محروم ہوجاتا ہے اس سے نفرتیں جنم لیتی ہیں، جس معاشرے میں نفرتیں ایک حد سے آگے بڑھ جائیں، وہ معاشرہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجاتا ہے اور بالآخر اس قوم کا وجود باقی نہیں رہتا۔ ایسے معاشرے اور قوم کودنیا میں بھی اپنے کیے کی سزا ملتی ہے اور آخرت میں بھی اس سے مسؤلیّت ہوگی۔ اعتقاداً یا عملاً قیامت کی تکذیب کرنے والے شخص کی حالت یہ ہوتی ہے کہ اس کے دل میں نماز پڑھنے کا جذبہ پیدا نہیں ہوتا اگر عادتاً یا ماحول کی مجبوری سے اسے نماز پڑھنی پڑے تو وہ نماز سے بے خبر ہوتا ہے کیونکہ یہ لوگ عادتاً یا لوگوں کو دکھانے کے لیے نماز پڑھتے ہیں اس لیے ایسے لوگ اخلاقی اعتبار سے اس قدر گرے ہوئے ہوتے ہیں کہ اپنے عزیز و اقرباء اور اڑوس پڑوس میں برتنے کے لیے معمولی چیز بھی کسی کو نہیں دیتے۔ مثلاً ماچس، نمک، مرچ، استعمال کرنے کے لیے چھری، کلہاڑی، سائیکل اور انتہائی مجبوری کے وقت اپنی گاڑی پر کسی کو سوار کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔” ساھون“ کے مفسرین نے چار مفہوم ذکر کیے ہیں۔ ١۔ نماز پڑھنا مگر اکثر اوقات نماز کے مقصد سے بے خبررہنا۔ ٢۔ وقت پر نماز ادا کرنے کی بجائے بے وقت اٹھنا اور جلدی جلدی ٹھونگے مارنا۔ ٣۔ پانچ نمازیں پڑھنے کی بجائے کچھ کو چھوڑ دینا۔ ٤۔ کلیتاً نماز کی ادائیگی سے غافل رہنا۔ (عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ (رض) أَنَّ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بَعَثَ مُعَاذًا إِلَی الْیَمَنِ فَقَالَ اُدْعُھُمْ إِلٰی شَھَادَۃِ أَنْ لَّاإِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَأَنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ فَإِنْ ھُمْ أَطَاعُوْا لِذٰلِکَ فَأَعْلِمْھُمْ أَنَّ اللّٰہَ قَدِ افْتَرَضَ عَلَیْھِمْ خَمْسَ صَلَوَاتٍ فِیْ کُلِّ یَوْمٍ وَّلَیْلَۃٍ فَإِنْ ھُمْ أَطَاعُوْا لِذٰلِکَ فَأَعْلِمْھُمْ أَنَّ اللّٰہَ افْتَرَضَ عَلَیْھِمْ صَدَقَۃً فِیْ أَمْوَالِھِمْ تُؤْخَذُ مِنْ أَغْنِیَاءِھِمْ وَتُرَدُّ عَلٰی فُقَرَاءِھِمْ) (رواہ البخاری : کتاب الزکوٰۃ، باب وجوب الزکوٰۃ) ” حضرت عبداللہ بن عباس (رض) بیان کرتے ہیں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت معاذ (رض) کو یمن کی طرف بھیجتے ہوئے فرمایا کہ یمن والوں کو دعوت دینا کہ وہ گواہی دیں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں اور یقیناً میں اللہ کا رسول ہوں اگر وہ آپ کی بات مان لیں تو انہیں بتلائیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر دن رات میں پانچ نمازیں فرض کی ہیں اگر وہ اس کو بھی مان لیں تو انہیں بتاؤ کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر ان کے اموال میں زکوٰۃ فرض کی ہے جو ان کے امیروں سے لے کر ان کے غریبوں میں تقسیم کی جائے گی۔“ (عَنِ ابْنِ الزُّبَیْرِ یَقُولُ سَمِعْتُ رَسُول اللَّہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَقُولُ لَیْسَ الْمُؤْمِنُ الَّذِی یَشْبَعُ وَجَارُہُ جَاءِعٌ إِلَی جَنْبِہِ) (رواہ البیھیقی : باب صاحِبِ الْمَالِ لاَ یَمْنَعُ الْمُضْطَرَّ فَضْلاً إِنْ کَانَ عِنْدَہُ) ” حضرت عبداللہ بن زبیر (رض) کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے سنا۔ وہ شخص مومن نہیں ہوسکتا جس نے سیر ہو کر کھایا لیکن اس کا ہمسایہ اس کے پہلو میں بھوکا رہا۔“ (عَنْ سَہْلٍ (رض) قَالَ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) أَنَا وَکَافِلُ الْیَتِیمِ فِی الْجَنَّۃِ ہَکَذَا وَأَشَار بالسَّبَّابَۃِ وَالْوُسْطٰی، وَفَرَّجَ بَیْنَہُمَا شَیْءًا) (رواہ البخاری : باب فضل من یعول یتیما) ” حضرت سہل (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : میں اور یتیم کی کفالت کرنے والا جنت میں اس طرح ہوں گے۔ آپ نے شہادت اور درمیانی انگلی سے اشارہ فرمایا اور ان کے درمیان تھوڑا سافاصلہ رکھا۔“ ( عَنِْ عَبْدِ اللہِ الْمُزَنِیّ قَالَ قَالَ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) إِذَا اشْتَرَی أَحَدُکُمْ لَحْمًا فَلْیُکْثِرْ مَرَقَتَہُ فَإِنْ لَمْ یَجِدْ لَحْمًا أَصَابَ مَرَقَۃً وَہُوَ أَحَدُ اللَّحْمَیْنِ) (رواہ الترمذی : بَابُ مَا جَاءَ فِی إِکْثَارِ مَاءِ الْمَرَقَۃِ، ہَذَا حَدِیثٌ غَرِیبٌ) ” حضرت عبداللہ مزنی بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب تم میں سے کوئی گوشت پکائے تو اس کا شوربا زیادہ بنائے کیونکہ اگر گوشت کم ہوجائے تو شوربا میسر ہوگا اور شوربا بھی گوشت کا حصہ ہے۔“ الدّین سے مراد : قانون (یوسف : ٧٦)، اطاعت (الزمر : ١ تا ٣)، نظام حکومت (المومن : ٢٦)، دین (مذہب) (التوبہ : ٢٩) قیامت کے دن (الانفطار : ١٠ تا ١٩، الفاتحہ : ٣) مزید تفصیل کے لیے ایک مرتبہ پھر البیّنہ کی تفسیر ملاحظہ فرمائیں۔ مسائل ١۔ جو شخص یتیم کو دھکے دیتا ہے اور مسکین کو کھانا کھلانے کی ترغیب نہیں دیتا وہ اعتقاداً یا عملاً قیامت کو جھٹلاتا ہے۔ ٢۔ ان نمازیوں کے لیے بربادی ہے جو اپنی نمازوں سے غافل رہتے ہیں۔ ٣۔ وہ شخص بھی برباد ہوگا جو دکھلاوے کے لیے نماز ادا کرتا ہے۔ ٤۔ اس شخص کے لیے ہلاکت ہوگی جو استعمال کے لیے معمولی چیزیں بھی ضرورت مند کو نہیں دیتا۔ تفسیر بالقرآن قیامت کو جھٹلانے والے کی سزا : ١۔ اللہ تعالیٰ کی آیات اور آخرت کو جھٹلانے والوں کے اعمال ضائع ہوجائیں گے۔ (الاعراف : ١٤٧) ٢۔ آخرت کے منکروں کی خواہشات کے پیچھے نہیں لگنا چاہیے۔ ( الانعام : ١٥١) ٣۔ قیامت کے منکر حسرت وافسوس کا اظہار کریں گے۔ (الانعام : ٣١) (الفرقان : ١١) ٤۔ قیامت کے منکر ” اللہ“ کی رحمت سے مایوس ہوں گے۔ (العنکبوت : ٢٣) ٥۔ قیامت کو جھٹلانے اور لوگوں کو اللہ کے راستہ سے روکنے والے کے لیے جلا دینے والا عذاب ہوگا۔ (الحج : ٩) ٧۔ اللہ کی آیات کے ساتھ کفر کرنے والے اور قیامت کو جھٹلانے والے عذاب میں مبتلا کیے جائیں گے۔ (الروم : ١٦) الماعون
2 الماعون
3 الماعون
4 الماعون
5 الماعون
6 الماعون
7 الماعون
0 سورۃ الکوثر کا تعارف یہ سورت مکہ میں نازل ہوئی اس کی تین آیات ہیں جسے ایک رکوع قرار دیا گیا ہے اس کا نام الکوثر ہے جو اس کی پہلی آیت میں موجود ہے۔ اس میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حوض کوثر اور دنیا و آخرت کی خیر کثیر کی خوشخبری دے کر یہ حکم دیا گیا ہے کہ آپ کو نماز پڑھتے رہنا چاہیے اور قربانی دینی چاہیے اس کا صلہ یہ ہوگا کہ آپ کا دشمن بے نام ونشان ہوجائے گا۔ الكوثر
1 فہم القرآن ربط سورت : الماعون میں اس شخص کی مذمت کی گئی ہے جو نماز سے لاپرواہی کرتا ہے اور ضرورت مند کو استعمال کے لیے معمولی چیز بھی نہیں دیتا الکوثر میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خوشخبری دے کر ہر شخص بالخصوص بخیل آدمی کو بتلایا گیا ہے کہ دنیا اور آخرت کی خیر کا حقیقی مالک اللہ تعالیٰ ہے۔ الکوثر کا شان نزول بیان کرتے ہوئے مفسرین نے لکھا ہے کہ مکہ میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دوسرے بیٹے عبداللہ جن کو طاہر اور طیب بھی کہا جاتا ہے فوت ہوگئے اس کی موت پر ابولہب اور اس کے ساتھیوں نے انتہائی کمینگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہرزہ سرائی کی اور کہا ” بَتِرَ مُحَمَّدٌ ھٰذِہِ الَّلیْلَۃَ“ کہ آج رات محمد دم کٹا ہوگیا ہے لہٰذا تھوڑے دنوں کی بات ہے کہ جب خود فوت ہوگا تو اس کا نام اور کام بھی مٹ جائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے اس پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دینے کے ساتھ خوشخبری سنائی کہ ہم نے آپ کو الکوثر سے سرفراز کیا ہے، آپ نہیں بلکہ آپ کا دشمن ہی دم کٹا ہوگا۔ آپ اپنے رب کے حضور نماز پڑھتے رہیں اور اس کی بارگاہ میں قربانی پیش کریں۔ الکوثر کے نزول سے پہلے رب کریم نے رات اور صبح روشن کی قسم اٹھا کر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرمایا کہ آپ کو آپ کا رب اس قدر عطا فرمائے گا کہ آپ خوش ہوجائیں گے۔ (الضّحیٰ: ١ تا ٥) پھر یہ خوشخبری دی گئی کہ ہم نے اس دعوت کے لیے آپ کا سینہ کھول دیا ہے اور آپ کا بوجھ ہلکا کردیا ہے اور ہم نے آپ کے نام اور کام کو سربلند کردیا ہے۔ (الانشراح : ١ تا ٤) اس سورت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل کو خیر کثیر کے ساتھ ذکر فرما کر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی اور خوشخبری عطا فرمائی ہے کہ ہم نے یقیناً آپ کو الکوثر عطا فرما دی ہے۔ الکوثر کا لفظ کثرت سے نکلا ہے اس لیے مفسرین نے اپنی اپنی لیاقت کے مطابق الکوثر کے مختلف مفہوم بیان کیے ہیں۔ لیکن سب سے جامع مفہوم مفسّرِ قرآن عبداللہ بن عباس (رض) نے بیان فرمایا ہے۔ (عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ (رض) أَنَّہُ قَالَ فِی الْکَوْثَرِ ہُوَ الْخَیْرُ الَّذِی أَعْطَاہ اللَّہُ إِیَّاہُ قَالَ أَبُو بِشْرٍ قُلْتُ لِسَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ فَإِنَّ النَّاسَ یَزْعُمُونَ أَنَّہُ نَہَرٌ فِی الْجَنَّۃِ فَقَالَ سَعِیدٌ النَّہَرُ الَّذِی فِی الْجَنَّۃِ مِنَ الْخَیْرِ الَّذِی أَعْطَاہ اللَّہُ إِیَّاہُ) (رواہ البخاری : باب سورۃ إِنَّا أَعْطَیْنَاکَ الْکَوْثَرِ) ” حضرت سعید بن جبیر، حضرت عبداللہ بن عباس (رض) سے بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے کوثر کے بارے میں فرمایا یہ ایسی بھلائی ہے جو اللہ تعالیٰ نے صرف نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہی عطا کی ہے۔ (یعنی دنیا اور آخرت کی جو بھلائی آپ کو عطا کی گئی وہ کسی کو عطا نہیں ہوئی۔) اس مختصر سورت میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خیر کثیر کی خوشخبری سنانے کے ساتھ یہ بھی بتلا دیا گیا کہ آپ کودم کٹا کہنے والے ہی بے نام ونشان ہوجائیں گے۔ لوگوں نے اب تک اس حقیقت کو کھلی آنکھوں کے ساتھ دیکھ لیا ہے اور قیامت تک دیکھتے رہیں گے کہ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے کام اور نام کو کس قدر قبولیت عامہ اور خیر وبرکت کے ساتھ دوام بخشا ہے انشاء اللہ قیامت تک آپ کا نام اور کام بلند سے بلند تر ہوتا جائے گا۔ لیکن آپ کے دشمن ابولہب اور ابوجہل کا اچھے طریقے سے نام لینے والا کوئی دکھائی اور سنائی نہیں دیتا۔ اللہ تعالیٰ نے صرف آپ کے نام اور کام کو ہی شہرت دوام نہیں بخشی بلکہ آپ کے ساتھیوں کے نام اور کام کو بھی نیک نامی اور شہرت دوام کا شرف بخشا ہے۔ اس سورۃ مبارکہ میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو الکوثر عطا فرمانے کے بعد حکم ہوا کہ آپ اپنے رب کے حضور نماز پڑھا کریں اور اس کی بارگاہ میں قربانی پیش کریں۔ اس میں یہ اشارہ موجود ہے کہ ایک داعی کو مخالفوں کے مذموم پراپیگنڈہ پر توجہ دینے کی بجائے اپنے رب کے ساتھ رابطہ مضبوط رکھنا چاہیے، اللہ تعالیٰ کے ساتھ رابطے کا مؤثر اور قریب ترین ذریعہ نماز ہے، اسے صحیح طریقے سے ادا کیا جائے تو آدمی کا دکھ فوری طور پر ہلکا ہوجاتا ہے۔” النحر“ اونٹ کی قربانی کو بھی کہتے ہیں لیکن اس میں یہ مفہوم لینے کی گنجائش ہے کہ دعوت کا راستہ قربانی مانگتا ہے اس لیے دعوت کا کام کرنے والے کو ہر وقت قربانی پیش کرنے کے لیے ذہنی اور عملی طور پر تیار رہنا چاہیے۔ نماز میں انسان کا اپنے رب کے ساتھ رابطہ مضبوط ہوتا ہے اور قربانی کرنے سے انسان میں جدوجہد کا جذبہ پیدا ہوتا اور لوگوں میں اس کا احترام بڑھتا ہے۔ اس کے صلے میں آخرت میں حوض کوثر کا پانی نصیب ہوگا اور دنیا میں اس کا دشمن ناکام ہوجائے گا۔ الکوثر : (عَنْ أَنَسٍ (رض) قَالَ لَمَّا عُرِجَ بالنَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) إِلَی السَّمَاءِ قَالَ أَتَیْتُ عَلَی نَہَرٍ حَافَتَاہُ قِبَاب اللُّؤْلُؤِ مُجَوَّفًا فَقُلْتُ مَا ہَذَا یَا جِبْرِیلُ قَالَ ہَذَا الْکَوْثَرُ) (رواہ البخاری : باب سورۃ إِنَّا أَعْطَیْنَاکَ الْکَوْثَرِ) ” حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ جب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو معراج کرائی گئی، آپ فرماتے ہیں کہ میرا گزر ایک نہر کے پاس سے ہوا جس کے دو کناروں کو لؤلؤ کے موتیوں کے ساتھ مزین کیا گیا ہے میں نے جبرائیل (علیہ السلام) سے پوچھا یہ کیا ہے ؟ انہوں نے کہا یہ کوثر ہے۔“ (عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عُمَرَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) الْکَوْثَرُ نَہْرٌ فِی الْجَنَّۃِ حَافَّتَاہُ مِنْ ذَہَبٍ وَمَجْرَاہُ عَلَی الدُّرِّ وَالْیَاقُوتِ تُرْبَتُہُ أَطْیَبُ مِنَ الْمِسْکِ وَمَاؤُہُ أَحْلَی مِنَ الْعَسَلِ وَأَبْیَضُ مِنَ الثَّلْجِ) (رواہ الترمذی : باب وَمِنْ سُورَۃِ التَّکَاثُرِ) ” حضرت عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : کہ کوثر جنت کی ایک نہر ہے جس کے دونوں کنارے سونے کے ہیں۔ اس کا فرش یاقوت سے بنا ہوا ہے۔ اس کی مٹی کستوری سے زیادہ خوشبودار ہے، اس کا پانی شہد سے زیادہ میٹھا اور برف سے زیادہ شفاف ہے۔“ (عَنْ سَہْلِ بْنِ سَعْدٍ (رض) قَالَ قَال النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) إِنِّی فَرَطُکُمْ عَلٰی الْحَوْضِ مَنْ مَرَّ عَلَیَّ شَرِبَ وَمَنْ شَرِبَ لَمْ یَظْمَأْ أَبَدًا) (رواہ البخاری : کتاب الرقاق باب الحوض) ” حضرت سہل بن سعد (رض) بیان کرتے ہیں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : میں تمھارا حوض کوثر پر انتظار کروں گا جو بھی میرے پاس آئے گا وہ اس سے پانی پیئے گا اور جو اس سے ایک مرتبہ پیے گا وہ کبھی پیاس محسوس نہیں کرے گا۔“ (عَنْ أَبِی ذَر (رض) قَال قالَ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)۔۔ مَاؤُہُ أَشَدُّ بَیَاضًا مِنَ اللَّبَنِ وَأَحْلَی مِنَ الْعَسَلِ) (صحیح مسلم، بَابُ إِثْبَاتِ حَوْضِ نَبِیِّنَا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وَصِفَاتِہِ) حضرت ابوذر (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :۔۔۔ حوض کوثر کا پانی دودھ سے زیادہ سفید اور شہد سے زیادہ میٹھا ہے۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دنیا اور آخرت کی خیر کثیر کے ساتھ سرفراز فرمایا۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حوض کوثر عطا فرمایا۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دشمن کو ذلیل اور دم کٹا بنا دیا۔ ٤۔ ہر مسلمان کو اپنے رب کے حضور نماز پڑھنی اور اس کی بارگاہ میں قربانی پیش کرنی چاہیے۔ تفسیر بالقرآن ” اللہ“ کے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات اقدس پر انعامات کی ایک جھلک : ١۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پوری دنیا کے لیے نبی بنا کر بھیجا گیا۔ (الاعراف : ١٥٨) ٢۔ آپ کو رحمۃ للعالمین بنا کر بھیجا گیا۔ (الانبیاء : ١٠٧) ٣۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خاتم النبیین بنایا گیا ہے۔ (الاحزاب : ٤٠) ٤۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پوری دنیا کے لیے داعی، بشیر اور نذیر بنا کر مبعوث کیا گیا ہے۔ (الاحزاب : ٤٥۔ ٤٦) ٥۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تمام انسانوں کے لیے ر ؤف، رحیم بنایا گیا ہے۔ (التوبہ : ١٢٨) ٦۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کو مومنوں پر اللہ تعالیٰ کا احسان عظیم قرار دیا گیا ہے۔ (آل عمران : ١٦٤) الكوثر
2 الكوثر
3 الكوثر
0 سورۃ الکافرون کا تعارف یہ سورت مکی ہے اس کی چھ آیات ہیں جنہیں ایک رکوع شمار کیا گیا ہے اس کا نام اس کی پہلی آیت سے لیا گیا ہے اس میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ حکم ہوا کہ آپ دو ٹوک الفاظ میں اعلان کریں کہ میں ان کی کبھی عبادت نہیں کروں گا جن کی تم عبادت کرتے ہو اور نہ ہی تم اس کی عبادت کرنے کے لیے تیار ہو جس کی میں عبادت کرتا ہوں لہٰذا تمہارے لیے تمہارا دین ہے اور میرے لیے میرا دین ہے۔ الكافرون
1 فہم القرآن ربط سورت : نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سورۃ الکوثر میں حوض کوثر اور خیر کثیر کی خوشخبری دی گئی جس کا صاف معنی ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کسی قسم کی مداہنت کی ضرورت نہیں اس لیے کفار کو صاف طور پر کہہ دینا چاہیے کہ توحید اور شرک، کفر اور اسلام کبھی اکٹھے نہیں ہو سکتے اور نہ ہی اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کی عبادت کرنے کی اجازت دی جا سکتی ہے۔ اہل مکہ نے نبوت کے ابتدائی دور میں نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت پر خاص توجہ نہ دی لیکن جوں ہی آپ کی دعوت کے اثرات پھیلنے لگے تو مکہ کے سردار چوکس ہوئے اور انہوں نے پوری کوشش کی کہ آپ کی دعوت آگے نہ بڑھ سکے، اس مقصد کے لیے انہوں نے آپ کے خلاف شدید پراپیگنڈہ کیا اور آپ کے ساتھیوں کو زدّ وکوب کا نشانہ بنایا۔ لیکن نوجوان طبقہ آپ کی دعوت کی طرف اس حد تک متوجہ ہوا کہ مکہ میں شاید ہی کوئی ایسا خاندان ہو جس میں دوچار نوجوان مسلمان نہ ہوئے ہوں، یہاں تک کہ ابوجہل کے دوبھانجے بھی مسلمان ہوگئے۔ (سیرت الامین : محمد رفیق ڈوگر) دعوت کی تیز رفتاری نے اہل مکہ کو یہ سوچنے پر مجبور کردیا کہ تشدد کی بجائے مذاکرات کا راستہ اختیار کرنا چاہیے۔ اس لیے انہوں نے کئی مرتبہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مذاکرات کیے۔ ایک موقع پر آپ کے چچا ابوطالب کے پاس گئے اور ان سے درخواست کی کہ اپنے بھتیجے کو سمجھائیں کہ وہ ہمارے ساتھ مصالحت کا راستہ اختیار کرے۔ جناب ابوطالب نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بلا کر صورت حال سے آگاہ کیا اور فرمایا کہ بھتیجے میں بوڑھا ہوگیا ہوں اس لیے اکیلا سرداران قریش کے خلاف نہیں لڑ سکتا جس کے جواب میں نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : (فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ یَا عَمِّ لَوْ وَضَعَتِ الشَّمْسُ فِیْ یَمِیْنِیْ وَالْقَمَرُ فِیْ یَسَارِیْ مَا تَرَکْتُ ہٰذَا الْاَمْرَ حَتّٰی یُظْہِرَہُ اللّٰہُ تَعَالٰی اَوْ اأہْلَکَ فِیْ طَلْبِہٖ) (سیرت ابن اسحاق : باب مانال اصحاب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ” رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اے میرے چچا! اگر وہ میرے دائیں ہاتھ پر سورج اور بائیں پر چاند لا کر رکھ دیں پھر بھی میں اس کام سے باز نہیں آؤں گا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اس دین کو غالب کردے یا میں اس دین کی دعوت دیتے ہوئے شہید ہوجاؤں۔“ اہل مکہ نے ولید بن مغیرہ کے ذریعے یہ پیشکش بھی کی کہ اگر آپ دولت چاہتے ہیں تو ہم آپ کے حسب منشا دولت پیش کرتے ہیں، اگر آپ سرداری کے منصب پر فائز ہونا چاہتے ہیں تو ہم آپ کو مکہ کا بالاتفاق سردار مانتے ہیں اگر آپ کسی خاندان میں شادی کے خواہش مند ہیں تو آپ کی یہ خواہش بھی پوری کردی جائے گی۔ ایک موقعہ پر انہوں نے یہ درخواست کی کہ ہم ایک سال آپ کے الٰہ کی عبادت کریں گے اور دوسرے سال آپ ہمارے الہٰوں کی عبادت کرنے کے پابند ہوں گے۔ اس پر یہ سورت نازل ہوئی جس کا آغاز لفظِ ” قُلْ“ سے کیا گیا ہے کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ان سے دو ٹوک الفاظ میں فرما دیں کہ اے توحید خالص کا انکار کرنے والو! میں ان کی عبادت نہیں کرتا جن کی تم عبادت کرتے ہو اور جس رب کی میں عبادت کرتا ہوں تم اس کی عبادت نہیں کرتے، میں ان کی عبادت کرنے والا نہیں جن کی تم عبادت کرتے ہو اور نہ تم اس کی عبادت کرنے والے ہو جس کی میں عبادت کرتاہوں لہٰذا تمہارے لیے تمہارا دین ہے اور میرے لیے میرا دین ہے۔ وہ جِدّت پسند لوگوں نے ان الفاظ کا بالکل ہی الٹ مفہوم لیا ہے، اپنی جِدّت پسندی کی وجہ سے اس آیت کا یہ معنٰی کرتے ہیں کہ آپس میں لڑنے کی بجائے ہر کوئی اپنے اپنے دین پر رہے، اس جِدّت پسندی کو ہر دور میں مختلف الفاظ دیئے جاتے ہیں کچھ دانش ور کہتے ہیں کہ جہاں کوئی لگا ہے ٹھیک لگا ہے اسے اپنی جگہ پر لگا رہنے دو۔ سرکاری حلقوں میں ایک عالم دین کی یہ بات بہت مقبول ہے کہ ” اپنا مذہب چھوڑو نہیں دوسروں کو چھیڑو نہیں“ اس سورت میں واضح کردیا گیا ہے کہ کفر اور اسلام، شرک اور توحید کا ملاپ ہرگز نہیں ہو سکتا۔ بظاہر الفاظ کا تکرار پایا جاتا ہے لیکن عربی گرامر کے اعتبار سے ان الفاظ کا ترجمہ کیا جائے تو پہلی دوآیات میں حال اور مستقبل کے حوالے سے بات کی گئی ہے اور اس سے اگلی دو آیات میں ماضی کے حوالے سے بات ہوئی ہے۔ اس لحاظ سے اس کا مفہوم یہ بنتا ہے کہ اے لوگو! جنہوں نے توحید خالص اور میری رسالت کا انکار کیا ہے وہ سن لیں ! کہ نہ میں نے ماضی میں تمہارے الہٰوں کی عبادت کی ہے اور نہ ہی مستقبل میں ان کی عبادت کروں گا۔ ٢۔ امام شوکانی نے اپنی تفسیر میں اس بات کو ترجیح دی ہے کہ جس طرح بعض سورتوں میں تاکید کے لیے بعض مضامین میں تکرار پایا جاتا ہے یہاں بھی تکرار کے لیے یہ بات کہی گئی ہے کہ میں ان کی عبادت نہیں کرتا جن کی تم عبادت کرتے ہو اور نہ تم اس کی عبادت کرتے ہو جس کی میں عبادت کرتاہوں۔ امام موصوف ان الفاظ کی دوسری توجیہات کو تکلف سمجھتے ہیں۔ ٣۔ بخاری شریف میں ” لَا اَعْبُدُمَاتَعْبُدُوْنَ“ کا مفہوم یہ بیان کیا گیا ہے (وَلاَ أُجِیبُکُمْ فیمَا بَقِیَ مِنْ عُمُرِ) (باب : سورۃ قَلْ یَا أَیُّہَا الْکَافِرُونَ) ” میں زندگی بھر تمہارے معبودوں کی عبادت نہیں کروں گا۔“ اور ” وَلَا اَنْتُمْ عٰبِدُوْنَ مَا اَعْبُدُ“ سے مراد وہ کافر لیے گئے ہیں جن کے متعلق اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : (وَ لَیَزِیْدَنَّ کَثِیْرًا مِّنْہُمْ مَّآ اُنْزِلَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَ طُغْیَانًا وَّ کُفْرًا) (المائدۃ: ٦٤) ” اور جو کچھ آپ کی طرف آپ کے رب کی جانب سے نازل کیا گیا ہے وہ ان میں سے بہت سے لوگوں کو سرکشی اور کفر میں ضرور بڑھا دے گا۔“ (صُمٌّ بُکْمٌ عُمْیٌ فَہُمْ لَا یَرْجِعُوْنَ) (البقرۃ: ١٨) ” بہرے، گونگے، اندھے ہیں پس وہ نہیں پلٹتے۔“ مسائل ١۔ کفر پر پکے رہنے والوں کو کھل کر یہ کہہ دینا چاہیے کہ میں ان کی عبادت نہیں کرتا اور نہ کروں گا جن کی تم عبادت کرتے ہو۔ ٢۔ اے کافرو! تمہارے لیے تمہارا دین ہے اور میرے لیے میرا دین ہے۔ تفسیر بالقرآن کفار اور مشرکین سے علیحدگی کا اعلان : ١۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمایا اے میری قوم! میں تمہارے شرک سے برأت کا اظہار کرتا ہوں۔ (الانعام : ٧٨) ٢۔ ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنی قوم سے فرمایا ہم تم سے اور تمھارے باطل معبودوں سے بری الذمہ ہیں۔ (الممتحنہ : ٤) ٣۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے مشرکوں سے بیزاری کا اعلان کیا۔ (الانعام : ١٤) ٤۔ ھود (علیہ السلام) نے فرمایا میں اللہ کو گواہ بناتا ہوں اور تم بھی بنالوکہ میں تمہارے شرک سے بیزار ہوں۔ (ہود : ٥٤ ) ٥۔ آپ فرما دیں اللہ تعالیٰ پاک ہے اور میں مشرکوں میں سے نہیں ہوں۔ (یوسف : ١٠٨ ) ٦۔ فرما دیجیے ” اللہ“ ایک ہے بے شک میں تمہارے شرک سے بری ہوں۔ (الانعام : ١٩ ) ٧۔ بے شک اللہ اور اس کا رسول مشرکوں سے بری ہیں۔ (التوبہ : ٣ ) الكافرون
2 الكافرون
3 الكافرون
4 الكافرون
5 الكافرون
6 الكافرون
0 سورۃ النّصر کا تعارف یہ سورت مدینہ طیبہ میں نازل ہوئی اس کی تین آیات ہیں جنہیں ایک رکوع قرار دیا گیا ہے۔ اس کا نام اس کی پہلی آیت کے تیسرے لفظ میں مذکور ہے اس میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو عظیم کامیابی کی خوشخبری سنانے کے بعد یہ فرمایا گیا کہ آپ کو اپنے رب کی تعریف کرنی چاہیے اور اس کے حضور توبہ واستغفار کرتے رہنا چاہیے۔ النصر
1 فہم القرآن ربط سورت : نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سورۃ الکافرون میں حکم ہوا کہ کفار کے سامنے کھلے الفاظ میں اعلان فرما دیں کہ تمہارے لیے تمہارا دین میرے لیے میرا دین ہے۔ لہٰذا جو چاہو کرلو میں کبھی تمہارے معبودوں کی عبادت نہیں کروں گا، سورۃ النصر میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خوشخبری دی گئی ہے کہ یہ دین ہر صورت غالب اور کامیاب ہو کر رہے گا۔ یاد رہے کہ یہ سورت نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات سے تقریباً تین ماہ پہلے نازل ہوئی جس میں آپ کو کامیابی کی نوید سنائی گئی ہے۔ نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عظیم الشان اور بے مثال جدوجہد کو تاریخی حساب سے دیکھا جائے تو آپ کی جدوجہد کو مجموعی طور پر دو حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے، ایک نبوت کے آغاز سے لے کر بدر کے معرکہ تک کا دور ہے، اس دور میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے ساتھیوں پر بے انتہا مظالم ڈھائے گئے اور آپ کے راستے میں ہر قسم کی رکاوٹیں کھڑی کی گئیں جس بنا پر دعوت کی قبولیت میں وہ تیز رفتاری پیدا نہ ہوسکی جو اس کے بعد پیدا ہوئی، بے شک بدر کے معرکے کے بعد مسائل اور مشکلات نے ایک نیارُخ اختیار کرلیا تھا مگر پہلے اور دوسرے دور میں فرق یہ تھا کہ مکہ میں کفار سے لڑنے کی اجازت نہ تھی لیکن مدینہ میں کفار کے مقابلے میں قتال فی سبیل اللہ کی اجازت تھی، اس لیے بدر، احد اور خندق کے معرکے پیش آئے اور بالآخر مکہ اس طرح فتح ہوا کہ آپ کے مقابلے میں کسی نے آنے کی جرأت نہ کی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دس ہزار مجاہدین کا لشکر لے کر مکہ کے قریب فروکش ہوئے، حکم دیا کہ رات کے وقت پہاڑوں کی چوٹیوں پر مکہ کے چاروں طرف آگ جلائی جائے تاکہ مکہ والوں کو یہ معلوم ہو کہ اب وہ ہر جانب سے گھر چکے ہیں۔ تفصیلات جاننے کے لیے سیرت کی کتب کی طرف رجوع فرمائیں۔ واقعات کا اختصار یہ ہے کہ صبح کے وقت آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لشکر کو چند حصوں میں تقسیم فرما کر خالدبن ولید اور کچھ صحابہ کو لشکر کی قیادت پر مامور کیا اور حکم فرمایا کہ جو شخص بیت اللہ میں داخل ہوجائے اسے امان دی جائے، جو ابوسفیان کے گھر میں داخل ہو اسے کچھ نہ کہا جائے، جو اپنے گھر کے دروازے بند کرلے اس پر بھی ہاتھ نہ اٹھایا جائے اور جو مکہ سے بھاگ نکلے اس کا بھی تعاقب نہ کیا جائے۔ چار آدمیوں کے سوا جو بھی امان چاہیے اسے پناہ دے دی جائے۔ اس طرح آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حرم میں داخل ہوئے، اور حرم کے صحن میں قدم رکھنے سے پہلے حکم صادر فرمایا کہ تمام بتوں کو اٹھا کر باہر پھینک دیا جائے۔ ( رواہ البخاری : باب وقل جاء الحق وزھق الباطل) اس کے بعد حرم میں داخل ہوئے اور پھر سیڑھی منگوا کر بیت اللہ کے اندر جا کر دیواروں کے ساتھ لگے ہوئے بتوں کو توڑا اور دونفل ادا کیے۔ جب بیت اللہ سے باہر تشریف لائے تو سرداران قریش سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ بتاؤ! آپ کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے ؟ انہوں نے رحم کی اپیل کی۔ آپ نے ” لَا تَثْرِیْبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْمَ“ کے الفاظ استعمال فرماکر عام معافی کا اعلان فرما دیا، مکہ کی فتح سے اسلام کے راستے میں تمام رکاوٹیں دورہوگئیں جو لوگ اس انتظار میں تھے کہ کفر اور اسلام کی کشمکش میں کون غالب آتا ہے جونہی انہیں مکہ فتح ہونے کی خبر پہنچی تو وہ فوج در فوج اسلام میں داخل ہونے لگے اس کامیابی کو اس سورت میں یوں بیان کیا گیا ہے۔ اے نبی! جب ” اللہ“ کی مدد آپہنچے اور آپ کو فتح حاصل ہو اور آپ دیکھیں کہ لوگ فوج در فوج ” اللہ“ کے دین میں داخل ہو رہے ہیں تو آپ پہلے سے زیادہ اپنے رب کی تسبیح کیا کریں اور اس کے حضور توبہ واستغفار کریں اور یقین رکھیں کہ آپ کا رب توبہ قبول کرنے والا ہے۔ اس فرمان میں ہر مسلمان کو یہ بات سمجھائی اور بتلائی گئی ہے کہ جب اللہ تعالیٰ انسان کو اس کے مقصد میں کامیاب کرے اور اپنی رحمت سے سرفراز فرمائے تو اس پر لازم ہے کہ وہ اپنی کامیابی پر اترانے کی بجائے اپنے رب سے اپنی غلطیوں کی بخشش طلب کرے اور اس کا شکربجالائے۔ اس کی تفسیر میں علامہ ابن کثیر نے لکھا ہے کہ فتح مکہ کے بعد نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے آٹھ رکعات ادا فرمائیں اس لیے مسلمان فوج کسی شہر کو فتح کرے تو فوج کے کمانڈر کو شکرانے کے طور پر آٹھ رکعت ادا کرنی چاہیے۔ حصرت سعد بن ابی وقاص (رض) نے ایران کا دار الخلافہ مدائن فتح کیا تو انہوں نے سنت رسول پر عمل کرتے ہوئے شکرانے کے طور پر آٹھ نفل ادا کیے۔ ( عَنْ عَاءِشَۃَ (رض) قَالَتْ مَا صَلَّی النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صَلاَۃً بَعْدَ أَنْ نَزَلَتْ عَلَیْہِ (إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللّٰہِ وَالْفَتْحُ) إِلاَّ یَقُول فیہَا سُبْحَانَکَ رَبَّنَا وَبِحَمْدِکَ اللَّہُمَّ اغْفِرْ لِی.) (رواہ البخاری : سورۃ إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللہ) ” حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سورۃ نصر نازل ہونے کے بعد جو بھی نماز پڑھی اس میں یہ دعاضرور پڑھی۔“ ” سُبْحَانَکَ رَبَّنَا وَبِحَمْدِکَ اللَّہُمَّ اغْفِرْ لِی“ (عَنْ عُبَیْدِ اللَّہِ بْنِ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عُتْبَۃَ قَالَ قَالَ لِیَ ابْنُ عَبَّاسٍ تَعْلَمُ آخِرَ سُورَۃٍ نَزَلَتْ مِنَ الْقُرْآنِ نَزَلَتْ جَمِیعًا قُلْتُ نَعَمْ (إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّہِ وَالْفَتْحُ) قَالَ صَدَقْتَ) (رواہ مسلم : کتاب التفسیر) ” عبید اللہ بن عبداللہ بن عتبہ بیان کرتے ہیں کہ عبداللہ بن عباس (رض) نے مجھ سے پوچھا کیا تجھے معلوم ہے کہ نزول کے اعتبار سے آخری سورت کون سی ہے۔ میں نے کہا (إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّہِ وَالْفَتْحُ) انہوں نے فرمایا تو نے سچ کہا ہے۔“ (عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ (رض) قَالَ کَانَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ (رض) یُدْنِی ابْنَ عَبَّاسٍ فَقَالَ لَہُ عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ إِنَّ لَنَا أَبْنَاءً مِثْلَہُ فَقَالَ إِنَّہُ مِنْ حَیْثُ تَعْلَمُ فَسَأَلَ عُمَرُ ابْنَ عَبَّاسٍ عَنْ ہَذِہِ الآیَۃِ (إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللہِ وَالْفَتْحُ) فَقَالَ أَجَلُ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) أَعْلَمَہُ إِیَّاہُ فَقَالَ مَا أَعْلَمُ مِنْہَا إِلاَّ مَا تَعْلَمُ.) (رواہ : باب مَرَضِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وَوَفَاتِہِ) ” حضرت عبداللہ بن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ عمربن خطاب، عبداللہ بن عباس (رض) کو اپنے قریب قریب رکھتے تھے۔ عبدالرحمن بن عوف (رض) نے ان سے کہا کہ ہمارے بھی بیٹے ہیں۔ حضرت عمر بن خطاب (رض) نے فرمایا کہ آپ کو اس کی حقیقت معلوم ہوجائے گی پھر حضرت عمر (رض) نے حضرت عبداللہ بن عباس (رض) سے اس آیت (إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللّٰہِ وَالْفَتْحُ) کے متعلق سوال کیا تو انہوں نے جواب دیا کہ اس میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو آپ کی موت کی اطلاع دی گئی ہے۔ حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کا جواب سن کر عبد الرحمن بن عوف (رض) نے حضرت عمر (رض) سے کہا جو آپ جانتے ہیں وہ میں نہیں جانتا۔“ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کی زبردست مدد فرمائی اور آپ کے ہاتھوں مکہ فتح کروایا۔ ٢۔ فتح مکہ کے بعد عرب کے لوگ فوج در فوج اللہ کے دین میں داخل ہوئے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ نے مکہ فتح ہونے پر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کثرت کے ساتھ حمد اور توبہ واستغفار کرنے کا حکم دیا۔ ٤۔ یقیناً اللہ تعالیٰ مہربانی کرنے والا اور توبہ قبول فرمانے والا ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے گناہ معاف کرنے والا اور ان کی توبہ قبول کرنے والاہے : ١۔ اللہ اپنے بندوں کی توبہ قبول کرتا ہے۔ (التوبہ : ١٠٤) ٢۔ اللہ توبہ کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔ (البقرۃ: ٢٢٢) ٣۔ اللہ غلطیاں معاف کرکے توبہ قبول کرتا ہے۔ (الشورٰی : ٢٥) ٤۔ اللہ ہر توبہ کرنے والے کو معاف فرما دیتا ہے۔ (طٰہٰ: ٨٢) ٥۔ ” اللہ“ گناہ معاف کرنے اور توبہ قبول فرمانے والا ہے۔ (المومن : ٨) ٦۔ غلطی کی اصلاح کرنے والوں کی اللہ توبہ قبول کرتا ہے۔ (البقرۃ: ١٦٠) (المزمل : ٢٠) (الحجرات : ١٢) ٧۔ جس نے ظلم کرنے کے بعد توبہ کی اور اپنی اصلاح کی، اللہ اس کی توبہ قبول فرمائے گا۔ (المائدۃ: ٣٩) ٨۔ جو گناہ کرنے کے بعد جلد توبہ کرلیتے ہیں اللہ ان کی توبہ قبول فرماتا ہے۔ (النساء : ١٧) النصر
2 النصر
3 النصر
0 سورۃ اللّہب کا تعارف یہ مکی سورت ہے اس کا ایک رکوع ہے جو پانچ آیات پر مشتمل ہے اس کا نام اس کی تیسری آیت کے آخر میں آیا ہے اس میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کی دعوت کے سب سے بڑے مخالف ابو لہب اور اس کی بیوی کی ہلاکت کی اطلاع دی گئی ہے اس میں یہ اشارہ پایا جاتا ہے کہ جو شخص بھی اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مخالفت کرے گا بالآخر وہ تباہ ہوجائے گا۔ الہب
1 فہم القرآن ربط سورت : نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سورۃ النّصر میں ہر قسم کی کامیابی اور دین کے غالب ہونے کی خوشخبری دی گئی ہے اور سورۃ اللّہب میں بتلایا ہے کہ عنقریب دین اور آپ کا دشمن ہلاک ہوجائے گا۔ مفسّرِ قرآن حضرت عبداللہ بن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی ” وَاَنْذِرْ عَشِیْرَتَکَ الْاَقْرَبِیْنَ“ اے نبی ! اپنے قریبی رشتہ داروں کو اللہ کی پکڑ سے ڈرائیں تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صفا پہاڑی پر جلوہ افروز ہوئے اور آپ نے قریش کے قبائل کا نام لے لے کر بلایا لوگ دوڑتے ہوئے صفا پہاڑی کی طرف پہنچے، جس قبیلے کا سربراہ خود نہ پہنچ سکا اس نے اپنا نمائندہ بھیج دیا کہ جاؤ پتہ کرو کہ محمد بن عبداللہ کیا کہنا چاہتے ہیں۔ اس زمانے میں رواج تھا کہ جس شخص کو کوئی حادثہ پیش آتا وہ کسی پہاڑی پر کھڑے ہو کر اپنے کپڑے پھاڑ کر لوگوں کو اپنی مدد کے لیے بلاتا، کچھ لوگ ایمر جنسی میں پہاڑ پر آگ جلاتے اور اپنا گریبان پیٹتے ہوئے لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرتے اور جو ان میں مہذب اور حوصلہ مند لوگ ہوتے وہ صبح کے وقت پہاڑ کی چوٹی پر کھڑے ہو کر یا صباحا ! یا صباحا! کے الفاظ پکارتے۔ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مہذب طریقہ اختیار کرتے ہوئے یا صباحا! یاصباحا! کی آواز بلند فرمائی اور لوگوں کو اپنے پاس آنے کی دعوت دی، تاریخ دانوں نے لکھا ہے کہ اس موقعہ پر بیت اللہ کا طواف کرنے والے بھی رک گئے اور لوگ ٹکٹکی باندھ کر آپ کے چہرۂ مبارک کو دیکھنے لگے، جونہی لوگ آپ کی طرف متوجہ ہوئے تو آپ نے استفسار فرمایا کہ اگر میں کہوں کہ اس پہاڑ کے پیچھے سے ایک لشکر تم پر حملہ آور ہورہا ہے تو کیا تم مان جاؤگے ؟ انہوں نے بیک زبان ہو کر کہا کیوں نہیں! ” مَاجَرَّبْنَا عَلَیْکَ اِلَّا صِدْقًا“ ہم نے آپ کے بارے میں ہمیشہ سچ کا تجربہ کیا ہے۔ چاہیے تو یہ تھا کہ وہ ” مَاسَمِعْنَا بِھٰذَا“ کے الفاظ کہتے مگر وہ عرب تھے اس لیے انہوں نے ” مَاسَمِعْنَا بِھٰذَا“ کی بجائے یہ کہا کہ ہم نے آپ کا باربار تجربہ کیا ہے کہ آپ سچ بولتے ہیں۔ اس طرح انہوں نے آپ کی تینتالیس سالہ حیات مبارکہ کی تائید کی اور آپ پر بھرپور اعتماد کا اظہار کیا۔ تب آپ نے فرمایا کہ میں تمہیں ایک سخت عذاب سے ڈرانے والا ہوں۔ سیرت نگاروں نے لکھا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” قُوْلُوْا لَااِلٰہَ الاَّ اللَّہُ تُفْلِحُوْا“ جوں ہی آپ نے لوگوں کو توحید خالص کی دعوت دی تو وہ آگ بگولہ ہوگئے۔ ابولہب نے یہاں تک ہر زہ سرائی کی کہ ” تَبًّا لَّکَ اَلِھٰذَا جَمَعْتَنَا“ تو تباہ ہوجائے کیا تو نے ہمیں اسی لیے جمع کیا تھا؟ (رواہ البخا ری : باب وانذرعشیرتک الاقربین) یاد رہے کہ ابولہب کے ساتھ نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے چار رشتے تھے۔ ان میں ہر رشتہ عربوں کے ہاں نہایت ہی قابل احترام تھا۔ ١۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ابولہب چچا تھے۔ ہر معاشرے میں اور عربوں کے ہاں بھی چچا والد کے قائم مقام سمجھا جاتا تھا، لیکن ابولہب نے اس عظیم رشتہ کی کوئی پرواہ نہ کی۔ ٢۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ابولہب مکہ میں ایک دوسرے کے پڑوسی تھے ہر معاشرے میں پڑوسی کے حقوق مسلّمہ ہیں۔ عرب بھی پڑوسی کے حقوق کا بہت خیال رکھتے تھے مگر ابولہب نے اس رشتے کے تقدُّس کو بھی پامال کردیا۔ ٣۔ نبوت سے پہلے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دوبیٹیوں کی نسبت ابولہب کے بیٹوں عتبہ اور عتیبہ کے ساتھ ہوئی تھی۔ توحید کی دعوت کا اعلان کرنے کی وجہ سے ابولہب کے کہنے پر اس کے بیٹوں نے بڑے گستاخانہ انداز میں ان نسبتوں کو توڑ دیا۔ ٤۔ جس بی بی نے ابو لہب کو بچپن میں دودھ پلایا تھا نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی بچپن میں اس کا دودھ پیا تھا، اس کا نام ثوبیہ تھا۔ اس لحاظ سے ابو لہب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا رضاعی بھائی تھا عرب رضائی بھائی کو حقیقی بھائی کی طرح خیال کرتے تھے لیکن ابو لہب نے اس رشتے کی بھی پرواہ نہ کی۔ ابولہب کے ردِّ عمل میں یہ سورت نازل ہوئی جس میں ہر کسی کے لیے کھلے لفظوں میں پیغام ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں ایمان سے بڑھ کر کوئی رشتہ مقدّم نہیں لہٰذا ایمان نہ ہوتوحسب ونسب کی کوئی اہمیت باقی نہیں رہتی۔ قرآن مجید میں ابولہب ہی وہ بدقسمت انسان ہے جس کا نام لے کر اس پر پھٹکار کی گئی ہے۔ ابولہب کا نام عبدالعزّٰی تھا۔ قرآن مجید نے اس کے شرکیہ نام کا ذکر کرنے کی بجائے اس کی کنیت کے نام پر مخاطب کیا جس کی دوسری وجہ یہ ہے کہ وہ اپنی کنیت سے لوگوں میں مشہور تھا۔ ابولہب شکل وصورت کے لحاظ سے نہایت خوبصورت تھا جس وجہ سے لوگ اسے ابولہب کہتے تھے جس کا معنٰی ہے آگ جیسا روشن چہرہ رکھنے والا۔ لیکن برا عقیدہ اور کردار رکھنے کی وجہ سے وہ اپنی کنیّت کے حوالے سے اسم بامسمّٰی ثابت ہوا اور اسے ہمیشہ کے لیے دہکتی ہوئی آگ میں پھینک دیا جائے گا۔ اس کا مال اور اس کی اولاد اس کے کسی کام نہ آئے اس کے ساتھ ہی اس کی بیوی بھی جہنم کا ایندھن بنے گی جس کے بارے میں یہ بتلایا گیا ہے کہ جو اپنے سر پر ایندھن اٹھانے والی ہے اور اس کی گردن میں بٹی ہوئی رسی ہوگی۔ ابولہب مکہ کے امیر ترین چار آدمیوں میں شمار ہوتا تھا اکثر مفسرین نے لکھا ہے کہ اس زمانے میں اس کے پاس نقدی اور جائیداد کے علاوہ آٹھ کلو سونا موجود تھا۔ ( تفہیم القرآن) ظاہر بات ہے کہ اس کی بیوی کو ہر قسم کی سہولت حاصل تھی۔ مگر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مخالفت میں اس قدر اندھی ہوچکی تھی کہ کانٹے دار جھاڑیاں اٹھا کر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے گھر کے سامنے پھینک دیتی۔ یہی عمل اس کی موت کا سبب ثابت ہوا۔” حَمَّالَۃَ الْحَطَبِ“ عربی محاورۃ میں چغلیاں کرنے والی کو بھی کہا جاتا ہے گویا کہ وہ نبی کے بارے میں چغلیاں بھی کیا کرتی تھی۔” جِیْدًا“ اس گردن کو کہا جاتا ہے جسے زیور کے ساتھ سجایا گیا ہو یعنی دنیا میں جس گردن میں زبور پہنا کرتی ہے قیامت کے دن اس نرم و نازک گردن میں جہنم کی آگ سے بنا ہوا رسا ڈالا جائے گا۔ ابو لہب اپنی بزدلی کی وجہ سے جنگ بدر میں شریک نہ ہوا لیکن بدر کی شکست کا اسے اس حد تک صدمہ پہنچا کہ یہ اندر ہی اندر گھلتا چلا گیا یہاں تک کہ اسے کوڑھ کی بیماری لاحق ہوگئی اس کے جسم میں بد بو پھیل گئی گھر کا کوئی فرد اسے ہاتھ لگانے کے لیے تیار نہ ہوا۔ اس حالت میں ذلیل ہو کر مرا، دفنانے کے لیے بدو بلائے گئے جنہوں نے اسے مٹی میں دبایا۔ مسائل ١۔ ابولہب بدترین طریقے سے ہلاک ہوا اور اس کا مال اور اس کی اولاد اس کے کچھ کام نہ آئے۔ ٢۔ ابولہب جہنم کی دہکتی ہوگئی آگ میں ڈالا جائے گا۔ ٣۔ ابولہب کی بیوی جس رسی سے لکڑویوں کا گٹھا اٹھاتی تھی وہ رسی اس کی ہلاکت کا سبب بنی۔ تفسیر بالقرآن قیامت کے دن مال اور اولاد کی حیثیت : ١۔ مال اور اولاد دنیا کی نمائش ہیں باقی رہنے والے نیک اعمال ہیں۔ (الکہف : ٤٦) ٢۔ قیامت کے دن مال اولاد کام نہیں آئے گی۔ (الشعراء : ٨٨) ٣۔ جان لو کہ مال، اولاد تمھارے لیے فتنہ ہیں۔ (الانفال : ٢٨) ٤۔ اے ایمان والو تمھیں مال اور اولاد اللہ کے ذکر سے تمہیں غافل نہ کردیں۔ (المنافقون : ٩) ٥۔ مال اور اولاد تمھارے لیے آزمائش ہے اللہ کے پاس بڑا اجر ہے۔ (التغابن : ١٥) الہب
2 الہب
3 الہب
4 الہب
5 الہب
0 سورۃ الاخلاص کا تعارف یہ سورت بھی مکہ مکرمہ میں نازل ہوئی اس کی چار آیات ہیں جنہیں ایک رکوع شمار کیا گیا ہے اس کا نام اس لیے الاخلاص رکھا گیا ہے کیونکہ اس میں اللہ تعالیٰ کی توحید خالص کا تذکرہ ہے جس کے بغیر کوئی عبادت بھی قبول نہیں ہوتی۔ سورت اخلاص کا تعارف اس مختصر سورت میں توحید خالص کو کھول کر بیان کیا گیا ہے، اختصار مگر جامع اور دوٹوک طرز بیان کی بنا پر اسے سورت اخلاص کے نام سے لکھا اور پڑھا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی ذات اور صفات کے بارے میں مشرکین کے درمیان جس قدر شبہات پائے جاتے ہیں، ان کی بڑے سادہ انداز اور الفاظ میں نفی کی گئی ہے اور اسلام کے بنیادی عقیدہ توحید کو کھول کر بیان کیا گیا ہے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سورت کی عظمت وفضیلت کا تذکرہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا۔ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) احْشِدُوا فَإِنِّی سَأَقْرَأُ عَلَیْکُمْ ثُلُثَ الْقُرْآنِ فَحَشَدَ مَنْ حَشَدَ ثُمَّ خَرَجَ نَبِیُّ اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَقَرَأَ (قُلْ ہُوَ اللَّہُ أَحَدٌ) ثُمَّ دَخَلَ فَقَالَ بَعْضُنَا لِبَعْضٍ إِنِّی أُرَی ہَذَا خَبَرٌ جَاءَ ہُ مِنَ السَّمَاءِ فَذَاکَ الَّذِی أَدْخَلَہُ ثُمَّ خَرَجَ نَبِیُّ اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَقَالَ إِنِّی قُلْتُ لَکُمْ سَأَقْرَأُ عَلَیْکُمْ ثُلُثَ الْقُرْآنِ أَلاَ إِنَّہَا تَعْدِلُ ثُلُثَ الْقُرْآنِ) (رواہ مسلم : باب فضل قراء ۃ سورۃ قل ھو اللہ احد) ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے صحابہ سے فرمایا جمع ہو جاؤمیں تمہیں قرآن کا ایک تہائی حصہ سنانا چاہتا ہوں، لوگ اکٹھے ہوگئے پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) گھر سے نکلے اور آپ نے سورۃ الاخلاص کی تلاوت فرمائی پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) گھر واپس چلے گئے لوگوں نے آپس میں باتیں کرنی شروع کردیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر کوئی وحی نازل ہونے والی ہے اس وجہ سے آپ گھر چلے گئے ہیں اتنی دیر میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) گھر سے واپس آئے اور فرمایا کہ میں نے تمہیں کہا تھا میں تمہیں قرآن ایک تہائی حصہ سناؤں گا بے شک اللہ تعالیٰ نے سورۃ الاخلاص کو ہی قرآن کا ایک تہائی حصہ قرار دیے دیا ہے۔“ (عَنْ عَاءِشَۃَ أَنَّ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بَعَثَ رَجُلاً عَلَی سَرِیَّۃٍوَکَانَ یَقْرَأُ لأَصْحَابِہِ فِی صَلاَتِہِ فَیَخْتِمُ بِ (قُلْ ہُوَ اللَّہُ أَحَدٌ) فَلَمَّا رَجَعُوا ذَکَرُوا ذَلِکَ للنَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَقَالَ سَلُوہُ لأَیِّ شَیْءٍ یَصْنَعُ ذَلِکَ فَسَأَلُوہُ فَقَالَ لأَنَّہَا صِفَۃُ الرَّحْمَنِ وَأَنَا أُحِبُّ أَنْ أَقْرَأَ بِہَا فَقَال النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) أَخْبِرُوہُ أَنَّ اللَّہَ یُحِبُّہُ) (رواہ البخاری : باب مَا جَاءَ فِی دُعَاء النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) أُمَّتَہُ إِلَی تَوْحِید اللہِ تَبَارَکَ وَتَعَالَی) ” حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک شخص کو کسی لشکر کا سردار بنا کر روانہ کیا۔ وہ جب نماز پڑھاتا تو اپنی قراءت سورۃ اخلاص پر ختم کرتا پھر جب یہ لوگ واپس آئے تو انہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس اس کا ذکر کیا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اس سے پوچھو کہ وہ ایسا کیوں کرتا ہے ؟ لوگوں نے اس سے دریافت کیا تو اس نے بتایا کہ اس سورت میں الرحمن کی صفات ہیں جن کو تلاوت کرنا مجھے اچھا لگتا ہے۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اس سے کہہ دو کہ اللہ تعالیٰ اس سے محبت کرتا ہے۔“ الاخلاص
1 فہم القرآن ربط سورت : الاخلاص سے پہلے سورت اللّہب ہے جس میں توحید کے مخالفین میں سے ایک بڑے مخالف کی ہلاکت و بربادی کی اطلاع دی گئی ہے۔ اس میں یہ اشارہ پایا جاتا ہے کہ بالآخر دعوت توحید کے مخالف مٹ جائیں گے اور توحید خالص کا پرچار اور غلغلہ ہوگا۔ مفسرین نے اس سورت کے اور بھی نام تحریر فرمائے ہیں لیکن اس کا سب سے مشہور اور معتبر نام ” الاخلاص“ ہے۔ انبیاء کرام (علیہ السلام) کی بعثت کا مقصد اور قرآن کی مرکزی دعوت توحید ہے اسی لیے قرآن مجید کا آغاز فاتحہ سے ہوا جس کی ابتداء توحید سے کی گئی ہے اور قرآن مجید کا اختتام بھی توحید کی سورتوں سے کیا گیا ہے۔ اس سورت کے نزول کا پس منظر بیان کرتے ہوئے مفسرین نے لکھا ہے کہ ایک دن قریش کے کچھ افراد نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہو کر استفسار کیا (عَنْ أَبِی الْعَالِیَۃِ عَنْ أُبَیِّ بْنِ کَعْبٍ أَنَّ الْمُشْرِکِینَ قَالُوا للنَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَا مُحَمَّدُ انْسُبْ لَنَا رَبَّکَ فَأَنْزَلَ اللَّہُ تَبَارَکَ وَتَعَالَی (قُلْ ہُوَ اللَّہُ أَحَدٌ، اللَّہُ الصَّمَدُ، لَمْ یَلِدْ وَلَمْ یُولَدْ، وَلَمْ یَکُنْ لَہُ کُفُوًا أَحَدٌ) (رواہ احمد : مسند ابی بن کعب) ” ابو العالیہ، ابی بن کعب سے بیان کرتے ہیں کہ مشرکین کا ایک وفد آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہو کر پوچھتا ہے اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ جس رب پر ایمان لانے کی دعوت دیتے ہیں، اس کا نسب نامہ کیا ہے تاکہ ہمیں اس کی پہچان ہوجائے۔ ان کا مقصد یہ تھا کہ ہمارے معبود پتھر، لوہے، تانبے اور مٹی وغیرہ کے بنے ہوتے ہیں، آپ کا معبود کس چیز سے بنا ہوا ہے اور اس کی شکل وصورت اور حسب نسب کیا ہے؟ اس وقت اللہ تعالیٰ نے یہ سورت نازل فرمائی۔“ یاد رہے کہ ہر دور کے مشرک اپنے اپنے انداز اور نظریات کے مطابق ” اللہ“ کی توحید کو ماننے اور اس کی عبادت کرنے کا دعویٰ کرتے رہے ہیں لیکن شرک میں ملوث لوگ توحید خالص کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہوتے، حالانکہ قرآن مجید اور انبیائے کرام (علیہ السلام) کی دعوت توحید خالص ہے جسے اس سورت میں جامع الفاظ اور کھلے انداز میں بیان کیا گیا ہے، جو شخص ذاتی اور گروہی تعصبات سے بالاتر ہو کر توحید خالص کو سمجھنے کی کوشش کرے گا وہ اس سے واضح، مختصر اور موثر انداز کہیں نہیں پائے گا۔ اس سورت میں توحید خالص بیان کرنے کے ساتھ ہرقسم کے شرک کی نفی کی گئی ہے، اس لیے اس سورت کا نام سورت الاخلا ص رکھا گیا۔ توحید کی عظمت کے پیش نظر سورۃ الاخلاص اس قدر عظیم ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کی تلاوت کو دس پاروں کی تلاوت کے برابر قرار دیا ہے : (عَنْ اَبِیْ الدَّرْدَاءِ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اَےَعْجِزُ اَحَدُکُمْ اَنْ یَّقْرَأَ فِیْ لَےْلَۃٍ ثُلُثَ الْقُرْاٰنِ قَالُوْا وَکَےْفَ ےَقْرَأُ ثُلُثَ الْقُرْاٰنِ قَالَ قُلْ ھُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ یَعْدِلُ ثُلُثَ الْقُرْاٰنِ) (رواہ مسلم : باب فضل قراء ۃ سورۃ الاخلاص) ” حضرت ابو درداء (رض) بیان کرتے ہیں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کیا تم میں سے کوئی شخص ایک رات میں ایک تہائی قرآن تلاوت کرسکتا ہے؟ صحابہ (رض) نے عرض کی کہ ایک رات میں قرآن کا تیسرا حصہ کیسے پڑھا جا سکتا ہے؟ آپ نے فرمایا ” قُلْ ھُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ“ کی تلاوت کرنا ایک تہائی قرآن پڑھنے کے برابر ہے۔“ یاد رہے کہ صحابہ کرام (رض) کی اکثریت قرآن مجیدکی تلاوت صرف ثواب کے طور پر نہیں بلکہ غورفکر کے ساتھ تلاوت کیا کرتے تھے اس لیے انہوں نے عرض کی کہ ایک رات میں دس پارے پڑھنے مشکل ہیں۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سورت اخلاص کے ساتھ محبت۔ (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَسْعُودٍ أَنَّہُ قَالَ مَا أُحْصِی مَا سَمِعْتُ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَقْرَأُ فِی الرَّکْعَتَیْنِ بَعْدَ الْمَغْرِبِ وَفِی الرَّکْعَتَیْنِ قَبْلَ صَلاَۃِ الفَجْرِ بِ (قُلْ یَا أَیُّہَا الکَافِرُونَ) وَ (قُلْ ہُوَ اللَّہُ أَحَدٌ).(رواہ الترمذی، بَابُ مَا جَاءَ فِی الرَّکْعَتَیْنِ بَعْدَ الْمَغْرِبِ وَالقِرَاءَ ۃِ فیہِمَا) ” حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں میں شمار نہیں کرسکتا میں نے کتنی مربتہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مغرب اور فجر کی سنتوں میں سورت کافرون اور سورت اخلاص پڑھتے ہوئے سنا ہے۔“ اس سورت میں توحید کی تمام اقسام بیان کی گئی ہیں۔ اسلام کے بنیادی عقائد تین ہیں۔ توحید، رسالت اور آخرت پر ایمان لانا۔ باقی مسائل اور احکام انہی عنوانات کا تقاضا اور تفصیل ہیں۔ فہم القرآن میں لفظِ ” قُلْ“ کی تفسیر میں یہ بات عرض ہوچکی ہے کہ قرآن مجید اہم مسائل اور احکام بیان کرتے ہوئے لفظِ ” قُلْ“ سے آغاز کرتا ہے تاکہ سننے والے کو مسئلے کی اہمیت اور اس کی فضیلت کا احساس ہوجائے۔ لفظِ قل میں یہ مفہوم واضح ہے کہ توحید کا پرچار کسی خوف کے بغیر کرنا چاہیے، بصورت دیگر اس کے ابلاغ کا حق ادا نہیں ہوسکتا۔ ارشاد ہوا کہ آپ اعلان کریں کہ وہ ” اللہ“ ایک ہے عربی زبان میں ” ھُوَ“ کی ضمیر (Pronown) دور کے لیے استعمال ہوتی ہے یہاں اس کے استعمال کے تین بڑے مفہوم سمجھ آتے ہیں۔ ١۔ اہل مکہ اور ہر دور کے مشرک مشکل ترین وقت میں اللہ تعالیٰ کو ایک مانتے اور اسے ہی پکارتے تھے، اس لیے ” ھُوَ“ کی ضمیر استعمال کی گئی ہے کہ وہ ” اللہ“ جسے تم بھی مشکل کے وقت ایک مانتے اور پکارتے ہو وہ اپنی ذات، صفات اور الوہیت کے اعتبار سے ایک ہے۔ ٢۔ جس ” اللہ“ کا تعارف چاہتے ہو وہ اپنی ذات، صفات اور الوہیت میں اکیلا ہے۔ ٣۔ ” ھُوَ“ لا کر ثابت کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی ذات کے اعتبار سے ہر جگہ موجود نہیں بلکہ وہ اپنی شان کے مطابق عرش معلی پر جلوہ افروز ہے۔ ( اَلرَّحْمٰنُ عَلَی الْعَرْشِ اسْتَوٰی) (طٰہٰ: ٥) ” وہ رحمٰن عرش پر مستویٰ ہے۔“ اسم اللہ کی جلالت ” اللہ“ کا نام صرف اور صرف ذات کبریا کے لیے زیبا اور اس کے لیے مختص ہے۔ یہ ذات کبریا کا ذاتی نام ہے اس اسم مبارک کے اوصاف اور خواص میں سے ایک خاصہ یہ ہے کہ کائنات میں انتہادرجے کے کافر، مشرک اور بدترین باغی انسان گزرے ہیں، جن میں اپنے آپ کو داتا، مشکل کشا، موت وحیات کا مالک کہنے والے حتی کہ ” اَنَا رَبُّکُمُ الْاَعْلٰٰی“ کہلوانے والا بھی ہوا ہے، مگر اس نام کی ہیبت و جلالت کی وجہ سے کوئی بھی اپنے آپ کو ” اللہ“ کہلوانے کی جرأت نہیں کرسکا اور نہ کرسکے گا۔ مکے کے مشرک اپنے بتوں کو سب کچھ مانتے اور کہتے تھے لیکن وہ ان کو ” اللہ“ کہنے کی جرأت نہیں کرسکے تھے۔ ” اللہ“ ہی انسان کا ازلی اقرار اور اس کی فطری آواز ہے یہ اسم مبارک اپنے آپ میں ربوبیّت، الوہیّت، مالکیت، جلالت وصمدیت، رحمن ورحیم کا ابدی اور سرمدی تصور لیے ہوئے ہے۔ قرآن مجید میں ” اللہ“ کا نام 2697 مرتبہ آیا ہے اور ہر مرتبہ الگ انداز میں اللہ تعالیٰ کی ذات وصفات اور عبادت کی ترجمانی کرتا ہے۔ ” اللّٰہُ اَحَدٌ“ اللہ ایک ہے اللہ تعالیٰ ہر لحاظ سے ایک ہے۔ اس کی ذات، اسماء وصفات اور عبادت میں کوئی شریک نہیں گویا کہ وہ اپنی ذات کے اعتبار سے ایک ہونے کے ساتھ اپنے حق عبادت میں بھی ایک ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ” اَللّٰہُ اَحَدٌ“ میں ہر قسم کی توحید پائی جاتی ہے اور اس سے ہر قسم کے شرک کی نفی ہوتی ہے۔ کچھ مفسرین نے احد اور واحد کے استعمال میں فرق بیان کیا ہے۔ ایک مفسر کا خیال ہے کہ ” اللہ“ کی ذات کے لیے احد کی صفت لائی گئی ہے اور اس کی صفات کے لیے واحد کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ دوسرے مفسرکا خیال ہے کہ احد کا معنٰی لاثانی، بے مثال اور یکتا ہے۔ اس لحاظ سے اس لفظ کا استعمال صرف ذات باری تعالیٰ کے ساتھ ہوتا ہے۔ ان کا فرمان ہے کہ گنتی میں ایک، دو، تین، چار اور پانچ کے لیے واحد، اثنین، ثلاثہ، اربعہ اور خمسہ کے الفاظ استعمال ہوتے ہیں کیونکہ گنتی میں احد کی بجائے واحد کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ کے لیے لفظ واحد استعمال کرنے کی بجائے احد (اکیلا) استعمال کرنا چاہیے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ایک اور اکیلے کے الفاظ میں لطیف سا فرق پایا جاتا ہے لیکن اردو اور عربی ادب سے آشنا لوگ جانتے ہیں کہ اردو زبان میں احد اور اکیلا ایک دوسرے کے ہم معنٰی ہیں اور عربی زبان میں معمولی سے فرق کے سوا احد اور واحدایک دوسرے کی جگہ استعمال ہوتے ہیں البتہ جب کسی شخص کو دوسرے سے الگ بیان کرنا مقصود ہو تو اس کے لیے اکیلے کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔ بنیادی طور پر احد اور واحد میں کوئی فرق نہیں اس لیے اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اپنی ذات کے بارے میں احد اور واحد دونوں الفاظ استعمال فرمائے ہیں : (قُلْ اِِنَّمَا اَنَا مُنْذِرٌ وَّمَا مِنْ اِِلٰہٍ اِِلَّا اللّٰہُ الْوَاحِدُ الْقَہَّارُ) (ص : ٦٥) ” اے نبی ان سے فرمادیں کہ میں تو بس خبردار کردینے والاہوں ” اللہ“ کے سوا کوئی حقیقی معبود نہیں ہے اکیلا ہے اور سب پر غالب ہے۔ (وَ اِلٰھُکُمْ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ الرَّحْمٰنُ الرَّحِیْمُ) (البقرۃ: ١٦٣) ” تم سب کا معبود ایک ہی معبود ہے، اس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں۔ وہ بڑا مہربان اور رحم فرمانے والا ہے۔“ ذات باری تعالیٰ کے بارے میں ایرانیوں کا نظریہ : نزول اسلام کے وقت ایرانی ایک کی بجائے دو خدا مانتے اور پکارتے تھے۔ ان کا عقیدہ تھا کہ خیر و برکت نازل کرنے اور عزت دینے والا خدا یزداں ہے، شر اور نقصان دینے والا اہرمن ہے۔ قرآن مجید اس نظریے کی تردید کرتا ہے : (وَ قَال اللّٰہُ لَا تَتَّخِذُوْٓا اِلٰہَیْنِ اثْنَیْنِ اِنَّمَا ہُوَ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ فَاِیَّایَ فَارْہَبُوْنِ) (النحل : ٥١) ” اور اللہ نے فرمایا دو معبود نہ بناؤ وہ صرف ایک ہی معبود ہے، پس صرف مجھ ہی سے ڈرو۔“ اہل مکہ کئی الہٰوں کے قائل تھے : (اَجَعَلَ الْآلِہَۃَ اِِلٰہًا وَاحِدًا اِِنَّ ہٰذَا لَشَیْءٌ عُجَابٌ وَانطَلَقَ الْمَلاُ مِنْہُمْ اَنْ امْشُوْا وَاصْبِرُوْا عَلٰی آلِہَتِکُمْ اِِنَّ ہٰذَا لَشَیْءٌ یُرَادُ مَا سَمِعْنَا بِہٰذَا فِی الْمِلَّۃِ الْآخِرَۃِ اِِنْ ہٰذَا اِِلَّا اخْتِلَاقٌ) (ص : ٧ تا ٥) ” کیا اس نے تمام معبودوں کی جگہ بس ایک ہی معبود بنا لیا ہے۔ یہ تو بڑی عجیب بات ہے۔ قوم کے سرداریہ کہتے ہوئے کھڑے ہوئے کہ لوگوں کو سمجھاؤ کہ اپنے معبودوں پر قائم رہو یہ بات تو کسی اور ہی مقصد کے لیے کہی جا رہی ہے۔ یہ بات ہم نے پہلے زمانہ میں کسی سے نہیں سنی یہ تو ایک بناوٹی بات ہے۔“ اس لیے اہل مکہ نے تین سو ساٹھ بت بیت اللہ میں رکھے ہوئے تھے۔ ہندوؤں کی کتب کا مطالعہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ ہندو تینتیس کروڑ خداؤں کے قائل ہیں۔ یہی حال کلمہ پڑھنے والوں کی اکثریت کا ہے کہ اللہ کے سوا دوسروں سے مدد مانگتے ہیں۔ (فَاِذَا رَکِبُوْافِی الْفُلْکِ دَعَوُا اللّٰہَ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ فَلَمَّا نَجّٰہُمْ اِلَی الْبَرِّ اِذَا ہُمْ یُشْرِکُوْنَ) (العنکبوت : ٦٥) ” جب کشتی پر سوار ہوتے ہیں تو اپنے دین کو اللہ کے لیے خالص کر کے اس سے مانگتے ہیں۔ جب اللہ انہیں بچا کر خشکی پر لے آتا ہے تو یکایک شرک کرنے لگتے ہیں۔“ اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کے بارے میں ” اَحَدٌ“ کا لفظ استعمال فرما کر ایک سے زائد خداؤں اور معبودوں کی نفی کردی ہے۔ قرآن مجید نے عقلی اور علمی دلائل کی بنیاد پر ثابت کیا ہے کہ ایک ” اللہ“ ہی ” الٰہ واحد“ ہے۔ اس کے سوا کائنات میں کوئی الٰہ تھا اور نہ ہے اور نہ ہوگا۔ لہٰذا ” اَللّٰہُ اَحَدٌ“ میں اس کی ذات اور صفات میں شرک کرنے والوں کی نفی کی گئی ہے۔ الاخلاص
2 ” اَللّٰہُ الصَّمَدُ“ اللہ بے نیاز ہے اللہ تعالیٰ کی ” اَحَدْ“ کی صفت میں توحید کی تینوں اقسام پائی جاتی ہیں۔ تاہم تفصیل کے لیے الصّمد اور دوسری صفات کا ذکر کیا گیا ہے بالفاظ دیگر یہ صفات صفت ” اَحَدْ“ کی تفصیل ہیں۔ اہل زبان نے الصّمد کے بہت سے معانی ذکر کیے ہیں، تمام معانی کا خلاصہ یہ ہے۔ ١۔ الصّمد ایسی چٹان یا ذات جس کی مشکل کے وقت پناہ لی جائے۔ ٢۔ الصّمد وہ ذات جس میں کسی قسم کا خلا اور ضعف نہ ہو۔ ٣۔ الصّمد ایسی ذات جس کے وجود سے نہ کوئی چیز نکلتی ہو اور نہ کوئی چیز داخل ہوتی ہو۔ ٤۔ الصّمد سے مراد ایسا سردار جو ہر اعتبار سے کامل اور اکمل ہو اور مشکل کے وقت اس کا سہارا لیا جائے۔ ٥۔ الصّمد وہ ذات جس کے سب محتاج ہوں اور وہ کسی کی محتاج نہ ہو۔ مذکورہ بالا معانی کو سامنے رکھتے ہوئے مفسرین کی غالب اکثریت نے الصّمد کا معنٰی بے نیاز کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ وہ ذات ہے جو ہر اعتبار سے بے نیاز ہے۔ بے نیاز کا یہ معنٰی نہیں کہ کہ اسے اپنی مخلوق کی کوئی پرواہ نہیں بلکہ بے نیاز کا معنٰی ہے کہ وہ غنی ہے اور پوری مخلوق اس کی محتاج ہے۔ اگر ساری مخلوق مل کر بغاوت کردے تو اس کی ذات اور بادشاہت کو رائی کے دانے کے برابر بھی فرق نہیں پڑتا۔ اگر ساری مخلوق اس کی تابع فرمان ہوجائے تو اس کی بادشاہت میں اضافہ نہیں ہوسکتاکیونکہ وہ الصّمد ہے۔ الصّمد کا معنٰی ایسی ذات جو کسی کی محتاج نہ ہو اور باقی تمام اس کے محتاج ہوں جب وہ کسی کا محتاج نہیں اور باقی سب اس کے محتاج ہیں تو پھر عبادت بھی اسی کی کرنی چاہیے۔ جس کا صاف معنٰی ہے کہ وہی مشکل کشا اور حاجت روا ہے لہٰذا اسی ایک کی عبادت کرنی چاہیے یہی توحید الوہیّت کا سب سے بڑا تقاضا ہے۔ اس لیے ” اَللّٰہُ الصَّمَدُ“ میں دوسرے معبودوں کی نفی پائی جاتی ہے۔ (وَ مَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا نُوْحِیْٓ اِلَیْہِ اَنَّہٗ لَآاِلٰہَ اِلَّآ اَنَا فَاعْبُدُوْنِ) (الانبیاء : ٢٥) ” ہم نے آپ سے پہلے جو بھی رسول بھیجے ان کی طرف یہی وحی کی کہ میرے سوا کوئی معبود نہیں سو تم میری ہی بندگی کرو۔“ (وَ لَقَدْ بَعَثْنَا فِیْ کُلِّ اُمَّۃٍ رَّسُوْلًا اَنِ اعْبُدُوا اللّٰہَ وَ اجْتَنِبُوا الطَّاغُوْتَ فَمِنْہُمْ مَّنْ ہَدَی اللّٰہُ وَ مِنْہُمْ مَّنْ حَقَّتْ عَلَیْہِ الضَّلٰلَۃُ فَسِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ فَانْظُرُوْا کَِیْفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الْمُکَذِّبِیْنَ) (النحل : ٣٦) ” اور یقیناً ہم نے ہر امت میں ایک رسول بھیجا کہ اللہ کی عبادت کرو اور طاغوت سے بچو۔ ان میں سے کچھ وہ تھے جنہیں اللہ نے ہدایت دی اور کچھ وہ تھے جن پر گمراہی ثابت ہوگئی۔ پس زمین میں چل، پھر کر دیکھو کہ جھٹلانے والوں کا کیسا انجام ہوا۔“ (لَتَشْہَدُوْنَ اَنَّ مَعَ اللّٰہِ اٰلِہَۃً اُخْرٰی قُلْ لَّآ اَشْہَدُ قُلْ اِنَّمَا ہُوَ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ وَّ اِنَّنِیْ بَرِیْٓءٌ مِّمَّا تُشْرِکُوْنَ) (الانعام : ١٩) فرما دیجیے میں یہ گواہی نہیں دیتا فرما دیجیے وہ تو صرف ایک ہی معبود ہے اور بے شک میں اس سے بری ہوں جو تم شریک ٹھہراتے ہو۔“ الاخلاص
3 ” لَمْ یَلِدْ وَلَمْ یُوْلَدْ“ نہ اس نے کسی کو جنا ہے اور نہ وہ کسی کی اولاد ہے یہودیوں کی ہرزہ سرائی : یہودی حضرت عزیر (علیہ السلام) کو ” اللہ“ کا بیٹا قرار دیتے ہیں اور ان کا عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کچھ اختیارات اپنے بیٹے عزیر (علیہ السلام) کو دے رکھے ہیں : (وَ قَالَتِ الْیَہُوْدُ عُزَیْرُ نِ ابْنُ اللّٰہِ وَ قَالَتِ النَّصٰرَی الْمَسِیْحُ ابْنُ اللّٰہِ ذٰلِکَ قَوْلُہُمْ بِاَفْوَاہِہِمْ یُضَاہِءُوْنَ قَوْلَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْ قَبْلُ قٰتَلَہُمُ اللّٰہُ اَنّٰی یُؤْفَکُوْنَ) (التوبہ : ٣٠) ” اور یہودیوں نے کہا عزیر اللہ کا بیٹا ہے اور نصاریٰ نے کہا مسیح اللہ کا بیٹا ہے یہ ان کی اپنی باتیں ہیں وہ ان لوگوں جیسی باتیں کرتے ہیں جنہوں نے ان سے پہلے کفر کیا ” اللہ“ انہیں غارت کرے کہ یہ کدھربہکائے جارہے ہیں۔“ عیسائیوں کی یا وہ گوئی : ایرانیوں اور یہودیوں سے ایک قدم آگے بڑھ کر عیسائی کہتے ہیں کہ ” اللہ“ مریم اور عیسیٰ ( علیہ السلام) کو ملا کر خدا کی خدائی مکمل ہوتی ہے جسے وہ تثلیث کا نام دیتے ہیں۔ ان کے عقیدے کی یوں تردید کی گئی ہے : (لَقَدْ کَفَرَ الَّذِیْنَ قَالُوْٓا اِنَّ اللّٰہَ ہُوَ الْمَسِیْحُ ابْنُ مَرْیَمَ وَ قَالَ الْمَسِیْحُ یٰبَنِیْٓ اِسْرَآءِ یْلَ اعْبُدُوا اللّٰہَ رَبِّیْ وَ رَبَّکُمْ اِنَّہٗ مَنْ یُّشْرِکْ باللّٰہِ فَقَدْ حَرَّمَ اللّٰہُ عَلَیْہِ الْجَنَّۃَ وَ مَاْوٰیہ النَّارُ وَ مَا للظّٰلِمِیْنَ مِنْ اَنْصَارٍ) (المائدۃ: ٧٢) ” بلاشبہ وہ لوگ کافر ہوگئے جنہوں نے کہا کہ اللہ مسیح ہی تو ہے جو مریم کا بیٹا ہے، حالانکہ مسیح نے کہا اے بنی اسرائیل! اللہ کی عبادت کرو جو میرا رب اور تمہارا رب ہے۔ بے شک حقیقت یہ ہے کہ جو بھی اللہ کے ساتھ شرک کرے یقیناً اس پر اللہ نے جنت حرام کردی اور اس کا ٹھکانہ آگ ہے اور ظالموں کے لیے کوئی مدد کرنے والا نہیں۔“ اہل مکہ کی کذب بیانی : (اَمْ خَلَقْنَا الْمَلآءِکَۃَ اِِنَاثًا وَہُمْ شَاہِدُوْنَ۔ اَلَا اِِنَّہُمْ مِّنْ اِِفْکِہِمْ لَیَقُوْلُوْنَ وَلَدَ اللّٰہُ وَاِِنَّہُمْ لَکَاذِبُوْنَ۔ اَاَصْطَفَی الْبَنَاتِ عَلَی الْبَنِیْنَ) ( صافات : ١٥٠ تا ١٥٢) کیا ہم نے ملائکہ کو عورتیں بنایا ہے اور یہ اس وقت موجود تھے۔ سُن لو دراصل یہ لوگ جھوٹی باتیں کرتے ہیں۔ کہ ” اللہ“ اولاد رکھتا ہے یقیناً یہ لوگ جھوٹے ہیں۔ کیا اللہ نے اپنے لیے بیٹوں کی بجائے بیٹیاں پسند کرلیں ہیں؟“ کلمہ پڑھنے والوں کی زبان درازی : دنیا میں بالعموم اور پاکستان میں بالخصوص کروڑوں کی تعداد میں کلمہ پڑھنے والے حضرات یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی ذات کے اعتبار سے ” اللہ“ کے نور کا حصہ ہیں اور یہی لوگ فوت شدگان کو خدا کی خدائی میں شریک سمجھتے ہیں یہاں تک کہ صوفیائے کرام نے وحدت الوجود اور وحدت الشہود کا عقیدہ اپنا رکھا ہے۔ وحدت الوجود کا معنٰی ہے کہ کائنات کی شکلیں مختلف ہیں مگر حقیقت میں وہ سب ” اللہ“ ہیں۔ اس کے لیے بےدین صوفی ہمہ اوست کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں۔ وحدت الشہود کا نظریہ رکھنے والے کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا اپنا الگ وجود ہے اور کائنات اس کا پرتو ہے وہ اس کے لیے ہمہ از اوست کے الفاظ استعمال کرتے ہیں یعنی سب کچھ اسی سے نکلا ہے۔ اسی عقیدے کا تسلسل ہے کہ مساجد میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں ” یا نور اللہ“ کے الفاظ کہے جاتے ہیں۔ (وَجَعَلُوْا لَہٗ مِنْ عِبَادِہٖ جُزْءًا اِِنَّ الْاِِنسَانَ لَکَفُوْرٌ مُّبِیْنٌ) (الزخرف : ١٥) ” اس کے باوجود لوگوں نے اللہ کے بندوں میں سے بعض کو اس کا جز بنا لیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ انسان واضح طور پر ناشکرا ہے۔“ (وَ مَا یُؤْمِنُ اَکْثَرُہُمْ باللّٰہِ اِلَّا وَ ہُمْ مُّشْرِکُوْنَ) (الیوسف : ١٠٦) ” اور ان میں سے اکثر اللہ پر ایمان لانے کے باوجود وہ شرک کرنے والے ہوتے ہیں۔“ حقیقت یہ ہے کہ کسی کو اللہ کا بیٹا یا جز قرار دینا سب سے بڑا گناہ اور جرم ہے۔ (وَ قَالُوا اتَّخَذَ الرَّحْمٰنُ وَلَدًا۔ لَقَدْ جِءْتُمْ شَیْءًا اِدًّا۔ تَکَاد السَّمٰوٰتُ یَتَفَطَّرْنَ مِنْہُ وَ تَنْشَقُّ الْاَرْضُ وَ تَخِرُّ الْجِبَالُ ہَدًّا۔ اَنْ دَعَوْا للرَّحْمٰنِ وَلَدًا۔ وَ مَا یَنْبَغِیْ للرَّحْمٰنِ اَنْ یَّتَّخِذَ وَلَدًا) (مریم : ٨٨ تا ٩٢) ” وہ کہتے ہیں کہ رحمٰن کی اولاد ہے۔ بہت ہی بیہودہ بات ہے جو تم لوگ کہہ رہے ہو۔ قریب ہے کہ آسمان پھٹ پڑیں اور زمین شق ہوجائے اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہوجائیں۔ اس بات پر کہ انہوں نے رحمٰن کی اولاد ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔ رحمان کی شان نہیں کہ وہ کسی کو اولاد بنائے۔“ ” اللہ“ اپنی ذات، صفات، عبادت اور حکم میں کسی شریک کو پسند نہیں کرتا : تمام انبیاء اور نبی آخر الزّمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی یہ دعوت تھی اور ہے کہ الٰہ نہ دو ہیں نہ تین اور نہ اس سے زیادہ۔ الٰہ صرف ایک ہے نہ اس کی ذات میں کوئی شریک ہے اور اس کی صفات میں کوئی شریک اور نہ اس کا کوئی ہم مثل ہے، مشرکین نے اپنی طرف سے محض نام رکھ لیے ہیں۔ اس بنا پر کسی کو داتا کہتے ہیں، کسی کو دستگیر، مشکل کشا اور حاجت روا سمجھتے ہیں۔ حالانکہ حکم یہ ہے کہ اسے ایک مانو اور صرف اسی ایک کی عبادت کرو اور اسی کا حکم تسلیم کرو۔ (لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَیْءٌ وَہُوَ السَّمِیْعُ البَصِیْرُ) (الشوریٰ: ١١) ” کائنات کی کوئی چیز اس کے مشابہ نہیں وہ سب کچھ سننے اور دیکھنے والا ہے۔“ (مَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِہٖٓ اِلَّآ اَسْمَآءً سَمَّیْتُمُوْہَآ اَنْتُمْ وَ اٰبَآؤُکُمْ مَّآ اَنْزَلَ اللّٰہُ بِہَا مِنْ سُلْطٰنٍ اِنِ الْحُکْمُ اِلَّا لِلّٰہِ اَمَرَ اَلَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّآ اِیَّاہُ ذٰلِکَ الدِّیْنُ الْقَیِّمُ وَ لٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ) (الیوسف : ٤٠) ” تم چند ناموں کے سوا عبادت نہیں کرتے۔ جو تم نے اور تمھارے باپ دادا نے رکھ لیے ہیں اللہ نے ان کے بارے کوئی دلیل نہیں اتاری۔ اللہ کے سوا کسی کا حکم نہیں اس نے حکم دیا ہے کہ اس کے سوا اور کسی کی عبادت نہ کرو یہی سیدھا دین ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔“ (وَ لِلّٰہِ الْاَسْمَآءُ الْحُسْنٰی فَادْعُوْہُ بِہَا وَ ذَرُوا الَّذِیْنَ یُلْحِدُوْنَ فِیْٓ اَسْمَآءِہٖ سَیُجْزَوْنَ مَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ) (الاعراف : ١٨٠) ” اور سب سے اچھے نام اللہ ہی کے ہیں سو اسے انہی کے ساتھ پکارو اور ان لوگوں کو چھوڑ دو جو اس کے ناموں کے بارے میں صحیح راستے سے بھٹکے ہوئے ہیں انہیں جلد ہی اس کی سزا دی جائے گی جو وہ کیا کرتے تھے۔“ (وَ اعْبُدُوا اللّٰہَ وَ لَا تُشْرِکُوْا بِہٖ شَیْءًا) (النساء : ٣٦ ) ” اور اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو۔“ (قُلْ اِنَّمَآ اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ یُوْحٰٓی اِلَیَّ اَنَّمَآ اِلٰہُکُمْ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ فَمَنْ کَانَ یَرْجُوْا لِقَآءَ رَبِّہٖ فَلْیَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَّ لَا یُشْرِکْ بِعِبَادَۃِ رَبِّہٖٓ اَحَدًا) (الکہف : ١١٠) ” اے نبی فرمادیں میں تو تمہاری طرح کا ایک انسان ہوں میری طرف وحی کی جاتی ہے کہ تمہارا معبود بس ایک ہی معبود ہے پس جو کوئی اپنے رب کی ملاقات کا امیدوار ہے۔ اسے چاہیے کہ نیک عمل کرے اور عبادت میں اپنے رب کے ساتھ کسی اور کو شریک نہ کرے۔“ (مَا لَھُمْ مِّنْ دُوْنِہٖ مِنْ وَّلِیٍّ وَّ لَا یُشْرِکُ فِیْ حُکْمِہٖٓ اَحَدًا) (الکھف : ٢٦) ” نہ اس کے سوا ان کا کوئی مددگار ہے اور نہ وہ اپنے حکم میں کسی کو شریک کرتا ہے۔“ الاخلاص
4 الاخلاص
0 سورۃ الفلق کا تعارف سورۃ الفلق ایک رکوع پر مشتمل ہے اس کی پانچ آیات ہیں یہ سورۃ مکہ مکرمہ میں نازل ہوئی اس کا نام اس کی پہلی آیت کے آخر میں موجود ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس میں اپنی الفلق کی صفت بیان فرما کر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیا ہے کہ اس رب کی پناہ طلب کیا کرو جس نے ہر چیز کا آغاز پھاڑنے کے عمل سے کیا ہے۔ بالخصوص گرہوں میں پھونکے مارنی والی عورتوں اور حسد کرنے والے کے حسد سے بچنا چاہیے اور ان کی شر سے اپنے رب کی حفاظت طلب کرنی چاہیے۔ الفلق
1 فہم القرآن ربط سورت : الاخلاص میں یہ بتایا گیا ہے کہ ” اللہ“ وہ ہے جو ہر اعتبار سے وحدہٗ لاشریک ہے، کوئی کسی اعتبار اور کسی درجے میں اس کی برابری نہیں کرسکتا، گویا کہ وہ حاکم مطلق ہے باقی محکوم ہیں، وہ بادشاہ ہے باقی اس کے در کے فقیر ہیں، وہ طاقتور ہے ہر کوئی اس کے سامنے عاجز اور بے بس ہے کیونکہ وہ طاقتور اور بادشاہ ہے اس لیے اسی کی پناہ طلب کرنی چاہیے۔ عقیدۂ توحید کے تقاضوں میں اہم ترین تقاضا یہ ہے کہ صرف ایک ” اللہ“ جو پوری مخلوق کا رب ہے اسی کو نفع ونقصان کا مالک سمجھا جائے اس لیے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم ہوا ہے کہ آپ ان الفاظ میں اپنے رب کی پناہ طلب کیا کریں کہ میں صبح کے رب کی پناہ مانگتا ہوں اور ہر اس چیز کے شر سے جو اس نے پیدا کی ہے۔ رات کے اندھیرے کے شر سے جب وہ ہر چیز پر چھا جاتا ہے اور گرہوں میں پھونکیں مارنے والی عورتوں کے شر سے اور حاسد کے حسد سے جب وہ حسد کرتا ہے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ” قُلْ“ کا حکم دے کر یہ بات واضح کی گئی ہے کہ اللہ کے رسول بھی اپنے رب کی حفاظت اور نگرانی کے محتاج تھے جس طرح دوسرے انسان اور مخلوق اپنے رب کی حفاظت کی محتاج ہے۔ اس سے یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ مخلوق کو پناہ دینے والا صرف ایک ” اللہ“ ہے وہ پناہ نہ دے تو کسی کے لیے کوئی جائے پناہ نہیں ہے، وہی جن وانس اور پوری مخلوق کو پیدا کرنے اور پناہ دینے والا ہے۔ ” ربِّ الْفَلَقْ“ کا معنٰی ہے پھاڑنے والا۔” ربِّ الْفَلَقْ“ کی صفت لانے کی دو وجوہات سمجھ میں آتی ہیں ” رب“ وہ ذات ہے جو غم اور خوف کے پردے چاک کرتا اور ہرقسم کی مشکلات دور فرما کر اپنے بندے کی حفاظت کرتا ہے۔2۔ وہی ہے جس نے ہر چیز کا آغاز پھاڑنے کے عمل سے کیا ہے۔ انسان اور چوپائے کا بچہ رحم مادر اور جانور کا بچہ انڈے کو پھاڑ کر نکلتا ہے، نباتات زمین کے سینے کو چیر کر نکلتی ہیں، بارش بادلوں کو پھاڑ کر نازل ہوتی ہے۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان کو بھی ایک دوسرے سے پھاڑ کر الگ کیا ہے۔ ( الانبیاء : ٣٠) اور قیامت کے دن مردے بھی زمین کے پھٹنے سے باہر نکلیں گے : (اِنَّ اللّٰہَ فَالِقُ الْحَبِّ وَ النَّوٰی یُخْرِجُ الْحَیَّ مِنَ الْمَیِّتِ وَ مُخْرِجُ الْمَیِّتِ مِنَ الْحَیِّ ذٰلِکُمُ اللّٰہُ فَاَنّٰی تُؤْفَکُوْنَ۔ فَالِقُ الْاِصْبَاحِ وَ جَعَلَ الَّیْلَ سَکَنًا وَّ الشَّمْسَ وَ الْقَمَرَ حُسْبَانًا ذٰلِکَ تَقْدِیْرُ الْعَزِیْزِ الْعَلِیْمِ) (الانعام : ٩٥، ٩٦) ” بے شک اللہ دانے اور گٹھلی کو پھاڑنے والا ہے۔ وہ زندہ کو مردہ سے نکالتا اور مردہ کو زندہ سے نکالنے والا ہے یہی اللہ ہے پھرتم کہاں بہکائے جاتے ہو؟ صبح کو نکالنے والا ہے اور اس نے رات کو آرام اور سورج اور چاند کو حساب کاذریعہ بنایا یہ نہایت غالب، اور سب کچھ جاننے والے کا مقرر کردہ اندازہ ہے۔“ رب ” اللہ“ کی وہ صفت اور نام ہے جس کا پہلی وحی میں یوں تعارف کروایا گیا۔ (اِقْرَاْ باسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ) (العلق : ١) ” اس رب کے نام سے پڑھیں جس نے انسان کو خون کے ایک لوتھڑے سے پیدا کیا ہے۔“ یہی وہ صفت ہے جسے الفاتحہ کی ابتدا میں رکھا گیا ہے گویا کہ قرآن کی ابتدا اور انتہاء اسی صفت پر ہو رہی ہے حقیقت یہ ہے کہ جس نے اپنے رب کو پہچان لیا وہ اپنے رب کا باغی نہیں ہو سکتا۔ پھاڑنے کی حقیقی قوت صرف ایک ” رب“ کے پاس ہے۔ اس لیے انسان کو یہ تعلیم دی گئی ہے کہ وہ ہر دم اپنے رب کی پناہ طلب کیا کرے۔ ” عُوْذٌ“ چوپائے کے اس بچے کو کہتے ہیں جسے رحم مادر سے نکلنے کے بعد چلنے میں دشواری پیش آتی ہے، اس وجہ سے وہ لڑکھڑاکر گرتا اور اٹھتا ہے۔ ” عُوْذٌ“ کا لفظ لا کر یہ بتلا یا ہے کہ اے انسان! تو شیطان اور مخلوق کی شر کے مقابلے میں اس طرح ہی کمزور ہے جس طرح چوپائے کا بچہ پیدا ہونے کے وقت لاغر اور کمزور ہوتا ہے۔ شر کی نسبت مخلوق کی طرف اس لیے کی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان سمیت جو بھی چیز پیدا کی ہے اس میں منفی اور مثبت صلاحیتیں رکھی ہیں۔ ان الفاظ میں یہ اشارہ ہے کہ انسان کو مخلوق کی مثبت صلاحیتوں سے فائدہ اٹھاناچ اہیے اور اس کے شر سے بچنے کی کوشش کرتے ہوئے اپنے رب سے اس یقین کے ساتھ پناہ طلب کرنی ہے کہ کوئی چیز بذات خود نہ کسی کو فائدہ پہنچا سکتی ہے اور نہ نقصان دے سکتی ہے۔ حضرت عمر (رض) نے اس عقیدہ کی یوں ترجمانی فرمائی تھی : (عَنْ عَابِسِ ابْنِ رَبِےْعَۃَ (رض) قَالَ رَاَےْتُ عُمَرَ ےُقَبِّلُ الْحَجَرَ وَےَقُوْلُ اِنِّیْ لَاَ عْلَمُ اَنَّکَ حَجَرٌ مَّا تَنْفَعُ وَلَا تَضُرُّ وَلَوْلَا اَنِّیْ رَاَےْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ےُقَبِّلُ مَا قَبَّلْتُکَ) (رواہ البخاری : باب ما ذکر فی الحجر الاسود) ” حضرت عابس بن ربیعہ (رض) کہتے ہیں میں نے حضرت عمر (رض) کو حجراسود چومتے دیکھا اور فرماتے ہوئے سُنا اے حجر اسود میں جانتا ہوں کہ تو ایک پتھر ہے، نہ تو نفع پہنچا سکتا ہے نہ نقصان دے سکتا ہے، اگر میں نے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تجھے بوسہ دیتے نہ دیکھا ہوتا تو تجھے بوسہ نہ دیتا۔“ توحید کا عقیدہ اس قدر سادہ اور واضح ہونے کے باوجود شرک کرنے والوں کی حالت یہ ہے کہ وہ فوت شدگان اور مزارات ہی سے نہیں بلکہ بعض لوگ مزارات پر لگے ہوئے جھنڈوں اور مٹی کو بھی اپنے لیے برکت اور پناہ کا باعث سمجھتے ہیں، کچھ لوگوں نے پنج تن پاک کے نام پر اپنے مکانوں پر پنجے لگا رکھے ہیں کہ ان کی وجہ سے انہیں حفاظت اور برکت حاصل ہوتی ہے، یہاں تک کہ کمزور عقیدہ لوگ ہاتھ میں مخصوص کڑے پہنتے ہیں اور انگوٹھی کے نگینے کے لیے خاص قسم کے پتھر تلاش کرتے ہیں۔ یہ سب شیطان کے بہکانے کا نتیجہ ہے کہ جو ہر نیکی کے کام میں رکاوٹ پیدا کرتا ہے اور انسان کو ہر قسم کی برائی کی طرف لے جانے کی کوشش کرتا ہے۔ اس لیے عوذ پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی اکثر دعاؤں کو اعوذ سے شروع کرتے تھے۔ یہاں شیطان اور پوری مخلوق کے شر سے ” اللہ“ کے حضور پناہ مانگنے کے بعد ان مخصوص چیزوں کے شر سے بھی پناہ مانگنے کا حکم دیا گیا ہے۔ جن سے انسان کو دوسری چیزوں کی نسبت نقصان پہنچنے کا جلد اندیشہ ہوتا ہے ان میں رات کا اندھیرا بھی شامل ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اندھیرے کے فوائد بھی ہیں لیکن اس میں شر بھی مضمر ہوتی ہے۔ ڈاکو اور چوراندھیرے میں ہی دوسرے کا گھر لوٹنے کے لیے دلیر ہوتے ہیں، کیڑے مکوڑے بھی رات کو نکلتے ہیں جادوگر بھی اندھیرے کو پسند کرتے ہیں اس لیے جادو، ٹونا کرنے والے کالے کپڑے پہنتے ہیں اور تاریک کمرے میں بیٹھ کر شیطانی عمل کرتے ہیں۔ شیطانی عمل کرنے والوں میں وہ عورتیں سب سے زیادہ لوگوں کے عقائد اور مال و جان کو نقصان پہنچاتی ہیں جو جادو کے ذریعے گرہوں میں پھونکیں مارتی ہیں۔ ٹونا، جادو کرنے والوں کے ساتھ وہ لوگ بھی معاشرے کا ناسور ہیں جو حسد کی وجہ سے دوسروں کو نقصان پہنچاتے ہیں : (عَنْ جَابِرٍ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اِذَا کَانَ جُنْحُ اللَّیْلِ اَوْ اَمْسَیْتُمْ فَکُفُّوْا صِبْیَانَکُمْ فَاِنَّ الشَّیْطَانَ یَنْتَشِرُ حِیْنَءِذٍ فَاِذَا ذَھَبَ سَاعَۃٌ مِّنَ اللَّیْلِ فَخَلُّوْھُمْ وَاَغْلِقُوا لْاَبْوَابَ وَاذْکُرُوا اسْمَ اللّٰہِ فَاِنَّ الشَّیْطَانَ لَا یَفْتَحُ بَابًا مُغْلَقًا وَاَوْکُوْا قِرَبَکُمْ وَاذْکُرُوا اسْمَ اللّٰہِ وَخَمِّرُوْا اٰنِیَتَکُمْ وَاذْکُرُوا اسْمَ اللّٰہِ وَلَوْ اَنْ تُعْرِضُوْا عَلَیْہِ شَیْءًا وَاطْفِءُوْا مَصَابِیْحَکُمْ) (رواہ البخاری : باب خیر مال المسلم غنم یتبع بہا شعف الجبال) ” حضرت جابر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جب رات چھا جائے، یا مغرب ہوجائے، تو اپنے بچوں کو گھروں سے باہر نکلنے سے روکو، کیونکہ اس وقت شیطان گھومنے پھرنے لگ جاتے ہیں۔ جب رات کا کچھ حصہ گزر جائے تو اپنے بچوں کو آزاد کردو، دروازے بند رکھو اور انہیں بند کرتے وقت بسم اللہ پڑھو‘ کیونکہ شیطان بند دروازے نہیں کھولتا۔ بسم اللہ پڑھ کر مشکیزے کے منہ پر رسی باندھا کرو، اور اپنے برتنوں کو بسم اللہ پڑھ کر ڈھانپا کرو‘ اگرچہ ان پر کوئی معمولی چیز ہی کیوں نہ رکھی جائے، نیز سوتے وقت چراغوں کو بجھا دیا کرو۔“ الفلق
2 الفلق
3 الفلق
4 الفلق
5 حسد : حسد ایسا مرض ہے کہ جو شخص اس میں مبتلا ہوجائے وہ حسد کی وجہ سے کسی کی عزت وتکریم کو برداشت نہیں کرتا، بسا اوقات یہ بیماری اس قدر خطرناک صورت اختیار کرجاتی ہے کہ حاسد کو اپنی عزت کا بھی خیال نہیں رہتا۔ اس لیے ایسے شخص کے شر سے پناہ مانگنے کا حکم دیا گیا ہے۔ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) أَنَّ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ إِیَّاکُمْ وَالْحَسَدَ فَإِنَّ الْحَسَدَ یَأْکُلُ الْحَسَنَاتِ کَمَا تَأْکُلُ النَّارُ الْحَطَبَ) (رواہ ابوداؤد : کتاب الادب، باب فی الحسد) ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : حسد سے بچو کیونکہ حسد نیکیوں کو اس طرح کھا جاتا ہے جس طرح آگ سوکھی لکڑیاں کھا جاتی ہے۔“ حسد کا علاج : (وَ لَا تَتَمَنَّوْا مَا فَضَّلَ اللّٰہُ بِہٖ بَعْضَکُمْ عَلٰی بَعْضٍ للرِّجَالِ نَصِیْبٌ مِّمَّا اکْتَسَبُوْا وَ للنِّسَآءِ نَصِیْبٌ مِّمَّا اکْتَسَبْنَ وَسْءَلُوا اللّٰہَ مِنْ فَضْلِہٖ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ بِکُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمًا) (النساء : ٣٢) ” اور اس چیز کی آرزو نہ کرو جس کے باعث اللہ نے تمہیں ایک دوسرے پر فضیلت دی ہے۔ مردوں کا اس میں حصہ ہے جو انہوں نے کمایا اور عورتوں کے لیے اس میں حصہ ہے جو انہوں نے کمایا اور اللہ سے اس کا فضل مانگتے رہو یقیناً اللہ ہر چیز کو جاننے والا ہے۔“ جادو : عربی لغت کے لحاظ سے سحر کے کئی معانی بیان کیے گئے ہیں جن کا خلاصہ یہ ہے کہ ایسا کلام یا عمل جس کے ذریعے شیطان کی قربت یامدد حاصل کی جائے، جادو کا علم سیکھنا کفر ہے اس لیے اس سے منع کیا گیا ہے۔ جادو کفر یہ‘ شرکیہ‘ اوٹ پٹانگ الفاظ یا جس طریقے سے بھی کیا جائے وہ کفر ہے : ( وَمَا کَفَرَ سُلَیْمٰنُ وَلٰکِنَّ الشَّیَاطِیْنَ کَفَرُوْ ایُعَلِّمُوْنَ النَّاس السِّحْرَ) (البقرۃ: ١٠٢) ” سلیمان نے کفر نہیں کیا لیکن کفر تو شیطان کرتے تھے جو لوگوں کو جادو سکھلاتے تھے۔“ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان : (لَیْسَ مِنَّا مَنْ تَطَیَّرَ اَوْتُطُیِّرَلَہٗ اَوْتَکَھَّنَ اَوْتُکُھِّنَ لَہُ اَوْ سَحَرَ اَوْ سُحِرَ لَہُ وَمَنْ اَتیٰ کَا ھِنًا فَصَدَّقَہُ بِمَا یَقُوْلُ فَقَدْ کَفَرَ بِمَااُنْزِلَ عَلٰی مُحَمَّدٍ) (الترغیب والترہیب) ” جو شخص فال نکالے یا اس کے لیے فال نکالی جائے، کوئی غیب کی خبریں دے یا اس کے لیے کوئی دوسرا ایسی خبر دے، کوئی خود جادوگر ہو یا دوسرا شخص اس کے لیے جادو کرے وہ ہم میں سے نہیں، جو کوئی ایسے شخص کے پاس جائے اور اسکی باتوں کی تصدیق کرے اس نے ہر اس بات کا انکار کیا جو محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل کی گئی ہے۔“ (عَنْ عَاءِشَۃَ (رض) قَالَتْ سُحِرَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حَتّٰی اِنَّہٗ لَیُخَیَّلُ اِلَیْہِ فَعَلَ الشَّیْئَ وَمَا فَعَلَہٗ حَتّٰی اِذَا کَانَ ذَاتَ یَوْمٍ عِنْدِیْ دَعَااللّٰہَ وَدَعَاہُ ثُمَّ قَالَ اَشَعَرْتِ یَاعَاءِشَۃُ اَنَّ اللّٰہَ قَدْ اَفْتَانِیْ فِیْمَا اسْتَفْتَیْتُہٗ جَاءَ نِیْ رَجُلَانِ جَلَسَ اَحَدُھُمَا عِنْدَ رَاْسِیْ وَالْاٰخَرُ عِنْدَ رِجْلِیْ ثُمَّ قَالَ اَحَدُھُمَا لِصَاحِبِہٖ مَا وَجْعُ الرَّجُلِ قَالَ مَطْبُوْبٌ قَالَ وَمَنْ طَبَّہٗ قَالَ لَبِیْدُ ابْنُ الْاَعْصَمِ الْیَھُوْدِیُّ قَالَ فِیْمَاذَا قَالَ فِیْ مُشْطٍ وَّمُشََاطَۃٍ وَّجُفِّ طَلْعَۃٍ ذَکَرٍ قَالَ فَاَیْنَ ھُوَ قَالَ فِیْ بِءْرِ ذِیْ اَرْوَانَ فَذَھَبَ النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فِیْ اُنَاسٍ مِّنْ اَصْحَابِہٖ اِلَی الْبِءْرِ فَقَالَ ھٰذِہِ الْبِءْرُ الَّتِیْ اُرِیْتُھَا وَکَأَنَّ مَاءَ ھَا نُقَاعَۃُ الْحِنَّاءِ وَکَأَنٍَّ نَخْلَھَا رُءُ وْسُ الشَّیاَطِیْنِ فَاسْتَخْرَجََہٗ۔) (رواہ البخاری : باب السحر) ” حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر جادو کیا گیا آپ سوچتے کہ میں نے فلاں کام کرلیا ہے حالانکہ آپ نے وہ کام نہیں کیا ہوتا تھا۔ ایک دن آپ میرے پاس تھے، فرمایا کہ میں نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی اور پھر بتلایا اے عائشہ ! کیا تجھے معلوم ہے کہ اللہ تعالیٰ سے میں نے جس چیز کی استدعا کی تھی‘ اللہ تعالیٰ نے اس کی مجھے خبر دے دی ہے، میرے پاس دو فرشتے آئے ان میں سے ایک میرے سر کی طرف بیٹھ گیا اور دوسرا میرے پاؤں کی طرف بیٹھا، ان میں سے ایک نے اپنے ساتھی سے پوچھا اس شخص کو کیا بیماری ہے؟ دوسرے نے جواب دیا، اس پر جادو کیا گیا ہے، پہلے نے پوچھا آپ پر کس نے جادو کیا ہے ؟ دوسرے نے جواب دیا لبیدبن اعصم یہودی نے، پہلے نے پوچھا کس چیز میں جادو کیا گیا ہے؟ دوسرے نے بتایا کہ کنگھی اور کنگھی میں پھنسے ہوئے بالوں اور نر کھجور کے خوشے کی جڑ میں، پہلے نے پوچھا وہ کہاں ہے ؟ دوسرے نے بتایا ذی اروان نامی کنویں میں ہے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) چند صحابہ کے ساتھ اس کنویں پر گئے اور آپ نے فرمایا : یہی وہ کنواں ہے، جو مجھے دکھایا گیا تھا۔ اس کا پانی مہندی کے رنگ جیسا تھا اور اس کے پاس جو کھجوریں تھیں وہ شیاطین کے سروں کی مانند تھیں، آپ نے جادو کی ہوئی چیزوں کو نکلوایا اور اس کے بعد آپ ٹھیک ہوگئے۔“ ” حضرت عائشہ (رض) کا فرمان ہے کہ اس کنویں کے درختوں سے بھی خوف محسوس ہوتا تھا۔ جب وہ پتلا وہاں سے نکالا گیا توحضرت جبرائیل امین تشریف لائے تو انہوں نے بالوں کی گرہیں کھولنے اور جادو کے اثرات ختم کرنے کے لیے فرمایا آپ سورۃ الفلق اور سورۃ الناس کی ایک ایک آیت پڑھتے جائیں یہ گیارہ آیات ہیں اس طرح گیارہ گرہیں کھولتے ہوئے سوئیاں نکال دی جائیں آپ کی نگرانی میں صحابہ کرام (رض) نے ایسا کیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طبیعت اس طرح ہشاش بشاش ہوگئی جس طرح کسی جکڑے ہوئے انسان کو کھول دیا جائے اس کے بعدآپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا معمول تھا کہ رات سوتے وقت ان سورتوں کی تلاوت کر کے جہاں تک آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہاتھ پہنچتے اپنے آپ کو دم کیا کرتے تھے جس کی تفصیل معوذتین کے باب میں بیان کی جائے گی۔“ (صحیح بخاری : کتاب الطب، باب السحر) اس واقعہ پر ہونے والے اعتراضات اور ان کے جوابات : غیرمسلم اور منکرین حدیث اس واقعہ پر اعتراضات کرتے ہوتے ہوئے درج ذیل سوالات اور شبہات پیدا کرتے ہیں : نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر جادو کے اثرات تسلیم کرلیے جائیں تو کفار کے اس اعتراض کا جواب دینا مشکل ہوگا : (وَقَال الظّٰلِمُوْنَ اِنْ تَتَّبِعُوْنَ اِلَّا رَجُلاً مَّسْحُوْرًا۔) (الفرقان : ٨) ” اور ظالموں نے کہا کہ تم صرف ایک جادو زدہ آدمی کی پیروی کرتے ہو۔“ ١۔ اہل مکہ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر جادو ہونے کا الزام نبوت کے ابتدائی دور میں لگایا تھا یہ واقعہ مدینہ طیبہ میں صلح حدیبیہ کے بعد نبوت کے بیسویں سال پیش آیا یہی وجہ ہے کہ آج تک کسی شخص نے اپنی تائید کے لیے اس اہل مکہ کے الزام کو ثبوت کے طور پر پیش نہیں کیا۔ ٢۔ نبی پر جادو ہونا ناممکن نہیں کیونکہ آپ اپنی زندگی میں بیمار ہوئے اور غزوہ احد میں زخمی بھی ہوئے تھے بحیثیت انسان زندگی میں آپ کو کئی پریشانیاں اور جسمانی تکلفیں بھی اٹھانا پڑیں لہٰذا آپ پر جادو کا اثر انداز ہونا خلاف عقل نہیں ہے۔ ٣۔ جادو کے اثرات نبوت کے امور پر اثر انداز نہیں ہوئے تھے اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے نبوت کی ذمہ داری کا ذمّہ لیا ہوا ہے۔ (القیامہ : ١٩) یہی وجہ ہے کہ اس تکلیف کے دوران کبھی ایسا نہیں ہوا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کوئی مسئلہ الٹ بیان کردیا ہو۔ جادو اور بیماری میں فرق : بسا اوقات جادو اور بیماری کے اثرات یکساں ہوتے ہیں اس لیے سب سے پہلے ڈاکٹر سے علاج کروانا چاہیے۔ میڈیکل رپورٹس کے بعد اگر یقین کی حد تک معلوم ہوجائے کہ مریض کو جسمانی بیماری نہیں اور مریض میں درج ذیل علامات پائی جائیں تو پھر جادو اور جنّاتی اثرات کو زائل کرنے کے لیے قرآن وسنت کے مطابق علاج کرنا چاہیے۔ جادو کی علامات : 1۔ بلاسبب میاں بیوی کے درمیان نفرت اور ایک دوسرے سے دور رہنے میں اطمینان محسوس کرنا۔ 2۔ گھر میں بلاوجہ اختلافات بڑھتے جانا۔ 3۔ گندہ رہنے میں سکون محسوس کرنا۔ 4۔ ڈراؤنی چیزوں کا نظر آنا۔ 5۔ کپڑوں پر خون کے چھینٹے پڑنا۔ 6۔ چوری کی واردات کے بغیر چیزوں کا غائب ہوجانا۔ 7۔ روحانی علاج کے وقت شیطانی علامات ظاہر ہونا۔ 8۔ جسمانی عارضہ اور کسی واقعاتی پریشانی کے بغیر یک دم نسیان کا شکار ہونا۔ 9۔ بغیر بیماری کے طبیعت میں چڑ چڑا پن پیدا ہونا اور اس کا روز بروز بڑھتے ہی جانا۔ 0۔ ذکر الٰہی بالخصوص نماز اور تلاوت قرآن سے دل میں دوری پیدا ہونا۔ !۔ مارکیٹ تیز ہونے اور کاروباری رویّہ درست ہونے کے باوجود یک دم کاروبار کا بند ہوجانا۔ جادو، ٹونے کا شرعی علاج : جو شخص جادو یا جنات کے اثرات محسوس کرے اسے درج ذیل اقدامات کرنے چاہییں۔ کیونکہ دین نے ایسا کرنے کی رہنمائی فرمائی ہے۔ طہارت کا اہتمام : طہارت اور صفائی کا خصوصی اہتمام کیا جائے اور ہر وقت باوضو رہنا سنّت بھی ہے اور مفید بھی۔ خوشبو کا استعمال : خوشبو کا استعمال کرنا سنت بھی ہے اور مفید بھی۔ تلاوت قرآن مجید اور کثرت ذکر : ہر وقت اللہ کا ذکر کرتے رہنا چاہیے خاص کر گھر میں قرآن مجید کی تلاوت اور نوافل پڑھنا۔ یاد رکھیے کہ قرآن مجید کی تلاوت کم از کم اتنی آواز میں ہونی چاہیے کہ پڑھنے والے کو قرآن مجید کے الفاظ سنائی دیں۔ دَم کرنا : سورۃ البقرۃ، آیت الکرسی اور آخری تین سورتیں یعنی سورۃ اخلاص اور معوذتین کے ساتھ صبح‘ شام تین تین مرتبہ پڑھ کر اپنے آپ کو دم کرنا سنت ہے۔ مسلسل دعا : رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر جب جادو ہوا تو آپ اللہ تعالیٰ سے بار بار دعا کرتے تھے۔ لہٰذا ایسی صورت حال میں مریض کو اٹھتے بیٹھتے ہر وقت دل اور زبان سے اللہ کے حضور اس مصیبت سے نجات کی التجائیں کرنی چاہئیں۔ اذان دینا : اثرات زدہ گھر میں اذان کہنی چاہیے کیونکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان ہے کہ اذان سن کر شیطان دور بھاگ جاتا ہے۔ لعنت بھیجنا : جادو کرنے، کروانے والے اور شیطان کو ذہن میں رکھتے ہوئے کثرت کے ساتھ درج ذیل الفاظ پڑھنا چاہییں کیونکہ جب نماز کی حالت میں ایک جن نے آگ کا بگولہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے چہرہ مبارک کے قریب کیا تھا تو آپ نے یہ الفاظ کہے تھے اور آپ کا ارشاد ہے کہ جب کوئی لعنت کرنے والا لعنت کرتا ہے اگر وہ واقعتا مظلوم ہے تو اسکی لعنت ظالم پر ضرور اثر انداز ہوگی۔ (عَلَیْھِمْ لَعْنَۃُ اللّٰہِ وَلْمَلٰءِکَۃِ وَالنَّاسِ اَجْمَعِیْنَ) (البقرۃ: ١٦١) مسائل ١۔ سب کو اپنے ” رب“ سے پناہ مانگنا چاہیے جو رات کے بعد صبح طلوع کرنے والا ہے۔ ٢۔ رات کے اندھیرے اور ہر چیز کے شر سے پناہ مانگنی چاہیے۔ ٣۔ جادو، ٹونا کرنے والی عورتوں اور حاسد کے حسد سے پناہ مانگنی چاہیے۔ تفسیر بالقرآن ” رب“ کا معنٰی : ١۔ لوگو! اس رب سے ڈر جاؤ جس نے تمہیں پیدا کیا ہے۔ (النساء : ١) ٢۔ تمہارا رب ہر چیز کو پیدا کرنے والاہے اس کے علاوہ کوئی معبود نہیں تم کہاں بہک گئے ہو ؟ (المومن : ٦٢) ٣۔ اگر انھوں نے آپ کو جھٹلا دیا ہے تو آپ فرما دیں تمھارا رب وسیع رحمت والا ہے۔ (الانعام : ١٤٧) ٤۔ یہ تمھارا رب ہے اس کے سوا دوسرا کوئی خالق نہیں۔ (الانعام : ١٠٢) الفلق
0 سورۃ النّاس کا تعارف النّاس بھی مکہ معظمہ میں نازل ہوئی۔ یہ ایک رکوع پر مشتمل ہے جس میں چھ آیات ہیں اور اسے قرآن کی آخری سورت ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ ان دو سورتوں کو معوّذتین کا نام دیا گیا ہے جس کا معنی ہے کہ یہ وہ سورتیں ہیں کہ جن کے ذریعے اپنے رب سے مخلوق کی شر سے پناہ مانگنی چاہیے۔ یہ اتنا اہم کام ہے کہ اس کے لیے یہ سورت بھی ” قل“ کے لفظ سے شروع کی گئی ہے۔ اس میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیا گیا ہے کہ آپ اپنے رب سے جن اور انسانوں کی شر سے پناہ مانگا کریں۔ مطلب یہ ہے جو شریر جنوں اور انسانوں کی شر سے بچا لیا گیا وہی ہدایت والا ہے اور وہی دنیا اور آخرت میں کامیاب ہوگا۔ الناس
1 فہم القرآن ربط سورت : اللہ تعالیٰ نے سورت الفلق میں اپنا تعارف رب الفلق کے نام سے کروایا ہے جس کا معنٰی ہے کہ مخلوق کو پھاڑنے کے عمل سے عدم سے وجود میں لانے والا ہے۔ سورت النّاس میں یہ بتلایا ہے کہ وہی انسانوں کا ” رب، حقیقی بادشاہ اور معبود برحق ہے اس لیے اس کی مخلوق بالخصوص جنوں اور انسانوں کی شر سے بچنے کے لیے اس کی پناہ طلب کرنی چاہیے۔ سورت النّاس کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس پر اپنی عظیم اور بابرکت کتاب کا اختتام فرمایا ہے۔ گویا کہ یہ قرآن مجید کی آ خری سورت ہے۔ سورت فاتحہ کا آغاز رب العالمین کے الفاظ سے ہوا اور قرآن مجید کا اختتام ” مِنَ الْجِنَّۃِ وَالنَّاسِ“ پر ہوا ہے۔ یہ الفاظ استعمال فرماکر اشارہ کیا ہے کہ قرآن مجید جنوں اور انسانوں کے لیے نازل کیا گیا ہے کیونکہ مخلوقات میں جن اور انسان ہی ایسی مخلوق ہیں جنہیں احکام کا پابند بنایا گیا ہے۔ اس لیے النّاس پر قرآن مجید، فرقان حمید کا اختتام فرما کر بتایا ہے کہ تمام مخلوقات میں انسان اور جن ہی ایسی مخلوق ہیں جو سب سے اعلیٰ اور ارفع ہے بشرطیکہ یہ شیطان کی شیطنت اور اپنے نفس کی شرارت سے بچ کر رہیں۔ سورت الفلق میں پوری مخلوق میں سے ان چیزوں کی شر سے پناہ مانگنے کا حکم دیا گیا جن سے انسان کو نقصان پہنچنے کا زیادہ اندیشہ ہوتا ہے۔ سورت النّاس میں اس سے پناہ مانگنے کا حکم ہے جو ہر وقت انسان کے ساتھ رہتا ہے اور انسان کا سب سے بڑا دشمن ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سورت النّاس کی پہلی تین آیات میں اپنی ان تین صفات کا ذکر کیا ہے جو اس کی ساری صفات کی ترجمان ہیں۔ پہلی حقیقت یہ ہے کہ جو ” رب“ مخلوق کو پیدا کرنے اور اس کی ضرورتیں پوری کرنے والاہے اسی کو حقیقی مالک اور معبود برحق ماننا چاہیے۔ یہاں ” رب“ کی صفت کے ساتھ النّاس کا لفظ لایا گیا ہے جس میں انسانوں کو یہ احساس دلانا مقصود ہے کہ اے لوگو! جو تمہارا حقیقی پالنہار اور ہمیشہ ہمیش کا مالک ہے وہی تمہارا ” الٰہ“ ہے لہٰذا اس حقیقی ” الٰہ“ پر ایمان لاؤ اور اسی کا حکم مانو اور صرف اسی کی عبادت کرو یہی انبیائے کرام (علیہ السلام) اور قرآن مجید کی مرکزی دعوت ہے اور اسی کے لیے ہی تمہیں پیدا کیا گیا ہے۔ (وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِِنسَ اِِلَّا لِیَعْبُدُوْن) (الذاریات : ٥٦) ” میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اپنی بندگی کے لیے پیدا کیا ہے۔“ اس دعوت اور عبادت کے ساتھ شیطان جنوں اور شیطان انسانوں کو سب سے زیادہ دشمنی ہے۔ ان کی کوشش ہے کہ ” رب“ کے بندوں کو اس کی عبادت اور اطاعت سے ہٹا کر دوسروں کی عبادت اور اطاعت پر لگادیا جائے۔ اس کے لیے شیطان جن اور شیطان صفت انسان ہر وقت کوشاں اور سازشیں کرتے رہتے ہیں، شیطانوں کی مذموم کوشش کا آغاز وسوسہ سے ہوتا ہے۔ وسوسہ کا معنٰی دل میں برے خیال کا پیدا ہونا ہے۔ اسی لیے شیطان کے لیے ” خَنَّاسِ“ کا لفظ استعمال کیا ہے۔” خَنَّاسِ“ کے مفسرین نے دو مفہوم بیان کیے ہیں۔ دلوں میں چھپ کر وسوسے ڈالنے والا اور بار بار پیچھے ہٹ کر آنے والایہ دونوں عادتیں شیطان کی سرشت میں شامل ہیں۔ چاہے وہ جنوں سے تعلق رکھنے والا ہو یا کسی انسان نے شیطان کا روپ دھار لیا ہو۔ یادرہے! کہ نسلی طور پر شیطان جنوں سے ہے۔ (الکھف : ٥٠، الحجر : ٢٧) شیطان کی شیطنت کا آغاز وسوسوں سے ہوتا ہے اور ہر برائی وسوسے سے جنم لیتی ہے، اگر انسان برے خیال پر قابو پالے تو وہ برائی سے بچ سکتا ہے، اگر برے خیال کو دل میں پنپنے کا موقع دے تو بالآخر انسان اس برائی میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے شیطان کو لوگوں کے دلوں میں وسوسہ ڈالنے کی مہلت دی ہے جس کا اس نے بارگاہ ایزدی میں یوں اظہار کیا تھا۔ اس سے بچنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ انسان اپنے رب کی پناہ طلب کرتارہے۔ (فصلت : ٣٦) (قَالَ اَنْظِرْنِیْٓ اِلٰی یَوْمِ یُبْعَثُوْنَ قَالَ اِنَّکَ مِنَ الْمُنْظَرِیْنَ قَالَ فَبِمَآ اَغْوَیْتَنِیْ لَاَقْعُدَنَّ لَہُمْ صِرَاطَکَ الْمُسْتَقِیْمَ ثُمَّ لَاٰتِیَنَّہُمْ مِّنْ بَیْنِ اَیْدِیْہِمْ وَ مِنْ خَلْفِہِمْ وَ عَنْ اَیْمَانِہِمْ وَ عَنْ شَمَآءِلِہِمْ وَ لَا تَجِدُ اَکْثَرَہُمْ شٰکِرِیْنَ قَالَ اخْرُجْ مِنْہَا مَذْءُ وْمًا مَّدْحُوْرًا لَمَنْ تَبِعَکَ مِنْہُمْ لَاَمْلَءَنَّ جَہَنَّمَ مِنْکُمْ اَجْمَعِیْنَ) (الاعراف : ١٤ تا ١٨) ” اس نے کہا مجھے اس دن تک مہلت دے جب وہ اٹھائے جائیں گے۔ فرمایا بے شک تو مہلت دیے جانے والوں سے ہے۔ اس نے کہا جس وجہ سے تو نے مجھے گمراہ کیا میں ضرور ان کے لیے تیرے سیدھے راستے پر بیٹھوں گا۔ پھر میں ہر صورت ان کے آگے سے اور ان کے پیچھے سے اور ان کی دائیں طرف سے اور ان کی بائیں طرف سے آؤں گا۔ تو ان میں سے اکثر کو شکر کرنے والے نہیں پائے گا۔ فرمایا اس سے نکل جا، ذلیل ہوکر، دھتکارا ہوا، بے شک ان میں سے جوتیرے پیچھے چلے گا میں تم سب سے ضرور جہنم کو بھروں گا۔“ (عَنْ عَلِیِّ بْنِ حُسَیْنٍ۔ أَنَ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ۔۔إِنَّ الشَّیْطَانَ یَجْرِیْ مِنَ الْإِنْسَانِ مَجْرَی الدَّمِ۔۔) (رواہ البخاری : کتاب الإعتکاف، باب زیارۃ المرأۃ زوجھا فی اعتکافہ ) ” حضرت علی بن حسین (رض) بیان کرتے ہیں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا یقیناً شیطان انسان کے جسم میں خون کی طرح گردش کرتا ہے۔“ (عَنْ أَبِی سَعِیْدِنِالْخُدْرِیِّ (رض) قَالَ کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) إِذَا قَامَ مِنَ اللَّیْلِ کَبَّرَ ثُمَّ یَقُوْلُ سُبْحَانَکَ اللّٰہُمَّ وَبِحَمْدِکَ وَتَبَارَکَ اسْمُکَ وَتَعَالَی جَدُّکَ وَلاآإِلَہَ غَیْرُکَ ثُمَّ یَقُوْلُ لاآإِلَہَ إِلاَّ اللَّہُ ثَلاَثًا ثُمَّ یَقُول اللَّہُ أَکْبَرُ کَبِیْرًا ثَلاَثًا أَعُوذ باللَّہِ السَّمِیْعِ الْعَلِیمِ مِنَ الشَّیْطَان الرَّجِیْمِ مِنْ ہَمْزِہٖ وَنَفْخِہٖ وَنَفْثِہٖ) (رواہ ابو داود : باب مَنْ رَأَی الاِسْتِفْتَاحَ بِسُبْحَانَکَ اللَّہُمَّ وَبِحَمْدِکَ) ” حضرت ابو سعید خدری (رض) بیان کرتے ہیں جب رات کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قیام کرتے تو اللہ اکبر کہتے پھریہ دعاپڑھتے اے اللہ ! تو پاک ہے۔ میں تیری تعریف بیان کرتاہوں نام تیرا بابرکت ہے اور تیری شان بلند وبالا ہے تیرے سوا کوئی معبود نہیں۔ پھر تین بار ” لاَ إِلٰہَ إِلاَّ اللَّہُ“ کہتے پھر تین بار اللہ اکبر کہتے۔ اس کے بعد یہ پڑھتے اللہ کے نام کے ساتھ جو سننے والا اور جاننے والا ہے۔ میں شیطان مردود کے وسوسہ، تکبر، غرور اور اس کی چھیڑ چھاڑ سے پناہ طلب کرتا ہوں۔“ (عَنْ عَآءِشَۃَ اَنَّ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کَانَ اِذَا اَوٰی اِلٰی فِرَاشِہٖ کُلَّ لَےْلَۃٍ جَمَعَ کَفَّےْہِ ثُمَّ نَفَثَ فِےْھِمَا فَقَرَأَ فِےْھِمَا (قُلْ ھُوَاللّٰہُ اَحَدٌ) وَ (قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ) وَ (قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِ) ثُمَّ ےَمْسَحُ بِھِمَا مَا اسْتَطَاعَ مِنْ جَسَدِہٖ ےَفْعَلُ ذٰالِکَ ثَلٰثَ مَرَّاتٍ۔ جَسَدِہٖ ےَبْدَأُ بِھِمَا عَلٰی رَأْسِہٖ وَوَجْھِہٖ وَمَا اَقْبَلَ مِنْ جَسَدِہٖ ےَفْعَلُ ذٰالِکَ ثَلٰثَ مَرَّاتٍ۔) (رواہ مسلم : باب فضل قل ھو اللہ احد) ” حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رات کو اپنے بستر پر سونے کے لیے جاتے تو سورۃ الاخلاص، الفلق اور النّاس تلاوت کرکے اپنے دونوں ہاتھوں میں پھونک کر جہاں تک ممکن ہوتا اپنے جسم پر پھیرتے۔ آغاز سر، چہرے اور جسم کے سامنے والے حصے سے کرتے ہوئے یہ عمل تین بار کرتے۔“ سورۃ الفلق اور النّاس میں اللہ تعالیٰ نے اپنا اسم ” اللہ“ استعمال کرنے کی بجائے بار بار ” رب“ کا لفظ استعمال کیا ہے۔ اسم ” اللہ“ میں جلالت اور دبدبہ پایا جاتا ہے۔ ” رب“ کے لفظ میں بندے کو اپنے رب کی قربت اور شفقت کا احساس ہوتا ہے۔ اس قربت اور شفقت کا تقاضا ہے کہ انسان اپنے رب سے یوں دعا کرے کہ اے میرے رب! تو داتا ہے اور میں فقیر ہوں، تو طاقتور ہے اور میں ضعیف ہوں، تو پناہ دینے والا ہے اور میں پناہ کا طالب ہوں اس لیے میری عاجزانہ التجا ہے کہ مجھے ہمیشہ اپنی پناہ میں رکھتے ہوئے اپنی مخلوق بالخصوص شیطان جنوں اور انسانوں کی شر سے محفوظ فرمائے رکھنا۔ آمین یا رب العالمین! مسائل ١۔ آدمی کو شیطان جنوں اور انسانوں سے ہر وقت اپنے رب کی پناہ طلب کرتے رہنا چاہیے۔ ٢۔ ؁ ( علیہ السلام) ( علیہ السلام) اللہ تعالیٰ لوگوں کا رب، بادشاہ اور معبود برحق ہے۔ ٣۔ شیطان لوگوں کے دلوں میں باربار وسوسے ڈالتا ہے۔ ٤۔ جنوں اور انسانوں میں شیطان ہوتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن الٰہ کا معنٰی اور انبیاء کرام (علیہ السلام) کی دعوت : ١۔ الٰہ کا معنٰی معبود وہ ایک ہی ہے۔ ( البقرۃ: ١٦٣) ٢۔ الٰہ کا معنٰی مشکل کشا، حاجت روا۔ ( المؤمن : ٦٥) ٣۔ اللہ تمھارا رب ہے اس کے سوا کوئی الٰہ نہیں وہی ہر چیز کا خالق ہے۔ (الانعام : ١٠٢) ٤۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا دو الٰہ نہ بناؤ الٰہ ایک ہی ہے (النحل : ٥١) ٥۔ الٰہ تمھارا ایک اللہ ہی ہے۔ (طہ : ٩٨) ٦۔ کیا اللہ کے سوا کوئی الٰہ ہے؟ اللہ تعالیٰ شراکت داری سے پاک ہے۔ (الطور : ٤٣) ٧۔ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو مجھے بشیر اور نذیر بنا کر بھیجا گیا ہے۔ (ہود : ٢) ٨۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو ایک اللہ کی عبادت کی دعوت دی اور شیاطین کی عبادت نہ کرو۔ (المومنون : ٢٣) ٩۔ حضرت ہود علیہ السلامنے ایک اللہ کی عبادت کی دعوت دی۔ اور غیر اللہ کی عبادت سے روکا۔ (الاعراف : ٦٥) ١٠۔ حضرت صالح (علیہ السلام) نے ایک اللہ کی عبادت کے لیے بلایا اور ماسوائے اللہ کے دوسروں کی عبادت کو شیطان کی عبادت قرار دیا۔ (الاعراف : ٧٣) ١١۔ حضرت شعیب (علیہ السلام) نے ایک اللہ کی عبادت کا حکم دیا اور اس کے سوا دوسروں کی عبادت سے منع کیا۔ (ہود : ٨٤) ١٢۔ تمام امتوں کی طرف رسول بھیجے گئے اور سبھی نے ایک اللہ کی عبادت کی دعوت دی۔ (النمل : ٣٦) الناس
2 الناس
3 الناس
4 الناس
5 الناس
6 الناس
Flag Counter